Language: UR
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خطبات علوم و معارف کا ایک انمول خزانہ ہیں اور پیش گوئی کے الہامی الفاظ ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیاجائے گا‘‘ پر شاہدناطق ہیں۔ آپؓ کا دور خلافت نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے جو ایک تاریخ ساز دور تھا۔ اس نہایت کامیاب اور طویل دور میں آپؓ نے اپنے خطبات جمعہ کے ذریعہ جماعت کی تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ سیاسی، سماجی اور مذہبی افقوں پر نمودار ہونےوالے ہر معاملے پر بروقت اور درست رہنمائی عطافرمائی۔ الغرض یہ خطبات جمعہ جماعت احمدیہ کا ایک بہت ہی قیمتی خزانہ اور سرمایہ ہیں۔ جسے فاؤنڈیشن نے یکجا کرکے کتابی شکل دی ہے۔
طبات مود (خطبات جمعہ) ۱۹۳۴ ۶۱۹۳ فرموده سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمد احمد اصلح الموعود خلیفہ اسیح الثانی جلد زیر اهتمام
1 KHUTUBAT-I-MAHMUD by HADRAT MIRZA BASHIR-UD-DIN MAHMUD AHMAD KHALIFATUL MASIH II Published by: Islam International publications Ltd.Islamabad, Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU 10 2 AQ U.K.Printed by: Raqeem Prees, Islamabad, Tilford, Surrey.
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ پیش لفظ اللہ تعالی کے فضل و احسان سے فضل عمر فاؤنڈیشن کو حضرت مصلح موعود کے خطبات پندرھویں جلد احباب کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت نصیب ہو رہی ہے.الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذلِكَ - اس جلد میں ۱۹۳۴ء کے ۴۲ خطبات جمعہ شامل ہیں.حضرت فضل عمر سلطان البیان کے خطبات علوم و معارف کا انمول خزانہ ہیں اور پیشگوئی کے الہامی الفاظ ”وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا" پر شاہد ناطق ہیں.حضرت مصلح موعود کا دورِ خلافت جو کم و بیش ۵۲ سال پر محیط ہے ایک تاریخ ساز دور تھا.اس نہایت کامیاب طویل دور میں حضور کے خطبات نے جماعت کی علمی و روحانی ترقی اور تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا.ہمارا یہ روحانی و علمی ورثہ سلسلہ کے لٹریچر میں بکھرا پڑا تھا.اور جماعت کے دوستوں کو اس سے استفادہ کرنا مشکل تھا.فضل محمر فاؤنڈیشن اس جماعتی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے ان خطبات کو کتابی شکل میں شائع کر رہی ہے.اللہ تعالی ہمیں ان خطبات سے پورے طور پر استفادہ کرنے اور جماعتی ذمہ داریوں کو احسن رنگ میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین
صفحہ - = ۲۵ ☑ i مم فہرست مضامین خطبات محمود خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده ۴ ۹ 1.۱۲ (خطبات جمعه ۱۹۳۴ء) جلد ۱۵ موضوع خطبه ٫۵جنوری ۱۹۳۴ء ۱۹۳۴ء کیلئے جماعت احمدیہ کا پروگرام.۱۲ جنوری ۱۹۳۴ء رمضان المبارک کا بابرکت آخری عشرہ.۱۹ جنوری ۱۹۳۴ء جماعت احمد یہ لاہور کے تبلیغی فرائض.۲۶ جنوری ۱۹۳۴ ء ہر جماعت میں درس القرآن جاری کرنے کی ضرورت.۲ فروری ۱۹۳۴ء مصیبت زدگان کی مدد کرو.۹ فروری ۱۹۳۴ء قرض اور سود کے متعلق اسلام کی تعلیم.۲۳ فروری ۱۹۳۴ء سالکین کو روحانی مراتب کے حصول کے متعلق ایک اہم ہدایت | ٢ / مارچ ۱۹۳۴ء ابتلاؤں کے دن.۹ / مارچ ۱۹۳۴ء دعاؤں اور انابت الی اللہ کی طرف توجہ کی ضرورت.۱۶ / مارچ ۱۹۳۴ء محبت ، شفقت اور پیار سے کام لو.۲۳ / مارچ ۱۹۳۴ء سالکین میں نام دینے والوں کو چند ضروری اور اہم ہدایات ۳۰ مارچ ۱۹۳۴ء انسانی قبض اور بسط کی حالت.ما ۱۳ ۶ ر ا پریل ۱۹۳۴ء تکمیل ایمان کیلئے درستی عقائد و اعمال کی ضرورت.۱۳ اپریل ۱۹۳۴ ء مومن کا دائرہ محبت بہت وسیع ہونا چاہیئے.۲۰۱۵ را پریل ۱۹۳۴ء تربیت کا صحیح طریق تبلیغ ہی ہے.۱۶ 16 ۲۷ را پریل ۱۹۳۴ء استقلال ، ہمت اور قربانی کی روح پیدا کرنے کی ضرورت.۴ رمئی ۱۹۳۲ ء اپنے عظیم الشان مقام کی ذمہ داریوں کا احساس کرو.۵۴ ۶۲ ۷۴ ۹۲ ۹۸ 1.6 ۱۱۴ ۱۱۸ ۱۲۷ ۱۴۲
خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده ۱۸ > 19 ۲۰ ۲۱ Σ ۲۲ ۲۴ ۲۵ موضوع خطبه ۲۵ رمئی ۱۹۳۴ء تقوی اللہ اختیار کرنے کے بہترین نتائج.یکم جون ۱۹۳۴ء اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بننے کی کوشش کرو.۱۸ جون ۱۹۳۴ء مومن کو ہمیشہ عقل و فکر اور شعور سے کام لینا چاہیئے.۱۵ جون ۱۹۳۴ء صبر ، صدق ،صوم اور صلوٰۃ کی پابندی اختیار کرو.۲۹ جون ۱۹۳۴ ء ایمان کے ساتھ اعمال کی اصلاح بھی ضروری ہے.۲۷ جولائی ۱۹۳۴ء جماعت کوفتن سے محفوظ رکھنے کیلئے ضروری ہدایات.اگست ۱۹۳۴ء کامیابی اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ ذرائع کو استعمال کرنے سے ہوسکتی ہے.۱۰ را گست ۱۹۳۴ء دعوت طعام اور اسلامی آداب.۲۶ ۲۴ اگست ۱۹۳۴ ء پہلے اپنی اصلاح کرو اور پھر محبت اور ہمدردی کے جذبات کے ۲۷ ۲۸ ساتھ دوسروں کی.۳۱ راگست ۱۹۳۴ ء احمدی تاجروں کو پوری دیانت سے کاروبار کرنا چاہیئے.۷ ستمبر ۱۹۳۴ء مومن کو ہمیشہ دیکھتے رہنا چاہیئے کہ اس کا کوئی بھائی ضروریات زندگی سے محروم تو نہیں ہے.۲۹ ۱۴ ستمبر ۱۹۳۴ ء مانگنے اور سوال کرنے کی عادت کو مٹانا نہایت ضروری ہے.۳۰ ۳۱ Σ ۳۲ ۲۱ رستمبر ۱۹۳۴ ء کارکنان جماعت کو نہایت اہم اور ضروری ہدایات.۱۲ اکتوبر ۱۹۳۴ء جماعت احمد یہ ہوشیار اور بیدار ر ہے.۱۹ اکتو بر ۱۹۳۴ ء وقت آگیا ہے کہ ہم اس رنگ میں قربانیاں کریں جو بہت جلد نتیجہ خیز ہوں.۳۳ ۲۶ اکتوبر ۱۹۳۴ء دنیا کے ہر گوشہ کے احمدی خاص قربانیوں کیلئے تیار ہیں.۳۴ ۲ نومبر ۱۹۳۴ ء جماعت احمدیہ کے خلاف احراریوں کا فتنہ اور بعض سرکاری افسروں کا غیر منصفانہ رویہ.۳۵ ۹ نومبر ۱۹۳۴ء جماعت احمدیہ سے تین مطالبے.صفح فة ۱۵۰ ۱۶۲ ۱۶۹ ۱۸۰ ۱۸۹ ۲۰۰ ۲۱۲ ۲۲۰ ۲۳۰ ۲۴۱ ۲۴۴ ۲۵۰ ۲۵۷ ۲۸۲ ۳۱۳ ۶۲
خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبہ ۳۶ ۱۶ نومبر ۱۹۳۴ ء اعلان کردہ سکیم کے متعلق چند باتیں.۳۷ ۳۸ ۳۹ لده ट है ۴۲ صفح ۳۷۵ مخلصین جماعت احمدیہ سے جانی اور مالی قربانیوں کے مطالبات - ۴۰۵ ۲۳ نومبر ۱۹۳۴ء ۳۰ / نومبر ۱۹۳۴ء جانی اور مالی قربانیوں کے مخلصین جماعت احمدیہ سے مزید مطالبات.۷ دسمبر ۱۹۳۴ء مطالبات کی اعلان کردہ سکیم کے متعلق بعض اہم تشریحات.۴۳۹ ۴۷۳ ۱۴ دسمبر ۱۹۳۲ء جماعت احمدیہ کی موجودہ مشکلات و مصائب اور رمضان المبارک.۵۰۳ ۲۱ دسمبر ۱۹۳۴ء رمضان قومی ترقی کیلئے ضروری چیز ہے.۲۸ دسمبر ۱۹۳۴ء جلسہ سالانہ کے بابرکت ایام میں اپنی دعاؤں کو ہمیشہ اعلیٰ مقاصد پر مشتمل رکھو.۵۲۰ ۵۳۰
خطبات محمود سال ۶۱۹۳۴ ۱۹۳۴ء کیلئے جماعت احمدیہ کا پروگرام فرموده ۵- جنوری ۱۹۳۴ء) تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- اللہ تعالیٰ کے فضل اور کرم سے ۱۹۳۳ء کا جلسہ سالانہ باوجود اس کے کہ رمضان کی وجہ سے بہت سی مشکلات تھیں، خیرو خوبی سے ختم ہوا.شاید یہ رمضان کی برکات تھیں کہ اس دفعہ عام طور پر جو لوگ قادیان آئے وہ بہت سا نیک اثر کارکنوں کے متعلق لے کر گئے.شکائیتیں تو ہوتی ہیں اور شاید انسانی تدبیر ان کو دور نہیں کر سکتی کیونکہ بڑے مجمعوں میں بعض کمزور بھی ہوتے ہیں، بعض کو ایسا کام سپرد کر دیا جاتا ہے جس کے وہ اہل نہیں ہوتے، پھر غلط فہمیاں بھی ہو جاتی ہیں، نیک نیتی کے باوجود بعض اوقات حقیقت حال کو انسان سمجھ نہیں سکتا پس یہ ایسی چیزیں ہیں جن کا علاج انسانی طاقت سے باہر ہے لیکن جس حد تک انسانی کوشش کا تعلق ہے باوجود رمضان المبارک کی وجہ سے بعض مشکلات کے جن کی وجہ سے کام تین چار گنا زیادہ ہو گیا تھا پھر بھی آنے والوں پر عام طور پر نیک اثر تھا.یہاں بھی دوران ملاقات میں جن لوگوں سے ذکر آیا وہ متاثر معلوم ہوتے تھے اور باہر سے بھی ایسے ہی خطوط آئے ہیں جہاں یہ امر ہمارے لئے اس وجہ سے خوشی کا موجب ہے کہ افراد جماعت کو دین کا موقع ملا وہاں ہمیں اس طرف بھی متوجہ کرتا ہے کہ ہمیں چاہیے جو غلطیاں ره گئی ہیں ان کی اصلاح کریں.حقیقی تعریف ہمیشہ دو فائدے رکھتی ہے.ایک تو اس سے شکر کا مادہ پیدا ہوتا ہے دوسرے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اگر میری اتنی سی کوشش نے ایسے نیک
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء نتائج پیدا کئے ہیں تو یقیناً زیادہ کوشش بہت زیادہ شاندار نتائج کا موجب ہوگی.حقیقی مدح کے یہی فوائد ہیں.وگرنہ غیر حقیقی مدح سوائے اس کے کہ دماغ خراب کردے، نیکی سے محروم کردے اور تکبر پیدا کرنے کا موجب ہو ، کچھ فائدہ نہیں دے سکتی.پس جہاں میں ان تمام کارکنوں کا خواہ وہ بوڑھے ہوں یا بچے مرد ہوں یا عورتیں اپنی طرف سے اور مہمانوں کی طرف سے شکریہ ادا کرتا ہوں وہاں اللہ تعالیٰ کا بھی شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے جماعت کے لوگوں میں اخلاص پیدا کیا.اخلاص اللہ تعالی کے فضل کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتا.بو علی سینا ایک دفعہ فلسفہ پر کوئی لیکچر دے رہے تھے.ایک شاگرد اس سے یہاں تک متاثر ہوا کہ اس نے کہا خدا کی قسم! آپ تو محمد رسول اللہ سے بھی بڑھ کر ہیں.بو علی سینا اُس وقت تو خاموش رہے.سردیوں کا موسم آیا تو ایک تالاب جس کا پانی منجمد ہو رہا تھا اور برف کی پٹریاں جسم رہی تھیں اور اس میں کود نا یقینی ہلاکت تھی، وہ سادگی سے شاگرد سے کہنے لگے کہ اس میں کود پڑو.اس نے جواب دیا آپ کا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا.اتنے بڑے طبیب ہو کر مجھے کہتے ہو کہ اس تالاب میں کود پڑوں جہاں کودنا یقیناً ہلاکت ہے.اس پر بوعلی سینا نے کہا کہ نامعقول! میں نے یہ حکم تمہیں یہ بتانے کیلئے دیا تھا کہ دیکھو ایک تم جو مجھ سے اس قدر عقیدت رکھنے کے مدعی ہو، میرے کہنے سے اس تالاب میں گودنے کیلئے تیار نہیں ہو لیکن محمد رسول اللہ کے ایک اشارہ پر تو ہزاروں لوگوں نے جانیں قربان کر دیں پھر تم مجھے اُس دن آپ سے افضل بتا رہے تھے.تو بڑائی باتوں میں نہیں بلکہ تأثیر سے ہوتی ہے جو خدا کی طرف سے عطا کی جاتی ہے.قلوب انسان کے اختیار میں نہیں ہوتے.داد اور زبانی واہ واہ تو ہو سکتی ہے مگر انسانی کوشش قلوب کو قابو میں نہیں کر سکتی.کسی بڑے لیکچرار کے لیکچر یا شاعر کے شعر پر لوگ وجد میں آجاتے ہیں، بعض سر دھننے اور ناچنے بھی لگ جاتے ہیں لیکن اگر ذوق اور غالب آکر کسی کو کہیں کہ اس شعر کیلئے مجھے سو روپیہ دے دو تو کوئی نہیں دے گا.ان کے اشعار پر خلوت و جلوت میں سر دھنیں گے، وجد میں آکر بعض بیہوش بھی ہو جائیں گے مگر سو روپیہ کی قربانی پر کوئی آمادہ نہ ہو گا.لیکن جن کو اللہ تعالی کی طرف سے برکات ملتی ہیں، ان کی باتیں سیدھی سادھی ہوتی ہیں.بعض اوقات بالکل بچوں کی سی باتیں ان کی ہوتی ہیں مگر ان کے پیچھے ایک ایسی زبردست طاقت ہوتی ہے کہ ایک ایک لفظ ہزاروں جانیں قربان کر دیتے ہیں اور یہی چیز بتاتی ہے کہ کس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نصرت
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء ہے.پس یہ اخلاص موہت ہے وگرنہ قرآن کریم ، انبیاء، احادیث بلکہ خدا تعالیٰ پہلے بھی موجود تھا مگر خدا سے ملنے کا ذریعہ معدوم تھا اس لئے نہ قرآن کا لوگوں پر کوئی اثر ہوتا تھا نہ محمد کی باتوں کا اور نہ خدا تعالیٰ کے کلام کا کیونکہ خدا ان سے علیحدہ تھا.آگ ہمیشہ اسی چیز کو گرم ہے جس کا اس کے ساتھ تعلق ہو.زمهریر میں بیٹھے ہوئے انسان کو ساری دنیا کے تنور مل کر بھی گرم نہیں کر سکتے.لیکن اللہ تعالی نے اپنے فضل سے ایسا ذریعہ پیدا کیا جس نے اس کے ساتھ ہمارا تعلق قائم کر دیا اور ہمارے اندر ایسا اخلاص پیدا ہو گیا کہ جہاں ہم میں بیسیوں کمزور ہیں وہاں سینکڑوں مخلص بھی ہیں.اور جس چیز نے ان کے اندر اخلاص ودیعت کیا ہے کوئی وجہ نہیں کہ وہ دوسروں کی اصلاح نہ کر سکے اور جو لوگ جماعت میں کسی قسم کی ترقی کی بجائے اس کیلئے روک ثابت ہو رہے ہیں ان کے اندر تبدیلی پیدا نہ کر سکے.پس جہاں میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں وہاں یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ان کی بھی اصلاح کردے کیونکہ چند ایک کی کوتاہی بھی بدنامی کا موجب ہو سکتی ہے.میں نے پہلے بھی کئی بار کہا ہے اور اب پھر کہتا ہوں کہ کام کے متعلق اگر کسی کو شکایت ہو اور اس کے ازالہ کی کوئی تجویز کسی کے ذہن میں آئے تو وہ ابھی سے بتا دیں.آج اگر کوئی نقص نظر آتا ہے تو سال کے بعد وہ بھول جائے گا لیکن اگر ابھی نوٹ کرا دیا جائے تو کار کن انتظامات کرتے وقت اسے مد نظر رکھ سکیں گے اور یاد کرانے پر انہیں بھی یاد آ جائے نقص میرے نوٹس میں آیا ہے.ان مہمانوں کے متعلق جو ہمارے گھر میں ٹھہرتے ہیں مجھے شکایت پہنچی ہے اور دو تین بار متواتر کہ جب بھی کوئی لڑکا منتظمین کے پاس کوئی پیغام وغیرہ لے کر گیا تو وہ یہی جواب دیتے تھے کہ اپنا کوئی آدمی بھیجو جو آکر یہ کام کرلے.مجھے تو ان دنوں اس قدر مصروفیت ہوتی ہے کہ انسان کی شکل تک پہچانی مشکل ہوتی ہے.عورتیں برقعہ پہن کر کام کیلئے باہر جا نہیں سکتیں اور کوئی ایسا مرد ہمارے ہاں نہیں جو جا کر کام کر سکے.ہمارے گھر میں قریباً پچاس مہمان ایسے ٹھہرے ہوئے تھے جن کے کھانے اور ناشتے کا انتظام ہم گھر میں ہی کرتے تھے.اور چونکہ یہ معیوب بات ہے کہ کچھ مہمان ناشتہ کریں اور باقی رہیں اس لئے باقیوں کے متعلق بھی جو دوسو کے قریب تھے، میں نے یہی کہہ رکھا تھا کہ ان کو بھی ناشتہ کرایا جائے.پس پچاس کے قریب مہمانوں کو کھانا کھلانے اور اڑھائی سو کو ناشتہ کرانے اور بعض عورتوں کے بچوں کیلئے چاول وغیرہ تیار کرنے ہوتے تھے.اور بھی اس طرح
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء کے کئی کام ہوتے ہیں.ذاتی مہمانوں کی خاطر تواضع ان سے علیحدہ ہوتی ہے.ان کاموں کے ہوتے ہوئے کسی ایسے آدمی کو تلاش کرنا جو آکر کام کر دے ناممکن ہوتا ہے.جس گھر کے مرد دوسرے کاموں میں مصروف ہوں اور عورتیں مہمان نوازی کر رہی ہوں ان سے یہ امید رکھنا کہ وہ خود ہی کسی آدمی کا انتظام کر کے کام کرالیں ناممکن ہے.دوسرا نقص جو میرے نوٹس میں آیا یہ ہے کہ اختتام جلسہ پر کارکن خود ہی کام چھوڑ دیتے ہیں.جو بھی لڑکا یا کوئی اور یہ اطلاع دینے کیلئے گیا کہ اتنے مہمان ہیں ان کا کھانا چاہیئے اس کو یہی جواب دیا گیا کہ جا کر مرزا مهتاب بیگ کو تلاش کرو کو تلاش کرو وہ آکر لے جائیں گے.ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ مرزا مہتاب بیگ کو منتظم ہماری عورتوں نے مقرر نہیں کیا تھا وہ افسروں کی طرف سے مقرر تھے اور افسروں کا ہی کام تھا کہ انہیں تلاش کرتے.میں نے بتایا ہے کہ ہمارے ہاں پچاس کے قریب مہمان ایسے تھے جن کا کھانا اور ناشتہ وہیں تیار ہوتا تھا.پھر دو سو کے قریب ایسے تھے جن کا ناشتہ وہاں تیار ہوتا تھا اور کھانا لنگر سے آتا تھا.ایسا ہی بعض اور گھر ہیں جن میں سوسواسو کے قریب مہمان ٹھرتے ہیں.جیسے حضرت خلیفہ اول کا گھر، مرزا گل محمد کا گھریا اور ان بعض گھر جو وسیع ہیں اور جہاں مہمانوں کے لئے زیادہ گنجائش ہوتی ہے ایسے گھروں میں منتظم اگر خود ہی کام چھوڑ دیں تو گھر والوں کا یہ فرض نہیں کہ وہ ان کو تلاش کرتے پھریں.افسر ہی انہیں مقرر کرتے ہیں اور انہی کا فرض ہے کہ دیکھیں وہ آخر تک کام کرتے ہیں یا نہیں.اگر غیر حاضر ہوں تو ان سے جواب طلب کریں اور تلاش کر کے کام پر لگائیں.یہ نقص ہے جو اس دفعہ میرے نوٹس میں آیا ہے.پہلے بھی یہ ہوتا تھا اور میں افسروں کو متوجہ بھی کرتا رہا ہوں لیکن اب کے یہ اس قدر نمایاں طور پر ظاہر ہوا ہے کہ میں نے پرائیویٹ طور پر توجہ دلانا بالکل ناکافی سمجھا.جو لوگ کام کرنے کیلئے اپنے نام پیش کرتے ہیں وہ گویا ایک قسم کا معاہدہ کرتے ہیں اور اقرار کرتے ہیں کہ خود ہی کام نہیں چھوڑیں گے.اگر وہ ایسا کریں تو ان کی مثال اس نوکر کی سی ہوگی جس کے آقا نے کہا تھا کہ باہر جا کر دیکھو بارش ہو رہی ہے یا نہیں.تو اس نے جواب دیا کہ ہو رہی ہے، ابھی بلی آئی تھی اور میں نے دیکھا کہ وہ بھیگی ہوئی تھی.حالانکہ ممکن ہے بلی نالی میں سے گزر کر آئی ہو.تو آپ ہی قیاس کرلیتا کہ مہمان چلے گئے ہونگے، خلاف اصول بات ہے.افسروں کو چاہیے کہ پہلے ہر گھر سے دریافت کروالیں کہ مہمان ہیں یا چلے گئے اور اگر چلے گئے ہوں تب کارکنوں کو چھٹی دیں.اسی طرح اور بھی نقائص ہوں
خطبات محمود سال ۶۱۹۳۴ گے وہ بھی دریافت کر کے ان کی اصلاح کی جائے.اس کے بعد میں اس امر کی طرف احباب کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالی کے فضل سے ہماری دنیا کیلئے ایک اور سال چڑھا ہے یوں تو ساری دنیا کیلئے ہی چڑھا ہے مگر ہمارے لئے ہر ایک سال زیادہ اہمیت رکھتا ہے کیونکہ ہر سال ہمیں زمانہ نبوت سے جو برکات کا زمانہ ہوتا ہے دور لے جا رہا ہے اور اس سے ہم جتنا جتنا دور ہوں اسی قدر گھبراہٹ اور فکر ہم میں زیادہ ہونا چاہیے کہ ابھی سے اس کیلئے تیاری شروع کردیں اور اسے پہلے سالوں سے بھی زیادہ مبارک بنانے کی کوشش کریں.اگر ہم ہر سال اپنی تنظیم میں ایک اصلاح کرلیں تو یقیناً بہت بڑے فوائد حاصل کر سکتے ہیں.پچھلے سالوں میں کوئی نہ کوئی بات میں بتاتا رہا ہوں کہ اختیار کی جائے اور ان میں سے ایک تو ایسی ہے جو ہر سال کے لئے ہے یعنی تبلیغ.بیعت اللہ تعالی کے فضل سے اس سال جلسہ پر پہلے سے زیادہ ہوتی ہے.ساڑھے تین صد کے قریب عورتوں نے بیعت کی ہے اور مردوں کی تعداد جس روز مجھے بتائی گئی، پونے چار سو تھی.اس کے بعد بھی پچاس، ساٹھ نے بیعت کی ہے اور اس طرح سوا چار سو کے قریب ہو گئی.یہ ساری مل کر قریباً آٹھ سو ہوتی ہے.یہ اللہ تعالٰی کا فضل ہے کہ ہر سال بیعت پہلے سے زیادہ ہوتی ہے.مگر دورانِ سال میں بیعت کا جو سلسلہ ہے اسے بھی بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے.اگر بیعت کرنے والوں کی تعداد کو پوری طرح محفوظ کر لیا جائے.مثلاً جو لوگ مسجد میں بیعت کرتے ہیں ان کے نام محفوظ نہیں رکھے جاتے.یا جو عورتیں گھر میں بیعت کر جاتی ہیں ان سب کو اگر شامل کرلیا جائے تو تین، چار ہزار کے قریب بیعت ہر سال ہوتی ہے اور بچوں وغیرہ کو ملا لیا جائے تو چھ سات ہزار تک یہ تعداد پہنچ جاتی ہے.یہی ہماری بیعت کی اوسط ہے لیکن یہ کوئی بڑی اوسط نہیں.جو کام ہمارے ذمہ ہے، اس کے لحاظ سے یہ بالکل قلیل ہے.اپنی ترقی کیلئے ہمیں جو بات مد نظر رکھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ تین سو سال میں سب لوگ احمدی ہو جائیں گے راہ اور نہ ہونے والے ان کے توابع ہونگے.اس تین سو سال میں سے پینتالیس سال گزر چکے ہیں ۱۸۸۹ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیعت لی ہے.اور گیارہ جمع چونتیس کل پینتالیس سال ہوتے ہیں.اور اگر دعوے کو لیا جائے تو تینتالیس سال ختم ہو گئے.اگر بیعت کو لیا جائے تو پینتالیس سال گویا ہمارے لئے کام کرنے کے اب صرف دو سو پچپن سال باقی رہ گئے.مگر ہماری ترقی کیلئے یہ -
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء نسبت بہت ہی کم ہے.گورنمنٹ کی مردم شماری کی رو سے پنجاب میں احمدیوں کی تعداد چھپن ہزار ہے مگر یہ بالکل غلط ہے.بعض جگہ دو دو تین تین سو کی جماعتیں ہیں مگر وہاں صرف دس پندرہ احمدی دکھائے گئے ہیں.ایک جگہ عورتوں کی تعداد بچوں کی تعداد کا پندھرواں حصہ ہے.ایک جگہ مرد کوئی نہیں صرف عورتیں ہی احمدی ہیں.ایک جگہ مرد ہی مرد ہیں اور عورتیں بہت کم ہیں.یہ سب اس رپورٹ کے غلط ہونے کا ثبوت ہیں.ضلع گورداسپور میں جماعت پندرہ ہزار دکھائی گئی ہے حالانکہ اتنے احمدی صرف بٹالہ کی تحصیل میں ہی ہوں گے.گل ضلع میں جماعت تیس ہزار کے قریب ہوگی لیکن سرکاری رپورٹ کو اگر ڈبل بھی کر لیا جائے تو بھی سارے ملک میں احمدیوں کی تعداد سوا دو لاکھ ہوگی.اس میں شک نہیں کہ بعض جماعتیں ایسے مقامات پر ہیں جن کا ہمیں علم نہیں.پھر بہت سے کمزور احمدی ہیں جو اظہار نہیں کرتے.کئی جماعتیں ہماری نگرانی میں نہیں اور ان سب کو ملا کر جماعت کا اندازہ دس بارہ لاکھ کیا جاتا ہے.ممکن ہے کم ہو یا زیادہ لیکن اگر دس ہزار بھی سال میں احمدی ہونے والے سمجھ لئے جائیں تو دس سال میں ایک لاکھ ہوں گے.اور اڑھائی سو سال میں افزائش نسل کے ذریعہ اضافہ کو مد نظر رکھ کر بھی پچاس ساٹھ لاکھ ہوں گے اور ظاہر ہے کہ یہ کوئی ترقی نہیں.ہم نے تین سو سال میں ساری دنیا کو احمدی بنانا ہے.بادشاہ رعایا، پار یمینٹیں اور ان کے ممبر کالے گورے سب ہمارے قبضہ میں آنے والے ہیں اور باقی رہنے والے صرف خانہ بدوش لوگوں کی حیثیت میں ہونگے.ظاہر ہے کہ اس منزل کو ر نظر رکھتے ہوئے ہمیں کس قدر محنت کی ضرورت ہے اور ہم نے اس حد تک کوشش نہیں کی جس حد تک کی جانی ضروری ہے.اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے جسے وہ ضرور پورا کرے گا.لیکن جس کام کو فرشتے ہی کریں ہمارے لئے اس میں کیا خوشی ہو سکتی ہے.انبیاء کی پیشگوئیاں ہوتی ہی اسی لئے ہیں کہ ان کے پورا کرنے میں مومنوں کا بھی حصہ ہو جائے وگرنہ خدا تعالی نے جو بتایا وہ تو ایسی قضاء ہے جو ہوکر رہے گی مگر اس کا منشاء یہ ہے کہ میں نے یہ دریا بہایا ہے تم بھی اس سے جس قدر فائدہ اُٹھانا چاہتے ہو اُٹھا لو.اور پیشگوئیوں کی یہی غرض ہوتی ہے.پس تبلیغ کا کام نہایت اہم ہے.خصوصاً قادیان کی جماعت کو اس طرف خاص توجہ دینی چاہیے.کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ابھی تک قادیان میں ہزار کے قریب غیر احمدی موجود ہیں.
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء ہیں.حالانکہ اگر ایک بھی ہو تو ہمیں تردّد ہونا چاہیئے.ان کے علاوہ چھ صد کے قریب ہندو اور سکھ قلوب کی فتح استقلال سے ہوا کرتی ہے.یہاں کی جماعت میں میں نے یہ نقص دیکھا ہے کہ جب کوئی نیا آدمی یہاں آئے تو لوگ گھبرا جاتے ہیں، حالانکہ یہ کمزوری اور بُزدلی ہے.میں نے ایک پچھلے خطبے میں بھی کہا تھا کہ شیر کے گھر میں اگر شکار آئے تو وہ خوش ہوتا ہے.پس بجائے اس کے کہ ہم باہر جا جا کر مولویوں کو تلاش کرتے پھریں، ہمیں چاہیئے کہ ان کے یہاں آنے کیلئے دعائیں کریں.آخر یہی قادیان ہے جہاں ہمارے اتنے دشمن تھے کہ گلیوں میں چلنا پھرنا بند تھا اور یہیں لیکھرام آکر رہا.مگر اب تو شاید اس کا کوئی چیلہ بھی آجائے تو بعض لوگ گھبرا جائیں.جنہوں نے دنیا کو فتح کرنا ہو وہ کبھی اس طرح گھبرایا نہیں کرتے.اگر اس میں فکر کی کوئی بات ہو تو سب سے زیادہ فکر مجھے ہونی چاہیئے.اور اگر تمہاری ایک وقت کی نیند حرام ہوتی ہے تو میری مہینوں کی ہونی چاہیئے.مگر مجھے تو کبھی فکر نہیں ہوا کہ کیا ہوگا.اور ہونا کیا ہے بس یہی کہ اٹھو اور فتح کرلو.مثلاً آج کل احراری یہاں آئے ہوئے ہیں.وہ بھی تو آخر انسان کی نسل سے ہی ہیں.دماغ ، کان، آنکھیں قلب و جگر عام انسانوں کی طرح رکھتے ہیں اور کیا اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے کہ کوئی احراری احمدی نہیں ہو گا.سینکڑوں خلافتی بلکہ ان کے کئی پُرجوش ڈکٹیٹر احمدی ہوچکے ہیں حالانکہ تحریک خلافت کے ایام میں احمدیت کے خلاف بھی بہت سخت جوش تھا لیکن بعض ہجرت کرنے والوں میں سے بھی احمدی ہوئے ہیں.صوفی عبد الغفور صاحب بی.اے ہجرت کر کے افغانستان گئے.اور وہاں سے خراب وختہ ہو کر واپس آئے پھر وہ جماعت احمدیہ میں داخل ہو گئے.اسی طرح چھچھ.کے لیڈر محمد غوث صاحب بڑے پرجوش خلافتی اور اپنے علاقہ کے لیڈر تھے.سینکڑوں لوگوں کو انہوں نے قید کرا دیا مگر اب وہ مخلص احمدی ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی کچی قربانی کو قبول کیا اور ہدایت قبول کرنے کی توفیق دی.اسی طرح احراری بھی سارے کے سارے بُرے.نہیں.ان میں ہزاروں ہیں جن کے نزدیک اسلام کی خدمت کا صحیح رستہ وہی ہے جو انہوں نے اختیار کر رکھا ہے.وہ اخلاص سے کام کر رہے ہیں اور اس کے نتیجہ میں ہدایت پاسکتے ہیں.پس ان سے ملوان کے پاس جاؤ بیٹھو.انہیں اپنے ہاں بلاؤ بٹھاؤ.یہاں آریوں کے جلسہ کے موقع پر ایک دفعہ جگہ کا سوال پیدا ہوا تو میں نے کہا کہ ہماری اور جگہ تو کیا تم ہماری مسجد میں جلسہ کر سکتے ہو اور سب احمدی سنیں گے.اسی طرح ایک بار گاندھی جی نے کسی سے ذکر کی
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء کیا کہ یہ منظم اور کارکن جماعت ہے مگر افسوس کہ کانگری تحریک میں کوئی حصہ نہیں لیتی میں انہیں سمجھاؤں گا میں نے انہیں کہلا بھیجا کہ آپ یہاں آئیں اور جتنا عرصہ چاہیں تقریریں کریں ہم سب آپ کے خیالات سنیں گے اور اپنے سنائیں گے.اگر آپ کے خیالات میں معقولیت زیادہ ہوئی تو ہم آپ کے ساتھ ہو جائیں گے.اور اگر ہمارے خیالات زیادہ معقول ہوئے تو آپ ہمارے ساتھ مل جائیں.آریوں کو میرے مسجد میں جلسہ کرنے کی اجازت دینے کے بعد ان کا کوئی کامیاب جلسہ نہیں ہوا.شاید میرے اس کہنے کی وجہ سے اللہ تعالٰی نے انہیں ناکام کر دیا.اسی طرح احراری ہماری مسجدوں میں آئیں تقریریں کریں اور دوست ٹھنڈے دل سے سنیں.باہر کے احمدیوں کو تو گالیاں سننے کی عادت ہوتی ہے مگر یہاں تو خدا تعالیٰ کسی کو بھیج دیتا ہے.لوکل کمیٹی کو چاہیے کہ ہر محلہ سے ایسے لوگ مقرر کردے جو ان سے ملیں ان کی دعوتیں کریں.قلوب کو انہیں ذرائع سے فتح کرو جو خدا نے بتائے ہیں.اور اس تلوار سے دشمن کو فتح کرو جو براہین، دلیل، نیکی، صداقت اور راستبازی و خوش اخلاقی کی تلوار ہے.اب لوہے کی تلوار مفید نہیں ہو سکتی کیونکہ اگر ہم نے اس سے کام لینا ہوتا تو اللہ تعالی ہمیں وہ عطا بھی کرتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہی لکھا ہے کہ اگر تکوار سے جہاد اس زمانہ کیلئے ضروری ہوتا تو اللہ تعالٰی مسلمانوں سے تلوار نہ چھینتا.میں نے بیشک لاٹھی رکھنے کی تلقین کی ہے مگر وہ اس لئے کہ اس سے طاقت پیدا ہوتی ہے.وہ مارنے کیلئے نہیں بلکہ مار کھانے کیلئے ہے.اگر انسان کے ہاتھ میں سونٹا نہ ہو تو مار کھانے پر وہ سمجھ سکتا ہے میں بُزدل ہوں.اگر سونٹا ہوتا تو میں بھی اسے ضرور پیٹتا لیکن سونا ہوتے ہوئے مار کھانا یقینا بہادری ہے.اور جیسا کہ میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر بتایا تھا سونٹا ہاتھ میں رکھوانے سے میری غرض یہی ہے.وگرنہ ہماری تلواریں دعائیں ہیں، نیک نمونہ ہے، جسے اگر اختیار کیا جائے تو کیا تعجب ہے کہ اگلے جمعہ میں بجائے اس کے کہ میں کہوں دوست گھبرائیں نہیں کوئی اُٹھ کر کہے کہ یہ احراری بیعت کرنا چاہتے ہیں.ان کا احمدی ہونا ناممکن نہیں، ایسے ایسے مخالفوں نے بیعتیں کی ہیں کہ ہاتھ میں ہاتھ ہوتے ہوئے ان کی چیخیں نکل گئیں اور انہوں نے کہا کہ دعا کریں، ہم نے احمدیوں پر بہت ظلم کئے ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں معاف کردے.اب کے جلسہ پر ایک صاحب آئے ہوئے تھے جو بہت مخلص احمدی ہیں مگر پہلے خطرناک ڈاکو تھے.پس تم یہ کیوں سمجھتے ہو کہ احراری بیعت نہیں کرسکتے.کیا وہ خدا کے بندے نہیں ہیں.دراصل
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء لوگ اتنے گندے نہیں ہیں جتنے تم سمجھتے ہو.اگر ان لوگوں کو صیقل کیا جائے تو وہ روشن ستارے بن سکتے ہیں.پس اس سال کا پروگرام میں یہی تجویز کرتا ہوں کہ تبلیغ کے علاوہ قربانی کا اعلیٰ نمونہ دکھاؤ.دوست ماریں کھائیں، گالیاں کھائیں مگر صبر کریں.کوئی مسیحیت ایسی نہیں جو اس کے بغیر پھیلی ہو.حضرت ابراہیم علیہ السلام کہ وہ بھی مسیح تھے، حضرت مسیح ناصری اور مسیح محمدی اور بھی خدا جانے کتنے مسیح گزرے ہیں مگر سب جمالی رنگ میں تھے دعاؤں کے ساتھ مخالفوں کا مقابلہ کرتے تھے تلوار سے نہیں ماریں کھا کر جیتے اور یہی ہمارے متعلق ہوگا.جو اس کیلئے تیار ہے وہی اسلام کی فتح کیلئے کوشش کرتا ہے.اتنی ماریں کھاؤ اور اتنی گالیاں سنو کہ دنیا مان جائے کہ روئے زمین پر اتنی ماریں اور گالیاں کھانے والی کوئی دوسری قوم نہیں پھر خود بخود لوگ ہدایت کی طرف آجائیں گے اور ان کے قلوب فتح ہو جائیں گے.یوم التبلیغ کے موقع پر غالباً جماعت لاہور کے بعض دوست کسی گاؤں میں گئے تو گاؤں والوں نے انہیں مارا.اور بعض اشیاء چھین لیں کسی کی پگڑی کسی کا گلاہ اور کسی کی کوئی اور چیز چھینی گئی مگر وہ جب واپس آرہے تھے تو ایک شخص قریباً ایک میل سے بھاگتا ہوا آکر ان سے ملا اس نے کوئی چیز پکڑی ہوئی تھی اور روتا ہوا یہ کہہ رہا تھا یہ لے لو اور ہمارے گاؤں والوں کیلئے بددعانہ کرنا انہوں نے بہت ظلم کیا ہے.یہ قلب کی فتح تھی جس وقت ہمارے دوست ماریں کھارہے تھے، فرشتے ان کی فتح کے سامان کر رہے تھے.یہی چیز ہے جس سے تم جیت سکتے ہو.ہیڈ ماسٹروں کا فرض ہے کہ اپنے طالبعلموں کے قلوب میں یہ بات پیدا کریں.پریذیڈنٹ اپنی اپنی جماعت میں اور ناظر تمام جماعت میں یہ جذبہ پیدا کریں.اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی تلوار سے ہی ہمیشہ کامیابی ہو سکتی ہے، پس اسی تلوار کو چلاؤ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کا الہام ہے کہ فرشتوں کی کھینچی ہوئی تلوار تیرے آگے ہے.رسول کریم ﷺ کو اللہ تعالی نے فرمایا تھا کہ ہم نے تیرے لئے لوہا اُتارا ہے ہے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کیلئے فرشتوں کی تلوار فرمایا.اس لئے وہاں لوہے کی تلوار سے کام لیا گیا اور یہاں فرشتوں کی تلوار سے کامیابی ہوگی.پس فرشتوں کو کام کرنے دو.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب انسان خود ہاتھ اُٹھائے تو فرشتے ہٹ جاتے ہیں.ایک دفعہ ایک شخص دوسرے کو بُرا بھلا کہہ رہا تھا جب دوسرا بھی جواب دینے لگا تو آپ نے فرمایا کہ اب تک اس کی طرف سے فرشتہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ تو جواب دے رہا تھا جو آب ہٹ گیا ہے ہے.ہاں جب خدا کا حکم ہو تو تلوار بھی ضروری ہوتی ہے جیسے محمد رسول اللہ اللہ کے وقت میں ہوا.اور اُس وقت فرشتے بھی ویسی ہی تلوار چلاتے ہیں اور جب فرشتے ساتھ ہوں تو کسی کا کیا ڈر ہو سکتا ہے خواہ کوئی کتنا جابر بادشاہ اور زبر دست حکومت ہی کیوں نہ ہو.جابر سے جابر بادشاہ کی بھی کیا ہستی ہے.رات کو قولنج کا درد کو ہو تو صبح جنازہ نکلا ہو گا.جو انسان اپنے کو خدا کے ہاتھ میں سونپ دے اسے کسی کا کیا ڈر ہو سکتا ہے.بعض لوگ کہتے ہیں پولیس کا افسر خلاف ہے.حالانکہ کوئی افسر ہے جو ایک گھنٹہ تک زندہ رہنے کی بھی گارنٹی کر سکے.اگر تم خدا کے ہاتھ میں چلے جاؤ تو جو تم پر ظلم کرے گا اللہ تعالٰی اس کے افسروں کو اس سے ناراض کردے گا یا اسے مار دے گا یا پھر اس کی اصلاح کردے گا.اگر ہم اپنے اندر نیکی اور تقویٰ پیدا کریں ، عادل بنیں، ظالم بننے کی بجائے مظلوم بنیں تو خدا تعالیٰ کی نصرت ہمارے لئے ہوگی.جب ہم سو رہے ہوں گے فرشتے ہمارے لئے لڑیں گے.ہم اگر لڑیں تو بھی بارہ گھنٹے لڑ سکتے ہیں.مگر جب خدا کے ہاتھ میں اپنے کو سونپ دیں تو فرشتے ہماری طرف سے ہماری غفلت کے وقت بھی لڑیں گے.اور اگر خدا کا یہی منشاء ہوا کہ ہم مارے جائیں تو مارے جاؤ.خصوصاً قادیان کے لوگوں کو اس طرف دھیان دینا چاہیئے اور یہاں کے درس دینے والوں اماموں، پریذیڈنٹ اور دوسرے لوکل عہدیداروں، محکموں کے افسروں اور ناظروں کا فرض ہے کہ جب بھی موقع ملے دوستوں کو یہ سمجھاتے رہیں کہ تمہارا فرض یہی ہے کہ روحانی طور پر قلوب کو فتح کرو.پھر قادیان کیا ساری دنیا میں بھی تمہیں کوئی غیر احمدی نظر نہیں آئے گا.اللہ تعالی ہمیں توفیق دے کہ اس پر عمل کرسکیں اور اپنے جوش میں غلطی کر کے سلسلہ کی بدنامی اور اس کی ترقیات میں روک کا تعلیمی موجب نہ ہوں.الفضل 11 جنوری ۱۹۳۴ء) له تذكرة الشهادتين صفحه ۶۷ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۶۷ ه الحديد: ٢٦ کے مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ۴۳۶ دار الفکر بیروت
خطبات محمود 11 رمضان المبارک کا بابرکت آخری عشرہ (فرموده ۱۲- جنوری ۱۹۳۴ء) سال ۱۹۳۴ء تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- مسلمان یہ آیا تو میں اسی ارادہ سے تھا کہ میں خطبہ جمعہ پڑھا سکوں گا کیونکہ کل شام سے کھانسی کی تکلیف میں مجھے بہت کچھ افاقہ محسوس ہو رہا تھا لیکن نہ معلوم تین چار دن لیٹے رہنے کی وجہ سے یا بلغم کی زیادتی کی وجہ سے منبر پر کھڑے ہونے کے بعد میں محسوس کرتا ہوں کہ میں نہ زیادہ بول سکتا ہوں اور نہ ہی آواز اونچی کر سکتا ہوں.رمضان کے دن اللہ تعالیٰ کے فضل سے سارے ہی مبارک ہوتے ہیں.اور مومن کیلئے تو سب دن ہی بابرکت ہوتے ہیں مگر نہ معلوم کن خیالات کے ماتحت یا کن اثرات کی وجہ سے مسلمانوں نے رمضان کے آخری جمعہ کو خاص اہمیت دے دی ہے.اور یہ اہمیت اس قدر ترقی کر چکی ہے کہ بہت سے خیال کرتے ہیں کہ اس دن کی نمازیں ان کی ساری نمازوں کی کوتاہیوں کو پورا کر دیتی ہیں.یہ ایک ایسا وہم ہے جس نے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایا اور ان میں سُستی اور غفلت پیدا کردی ہے.مگر بہر حال لوگوں میں یہ احساس ہے اور اس دن میرے پاس بھی بہت سی تاریں اور لوگوں کے خطوط آجاتے ہیں جن میں یہ درخواست ہوتی ہے کہ جمعۃ الوداع میں ہمارے لئے دعا کی جائے.پھر عام جمعوں کی نسبت اس دن اجتماع بھی زیادہ ہوتا ہے.عورتوں میں بھی اور مردوں میں بھی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دن میں کچھ ایسی کشش پیدا ہو گئی ہے.کہ لوگ زیادہ سے زیادہ تعداد میں اکٹھے ہونے کی کوشش کرتے ہیں.
خطبات محمود اور ۱۲ سال ۶۱۹۳۴۳ پس رمضان اگرچه مارا ہی مبارک مہینہ ہے اور آخری عشرہ سارا ہی بابرکت ہوتا ہے کسی خاص دن کی عبادت انسان کی کوتاہیوں کو پورا نہیں کر سکتی بلکہ کوتاہیوں کے ازالہ کیلئے ضروری ہے کہ انسان کفارہ دے.پھر بھی یہ احساس لوگوں میں پایا جاتا ہے کہ رمضان کے آخری جمعہ میں ضرور شامل ہونا چاہیئے اس وجہ سے وہ لوگ جو دوسرے ایام میں عبادت میں غفلت کرتے ہیں، اس دن اکٹھے ہو جاتے ہیں.یا شاید میں غلطی کرتا ہوں.اصل بات یہ ہو کہ جو لوگ اپنے اپنے علاقوں میں جمعہ پڑھتے ہوں وہ جمعۃ الوداع کے لئے کسی قریب کے اہم مقام پر جمع ہو جاتے ہوں اور اس لحاظ سے اجتماع زیادہ ہو جاتا ہو.بہر حال چونکہ لوگ اس دن زیادہ اکٹھے ہوتے ہیں، اس لئے اس اجتماع سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اور اسی ذریعہ سے اسے بابرکت بنایا جاسکتا ہے.اسلامی سنت سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جتنا زیادہ اجتماع ہو اسلام اُتنا ہی زیادہ عبادت اور خشوع و خضوع پر زور دیتا ہے اور یہی اسلام نے برکتیں حاصل کرنے کا گر بتلایا ہے.اگر جمعہ میں مسلمانوں کا اجتماع ہوتا ہے تو اس دن بھی عبادت میں اس طرح زیادتی کر دی کہ گو دو رکعت فرائض رکھے مگر اس کے ساتھ ایک لمبا خطبہ رکھ دیا.پھر علاوہ دوسرے ایام کے جمعہ کے دن اسلام نے زیادہ زور سے ذکر الہی کرنے کی تاکید اور قرآن شریف کی تلاوت کرنے کا دیا ہے.پھر عیدین کے موقع پر اجتماع ہوتا ہے اس دن بھی ایک نماز زائد رکھ دی بلکہ علاوہ اس کے ایک میں صدقۃ الفطر اور دوسری میں قربانی رکھ کر اس امر کی طرف اشارہ کیا کہ خوشی حاصل کرنے کا شجر یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ عبادت کی جائے اور اس طرح اجتماعات حقیقی فائدہ اٹھایا جائے.باقی دنیا میں بھی اجتماعات ہوتے ہیں مگر ان کے اجتماعات میں لہو ولعب ہوتا ہے جو ایک ظاہری اور عارضی خوشی تک محدود ہوتا ہے.ان اجتماعات میں کھیلیں ہوتی ہیں تماشے ہوتے ہیں، تھئیٹروں کی قسم کے سوانگ بھرے جاتے ہیں مگر ان کھیلوں سے زیادہ فائدہ نہیں ہوتا.بچوں کو ان کھیلوں کے دیکھنے سے خوشی ہوتی ہے، نوجوان بھی خوش ہوتے اور شاید بوڑھے بھی بچوں اور نوجوانوں کے اثر کے ماتحت تھوڑی دیر کیلئے خوش ہو لیتے ہوں مگر لہو و لعب بهر حال لہو و لعب ہی ہے اور ان چیزوں کا اثر اُسی وقت تک رہتا ہے جب تک کھیلیں ہوتی رہتی ہیں.لیکن عبادت کا اثر دائمی ہوتا ہے کیونکہ سچی عبادت انسان کو خدا کے قریب کر دیتی ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ ایسا انسان اللہ تعالی کی حفاظت کے نیچے آجاتا 3
سال ۱۹۳۴ء خطبات محمود ہے اور اگر عبادات میں زیادتی ہوتی چلی جائے تو انسان خدا تعالی کی حفاظت میں پہلے سے زیادہ آجاتا ہے اور اس طرح ترقی کرتے کرتے دائمی جنت کا وارث ہو جاتا ہے.اس دائمی راحت کے مقابلہ میں لہو و لعب کی وقتی راحت کچھ حقیقت نہیں رکھتی.یہی گر ہے جو اسلام نے اجتماعات کے موقع پر ہماری روحانی ترقی اور دائمی راحت کیلئے بتایا.پس ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہماری عبادات میں زیادتی ہو.آج کا غیر معمولی اجتماع خواہ کسی غلط یا صحیح روایت کی بناء پر ہو یا کسی بزرگ کے قول پر اس کی بنیاد ہو ہم اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور آخری جمعہ کے لحاظ سے رمضان کے متعلق ہدایات بھی دے سکتے ہیں.گو رمضان کا بیشتر حصہ اس جمعہ کے آنے سے پہلے گزر جاتا ہے مگر بسا اوقات ان آخری دنوں میں وہ رات آجاتی ہے جس کو رسول کریم ﷺ نے ایک رؤیا اور بشارت کی بناء پر خاص طور پر اہمیت دی ہے.وہ بشارت یہ ہے کہ رمضان کے آخری عشرہ میں خصوصاً طاق راتوں میں ایک رات ایسی آتی ہے جس میں خصوصیت سے اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہوتے اور دعائیں قبول ہوتی ہیں.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اس رات بندہ جو کچھ صدق نیت اور اخلاص سے اللہ تعالیٰ سے مانگے گا وہ اسے دیا جائے گا اے.اس کا نام مسلمانوں میں لیلۃ القدر مشہور ہے.یہ لیلۃ القدر کب آتی ہے، یہ کیونکہ رسول کریم ﷺ کو اللہ تعالی نے اُس سال کی لیلۃ القدر کا علم دیا تھا مگر آپ جب باہر لوگوں کو بتانے کیلئے تشریف لائے تو دیکھا کہ دو آدمی آپس میں لڑ رہے ہیں ان کی لڑائی ور سختی کو دیکھ کر آپ کو ملال ہوا اور اس قدر تکلیف پہنچی کہ شدت غم سے آپ کو اس رات کی تاریخ بھول گئی اور آپ نے فرمایا میں لیلۃ القدر بتانے کیلئے آیا تھا مگر تمہاری لڑائی کو دیکھ کر میرے ذہن سے وہ تاریخ نکل گئی.اب میں بتاتا ہوں کہ لیلۃ القدر آخری عشرہ میں تلاش کرو اور خصوصیت سے اس کی طاق راتوں میں جاگو کیونکہ آخری عشرہ کی طاق راتوں میں کوئی رات لیلۃ القدر ہوتی ہے ہے.روحانی علماء جو اس امت میں گزرے ہیں، ان کا تجربہ ہے کہ لیلۃ القدر کی تاریخیں بدلتی رہتی ہیں.۲۱ ۲۳ ۲۵ ۲۹٬۲۷ ایسی تاریخیں ہیں جن میں اکثر لیلۃ القدر ہوتی ہے.یعنی کبھی ۲۱ تاریخ کو لیلۃ القدر ہوگی کبھی ۲۳ کو کبھی ۲۵ کبھی ۲۷ اور ۲۹ کو.اور بعض روحانی علماء نے اس بات کا بھی تجربہ کیا ہے کہ کبھی لیلۃ القدر آخری عشرہ سے بھی پہلے آجاتی ہے مگر کثرت سے بلکہ اتنی کثرت سے کہ کہا جاسکتا ہے کہ 99 فیصدی نہیں
خطبات محمود ۱۴ سال ۱۹۳۴ء ہوتا روض بلکہ اس سے بھی زیادہ مرتبہ لیلۃ القدر آخری عشرہ میں آتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلو والسلام کا تجربہ بھی اسی امر کی تائید کرتا ہے اور مزید بر آن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تجربہ سے یہ امر بھی ثابت ہے کہ آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے بالعموم یہ رات ستائیس ، تاریخ کو آتی ہے.اس لحاظ سے اب کی دفعہ لیلۃ القدر جس کا زیادہ امکان ہو سکتا ہے، اس جمعہ کے بعد آنے والی ہے.- بعض صحلبہ کے تجربہ اور صوفیاء کے تجریہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس رات آسمان پر ایسی باتیں ظاہر ہوتی ہیں جو غیر معمولی ہوں.بعض دفعہ غیر معمولی ترشح ہے اور بعض دفعہ آسمان پر غیر معمولی روشنی دکھائی دیتی ہے.مگر بالکل ممکن ہے کہ روحانی امور ہوں کیونکہ ان کے دیکھنے والے منفرد ہوتے ہیں.اگر جسمانی رنگ میں یہ امور ظاہر ہوتے تو ان کو دیکھنے والے بہت سے ہوتے.پس بالکل ممکن ہے یہ کشفی نظارہ ہو اور خداتعالی یہ بتانا چاہتا ہو کہ آج کی رات ہی لیلۃ القدر ہے.چاند کے متعلق چونکہ بالعموم شبہ ہے اور یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ وقت پر دیکھا گیا ہے یا بعد میں.اور بعض دفعہ لوگوں کی شہادتیں بھی مشتبہ ہو جاتی ہیں اس لئے چھیں اور ستائیس دو راتیں خصوصیت سے اہم ہوتی ہیں.اگر چاند کے متعلق کسی قسم کا شبہ ہو تو بعض دفعہ دھوکا لگ سکتا ہے اور انسان جب یہ خیال کر رہا ہوتا ہے کہ آج ۲۶ تاریخ ہے، دراصل ۲۷ تاریخ ہوتی ہے اس لئے ۲۶ اور ۲۷ دونوں راتوں میں خصوصیت سے عبادت کرنی اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگنی چاہئیں.مگر جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے رمضان کی ساری راتیں ہی مبارک ہوتی ہیں کیونکہ اس رہتا مہینہ کو اللہ تعالی نے قرآن کریم کے نزول کیلئے مچنا.پس سارے رمضان میں ہی خصوصیت سے آخری عشرہ میں قرآن کریم بہت پڑھنا چاہیے، ذکر الہی پر زور دینا چاہیے اور اللہ تعالٰی سے دعائیں مانگنی چاہئیں.ہماری جماعت جو روحانی جماعت ہے اور جس کے سپرد ایک ایسا کام کیا گیا ہے جو انسانی ہاتھوں سے ہونا ناممکن ہے، اس کیلئے تو بہت ہی ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالی سے دعائیں کرے کیونکہ ہمارے پاس کامیابی کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ دعا ہے.یہ دن چونکہ دعاؤں کی قبولیت کے ہیں اس لئے اب جبکہ ہم آخری عشرہ میں سے گزر رہے ہیں اور جبکہ وہ رات جو لیلۃ القدر کہلاتی ہے آنے والی ہے، میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ دعاؤں پر زور دے.احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ افطاری کا وقت قبولیت دعا کا ہوتا ہے ہے.اسی طرح
خطبات محمود ۱۵ سال ۱۹۳۴ء سحری سے پہلے کا وقت بھی دعائیں قبول ہونے کا ہوتا ہے ہے.سحری سے سورج نکلنے تک کا وقت بھی قبولیت دعا کیلئے احادیث میں بیان کیا گیا ہے.غرض عصر سے مغرب تک جس میں افطاری کا وقت بھی شامل ہے اور پو پھٹنے سے سورج کے نکلنے تک کا وقت خاص طور پر دعاؤں کے لئے موزوں ہوتا ہے.ان وقتوں میں اگر دعا کی جائے تو خصوصیت سے قبول ہوتی ہے.رپر قرآن مجید سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ تہجد کے وقت خاص طور پر ملائکہ نازل ہوتے اور الہی برکات و فیوض کا نزول ہوتا ہے.اور روزوں کا قرآن کریم میں جہاں ذکر کیا گیا ہے، وہاں دعاؤں کی قبولیت کا وعدہ بھی دیا گیا ہے.غرض ان دنوں سے خصوصیت سے فائدہ اُٹھانا چاہیے.جماعت کے دوستوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہماری تمام فتوحات روحانی ہیں.میں حیران ہوتا ہوں جب میں بعض دفعہ اپنے دوستوں میں سے کسی کے منہ سے یہ سنتا ہوں کہ ہم اپنی تدبیروں سے یوں کر دیں گے.اس میں شبہ نہیں کہ ہمیں اپنی تدبیروں سے بھی کام لینا چاہیئے لیکن اگر ہم خدا تعالٰی کی نصرت کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی تدبیروں پر کامیابی کا انحصار رکھیں گے تو ہم یقیناً ناکام رہیں گے.ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہماری ہر ایک تدبیر خدا تعالی کی مرضی اور اس کی رضاء کے ماتحت ہو.دعا عجز کی متقاضی ہوتی ہے لیکن دعا کے علاوہ بھی ہم پر عاجزانہ رنگ غالب رہنا چاہیے.دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ اگر ایک نوکر کو کوئی ضرورت در پیش ہو تو آقا کے سامنے جا کر عاجزانہ رنگ اختیار کرتا ہے اس لئے کہ اس کی ضرورت اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ ایسا کرے مگر کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ اگر وہ ضرورت پوری کراتے وقت تو عاجزانہ رنگ اختیار کرے لیکن اسکی عادت یہ ہو کہ بعد میں اکٹر جائے اور آقا کے سامنے متکبرانہ رنگ اختیار کرے تو وہ آقا اس کی ضرورت کو پورا کر دے گا؟ کبھی نہیں.ضرورت کے وقت تو ہر شخص عاجز بن سکتا ہے.مشرک بھی ضرورت کے وقت اپنا ماتھا خدا کے آگے رگڑ سکتا ہے.پس صرف دعا کے وقت عاجزی دکھانے کا کوئی فائدہ نہیں جب تک ہر وقت تم عاجزانہ رنگ کا غلبہ نہیں رہتا.یہ مت خیال کرو کہ اگر تم دعا کے وقت خدا تعالی کے آگے کچھ رو لیتے ہو تو یہ تمہارے لئے کافی ہے.دعا کے وقت رونا کوئی بڑی بات نہیں.بعض دفعہ انسان دوسرے کی مصیبت کا تصور کر کے بھی رو پڑتا ہے اور بعض دفعہ اپنی مصیبت پر غور کر کے بھی انسان کے آنسو نکل آتے ہیں.بالکل ممکن ہے ایک انسان اسی قسم کے اثرات کے ماتحت دعا میں روتا ہو مگر دوسرے وقت فرعون سے بھی بڑھ کر ظالم ہو.
خطبات محمود 14 سال ۱۹۳۳ء وہ حضرت خلیفہ المسیح الاول کا ایک بچہ فوت ہو گیا.ایک خادمہ جو میری کھلائی بھی اتنا روئی کہ بچے کی ماں بھی اتنا نہیں روئی تھی.حضرت اماں جان کو خیال آیا کہ اس رونے میں ضرور کوئی خاص بات ہے.انہوں نے اس سے پوچھا تو اتنا کیوں روئی ہے.پہلے تو وہ کہنے بچہ جو فوت ہو گیا ہے اس کے صدمہ سے روتی ہوں.حضرت اماں جان نے کہا، نہیں کوئی اور بات ہے.سچ سچ بتا.وہ کہنے لگی اصل بات یہ ہے کہ پیر منظور محمد صاحب ابھی آئے تھے، انھیں دیکھ کر مجھے اپنا بھائی یاد آگیا کیونکہ میرے بھائی کی شکل ان سے ملتی تھی، اس لئے میں روئی.پس یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک انسان اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگنے جائے اور پھر اسے رونا نہ آئے مگر اس رونے پر اگر غور کیا جائے گا تو معلوم ہوگا کہ رقت کا موجب خدا تعالیٰ کی خشیت نہیں بلکہ کوئی خاص مصیبت ہوگی جس نے اسے رُلا دیا.اسی طرح خود غرضی کے ماتحت انسان ترلے بھی کرلیتا ہے اور آنسو بھی بہا لیتا ہے.مگر اس قسم کے عجز و انکسار - خدا تعالی دھوکے میں نہیں آسکتا.یہ مت خیال کرو کہ تمہارے آنسو بہانے سے خدا تعالی دھوکا کھا جائے گا.وہ تمہارے دلوں کو جانتا ہے اور وہ یہ دیکھتا ہے کہ میرے بندے دوسرے اوقات میں بھی عجز وانکسار دکھاتے ہیں یا نہیں.اگر دوسرے اوقات میں کوئی شخص خواہ مخواہ چھاتی نکالے پھرتا ہے، خود پسندی اور اکبر اس میں پایا جاتا ہے تو خدا اس کے تھوڑی دیر کے رونے کو کچھ وقعت نہیں دیتا.وہ سمجھتا ہے کہ اب یہ اپنی ضرورت کیلئے رو رہا ہے ورنہ اس کی طبیعت میں تکبر، ظلم اور خود پسندی بھری ہوئی ہے.بڑے بڑے جابر عیسائی بادشاہ بھی ضرورت پر گرجوں میں چلے جاتے اور رونے لگ جاتے ہیں.مگر جو نہی گرجے سے نکلتے ہیں کہتے ہیں کون ہے جو ہمارے سامنے بول سکے.جب انہیں گرجے میں دیکھا جاتا ہے، جب ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان سے زیادہ منکسر المزاج اور کوئی نہیں.مگر جب گرجے سے باہر دیکھا جاتا ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان سے زیادہ ظالم رکوئی نہیں.پس یاد رکھو خداتعالی کو انکسار پسند ہے مگر وہ انکسار نہیں جو تم دعا کے وقت پندرہ بیس منٹ کیلئے اختیار کر لیتے ہو بلکہ وہ انکسار پسند ہے جو تم ۲۴ گھنٹے رکھتے ہو.اس دائمی انکسار کے ساتھ اگر ایک آنسو بھی تمہاری آنکھ سے گرے گا تو وہ اللہ تعالٰی کے عرش کو ہلا دے گا کیونکہ خدا اپنے بندے کا ایک آنسو بھی ضائع نہیں کرنا چاہتا.لیکن اگر یہ انکسار نہیں تو خواہ تمہارے آنسوؤں سے مصلیٰ تر ہو جائے خدا تعالیٰ کے فرشتے انہیں ایسا ہی نجس سمجھتے اور
خطبات محمود 16 سال ہیں جیسے بلی کا پیشاب.پس وہی رونا کام دے سکتا اور اُسی عجز سے فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے جو ہمیشہ انسان کے ساتھ رہے.ورنہ جس انسان میں یہ نہیں اُس کو تم دیکھو گے کہ دعاؤں میں تو خوب روتا ہے لیکن دوسرے وقت کئی قسم کے ظلموں کا ارتکاب کرلیتا ہے.اس کے مقابلہ میں ایک اور شخص کو دیکھو گے کہ وہ بیٹھا دعا کر رہا ہے مگر کیا تم سمجھتے ہو کہ اس کی خشک آنکھیں بے اثر جائیں گی اور دوسرے کی تر آنکھیں اللہ تعالی کی رحمت کو زیادہ جذب کریں گی.نہیں.بلکہ خشک آنکھوں والے کی دعا اللہ تعالی زیادہ قبول کرے گا.کیونکہ وہ جانتا ہے کہ رونے والا بناوٹ کر رہا ہے اور دوسرا حقیقی مجز سے دعا مانگ رہا ہے.پھر بعض لوگوں کی طبیعت ایسی ہوتی ہے کہ ذرا کسی کو روتا دیکھیں وہ خود بھی رونا شروع کر دیتے ہیں.ایسے لوگوں کا بھی دعا میں رونا کوئی فائدہ نہیں رکھتا.زیادہ سے زیادہ اس رونے کو طبیعت کا میلان کہا جاسکتا ہے اور کچھ نہیں.اس قسم کے لوگ اگر کسی کو غصہ میں دیکھیں گے تو انہیں بھی غصہ آجائے گا اور ان کا جی چاہے گا کہ لٹھ لے کر دوسرے کا سر پھوڑ دیں.پس مت خیال کرو کہ اس قسم کے لوگوں کا دوسرے کو روتے ہوئے دیکھ کر رو پڑنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی وقعت رکھتا ہے.یہ سب ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کا رونا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب نہیں کر سکتا.پس ان عارضی باتوں پر خوش نہیں ہونا چاہیئے.جو شخص دوسرے کو دیکھ کر نقل کرنا شروع کردیتا ہے، وہ تو ایسا ہے جیسے کوئی دوسرے کا کپڑا پہن لے مسجد میں دعا کے وقت ہی دیکھا جاتا ہے کہ ایک آدمی اگر شیخ مارے تو کئی کمزور لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اسی سے متاثر ہو کر رونے لگ جاتے ہیں.اسی طرح مجلس وعظ میں دیکھا جاتا ہے کہ بعض تو اپنی طبائع پر زور ڈال کر بیٹھے رہتے اور باتیں سنتے رہتے ہیں اور کئی ایسے ہوتے ہیں جن کی توجہ کسی اور طرف مشغول ہوتی ہے.وہ بیٹھے تو وعظ کی مجلس میں ہوتے ہیں مگر ان کی توجہ گھر کے کسی کام کی طرف ہوتی ہے.پھر ان میں بھی بعض تو ایسے ہوتے ہیں جو اپنی طبیعت پر قابو رکھتے ہیں اور بعض قابو نہیں رکھتے اس لئے جب خاص طور پر کوئی مؤثر بات بیان کی جاتی ہے تو بعض کے منہ سے بے اختیار سُبحَانَ اللہ نکل جاتا ہے مگر جو نفس پر قابو رکھتے ہیں، وہ خاموش رہتے ہیں.ہاں جو بے دھیان ہوتے ہیں وہ بھی یکدم چونک پڑتے ہیں اور سونے والے بھی بیدار ہو جاتے ہیں اور سُبحَانَ اللہ کی آواز سنتے ہی یہ خیال کرکے کہ ہم پیچھے نہ رہ
خطبات محمود ١٨ سال ۱۹۳۳ء جائیں فوراً سُبْحَانَ اللہ کہہ دیتے ہیں.بظاہر ایک انسان ایسے شخص کے متعلق خیال کر سکتا ہے کہ یہ کتنا رقیق القلب ہے کہ اچھی بات سننے پر بے اختیار اس کے منہ سے سُبْحَانَ اللهِ نکل جاتا ہے اور دوسرا کتنا سنگدل ہے کہ خاموش بیٹھا رہا مگر اصل بات یہ ہوتی ہے کہ مختلف انسان مختلف باتوں سے متاثر ہوتے ہیں.بعض پر ایسی باتوں کا اثر ہوتا ہے جن میں قربانی کا ذکر کیا گیا ہو اور بعض پر ایسی باتیں اثر کرتی ہیں جن میں صبر کا ذکر ہو.پس بعض دفعہ ایک انسان اس لئے بھی خاموش رہتا ہے کہ جو بات بیان کی گئی ہو وہ اس کی طبیعت کے مطابق نہیں ہوتی یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ نیکی میں کم درجہ رکھتا ہے بلکہ اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ وہ اس امر کی طرف میلان نہیں رکھتا.مگر بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک آدمی کے جب سُبْحَانَ اللہ نکلتا ہے تو پاس بیٹھنے والا بھی گھبرا کر سُبْحَانَ اللهِ کہہ دیتا ہے.گویا وہ خیال کرتا ہے کہ یہ بھی ایک نیکی ہے جس میں مجھے پیچھے نہیں رہنا چاہیے حالانکہ اگر دوسرا بجائے سُبْحَانَ اللهِ کہنے کے شیخ مارتا تو شاید یہ بھی اس خیال سے شیخ مار دیتا کہ کہیں کوئی سانپ نکل آیا ہے یا آگ لگ گئی ہے.ایسی طبیعت والوں کا رونا اللہ تعالی کے حضور کام نہیں آتا.مگر دوسرے آدمی کا ایک آنسو بھی اسے بابرکت بنا دیتا ہے.جانتے ہو جب چور پکڑے جاتے ہیں تو وہ بھی رویا کرتے ہیں.میرے ایک دفعہ گھوڑے چوری ہو گئے.پولیس والے جب چوروں کو پکڑ کر میرے پاس لائے تو میں نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے اور وہ منتیں کرنے لگے کہ ہمیں چھوڑ دیا جائے ہم سے غلطی ہو گئی کہ آپ کے گھوڑے چرا لئے ، آپ جیسے بزرگوں کی چیز چرا کر بھی کوئی انسان بچ سکتا ہے، ایسا مال کبھی پچتا ہی نہیں.پولیس والے ساتھ تھے وہ کہنے لگے آپ انہیں معاف کردیں.معلوم نہیں وہ کیوں سفارش کرتے تھے.یہ بھی سنا گیا تھا کہ پولیس والوں نے ان سے رشوت لے لی تھی.بہر حال میں نے انہیں معاف کر دیا مگر میں نے دیکھا کہ ان کا رونا اُسی منٹ کیلئے تھا بعد میں وہ پھر پہلی حالت پر آگئے.مگر اُن کی یہ بات سچی ثابت ہو گئی کہ ایسا مال کہیں پچتا ہے؟ اللہ تعالٰی نے انہیں ایک اور مقدمہ میں پکڑوا دیا.ڈپٹی کمشنر کے سامنے جب مقدمہ پیش ہوا تو اُس نے کہا تم عادی چور ہو میں نے سنا ہے نے اس سے پہلے مرزا صاحب کے گھوڑے چُرائے تھے اب میں تمہیں ڈبل سزا دیتا ہوں.وہ سات سات سال کیلئے قید ہو گئے.بعد میں ان کے خاندان پر بھی تباہیاں آئیں.اب چنانچہ
خطبات محمود ۱۹ سال ۱۹۳۴ء تک اس علاقہ کے لوگ یہ باتیں کرتے ہیں کہ انہیں یہ گھوڑے چرانے کی سزا ملی ہے.تو اس قسم کا رونا کام نہیں دے سکتا.میرا مطلب یہ نہیں کہ آئندہ تم دعا کرتے وقت مت رؤو- اگر رونا آتا ہے تو رؤو- میرا مطلب یہ ہے کہ وہ رونا کام آتا ہے جبکہ صرف آنکھیں نہیں بلکہ دل بھی رو رہا ہو.کبھی تم نے غور کیا کہ جب تمہیں کوئی حقیقی دُکھ پہنچے تو اُس وقت تمہاری کیا کیفیت ہوتی ہے.تم کمزور ہوتے ہو' دشمن تمہیں چھیڑتا ہے اس پر دل میں درد پیدا ہونے کے ساتھ ہی تمہاری آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں اور کہتے ہو الہی ! ہم کس مصیبت میں پڑ گئے کہ دشمن ہم پر ہنستا ہے.یہ وہ کیفیت ہے جو انکسار کی کیفیت ہے.اسے اپنے اندر پیدا کرو.کبھی تم نہیں دیکھو گے کہ سوائے ڈاکو یا ظالم لوگوں کے جب جنازہ جارہا ہو اور اُس وقت دشمن ستانے لگے تو لوگ جنازہ پھینک کر دشمن کے پیچھے ہولیں.بلکہ وہ اُس وقت استغفار کریں گے ، اللہ تعالیٰ سے دعائیں کریں گے کہ وہ انہیں دشمنوں کے شر سے بچائے.یہی حالت مومن کی ہونی چاہیئے.اُس کی نگاہ صرف اللہ تعالی کی ذات پر ہونی چاہیئے.صحابہ کو دیکھو ان پر کیا کیا مصیبتیں آئیں مگر سوائے خدا کے ان کی نگاہ اور کسی پر نہیں پڑی.قرآن مجید میں آتا ہے کہ صحابہ " جنگ سے اس طرح گھبراتے تھے جیسے موت سے انسان گھبراتا ہے.بیشک ان میں نوجوان بھی تھے جو تلواریں لے لیکر جنگ کیلئے نکلتے تھے مگر بہر حال وہ نوجوان تھے.تم نے کبھی نہیں پڑھا ہوگا کہ حضرت ابو بکر ، حضرت عمر ، حضرت عثمان اور حضرت علی ' شوق سے تلواریں سونت سونت کر میدانِ جنگ میں نکلتے ہوں.حضرت عمر کو کبھی کبھی جوش آجاتا تھا مگر وہ بھی منافقوں کے متعلق لیکن یہ بات بھی تو انہیں حضرت ابو بکر سے نیچے ہی ثابت کرتی ہے، فوقیت نہیں دیتی.کسی تاریخ کی کتاب میں نہیں دیکھو گے کہ صحابہ خوشی خوشی رسول کریم ﷺ کے پاس تلواریں لئے آئے ہوں اور آکر کہا ہو یا رسول اللہ ! کسی سے لڑائی چھیڑیئے.ہمیشہ اُن کی تلواریں میانوں میں ہی رہیں.ہاں کچھ نوجوان تھے جو جوش میں تلواریں نکالے پھرتے تھے مگر یہ بات اُن کی اعلیٰ نیکی ثابت نہیں کرتی.اگر اعلیٰ نیکی ہوتی تو خلافت کے حقدار وہ کیوں نہ ہوتے.اس میں شبہ نہیں کہ اُن کا اسلام کے رستہ میں اپنی جانوں کو قربان کرنا اور تلواریں لے کر نکلنا ایک نیکی تھا مگر گھٹیا کی نیکی تھی.اصل نیکی وہی تھی جس کا قرآن کریم نے یوں نقشہ کھینچا ہے کہ جس وقت صحابہ جنگ کیلئے نکلتے تو وہ جنگ کرنا اپنے لئے موت سمجھتے.اور ان کے دل ڈرتے کہ وہ انسانوں کا درجه
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء خون بہائیں گے.وہ اپنی موت کو زیادہ پسند کرتے تھے یہ نسبت اس امر کے کہ کسی دوسرے کا رم ติ اور خطر خون گرائیں.بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں.خصوصیت سے شیعہ لوگ کہ قرآن مجید نے صحابہ کی یہ کمزوری بیان کی ہے کہ وہ جنگ سے موت کی طرح ڈرتے تھے لیکن یہ صحیح نہیں.صحابہ اپنے مرنے سے نہیں بلکہ دوسروں کو مارنے سے ڈرتے تھے اور دوسرے کا خون گرانا اُنہیں موت نظر آتا تھا.جب حضرت علی سے لڑائی ہونے لگی تو اُس وقت حضرت علی نے کہا کہ طلحہ اور زبیر" کو بلاؤ.جب وہ آگئے تو آپ نے انہیں کہا تمہیں یاد ہے رسول کریم نے فلاں فلاں موقع پر کیا فرمایا تھا.انہوں نے کہا یاد ہے.آپ نے کہا تو پھر تمہارا مجھ سے جنگ کرنا کس طرح جائز ہو سکتا ہے.یہ سن کر حضرت طلحہ و زبیر" چلے گئے اور لڑائی کا ارادہ ترک کر دیا.حضرت طلحہ کے پیچھے پیچھے ایک دشمن ہو لیا اور اُس نے آپ کو تلوار ماری.انہوں نے کہا کہ میں تلوار نہیں چلاؤں گا کیونکہ میں نے رسول کریم ﷺ سے سنا ہوا ہے کہ جو علی کے مقابل پر تلوار چلائے گا وہ ظالم ہوگا.آخر اُس نے حضرت طلحہ " کو شہید کردیا اور آپ کا سر کاٹ کر حضرت علی کے پاس لایا اور کہا مبارک ہو میں نے طلحہ کو مار دیا.حضرت علی نے کہا تجھے دوزخ کی مبارک ہو کیونکہ میں نے رسول کریم سے سنا ہوا ہے کہ طلحہ کو ایک دوزخی آدمی مارے گاھے.غرض صحابہ میں بہادری تھی تو ایسی کہ ان پر تیروں کی بارش ہوتی اور وہ اُف تک نہ کرتے چنانچہ میں نے یہ واقعہ کئی دفعہ بیان کیا ہے.نام یقینی طور پر یاد نہیں.شاید حضرت طلحہ " ہی تھے یا کوئی اور ان کے متعلق لکھا ہے کہ ان کا ایک ہاتھ ناکارہ ہو گیا تھا کسی نے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہوئی تو وہ کہنے لگے ایک جنگ کا موقع تھا، دشمن اپنے تیر رسول کریم ال کی طرف پھینکتے تھے اور میں اپنے ہاتھ پر ان تیروں کو لیتا جاتا تھا اور سی بھی نہیں کرتا تھا تے.یہاں تک کہ میرا ہاتھ شل ہو گیا.یہ دلیری اور بہادری تھی جو صحابہ کے اندر پائی جاتی تھی.ایک طرف تو انہوں نے یہ جرات کا نمونہ دکھایا کہ ہاتھ تیروں کی بوچھاڑ چھلنی ہو گیا مگر ہٹایا نہیں.اور دوسری طرف اتنا صبر دکھایا کہ ایک شخص تلوار سے ہلاک ہے مگر اس کے مقابل پر تلوار نہیں اُٹھاتے.اس کی یہی وجہ ہے کہ وہ ہر حالت میں اللہ تعالی کی خشیت رکھتے تھے اور کبھی اپنے نفس کی بڑائی کا خیال نہیں کرتے تھے.پس عجز و انکسار پیدا کرو اور دعاؤں پر بہت زور دو.یقیناً یاد رکھو کہ دعا ایک ایسی چیز ہے جس سے کرتا.- -
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء کامیابی یقینی ہے.آج کل رمضان کے دن ہیں اور روزے رکھا کر اللہ تعالی ہمیں بیکسوں کی شکل دینا چاہتا ہے.جس طرح ایک غریب اور مفلس آدمی کہتا ہے کہ میں بھوکا مرتا ہوں، اسی طرح اللہ تعالٰی بھی ہمیں روزوں کے ذریعہ بھوکے مرنے والوں کی طرح بنا کر اور عجز و انکسار پیدا کر کے ہمیں اپنا قرب دینا چاہتا ہے اور بتاتا ہے کہ میری رضاء کا یہی ذریعہ ہے کہ تم دنیا میں بھوکے مرنے والوں کی طرح عجز و نیاز اختیار کرو.آج میں گھر سے اسی نیت سے آیا تھا کہ آپ لوگوں کو نصیحت کروں کہ دائمی انکسار پیدا کرو.وہ بھی کیا انکسار ہے کہ ایک شخص کی چیخ سنتے ہو اور رونے لگ جاتے ہو.اگر اس کی شیخ نہ سنتے تو تم بھی نہ روتے.ایک کو دعا کرتے دیکھتے ہو تو تمہیں بھی دعا کا خیال آجاتا ہے اگر یکھتے تو تمہیں بھی خیال نہ آتا.یہ رونا اور یہ دعائیں خدا کے حضور مقبول نہیں ہوتیں.رونا وہ ہے کہ آنکھیں پیچھے روئیں مگر دل پہلے رو پڑے محض آنکھوں سے آنسو بہانا کوئی چیز نہیں.بچے بھی بعض دفعہ ماں باپ یا اپنے استاد کو ڈرانے کیلئے آنکھوں میں کچھ ڈال لیتے ہیں جس کی وجہ سے لگاتار آنکھوں سے پانی بہنا شروع ہو جاتا ہے.یہ تصنع اور بناوٹ ہے.تمہیں چاہیے کہ حقیقی طور پر اپنے دل میں رقت اور انکسار پیدا کرو.یہی وہ رونا ہے جس سے دعائیں قبول ہوتی ہیں.جب تمہارے اندر سے کبر مٹ جائے، خود پسندی و خودستائی کی عادت جاتی رہے، عجز و انکسار دائمی طور پر پیدا ہو جائے اور تمہارے منہ سے کبھی یہ نہ نکلے کہ دیکھوں تو سی کوئی میرا کیا بگاڑ لیتا ہے یا میں تجھے بتادوں گا اُس وقت اللہ تعالٰی کی رحمتیں تم پر نازل ہوں گی اور تمہاری دعائیں بھی سُنی جائیں گی.پچھلے سے پچھلے سال کشمیر کے مظلومین کے متعلق ایک میٹنگ ہوئی.اُس وقت ایک احراری لیڈر اُٹھا اور اُس نے کہا ہم احمدیوں کو مٹادیں گے اور انہیں کام نہیں کرنے دیں گے کیونکہ ملک کے حقیقی نمائندے ہم ہیں.اسی طرح اُس نے کئی باتیں کہیں مگر میں دل میں سمجھ رہا تھا کہ میں جو بھی اسے جواب دوں گا غلط ہو گا.میرا زیادہ سے زیادہ یہی جواب ہو سکتا تھا کہ تم ہمیں کس طرح کچل سکتے ہو مگر مجھے کیا معلوم تھا کہ آئندہ کیا واقعات رونما ہونے والے ہیں.میں اُس کی باتیں سن کر مسکراتا رہا اس لئے کہ جو بات وہ کہہ رہا تھا اُس کے متعلق نہ اُسے کچھ علم تھا نہ مجھے کچھ علم تھا.میرے لئے اپنی عمر میں غیروں سے اس قسم کے الفاظ سننے کا یہ پہلا موقع تھا.اپنوں سے تو کئی دفعہ سن چکا تھا مگر غیروں میں ہونے کے باوجود اللہ تعالٰی کے فضل سے میرے منہ سے یہ نہ نکلا کہ
خطبات محمود ۲۲ سال ۱۹۳۴ء میں تمہاری کیا پرواہ کرتا ہوں.سوائے خاموش رہنے اور مسکرانے کے میں نے کچھ جواب نہ دیا.ایک بچہ بھی اگر کہے کہ میں تمہیں تباہ کردوں گا تو ہم تو اسے بھی نہیں کہہ سکتے کہ تمہاری حیثیت کیا ہے جو تم ایسا کر سکو.ہمیں کیا معلوم کہ وہ بچہ لمبی عمر پانے والا ہو اور ہم جلدی دنیا سے گزر جانے والے ہوں.پس وہ شخص جو یہ کہتا ہے کہ میں یوں کر دوں گا دُوں کر دوں گا وہ جھوٹ بولتا ہے کیونکہ اس قسم کے الفاظ کے دو ہی مفہوم ہوتے ہیں.یعنی یا تو وہ عالم الغیب ہے اور جانتا ہے کہ فتح اُس کیلئے ہے اور یا خدائی طاقتیں اُس کے پاس ہیں اور وہ جسے چاہے ہلاک کر سکتا ہے اور یہ دونوں باتیں جھوٹ ہیں.پس تم جھوٹ اور فریب سے خدا تعالیٰ کو خوش نہیں کر سکتے.دنیاوی بادشاہ ان باتوں سے خوش ہوں تو ہوں خدا تعالی انہیں پسند نہیں کرتا.غرض جب تک انکسار پیدا نہ ہو اور جب تک یہ حالت نہ ہو کہ ایک ذلیل سے ذلیل انسان بھی تمہیں کہے کہ میں تمہیں بتادوں گا مگر تمہارے منہ سے یہ نہ نکلے کہ کس طرح بتادو گے، تب تک نہ سمجھو کہ تمہارے نفس کا کیڑا مرگیا ہے.پس دائمی اور حقیقی انکسار پیدا کرو اور اس قسم کے الفاظ کبھی منہ منہ سے مت نکالو ہم یوں کردیں گے.ہاں اگر خدا تعالیٰ تمہاری مدد کرتا ہے اور اُس کا وعدہ تمہارے ساتھ ہے تو پھر بیشک کہو.جیسا کہ حضرت صحیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کو ایک دفعہ ایک مقدمہ ہے کے دوران میں بتایا گیا کہ مجسٹریٹ پر زور دیا جارہا ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ سزا ضرور دے.ایک دوست بیان کرتے ہیں.حضرت سیح موعود علیہ الصلوۃ السلام سے جب یہ بات بیان کی گئی تو اُس وقت آپ لیٹے ہوئے تھے.سنتے ہی اُٹھ بیٹھے اور فرمایا.خدا تعالیٰ کے شیر پر کون ہاتھ ڈال سکتا ہے ہے.غرض جب خدا تعالیٰ کہے کہ بولو اُس وقت بولنا چاہیے اور جب وہ نہ کہے تو خاموش رہنا چاہیئے.رسول کریم " کا اس بارے میں جو نمونہ تھا اُس کا اِس واقعہ سے پتہ لگتا ہے کہ اُحد کے موقع پر ایک غلطی کی وجہ سے جب صحابہ میدان جنگ سے پیچھے ہٹ گئے اور صرف چند آدمی رسول کریم کے ساتھ رہ گئے تو ابوسفیان نے زور سے آواز دی کہ ہم نے محمد کو ماردیا حضرت عمر " بولنا چاہتے تھے مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا چُپ رہو اور اُسے کچھ جواب نہ دو.پھر اُس نے کہا ہم نے ابوبکر کو بھی مار دیا.آپ نے پھر صحابہ سے فرمایا کہ خاموش رہو اور کچھ جواب نہ دو.پھر اُس نے کہا ہم نے عمر کو بھی مار دیا.آپ نے پھر نصیحت کی کہ چُپ رہو
خطبات محمود ۲۳ سال ۱۹۳۴ء کیونکہ اگر جواب دیا جاتا تو خطرہ کی حالت تھی.دشمن تین ہزار کی تعداد میں تھا اور مسلمان پندرہ میں تھے.اس لئے آپ صحابہ کو جواب دینے سے منع فرماتے رہے.اس پر ابوسفیان نے متکبرانہ لہجہ میں کہا.اُعْلُ هُبَل اُعْلُ هُبَل - یعنی ہم نے سب کو مار دیا.حُبل ثبت کی بڑائی ہو.تب رسول کریم نے جو پہلے صحابہ کو جواب دینے سے منع فرماتے تھے صحابہ سے فرمایا جواب کیوں نہیں دیتے.انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! ہم کیا کہیں.فرمایا کہو اللهُ أَعْلَی وَاَجَلٌ - الله أعلى وَاَجَلٌ ہے.یعنی اللہ ہی سب سے بڑا اور بلند شان رکھنے والا ہے.اس سے پتہ لگتا ہے کہ جہاں نفس کا سوال تھا وہاں تو رسول کریم نے فرمایا کہ چُپ رہو کیوں دشمن کو بتایا جائے کہ ہم موجود ہیں.مگر جب انہوں نے اللہ تعالٰی کی ذات پر حملہ کیا تو آپ اسے برداشت نہ کر سکے.یہی حالت مومن کی ہونی چاہیئے.اپنے نفس کے معاملہ میں اس کی نظر ہمیشہ نیچی رہنی چاہیئے.اور ہمیشہ اللہ تعالی کی غناء کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ خیال رکھنا چاہیے کہ معلوم نہیں اللہ کے علم میں کیا ہے.یہ چیز ہے اسے اپنے اندر پیدا کرو.اور یہی چیز ہے جس کے ساتھ دعائیں سنی جاتی ہیں.ورنہ تسجد میں اپنی مصیبت یاد کر کے رولینا کوئی بڑی بات نہیں.بڑے بڑے دہریہ بھی جب اُن کی بیوی یا بچہ فوت ہو جاتا ہے اتنا روتے ہیں کہ شاید مومن اتنا تہجد میں نہ روتا ہو.رونا در حقیقت رقتِ قلب کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے.بعض دفعہ بیوی بچے سامنے نہیں ہوتے، انسان محض ان کا تصور کرکے روپڑتا ہے یا کہیں جنگل میں جارہا ہو اور اسے اپنا کوئی عزیز یاد آجائے تو وہ رو پڑتا ہے.پس خالی رونا کوئی چیز نہیں جب تک اس کا موجب نیک نہ ہو.اگر رونے کا موجب نیک ہو تو اللہ نہیں چاہتا کہ اپنے بندے کا ایک آنسو بھی ضائع ہونے دے اور اگر موجب نیک نہ ہو تو فرشتے کہتے ہیں اور رو اور رو یہاں تک کہ وہ مرجاتا ہے کیونکہ جب کوئی شخص بہت روتا ہے تو اُس کا خون گاڑھا ہو جاتا اور رطوبت خشک ہو جاتی ہے.اپنی ایسی حالت پیدا کرو تو تمہاری دعائیں قبول ہوں گی.ورنہ منہ کے خالی الفاظ اور آنکھوں کے آنسو کوئی اثر نہیں رکھتے.شروع میں تو دو تین چکر مجھے ایسے آئے تھے کہ میں خیال کرتا تھا خطبہ میں زیادہ نہیں کہہ سکوں گا مگر بعد میں حالت بدل گئی.جو نصیحت کرنے کے ارادہ سے گھر سے آیا تھا وہ آپ لوگوں کو کردی ہے.اب رمضان کے تھوڑے دن رہ گئے ہیں ان سے فائدہ اُٹھاؤ.اور دائمی انکسار پیدا کرو کہ اس کے ساتھ سوکھی آنکھیں بھی اللہ تعالی کے فضلوں کو جذب کرلیتی ہیں اور اس کے بغیر تر آنکھیں بھی کسی کام
خطبات محمود نہیں آتیں.۲۳ الفضل ۱۸- جنوری ۱۹۳۴ء) ه بخاری كتاب الصوم باب فضل ليلة القدر وقول الله تعالى أنَّا انزلنه في ليلة القدر (مضمون) ه بخاری کتاب الصوم باب رفع معرفة ليلة القدر لتلاحي الناس سے سنن ابن ماجه کتاب الصیام باب في الصائم لا ترد دعوته سے سنن ابن ماجه کتاب اقامة الصلوات والسنة فيها باب ماجاء في ساعات الليل افضل ه مروج الذهب ( تاریخ مسعودی) جلد ۲ حالات جنگ جمل صفحہ ۳۷۳ مطبع السعادة مصر ۱۹۶۴ء (حوالہ سے ظاہر ہے کہ حضرت علی کا یہ قول حضرت زبیر کے متعلق تھا) ه بخاری کتاب المغازی باب اذ همت طائفتان منكم (الخ) ے مقدمہ کرم دین (مرتب) شه سیرت المہدی حصہ اول صفحہ ۹۶- ایڈیشن ۱۹۳۵ء شه بخاری کتاب المغازى باب غزوة أحد و قول الله تعالى و اذ غدوت من اهلك تبوى المؤمنين مقاعد للقتال
خطبات محمود ۲۵ جماعت احمدیہ لاہور کے تبلیغی فرائض فرموده ۱۹ جنوری ۱۹۳۴ء بمقام لاہور) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.اللہ تعالی کی سنت ہے کہ جب وہ کسی گروہ یا جماعت پر فضل نازل کرتا ہے تو اس کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ کردیتا ہے.قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں ازواج مطہرات کے درجات بہت بلند کئے گئے، وہاں اسی تناسب سے ان پر ذمہ داریاں بھی زیادہ عائد کردی گئیں.پس جو انعامات کسی کو دیئے جاتے ہیں وہ اس کی ذمہ داریوں کی وجہ سے ہوتے ہیں.ایسی قوم کا تمام دنیا سے علیحدہ اپنا ایک معیار بن جاتا ہے.دوسرے لوگوں کا ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا اُس کیلئے اس بات کا باعث نہیں ہو سکتا کہ وہ بھی اب کچھ نہ کرے.باقی لوگوں کی نسبت اس قوم سے مؤاخذہ زیادہ سختی کے ساتھ کیا جائے گا.صحابہ کرام پر خدا نے بڑا فضل کیا لیکن اس کے مطابق اتنی ہی ذمہ داریاں اُن پر عائد کردیں.خداتعالی نے بعد میں آنے والے بعض بزرگوں کے درجات اتنے بلند کر دیئے کہ بعض نے تو یہاں تک کہہ دیا.پنجه در پنجه خدا دارم من چہ پروائے مصطفے وارم لیکن پھر بھی صحابہ کا اعزاز قائم رہا کیونکہ بعد میں آنے والے سب کے سب صحابہ کرام کے اعزاز کے معترف تھے.بعد میں آنے والے بزرگوں کو تو صرف ظاہری قربانیاں ہی کرنی مثلاً روپیہ پیسہ وغیرہ کی قربانی لیکن صحابہ کرام کو علاوہ ان ظاہری خطرات کے باطنی خطرات بھی ہر وقت در پیش رہتے تھے.ان کی جان و آبرو محفوظ نہیں تھی، ہر لحظہ انہیں پڑیں.
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء محسوس ہوتا تھا گویا کہ ان کی گردن پر تلوار لٹک رہی ہے، ہزارہا دشمنوں کے مقابلہ میں چند سو آدمی کیا حقیقت رکھتے ہیں.جن خطرات سے ان حالات کے ماتحت صحابہ کرام دوچار ہوتے تھے ان کی وجہ سے ان کے درجات کو خاص بلندی حاصل ہوئی.ایک صدی بعد عام لوگوں میں سے جس شخص نے قربانیاں کیں یا اس وقت جو قربانیاں کرتا ہے، اسے وہ درجات حاصل نہیں ہو سکتے.اب تو سلطنتیں قائم ہیں، جان کا اتنا خطرہ نہیں، تباہی اور بربادی کا اتنا اندیشہ نہیں اب اگر کوئی اپنی ساری دولت بھی خدا کی راہ میں لٹا دے تو اُسے وہ ثواب میسر نہیں آسکتا جو حضرت ابوبکر کو حاصل ہوا.اس وقت روپیہ پھر حاصل کرسکنے کے ذرائع موجود ہیں.ایک تاجر اپنا تمام اثاثہ خدا کی راہ میں دے کر از سر نو دولت کما سکتا ہے.اسے پتہ ہے کہ وہ پھر روپیہ پیدا کر سکے گا لیکن جس وقت حضرت ابو بکر نے مالی قربانی کی تھی، اُس وقت دوبارہ روپیہ پیدا کرسکنے کے تمام ذرائع مفقود تھے اور انہیں معلوم تھا کہ وہ دوبارہ روپیہ نہیں کما سکیں گے.اُس روپیہ سے ہمیشہ کیلئے محروم ہو جانے کے خیال کے باوجود انہوں نے قربانی کی.سوال صرف مال کا نہیں کہ حضرت ابو بکر نے کس قدر مال خدا کی راہ میں دیا بلکہ اُس وقت ย کے حالات کا ہے.وہی حالت اب ہماری جماعت کی ہے.اِس کو بھی ہر قسم کے خطرات نے انہی قربانیوں シ مثلاً کا موقع دیا ہے جو صحابہ نے کیں.ہماری قربانیاں صرف وہی نہیں جو ظاہری ہیں روپیہ پیسہ کی قربانی بلکہ ہماری قربانیاں وہ ہیں جو اُن خطرات سے عہدہ برآ ہونے کیلئے کرنی پڑتی ہیں جو ہمیں درپیش ہیں.اِن کا اندازہ وہی شخص لگا سکتا ہے جس کو معلوم ہو کہ اس جماعت کو تمام دنیا سے مقابلہ کرنا ہے.اب بھی وہی خطرات درپیش ہیں.لہذا انہی قربانیوں کی ضرورت ہے اور ان قربانیوں کے عوض وہی انعامات و درجات ملیں گے جو پہلے لوگوں کو ملے.ایسے وقت میں سب سے بڑی قربانی تبلیغ ہوتی ہے.رسول کریم ال نے ایک دفعہ حضرت علی سے فرمایا.اے علی ! اگر ہمیں تمام دنیا مل جائے اور اس کی تمام وادیاں غلے سے بھری پڑی ہوں تو وہ سب ایک آدمی کی ہدایت کے برابر نہیں.یوں تو ہر زمانہ میں اور ہر جگہ تبلیغ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن نبی کا زمانہ تو ایسا ہوتا ہے جس میں سب امور سے زیادہ اہمیت تبلیغ ہی کو حاصل ہوتی ہے یہ خطرات کا زمانہ ہے.لہذا قربانیاں کرو اور سب سے بڑی قربانی تبلیغ کر کے احمدیت میں لوگوں کو داخل کرو.ہماری جماعت کیلئے یہ سب سے بڑی ذمہ داری ہے.
خطبات محمود ۲۷ سال ۱۹۳۴ء لاہور صوبہ پنجاب کا دارالحکومت ہے، تمام محکموں کے اعلیٰ دفاتر یہاں ہیں لہذا یہاں تبلیغ کی بالخصوص بڑی ضرورت ہے.یہاں کے دوستوں کو میں نے اس فرض کی طرف بارہا توجہ دلائی ہے اور اب پھر توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داری کی اہمیت کو سمجھیں.میں چاہتا ہوں کہ یہاں تبلیغ کسی اصول کے ماتحت ہو بغیر اصول کے تو خواہ کوئی کام کیا جائے اس سے اچھے نتائج برآمد نہیں ہو سکتے.اصول کا مطلب یہ ہے کہ خاص خاص گروہوں میں خاص خاص طریق پر تبلیغ کی جائے.اس وقت یہاں تبلیغ اس طرح ہوتی ہے کہ کچھ ٹریکٹ تقسیم کردیئے اور اگر کوئی شخص کبھی سوال پوچھنے والا مل گیا تو اُسے تبلیغ کردی.تبلیغ کے یہ طریق بھی اچھے ہیں لیکن جب غیر خود سوال پوچھنے کیلئے آئے گا تو اس کا ثواب اسی کو ملے گا، سمجھانے والا اس سے محروم رہ جائے گا.پھر جو شخص خود سوال پوچھنے آئے گا یہ ضروری نہیں کہ وہ نیک نیتی سے آئے بعض محض گستاخی کرنے اور مذاق کرنے کیلئے بھی آجاتے ہیں.پس میں ٹریکٹ تقسیم کرنے اور جلسے منعقد کرنے کو پسند کرتا ہوں لیکن انفرادی تبلیغ پر زیادہ زور دینا چاہتا ہوں.خود ایسے آدمیوں کو تلاش کرو جنہیں تم تبلیغ کر سکو جسے تم خود تبلیغ کرنے کیلئے منتخب کرو گے وہ یقیناً جلد اثر قبول کرے گا.پس اس انتظار میں نہیں رہنا چاہیے کہ کب کوئی آدمی ہمارے پاس چل کر آئے اور ہم اُسے تبلیغ کریں.جماعت کے مختلف حصوں کو یکساں طور پر تبلیغ کرنی چاہیے.فوج کا دایاں بایاں یا درمیانی حصہ آگے بڑھ آئے تو اسے فوج کا استحکام نہیں کہا جائے گا بلکہ خرابی سے تعبیر کیا جائے گا.فوجی اصول یہ ہے کہ فوج کے تمام حصے یکساں طور پر آگے بڑھیں ورنہ شکست کا اندیشہ ہوتا ہے.یہی حال تبلیغ کا ہے اگر کوئی گروہ تبلیغ سے خالی رہ جائے تو اس کے افراد دوسروں کا اثر قبول نہیں کرتے.ہر طبقہ کے انسان کا اثر اس سے تعلق رکھنے والے قبول کرتے ہیں.مولویوں کا گروہ ہے.اگر ان میں تبلیغ کی جائے اور وہ اثر قبول کریں تو جو بھی ان سے ملنے والا ہو گا، وہ ان کی معرفت اس اثر کو قبول کرے گا.اور جب متفقہ طور پر مولوی پر مولوی متاثر ہوتے جائیں گے تو ان سب کے ملنے والے ان کی متفقہ آواز سے بہت جلدی متاثر ہوں گے.یہی حال باقی گروہوں کا ہے.مثلاً ڈاکٹروں، وکلاء پروفیسروں اور پیشہ ور لوگوں کا اثر اپنے اپنے حلقہ میں ہو سکتا ہے.پس تبلیغ ہر گروہ میں ہونی چاہیے.اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہر دس دن پندرہ دن کے بعد دوست دس ہیں آدمیوں کو اپنے ہاں چائے وغیرہ
خطبات محمود ۲۸ سال ۱۹۳۳ء بلائیں اور میزبان کی حیثیت سے ان سے تبادلہ خیالات کریں یا ان کے ہاں جاکر بار بار ان کو تبلیغ کریں.میں دیکھتا ہوں کہ تبلیغ کے میدان میں لاہور کی جماعت بہت پیچھے ہے.غالباً میاں فیملی اور ایک دو اور خاندانوں کے علاوہ یہاں کے باشندوں میں سے کوئی احمدی نہیں ہوا.جو لوگ یہاں احمدی ہوئے بھی ہیں، ان میں سے کوئی انبالہ کا رہنے والا ہے کوئی جالندھر کا اور کوئی کسی اور جگہ کا.گویا ایک طرح سے وہ یہاں مزدوری کیلئے آئے، جب انہیں کسی اور شہر میں مزدوری کیلئے جانا پڑا تو وہاں چلے گئے.1910ء سے یہی کیفیت ہے.ویسے بھی تو دوست دوسروں سے ملنے کیلئے جاتے ہیں.اگر اس احساس کے ماتحت ان سے ملیں کہ تبلیغ کرنی ہے تو کیا ہی اچھا ہو.دوسروں کو دعوت دینے سے میری یہ مراد نہیں کہ دوستوں پر یکدم بوجھ ڈال دیا جائے بلکہ کبھی کبھی اس طرح ان سے تبادلہ خیالات کرتے رہیں.کبھی انہیں ملاقات کیلئے قادیان لے آئیں یا جمعہ پر اُنہیں ساتھ لے آئیں.اس طرح بہت اچھا اثر ہو سکتا ہے.لاہور کی جماعت کو میں نے اس کے تبلیغی فرائض کی طرف بار بار توجہ دلائی ہے آج پھر میں توجہ ولانے کے فرض سے سبکدوش ہوتا ہوں.ہر جگہ کی جماعت کے بیدار ہونے کے خاص خاص مواقع ہوتے ہیں بہت ممکن ہے کہ لاہور کی جماعت کے بیدار ہونے کا بھی وقت آگیا ہو.تبلیغ کیلئے لاہور کو بہترین موقع میسر ہے لیکن جس قسم کے سامان یہاں موجود ہیں، ان کے سویں بھی ابھی تک فائدہ نہیں اُٹھایا گیا.کوشش یہ ہونی چاہیے کہ یہاں کے مقامی آدمیوں کو سلسلہ میں داخل کیا جائے.مزدور کو تو جس وقت یہاں مزدوری نہ ملے گی چلا جائے گا.اس طرح لاہور کی جماعت کو فروغ حاصل نہیں ہو سکتا.جتنی تمام پنجاب میں تبلیغ ہوتی ہے اتنی صرف لاہور میں ہونی چاہیے اور یہاں کی جماعت بہت بڑی ہونی چاہیے لیکن یہ جبھی ہو سکتا ہے کہ یہاں کے تمام دوست اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں.ہم تو مجبور ہیں ہم تو اُسی وقت تبلیغ کر سکتے ہیں جب کوئی خود چل کر ہمارے پاس آئے.ایسا ہی قادیان والوں کا حال ہے.ان کیلئے بھی تبلیغ کیلئے کوئی بڑی گنجائش نہیں لیکن بیرونی جماعتیں اور خاص کر لاہور کی جماعت کیلئے تبلیغ کا میدان بہت وسیع ہے.لاہور کی جماعت کو تبلیغ کے متعلق ہر وقت مشورہ دینے کو تیار ہوں.جس قسم کی مدد کی ضرورت ہو وہ بھی ضرور کی جائے گی.اگر مبلغین درکار ہوں تو میں بھیج سکتا ہوں لیکن یہاں کے دوست خود بھی کچھ کام کر کے دکھائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ میرا دوسرا وطن سیالکوٹ ہے، آپ اکثر سیالکوٹ جایا کرتے تھے.حصہ
خطبات محمود سال ۶۱۹۳۴ ویسا ہی تعلق مجھے لاہور سے ہے.میں لاہور اکثر آتا رہتا ہوں.میری ایک شادی بھی یہاں ہوئی ہے اور میں لاہور میں خاص دلچسپی لیتا ہوں.گویا یہ میرا دوسرا وطن ہے اس لئے میں چاہتا ہوں کہ یہاں کے دوست ایسی سرگرمی سے کام کریں کہ اس کے نتائج نہ صرف لاہور کی جماعت کے لئے ہی بلکہ تمام سلسلہ کیلئے مفید ثابت ہوں اور ترقی کا باعث ہوں.خدا تعالی آپ لوگوں کو عمل کی توفیق الفضل ۳۰- جنوری ۱۹۳۴ء) نے مسلم کتاب الفضائل باب من فضائل علی بن ابی طالب میں یہ الفاظ آئے ہیں.” فوالله لان يهدى الله بِكَ رَجُلًا وَاحِدًا خَيْرٌ لَكَ مِنْ حُمُرِ النعم "
خطبات محمود ٣٠ ہر جماعت میں درس القرآن جاری کرنے کی ضرورت فرموده ۲۶- جنوری ۱۹۳۴ء بمقام لاہور) سال تشهد تعوز اور سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.ا انسانی عقل اور انسانی دانائی اس قدر ظاہری علوم پر مبنی نہیں ہے جس قدر کہ عنایت الہی اور فضل الہی پر مبنی ہے.بعض لوگ بہت کچھ پڑھے ہوئے نظر آئیں گے مگر ان کے علوم ان کیلئے وبال جان ہو جاتے ہیں.نہ ان کے اخلاق میں درستی ہوتی ہے نہ ہی تمدنی طور پر انہیں کوئی عظمت حاصل ہوتی ہے اور نہ ہی روحانی طور پر وہ کوئی مفید کام کرنے والے ثابت ہوتے ہیں لیکن جب انسان اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرتا ہے، اس کی مہربانی اور عنایت کو حاصل کر لیتا ہے تو اس کے دماغ کو ایسا نور اور زبان کو ایسی تاثیر مل جاتی ہے کہ بڑے بڑے پڑھے لکھے اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے ، خواہ وہ ایک لفظ بھی پڑھا ہوا نہ ہو.دنیا میں بڑے بڑے علماء گزرے ہیں اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے مگر یہ سب کے سب یا کم سے کم ایسے انسان جنہوں نے دیانت کو نہیں چھوڑا تسلیم کریں گے کہ جو تعلیم رسول کریم نے دی، وہ عظمت اور وسعت اور گہرے اثرات و نتائج کے لحاظ سے بھی تمام انسانوں کی تعلیمات سے فائق ہے حالانکہ آپ دنیوی علوم سے بالکل بے بہرہ تھے.آپ کو جو کچھ ملا خداتعالی کی طرف سے قرآن کے ذریعہ ملا.مگر اب کتنے ہیں جو اسے حاصل کرسکتے ہیں.آپ کو خداتعالی علیحدہ علوم نہیں سکھائے تھے.یہ نہیں کہ رات کو اللہ تعالیٰ آپ کو کچھ اور سکھا دیتا اور باقی دنیا کیلئے قرآن نازل کرتا.آپ پر جو کچھ بھی نازل ہوا وہ قرآن ہی ہے.بیشک بعض اور
خطبات محمود ۳۱ سال ۱۹۳۴ء کوئی وحیاں بھی ہوئیں جنہیں احادیث قدسیہ کہا جاتا ہے مگر وہ سب قرآن کے تابع ہیں.تمام علوم قرآن میں موجود ہیں.اور اسی سے حاصل کرکے آپ نے وہ تعلیم دی کہ جس کا مقابلہ اور نہیں کر سکتی.وہ قرآن کریم اب بھی ہے مگر اس کے پڑھنے والے معمولی علم رکھنے والوں سے بھی شرمندہ اور ذلیل ہوتے ہیں.جس سے معلوم ہوا کہ قرآن ایک مخفی خزانہ ہے جس کے حصول کیلئے جس کوشش، اخلاص اور نیکی کی ضرورت ہے، وہ اب قرآن پڑھنے والوں میں نہیں.دو ہی باتیں ہیں یا تو یہ کہ قرآن کے متعلق ہمارے دعاوی غلط ہیں، وہ علوم کا خزانہ نہیں رسول کریم ﷺ نے یہ تعلیم کسی اور جگہ سے حاصل کر کے دی.یا پھر یہ کہ پڑھنے والوں کے اندر وہ چیز نہیں جس کی علوم قرآنی حاصل کرنے کیلئے ضرورت ہے اور آخری بات ہی صحیح ہے.ہمارے ملک میں یہ وباء ہے کہ عوام تو رہے علماء بھی قرآن نہیں پڑھتے.حتی کہ مدارس اسلامیہ میں بھی قرآن کا ترجمہ نہیں پڑھایا جاتا.پہلے طالب علم عربی پڑھتے رہتے ہیں اور جب اس سے واقف ہو گئے تو تغییر شروع کرا دی جاتی ہے اسی لئے مولوی قرآن کریم کے ترجمہ سے گھبراتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سوائے قرآن کے ایک ترجمہ کے جو زیادہ مقبول نہیں ہوا، باقی قرآن کریم کے جتنے تراجم ہیں وہ سب غیر علماء نے کئے ہیں.ایک ترجمہ فتح محمد صاحب جالندھری نے کیا ہے جو عالم نہ تھے.دوسرا ڈپٹی نذیر احمد صاحب دہلوی نے کیا ہے، وہ بھی عالم نہ تھے بلکہ سرکاری عہدیدار تھے.اور ان کا ترجمہ ہی زیادہ مقبول ہوا ہے.مرزا حیرت نے بھی ترجمہ کیا مگر وہ بھی عالم نہیں تھے.ہمارے ملک کے علماء کہلانے والے جلالین، بیضاوی کشاف پڑھ لینا ہی کمال سمجھتے ہیں یا پھر اگر کوئی زیادہ بلند پروازی کی طرف مائل ہوا تو اس نے تفسیر رازی پڑھ لی اور سمجھ لیا کہ ہم نے قرآن سیکھ لیا ہے.قرآن کریم پر تدبر کی انہیں عادت ہی نہیں.ان کی یہ بہت بڑی خامی ہے کہ انہوں نے عقل انسانی پر کفایت کرلی اور اللہ تعالی سے مدد کی انہیں کوئی توقع نہ رہی.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ رسول کریم ﷺ قیامت کے روز کہیں گے.يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ | ڑا.اے میرے رب! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا.صرف قرآن نہیں فرمایا بلكه هَذَا الْقُرْآنَ فرمایا.یعنی یہ قرآن جو اس قدر برکات والا ہے، اسے چھوڑ دیا اور اس سے توجہ ہٹالی.ہماری جماعت کے کئی دوست مجھ سے پوچھتے رہتے ہیں کہ قرآن کریم 03 کا
خطبات محمود سم سال ۱۹۳۴ نو انگریزی وارد و ترجمه کب شائع ہوگا.لیکن جہاں میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ یہ سوال کرسکتے ہیں اور مرکز کا فرض ہے کہ کوشش کر کے اس سوال کا جواب جلد دے، وہاں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ قرآن کا پڑھنا پڑھانا کسی ترجمہ پر منحصر نہیں.میں نے کئی دفعہ توجہ دلائی ہے کہ.جماعتوں میں درس قرآن کا انتظام ہونا چاہیے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس وقت تک بہت سی جماعتیں اس سے محروم ہیں حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب میں ایسا ذخیرہ اور ایسی باتیں موجود ہیں کہ جو شخص ترجمہ جانتا ہو یا کم سے کم ترجمے والے قرآن کے ذریعہ قرآن کا ترجمہ پڑھ سکتا ہو وہ غور و تدبر کرنے پر دوسرے علماء کہلانے والوں سے بہت زیادہ قرآن سمجھ سکتا ہے.میرا خیال ہے کہ اگر کوئی انسان کوشش کرے تو قرآن سیکھنے کیلئے دنیوی طور پر تعلیم یافتہ ہونا کوئی ضروری نہیں بلکہ اس کیلئے اخلاص، نیکی، تقویٰ اور انابت کی ضرورت ہے.جب ایک انسان آستانہ الہی پر گر جائے اور خدا تعالیٰ کے آگے سر جھکا دے تو خدا تعالٰی ضرور اس کی مدد کرتا ہے.میں چھوٹا بچہ تھا، تھوڑی ہی عمر تھی اور عربی کی ابتدائی کتابیں ہی پڑھ رہا تھا کہ میں نے ایک رڈیا دیکھا.پہلے تک کسی ایک آواز آئی جیسے کٹورے پر اُنگلی یا کوئی چیز مارنے سے پیدا ہوتی ہے.پھر وہ آواز پھیلنا شروع ہوئی اور ایک وسیع میدان کی صورت اختیار کر گئی.ایک ایسا میدان کہ جس کی نہ ابتداء نظر آتی تھی نہ انتہاء پھر میں نے دیکھا کہ اس میں سے سینما کی فلم کی طرح کی کوئی چیز نمودار ہونا شروع ہوئی.اور جوں جوں وہ نزدیک ہوتی گئی اس میں سے ایک تصویر کی صورت ظاہر ہونے لگی اور میں نے اسے پہچانا شروع کیا تو وہ ایک زندہ انسان کی صورت تھی.اور مجھے بتایا گیا کہ فرشتہ ہے.وہ آیا اور کہنے لگا کہ آپ کو سورۃ فاتحہ کی تفسیر پڑھاؤں.میں نے کہا پڑھائیے اور وہ پڑھانے لگ گیا.جب اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ تک پڑھا چکا تو کہنے لگا کہ اِس وقت تک جتنی تفاسیر لکھی گئی ہیں، وہ یہیں تک کی ہیں.میں آپ کو آگے پڑھاؤں؟ میں نے کہا ہاں پڑھائیے اور وہ پڑھانے لگ گیا.جب میں بیدار ہوا تو اس میں سے کئی باتیں مجھے یاد تھیں اور و میں نے انہیں نوٹ بھی کرنا چاہا مگر کیا نہیں.یہ غالبا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے قریب کا زمانہ تھا مجھے ٹھیک یاد نہیں.یا اگر حضرت خلیفہ اول کا زمانہ تھا تو ابتدائی ایام ہی تھے.میں نے اس رویا کا ذکر حضرت خلیفہ اول سے کیا.آپ نے افسوس کیا کہ باتیں میں نے کیوں نہ لکھ لیں.مگر بعد میں اللہ تعالی کی طرف سے مجھ پر ظاہر ہوا کہ لکھنا وہ
خطبات محمود ٣٣ سال ۱۹۳۴ بے فائدہ تھا اس رویا کا مطلب تو یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ کی تفسیر میرے دل میں ڈالی گئی اور فرشتہ کا یہ کہنا کہ اس وقت تک جو تفاسیر لکھی گئی ہیں.وہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ تک کی ہیں، اس کا یہ مطلب ہے کہ اس سورۃ کا یہاں تک کا حصہ بندہ کا کام ہے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ خدا تعالی کہتا ہے کہ میں نے سورۃ فاتحہ کو اپنے اور بندہ کے درمیان تقسیم کر دیا ہے.آدھی خود رکھ لی اور آدھی بندہ کو دے دی ہے ہے.گویا یہاں تک بندہ کا کام ہے.بظاہر تو پہلا حصہ خدا تعالیٰ کی صفات ہی ہیں.مگر بندہ جب اسے پڑھتا ہے تو گویا اللہ تعالیٰ کی صفات کا اظہار کرتا ہے.اور اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ سے آگے خدا کا کام ہے.اور یہ ایسی بات ہے جسے وہی معلوم کر سکتا ہے جسے خدا کا قرب حاصل ہو.اس رؤیا کے زمانہ سے لے کر آج تک کبھی میں نے قرآن کو ہاتھ نہیں لگایا کہ نئے علوم مجھ پر نہ کھلے ہوں.اور جب بھی میں نے سورۃ فاتحہ کی تفسیر کی ہے، نئے رنگ میں کی ہے، میرے خطبات کو پڑھ کر دیکھ لو اس وقت تک میں سو سے زیادہ تفاسیر اس کی بیان کرچکا ہوں اور ابھی یہ خزانہ ختم نہیں ہوا.یہی حال سارے قرآن کا ہے.پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ قرآن کو اخلاص سے پڑھیں ہر جماعت کو چاہیے کہ درس جاری کرے اسی طرح لاہور کی جماعت بھی کرے، یہاں ہوسٹل ہے وہاں بھی درس ہونا چاہیے.مجھے نہیں معلوم کہ ہوتا ہے یا نہیں لیکن اگر ہوتا ہے تو بے قاعدہ ہوتا ہو گا.بہت سے لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی خود نہیں سمجھ سکتے اس لئے ابتداء انہیں سہارا کی ضرورت ہوتی ہے جو درس سے حاصل ہو سکتا ہے.یا اگر مسجد، ہوسٹل یا جو دوست دور دور رہتے ہیں وہ محلہ وار جمع ہو کر درس کا انتظام کریں اور جن کیلئے محلہ وار جمع ہونا بھی مشکل ہو وہ گھر میں ہی درس دے لیا کریں تو جماعت میں تھوڑے ہی دنوں کے اندر علوم کے دریا بہہ جائیں.درس کیلئے بہترین طریق یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفاسیر کو مد نظر رکھا جائے.آپ نے اگرچہ کوئی باقاعدہ تفسیر تو نہیں لکھی مگر تفسیر کے اصول ایسے بتادیئے ہیں کہ قرآن کو ان کی مدد سے سمجھنا بہت آسان ہو گیا ہے اور سب سے زیادہ اس کیلئے انابت کی ضرورت ہے.قرآن میں آتا ہے کہ لا يَمَسُّةَ إِلا الْمُطَهَّرُونَ سے یعنی اس کی گہرائیوں کو مطہر لوگ ہی پاسکتے ہیں.مطر کے یہ معنی نہیں کہ انسان تمام عیبوں سے یکدم پاک ہو جائے اس کیلئے کوشش کرتے رہنا چاہیے لیکن یہاں پاکیزگی سے مراد خدا کی محبت کی
خطبات محمود ۳۴ سال ۱۹۳۴۳ء پاکیزگی ہے.جس کے اندر یہ پیدا ہو جائے اسے عشق الہی حاصل ہو جاتا ہے.محبت ایک آگ ہے، اس کی ابتدائی حالت بھی آگ ہے اور انتہائی بھی.اسی طرح عشق جب شروع ہو تو پھیلتا جاتا ہے اور اس کا پہلا حصہ بھی عشق ہے اور آخری بھی عشق ہے.طہارت کے کئی مقام ہیں.محمد رسول اللہ کی طہارت کا جو مقام تھا وہ حضرت ابوبکر کو حاصل نہیں تھا.اور حضرت ابوبکر" کے مقام طہارت کو حضرت عمر " نہیں پہنچے تھے.حضرت عمر کا مقام حضرت اریم عثمان سے اور حضرت عثمان " کا حضرت علی سے بلند تھا.تو طہارت کے مدارج کے حصول کی کوشش بھی جاری رہنی چاہیئے.مگر عشق ہر وقت سُلگ سکتا ہے اور جس کے اندر خدا کا عشق پیدا ہو جائے وہ قرآن کریم کو سمجھ سکتا ہے پس قرآن کریم کو تمام علوم پر مقدم کرو.مسلمانوں کی ساری تباہی اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے قرآن کریم کو چھوڑ دیا حتی کہ علماء کہلانے والوں نے بھی چھوڑ دیا.ہمارے لاہور کے ایک دوست کو مولویوں میں تبلیغ کا شوق ہے وہ میرے پاس دیوبند کے تعلیم یافتہ طلباء کو لے آئے جن میں سے ایک نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کی تعلیم کتنی ہے.ان کے نزدیک تعلیم سے مراد چونکہ کسی مدرسہ کا سند یافتہ ہونا تھا اس لئے میں نے کہا کوئی نہیں.کہنے لگے آخر کچھ تو ہوگی.میں نے کہا صرف قرآن جانتا ہوں.کہنے لگے انتہائی تعلیم کیا ہے.میں نے کہا ابتدائی بھی یہی اور انتہائی بھی یہی ہے.پھر انہوں نے پوچھا انگریزی تعلیم بھی ہے یا نہیں.میں چونکہ ان کا مطلب سمجھ چکا تھا.میں نے کہا میں مدرسہ میں پڑھا کرتا تھا مگر دسویں جماعت تک ہمیشہ فیل ہوتا رہا.ایک نے کہا پھر پرائیویٹ حاصل کی ہوگی.میں نے کہا وہ بھی قرآن ہی کی.میرے اس جواب سے کہ صرف قرآن ہی پڑھا ہے، وہ حیران تھے.اور یہ ان لوگوں کی حالت ہے جو دین کی اشاعت کے ذمہ دار ہیں ! اور جو اسلام کے ستون سمجھے جاتے ہیں.ان کے نزدیک قرآن کی تعلیم کوئی تعلیم ہی نہیں.مگر حقیقت یہ ہے کہ انہیں معلوم ہی نہیں کہ قرآن کیا چیز ہے اور دنیوی علوم کی اس کے مقابلہ میں حیثیت کیا ہے.دنیوی علوم کا کوئی بڑے سے بڑا ماہر ہے جو قرآن میں میرا مقابلہ کر سکے.کوئی بڑے سے بڑا فلسفی، منطقی، سائیکالوجسٹ یا کسی اور شعبۂ علم کا ماہر میرے سامنے آئے اور قرآن پر کوئی اعتراض کرے اور دیکھے کہ میں اسی علم کے ذریعہ اُس کے اعتراض کو ردّ کرتا ہوں یا نہیں.علماء آئیں اور میرے مقابل پر تفسیر لکھیں.مگر میں جانتا ہوں خدا کے فضل سے کسی کے اندر اتنی طاقت نہیں.وجہ یہ ہے کہ وہ ساری عمر فقہ اور حدیث رشتے رہتے ہیں
سال خطبات اسکتا.۳۵ اور قرآن کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں کرتے یا منطق پڑھنے میں عمر صرف کر دیتے ہیں اور قرآن کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے کہ انہیں معلوم ہو کہ دنیا کے تمام علوم اس کے سامنے شرمندہ ہیں.قرآن جاننے والا دنیا کی کسی مجلس میں شرمندہ نہیں ہو سکتا.جو قرآن جانتا ہو وہ دنیا کے سارے علوم جان لیتا ہے.مگر دنیا کے سارے علوم جاننے والا قرآن نہیں جان یہ بند کتاب ہے، مخفی خزانہ ہے، جس تک ہر ایک کی رسائی نہیں ہو سکتی.صرف مطہر لوگ ہی اسے پاسکتے ہیں اور جب تک عشق الہی دل کے اندر نہ پیدا ہو، اس کے مضامین نہیں کھل سکتے.پس میں لاہور کی جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ قرآن کریم کی طرف متوجہ ہو.بھی میں یہاں علماء کو بھیج کر درس جاری کراتا رہا ہوں مگر پھر یہ سلسلہ بند ہو جاتا ہے حالانکہ درس دینا صرف علماء کا ہی حصہ نہیں بلکہ اور دوست بھی دے سکتے ہیں.حضرت خلیفہ اول نے جب مجھے قرآن شریف کا ترجمہ اور بخاری پڑھائی تو فرمایا بس مجھے جو آتا تھا وہ میں نے آپ کو پڑھا دیا.اور میں تو سمجھتا ہوں بخاری کی بھی ضرورت نہ تھی.بخاری اور دیگر احادیث کی کتب تو پڑھی جاتی ہیں رسول کریم ﷺ کے کلام سے قرآن شریف کی تشریح معلوم کرنے کیلئے وگرنہ قرآن شریف کامل کتاب ہے.بیشک رسول کریم اللہ سب سے زیادہ قرآن جانتے تھے مگر احادیث کے متعلق یہ بھی تو شبہ ہے کہ ممکن ہے وہ کلام آپ کا نہ ہو اور کسی اور نے خود ہی بات گھڑ لی ہو.یہ بھی ہم قرآن کی روشنی سے ہی معلوم کر سکتے ہیں کہ کونسی حدیث درست ہے.اور حدیث بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کی قیمت قرآن کریم کی تفسیر ہونے کی وجہ سے ہی ہے.ہم ان سے نور حاصل کرتے ہیں مگر وہ نور قرآن سے ہی لیا گیا ہے.پس دوستوں کو چاہیے کہ فوراً درس جاری کردیں اور ہر محلہ میں اس کا انتظام ہو خواہ کوئی ترجمہ ہی جانتا ہو.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے مدد لیکر درس جاری کردے.اور جو سمجھ میں نہ آئے وہ کسی عالم سے پوچھ لے.یا جب قادیان آنے کا موقع ملے یا میں یہاں آؤں تو مجھ سے دریافت کرلے.اس میں کوئی ہتک کی بات نہیں کہ جو بات سمجھ میں نہ آئے وہ کسی سے پوچھ لی جائے.مجھے فقہ سے دلچسپی نہیں.اگرچہ مجھے اللہ تعالی کے فضل سے ایسا نور اور ایسی فراست حاصل ہے کہ بڑے بڑے امور کو میں خود حل کرلیتا ہوں لیکن بعض اوقات کوئی فقہی مسئلہ مجھ سے پوچھے تو کہہ دیتا ہوں کہ مجھے یاد
خطبات محمود.سال نہیں.کسی عالم سے پوچھ لو.تو جو بات نہ آتی ہو اس کا کسی سے پوچھ لینا کوئی بنک کی بات اگر پہلی بار درس دینے پر نصف قرآن ہی سمجھ میں آئے تو دوسرے درس تک بہت سے مزید مقام حل ہو جائیں گے.اور اس طرح کسی دن سارا قرآن حل ہو جائے گا.حضرت خلیفہ المسیح الاول فرمایا کرتے تھے کہ قرآن کی دو تین آیات مجھے سمجھ نہیں آئیں.مگر میرے لئے اللہ تعالیٰ نے وہ بھی حل کر دی ہیں.حضرت شاہ ولی اللہ کو قرآن کی پانچ آیات سمجھ نہیں آئی تھیں مگر حضرت خلیفۃ المسیح الاول کو اللہ تعالیٰ نے وہ بھی سمجھادیں.اور آپ پر جو حل نہ ہوئی تھیں، اللہ تعالیٰ نے مجھے پر وہ بھی کھول دیں.ہر آیت کے سینکڑوں مطالب ہو سکتے ہیں.اگر وہ مطلب جو آئندہ زمانہ کیلئے ہے، وہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا تو کوئی حرج نہیں.آئندہ زمانہ میں ہونے والے اعتراضات کا بھی تو ہم کو جواب نہیں دینا پڑتا.صرف وہ مطالب بھی اگر سمجھ میں آجائیں جو اس زمانہ کے متعلق ہیں تو کافی ہے.اگر کل کوئی اور ضرورت ہوگی تو خدا تعالیٰ نئے مطالب بھی کھول دے گا.چیز کسی خاص انسان سے تعلق نہیں رکھتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام، حضرت اور خلیفہ اول، میری یا علمائے جماعت کی کوئی خصوصیت نہیں بلکہ ہر شخص جو اخلاص، عشق ا محبت سے توجہ کرے وہ ایک نیا نور پائے گا.بعض اوقات بعض عورتیں اور وہ لوگ جو بالکل ان پڑھ ہوتے ہیں، ایسی لطیف بات بیان کر دیتے ہیں اور وہ ایسے معنی بیان کرتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے.غرض قرآن شریف دل سے تعلق رکھتا ہے.اپنے دلوں کو کھولو اور اس کی طرف توجہ کرو.جب تک دل نہ کھلے گا اُس وقت تک یہ نور نہیں مل سکتا.ساری برکتیں اسی میں ہیں اس لئے اس کی طرف توجہ کی بہت ضرورت ہے.نوجوانوں کے لئے بھی درس کا با قاعدہ انتظام ہونا چاہیے کیونکہ ان کے سامنے لوگ نئے نئے اعتراض کرتے رہتے ہیں.اور دوسرے دوستوں کیلئے بھی مساجد اور محلوں میں درس کا انتظام ہونا چاہیے.علیحدہ طور پر پڑھنے میں یہ نقص ہے کہ بعض لوگوں میں استقلال نہیں ہوتا اور وہ باقاعدہ نہیں پڑھ سکتے.درس ہ بھی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں.پھر ایک دوسرے کی معلومات اور اعتراضات سے بھی آگاہی ہو جاتی ہے.اگر درس کے اختام پر درس دینے والا یہ کہہ دے کہ اس کے متعلق اگر کسی کو کوئی اور نکتہ سُوجھا ہو تو بتادے تو اس سے بہت فائدہ ہو سکتا ہے اور قرآن کریم سیکھنے کا یہ بہت آسان ذریعہ ہے.تعجب ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس قدر تاکید سے وہ
خطبات محمود ۳۷ سال ۱۹۳۴ء کے باوجود ابھی تک ایک طبقہ ایسا ہے جو اس طرف متوجہ نہیں حالانکہ دروازہ کھلا ہے معشوق سامنے بیٹھا ہے مگر قدم اُٹھا کر آگے نہیں جاتے.له الفرقان: ٣١ س الواقعة: ٨٠ (الفضل یکم فروری ۱۹۳۴ء) سنن نسائی کتاب الافتتاح باب ترك قراءة في فاتحة الكتاب
خطبات محمود ۳۸ مصیبت زدگان کی مدد کرو (فرموده ۲- فروری ۱۹۳۴ء) سال ۱۹۳۴ تو تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.سے قلیل سے ایک.حصہ حصہ جلسہ سالانہ کے موقع پر میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وحی کے متعلق تقریر کی تھی.وہ نوٹ جو میں نے اُس موقع پر بیان کرنے کیلئے تیار کئے تھے، ان میں ہی بیان کر سکا تھا اور وقت کی تنگی کی وجہ سے جو حصے بیان نہ کر سکا ان میں بھی تھا کہ آپ کے الہامات کو سمجھنے میں احباب کو ایک غلطی لگی ہے اور وہ یہ کہ بہت سے الہامات جو ایک شکل کے ہیں، ان کو ایک ہی واقعہ کے متعلق سمجھ لیتے ہیں حالانکہ وہ مختلف واقعات کے متعلق ہوتے ہیں اور ہم شکل الفاظ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایک قسم کے کئی واقعات ظاہر ہونے والے ہیں جو مختلف اوقات میں رونما ہوں گے.پس دس یا بارہ الہامات جو بظاہر ایک ہی واقعہ کے متعلق خیال کئے جاتے ہیں وہ دراصل اپنی ذات میں مکمل پیشگوئیاں ہوتی ہیں.اس ضمن میں ایک نوٹ زلزلہ کی پیشگوئی کے متعلق بھی تھا اور میں یہ بتانا چاہتا تھا کہ وہ الہامات جو زلزلہ کے متعلق ہیں انہیں غلطی سے ایک ہی زلزلہ کے سمجھ لیا گیا ہے حالانکہ وہ مختلف واقعات کے متعلق پیشگوئیاں ہیں.بعض اور زلزلوں کے متعلق ہیں، بعض جنگ کے متعلق بعض دیگر قسم کی آفات اور طوفانوں کے متعلق ہیں بعض حکومتوں کے تغیرات کے متعلق ہیں.غرض یہ کہ وہ پیشگوئیاں مختلف رنگ رکھتی ہیں.متعلق میں نے ان کی علامتیں بھی نکالی تھیں مگر انہیں بیان نہ کر سکا.
خطبات محمود ۳۹ آج بھی اس مضمون کے بیان کرنے کا تو موقع نہیں لیکن زلزلہ کے متعلق جو ۱۵ جنوری کو بہار، بنگال اور نیپال میں آیا ہے جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک مستقل پیشگوئی تھی.جیسا کہ رویا کے الفاظ ہیں " دیکھا کہ بشیر احمد کھڑا ہے.وہ ہاتھ سے شمال مشرق کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے کہ زلزلہ اس طرف چلا گیا." زلزلہ شمال مشرق کی طرف چلا گیا.اس کا مفہوم یہی ہے کہ پہلے ذہن اسی طرف منتقل تھے کہ زلزلہ والی پیشگوئی کے مطابق یہ زلزلہ بھی شاید اسی علاقہ میں آئے گا جہاں پہلے آیا ہے.پہلا زلزلہ شمال مغربی حصہ میں ضلع کانگڑہ کی طرف آیا تھا اور ذہن عام طور پر اسی طرف منتقل تھے کہ اُدھر ہی دوسرا زلزلہ آئے گا اور اس کا اس قدر اثر تھا کہ اس علاقہ میں اگر کوئی چھوٹا سا دھکا بھی زلزلہ کا محسوس ہوا تو سمجھ لیا جاتا کہ وہ پیشگوئی بھی پوری ہو گئی ہے.جب لمبے عرصہ تک یہ شبہ رہا اور اللہ تعالٰی نے دیکھا کہ لوگ اس خیال کو متواتر اور اس طرح قائم کرتے جارہے ہیں کہ آئندہ شاید یہ پیشگوئی کا جزو بن جائے تو پھر ایک الہام کے ذریعہ اس غلط فہمی کو رفع کر دیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رویا میں دیکھا کہ میاں بشیر احمد صاحب نظر آئے.اور وہ کہہ رہے ہیں کہ زلزلہ شمال مشرق کی طرف چلا گیا.اس پیشگوئی کے متعلق بھی اس وقت تفصیلی طور پر بیان نہیں کر سکتا.اس کے متعلق میں نے میاں بشیر احمد صاحب سے کہا ہے کہ لکھیں کیونکہ انہی کے منہ سے یہ الفاظ نکلوائے گئے ہیں اس لئے جب مجھے کہا گیا کہ اس کے متعلق ایک رسالہ لکھوں تو میں نے اس پیشگوئی کے ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہی کہا کہ میاں بشیر احمد صاحب لکھیں اس لئے اس کی طرف صرف اشارہ کر کے ہی میں اس مضمون کی طرف آنا چاہتا ہوں کہ جو پیشگوئیاں اللہ تعالیٰ پوری کرتا ہے وہ بھی دو قسم کی ہوتی ہیں.ایک قسم کی پیشگوئیاں براہِ راست بعض مخالفین اور معاندین کے متعلق ہوتیں ہیں اور انہیں سے وہ مخصوص ہوتی ہیں وہ جب پوری ہوتی ہیں تو ان کے متعلق کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی اور قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں سکی کسی قسم کی اعانت و نصرت کرنا گناہ ہے.لیکن ایک بطور نشان ہوتی ہیں اور ان کے ماتحت جو عذاب آتا ہے وہ اس قدر پھیل کر آتا ہے کہ بعض نا واقف بھی اس سے متأثر ہو جاتے ہیں.یہ عذاب دنیا کی عام گنگاری کی وجہ سے آتا ہے.جو عذاب مخصوص انسانوں پر آتا ہے
خطبات محمود پر اس " ۴۰ سال ۱۹۳۴ء کے متعلق پیشگوئی بھی براہ راست ہوتی ہے کہ فلاں شخص برباد ہو جائے گا لیکن جو عذاب عام ہوتا ہے، اس میں ہمدردی ضروری ہوتی ہے جیسے حضرت یوسف کے وقت میں قحط نمودار ہوا مگر آپ کے ہی ہاتھ سے خدا تعالیٰ نے غلہ بھی تقسیم کرایا.اُس وقت عذاب اس لئے آیا تھا کہ تا خدا تعالیٰ آپ کو قید سے نکلوائے اور آپ پر جو ظلم ہوا تھا لوگوں پر اس کا نتیجہ ظاہر کرے اور بتائے کہ اللہ تعالٰی اپنے پیارے بندہ کیلئے تمام ملک کو بھی تباہ کر دیتا ہے.نیز اس لئے کہ حضرت یوسف کے اس رویا کو پورا کرے جس میں آپ نے دیکھا کہ سورج چاند اور ستارے آپ کو سجدہ کرتے ہیں.پس خدا تعالیٰ نے قحط نازل کیا تا ملک بھوکا مرے اور حضرت یوسف کے بھائی روٹی مانگتے ہوئے آپ کے پاس پہنچیں.وہ ایک نشان تھا جس کے نتیجہ میں ملک پر عذاب آیا تھا مگر حضرت یوسف خود درخواست کر کے ایسا عہدہ لیتے ہیں جس رہ کر وہ مصیبت زدگان سے زیادہ سے زیادہ ہمدردی کر سکیں.بادشاہ آپ کو وزیر اعظم بنانا چاہتا ہے مگر آپ کہتے ہیں کہ مجھے خزائن الارض پر مقرر کرو اے.پس اُس وقت تحط عذاب راب تو بے شک تھا مگر حضرت یوسف ہمدردی بھی پوری پوری کرتے ہیں اور عذاب کی شدت کو پورے طور پر کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں.لیکن جہاں بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ ایسے عذاب میں بھی ہمدردی نہیں کرنی چاہیئے وہاں بعض منافق ان عذابوں میں بھی جن میں ہمدردی کرنا گناہ ہوتا ہے ہمدردی کی آڑ میں اس نشان کو مشتبہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اور بعض اللہ تعالی کی رحمت کو بھول جاتے ہیں حالانکہ قرآن کریم میں صاف مثال موجود ہے.اگر اس مطلب نہیں کہ ایسے وقت میں مصیبت زدگان سے ہمدردی کرنا چاہیے تو آخر اس کے بیان کرنے کا فائدہ کیا تھا.اس کا یہی مطلب ہے کہ تا خداتعالی بتائے کہ بعض عذابوں میں رافت و ہمدردی کرنا ضروری ہوتا ہے.ہاں بعض میں نہیں اور ان کے متعلق قرآن کریم نے صاف فرما دیا ہے کہ لا تَأْخُذْكُمْ بِهِمَا رَأْفَةٌ فِى دِینِ اللہ سے جو زلزلہ کا عذاب آیا ہے یہ بھی اسی قسم کا ہے جس میں ہمدردی کرنا اشد ضروری ہے.اس میں لاکھوں ایسے انسان بھی تباہ ہو گئے ہیں کہ ان کی تباہیاں کسی مامور کے انکار کے باعث نہیں کہلا سکتیں.ممکن ہے ان میں سے بعض نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام بھی نہ سنا ہو.یا اگر سنا ہو تو ایسی طرح که پوری واقفیت نہ حاصل کر سکے ہوں.ان پر اگر عذاب آیا تو محض عام عذاب ہونے کی وجہ سے جو دنیا کی تمام بدکاریوں اور شرارتوں کی وجہ سے آیا اور ایسے لوگوں کے ساتھ
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء ہمدردی کرنا ضروری ہے.مامورین اور ان کی جماعتوں کے اندر ہمدردی اور رافت و رحمت کا ہونا بھی ضروری ہے اور یہ بھی دراصل ان کا ایک نشان ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جب کسی نے ذکر کیا کہ جماعت کے بعض لوگ روحانیت میں کمزور ہیں تو آپ نے فرمایا آپ ایسا کیوں نہیں کرتے کہ ان کیلئے دعا کریں.میری اپنی کیفیت تو یہ ہے کہ اگر میں کسی بھائی کو دیکھوں کہ شراب کے نشہ سے مخمور ہو کر نالی میں پڑا ہے تو اسے اُٹھا کر گھر لے آؤں تا ہوش میں آنے پر وہ شرمندہ نہ ہو.پھر اسے ہوش میں لاؤں، علیحدگی میں نصیحت کروں اور اس کیلئے دعا کروں.مأمورین کی جماعتوں کے متعلق یہ رافت و رحمت بھی ایک نشان ہی ہوتا ہے.خدا تعالیٰ بتاتا ہے کہ اگر ایک طرف دنیا میں اس قدر بد کاری پھیلی ہوئی ہے وہ جو ایسے عذابوں کا موجب ہے تو دوسری طرف ہمارے بندوں میں اس قدر نیکی بھی ہے کہ مصیبت زدگان سے ہمدردی کرتے ہیں اور ہمارے مامور کے ذریعہ وہ اس قدر نیک ہو گئے ہیں کہ کفار سے بھی ہمدردی رکھتے ہیں.تو یہ ہمدردی بھی ایک قسم کا نشان ہی ہوتا ہے.ایک طرف اللہ تعالیٰ اپنا عذاب بھیجتا ہے اور دوسری طرف نبی کی جماعت کو رحمت کے طور پر کھڑا کردیتا ہے.مجھے افسوس ہے کہ آج جمعہ کیلئے آنے میں دیر ہو گئی.میں نے گھڑی نہ دیکھی.مؤذن نے جب مجھے اطلاع دی تو وقت کافی تھا لیکن ایسا ذہول ہوا کہ میں جلدی نہ آسکا.پھر جو گھڑی کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ نماز کا وقت جا رہا ہے اس لئے لمبا مضمون تو بیان نہیں کر سکتا.صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ عذاب ایسا ہے کہ اس میں رافت و ہمدردی ضروری ہے اور مصیبت زدگان کے ساتھ سب سے زیادہ ہمدردی کرنا ہمارا فرض ہے کیونکہ ایک طرف تو ہم صفات الہی کے ظہور کا نشان اور ان کا مظہر قرار دیئے گئے ہیں.اور دوسری طرف یہ امر بھی ہے کہ عذاب جب آتے ہیں تو لوگوں کے دل نرم ہو جاتے ہیں اور ڈاکٹر جب نشتر لگاتا ہے تو پھر مرہم بھی رکھتا ہے.اگر اس وقت ہم محبت اور اخلاص سے کام لیں تو لوگ سمجھیں گے کہ گو یہ لوگ پیشگوئی کے پورا ہونے پر خوش بھی ہیں مگر ہم سے ہمدردی بھی رکھتے ہیں.ہمارے مخالف ہمیشہ ہم پر یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ یہ دوسروں کے مصائب پر خوش ہوتے ہیں.نادر شاہ والی پیشگوئی کے پورا ہونے پر میں نے جو مضمون لکھا، اس کے متعلق بھی ایک صاحب نے کہا کہ یہ خوش ہوئے ہیں.میں نے کہا کہ یہ بات ہر گز نہیں.میرا مضمون پڑھ کر دیکھ لو اس میں رنج ہی رنج ہے.باقی پیشگوئی کے پورا ہونے کے متعلق جو خوشی ہے، وہ اسی
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ موقع کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ جب ہمارا بھائی مبارک احمد فوت ہوا تو اس کو دفن کرتے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا دیکھو کتنی خوشی کی بات ہے کتنا بڑا نشان پورا ہوا ہے.ہمارے لئے مقدم اللہ تعالٰی کی ذات ہے.جب اس کی بات پوری ہو تو سب رنج اور دکھ بھول جاتا ہے.اور یہ تو ہمارے ایمان کی علامت ہے کہ جب بھائی بھی مرے تو اس وقت بھی خدا کی بات کے پورے ہونے کی ہمیں خوشی ہوتی ہے.ہماری حالت تو وہی ہے جو کسی نے اس مصرعہ میں بیان کیا ہے کہ :- دیں جدھر دیکھتا ہوں اُدھر تُو ہی تو ہے موت بحیات ہر چیز میں ہمیں خدا تعالیٰ کی باتیں پوری ہوتی نظر آتی ہیں.غم اور خوشی ہر حالت میں ہمیں اللہ تعالی کے نشان نظر آتے ہیں اور دونوں حالتوں میں خدا کا چہرہ دکھائی دیتا ہے اس لئے شاعر کا یہ قول پوری طرح ہم پر صادق آتا ہے کہ جدھر دیکھتا ہوں اُدھر تو ہی تو ہے.اس لحاظ سے اگر ہمارے اندر خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے تو ہم معذور ہیں.باقی ہمیں اپنے عمل سے ثابت کر دینا چاہیے کہ ہمیں ہمدردی سب سے زیادہ ہے.میں نے چندہ کی اپیل کی ہے، اس پر جو لوگ بشاشت سے لبیک نہ کہہ سکیں وہ اپنے نفسوں پر بوجھ ڈال کر بھی چندہ مگر سلسلہ کے دوسرے کاموں کو نقصان پہنچائے بغیر.یہ کوئی نیکی نہیں کہ ایک نیک کام چھوڑ کر دوسرا اختیار کر لیا جائے.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی پاجامہ ایک لات پر پہن لے اور پھر توجہ دلائے جانے پر اُسے اُتار کر دوسری پر پہن لے.پس مستقل چندہ کو کسی قسم کا نقصان پہنچائے بغیر اور پہلی نیکیوں کو قائم رکھتے ہوئے اس طرف توجہ کی جائے.میں نے جو مسئلہ بیان کیا ہے اگر یہ سمجھ میں آجائے تو بشاشت کے ساتھ اور اگر نہ آئے تو اپنے نفسوں پر بوجھ ڈال کر اس تحریک میں حصہ لیا جائے یہ قربانی کا موقع ہے.اگر بشاشت ہو تو فبها وگرنہ عبودیت اور فرمانبرداری کے ماتحت اس میں حصہ لیا جائے اور جہاں تک ہو سکے مصیبت زدہ لوگوں کی امداد کی جائے.مونگھیر میں سوائے دو کے باقی سب احمدیوں کے مکان گر گئے ہیں ان کی مدد ضروری ہے تاکہ وہ ان کو مرمت کر سکیں اور باقی مستحقین کو بھی امداد دی جاسکے.اگر جماعت توجہ کرے تو اس کی امداد سب سے زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ دوسرے لوگ اگرچہ کروڑوں کی تعداد میں ہیں مگر ان کے صرف امراء ہی چندہ دیں گے لیکن جماعت اگر فرض شناسی سے کام لے تو چونکہ ہر ایک احمدی حصہ لے گا ہم مِنْ حَيْثُ الْجَمَاعَت حصہ گا،
خطبات محمود مسکینوں اور لیں گے اور دوسرے مِنْ حَيْثُ الْأَفراد اس لئے اس تحریک میں ضرور حصہ لیا جائے تا جو احمدی مبتلائے مصائب ہیں ان کی امداد کی جائے اور دوسرے مستحقین کو بھی خدا کی صفتِ رحمانیت کے ماتحت امداد دی جاسکے اور اس طرح خدا کی طرف سے پیشگوئی پوری کئے جانے کا شکریہ ادا ہو سکے.یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ایک نشان ظاہر ہوا ہے اور اس پر ہماری خوشی کی کوئی علامت ظاہر ہونی چاہیئے اور وہ یہ ہو سکتی ہے کہ ہم مصیبت زدوں کی امداد کریں اور اپنے عمل سے ثابت کریں کہ ہم نے خدا کا الہام پورا ہونے کی قدر کی ہے اور یہ ہمارے ایمان میں زیادتی کا موجب بنا ہے.پس قادیان کے دوست بھی اور باہر کے بھی جن کو اخبار کے ذریعہ یہ خطبہ پہنچ جائے گا تھوڑا بہت جس قدر بھی ہو سکے اس تحریک میں جو ناظر صاحب بیت المال کریں گے، حصہ لیں.بعض لوگوں کو پہلے ہی اس کا احساس ہے.چنانچہ ینگ مینز ایسوسی ایشن قادیان نے قبل اس کے کہ میری طرف سے کوئی تحریک ہو ، اگرچہ میرے دل میں یہ تھی، اپنی طرف سے ۱۰ روپے کی رقم بھیج دی ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ باقی دوست بھی خواہ وہ قادیان کے ہوں یا باہر کے اس بات کا عملی ثبوت دیں گے کہ اس پیشگوئی کے پورا ہونے پر ان کے ایمان میں اضافہ ہوا ہے اور وہ اس کی قدر کرتے اور شکریہ ادا کرتے ہیں.ہر پیشگوئی ہمارے ایمان کی تازگی کا موجب ہوتی ہے اور ہماری عظمت اور شوکت کو دنیا میں ظاہر کرنے والی.ہمیں چاہیے کہ اس امر پر غور کریں کہ ہماری ہستی کیا ہے اور اللہ تعالیٰ ہماری عظمت بڑھانے کیلئے کس طرح دنیا کو تہہ و بالا کر رہا ہے.یہ سب سلسلہ احمدیہ کی عظمت قائم کرنے اور اس کی صداقت کو ظاہر کرنے کیلئے ہے اور جہاں سلسلہ احمدیہ دائمی صداقتوں کا نام ہے، وہاں اس کا ایک حصہ ہم بھی تو ہیں.پس چاہیئے کہ ہم خدا تعالیٰ کے سامنے گر جائیں کہ وہ ہم جیسے بے کس انسانوں کیلئے کس قدر عظیم الشان نشانات ظاہر کر رہا ہے.الفضل ۸ فروری ۱۹۳۴ء) ے تذکرہ صفحہ ۷۱۶- ایڈیشن چهارم له يوسف: ۵۶ س النور: ٣
خطبات محمود سهام سهام سال ۱۹۳۴ ء قرض اور سود کے متعلق اسلام کی تعلیم (فرموده ۹- فروری ۱۹۳۴ء) ہی کامل طور پر تعوز اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- اسلام نے تمدنی معاملات کے متعلق ایک ایسی تعلیم دی ہے جو اپنی ذات میں گو نہایت مکمل ہے لیکن جب تک اسے اپنے تمام پہلوؤں کے ساتھ مد نظر نہ رکھا جائے اور اس پر عمل نہ کیا جائے وہ مفید نتائج پیدا نہیں کر سکتی.مثلاً اسلام نے سود سے روکا ہے.سود دنیا میں دو قسم کا ہوتا ہے.ایک وہ سود جو مالدار آدمی اپنے مال کو اور بڑھانے کے لئے دوسرے مالداروں سے رقم لے کر اُن کو ادا کرتا ہے جیسے تاجر پیشہ لوگ یا بینک والے کرتے ہیں.اور ایک وہ سود ہے جو غریب آدمی اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کسی صاحب استطاعت سے قرض لے کر اُسے ادا کرتا ہے.اسلام نے ان دونوں سودوں سے منع کیا ہے.اس سود سے بھی روکا ہے جو تجارت یا جائداد کو فروغ دینے کے لئے مالداروں سے روپیہ لے کر انہیں ادا کیا جاتا ہے اور اُس سود سے بھی منع کیا ہے جو غریب آدمی اپنی غربت سے تنگ آکر کسی صاحب استطاعت سے قرض لینے کے بعد اسے ادا کرتا ہے.اور نہ صرف ایسا سود دینے سے روکا بلکہ لینے سے بھی منع کیا ہے اور نہ صرف سود لینے دینے سے منع کیا بلکہ گواہی دینے والوں اور تحریر کرنے والوں، غرض سب کو مجرم قرار دیا.تاجر پیشہ لوگوں کے سود کے متعلق تو جب کوئی شخص سوال کرے کہ مثلاً اس کے پاس دس ہزار روپیہ ہے اور وہ اس سے دس لاکھ روپیہ کما سکتا ہے.اگر وہ بنکوں یا دوسرے افراد کی -
خطبات محمود ۴۵ سال ۱۹۳۴ ء سے روپیہ لے کر اسے ترقی نہ دے تو کیا کرے.ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ صبر کرے.دس ہزار روپیہ اس کے لئے کافی ہے، اسی پر وہ گزارہ کرتا رہے.مگر جس وقت یہ سوال پیش کیا جائے کہ ایک غریب آدمی بھوک سے مر رہا ہے، کھیتی اس کی نہیں ہوئی، اناج اس کے گھر میں نہیں آیا، بارشیں وقت پر نہیں برسیں ، ایسی صورت میں اگر وہ اپنی زمین کیلئے روپیہ مانگتا ہے تو بغیر سود کے لوگ اُسے دیتے نہیں اب وہ کیا کرے؟ اگر وہ بیل نہ خریدے گا تو کھیتی کس طرح کرے گا.یا عمدہ بیچ نہیں لے گا تو وہ اور اس کے بیوی بچے کہاں سے کھائیں گے اس کیلئے ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ وہ روپیہ قرض لے مگر جب لوگ اسے بغیر سود کے قرض نہ دیں تو وہ کیا کرے.جب یہ سوال پیش کیا جاتا ہے تو اس کا جواب دینا ذرا مشکل ہو جاتا ہے اور در حقیقت یہی وہ سود ہے جس کے حالات اور کوائف سننے کے بعد انسان حیرت میں پڑ جاتا ہے کہ وہ کیا جواب دے.مالدار آدمی کو تو جھٹ ہم یہ جواب دے سکتے ہیں کہ سود روپیہ مت دو اگر دس ہزار روپیہ ہے تو اسی پر کفایت کرو سود کے ذریعہ زیادہ بڑھانے کی کیا ضرورت ہے مگر ایک غریب آدمی کو ہم یہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اسی حالت پر کفایت کرو.اس کو تو ایک ہی جواب دیا جاسکتا ہے کہ بھوکے رہو اور مرجاؤ.مگر یہ کوئی ایسا معقول جواب نہیں جس سے ہمارے نفس کو تسلی ہو یا سائل کے دل کو اطمینان حاصل ہو پس ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اسلام نے اس کا کیا حل رکھا ہے.اگر ہم اسلامی تعلیم پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے اس سوال کا یہ جواب دیا ہے کہ غریب آدمی تو ایسا ہوتا ہے جس کے پاس روپیہ نہیں مگر جائداد ہوتی ہے اس کے لئے تو یہ صورت ہے کہ جائداد رہن رکھے اور روپیہ لے لے.مگر ایک ایسا غریب ہوتا ہے جس کے پاس جائداد بھی نہیں ہوتی جسے رہن رکھ سکے یا اگر جائداد ہوتی ہے تو وہ اس قسم کی ہوتی ہے کہ اگر وہ اسے رہن رکھ دے تو اس کا کاروبار بند مثلاً زمیندار ہے اگر وہ زمین رہن رکھ دیتا ہے تو وہ کھیتی باڑی کہاں کرے گا.اپنے مکان کی چھت یا صحن میں تو وہ کھیتی نہیں کر سکتا.ان حالات میں اسلام نے یہ رکھا ہے کہ ایک طرف تو امراء پر ٹیکس لگادیا جس سے غرباء کی امداد کی جاسکتی ہے اور دوسری طرف کہا کہ جب ٹیکس سے بھی کسی غریب کی ضرورت پوری نہ ہو تو جو اس کے دوست واقف کار یا محلے والے ہوں، وہ اسے قرض حسنہ دیں.یہ ایک ایسا نظام ہے کہ اگر اس کے تمام پہلوؤں کو مد نظر نہ رکھا جائے تو ایک صورت ہو جاتا ہے.
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء کبھی کام نہیں دے سکتی.مگر ہمارے لئے اس میں بھی کئی رکاوٹیں ہیں کیونکہ اسلام نے امراء جو کئی قسم کے ٹیکس لگائے ہیں، وہ ہم وصول نہیں کرسکتے کیونکہ گورنمنٹ وصول کرلیتی ہے.زکوٰۃ اگرچہ آتی ہے مگر وہ بہت ہی کم ہوتی ہے.پس جبکہ امراء کے ٹیکسوں سے ہم اپنی جماعت کے غرباء کی ضرورت کو پورا کرنے سے قاصر ہیں تو ہمارے لئے ایک ہی صورت رہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ ہم اپنی جماعت سے کہیں کہ امیر آدمی غرباء کو ضرورت کے وقت قرض حسنہ دیا کریں.اور کبھی کبھار میں جماعت کو کہتا بھی رہتا ہوں مگر جس حد تک کہنے احساس پیدا ہو سکتا ہے وہ میں نہیں کہتا اور نہیں کہہ سکتا اور آج اسی کے متعلق میں بیان کرنا چاہتا ہوں کہ میں کیوں جماعت کو زیادہ زور کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ امیر غرباء کو قرض حسنہ دیا کریں.میرے نہ کہہ سکنے کی وجہ یہ ہے کہ میرے پاس جس قدر مالی جھگڑے آتے ہیں ، ان میں سے ننانوے فیصدی ایسے ہوتے ہیں جن میں مجھے نظر آرہا ہوتا ہے کہ مقروض قرض واپس کرنے سے گریز کر رہا ہوتا ہے اور ایک فیصدی جھگڑا میرے سامنے ایسا آتا ہے جس میں مجھے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرضہ دینے والا مطالبہ میں سختی کر رہا ہے مگر نانوے فیصدی وہ لوگ ہوتے ہیں جو قرضہ لیتے ہیں اور پھر واپس نہیں کرتے بلکہ گریز کرتے اور قرض دینے والے کو نقصان پہنچاتے ہیں.جو شخص قرض لے کر واپس نہیں کر سکتا اس کے متعلق تو ہماری شریعت کا یہ حکم ہے کہ فَنظِرَةٌ إِلى مَيْسَرَةٍ و کشائش تک اُسے مہلت دینی چاہیے.اور ایسا انسان جو واقعہ میں تنگی میں ہو اور مالی مشکلات کی وجہ سے روپیہ ادا نہ کر سکتا ہو ، میں نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی معقول پسند انسان یہ کہے کہ مجھے اس سے روپیہ دلوا دیجئے.ہم یہی پوچھیں گے کہ ہم کہاں سے دلوائیں.وہ تو خود کئی قسم کی مشکلات میں مبتلاء ہے.لیکن جو میری نظر میں کیس آتے ہیں وہ ننانوے فیصدی ایسے ہوتے ہیں کہ قرض لینے والے کا حق ہی نہیں ہوتا کہ قرض لے.اور جب میں یہ کہتا ہوں کہ قرض لینے والے کا حق نہیں ہوتا کہ قرض لے تو اس سے میری مراد یہ ہے کہ وہ شخص قرض لیتا ہے جسے کہیں سے روپیہ آنے کی امید ہی نہیں ہوتی.میرے نزدیک جو شخص اس حالت میں قرض لیتا ہے جبکہ اُسے کہیں سے روپیہ آنے کی امید نہیں ہوتی اور وہ دوسرے پر اپنی غربت کا اثر ڈال کر اُس سے روپیہ کھینچ لیتا ہے، وہ دھوکے باز اور فریبی ہے.جب اُسے معلوم ہے کہ مجھے روپیہ کہیں سے نہیں آنا تو وہ قرض لیتا ہی کیوں ہے اور جب اس نے بعد میں تقاضوں پر دوسرے کو یہ جواب دینا ہے کہ میں کیا -
خطبات محمود کروں تو وہ پہلے سے کیوں اس مصیبت کو دور کرنے کی فکر نہیں کرتا.ایسا شخص جب دوسرے سے قرض لے رہا ہوتا ہے تو منہ سے تو قرض دینے والے کو کہہ رہا ہوتا ہے کہ میں جلدی ادا کردوں گا مگر دل میں اس کے یہ ہوتا ہے کہ روپیہ میرے قابو میں آجائے، پھر کون واپس لے سکتا ہے.میں ایسے شخص کو یقینی طور پر ویسا ہی مجرم سمجھتا ہوں جیسا کہ کوئی شخص کسی دوسرے کے گھر میں سیندھ لگانے والا بلکہ اس سے زیادہ بُرا.کیونکہ جو شخص سیندھ لگاتا ہے وہ تو اپنے آپ کو چور کہتا ہے.مگر یہ ایک طرف تو اپنی دیانت داری کا سکہ بٹھاتا ہے، دوسری طرف جماعت کی ہمدردی اور اخوت یاد دلاتا ہے، تیسری طرف قرآن مجید کے احکام سناتا اور کہتا جاتا ہے، میری ضرور مدد کرو احمدیت آخر کس چیز کا نام ہے، ایک مہینہ یا دو مہینہ تک روپیہ ادا کردوں گا.اس دھوکے اور فریب کے ذریعہ وہ دوسرے کا مال اُڑا لیتا ہے.وہ خیال کرتا ہے کہ شاید میں دیانت دار ہی مشہور رہوں گا مگر آخر وہ وھو کا باز مشہور ہو جاتا ہے اور ہر شخص سمجھ لیتا ہے کہ یہ فریبی ہے بہانوں.سے روپیہ وصول کرلیتا ہے مگر دینے کا نام نہیں لیتا.پھر اسے یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ایک شخص سے لیا ہوا روپیہ ہمیشہ تو کام نہیں آسکتا، کچھ عرصہ کے بعد ضرور ختم ہو جائے گا، پھر وہ کیا کرے گا.شاید اس کا خیال ہو وہ کسی دوسرے سے لے لے گا اور ممکن ہے اس میں کامیاب بھی ہو جائے مگر پھر کیا کرے گا.اس کے بعد اگر وہ تیسرے شخص کو بھی دھوکا دے لے تو پھر کیا ہوگا.آخر چھ مہینے، سال دو سال، چار سال کے بعد لوگ شور مچائیں گے اور اسے قرض دینا بند کردیں گے.پھر وہ جماعت کے پاس آئے گا اور کہے گا اب میں کیا کروں میرے لئے کوئی انتظام کرو مگر یہی بات اُس نے پہلے کیوں نہ کی.اور قرض لینے سے پہلے ہی وہ کیوں نہیں فکر کرتا کہ اب میں کیا کروں.دھوکا بازیاں کرنے کے بعد اُس نے جو کچھ کہنا ہے، وہ کیوں نہیں کہہ دیتا.ہاں بعض دفعہ یقین ہوتا ہے کہ کہیں سے روپیہ آنے والا ہے.مثلاً کسی نے اس کا سو دو سو روپیہ دینا ہو اور سال بھر کا وعدہ ہو.اِس دوران میں اُسے خود روپیہ لینے کی ضرورت پیش آجائے اور وہ کسی کے پاس جاکر کے کہ مجھے فلاں سے روپیہ لینا ہے کیا آپ مجھے اس روپیہ کے ملنے تک جس کی مجھے غالب امید ہے کچھ روپیہ قرض دے سکتے ہیں.اگر دے دیں تو کام چل سکتا ہے.یا زمیندار اگر کہہ دے کہ فصل پکنے پر روپیہ ادا کردوں گا تو یہ اور بات ہے.لیکن اگر اسے کہیں سے روپیہ کی وصولی کی امید ہی نہ ہو اور پھر بھی وہ روپیہ.
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء قرض لئے جاتا ہے تو وہ یقیناً دھوکا باز ہے.ایسا شخص سمجھ رہا ہوتا ہے کہ چونکہ میں قرض لے رہا ہوں اس لئے یہ جائز کام ہے حالانکہ قرض وہ ہوتا ہے جس کے ادا کرنے کی ہمت ہو.جب ہمت ہی نہ ہو تو پھر قرض کے نام سے روپیہ لینا قرض نہیں بلکہ جھنگی ہے.مثلاً ایک شخص جس کی پچاس روپیہ بھی آمد نہ ہو ، اگر وہ دو لاکھ روپیہ قرض لے لے تو کیا کوئی کہہ سکتا دو ہے کہ اس نے قرض لیا ہے.ہر شخص کہے گا کہ یہ قرض نہیں بلکہ دھوکا اور فریب ہے.لاکھ چھوڑ اس کی تو دو ہزار کی بھی حیثیت نہیں ، یہی مثال پچاس میں یا دس روپیہ قرض لینے بھی عائد ہو سکتی ہے.جب ایک شخص میں دس روپیہ قرض ادا کرنے کی بھی ہمت نہیں تو اگر وہ دس روپیہ بھی لیتا ہے تو دھوکا بازی کرتا ہے.چونکہ ہماری جماعت کا قرض لینے والا حصہ خواہ وہ دس ہیں، پچاس، سو یا دو سو روپیہ قرض لیتا ہے بسا اوقات ایسی صورت میں قرض لیتا ہے جبکہ وہ اُسے ادا کرنے کی ہمت نہیں رکھتا اس لئے میری تشریح کے مطابق ننانوے فیصدی یقینی طور پر دھوکا باز ہیں.اور جبکہ اس قسم کے لوگ ہماری جماعت میں موجود ہوں میں کس طرح ترغیب دے سکتا ہوں کہ غریبوں کو قرض دو.میرا اپنا تجربہ یہی ہے.خلافت کے ابتدائی چار پانچ سالوں میں میرے پاس لوگوں کی بہت سی امانتیں رہتی تھیں.بعض دفعہ میں ہیں تمھیں تھیں ہزار روپیہ امانتوں کا ہو جاتا تھا.اور چونکہ میرے پاس یہ روپیہ موجود ہوتا تھا اس لئے جب مجھ سے کوئی شخص قرض مانگتا تو میں اُسے دے دیتا.مگر میں دیکھتا کہ قرض لینے والوں کا بیشتر حصہ ایسا ہوتا جو قرض لے کر بھول جاتا اور چونکہ میرے لئے یہ ایک نہایت ہی مشکل تھی اس لئے میں نے امانتیں لینی چھوڑ دیں.اب بھی بعض امانتیں اگرچہ لوگ میرے پاس رکھواتے ہیں مگر میں انہیں اپنے پاس نہیں رکھتا بلکہ بنک میں جمع کرا دیتا ہوں اس لئے اب اگر مجھ سے کوئی شخص قرض مانگے تو سچائی سے میرے پاس یہ منذر ہوتا ہے کہ اپنا کیا دوسروں کا بھی میرے پاس روپیہ نہیں کیونکہ میرے لئے یہ مشکل ہوتی ہے کہ کوئی مصیبت زدہ میرے پاس آئے اور میں اس کی امداد سے قاصر رہوں.انہی مشکلات کی وجہ سے میں اب لوگوں کو جرات نہیں دلاتا کہ میرے پاس امانتیں رکھوا دیا کرو.ورنہ حضرت خلیفہ اول ہر ہفتہ درس وغیرہ میں فرما دیا کرتے تھے کہ روپیہ اپنے گھروں میں نہ رکھو بلکہ میرے پاس رکھا دیا کرو تا وہ محفوظ کرو تا وہ محفوظ رہے.ابتدائے خلافت میں میں بھی کہہ دیا کرتا تھا.اور اس طرح کافی رقم جمع ہو جایا کرتی تھی مگر اب میں اول تو امانتیں لیتا ہی نہیں اور اگر لوں بھی تو انہیں بنک
سال ۱۹۳۴ء خطبات محمود ۴۹ میں جمع کرا دیتا ہوں مگر چونکہ دوسروں کی ذمہ داری بھی مجھے پر ہے اور ہماری جماعت کا کثیر بلکہ اگر میں غلطی نہیں کرتا تو ننانوے فیصدی حصہ ایسا ہے کہ اسے حق ہی نہیں ہوتا کہ قرض لے.یا اگر حق ہوتا ہے تو جب روپیہ اسے ملتا ہے تو وہ اور جگہ خرچ کر دیتا ہے.اس لئے مجھے یہ نصیحت کرنے کی ضرورت پیش آئی.میں عام طور پر دیکھتا ہوں کہ اول تو قرض ایسی حالت میں لیا جاتا ہے جب قرض ادا کرنے کی اپنے اندر ہمت نہیں ہوتی.اور اگر کہیں خرج سے روپیہ آنے کی امید میں قرض لیا جاتا ہے تو جب روپیہ آجاتا ہے تو اور جگہوں پر کر دیا جاتا ہے اور دل میں خیال کر لیا جاتا ہے کہ جب قرض خواہ مانگنے آئے گا تو ہم کہیں گے ہم کیا کریں، ہمارے پاس روپیہ نہیں ہے.اور اگر زیادہ اصرار کرے گا تو کہہ دیں گے ہمارا مکان ہے میں ہزار اس کی لاگت ہے، یہ خرید لو اور اسی میں اپنا قرض وضع کرلو.چاہے اُس وقت وہ پانچ ہزار روپیہ کا ہی ہو.اب کون بیوقوف ہو گا جو دو ہزار روپیہ قرض وصول کرنے کے لئے اٹھارہ ہزار اور خرچ کرے.یا بعض دفعہ مکان بناتے وقت زیادہ خرچ ہوتا ہے مگر بعد میں قیمتیں گر جاتی ہیں اس صورت میں مکان خریدنے والے کو گھاٹا بھی ہو سکتا ہے.مگر مقروض سمجھتا ہے میں نے مکان پیش کر دیا ہے اسی جھگڑے میں ایک دو سال اور گزر جائیں گے حالانکہ یہ قرض دینے والے کا کام نہیں کہ وہ مکان خریدے یا نیچے بلکہ قرض لینے والے کا کام ہے کہ وہ جس طرح ہو قرض ادا کرے.مکان بیچنا ہے تو خود بیچے اور جس قیمت پر بکتا ہے فروخت کر کے قرض ادا کرے.غرض عدم ادائیگی کا نقص ایسا ہو گیا ہے کہ اس کی وجہ سے اب مجھے جرات ہی نہیں ہوتی کہ غریبوں کی مدد کے لئے قرض حسنہ کی تحریک کی جائے میں جانتا ہوں کہ اگر میں تحریک کروں تو کئی مخلص ایسے کھڑے ہو جائیں گے جو قرض دینے کے لئے تیار ہوں گے مگر آخر ساری ذمہ داری مجھے پر آجائے گی.وہ کہیں گے آپ نے وعظ کیا تھا اور ہم نے روپیہ دے دیا اب روپیہ لینے والے دیتے نہیں اب آپ ہی دلوائیے.کیونکہ قرض لینے والے ننانوے فیصدی میری تشریح کے مطابق ٹھگ ہوں گے اور گو وہ یہ بھی کہیں کہ ہماری نیت تھی کہ ہم روپیہ ادا کر دیں پھر بھی وہ الزام سے بری نہیں ہو سکتے.کیا اگر کوئی عمارت بنانا چاہے اور اسے بیس ہزار روپیہ کی ضرورت ہو مگر اس کے پاس صرف دس ہزار ہو.باقی دس ہزار کے متعلق ایک شخص اسے کسے کہ آپ عمارت شروع کریں، میں دس ہزار روپیہ دے دوں گا لیکن جب عمارت نامکمل صورت میں کھڑی ہو جائے اور وہ آکر شخص.
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء کہے کہ روپیہ دیجئے، بارش کا خطرہ ہے، عمارت گر جائے گی.تو وہ کہہ دے میری نیت تو ہے کہ آپ کو دس ہزار روپیہ دوں مگر پاس نہیں.تو کیا تم کہو گے کہ وہ بڑا مخلص ہے کیونکہ اس کی نیت تو ہے کہ وہ دس ہزار روپیہ دے.ہر شخص کہے گا کہ وہ دھوکا باز ہے اُس نے دھوکا ے کر اس کا روپیہ بھی برباد کرایا اور آپ پیچھے ہٹ گیا.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں اگر بعض لوگ آپ کے پاس آتے اور کہتے یا رسُول اللہ ! فلاں دشمن کے مقابلہ میں لشکر کشی فرمائیں.دس ہزار آدمی ہمارا آجائے گا اور جب رسول کریم تیار ہو کر باہر نکلتے تو دو چار آدمی بھیج دیتے اور کہتے ہماری نیت تو دس ہزار ہی بھیجنے کی تھی مگر ملے نہیں.کیا تم سمجھتے ہو کہ چونکہ دس ہزار کا انہوں نے وعدہ کیا، اس لئے بڑے مخلص سمجھے جاتے.نہیں بلکہ جتنی زیادہ انہوں نے اس رنگ میں نیت کی اُتنا وہ منافق اور دھوکا باز ثابت ہوئے.نیت وہ ہوتی ہے جس کے پورا کرنے کا یقین ہو.مگر قرض لینے والوں میں سے ننانوے فیصدی جانتے ہیں کہ ہم قرض ادا نہیں کر سکتے پھر بھی وہ قرض لیتے ہیں.یا نیت ادا کرنے کی کرتے ہیں مگر ایسی جو کبھی پوری نہ ہو.پس در حقیقت ان کی نیت بھی شیطانی ہوتی ہے.اسی طرح تجارت پیشہ لوگ ہیں.بیسیوں آدمی میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں.ہمارے پاس روپیہ ہے کہیں تجارت پر لگوادیجئے.ایک دفعہ جلسہ سالانہ پر ہی میں نے تقریر کی کہ اس قسم کے لوگ میرے پاس آتے رہتے ہیں.پندرہ ہیں ہزار روپیہ سالانہ جمع ہو جانا کوئی مشکل بات نہیں.جلسہ کے بعد میرے پاس تین آدمیوں کی دستخطی چٹھی پہنچی کہ بس روپیہ کا ہی سوال تھا، ہمیں روپیہ دیجئے تاکہ ہم تجارت شروع کریں اور وہ تینوں ایسے تھے کہ اگر میں بھی اُنہیں قرض دوں تو وہ ایک دمڑی تک اس میں سے واپس نہ کریں.ایک تو ان میں سے پچھلے دنوں بد دیانتی کی وجہ سے قید بھی ہو گیا ہے.یہ ایک ایسا نقص ہے جس نے سلسلہ کا نظام بہت حد تک تہہ و بالا کر رکھا ہے.اگر قرض ادا کرنے کی ہمت ہی نہیں تو کسی سے قرض لینے سے پیشتر ایسے شخص کا فرض ہے کہ لوگوں سے کہہ دے کہ میں کنگال ہوں، میری مدد کرو مگر جب وہ بغیر اپنے حالات پر غور کئے قرض لے لیتا ہے تو وہ فریبی ہے.مانگنا علیحدہ چیز ہے.اگر کوئی شخص سوال کرتا ہے تو اگر اس نے بغیر کسی اور ذریعہ سے کام لینے کے جلدی سے سوال کر دیا تو ہم کہیں گے یہ کم ہمت ہے اور اس میں اخلاق کی کمی ہے.مصائب آئے مگر وہ جلدی ان سے گھبرا گیا لیکن قرض لینے والے کو جبکہ وہ ادا کرنے کی طاقت ہی نہیں رکھتا ہم یہ نہیں
خطبات محمود.سال ۱۹۳۴ء کہیں گے کہ کم ہمت ہے بلکہ یہ کہیں گے کہ دھوکا باز ہے.ایسے لوگ مجلس میں بڑے فخر سے کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم سلسلہ سے تو نہیں مانگتے ہم تو لوگوں سے قرض لیتے ہیں حالانکہ جو سلسلہ سے مانگنے آتا ہے وہ اس سے ہزار درجہ بہتر ہوتا ہے جو ادا کرنے کے ذرائع مفقود ہوتے ہوئے قرض لیتا ہے کیونکہ مانگنے والا دھوکا نہیں دیتا مگر وہ دھوکا دیتا ہے.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ آئندہ سے اس طریق کو بند کرنا چاہیئے.قادیان میں بھی اور باہر بھی کثرت سے ایسے لوگ ہیں جو قرض لیتے اور پھر واپس نہیں کرتے.مگر کثرت سے بھی وہ مراد نہیں جو مخالف بعض دفعہ میرے اس قسم کے الفاظ سے لے لیتے ہیں کہ کم از کم جماعت کے ا۵ فیصدی لوگ ایسے ہیں.میرا اس قسم کے فقروں سے یہ مطلب ہوتا ہے کہ جماعت میں بیسیوں کی تعداد میں ایسے لوگ ہیں.یہی بات میں اِس وقت کہہ رہا ہوں کئی لوگ ایسے ہیں جن کا شغل ہی یہ ہے کہ وہ قرض لیتے ہیں اور پھر ادا کرنے کا نام نہیں لیتے.اس طریق پر وہ خود بھی بدنام ہوتے ہیں اور ان لوگوں کو بھی بدنام کرتے ہیں جو جائز طور پر قرض لیتے اور پھر مجبوری کی وجہ سے ادا نہیں کر سکتے.اگر مجبوریاں نہ ہوں تو وہ فوراً ادا کردیں.میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں اور خصوصاً ان لوگوں کو جنہوں نے میری جلسہ سالانہ کی تقریر کے مطابق سالکین میں نام لکھوائے ہیں.میں اس فکر میں ہوں کہ سالکین کے لئے ایسے قواعد وضع کئے جائیں کہ نہ تو یہ کام ایسا بو جھل ہو جائے کہ اپنی ذات میں ایک محکمہ بن جائے.اور نہ ایسا ہو کہ صرف نام کے ہی سالکین رہیں اور کام کوئی نہ کریں.میں ایسے قواعد سوچ رہا ہوں کہ بغیر کسی محکمہ پر خاص طور پر بوجھ ڈالنے کے دوست اپنی بھی اصلاح کریں اور دوسروں کی بھی اور امید کرتا ہوں کہ چند دن تک ان کو شائع کر سکوں گا.لیکن میں ان لوگوں کے جنہوں نے نے نام پیش کئے ہیں پہلا کام یہ سپرد کرتا ہوں کہ وہ جماعت کی نگرانی کریں اور عام طور پر یہ کریں کہ جسے یقینی طور پر روپیہ کی آمد کی امید نہ ہو وہ کسی سے قرض نہ لے.سرے یہ بھی نصیحت کریں کہ جس شخص کو یقینی طور پر آمدنی کی کہیں سے امید نہ ہو اسے لوگ قرض دیا بھی نہ کریں.یہ بھی ایک نیکی ہے جس کا انہیں ثواب ملے گا.اب تو یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ ایک شخص کا مکان دو روپیہ ماہوار آمد کا ہوتا ہے مگر وہ بہت سا روپیہ قرض لے کر بیس روپیہ ماہوار کرایہ میں اسے رہن رکھ دیتا ہے.روپیہ دینے والا خوش ہوتا ہے کہ مجھے بہت سا روپیہ مل جائے گا حالانکہ وہ ہیں روپے صرف نام کے ہوتے ہیں، ادا ایک بھی ہیں
خطبات محمود ۵۲ سال ۱۹۳۴ء نہیں ہوتا.ابھی پچھلے دنوں ایک دوست نے مجھے لکھا کہ میرے پاس پانچ چھ ہزار روپیہ ہے اسے میں ایسی جگہ لگانا چاہتا ہوں جہاں سے پچاس ساٹھ روپیہ ماہوار آمد ہو جائے حالانکہ جائداد پر اس سے آدھا منافع بھی نہیں مل سکتا مگر انہوں نے لکھا مجھے ایسے لوگ ملتے تو ہیں مگر میں چاہتا ہوں آپ کی معرفت کام کروں.مگر بات یہ ہے کہ انہیں ایسے لوگ مل رہے تھے جو پچاس ساٹھ کہنے کو تو کہتے تھے مگر ادا ایک بھی نہ کرتے اور نہ صرف انہیں منافع حاصل نہ ہوتا بلکہ اصل روپیہ بھی کھو بیٹھتے کیونکہ ایسے لوگ جانتے ہیں کہ آخر مقدمہ قضاء میں آتا ہے اور قضاء والے جھٹ کہہ دیں گے کہ یہ سود ہے.اور اگر مکان پر قبضہ دلایا جائے تب بھی پانچ چھ ہزار میں.اگر آٹھ سو روپیہ کا مکان کسی شخص کو دینا پڑے تو اسے تو فائدہ ہی رہا.پس ایسے لوگوں کو بھی سمجھائیں کہ بلا سوچے سمجھے دوسروں کو قرض نہ دیا کریں.پھر تیسری بات یہ ہے کہ جب کسی شخص کے متعلق کوئی ایسا معاملہ دیکھیں اور محسوس کریں کہ وہ دھوکا بازی کر رہا ہے تو جماعت میں اس کی دھوکا بازی اور فریب کاری کو ظاہر کریں.پس یہ تین کام ہیں.اول یہ کہ بجائے اپنے کسی بھائی کو بدنام کرنے کے پہلے عام رنگ میں نصیحت کی جائے کہ وہ لوگ جنہیں کہیں سے روپیہ آنے کی امید نہ ہو وہ قرض نہ لیا کریں.دوسرے روپیہ دینے والوں کو نصیحت کریں کہ ایسے لوگوں کو قرض دینے سے اجتناب کیا کریں.اور تیسری بات یہ ہے کہ دھوکا باز کا فریب جماعت میں ظاہر کریں تا لوگ اس سے بچ کر رہیں.پھر ہمیشہ مظلوم کی تائید کرنی چاہیئے.مگر غلطی سے لوگ مظلوم غریب کو قرار دیتے اور سمجھ لیتے کہ امیر ہی ظالم ہے حالانکہ اگر ایک کروڑ پتی کا ایک روپیہ بھی کسی غریب نے دینا ہے اور وہ دینے کی طاقت رکھتا ہوا نہیں دیتا تو کروڑپتی مظلوم ہے اور غریب ظالم.اگر یہ تین کام ہماری جماعت کے لوگ کرنا شروع کردیں تو میں امید کرتا ہوں کہ چھ مہینہ سال تک اس حد تک اصلاح ہو جائے گی کہ میں دلیری سے لوگوں سے یہ کہہ سکوں گا کہ غریبوں اور حاجت مندوں کو قرض دیا کرو.پس وہ لوگ جنہوں نے میرے پاس اپنے نام بھجوائے ہیں.ان کے سپرد فی الحال میں یہ کام کرتا ہوں.اور امید کرتا ہوں کہ وہ مہینہ دو مہینہ کے بعد مجھے اپنی رپورٹ بھیجا کریں گے ہم نے اس اس طرح اصلاح کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ میرے دل میں بھی ان کے لئے دعا کی تحریک ہو اور یہ بھی مجھے معلوم ہوتا رہے کہ وہ سچ مچ کام کر رہے ہیں صرف نام ہیں.
خطبات محمود ۵۳ سال ۱۹۴۳۴ء لکھوا کر ہی نہیں بیٹھ گئے.میں سمجھتا ہوں اگر اس طریق پر کام کیا گیا تو غرباء کی مصیبت ایک دن دور ہو سکے گی.اور جماعت بھی دلیری سے ان کی مدد پر تیار رہے گی.اور اس طرح سود کی لعنت سے بھی جماعت کا ایک حصہ خدا تعالیٰ کے فضل سے محفوظ ہو جائے گا.(الفضل ۱۵- فروری ۱۹۳۴ء) له البقرة : ۲۸۱
خطبات محمود ۵۴ L سال ۱۹۳۴ء سالکین کو روحانی مراتب کے حصول کے متعلق ایک اہم مدایت فرموده ۲۳ فروری ۱۹۳۴ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.میں نے غالباً پچھلے سے پچھلے جمعہ میں معاملات کی درستی کے متعلق ایک خطبہ پڑھا تھا اور اس میں خصوصیت کے ساتھ ان لوگوں کو توجہ دلائی تھی جنہوں نے میری تحریک کے مطابق اس امر پر آمادگی کا اظہار کیا کہ وہ اپنی بھی اصلاح کریں گے اور جماعت کے دوسرے افراد کی اصلاح کی کوشش بھی کریں گے.اسی بارے میں میں آج بعض مزید باتیں بیان کرنی چاہتا ہوں.تکمیل یا کمال ایک ایسا لفظ ہے کہ ان دونوں کا مفہوم ہمیشہ نسبتی رنگ میں ہوا کرتا ہے اور گو ہر حقیقت جو ہم جانتے ہیں یا ہر لفظ جس کا ہمیں علم ہے نسبتی ہی ہوتا ہے مگران الفاظ کے متعلق خصوصیت کے ساتھ یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ یہ نسبتی امور ہوتے ہیں.اور ایک چیز جو اپنے سے ادنی چیز کی نسبت اعلیٰ ہوتی ہے، وہ اپنے سے اعلیٰ چیز کی نسبت ناقص ہوتی ہے.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی کے حضور بڑے سے بڑا انسان خواہ وہ نبی یا رسول ہی کیوں ہو، اپنی کمزوریوں پر استغفار کرتا ہے.ایک نادان اور بیوقوف شخص استغفار کو اپنی حالت پر قیاس کرکے قابل اعتراض قرار دیتا ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ استغفار اللہ تعالی کی ذات کے مقابلہ میں ہوتا ہے.کمال کے کیا معنی ہوتے ہیں؟ روحانی اور مذہبی زبان میں کمال کے معنی یہ ہوا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات انسان کے آئینہ قلب میں منعکس ہو جائیں.اور نقص کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے انعکاس میں کمی آجائے یا کمی باقی رہ جائے.
خطبات محمود ۵۵ سال ۱۹۳۴ء ہم یہ تسلیم کر سکتے ہیں کہ ایک انسان اپنے مقام کے لحاظ سے صفات الہیہ کو کامل طور پر ظاہر کر رہا ہو جس طرح ایک تیز نگاہ والا انسان اگر دو میل کے فاصلہ سے ایک چیز کو اس طرح دیکھ لے جس طرح اتنے فاصلہ سے اسے دیکھا جاسکتا ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کی آنکھ میں اس چیز کا پورا نقشہ آگیا لیکن جب ہم یہ کہیں گے تو اس کے یہ معنی نہیں ہوں گے کہ چیز کا اصل نقشہ پوری طرح اس کی آنکھ میں آگیا بلکہ یہ ہوں گے کہ دو میل کے لحاظ جس قدر نقشہ آسکتا تھا وہ آگیا.اب اگر وہی چیز ڈیڑھ میل کے فاصلہ پر آجائے تو آنکھ اسے پہلے سے زیادہ نمایاں صورت میں دیکھے گی.مگر دو میل والی حالت ناقص نہیں کہلائے گی کیونکہ اس کے لئے اتنا ہی امکان تھا.پس اگر اصل چیز دیکھی جائے گی تو اس کے لحاظ سے آنکھ کا یہ نقص ہوگا کہ وہ اسے پورے طور پر نہ دیکھ سکی.اور اگر یہ دیکھا جائے گا کہ ڈیڑھ یا دو میل کے فاصلہ سے جس حد تک آنکھ دیکھ سکتی تھی اس قدر اُس نے دیکھ لیا تو یہ آنکھ کا کمال ہوگا.یہی حال استغفار کا ہے.انبیاء اپنی ذات میں کامل ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالی کے جلال اور جبروت کو دیکھ کر وہ مزید ترقیات کی خواہش کرتے ہیں.گویا استغفار ان کے کسی نقص پر دلالت لحاظ پرو ہو نہیں کرتا بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کے مقابلہ میں ہوتا ہے.مثلاً ایک کنواں کو ہاتھ گہرا ہے اگر کوئی شخص اُس سے پانی نکالتا ہے تو اسے یقینا کچھ دیر لگے گی لیکن اگر وہ پوری انسانی طاقت سے کام لے کر اتنی جلدی پانی نکال لیتا ہے جس حد تک جلدی نکالا جاسکتا ہے تو اس سے وہ کامل ہوگا.لیکن اگر دوسرا شخص ایک اور کنویں سے جو پچاس ہاتھ گہرا ہو زیادہ جلدی پانی نکال لیتا ہے تو پانی جلدی نکلنے کے لحاظ سے پہلے میں نقص سمجھا جائے گا مگر یہ حالات کی طرف منسوب ہوگا.یہی چیز ہے جس کی وجہ سے انبیاء علیهم السلام یا وہ صلحاء و اولیاء جو اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں آجاتے ہیں، خواہ وہ ابتدائے عمر میں اس کی حفاظت میں آجائیں یا آخر عمر میں استغفار کرتے ہیں.یہ استغفار اُن کی غفلتوں کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ حالات کے لحاظ سے ہوتا ہے کیونکہ جب وہ خدا تعالی کی بلند ترین شان کو دیکھتے ہیں تو اُس کی عظمت و شان کے مقابلہ میں اپنے آپ میں نقص محسوس کرتے اور استغفار کرتے ہیں.جس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ خدا کے اور زیادہ قریب ہونا چاہتے ہیں.کنواں اگر سو ہاتھ گہرا ہو اور کوئی انسان اُس کی تہہ تک پہنچنا چاہے تو وہ پہنچ سکتا ہے.اگر ایک وقت سو ہاتھ ہو تو دوسرے وقت جبکہ انسان کنویں میں اُتر رہا ہو توے پھر اسی اور پھر ستر ہاتھ رہ جائے گا.یہاں
خطبات محمود ۵۶ سال ۱۹۳۴ء تک کہ کچھ بھی فاصلہ باقی نہیں رہے گا کیونکہ سو ہاتھ آخر محدود تعداد ہے.لیکن اللہ تعالی کی صفات غیر محدود ہیں اس لئے خدا تعالیٰ کی جبروت کے مقابلہ میں انسان کسی وقت بھی استغفار سے بے اعتنائی نہیں کر سکتا.اسی مسجد کا ذکر ہے.میں جمعہ کی نماز کے بعد بیٹھا ہی تھا کہ ایک مسافر آگے بڑھا اور اس نے کہا میں ایک سوال کرنا چاہتا ہوں اگر اجازت ہو تو پوچھوں.میں نے کہا.پوچھیں.کہنے لگا کشتی میں انسان کس لئے سوار ہوتا ہے؟ جو نمی اُس نے یہ سوال کیا معاً میرے ذہن میں یہ بات آگئی کہ یہ شخص ان نام نہاد صوفیوں کی غلط اصطلاحات کے چکر میں پھنسا ہوا ہے جنہوں نے یہ ڈھکوسلا بنا رکھا ہے کہ ایک شریعت ہوتی ہے اور ایک طریقت - جب تک انسان دائرہ شریعت میں رہتا ہے اُس وقت تک تو اُسے عبادت کی ضرورت رہتی ہے مگر جب وہ طریقت کے مقام پر پہنچ جاتا ہے، اسے کسی عبادت کی ضرورت نہیں ہے رہتی.میں نے سمجھ لیا کہ اگر میں اسے یہ کہوں گا کہ کشتی میں بیٹھنے سے انسان کی غرض ہوتی ہے کہ وہ کنارے تک پہنچ جائے.تو یہ شخص فوراً کہہ دے گا کہ نماز روزہ اسی لئے ہیں کہ انسان خدا تک پہنچ سکے جب خدا مل گیا تو پھر نماز روزے کی ضرورت کیا ہے؟ کیا منزل مقصود پر پہنچ کر بھی کوئی شخص کشتی میں بیٹھا رہتا ہے یا دوست کے گھر پہنچ کر بھی سواری کو نہیں چھوڑتا.پس اُس کے سوال کرتے ہی یہ تمام باتیں مجھ پر کھل گئیں اور میں نے اُسے صرف یہ جواب دینے کی بجائے کہ کشتی میں انسان اس لئے سوار ہوتا ہے کہ وہ کنارے پر پہنچے ، یہ جواب دیا کہ کشتی میں سوار ہونے کی اصل غرض کنارے پر پہنچنا ہے پس اگر دریا سے پار ہوتا ہے تو جب کنارہ آئے اتر جائے لیکن اگر وہ بے کنار سمندر ہے تو پھر جہاں اُترا ڈوبا.پس اللہ تعالٰی ہمارا ایک ایسا مقصود ہے جس کا قرب کبھی ختم نہیں ہو سکتا اسی لئے اس کی ذات کو مد نظر رکھتے ہوئے استغفار کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ہے اور اس لحاظ سے ہر روحانی انسان ایک طرح کامل ہے اور ایک طرح ناقص.جب ہم یہ دیکھیں گے کہ کسی انسان نے اپنی پوری قوتوں سے اللہ تعالیٰ کا قرب جتنا وہ حاصل کر سکتا تھا، حاصل کرلیا.اور پورے زور سے اپنے دائرہ کے اندر جس مقام پر وہ پہنچ سکتا تھا، پہنچ گیا تو ہم کہیں گے کہ وہ کامل ہے گو کے لحاظ سے فرق ہو جائے گا.اور گو اللہ تعالیٰ کی ذات کی نسبت سے یہ شخص بھی استغفار سے غافل نہیں ہو سکتا.اب تک اللہ تعالٰی کے جس قدر بھی انبیاء آئے' ان میں سے کسی کو بھی ناقص نہیں کہتے.ہم یہ نہیں کہتے کہ موسیٰ علیہ السلام ناقص تھے.وہ بھی کامل مدارج
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء تھے اور اپنی طاقت کے لحاظ سے جس قدر کام کر سکتے تھے اور جتنا اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ، کرسکتے تھے، وہ انہوں نے حاصل کرلیا.اسی طرح رسول کریم ال بھی کامل تھے.مگر رسول کریم ﷺ نے اپنی طاقتوں کے مطابق اللہ تعالی کا قرب حاصل کیا اور اس لحاظ سے مدارج میں فرق ہو گیا.ورنہ حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسی علیہ السلام اور باقی تمام انبیاء علیہم السلام کامل تھے.اور باوجود اس کے کہ رسول کریم ﷺ سب انبیاء سے بڑھ کر ہیں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ باقی انبیاء ناقص ہیں بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ای افضل الرسل ہیں.ہاں کامل سب نبی ہیں.اسی رنگ میں، صدیق شہید اور صالحین کا مقام ہوتا ہے.یہ تمام اپنے اپنے دائرہ میں ایک نقطہ کمال تک پہنچے ہوئے ہوتے ہیں اور اگر کوشش کریں تو دوسرا مقام بھی حاصل کر سکتے ہیں.ایک دوسری جماعت کے طالب علم سے جب پوچھا جاتا ہے کہ ۱۰+۱۵+۱۶ کتنے ہوتے ہیں.اگر وہ ۴۱ کہہ دے تو اسے انعام دیا جاتا ہے.لیکن انٹرنس میں پڑھنے والا لڑکا اس سے بہت زیادہ باتیں حساب کی بتاتا مگر فیل ہو جاتا ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ دوسری جماعت کے لڑکے کا مقام کمال اور ہے اور دسویں جماعت کے لڑکے کا مقام کمال اور دوسری جماعت والا دسویں جماعت کے فیل شدہ لڑکے کے مقابلہ میں جاہل ہے.مگر اپنی جماعت کے دوسرے ساتھیوں کے مقابلہ میں اگر زیادہ ہوشیار ہو تو کامل ہے.اور جب وہ سوال حل کرلیتا ہے تو ہم اُسے فرسٹ کہتے ہیں بلکہ انعام کا مستحق قرار دے دیتے ہیں لیکن جب ہم اُسے ٹرسٹ کہتے ہیں تو اس کا یہی مطلب ہوتا ہے کہ وہ اپنے مقام کے دوسرے لڑکوں کے مقابلہ میں کامل ہے.یہی حالت روحانیات کے مقام میں انبیاء سے نچلے درجہ کے لوگوں کی ہوتی ہے.جس طبقہ میں وہ ہوتے ہیں اس میں تو وہ کمال حاصل کر لیتے ہیں لیکن اگلے طبقہ کے لحاظ سے ناقص ہوتے ہیں اور جب تک وہ مزید تبدیلی پیدا نہ کریں اور ایک جماعت سے دوسری جماعت میں ترقی نہ کریں، اُس وقت تک دوسرا کمال حاصل نہیں ہو سکتا.مگر جماعت کی ترقی کس طرح ہوا کرتی ہے؟ کبھی تم نہیں دیکھو گے کہ دوسری جماعت میں پڑھتے پڑھتے ہی ایک لڑکے کو انٹرنس کی لیاقت حاصل ہو جائے بلکہ اس کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ دوسری سے ترقی کر کے تیسری میں جائے اور تیسری سے چو سے چوتھی میں یہاں تک کہ دسویں جماعت تک پہنچ جائے لیکن اگر وہ اس طرح نہ کرے اور دوسری ہی جماعت میں دس سال بیٹھا رہے تو اسے انٹرنس کی لیاقت حاصل نہ ہوگی.پس ترقی ہمیشہ قدم آگے بڑھانے
خطبات محمود ۵۸ سال ۱۹۳۴ء سے ہوتی ہے نہ کہ ایک مقام پر ٹھرے رہنے سے.میں سمجھتا ہوں ہماری جماعت کے بعض احباب بھی اپنی روحانی ترقی میں بجائے قدموں سے اندازہ کرنے کے سالوں سے اندازہ کرتے ہیں.وہ کہا کرتے ہیں کہ ہمیں دس یا بیس سال گزر گئے مگر ہمیں مزید روحانی ترقی حاصل نہیں ہوئی.حالانکہ اصل سوال یہ نہیں کہ کتنے سال ہوگئے بلکہ یہ ہے کہ انہوں نے سال یا چھ مہینے میں کس قدر روحانی ترقی کے لئے جدوجہد کی.اگر وہ اس رنگ میں اپنی روحانی ترقی کا اندازہ کرتے رہیں تو انہیں ایک کمال کے بعد دوسرا کمال حاصل ہوتا چلا جائے گا اور اگر نہیں کریں گے تو خواہ کتنے سال گزر جائیں وہ ایک ہی مقام پر کھڑے رہیں گے.اس غرض کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے یہ تحریک کی تھی کہ دوست سالکین میں نام لکھوائیں.جس سے میرا یہ مقصد تھا کہ جماعت میں ایسے لوگ پیدا ہو جائیں جنہیں روحانیت میں ترقی کرنے کی فکر ہو.ورنہ یہ مطلب نہیں تھا کہ میں کوئی خاص گر یا وظیفہ بتادوں گا جس کے ماتحت وہ ایک دم روحانی مدارج طے کرلیں گے بلکہ جماعت میں یہ احساس پیدا کرانا مد نظر تھا کہ وہ ترقی کرے اور ترقی بھی طبیعی طریق کے ماتحت ہو مثلاً طبیعی طریق یہ ہے کہ ایک قدم کے بعد دوسرا قدم اُٹھایا جائے.اور علم میں طبیعی ترقی اس طرح ہوتی ہے کہ ایک کتاب کے بعد دوسری کتاب پڑھی جائے.اس طرح اگر کوئی شخص اپنی روحانی اصلاح کرتا اور اس طبعی طریق کو مد نظر رکھتا ہے.پہلے ایک نقص کو دور کرتا اور جب ) وہ دور ہو جاتا ہے تو دوسرا نقص مٹانے کی کوشش کرتا ہے اور تدریجاً روحانی مقامات کو طے کرتا چلا جاتا ہے تو وہ کامیاب ہو جاتا ہے.لیکن اگر کوئی شخص بجائے قدم بقدم چلنے کے سالها سال ایک ہی مقام پر ٹھہرا رہے اور خیال کرے کہ کوئی شخص اُسے اُٹھا کر معراج کمال تک پہنچا دے گا تو یہ نہیں ہو سکتا.پس میرے یہ کہنے کا کہ سالکین میں اپنے نام لکھائے جائیں یہ مطلب تھا کہ احباب اپنے اپنے نقائص کا پتہ لگائیں اور اُن کی اصلاح کریں.اور نقائص معلوم کرنے کے دو طریق ہوتے ہیں.اول یہ کہ اپنے نفس کا محاسبہ کیا جائے اور دیکھا جائے کہ میرے اندر کیا کیا نقائص ہیں.دوسرے اس امر پر غور کیا جائے کہ غیر اس کے متعلق کیا کہتے ہیں.پھر غیروں میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں.ایک منصف مزاج دوسرے غیر منصف، غیر منصف انسان بہت جھوٹ بولتا ہے مگر کبھی اس کی بات میں بھی سچائی ہوتی ہے.اور منصف مزاج انسان کی بات سے تو بہت کچھ فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے.باقی اگر صرف اپنی.
سال ۱۹۳۴ خطبات محمود غلامی ۵۹ ذات کا محاسبہ آپ کیا جائے تو اس میں بہت سے انسان غلطی کھا جاتے ہیں.حضرت خلیفہ اول کا ایک لطیفہ مشہور ہے.انہوں نے ایک بوڑھے آدمی کے متعلق جس پر انہیں بہت اظن تھا سنا کہ وہ گالیاں دیتا اور سخت بد زبانی کرتا ہے.آپ نے اُسے بلایا.اور فرمایا مجھے سن کر تعجب ہوا ہے کہ آپ کو سخت کلامی کی عادت ہے، اگر یہ نقص ہو تو اسے دور کرنا چاہیے.وہ بے ساختہ ایک نہایت ہی گندی گالی دے کر کہنے لگا کون خبیث کہتا ہے کہ میں گالیاں دیتا ہوں.حضرت خلیفہ اول فرمانے لگے.مجھے معلوم ہو گیا یہ شکایت کرنے والے کی تھی.آپ کو گالیاں دینے کی عادت نہیں.تو انسان اپنے متعلق چونکہ بعض دفعہ صحیح اندازہ نہیں کر سکتا، اس لئے اگر کوئی غیر کسی نقص پر اطلاع دے تو بجائے اس سے لڑنے کے انسان کو چاہیے کہ وہ غور کرے اور سوچے کہ آیا مجھ میں یہ نقص پایا جاتا ہے یا نہیں.اگر وہ ہر بات پر اس طرح غور کرنے کا عادی ہو جائے گا تو اپنی اصلاح میں ایک دن ضرور کامیاب ہو جائے گا.کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ دشمن کے منہ سے ایسی باتیں نکل جاتی ہیں جو واقعہ میں درست ہوتی ہیں اور میں تو عموماً دشمنوں کی باتوں سے ہی اپنے سلسلہ کی ترقی کا اندازہ لگایا کرتا ہوں.پس بہترین طریق یہ ہے کہ اپنے خلاف اگر کسی سے کوئی بات سنی جائے تو انسان رنج نہ کرے بلکہ سن لے اور اس پر محور کرے.اگر غور کرنے کے بعد اسے معلوم ہو کہ یہ نقص مجھ میں نہیں پایا جاتا تو غور کرنے سے اس کا کیا نقصان ہو جائے گا.مثلاً اگر کوئی شخص کہے کہ تم جھوٹ بولا کرتے ہو تو غور کیا جائے کہ واقعی میں جھوٹ بولا کرتا ہوں یا نہیں.اگر جھوٹ بولنے کی عادت نہیں تو اسے خوشی ہوگی کہ مجھ پر غلط اتمام لگایا گیا.اور اگر یہ بات صحیح ہوگی تو غور کرنے پر اسے اپنی اصلاح کا موقع میسر آجائے گا اور وہ سمجھ لے گا کہ جھوٹ کی بعض ایسی بھی ہوتی ہیں جنہیں گو میں غلطی سے جھوٹ نہیں سمجھتا مگر لوگ انہیں جھوٹ سمجھتے ہیں.پس کسی کی بات پر بُرا نہ منایا جائے بلکہ اس سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی جائے.ہاں بعض جگہ بُرا منانا بھی ضروری ہوتا ہے مثلاً طالب علم جب استاد کو کسی نقص کی طرف توجہ دلائے تو اس لحاظ سے کہ ادب اور نظام کا تقاضا ہے کہ شاگرد بے باک نہ ہو، اُستاد کا فرض ہے کہ وہ اسے ڈانٹے لیکن گھر میں آکر اس کی بات پر بھی غور کرے اور سوچے کہ آیا نقص مجھ میں پایا جاتا ہے یا نہیں اور اگر پایا جاتا ہو تو اصلاح کرلے.گویا دونوں فرائض کو ادا کرے.ایک فرض کے مطابق وہ طالب علم کو ڈانٹ دے.اور دوسرے کے مطابق سوچ لے
خطبات محمود ۶۰ سال ۱۹۳۴ء کہ شاید طالب علم کی بات میں سچائی پائی جاتی ہو.لیکن یہ ضروری بات ہے کہ جب کسی کو اس کے عیب سے اطلاع دی جائے تو اس میں اس کی تحقیر مد نظر نہ ہو اور نہ اسے لوگوں میں بدنام کیا جائے بلکہ علیحدگی میں اسے سمجھایا جائے.اور اگر علیحدگی میں سمجھانے پر بھی وہ بڑا مانے تو پھر اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہیئے.لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ بعض اوقات آپ کی رائے غلط ہو.آپ ایک شخص میں کوئی عیب سمجھتے ہوں حالانکہ حقیقت میں وہ عیب اس میں موجود نہ ہو.مگر چونکہ آپ جو کچھ دوسرے سے کہیں گے خیر خواہی اور نیک نیتی سے کہیں گے فتنہ انگیزی آپ کا مقصد نہیں ہوگا اس لئے آپ کو بھی ثواب ہو جائے گا.اور اگر دوسرا شخص آپ کی بات سن لے گا تو اس کے لئے بھی مفید ہوگا کیونکہ اگر نقص ہوگا تو اصلاح کرے گا اور اگر نہیں ہو گا تب بھی اس خیال سے استغفار کرے گا کہ شاید مجھے کسی اور قصور کی بناء پر یہ اللہ تعالی کی طرف سے تنبیہہ ہوتی ہے.یہ طریق ہے جس کے ماتحت سالکین کو کرنا چاہیئے.اول اپنے نفس کا آپ محاسبہ کریں اور پھر دوسروں کی رائے سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں.مگر اس بارے میں یہ امر یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ کسی انسان کے عام اس حالات دیکھ کر نیک نیتی سے جو رائے پیدا ہو جائے وہ بیان کرنی چاہیئے.تجنس اسلام میں سخت منع ہے اے.جو نقص آپ ہی آپ سامنے آجائے، تو اس کے متعلق محبت اور پیار سے دوسرے کو سمجھایا جائے اور کہہ دیا جائے کہ مجھے آپ میں یہ نقص نظر آیا ہے.ممکن ہے اس میں میری غلطی ہو مگر چونکہ میرا اخلاقی فرض تھا کہ آپ کو بتا دیتا لئے آپ تک میں یہ اطلاع پہنچاتا ہوں بدنیتی سے نہیں بلکہ نیک نیتی اور اخلاص سے میں یہ بات کہہ رہا ہوں.ہر انسان میں کمزوریاں ہوتی ہیں اور اپنے متعلق بھی مجھے یقین ہے کہ مجھ میں بیسیوں قسم کی کمزوریاں پائی جاتی ہیں اور میں انہیں دور کرنے کی کوشش بھی کرتا ہوں لیکن آپ کے متعلق میرے دل میں یہ احساس ہے کہ آپ میں فلاں نقص ہے ممکن ہے یہ غلط ہو لیکن اگر اس میں کسی حد تک صحت پائی جاتی ہو تو مجھے توقع ہے کہ آپ اسے دور کرنے کی کوشش کریں گے.میں نے دیکھا ہے بیسیوں آدمی مبالغہ کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں.وہ جب بھی بات کرتے ہیں اصل واقعہ سے بہت بڑھا کر بیان کرتے ہیں لیکن آجکل چونکہ یہ رواج ہوچکا ہے کہ جب کوئی شخص بات کرے تو اسے خاموشی سے سن لیا جائے، اس لئے کوئی انہیں نہیں روکتا حالانکہ ہر شخص جانتا ہے کہ فلاں اپنی باتوں میں مبالغہ
خطبات محمود 41 سال ۱۹۳۴ء کرنے کا عادی ہے.اور اگر کبھی کوئی شخص ہمت کر کے اسے کہہ دے کہ یہ بات یوں نہیں بلکہ یوں ہوئی تھی ممکن ہے اس میں میری غلطی ہو لیکن مجھ پر اثر یہی ہے کہ آپ بات کرتے وقت بہت مبالغہ سے کام لیتے ہیں تو کئی لوگوں کی اصلاح ہو سکتی ہے.مبالغہ جھوٹ کا پہلا قدم ہوتا ہے اس لئے یہ عیب بھی دور کرنے کے لائق ہے.اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے دوسرے کا عیب اس رنگ میں بیان کیا جائے کہ اسے محسوس ہو کہ میری تذلیل نہیں کی جارہی بلکہ خیر خواہی سے مجھے ایک بات کہی جارہی ہے اور اس عیب کا بیان کرنا خود اس کیلئے شرمندگی کا باعث ہو رہا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ میں عیب بیان کرکے اپنے آپ کو دکھ پہنچا رہا ہوں.ایسی حالت میں اگر دوسرا شخص بُرا بھی منائے تو نصیحت کرنے والا خدا تعالیٰ کے حضور گنہگار نہیں ہو گا.له الحجرات: ١٣ (الفضل یکم مارچ ۱۹۳۴ء)
خطبات محمود ۶۲ ٨ ابتلاؤں کے دن (فرموده ۲ مارچ ۱۹۳۴ء) سال ۴۱۹۳۴ تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.الہی سلسلوں پر وقتاً فوقتاً ایسے ابتلاء آتے رہتے ہیں کہ جو بظاہر کچل دینے والے اور تباہ کر دینے والے ہوتے ہیں لیکن مومنوں کے استغفار کے نتیجہ میں اور معیتِ نبوت کی برکت سے اللہ تعالی کے فضل ایسے رنگ میں نازل ہوتے ہیں کہ نظر آنے والے شدید طوفان ایک حباء کی طرح اُڑ جاتے ہیں.مگر یہ حفاظت اور بچاؤ ایسا ہی ہوتا ہے جیسے کسی کے سر کے پاس سے بلکہ اس کی جلد کو چھیدتی ہوئی گولی اس طرح گزر جائے کہ ایک چاول بھر اس کے مقام کا بدل جانا اس شخص کے لئے ہلاکت کا موجب ہو سکتا ہو.یہ حفاظت اور نجات ایسے باریک فرق سے ہوتی ہے کہ جس کا خیال کر کے بھی انسان کا دل کانپ جاتا ہے.اس کے متعلق مجھے اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد آگیا.جب میں چھوٹا تھا تو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خواہش ظاہر کی کہ مجھے ہوائی بندوق لے دیں چنانچہ آپ نے مجھے بندوق منگوادی.اس زمانہ میں یہاں کالج کی جماعتیں کھلی ہوئی تھیں.اُن دنوں کالج کے لئے ایسے شرائط نہ تھے جیسے آج کل ہیں.یہاں انٹرنس کے بعد ایف اے کی کلاسیں بھی جاری تھیں.ایک طالب علم جو آب ڈاکٹر ہیں ایف اے کی کلاس میں پڑھتے تھے اور میرے ساتھ اُن کا بڑا تعلق تھا.شکار کا شوق اُن کو بھی تھا اور مجھے بھی.ایک دن وہ اصرار کے ساتھ مجھے شکار کیلئے لے گئے.ہم قادیان سے باہر چلے گئے مگر اُس دن کوئی جانور اس بندوق سے نہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ تو مرا - بندوق ہوائی تھی اور کوئی ایسی طاقتور نہ تھی لیکن اس بندوق سے بھی بعض اوقات جانور مرجاتے ہیں اگر چھرہ لگ جائے اور بعض اوقات لگنے کے باوجود بھی اُڑ جاتے ہیں.اس دن ایسا اتفاق ہوا کہ جن کے چھترہ لگا وہ بھی اُڑ گئے اور جن کے نہ لگا انہوں نے تو اُڑنا ہی تھا.جب ہم واپس آرہے تھے تو اس دوست نے نہایت حقارت سے کہا کہ یہ بھی کوئی بندوق ہے.اگر - میری آنکھ پر لگے تو بھی قطعا کوئی نقصان نہ ہو.میں نے کہا یہ بندوق معمولی سہی مگریہ مگر یہ بھی تو مبالغہ ہے اگر آنکھ ضائع نہ ہو تو کم سے کم چوٹ تو ضرور آئے گی.مگر وہ کہنے لگے کہ ہر گز چوٹ نہیں لگ سکتی، لو مارو.میں نے بہتیرا ٹالا اور کہا کہ یہ بندوق خواہ کتنی بے ضرر سہی مگر آنکھ بھی تو بہت نازک چیز ہے.مگر وہ ایسے پیچھے پڑے کہ کہا میں چیلنج کرتا ہوں، مار کر دیکھ لو.میرا بھی بچپن تھا.میں نے دس پندرہ گز پر کھڑے ہو کر ان کی آنکھ کا نشانہ لگایا.چھترہ کنپٹی پر لگا اور اگرچہ زخم تو نہ ہوا مگر معلوم ہوا ان کے چوٹ ضرور آئی.اس کے بعد وہ میرے ساتھ چل پڑے اور کہنے لگے آپ نے بڑا ظلم کیا.اگر میری آنکھ میں لگ جاتا تو کیا ہوتا.میں نے کہا آپ خود ہی تو کہتے تھے اور چیلنج کرتے تھے کہ مارو.وہ مجھ سے عمر میں بڑے تھے.مگر کہنے لگے میری تو یہ بیوقوفی تھی کہ میں نے زور دیا مگر آپ نے بھی مار ہی دیا.اگر لگ جاتا تو کیا ہوتا.میں نے کہا اچھا جانے دو لگا تو نہیں مگر وہ سارا راستہ خاموش رہے.اور جب میں ان کو ہنسانے کی کوشش کرتا چونکہ وہ میرے دوست تھے تو وہ یہی کہتے کہ اگر صرف آدھ چاول کے برابر نشانہ ادھر لگتا تو کیا ہوتا اور اس کے بعد بغیر کسی اور واقعہ کے میرے ساتھ ان کے تعلقات آہستہ آہستہ کمزور ہوتے گئے اور گو ہم میں اختلاف کبھی نہ ہوا مگر دوستانہ رنگ بدلتا ہوا کم ہو گیا.محض اس لئے کہ انہیں یہ خیال ہو گیا کہ اگر نشانہ لگ جاتا تو کیا ہوتا.یہ واقعہ سالہا سال کے بعد آج مجھے یاد آیا ہے جو میں نے یہ بتانے کے لئے سنادیا ہے کہ کسی خطرناک چیز کے اس قدر قریب سے گزرنے پر کہ انسان بال بال بچ سکے، اس کی ہیبت دل پر ضرور باقی رہتی ہے.بعض اوقات دیکھا گیا ہے کہ ایک شدید حادثہ سے ایک شخص کی کو جان بچ گئی مگر اس کا رنگ زرد ہو گیا یا بال سفید ہو گئے اور عمر بھر اس پر اثر باقی رہا.اور اگرچہ نجات ہو گئی مگر اتنا صدمہ ہوا کہ کمزور دل ساری عمر اس کے اثر سے نجات نہ پاسکے، پس یہ کوئی معمولی بات نہیں.ایسے کئی حادثات ہماری جماعت پر گزرے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت سے لے کر وفات تک کئی ایسے حوادث جماعت پر آئے.خود حضرت مسیح موعود
خطبات محمود سال " ۱۹۳۴ء علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کا حادثہ ہی ایسا حادثہ تھا کہ کئی لوگ مہینوں ایسی حالت میں رہے جیسے بُھولے ہوئے پھرتے ہیں.مجھے کئی ایسے دوستوں کے نام یاد ہیں جو اپنے نہیں لوگوں کے سوالات لے کر گھبرائے ہوئے پھرتے اور ان کے جوابات دریافت کرتے پھرتے تھے.پھر سب کچھ سن کر یہی کہہ دیتے اگر خدا تعالٰی ابھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر موت نہ لاتا تو بہتر تھا.مجھے یاد ہے.آپ کی وفات کے کئی ماہ بعد میں ایک دفعہ بہشتی مقبرہ کی طرف سے واپس آرہا تھا کہ مدرسہ احمدیہ کے کمروں کے پاس سے جو گلی گزرتی ہے، وہاں تین دکانیں ہیں.پہلے وہاں اخبار بدر کا دفتر ہوتا تھا پھر دکانیں ہو گئیں، اب معلوم نہیں کیا ہے.وہاں ایک شخص نے مجھے کہا کہ رات دن مجھے یہی خیال رہتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام وفات کیوں پاگئے.میں سمجھتا ہوں ممکن ہے کئی لوگ ایسے ہوں کہ اب تک جب علیحدگی میں ان کا خیال اس طرف جاتا ہو تو ان میں سے ہر ایک دل میں یہی کہتا ہوا کہ اگر اللہ تعالیٰ میری رائے پوچھتا تو میں یہی کہتا کہ ابھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی وفات نہیں ہونی چاہیے تھی.بڑے بڑے واقعات تو در کنار چھوٹے چھوٹے واقعات بھی بعض دفعہ گہرا اثر چھوڑ جاتے ہیں.حضرت علی رضی اللہ کی نسبت لکھا ہے وہ ایک دفعہ مسح کرتے ہوئے کہنے لگے میں ہمیشہ مسح کے مقام پر حیرت میں رہتا ہوں.اگر اللہ تعالیٰ میری رائے پوچھتا تو میں یہی کہتا کہ مسیح یوں نہیں یوں کرنا چاہیئے اے.لیکن غرض انسان کی طبیعت پر بیسیوں واقعات اثر چھوڑ جاتے ہیں.اور بعض اثرات نہایت گہرے اور تکلیف دہ ہوتے ہیں جو واقعہ کی شدت سے کم تکلیف دہ نہیں ہوتے.خصوصاً ان واقعات کے متعلق جو اہم نظر آتے ہیں یا جن میں تباہی بالکل قریب دکھائی دیتی ہو.اللہ تعالی جو مصائب لاتا ہے ان میں کئی حکمتیں ہوتی ہیں.بعض اوقات ان کا مقصد دلوں کو پاک کرنا ہوتا ہے، جماعت کی اصلاح ہوتی ہے.اس قسم کے ابتلاؤں میں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعوئی بھی ایک تھا.اُس وقت آپ سے اخلاص رکھنے والے بھی گھبرا گئے.یہ لوگ ہزاروں تھے بلکہ براہین احمدیہ کی شہرت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ لاکھوں آدمی آپ سے بڑی عقیدت رکھتے تھے.ایک کی تو شہادت بھی موجود ہے جو دعوئی سے پہلے ہی وفات پاگئے.یعنی صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی نے دعوئی سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے لکھا.
خطبات " محمود ہم مریضوں کی ہے تمہیں پہ نظر ۶۵ سال ۱۹۳۴ء تم مسیحا بنو خدا کیلئے یہ تو ایک دوربین ولی اللہ کی نظر تھی.مگر ہم کہہ سکتے ہیں کہ جن کی نگاہ اتنی دوربین تھی وہ بھی یہی سمجھتے تھے کہ اسلام کی نجات آپ سے وابستہ ہے.مگر جب وہ ہتھیار آپ کو دیا گیا جس سے دشمن پامال ہو سکتا تھا.وہ آب حیات دیا گیا جس سے مسلمانوں کی زندگی مقدر تھی، تو بڑے بڑے مخلص آپ سے متنفر ہو گئے اور کہنے لگے جسے ہم سونا سمجھتے تھے ، افسوس وہ تو پیتل نکلا.ایسے لاکھوں انسان یکدم بدظن ہو گئے حتی کہ جب آپ نے بیعت کا اعلان کیا تو پہلے روز صرف چالیس اشخاص نے بیعت کی.یا تو لاکھوں اخلاص رکھتے تھے اور پرانے لوگ سناتے ہیں کہ کس طرح بڑے بڑے علماء کہتے تھے کہ اسلام کی خدمت اسی شخص سے ہو سکتی ہے اور خود لوگوں کو آپ کے پاس بھیجتے تھے.حتی کہ مولوی ثناء اللہ صاحب نے لکھا ہے کہ براہین کے شائع ہونے کے بعد میں مرزا صاحب کی زیارت کیلئے پیدل چل کر قادیان گیا ہے.اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جنہوں نے آخر میں اپنا سارا زور مخالفت میں صرف کر دیا انہوں نے بھی لکھا کہ تیرہ سو سال کے عرصہ میں کسی نے اسلام کی اس قدر خدمت نہیں کی جتنی اس شخص نے کی ہے ہے.حالانکہ اگر آپ کا دعوی نہ ہوتا تو آپ اسلام کی کوئی خدمت نہ کرسکتے تھے.براہین تو ایک دلائل کی کتاب تھی مگر کیا قرآن سے بڑھ کر؟ ہرگز نہیں.اور جب قرآن کے دلائل سے لوگ فائدہ نہیں اُٹھا رہے تھے تو براہین احمدیہ سے کیا اُٹھاتے.دراصل دنیا کو ایک ایسے شخص کی ضرورت تھی جس کا ایک ہاتھ خدا کے ہاتھ میں ہوتا اور دوسرا بندوں کے ہاتھ میں جو بجلی کی ایک رو لوگوں کے اندر سرایت کر دے.مگر جس چیز کی ضرورت تھی جب وہ دی گئی تو لوگ مایوس ہو گئے اور کہنے لگے ہماری غلطی تھی اور صرف تھوڑے لوگ باقی رہ گئے.اس کے بعد جماعت بڑھنی شروع ہوئی اور سینکڑوں لوگ داخل ہو گئے.پھر آتھم کی پیشگوئی کا وقت آیا.ایک دوست سناتے ہیں کہ باوجود یکہ پیشگوئی بالکل واضح تھی مگر رات کے وقت دیر تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسی کے متعلق فرماتے رہے کہ آج کی رات ضرور اللہ تعالٰی فیصلہ کر دے گا.وہ نیا نیا زمانہ تھا مخالفت کا طوفان ہر طرف سے اُٹھ رہا تھا.اور ظاہر ہے کہ ایسے وقت میں یہ کتنی بڑی مصیبت تھی.میری عمر اُس وقت چھ سات سال کے درمیان تھی اس لئے مجھے تو کچھ یاد نہیں.ہاں ایک دوست کی روایت ہے کہ مہمان خانہ میں ہم چار پانچ آدمی ساری رات مذبوح کی طرح زمین پر لوٹتے
خطبات محمود وہ الفاظ رہے اور دعائیں کرتے رہے.غور کرو، ان لوگوں کے لئے یہ کتنی بڑی ٹھوکر تھی.آج ہم یہ سمجھ بھی نہیں سکتے کہ یہ کوئی ٹھوکر تھی.مجھے یاد ہے ایک پٹھان بہت مخلص تھا.باوجود چھوٹی عمر کے میرے دل پر اس کے اخلاص کا اثر ہے.بتانے والے نے بتایا کہ رات کو وہ زمین پر سر مارتا تھا مگر آخر کار وہ مرتد ہو گیا.یہ کتنی بڑی ٹھوکر تھی.پھر وہ زمانہ آیا کہ اللہ تعالٰی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر میں نبی اور رسول کے الفاظ جاری کرائے.الہامات میں پہلے سے موجود تھے مگر کئی لوگ تحریر میں ان الفاظ کے آنے سے گر گئے.غرض اس طرح آہستہ آہستہ یہ امتحان آتے رہے.پھر مقدمات آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تذلیل کی بڑی بڑی کوششیں کی گئیں حتی کہ متواتر تین ماہ تک عام سرکاری تعطیلوں کے سوا برابر روزانہ کئی کئی گھنٹے آپ کو عدالت میں کھڑا رہنا پڑتا ہے.اور ایک دن تو مجسٹریٹ ھے نے پانی تک پینے کی اجازت نہ دی.ہم آج ان باتوں کو بھول گئے ہیں.مگر اُس زمانہ کے مخلصین کیلئے یہ بہت بڑے ابتلاء تھے.وہ ایک طرف تو خدا کا یہ وعدہ سنتے تھے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے 21 - اور تیرے نہ ماننے والے دنیا میں ادنیٰ اقوام کی طرح رہ جائیں گے.مگر دوسری طرف دیکھتے تھے کہ ایک معمولی چار پانچ سو روپیہ تنخواہ لینے والا بنیا مجسٹریٹ روزانہ آپ کو کھڑا رکھتا ہے اور پانی تک پینے کی اجازت نہیں دیتا حتی کہ آپ کا کھڑے کھڑے سر چکرا جاتا اور پاؤں تھک جاتے.کمزور ایمانوں والے حیران ہوتے ہوں گے کہ کیا یہی وہ شخص ہے جس کے متعلق اللہ تعالٰی کے اس قدر وعدے ہیں.غرضیکہ یہ بھی ابتلاء تھے بعض کے لئے اس لحاظ سے کہ یہ کتنی بیچارگی ہے اور بعض کے لئے اس لحاظ سے کہ وہ اپنے ایمان کا اقتضاء یہی سمجھتے تھے کہ ایسے مخالفین کو مار ہی ڈالیں.مجھے وہ نظارہ یاد ہے جس دن فیصلہ سنایا جانا تھا.ہماری جماعت میں ایک دوست تھے جن کو پروفیسر کہا جاتا تھا.پہلے وہ تاش وغیرہ کے کھیل اعلیٰ پیمانہ پر کیا کرتے تھے.اچھے ہوشیار آدمی تھے اور چار پانچ سو روپیہ ماہوار کما لیتے تھے.مگر احمدی ہونے پر انہوں نے یہ کام چھوڑ دیا اور معمولی دکان کرلی تھی.انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عشق تھا اور غربت کو اخلاص سے برداشت کرتے تھے.ان کے اخلاص کی ایک مثال میں سناتا ہوں.انہوں نے لاہور میں جاکر کوئی دکان کی.جو گاہک آتے انہیں تبلیغ کرتے ہوئے لڑ پڑتے.خواجہ صاحب نے آکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے شکایت کی.آپ نے محبت سے انہیں کہا کہ پروفیسر صاحب! ہمارے لئے یہی
خطبات محمود 46 سال " Flare حکم ہے کہ نرمی اختیار کرو خدا تعالی کی یہی تعلیم ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سمجھاتے جاتے تھے اور پروفیسر صاحب کا چہرہ سرخ ہوتا جاتا تھا.ادب کی وجہ سے وہ بیچ میں تو نہ بولے مگر سب کچھ سن کر یہ کہنے لگے کہ میں اس نصیحت کو نہیں مان سکتا.آپ کے پیر (یعنی آنحضرت ا ) کو اگر کوئی ایک لفظ بھی کہے تو آپ مباہلہ کیلئے تیار ہو جاتے ہیں اور کتابیں لکھ دیتے ہیں مگر ہمیں یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پیر کو اگر کوئی گالیاں دے تو چُپ رہیں.بظاہر یہ بے ادبی تھی مگر اس سے اُن کے عشق کا پتہ ضرور لگ سکتا ہے.جب فیصلہ سنانے کا وقت آیا تو لوگوں کو یقین تھا کہ مجسٹریٹ سزا ضرور دے دے گا اور بعید نہیں کہ قید کی ہی سزا دے.اُدھر مخلصین کے دل میں ایک لمحہ کیلئے بھی یہ خیال نہیں آسکتا تھا کہ آپ کو گرفتار کر لیا جائے گا.اُس دن عدالت کی طرف سے بھی زیادہ احتیاط کی گئی تھی.پہرہ بھی زیادہ تھا.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اندر تشریف لے گئے تو دوستوں نے پروفیسر صاحب کو باہر روک لیا کیونکہ ان کی طبیعت تیز تھی.مگر انہوں نے ایک بڑا سا پھر ایک درخت کے پیچھے چُھپا رکھا تھا اور جس طرح ایک دیوانہ چیخ مارتا ہے.زار زار روتے ہوئے دفعتاً درخت کی طرف بھاگے اور وہاں سے پتھر اُٹھا کر بے تحاشہ عدالت کی طرف دوڑے اور اگر جماعت کے لوگ راستہ میں نہ روکتے تو وہ مجسٹریٹ کا سر پھوڑ دیتے.انہوں نے خیال کرلیا کہ مجسٹریٹ ضرور سزا دے دے گا اور اسی خیال کے اثر کے ماتحت وہ اسے مارنے کیلئے آمادہ ہو گئے.یہ بھی ایک ابتلاء تھا.ایک طرف کمزوروں کیلئے اس رنگ میں کہ وہ مرتد ہو رہے تھے اور دوسری طرف مخلصین کیلئے اس رنگ میں کہ اُن کا دامنِ صبر ہاتھوں سے چھوٹ تھا غرضیکہ اُس زمانہ میں بیسیوں ابتلاء تھے جو کبھی چھ ماہ کے بعد آجاتے اور کبھی سال کے بعد.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد ایک اتنا بڑا ابتلاء آیا جس کا اندازہ آج ہم نہیں کرسکتے.یہ ابتلاء اُس وقت آیا جب حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں یہ سوال اُٹھایا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعوی کیا تھا.اللہ تعالی بہتر جانتا ہے ایک نہیں دو نہیں بیسیوں راتیں ایسی آئیں جن میں ایسی ادھیڑ بن میں کہ اب کیا ہو گا، شملتے ملتے پاؤں متورم ہو جاتے اور عشاء کے بعد سے لے کر دو دو بج جاتے یہ خیال پریشان کر دیتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے معا بعد اگر بعض لوگوں نے انکار کر دیا تو جماعت کا انجام کیا ہوگا.اور میں سمجھتا ہوں یہ میری ہی نہیں سینکڑوں کی یہی حالت ہوگی.اس سے بھی پہلے
خطبات محمود Чл سال ۱۹۳۴ء خلافت کا سوال اُٹھایا گیا تو وہ کوئی کم ٹھوکر کا موجب نہیں تھا.جوں جوں یہ پروپیگنڈہ بڑھتا گیا ساتھ ساتھ پریشانی بڑھتی گئی.یہ کوئی معمولی دن نہ تھے.پھر حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد جو ابتلاء آیا وہ سب کو معلوم ہے.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ساری جماعت مخالفین کے قبضہ میں آگئی ہے.وہ ایسے واقعات نہیں کہ جن کو انسان بغیر اس کے کہ دل بے قابو ہو جائے، بیان کر سکے.اسی لئے ان کی تفصیلات میں جانے سے میں نے ہمیشہ گریز کیا ہے کہ ان کو یاد کر کے طبیعت کے اندر ایسی بے چینی پیدا ہو جاتی ہے جیسے کسی عظیم الشان محبوب کی موت یاد آجاتی ہے.پھر بعد میں جو ابتلاء آئے، وہ بھی کم نہ تھے غیر مبائعین نے خود لکھا تھا کہ ۹۸ فیصدی جماعت ہمارے ساتھ ہے.اور ایسے ایسے لوگ مخالف ہو گئے جن کے متعلق کوئی گمان بھی نہ تھا.کچھ عرصہ قبل گوجرانوالہ میں میرا لیکچر ہوا تھا.اس کے بعد ایک ڈاکٹر صاحب نے مجھے الگ آکر کہا کہ جو لوگ آپ کے عقائد کے خلاف ہیں وہ آج جل مرے.ایک تو اس وجہ سے کہ ان کے خیالات کی مدلل طور پر تردید ہوئی اور دوسرے اس لئے کہ آپ نے کھول کھول کر بیان کیا مگر باوجود اس کے غیر احمدی آپ کے لیکچر کی زیادہ تعریف کرتے تھے.مگر کیہ تعجب کی بات تھی کہ تھوڑے ہی دنوں بعد اس ابتلاء کے موقع پر وہ صاحب قادیان آئے.اور دوسرے دن مجھے گالیاں دیتے ہوئے چلے گئے کہ یہ سب دھوکا ہے، ٹھگ بازی ہے، فریب ہے.اور اس دن سے لے کر آج تک متواتر ابتلاء آتے رہے ہیں اور تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد اب بھی آتے ہیں.بلکہ بعض لوگوں کے نزدیک تو آج کل اس قدر ہماری مخالفت ہو رہی ہے کہ غیر احمدی تک یہ کہہ رہے ہیں کہ پہلے کبھی ایسی نہ ہوئی تھی.ابھی جو میں لاہور گیا تو ایک دوست نے ذکر کیا کہ ایک غیر احمدی لیڈر نے ان سے بیان کیا کہ آج کل احمدیوں کی جس قدر مخالفت ہو رہی ہے، ابتداء میں بھی شاید اتنی نہ ہوئی ہو.اور یہ صحیح بھی ہے مگر جماعت بوجہ ان فتوحات کے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسے نصیب ہو رہی ہیں، اسے محسوس نہیں کرتی.اس کی حالت اس بچہ کی سی ہے جس کی ماں رات کو فوت ہو گئی صبح کو جب وہ اُٹھا تو اُسے پیار کرنے لگا اور ہنسنے لگا.پھر بھی جب وہ اس کی طرف متوجہ نہ ہوئی تو اُس نے محبت سے اُس کے منہ پر چپت ماری اور یہی سمجھتا رہا کہ یونسی چُپ ہے.حتی کہ جب اُسے دفن کرنے کیلئے لے جانے لگے تب اسے معلوم ہوا کہ اس کی نہایت ہی محبوب چیز ہمیشہ کیلئے اس سے چھڑا دی گئی ہے.اسی طرح جماعت کے وہ ناواقف دوست جو سلسلہ کے حالات سے آگاہ
خطبات محمود ۶۹ سال ۱۹۳۴ء نہیں اور مخالفت کی شدت جن کی آنکھوں کے سامنے نہیں وہ یہی سمجھ رہے ہیں کہ کیا پرواہ ہے، ہمارا کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے.مگر جس جماعت کو میں یا جماعت کے دوسرے لوگ دیکھتے ہیں وہ اس سے ناواقف ہیں.سب بڑے اور چھوٹے اس وقت ہماری مخالفت پر کمربستہ ہیں.احمدیت کی ابتداء میں انگریز مختلف نہ تھے، سوائے چند ابتدائی ایام کے جبکہ وہ مہدی کے لفظ سے گھبراتے تھے مگر اب تو وہ بھی مخالف ہو رہے ہیں.بہت تھوڑے ہیں جو جماعت کی خدمات لو سمجھتے ہیں، باقی تو باغیوں سے بھی زیادہ غصہ سے ہمیں دیکھتے ہیں.اور اگر انگریزوں کا فطری عدل مانع نہ ہو تو شاید وہ ہمیں میں ہی دیں.پھر وہ لوگ جو پہلے سیاسی کاموں کی وجہ سے ہمارے مداح تھے ان میں سے بھی کچھ تو کھلے طور پر اور کچھ مخفی طور پر ہماری مخالفت میں لگ گئے ہیں.بعض تو صاف احراریوں سے مل گئے ہیں، ان کی مجالس میں جاتے ہیں، ان کیلئے چندے جمع کرتے ہیں اور چند گنتی کے لوگوں کو چھوڑ کر باقی سب نے یہی طریق اختیار کر رکھا ہے.غرض یہ کہ ہمارے خلاف ایک طرف احراری تحریک ہے، پھر پریس کی مخالفت ہے، مولویوں کا جوش علاوہ ہے.سیاسی میدان میں کام کرنے والے سمجھتے ہیں کہ دیانتدار لوگوں کے آنے سے ہمارے کام میں روک پیدا ہو جائے گی، مولوی سمجھتے ہیں ہماری روزی بند ہو جائے گی، حکام اس لوگ سمجھتے ہیں کہ خوشامد کا سلسلہ منقطع ہو جائے گا.انگریز شاید خیال کرنے لگے ہیں کہ اتنی بڑی منتظم جماعت اگر مخالف ہوگئی تو ہمارے لئے بہت پریشانیوں کا موجب ہوگی.اور وہ اتنا نہیں سوچتے کہ جماعت احمدیہ کی مذہبی تعلیم یہ ہے کہ حکومت کی فرمانبرداری کی جائے.تو پھر جماعت احمدیہ گورنمنٹ کی مخالف ہو کس طرح سکتی ہے.لیکن شاید وہ "گربہ کشتن روز اول" کے مطابق ہمیں دبا دینا ضروری سمجھتے ہیں.ایک ذمہ دار افسر سے یہ بات سن کر مجھے سخت حیرت ہوئی کہ حکومت نے تحقیق کرائی ہے کہ قادیان میں حکومت کے خلاف کیا سازشیں ہو رہی ہیں.اور یہ ایسی بات ہے جسے سن کر ہر عقل مند ہنسے گا اور حکومت کے اس نادانی کے فعل سخت متعجب ہوگا.پھر خود ہمارے اندر منافقوں کا ایک جال ہے جو تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد ظاہر ہوتے رہتے ہیں.وہ کبھی جھوٹی خبریں شائع کرتے ہیں، کبھی جھوٹی باتیں بنا کر دوسروں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں.قرآن کریم میں انہی کے متعلق آتا وَالْمُرْحِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ ہے کوئی اچھا کام نہیں جس پر وہ اعتراض نہ کریں.اور کوئی نیک ہے.
سال ۱۹۳۴ء آدمی نہیں جس پر الزام نہ لگائیں.یہ اندرونی دشمن ہیں جو باہر والوں سے زیادہ خطرناک ہیں کیونکہ ان کی باتیں سننے والا سمجھتا ہے یہ بھی آخر احمدی ہیں، مخلص ہیں.اور اس وجہ سے ان کے دھوکا میں آجاتا ہے.ان کی ایسی حرکات سے اپنوں کے اندر بے چینی پیدا ہوتی ہے اور دشمن دلیر ہوتے ہیں.ان سب چیزوں کو دیکھ کر میں تو ایسا محسوس کرتا ہوں کہ گویا ایک چھوٹی سی جماعت کو چاروں طرف سے ایک فوج گھیرے چلی آرہی ہے اور قریب ہے کہ اس کے نکلنے کیلئے ایک انچ بھی جگہ باقی نہ رہے.ایک زلزلہ ہے جو اگرچہ ظاہر تو نہیں ہوا مگر زمین نیچے خوفناک آگ شعلہ زن ہے.یہ صحیح ہے کہ الہی سلسلوں کے متعلق اللہ تعالی کی سنت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ سب ہمارے لئے کچھ نہیں لیکن اگر یہ فتنے جماعت کو کمزور بھی کردیں تو وہ امانت جو اللہ تعالی کی طرف سے ہمارے سپرد ہے، اس کے ضائع ہو جانے کا احتمال ضرور ہے.اور جس طرح دودھ زمین پر گر جانے کے بعد اُٹھایا نہیں جاسکتا اسی طرح اللہ تعالی کی امانت اور اس کا نور ایک دفعہ ضائع ہو جانے کے بعد پھر اسے حاصل نہیں کیا جاسکتا.پھر اس کیلئے نئی جماعتیں ہی قائم ہوا کرتی ہیں اور نئے نبی مبعوث ہوتے ہیں.سیال چیز کی حفاظت کیلئے ایک پیالہ کافی ہوتا ہے خواہ اس کا منہ کس قدر ہی کھلا کیوں نہ ہو مگر گیس کو بوتل میں بھی بند نہیں کیا جاسکتا خواہ اس کا منہ کس قدر ہی تنگ کیوں نہ ہو اور نور تو سب سے زیادہ لطیف شے ہے جب وہ ہاتھ سے نکل جائے تو پھر اسے حاصل کرنا ممکن نہیں ہو سکتا.اس لحاظ مخالفت بڑی چیز ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل شامل ہو تو مصائب کے پہاڑ بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتے.اگر انسان رات کو انتہائی غم میں سوئے تو صبح خوشی میں بیدار ہو سکتا ہے.پس یہ ای چیزیں چھوٹی بھی ہیں اور بڑی بھی.سوال صرف یہ ہے کہ کیا خدا کے سامنے ہمارے اندر اس قدر اثابت ہے کہ اس کا فضل آجائے گا.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ دل کی ہر وقت ایک سی حالت کا نہ رہنا ان کا نقص ہے حالانکہ یہ بات نہیں.رسول کریم ﷺ کے پاس ایک صحابی آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! میں تو منافق ہوں.میں جب آپ کے سامنے آتا ہوں تو میرے دل کی حالت اور ہوتی ہے لیکن جب چلا جاتا ہوں تو وہ حالت بدل جاتی ہے.آپ نے فرمایا اگر ہر وقت ایک ہی حالت رہے تو انسان مر نہ جائے ہے.تو ایمان کی حالتیں بھی کبھی کچھ ہوتی ہیں اور کبھی کچھ.رسول کریم ﷺ بھی ہر وقت نہ ایک ہی دعا کرتے تھے اور نہ ایک سی عبادت.بدر کے موقع پر آپ نے اس قدر دعا کی کہ صحابہ کو کہنا پڑا کہ آپ کے
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء ساتھ خدا کا وعدہ ہے پھر آپ کیوں اس قدر گھبراتے ہیں 2.اگر آپ روز ہی ایسی دعا کیا کرتے تو صحابہ کیوں یہ بات کہتے.تو انبیاء پر بھی مختلف حالتیں آتی ہیں.پس مخالفت کے اس جوش کی حالت کو دیکھ کر جس سے متاثر ہو کر بعض غیر احمدیوں نے بھی کہلا بھیجا ہے کہ ہم نے جماعت کی اتنی مخالفت کبھی نہیں دیکھی.اور مخالفت بھی معمولی نہیں بلکہ مخالفوں نے کیا ارادہ کر رکھا ہے کہ جس طرح بھی ہو سکے اس جماعت کو کچل دیا جائے.اس لئے اس موقع پر میں جماعت کو ہدایت کرتا ہوں کہ ان حالات پر غور کریں کہ کس طرح قادیان میں بھی اور تکے باہر بھی مخالفت زوروں پر ہے.پہلے اندرونی منافق ہیں پھر غیر احمدی.ہندو، عیسائی سب ہوئے ہیں کہ جماعت کو کچل دیا جائے.ان کے علاوہ حکومت کے بعض ارکان میں بھی جوش ہے اور ان کی طرف سے بعض ایسی ایسی باتیں سننے میں آتی ہیں کہ حیرت ہوتی ہے.غرض اپنے بیگانے سب کے اندر ایسا جوش ہے کہ اسے دیکھ کر معلوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے ہم اس کی طرف مجھکیں اور اس سے نصرت مانگیں.ماں بھی بعض اوقات یہ چاہتی ہے کہ اس کا بچہ اس سے مانگے بعض اوقات تو مانگنے پر وہ چڑتی ہے اور کہتی ہے کہ ناک میں دم کر رکھا ہے مگر کبھی نہ مانگنے پر پڑتی ہے.کبھی چاہتی ہے کہ اس کا بچہ تذلل کرے اور کبھی چاہتی ہے کہ محبت کرے.محبت کے متعلق مجھے اپنا ایک رؤیا یاد آگیا.ایک دفعہ مجھے کسی وجہ سے سخت تکلیف تھی ایسی تکلیف کہ گویا موت تھی.اُس وقت میں نے کہا کہ میں خاص دعا کروں گا اور جب تک کام نہ ہو جائے زمین پر سوؤں گا اُسی دن یا دوسرے دن میں نے خواب میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ ایک عورت کی شکل میں آیا ہے.اور اُس کے ہاتھ میں درخت کی ایک لچک دار شاخ ہے.آنکھوں سے محبت ٹپکتی تھی اور ہونٹوں پر غصہ کے آثار تھے اور آہستہ سے چھڑی اٹھا کر مجھے مارنی چاہی اور کہا کہ چارپائی پر سوتا ہے یا نہیں.میں یہ رویا پہلے کسی موقع پر بیان کر چکا ہوں.اب مجھے یاد نہیں کہ چھڑی ماری یا مارنے کی دھمکی سے ہی میں گود کر چارپائی پر جا پڑا.عجیب بات یہ ہے کہ رویا میں جس وقت میں کود کر چارپائی پر جالیٹا اس کے ساتھ ہی ظاہری طور پر بھی میں کود کر چارپائی پر جالینا اور اللہ تعالی کی اس محبت کو دیکھ کر کہ میری اس قدر تکلیف بھی اُس سے برداشت نہ ہوئی، میری آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے.اس خواب میں یہ اشارہ تھا کہ اپنے آپ کو کیوں تکلیف دیتے ہو.یہ بھی ایک رنگ ہے اور کبھی یہ چاہتا ہے کہ نگی زمین پر لیٹو.یہ اللہ تعالی کی مختلف صفات ہیں.پس میں عام
خطبات محمود سال ۶۱۹۲۴ جماعت سے عموماً اور ان مخلصوں سے بالخصوص جنہوں نے سلوک کیلئے اپنے نام دیئے ہوئے ہیں کہتا ہوں کہ وہ ان ایام میں خصوصیت کے ساتھ دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو مخفی ابتلاؤں سے بھی اور ظاہری سے بھی محفوظ رکھے.اور اس عظیم الشان ابتلاء سے بھی جو گو ابتدائی ایام کی مخالفت کے مشابہ ہے مگر اس وجہ سے اُس سے بہت زیادہ خطرناک ہے کہ اُس وقت ہم میں خدا تعالی کا نبی تھا اور آج نہیں، محفوظ رکھ کر ہمیں ہر ایک قسم کی شکست ذلّت، نامرادی، رُسوائی اور بدنامی سے بچائے.اور ہر قسم کے فضل، برکات، عنایات اور مہربانیوں سے حصہ دے.کامیابیاں، کامرانیاں، فتوحات، ترقیات اور غلبہ عطا فرمائے.تا اس کام کو جو اس نے ہمارے ذمہ لگایا ہے ہم کما حقہ کر سکیں.اور تا ہماری غلطیوں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بدنام نہ ہوں.پس دعائیں کرو.ہے چالیس روز کی دعائیں ہی ہمارے اندر ایک تغیر پیدا کردیں.ہمارے لئے ہمارے خاندانوں، ہمسائیوں دوستوں رشتہ داروں، شہریوں اور جماعت کیلئے ایک نیک تغیر کا موجب ہو جائیں.پھر ایسا تغیر ہو کہ ساری دنیا نیک ہو جائے.بعض دفعہ انسان سرے پر پہنچ کر گر پڑتا ہے.کسی شاعر نے کہا ہے قسمت کی نارسائی سے ٹوٹی کہاں کمند ، دو چار ہاتھ جب کہ لبِ بام رہ گیا پس ایسا نہ ہو کہ سُستی کی وجہ سے ہم لب بام پہنچ کر گر پڑیں.پس چاہیے کہ ہم اس طرح اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ دعا ہمیں اُٹھا کر بام کامرانی پر پہنچا دے.اور اس کے بعد اور ابتلاء نہ ہوں.اور یہ بھی ممکن ہے کہ اگر اب ہم دعاؤں سے کام نہ لیں تو یہ مصائب کا سلسلہ سالوں بلکہ صدیوں تک چلا جائے.پس تمام جماعت سے بالعموم اور ان لوگوں سے جنہوں نے سلوک کیلئے اپنے نام دیئے ہوئے ہیں.(اگرچہ میری طرف سے ناموں کی تاحال منظوری نہیں ہوئی مگر جب تک میں کوئی فیصلہ نہ کروں وہ سب سالکین میں شامل ہیں جنہوں نے نام دے رکھے ہیں بالخصوص یہ کہتا ہوں کہ وہ خوب دعائیں کریں اور دوسروں کو بھی دعائیں کرنے کی تحریک کریں.نیکی کی تحریک کرنا بھی ایک نیکی ہے.میں نے دیکھا ہے میاں غلام قادر صاحب سیالکوئی رمضان کے دنوں میں جب سحری کے وقت پیا لے کر لوگوں کو جگاتے پھرتے تو محبت سے اُن کیلئے دعا نکلتی اور اُس وقت پیسے کی آواز تمام دنیا کے باجوں سے
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء زیادہ خوبصورت لگتی.پس خود بھی دعائیں کرو اور دوسروں کو بھی اس کی تحریک کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو اور ہم کامیاب ہو جائیں.مخلصوں کی دعائیں ٹھوکروں اور مصیبتوں کو دور کر سکتی ہیں.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ مصائب سے نکلنے کے دو ہی طریق ہو سکتے ہیں.یا تو اللہ تعالی کا نبی موجود ہو اور یا پھر اس کے ماننے والے استغفار میں لگے ہوں.الفضل ۱۵- مارچ ۱۹۳۴ء) له سنن ابی داؤد کتاب الطهارة باب كيف المسح میں الفاظ اس طرح ہیں:- لو كان الدين بالراى لكان اسفل الخف اولى بالمسح من ظاهر هما- اه رساله تاریخ مرزا صفحه ۵۴ مؤلفه ثناء اللہ امرتسری مطبوعہ ۱۹۱۹ ء کے رسالہ اشاعۃ السنہ جلدے صفحہ ۱۶۹ جون- جولائی اگست ۱۸۸۴ء ه تاریخ احمدیت جلد ۳ صفحه ۳۰۱ مطبوعه ۱۹۶۲ء شه مهته آتما رام مجسٹریٹ (مرتب) تذکرہ صفحہ 10 ایڈیشن چهارم عه الاحزاب: 1 مسلم كتاب التوبة باب فضل دوام الذكر والفكر في امور الأخرة ن مسلم كتاب الجهاد باب الامداد بالملائكة في غزوة بدر واباحة الغنائم
خطبات محمود ۹ دعاؤں اور انابت الی اللہ کی طرف توجہ کی ضرورت (فرموده ۹- مارچ ۱۹۳۴ء) سال ۱۹۳۴ء تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا..میں نے پچھلے جمعہ میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی.خصوصاً ان لوگوں کو جنہوں نے میری جلسہ سالانہ والی تحریک کے مطابق اس امر کا عہد کیا ہے کہ وہ اپنے نفس کی اصلاح کریں گے اور جماعت کی اصلاح کی بھی کوشش کریں گے کہ ان ایام میں ہماری جماعت کے خلاف ایک ایسا جوش پیدا ہو رہا ہے جس کی مثال پہلے اوقات میں کم ملتی ہے اس لئے ہمیں خصوصیت سے دعاؤں اور انابت الی اللہ کی طرف توجہ کرنی چاہیے.ہمارے کاموں کی بنیاد در حقیقت اللہ تعالیٰ کے فضل پر ہی ہے اور اس کی امداد کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے اس لئے کہ جیسا کہ اس کی قدیم سے سنت چلی آئی ہے جب اللہ تعالی کی طرف سے الہام کی بارش نازل ہوتی ہے تو جس طرح اس بارش سے نیکی اور تقویٰ کا بیج پیدا ہوتا ہے اسی طرح شیطنت اور شرارت کا بیج بھی پیدا ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کا الہام اور اس کی وحی بالکل بارش کی طرح ہوتی ہے.جس طرح بارش کا پانی میٹھے شیریں اور نفع رساں پھلوں پر ہی اثر نہیں کرتا بلکہ تکلیف دہ نقصان رساں اور کڑوے پھل بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں.اسی طرح خدا تعالیٰ کا الہام بُرے اور بھلے پر یکساں اثر ڈالتا ہے وہ بُرے شخص کو اس کی برائی میں اور اچھے کو اس کی نیکی میں ترقی دے دیتا ہے.اپنی ذات میں پانی نہ شیرینی رکھتا ہے نہ کڑواہٹ بلکہ شیرینی بھی اس چیز کے اندر سے پیدا ہوتی ہے اور کڑواہٹ بھی اس کے اندر سے پیدا وہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء ہوتی ہے.بارش کا کام اس میں نشو و نما دے دینا ہوتا ہے.الہام الہی بعینہ اسی طرح ہوتا ہے اور ونما وہ بھی نشوو نما دے دیتا ہے.پس الهام الہی سے جس طرح نیکوں کی خفتہ طاقتیں بیدار ہوتی ہیں، اسی طرح بد معاشوں کی طاقتیں بھی اُبھر آتی ہیں اور وہ اس قسم کا رنگ اور طریق اختیار کرلیتے ہیں جس کے نتیجہ میں دوبارہ پرانے شیطانوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے جیسا کہ ایک نبی کی آمد کے ذریعہ دوبارہ پہلے انبیاء کی یاد تازہ ہو جاتی ہے.پس ان حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ ہمارا مقابلہ ایسی طاقتوں سے ہے جو ہماری طرح ہی آسمانی پانی سے موید ہیں.در حقیقت جس طرح رسول کریم آسمانی پانی سے مؤید تھے اسی طرح ابو جہل بھی آسمانی پانی سے مئوید تھا.قرآن مجید خود کہتا ہے- يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَ يَهْدِى بِهِ كَثِيرًات یعنی قرآن مجید کے دو کام ہیں.یہ گمراہ کو اس کی گمراہی میں بڑھاتا اور ہدایت یافتہ کو اس کی ہدایت میں ترقی دے دیتا ہے.پس جس طرح قرآن مجید کی وحی محمد ایل کے کھیت کو بڑھاتی اور سینچتی تھی اسی طرح قرآن مجید کی وحی ابو جہل کے کھیت کو بھی سینچتی اور بڑھاتی تھی.اور جس طرح محمد الله کی نیکی خدا تعالیٰ کے ایک قانون سے تائید یافتہ تھی، اسی طرح ابو جہل کی بدی بھی ایک قانون سے مؤید تھی.ایک قانون اس کو مدد دے رہا تھا اور ایک قانون اس کو مدد دے رہا تھا.جس طرح دوسری جگہ بھی فرمایا.كُلاً تُمِدُّ هَؤُلَاءِ وَهَؤُلَاءِ سے یعنی نیک کو اس کی نیکی کے مطابق خدا تعالیٰ کی طرف سے تائید ملتی ہے اور بد کو اس کی بدی کے مطابق تائید س کے یہ معنی نہیں کہ خدا تعالیٰ بدی کو بڑھاتا ہے بلکہ اس ذریعہ سے اللہ تعالیٰ یہ.بتانا چاہتا ہے کہ بدی باوجود اپنی ساری طاقتوں کے نیکی پر غالب نہیں آسکتی.اگر بدی کا سر ہی کچل دیا جائے تو وہ جلال جو انبیاء کی جماعتوں کو حاصل ہوتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی تائید کا مظاہرہ جو مخالف حالات کے باوجود رونما ہوتا ہے، شاندار طور پر ظاہر نہ ہو.پس اللہ تعالی کا کلام دونوں سامان ساتھ لاتا ہے.اس میں وہ سامان بھی ہوتا ہے جو نیک کو اس کی نیکی میں بڑھا دیتا ہے اور وہ سامان بھی ہوتا ہے جو شریر کو اس کی شرارت میں بڑھا دیتا ہے.اگر الہاموں کا ایک پہلو مومنوں کے ایمانوں کے ازدیاد کا موجب بنتا ہے تو اس کا دوسرا پہلو مخالفین کیلئے اعتراضات پیدا کرنے کا موجب ہو جاتا ہے.اگر ایک طرف جب نشان ظاہر ہو تو مومن کہتے ہیں کتنا عظیم الشان نشان ہے، کیسا واضح اور کتنا کھلا ہے.تو دوسری طرف ایسے
خطبات محمود 44 سال ۱۹۳۴ء لوگ بھی ہوتے ہیں جو کہتے ہیں اس سے مراد کیا ہے؟ ایک بے معنی فقرہ ہے جسے نشان سے تعبیر کیا جارہا ہے.اسی طرح انبیاء کی تقریروں کا حال ہوتا ہے.اگر ایک طرف محمد اللہ کے وعظوں کو سن کر مؤمنین کہہ اُٹھتے کہ کیا عجیب نکات معرفت بیان کئے گئے ہیں، کتنے زبردست دلائل ہیں، یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا دل کے تمام زنگ دور کر دیئے گئے.تو دوسری طرف قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ منافق کہا کرتے کہ مَاذَا قَالَ انِفًا سے یہ ابھی ابھی کیا کہہ رہے تھے.گویا ایک ہی تقریر ہے.مگر ایک تو سن کر کہتا ہے کہ معرفت کے دریا بہا دیئے گئے.اور دوسرا کہتا ہے کچھ سمجھ ہی نہیں آیا، انہوں نے کیا کہا ہے.پس در حقیقت دونوں چیزیں خداتعالی سے مؤید ہیں اور دونوں وحی والہام سے تائید یافتہ ہیں.جس طرح خدا کا پانی میٹھے کو اس کی شیرینی میں بڑھا دیتا ہے اسی طرح کڑوے کو اُس کی کڑواہٹ میں بھی بڑھا دیتا ہے.پس ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جن لوگوں سے ہمارا مقابلہ ہے وہ ہماری طرح ہی اللہ تعالٰی کے ایک قانون سے مؤید ہیں.اس کا ایک قانون ہماری تائید ہیں ہے اور وہ یہ کہ نیکی بڑھتی ہے اور اس کا ایک قانون اُن کی تائید میں ہے اور وہ یہ کہ انبیاء کی جماعتوں کے مقابل تمام مخالف طاقتیں اپنی عداوتوں کو بھول کر اَلْكُفْرُ مِنَةٌ وَاحِدَةً کے مطابق متحد ہو جاتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ ہر ممکن طریق سے نبی کی جماعت کو صفحہ ہستی سے معدوم کر دیں.اس زمانہ میں ہی دیکھ لو.احمدیت کی مخالفت میں ہندو، سکھ، عیسائی، مسلمان سب متحد ہیں.اِلَّا مَا شَاءَ اللہ ہر قوم میں کچھ شریف لوگ موجود ہوتے ہیں اور وہ دل میں ہدایت کی تڑپ رکھتے ہیں، ان کا اس جگہ ذکر نہیں لیکن وہ لوگ جو تعصب کا شکار ہیں خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، وہ سب احمدیت کے خلاف اکٹھے ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے کی اس طرح تائید کرتے ہیں که انسان حیران رہ جاتا ہے.کتنی موٹی سے موٹی بات ہو مخالفوں کے سامنے جب اسے پیش کرو وہ ہمیشہ اس کے ماننے سے انکار کردیں گے.ایک مذہب کے متعصب کو چھوڑ کر دوسرے مذہب کے متعصب سے اپیل کرو، بجائے صداقت کی تائید کرنے کے دوسرے مخالف کی تائید کرے گا گو وہ اس کے مذہب کا بھی مخالف ہو.غرض اس قسم کے لوگوں میں جدھر بھی تم توجہ کروگے فطرت کو ڈھنپا ہوا اور نیکی کو مردہ پاؤ گے اور سب میں اس غرض کیلئے اتحاد دیکھو گے کہ وہ احمدیت کو کچل دیں.ایسے حالات میں ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ : صبر و استقلال سے دشمن کا مقابلہ ایسے رنگ میں کریں کہ اسے ہمارے کسی فعل پر گرفت کا
خطبات محمود موقع نہ مل سکے.میں نے پچھلے دنوں خصوصیت سے قادیان والوں کو توجہ دلائی تھی کہ یہاں ایسے فتنے پیدا کئے جارہے ہیں جن کی غرض یہ ہے کہ وہ ہمارے اخلاق پر دھبہ لگائیں.پھر یہاں کچھ احراری آگئے ہیں، بعض پولیس کے لوگ ہیں جو ہمارے خلاف کوششیں کر رہے ہیں، کچھ غیر احمدیوں میں سے کھڑے ہو گئے ہیں، کچھ سکھوں اور ہندوؤں میں سے اور ان سب کی اصل غرض یہ ہے کہ وہ دنیا کے سامنے ہم پر یہ الزام لگائیں کہ ہم اخلاق کے کچے ہیں.ہماری جماعت کے بعض بیوقوف یا منافق اپنی بیوقوفی یا منافقت سے بعض دفعہ مخالفوں کو خود ایسے مواقع بہم پہنچا دیتے ہیں جن کے ماتحت انہیں شرارتوں میں اضافہ اور ہماری نیکیوں پر پردہ ڈالنے کا موقع مل جاتا ہے.میں نے توجہ دلائی تھی کہ ایسے امور سے احتراز کیا جائے.مگر میں دیکھتا ہوں کہ باوجود توجہ دلانے کے جماعت میں ایک طبقہ ایسا ہے جو اس خوف سے گھبرایا پھرتا ہے کہ یہاں احراری آگئے ہیں حالانکہ کیا شیر بھی اُس وقت خوف کھایا کرتا ہے جب اُس کی کچھار میں کوئی بکری آجائے.اگر تم واقعی سمجھتے ہو کہ تم ایک نبی کی جماعت ہو اور خدا تعالی کی تائید اور نصرت تمہارے ساتھ ہے، تو تم صحیح ذرائع اختیار کر کے ان کے ماتحت اس شر کے ازالہ کی وشش کرو.مگر ڈر کس بات کا؟ کیا شیر کی غار میں جب کوئی بکری آجائے تو وہ ڈرا کرتا ہے.آخر جب ساری دنیا نے احمدیت میں داخل ہونا ہے تو کیا احراری اس دنیا سے علیحدہ ہیں کہ یہ جماعت احمدیہ میں داخل ہونے سے رہ جائیں گے یا کیا یہ آسمان پر چلے جائیں گے.اگر ان لوگوں نے بھی دنیا میں ہی رہنا ہے اور آج نہیں کل احمدیت میں داخل ہونا ہے تو کیوں آج سے ہی کام شروع نہیں کر دیتے کہ وہ اللہ تعالٰی کے فضل سے آج ہی احمدیت میں داخل ہو جائیں.ابھی احراریوں نے یہاں کوئی زمین خریدی ہے اور وہاں ایک مسجد بنانے لگے ہیں.بعض نے مجھے لکھا کہ اس پر حق شفعہ کی مالش کرنی چاہیئے مگر تمہارا اس میں کیا حرج ہے.تم سمجھ لو کہ تھوڑے دنوں تک اللہ تعالیٰ یہ مسجد بھی تمہارے قبضہ میں دے دے گا.آخر ، دنیا کی ساری مسجدیں تمہارے قبضہ میں آتی ہیں تو کیا احراریوں کی یہ مسجد تمہارے قبضہ میں نہیں آئے گی.دراصل یہ تمام گھبراہٹ عدم ایمان یا کمزوری ایمان پر دلالت کرتی ہے.اور بعض دفعہ منافق شرارت کر کے گھبراہٹ میں مبتلاء کردیا کرتا ہے.میں نے کئی دفعہ سنایا ہے.یہاں ایک دفعہ ہندوؤں کو کوئی شکایت پیدا ہوئی.ان میں.
خطبات محمود ۷۸ سال ۱۹۳۴ء.ایک نے فساد کرنے کی نیت سے اُس وقت جب سکول کے لڑکے بازار سے گزر رہے تھے اپنی مٹھائی کا تھال اُٹھا کر پھینک دیا اور شور مچادیا کہ میری دُکان انہوں نے لوٹ لی ہے.وہ واقعہ تو خداتعالی کے فضل سے دب گیا مگر میں نے لڑکوں کو اس طرف سے گزرنے سے روک دیا.اس سے بعض لوگوں کو اور غصہ آیا اور ایک دن ایک فسادی نے احمدیہ بورڈنگ میں آکر بڑے زور سے شور مچادیا کہ بازار میں ہندوؤں کی احمدیوں سے لڑائی ہو گئی ہے کئی آدمی مارے گئے اور کئی زخمی ہو گئے ہیں اور نیر صاحب خون میں تڑپ رہے ہیں.مجھے معلوم نہیں نیر صاحب اُس وقت کیا کام کرتے تھے.غالبا بورڈنگ کے سپرنٹنڈنٹ تھے یا قریب کے عرصہ میں سپرنٹنڈنٹ رہ چکے تھے اور لڑکوں سے ان کا تعلق تھا.پس اس نے لڑکوں میں ایک جوش پیدا کرنے کیلئے نیر صاحب کا نام لے دیا اور کہا کہ وہ تو زخمی ہو کر خون میں تڑپ رہے ہیں.نوجوانوں میں چونکہ اتنی سمجھ ہوتی نہیں کہ وہ ہر بات کی تحقیقات کرلیں یا ان لوگوں کے پاس بات کو پہنچائیں جن کے سپرد خدا تعالیٰ نے سلسلہ کا کام کیا ہوا ہوتا ہے اس لئے وہ یہ سنتے ہی بازار کی طرف دوڑ پڑے.اب جن کے ذہن میں یہ بات سمائی ہو کہ ہندوؤں نے ہمارے آدمیوں کو قتل کردیا ہے، وہ اگر جوش کی حالت میں کسی اپنے آدمی کی لاش کو نہ دیکھیں گے تو وہ اور زیادہ جوش سے بھر جائیں گے.اور خیال کریں گے کہ شاید ان لوگوں نے لاشوں کو کہیں چھپا دیا یا جلا دیا ہے.اتفاق ایسا ہوا کہ جس وقت لڑکے ہندو بازار کی طرف بھاگے جارہے تھے.اُس وقت میں اس دالان میں آیا ہوا تھا جہاں حضرت اماں جان رہتی ہیں اور اسکی کھڑکی گلی میں کھلتی ہے.میں نے جو بے اختیار لوگوں کے دوڑنے کی آواز سُنی تو کھڑکی سے جھانک کر دیکھا.سب سے آگے مولوی رحمت علی صاحب جو آپ ہمارے سماٹرا اور جاوا میں مبلغ ہیں، روڑے جارہے تھے اور ان کے پیچھے اور بہت سے لڑکے تھے.میں نے انہیں آواز دی کہ مولوی صاحب! کیا ہوا؟ اُس وقت وہ نصف گلی تک پہنچ چکے تھے.میں نے دیکھا کہ اُن کا رنگ زرد تھا، چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں اور تھر تھر کانپ رہے تھے.میرے پوچھنے پر کہنے لگے بازار میں ہندوؤں سے لڑائی ہو گئی ہے، ہمارے کئی آدمی مارے گئے ہیں اور نیر صاحب بھی خون میں تڑپ رہے ہیں.میں نے کہا اگر لڑائی ہوئی ہے تو یہ میرا فرض ہے کہ میں وہاں آدمی بھجواؤں تم میں سے کوئی آگے مت بڑھے.میرے اس کہنے پر وہ کھڑے تو ہو گئے مگر بڑی لجاجت سے کہنا شروع کر دیا.حضور! وہاں
خطبات محمود 29 سال ۱۹۳۴ء لڑائی ہو رہی ہے اور احمدی مارے جارہے ہیں.میں نے کہا اس کا انسداد کرنا میرا کام ہے تمہارا نہیں.اس پر میں نے کسی سے کہا وہ جائے اور جا کر پتہ لگائے کہ اصل واقعہ کیا ہے؟ مگر میں نے جونہی منہ موڑا پھر یکدم دوڑنے کی آواز آئی.دیکھا تو مولوی صاحب اور دوسرے لڑکے پھر بے اختیار بازار کی طرف دوڑے جارہے تھے.میں نے پھر آواز دی کہ مولوی صاحب! ٹھہر جائیں مگر انہوں نے نہ سنی.پھر آواز دی مگر انہوں نے پھر نہ سنی.یہاں تک کہ وہ میاں بشیر احمد صاحب کی گلی کے اُس نکڑ پر پہنچ گئے جہاں سے بڑی مسجد کو راستہ مڑتا ہے.میں نے خیال کیا کہ اگر اب بھی یہ نہ رکیں گے تو اس کے بعد مجھے یہی آواز سنائی دے گی کہ اتنے ہندو مار دیئے گئے ہیں اس لئے میں نے یہ سمجھ کر کہ اب ان کے اخلاص کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک ہی چارہ باقی ہے زور سے آواز دی کہ مولوی صاحب! اگر آپ نے ایک قدم بھی آگے بڑھایا تو میں آپ کو جماعت سے خارج کردوں گا.اس پر وہ رُک تو گئے مگر بار بار یہی کہتے جاتے تھے کہ حضور! ہمارے آدمی مارے جارہے ہیں.حضور! ہمارے آدمی مارے جارہے ہیں.اتنے میں جس شخص کو میں نے بھیجا تھا وہ بھی واپس آگیا اور اُس نے آکر بتایا کہ بالکل بریت ہے نہ لڑائی ہوئی اور نہ کوئی زخمی ہوا بلکہ میں دریافت کر آیا ہوں نیر صاحب گھر میں آرام سے بیٹھے ہیں.اس کے بعد میں نے پتہ لگوایا کہ میرے پہلی دفعہ منع کرنے کے باوجود یہ لوگ کیوں دوڑ پڑے تھے تو مجھے معلوم ہوا کہ ایک مفسدہ پرداز میری نظروں سے چُھپ کر گلی کے ایک کونہ میں کھڑا تھا اور جب یہ رُک گئے تو اس نے کہا ارے دوڑتے کیوں نہیں لوگ تو مارے جارہے ہیں اور تم یہاں کھڑے ہو اس پر وہ پھر بے تحاشا دوڑ پڑے.تو اس کے لوگ بھی شرارت آمیز خبریں پھیلا دیا کرتے ہیں اور یہ لوگ جماعت میں سے بھی ہو سکتے ہیں اور جماعت کے علاوہ بھی.قرآن مجید پڑھ کر دیکھ لو.اس کے مطالعہ سے تمہیں معلوم ہو گا کہ منافق ہمیشہ مدینہ میں اس قسم کی جھوٹی خبریں اُڑا دیا کرتے تھے کہ دشمن آگیا، مارے گئے، ہلاک ہو گئے.مگر فرمایا مومن اس قسم کی خبروں سے ڈرا نہیں کرتے بلکہ ایمان میں اور زیادہ مضبوط ہو جاتے ہیں.تم فرض کرو یہاں احراریوں کے قلعے بھی بن جائیں تو کیا تم یہ خیال کرسکتے ہو کہ تم نے دنیا کے جن قلعوں کو فتح کرنا ہے، یہ قلعے ان سے زیادہ مضبوط اور زبردست ہوں گے کہ تم انہیں فتح نہیں کر سکو گے.اگر تم نے یورپ'، فرانس، جرمن اور.امریکہ کے قلعے ایک دن فتح کرنے ہیں اور دنیا میں تمہاری ہی تمہاری حکومت ہونی ہے تو کیا
خطبات ت محمود سال ۱۹۳۴ ء تم سمجھتے ہو فرانس، جرمن اور امریکہ کے قلعے تو تم فتح کر لو گے مگر احراریوں کی یہ جھونپڑی تم سے فتح نہیں ہو سکے گی.جن توپوں اور گولوں سے تم نے دنیا کے اور قلعے فتح کرنے ہیں کیوں انہی توپوں اور گولوں سے اس قلعہ کو فتح نہیں کرتے.پس جاؤ اور ان لوگوں میں تبلیغ کرو.خدا تعالیٰ کے تازہ نشان جو دنیا میں ظاہر ہو رہے ہیں وہ انہیں سمجھاؤ.یہ کتنے ہی سنگدل کیوں نہ ہوں آخر ہر انسان میں نیکی کا مادہ ہوتا ہے اور یہ بھی اس سے خالی نہیں ہو سکتے.اگر تم تبلیغ کرو گے اور انہیں احمدیت میں داخل کر لو گے تو یہ خود اپنے ان قلعوں کو جو آج ہمارے خلاف تیار کر رہے ہیں اپنے ہاتھ سے گرادیں گے یا ہمارے سپرد کردیں گے.مگر یاد رکھو جن دشمنوں سے تمہارا مقابلہ ہے وہ جھوٹ اور شرارت سے پرہیز نہیں کرتے.پس مت خیال کرو کہ جو بات ان کی طرف سے تمہارے کانوں میں پڑتی ہے، اس میں ضرور کچھ سچائی ہوتی ہے.ابھی پچھلے جمعہ کے خطبہ میں ہی میں نے اپنی جماعت کو توجہ دلائی تھی کہ ہماری جماعت کی شدید مخالفت ہو رہی ہے.دوسرے ہی دن شیخ یوسف علی صاحب اخبار زمیندار کا ایک پرچہ میرے پاس لائے.اس میں لکھا تھا.موسیو مرزا ایک ہوٹل سے ایک میم کو لے کر فرار ہو گئے.حالانکہ اصل واقعہ یہ تھا کہ جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے میں اپنی بیویوں اور لڑکیوں کی تعلیم کا انتظام کر رہا ہوں اور چونکہ قادیان میں مستورات کی انگریزی تعلیم کا انتظام مرد استادوں کے ذریعہ سے کرنا پڑتا ہے اس وجہ سے طالبات انگریزی لفظ رٹ تو لیتی ہیں مگر انہیں بولنا نہیں آتا.اسی طرح ہر ملک کا لہجہ الگ ہوتا ہے جو اس لہجہ سے ناواقف ہو باوجود زبان جاننے کے بات نہیں سمجھ سکتا.پس چونکہ میری غرض بیویوں اور لڑکیوں کو انگریزی زبان سکھانے سے یہ ہے کہ وہ انگریز یا ایسی ہندوستانی عورتوں سے جو اردو نہیں جانتیں جیسے بنگالی، مدراسی بیگمات تبادلہ خیال کر سکیں اور مستورات کی انجمنوں وغیرہ میں ضرورت حصہ لے سکیں اس لئے قریباً دو سال سے میں نے یہ انتظام کیا ہوا ہے کہ علاوہ مرد استادوں کے ایک عورت استانی بھی رکھتا ہوں جو شاگردوں کو انگریزی بولنا سکھائے.اور اس کے لہجہ کو سن سن کر انگریزی لہجہ کی منافرت ان سے دور ہو جائے.بڑے شہروں میں زنانہ سکولوں میں انگریز عورتیں ماسٹر ہوتی ہیں اور الگ انتظام کی ضرورت نہیں ہوتی.لیکن قادیان میں انگریزی بولنے کی مشق کیلئے ایسا انتظام ضروری ہے.خصوصاً ہمارے گھر کی مستورات کیلئے کہ میں انہیں اس غرض سے نہیں پڑھواتا کہ وہ نوکری کریں بلکہ اس لئے کہ سب
خطبات محمود Al سال ۱۹۳۴ء انہوں وہ غیر مسلم مستورات سے مل کر ان میں کوئی تبلیغی کام کر سکیں.اسی سلسلہ میں گزشتہ ایام میں ایک استانی کی ضرورت تھی.اور میں نے بعض لوگوں کو تلاش کیلئے کہا ہوا تھا.ایک صاحب نے آگے اپنے کسی ہندو دوست کو کہا تھا.یہ صاحب لاہور چھاؤنی میں اوورسیئر ہیں.نے اس احمدی کو لکھا کہ ایک تعلیم یافتہ بیوہ عورت لاہور میں آئی ہوئی ہے اگر استانی کی ضرورت ہو تو اسے رکھ لیا جائے.میں اتفاقاً اپنی بڑی بیوی کو لینے فیروز پور جا رہا تھا.ساتھ میری دوسری بیوی اور ایک لڑکی تھیں.میں نے انہیں کہا کہ تم لوگ استانی کو دیکھ لو اگر قابل ہو تو اسے رکھ لیا جائے.چونکہ جس ہوٹل میں وہ رہتی تھی وہ راستہ میں تھا اور ان لوگوں نے ناشتہ بھی نہ کیا ہوا تھا، تجویز یہی ہوئی کہ ہوٹل میں پردہ کا انتظام کر کے اس عورت سے وہ مل بھی لیں اور ناشتہ بھی کرلیں.چنانچہ وہاں انہوں نے اس سے مل کر باتیں کیں اور وہ عورت بطور استانی جانے کیلئے رضامند ہو گئی اور اس نے کہا کہ جب آپ قادیان جائیں مجھے لیتے جائیں.مگر میں نے بعد میں اس خیال سے کہ یہ بچوں والی استانی ہے، اسے بچوں کی تعلیم کا خیال ہوگا اور قادیان چھوٹی جگہ ہے، وہاں اس کے بچوں کے دل لگنے کا بھی سوال ہو گا اسے کہلا بھیجا کہ بہتر ہے تم قادیان چند گھنٹوں کیلئے دیکھ آؤ.اگر تم سمجھو کہ وہاں تم کو اور تمہارے بچوں کو تکلیف نہ ہوگی تو پھر کام پر آجانا.چنانچہ اس نے اس تجویز کو پسند کر لیا اور قادیان آتے ہوئے اس موٹر میں بیٹھ کر جس میں دفتر کے آدمی تھے ، پچھلی سیٹوں پر میری ایک لڑکی سمیت وہ قادیان آئی اور قادیان دیکھنے کے بعد بچوں کی تعلیم کے حرج کا خیال کر کے اس نے یہ تجویز کی کہ اگر بچے لاہور سکول میں داخل ہو سکیں تو میں آجاؤں گی.چنانچہ چند گھنٹے یہاں رہ کر وہ واپس چلی گئی.اور غالبا بچوں کی وقت کی وجہ سے پھر نہیں آئی.یہ وہ واقعہ ہے جسے زمیندار نے اس رنگ میں شائع کیا ہے جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے.اسی طرح ایک دفعہ پہلے کا واقعہ ہے کہ میں دریا پر تبدیلی آب و ہوا کیلئے گیا ہوا تھا.وہاں ایک دن میں اپنی بیویوں اور لڑکیوں کو لے کر دریا کے کنارہ پر گیا.اور بندوق کا خوف دور کرنے کیلئے ان سے بندوق سے نشانے کروائے کیونکہ یہ ہنر میرے نزدیک عورتوں کیلئے بھی ضروری ہے.مگر نہ معلوم کس بھلے مانس نے زمیندار کو اطلاع دے دی اور اس نے لکھا کہ موسیو بشیر قادیان کی خواتین کو لے کر دریا پر گئے اور ان کے ساتھ مل کر نشانہ بازی کی مشق کی.اب جس شخص نے اس نوٹ کو پڑھا ا اپک
خطبات محمود ۸۲ سال ۱۹۳۴ء ہوگا یہی سمجھا ہو گا کہ لوگوں کی بیویوں اور بیٹیوں کو لے کر میں وہاں گیا تھا.غرض اس قسم کے بری فطرت والے اور گندے مخالفوں سے ہمارا مقابلہ ہے اور اس وجہ سے جماعت کو اور بھی ہوشیاری کی ضرورت ہے.اور ہر خبر جو دشمن کی طرف سے ملے یا اپنے ہی بعض لوگ مشہور کریں اسے کبھی صحیح تسلیم نہیں کرلینا چاہیے بلکہ ایسی خبروں کو میرے پاس پہنچانا چاہیئے.مرکزی دفتروں کو اطلاع دینی چاہیے تا بعد تحقیق مناسب کارروائی کی جائے.دشمن ہزاروں باتیں ایسی کہا کرتا ہے جو بالکل بے بنیاد ہوتی ہیں.پس خوف کی کوئی وجہ نہیں اگر ہم خدا تعالٰی کے مامور کے بچے متبع ہیں تو جو کچھ بھی ہوتا ہے ہمارے فائدہ کیلئے ہوتا ہے.اور اس پر ڈرنا اور خائف ہونا ایسا ہی ہے جیسا کہ کہتے ہیں کہ کسی بادشاہ کو وہم کا مرض ہو گیا اور اس نے عہد کرلیا کہ میں اپنی لڑکی کی کسی زمینی آدمی سے شادی نہیں کروں گا بلکہ اس سے کروں گا جو آسمان سے اُترے.اتفاقاً ایک دن کوئی حبشی بگولے میں اُڑ کر وہاں اگر ا.بادشاہ نے اس سے اپنی بیٹی کی شادی کردی.کچھ عرصہ کے بعد جب وہ اپنے وطن گیا تو ماں کے گلے چمٹ کر خوب رویا اور کہنے لگا ماں! میں کیا بتاؤں مجھے پر اس عرصہ میں کتنی مصیبتیں آئیں.وہ روز مجھے کپڑے پکا پکا کر کھلاتے تھے.پلاؤ اور زردہ جو اسے ملتا وہ خیال کرتا کہ یہ کیڑے پکے ہوئے ہیں.پھر چونکہ سوتے وقت نیچے روئی کا گدیلا اور لحاف رکھا جاتا اور نوکر پاؤں دباتے تھے.اس کے متعلق اس نے کہا کہ اے ماں! وہ میرے اوپر بھی روئی ڈال دیتے اور نیچے بھی اور پھر اوپر سے مجھے کوٹنے لگ جاتے.ایسے ہی مصائب آپ لوگوں کے ہیں.اگر خدا تعالیٰ کی آپ جماعت ہیں تو گھبراتے کیوں ہیں.بے شک مومن کو خدا تعالیٰ کے استغناء کو مد نظر رکھنا چاہیے لیکن بندوں سے ڈرنے کی کیا وجہ ہے اور پھر ان باتوں سے جن کو اللہ تعالٰی آپ کے فائدہ کیلئے پیدا کر رہا ہے.ہاں بے شک اپنی کمزوریوں کا خیال کر کے استغفار کرنا چاہیے، صحیح ذرائع فتنوں کا مقابلہ کرنے کیلئے اختیار کرنے چاہئیں مگر خوف اور گھبراہٹ کی کوئی وجہ نہیں کہ اوپر ہر بلائیں قوم را حق داده اند زیر آن گنج کرم بنها ده اند پھر جب خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے ایک نظام مقرر کیا ہے اور ایک خلیفہ بنایا ہے جس کی اطاعت تم پر فرض ہے تو تمہارا کام یہ ہے کہ جب کوئی گھبراہٹ کی بات سنو فوراً خلیفہ وقت کو بتادو یونہی گھبرائے پھرنا انجام کار انسان کو شرمندہ کرتا ہے.مثلاً اسی مسجد کے بننے کی جس کا
خطبات محمود ۸۳ سال ۱۹۳۴ء میں نے ذکر کیا ہے جب خبر پھیلی تو ایک شخص نے نہایت غصہ سے مجھے لکھا کہ ناظر امور عامہ غافل ہے یہاں اندھیر بیچ رہا ہے احراری مسجد بنا رہے ہیں مگر کوئی اس کے انسداد کی فکر نہیں کر تا مگر دو چار دن کے بعد جب اسے اپنی حماقت محسوس ہوئی تو اسے خیال آیا کہ میں جو لکھ چکا ہوں کہ قادیان میں سب مجرم ہیں کیونکہ وہ خاموش بیٹھے ہیں اور مخلص صرف میں ہی ہوں جسے جوش آرہا سے اس کا اثر دور کرنا چاہیے.چنانچہ اُس نے مجھے ایک اور خط لکھا کہ میری رائے تو یہی ہے کہ ہمیں اس معاملہ پر کوئی شور مچانا نہیں چاہیے گویا اس نے سمجھ لیا کہ میرا حافظہ اتنا کمزور ہے کہ میں اس کے پہلے رقعہ کو بھول گیا ہوں گا حالانکہ پہلا رقعہ اس کا یہ تھا کہ یہاں کے تمام لوگ غافل اور غدار ہیں.احراریوں کی مسجد بن رہی ہے اور انہیں کوئی فکر نہیں لیکن تیسرے چوتھے روز ہی اس نے لکھا کہ میری رائے تو یہی ہے کہ ہمیں اس پر شور نہیں بچانا چاہیئے.گویا ہم تو چاہتے تھے کہ شور مچایا جائے مگر اس کا یہ مشورہ ہے کہ شور نہ مچایا جائے حالانکہ نہ اس کے پہلے رقعہ کی وقعت میرے نزدیک ایک پھٹے ہوئے چیتھڑے جتنی تھی اور نہ دوسرے کی.اس میں شبہ نہیں دشمن ہے اور بڑا خطرناک دشمن ہے اسے جھوٹ اور کذب بیانی سے پر ہیز نہیں اور جب بھی وہ کوئی افتراء پردازی کرتا ہے، کمزور لوگ یا منافق کہنے لگ جاتے کہ اس میں کچھ تو بات ہوگی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم گھبرا جاؤ.تم نے جو کچھ کرنا ہے تمہیں چاہیے کہ صبرو استقلال سے کرو اور اس کا طریق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکو دعا کرو اور اس سے کہو کہ اے خدا! اگر یہ دشمنوں کی شرارتیں ہماری خطاؤں کا نتیجہ ہیں تو ہمیں معاف فرما اور اگر یہ ترقیات کا پیش خیمہ ہیں تو وہ ترقیات ہمیں جلدی عطاکر کیونکہ ابتلاء دو ہی غرض کیلئے آیا کرتے ہیں، یا سزا کیلئے یا انعام کیلئے.اگر یہ ابتلاء بطور سزا ہیں تو اللہ تعالٰی ہمیں معاف کرے اور اگر بطور انعام ہیں تو وہ انعام ہمیں نصیب فرمائے.میں قادیان والوں کو خصوصیت سے توجہ دلاتا ہوں کہ ان کے ہر فعل کو دشمن عجیب رنگ میں دنیا کے سامنے پیش ہے پس انہیں زیادہ محتاط رہنا چاہیئے.ابھی یہاں احراریوں کی مسجد جب بننے لگی تو سمال ٹاؤن کمیٹی جسے قانون کے ماتحت حکومت دی گئی ہے اور جسے اختیار دیا گیا ہے کہ جب تک وہ کسی عمارت کے نقشہ کی منظوری نہ دے، اُس وقت تک کوئی عمارت نہ بنائی جائے.چونکہ یہ لوگ بغیر اس سے منظوری حاصل کئے، عمارت بنانے لگے تھے، کمیٹی کے ایک افسر ہیں کرتا کا
خطبات محمود ۸۴ سال ۱۹۳۴ء ا نے آکر روکا.وہ ادھر بنانے پر اصرار کرتے رہے، وہ افسر روکنے پر اصرار کرتا رہا.آخر ان لوگوں نے اور ان کے ساتھ سنا گیا ہے پولیس نے تاریں دے دیں اور رپورٹ کردی کہ احمدی ہمیں اپنی زمین پر مکان نہیں بنانے دیتے.اور جھٹ یکے بعد دیگرے افسر تحقیقات کرنے کیلئے آنے لگے اور انہوں نے زور دینا شروع کیا کہ اس طرح احمدی جماعت کی بدنامی ہوتی ہے.سمال ٹاؤن کمیٹی کو خاص اجلاس کر کے منظوری دے دینی چاہیے حالانکہ اس معاملہ میں نہ جماعت کا کوئی تعلق تھا اور نہ تعلق ہو سکتا تھا.ایک سرکاری محکمہ کام کرتا ہے بعض شرارتی اسے شرارت سے جماعت کی طرف منسوب کرتے ہیں اور بعض محکام اسے وہی رنگ لیکن دینے لگ جاتے ہیں.صرف اس وجہ سے کہ قادیان کی کمیٹی میں احمدی ممبر زیادہ ہیں.بعض دوسری جگہوں پر ہندو، سکھ اور حنفی ممبر زیادہ ہوتے ہیں، کیا ان جگہوں پر کمیٹیوں کے کاموں کیلئے ان مذہب کے مرکزی اداروں کو ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے اور ان کو بدنام کیا جاتا ہے؟ حصہ اگر یہی بات ہے تو حکومت کو کمیٹیاں بنانے کی کیا ضرورت ہے.ایسی کمیٹیاں بنانا جن کو اپنے اختیار جائز طور پر بھی استعمال کرنے کی اجازت نہ ہو اور جن کے جائز احکام کے نفاذ پر حکومت کو فکر پڑ جائے، ان کو تو اُڑا دینا اچھا ہے کیونکہ ان کے قیام سے خواہ مخواہ لوگوں کو دھوکا لگتا ہے.تعجب ہے سمال ٹاؤن کمیٹی ایک قانون کا نفاذ کرتی ہے اس قانون کا جو خود گورنمنٹ نے بنایا ہے اور جس پر عمل کرانے کی اس سے امید کی جاتی ہے مگر حکام ہیں کہ محض اس وجہ سے کہ احراری کہیں شور نہ مچائیں ، خواہ مخواہ خائف ہو رہے ہیں.ادھر جماعت کے دوستوں کا ایک.ہے کہ وہ خائف ہو رہا ہے کہ احراریوں کی ڈیڑھ مرلہ کی مسجد بن جائے گی تو کیا ہو جائے گا.میرے نزدیک دونوں کا رویہ خلاف عقل ہے.وہ گورنمنٹ بھی اپنے فرائض کو ادا نہیں کرتی جو سمال ٹاؤن کمیٹی کے کام کو احمدیوں کی طرف منسوب کر کے اس میں دخل دینا چاہتی ہے اور اس طرح قانون شکنی کی روح پیدا کرتی ہے اور جماعت کے وہ لوگ بھی جو اس مسجد کے بننے پر گھبراتے ہیں، بزدل ہیں.احراری یہاں ایک کیا دس مسجدیں بنالیں، میرے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں.آریوں نے یہاں ایک دفعہ جلسہ کرنے کی تجویز کی.ان کے بعض لیکچرار مجھ سے ملنے آئے اور میں نے ان سے کہا کہ آپ کہیں اور جلسہ کیوں کرتے ہیں ہماری مسجد موجود ہے، یہاں جلسہ کریں.وہ کہنے لگے کیا آپ اپنی مسجد میں
خطبات محمود AA سال ۱۹۳۴ء جلسہ کرنے کی اجازت دے دیں گے.میں نے کہا ضرور اس میں حرج کی کونسی بات ہے.آخر میں نے اپنی مسجد میں ان کی تقریر کیلئے انتظام کر دیا.اور حافظ روشن علی صاحب مرحوم سے ان کا ایک مباحثہ ہو گیا.اس کے بعد آریوں کا کوئی قابل ذکر جلسہ نہیں ہوا.اسی طرح ایک دفعہ مجھے کسی نے سنایا کہ گاندھی جی نے کہا ہے کہ احمدی جماعت منتظم بہت ہے مجھے اگر اس جماعت کے امام سے ملنے کا اتفاق ہو تو میں انہیں سمجھاؤں اور کانگرسی اصول کا قائل کروں.جب ایک ہندو صاحب نے اس بارہ میں مجھ سے ذکر کیا تو میں نے ان سے کہا کہ آپ اگر پھر گاندھی جی سے ملیں تو میری طرف سے کہہ دیں کہ آپ ضرور تشریف لائیں میں آپ کا شاندار استقبال کروں گا' آپ کی تقریر کیلئے انتظام کروں گا خود بھی بیٹھوں گا اور لوگوں کو بھی اس میں بٹھاؤں گا پھر آپ بھی تقریر کریں اور میں بھی.پس نہ ہمارے لئے ڈر کی کوئی بات ہے اور نہ گورنمنٹ کیلئے.گورنمنٹ نے جو قانون بنائے ہوئے ہیں اس کا فرض ہے کہ وہ ان دنوں کا ساتھ دے جوان قوانین کو نافذ کرنے والے ہوں نہ کہ مخالفوں کا.ورنہ دو ہی صورتیں ہیں.یا تو قانون کو بدل دیا جائے یا شورش پسندوں کے آگے ہتھیار ڈال دیئے جائیں لیکن یہ درست نہیں کہ قانون کو بدلے بغیر قانون کی حد میں رہ کر کام کرنے والی کمیٹی کے فعل کو جماعت احمدیہ کی طرف منسوب کیا جائے اور قانون شکن لوگوں کی عملاً پیٹھ ٹھونکی جائے.میونسپل کمیٹیوں کا قانون ہے کہ نقشہ کی منظوری کے بغیر کوئی عمارت بنانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی.پس اگر قادیان کی کمیٹی نے اس پر اصرار کیا کہ پہلے اس کے سامنے نقشہ پیش کیا جائے تو اس نے بالکل درست کیا اور حکومت کا اگر وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھے، یہ فرض ہے کہ وہ سمال ٹاؤن کمیٹی کی امداد کرے اور شورش کرنے والوں کو سیدھا کرے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو وہ ملک میں قانون شکنی کی روح پیدا کرنے کی خود ذمہ دار ہے اور اس طریق سے وہ اپنے کام کو ادا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی.اسی طرح وہ جماعت بھی کامیاب نہیں ہو سکتی جس کے افراد ڈیڑھ مرلہ کی مسجد بننے پر گھبرانے لگ جائیں.وہ ڈیڑھ مرلہ کی کیا دس ہزار مرلہ کی مسجد بنالیں ہمیں کوئی فکر نہیں.جتنی بڑی مسجد وہ بنائیں گے اتنا ہی ہمارا فائدہ ہے کیونکہ آخر ایک دن اس مسجد نے ہمارے قبضہ میں ہی آتا ہے.ہاں جیسا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے دشمن کا حملہ حقیر نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اس کا علاج کرنا چاہیے جو ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ ہم انہیں دعوتِ خیر دیں.
خطبات محمود AY سال ۱۹۳۴ء قرآن مجید نے صاف الفاظ میں بتایا ہے کہ قرآن مجید ہی مومنوں کے لئے تلوار ہے.ہے.چنانچہ فرماتا ہے جَاهِدُهُمْ به سے اس قرآن کو لے کر کفار سے جہاد کرو.پس قرآن مجید تمہارے پاس ہے، اس سے جتنا چاہو کام لو.میں تمہارے ساتھ ہوں اور تمہاری تائید میں ہوں لیکن اگر تم اس تلوار سے کام لیتے ہو جو خدا تعالیٰ نے تمہیں نہیں دی یا گھبراتے ہو تو یہ بیوقوفی کی بات ہے.پس ان باتوں میں نہ تمہیں لوگوں کا خیال کرنا چاہیے نہ گورنمنٹ کا.ہم اگر گورنمنٹ کی تائید میں رہے ہیں اور ہیں تو صرف اس لئے کہ ہمارا مذہب ہمیں حکومتِ وقت کی فرمانبرداری کا حکم دیتا ہے.ورنہ میں نے اپنے نفس میں خوب غور کر کے دیکھا ہے جس قسم کی حریت اسلام ہم میں پیدا کرتا ہے اگر اس کے ساتھ حکومت کی فرمانبرداری کا حکم نہ ہو تا تو میں اپنے ملک کی آزادی کی جدوجہد میں گاندھی جی سے دو قدم آگے ہی ہوتا.ہم کیا کریں جس نے ہمیں حریت کی تعلیم دی، اسی نے یہ بھی کہہ دیا کہ ان اصول پر عمل کرو اور جس حکومت کے ماتحت رہو اس سے تعاون کرو.پس اس حکم کے ماتحت ہم گورنمنٹ کی فرمانبرداری کرتے ہیں اور اس فرمانبرداری میں ہمارا گورنمنٹ پر کوئی احسان نہیں.ہم اگر گورنمنٹ کی اطاعت کرکے یہ سمجھیں کہ ہم اس پر احسان کر رہے ہیں تو ہم ملک کے غدار ہیں کیونکہ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم کسی غرض کے ماتحت اس کی فرمانبرداری کرتے ہیں حالانکہ یہ صحیح نہیں بلکہ خدا کے بندھے بندھائے اس کی اطاعت کر رہے ہیں.اللہ میاں نے کہا ہے کہ اطاعت کرو.ہم نے کہا بہت اچھا اور ہم اطاعت کرنے لگ گئے.اسی طرح اگر ہمارا پبلک سے معاملہ ہے تو وہ بھی خدا کے حکم کے ماتحت ورنہ کیا تم سمجھتے ہو اگر خدا یہ کہتا کہ لٹھ اُٹھا کر مخالفین اسلام کا سر پھوڑ دو تو میں اِس حکم کے بجالانے میں کسی سے پیچھے رہتا ؟ ایک دفعہ میں لاہور گیا اور مجھ سے ایک شخص ملنے آیا.مجھے یاد نہیں وہ کسی کالج کا پروفیسر تھا یا طالب علم ، آکر کہنے لگا کہ آپ کی جماعت جہاد کی منکر ہے.میں نے کہا منکر ہماری جماعت ہی نہیں بلکہ آپ بھی ہیں.فرق صرف یہ ہے کہ ہم کہتے ہیں ان دنوں جہاد کی شرائط چونکہ موجود نہیں، اس لئے جہاد نہیں کرنا چاہیے.اور آپ جہاد کے قائل ہیں مگر کرتے نہیں.گویا جہاد نہ کرنے میں تو ہم دونوں برابر ہیں مگر ہم اپنے عقیدہ کے مطابق جہاد نہیں کرتے اور آپ باوجود جہاد کو موجودہ زمانہ میں جائز سمجھنے کے منافقت کی وجہ سے جہاد نہیں کرتے.پھر میں نے کہا اگر آپ جہاد کو جائز سمجھتے ہیں تو کیوں جا کر چند انگریزوں کو مار نہیں آتے.مگر یہ
خطبات محمود AL سال ۱۹۳۴ء کیا کہ گھر میں تو سارا دن حقہ اڑاتے رہے اور جماعت احمدیہ پر اعتراض کرتے رہے کہ جہاد نہیں کرتی، جہاد نہیں کرتی.اگر حقہ کے کش لگانے سے اور جماعت احمدیہ پر اعتراض کر دینے سے ہی کوئی شخص مجاہد بن سکتا ہے تو ایسے مجاہد تو ہر جگہ موجود ہو سکتے ہیں لیکن کیا یہ جہاد کو جائز سمجھتے ہوئے درست طریق عمل ہے؟ اگر ہم پر اعتراض کرنے والے انگریزوں سے لڑیں اور انہیں ہندوستان سے باہر نہ نکال سکیں تو کم سے کم ان سے لڑتے ہوئے مر جائیں اور اس جنگ کے وقت وہ ہم پر اعتراض کریں کہ ہم تو میدانِ جہاد میں کام کر رہے ہیں اور یہ منافق پیچھے بیٹھے ہوئے ہیں تو گو پھر بھی ہم ان کے اعتراض کو درست نہ سمجھیں مگر اس حالت میں اس قسم کے اعتراض کا اُن کو حق ضرور ہو گا.مگر اب یہ حالت ہے کہ ہم پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ جہاد نہیں کرتے اور خود جہاد کو جائز سمجھنے کے باوجود گھر میں صبح.شام تک حقہ اُڑاتے رہتے ہیں.یا شعر بازی کر لیتے ہیں لیکن کبھی خیال بھی نہیں آتا کہ جہاد کیلئے نکلیں.پھر جب ہماری طرف سے یہ کہا جائے کہ شرائط موجود نہ ہونے کی وجہ سے ہم جہاد بالسیف نہیں کرتے تو دین کیلئے اپنے اموال تو خرچ کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے یہ بھی کوئی قربانی ہے حالانکہ اگر اپنے مالوں کو خرچ کرنا بیوی بچوں کو چھوڑ کر غیر ممالک میں اعلائے کلمتہ اللہ کیلئے نکل جانا کوئی بڑی بات نہیں تو وہ ایسی ہی قربانی کیوں کر کے نہیں دکھا دیتے.مگر وہ قربانی جسے وہ بڑی سمجھتے ہیں وہ بھی نہیں کرتے اور جسے چھوٹی سمجھتے ہیں وہ بھی نہیں کرتے.اور ان کی بالکل اس بنیے کی سی مثال ہو جاتی ہے جو پنسیری ہاتھ میں لے کر کہتا ہے سر پھوڑ دوں گا اور یہ کہتے ہی دو قدم پیچھے ہٹ جاتا ہے.یہ بھی جہاد جہاد کہتے ہیں مگر جب عمل کا وقت آتا ہے تو گھر میں چُھپ کر بیٹھ رہتے ہیں.تاہم ہمارا ان سے جو معاملہ ہے وہ بھی خدا کے احکام کے ماتحت ہے..اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.جَادِلُهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ھے یعنی ان لوگوں سے احسن طریق پر بحث کرو اور احسن طریق یہی ہے کہ محبت اور پیار سے انہیں سمجھائیں اور ان کیلئے دعا کریں.اور حکومت سے ہمارا احسن طریق پر مجادلہ یہ ہے کہ ہم اس کی فرمانبرداری کریں اور اگر وہ کسی غلطی کا ارتکاب کرنے لگے تو اس پر اس کی غلطی کو واضح کر دیں.پھر بھی اگر وہ غلطی کرے تو یہ اس کا قصور ہو گا.اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم اللہ تعالیٰ سے دعائیں کریں کہ وہ لوگوں کو ہدایت دے.ہم ایک زندہ خدا کو ماننے والے ہیں اور ہماری آخری اپیل ہمیشہ
سال ۱۹۳۴ء خطبات محمود AA نہیں خدا تعالی کے پاس ہونی چاہیے کیونکہ وہی سب سے بہتر اپیل کی جگہ ہے.کیونکہ بسا اوقات ایک رات کی درد کی دعا بھی دنیا کا تختہ اُلٹ دیتی ہے.ایک بزرگ کے متعلق مشہور ہے، ان کا ایک امیر ہمسایہ رات بھر گانے بجانے میں مشغول رہتا جس سے محلے والوں کو سخت تکلیف ہوتی انہوں نے اسے سمجھایا تم گاتے بجاتے ہو اور محلے والوں کو سخت تکلیف ہوتی ہے، اس طرح نہ کیا کرو.وہ امیر چونکہ بادشاہِ وقت کا مقرب تھا، اس لئے اس نے پرواہ نہ نہ کی اور دروازے پر سپاہی مقرر کر دیئے تا گانے بجانے میں کوئی شخص مزاحمت نہ کر سکے.اس بزرگ نے پھر جو سمجھایا تو امیر نے کہا بادشاہ کے یہ سپاہی موجود ہیں.اگر آپ نے اور کچھ کہا تو یہ آپ کو یہاں سے نکال دیں گے.اس نے کہا اگر تمہارے پاس سپاہی موجود ہیں تو میرے پاس بھی وہ تیر ہیں جن کا تم مقابلہ نہیں کر سکتے.اس نے پوچھا وہ کون سے.وہ کہنے لگے سِهَامُ الليل یعنی رات کی دعاؤں کے تیر- اس بات کا اُس پر اتنا اثر ہوا کہ اُس نے اُسی وقت گانے بجانے کا سامان توڑ دیا اور روپڑا اور کہنے لگا اِن تیروں کا مقابلہ مجھ سے ہو سکتا.پس تمہارے پاس بھی سب سے بڑا ہتھیار دعا ہے.اس سے کام لو اور ان مسلمانوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو جہاد جہاد کہتے ہیں مگر کرتے نہیں.ایسا نہ ہو کہ تم بھی دعا دعا کہتے رہو اور کرو نہیں.پس جاؤ اور ان لوگوں کو تبلیغ کرو.جاؤ اور ان کیلئے دعائیں کرو.ان دونوں ہتھیاروں سے اگر کام لو گے تو دنیا کے تمام مخالفوں کو کچل دوگے، بڑوں کو بھی اور چھوٹوں کو بھی، حکومت کو بھی اور رعایا کو بھی اور یہی شاندار فتح ہوگی.بے شک تلوار کے ذریعہ فتح کرنا بھی ایک فتح ہے مگر وہ فتح ادنیٰ قسم کی ہے.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں چونکہ ایسے حالات پیدا ہو گئے تھے جن کے ماتحت تلوار اُٹھانا ضروری تھا اس لئے صحابہ نے تلوار اُٹھائی.ورنہ صحابہ جب جنگ کو جاتے تو اس طرح اسے ناپسند کرتے ہوئے جاتے جس طرح موت کو ناپسند کیا جاتا ہے.اور اگر حالات مجبور نہ کرتے تو کیا تم سمجھتے ہو حضرت ابوبکر " حضرت عمر " تلوار اُٹھا سکتے.ان چیزوں کا تو خیال کرنے سے بھی مومن کے جسم پر رعشہ طاری ہو جاتا ہے کیونکہ مومن اور نقصان جمع نہیں ہو سکتے.مومن خدا تعالیٰ نے دنیا کے فائدہ کیلئے بنایا ہے اور بچپن سے بڑھاپے بلکہ مرتے دم تک اس کے دل و دماغ پر یہی خیال حاوی رہتا ہے کہ وہ مخلوق کو فائدہ پہنچائے.یہی روح ہے جو فتح دیتی ہے اور یہی اصل فتح ہے جس کی وجہ سے رسول کریم اور آپ کے صحابہ سب انبیاء اور ان کی جماعتوں سے بڑھ گئے.کفار
خطبات محمود ۸۹ سال ۱۹۳۴ء آپ کی تلوار کی فتوحات سے دعاؤں اور قربانیوں کی فتوحات بہت زیادہ شاندار تھیں ورنہ ظاہری فتح ایسی پائیدار نہیں ہوتی.انگریزوں کو دیکھو.اس وقت تک لاکھوں فوائد ہیں جو انگریزی حکومت کی وجہ سے ہندوستانیوں کو پہنچ چکے ہیں اور سوائے ہندوستان کے ایشیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جس نے اتنے قلیل عرصہ میں اسقدر حیرت انگیز ترقی کی ہو.ایران، عرب افغانستان سب آزاد حکومتیں ہیں مگر دنیوی ترقی انہوں نے اتنی نہیں کی جتنی ہندوستان نے انگریزوں کے ماتحت کی ہے.مگر باوجود اس کے کہ انگریزوں کی وجہ سے ہندوستانیوں کو بہت فوائد پہنچے ، آج تعلیم یافتہ طبقہ میں سے سو میں سے نانوے انگریزوں کے خون کے پیاسے ہیں کھلم کھلا انارکسٹوں کی تعریف نہیں کر سکتے تو گھر بیٹھ کر اپنی مجالس میں انہیں ضرور سراہتے اور ان کے کاموں کی تعریف کرتے ہیں بلکہ ہندوستانی سرکاری ملازموں میں سے جن کا کام امن کا قیام اور حکومت سے تعاون ہے نانوے فیصدی انگریزوں کے دشمن ہیں.اس کے مقابلہ میں محمد اللہ نے بھی دنیا کو فتح کیا مگر وہ فتح کیسی نمایاں ہے.حضرت عمرو بن العاص جب وفات پانے لگے تو اُس وقت انہوں نے بتایا کہ ایک زمانہ مجھ پر ایسا گزرا ہے جب کہ وہ ނ میں محمد ﷺ کو روئے زمین پر سب سے زیادہ بُرا شخص تصور کرتا اور اس بغض کی وجہ.میں نے کبھی آپ کو آنکھ اُٹھا کر نہ دیکھا.پھر اللہ تعالیٰ نے میرے دل کو کھول دیا اور مجھے ایمان لانے کی توفیق عطا فرمائی اس کے بعد مجھے رسول کریم ﷺ سے اتنی گہری محبت ہو گئی کہ میں فرط عشق کی وجہ سے آپ کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھ سکتا.گویا کفر کی حالت میں اتنا تھا کہ میں نے آپ کو اچھی طرح نہ دیکھا اور ایمان کی حالت میں عشق ایسا تھا کہ اس کی وجہ سے میں آپ کو نہ دیکھ سکا اس لئے آج اگر کوئی شخص مجھ سے رسول کریم کا حلیہ دریافت کرے تو میں بتانے سے قاصر ہوں نے.یہ کتنی بڑی قلوب کی فتح ہے.اس فتح کے مقابلہ میں تلوار کی فتح کوئی حقیقت نہیں رکھتی.جب مخالف دیکھتا ہے کہ یہ لوگ شفقت و محبت سے پیش آتے ہیں تو آخر وہ شرمندہ ہو جاتے ہیں.پس اگر حقیقی فتح چاہتے ہو تو طریق اختیار کرو.اس کے بعد خواہ کوئی حاکم بھی ہو دراصل تمہارا محکوم ہو گا کیونکہ جب اللہ تعالی دلوں کو بدل دیتا ہے تو حاکم بھی غلاموں کی طرح ہو جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جب قتل کا مقدمہ ہوا تو وہی انگریز ڈپٹی کمشنر جس نے ایک دفعہ کہا تھا کہ اس مدعی مسیحیت کو ابھی
خطبات محمود ۹۰ سال ۱۹۳۴ء تک سزا کیوں نہیں دی گئی، اپنے پاس کرسی بچھا کر آپ کو بٹھاتا، اور ان کے دفتر کے سپرنٹنڈنٹ کا بیان ہے کہ وہ بٹالہ کے اسٹیشن پر ایک دفعہ گھبرا کر مل رہا تھا اور جب میں نے اس سے پوچھا کہ آپ اتنے پریشان کیوں ہیں تو وہ کہنے لگا اس مقدمہ کا مجھ پر اتنا گہرا اثر ہے کہ میں جدھر جاتا ہوں، سوائے مرزا صاحب کے مجھے کوئی اور نظر نہیں آتا اور مرزا صاحب مجھے یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ میں مجرم نہیں.میری سمجھ میں نہیں آتا مقدمہ ان کے خلاف ہے، بیانات ان کے مخالف ہیں اور مجھ پر جو واقعہ گزر رہا ہے اس نے مجھے اس قدر پریشان کر رکھا اور اتنا اثر ڈالا ہوا ہے کہ میں ڈرتا ہوں، کہیں پاگل نہ ہو جاؤں.آج تک وہ انگریز ڈپٹی کمشنر اس واقعہ کا ذکر کرتا ہے اور ہمارے دوستوں کو جو انگلستان میں مبلغ رہ چکے ہیں اس نے بتایا کہ جب مجھ سے کوئی شخص پوچھتا ہے کہ ہندوستان کی سروس میں کوئی سب سے عجیب واقعہ سناؤ تو میں مرزا صاحب کے مقدمے کا واقعہ ہی بیان کیا کرتا ہوں.غرض اللہ تعالی قلوب کو پھیر دیتا ہے تو یہی فتح حقیقی فتح کہلاتی ہے.پس دلوں کو فتح کرنے کی کوشش کرو ر چاہے لوگ سختی سے پیش آئیں، ان سے ایسی محبت اور پیار کا سلوک کرو کہ آخر وہ اس کے نتیجہ میں ہماری جماعت میں شامل ہو جائیں.باقی جو لوگ فساد ڈلوانا چاہیں، تمہیں سمجھ لینا چاہیے کہ وہ منافق ہیں کیونکہ جب خلیفہ وقت ایک امر کی طرف توجہ نہیں کرتا تو جو لوگ شور مچا رہے ہوں یا تو سمجھو کہ وہ قومی خادم ہیں اور خلیفہ کے دل میں تمہاری کوئی ہمدردی نہیں اور یا پھر ان کو بیوقوف یا منافق سمجھو.اور اگر تم سمجھتے ہو کہ اصل ہمدردی خلیفہ وقت کے دل میں ہی ہو سکتی ہے تو کیوں تم نے کبھی خیال نہیں کیا کہ ایسے موقعوں پر ہمیشہ کمزوروں کو ہی کیوں جوش آتا ہے، کیوں خلیفہ وقت کو جوش نہیں آتا.اس سے بھی معلوم ہو سکتا ہے کہ ان کا جوش کسی اخلاص کی وجہ سے نہیں بلکہ منافقت اور جماعت میں فساد ڈلوانے کی نیت ہے ہے.پس میں ایک دفعہ پھر جماعت کو ہوشیار کرتا ہوں کہ یہ ایام ابتلاء ہیں.ان میں ٹیک تدبیروں، دعوت خیر اور دعاؤں سے کام لینا چاہیئے.اللہ تعالٰی ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنے فرائض کو سمجھیں.اور یہ یقین رکھیں کہ جس کو خدا تعالٰی نے سمجھانے اور ہدایت دینے کا کام سپرد کیا ہے وہی اصل خیر خواہ ہے نہ کہ شرارت کرنے والے.اور ایسا نہ ہو کہ جس کو خدا تعالی نے معلم بنایا ہے اُس کی بات کو ہم ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیں.الفضل ۱۸ مارچ ۱۹۳۴ء)
خطبات محمود 91 سال ۱۹۳۴ء البقرة: ٢٧ له بنی اسراءیل: ۲۱ سے محمدنیا الفرقان: ۵۳ ه النحل : ١٢٦ مسلم کتاب الایمان باب كون الاسلام يهدم ماقبله وكذا الهجرة والحج
خطبات محمود ۹۲ محبت، شفقت اور پیار سے کام لو فرموده ۱۶ مارچ ۱۹۳۴ء) سال ۱۹۳۴ء حالانکہ تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- مجھے آٹھ دس روز سے ظہر کے بعد حرارت ہو جاتی ہے اس لئے میں زیادہ دیر تک بول نہیں سکتا لیکن پچھلے دو جمعوں میں میں نے جو تقریریں کی ہیں انہی کے تسلسل میں اختصار کے ساتھ رسول کریم ﷺ کا طریق عمل اور آپ کی ایک نصیحت سنا دیتا ہوں.مجھے نہایت ہی افسوس ہے کہ بعض لوگ وعظ کی مجلس میں نصیحت حاصل کرنے کیلئے نہیں آتے بلکہ بالکل بہروں کی طرح آکر بیٹھ جاتے ہیں اور بہرہ پن کی حالت میں ہی اُٹھ کر چلے جاتے ہیں وعظ کی اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ انسان سنے اور اسے تسلیم کرے ورنہ اگر اطاعت نہ ہو تو نبوت اور خلافت بھی بے معنی ہے.مجھے نہایت افسوس کے ساتھ یہ بات معلوم ہوئی کہ پچھلے جمعہ کے دن مسجد سے نکلتے ہی ایک احمدی ایک دوسرے شخص سے لڑ پڑا.لڑائی تو عام حالات میں بھی منع اور معیوب ہے مگر میں نے سنا ہے کہ یہ لڑائی کسی تازہ واقعہ کی بناء پر نہیں تھی بلکہ اس وجہ سے تھی کہ لڑنے والا احمدی جب اس کے گاؤں میں تبلیغ کیلئے گیا تو اس نے اسے تنگ کیا تھا اور یہ ایسی ذلیل اور کمینہ حرکت ہے کہ اسے سن کر میں بہت ہی شرمندہ اور نادم ہوا کیونکہ یہ بالکل کتے والی بات ہے جو اپنی گلی میں شیر ہوتا ہے.مومن کو اگر جوش آئے بھی تو اُس جگہ آتا ہے جہاں دشمن کا زور ہو.یہ اطلاع جو مجھے پہنچی ہے اگر صحیح ہے تو یہ ایسی بات ہے کہ میں ندامت سے پانی پانی ہوا جاتا ہوں.اول تو میں نے نصیحت کی تھی کہ !
خطبات محمود ۹۳ سال ۱۹۳۴ء جماعت کے دوستوں کو لڑائی جھگڑے سے کام نہیں لینا چاہیے بلکہ دعا اور استغفار کرنا چاہیئے.لیکن فرض کرو کوئی شخص اپنے جوش اور جذبات کو نہیں دبا سکتا تھا تو اسے چاہیے تھا کہ جس دن وہ اُس کے گاؤں میں گیا تھا اور اُس نے اسے تنگ کیا تھا، وہیں لڑ پڑتا.اس انتظار میں رہنا کہ وہ اکیلا میرے محلہ میں آئے گا تو اُسے پکڑوں گا یہ بالکل کتے والی بات ہے اور اتنی کمینہ حرکت ہے کہ احمدیت تو بڑی بات ہے، میں اسے انسانیت سے بھی گرا ہوا فعل سمجھتا ہوں اور مجھے اس کا اتنا احساس ہوا ہے کہ جب بھی اس کا خیال آیا، شرمندگی.سے میرا دل گھٹنے لگ گیا کہ ہماری جماعت میں بھی ایسے ذلیل لوگ ہیں.کسی شخص نے خواہ ہمارا کتنا بڑا قصور کیوں نہ کیا ہو جب وہ ہمارے گھر میں یا محلہ میں آجائے تو اس کے ساتھ ہمارا سلوک جدا گانہ ہونا چاہیئے.یورپین لوگ مذہبی لحاظ سے ہمارے سخت دشمن ہیں لیکن بچپن میں میں نے ایک انگریز کی لکھی ہوئی ایک ریڈر پڑھی تھی جس میں ایک واقعہ ہسپانیہ کے مسلمانوں کے متعلق تھا.ہسپانیہ کے مسلمانوں کے ساتھ یورپین اقوام کو خصوصیت سے عداوت تھی کیونکہ وہ مسلمان وہاں کئی سو سال تک حکومت کرتے رہے ہیں.اس ریڈر میں ایک واقعہ لکھا تھا جو نظم و نثر میں تھا اور جسے اکثر لوگوں نے پڑھا ہو گا.وہ یہ کہ کسی شخص نے ایک عرب کے نوجوان لڑکے کو قتل کر دیا شاہی فوج اس کے پکڑنے کیلئے اس کے پیچھے آرہی تھی قاتل بھاگتا ہوا آیا اور اسی شخص کے گھر میں داخل ہو کر پناہ کا طالب ہوا جس کے لڑکے کو وہ قتل کر آیا تھا.وہ عرب اُسے دیکھ کر کھڑا ہو گیا اور اُس سے پوچھا کہ کیا بات ہے، اس نے کہا مجھ سے ایک خون ہو گیا ہے.سرکاری آدمی مجھے پکڑنے کیلئے پیچھے آرہے ہیں، مجھے پناہ دو - عرب نے پوچھا تم نے کسے قتل کیا ہے، قاتل نے مقتول کا نام و نشان اور خلیہ وغیرہ بتایا.تو اس عرب کو معلوم ہو گیا کہ یہ شخص میرے بیٹے کو قتل کر کے آیا ہے مگر پھر بھی اُس کی مہمان نوازی نے جوش مارا اور اس نے کہا میرے پیچھے آؤ وہ اُسے ساتھ لے گیا اور پچھواڑے سے نکال دیا اور جب فوج آئی تو کہہ دیا کہ یہاں تو کوئی ایسا شخص نہیں.یہ مومنانہ شرافت ہے کہ جب قبضہ میں آئے تو اس پر رحم کیا جائے.وہ وقت بدلہ لینے اور بہادری دکھانے کا نہیں ہوتا.جب دشمن گھر میں، محلہ میں یا شہر میں آجائے اُس وقت مومنانہ میزبانی کا نمونہ دکھانا چاہیے خواہ کتنی مخالفت ہو.اس وقت کسی ناگوار بات کو زبان پر نہیں لانا چاہیئے.حضرت سیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک ہندو صاحب آپ سے ملنے آیا کرتے تھے اور
خطبات محمود.سال ۱۹۳۴ء آتے کہتے کہ دتی کے کباب کھلاؤ.شامی کبابوں کا اُس وقت پنجاب میں ایسا رواج نہ تھا اب تو کچھ کچھ ہو رہا ہے.ہماری والدہ صاحبہ چونکہ ولی کی ہیں اس لئے وہ تیار کرواتی تھیں.اس ہندو نے جو ایک بار کباب کھائے تو اسے پسند آئے اس لئے جب آتا ان کی فرمائش کرتا اور مسجد کے پاس والی کوٹھڑی میں چُھپ کر کھا لیتا لیکن مجالس میں آپ کے ساتھ گوشت خوری پر بحث کرتا مگر آپ نے اسے کبھی نہ جتایا کہ چُھپ کر تو تم گوشت کھاتے ہو اور باہر آکر بحث کرتے ہو.پس مومن کو ہمیشہ نرمی دکھانی چاہیئے.ایسے لوگ جو اس قسم کی حرکات کرتے ہیں یا تو غیر مومن ہوتے ہیں اور یا شرارتی جو اندر رہ کر جماعت کو بدنام کرتے ہیں.یہاں جماعت کی تعلیم و تربیت کا انتظام بخوبی ہے، اس کیلئے ایک خاص محکمہ ہے، پھر مساجد میں بھی اس کا خیال رکھا جاتا ہے، خطبات میں میں سمجھاتا رہتا ہوں لیکن ان سب باتوں کے باوجود جس پر اثر نہ ہو، میں کس طرح مان لوں کہ وہ مومن ہے.یا تو یہ ماننا پڑے گا کہ وہ مومن نہیں اور یا پھر یہ کہنا پڑے گا کہ وہ منافق ہے اس لئے اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا.وہ دراصل غیروں سے ملا ہوتا ہے اور ایسی حرکات کر کے جماعت کو بدنام کرنے کی کوشش کرتا ہے جیسا کہ میں نے پچھلے جمعہ میں مثال سنائی تھی کہ کس طرح ایک شخص نے ہندوؤں کے ساتھ احمدیوں کی لڑائی کرانے کی کوشش کی تھی.اس کے بعد میں رسول کریم ﷺ کا طریقہ عمل ایک چھوٹے سے واقعہ سے بتا دیتا ہوں کیونکہ میری صحت کے لحاظ سے اتنا ہی اس وقت مناسب ہے.آپ ایک دفعہ مجلس میں تشریف فرما تھے کہ ایک اعرابی آیا اور آکر کہنے لگا مجھے کچھ دو.آپ نے اسے کوئی چیز دی.راوی کا خیال ہے کہ وہ چیز اونٹنی وغیرہ تھی.پھر یہ معلوم کرنے کیلئے کہ آیا اس کی تسلی ہو گئی ہے یا نہیں.آپ نے اُس سے پوچھا کہ کیا میں نے تمہارے ساتھ حسن سلوک کر دیا ہے یعنی تمہاری ضرورت پوری ہو گئی.اس نے جواب دیا کہ حسن سلوک اور ضرورت کا پورا ہونا تو دُور کی بات ہے، آپ نے تو میرے ساتھ معمولی رواداری کا برتاؤ بھی نہیں کیا اس پر صحابہ کو غصہ آیا اور وہ اسے مارنے لگے کہ اس نے کیوں رسول کریم ﷺ کی ہتک کی ہے.مگر آپ نے ان کو روک دیا اور اس اعرابی سے کہا کہ میرے پیچھے آؤ.آپ اُسے الگ لے گئے اور کہا کہ تم سائل کی حیثیت سے میرے پاس آئے تھے اور میں نے تمہارے ساتھ سلوک کردیا اور پوچھا کہ میں نے تمہارے ساتھ حسن سلوک کردیا ہے؟ مگر تم نے جواب دیا کہ معمولی ا
خطبات محمود ۹۵ رواداری بھی نہیں کی.پھر آپ نے اسے کچھ اور دیا جو راوی کو یاد نہیں رہا کیا تھا اور پھر پوچھا کیا اب تمہارے ساتھ حسن سلوک کردیا ہے؟ اس نے کہا ہاں اب واقعی کردیا ہے.میری طرف سے اور میرے اہل و عیال کی طرف سے اللہ تعالٰی آپ کو جزائے خیر دے.آپ نے فرمایا.تمہارے پہلے جواب سے سننے والوں کو غصہ آیا تھا جس سے ان کے دلوں میں تمہارے متعلق نفرت رہے گی اس لئے بہتر ہے کہ جب پھر مجلس بیٹھی ہو تو میں تم سے یہی سوال کروں گا اور تم اگر چاہو تو اپنے جواب سے ان کے جذبات میں تبدیلی کرسکتے ہو.چنانچہ پھر مجلس کے موقع پر وہ آیا.آپ نے اُس سے وہی سوال کیا اور اُس نے کہا ہاں آپ نے میرے ساتھ حسن سلوک کردیا اب میں راضی ہوں اللہ تعالیٰ میری طرف سے اور میرے اہل و عیال کی طرف سے آپ کو جزائے خیر دے.پھر آپ نے صحابہ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ یہ شخص میرے پاس آیا، نا واقف تھا اور مجھ سے حسن سلوک کی امید رکھتا تھا.اس کی امید کے مطابق اس کے ساتھ حسنِ سلوک نہ ہوا اور تم اسے مارنے کیلئے دوڑے لیکن میں نے روکا اور اسے خوش کیا.اور میری تمہاری مثال ایسی ہی ہے کہ کسی شخص کی اونٹنی بھاگ گئی اس کے رشتہ دار اور دوست سینکڑوں کی تعداد میں جمع ہو گئے اور اُس کے پیچھے بھاگنے لگے مگر وہ ان کے شور سے برک کر اور بھی تیز بھاگنے لگی.اُس نے جب یہ حالت دیکھی تو کہا کہ بھائیو! میری حالت پر رحم کرو اور یہ احسان مجھ پر نہ کرو مجھے اور میری اونٹنی کو چھوڑ دو.اور جب وہ لوگ ہٹ گئے اور شور کم ہوا تو اونٹنی بھی ذرا آہستہ ہوئی.اُس نے سبز گھاس اُکھاڑ کر اس کے سامنے کیا اور اس طرح چمکار کر اُسے پکڑ لیا.اسی طرح یہ شخص میرے پاس آیا تو لوگوں نے یہ کوشش کی کہ یہ بدک کر بھاگ جائے.اگر وہ چلا جاتا تو ضرور جہنم میں جاگرتا لیکن اللہ تعالی نے مجھے یہ کامیابی دی اور میں نے اسے بچا لیا.آپ نے اُس وقت وہ محبت شفقت اور مہربانی ظاہر کی جو بنی نوع انسان کیلئے آپ کے دل میں تھی اور اس طرح بتادیا کہ انسان کی اصلاح کس طرح ہو سکتی ہے.ساری دنیا ہماری ضالة ہے.پہلے مسیح نے اپنے نہ ماننے والوں کو گم گشتہ بھیڑیں قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ میں انہیں جمع کرنے کیلئے آیا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی کھوئے ہوؤں کو جمع کرنے آئے ہیں.اور عربستان کی نسبت سے جن کھوئے ہوؤں کو جمع کرنے کیلئے آپ آئے تھے انہیں اونٹ یا اونٹنیاں کہا جاسکتا ہے.پس مسیح ناصری بھیڑوں کو جمع کرنے آئے تھے اور مسیح محمدی اونٹنیوں کو مگر بعض اوقات تم
خطبات محمود ۹۶ سال ۱۹۳۴ لوگوں کی طرف سے ویسا ہی معاملہ ہو جاتا ہے جو اونٹنی کو پکڑنے والوں نے کیا تھا.یعنی : ہم کسی اونٹنی کو پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں تو بعض تم میں سے ہو ہو کر کے ایسا شور مچاتے ہیں کہ وہ قریب آنے کے بجائے اور بھاگتی ہے اور اگر اسے روکا نہ جائے تو وہ بھیڑیوں اور چیتوں کے قبضہ میں جاکر ماری جائے.پس رسول کریم ﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ایسے لوگوں سے میں بھی یہی کہتا ہوں کہ تمہاری مہربانی سے میں نے بھر پایا مزید مہربانی مجھ پر کرو مجھے اور میری اونٹنی کو چھوڑ دو اس کا پکڑنا خدا کے فضل سے ہمیں آتا ہے ہاں اگر تم بھی اس میں مدد کرنا چاہتے ہو تو اس کا طریق یہی ہے کہ عفو نرمی، محبت کا گھاس دکھا کر نہ کہ لٹھ کے ذریعہ.یہ کیا طریق ہے کہ ایک طرف تو تبلیغ کرنے جاتے ہو اور دوسری طرف اگر کوئی تمہارے پاس آجائے تو اُسے دھمکاتے ہو.اس کی مثال میں مجھے بچپن کی سنی ہوئی ایک کہانی یاد آگئی.کہتے ہیں ایک امیر آدمی گزر رہا تھا کہ اس نے دیکھا ایک بچہ ہاتھ میں روٹی پکڑے کھا رہا ہے.اس نے روٹی ایک کتے کو دکھائی کتے نے سمجھا مجھے دینا چاہتا ہے اس لئے وہ قریب گیا لیکن جب وہ قریب پہنچا تو بچہ نے زور کے ساتھ اس کے ایک اینٹ ماری اور کتا چیختا ہوا بھاگا.امیر آدمی کو یہ حرکت بہت ناگوار گزری اور اس نے ایک پونڈ جیب سے نکال کر بچہ کی طرف گیا.بچہ نے سمجھا شاید میری یہ حرکت اسے بہت پسند آئی ہے اور انعام دینا چاہتا ہے لیکن جب وہ قریب پہنچا تو اُس نے زور سے ایک تھپڑ اُس کے منہ پر مارا.اس پر بچہ نے پوچھا کہ میں نے کیا قصور کیا تھا کہ آپ نے مجھے اس قدر زور سے مارا.اُس نے جواب دیا کہ کتے نے تمہارا کیا قصور کیا تھا کہ تم نے اس قدر زور سے اُسے مارا.پس تبلیغ کر کے پہلے بلانا اور پھر دھمکانا نہایت ہی نامناسب حرکت ہے.تبلیغ کرنا گویا قریب بلانا ہے اور ظاہر ہے کہ قریب بلانا اور پھر دھمکانا دونوں باتیں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں.پس پیار، محبت اور شفقت سے کام لو اور ایسے لوگ خواہ منافق ہوں یا بے ایمان ان کی مطلقاً پرواہ نہ کرو اور ان کے ساتھ کسی قسم کی ہمدردی کا اظہار نہ کرو.کچھ عرصہ ہوا یہاں ایک ایسا ہی واقعہ ہوا تھا.جس پر یہ سوال اٹھا کہ احمدی کی مدد کرنی چاہیئے.اس پر میں نے کہا کہ اس کے یہ معنی ہیں کہ ہم بھی اس بد اخلاقی میں اس کے ساتھ وابستہ ہیں اور یہ ایک ایسی بات ہے جس سے احمدیت بدنام ہوتی ہے.ہم خدا کے فضل سے نہ کسی حکومت - سے ڈرتے ہیں اور نہ بادشاہوں اور ان کی فوجوں سے اور نہ ہی کسی مخالف قوم سے.اگر ہم.
خطبات محمود 92 سال ۱۹۳۴ء کسی سے ڈرنے والے ہوتے تو عدم تعاون کی تحریک کے ایام میں جب حکومت سے ہمدردی کا نام لینا بھی اپنے آپ کو مصیبت میں مبتلاء کرنے کے مترادف تھا اور جب حکومت کے بڑے بڑے محکام بھی چُھپ کر کانگرسیوں کو چندہ دیتے تھے، اُس وقت ہم سینہ سپر ہو کر اس تحریک کی مخالفت نہ کرتے.پس ہمیں حکومتوں کی دھمکیوں، فوجوں کی دھمکیوں یا لوگوں کی دھمکیوں کی کوئی پروا نہیں صرف ایک چیز ہے جس کی ہمیں پروا ہے اور وہ احمدیت کا نام ہے.صرف اسے بدنامی سے بچانا ہمارے مد نظر ہونا چاہیئے اور اس کیلئے ہمیں خواہ کسی کے سامنے گردن مجھکانی پڑے، فروتنی اختیار کرنی پڑے، اس کیلئے تیار رہنا چاہیے.پس کوشش کرو کہ احمدیت کا نام جہاں آئے دشمن کی باچھیں کھل جائیں اور وہ سمجھ لے کہ اس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے.ابھی تھوڑے دن ہوئے ایک دوست مجھ سے ملنے آئے اور سناتے تھے کہ میں ایک انگریز افسر سے ملا اور اُسے کہا کہ مجھے فلاں زمین دے دو.اُس نے کہا اس کیلئے تو روپیہ کی ضرورت ہے مگر تمہارے ساتھ خاص سلوک کرتا ہوں کہ تم صرف ضمانت دے کر لے سکتے ہو.انہوں نے کہا احمدیت سے بڑھ کر ضمانت اور کیا ہو سکتی ہے اور میں احمدی ہوں.اِس پر اُس نے زمین ان کو دے دی.اس وقت تک احمدیت بالکل نیک نام ہے.دشمن بھی زبان سے خواہ کچھ کہیں ان کے دل ضرور تسلیم کرتے ہیں اور تمہارا فرض ہے کہ اس نیک نامی میں اضافہ کرو تا جماعت جتنی بڑھتی جائے اتنی ہی زیادہ نیک نام ہوتی جائے.جیسا کہ کہتے ہیں کہ ایرانی قالین پر جتنی صدیاں زیادہ گزریں اُتنا ہی زیادہ چمکدار ہوتا ہے.میں نے ایک مختصر اور سبق آموز حکایت میں رسول کریم ﷺ کا طریق عمل اور آپ کی نصیحت بیان کردی ہے لیکن اگر کوئی اس پر عمل نہ کر سکے تو میں اسے یہی کہوں گا کہ مجھے اور میری اونٹنی کو چھوڑ دو اور دین کے کام کو زیادہ خراب نہ کرو.(الفضل ۲۲- مارچ ۱۹۳۴ء)
خطبات محمود ۹۸ 11 سال ۱۹۳۴ء سالکین میں نام دینے والوں کو چند ضروری اور اہم ہدایات فرموده ۲۳- مارچ ۱۹۳۴ء) تشہد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں نے امسال جلسہ سالانہ کی تقریر میں سالکین کی جماعت کے متعلق اعلان کیا تھا.دنیا میں انسان کی اصلاح دو طرح سے ہو سکتی ہے.ایک فوری اصلاح جو ایمان کے ذریعہ ہو جاتی ہے اور ایک آہستگی سے جس کیلئے مجاہدہ کی ضرورت ہوتی ہے.بعض دفعہ ایمان اپنے اندر اس قدر طاقت رکھتا اور اس قدر شدید ہوتا ہے کہ انسانی اعمال کی اصلاح صرف اسی سے ہو جاتی ہے.یہ ایمان بھی آگے دو قسم کا ہوتا ہے.ایک وہ جو باہر سے آتا ہے اور ایک وہ جو اندر سے پیدا ہوتا ہے.جو ایمان باہر سے آتا ہے اس کا موجب دلائل، معجزات اور مشاہدات ہوتے ہیں لیکن جو اندر سے پیدا ہوتا ہے اس کے موجبات بہت باریک ہوتے ہیں.یہ موقع نہیں کہ ان کی تفصیلات بیان کر سکوں.اس ایمان کو موهبت الہی کہتے ہیں اور یہ انبیاء ہی کو حاصل ہوتا ہے.یعنی پیشتر اس کے کہ ان پر دلائل نازل ہوں، الہام پائیں اور مشاہدات سے تقویت حاصل کریں ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے ساتھ ہی ان کے دل میں ایسی بتِ الہی ہوتی ہے جو نفس کی اصلاح خود بخود ہی کر دیتی ہے اور مشاہدات و معجزات سے وہ صرف ترقی حاصل کرتے ہیں.یہ اندرونی ایمان ہوتا ہے اور بسا اوقات خصوصاً انبیاء کی صورت میں یہ شکم مادر سے ہی انسان کے ساتھ آتا ہے پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ ایمان کبھی باہر سے بھی آتا ہے اور دلائل ومشاہدات اور معجزات اس کا موجب ہوتے ہیں.اس وقت بھی اس
خطبات محمود ٩٩ سال ۱۹۳۴ء کے ذریعہ ایسی اصلاح ہوتی ہے کہ انسان مجاہدات کے بغیر ہی اپنے عیوب پر غالب آجاتا ہے.جیسا کہ میں نے کئی دفعہ ذکر کیا ہے.ایک بزرگ کے متعلق آتا ہے کہ پہلے وہ ڈاکے ڈالا کرتے تھے.وہ ہارون الرشید کے زمانہ میں گزرے ہیں.ایک دفعہ اتفاق ایسا ہوا کہ وہ کسی قافلہ کے انتظار میں کسی ایسی جگہ کر بیٹھے تھے کہ گزرے تو لوٹ لیں.اتنے میں ایک قافلہ ادھر سے گزرا جس میں کوئی شخص خوش الحانی سے اَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللهِ پڑھ رہا تھا.اسے معلوم بھی نہ تھا کہ کوئی شخص سن رہا ہے.اس کے معنی یہ ہیں کہ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ مومنوں کے دل اللہ تعالیٰ کی طرف مجھک جائیں اور ان کے اندر انابت پیدا ہو.اس آواز کا کان میں پڑنا تھا کہ اس ڈاکو کی حالت بدل گئی اور اس پر ایسی پاکیزگی کی حالت طاری ہوگئی کہ رقت کے مارے بُرا حال ہو گیا.وہ فوراً وہاں سے چلے اور جن جن لوگوں کا مال لوٹا تھا ان کے پتے دریافت کر کر کے انہیں لوٹا دیا اور باقی خیرات کر دیا ہے.ان کے استغناء کا یہ تھا کہ مکہ میں جارہے تھے.ہارون الرشید نے جو ایسے زمانہ میں تھا کہ جو رسول کریم ﷺ کے زمانہ سے قریب تھا، یعنی ابھی پوری دو صدیاں بھی نہیں گزری تھیں اس لئے اُس وقت بڑے بڑے علماء موجود تھے اور بعض ایسے بزرگ بھی تھے جن کا نام تاریخی طور پر اسلام میں زندہ رہے گا اُس نے اپنے وزیر جعفر سے کہا کہ مجھے کسی بزرگ سے ملاؤ تا میرے دل کی صفائی ہو.اُس نے کئی بزرگوں سے ملاقات کرائی مگر ہر بار وہ یہی کہتا کہ صفائی نہیں ہوئی.آخر وہ حج کیلئے مکہ آئے تو جعفر نے کہا کہ چلو فضیل کے پاس چلیں.یہ ان کے مکان پر گئے اور جاکر دستک دی.ان کا کوئی عزیز یا خادم آیا اور دریافت کیا کہ کیا کام ہے.جعفر نے بتایا کہ ہارون الرشید ملنے آئے ہیں.انہوں نے کہلا بھیجا کہ بادشاہ کو مجھ سے کیا کام ہو سکتا ہے.میرا مقام اور ہے اور ان کا اور جعفر نے یہ الحاح کہا کہ ضرور ملاقات کی اجازت دی جائے اور جب کچھ اثر نہ ہوا تو کہا کہ ہارون الرشید امیرالمؤمنین کی حیثیت سے حکم دیتے ہیں.اس پر انہوں نے اجازت دے دی.جب ملاقات ہوئی تو ہارون الرشید نے کہا مجھے کوئی نصیحت کیجئے.آپ نے چند نصائح کیں جن سے اس پر بہت رقت طاری ہوئی.جاتے وقت اس نے کچھ روپیہ آپ کی خدمت میں پیش کیا مگر آپ نے کہا کہ یہ روپیہ کوئی تمہارے باپ کا تو ہے نہیں، تمہاری کمائی کا نہیں، تمہارا ذاتی نہیں، بیت المال کا روپیہ ہے اور تمہارے سپرد اس
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء لئے کیا گیا ہے کہ غرباء اور حاجت مندوں پر خرچ کرو.کیا ان تمام نصیحتوں کا جو میں نے تمہیں کی ہیں تم پر یہی اثر ہوا ہے کہ میرے ہی سامنے اور مجھ پر ہی اس کی خلاف ورزی کرنے لگے.پھر بھی جب اُس نے بہت اصرار کیا تو پھر آپ نے کہا کہ اول تو مجھے کوئی ضرورت ہی نہیں لیکن اگر ہو بھی تو تمہیں حق ہی کیا ہے کہ مجھے دو.یہ بیت المال کا روپیہ ہے اور غریبوں کیلئے ہے.اس ملاقات کا ساری عمر ہارون الرشید پر اثر رہا.وہ کہا کرتا تھا کہ ایک ہی شخص ہے جسے مل کر معلوم ہوا کہ انسان ایک ایسے مقام پر بھی پہنچ سکتا ہے جہاں اسے بادشاہوں کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہوتی ہے.حالانکہ وہ بزرگ پہلے ڈاکو تھے اور قاتل تھے.یہ اصلاح باہر سے آئی مگر ایک ہی دفعہ کان میں ایک آیت پڑنے سے ہو گئی.پہلے سارا قرآن پڑھنے سے بھی کوئی اثر نہ ہوتا تھا مگر جب وقت آگیا تو ایک آیت سے ہی حالت بدل گئی.تو یہ دو اصلاحیں ہیں جو بغیر مجاہدہ کے ہو سکتی ہیں.لیکن ایک اصلاح مجاہدہ سے تعلق رکھتی ہے اور اس کیلئے بعض دفعہ سارے اعمال میں مجاہدہ کی ضرورت ہوتی ہے اور بعض دفعہ کسی ایک ہی میں.ایک شخص نے فلسفیانہ طبیعت پائی ہے اور وہ ہر بات میں یہی کہتا ہے کہ میری عقل کو تسلی دو.ایسے شخص کیلئے ہر قدم پر مجاہدہ کی ضرورت ہوتی ہے.اور ایسی اصلاح کا محتاج انسان اگر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہے اور خیال کرے کہ میں ایمان تو لے آیا ہوں، اب خود ہی اصلاح ہو جائے گی تو یہ اس کی غلطی ہوگی.اگر محض ایمان لانے سے اس کی اصلاح ہو سکتی تو دن ہی ہو جاتی.اب تو اسے مجاہدہ کی ضرورت ہے اس لئے میں نے تجویز کیا تھا کہ جو لوگ یہ تڑپ اپنے اندر رکھتے ہوں کہ اپنی بھی اصلاح کریں اور جماعت کے دوسرے دوستوں کی بھی، وہ اپنے نام پیش کریں تا وہ میری ہدایات کے ماتحت وقتاً فوقتاً اصلاح کی طرف قدم اُٹھاتے رہیں اور ایسا اعلیٰ نمونہ دکھائیں کہ دشمن بھی بے اختیار کہہ اُٹھے کہ واقعی ان پر ہر رنگ میں اعتبار کیا جاسکتا ہے.خواہ ان کے پاس روپیہ امانت رکھو، خواہ انہیں ثالث بناؤ یا کسی اور طریق سے ان پر اعتماد کرو.اس کے متعلق بہت سے دوستوں نے اپنے نام دیئے ہیں جو اخبار الفضل میں چھاپ دیئے گئے ہیں لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اخبار والوں کو یہ غلطی ہے کہ گویا وہ نام منظور کرلئے گئے ہیں حالانکہ یہ بات نہیں، صرف نام لکھے جارہے ہیں.میں نے کہا تھا کہ میں اس کیلئے قواعد تجویز کر رہا ہوں لیکن اب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا ہے کہ ابھی اس کو کوئی معین صورت نہیں دینی چاہیئے.میں ایک سال تک خطبوں کے ا ہے
خطبات محمود H.سال ۱۹۳۴ء لکھے ذریعہ اس مضمون کو احباب کے سامنے لاتا رہوں گا اس کے بعد دیکھوں گا کہ کتنے لوگوں نے اصلاح کیلئے حقیقی جدوجہد کی ہے اور پھر جن کے متعلق دیکھوں گا کہ انہوں نے صحیح معنوں میں اصلاح کی کوشش کی ہے، انہیں منتخب کرلوں گا اور باقی کو چھوڑ دوں گا.پس ابھی یہ نام جارہے ہیں جو قبول نہیں ہوئے، قبول اُس وقت ہوں گے جب سال بھر کے بعد دیکھوں گا کہ نام دینے والوں نے اپنی یا احباب جماعت کی اصلاح میں کتنی کوشش کی ہے.ایسے نام دینے والوں میں بعض نمائشی ہوتے ہیں وہ صرف اس لئے لکھا دیتے ہیں کہ اخبار میں شائع ہو جائے گا اور لوگ سمجھیں گے کہ یہ بھی شامل ہیں.ایسے بھی دوچار درجن لوگ ہماری جماعت میں ہیں.کوئی تحریک ہو جھٹ نام لکھا دیں گے مگر کرتے کراتے کچھ بھی نہیں اور اس تحریک میں نام لکھانے والوں میں بھی کچھ ایسے ہوں گے.پھر کچھ ایسے ہوں گے جو اس کام کی اہمیت کو سمجھ ہی نہیں سکتے.وہ اگرچہ نیک نیتی سے نام لکھاتے ہیں مگر ان کی دماغی قابلیت یا میلان طبع اس کے قابل نہیں.پس میں سال بھر کے تجربہ کے بعد اندازہ کروں گا کہ کون اس کے اہل ہیں.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ دوست مجھے اپنے کاموں اور کوششوں کے نتائج سے آگاہ کرتے رہا کریں اس کے بعد جب میں دیکھ لوں گا کہ کن لوگوں میں اس کام کی اہمیت ہے.پھر انہیں موقع دوں گا کہ زیادہ منظم صورت میں اور باہم تعاون کے ساتھ جماعت کی اور اپنی اصلاح کی کوشش کریں.فی الحال آج میں سورۃ فاتحہ میں سے ایک مضمون جو سالک کے مسلک کو ظاہر کرتا ہے، بیان کر دیتا ہوں.اس سورۃ میں اللہ تعالی کی چار صفات بیان کی گئی ہیں.رَبُّ الْعَلَمِيْنَ رَحْمَن رَحِیم اور مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ.دوسری جگہ اللہ تعالی نے اپنے عرش کے متعلق بیان فرمایا ہے کہ اسے ایسے وجود اُٹھائے ہوئے ہیں جو صفات الہیہ کے حامل ہوتے ہیں.اور اس دنیا میں دراصل صفات الہیہ کے چار حامل ہیں.اور اگلے جہاں میں جیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے، آٹھ ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا ہے کہ عرش صفات تنزیمیه کا نام ہے.اور چونکہ صفات تشبیهیه ان کے تابع ہوتی ہیں، اس لئے وہ ان کی حامل ہوتی ہیں.صفات تشبییه سے صفات تنزیمیه کا ظہور ہوتا ہے وگرنہ دنیا سے ان کا تعلق نہیں.اللہ تعالی کی صفت رَبُّ الْعَلَمِيْنَ ہے مگر اس صفت کا تقاضا یہ ہے کہ کوئی مخلوق ہو.اسی طرح اس کی ایک صفت رحمانیت ہے وہ بھی چاہتی ہے کہ کوئی مخلوق ہو - صفت رحیمیت بدلہ چاہتی ہے اور وہ
خطبات محمود ١٠٢ سال ۱۹۳۴ء (م) بھی اُس وقت تک نہیں دیا جاسکتا جب تک مخلوق نہ ہو.مُلِكِ يَوْمِ الدِّين بھی مخلوق کی تقاضی ہے کیونکہ جب تک نیک و بد انسان نہ ہوں، اس صفت کا ظہور نہیں ہو سکتا.گویا.چاروں صفات مخلوق سے تعلق رکھتی ہیں.صفات تنزیبیہ کی کنہ کو انسان نہیں پہنچ سکتا ان کا ظهور صفات تشبیبیہ سے ہی ہوتا ہے جو ان کی تابع ہیں.ان دونوں کا باہم کیا تعلق ہے یہ بات بندہ کے علم سے بالا ہے اس لئے اللہ تعالی نے قرآن کریم میں فرمایا ہے.ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ یعنی بندہ کو کام پر لگا کر اللہ تعالٰی پھر صفات تنزیبیہ کی طرف چلا جاتا ہے.وه صفات تشبیهیه جن پر عرش قائم ہے، وہ گویا چارپائے ہیں جن کے واسطہ سے صفات تنزیمیه کا ظہور مخلوق پر ہوتا ہے.جیسے تخت کا واسطہ زمین سے پاؤں کے ذریعہ ہوتا ہے اصل چیز اوپر ہوتی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی صفات اور بندے کے درمیان یہ بطور واسطہ ہیں.جس طرح پایہ کے ذریعہ تخت کے اوپر جاسکتے ہیں اسی طرح ان صفات کے ذریعہ انسان ترقی کر سکتا ہے.جب انسان اپنے اندر یہ صفات پیدا کرتا ہے تو اگرچہ ان کی گنہ تک اس جہاں میں پہنچنا تو ناممکن ہے، اگلے جہاں کا علم خدا کو ہے مگر ان سے مس ضرور پیدا ہو جاتا ہے.جس طرح آگ کے پاس جو بیٹھے، وہ گو آگ کی طرح روشن نہ ہو مگر اس کی گرمی اسے ضرور پہنچے گی.ایسا شخص صفات تنزیبیہ کا عکس اپنے اندر ضرور پاتا ہے.سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے سالک کیلئے ضروری کام بیان فرمائے ہیں پہلے فرمایا رَبُّ الْعَلَمِینَ وہ اپنے کو داروغہ سمجھے مگر داروغہ سزا کا نہیں بلکہ پرورش کا.یہ نہیں کہ جس کسی کے پاس سے گزرے اسے ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگ جائے کہ ایسا کیوں کرتے ہو ویسا کیوں نہیں کرتے.بلکہ ایسا داروغہ جو دوسرے کی تکالیف کو دیکھ کر انہیں دور کرنے کا اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھے.رَبُّ الْعَلَمِینَ کا تعلق ربوبیت کے ساتھ ہے اس لئے وہ داروغہ بنے مگر ربوبیت کے لحاظ سے.یا پھر باپ بنے اور ہر ایک کی پرورش اور ترقی کیلئے کوشش کرے.دوسری چیز رحمانیت ہے بعض لوگ رَبُّ الْعَلَمِینَ اور رحمانیت کو ایک ہی چیز سمجھتے حالانکہ دونوں میں بہت فرق ہے.بظاہر تو بے شک ربوبیت میں ہی رحمانیت آجاتی اللہ تعالی نے انسان کو آنکھیں دیں ، کان دیئے، ہاتھ پیر دیئے کھانے کیلئے غلے اور پھل وغیرہ دیئے یہ رحمانیت ہے.لیکن پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ رحمانیت ہے تو رَبُّ الْعَلَمِینَ وہ کیسے ہوا.جو چیزیں رحمانیت کے ماتحت بیان کی جاتی ہیں، وہ دراصل ساری کی ساری ہیں ہے.
خطبات محمود ۱۰۳ سال ۱۹۳۴ کسی رَبُّ الْعَلَمِینَ کے تحت آجاتی ہیں اور اس طرح بظاہر دونوں ایک ہی چیزیں نظر آتی ہیں لیکن اصل بات یہ نہیں.گو بظاہر تشابہہ تام ہے لیکن اختلاف بھی نمایاں ہے جسے نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگ ایک کو دوسرے سے ممتاز نہیں کر سکتے.اللہ تعالٰی نے رحمانیت کو رحیمیت کے ساتھ اکٹھا کیا ہے.پہلی اور پچھلی صفات کو یعنی رَبِّ الْعَلَمِيْنَ اور مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ کو علیحدہ علیحدہ بیان کیا ہے مگر رحمن اور رحیم کو اکٹھا.اور قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ رحمانیت اس دنیا تعلق رکھتی ہے اور رحیمیت کا اصل مقام اگلا جہان ہے اور یہ کہ رحمانیت کلام الہی سے وابستہ ہے.جیسا کہ آتا ہے.الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ یعنی رحمن وہ ہے جس نے قرآن سکھایا.پھر یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ اس کا تعلق عرش سے ہے.رحمانیت دراصل ربوبیت کے اس مقام پیدا ہوتی ہے جس وقت اس کے نتیجہ میں رحیمیت پیدا ہو.ماں باپ بچہ کو بغیر خیال کے پرورش کرتے ہیں.کسی ماں کو جیسی چاہو قسم دے کر پوچھ لو کہ بچہ کو کیوں دودھ پلاتی ہو.قطعا کوئی نیک یا بد خیال اس کے دل میں نہیں ہوتا یہ ربوبیت ہے.جس وقت طبیعی تقاضوں سے پرورش کی جائے وہ ربوبیت ہوتی ہے لیکن رحمانیت اس احسان کو کہتے ہیں جس کی غرض یہ ہو کہ فلاں بڑا ہو کر ایسے اعلیٰ اور نیک کام کرے جن کے نتیجہ میں رحیمیت پیدا ہو.ایک شخص کسی بھوکے یا مصیبت زدہ کو روٹی دیتا ہے.یہ ربوبیت ہے.مگر دوسرا ایک بچے کو پالتا ہے، اس خیال سے کہ اسے قرآن کریم حفظ کرائے اور اس قابل بنادے کہ وہ دین کی خدمت کرسکے، یہ رحمانیت ہے مگر بچوں، ماں، باپ، بھائیوں، رشتہ داروں یا دوسرے لوگوں سے رافت اور ہمدردی کا سلوک ربوبیت ہے.بچہ کو پالنا بے شک ربوبیت ہے مگر جب بچہ جوان ہو جائے اور اس قابل ہو کہ ذاتی اور انفرادی لحاظ سے کام کر سکے، اُس وقت اُسے خادم دین بنانے کیلئے کچھ خرچ کرنا رحمانیت میں داخل ہو گا.مثلاً ایک بچہ جوان ہوتا ہے اور والدین اسے جہاد کیلئے گھوڑا یا تلوار یا اور سامان لے کر دیتے ہیں یہ رحمانیت ہے.اسلام سے ایک عورت کا مشہور قصہ میں نے پہلے بھی سنایا ہے.ایک مسلمان عورت خنساء نامی تھی.ایک جنگ میں مسلمانوں کے بالمقابل دشمن کثیر تعداد میں تھا اور سامان بھی مسلمانوں کے پاس بہت کم تھا.مدینہ سے کمک منگوائی گئی تھی مگر وہ بھی نہ پہنچی تھی اور خیال تھا کہ اگر آج مسلمان قائم نہ رہ سکے تو لازماً شکست کھا جائیں گے.خنساء کے چار بیٹے تھے.اُس نے انہیں بلایا اور کہا کہ دیکھو بیٹو' میں چھوٹی عمر میں ہی بیوہ ہو گئی تھی، تمہارے باپ نے میرے تاریخ
خطبات محمود ۱۰۴ سال ۱۹۳۴ء قبیله ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں کیا تھا لیکن پھر بھی میں نے ہمیشہ اُس کی عزت کی حفاظت کی.اپنے سے پوچھ لو میں نے کبھی تمہارے آباء کی عزت کو ملوث نہیں ہونے دیا حالانکہ تمہارا باپ جو اریا تھا اور میں اپنے بھائی سے خرچ لے لے کر اسے دیا کرتی تھی اور اس کا مجھ پر کوئی احسان نہ تھا.پھر میں نے آج تک تمہاری پرورش کی.اگر تم سمجھتے ہو کہ میرا تم پر کوئی حق ہے تو اس کے عوض میں میں آج تم سے قربانی چاہتی ہوں جو یہ ہے کہ آج میدان میں ن کو پیٹھ نہ دکھانا.اول تو فتح حاصل کرو وگرنہ مارے جاؤ ہے.وہ عورت ایک بیوہ تھی اور اس کی آخری عمر تھی مگر کیا ہی نیک خواہش اس کے دل میں پیدا ہوئی.اس ماں نے اب بیٹوں کو جنگ کیلئے تیار کرنے میں جو کچھ خرچ کیا، وہ اُس کا مال تھا اور وہ جو کچھ اس سے لے کر گئے تھے، وہ اُس کی مرحمانیت تھی.ربوبیت محض شفقت و رافت ہوتی ہے.رسول کریم کے زمانہ میں بعض لوگ اموال دیتے تھے تاکہ جہاد کیلئے سامان خریدا جاسکے اور اس طرح خدمت دین ہو یہ رحمانیت تھی مگر ایک روزانہ صدقہ ہے جو انسان کرتا ہے یہ ربوبیت ہوتی ہے.رحمانیت، ربوبیت کے بعد آتی ہے کیونکہ چھوٹے بچے کو ہوش نہیں ہوتی اس پر ، رَبِّ الْعَلَمِيْنَ کی صفت جاری ہوتی ہے اور پھر رحمانیت کی.یہ دو چیزیں ابتدائی کاموں تعلق رکھتی ہیں.پچھلی دو کا جواب خدا تعالی کی طرف سے آتا ہے.اور پہلی دو چیزیں ایسی ہیں جن کے بغیر سالک ترقی نہیں کر سکتا.اور جو کوئی منازل سلوک طے کرنا چاہیے اسے یہ دونوں مقام حاصل کرنے چاہئیں.ایک طرف تو کسی کو تکلیف میں دیکھ کر اس کا دل پگھل جائے اور دوسری طرف روپیہ اس طرح خرچ کرے جو رحمانیت کے ماتحت ہو.تبلیغ بھی رحمانیت کے ماتحت آتی ہے کیونکہ اس کی غرض ہدایت ہے.اگر کوئی شخص کسی ایسے طالب علم کی امداد کرتا ہے جس میں اشاعتِ اسلام کی اہلیت کے آثار پائے جاتے ہوں تو وہ بھی رحمانیت ہے.یا کوئی دین کی خدمت کرنے والوں کی کسی نہ کسی رنگ میں امداد کرتا ہے تو وہ بھی رحمانیت کا سلوک ہے.یا جماعت کے چندے ہیں جو شخص اس نیت اور ارادہ سے چندہ دیتا ہے کہ دین کو تقویت حاصل ہو، وہ رحمانیت سے کام لیتا ہے.لیکن جو دوستوں ہمسائیوں، رشتہ داروں کی تکلیف اور دُکھ کے وقت ان کی مدد کرتا ہے، وہ رَبُّ الْعَلَمِینَ کی صفت کے ماتحت کرتا ہے.غرضیکہ رحمانیت وہ سلوک ہے جس کے بعد رحیمیت کا ظہور ہوتا ہے، لیکن جو شفقت اور رافت کے ماتحت سلوک ہوتا ہے وہ ربوبیت ہوتی ہے.اور جو شخص
خطبات محمود ۱۰۵ سال ۱۹۳۴ء سلوک کرنا چاہے اُس کیلئے دونوں رنگ اختیار کرنا ضروری ہے.رَبُّ الْعَلَمِینَ کی صفت کے ماتحت بھی اسے ضرور دینا چاہیے لیکن رحمانیت کے پہلو کو بھی نظر انداز نہ کرنا چاہیئے مگر بہت کم لوگ ہیں جو اس اثر کے ماتحت رحمانیت کا سلوک کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی اس صفت کو صحیح معنوں میں اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کرتے ہیں.ہمارے دوست اگر اس رنگ میں کام کریں اور اسے مد نظر رکھتے ہوئے اپنی جماعت ، قوم، ملک بلکہ دنیا کی اصلاح کی کوشش کریں تو نہایت اعلیٰ روحانی مدارج حاصل ہو سکتے ہیں.پس میں سلوک کیلئے نام دینے والوں کہنا چاہتا ہوں کہ رَبُّ الْعَلَمِینَ کی صفت کے ماتحت تو کام ہوتے ہی رہتے ہیں، سے یہ رحمانیت کی صفت کے ماتحت بھی نیکیاں کریں اور اس نیت سے کریں کہ دین کو تقویت ہو.ان دونوں میں نیت کا فرق ہے.ربوبیت کرتے وقت صرف شفقت اور رافت مد نظر ہوتی ہے مگر رحمانیت والا آئندہ پر نظر ڈالتا ہے.رَبُّ الْعَلَمِینَ میں ماضی کی طرف نگاہ ہوتی ہے اور یہ خیال ہوتا ہے کہ تکلیف ڈور ہو لیکن رحمانیت مستقبل کی طرف لے جاتی ہے اور انسان آج ایک کام اس لئے کرتا ہے کہ تا گل یوں ہو.جیسے میں نے ماں کی مثال دی ہے شاید ہی کوئی ایسی جذبات سے عاری ماں ہو جو بچہ کی اس لئے پرورش کرے کہ یہ بڑا ہو کر کمائے گا اور مجھے کھلائے گا.عام طور پر یہی جذبہ ہوتا ہے کہ یہ میرا بچہ ہے، اور یہ ربوبیت ہے.لیکن جب ہم چندہ دیں اور اس خیال سے دیں کہ اس سے دین کو تقویت حاصل ہوگی تو خواہ آگے منتظمین اس سے پوری طرح فائدہ نہ بھی اُٹھائیں ہمیں بہر حال ثواب مل جائے گا اور وہ چندہ بہت زیادہ وقیع ہو گا اس چندہ سے جو بغیر کسی خیال اور ارادہ کے دیا جائے.یہ ایسی باتیں ہیں کہ اگر انہیں اختیار کرلیا جائے تو ایک عام تغیر جماعت میں پیدا ہو سکتا ہے.جس سے نفسوں کی کے اندر اصلاح ہو سکتی ہے اور ایسا جذبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ انسان سمجھتا ہے آئندہ لوگوں کی اصلاح میرے ذمہ ہے اور وہ اپنے آپ کو دنیا کا مصلح قرار دے لیتا ہے.یہ چیز ہے جسے سلوک کیلئے مد نظر رکھنا ضروری ہے اور اگر اسے اختیار کیا جائے تو تھوڑے ہی دنوں میں دلوں سے فساد، بغض، کینہ نکل جائے.کیونکہ ایک شخص جو غریبوں کی خبر گیری کرتا ہے، آئندہ ایسے آدمی تیار کرنے کی کوشش کرتا ہے جو دنیا کا بوجھ اُٹھائیں، وہ سے بدسلوکی کر سکتا ہے.ایسا انسان ہر ایک سے رافت و محبت سے پیش آئے گا اور ہر ایک کی عزت، مال، جان کو خطرہ میں دیکھ کر اس کیلئے درد محسوس کرتا اور اسے دور کرنا اپنا
خطبات محمود 1.4; سال ۱۹۳۴ء فرض سمجھتا ہے.ان دونوں چیزوں کو مد نظر رکھنے سے انسان کے اندر ایک تبدیلی پیدا ہو جائے گی اور پھر وہ کام جنہیں کرنے کیلئے اسے پہلے زور دینا پڑتا تھا خود بخود اس سے ہونے لگیں گے.پس میں احباب جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے اعمال میں ان باتوں کو مد نظر رکھیں.آئندہ بھی وقتاً فوقتاً میں ایسے مضامین بیان کرتا رہوں گا جو سلوک کیلئے ضروری ہوں.پھر سال بھر کے بعد لوگوں کی رپورٹوں سے گفتگوؤں سے اور ملاقاتوں سے یہ دیکھ کر کہ کون کس طرح کام کر رہا ہے، سنجیدگی اور شوق سے کام کرنے والوں کو باقاعدہ کام کرنے کیلئے مچن لوں گا.اور جن کو اس کا اہل نہ پاؤں گا، اُن سے معذرت کرتے ہوئے یہ کہہ دوں گا کہ آپ اس تحریک میں شامل نہیں ہو سکتے..له الحديد: ۱۷ الفضل -۲۹ - مارچ ۱۹۳۴ء) تذکرة الاولياء - مؤلفہ فرید الدین عطار مترجم علامہ عبدالرحمن شوق صفحه ۸۲٬۸۱ ناشران ملک سراج الدین اینڈ سنز پبلشرز تاجران کتب کشمیری بازار لاہور س الاعراف: ٬۵۵ یونس: ۴ ارائه ه اسدالغابة حالات حضرت خنساء بنت عمرو بن الشريد جلده صفحه ۴۴۱-۴۴۲ المكتبة الاسلامية بطهران ۱۳۸۰هـ
خطبات محمود سال ۹۳۴ انسانی قبض اور بسط کی حالت فرموده ۳۰ مارچ ۱۹۳۴ء) تشہیر، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- انسانی فطرت کچھ ایسے رنگ میں وضع کی گئی ہے کہ وہ یکساں حالت پر نہیں رہتی، اس میں لہریں پیدا ہوتی ہیں، کبھی بسط کی حالت آتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک اُڑنے والا پرندہ ہے جسے اپنی زندگی میں سوائے اُڑنے کے اور کوئی چیز پسند ہی نہیں، کبھی یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ پانی میں بھیگا ہوا کپڑا یا بو جھل لوہا ہے جو بغیر کسی مقابلہ کی کوشش کے اور بغیر کسی جدوجہد کے طبعی طور پر نیچے ہی نیچے چلا جا رہا ہے.یہی حالت ہے جسے قرآن کریم نے قبض اور بسط کی حالت بتایا ہے.اور رسول کریم ﷺ نے بھی اس کو انسانی حالت کے قیام اور روحانی ترقیات کیلئے ضروری چیز قرار دیا ہے اے.ایک زمانہ ایسا تھا جبکہ قرآن نے ان معارف کو بیان نہیں فرمایا تھا اور دنیا کے لوگ خیال کرتے تھے کہ ہر انسان اپنی حالت کے مطابق اپنے درجہ پر قائم رہتا ہے اور کبھی لوگ یہ سننا یا سمجھنا یا اقرار کرنا گوارا نہ کرتے تھے کہ انسانی حالت میں مختلف اوقات میں کبھی فوقانی اور کبھی تحتانی تغیر ہوتا رہتا ہے لیکن قرآن کریم نے آکر اس حقیقت کو ظاہر کیا اور اس کے ظہور سے دو و عظیم الشان فائدے حاصل ہوئے.ایک بہت بڑا فائدہ تو یہ ہوا کہ قبض کی حالت میں انسان پر جو مایوسی آتی ہے اس سے قرآن کریم نے بچالیا.دنیا میں ہزاروں بلکہ لاکھوں انسان ایسے ہوں گے یا کم سے کم ہوسکتے ہیں جن کے
خطبات محمود HA سال ۱۹۳۴ء متعلق عقلاً یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان پر قبض کی حالت آئے تو ان کو معلوم ہی نہ ہو کہ یہ کیا بات ہے اور اس حالت کے کیا اغراض و مقاصد اور فوائد ہیں.وہ اگر جانے کے خیال سے ہے مایوسی کا شکار ہو جائیں اور اعمال کی کشمکش کشمکش سے کنارہ کش ہو جائیں.لیکن جب قرآن کریم ہم کو یہ بتادیا کہ بتادیا کہ ہر بسط کے ساتھ قبض ہوتی ہے اور انسانی اعمال اپنے اندر وائبریشن (VIBRATION) رکھتے ہیں، ان کے اندر لہریں پیدا ہوتی ہیں اور لہر کے معنی اونچے نیچے ہونے کے ہیں تو یہ جانتے ہوئے ہم مایوسی کا شکار نہیں ہو سکتے.آج اس زمانہ میں دنیا نے اس صداقت کو تسلیم کرلیا ہے کہ انسانی اعمال میں لہریں ہوتی ہیں بلکہ دنیا میں ہر چیز کے اندر اصل موجود ہے.انسان کی بصارت اور شنوائی میں بھی لہریں ہوتی ہیں.جس طرح آواز سے پیدا شدہ لہریں ہوا میں تیرتی ہیں، جس طرح نظر کی لہریں ہوا میں تیرتی ہیں، اسی طرح انسانی روح بھی خدا کی طرف لہروں میں پرواز کرتی ہے.مگر بوجہ اس کے کہ پرواز اوپر کی طرف ہوتی ہے، ہر قبض پہلی سے کم اور ہر بسط پہلی سے زیادہ آتی ہے.اس کی طرف قرآن کریم میں اشارہ کیا گیا ہے اور جہاں اللہ تعالٰی کا ذکر ہے، وہاں اسے بلندی کی طرف منسوب کیا گیا حالانکہ اللہ تعالیٰ کو کسی خاص مقام سے کوئی تعلق نہیں.یہ نہیں کہ وہ ہمارے سروں کی طرف ہے، ہمارے پاؤں کی طرف اس کی حکومت نہیں.اگر ایسا ہو تو جس طرف ہمارے سر ہیں، اسی طرف اور لوگوں کے پاؤں ہوں گے.اگر یہ صحیح ہے کہ زمین گول ہے تو یہ بھی صحیح ہے کہ جدھر ایک طرف کے رہنے والوں کے سر ہیں، دوسری طرف رہنے والوں کے اسی طرف پاؤں ہوں گے.پس اگر اوپر کے معنی سروں کی طرف کے لئے جائیں تو کیا یہ نہ کہا جاسکے گا کہ وہ امریکہ والوں کے پاؤں کی طرف ہے.اللہ تعالیٰ کی بلندی کی طرف بتانے کے یہی معنی ہیں کہ جو انسان خدا کی طرف پرواز کرتا ہے، وہ بلند ہوتا جاتا ہے.اس کی ہر قبض پہلی سے کم اور ہر بسط پہلی سے زیادہ ہوتی ہے.ایک انسان اگر زمین سے ایک گز اوپر ہو اور پھر دوگر اوپر ہو جائے تو مانا پڑے گا کہ گو وہ بلندی کی چوٹی تک نہیں پہنچا تاہم اس کی حالت پہلے سے ضرور بلند ہے.پس قبض اور بسط کے بتانے سے ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ اس سے سے انسان اپنے نفس کا محاسبہ کر سکتا ہے.وہ قبض کی حالت سے گھبراتا نہیں کیونکہ وہ جانتا ہے کہ حالت تو آتی ہی ہے.جو لوگ تیرنا جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ ہر ہاتھ مارنے سے پہلے جسم کسی قدر اونچا ہوتا ہے مگر ایک ہاتھ مارنے کے بعد دوسرا ہاتھ مارنے تک پھر ذرا نیچے چلا جاتا.
خطبات محمود 1.9 سال ۱۹۳۴ء ہے.بعینہ یہی حالت روحانی ترقی کی ہے.ہر انسان کو کوشش یہ کرنی چاہیئے کہ پہلی قبض - دوسری کم اور پہلی بسط سے دوسری زیادہ ہو.پس ایک تو اس چیز نے انسان کو مایوسی سے بچا لیا اور دوسرے روحانی ترقی کو لہر کی مانند قرار دے کر بتادیا کہ کوئی ایک ضرب ایسی نہیں جو اوپر لے جائے بلکہ ہر ضرب کے بعد دوسری کی ضرورت باقی رہتی ہے اور جو ایک ہی کو کافی سمجھ لے وہ ناکام رہتا ہے.پس یہ روحانی ترقی کا ایک عظیم الشان گر بیان کیا گیا ہے جو بتاتا ہے کہ کسی ایک فعل سے خدا نہیں مل سکتا بلکہ مسلسل کاموں سے ملتا ہے.ہر ایک فعل ایک حد تک خدا کے قریب کرے گا.مگر پھر اس کی روحانیت کو غذا کی ویسی ہی ضرورت رہے گی جیسے صبح کا کھانا کھانے کے بعد شام کو کھانے کی ضرورت ہوتی ہے.صبح کی نیکی شام کے کام نہیں آسکتی جس طرح صبح کا کھانا شام کے وقت بھوک سے نہیں بچا سکتا بلکہ جس طرح جسمانی غذا میں تسلسل ہے اسی طرح روحانی حالت میں بھی یہ جاری رہنا چاہیئے.جس وقت یہ بند ہو وہی وقت انسان کی تباہی کا ہوتا ہے.ایک انسان خواہ دس میل تک تیرتا چلا جائے لیکن جب بھی وہ ایک ہاتھ کے بعد دوسرا مارنے کی ضرورت نہ سمجھے گا غرق ہو جائے گا.زیادہ فاصلہ طے کر لینا اس بات کا ضامن نہیں ہو سکتا کہ اب ڈوبنا ممکن نہیں.اگر کوئی شخص جو میں اڑ رہا ہو تو وہ ایک میل سے بھی گر سکتا ہے اور دس میل سے بھی.یہ نہیں ہو سکتا کہ دس میل اوپر جانے کے بعد اس کیلئے گرنے کا امکان نہ رہے.امکان تو ایک میل پر بھی ہے اور دس میل پر بھی.البتہ نتائج کے لحاظ سے دس میل سے گرنا ایک میل سے گرنے کی نسبت زیادہ خطرناک ہوگا.پس یہ دو فوائد ہیں جو اس مسئلہ سے معلوم ہوئے.اور اب دنیا عام طور پر اسی طرف مائل ہو رہی ہے کہ ہر چیز لہریں رکھتی ہے جو تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد پیدا ہوتی رہتی ہیں.نشیب و فراز کو ہی لہر کہا جاتا ہے اور یہ ہر بات میں پایا جاتا ہے.اس طرح گویا دنیا نے آج اس چیز کو تسلیم کرلیا جو ہمیں قرآن کریم نے آج سے قریباً چودہ سوسال قبل بتادی تھی.ہماری جماعت میں جو کام ہو رہے ہیں، ان کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم ان قوانین کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کرسکتے.بڑے کاموں میں غلطیاں ہمیشہ خطرناک نتائج پیدا کرتی ہیں.اگر کوئی ہوائی جہاز سو گز اُوپر اُڑ رہا ہو تو ممکن ہے چھتری کے ساتھ نیچے کود کر ایک اناڑی آدمی بھی اپنی جان بچا سکے لیکن ایک یا دو میل کی بلندی سے گرنے والے کیلئے چھتری کے ذریعہ بیچ سکتا
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ تو ممکن نہیں.چھوٹے کاموں میں بھی بے شک ہوشیاری اور بیداری کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اتنی نہیں جتنی بڑے کاموں میں اور ہمارا کام اتنا عظیم الشان ہے کہ انسان اسے اپنی طاقت سے کر ہی نہیں سکتا.اگر ظاہری فتوحات ہمارے ذمہ لگادی جاتیں تو بندوق سے، تلوار سوٹے سے یا اگر کوئی چیز بھی ہمارے پاس نہ ہوتی تو ہاتھوں سے یا دانتوں سے کاٹ کر ہی دشمن کو یا تو مغلوب کرلیتے اور یا خود مرجاتے.اس میں بہر حال ہمارے لئے کچھ کرنے کی گنجائش تھی مگر ہمارے - سپرد جو کام کیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ ہم نے دلوں کے قلعے فتح کرنے ہیں اور یہ وہ قلعے ہیں کہ کسی کو پتہ بھی نہیں لگ سکتا کہ ان کا دروازہ کہاں ہے.دل کے دروازہ کا پتہ لگانا بہت مشکل ہے اور اس کا اندازہ بھی نہیں ہو سکتا.کوئی آدمی ایسا ہوتا ہے کہ اس پر خوف سے اثر ہوتا ہے اور کسی پر طمع سے، جس کا نام قرآن کریم نے امید رکھا ہے.یہ امید بھی کئی قسم کی ہوتی ہے.اگلے جہان کی امیدیں، پھر اس جہان کے متعلق مالی، علمی، خاندانی وغیرہ وغیرہ.پھر ان کی آگے ہزار ہا قسمیں ہیں اور کچھ معلوم نہیں کون سی کھڑکی ہے جس سے اثر ہو.غرضیکہ یہ اتنا وسیع اور مشکل کام ہے جو ہمارے سپرد کیا گیا ہے کہ انسانی طاقت اسے بخوبی کرنے کی اہل نہیں اور اگر اللہ تعالیٰ کے وعدے نہ ہوتے کہ اس کام کو ہم خود کریں گے تو ہم سمجھتے ہمارے ساتھ مذاق کیا گیا ہے اور اس صورت میں ہماری مثال الف لیلہ کے قصہ کی سی ہوتی.اس میں لکھا ہے کہ ایک امیر آدمی کے محل کی دیوار پر اس کے نام کا بورڈ لٹک رہا تھا.ایک در شخص جو اس کا ہم نام تھا.پاس سے گزرا تو بورڈ دیکھ کر کہنے لگا کہ یہ شخص بھی میرا ہم نام ہے مگر کیا آرام کی زندگی بسر کر رہا ہے اور میں کیسی تکلیف میں ہوں.اس امیر آدمی نے بھی یہ بات سن لی اور اسے محل میں بلا لیا، بٹھایا، نوکروں سے کہا کہ دسترخوان بچھاؤ.وہ آتے اور یونی ہاتھ پھیر کر چلے جاتے اور وہ امیر اس سے کہتے کہ دیکھو کیسا اچھا دسترخوان ہے.پھر حکم دیا کہ آفتابہ لاؤ اور ہاتھ ڈھلاؤ.وہ پانی بھی ڈالتے مگر اس کے ہاتھوں پر کچھ نہ پڑتا.اسی طرح انواع و اقسام کے کھانے منگوائے گئے مگر وہ بھی محض مذاق تھا.وہ غریب آدمی بھی بامذاق تھا وہ بھی ساتھ ساتھ تعریف کرتا جاتا.تو یہی حالت ہماری ہوتی اگر اللہ تعالیٰ کی طرف.نہ دلایا جاتا کہ کام تم نے نہیں بلکہ ہم نے کرنا ہے.یہی وعدہ ہماری ڈھارس بندھاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ اس سال جلسہ سالانہ کے موقع پر میں نے احباب کو توجہ دلائی تھی کہ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات ضرور پڑھنے چاہئیں کیونکہ ان کے مطالعہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء سے ایمان تازہ ہوتا اور ہمت بندھتی ہے وگرنہ ممکن ہے بعض لوگ تھوڑی دیر کے بعد ہمت ہار دیں باوجود اس کے کہ خدا نے اس کام کا کرنا اپنے ذمہ لیا ہے مگر یاد رکھنا چاہیے کہ خدا کی ذمہ داریاں مشروط ہوتی ہیں.وہ کچھ بندہ سے بھی چاہتا ہے اور جتنا کوئی کام اہم ہو، اتنی ہی بندہ پر ذمہ داری زیادہ عائد ہوتی ہے.اسی غرض کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے مجلس شوری قائم کی تھی تا اس کام کیلئے جماعت کی تربیت ہو سکے اور وہ اپنی ذمہ داریوں پر غور کر سکے.مگر یہ کام صرف افراد کے غور کرنے سے ہی نہیں چل سکتا بلکہ اس کیلئے اعمال کی ضرورت ہوتی ہے.مشاورت تو اللہ تعالیٰ نے بعض مفاسد کو روکنے کیلئے رکھی ہے وگرنہ اللہ تعالیٰ جنہیں اس کام کیلئے کھڑا کرتا ہے، وہ کسی کے مشورہ کے اتنے محتاج نہیں ہوتے جتنے لوگ ان کے مشوروں کے محتاج ہوتے ہیں.اس سے مقصد تو صرف یہ ہوتا ہے کہ ان سے مشورہ لے کر ان کے اندر بشاشت پیدا کی جائے وگرنہ جو بات کرنی ہوتی ہے وہ اللہ تعالی انہیں پہلے سے ہی سمجھا دیتا ہے.پھر ان کے خلفاء کا بھی یہ حال ہوتا ہے.وہ مشورہ کے اتنے محتاج نہیں ہوتے مگر تربیت کیلئے اور جماعت کو صحیح طریق پر چلانے کیلئے اللہ تعالٰی نے یہ ایک رستہ قرار دیا ہے.لیکن مشورہ خواہ کتنا اعلیٰ ہو اور اس کا نتیجہ خواہ کتنا ہی صحیح کیوں نہ ہو جب تک ہمارے اندر ذمہ داری کا احساس پیدا نہ ہو، کچھ نہیں ہو سکتا.ہمارے اعمال میں لہریں پیدا ہونی ضروری ہیں اور لہروں کے پیدا ہونے کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ نہ سیدھی نیچے جائیں اور نہ سیدھی اوپر ، حقیقی ہر ہمیشہ اسی صورت میں پیدا ہوگی جب متوازی چلے گی وگرنہ ناقص رہے گی.اگر پتھر کی طرح نیچے جائیں تب بھی فائدہ نہیں اور اگر سیدھے اوپر تو اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں.لہروں کے چلنے کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ متوازی چلیں.بچپن میں بچے ایک کھیل کھیلتے ہیں کہ پانی کے کنارے کھڑے ہو کر اور جھک کر ٹھیکری سطح کے ساتھ ساتھ پھینکتے ہیں جو کبھی پانی کے اندر سے کبھی اوپر سے کودتی ہوئی چلی جاتی ہے.اس حالت میں لہرین پیدا وسکتی ہیں اور یہی ترقیات کی ضامن ہو سکتی ہیں.وگرنہ اگر کوئی نیچے کی طرف جاتا ہے تو وہ کافر ہے اور اوپر تو صرف نبی ہی جاسکتے ہیں.درمیان میں وہی لہر والی حالت ہوتی ہے اور وہی مومن کی حالت ہے.جب تک یہ لہر پیدا نہ ہو اور جب تک ایک ایسا محدود تنزل نہ ہو جس کے بعد لازماً ایک نئی طاقت پیدا ہو اُس وقت تک کامیابی نہیں ہو سکتی.پس دوستوں کو چاہیے کہ اس بات کو ہمیشہ مد نظر رکھیں.اس موقع پر بعض مہمان بھی گفتگو سننے کیلئے آجاتے ہیں.
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء مشاورت میں چونکہ نمائندے مخاطب ہوں گے اس لئے دوسروں کے واسطے میں نے یہ خطبہ وقف کر دیا ہے تا سب کو فائدہ ہو جائے.ہر شخص کو چاہیے کہ اپنے اندر بھر کی کیفیت پیدا کرے، وگرنہ کام ادھورا ہو گا.ہو گا تو ضرور کیونکہ یہ خدا کا کام ہے اور اُسی نے اسے کرنے کا وعدہ کیا ہے مگر ہمارے لئے ضروری ہے کہ اپنے اعمال میں استقلال اور حرکات میں لہریں پیدا کریں اور تنزلی کو ترقی کا موجب قرار دیں.حضرت معاویہ " کے متعلق لکھا ہے کہ ایک دفعہ آپ کی صبح کی نماز رہ گئی اس پر آپ سارا دن روتے رہے.اگلی صبح خواب میں کوئی انہیں جگا رہا تھا کہ اُٹھو نماز کا وقت ہے.انہوں نے پوچھا تو کون ہے؟ اس نے جواب دیا شیطان ہوں.آپ نے کہا کہ شیطان اور نماز کیلئے جگائے، اس کی کیا وجہ ہے؟ اس نے جواب دیا کہ گل تمہاری نماز رہ گئی تو تم اس قدر روئے کہ اللہ تعالٰی نے کہا کہ ایک نماز کے رہ جانے کا میرے اس بندے کو اتنا صدمہ ہوا ہے، اسے سو باجماعت نمازوں کا ثواب دے دیا جائے.آج میں اس لئے جگا رہا ہوں کہ ایک ہی نماز کا ثواب ملے ایسا نہ ہو کہ گل کی طرح سو کا ثواب حاصل کر لو یہ ایک کشفی نظارہ ہے جو ایک اعلیٰ روحانیت والے کو نظر آیا.یہی حالت ہو تو ترقی حاصل ہوتی ہے.ان کی نماز کا رہ جانا قبض کی حالت تھی مگر آپ نے اسے یونہی نہیں چھوڑ دیا اور یہ خیال نہیں کرلیا کہ خدا نے اس غفلت کو معاف کیا ہے اور یہ میری طاقت سے باہر کیونکہ سوتے ہوئے آدمی کا کیا اختیار ہوتا ہے.بلکہ آپ نے ایسی توبہ کی کہ آپ کا قدم پیچھے ہٹنے کے بجائے آگے کی طرف بڑھ گیا.تو حالت قبض کو بھی ترقیات کا ذریعہ بنایا جاسکتا ہے اور جب تک یہ حالت پیدا نہ ہو کوئی جماعت ترقی نہیں کر سکتی.کمزوریاں ہونا کوئی خطرہ کی بات نہیں.خطرہ اس بات کا ہونا چاہیئے کہ وہ کمزوریاں ہمیں نیچے نہ لے جائیں.اگر کامل ندامت پیدا ہو جو اللہ تعالیٰ کی محبت کو کھینچے تو ایسی کمزوری بھی رحمت ہو جاتی ہے.پس اس حالت کو اپنے اندر پیدا کرو اسی سے کامیابی ہو سکتی ہے وگرنہ چند لوگوں کا مل کر مشورہ کرلینا چنداں نفع نہیں دے سکتا.خطبہ ثانیہ میں فرمایا :- دوسرا خطبہ بھی خطبہ ہی ہوتا ہے بلکہ یہ زیادہ اہم خطبہ ہوتا ہے کیونکہ اس کا اکثر حصہ انہیں الفاظ میں پڑھا جاتا ہے جو رسول کریم ﷺ سے مروی ہیں اور جو بہت زیادہ بابرکت ہیں.حضرت خلیفہ اول تو ایسے مسائل اکثر بیان فرماتے رہتے تھے میں بھی بتاتا رہتا ہوں مگر
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء بعض لوگ بھول جاتے ہیں.بعض نئے آتے ہیں اس لئے پھر بیان کرنے پڑتے ہیں.اس خطبہ کے دوران میں ہرگز اٹھنا نہیں چاہیئے.امام کے مصلی تک پہنچنے میں جو وقت لگتا ہے وہ کھڑے ہونے اور صفیں وغیرہ درست کرنے کیلئے کافی ہوتا ہے.الفضل ۸- اپریل ۱۹۳۴ء) له مسلم كتاب التوبة باب فضل دوام الذكر والفكر في امور الأخرة والمراقبة و جواز ترك ذالك في بعض الاوقات والاشتغال بالدنيا
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء تعمیل ایمان کیلئے درستی عقائد واعمال کی ضرورت (فرموده ۶ - اپریل ۱۹۳۴ء) تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- انسانی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ ہر قسم کی نئی غذا چاہتا ہے بلکہ یہ بات اللہ تعالی کی تمام مخلوقات میں پائی جاتی ہے تاکہ یہ فرق قائم بالذات میں جو خدا تعالی کی ذات ہے، اور ان ذاتوں میں جو دوسروں کے سہارے قائم ہیں یعنی عام مخلوقات کی ذاتیں، ایک امتیاز قائم کردے.یہی وجہ ہے کہ جب انسان کسی قسم کی غذا سے محروم ہو جاتا ہے تو باوجود اس کے کہ اس کے حجم میں بظاہر کوئی فرق نظر نہیں آتا اس کی طاقتیں اور قوتیں زائل ہو جاتی ہیں.جس طرح ظاہری جسم کے متعلق یہ قانون جاری ہے، اسی طرح باطنی جسم کے متعلق بھی یہ قانون جاری ہے.باطنی جسم بھی ظاہری جسم کی طرح مختلف قسم کی غذاؤں کا محتاج رہتا ہے.کوئی غذا ایسی ہوتی ہے جس کی اسے ہر وقت ضرورت رہتی ہے جیسے جسم کو سانس کی ضرورت ہے اور کوئی غذا ایسی ہوتی ہے کہ جس کی اسے تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد ضرورت ہوتی ہے جیسے انسان کو پانی پینے کی ضرورت ہوتی ہے اور کوئی غذا ایسی ہوتی ہے جس کے متعلق انسان لمبی دیر تک انتظار کر سکتا ہے جیسے کھانا کھانے کی حاجت ہوتی ہے.وہ چیز جو بننزلہ سانس کے ہے کہ جس کے بغیر انسان زندہ رہ ہی نہیں سکتا اور جب وہ اس سے اپنے آپ کو خالی سمجھتا ہے، تب بھی کچھ نہ کچھ ہوا اس کے پھیپھڑوں میں رہ جاتی ہے جو اس کے دل سے کام کراتی رہتی ہے انسان کے اعتقادات کی غذا ہوتی ہے.ایک لمحہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء کیلئے بھی انسان اگر اعتقادات کی درستی نہ کرے یا ایک لمحہ کیلئے بھی اس سے غافل ہو جائے تو اس کی روح مرجاتی ہے.پانی اور کھانے کی طرح جو غذائیں ہیں وہ انسانی اعمال ہیں کہ ان میں وقفہ بھی ہو سکتا ہے گو لمبا نہیں ہو سکتا مگر بہر حال اگر کچھ دیر تک انسان ان کے بغیر گزارہ بھی کر سکے تب بھی جلد جلد عرصہ میں ان کی ضرورت پیش آجاتی ہے.ہاں یہ درست ہے کہ اگر یہ غذا جلد جلد نہ ملے تو انسانی روح کی فوری ہلاکت نہیں ہو جاتی بلکہ کمزور ہو جاتی ہے.سانس کے نہ آنے سے تو فوری ہلاکت ہو جاتی ہے مگر غذا کے نہ ملنے سے فوری ہلاکت واقع نہیں ہوتی جیسا کہ انسان بعض دفعہ کئی دن کا فاقہ کرلیتا ہے مگر ہلاک نہیں ہوتا ، ہاں کمزوری ضرور ہو جاتی ہے.اسی طرح اعمال کے وقفہ کی وجہ سے بھی کمزوری آجاتی ہے اور گو یہ وقفہ برداشت کیا جاسکتا ہے مگر چونکہ ساتھ ساتھ کمزوری بھی ہوتی جاتی ہے اس لئے ہر لحظہ انسان موت کے قریب ہوتا جاتا ہے.پس سب سے مقدم انسان کیلئے یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے اعتقادات اور اللہ تعالی پر یقین درست رکھے لیکن دنیا میں عام طور پر انسانوں میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ ایک یا دوسری غذا کو بالکل چھوڑ دیتے ہیں.کئی ہیں جو اعمال پر زور دیتے ہیں جیسے یورپین قومیں ہیں وہ کہتی ہیں کہ عقائد سے کیا بنتا ہے.اصل چیز کام کرنا ہے انسان کو چاہیے کہ وہ لوگوں سے حسن سلوک کرے، ان سے محبت اور پیار سے پیش آئے ، ہمد روی اور مؤاسات کا رویہ اختیار کرے اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو اعمال کو نظر انداز کر دیتے ہیں جیسے اس وقت مسلمانوں کی حالت ہے.وہ کہتے ہیں جب ہم خدا پر ایمان لے آئے، رسول کریم ﷺ کی صداقت کو تسلیم کرلیا، تو پھر ہمیں کسی چیز کی کیا ضرورت ہے.مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ له - ان کا سارا زور اس بات پر ہوتا ہے کہ ہم نے لا اله الا اللہ کہہ دیا اب ہمارے اسلام میں کیا نقص رہا؟ مجھے تعجب آتا ہے ان لوگوں پر جو اسلام کو محصور کرنا چاہتے ہیں خالی عقائد کے ساتھ، حالانکہ عقیدہ بغیر اعمال کے کبھی زندہ رہ نہیں سکتا.عقیدہ کی مثال درخت کی سی ہے اور اعمال کی مثال پانی کی سی.اس میں شبہ نہیں کہ عقیدہ سانس کی طرح ہوتا ہے اور اگر اس میں ذرا سا بھی رخنہ پیدا ہو جائے تو روحانی ہلاکت واقع ہو جاتی ہے مگر اس میں بھی شبہ نہیں کہ کھانا کھانے کے بغیر سانس بھی نہیں چلتا.پس در حقیقت انسان کو دونوں طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے.جس طرح کوئی انسان نہیں کہہ سکتا کہ میں نے کھانا کھا لیا ہے اب سانس
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء آئے یا نہ آئے یا سانس جب آتا ہے تو کھانا کھانے کی کیا ضرورت ہے اور اگر کوئی یہ کہے تو وہ بیوقوف اور جاہل سمجھا جاتا ہے.اسی طرح تکمیل ایمان کیلئے انسان کو ہمیشہ عقیدہ کی درستی اور اعمال کی صحت کا خیال رکھنا چاہیے.بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی نظر صرف ایک طرف ہوتی ہے اور دوسری طرف ان کی نگاہ نہیں اُٹھتی.بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ ہم نمازیں پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، چندے دیتے ہیں مگر روحانیت میں ترقی نہیں ہوتی.انہیں غور کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیئے کہ یا تو ان کے اعمال میں نقص ہے یا عقائد میں.یا تو اللہ تعالیٰ کی ذات پر جیسا یقین کامل ہونا چاہیے اور انسان کو سمجھنا چاہیے کہ وہ خدا کو حاضر ناظر جانے اس عقیدہ میں نقص ہوگا.یا اگر عقیدہ درست ہو گا تو اعمال میں نقص ہوگا.جس کی وجہ پانی اس کی روحانیت کے درخت تک نہیں پہنچ سکتا.پس مومن کو اپنی روح کی درستی کیلئے ضروری ہے کہ اپنے عقائد پر نظر رکھے نیز اپنے اعمال کی بھی نگہداشت کرے اور یہ چیز محاسبہ سے ہی حاصل ہو سکتی ہے.انسان اگر اپنے نفس کا محاسبہ کرے تو اسے اپنے بہت سے عیبوں کا پتہ لگ جاتا ہے اور بعض دفعہ ایسے باریک در باریک عیب نظر آجاتے ہیں کہ غلطی سے بعض دفعہ انسان جسے قوتِ ایمانیہ سمجھ رہا ہوتا ہے، وہی ضعف ایمان کا موجب ہوتی ہے.کل ہی مجھے اس بات کا مشاہدہ کرنا پڑا.ایک دوست مجھ سے ملنے کیلئے آئے اور کہنے لگے مجھے فلاں فلاں ابتلاء آیا ہے.میرا بڑا ہی مضبوط ایمان تھا کہ میں ثابت قدم رہا ورنہ کوئی اور ہوتا تو مرتد ہو جاتا.میں نے کہا یہی آپ کی کمزوری ایمان کا ثبوت ہے کہ آپ ایک معمولی بات کو اپنے ایمان کی مضبوطی کا ثبوت سمجھ رہے ہیں حالانکہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں ادنی سے اونی بشاشت ایمان بھی جب کسی مومن میں پیدا ہو جاتی ہے تو خواہ اسے آگ کے اندر داخل کردیا جائے تو بھی وہ ایمان سے متزلزل نہیں ہوتا ہے.جب یہ ادنی بشاشت ایمان ہے تو اعلی بشاشت ایمان خود سمجھ لو کہ کیا چیز ہو سکتی ہے.غرض کئی دفعہ انسان سمجھتا ہے کہ فلاں چیز اس کی قوت کا موجب ہے حالانکہ وہ عدم تدبر کا ثبوت ہوتا ہے اور اگر وہ غور کرے تو اسے معلوم ہو کہ وہی چیز اس کی کمزوری کا موجب بنتی ہے.ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور آکر کہنے لگا.یا رسول اللہ ! آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ پیارے ہیں یہاں تک کہ میں آپ کو جان کی طرح عزیز سمجھتا ہوں.آپ نے فرمایا یہ کوئی اعلیٰ ایمان نہیں جب تک کہ تم مجھے اپنی جان سے بڑھ پر
خطبات محمود 114.سال ۴۱۹۳۴ کر پیارا نہ سمجھوتے.اب جس چیز پر اس نے ناز کیا تھا اور سمجھا تھا کہ محبت کا بہت بلند مقام اسے حاصل ہو چکا ہے، وہی چیز اس کا نقص ٹھری.اس نے خیال کیا تھا کہ رسول کریم ﷺ کو اپنی جان کی طرح عزیز سمجھنا ہی کافی ہے مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب تک اپنی جان سے بھی بڑھ کر مجھے عزیز نہ سمجھو ایمان کامل نہیں ہو سکتا.چونکہ وہ ایمان کے رستہ پر چل رہا تھا اس لئے اس نے سنتے ہی کہا یا رسول اللہ ! آپ مجھے اپنی جان سے بھی بڑھ کر عزیز ہو گئے ہیں اور اس طرح اُسی وقت اس کی اصلاح ہو گئی.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک نیک نیت انسان کو جس وقت بھی اس کی غلطی سے آگاہ کیا جائے، وہ اپنی اصلاح کی طرف مائل ہو جاتا ہے.یہ محاسبہ انسان کیلئے بہت مفید ہوتا ہے مگر محاسبہ کامل ہونا چاہیے.یعنی ایمان کا بھی اور اعمال کا بھی، تب مفید ہو سکتا ہے.چونکہ آج تین بجے کی گاڑی سے بہت سے دوست لائل پور جانے والے ہیں اس لئے میں خطبہ کو مختصر کرتا ہوں.گو سچی بات یہ ہے کہ مجھ میں زیادہ خطبہ پڑھنے کی اِس وقت ہمت بھی نہیں.میں گھر سے تو اسی نیت سے چلا تھا کہ خطبہ خود پڑھاؤں گا مگر رستہ میں مجھے تکلیف ہو گئی اور میں نے محسوس کیا کہ میں نے غلطی کی جو خطبہ پڑھانے کیلئے آگیا.پس زیادہ تر وجہ تو صحت کی خرابی ہے لیکن چونکہ دوستوں کی روانگی کا بھی احساس ہے اس لئے میں اسی پر اکتفاء کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں اپنے عقائد و اعمال دونوں کو درست رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.(الفضل ۱۲- اپریل ۱۹۳۴ء).له مسند احمد بن حنبل جلد ۶ صفحه ۴۴۲ میں یہ الفاظ آئے ہیں من قال لا اله الا الله وحده لا شريك له دخل الجنة له بخاری کتاب الایمان باب حلاوة الايمان سے
خطبات محمود ۱۱۸ ۱۴ سال ۱۹۳۴ء مومن کا دائرہ محبت بہت وسیع ہونا چاہیئے (فرموده ۱۳- اپریل ۱۹۳۴ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- مجھے اپنی خلافت کے ایام میں پہلی مرتبہ اس قسم کا سفر در پیش ہوا جیسا کہ گزشتہ ہفتہ میں لائل پور کا پیش آیا تھا اور میں اس سفر سے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جہاں ایک طرف مخالفت زوروں پر ہے اور دشمنانِ احمدیت ناخنوں تک کا زور لگا کر یہ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح سلسلہ عالیہ احمدیہ کو نقصان پہنچائیں اور اسے لوگوں کی نظروں سے گرادیں، کہیں ٹریکٹوں، کتابوں اور اشتہاروں کے ذریعہ ، کہیں اخباری مضامین کے ذریعہ ، کہیں لیکچروں اور تقریروں کے ذریعہ ، کہیں منظم سوسائٹیوں کے ذریعہ کہیں حکومت کے اراکین میں غلط پروپیگنڈا کر کے، کہیں عوام کو یہ اشتعال دلا کر کہ احمدیوں کی جماعت مسلمانوں کی سیاسی طاقت کو توڑ دے گی، کہیں کانگرسیوں کو یہ کہہ کر کہ یہ گورنمنٹ کے خوشامدی ہیں، کہیں حکومت سے تعاون کرنے والوں پر یہ اثر ڈال کر کہ یہ حکومت کے باغی ہیں.غرض ہر رنگ میں ہر قسم کی اضداد استعمال کرتے ہوئے کہیں باغی کہہ کر اور کہیں خوشامدی بتا کر، کہیں بے وقوف کہہ کر اور کہیں عقلمندوں کا جتھا قرار دے کر کسی سے یہ کہہ کر کہ یہ اسلام کے بڑھانے اور اسے تمام ادیان پر غالب کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں اور کسی سے یہ کہہ کر کہ یہ اسلام کے مٹانے کے درپے ہیں.غرض جتنے اضداد دنیا میں ممکن ہیں، وہ سب سلسلہ احمدیہ کے خلاف استعمال کئے جاتے ہیں.اور ایک نادان و و ناواقف ہوسکتے
خطبات محمود 119 سال ۱۹۳۴ ء شخص جس نے مخالفین کے تمام اعتراضات پر یکجائی نظر نہ ڈالی ہو، چونکہ نہیں جانتا کہ دوسرے موقع پر یہ کیا الزام لگاتے ہیں، خیال کرتا ہے کہ شاید یہ الزام درست ہی ہو جو بیان کیا جاتا ہے وہاں میں اس سفر سے اس نتیجہ پر بھی پہنچا ہوں کہ باوجود اس قدر مخالفت کے لوگ ہماری باتیں سننے پر آمادہ ہیں اور وہ خواہش رکھتے ہیں کہ کوئی انہیں سلسلہ کے حالات سے واقف کرے.میرے لائل پور جانے کے موقع پر ہر رنگ میں مخالفین کے رؤساء نے کوششیں کیں کہ کسی طرح لوگ اس طرف توجہ نہ کریں مگر باوجود اس کے کہ وہاں کی مقامی جماعت نہایت قلیل ہے اور شاید چالیس مردوں سے زیادہ نہیں کیونکہ ساری مردم شماری عورتوں اور بچوں سمیت جو مجھے بتائی گئی وہ دوسو کے قریب ہے.پس مرد میں پینتیس یا زیادہ سے زیادہ پچاس ہوں گے اور چالیس ہزار کی آبادی والے شہر میں یہ تعداد بہت ہی قلیل ہے.پھر سوائے دو تین کے باقی لوگ غریب طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں مگر باوجود ان تمام حالات کے لوگوں نے اس مخالفت کی پرواہ نہیں کی جو مخالفین کی طرف سے کی گئی تھی.عام طور پر جلسوں کی حاضری تین سے چھ ہزار تک سمجھی جاتی تھی اور مجھے قادیان سے باہر کسی جگہ اس بات کے دیکھنے کا موقع نہیں ملا کہ کھلے میدان میں اس طرح وسعت سے آدمی پھیلے ہوئے ہوں جیسا کہ قادیان میں سالانہ جلسہ کے موقع پر پھیلے ہوتے ہیں.گیلریوں کو چھوڑ کر جو زائد ہوتی ہیں یہاں جس قدر جلسہ گاہ کا حصہ ہوتا ہے، اس کے قریب قریب ہی لائل پور کی جلسہ گاہ تھی اور پھر تمام آدمیوں سے بھری ہوئی تھی.مگر سوال یہ نہیں کہ آدمیوں سے جلسہ گاہ بھری ہوئی تھی بلکہ قابل غور امر یہ ہے کہ سخت مخالفت کے باوجود یہاں تک کہ مخالف علماء کی طرف سے یہ فتویٰ دیئے جانے کے باوجود کہ احمدیوں سے ملنے پر.نکاح ٹوٹ جائے گا ہر طبقہ کے لوگ آئے، معززین میں سے بھی اور عوام الناس میں سے بھی.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مخالف جو کوششیں ہمارے خلاف کر رہے ہیں اگر ایک طرف ان سے ہمارے لئے بعض مشکلات پیدا ہو رہی ہیں تو دوسری طرف ان کی مخالفت ہمارے تبلیغی راستہ میں روک نہیں ہو رہی بلکہ لوگوں کی توجہ پھرانے کا باعث بن رہی ہے.مجھے ایک شخص نے لائل پور میں بیعت کرتے وقت عجیب واقعہ سنایا' وہاں قریباً ایک سو چالیس افراد نے بیعت کی ہے اور جو بیعت کرتا، میں اُس سے متفرق حالات بھی دریافت کرتا تا مجھے معلوم ہو کہ یہ کس ضلع کا ہے اور اب آئندہ ہماری تبلیغی سرگرمیاں کس ضلع میں
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء زیادہ نمایاں تغیر پیدا کر سکیں گی اور کس جگہ کی جماعتیں اللہ تعالٰی کے فضل سے ترقی کریں گی.ضمنی طور پر میں یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ضلع وار بیعت کے لحاظ سے ضلع شیخوپورہ کے بیعت کرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی.اس کے بعد لائل پور اور پھر سرگودھا وغیرہ اضلاع کے لوگوں نے بیعت کی.ایک شخص نے جو سرگودھا کے ضلع کے تھے اور لائل پور میں ای اے سی کے لڑکوں کو پڑھاتے تھے، جب انہوں نے بیعت کی تو میں نے ان سے پوچھا آپ کہاں کے رہنے والے ہیں.انہوں نے بتایا کہ میں ضلع سرگودہا کا ہوں.پھر میں نے ان پوچھا کہ آپ کو سلسلہ احمدیہ کی طرف کس طرح توجہ ہوئی.انہوں نے کہا کہ میں لائلپور میں نوکر تھا یا کہا کہ میں نوکر ہوں اسی دوران میں مجھے ایک اشتہار ملا جو یہاں کی کسی مسجد تکمی کے امام کی طرف سے شائع ہوا تھا.اس میں جماعت احمدیہ کے خلاف بہت سی باتیں تھیں وہ کہنے لگے مجھے اشتہار پڑھ کر سخت غصہ آیا کہ ایک طرف تو یہ احمدی اپنی نیکی اور اسلام سے ہمدردی کا دعوی کرتے ہیں اور دوسری طرف اسلام کی اتنی ہتک کرتے ہیں کہ امامت اور نبوت کے مدعی بنتے ہیں کہتے ہیں میں اسی غصہ کے جوش میں ایک احمدی کے ہاں گیا اور اسے کہا کہ آپ لوگ اندر سے اور ہیں اور باہر سے اور منہ سے تو اسلامی ہمدردی کے دعوے کرتے ہیں اور حالت یہ ہے کہ آپ کے مرزا صاحب مستقل نبوت کے مدعی ہیں.انہوں نے بڑی نرمی سے کہا ذرا بیٹھ جائیے.اور پھر ایک ایک اعتراض لے کر انہوں نے مجھے حوالے کتابوں سے دکھانے شروع کئے.جو بھی وہ حوالہ نکالیں اصل عبارت میں کچھ اور ہوتا اور اشتہار میں کچھ اور.اس طرح دو دن وہ مجھے سمجھاتے رہے.جب میں اچھی طرح سمجھ گیا تو پھر مجھے اس مولوی صاحب پر غصہ آیا جس نے اشتہار شائع کیا تھا.میں اس کے پاس گیا اور اسے کہا کہ آپ لوگ ہمارے عجیب راہنما ہیں.اشتہار میں یہ لکھتے ہیں کہ مرزا صاحب فلاں فلاں عقیدہ رکھتے تھے حالانکہ اصل کتابیں میں نے دیکھی ہیں، وہاں کچھ اور ہی مولوی صاحب میری بات سنتے ہی ناراض ہو گئے اور کہنے لگے تم کسی احمدی کے پاس گئے ہی کیوں تھے.میں نے کہا تم یہ بتاؤ تم نے جھوٹ کیوں بولا.آخر وہ مولوی صاحب مجھ سے سخت ناراض ہو گئے اور میں نے سمجھا کہ اب مجھے تحقیق کرنی چاہیئے.پندرہ بیس دن تحقیق کی تو حق مجھ پر کھل گیا اور میں بیعت کیلئے تیار ہو گیا.دیکھو یہ مخالفت ہی تھی جو اُسے اِدھر لانے کا ذریعہ بنی کیونکہ اس کے احمدی بنانے کا لکھا ہے.
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء گا.ذریعہ ہم نہیں تھے بلکہ غیر احمدی امام مسجد ذریعہ بنے.تو کئی دفعہ مخالفتیں فائدہ بخش ہو جاتی ہیں.میں نے اس سفر سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ باوجود مخالفت کے خداتعالی کا یہ فضل بھی ہو رہا ہے کہ اس مخالفت کی وجہ سے لوگوں کی توجہ احمدیت کی طرف پھر رہی ہے.یہ تو میں نہیں کہہ سکتا کہ اتنی بیعت ایک دن کے لیکچر کا نتیجہ تھی بلکہ ان لوگوں کو پہلے سے تبلیغ ہو چکی لیکن وہ تین سے چھ ہزار تک لوگ جو جلسوں میں شامل ہوتے رہے، ان کے دلوں میں بھی ایک بیج بویا گیا ہے جو آج نہیں تو کل اور اس مہینہ میں نہیں تو اگلے مہینہ میں پھوٹے جب باوجود نکاح ٹوٹ جانے کی دھمکی دیئے جانے کے وہ شوق سے ہمارے جلسوں میں آئے تو اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ ان کے دلوں میں ہدایت کی تڑپ ہے جو کسی روز اپنا رنگ لائے گی.سب سے زیادہ ڈر لوگوں کو نکاح ٹوٹنے کا ہوتا ہے اور یہی مولویوں کا آخری ہتھیار ہے جس سے وہ کام لیا کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب سیالکوٹ تشریف لے گئے تو اُس وقت میری عمر چودہ پندرہ سال کے قریب تھی.مجھے یاد ہے پیر جماعت علی شاہ صاحب اور ان کے مریدوں نے یہ فتویٰ دے دیا کہ جو احمدیوں.سے ملے گا اُس کا نکاح ٹوٹ جائے گا.چونکہ مخالفت زوروں پر تھی اس لئے جماعت کے لوگوں کا خیال تھا کہ لیکچر میں صرف جماعت کے ہی لوگ شامل ہوں گے ، دوسرے لوگ نہیں آئیں گے اور بعض کے دل میں اسی وجہ سے یہ وسوسہ پیدا ہوا کہ لیکچر گاہ محدود جگہ میں بنائی جائے تا کم لوگوں کے آنے کی وجہ سے جماعت کی سُبکی نہ ہو مگر جلسہ وہیں ہوا جہاں انتظام کیا گیا تھا.میں نے دیکھا مولوی ہر دروازہ پر کھڑے ہو کر یہ شور مچارہے تھے کہ دیکھنا اندر نہ جانا ورنہ نکاح ٹوٹ جائے گا چھپے ہوئے اشتہار بھی تقسیم کرتے جاتے مگر لوگ بے تحاشہ جلسہ گاہ کی طرف آتے اور جب مولوی اُنہیں کہتے کہ نکاح ٹوٹ جائے گا تو کہتے نکاح تو سوا روپیہ دے کر پھر بھی پڑھالیں گے مگر مرزا صاحب نے معلوم نہیں پھر آتا ہے یا نہیں، انہیں تو ایک دفعہ دیکھ لیں.اس مخالفت کا عجیب اثر تھا.اُس وقت ایک انگریز بی ٹی صاحب سپرنٹنڈنٹ پولیس تھے اور اس پولیس کے جو لیکچر کیلئے متعین تھی، انچارج تھے.جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام لیکچر چکے تو بعض نے پتھر مارنے کی کوشش کی.گو پولیس کا انتظام نہایت اعلیٰ تھا اور لوگوں کی شورش کوئی نتیجہ پیدا نہ کر سکی مگر جب لوگوں نے شورش برپا کرنی چاہی تو بیٹی صاحب نے کہا میں نہیں سمجھتا یہ لوگ کیوں شور مچارہے ہیں.یہ شخص خدا تو ہمارا مارتا ہے پھر انہیں غصہ
خطبات محمود ۱۲۲ سال ۱۹۳۴ء کیوں آرہا ہے.یعنی وفات تو ہمارے خدا کی ثابت کر رہا ہے اور ناراض مسلمان ہوتے ہیں.غرض نکاحوں کا سوال ایک اہم سوال ہوتا ہے اور لوگوں کیلئے اس قسم کے فتویٰ کے بعد جلسوں میں شامل ہونا مشکل ہوتا ہے کیونکہ عام طور پر عورتیں کمزور ہوتی ہیں اور وہ خیال کرلیتی ہیں کہ اگر ہمارے مرد فتوی کی زد میں آگئے تو اس کے بعد ہمارا اپنے گھر میں رہنا بدکاری سمجھا جائے گا مگر اس قسم کے فتووں کے باوجود کثرت سے لوگ آئے جو علامت ہے اس بات کی کہ جو فتنہ اور شورش ہمارے خلاف پیدا کی جارہی ہے، وہ گو بعض لحاظ سے ہمارے لئے مضر ہو مگر تبلیغی دروازہ خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے بند نہیں ہونے دیا.میں نے بھی دیکھا کہ اس موقع پر ہماری جماعت کو مختلف جماعتوں کی طرف سے مدد ملی.جہاں غیر احمدی شرفاء نے تعاون کیا، وہاں بعض ذمہ دار افسروں کا رویہ بھی بہت ہمدردانہ رہا.سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس جو ہندوستانی مسلمان ہیں، ان کا رویہ نہایت ہی قابل تعریف تھا.وہ ٹی پارٹی کے موقع پر مجھے بھی ملے.ان کا طریق عمل ایسا اعلیٰ تھا جس میں قطعا تعصب کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا تھا.مگر شاید افسروں کے متعلق کوئی کہے کہ دیانتدار افسر انصاف کیلئے کوشش کیا ہی کرتے ہیں اس لئے میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ دوسرے لوگوں میں بھی ہمدردی اور تعاون کا پہلو نمایاں طور پر پایا جاتا تھا.بعض میونسپل کمیٹی کے افسروں نے کوشش کر کے ہمارے لئے مفت چیزیں مہیا کیں.چنانچہ میز اور کرسیوں کے گڑے بھروا کر مفت ہمارے جلسہ گاہ میں بھیج دیئے.اسی طرح ایک سکھ صاحب کے سائبان تھے ، انہوں نے نصف کرایہ لیا حالانکہ ان کو یہ دھمکی دی گئی تھی کہ ہم سائبانوں کو جلا دیں گے.وہ سامان ۱۹۱۵ ہزار کی مالیت کا تھا اور ایک تاجر کیلئے اس سے زیادہ خطرہ کی بات اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ سامان کے تلف کر دینے کی اسے دھمکی دی جائے مگر باوجود اس کے اس نے نصف کرایہ وصول کیا.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی کے فضل سے شریف طبقہ ہمارے متعلق اپنے دلوں میں ہمدردی کے جذبات موجزن پاتا ہے اور وہ محسوس کرتا ہے کہ جاہلوں کی مخالفت ذاتی اغراض کی بناء پر ہے حقیقتاً ، سلسلہ ملک و ملت کا خادم ہے.لیکن جہاں اس نتیجہ کے نکالنے سے ہمیں خوشی ہوتی ہے وہاں ا بہت بڑی ذمہ داری بھی ہم پر عائد ہوتی ہے.مالا بار کے متعلق میں نے دیکھا وہاں کے شہر کالی کٹ میں ایک احمدی کو قبرستان میں دفن ہونے سے مسلمانوں نے روک دیا.گورنمنٹ کے افسروں بلکہ سپرنٹنڈنٹ پولیس نے بھی لوگوں کی مخالفت سے متاثر ہو کر
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء رپورٹ کر کے ڈپٹی کمشنر سے اجازت لے لی کہ احمدیوں کو میونسپل قبرستان میں لاش دفن نہیں کرنی چاہیے مگر ہندوؤں نے نہایت جوش سے اس تحریک کا مقابلہ کیا اور میونسپل کمیٹی سے فیصلہ کرایا کہ احمدیوں کو اس قبرستان میں دفن ہونے کا حق حاصل ہے.اس موقع پر اگرچہ بعض مسلمان واک آؤٹ بھی کر گئے مگر ہندوؤں نے کہا یہ ظلم ہم سے برداشت نہیں ہو سکتا کہ میونسپل کمیٹی کا قبرستان ہو جو تمام مسلمانوں کے لئے کھلا ہو مگر احمدیوں کو اس میں دفن ہونے سے روکا جائے.اسی طرح یہاں بھی میں نے دیکھا ہے کہ ہندو اور سکھ صاحبان میں سے بہت سے شریف لوگ مجھے نظر آئے اور وہ ایسے ہمدردانہ رویہ سے پیش آئے کہ طبیعت انہیں دیکھ کر وش ہو گئی.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے غیر مذاہب کے شرفاء کے اس احسن طریق عمل کو دیکھ کر ہماری ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے.ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جہاں اسلامی مفاد کیلئے ہمارا مسلمانوں کے ساتھ سیاسی طور پر اتحاد کلی ہے، وہاں ہمارا جوش اس حد تک نہیں بڑھ جانا چاہیے کہ ہم دوسری قوموں کے شریف لوگوں کی خدمات کو بھول جائیں.میرا بیسیوں مرتبہ کا تجربہ ہے اور اس دفعہ بھی میں نے دیکھا کہ ایسے مواقع پر جبکہ شریر اپنی شرارت پر آمادہ ہوتے ہیں جس طرح مسلمانوں میں سے شریف لوگ ہمارے ساتھ ہوتے ہیں اسی طرح ہندوؤں، سکھوں اور عیسائیوں میں سے بھی بہت سے شریف لوگ ہمارے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے اور جہلاء کی مخالفت کو ناپسندیدگی اور حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.پس جبکہ غیر مذاہب کے لوگ حسنِ سلوک اور شرافت میں اس درجہ پہنچے ہوئے ہوں تو ہمیں ان سے بہت زیادہ وسیع الحوصلہ ہونا چاہیے اور بہت زیادہ ان سے تعاون اور ہمدردی کیلئے تیار رہنا چاہیئے.ہندو مسلم سوال نظرانداز کر کے اگر ہم ان سے اعلیٰ سلوک نہیں کریں گے تو اس سے زیادہ افسوسناک بات اور کوئی نہیں ہوگی اور اس کا یہ مطلب ہوگا کہ ہم ہارے اور وہ جیتے.کیونکہ ہارتا وہی ہے جو بداخلاقی دکھاتا ہے اور جیتتا وہی ہے جو حسن سلوک سے پیش آتا ہے.پس میری طبیعت نے اس دفعہ کے سفر لائل پور سے یہ اثر قبول کیا کہ گو ہمیشہ ہی میں یہ کہتا رہتا ہوں کہ ہمیں صلح اور محبت سے رہنا چاہیے اور ہمیں قومیت کے جذبات کو زیادہ اُبھارنا نہیں چاہیئے مگر اس دفعہ خصوصیت سے توجہ دلاؤں اور اپنی جماعت کو بتاؤں کہ ہر قوم میں شریف لوگ موجود ہیں جو لوگوں کی مخالفت بلکہ اپنی قوم کی مخالفت کے باوجود بھی ہم سے ہمدردی.
خطبات محمود ۱۲۴ سال ۱۹۴۳۳۴ء رکھتے اور نیک سلوک کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں.اگر اس قوم کے شرفاء اعلیٰ نمونہ دکھا سکتے ہیں جن کا مذہب مرورِ زمانہ کی وجہ سے اپنی صحیح شکل کھو بیٹھا ہے تو اس قوم کے شرفاء کو تو بدرجہ اوٹی زیادہ اعلیٰ نمونہ دکھانا چاہیئے جس کا مذہب صحیح شکل میں موجود ہے.پس ہماری جماعت کے افراد پر کسی موقع پر بھی کسی صورت میں یہ الزام نہیں آنا چاہیئے کہ وہ ہندو، سکھ یا عیسائی سے حسن سلوک کا برتاؤ نہیں کرتے.ہاں یہ اور بات ہے کہ جہاں مسلمانوں کے حقوق کا سوال پیدا ہو گا وہاں ہمیں مسلمانوں سے تعلق رکھنا پڑے گا کیونکہ علاوہ سیاسی اتحاد کے مذہبی لحاظ سے بھی ہمارا مسلمانوں سے سب سے بڑھ کر اتحاد ہے اور ہمارا ان سے ایسا ہی تعلق ہے جیسا کہ جسم کے دو ٹکڑے.اور باوجود اس کے کہ وہ اسلام سے دُور ہیں ایسے عقائد اختیار کئے ہوئے ہیں جو اسلام کی جڑوں پر تبر کا حکم رکھتے ہیں، ہم انہیں نظر انداز نہیں کرسکتے کیونکہ ان کے اور ہمارے فوائد بہت حد تک یکساں ہیں.مگر باوجود اس اتحاد کے جو ہمارا مسلمانوں سے ہے، ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ہم صلح و آشتی کیلئے پیدا کئے گئے ہیں اور ہم نے نہ صرف لوگوں سے انصاف کرنا ہے بلکہ ان سے ہمدردی کرنی اور ان کی تکالیف میں غمگساری بھی کرنی ہے.پس ہمیں ان لوگوں کے اعلیٰ اخلاق کو دیکھ کر کوشش کرنی چاہیے کہ ان سے زیادہ اعلیٰ نمونہ دکھائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بھی یہی طریق عمل تھا.ایک دوست نے سنایا کہ ایک دفعہ ہندوؤں میں سے ایک شدید مخالف کی بیوی سخت بیمار ہو گئی، طبیب نے اس کیلئے جو دوائیں تجویز کیں ان میں مُشک بھی پڑتا تھا جب کہیں اور سے اسے کستوری نہ ملی تو وہ شرمندہ اور نادم سا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس آیا اور آکر عرض کیا کہ اگر آپ کے پاس مشک ہو تو عنایت فرمائیں.غالباً اسے ایک یا دو رتی مُشک کی ضرورت تھی مگر اس کا اپنا بیان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مشک کی شیشی بھر کر لے آئے اور فرمایا آپ کی بیوی کو بہت تکلیف ہے، یہ سب لے جائیں.تو در حقیقت اخلاق فاضلہ ہی ایک ایسی چیز ہے جو دوسرے کے دل میں محبت پیدا کرتی ہے.اگر ہمارے دل میں ہمدردی ہو تعاون کا مادہ ہو، انکسار پایا جاتا ہو تو اس سے بہت جلد لوگوں کے قلوب مسخر ہو جاتے ہیں.اپنے حقوق کی حفاظت کیلئے جدوجہد کرنے سے انسان کی دنیوی زندگی آرام سے کٹتی ہے اور دوسروں سے ہمدردی کر کے آخرت کیلئے ذخیرہ جمع کرتا ہے.ہم اگر اپنے حقوق کیلئے لڑیں گے
خطبات محمود معلوم : ۱۲۵ سال ۱۹۳۴ء کا تو اس دنیا میں مسکھ حاصل کر سکیں گے اور قربانی کریں گے تو اگلے جہان میں سکھ پائیں گے.پس میں جماعت کو ایک دفعہ پھر توجہ دلاتا ہوں کہ وہ تمام مذاہب کے افراد سے حسن سلوک کرے کیونکہ ہر قوم میں شریف لوگ پائے جاتے ہیں.بیشک ہندو پریس کو دیکھنے سے ہندو قوم کے اخلاق کا صحیح اندازہ نہیں ہو سکتا اور معلوم نہیں ہو سکتا کہ ہندوؤں میں کس قدر شریف لوگ پائے جاتے ہیں لیکن ہندوؤں کو ہندو پریس کے ذریعہ نہ جانچو.مجھے تو جب بھی ہندوؤں سے ملنے کا موقع ملا میں نے ان میں بڑے بڑے شریف لوگ دیکھے.پس ہندو وہ نہیں جن کا ہندو پریس سے پتہ لگتا ہے بلکہ ہندو وہ ہیں جو اپنے گھروں میں رہتے ہیں.یہی حال مسلمانوں کا ہے."زمیندار" پڑھ کر اگر کوئی شخص مسلمانوں کی حالت کا اندازہ لگانا چاہے تو وہ یہی سمجھے گا کہ مسلمان ایک غنڈہ قوم کا نام ہے لیکن اگر شہروں اور دیہات میں پھر کر دیکھو گے تو تمہیں ہوگا کہ ان میں بڑے بڑے شریف انسان پائے جاتے ہیں جن میں رُشد اور ہدایت کے مادہ موجود ہے اور جو چاہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کریں.صرف اتنی بات ہے کہ ابھی تک انہیں سمجھ نہیں آئی کہ حق کدھر ہے.یہی حال سکھوں کا ہے.مجھے عام طور پر سکھوں کا پریس دیکھنے کا موقع نہیں ملا مگر میں نے سنا ہے کہ وہ بھی ہندو پریس کی طرح ہی ہے.لیکن اگر افراد کے پاس جاؤ تو ان میں بھی بڑے بڑے قابل تعریف لوگ دیکھو گے.میرا یہ مطلب نہیں کہ ان میں سارے ہی اچھے ہیں کمی بیشی کا سوال ہر جگہ ہوتا ہے.خدا کی جماعت میں شرفاء زیادہ ہوتے ہیں اور بد کم.لیکن دوسروں میں نیکیوں کی کمی ہوتی ہے گو ہوتے ضرور ہیں اور چاہے وہ صداقت سے محروم ہوں، ان میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جن میں صلاحیت، رُشد اور محبت کا مادہ پایا جاتا ہے.تو ہماری جماعت کو چاہیے کہ وہ ان سے اعلیٰ نمونہ دکھائے.مولانا اسمعیل صاحب شہید کے متعلق میں نے حضرت خلیفہ اول سے سنا کہ وہ ایک دفعہ سندھ کے علاقہ سے گزر رہے تھے کہ انہیں معلوم ہوا ایک سکھ اتنا تیراک ہے کہ کوئی شخص اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.مولوی | صاحب فرماتے.شہید صاحب نے یہ سنتے ہی اپنا سفر ملتوی کر دیا اور تیرنے کی مشق شروع کردی یہاں تک کہ آخر انہوں نے اس سکھ کو چیلنج دیا کہ آؤ مجھ سے مقابلہ کرلو.جب دنیاوی معاملات میں ایک مومن کی غیرت یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ کوئی غیر اُس سے آگے نکل جائے تو اخلاق تو مذہب کا جزو ہیں.کوئی وجہ نہیں کہ ہم ان کے لحاظ سے آگے نہ بڑھیں اور
خطبات محمود ١٣٩ سال ۱۹۳۴ء اگر ہم ایسا نہ کریں گے تو یقینا ہم ناکام رہیں گے.پس میں دوستوں کو اس اہم فریضہ کی طرف توجہ دلا کر اپنے فرائض سے سبکدوش ہوتا ہوں کہ ہمیں غیر احمدیوں، غیر مسلموں بلکہ دہریوں سے بھی حسن اخلاق سے پیش آنا چاہیئے اور کسی کو اپنے دائرہ محبت سے خارج نہیں کرنا چاہیے.کیونکہ ہماری محبت، ہمدردی اور حسنِ سلوک انہیں دین کے قریب لائے گا دور نہیں کرے گا.الفضل ۱۹- اپریل ۱۹۳۴ء)
خطبات محمود ۱۲۷ ۱۵ سال ۱۹۳۴ تربیت کا صحیح طریق تبلیغ ہی ہے فرموده ۲۰ اپریل ۱۹۳۴ء بمقام لاہور) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- جس قدر انبیاء اور مامورین دنیا میں آتے ہیں ان کا سب سے پہلا کام تبلیغ ہوتا ہے اور تبلیغ کے ذریعہ جو لوگ سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں، ان کی وہ علمی اور عملی تربیت بھی کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ انبیاء کی تبلیغ تربیت نفس کا پہلو بھی اپنے اندر رکھتی ہے اور وہ ایسے دلائل اختیار کرتے ہیں جو مذہب کی صداقت کے ثبوت کے ساتھ ساتھ اصلاح نفس بھی کرتے جاتے ہیں اور جب کوئی شخص اس مذہب کی حقیقت معلوم کر کے اس میں داخل ہوتا ہے تو ساتھ ہی اس کے نفس کی اصلاح بھی ہو جاتی ہے.ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھتے ہیں تو عیسائیوں ، ہندوؤں ، غیر احمدیوں سکھوں، یہودیوں غرض ہر قوم کو آپ نے مخاطب کیا اور تبلیغ کی لیکن وہ طریق جو آپ سے پہلے رائج تھا، اسے چھوڑ دیا.آپ کی کتابوں اور ڈائریوں کے پڑھنے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں کے اندر تبلیغی روح کی جو کمی تھی آپ نے اس میں جوش نہیں پیدا کیا.اس کسی مامور کی ضرورت نہیں ہوا کرتی.کوئی جو شیلا شخص اٹھتا ہے اور مردہ قوم کے دلوں میں جوش پیدا کر دیتا ہے.آپ نے طرز تبلیغ کو بدل دیا ہے.آپ بھی دعوی سے پہلے اُسی پرانے رنگ کی اتباع کرتے تھے.چنانچہ سُرمہ چشم آریہ میں بحث کی بنیاد اگرچہ ایک حد تک مختلف ہے مگر تھوڑی سی ترمیم اور غلطیوں کو دور کرنے کے بعد حقیقتاً پہلے ہی رنگ کو اختیار کیا گیا
خطبات محمود ۱۲۸ سال ۱۹۳۴ ہے.کیونکہ اُس وقت تک آپ نے دعوی نہیں کیا تھا.براہین احمدیہ چونکہ خاص طور الہام الہی کے ماتحت لکھی گئی تھی اس لئے اس میں دوسری تحریروں سے بہت کچھ امتیاز نظر آتا ہے تاہم ایک رنگ کا اشتراک بھی پایا جاتا ہے مگر جب آپ نے دعویٰ فرمایا تو اُس وقت سے لے کر وفات تک آپ کی تحریر و تبلیغ کا رنگ بالکل جداگانہ ہے.جا سکتا دونوں زمانوں کی تحریرات پڑھ کر دیکھ لو صاف معلوم ہوتا ہے کہ پہلے کی تحریرات کی غرض یہ معلوم ہوتی ہے کہ انہیں پڑھنے والے اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام میں داخل ہو جائیں مگر بعد میں جو کتابیں آپ نے لکھی ہیں، ان کی یہ غرض معلوم ہوتی ہے کہ بچے مسلمان بن جائیں، صرف نام کے طور پر اسلام میں داخل نہ ہوں منہ سے کلمہ نہ پڑھیں بلکہ دل سے پڑھیں.فلسفیانہ دلائل اور عقلی بحثیں بھی بے شک آپ کی تحریروں اور تقریروں میں موجود ہیں مگر بالکل ضمنی طور پر ، وگرنہ انہی دلائل پر زیادہ زور ہے جو خدا کے قریب کرنے والے ہیں.دعوئی سے پہلے کی تحریرات میں آپ نے یہ بحثیں کی ہیں کہ سبب کیا ہے، علت کیا ہے، ان کے نتائج کیا ہیں، خواص کیا ہیں اور ان سے خدا تعالیٰ کے متعلق کس طرح استدلال کیا ہے.چنانچہ براہین احمدیہ میں اگرچہ اس رنگ کو جو غلط طور پر اختیار کیا گیا تھا رو بھی کیا ہے مگر ساتھ ہی اس مضمون کو استعمال بھی کیا ہے.سرمہ چشم آریہ میں بھی ایک حد تک اسے استعمال کیا ہے مگر دعوئی کے بعد یہ سب طریق آپ نے بدل دیئے.اس وقت آپ نے زندہ مذہب اور زندہ خدا کو پیش کیا ہے.یہ نہیں کہا کہ جاؤ جا کر ارد گرد رہنے والوں سے پوچھو کہ ان گھروں میں کوئی رہتا ہے یا نہیں بلکہ یہ کہ آؤ تمہیں دکھاؤں ان میں جو رہتا ہے.یہ دلائل ایسے ہوتے ہیں جن سے تزکیہ نفس ساتھ ساتھ ہی ہوتا جاتا ہے.جو شخص کہتا ہے کہ دنیا کا کوئی خالق ہونا چاہیے اس میں اور جو خالق کو دکھا دیتا ہے، بہت بڑا فرق ہے.جو شخص روح کی حقیقت دیکھنے کیلئے عقلی دلائل کے پیچھے پڑتا ہے، اسے روح کی صفائی کیلئے اور امداد کا محتاج ہونا پڑتا ہے مگر جو خدا کے ہاتھ میں ہاتھ دے دے، وہ روح کے کاموں کو خود محسوس کرنے لگتا ہے اور خود بخود ہی اس کی روح کی اصلاح ہو جاتی ہے، اس لئے اسے کسی مزید دلیل کی ضرورت باقی نہیں رہتی.جب کسی کو روح کی حقیقت معلوم ہو جائے تو ساتھ ہی اسے صفائی کی طاقت بھی حاصل ہو جاتی ہے اور یہی انبیاء کا رنگ ہوتا ہے.وہ بے تعلق اور لغو بحثوں میں وقت ضائع نہیں کرتے جو دنیا کی دلچسپی کا تو بیشک موجب ہو.ہوسکتی ہیں مگر
خطبات محمود ۱۲۹ سال ۱۹۳۴ء تزکیۂ نفس کا سبب نہیں بن سکتیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا لیکچر لاہور جو حضرت خلیفہ اول نے پڑھا تھا، اس میں آپ نے اس مضمون پر بحث کی ہے کہ کوئی اپنے بچے سے محبت کرنے سے قبل یہ معلوم نہیں کیا کرتا کہ اس کا دل یا جگر کہاں ہے.کہاں ہے، کیا اسے اپنا بچہ تسلیم کرنے سے قبل ان باتوں کو معلوم کرنا ضروری سمجھا کرتا ہے یا جس وقت بچہ کو اس کے سامنے لایا جائے وہ بغیر ایسی تفصیلات معلوم کرنے کے اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہے.پھر ان بحثوں میں پڑنے کا کیا مطلب کہ خدا نے کس طرح انسان کو پیدا کیا اس کی ازلیت و ابدیت کا کیا مطلب ہے، جب یہ معلوم ہو گیا کہ وہ دنیا کا خالق ہے تو یہ سوالات بے معنی ہیں جو غیریت پر دلالت کرتے ہیں.جہاں قرب ہو وہاں ایسے سوال پیدا ہی نہیں ہو سکتے.اس طرح انسان تمام لغو بحثوں سے بچ جاتا اور ایسا رستہ اختیار کر سکتا ہے کہ جس سے نہ صرف اس کی عقل و فکر تسلی پالیتی ہے بلکہ شعور اور رحسّ میں بھی تقویت حاصل ہو جاتی ہے اور اس کے اندر نیک تغیر پیدا ہو جاتا ہے.ایسا تغیر جو اصلاح کرکے اسے خدا تعالی کے قریب کرنے والا ہوتا ہے.یہی طریق ہے جو تمام انبیاء کا ہے یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اختیار کیا اور یہی ہے جو دنیا میں کامیابی کی راہ پر چلاتا ہے.پس جو لوگ خیال کرتے ہیں کہ انبیاء کا کام تربیت کرنا ہوتا ہے، وہ غلطی پر ہیں.ہماری جماعت کے بھی بعض دوست اس خیال کے ہیں کہ ہمیں تبلیغ سے زیادہ تربیت پر زور دینا چاہیے، حالانکہ اس تبلیغ کے ساتھ ہی تربیت ہوتی ہے.جب ہم لوگوں کے سامنے زندہ خدا بولنے اور سننے والا خدا اور روزمرہ کے معاملات میں دخل دینے والا خدا پیش کرتے ہیں تو اس کے ساتھ ہی تربیت بھی ہوتی جاتی ہے.ہاں انسانوں میں نقائص اور کمزوریاں ہوتی ہیں مگر وہ عدم تربیت پر دلالت نہیں کرتیں بلکہ وہ تکمیل کے پہلو ہیں جو کبھی ختم نہیں ہوتے اور ہمیشہ جاری رہتے ہیں.اصل چیز یہی ہے کہ ایسی اصلاح کی جائے کہ خدا کی محبت دل میں پیدا ہو جائے اور جب یہ پیدا ہو جائے تو کمزوریاں آہستہ آہستہ خود بخود دور ہوتی چلی جاتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیشہ تبلیغ پر زور دیتے تھے.ڈاکٹر عبدالحکیم نے اعتراض بھی کیا آپ جماعت بڑھانے کی طرف متوجہ رہتے ہیں اور تربیت پر زور نہیں دیتے.آپ نے اس بات کو تسلیم نہ کیا بلکہ اسے کہا کہ تمہاری روحانی نظر کمزور ہے.ہر شخص جو میرے ذریعہ جماعت میں داخل ہوتا ہے، اس کی تربیت ساتھ ہی ہونی شروع ہو جاتی ہے.تو انبیاء کی تبلیغ کا
خطبات محمود ١٣٠ سال ۱۹۳۴ء طریق یہی ہے کہ تربیت ساتھ ساتھ ہوتی جائے.وہ زندہ خدا کو پیش کرتے ہیں، زمین و آسمان میں اس کی قدرتیں، اپنے اور خود زیر تبلیغ لوگوں کے نفوس میں اس کی قدرت کے کرشمے دکھاتے ہیں، جنہیں دیکھ لینے کے بعد کس طرح ممکن ہے کہ نفس اسی مقام پر رہ سکے جہاں وہ پہلے تھا.اس کے اندر یہ تڑپ پیدا ہو جاتی ہے کہ خدا سے ملوں اور اس طرح داخل ہونے والا کبھی غافل نہیں رہ سکتا.ایسا مجرک اس کے اندر پیدا ہو جاتا ہے جو کبھی اسے لا پرواہ ہونے نہیں دیتا.جس طرح وہ ماں جس کا بچہ کھو گیا ہو یا وہ بچہ جو اپنی ماں سے جدا ہو گیا ہو نیند آنے پر وہ بھی سوتے اور بھوک لگنے پر وہ بھی کھاتے ہیں مگر دنیا کی لذتیں انہیں ایک دوسرے کی محبت سے ہمیشہ کیلئے غافل نہیں کر سکتیں اور غالب خیال ان کے دل میں دوسرے سے ملنے کا ہوتا ہے.اسی طرح جب خدا کے فضلوں کا مشاہدہ کر کے انسان اسے قبول کرتا ہے تو چاہے وہ دنیا کے کام کرے مگر پھر بھی ہمیشہ اس کے دل میں یہی خیال غالب گا کہ ایک منزلِ مقصود ہے جس کیلئے میں سفر کر رہا ہوں اور ایک مقصد ہے جسے حاصل کرنے کیلئے لگا ہوا ہوں.یہ آگ جب لگتی ہے تو خود بخود اصلاح کر دیتی ہے.دنیا میں دو ہی طریق کسی چیز کے بنانے کے ہیں، ایک گھڑ کر دوسرے پگھلا کر ، پکھلا کر سانچے میں ڈھالنے سے بھی اور ہتھوڑے سے کوٹ کر بھی چیزیں بنائی جاتی ہیں.محبتِ الہی کے ذریعہ جو اصلاح وہ پگھلا کر ڈالنے کی طرح ہوتی ہے.اور اعمال کی درستی کرکے جو اصلاح کی جائے وہ ایسی ہے جیسے ریتی سے رگڑ رگڑ کر یا ہتھوڑے سے کوٹ کوٹ کر کوئی چیز بنائی جائے اور بیشک اس طرح اصلاح ہو جاتی ہے لیکن اس کیلئے لمبا عرصہ درکار ہوتا ہے لیکن جس طرح پگھلا کر ایک رہے ہو وہ ہے سیکنڈ میں چیز تیار کی جاسکتی ہے، اسی طرح محبت الہی کے ذریعہ اصلاح کا طریق فوری ہوتا.اور اس میں تبلیغ اور تربیت دونوں چیزیں شامل ہوتی ہیں اس لئے انبیاء تبلیغ پر ہمیشہ زور دیتے ہیں.نادان اس پر اعتراض بھی کرتے ہیں کہ اپنی شہرت چاہتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ طریق یہی ہے.اس لئے اگر ہم تبلیغ پر زور دیتے ہیں تو ایک طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اتباع کرتے ہیں اور دوسری طرف اپنے نفسوں کی اور دوسروں کی اصلاح ہمارے مد نظر ہوتی ہے.یہ بحثیں کہ زمانہ کیا ہے ، مقام کیا ہے، سب لغو اور فضول بحثیں ہیں.ان میں پڑنے کے بغیر ہر شخص جانتا ہے کہ میں وہاں گیا تھا یا وہاں جاؤں گا اور فلاں وقت جاؤں گا پس کون ہے جو زمانہ اور مقام سے واقف نہیں اور جن تفصیلات کا
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء روحانیت سے کوئی تعلق نہیں ان میں پڑنے کا فائدہ کیا ہے.میں نے اپنی جماعت میں ہی اس کا تجربہ کیا ہے.مولوی عمرالدین صاحب شملوی جنہیں مباحثہ پسند طبائع رکھنے والے لوگ خوب جانتے ہیں اور جو بعض اوقات ہماری طرف سے مباحثات کیا کرتے تھے، ان کے متعلق میں ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ ان کا انجام مجھے اچھا نظر نہیں آتا.وہ ہمیشہ ایسی باتوں میں وقت ضائع کرتے رہتے تھے جن کا انسانی زندگی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا.مثلاً یہ کہ خدا نے انسان کو کیسے پیدا کیا ازلیت کے کیا معنی ہیں، خدا اور مادہ کا کیا تعلق ہے.میں ہمیشہ ان کو سمجھاتا تھا کہ جن باتوں کو سمجھنے کی آپ میں قابلیت نہیں ان میں پڑنے کا کیا فائدہ ہے تمہارا ان باتوں سے کیا تعلق ہے تمہیں تو صرف یہ دیکھنا چاہیے کہ تمہارے ساتھ خدا کا معاملہ کیا ہے.مادہ کہاں سے آیا اس تمہیں کیا مطلب.آخر ایک وقت آگیا کہ ان کو ٹھوکر لگی اور ایسے امر میں لگی کہ درس مذہبی روح رکھنے والے شخص کو ہر گز نہیں لگ سکتی تھی اور اب وہی مسائل جن پر کبھی وہ.درست ہماری طرف سے مباحثات کیا کرتے تھے، ان میں ہم سے بحثیں کرتے ہیں حالانکہ آخر وقت تک وہ یہ اقرار کرتے رہے ہیں کہ گو میرے مباہلہ والوں سے تعلقات ہیں مگر جب میں جماعت احمدیہ سے مسائل میں پورا پورا اتفاق رکھتا ہوں اور ان کو اچھی طرح سمجھتا ہوں تو مجدا کیسے ہو سکتا ہوں.مگر ان کی اس قسم کی باتیں اس امر کا ثبوت تھیں کہ انہوں نے جو کچھ سمجھا تھا، عقلی طور پر سمجھا تھا روحانی طور پر کچھ حاصل نہیں کیا تھا، اسی وجہ سے آخر ٹھوکر کھا گئے.پس تبلیغ کا حقیقی طریق یہی ہے کہ وہ نشان جو زندہ خدا نے ظاہر کئے انہیں اپنی زندگیوں میں اور مخالفوں کی زندگیوں میں دکھائیں اور اس طرح جو شخص سلسلہ میں داخل ہوگا اس کے اندر خدا تعالیٰ کی محبت کی آگ سلگ جائے گی اور باوجود کمزوریاں رکھنے کے وہ خدا کا مقرب ہو جائے گا.اس کی مثال ایسے بیمار کی سی ہوگی جو تندرستی کی طرف آرہا ہو.جب بیماری گھٹنے لگتی ہے تو اگرچہ تکلیف موجود ہوتی ہے مگر بیمار صحت کی طرف آرہا ہوتا ہے اور اس لئے وہ تندرست کہلا سکتا ہے.اس کے برعکس جو شخص بظاہر تندرست نظر آئے مگر بہ باطن اس کے اندر بیماری کے جراثیم پیدا ہو چکے ہوں جو چند گھنٹوں یا چند دنوں میں اسے بیمار کردینے والے ہوں، وہ دراصل بیمار ہے کیونکہ جو بیمار نظر آتا ہے اس کے اندر تندرستی کا مادہ پیدا ہو چکا ہے اور جو تندرست دکھائی دیتا ہے، اس کے اندر بیماری کے جراثیم پیدا ہو چکے
خطبات محمود باس سال ۱۹۳۴ء ہیں.پس جس کے دل میں خدا کی محبت پیدا ہو جاتی ہے، وہ باوجود بیمار اور کمزور نظر آنے کے تندرست ہوتا ہے کیونکہ وہ تندرستی کی طرف آرہا ہوتا ہے اور تھوڑے عرصہ میں مکمل طور پر تندرست ہو جائے گا.پس یاد رکھو کہ تبلیغ اور تسلسلہ حقہ کی تبلیغ سب پہلو اپنے اندر رکھتی ہے اور بہترین کام یہی ہے.اس لئے میں متواتر جماعت کو اس طرف متوجہ کرتا رہتا ہوں اور لاہور کی جماعت کو خاص طور پر اس طرف توجہ دلاتا رہتا ہوں کیونکہ یہاں میں بار بار آتا ہوں.یہاں میری ایک شادی بھی ہوئی ہے اس لحاظ سے مجھے یہ بھی ایک قسم کا اپنا وطن ہی معلوم ہوتا ہے مگر افسوس ہے کہ دوستوں نے میری طرف سے بار بار توجہ دلائے جانے کے باوجود ابھی تک وہ رنگ اختیار نہیں کیا جو انہیں کرنا چاہیے تھا اور جب بھی میں نے غور کیا ہے اسی نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ کمزوری جماعت کی طرف سے ہے وگرنہ اللہ تعالٰی نے ہماری ترقی کے رستے کھول رکھے ہیں.میں نے دیکھا ہے جو لوگ تبلیغ میں لگے رہتے ہیں، انہیں کامیابی بھی حاصل ہو جاتی ہے کیونکہ وہ ایسے طریق اختیار کرتے ہیں جن سے اچھے نتائج پیدا ہو سکیں.مگر بعض لوگ منہ سے ایک دفعہ بات کرنا ہی کافی سمجھ لیتے ہیں اور جب ان کی بات نہ مانی جائے تو پھر ناراض ہو کر الگ ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کوئی سنتا تو ہے نہیں، سنانے کا کیا فائدہ میں پھر جماعت کو اس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ تبلیغ میں اپنی بھی اور دوسروں کی بھی تربیت شامل ہے.جسے تبلیغ کی جائے وہ اگر احمدی نہ بھی ہو تو بھی اس کے اندر کچھ نہ کچھ تغیر ضرور پیدا ہو جائے گا.وہ عبادت اور دعا شروع کردے گا سلسلہ کے خلاف شرارت اور بد زبانی کرنا چھوڑ دے گا.پس دوستوں کو صحیح طریق سے اس طرف توجہ کرنی چاہیے.جو لوگ مواقع سے بہتر فائدہ نہیں اُٹھاتے ان کے دلوں پر زنگ لگ جاتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے مہیا کردہ سامانوں سے فائدہ اُٹھانا بہت ضروری ہوتا ہے.میں لاہور کے کارکنوں سے کہتا ہوں کہ سنجیدگی سے اس طرف دھیان دیں کیونکہ جو لوگ باتیں سنتے مگر ان پر عمل نہیں کرتے، ان کے قلوب زنگ آلود ہو جاتے ہیں.میں نے یہاں اتنی دفعہ دوستوں کو ان کے فرائض کی طرف متوجہ کیا کہ اب بھی اگر انہوں نے توجہ نہ کی تو ان کے دلوں پر زنگ لگ جائے گا.سوتے ہوئے انسان کو نماز کیلئے جگانے کی خاطر تم ایک آواز دیتے ہو، دو تین دیتے ہو لیکن جب دیکھتے ؟ کہ وہ ضد سے لیٹا ہوا ہے تو اسے چھوڑ دیتے ہو کہ اگر وہ دیدہ دانستہ عبادت سے محروم رہنا ہو
خطبات محمود ١٣٣٠ سال ۱۹۳۴ء چاہتا ہے تو رہے.اسی طرح جن لوگوں کو اللہ تعالی بیدار کرتا ہے اور وہ توجہ نہیں کرتے پھر وہ ان کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے.پس ضروری ہے کہ اس طرف توجہ کی جائے اور تبلیغ کا طریق اختیار کیا جائے.لاہور میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑی جماعت ہے اس وقت بھی کئی سو دوست یہاں موجود ہیں اور کئی سو ایسے ہوں گے جو دفاتر میں چھٹی نہ ہونے یا بہت دور ہونے کی وجہ سے شامل نہیں ہو سکے.میں سمجھتا ہوں یہاں کم از کم دو ہزار کے قریب احمدی ہوں گے اور اتنی بڑی جماعت قادیان سے باہر جہاں 4 ہزار احمدی ہیں) کہیں نہیں ہوگی مگر اتنی بڑی جماعت سے اتنا فائدہ نہیں اُٹھایا جاتا جتنا اُٹھایا جانا چاہیئے.اس کا ایک طریق یہ ہے کہ میری موجودگی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے کارکن ایک اجلاس کریں اور پھر میری موجودگی میں ایک جنرل اجلاس کیا جائے اور ایک سکیم تجویز کر کے ہر شخص کے ذمہ ایک کام لگایا جائے.یہ طریق کام کرنے کا ہے لیکن اگر ہر شخص یہ سمجھ لے کہ ”تورا اشنان سو مورا اشنان تو پھر کچھ نہیں ہو سکتا.جماعت کے امراء کا فرض ہے کہ وہ دیکھیں ہر فرد جماعت کام کر رہا ہے یا نہیں اور جو نہ کریں انہیں سمجھائیں، تنبیہ کریں اور پھر بھی کوئی سُستی ترک نہ کرے تو میرے پاس رپورٹ کریں.عضو معطل ترقی میں روک ہوتا ہے اور اس کا کاٹ دیا جاتا ہی مفید ہوتا ہے.مگر جب تک ہر فرد تک امیر جماعت پہنچتا اور اسے بیدار کرنے کی کوشش نہیں کرتا، اُس وقت تک سرا موردِ الزام نہیں ٹھر سکتا.میں نے دیکھا ہے عام طور پر امراء افراد کی حالت سے واقف ہی نہیں ہوتے حالانکہ ابھی جماعتیں چھوٹی چھوٹی ہیں.جلسہ کے موقع پر جب امراء جماعتوں کو مجھ سے ملاقات کرانے کیلئے لاتے ہیں تو چند بڑے بڑے آدمیوں کا نام بتا کر باقیوں کے متعلق دوسروں سے کہتے ہیں کہ ان کا تعارف کرائیں.میں جماعت کے کم سے کم دس ہزار افراد سے واقف ہوں اور کوئی ایسی جماعت نہیں ہے جس میں دس ہزار آدمی ہوں بلکہ کوئی جماعت تین چار ہزار کی بھی نہیں سوائے قادیان کے جہاں ۶ ہزار احمدی ہیں.مگر امراء کی واقفیت کا یہ حال ہے کہ سو پچاس کی جماعت میں سے بھی صرف نصف کے حالات سے آگاہ ہوتے ہیں.امراء کا فرض ہے کہ ہر شخص کے کام اور اس کے حالات سے آگاہ ہوں، ساری جماعت کے ماہوار اجتماع کا انتظام کریں اور سب دوستوں سے شناسائی پیدا کریں.وہ ایک دفعہ بھولیں گے، دوسری دفعہ بھولیں گے لیکن آخر ان کو یاد ہو جائے گا.حکیم محمد حسین صاحب مرحوم احباب
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء سے خوب واقف رہتے تھے مگر اب تو میں نے دیکھا ہے زیادہ سے زیادہ چندہ لینے والے واقف ہوں گے کیونکہ ان کو ہر ایک کے پاس جانا پڑتا ہے مگر وہ واقفیت تربیت کیلئے مفید نہیں ہو سکتی بلکہ کمزور لوگ چندہ والے کو دیکھ کر ہی دوسرے رستے سے نکل جاتے ہیں لیکن امیر اگر ہر ایک سے واقفیت حاصل کرنے کی کوشش کرے تو اسے لوگ محسوس کریں گے اور اس کا اچھا اثر ہوگا.پس ایک تو کارکنوں کا جلسہ کیا جائے بلکہ اور بھی دس پندرہ دوستوں کو اس میں شامل کرلیا جائے کیونکہ کارکن تھوڑے ہوتے ہیں.اس کے بعد ایک جنرل میٹنگ کی جائے اور فرداً فرداً تبادلہ خیالات کر کے ہر ایک کے سپرد کام کیا جائے.میں بھی شاید پانچ چھ دن یہاں ہوں اور جماعت اس سے فائدہ اُٹھا سکتی ہے.احباب کو چاہیے کہ اس طرح کام کریں کہ جب میں پھر یہاں آؤں تو بجائے اس کے کہ پھر اسی بات کی طرف توجہ دلاؤں یہ دیکھوں کہ جن کے سپرد جو کام کیا گیا تھا، اسے انہوں نے پوری سرگرمی سے کیا ہے.میرا خیال ہے کہ اگر صحیح طریق پر کام کیا جائے تو تھوڑے ہی عرصہ میں جماعت دگنی ہو سکتی ہے.ممکن ہے میرا اندازہ غلط ہو اور میں نے بہت سرگرم کارکن دیکھے ہوئے ہوں.کہتے ہیں خلفائے بغداد کے زمانہ میں ایک حجام کو کسی امیر نے پانچ صد اشرفیاں دیں وہ ہر وقت اُن کو ساتھ لئے پھرتا.امراء دل لگی کیلئے اُس سے پوچھتے کہ سناؤ شہر کا کیا حال ہے تو وہ کہتا کہ بہت اچھا ہے کوئی کمبخت ایسا نہ ہو گا جس کے پاس پانچ صد اشرفیاں نہ ہوں.آخر انہوں نے اُسے ستانے کیلئے ایسا کیا کہ جب وہ ایک امیر کے ہاں حجامت بنانے گیا تو اس کی تھیلی اُڑالی گئی.اس کے بعد اس سے پوچھتے کہ شہر کا کیا حال ہے تو وہ کہتا کہ شہر بھوکا مر رہا ہے.آخر اس کی تھیلی اسے دے دی گئی کہ یہ لے لو اور شہر کو بھوکا نہ مارو.تو ممکن ہے مجھے غلط فہمی ہو بلکہ میری غلطی ہو لیکن اگر ڈگنا نہ سہی تو ڈیوڑھی یا سوائی ہی سہی، اور جماعت سوائی بھی ہر سال ہونے لگے تو چار سال میں دُگنی ہو سکتی ہے.پھر ہمارے ملک میں تو شود در سُود کا رواج ہے اور کوئی وجہ نہیں تبلیغ میں ہم اسے مدنظر نہ رکھیں.اس طرح پھر اس دگنی کا سوایا ہو گا اور دس سال میں جماعت دس ہیں گنا زیادہ ہو سکتی ہے.ترقی کیلئے رستہ کھلا ہے.مگر افسوس کہ پوری توجہ نہیں کی جاتی اس لئے میں جماعت کے دوستوں کو بالعموم اور امیر صاحب جماعت لاہور کو بالخصوص اس طرف متوجہ کرتا ہوں.وہ نوجوان آدمی ہیں اچھی طرح چل پھر سکتے اور کام کر سکتے ہیں.یہ ان کی صحت کیلئے بھی مفید ہوگا کیونکہ جس کام سے.
خطبات محمود ۱۳۵ ۱۹۳۴ء دلچسپی پیدا ہو جائے، اس کا کرنا صحت کیلئے بھی مفید ہوتا ہے.میں نے دیکھا ہے صحت کی خرابی کے باوجود جب کوئی کام آپڑے تو میں اسے ضرور کرتا ہوں.ایک دفعہ ایک غیر احمدی مجھ سے ملنے آئے، اب تو وہ مخلص احمدی ہیں، کہنے لگے ایک چیز میری سمجھ میں نہیں آتی.آپ ہمیشہ کہتے ہیں میں بیمار ہوں، گلا خراب ہے مگر پھر بھی چھ چھ گھنٹے تقریریں کرتے رہتے ہیں.یا تو یہ سارا فریب ہے یا پھر کوئی خاص دوائی آپ کو معلوم ہے.بات یہ ہے کہ ضرورت کے وقت خدا تعالی توفیق دے دیتا دے دیتا ہے اور جب دلچسپی پیدا ہو جائے تو وہ بھی صحت میں ترقی کا موجب ہوا کرتی ہے اس لئے امیر صاحب اگر دلچسپی لیں تو سلسلہ کا کام ان کیلئے ورزش کا کام بھی دے گا.میں ابھی کچھ دن یہاں ہوں.پیر تک پتہ لگے گا کہ میری لڑکی کا آپریشن ہوگا یا نہیں اگر نہ ہوا تو بھی اور ہوا تو بھی چار پانچ دن بعد میں رہ کر چلا جاؤں گا.امید ہے یہاں کے دوست میری موجودگی سے فائدہ اٹھائیں گے اور کام شروع کردیں گے اور اگر وہ اس طرح کریں تو ممکن ہے آئندہ آکر پھر ایسا ہی خطبہ پڑھنے کی بجائے میں کام کرنے والوں سے دریافت کروں کہ وہ کس قدر کام کر رہے ہیں.اس کے بعد جو اندازہ میں کرسکوں گا کہ تبلیغ کا میدان کس قدر وسیع ہے، وہ زیادہ صحیح ہوگا.الفضل ۲۶ اپریل ۱۹۳۴ء)
خطبات محمود ۱۶ استقلال ، ہمت اور قربانی کی روح پیدا کرنے کی ضرورت فرموده ۲۷ اپریل ۱۹۳۴ء بمقام لاہور) سال ۱۹۳۴ء کے تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں نے پچھلے جمعہ، جماعت کو تبلیغ کی طرف توجہ دلائی تھی اور جو ہدایتیں میں نے دی تھیں ان کے مطابق کام کرنے کیلئے قاضی محمد اسلم صاحب جو یہاں کی جماعت احمدیہ مقامی امیر ہیں انہوں نے جیسا کہ مجھے بتایا گیا ہے، جماعت کے کئی اجلاس کئے ہیں اور ایک اجلاس اس نظام کے متعلق مجھ سے مشورہ کرنے کیلئے میری موجودگی میں بھی کیا گیا جو تجاویز کیلئے کی گئی ہیں وہ اپنی ذات میں میں سمجھتا ہوں اتنی موثر ثابت ہو سکتی ہیں اور اتنے مفید نتائج پیدا کرنے والی بن سکتی ہیں کہ چند مہینوں میں ہی خدا تعالٰی کے فضل سے تبلیغ کے عمدہ پھل جماعت حاصل کر سکتی ہے.لیکن، اور یہ لیکن ایک بہت بڑا لیکن ہے تجاویز کچھ کام نہیں کیا کرتیں بلکہ در حقیقت وہ روح کام کیا کرتی ہے جو کام کرنے والوں کے اندر موجزن ہوتی ان تجاویز کے متعلق اور ان کے خوشگوار نتائج کا خیال کرتے ہوئے وہ لطیفہ یاد آجاتا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان لوگوں کے متعلق بیان فرمایا کرتے تھے جو کام کرنے کا ارادہ تو کرتے ہیں مگر عملی رنگ میں کام کر کے دکھاتے نہیں.آپ فرمایا کرتے کوئی امیر تھا جو بہت ہی سست اور غافل تھا.قدرتی طور پر اس کے نوکر بھی اسی سے اثر قبول کرتے اور وہ بھی اپنے کاموں میں سہل انگاری دکھاتے.عام طور پر آس پاس رہنے والے کتے بلیاں اپنے پیٹ اس امیر کے باورچی خانہ سے بھرتے تھے.ایک دفعہ اُس نے اخراجات کی زیادتی مجھے
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء دیکھ کر جب اپنے اخراجات کا جائزہ لیا تو اسے معلوم ہوا کہ بہت سی چیزیں ضائع ہو جاتی ہیں خصوصاً باورچی خانہ کے متعلق اسے معلوم ہوا کہ وہ کھلا ہے اور کتے بلیاں آکر چیزیں خراب کر جاتی ہیں تب اس نے سختی سے حکم دیا کہ باورچی خانہ کو دروازہ لگادیا جائے اور پھاٹک ہمیشہ بند رہا کرے تا کوئی جانور اندر نہ آسکے.لطیفہ یوں ہے کہ جب پھاٹک لگا تو سارے گتے رونے لگے کہ اب تو ہم بھوکے مر جائیں گے.وہ مل کر رو ہی رہے تھے کہ کوئی عمر رسیدہ کتا وہاں آپہنچا.اُس نے پوچھا کیا بات ہے؟ وہ کہنے لگے آج تک تو جب ہمیں بھوک لگتی ، اس امیر کے باورچی خانہ میں چلے جاتے اور کھا پی آتے مگر اب وہاں دروازہ لگا دیا گیا ہے اور ہمارے لئے اندر داخل ہونے کا کوئی امکان نہیں اب ہم بھوکے مر جائیں گے.وہ کہنے لگا یہ بیوقوفی کی بات ہے بیشک پھاٹک تو لگ گیا مگر اسے بند کون کرے گا؟ جس شخص کو اپنے مال کی اتنی بھی فکر نہ ہو کہ ملازموں کی نگرانی کرے اور جن ملازموں کے دل میں اپنے مالک کی اتنی خیر خواہی بھی نہ و کہ وہ اس کے مال کی حفاظت کریں ایسا آقا کب دیکھے گا کہ اس کے نوکر دیانتداری سے کام کرتے ہیں یا نہیں اور ایسے نوکر کب اس امر کا خیال رکھیں گے کہ پھاٹک کھلا رہتا ہے یابند- حقیقت یہ ہے کہ محض نیست یا سامان کی موجودگی سے فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا بلکہ نیت کے بعد سامانوں کے استعمال سے صحیح نتیجہ پیدا ہوا کرتا ہے.اگر چھ مہینہ یا سال کے بعد ہو ہو مجھے دوبارہ یہاں آنے کا موقع ملے اور جب میں تبلیغی حالات دریافت کروں تو مجھے معلوم : کہ ابھی آپ لوگ مشورے ہی کر رہے اور سوچ رہے ہیں کہ کیونکر کام کریں تو یہ تجاویز کیونکر مفید پھل پیدا کر سکتی ہیں.پس میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ خالی تجاویز کام نہیں دیا کرتیں بلکہ جو چیز کامیاب کیا کرتی ہے وہ استقلال ہے.یہ استقلال ہی ایسی چیز ہے جو انسان کو عارف بناتی ہے، استقلال ہی ایسی چیز ہے جو انسان کو عالم بناتی ہے اور استقلال ہی ایسی چیز ہے جو انسان کو خداتعالی کا مقرب بناتی ہے.جب استقلال نہ رہے تو ساری چیزیں خواب پریشاں ہو کر رہ جاتی ہیں اور کچھ فائدہ نہیں دے سکتیں.لوگ حیران ہوتے ہیں کہ قرآن مجید میں سب کچھ موجود ہے مگر آج ہمارے لئے وہ پھل کیوں پیدا نہیں ہوتے جو پہلوں کیلئے پیدا ہوئے حالانکہ جب تک استقلال سے قرآن مجید پر عمل نہ کیا جائے پھل کیونکر پیدا ہوں جو پہلے لوگوں کیلئے پیدا ہوئے.ایک دھوبی جتنے پانی سے کپڑے دھولیتا ہے اس سے لاکھ گنا زیادہ پانی بھی اگر قطرہ قطرہ کر کے دو سال تک کسی کپڑے پر ٹپکاتے رہو.وہ
خطبات محمود ۱۳۸ سال ۱۹۳۴ء یا اس طرح قطرہ قطرہ کر کے دریا بھی بہا دو تب بھی کپڑا صاف نہیں ہوگا لیکن اگر استقلال کے ساتھ چند سیر پانی میں اچھی طرح کوٹ کاٹ کر کپڑا دھویا جائے تو تھوڑی دیر میں ہی صاف ہو جاتا ہے.پس بے استقلالی اور بے ربطی کے ساتھ کام کرنا طاقت کو ضائع کرنا ہوتا ہے.اگر آپ لوگوں نے اسی طرح کام کیا کہ کبھی جوش آیا تو ہفتہ میں چار چار دفعہ جماعت کے اجلاس کرلئے اور جوش مٹا تو مہینوں اجلاس منعقد کرنے کا خیال ہی نہ آیا.یا اجلاس کا انتظام کیا گیا تو کسی نے کہہ دیا میری بیوی بیمار ہے، کسی نے کہہ دیا میری بہن بیمار ہے ، کسی نے کہہ دیا مجھے دفتر میں کام زیادہ ہے اور اس طرح کسی نے ایک اور کسی نے دوسرا بہانہ بنا کر جماعت کے اجلاس میں شمولیت نہ کی تو کوئی نتائج برآمد نہیں ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس لئے فرمایا کرتے تھے الْاِسْتِقَامَةُ فَوْقَ الْكَرَامَةِ یعنی استقامت کرامت سے بھی زیادہ اہمیت رکھنے والی چیز ہے کیونکہ کرامت خدا کی طرف سے آتی ہے اور جو چیز خدا کی طرف سے آئے وہ آسان ہوتی ہے.مگر استقامت بندے نے پیدا کرنی ہوتی ہے اور بندے کا اپنے اندر کوئی خوبی پیدا کرنا مجاہدہ چاہتا ہے.پس آپ نے فرمایا تم اس حصہ کو بھاری اور مشکل سمجھتے ہو جو خدا سے تعلق رکھتا ہے حالانکہ مشکل حصہ وہ ہے جو بندے سے تعلق رکھتا ہے.لوگ سوال کرتے رہتے ہیں.خدا بولتا کیسے ہے، الہام کس طرح ہوا کرتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ مشکل بات ہے حالانکہ اگر انسان اپنے اندر الہام نازل ہونے والی کیفیت پیدا کرلے تو خدا اس سے بول سکتا ہے.پس اس کا مطلب یہ ہے کہ استقامت اہم اور زیادہ مشکل ہے کیونکہ یہ بندے سے تعلق رکھتی ہے لیکن خدا کیلئے کرامت دکھانا بالکل آسان ہے.ہاں استقامت جو کرامت کو جذب کرنے والی ہوتی ہے ، مشکل ہے.لوگوں میں یہ ایک عام مرض ہے کہ وہ مستقیم نہیں ہوتے بلکہ ڈانواڈول رہتے ہیں.کبھی نماز کا خیال آیا تو ساری ساری رات پڑھتے رہے اور جب نماز چھوڑی تو مہینوں اس کا خیال تک نہ آیا دعائیں مانگنے پر آئے تو ماتھے رکھنے لگے اور جب خیال ہٹا تو تکلیف میں بھی خدا یاد نہ آیا.یہ حالت کبھی اچھے نتائج پیدا نہیں کر سکتی بلکہ اچھے نتائج کیلئے ضروری ہے کہ انسان مستقیم ہو.رسول کریم ﷺ سے ایک دفعہ کسی نے پوچھا یا رسول اللہ ! اعمال میں سے بہتر عمل کون سا ہے.آپ نے فرمایا خَيْرُ الْأَعْمَالِ اَدْوَمُهَا.یعنی اعمال میں سے بہتر وہ ہے جس پر مداومت اختیار کی جائے.خود آپ کی ایک بیوی کا ہی واقعہ ہے کہ ایک دفعہ
خطبات محمود ۱۳۹ سال ۱۹۳۴ء جب آپ گھر گئے تو دیکھا چھت سے رتی لٹک رہی ہے.آپ نے پوچھا یہ رتی کیسی ہے؟ انہوں نے بتایا یہ میں نے اس لئے لٹکائی ہے کہ جب میں تہجد پڑھا کرتی ہوں تو بعض دفعہ نیند آجاتی ہے، اس رتی سے سہارا لے لیا کروں گی.آپ نے فرمایا خَيْرُ الْأَعْمَالِ أَدْوَمُهَا يا خَيْرُ الْعِبَادَاتِ کا لفظ استعمال فرمایا.یعنی اپنے نفس پر بوجھ وہ ڈالو جس کو ہمیشہ نبھا سکو اور ہمیشہ کیلئے جس بوجھ کے اُٹھانے کی طاقت اپنے اندر نہیں رکھتے، اُسے مت اٹھاؤ.میں نے دیکھا ہے بعض لوگ اس مسئلہ کا بھی غلط استعمال کرتے ہیں.وہ اپنی قربانی کم سے کم کرتے چلے جائیں گے اور جب اُن سے پوچھا جائے گا کہ قربانی کم سے کم کیوں کرتے ہو تو کہہ دیتے ہیں رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے خَيْرُ الْأَعْمَالِ اَدْوَمُهَا یعنی بہتر عمل وہ ہے جس پر مداومت اختیار کی جاسکے چونکہ زیادہ قربانی پر مداومت نہیں ہو سکتی، اس لئے قربانی کم سے کم کرتے ہیں.مگر پھر بھی انہیں اپنی حالت پر قرار نہیں ہوتا اور وہ اپنی قربانی کو اور کم کردیتے ہیں پھر اور کم یہاں تک کہ اُن کی حالت اُس شخص کی سی ہو جاتی ہے جس نے اپنے بازو پر شیر کی تصویر گدوانی چاہی مگر گودنے والا جب سوئی مارے تو کہے.یہ عضو نہ بناؤ اس کے بغیر بھی شیر بن جائے گا.آخر اس نے سوئی رکھدی اور کہا کسی ایک عضو کے نہ ہونے سے تو شیر کی تصویر بن سکتی ہے مگر جب شیر کا کوئی عضو بھی گودنے نہیں دیا جاتا تو شیر کیونکر بنے.ایسے لوگ ہمیشہ اپنی کمزوری کے ماتحت قربانیوں سے بچنے کیلئے نئے رستے تلاش کرتے رہتے ہیں اور اس قسم کی احادیث سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ چونکہ قربانیوں پر دوام ضروری ہے، اس لئے قربانی میں کمی کرنی چاہیے تا اس پر دوام ہو سکے.پھر اس میں بھی کمی کرتے جاتے ہیں حالانکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ پر کسی قربانی یا عبادت کا اتنا بوجھ نہ ڈالو جو نفس کی طاقت سے بڑھ کر ہو.یہ مطلب نہیں کہ جتنا تمہارا بیمار نفس قربانی کرنے کی خواہش کرے، اس پر مداومت رکھو بلکہ یہ مطلب ہے کہ جتنا انسانی نفس ایک عبادت یا قربانی برداشت کرنے کی طاقت رکھتا ہے، اتنی عبادت اور قربانی کرو.مجھے یاد ہے ایک دفعہ ایک شخص کو جو مالی قربانیوں میں کمزور تھا، دوسرے نے نصیحت کی تو وہ جواب میں کہنے لگا قرآن مجید میں آتا ہے لوگ سوال کرتے ہیں خدا کی راہ میں کیا خرچ کریں.اس کا جواب یہ دیا گیا ہے.قُلِ الْعَفْوَت یعنی جو بچ رہے وہ خرچ کرو.جب بچتا ہی کچھ نہیں تو خدا کی راہ میں کیا دیں.اب اگر اس آیت کے یہی معنی لئے جائیں تو اس آیت کا یہ مطلب ہوگا کہ آجکل اسلام کیلئے کچھ بھی خرچ نہ کیا
خطبات محمود سال ۳۴۲ معده جائے کیونکہ آجکل فضول خرچیوں کے اس قدر دروازے کھل چکے ہیں کہ اگر دس کروڑ روپیہ آمدنی ہو تو بھی اس میں سے کچھ نہیں بچ سکتا حالانکہ اس آیت کے بعض نے یہ بھی معنی کئے ہیں کہ جتنا بچ سکے وہ خدا کی راہ میں دو.یہ نہیں کہ فضول خرچیاں کرتے چلے جاؤ اور پھر کہو اس کے بعد جو بچ رہے گا وہ دیں گے.فضول خرچی کے بعد روپیہ نے کیا بچتا ہے اور آجکل تو روپیہ خرچ ہونے کے اتنے طریق نکل آئے ہیں کہ بچنے کی امید ہی نہیں ہو سکتی.دنیا میں بھی ہم دیکھتے ہیں جب ڈاکٹر کسی مریض سے کہتا ہے کہ غذا کم کرو تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اتنی کم کرو کہ فاقہ کر کر کے معدہ خراب کرلو بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ پر بوجھ نہ ڈالو.پس جسب میں یہ کہتا ہوں کہ اپنے اعمال میں استقامت پیدا کرو تو اس کا یہ مطلب ہے کہ ایسے اعمال اپنے ذمہ ڈالو جو کر سکتے ہو.یہ مطلب نہیں کہ اپنی طاقت سے بھی عمل کرو اور دلیل یہ دو کہ چونکہ مداومت اختیار کرنی ہے اس لئے تھوڑے سے تھوڑا کام اپنے ذمہ لینا چاہیئے.ایک پیاسے کو پانی کا ایک قطرہ فائدہ نہیں پہنچا سکتا اور اگر ایک لوٹا بھر کر اُسے پلا دیا جائے تو وہ بھی اس کے معدے کو ضعف پہنچائے گا.پس افراط اور تفریط دونوں راہوں سے بچو.جن لوگوں نے تبلیغ کے سلسلہ میں اپنے اپنے ذمہ کام لیا ہے، وہ نہ تو اتنا کام لیں جو ان کی طاقت برداشت سے باہر ہے اور نہ اتنا کم لیں کہ طاقت ان میں اس سے زیادہ ہو ورنہ اس صورت میں بھی ان کے دلوں پر زنگ لگ جائے گا.میں سمجھتا ہوں اس طریق پر غور کرکے اور سوچ سمجھ کر اگر جماعت کے لوگ کام کریں گے تو تھوڑے ہی دنوں میں اس کے خوشگوار نتائج نکلنے شروع ہو جائیں گے اور چونکہ کام کرنے کے نتیجہ میں ایک عادت بھی ہو جائے گی اس لئے کام آسان دکھائی دے گا.و تبلیغ کے سلسلہ میں بعض لوگ یہ بھی عذر پیش کردیا کرتے ہیں کہ ہمیں وقت نہیں ملتا حالانکہ اگر ان کے وقت کا جائزہ لیا جائے، تو دودو گھنٹے وہ دوستوں کے ساتھ بکواس پر ضائع کر دیتے ہیں.میں ایسے لوگوں کی لسٹ بتا سکتا ہوں جن کے متعلق مجھے معلوم ہے کہ جب میں یہاں پہنچوں وہ فوراً میرے ملنے کیلئے پہنچ جاتے ہیں حالانکہ بیوی بچے ان کے بھی ہوتے ہیں، وہ بھی ملازم پیشہ یا تاجر ہوتے ہیں، انہیں بھی ضرورتیں لاحق ہوتی ہیں مگر وہ ضرور پہنچ جائیں گے ، ملیں گے دعا کیلئے تحریک کریں گے یا اور کوئی ضروری بات ہو تو وہ دریافت کریں گے.پس در حقیقت انسان اپنے نفس کیلئے بہانے بھی تلاش کر سکتا ہے اور نفس پر بوجھ بھی ڈال سکتا ہے
خطبات محمود ۱۱ سال ۱۹۳۴ء اور جب تک انسان اپنے آپ پر ذمہ داری نہ ڈال لے اور کام کرنے کی عادت پیدا نہ کرے تکلیف محسوس ہوتی ہے لیکن جب عادت ڈال لی جائے تو بوجھ محسوس نہیں ہوتا بلکہ کام کرنا غذا کی طرح ہو جاتا ہے اور بجائے کبیدگی یا مال محسوس کرنے کے بشاشت محسوس ہوتی ہے اور جب بشاشت پیدا ہو جائے تو بوجھ نہیں رہتا بلکہ کام کرنا اسی طرح لذت بخش ہو جاتا ہے جس طرح انسان اپنے بیوی بچوں سے ملتایا اور ضروری فرائض منصبی سرانجام دیتا ہے.پس احباب کو میں یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے فرائض کی بجا آوری میں استقلال سے کام لیں.نہ تو اپنے کاموں کو اتنا کم کریں کہ ان کے دلوں پر زنگ لگ جائے نہ اتنا زیادہ کریں کہ وہ انہیں کرہی نہ سکیں.میں نے دیکھا ہے بعض کو تبلیغ کرنے کی عادت ہو جاتی ہے.اور یہی چیزا نہیں سب چیزوں سے زیادہ مرغوب نظر آتی ہے.اگر مجلس میں باتیں ہو رہی ہوں تو تبلیغی باتوں سے ہی انہیں دلچسپی ہوگی.ذرا کوئی اور بات چھیڑی جائے فوراً انہیں اباسیاں آنی شروع ہو جائیں گی.میری مجلس میں ہی کئی قسم کے لوگ آتے ہیں.بعض کے متعلق دیکھا ہے کہ اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں تو بڑے متوجہ رہتے ہیں ذرا مذہب کی بات چلے تو انہیں اباسی آنی شروع ہو جاتی ہے.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے، اگر انسان عادت ڈال لے تو وہی کام اس کے سکھ اور آرام کا موجب ہو جاتا ہے اور اسی کی طرف قرآن مجید نے وَالتَّرعَتِ غَرْقًا وَ النُّشِطَتِ نَشْطَاسے میں اشارہ کیا ہے.جب تک یہ حالت نہ ہو کہ کام میں بشاشت پیدا ہو جائے اُس وقت تک کامیابی نہیں ہو سکتی.میں امید کرتا ہوں کہ جماعت ان امور کی طرف توجہ کرے گی.لاہور مرکز ہے اس صوبہ کا جسے خدا تعالیٰ نے اشاعتِ اسلام کیلئے چنا ہے.پس دوست اپنے اندر چستی پیدا کریں، استقلال، ہمت اور قربانی کی روح پیدا کریں اور خد اتعالیٰ کے دین کے کاموں میں اس سے بڑھ کر لذت محسوس کریں جتنی اپنے بیوی بچوں یا اور ضروری کاموں میں محسوس کرتے ہیں.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی تمام دوستوں کو ان کی ذمہ داریوں کے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.کیونکہ ذمہ داریوں کے ادا کرنے کے بعد ہی صحیح نیکی اور تقویٰ پیدا ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں انسان خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکتا ہے.الفضل ۳- مئی ۱۹۳۴ء) له بخارى كتاب الرقاق باب القصد والمداومة على العمل میں یہ الفاظ آئے ہیں أَنَّ أَحَبَّ الْأَعْمَالِ أَدْوَمُهَا البقرة: ٢٢٠ سے التزعت: ۳۴۲
خطبات محمود ۱۴۲ ۱۷ سال ۱۹۳۴ء اپنے عظیم الشان مقام کی ذمہ داریوں کا احساس کرو فرموده ۴- مئی ۱۹۳۴ء بمقام لاہور) تشد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- کا گذشتہ ہفتہ میں مجھے یہاں کے تبلیغی سیکرٹری کی طرف سے تبلیغی کام کی رپورٹ باقاعدہ ملتی رہی ہے.اس کے پڑھنے سے مجھے معلوم ہوا کہ انتظام یہ کیا گیا ہے کہ ہر محلہ میں ایک ایک ہفتہ تک ہر روز کسی نہ کسی دوست کے گھر پر جلسہ کیا جائے اور اردگرد کے تمام احمدی وہاں جمع ہوں اور اپنے ساتھ اپنے غیر احمدی دوستوں کو بھی لائیں تا ایسے لوگوں کا ایک طبقہ معلوم کیا جائے جو ہمارے سلسلہ کے حالات اس کے دعاوی اور دلائل سے دلچپسی رکھتا ہو.جس رنگ میں کہ تبلیغی کام کی سکیم میرے سامنے پیش ہوئی تھی اور جس رنگ میں میں نے اس کی منظوری دی تھی یہ کام جو شروع کیا گیا ہے اُس سے کسی قدر مختلف ہے.میں نے جو سکیم منظور کی تھی اُس میں یہ تھا کہ ایسے محلوں میں جہاں احمدی نہیں ہیں جلسے کرنے کی کوشش کی جائے اور احباب جماعت سے اس بات میں مدد لی جائے کہ جہاں ان کے دوست یا رشتہ دار ہوں یا ان کے دوستوں کے دوست اور رشتہ داروں کے رشتہ دار ہوں، ان کا پتہ لے کر ان کے گھروں پر محدود تبلیغ کی تجویز کی جائے جو اشتہار اور ڈھنڈورا سے نہ صرف گھر والوں اور ان کے چیدہ چیدہ احباب کو تبلیغ کی جائے تا شورش کے بغیر کام ہو سکے.مگر جو تبلیغ فیض باغ میں شروع کی گئی ہے، اس کے متعلق مجھے یہ معلوم نہیں کہ وہ اسی سلسلہ میں ہے یا اس سے علیحدہ کوئی نئی سکیم ہے.اگر تو اسی سکیم کے سلسلہ میں ہے تو ہو.
خطبات محمود ۱۴۳ سال ۱۹۳۴ میں اس کے متعلق یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ یہ میری منشاء کے خلاف ہے.فیض باغ میں احمدی ہیں اور ان کے گھروں پر تبلیغ شروع کی گئی ہے حالانکہ میں نے جو تجویز منظور کی تھی اس میں تھا کہ دوسروں کے گھروں میں انتظام کیا جائے جن کی ہمدردی دوستانہ کے رنگ میں حاصل کی جائے.اور اگر یہ کوئی علیحدہ تجویز ہے تو اگرچہ تبلیغ کیلئے جتنی بھی نئی راہیں نکالی جائیں اچھا.ہے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ جو سکیم میرے سامنے پیش کر کے منظور کرائی گئی تھی، اسے بالکل نظر انداز کر کے اور اس کے کسی بھی حصہ پر عمل کئے بغیر اسے ترک کر کے ایک نئی راہ اختیار کرلینے کے کیا معنی ہیں؟ کامیابی ہمیشہ مجوزہ طریق پر کام کرنے اور اسے منتظم صورت میں سرانجام دینے سے ہوتی ہے.یہ بے ضابطگی ہے کہ مجوزہ سکیم کو بالکل ترک کر کے نئے رنگ میں کام شروع کر دیا جائے.مگر قطع نظر اس سے کہ دوستوں نے اسی کو پسند کیا اور اسی پر عمل شروع کرنا مناسب سمجھا اور تبلیغ جس رنگ میں بھی ہو، اچھی ہے.میں ایک افسوسناک رپورٹ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں.سیکرٹری تبلیغ نے مجھے اطلاع دی ہے کہ جن دوستوں نے مدد کا وعدہ کیا تھا، وہ پورے طور پر جمع بھی نہیں ہوتے رہے اور اردگرد علاقہ سے تو کیا پاس پاس گھروں والے احمدی احباب بھی شامل نہیں ہوئے اور جن کے ذمہ یہ لگایا گیا تھا کہ غیر احمدیوں کو ساتھ لائیں، وہ بجائے کسی نظام کے ماتحت ان کو لانے کے یونہی آوازیں دے دیتے تھے کہ تقریر شروع ہوتی ہے ، لوگ آکر سنیں حالانکہ اس طرح آنے والوں کے متعلق کوئی نہیں جانتا کہ کون شریف ہے اور کون شرارتی، کسے سنانا مفید ہو سکتا ہے اور کسے نہیں اور یہ دونوں ر نجدہ امور ہیں.کہ اول تو ان دوستوں نے ابتداء میں ہی کوئی دلچسپی نہیں لی اور جلسہ میں آگر شامل نہیں ہوتے رہے جن کی امداد کام کو وسعت دینے کیلئے ضروری تھی اور دوسرے یہ کہ جس طریق پر لوگوں کو لانا چاہیے تھا نہیں لائے.لاہور کے دوسرے احمدیوں پر کوئی الزام نہیں جس صورت میں کہ ہمسایہ میں رہنے والے دوست بھی نہیں آتے رہے یا قلیل تعداد میں آئے اور یہ نہایت ہی افسوسناک بات ہے.میں سمجھتا تھا کہ میرے تین خطبات کے بعد جو میں نے لاہور میں پڑھے ہیں اور اس جلسہ کے بعد جو میری موجودگی میں کیا گیا دوستوں میں بیداری پیدا ہو چکی ہوگی اور وہ تندہی سے کام کرنے لگ گئے ہوں گے مگر سیکرٹری تبلیغ کی رپورٹ سے معلوم ہوا کہ میرا اندازہ صحیح نہ تھا.بعض دفعہ پرجوش انسان مایوسی کا پہلو بھی لے لیتا ہے اس لئے میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ
خطبات محمود سال ۲ ۱۹۳۴ء سیکرٹری صاحب نے اپنے جوش کی وجہ سے مایوسی کا پہلو لیا ہے یا فی الواقعہ یہ نقص موجود ہے مگر اسے صحیح فرض کر کے میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جب کام کی ابتداء ایسی نسبت ہو تو انتہاء کیا ہوگی.آپ لوگوں کیلئے یہ ایک بڑا اچھا موقع تھا.خلیفہ وقت آپ میں آیا اور اللہ تعالٰی نے اسے آپ میں متواتر خطبات پڑھنے کی توفیق دی اس کی موجودگی میں آپ کے نمائندوں نے جمع ہو کر ایک سکیم تجویز کی جسے اُس نے منظور کیا لیکن پھر بھی آپ لوگوں نے فائدہ نہ اُٹھایا.یہ تو گھروں میں پہنچ کر خدمت کا موقع دینے والی بات تھی اور منہ میں لقمہ ڈالنے والی بات تھی مگر پھر بھی اگر کوئی اپنا منہ بند کرلے تو خدا کی نظروں میں بھلا اس کی کیا قدر ہو سکتی ہے.دینی امور میں جس قسم کی قربانی کی ضرورت ہوتی ہے وہ تو بہت بڑی چیز ہے یہ تو ایسی نستی ہے جس کی امید دنیا داروں سے بھی نہیں کی جاسکتی.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جہاں تک اذان کی آواز پہنچے سب کو نماز کیلئے مسجد میں آنا چاہیے سوائے کسی ایسی معذوری کے جس میں آنا بالکل ناممکن ہو.ایک نابینا شخص آپ کے پاس آیا اور کہا کہ گلیوں میں پتھر وغیرہ پڑے ہوتے ہیں، رستہ خراب ہوتا ہے، پاؤں زخمی ہو جاتے ہیں اور خون نکل آتا ، اگر اجازت ہو تو میں گھر پر ہی نماز پڑھ لیا کروں.آپ نے اسے اجازت دے دی.مگر جب وہ جانے لگا تو پھر بلایا اور فرمایا تمہارے گھر میں اذان کی آواز پہنچتی ہے یا نہیں؟ اس نے کہا ہاں پہنچتی ہے.آپ نے فرمایا تو میں اپنی اجازت واپس لیتا ہوں.تمہیں بہر حال مسجد میں پہنچنا چاہیے ہے.پس جب اذان کیلئے جو تبلیغ کی نمائندہ اور اختصاری تبلیغ ہے، یہ حکم ہے تو تفصیلی تبلیغ جس جگہ ہو رہی ہو اور ایک شخص پاس ہی گھر میں بیٹھا رہے تو وہ انسان خدا کی نظر میں کتنا گرا ہوا ہو گا.خدا تعالیٰ نے آپ لوگوں کی ترقی کے جو سامان پیدا کئے ہیں ان سے فائدہ اُٹھاؤ.اللہ تعالیٰ جبر سے کام نہیں لیا کرتا وہ نعمت پیش کر دیتا ہے، آگے اس سے فائدہ اُٹھانا یا نہ اُٹھانا بندہ کے اختیار میں ہوتا ہے اللہ تعالیٰ صرف سامان پیدا کر دیتا ہے.دنیا میں سوائے تمہارے اور کوئی قوم ایسی نہیں جو تبلیغ خدا کیلئے کرتی ہو.عیسائی اور ہندو بے شک تبلیغی کوششیں کرتے ہیں مگر دنیوی ترقی کیلئے مسلمان کرتے ہی نہیں.صرف احمدی ہی ہیں جو اعلائے کلمۃ اللہ کیلئے تبلیغ کرتے ہیں اور یہ موقع بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل ہمیں نصیب ہوا وگرنہ پہلے ہم بھی گھروں میں غافل سو رہے تھے.اللہ تعالٰی نے اپنا فضل کیا اور رحمت
خطبات محمود ۱۴۵ سال ۱۹۳۴ء نازل کی.اس نے اپنی نعمت ہمارے گھروں میں بھیجی.ہم اگر پھر بھی توجہ نہ کریں تو ہماری نجات کی کیا صورت ہو سکتی ہے.صداقت اور حق کی مخالفت کوئی معمولی بات نہیں.اور اس سے کسی کو روک لینا بہت بڑے اجر کا باعث ہے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اے علی! اگر ایک طرف ایک وادی بھیڑوں بکریوں سے بھری ہوئی ہو یعنی ایک پہاڑ سے لے کر دوسرے تک تمام جگہ بھیڑوں اور بکریوں سے بھری ہوئی ہو گویا کروڑوں کا مال پڑا ہو اور ایک دوسری طرف ایک ادنیٰ انسان کو ہدایت ہو جائے تو یہ اُس سے بہت قیمتی ہوگی ہے.گویا ایک شخص کی ہدایت کو کروڑ ہا روپیہ کے صدقہ سے بھی زیادہ بتایا ہے پھر بھی جو لوگ توجہ نہیں کرتے، اس کی دو ہی وجہیں ہو سکتی ہیں یا تو یہ کہ انہوں نے سلسلہ کی اہمیت کو سمجھا ہی نہیں اور یا پھر یہ کہ انہیں سُستی کی عادت ہے.لوگ کسی سے کوئی خاص خبر سنتے ہیں تو کس طرح دیوانہ وار سب کو سناتے پھرتے ہیں.اخبارات میں کوئی نئی خبر پڑھتے ہیں تو کس طرح سب کو سناتے ہیں.فرض کرو امریکہ کا کوئی پریذیڈنٹ مارا جائے یا کوئی نیا آدمی پریذیڈنٹ ہو جائے.یا آئرلینڈ میں کوئی تازہ واقعہ ہو جائے تو کس طرح لوگ ایک دوسرے کو سناتے ہیں بازاروں میں، دکانوں پر دوستوں کے گھروں میں دفتروں میں یہی باتیں کرتے ہیں کہ یہ ہو گیا وہ ہو گیا حالانکہ براہِ راست ان کا ان باتوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا.مگر اس خبر کو سن کر کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا ایک ہادی بھیجا جسے قبول کرنے سے ساری دنیا کی نجات وابستہ ہے، اگر کوئی اثر نہ ہو اور اسے دوسروں کو سنانے میں سُستی کی جائے تو کس قدر غفلت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ بعض لوگوں کو نمائش کی عادت ہوتی ہے.ایک عورت نے انگوٹھی بنوائی.وہ جہاں کہیں بیٹھے اس کی نمائش کرے مگر یا تو یہ کہ سوسائٹی میں وہ کوئی اثر نہ رکھتی تھی یا یہ کہ وہ انگوٹھی ہی کوئی معمولی چیز تھی، کسی نے اس کی طرف توجہ نہ کی.اس عورت کو نمائش کی اس قدر خواہش تھی کہ اس نے اپنے گھر کو آگ لگادی.عورتیں جمع ہوئیں اور پوچھنے لگیں کہ بہن کچھ بچا بھی.وہ ہر ایک سے یہی کہتی کہ بس اس انگوٹھی کے سوا کچھ نہیں بچا.مگر پھر بھی کسی نے توجہ نہ کی.آخر ایک عورت نے سوال کیا کہ بہن یہ انگوٹھی تم نے کب بنوائی؟ اس پر اس نے سر پیٹ کر کہا کہ اگر یہ بات پہلے پوچھ لی جاتی تو میرا گھر بار کیوں جلتا.جب اتنی چھوٹی سی چیز کی نمائش کے لئے لوگ اس قدر قربانی کرتے ہیں مگر ہم اتنی بڑی اہم بات کو سن کر توجہ نہ کریں تو کس قدر ہستی ہے.اس سستی
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء کے دو ہی معنی ہو سکتے ہیں.یا تو یہ کہ کام کرنے کی حس باقی نہیں رہی اور یا یہ کہ کام اہمیت کو نہیں سمجھا.پس دوست اپنے اندر بیداری پیدا کریں.ایک معمولی انسان جس نے بھیک مانگنے کی وجہ سے اپنے اخلاق کو خراب کر لیا ہو، جو سوسائٹی کیلئے کسی طرح بھی مفید نہ ہو بلکہ ایک بوجھ ہو وہ اگر مر رہا ہو تو اس کی امداد نہ کرنے والا بھی ہر شخص کی نگاہ میں کمینہ ٹھہرتا ہے.اور جب ایسے شخص کی جان بچانے کی کوشش نہ کرنے والے کو جو دنیا کیلئے کسی نفع کا موجب نہیں، دنیا ذلیل اور کمینہ کہتی ہے تو جب ہمارے سامنے دنیا کی روحانیت مُردہ ہو رہی ہو روحانی لحاظ سے فنا ہو رہی ہو اور اسے دیکھ کر ہماری رگِ ہمدردی میں جوش پیدا نہ ہو تو یہ کتنی بڑی کو تاہی ہے.ایک شخص ڈوب رہا ہو اور تیرنا جاننے والا اسے نہ بچائے تو دنیا میں کوئی اُسے شریف اور قابل عزت نہیں سمجھتا حالانکہ اُس ڈوبنے سے صرف جسم فنا ہوتا ہے، روح فتا نہیں ہوتی لیکن ہمارے سامنے ایسے لوگ ڈوب رہے ہیں جن کی روحانیت فنا ہو رہی ہے اور ایسی موت ان پر وارد ہو رہی ہے جس کے بعد ان کیلئے نیکی کرنے اور تباہی سے بچنے کی کوئی امید باقی نہیں رہتی مگر ہم ان کو بچانے کی ذمہ داری سے غافل رہیں تو یہ کس قدر افسوس کی بات ہوگی.پس دوستوں کو میں پھر نصیحت کرتا ہوں کہ غفلت کو چھوڑ دیں جو عظیم الشان کام ان کے سپرد ہے، اس کی طرف متوجہ ہوں اللہ تعالی کی نعمت کی قدر کریں.وہ بڑے بڑے اولیاء اللہ جن کے نام آج ہم عزت سے لیتے ہیں، اپنے اپنے زمانہ میں اسی حسرت میں رہے کہ کاش! ہم مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ پاتے.باوجودیکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑے بڑے مقام دیئے تھے مگر ان کے اقوال موجود ہیں جن میں نہایت حسرت کے ساتھ اس خواہش کا اظہار پایا جاتا ہے لیکن یہ نعمت اللہ تعالی کی طرف سے ہمیں حاصل ہوئی جس کے معنی یہ ہیں کہ ہم ایسے مقام پر ہیں جو بڑے بڑے بزرگوں کیلئے قابل رشک ہے.اس لئے ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اس عظیم الشان مقام پر ذمہ داریاں بھی عظیم الشان ہیں.ایک ایسا شخص جو اپنے فہم اور عقل کے باعث اس نعمت سے محروم ہے، کہہ سکتا ہے کہ اے اللہ ! تو نے مجھے اتنی سمجھ ہی نہ دی تھی کہ میں ان باتوں کو سمجھ سکتا اور ان پر عمل کر سکتا مگر جن کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی، ان کے پاس اپنی غفلت کیلئے کوئی عُذر نہیں.دنیا میں جتنے بڑے بڑے نبی گزرے ہیں مثلاً
خطبات محمود ۱۴۷ سال حضرت ابراہیم " ، حضرت موسیٰ ، حضرت عیسی اور پھر خود رسول کریم ﷺ سب نے مسیح موعود کے متعلق پیشگوئیاں کیں.اور یہ عظیم الشان واقعہ جس کی تمام انبیاء خبر دیتے آئے ہیں، ہم میں ہوا اور ہم اس کو سینوں میں دبا کر بیٹھ جائیں تو یہ کس قدر خدا کی ناراضگی کا ۱۹۳ء موجب ہوگا.پس دوستوں کو چاہیے کہ مستیاں ترک کریں اور ارادوں کو مضبوط کریں.ارادہ کی مضبوطی ہی ایسی چیز ہے جس سے کامیابی ہو سکتی ہے.میں نے کئی لوگوں سے سنا ہے جو ہماری جماعت سے تعلق نہیں رکھتے کہ ہم ایک دن سینما نہ دیکھیں تو رات نیند نہیں آتی.اگر وہ لوگ سینما کے لئے ہر روز وقت کی اس قدر قربانی کر سکتے ہیں تو کیا ہم خدا کا پیغام پہنچانے کیلئے اتنا بھی نہیں کرسکتے.لوگ ایک تصویر کو دیکھنے کیلئے پیسے خرچ کرتے ہیں، بیوی بچوں سے علیحدہ ہوتے ہیں اور وقت خرچ کرتے ہیں.جو لوگ تبلیغ کیلئے نہیں جاتے وہ اسی وجہ سے نہیں جاتے کہ بیوی کے پاس بیٹھیں گے ، بچوں سے دل بہلائیں گے ، لیکن انہیں ان لوگوں سے سبق حاصل کرنا چاہیے جو سینما کی تصاویر دیکھتے ہیں.اگر وہ تصاویر کیلئے اتنی قربانی کرتے ہیں تو کیا ہم خدا کیلئے ایسا نہیں کرسکتے.ہر شخص کی کوئی نہ کوئی مجلس ہوتی ہے جہاں جاکر ادھر اُدھر کی باتیں کرتا ہے.یہ ہر شخص کی عادت ہوتی ہے پھر ہم وہ عادت کیوں نہ ڈالیں جس سے دین بھی سُدھرے اور دنیا بھی.میں نہیں جانتا کہ جو سکیم میں نے منظور کی تھی، اُس کے ماتحت کام ہوا ہے یا نہیں.اگر ہوا ہے تو میرے پاس اس کی کوئی رپورٹ نہیں پہنچی اور جو کام شروع کیا گیا ہے، یہ اس سے باہر تھا لیکن پھر بھی جب کام شروع کیا گیا تھا تو دوستوں کو چاہیے تھا کہ جس طرح بھی بن پڑتا اس میں شامل ہوتے.جو شخص بیوی بچوں سے اس لئے جُدا ہوتا ہے کہ تبلیغ کرے اور تبلیغی مجلس میں شامل ہو، اس کا یہ عمل بے فائدہ نہیں ہو گا.اس طرح یہ بھی فائدہ ہو سکتا ہے کہ دوست معلوم کر سکتے ہیں زیادہ اثر ہوتا ہے اور انہیں کس کے پاس تبلیغ کیلئے جانا چاہیے اور اس لحاظ سے بھی ایسی مجالس میں شمولیت ضروری ہے.میں امید کرتا ہوں کہ جماعت کے دوست بالعموم اور امیر صاحب بالخصوص اس طرف متوجہ ہوں گے اور جو حکیم منظور ہوئی تھی، اس کے ماتحت کام شروع کر دیں گے.اور جو کام بھی ہو خواہ وہ سکیم کے ماتحت ہو یا اس سے باہر اسے استقلال سے کریں گے.قلوب اِس وقت ایسے طور پر متوجہ ہو رہے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے فرشتوں نے خاص طور پر تسلط کیا ہوا ہے.مجھے لاہور میں ہی ایک خط ملا ہے.گوجرانوالہ کے
خطبات محمود ۱۴۸ سال ۱۹۳۴ و.ضلع میں غیر احمدیوں نے ایک جلسہ کیا جس میں احمدیوں سے وعدہ کیا کہ احمدیت کے خلاف کچھ نہ کہا جائے گا مگر جو مولوی آئے انہوں نے مقامی لوگوں کے روکنے کے باوجود احمدیت کے خلاف زور لگایا.ایک مشہور مولوی صاحب نے کہا کہ مولوی ظفر علی اس وقت مرزائیوں کے پیچھے خوب پڑا ہوا ہے.اے مسلمانو! تم اس کا ساتھ دو اور احمدیت کو کچل ڈالو.ایک اور مولوی صاحب نے اول الذکر مولوی صاحب کے جواب میں کہا ظفر علی احمدیت کی مخالفت کر کے سخت ذلیل ہو گیا ہے اس کا ساتھ دینے سے احمدیت اور پھیلے گی.اس پر پہلے مولوی صاحب نے کہا بڑے بڑے تمام شہروں سے مرزائیت مٹ رہی ہے.اس کا جواب دوسرے مولوی صاحب نے یہ دیا کہ یہ بالکل غلط ہے کہ احمدیت مٹ رہی ہے بلکہ ہماری سخت مخالفت کے دباؤ کے باعث اور اُبھر رہی ہے.میں جس قدر گریجوایٹوں، وکیلوں، بیرسٹروں اور جوں وغیرہ سے ملتا ہوں، وہ سب احمدیوں کے قریب ہوتے جارہے ہیں عام لوگوں میں بھی یہی رجحان ہے.ایک اور مولوی صاحب نے کہا فلاں مولوی صاحب تو یہ کہتے ہیں کہ تمام شہروں سے احمدیت مٹ رہی ہے لیکن ہمارے گھروں میں تو اب گھنی شروع ہوئی ہے میرے نہایت سمجھدار چار رشته دار حال ہی میں احمدی ہو گئے ہیں.پس قلوب تیار ہیں سُستی ہماری طرف سے ہی ہے.لوگوں کی مثال اِس وقت پیاسے کی ہے اور جب ایک انسان پیاسا مر رہا ہو اور دوسرے کے پاس پانی ہو لیکن وہ پانی دے کر اس کی جان نہ بچائے تو وہ کس قدر مجرم ہوگا.پس دوستوں کو چاہیے کہ ہمت سے کام کریں.لاہور پنجاب کا مرکز ہے اور اگر ہمارے دوست ہمت کر کے اسے ان ظلمات اور بدعات سے جو اس وقت دنیا میں پھیل رہی ہیں، بچالیں نے سارے صوبہ پر اس کا اثر ہو سکتا ہے.پھر ساری دنیا میں زیادہ تر تبلیغ پنجابیوں کے ذریعہ ہی ہو رہی ہے.نوے فیصدی چندہ اور کارکن پنجاب سے ہی ملتے ہیں اس لئے اگر احمدیت لاہور میں مضبوط ہو جائے تو لازماً پنجاب میں بھی مضبوط ہوگی اور اس طرح گویا ساری دنیا میں مضبوط ہوگی.پس میں امید کرتا ہوں کہ دوست اس طرف اب زیادہ توجہ کریں گے اور جو سکیم منظور ہوئی ہے اس پر عمل شروع کردیں گے.میں تو ایک دو دن میں چلا جاؤں گا افسوس ہے کہ میرے یہاں ہوتے ہوئے اصل کام کے متعلق مجھے کوئی رپورٹ نہیں ملی.اگر مل جاتی تو ممکن ہے میں کوئی مفید مشورہ دے سکتا اور خوش جاتا، تاہم میں امید کرتا ہوں کہ جب پھر آؤں گا تو اس کام کو زیادہ شاندار اور نتائج خیز صورت میں دیکھوں گا.میں اللہ تعالیٰ سے دعا تو
خطبات محمود ۱۴۹ سال ۱۹۳۴ء کرتا ہوں کہ دوستوں کو توفیق دے کہ وہ اپنے کام کی ذمہ داریوں کو محسوس کریں اور ان فرائض کو جو اللہ تعالی نے ان پر عائد کئے ہیں ادا کر سکیں اور اپنے ان بھائیوں کو جو ظلمت میں ڈوبے ہوئے اور روحانی موت مر رہے ہیں، زندگی کا پانی پلا سکیں.آمین.الفضل ۱۰ مئی ۱۹۳۴ء) له ابو داؤد كتاب الصلوة باب التشديد في ترك الصلوة مسلم كتاب فضائل الصحابة باب من فضائل علی بن ابی طالب میں یہ الفاظ ہیں ”فَوَاللَّهِ لان يهدى الله بك رجلا واحِدًا خِيرُ لكَ مِنْ حمر النعم"
خطبات محمود ۱۵۰ ۱۸ تقویٰ اللہ اختیار کرنے کے بہترین نتائج (فرموده ۲۵- مئی ۱۹۳۴ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- مذہب کی غرض و غایت انسانی دل اور انسانی دماغ انسانی جذبات اور انسانی افکار میں وہ مادہ پیدا کرنا ہوتا ہے جسے عربی زبان میں تقویٰ کہا جاتا ہے.یعنی اللہ تعالی کے ساتھ ایسا تعلق ایسی محبت ایسا عشق اور ایسا لگاؤ پیدا ہو جائے اور اُس پر اتنا اعتماد اتنا تو کل اور اتنا یقین حاصل ہو کہ جس کے بعد خدا تعالیٰ کیلئے انسان اس کی توحید اور تفرید کی طرح ہو جائے.اس انسان پر حملہ خدا تعالیٰ کی توحید اور تفرید پر حملہ سمجھا جائے اور اُس انسان کی مخالفت خدا تعالیٰ کی توحید اور اس کی تفرید کی مخالفت سمجھی جائے، اسی طرح اُس انسان کا نقصان و زیاں خدا تعالی کی توحید و تفرید کا نقصان و زیاں قرار پائے حتی کہ اس کی اعانت کے تمام سامانوں کے موقع پر خدا درمیان میں آجائے اور اس کی اعانت کے تمام موقعوں پر خدا اس کا مددگار ہو جائے.یہی صحیح مفہوم ہے تقویٰ کا اور اسی تقویٰ کے پیدا کرنے کیلئے مذاہب ہوتے ہیں.مگر جو تقویٰ کی تعریف میں نے اس وقت کی ہے، وہ اس کے انتہائی مقام کی ہے اور ہر چیز اپنی انتہائی صورت میں ہر موقع پر نہیں پائی جاتی اور نہ ہر انسان میں پائی جاتی ہے.جیسا کہ تمام قوتیں اور طاقتیں جو انسانوں میں پائی جاتی ہیں، وہ اپنے انتہائی رنگ میں ہر انسان میں نہیں پائی جاتیں، نہ محبت اپنے انتہائی مقام کے لحاظ سے ہر فرد میں پائی جاتی ہے، نہ غضب اپنے انتہائی مقام کے لحاظ سے ہر فرد میں پایا جاتا ہے، ہر انسان میں محبت بھی ہوتی ہے اور غضب
۱۵۱ سال ۱۹۳۴ء خطبات محمود عقل پر بھی مگر نہ ہر انسان کی محبت اس کی عقل پر غالب ہوتی ہے اور نہ ہر انسان کا غضب اس کی غالب ہوتا ہے، نہ ہر انسان کا غضب اُس کی مغضوب چیزوں سے اسے دور کر دیتا ہے اور نہ ہر انسان کی محبت اسے محبوب چیزوں سے قریب کر دیتی ہے مگر باوجود اس کے نہیں کہہ سکتے کہ فلاں انسان میں محبت نہیں یا فلاں میں غضب نہیں، ہر انسان میں محبت بھی ہوتی ہے اور غضب بھی مگر انتہائی صورتوں میں ہر جگہ نظر نہیں آتا..اسی طرح سخاوت اور بخل کا حال ہے.یہ مادہ بھی ہر انسان میں موجود ہوتا ہے مگر کسی کی سخاوت کا وسیع دائرہ ہوتا ہے اور کسی کے بخل کا دائرہ وسیع ہوتا ہے.پھر کسی کی سخاوت محدود دائرہ کے اندر ہوتی ہے اور کسی کا بخل محدود دائرہ کے اندر ہوتا ہے.کئی سخی ایسے ملیں گے جو زیادہ سے زیادہ چیزوں کو قربان کرنے کیلئے تیار رہیں گے اور کئی بخیل ایسے ملیں گے جو زیادہ سے زیادہ چیزوں کو سمیٹنے کیلئے تیار رہیں گے.پھر کئی سنی ایسے ہوں گے جو اپنی عزت اپنی وجاہت اپنے آرام اور اپنے جذبات کی قربانی کرنے کیلئے تو تیار نہیں ہوں گے مگر جو مال آئے گا اسے لٹا دیں گے.اور کئی بخیل ایسے نظر آئیں گے جو اپنی جان قربان کرنے کیلئے تیار ہوں گے، رشتہ داروں کو قربان کرنے کیلئے تیار ہوں گے ، لیکن اگر ایک پیسہ بھی ان سے طلب کیا جائے تو وہ دینے پر آمادہ نہیں ہوں گے.گویا وہ بخیل تو ہوتا ہے مگر اس کا نجل ایک محدود دائرہ میں ہوتا ہے.پھر اپنے اپنے دائرہ میں مجبل اور سخاوت کے مختلف درجے اور مراتب ہوتے ہیں.کئی سخی ہوتے ہیں اور وہ اپنا سب مال بے دریغ خرچ کر دیتے ہیں اور کئی سخی ہونے کے باوجود تیسرے چوتھے یا پانچویں حصہ تک مال خرچ کرتے ہیں.پھر کئی بخیل ہوں گے جو ایک پیسہ بھی خرچ کرنے کیلئے تیار نہیں ہوں گے خواہ کس قدر انہیں ضرورت محسوس ہو اور کئی ایسے بخیل ہوں گے جو یوں تو خرچ نہیں کریں گے اور اگر کسی فقیر کو بھوکا مرتے بھی دیکھیں تو انہیں رحم نہیں آئے گا لیکن اگر مثلاً وائسرائے کی طرف سے کسی چندہ کی تحریک ہو تو وہ جھٹ اس میں روپیہ بھیج دیں گے.یہ بھی بخیل ہوتے ہیں مگر محدود دائرہ میں لیکن ایک اور بخیل ہوتا ہے جو کسی کو نگا دیکھتا ہے تو پرواہ نہیں کرتا لیکن اگر کسی کو بھوکا دیکھے تو بے چین ہو جاتا ہے.یہ سب مدارج ہیں جن کے ماتحت نخل یا سخاوت ہوتی ہے.اس طرح تقویٰ کے بھی مختلف مدارج ہیں مگر عام طور پر لوگ ان کا خیال نہیں کرتے.وہ سمجھتے ہیں تقویٰ ایک ہی مقام کا نام ہے.جہاں قدم رکھا تو متقی ہو گئے.نہ اس سے اوپر کوئی
خطبات محمود ۱۵۲ سال ۱۹۳۴ ء مقام ہے نہ نیچے اور اس قسم کی غلط فہمیوں کی وجہ سے وہ بہت سی نیکیوں سے محروم ہو جاتے ہیں اور وہ نہیں سمجھتے کہ تقویٰ کی بھی شاخیں ہیں جس طرح نجل اور سخاوت کی شاخیں ہیں.اور اگر انسان اپنے نفس پر غور کرے تو وہ کوئی نہ کوئی تقوی کی شاخ اپنے اندر پائے گا جس کی وجہ سے اسے ایمان لانا نصیب ہوا کیونکہ ایمان تقویٰ کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا.اگر ایک شخص خدا پر ایمان لایا اس کے مامور اور مرسل کو اس نے مانا تو ضرور ہے کہ تقویٰ کی اس میں کوئی نہ کوئی شاخ ہو جسے چاہے وہ خود بھی نہ جانتا ہو اور ممکن ہے عام لوگ بھی اس سے بے خبر ہوں لیکن اگر وہ اس تقویٰ کی شاخ کو ترقی دے گا تو وہ درخت بن جائے گا.پھر ایک درخت سے دوسرا اور دوسرے سے تیسرا یہاں تک کہ تقویٰ کا باغ بنایا جاسکتا ہے.قرآن مجید کا اگر ہم مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں تقویٰ کو لباس سے مشابہت دی ہے اور اس مشابہت سے بھی وہی مفہوم ثابت ہوتا ہے جو میں نے بیان کیا ہے.اللہ تعالی فرماتا ہے يُبَنِي أَدَمَ قَدْ انْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسَاتُوَارِي سَوْاتِكُمْ وَرِيْشًا وَ لِبَاسُ التَّقْوى ذَلِكَ خَيْرٌ يعنی اے بنی آدم! ہم نے تمہارے لئے لباس اتارا جس کے دو کام ہیں.ایک تو یہ کہ يُوَارِي سَواتِكُمْ جسم کے بعض ایسے حصے جن کا نگا رکھنا معیوب ہے، خواہ اخلاقاً یا ظاہری شکل کے لحاظ سے لباس ان کو ڈھانپ دیتا ہے.وَرِيْشًا اور دوسرا کام لباس کا ہے کہ جو حصے نظر آنے والے ہیں، انہیں خوبصورت بنا دیتا ہے.گویا لباس کے دو کام اللہ تعالیٰ نے بتائے ہیں ایک یہ کہ جسم کے بعض بد صورت حصے ڈھانپ دیتا ہے اور جو حصے نظر آتے ہیں، ان کی زینت کو چمکا دیتا ہے.یہ ایک عام مثال ہے اور ہر شخص جانتا ہے کہ جسم انسانی کے بعض حصے اخلاقاً یا طبعاً ننگے رکھنا معیوب ہوتا ہے.ابھی قریب کے زمانہ میں ایک مشہور انگریز مصور نے ایک مضمون لکھا ہے جس میں اس نے عورتوں کو مخاطب کیا ہے.آج کل یورپ کی عورتوں میں یہ رواج پایا جاتا ہے کہ وہ اپنے جسم کو زیادہ سے زیادہ ننگا کرتی چلی جاتی ہیں، پہلے سر اور گردن ننگی ہوتی تھی، پھر سینہ نگا رکھنا شروع کر دیا گیا، نیچے سے لاتیں تنگی کرنی شروع کیں، یہاں تک کہ لباس گھٹنوں تک پہنچ گیا اور اب گھٹنوں سے بھی اوپر ہونا شروع ہو گیا ہے.اور جس قدر حصے پر لباس بھی ہوتا ہے، وہ بھی اتنا کھلا بنایا جاتا ہے کہ ہر قدم بین ران تک کھل جاتا ہے.صرف شکل بدلی ہوئی ہے ورنہ جس طرح ہمارے ملک میں بندریاں نچانے والے ہوتے ہیں اور وہ ذرا سی دھجی جسم پر لپیٹ دیتے ہیں یہی یورپین عورتوں.
خطبات محمود ۱۵۳ سال ۱۹۳۴ء کا حال ہے وہ مشہور مصور لکھتا ہے کہ میں ایک مصور ہونے کی حیثیت سے عورتوں اور مردوں کے ننگے جسم دیکھنے کا اتنا عادی ہوں کہ کسی دوسرے کو اتنا دیکھنے کا بہت ہی کم موقع ملتا ہے اس لئے میں ایک ماہر فن ہونے کے لحاظ سے مشورہ دیتا ہوں کہ ننگا جسم خوبصورتی پیدا نہیں کرتا بلکہ بسا اوقات مرد کی نگاہ میں ایسی عورت بدصورت سمجھی جاتی ہے اس لئے اگر عورتیں اپنے جسم کو اس لئے ننگا رکھتی ہوں کہ وہ زیادہ سے زیادہ مردوں کی توجہ کو اپنی طرف کھینچ سکیں تاکہ وہ ان کے حسن کی تعریف کریں تو میں انہیں مشورہ دوں گا کہ جسم کو ننگا رکھنا چھوڑ دیں کیونکہ اس سے بسا اوقات مردوں کے دل میں بجائے تعریفی جذبات پیدا ہونے کے رت کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں اور بجائے متوجہ ہونے کے وہ دُور ہو جاتے ہیں.یہ ایک ماہر فن کی رائے ہے اور اُس ملک کے ماہر فن کی جس کی عورتیں زیادہ سے زیادہ اپنے آپ نفرت کو ننگا رکھتی ہیں.پس اس کی رائے بہت وزن دار اور معقول ہے کیونکہ اول تو مصور کا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ جسم کو اس کی اصل حالت میں ظاہر کرے.خوبصورت کو خوبصورت اور بدصورت کو بدصورت ظاہر کرے جس طرح ڈاکٹر ایک شخص کی تندرستی یا بیماری کے متعلق صحیح رائے رکھنے والا ہوتا ہے، اسی طرح مصوّر بھی انسانی جسم کی خوبصورتی یا بدصورتی کے متعلق صحیح رائے رکھتا ہے کیونکہ اس کی معاش کی صورت ہی یہ ہے کہ وہ اپنے فن میں ماہر ہو اور انسانی جسم کا جو حصہ بدصورت ہو، اس کی بدصورتی اور جو خوبصورت ہو اس کی خوبصورتی نمایاں کر کے دکھائے.پس ایسے شخص کی رائے اس قابل ہوتی ہے کہ اس پر غور کیا جائے.گو ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہر انسان کی رائے قابل عمل ہوتی ہے مگر بہر حال یورپ والوں کیلئے ایک تک اس ماہر فن کی رائے کو وزن دینا ضروری ہے.اور اس میں شبہ نہیں کہ بہت حد تک یہ بات صحیح بھی ہے کہ انسانی جسم کے کئی حصے ننگے کردینا خوبصورتی نہیں بلکہ بدصورتی پیدا کرتا ہے.ممکن ہے اس میں کچھ حصہ عادت کا بھی ہو لیکن بہت حد تک اس میں حقیقت کا دخل ہے.باقی مثالیں ممکن ہے عرباں ہو جائیں، اس لئے میں انسانی سر کی مثال دیتا ہوں.کئی لوگ ایسے ہیں جو سر پر پگڑی باندھتے ہیں، کئی ہیں جو ٹوپی رکھتے ہیں اور کئی ہیں جو سر ننگا رکھتے ہیں.چنانچہ بنگال کے مرد اور یورپ کی عورتیں سروں کو ننگا رکھنے کی عادی ہیں لیکن ٹوپی یا پگڑی اتار دینے سے سر پوری طرح ننگا نہیں ہوتا.بلکہ اس پر قدرت کی طرف سے ایک حد
خطبات محمود ۱۵۴ سال ۱۹۳۴ء کو پردہ پڑا ہوا ہے اور وہ بالوں کا ہے.بال منڈا کر دیکھ لو سو میں سے کتنے لوگ ہیں جو اسے پسند کریں گے.نہایت ہی گھن آنے والی چیزوں کے متعلق جب میں اندازہ لگایا کرتا ہوں تو سب سے زیادہ رکھن مجھے منڈے ہوئے سر سے آتی ہے خصوصاً جب اس پر گھی ملا ہوا ہو.اگر کھانا کھاتے وقت میں اس کا خیال کروں تو شاید مجھے تے ہی آجائے.اس عمر میں آکر بعض دواؤں کی خاطر مجھے مکھن کھانا پڑا ہے، پہلے میں کبھی نہیں کھایا کرتا تھا لیکن اب بھی باوجود اس کے کہ کسی حد تک مجھے مکھن کھانے کی عادت ہو گئی ہے اگر کوئی میرے سامنے لکھن کے مکھنی کہہ دے تو میں اسے کھا نہیں سکتا.کیونکہ بچپن میں میں نے سنا ہوا تھا ٹنڈ میری مکھنی - مالیر کوٹلہ جہاں میری ہمشیرہ نواب محمد علی خان صاحب سے بیاہی ہوئی ہیں لوگ مکھن کو مکھنی کہتے ہیں.جب میں وہاں جاؤں اور نوکر اگر کہہ دے کہ مکھنی لاؤں تو کہتا ہوں بس اب میں کھا چکا.آج کل کے نوجوانوں نے تو یہ شغل ہی بنا رکھا ہے کہ وہ اپنے بالوں میں مانگیں نکال کر کبھی دائیں، سر کو حرکت دیتے ہیں اور کبھی بائیں اور خیال کرتے ہیں کہ سارے جہان کا حسن سمٹ سمٹا کر ان کے بالوں میں آگیا ہے.ان کے سامنے بھی اگر کسی کا سر منڈا کر اس پر گھی مل دیا جائے تو وہ بھی یہ اقرار کئے بغیر نہیں رہیں گے کہ عریانی کیسی بد شکل پیدا ہو جاتی ہے.یہ میں نے صرف ایک مثال دی ہے جو میری طبیعت کے میں لحاظ سے سخت گھن پیدا کرنے والی ہے ورنہ اور بھی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں.غرض جسم کے ایسے حصے ننگے رکھنا خوبصورتی نہیں بلکہ عیب پیدا کرتا ہے.اور اپنے اپنے مذاق کے مطابق انہیں ڈھانپنا خوش نمائی پیدا کرتا ہے.پس اللہ تعالی فرماتا ہے کہ لباس کا ایک کام تو یہ ہے کہ يُوَارِی سَواتِكُمْ.جسم کے اندر جو بعض عیب ہیں، لباس انہیں ڈھانپ دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول اور مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کے درمیان آپس میں اسی بات پر بحث چھڑ گئی.حضرت خلیفہ اول فرماتے کہ خوبصورتی کا پہچاننا آسان نہیں ہر شخص کی نگاہ حُسن کا صحیح اندازہ نہیں کر سکتی یہ صرف طبیب ہی پہچان سکتا ہے کہ کون خوبصورت ہے اور کون بدصورت.مگر مولوی عبدالکریم صاحب فرماتے تھے کہ یہ کون سی مشکل بات ہے ہر آنکھ انسانی خوبصورتی کو پہچان سکتی ہے.حضرت خلیفہ اول کا نقطہ نگاہ یہ تھا کہ بے شک ہر نگاہ حُسن کو اپنے طور پر پہچان لیتی ہے مگر اس شناخت میں بہت سی غلطیاں ہو جاتی ہیں اور طبیب ہی سمجھ سکتا ہے کہ
خطبات محمود ۱۵۵ سال ہیں.کون واقعہ میں خوبصورت ہے اور کون محض اوپر سے خوبصورت نظر آرہا ہے.اسی گفتگو میں حضرت خلیفہ اول نے فرمایا.کیا آپ کے نزدیک یہاں کوئی مرد خوبصورت بھی ہے؟ انہوں نے ایک نوجوان کا نام لیا جو اتفاقاً اُس وقت سامنے آگیا تھا.کہنے لگے میرے خیال میں یہ خوبصورت ہے حضرت خلیفہ اول نے فرمایا آپ کی نگاہ میں تو یہ خوبصورت ہے مگر دراصل اس کی ہڈیوں میں نقص ہے.پھر آپ نے اسے قریب بلایا اور فرمایا.میاں ذرا تمیص تو اُٹھانا.اس نے قمیص جو اُٹھائی تو ٹیڑھی ہڈیوں کی ایسی بھیانک شکل نظر آئی کہ مولوی عبدالکریم صاحب کہنے لگے لا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ مجھے تو معلوم نہیں تھا کہ اس کے جسم کی بناوٹ میں یہ نقص ہے میں اس کا چہرہ دیکھ کر ہی اسے خوبصورت سمجھتا تھا.تو دراصل جسم میں بہت نقائص ہوتے ہیں.کئی لوگوں کے بدن پر گھنبیر ہوتے ہیں ، کئی کی ہڈیاں ٹیڑھی ہوتی ، بعضوں کے سینوں میں اتنا اتنا گڑھا ہوتا ہے کہ اس میں پاؤ بھر گوشت سما جائے اور جب کبھی وہ لوگوں کے سامنے کپڑے اتار کر نہانے لگیں یا کسی اور موقع پر انہیں قمیص اُتارنی پڑے تو لوگوں پر ان کا عیب ظاہر ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے لباس کو اتارا ہے اور اس کی یہ غرض مقرر کی ہے کہ یہ تمہارے عیبوں کو چھپاتا ہے.وَرِيْشًا.پھر بعض جگہ.صرف عیب ہی نہیں چھپاتا بلکہ حسن کو چمکا دیتا ہے.یہ بھی ایک ایسی چیز ہے جو نمایاں نظر آنے والی ہے.چنانچہ لباس کے مختلف رنگ ہوتے ہیں اور مختلف جسمانی رنگوں پر مختلف کے لباس سجا کرتے ہیں، بعض رنگ بعض کے ساتھ کھلتے ہیں اور بعض بعض کے ساتھ.سروں ہی کی مختلف بناوٹ ہوتی ہے، کسی کے سر پر ٹوپی بجتی ہے اور کسی کے سر پر پگڑی اور پھر کسی کو سفید پگڑی اچھی لگتی ہے کسی کو سرخ اور کسی کو سبز- مرد تو ان باتوں کی زیادہ پرواہ نہیں کرتے کیونکہ انہیں فرائض منصبی کی طرف زیادہ توجہ رہتی ہے.عورتوں نے اس فن میں بہت کمال پیدا کر رکھا ہے.بسنت کا موسم آئے تو کہتی ہیں اب ہمیں بسنتی رنگ کا دوپٹہ چاہیے کوئی اور موسم آئے تو کہتی ہیں اب سرخ اچھا لگے گا کسی موسم میں سبز رنگ کو ترجیح دے دیتی ہیں اور اس طرح وہ اس امر کی تصدیق کرتی رہتی ہیں کہ لباس کا دوسرا کام یہ ہے کہ وہ زینت کا موجب بنتا ہے.یورپ والے تو ہمارے ملک سے بھی بڑھ گئے ہیں.وہاں لباس انسانی جسم کے رنگوں! کے مطابق تجویز کیا جاتا ہے اور کپڑے والی دکانوں کے مالکوں نے بڑے بڑے ماہر فن اس
خطبات محمود.۱۵۶ سال ۱۹۳۴ء غرض کیلئے رکھے ہوتے ہیں کہ جب ان کے پاس کوئی شخص لباس بنوانے آئے تو وہ ان ماہرین فن سے تجویز کراتے ہیں کہ اس قسم کے رنگ کے آدمی پر کس قسم کا کپڑا زیب دے گا.یا کس قسم کی ٹوپی اس قسم کے سر پر سجے گی.غرض جسم کی بناوٹ کے لحاظ سے رنگ کے لحاظ سے قد کے لحاظ سے ڈبلا پن یا موٹاپے کے لحاظ سے نقشوں کے موٹے اور بھدے یا دیکھے ہونے کے لحاظ سے ہر انسان پر مختلف قسم کا لباس زینت دیتا ہے اور اگر اپنے جسم کے رنگ، قد، بناوٹ، موٹاپے یا دبلا پن وغیرہ کے لحاظ سے موزوں لباس کا انتخاب کیا جائے تو وہ لباس اسی جسم کو جو بدنما ہوتا ہے خوبصورت اور لوگوں کی نگاہ میں دل کش بنا دیتا ہے.اس کے بعد فرمایا- وَلِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ - تقویٰ کو بھی ہم نے لباس بنایا ہے اور وہ ظاہری لباس سے زیادہ اچھا ہے.جب تقویٰ کو اللہ تعالیٰ نے لباس سے مشابہت دی اور اسے ظاہری لباس سے زیادہ اچھا قرار دیا تو ضروری ہے کہ وہ دونوں باتیں جو لباس کے متعلق بیان کی گئی ہیں، تقویٰ اختیار کرنے پر بدرجہ اولی پائی جائیں.اور اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ تقویٰ کسی ایک مقام کا نام نہیں بلکہ اس کے مختلف مدارج ہیں.لباس کے دو کام بتائے گئے ہیں.ایک کام اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ وہ عیبوں کو چھپاتا ہے اسی طرح جب تقویٰ بھی ایک لباس ہے تو اس کا بھی یہ کام ہے کہ وہ انسانی عیبوں کو چھپائے لیکن چونکہ بعض ایسی بھی ہستیاں ہوتی ہیں جو عیوب سے مبرا ہوتی ہیں جیسے رسول کریم کہ آپ میں کوئی عیب تھا ہی نہیں اس لئے بتایا کہ گو تقویٰ کا ایک مقام یہ ہے کہ وہ عیبوں کو چھپاتا ہے مگر اس کا دوسرا کام ریسا بھی ہے یعنی زینت کا موجب بنتا ہے جیسے محمد ﷺ کا مقام تھا کہ آپ کے تقویٰ نے آپ کی خوبصورتی اور باطنی حسن کو نمایاں کر دیا.غرض لباس کے متعلق دو باتیں بیان کرنے کے بعد تقویٰ کا ذکر کرنے سے اللہ تعالٰی نے دو ہی باتیں بتائیں ایک تو یہ بتایا کہ تقویٰ کے بھی مختلف مدارج ہیں اور انسان ایسی حالت میں بھی متقی کہلا سکتا ہے جبکہ اس میں بعض کمزوریاں پائی جاتی ہوں اور تقویٰ کا کام یہ ہوتا ہے کہ اس کی کمزوریوں کو ڈھانپ دے.دوسری بات اس سے یہ معلوم ہوئی کہ تقویٰ اعمال کا نام نہیں.اگر اعمال کا نام ہوتا تو تقویٰ کے باوجود کسی شخص سے بُرے اعمال کیوں سرزد ہوتے.حقیقت یہ ہے کہ اعمال کا حُسن و فتح اور چیز ہے اور تقویٰ اور چیز.پس یاد رکھنا چاہیئے کہ تقویٰ ایک قلبی کیفیت کا نام ہے انسان ہزار نیکیاں کرے اگر اس کے اندر تقویٰ نہیں پایا جاتا تو اس کے عیوب چُھپ نہیں سکتے.ا
خطبات محمود ۱۵۷ سال ۱۹۴۴ء اسی طرح انسان ہزار نیکیاں کرے اگر اس کے اندر تقویٰ نہیں پایا جاتا تو وہ روحانی خوبصورتی حاصل نہیں کر سکتا.انسانی اعمال اُسی وقت اپنے عیوب کے نقصانات سے بچ سکتے ہیں اور اپنے کمال کو ظاہر کر سکتے ہیں جب اُن کے ساتھ تقویٰ شامل ہو.ورنہ ہزاروں انسان نیک اعمال کرتے ہیں لیکن چونکہ خدا کی نصرت ان کے شامل حال نہیں ہوتی ، ان کی کمزوریاں ظاہر ہو جاتی ہیں.بڑے بڑے ماہرین فن جنہوں نے اپنی قوم اور ملک کی بیش بہا خدمات سرانجام دیں اور جو خدمتیں کرتے کرتے اس جہان سے گزر گئے آج ان کے عیوب لوگوں پر ظاہر ہیں.سکندر کو لے لو یا نپولین کو یا اور کوئی بڑا فاتح اور حکمران گزرا ہو، اسے لے لو.انہوں نے اپنے اعمال میں کمال پیدا کیا لیکن چونکہ وہ تقویٰ اللہ سے خالی تھے نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے عیوب کو چھپانے والی کوئی چیز نہ ہوئی.انہوں نے رات اور دن اپنے ملک کی خدمت کی، ہزاروں نہیں لاکھوں کام اس کی ترقی کے سرانجام دیئے لیکن آئے دن ان کی زندگی کی دھجیاں اُڑائی جاتی ہیں اور بتایا جاتا ہے سکندر میں یہ نقص تھا نپولین میں وہ نقص تھا.انہوں نے اپنی تمام عمریں ملک کی خدمت کرتے ہوئے گزار دیں لیکن اگر ایک لحظہ کیلئے بھی ان سے کوئی غلطی سرزد ہوئی تو لوگوں نے ان کی ساری خدمات کو نظر انداز کر دیا اور بندر کے زخم کی طرح اسے کریدتے چلے گئے.اس کے مقابلہ میں اللہ تعالی کے جو پاک بندے ہوتے ہیں ان سے بھی اجتہادی غلطیاں ہوتی ہیں گو اللہ تعالٰی کے کامل بندے شرعی غلطیوں سے پاک ہوتے ہیں مگر باوجود اس کے دنیا میں کس کی طاقت ہوتی ہے کہ وہ ان کی اجتہادی غلطیوں کی تشہیر کرتا پھرے.اس کی یہی وجہ ہے کہ آسمان پر ایک ہستی ہے جس کا انہوں نے تقویٰ اختیار کیا وہ ہستی انہیں کہتی ہے- لا تُبقى لَكَ مِنَ الْمُخْزِيَاتِ ذِكرات - ہم تیری زندگی کی ایسی تمام باتیں جنہیں دشمن عیب سمجھ کر ظاہر کرنا چاہے، باقی نہیں چھوڑیں گے.اور جس قدر امور عیب کا باعث سمجھے جاتے ہیں، انہیں مٹا دیں گے.باوجود اس کے کہ بشری کمزوریاں ایسے لوگوں سے بھی سرزد ہوتی ہیں اور نبی بھی کسی وقت ان کمزوریوں میں مبتلاء ہو جاتا ہے مگر اس پر بات کرنا اور اطناب کرنا انسان کو مورد عذاب الہی بنا دیتا ہے.پس يُوَارِی سواتِكُمْ کے ماتحت انسان کو وہی عمل کام دیتا ہے جس میں تقویٰ شامل ہو ورنہ صرف کام کرنے والوں کے اعمال کے لوگ ٹکڑے ٹکڑے کر کے دنیا کے سامنے پیش کر دیتے ہیں اور کوئی ہستی ان کیلئے غیرت نہیں دکھاتی.دوسری بات یہ بتائی گئی ہے کہ تقویٰ انسان کیلئے بلاوجہ
خطبات محمود ۱۵۸ سال ۴۱۹۳۴ ا زینت کا موجب ہوتا ہے.اچھے سے اچھا کام کرنے والے دنیا میں ہم ہمیشہ دیکھتے ہیں مگر کوئی ان کی اتباع نہیں کرتا لیکن جو لوگ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرتے ہیں، خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کی تقلید کرنے والے دنیا میں ہمیشہ موجود رکھے جاتے ہیں.کون ہے جو آج کہہ سکے ، کہ میرے اعمال نپولین کے اعمال کے مطابق ہیں.اس کی اولاد میں سے بھی اگر کوئی اس وقت موجود ہو تو وہ یہ کہنے کیلئے تیار نہیں ہوگا حالانکہ نپولین کو گزرے ابھی دو سو سال بھی نہیں ہوئے.اس کے مقابلہ میں تیرہ سو سال گزر گئے کہ دنیا میں رسول کریم ال تشریف لائے تھے آپ کی بعثت پر جب ایک لمبا زمانہ گزر گیا تو ہزاروں لوگ ایسے کھڑے ہو گئے جو آپ کو گالیاں دینے والے اور آپ پر قسم قسم کے بہتان تراشنے والے تھے تب خدا تعالی نے ایک اور شخص کھڑا کیا اور اس نے تھوڑے ہی عرصہ میں دنیا میں ایک تغیر عظیم پیدا کر دیا.کردیا.لوگ بے اختیار کہنے لگ گئے واہ واہ! کیا اچھا کام کیا.اس نے نظروں کو خیرہ کر دینے اور انسانی عقلوں کو حیرت میں ڈال دینے والے کام کئے.اتنے مہتم بالشان کام کہ اگر وہ انہیں اپنی طرف منسوب کرتا تو وہ اس کے نام کو چار چاند لگانے اور اس کے ذکر کو بلند کرنے کیلئے کافی تھے.مگر جب وہ لوگوں سے تعریف سنتا تو بجائے اپنا فخر ظاہر کرنے کے، کہتا ہے، یہ کام میں نے نہیں کیا، محمد ال کے روحانی فیوض اور آپ کی برکات و انوار کا نتیجہ ہے.یہ وہ ریش اور زینت ہے جو تقویٰ اللہ کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے.محمد ال نے خدا کیلئے نمازیں پڑھیں اور نپولین نے دفتر میں بیٹھ کر ملک کی بہبودی کیلئے فائلیں دیکھیں ، محمد اللہ بھی جنگ کیلئے نکلے اور نپولین بھی جنگ کیلئے نکلا، ظاہری اعمال میں ایک مشابہت نظر آتی ہے لیکن باطن میں بہت بڑا فرق ہے.محمد ان کے اعمال میں تقوی اللہ کام کر رہا تھا اور نپولین کے کاموں میں تقویٰ اللہ نہیں تھا.غرض تقویٰ کے متعلق يُوَارِی سَواتِكُمْ کے جو الفاظ اللہ تعالیٰ نے فرمائے، ان کا یہی مطلب ہے کہ اگر کوئی ادنی درجہ کا متقی ہو تو بھی اس کے عیب ڈھانچے جاتے ہیں اور اگر کوئی اعلیٰ درجہ کا متقی ہو تو اس کی بشری کمزوریوں کا اطناب کے ساتھ ذکر اللہ تعالیٰ کے غضب کو بھڑکا دیتا ہے.غرض یاد رکھو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ انسانی اعمال کو ایک نیا رنگ دے دیتا ہے.خالی نماز کوئی چیز نہیں جب تک تقویٰ اللہ اس کے ساتھ نہیں، خالی روزہ کوئی چیز نہیں جب تک تقویٰ اللہ اس کے ساتھ نہیں، خالی حج اور خالی صدقہ و خیرات کوئی چیز نہیں جب تک
خطبات محمود ۱۵۹ سال ۱۹۳۴۳ تو تقویٰ اللہ ان کے ساتھ نہیں.جو شخص خالی نماز خالی روزے اور خالی حج کا نام تقویٰ سمجھتا ہے وہ بیوقوف ہے اور ایسے ہی بیوقوف یہ کہا کرتے ہیں کہ ہم حضرت مرزا صاحب کو کیوں مانیں کیا ہم نمازیں نہیں پڑھتے، روزے نہیں رکھتے، حج نہیں کرتے، صدقہ و خیرات نہیں دیتے.وہ نہیں جانتے کہ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ ایک جسم ہے اور تقویٰ اس کی روح ہے.نماز بھی ایک جسم ہے، روزہ بھی ایک جسم ہے، زکوٰۃ بھی ایک جسم ہے، حج بھی ایک جسم ہے، صدقہ و خیرات بھی ایک جسم ہے اور تقویٰ ان تمام اجسام کی روح ہے.جب تک.موجود نہیں نہ يُوَارِی سَواتِكُمْ ہو سکتا ہے اور نہ رِيْشًا کا ظہور ہو سکتا ہے.پس مومن کو اپنے اعمال میں تقویٰ اللہ پیدا کرنا چاہیے کیونکہ اس کے بغیر کوئی عمل قبولیت حاصل نہیں کر سکتا اور اگر کوئی سمجھتا ہے کہ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور صدقہ و خیرات اپنی ذات میں کوئی چیز ہیں تو وہ غلطی کرتا ہے.کئی ایسے لوگ دیکھے گئے ہیں جو شکایت کرتے ہیں ہم نے نمازیں پڑھیں مگر کوئی فائدہ نہ ہوا روزے رکھنے مگر کوئی فائدہ نہ ہوا وہ نہیں سمجھتے کہ نماز اور روزہ ایک جسم ہے اور تقویٰ روح.اگر تقویٰ اللہ کی روح ان کے اعمال میں کام نہیں کرتی تو ان کی نمازیں مردہ ان کے روزے مُردہ ان کی زکوۃ مُردہ ان کا حج مُردہ اور ان کا صدقہ و خیرات مُردہ ہے اور مُردہ خواہ اکلوتا بچہ ہی ہو، لوگ اسے اپنے گھر میں نہیں رکھتے بلکہ باہر دفن کر کے گھر واپس آجاتے ہیں.بچہ کی اُسی وقت تک قدر کی جاتی ہے جب تک اس میں جان ہوتی ہے جب مرجاتا ہے تو لوگ اسے زمین میں گاڑ دیتے ہیں.اسی طرح تم نماز کو خواہ اکلوتا بیٹا بھی قرار دے لو لیکن اگر اس میں روح نہیں تو وہ دفن کرنے کے قابل ہے، اسی طرح روزہ کو اکلوتا بیٹا قرار دے لو لیکن وہ بھی دفن کرنے کے قابل ہے اگر اس میں روح نہیں، اسی طرح زکوۃ اور حج کو اکلوتے بیٹے سے مشابہت دے لو جب تک روح موجود رہے وہ قابل قدر چیز ہوگی اور جب روح نکل گئی یا پیدا ہی نہ ہوئی تو وہ قطعاً کام کے قابل چیز نہیں جیسا کہ کوئی باپ یا کوئی ماں اپنے گھر میں مُردہ بچہ سنبھال کر نہیں رکھتی.پس اصل چیز تقویٰ اللہ ہے.اسی لئے دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا- يَنَالُهُ التَّقْویٰ مِنْكُمْ = - خدا تعالیٰ کے پاس اعمال نہیں جاتے بلکہ وہ روح جاتی ہے جو اعمال میں کام کر رہی ہوتی ہے.عمل ایک مادی چیز ہے اور مادی چیز آسمان پر نہیں جاتی.آسمان پر جانے اور خدا تعالیٰ کے قریب پہنچنے والی روحانی چیز ہوا کرتی ہے اور وہ تقویٰ اللہ ہے جس کے ساتھ
ات 14.سال ۱۹۳۴ء روده محبت الہی بھی شامل ہو لیکن چونکہ لوگ اس حقیقت کو نہیں جانتے اس لئے وہ ظاہری اعمال کو لے کر بیٹھ جاتے ہیں.اعمال بھی اچھی چیز ہیں کیونکہ بغیر جسم کے روح بھی کام نہیں دیا کرتی لیکن اصل چیز روح ہی ہے، جسم درجہ کے لحاظ سے اس سے نیچے ہے.جس طرح دودو برتن کے بغیر نہیں رہ سکتا لیکن کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اصل مقصود برتن ہوتا ہے بلکہ اصل چیز ہوتی ہے.اسی طرح انسانی اعمال اور تقویٰ اللہ کا تعلق ہے.دودھ تو خواہ زمین پر رگر جائے ، پھر بھی انسان کچھ نہ کچھ زبان سے چاٹ سکتا ہے لیکن برتن اگر خالی ہو تو اس میں سے ایک قطرہ دودھ بھی حاصل نہیں کیا جاسکتا.پس اہم چیز وہی ہے جو مغز ہے اور یہی چیز ہے جسے اپنے اعمال میں مد نظر رکھنا چاہیے اس لئے خدا تعالٰی نے فرمایا- وَ لِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ تقویٰ کا لباس بہر حال بہتر ہے کیونکہ اس سے وہ نتائج پیدا ہوتے ہیں جو ظاہری لباس سے حاصل ہوتے ہیں.یعنی عیبوں پر پردہ پڑتا اور روحانی خوبصورتی اور زینت حاصل ہوتی ہے.معمولی درجہ پر انسانی عیوب ڈھانپے جاتے ہیں اور جب انسان بلند مقام پر پہنچتا ہے تو بشری کمزوریاں بھی اللہ تعالیٰ کی ستاری کی چادر کے نیچے آجاتی ہیں.بشری کمزوریاں بعض دفعہ اللہ تعالی خود نبیوں سے کرواتا ہے تا لوگوں پر ظاہر رہے کہ یہ بشر ہی ہیں.جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے.لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ ہے.تُو نے انہیں کیوں اجازت دی؟ مگر یہ شرعی نہیں بلکہ اجتہادی کمزوری ہوتی ہے اور یہ بعض دفعہ اللہ تعالٰی خود کراتا ہے تا نبی کی انسانیت ظاہر کرے اور بتائے کہ انسان خواہ کتنا ہی بلند مقام پر پہنچ جائے، عالم الغیب نہیں ہوتا.پس يُوَارِی سَواتِكُمْ میں دونوں باتیں داخل ہیں، عیب بھی اور بشری کمزوریاں بھی.بعض طبائع میں جوش ہوتا ہے وہ نیک ہوتے ہیں مگر لوگوں سے لڑ تے ہیں، گالیاں دیتے ہیں اسی طرح اور بھی بہت سی کو تاہیاں اور کمزوریاں انسانوں میں پائی جاتی ہیں.بعض طبائع میں مخل ہوتا ہے وہ نیکی میں ترقی کر رہے ہوتے ہیں لیکن مال دیتے وقت محسوس کریں گے.ایک عرصہ تک یہ حالت رہتی ہے اور جب اس حالت میں وہ ترقی کر جاتے ہیں تو بشری نقائص ان میں ظاہر ہونے شروع ہو جاتے ہیں ان سے ، حالتوں میں تقویٰ اللہ عیوب کو ڈھانپتا ہے اور انسان کو مزین بنادیتا ہے.پس اگر کوئی چیز انسان کو کامل طور پر عیبوں سے پاک کر کے خوبصورت بناتی ہے تو وہ تقویٰ ہی ہے.ابتدائی حالت میں جب عیب ہوں تو تقویٰ انہیں ڈھانپ دیتا ہے اور جب
خطبات محمود 141 سال ۱۹۳۴ء عیب نہیں ہوتے تو خوبصورت بنا دیتا ہے لیکن اس صورت میں بھی بعض بشری کمزوریاں اور اجتہادی غلطیاں سرزد ہوتی رہتی ہیں تا ان کی بشریت ظاہر ہوتی رہے.ان بشری کمزوریوں کو اگر کوئی شخص قابل اعتراض رنگ میں بیان کرے تو اللہ تعالیٰ کی غیرت اس کے خلاف بھڑک اُٹھتی ہے.مثلاً ابھی میں نے کہا تھا کہ اللہ تعالٰی بعض دفعہ انبیاء سے خود اجتہادی غلطی کراتا ہے تا ان کی بشریت ظاہر ہو.اب اگر کوئی شخص رسول کریم الله کی کسی ایسی ہی اجتہادی غلطی پر ہنسی اور استہزاء کے رنگ میں بحث کرے تو مت خیال کرو کہ چونکہ وہ سچ کہہ رہا ہے، اس لئے اللہ تعالی کے غضب سے بچ جائے گا بلکہ وہ سزا پائے گا کیونکہ اس نے رسول کریم ﷺ کی اہانت کرنی چاہی.ہاں اللہ تعالی کی توحید و تفرید کا ذکر کرتے ہوئے بیشک اس قسم کی مثالیں دی جاسکتی ہیں لیکن جب اس غرض کے لئے مثالیں نہ دی جائیں بلکہ تحقیر جذبے کے ماتحت اجتہادی غلطیاں گنوائی جائیں تو ایسا انسان اللہ تعالٰی کے محروم ہو جاتا ہے.یہ دو چیزیں ہیں جو تقویٰ اللہ سے پیدا ہوتی ہیں.تم اپنے اعمال پر غور کرو.اگر تمہیں یہ باتیں حاصل ہیں تو تم میں تقویٰ پایا جاتا ہے اور اگر حاصل نہیں تو سمجھ لو کہ ابھی تم میں تقویٰ نہیں پایا جاتا کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ تقویٰ ہو مگر اس کے نتائج ظاہر نہ ہوں.میں اللہ تعالٰی سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہماری جماعت کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم اس کے فضل و کرم سے سوات اور ریش جو تقویٰ کے نتائج ہیں ان دونوں کو حاصل کر سکیں اور ہمارے لئے تقویٰ نہ صرف ہمارے عیبوں کو ڈھانکنے والا ہو بلکہ ہمارے لئے زینت اور ریش.فضلوں کا بھی موجب ہو.له الأعراف: ۲۷ ت تذکر صفحه ۵۳۸- ایڈیشن چهارم سے الحج: ٣٨ التوبة: ٤٣ الفضل ۳۱- مئی ۱۹۳۴ء)
خطبات محمود ۱۶۲ 19 سال ۱۹۲۳۴۲ء اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بننے کی کوشش کرو (فرمودہ یکم جون ۱۹۳۴ء- بمقام لاہور) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میری طبیعت صبح سے نزلہ، زکام اور سردرد کی وجہ سے خراب ہے.اور میرا ارادہ تھا کہ میں نماز گھر پر ہی ادا کروں مگر پھر اس خیال سے کہ بہت سے دوست بیرونجات سے بھی آئے ہوئے ہیں، میں نے مناسب سمجھا کہ مسجد میں ہی نماز ادا کروں اور اختصار کے ساتھ خطبہ پڑھ دوں.مجھے یہاں کی جماعت کے سیکرٹری تبلیغ کی طرف سے رپورٹ ملی ہے کہ لاہور کی جماعت نے میری ہدایات کے ماتحت تبلیغ کا کام شروع کردیا ہے اور کو تفصیلی رپورٹ مجھے نہیں ملی تا میں اندازہ کرسکوں کہ جو ہدایات میں نے دی تھیں اور تبلیغ کا نظام جو میں نے مقرر کیا ہے اسی کے مطابق کام شروع کیا گیا ہے یا اس سے علیحدہ مگر بہر حال جو رپورٹ ملی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دوستوں نے تبلیغی امور کی طرف توجہ کرتی ہے اور اگر اسی طرح کام کیا گیا تو نہ صرف اس سے اِنْشَاءَ اللہ جماعت کی ترقی ہوگی بلکہ خود جماعت کے دوست اپنے اندر اصلاح اور تزکیہ نفوس بھی محسوس کریں گے.در حقیقت اللہ تعالیٰ نے ہمیں دنیا میں جس غرض کیلئے پیدا کیا ہے، وہ یہ ہے کہ ہم اپنی اصلاح کرتے ہوئے اس مقام تک پہنچ جائیں کہ اللہ تعالیٰ کے حقیقی عبد کہلا سکیں.اگر یہ مقصد حاصل نہیں ہوتا تو پیدائش کی غرض پوری نہیں ہو سکتی.وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُون میں اللہ تعالیٰ نے
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء یہی امر بیان فرمایا ہے کہ انسانی پیدائش کی غرض اس کا عبد بننا ہے اور عبودیت کا اظہار صرف قول سے نہیں بلکہ فعل سے بھی ہوا کرتا ہے.پس اگر ہم خدا تعالیٰ کے عبد ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہماری عبودیت کا اظہار دُنیا پر نہ ہو اور لوگ یہ محسوس نہ کریں کہ ہمارا کسی بالا ہستی کے ساتھ تعلق ہے.اس لحاظ سے ہمیں غور کرنا چاہیئے کہ ہمیں دیکھنے اور ہماری حرکات و سکنات کا مطالعہ کرنے والے لوگ ہمارے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں.کیا وہ ہمیں دیکھ کر یہ اقرار کرتے ہیں کہ ان لوگوں کا کسی بالا ہستی سے تعلق ہے جس کی وجہ سے ان کی زندگی کی کایا پلٹ گئی یا نہیں.اگر ہمارے اعمال کو قریب سے دیکھنے والے اپنے دلوں میں یہ محسوس کرتے ہیں اور وہ ہماری چال ڈھال اُٹھنے بیٹھنے اور کھانے پینے پر نظر رکھ کر اس حقیقت کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ یہ اپنا ہاتھ کسی اور کے ہاتھ میں دے چکے ہیں، یہ زمینی نہیں بلکہ آسمانی نفوس بن گئے ہیں تو ہم خوش ہو سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ واقعہ میں ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا لیکن اگر ہمارے اعمال لوگوں کو بغیر ایک لفظ سننے کے یہ یقین نہیں دلاتے کہ ہم کسی اور ہستی کے غلام ہیں جس کے ہر حکم کے نیچے ہماری گردنیں مجھکی ہوئی ہیں تو ہمارے منہ کے دعوے ہمیں کبھی نجات نہیں دلا سکتے.یاد رکھو منہ کا دعویٰ جس کے ساتھ عمل نہ ہو اگر کچھ ثابت کر سکتا ہے تو یہ کہ ایسا انسان پاگل ہے کیونکہ پاگل بھی بڑے بڑے دعوے کرتا ہے مگر اس میں حقیقت نہیں ہوتی.مجھے یاد ہے ایک دفعہ میں پاگل خانہ دیکھنے گیا.وہاں مجھے کئی قسم کے پاگل دیکھنے کا اتفاق ہوا.ان میں سے ایک کو میں نے دیکھا کہ اُس نے اپنے ارد گرد ٹھیکریوں کا ڈھیر لگایا ہوا تھا اور سمجھ رہا تھا کہ اس کے پاس بہت بڑا خزانہ ہے اور وہ دُنیا کا بادشاہ ہے.اس کے مقابلہ میں ہم ایک بادشاہ کو دیکھتے ہیں وہ بھی سمجھتا ہے کہ اس کے پاس خزانہ ہے اور وہ دنیا کا بادشاہ مگر دونوں میں کتنا عظیم الشان فرق ہے.پاگل بھی کہتا ہے کہ میں بادشاہ ہوں اور بادشاہ بھی کہتا ہے کہ میں بادشاہ ہوں.ان دونوں میں اگر کچھ فرق ہے تو یہ کہ ایک خالی منہ سے دعویٰ کرتا ہے.اور دوسرا صرف دعوئی ہی نہیں، اس کا ثبوت بھی پیش کرتا ہے.غرض جب پاگل کے معنے ہی یہ ہوتے ہیں کہ وہ ایسا دعویٰ کرتا ہے جس میں حقیقت نہیں ہوتی تو اسی طرح اگر واقعہ میں ہم کہتے ہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کے بندے ہیں مگر اس کی بندگی کا ثبوت پیش نہیں کرتے تو ہمارا یہ دعوی بھی ہمیں پاگل نہیں تو اور کیا ثابت کرے گا.غلام کبھی آقا کے حکم کا انکار ہے.
خطبات محمود 145 سال ۱۹۳۴ء وہ نہیں کر سکتا بلکہ جو بھی حکم دیا جائے اسے بجالاتا ہے.یہی امر ہمیں مدنظر رکھنا چاہیے اور ہماری ہر حرکت و سکون اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ہونی چاہیئے.ورنہ اگر یہ حقیقت ہمارے اعمال میں موجود نہیں اور نہ عبودیت ہمارے چہرہ پر ظاہر ہوتی ہے تو یقیناً ہمارا بے بنیاد دعویٰ ہمیں پاگلوں میں شمار کرے گا لیکن جب یہ حالت نہ ہو اور دعوے صرف زبان تک محدود نہ ہوں بلکہ عملی ثبوت اس کے ساتھ موجود ہوں تو انسان کی حالت بالکل بدل جاتی ہے اور وہ حقیقی عبودیت کے اظہار کیلئے بے اختیار ہو جاتا ہے.صحابہ " کا ہی ایک واقعہ تاریخوں میں مذکور ہے جس سے ان کی عبودیت کا ثبوت ملتا ہے.غزوہ حنین کے موقع پر کچھ ایسے لوگ مسلمانوں میں شامل ہو گئے تھے جو در حقیقت مسلمان نہیں تھے یا ابھی نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے تھے.فتح مکہ کے بعد جبکہ ثقیف اور ہوازن وغیرہ سے طائف کے قریب مقابلہ ہوا تو اس وقت مکہ کے ان لوگوں نے جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے ، خواہش ظاہر کی کہ انہیں بھی جنگ کرنے والوں میں شامل کیا جائے بعض غیر مسلم بھی مسلمانوں کے زیر اثر ان کے ساتھ شریک ہو گئے.چونکہ نئے مسلمان اخلاص نہیں رکھتے تھے جو خدا تعالی کی تائید اور اس کی نصرت کو جذب کر سکتا ہے اور کافر تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مؤید ہونے کے مقام سے بہت دور ہوتا ہے.نتیجہ یہ ہوا کہ باوجود اس کے کہ وہ یہ کہتے ہوئے گئے کہ آج ہم میدان جنگ میں اپنی بہادری دکھائیں گے اور بتلائیں گے کہ جرات کسے کہتے ہیں.ان بہادروں نے یہ کیا کہ جب ثقیف اور ہوازن کے تیراندازوں نے مسلمانوں کے لشکر پر تیروں کی بوچھاڑ ڈالی تو ان کے گھوڑے اور اونٹ وغیرہ رکنے لگے اور ڈر کر پیچھے کی طرف بھاگے.لازمی طور پر اس کا یہ نتیجہ تھا کہ مسلمانوں کی صفیں ٹوٹ جائیں چنانچہ تمام صفیں ٹوٹ گئیں.صحابہ کے اونٹ اور گھوڑے بھی ڈر کے مارے جنگ سے بھاگ نکلے اور میدان خالی ہونا شروع ہو گیا یہاں تک کہ صرف بارہ صحابہ رسول کریم اللہ کے پاس رہ گئے.اُس وقت دشمن کی تعداد چار ہزار کے قریب تھی اور وہ برابر تیراندازی میں مصروف تھا.صحابہ نے جب یہ حالت دیکھی تو انہوں نے رسول کریم سے عرض کیا کہ یا رَسُولَ اللہ ! اب ٹھرنے کا موقع نہیں.اور بعضوں نے تو رسول کریم کے گھوڑے کی باگ پکڑلی اور عرض کیا اب حضور کو آگے نہیں بڑھنا چاہیے.مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا مجھے چھوڑ دو.پھر آپ نے گھوڑے کو ایڑ لگاتے ہوئے میدان
خطبات محمود دشمن کی طرف بڑھایا.اور فرمایا ۲۶۵۰ أنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبُ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبُ له سال ۱۹۳۴ء میں خدا کا سچا نبی ہوں جس میں جھوٹ نہیں.مگر چونکہ یہ خیال پیدا ہو سکتا تھا کہ چار ہزار کی تعداد میں دشمن سامنے ہے اور وہ برابر تیراندازی میں مصروف ہے، صرف بارہ آدمی رسول کریم کے ارد گرد رہ جاتے ہیں اور وہ آپ سے عرض کرتے ہیں کہ اب آگے بڑھتا مناسب نہیں مگر باوجود اس کے آپ بڑھتے چلے جارہے ہیں تو ممکن ہے آپ میں انسانیت سے بالا کوئی بات ہو اس لئے فرمایا - اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبُ - میرے اندر کوئی خدائی طاقتیں نہیں میں تو صرف عبد المطلب کا بیٹا ہوں.اُس وقت جب صرف باره آدمی رسول کریم کے پاس رہ گئے آپ نے حضرت عباس کو بلایا.ان کی آواز بہت بلند تھی.جب وہ آگئے تو آپ نے فرمایا.اے عباس! بلند آواز سے پکارو کہ اے انصار! خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے.یہ وقت تھا جس میں صحابہ کو عبودیت کے اظہار کا موقع ملا کیونکہ لشکر منتشر ہو چکا تھا اور افراد پراگندہ ہو چکے تھے، اونٹ اور گھوڑے اور دوسرے جانور بھاگے چلے جارہے تھے.اور اس قسم کا ان پر خوف طاری تھا کہ وہ واپس لوٹنے کیلئے تیار نہ تھے.ایسے نازک موقع پر جبکہ منتشر شدہ لشکر کا دوبارہ جمع ہونا بظاہر ناممکن اور محال نظر آتا تھا.جب حضرت عباس نے آواز دی کہ اے انصار! خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے تو خدا کے رسول کی آواز سنتے ہی صحابہ کھڑے ہو گئے.ایک صحابی کی روایت ہے کہ اُس وقت لشکر میں اس قسم کا تہلکہ مچا ہوا تھا کہ ہم اپنے گھوڑوں کو لوٹاتے مگر وہ پیچھے نہ کوئے.ہم باگیں کھینچتے اور پورے زور سے کھینچتے یہاں تک کہ جانور کا سر اُن کی دُم سے جاملتا.مگر باوجود اس کے جب لگام ذرا ڈھیلی ہوتی، وہ آگے کو بھاگ پڑتے.اس صحابی کا بیان ہے.جب ہمیں یہ آواز سنائی دی کہ اے انصار! خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے تو ہمیں یوں معلوم ہوا کہ ہم دنیا میں نہیں بلکہ مرچکے ہیں اور میدانِ حشر میں کھڑے ہیں اور صور اسرافیل پھونکا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ اے مردو! ہمارے پاس آجاؤ.یہ آواز سنتے ہی ہم میں ایک نیا جذبہ اور نیا رنگ پیدا ہو گیا.جو لوگ اپنے اونٹوں اور گھوڑں کو واپس لوٹا سکے، انہوں نے واپس لوٹا کر اور جنہوں نے یہ دیکھا کہ ان کی سواریاں مڑنے کیلئے تیار نہیں تو سواریوں کی گردنیں اُڑا کر لبیک کہتے ہوئے اس آواز پر جمع ہو گئے اور چند منٹ کے اندر اندر ہی میدانِ جنگ صحابہ سے بھر گیا ہے
خطبات محمود 144, سال ۱۹۳۴۲ء یہ وہ عبودیت ہے جس کا صحابہ نے اظہار کیا کہ جس وقت خدا تعالیٰ کے رسول کی آواز سنائی دی وہ فوراً واپس لوٹ پڑے.اور اگر کسی کا اونٹ یا گھوڑا نہیں لوٹا تو اس نے اس کی گردن کاٹ دی.یہی چیز بتاتی ہے کہ عبد حقیقی وہی ہے جو خدا اور اس کے رسول کی آواز سن کر فوراً اس کے پیچھے چل پڑے.ورنہ اگر آواز آتی رہتی ہے مگر وہ اس کی پرواہ نہیں کرتا تو وہ عبد کہلانے کا مستحق نہیں ہو سکتا.دنیا میں بھی دیکھ لو وہی ملازم قابل قدر سمجھا جاتا ہے جو اپنے آقا کی فرمانبرداری کرتا اور اس کی آواز کو سن کر اس پر عمل کرتا ہے ورنہ اگر کوئی فرمانبرداری نہ کرے تو وہ آقا کی نظروں سے گر جاتا ہے.پس حقیقی عبودیت پیدا کرنا ہمارا کام ہے.جب تک ہم اپنے اندر یہ والہیت اور قربانی کی روح نہیں پاتے کہ خدا کی آواز سن کر اس کے پیچھے چل پڑیں.اور چاہے تصنع سے ہی کام کریں مگر حکم کو بجالائیں اُس وقت تک ہمیں اپنی پیدائش کا مقصد بھی حاصل نہیں ہو سکتا.اول تو ہماری یہی خواہش ہونی چاہیئے کہ ہم ولی اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے احکام کو بجالائیں اور اس کے فرائض کی بجا آوری میں کسی قسم کی تنگی یا کبیدگی محسوس نہ کریں لیکن اگر ایک وقت یہ درجہ حاصل نہیں ہوتا تو انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ تصنع ہی سے فرائض سرانجام دے.آہستہ آہستہ وہ مقام بھی حاصل ہو جائے گا جب دلی بشاشت کے ساتھ امور سرزد ہوں گے اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص یہ سمجھے کہ دعا کے وقت حقیقی تفریع اس میں پیدا نہیں ہوتا تو وہ مصنوعی طور پر رونے کی کوشش کرے اور اگر وہ ایسا کرے گا تو اس کے نتیجہ میں حقیقی رفت بھی پیدا ہو جائے گی.پس اگر کسی میں واقعی لکھیت نہیں تو وہ مصنوعی رنگ میں اسے پیدا کرنے کی کوشش کرے اور جس وقت نیکی کیلئے کوئی آواز آئے اس پر عمل کرے.پھر سچ مچ اس میں حقیقت بھی پیدا ہو جائے گی.پس سب سے پہلے عبودیت پیدا کرو اور اگر ایک وقت عبودیت نہیں تو اور تصنع سے ہی نیکی کے کام کرو.یہاں تک کہ حقیقی عبودیت پیدا ہو جائے.یہ چیز ہے جس کے حصول کی طرف میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں تبلیغ بھی اسی خدائی آواز میں شامل ہے اور اس کیلئے بھی ایک جنون اور عشق کی ضرورت ہے.جب تک جنون نہ ہو، عشق اور والہیت نہ ہو، اُس وقت تک اس پہلو میں انسان کامیاب نہیں ہو سکتا.یاد رکھو دنیا میں کبھی دلیل اور عقل نے اصلاح نہیں کی جب بھی دنیا کی اصلاح ہوئی، عشق سے ہوئی.انسانی حالتوں
خطبات محمود 142 سیال ۱۹۳۴ء.میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ عشق و محبت سے بعض دفعہ انسان وہ کچھ کرجاتا ہے جو دوسری صورتوں میں ہرگز نہیں کر سکتا.ایک عورت کے متعلق مشہور ہے کہ اس کا بچہ عقاب لے گیا اور ایک پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھ گیا.جب اس عورت کو معلوم ہوا تو وہ دیوانہ وار دوڑی اور اس پہاڑ پر چڑھ گئی.چوٹی پر پہنچ کر جب اس نے بچہ کو لے لیا اور اس کے ہوش وحواس ٹھکانے آئے تو اس نے چلانا شروع کر دیا کہ مجھے کسی طرح نیچے اُتارا جائے حالانکہ چڑھنا مشکل ہوتا ہے اور اُترنا آسان مگر اس کیلئے دشوار گزار پہاڑی پر چڑھنا آسان ہو گیا اور اترنا مشکل.آخر لوگوں نے بڑی مشکلوں سے اسے نیچے اُتارا.جب دنیا کی چھوٹی چھوٹی محبتیں اس قسم کا تغیر کر دیتی ہیں کہ انہیں دیکھ کر حیرت آتی ہے تو اگر اللہ تعالیٰ کا عشق ہمارے دلوں میں پیدا ہو جائے تو کیوں اس سے دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا نہیں کیا جاسکتا.پس اصل چیز جس کے ساتھ دنیا کے مردہ جسم میں زندگی کی روح ڈالی جاسکتی ہے اور جس سے تغیر عظیم پیدا کیا جاسکتا ہے وہ عشق اور محبت الہی ہے.یہی پیدا کرنے والی چیز ہے اور جب یہ پیدا ہو جائے تو پھر نصیحتوں کی ضرورت نہیں رہتی.کون ماں کو یہ نصیحت کیا کرتا ہے کہ جب تیرا بچہ بیمار ہو تو اس کی خبر گیری کیا کر، بھوگ لگے تو اسے دودھ پلایا کر گندہ ہو جائے تو اسے نہلایا کر.ہر ماں یہ کام کرتی ہے مگر اس لئے نہیں کہ کوئی اسے کہتا ہے بلکہ اس لئے کہ اس کے دل میں بچہ کی محبت پیدا ہو جاتی ہے اور محبت خود بخود تمام کام کراتی چلی جاتی ہے.پیدا میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ سچا عبد بننے کی کوشش کرے اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں پیدا کرے، یہاں تک کہ محبت الہی ہر چیز پر غالب آجائے.جب محبتِ الہی کا انسانی دل پر غلبہ ہو جائے تو پھر تقویٰ بھی پیدا ہو جاتا ہے، صفائی قلب بھی پیدا ہو جاتی ہے، رفت اور گداز بھی پیدا ہو جاتا ہے، تبدیلی اعمال بھی پیدا ہو جاتی ہے، ذہن میں بھی صفائی آجاتی ہے، عقل میں بھی تیزی آجاتی ہے اور پھر انسان کی ہمت بلند حوصلہ وسیع اور ارادے پختہ ہو جاتے ہیں.اور اگر عشق نہ ہو تو ایسا انسان نست بیل کی طرح ہوتا ہے کہ جب تک اسے چابک لگتا رہے، وہ چلتا رہتا ہے اور جب چابک مارنا چھوڑ دو تو وہ ٹھہر جاتا ہے.ایسے بیل کو کون زمیندار پسند کرتا ہے.اسی طرح اس بندے کو بھی اللہ تعالی پسند نہیں کرتا جسے نصیحت ہوتی رہے تو کام کرتا رہے اور جب ذرا سی دیر کیلئے یاد دہانی ترک کر دی جائے تو وہ کام کاج چھوڑ کر بیٹھ جائے.ایسے انسان کو نہ خود فائدہ ہوتا ہے اور نہ اس کا آقا ہی اس پر خوش ہوتا ہے کیونکہ
خطبات محمود ۱۶۸ سال ۱۹۳۴ء حقیقی تعلق وہی ہے جس میں یاد دہانی کی ضرورت نہ ہو اور انسان برابر کام کرتا چلا جائے.یہ چیز ہے جسے پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے اور یہی چیز ہے جس کے ذریعہ دنیا میں نیک تغیر پیدا کیا جاسکتا ہے.الذريت: ۵۷ الفضل ۷ - جون ۱۹۳۴ء) که بخاری کتاب المغازى باب قول الله تعالى " ويوم حنين اذ اعجبتكم كثر تكم" + مسلم كتاب الجهاد والسير باب في غزوة حنين + سيرة ابن هشام الجزء الرابع صفحه ۲۶ دار الجلیل بیروت ۱۹۸۷ء
خطبات محمود 149 مومن کو ہمیشہ عقل و فکر اور شعور سے کام لینا چاہیئے فرموده ۸ - جون ۱۹۳۴ء) سال ۱۹۳۴ء ہے.تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- ایمان اور عقل و فکر اور شعور، یہ ایسی لازم و ملزوم باتیں ہیں کہ انہیں ایک دوسرے سے مجدا کیا ہی نہیں جاسکتا.ایمان کے ساتھ ہی انسان کو عقل اور شعور و فکر کا ایسا درجہ حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ درجہ دوسروں کو نہیں حاصل ہو سکتا کیونکہ عقل و فکر اور شعور وہ قوتیں ہیں جو اپنی ہدایت اور روشنی کیلئے نور کی محتاج ہیں اور یہ نور ایمان سے وابستہ ہوتا فطرتِ صحیحہ کے ساتھ بھی بیشک اس کا تعلق ہوتا ہے اور اس لئے کافر بھی اس سے حصہ پاتے ہیں مگر مومن ضرور حصہ پاتے ہیں.ممکن ہے ایک شخص کافر ہو مگر ساتھ ہی عقل وشعور اور فکر سے کام لینے والا ہو لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ ایک کافر ہو اور عظمند نہ ہو، شعور اور فکر سے کام لینے والا نہ ہو لیکن یہ ممکن نہیں کہ سچا مومن ہو اور عظمند، صاحب شعور اور صاحب فکر نہ ہو..کس ایمان کے ساتھ شعور اور فکر اور عقل اور تفقہ کو ایک گہری وابستگی ہے.ہے.گو نہیں کہہ سکتے کہ ایمان عقل اور شعور کا نام ہے لیکن یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ چیزیں ایمان سے جُدا ہیں.یہی وجہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ انبیاء مبعوث کرتا ہے تو ان کے ذریعہ جو جماعتیں قائم ہوتی ہیں، وہ ہر میدان میں دوسروں سے آگے بڑھ جاتی ہیں کیونکہ ایمان کے ساتھ ہی خاص عقل پیدا ہوتی ہے.پھر اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو ایسے مربی عطا کرتا ہے
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء یعنی پہلے انبیاء اور بعد میں خلفاء جو ان کی تربیت کرتے ہیں لیکن اگر ایمان کمزور ہو اور پھر انسان تربیت کی بھی پرواہ نہ کرے تو ظاہری ایمان دار کہلانے سے بجائے کسی فائدہ کے عقل اور بھی کوتاہ ہو جاتی ہے.قرآن کریم میں پڑھ کر دیکھو کس طرح بار بار عقل سے کام لینے کا حکم ہے.بار بار آتا ہے کہ تم تفقہ نہیں کرتے کیوں شعور سے کام نہیں لیتے کیوں عقل نہیں کرتے.اس کی وجہ یہی ہے کہ بغیر عقل اور فکر اور شعور کے انسان پوری طرح ایمان سے بھی کام نہیں لے سکتا.ایمان مغز ہے اور یہ چھلکا ایمان دودھ ہے اور یہ پیالہ.کوئی دودھ بغیر پیالہ کے اور کوئی مغز بغیر چھلکا کے نہیں رہ سکتا.ہر مغز کا ایک چھلکا ہوتا ہے.بادام کو ہی دیکھ لو اس کے اوپر ہے' کتنا سخت چھلکا ہوتا ہے.پھر اندر سے جو مغز نکلتا ہے.اس پر ایک باریک سا چھلکا ہوتا اس کے نیچے مغز نکلتا ہے.پھر اس میں سے بھی مغز اس کا رس ہوتا ہے.اور باقی فضلہ، اسی طرح یہ بات چلتی جاتی ہے.میں پہلے بھی دوستوں کو توجہ دلاتا رہا ہوں کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر مومن کو غور کرنا چاہیے.کئی سال ہوئے چھ سات سال بلکہ اس سے بھی زیادہ غالباً ۲۴-۱۹۲۵ء کا واقعہ ہے کہ میں نے دوستوں کو توجہ دلائی تھی کہ رسول کریم ﷺ نے تاکید فرمائی ہے که دروازه پر بار بار دستک نہیں دینی چاہیئے اور باہر نکلنے کا انتظار کرنا چاہیئے اے.مگر بعض لوگ اس کی پرواہ نہیں کرتے اور بار بار دستک دیتے یا آوازیں دیتے ہیں.اُن دنوں میں گول کمرہ میں بیٹھتا تھا.بعض اوقات کسی ضروری کام میں مصروف ہوتا کہ جھٹ آکر کوئی دستک دے دیتا اور اس طرح کام میں حرج ہوتا.پھر میں نے کئی بار سمجھایا ہے کہ رقعہ پڑھنے پر زیادہ وقت خرچ ہوتا ہے، اس لئے زبانی بات بتادینی چاہئیے اس طرح کام جلد ہو جاتا ہے.اور ایسے وقت میں کہ حرج نہ ہو مثلاً مسجد میں میں جب آؤں جاؤں یا نمازوں کے بعد بیٹھوں تو دعا کیلئے کہا جاسکتا ہے لیکن اگر پچاس ساٹھ رقعے دے دیئے جائیں تو انہیں پڑھنے میں گھنٹہ پون گھنٹہ صرف ہو جائے گا.یا مثلاً مصافحہ ہے بعض لوگ پانچوں وقت مسجد میں نماز پڑھتے ہیں اور پانچوں وقت ہی قطار باندھ کر مصافحہ کیلئے کھڑے ہو جاتے ہیں.حالانکہ مصافحہ کے معنی ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ جب کوئی شخص باہر سے آئے یا باہر جائے یا دیر سے ملے تو مصافحہ کر لیا جائے روزانہ ہی پانچ بار بے تحاشہ مصافحہ کرتے چلے جانا بے معنی بات ہے.یہ طریق نہ سنت سے ثابت ہے اور نہ عقل ہے.یہ محض وقت ضائع کرنے والی بات ہے.قادیان کی آبادی اب
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء بہت وسیع ہو چکی ہے اس لئے جو لوگ محلوں میں رہتے ہیں، ان میں سے کئی پانچ چھ دن کے بعد مجھ سے ملتے ہیں.جمعہ کے روز یا کسی اور دن جو انہوں نے اس غرض کیلئے مقرر کیا ہوتا ہے ان کا اپنے آپ کو روشناس کرانے اور اپنے آپ کو یاد دلانے کیلئے مصافحہ کرنا ایک معقول بات ہے.یا پھر باہر جانے یا باہر سے آنے والوں کیلئے.یا میرے جانے یا آنے پر مصافحہ کیا جاسکتا ہے.مگر پانچ وقت ہی مسجد میں ہر روز مصافحہ کرنا کسی سنت سے ثابت نہیں.منہ سے السَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہنا تو مسنون ہے.مگر یہ مصافحہ سوائے ضیاع وقت کے کوئی فائدہ نہیں دے سکتا.پھر اس میں بعض دفعہ روشناس کرانے والی بات بھی نہیں ہوتی.بعض دفعہ بغل کے نیچے کوئی ہاتھ نمودار ہوتا ہے.اور بعض دفعہ میں آگے ہوتا ہوں اور کوئی پیچھے سے میرے ہاتھ کو مروڑ رہا ہوتا ہے اور میں قیاس سے سمجھتا ہوں کہ کوئی مصافحہ کرنا چاہتا ہے.پھر میں نے کئی بار دیکھا ہے بعض لوگ میری پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے ہیں.ہم نے تو بزرگوں سے یہ سنا ہے کہ بڑے چھوٹوں کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے ہیں اس کی غرض برکت دینا ہوتی ہے لیکن بچوں کا باپ کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرنا یا مریدوں کا امام کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرنا بالکل عجیب بات ہے.اسی طرح میں نے کئی دوستوں کو دیکھا ہے اور توجہ بھی دلائی ہے کہ وہ دبانے بیٹھ جاتے ہیں.حالانکہ دیگر فنون کی طرح دبانا بھی ایک فن ہے اور ہر شخص اسے نہیں جانتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو میں نے دیکھا ہے کہ آپ بعض دفعہ دبانے والوں کی طرف سے تکلیف پہنچنے کی وجہ سے اُٹھ کر چلے جاتے.کوئی ایسا دبانے والا بیٹھ جاتا کہ آپ کو بھجلی ہونے لگتی.آپ طبیعت کی شرم کی وجہ سے کہہ نہ سکتے کہ ایسا نہ کرو اور اُٹھ کر اندر تشریف لے جاتے.جتنے لوگ دماغی کام کرنے والے ہوتے ہیں ان کی اعصابی حسّ بہت تیز ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کھجلی پیدا کرنے والی چیز برداشت نہ کرسکتے تھے.میرا بھی یہی حال ہے.پھر میری یہ حالت ہے کہ اگر میرے بدن پر ہاتھ رکھ دیا جائے تو میری حالت ناقابل برداشت ہو جاتی ہے اور دم گھٹنے لگتا ہے.ایسے موقع پر میں اکثر چلا جاتا ہوں.یا اگر کوئی ضروری کام ہو یا بات ہو رہی ہو تو اپنے نفس پر جبر کر کے منع کر دیتا ہوں.وہ تو برکت حاصل کرنے کیلئے ایسا کرتے ہیں مگر مجھے گدگدی اور کھجلی ہوتی ہے کہ طبیعت میں سخت انقباض پیدا ہوتا ہے.پھر کئی لوگ ہیں کہ وہ دبانے لگتے ہیں مگر دو چار بار دبا کر پھر کمر پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں.حالانکہ یہ تو برابر کے دوست کیلئے بھی معیوب بات ہے چہ جائیکہ
خطبات محمود ۱۷۲ سال ۱۹۳۳ امام جماعت کیلئے ہو.ہماری مجالس سے باہر غیر احمدی بلکہ غیر مسلم بھی آکر بیٹھتے ہیں اور عام طور پر ہماری جماعت کو مہذب اور شائستہ سمجھا جاتا ہے.ایسی حالت دیکھ کر ان لوگوں پر کیا اثر ہوتا ہوگا.پھر انسان کو خود بھی عقل سے کام لینا چاہیئے.بعض اوقات میں نے دیکھا ہے بیعت ہونے لگتی ہے اگر تو اس میں کوئی ایسی چیز ہو جو غیر معروف ہو کوئی حدیث ہو کہ پتہ نہ لگ سکے کس طرح کرنی چاہیے ، تو ایک بات بھی ہے لیکن قرآن کریم میں صراحت ہے کہ بیعت ہاتھ سے کی جاتی ہے ہے.لیکن بعض لوگ بیعت کے وقت پاؤں پر ہاتھ رکھ دیتے ہیں.خلیفہ کی بیعت دراصل اس کی نہیں بلکہ مامور کی بیعت ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے مامور کے ہاتھ کوکی اپنا دایاں ہاتھ قرار دیا ہے اور ظاہر ہے کہ جسے خدا کا ہاتھ ہونے کا اعزازی مقام عطا کیا گیا ہو اس کا قائمقام پاؤں کو سمجھ لینا کتنی بڑی ہتک ہے.یہ تو ٹھیک ہے کہ پیارے کی ہر چیز پیاری ہوتی ہے لیکن پھر بھی ہر چیز کا اپنا مقام ہے.سر اپنی جگہ ہے اور پیر اپنی جگہ.پھر بیعت کے بعض دوست پیٹھ کی طرف اگر بیٹھ جاتے ہیں.اور بغل کے نیچے سے یا اوپر کی طرف سے ہاتھ نکالتے ہیں اس وقت کا نظارہ بیعت کا نظارہ نہیں معلوم ہوتا بلکہ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے ایک ماہی گیر جال کے اندر ہاتھ ڈال کر مچھلی نکال رہا ہے.مجھے اللہ تعالیٰ نے ذکاوت حس دی ہے اور اسی کے مطابق میں سمجھتا ہوں کہ ہر شخص کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ میں کیا کر رہا ہوں اور میں تو سمجھ ہی نہیں سکتا کہ ایک مومن کس طرح سوچے سمجھے بغیر بیعت کے وقت پیٹھ پر یا پیر پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ سکتا ہے.ہاتھ تو اس کے ہاتھ پر ہونا چاہیئے جس کی بیعت کی جارہی ہو یا اس کے ہاتھ پر جس کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں ہو.بیعت کرنے والے کے بازوؤں وغیرہ پر بھی ہاتھ رکھا جاسکتا ہے مگر یہ کیا کہ بیعت کرنے والے کی پیٹھ پر یا اس کے پیر پر ہاتھ رکھ دیا جائے.ہر انسان کو دیوانے کی ضرورت پیش آتی ہے اور ہر شخص جانتا ہے کہ دبانا کیا ہوتا ہے.دبانے میں کبھی دوران خون بند ہوتا ہے اور کبھی کھلتا ہے.اور بند ہونے کے بعد کھلنے پر تیزی سے چلنے لگتا ہے.اسی وجہ سے فالج کے مریض کو دبواتے ہیں تا خون کا دورہ تیز لیکن دبائے رکھنے سے خون کا دباؤ کم ہوتا ہے بلکہ وہ سُن ہو جاتا ہے.جیسے کمزور آدمی جس پہلو پر لیٹے وہ سُن ہو جاتا ہے اسی طرح ہاتھ رکھ دینے سے طاقت آنے اور آرام ملنے کی بجائے ضعف ہوتا ہے اور تکلیف پہنچتی ہے.پھر میں یہ بھی نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی شخص اتنی عقل نہ رکھتا ہو کہ وہ خیال کر سکے جب میں رقعہ بھیجوں گا تو ممکن ہے کوئی ضروری کام ہو.
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء کر رہے ہوں اور اس میں حرج ہو.جو بھی رقعہ لے کر آئے گا مجھے کام چھوڑ کر اس کی طرف یکھنا پڑے گا، رقعہ لینا پڑے گا اور اس طرح کام کا حرج ہوگا اور وقت ضائع ہو گا.اگر ہے کیفیت کبھی کبھی پیش آئے تو خیر لیکن یہاں تو یہ حالت ہے کہ سارا سارا دن بچوں کے ہاتھ رقعوں پر رکھتے چلے آتے ہیں حالانکہ اگر اس طرح بھیجنے کی بجائے اس بکس میں ڈال دیئے جائیں جو پرائیویٹ سیکرٹری کے دفتر میں اسی غرض سے لگا ہوا ہے تو بھی مجھے پہنچ جاتے ہیں.رقعے لینے کیلئے مجھے میں تمہیں بار اٹھنا پڑتا ہے.میں نے دیکھا ہے کچھ لکھنے بیٹھا ہوں، دو سطریں لکھی ہیں کہ کھٹ کھٹ ہوئی، اٹھ کر دروازہ کھولا تو ایک بچہ نے رقعہ دے دیا کہ فلاں صاحب نے دیا ہے.پھر دروازہ بند کرکے بیٹھا اور دو سطریں لکھیں کہ پھر کسی نے آکر کھٹکھٹانا شروع کر دیا اور لاکر رقعہ دے دیا.ایسے رقعوں کے متعلق میرا تجربہ ہے کہ ان میں سے ننانوے فیصدی ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے فوری طور پر بھیجنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی.مسجد میں وہی بات کہی جاسکتی ہے یا بکس میں رقعہ ڈالا جاسکتا ہے ننانوے فیصدی بھی نہیں ہزار میں سے نو سو ننانوے ایسے ہوتے ہیں اور ان میں سے شاید ایک ایسا ہو جس کے متعلق کہا جاسکے کہ جائز طور پر بھیجا گیا ہے.اور ایسے رقعوں کے متعلق میں نے کہا ہوا ہے کہ چاہے رات ہو یا دن میں جاگ رہا ہوں یا سوتا ہوں یا کوئی اور کام کرنے میں مصروف ہوں' ہر وقت مجھے پہنچائے جاسکتے ہیں اور ایسے موقع پر تو میں رقعہ بھیجنے والے کا ممنون ہوتا ہوں کہ میرے فرض کی طرف اس نے توجہ دلائی ہے.لیکن یہ رقعے جن کا میں نے ذکر کیا ہے، فرض کی ادائیگی کے رستہ میں روک ہوتے ہیں.ان میں سے فی ہزار نو سو ننانوے ایسے ہوتے ہیں ، جن میں دعا کی تحریک ہوتی ہے.ان کو بھلا بکس میں کیوں نہیں ڈالا جاسکتا.یا دوسرے وقت میں مجھے زبانی کیوں نہیں کہا جاسکتا یا اگر رقعہ ہی دینا ہو تو کیوں نہیں دیا جاسکتا.جو رقعے بکس میں ڈالے جاتے ہیں ان کو یا تو میں پڑھتا ہوں یا کسی کو دے دیتا ہوں کہ دیکھ کر لسٹ بناوے.اور ہر ایک کا نام اور غرض لکھ دے.بہر حال وہ مجھے پہنچ جاتے ہیں.اگرچہ میں نے بارہا کہا ہے کہ رقعوں سے زیادہ زبانی بات کرنی چاہیے اس سے بے تکلفی پیدا ہوتی ہے جو امام اور جماعت میں ہونی چاہیئے.یہاں کوئی بادشاہت تو نہیں یہ تو محبت و پیار کا تعلق ہے، سونٹے یا تلوار کا نہیں اور ایسے تعلق کیلئے بے تکلفی ضروری ہے اس لئے جب ملنے کا موقع ہو تو اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہ سکتے ہیں اور دعا کیلئے اطلاع دے سکتے ہیں.پہلے بعض لوگ مسائل بھی دعا
خطبات محمود ۱۷۴ سال ۱۹۳۴ء علیحدہ مل کر دریافت کیا کرتے تھے لیکن میں تسلیم کرتا ہوں کہ میری نصیحت کے بعد یہ بات اب کم ہو گئی ہے.اور سوالات عام طور پر مسجد میں پوچھ لئے جاتے ہیں گو اتنا نہیں جتنا علیحدگی میں پوچھتے تھے.پہلے تو یہ عام عادت تھی کہ کہتے ہم نے کوئی مسئلہ پوچھنا ہے علیحدہ وقت دیا جائے.حالانکہ میں نے بارہا کہا ہے کہ مسئلہ مجلس میں پوچھنا چاہیے تاکہ دوسروں کو بھی فائدہ ہو.مگر خیر یہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ گزشتہ نصیحت کے بعد اب اس میں کمی ہو گئی ہے لیکن آج کل مصافحوں اور رقعوں میں پھر زیادتی شروع ہو گئی ہے.مصافحہ کرنے والوں میں جنہیں میں پہچانتا ہوں اتنی فیصدی وہ لوگ ہوتے ہیں جو پانچوں نمازیں مسجد میں پڑھتے ہیں اور صرف ہیں فیصدی ایسے ہوتے ہیں جو باہر سے بطور مہمان آتے ہیں یا محلوں میں رہتے ہیں ایسے لوگوں کیلئے مصافحہ کرنا جائز بلکہ ضروری ہے تا شناخت رہے.مجھے ان کے اخلاص کا علم ہو اور معلوم ہو سکے کہ دین کی طرف ان کی کتنی توجہ ہے.مگر جن لوگوں کو پانچ، چار، تین یا بدرجہ اقل دو نمازیں مسجد مبارک میں پڑھنے کا موقع ملتا ہے، ان کیلئے ضروری نہیں کہ ہر بار مصافحہ کریں بلکہ بعض حالات میں ان کا مصافحہ تکلیف وہ ہوتا ہے اس لئے آج پھر دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ عقل و فکر اور شعور صرف ہمارا ہی حصہ ہے.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ چیزیں مومن کا ہی حصہ ہوتی ہیں.جو چیز دوسروں کو بہت بڑی محنت کوشش، جدوجهد ، تنگ و دو اور دوڑ دھوپ کے بعد حاصل ہوتی ہے وہ مومن کو بطور موہبتِ الہی حاصل ہوتی ہے.پس ہر کام جو کرنے لگو پہلے سوچو کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا پھر معلوم ہو جائے گا کہ کسی چیز میں کیا خوبیاں ہیں اور کیا بُرائیاں.اسلام نے جو قانون بتایا ہے وہ یہی ہے کہ جس کام کی بُرائیاں نیکیوں کے مقابلہ میں زیادہ ہوں، وہ نہ کرو.اسی اصل کے ماتحت دیکھ لینا چاہیے کہ جو کام کرنے لگے ہو، اس کا فائدہ کیا ہے.اور اگر اس طرح غور کر لیا جائے تو میں سمجھتا ہوں ان باتوں میں سے ایک بھی ایسی نہیں جو کی جائے.روزانہ بار بار مصافحہ کرنا، بچوں کے ہاتھ رقعے بھیجنا بیعت کے وقت پیٹھ پر یا پاؤں پر ہاتھ رکھنا یہ سب باتیں ایسی ہیں کہ غور کرنے سے انسان خود سمجھ سکتا ہے کہ یہ کرنے کی نہیں اور اس طرح ان غلطیوں سے اجتناب ہو سکتا ہے.میں نے پہلے بھی توجہ دلائی ہے اور اب پھر نصیحت کرتا ہوں کہ ان باتوں میں وقت ضائع نہ کیا کریں.مشایعت یا استقبال صحابہ سے ثابت ہے.یہ چیزیں محبت اور بعض حالات میں قومی وقار کو بڑھانے والی ہیں.لیکن جب کوئی مبلغ آتا جاتا یا میں باہر جاتا آتا ہوں تو ہمیشہ ایسے موقع
خطبات محمود ۱۷۵ سال ۱۹۳۴ء پر ایسی غلطیاں ہوتی ہیں جن کی اصلاح کی طرف منتظم توجہ نہیں کرتے.رستہ ایسا تنگ بناتے ہیں کہ دھکے پر دھکے پڑتے ہیں.مثلاً کل ہی جب میں آیا تو ہزار کے قریب لوگ ہوں گے.اور یہاں کون سا ایسا خطرہ ہے کہ کوئی شخص بم یا گولی چلا دے.مگر پھر بھی انتظامی لحاظ سے ایسی گھبراہٹ ٹپکتی تھی جو مضحکہ خیز تھی.میں نے دیکھا کہ انتظام کرنے والے لوگوں کے ساتھ درشتی کے ساتھ پیش آتے تھے جس طرح مجسٹریٹ مجرم سے پیش آتا ہے.وہ سینہ سے سینہ ملا کر کھڑے تھے ، رستہ کسی کو دیتے نہیں تھے جس کا نتیجہ یہ تھا کہ دھکے پڑتے تھے اور مجھے بھی ساتھ ہی تکلیف ہوتی تھی.میں نہیں سمجھ سکتا کہ اتنی گھبراہٹ کی کیا ضرورت ہے.گل اتنے آدمی تو نہیں تھے جتنے آج ہیں.پھر ہماری جماعت کا بیشتر حصہ ایسا ہے جو قانون کی پابندی کا عادی ہے.اگر انہیں سمجھا دیا جائے تو وہ بد نظمی پیدا نہیں کرتے لیکن انتظام بھی تو ایسا ہونا چاہیے کہ خواہ مخواہ تکلیف نہ ہو.جب کسی سے مصافحہ کا انتظام کرنا ہو تو کم سے کم تین گز چوڑی گلی ہونی چاہیئے.تنگ رستہ سے نظر آنا بھی محال ہوتا ہے.مثلاً گل میں نے دیکھا کہ بعض تنگ گلی میں سے گذرتے ہوئے مجھ سے بھی آگے بڑھ جاتے اور پھر یہی منتظم ان پر ہنستے حالانکہ اس کی وجہ جگہ کی تنگی ہے.جگہ کی تنگی کی وجہ سے مصافحہ کرنے والے کو دوگز آگے جاکر ہوش آتی ہے.اگر رستہ چوڑا ہو تو دُور سے ہی بآسانی نظر آسکتا ہے.پھر مجبور کیا جاتا ہے کہ ایک ایک کر کے گزرو.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ابتدائی.حصہ میں آدھا یا ۱/۴ منٹ دوسرے آدمی کے آنے تک ضائع ہو جاتا ہے اور ہر آدمی کے گزرنے کے بعد بھی تین چار سیکنڈ ضرور ضائع ہوتے ہیں.اگر تین تین چار چار جائیں تو کوئی حرج نہیں.ان میں سے کون سے ایسے لوگ آجائیں گے کہ جو پہچانے نہ جاسکیں.تو ہمارے ہر انتظام میں معقولیت ہونی چاہیئے.اور جو گڑ بڑ ایک بار ہو دوسری بار ہرگز نہ ہونی چاہیئے.رسول کریم ا نے فرمایا ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دو دفعہ نہیں کاٹا جاتا ہے.اس کا یہی مطلب ہے کہ مسلمان جو غلطی ایک دفعہ کرتا ہے دوسری دفعہ اس کا ارتکاب نہیں کرتا.لوگوں نے اس کے یہ معنی سمجھ لئے ہیں کہ دوسری بار دھوکا نہیں کھا سکتا.مگر یہاں عام لفظ ہے کہ ایک سوراخ سے دو دفعہ نہیں کاٹا جاسکتا.چاہے وہ علم کے متعلق ہو یا عرفان کے متعلق، دینی ہو یا دنیوی جب ایک دفعہ اس میں غلطی کرے تو دوسری دفعہ ضرور سنبھل جاتا ہے.پس اگر منتظم غور کریں تو اپنے انتظام کے نقائص انہیں معلوم ہو سکتے ہیں اور آتے
خطبات محمود 164 سال ۱۹۳۴ء وہ انہیں دور کرسکتے ہیں.مگر میں دیکھتا ہوں میں سال سے مصافحہ کے وقت یہ غلطی ہو رہی ہے لیکن ہر بار وہی نقص نظر آتا ہے اور جو غلطی ایک بار ہو جائے وہ دوسری بار بھی ضرور ہوگی.یہ باتیں بتاتی ہیں کہ ہمارے دوستوں میں غور و فکر کی عادت نہیں.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کیلئے ضروری ہے کہ ہر کام سے پہلے اس کے متعلق غور و فکر کرے اور جو غلطی معلوم ہو اسے پھر نہ ہونے دے.ایک ایک آدمی بھی ہر روز اس بات کو سمجھنے لگتا تو ہیں سال میں کئی ہزار آدمی سیکھ سکتے تھے اور پھر وہ لاکھوں کو ٹریننگ دے سکتے تھے.اس کے بعد میں دوستوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مولوی جلال الدین صاحب جو کھریپر ضلع فیروز پور کے رہنے والے تھے اور ملکانوں میں تبلیغ کیلئے مین پوری رہتے تھے، فوت ہو گئے ہیں.وہ پرانے اور نہایت مخلص احمدی تھے.میں دیر سے انہیں جانتا ہوں.یہ تو میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ حضرت سیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے زمانہ میں آئے یا بعد میں لیکن حضرت خلیفہ اول کے زمانہ سے میرے ان سے تعلقات تھے.میرا ستائیس سالہ تجربہ ہے کہ میں نے ان کے چہرہ پر کبھی اصامت کے آثار نہیں دیکھے، ہمیشہ خوش نظر آتے.کئی دفعہ وہ اپنے معاملات پیش کرتے.اور انہیں ایسا مشورہ دینا پڑتا جو ان کے خاندان کے خلاف ہوتا مگر وہ ہمیشہ خندہ پیشانی سے سنتے اور ہنتے ہوئے کہتے کہ اچھا یہ بات ہے اور کبھی کسی بات پر بُرا نہ مناتے.انہیں تبلیغ کا جنون تھا.مین پوری میں جو احمدی آتے بلکہ بعض اوقات وہاں سے غیراحمدی بھی آتے، وہ بتاتے کہ ان کے تقویٰ و طہارت کا اس علاقہ میں گہرا اثر ہے.جس طرح ان کی وفات ہوئی وہ بھی اپنے اندر شہادت کا رنگ رکھتی ہے.سخت گرمی کے دن ہیں وہ ایک جگہ تبلیغ کیلئے گئے اور یہ گوارا نہ کیا کہ تمام دن وہیں گزاریں.لوگوں نے بھی کہا کہ گرمی بہت ہے، یہی ٹھہر جائیں.لیکن انہوں نے جواب دیا کہ نہیں دوسری جگہ جاکر بھی تبلیغ کرنا ضروری ہے.چنانچہ چلے گئے اور رستہ میں سن سٹروک جسے ضَرْبَةُ الشَّمْسِ کہتے ہیں ہو گیا.اور بیہوشی میں کسی گردوارے کے سامنے جاگرے اور فوت ہو گئے.لوگوں نے پولیس والوں کو بلالیا.وہ بھی آپ کو پہچانتے تھے تو یہ موت بھی شہادت کی موت ہے کوئی وجہ نہیں کہ اگر دین کے معاملہ میں کوئی دشمن ماردے تو شہادت ہو لیکن اگر کوئی شخص خود دیانتداری کے ساتھ خدمت دین کرتا ہوا مر جائے تو وہ شہید نہ ہو.نماز کے بعد میں ان کا جنازہ پڑھاؤں گا دوست شریک ہوں.ان کے جنازہ کے متعلق کہنے کے علاوہ میں یہ بات کہنے کی ضرورت سمجھتا ہوں کہ اپنے
سال ۱۹۳۴ خطبات محمود 166 نوجوان مبلغین کو توجہ دلاؤں کہ وہ مرحوم سے سبق سیکھیں.ان میں بعض کے متعلق شکایتیں آتی ہیں کہ وہ کام چور ہیں.انہیں چاہیے کہ اپنے بزرگوں اور استادوں سے سبق سیکھیں.حافظ روشن علی صاحب مرحوم کو میں نے دیکھا ہے کہ وہ دین کیلئے اس طرح کام کرتے تھے جیسے گھڑی چلتی ہے اور کبھی تکان محسوس نہیں کرتے تھے.رات ہو یا دن کبھی کام سے جی نہ چراتے.اسی طرح پرانے مبلغوں میں سے مولوی غلام رسول صاحب راجیکی ہیں.ان کی صحت خراب رہتی ہے اور وہ اعصابی کمزوری میں مبتلاء ہیں.یہ ایسا مرض ہے کہ عام لوگ اس میں مبتلاء ہو کر کام ہی نہیں کرسکتے مگر وہ لگے رہتے ہیں حالانکہ کبھی سخت دورہ ہو جاتا ہے.بعض اوقات لقوہ وغیرہ بھی اس مرض کے نتیجہ میں ہو جاتا ہے مگر وہ قدرے افاقہ ہونے پر پھر کام میں لگ جاتے ہیں اسی طرح مرحوم کا نمونہ بھی بہت اچھا تھا.ایک اور صاحب ہماری جماعت میں مولوی غلام حسن صاحب لاہور کے تھے.انہیں کتابوں سے اتنا عشق تھا کہ کتابوں سے بڑھ کر ان کے نزدیک کسی چیز کی کوئی قیمت ہی نہ تھی.حضرت خلیفۃ المسیح الاول بہت کتابیں پڑھتے تھے مگر وہ فرماتے کتابیں پڑھنے کے لحاظ سے مولوی غلام حسن صاحب مجھ سے بھی بڑھے ہوئے ہیں اور اس لحاظ سے شاید ہندوستان بھر میں اس صدی میں ان کا کوئی ہمسر تھا.وہ بہت غریب تھے.حضرت خلیفۃ المسیح الاول فرمایا کرتے تھے.ایک دفعہ ان کی غربت کو دیکھ کر میں نے خیال کیا کہ ان کی کوئی خواہش پوری کر کے ثواب حاصل کروں.یہ سوچ کر میں نے پوچھا مولوی صاحب آپ اپنی کوئی خواہش بتائیے.تو کہنے لگے میری خواہش تو یہی ہے کہ چاروں طرف کتابوں کی دیواریں ہوں اور مجھے اندر ڈال دیا جائے.رات کو کوئی چراغ جلا کر پکڑا دیا کرے روٹی کی بھی مجھے ضرورت نہیں میں وہاں بیٹھا کتابیں پڑھتا رہوں اور جب وہ ختم ہو جائیں تو نکل آؤں.گویا وہ اُدھر گئے ہی نہیں جو حضرت خلیفہ اول کا منشاء تھا.وہ ایسے غریب آدمی تھے کہ سات سات وقت کے خاتے آتے مگر پھر بھی منہ سے کبھی کسی کو اپنی حالت نہ بتاتے.ہمیشہ ہشاش بشاش نظر آتے اور پھر اپنے انہماک میں ہی کھانے بیٹھتے تو سات سات آٹھ آٹھ آدمی کا کھانا کھا جاتے.میں چھوٹا تھا کہ بخار سے بیمار ہوا اور ڈاکٹر نے کہا شملہ بھیج دیا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے شملہ بھیج دیا.میں وہاں پہنچا مجھے شخص تو مولوی صاحب وہاں تھے.میرا ذکر سن کر ملنے آئے اور بتایا کہ ایک غیر احمدی کلرک مجھ عربی پڑھا کرتا تھا.اس کا دفتر گرمیوں میں شملہ آیا تو میں نے اس سے پوچھا کہ اب تو سبق رہ
محمود 12A, سال ۱۹۳۴ء جائے گا.اس نے کہا ہاں مگر کیا ہو سکتا ہے.مولوی صاحب کہنے لگے اگر میں شملہ آجاؤں تو پڑھا کرو گے؟ اس نے کہا ہاں ضرور پڑھوں گا.چنانچہ آپ اپنے خرچ پر شملہ آگئے محض اس خیال سے کہ انگریزی خوانوں میں عربی کا شوق پیدا ہو.اس وقت اُن کی عمر ستر برس کے قریب تھی مگر ادب اور عشق کا یہ حال تھا کہ میں جہاں جاتا برابر ساتھ جاتے.سیر کے وقت بھی ساتھ رہتے.میری عمر اُس وقت سترہ سال کے قریب تھی اور دوسرے دوست بھی جو سیر وغیرہ میں شریک ہوتے عام طور پر نوجوان تھے.سیر کے وقت دل چاہتا کہ آگے جائیں ، مگر اس خیال سے کہ مولوی صاحب بوڑھے ہیں واپس آجاتے.میں نے دوستوں سے کہا کہ سیر کو چپکے سے چلا کریں جب مولوی صاحب باہر ہوں.چنانچہ اگلے روز جب مولوی صاحب باہر تھے ، ہم سے دوسرے دروازے سے نکل گئے.مگر تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ دیکھا سامنے پہاڑ پر سے مولوی صاحب ڈنڈا ہاتھ میں پکڑے اور بڑے بڑے ڈگ بھرتے ہوئے آرہے ہیں.آتے ہی کہنے لگے واہ جی آپ لوگ مجھے چھوڑ آئے.ہم نے کہا ہم تو آپ کی تکلیف کے خیال سے چھوڑ آئے تھے.کہنے لگے بھلا یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صاحبزادے آئیں اور میں ہم رکاب نہ رہوں.تو یہ لوگ دن رات کام کرنے والے تھے اور حد درجہ کا تقویٰ اور اخلاص رکھتے تھے.ہمارے نوجوان مبلغوں کو بھی چاہیئے کہ ان لوگوں کی زندگیوں کو اپنے لئے خضر راہ بنائیں.اور علم حاصل کرنے اور تبلیغ کرنے میں ان کے نمونوں سے سبق سیکھیں.ان کے متعلق بعض اوقات شکایت آتی ہے کہ کام کے موقع پر تکان وغیرہ کا عذر کرتے ہیں حالانکہ جب دشمن حملہ آور ہو، اُس وقت کون کہا کرتا ہے کہ میں تھکا ہوا ہوں.انہیں چاہیے کہ جہاں تک ہو سکے محنت اور اخلاص سے کام کریں اور پھر کتابی علم پر بنیاد نہ رکھیں بلکہ تقویٰ اور تعلق باللہ پر بنیاد ہونی چاہیے.اصل علم وہی ہے جو تقویٰ سے حاصل ہو.میں نے لاہور میں جو ابھی لیکچر دیا، اس کے بعد کئی ہندو مسلمان ملنے آئے.وہ کہتے کہ ہمارے پاس اتنا وقت نہیں کہ اس قسم کے مضمون کی تیاری کر سکیں حالانکہ میں نے اسے صرف چند گھنٹوں میں تیار کیا تھا.مگر وہ سمجھتے تھے اس کیلئے مہینوں بلکہ سالوں کی ضرورت ہے.تو اللہ تعالی جو بات سمجھائے، وہ جلدی سمجھ میں آجاتی ہے.میں حافظ قرآن نہیں ہوں اور طبعاً حوالہ والی کوئی بات مجھے یاد نہیں رہتی.قرآن شریف کے ہزارہا مضامین میرے ذہن میں ہیں لیکن آیات سوائے سورۃ فاتحہ کے میں شاید نہ بتا سکوں کہ کس سورۃ کی ہیں.خواہ وہ ایسی
خطبات محمود 149 سال ۱۹۳۴ء سورتوں کی ہوں جو میں روزانہ پڑھتا ہوں.اس وجہ سے مجھے حافظوں کی یا کلید کی ضرورت ہوتی ہے.تو حوالوں کے متعلق میرا حافظہ بہت کمزور ہے لیکن جہاں کوئی بتانے والا نہ ہو وہاں مضمون رہیں.اللہ تعالیٰ تائید کرتا ہے.پانچ سات سو صفحات کی کتاب کو جہاں سے کھولا وہیں مطلوبہ سامنے آگیا.ابھی جو لیکچر میں نے دیا ہے اس کیلئے دنیوی علوم کے متعلق مجھے ایک چیز کی ضرورت تھی.اس کیلئے ایک کتاب تھی جو میں نے کبھی نہ دیکھی تھی لیکن جونہی کہ میں نے اسے کھولا معا وہی چیز میرے سامنے آگئی اور جب میں نے اپنے لیکچر میں اس کی طرف اشارہ کیا تو سننے والے معلوم نہیں کیا خیال کرتے ہوں گے کہ یہ بات کتنا عرصہ زیر غور رہی ہے.میرا یہ مطلب نہیں کہ ہمیشہ ایسا ہوتا ہے.بعض اوقات بڑی محنت کرنی پڑتی ہے لیکن اگر فوری ضرورت ہو تو اللہ تعالیٰ ایسا معجزانہ کام بھی کر دیتا ہے.پس ہمارے مبلغوں کو چاہیے کہ اللہ تعالٰی سے تعلقات مضبوط کریں اور بڑھاتے عام طور پر میں رسالوں وغیرہ میں مضامین پڑھتا رہتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے اکثر حوالوں کے پیچھے پڑے ہوئے نظر آتے ہیں.روحانی پہلو ان میں بہت کمزور ہوتا ہے.پرانی تفسیروں پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے.اس کے مقابلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ اول یا میرے ترجمہ کی طرف دھیان کم معلوم ہوتا ہے حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو علوم اور معارف دنیا کے سامنے پیش کئے، ان کے سامنے پہلی تفسیریں مُردہ ہیں.پس مولوی صاحب کے جنازہ کے علاوہ اپنے مبلغین اور دوسرے نوجوانوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ اللہ تعالی سے تعلق پیدا کریں.تبھی وہ دنیا میں ممتاز حیثیت قائم کرسکتے ہیں وگرنہ دنیوی سامان ہمارے مخالفوں کے پاس بہت زیادہ ہیں.الفضل ۱۴ - جون ۱۹۳۴ء) له بخاری کتاب الاستئذان باب التسليم والاستئذان ثلاثا الفتح: بخاری کتاب الادب باب لا يلدغ المؤمن من جحر مرتين
خطبات محمود ۲۱ صبر، صدق‘صوم اور صلوۃ کی پابندی اختیار کرو فرموده ۱۵ - جون ۱۹۳۴ء) سال ۱۹۳۴ء تشهد تعوز اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں نے کئی دفعہ جماعت کو ان فتنوں کے متعلق جو قادیان اور اس کے گردو نواح میں پیدا ہو رہے ہیں، توجہ دلائی ہے.اور وہ طریق عمل بتایا ہے جو اختیار کرنا چاہیے.لیکن پھر بھی یونکہ حالات بدلتے رہتے ہیں اور چونکہ انسانی طبائع بھی ان حالات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتیں ، اس لئے لوگوں کیلئے وہی بات جو در حقیقت پرانی ہوتی ہے، بدلے ہوئے حالات اور اپنی بدلی ہوئی طبیعت کے ماتحت نئی بن جاتی ہے اور وہ پھر آکر سوال کرتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا چو چاہیئے.اس وقت جو فتنہ انگیزی کے طریق اختیار کئے جارہے ہیں اور جس طرح بازاروں اور گلیوں میں احمدیوں کو دیکھ کر انہیں ستانے اور دکھ دینے کیلئے سلسلہ کے متعلق نہایت ہی ناپسندیدہ اور اشتعال انگیز الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں اور جس طرح سلسلہ کے افراد کے متعلق تکلیف دہ طعنہ زنی کی جاتی ہے اس میں شبہ نہیں کہ وہ عام حالات میں عام انسانوں کیلئے ناقابل برداشت اور حد سے بڑھی ہوئی ہے لیکن ہمارے لئے دیکھنے والی یہی بات نہیں کہ یہ اشتعال انگیزی عام حالات کے لحاظ سے عام انسانوں کیلئے حد سے بڑھ چکی ہے کیونکہ.ہم عام حالات میں پیدا نہیں ہوئے ہمیں خدا تعالیٰ نے خاص حالات میں پیدا کیا ہے.دنیا - ایک نہایت قیمتی چیز کھوئی گئی تھی، ایک متاع ضائع ہو گئی تھی اور ایک قیمتی چیز ہاتھوں ނ
خطبات محمود سال نکل چکی تھی اور وہ اخلاق فاضلہ ہیں.لوگ ایک چیز کو بھول گئے تھے، ان کے ذہنوں سے ایک بات اُتر گئی تھی اور وہ خدا تعالی پر توکل اور یقین ہے.یہ چیزیں دنیا کیلئے ضروری تھیں، اتنا ہی دنیا نے انہیں پس پشت ڈال دیا اور انہیں فراموش کر رکھا تھا تب خدا تعالیٰ کی غیرت جوش میں آئی اور اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس لئے مبعوث فرمایا کہ اس کھوئی ہوئی متاع کو اور اس فراموش شدہ چیز کو دنیا میں پھر واپس لائیں چنانچہ آپ نے مبعوث ہو کر دنیا میں پھر خدا پر یقین اور توکل قائم کیا.پھر اخلاق فاضلہ کی طرف لوگوں کو توجہ دلائی.پھر قربانی اور ایثار جن کے بغیر اخلاق فاضلہ کا حصول ناممکن ہے، اس کی اہمیت لوگوں پر ظاہر کی.دنیا کا عام دستور ایسے حالات میں یہ ہے کہ لوگ انبیاء کو بُرا بھلا کہتے اور ان کی تکذیب کرتے ہیں، ان سے لڑائی جھگڑا کرتے، لڑتے دکھ دیتے اور ہتک کے تمام ذرائع اپنے استعمال میں لاتے ہمیں خدا تعالیٰ نے غیر معمولی طور پر یقین اور ایمان نصیب کیا.جبکہ عام حالات یہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والوں کو دُکھ دیا جاتا اور ان کی تکذیب و تکفیر کی جاتی ہے.خدا تعالیٰ نے عام حالات کے خلاف ہمیں یہ توفیق دی کہ ہم خدا کے فرستادہ پر ایمان لائے آپ کو مانا اور آپ کے اوامر پر کاربند ہونے کیلئے اپنے آپ کو پیش کردیا، پھر جو صداقت آئی وہ بھی غیر معمولی طریق سے آئی ہے کیونکہ انبیاء کی بعثت معمولی طریق پر نہیں ہوتی.معمولی طریق تو یہ ہے کہ انسان غور کرتا فکر کرتا اور صداقت کی جستجو کر کے آخر اسے پالیتا ہے مگر الہام ہونا اور ایک نبی کا دنیا کی اصلاح کیلئے مبعوث کیا جانا ہدایت کا غیر معمولی طریق ہے جو غیر معمولی حالات کے پیدا ہونے پر کام میں لایا جاتا ہے.اسی طرح نبیوں کی شناخت بھی ایک غیر معمولی امر ہوتا ہے ورنہ عام حالات تو یہی ہوتے ہیں کہ ان کی تکذیب و تکفیر کی جاتی ہیں ہے.پس وہ پیغام الہی جو آج دنیا کیلئے آیا غیر معمولی ہے.اور ہمارا اس پیغام کو سن کر اسے تسلیم کرلینا اور اس پر عمل کرنے کیلئے تیار ہو جانا بھی غیر معمولی ہے اس لئے ہم پر دوسرے لوگوں کا قیاس کیونکر ہو سکتا ہے اور کیونکر کہا جاسکتا ہے جب ان حالات میں دوسرے لوگ اس قسم کے افعال پر اُتر آتے ہیں تو ہمیں بھی فلاں قسم کے افعال کرنے چاہئیں.جب خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے غیر معمولی قدرتیں ظاہر کی ہیں اور ہمیں غیر معمولی طور پر ایک نبی پر ایمان لانے کی توفیق عطا فرمائی ہے تو ہمارے باقی اعمال بھی معمولی آدمیوں کی طرح نہیں
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ ہو سکتے بلکہ وہ بھی اپنے دائرہ میں خاص اہمیت اور غیر معمولی حیثیت رکھتے ہیں.یاد رکھنا چاہیئے انبیاء کی جماعتیں غیر معمولی نہیں ہوتیں رسول کریم ال کے وقت میں جو لوگ پیدا ہوئے اور آپ پر ایمان لائے، قربانیاں انہوں نے بھی کیں اور بعد میں آنے والوں نے بھی کیں.بنی نوع انسان کی خدمت انہوں نے بھی کی اور دوسروں نے بھی کی لیکن کیا وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کی زندگی میں آپ پر ایمان لانے والا ادنیٰ سے ادنی آدمی بھی بعد میں آنے والوں پر ایک رنگ کی فضیلت رکھتا ہے.امت محمدیہ میں رسول کریم ﷺ کے بعد سینکڑوں اولیاء ایسے گذرے ہیں جو کئی صحابہ سے درجہ میں بلند تھے.مگر باوجود اس کے جب ان کے سامنے کسی صحابی کا نام آتا تو ان کے دلوں پر غیر معمولی کیفیت طاری ہو جاتی، ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے، ان کے چہروں کی حالت بدل جاتی اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ کسی بڑے بادشاہ کے سامنے کھڑے ہیں.اس کی کیا وجہ تھی کہ سید عبد القادر جیلانی ، شہاب الدین صاحب سهروردی اور معین الدین چشتی جیسے آدمی جنہوں نے دنیا کی ہدایت کیلئے بہت بڑے بڑے کام کئے ایک معمولی صحابی کے مقابلہ میں اپنے آپ کو گرا دیتے اور اپنے درجہ کو متنزل کردیتے اسی وجہ سے کہ رسول کریم اسلم کے صحابہ " غیر معمولی حالات میں پیدا ہوئے اور غیر معمولی طور پر اللہ تعالیٰ نے انہیں ایمان لانے کی توفیق عطا فرمائی.پس انبیاء کی جماعتیں غیر معمولی حالات میں گذرا کرتی ہیں اس لئے ہماری جماعت کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ گو عام قاعدہ یہی ہے کہ جب انسان کوئی اشتعال انگیز بات سنے تو اسے غصہ آجائے، عام قاعدہ یہی ہے کہ ایسے حالات میں بعض دفعہ خون خرابہ بھی ہو جائے مگر یہاں عام قاعدے کا سوال نہیں، دنیا دی گورنمنٹیں بھی ان حالات میں جب کسی قوم کے بزرگ اور پیشوا کو گالیاں دی جاتی ہوں اور لوگ صبر سے کام نہ لیتے ہوئے کسی کو قتل کردیں، تو یہ ثابت ہو جانے پر کہ دوسرے فریق کی طرف سے اشتعال دلایا گیا، چھوڑ دیتی ہیں مگر ہمیں یہ یاد نا چاہیے کہ ہمارے حالات غیر معمولی ہیں اور ہم نے صرف یہ نہیں دیکھنا کہ ہمارے فعل کا ہم پر یا دوسروں پر کیا اثر پڑتا ہے بلکہ ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ ہمارے اعمال کا اثر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سلسلہ اور آپ کی عزت و حرمت پر کیا پڑے گا.اگر اپنی ہی عزت کا سوال ہوتا اور اپنے ہی نام تک تمام اثر پہنچنے کا یقین ہوتا تو میں سمجھتا ہوں جن حالات میں سے ہمیں گزارا جارہا ہے ان کے ماتحت میں کبھی یہ نہ کہتا کہ خاموش رہو بلکہ میں
خطبات محمود IAP سال ۱۹۳۴ء اور کہتا کہ جاؤ اور اس فتنہ کے منانے کیلئے اپنی جانیں تک لڑا دو.مگر یہاں سوال اپنی عزت اور اپنے نفس کا نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود کی عزت کا سوال ہے.ہمیں جن لوگوں سے واسطہ پڑا ہے وہ اس قسم کے ہیں کہ دھوکا و فریب کرتے اور پھر بچے بنتے ہیں، ظلم کرتے اور مظلوم بنتے ہیں ، ابتداء کرتے ہیں مگر اپنی کارروائیوں کو مدافعانہ ظاہر کرتے ہیں ان حالات میں ہماری ظاہری کوششوں سے ہر قسم کی سچائی کے باوجود ہمیں بُرا نام ملتا ہے اور ہمیں نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ملتا ہے.پس جو چیز آپ لوگ اپنی ذات کیلئے کرسکتے ہیں میں کہتا ہوں وہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عزت کی حفاظت کیلئے نہیں کرنی چاہیئے.ہمارے اعمال تاریخ میں لکھے جائیں گے اس لئے ہمیں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے.رسول کریم ا نے مدافعانہ جنگیں کیں مگر دنیا چودہ سو سال سے برابر یہ کہتی چلی آرہی ہے کہ مسلمانوں نے تلوار کے زور سے اپنا مذہب پھیلایا یہی ہمارا حال ہے.ان کے کتنے ہی ظلم او تعدی سے تنگ آکر ہم ان سے لڑیں وہ جھٹ کہہ دیں گے مرزا صاحب کی جماعت ایسی اور آپ کے مرید ایسے ہیں.پس جو لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہم کیا کریں تب بھی میں انہیں یہی کہوں گا کہ صبر کریں اور اگر وہ تیسری دفعہ میرے پاس آئیں گے تو اُس وقت بھی میرا جواب یہی ہو گا کہ صبر کریں.ہاں ممکن ہے بعض لوگ میری اس نصیحت پر عمل نہ کر سکیں گو میں اسے ان کی خوبی کہنے کیلئے تیار نہیں بلکہ اسے ان کی کمزوری نفس پر محمول کروں گا لیکن یونکہ کمزور طبائع بھی موجود ہوتی ہیں اور وہ اشتعال انگیزی کے مقابلہ میں پورے صبر سے کام نہیں لے سکتیں، اس لئے میں ان سے یہ کہوں گا کہ اول تو انہیں بھی یہی چاہیے کہ وہ صبر سے کام لیں لیکن اگر کسی وقت وہ مدافعانہ طور پر لڑ پڑتے ہیں تو جہاں پہلا صاد صبر کا تھا وہاں انہیں دوسرا صاد اختیار کرنا پڑے گا جو صدق ہے.جو کچھ ہوا اُسے مت چھپاؤ بلکہ سچ سچ کہہ دو کہ اصل واقع یہ ہوا ہے.پس اول تو صبر کرو لیکن اگر کوئی شخص کسی وقت انتہائی طور پر اشتعال دلائے جانے پر صبر نہیں کر سکتا اور سلسلہ کی عزت کی حفاظت کیلئے اپنی کمزوری نفس کے نتیجہ میں لڑ پڑتا ہے تو پھر اسے سچ سچ کہہ دینا چاہیئے.اس کا فرض ہے کہ دلیری سے کہے میں نے یہ فعل ضرور کیا ہے اور اس لئے کیا ہے کہ فلاں نے سلسلہ کی ہتک کر کے مجھے سخت اشتعال دلایا یا بانی سلسلہ کو گالیاں دیں.پس اول تو میں یہی کہتا ہوں کہ صبر سے کام لو صبر سے کام لو، صبر سے کام لو لیکن اگر کوئی برداشت نہیں کر سکتا اور لڑ پڑتا ہے تو پھر میں کہوں گا
خطبات محمود ۱۸۴ صدق سے کام لے، صدق سے کام لے، صدق سے کام لے.قرآن کریم نے اس قسم کے حالات میں دو اور صاد بھی بتائے ہیں ان سے بھی کام لیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة له یعنی اے لوگو! صبر اور صلوٰۃ سے استعانت چاہو.پس ایسے لوگوں کو چاہیے کہ روزے رکھیں اور خدا تعالیٰ سے دعائیں کریں، ہے رات نمازیں پڑھیں اور خدا تعالیٰ سے دعائیں کریں کیونکہ خدا تعالیٰ کے سامنے جب انسان جھلکتا.تو اس کیلئے غیب سے سہولت کے سامان پیدا ہو جاتے ہیں.پہلے یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ ہمارے لئے اس وقت کیا کیا مشکلات ہیں.ہمارے لئے مشکلات یہ ہیں کہ ہمارے مقابل پر جھوٹ بولنے والا دشمن کھڑا ہے ، گورنمنٹ کے بعض حکام بھی اس کی پیٹھ بھرتے ہیں مگر کیا تم سمجھتے ہو ان لوگوں کی خدا تعالیٰ کے سامنے کوئی ہستی ہے.کتنا بڑے سے بڑا کوئی دشمن ہو اگر کو اسے قولنج کا درد ہو جائے یا ہیضہ کے کپڑے اس کے پیٹ میں گھس جائیں اور وہ ایک ہی رات میں چل بسے تو کیا گورنمنٹ انگریزی کے سارے ڈاکٹر مل کر بھی اسے زندہ کرسکتے ہیں.گورنمنٹ اپنی توپوں کے ساتھ توپوں کا مقابلہ کر سکتی ہے، بیٹڑوں کا بیڑوں کے ساتھ مقابلہ کر سکتی ہے مگر وہ ہیضہ کے کیڑوں اور طاعون کی گلٹیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی.پھر اللہ تعالی کی طرف سے بعض دفعہ یوں بھی عذاب نازل ہو جاتا ہے کہ افسر ناراض ہو جاتے اور ان پر ماتحت کی بددیانتی کھل جاتی ہے.بالکل ممکن ہے کہ ایسا ہی ہو جائے اور جس کھونٹے پر وہ ناچ رہے ہیں وہی کھونٹا ان کی رُسوائی کا موجب بن جائے.پس دنیا کی مخالفتیں کوئی چیز نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف بھی لوگوں نے سازشیں کیں اور قتل کے مقدمات دائر کئے مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ مخالفین کو اپنے مقاصد میں نامراد رکھا.ایسے ہی اقدام قتل کے ایک مقدمہ میں مولوی محمد حسین بٹالوی، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف عدالت میں گواہی دینے کیلئے آیا اور اس امید پر آیا کہ مرزا صاحب کو ہتھکڑی لگی ہوئی ہوگی یا ہتھکڑی اگر نہ لگی ہوگی تو عدالت میں ( نَعُوذُ باللهِ) ذلیل حالت میں کھڑے ہوں گے مگر باوجود اس کے کہ وہ انگریز ڈپٹی کمشنر جس کے سامنے مقدمہ پیش تھا، ہمارے سلسلہ کا سخت مخالف تھا اور اس نے ضلع میں تعینات ہوتے ہی کہا تھا کہ یہ شخص جو ہمارے یسوع مسیح کی ہتک کرتا ہے اب تک بچا ہوا ہے اسے سزا کیوں نہیں دی جاتی مگر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کے سامنے پیش ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ایسا تصرف کیا کہ آپ کی شکل دیکھتے ہی اس کا تبغض دور
خطبات محمود ۱۸۵ سال ۱۹۳۴ء ہو گیا اور اس نے اپنے پاس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹھنے کیلئے کرسی بچھادی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس پر بیٹھ گئے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو آیا ہی اسی لئے تھا کہ آپ کو ذلت کی حالت میں دیکھے، اس نے جب دیکھا کہ آپ کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں تو برداشت نہ کرتے ہوئے اس نے کپتان ڈگلس ڈپٹی کمشنر سے سوال کیا کہ مجھے بھی گری دی جائے.اس نے یہ خیال کیا کہ جب مجرم کیلئے کرسی بچھائی جاتی ہے تو گواہ کو کیوں کرسی نہیں ملے گی.مگر کپتان ڈگلس نے جب یہ بات سنی تو اسے سخت غصہ آیا اور اس نے محضبناک ہو کر کہا تجھے کرسی نہیں ملے گی.مولوی محمد حسین صاحب نے کہا میرے باپ کو لاٹ صاحب کے دربار میں کرسی ملا کرتی تھی، مجھے بھی کرسی دی جائے.میں اہلحدیث کا ایڈووکیٹ ہوں اور میرا حق ہے کہ مجھے کرسی ملے.تب کپتان ڈگلس نے کہا- تک تک مت کر پیچھے ہٹ اور سیدھا کھڑا ہو جا.اب بجائے اس کے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تذلیل دیکھتا خدا تعالی نے اسے ذلیل کر دیا.پھر یہ تو کمرہ کے اندر کا واقعہ تھا جب مولوی صاحب باہر نکلے تو لوگوں کو دکھانے کیلئے کہ گویا اندر بھی انہیں کرسی ملی ہے، برآمدے میں ایک کرسی پڑی تھی اس پر بیٹھ گئے لیکن چونکہ نوکر وہی کچھ کرتے ہیں جو وہ اپنے آقا کو کرتے دیکھتے ہیں.چپڑاسی نے جب دیکھا کہ مولوی صاحب کو اندر تو کرسی نہیں ملی اور اب برآمدے میں کرسی پر آبیٹھے ہیں.اسے خیال آیا کہ اگر صاحب بہادر نے دیکھ لیا تو وہ مجھ پر ناراض ہو گا.وہ دوڑا دوڑا آیا اور کہنے لگا آپ کو یہاں پر بیٹھنے کا حق نہیں، اُٹھ جائے.اس طرح باہر کے لوگوں نے بھی دیکھ لیا کہ مولوی صاحب کی عدالت میں کتنی عزت ہوئی.مولوی صاحب اس پر غصہ میں جل بھن کر آگے بڑھے تو کسی شخص نے زمین پر چادر بچھائی ہوئی تھی، اس پر بیٹھ گئے مگر اتفاق کی بات ہے چادر والا بھی جھٹ آپہنچا اور کہنے لگا میری چادر چھوڑ دو یہ تمہارے بیٹھنے سے پلید ہوتی ہے کیونکہ تم ایک مسلمان کے خلاف عیسائیوں کی طرف سے عدالت میں گواہی دینے آئے ہو.تو یاد رکھو اللہ تعالی کی طرف سے جب نصرت آتی ہے تو کوئی شخص اسے روک نہیں سکتا.پولیس کے افسر اور سپاہی کیا بڑے سے بڑے آدمی کی زندگی کا کوئی اعتبار نہیں اور ایک سیکنڈ میں اللہ تعالٰی دشمنوں کو ہلاک کر سکتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کے حضور جھکو اور اسی سے دعائیں کروں.ہاں مومنوں کیلئے ابتلاؤں کا آنا بھی مقدر ہوتا ہے.سو اگر صبر سے کام لو گے اور
خطبات محمود JAY سال ۱۹۳۴ء ہے دعائیں کروگے تو اللہ تعالیٰ ان ابتلاؤں کو دور کردے گا.ابتلاؤں کا آنا ایمان کی علامت ہوتی اور ان کی وجہ سے انسان بہت ہی ترقیات حاصل کرلیتا ہے.مگر پھر بھی چونکہ ابتلاؤں کی ہاتھ سے برداشت مشکل ہوتی ہے اس لئے یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ابتلاء آنے پر انسان خوش ہو بلکہ مومن کا کام یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے حضور جھکے اور اسی کے حضور گڑ گڑائے اور کسے کہ خدایا مجھ میں ابتلاؤں کے برداشت کی طاقت نہیں تو اپنے فضل سے انہیں دور فرمادے.اور گو ہمارا فرض ہے کہ ہم بہادری دکھائیں اور ابتلاؤں کے آنے پر صبر کریں.اور اگر صبر کا دامن کسی وقت چھوٹ جائے تو ہم سچائی سے کام لیں.مگر ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے دعائیں کریں کہ جو کچھ ہو رہا ہے اگر یہ تیری طرف سے ہے تو ہم کمزور بندے ہیں، ہم پر رحم فرما اور اگر یہ ابتلاء ہمارے گناہوں کی وجہ سے ہیں تو ہمارے گناہ بخش دے.یہ آپ لوگوں کا کام ہے جبتک آپ اس پر عمل نہیں کرتے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پسندیدہ نہیں ہو سکتے اور اگر آپ اس پر عمل کریں گے تو پھر آپ کو کسی سے خوف نہیں ہو سکتا نہ حکومتوں سے نہ رعایا ہے.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک عام مومن دو مخالفوں پر بھاری ہوتا ہے.اور اگر اس سے ترقی کرے تو ایک مومن دس پر بھاری ہوتا ہے.اور اگر اس سے بھی ترقی کرے.تو صحابہ کے طرز عمل سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے ایک ایک نے ہزار کا مقابلہ کیا ہے.ہماری جماعت مردم شماری کی رو سے پنجاب میں چھپن ہزار ہے گو یہ بالکل غلط ہے اور صرف اسی ضلع گورداسپور میں تمیں ہزار احمدی ہیں مگر فرض کرلو کہ یہ تعداد درست ہے اور فرض کرلو کہ باقی تمام ہندوستان میں ہماری جماعت کے ہیں ہزار افراد رہتے ہیں تب بھی یہ پچھتر چھتر ہزار آدمی بن جاتے ہیں اور اگر ایک احمدی سو کے مقابلہ میں بھی رکھا جائے تو ہم بچھپتر لاکھ کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور اگر ایک ہزار کے مقابل پر ہمارا ایک آدمی ہو تو ہم ساڑھے سات کروڑ کا مقابلہ کر سکتے ہیں.اتنی ہی تعداد دنیا کے تمام مسلمانوں کی ہے.پس سارے مسلمان مل کر بھی جسمانی طور پر ہمیں نقصان نہیں پہنچاسکتے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم ان پر بھاری ہیں.پھر آج کل تو جسمانی مقابلہ ہے ہی نہیں اس لئے اس لحاظ سے بھی ہمیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں.اس میں شبہ نہیں کہ گورنمنٹ کے بعض افسران کی پیٹھ ٹھونکتے ہیں مگر میرا تجربہ یہی ہے کہ گورنمنٹ کے افسروں میں سے اکثریت شرفاء کی ہے اور ان سے جب بھی اس قسم کی فتنہ انگیزیوں کا ذکر کیا جائے، وہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم ان سے -
خطبات محمود IAC سیال ۱۹۳۴ء.ہے بیزار ہیں.پس جن سے ہمیں خطرہ ہو سکتا ہے ان میں سے بھی دس میں سے ایک نکلے گا جو عمداً نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھتا ہو ورنہ دس میں سے تو اعلیٰ کیریکٹر کے ہوں گے.ممکن کبھی ان میں سے بھی کوئی مخالفت کی رو میں بہہ جائے مگر جلدی ہی ایسے لوگوں میں بیداری پیدا ہو جاتی ہے.یہی حال سکھوں اور ہندوؤں کا ہے.اکثریت ان میں شریفوں کی ہے.کبھی وہ مخالفت کی رو میں بہہ جائیں تو بہہ جائیں ورنہ دس میں سے تو شریف ہوتے ہیں.پس کتنے مخالف ہیں؟ جن کا تمہیں مقابلہ کرنا ہے افسروں میں سے گو بعض معمولی کیریکٹر کے ہوتے ہیں، بد اخلاق ہوتے ہیں اور انہیں دوسرے کو دکھ دینے میں مزا آتا ہے مگر اکثر ایسے ہوتے ہیں جو اپنے دل میں خدا کا خوف رکھتے ہیں.اگر دنیا میں شرارت ہی شرارت ہو اور نیکی بالکل مفقود ہو جائے تو خداتعالی دنیا کو قائم بھی نہ رکھے اسے مٹاڈالے.مگر یہ درست نہیں کہ دنیا میں نیکی کے مقابلہ میں شرارت زیادہ ہے.ہر انسان میں کچھ نہ کچھ نیکی کا بیج ہوتا ہے.گو بعض اسے مٹادیتے ہیں مگر اکثر اپنے دل میں اسے قائم رکھتے ہیں جو معمولی چھینٹے سے بھی نشو نما پانے لگ جاتے ہیں لیکن اگر یہ نہ بھی ہو، تب بھی افسر کیا اور ماتحت کیا، سب خدا تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں.اور اگر ہم خدا تعالی کی جماعت ہیں تو ہماری ذلتیں عزتوں میں بدل جائیں گی اور ہماری شکستیں فتح اور کامرانی کی صورت اختیار کرلیں گی.پس ہمیں خدا تعالیٰ پر توکل اور یقین رکھنا چاہیے.ایسے حالات میں شریعت نے ہمیں جو طریق بتائے ہیں وہ یہی ہیں کہ ہم صبر صدق، صوم اور صلوۃ سے کام لیں.یہ چار صاد ہیں جن کے ذریعہ انسان ہر ایک خطرہ سے محفوظ ہو جاتا ہے.اگر انسان انہیں اختیار کرلے تو دشمن یا تو دوست بن جاتا ہے یا اپنے مقاصد میں ناکام رہ کر ہلاک ہو جاتا ہے.پس وہ دوست جو مجھے سے آکر پوچھتے ہیں کہ ہم کیا کریں میری نصیحت انہیں یہی ہے کہ صبر سے کام لو اور اگر کبھی صبر کا دامن کسی کے ہاتھ سے چھٹ جائے تو پھر صدق سے کام لو.اسی طرح صوم وصلوٰۃ سے کام لو.روزے رکھو اور دعائیں کروں نمازیں پڑھو اور دعائیں کرو.تمہارا روزے رکھنا اور تمہارا اپنے دل میں درد پیدا کرنا اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرلے گا.تمہارا درد ایسا نہیں ہوگا کہ اسے دیکھ کر خدا تعالیٰ خاموش رہے بلکہ احادیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب مومن کے دل میں درد پیدا ہوتا ہے تو اس سے عرش الہی کانپ اٹھتا ہے اور وہ بس نہیں کرتا جب تک اپنے بندے کے غم کو دور نہیں کر دیتا.تم نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا کہ ایک بچہ روئے مگر اس کی ماں اسے دودھ نہ پلائے
خطبات محمود ۱۸۸ سال ۱۹۳۴ء چیخے اور اس کی طرف توجہ نہ کرنے.پھر تم کیوں خدا پر بدظنی کرتے ہو اور یہ سمجھتے ہو کہ اگر تم خدا تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری سے کام لو گے تو وہ تمہاری طرف توجہ نہیں کرے گا.تم اپنے دل میں درد پیدا کرو کہ اس کے نتیجہ میں خدا تعالی کی رحمت جوش میں آئے گی اور وہ نہیں رکے گا جب تک کہ تم خود نہ کہو گے کہ اے خدا! اب ہماری تسلی ہو گئی.الفضل ۲۱ - جون ۱۹۳۴ء) البقرة: ٤٦
خطبات محمود ۱۸۹ ۲۲ ایمان کے ساتھ اعمال کی اصلاح بھی ضروری ہے (فرموده ۲۹ - جون ۱۹۳۴ء) سال ۱۹۳۴ء تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں نے کئی دفعہ جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ صرف ایمان لے آنا کافی نہیں بلکہ ایمان کے موافق اعمال کو ڈھالنا بھی ضروری ہے.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کی مثال باغ کی سی ہے.انسانی اعمال اس کو سینچنے اور تروتازہ رکھنے کا موجب ہوتے ہیں.اگر درخت کو وقت پر پانی نہیں پہنچے گا تو خواہ وہ کتنا ہی قیمتی کیوں نہ ہو، خشک اور برباد ہو جائے گا.پس جب تک اعمال صحیحہ ساتھ نہ ہوں، ایمان سرسبز نہیں ہوتا.میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں ایسا ہے جس نے اب تک اس طرف توجہ نہیں کی.اور شاید وہ اس حقیقت کو سمجھتا ہی نہیں یا شاید یہ وجہ ہو کہ بعض دفعہ انسان خود دھوکا میں آجاتا ہے.وہ غلط اصول بناتا ہے اور ان کی روشنی میں تو کیا کہہ سکتے ہیں، ان کی ظلمت اور تاریکی میں کہیں کا کہیں بھٹکتا ہوا چلا جاتا ہے.اس کی مثال بالکل اس مکڑی کی سی ہوتی ہے جو اپنے گرد تانا تنتی ہے اور جال بناتی ہے.پھر وہی جال اس کی موت کا موجب ہو جاتا ہے اور اسی گھر میں وہ دم گھٹ کر ایک حصہ مرجاتی ہے.چند ایک اصول ایسے ہیں جن کو ہماری جماعت دنیا کے سامنے پیش کرتی ہے اور وہ قرآن کریم کے پیش کردہ اصول ہیں ان کا غلط مفہوم شاید بعض کی ٹھوکر کا موجب ہو.مثلاً ہم پیش کرتے ہیں کہ آپس میں ہمارا معالمہ برادرانہ اور بھائیوں والا ہے اور یہ کہ دنیا کی زینت
خطبات محمود 19.سال ۱۹۳۴ء ایک عارضی چیز ہے حقیقی زینت وہی ہے جو خدا کی طرف سے ملتی ہے اور حقیقی زندگی وہی ہے جو موت کے بعد حاصل ہوئی ہے.ممکن ہے ان دونوں اصول کا غلط مفہوم جو بعض لوگوں کی ٹھوکر کا موجب ہو.مجھے نہایت افسوس ہے کہ بعض افرادِ جماعت میں عملی دیانت کا ثبوت ن کم ملتا ہے.قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ مومن دوسروں سے زیادہ محنتی، زیادہ وفادار زیادہ جفاکش اور زیادہ لائق ہوتا ہے مگر بعض احمدیوں کی زندگی میں ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ وہ ہیں مومن زیادہ نکما زیادہ ناکارہ زیادہ کام چور اور زیادہ غافل ہوتا ہے.شاید بعض خیال کرتے ہوں کہ برادرانہ کام ہے، اس لئے اسے توجہ اور محنت سے کرنے کی کیا ضرورت ہے.یعنی بجائے اس کے کہ اپنے بھائی کا کام سمجھ کر اسے زیادہ کوشش اور زیادہ محنت سے کرتے وہ اس کے متعلق سخت لاپروائی کرتے ہیں.گویا برادری کے اچھے معنوں کا بُرا مطلب لے لیتے ہیں اور خیال کرلیتے ہیں کہ اپنے بھائی کا کام ہی ہے اگر خراب ہو گیا تو کیا کسی غیر کا تو نہیں ہے اور برادری کا یہ غلط مفہوم لے لیتے ہیں حالانکہ یہ خیال دل کی بیماری سے پیدا ہوتا ہے.مثلاً کسی نے معمار سے کوئی عمارت بنوائی ہے.اب اس اصول سے جو ہم پیش کرتے ہیں کہ دنیا کی زینت کوئی چیز نہیں، معمار اگر یہ خیال کرلے کہ یہ مکان کل ہی ٹوٹ جائے تو کیا حرج ہے، تو یہ ایک اعلیٰ درجہ کی تعلیم کے بُرے معنے ہوں گے.اسی طرح وہ اپنی بدی کو نیکی کا پیرایہ دے گا اور بہت سے لوگوں کی ٹھوکر کا موجب بن جائے گا حالانکہ حقیقی برادری کا اقتضاء حقیقی ہمدردی ہوتا ہے.قادیان کے متعلق مجھے شکایات پہنچتی رہتی ہیں کہ بعض پیشہ ور لوگ دیانت سے کام نہیں لیتے حالانکہ میں مختلف رنگوں میں نصیحت کرتا رہتا ہوں لیکن اسی دوران میں خود مجھے بھی ایک تجربہ اس کے متعلق ہو گیا.میں نے ایک مکان بنوایا.بعض احمدی معماروں نے میرے پاس شکایت کی کہ مکان بنوانے والوں نے غیر احمدیوں کو کام دے رکھا ہے حالانکہ ہم ان سے اچھا کر سکتے ہیں اور چونکہ میرا اصول یہی ہے کہ اگر احمدی کام کرنے والے مل سکیں تو انہیں کام دینا چاہیئے میں نے اس کی تحقیقات کرائی تو معلوم ہوا کہ ان کی شکایت نہیں.نوے فیصدی احمدی اور صرف دس فیصدی غیر احمدی تھے اور یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں.ہم نے کسی کا بائیکاٹ تو کر نہیں رکھا.ہر دیانتدار اور اچھا کام کرنے والے کو موقع دیتے ہیں.بہر حال میں نے ہدایت کی کہ آئندہ ان معترض لوگوں کو بھی موقع دیا جائے لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ ابھی وہ لوگ عمارت کا کام ختم کر کے نکلے بھی نہ تھے کہ اس کا پلستر گر گیا.اور
خطبات محمود 191 سال ۱۹۳۴ء ابھی اس پر تین ماہ نہ گزرے تھے کہ فرش چکنا چور ہو گیا جو ثبوت ہے اس امر کا کہ ان لوگوں نے دیانتداری سے کام نہ کیا تھا.وہ احمدیت کے جامہ سے غلط رنگ میں فائدہ اٹھانا چاہتے تھے اور جب انہوں نے میرے ساتھ ایسا کیا تو اوروں کے ساتھ کیا کچھ نہ کرتے ہوں گے اسی طرح ابھی ایک عزیز آئے، انہوں نے ایک قصہ سنایا.وہ ایک محکمہ کے انچارج ہیں.ان پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ احمدیوں کی بے جا طرفداری کرتے ہیں.حکومت نے اس الزام کی تحقیقات کرائی اور انہیں اس سے بری پایا.ادھر گورنمنٹ کی نظروں میں تو ان کا یہ حال ہوا کہ اعلیٰ کام تک ان کی شکایت پہنچی اور تحقیقات ہوئی اور دوسری طرف ایک احمدی جو ان کے وہاں جانے سے قبل موجود تھا اس کے متعلق انہوں نے سنایا کہ مجھے اس پر اسقدر اعتماد تھا کہ نماز کی امامت بھی اس کے سپرد کر رکھی تھی.ایک دن ایک ماتحت افسر میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اگر کوئی شخص ممنوعہ اشیاء یہاں لاکر فروخت کر کے کثیر منافع حاصل کرتا ہو تو اسے گرفتار کرنا چاہیے یا نہیں؟ میں نے کہا کہ ضرور مجرم کو پکڑنا چاہیے لیکن اس امر پر حیران ضرور ہوا کہ اس سوال کی کیا ضرورت تھی یہ تو عام قانون کی بات ہے.کچھ عرصہ کے بعد وہی افسر آیا اور مجھے اپنے ساتھ چلنے کو کہا.میں اس کے ساتھ ہولیا.تھوڑی دور جانے کے بعد میں نے دیکھا کہ وہی احمدی اپنی ڈیوٹی کی جگہ سے کوئی سو گز پرے کھڑا ہے.میں حیران تو ہوا مگر خیال کیا کہ شاید کوئی ضروری کام ہو گا لیکن یہ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہی وہ مجرم ہے جسے گرفتار کیا جائے گا.وہ افسر جب اس کے قریب پہنچا تو اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگا، ٹھر جاؤ اور اس کی تلاشی کا حکم دیا.اس کے کپڑوں سے تو کوئی چیز برآمد نہ ہوئی لیکن ، پگڑی اُتار کر دیکھی گئی تو اس میں سے تمباکو برآمد ہوا جسے اس علاقہ میں لانے کی ممانعت تھی.وہ کہتے ہیں یہ دیکھ کر میرے تو پاؤں تلے سے زمین نکل گئی اور قریب تھا کہ مجھے غش آجاتا.ایک اور احمدی افسر بھی اُس وقت موجود تھا جس نے اپنے احمدی ہونے سے بھی پہلے اس شخص کو ملازم رکھا تھا.یہ بات دیکھ کر اس کا رنگ زرد ہو گیا اگر وہ دیوار کا سہارا نہ لیتا تو کوئی صاحب اس سے اس مکان کا گمان نہ کریں جو دار الانوار میں میں نے بنوایا ہے.یہ مکان قاضی عبد الرحیم صاحب نے تیار کروایا ہے اور اس محنت اور اخلاص سے تیار کروایا ہے کہ آنوں میں روپوں کا کام کروادیا ہے اور ایسا اعلیٰ ہے کہ ہمیشہ اسے دیکھ کر قاضی صاحب کیلئے دعا نکلتی ہے.
خطبات محمود ۱۹۲ سال ۱۹۳۴ء یقینا گر پڑتا.وہ سناتے ہیں ان کے ماتحت چھ احمدی تھے جن میں سے پانچ کو ایسے ہی جرائم میں نکالنا پڑا ایک عورت اغواء کی گئی اور وہ ایک غیر احمدی کے پاس پائی گئی.اس ملازم کے خلاف جب کارروائی کی گئی تو ایک اور احمدی اس کے پاس پہنچا اور کہا کہ تمہارے ساتھ اس افسر نے بہت ظلم کیا ہے اس کی شکایت میں امیر جماعت کے پاس کروں گا.اس احمدی کی غرض صرف مفت کی نیک نامی حاصل کرنا تھی.یہ مثالیں بد دیانتی اور کام چوری کی ہیں اور ان سے معلوم ہوتا ہے کہ دیانت کا اعلیٰ مقام ہمارے بعض افراد کو حاصل نہیں بلکہ ان کا اتنا ادنیٰ مقام ہے جو گری ہوئی اقوام کیلئے بھی باعث ننگ و عار ہو.اور پھر وہ ایسی بددیانتی احمدیت کے نام کے پردہ میں کرنا چاہتے ہیں اور اس طرح اپنے ساتھ احمدیت کو بھی بدنام کرتے ہیں.گو یہ سب لوگ جو زیر الزام آئے ایک ایسے ضلع کے تھے جو چوری کیلئے مشہور ہے اور جس کی نسبت کہتے ہیں کہ وہاں کا کوئی شخص چوری کی علت سے پاک نہیں مگر احمدی ہو کر تو انسان کو پاک ہو جانا چاہیے.مسلمانوں نے پستی کے زمانہ میں جو بد عادات پیدا کرتی ہیں، وہ احمدی ہو کر بالکل چھٹ جانی چاہئیں.مسلمانوں میں افسوس ہے کہ منزل کے ساتھ بعض بد عادات پیدا ہو گئی ہیں.میں ایک دفعہ کشمیر گیا.وہاں ایک قسم کا قالین مختلف لوئیوں کے ٹکڑے جوڑ کر بناتے ہیں جسے گابا کہتے ہیں.میں نے وہاں کے ایک مشہور کاریگر کو ایک بڑے سائز کے گالے کا آرڈر دیا اور اس کے مطابق قیمت بھی دے دی لیکن جب وہ بن کر آیا تو میں نے دیکھا کہ وہ آرڈر کردہ سائز - چوتھائی کم تھا.میں نے اس بد دیانتی کی وجہ دریافت کی تو جو جواب وہ مجھے دے سکا اور جسے وہ بہت زیادہ معقول اور وزنی سمجھتا تھا، وہ یہ تھا کہ میں مسلمان ہوں.گویا اس کے نزدیک مسلمان کے معنی ہی یہ تھے کہ بددیانتی کرنے والا.اب یہاں بھی یہ شکایت پیدا ہو رہی ہے کہ کام دیانتداری سے نہیں کیا جاتا اور کہا جاتا ہے کہ ایک برادری ہے، کسی غیر کا کام تو نہیں.گویا یہ چوروں کی برادری ہے اور یہاں سب ٹھگ ہونے چاہئیں حالانکہ مومن دوسروں سے زیادہ چست ہوتا ہے لیکن بعض لوگوں نے شاید یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ جو نماز پڑھتے یا چندے دیتے ہیں، اس کی کسر کام کی بددیانتی کر کے نکالنی چاہیئے.چونکہ نمازیں پڑھنے میں دو گھنٹے صرف ہوتے ہیں، اس لئے اتنا وقت کام کا حرج کر کے نکال لینا چاہیے اور چونکہ دو روپیہ چندہ دیتے ہیں اس لئے اتنی خیانت کرلینی چاہیے اور یہ نہیں سمجھتے کہ اس نیکی کا کیا وہ
محمود ۱۹۳ سال ۱۹۳۴ء فائدہ جس کے نتیجہ میں بدی پیدا ہو.میرے نزدیک ہمارے مدارس کے افسروں پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.ان کا فرض ہے کہ طلباء کو محنت کی عادت ڈالیں اور انہیں دیانتداری کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرنے کا عادی بنائیں.بچپن میں جب میں نے رسالہ تشحیذ جاری کیا تو ایک کارکن سے کچھ مال ضائع ہو گیا.کمیٹی کے باقی ممبروں کی رائے تھی کہ اس نے عمداً چوری اور بد دیانتی کی ہے.لیکن میرا خیال تھا کہ اس نے مجبوری کے ماتحت واپسی کی نیت سے رقم خرچ کرلی اور میں کہتا تھا ہمیں ایسا طریق اختیار کرنا چاہیے کہ وصول ہو جائے اور اسے سرزنش بھی ہو لیکن یہ چور کہلانے کا مستحق نہیں مگر دوسرے ممبر اسے چور سمجھتے تھے.ایک دوست جو اب فوت ہو چکے ہیں اس مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے وہ کہنے لگے دونوں فریق غلطی پر ہیں.روپیہ آپ لوگوں کا ذاتی تھا یا چندہ کا.چونکہ چندہ کا تھا اس لئے خدا کا تھا.پس اگر خدا کے ایک بندہ نے ضرورت کے وقت اسے خرچ کرلیا تو اس میں مجرم کون سا ہے اور غلطی کیا ہے.انہیں بہت سمجھایا گیا کہ یہ اصل ٹھیک نہیں مگر ان پر کوئی اثر نہ ہوا.وہ بہت نیک آدمی تھے اور یہ حسن ظنی کم فہمی کی وجہ سے تھی مگر اس قسم کی حسن ظنی بھی خطرناک ہوتی ہے اور بددیانت بنا کر چھوڑتی ہے.مدارس کے افسروں کو چاہیے کہ اپنے طلباء میں اخلاق کی روح پیدا کریں.دوسرے صیغوں کا بھی یہی فرض ہے.مجھے افسوس ہے کہ اخلاق کی درستی کی طرف توجہ بہت کم ہے.ظاہری باتوں کا ظاہری قانون اور ظاہری پابندیوں کا زیادہ خیال رکھا جاتا ہے.ناظر صاحبان بھی زیادہ تر انہی باتوں کا خیال رکھتے ہیں حالانکہ ظاہری باتیں بھی اخلاق سے ہی پیدا ہوتی ہیں.بد دیانت لوگ قوم کیلئے ناسور ہوتے ہیں اور ان کی موجودگی میں کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی.جب تک ایسے افراد کا علاج نہ کیا جائے اور جو ناقابل علاج ہوں ان کو نکالا نہ جائے، ہماری جماعت کی ترقی مشکل ہے.دیانت کے بغیر دنیا میں کوئی کام نہیں ہو سکتا.بد دیانتی سے بے اعتمادی پیدا ہوتی ہے.جب ہم کہتے ہیں کہ حسن ظنی سے کام لینا چاہیئے تو ہمیں اس کیلئے میدان بھی صاف کرنا چاہیئے.ایک شخص رات کو ایک جگہ سوتا ہے جہاں سے کبھی اس کا پاجامہ چوری ہو جاتا ہے، کبھی قمیض ، کبھی کوٹ اور کبھی ہوا.اسے اگر کہا جائے کہ حُسن ظنی کام لو یہاں تمہارا کوئی نقصان نہیں ہو سکتا تو وہ ہماری بات کس طرح مان حافظ مرحوم نے کیا خوب کہا ہے کہ:-.سکتا ہے.
خطبات محمود ۱۹۴ سال ۱۹۳۴ء درمیان قعر دریا تخته بندم کرده باز مے گوئی کہ دامن ترمکن ہشیار باش.ہے اور ای طرح بدظنیوں کے سامان کی موجودگی میں کسی سے کہنا کہ حُسن ظنی سے کام لو بے معنی بات ہے.جو انسان چوروں سے گھرا ہوا ہو وہ اگر اپنی جان بچانا چاہتا ہے تو اسے بد ظنی کرنی پڑے گی.پس اگر آپ لوگ چاہتے ہیں کہ باہم اعتماد کی فضاء پیدا ہو تو لوگوں میں دیانت پیدا کرو.ولایت میں میں نے دیکھا ہے اور کئی بار اپنے ساتھیوں کو بھی دکھایا وہاں ولایت کا مزدور اس پھرتی سے کام کرتا ہے گویا اس کے اپنے گھر میں آگ لگی ہوئی نهایت بیش قیمت سامان جل رہا ہے لیکن یہاں کا مزدور میں نے خود کئی بار دیکھا ہے نہایت ہی غفلت سے کام کرتا ہے.وہ انہیں لانے کیلئے جائے گا تو آہستہ آہستہ، پھر وہاں پہنچ کر پہلے اینٹوں کو دیکھے گا، پھر ایک ایک اینٹ اٹھائے گا اسے پھونک پھونک کر رکھے گا اور اگر موقع ملے تو بیٹھ کر حقہ پینے لگ جائے گا.پھر اگر معمار آواز دے گا کہ جلدی آؤ تو کہے گا میں اڑ کر تھوڑا ہی آسکتا ہوں.یہی معمار کا حال ہے.وہ اینٹ پکڑ کر تمیمی کے ساتھ اس پر ٹک ٹک کرتا رہے گا گویا اس میں سے نشاستہ نکال رہا ہے.غرض ان کو دیکھ کر یہ معلوم نہیں ہو تا کہ یہ کام کر رہے ہیں بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شغل یا تماشہ کر رہے ہیں.اگر کوئی ایسا ہوائی جہاز ہو جس میں چند گھنٹوں میں ولایت سے ہندوستان پہنچا جاسکے.اور ایک آدمی کو اس میں بٹھا کر پہلے ولایت کے مزدور دکھائے جائیں.اور پھر دو تین گھنٹہ کے بعد ہی اسے ہندوستانی مزدوروں کو دیکھنے کا موقع ملے تو اس عظیم الشان فرق کو دیکھ کر شاید وہ پاگل ہو جائے.آہستہ آہستہ کام کرنے کی وجہ سے ہی یہاں کے مزدوروں سے زیادہ وقت کام لیا جاتا ہے.ولایت میں مزدور چھ گھنٹہ کام کرتا ہے.اور یہاں دس گھنٹے لیکن ولایت کا مزدور چھ گھنٹے میں اتنا کام کرلیتا ہے جتنا یہاں تمہیں چالیس گھنٹے میں کرتا ہے اور اس قدر محنت کے بعد اس کا حق ہو جاتا ہے آرام کرے اور چونکہ کام کرنے کے بعد اسے فرصت بھی مل جاتی ہے، اس لئے اس وقت میں محنت کرکے ولایت کے مزدوروں میں سے بعض لوگ بڑی بڑی ترقیاں کر جاتے ہیں.ان میں سے کئی لوگ بڑے بڑے پروفیسر اور موجد بن گئے.ایڈیسن جو اس زمانہ کا بہت بڑا موجد ہوا اور جس نے قریباً ایک ہزار ایجادیں کیں، وہ پہلے ایک کارخانہ میں چپڑاسی تھا اور ایک جگہ سے دوسری جگہ چٹھیاں لے جانے پر مقرر
خطبات محمود ۱۹۵ سال ۱۹۳۴ء تھا.وہ ہمیشہ جیب میں کتاب رکھتا اور چٹھی دے کر کتاب پڑھنے بیٹھ جاتا.جب جواب ملتا تو کتاب جیب میں رکھ کر چل پڑتا اور اسی طرح مطالعہ کرتا رہتا.آخر بڑا سائنسدان بن گیا اور اس نے اتنی ترقی کی کہ تاریخ میں اس کا نام ہمیشہ یادگار رہے گا.اس نے ہزار کے قریب ایجادیں کیں.اور بہت سی ایجادیں اس کی ایجادوں سے آگے کی گئی ہیں.مگر یہ شخص پہلے آن پڑھ چپڑاسی تھا جو دنیا کا بہت بڑا آدمی بن گیا.پس ہمارے امراء سیکرٹریان اور بالخصوص جماعت سالکین کا جو میں نے قائم کی ہے فرض ہے کہ ان غلطیوں کو دور کریں جو جماعت کے بعض افراد میں پائی جاتی ہیں.اگر ہم اپنی جماعت میں سے بددیانتی کو دُور نہیں کر سکتے تو دنیا میں ہمارا زعب قائم نہیں ہو سکتا.بد دیانتی بے ایمانی پیدا کرتی ہے.مجھے یاد ہے میں چھوٹا ہی تھا کہ ایک دفعہ امرتسر گیا.میں نے بازار میں دیکھا کہ ایک سفید ریش مجبه پوش مولوی صاحب جارہے تھے اور پیچھے پیچھے ایک غریب آدمی ان کی منتیں کرتا جاتا تھا.وہ کبھی کبھی مڑ کر اس کی طرف دیکھتے اور غصہ سے اسے دھتکار دیتے.میں نے دریافت کیا کہ کیا بات ہے.اس نے بتایا کہ میں مزدور آدمی ہوں ہمارے ہاں بغیر پیسہ کے شادی نہیں ہو سکتی اس لئے شادی کی خاطر میں جو مزدوری کرتا تھا وہ ان کے پاس جمع کرتا جاتا تھا کیونکہ میرے نزدیک اس سے زیادہ محفوظ جگہ کوئی نہ تھی.اب جبکہ چار سو کے قریب روپیہ جمع ہو گیا اور میرا شادی کرنے کا ارادہ ہوا تو ان سے روپیہ مانگا مگر یہ صاف مکر گئے اور کہتے ہیں کہ میرے پاس تمہارا کوئی نہیں.اب غور کرو اس شخص کے دل میں خدا پر کیا ایمان رہ گیا ہوگا.بد دیانتی ایمانی اور اقتصادی دونوں طرح سے کمزور کرتی ہے.پس ہماری جماعت میں یہ چیز بالکل نہ ہونی چاہیئے.اموال اور کام کاج میں پوری دیانتداری ہونی چاہیئے اور معاہدات کی سختی سے پابندی ہونی ضروری ہے.پس جن دوستوں کے دلوں میں ہمدردی ہے انہیں چاہیے کہ ایسی باتوں کو دیکھتے رہیں کہ پیشہ ور لوگ دیانتداری سے کام کرتے ہیں یا نہیں.یہ دیانتداری نہیں کہ مالک کی موجودگی میں خوب کام کیا لیکن اس کے جانے کے بعد بیٹھ گئے.اگر خدا تعالی کو نگران سمجھا جائے تو انسانی نگران کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی.پس چاہیئے کہ ایسے لوگ اپنی اصلاح کریں اور جو خود نہیں کر سکتے ان کی دوسرے کریں اور جو عادی مجرم ہوں انہیں سزائیں دی جائیں.یعنی ان سے کام نہ لیا جائے یا پھر اپنے سے الگ کردیا جائے.یاد رکھنا چاہیے کہ جو شخص کام میں بددیانتی کرتا ہے، وہ مال کھا جانے والے سے زیادہ خطرناک ہے.فرض کرو ایک روپیه
خطبات محمود 194 سال ۱۹۳۴ء شخص نے ایک میز بنوائی جس کی عمر بیس سال تک ہونی چاہیے لیکن بنانے والے نے ناقص لکڑی لگادی، اسے ٹھیک طرح صاف نہ کیا روغن اچھا نہ کیا اور وہ ایک سال کے بعد ٹوٹ پھوٹ گئی تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس نے پچانوے فیصدی کھالیا مگر روپیہ کھانے والا اتنا کبھی نہیں کھا سکتا.روپیہ میں زیادہ سے زیادہ میں پچیس فیصدی کھایا جاسکتا ہے.اگر کسی شخص کو دس ہزار روپیہ کوئی سامان خریدنے کیلئے دیا جائے اور وہ نو ہزار نوسو کا سامان خریدے اور سو روپیہ کھا جائے تو بیشک اس نے بڑا جرم کیا لیکن جو شخص کام میں بد دیانتی کرنے اور اصل قیمت لے کر ناقص چیز مہیا کر دے وہ بہت زیادہ مجرم اور خطرناک مجرم ہے.فرض کرو کسی حکومت نے سامان جنگ بنوایا مگر بنانے والے گولہ بارود ایسا بنادیں جو میدانِ جنگ میں پھنس پھنس کر کے رہ جائے تو اس کے نتیجہ میں جس قدر جانیں ضائع ہوں گی، ان سب کی ذمہ داری بنانے والوں پر ہوگی.ان سے وہ شخص بدرجا اچھا ہو گا جس نے روپیہ میں سے ایک آنہ کھالیا اور پندرہ آنے کی چیز اچھی مہیا کردی.اسی طرح جو شخص دس گھنٹہ کی مزدوری لے کر پانچ گھنٹہ کام کرتا ہے وہ گویا پچاس فیصدی کھالیتا ہے.لیکن عجیب بات ہے کہ ہمارے ملک میں روپیہ کھا جانے والوں کو تو بہت بُرا سمجھا جاتا ہے لیکن کام خراب کرنے والوں کو کوئی کیونکہ بد دیانت نہیں کہتا حالانکہ یہ اس سے بہت زیادہ اور سخت خطرناک بددیانت ہوتے ہیں.کام میں بددیانتی کے نتائج بعض اوقات سخت خطرناک نکلتے ہیں.میں نے کسی رسالہ میں ایک مضمون پڑھا تھا کہ ترکی کی ایک جنگ میں سپاہیوں کو جو کارتوس مہیا کئے گئے ان میں لکڑی ٹھونسی ہوئی تھی.ترک مرنے مارنے پر آمادہ تھے مگر ان کی جانبازی کسی کام نہ آسکی کیونکہ سامان خریدنے والے نے صندوق کھول کر دیکھا ہی نہ تھا کہ اندر کیا بھرا ہوا ہے.اگر وہ پچاس لاکھ میں سے صرف چالیس لاکھ کا سامان خرید تا اور دس لاکھ کھا جاتا تو گو وہ بددیانت ٹھہرتا مگر اس کی بد دیانتی اس قدر نقصان کا موجب نہ ہوتی جتنی اس کی یہ غفلت ہوئی.خواہ اس نے مال خریدنے میں کوئی بددیانتی نہ کی اور ایک پیسہ بھی نہ کھایا مگر اس کی سستی ہزاروں جانوں کے اتلاف کا باعث بن گئی اور ترکوں کو اپنے ملک سے محروم ہونا پڑا.اگر وہ دس لاکھ روپیہ کھا جاتا تو یہ بد دیانتی اس غفلت سے بدرجہا اچھی ہوتی کیونکہ دس لاکھ روپیہ تو ایک شہر کی قیمت بھی نہیں.لیکن ہمارے ملک میں کام کی بد دیانتی کو بُرا نہیں سمجھا جاتا اور نہ ہی غفلت کو کوئی مجرم خیال کیا جاتا ہے ہاں مالی خیانت کو بہت بُرا خیال کیا جاتا ہے.
خطبات محمود : 192 سال ۱۹۳۴ء جنگ اُحد میں رسول کریم ان نے دس آدمیوں کو ایک درہ پر متعین فرمایا اور دیا کہ خواہ کچھ ہو، باقی فوج مرے یا جیئے ، ہارے یا جیتے تم یہاں سے ہرگز نہ ہلتا مگر جب کفار کو شکست ہوئی اور وہ بھاگے تو درہ پر مقرر کردہ آدمیوں نے خیال کیا کہ اب ہمیں بھی کچھ لڑائی میں حصہ لینا چاہیے.ان کے افسر نے کہا کہ ہمیں ہر حال میں یہیں رہنے کا حکم ہے مگر باقیوں نے کہا کہ عقل کی بات کرو رسول کریم ﷺ کا مقصد تو صرف یہ تھا کہ اس درہ کی حفاظت کی جائے مگر اب کہ دشمن بھاگ چکا ہے اس کی حفاظت کی کیا ضرورت ہے.اس افسر نے اور ایک ساتھی نے تو جانے سے انکار کردیا لیکن باقی آٹھ بھاگ کر لڑائی میں شامل ہوئے.خالد بن ولید نے جو اُس وقت مسلمان نہ ہوئے تھے مڑ کر دیکھا تو درہ کو خالی پایا.انہوں نے اپنی بھاگتی ہوئی فوج میں سے ایک دستہ جمع کر کے اس پر حملہ کردیا.دو صحابی جو وہاں موجود تھے وہ تو ٹکڑے ہو گئے اور کفار نے مسلمانوں کے عقب سے ایسا حملہ کیا کہ وہ ٹھہر نہ سکے اے.رسول کریم اس کے گرد ایک وقت میں بارہ اور دوسرے وقت میں صرف چھ آدمی رہ گئے.آپ کے دندان مبارک میں سے بعض صدمات سے ٹوٹ گئے اور آپ بیہوش ہو کر گر گئے اور لاشوں کے نیچے دب گئے.اور خیال کر لیا گیا کہ آپ شہید ہو گئے ہیں ہے - تو کام کرنے میں ایک چھوٹی سے غلطی اور غفلت سے کس قدر نقصان اُٹھانا پڑا.اللہ تعالیٰ اپنی خاص تائید سے آپ کی نصرت نہ کرتا تو ایسے ہزاروں دشمنوں میں جو خون کے پیاسے اور مار دینے کی قسمیں کھا کر آئے ہوں، ایک بیہوش پڑا ہوا انسان کس طرح محفوظ رہ سکتا ہے.اتنے دشمنوں کے سامنے تو ہوش میں جو انسان ہو وہ بھی کچھ نہیں کر سکتا.چہ جائیکہ ایک بیہوش پڑا ہوا انسان اپنی حفاظت کر سکے.پس یہ محض اللہ تعالی کا فضل تھا کہ آپ محفوظ رہے.آپ پر صحابہ کی لاشیں گر گئیں اور اُس وقت اگرچہ آپ کو تکلیف تو ضرور پہنچی مگر یہی آپ کی حفاظت کا ذریعہ ہو گیا.دیکھو غفلت اور فرائض کی بجا آوری میں کوتاہی کس قدر قباحتوں اور نقصانات کا موجب ہوئی.اگر وہ لوگ پچاس ہزار روپیہ بھی کھالیتے تو ان کی یہ حرکت اس قدر خطرناک نہ ہوتی جتنی یہ حرکت ہوئی.پس ہمارے اندر یہ احساس ہونا چاہیے کہ کام چور دھوکا باز یا کام میں بد دیانتی کرنے والا روپیہ کی چوری کرنے والے سے بہت زیادہ خطرناک ہے.اس کی اصلاح کرنی چاہیئے اور جو اصلاح پذیر نہ ہو اس کے خلاف کارروائی کرنی چاہیئے.اور ایسی فضاء پیدا کر دینی چاہیئے کہ ایک احمدی کے پاس دس کروڑ روپیہ کی امانت رکھنے میں بھی
خطبات محمود ۱۹۸ کوئی خطرہ محسوس نہ کرے.اور وہ روپیہ محفوظ رہے.بعض افراد کی بددیانتی ساری قوم بد نام کر دیتی ہے.جس طرح ایک مچھلی سارے تالاب کو گندہ کر دیتی ہے.اور ہم میں ابھی بہت ی ایسی مچھلیاں ہیں لیکن ہماری انجمنیں اس اصلاح سے غافل ہیں اور قادیان کی انجمن تو سب سے زیادہ غافل ہے.یہاں کے ممبروں کو تو میں چکنا گھڑا سمجھتا ہوں.وہ حکم دینا جانتے ہیں، بورڈ جھٹ لگادیتے ہیں مگر جس طریق پر کام کرنا چاہیے وہ نہیں کریں گے.بکری کا دودھ پانچ پیسے نہیں چار پیسے ہونا چاہیئے.اور جو اس بھاؤ نہ دے اس کا بائیکاٹ کر دیا جائے.ایسی باتوں کی طرف زیادہ توجہ ہے مگر دوسری طرف جہاں سارے کا سارا اونٹ ہی کھایا جارہا ہو اس کی خبر نہیں.سطحی باتوں کی طرف بہت توجہ ہے مگر حقیقی ضرورتوں سے غافل ہیں.یہاں کام چور، بد دیانت، خائن، دھوکا باز اور ٹھگ موجود ہیں مگر ان کا کوئی فکر نہیں.دودھ اور گھی کے بھاؤ پر لڑتے رہیں گے حالانکہ اگر دودھ چار نہیں پانچ ہی پیسے بکتا رہے تو کوئی مر نہیں جائے گا.لیکن جن چیزوں کی موجودگی میں دنیا زندہ نہیں رہ سکتی، ان کو دور کرنے کا کوئی فکر نہیں.اور اگر کریں گے تو اُس وقت جب کوئی اپنی غرض ہو.پچھلے دنوں گوجرانوالہ سے مجھے خط آیا کہ یہاں یہ یہ نقص ہے.اگر وہ سارے نقائص صحیح ہوتے تو بھی شکایت کی وجہ یہی ہو سکتی تھی کہ لکھنے والے کو سیکرٹری شپ سے علیحدہ کر دیا سب گیا تھا.میں نے وہ خط میر محمد اسمعیل صاحب کو تحقیقات کیلئے بھیجا تو انہوں نے لکھا کہ باتیں غلط ہیں.میں پہلے ہی معترض کو جواب دے چکا تھا کہ یہ خط شدید بغض کے نتیجہ میں لکھا ہوا ہے.تو اصلاح کی طرف اگر توجہ کی بھی جاتی ہے تو اپنی غرض کیلئے اور ایسے رنگ میں کہ دیکھنے کرلیتا والا صاف معلوم کر لیتا ہے.اس سے اور بھی بُرا اثر ہوتا ہے.ہاں جب دیکھا جائے خدا کیلئے اصلاح کی کوشش ہو رہی ہے تو بہت فائدہ ہوتا ہے.لیکن جو شکایت ذاتی غرض کے ماتحت کی جائے، اس کا اثر النا ہوتا ہے.بعض لوگ پراویڈنٹ فنڈ سے روپیہ لینے کی کوشش کرتے ہیں اور جب ملتا نہیں تو شکایت کرتے ہیں کہ یہ لوگ سود کھاتے ہیں.وہ نادان سمجھتے ہیں کہ اگلے بیوقوف ہیں اور انہیں کچھ پتہ ہی نہیں.میں تو خدا کے فضل سے بات کرنے والے کے لہجہ سے بات کی تہہ کو پہنچ جاتا ہوں یہ علیحدہ بات ہے کہ عیب پوشی سے کام لیتا ہوں.عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ جب ذاتی غرض پوری نہیں ہوتی تو اسے قومی رنگ دے دیا جاتا ہے.اس سے اصلاح نہیں ہو سکتی بلکہ بیماری اور بھی بڑھتی ہے.گنگار جب دیکھتا ہے کہ
199 سال ۱۹۳۴ نو میں نے تو بد دیانتی کی تھی مگر دوسرے نے کمینگی کی ہے تو وہ اور بھی جرات پکڑ جاتا ہے.اگر تقویٰ سے توجہ کی جائے تو گنگار پر بہت اچھا اثر ہوتا ہے.پس اصلاح کی کوشش اُس وقت کرنی چاہیئے جب کوئی بغض نہ ہو.اور اگر اس رنگ میں کام کیا جائے تو ضرور لوگوں کی اصلاح ہو سکتی ہے.اور اس سے گنہگار متاثر ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اصلاح اعمال کر سکیں ہماری نیتوں کو صاف کردے اور ہمیں ایسا نمونہ پیش کرنے کی توفیق دے جو اپنی ذات میں لوگوں کی اصلاح کا موجب ہو.له بخاری کتاب المغازی باب غزوة احد (الفضل ۹ - ستمبر ۱۹۳۴ء) له بخاری کتاب المغازی باب مَا أَصَابَ النَّبِي الةِ مِنَ الحِرَاحِ يَومَ أُحَدٍ
سال ۱۹۳۴ء خطبات محمود جماعت کو فتن سے محفوظ رکھنے کیلئے ضروری ہدایات - (فرموده ۲۷ - جولائی ۱۹۳۴ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-.دنیا میں جتنے معاہدات ہوتے ہیں سب مشروط ہوتے ہیں اور معاہد گروہ یا معاہد افراد میں سے ہر ایک اپنے اوپر ایک ذمہ داری لیتا ہے اگر ایک اپنی ذمہ داری کو پورا کرتا ہے تو دوسرا بھی اس امر کا پابند ہوتا ہے کہ وہ اپنے متعلق ذمہ داری کو پورا کرے.اور اگر ایک اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کرتا تو دوسرا بھی اس کی پابندی سے آزاد ہو جاتا ہے.بائیبل میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد کے متعلق آتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اسے ختنہ کا حکم دیا اور کہا کہ میرے اور تمہارے درمیان عہد ہے.جب تک تم اس عہد پر قائم رہو گے خدا کا سلوک اور اس کا وہ وعدہ جو تمہاری ترقیات کے متعلق ہے یعنی نبوت، الہام اور خدا تعالی کا قرب، یہ تمہاری نسل میں قائم رہے گا لے.یہ وعدہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دونوں نسلوں میں جاری رہا.بنو اسحاق میں بھی اور بنو اسمعیل میں بھی.- بنو اسماعیل کی تاریخ ہمارے سامنے نہیں لیکن رسول کریم ﷺ کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ بنو اسماعیل میں اللہ تعالٰی کے انبیاء آئے اور قرآن کریم میں جو بعض انبیاء عرب کے بیان کئے گئے ہیں اگر ان میں سے کوئی ایک بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد ہوا ہو تو قرآن کریم سے بھی اس کی تصدیق ہو جائے گی گو عام طور پر ان انبیاء کا زمانہ بہت پرانا بیان کیا گیا ہے جیسا کہ حضرت صالح اور حضرت ہود کا مگر یہ عربی نبی ہی تھے.بہر حال قرآن کریم
خطبات محمود ۲۰۱ سال ۱۹۳۴ء سے صراحت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد بعض نبی عرب میں گذرے اور بعض مورخین نے تو حضرت شعیب کو بھی عرب کے نبیوں میں داخل کیا ہے اور تاریخ اور جغرافیہ جو اس زمانہ کا ہے، اسے مد نظر رکھتے ہوئے یہ کوئی بعید بات معلوم نہیں ہوتی کیونکہ ان حصوں میں عرب قومیں ہی بسا کرتی تھیں.پس گو اسماعیلی تاریخ مشتبہ ہے مگر معلوم ہوتا ہے کہ بنو اسمعیل میں زندگی قائم رکھنے کیلئے اللہ تعالی کی طرف سے انبیاء آتے رہے.مگر بنو اسحاق کی تاریخ بہت محفوظ ہے اور اس کے انبیاء کے حالات بہت عمدگی کے ساتھ بائیبل میں موجود ہیں گو نہیں کہہ سکتے کہ پوری صداقت کے ساتھ درج ہیں.جب تک بنو اسحاق اس وعدہ کو پورا کرتے رہے خدا تعالیٰ کا وعدہ بھی پورا ہوتا رہا.وہ ختنہ کرتے رہے اور خدا تعالی کی طرف سے ان میں انبیاء آتے رہے.یہاں تک کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد ہم نہیں کہہ سکتے کہ کس وقت مگر بہر حال رسول کریم ﷺ سے پہلے کسی وقت چاہے پہلی صدی میں یا دوسری صدی یا تیسری صدی میں وہ عہد و پیمان جو ختنہ کے متعلق تھا انہوں نے توڑ ڈالا اس لئے یہود تو حضرت عیسی علیہ السلام کے انکار کی وجہ سے خداتعالی کے فضلوں سے محروم ہو گئے اور عیسائیوں نے ختنہ کا انکار کر کے اپنے آپ کو اس کی رحمت سے محروم کر لیا.تب خدا تعالٰی نے بھی ان میں انبیاء بھیجنے بند کردیئے لیکن اس سے قبل سینکڑوں سال تک جب تک کہ وہ اس عہد کے پابند رہے، نعمت نبوت سے مشرف ہوتے رہے.پس اللہ تعالیٰ کے وعدے اور معاہدے سب مشروط ہوتے ہیں.جہاں معاہدہ ہو وہاں تو بہر حال دونوں طرف سے اقرار ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر تم یوں کرو گے تو ہم یوں کریں گے اور اگر تم نہیں کرو گے تو ہم بھی نہیں کریں گے اور جہاں وعدہ ہو، وہاں بھی شرطوں کا پورا کیا جانا ضروری ہوتا ہے.انبیاء کی بعثت کے وقت اللہ تعالی کی طرف سے قوموں سے جو وعدے ہوتے ہیں وہ بھی اپنے اندر معاہدہ کا رنگ رکھتے ہیں.جیسے قرآن مجید میں واضح الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ مومنوں سے ان کی جان و مال کے بدلہ میں خداتعالی کی طرف سے جنت کا وعدہ کیا گیا ہے گویا خالی جنت کا وعدہ نہیں بلکہ معاہدہ ہے.یعنی اگر جان و مال میری راہ میں قربان کرو گے تو ہم جنت دیں گے اور اگر نہیں کرو گے تو نہیں دیں گے اور می معاہدہ ہے جو تمام نبیوں کی جماعتوں سے ہوتا رہا ہے.مال کی قربانی تو واضح ہے.زکوٰۃ، صدقات اور چندوں کے ذریعہ یہ قربانی کی جاتی ہے اور ہماری جماعت میں تو خصوصیت کے
خطبات محمود ۲۰۲ سال ساتھ مالی قربانی نمایاں طور پر کی جاتی ہے اور تمام کی تمام جماعتیں بلکہ تمام کے تمام افراد إِلا مَا شَاءَ اللهُ ، کمزور ہر جماعت میں ہوتے رہے ہیں اور ہوتے ہیں، ان کو چھوڑ کر باقی نہایت اخلاص رکھتے اور ہر وقت قربانی کیلئے تیار رہتے ہیں.گو میں نے دیکھا ہے بعض کو جگانے کی ضرورت وقتاً فوقتاً محسوس ہوتی رہتی ہے.پچھلے سال میں نے اعلان کیا تھا کہ جو لوگ چندہ نہیں دیتے اور اس بارے میں مسلسل غفلت اور سستی سے کام لے رہے ہیں، انہیں جماعت سے خارج کردیا جائے گا اس پر جماعت میں بیداری پیدا ہو گئی.مگر اس سال محکمہ نے غفلت کی اور غافل لوگوں کے نام میرے سامنے پیش نہیں کئے جس کے نتیجہ میں میں دیکھ رہا ہوں کہ برابر دو ماہ سے چندوں میں سستی ہو رہی ہے.اب ایک دو خطبے پڑھوں گا اخبار میں مضامین نکلیں گے تو وہ لوگ جو غافل اور سوئے ہوئے ہیں جاگ اُٹھیں گے.مگر بہر حال مالی قربانی ایک حد تک بلکہ بہت حد تک ہماری جماعت کر رہی ہے.اور اگر مخلصین سے اس سے بھی زیادہ مالی قربانی کا مطالبہ کیا جائے تو وہ اس کیلئے بھی تیار ہو جائیں گے.دوسری قربانی جان کی ہے.یہ مختلف رنگوں میں ہوا کرتی ہے جیسا کہ مالی قربانی بھی مختلف قسم کی ہوتی ہے.کبھی مخفی ہوتی ہے کبھی ظاہر، کبھی اس رنگ میں ہوتی ہے کہ انسان نقصان اٹھاتا ہے مگر صبر کرتا ہے اور کبھی اس رنگ میں ہوتی ہے کہ بعض باتیں اسے مالی لالچ اور حرص دلاتی ہیں مگر وہ خدا تعالیٰ کی رضاء کیلئے ان کی طرف توجہ نہیں کرتا.جیسا کہ اس زمانہ میں سود نہ لینا لاٹریوں میں حصہ نہ ڈالنا اور لائف انشورنس وغیرہ نہ کرانا ہے.اس میں شبہ نہیں لاٹری وغیرہ سے فوری طور پر ہر انسان کو مالی فائدہ نہیں ہو سکتا.مگر چونکہ وہ سمجھتا ہے کہ گو روپیہ میرے ہاتھ میں نہیں مگر اس کے نتیجہ میں مجھے روپیہ مل سکتا ہے اس لئے جب وہ خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ایسی باتوں سے بچتا ہے تو وہ مالی قربانی کرتا ہے.اسی طرح جانی قربانیاں بھی کئی رنگ کی ہوتی ہیں.ایک جانی قربانی تو وہ ہے جس کا ہمارے بعض احمدیوں نے افغانستان میں نمونہ دکھایا.وہاں عملی طور پر حکومت نے ہماری جماعت کے افراد سے مطالبہ کیا کہ احمدیت کو ترک کردو اور اگر احمدیت ترک کرنے کیلئے تیار نہیں ہو تو تمہیں سنگسار کر دیا جائے گا.خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ مطالبہ جن سے کیا گیا ان میں سے ہر ایک نے یہی کہا کہ احمدیت ہمیں اتنی پیاری ہے کہ اس کے مقابلہ میں ہماری جان کی کوئی حقیقت ہی نہیں.تم ہمیں بیشک قتل کرڈالو مگر احمدیت کو ہم ترک کرنے کیلئے تیار نہیں ہوں گے.
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء ایک نہیں، دو نہیں، متواتر پانچ آدمیوں سے پوچھا گیا مگر ان میں سے ہر ایک نے بشاشت سے اپنی جان دے دی.اور کو جانیں دینے والے افغانستان کے تھے اور جانیں لینے والے بھی مگر نہیں کہا جاسکتا کہ سارا ایمان اور اخلاص افغانستان میں ہی منتقل ہو گیا ہے اور وہیں اس اس قسم کے نمونے پائے جاسکتے ہیں.بات یہ ہے کہ ہندوستان کے احمدیوں سے بھی اگر اس رنگ کا مطالبہ کیا جاتا تو وہ بھی لبیک کہہ کر آگے آتے اور کبھی بھی اپنی جانوں کو خدا تعالیٰ کے راستہ میں فدا کرنے سے دریغ نہ کرتے.مگر ہندوستان والوں کیلئے اس قسم کی قربانی کا موقع نہیں آیا.یہاں خدا تعالیٰ نے ایک ایسی گورنمنٹ قائم کی ہوئی ہے جو باوجود کئی کمزوریوں کے (اور دراصل ہر گورنمنٹ میں باوجود اس کی بے شمار خوبیوں کے کچھ نہ کچھ کمزوریاں بھی ہوا کرتی ہیں) قانون کی پابندی نہایت شدت سے کرتی ہے.اس کی ایک تین مثال یہ ہے کہ گاندھی جی انگریزی گورنمنٹ کے سب سے بڑے دشمن ہیں.گو وہ کہتے ہیں کہ میں انگریزوں کا دوست ہوں.اگر دشمنی ہے تو حکومت سے ہے.انہی گاندھی جی پر جب حملے ہوتے ہیں تو گورنمنٹ یہ نہیں کہتی اچھا ہوا ایک دشمن پر حملہ کیا جاتا ہے بلکہ وہ کہتی ہے ہمارا فرض ہے کہ چاہے دوست ہو یا دشمن، کسی کے متعلق پبلک کو قانون شکنی نہ کرنے دیں گے اور گاندھی جی کے مخالفین کو ایذاء رسانی سے روکتی ہے.اس میں شبہ نہیں کہ انگریزوں میں بھی بعض کمزور ہوتے ہیں.خصوصاً کشمیر کی تحریک کے دوران میں میرا تجربہ ہے کہ وہاں قانون شکنی بعض دفعہ خود انگریز افسروں نے کرائی مگر اس قسم کے لوگ بہت قلیل ہیں.انگریزوں کا ہزارہا آدمی ہندوستان میں کام کر رہا ہے اور سینکڑوں انگریز ہر سال ریٹائر بھی ہو جاتے ہیں اس کے متعلق تو نہیں کہا جاسکتا لیکن اگر اندازہ لگایا جائے تو جن انگریزوں سے مجھے یا جماعت کے دوسرے دوستوں کا واسطہ پڑا ہے جنہوں نے مجھے حالات بتائے، ان کو دیکھتے ہوئے میں کہہ سکتا ہوں کہ انگریزوں میں سے نوے فیصدی ایسے ہیں جو قانون کا احترام کرنا ضروری سمجھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ قوم دشمنوں کی دشمنی کے باوجود اب تک کمزور ہونے میں نہیں آئی.بعض اندرونی حالات کے لحاظ سے گورنمنٹ کا تجزیہ ضرور ہو گیا ہے.اور ہندوستان ساؤتھ افریقہ نیوزی لینڈ اور کینیڈا وغیرہ کو جو اختیارات مل گئے ہیں ان سے اس میں ایک قسم کا ضعف پیدا ہو گیا ہے.مگر یہ خیال کہ انگریز عدل کرتے اور قانون کی پابندی کو ملحوظ رکھتے ہیں، لوگوں کے دلوں میں پوری شدت سے قائم ہے اور اس میں کسی طرح کی کمی نہیں آئی.لئے
خطبات محمود ۲۰۴ سال ۱۹۳۴ء غرض انگریزی گورنمنٹ کے ماتحت چونکہ خدا تعالیٰ نے ہمیں رکھا ہے اس لئے ہماری جماعت کیلئے یہاں اس قسم کی جانی قربانی کے مواقع نہیں اور نہ بظاہر اس قسم کے مواقع میسر آسکتے ہیں جیسا کہ افغانستان میں پیش آئے.مگر پھر بھی چونکہ انگریز افسروں کے ماتحت دیسی افسر بھی ہوتے ہیں اس لئے بعض دفعہ دیسی افسروں کی شرارت کی وجہ سے احمدیوں کو دکھ پہنچ جاتا ہے.بعض جگہ ماتحت افسر جھوٹ بول دیتا ہے اور اس طرح انگریز افسر کو ایک احمدی کے خلاف کارروائی کرنی پڑتی ہے مگر اس کے باوجود میں نے دیکھا ہے کہ نوے فیصدی انگریز عدل پر قائم رہتے ہیں.باقی دس فیصدی بعض دفعہ کسی ڈر سے ، بعض دفعہ کسی لحاظ سے اور بعض دفعہ کثرت کو اپنے ساتھ ملائے رکھنے کی وجہ سے ایسے امور کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں جنہیں ظلم کہا جاسکتا ہے.اور یہ مواقع جانی قربانی کے ہماری جماعت کو ہندوستان میں پیش آتے رہتے ہیں.ہندوستان میں بھی بعض احمدی مارے پیٹے گئے.یہاں تک کہ ان میں سے بعض مرگئے بعض اپانچ ہو گئے، بعضوں کی بیویاں ان سے چھین لی گئیں، بعضوں کے بچے ان سے جدا کردیئے گئے اور یہ خدا تعالی کا فضل ہے کہ اس جانی نقصان میں اکثر نے ثابت قدمی دکھائی.مگر ایک نقص ہے جس کی طرف میں توجہ دلائے بغیر نہیں رہ سکتا اور وہ یہ کہ بعض لوگ یہ سمجھنے لگ گئے ہیں کہ ہماری حفاظت کا انحصار انگریزوں پر ہے.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم انگریزوں کی جو تعریف کرتے ہیں، وہ محض ان کے عدل کی وجہ سے ورنہ جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ مصیبت کے وقت انگریزی گورنمنٹ اسے بچاسکے گی، وہ مومن نہیں کیونکہ مومن کبھی غیر اللہ کی طرف توجہ نہیں کرتا خواہ اس پر کس قدر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں.تک ہمارے اندر یہ روح پیدا نہ ہوگی کہ ایک حد تک انسانی کوشش کے بعد ہم خدا تعالی پر اپنا معالمہ چھوڑ دیں اور اسی پر توکل کریں، اس وقت تک کامل ایمان حاصل نہیں ہو سکتا.مگر میں اپنی جماعت کے بعض لوگوں کو دیکھتا ہوں، انہیں جب کوئی تکلیف پہنچے فوراً لکھتے ہیں کہ گورنر کو اطلاع دی جائے، وزراء کو لکھا جائے، افسران سے ملاقات کی جائے.وہ اپنے خطوں میں اس قسم کی گھبراہٹ ظاہر کرتے ہیں جو بُزدلوں اور منافقوں کی گھبراہٹ ہوتی ہے.میں بارہا اپنی جماعت کو توجہ دلا چکا ہوں کہ اس قسم کی حرکات مؤمنانہ شیوہ نہیں.مگر میں نہیں سمجھتا کہ کیوں یہ آواز ہماری جماعت تک نہیں پہنچتی.ممکن ہے اس کا باعث یہ ہو کہ ہمارے اخبار کی خریداری بہت کم ہے.اور جماعت کے حلقہ میں اسے بہت کم وسعت حاصل ہے.جب
خطبات محمود ۲۰۵۰ سال ۶۱۹۳۴ کہ رو جس وقت ہماری جماعت کی تعداد آج کی تعداد سے بہت کم یعنی سرکاری مردم شماری کی رو سے صرف اٹھارہ سو تھی اس وقت بدر کے خریداروں کی تعداد چودہ سو تھی.اس وقت سرکاری مردم شماری کی رو سے پنجاب میں احمدیوں کی تعداد چھپن ہزار ہے اور اگر پہلی نسبت کا لحاظ رکھا جائے تو آج ہمارے اخبار کے صرف پنجاب میں چار ہزار سے زائد خریدار ہونے چاہئیں.اور اگر اس امر کو دیکھا جائے کہ یہ تعداد جو مردم شماری کی رو سے بیان کی گئی ہے، قطعا صحیح نہیں اور پنجاب کے علاوہ ہندوستان اور دوسرے ممالک کے احمدیوں کو بھی ملانیا جائے تو اخبار "الفضل" کے اس وقت کم از کم سات آٹھ ہزار خریدار ہونے چاہئیں مگر اس کی خریداری پندرہ اور اٹھارہ سو کے درمیان رہتی ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اخبار اس وسعت سے شائع نہیں ہوتا جس وسعت کے ساتھ اسے شائع ہونا چاہیئے.یہی وجہ ہے ہماری آواز تمام احمدیوں تک نہیں پہنچتی بلکہ وہی احمدی اس سے واقف ہوتے ہیں جو اخبار خریدتے یا دوسروں سے لے کر پڑھ لیتے ہیں باقی لوگ سلسلہ کے حالات سے بے خبر رہتے ہیں.حتی کہ مجھے تعجب ہوا کل ہی شملہ کے امیر جماعت کا ایک خط آیا ایک ایسے امر کے متعلق جس کا ذکر جلسہ سالانہ والی تقریر میں بھی تھا اور ایک دو خطبات بھی اس پر میں نے پڑھے تجھے کہ ہمیں اب تک اس بات کا علم نہ ہو سکا تھا.اگر امراء جماعت بھی سلسلہ کے اہم امور سے اور ان امور سے جو اخبار میں شائع ہو جاتے ہوں اتنے ناواقف رہتے ہوں تو بجز اس کے اور کیا سمجھا جاسکتا ہے کہ نہ تو دلچسپی سے اخبار کا مطالعہ کیا جاتا سے اخبار کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور نہ اخبار اس کثرت سے شائع ہوتا ہے جس کثرت کے ساتھ اسے شائع ہونا چاہیے.یہی وجہ ہے کہ ہماری آواز تمام جماعت تک نہیں پہنچتی.بهرحال جماعت میں یہ ایک کوتاہی پائی جاتی ہے.خواہ تربیت کی کمی کی خواہ ایمان کے نقص کی وجہ سے، خواہ اس وجہ سے کہ سب لوگوں تک ہماری آواز نہیں پہنچتی کہ وہ ذرا ذرا سی بات پر گورنمنٹ سے مدد مانگنے کیلئے بے قرار ہو جاتے ہیں.بعض دفعہ تو یہ تصور کرکے ہی مجھے شرم آجاتی ہے کہ جب ہم خدا تعالیٰ کے حضور جائیں گے تو اسے کیا کہیں گے کہ اے خدا ہم نے تیری مدد پر تو بھروسہ نہ کیا اور اگر کیا تو انگریزوں پر.یہی وجہ ہے کہ ایسے خطوں کا میں یہ جواب دیتا ہوں کہ جس حاکم کے پاس محمد اے جایا کرتے تھے اس کے پاس تمہارے لئے میں بھی جانے کیلئے تیار ہوں اور اگر محمد ا کسی مجسٹریٹ یا افسر وجہ سے کے
خطبات محمود ۲۰۶ سال ۱۹۳۴ء کے پاس نہیں گئے بلکہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کیں اور اس کی نصرت و تائید حاصل کی، تو کیوں تم بھی اسی راہ کو اختیار نہیں کرتے.اگر انگریزوں کی مدد ایسی ہی اعلیٰ چیز ہوتی تو چاہیے تھا یہ انگریز محمد ﷺ کے وقت میں بھی ہوتے تا آپ کو بھی ان کی مدد سے فائدہ پہنچتا.پس یہ بیوقوفی اور نادانی ہوگی کہ جب ہم انگریزوں کی ان کے عدل کی وجہ سے تعریف کریں تو اس کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ ہمیں ان کی مدد کی ضرورت ہے یا ہمیں ان سے مدد لینی چاہیئے.ہم ان کی تعریف اس لئے کرتے ہیں کہ وہ اچھے ہیں.تعریف کے یہ معنی نہیں کہ ہم اپنے تو کل اور دین کو ان پر قربان کردیں.اور اس میں انگریزوں کی خصوصیت نہیں اگر جرمن والے اچھی بات کریں گے تو ہم ان کی تعریف کریں گے، فرانس والے اچھی بات کریں گے تو ہم ان کی تعریف کریں گے.پس انگریزوں کی اگر ہم تعریف کرتے ہیں تو اس لئے کہ یہ اچھے کام کرتے ہیں، عدل اور انصاف قائم کرتے ہیں، رعایا کی تکالیف کو حتی الوسع دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس تعریف کا یہ مطلب نہیں کہ ہم خیرات کا ٹھوٹھا لے کر ان کے پاس جائیں.جب تک وہ اچھی باتوں پر قائم رہیں گے ہم انہیں اپنا دوست اور خیر خواہ سمجھیں گے.لوگ اگر ان کو بُرا بھلا بھی کہیں تو ہم تعریف کریں گے لیکن خیرات کا ٹھیکرا لے کر کسی کے پاس جانا مومن کا کام نہیں.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں اليد العليا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفَلی سے دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے اچھا ہوتا ہے.جب تک ہم انگریزوں کی تعریف کر کے ان سے مانگتے کچھ نہیں اس وقت تک ہمارا ہاتھ اونچا ہے اور اگر ہم ان سے کچھ مانگنے جاتے ہیں تو وہ اعلیٰ اور ہم اونی بن جاتے ہیں.پس جماعت میں یہ ی غلطی پیدا ہو رہی ہے مگر باوجود اس کے جماعت میں قربانی کی روح بھی پائی جاتی ہے اور جب تک یہ روح قائم رہے گی خدا تعالیٰ کے وعدے بھی پورے ہوتے رہیں گے.دنیا کی کوئی طاقت انہیں ٹلا نہیں سکتی، نہ دشمنوں کی دشمنیاں ہمیں نقصان پہنچا سکتی ہیں.لیکن مجھے حیرت ہوتی ہے ہماری جماعت کے مومن اور مخلص افراد بھی بعض دفعہ دشمنوں کی شرارتوں کی وجہ سے گھبرا جاتے ہیں حالانکہ دشمنوں کی حیثیت ہی کیا ہے.میں بچہ تھا لیکن مجھے خوب یاد ہے یہاں ہمارے ہی بعض عزیز راستہ میں کیلے گاڑ دیا کرتے تھے تاکہ جب مہمان نماز پڑھنے آئیں تو رات کی تاریکی میں ان کیلوں کی وجہ سے ٹھوکر کھائیں.چنانچہ ایسا ہی ہوتا اور اگر کیلے اُکھاڑے جاتے تو وہ لڑنے لگ جاتے.اسی طرح مجھے خوب یاد ہے مسجد مبارک کے سامنے.
خطبات محمود ۲۰۷ ۱۹۳۴ء دیوار مخالفوں نے کھینچ دی تھی.بعض احمدیوں کو جوش بھی آیا اور انہوں نے دیوار کو گرا دینا چاہا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہمارا کام صبر کرنا اور قانون کی پابندی اختیار کرنا ای.ہے.پھر مجھے یاد ہے میں بچہ تھا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچپن سے ہی مجھے رویائے صادقہ ہوا کرتے تھے.میں نے خواب میں دیکھا کہ دیوار گرائی جارہی ہے اور لوگ ایک ایک اینٹ کو اٹھا کر پھینک رہے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے کچھ بارش بھی ہو چکی ہے.ا حالت میں میں نے دیکھا کہ مسجد کی طرف حضرت خلیفہ اول تشریف لا رہے ہیں.جب مقدمہ کا فیصلہ ہوا اور دیوار گرائی گئی تو بعینہ ایسا ہی ہوا.اس روز کچھ بارش بھی ہوئی اور درس کے بعد حضرت خلیفہ اول جب واپس آئے تو آگے دیوار توڑی جارہی تھی میں بھی کھڑا تھا.چونکہ اس خواب کا میں آپ سے پہلے ذکر کرچکا تھا اس لئے مجھے دیکھتے ہی آپ نے فرمایا میاں دیکھو آج تمہارا خواب پورا ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بائیکاٹ بھی ہم نے دیکھا.وہ وقت بھی دیکھا جب چوڑھوں کو صفائی کرنے اور سقوں کو پانی بھرنے سے روکا جاتا.پھر وہ وقت بھی دیکھا جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کہیں باہر تشریف لے جاتے تو آپ پر مخالفین کی طرف پتھر پھینکے جاتے اور وہ ہر رنگ میں نفسی اور استہزاء سے پیش آتے.مگر ان تمام مخالفتوں وہ کے باوجود کیا ہوا، آپ جتنے لوگ اس وقت یہاں بیٹھے ہیں، آپ میں سے پچانوے فیصدی و ہیں جو اس وقت مخالف تھے یا مخالفوں میں شامل تھے مگر اب وہی پچانوے فیصدی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے ساتھ شامل ہیں.پھر حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد جماعت میں جو شور اُٹھا اس کا کیا حشر ہوا.اس فتنہ کے سرگروہ وہ لوگ تھے جو صدرانجمن پر حاوی تھے اور تحقیر کے طور پر کہا کرتے تھے کہ کیا ہم ایک بچہ کی غلامی کرلیں.خدا تعالی نے اسی بچے کا ان پر ایسا زعب ڈالا کہ وہ قادیان چھوڑ کر بھاگ گئے اور اب تک یہاں آنے کا نام نہیں لیتے.انہی لوگوں نے اُس وقت بڑے غرور سے کہا تھا کہ جماعت کا اٹھانوے فیصدی حصہ ہمارے ساتھ ہے اور دو فیصدی ان کے ساتھ.مگر اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے دو فیصدی بھی ان کے ساتھ نہیں رہا اور اٹھانوے فیصدی بلکہ اس سے بھی زیادہ ہماری جماعت میں شامل ہو چکا ہے.غرض ہر رنگ میں ہماری مخالفت کی گئی، مقامی طور پر بھی اور بیرونی طور پر بھی، مگر اللہ تعالی نے ہمیں ہمیشہ کامیاب رکھا.ان تمام باتوں کو دیکھتے ہوئے ہمیں مخالفتوں کا کیا ڈر ہو سکتا ہے.احرار
خطبات محمود ۲۰۸ سال ۱۹۳۴ء باقی ہوں یا کوئی اور ہوں، وہ ایک مچھر جتنی بھی وقعت نہیں رکھتے اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ.لوگ ہمارے مقابل میں ایک فیصدی کامیابی بھی حاصل کرلیں گے یہ کیا قادیان کے سارے مخالف مل جائیں ، ہندو، سکھ، غیر احمدی اور احراری ہماری مخالفت میں متحد ہو جائیں، اس کے بعد وہ ارد گرد کے لوگوں کو ملا کر اپنی جماعت کو بڑھائیں، پھر سارے ملک میں سے جن کو اپنا مددگار بنا سکتے ہیں بنائیں حتی کہ انگریز بھی بیشک ان کے ساتھ مل جائیں، اگر یہ تمام مل کر ہمارے مقابل میں ایک فیصدی کامیابی حاصل کر سکیں تو وہ بچے مگر ناممکن ہے کہ انہیں کامیابی ہو.رہیں عارضی مشکلات سو یہ آیا ہی کرتی ہیں.کیا یہ تکلیفیں رسول کریم ﷺ کو پیش نہیں آئیں، کیا آپ کو وطن سے بے وطن نہ ہونا پڑا اپنے عزیزوں کو نہ چھوڑنا پڑا، رسول کریم نے یہ تمام تکالیف دیکھیں.یہاں تک کہ آپ کی ایک صاحبزادی جو حمل سے تھیں جب مکہ سے مدینہ جانے لگیں تو مخالفوں نے انہیں زدو کوب کیا جس کی تکلیف سے ان کا حمل ساقط ہو گیا.تو عارضی تکلیفیں مومنوں پر آیا ہی کرتی ہیں مگر وہ ان سے گھبرایا نہیں کرتے.جس طرح ایک طالب علم محنت کرتا اور تکلیفوں کی پرواہ نہیں کرتا یہاں تک کہ پاس ہو جاتا ہے اسی طرح پاس ہم نے ہونا ہے چاہے کوئی کتنا زور لگا لے.وہ بیشک ہمیں ماریں، پیٹیں، ہم میں بعض کو لولا لنگڑا کر دیں یا جان سے مار دیں، ہمیں اس کی پرواہ نہیں.جس چیز کی پرواہ ہے ہے کہ ہم ہار نہ جائیں.اور یہ یقینی بات ہے کہ دشمن ہی ہاریں گے ہم نہیں ہارسکتے چاہے کوئی گورنمنٹ کھڑی ہو جائے، علماء اور عوام سب مل جائیں، یہ قطعی اور یقینی بات ہے کہ ہم جیتیں گے.ہم کونے کا پتھر ہیں جس پر ہم گرے وہ بھی ٹوٹ جائے گا اور جو ہم پر گرا وہ بھی سلامت نہیں رہے گا.یہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے جو پورا ہو کر رہے گا لیکن اس کے مقابلہ میں بعض ہماری ذمہ داریاں بھی ہیں.میں نے متواتر جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ جب بھی کوئی فتنہ اُٹھتا ہے، منافقوں کے ذریعہ اُٹھتا ہے اور میں نے ہمیشہ جماعت سے کہا ہے کہ منافقوں کو ظاہر کرو اور ان کی پوشیدہ کارروائیوں کو کھولو مگر جماعت اس طرف توجہ نہیں کرتی.مجھے اچھی طرح معلوم ہے ایک درجن سے زائد آدمی قادیان میں ایسے رہتے ہیں جن کی مجالس میں فتنہ انگیزی کی گفتگوئیں ہوتی رہتی ہیں اور جو باہر سے آنے والوں کو ورغلاتے رہتے ہیں.مجھے شریعت اجازت نہیں دیتی کہ میں بغیر ثبوت قائم کئے انہیں سزا دوں، اس لئے میں خاموش رہتا ہوں.مگر میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ایسے منافقوں کا پتہ لگا کر ان کی
خطبات محمود ۲۰۹ سال منافقت کا میرے سامنے ثبوت مہیا کرے تاکہ میں ان اختیارات کو استعمال کروں جو خداتعالی نے مجھے دیئے ہیں.بعض دفعہ بغیر کسی عدالتی ثبوت کے یونہی میرے پاس ایک بات بیان کر دی جاتی ہے.میں سمجھ رہا ہوتا ہوں کہ شکایت کرنے والا سچ کہہ رہا ہے مگر جب میں اسے کہتا ہوں کہ اس کا ثبوت مہیا کرو تو وہ شکوہ کر کے چلا جاتا ہے کہ میری بات پر توجہ نہیں کی جاتی حالانکہ جب تک شرعی اور عدالتی طور پر میرے پاس ثبوت مہیا نہ کیا جائے، میں سزا دینے کا مجاز نہیں چاہے مجھے یقین ہو کہ فلاں آدمی میرے اور جماعت کے خلاف فتنہ انگیزی کرتے رہتے ہیں.باقی اگر ذرا بھی کوشش کی جائے تو اس قسم کے ثبوت مہیا کرنے مشکل نہیں ہوتے.منافق کچھ دلیر ہوتا ہے اور وہ ایک ہی بات بعض دفعہ کئی مجالس میں کر دیتا ہے.اس لئے گواہ آسانی سے پیدا کئے جاسکتے ہیں.مگر لوگ کوشش نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ جس کی ہم شکایت پہنچائیں اسے فوراً سزا دے دی جائے حالانکہ یہ مؤمنانہ مشورہ نہیں.پھر ہماری جماعت کے آدمی باہر بھی ہیں، ان سے بھی اطلاعات ملتی رہتی ہیں.تھوڑے ہی دن ہوئے احراریوں کے ایک لیڈر نے قادیان کے ایک شخص کے متعلق بتایا کہ اس کے ذریعہ قادیان کی خبریں انہیں ملتی رہتی ہیں.اس شخص کے متعلق اپنی جماعت کی طرف سے اگر کوئی اطلاع مجھے پہنچتی ہے تو وہ خبر احاد ہوتی ہے جس پر گرفت نہیں کی جاسکتی.سالہا سال میں نے اس شخص کے متعلق عفو سے کام لیا ہے مگر اب ضرورت ہے کہ ایسے لوگوں کو الگ کیا جائے اس لئے میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ منافقوں کو ظاہر کرے.ہمیں غیروں سے خطرہ نہیں کیونکہ غیروں کے متعلق خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ ان سے خود ہماری حفاظت فرمائے گا.لیکن اگر ہمارے اندر عیب پیدا ہو جائیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم آپ اپنے عہد کو توڑ رہے ہیں اس صورت میں ہم خدا تعالیٰ کی نصرت سے محروم ہو جائیں گے.پس جب تک بیرونی دشمن کے حملہ کا خوف ہے ہمارے لئے گھبراہٹ کی کوئی وجہ نہیں بلکہ جماعت اس مخالفت کی وجہ سے ترقی کرے گی لیکن اگر ہمارے اندر خرابی پیدا ہو گئی تو ہم اپنے ہاتھ سے اللہ تعالی کے ملوں کے دروازہ کو بند کرنے والے ہوں گے.پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہاں یقینی طور پر چند منافق موجود ہیں اور مجھے ان کا پتہ ہے مگر تم انہیں ظاہر کرو یعنی ان کے متعلق ثبوت قائم کرو.میرا یہ طریق نہیں کہ میں ان کی طرف اشارہ کروں کیونکہ رسول کریم اسے ایک دفعہ کسی شخص نے کہا
خطبات محمود فلان ۲۱۰ سال ۱۹۳۴ء یا رسُول اللہ ! آپ نے اگر ذرا آنکھ سے اشارہ کر دیا ہوتا تو ہم فلاں دشمن کا سر اُڑادیتے.آپ نے فرمایا نبی کا کام آنکھ سے اشارہ کرنا نہیں ہے.اسی طرح میرا یہ کام نہیں کہ میں ان باتوں میں دخل دوں.ہاں آپ لوگ اگر ان کے متعلق جو منافقانہ رویہ رکھتے ہیں اور نقصان پہنچا رہے ہیں، ثبوت بہم پہنچائیں تو پھر خدا تعالیٰ نے جو اختیارات مجھے دیئے ہیں ان کو میں استعمال میں لاؤں گا.ان منافقوں کو صرف میں ہی نہیں جانتا اور بھی بیسیوں لوگ جانتے ہیں.کسی کو ایک منافق کا علم ہو گا کسی کو دو کا کسی کو زیادہ کا.ایک دفعہ ایک مجلس میں ذکر ہوا کہ شخص نے آپ کی بہت تعریف کی ہے اور ایک اور شخص جو اس مجلس میں بیٹھا تھا کہنے لگا اگر اس نے اتنی تعریف کی ہے تو ضرور اس نے کوئی نہ کوئی منافقت کا کام کیا ہوگا کیونکہ سنافقین کا طریق ہے کہ جب وہ کوئی مجرم کرتے ہیں تو ساتھ ہی ایسا طریق بھی اختیار کرلیتے ہیں جس سے معلوم ہو کہ وہ بڑے مخلص ہیں.اس وقت مجھے معلوم ہوا صرف میں ہی نہیں بلکہ بعض دوسرے دوست بھی ایسے لوگوں کو جانتے ہیں.مگر اس مجلس کے بعد نہ تو اس دوست نے اور نہ کسی اور نے اس بارے میں میری مدد کی کہ اس کے خلاف ثبوت بہم پہنچاتے.میں سمجھتا ہوں بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ اس قسم کے ثبوت بہم پہنچانے رحم کے خلاف ہیں حالانکہ یہ جذبہ رحم کا غلط استعمال ہے اور یہ بھی جانی قربانی سے انحراف ہے کیونکہ ایک دوست سے علیحدگی طبعاً ناگوار گزرتی ہے اس لئے انسان یہ نہیں چاہتا کہ اپنے واقف کے خلاف کوئی ثبوت مہیا کر کے اس سے بگاڑ پیدا کرے مگر یہ مؤمنانہ طریق نہیں.صحابہ " کا نمونہ دیکھو انہوں نے بیوی بچوں، دوستوں، عزیز واقارب اور رشتہ داروں کو خدا تعالیٰ کیلئے ترک کر دیا یہاں تک کہ عبداللہ بن ابی بن سلول نے ایک دفعہ رسول کریم ال کے متعلق کہا کہ مدینہ کا سب سے زیادہ معزز آدمی وہاں کے سب سے زیادہ ذلیل آدمی کو نکال دے گا.قرآن مجید میں بھی اس کا ذکر آتا ہے.معزز سے مراد اس کم بخت کا اپنا وجود تھ اور ذلیل سے اس نے رسول کریم ال سے مراد لئے اور کہا کہ مدینہ پہنچ کر میں جو معزز ترین آدمی ہوں، محمد اسی کو نکال دوں گا.یہ بات جب پھیل گئی تو عبد اللہ بن ابی بن سلول کا لڑکا ہے آنحضرت ا کی خدمت میں حاضر ہوا.اور کہنے لگا سنا ہے میرے باپ نے ایسی ایسی بات کہی ہے.اس کی سزا سوائے قتل کے اور کیا ہو سکتی ہے.میں عرض کرنے آیا ہوں کہ اسے قتل کرنا ہو تو یہ کام میرے سپرد کیا جائے تاکہ اگر کوئی اور شخص اسے مارے
خطبات محمود ۲۱۱ سال ۱۹۳۴ء تو مجھے بعد میں کسی وقت اس پر غصہ نہ آجائے ہے.یہ قربانی ہے جو حقیقی قربانی ہے.اس روح کو اپنے اندر پیدا کرو.جب تک تم اپنے عزیز ترین وجودوں کو خدا تعالیٰ کیلئے چھوڑنے پر تیار نہیں ہو گے، جب تک تم منافقین کے اخراج کیلئے عملی رنگ میں جدوجہد نہیں کرو گے، اُس وقت تک اندرونی فتن سے محفوظ نہیں رہ سکتے اور جب تک اندرونی رفتن سے محفوظ نہیں ہوگے اس وقت تک مرض کی جڑ موجود رہے گی اور جب تک جڑ رہے گی حقیقی شفاء حاصل نہیں ہو سکے گی.بلکہ اندر بیماری کا رہنا زیادہ خطرناک ہوتا ہے باہر کا تپ اگر ٹوٹ جائے اور اندر رہنے لگے تو وہ رسل کا رنگ اختیار کرلیتا ہے.پس بیرونی مخالفت کو چھوڑ دو وہ خود بخود مٹ جائے گی.تم اندرونی مخالفت کو مٹانے کی طرف توجہ کرو.وہ اندرونی مخالفت جس کا موجود رہنا خدا تعالی کے فضلوں سے جماعت کو محروم کردیتا ہے.میں نے پہلے بھی جماعت کو توجہ دلائی تھی، اب پھر کہتا ہوں کہ منافقین کو ظاہر کرو.اگر اب بھی آپ لوگ توجہ نہیں کریں گے تو میں خدا تعالیٰ کے حضور بری الذمہ ہوں گا.اور اس صورت میں اگر آپ پر کوئی عذاب یا تکلیف آئے تو اس کی ذمہ داری مجھ نہیں بلکہ آپ لوگوں پر ہی ہوگی کیونکہ میں نے تو جو کچھ کہنا تھا کہہ دیا.عہد کو آپ لوگوں نے تو ڑا ہوگا اور اسی نقض عمد کی وجہ سے آپ دکھ اور تکلیف میں مبتلاء ہوں گے.الفضل ۵ اگست ۱۹۳۴ء) پیدائش باب ۱۷ آیت ۹ تا ۲۱ (مفهوماً) له بخاری کتاب الزكوة باب لاصدقة إلا عن ظهر غنّى سے سنن ابی داؤد کتاب الحدود باب الحكم فيمن ارتد سے اس کا نام بھی عبداللہ تھا.(مرتب) ه ترمذی ابواب التفسير تفسير سورة المتفقون
خطبات محمود ٢١٣ ۲۴ سال ۱۹۳۴ء کامیابی اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ ذرائع کو استعمال کرنے سے ہو سکتی ہے (فرموده ۳- اگست ۱۹۳۴ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- اللہ تعالیٰ نے ہر کام کیلئے کچھ وسائل مقرر فرمائے ہیں ان کو استعمال کئے بغیر یا ان کی نگہداشت کے بغیر کبھی کامیابی نہیں ہو سکتی.اگر کوئی شخص چاہے کہ ان وسائل کو نظرانداز کر کے کامیاب ہو جائے یا انہیں استعمال تو کرے لیکن ان کی نگہداشت اور حفاظت نہ کرے اور کامیاب ہو جائے تو یہ بھی ناممکن ہے.دعا بیشک ایک کام دینے والی اور نفع مند چیز ہے اور انفرادی طور پر اگر ذرائع کو دیکھا جائے تو سب سے اعلیٰ اور کامل ذریعہ دعا ہی ہے.مگر دعا بھی سوائے شاذ کے ان طبیعی حالات کی قائمقام نہیں ہو سکتی جو اللہ تعالی نے کسی کام کے سرانجام پانے کیلئے مقرر فرمائے ہیں.کسی بزرگ کے متعلق لکھا ہے کہ ان کی دعائیں بہت قبول ہوتی تھیں کوئی سپاہی ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ دعا کیجئے میرے ہاں بچہ پیدا ہو.واپس جانے لگا تو آپ نے دیکھا کہ جس طرف سے آیا تھا اس سے مخالف سمت کو روانہ ہوا ہے.انہوں نے اس سے پوچھا کہ کہاں جاتے ہو.اس نے کہا میں فوج میں ملازم ہوں، رخصت پر گھر آیا ہوا تھا اور اب اپنی نوکری پر واپس جا رہا ہوں.اس بزرگ نے کہا اگر تو نوکری پر جارہا ہے تو میری دعائیں کیا کام دے سکتی ہیں.میری دُعا تو اس صورت میں کارگر ہو سکتی ہے کہ تو گھر پر رہے اور ان طبیعی ذرائع کا استعمال کرے جو اللہ تعالیٰ نے بچہ ہونے وہ
خطبات محمود ۲۱۳ سال ۶۱۹۳۴ کیلئے مقرر کئے ہیں.اس میں شبہ نہیں کہ سامان کے بغیر بھی بعض اوقات کوئی کام ہو جاتا ہے، مگر اس میں بھی اخفاء کا پہلو ضرور ہوتا ہے.یہ کبھی نہ ہوگا کہ دعا کی اور عناصر میں یکا یک ویسا ہی تغیر پیدا ہو گیا.مثلاً پانی ملنے کیلئے دعا کی جائے تو یہ نہ ہوگا کہ ہوا میں سے آکسیجن اور ہائیڈروجن الگ ہو کر آپس میں مل جائیں اور پانی بن جائے.پانی کیلئے اللہ تعالی کوئی ظاہری سامان ہی کرے گا.مثلاً کسی قافلہ کو بھیج دے گا جس کے پاس پانی ہو گا، کسی سوکھے ہوئے کنویں سے پانی نکل آئے گا یا کوئی اور سامان پیدا ہو جائے گا یہ کبھی نہیں ہو گا کہ ہوا سے گیس نکل کر پانی بن جائے.پس جہاں اللہ تعالی کی طرف سے بغیر سامان کے کام ہوتے ہیں، وہاں بھی اخفاء کا پہلو ضرور ہوتا ہے.ہماری جماعت میں بھی اس قسم کے معجزہ کی مثالیں ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کشف میں دیکھا کہ آپ نے اپنے ہاتھ سے بعض پیشگوئیاں لکھیں جن کا مطلب یہ تھا کہ ایسے واقعات ہونے چاہئیں.اور وہ کاننذ دستخط کرانے کیلئے خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کیا.اللہ تعالیٰ نے قلم کو دوات میں ڈالا اور جس طرح زیادہ سیاہی لگ جانے سے اسے چھڑک دیا جاتا ہے چھڑکا اور سُرخ رنگ کے چھینٹے آپ پر بھی گرے.آپ نے اُٹھ کر بعینہ ویسے ہی قطرے دیکھے.مولوی عبداللہ صاحب سنوری مرحوم و مغفور جو اُس وقت آپ کے پاؤں دبارہے تھے ان کی ٹوپی پر بھی قطرے گرے.اب یہ ایک نشان ہے اور ایسی چیز پیدا کی گئی جو عام قانون جاریہ میں نظر نہیں آتی مگر یہاں بھی اختفاء کا پہلو ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رویا دیکھا اور رویا اپنی ذات میں اخفاء ہے.پھر جو جاگتا تھا اس نے نہ قلم دیکھا نہ دوات نہ خدا کا ہاتھ اور نہ چھینٹے گرتے ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ سب کچھ دیکھا مگر آپ اس وقت سوئے ہوئے تھے اور یہ نظارہ کشف کا تھا اس طرح یہاں بھی اختفاء موجود ہے.پس تمام کام جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کئے جاتے ہیں، ان میں اخفاء ضرور رکھا جاتا ہے.آنحضرت ا کے متعلق آتا ہے کہ آپ نے برتن میں ہاتھ ڈالا جس میں پانی کم تھا.مگر پھر بھی سب لوگ سیراب ہو گئے اے- اس میں بھی اخفاء ہے جس کی وجہ سے کوئی اس کی یہ تاویل کر لیتا ہے کہ صحابہ نے جب پانی جمع کرنا شروع کیا تو اس کا اندازہ کرنے میں غلطی کی.دراصل پانی ان کے اندازہ سے زیادہ تھا.کوئی کہتا ہے اللہ تعالی نے تھوڑے پانی میں ہی برکت
خطبات محمود ۲۱۴ سال ۱۹۳۴ نو ڈال دی اور وہ سب کیلئے کافی ہو گیا.بعض کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی حکمت سے ان کی پیاسوں میں کمی ہو گئی اور وہ تھوڑے پانی سے بجھ گئیں.جو بھی صورت ہو' اخفاء کا پہلو بہر حال موجود ہے.تو دعا جہاں کام کرتی ہے وہاں بھی ظاہری اختفاء ضرور ہو تا ہے پھر یہ بات ہوتی بھی بالکل شاذ ہے.رسول کریم اللی کی زندگی میں چند ایک واقعات ہی ایسے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی زندگی میں بھی ایک دو ہی ہیں.ممکن ہے بعض انبیاء کی زندگیوں میں ایسا واقعہ کوئی بھی نہ ہو.دنیا لاکھوں کروڑوں سال سے چلی آتی ہے بلکہ قرآن کریم سے تو معلوم ہوتا ہے کہ اربوں بلکہ ان گنت سالوں سے چلی آرہی ہے.اور اگر تنے لمبے عرصہ میں چند سو دفعہ ایسے واقعات رونما ہو گئے تو ان کی ان دوسرے واقعات کے مقابلہ میں کیا گفتی ہے جو ہر شخص کے سامنے روزانہ گذرتے ہیں.حقیقت یہی ہے کہ دعا کی قبولیت بھی سامانوں کو چاہتی ہے.کوئی افسر مہربان ہو گیا اور ترقی مل گئی ، تجارتی مال بک گیا اور اس طرح قرض اُتر گیا یا نفع ہو گیا، کوئی قید تھا، بادشاہ مرگیا یا اس کی تخت نشینی ہوئی اور قیدی چھوٹ گئے.دیکھنے والا اسے اتفاق کہتا ہے مگر مومن سمجھتا ہے کہ یہ دعا کا نتیجہ ہے.پس سامانوں کو مد نظر رکھنا خدا تعالیٰ نے دعا کے باوجود ضروری قرار دیا ہے.مگر بعض لوگ وہ ہیں جو ذرائع پر اتکال کر لیتے ہیں اور بعض وہ ہیں جو سمجھتے ہیں جب ہم نے ایک دو دفعہ ہاتھ اٹھا کر دعا کردی اور اس سے فلاں چیز مانگ لی تو اب اللہ تعالیٰ کا فرض ہو گیا کہ ہمیں دے.پھر بعض لوگ سامان کرتے ہیں مگر بالکل سکتے اور ان کی حالت ویسی ہوتی ہے جیسے کہتے ہیں کوئی برہمن دریا پر نہانے گیا سردی سخت تھی اور وہ حیران تھا کہ کیسے نہاؤں، اتنے میں اسے ایک اور برہمن دریا سے واپس آتا ہوا ملا.اس نے پوچھا سردی تو بہت سخت ہے تم کس طرح نہائے.اس نے کہا میں تو چند کنکریاں دریا میں پھینک کر اور یہ کہہ کر تور اشنان سو مور اشنان واپس آگیا ہوں.اس پر وہ کہنے لگا اچھا تو پھر تور اشنان سو مور اشنان" اور وہ بھی گھر لوٹ آیا.تو بعض لوگ ایسے سامان مہیا کرتے ہیں جو سامان کہلانے کے مستحق نہیں ہوتے.قلب کی صفائی کیلئے اللہ تعالیٰ نے بعض ایسے کلمات بتائے ہیں جو اس کی محبت اس کے عفو، اس کے غفران، اس کی رحمانیت، اس کی رحیمیت، اس کی رحمت اور قوت پر دلالت کرتے ہیں.انہیں پڑھنے کیلئے ایک شخص نماز میں کھڑا ہوتا ہے.لیکن وضو نہیں کرتا یا اگر کرتا ہے تو احتیاط سے نہیں کرتا.یا اگر وضو ٹھیک کرتا ہے تو نماز بے توجہی سے پڑھتا ہے وہ ایک نامکمل سی چیز پیش کرتا ہے.
سال ۱۹۳۴ء خطبات محمود ۲۱۵ پھر اگر یہ سمجھے کہ میں نے نمازیں پڑھی ہیں اور نتائج کا امیدوار ہوں تو یہ اس کی غلطی ہوگی.اسی طرح ایک شخص روزہ رکھتا ہے مگر اس کے روزہ کی حقیقت کوئی نہیں.وہ گالیاں بھی دیتا رہتا ہے، فساد بھی کرتا ہے، غیبت، چغلی، بد گوئی سب کچھ کرتا ہے ایسی حالت میں اگر اُس نے پیٹ کو خالی رکھا تو اس سے کیا فائدہ یا اگر وہ یہ استدلال کرلیتا ہے کہ سحری کھاتے ہوئے اگر ذرا دیری بھی ہو گئی تو کیا حرج ہے.یا شام کے وقت سے پہلے ہی افطار کرلیتا ہے.یا اتنی دیر میں کرتا ہے کہ جس کے متعلق رسول کریم ال نے فرمایا ہے کہ روزہ مکروہ ہو جاتا ہے سہ تو ایسے روزہ کا کیا فائدہ یہ ساری حالتیں روزہ کو خراب کرنے والی ہیں.، یہاں ایک شخص ہے جسے بچپن سے اعتراض کرنے کی عادت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں وہ اس امر پر بحث کیا کرتا تھا کہ اگر روزہ مقررہ وقت سے کچھ دیر یا بعد میں رکھ لیا یا وقت سے ذرا پہلے یا بعد میں افطار کرلیا جائے تو کیا حرج ہے.ایک دن اس نے خواب میں دیکھا کہ تانی (جولاہوں کی) ایک طرف کیلے سے باندھ کر دوسری طرف باندھنا چاہتا ہوں.لیکن وہ کیلے سے دو انچ ادھر رہتی ہے وہاں تک پہنچانے کیلئے کھینچتا ہوں مگر وہ نہیں پہنچتی.اس پر بہت گھبراہٹ ہوئی کہ صرف دو انچ فرق کیلئے تانی خراب ہو جائے گی اور شور مچانا شروع کردیا کہ لوگو دیکھو صرف اتنے سے فرق کیلئے میری تانی خراب ہو رہی ہے میں آنکھ کھل گئی اور تعبیر سمجھ میں آگئی اسی طرح جماعتی اور ملی کام ہوتے ہیں.بعض مخص خیال کرلیتے ہیں کہ سب لوگ چندہ دیتے ہیں اگر ہم نے نہ دیا تو کیا ہو گیا لیکن اگر ہر یہی خیال کرلے تو کام کس طرح چلے.جماعت کے ہر شخص کو خیال کرنا چاہیے کہ میں ہی ذمہ دار ہوں اور مجھے کسی حالت میں بھی خدمت دین سے غافل نہیں ہونا چاہیئے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں ایسے مخلصین ہیں جو اپنے بیوی بچوں کیلئے جب سامان اور ضروریات خریدتے ہیں تو دین کی بھی فکر رکھتے ہیں.وہ جب اپنے اور اپنے متعلقین کیلئے آرام کا سامان مہیا کرتے ہیں تو یہ بھی دیکھ لیتے ہیں کہ محمد رسول اللہ اللہ کے دین کیلئے ہم نے کیا سامان کیا ہے گویا وہ آپ ہی آپ بیدار ہوتے ہیں.ان کے علاوہ بعض ایسے ہوتے ہیں جو سوجاتے ہیں مگر جب بیدار کیا جائے تو فوراً بیدار ہو جاتے ہیں لیکن بعض کچلے ہوتے ہیں اور مچلوں کو کون جگا سکتا ہے.جو دراصل جاگ رہا ہو اور جان بوجھ کر سویا ہو اسے کس طرح جگایا جائے.اسے جتنا ہلاؤ گے وہ زیادہ خرانے بھرنے لگے گا.ایسے لوگ سخت نقصان کا
خطبات محمود ۲۱۶ سال ۱۹۳۴ء موجب ہو جاتے ہیں.مخلص وہ لوگ ہوتے ہیں جو یہ خیال کرتے ہیں کہ اکیلے ہم ہی ذمہ دار ہیں.اسی طرح بعض لوگ احکام کی فرمانبرداری کرنے کی بجائے حیلے بہانے کرنے لگ جاتے ہیں اور تاویلات میں وقت ضائع کر دیتے ہیں مگر اس طرح کبھی کام نہیں چل سکتا.ایسے لوگوں کی مثال زمیندار کی سی ہوتی ہے جو آج ہل چلائے، اگلے سال سہاگہ دے اور پھر اس سے اگلے سال تخم ریزی کرے.اور پھر دو چار سال بعد کھیتی کاٹنے جائے.ظاہر ہے ایسی فصل اول گے گی ہی نہیں اور اگر آگے بھی تو جانور وغیرہ کھا جائیں گے اور بونے والے کو کچھ بھی حاصل نہ ہو گا.ایسا شخص کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکے گا فائدہ وہی اٹھا سکتا ہے جو بونے سے پہلے ہل چلائے، پھر سہاگہ دے، وقت پر تخم ریزی کرے، آبپاشی کرے اور وقت مقررہ کے اندر اندر کائے.بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ ایک وقت تک نمازیں پڑھیں گے، روزے رکھیں گئے، چندے دیں گے اور خیال کرلیں گے کہ ہم نے سب کچھ کر لیا حالانکہ اس سے کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے وہ کسان جو ایک سال ہل چلاتا دوسرے سال سہاگہ دیتا، تیسرے سال بیج بوتا اور چوتھے سال کاٹنے جاتا ہے.وہ اگر کہے کہ میں نے محنت تو کی تھی مگر نتیجہ کچھ نہیں نکلا.تو ہر شخص اسے یہی جواب و دے گا کہ تو نے کب کی تھی مست الوجود ! محنت تو متواتر کام کرنے کا نام ہے، ورنہ کچھ نہ کچھ کام تو ہر شخص کرتا ہے یہ محنت نہیں، یہ تو سستی ہے.کہتے ہیں کوئی سپاہی سڑک پر جارہا تھا کہ رستہ سے تھوڑی دور کسی نے اسے آواز دی کہ ذرا ادھر آنا.وہ جب وہاں پہنچا تو دیکھا دو آدمی لیٹے ہیں ان میں سے ایک اسے کہنے لگا بھئی میری چھاتی پر بھیر پڑا ہے، ذرا اٹھا کر میرے منہ میں ڈال دینا.سپاہی کو غصہ آیا.اس نے کہا تم عجیب آدمی ہو اس کام کیلئے اتنی دور سے مجھے بلایا تھا اور اسے ڈانٹنے ڈپٹنے لگا.اس پر دوسرا کہنے لگا آپ ناراض نہ ہوں یہ ہے ہی بہت کاہل اور ست الوجود- دیکھو ساری رات کتا میرا منہ چاہتا رہا مگر اس نے ہش تک نہ کی.یہ سن کر سپاہی چپکے سے چلا گیا اور اس نے سمجھ لیا کہ ان کو نصیحت کرنا بیکار ہے.اب اس شخص نے بھی سپاہی کو آواز دے کر بلایا تھا.لیکن اگر وہ بھی کہتا کہ میری محنت اکارت گئی تو.مضحکہ خیز بات تھی.محنت متواتر اور موزوں کوشش کا نام ہے.جو شخص آج نماز شروع کرے اور کل چھوڑ دے.یا ایک دن روزہ رکھ لے اور دوسرے دن ترک کردے اور کوئی نتیجہ نہ نکلے تو اس کا
خطبات محمود ۲۱۷ سال ۱۹۳۴ء یہ کہنا کبھی درست نہیں ہو سکتا کہ میری محنت اکارت گئی.پس اگر ہماری جماعت بہتر نتائج کی خواہشمند ہے تو اسے چاہیے کہ اپنے عمل سے خاص یہ نمونہ قائم کرے.اللہ تعالیٰ کسی کا رشتہ دار نہیں جو شخص اس کا ہوتا ہے، وہ اسی کا ہوتا ہے اور پھر اس کے ساتھ ساری دنیا اس کی ہو جاتی ہے.اگر ساری دنیا مل کر بھی اس کی مخالفت کرے تو آسمان کی شعائیں اس کی مدد کرتی ہیں.ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت دل کے اندر پیدا کی جائے اور پھر توکل اور استقلال کے ساتھ اس پر قائم رہیں.جس رنگ میں بھی نیکی کریں استقلال کے ساتھ کریں تاکہ کوئی نتیجہ نکلے.دیکھو ایک ایک قطرہ مسلسل اور مستقل طور پر گرتے گرتے پتھر میں گڑھا بنادیتا ہے.پہاڑوں میں ہم نے دیکھا ہے بعض مقامات پر پانی کا ایک ایک قطرہ گرتا ہے مگر وہ پھر میں گڑھا پیدا کر دیتا ہے لیکن ایک ہی دفعہ اگر ایک بڑی ٹینکی بھی پانی کی بہادی جائے تو کچھ نہیں ہوگا.پس نیکی میں باقاعدگی ضروری ہے.جماعت کے نظام کے متعلق ہی میں دیکھتا ہوں کہ جب منافق پیدا ہوتے ہیں اور ان کے متعلق توجہ دلائی جاتی ہے تو سب لوگ جوش میں آجاتے ہیں.یہاں بھی اور باہر بھی جماعت میں خاص بیداری پیدا ہو جاتی ہے مگر تھوڑے ہی عرصہ کے بعد ایسی خاموشی چھا جاتی ہے کہ گویا کچھ ہوا ہی نہیں اور یہ خیال نہیں کیا جاتا کہ جب ایک سور اپنے بچے کو چھوڑ جاتا ہے، ایک کتا چھوڑ جاتا ہے ایک شہر چھوڑ جاتا ہے تو منافق نے کیوں نہ چھوڑے ہوں گے اور اس سے جماعت کو محفوظ رکھنے کا کیا فائدہ جب تک اس کے بچوں سے بھی محفوظ نہ کرلیا جائے.اس کے بچوں سے مراد اس کی جسمانی اولاد نہیں.اس کی روحانی اولاد تو نہیں کہہ سکتے بلکہ اس کی شیطانی اولاد مراد ہے.جب تک اس کا بھی علاج نہ کیا جائے، صرف ایک آدھ کے علاج سے یہ مقصد پورا نہیں ہو سکتا.ان کو چھوڑ دینے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک دو سال کے بعد ایک اور پارٹی نمودار ہو جاتی ہے اور پھر اس کا انتظام کرنا پڑتا ہے حالانکہ اگر ایک ہی وقت سب کے نفاق کو ظاہر کر دیا جائے تو پھر بھی اگرچہ مرض باقی رہے گا مگر وہ اس قدر نقصان دہ نہ ہو گا جس قدر جڑ کے قائم رہنے کی صورت میں ہوتا ہے اور کم سے کم ہماری ذمہ داری نہ رہے گی.گو وہ مصر اس صورت میں بھی ہو گا جیسے اگر کسی شخص کے اندر ملیریا کا زہر ہو تو گو اسے بخار نہ ہو تو بھی اس پر مستی طاری رہے گی.بعض یورپین ڈاکٹروں نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ ہندوستان ہمیشہ دوسروں کے زیر حکومت اس لئے رہا ہے کہ ہندوستانی ہمیشہ ملیریا کے اثر کے نیچے رہتے
خطبات محمود ۲۱۸ سال ۶۱۹۳۳ ہیں.اور یورپین ڈاکٹروں کا کیا ذکر خود بنگال کے بعض ڈاکٹروں کی بھی یہی رائے ہے.پس اندر اگر زہر ہو تو طبیعت میں سستی ضرور ہوتی ہے.اسی طرح جن لوگوں میں منافقت کا زہر ہو گا وہ سلسلہ کے کاموں میں سست ہوں گے مگر اتنے نقصان دہ نہ ہوں گے.میں پس اب سب کاموں کے متعلق ہماری جماعت کو اپنا وطیرہ بدلنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کے تمام احکام پر پوری طرح عمل کرنا چاہیئے.یہ نہیں کہ نماز پڑھی اور روزہ چھوڑ دیا.یا تبلیغ کی نو چندہ نہ دیا.اسی طرح نظام سلسلہ کے متعلق بھی اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرنا چاہیے.جیسے کپتان جہاز کے پاس ایک چارٹ ہوتا ہے جو اسے بتاتا ہے کہ فلاں راستہ خراب ہے، فلاں مقام پر چٹانیں ہیں، فلاں جگہ پانی تھوڑا ہے.یا کوئی جہاز کو نقصان پہنچانے والی چیز موجود ہے.اسی طرح مومن کے سامنے ایک چارٹ ہر وقت ہونا چاہئیے جس سے وہ دیکھتا رہے کہ مجھے کیا کیا امور مد نظر رکھنے چاہئیں پھر اس کی راہنمائی میں روحانی جہاز کو سب خطرات سے بچاتا ہوا لے جائے وگرنہ وہ کسی نہ کسی پہاڑ سے ٹکرا کر چکنا چور ہو جائے گا اور اگر نہ بھی ٹکرائے تو بھی خطرہ اسے ہر وقت رہے گا.پس اس لئے بیداری سے کام کرو.یہ مت خیال کرو کہ ہم تعلیم نہیں، ہم ان پڑھ ہیں.رسول کریم ﷺ نے ظاہری تعلیم حاصل نہ کی تھی مگر پھر بھی آپ کی کوئی مثال دنیا پیش نہیں کر سکتی.اور بھی کئی ایسی ہستیاں گذری ہیں جنہوں نے اپنے اپنے دائرہ کے اندر ترقیات حاصل کیں.نادر شاہ بالکل ان پڑھ تھا اور ایک گڈریے کا بیٹا تھا لیکن اس کے باوجود اس نے ایران، ہندوستان اور افغانستان کو فتح کر لیا.کسی نے اس سے دریافت کیا کہ آپ کے باپ کا نام کیا ہے.اس سوال کے جواب میں اس نے تلوار کی طرف اشارہ کر کے کہا میں اسی کا بیٹا ہوں.یعنی میرا باپ تو بڑا آدمی نہیں تھا لیکن میری تلوار بڑی ہے.اسی طرح چند سال ہوئے بچہ سقہ نے ایک زبردست بادشاہ کو جو یورپ کی سلطنتوں پر بھی اپنی بڑائی کا سکہ جمانے گیا تھا، ملک سے ایسی صفائی کے ساتھ نکال دیا جیسے مکھن بال نکال دیا جاتا ہے.پس ظاہری بڑائی کوئی چیز نہیں.انسان اگر غور کرے، اپنی ذمہ داری کو سمجھے تو قوت مقابلہ خود بخود اس کے اندر پیدا ہو جاتی ہے.جب تک یہ قوت پیدا نہ ہو، عقل بھی کام نہیں دیتی.جب دل میں لگن نہ ہو تو دماغ بھی منجمد ہو جاتا ہے.پس دین اسلام کیلئے اپنے دل میں لگن پیدا کرو.پھر گو تم لکھے پڑھے نہیں خود بخود ہر بات کو سمجھتے جاؤ گے.ہر شخص اگر اپنے ارد گرد اصلاح کی کوشش شروع کردے.یہاں کے دارالرحمت والے اپنے محلہ میں،
خطبات محمود ۲۱۹ سال ۱۹۳۴ء دار الفضل والے وہاں، دار البرکات والے اپنے ہاں، اسی طرح دوسرے محلوں والے اپنے اپنے محلوں میں، تو جو لوگ قابل اصلاح ہیں، ان کی اصلاح ہو جائے گی.اور اجزاء کی اصلاح سے کل کی اصلاح خود بخود ہو جاتی ہے.اسی طرح ہر شخص اگر اپنے گردو پیش کی اصلاح کرے تو سب کی خود بخود اصلاح ہو جاتی ہے.ایک کام کرے تو دوسرا بھی اسے دیکھ کر کرنے لگ جاتا ہے.اس کیلئے کسی بڑی قابلیت کی ضرورت نہیں ہوا کرتی.ہر شخص اپنے گردو پیش اصلاح کئی کوشش کرے تو دوسروں کو بھی تحریک ہو جاتی ہے.پس ان امور کو یاد رکھنا نہایت ضروری ہے.ایک سال کے اندر ہماری بہت سی طاقت اس قسم کی اصلاح کرنے میں ضائع ہو جاتی ہے جسے محفوظ رکھنا ہمارا فرض ہے.ہماری ترقی کیلئے اگر سو فیصدی طاقت کی ضرورت تھی ج خدا تعالی نے ہمیں دی اور اس میں سے اگر چالیس فیصدی ضائع ہو جائے تو یہ بہت بڑا نقصان ہے اور جتنی جلدی ترقی ہو سکتی تھی اس نقصان سے وہ پیچھے جاپڑے گی.، جو پس احباب کے اندر بہت سی بیداری اور ہوشیاری کی ضرورت ہے.اللہ تعالی توفیق دے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ہر ایک کے اندر یہ احساس پیدا ہو جائے کہ میں ہی ذمہ دار ہوں.اسی احساس کے نتیجہ میں سوسائٹی کی اصلاح ہو سکتی ہے.لیکن یہ بھی یاد رکھو کہ ذمہ داری کے معنی قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کے نہیں بلکہ یہ مطلب ہے کہ وعظ و نصیحت کی جائے اور مرکز میں ذمہ دار افسران کو اطلاع دی جائے.یہ نہیں کہ لٹھ لئے پھریں اور جس کسی میں کوئی نقص دیکھیں، اس کا سر پھوڑ دیں کیونکہ اصلاح فتنہ و فساد کی روح کو مٹانے سے ہو سکتی ہے.اس نصیحت کے ساتھ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالٰی ہمارے دوستوں کو توفیق دے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں اور تواتر و استقلال کے ساتھ ایسے رنگ میں کام کریں کہ کامیاب ہو سکیں اور دنیا میں اسلام کی صداقت پھیلانے میں کامیاب ہو جائیں.الفضل ۹- اگست ۱۹۳۴ء) لہ مسلم کتاب الفضائل باب فی معجزات النبی ﷺ ه بخاری کتاب الصوم باب تعجيل الافطار
خطبات محمود ۲۲۰ ۲۵ دعوتِ طعام اور اسلامی آداب (فرموده ۱۰-اگست ۱۹۳۴ء) سال ۱۹۳۴ تو تشد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں نے کئی دفعہ اپنے خطبات میں جماعت کے احباب کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ مومن کا ہر کام عقل کے ماتحت ہونا چاہیئے.مومن اور بیوقوفی جمع نہیں ہو سکتی، اس لئے کہ بیوقوفی کی بات پر لوگ ہنسا کرتے ہیں اور مومن اپنی کامیاب راہوں میں نفسی کے قابل نہیں ہوتا.دشمن ہے تو ہے، جائز طور پر اس کی کسی بات پر نہیں نہیں کی جاسکتی کیونکہ خدا تعالیٰ نے مومن کو عزت کیلئے بنایا ہے، ہنسی کیلئے نہیں بنایا.اور جسے خدا نے عزت کیلئے بنایا ہو اس کی باتیں نہی کے قابل نہیں ہونی چاہئیں تاکہ وہ اس مقام سے نہ گر جائے جس پر خداتعالی نے اسے کھڑا کیا ہے.مگر باوجود بار بار توجہ دلائے جانے کے ہمارے احباب ایسی غلطیاں کر جاتے ہیں جو بعض دفعہ غلط اخلاص کی وجہ سے بعض دفعہ غلط محبت کی وجہ سے بعض دفعہ بیوقوفی کی وجہ سے اور بعض دفعہ بعض لوگوں کی منافقت کی وجہ سے مضحکہ انگیز 1 ނ ہو جاتی ہیں.پچھلے دنوں ایک واقعہ ہمیں یہاں ایسا پیش آیا ہے کہ گو میں اپنی طبیعت کے لحاظ اس کے بیان کرنے میں شرم محسوس کرتا ہوں یا اس لئے کہ اپنے دوستوں کے نقص کا ذکر کرنا پڑتا ہے.مجھے اس کے بیان کرنے پر شرم محسوس ہوتی ہے مگر چونکہ میرے سپرد جماعت کی تربیت کا کام بھی ہے، اس لئے میرا فرض ہے کہ گو مجھے اس کے بیان کرنے پر شرمندگی
خطبات محمود ۲۲۱ سال ۱۹۳۴ء ريم - محسوس ہوتی ہے لوگوں کے سامنے بیان کروں.رسول کریم ﷺ کی شادی جب حضرت حفصہ سے ہوئی، مجھے صحیح نام یاد نہیں غالب طور پر میرے ذہن میں اس وقت یہی ہے کہ حضرت حفصہ " ہی تھیں اس وقت بعض لوگوں کو ولیمہ پر بلایا گیا.جب کھانا وغیرہ کھا چکے تو لوگ اسی جگہ بیٹھ کر آپس میں باتیں کرنے لگ گئے.رسول کریم ال چاہتے تھے کہ لوگوں نے جب کھانا کھالیا ہے تو چلے جائیں اور اگر باتیں ہی کرنی ہوں تو باہر جاکر کریں، مگر آپ حیا کی وجہ سے ان سے کہہ نہ سکتے تھے کہ اُٹھ جاؤ.آپ خاموش رہے اس پر خداتعالی نے یہ حکم نازل کیا کہ جب کسی کے ہاں کھانا کھانے جاؤ تو کھا کر وہاں بیٹھے نہ رہو بلکہ جب کھانا کھا چکو تو چلے آؤ ہے.تب آپ نے اس حکم کو بیان کیا گو اس کے بیان کرتے وقت بھی آپ شرم محسوس کرتے تھے.اب ہمارے لئے سب احکام قرآن مجید میں موجود ہیں اور گو ہمیں بھی بعض دفعہ شرم محسوس ہو مگر قرآنی احکام کے مطابق جماعت کی تربیت کے لحاظ سے بعض امور بیان کرنے ہی پڑتے ہیں.وہ واقعہ جس کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے میرے لڑکے سے کے ولیمہ کی دعوت ہے.ہماری جماعت خدا تعالی کے فضل سے قادیان میں آٹھ ہزار کے خداتعالی قریب ہے.یعنی ان گاؤں کے احمدیوں کو ملا کر جو ایک رنگ میں قادیان کا ہی حصہ ہیں اتنی آبادی ہے.سات ہزار دوسو سے کچھ اوپر تو قادیان کی احمدی آبادی ہے اور باقی آٹھ سو ملحقہ دیہات کے احمدیوں کی.آج سے چند سال پہلے یہاں پانچ اور چھ سو کی آبادی ہندو اور سکھوں کی تھی، دو سو چوہڑوں کی تھی، ہزار کے قریب غیر احمدیوں کی تھی.ان سب کو اگر ملالیا جائے تو سترہ اٹھارہ سو آبادی بنتی ہے.بہتر سو میں سے اٹھارہ سو نکال دیئے جائیں.تو چون سو آبادی اُس وقت احمدیوں کی تھی.اس کے بعد جو دوسرے لوگ تھے، ان میں سے کچھ احمدی ہو گئے.چوہڑوں کی آبادی کم ہو گئی اور اس کا ایک اچھا خاصہ حصہ مسلمان ہو گیا.اگر اس زیادتی کو ملالیا جائے تو احمدیوں کی تعداد چون سو سے اٹھاون سو بن جاتی ہے اسی عرصہ میں دو ہزار کے قریب آبادی احمدیوں کی اور بڑھ گئی کیونکہ اگر ہر سال سوا سو مکان کی اوسط رکھی جائے.تو قریباً پانچ سو نیا مکان قادیان میں اور بنا ہے.فی مکان اگر چار کس کی آبادی فرض کرلی جائے، گو بعض گھروں میں اس سے زیادہ آبادی ہوئی ہے تو دو ہزار کے قریب احمدی آبادی زیادہ ہوئی.اگر کہا جائے کہ بعض نئے مکان ایسے لوگوں نے بنائے ہیں جو پہلے سے یہاں کرایہ کے مکانوں میں رہتے تھے اور ایسے لوگوں کی تعداد چار پانچ سو فرض کر لی جائے تو بھی اس تعداد کو منہا کر کے
سال ۱۹۳۴ء خطبات محمود ۲۲۲ پندرہ سولہ سو آدمی رہ جاتے ہیں.اٹھاون سو اور پندرہ سو تہتر کو ہو جاتے ہیں.گویا اب قادیان کی احمدی آبادی سات ہزار تین سو افراد پر مشتمل ہے اور خدا تعالی کے فضل سے روز بروز بڑھنے والی آبادی ہے.ان تمام لوگوں کی دعوت کا انتظام نہ تو خاص اہتمام سے کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی مالی لحاظ سے سوائے خاص مالداروں کے لوگوں کو اتنی وسعت ہوتی ہے کہ اس قدر بار برداشت کر سکیں.اسی وجہ سے یہاں دعوت کے دائرہ کو محدود کرنا پڑتا ہے.چنانچہ میں نے اپنے لڑکے ناصر احمد کے ولیمہ کے موقع پر منتظمین کو ہدایت دی تھی کہ وہ محلہ وار دعوت کیلئے نمائندوں کا انتخاب کرلیں، کچھ قریب والے دیہات کے احمدی بلالئے کچھ بتائی و مساکین اور دارالشیوخ کے لڑکے تھے، اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے صحابہ اور صدرانجمن کے کارکنوں کو شامل کر کے ایک ہزار کے قریب افراد کا اندازہ کیا گیا اور کھانا جو تیار کیا گیا، وہ چودہ سو کا تھا کیونکہ کچھ کھلانے والے بھی ہوتے ہیں، انہوں نے بھی کھانا کھانا ہوتا ہے، کچھ گھروں میں کھانے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن جب کھانے کا وقت آیا اور کھانا دینے میں بہت دیر ہو گئی تو میں شور سن کر باہر آیا اس وقت مجھے بتایا گیا کہ سولہ سو کے قریب آدمی جمع ہوچکے ہیں اور ابھی سڑکیں آنے والے لوگوں سے بھری پڑی ہیں اور لوگ بڑی کثرت سے آرہے ہیں.ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ کھانا ان سب کو کس طرح کھلایا جاسکتا ہے.میں نے دفتر والوں پر ناراضگی کا اظہار کیا کہ یہ تمہارا قصور ہے.تمہیں ٹکٹ جاری کرنے چاہیں تھے.اب مجھ سے مشورہ لینے کا کیا فائدہ دس پندرہ منٹ کے بعد جب دوبارہ اندازہ لگایا گیا تو معلوم ہوا دو ہزار آدمی اکٹھا ہوچکا ہے.آخر یہ تجویز کی گئی کہ صدر انجمن کے تمام کارکن، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض صحابہ اور بہت سے طالبعلم اٹھا لئے جائیں.ان لوگوں کو اٹھا کر کہا گیا کہ آپ پھر کھانا کھالیں پہلے اور لوگوں کو کھانا کھلا لیا جائے.اندازاً چھ سو کے قریب لوگ تھے جنہیں اٹھایا گیا لیکن پھر بھی اندازہ یہ تھا کہ جن لوگوں نے کھانا کھایا وہ سترہ اٹھارہ سو تھے.جو چھ سو اٹھائے گئے انہیں رات کے بارہ بجے کے بعد کچھ چاول تیار کر کے تھوڑے تھوڑے کھلا دیئے گئے اور علاوہ ازیں دوسرے دن ان کی دعوت بھی کردی گئی.مجھے زیادہ افسوس طالب علموں کا رہا کہ دوسرے دن انہوں نے رخصت پر چلے جانا تھا رات کو وہ یوں بھوکے رہے اور صبح سویرے بغیر دعوت میں شامل ہوئے چھٹیوں پر اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے.ا
+19177 ۲۲۳ خطبات محمود یہ ایک ایسی غلطی ہے جس کی اصلاح ہونی نہایت ضروری ہے.ساڑھے سات ہزار کے قریب جہاں آبادی ہو وہاں اول تو اخراجات کے لحاظ سے ہی محدود ذرائع کے آدمی کے کی دعوت کا انتظام کرنا ناقابلِ برداشت ہے اور اگر دو اڑھائی ہزار روپیہ خرچ کرکے سب کو دعوت دی بھی جائے تو بھی سب کو ایک انتظام کے ماتحت کھانا کھلانا سخت مشکل ہوتا ہے.جلسہ سالانہ کے دنوں کے متعلق ہی دیکھ لو دال روٹی یا شوربہ روٹی کھلائی جاتی ہے لیکن انتظام کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے.مہینوں پہلے انتظام شروع کر دیا جاتا ہے، جلسہ کے دنوں میں قادیان کے تمام احمدی دن رات کام کرتے ہیں، مہمانوں سے بھی کام لیا جاتا ہے تب کہیں جاکر کام ہوتا ہے.پس نہ تو اتنی بڑی دعوت کا انتظام آسانی سے ہو سکتا ہے اور نہ مالی لحاظ سے اس قدر خرچ برداشت کیا جاسکتا ہے.پس ہر دوست کو سمجھ لینا چاہیے کہ اس قسم کی باتوں کو عملی جامہ پہنانا انسانی طاقت کیلئے ناممکن ہے اور جو ناممکن ہو اسے کس طرح کیا جاسکتا ہے.میں جانتا.وہ ہوں کہ بعض لوگ طبعی طور پر محبت کے جذبات کے ماتحت یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ ہماری دعوت کھانے سے محروم رہیں، میں ان کی محبت کی قدر کرتا ہوں لیکن ہر محبت عقل کے ماتحت ہونی چاہیے.جب عقل کا قبضہ اٹھ جاتا ہے تو محبت بیوقوفی کا رنگ اختیار کرلیتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سنایا کرتے تھے کہ کوئی شخص تھا جس کی کسی ریچھ سے دوستی ایک دفعہ اس کی ماں بیمار ہوئی.وہ ریچھ کو ایک کپڑا دے کر اپنی والدہ کے پاس بٹھا گیا تاکہ وہ لکھیاں اُڑاتا رہے.لکھی جب بیٹھے تو ریچھ اُڑا دے مگر تھوڑی دیر بعد پھر آ بیٹھے.آخر اس محبت کے جوش میں کہ بار بار کیوں لکھی بیٹھی ہے وہ ایک بڑی سی پتھر کی رسل اُٹھالایا اور جب پھر لکھی بیٹھی تو اس نے زور سے وہ رسل دے ماری.لکھی تو مرگئی مگر وہ عورت بھی ساتھ ہی رخصت ہو گئی.اب ریچھ نے ظاہر تو محبت ہی کی تھی مگر کوئی عظمند اسے محبت تسلیم نہیں کر سکتا.رسول کریم کا نمونہ ہمارے سامنے ہے.آپ سے زیادہ کوئی مہربان نہیں ہو سکتا آپ کی ایک شخص نے دعوت کی اور چار اور صحابہ کو بھی مدعو کیا.جب رسول کریم ﷺ کے مکان کی طرف چلے تو ایک اور شخص بھی ساتھ شامل ہو گیا.جب آپ دروازہ پہنچے تو اس شخص سے جس نے دعوت کی تھی، فرمایا کہ تم نے میری اور میرے چار دوستوں کی دعوت کی تھی ہمارے ساتھ یہ بھی شامل ہو گیا ہے اگر اجازت ہو تو آجائے نہیں تو واپس شخص
خطبات محمود ۲۲۴ سال ۲۱۹۳۴ - چلا جائے.چونکہ جہاں پانچ کیلئے کھانا پکایا گیا ہو وہاں چھٹا شخص اگر آجائے تو کوئی خاص تکلیف محسوس نہیں ہوتی اس لئے اس نے کہا یا رسول اللہ ! میری طرف سے اجازت ہے، یہ شخص بھی آجائے ہے.تو شریعت کا حکم یہی ہے کہ جسے دعوت میں بلایا جائے وہی شریک ہو.مگر میرے لڑکے کے ولیمہ کی دعوت میں ایک طبقہ ایسا شریک ہوا جو بن بلائے چلا آیا.ان میں بعض مخلصین بھی تھے ممکن ہے اگر مجھے وہ یاد آجاتے تو میں خود ہی انہیں بلالیتا.مگر چونکہ ان کا نام میرے ذہن میں نہ آیا اس لئے نہ بلا سکا.کل مسجد میں ہی کئی لوگوں کو دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ اگر انہیں بلالیا جاتا تو اچھا ہوتا.مگر سات آٹھ ہزار کی آبادی میں سے بعض کا نام رہ جانا قدرتی امر ہے حالانکہ ناموں کی فہرست جو میں لکھ سکتا ہوں، قادیان میں کوئی ایک آدمی اتنی لمبی فہرست نہیں لکھ سکتا.مجھے لوگوں کے نام، ان کے پتے اور ان کی شکلیں بہت یاد رہتی ہیں.مگر باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ نے میرا حافظہ بہت اچھا بنایا ہے، کئی لوگ رہ گئے حتی کہ کئی اچھے اچھے تعلق رکھنے والے رہ گئے.مثلاً درد صاحب کا خاندان ہی رہ گیا حالانکہ درد صاحب کے خاندان سے ہمارے خاندان کا بہت پرانا تعلق ہے.صوفی عبد القدیر صاحب جو مولوی عبداللہ صاحب سنوری کے لڑکے ہیں ان کا نام رہ گیا حالانکہ مولوی عبداللہ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نہایت عزیز تھے اور قدیم صحابہ میں سے تھے اور ان لوگوں کو ہم اپنے خاندان کا حصہ سمجھتے ہیں.اسی طرح میرے بہنوئی عبداللہ خانصاحب ہیں، ان کا نام رہ گیا اور یہ نام فہرست کے آخر میں شامل کئے گئے.تو انسان کبھی بھول جاتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ گو نام سب کے ذہن میں موجود ہوتے ہیں مگر انتخاب کرنا پڑتا ہے.رسول کریم ایک دفعہ مال تقسیم فرمارہے تھے کہ ایک شخص رہ گیا.ایک دوسرے شخص نے جو اس کا دوست تھا رسول کریم ﷺ سے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! یہ بھی تو مومن ہے، اسے بھی کیا دیجئے.رسول کریم خاموش رہے.اس نے دوبارہ کہا آپ پھر خاموش رہے.سہ بارہ تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا میں کبھی مومن کو چھوڑ دیتا اور ایک کمزور شخص کو مال دے دیتا ہوں.اس لئے کہ تا کمزور شخص کو ٹھوکر نہ لگے ہے.تو بعض دفعہ مومنوں کو چھوڑ دیا جاتا اور منافقوں کو لے لیا جاتا ہے تا انہیں ٹھوکر نہ لگے کیونکہ اگر مومن کو نہ بلایا گیا تو وہ کہہ دے گا اس میں کیا حرج ہے مگر منافق ڈھنڈورا پیٹتا پھرے گا کہ ہم احمدی ہیں، ہمیں کیوں نہیں بلایا گیا.پس مومنوں کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ
خطبات محمود ۲۲۵۰ سال ۶۱۹۳۴ ہمیں دعوت میں شاید اس لئے نہیں بلایا گیا کہ ہم مومن نہیں بلکہ انہیں سمجھ لینا چاہیئے کہ بسا اوقات منافقوں کو شامل کر لیا جاتا اور مومنوں کو رہنے دیا جاتا ہے تا منافق بالکل ہی پھل نہ جائے.اور پھر جب مجبوری ہو تو پھر مومنوں میں سے بھی انتخاب ہی کرنا پڑتا ہے.گو میں سمجھتا ہوں ایسے لوگوں کو بھی اگر شکوہ پیدا ہو تو وہ قابل قدر ہے لیکن محبت والا شکوہ دور کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی.پھر میں نے دیکھا کچھ ایسے لوگ تھے جنہوں نے اپنی غفلت سے سمجھ لیا کہ ہمارا بچہ چھوٹا سا ہے، اگر یہ ولیمہ کی دعوت میں شریک ہو گیا تو ڈیڑھ ہزار کے قریب آدمیوں میں کیا حرج ہو گا اور اسی طرح ہر شخص جہاں خود آیا' وہاں اپنے بچوں کو ساتھ لا کر تعداد میں اس نے غیر معمولی اضافہ کر دیا.مجھے معلوم ہوا ہے کہ دعوت میں پانچ چھ سو بچے شریک تھے حالانکہ عام طور پر بچوں کو ہم نے مدعو نہیں کیا تھا.اس میں شبہ نہیں کہ بعض رشتہ داروں کے بچے مدعو تھے مگر ایسے مواقع پر رشتہ داروں سے قدرنا ممتاز سلوک کرنا پڑتا ہے.میں نے دیکھا ہے بعض لوگ نادانی کی وجہ سے یہ خیال کرلیتے ہیں کہ دنیوی رشتہ سے دینی رشتہ بہر حال مقدم ہے.اس میں شبہ نہیں کہ دینی رشتہ کو ایک تقدم حاصل ہوتا ہے مگر جہاں دینی اور دنیاوی دونوں رشتے مل جائیں، وہاں بہر حال ان رشتہ داروں کو مقدم کرنا پڑتا ہے کیونکہ ان میں دو وجوہ جمع ہو گئے دینی رشتہ داری بھی اور دنیاوی رشتہ داری بھی.پس گو بعض رشتہ داروں کے بچوں کو بلایا گیا بعض جگہ کسی استاد کے بچوں کو شامل کر لیا گیا کیونکہ استاد باپ کی طرح ہوتا ہے.یا بچوں کا استاد ہوا تو اس کے بچوں کا خیال رکھ لیا اور اس طرح انہیں دوسروں پر ترجیح دے دی.مگر یہ ذاتی تعلقات کا حصہ بہت قلیل تھا.اور اس میں چند بچے شامل تھے.لیکن باقی تمام بچے ایسے تھے جنہیں بلایا نہیں گیا تھا.حقیقت یہ ہے کہ ہمیں تاریخوں پر غور کرنے سے کبھی معلوم نہیں ہوا کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ولیموں میں بچے بلائے جاتے ہوں.یہ تو ایک دعا کی تحریک ہوتی ہے.اور اس میں بڑی عمر کے لوگوں کا شریک ہونا ضروری ہوتا ہے.مگر مجھے بتایا گیا کہ پانچ چھ سو کے قریب بچے دعوت میں شامل تھے.میں سمجھتا ہوں ہر شخص نے یہ خیال کر لیا ہوگا کہ اگر ایک میرا بچہ چلا گیا تو کیا حرج ہو جائے گا.دوسرے نے بھی یہی خیال کرلیا ہوگا کہ اگر ایک میرا بچہ چلا گیا تو کیا حرج ہو جائے گا اور اتنے بڑے ہجوم میں کیا پتہ لگے گا اور بعض شاید اس خیال سے لے گئے ہوں کہ یہ بھی ایک دینی کام ہے، بچوں میں جوش پیدا ہو گا.یہ نیت اچھی ہے لیکن اس کے پورا کرنے
خطبات محمود ۲۲۶ سال ۱۹۳۴ کے اس سے بہتر مواقع موجود ہیں.مثلاً جمعہ کا موقع ہے.میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت جمعہ میں بہت کم بچے ہیں.وہ دوست کیوں اپنے بچوں کو جمعہ میں نہیں لائے.کیا دعوت، جمعہ سے زیادہ دینی کام تھا کہ وہاں تو بچوں کو لے گئے مگر یہاں نہیں لائے.جمعہ سے زیادہ کوئی مقدم چیز نہیں.میں نے حضرت خلیفہ اول سے بشدت و بتکرار سنا ہے کہ عیدین بھی جمعہ کے مقابلہ میں کوئی چیز نہیں، ہمارا مقدس دن جمعہ ہے.اور گو مجھے اس کے متعلق ذاتی تحقیق کا موقع نہیں ملا مگر میں سمجھتا ہوں حقیقت یہی ہے کیونکہ جمعہ کا قرآن مجید میں ذکر آیا ہے مگر عیدین کا نہیں آیا.پس جمعہ جیسے مذہبی فریضہ میں تو وہ بچے نظر نہیں آتے مگر دعوت میں نظر آگئے حالانکہ اگر ان کے مد نظر اپنے بچوں کو دین سکھانا تھا تو وہ یہاں لاتے.یہ تو ویسی ہی بات ہے جیسے بچپن میں ایک دوست کو میں نے دیکھا وہ بڑی حرص سے ریوڑیاں کھا رہے تھے.طالب علمی کا زمانہ تھا وہ چھپ کر اور بڑی حرص سے اس لئے ریوڑیاں کھا رہے تھے کہ کوئی دوسرا ساتھی نہ آجائے.میں نے انہیں دیکھا تو پوچھا اتنی حرص سے آپ ریوڑیاں کیوں کھا رہے ہیں.بجائے اس کے کہ کوئی اور جواب دیتے کہنے لگے حضرت صاحب کی سنت ہے میں نے سنا ہے انہیں ریوڑیاں بہت پسند ہیں.میں نے کہا حضرت صاحب تو کونین، ایسٹرن سیرپ اور دوسری تلخ اور یہ بھی استعمال کیا کرتے ہیں اگر سنت پر ہی عمل کرنا ہے تو وہ بھی پیو.گو ریوڑیوں کے متعلق تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سنت یاد رہی اور تاریخ چیزوں کے متعلق خیال بھی نہ کیا.اسی بچوں نقص طرح بچوں کو دعوت میں تو لے گئے مگر یہاں نہ لائے.حالانکہ اصل دینی کام یہ ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ اپنی ذمہ داری کو نہیں سمجھتے.وہ اپنے بچوں کو ایسی جگہ تو لے جائیں گے جہاں میلہ ہو، تماشہ ہو، دعوت ہو مگر جمعہ کے دن نہیں لائیں گے اس لئے کہ کو گرمی میں آنے سے تکلیف ہوتی ہے.غرض یہ بھی ایک نادانی تھی جس کا بعض دوستوں سے اظہار ہوا.مگر ان سب سے زیادہ بُری چیز یہ تھی کہ انہوں نے میزبان کی ہتک کی.آخر جب اتنی کثرت سے لوگ آجائیں گے اور انہیں کھانے کو نہیں ملے گا تو کیا اس میں میزبان کی عزت ہے.لوگ یہی کہتے جا ئیں گے کہ ہمیں بلایا مگر کھلایا نہیں اور اگر میں یہ کہوں کہ لوگ بن بلائے آگئے تو یہ بھی کتنی بڑی بات ہے.بوجہ امام ہونے کے اس کی شرم بھی تو مجھے ہی آئے گی.پس میں اگر نہ بولوں تب بھی مصیبت کیونکہ لوگوں کی تربیت نہیں.ہو
خطبات محمود ۲۲۷ اور اگر کہوں کہ لوگ بن بلائے آگئے تو بھی مصیبت کیونکہ لوگوں کو حرف گیری کا موقع ملے ها چنین پس میری تو وہی حالت ہے جو کہتے ہیں کسی لڑکی کی سوتیلی ماں نے کتا پکا کر اس کے باپ کے سامنے رکھ دیا.لڑکی گھبرائی ہوئی پھرتی اور کہتی بولوں تو ماں ماری جائے نہ بولوں تو باپ کتا کھائے.اسی طرح میں اگر نہ بولوں تو لوگ کہیں گے عجیب کنجوس ہے، لوگوں کو بلایا مگر کھلایا نہیں اور اگر کھلا نہ سکتے تھے تو اتنے لوگوں کو بلایا کیوں تھا اور اگر بولوں تو جماعت کے حرف آتا ہے.پس اس دعوت نے مجھے نہایت ہی مشکل میں ڈال دیا.اگر کھانا کوئی ایسی چیز ہوتی جو دس پندرہ منٹ میں تیار ہو سکتی تو پھر تو خواہ کوئی بھی صورت ہوتی میں کھانا تیار کروا دیتا مگر اس کیلئے تو کافی وقت کی ضرورت تھی جو اس وقت ناممکن تھا.پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ انہیں یہ امر سمجھنا چاہیے کہ جو امر ناممکن ہو اسے کس طرح کیا جاسکتا ہے.اول تو ساری جماعت کو انتظامی لحاظ سے بلایا نہیں جاسکتا دوسرے مالی لحاظ سے بھی وقت ہوتی ہے.پھر دفتر والوں کو بھی چاہیئے تھا کہ وہ ٹکٹ جاری کرتے.یہ بھی غلطی ہوتی ہے کہ محلوں میں جب انتخاب کیا گیا تو خود بخود جس کا جی چاہا نام لے لیا گیا اور جس کا جی چاہا چھوڑ دیا گیا.میرا خیال ہے آئندہ کیلئے ہماری دعوتوں میں جن کے متعلق لوگوں کو شکوہ پیدا ہو جایا کرتا انتظام ہونا چاہیے کہ محلہ وار لوگوں کی فہرستیں تیار رہیں.جب دعوت کے موقع انتخاب کا وقت آئے تو جن لوگوں کو ایک دفعہ شامل کر لیا جائے دوسرے موقع پر انہیں شامل کیا جائے بلکہ اوروں کو شامل ہونے کا موقع دیا جائے تاکہ اس طرح مختلف دعوتوں میں آہستہ آہستہ تمام لوگ شامل ہو جائیں.قرعہ کی تجویز مجھے اس لئے پسند نہیں کہ اس میں یہ وقت ہو سکتی ہے کہ بعض دفعہ ایک شخص کا ہی نام بار بار نکلتا رہے اس لئے آئندہ یہ طریق اختیار کرنا چاہیے کہ باری باری لوگوں کو دعوت میں شامل کیا جائے.سوائے ایسے کارکنوں کے جن کا قریب رہنا ہر دعوت میں شرعی یا تمدنی طور پر ضروری ہوتا ہے.بہر حال اس نظام میں رپر اصلاح کی ضرورت ہے اور عدم اصلاح کی وجہ سے ناگوار امور ظاہر ہوتے ہیں.کل ہی ایک دوست کی بیوی والدہ صاحبہ کے پاس آکر روپڑی کہ کیا ہم احمدی نہیں تھے ہمیں کھانے میں کیوں شامل نہیں کیا گیا.ایک عورت کے لحاظ سے تو اس کے اخلاص پر مجھے خوشی ہوئی مگر یہ تعلیم یافتہ مرد ہیں، ان کے مونہوں سے بھی اگر ایسی ہی بات سنی جائے تو تعجب کی بات ہے
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ تو اور زیادہ تعجب کی یہ بات ہے کہ انہوں نے نہ سمجھا کہ جو کام ناممکن ہے وہ ممکن کس طرح ہو سکتا ہے.پس آئندہ کیلئے میں نصیحت کرتا ہوں کہ ایک تو جب تک بچوں کو بلایا نہ جائے، انہیں ہمراہ نہ لایا جائے.آخر کیا وجہ ہے کہ یہ سمجھ لیا جاتا ہے میں اکیلا ہی بچے کو لے جا رہا ہوں اور لوگ اپنے بچے ساتھ نہیں لائیں گے.پھر کہیں بھی احادیث سے یہ ثابت نہیں کہ دعوتوں کے وقع پر بچے بھی بلائے جاتے تھے اور اگر اخلاص کی وجہ سے ہی اپنے بچے ہمراہ لائے تھے تو پھر وہی کر لینا تھا جو رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ کیا.آپ نے دعوت کی تو دیکھا کہ لوگوں میں بہت جوش ہے اور وہ سب شامل ہونے کیلئے بے تاب ہیں.آپ نے فرمایا جو آئے گھر سے کھانا لیتا آئے.اگر یہاں یہی ہو جاتا تو کوئی دقت نہ ہوتی ہر شخص جو بن بلائے آتا اپنے گھر سے کھانا لے آتا اور سب مل کر کھالیتے.اور مومنوں میں یہ کوئی شرم کی بات نہیں.پس اس طرح تو ہم بھی کر سکتے تھے اور اگر یہ نہیں تو پھر تو یہی ہو سکتا ہے کہ چند آدمیوں کی دعوت کردی جائے اور انہیں کھانا کھلا دیا جائے.رسول کریم کے زمانہ میں کبھی یہ شکایت نہیں سنی گئی کہ پچاس آدمیوں کو کیوں بلا لیا گیا.مدینہ کے تمام افراد کو کیوں شامل نہیں کیا گیا.میرا ارادہ تھا کہ عورتوں کی بھی اسی رنگ میں دعوت کی جاتی مگر پھر میں نے کہا کہ اگر عورتیں بھی اسی طرح آئیں تو پہلی غلطی دہرائی جائے گی.اس لئے اپنی رشتہ دار عورتیں اور دیگر عورتوں کو بلا لیا گیا.اس موقع پر عورتوں کے متعلق میں ایک اور بات بھی کہنا چاہتا ہوں کیونکہ مردوں پر ان کی ذمہ داری بھی ہے.میرے بچوں کے نکاح کے موقع پر حرکات عورتوں سے ایسی ہوئیں جو نہایت ہی افسوسناک تھیں.ممکن ہے اس کی غیر احمدی عورتیں ہوں کیونکہ وہ خطبات میں آجاتی ہیں مگر اس خیال سے کہ شاید احمدی عورتیں ہوں میں بیان کر دیتا ہوں.نکاح کے موقع پر جو میں نے خطبہ پڑھا وہ اس قسم کا تھا کہ اس میں میں نے خصوصیت سے اپنے گھر کے لڑکوں اور مستورات وغیرہ کو مخاطب کیا تھا اور میری خواہش تھی کہ وہ اس خطبہ کو سنیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں.مسجد میں آنے میں گھر میں یہ ہدایت کرکے آیا تھا کہ آج میں خطبہ میں تم سب کو نصیحت کرنی چاہتا ہوں، جہ سے میرا خطبہ سننا.جس گھر میں شادی ہو قدرتی طور پر بعض کاموں میں مصروفیت کی وجہ سے دیر ہو جایا کرتی ہے.میرے گھر سے مستورات اُس وقت پہنچیں چند اس لئے تو ا سے بعض پہلے جب
خطبات محمود ۲۲۹ سال ۱۹۳۴ء جگہ بھر چکی تھی اور میرا خطبہ شروع تھا.انجمن والوں نے بھی اس دن یہ کمال کیا کہ مسجد کے قریب کے دفاتر کے دروازے بند کردیئے.اس خوف سے کہ ہجوم کی وجہ سے ان کا مکان ٹوٹ جائے گا.جب میں خطبہ کے بعد گھر پہنچا تو میں نے دریافت کیا کہ تم نے میرا خطبہ سنا تو انہوں نے بتایا کہ ہمیں تو جگہ ہی نہیں ملی اور مجبوراً واپس آنا پڑا.میری ایک بیوی نے بتایا کہ وہ چند مہمان مستورات کے ساتھ مسجد میں گئیں ان میں سے ایک حاملہ بھی تھی.عورتوں کو جب راستہ دینے کیلئے کہا گیا تو ایک عورت نے اس مہمان عورت کے جو حاملہ تھی کہنی ماری اور جب اسے کہا گیا کہ یہ دور سے آئی ہیں اور مہمان ہیں انہیں جگہ دے دینی چاہیے تو وہ غصہ سے کہنے لگی اسیں جانندی آں وڈی خبیثاں آئیاں ہین" ایک اور عورت نے میری ایک لڑکی کو اس زور سے مکہ مارا کہ اس کے نشان پڑ گیا.اور آٹھ دس روز تک اس کا نشان قائم رہا.یہ اس قسم کی بد اخلاقی ہے کہ حیرت آتی ہے حالانکہ قرآن مجید میں صراحتاً اہل بیت کا ذکر آتا ہے اور وہاں بتایا گیا ہے کہ اہلِ بیت کا زہرا حق ہے.اگر وہ نیکی کریں گے تو انہیں دوسروں سے زیادہ ثواب ملے گا اور اگر وہ بدی کریں گے تو سزا بھی دوسروں سے زیادہ ملے گی.پھر یہ قدرتی بات ہے کہ جب کسی شخص کے سپرد جماعت کی نگرانی کا کام ہو تو اس سے تعلق رکھنے والے کا اعزاز بھی ضروری ہوتا ہے.پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں اور عورتوں کو اسلامی آداب سے واقف کرائیں.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن اپنے گھر کا ذمہ دار ہوتا ہے.اس لئے ضروری ہے کہ وہ عورتوں کو بھی اسلامی تعلیم سے آگاہ کریں اور اپنے عملی نمونہ سے کی رہبری کریں.اگر قادیان کی بعض عورتیں اس قسم کا افسوسناک نمونہ پیش کر سکتی ہیں تو باہر کی عورتوں پر کیا الزام ہو سکتا ہے.له الاحزاب: ۵۴ الفضل ۲۱- اگست ۱۹۳۴ء) سے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفة المسیح الثالث (مرتب) ان سے مسلم كتاب الاشربة باب ما يفعل الضيف اذا تبعه غير من دعى صاحب الطعام که مسلم كتاب الزكوة باب اعطاء من يخاف على ايمانه
خطبات محمود ۲۳۰ سال ۱۹۳۴ و پہلے اپنی اصلاح کرو اور پھر محبت اور ہمدردی کے جذبات کے ساتھ دوسرں کی فرموده ۲۴- اگست ۱۹۳۴ء- بمقام قادیان) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- اللہ تعالیٰ نے ہر امر کی کامیابی کے حصول کیلئے ایک راستہ مقرر کیا ہوا ہے جب تک کوئی انسان اس راستہ کو اختیار نہ کرے اُس وقت تک اسے کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی.دنیا میں لوگ مختلف قسم کی باتیں بیان کرتے ہیں کوئی کہتا ہے ملکی اور قومی ترقی صرف اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ بڑے بڑے بینک ہوں، انشورنس کمپنیاں اور تجارتیں ہوں اور کوئی کہتا ہے کہ ملکی ترقی اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب کہ تمام اہم کام چند ممتاز ہستیوں کے سپرد ہوں افراد کو یہ اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ ملکی کاموں میں دخل دیں اور کوئی یہ کہتا ہے کہ قوم کے تمام افراد ملک کا اہم حصہ ہیں اس لئے خواہ کوئی چھوٹا ہو یا بڑا ہر شخص کو ملکی امور میں دخل دینے کا حق ہونا چاہیئے.یہ وہ مختلف خیالات ہیں جو یورپ کی اُس تگ و دو کے نتیجہ میں پیدا ہوئے ہیں جو وہ راحت و آرام کے حصول کیلئے کر رہا ہے لیکن نہ تو اس کے ان بلند معیاروں نے اسے فائدہ دیا جنہیں وہ آج سے ایک سو سال پہلے تجویز کرچکا تھا نہ وہ عمارت اس کے کام آسکی جس کو پیٹر فریڈرک نپولین اور الزبتھ نے تیار کیا تھا اور نہ آج وہ عمارت کام آسکتی ہے جسے مارکس قسم کے لوگوں نے تیار کیا.نہ اُس میں انسانی نجات تھی اور نہ اس میں انسان کیلئے
خطبات محمود ۲۳۱ سال ۱۹۳۴ء راحت ہے.یہ ساری چیزیں جھوٹی بے اثر اور غیر مفید ہیں.جو چیز دُنیا کی نجات کا موجب بن سکتی ہے اور جس چیز کے ذریعہ کامیابی اور حقیقی راحت حاصل ہو سکتی ہے وہ وہی ہے جسے اسلام نے دنیا کے سامنے پیش کیا اور جو وسطی راستہ ہے.نہ وہ انشورنس کمپنیوں اور ناجائز دولت جمع کرنے کے سامانوں کی طرف جاتا ہے اور نہ وہ مارکس ازم کے ذریعہ تمام افراد کی منفردانہ کوششوں کو توڑ کر جبری طور پر انسانوں میں مساوات قائم کرتا ہے اس لئے امن اُسی ذریعہ سے حاصل ہو سکتا ہے جسے اسلام پیش کرتا ہے مگر اس کیلئے بھی کسی جدوجہد اور کوشش اور قربانی کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ میں بیشک سب طاقتیں اور قدرتیں ہیں مگر وہ اپنی طاقتوں اور قدرتوں کو بعض حالات کے ماتحت ظاہر کیا کرتا ہے.اس میں طاقت ہے کہ وہ بچے کو ایک سیکنڈ میں پیدا کر دے مگر وہ ایسا نہیں کرتا بلکہ نو ماہ کے بعد بچے کو پیدا کرتا ہے.اسی طرح اس میں طاقت ہے کہ وہ غلہ کو ایک سیکنڈ میں اُگا دے مگر وہ کوئی غلہ پانچ ماہ میں اور کوئی چھ مہینہ ہے.پھر اس میں طاقت ہے کہ وہ پھلوں کو ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصہ میں پیدا کر دے مگر وہ ایسا نہیں کرتا بلکہ کسی پھل کو دس سال بعد اور کسی کو بارہ سال بعد پیدا کرتا میں اگات ہے.یہ سب حکمت کی باتیں ہیں اور مختلف قسم کے اسرار اپنے اندر رکھتی ہیں.جو شخص قدرت کے کاموں پر غور کرتا ہے وہ ان سے واقف ہو جاتا ہے اور جو شخص آنکھیں بند کرلیتا ہے وہ اعتراض کرنے لگ جاتا ہے اور اس میں شبہ ہی کیا ہے کہ ٹھوکریں کھانے والا اعتراض ہی کرے گا.انگریزی میں مثل ہے کہ اگر کوئی پیشہ ور اچھا نہ ہو تو وہ ہتھیاروں کے متعلق یہ شکایت ہی کرتا رہتا ہے کہ وہ خراب ہیں، کبھی کہہ دے گا کہ تیشہ ناقص ہے، کبھی کہہ دے گا فلاں اوزار تیز نہیں اور بجائے اپنا نقص دیکھنے کے ہتھیاروں پر اعتراض کرتا اور آلات کے متعلق عیب چینی کرتا رہے گا لیکن اس طرح کامیابی نہیں ہو سکتی.اعتراضات کا طومار بھی اگر کھڑا کر دیا جائے تو وہ کوئی نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا.کامیابی ہمیشہ تبھی ہوتی ہے جب صحیح طریق اختیار کیا جائے اور صحیح ذرائع کا استعمال کیا جائے.پس جس مقصد اور کام کیلئے اللہ تعالٰی نے ہماری جماعت کو کھڑا کیا ہے یعنی اسلام کی وہ پُر امن اور پر نفع تعلیم جس کے بغیر دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا اسے پھر دنیا میں رائج کرنا.اس تعلیم کے اصول اگرچہ قرآن مجید میں موجود ہیں لیکن انہیں پر حکمت طور پر عمل میں لانا یہ ہمارا کام ہے.اگر ہنگامی طور پر کام کیا جائے تو
خطبات محمود ۲۳۲ سال ۱۹۳۴ء تمین وہ کوئی فائدہ نہیں دے سکتا.فرض کرو اس مجلس میں میں کہوں کہ پانی لاؤ تو بالکل ممکن ہے دو سو آدمی اُٹھ کر چلے جائیں.اسی خیال کے ماتحت کہ ان میں سے ہر ایک اس آواز کے مطابق عمل کرے اور بالکل ممکن ہے کہ ایک بھی نہ جائے اس خیال کے ماتحت کہ ممکن ہے کوئی اور چلا گیا ہو تو ہنگامی کام ہمیشہ ناقص رہتے ہیں.جس چیز کے ساتھ کامیابی حاصل ہو سکتی ہے وہ تنظیم اور اصلاح ہے اور اس کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ سلسلہ کا ہر فرد اور ہر ذرہ ہماری نظروں کے سامنے ہو.جب کسی تنظیم میں یہ نقص رہ جائے کہ اس کے افراد نگاہوں کے سامنے نہ آئیں تو وہ تنظیم بگڑ جاتی ہے اسی وجہ سے ہم نے مرکز کا کام مختلف حلقوں میں تقسیم کیا ہوا ہے اور مختلف حلقوں کی الگ الگ مساجد ہیں تاکہ تمام عہدیدار اپنے اپنے حلقہ کے ہر فرد سے واقف ہوں اور ان کی صحیح رنگ میں تربیت کر سکیں.کہ رحقیقت مساجد ہی ایک ایسی جگہ ہیں جہاں ہمارے تمام کام ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تقریریں بھی مسجد میں ہوتی تھیں، جلسے بھی مسجد میں ہوتے تھے ، مشورے بھی مسجد میں ہوتے تھے.اور تاریخ اسلام پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں نکاح بھی مساجد میں ہوتے تھے، جھگڑوں کا تصفیہ بھی مسجد میں ہوتا تھا اے ، نمازیں بھی مسجد میں ہوتی تھیں، جہاد کے مشورے بھی مسجد میں ہوتے اور جب مومن کا ہر کام اس کی عبادت سمجھا جاتا ہے اور جب اسلام نے یہ تعلیم دی ہے.خدا تعالیٰ کیلئے اگر کوئی روٹی بھی کھاتا ہے تو وہ نیکی کرتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ نمازوں کے علاوہ ہمارے باقی کام جو مساجد سے تعلق رکھیں وہ عبادت میں شامل نہ ہوں.اس صورت میں جھگڑوں کے موقع پر فیصلے کرنا جہاد کیلئے مشورے کرنا اور لڑائیوں کیلئے پریکٹس کرنا محض قضاء یا مشورہ یا جنگ کی پریکٹس کرنا نہیں کہلائے گا بلکہ یہ کام بھی عبادت میں شمار ہوں گے.احادیث میں صاف طور پر ذکر ہے کہ رسول کریم ان کے زمانہ میں ایک دفعہ مسجد نبوی میں فوجی کرتب دکھلائے گئے.رسول کریم ال نے حضرت عائشہ کو بلایا اور فرمایا کہ کیا رتب دیکھنا چاہتی ہو؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! دیکھنا چاہتی ہوں.تب آپ نے فرمایا میری پیٹھ کے پیچھے ہو جاؤ اور کندھے کی اوٹ میں جنگی کرتب دیکھتی جاؤ ہے.- غرض اسلام کے نزدیک مساجد منبع ہیں تمام کاموں کا اور سرچشمہ ہیں مسلمانوں کی تمام جدوجہد کا.اور حلقہ وار انجمنوں کا قیام اسی غرض کیلئے کیا گیا ہے کہ کارکن اپنے فرائض کو
خطبات محمود ۲۳۳ سال ۱۹۳۴ء سمجھیں اور ان مقاصد کو اپنے سامنے رکھیں جن کیلئے یہ تقسیم عمل میں لائی گئی ہے.عہدہ داروں کو چاہیے کہ وہ اپنے حلقہ کے تمام افراد کو اپنے زیر نظر رکھیں اور ہر شخص کی شکل اور اس کے نام سے ذاتی واقفیت پیدا کریں اور جو لڑکے دس سال سے اوپر کے ہوں ان کیلئے یہ لازمی قرار دیں کہ وہ مسجد میں نماز پڑھیں.قرآن کریم نے ہر فرد کو اپنی اولاد کا ذمہ دار قرار دیا ہے.وہ فرماتا ہے قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا ہے.اے لوگو! تمہیں حکم دیا جاتا صرف اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ بلکہ اپنے اہل و عیال کو بھی بچاؤ پس ہے کہ نه نص اپنی بیوی اور بچوں کا ذمہ وار ہے.اس سے صرف یہی نہیں پوچھا جائے گا کہ تم نماز پڑھتے تھے یا نہیں، صرف یہی نہیں پوچھا جائے گا کہ تم زکوٰۃ دیتے تھے یا نہیں، تم روزے رکھتے تھے یا نہیں، تم حج کرتے تھے یا نہیں بلکہ یہ بھی پوچھا جائے گا کہ تمہارے بیوی بچے بھی زکوۃ دیتے روزے رکھتے تھے اور حج کرتے تھے یا نہیں؟ اور اگر کسی کے متعلق یہ ثابت ہوا کہ اس نے اپنی بیوی اور بچوں کے متعلق اس امر میں غفلت اور کو تاہی کا ثبوت دیا ہے تو وہ اس سزا کا مستحق ہوگا جو نماز چھوڑنے والے روزہ نہ رکھنے والے زکوۃ نہ دینے والے، حج کرنے والے کیلئے مقرر ہے.پس ہر فرد اس امر کا ذمہ دار ہے کہ وہ اپنی اولاد کو مسجدوں.میں حاضر کرے.بچوں کو مساجد میں لانا احادیث سے اس قدر تواتر سے ثابت ہے کہ کوئی اندھا ہی اس سے انکار کر سکتا ہے.حدیثوں میں صاف طور پر آتا ہے کہ پہلے مرد کھڑے ہوں پھر عورتیں اور پھر بچے ہے.اگر بچوں کا نمازوں میں شامل ہونا ضروری نہیں تھا تو ان کا ذکر کیوں کیا گیا.پس کوئی وجہ نہیں کہ بچوں کو مسجدوں میں نہ لایا جائے مگر بچوں سے مراد وہ بچے نہیں جو بالکل چھوٹے ہوں اور مسجدوں میں آکر رونا چیخنا شروع کردیں.یا وہ بچے بھی مراد نہیں کہ بیوی آٹا گوندھنے لگے تو وہ اپنے میاں سے کہہ دے کہ ذرا اس بچے کو نماز میں لیتے جانا.میں نے ایک دفعہ دوستوں کو تحریک کی کہ بچوں کو مساجد میں لانا چاہیے تو اس کے بعد میں نے دیکھا کہ لوگوں نے اپنے بالکل چھوٹے بچوں کو لانا شروع کر دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ بعض دفعہ کوئی بچہ مسجد میں پاخانہ پھر دیتا، کوئی پیشاب کر دیتا اور وہ اس قدر شور مچاتے کہ دوسروں کیلئے نماز پڑھنا مشکل ہو جاتا.تب میں نے سختی سے روکا کہ مسجدیں بچے کھلانے کی جگہ نہیں ان کو اپنے گھروں میں رکھو.پس جب میں یہ کہتا ہوں کہ اپنے بچوں کو مسجدوں میں لاؤ تو میری مراد یہ
سال ۱۹۳۴ء خطبات محمود سمجھو.۲۳۴ ہے کہ اُن بچوں کو لاؤ جن کے متعلق شریعت یہ تقاضا کرتی ہے کہ وہ مسجدوں میں آئیں.جن لوگوں کے بچے آوارہ ہوا کرتے ہیں تم غور کر کے دیکھ لو ان میں سے اکثر ایسے ہی بچے ہوں گے جو بے نماز ہوں گے اور اکثر ایسے ہی والدین کے بچے ہوں گے جو اپنے بچوں کی نمازوں کی نگرانی نہیں کرتے ورنہ یہ ناممکن ہے کہ ایک شخص پانچ وقت اللہ تعالیٰ کے حضور تذلل کرے اور پھر اس میں بگاڑ پیدا ہو جائے.پس بچوں کو مسجدوں میں لاؤ اور ان کو مسجدوں میں لانا اپنے آنے سے زیادہ اہم میرا اس سے یہ مطلب نہیں کہ تم آپ مسجد میں نہ آؤ بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ چونکہ بچوں کا آنا تمہارے آنے کی نسبت مشکل ہے اس لئے اس کو اہمیت دو.یہ کام صرف اُس شخص کا نہیں جسے مربی اطفال مقرر کیا گیا ہے بلکہ ہر شخص کا جسے کوئی بھی بچہ ایسا نظر آئے جو مسجد میں نہیں آتا فرض ہے کہ وہ اسے مسجد میں لانے کی کوشش کرے.مگر اس طرح سے نہیں کہ ایک دکان پر بیٹھ گئے اور کہنا شروع کردیا کہ فلاں کے بچے نماز نہیں پڑھتے، پھر وہاں سے اُٹھ کر دوسری دکان پر گئے اور کہنا شروع کر دیا کہ فلاں کے بچے نماز نہیں پڑھتے، وہاں سے اُٹھے تو تیسری مجلس میں گئے اور وہاں بھی کہنا شروع کر دیا کہ فلاں کے بچے بالکل آوارہ ہو گئے ہیں.اس کا نتیجہ یہ ہیں.اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جن کے عیوب بیان کئے جاتے ہیں وہ دوسرے شخص کے عیب بیان کرنے لگ جاتے ہیں اور اس طرح اصلاح کی بجائے خرابی پیدا ہو جاتی ہے.اصلاح کا طریق یہ ہے کہ جب تمہیں معلوم ہو کہ کسی کے بچے میں نقص ہے تو اپنے حلقہ کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری سے کہو اور پھر سمجھ لو کہ تمہارا کام ختم ہو گیا.یا اگر سمجھو کہ جس شخص کے بچوں کے متعلق تمہیں شکایت ہے وہ حوصلے والا آدمی ہے اور وہ بات سن کر برداشت کرلے گا تو اُس سے کہہ دو لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے بچوں کا کوئی عیب سن ہی نہیں سکتے وہ اگر بچے کو چوری کرتے بھی دیکھ لیں تو کہیں گے چونکہ دروازے سے داخل ہونا اس کیلئے خطرناک تھا اس لئے اس نے سیندھ لگانی شروع کردی تھی ورنہ اس نے چوری نہیں کی.پس جس شخص کے متعلق تم سمجھو کہ وہ برداشت کی طاقت نہیں رکھتا اسے مت کہو اور جس شخص کے متعلق سمجھو کہ وہ بات برداشت کرلے گا اسے کہہ دو کہ اس کے بچے میں یہ نقص ہے اس کے ازالہ کی طرف توجہ کریں.اگر اپنے حلقہ کے پریذیڈنٹ، سیکرٹری اور سرپرست کے علاوہ کسی چوتھے شخص کے پاس بھی کسی شخص کا
خطبات محمود ۲۳۵ سال ۱۹۳۴ء ہے یہ ایک کوئی عیب بیان کرے گا تو میرے نزدیک وہ مجرم سمجھا جائے گا.میں نے دیکھا بہت بڑا عیب ہے جو اصلاح کے نام پر کیا جاتا ہے لوگ اس بہانہ کی آڑ میں کہ ہم تو اصلاح کیلئے دوسرے کے عیب بیان کر رہے ہیں جگہ جگہ دوسروں کی عیب چینی کرتے پھرتے ہیں حالانکہ وہ خود اسلام کے خلاف عمل کر رہے ہوتے ہیں.قرآن کریم نے سورہ نور میں اس امر کا فلسفہ کھول کھول کر بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ یہ قوم کو تباہ کرنے والا طریق ہے مگر پھر بھی ہوتے ہیں مخص لوگ اس طرف توجہ نہیں کرتے.قرآن کریم میں صاف طور پر بیان کیا گیا ہے کہ جو کسی دوسرے کے پاس کسی کا عیب بیان کرتا ہے وہ اشاعتِ فحش کرتا ہے ہے.جو شخص یہ کہتا ہے کہ آج کل تو لوگ بڑی چوریاں کرتے ہیں وہ قوم کی اصلاح نہیں کرتا بلکہ انہیں ترغیب دیتا ہے کہ تم بھی چوری کرو.یہ ایک ایسا فلسفیانہ نکتہ ہے کہ کوئی قوم اسے نظر انداز کر کے ترقی نہیں کر سکتی.در حقیقت اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں عام طور پر دین کو قبول کرنے والے وہی لوگ جنہوں نے یہ سنا ہوا ہوتا ہے کہ ایک خدا ہے اور اس نے اپنا رسول بھیجا ہے ہمیں اس کے احکام پر عمل کرنا چاہیے.وہ نمازیں پڑھیں گے مگر اس لئے نہیں کہ نماز میں فلاں فلاں حکمت ہے بلکہ اس لئے کہ خدا کا یہ ایک حکم ہے، روزے رکھیں گے مگر اس کی حکمت انہیں معلوم نہیں ہوگی.پس دنیا کا بیشتر حصہ ایسا ہوتا ہے جو اصولی طور پر چند باتیں سمجھ لیتا ہے اور باقی باتوں میں تقلیدی رنگ اختیار کر لیتا ہے خواہ بظاہر وہ غیر مقلد ہی کیوں نہ کہلاتا ہو بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک ہزار میں سے ۹۹۹ یا ایک لاکھ میں سے ننانوے ہزار نو سو ننانوے ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جو تقلیدی طور پر اسلامی احکام پر عمل کرتے ہیں.حکمتوں کو سمجھنے والے ان میں بہت کم ہوتے ہیں وہ اتنی بات سمجھ لیتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کی ہر بات کو دوسری باتوں پر مقدم رکھنا چاہیئے.اس کے بعد وہ کسی حکمت کے معلوم کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتے.صرف چند آدمی ایسے ہوتے ہیں جنہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے تَفَقُهُ.الدين عطا کیا جاتا ہے باقی سب مقلد ہوتے ہیں خواہ وہ حریت کے دلدادہ ہی کیوں نہ في کہلائیں.سورہ نور میں جو حکم دیا گیا ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ جب اسلام کے احکام کی حکمت سمجھ کر عمل کرنے والے لوگ بہت قلیل ہیں تو باقی لوگ وہی رہ جاتے ہیں جو دوسروں سے اثر قبول کرتے ہیں.جب انہیں معلوم ہو کہ دنیا یوں کرتی ہے تو وہ بھی اسی رنگ میں
خطبات محمود ۲۳۶ سال ۱۹۳۴ء رنگین ہو جاتے ہیں.اگر معلوم ہو کہ دنیا خراب ہو گئی ہے تو وہ بھی خراب ہو جاتے ہیں اور اگر معلوم ہو کہ دنیا نیک ہے تو وہ بھی نیکی کرتے رہتے ہیں اور اگر انہیں کسی وقت پتہ لگ جائے کہ جنہیں ہم نیک سمجھتے تھے وہ دراصل نیک نہیں تو اُسی دن ان کے دلوں سے بھی نیکی کی عظمت مٹ جاتی ہے اور وہ بھی بدی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کیونکہ انہوں نے نیکی کو نیکی سمجھ کر قبول نہیں کیا ہو تا بلکہ عام اثر کے ماتحت ایک خیال کی تقلید اختیار کی ہوئی ہوتی ہے.پس قرآن مجید نے بالوضاحت یہ امر بیان کر دیا ہے کہ جو شخص غیرذمہ دارانہ طریق پر کسی کے عیب بیان کرتا ہے وہ اشاعتِ فحش کرتا ہے اور وہ ویسا ہی مجرم ہے جیسا کہ گناہ کرنے والا- اگر ایک شخص نے چوری کی تو یہ اس کا ایک ذاتی فعل ہے مگر ایک دوسرا شخص اگر ہر جگہ بیان کرتا پھرے گا کہ آج کل لوگ بڑی کثرت کے ساتھ چوریاں کرتے ہیں تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ چوری کی ہیبت دلوں سے مٹ جائے گی اور سننے والوں میں سے بھی کئی چور بن جائیں گے.پس دوسرے کی چوری کے عیب کو ظاہر کرنے والا قوم کا ہمدرد نہیں کیونکہ چوری تو ایک شخص نے کی مگر اس نے چوری کی ہیبت کم کرکے بیسیوں شخصوں کو چور بنا دیا.ایسے اشخاص یقیناً اس بات کے مستحق ہیں کہ انہیں سرزنش کی جائے اور ان کی اصلاح کی کوشش کی جائے.میں نے بہت کچھ سوچنے اور غور و فکر کرنے کے بعد رسول کریم ﷺ کی سنت کے مطابق کہ دیت ساری قوم پر ڈالی جائے فیصلہ کیا ہے کہ مرکز سلسلہ میں جس محلہ کے کسی فرد کے متعلق آئندہ یہ ثابت ہو کہ وہ دوسروں کے عیب بیان کرتا رہتا ہے اس محلہ پر اس کی حیثیت کے مطابق مُجرمانہ ڈالا جائے تاکہ آئندہ ہر شخص احتیاط کرے اور اس جس کسی کے پاس بھی کوئی کسی کا عیب بیان کرنے لگے وہ اسے فوراً روک دے.میں نے اس مقصد کیلئے بہت کثرت سے دعائیں کی تھیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور التجا کی تھی کہ وہ اس نقص کے ازالہ کا کوئی طریق سمجھائے تب یکدم جس طرح الہام ہوتا ہے میرے دل میں ڈالا گیا کہ اس کے علاج کا ایک ہی طریق ہے اور وہ یہ کہ جس محلہ کے کسی فرد کے متعلق ثابت ہو کہ وہ لوگوں کی عیب چینی کرتا رہتا ہے اور محلہ کے لوگ اسے روکتے نہیں اس تمام محلہ پر اس کا مُجرمانہ ڈالا جائے تاکہ ہر شخص چوکس ہو جائے اور آئندہ احتیاط کے ساتھ اپنی زبان کھولے.جب تک لوگوں کے دلوں میں یہ احساس پیدا نہ ہو کہ دوسروں کی حرمت اور ان کی عزت کا پاس کیا جائے اُس وقت تک کبھی اصلاح نہیں ہو سکتی پس محلہ
سال ۱۹۳۴ء خطبات محمود ۲۳۷ کے عہدیداروں کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے اپنے محلہ کے مردوں اور بچوں کی شکلیں پہچانیں اور ہر فرد سے ذاتی واقفیت پیدا کریں، اس کے بعد ان کا دوسرا کام یہ ہے کہ وہ بچوں کو نماز باجماعت کی پابندی کی عادت ڈالیں اور پھر تیسرا کام یہ ہے کہ اپنے محلہ کے لوگوں کے اخلاق کی اصلاح کریں.جب کسی کا عیب معلوم ہو خصوصاً اپنے دوست اور رشتہ داروں کا تو شخص کا فرض ہے کہ یہ معاملہ پریذیڈنٹ، سیکرٹری اور سرپرست کے نوٹس میں لائے مگر اس طریق پر کہ معاملہ پیش کرنے میں غصہ، بغض اور کینہ کپٹ نہ ہو بلکہ خالص اصلاح اور محبت کا جذبہ کام کر رہا ہو اور اگر کسی شخص کے متعلق معلوم ہو کہ وہ کسی کا عیب غیر متعلق شخص کے سامنے بیان کر رہا ہے تو سمجھ لو کہ وہ مجرم ہے اور فتنہ پیدا کر رہا ہے.تمہارا فرض ہے کہ اس کا منہ بند کرو اور اگر اسے نہیں روکو گے تو سارا محلہ تعزیر کا مستحق سمجھا جائے گا.گویا ہماری جماعت کے دوستوں کی اصلاح کیلئے یہ ایک اخلاقی جنگ ہوگی اور یہ ویسی ہی بات ہوگی شخص جیسے ڈاکٹر کے پاس لوگ جاتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے پھوڑے میں نشتر مارو - اب کوئی نہیں کہتا کہ کتنا غضب ہو گیا ڈاکٹر نے نشتر چبھو دیا.اسی طرح جب کوئی شخص ہمیں آکر کہتا ہے کہ میری اصلاح کرو تو ہمارا حق ہے کہ ہم درستی اخلاق کیلئے مناسب قدم اٹھائیں.اگر اس کی نیت اصلاح کی ہوگی تو وہ ہمارے ساتھ رہے گا اور اگر نیت نہ رہے گی تو کہہ دے گا جاؤ جی میں بیعت توڑتا ہوں اس کے بعد ہمارا اس شخص پر کوئی حق نہیں رہے گا.بہرحال جب کوئی شخص ہمارے پاس آجاتا ہے تو اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ہمارے بتا ہے کہ وہ ہمارے بتائے ہوئے طریق کے مطابق کام کرے کیونکہ بیعت کے بعد کسی مومن کا یہ کام نہیں کہ وہ اپنا قدم پیچھے ہٹائے.رسول کریم ال جب مدینہ گئے تو انصار سے آپ نے یہ معاہدہ کیا تھا کہ اگر مدینہ پر کوئی قوم حملہ آور ہوئی تو ہم آپ کا ساتھ دیں گے لیکن اگر مدینہ سے باہر جنگ کرنی پڑی تو ہم ساتھ نہیں دیں گے 21 - جنگ بدر کے موقع پر رسول کریم ال نے انصار و مہاجرین کو اکٹھا کیا اور فرمایا اے لوگو! مجھے مشورہ دو مہاجرین نے کہا یا رسول اللہ ! مشورہ کا کیا سوال ہے آپ آگے بڑھیں اور لڑیں ہم آپ کے ساتھ ہوں گے.آپ نے پھر فرمایا اے لوگو! مجھے مشورہ دو - مہاجرین نے پھر کہا یا رسول اللہ ! ہماری رائے تو یہی ہے کہ آپ لڑیں.آپ نے پھر فرمایا اے لوگو! مجھے مشورہ دو- اس پر انصار میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا يَا رَسُول اللہ ! شاید لوگوں سے مراد آپ کی ہم انصار ہیں کیونکہ مہاجرین تو پے در پے کھڑے
خطبات محمود ۲۳۸ سال ۱۹۳۴ء تھا کہ ہوئے اور انہوں نے اپنی خدمات بھی پیش کیں مگر آپ نے یہی فرمایا اے لوگو! مجھے مشورہ دو اس لئے شاید اس سے مراد ہم انصار ہیں.آپ نے فرمایا ہاں.اس نے کہا یا رسول اللہ ! بیشک جب اسلام کا نور ابھی ہم میں کامل طور پر داخل نہیں ہوا تھا تو ہم نے آپ سے یہ معاہدہ کیا ہم مدینہ میں ہی دشمن سے لڑیں گے مدینہ سے باہر اگر جنگ ہوئی تو اس میں شامل نہیں ہوں گے.مگر یار سُول اللہ ! اب تو اسلام ہمارے رگ و ریشہ میں سرایت کرچکا ہے سامنے سمندر ہے آپ ہمیں حکم دیجئے ہم ابھی اس میں کود پڑتے ہیں اور آپ یہ مت خیال کیجئے کہ ہم آپ سے پیچھے رہیں گے خدا کی قسم !ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور کوئی دشمن اُس وقت تک آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ وہ ہماری نعشوں کو روندتا ہوا نہ گذرے ہے.یہ وہ ایمان ہے جو بیعت کے بعد ہر انسان کو حاصل ہونا چاہیے اور یہی ایمان ہے جس کے پیدا کرنے کا آپ لوگوں نے اقرار کیا ہے اس کے بعد اگر نظام سلسلہ کی طرف سے کسی کی اصلاح کی غرض سے کوئی قدم اٹھایا جائے تو اس کا کوئی حق نہیں کہ وہ اس پر شور مچائے.آخر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اصلاح کی جائے مگر اس کیلئے کوئی سامان نہ کئے جائیں.یہ تو ویسی ہی بات ہو جاتی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی کنجوس شخص تھا اس کا یہ طریق تھا کہ وہ ایک عورت سے شادی کرتا کچھ دنوں کے بعد اس کے روپیہ اور زیور وغیرہ پر قبضہ کر کے اسے چھوڑ دیتا.پھر دوسری شادی کرتا کچھ عرصہ کے بعد اسے بھی چھوڑ دیتا.اسی طرح اس نے کئی شادیاں کیں اور کسی نہ بہانے سے سب کو نکال دیا.آخر ایک اور عورت سے شادی کی وہ ہوشیار اور عظمند تھی.کئی مہینے نے گذر گئے مگر اس نے کوئی ایسا امر ظاہر نہ ہونے دیا جو اسے ناگوار گزرتا.اس خیال آیا کہ اگر یہ اس طرح میرے پاس رہی تو میں اس کے زیورات وغیرہ پر قبضہ کس طرح کر سکوں گا.پھر وہ بھی چونکہ بڑھا ہوچکا تھا اس کے دل میں خیال آیا کہ اگر میں مرگیا تو میری دولت پر بھی یہ قابض ہو جائے گی.ایک دن یہ سوچ کر باورچی خانہ میں چلا گیا بیوی روٹیاں پکا رہی تھی جاتے ہی اس نے جو تا اُٹھالیا اور بیوی کے سر پر مارنے لگا اور کہنے لگا کمبخت تو روٹی تو ہاتھوں سے پکاتی ہے تیری کہنیاں کیوں ہلتی ہیں.وہ عورت عقلمند تھی کہنے لگی آپ ناراض ہو کر کیوں اپنی طبیعت خراب کر رہے ہیں روٹی تیار ہے کھانا کھا لیجئے اس کے بعد جتنا جی چاہے مجھ پر غصہ نکال لیں.خیر اس کی باتوں سے وہ کچھ ٹھنڈا ہوا اور روٹی کھانے بیٹھ گیا.جب روٹی.
خطبات محمود کھا رہا تھا تو بیوی جوتا لے کر کھڑی ہو گئی اور کہنے لگی کمبخت تو کھانا تو منہ سے کھاتا ہے تیری ڈاڑھی کیوں ہلتی ہے.اُس نے ہاتھ جوڑ دیے کہ آج سے میرا تیرا مقابلہ بند ہوا تو جیتی اور میں ہارا.جس طرح روٹی پکاتے ہوئے کہنی ہلے گی اور کھانا کھاتے ہوئے ڈاڑھی ہلے گی اسی طرح جب کوئی شخص لوگوں کی اصلاح کرنا چاہے گا تو اسے بعض لوگوں کو سزا بھی دینی پڑے گی.پس اصلاح کے بتائے ہوئے طریقوں پر آپ لوگ کام کریں.ہر شخص کا یہ فرض ہے کہ جب وہ کسی کا عیب دیکھے اسے خود دور کرنے کی کوشش کرے اور اگر دیکھے کہ اس کی اصلاح ہو گئی ہے تو وہ خاموش ہو جائے اور اس عیب کا کسی دوسرے کے پاس ذکر تک نہ کرے.اور اگر وہ دیکھتا ہے کہ وہ خود اصلاح نہیں کر سکتا تو محلہ کے پریذیڈنٹ وغیرہ کے پاس پہنچے اور اگر دیکھے کہ وہ بھی توجہ نہیں کرتے تو پھر جو ان پر عہدیدار مقرر ہیں انہیں توجہ دلائے.مثلاً لڑائی جھگڑوں کے معاملات نظارت امور عامہ میں پیش کرنے چاہئیں اور اصلاح یا محبت باہمی وغیرہ کیلئے اصلاح وارشاد کے محکمہ میں جانا چاہیے لیکن ان کے علاوہ اور کسی کے پاس دوسرے کا عیب بیان نہیں کرنا چاہیئے اور اگر کوئی کرے گا تو وہ فتنہ کا مرتکب سمجھا جائے گا.یہ طریق ہے جو اصلاح کا ہے اگر آپ لوگ اس کو چلانے میں مدد دیں گے تو دیکھیں گے کہ لڑائیاں جھگڑے اور رفتن کس طرح دور ہو جاتے ہیں.ہر چیز ہمیشہ اپنے ماحول میں پنپتی ہے ایک باغی تبھی پنپ سکتا ہے جب وہ اپنے اردگرد بغاوت کی باتیں سنتا ہے اگر بغاوت کی باتوں پر سرزنش کی جائے تو باغی پیدا ہونے بھی بند ہو جائیں گے.اسی طرح لڑائی جھگڑے بھی تبھی پیدا ہوتے ہیں جب انسان لڑائی جھگڑوں کی باتیں سنتا ہے اگر باتیں ہوئی بند ہو جائیں تو لڑائی جھگڑے بھی نہیں ہوں گے اور اس دنیا میں آپ لوگوں کو جنت مل جائے گی.قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کیلئے اللہ تعالیٰ نے دو جنتوں کا وعدہ کیا ہوا ہے ہے.جسے اس جہان میں جنت ملی اسی کو اگلے جہان میں جنت ملے گی مگر آپ لوگ روزانہ اس دنیا میں جنم دیکھتے ہیں اور پھر بھی جنت کی امید رکھتے ہیں.جنت کی تعریف خدا تعالیٰ نے یہ کی ہے کہ وہاں دل میں کسی کے متعلق کوئی بغض اور کینہ نہیں ہو گا.پس ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے دلوں کو دوسروں کے بغض اور کینہ سے پاک کر دیں تاکہ اس دنیا میں ہمیں جنت حاصل ہو.میں بعض دفعہ کسی کی اصلاح کی غرض سے کوئی قدم اُٹھاتا ہوں تو ساتھ ہی میرا دل بھی
خطبات محمود گھٹ رہا ہوتا ہے اور میں اس کیلئے یہ دعا کرنی شروع کر دیتا ہوں کہ الہی! اس قدم سے یہ کسی ابتلاء میں نہ پڑ جائے کیونکہ میں نے یہ قدم محض اس کی اصلاح کی خاطر اٹھایا ہے اور یہ خداتعالی کا خاص فضل ہے کہ آج تک کسی ایک شخص کا بھی میرے دل میں بغض پیدا نہیں ہوا.ہاں ان افعال سے بغض ضرور ہوتا ہے جو سلسلہ احمدیہ اور دین اسلام کے خلاف کئے جاتے ہیں.لیکن افعال سے بغض بغض نہیں کہلاتا بلکہ وہ اصلاح کا ایک ذریعہ ہوتا ہے.ہم چوری کو بیشک بُرا کہتے ہیں لیکن چور سے ہمیں کوئی بغض نہیں ہوتا وہ اگر چوری چھوڑ دے تو ہم ہر وقت اس سے صلح کرنے کیلئے تیار ہوں گے.پس اصلاح محبت کے جذبات کے ماتحت کرنی چاہیے لیکن میں نے دیکھا ہے کہ بعض لوگ محض دوسرے کو نقصان پہنچانے کی خواہش میں دوسرے کی شکایت کر دیتے ہیں.ان کے مد نظر یہ نہیں ہوتا کہ اس کی اصلاح ہو جائے بلکہ ہے کہ کسی طرح اسے نقصان پہنچے.ایسے لوگ جب میرے پاس کسی کے متعلق شکایت کرتے ہیں اور میں محبت اور پیار سے اسے سمجھاتا ہوں اور وہ سمجھ جاتا ہے تو شکایت کرنے والے کہنے لگ جاتے ہیں بھلا اصلاح کس طرح ہو ہم نے فلاں کی شکایت خلیفۃ اصبح تک بھی پہنچائی مگر انہوں نے کچھ نہ کیا.گویا ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس کی شکایت کی جائے اس کے خلاف ضرور کوئی قدم اُٹھایا جائے حالانکہ یہ اصلاح کا آخری طریق ہے اس سے پہلے ہمیں محبت اور پیار سے دوسروں کو سمجھانا چاہیئے اور اگر وہ سمجھ جائیں تو ہمیں خوش ہونا چاہیے کہ ہمارے ایک بھائی کی اصلاح ہو گئی.ہوتا الفضل (۱۳) - جنوری ۱۹۷۰ء) له بخاری کتاب الاحكام باب من قضي ولا عن في المسجد له بخاری کتاب النکاح باب نظر المرأة الى الجيش (الخ) س التحريم: هم النور: ۱۷ تا ۲۰ اک سیرت ابن هشام الجزء الثانی صفحه ۱۲-۱۳ مطبوعه مصر ۱۲۹۵ه ، بخاری کتاب المغازی باب قول الله تعالى إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ (الخ) الرحمن: ٢٧
خطبات محمود ۲۴۱ ۲۷ سال ۱۹۳۴ء احمدی تاجروں کو پوری دیانت سے کاروبار کرنا چاہیئے فرموده ۳۱- اگست ۱۹۳۴ء - بمقام قادیان) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں نے گزشتہ خطبہ میں جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ انہیں بچوں اور نوجوانوں کو نماز کا پابند بنانا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ ہماری جماعت میں کوئی شخص ایسا نہ ہو جو نمازوں کیلئے مسجد میں نہ آئے.یہ تو میرے وہم میں بھی نہیں آسکتا کہ کوئی احمدی بے نماز ہو اور اگر کوئی ہوگا تو دو چار سو میں شاید ایک ہو اور وہ بھی نئی پود میں سے جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ وہ نماز پڑھتے ہیں لیکن صرف نماز پڑھنا کافی نہیں بلکہ اقامت شرط ہے قرآن کریم میں صرف يُصَلُّونَ نہیں ہے بلکہ يُقِيمُونَ الصَّلوةَ آتا ہے اور اقامتِ صلوة کیلئے باجماعت نماز پڑھنا ضروری ہے.میں سمجھتا ہوں اگر بچوں کو مساجد میں اپنے ساتھ لایا جائے تو خواہ وہ ایک لفظ بھی نہ سمجھیں اور نماز کی اہمیت کو پوری طرح محسوس کریں پھر بھی ایک وقت ایسا آئے گا کہ ان کے اندر سچا اخلاص پیدا ہو جائے گا.اور انہی بچوں میں سے بزرگ اولیاء پیدا ہونے شروع ہو جائیں گے.گویا اس ذرا سے کام سے وہ ماں باپ جن کی اولادیں آوارہ ہیں وہ آئندہ نسلوں کو ولی اللہ بنا سکتے ہیں.پھر ایک اور بات جس کی طرف میں خصوصیت کے ساتھ توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ یہاں کے بعض تاجر دیانت سے کام نہیں لیتے اس لئے ہر محلہ کے دوستوں کو اپنے اپنے محلہ کی دُکانوں کے متعلق خیال رکھنا چاہیے کہ ان سے سودا صحیح طور پر ملے.چیز خراب نہ ہو
خطبات محمود ۲۴۲ سال ۱۹۳۴ء • اور وزن کم نہ ہو.ایک دن مجھے عرق گلاب کی ضرورت تھی جو میں نے ایک دُکان سے منگوایا.میں نے دیکھا دکاندار نے پانی میں یوکلپٹس آئل ملایا ہوا تھا جسے وہ عرق گلاب کے طور پر بیچتا تھا اور یہ ایسی خطرناک بات ہے کہ اسلامی حکومت ہو تو اس کیلئے بڑی سخت سزا ہے.دوائیوں میں بے احتیاطی بسا اوقات مملک ثابت ہوتی ہے.آج کل بہت سے ولایتی ایسنس نکلے ہوئے ہیں اور ان کے ذریعہ ہر چیز کا عرق بنایا جاسکتا ہے مگر وہ گلاب وغیرہ کا عرق نہیں ہوگا اگرچہ اس کی خوشبو ویسی ہی ہو.بعض لوگ انہی سے عروق تیار کرلیتے ہیں حالانکہ وہ زہریلے ہوتے ہیں کیونکہ وہ دواؤں سے نہیں بنتے بلکہ ایسنسوں سے بنتے ہیں.پھر میرا تجربہ ہے کہ جو آٹا فروخت کیا جاتا ہے اس میں سے نوے فیصدی ایسا ہوتا ہے جس میں کرکٹ ہوتی ہے اور کیرک ایسی خطرناک چیز ہے کہ اس سے درد گردہ پتھری اور مثانہ وغیرہ کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں.لوگ عام طور پر جلدی جلدی روٹی کھانے کے عادی ہوتے ہیں اس لئے اس نقص کو محسوس نہیں کرتے.اگر اسلام کے حکم کے مطابق آہستہ آہستہ اور چباچبا کر روٹی کھائیں تو انہیں بآسانی معلوم ہو سکتا ہے کہ عام طور پر جو آٹا فروخت ہوتا ہے اس میں کیرک ہوتی ہے مگر لوگ وقار کے ساتھ روٹی نہیں کھاتے حالانکہ رسول کریم ﷺ نے اس کی خاص طور پر ہدایت فرمائی ہے.اگر ہماری جماعت کے لوگ کھانے کے متعلق اس ہدایت کی پابندی کرتے تو انہیں اس نقص کا احساس بڑی آسانی سے ہو سکتا تھا.کرک ایک سخت تکلیف دہ چیز ہے.گردہ اور مثانہ کے امراض اس سے پیدا ہوتے ہیں مگر دکاندار جو آٹا فروخت کرتے ہیں اس میں سے نوے فیصدی بلکہ میں کہوں گا ننانوے فیصدی کرک ہوتی ہے اور دکاندار بھاؤ کرتے وقت یہ خیال نہیں رکھتے کہ ایسا آٹا خریدیں جس میں کیرک وغیرہ نہ ہو بلکہ صاف ہو.وہ صرف یہ خیال کرتے ہیں کہ چار آنہ سستی بوری مل جائے جس کے یہ معنے ہیں کہ وہ بیوپاری کو اجازت دیتے ہیں کہ اس قدر وہ مٹی ملا سکتا ہے اور یہ بھی ویسی ہی بد دیانتی ہے جیسا خود مٹی ڈال کر بیچنا.پس دوست تاجروں کی اصلاح کی طرف بھی توجہ کریں اور جب انہیں شبہ ہو کہ کوئی دوائی یا کوئی اور چیز اچھی نہیں تو فوراً مقامی انجمن کے پاس رپورٹ کریں اور اس کا فرض ہے کہ تحقیقات کرے کہ شکایت صحیح ہے یا نہیں.اگر صحیح ہو تو اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کرے.ایک دفعہ ہمارے گھر میں ایک بوری آئی اور اسے دیکھ کر میں نے کہا کہ اس میں
خطبات محمود ۲۴۳ سال ۱۹۳۴ء کیرک ہے.چنانچہ جب آدمی واپس کرنے کیلئے گیا تو دکاندار نے وہ رکھ لی اور یہ کہہ کر کہ ہمیں علم نہ تھا حضرت صاحب کے گھر جانی ہے اچھے آٹے کی دوسری بوری دے دی جس کے معنے یہ ہیں کہ جہاں اعتراض کا خیال ہو وہاں وہ ایسا نہیں کرتے ورنہ کرلیتے ہیں اور انہیں علم ہوتا ہے.پس آئندہ اس امر کا خیال رکھا جائے کہ کوئی دکاندار ایسا آنا فروخت نہ کرے جس میں کیرک یا مٹی کی ملونی ہو اسی طرح دوسری اشیاء بھی خراب اور میلی کچیلی نہ ہوں اس سے جسمانی صحت بھی درست ہوگی اور ایمانوں میں بھی چُستی پیدا ہوگی.جب قیمت ادا کرنی ہے تو کیوں ناقص چیز لی جائے.یہ خیال کرنا کہ چلو تھوڑی سی خرابی ہے اسے جانے دو نہایت ہی معیوب بات ہے اور ایسا کہہ کر بات کو ٹال دینے والا اپنی بد دیانتی کا ثبوت دیتا ہے.اُس کے اس قول کے معنے یہ ہیں کہ جب اسے موقع ملے گا وہ اس سے بہت زیادہ بد دیانتی کرے گا.غرض یہ چیزیں اخلاق کو برباد کر دینے والی ہیں.قرآن کریم میں آتا ہے.وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ سے یعنی کم تولنے والوں پر خدا تعالی کی لعنت ہوتی ہے.دراصل چھوٹی چھوٹی باتیں ہی بڑی باتوں کا پیش خیمہ ہوتی ہیں اس لئے انہیں کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے.ایک دفعہ میں مغرب کی نماز پڑھا رہا تھا اور ایک خاص وجہ سے میں اس میں ایک ہی سورۃ پڑھا کرتا ہوں مگر اس دن ایسا معلوم ہوا کہ باقی سب قرآن مجھے بھول چکا ہے اور صرف وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ والى سورۃ یاد ہے.میں نے اسے کسی الہی حکمت پر محمول کیا اور سمجھا کہ اللہ تعالیٰ کا تصرف ہے.نماز کے بعد میں نے حکم دیا کہ سب دکانداروں کے بیٹے تو لے جائیں.چنانچہ ہے تو لنے پر معلوم ہوا کہ کئی ایک کے وزن کم تھے.پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس خرابی کو دور کریں.دکانداروں کی ہر چیز کو دیکھیں اور خیال رکھیں کہ بھاؤ ٹھیک ہوں، وزن پورے ہوں اور چیز صاف ستھری ہو، ہر چیز ملونی سے پاک ہو، دوائیں درست اور صحیح ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک دفعہ شدید طاعون پڑی تو لوگ کہتے تھے کہ دکاندار ایک ہی بوتل سے سب عرق دے دیتے ہیں، اسی سے گلاب، اسی.گاؤ زبان اور اسی سے کیوڑہ وغیرہ.حالانکہ دوائی میں ادنیٰ سی غلطی سے بھی بعض اوقات جان ضائع ہو جاتی ہے.میں امید کرتا ہوں کہ دوست اس امر کی طرف توجہ کریں گے اور تاجر ہر قسم کی بد دیانتی کو دور کرنے کی کوشش کریں گے.الفضل ۲۸ - جنوری ۱۹۶۰ء) :::کرک ریت کے باریک ذرات له المطففين: ٢
خطبات محمود ۲۴۴ ۲۸ سال ۱۹۳۴ء مومن کو ہمیشہ یہ دیکھتے رہنا چاہیے کہ اس کا کوئی بھائی ضروریات زندگی سے محروم تو نہیں ہے (فرموده ۷ ستمبر ۱۹۳۴ء - بمقام قادیان) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں نے گزشتہ خطبہ میں جماعت کے دوستوں کو دُکانداروں کی اصلاح کی طرف توجہ ولائی تھی میرے اس خطبہ کے نتیجہ میں مختلف محلوں کے عہدیداروں نے دکانداروں کا جائزہ لیا تو بعض جگہ باٹوں میں کمی دیکھی گئی جس کی اصلاح کی طرف انہیں توجہ دلائی گئی.بعض جگہ چیزیں ناقص دیکھی گئیں اور ان کے ازالہ کی تاکید کی گئی اسی طرح بعض جگہ یہ ثابت ہوا کہ مٹھائیوں والے خراب اور ناقص گھی استعمال کرتے ہیں اس عیب کو دور کرنے کیلئے بھی کارروائی کی گئی لیکن یہ کام ایک دن کا نہیں کہ اس کے بعد ہمیں توجہ کرنے کی ضرورت نہ ہو.ذکانداروں میں دو قسم کے لوگ ہوا کرتے ہیں.ایک وہ جو سُستی اور غفلت سے خراب چیز مہیا کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو بد دیانتی سے خراب چیزیں دیتے ہیں لیکن نہ تو نستی ایسی چیز ہے جو کسی کے ایک دفعہ کہنے سے دور ہو جائے اور نہ بد دیانتی.ایک دفعہ کے توجہ دلانے سے دور ہو سکتی ہے اس لئے میں پھر کارکنوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں.در حقیقت بازار کا انتظام کرنا کوئی آسان بات نہیں ہوتی.جو لوگ سُست ہوں ان کی سستی ایک دن میں دور نہیں ہو سکتی اور جو بددیانت ہوں ان کی دیانت ایک دن میں قائم نہیں ہو جاتی اس لئے تمام محلوں
خطبات محمود ۲۴۵ سال ۱۹۳۴ء کے عہدیداروں کو ایسے آدمی مقرر کرنے چاہئیں جو متواتر دکانوں کی نگرانی رکھیں لیکن اس کیلئے کسی دکاندار کو مقرر نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ انتظامی اصول کے خلاف ہے کہ جن دروں کی نگرانی کی ضرورت ہو ان پر اسی پیشے کا کوئی آدمی مقرر کیا جائے ایسے شخص کو یہ خدشہ رہتا ہے کہ اگر میں نے نقص بتائے تو میرے ہم پیشہ لوگ میرے مخالف ہو جائیں گے اور مجھے نقصان پہنچے گا.پس دکانداروں پر نگران کسی دکاندار کو مقرر نہ کیا جائے بلکہ اور لوگوں کے سپرد یہ ڈیوٹی کی جائے اور اس نگرانی پر مداومت اختیار کی جائے اور ایسے اصول مقرر کئے جائیں جن کے ماتحت تاجروں کی اصلاح ہو جائے.مثلاً اشیاء کے نرخ کا معاملہ ہے یہاں کے تاجروں کا یہ طریق ہے کہ جتنے نرخ پر ان کا جی چاہے اشیاء بیچتے ہیں حالانکہ اگر اس اصل کو تسلیم کر لیا جائے تو دنیا میں سوائے تباہی کے کچھ نہ رہے اور نظام عالم درہم برہم ہو جائے.اسلام نے اپنی تعلیم میں اس اصل کو کبھی تسلیم نہیں کیا.لیکن چونکہ یہ تفصیلات بیان کرنے کا وقع نہیں اس لئے مختصر طور پر میں یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ اسلام نے جو اشیاء کی خرید و فروخت کے متعلق اصول بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ خرید و فروخت دونوں میں معقولیت پائی جانی چاہیئے.نہ دکاندار کا نقصان ہو نہ خریدار کا.میں نے پچھلے دنوں ہی اس کا تجربہ کیا.مجھے اپنے بچوں کی شادی کے موقع پر کچھ مٹھائی کی ضرورت پیش آئی.ریٹ دریافت کئے گئے تو ہندوؤں نے جو ریٹ بتائے اس سے ڈیوڑھے ریٹ احمدی دُکانداروں نے بتائے اور وجہ یہ بتائی کہ ہم اچھا اور خالص گھی ڈالتے ہیں مگر لطیفہ یہ ہوا کہ جب میرے پچھلے خطبہ جمعہ کی بناء پر نگرانی کی گئی تو اسی دکاندار کا گھی جس نے کہا تھا کہ ہم خالص اور بہتر گھی مٹھائیوں میں استعمال کرتے ہیں روی اور ناقص پایا گیا.تو عدم نگرانی کی وجہ سے اس قسم کے نقص پیدا ہو جاتے ہیں.پھر یہی نہیں بلکہ بعض چیزوں کے ریٹ میں ڈگنا فرق پایا گیا.یہ بھی ایسا نقص ہے جس کا ازالہ ہونا ضروری ہے.پس عہدیداروں کو چاہیے کہ وہ نہ صرف یہ دیکھا کریں کہ دکاندار عمدہ اور صاف ستھری چیزیں رکھیں جو صحت کیلئے کسی پہلو سے بھی مُضر نہ ہوں بلکہ یہ بھی دیکھیں کہ بھاؤ کے لحاظ سے بھی گاہکوں کو نقصان نہ پہنچا کرے.مجھے ان چیزوں کے گراں خریدے جانے کا افسوس نہیں بلکہ افسوس اس امر کا ہے کہ اس کا اثر دیانت اور امانت پر پڑتا ہے.میں نے اگر پندرہ میں سال میں بچوں کی شادی کے موقع پر پندرہ ہیں روپے کی مٹھائی لے لی تو خواہ وہ
خطبات محمود ۲۶ سال ۱۹۳۴ء مجھے گراں ملی مجھ پر اس کا کیا اثر ہو سکتا ہے ایسا موقع روز روز تو نہیں آتا.مگر یہاں سوال اشیاء کی گرانی کا نہیں بلکہ قوم کی دیانت و امانت کا ہے.پس یہ دلیل کام نہیں دے سکتی کہ ہم نے کب روز روز ایسی اشیاء خریدنی ہیں کہ ہم اس کا دوسروں سے مقابلہ کریں.مگر یہاں سوال یہ ہے کہ بعض لوگوں کی دیانت کا پہلو کمزور ہو رہا ہے اور جب قوم کے بعض افراد کی دیانت کمزور ہو جائے تو دوسروں پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے اور وہ بھی خیانت کرنے لگ جاتے ہیں.پس میں امید کرتا ہوں کہ باقی کاموں کی طرح مقامی انجمنیں اس امر کی طرف بھی توجہ کریں گی.اس کے بعد میں ایک اور مضمون کی طرف توجہ دلاتا ہوں.جو نہایت ہی اہم اور اصولی موضوع ہے.اسلامی تعلیم پر غور کرنے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہر فرد کی غذا قوم کے ذمہ ڈالتا ہے اور مسلمانوں پر فرض قرار دیتا ہے کہ وہ کسی مسلمان کو فاقہ سے نہ رہنے دیں.قرآن مجید سے اس کا پتہ چلتا ہے، احادیث سے اس کا پتہ چلتا ہے، صحابہ کے تعامل سے اس کا پتہ چلتا ہے پس ہر مومن کا فرض ہے کہ وہ دیکھے کہ اس کا کوئی بھائی ان ضروریاتِ زندگی سے تو محروم نہیں ہے جن کے بغیر حیات قائم نہیں رہتی اور اگر کسی شخص کے متعلق معلوم ہو کہ وہ اس قسم کی ضروریات زندگی سے محروم ہے تو دوسرے مسلمان اس کے ذمہ دار ہیں.ارض کہ میں ایک موٹی مثال دیتا ہوں جس سے یہ مسئلہ ہر شخص کی سمجھ میں آسکے گا اور وہ یہ ہے اگر کسی کے پاس لباس نہ ہو اور اس کی ایسی کمزور حالت ہو گئی ہو کہ وہ لنگوٹ بھی نہ رکھتا ہو اور ننگا بازار میں پھرنے لگے تو سب کو اس کی غربت اور فلاکت کا احساس ہو جائے گا اور وہ اسے کپڑے تیار کر کے دے دیں گے خواہ خود بھی انہیں تکلیف ہو حالانکہ لباس غذا سے ادنیٰ چیز ہے.لیکن ہمارے ہاں یہ نقص ہے کہ اگر کوئی نگا پھرے تو اسے کپڑے بنادیں گے لیکن اگر فاقہ سے مرنے لگے اور کھانے کو کچھ میسر نہ ہو تو اس کی طرف بہت کم توجہ کریں گے حالانکہ مقدم چیز غذا ہے.غلطی سے بعض لوگ یہ خیال کر لیتے ہیں کہ غذا بہم پہنچانے کی کرلیتے ساری ذمہ داری لنگر خانہ پر ہے حالانکہ لنگر خانہ پر لوکل جماعت کا اتنا ہی حق ہے جتنا لاہور گوجرانوالہ سیالکوٹ، پشاور اور دوسرے شہروں کا.اگر ہم نے لاہور اور گوجرانوالہ میں اپنے آدمی مقرر کئے ہوئے ہیں جو وہاں کے بھوکوں کو کھانا کھلائیں تو یہاں کی جماعت کا بھی حق ہے کہ وہ اپنے بھوکوں کا لنگر خانہ پر بار ڈالے.اور اگر باہر کی جماعتیں اس رنگ میں لنگر خانہ
خطبات محمود ۲۴۷ سال ۱۹۳۴ء سے فائدہ نہیں اٹھاتیں تو مقامی جماعت کس طرح فائدہ اُٹھا سکتی ہے.جس طرح یہاں کے رہنے والے چندہ دیتے ہیں اسی طرح سیالکوٹ، پشاور اور دوسری جماعتیں بھی چندہ دیتی ہیں مگر کیا ان جماعتوں کے غرباء لنگر خانہ میں سے کھانا کھا رہے ہیں کہ یہاں کے غرباء کا لنگر خانہ پر بار ڈالا جائے.بیرونی جماعتیں چندے بھی دیتی ہیں اور پھر اپنے مساکین کو کھانا بھی کھلاتی ہیں اسی طرح کوئی وجہ نہیں کہ جو فرض باہر والے ادا کر رہے ہیں وہ یہاں والے ادا نہ کریں.پس یہاں کے لوگوں کو یہ امر ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ لنگر خانہ جماعت کے مہمانوں کیلئے ہے نہ کہ ذاتی مہمانوں یا مقامی غرباء کیلئے مگر عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ اگر کسی کے ہاں کوئی ذاتی مہمان بھی آتا ہے تو اس کا کھانا لنگر خانہ کے ذمہ ڈال دیا جاتا ہے.بعض دفعہ کسی کا سالا آجاتا ہے، خسر آجاتا ہے، بھائی بہنیں یا بھانجے آئے ہوئے ہوتے ہیں مگر کھانا لنگر سے منگوایا جاتا ہے حالانکہ لنگر خانہ اُس کیلئے ہے جس کا یہاں کوئی رشتہ دار نہیں اور جو جماعت کا آکر مہمان بنتا ہے.پس جو رنگ یہاں کے بعض لوگوں نے اختیار کیا ہوا ہے وہ ایسا ہے کہ گویا وہ مہمان نوازی کے حکم پر تبر رکھنے والا ہے.میں نے کئی دفعہ بیان کیا ہے کہ بعض لوگ ایسے مخلص ہوتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم لنگر کی روٹی تبرک کے طور پر کھانا چاہتے ہیں.ایسے لوگوں کا کبھی ایک وقت کیلئے کھانا منگوالینا کوئی معیوب امر نہیں بلکہ اس قسم کی خواہش کو پورا کرنا ثواب کا موجب بنتا ہے.میرے ایک قریبی عزیز ایک دفعہ آئے ہوئے تھے انہوں نے کہا میرے لئے لنگر سے روٹی منگوائی جائے.میں نے وجہ دریافت کی تو انہوں نے بتایا کہ آج میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لنگر خانہ کا کھانا تیتر کا کھاؤں.تو بسا اوقات ایسے لوگ بھی تیرک کے طور پر لنگر سے دال روٹی منگوالیتے ہیں مگر یہ اور چیز ہے اسے ہم روک نہیں سکتے بلکہ ہمیں اس جذبہ کی قدر کرنی چاہیے لیکن مستقل طور پر اگر لنگر پر اپنا بوجھ ڈالا جائے تو یہ بہت ہی اخلاق کے گرے ہونے کا ثبوت ہے.یہاں جس کا کوئی رشتہ دار نہ ہو اس نے تو لنگر سے ہی کھانا کھانا ہے مگر جس کے رشتہ دار ہوں اگر وہ بھی لنگر سے کھانا منگوائیں تو یہ درست نہیں ہوگا.ایسے لوگوں کی ذمہ داری در حقیقت ان کے رشتہ داروں اور عزیزوں پر عائد ہوتی ہے.میں نے کئی لوگوں کو دیکھا ہے وہ کہا کرتے ہیں ہمیں باہر بڑی تنگی تھی ایک شخص ہمیں ملا اور اس نے کہا تم ہجرت کر کے مرکز میں کیوں نہیں چلے جاتے.اس پر ہم ہجرت کرکے یہاں
۲۴۸ سال خطبات محمود آگئے.مگر یہ ہجرت کا نہیں بلکہ مصیبت زدوں کا ایک ڈیرہ ہے.مہاجر تو اس لئے آتا ہے کہ وہ اپنی جان اور اپنا مال خدا کی راہ میں قربان کرے گا مگر یہ اس لئے یہاں آتا ہے کہ سلسلہ کے لوگ اپنی جان اور اپنا مال اس کیلئے قربان کریں.پس یہ ہجرت نہیں کہلا سکتی بلکہ مسکینی اور فقر ہے جس کو دور کرنے کیلئے وہ یہاں آجاتا ہے.مگر بہر حال جب وہ آگیا تو محلہ والوں کا فرض ہوتا ہے کہ اس کا خیال رکھیں.میرے نزدیک ہر محلہ کے عہدہ داروں کا یہ کام ہے کہ ہے وہ اپنے اپنے محلہ کے لوگوں کی نگرانی رکھیں اور دیکھیں کہ کوئی بھوکا تو نہیں.مثلاً ہو سکتا کوئی بیوہ ہو جس کے کھانے کا کوئی انتظام نہ ہو، کوئی مسکین ہو جو بے سامان ہو.پس جب کسی ایسی بیوہ یا مسکین کا انہیں علم حاصل ہو جس کا بوجھ سلسلہ نہیں اٹھا رہا تو ان کا فرض ہے شخص کہ وہ محلہ کے لوگوں کے کھانوں میں سے اسے کھانا مہیا کریں کیونکہ محلے میں کسی ایک کا بھوکا رہنا بھی محلے والوں کی ناک کاٹ دیتا ہے.پس محلے والوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے اپنے محلوں کے بھوکوں کا انتظام کریں اور کوشش کریں کہ کسی محلے کا کوئی فرد رات کو بھوکا نہ سوئے اور اگر انہیں کسی بھوکے شخص کا علم ہو تو محلے والوں کا فرض ہے کہ وہ کھانا جمع کر کے اسے دیں اور چاہے آپ بھوکا رہنا پڑے اسے کھلائیں کیونکہ اگر کھانا نہ ہو تو وہ زیادہ تکلیف دیا کرتا ہے لیکن اگر کھانا تو ہو مگر کسی غریب کو دے دیا جائے اور خود بھوکا رہا جائے تو اس سے کم تکلیف محسوس ہوتی ہے.جس کے پاس کھانے کیلئے کوئی سامان نہ ہو اسے دو تکلیفیں ہوتی ہیں کھانا نہ ہونے کی بھی اور اپنی بے چارگی کی بھی.اور جس کے پاس ہو تو سہی مگر وہ کھائے نہیں اسے اتنی تسلی ضرور ہوتی ہے کہ میرے گھر میں سامان سب موجود ہے جب چاہوں گا کھالوں گا.جیسے روزوں کے دنوں میں ہم کھانا نہیں کھاتے مگر ہمارے دل کو تکلیف نہیں ہوتی کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ تکلیف ہم نے خود اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے اپنے وارد کی ہوئی ہے لیکن جس کے پاس کھانا نہ ہو اسے اپنی بیچارگی کا احساس بہت زیادہ تکلیف دیتا ہے.نفس : پس اگر کوئی شخص بھوکا ہو تو اسے اپنے کھانوں میں سے تھوڑا تھوڑا کھانا نکال کر دے دینا چاہیئے اس لئے خود بھی کوئی تکلیف نہیں ہوگی اور اسے بھی کھانا مل جائے گا.میں نے اکثر دیکھا ہے اگر انسان اپنی غذا میں کمی کر دے تو تھوڑی پر ہی گزارا ہو جاتا ہے اور اگر زیادہ غذا کی عادت ڈال لے تو زیادہ کھائے بغیر چین نہیں آتا.دعوتوں کے موقع پر بعض ٹھونس ٹھونس
خطبات محمود ۲۴۹ سال ۱۹۳۴ء شخص تو کر کھاتے ہیں اور بعض تھوڑا سا کھا لیتے ہیں تو ان کا بھی گزارہ ہو جاتا ہے.پس یہ کوئی ایسی چیز نہیں جو لاعلاج ہو.جب تمام محلے والے اس ذمہ داری کو محسوس کرلیں کہ ان میں کوئی فاقہ زدہ نہ ہو تو پھر ان کا یہ بھی فرض ہوگا کہ وہ دیکھیں کہ ان کے محلہ میں کوئی ایسا نہیں جو کام تو کر سکتا ہے لیکن کرتا نہیں کیونکہ اگر ہم نکما بیٹھنے والوں کو کھانا دیتے چلے جائیں گے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ کئی نکتے پیدا ہو جائیں گے.پس بیکار لوگوں کو کام کرنے پر مجبور کیا جائے تاکہ ان کی طاقتیں ضائع نہ ہوں اور وہ سلسلہ کیلئے بوجھ کا موجب نہ بنیں.الفضل ۳ - فروری ۱۹۶۰ء)
۲۵۰ ۲۹ خطبات محمود مانگنے اور سوال کرنے کی عادت کو مٹانا نہایت ضروری ہے فرموده ۱۴- ستمبر ۱۹۳۴ء - بمقام قادیان) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- خطبہ شروع کرنے سے پہلے میں اختصار کے ساتھ مساجد کے ذمہ دار لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اخلاقی ترقی اور ہمت و استقلال کی بلندی کیلئے آواز کی بلندی بھی ضروری چیز ہوتی ہے.اونچی آواز کے ساتھ انسان کا حوصلہ بھی بڑھتا ہے اور ارادہ بھی ترقی کرتا ہے اس لئے متواتر آٹھ دس سال سے جب بھی مدارس میں کوئی دعوت کی تقریب ہوتی ہے میں مدرسین اور ہیڈ ماسٹروں کو توجہ دلاتا رہتا ہوں کہ طلباء کی آواز بلند کرنے کی کوشش کیا کریں لیکن مجھے افسوس ہے کہ اس نہایت اہم معالمہ کی طرف کوئی توجہ نہیں کی گئی.اس کے دو ہی سبب ہو سکتے ہیں یا تو یہ کہ آواز کی بلندی کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا جاتا اور یا یہ کہ سمجھ لیا گیا ہے کہ جس کی آواز پست ہو وہ بلند نہیں ہو سکتی.اگر کوئی شخص یہ خیال کرتا ہے کہ آواز کی بلندی کا انسان کی ترقی اور اس کے ارادوں کی بلندی میں کوئی دخل نہیں تو وہ غلطی کرتا ہے.اللہ تعالی نے جب بھی کوئی نبی مبعوث کیا ہے اسے سلاست زبان، تقریر کا ملکہ اور قوت گویائی بھی عطا کی ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالٰی سے جو دعا مانگی اس میں بھی ذکر ہے کہ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ نِسَانی له یعنی میری زبان میں جس قسم کی بھی مگر ہیں ہوں ان کو دور کردے اور زبان کی گرہ میں لکنت، آواز کی پستی الفاظ کی پستی سب چیزیں شامل ہیں.پس اس دعا کے معنے یہ ہیں کہ اے خدا! مجھے بلندی آواز عطا فرما اور میرے الفاظ میں
خطبات محمود ۲۵۱ ١٩٣١ء طاقت اور شوکت اور اثر پیدا فرما.چنانچہ فرعون کے ساتھ آپ کے جو مباحثات ہوئے ان سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ آپ چھوٹے چھوٹے اور مختصر جواب دیتے مگر درباریوں پر ایسی ہیبت طاری ہو گئی کہ اُن سے کوئی جواب بن نہ پڑا اور آخر وہ مارنے اور ظلم کرنے پر اُتر آئے.رسول کریم او کو بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ہزا رہا کے مجمع کو آپ ایسی عمدگی کے ساتھ اپنی باتیں سنا دیتے تھے کہ دور بیٹھے ہوئے لوگوں کو بھی آواز پہنچتی تھی.آپ مسجد میں تقریر فرماتے تو گلی کوچوں میں آپ کی آواز پہنچتی.آپ فرماتے بیٹھ جاؤ تو گلی میں چلنے والوں میں سے بعض آپ کی آواز سن کر بیٹھ جاتے ہے.غرض وہ نشان والا معجزہ جو سب انبیاء کو دیا گیا اور جس سے کوئی نبی مستثنی نہیں ، نہ حضرت موسی نہ حضرت عیسی ، نہ رسول کریم ال ال TAG اور نہ اس زمانہ کا مامور، وہ کوئی معمولی بات نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام لاہور میں جب تقریر کرنے کیلئے کھڑے ہوئے تو لاہور کا سب سے وسیع ہال آدمیوں سے بھرا ہوا تھا.اور اس قدر اژدہام تھا کہ دروازے کھول دیئے گئے بلکہ باہر قناتیں لگائی گئیں اور وہ بھی سامعین سے بھر گئیں.شروع میں تو جیسا کہ عام قاعدہ ہے آپ کی آواز ذرا مدھم تھی اور بعض لوگوں نے کچھ شور بھی کیا مگر بعد میں جب آپ بول رہے تھے تو ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے آسمان سے کوئی بگل بجایا جارہا ہے اور لوگ مبہوت بنے بیٹھے تھے.تو آواز کی بلندی دینی خدمات کے اہم حالات میں سے ہے.پھر معلوم نہیں ہمارے دوست اس طرف کیوں توجہ نہیں کرتے.یہ خیال کہ آواز بڑھ نہیں سکتی غلط ہے.جو لوگ گانے کی مشق کرتے ہیں ان کی آواز بلند ہو جاتی ہے.گویوں کے ماسٹر ان کی آواز کو بلند کرنے اور گلوں کی حفاظت کرنے کے متعلق خاص احتیاطیں کرتے ہیں.کبھی گرم کپڑے باندھتے ہیں اور کبھی ٹھنڈے اور پھر ایک آدمی چھڑی لے کر کھڑا ہو جاتا ہے اور اگر آواز مدھم نکلے تو وہ سزا دیتا ہے.پھر جب گلا بیٹھ جاتا ہے تو اس پر برف وغیرہ باندھتے ہیں اور اس طرح آواز کو بلند کیا جاتا ہے.ہمارے ہاں بھی اس کی مثال موجود ہے.عبد الغفار خان صاحب افغان جو میاں عبداللہ خان صاحب افغان کے والد تھے اور مولوی عبدالستار صاحب مرحوم کے بھائی تھے وہ بڑے قد آور جوان تھے مگر اذان کیلئے ایک دن کھڑے ہوئے تو ان کی آواز نہ نکلی.اس پر بعض لوگوں نے تمسخر کیا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے باقاعدہ اذان دینا شروع کردی اور آہستہ آہستہ
خطبات محمود ۲۵۲ سال ۱۹۳۴ء ان کی آواز اس قدر بلند ہو گئی کہ جب وہ اذان دیتے تو یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ الفاظ نکل رہے ہیں بلکہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ توپ کے گولے چل رہے ہیں.پس آواز میں بلندی پیدا کی سکتی ہے اگر طالب علموں کو کہا جائے کہ آواز بلند کرو ورنہ سزا دی جائے گی اور اس کا مقابلہ کرایا جائے.ایک آدمی کو دور کھڑا کر دیا جائے اور طلباء سے اسے آواز دلوائی جائے اور پھر فاصلہ آہستہ آہستہ زیادہ کیا جائے تو آواز زگئی تنگئی ہو سکتی ہے.یہاں کے ایک موذن بھی ایسی ہی کمزور آواز والے ہیں اور جب وہ اذان دیتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا کسی بچہ پر کسی نے تھپڑ مارا ہے اور وہ رو رہا ہے.اگر کوئی قرآن کریم کی قراءت اس طرح کرے تو لوگ شور مچادیں لیکن اذان کی طرف کوئی توجہ نہیں کی جاتی حالانکہ اس کا ذکر قرآن کریم میں ہے.میں نے دیکھا ہے عام طور پر مؤذن مُحَمَّد یا مُحَمَّدٌ کہتے ہیں.اسی طرح ان لا إله إلا الله کہتے ہیں حالانکہ نون نہیں بولتا اور پھر انہیں کوئی سمجھاتا بھی نہیں حالانکہ یہ چھوٹی سی چیز ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ اسے درست نہ کیا جائے.گل میں نے بعض نوجوانوں کو کھڑا کر کے اذان دلوانی شروع کی تو وہی مثل صادق آئی بڑے میاں سو بڑے میاں چھوٹے میاں سُبْحَانَ الله - چھوٹی پور کی تو یہ حالت ہے آئندہ لوگوں کو شاید ان کے ہونٹوں کے ساتھ کان لگا کر آواز سنی پڑے گی.ہم نے ۲۵ سال گلے سے کام لیا ہے مگر آواز اب بھی خدا کے فضل سے ان سے بلند ہے.میں نے اطفال کو ہدایت کی ہے کہ روزانہ تین لڑکے چن لیں اور ان سے اذان دلوایا کریں تاکہ کی آواز بلند ہو.ہم تو اس کے اتنے شوقین تھے کہ عصر کی اذان کے وقت دور سے بھاگتے تھے اور کئی کئی اذانیں دے دیتے تھے.پہلے میں آیا میں نے اذان دی، پھر میرا کوئی ساتھی آگیا تو اس نے بھی دے دی، پھر تیسرا آیا اس نے بھی دے دی.اس پر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے ہمیں تو کیا کہنا تھا مگر بڑوں کو ڈانٹا کہ کیا ایک اذان کافی نہیں؟ لیکن سکھانے زیادہ اذانوں میں بھی کوئی حرج نہیں.پس روزانہ آواز کی مشق کراؤ.ایک شخص کو فاصلے کھڑا کر دو اور تین لڑکوں سے اذان دلواؤ.پھر اسے روزانہ پرے کرتے جاؤ اور دیکھو کہ آواز کتنی بڑھی ہے.دو تین ماہ اسی طرح مشق کراؤ پھر دیکھو.اول تو اس دن کے بعد ہی لڑکوں کو اس قدر شوق ہو جائے گا کہ گلی کوچوں میں اذانیں دیتے پھریں گے.اگر ایک دن کوئی آجائے تو بچے کئی روز تک نعرہ ہائے تکبیر بلند کرتے رہتے ہیں.ان
خطبات محمود ۲۵۳ سال ۱۹۳۴ء اذان ایک گرج ہے، ایک چیلنج ہے دنیا کو کہ ہمت ہے تو ہمارے مقابلہ میں آؤ مگر کیا کوئی چیلنج بھی مُردہ آواز میں دیا کرتا ہے.یہ تو ایک گرج ہے کہ تم رکن خداؤں کو پیش کرتے ہو ہمارا خدا سب سے بڑا ہے لیکن ان الفاظ کو ادا کرتے ہوئے اگر آواز ایسی ہو جیسے مار کھا کر تو یہ مقصد پورا نہیں ہو سکتا.اذان اونچی اور صحیح ہونی چاہیے اس کے اندر ایسی رور ہے ہو کشش ہے کہ حضرت خلیفہ اول سنایا کرتے تھے کہ ایک سکھ رئیس کے گھر کے پاس مسجد تھی جس میں ایک بہت بلند آواز اور خوش گلو مؤذن تھا.اس سکھ کی جوان لڑکی تھی وہ ایک دن اپنے والد سے کہنے لگی کہ میں مسلمان ہونا چاہتی ہوں.اس نے پوچھا کیوں؟ کہنے لگی بس میرا دل چاہتا ہے.اس نے پوچھا آخر اس کی کوئی وجہ بھی ہے.کہنے لگی یہ میں نہیں جانتی.بس میرا دل اسلام کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے.وہ سمجھدار آدمی تھا اور امیر بھی.اس نے اس مؤذن کو کچھ دے دلا کر وہاں سے بھجوا دیا اور کسی منحنی آواز والے کو مؤذن مقرر کروا دیا اور پھر چند روز کے بعد کہا کہ اچھا بیٹی ! تیری مرضی ہے تو مسلمان ہو جا.وہ کہنے لگی اب تو خیال بدل گیا ہے.تو اذان میں ایک شوکت اور شان ہے اگر آواز بھی الفاظ کے مطابق ہو تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دل خود بخود کو تا چلا جارہا ہے لیکن جہاں موذن بھری آواز والا ہو وہاں نمازی بھی ست ہوتے ہیں.پس میں تمام محلوں کے پریڈیڈ نٹوں اور مربیان اطفال کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس طرف توجہ کریں.خطبہ میں میں نے کہا تھا کہ محلہ والوں کا فرض ہے کہ دیکھیں ان کا کوئی ہمسایہ بھوکا نہ رہے اور ننگا نہ ہو مگر اس ذمہ داری کے ساتھ ایک اور امر بھی ہے جس کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے.بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جو یہ دیکھ کر کہ کھانے اور کپڑوں کی ذمہ داری دوسروں پر ہے سُست ہو جاتے ہیں.ایسے لوگ محنت اُس وقت کرتے ہیں جب دیکھیں کہ ذمہ داری ہم پر ہے اس لئے جب یہ اہتمام کیا جائے کہ سب کے کھانے پینے کی ذمہ داری محلہ والوں پر ہو وہاں ان کا یہ بھی فرض ہوگا کہ دیکھیں ایسے لوگ سُست نہ ہوں.بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ کام نہیں ملتا اور اس کی تشریح کرائی جائے تو معلوم ہوگا کہ ان حسب ملف منشاء کام نہیں ملتا حالانکہ سائل ہونے سے بہتر ہے کہ جو کام بھی ملے کر لیا جائے.مثلاً ایک وکیل کو اگر وکالت کا کام نہ ملے اور وہ ٹوکری ڈھونے لگ جائے تو یہ اس کی شرافت کی دلیل ہوگی اور اس میں کوئی ذلت نہیں.لکھنے بیٹھنے کی بجائے اگر وہ حلال روزی ٹوکری کے
خطبات محمود ۲۵۴ سال ۱۹۳۴ء وہ ڈھوکر کمائے گا تو اس کے محلہ والوں میں سے ہی کئی اسے اس سے اچھی نوکری دینے پر آمادہ ہو جائیں گے.پہلے تو لوگ شرم کی وجہ سے نہیں کہتے کہ آپ یہ معمولی نوکری کرلیں کیونکہ سمجھتے ہیں دوسرا اسے ہتک نہ سمجھے.جیسے بعض خاندان بڑے سمجھے جاتے ہیں ان کی لڑکیوں کے رشتے کیلئے کوئی اس خوف سے پوچھتا ہی نہیں کہ ایسا نہ ہو ناراض ہو جائیں.اسی طرح ایک وکیل کو کوئی شخص یہ کہنے کی جرات نہیں کر سکتا کہ آپ میری دکان پر پندرہ روپے کی نوکری کرلیں لیکن اگر وہ مزدوری کرنے لگ جائے تو دوسرا شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ آپ یہ کام کیوں کرتے ہیں میرے پاس پندرہ روپے کی جگہ ہے.پھر ممکن ہے دوسرا پچیس روپیہ ماہوار پیش کردے کہ میری دکان پر آجاؤ تیسرا اس سے بھی زیادہ دینے پر تیار ہو جائے اور اس طرح ممکن ہے کہ وہ سو ڈیڑھ سو روپیہ تک جاپہنچے.جو شخص گھر میں بھوکا پڑا رہے وہ جسمانی موت کیلئے تیار ہو جاتا ہے اور جو دستِ سوال دراز کرے وہ اخلاقی موت مرتا ہے جب دونوں صورتیں نہ ہوں تو دنیا ایسے شخص کو عزت دیتی ہے.میرے پاس کئی ایسے لوگ آتے ہیں.میں پوچھتا ہوں کام کیوں نہیں کرتے؟ وہ کہتے ہیں ملتا نہیں اور اگر بتایا جائے کہ فلاں کام ہے تو کہیں گے کہ اس میں تو پندرہ روپے ملتے ہیں.انہیں یہ سمجھ ہی نہیں آتا کہ پندرہ روپے صفر سے تو بہرحال زیادہ ہیں.وہ گریجوایٹ ہوں گے، مولوی فاضل ہوں گے، اچھے پڑھے لکھے اور عالم ہوں گے ، مگر یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آئے گی کہ صفر سے پندرہ بہتر ہیں.حالانکہ اگر ایک خالی ہاتھ ہو اور دوسرے شخص کے ہاتھ میں گنڈیری ہو تو ایک نادان بچہ بھی فرق محسوس کرتا ہے لیکن یہ لوگ ایسے احمق ہوتے ہیں کہ دس یا پندرہ یا صفر میں فرق نہیں کرتے بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ ایک روپیہ بھی صفر سے بہتر ہے.مجھے سینکڑوں رقعے ایسے آتے رہتے ہیں کہ تنخواہ تھوڑی ہے عیالدار آدمی ہوں کچھ سلسلہ کی طرف سے امداد مل جائے یا وظیفہ ہی مل جائے.ان کے خیال میں سلسلہ نام ہے چند جادوگروں کا جو کیمیا بناتے ہیں.یا اپنے احمدی ہونے کو اللہ تعالی پر احسان سمجھتے ہیں کہ تونے نبی بھیجا تو خزانہ بھی دیا ہو گا.ایسے لوگ ایمان کو تجارت سمجھتے ہیں.پھر بعض لوگ کام کرنا بے عزتی سمجھتے ہیں.حضرت خلیفہ اول سنایا کرتے تھے کہ ایک امیر ہندو اپنے لڑکے کو چھ پیسے سے تجارت شروع کرائے گا لیکن مسلمان نوجوان کو تجارت کیلئے کہا جائے تو وہ کہے گا لاؤ چار حالانکہ ہم نے بچپن میں خود دیکھا ہے کہ ایک شخص پہلے چھ پیسے یا دو آنے پانچ ہزار ار
خطبات محمود ۲۵۵ سال ۱۹۳۴ء کے دہی بھلے بیچا کرتا تھا لیکن بعد میں وہ بڑا حلوائی بن گیا.اسی طرح ایک شخص جس کا معاملہ اب زیادہ دیانتدارانہ نہیں رہا، پہلے صرف عرق کشید کیا کرتا تھا مگر بعد میں اس کی تجارت بڑھ گئی.تو جہاں محلہ والوں پر ذمہ داری ہے وہاں ایسے لوگوں پر بھی ذمہ داری ہے کہ کام کریں.بیسیوں عورتیں ہیں جن کے پاس اخراجات کا کوئی سامان نہیں اور ایسے کئی خاندان ہیں جو نوکر رکھنے کے عادی ہیں.پھر کئی ایسے ہیں جو نوکر رکھنے کے عادی نہیں لیکن ان کے گھر میں بیماری ہوتی ہے اور انہیں عارضی طور پر نوکر کی ضرورت پیش آسکتی ہے.ایسی عورتیں ہمارے گھر میں آتی ہیں اور اپنی تکالیف بیان کرتی ہیں لیکن جب میں ان سے کہتا ہوں کہ تمہیں امور عامہ کی معرفت کسی کے ہاں نوکر کر دیا جائے تو کہہ دیتی ہیں کہ نہیں یہ تو بڑی ذلت کی بات ہے.حالانکہ کام کرنے میں کوئی ذلت نہیں.حضرت علی " کے متعلق آتا ہے کہ آپ گھاس کاٹ کر بیچا کرتے تھے سے.ہم لوگ چاہے کسی کی نسل سے ہوں مگر حقیقت تو یہی ہے کہ ہمارے اصل باپ دادے وہی ہیں.اللہ تعالیٰ نے انہیں علم عطا کیا، رسول کریم ﷺ کا قرب عطا کیا اور پھر آپ کی دامادی کا شرف اور پھر خلافت کے مقام پر فائز کیا.تصوف والوں کا آپ کو باپ دادا بنایا مگر انہیں جنگل گھاس کاٹ کر لانے میں بھی کوئی عار نہ تھی.پھر اگر ہم میں سے کوئی اس میں شرم محسوس کرے تو کتنی بڑی غلطی ہے اس لئے جہاں یہ ضروری ہے کہ اہل محلہ سب کو کھلانے پلانے کا ذمہ اٹھا ئیں وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ ہر شخص سے کام لیا جائے اور جب ہم انہیں کوئی نہ دے سکیں تو پھر بیشک مدد کے طور پر انہیں کچھ دے دیں لیکن اگر وہ کام نہیں کریں گے تو ہم انہیں کچھ نہیں دیں گے.اسی ضمن میں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جن عورتوں یا بچوں کو محلہ کے عہدیدار ملازم کرائیں ان کے متعلق یہ دیکھتے رہیں کہ ان کے ساتھ سختی نہ جائے.بعض لوگ پہلے نوکر رکھ لیتے ہیں اور پھر ان کے ساتھ سختی کرتے ہیں اور جب وہ جانا چاہیں تو انہیں مجبور کرتے ہیں کہ تمہیں رہنا ہو گا.اس کیلئے بھی قواعد بنانے چاہئیں جو نوکر جانا چاہے وہ پندرہ دن کا نوٹس دے دے اور محلہ کے صدر کو جاکر کہہ دے کہ میں پندرہ دن کے بعد فلاں شخص کی ملازمت چھوڑ دوں گا.اس کے بعد اسے روکنے کا کسی کو حق نہ ہوگا اور جو اس کے بغیر چلا جائے اسے کوئی دوسرا شخص اپنے پاس ملازم نہ رکھے ہاں نوٹس کی میعاد گزرنے کے بعد جو شخص پروپیگنڈا کرے کہ فلاں کو نوکر نہ رکھا جائے اسے سزا دی جائے
خطبات محمود ۲۵۶ سال ۱۹۳۴ء ہے.کہ وہ دوسرے کو بھوکا مارنا چاہتا ہے.بهر حال مانگنا ایک لعنت ہے جس سے بچنا چاہیئے.جس قوم میں سوال کی عادت آجائے وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتی پھر وہ سوال ہی کرتی رہتی ہے، حکومت نہیں کر سکتی.رسول کریم اسے سخت ناپسند کرتے تھے.آپ سے ایک دفعہ ایک شخص نے سوال کیا اور آپ نے اسے کچھ دے دیا.اس نے پھر سوال کیا اور آپ نے اسے کچھ دیا.پھر سوال کیا اور آپ نے پھر دیا مگر ساتھ ہی فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایک ایسی بات بتاؤں جو سوال سے بہت اچھی ہے.پھر آپ نے اسے نصیحت کی کہ سوال نہ کیا کرو ہے.اس پر اس کا ایسا اثر ہوا کہ ایک جنگ میں ایک دستہ فوج کا وہ افسر تھا اس کا کوڑا گر گیا یہ حالت ایسی خطرناک ہوتی ہے کہ ذراسی غفلت سے سر اُڑ جانے کا خطرہ ہوتا ہے ایک شخص نے کہا آپ نہ اُتریں خطرہ ہے میں کوڑا پکڑا دیتا ہوں مگر اس نے کہا خدا کی قسم! کوڑے کو ہاتھ نہ لگانا مجھے رسول کریم ﷺ نے سوال سے منع کیا ہوا ہے ہے گویا صحابہ ایسی حالت میں بھی دوسرے کا دست نگر ہونا گوارا نہ کرتے تھے جب جان کا خطرہ ہوتا تھا.یاد رکھو جس قوم میں سوال کی عادت ہو وہ کبھی ترقی نہیں کرتی.سوال کی عادت در حقیقت ایک وبا کی طرح ہوتی ہے اور جب یہ شروع ہو ائے تو پھیلتی چلی جاتی ہے.میں نے دیکھا ہے مجلس میں بیٹھے ہوئے ایک شخص کوئی بات پوچھتا ہے تو دوسرا کہتا ہے میرا بھی ایک سوال ہے، تیسرا کہتا ہے میرا بھی ایک سوال ہے اور اس طرح سوالات کی ایک رو چل جاتی ہے.پس قومی اخلاق کیلئے سوال کی عادت کو مٹانا ضروری ہے.محلوں کے ذمہ دار افراد کا فرض ہے کہ وہ نہ صرف ہر شخص کیلئے روٹی کپڑا مهیا کریں بلکہ یہ بھی دیکھتے رہا کریں کہ کوئی شخص نکما نہ رہے سوائے ان معذوروں کے جو کام کر ہی نہیں سکتے یا طالب علموں کے جو اگر کام کریں تو پھر پڑھ نہیں سکتے.رم الفضل ۲- مارچ ۱۹۲۰ء) شه اسدالغابة في معرفة الصحابة المجلد الثالث صفحہ ۱۵۷ مطبوعہ ۱۲۸۶ھ کے که بخارى كتاب الزكوة باب الاستعفاف عن المسئلة ه مسند احمد بن حنبل جلد ۵ صفحه ۲۷۷ (مفهوماً)
خطبات محمود ۲۵۷ سال ۱۹۳۴ء کارکنان جماعت کو نہایت اہم اور ضروری ہدایات (فرموده ۲۱- ستمبر ۱۹۳۴ ء - بمقام قادیان) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- آج میں مرکزی کارکنوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جب تک وہ اپنی اصلاح نہ کریں گے اُس وقت تک دوسروں کی اصلاح ہونا بہت مشکل ہے اس بارہ میں میرے سب سے پہلے مخاطب ناظران سلسلہ ہیں.ناظروں پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہے کیونکہ وہ سلسلہ احمدیہ میں وہی حیثیت رکھتے جو دنیوی حکومتوں میں وزارتیں رکھتی ہیں.جس طرح وزارتوں کی خرابی اور اصلاح سے ملک کی خرابی اور اصلاح وابستہ ہوتی ہے اسی طرح ناظروں کی خرابی اور اصلاح کے ساتھ جماعت کی خرابی اور اسی طرح اصلاح وابستہ ہے.ایسے آدمی بہت کم ہوتے ہیں جن کا خدا تعالیٰ سے براہ راست تعلق ہو.زیادہ تر ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جو بھیڑ چال چلتے ہیں.اگر انہیں کہا جائے کہ دین کی خدمت کرو تو وہ بھی سوچیں گے کہ آیا اس حکم پر فلاں فلاں آدمی بھی عمل کر رہے ہیں یا نہیں.اگر وہ دیکھیں کہ دوسرے لوگ بھی وہی کام کر رہے ہیں تو وہ بھی کرنے لگ جائیں گے اور اگر دیکھیں کہ اور کوئی کام نہیں کرتے تو وہ بھی نہیں کریں گے.وہ خدا سے خدا کیلئے محبت نہیں کرتے بلکہ لوگوں کی پیروی میں خداتعالی کی محبت کا دم بھرتے ہیں.جس شخص کا خدا تعالیٰ سے براہ راست تعلق ہو وہ یہ نہیں دیکھا کرتا کہ لوگ کیا کرتے ہیں یا کیا نہیں کرتے بلکہ وہ یہ دیکھتا ہے کہ خدا نے مجھ پر کیا ذمہ داری رکھی ہے.اگر ساری دنیا مخالف ہو تو وہ پرواہ نہیں کرتا اور اگر دوسرے لوگ.
خطبات محمود ۲۵۸ سال ۱۹۳۴ء بھی اس جیسا کام کرنے لگیں تو وہ ست نہیں ہو جاتا اور دراصل یہی ایمان کا اعلیٰ مقام ہے اس سے پہلے انسان کا ایمان دوغلی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی مثال بالکل اس فیچر کی سی ہوتی ہے جو آدھی گھوڑا اور آدھی گدھا ہوتی ہے.ایسے انسان کا نفس شرارتوں سے پاک نہیں ہوتا.اور اس کے متعلق ہر وقت خطرہ رہتا ہے کہ وہ گر جائے لیکن جب انسان کی نظر بندوں نہیں رہتی بلکہ خدا پر جاپڑتی ہے اور وہ یہ نہیں دیکھتا کہ فلاں مجرم کی فلاں کو سزا ملی ہے یا نہیں بلکہ وہ خدا کیلئے ہر مُجرم سے نفرت کرتا ہے اس وقت وہ خدا کے فضلوں کا مستحق ہو کر رم مومن بن جاتا ہے.میں نے ایک مثال کئی دفعہ سنائی ہے.رسول کریم ﷺ جب جنگ بدر کیلئے نکلے پہلے آپ نے صحابہ کو نہ بتلایا کہ آپ جنگ کیلئے جارہے ہیں.کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ لڑائی ہوگی مگر زیادہ تر لوگ یہی سمجھ رہے تھے کہ لڑائی نہیں ہوگی.مدینہ سے کچھ دور جب آپ باہر نکل آئے تو آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ پہلے تو میں نے نہیں بتایا تھا کیونکہ خداتعالی کی طرف سے مجھے اعلان کرنے کی اجازت نہ تھی.لیکن اب میں بتاتا ہوں کہ ہماری کفار سے جنگ ہوگی.یہ کہہ کر آپ نے صحابہ سے دریافت فرمایا کہ تمہاری کیا رائے ہے؟ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک حکم آجائے تو اس وقت رائے لینے کا تو سوال ہی کوئی نہیں ہوتا.اصل بات یہ ہے کہ مدینہ والوں سے آپ کا معاہدہ تھا کہ اگر مدینہ کے اندر رہتے ہوئے یر کوئی فوج حملہ آور ہوگی تو وہ ساتھ دیں گے اور اگر باہر جنگ ہوئی تو وہ ساتھ دینے پر مجبور نہ ہوں گے لے - تو چونکہ یہ انصار سے معاہدہ تھا اور خدا تعالی کے انبیاء معاہدات کی اے سختی سے پابندی کرتے ہیں اس لئے آپ نے صحابہ سے دریافت فرمایا کہ ان کی کیا رائے ہے.مطلب یہ تھا کہ اگر انصار معاہدہ پر اصرار کریں تو انہیں رخصت کر دیا جائے.رسول کریم نے جب دریافت کیا کہ اے لوگو! تمہاری کیا رائے ہے؟ تو یکے بعد دیگرے مہاجرین نے کھڑا ہونا شروع کیا اور کہا یا رسول اللہ ! ہماری رائے کیا ہے بس چلئے اور جنگ کیجئے لیکن ہر صحابی جب رائے دینے کے بعد بیٹھ جاتا تو رسول کریم یا پھر فرماتے اے لوگو! مجھے مشورہ دو.اس پر پھر کوئی مہاجر اُٹھتا اور کہتا یار سول اللہ ! جب جنگ کیلئے خدا کا حکم آچکا تو اب ایک ہی رائے ہے اور وہ یہ کہ ان سے لڑا جائے.مگر جب وہ بیٹھ گیا تو رسول کریم اے پھر فرماتے.اے لوگو! مجھے رائے ادو.تب انصار میں سے ایک شخص اٹھا اور اس نے کہا مسلمانوں پر
خطبات محمود ۲۵۹ سال ۱۹۳۴ء یار سُول اللہ ! ہمارا تو یہ خیال تھا کہ ہمارے بولنے کی ضرورت ہی نہیں مگر ہم سمجھ رہے ہیں کہ شاید آپ کی مراد ہم انصار سے ہے کیونکہ مہاجر کے بعد مہاجر اُٹھ رہا ہے اور لڑائی کے متعلق اپنی رائے دے رہا ہے مگر آپ پھر بھی فرمارہے ہیں کہ اے لوگو مجھے رائے دو.اس میں یہ سمجھتا ہوں کہ شاید آپ کا منشاء یہ ہے کہ ہم انصار بولیں.رسول کریم ! نے فرمایا تم ٹھیک سمجھے میری مراد تم انصار سے ہی ہے.اس نے کہا یا رسول اللہ ! شاید آپ ہمارے اس معاہدہ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جو ہم میں اور آپ میں ہوا تھا کہ اگر مدینہ پر کوئی دشمن حملہ آور ہوا تو ہم آپ کا ساتھ دیں گے ورنہ نہیں.یا رسول اللہ ! وہ اس وقت کا معاہدہ تھا جب اسلام ابھی ہمارے دلوں میں پوری طرح داخل نہیں ہوا تھا اور اسلامی احکام کی عظمت کو ہم نے پورے طور پر نہیں سمجھا تھا اب آپ کو دیکھنے اور آپ کے پاس رہنے سے ہم نے سمجھ لیا ہے کہ اسلام کی کیا حقیقت ہے.پس یا رسُول اللہ ! کیا اس کے بعد بھی کسی معاہدہ کا سوال رہ جاتا ہے.اُس وقت رسول کریم ال سمندر کی طرف بڑھ رہے تھے اس نے سمندر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا یا رسُول اللہ ! آپ ہمیں حکم دیجئے ہم ابھی اس میں گھوڑے ڈالنے کیلئے تیار ہیں اور اگر لڑائی پیش آئی تو یا رسول اللہ ! ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گذرے ۲ - ایک صحابی " کہتے ہیں میں رسول کریم ﷺ کے ساتھ تیرہ یا سترہ لڑائیوں میں شریک رہا ( صحیح تعداد مجھے یاد نہیں) لیکن ہمیشہ میرے دل میں خواہش رہی کہ اگر ان میں سے ایک بھی جنگ مجھے نصیب نہ ہوتی مگر یہ فقرہ جو اس صحابی نے کہا میرے منہ سے نکل جاتا تو میں آپ کو ان جنگوں میں شریک ہونے سے زیادہ خوش قسمت سمجھتا ہے.مجھے بھی اپنی زندگی کا ایک فقرہ بہت پیارا لگتا ہے اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی زندگی میں بہت بڑے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے مگر میرا وہ فقرہ ان سارے موقعوں سے جو مجھے ملے زیادہ قیمتی اور زیادہ اچھا معلوم ہوتا ہے.وہ وہ فقرہ ہے جو میری زبان سے اُس وقت نکلا جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی لاہور میں وفات ہوئی اُس وقت باہر گلی میں مخالف سوانگ بھر رہے اور نسی اور ٹھٹھا کر رہے تھے.احمدیوں کے دل پریشان تھے اور ایک سخت تکلیف کی حالت در پیش.ایسے وقت جبکہ میں ابھی بچہ ہی تھا، انیس سال کی عمر تھی، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ
سال ۱۹۳۴ء خطبات محمود ۲۶۰ والسلام نے آخری سانس لیا تو میں آپ کی چارپائی کے قریب کھڑا ہوا اور میں نے اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے یہ عہد کیا کہ اے خدا! آج میں تجھ سے یہ عہد کرتا ہوں کہ اگر ساری دنیا بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم سے پھر جائے تب بھی میں اکیلا ہی اس سلسلہ کو قائم کروں گا اور اس تعلیم کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لائے ہیں پھیلاؤں گا.کسی دشمنی سے نہیں ڈروں گا اور کسی مخالفت کی پرواہ نہیں کروں گا.میں سمجھتا ہوں وہ عہد جو میں نے اُس وقت کیا میرے ان اعمال سے زیادہ شاندار ہے جن کے کرنے کا خدا تعالیٰ کے فضل سے مجھے موقع ملا اور میں سمجھتا ہوں یہی نیت اور ارادہ ہے جو ایمان کی علامت وتی ہے.جب تک انسان اس ارادہ کو لے کر کھڑا نہیں ہوتا کہ میں نہیں جانتا زید اور بکر اور عمر کیا کرتا ہے.میں یہ جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے پر کیا فرائض عائد کئے ہیں اُس وقت تک وہ کامیاب نہیں ہو سکتا.اگر وہ سمجھتا ہے کہ دنیا یہ نیکی کرے گی تو میں بھی کروں گا اور اگر نہیں کرے گی تو نہیں کروں گا تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ اسے خدا پر ایمان نہیں.میں نے کئی دفعہ دیکھا ہے بعض کمزور احمدی جب نظام سلسلہ کے کسی حکم کی شخص نے خلاف ورزی کرتے ہیں اور ان پر گرفت کی جاتی ہے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ فلاں بھی تو ایسا ہی قصور کیا تھا اسے کیوں سزا نہیں دی گئی حالانکہ اگر کسی افسر نے ایک مجرم کو سزا نہیں دی تو اس سے یہ کس طرح ثابت ہو گیا کہ تمہارے لئے بھی وہی فعل جائز ہے.اس کے معنے تو یہ ہیں کہ وہ افسر بھی گناہ گار ہے.اس سے یہ نتیجہ کس طرح نکلا کہ تمہارے لئے اس فعل کا ارتکاب جائز ہو گیا ہے.پس یہ مت دیکھو کہ فلاں نے بدی کی تو اسے سزا نہ ملی بلکہ یہ دیکھو کہ نیکی کیا ہے اور بدی کیا ہے.پھر جو بدی ہو اسے مت اختیار کرو اور جو نیکی ہو اسے کسی کے کہنے سے مت چھوڑو.مگر پھر بھی چونکہ جماعت میں بعض کمزور طبائع ہوتی ہیں اور ان کی نظر ہمیشہ بندوں کی طرف اُٹھتی ہے خدا تعالیٰ کی طرف نہیں جاتی اور چونکہ ان لوگوں کو بچانا بھی ہمارا فرض ہے اس لئے انہیں بچانے کا ذریعہ یہ ہے کہ کارکنوں میں ہوشیاری اور بیداری پیدا ہو.مگر میں دیکھتا ہوں کہ ابھی تک کارکنوں میں وہ روح پیدا نہیں ہوئی جو میں پیدا کرنا چاہتا ہوں.میں ان لوگوں کو جھوٹا سمجھتا ہوں جو کہا کرتے ہیں کہ ناظر کام نہیں کرتے نگر میں اتنا ضرور تسلیم کرتا ہوں کہ ابھی تک ہمارے ناظروں میں یہ ملکہ پیدا نہیں
خطبات محمود ۲۶۱ سال ۱۹۳۴ء ہوا کہ وہ نئے نئے کام پیدا کریں.اسلام کی ترقی کیلئے نئی نئی سکیمیں سوچیں اور افسر کا یہی کام نہیں کہ وہ دیکھے اس کے ماتحت افراد کام کرتے ہیں یا نہیں بلکہ ان کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنے کام کو عمدگی سے چلانے کیلئے نئے نئے طریقے اور سکیمیں سوچیں.اگر ایک جرنیل صرف یہی دیکھتا رہتا ہے کہ دشمن کہاں سے حملہ کرتا ہے کہ میں اس کا مقابلہ کروں تو وہ کبھی کامیاب جرنیل نہیں کہلا سکتا.وہی جرنیل کامیاب ہو سکتا ہے جو نہ صرف یہ دیکھتا ہے کہ دشمن کہاں سے حملہ کرے گا بلکہ وہ یہ بھی سوچتا ہے کہ میں کہاں سے حملہ کروں.اسی طرح ناظروں میں سے وہی ناظر کامیاب ہو سکتا ہے جو اپنے فرائض کی بجا آوری اور اسلام کی اشاعت کیلئے نئے نئے راستے تلاش کرتا رہتا ہے.مثلاً ناظر اصلاح و ارشاد کا صرف یہ کام نہیں کہ باہر لکھا اور وہاں سے رپورٹیں آگئیں یا مبلغین کو حکم دے دیا کہ وہاں چلے جاؤ اور وہ چلے گئے بلکہ اس کا کام یہ ہے کہ وہ خود ایسی راہیں پیدا کرے جن پر چل کر لوگ اسلام میں داخل ہوں اور وہ نئی نئی سکیمیں تجویز کرے.اسی طرح تربیت والوں کا یہ کام نہیں کہ اگر بعض میں لڑائی ہو جائے تو آپس میں صلح کرا دیں.کوئی شخص جماعت کے وقار اور اس کی کے خلاف حرکت کرے تو اسے سزا دے دیں بلکہ ان کا یہ کام ہے کہ اگر وہ دیکھیں کہ ہماری جماعت میں سے بعض لوگ ایسے ہیں جو روزے نہیں رکھتے ، بعض لوگ ایسے ہیں جو نمازیں نہیں پڑھتے، بعض لوگ ایسے ہیں جو انصاف سے کام نہیں لیتے، بعض لوگ ایسے ہیں جو گالیاں دیتے ہیں، بعض لوگ ایسے ہیں جو جھوٹ بولتے ہیں، بعض لوگ ایسے ہیں جن کا معاملہ خراب ہے تو وہ دن رات یہ سوچیں کہ جماعت سے یہ بُرائیاں کس طرح دور ہوں اور اس کیلئے نئے نئے راستے نکالنے کی کوشش کریں.میں اس بات کا قائل نہیں کہ ہمیں سامان میسر نہیں.ہماری طرف سے صرف ارادہ کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ کام اللہ تعالیٰ کے فضل سے خود بخود ہوتے چلے جاتے ہیں.ہاں یہ امر ضروری ہے کہ دماغ پر زور دیا جائے اور غور و فکر سے کام لیا جائے.میں اپنا تجربہ ہی بیان کرتا ہوں.بیسیوں دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ شام کے قریب میرے ذہن میں کوئی بات آتی ہے اور چونکہ دفتر اُس وقت بند ہوتا ہے اس لئے چین نہیں آتا.سو جاتا ہوں تو دس دس منٹ کے بعد اس فکر سے آنکھ کھل جاتی ہے کہ مبادا صبح تک یہ بات ذہن سے اتر جائے اور گو میں نے کام کی تقسیم کی ہوئی ہے اس کے لحاظ سے اللہ تعالٰی کے
خطبات محمود ۲۶۲ سال ۱۹۴۳۴ تو حضور میں ایک حد تک بری الذمہ ہوں اور کہہ سکتا ہوں کہ اے خدا! یہ کام میں نے ان کے سپرد کر دیا تھا اگر انہوں نے اس میں کوتاہی کی ہے تو یہ خود اس کے ذمہ دار ہیں مگر پھر بھی طبیعت بے آرامی محسوس کرتی ہے اور نیند اُڑ جاتی ہے.سلسلہ کے ناظروں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے فرائض کو سمجھیں اور کوشش کریں کہ انہیں اُس وقت تک آرام نہ آئے جب تک کہ وہ اپنے مفوضہ فرائض کو تکمیل تک نہ پہنچا لیں.اسی طرح نائب ناظروں افسران صیغہ جات اور ہیڈ کلرکوں وغیرہ کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے اپنے کاموں میں مسابقت کی روح پیدا کریں.وہ شخص جو صرف بندوں کیلئے کام کرتا ہے خدا تعالی کیلئے کام نہیں کرتا اس کے کاموں میں برکت نہیں رہتی.پس ہمارے تمام کام خداتعالی کیلئے ہونے چاہئیں اور اگر ہم خدا تعالی پر توکل کریں تو مشکل سے مشکل کام بھی آسانی سے ہو سکتے ہیں.بیسیوں دفعہ میں نے دیکھا ہے کہ بعض معاملات میں عقل انسانی چکرا جاتی ہے لیکن دو منٹ بلکہ بعض دفعہ ایک منٹ کی دعا ہی ایک نور پیدا کر دیتی ہے اور وہ امر جس کے متعلق دروازے بند نظر آتے ہیں اس کیلئے کئی دروازے کھل جاتے ہیں.میں یہ نہیں کہتا کہ ہر انسانی دماغ نئی سے نئی تدبیریں نکال سکتا ہے لیکن میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ جو لوگ خداتعالی کیلئے کسی کام کو سرانجام دینے کیلئے کھڑے کئے جاتے ہیں ان کیلئے نئے نئے راستے کھولے جاتے ہیں.اللہ تعالٰی خود فرماتا ہے وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ہے وہ لوگ جو خالص ہو کر میرے لئے کوشش کرتے ہیں ہم انہیں ایک نہیں بلکہ کئی رستے دکھا دیتے ہیں.پس صحیح طریق یہی ہے کہ کارکن اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں اور ان کے جسم اور ان کی روحیں اس کی بارگاہ میں جھکی ہوئی ہوں تب وہ خدا تعالی کی طرف سے برکتیں پائیں گے اور انہیں کام کیلئے وہ سامان دیئے جائیں گے جو انہیں نظر نہیں آرہے.پس خدا تعالی کی طرف توجہ کی جائے نیکی اور تقویٰ کے ساتھ کام کئے جائیں اور خشیت اللہ پر اپنے تمام کاموں کی بنیاد رکھی جائے.میں ناظروں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے اوقات کا صحیح استعمال کیا کریں، کام میں دلچسپی لیں اور رات اور دن اس قسم کی سکیمیں سوچیں جن کے نتیجہ میں وہ اپنے فرائض کو عمدگی.سرانجام دے سکیں.اگر وہ اس امر میں کوتاہی کرتے ہیں تو گو ان کی کوتاہی سلسلہ کیلئے بھی مضر ہو مگر ان کے ایمانوں کو بھی برباد کردے گی.بھر کارکن بھی اپنے کام کے ذمہ دار ہیں اور ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے کاموں کو وقت
خطبات محمود ۲۶۳ سال ۱۹۳۴ء کے اندر اور جلدی ختم کرنے کی کوشش کیا کریں.بیسیوں غرباء میرے پاس شکایت کیا کرتے ہیں کہ ان کی درخواستوں پر غور نہیں کیا گیا اور گو ان میں سے اکثر غلط ہوتی ہیں مگر بعض سیمی بھی ہوتی ہیں اور جب میں خود تحقیقات کرتا ہوں تو ثابت ہوتا ہے کہ بعض جگہ کارکن سختی کرتے ہیں اور لوگوں سے درشت کلامی سے پیش آتے ہیں.گو بعض حالات میں انسان سختی کرنے پر بھی مجبور ہوتا ہے.مثلاً میں نے دیکھا ہے کہ بعض لوگ وقت ضائع کرنے کے عادی ہوتے ہیں.دو منٹ ان کو ملاقات کا وقت دیا جاتا ہے مگر جب وہ آبیٹھتے ہیں تو ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹہ تک اُٹھنے کا نام نہیں لیتے.سیکرٹری شور مچارہا ہوتا ہے کہ آپ کا وقت ختم ہو گیا ہے اب دوسروں کو بھی ملاقات کا موقع ملنا چاہیئے مگر وہ یہی کہتا جاتا ہے کہ مجھے تو آج ہی موقع ملا ہے میں نے انہیں نہیں چھوڑنا.پھر وہ کوئی معقول بات نہیں کرتا کہ انسان اسے سنے یونہی ایک بات دہراتا چلا جاتا ہے.مثلاً وہ یہ بتلانا چاہتا ہے کہ اس کا فلاں سے جھگڑا ہو گیا ہے تو وہ سیدھے طور پر نہیں کہے گا کہ میرا فلاں سے جھگڑا ہو گیا ہے اس کا فیصلہ کیا جائے بلکہ وہ ایک لمبا قصہ سنانا شروع کر دے گا اور کہے گا میں فلاں دن اپنے گھر سے نکلا جب گھر سے باہر آیا تو میں اپنی سوئی بھول گیا میں مڑ کر پھر گھر گیا تاکہ سوئی لے آؤں.جب سوئی لے کر چلا تو بیوی نے آواز دی کہ کھانا تیار ہے کھانا تو کھا کر جاؤ، خیر میں نے کھانا کھالیا اُٹھا تو بچی بیمار تھی، اسے پیار کیا پھر گھر سے نکلا تو راستہ میں فلاں شخص مل گیا اس سے یہ یہ باتیں ہوتی رہیں، اتنے میں جب میں اسٹیشن پر پہنچا تو گاڑی کا وقت ہو گیا تھا مگر گاڑی لیٹ تھی کچھ دیر وہاں شہلا پھر گاڑی آگئی اس میں چڑھ بیٹھا اور فلاں سٹیشن پر اُترا جب اُتر کر میں فلاں شخص کے پاس گیا تو میں انے اس سے یہ بات کہی اس نے مجھے یہ جواب دیا اس پر بات بڑھ گئی اور لڑائی ہو گئی.وہ آدھ گھنٹہ اسی لغو قصہ میں ضائع کر دیتا ہے حالانکہ اگر وہ چاہتا تو وہ دو منٹ میں اپنے کا حال بتا سکتا تھا مگر وہ اتنا لمبا ذکر کرے گا کہ طبیعت اُکتا جائے گی اور اس طوالت میں اسے اتنا لطف آئے گا کہ اگر غلطی سے کہہ دے کہ میں نے گھر سے پہلے بایاں پاؤں نکالا تھا تو کہے گا نہیں نہیں مجھ سے غلطی ہوئی میں نے بایاں نہیں بلکہ دایاں پاؤں نکالا تھا.پھر پانچ منٹ کے بعد کہے گا اوہو مجھے یاد آگیا میں نے بایاں پاؤں ہی نکالا تھا حالانکہ مجھے اس بات سے کیا کہ نے گھر سے دایاں پاؤں نکالا تھا یا ہایاں.تمہیں راستے میں روشن دین ملا تھا یا شمس الدین تم نے جو بات کہنی ہے وہ مختصر طور پر کہہ دو مگر وہ اس لغو گفتگو میں آدھ گھنٹہ ضائع کر دیتا ہے.
خطبات محمود PYF سال ۱۹۳۴ء ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے ایک شخص کو ملاقات کیلئے وقت دیا گیا تو وہ آکر کہنے لگا کہ میں کہہ کر تو یہی آیا تھا کہ دو منٹ سے زیادہ وقت نہیں لوں گا مگر آج میں نے آپ کو چھوڑنا نہیں اور جتنا جی چاہا آپ سے باتیں کرنی ہیں.میں نے کہا اور لوگ بھی تو انتظار میں ہوں گے انہیں بھی ملاقات کیلئے وقت دینا ہے.کہنے لگا چاہے کچھ بھی ہو میں آج جی بھر کر آپ سے باتیں کروں گا.ساڑھے گیارہ بجے وہ ملاقات کیلئے آیا تھا دو منٹ اسے وقت دیا گیا مگر وہ میرے پاس سے ڈیڑھ بجے اُٹھا.یہ اس قسم کے نقائص ہیں کہ ممکن ہے اس قسم کے لوگوں سے ناظروں کو بھی واسطہ پیش آتا ہو مگر چونکہ ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں اس لئے ہمارا یہی طریق ہے کہ ہم انہیں سمجھاتے ہیں.قرآن مجید میں بھی آتا ہے فَذَكَّرُ انُ نَفَعَتِ الذِّكْرَى هے یعنی سمجھاتے رہو کیونکہ کبھی نہ کبھی نصیحت کارگر ہو ہی جاتی ہے.اسی طرح بعض دفعہ لوگ غلط فہمی میں مبتلاء ہو کر سمجھ لیتے ہیں کہ ان کے ساتھ درشتی کی گئی ہے حالانکہ بات غلط ہوتی ہے.مجھے ہی ایک دفعہ ایک شخص نے لکھا کہ آپ نے فلاں معاملہ میں سختی کا حکم دیا ہے جو درست نہیں حالانکہ کاغذات اور مسل میں میں نے اس کے حق میں سفارش کی ہوئی تھی.پس بسا اوقات ایسے بہروں سے بھی انسان کو واسطہ پڑ جاتا ہے جیسے کہا کرتے ہیں کہ کوئی برا تھا وہ اپنے کسی دوست کے پاس اس کی عیادت کیلئے گیا.راستہ میں وہ سوچنے لگا کہ میں جاکر اس کا حال پوچھوں گاتو وہ یہی کہے گا کہ اچھا ہوں.میں کہوں گا الحَمْدُ لِلَّهِ ! پھر پوچھوں گا کہ کیا کھاتے ہو اسے طبیبوں نے کھانے کیلئے کوئی مناسب غذا ہی بتائی ہوگی میں کہوں گا کہ بہت اچھی غذا ہے.پھر میں پوچھوں گا کہ کس کا علاج کرتے ہو وہ کسی مشہور ڈاکٹر کا نام بتائے گا.میں کہوں گا کہ وہ بہت قابل ڈاکٹر ہے اس کا ضرور علاج کراؤ.یہ سوچ کر جب وہ اس کے پاس گیا تو جاتے ہی کہنے لگا طبیعت کیسی ہے وہ کسی بات پر چڑا ہوا تھا کہنے لگا مر رہا ہوں.یہ بول اُٹھا اَلْحَمْدُ لِلَّهِ ! پھر پوچھنے لگا آپ کھاتے کیا ہیں؟ وہ کہنے لگا خون دل کھاتا ہوں یہ کہنے لگا بہت اچھی غذا ہے.یہ روز کھایا کیجئے.پھر اس نے سوال کیا کہ آپ علاج کس کا کراتے ہیں.وہ کہنے لگا ملک الموت کا.یہ جھٹ بول اُٹھا وہ بہت کامیاب معالج ہے.جہاں جاتا ہے کامیاب آتا ہے.غرض ایسے بہروں سے بھی دنیا میں واسطہ پڑ جاتا ہے بات کچھ اور کہی جاتی ہے اور وہ کسی اور بات پر اسے محمول کرلیتے ہیں.
خطبات محمود ۲۶۵ سال ۱۹۳۴ء اس لئے افسران سلسلہ کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ خصوصیت سے اپنے اخلاق درست کریں.اگر ضدی لوگ آجائیں تو ان کو بھی محبت اور پیار سے سمجھانے کی کوشش کیا کریں اور پوری محنت اور اخلاص سے کام کرنے کی عادت ڈالیں.اس امر کی طرف خدا تعالٰی ن وَالتُّزِعَتِ غَرْفًا وَالنَّشِطَتِ نَشْطًان میں اشارہ کیا اور بتایا ہے کہ مومن جب کام میں مشغول ہوتا ہے تو وہ ہمہ تن اس میں مستغرق ہو جاتا اور مشکلات پر قابو پالیتا ہے.ایسی صورت میں اگر مخالفین کی طرف سے اعتراض بھی ہو تو دعاؤں سے اس کا ازالہ کرنا چاہیئے اور اعتراضات سے کبھی گھبرانا نہیں چاہیئے.میں تو اعتراضات سن سن کر اتنا عادی ہو چکا ہوں کہ اب میری مثال اس عورت کی سی ہو گئی ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ پاگل تھی جب باہر نکلتی تو چھوٹے چھوٹے بچے اس کے پیچھے لگ جاتے اور اسے کنکر وغیرہ مارتے اور وہ گالیاں دیتی.ایک دن لوگوں نے اپنے بچوں کو سمجھایا کہ یہ ناجائز طریق ہے یہ بیچاری پاگل ہے تم اسے تنگ کیوں کرتے ہو.مگر یہ خیال کر کے ممکن ہے بچے اس نصیحت پر عمل نہ کریں انہوں نے گھروں میں انہیں بند کرلیا.دوسرے دن جب وہ پاگل عورت باہر نکلی اور اس کے پیچھے کوئی بچہ نہ دوڑا تو وہ ہر گھر پر جاتی اور کہتی آج رات تمہارے بچوں کو قولنج ہو گیا ہے کہ وہ باہر نہیں نکلے.کہیں جاکر کہتی آج تمہارے بچوں پر چھت گرپڑی تھی کہ وہ دکھائی نہیں دیتے.وہ کہنے لگے بچوں کو آزاد کردو یہ تو یوں بھی بد دعائیں دیتی ہے اور اس طرح بچوں کو ہم قید کیوں رکھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے میں نے کئی دفعہ سنا ہے کہ لوگ گالیاں دیتے ہیں تب بُرا معلوم ہوتا ہے کہ یہ کیوں اپنی عاقبت خراب کر رہے ہیں اور اگر گالیاں نہ دیں تب بھی ہمیں تکلیف ہوتی ہے کیونکہ مخالفت کے بغیر جماعت کی ترقی نہیں ہوتی.پس ہمیں تو گالیوں میں بھی مزا آتا ہے.اس لئے اعتراضات یا لوگوں کی بدزبانی کی پرواہ نہیں کرنی چاہیئے.پنجابی میں ضرب المثل ہے کہ اونٹ اڑاندے ہی لدے جاندے ہیں." یعنی اونٹ کو چیختا رہتا ہے مگر مالک اس پر ہاتھ پھیر کر اسباب لاد ہی دیتا ہے.اسی طرح لوگ خواہ کچھ کہیں تم نرمی اور محبت سے ان سے کام لئے جاؤ اور یہ سمجھ لو کہ جب تم خدا کیلئے کام کرو گے تو آسمان کے فرشتے تمہاری مدد کریں گے اور اگر آسمانی فرشتے تمہاری مدد کیلئے نہ اُتریں اور خدا کا یہی منشاء ہو کہ تم اس کی راہ میں مارے جاؤ تو پھر بھی پرواہ نہ کرو.غالب نے کہا ہے.
خطبات محمود سال ۶۱۹۳۴ جان دی دی ہوئی اُسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا اگر اس راستہ میں ہمیں موت آجائے تو اس سے زیادہ نعمت اور کیا ہو سکتی ہے.الفضل ۲۴ - فروری ۱۹۶۰ء) لے سے بخاری کتاب المغازی باب قول الله تعالى إِذْ تَسْتَغِيْتُونَ رَبَّكُمْ (الخ) سیرت ابن هشام الجزء الثانی صفحه ۱۳-۱۳ مطبوعه مصر العنكبوت: ٧٠ و الاعلى: ه النزعت: ۳.۲
خطبات محمود ۲۶۷ جماعت احمدیہ ہوشیار اور بیدار رہے (فرموده ۱۲- اکتوبر ۱۹۳۴ء) سال ۱۹۳۴ء تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- آج میں اسی سلسلہ میں جس کے متعلق پچھلے خطبات میں بعض بدایات دیتا رہا ہوں، ایک بات کہنا چاہتا ہوں لیکن سب سے پہلے اس امر کا اظہار ضروری سمجھتا ہوں کہ بوجہ اس کے کہ اب لوگ مسجد میں زیادہ ہوتے ہیں اور منبر تک پہنچنے میں دیر ہو جاتی ہے.جو مؤذن مسجد میں داخل ہونے کے ساتھ ہی اذان شروع کر دیتے ہیں، وہ اپنی مرضی سے نہیں کرتے بلکہ میری ہدایت یہی ہے کہ جب میں مسجد میں داخل ہوں وہ اذان شروع کردیں تا لوگوں کے مصافحوں سے فارغ ہو کر میں خطبہ کیلئے تیار ہو جاؤں اور یہی طریق حضرت خلیفہ المسیح اول کا تھا.وہ بھی جب مسجد میں داخل ہوتے تو اشارہ فرما دیتے تھے کہ اذان شروع کردی جائے.(یہ وضاحت حضور نے اس لئے فرمائی کہ اس جمعہ میں ایک صاحب نے مؤذن کو روکا تھا کہ اس وقت تک اذان شروع نہ کرو جب تک کہ حضور منبر پر پہنچ کر خطبہ کیلئے تیار نہ ہو جائیں) وہ امر جس کے متعلق میں کچھ کہنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ قادیان میں احراری فتنہ کی وجہ سے ہماری جماعت کے بعض لوگ مضطرب سے ہوئے جاتے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دلوں میں کچھ گھبراہٹ اور جلد بازی کے آثار پیدا ہو رہے ہیں.مومن کا فرض ہے کہ وشیار رہے.اور اس میں رسول کریم لک کی مثال ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے.ایک دفعہ مدینہ کے باہر شور ہوا تو آپ معا گھر سے نکلے اور کسی صحابی کا گھوڑا لے کر جو ایسی جگہ بندھا
خطبات محمود ۲۲۸ سال ۱۹۳۴ تو تھا جہاں آپ بآسانی پہنچ سکتے تھے، اکیلے ہی اس شور کی وجہ معلوم کرنے کیلئے چلے گئے.ان دنوں خبر مشہور تھی کہ وہ عیسائی قبائل جو قیصر کے ماتحت تھے مدینہ پر حملہ کرنے والے ہیں.ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ شور سن کر اکٹھے ہوئے، بعض مسجد نبوی میں جمع ہو گئے اور بعض نے ادھر اُدھر باتیں کرنا شروع کردیں اور سب اس انتظار میں تھے کہ رسول کریم اے جس طرح ارشاد فرمائیں کیا جائے.اتنے میں ہم نے دیکھا کہ ایک سوار باہر سے آرہا ہے اور پاس آنے پر معلوم ہوا کہ رسول کریم لال ہیں.آپ نے فرمایا میں شور سن کر دیکھنے گیا تھا کہ کیا بات ہے مگر کوئی بات نہیں ہے اے.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ آپ ہوشیاری اور احتیاط میں دوسروں سے کس قدر بڑھے ہوئے تھے حالانکہ آپ سے زیادہ بہادر اور کوئی نہیں ہو سکتا.جسے اللہ تعالی کا قرب حاصل ہو اسے اور کس کا خوف ہو سکتا ہے.اس کیلئے تمام ڈر مٹ جاتے ہیں بیشک حذر اس کے اعلیٰ اخلاق میں سے ایک خُلق ہوتا ہے مگر ڈر بالکل نہیں ہوتا.رسول کریم ﷺ نے اس موقع پر پہلے اس گھوڑے کی تعریف کی اور فرمایا یہ تو سمندر ہے.پھر ان لوگوں کی تعریف کی جو مسجد میں جمع ہو گئے تھے اور فرمایا کہ ایسے مواقع پر جمع ہو جانا بہتر ہوتا ہے.اور جمع ہونے کیلئے مسجد سے بہتر جگہ اور کوئی نہیں ہو سکتی.تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ جب حضرت عثمان کے زمانہ میں شورش ہوئی تو صحابہ کو باغیوں نے گھروں میں بند کر دیا تھا.اگر صحابہ ہوشیاری سے کام لیتے اور مسجد میں جمع ہو جاتے تو وہ واقعہ کبھی نہ ہوتا جو ہوا.باغیوں نے سب مکانوں پر پہرہ لگادیا اور کسی کو باہر نکلنے نہ دیا اور چونکہ اکیلا آدمی زیادہ کا مقابلہ نہیں کر سکتا اس لئے صحابہ ” کچھ نہ کرسکے اور باغیوں نے حضرت عثمان کو شہید کرڈالا.تو بیشک ہوشیاری اور بیداری اعلیٰ اخلاق میں سے ہے اور مومن کو ہمیشہ ہوشیار و چوکس رہنا چاہیئے مگر ہوشیاری اور چیز ہے اور اضطراب اور ہوشیاری مراد یہ ہے کہ ہم خبردار رہیں کہ دشمن کیا کرتا ہے لیکن اضطراب کے معنے یہ ہیں کہ ہم سمجھ نہیں سکتے کیا کرنا چاہیئے.بیداری اس لئے ہوتی ہے کہ دیکھا جائے دشمن کیا کرتا ہے یا کیا کرنا چاہتا ہے.پھر عقل سے اس کا مقابلہ کرنا ہے، اس کے شر سے بچنے کیلئے مناسب طریق اختیار کرنا ہے لیکن یہ چیز مجھے کسی صورت میں پسند نہیں کہ لوگوں میں اضطراب پیدا ہو.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ ہے پس جب امام موجود
خطبات محمود ۲۶۹ سال ۱۹۳۴ء ہوتا ہے تو وہ خود سمجھ سکتا ہے کہ کیا کرنا چاہیئے.اور کس طرح کرنا چاہیے.جماعت کا کام صرف یہ ہے کہ ہوشیار اور بیدار رہے.خبر رکھے کہ دشمن کیا کرتا ہے.اور پھر مرکز کی طرف سے ہدایات کی منتظر رہے پھر جو حکم ملے، پوری فرمانبرداری کے ساتھ اس پر عمل کرے.اور یہ خیال بھی کسی کے دل میں نہ آئے کہ اس طرح مال و جان یا عزت و آبرو پر کسی قسم کا حرف آئے گا یہی کامیابی کی راہ ہے جو اللہ تعالٰی نے بتائی ہے.ہمیں اس بات کی فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ کسی فتنہ کا کیا نتیجہ نکلے گا.انسان کو ڈر ہمیشہ غیب یعنی لاعلمی کی حالت میں ہے.کسی سوراخ میں خواہ دس ہزار کی تھیلی ہی پڑی ہو مگر انسان اس میں ہاتھ ڈالتے ہوئے ڈرے گا کہ کہیں سانپ نہ ہو.لیکن اگر اسے یقین ہو کہ کسی سوراخ میں سانپ ہے تو شاید اسے دلیری سے پکڑ ہی لے.لوگ اندھیرے میں جاتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ سانپ ، بچھو وغیرہ نہ کاٹ لے لیکن جب سانپ یا بچھو سامنے آجائے تو اسے مار لیتے ہیں.پس بُزدل تو بہر حال ڈرتا ہے لیکن دلیر کو جب خوف کی حقیقت معلوم ہو جائے تو اس کے مقابلہ کیلئے تیار ہو جاتا ہے مگر جس جماعت کو یقین ہو کہ ہم ہی جیتیں گے اور فتح پائیں گے دشمن سے اسے کیا خوف ہو سکتا ہے.جس طرح ہم میں سے ہر ایک کو یقین ہے کہ اس کا فلاں باپ اور فلاں ماں ہے، جس طرح اسے اپنے بچوں اور بیوی کے متعلق یقین ہے، جس طرح وہ اپنے دوستوں کو جانتا ہے، جس طرح اسے یہ علم ہے کہ ہم ہندوستان کے باشندے اور قادیان کے والے ہیں، جس طرح سورج اور چاند کے وجود پر یقین ہے اسی طرح بلکہ اس سے بڑھ کر ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ احمدیت خدا کی طرف سے ہے اور وہ بہر حال غالب ہوگی.پس کسی فتنہ کے نتیجہ کے متعلق تو ہمیں شبہ ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ ہمارے لئے نتیجہ ظاہر ہے اور اسے کوئی بدل نہیں سکتا- جَفَّ الْقَلَمُ بِمَا هُوَ كَائِنُ ہے.جو کچھ ہوتا ہے اس پر خداتعالی کی روشنائی خشک ہو چکی ہے.خدا ہی ہے جو اسے بدل سکتا ہے.مگر وہ خود کہہ چکا ہے کہ بعض سنتیں ایسی ہیں جنہیں ہم بھی نہیں بدلا کرتے اس لئے نتائج کے لحاظ سے ہم خدا تعالی کے فضل سے بے فکر ہیں.جو مخالفتیں ہمارے لئے مقدر ہیں اور جو فتنے ہم نے دور کرنے ہیں، ان کے مقابل میں اس موجودہ فتنہ کی حقیقت اتنی بھی نہیں جتنی کہ ایک ہاتھی کے مقابلہ میں چیونٹی کی ہو سکتی ہے.جو مشکلات ہمارے لئے مقدر ہیں، وہ اتنی بڑی ہیں کہ بعض احمدیوں کے خیال میں بھی نہیں آسکتیں.صرف وہی لوگ جانتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ رہنے
خطبات محمود ۲۷۰ سال ۱۹۳۴ء نے ان کا علم عطا کیا ہے اور وہ بھی ظاہر نہیں کرتے جب تک کہ خدا تعالیٰ ان کے اظہار کا موقع نہ لے آئے.ان مشکلات کے مقابلہ میں یہ فتنہ تو ایسا ہی ہے جیسے راستہ چلتے ہوئے کسی کے پاؤں کے آگے کنکر آجائے اور وہ اسے پاؤں کی ٹھوکر سے پرے پھینک دے.ہم نے تو اس آسمان کو بدل کر نیا آسمان اور اس زمین کو بدل کر نئی زمین پیدا کرنی ہے، ہم نے پہاڑوں کو اڑانا اور سمندروں کو خشک کرنا ہے، نیا آسمان اور نئی زمین بنانے کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رویاء کو پورا کرنا ہے، پس یہ چیزیں ہمارے سامنے کچھ حقیقت نہیں رکھتیں.اللہ تعالی کی یہ بھی سنت ہے کہ جب کوئی برگزیدہ قوم مست اور غافل ہونے لگے تو اسے آزمائش کے طور پر کسی ابتلاء میں ڈال دیتا ہے.پس ہمیں یہ تو ڈر نہیں کہ دشمن ہم پر غالب آجائے گا ہمارے لئے جو خطرہ ہو سکتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم خود اپنی جانوں یا آئندہ نسلوں کیلئے کسی فتنہ کا موجب نہ ہو جائیں یا ہماری مقدر فتح کچھ عرصہ پیچھے نہ جاپڑے، اس کے سوا کچھ نہیں.ان چیزوں کو کھاو کی طرح سمجھو.اس فتنہ کی اتنی ہستی نہیں، اس کا عشر عشیر بھی نہیں جو غیر مبائعین کا فتنہ تھا.یہ بیچارے تو زیادہ سے زیادہ سال چھ ماہ تک شور کرسکتے ہیں، ان لوگوں میں سے استقلال اُڑ چکا ہے، یہ کسی کام کیلئے اٹھیں چند ماہ تک تو ایسا شور رہے گا کہ یوں معلوم ہوگا کہ اب دنیا ان کی یلغار سے نہیں بچے گی لیکن بعد میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک گزر جاؤ کوئی بولتا ہوا بھی سنائی نہ دے گا.یہ لوگ تو ان کے مقابلہ میں بھی جنہیں اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت حاصل نہیں، صرف بول کر اور کچھ عرصہ شوروشر کر کے خاموش ہو جاتے ہیں، وہ ہمارا کیا نقصان کرسکتے ہیں.بیشک چونکہ ہوشیار اور بیدار رہنا مومن کا فرض ہے اس لئے ہمیں ایسا ہی رہنا چاہیے وگرنہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے اعمال کے نتیجہ کے طور پر تو یہی بات ہے کہ ہمارے مخالف مولوی لمبے عرصہ تک کوئی کام نہیں کرسکتے.کچھ عرصہ تک شور و شر کرتے ہیں اور جب کچھ کام نہ ہوتا دیکھ کر چندہ دینا بند کر دیتے ہیں تو یہ کوئی اور راہ نکال لیتے ہیں پھر یہ لوگ خود ہی تھوڑے لوگ عرصه کے بعد خاموش ہو جاتے ہیں.پس اپنے مقدر انجام اور ان کے حالات کے لحاظ ہمیں کسی قسم کی گھبراہٹ کی ضرورت نہیں ہاں بیداری ضروری ہے مگر جو لوگ مضطرب ہوں وہ بیدار نہیں ہو سکتے.اور جو بیدار نہیں وہی مضطرب ہوتے ہیں.ایسے لوگ دشمن کی شرارت دیکھ کر چاہتے ہیں کہ منٹ دو منٹ میں فیصلہ کردیں، ماردیں یا مر جائیں کیونکہ وہ یہ نہیں
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء کر سکتے کہ سال بھر روزانہ کچھ عرصہ جاگ کر دشمن کو ناکام بنانے کی کوشش کریں مگر یہ بھی دراصل بُزدلی ہے کیونکہ ڈرپوک آدمی زیادہ دیر تک تکلیف برداشت نہیں کر سکتا.بہادری یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ہزار سال کیلئے چاہتا ہے کہ ہم مخالفین کی طرف سے بیدار رہیں تو ہم ایسا ہی کریں.ہم نے تو کام کرنا ہے جو کام اللہ تعالی چاہے لے لے.اگر وہ ہمارے لئے بیٹھنا مقرر کر دے تو چاہیے کہ بیٹھے رہیں اور اگر چلنا مقرر کر دے تو چاہیے کہ چلتے رہیں.اُحد کی جنگ میں رسول کریم ﷺ نے چند صحابہ کو ایک درہ پر کھڑا کیا اور فرمایا کہ چاہے فتح ہو یا شکست اس جگہ کو ہرگز نہ چھوڑنا - آخر اللہ تعالی نے دشمنوں کو شکست دی اور مسلمانوں نے ان کا تعاقب کیا اس وقت ان لوگوں نے جو درہ پر مقرر تھے، اپنے افسر سے کہا کہ ہم تو جہاد سے محروم ہی رہ گئے اب تو فتح ہو گئی چلو ہم بھی شامل ہو جائیں.افسر نے بہتیرا سمجھایا کہ رسول کریم ﷺ نے فتح کی صورت میں بھی یہاں سے ملنے کی ممانعت کی تھی.مگر انہوں نے جواب دیا کہ آپ کا مطلب تو صرف زور دینا تھا یہ غلطی ہوگی کہ اب بھی ہم ہیں کھڑے رہیں.افسر نے تو جانے سے انکار کر دیا مگر وہ بھاگ گئے.حضرت خالد بن ولید نے جو اس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے، درّہ کو خالی دیکھ لیا اور چونکہ ذہن تیز تھا اس لئے اس موقع کو غنیمت سمجھا اور اپنی فوج کو جمع کرکے مسلمانوں پر پیچھے سے حملہ کردیا.جو افسر وہاں کھڑے رہے تھے وہ بیچارے کیا کر سکتے تھے آنِ واحد میں ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے ہے اور نتیجہ ہوا کہ مسلمان جو سمجھ رہے تھے کہ ہماری فتح ہو چکی ہے، انہیں اس وقت ہوش آیا جب واپس لوٹنے کی بھی کوئی راہ نہ رہی.سب لشکر پراگندہ ہو گیا اور رسول کریم ﷺ چند آدمیوں سمیت دشمن کے نرغہ میں آگئے.یہ اتنا بڑا فتنہ کس لئے پیدا ہوا.صرف اسی وجہ سے کہ ان لوگوں نے سمجھ لیا تھا کہ کھڑا رہنے کا نام جہاد نہیں حالانکہ اگر کسی کو دینی مصلحت سے بظاہر ایک آرام کی حالت میں کھڑا کر دیا جائے تو اس کیلئے یہ بھی جہاد ہی ہے.جہاد یہی ہے کہ دین کیلئے جو حکم ہو، اس پر عمل کیا جائے بلکہ ایک طرح تلوار کے ساتھ جہاد کرنے والے سے ایسے انسان کا درجہ زیادہ ہوتا ہے کیونکہ اسے تو اللہ تعالی کی راہ میں جان دینے کی لذت حاصل ہو رہی ہوتی ہے اور یہ گڑھ رہا ہوتا ہے کہ مجھے جو یہاں کھڑا کر دیا گیا ہے، شاید یہ سزا ہی ہو اس لئے اسے دُہرا ثواب ہوتا ہے.بہر حال یہ ثابت ہے کہ ان لوگوں کو جو کسی کام پر مقرر کئے جائیں ویسا ہی جہاد کا ثواب ہوتا ہے جیسا کہ تلوار سے جہاد کرنے والوں کو.جہاد کیلئے وره
خطبات محمود ۲۷۲ سال ۱۹۳۴ء لڑنا مرنا ہی ضروری نہیں بلکہ اگر حکم ہو تو گالیاں کھاکر صبر کرنا، ماریں کھانا دشمن کو حملہ کرتے دیکھ کر خاموش رہنا بھی ویسا ہی جہاد ہے.اَلاِمَامُ جُنَّةَ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِم میں ہی بتایا گیا ہے کہ اسی کا نام جہاد ہے کہ جو امام کے ویسا ہی کرو.نفس انسانی بھی بعض دفعہ ایسے دھو کے دیتا ہے کہ مثلاً ہم بہت مست ہیں، چپ چاپ بیٹھے ہیں، دشمن کی شرارتوں کا سدباب نہیں کرتے لیکن اگر یہ خیال کر لیا جائے کہ امام موجود ہے وہ جو حکم دے گا وہی بہتر ہو گا.تو پھر ایسے خیالات خود بخود دور ہو جاتے ہیں.پس اضطراب کبھی پیدا نہ ہو.ہاں ہو شیار ضرور رہو کہ کیا ہو رہا ہے.خود قدم نہ اٹھاؤ بلکہ انتظار کرو کہ امام کیا حکم دیتا ہے.اس وقت سارے ہندوستان میں احمدیت کے خلاف بہت شور ہے مگر جن مخالفتوں کا مقابلہ کرنا ہمارے لئے مقدر ہے، ان کے مقابلہ میں یہ شور و شر کچھ حقیقت نہیں رکھتا.میرے پاس جو رپورٹیں آتی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض حکام بھی فتنہ انگیزوں سے ملے ہوئے ہیں اور بعض اوقات ایسے احکام صادر کر دیتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا انگریزوں کی نہیں بلکہ سکھوں کی حکومت ہے.سکھوں کے ایک زمانہ میں بعض اوقات ایسا ہوتا تھا کہ سکھ کوئی لکھا ہوا کاغذ لئے پھرتے اور ظاہر یہ کرتے کہ گویا کسی کا خط آیا ہے اور ہر راہ گزر سے کہتے کہ اسے پڑھ دو.اور جو پڑھ دیتا یا جواب میں کوئی عربی یا فارسی کا لفظ بول دیتا اسے مسلمان سمجھ کر تلوار سے گردن اتار دیتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام سنایا کرتے تھے کہ امرتسر میں ایک سکھ ایسا ہی خط لئے پھرتا تھا، اس زمانہ میں ڈاکخانے تو نہیں تھے اس لئے خط سے موجودہ زمانہ کے مروجہ خط مراد نہیں بلکہ کوئی تحریر مراد ہے جو شخص اس تحریر کو پڑھ دیتا اسے وہ سکھ مارڈالتا.چنانچہ ایک شخص سے اس نے پڑھنے کو کہا تو اس نے جواب دیا کہ میں تو بالکل پڑھا ہوا نہیں ہوں.وہ سکھ کہنے لگا کہ اگر پڑھے ہوئے نہیں تو یہ کلبلیاں کہاں سے سیکھ گئے ہو اور یہ کہہ کر تلوار چلادی.عجیب بات ہے کہ آج مسلمان سکھوں کی تعداد کی نسبت سے آدھے تعلیم یافتہ ہیں مگر اس زمانہ میں تعلیم یافتہ شخص کو لازماً مسلمان سمجھا جاتا تھا.تو میں کہہ رہا تھا کہ آج کل بعض افسر بھی بعض اوقات ایسے ہی حکم دے دیتے ہیں.مجھے یہ معلوم کر کے تعجب ہوا کہ ایک مجسٹریٹ نے بعض غیر احمدیوں سے کہا کہ تم کیوں علیحدہ جمعہ کی نماز پڑھتے ہو احراریوں کے ساتھ کیوں نہیں پڑھتے.انگریزوں کا مقرر کردہ مجسٹریٹ تو ایسا نہیں کہہ سکتا.ہاں احراریوں کا اپنا مجسٹریٹ ہو تو وہ بیشک یہ بات کہہ د چونچلے.اٹھکیلیاں اُ
خطبات محمود ۲۷۳ ہے.بہرحال اس وقت بعض حکام بھی اس مخالفت میں کسی نہ کسی طرح فتنہ انگیزوں کو مدد دے رہے ہیں.مگر اچھی طرح یاد رکھو کہ یہ چیزیں کوئی حقیقت نہیں رکھتیں اور ان سے گھبراہٹ کی کوئی وجہ نہیں.کچھ عرصہ کی بات ہے ، یہاں ہمارے مخالفین کی طرف سے کچھ شورش ہوئی.اس وقت ایک دوست کے متعلق مجھے معلوم ہوا کہ وہ بھی موقع پر موجود تھے.وہ صحابی ہیں میں نے انہیں اس لئے بلایا کہ صحیح حالات معلوم کروں مگر وہ بجائے گواہی دینے کے مجھے تسلی دینے لگے کہ آپ پرواہ نہ کریں، یہ باتیں کچھ چیز نہیں ہیں ہم نے اس سے بہت بڑی مخالفتیں دیکھی ہیں.ایک دفعہ ہم کچھ لوگ مٹی کھود رہے تھے.اور نانا جان (حضرت میر ناصر نواب صاحب نے ہمیں یہ کام سپرد کیا تھا کہ اتنے میں کسی نے آکر کہا کہ مرزا نظام الدین صاحب آرہے ہیں.مرزا نظام الدین صاحب ہمارے چچا تھے.ان کو اپنے حقوق کا بہت خیال رہتا تھا اور وہ اس بات کو اپنے مالکانہ حقوق کے منافی خیال کرتے تھے کہ دوسرے لوگ کہیں سے مٹی وغیرہ اٹھائیں.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی عام اجازت دے رکھی تھی.تو وہ دوست مجھے سنانے لگے کہ جب کسی نے آکر کہا کہ مرزا نظام الدین آگئے تو باقی لوگ تو سب چلے گئے مگر میں وہیں کھڑا رہا اور ہاتھ اٹھا کر میں نے دعا کی.کہ اے خدا! اس وقت مجھ پر وہی وقت آیا ہے جو تیرے رسول پر غارِ ثور میں آیا تھا.نتیجہ یہ ہوا کہ مرزا نظام الدین آئے مگر میں انہیں نظر نہ آیا.گویا اس دوست نے اس نہایت معمولی واقعہ کو غار ثور کے واقعہ کے برابر سمجھا.اس طرح بعض لوگ معمولی باتوں کو بہت اہمیت دے لیتے ہیں ایسا نہیں ہونا چاہیے.افسروں میں سے بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو قانون کو سمجھ نہیں سکتے بعض دیانتداری اور بعض بد دیانتی سے بھی غلطیاں کرتے ہیں مگر ان باتوں کی پرواہ نہ کرو.ہماری نظر اس گورنمنٹ کی طرف نہیں بلکہ آسمانی گورنمنٹ کی طرف ہے اور ہماری کامیابی کا انحصار تقویٰ پر ہے.پس اپنے اعمال کی اصلاح کرو اور اپنے دلوں میں تقویٰ پیدا کرو.ایک دفعہ ایک نظم لکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مصرعہ لکھا تھا.اس پر دوسرا مصرعہ یہ الہام ہوا.ہراک نیکی کی جڑ یہ اتقاء ہے" " اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے" پس ہمارے لئے خدا تعالیٰ نے کامیابی کا گریہی رکھا ہے.کہ تقویٰ سے وابستہ رہیں.
۲۷۴ سال ۱۹۳۴ء خطبات محمود روبه اپنے اندر بیداری اور تقویٰ پیدا کرو.ہم دنیوی باتوں سے کامیاب نہیں ہو سکتے.دوست، علم، حجتہ کوئی چیز ہمیں کامیاب نہیں کر سکتی.دنیا میں ہم سے بہت زیادہ یہ چیزیں رکھنے والے موجود ہیں.ہم تو ایسی صورت میں ترقی کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالی کے حکم سے فرشتے ہمارے آگے آگے کہتے جائیں کہ ان کے لئے راستہ چھوڑ دو راستہ چھوڑ دو.پس تم اپنے نفوس میں تقوی، خوف الہی اور بیداری پیدا کرو.تم میں سے کتنے ہیں جو تہجد کی نماز پڑھتے ہیں.اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کر لو تو خود بخود ہی سب کام ہوتے جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک قصہ سنایا کرتے تھے کہ ایک شخص کسی سفر پر جانے لگا تو اس نے اپنا کچھ قاضی کے پاس بمد امانت رکھوایا.عرصہ کے بعد واپس آکر اس نے جب روپیہ مانگا تو قاضی کی نیت بدل گئی اور اس نے کہا میاں عقل کی دوا کرو کونسا روپیہ اور کیسی امانت.میرے پاس تم نے کب روپیہ رکھوایا تھا.اس نے کوئی تحریر وغیرہ تو لی نہیں تھی کیونکہ وہ سمجھتا تھا قاضی صاحب کی ذات ہی کافی ہے.مگر قاضی صاحب نے کہا کہ اگر کوئی روپیہ رکھے گئے تھے تو لاؤ ثبوت پیش کرو کوئی رسید دکھاؤ کوئی گواہ لاؤ.اس نے بہت یاد دلایا مگر وہ یہی کہتا گیا کہ تمہارا دماغ پھر گیا ہے.میں نے کوئی روپیہ نہیں لیا.آخر اس نے بادشاہ کے پاس شکایت کی.بادشاہ نے کہا کہ عدالت کے طور پر تو میں تمہارے خلاف فیصلہ کرنے پر مجبور ہوں کیونکہ کوئی تحریر نہیں ، گواہ نہیں، ہاں ایک ترکیب بتاتا ہوں اگر تم سچے ہو تو اس سے فائدہ اٹھا سکتے فلاں دن ہمارا جلوس نکلے گا اور قاضی بھی اپنی ڈیوڑھی کے آگے موجود رہے گا تم بھی کہیں اس کے پاس کھڑے ہو جانا.میں تمہارے پاس پہنچ کر تمہارے ساتھ بے تکلفی سے بات چیت شروع کردوں گا کہ تم ہمیں ملنے کیوں نہیں آتے اتنے عرصہ سے ملاقات نہیں ہوئی اور تم کہنا کہ یونہی کچھ پریشانیاں ہی تھیں، اس لئے حاضر نہیں ہو سکا.اس شخص نے ایسا ہی کیا اور جلوس کے دن قاضی صاحب کے پاس ہی کھڑا ہو گیا.بادشاہ آیا تو بادشاہ نے قاضی کی بجائے اس سے مخاطب ہو کر بات شروع کر دی اور کہا تم کہاں چلے گئے تھے ، عرصہ سے ملاقات نہیں ہوئی اس نے اپنے سفر کا حال بتایا.پھر بادشاہ نے پوچھا واپسی پر کیوں نہیں ملے.اس نے جواب دیا کہ یونسی بعض پریشانیاں تھیں، کچھ وصولیاں وغیرہ کرنی تھیں.بادشاہ نے اسے کہا نہیں میں ضرور ملنا چاہیے، جلدی جلدی آیا کرو.جب بادشاہ کا جلوس گزر گیا تو قاضی صاحب نے اس سے کہا کہ میاں ذرا بات تو سنو.تم اس دن آئے تھے اور کسی امانت کا ذکر کرتے تھے.شخص.رپر ہو.
خطبات محمود ۲۷۵ سال ۱۹۳۴ء میں اب بوڑھا ہو گیا ہوں.عقل اچھی طرح کام نہیں کرتی.کچھ اتا پتا بتاؤ تو یاد آئے.اس نے پھر وہی باتیں یاد دلائیں جو پہلے کئی بار یاد دلا چکا تھا.اس پر قاضی صاحب کہنے لگے.اچھا فلاں قسم کی تھیلی تمہاری ہی ہے وہ تو پڑی ہے لے جاؤ.اور لاکر روپیہ اسے دے دیا.یہ قصہ سنا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ دنیا کی مخالفت سے کیا ڈرنا- کوئی بڑے سے بڑا جرنیل بھی تو تلواروں اور گولیوں وغیرہ سے ہی نقصان پہنچا سکتا ہے.مگر یہ ساری چیزیں ہمارے خدا کی ہیں.اگر وہ کہے کہ اس طرف وار نہ کرو تو کون کر سکتا ہے.پس بندہ کو اللہ تعالی سے دوستی کرنی چاہیے.اس سے محبت کرنی چاہیئے.ڈر سے یا مرنے مارنے سے کام نہیں بنتا.ترقی کی کی راہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو خدا کے ہاتھ میں دے دے.اور جس طرف وہ لے جاتا چاہے چلتا جائے.الفضل ۲۱ اکتوبر ۱۹۳۴ء) نه بخاری کتاب الجهاد باب السرعة والركض في الفزع ه بخاری كتاب الجهاد باب يقاتل من وراء الامام ويتقى : به بخاری کتاب القدر باب جف القلم على علم اللہ میں حدیث کے الفاظ یوں آئے ہیں "جَفَّ الْقَلَمُ بِمَا أَنْتَ لَاقٍ" کے بخاری کتاب المغازی باب غزوة أحد
خطبات محمود ۲۷۶ وقت آگیا ہے کہ ہم اس رنگ میں قربانیاں کریں جو بہت جلد نتیجہ خیز ہوں (فرموده ۱۹- اکتوبر ۱۹۳۴ء) سال تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- سب سے پہلے تو میں ان تمام مبلغین کو جو اس وقت قادیان میں موجود ہیں ہدایت دیتا ہوں کہ وہ نماز جمعہ کے معا بعد تاکہ گاڑی نہ چھوٹ جائے، میری کوٹھی دارالحمد واقع محلہ دار الانوار میں فوراً میرے پاس آئیں کیونکہ بعض ضروری کاموں کیلئے میں نے انہیں باہر بھجوانا ہے.یہ کام الیکشن کے متعلق ہے اور انہیں سرگودھا، جھنگ اور میانوالی کی طرف جانا ہو گا.ناظر دعوت و تبلیغ کو چاہیے کہ وہ فوراً ان کے کرایہ وغیرہ کا انتظام گاڑی کے جانے سے پہلے کردیں تاکہ انہیں آج ہی روانہ کیا جاسکے.اس کے بعد میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ گورنمنٹ نے بعض مصالح کے ماتحت جن کو میں تو درست نہیں سمجھتا لیکن بہر حال حکام نے اپنے بعض مصالح کے ماتحت یہاں اعلان کیا اور ہم نے ان کی اس خواہش کے ساتھ تعاون کرنے کا وعدہ کرلیا ہے کہ ان پانچ ایام میں بلکہ شاید ستائیس تاریخ تک کوئی شخص قادیان میں ہاتھ میں سوئی نہ رکھے.چنانچہ آپ لوگ دیکھتے ہیں کہ باوجود اس بات کے کہ ہماری خاندانی روایات یہی ہیں کہ ہم ہاتھ میں سوئی رکھتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی فرمایا کرتے تھے کہ ہم سب باہر نکلتے ہیں تو ہاتھ میں سوئی رکھتے ہیں، قانون کے احترام میں میں آج بغیر سوئی کے آیا
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء ہوں.اگر میں قانون کا احترام کر رہا ہوں تو ہماری جماعت کے ہر فرد کا یہ فرض ہے کہ وہ اس قانون کی پابندی کرے اور ہماری طرف سے جو وعدہ کیا گیا ہے اسے پورا کرے اور ان ایام میں کسی قسم کی کوئی سوئی اپنے پاس نہ رکھے.اس کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ سات یا آٹھ دن تک اگر اللہ تعالٰی نے مجھے زندگی اور توفیق بخشی تو میں ایک نہایت ہی اہم اعلان جماعت کیلئے کرنا چاہتا ہوں.چھ یا سات دن قبل میں وہ اعلان کرنا مناسب نہیں سمجھتا.اس اعلان کی ضرورت اور اس کی وجوہ بھی میں اُسی وقت بیان کروں گا لیکن اس سے پہلے میں آپ لوگوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ آپ لوگ احمدی کہلاتے ہیں، آپ لوگوں کا دعوی ہے کہ آپ خدا تعالی کی چنیدہ جماعت ہیں، آپ لوگوں کا دعوی ہے کہ آپ خدا تعالی کے مامور پر کامل یقین رکھتے ہیں، آپ لوگوں کا دعوی ہے کہ اللہ تعالیٰ کیلئے آپ نے اپنی جانیں اور اپنے اموال قربان کر رکھے ہیں اور آپ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ان تمام قربانیوں کے بدلے اللہ تعالیٰ سے آپ لوگوں نے جنت کا سودا کر لیا.یہ دعویٰ آپ لوگوں نے میرے ہاتھ پر ذہرایا بلکہ آپ میں سے ہزاروں انسانوں نے اس عہد کی ابتداء میرے ہاتھ پر کی ہے کیونکہ وہ میرے ہی زمانہ میں احمدی ہوئے.قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے ، تمہاری بیویاں، تمہارے عزیز و اقارب، تمہارے اموال اور تمہاری جائدادیں تمہیں خدا اور اس کے رسول سے زیادہ پیاری ہیں تو تمہارے ایمان کی کوئی حقیقت نہیں اے.یہ ایک معمولی اعلان نہیں بلکہ اعلان جنگ ہوگا ہر اُس انسان کیلئے جو اپنے ایمان میں ذرہ بھر بھی کمزوری رکھتا ہے، یہ اعلان جنگ ہوگا ہر اس شخص کیلئے جس کے دل میں نفاق کی کوئی بھی رگ باقی ہے لیکن میں یقین رکھتا ہوں کہ ہماری جماعت کے تمام افراد إِلَّا مَا شَاءَ اللهُ سوائے چند لوگوں کے سب سچے مومن ہیں اور اس وعدے پر قائم ہیں جو انہوں نے بیعت کے وقت کیا اور اس وعدے کے مطابق جس قربانی کا بھی ان سے مطالبہ کیا جائے گا' اسے کرنے کیلئے ہر وقت تیار رہیں گے.خطبہ جمعہ میں بولنا تو منع ہے لیکن اگر امام اجازت دے تو انسان بول سکتا ہے ہے.پس میں آپ لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا آپ اُس وعدے پر قائم ہیں جو آپ لوگوں نے میرے ہاتھ پر کیا؟ چاروں طرف سے یقیناً ہم قائم ہیں اور لبیک کی آوازیں بلند ہوئیں) اس کے بعد میں آپ لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جب آپ لوگ اپنی جانیں میرے ہاتھ پر فروخت کر چکے ہیں ؟
خطبات محمود ۲۷۸ سال ۱۹۳۴ء اپنے اموال میرے ہاتھ پر فروخت کرچکے ہیں، تو اب ہر ایک وہ مطالبہ جو شریعت کے اندر ہو میں آپ لوگوں سے کر سکتا ہوں اور ہر ایک مطالبہ جو میں شریعت کے اندر کروں اس کے متعلق جماعت کے ہر فرد کا یہ فرض ہے کہ وہ اس کو پورا کرے اور اگر کوئی اس مطالبہ کو پورا نہیں کرتا تو وہ منافق ہے، احمدی نہیں.اس کے بعد سب سے پہلا مطالبہ جو میں آپ لوگوں سے کرتا ہوں اور جس کی آزمائش کے بعد میں دوسرا مطالبہ کروں گا یہ ہے کہ یہاں ایک جلسہ ہونے والا ہے اس جلسہ کے متعلق مجھے یقینی طور پر اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ یہ لوگ کوئی شورش اور فساد برپا کرنا چاہتے ہیں.پس میرا پہلا مطالبہ یہ ہے کہ اگر واقعہ میں وہ اطلاعات درست ہیں جو مجھے موصول ہوئیں تو میں اپنی جماعت کے ہر شخص کو یہ حکم دیتا ہوں کہ خواہ وہ مارا اور پیٹا جائے“ اپنا ہاتھ کسی پر مت اٹھائے اور اپنی زبان مت کھولے بلکہ اگر وہ قتل بھی کر دیا جائے تو بھی اس کا حق نہیں کہ وہ اپنا ہاتھ اٹھائے اور اس کا حق نہیں کہ وہ اپنی زبان ہلائے.اگر ایسی حالت میں کوئی بھائی پاس سے گزر رہا ہو تو میں اسے بھی ہدایت کرتا ہوں کہ وہ ہرگز اس کی مدد نہ کرے ہاں فوٹو کیلئے کیمرے موجود ہونے چاہئیں جن لوگوں کے پاس یہاں کیمرے ہیں وہ اپنے کیمروں کو تیار کرلیں اور جو باہر سے منگوا سکتے ہوں وہ باہر سے منگوالیں.جہاں کہیں وہ کوئی ایسی حرکت دیکھیں جس سے انہیں معلوم ہو کہ پولیس اور اس کے افسر اپنے فرائض کو ادا نہیں کر رہے، تو ان کا فرض ہوگا کہ وہ اس حالت کا فوٹو اتار لیں.ہاتھ مت ہلائیں، زبان ا مت کھولیں بلکہ کیمرے تیار رکھیں اور جب دیکھیں کہ پولیس اور اس کے افسر اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کر رہے یا احمدیوں پر ظلم و تعدی ہو رہا ہے تو فوراً اس حالت کا فوٹو اتار کر اسے محفوظ کرلیں.پس اگر وہ روایات صحیح ہیں جو مجھے پہنچیں اور اگر ان لوگوں کا یہی ارادہ ہے کہ فتنہ و فساد پیدا کریں تو اس اعلان کے بعد آپ لوگوں کی آزمائش ہو جائے گی اور پتہ لگ ئے گا کہ کہاں تک آپ لوگ دین کیلئے اپنی جانیں قربان کرنے کیلئے تیار ہیں.اس کے بعد دوسرا مطالبہ کروں گا اور دیکھوں گا کہ آپ کس حد تک اسے پورا کرتے ہیں مگر میں وہ مطالبہ احراری جلسہ کے ایام میں پیش کرنا نہیں چاہتا تاکہ اسے انتقامی رنگ پر محمول نہ کیا جاسکے اور تا وہ مطالبہ فتنہ کا کوئی اور دروازہ نہ کھول دے.اس کے بعد میں دیکھوں گا کہ آپ لوگوں میں سے کتنے ہیں جو اس قربانی کیلئے تیار رہتے ہیں.جو قربانیاں اس وقت تک ہماری جماعت کی وہ
۲۷۹ سال ۴۱۹۳۴ طرف سے ہوئی ہیں وہ ان قربانیوں کے مقابلہ میں بہت ہی حقیر ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جماعت نے کیں یا حضرت عیسی علیہ السلام کے حواریوں نے کیں یا رسول کریم کے صحابہ نے کیں لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس رنگ میں قربانی کریں جو بہت جلد نتیجہ خیز ہو کر ہمارے قدموں کو اس بلندی تک پہنچا دے جس بلندی تک پہنچانے کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنیا میں مبعوث ہوئے.میں امید کرتا ہوں کہ اگر آپ لوگوں میں سے بعض کو دور دراز ملکوں میں بغیر ایک پیسہ لئے نکل جانے کا حکم دیا گیا تو آپ لوگ اس حکم کی تعمیل میں نکل کھڑے ہوں گے ، اگر بعض لوگوں سے ان کے کھانے پینے اور پہننے میں تبدیلی کا مطالبہ کیا گیا تو وہ اس مطالبہ کو پورا کریں گے، اگر بعض لوگوں کے اوقات کو پورے طور پر سلسلہ کے کاموں کیلئے وقف کر دیا گیا تو وہ بغیر چون و چرا کئے اس پر رضامند ہو جائیں گے اور جو شخص ان مطالبات کو پورا نہیں کرے گا وہ ہم میں سے نہیں ہوگا بلکہ الگ کر دیا جائے گا.ہمارے ذمہ ایک نہایت ہی زبر دست فرض عائد ہو گیا ہے.حکومت نے ہمارے سلسلہ کی سخت ہتک کی ہے ایسی ہتک کہ جس وقت تک ہم اس کا ازالہ نہ کرلیں ہم صبر سے کام نہیں لے سکتے لیکن ہمارے ذرائع قانون کے اندر گے، ہمارے ذرائع محبت اور پیار کے ہوں گے.مجھے اس وقت ایک قصہ یاد آگیا.انگریزی تواریخ میں لکھا ہے کہ ایک انگریز افسر نے اپنی فوج کے ایک سپاہی کو گالی دی.وہ سپاہی گالی سن کر خاموش ہو گیا.کچھ دنوں کے بعد ایک جنگ کے موقع پر اس 1 به حکام بالا کی طرف سے اعتراض کیا گیا کہ فلاں مورچہ تم فتح کر سکتے تھے مگر تم نے اسے فتح نہیں کیا.جواب دو کہ اس کی کیا وجہ ہے.وہ افسر چونکہ جانتا تھا کہ اس مورچہ کو فتح کرنے میں بہت سی جانوں کو قربان کرنا پڑے گا اس لئے اس نے تمام سپاہیوں کو اکٹھا کیا اور کہا دیکھو سرکار کا حکم آیا ہے کہ فلاں مورچہ کو فتح کیا جائے.آپ لوگ محبت وطن ہیں آپ سے توقع کی جاتی ہے کہ اس وقت حکومت کی مدد کریں گے اور چونکہ جانیں ضائع ہونے کا یقینی طور پر خطرہ ہے، اس لئے دس آدمی مجھے ایسے چاہئیں جو اپنی جانوں کو قربان کرنے کیلئے تیار ہوں.اس پر دس آدمی کھڑے ہو گئے اور انہوں نے اپنے نام لکھا دیئے.پھر اس نے کہا کہ اب مجھے ایک اور آدمی چاہیے جسے ان دس آدمیوں سے بھی زیادہ اہم کام سپرد کیا جائے گا اور وہ کام ان کی لیڈری کرنا ہے.اس کے متعلق ننانوے فیصدی بلکہ سو فیصدی یہی احتمال ہے کہ وہ موت کے ہوں
خطبات محمود ۲۸۰ سال ۱۹۳۴ء وه نہیں بتادیں منہ میں جارہا ہے.تم میں سے جو شخص اس قربانی کیلئے بھی تیار ہو وہ اپنے آپ کو پیش کرے.یہ سن کر وہی سپاہی جسے افسر نے گالی دی تھی، کھڑا ہوا اور اس نے اپنے آپ کو پیش کر دیا.افسر نے اسے بھیجا اور جب وہ مورچہ کی طرف بڑھا تو چاروں طرف سے گولیاں برس رہی تھیں مگر خدا تعالیٰ کی قدرت کہ اس نے مورچہ کو فتح کر لیا اور اسے کوئی گولی نہ لگی.جب صحیح سلامت کامیاب ہو کر واپس پہنچا تو افسر آگے بڑھا اور اس نے مصافحہ کرنا چاہا اس پر سپاہی نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا اور کہا میں نے یہ اس دن کی گالی کا بدلہ لیا ہے اور میں تجھے اس قابل نہیں سمجھتا کہ تجھ سے مصافحہ کروں.ہمارا بدلہ بھی اِنْشَاءَ الله ایسا ہی ہوگا.ہم گے کہ جو الزام وہ ہم پر لگاتے ہیں وہ جھوٹا ہے، ہم انہیں بتادیں گے کہ ہم معظم کے ان لوگوں سے بہت زیادہ وفادار ہیں جو ہزاروں روپیہ تنخواہ لیتے ہیں، ہم انہیں بتادیں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو قیام امن کیلئے ہمیں تعلیم دی اس پر تمام دنیا سے ہم زیادہ کاربند ہیں، ہم یہ بدلہ لے کر انہیں شرمندہ کریں گے اور آنے والی نسلوں کی نگاہوں میں انہیں ذلیل کریں گے لیکن اس کے متعلق احکام میں بعد میں دوں گا اور ہر شخص کا فرض ہو گا کہ وہ ان احکام کی تعمیل کرے.ہم نے پچاس سال سے دنیا میں امن قائم کر رکھا ہے، ہم نے لاکھوں روپیہ گورنمنٹ کی بہبودی کیلئے قربان کیا ہے اور کوئی شخص بتا نہیں سکتا کہ اس کے بدلہ میں ایک پیسہ بھی ہم نے گورنمنٹ سے کبھی لیا ہو.ہمارے پاس وہ کاغذات موجود ہیں جن میں گورنمنٹ نے ہمارے خاندان کی خدمات کا اعتراف کیا اور یہ وعدہ کیا ہوا ہے کہ اس خاندان کو وہی اعزاز دیا جائے گا جو اسے پہلے حاصل تھا.ہمارے پردادا کو ہفت ہزاری کا درجہ ملا ہوا تھا جو مغلیہ سلطنت میں صرف شہزادوں کو ملا کرتا تھا.پھر عضد الدولہ کا خطاب حاصل تھا یعنی حکومت مغلیہ کا بازو مگر ہم نے کبھی گورنمنٹ کے سامنے ان کاغذات کو پیش نہیں کیا اور نہ اپنی وفادارانہ خدمات میں کمی کی بلکہ ہر روز زیادتی کرتے چلے گئے.ہم نے کانگرس کا مقابلہ کیا، ہم نے احرار موومنٹ کا مقابلہ کیا اور اس مقابلہ میں لاکھوں روپیہ صرف کیا جانیں قربان کیں، جنگ کے موقع پر اپنی جماعت کے بہترین آدمی پیش کئے.سراوڈوائر لارڈ چیمسفورڈ اور لارڈ ارون سر میلکم ہیلی سر جعفرے، وی مانٹ مورنسی اور دوسرے اعلیٰ حکام کی تحریریں جن میں سے بعض ان کی دستخطی ہیں اور بعض ان کے نائبین کی ہیں میرے پاس موجود ہیں جن میں وہ
خطبات محمود PAI سال ۱۹۳۴ رہیں ہم ہماری جماعت کی وفاداری اور انتہائی قربانی کا اعتراف کرتے ہیں مگر آج گورنمنٹ کے حکام ہمیں یہ سناتے ہیں کہ تم امن کو برباد کرنے والے ہو.ہم اس جھوٹ کو ثابت کر کے گے اور آئندہ بھی حسب موقع ایسے کام کر کے دکھائیں گے جن سے ثابت ہوگا کہ ملک معظم اور حکومت اور وطن کے ان ہزاروں روپیہ تنخواہ لینے والوں سے جو روپیہ لے کر کام کرتے ہیں اور پھر خطابوں کیلئے اپنی جھولی ملک معظم کی حکومت کے آگے پھیلائے رکھتے ہیں زیادہ خیر خواہ اور ان کیلئے زیادہ قربانی کرنے والے ہیں.ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے مومن ہیں اور مومن ڈرا نہیں کرتا.ہم نے گورنمنٹ کی جو اطاعت کی ہے وہ اصول کے ماتحت کی ہے.ہمارا مذہب ہمیں یہی کہتا ہے کہ گورنمنٹ کے وفادار رہو.پس گورنمنٹ کے غصہ ولانے کے باوجود ہم اپنے اس عہد کو چھوڑنے کیلئے تیار نہیں اور ہم گورنمنٹ کو بتادیں گے کہ وہ ہم پر الزام لگانے میں دھوکا خوردہ ہے.پس ان ایام کیلئے میں ہدایت کرتا ہوں کہ کوئی شخص خواہ کس قدر شورش برپا کی جائے اپنا ہاتھ مت اٹھائے اور نہ اپنی زبان ہلائے.یہاں چونکہ بعض منافق رہتے ہیں اس لئے ممکن ہے وہی کچھ شورش کردیں.پس میری ہدایت یہ ہے کہ اگر تمہارے باپ سگے بھائی یا عزیز سے عزیز دوست کو بھی تمہارے سامنے مار پڑ رہی ہو تو تمہارا یہ کام نہیں کہ تم ہاتھ اٹھاؤ اور اس کی مدد کرو بلکہ تم وہاں سے چلے آؤ اور سلسلہ کے افسران یا گورنمنٹ کے حکام کو اطلاع دو اور جیسا تم کو حکم دیا جائے ویسا کرو.اپنی مرضی سے کام نہ کرو اور اس وقت تک خاموش رہو جب تک کہ یہ جلسہ ختم نہیں ہو جاتا.یعنی اس وقت تک خود حفاظتی کے حق سے بھی دستبردار ہو جاؤ.اس کے بعد میں بتاؤں گا کہ گورنمنٹ کے قانون کا لحاظ رکھتے اور ملک کی وفادار رعایا ہوتے ہوئے کس طرح ہم ان ظالمانہ اور جھوٹے اعتراضات سے بچ سکتے ہیں جو آج ہم پر کئے گئے ہیں.له التوبة: ٢٤ الفضل ۲۳ اکتوبر ۱۹۳۴ء) که بخارى كتاب الجمعة باب اذا رأى الامام رجلا جاء وهو يخط
خطبات محمود ۲۸۲ دنیا کے ہر گوشہ کے احمدی خاص قربانیوں کیلئے تیار رہیں (فرموده ۲۶ - اکتوبر ۱۹۳۴ء) تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- ا فعل پچھلے خطبہ میں میں نے جماعت کو صبر اور تحمل کی ہدایت کی تھی اور نصیحت کی تھی کہ لوگ سوٹے لے کر نہ پھریں اور ان تمام احکام کی جو حکومت برطانیہ کے نمائندوں کی طرف سے دیئے جائیں، اطاعت کریں.میں آج کے خطبہ سے پہلے دوستوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور ان کے اس اظہارِ خوشنودی کرتا ہوں کہ باوجود اشتعال انگیزی کے سامانوں کے پیدا ہونے کے انہوں نے صبر و تحمل سے کام لیا اور سوائے شاذ و نادر کے یا سوائے کسی غلط فہمی کے پیدا ہو جانے کے ان کی طرف سے کوئی بات ایسی نہیں ہوئی جو میرے لئے موجب شرمندگی اور ان کیلئے موجب پریشانی ہو.بیشک ہم ان دنوں میں نہتے تھے، بیشک حکومت نے اپنے زور اور طاقت سے باوجود اس کے کہ یہ ہمارا گھر تھا ہمیں خود حفاظتی کی تدابیر سے محروم کر دیا تھا، پھر بھی میں جانتا ہوں کہ ہماری جماعت کے بچے اور مخلص ممبر خدا تعالیٰ کے فضل سے شیر ہیں اور شیر بغیر ہتھیاروں کے ہی لڑا کرتا ہے.میں نے سلسلہ کے مصالح کے لحاظ سے آپ کی زبانیں بند کردی تھیں، آپ کے ہاتھ باندھ دیئے تھے لیکن باوجود اس کے میں جانتا ہوں کہ آپ کے دل اخلاص اور اس محبت کے وفور کی وجہ سے جو آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات اور سلسلہ سے ہے، ایسے جوش سے پر تھے کہ جس کے سامنے دنیا کی کوئی دیوار اور کوئی قلعہ ٹھہر
خطبات حمود ٣٨٣ سال ۱۹۳۴ء بہت نہیں سکتا.آپ کی فرمانبرداری ذلت اور بے چارگی کی فرمانبرداری نہیں تھی بلکہ طاقت کے ساتھ فرمانبرداری تھی.جیسا کہ مجھے معلوم ہوا ہے، پولیس کے لوگوں نے حیرت کا اظہار کیا آپ بغیر ہتھیاروں کے ان کے ساتھ مل کر پہرہ دیتے تھے.انہوں نے ہمارے دوستوں بھی کہا کہ ہم لوگ جو آپ کی خدمت کیلئے آئے ہیں، آپ کو کیا ضرورت ہے کہ تکلیف کریں خصوصاً اس صورت میں کہ آپ کے پاس ہتھیار بھی نہیں ہیں اور آپ کے خلاف اس قدر جوش پھیلایا جارہا ہے اور خطرہ ہے آپ کیوں نستے پھرتے ہیں.مگر جب ان کو جواب دیا جاتا ہے کہ ہم آپ کی ہمدردی کے ممنون ہیں مگر اپنے مقدس مقامات کی حفاظت ہمارا بھی فرض ہے اور ہم اس کیلئے مجبور ہیں.تو ان پر اتنا اثر ہوا کہ انہوں نے کہا آپ لوگ ہمدردی کہتے ہیں ہمارے دلوں میں آپ لوگوں کے متعلق جو جذبات ہیں وہ ہمدردی سے بہت زیادہ ہیں اور ہم انہیں بیان نہیں کرسکتے.اس کے بعد میں اس امر کا ذکر کر دینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ایسے حالات میں جو اشتعال دلانے والے تھے ، پولیس کے افسروں اور ماتحتوں کا رویہ بہت اعلیٰ درجہ کا اور قابل تحسین رہا ہے.ان میں سے بیشتر حصہ اس بیہودگی کو محسوس کرتا تھا جو اس جگہ جلسہ کی اجازت دینے میں ہوئی ہے، وہ قانون اور تہذیب سے گرے ہوئے الفاظ جو ہمارے متعلق استعمال کئے گئے ان سے وہ خود دیکھ محسوس کرتے تھے.ان میں سے بعض مجھے ملنے بھی آئے بعض علیحدگی میں ملے اور بعض عام مجالس میں، ان کے علاوہ ان میں سے بہت سے ہماری جماعت کے سینکڑوں لوگوں سے ملے اور انہوں نے اپنی طرف سے بھی اور اپنے دوستوں کی طرف سے ترجمانی کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ احمدیوں کو بلاوجہ دکھ دیا گیا ہے اور ایسا جلسہ جس کی غرض سوائے تضحیک اور توہین کے کچھ نہیں، یہاں خواہ مخواہ منعقد کرایا گیا ہے.گو وہ لوگ اس وقت میرے سامنے نہیں مگر میرا فرض ہے کہ ان کے متعلق بھی جذبات امتنان کا اظہار کروں.وہ لوگ ہمارے ہم خیال نہ تھے ، بعض ان میں سے جلسہ کرنے والوں کے ہم عقیدہ تھے ، بعض سکھ یا ہندو تھے مگر سب نے شریفانہ رویہ رکھا، سوائے چند ایک کے جنہوں نے بعض ناشائستہ حرکات کیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ پولیس کے رویہ کے متعلق ہمیں جو احتمال تھا اس سے بہت اچھا بلکہ اس کے برعکس انہوں نے یہاں نمونہ دکھایا اور نہ صرف انگریز افسروں بلکہ ہندوستانی افسروں نے بھی بہت شریفانہ رویہ دکھایا اور سپاہی تو بہت ہی متاثر تھے
خطبات محمود ۲۸۴ سال ۱۹۳۴ء ان میں سے کئی لوگ مجھے بھی ملے.ان کے علاوہ ان رپورٹوں کی بناء پر جو مجھے پہنچیں اور جو ان کے ساتھ تعاون کرنے والوں کی طرف سے ہیں، میں ان خیالات کے اظہار پر مجبور ہوا ہوں اور ان حالات میں اگر بعض سے غلطیاں بھی سرزد ہوئیں تو وہ یقیناً نظر انداز کرنے اور بھلا دینے کے قابل ہیں.یہاں کے مجسٹریٹوں کے متعلق مجھے افسوس ہے کہ میں یہی کلمات نہیں کہہ سکتا حالا نکہ وہ لوگ ہی ہیں جن کے سپرد امن اور انتظام کا قیام ہے.پولیس تو صرف سوٹے کی طرح ہوتی ہے، دماغ مجسٹریٹ ہوتے ہیں ان کے سامنے ہتک آمیز اور اشتعال انگیز تقریریں ہوئیں، بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ علیہ الصلوۃ والسلام اور جماعت کے دوسرے لیڈروں کے متعلق بہت بد زبانی کی گئی مگر انہوں نے ہرگز نہیں روکا.مذہبی حملوں کو اگر جانے بھی دیا جائے تو ذاتی حملے اس قدر تھے کہ مجسٹریوں کو اس طرف توجہ کرنی چاہیے تھی.پولیس اور غیر جانب دار رپورٹروں کو بھی اگر نظر انداز کر دیا جائے تو بھی خود ان کے اخباروں میں تقریروں کے جو اقتباس شائع ہوئے ہیں، انہیں دیکھ کر کوئی عظمند یہ نہیں کہہ سکتا کہ انہوں نے اشتعال انگیزی نہیں کی اور مجسٹریٹوں نے اپنے فرض کو ادا کیا ہے.میں نے خود اخبار احسان یا زمیندار دونوں میں سے کسی ایک میں پڑھا ہے کہ صدر کانفرنس نے کہا کہ لاؤ مجھے اور مرزا بشیر الدین محمود کو ایک کمرے میں بند کر دو اگر صبح تک وہ زندہ رہ جائے تو کہنا.اور میں سمجھتا ہوں کوئی مجسٹریٹ جس میں شرافت کی کوئی حس باقی ہے، یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ اشتعال انگیزی نہیں.کیا یہ صریح قتل کی دھمکی نہیں؟ کیا یہ الفاظ بھی ان کی سمجھ میں نہیں آسکتے تھے ؟ مگر نہیں ان کے دل خوش تھے کہ احمدیوں کی ہتک کی جارہی ہے اور ان پر الزام لگائے جارہے ہیں.پھر مجھے حیرت ہے کہ وہی مجسٹریٹ سٹیشن پر یہ کہتا ہوا پایا گیا کہ دونوں فریق میں TOLERANCE (رواداری) نہیں ہے.گویا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خواہ ہمیں مارتے، گالیاں دیتے، پھر بھی ہمیں انہیں اپنے گھروں میں لاکر ٹھہرانا چاہیے تھا اور اپنے مقدس مقامات گرانے کیلئے ان کے حوالہ کر دینے چاہئیں تھے تب ہم اس کے نزدیک روادار کہلا سکتے تھے.اگر کوئی شخص اس مجسٹریٹ کے منہ پر مکا مارے اور اس کے مکان پر جاکر اس کے ماں باپ کو گالیاں دے تو پھر میں دیکھوں کہ اس میں کتنی رواداری ہے.حالانکہ یہاں اس کے ذاتی اخلاق کا سوال نہیں تھا، وہ تنخواہ اس بات کی لیتا ہے، ملک معظم کی حکومت کی طرف سے اسی لئے مقرر کیا گیا ہے کہ امن قائم رکھے.اس کا فرض تھا کہ ایسی تقریریں کرنے والوں کو روکتا
خطبات محمود ۲۸۵ سال ۱۹۳۴ء اور کہتا کہ آپ لوگ یہاں تبلیغ کیلئے آئے ہیں نہ کہ قتل کی دھمکیاں دینے.یہ سوال نہیں کہ ہم پر ان کی دھمکیوں کا کیا اثر ہوا.ہم جانتے ہیں کہ انبیاء اور ان کی جماعتوں کو ایسی دھمکیاں دی ہی جایا کرتی ہیں.رسول کریم ﷺ کو بھی ایران کے بادشاہ کی طرف سے ایسی ہی دھمکی دی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ یہاں آؤ تو پتہ لگے اے' کہنے والے ایسا کیا ہی کرتے ہیں لیکن اس سے سننے والوں کی دماغی حالت کا پتہ بخوبی لگ سکتا ہے.! اس کے بعد میں اس مضمون کی طرف آتا ہوں جس کے متعلق میں نے پچھلے جمعہ میں کہا تھا مگر وہ چونکہ بہت اہم مضمون ہے اس لئے ضروری ہے کہ ساتھ ساتھ حکومت کے افسروں کو ، جماعت کے افراد کو دوسری پبلک کو اور ان لوگوں کو بھی جو ہمارے خلاف اس قدر غیظ و غضب کا اظہار کر رہے ہیں، سب کچھ سنا دیا جائے.مومن کا کوئی کام خفیہ نہیں ہوتا مومن انارکسٹ نہیں ہوا کرتا، رسول کریم ﷺ کا دستور تھا کہ آپ " جب کسی دشمن پر چڑھائی کرتے تو رات کے وقت حملہ نہیں کرتے تھے اور پھر حملہ سے پیشتر اذان دلواتے تا دوسروں کو پتہ لگ جائے کہ مسلمان آپہنچے ہیں ہے.ہم بھی اسی رسول کے پیرو ہیں اس لئے جو بھی کریں گے علی الاعلان کریں گے.ہمارے کسی کام میں کوئی اخفاء نہیں ہو گا سوائے اس کے جو ضروری اور جائز ہو.ایک کبڈی کھیلنے والا حریف کو پکڑتا ہے مگر پہلو بچاکر ، کنکوا اڑانے والا دوسرے کے کنکوے کو چکر میں لاکر کاٹتا ہے، تاجر اپنے گاہکوں کا علم دوسرے کو دینا پسند نہیں کرتا.پس اس قسم کے جائز اخفاء کے سوا مخفی تدابیر جائز نہیں اور ہم انہیں پسند نہیں کرتے.پس ایسی باتوں کو مستغنی کر کے ہمارے کاموں میں نہ پہلے کبھی اخفاء ہوا ہے نہ آئندہ ہوگا کیونکہ ہمارا حساب صاف اور ہماری نیتیں نیک ہیں.پس میں چاہتا ہوں کہ یہ ساری باتیں ان الفاظ میں آجائیں جن میں میں پیش کرتا ہوں یا قریب قریب انہی الفاظ میں اور ہر ایک کو معلوم ہو جائیں لیکن مضمون شروع کرنے سے پیشتر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کو دو باتیں یاد رکھنی چاہئیں.اول یہ کہ ہر شخص جو سلسلہ میں داخل ہے جس نے میرے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام، آپ کے ذریعہ آنحضرت ا کی اور ان کے ذریعہ خدا کی بیعت کی ہے، وہ اپنی جان، مال، عزت آبرو اولاد، جائداد غرضیکہ ہر چیز خدا رسول اور اس کے نمائندوں کیلئے قربان کرچکا ہے اور اب کوئی چیز اس کی اپنی نہیں، میں یہ کھول کر بتا دینا چاہتا ہوں کہ جس کے دل میں بیعت کے اس مفہوم کے متعلق ذرہ بھی شبہ ہے وہ اگر منافق
خطبات محمود ۲۸۶ سال ۱۹۳۴ء کہلانا نہیں چاہتا تو وہ اب بھی بیعت کو چھوڑ دے.جس بیعت میں نفاق ہو وہ کسی فائدہ کا موجب نہیں ہو سکتی بلکہ وہ ایک لعنت ہے جو اس کے گلے میں پڑی ہوئی ہے.پس جو شخص سمجھتا ہے کہ اس نے میری بیعت کسی شرط کے ساتھ کی ہوئی ہے اور کوئی چیز اس کی اپنی ہے اور اس کیلئے میری اطاعت مشروط ہے وہ میری بیعت میں نہیں اور میں تمام کے سامنے اور پھر اخباروں میں اس خطبہ کی اشاعت کے بعد ان لاکھوں لوگوں کو جو دنیا کے گوشہ گوشہ میں رہتے ہیں، صاف صاف الفاظ میں یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اگر کسی کے دل میں کوئی باقی استغناء باقی ہے تو میں اسے اپنی بیعت میں نہیں سمجھتا.میرا خدا گواہ ہے اور آپ لوگ جو رہے ہیں آپ بھی ناگواہ ہیں کہ میں نے یہ بات پہنچادی ہے.کیا پہنچادی ہے؟ (اس پر چاروں طرف سے آوازیں بلند ہوئیں کہ ہاں پہنچادی ہے) میرا خدا گواہ ہے.اور آپ لوگ مقر ہیں کہ میں نے یہ بات پہنچادی ہے کہ مشروط بیعت کوئی بیعت نہیں ، بیعت وہی ہے جس میں ہر چیز قربان کرنے کیلئے انسان تیار ہو.پس میرا ہر حکم جو خدا تعالیٰ کے احکام کے ماتحت ہو اور جس کے خلاف کوئی نص صریح موجود نہ ہو، اسے ماننا آپ کا فرض ہے.جب اجتہاد کا معاملہ آجائے تو وہی اجتہاد صحیح ہوگا جو میرا ہے اور اس میں لازماً پابندی کرنا آپ کا فرض ہے سوائے اس کے کہ کوئی مجھے مشورہ دے دے باقی تعمیل میں کوئی تامل نہیں ہو سکتا.دوسری چیز یہ ہے کہ قرآن کریم میں جہاں خدا رسول اور اس کے نمائندوں کی اطاعت کا حکم ہے وہیں اُولی الامر کی اطاعت بھی ضروری قرار دے دی گئی ہے اور ان کی اطاعت بھی ضروری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے متواتر یہ تعلیم دی ہے.آپ کی کوئی نہیں جس میں آپ نے یہ حکم نہ دیا ہو اور میں جس قدم پر آپ لوگوں کو لے جانا چاہتا ہوں، وہ ایسا جوش پیدا کر دینے والا ہے کہ ممکن ہے کسی کو حکومت کی اطاعت میں بھی کوئی شک پیدا ہو جائے پس اگر کوئی اس سے آگے نکل جائے یا شبہ کرے تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نافرمانی کرنے والا ہو گا.اگر ہمیں یہ قدم اٹھانا پڑا تو بالکل ممکن ہے ایک وقت تمہیں تلوار کی دھار پر چلنا پڑے.ایک طرف تو میری اطاعت کے متعلق ذرا سی خلش بیعت سے خارج کردینے والی ہوگی اور دوسری طرف ذرا سا عُدوان جو حکومت کی اطاعت سے برگشتہ کردے تمہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم سے منحرف کر دے گا.ان دونوں حدود کے اندر رہتے ہوئے تمہیں ہر قسم کی قربانی کرنی ہوگی اور سلسلہ
خطبات محمود ۲۸۷ سال ۱۹۳۴ء کے وقار کو قائم کرنے کیلئے ہر ایک جدوجہد کرنی پڑے گی.آپ لوگوں کو یاد رکھنا چاہیئے کہ ہمارے لئے یہ وقت بہت نازک ہے.ہر طرف سے مخالفت ہو رہی ہے اور اس کا مقابلہ کرتے ہوئے سلسلہ کی عزت اور وقار کو قائم رکھنا آپ لوگوں کا فرض ہے.ایک دفعہ ایک پرائیویٹ میٹنگ کے موقع پر سردار سکندر حیات خان کے مکان پر چوہدری افضل حق صاحب نے مجھے یہ کہا تھا کہ ہمارا مقصد یہی ہے کہ احمدیہ جماعت کو کچل دیں.پس دشمنوں نے ہمیں چیلنج دیا.ہے.پس جب تک تمہاری رگوں میں خون کا ایک قطرہ بھی باقی ہے تمہارا فرض ہے کہ اس ن کو منظور کرتے ہوئے اس گروہ کے زور کو جو یہ دھمکیاں دے رہا ہے تو ڑ کر رکھ دو اور دنیا کو بتادو کہ تم پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر سکتے ہو، سمندروں کو خشک کرسکتے ہو اور جو بھی تمہارے تباہ کرنے کیلئے اٹھے، وہ خواہ کس قدر طاقتور حریف کیوں نہ ہو اسے خدا تعالیٰ کے فضل سے اور جائز ذرائع سے تم مٹاسکتے ہو کیونکہ تمہارے مٹانے کی خواہش کرنے والا در حقیقت خدا تعالیٰ کے دین کو مٹانے کی خواہش کرتا ہے.(اس پر زور سے نعرہ ہائے تکبیر بلند کئے گئے.تو حضور نے فرمایا کہ خطبہ میں ایسے نعرے لگانا جائز نہیں) اس چیلنج کو ہم نے قبول کرنا ہے.میں نے شروع میں اس چیلنج کو نظر انداز کر دیا تھا اور اسے ایک احمقانہ چیلنج سمجھا تھا.مگر ان کے اخبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ پھر قادیان آکر بھی انہوں نے اس چیلنج کو دہرایا ہے.ان کے جلسہ میں کہا گیا کہ ۲۰ ہزار فرزندان توحید کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اس طرف ڈی اے وی سکول اور اُس طرف مینارۃ المسیح سے ٹکرا رہا تھا.اس بیان میں جو صداقت ہے اسے وہ بھی خوب جانتے ہیں، ہم بھی اور پولیس بھی اچھی طرح جانتی ہے.اگر یہ سمندر منارة المسیح کو ٹکرا رہا تھا تو راستہ میں جو ہندوؤں کا محلہ پڑتا ہے وہ تباہ ہو جانا چاہیئے تھا.اور اُن کی طرف سے ان پر نالشیں ہو جانی چاہئے تھیں لیکن ان لوگوں کو تو مبالغہ آرائی اور جھوٹ سے کام ہے.پیس جیسا کہ حکومت پنجاب کے بعض افراد نے سلسلہ کی ہتک کی ہے، احرار کا بھی چیلنج موجود ہے اور آپ لوگوں کا کام ہے کہ ہتک کا بھی ازالہ کریں اور چیلنج کا بھی جواب دیں.اور ان دونوں باتوں کیلئے جو بھی قربانیاں کرنی پڑیں کریں.اس کیلئے میں آپ لوگوں سے ایسی بھی قربانیوں کا مطالبہ کروں گا جن کا پہلے مطالبہ نہیں کیا گیا اور ممکن ہے پہلے وہ معمولی نظر آئیں مگر بعد میں بڑھتی جائیں اس لئے دنیا کے ہر گوشہ کے احمدی اس کیلئے تیار رہیں اور جب
خطبات محمود ۲۸۸ سال ۱۹۳۴ء آواز آئے تو فوراً لبیک کہیں.ممکن ہے میری دعوت پہلے اختیاری ہو یعنی جو چاہے شامل ہو.اور میں امید کرتا ہوں کہ جس قدر میرا مطالبہ ہوگا، اس سے کم طاقت خرچ نہ ہوگی اور جماعت کا ہر شخص قربانی کیلئے تیار رہے گا.غرض دو فرمانبرداریاں ہیں جن کا میں مطالبہ کرتا ہوں.ان میں سے ایک تو ساری دنیا کو متحد کرنے والی ہے اور دوسری وقتی اور حالات کے مطابق بدلتی رہنے والی ہے.پہلی فرمانبرداری میری ہے جو خدا اور اس کے رسول کے حکم کے ماتحت ہے کیونکہ میں صرف ہندوستان کے لوگوں کا ہی خلیفہ نہیں، میں خلیفہ ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اور اس لئے خلیفہ ہوں افغانستان کے لوگوں کیلئے ، عرب، ایران، چین، جاپان، یورپ، امریکہ، افریقہ سماٹرا، جاوا اور خود انگلستان کیلئے غرضیکہ کُل جہان کے لوگوں کیلئے میں خلیفہ ہوں.اس بارے میں اہل انگلستان بھی میرے تابع ہیں، دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جس پر میری مذہبی حکومت نہیں، سب کیلئے یہی حکم ہے کہ میری بیعت کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں داخل ہوں.لیکن دوسرا حکم وقتی ہے اور حالات کے ماتحت بدلتا رہتا ہے.آج یہاں انگریزوں کی حکومت ہے اور ہم اس کے وفادار ہیں لیکن کل یہ بدل گئی تو ہم اس نئی حکومت کے وفادار ہوں گے.اس کے بالمقابل خلافت نہیں بدل سکتی.اس وقت میں خلیفہ ہوں اور میری موت سے پہلے کوئی دوسرا خلیفہ نہیں ہو سکتا اور تمام دنیا کے احمدیوں کیلئے میری ہی اطاعت فرض ہے.ہندوستانیوں پر بھی میری اطاعت ویسی ہی فرض ہے جیسے اہل ایران یا اہل امریکہ یا دنیا کے کسی دوسرے ملک کے رہنے والوں پر لیکن ان کیلئے انگریزوں کی اطاعت فرض نہیں.اہل افغانستان پر میری اطاعت فرض ہے مگر انگریزوں کی نہیں بلکہ ان کی جگہ اپنی حکومت کی اطاعت فرض ہے.اسی طرح اہل امریکہ پر میری اطاعت فرض ہے مگر انگریزوں کی نہیں.اس اطاعت میں احمدی متفرق ہیں لیکن میری اطاعت پر سب متفق ہیں.افغان ایرانی ڈچ، شامی، مصری وغیرہ اپنے اپنے ہاں کی حکومتوں کے مطیع ہیں مگر وہ مرکزی نقطہ جس پر سب متفق ہیں، وہ میری اطاعت ہے اس میں جو تفرقہ کرتا ہے وہ فاسق ہے اور جماعت کا ممبر نہیں.جہاں میں آپ لوگوں کو اس بات کی ہدایت کرتا ہوں کہ کسی جوش کی حالت میں آپ میں سے کوئی بھی قانون شکنی کی طرف توجہ نہ کرے.وہاں حکومت کو بھی اس نہایت ضروری
خطبات محمود ۲۸۹ سال ۱۹۳۴ء مرکی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے افسران کو شرافت اور اخلاق کی تعلیم دے.ہمارا گزشتہ تجربہ بتاتا ہے کہ بعض افسران نے نہایت ہی بُرا نمونہ دکھایا جس کے متعلق میں بعد میں ذکر کروں گا لیکن فی الحال صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ ہماری طرف سے مطالبہ نہیں کہ کوئی نفس پرستی کی وجہ سے کہہ دے کہ رعایا ہو کر تمہارا کیا حق ہے کہ مطالبہ کرو.اول تو حکومت نے اس امر کو تسلیم کیا ہے کہ رعایا کو مطالبات کرنے کا حق حاصل ہے لیکن اگر اس کو جانے بھی دیا جائے تو میں کہوں گا یہ میرا مطالبہ نہیں بلکہ سیکرٹری آف سٹیٹ فار انڈیا نے اور وائسرائے ہند لارڈ چیمسفورڈ نے جو مشترکہ رپورٹ کی تھی، اس میں آئی.سی.ایس والوں سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنے اخلاق درست رکھیں اور پبلک سے ہتک آمیز سلوک نہ روا رکھا کریں اگر وہ ایسا کریں گے تو حکومت کو کمزور کرنے والے ہوں گے.پس یہ وہ مطالبہ ہے جو ان کے افسران بالا نے ان سے کیا ہے، جو ان کی ملازمت کی ضروری شرط ہے، جسے اگر وہ پورا نہیں کرتے تو خائن اور بددیانت ہیں.اب پہلے میں وہ حالات بیان کرتا ہوں جو اس خطبہ کا اصل باعث ہیں.باہر کی جماعتوں کو ابھی تک کچھ حال معلوم نہیں کیونکہ ہم نے پوری کوشش کی ہے کہ طبائع میں جوش پیدا نہ ہو اور اس لئے ابھی تک کچھ بھی بیان نہیں کیا.اب میں ایسی ترتیب کے ساتھ تمام واقعات اس طرح بیان کرتا ہوں کہ جماعت کے افراد دوسری پبلک اور حکومت سب آسانی سے سمجھ سکیں اور جو نتائج میں ان سے نکالوں انہیں بھی اچھی طرح سمجھ سکیں.میں کوشش کروں گا کہ نہایت اطمینان کے ساتھ اور بغیر کسی جوش کے سب واقعات دُہرا دوں تا میں بھی غلطی میں نہ پڑوں اور آپ لوگ بھی غلطی میں مبتلاء نہ ہوں.سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس جلسہ کی غرض کیا تھی.ہمیں پہلی شکایت یہ ہے کہ جس رنگ میں یہ جلسہ کیا گیا ہے، حکومت کا فرض تھا کہ اسے روکتی.ہم سب سے زیادہ اس اصل کے قائل ہیں کہ ہر شخص کو تبلیغ کا حق ہونا چاہیے بلکہ جو مضمون میری طرف سے آئندہ اصلاحات کے متعلق حکومت کو پیش کیا گیا ہے، اس میں یہ بات وضاحت سے درج ہے کہ ہر شخص کو تبلیغ کا حق حاصل ہونا چاہیئے اس لئے میری طرف سے اس بات کا کہا جانا ناممکن ہے.کہ کیوں کسی کو اپنے عقائد کی تبلیغ کی اجازت دی گئی.اگر احرار یہاں تبلیغ کیلئے آتے تو میں ہرگز یہ امید نہ کرتا کہ حکومت انہیں روک دے کیونکہ اس صورت میں میں اپنے اقوال اور
خطبات محمود ۲۹۰ سال ۱۹۳۴ء خیالات کی خود مخالفت کرنے والا گھر تا.مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ تبلیغی جلسہ نہ تھا اور یہ ایسی واضح بات ہے کہ گورنمنٹ کیلئے بھی اس کا سمجھنا مشکل نہ تھا کیونکہ اس کا حکم تھا اور اس نے ہم سے مطالبہ کیا تھا کہ کوئی احمدی ان کے جلسہ میں نہ جائے اور تبلیغ ہمیشہ دوسرے کو کی جاتی ہے اگر احمدیوں کو وہاں جانے کی ہی اجازت نہ تھی تو تبلیغ کسے کرنی تھی.حکومت کا ہم سے یہ مطالبہ کرنا اس امر کا ثبوت ہے کہ وہ تسلیم کرتی ہے کہ یہ تبلیغی جلسہ نہ تھا.پھر جلسہ کی دوسری غرض تربیت ہوتی ہے.تربیت کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ کوئی بڑا عالم اس جگہ ہو یا وہ اس تحریک کا مرکز ہو.لوگ ایک وقت میں وہاں جمع ہوں اور اکٹھے فائدہ اٹھا سکیں اور ایک مقررہ وقت پر آکر باتیں سُن جائیں جیسا کہ ہمارا سالانہ جلسہ ہوتا ہے.یہاں خلیفہ وقت دوسرے ذمہ دار کارکن اور لیڈر ہوتے ہیں جو جماعت کو اپنے اپنے خیالات تعلیمی سے مستفید کرتے ہیں.خلیفہ ساری جماعت تک نہیں پہنچ سکتا، علماء نہیں پہنچ سکتے اس لئے ایک موقع پر سب لوگ آکر جمع ہو جاتے ہیں اور سُن جاتے ہیں.لیکن یہاں تو ان کا کوئی عالم نہ تھا، سننے والے اور سنانے والے سب باہر سے آئے تھے اور اس صورت میں وہ زیادہ آسانی کے ساتھ لاہور یا امرتسر میں جلسہ کر سکتے تھے.لوگ یہاں امرتسر، لاہور، جالندھر وغیرہ شہروں سے آئے، بعض پشاور اور ملتان وغیرہ دور کے مقامات سے بھی محدود تعداد میں شریک ہوئے لیکن یہاں وہ کس کی تقریریں سننے آئے تھے.ماموں کشمیری کی، نورے کشمیری کی یا عزیز کشمیری کی.قادیان کا وہ کون سا باشندہ ہے جس کی تقریریں سننے کیلئے آئے تھے.مولوی عطاء اللہ صاحب امرتسر میں، مولوی ظفر علی صاحب اور مولوی مظہر علی صاحب لاہور میں مولوی حبیب الرحمن صاحب لدھیانہ میں رہتے ہیں.انہی لوگوں نے تقریریں کیں اس لئے اس اجتماع کیلئے بہترین جگہ لاہور یا امرتسر ہو سکتی تھی.اگر وہاں جلسہ ہوتا تو ہیں، پچھتیس ہزار لوگ بھی جمع ہو سکتے تھے اور اس طرح تعلیم و تربیت بھی اچھی طرح ہو سکتی تھی.اور بہ نسبت قادیان کے رہائش اور طعام کا انتظام بھی بخوبی ہو سکتا تھا.پس سوال یہ ہے کہ جب تقریریں کرنے والے اور سننے والے دونوں باہر سے آئے تھے تو جلسہ یہاں کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی.یہ ایک ایسی عام بات ہے کہ حکومت اسے بخوبی سمجھ سکتی ہے.جس صورت میں لیکچرار اور سامعین دونوں باہر سے آئے اور جس صورت میں کہ انتظام کا بھی مقامی لوگوں پر انحصار نہ تھا اس جلسہ کی غرض نہ تو تعلیمی ہو سکتی ہے نہ تبلیغی اور گورنمنٹ نے اس بات کو تسلیم
خطبات محمود ۲۹۱ سال ۱۹۳۴ء کر لیا ہے کیونکہ ہمیں وہاں جانے سے روک دیا گیا اور سننے سنانے والے دونوں باہر سے آئے.پس ان لوگوں کا یہاں آنا سوائے فساد کے کسی اور غرض سے نہیں ہو سکتا.ہم جو جلسے کرتے ہیں وہ تبلیغی ہوتے ہیں، ہم کبھی یہ نہیں کہتے کہ پولیس مقرر کرو کوئی ہماری تقریریں سننے نہ آئے بلکہ ہمارا ڈھنڈورہ یہ ہوتا ہے کہ لوگو آؤ اور سنو اور سمجھو لیکن ان کا ڈھنڈورہ یہ تھا کہ ہرگز نہ آؤ.پس ہمارے جلسوں کے اغراض واضح ہیں.مگر ان کا یہ حال تھا کہ ایک گاؤں سکو ہا کو ایک احمدی نوجوان جا رہا تھا کیونکہ سکوہا جانے کا وہی رستہ ہے.اس کی جیب میں دو اشتہار تھے جنہیں دیکھ کر ان لوگوں نے جو قادیان فتح کرنے آئے تھے، شور مچادیا کہ یہ ٹریکٹ تقسیم کر رہا ہے.فرض کرو وہ شخص ٹریکٹ ہی تقسیم کرنے کیلئے گیا تھا لیکن اگر ان کی غرض تبلیغ ہوتی تو وہ اس پر اس قدر شور نہ مچاتے بلکہ خوش ہوتے کہ ایک آدمی آگیا ہے جسے ہم تبلیغ کر سکیں گے.مگر انہوں نے تو شور مچادیا کہ کیوں آیا ہے.اسی طرح گورنمنٹ کا حکم تھا اور اعلان تھا کہ وہ لوگ احمدیوں کے محلوں میں نہ آئیں لیکن ہماری طرف سے ایسا کوئی اعلان نہ تھا.وہ لوگ برابر آتے رہے اور ہمارے سب آدمی مقرر تھے کہ آنے والوں کے ساتھ پھریں.انہیں اپنے ادارات دکھائیں اور حسب موقع تبلیغ بھی کریں.پس یہ صاف ثابت ہے کہ ان کا نیہ جلسہ نہ تبلیغی تھا نہ تعلیمی، صرف فساد کیلئے تھا اور ان حالات میں کیا گورنمنٹ کا فرض نہ تھا کہ اسے روکتی.موضع معین الدین پور ضلع گجرات میں حکومت نے ہمارا جلسہ روک دیا تھا.اور انسپکٹر پولیس نے یہاں تک کہا تھا کہ اگر احمدی اس گاؤں میں داخل ہوئے تو میں فائر کردوں گا.ہم نے سپرنٹنڈنٹ پولیس اور ڈپٹی کمشنر ضلع کو اس کی اطلاع دی بلکہ پنجاب گورنمنٹ کو بھی اطلاع دی مگر کسی نے کوئی توجہ نہیں کی اور یہی جواب دیا جاتا رہا کہ وہاں احمدی تھوڑے ہیں اور دوسرے لوگ غالب ہیں.مگر یہاں احمدی غالب اور دوسرے لوگ تھوڑے تھے.احمدی یہاں سات ہزار کے قریب ہیں اور دوسرے لوگ صرف سات آٹھ سو ہیں.پھر یہ لوگ مالک نہیں ہیں، ان کے گزاروں کا انحصار ہم پر ہے، ترقی بھی ہمارے ذریعہ سے ہو رہی ہے، تعلیمی انسٹی ٹیوشنز بھی یہاں ہماری ہی ہیں غرضیکہ جو فوقیت معین الدین پور میں دوسروں کو حاصل تھی، اس سے بہت بڑھ کر ہمیں یہاں حاصل ہے، پھر یہ ہمارا مرکز ہے، یہاں ہمارے مذہبی مقامات ہیں مگر وہاں جلسہ کو روکنے کے متعلق ہم نے
خطبات محمود ۲۹۲ سال ۱۹۳۴ء سپرنٹنڈنٹ پولیس بلکہ پنجاب گورنمنٹ کو توجہ ولائتی جہاں تک مجھے یاد ہے یہی چیف سیکرٹری اس وقت بھی تھے مگر کسی نے کوئی حرکت نہیں کی لیکن یہاں انہیں انصاف اور نیوٹریلٹی کی سو جھی.اور یہی کہتے رہے کہ کیا کریں کیونکر روکیں، ہمیں تو انصاف کرنا چاہیے.حکومت کے پاس رپورٹیں کی گئیں کہ ان لوگوں نے اپنی تقریروں میں کہا کہ ہم مینارہ کو گرادیں گے اور احمدی دیکھیں گے کہ ان کے خلیفہ کی لاش خون میں لوٹتی ہوگی.اس تقریر کی نقل حکام کو بھیجوا دی گئی تھی قریباً ایک مہینہ ہوا مگر حکومت کے عدل و انصاف میں کوئی حرکت نہیں پیدا ہوئی.کیا ہم نے بھی کہا تھا کہ معین الدین پور کے سیدوں کی لاشیں خون میں لوٹتی ہوئی نظر آئیں گی.پس حکومت نے اس جلسہ کی اجازت دے کر بڑی سخت سیاسی غلطی کی ہے.خیر جب ہم نے دیکھا کہ حکومت کچھ نہیں کرتی تو صدرانجمن احمدیہ نے ایک علیحدہ محکمہ بنادیا تاکہ وہ دیکھے کہ یہ لوگ کیا کرنے لگے ہیں اور مرزا شریف احمد صاحب کو ناظم کارِ خاص مقرر کیا گیا.اس دوران میں حکومت کو اطلاعات دی گئیں، حکام بالا کو بھی اور مقامی حکام کو بھی حالات سے واقف کرانے کی کوششیں کی گئیں مگر ہمارے اخبارات اس بارے میں خاموش رہے تاکہ جماعت میں شورش پیدا نہ ہو.گورنمنٹ نے اقرار کیا ہے اپنی اس چٹھی میں جو اس وقت میرے ہاتھ میں ہے کہ اسے اطلاع تھی کہ اس موقع پر فساد کا بڑا خطرہ ہے.ہمیں بھی باہر کے دوستوں سے چٹھیاں آرہی تھیں کہ یہاں ایسے جلسے ہو رہے ہیں جن سے ہوتا ہے کہ یہ لوگ بہت فساد کرنا چاہتے ہیں اور ہمارے ریکارڈ میں ایسی اطلاعات موجود ہیں.مگر باوجود ان سب باتوں کے ہم نے اخبارات میں ان باتوں کا ذکر نہیں کیا.اور اخبار الفضل نیز دوسرے اخبارات کے فائل گواہ ہیں کہ اس کے متعلق ہماری طرف سے ایک لفظ بھی نہیں لکھا گیا اور اس جلسہ کیلئے جماعت کو کوئی تحریک نہیں کی گئی بلکہ مجھ سے پوچھا گیا تو میں نے یہی جواب دیا کہ ہمیں کیا ضرورت ہے خواہ مخواہ شورش کریں.اس کے متعلق ہمارے دوستوں پر اتنا اثر تھا کہ اخبار الفضل نے بعض وہ باتیں جو حکام کے خلاف لکھی جانی چاہئیے تھیں وہ بھی نہیں لکھیں اور اس پر میں نے ناراضگی کا اظہار بھی کیا.معلوم غرضیکہ میں یہی کہتا رہا کہ ہمیں گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں.باہر سے لوگ گھبراہٹ میں خطوط لکھتے تھے کہ یہاں شورش بہت زیادہ ہے مگر الفضل میں کچھ بھی نہیں ہوتا ہم حیران ہیں کہ کیا معاملہ ہے.مگر ایسے دوستوں کو یہی جواب دیا جاتا رہا کہ آپ لوگ صبر سے کام لیں
خطبات محمود ۲۹۳ سال ۱۹۳۴ء اور ہم پر اعتبار کریں کہ سلسلہ کی حفاظت کیلئے جو کچھ ہم کر رہے ہیں، ٹھیک کر رہے ہیں.غرضیکہ ایک لمبا عرصہ ہماری طرف سے کوئی کارروائی نہیں ہوئی اور نہ حکومت نے ہمیں کوئی اطلاع دی حتی کہ ستمبر میں ایک واقعہ ہوا جس کا یہاں بیان کر دینا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب ناظر امور عامہ کو جو ان دنوں شملہ میں تھے کمشنر لاہور ڈویژن کی طرف سے کہ وہ بھی وہیں تھے ، چٹھی ملی کہ میں نے ایک ضروری بات کہنی ہے، آپ کسی وقت مجھے آکر ملیں.اس کے جواب میں خانصاحب سترہ ستمبر کو ان سے جاکر ملے.اور کمشنر صاحب نے ان سے بعض باتیں کیں جن کی تفصیل خانصاحب نے اسی روز لکھ کر مجھے بھیج دی.وہ مفصل چٹھی اب بھی موجود ہے اس میں خانصاحب نے لکھا ہے کہ آج کمشنر صاحب سے ملاقات ہوئی اور احراریوں کے جلسہ کے متعلق گفتگو ہوئی اور انہوں نے خواہش کی کہ اس موقع پر احمدیوں کی طرف سے کوئی بات نہ ہو جس سے اشتعال پیدا ہو.خانصاحب نے کہا کہ آپ مطمئن رہیں، ہماری طرف سے کوئی ایسی بات ہرگز نہ ہوگی اگر ہم خود حفاظتی کی تدابیر کریں تو اس پر غالباً آپ کو کوئی اعتراض نہ ہوگا.انہوں نے کہا کہ نہیں.اس ملاقات کی تفصیلی رپورٹ خانصاحب نے مجھے بھجوائی جو موجود ہے اور اس میں ایک لفظ بھی نہیں جس سے اس امر کی وضاحت ہوتی ہو کہ کمشنر صاحب نے باہر سے احمدیوں کو بلانے کی ممانعت کی تھی اور چونکہ خانصاحب نے اسی دن یہ رپورٹ لکھی اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ وہ اتنی اہم بات کو اس قدر جلدی نہ بھول سکتے تھے.اگر کمشنر صاحب نے اسی بات کیلئے ان کو بلایا ہوتا تو کیسے ممکن تھا کہ وہ اور باتیں تو لکھ دیتے مگر وہ بات جو ملاقات کی اصل غرض تھی، اسے بھول جاتے.پھر کچھ روز بعد تو بھول جانا ممکن ہے مگر اسی روز بھول جانا بالکل عقل کے خلاف ہے.مجھے اس تفصیل کو بیان کرنے کی اس لئے ضرورت ہوئی ہے کہ اٹھارہ تاریخ کو کمشنر صاحب یہاں آئے تھے اور انہوں نے جماعت کے نمائندوں سے شکایت کی تھی کہ جب میں نے بالوضاحت خانصاحب کو باہر سے آدمی ہلوانے سے روک دیا تھا تو پھر آپ نے کیوں آدمی بلوائے.خان صاحب نے اسی وقت ان سے کہہ دیا کہ میں آپ سے اختلاف پر مجبور ہوں.نہ میں نے آپ سے کہا تھا کہ ہم آدمی بلوائیں گے اور نہ آپ نے منع کیا تھا.آپ نے شورش والے افعال سے اجتناب کی نصیحت کی اور میں نے خود حفاظتی کی تدابیر کی اجازت لی.خود حفاظتی سے میرا منشاء باہر سے آدمی بلانے کا تھا مگر میں نے اس کی
خطبات محمود ۲۹۴ سال ۱۹۳۴ء تشریح نہیں کی تھی.اور آپ نے اس سے منع نہیں کیا تھا ہاں اجازت بھی نہ دی تھی.کیونکہ اس کا ذکر ہی نہیں آیا.چونکہ باوجود کمشنر صاحب کے یاد دلانے کے خان صاحب کا حافظہ اب بھی ان کے خط کی رپورٹ کی ہی تائید کرتا ہے اور ادھر کمشنر صاحب بھی مصر ہیں میں سمجھتا ہوں غلط فہمی اس سے پیدا ہوئی ہے کہ کمشنر صاحب نے صرف یہ کہا کہ اشتعال نہ پیدا ہو اور دل میں اس کا مفہوم یہ سمجھا کہ باہر سے آدمی نہ بلوائے جائیں اور خانصاحب نے خود حفاظتی کی اجازت کے ماتحت یہ سمجھا کہ بیشک باہر سے آدمی بلوائے جائیں.یہ گفتگو گول مول ہوئی اور وضاحت کسی نے بھی نہ کی.میرے نزدیک آئندہ ہمارے آدمیوں کو احتیاط کرنی چاہیے کہ ایسی گول مول گفتگو کبھی نہ کریں.اگر خانصاحب کو پہلے کبھی ایسے ہاتھ لگے ہوئے ہوتے تو وہ کمشنر صاحب سے کہتے کہ آپ مجھے ایک لسٹ لکھوا دیں کہ ہمیں کیا کیا نہ کرنا چاہیئے.میں وہ لسٹ مرکز میں بھجوادوں گا اور مجھے پورا پورا یقین ہے کہ حکومت کے ساتھ جماعت کی طرف سے پورا پورا تعاون کیا جائے گا.بالکل ممکن ہے کہ اگر اس وقت تفصیل اللہ لکھوائی جاتی تو اس میں یہ بات نہ ہوتی.یا اگر ہوتی تو ہمیں دھوکا نہ لگتا.بہرحال یہ غلط فہمی ہوئی اور اس میں بھی حکومت کی غلطی ہے کیونکہ جب وہ ہم سے استمداد چاہتی ہے تو اس کا فرض ہے کہ کھول کر بتاتی کہ وہ کیا چاہتی ہے.غرض حالات اسی طرح قائم رہے اور پندرہ اکتوبر تک نہ تو پنجاب گورنمنٹ کی طرف سے اور نہ لوکل حکام کی طرف سے ہمیں کوئی اطلاع یا ہدایت موصول ہوئی پندرہ اکتوبر کے غریب مجھے بہت سے ایسے خطوط موصول ہوئے جن میں ذکر تھا کہ فساد کا اس موقع پر خطرہ ہے.اس پر بارہ بجے کے قریب میں نے پرائیویٹ سیکرٹری کو بلا کر ہدایت کی کہ کار خاص کو اطلاع کردیں کہ جلسہ احرار کے موقع پر خود حفاظتی کے طور پر دو اڑھائی ہزار آدمی بلوالیں جو صرف ضلع گورداسپور کے ہوں.یہ ہدایت ساڑھے بارہ بجے ناظم صاحب کار خاص کو ملی اس کے بعد میں نماز کیلئے چلا گیا نماز کے بعد کچھ لوگ ملاقات کیلئے آگئے.اس کے بعد تین بجے کے قریب پرائیویٹ سیکرٹری نے اطلاع دی کہ مرزا معراج الدین صاحب سپرنٹنڈنٹ سی.آئی.ڈی لاہور کسی کام سے یہاں آئے تھے اور مجھ سے ملنا چاہتے ہیں.مرزا صاحب مجھ سے ۱۹۱۷ء سے ملنے والے ہیں وہ دو دفعہ یہاں آچکے ہیں.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں آئے تھے اور آپ کے ساتھ نماز بھی ادا کی تھی.اس وقت آپ بچے تھے.ایک بہت
خطبات محمود ۲۹۵ سال ۱۹۳۴ء دفعہ بعد میں بھی آئے ہیں اور لاہور میں بھی مجھ سے کئی دفعہ مل چکے ہیں.ان کی طرف.جب ملاقات کی خواہش کی گئی تو میں نے بڑی خوشی سے کہا کہ تشریف لے آئیں اور چونکہ میں نے سنا تھا کہ مجسٹریٹ علاقہ بھی ساتھ ہیں، میں نے ناظم صاحب کار خاص کو بھی بلوا بھیجا کہ کوئی بات ریکارڈ کے متعلق پیش ہو تو وہ بتا سکیں بلکہ میں نے مرزا شریف احمد صاحب کو کہلا بھیجا کہ وہ مرزا معراج الدین صاحب کو ساتھ لے آئیں.خیر وہ آئے اور میں نے دریافت کیا کہ آپ کیسے آئے ہیں.انہوں نے کہا میں سرکاری کام سے گورداسپور آیا تھا اور وہاں سے خیال آیا کہ قادیان بھی ہوتا جاؤں.ان سے گفتگو شروع ہو گئی اور خود بخود ہی باتیں احراریوں کی شورش کے موضوع کی طرف آگئیں.میں نے ان سے پوچھا کہ آپ مجھ سے کس حیثیت سے گفتگو کر رہے ہیں.سپرنٹنڈنٹ سی- آئی ڈی کی حیثیت سے یا مرزا معراج الدین کی حیثیت سے انہوں نے یقین دلایا کہ نہیں میں تو ذاتی حیثیت سے ملنے کیلئے آیا ہوں.پھر میں نے ان سے یہ بھی کہا کہ جب گورداسپور میں آپ کا تعلق نہیں تو وہاں کیسے آئے تھے.انہوں نے کہا کہ مرکز کو علاقہ کی فکر بہر حال ہوتی ہے اور میں دریافت حالات کیلئے آیا تھا.پھر ان سے بے تکلفی سے گفتگو ہوتی رہی میں نے بھی وضاحت سے اپنے خیالات ان کے سامنے پیش کر دیئے اور وہ بھی دوستانہ رنگ میں مفید مشورے دیتے رہے کیونکہ وہ سی.آئی ڈی کے پرانے افسر ہیں اور لمبا تجربہ رکھتے ہیں.گفتگو کے دوران میں نے اس شبہ کا اظہار کیا کہ حکومت کی طرف سے ہماری مخالفت کی جارہی ہے.اس پر انہوں نے کہا کہ میں آپ کو اپنے تجربہ کی بناء پر کہہ سکتا ہوں کہ اس معاملہ میں حکومت بالکل نیوٹرل ہے.وہ قطعاً آپ کے خلاف نہیں اور نہ ہی احرار کے خلاف ہے.گورداسپور کے حکام کے متعلق میں نہیں جانتا ان کے متعلق آپ بہتر سمجھ سکتے ہیں لیکن اپنے فرائض منصبی کے لحاظ سے مجھے چونکہ ہر وقت پنجاب گورنمنٹ سے تعلق ہے، اس لئے میں اس کی نسبت آپ کو یقین دلا سکتا ہوں کہ حکومت پنجاب کے صاف اور واضح احکام ہیں کہ اس جھگڑے میں ہرگز کسی فریق کی طرفداری نہیں کرنی چاہیے.میں نے کہا کہ یہاں تو یہ نہیں ہو رہا بلکہ حکام کا ایک حصہ احرار کی طرفداری کر رہا ہے.اس موقع پر پھر میں نے ہنس کر پوچھا کہ کیا آپ سپرنٹنڈنٹ سی.آئی ڈی کے طور پر تو گفتگو نہیں کر رہے.انہوں نے پھر اس سے انکار کیا اور کہا کہ میں جیسا کہ بتا چکا ہوں، پرائیویٹ حیثیت میں بات چیت کر رہا ہوں.اس پر میں نے مقامی حکام کے متعلق اپنے
خطبات محمود ۲۹۶ سال ۱۹۳۴ء پرو وه شبہات تفصیل سے بیان کئے اور بعض واقعات کا بھی ذکر کیا اور میرا آخری فقرہ یہ تھا کہ ہم تو یہ اثر ہے کہ اس وقت اس علاقہ میں احرار کی حکومت ہے.ان کے جھوٹ کو بھی سچ سمجھا جاتا ہے اور ہمارے آدمیوں کے سچ کو بھی جھوٹ قرار دیا جاتا ہے آپ حکومت کو نیوٹرل بتاتے ہیں.کاش وہ نیوٹرل ہوتی لیکن وہ تو احرار کی مدد کر رہی ہے اسے یا تو نیوٹرل رہنا چاہیے اور یا پھر ہمیں احراریوں کے رحم پر چھوڑ کر الگ ہو جانا چاہیئے.یہ کیا طریق ہے کہ ایک طرف تو وہ ہمارے ہاتھ باندھتی ہے اور دوسری طرف ان کو سر پر چڑھاتی ہے اور ہمیں قانون میں جکڑ کر ان کے آگے پھینکتی ہے.اگر وہ نیوٹرل نہیں رہ سکتی تو بیشک ان کے رحم پر ہمیں چھوڑ دے اور اگر احراری ہم سب کو بھی قتل کردیں گے تو ہم کبھی حکومت کا شکوہ نہیں کریں گے.اس مسکرائے اور کہا کہ میں خود اس مضمون کی طرف آنا چاہتا تھا میں نے سنا ہے کہ آپ نے باہر سے کچھ آدمی بلوائے ہیں.اور ایک ایسی تحریر ضلع میں مجھے دکھائی یا شاید کہا کہ بتائی گئی ہے.میں نے انہیں کہا کہ میں نے ایسی ہدایت آج بارہ بجے جاری کی ہے آپ تک سے پہنچ گئی.میں نے میرزا شریف احمد صاحب سے کہا کہ آپ کے پاس میری ہدایت پہنچی ہے.انہوں نے کہا ہاں پہنچی ہے.میں نے کہا ابھی منگوائیں.وہ ان کی جیب میں ہی تھی انہوں نے جھٹ نکال کر دکھادی.اس پر تاریخ اور وصولی کا وقت درج تھا.انہوں نے کہا کہ جب آپ کی طرف سے کوئی ایسی تحریر گئی نہیں تو محکام ضلع نے کس طرح کہا کہ ایسی کوئی تحریر باہر گئی ہے.بہر حال انہوں نے کہا کہ اگر میں اپنے طور پر سپرنٹنڈنٹ پولیس اور ڈپٹی کمشنر سے مل کر پولیس کا کافی اور خاطر خواہ انتظام کرادوں تو کیا پھر بھی آپ کو باہر سے آدمی بلانے کی ضرورت ہوگی.میں نے کہا یہاں کی مقامی پولیس کو تو میں احراریوں سے بھی بدتر سمجھتا ہوں.ان لوگوں کا تو یہ حال ہے کہ اگر ہم میں سے کسی کو احراری قتل بھی کردیں تو یہ یہی کہیں گے کہ ان کے پچاس آدمی احرار پر حملہ آور ہوئے تھے اور انہوں نے خود حفاظتی کے طور پر قتل کر دیا ہے اور اس طرح ہمارے ہی آدمیوں کو گرفتار کریں گے.انہوں نے کہا کہ اگر انگریز سپرنٹنڈنٹ ہر وقت یہاں رہے کیا پھر آپ کی تسلی ہو جائے گی.میں نے ان سے کہا کہ ہان اگر انگریز افسر مقرر ہو جائیں تو پھر ہمیں کوئی ضرورت نہیں.انہوں نے کہا کہ میں انتظام کرانے کی کوشش کروں گا کہ انگریز افسر یہاں رہے اور اس کے ساتھ آپ کا ایک آدمی رہے.آپ مرزا شریف احمد صاحب کو میرے ساتھ بھیج دیں.میں D.C اور S.P سے بات
خطبات محمود ۲۹۷ سال ۶۱۹۳۴ چیت کرلوں اور پھر اگر وہ اس تجویز کو منظور کرلیں تو آپ یہ حکم جاری نہ کریں.میں نے مرزا شریف احمد صاحب کو ان کے ساتھ جانے کی ہدایت کردی اور یہ باتیں کر کے وہ چلے گئے.شام کے وقت مجھے معلوم ہوا کہ مرزا شریف احمد صاحب کے مکان پر کوئی میٹنگ ہے جس میں وہ بھی شامل ہیں.میں حیران ہوا کہ یہ کیا معالمہ ہے.صبح میں نے فیروز پور جاتا تھا اس لئے سویرے ہی میں نے ان کو بلوا بھیجا کہ وہ کیوں مرزا معراج الدین صاحب کے ساتھ نہیں گئے.انہوں نے کہا کہ مرزا صاحب کو دیر ہو گئی تھی.(دراصل وہ میرے پاس سے ہی دیر سے گئے تھے.اور میں نے عصر کی نماز پانچ بجے آکر پڑھائی تھی اس دیر ہو جانے کی وجہ سے وہ مجھے نہیں لے جاسکے.وہ کہتے تھے کہ ڈپٹی کمشنر کے ہاں آج شب میرا کھانا ہے.اور انگریز جی کھانے میں عام طور پر دیر ہو جایا کرتی ہے.گیارہ بارہ بجے اگر کھانے سے فارغ ہوئے تو اس وقت کیا باتیں ہوں گی.میں خود ہی ان سے بات چیت کر کے آپ کو اطلاع کردوں گا اور جب آپ کو اطلاع آجائے کہ آپ کے حسب منشاء تسلی بخش انتظامات ہو گئے ہیں تو آپ باہر سے آدمی نہ بلائیں اور میاں شریف احمد صاحب نے مجھے یہ بتایا کہ مرزا معراج الدین صاحب کے جانے کے بعد ایک غلطی معلوم ہوئی اور وہ یہ کہ چوہدری فتح محمد صاحب نے جو عارضی طور پر ناظر امور عامہ تھے ضلع گورداسپور کی بعض جماعتوں کے ذمہ کچھ تعداد لگائی ہے کہ اتنے آدمی یہاں بھیج دیر دیں اور لاہور و امرتسر کی جماعتوں کو تیار رہنے کا حکم دیا گیا ہے کہ اگر بلایا جائے تو وہ بھی آجائیں.میں نے کہا کہ یہ تو بڑی غلطی ہوئی ہے.ناظر امور عامہ کو چاہیے تھا کہ جب اس کام کو ان کے صیغہ سے علیحدہ کر کے اس کیلئے ایک علیحدہ افسر مقرر ہو چکا ہے تو وہ خود دخل نہ دیتے.دراصل چونکہ یہ انتظام نیا تھا، چوہدری صاحب کو خیال نہ رہا کہ یہ کام اب امور عامہ سے متعلق نہیں ہے.بہر حال میں نے کہا کہ مرزا معراج الدین صاحب کو اس غلطی کی فوراً اطلاع دی جائے تا وہ دوسرے افسروں کے سامنے جھوٹے نہ ٹھہریں اور ان کی خیر خواہی کا نہیں ہونا چاہیے کہ وہ دوسروں کے سامنے غلط کو ثابت ہوں.چنانچہ مرزا شریف احمد صاحب نے مجھے کہا کہ میں ابھی خاص آدمی بھیج کر ان کو اطلاع کر دیتا ہوں.اس کے بعد میں فیروز پور چلا گیا اور اسی تاریخ کو خاص آدمی کے ذریعہ مرزا معراج الدین صاحب کو غلطی کی بھی اطلاع کر دی گئی اور یہ بھی لکھ دیا گیا کہ ان کے وعدہ کے مطابق انتظام ہو جانے پر اس سرکلر کو منسوخ کردیا جائے گا.میرے بعد ڈپٹی کمشنر اور
خطبات محمود ۲۹۸ سال ۱۹۳۴ء سپرنٹنڈنٹ پولیس یہاں آئے.چوہدری فتح محمد صاحب خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب اور میاں شریف احمد صاحب کو بلایا اور باتیں کیں.ہمارے آدمیوں نے اپنے بعض عذرات پیش کئے جیسا کہ انسان کا قاعدہ ہے کہ ایسے موقع پر اپنے شکوے بیان کرتا ہی ہے.لیکن آخر میں قطعی اور غیر مشتبہ الفاظ میں یہ کہہ دیا کہ ہم جاری شدہ سرکلر کو منسوخ کردیں گے اور اس انتظام پر ہمیں پوری تسلی ہے.یہ سولہ اکتوبر کی ڈاک جانے کے بعد کے واقعات ہیں.اس کے بعد سترہ کو پہلی ڈاک میں جماعتوں کو اطلاع دے دی گئی.وہ اطلاع جلسہ سے پہلے جماعتوں کو پہنچ سکتی تھی.چنانچہ وہ پہنچی اور کوئی آدمی اس سرکلر کے ماتحت قادیان نہیں آیا.یہ چٹھی جو پہلی ہدایت کو منسوخ کرنے کے متعلق تھی، ڈپٹی کمشنر اور دوسرے حکام کو بھی بھجوادی گئی.غرضیکہ افسران سے بالوضاحت کہہ دیا گیا کہ ہم باہر سے آدمی نہیں بلائیں گے اور اس کیلئے چٹھی بھی جاری کردی گئی اور ہم اطمینان سے بیٹھ گئے کہ ہم نے حکومت سے پوری طرح تعاون کرلیا ہے.میں باہر گیا ہوا تھا سترہ کی شام کو قادیان آیا رستہ میں لاہور، امرتسر وغیرہ مقامات پر کئی لوگ ملتے اور دریافت کرتے رہے کہ کیا ہمارے پہنچنے کی ضرورت ہے.میں نے انہیں یہی جواب دیا کہ ہمیں اطمینان دلایا گیا ہے کہ پولیس کا انتظام کافی ہوگا اس لئے ضرورت نہیں.ہاں اگر ہمیں پتہ لگا کہ گورنمنٹ خاطر خواہ انتظام نہیں کر رہی تو پھر اطلاع دے دی جائے گی.ہم مطمئن تھے کہ ہم نے حکومت کے ساتھ پورا پورا تعاون کرلیا ہے.ساڑھے آٹھ نو بجے میں یہاں پہنچا اور کھانا وغیرہ کھا کر اور نماز سے فارغ ہو کر میں گیارہ بجے کے قریب بیٹھا تھا کہ کسی نے آکر اطلاع دی کہ مجسٹریٹ علاقہ آئے ہیں اور مجھ سے ملنا چاہتے ہیں.میں گیا اور انہیں بلاکر بٹھایا.انہوں نے ایک کاننذ مجھے نکال کر دیا کہ یہ دیکھ لیں.حکومت پنجاب کی طرف سے حکم تھا.جس میں لکھا ہے.وہ Order under section 3 (1) (d) of the Punjab Criminal Law (amendment) act 1932.Where as the Punjab Government is satisfied that there are reasonable grounds for believing that you Mirza Bashir-ud-Din Mahmood Ahmad of Qadian in the District of Gordaspur have been summoning persons to Qadian to
خطبات محمود ۲۹۹ سال ۱۹۳۴ء be of present at the Conference convened by the Shoba Tabligh of the Majlis_i_ Ahrar Islam at or near Qadian to be held on or about the 21st to 23rd October 1934.inclusive and whereas your action in so doing is Prejudicial to the public peace or safety the Punjab Government now directs you under Section 3 (1) (d) of the Punjab Criminal law (amendment) act 1932.(1) To Cancel and revoke any summon sent by you or under your authority to any person to attend at Qadian on the dates afore_said.(2) To abstain | until after the 24th of October 1934 from summoning any person or persons to Qadian.(3) To abstain until after the 24th of October 1934 from promoting or convening any meeting in Qadian.(4) To abstain until after the 24th of October 1934 from making arrangements for the reception at Qadian of any person called by you and from providing them with food and shelter.Given under my hand this 17th day of October 1934.Sd/ C.Garbett.Chief Secretary to the Government Punjab 17-10-34 اس کا ترجمہ یہ ہے.حکم زیر سیکشن ۳ (۱) (۱) پنجاب کریمنل لاء امنڈ منٹ ایکٹ ۶۳۲ چونکہ پنجاب گورنمنٹ کو تسلی ہے اور چونکہ یہ باور کرنے کیلئے معقول قرائن موجود ہیں کہ تم مرزا بشیر الدین محمود احمد ساکن قادیان ضلع گورداسپور لوگوں کو قادیان بلا رہے ہو اِس غرض سے کہ وہ مجلس احرار کے شعبہ تبلیغ کی اس کانفرنس پر جو کہ وہ ۲۱ لغایت ۲۳ اکتوبر یا اس کے قریب قادیان یا اس کے قرب و جوار میں کرنا چاہتے ہیں موجود ہوں اور چونکہ تمہارا
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء یہ فعل امن عامہ میں خلل ڈالنے والا ہے اس لئے گورنمنٹ پنجاب تمہیں زیر دفعہ ۳ (۱) (و) پنجاب کریمنل لاء امنڈمنٹ ایکٹ ۱۹۳۲ء ہدایت کرتی ہے کہ (۱) تم ایسے تمام دعوت ناموں کو جو ان تاریخوں پر لوگوں کو قادیان بلانے کیلئے تم نے بھیجے ہیں.یا تمہارے زیر حکم بھیجے گئے ہیں منسوخ کردو.(۲) ۲۴- اکتوبر ۱۹۳۴ء تک کسی شخص یا اشخاص کو قادیان بلانے کی غرض سے کوئی دعوت نامہ مت بھیجو.(۳) ۲۴- اکتوبر ۱۹۳۴ء تک نہ کوئی جلسہ قادیان میں کرو نہ جلسہ کرنے میں محمد بنو.(۴) ۲۴- اکتوبر ۱۹۳۴ء تک کسی ایسے شخص کا جس کو تم نے بلایا ہو قادیان میں استقبال کرنے یا اس کیلئے کھانے اور رہائش کا انتظام کرنے سے محترز رہو.آج مؤرخہ ۱۷- اکتوبر ۱۹۳۴ء کو میرے دستخط سے جاری ہوا.دستخط سی.گاربٹ چیف سیکرٹری گورنمنٹ پنجاب.یہ قانون ۱۹۳۲ء میں پاس کیا گیا ہے.اور اس کی تمہید میں لکھا ہے کہ وہ سول نافرمانی اور حکومت برطانیہ کو تہہ وبالا کر دینے والی تحریکات کو روکنے کیلئے ہیں اور مجھے یہ حکم دے کر گویا حکومت نے یہ الزام لگایا ہے کہ میں سول نافرمانی کرنے والا یا حکومت برطانیہ کو تہہ وبالا کرنے کی تحریک کرنے والا ہوں میں نے اس حکم کو پڑھتے ہی اس پر حسب ذیل جواب لکھ کر مجسٹریٹ کو دے دیا.جواب: مجھے گورنمنٹ کے حکم سے اطلاع ہوئی اور میں اپنے مذہب کے حکم اور سلسلہ کی روایات کی وجہ سے اس کی تعمیل کرنے پر مجبور ہوں ورنہ یہ حکم ایسا غیر منصفانہ اور ناجائز ہے کہ ایک شریف آدمی کیلئے یہ سمجھنا بھی مشکل ہے کہ ایک مہذب حکومت ایسا حکم کس طرح جاری کر سکتی ہے.حقیقت یہ ہے کہ میں نے اس فتنہ کو دیکھ کر کہ احرار قادیان میں ایک جلسہ کر رہے ہیں اور وہ علی الاعلان سلسلہ احمدیہ کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں ایک ہدایت دی تھی کہ جماعت احمدیہ کے کچھ لوگ سلسلہ کے مقدس مقامات کی حفاظت کیلئے جمع کرلئے جائیں لیکن اس ہدایت کے جاری کرنے کے دو گھنٹہ بعد مرزا معراج الدین صاحب سی- آئی ڈی میرے پاس آئے اور میں نے خود ان کو اس ہدایت سے اطلاع دی اور انہوں نے کہا کہ میں پورا انتظام پولیس کا کرادوں گا اس لئے آپ آدمی نہ بلوائیں اور ان کے کہنے کے مطابق اس ہدایت کا جاری کرنا منسوخ کر دیا گیا.اس کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ ایک ایسی.
أطيات مور ہدایت جماعت کے کسی افسر نے بغیر میرے مشورے کے پہلے سے جاری کردی ہوئی ہے اور اسے بھی منسوخ کر کے جماعتوں کو ہدایت کر دی گئی کہ وہ آدمی نہ بھیجیں.میں کل فیروز پور گیا تھا مجھ سے راستہ میں بعض احمدیوں نے پوچھا کہ کیا انہیں احرار کے جلسہ پر قادیان آنے کی اجازت ہے اور میں نے انہیں اس سے منع کیا.حکومت سے ایسے تعاون کرنے کے بعد اس قسم کے حکم کا بھجوادینا حکومت کے وقار کو کھونا ہے اور حکومت کی مضبوطی نہیں بلکہ کمزوری کا موجب ہے اور مجھے افسوس ہے کہ حکومت نے اس قسم کے حکم کو جاری کر کے اس اعتماد کو نقصان پہنچایا ہے جو اس پر ملک معظم اور ان کی حکومت نے کیا تھا.بہرحال چونکہ میرا مذہب مجھے وفاداری اور اطاعت کا حکم دیتا ہے میں اس حکم کی جس کی غرض سوائے تذلیل اور تحقیر کے کچھ نہیں، پابندی کروں گا اور اِنْشَاءَ اللہ پوری طرح اس کی تعمیل کروں گا.باقی اس حکم کی نسبت آئندہ نسلیں خود فیصلہ کریں گی کہ اس کے دینے والے حق پر تھے یا نہ تھے.وَأَفَوِّضُ أَمْرِئَ إِلَى اللَّهِ وَهُوَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِينَ - (خاکسار مرزا محمود احمد) ان واقعات سے ظاہر ہے کہ: (اول) میں نے جو ہدایت آدمی بلانے کیلئے دی تھی، اس کے ماتحت احکام جاری نہیں ہوئے اور اجراء سے سے قبل ہی ہدایت منسوخ کردی گئی.(دوم) ہمیں حکومت نے کبھی بھی آدمی بلانے سے منع نہیں کیا اس لئے سول نافرمانی کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا.کمشنر صاحب نے خانصاحب سے صرف یہ کہا تھا کہ آپ لوگ کوئی ایسی کارروائی نہ کریں جو اشتعال انگیز ہو اور ہماری گزشتہ تاریخ اور روایات بتاتی ہیں کہ اگر ہمارے دس لاکھ آدمی بھی جمع ہو جائیں تو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ شورش کریں گے سوائے کسی ایسے افسر کے جو دن شراب پینے میں اور رات عیاشی اور برج کھیلنے میں گزار دے کوئی ہمارے اجتماع پر بد گمانی نہیں کر سکتا.پہلی دفعہ سولہ اکتوبر کو خان صاحب نے آکر مجھے کہا کہ حکومت کا ایسا منشاء ہے.اس سے قبل ہمیں کوئی اطلاع نہیں دی گئی.مرزا معراج الدین صاحب نے جو گفتگو کی وہ سرکاری حیثیت سے نہ تھی اور اس لئے حکومت اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتی.وہ پرسوں پھر آئے تھے اور میں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ اس دن کیسے آئے تھے تو انہوں نے پھر کہا کہ میں ذاتی طور پر ملنے آیا تھا اس لئے اس دن کی ان کی گفتگو گورنمنٹ کیلئے مفید نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ ذاتی حیثیت سے آئے تھے.حکومت کی طرف سے اس بارہ میں ہمارے
خطبات محمود ٣٠٢ سال ساتھ جو گفتگو کی گئی وہ وہی تھی جو سولہ اکتوبر کو ڈپٹی کمشنر اور سپرنٹنڈنٹ پولیس نے کی اور اس مجلس سے اٹھنے سے قبل میاں شریف احمد صاحب نے بالوضاحت پولیس کے دونوں سپرنٹنڈنٹوں سے کہہ دیا تھا کہ باہر سے لوگوں کو بلانے کیلئے جو حکم جاری کیا گیا ہے، اسے منسوخ کر دیا جائے گا.چنانچہ جب کمشنر صاحب اور انسپکٹر جنرل صاحب پولیس اٹھارہ اکتوبر کو قادیان آئے اور ان کے ساتھ یہ افسران بھی تھے تو اس وقت میاں شریف احمد صاحب نے ان دونوں افسروں سے دریافت کیا کہ کیا آپ سے نہیں کہہ دیا گیا تھا کہ ہم اس حکم کو منسوخ کردیں گے اور کیا آپ نے ڈپٹی کمشنر صاحب کو اس امر کی اطلاع نہیں دی تو انہوں نے تسلیم کیا کہ انہیں اس امر کی اطلاع کر دی گئی تھی اور انہوں نے ڈپٹی کمشنر صاحب کو بھی اس مضمون سے اطلاع کردی تھی.ڈپٹی کمشنر صاحب نے اس پر نذر کیا کہ بیشک مجھے اطلاع ہو گئی تھی مگر گورنمنٹ کا حکم سولہ کو ہی جاری ہو چکا تھا.(تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ درست نہ تھا.گورنمنٹ نے سترہ کو ہی اس حکم کا فیصلہ کیا اور اسی تاریخ کو جاری کیا) چونکہ سولہ کو ڈاک نکل چکی تھی اس لئے سترہ کو خاص آدمی مقرر کر کے تنسیخ کے احکام بھجوادیئے گئے اور حکومت کو بھی اس کی اطلاع دے دی گئی.(سوم) جو دعوت جاری کی گئی وہ چوہدری فتح محمد صاحب نے دی تھی ناظر امور عامہ کی حیثیت سے..(چهارم) ناظر جتنے ہیں سب انجمن کے ٹرسٹی ہیں اور اپنے اپنے محکمہ کے قانونا بھی اخلاق بھی، مذہبیا اور ہمارے نظام کی رُو سے بھی پورے پورے ذمہ دار ہیں.حتی کہ نظام سلسلہ انہیں یہاں تک ذمہ دار قرار دیتا ہے کہ اگر کوئی ناظر خلیفہ وقت کے مشورہ سے بھی کوئی کام کرے تب بھی ذمہ دار وہی ہے مشورہ پرائیویٹ سمجھا جائے گا.اور یہاں تک حکم ہے کہ اگر ناظر کوئی پرائیویٹ مشورہ لے تو یہ اس کا ذاتی فعل ہے اور وہ اس کی طرف اشارہ بھی نہیں کر سکتا.ساری ذمہ داری اس پر ہے سوائے اس کے کہ خلیفہ کا تحریری حکم اس کے پاس موجود ہو بلکہ یہاں تک اس بارہ میں پابندی ہے کہ اگر کوئی ناظر غفلت سے تحریری حکم نہ لے اور اس فعل کو خلیفہ کی طرف منسوب کر دے تو وہ اعتماد کو توڑنے والا اور مستوجب سزا ہوگا.اور ان تمام مذہبی اور قانونی ذمہ داریوں کے مطابق یہ امر واضح ہے کہ ناظر امور عامہ نے جو آرڈر دیا، وہ اس کا ذاتی فعل تھا، مجھ سے اس میں مشورہ بھی نہیں کیا گیا تھا اور اگر کیا
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء بھی جاتا تو بھی وہ بحیثیت ناظر کے نہیں بلکہ ذاتی فرد کی حیثیت سے ہوتا اور اگر کوئی نقصان ہو جاتا تو وہ میرا حوالہ بھی نہیں دے سکتا تھا.جم) صدر انجمن ایک باقاعدہ رجسٹرڈ باڈی ہے اور وہ اس کے ماتحت براہ راست حکومت کے سامنے ذمہ دار ہے.(ششم) یہ امر ثابت ہے کہ آدمی خود حفاظتی کیلئے بلائے گئے تھے اور اس جگہ پر جہاں ان کا آنا مذہبی فرض ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہاں آنے کی بار بار تاکید کی ہے اور اس سے حکومت کا روکنا مذہبی مداخلت ہے.اس جگہ ان کے جن کو بلایا گیا مقدس مقامات ہیں اور ان کی حفاظت کیلئے انہیں اس وقت بلایا گیا جب دشمن ان کے خلاف شورش کرنے کیلئے یہاں جمع ہوئے تھے.(ہفتم) جو نہی حکام نے انتظامات کی مضبوطی کا یقین دلایا انہیں کہہ دیا گیا کہ آدمی نہیں بلائے جائیں گے.(هشتم) سولہ اکتوبر کو گورداسپور کے حکام کو اس کا علم ہو گیا تھا وہاں ٹیلیفون اور ٹیلیگراف دونوں موجود ہیں لیکن سترہ کو تین بجے کی گاڑی سے ایک سپیشل انسپکٹر یہ احکام لے کر لاہور سے چلتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ میں گھنٹہ کے وقفہ کے باوجود حکام ضلع گورداسپور نے پنجاب گورنمنٹ کو مطلع نہیں کیا تا حکومت اس غلط فہمی میں مبتلاء نہ ہوتی.ان کیلئے لازم تھا کہ ہمارے وعدہ کو حکام بالا تک پہنچا دیتے.(نهم) حکومت کو علم تھا کہ سرکلر جاری کرنے والا ناظر ہے.اور جیسا کہ مرزا معراج الدین صاحب نے بیان کیا، وہ سرکلر یا اس کی نقل حکومت کے پاس پہنچ چکی تھی.خواہ ! وہ قادیان سے گئی یا باہر سے، بہر حال حکومت کو اس کا علم تھا اور یہ بھی وہ جانتی تھی کہ اس کا جاری کرنے والا میں نہیں ہوں.(دہم) اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ اس کا جاری کرنے والا میں ہی تھا یا اسے منسوخ کرنے سے انکار کر دیا گیا تھا تب بھی یہ رسول نافرمانی یا حکومت کو تہہ و بالا کر دینے والا مجرم نہیں ہو سکتا کیونکہ اس سے پہلے کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا.ڈپٹی کمشنر وغیرہ حکام کی خواہش یہ تھی لیکن حاکم کی خواہش اور حکم میں فرق ہوتا ہے.کیا گورنمنٹ اس عام بات کو بھی نہیں سمجھ سکتی کہ یہ قانون محکام کی خواہش کو نہیں بلکہ ان کے احکام کو رو کرنے کے مواقع کیلئے وضع
مناسبات محمود سال ۱۹۳۴ء کیا گیا ہے.اس حکم کے بعد اگر انکار کیا جاتا تو یہ البتہ رسول نافرمانی کہلا سکتی تھی لیکن ایس پی یا ڈی سی کی خواہش پر انکار کرنا سول نافرمانی نہیں.اس صورت میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا تھا کہ تعاون نہیں کیا گیا.مگر یہ حکومت کو تہہ و بالا کرنے والی کوئی صورت نہیں اور اگر حکومت ایسا ہی سمجھتی ہے تو پھر ہمارے یہ شکوک صحیح ہیں کہ یہاں حکومت احراریوں کی ہے.یہاں لوگوں کو کسی سرکاری چھاؤنی یا پولیس پر حملہ کرنے کیلئے نہیں بلایا گیا تھا.اگر مان تک لیا جائے کہ وہ حملہ کیلئے ہی بلائے گئے تھے تو وہ حملہ احراریوں پر ہو سکتا تھا اور جب حکومت یہ قرار نہ دے لے کہ وہ احراری ہے اور جو ان پر حملہ کرتا ہے، وہ حکومت پر حملہ کرتا ہے اس وقت تک یہ نہیں کہہ سکتی کہ یہاں جو لوگ بلائے گئے وہ حکومت کو تہہ وبالا کرنے کی غرض سے بلائے گئے تھے.ان تمام امور کی موجودگی میں حکومت پنجاب نے مجھے ایسا غیر منصفانہ نوٹس دیا اور ایسے قانون کے ماتحت دیا جس میں صاف لکھا ہے کہ رسول نافرمانی اور حکومت کا تختہ الٹنے کی سازشیں کرنے والوں کیلئے ہے.پس حکومت نے سخت بے انصافی کی جب اس نے (اول) اس شخص کو نوٹس دیا جس کی طرف سے سرکلر جاری نہیں ہوا تھا.اور جاری کرنے والے کو نہ دیا اگر حکومت ایسا نوٹس دینا ضروری سمجھتی تھی تو جس کے دستخط تھے اسے ریتی اور وہ بھی اس قانون کے مطابق نہ دیا جاسکتا تھا جو سول نافرمانی کو روکنے کیلئے ہے.(دوم) گورنمنٹ نے بے انصافی کی، اس وقت نوٹس دے کر جبکہ میں گھنٹے پہلے اس کے ذمہ دار افسروں سے اس کی منسوخی کا وعدہ کیا جاچکا تھا اور جبکہ عملاً اس حکم کو منسوخ کر دیا گیا تھا.حالانکہ قصور اس کے اپنے حکام کا تھا کہ کیوں انہوں نے فون یا تار سے بالا افسروں کو اطلاع نہ دی جبکہ گورداسپور میں یہ دونوں ذرائع میسر ہیں.(سوم) حکومت نے سخت بے انصافی کی جبکہ رسول نافرمانی کا غلط الزام مجھ پر لگایا گیا حالانکہ نہ کوئی حکم پہلے دیا گیا تھا اور نہ بعد میں دیا گیا.(چهارم) حکومت نے بے انصافی کی اور سخت ظلم کیا جب اس شخص پر سول نافرمانی کا غلط الزام لگایا کہ جس نے اور جس کی جماعت نے ہمیشہ رسول نافرمانی اور اس قسم کی دوسری تحریکوں کی سخت مخالفت کی ہے اور حکومت کا تختہ اُلٹ دینے کا الزام لگا کر ہماری سخت ہتک کی ہے.
• خطبات محمود ۳۰۵ سال ۱۹۳۴ تو حکومت نے سخت نا انصافی کی کہ احراریوں کا جن کا یہاں کوئی واسطہ اور کام نہ تھا، یہاں آنا جائز قرار دیا اور احمدیوں کا جن کا یہ مقدس مقام ہے ان کے یہاں آنے کو موجب فساد قرار دیا حالانکہ وہ اپنے گھر آرہے تھے اور احراری دوسرے کے گھر.اگر ایسا نوٹس ینے کی ضرورت تھی تو وہ احرار کو دیا جانا چاہیے تھا.ہمیں ایسا نوٹس دینے کے تو یہ معنے ہیں کہ وہ گھر والوں کو تو حکم دیتی ہے کہ اپنے گھر کی حفاظت کیلئے اکٹھے ہو کر نہ بیٹھیں اور ڈاکوؤں اور حملہ آوروں کو جمع ہونے کی اجازت دیتی ہے.(ششم) حکومت نے بے انصافی اور ظلم کیا جب اس نے ہمارے لئے اس قانون کو استعمال کیا جو باغیوں اور انارکسٹوں کیلئے بنایا گیا ہے.اور جسے پاس کرتے وقت حکومت نے ملک کے نمائندوں کو یقین دلایا تھا کہ اسے بڑی احتیاط سے استعمال کیا جائے گا.اگر یہ قانون احمدیوں پر اپنے گھروں کی حفاظت کیلئے جمع ہونے پر چسپاں ہو سکتا ہے تو دُنیا کی کون ایسی ہستی ہے جو اس سے باہر رہ سکتی ہے.کل کو حکومت کسی شخص کو مال روڈ پر چھینک مارنے سے روک سکتی ہے کہ کوئی راہ گیر سوچتا جا رہا ہو گا اس کے خیالات میں انتشار پیدا ہو گا وہ جوش میں آکر لڑے گا اس کے رشتہ دار آئیں گے، ادھر تمہارے رشتہ دار جمع ہوں گے اور اس طرح قتل و غارت کا احتمال ہے اس لئے چلو جیل خانہ میں.کون سا ایسا انسان ہے جو اس قسم کے چکروں سے اس قانون کے ماتحت گرفتار نہیں کیا جاسکتا.خربوزے کھا کر بازاروں میں چھلکے پھینکنے والوں کو بھی پکڑا جاسکتا ہے کہ کسی کا پاؤں پھیلے گا اس کے متعلقین لڑائی کریں گے اور اس طرح ملک میں بدامنی پیدا ہوگی.کیا کوئی معقول انسان سمجھ سکتا ہے کہ یہ صحیح استعمال ہے اس قانون کا اس کیلئے جس نے خود اُس کے بنانے والوں سے بھی زیادہ قیام امن کی کوشش کی ہے.جس نے اور جس کی جماعت نے اس وقت سول نافرمانی اور اس قسم کی دوسری موومنٹوں کا مقابلہ کیا جب یہ افسر جو آج ہمیں باغی قرار دے رہے ہیں، آرام سے اپنے بیوی بچوں میں بیٹھے ہوا کرتے تھے.پھر یہ لوگ تنخواہیں لے کر کام کرتے تھے اور میں نے اور میری جماعت نے لاکھوں روپیہ اپنے پاس سے خرچ کر کے بدامنی پیدا کرنے والی تحریکات کا مقابلہ کیا.پھر کس قدر ظلم ہے کہ جو قانون ان تحریکات کے انسداد کیلئے وضع کیا گیا، وہ سب سے پہلے ہمیں پر استعمال کیا جاتا ہے جنہوں نے ملک معظم کی حکومت کو قائم کرنے کیلئے ملک کو اپنا دشمن بنالیا ہے.احرار کی تقریریں پڑھو، ان کو زیادہ غصہ اسی بات پر ہے کہ ہم حکومت کے
خطبات محمود ۳۰۶ سال ۱۹۳۴ء جھولی چکے ہیں.وہ صاف کہہ رہے ہیں کہ ہم اسی وجہ سے ان کے مخالف ہیں.(ہفتم) حکومت نے یہ نوٹس دے کر ایک امن پسند جماعت کی ہتک کی کیونکہ اس نے قرار دیا کہ جو احمدی یہاں آئیں گے فساد کریں گے گویا میں بھی فسادی اور جماعت احمدیہ بھی فسادی ہے اور امن پسند صرف احراری ہیں.کیا عجیب بات ہے کہ جب حکومت پر مصیبت آئے تو وہ ہم سے استمداد کرتی ہے اس کی مصیبت کے وقت ہمارے لیکچرار جاتے اور مخالف تحریکوں کا مقابلہ کرتے ہیں، جنگ میں ہم نے تین ہزار والٹیئر ز دیئے، روپیہ ہم خرچ کرتے تھے مگر آج احراریوں کی حفاظت کیلئے وہ ہمیں باغی بتا رہی ہے.(هشتم) حکومت نے ناانصافی کی جب اس نے اس رنگ میں ہمیں نوٹس دیا حالانکہ گزشتہ مواقع کی طرح وہ اب بھی خواہش امداد کر سکتی تھی.میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ ہم سے بھی غلطی ہو سکتی ہے اور یہ نہیں کہتا کہ ہم نے کبھی غلطی نہیں کی لیکن حکومت کا پہلے سلوک ہم سے یہ تھا کہ ہر ایسے موقع پر وہ اپنی خواہش کا اظہار کر دیتی تھی چونکہ وہ جانتی تھی کہ ہم تعاون کرنے والے ہیں.حکام کی طرف سے چٹھی آجاتی تھی کہ جماعت کو یہ ہدایت کر دیں اور ہم کر دیتے تھے.پھر آج بغیر کسی وجہ کے یہ نوٹس کیوں دیا گیا.اس کے معنی یہ ہیں کہ یا ہم میں تبدیلی ہو گئی ہے یا حکومت میں.ابھی مئی کا واقعہ ہے کہ وائسرائے ہند کی طرف میں نے ایک خط لکھا تھا کہ جماعت احمدیہ کے ایڈریس کے جواب میں جو کچھ آپ نے فرمایا تھا اس سے شبہ ہوتا ہے کہ شاید حکومت کا خیال ہے کہ ہم بعض مواقع پر اس سے تعاون نہیں کرتے.اس کے جواب میں ان کے پرائیویٹ سیکرٹری نے لکھا ہے کہ ہز ایکسی لینسی کو یہ خیال ہرگز نہیں بلکہ حضور وائسرائے اس کے برعکس ہمیشہ سے جماعت احمدیہ کو سب سے زیادہ قانون کی پابند اور وفادار جماعتوں میں سے ایک جماعت سمجھتے چلے آتے ہیں.تو ہندوستان کا افسر اعلیٰ کہتا ہے کہ جماعت بهترین قانون کی پابند اور وفاداری کرنے والی ہے مگر پنجاب کی گورنمنٹ کے کچھ افراد کہتے ہیں کہ تم بغاوت کرنے والے ہو.بس دو ہی صورتیں ہیں.یا ان میں تبدیلی ہوئی ہے یا ہم میں.لیکن مئی کے بعد اس قدر قلیل عرصہ ہے کہ ہمارے اندر کوئی عظیم الشان تغیر مانا نہیں جاسکتا اور دوسری صورت یہی ہے کہ سرکاری افسروں میں کوئی ایسا شخص ہے جو ایسے وجوہ کی بناء پر جن کا ہمیں علم نہیں، ہمارا دشمن ہے اور اس نے یہ نوٹس دے کر اپنے عناد
خطبات محمود ۳۰۷ سال ۱۹۳۴ء کا اظہار کیا ہے.یا پھر یہ بات ہے کہ نچلے حکام نے افسرانِ بالا کو دھوکا دیا ہے.حکومت نے لکھا ہے کہ اس نوٹس سے ہمارا منشاء ہتک نہیں تھا.میں نے فیصلہ کیا تھا اور اس جمعہ تک بات کو ملتوی کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اگر حکومت نے کہہ دیا کہ غلطی ہوئی ہے تو میں اس بات کو چھوڑدوں گا لیکن اس نے اپنی جھوٹی عزت کا خیال کیا ہماری حقیقی ہتک کا کچھ خیال نہ کیا.کسی کو جوتا مار کر کہہ دینا کہ میرا مقصد ہتک نہیں تھا عجیب مضحکہ خیز امر ہے.منشاء کا پتہ تو ہمیشہ واقعات سے ہوا کرتا ہے جب میں نے نہ سرکلر جاری کیا نہ جاری کرنے والے نے مجھے سے پوچھا، پھر اسے منسوخ بھی کردیا گیا اور افسروں کو اطلاع بھی دے دی گئی تو پھر سزا کے ستوجب یہاں کے افسر ہیں اور حکومت کا فرض تھا کہ انہیں سزا دیتی اور ہم سے صاف کہہ دیتی کہ غلطی ہو گئی ہے اس سے اس کی عزت اور وقار میں اضافہ ہوتا نہ کہ کمی.کانگرس سے ہمیشہ ہماری یہی جنگ رہی ہے کہ وہ کہتے ہیں ہم غلام ہیں مگر ہم کہتے ہیں کہ ہم ہرگز غلام نہیں ہیں اب ہم انہیں کیا منہ دکھائیں گے کیونکہ اب تو پنجاب گورنمنٹ نے اپنے عمل سے ثابت کردیا ہے کہ وہ ہندوستانیوں کو غلام سمجھتی ہے اور ان کی عزت کی قیمت اس کی نظر میں ایک کوڑی کی بھی نہیں ہے.اس حکم کے جاری کرنے والے افسروں نے یہ خطرناک غلطی کی ہے کہ ہم پر اس کام کا الزام لگایا ہے جسے ہم حرام سمجھتے ہیں اور جس کیلئے ہم باوجود اس کے کہ اس نے ہماری عزت کا پاس نہیں کیا تیار نہیں ہیں.وگرنہ غالب کی طرح ہم بھی کہہ سکتے تھے کہ - بے وفا تو بے وفا ہی سہی.مگر نہیں ہمارے مذہب نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ حکومت کے وفادار رہیں اس لئے وہ اگر ہمیں قید کر دے، پھانسی دے دے تب بھی ہم وفادار ہی رہیں گے اور ہر عمل سے اس کا جھوٹا ہونا ثابت کریں گے.میں نے اس جگہ گورنمنٹ کی جگہ افسران کا لفظ اس لئے استعمال کیا ہے کہ میرے نزدیک اس کی ذمہ دار گورنمنٹ نہیں بلکہ خاص افسر ہیں اور محض دفتری کارروائی کے ماتحت یہ حکم دیا گیا ہے ورنہ گورنمنٹ کے کئی ممبروں سے میں نے پوچھا ہے وہ کہتے ہیں ہمیں اس کا علم ہی نہیں اور عین ممکن ہے ہزایکسی لینسی گورنر کو بھی علم نہ ہو، ممکن ہے بعض انگریز اور ہندوستانی ممبروں کو بھی اس کا علم نہ ہو لیکن بہر حال یہ گورنمنٹ کے نام سے جاری ہوا ہے اور اس کی ذمہ داری اسی پر ہے اور اس کا فرض ہے کہ اس غلطی کا اعتراف کرے اور کہے ) کہ آئندہ ایسا نہیں ہو گا.مگر جب تک حکومت کی طرف سے یہ ہتک اور احراریوں کی طرف
خطبات محمود ہے ۳۰۸ سال ۱۹۳۴ء یہ پیج قائم ہے، ہر احمدی جس کے دل میں ایمان ہے اس کا فرض ہے کہ جماعت کے وقار اور عزت کیلئے ہر قربانی کیلئے تیار رہے.احمدیت صرف نماز روزوں کا نام ہی نہیں اور جو شخص احمدیت کے اعزاز اور وقار کیلئے اپنی جان اور مال قربان کرنے کو تیار نہیں وہ احمدی نہیں کہلا سکتا.حکومت نے ہماری پچاس سالہ روایات کو جن پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فخر کرتے رہے، حضرت خلیفہ اول " فخر کرتے رہے اور میں فخر کرتا رہا، بیدردی سے کچل دیا ہے اور ہمارا فرض ہے کہ اسے پھر قائم کریں اور ثابت کردیں کہ جو کہتا ہے ہم نے ان روایات کو قائم نہیں رکھا وہ غلط بیانی کرتا ہے اور حکومت کا فرض ہے کہ اس شخص کو سزا دے.اس موقع پر حکومت نے جو تشریح اپنے عمل کی کی ہے، اس کا میں علیحدہ جواب دوں گا.اس میں تاریخیں بھی غلط دی گئی ہیں اور واقعات بھی غلط دیئے گئے ہیں مگر یہ سب تفاصیل میں آگے بیان کروں گا.سردست میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ حکومت کی تشریح میں بعض صریح طور پر غلط واقعات درج ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگوں نے حکومت کو دھوکا دیا ہے اور حکومت میں کوئی ایسا عصر موجود ہے جو ہم سے بلاوجہ عناد رکھتا ہے.بعض افسروں نے اس دوران میں اس ہتک کے احساس کو اور بھی مضبوط کیا ہے، ایک افسر کو جب کہا گیا کہ یہ نوٹس خلیفہ کو کیوں دیا گیا تو اس نے کہا کیا خلیفہ حکومت کی رعایا نہیں ؟ گویا رعایا ہونے کے یہ معنی ہیں کہ جس کی چاہو ہتک کرو.میں اس افسر کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر حکومت کی رعایا ہونے کے یہی معنے ہیں تو کوئی شریف اور غیرت مند انسان اس کی رعایا ہونا پسند نہیں کرے گا.ہم تو برطانوی رعایا ہونے کا یہی مطلب سمجھا کرتے تھے کہ اس حکومت میں سب کی عزت محفوظ ہے، کوئی کسی کی تو ہین اور ہتک نہیں کر سکتا بلکہ رعایا کا ہر فرد برٹش ایمپائر کی عظمت کا دار ہے لیکن آج ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ خواہ تم پر کوئی غلط قانون ہی کیوں نہ استعمال کیا جائے، رعایا ہونے کا یہ مطلب ہے کہ تمہیں بولنے کا کوئی حق نہیں اور اگر بولتے ہو تو تم باغی ہو.اگر رعایا ہونے کا یہی مطلب ہے تو حکومت کو چاہیے کہ دلیری سے اس کا اعلان کر دے کہ اے ہندوستان کے رہنے والو تمہاری عزت خاک میں ملادی جائے گی.اس صورت میں جو غیرت مند ہو گا وہ اس ملک سے نکل جائے گا بجائے اس کے کہ ذلیل ہو کر یہاں رہے.ایک دوسرے افسر نے کہا کہ خلیفہ کے سوا اور کسے مخاطب کیا جاتا کیا اس صورت میں یہ نہ کہا جاتا کہ کسی اور کو ذمہ دار قرار دے کر خلیفہ کی ہتک کی گئی ہے.جس دوست سے کہا گیا اس نے
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ کیا اچھا جواب دیا کہ کیا آپ کا یہ خیال ہے کہ اس قانون کی نافرمانی کی وجہ سے اگر کسی شخص کو قید کرنے کی نوبت آتی تو جماعت کی طرف سے یہ اعتراض کیا جاتا کہ کسی اور کو یہ اعزاز دے کر خلیفہ کی ہتک کیوں کی گئی.میں نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی افسر عقل سے ایسا کو را ہو سکتا ہے کہ وہ فی الواقع یہی بات سمجھ رہا ہو.یہ تمسخر ہے.اور جیسا کہ محاورہ ہے ہتک کے ساتھ زخم بھی پہنچایا گیا ہے.ایسا کرنے والوں کا یہی منشاء ہے کہ ہتک بھی کریں اور دلوں کو بھی کریں.اس جواب کا تو یہ مطلب ہے کہ نوٹس ایک بہت بڑی عزت افزائی تھی.پس اگر یہ اعزاز خلیفہ کو نہ دیا جاتا تو تم اس میں کیونکر حصہ دار ہو سکتے تھے.تمہاری پچاس سالہ خدمات کا حکومت پر ایک بوجھ تھا اس پر بوجھ تھا کہ تم نے جنگِ یورپ میں آدمیوں اور روپوؤں سے مدد کی اس پر بوجھ تھا کہ تم نے رولٹ ایکٹ کی شورش کا مقابلہ کیا اس پر بوجھ تھا کہ تم لوگوں نے ہجرت کی تحریک کا مقابلہ کیا اور اس نے تم کو کوئی بدلہ نہیں دیا اس پر بوجھ تھا کہ تم نے نان کو آپریشن (NON COOPERATION) کا مقابلہ مفت لٹریچر تقسیم کرکے اور جلسوں اور لیکچراروں کے ذریعہ کیا اور حکومت اس کا بدلہ دینے سے عاجز رہی، اس پر بوجھ تھا کہ تم نے سول ڈس او بیڈنس (CIVIL DISOBEDIENCE) کا مقابلہ کیا، ریڈ شرٹس (RED SHIRTS) کا مقابلہ کیا، بنگال میں ٹیررازم (TERRORISM) کا مقابلہ کیا اور اس نے کوئی قدر دانی نہ کی، اب یہ ایک موقع حکومت کو قدر دانی کاملا تھا اگر یہ انعام خلیفہ کو نہ دیا جاتا تو تم سب احمدی اس میں کس طرح شریک ہو سکتے تھے.پس ہتک کرنے کے بعد یہ مزید ظلم ہے کہ ہمارے احساسات کے ساتھ تمسخر کیا جارہا ہے.اور مجھے تو ایسا نظر آرہا ہے کہ حکومت پنجاب کے بعض (ابھی میں حکومت پنجاب کا نام نہیں لیتا کیونکہ بعض ممبروں نے کہا ہے کہ ہمیں تو علم بھی نہیں) افسروں نے یہ ثابت کرنا چاہا ہے کہ ہم نے کانگرس کو دبالیا ہے، باغی جماعتوں کو توڑ دیا ہے اور اب ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ ہمیں وفاداروں کی بھی ضرورت نہیں.اور جب یہ بات دنیا کے سامنے آئے گی تو ہر وہ شخص جس کے دماغ میں عقل ہے یہی سمجھنے پر مجبور ہوگا کہ اس حکومت کے پاس جانا خطرناک ہے یہ نہ دوست کو چھوڑتی ہے نہ دشمن کو سب کو مارتی ہے.میں حیران ہوں کہ آخر ان حکام اور ان احراریوں کا ہم نے کیا بگاڑا ہے؟ میں نے مخلا بالطبع ہو کر اس امر پر غور کیا ہے کہ ہم نے ان کو کیا نقصان پہنچایا ہے لیکن کوئی بات مجھے نظر نہیں آئی.ہم نے ہر ایک کی خدمت کی ہے اور خدمت
خطبات محمود ۳۱۰ سال ۱۹۳۴ء کرنے کیلئے اپنی عزت کی قربانی کی ماریں کھائیں ، گالیاں کھائیں.احراری اب بھی کہتے ہیں کہ ہم مذہبی اختلاف کو برداشت کر سکتے ہیں مگر ان کی حکومت سے وفاداری کو برداشت نہیں کرسکتے.ہم نے حکومت کی خاطر اس قدر تکالیف اٹھائیں مگر اس سے کیا لیا.اور پھر احراریوں سے پوچھتے ہیں کہ اگر ہماری کسی خدمت کی وجہ سے مسلمانوں کو کوئی فائدہ پہنچا تو کیا وہ ایسے ہی ان سے مستفید نہیں ہو رہے جیسے ہم.ہمیں تو نہ ملک کی خدمت سے کچھ ملا اور نہ حکومت کی خدمت سے سوائے اس کے کہ گالیاں کھائیں، ماریں کھائیں، ہمارے آدمی کابل میں مارے گئے محض اس لئے کہ وہ جہاد کرنے کے مخالف تھے.اٹلی کے ایک انجینئر نے جو حکومت افغانستان کا ملازم تھا صاف لکھا ہے کہ امیر حبیب اللہ خان نے صاحبزادہ سید عبداللطیف کو اس لئے مروا دیا کہ وہ جہاد کے خلاف تعلیم دے کر مسلمانوں کے شیرازہ کو بکھیرتا ہے.پس ہم نے اپنی جانیں اس لئے قربان کیں کہ انگریزوں کی جانیں بچیں مگر آج بعض ہمیں یہ بدلہ ملا ہے کہ ہم سے باغی اور شورش پسندوں والا سلوک روا رکھا ہے اور پھر وہ محسوس بھی نہیں کرتے کہ انہوں نے جو کچھ کیا غلط کیا ہے بلکہ ان کا جواب ویسا ہی ہے جیسا کہ محمود طرزی نے دیا تھا.محمود طرزی امیر امان اللہ خان کے خسر اور افغانستان کے وزیر خارجہ تھے.انہیں کے خط کی بناء پر میں نے مولوی نعمت اللہ صاحب کو وہاں بھجوایا تھا اور ان کا وہ خط آج بھی موجود ہے.جس وقت مولوی نعمت اللہ صاحب کو شہید کیا گیا، وہ فرانس میں سفیر تھے.جب وہ واپس آئے تو میں نے سید ولی اللہ شاہ صاحب کو ان سے ملنے کیلئے بھیجا.انہوں نے جاکر کہا کہ آپ کے کہنے کے مطابق ہم نے اپنا آدمی وہاں بھیجا اور آپ نے اس کو شہید کر دیا یہ کیا ظلم کیا.اس پر انہوں نے بہت ناراض ہو کر جواب دیا کہ غصہ کا موقع تو ہمیں ہے ہم نے تو تمہارا ایک آدمی ماردیا اور تم نے ہمیں ساری دنیا میں بدنام کر دیا اگر ہم نے مار دیا تھا تو اس قدر شور کیوں مچایا تمہیں چاہیے تھا کہ چُپ رہتے.اسی طرح کا یہ گورنمنٹ بھی ہمیں جواب دیتی ہے کہ اگر ہتک ہو گئی تو کیا جس طرح ایک کتا مار کھا کر بھی اپنے آقا کے بوٹ کو چاہتا ہے اسی طرح تم بھی کہو کہ سُبْحَانَ اللہ کیا عزت افزائی ہوئی ہے.گورنمنٹ نے ہمارے خلیفہ کو مخاطب کیا ہے یہ بات جوں جوں انگلستان اور دنیا کے دیگر ممالک میں پھیلے گی اور ضرور پھیلے گی تو ضرور حکومت کی بدنامی کا موجب ہوگی.دنیا ہمیں
خطبات محمود رویه.سال ۱۹۳۴ انگریزوں کا ایجنٹ سمجھتی ہے چنانچہ جب جرمنی میں احمدیہ عمارت کے افتتاح کی تقریب میں ایک جرمن وزیر نے شمولیت کی تو حکومت نے اس سے جواب طلب کیا کہ کیوں تم ایسی جماعت کی کسی تقریب میں شامل ہوئے ہو جو انگریزوں کی ایجنٹ ہے لیکن دوسری طرف حکومت ہم سے یہ سلوک کرتی ہے کہ کہتی ہے کہ تم مرزا محمود احمد سول نافرمانی کرنے والے ہو.اور جب یہ واقعات کسی عظمند کے سامنے پیش ہوں گے تو وہ تسلیم کرے گا کہ حکومت کا صحیح نہیں.میں نے یہ خطبہ جان بوجھ کر اس ہفتہ پر رکھا تھا کہ دیکھوں حکومت اس کا ازالہ کرتی ہے یا نہیں.اس میں شک نہیں کہ اس نے دلداری کی کوشش کی ہے مگر گھرے زخم ظاہری مرہم سے شفاء نہیں پایا کرتے.ہم کو فخر تھا کہ ہم نے پوری کوشش کر کے ملک میں امن قائم کر رکھا ہے اور ملک میں ایک ایسی داغ بیل ڈال دی ہے کہ فساد مٹ جائے مگر حکومت نے ہماری اس عمارت کو گرادیا ہے، ہمارے نازک احساسات مجروح کئے گئے ہیں، ہمارے دل زخمی کردیئے گئے ہیں، ہم نے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا کسی سے کچھ نہیں مانگا مگر حکومت اور رعایا خواہ مخواہ ہماری مخالف ہے اور مسیح ناصری کا قول بالکل ہمارے حسب حال ہے کہ.لومڑیوں کے بھٹ ہوتے ہیں اور ہوا کے پرندوں کے گھونسلے مگر ابن آدم کیلئے سردھرنے کی بھی جگہ نہیں" سمجھے پس اے احمدی جماعت! جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ نئی زمین اور نیا آسمان بنائے گا تمہارا فرض ہے کہ اپنے لئے خدا کے فضل سے آپ گھر بناؤ اس الہام میں یہی اشارہ ہے کہ یہ زمین اور آسمان تمہیں کانٹوں کی طرح کائیں گے آخر ہم نے کیا قصور کیا ہے ملک کا یا حکومت کا کہ ہم سے یہ دشمنی اور عناد کا سلوک روا رکھا جارہا ہے؟ کل پہرہ دینے والوں میں سے ایک خوش الحانی سے غالب کا شعر پڑھ رہا تھا کہ دیر نہیں حرم نہیں در نہیں آستاں نہیں بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم کوئی ہمیں اُٹھائے کیوں حملہ میرے دل میں اس وقت خیال گزرا ہے کہ یہ ہمارے حسب حال ہے.ہم کسی کے گھر پر آور نہیں ہوئے، حکومت سے اس کی حکومت نہیں مانگی، رعایا سے اس کے اموال نہیں بلکہ اپنی مساجد ان کے حوالہ کردیں، اپنی بیش قیمت جائدادیں ان کو دے کر ہم میں
خطبات محمود Wit سال ۱۹۳۴ء سے بہت سے لوگ قادیان میں آگئے کہ امن سے خدا کا نام لے سکیں مگر پھر بھی ہم پر حملے کئے جاتے ہیں اور حکومت بھی ہمارے ہاتھ باندھ کر ہمیں ان کے آگے پھینکنا چاہتی ہے اور کوئی نہیں سوچتا کہ ہمارا قصور کیا ہے جو ہم پر اس قدر ظلم کئے جاتے ہیں؟ گورنمنٹ کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہم بیشک صابر ہیں، متحمل ہیں مگر ہم بھی دل رکھتے ہیں اور ہمارے دل بھی درد کو محسوس کرتے ہیں اگر اس طرح بلاوجہ انہیں مجروح کیا جاتا رہا تو ان دلوں سے ایک آہ نکلے گی جو زمین و آسمان کو ہلا دے گی جس سے خدائے قہار کا عرش ہل جائے گا اور جب خدا تعالی کا عرش ہلتا ہے تو اس دنیا میں ناقابل برداشت عذاب آیا کرتے ہیں.(الفضل یکم نومبر ۱۹۳۴ء) له تاريخ الامم والملوك لابي جعفر محمد بن جرير الطبري الجزء الثالث صفحه ۲۴۸٬۲۴۷ دار الفکر بیروت لبنان ۱۹۸۷ء ه بخاری کتاب الاذان باب ما يحقن بالاذان من الدماء سے جھولی چک: خوشامدی که متی باب ۸ آیت ۲۰
خطبات محمود ۳۴ سال ۱۹۳۴ء جماعت احمدیہ کے خلاف احراریوں کا فتنہ اور بعض سرکاری افسروں کا غیر منصفانہ رویہ فرموده ۲- نومبر ۱۹۳۴ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- گزشتہ دنوں مجھے انفلوئنزا کی شکایت رہی ہے اور پرسوں اور کل تک تو بخار کی شکایت اور شدید نزلہ اور کھانسی کی تکلیف تھی آج گو مجھے بخار معلوم نہیں ہوتا لیکن پھر بھی کھانسی اور نزلہ کی شکایت ہے جس کی وجہ سے نہ تو میں اونچا بول سکتا ہوں اور نہ ہی زیادہ دیر تک بول سکتا ہوں.بالکل ممکن تھا کہ میری بیماری ہی اس بات پر مجھے مجبور کرتی کہ میں اپنے خطبہ کے بعض اہم حصوں کو آئندہ کیلئے ملتوی کر دوں لیکن اس دوران میں بعض ایسے دوستوں نے کہ جنہیں ہم سے بھی تعلق ہے اور حکومت سے بھی ان کے دوستانہ تعلقات ہیں، تحریک کی ہے کہ اس وقت تک میں اپنے خاص اعلان کو ملتوی رکھوں جب تک کہ ان غلط فہمیوں کو ڈور کرنے کی کوشش نہ کرلی جائے جو حکومت کے بعض لوگوں اور ہم میں پیدا ہو گئی ہیں.اگر ہمیں کچھ غلط فہمی ہوئی ہو تو ہم تو ایک مذہبی جماعت ہیں ہمارا ہمیشہ یہ طریق رہا ہے کہ ہم کھلے دل سے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیتے ہیں اس لئے ان دوستوں کو میں یہ یقین دلا سکتا ہوں کہ اگر ہماری کسی بات میں غلطی یا غلط فہمی ثابت ہو تو ہم اس کے متعلق ہر وقت سزا لینے تیار ہیں اور معافی مانگنے کیلئے بھی.معاملہ صرف حکومت کا ہے کہ آیا وہ بھی اپنی غلطی کو کرنے کو تیار ہے یا نہیں.اگر ثابت ہو جائے کہ حکومت سے غلطی ہوئی ہے اور وہ اپنی
خطبات محمود وہ وہ سال ۱۹۳۴ء اس غلطی کا اعتراف کرلے تو ہمارا شکوہ دور ہو سکتا ہے.مومن کبھی کینہ تو ز نہیں ہوتا اور نہ غصہ اپنے دل میں رکھتا ہے بلکہ وہ بنی نوع انسان کی اصلاح چاہتا ہے اور یوں بھی اگر ہمارے مد نظر اصلاح نہ ہو تو ہمیں اس سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے کہ گورنمنٹ اپنی غلطی کا اقرار کرلے.ہم صرف اس لئے یہ سوال اٹھانا چاہتے ہیں کہ اگر یہ بات نہ اٹھائی جائے تو ہمارے لئے آئندہ بہت سی مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں اور ملک کے امن کو بھی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے.ورنہ حکومت نے جو کچھ ہمیں کہا ہے وہ ان گالیوں کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتا ہے جو روزانہ ہم مخالفین کے منہ سے سنتے رہتے ہیں.حکومت کی یہی غلطی ہے کہ اس نے ایک دوسرے کا فعل میری طرف منسوب کر دیا.مگر یہ کوئی نئی بات نہیں ہم روزانہ غیر احمدیوں، سکھوں اور ہندوؤں سے سنتے ہیں کہ اگر کوئی احمدی نماز نہیں پڑھتا تو وہ کہتے ہیں یہ نبی کی جماعت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ نمازیں نہیں پڑھتے.وہ ایک شخص کے فعل کو ساری جماعت کی طرف منسوب کر دیتے ہیں.اسی طرح کوئی شخص درشت کلامی سے پیش آتا ہے تو کہتے ہیں یہ نبی کی جماعت ہونے کا دعوی کرتے ہیں حالانکہ ان کی زبانیں صاف نہیں.وہ فوراً ایک شخص کے فعل کو تمام جماعت کی طرف منسوب کر دیتے ہیں.اس طرح ذرا کسی احمدی کے منہ سے کوئی ایسی بات نکل جائے جو غلط ہو تو چاہے نادانستہ طور پر ہی اس سے به فعل سرزد ہوا ہو تب بھی ہم دیکھتے ہیں کہ دوسرے لوگ جھٹ کہہ دیتے ہیں کہ یہ بھی جھوٹے ہیں ان کا پیر بھی جھوٹا تھا.پس اس معاملہ میں گورنمنٹ انگریزی کا فعل کوئی نیا فعل نہیں.زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک ناظر کا فعل اس نے میری طرف منسوب کردیا مگر ان گالیوں کے مقابلہ میں جو ہم روزانہ سنتے ہیں، اس چیز کی کچھ بھی ہستی نہیں.اس سے ہزاروں گنا زیادہ گالیاں سن کر اور اس سے لاکھوں گنا زیادہ سخت الفاظ سن کر ہم انہیں برداشت کرتے ہیں پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ ہم گورنمنٹ کی اس غلطی کو برداشت نہیں کر سکتے؟ اس کی وجہ وہی ہے جسے پہلے بھی میں نے بیان کیا کہ گورنمنٹ کا اس طرح نوٹس دینا جس میں سول ڈس او بیڈینس (CIVIL DIS OBEDIANCE) کا الزام ہم پر لگایا گیا ہو ، کسی صورت میں بھی جائز نہیں.ہماری جماعت وہ جماعت ہے جسے شروع سے ہی لوگ یہ کہتے چلے آئے کہ یہ خوشامدی اور گورنمنٹ کی پھو ہے، بعض لوگ ہم پر الزام لگاتے ہیں کہ ہم گورنمنٹ کے جاسوس ہیں،
خطبات محمود ۳۱۵ سال ۱۹۳۴ء پنجابی محاورہ کے مطابق ہمیں جھولی چک اور نئے ”زمینداری" محاورہ کے مطابق ہمیں ٹوڈی کہا جاتا ہے.پھر کونسا زمانہ ہم پر ایسا نہیں گزرا جب ہم پر یہ الزام بھی نہ لگایا گیا ہو کہ ہم گورنمنٹ کے باغی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس وقت دعوی کیا، اسی وقت سے مکفر مولویوں نے اور خصوصیت سے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے گورنمنٹ کو یہ کہنا شروع کیا کہ ان لوگوں کی تعریفوں پر نہ جائیے، یہ حکومت کے خیر خواہ نہیں بلکہ باغی ہیں اور آج نہیں تو کل تلوار لے کر حکومت کے خلاف کھڑے ہو جائیں گے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی کے ابتدائی ایام سے ہی ہمیں لوگ یہ کہتے چلے آئے ہیں کہ ہم گورنمنٹ کے باغی ہیں اور اب قادیان اور امرتسر میں احراریوں نے جو تقریریں کی ہیں، ان میں بھی انہوں نے یہی بیان کیا ہے کہ ان لوگوں کی چکنی چپڑی باتوں پر نہ جائیے یہ دراصل گورنمنٹ کے مخالف ہیں.پھر اخبار "زمیندار" کے فائل اٹھا کر دیکھ لو ان میں بھی حکومت کے متعلق یہی لکھا ہوتا ہے کہ یہ تمہارے دوست کہاں کے ہیں، یہ تو درپردہ مخالف ہیں.پس گورنمنٹ نے اگر آج ہمیں یہ کہہ دیا کہ ہم باغی ہیں تو اس نے کونسا ہمیں نیا خطاب دے دیا جس پر ہمیں غصہ آئے.دراصل ان اعتراضات کی وجہ سے ہمیں رنج نہیں بلکہ ہمیں رنج دو وجہ سے ہے.ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہم نے گورنمنٹ کے ساتھ دوستی کی ظاہر و باطن دوستی کی مگر گورنمنٹ نے اس کے صلہ میں بغیر تحقیق کئے ہم پر خطرناک الزام لگادیا.پس ہمارے غصہ کی مثال بالکل وہی ہے جو منصور کی تھی.کہا جاتا ہے کہ جب انہیں دار پر لٹکایا گیا تو ان پر لوگوں نے پتھر مارنے شروع کر دیئے مگر وہ ہنستے جاتے اور کسی کا پتھر لگنے پر کوئی.رنج محسوس نہ کرتے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ انہیں جس قدر تکلیف پہنچ رہی ہے، خدا تعالیٰ کی خاطر ہے.اس موقع پر شبلی علیہ الرحمۃ نے جو ایک بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں، اپنی محبت جتلانے کے لئے ایک گلاب کا پھول اٹھایا اور منصور کی طرف پھینکا اس پھول کا لگتا تھا کہ منصور رو پڑے.شبلی نے پوچھا پھروں سے تو آپ نے کوئی تکلیف محسوس نہ کی مگر ایک پھول کے لگنے پر آپ رو پڑے.اس کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے کہا میں ان پتھروں سے خوش تھا کیونکہ یہ پتھر پھینکنے والے نابینا تھے.مگر اے شبلی ! تم تو میرے دوست تھے اور تم مجھے خوب جانتے تھے تمہارے پھول نے مجھے ان پتھروں سے زیادہ تکلیف دی ہے اے.اسی.طرح ہم نے ابتدائے سلسلہ سے گورنمنٹ کی وفاداری کی، ہم ہمیشہ یہ فخر کرتے رہے کہ ہم
خطبات محمود ۳۱۶ سال ۱۹۳۴ تو ملک معظم کی وفادار رعایا ہیں، کئی ٹوکرے خطوط کے ہمارے پاس ایسے ہیں جو میرے نام یا میری جماعت کے سیکرٹریوں یا افراد جماعت کے نام ہیں جن میں گورنمنٹ نے ہماری جماعت کی وفاداری کی تعریف کی اسی طرح ہماری جماعت کے پاس کئی ٹوکرے تمغوں کے ہونگے، ان لوگوں کے تمغوں کے جنہوں نے اپنی جانیں گورنمنٹ کے لئے فدا کیں.یہ اتنے ٹوکرے ہیں کہ ایک افسر کے وزن سے بھی ان کا وزن زیادہ ہے مگر ان تمام خدمات کے بعد اس تمام ادعائے وفاداری کے بعد اور اس تمام ثبوتِ وفاداری کے بعد گورنمنٹ نے بلا وجہ اور بغیر کسی حق کے بغیر اس کے کہ وہ انصاف اور عدل کے ماتحت فیصلہ کرتی، اندھا دھند اپنا قلم اٹھایا اور ہمیں باغی اور سلطنت کا تختہ اُلٹ دینے والا اور سول ڈس او بیڈینس کا مرتکب قرار دے دیا.پس ہمیں شکوہ ہے کہ وہ حکومت جو آج سے تین ماہ پہلے یہ کہا کرتی تھی کہ ہم ہندوستان کی بہترین وفادار جماعتوں میں سے ایک جماعت ہیں، اس نے ہم پر اس جرم کا الزام لگایا ہے جس جرم کا مقابلہ ہم ہمیشہ سے کرتے چلے آئے.پس ہمیں گورنمنٹ کے اس فعل پر شکوہ ہے اس لئے کہ وہ اس بادشاہ کے نمائندوں کی طرف سے ہے جس کی وفاداری پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیشہ فخر کیا جس کی حکومت میں رہنے پر آپ نے فخر کیا اور جس حکومت کی وفاداری پر ہم آج تک فخر کرتے چلے آئے، اس کے ہوتے ہوئے آج ہم کس طرح کانگرسیوں کو یہ کہہ سکتے ہیں کہ گورنمنٹ عدل و انصاف کو قائم رکھتی ہے.اس نے ہماری زبان بندی کی صرف چوہیں اکتوبر تک نہیں بلکہ جب تک یہ حکم موجود ہے اس وقت تک گورنمنٹ کی تعریف ہمارے دل نہیں کر سکتے کیونکہ گورنمنٹ نے ناجائز اور ظلماً ایک قانون کا ہم پر استعمال کیا.بالکل ممکن ہے ہز ایکسی لینسی گورنر کو اس کی اطلاع نہ ہو، بالکل ممکن ہے گورنمنٹ کے بعض اور ذمہ دار عہدہ داروں کا اس میں کوئی دخل نہ ہو، بالکل ممکن ہے کہ یہ صرف ایک ہی افسر کی کارروائی ہو مگر چونکہ گورنمنٹ کے نام پر یہ کام کیا گیا ہے، اس لئے ہمیں شکوہ ہے کہ ہم پر وہ ظلم کیا گیا جس کے ہم مستحق نہیں تھے.پھر اس حکومت کی طرف سے اور اس بادشاہ کے نمائندوں کی طرف سے یہ سلوک کیا گیا جس کی رعایا ہونے پر ہم ہمیشہ فخر کرتے رہے.پس ہماری مثال بالکل منصور کی طرح ہے اور گورنمنٹ کی شبلی کی طرح.مگر یہ صرف مثال ہی ہے ورنہ گورنمنٹ نہ شبلی کی طرح عارف ہے اور نہ ہمیں منصور کی طرح دار پر کھینچا گیا ہے یہ صرف
خطبات محمود دوست کی طرف سے تکلیف پہنچنے کی ایک مثال ہے.پھر دوسری وجہ ہمارے شکوہ کی یہ ہے کہ گورنمنٹ نے ایک ایسا راستہ اختیار کیا ہے جس پر چلنے سے فساد برپا ہوتا اور ملک کا امن برباد ہوتا ہے.اگر پرامن شہریوں، وفادار رعایا اور خدمت گزار باشندگان ملک کو اس طرح ڈس او بیڈینس کا مرتکب قرار دیا جائے، اگر جائز کاموں کیلئے اپنے مقدس مقامات کی طرف آنے والوں کے راستہ میں اس طرح رُکاوٹ ڈالی جائے تو بتلاؤ اس ملک میں رہنے سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے.پس اگر ہم اس کا ازالہ نہ کریں تو ہمیں خطرہ ہے کہ یہ فتنہ بڑھتا چلا جائے گا اور وہ دلیل جس سے ہم کانگرسیوں کو قائل کیا کرتے تھے باطل ہو جائے گی.ہم ہمیشہ کانگرسیوں سے یہ کہا کرتے کہ گورنمنٹ قانون کی پابندی کرتی اور انصاف کو قائم رکھتی ہے مگر اس واقعہ کو سن کر کون شخص ہے جو یہ کہہ سکے کہ گورنمنٹ نے قانون کی پابندی کی.میں اس بات پر تیار ہوں کہ ایک انگریز جج کو مقرر کیا جائے اور اس کے سامنے ان تمام واقعات کو رکھا جائے پھر اگر وہ ان تمام واقعات پر غور کر کے کہہ دے کہ اس میں ہماری غلطی ہے تو ہم اسے تسلیم کرلیں گے اور اگر وہ یہ کہہ دے کہ اس میں گورنمنٹ کی غلطی ہے تو ہمیں یہ امید کرنے کا حق ہے کہ گورنمنٹ بھی یہ کہے کہ اس سے غلطی ہوئی.ہم کانگرسیوں کی طرح یہ مطالبہ نہیں کرتے کہ ایک آزاد کمیشن مقرر کیا جائے جس میں گورنمنٹ کا کوئی افسر شامل نہ ہو نہ ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ایسا کمیشن مقرر کیا جائے جس میں آدھے احمدی اور آدھے انگریز آفیسرز ہوں، نہ ہم یہ کہتے ہیں کہ کوئی ایسا کمیشن مقرر ہو جو ہماری رائے پر مقرر ہو بلکہ میں یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار ہوں کہ اگر ایک انگریز جج مقرر کردیا جائے تو ہم اپنا ریکارڈ اس کے سامنے رکھ دیں گے اور گورنمنٹ بھی اپنا ریکارڈ اس کے سامنے رکھ دے.پھر اگر وہ کہہ دے کہ یہ ہماری غلطی ہے تو ہم اسے ہر وقت تسلیم کرنے کیلئے تیار ہیں.اور اگر وہ کہ گورنمنٹ کی غلطی ہے تو اسے بھی اپنی غلطی کو تسلیم کرنا چاہیے.میں حج کی شرط اس لئے لگاتا ہوں کہ جوں کی تربیت اس رنگ میں ہوتی ہے کہ وہ ہر معاملہ کو قضائی رنگ میں دیکھنے کے عادی ہو جاتے ہیں.اگر اس معاملہ میں اپیل کی اجازت ہوتی تب بھی مجھے زیادہ غصہ نہ آتا کیونکہ میں سمجھتا کہ سلسلہ کی عزت کی حفاظت کیلئے ہم ہائی کورٹ میں اپیل کرلیں گے اور چونکہ بہرحال دنیوی اصول کے مطابق آخری فیصلہ انسانوں نے ہی کرنا ہوتا ہے، اس لئے اگر ہائی کورٹ
خطبات محمود ٣١٨ سال ۱۹۳۴ء ہمارے خلاف فیصلہ کرتی تو میں سمجھتا کہ معاملہ اتنا صاف نہیں جتنا کہ ہم اسے سمجھتے تھے اور گو ہمارے دل اپنی صداقت کے ہی قائل رہتے لیکن بہر حال ہائی کورٹ کے فیصلہ کے بعد ہم اس پر خاموشی اختیار کرلیتے.لیکن جس قانون کے ماتحت بلاوجہ مجھے باغی اور حکومت کا تختہ الٹنے والا قرار دیا گیا ہے، اس میں ہائی کورٹ کے پاس اپیل کی کوئی راہ نہیں کھلی رکھی گئی.میں جانتا ہوں کہ میرے دل میں ملک معظم کے متعلق کیا جذبات ہیں، میں جانتا ہوں کہ گورنمنٹ کی وفاداری اور اس کی اطاعت کے متعلق میرے کیا خیالات ہیں، میں ہر اس اور ہر اس بھیانک سے بھیانک لعنت کو اٹھانے کیلئے تیار ہوں جو سنگدل سے سنگدل انسان کو بھی ڈرانے والی ہو کہ یہ الزام جو ہم پر لگایا گیا جھوٹا اور بے بنیاد ہے.ہم ہمیشہ ملک معظم کی وفادار رعایا رہے، ہمیشہ امن پسندی اور اطاعت شعاری ہمارے مذہب کی تعلیم ہے سول ڈس او بیڈینس کا کبھی واہمہ بھی ہمارے دل میں نہیں گذرا اور نہ گزر سکتا ہے کیونکہ ہماری مذہبی تعلیم ہمیں اس سے روکتی ہے.پس اگر ہائی کورٹ کا فیصلہ ہمارے خلاف ہو تا تب بھی گو دل میں میں یہی سمجھتا کہ ہم حق پر ہیں لیکن چونکہ معاملات کو ایک جگہ ختم کرنا پڑتا ہے، اس لئے میں اس امر کو چھوڑ دیتا اور میں اب بھی آمادہ ہوں کہ ایک انگریز جج کے سامنے اپنے تمام کاغذات کو رکھوں اور پھر وہ جو فیصلہ کردے، اسے منظور کرلوں.بلکہ انگریز جج کی خصوصیت نہیں میں اس امر کیلئے بھی تیار ہوں کہ مسلمانوں میں سے کسی ایسے شخص کو جس پر حکومت کو بھی اعتبار ہو اور ہمیں بھی، مقرر کر دیا جائے کہ وہ قضائی نقطہ نگاہ سے اس امر میں فیصلہ کردے اور میں اس کے فیصلہ کو تسلیم کرلوں گا.میں سمجھتا ہوں شاید ہز ایکسی لینسی گورنر کا نام لینا اُن کی شان کے خلاف ہو اس لئے میں ان کا نام نہیں لے سکتا لیکن حق یہ ہے کہ گو وہ اس ایگزیکٹو کے افسراعلیٰ ہیں جس نے یہ حکم دیا ہے پھر بھی اگر وہی کہیں کہ میں ہی اس قضیہ کا قضائی فیصلہ کر دیتا ہوں تو میں انہی پر اس جھگڑے کا فیصلہ چھوڑنے پر آمادہ ہوں.پس ہماری طرف سے کوئی جھگڑا نہیں بلکہ اس معاملہ میں میں نے گزشتہ جمعہ ایک اعلیٰ سرکاری افسر کی اس تحریک پر کہ اس معاملہ میں جلدی نہ کی جائے ایک خاص آدمی پچھلے جمعہ کے خطبہ سے پہلے ان کی طرف بھیجا اور اسی وقت میں نے انہیں لکھ دیا کہ میں کوئی ایسا اقدام نہیں کروں گا جو جلد بازی پر مبنی ہو.میں پہلے گورنمنٹ پنجاب کے پاس اپیل کروں گا.
سال ۱۹۳۴ء خطبات محمود مگر ہم اور اگر گورنمنٹ پنجاب نے توجہ نہ کی تو گورنمنٹ آف انڈیا کو توجہ دلاؤں گا اور اگر اس نے بھی توجہ نہ کی تو ہوم گورنمنٹ کے پاس اپیل کروں گا اور اگر اس نے بھی اس امر پر کوئی توجہ نہ کی تو میں انگلستان کی پبلک اور دوسری تمام برٹش امپائر کی پبلک کے سامنے یہ معاملہ پیش کروں گا اور اگر یہ سب انصاف کی طلب اور اپیلیں رائگاں گئیں تو اس وقت میں وہ تدابیر اختیار کروں گا جو اپنی عزت اور سلسلہ کی حفاظت کیلئے میرے نزدیک ضروری ہوں گی کسی صورت میں بھی قانون شکنی نہیں کریں گے اور کسی صورت میں بھی اپنے مقررہ اصولوں کو نہیں چھوڑیں گے.بیشک یہ ایک عجیب بات معلوم ہوتی ہے کہ گورنمنٹ کی وفاداری کرتے ہوئے کس طرح اپنی عزت کی حفاظت کی جائے.مسٹر گاندھی جو صرف تشدد کے مخالف ہیں، ان کی عدم تشدد کی پالیسی بھی بہت لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی تو یہ سمجھنا تو اور بھی زیادہ مشکل ہے کہ ہم قانون شکنی بھی نہ کریں گے اور اپنے گزشتہ اصولوں کو بھی نہیں چھوڑیں گے ، پھر بھی اپنی ہتک کا ازالہ کرا کے چھوڑیں گے.لیکن جس شخص کو اللہ تعالی نے ایسے مقام پر کھڑا کیا ہو جو دُنیا کی اصلاح کا مقام ہے اللہ تعالی اسے مسٹر گاندھی اور ان کے ساتھیوں سے زیادہ عقل دیتا اور اس کی تدابیر کو دنیا میں خود کامیاب کیا کرتا ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ گورنمنٹ کو آخر تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ اس کی غلطی تھی اور ہم حق پر تھے.باوجود یکہ ہم نہ تشدد کریں گے اور نہ سول نافرمانی، باوجود یکہ ہم گورنمنٹ کے قانون کا احترام کریں گے، باوجود اس کے کہ ہم ان تمام ذمہ داریوں کو ادا کریں گے جو احمدیت نے ہم پر عائد کی ہیں.اور باوجود اس کے کہ ہم ان تمام فرائض کو پورا کریں گے جو خدا اور اس کے رسول نے ہمارے لئے مقرر کئے پھر بھی ہماری سکیم کامیاب ہو کر رہے گی.کشتی احمدیت کا کپتان اس مقدس کشتی کو پُر خطر چٹانوں میں سے گزارتے ہوئے سلامتی کے ساتھ اسے ساحل پر پہنچا دے گا.یہ میرا ایمان ہے اور میں اس پر مضبوطی سے قائم ہوں.جن کے سپرد الہی سلسلہ کی قیادت کی جاتی ہے ان کی عقلیں اللہ تعالی کی ہدایت کے تابع ہوتی ہیں اور وہ خدا تعالیٰ سے نور پاتے ہیں.اور اس کے فرشتے ان کی حفاظت کرتے ہیں اور اس کی رحمانی صفات سے وہ مؤید ہوتے ہیں اور گو وہ دنیا سے اُٹھ جائیں اور اپنے پیدا کرنے والے کے پاس چلے جائیں مگر ان کے جاری کئے ہوئے کام نہیں رکھتے اور اللہ تعالی انہیں مفلح اور منصور بناتا ہے.یہ مت گمان کرو کہ میرے اس دیر کرنے میں مبادا وہ سکیم تمہارے سامنے نہ آئے
خطبات محمود ۳۲۰ کیونکہ کیا پتہ ہے کہ میں اگلے جمعہ تک زندہ بھی رہتا ہوں یا نہیں.پس میں آج یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ وہ سکیم جو میں پیش کرنا چاہتا ہوں وہ کبھی غائب نہیں ہو سکتی بغیر اس کے کہ تمہیں اس کا علم ہو، وہ تمہارے پاس پہنچ چکی ہے اور بغیر اس کے کہ وہ تمہیں معلوم ہو، بکلی محفوظ ہو چکی ہے اور کسی انسان کی موت اس کو کسی صورت میں بھی نہیں مٹاسکتی.بہرحال جماعت احمدیہ جلد یا بدیر اس معالمہ میں غالب آکر رہے گی اور اپنی صداقت دنیا سے منوا کر رہے گی.میں پھر اصل مضمون کی طرف لوٹتے ہوئے کہتا ہوں کہ ہم گورنمنٹ سے لڑائی نہیں کریں گے اور نہ کبھی قانون شکنی کریں گے بلکہ ہم صرف اپنی ہتک کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں، اسی حد تک ہماری سعی رہے گی.دوسرے کی ہتک کرنے کا نہ ہمارا ارادہ ہے اور نہ ہم اسے جائز سمجھتے ہیں.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومت کے بعض افسروں کو بھی غلطی لگی ہے اور وہ خیال کرنے لگے ہیں کہ شاید میں نان کو آپریشن (NON-COOPERATION) | جیسی کوئی تحریک کرنے والا ہوں.ادھر جماعت کے بعض لوگوں نے بھی میری سکیم کو نہیں سمجھا.گو بعض نے حیرت انگیز طور پر سمجھا ہے حتی کہ انہوں نے اپنے خطوط میں میری سکیم کا ڈھانچہ اختصاراً بیان کر دیا ہے لیکن بعض نے ناواقفیت سے ایسی تجاویز بھی پیش کی ہیں جو صورت میں بھی درست نہیں ہو سکتیں.مثلاً ایک شخص نے لکھا ہے کہ ہمیں کھدر پہنا شروع کر دینا چاہیئے.میں سمجھتا ہوں کہ بیشک اگر انگریزی کپڑے کا بائیکاٹ کیا جائے تو انگلستان کو ہم پندرہ لاکھ روپیہ کا سالانہ نقصان آسانی سے پہنچا سکتے ہیں اور کانگرس سے مل کر ہم کام کریں تو یقیناً انگریزی مال کے بائیکاٹ کی سکیم بہت زیادہ کامیاب ہو سکتی ہے مگر یہ امر ہماری تعلیم کے خلاف ہے کہ ہم کسی ایسے شخص کا بائیکاٹ کریں جس کا قصور نہ ہو.اور گو اس ذریعہ سے بھی ہم انگلستان کو اپنے حقوق کی طرف توجہ دلا سکتے ہیں مگر چونکہ مذہبی لحاظ سے یہ ہمارے لئے جائز نہیں، اس لئے یہ طریق بالکل نامناسب ہے.علاوہ ازیں یہ عقل کے بھی خلاف ہے کہ پنجاب کا ایک افسر غلطی کرے مگر لٹھ لنکاشائر کے لوگوں پر مارا جائے.ہمارا فرض ہے کہ کیسا ہی خطرناک موقع پیش آئے ہم اپنی عقل کو قائم رکھیں اور عدل کو کسی لمحہ بھی اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑیں.پس یہ بالکل غیر معقول بات ہے کہ پنجاب کا ایک آدمی ہماری ہتک کرتا ہے مگر لٹھ لنکاشائر کے آدمیوں کو مارا جاتا ہے.ہاں یہ ہمارا حق ہے اور اگر ہم ایسا کریں تو ہے
خطبات محمود ٣٢١ سال ۱۹۳۴ء جائز ہوگا کہ پہلے ہم حکومت پنجاب کے پاس اپیل کریں اور اگر وہ نہ سنے تو حکومت ہند کے پاس اپیل کریں اور اگر وہ بھی نہ سنے تو ہوم گورنمنٹ (HOME GOVERNMENT) کے پاس اپیل کریں اور اگر وہ بھی نہ سنے تو انگلستان کے باشندوں کے پاس اپیل کریں اور اگر ! وہاں بھی شنوائی نہ ہو تو ہم انہیں کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے ہر آئینی ذریعہ سے اپنی بات تمہارے کانوں تک پہنچانے کی کوشش کی، ہم نے اپنے زخموں کو ننگا کر کے تمہارے سامنے رکھ دیا لیکن تم پھر بھی ہمارے غم میں شریک نہ ہوئے.پس اب تم بھی گورنمنٹ کے اس میں شریک ہو لیکن اس صورت میں بھی ہم بائیکاٹ اور دوسری تحریکات کے متعلق اپنے قائم شدہ رویہ کو نہیں بدلیں گے اور قانون شکنی کے نزدیک نہیں جائیں گے.اس میں شبہ نہیں کہ بعض صورتیں ایسی ہیں کہ جو بائیکاٹ کے مشابہ ہیں اور خاص حالات میں جائز ہیں مگر وہ دور کی بات ہے اور جب تک وہ وقت نہ آئے، اس وقت تک اگر کسی دوست کے ذہن میں کوئی ایسی بات آئے جو جماعت کیلئے یا میرے لئے قابل عمل ہو تو وہ میرے سامنے پیش کر سکتا ہے.مگر اس سے پہلے کہ آخری فیصلہ ہمارے لئے نہ ہو، ہمارے لئے جائز نہیں کہ ہم ظالم بن کر ایک فعل کا ارتکاب کریں.رسول کریم ﷺ کے پاس ایک دفعہ ایک شخص آیا اور اس نے کہا.یا رسول اللہ ! اگر میں اپنی بیوی کو زنا کرتے دیکھوں تو کیا میں اس کو قتل کردوں.آپ نے فرمایا نہیں اگر تو اسے قتل کرے گا تو تو قاتل سمجھا جائے گا اور تیرے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جو قاتلوں کے ساتھ کیا جاتا ہے.کیونکہ سزا دینا حکومت کا کام ہے، تیرا نہیں ہے.اسی طرح ہمارا یہ کام نہیں کہ ہم اللہ تعالی کی بتائی ہوئی تجاویز کے خلاف کوئی اور تجاویز اپنے لئے اختیار کرلیں کیونکہ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہم ظالم ہو جائیں گے اور اللہ تعالی کی نصرت ہمارے ساتھ نہ رہے گی.اور اگر اللہ تعالی کی مدد سے بھی ہم محروم ہو گئے تو ایسی کسی حکومت کے مقابلہ میں جس کے پاس ہوائی جہاز' تو ہیں، بندوقیں ہم، تلواریں اور لاکھوں سپاہی ملازم ہیں، ہم کیا کر سکتے ہیں.گاندھی جی تینتیس کروڑ افراد لے کر اٹھے تھے لیکن وہ کچھ نہ کر سکے.ہماری جماعت تو گورنمنٹ کی مردم شماری کی رُو سے پنجاب میں چھپن ہزار ہے.اگر سارے ہندوستان کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے دوگنا بھی کرلیا جائے اور پھر اگر ہمارے اندازے کے مطابق ہندوستان کی جماعت کو اڑھائی تین لاکھ سمجھ لیا جائے، تب بھی تینتیس کروڑ افراد جس جگہ فیل ہو چکے ہوں، وہاں یہ تعداد کیا کر سکتی ہے.
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء کہا جاسکتا ہے کہ گاندھی جی کے ساتھ مسلمان نہ تھے یا تھوڑے تھے اس امر کو بھی مد نظر رکھ لیا جائے تو موجودہ مردم شماری کی رُو سے ہندوستان کی آبادی پینتیس کروڑ ثابت ہوتی ہے اور مسلمانوں کی آبادی آٹھ کروڑ.چونکہ اکثر عیسائی اور کچھ ہندو بھی گاندھی جی کے ساتھ نہ تھے اگر دس کروڑ لوگ اس مردم شماری سے نکال دیئے جائیں تو پچیس کروڑ آدمی باقی رہ جاتے ہیں.یہی تعداد مانتے ہوئے بھی میں کہتا ہوں کہ جہاں پچیس کروڑ آدمی ایک کام نہ کر سکا وہاں اڑھائی تین لاکھ آدمی کیا کام کر سکتا ہے.گو میرے نزدیک گاندھی جی اب جس سکیم کو چلانا چاہتے ہیں، وہ پہلے سے بہت اعلیٰ ہے.پہلے ان کی سکیم تو اچھی ہوتی تھی مگر اس کے پورا کرنے کے سامان ناقص ہوتے تھے.اب کے انہوں نے آلات کو درست کرنے کی طرف توجہ کی ہے اور بہت عمدہ اصول تجویز کئے ہیں اور میں کہہ سکتا ہوں کہ اگر وہ جوش میں آکر اپنا کام خراب نہ کرلیں تو اب ان کیلئے فتح پانا ممکن ہو گیا ہے.خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا.بظاہر حالت جو اس وقت لوگ سمجھتے ہیں یہی ہے کہ کانگرس شکست کھا گئی ہے.پس اگر مسٹر گاندھی پچیس کروڑ آدمیوں کی مدد سے ناکام رہے تو ہم انسانی تدابیر سے کس طرح جیت سکتے ہیں.مثل مشہور ہے "کیا پدی اور کیا پدی کا شوربا".مگر جس طرح یہ مثال ہے ایک اور بھی مثال ہے کہ ”جانور کس کھونٹے پر ناچے".جانور کھونٹے والے پر ناچا کرتا ہے.گھوڑا جب ہنہناتا ہے تو وہ اپنے آقا کے دعوئی پر ہنہناتا ہے.ہم بھی کہتے ہیں کہ ہمارا ایک آتا ہے جس نے ہمیں دنیا کی اصلاح کیلئے کھڑا کیا.پس اسی کا کھونٹا ہے جس کے سہارے ہم کھڑے ہیں ورنہ ہماری ہستی ہی کیا ہے.ہم دنیا کی نگاہوں میں ذلیل اور حقیر ہیں، دولت ہمارے پاس نہیں، ظاہری علم ہمارے پاس نہیں، جبھہ ہمارے پاس نہیں، بلکہ ایک پہلوان کے مقابلہ میں جس طرح دودھ پیتا بچہ ہوتا ہے اور وہ جب چاہے اس کی گردن مروڑ سکتا ہے، اسی طرح ہم دنیا کے مقابلہ میں ہیں مگر ہم جس چیز پر نازاں اور مطمئن ہیں، وہ خدا کی مدد ہے اور خدا کی مدد ظالموں کو نہیں آیا کرتی.قرآن کریم میں متواتر بیان کیا گیا ہے کہ ظالم کبھی کامیاب نہیں ہوتا.پس اگر ہم بھی ظالم بن جائیں تو کس طرح کامیاب ہو سکتے ہیں.اگر ہم اپنی کامیابی چاہتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے امذہبی اصول کی پابندی کریں جن میں سے ایک اہم اصل یہ ہے کہ ہم قانون شکنی نہ کریه کسی کی جان اور مال پر حملہ نہ کریں، ناجائز الزام نہ لگائیں اور جھوٹ نہ بولیں.ان ساری ریں
خطبات محمود ٣٢٣ سال ۱۹۳۴ء باتوں کے باوجود ہم انتہائی اقدام اس صورت میں کریں گے اگر ہماری صلح اور امن پسندی کی ئیں رائیگاں چلی گئیں.ورنہ جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا ہے ہم تو یہاں تک تیار ہیں کہ ایک انگریز جج مقرر کیا جائے اور اگر وہ فیصلہ کر دے کہ ہم غلطی پر ہیں تو گو دلوں میں ہم اس کو صحیح نہیں مانیں گے مگر اسی وقت ہم اپنے ہتھیار ڈال دیں گے اور سمجھ لیں گے کہ جج نے جو فیصلہ کرنا تھا کر دیا.یہی قانون ہے جو دنیا میں رائج ہے.حج صحیح فیصلے بھی کرتے ہیں اور غلط بھی.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں بالکل ممکن ہے کہ میں ایک شخص کو کوئی چیز دلوادوں حالانکہ وہ اس کا حق دار نہ ہو ہے.جب رسول کریم اے اپنے فیصلہ میں غلطی سکتے ہیں تو ایک مومن کیوں غلطی نہیں کر سکتا.اور پھر ایک غیر مؤمن غلطی سے کیونکر مبترا سکتا ہے لیکن بہر حال فیصلہ کے لحاظ سے ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ جو کچھ وہ کہے اسے مانیں خواہ ہمارے دل اس کو قبول کریں یا نہ کریں.اُس وقت ہم تسلیم کرلیں گے کہ گورنمنٹ نے جو لکھا وہ غلط فہمی کے ماتحت لکھا اور وہیں بات ختم ہو جائے گی.لیکن اگر گورنمنٹ ہماری کوئی بات بھی تسلیم نہ کرے اور ہمارے دوست ہمیں یہی نصیحت کرتے رہیں کہ تم خاموشی سے بسر کرتے چلے جاؤ تو ہمارا حق ہوگا ان سے بات پوچھنے کا کہ وہ ہمیں کوئی تجویز بتادیں جس سے ہم جماعت کی ہتک کا ازالہ کر سکیں.ہو اب میں بعض وہ واقعات بیان کرتا ہوں جن سے ہمیں شبہ پیدا ہوتا ہے کہ گورنمنٹ پنجاب کے افسران میں سے کوئی افسر ایسا ہے جو ہمارے سلسلہ کو بلا وجہ نقصان پہنچانا چاہتا اور اسے دنیا میں بدنام کرنا چاہتا ہے.میں نے پچھلے جمعہ میں بتایا تھا کہ اگر یہی ایک واقعہ ہوا ہوتا تو مجھے اتنا بُرا نہ لگتا جتنا کہ اب لگا.اور یہ بھی میں نے بتایا تھا کہ گورنمنٹ کو دوست سمجھتے ہوئے ہمارے لئے یہ اچھے کی بات تھی کہ ہمیں باغی قرار دیا گیا لوگ اگر اس کو نہ سمجھ سکیں تو وہ معذور ہیں کیونکہ ان کے دلوں میں گورنمنٹ کی وفاداری کا وہ جذبہ نہیں جو ہمارے دلوں میں ہے.جب میں بچہ تھا اور ابھی میں نے ہوش ہی سنبھالا تھا اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان سے گورنمنٹ کی وفاداری کا میں نے حکم سنا اور اس حکم پر اس قدر پابندی سے قائم رہا کہ میں نے اپنے گہرے دوستوں سے بھی اس بارے میں اختلاف کیا حتی کہ اپنے جماعت کے لیڈروں اختلاف کیا.چنانچہ کانپور کی مسجد کے واقعہ کے متعلق الفضل اور پیغام صلح میں جو جنگ
خطبات محمود آج مجھ سال ۱۹۳۴ء ہوئی و وہ اسی کا نتیجہ تھا.پس میں نے گورنمنٹ کی حمایت کیلئے اپنے عزیزوں سے لڑائی کی.اور اپنی جماعت کے لیڈروں سے اختلاف کیا.میری عمر اس وقت چوبیس سال تھی میں جماعت کا کوئی افسر نہ تھا کہ اس پر میرا اثر ہوتا.اس زمانہ میں جماعت کو دھوکا دے دے کر ورغلایا گیا اور اسے میرے خلاف اکسایا گیا مگر اس تعلیم کے ماتحت کہ گورنمنٹ کے راستہ میں مشکلات پیدا نہیں کرنی چاہئیں میں نے بڑوں کا مقابلہ کیا اور جماعت کے دوستوں پر زور دیا کہ ہمیں گورنمنٹ کی وفاداری کا حکم دیا گیا ہے اور جماعت میں اپنی پوزیشن کو نہایت کمزور کر لیا مگر پر یہ اتمام لگایا گیا ہے کہ میں جماعت میں گورنمنٹ کے خلاف جوش پھیلانے والا ہوں.بیشک ایک کانگرسی ہم کو پاگل سمجھے گا کیونکہ اس کے نزدیک گورنمنٹ کا تختہ الٹ دینے والا اور ڈس او بیڈنیس کا مرتکب ہونے والا ایک قابل فخر شخص ہے مگر ہم اسے اپنے لئے عار سمجھتے ہیں.وہ اگر پبلک کو اپنے ساتھ ملاتے ہیں تو یہ کہہ کر کہ اے لوگو میں وہ ہوں جس نے گورنمنٹ کا تختہ الٹنے کیلئے فلاں فلاں کام کیا، میں وہ لیڈر ہوں جو ڈس او بیڈینس کا مرتکہ ہوا پس وہ اپنے افعال پر فخر محسوس کرتے ہیں اور ان کیلئے یہ بات سمجھنا ناممکن ہے کہ سول ڈس او بیڈ منیس یا حکومت کا تختہ الٹ دینے کے الزام میں ہتک کیونکر ہو گئی لیکن افسوس یہ ہے کہ برطانیہ کے افسر بھی اس امر کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس الزام میں کوئی ہتک ہوتی ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ بھی حکومت سے وفاداری کے جذبہ کو مذہبی رنگ میں دیکھنے سے قاصر ہیں اور ان کے دلوں میں بھی گورنمنٹ کی وفاداری کا وہ جذبہ نہیں جو ہمارے دلوں میں پایا جاتا ہے ان کے نزدیک یہ ایک معمولی بات ہے.مگر میں ڈس او بیڈینس کے الزام کو اپنے لئے ایک بدترین گالی تصور کرتا ہوں.پس ہماری عجیب حالت ہے کہ کانگرسی تو ہمیں یہ کہتے ہیں کہ تم پاگل ہوئے ، گورنمنٹ نے تمہیں انعام دیا اور تمہاری یہ تعریف کی کہ تم اس کے تختہ کو الٹنے والے ہو مگر تم نے اس کی کوئی قدر نہ کی اور اسے اپنی ہتک تصور کرنے لگے اور گورنمنٹ کے لوگ ہمیں یہ کہتے ہیں کہ اتنی سی بات تھی جسے افسانہ کر دیا گویا ان کے نزدیک یہ کوئی اخلاقی یا مذہبی مُجرم ہی نہیں.پس ہمارے لئے یہ عجیب مصیبت ہے اور ہم حیران ہیں کہ اس کو سمجھائیں یا اُس کو.میں نے بتایا تھا کہ اگر صرف یہی ایک
خطبات محمود ۳۲۵ سال ۲۱۹۳۴ واقعہ ہوا ہوتا تو بھی میں کہہ سکتا تھا کہ ایں ہم اندر عاشقی بالائے مہائے دگر ہے جو ہم نے اپنے سلسلہ کی حفاظت اور خدا تعالیٰ کی رضا کیلئے بدترین گالیاں سنی ہیں اگر ان گالیوں میں ایک اس گالی کا بھی اضافہ ہو گیا تو کیا مگر چونکہ اس کے آئندہ خطرات بہت سخت ہو سکتے تھے، اس لئے مجھے ضرورت پیش آئی کہ یہ معالمہ میں اٹھاؤں.دوسرے یہ ایک لمبی زنجیر کی آخری کڑی ہے جن واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ گورنمنٹ کے بعض افسر ہمارے متعلق اس کے پاس جھوٹی رپورٹیں کرتے اور خلاف واقعہ باتیں پہنچا کر اسے ہمارے خلاف اکساتے رہتے ہیں.پس یہ اکیلا واقعہ نہیں بلکہ گورنمنٹ کی طرف سے سختی کا ایک لمبا سلسلہ ہمارے متعلق ایک عرصہ سے جاری ہے.اس زنجیر میں سے بعض واقعات ہز ایکسی لینسی گورنر کی اپنی ذات سے تعلق رکھتے ہیں اور چونکہ میں انہیں ملک معظم کا نمائندہ سمجھتا ہوں اس لئے میرے دل میں ملک معظم کا جو ادب ہے اس کی وجہ سے میں ان کا نام درمیان میں لانا نہیں چاہتا اور اسی لئے حکام نے جو باتیں ان کی طرف منسوب کر کے بیان کی ہیں، چونکہ ان کی تحقیق کا کوئی ذریعہ میرے پاس نہیں میں نے انہیں تسلیم نہیں کیا.اور اب بھی اگرچہ بعد کے واقعات نے شبہات کا ایک لمبا سلسلہ پیدا کر دیا ہے، میں انہیں صحیح قرار نہیں دے سکتا اور چونکہ میں ان سے نہ براہِ راست پوچھ سکتا ہوں اور نہ ہی وہ مجبور ہیں کہ ایسے سوالات کا جواب دیں.پھر یہ امر بھی مد نظر ہے کہ ہم نے ان کا ادب کرتا ہے اس لئے میں ان کے نام کو درمیان میں نہیں لاسکتا اور اگر میں ان کا نام درمیان میں لاؤں تو یہ میری مذہبی تعلیم کے خلاف ہوگا اس لئے جب تک کوئی اخلاقی یا شرعی ضرورت مجھے مجبور نہ کرے، میں وہ واقعات نظر انداز کرتے ہوئے صرف وہ باتیں بیان کرنا چاہتا ہوں جو گورنمنٹ کے نام پر کی گئی ہیں اور جن میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر حکام نے ہمارے قیمتی وقت کو ضائع کیا.قادیان کے لوگ بھی شاید پوری طرح نہ جانتے ہوں اور باہر کے لوگ تو بالکل ہی نہیں جانتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ قادیان کی زندگی موجودہ زمانہ میں امن کی زندگی نہیں کہلا سکتی کیونکہ جماعت کے کارکنوں کا کافی وقت پولیس مینوں اور مجسٹریٹوں سے جھگڑنے میں خرچ ہو جاتا ہے اور آج میں جماعت کو آگاہ کرتا ہوں کہ اگر یہی حالت بدستور قائم رہی تو آئندہ کوئی کام جماعت کا نہیں ہو سکے گا.ہمارے کارکنوں کی یہ ہمت اور بہادری تھی بلکہ بہت بڑی قربانی تھی کہ ان تمام جھگڑوں کے +
خطبات محمود ۳۲۶ سال ۱۹۳۴ء باوجود انہوں نے جماعت کا کام کیا حالانکہ یہ واقعات ایسے ہیں کہ ہماری تمام تر توجہ انہی کی طرف لگی رہتی ہے.پس جماعت کو یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ یا تو یہ روکیں وہ اپنے راستہ سے دور کرے جو اس وقت ہمارے راستہ میں حائل ہو رہی ہیں ورنہ جماعت کے تمام کام اس وقت تک بند رہیں گے جب تک وہ افسر نہ چلے جائیں جو ہمارے امن میں خلل اندازی کا موجب ہو رہے ہیں.مگر میں اس اخلاص کا اندازہ کرتے ہوئے جو مولوی عبدالرحمن صاحب شہید نے امیر عبدالرحمن کے وقت کابل میں دکھایا اور اس اخلاص کا اندازہ کرتے ہوئے جو سید عبداللطیف صاحب شہید نے امیر حبیب اللہ کے وقت میں دکھایا اور پھر اس اخلاص کا اندازہ کرتے ہوئے جو مولوی نعمت اللہ صاحب شہید اور ان کے دو ساتھیوں نے امیر امان اللہ خان کے وقت میں دکھایا اور پھر اس اخلاص کا اندازہ کرتے ہوئے جو ہندوستان میں اور بیرون ہندوستان ہزاروں احمدیوں نے سخت سے سخت تکالیف کے مقابلہ سے دکھایا، امید رکھتا ہوں کہ جماعت احمدیہ ایک منٹ کیلئے بھی یہ گوارا نہیں کرے گی کہ اس کے کاموں میں خلل اندازی کی جائے اور وہ فرائض جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کئے ہیں ان کی بجا آوری میں نقص واقع ہو.وہ ہر جائز قربانی کرنے کیلئے تیار رہے گی اور وہ ملک معظم کی وفادار رعایا رہتے ہوئے اس حق کو حاصل کر کے رہے گی جس کو آج پامال کیا جا رہا ہے.اب میں بعض وہ واقعات بیان کرتا ہوں جو اس سلسلہ میں بیان کرنے ضروری ہیں اور چونکہ ڈیڑھ بجے تک میں ایک دوست کو خط لکھتا رہا ہوں اور اس کے بعد صرف دس منٹ میں یہ واقعات نوٹ کئے ہیں اس لئے میں ان میں کوئی ترتیب ملحوظ نہیں رکھ سکا.- پہلا واقعہ: میں اس جگہ کا ہی لے لیتا ہوں جسے احراری لوگ مسجد کہتے ہیں حالانکہ وہ قبلہ رخ نہیں، وہ شاید ڈیڑھ مرلہ کے قریب جگہ ہے، میں نے خود اسے دیکھا ہے قریباً ایک کمرہ کے برابر زمین ہے.وہ زمین احرار کے نام سے یا احراریوں کی طرف سے کسی آدمی نے خریدی مجھے صحیح واقعہ معلوم نہیں بہرحال اس تحریک کے سلسلہ میں یہ زمین خریدی گئی اور اس کے خریدنے کے بعد چندہ جمع کرنے کی نیت سے وہاں مسجد کے نام سے ایک چھوٹی سی عمارت بنانی شروع کردی گئی.وہ جگہ سمال ٹاؤن کمیٹی کی حدود میں ہے اور گورنمنٹ کے قانون کے ماتحت سمال ٹاؤن کمیٹی کی اجازت کے بغیر کوئی شخص اس کے حلقہ میں عمارت کھڑی.
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء نہیں کر سکتا مگر وہ چونکہ گر ہیں اور قانون کی پابندی سے آزاد اس لئے انہوں نے اجازت لینے کی ضرورت نہ سمجھی اور دیواریں اور دیواریں کھڑی کرنی شروع کردیں.اس تعمیر کے وقت پولیس کے آدمی باوردی اس جگہ پر موجود تھے.اس قانون شکنی کو دیکھ کر کمیٹی نے انہیں ممانعت کا نوٹس دیا تو اسے لینے سے بھی انکار کردیا اور اُٹھا کر پھینک دیا.اسٹنٹ سب انسپکٹر پولیس نے اسے اٹھایا.یہ سب کارروائی گورنمنٹ کے ایک تسلیم شدہ ادارہ کی طرف سے اور گورنمنٹ کے قانون کو پورا کرانے کیلئے ہوئی اور اس میں ہماری جماعت کا ایک ذرہ بھر بھی دخل نہ تھا لیکن صرف اس وجہ سے کہ کمیٹی کا نوٹس پیش کرنے والا کلرک احمدی تھا، احراریوں نے شور مچادیا کہ احمدی ہم پر حملہ کر کے آگئے ہیں اور ہمیں مسجد کی تعمیر سے روکتے ہیں.یہ سب کہانی بالکل جھوٹی تھی، احمدی حملہ آور ہو کر نہیں گئے اور کسی نے ان کو مسجد بنانے سے نہیں روکا.سمال ٹاؤن کمیٹی گورنمنٹ کے ماتحت بنی ہوئی ہے اور اسی کے ایک افسر نے گورنمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین کے ماتحت انہیں روکا مگر یہ روکنا کیا تھا گویا ۱۹۵۷ء کا غدر ہو گیا.کہیں سپرنٹنڈنٹ پولیس چلے آرہے ہیں، کہیں مجسٹریٹ علاقہ چلے آرہے ہیں، کہیں پولیس کے دوسرے افسر دوڑے آرہے ہیں گویا ایک آفت تھی جو آگئی.ناظر امور عامہ کو بلوایا گیا اور ان سے بار بار پوچھا گیا کہ یہ کیا ظلم اور اندھیر ہے جو یہاں ہو رہا ہے ، گورنمنٹ آگے ہی آپ لوگوں کے خلاف ہے، اب آپ نے یہ حرکت کردی ہے.یہ ایسا معالمہ تھا کہ ہماری جماعت کے افراد کیلئے اس کا سمجھنا بھی مشکل تھا.سمال ٹاؤن کمیٹی کا یہ کام تھا اور اس نے جو کچھ کیا وہ قانون کے اندر کیا.قانون کو توڑنے والے احراری تھے مگر اسے رنگ یہ دیا گیا کہ احمدیوں نے حملہ کردیا اور احمدیوں نے مسجد بنانے سے انہیں روک دیا اور اس پر اتنا شور ڈالا گیا کہ گویا ایک مصیبت تھی جو اُن پر آگئی.ادھر کارکنان سلسلہ الگ مشکلات میں تھے، کہیں وہ اپنے طور پر تحقیقات کر رہے تھے کہ کوئی احمدی وہاں تھا تو نہیں، کہیں آپس میں غور کر رہے تھے کہ اس فتنہ کا کیا سد باب کیا جائے لیکن سب طرف سے تحقیقات کے بعد یہی معلوم ہوا کہ وہاں سمال ٹاؤن کمیٹی کا کلرک گیا تھا اور جب اس احمدی کلرک کے ساتھ وہ لوگ سخت کلامی کے ساتھ پیش آئے اور شور مچایا تو کچھ راہ چلتے ہوئے غیر احمدی، ہندو اور کچھ احمدی بھی اکٹھے ہو گئے.اب یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ سب احمدی بھرے کر دیئے جائیں تاکہ اگر کہیں جھگڑا ہو اور شور پڑے تو وہ آواز بھی
خطبات محمود ٣٢٨ سال ۱۹۳۴ء نہ سن سکیں.ہم نے تو انگریزوں کے متعلق بھی دیکھا ہے کہ اگر کہیں شور ہو تو وہ کھڑے ہو کر دیکھنے لگ جاتے ہیں مگر یہ عجیب مصیبت تھی کہ قانون احراریوں نے توڑا حکم کمیٹی نے دیا کھڑے شور سن کر راہ گیر ہوئے اور بلایا اور دھمکایا احمدیہ جماعت کے کارکنوں کو جانے لگا کیا کوئی سمجھ سکتا ہے کہ اس قسم کی زندگی امن کی زندگی ہے.سمال ٹاؤن کمیٹی گورنمنٹ کی بنائی ہوئی ہے اور احراری جب اس کے بنائے ہوئے ایک قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو حکومت کا ہی ایک آدمی انہیں منع کرتا اور اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ وہ قانون کی پابندی کریں.پس قانون کی پابندی کرانے والی سمال ٹاؤن کمیٹی اور قانون کو توڑنے والے احراری مگر الزام ہمارے ذمہ لگایا جاتا ہے اور ہمارے آدمیوں کو بلا بلا کر ڈرایا اور دھمکایا جاتا ہے.ہم بہتیرا کہتے ہیں کہ نہ ہم سمال ٹاؤن کمیٹی سے تعلق رکھتے ہیں، نہ ہم نے قانون بنایا اور نہ ہی اس قانون کو توڑا کچھ تو سمجھاؤ کہ یہ کیا ہو رہا ہے.قانون شکن احراری ہیں مگر انہیں کچھ نہیں کہا جاتا اور جن کا اس سے کچھ بھی تعلق نہیں، ان سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ انہوں نے احراریوں سے کیوں یہ سلوک کیا.کیا کسی شخص کے دماغ میں بھی یہ بات آسکتی ہے کہ یہ جو کچھ کیا گیا قانون کے مطابق کیا گیا اور احمدیوں پر ظلم نہیں کیا گیا اور ناواجب دباؤ نہیں ڈالا گیا.خیر شوروشر کے بعد جب جماعت کے کارکنوں نے ثابت کردیا کہ اس بارہ میں ان کا کوئی دخل ہی نہیں تو اب حکام نے ایک اور کروٹ بدلی اور یہ کہنا شروع کیا کہ چونکہ کمیٹی میں تمہاری اکثریت ہے، اس لئے تم ہی اس امر کے ذمہ دار ہو.تم ممبران کمیٹی کو مجبور کرو کہ احراریوں سے درخواست منگوا کر اور فوری اجلاس کر کے احرار کو مسجد کی تعمیر کی اجازت دیں.اب کوئی انصاف پسند حج گورنمنٹ مقرر کر کے دیکھ لے معمولی سے معمولی عقل رکھنے والا بھی یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہوگا کہ احمدیوں کو نا واجب طور پر ستایا اور دکھ دیا گیا اور ان کے امن میں خلل ڈالا گیا.آخر یہ بھی کہا گیا کہ ڈپٹی کمشنر صاحب کا ارادہ ہے کہ اگر فوراً اس فتنہ کو دور نہ کیا گیا تو دونوں فریق کی دفعہ ۱۰۷ کے ماتحت ضمانتیں لی جائیں گی.شاید جب سے وکل سلف گورنمنٹ کا قانون بنا ہے، یہ نہ ہوا ہوگا کہ کمیٹی اپنے اختیارات سے ایک کام کرے اور دفعہ ۱۰۷ امن پسند شہریوں پر لگانے کی دھمکی دی جائے.یہ سلوک یہاں احرار سے روا رکھا گیا اور ہمارے ساتھ یہ سلوک کیا گیا کہ ایک احمدی نے اپنے مکان اور مسجد کیلئے ایک زمین لی، وہاں کے مقامی افسران نے جو تعصب رکھتے ہیں، جھٹ رپورٹ کر کے
خطبات محمود ۳۲۹ سال ۱۹۳۴ء لینڈا کیوزیشن ایکٹ (LAND ACQUISITION (ACT) کے ماتحت اس زمین کا بڑا ٹکڑا چھین لیا.بہتیرا شور کیا گیا کہ حکومت کو اور زمین مل سکتی ہے، ہمیں تو لوگ تعصب سے دیتے نہیں لیکن کچھ شنوائی نہ ہوئی.اس واقعہ اور اُس واقعہ کو ملا کر دیکھ لو کہ کس طرح حکومت ہم سے سوتیلے پن والا سلوک کر رہی ہے.ہماری مسجد کی زمین ضبط کرلی جاتی ہے اور احراری خلاف قانون ایک عمارت بنانا چاہتے ہیں تو پیش آرڈر دیا جاتا ہے کہ فوراً ان سے درخواست لے کر اجلاس کر کے اس تعمیر کی اجازت دی جائے.چنانچہ ایک پولیس کے اعلیٰ افسر یعنی سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس اور ایک علاقہ مجسٹریٹ یہاں آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اپنے ممبروں کو حکم دیجئے کہ وہ فوراً اس مسجد کی تعمیر کی اجازت دے دیں حالانکہ وہ سمال ٹاؤن کمیٹی کس اہے جس سے ہمارے زور سے کام لیا جائے.جس سمال ٹاؤن کمیٹی کو ہم سے حکم دلوا دلوا کر مجبور کرنا اور اس کے فرائض منصبی سے روکنا ہے، وہ کمیٹی نہیں بلکہ کھلونا ہے اور اس قابل ہے کہ اسے پھونک دیا جائے.لطیفہ یہ ہے کہ ہمارے امن پسندوں نے یہ سمجھتے ہوئے کہ چونکہ ہمیں امن پسندی کی تعلیم دی گئی ہے، اس لئے حکام کی خواہش کو ہمیں پورا کرنا چاہیئے.اپنی جماعت کے ممبران کمیٹی پر زور ڈالا کہ یہ کام جلدی کر دیا جائے.غرض صنادید حکومت کی خوشنودی مزاج کے حصول کیلئے انہوں نے یہ سب کچھ کیا مگر جو اس کا انعام ملا وہ بھی سن لو.اس موجودہ جھگڑے کے پیدا ہونے پر ہمارے آدمیوں نے ڈپٹی کمشنر صاحب کے سامنے کہا کہ ہم تو ہمیشہ حکومت کے وفادار رہے ہیں.مثلاً حکام کے کہنے کے مطابق ہم نے سمال ٹاؤن کمیٹی کے ممبروں پر زور دیا اور انہیں کہا کہ احرار کو مسجد کی تعمیر کی اجازت دے دینی چاہیئے تو اس پر ڈپٹی کمشنر صاحب نے کہا کہ نہ علاقہ مجسٹریٹ اور نہ سپرنٹنڈنٹ پولیس کو اختیار تھا کہ ایسا حکم کمیٹی کو دیتے.یہ کہنے پر کہ سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس تو کہتے تھے کہ ڈپٹی کمشنر کا منشاء ہے کہ اگر اس جھگڑے کو چکایا نہ جائے تو فریقین کی زیر دفعہ ۱۰۷ ضمانتیں کی جائیں.انہوں نے کہا ہے کہ جس شخص نے یہ کہا ہے کہ میں نے ایسا حکم دیا تھا وہ جھوٹ بولتا ہے.اب ہمارے لئے عجیب مشکلات ہیں اگر ہم اس وقت انکار کرتے تو ہم باغی قرار دیئے جاتے اور پولیس کے افسر یہ رپورٹ کرتے کہ احمدی ہمارے ساتھ تعاون نہیں کرتے اور جب ہم نے ان کی بات مان لی تو ہم احمق اور بیوقوف قرار دیئے گئے اور کہا گیا کہ تم نے خود ہی یہ فیصلہ کیا ہے ہم نے تو کوئی ایسا حکم نہیں دیا.پس ہم اگر ایک حکم کو مان لیں
خطبات محمود ۳۳۰ تو احمق بنتے ہیں، نہ مانیں تو باغی قرار پاتے ہیں.پس ہم نہیں سمجھ سکتے کہ ہمارے لئے کون سی صورت باقی رہ جاتی ہے سوائے اس کے کہ ہم وہی صورت اختیار کریں جو ایک نوکر نے اپنے آقا کے متعلق اختیار کی تھی.کہا جاتا ہے کہ کوئی شخص تھا جو ہمیشہ عذر رکھ کر اپنے ملازموں کو نکال دیا کرتا.ایک دفعہ جب اس نے نیا نوکر رکھا تو اس نے یہ سمجھتے ہوئے کہ کہیں ایسا نہ ہو چند دنوں کے بعد یہ مجھے بھی کوئی عذر رکھ کر نکال دے آقا سے کہا کہ آپ میری تمام ذمہ داریاں مجھے لکھ دیجئے.اگر ان کی ادائیگی میں میں نے کوتاہی کی تو میں اس کا ذمہ دار ہوں گا جو کام میرے ذمہ نہ ڈالا گیا میں اس کا ذمہ دار نہ ہوں گا.چونکہ مطالبہ نہایت معقول تھا، اس لئے آقا نے تمام ذمہ داریاں اسے لکھ کر دے دیں.ایک دن آقا ایک منہ زور وڑے پر سوار ہوا جو اتفاقاً کسی چیز سے ڈر کر بد کا اور آقا صاحب گھوڑے سے نیچے آرہے.لیکن ایک رکاب میں پاؤں پھنسا رہ گیا.اس پر اس نے شور مچایا اور نوکر کو آوازیں دینی شروع کیں کہ میرا پاؤں رکاب سے نکالو لیکن آقا ادھر شور مچاتا جاتا تھا اور نوکر ادھر شرطوں کا کاننذ لئے چلاتا جاتا تھا کہ دیکھ لو سرکار اس میں یہ شرط لکھی نہیں.گورنمنٹ کے افسروں نے بھی ہم کو اس مشکل میں ڈال دیا ہے.ہم مجبور ہوگئے ہیں کہ گورنمنٹ کے حکام پر اعتبار نہ کریں اور ان سے ہر امر کے متعلق تحریر طلب کریں لیکن یہ حالت گورنمنٹ کے نقطہ نگاہ سے نہایت خطرناک ہے.اگر حکومت کے اعلیٰ حکام میں اس قسم کی خیانت پیدا ہو گئی ہے اور ذمہ دار افسر ایک دوسرے کی تکذیب پر مجبور ہو گئے ہیں تو بتاؤ وہ حکومت کس طرح چل سکتی ہے اور اس کے ماتحت انسان کو امن کس طرح حاصل ہو سکتا ہے.اب دوسرا واقعہ سُن لو.ہم نے جو یہاں نئی آبادیاں قائم کی ہیں، ان میں بعض جگہ علاقوں کے علاقے ہمارے اپنے ہیں اور ان محلوں کی گلیاں ہماری پرائیویٹ گلیاں ہیں جن پر گزرنے دینا یا نہ دینا ہمارے اختیار میں ہے.اس قسم کے ایک راستہ پر ایک پھاٹک ہم نے لگا لیا اور یہ کوئی نئی بات نہ تھی، ہندو بھی اسی طرح اپنے محلوں میں راستوں پر حفاظت کے لئے پھاٹک لگا لیتے ہیں، یہ پھاٹک جس کا میں نے ذکر کیا ہے اس راستہ پر لگایا گیا تھا جو مقبرہ بہشتی کو جاتا ہے.ہماری تحقیق اور ہمارے علم کے مطابق وہ پھاٹک ہماری زمین میں ہے اور جس راستہ پر وہ لگایا گیا ہے وہ ہمارا پرائیویٹ ہے نہ کہ سرکاری مگر اس پھاٹک کے لگنے پر یکدم ایک شور پڑ گیا اور تمام احراری غیر احمدیوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ احمدیوں نے ہمارے راستے بند کر
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ تو دیئے ہیں.احراری غیر احمدی میں اس لئے کہتا ہوں کہ یہاں کے رہنے والے بہت سے غیر احمدی شریف الطبع لوگ جن کے ہم سے تعلقات ہیں اور ہمارے ان سے وہ اس شور ڈالنے میں حصہ دار نہیں بلکہ ان کو وہ گالیاں بُری لگتی ہیں جو ہم کو دی جاتی ہیں مگر چونکہ کسی کی زبان کوئی نہیں پکڑ سکتا، احراری کہتے یہی ہیں کہ گویا یہاں کے سب غیر احمدی ان کے ساتھ ہیں ، جیسے پانچ سات ہزار آدمی جو ان کے جلسہ میں شریک ہوا تھا، ان کا نام ساٹھ پیار فرزندانِ توحید کا لہریں مارتا ہوا سمندر ہو گیا ہے، غرض ان لوگوں نے جو احرار کے شریک ہیں، شور ڈال دیا کہ احمدیوں نے سڑکوں پر چلنے سے ہمیں روک دیا ہے حالانکہ وہ سڑکیں نہیں تھیں.اس پر پولیس کے اعلیٰ افسر یعنی سپرنٹنڈنٹ پولیس بھی چند مرتبہ آئے، بعض مجسٹریٹ بھی متعدد دفعہ آئے اور کہنے لگے کہ یہ کیا ظلم کیا گیا ہے.ایک افسر مجھ سے بھی ملا اور کہنے لگا یہ کیا غضب ہوا ہے کہ خواہ مخواہ لوگوں کا راستہ روک دیا گیا ہے.میں نے کہا اس میں مشکل کیا ہے پٹواری آپ کے پاس ہیں زمین کا نقشہ نکلوا لیجئے اگر یہ پھاٹک کسی اور کی زمین میں نکلے اور ایک منٹ کیلئے بھی ہماری جماعت اس کو اٹھانے میں دیر کرے تو میں اس کا ذمہ دار ہوں گا مگر اس کی طرف کسی نے توجہ نہ کی.ایک افسر آتا اور دھمکی دے کر چلا جاتا.پھر دوسرا آتا اور وہ دھمکی دے کر چلا جاتا.جب یہ شور بہت بڑھا تو میں نے صدرانجمن والوں سے پوچھا کہ یہ آپ لوگوں نے کیا کیا ہے تو انہوں نے بتایا کہ ہم نے اچھی طرح دیکھ بھال کر پھاٹک لگایا ہے وہ ہماری زمین میں ہے.ڈسٹرکٹ بورڈ کی زمین میں نہیں ہے لیکن اگر ثابت جائے کہ یہ سرکاری زمین ہے تو ہم اسی وقت پھاٹک اٹھا لیں گے.انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم نے افسروں کے سامنے یہ بات پیش کی ہے کہ کوئی افسر آجائے تو وہ تحقیق کر کے دیکھ لے لیکن تحقیق کرنے کیلئے کوئی نہیں آتا.البتہ ضلع کا عملہ گھبرایا ہوا پھرتا ہے حالانکہ اس کا فوجداری اور پولیس سے کوئی تعلق نہ تھا.اس زمانہ میں مجھ سے بھی ایک اعلیٰ افسر نے کہا تھا کہ جو شور اس وقت ہو رہا ہے اس کے نتیجہ میں میں ڈرتا ہوں کہ حکومت سخت تجاویز اختیار کرنے پر مجبور ہوگی.میں نے کہا ہم تو اپنی طرف سے با امن رہنے کی کوشش کرتے ہیں اگر اس پر بھی حکومت کا یہ خیال ہو تو ہم مجبور ہیں.اب مہینہ دو مہینے ہوئے کہ ایک افسر یہاں آیا اور ڈپٹی کمشنر صاحب کے حکم سے لوکل کمیٹی کے پریذیڈنٹ سے وہ یہ دستخط لے کر گیا کہ پندرہ دن کے اندر اندر پھاٹک کو اٹھادیا
خطبات محمود سمسم سال ۱۹۹۳۴ء جائے.ڈسٹرکٹ بورڈ کے پریذیڈنٹ ہونے کے لحاظ سے ایک ڈپٹی کمشنر کو فوجداری اختیارات حاصل نہیں ہوتے.پھر یہاں نہ تحقیقات ہوئی اور نہ ہی تعیین ہوئی اور خود بخود یہ حکم دے دیا گیا کہ پندرہ دن کے اندر اندر اسے اٹھا دیا جائے.اس پر یہاں کے ایک مالک نے تحصیلدار صاحب کو لکھا کہ میر قاسم علی صاحب کا اس معاملہ سے کوئی تعلق نہیں.اگر کوئی نوٹس دیا جاتا تو مالکان یا صدرانجمن کو دینا چاہیے.ہم میر قاسم علی صاحب لوکل پریذیڈنٹ کے اس وعدہ کے پابند نہیں ہو سکتے.اب وہ پندرہ دن بھی گزر گئے ہیں اور پھاٹک ابھی تک نہیں اٹھایا گیا.میں پوچھتا ہوں کہ کیا اپنی زمینوں میں پھاٹک نہیں لگائے جاتے.اگر تو کسی پبلک تھا رو فیئر (THAROUGH FARE) میں یہ پھاٹک روک ہوتا یا گورنمنٹ کا اس میں کوئی راستہ ملتا تب تو یہ مطالبہ کیا جاسکتا تھا کہ اس پھاٹک کو اٹھا لیا جائے لیکن جب کہ وہ ہمارے نزدیک ہماری زمین میں واقع ہے اور ڈسٹرکٹ بورڈ نے ابھی تک اپنا حق ثابت نہیں کیا اور اگر اس کا حق ثابت بھی ہوا تو بھی صرف یہ ہوگا کہ وہ پھاٹک پانچ فٹ ورے لگ جائیگا.پبلک کو کوئی نیا راستہ نہ مل جائے گا.پھر میں نہیں سمجھتا کہ اسے اس قدر اہم فوجداری سوال کس طرح بنا دیا گیا اور کیوں اس واقعہ کی اطلاع پہنچتے ہی پولیس اور مجسٹریوں کے اندر ہیجان پیدا ہو گیا.تعجب ہے کہ ایک طرف تو تخفیفیں ہو رہی ہیں اور حکومت کی طرف سے افسروں کو یہ تاکید کی ہے کہ وہ اپنے دوروں کو کم کردیں اور بعض جگہ تو اتنی سخت تنگی کی گئی ہے کہ خود تسلیم کرتی ہے کہ کام کو بہت نقصان پہنچا ہے مگر ہمارے خلاف معالمہ ہو تو اتنی فراخدلی برتی جاتی ہے کہ جو افسر اٹھتا ہے وہ جھٹ دورے پر قادیان آجاتا ہے.اس کا یہی مطلب ہو سکتا ہے کہ یا تو مالی تنگی کا جو شکوہ کیا جاتا ہے وہ غلط ہے اور یا ڈسٹرکٹ بورڈ کی زمین کے بہانہ سے افسروں کے دورے اور احکام کسی نہ کسی افسر کے عناد اور دشمنی کا ایک مظاہرہ ہیں.گورنمنٹ کا فرض تھا کہ وہ دیکھتی کہ اس پل کی وجہ سے جو اس کے افسروں نے اتنے دورے کئے ہیں تو کیوں اور کن اغراض و مقاصد کے ماتحت اور کس افسر کے حکم سے ایسا ہوتا رہا ہے.پھر یہ بھی دیکھیں کہ کیا انہوں نے یہ تمام خرچ گھر سے کیا تھا یا گورنمنٹ کے خزانے ہے.اگر گورنمنٹ کے خزانہ سے یہ تمام خرچ کیا گیا ہے تو بتلایا جائے کہ اتنی دریادلی.کیوں کام لیا گیا.گورنمنٹ کسی باہر کے افسر کو مقرر کرکے دیکھ لے وہ تحقیقات کے بعد یہی سے بیان دے گا کہ کوئی پلک راستہ روکا نہیں گیا.پس سوال صرف ڈسٹرکٹ بورڈ کی چند فٹ کی
خطبات محمود ۳۳۳ سال ۱۹۳۴ تو زمین کا ہے اور یہ ایک دیوانی سوال ہے نہ کہ فوجداری.پس جب کہ تمام گلیاں ہماری اپنی زمین میں ہیں تو گورنمنٹ کا فرض ہے کہ وہ ان افسروں سے پوچھے کہ تم نے کیوں اتنا روپیہ برباد کیا اور اس وفادار جماعت کو ناحق دق کیا مگر گورنمنٹ نے یہ رویہ اختیار نہ کیا اور نہ ہی ضرورت سمجھی کہ افسروں سے باز پرس کرے.پس اس واقعہ سے بھی صاف طور پر پتہ لگتا ہے کہ ہمیں وق کرنے کی منظم کوشش کی جارہی تھی اور اس کارروائی کا ہمیں چھیڑنے کے سوا کوئی منشاء نہ تھا.ورنہ کجا ڈسٹرکٹ بورڈ کی چند فٹ کی زمین کا جھگڑا اور کجا حکومت کی دھمکیاں اور فوجداریاں.تیسرا واقعہ یہ ہے کہ ہمارے جلسہ سالانہ ۳۳ء پر احراری غیر احمدیوں نے بھی اپنا ایک جلسہ کیا.۲۸- دسمبر کو ہمارا جلسہ ختم ہوا اور ۲۹ کو ان کا جلسہ ہوا.اس کے متعلق جیسا کہ قاعدہ ہے گورنمنٹ کو فکر ہوا کہ کہیں کوئی فساد نہ ہو جائے.چنانچہ مجسٹریٹ صاحب علاقہ آئے اور ناظر صاحب امور عامہ سے خواہش کی کہ آپ اپنے آدمیوں کو وہاں جانے سے روک دیں.ناظر صاحب نے وعدہ کیا کہ ہم اپنی جماعت کے لوگوں کو روک دیں گے.چونکہ ہمارے جلسہ میں پندرہ ہیں ہزار کے قریب آدمی باہر سے شامل ہوتے ہیں اور چھ سات ہزار کے قریب قادیان کے رہنے والے ہیں اور اتنے آدمیوں کو حکم سے آگاہ کرنا اور ان سے تعمیل کروانا بہت مشکل کام ہے اس لئے محکمہ کی طرف سے علاوہ لوگوں کو روکنے کے یہ تجویز بھی کی گئی کہ گلی کے دونوں طرف آدمی مقرر کر دیئے تاکہ جن احمدیوں کو وہ پہچانیں انہیں جلسہ میں نہ جانے دیں اور ایک آدمی کو مسجد کے سامنے کھڑا کردیا گیا تاکہ اگر کوئی بھول کر ابھی جائے تو اسے واپس کر دیا جائے.یہ شخص مرکزی محکمہ کا ایک کلرک تھا جو زیادہ احمدیوں سے واقف تھا.پس جو احمدی وہاں جاتا اسے وہ صاحب کہہ دیتے کہ یہاں جانے کی آپ کو ممانعت ہے.اسی کام کے دوران میں اس دوست نے جو دروازہ پر مقرر تھے معلوم کیا کہ احراریوں کی طرف سے چیلنج دیا جا رہا ہے کہ فلاں بات کا جواب احمدی دیں اور اس پر انہوں نے ایک رقعہ ناظر دعوت کو لکھا کہ بہتر ہو کسی مبلغ کو بھیجوا دیا جائے.اس پر ناظر صاحب دعوت و تبلیغ نے مولوی محمد سلیم صاحب کو جو ہونہار نوجوان، یونیورسٹی کے گریجویٹ اور جماعت کے ہوشیار مبلغوں میں سے ایک مبلغ ہیں، وہاں بھیج دیا.جنہوں نے چیلنج کے جواب میں رقعہ لکھا کہ کیا ہم بول سکتے ہیں اور جواب نفی میں ملنے پر وہ امن اور خاموشی کے ساتھ اٹھ کر چلے آئے.
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء بعد یہ اسی عرصہ میں پولیس والوں نے معا ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کے پاس جو اس وقت قادیان میں ہی تھے، اپنا آدمی دوڑایا کہ احمدی حملہ کر کے آگئے ہیں، آپ جلد آئیں.گویا احمدی مبلغ کا رقعہ احمدیوں کا حملہ بن گیا.مجھ سے خود ایک ذمہ دار پولیس کے اعلیٰ افسر نے بیان کیا کہ آپ کی جماعت نے سخت نا معقولیت کی کیونکہ اس موقع پر کہ احرار کے لوگ کثرت سے آئے ہوئے تھے اور ہندوؤں اور سکھوں میں بھی آپ کے خلاف جوش ہے اگر فساد ہو جاتا تو نہ معلوم کیا ہو جاتا.ایسے مواقع پر مکان جلا دیئے جاتے اور محلے تباہ کر دیئے جاتے ہیں.خیر اس واقعہ کے مشغلہ حکام کے ہاتھ آگیا اور اس پر کارروائی شروع ہو گئی اور آدمی پر آدمی آنا شروع ہو گیا کہ یہ کیا غضب ہو گیا.ہم نے انہیں کہا کہ آپ کی طرف سے حکم دیا گیا تھا کہ احمدیوں کو اس جلسہ میں جانے سے روکا جائے پھر کون سا طریق تھا جو ہم انہیں روکنے کیلئے اختیار کرتے.پندرہ ہزار میں سے بیشک کافی حصہ اس دن واپس چلا گیا تھا مگر رمضان المبارک کی وجہ سے اور کچھ میری ملاقات کی وجہ سے پانچ چھ ہزار سے زائد مہمان ابھی یہاں موجود تھا، سات ہزار کے قریب قادیان کے احمدی تھے، ان دس بارہ ہزار آدمیوں کو روکنے کی آخر کیا تدبیر اختیار کی جاتی.پھر آپ نے خود کہا تھا کہ احمدیوں کو وہاں جانے کی اجازت نہیں اور واقعہ یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی وہاں نہ گیا پھر اس میں فساد کی کیا صورت ہو سکتی ہے.مگر ان دلائل کی کوئی شنوائی نہ ہوئی اور یہی کہا گیا کہ اگر فساد ہو جاتا تو کئی خون ہو جاتے، ہزاروں آدمی جیل میں چلے جاتے اور مکانات جل جاتے، وہاں تین ہزار آدمی جن میں ہندو اور سکھ بھی تھے جمع تھے جو سب آپ کے مخالف تھے اور فساد کا سخت خطرہ تھا.حالانکہ تین ہزار آدمی اس مسجد میں بھی جس میں میں خطبہ پڑھ رہا ہوں، سما نہیں سکتا اور وہ مسجد تو جہاں جلسہ ہو رہا تھا نہایت چھوٹی سی ہے اور ایک ہزار آدمی بھی اس میں نہیں آسکتا.گورنمنٹ کے پاس جو رپورٹ کی گئی اس کے متعلق خود ایک اعلیٰ افسر نے مجھ سے بیان کیا کہ اس رپورٹ میں بیان کیا گیا تھا کہ احمدی وہاں گئے اور انہوں نے فساد برپا کرنا چاہا لیکن ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس نے وہاں جاکر فساد رفع دفع کیا.جب میں نے کہا کہ میری رپورٹ یہ ہے کہ سوائے ان چند آدمیوں کے جن کو اس امر کیلئے مقرر کیا گیا تھا کہ احمدیوں کو وہاں جانے سے منع کریں اور سوائے مبلغ اور اس کے دو تین ساتھیوں کے وہاں کوئی نہیں گیا اور نہ کوئی فساد ہوا.تو اس افسر نے کہا کہ آخر اتنے بڑے افسر کو جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی.میں نے اس کا یہی جواب دیا کہ
خطبات محمود ۳۳۵ سال " بیشک انہیں جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں مگر میں بھی اپنے آدمیوں کی سچائی کو جانتا ہوں اس لئے میں دوبارہ تحقیق کراؤں گا کہ یہ اختلاف کیونکر پیدا ہوا ہے.چنانچہ میں نے دوبارہ تحقیق کرائی اور ناظر متعلقہ نے بعد تحقیق رپورٹ کی کہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ صاحب کا اپنا ایک بھائی اس موقع پر قادیان میں اور ان کی مجلس میں موجود تھا اور معززین بھی وہاں موجود تھے ان سے گواہی لے لی جائے کہ جو واقعہ ہم بیان کرتے ہیں وہی درست ہے.واقعہ صرف یہ ہے کہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ صاحب کے پاس ایک سپاہی آیا اور اس نے بیان کیا کہ فساد کا خطرہ ہے وہ کوٹ پہن کر گئے مگر ابھی احراریوں کے جلسہ گاہ میں نہ تھے کہ پھر ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کہ اب ضرورت نہیں رہی، فساد کا اندیشہ نہیں ہے.کچھ عرصہ ہوا یہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ صاحب مجھ سے ملے تو میں نے ان سے اس واقعہ کا ذکر کیا اور پوچھا کہ آپ نے ایسی رپورٹ کس طرح کی جبکہ آپ جلسہ پر نہ گئے اور نہ کسی فساد کو رفع کیا.اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نہ میں نے یہ رپورٹ کی اور نہ میں وہاں جلسہ پر گیا تھا جب یہ واقعہ ہوا ہی نہیں تو میں کس طرح غلط رپورٹ کر سکتا تھا.اب تعجب ہے کہ ایک ذمہ دار افسر تو میرے پاس آکر یہ بیان کرتا ہے کہ جماعت نے اتنی نا معقولیت کی کہ قریب تھا کہ وہاں خون ہو جاتے، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ وہاں پہنچے تو انہوں نے فساد کو روکا مگر وہ صاحب کہتے ہیں کہ نہ کوئی فساد ہوا نہ میں وہاں گیا اور نہ میں نے ایسی کوئی رپورٹ کی.اب بتاؤ کہ ان مشکلات میں ہم کیا کرسکتے ہیں.پہلے واقعہ میں ڈپٹی کمشنر صاحب، سپرنٹنڈنٹ پولیس اور مجسٹریٹ کی تکذیب کرتے ہیں اس واقعہ میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ صاحب سپرنٹنڈنٹ صاحب کی تکذیب کرتے ہیں لیکن ہر غلطی کا خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑتا ہے.جس سے ہم تو یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہیں کہ ہمارے ساتھ فریب کیا جا رہا تھا، دھوکا کیا جارہا تھا، کوئی نہ کوئی افسر ایسا حکومت پنجاب میں تھا جو یہ سب کھیل ہمیں ستانے اور دق کرنے کیلئے کھیل تھا.کیونکہ بڑے افسر سبھی ایک دوسرے کی تکذیب پر مجبور ہوتے ہیں جبکہ واقعہ میں غلط بیانی سے کام لیا جارہا ہو.اب میں پھر اپنے مضمون کی طرف لوٹتے ہوئے کہتا ہوں کہ اگر واقعہ ہی کوئی نہیں ہوا تو سرکاری افسروں نے ہم پر حرف گیری کیوں کی اور ہمیں ڈراوے اور دھمکیاں کیوں دی گئیں.کیا ایسے حکام کے ماتحت کوئی امن سے رہ سکتا ہے جن میں سے ایک ذمہ دار افسر ایک دوسرے ذمہ دار افسر پر جھوٹ کا الزام لگا رہا ہو اور جو وفادار رعایا کو ناحق -.
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء دق کر رہے ہوں.میں حلفیہ شہادت دینے کیلئے تیار ہوں کہ میں نے ان دو سرکاری افسروں سے جو کچھ سنا وہی بیان کیا ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ان افسروں میں سے جس نے بھی جھوٹ بولا ہو گا گورنمنٹ اس سے پوچھے یا نہ پوچھے، خدا تعالیٰ اس سے ضرور پوچھے گا.اسی سلسلہ میں ہم سے یہ بھی کہا گیا کہ احمدیوں نے وہاں شعر پڑھے اور احرار کے جلسہ میں شورش پیدا کرنی چاہی.جس کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ جلسہ سالانہ کے موقع پر احمدی زمیندار بھی بکثرت آتے ہیں اور ہمیشہ پنجابی ڈھولے فراغت کے وقتوں میں پڑھتے رہتے ہیں.ایسے کچھ دوست اسی محلہ میں ایک احمدی کے مکان میں کچھ ڈھولے پڑھ رہے تھے جس پر پولیس نے ان کو روکا اور گو ان کا روکنا سراسر نا جائز تھا، وہ رک گئے.مگر اس کا نام یہ رکھا گیا کہ احمدیوں نے جلسہ گاہ کے اندر یا قریب شعر پڑھ پڑھ کر جلسہ کو خراب کرنا چاہا.چوتھا واقعہ یہ ہے کہ یہاں کی پولیس کی طرف سے یہ رپورٹ کی گئی کہ ایک سرکاری افسر کی ڈیوٹی میں احمدیوں کی طرف سے رکاوٹ ڈالی گئی ہے.اگر ایسا ہو تو واقع میں یہ ایک ایسا مجرم ہے جس پر سزا ملنی چاہیے کیونکہ اگر اس امر کی اجازت دے دی جائے تو حکومت کا کام ہی معطل ہو جائے.ایک پولیس میں پہرہ دینے لگے اور کوئی اسے روک دے تو مال و جان کی حفاظت کس طرح ہو، اگر ایک پوسٹ مین کو ڈاک کی تقسیم سے روکا جائے تو ڈاک کے رکنے سے تجارت اور دیگر کام بھی رُک جائیں، اگر کوئی مجسٹریٹ کو عدالت میں جانے سے روک دے تو انصاف کا محکمہ باطل ہو جائے ، غرض یہ قانون ضروری ہے کہ سرکاری ملازموں کو ان کے فرض منصبی سے کوئی نہ روکے اور جو روکے اسے سزاد دی جائے.پس اگر یہ جرم کسی احمدی پر ثابت ہو تو یقیناً ہم خود اس کے خلاف کارروائی کریں لیکن یہ واقعہ سرکاری کام میں روک پیدا کرنے کا گزشتہ واقعات کی طرح اپنی نوعیت میں بالکل نرالا ہے.واقعہ یوں ہے کہ ڈاک خانہ کا ایک کلرک جس کا احراریوں سے بھی تعلق تھا اور احمدیوں سے بھی اسے اس کے ایک احمدی دوست نے کہا کہ یہ اچھی بات نہیں کہ ہم سے بھی تعلق رکھتے ہو اور احراریوں سے بھی.بس اس قدر بات کا کہنا ایک سرکاری افسر کے فرض منصبی میں رکاوٹ ڈالنا قرار دیا گیا.گویا احراریوں سے ملنا ڈاک خانہ کے فرائض میں سے ایک فرض ہے اور بابو کا یہ کام ہے کہ جہاں وہ منی آرڈر کرے، وہاں احراریوں سے بھی ملے.اس رپورٹ پر پولیس دوڑی چلی آئی اور گھبراہٹ کا ایک عالم طاری ہو گیا.ہم الگ حیران کہ خدایا یہ کیا مجرم ہو گیا.
خطبات محمود ٣٣٤٠ سال ۱۹۳۴ء گو ہر الزام بعد میں غلط ہی نکلتا تھا لیکن جماعت کی اصلاح پر نظر رکھتے ہوئے میں ہر دفعہ اپنے ہی آدمیوں پر ناراض ہوتا کہ آپ لوگ اعتراض کا موقع ہی کیوں دیتے ہیں.اس دفعہ بھی میں نے ایسا ہی کیا گو حقیقت یہ ہے کہ اس وقت تک میری طبیعت میں بھی اس قدر اشتعال پیدا ہو چکا تھا کہ اگر جماعت کی ذمہ داری میرے سر نہ ہوتی تو میں جیل جانا پسند کرتا لیکن اس روز مرہ کی چھیڑ خانی کو برداشت کرنے سے انکار کر دیتا.بہر حال اس دفعہ پھر حکومت کی مشینری شدت کے ساتھ حرکت میں آئی اور میں نے بھی اپنی جماعت کے لوگوں کو ڈانٹنا شروع کیا کہ کیوں آپ لوگ سلسلہ کی عزت کے خیال سے اپنے جوشوں کو دبا کر نہیں رکھتے.ذلّت برداشت کرلو لیکن ان باتوں سے بچو جن سے سلسلہ کی ہتک ہوتی ہے.اس دفعہ ایک انسپکٹر صاحب پولیس تفتیش کیلئے مقرر کئے گئے انہوں نے یہاں آکر بیان لئے اور ڈاک خانہ کے اس کلرک نے جس کی نسبت کہا گیا تھا کہ اسے اپنے فرائض منصبی سے روکا گیا ہے، باوجود مخالفت کے صاف کہہ دیا کہ اسے ڈاک خانہ کے کام سے کسی نے نہیں روکا.صرف اس کے ایک دوست نے اس سے شکوہ کیا تھا کہ تم ہمارے بھی دوست بنتے ہو اور احرار سے بھی میل جول رکھتے ہو، ایسا نہیں کرنا چاہیے.پولیس بیانات لے گئی اور ہم نے سمجھا کہ یہ معاملہ رفع دفع ہو گیا مگر بعد میں بعض ذرائع سے معلوم ہوا کہ اوپر یہ رپورٹ کی گئی ہے کہ شکایت تو درست تھی لیکن غالباً کلرک کو احمدیوں نے ورغلالیا ہے، اس لئے وہ اب منکر ہو گیا ہے..اب اگر یہ رپورٹ درست ہے تو سمجھ لو کہ ہمارے لئے کس قدر مشکلات پیدا کردی گئی ہیں.کیونکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ اگر کوئی احمدی ہمارے حق میں شہادت دے تو اسے یہ کہہ کر رد کر دیا جائے گا کہ یہ احمدی ہے اور جھوٹ بولتا ہے، اگر غیر احمدی ہمارے حق میں شہادت دے تو یہ کہا جائے گا کہ اسے احمدیوں نے ورغلالیا ہے گویا ہمارے معاملہ میں صرف وہی گواہی کچی سمجھی جائے گی جو ہمارے خلاف ہو.ان حالات میں ہمارے لئے اپنی عزت کی حفاظت کیلئے کیا صورت رہ جاتی ہے اور ہمارے لئے انصاف پانے کا کون سا ذریعہ باقی رہ جاتا ہے.لطیفہ یہ ہے کہ ابھی چند ماہ ہوئے ہائی کورٹ میں ایک مقدمہ پیش تھا، حج صاحب ایک انگریز تھے، ان کے سامنے ایک فریق کے وکیل نے کہا کہ صاحب دوسرا فریق احمدی ہے اور گواہ بھی احمدی ہیں.اس پر منصف مزاج جج نے اس کو اس دلیل کے پیش کرنے سے
خطبات محمود ٣٣٨ سال ۱۹۳۴ء روک دیا کہ مسلمانوں کے مقدمہ میں مسلمانوں کی ہندوؤں کے مقدمہ میں ہندوؤں کی گواہی سنی جاتی ہے تو احمدیوں کے مقدمہ میں احمدیوں کی گواہی کیوں قبول نہ کی جائے گی.دوبارہ پھر اس امر کی طرف اشارہ کرنے پر فاضل جج نے کہا کہ میں نے مسل کا مطالعہ کیا ہے اور میرے نزدیک احمدی گواہوں نے عام گواہوں سے زیادہ کچی گواہی دی ہے اس لئے میں اس دلیل کو سننے کیلئے تیار نہیں.حکومت کا عدالتی حصہ یہ رویہ اختیار کرتا ہے اور انتظامی وہ جو اوپر بیان ہوا.ببیس تفاوت راه از کجاست تا به کجا پانچواں واقعہ: جب گورنمنٹ کی طرف سے ہم پر اتنی مہربانیاں ہو رہی تھیں کہ کہیں تعمیر مسجد کا شاخسانہ کھڑا کر کے ہم پر یہ الزام لگایا جارہا تھا کہ ہم نے احراریوں پر حملہ کیا، کہیں پھاٹک کا واقعہ پیش کر کے بتایا جاتا تھا کہ احمدیوں نے سڑکیں روک لیں ، کہیں جلسہ غیر احمدیاں کے موقع پر رپورٹ کی جاتی تھی کہ ہزاروں خون ہونے کا احتمال تھا، کہیں ڈاک خانہ کے بابو کے فرائض منصبی میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام ہم پر عائد کیا جاتا تھا، اس وقت ایک ذمہ دار پولیس افسر نے مجھ سے بھی اور بعض دیگر کارکنان جماعت سے کہا کہ حکومت ہم سے پوچھتی ہے کہ کیوں احمدیوں کی اس قدر رعایت کی جاتی ہے، کیوں یہاں تعزیری چوکی مقرر کرنے کی سفارش نہیں کی جاتی.کوئی بتائے کہ آج تک کہیں بھی ایسا ہوا ہے کہ کسی نے سمال ٹاؤن کمیٹی کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عمارت کی تعمیر کرنی شروع کردی ہو ، کسی نے قانون شکنی کرکے دوسرے فریق کو دق کرایا ہو اور دھمکی پرامن فریق کو دی جائے کہ تم پر تعزیری چوکی قائم کرنے کا حکومت کو خیال ہے.چھٹا واقعہ: اس اندھیر گردی کا یہ ہے کہ کسی نے جھوٹی رپورٹ کردی کہ بعض احمدیوں نے سکھوں کے ایک گاؤں میں جاکر کہا ہے کہ حضرت باوانانک علیہ الرحمۃ گائے کا گوشت کھایا کرتے تھے.میں نے جب یہ بات سنی تو مجھے طبعاً بُرا معلوم ہوا اور میں نے سمجھا کہ اگر کسی احمدی نے ایسا کہا ہے تو اس نے غلطی کی کیونکہ ہم حضرت باوا صاحب کی طرف جو امور منسوب کرتے ہیں، وہ ان کے شہروں میں موجود ہیں مگر جہاں تک میرا علم ہے گو میں سکھوں کے مذہب کا زیادہ واقف نہیں، ایسا کوئی شبہ نہیں جس میں یہ ذکر ہو کہ باوا صاحب نے گائے کا گوشت کھایا.پس اگر ایسا ہوا تو علاوہ اس کے کہ یہ ایک اشتعال انگیز فعل تھا
خطبات محمود ۳۳۹ سال ۱۹۳۴ء خلاف واقعہ امر بھی تھا.پس کارکنوں نے فوراً تحقیقات کرائی تاکہ اگر کسی نے یہ غلطی کی ہے تو اس سے گرفت کی جائے لیکن معلوم ہوا کہ کسی احمدی نے یہ الفاظ نہیں کہے ہاں انہیں یہ شکوہ تھا کہ باوا صاحب کو مسلمان کہا گیا.اس میں شبہ نہیں کہ سکھ اس پر بھی برا مناتے ہیں مگر ہم تو مسلمان اچھی چیز کو سمجھتے ہیں اور ہمارے نزدیک مسلمان ہونا ایک عزت کی بات ہے نہ کہ مذمت کی بات.ہمارے اور سکھوں کے اس اختلاف کی ایسی ہی مثال ہے جیسے برہمو سماج والے الہام کو بُرا سمجھتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ کیا خدا کی کوئی زبان ہے یا وہ بھی کوئی بولی بولتا ہے مگر ہم تو الہام کو سب سے بڑا انعام سمجھتے ہیں اور جب ہم کسی بزرگ سے متعلق یہ کہتے ہیں کہ اسے الہام ہوتا تھا تو اسے اللہ تعالٰی کا ایک مقرب بندہ سمجھتے ہیں.اسی طرح کسی کو مسلمان کہنا ہمارے نزدیک کسی کی ہتک نہیں بلکہ اس کی عزت کا موجب ہے.پس گو سکھ قوم کا یہ حق ہے کہ وہ کہے کہ تم جو کچھ کہتے ہو غلط کہتے ہو مگر وہ یہ نہیں کہہ سکتی کہ ہم باوا صاحب کی ہتک کرتے ہیں.پھر ہم انہیں مسلمان ہی نہیں بلکہ بزرگ اور ولی اللہ سمجھتے ہیں اور ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ بزرگ اور ولی اللہ کہنا کسی کی ہتک نہیں بلکہ عزت کی بات ہوتی ہے پس وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے ان کی ہتک کی.غرض اصل واقعہ بالکل کچھ اور نکلا جس میں باوا صاحب کی ہرگز ہتک نہیں تھی مگر گورنمنٹ کے محکمہ نے یہ کارروائی کی کہ رپورٹ کرتے ہوئے لکھ دیا کہ احمدیوں نے فی الواقع ایسا کہا تھا حالانکہ یہ بات تحقیقات سے غلط ثابت ہو چکی تھی.پھر اندر ہی اندر کوئی کارروائی ہوتی رہی جس کے ظاہر کرنے پر نہ ہم تیار ہیں اور نہ اس میں کوئی فائدہ ہے.غرض صرف یہ تھی کہ سکھ قوم میں جوش پھیلے حالانکہ اگر سکھوں کو اشتعال دلانے والی کوئی بات ہوتی تو میں خود احمدیوں کو سزا دیتا.ساتواں واقعہ: احراری اپنی مجلس میں ہماری جماعت پر طرح طرح کے اتہام لگاتے ہیں ، گندی سے گندی گالیاں دیتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نہایت بُرے الفاظ میں یاد کرتے ہیں.یہ رپورٹیں پولیس کی طرف سے جاتی ہیں مگر گورنمنٹ کی طرف سے کوئی کارروائی نہیں ہوتی.اس پر قدرتی طور پر ہمارے بعض نوجوانوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہوا کہ ہم بھی ان کی تقریروں کے نوٹ لے لیا کریں چنانچہ بعض نے ایسا کیا وہ صرف نوٹ لیتے تھے ، زبانی گفتگو نہیں کرتے تھے.ہمارے جلسوں میں بھی پولیس اور دوسرے لوگ
خطبات محمود ۳۴۰ سال ۱۹۳۴ء باقاعدہ آتے ہیں اور نوٹ لیتے ہیں مگر ہم نے کبھی بُرا نہیں منایا.ایک دن تو غلطی.پولیس والا اپنی وردی ہی میں آکر میرے خطبہ کو لکھنے کیلئے مسجد میں بیٹھ گیا حالانکہ ایسے موقعوں پر مسجد میں ان کو وردی پہن کر آنے کا حکم نہیں.بہرحال ہمیں پتہ ہے کہ وہ ہماری تقریروں کے نوٹ لے جاتے ہیں بلکہ ہم خود تیار ہیں کہ اگر بعض نوٹ ان کے رہ جائیں تو وہ ہم سے پوچھ لیں.پس تقریروں کے نوٹ لینے میں کوئی حرج نہیں.جلسہ سالانہ کے ایام میں سینکڑوں لوگ جن میں ہندو اور سکھ بھی ہوتے ہیں، میری تقریروں کے نوٹ لیتے ہیں اور مجھے اس سے کبھی تکلیف نہیں ہوئی بلکہ خوشی ہوتی ہے کہ لوگ ان باتوں کو دہرائیں گے.اور یہ صاف بات ہے کہ اچھی بات کے نوٹ لئے جانے پر گھبراہٹ کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی اور جبکہ ہم قانون شکنی بھی نہ کر رہے ہوں تو کسی کے نوٹ لینے پر ہمیں کیا شکوہ ہو سکتا ہے.پس ہمارے آدمیوں نے نوٹ لینے شروع کر دیئے لیکن مجسٹریٹ صاحب نے ناظر امور عامہ اور لوکل پریذیڈنٹ کو یہ نوٹس دے دیا کہ گورنمنٹ کو اطلاع ملی ہے کہ احمدی وہاں جاکر نوٹ لیتے ہیں آئندہ وہاں کوئی احمدی نہ جایا کرے اگر کوئی جائے گا تو اس کو زیر دفعہ نمبر ۷ ۱۰ ضابطہ فوجداری گرفتار کرلیا جائے گا.حالانکہ صرف نوٹ لینا ایسا فعل نہیں ہے جو دفعہ نمبر ۷ ۱۰ کے ماتحت آئے.اگر ایسا ہی ہو تو گورنمنٹ کو تمام کالجوں پر یہ لکھ کر لگا دینا چاہیے کہ آئندہ کوئی طالب علم نوٹ نہ لیا کرے، ورنہ اس پر دفعہ ۱۰۷ کا نفاذ کردیا جائے گا.سوال یہ ہے کہ جو نوٹ لئے گئے وہ نیک باتوں کے تھے یا بری باتوں کے، اگر نیک باتوں کے تھے تو اس پر اعتراض کیا ہے اور اگر وہ بڑی باتیں تھیں تو گورنمنٹ اب تک خاموش کیوں رہی.ناظر صاحب امور عامہ تو اس دن یہاں تھے نہیں، لوکل پریذیڈنٹ سے مجسٹریٹ کے اس تحریری نوٹس پر دستخط کروائے گئے.قانونی مشیروں کا مشورہ ہمیں یہی تھا کہ اس نوٹس کی خلاف ورزی کی بجائے کیونکہ یہ نوٹین ناجائز اور قانون کے غشاء کے خلاف ہے مگر میں نے کہا کہ چونکہ ہمارا فرض ہے کہ ہم گورنمنٹ کی اطاعت اور فرمانبرداری کریں، اس لئے گو نہایت اعلیٰ درجہ کے قانون دانوں نے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو شامل کرتے ہوئے مجھے یہ مشورہ دیا کہ ہم اس کی خلاف ورزی کریں گے کیونکہ ہائی کورٹ کے متواتر فیصلے موجود ہیں کہ اگر جائز کام کرتے ہوئے کسی کو اشتعال آتا ہے تو گورنمنٹ کا فرض ہے کہ وہ اسے پکڑے جسے اشتعال آتا ہے نہ کہ جائز کام کرنے والے کو مگر ہماری طرف سے پھر بھی اس نوٹس کا احترام کیا گیا.پایه
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء حالانکہ اگر دفعہ ۱۰۷ کا نفاذ جائز تھا تو احراریوں پر اس کا نفاذ ہونا چاہیے تھا.لطیفہ یہ ہے کہ نوٹس میں بھی یہ فقرہ نہیں لکھا گیا کہ تم اشتعال دلاتے ہو بلکہ فقرہ یہ ہے کہ تم نوٹ لیتے ہو.گویا کیا گیا ہے کہ ہمارے آدمی صرف خاموشی سے نوٹ لیتے تھے اور مجسٹریٹ صاحب کی عجیب ذہنیت نے یہ فیصلہ کیا کہ اس سے احرار کو فوری اور جائز جوش آنے کا احتمال ہے.اب سوال یہ ہے کہ اگر کل مجسٹریٹ صاحب کے ذہن میں یہ بات آجائے کہ احمدیوں کے کوٹ پہننے پر یا عمامہ باندھنے پر احراریوں کو اشتعال آتا ہے تو کیا ثبوت ہے کہ وہ کل کو ہمیں کوٹ پہننے اور عمامہ باندھنے سے نہیں روک دیں گے.ہماری کون سی بات ہے جس پر احراریوں کو اشتعال نہیں آتا وہ تو ہماری ہر بات کو دیکھ کر جلتے بجھتے رہتے ہیں.آج کل الیکشن ہے اس میں ووٹ دینے پر بھی انہیں اشتعال آتا ہے، ہمارے مسلمان کہلانے پر انہیں اشتعال آتا ہے، ہم حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کو مسیح موعود مانتے ہیں اور انہیں جوش آتا ہے، ہم انہیں نبی تسلیم کرتے ہیں تو انہیں غصہ آجاتا ہے، ہر اک شخص جو احمدیت میں داخل ہوتا ہے ان کو حسد کی آگ میں جلانے کا موجب ہوتا ہے، پھر کیا وہ ان سب باتوں سے ہم لوگوں کو دفعہ ۱۰۷ کے ماتحت روک دیں گے.آخر وہ کونسا مابہ الامتیاز ہے جس سے یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ جلسہ میں امن سے نوٹ لینے پر تو وہ نوٹس دے سکتے ہیں لیکن اوپر کی باتوں پر نہیں.پس اس نوٹس نے بتا دیا ہے کہ آئندہ کیلئے کسی قسم کی آزادی احمدی جماعت کو حاصل نہیں ہوگی کیونکہ حکومت نے اس نوٹس دینے والے کے خلاف اب تک کوئی کارروائی نہیں کی حالانکہ اس تک یہ معاملہ پہنچ چکا ہے.پس ہم مجبور ہیں کہ سمجھیں کہ کم سے کم اس ضلع کی حکومت احراری ہے اور ہم پر برطانیہ نہیں بلکہ اس کے بعض مجسٹریوں کے ذریعہ سے احرار حکومت کر رہے ہیں.آٹھواں واقعہ: یہ ہے کہ قادیان کے کچھ غیر احمدی لوگ احراریوں کے بُرے رویہ تنگ آکر اور کچھ ہمارے آدمیوں کے کہنے پر کہ تمہارے تعلقات ہمارے ساتھ اچھے تم کیونکر ہماری نسبت احرار کی گالیوں کو برداشت کرتے ہو، اس بات پر آمادہ ہو گئے کہ وہ جمعہ پڑھیں.چنانچہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ آئندہ سے وہ الگ اس محلہ کی مسجد میں جمعہ پڑھا کریں جو قادیان کے شمال کے آخری سرے پر ہے اور خوجوں والی مسجد کہلاتی ہے.مسجد ارائیاں جس میں احراری نماز جمعہ پڑھتے ہیں وہ قادیان کے جنوب کی طرف ہے گویا الگ ہیں
خطبات محمود سال کها دونوں ایک دوسرے سے مخالف سمت پر اور کافی فاصلہ پر ہیں اور ایک جگہ کی آواز دوسری جگہ تک نہیں پہنچ سکتی اور نہ ایک مسجد میں داخل ہونے والے دوسری مسجد میں داخل ہونے والوں کو دیکھ سکتے ہیں یہ دونوں مسجدیں اس وقت غیر احمدیوں کے قبضہ میں ہیں.جہاں تک مجھے یاد ہے بعض اوقات خوجوں والی مسجد میں بھی جمعہ ہوتا رہا ہے مگر اب کچھ عرصہ سے غالباً وہاں جمعہ نہیں ہوتا تھا.جن لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ جمعہ الگ پڑھا جائے ان کے متعلق احرار یہ کب برداشت کر سکتے تھے کہ وہ ان سے علیحدہ ہو جائیں اس پر فوراً حکام کو تار دی گئی که احمدی ہماری مسجد پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور مقامی پولیس نے بھی مجسٹریٹ علاقہ کو تار دی احمدی مسجد پر فساد کر رہے ہیں.مجسٹریٹ صاحب قادیان آئے اور آتے ہی جمعہ پڑھنے والوں کو سختی سے روک دیا کہ وہ انہیں اس مسجد میں جمعہ نہیں پڑھنے دیں گے.اب دیکھو کہ کس قدر دروغ بیانی سے اس واقعہ میں کام لیا گیا ہے نہ کسی احمدی نے حملہ کیا نہ احمدیوں نے مسجد سے کسی کو روکا اور نہ جمعہ پڑھنے والے احمدی تھے مگر تار یہ دی گئی کہ احمدی فساد کرنے لگے ہیں حالانکہ اس موقع پر صرف دو احمدی تھے ایک نمبر دار جس کی نسبت خود ہیڈ کانسٹیبل نے تسلیم کیا کہ وہ اسے خود مدد کیلئے لے گیا تھا اور دوسرا میونسپل کمیٹی کا کلرک جسے ہیڈ کانسٹیبل تسلیم کرتا ہے کہ وہ خالی کھڑا تھا اور یہ کہ اس نے تار لکھوانے میں اس سے مدد لی اس واقعہ کا نام احمدیوں کا فساد رکھ دیا گیا.ہمارے جو آدمی اس موقع پر تھے ان کا بیان ہے کہ اس موقع پر مجسٹریٹ صاحب نے ہیڈ کانسٹیبل سے پوچھا کہ کون کون احمدی وہاں تھے اور اس نے اوپر بیان شدہ دو آدمیوں کا ہی نام لیا اور تسلیم کیا کہ ان میں سے نمبردار وہاں پہلے موجود نہ تھا ہیڈ کانسٹیبل اسے خود ساتھ لے گیا تھا.پس پولیس کے آنے سے پہلے صرف میونسپل کمیٹی کے کلرک کا وہاں ہونا ثابت ہوا.اب اس ایک شخص کا وہاں اتفاقا کھڑا ہونا احمدیوں کا فساد بن گیا گویا اس ایک شخص میں فوجوں کی طاقت جمع تھی کہ اسے احرار کا سر کچلنے کیلئے احمدیہ جماعت نے وہاں بھیجوایا تھا مگر مجسٹریٹ ) صاحب نے اس بیان سے تسلی نہیں پائی.کہا جاتا ہے انہوں نے بار بار ہیڈ کانسٹیبیل کو کہا کہ ارے یہ احراری لوگ تو کہتے ہیں کہ بہت سے احمدی تھے کیا یہ یونہی نام لیتے ہیں، بتا کون کون لوگ تھے مگر اس پر بھی اس نے یہی کہا کہ یہی دو احمدی تھے جن کا میں نے ذکر کیا ہے اس تحقیق کے بعد مجسٹریٹ نے کہا جاتا ہے کہ یہ فیصلہ کیا کہ سنو میاں ہیڈ کانسٹیبل ! یہاں مسجد
خطبات محمود ۳۳ سال ۱۹۳۴ء میں کوئی احمدی داخل نہ ہو اگر کوئی وضو یا نہانے کیلئے بھی آئے تو اسے وہیں ہتھکڑی لگالو.دیکھو نا خواہ کتنی بھی بڑی حیثیت کا احمدی ہو، اسے ہتھکڑی لگالینا پھر میں دیکھ لوں گا اس سے مراد سوائے خلیفہ کے یا ناظروں کے اور کون ہو سکتا ہے.مگر کیا پچھلی ہسٹری بتاتی ہے کہ ان کی مسجدوں میں کبھی خلیفہ گیا، اگر نہیں تو سوائے اس کے کہ جماعت احمدیہ کی بلاوجہ دل آزاری کی جائے ان الفاظ کا اور کیا مطلب تھا.جہاں مجسٹریٹ کسی کی ہتک کرتے ہوں، وہاں لوگوں کے اخلاق کہاں درست رہ سکتے ہیں.پھر اگر بڑی سے بڑی حیثیت سے مراد جماعت کا خلیفہ نہیں تو کیا ناظر مراد ہیں مگر کیا کوئی ثابت کر سکتا ہے کہ وہاں ناظر جایا کرتے ہیں یا نائب ناظر جایا کرتے ہیں یا نائب ناظر نہ سہی مختلف صیغوں کے انچارج ہی وہاں جایا کرتے ہیں اگر وہ بتادیں گے تو ہم ان کا حق سمجھ لیں گے کہ انہوں نے جو کچھ کہا درست کہا.لیکن اگر ہمارے چھوٹے ٹے افسر بھی ان کی مسجدوں پر قبضہ کرنے کے مجرم کے کبھی مرتکب نہیں ہوئے تو اسے احمدیوں کا حملہ قرار دینا اور کہنا کہ اگر بڑی سے بڑی حیثیت کا احمدی بھی آجائے تو اسے تھکڑی لگالو، سوائے دل آزاری کے اور کیا مطلب رکھتا ہے.گورنمنٹ بتلائے کہ سکھوں کے گردواروں اور ہندوؤں کے مندروں کے متعلق آئے دن جو جھگڑے ہوتے رہتے ہیں ان میں کیا یہی کہا جاتا ہے کہ اگر بڑی سے بڑی حیثیت کا آدمی بھی آئے تو اسے ہتھکڑی لگا لو.کیا سرکار کے دو قسم کے حکم ہوا کرتے ہیں.ایک معمولی لوگوں کیلئے اور ایک بڑے لوگوں کیلئے اگر دو قسم کے حکم ہوں تب تو ان الفاظ کی تکرار کی ضرورت تھی اور اگر ایک ہی حکم ہوتا ہے تو ان الفاظ کا دلآزاری کے سوا اور کیا مطلب ہے.گورنمنٹ کو اس واقعہ کی اطلاع دے دی گئی ہے.یعنی ڈپٹی کمشنر صاحب کو تفصیلی حالات لکھ دیئے گئے مگر انہوں نے کوئی کارروائی نہیں کی حالانکہ اس واقعہ میں ہیڈ کانسٹیبل کی بھی شرارت تھی کہ اس نے بلاوجہ احمدیوں کو ملوث کیا اور جھوٹی تار دے دی جو خود ایک جرم ہے اور مجسٹریٹ کی بھی غلطی تھی کہ اس نے جماعت احمدیہ کی ہتک کی اور مسجد سے لوگوں کو روکا جس کا اسے کوئی حق نہیں پہنچتا.کئی ہائی کورٹ مساجد کے متعلق واضح فیصلہ کر چکی ہیں پھر ان کے خلاف حکم دینے کا مجسٹریٹ کو کہاں سے حق پیدا ہو گیا تھا مگر اسے بھی کوئی سرزنش نہیں ہوئی جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس ہتک میں بعض اعلیٰ حکام کا ہاتھ تھا.وہ غیر احمدی جو جمعہ کیلئے اکٹھے ہوئے تھے، ان کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ یہ ہے کہ.
خطبات محمود بهم م۳ سال ۱۹۳۴ء جب انہوں نے کہا کہ ہم احراریوں کے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکتے یہ لوگ محض شرارت کیلئے قادیان آئے ہیں تو مجسٹریٹ نے کہا میں تم کو اس مسجد میں جمعہ پڑھنے نہیں دوں گا کیونکہ اس سے فساد ہوتا ہے حالانکہ روکنا فساد والوں کو چاہیے تھا.پھر جبکہ یہ لوگ قادیان کے ایک دوسرے سرے پر نماز پڑھ رہے تھے تو فساد کا احتمال کس طرح ہو سکتا تھا.جب ان غریبوں نے کہا کہ ہم احراریوں کے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکتے اور اس مسجد میں نماز پڑھنے کی آپ اجازت نہیں دیتے تو ہم کہاں جمعہ ادا کریں تو مجسٹریٹ نے کہا کہ کھیتوں میں جاکر پڑھو.انہوں نے کہا کہ کھیت تو احمدیوں کے ہیں تو انہیں کہا گیا کہ جہاں چاہو پڑھو مگر اس مسجد میں مت پڑھو.حالانکہ وہ غریب آدمی ہیں وہ مسجد کے سوا اتنی جگہ کہاں سے لائیں مگر انہیں یہی کہا گیا کہ یا تو احراریوں کے ساتھ جمعہ ادا کرو یا کسی اور جگہ پڑھو بہر حال اس مسجد میں نہ پڑھو.اس کے بعد اس مسجد پر جمعہ کے دن پولیس کے آدمی متعین ہوتے کہ کسی کو جمعہ نہ پڑھنے دیں.ان واقعات سے ظاہر ہے کہ گورنمنٹ خود احراریوں کی مدد کر رہی ہے اور وہ دوسرے مسلمانوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ بھی احراریوں کے پیچھے نماز پڑھیں کیونکہ قادیان کے وہ دوسرے مسلمان جو جمعہ کی قیمت سمجھتے ہیں جب جمعہ پڑھنے کیلئے مجبور ہوں گے تو سوائے اس کے ان کیلئے اور کوئی صورت نہ ہوگی کہ وہ احراریوں کی مسجد میں جائیں اور اس طرح ہمارے مخالفوں کا منشاء پورا ہو کہ لوگوں کے دل ہمارے خلاف باتیں سن سن کر ہماری دشمنی کے خیالات سے بھر جائیں.غرض اس واقعہ سے ثابت ہے کہ گورنمنٹ کے بعض افسر لوگوں کو مجبور کر کے احرار کے ساتھ لگانا چاہتے ہیں تاکہ وہاں سے اشتعال پکڑ کر وہ فساد کریں.اب یہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ ان افسروں کی تفتیش کرے اور اگر امن کی کوئی قیمت اس کے دل میں ہے تو انہیں سزا دے اور یہ بھی غور کرے کہ ڈپٹی کمشنر صاحب اس موقع پر کیوں خاموش ہیں اور کیوں ان کی نگرانی میں یہ حرکات ہو رہی ہیں.نواں واقعہ بھی ایسا ہے کہ اس کا خیال کر کے حیرت آتی ہے اور حکومت کی خاموشی کو دیکھ کر یہی خیال کرنا پڑتا ہے کہ شاید اسے صحیح واقعات کی اطلاع نہیں دی گئی ورنہ میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس قدر جھوٹ بولا جائے اور اس کی تردید نہ کی جائے.یہ تو ممکن نہ کی جائے.یہ تو ممکن ہے کہ کوئی خاص افسر سلسلہ کا مختلف ہو مگر یہ میں تسلیم نہیں کر سکتا کہ تمام اعلیٰ حکام اس مرض میں مبتلاء ہوں.بعض لوگ شبہ کرتے ہیں کہ ایک اعلیٰ افسر کی سابق گورنر صاحب کے وقت
خطبات محمود ۳۴۵ سال ۱۹۳۴ء میں ایک معزز احمدی سے لڑائی ہوئی تھی اور وہ اس کا غصہ جماعت احمدیہ سے نکال رہے ہیں لیکن اگر یہ شبہ درست ہو تو ایک افسر تک محدود رہتا ہے.میں نہیں مان سکتا کہ اس قدر صریح جھوٹ میں بہت سے اعلیٰ حکام شامل ہو سکیں.خود ہز ایکسی لینسی گورنر سے ہمارے دوستانہ تعلقات رہے ہیں، جب وہ گورنمنٹ آف انڈیا میں تھے تو میری چائے کی دعوت پر تشریف لائے تھے، درد صاحب بھی ان سے اکثر ملتے رہے تھے اور خانصاحب فرزند علی صاحب کو بھی وہ ولایت میں نہایت محبت سے ملے تھے بلکہ انہوں نے ولایت میں خانصاحب کو اپنے گھر پر مدعو کیا تھا اور پنچ کھلایا اور چائے پلائی تھی.یہ تمام حالات ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ ہم ایک اتنے بڑے افسر پر جنہیں ملک معظم نے صوبہ بھر کیلئے اپنا نمائندہ تجویز کیا اعتماد کریں دوسرے افسر بھی ایسے نہیں کہ ہمیں ان پر کوئی شبہ کی وجہ ہو.ان میں ہندو بھی ہیں اور سکھ بھی اور مسلمان بھی اور سب سے ہمارے ایسے تعلقات رہے ہیں کہ ہم کسی پر بھی شک کرنے کی وجہ نہیں پاتے.پس ہم سب پر الزام نہیں لگا سکتے اور نہ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ اگر کوئی دشمن حکومت میں موجود نہیں تو اس قدر صریح ظلم کس طرح ہو رہا ہے.پس ہمارے لئے یہی راستہ کھلا ہے کہ ہم کہیں کہ حکومت میں ہمارا کوئی دشمن ہے مگر ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ کون ہے.ہاں چونکہ بعض ظلم گورنمنٹ کے نام پر کئے گئے ہیں، ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ گورنمنٹ نے ہم سے انصاف کا معاملہ نہیں کیا.واقعہ جس کی طرف میں نے اوپر اشارہ کیا ہے عجیب واقعہ ہے.ہم بالکل بے خبر بیٹھے تھے کہ ایک پنجاب پولیس کے اعلیٰ افسر قادیان آئے اور مجھ سے بھی ملنے آگئے.انہوں نے دورانِ گفتگو میں مجھ سے ذکر کیا کہ رپورٹ ہوئی ہے کہ احمدیوں نے نیزے تیار کئے ہیں اور ایک نیزہ پولیس نے پکڑ کر بطور نمونہ بھیجوایا بھی ہے.میں اس خبر کو سن کر حیران رہ گیا کیونکہ مجھے اس کی کوئی اطلاع نہ تھی اور میں نے ناظر صاحب کار خاص سے جو اس وقت پاس تھے، اس کی حقیقت پوچھی.انہوں نے بتایا کہ ایک ڈیرہ غازی خان کا طالب علم نتجاری کا کام یہاں ہے اس نے ایک لوہار دوست سے مل کر ایک گھڈیٹک یہاں بنوائی تھی جسے یہاں کی پولیس نے نیزہ قرار دے کر رپورٹ کردی کہ احمدی نیزے بنوا رہے ہیں اور پھر اپنے طور پر یا کے حکام کے ایماء سے اس کھڈ سٹک کو زبردستی چھین کر اوپر بھجوا دیا کہ یہ ایک نمونہ ان نیزوں کا ہے.اس گفتگو کے چند دن بعد میں یہ خبر اخبارات میں پڑھ کر حیران رہ گیا کہ قادیان سیکھتا اوپر
خطبات محمود سال سے نیزوں کی برآمد ہوئی ہے.یہ خبر ایسوسی ایٹڈ پریس نے بذریعہ تار سب اخبارات کو ارسال کی تھی اور اس ایجنسی کو عموماً حکومت کی طرف سے خبریں مہیا کی جاتی ہیں.پس ہمیں اس بات پر یقین کرنا پڑتا ہے کہ یہ خبر حکومت ہی کے بعض افسروں کی طرف سے اسے ملی تھی.جس وقت مذکورہ بالا پولیس افسر نے اس کھڈسٹک کا مجھ سے ذکر کیا تو میں نے اُن سے کہا تھا کہ آپ سب احمدی گھروں کی تلاشی لے کر دیکھ لیں کہ وہاں کس قدر اسلحہ ناجائز طور پر موجود ہے.انہوں نے کہا کہ ہم یوں تو تلاشی نہیں لے سکتے.لیکن میں نے کہا کہ میں جانتا ہوں آپ قانوناً تلاشی نہیں لے سکتے لیکن میں جب جماعت کی طرف سے آپ کو اجازت دیتا ہوں تو پھر تو قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوتی مگر انہوں نے یہ جواب دیا کہ نہیں جب آپ کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے، تو آپ کی زبان سے زیادہ اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے.اسی طرح ان خیالی نیزوں کے ذکر پر سپرنٹنڈنٹ پولیس گورداسپور سے مرزا شریف احمد صاحب نے جب کہا کہ نیزہ نکلا ہے تو آپ مقدمہ کیوں نہیں چلاتے.تو انہوں نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ اس کا لوہا مقررہ لمبائی سے چھوٹا ہے اس لئے وہ قانوناً نیزہ نہیں بلکہ کھڈ مٹک ہے مگر باوجود اس کے کہ ایک کھڈمسٹک ایک ایسے شخص کے پاس تھی جس کا پیشہ ہی ایسی اشیاء تیار کرنا ہے اور باوجود اس کے کہ اس کھڈ سٹک کا لوہا نیزہ کی تعریف میں نہیں آسکتا اور باوجود اس کے کہ وہ صرف ایک ہی نیزہ تھا اور باوجود اس کے کہ حکومت کو چیلنج کیا گیا کہ وہ مقدمہ چلائے اور اس نے مقدمہ نہیں چلایا اور باوجود اس کے کہ میں نے پولیس کو دعوت دی کہ وہ ہمارے گھروں کی تلاشیاں لے کر دیکھے کہ کیا نیزے ہمارے گھروں میں پوشیدہ ہیں اور انہوں نے اس دعوت کو قبول نہ کیا سب ہندوستان میں یہ خبر مشہور کر دی گئی کہ قادیان سے نیزوں کی برآمد ہوئی ہے اور حکومت نے آج تک اس کی تردید نہیں کی.ہر شخص جو واقعات سے آگاہ ہے، جانتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے کہ قادیان سے نیزہ پکڑا گیا اور یہ اور بھی جھوٹ ہے کہ قادیان سے نیزوں کی برآمد ہوئی.قادیان میں ایک شخص کے پاس ایک کھڈسٹک تھی جو ظلماً اور تعدی سے بلاحق کے پولیس نے جبراً اس سے چھین لی اور پھر جھوٹ بول کر اس کا نام نیزہ رکھ دیا گیا اور اس کے بعد جھوٹ بول کر اس ایک کھڈسٹک کو نیزے قرار دے دیا گیا.یہ اس قدر صریح جھوٹ اور سفید جھوٹ ہے کہ انسانی فطرت اس کا خیال کرکے بھی گھن کھاتی ہے.اس طرح ایک امن پسند اور قانون کی پابندی کرنے والی
خطبات محمود ۳۴ سال ۱۹۳۴ء جماعت کو ذلیل کرنے کی کوشش کر کے حکومت کے نمائندوں نے ایک نہایت گندی مثال قائم کی ہے.ایک فساد کا دروازہ کھول دیا ہے.اگر حکومت ہی جھوٹ پر اتر آئے تو دوسرے لوگ جو اخلاق میں کمزور ہیں ، کیوں اس گند میں مبتلاء نہ ہوں گے.پس ان افسروں نے حکومت کی وقعت کو کم کر دیا ہے، اس کے نام پر دھبہ لگایا ہے اور اس کے اعتبار کو صدمہ پہنچایا ہے.بھلا بتاؤ کل کو کانگرس والوں کے خلاف حکومت نے اعلان کیا تو ہماری جماعت جو پہلے اس کے اعلانوں کو فوراً تسلیم کر لیا کرتی تھی اب کس نظر سے دیکھے گی.اب کیا ہماری جماعت کے لوگ ایسے اعلانوں کو دیکھ کر بے اختیار نہ کہہ اٹھا کریں گے کہ یہ بھی نیزوں جیسی خبر ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسوسی ایٹڈ پریس کی خبر گورنمنٹ کے کسی افسر کی طرف منسوب نہیں لیکن جبکہ مقامی اور بیرونی حکام سے ہم نے اس خبر کو اسی رنگ میں سنا ہے اور جبکہ گورنمنٹ اس کی تردید بھی نہیں کی، ہم مجبور ہیں کہ اس خبر کو گورنمنٹ کے حلقوں سے نکلی ہوئی سمجھیں لیکن میں حکومت کو چیلنج دیتا ہوں کہ اگر اس خبر میں صداقت ہے تو وہ ان آدمیوں کے نام شائع کرے جن کے پاس سے نیزے نکلے ہیں اور ان نیزوں کی تعداد شائع کرے اور پھر ہمیں اجازت دے کہ اس خبر کے شائع کرنے والے کے خلاف ہم عدالتی چارہ جوئی کریں.اگر اس کے نتیجہ میں حکومت کے نمائندوں کو فتح ہو گئی تو ہمارا جھوٹ ثابت ہو جائے گا ورنہ حکومت کو معلوم ہو جائے گا کہ اس کے بعض گل پُرزے اس وقت نہایت خراب اور گندے ہو گئے ہیں اور اسے پرانی مشینری کی طرح کامل صفائی اور مرمت کی ضرورت ہے.اگر حکومت نے اس مطالبہ کو تسلیم نہ کیا تو وہ یاد رکھے کہ آئندہ اس کی بات پر اعتبار کرنا لوگوں کیلئے مشکل ہو گا اور جوں جوں یہ بات لوگوں میں پھیلے گی وہ حیران ہوں گے کہ حکومت نے اپنے افسروں سے اس قدر بڑا جھوٹ دیکھ کر کیونکر خاموشی اختیار کی جبکہ اس کے برخلاف اگر حکومت سچ کی تائید کرے تو اس کی بدنامی نہیں بلکہ نیک نامی ہوگی اور ذلت نہیں بلکہ عزت ہوگی اور اس کی باتوں کا اعتبار پھر سے قائم ہو جائے گا.دسواں واقعہ پھر یہ عجیب بات ہے کہ ہم جو گورنمنٹ کی ہمیشہ سے اطاعت اور فرمانبرداری کرتے چلے آئے ہیں، ہمارے متعلق گورنمنٹ کے عجیب و غریب خیالات ہیں.گورنمنٹ پنجاب کے ایک ذمہ دار سیکرٹری نے سلسلہ کے ایک سیکرٹری سے کہا کہ آپ لوگ پیرالل گورنمنٹ (PARALLEL GOVERNMENT) یعنی متوازی حکومت قائم کر رہے
خطبات محمود ۳۴۸ سال ۱۹۴۴ء ہیں.اور اس کا ثبوت یہ دیا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ لوگ اپنی جماعت کے مقدمات سنتے ہیں.ہمارے سیکرٹری نے کہا کہ اس میں کیا غضب ہو گیا گورنمنٹ تو آپ یہ اعلان کرتی رہتی ہے کہ لوگوں کو اپنے مقدمات آپ فیصلہ کرنے چاہئیں، عدالتوں میں نہ آنا چاہیئے.مگر یہ عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو گورنمنٹ یہ کہتی ہے کہ اپنے مقدمات کا گھروں میں فیصلہ کرنا چاہیے اور دوسری طرف وہ جماعت جو اپنے مقدمات کا اپنے گھروں میں فیصلہ کرتی ہے، اس کے متعلق کہتی ہے کہ وہ پیرائل گورنمنٹ قائم کر رہی ہے.یا تو گورنمنٹ یہ نہ کہتی کہ اپنے گھروں میں مقدمات کا فیصلہ کیا کرو.یا پھر اس کی اجازت کے ماتحت گھروں میں جھگڑوں کا تصفیہ کرنے والوں پر یہ الزام نہیں لگانا چاہیئے.اگر یہ کہا جائے کہ ہم قابل دست اندازی پولیس والے فوجداری مقدمات سنتے ہیں تو یہ صریح غلط اور خلاف واقعہ ہے.ہاں ہم یہ مشورہ ضرور دیتے ہیں کہ ہر جھگڑے کے متعلق سلسلہ کے کارکنوں سے مشورہ کرلو جو پولیس کے دائرہ میں آتے ہیں، ان کو پولیس میں لے جانے کی وہ ہدایت کریں گے اور جن مقدمات کا گھر میں فیصلہ کرلینے کی قانون اجازت دیتا ہے، ان کا وہ گھر میں فیصلہ کردیں گے.اور یہ جُرم ہم ہی نہیں کرتے، سب اس مجرم کے مرتکب ہیں حتی کہ بڑے سے بڑے انگریز افسر بھی اس سے بچے ہوئے نہیں.بچے گھروں میں بلا پوچھے چیز اٹھا لیتے ہیں لفظا یہ چوری ہے، نوکر کوئی چھوٹی موٹی چیز اٹھالیتا ہے یہ بھی چوری ہے مگر کوئی انگریز افسر بھی ایسا ہے جو یہ کہے کہ وہ اس پر پولیس کے ذریعہ کارروائی کرواتا ہے.عام طور پر ایسے واقعات میں لوگ نوکروں کو جرمانہ کر دیتے ہیں اور بچوں کے ذرا کان کھینچ کر چھوڑ دیتے ہیں.اسی قسم کے مقدمات اور وہ بھی چوری کے نہیں بلکہ بچوں وغیرہ کی عام مار پیٹ کے مقدمات ہماری جماعت میں بھی سن لئے جاتے ہیں.پھر نہ معلوم اس کا نام متوازی حکومت کس طرح رکھا گیا اور کس محاورہ کے مطابق رکھا گیا.اگر یہ الزام ہم پر درست ہے تو ہر انگریز جس کا لڑکا بغیر پوچھے چاکلیٹ کھا گیا ہو یا ہر انگریز جس کے باورچی نے اس کی اجازت کے بغیر ایک انڈے کا استعمال کرلیا ہو اور اس نے اسے پولیس میں نہ بھیجا ہو ، متوازی حکومت قائم کرنے والا قرار پائے گا اور اس نئی اصطلاح کے ہر گھر میں ہی ایک متوازی حکومت کا پتہ چل جائے گا.اور شاید نیزوں والی خبر کے اصول پر ایسوسی ایٹڈ پریس کو یہ تار دینے کا حق حاصل ہو جائے کہ ہندوستان میں ایک گھری سازش کا انکشاف ہوا ہے اور معلوم ہوا ہے کہ اندر ہی اندر ہزاروں، حکومت کو الٹنے والی ماتحت
سال ۱۹۳۴ء خطبات محمود ۳۴۹ سازشیں ہو رہی ہیں اور متوازی حکومتیں قائم ہو رہی ہیں.مگر کیا یہ درست ہو گا پھر با امن شہریوں پر ایسے الزام لگانے سے یقیناً حکومت مضبوط نہیں ہو سکتی بلکہ کمزور ہوتی ہے اور لوگوں کا حکومت پر سے اعتبار اٹھتا ہے.دوسرا ثبوت أن صاحب نے ہماری متوازی حکومت کا یہ دیا کہ تم مقدمات کے تصفیہ کیلئے لوگوں کو بلاتے وقت سمن جاری کرتے ہو اور مدعی اور مدعاعلیہ کے الفاظ لکھتے ہو حالانکہ سمن کے معنی بلانے کے ہیں اور مدعی اور مدعا علیہ ہماری عربی زبان کے ر ہیں جو مسلمانوں کو ہی سے لئے گئے ہیں ہماری شریعت میں یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں.پھر کیا اب ہماری اپنی شریعت کے الفاظ استعمال کرنے سے بھی ہمیں روکا جائے گا.کوئی غور کرکے بتائے کہ مدعی اور مدعا علیہ کے الفاظ لکھنے سے ہم متوازی حکومت قائم کرنے والے کس طرح بن گئے؟ جو سمن جاری کرنے کا الزام ہم پر لگایا گیا ہے.اس کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ اول تو یہ لفظ ہی ہمارے ہاں استعمال نہیں ہوتا.صرف غلطی سے چند کاغذات میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے ورنہ ہماری قضاء کے محکمہ میں ہرگز یہ لفظ استعمال نہیں ہوتا.ہمارے ہاں طریق یہ ہے کہ سادہ چٹھی لکھی جاتی ہے اور جسے بلانا ہو اسے بلالیا جاتا ہے.خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب انگریزی نوکری کرتے ہوئے آئے ہیں انہوں نے بعض مواقع پر غالبا سمن کا لفظ استعمال کیا ہے لیکن وہ محکمہ قضاء میں نہیں بلکہ امور عامہ میں کام کرتے ہیں.جس طرح کہتے ہیں کہ کوئی نیا نیا مسلمان ہوا تھا جب لوگ کسی بات پر خوش ہوتے تو وہ سُبْحَانَ اللهِ کہتے مگر وہ رام رام کہنا شروع کر دیتا.اس سے جب پوچھا گیا کہ رام رام کیوں کہتے ہو تم تو مسلمان ہو.تو اس نے کہا اللہ اللہ گھتے ہی گھے گا او رام رام نکلتے ہی نکلے گا.خانصاحب نے ساری عمر انگریزی نوکری کی انہوں نے اگر سمن کا لفظ استعمال کرلیا تو یہ کوئی الزام کی بات نہیں تھی.خصوصاً جبکہ سمن کے معنے بلانے کے ہوتے ہیں اس کے علاوہ ہمارے ہاں سمن کا لفظ نہیں ہوتا.پھر مدعی اور مدعا علیہ کے الفاظ ہماری اپنی زبان کے ہیں اگر ہم اپنی بولی نہ بولیں تو اور کیا کریں.پس ہمارا جرم صرف یہ ہے کہ ہم نے اپنی زبان کے چند الفاظ استعمال کئے.اس میں شبہ نہیں کہ ہم لوگوں کے مقدمات سنتے ہیں مگر ان کی مرضی سے کوئی مار کر انہیں اپنی جماعت میں شامل نہیں کرتا.پس جب وہ اپنی مرضی سے ہمارے سامنے مقدمات پیش کرتے ہیں اور ایسے مقدمات جن کے پرائیویٹ تصفیہ کی حکومت نے اجازت دے رکھی ہے تو ان کا.
خطبات محمود ۳۵۰ سال ۶۱۹۴۳۴ تصفیه متوازی حکومت کس طرح کہلا سکتا ہے.آئندہ کیلئے حکومت یہ فیصلہ کردے کہ دیوانی مقدمات میں بھی سمجھوتے کرانے ناجائز ہیں اور معمولی چھیڑ چھاڑ اور معمولی مار پیٹ کے واقعات بھی ضرور گورنمنٹ کی عدالت میں لانے چاہئیں تو اس کے بعد ایک کیس بھی ہم سن جائیں تو وہ متوازی حکومت کا الزام ہم پر لگا سکتی ہے لیکن جب ایک طرف وہ مقدمات سننے کی ا اجازت دیتی ہے تو پھر دوسری طرف اس کا یہ الزام لگانا کسی صورت میں بھی درست نہیں ہو سکتا.اور لوگوں کو یہ الزام لگانے کا موقع ملتا ہے کہ حکومت اپنے اعلانات میں سچ سے کام نہیں لیتی.سے گیارھواں واقعہ یہ ہے یہ ہے کہ کہا گیا ۱۹۳۳ء میں دریائے بیاس پر احمدیہ کور کے بعض نوجوان ٹرینگ کیلئے گئے اور انہوں نے وہاں پر رائفل شوٹنگ کیا اور یہ بات اتنے وثوق بیان کی گئی کہ جماعت احمدیہ کے ایک سیکرٹری سے حکومت پنجاب کے ایک ذمہ دار افسر نے اس کا ذکر جماعت کے متعلق شبہ کے طور پر کیا حالانکہ یہ بالکل جھوٹی رپورٹ اور بے بنیاد بات تھی.تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ قادیان کے کسی کانسٹیبل نے یہ رپورٹ کی حالانکہ قادیان کے کانسٹیبل کا بیاس کے اس علاقہ سے جہاں ہمارے لوگ سیر کو جاتے ہیں کوئی تعلق میں وہاں کا تھانہ الگ ہے جو سری گوبند پورہ ہے.اگر دریائے بیاس کے اس مقام پر راکفل شوٹنگ ہو تو تھانہ اتنا نزدیک ہے کہ وہاں اس کی آواز بھی پہنچ سکتی ہے، اس کے علاوہ پولیس کے آدمی گشت بھی لگاتے رہتے ہیں لیکن وہاں کی پولیس کو تو کچھ پتہ نہ لگا اور یہاں کی پولیس کے کانٹیبل نے جھٹ رپورٹ کر دی.اس پر پولیس کے اعلیٰ افسروں نے مقامی سب انسپکٹر کردی.کے ذریعہ تحقیقات کرائی اور سب پر تحقیقات کے بعد یہ بات واضح ہوگئی کہ رپورٹ بالکل جھوٹی تھی اور وہ اس امر کو تسلیم کر گئے مگر گورنمنٹ کے ذمہ دار افسر ڈیڑھ دو سال کے بعد سلسلہ کے ایک ذمہ دار افسر سے شکایت کرتے ہیں کہ تمہاری طرف سے دریائے بیاس پر رائفل شوٹنگ کیا گیا گو ایک اور اعلیٰ سرکاری افسر نے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب سے کہا کہ اس واقعہ کی تردید ہو چکی ہے.مگر سوال یہ ہے کہ درمیانی افسروں نے یہ کیوں کہا اگر تردید ہو چکی تھی تو انہوں نے تردید کے باوجود اسے کیوں دہرایا اور اگر انہیں علم نہ تھا تو اس انہیں کیوں نہ دیا گیا، پھر اس سپاہی کو کیوں سزا نہ دی گئی جس نے بلاوجہ ہماری جماعت پر یہ بهستان باندھا مگر اتنا بڑا اتمام سننے کے باوجود گورنمنٹ کے افسر اسے پچکار کر چلے گئے.کا
خطبات محمود ۳۵۱ سال ۱۹۳۳ تو بارہواں واقعہ یہ ہے کہ جلسہ احرار کے موقع پر ڈپٹی کمشنر صاحب ضلع گورداسپور ہر چو وال اُترے ہوئے تھے.وہاں انہوں نے جماعت کے چند افراد کو بلوایا اور گفتگو میں جب میرا ذکر کرتے تو دی مرزا دی مرزا ( THE MIRZA) کہہ کر ذکر کرتے.اس پر ہماری جماعت کے ایک سیکرٹری نے چند بار سننے کے بعد ان سے کہا کہ صاحب آپ ہندوستانی ہیں اگر آپ انگریز ہوتے تو آپ کو معذور سمجھا جاسکتا تھا.آپ کو معلوم ہے کہ ہم ان کو اپنا امام اور خلیفہ مانتے ہیں اور آپ کے ان کو صرف مرزا کہنے سے بڑا دکھ محسوس کرتے ہیں.خانصاحب فرزند علی صاحب، میاں شریف احمد صاحب اور سید محمود اللہ شاہ صاحب حلفیہ بیان دے سکتے ہیں کہ انہوں نے اس کے جواب میں کہا.میں اس کے متعلق آپ لوگوں کو کچھ زیادہ نہیں کہہ سکتا آپ نے جو کچھ کہنا ہے کمشنر صاحب سے کہیں.جس کا سوائے اس کے اور کوئی مطلب نہ ہو سکتا تھا کہ کمشنر صاحب نے انہیں اجازت دے رکھی ہے کہ وہ ہماری اور ہمارے سلسلہ کی ہتک کریں.ڈپٹی کمشنر صاحب کے متعلق ایک اور موقع پر بھی دیکھا گیا ہے کہ جب وہ ہماری جماعت کے ذمہ دار افسروں سے ملنا چاہتے تو کہتے میں نے فرزند علی سے ملتا ہے شریف احمد سے ملنا ہے اخلاق کا برتاؤ کسی قانون کے ماتحت نہیں ہوتا.کون سا قانون ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم ڈپٹی کمشنر کو مسٹر کہا کریں.ہمارے ہندوستانی ہمیشہ بات کرتے وقت صاحب یا جناب کہنے کے عادی ہیں.پس اگر ان احساسات کو مد نظر نہ رکھا گیا اور یہ کھیل کھیلنی شروع کردی گئی تو ہماری جماعت سے بھی وہ توقع نہیں رکھ سکیں گے کہ ہم آداب کے ساتھ ان کا نام لیا کریں.اس صورت میں بالکل ممکن ہے کہ ہم اگر کوئی مرہٹہ ہو تو اس کو کہہ دیں او مرہٹے اور پنڈت ہو تو او پنڈت یا لالہ ہو تو او لالے کہہ دیں.پس اگر وہ ہمارے جذبات کے ساتھ کھیل سکتے ہیں تو ہم بھی انہیں پنڈت اور لالہ کہہ سکتے ہیں لیکن یہ کھیل اگر کھیلا گیا تو بڑا گندہ کھیل ہو گا اور اخلاق سے سخت گری ہوئی بات ہوگی اور اس کے نتائج ایسے خطرناک نکلیں گے کہ نہ صرف لوگوں کے اخلاق بگڑیں گے بلکہ گورنمنٹ کا نظام بھی اس سے خراب ہو گا.تیرھواں واقعہ یہ ہے کہ یہاں پر ایک احمدی کانسٹبل متعین ہوا مگر چند ہی دنوں بعد اسے یہاں سے بدل دیا گیا.احراریوں کے ہم مذہب کانسٹبل یہاں ڈیڑھ ڈیڑھ سال سے کام کر رہے ہیں مگر انہیں تبدیل نہیں کیا جاتا.اول تو قادیان ہماری جماعت کا مرکز ہے اور چونکہ
خطبات محمود ۳۵۲ سال ۱۹۳۴ اس میں ہماری جماعت کی کثرت ہے اور ہماری وجہ سے ہی قادیان کو ترقی حاصل ہو رہی ہے اس لئے ہم یہ مطالبہ کر سکتے تھے کہ جیسے ننکانہ صاحب میں سکھوں سے وعدہ کر لیا گیا ہے کہ وہاں ہمیشہ ایک سکھ تھانیدار رہا کرے گا اسی طرح ہمارے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جائے.ہمیں ننکانہ صاحب میں مستقل طور پر سکھ تھانیدار کے مقرر ہونے پر کوئی رنج نہیں بلکہ ہم کہتے ہیں چشم ما روشن دل ماشاد لیکن جس طرح ننکانہ صاحب سکھوں کا ایک مقدس مقام ہے اسی طرح ہمارا بھی یہ مقدس مقام ہے اور جس طرح وہاں کثرت سے سکھوں کی جائدادیں ہیں، اسی طرح یہاں بھی ہماری جماعت کی کثرت سے جائدادیں ہیں غرض وہ ساری باتیں جو ننکانہ صاحب میں سکھوں کو حاصل ہیں، وہ احمدی افراد کو قادیان میں حاصل ہیں.پس یہاں کم از کم پولیس کا ایک حصہ مستقل طور پر احمدی ہونا چاہیئے تھا مگر لطیفہ یہ ہے کہ ایک کانسٹیل آیا اور اسے بھی فوراً تبدیل کر دیا گیا جو صاف بتاتا ہے کہ احمدیہ جماعت پر اعتماد نہیں کیا جاتا.چودھواں واقعہ یہ ہے کہ اس جلسہ احرار کے موقع پر ایک تھانیدار نے رپورٹ کی کہ احمدی اپنا لٹریچر تقسیم کرتے ہیں.ہم نے اپنی جماعت کو حکام کی خواہش پر ہدایت کردی تھی کہ احرار کو جاکر لٹریچر نہ دیا جائے.پھر اس کے بعد یہ خیال کرتے ہوئے کہ چونکہ محلوں میں سے احراری گزرتے ہیں اس لئے اگر انہیں لڑیچر دیا گیا تو ممکن ہے کہ اس سے بھی کوئی فتنہ کا دروازہ کھل جائے اس لئے محلوں میں بھی لڑیچر تقسیم کرنا منع کردیا گیا تھا.مگر احراریوں کے دوستوں نے چونکہ فتنہ کھڑا کرنا تھا اس لئے انہوں نے شکایت کی کہ احمدیہ لٹریچر تقسیم کیا گیا ہے اور اس کے ثبوت میں یہ بیان کیا گیا کہ ایک باوردی تھانیدار کو لٹریچر دیا گیا ہے.اگر اسے درست بھی تسلیم کر لیا جائے تو تھانیدار کو لٹریچر دینے سے احراریوں میں جوش کس طرح پھیل سکتا تھا جب تک کہ وہ خود در پردہ احراری نہ ہو.میں ہرگز نہیں سمجھ سکتا کہ گورنمنٹ پنجاب کا بھی یہ منشاء ہو کہ ہم لٹریچر تقسیم نہ کریں کیونکہ ہم ایک تبلیغی جماعت ہیں اور ہمیں تبلیغی لٹریچر کی تقسیم سے کسی صورت میں نہیں روکا جاسکتا لیکن جب ان کی طرف سے کہا گیا کہ لڑیچر تقسیم کیا گیا ہے تو ہمارے آدمیوں نے کہا کہ ان لوگوں کو پیش کیجئے جن کو لٹریچر دیا گیا ہے.اور جب اس سے پوچھا گیا کہ آپ کو کس نے لٹریچر دیا ہے اور انہوں نے کہا کہ سید احمد نور صاحب کاہلی نے لڑ یچر دیا ہے.ہر شخص جانتا ہے کہ وہ خود مدعی نبوت ہیں اور معذور اور بیمار آدمی ہیں.پس ان کا کام ہماری طرف کس طرح منسوب کیا جاسکتا ہے.پھر ممکن
سال ۱۹۳۴ء خطبات محمود ۳۵۳ ہے، ان کا نام بھی یونہی لے لیا گیا ہو اور جسے لٹریچر قرار دیا گیا ہے وہ ان کی کسی دوائی کے ساتھ کوئی اشتہار ہو.مگر بہر حال جب سلسلہ کے کارکنوں نے تحقیق کی تو ثابت ہوا کہ یہاں کے چوکیداروں کا جو دفعدار ہے (اور گو وہ احمدی کہلاتا ہے مگر اس کی کئی شکایتیں پہنچی ہیں کہ وہ جماعت کے خلاف حرکات کرتا رہتا ہے.اس معاملہ میں ابھی کامل تحقیق نہیں کی گئی مگر اس کے خلاف شکایات ضرور ہیں.) اس نے کسی دکاندار سے جاکر لٹریچر مانگا کہ پولیس والے مانگتے ہیں اور اس نے آگے اس تھانیدار کو وہ لٹریچر دیا اور اس کا نام فساد کرنا رکھا گیا اور کہا گیا کہ اس سے احرار کیمپ میں فتنہ واقع ہو جائے گا.اس صورت میں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ تھانیدار احراری تھا اور فساد پر آمادہ.پندرھواں واقعہ یہ ہے کہ ہم نے متواتر اعلان کیا تھا کہ احرار کے جلسہ میں کوئی احمدی نہ جائے.اتفاقاً ایک احمدی سکوہا کو جارہا تھا، سکوہا کو راستہ احراریوں کے جلسہ گاہ کے ساتھ ہی جاتا ہے، انہوں نے جونہی ایک احمدی کو جاتے دیکھا اسے فوراً پکڑ کر پولیس کے پاس لے آئے.سید محمود اللہ شاہ صاحب جو اس وقت ڈیوٹی پر مامور تھے ان کا بیان ہے کہ میں نے جونہی اس کو دیکھا میرے دل نے گواہی دی کہ یہ احمدی ضرور ہے.اس پر میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کہاں کے رہنے والے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ میں ستکوہا کا باشندہ ہوں.پھر میں نے تھانیدار سے پوچھا مسکو ہے کا راستہ کہاں سے جاتا ہے.تو اس نے بے اختیار کہا کہ احراری کیمپ کے عین اوپر سے.اس پر میں نے بالا افسر کو توجہ دلائی کہ دیکھو یہ شخص اپنے گھر جا رہا تھا اور خواہ مخواہ اس پر فتنہ کا الزام لگایا گیا اور یہ امران کی سمجھ میں آگیا.غرض ادھر تو اتنی شدت برتی جاتی تھی کہ کوئی احمدی اپنے گھر جاتا ہوا بھی احراری کیمپ کے پاس سے نہ گذرے اور ادھر یہ کوشش کی جارہی تھی کہ کسی طرح بعض احمدیوں کو وہاں بھیجوایا جائے.میں نے اسی خیال سے یہ حکم دے دیا تھا کہ کوئی احمدی اس جلسہ میں گیا تو میں اس کو جماعت سے خارج کردوں گا.میں جانتا تھا کہ یہ ایسا مجرم نہیں جس سے کسی شخص کو جماعت سے خارج کیا جاتا مگر میں یہ بھی جانتا تھا کہ اس موقع پر وہی جائے گا جو منافق ہوگا اور اس کی غرض جماعت کو بدنام کرنا ہو گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ بعض مشتبہ آدمیوں کی نسبت رپورٹ آئی کہ وہ احراری کیمپ کی طرف گئے تھے.جب مجھے ان کی اطلاع دی گئی تو میں نے ذمہ دار افسروں کو کہا کہ گو جماعت سے نکالنا میرے اختیار میں ہے لیکن جب میں آپ کو اس بارہ میں شخص
خطبات محمود ۳۵۴ سال ۱۹۳۴ء.اختیار دے چکا ہوں تو اپنے اختیار کو آپ برتیں.اس پر ذمہ دار کارکن جماعت نے انہیں جماعت سے خارج کر دیا اس پر ان میں سے ایک شخص کے متعلق ایک مجسٹریٹ نے شکایت کی کہ میں نے اس شخص کو سرکاری کام پر بھیجا تھا لیکن اسے جماعت سے نکال دیا گیا ہے.اس پر جو افسر بالا افسروں کے ساتھ مقرر تھے انہوں نے احتجاج کیا کہ ایک طرف آپ لوگ اس سختی سے ہمیں روکتے ہیں کہ احمدی وہاں نہ جائیں دوسری طرف آپ کے ماتحت احمدیوں کو ملا ہم سے پوچھے اُدھر بھجواتے ہیں.کیا اس کے یہ معنی نہیں کہ اس طرح ہمیں بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.غرض اس واقعہ نے بھی بتادیا کہ ہمیں اس موقع پر بدنام کرنے کی پوری کوشش کی گئی مگر اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا.سولہواں واقعہ یہ ہے کہ ہماری جماعت کے ایک شخص نے گذشتہ دنوں ایک ٹریکٹ لکھا تھا اس کے الفاظ سخت تھے اور گو اس کے مقابلہ میں بیسیوں مثالیں اس امر کی نظر آتی ہیں کہ احمدیوں کو گندی سے گندی گالیاں دی گئیں اور ٹریکٹ اور اشتہاروں میں گالیوں کو شائع کیا گیا مگر ہم نے اس ٹریکٹ کو فوراً ضبط کرلیا اور اس کے خلاف نفرت کا اظہار کیا حالانکہ دوسرے مسلمانوں نے آج تک اپنے کسی آدمی کے متعلق ایسا نہیں کیا.اس کے بعد گورنمنٹ کی طرف سے اس احمدی پر مقدمہ چلایا گیا اور اسے سزا دی گئی لیکن اس کے مقابلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق سخت سے سخت الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں اور گندی سے گندی گالیاں دی جاتی ہیں مگر کوئی توجہ نہیں کی جاتی اور اگر توجہ کی بھی جائے تو معمولی وار تنگ کردی جاتی ہے.پس سوال یہ ہے کہ قانون دو کیوں ہیں ہمارے متعلق گند اچھالا جائے تو محض وارننگ کی جاتی ہے لیکن اگر ہمارا آدمی کوئی سخت لفظ لکھ دے تو اس پر مقدمہ کھڑا کیا جاتا ہے اور گو سیشن نے اس کی سزا کو جرمانہ میں تبدیل کر دیا.مگر بہرحال پہلی عدالت نے اس کو قید کی سزا دی یہ سولہ مثالیں ہیں جو میں نے پیش کی ہیں.ان سے پتہ چلتا ہے کہ (1) ایک عرصہ سے جماعت کو بدنام کرنے کی کوشش حکومت کے بعض افسران کی طرف سے کی جارہی ہے.(۲) یہ کوشش چند ماہ سے بہت بڑھ گئی ہے.(۳) ہمارے خلاف جو شکایات کی جاتی ہیں جب وہ جھوٹی ثابت ہو جاتی ہیں تو پھر بھی بعض اعلیٰ
خطبات محمود ۳۵۵ سال ۱۹۳۴ تو افسروں تک انہیں دہراتے رہتے ہیں.جس کے صاف معنے یہ ہیں کہ اصل غرض ہمیں بد نام کرنا ہے نہ کہ حقیقت معلوم کرنا.(۴) جماعت کے کارکنوں اور جماعت کو حتی کہ خود امام جماعت احمدیہ کو بلاوجہ پریشان کیا جاتا ہے اور ان کا وقت ضائع کیا جاتا ہے.(۵) ہمارے خلاف شرارت کرنے والے سرکاری ملازموں کے متعلق اول تحقیق ہی نہیں کی جاتی اگر تحقیق کی جاتی ہے تو پھر ان کے جھوٹے ثابت ہو جانے پر بھی ان کو سزا نہیں دی جاتی جس سے شرارتیوں کی جرات بڑھتی ہے.(۲) ذمہ دار سرکاری افسر جماعت کے کارکنوں اور امام جماعت احمدیہ کی ہتک کرتے ہیں اور پھر اس پر ناز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بیشک جاکر بالا افسروں سے کہہ دو.(۷) پہلے ہم سے تعاون کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور جب ہم حکام کی بات تسلیم کر لیتے ہیں تو دوسرے افسر ہمارے اس فعل کی تخفیف کرتے ہوئے آپس میں ایک دوسرے پر جھوٹ کا الزام لگا دیتے ہیں.(۸) سرکاری محکموں میں اگر احمدی ہوں تو ان کے کاموں کو جماعت احمدیہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے.پس ان امور سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت پنجاب میں بعض ایسے افسر موجود ہیں جن کی غرض سوائے اس کے کچھ نہیں کہ جماعت کو کمزور اور بدنام کیا جائے.اب میں جماعت کے سامنے یہ مثالیں رکھ کر کہتا ہوں کہ کیا ان واقعات کے ہوتے ہوئے وہ امید کر سکتے ہیں کہ ہمارے کارکن جماعت کے کاموں کو اسی سرگرمی سے کر سکتے ہیں جس سرگرمی سے انہیں کام کرنے چاہئیں.میں نے یہ تفصیل اس لئے بتائی ہے کہ شاید بعض لوگوں کے دل میں خیال گزرتا ہو کہ حکومت سے ایک غلطی ہوئی ہے اسے جانے دینا چاہیئے.مگر حقیقت یہ ہے کہ ڈیڑھ سال سے ایسے واقعات متواتر ہو رہے ہیں اور میں نے اوپر صرف چند مثالیں بیان کی ہیں ورنہ اور بہت سے واقعات اوپر کے نتائج کی تصدیق کرتے ہیں اور یہ ایک لمبا سلسلہ ہے جو جماعت پر مصائب و مشکلات کے رنگ میں گزر رہا ہے.پس ان حالات کے ماتحت میں کہنے پر مجبور ہو گیا ہوں کہ گورنمنٹ کا فرض ہے کہ ان افسروں کو ڈانٹے جنہوں نے یہ کام کیا اور ان سے دریافت کرے کہ انہوں نے کیوں ایسا کیا.اگر سلسلہ کے مفاد کو نقصان پہنچنے
خطبات محمود ۳۵۶ سال ۱۹۹۳۴ء کا احتمال نہ ہوتا تو میں یقیناً ان معاملات کو دبا دیتا لیکن سلسلہ کی عزت کی حفاظت کیلئے میں اپنی بے آرامی کی پرواہ نہیں کرتا اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر آج ان امور کا انسداد نہ کیا گیا تو سلسلہ کی تحقیر اور تذلیل بڑھتی چلی جائے گی.پس میرا فرض ہے کہ میں آج آپ لوگوں کو کھول کر بتادوں کہ اب آپ کے امتحان کا وقت آپہنچا ہے، اب آپ کی قربانیوں کا جائزہ لینے کا وقت آگیا ہے، آخر جو گالیاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو روزانہ دی جاتی ہیں کیا وہ گورنمنٹ کو معلوم نہیں.پھر کیوں گورنمنٹ ہماری زبان بندی کرتی ہے اور ہمارے دشمن کو کھلے چھوڑ رہی ہے.ہمارے دشمن کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے علماء کو اور حضرت مسیح کو گالیاں دی ہیں اور وہ اس کا بدلہ لے رہے ہیں اور میں نے سنا ہے کہ حکومت بھی اس وہم میں مبتلاء ہے کہ احمدیوں نے ابتداء کی ہے لیکن یہ جھوٹ اور صریح جھوٹ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں بیشک بعض لفظ موجود ہیں جنہیں سخت کہا جاتا ہے لیکن وہ جو ابا لکھے گئے ہیں.پہلے عیسائیوں، آریوں نے آنحضرت ﷺ کے خلاف نہایت سخت اور دلوں کا خون کردینے والے کلمات استعمال کئے تب بار بار سمجھانے کے بعد جب وہ باز نہ آئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تنبیها چند الفاظ استعمال کئے تا انہیں ہوش آئے.اسی طرح علماء نے جب حد سے زیادہ ناپاک گالیاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیں اور باوجود شرافت کی طرف بلائے جانے کے ادھر نہ آئے تو آپ نے ان کی اصل تصویر نہایت نرم الفاظ میں ان کے سامنے رکھی.اب اگر بغیر حقیقت پر غور کرنے کے گورنمنٹ نے ان تحریروں کو موجودہ شورش کا موجب قرار دیا تو ہمیں بھی وہ تحریریں شائع کرنی پڑیں گی جو ان کا موجب ہوئیں اور اس کا جو نتیجہ نکلے گا اس کی ذمہ دار حکومت ہوگی نہ کہ ہم.پس ہم حکومت کو بتادینا چاہتے ہیں کہ اگر حکومت نے ان گالیوں کا سدباب نہ کیا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دی جاتی ہیں تو ہم قانون کے اندر رہتے ہوئے ایسی تدابیر اختیار کریں گے جو ہمیں اس شر سے محفوظ کر دیں لیکن وہ تدابیر یقینا حکومت کی مشکلات میں اضافہ کردیں گی.ہمیں جو محبت حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہے حکومت اس کا اندازہ نہیں کر سکتی ، نہ وہ ان خدمات کی قدر کر سکتی ہے جو آپ نے قیامِ دین کیلئے کیں کیونکہ اس کا جن لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے وہ بے نفسی کے معنی نہیں جانتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اس امر پر زور دیا کہ ہر مذہب کے لوگوں کو صرف اپنے.
خطبات محمود ۳۵۰ سال ۱۹۳۳ء مذہب کی خوبیاں بیان کرنی چاہئیں اور حکومت کو بھی اس قسم کا قانون بنانے کی تحریک کی لیکن بار بار توجہ دلانے کے باوجود نہ پبلک نے اس تحریک کو قبول کیا اور نہ حکومت نے.آج ان علماء اور ان کی تائید میں حکومت کو یہ خیال پیدا ہوا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے گالیاں دی ہیں، بار بار توجہ دلانے پر پہلے کیوں ہوش نہ آیا تھا.ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے گالیاں نہیں دیں، انہی کے بھیجے ہوئے بعض تحفے واپس کئے ہیں.باقی تحفوں کا ڈھیر ہمارے پاس پڑا ہے.اگر ضرورت ہوئی تو ان کی بھی نمائش کر دی جائے گی اور اس وقت حکومت کو بھی اور ”زمیندار“ وغیرہ کی قسم کے لوگوں کو بھی علم ہو گا کہ ظلم کس نے کیا ہے.اور یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے گالیاں نہیں دیں بلکہ مولویوں اور پادریوں کی گالیوں کا ایک نہایت حقیر حصہ واپس کیا ہے ورنہ جو گالیاں پادریوں اور ان کے ہم نوا مولویوں نے دی تھیں، ان میں سے بعض تو شریف آدمی دُہرا بھی نہیں سکتا.اب اگر گورنمنٹ یہ کھیل دیکھنا چاہتی ہے تو بخوشی دیکھ لئے، اس میں بھی ہمارا نقصان نہیں مگر گورنمنٹ کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے دلوں میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت ہے وہ ہرگز اس سے کم نہیں جو عیسائیوں کے دلوں میں حضرت مسیح ناصری کی ہے اور وہ قربانیاں جو مسیح ناصری کیلئے عیسائی کر سکتے ہیں، ویسی ہی قربانیاں بلکہ اس سے بڑھ کر ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیلئے کرنے کو تیار ہیں.ہمارے آدمیوں نے کابل میں اس کا نمونہ دکھا دیا اور ہم میں سے جو شخص ذرہ بھر بھی ایمان اپنے اندر رکھتا ہو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیلئے اپنی جان قربان کرنے کیلئے ہر وقت تیار ہے.گورنمنٹ کو کیا معلوم کہ ہماری محبت حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ گو آپ کو فوت ہوئے پچتیں سال سے زائد کا عرصہ ہو گیا ہے لیکن آج بھی ہمارے دل اس واقعہ کی یاد میں خون کے آنسو بہا رہے ہیں اور ہم آج تک اپنے آپ کو یتیم محسوس کرتے ہیں.میں بیشک ان کا لڑکا ہوں مگر میں اکیلا اپنے باپ کا لڑکا نہیں، ہر بچہ ماں باپ رکھتا ہے مگر خدا شاہد ہے کہ گو اب میری عمر پینتالیس سال سے تجاوز کر چکی ہے اور میرے بچے پچیس پچیس سال کے ہو چکے ہیں لیکن اب تک وقتاً فوقتاً ایسی حالت ہوتی رہتی ہے کہ دل اس جدائی کو یاد کرکے بے تاب ہو جاتا ہے.یہ دنیا ہمیں گھر معلوم نہیں ہوتی بلکہ گھر وہی معلوم ہوتا ہے جس میں ہمارا وہ پیارا رہتا ہے.اگر اس ذمہ داری کا احساس جو مجھ پر ڈالی گئی ہے نہ ہو تو یہ غم مجھے بالکل کچل دے مگر یہ خیال
سال ۱۹۳۴ء خطبات محمود ۳۵۸ کہ ہم انہی کا کام کر رہے ہیں، دل کو ڈھارس دیتا ہے.ورنہ دل بعض وقت اس قدر بے چین ہو جاتا ہے کہ ایک منٹ کی جدائی کی بھی تاب نہیں رہتی.شخص پس گورنمنٹ سمجھ ہی نہیں سکتی کہ ہمارے دل میں کیا جذبات امتتان ہیں اس کے متعلق جس نے ہمارے سامنے اسلام کی صحیح تعلیم رکھی، جس نے محمد رسول اللہ ﷺ کا چہرہ ہمارے سامنے روشن کیا جس نے ہمارا زندہ خدا ہمیں دکھایا اور وہ پردہ جو ہم میں اور ہمارے معشوق میں حائل تھا اس کو چاک کر کے ہمیں اس سے ملادیا.اگر گورنمنٹ کو ہمارے دلوں کا حال معلوم ہو تا، اگر گورنمنٹ کو ان جذبات کا پتہ لگتا تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کبھی ایسی بات نہ کہتی مگر افسوس کہ اس نے کبھی ہمارے دلوں کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی.یہاں قادیان میں ہی احراریوں کی طرف سے تقریر کرتے ہوئے کہا گیا کہ احمدی جماعت رسول کریم ﷺ کی بہتک کرتی ہے.یہ کیسی اشتعال دلانے والی بات ہے.ہم تو وہ ہیں کہ جنہوں نے رسول کریم ﷺ کی عزت کی حفاظت کیلئے ساری دنیا سے لڑائی مول مگر ہمیں ہی یہ کہا جاتا ہے کہ ہم آنحضرت ﷺ کی ہتک کرنے والے ہیں.وہ خود تو محمد مصطفی ا کو مدینہ منورہ میں مدفون قرار دیتے اور مسیح کو آسمان پر زندہ سمجھتے ہیں، وہ خود تو یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ محمد ﷺ نے ایک چڑیا بھی پیدا نہ کی مگر مسیح ناصری نے بہت سے جانور پیدا کئے، وہ خود تو یہ سمجھتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ایک مردہ بھی زندہ نہیں کیا لیکن مسیح ناصری نے بہت سے مُردے زندہ کئے اور اس طرح وہ رسول کریم ﷺ کی ہتک کرتے اور مسیح ناصری کو فوقیت دیتے ہیں لیکن الزام الٹا ہم پر لگاتے ہیں.ہمارا تو دعوئی ہے کہ..بعد از خدا بعشق محمد مخمرم گر کفر این بود بخدا سخت کافرم پس اس طرح ہمارے دل دکھائے جاتے اور ہمارے قلوب کو مجروح کیا جاتا ہے مگر گورنمنٹ انہیں صرف وارننگ کرنے پر ہی اکتفا کرتی ہے اور سوائے اس ایک موقع کے کہ زمیندار سے اس نے اب ضمانت لی ہے اور کسی موقع پر گورنمنٹ نے ہماری تکلیف کی طرف توجہ نہیں کی اور اس ضمانت کا بھی اثر ہم نہیں سمجھ سکتے کیا ہوگا کیونکہ کئی دفعہ دیکھا گیا ہے کہ چند دنوں بعد خاموشی سے ضمانت واپس کر دی جاتی ہے.یہ ایک ہاتھ سے لینا اور
خطبات محمود ۳۵۹ سال ۱۹۳۴ء.دوسرے سے دے دینا "زمیندار" جیسی قسم کے لوگوں کے اخلاق کی ہرگز اصلاح نہیں کرتا.اب میں اپنے خطبہ کو ختم کرتے ہوئے جماعت سے کہتا ہوں کہ اب ہمارا ایک جھگڑا تو احرار سے ہے، انہوں نے ہمیں چیلنج دیا ہے اور گو ہم ظاہری طور پر کمزور ہیں مگر ہمیں اللہ تعالی کا ہے کہ کسی چیلنج کو ہم قبول کرنے سے انکار نہ کریں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ثابت کردیں کہ ہمارے رب کے سپاہی بزدل نہیں ہوتے اور میں امید کرتا ہوں کہ جب میں اس سکیم کو بیان کروں گا جو ان فتن کو دور کرنے کے متعلق ہوگی تو اس وقت ہماری جماعت کا اہر فرد اپنے ذرائع کے مطابق لبیک کہتا ہوا آگے بڑھے گا.میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ یہ فتنہ کوئی اہم چیز نہیں اس سے بڑے بڑے فتنے ہماری جماعت کیلئے مقدر ہیں مگر وہ جو چھوٹے فتنہ کیلئے قربانی کرنے پر تیار نہ ہو، اس سے امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ کسی بڑے فتنہ کے وقت قربانی کر سکے گا.خدا بیشک عالم الغیب ہے اور وہ ہماری نیتوں سے آگاہ ہے مگر دنیا پر رُعب صرف اسی صورت میں پڑ سکتا ہے جب ہم اپنی قربانیوں سے اپنا زندہ ہونا ثابت کردیں.پس اس فتنہ کے استیصال کیلئے جو تجاویز بتائی جائیں گی، میں امید کرتا ہوں کہ جماعت ان پر عمل کرے گی اور گورنمنٹ کے معاملہ میں محبت پیار اور ادب کا سلوک قائم رکھے گی.مجھے یقین ہے جیسا کہ اس خطبہ میں میں نے بیان کیا ہے کہ بعض چھوٹے افسروں کی یہ کارروائی ہے.مجھے نہ تو ہز ایکسی لینسی گورنر پر شبہ ہے اور نہ ہی مسلمان، ہندو اور سکھ نمائندوں پر کیونکہ یہ اتنی گری ہوئی بات ہے کہ میں نہیں سمجھ سکتا ایک ہندو یا سکھ بھی ہم سے اس معاملہ میں ہمدردی نہ کرے.پس مجھے اب تک یقین ہے کہ گورنمنٹ سے مراد گورنمنٹ نہیں بلکہ اس کے صرف چند افسر ہیں.اگر ہمیں ان کی طرف سے حق مل گیا تو ہم اَلْحَمْدُ لِلَّهِ کہہ کر اس معاملہ کو چھوڑ دیں گے اور اگر یہ ہمارے حقوق ہمیں نہ دیں گے تو پھر ہم اپیل کریں گے کہ اپنے میں سے ایک انگریز یا مسلمان افسر جو احرار سے تعلق نہ رکھتا ہو، مقرر کیا جائے اور اس کے سامنے ان تمام واقعات کو رکھا جائے.اگر اس طریق کو منظور نہ کیا گیا تو پھر گورنمنٹ آف انڈیا کے پاس اپیل کی جائے گی اور پھر ہوم گورنمنٹ کے پاس اور پھر انگلستان اور ایمپائر کی پبلک کے پاس.اگر کہیں توجہ نہ ہوئی تو پھر میں وہ طریق اختیار کروں گا جو خداتعالی نے مجھے سمجھایا ہے لیکن ان تمام حالات میں ہم قانون کے پابند رہیں گے اور کسی صورت میں بھی گورنمنٹ کے ادب اور احترام کو اپنے ہاتھ سے نہیں دیں گے.اگر کوئی سرکاری افسر ہمارا ادب نہیں.
خطبات محمود Fy سال ۱۹۳۴ء کرتا تو اس کے مقابلہ میں اگر ہماری جماعت بھی اس کا ادب نہ کرے تو وہ معذور سمجھی جائے گی مگر قانون کو کسی صورت میں بھی توڑا نہیں جاسکتا.اگلے ہفتہ میں اِنْشَاءَ اللهُ احرار کے متعلق جماعت کے سامنے وہ تجاویز پیش کروں گا جو میں نے سوچ رکھی ہیں.اس ہفتہ میں صرف باہر کی جماعتوں کو ہوشیار کرنا چاہتا ہوں کیونکہ باہر کے لوگوں میں سے بہت کم ہیں جو قادیان کے حالات سے واقف ہوں.اسی طرح عورتیں سمجھتی ہوں کہ انہیں شاید اس تحریک میں شامل نہ ہونا ہو گا اس لئے میں یہ بھی بتادینا چاہتا ہوں کہ اس میں عورتوں کو بھی شامل ہونا پڑے گا اور اس قربانی کا نہ صرف مردوں سے بلکہ سے عورتوں سے بھی تقاضا کیا جائے گا.مجھے اول تو امید ہے کہ ہمیں سیاسیات میں پڑنے حکومت بچالے گی لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو چونکہ ہماری انجمنیں مذہبی ہیں اور ان میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جن کیلئے اس معاملہ میں دخل دینا جائز نہیں ہو سکتا اس لئے اگر بامر مجبوری ہمیں سیاسی اقدام کرنا پڑا تو اس کیلئے الگ انجمنیں بنانی پڑیں گی جو موجودہ مذہبی انجمنوں.بالکل الگ ہوں گی اور ان میں وہی لوگ ممبر ہو سکیں گے جو قانونی طور پر ممبر ہو سکتے ہیں.میں اس امر کے آثار دیکھتا ہوں کہ حکومت کو جلد وفادار جماعتوں کی امداد کی پھر ضرورت پیش آئے گی.میں یہ کسی الہام کی بناء پر نہیں کہتا بلکہ زمانہ کے حالات کو دیکھ کر عقل کی بناء پر کہتا ہوں.میں نے کانگرس کی تحریک کو خوب غور سے دیکھا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اب کانگرس ایک ایسی سکیم تیار کر رہی ہے جس سے گو بظاہر یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ میدان سے ہٹ گئی مگر عنقریب وہ گورنمنٹ کو ایسی مشکلات میں ڈال دے گی جس کیلئے پھر اسے وفاداروں کی ضرورت محسوس ہوگی اور ہم پھر اپنے جھگڑے کو ایک طرف رکھ کر اس کی تیار ہو جائیں گے.مگر حکومت نے ہمیں سبق دے دیا ہے کہ اس سے سودا کئے بغیر تعلق نہیں رکھنا چاہیئے.ہم خود بھی آئندہ حکومت سے سودا کریں گے اور دوسروں کو بھی سودا کرنے کا سبق پڑھائیں گے سوائے اس صورت کے کہ حکومت ہم پر جو ظلم ہوا ہے اسے دور کرے تب ہمارے تعلقات پہلے کی طرح ہو جائیں گے لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو ہماری مدد سودا کرنے کے بعد ہوگی اور ہم اپنی خدمات کا معاوضہ طلب کریں گے اور اس جھگڑے کے خاتمہ کیلتے پرو وہ پر پھر اپنی ہتک کا سوال گورنمنٹ کے سامنے رکھیں گے اور اس سے مطالبہ کریں گے کہ ہماری ہتک کا ازالہ کرے.اور یہ جھگڑا اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ گورنمنٹ
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء سے ہم اپنا حق لے لیں.وَاللهُ الْمُسْتَعَانُ وَ عَلَيْهِ التَّكَلاَنُ وَهُوَ غَالِبٌ عَلَى كُلِّ حُكُومَةٍ وَ جَمَاعَةٍ وَ طَاقَةٍ وَ نَاصِرُ لِحِرُ بِهِ وَ نَاصِرُ انْبِيَائِهِ فَالْغَلَبَةُ لَنَا وَلَا عَلَيْنَا فَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ وَهُوَ اَحْكَمُ الْحَاكِمِينَ وَ خَيْرُ النَّاصِرِينَ.الفضل ۱۱- نومبر ۱۹۳۴ء) ا تذکرة الاولياء مصنفہ شیخ فرید الدین عطار صفحه ۲۷۴ مطبوعہ ۱۹۹۰ء لاہور له بخاری کتاب الطلاق باب اللعان ومن طلق بعد اللعان کے بخارى أبواب المظالم والقصاص باب اثم من خاصم في باطل وهو يعلمه
خطبات محمود ۳۶۲ ۳۵ جماعت احمدیہ سے تین مطالبے (فرموده ۹- نومبر ۱۹۳۴ء) سال ۱۹۳۴ء تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- اس وقت ہماری جماعت کے خلاف مذہبی اور سیاسی جماعتوں کا اجتماع ہو رہا ہے.اور چونکہ ہمارے خلاف صرف ایک مذہب کے ہی لوگ نہیں بلکہ تمام مذاہب کے لوگ ہمارے مخالف ہیں اس لئے ہر شخص کسی نہ کسی رنگ میں ہمیں تکلیف دینا چاہتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق ایک مقدمہ کے دوران میں آریوں کی ایک انجمن نے آریہ مجسٹریٹ سے کہا کہ انہیں ضرور سزا ملنی چاہیئے.اس قسم کی مذہبی انجمنیں ہمارے خلاف بھی ہیں اور چونکہ ہمارے ضلع میں ہندوستانی عملہ اکٹھا ہو گیا ہے اس لئے مذہبی طور پر بھی اس کے ایک حصہ پر دباؤ ڈالا جاسکتا ہے کہ وہ ہماری جماعت کی مخالفت کرے اور یہ خیال کرے کہ اس موقع پر احمدیہ جماعت کو نقصان پہنچانا مذہباً ایک نیک کام ہو گا اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ گورنمنٹ کی موجودہ دخل اندازی بھی احراری دخل اندازی سے وابستہ ہے اور بغیر جاننے کے حکومت ان افسروں کی رائے سے متأثر ہوتی ہے جو موجودہ احراری فتنہ میں دل سے احراریوں کے طرفدار اور ہمارے مخالف ہیں.پس در حقیقت یہ ساری تکالیف خواہ حکومت کی کی طرف سے ہوں خواہ رعایا کی طرف سے ایک ہی زنجیر کی مختلف گڑیاں ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم نہایت ہوشیاری سے ان کا مقابلہ کریں اور اسی لئے میں نے اللہ تعالی سے متواتر دعا کرتے ہوئے اور اس کی طرف سے مبشر رویا حاصل کرتے ہوئے ایک سکیم تیار کی ہے جس کی.
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء کو میں انشاء اللہ آئندہ جمعہ سے بیان کرنا شروع کروں گا.میں نے ایک دن خاص طور پر دعا کی تو میں نے دیکھا کہ چودھری ظفر اللہ خاں صاحب آئے ہیں وہ اس وقت تک انگلستان سے واپس نہیں آئے تھے) اور میں قادیان سے باہر پرانی سڑک پر ان سے ملا ہوں وہ ملتے ہی پہلے مجھ سے بغلگیر ہو گئے ہیں اس کے بعد نہایت جوش سے انہوں نے میرے کندھوں اور سینہ کے اوپر کے حصہ پر بوسے دینے شروع کئے ہیں اور نہایت رقت کی حالت ان پر طاری ہے.اور وہ بو سے بھی دیتے جاتے ہیں اور یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ میرے آقا میرا جسم اور روح آپ پر قربان ہوں.کیا آپ نے خاص میری ذات سے قربانی چاہی ہے یا کہا کہ خاص میری ذاتی قربانی چاہی ہے اور میں نے دیکھا کہ ان کے چہرہ پر اخلاص اور رنج دونوں قسم کے جذبات کا اظہار ہو رہا ہے.میں نے اس کی تعبیر یہ کی کہ اول تو اس میں چوہدری صاحب کے اخلاص کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ کیا ہے کہ انشاء اللہ جس قربانی کا ان سے مطالبہ کیا گیا خواہ کوئی ہی حالات ہوں وہ اس قربانی سے دریغ نہیں کریں گے.دوسرے یہ کہ ظفر اللہ خاں سے مراد اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی فتح ہے اور ذات سے قربانی کی اپیل سے متی نَصْرُ الله له کی آیت مراد ہے کہ جب خدا تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے اپیل کی گئی تو وہ آگئی اور سینہ اور کندھوں کو بوسہ دینے سے مراد علم اور یقین کی زیادتی اور طاقت کی زیادتی ہے اور آقا کے لفظ سے یہ مراد ہے کہ فتح و ظفر مومن کے غلام ہوتے ہیں اور اسے کوئی شکست نہیں دے سکتا.اور جسم اور روح کی قربانی سے مراد جسمانی قربانیاں اور دعاؤں کے ذریعہ سے نصرت ہے جو اللہ تعالیٰ کے بندوں اور اس کے فرشتوں کی طرف سے ہمیں حاصل ہوں گی.عجیب بات ہے کہ رویا میں میں نے چودھری صاحب کو جس لباس میں دیکھا تھا، ان کے آنے پر ویسا ہی لباس ان کے جسم پر تھا گو عام طور پر ان کا لباس اور طرح کا ہوتا ہے.پھر دوسرے دن میں نے دعا کی تو میں نے دیکھا کہ ڈاکٹر فضل کریم صاحب آئے ہیں.ڈاکٹر صاحب کے اہل و عیال قادیان میں رہتے ہیں مگر آج کل وہ باہر ملازمت پر ہیں.میں نے خواب میں دیکھا کہ جب وہ آئے تو میں نہایت محبت سے ان سے ملا ہوں اور میں کہتا ہوں آپ کے خلاف کسی نے شکایت کی تھی مگر میں سمجھتا ہوں کہ وہ جھوٹی ہے.فضل کریم سے مراد بھی یہی ہے کہ خدا کہتا ہے کہ سب قسم کے کرم یعنی عزتیں تو میرے قبضہ میں ہیں کون آپ کو ذلیل کر سکتا ہے جبکہ میرا فضل ساتھ ہو اور شکائیتیں جھوٹی ہونے سے یہ مراد ہے کہ یہ جو لوگوں.
خطبات محمود ۳۶ سال ۶۱۹۳۴ نے خیال کیا کہ گویا خدا تعالیٰ ہم سے غداری کرے گا اور دشمن کا حملہ کامیاب ہوگا.جھوٹ ہے ہمارا خدا وفادار خدا ہے اس کے خلاف سب الزام جھوٹے ہیں.اب خطبہ کو درست کرتے ہوئے میں دو اور بشارتوں کو درج کر دیتا ہوں.ایک تو کشف ہے اور ایک خواب میں جمعہ کے بعد رات کو بستر پر لیٹا ہوا تھا اور غالباً نصف شب کے بعد کا وقت تھا کمزوری اور کمر درد کی وجہ سے میری آنکھ کھل گئی اور میں جاگ رہا تھا کہ جاگتے ہوئے میں نے یہ نظارہ دیکھا کہ میری کوئی بیوی والدہ ناصر احمد یا والدہ طاہر احمد - غالبا والدہ ناصر احمد ہیں نے آکر دستک دی ہے.انہوں نے دریافت حال کیا تو اس شخص نے ایک چیز انہیں دی کہ سید ولی اللہ شاہ صاحب نے بھیجوائی ہے.انہوں نے لا کر مجھے دی کہ غلام نبی صاحب گلکار (جو کشمیر کی جماعت کے پریذیڈنٹ ہیں) یہ قدرتی برف لائے ہیں کہ سید ولی اللہ شاہ صاحب نے دی ہے.وہ برف ایک سفید تولئے میں لپٹی ہوئی ہے اور دوسیر کے قریب ہے اور اس کی شکل ایک بڑی اینٹیڈ کے مشابہ ہے.میں کشف کی حالت میں اس برف کو پکڑتا ہوں اور حیران ہوتا ہوں کہ اتنی دور سے اتنی برف کس طرح محفوظ پہنچ گئی.تولیہ بھی بالکل خشک ہے اور اس میں برف پگھلنے کی وجہ سے نمی تک نہیں آئی.اس کے بعد یکدم حالت بدل گئی.میں سمجھتا ہوں اس کشف کی تعبیر یہ ہے کہ ہمارے قلوب کو اللہ تعالیٰ کسی اپنے پیارے بندے کی قربانی کو قبول کرتے ہوئے ٹھنڈک پہنچائے گا.ولی اللہ کا بھیجنا غلام نبی کا لانا رشیدہ بیگم جو میری بڑی بیوی کا نام ہے) کا پکڑنا اور محمود کے ہاتھ میں دینا ایک عجیب پر معنی سلسلہ ہے جس کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں.قدرتی برف سے یہ مراد ہے کہ یہ سامان تسکین کے غیب سے پیدا ہوں گے اور اس کا نہ پگھلنا بتاتا ہے کہ تسکین مستقل ہوگی اور عارضی نہ ہوگی.اسی طرح آج میں نے دیکھا کہ ایک دعوت کا سامان ہو رہا ہے اور اس کے لئے برتن صاف کر کے میری ایک بیوی ترتیب سے رکھوا رہی ہیں.ان برتنوں میں میں نے نہایت نفیس اور خوبصورت رنگوں والا شیشہ کا سامان دیکھا، کچھ پیالے ہیں، کچھ صراحیاں اور کچھ گلاس نہایت ہی اعلیٰ قسم کے ہیں ایسے کہ ان کی طرح کا اور ان کی قیمت کا کوئی سامان ہمارے ہاں موجود نہیں.میں اس وقت وضو کر کے غالبا نماز کے لئے کمرہ میں داخل ہو رہا ہوں.انہیں دیکھ کر ان کی خوشنمائی کا مجھ پر ایسا اثر ہوا کہ میں نے اپنی بیوی سے کہا ہے کہ فلاں قسم کے.
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء ان میرا رنگوں کے برتن جو ہمارے ہاں پہلے سے موجود تھے ان کو بھی بیچ میں رکھ دو تو یہ رنگ زیادہ خوبصورت ہو جائیں گے.یہ رویاء بھی خوشی اور کامیابی پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.اِنَّا اَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْاِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الا بتَر.اور بہت سے لوگوں کو بھی مبشر رویا ہو رہی ہیں.بہر حال ترقیات اور کامیابیوں کی بشارتیں ہمیں ملی ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ وہ حاصل ہو کر رہیں گی لیکن ان کے حصول کے لئے سنت اللہ ہمیں قربانیوں کی ضرورت ہے اور حسب احکام شریعت کچھ تدابیر اختیار کرنے کی بھی.لیکن میں نے پورے غور کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہ قربانیاں بالعموم جبری اور لازمی نہ ہوں بلکہ اختیاری ہوں تاکہ ہر شخص اپنے حالات اور اخلاص کے مطابق کام کر سکے.ارادہ ہے کہ اس سکیم کو پیش کرتے ہوئے میں اپنی جماعت سے والنٹیٹرز طلب کروں گا اور ن لوگوں کو بلاؤں گا جو خوشی سے اس تحریک میں شامل ہوں.اس میں شبہ نہیں کہ اس کے نتیجہ میں ممکن ہے بعض لوگ جو کام کے قابل ہوں، شامل نہ ہوں.مگر جو شخص اپنے اندر کام کی طاقت رکھتے ہوئے شامل نہیں ہو گا وہ خدا تعالیٰ کے حضور جواب دہ ہوگا اور اس کا یہ عذر ہرگز سنا نہیں جائے گا کہ اس تحریک میں شامل ہونا اپنی مرضی پر موقوف رکھا گیا تھا کیونکہ گو اس میں شامل ہونا اختیاری ہو گا مگر جو شخص شامل ہونے کی اہلیت رکھنے کے باوجود اس خیال کے ماتحت شامل نہیں ہوگا کہ خلیفہ نے شمولیت کو اختیاری قرار دیا ہے، وہ مرنے سے پہلے اس دنیا میں یا مرنے کے بعد اگلے جہان میں پکڑا جائے گا.ہاں جو شخص نیک نیتی سے یہ سمجھے کہ اس کے حالات مساعدت نہیں کرتے وہ اس سے مستقلی سمجھا جائے گا.مگر ایک بات میں آج ہی کہہ دینا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ کثرت سے مجھے تاریں اور خطوط موصول ہوئے ہیں جو جماعتوں کی طرف سے بھی ہیں اور افرادِ جماعت کی طرف سے بھی جن میں دوستوں نے اپنے آپ کو خدمت سلسلہ کے لئے پیش کیا ہے اور اپنے مال اور اپنی جان دینے کا اقرار کیا ہے اور بعض نے تو ایسی لطیف سکیمیں بطور مشورہ اپنے خطوط میں بیان کی ہیں کہ گویا میری سیکیم کے بعض ٹکڑے انہوں نے بیان کر دیئے ہیں.بہر حال جماعت کے ہزارہا آدمی ہیں جنہوں نے پنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کیا ہے اور انہوں نے لکھا ہے کہ وہ بغیر کسی عذر کے بغیر ایک لفظ بھی اپنے منہ سے نکالنے کے، اس بات پر تیار ہیں کہ ان سے سلسلہ کا جو کام بھی لیا جائے لے لیا جائے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہر وہ شخص جو اپنے اندر ایمان کا ایک ذرہ بھی
خطبات محمود ۳۶۶ سال ۱۹۳۴ء رکھتا ہو میری اس تحریک پر آگے آجائے گا اور وہ شخص جو خداتعالی کے نمائندہ کی آواز پر کان نہیں دھرے گا اس کا ایمان کھویا جائے گا.پس بے شک اس قدر لوگوں کا سکیم کے معلوم ہونے سے پہلے ہی اپنے آپ کو پیش کر دینا ایک مبارک بات ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا صرف منہ کے دعوے سے خوشی حاصل ہو سکتی ہے، بڑی قربانی کی امید تبھی ہو سکتی ہے جب اس پہلے بعض چھوٹی قربانیاں انسان کرچکا ہو.پس میں یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہوں کہ کس طرح یقین ہو کہ آپ لوگ اس بڑی قربانی کے لئے تیار ہوں گے جبکہ جماعت کا بڑا حصہ باوجود بار بار توجہ دلانے کے چندوں میں بھی سست ہے.اگر ایک شخص ہمارے پاس آئے اور کسے میں دس روپے دینے کے لئے تیار ہوں لیکن تقاضا پر ایک روپیہ بھی نہ دے تو کس طرح سمجھا جائے کہ اس نے سچا وعدہ کیا.پس میں صرف آپ لوگوں کے وعدوں کو نہیں دیکھنا چاہتا بلکہ میں آپ لوگوں کی قربانی کا حقیقی ثبوت دیکھنا چاہتا ہوں.میں پہلے دیکھنا چاہتا ہوں کہ کیا آپ چھوٹی چھوٹی قربانیوں کے لئے بھی تیار ہیں یا نہیں.اس کے یہ معنی نہیں کہ میں وہ سکیم چھپالوں گا میں جس قدر باتیں تمہید میں کہنا چاہتا تھا وہ ختم کر چکا اور اب خدا تعالیٰ کے فضل سے اگلی دفعہ وہ سکیم بیان کرنی شروع کردوں گا.مگر مجھے پوری تسلی تب ہوگی جب مجھے یہ یقین ہو جائے کہ ادنیٰ قربانی جس کا آپ سے سلسلہ دیر سے مطالبہ کر رہا ہے اسے آپ نے پورا کر دیا.گزشتہ سال چندوں میں اتنی ہزار کی کمی تھی اور اس سال بھی بار بجائے کم ہونے کے بڑھ رہا ہے.یہ پس جبکہ جماعت کے بعض افراد ماہواری چندہ بھی نہیں ادا کرتے اور اس معمولی قربانی کے کرنے کے لئے بھی تیار نہیں تو میں کس طرح سمجھ لوں کہ وہ بڑی قربانی پر آمادہ ہیں.مجھے چندوں کی ادائیگی کا نام قربانی رکھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے مگر اسے قربانی ہی فرض کر لیا جائے تب بھی ہمیں سمجھنا چاہیے کہ جب ہم اونی قربانیوں سے دریغ کریں گے تو اعلیٰ قربانیوں کے کرنے کا حوصلہ ہمیں کس طرح ہوگا.منہ کی باتیں انسان کو کبھی کامیاب نہیں کیا کرتیں.احراریوں کو دیکھ لو وہ منہ کی لاف و گزاف میں سب سے بڑھے ہوئے ہیں.ہر اختلاف پر حکومت کو دھمکی دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیا حکومت کو معلوم نہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور ہم گورنمنٹ کا تختہ الٹ کر رکھ دیں گے.وہ بارہا ایسے دعوے شائع کر چکے ہیں لیکن شور مچا کر بیٹھ جایا کرتے ہیں اور آج تک انہوں نے گورنمنٹ کا تختہ الٹ کر کبھی نہ دکھایا.تحریک
خطبات محمود ۳۶۷ سال ۱۹۳۴ء کے وقت انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ کیا گورنمنٹ جانتی ہے ہم کون ہیں، ہم مسلمان ہیں، اگر ذرا اٹھے تو بتادیں گے مگر کیا کچھ بھی نہ اور معافیاں مانگ کر واپس آگئے.میکلگن کالج کے جھگڑے کے وقت بھی اسی طرح کیا.ان کی مثال وہی ہے جو ہندو بنیوں کی لڑائی کرتے وقت ہوتی ہے.میں نے خود اس قسم کی لڑائی دیکھی ہے ایک شخص دوسرے سے کہتا تھا کہ گالی دے تو میں تجھے بتاؤں گا اور جب وہ گالی دیتا تو یہ تولنے کا باٹ اٹھا کر کہتا اب کے گالی دے تو میں تیرا سر پھوڑ دوں گا.چند منٹ انہی الفاظ کا تکرار رہتا اور پھر تھوڑی دیر کے بعد پہلا شخص کوئی اور گالی دے دیتا تو یہ پھر اُچھل کر کہتا کہ اب کے گالی دے تو تجھے بتلاؤں.میں نے جب یہ لڑائی دیکھی اس وقت میں بچہ تھا، پانچ چھ سال کی عمر ہوگی، میں حیرت سے یہ تماشا دیکھنے لگا اور میرے دل میں بار بار یہ خیال آتا کہ یہ جلدی کیوں نہیں کرتا اگر اس نے مارنا ہے تو مار کر اس کا سرکیوں نہیں پھوڑتا مگر ایک ادھر سے کودتا اور دوسرا ادھر سے پُھدکتا نہ مارتا اور نہ وہ گالی دینے سے رُکتا، احرار اور گورنمنٹ کی لڑائی بالکل اسی قسم کی ہے.گورنمنٹ کچھ کہتی ہے تو یہ پھدکتے ہوئے اُٹھتے ہیں اور کہتے ہیں کیا تم کو پتہ نہیں.ہم مسلمان ہیں ہم تمہارا تختہ الٹ کر رکھ دیں گے.کئی سال سے ہم یہی سنتے چلے آئے مگر عملی رنگ میں ان میں سے کسی نے کچھ کر کے نہ دکھایا.صرف اس وقت انہیں خوشی محسوس ہوتی ہے جب ان میں سے کوئی شخص کسی ہندو کو مار دیتا ہے حالانکہ ہم ان سے زیادہ دین کے لئے غیرت رکھتے ہیں.مگر ہم اس بات کو نہایت بُرا سمجھتے ہیں کہ ایک نہتے اور غافل شخص پر خنجر اٹھا کر اسے قتل کر دیا جائے اگر اپنی جان کی قربانی ہی کرنی ہو تو کسی طاقتور کا مقابلہ کرکے جان کی قربانی کرنی چاہیے مگر احراری اور ان کے ساتھی ایسا نہیں کرتے.یہاں قادیان کے قریب آئے تو یہی دھمکیاں دیتے رہے کہ پولیس کا چاروں طرف پہرہ ہے اگر آٹھ گھنٹے کے لئے گورنمنٹ نہیں کھلا چھوڑ دے تو ہم دیکھ لیں کہ یہ احمدی اور ان کا قادیان کہاں رہتا ہے.مگر ظفر علی صاحب جب ایک دفعہ بٹالہ میں آئے اور وہاں بعض احمدی پہنچ گئے تو انہوں نے یہ شور مچادیا کہ احمدی لٹھ لے کر ہمیں مارنے آگئے ہیں اگر کوئی طاقت تھی تو اسی جگہ کیوں نہ احمدیوں کے ساتھ مقابلہ کر لیا.مگر دراصل ان لڑنے والے بنیوں کی طرح ان کی یہ عادت ہے کہ ہر موقع پر جھوٹی شیخیاں بگھارتے ہیں مگر ہم کبھی غلط دھمکیاں نہیں دیا کرتے ہم جھوٹے دعوے نہیں کیا کرتے، ہم یہ نہیں کہتے کہ ہم گورنمنٹ کا تختہ الٹ دیں گے کیونکہ ہمارا
خطبات محمود ا ۳۶۸ سال ۱۹۳۴ء مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا اور اگر مذہب اجازت بھی دیتا ہو تو چونکہ ہمارے اندر طاقت نہیں اس لئے ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہم حکومت کا تختہ الٹ دیں گے.پس نہ ہم جھوٹ بولتے ہیں اور نہ ہی قانون شکنی کرتے ہیں.ہاں بارہ مہینے بے کار بیٹھے رہنے کے بھی ہم عادی نہیں.ہم تو گورنمنٹ کے اس معاملہ میں کسی خاص میعاد کا تعین نہیں کرتے اور نہ ہی احراریوں سے مقابلہ کی کوئی میعاد مقرر کر سکتے ہیں.اگر ایک سال نہیں، دو سال نہیں، دس سال نہیں، سو سال نہیں، ہزار سال بھی ہمارا اس مقابلہ میں لگ جائے تو ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں.اگر فرض کرو ہم اس میں کامیاب نہیں ہو سکتے تو ہماری آئندہ نسل کا فرض ہے کہ وہ اس سوال کو اٹھائے اور اگر وہ بھی کامیاب نہیں ہو سکتی تو اس سے آئندہ آنے والی نسل کا فرض ہے کہ اس سبق کو بھولے نہیں بلکہ یاد رکھے اور اگر کوئی نسل اس عہد کو فراموش کرتی ہے تو وہ ہماری نسل نہیں کہلا سکتی.ہم کسی خاص وقت کے قائل نہیں بلکہ کہتے ہیں کہ جب خدا تعالی کا منشاء ہو گا وہ اس کام کو پورا کرے گا اور اگر ہمارے سو سال بھی اس کام میں لگ جاتے ہیں تو ہمارا اس میں کیا حرج ہے.ہم نے سلسلہ کی خدمت کرنی ہے اور خادم کو اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا کہ اس کے کام کا کیا نتیجہ نکلتا ہے.وہ خدمت کرتا ہے اور کبھی خدمت کرنے سے گھبراتا نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بچپن کا واقعہ ہے.ایک غیر احمدی جو اب فوت ہو چکا ہے اس نے بنایا کہ حضرت صاحب جب بچہ تھے گاؤں سے باہر شکار کے لئے گئے اور شکار کے لئے پھندا تیار کرنے لگے، پھر اس خیال سے کہ کھانا کھانے کے لئے گھر نہیں جاسکیں گے ایک دھیلہ ایک بکری چرانے والے کو دیا کہ جاکر چنے بھنوا لاؤ اس زمانہ میں روپیہ کی بہت قیمت تھی اور کوڑیوں سے بھی خرید و فروخت ہوا کرتی تھی) اور اس سے وعدہ کیا کہ میں اتنی دیر تمہاری بکریوں کا خیال رکھوں گا.وہ شخص جا کر کسی کام میں لگ گیا اور وہ واپس نہ آیا.ایک دوسرے شخص نے دیکھ کر کہا کہ آپ اس قدر دیر سے انتظار کر رہے ہیں.میں جاکر اسے بھیجوں اور یہ شخص جاکر اس لڑکے کو تلاش کرتا رہا اور کہیں شام کے قریب اسے جا ڈھونڈا اور آپ شام تک بکریاں چرایا کئے اور اپنے وعدہ پر قائم رہے.نب وہ آیا تو آپ اس پر ناراض بھی نہ ہوئے.یہ اخلاق ہیں جو جیتنے والوں میں ہوتے ہیں نہ یہ کہ عمر آخر ہونے کو آئی ہے اور ہر کام میں ستی، ہر کام میں غفلت کوئی ہوشیار کرے تو ہوشیار ہوں ورنہ پھر غفلت کی حالت میں چلے جائیں.مومن جب ایک کام کو ہاتھ میں لیتا ہے
خطبات محمود ۳۶۹ سال ۱۹۳۴ تو پھر خواہ کچھ ہو اسے آخر تک نباہتا ہے.پس یاد رکھو کہ استقلال اصل چیز ہے اور استقلال کے یہ معنی ہیں کہ قربانیوں پر مداومت اختیار کی جائے مگر جو شخص چھوٹی قربانی نہیں کرتا اس سے کب یہ امید ہو سکتی ہے کہ وہ آئندہ کی بڑی قربانیوں کو پورا کر سکے گا.پس میں جماعتوں اور افراد جماعت کی ان تاروں اور خطوط پر اعتماد کرتے ہوئے جن میں انہوں نے سلسلہ کے لئے اپنی جانیں اور اپنے اموال قربان کرنے کا وعدہ کیا ہے کہتا ہوں کہ ہر وہ شخص جس کے چندوں میں کوئی نہ کوئی بقایا ہے یا ہر وہ جماعت جس کے چندوں میں بقائے ہیں وہ فوراً اپنے اپنے بقائے پورے کرے اور آئندہ کے لئے چندوں کی ادائیگی میں باقاعدگی کا نمونہ دکھلائیں.جماعتیں میرے اس حکم کے مطابق اپنے اپنے بقانوں کو ادا کرتے ہوئے آئندہ کے لئے چندوں میں باقاعدگی اختیار کریں گی میں سمجھوں گا کہ انہوں نے اپنے اقرار کو پورا کیا اور آئندہ کی جدوجہد میں ان پر اعتماد کیا جاسکتا ہے اور اگر وہ ایسا نہیں کریں گی تو ان کا اقرار قابل اعتبار نہیں سمجھا جائے گا.دوسرا مطالبہ میں اپنی جماعت سے یہ کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے جنگ ہو رہی ہو اس وقت بغیر اس کے کہ بُنیان مرصوص ہو کر لڑائی کی جائے کامیابی نہیں ہو سکتی.گویا فتح کی یہ علامت خدا تعالیٰ نے مقرر کی ہے کہ دشمن کے مقابلہ میں مومن پہلو بہ پہلو کھڑے ہوں اور ایک ایسی دیوار کی طرح ہوں جس پر سیسہ پگھلا کر ڈالا گیا.ہو، کوئی ایسا شگاف نہ ہو جو نظر آسکے اور کوئی سوراخ ایسا نہ ہو جو دکھائی دے سکے.یہ فاتح کی علامت ہے جو خدا تعالیٰ نے بتائی ہے.اس کے مطابق ہماری جماعت میں جب تک وہ اتفاق واتحاد پیدا نہ ہو جو فتح کی ضمانت ہوتا ہے، اس وقت تک میں کس طرح اعتبار کر سکتا ہوں کہ آپ لوگ اس لڑائی میں جو ہمارے سامنے ہے، کوئی نمایاں کام کر سکیں گے.میں تو دیکھتا ہوں کہ جماعت کے بعض اچھے اچھے لوگ ذرا سی بات پر لڑ پڑتے ہیں اور کہنے لگ جاتے ہیں کہ ہم انجمن میں چندہ نہیں دیں گے بلکہ براہ راست بھیجیں گے.میں انہیں منافق کہتا وہ مخلص ہوتے ہیں کیونکہ خدمات سے گریز نہیں کرتے مگر باوجود اس کے ذرا سی بات پر آپس میں تفرقہ پیدا کرلیتے ہیں حالانکہ قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک ر شخص کا کندھا دوسرے شخص کے کندھے سے ملا ہوا نہ ہو اور وہ ایک ایسی دیوار کی طرح نہ ہوں جس میں سیسہ پگھلایا گیا ہو، اس وقت تک دشمنوں کے مقابلہ میں کامیابی نہیں نہیں ہو
خطبات محمود ٣٧٠ سال ۱۹۳۴ء.ہو سکتی.پس کامل مومن کی یہ علامت ہے کہ وہ کامل طور پر اپنے بھائیوں سے متحد ہوتا ہے اور خصوصیت کے ساتھ لڑائی اور جنگ کے موقع پر اس کے اندر کوئی رخنہ اور سوراخ نہیں ہوتا.آج ایک طرف احراری ہماری جماعت کے مخالف ہیں، دوسری طرف جو احراری نہیں و بھی ان سے ہمدردی رکھتے ہیں، سکھ اور ہندو بھی ان کے ساتھ شامل ہیں.وہ پس جبکہ مختلف مذاہب ہماری مخالفت میں متحد ہو رہے ہیں تو میں اپنی جماعت میں یہ نمونہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ بُنیان مرصوص ہو.کچھ عرصہ گزرا غالبا سال یا دو سال ہوئے کہ میں نے ایک خطبہ میں بتلایا تھا کہ تمہاری آپس کی رنجشیں اور لڑائیاں خلاف اسلام ہیں.تمہارا فرض ہے کہ تم جاؤ اور ان لوگوں سے بغلگیر ہو جاؤ جن سے تم ناراض ہو بلکہ جو شخص معافی سمجھتا ہے کہ وہ مظلوم ہے، اس کا فرض ہے کہ وہ پہلے جائے اور اپنے ظالم بھائی سے طلب کرے.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ وہ شخص جو صلح کے لئے ابتداء کرتا ہے، وہ جنت میں پانچ سو سال پہلے داخل ہوتا ہے ہے.پس کتنی غفلت ہوگی اگر ایک شخص مظلوم بھی ہو.اور ظالم اس سے پہلے معافی مانگ کر جنت میں پانچ سو سال پہلے چلا جائے گا.پس مظلوم کا فرض ہے کہ وہ جائے اور صلح کرے.اور در حقیقت اُسی وقت تم امن کی حالت میں سمجھے جاسکتے ہو جب تمہارے اندر کوئی شگاف اور تفرقہ نہ ہو.آج وہ دن ہے کہ حکومت بھی تمہارے خلاف ہے اور رعایا بھی تمہیں تباہ کرنا چاہتی ہے اگر ان جنگ کے ایام میں بھی کوئی شگاف یا رخنہ تمہارے اندر ہے تو تم اپنی فتح کی منزل کو دور کرتے ہو.، پس میرا دوسرا حکم یہ ہے کہ اس ہفتہ کے اندر اندر ہر وہ شخص جس کی کسی سے لڑائی ہو چکی ہے، ہر وہ شخص جس کی کسی سے بول چال بند ہے، وہ جائے اور اپنے بھائی سے معافی مانگ کر صلح کرلے اور کوئی معاف نہیں کرتا تو اس سے لجاجت اور انکسار کے ساتھ معافی طلب کرے اور ہر قسم کا تذلل اس کے آگے اختیار کرے تاکہ اس کے دل میں رحم پیدا ہو اور وہ رنجش کو اپنے دل سے نکال دے اور ایسا ہو کہ جس وقت میں دوسرا اعلان کرنے کے لئے کھڑا ہوں، اس وقت کوئی دو احمدی ایسے نہ ہوں جن کی آپس میں بول چال بند ہو.پس جاؤ اور اپنے دلوں کو صاف کرو جاؤ اور اپنے بھائیوں سے معافی طلب کر کے متحد ہو جاؤ جاؤ اور ہر تفرقہ اور شقاق کو اپنے اندر سے دور کر دو تب خدا تعالیٰ کے فرشتے تمہاری مدد کے لئے اُتریں گے.آسمانی فوجیں تمہارے دشمنوں سے لڑنے کے لئے نازل ہوں گی اور تمہارا دشمن.
خطبات محمود سال ۶۱۹۳۴ خدا کا دشمن سمجھا جائے گا.یہ دو نمونے ہیں جو میں اپنی جماعت میں دیکھنا چاہتا ہوں.جس شخص کو یہ خطبہ پہنچے وہ اس وقت تک سوئے پہنچے وہ اس وقت تک سوئے نہیں جب تک کہ اس حکم پر عمل نہ کرلے سوائے اس کے کہ اس کے لئے ایسا کرنا ناممکن ہو.مثلاً جس شخص سے لڑائی ہوئی ہو وہ گھر میں موجود نہ ہو یا اسے تلاش کے باوجود مل نہ سکا ہو یا کسی دوسرے گاؤں یا شہر میں گیا ہوا ہو.جماعتوں کے سیکرٹریوں کو چاہیے کہ وہ میرے اس خطبہ کے پہنچنے کے بعد اپنی اپنی جماعتوں کو اکٹھا کریں اور انہیں کہیں کہ (خلیفہ ایج) کا حکم ہے کہ آج وہی شخص اس جنگ میں شامل ہوگا جو اپنے بقالیوں کو بے باق کر کے آئندہ کے لئے چندوں کی ادائیگی میں باقاعدگی اختیار کرے گا.پھر اس کے بعد انہیں دوسرا حکم پہنچائیں کہ (خلیفہ المسیح) کا حکم ہے کہ آج وہی اس جنگ میں شامل ہو سکے گا جس کی اپنے کسی بھائی سے رنجش اور لڑائی نہ ہو اور جو صلح کر کے اپنے بھائی سے متحد ہو چکا ہو اور جب میں قربانی کے لئے لوگوں کا انتخاب کروں گا تو میں ہر ایک شخص سے پوچھ لوں گا کہ کیا تمہارے دل میں کسی سے رنجش یا بغض تو نہیں اور اگر مجھے معلوم ہوا کہ اس کے دل میں کسی شخص کے متعلق کینہ اور بغض موجود ہے تو میں اس سے کہوں گا کہ تم بُنْيَانِ مَرْصُوص نہیں تمہارا کندھا اپنے بھائی کے کندھے سے ملا ہوا نہیں.بالکل ممکن ہے کہ تمہارے کندھے سے دشمن ہم پر حملہ کردے پس جاؤ مجھ کو تمہاری ضرورت نہیں.یہ دو کام ہیں جن کا پورا کرنا میں قادیان والوں کے ذمہ اگلے خطبے تک اور باہر کی جماعتوں کے ذمہ اس خطبہ کے چھپ کر پہنچنے کے ایک ہفتہ بعد تک فرض مقرر کرتا ہوں.اس کے بعد میں تم میں سے ہر شخص مطالبہ کروں گا کہ تم نے جس شخص کے ہاتھ ے یہ میں اپنا ہاتھ دے کر یہ اقرار کیا ہے کہ تم اپنی جانیں اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنی وجاہت سب کچھ اس پر قربان کر دو گے وہ تم سے قربانی کا مطالبہ کرتا ہے، وہ تمہاری جانیں اور تمہارے مال تم سے مانگتا ہے، تمہارا فرض ہے کہ تم آگے بڑھو اور اپنے عہد کو پورا کرو.دیکھو میں نے اس حدیث کا بھی ذکر کیا ہے کہ وہ شخص جو اپنے بھائی سے صلح کرتا ہے، اپنے بھائی سے پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل ہوتا ہے.جنت میں داخلہ تو نہ معلوم کس رنگ میں ہوگا اللہ تعالی ہی اس کو بہتر جانتا ہے.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں.لَا عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرِه یعنی جنت کی حقیقت اور اس کی نعمتیں ایسی ہیں کہ نہ کسی آنکھ نے دیکھیں ، نہ کسی کان نے سنیں اور نہ کسی انسان کے دل میں بھی ان کا
خطبات محمود ۳۷۲ سال ۶۱۹۳۴ خیال گزرا.لیکن میں تمہیں بتلاتا ہوں کہ ایک اس حدیث کے ظاہری معنی بھی ہیں اور وہ یہ کہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ جس قوم میں تفرقہ اور شقاق پیدا ہوتا ہے وہ اپنی فتح کو پانچ سو سال پیچھے ڈال دیتی ہے قرآن کریم نے نہایت وضاحت کے ساتھ فتح کو جنت سے تعبیر کیا ہے اس حدیث کے مطابق وہ قوم جو آپس میں صلح اور اتحاد سے رہتی ہے، دوسری اقوام سے پانچ سو سال پہلے دنیا کی فاتح بنتی ہے.پس ہم میں سے ہر وہ شخص جو اپنے کسی بھائی سے محبت نہیں کرتا، ہر وہ شخص جو اپنے کسی بھائی سے بغض اور عناد رکھتا ہے، وہ سلسلہ احمدیہ کی فتح کو پانچ سو سال پیچھے ڈال دیتا ہے اور کیا تم سمجھتے ہو کہ وہ شخص ہمارا بھائی سمجھا جا سکتا ہے؟ اگر کوئی ایک دن کے لئے بھی سلسلہ کی فتح کو پیچھے ڈالتا ہے تو ہمارا دوست نہیں بلکہ دشمن ہے پھر وہ شخص ہمارا کتنا بڑا دشمن ہے جو سلسلہ کی فتح کو پانچ سو سال پیچھے ڈال دیتا ہے اس لئے جاؤ اور اپنے بھائیوں سے صلح کرو، جاؤ اور اپنے قصوروں کی معافی مانگ کر یکجان ہو جاؤ.میں تمہیں بتاتا ہوں کہ جس وقت میں نے جماعت کے لئے یہ حکم تجویز کیا' اس وقت سب سے پہلے میں نے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ اے خدا میرا دل صاف ہے اور مجھے کسی سے بغض و کینہ یا رنجش نہیں سوائے ان کے جن سے ناراضگی کا تو نے حکم دیا ہے لیکن اگر میرے علم کے بغیر کسی شخص کا بغض یا اس کی نفرت میرے دل کے کسی گوشہ میں ہو، تو الہی میں اسے اپنے دل سے نکالتا ہوں اور تجھ سے معافی اور مدد طلب کرتا ہوں.مگر میرا دل گواہی دیتا ہے کہ میں نے کبھی کسی شخص سے بغض نہیں رکھا بلکہ شدید دشمنوں کے متعلق بھی میرے دل میں کبھی کینہ پیدا نہیں ہوا.ہاں ایک قوم ہے جس کو میں مستثنی کرتا ہوں اور وہ منافقین کی جماعت ہے.مگر منافقین کا قطع کرنا یا انہیں جماعت سے نکالنا یہ میرا کام ہے تمہارا نہیں.جس کو میں منافق قرار دوں اس کے متعلق جماعت کا فرض ہے کہ اس سے بچے لیکن جب تک میں کسی کو جماعت سے نہیں نکالتا تمہیں ہر ایک شخص سے صلح اور محبت رکھنی چاہیے اور آپس میں بھائی بھائی بن کر رہنا چاہیئے.میں ان قربانیوں کے سلسلہ میں جن کا تمام جماعت سے مطالبہ کرنا چاہتا ہوں بعض اور باتیں بھی کہنا چاہتا تھا لیکن چونکہ وہ اس سکیم کا حصہ ہیں جسے میں بیان کروں گا اس لئے میں انہیں اس کے ساتھ ہی بیان کروں گا.سردست ایک اور اعلان کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ مجھے فوراً جلد سے جلد ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے جو سلسلہ کے لئے اپنے وطن چھوڑنے کے لئے تیار ہوں.اپنی جانوں کو خطرات میں ڈالنے کے لئے تیار.
خطبات محمود ۳۷۳ سال ۱۹۳۴ء ہوں اور بھوکے پیاسے رہ کر بغیر تنخواہوں کے اپنے نفس کو تمام تکالیف سے گزارنے پر آمادہ ہوں.پس میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ جو نوجوان ان کاموں کے لئے تیار ہوں، وہ اپنے نام پیش کریں.نوجوانوں کی لیاقت کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یا تو وہ مولوی ہوں، مدرسہ احمدیہ کے سند یافتہ یا کم سے کم انٹرنس پاس یا گریجوایٹ ہوں.میں جانتا ہوں کہ بہت سے ایسے نوجوان ہماری جماعت میں سکتے موجود ہیں جو اپنے ماں باپ پر بوجھ بنے ہوئے ہیں اور گھر بیٹھے روٹیاں توڑتے رہتے ہیں میں ان سے کہتا ہوں کہ وہ اس طرح اپنے نفسوں کو ہلاک نہ کریں آج اسلام کو ان کی خدمت کی ضرورت ہے، آج احمدیت کو ان نونہال فرزندوں کی ضروت ہے، وہ آگے آئیں اور اپنے نام پیش کریں.اس اعلان کے جواب سے بھی مجھے اندازہ ہو جائے گا کہ جماعت میں کتنے ایسے افراد ہیں جو عملی رنگ میں قربانی کرنے پر تیار ہیں.میں نوجوانوں کے باپوں سے بھی کہتا ہوں کہ وہ اپنی اولادوں کو خدمت دین کے لئے پیش کریں ، ان کی ماؤں سے کہتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں کو خدا تعالیٰ کی راہ میں پیش کریں مگر ایسے ہی نوجوانوں کی ضرورت ہے جو فارغ ہوں اور شرط یہ ہے کہ وہ سرکاری ملازم نہ ہوں اور نہ ہی تاجر ہوں اور نہ طالب علم ہوں صرف ایسے نوجوان ہوں جو ملازمت کی انتظار میں اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے ہیں.مجھے ایسے لوگوں کی بھی ضرورت نہیں جو سلسلہ کے کاموں پر لگے ہوئے ہیں، نہ وہ نوجوان درکار ہیں جو دکانیں کر رہے ہیں یا زراعت پیشہ ہیں.میں صرف ان نوجوانوں کو آواز دیتا ہوں جن کو ابھی تک نوکریاں نہیں ملیں اور جن کے کام کے لئے نکل کھڑے ہونے سے ان کی زراعت یا تجارت وغیرہ کو صدمہ نہیں پہنچے گا.پس میں بیکار نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ وہ آگے بڑھیں، ان کے باپوں سے کہتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں کو تیار کریں، ان کی ماؤں سے کہتا ہوں کہ وہ اپنے بیٹوں کو خدمت سلسلہ کیلئے آمادہ کریں اور یاد رکھیں کہ وہ ماں باپ جو خداتعالی کی راہ میں اپنے کسی بچہ کو پیش کرتے ہیں، وہ ہر اس ثواب کے حصہ دار ہو جاتے ہیں جو اس بچے کو ملتا ہے اور سلسلہ کی ترقی کے لئے ان کا بچہ جو کام بھی کرے گا اس کا ثواب اس کے ماں باپ کو بھی ملے گا.اس سلسلہ میں یہ بھی شرط ہے کہ ان نوجوانوں کو کم از کم تین سال کے لئے اپنے آپ کو وقف کرنا ہو گا، گو ممکن ہے بعض دفعہ کسی سے زیادہ عرصہ کے لئے بھی کام لیا جائے.ہماری جماعت میں اس وقت سینکڑوں بیکار نوجوان موجود ہیں اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ ایسے لوگ خدمت سلسلہ کے لئے کیوں سامنے
خطبات محمود سیال ۱۹۳۴ء نہیں آسکتے.اس کے بعد میں انشاء اللہ اگلے جمعہ وہ سکیم پیش کروں گا جس کے پیش کرنے کا میرا ارادہ ہے.وَمَا تَوْفِيقِى إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيم له البقرة: ۲۱۵ له الكوثر : ۲۲ آخر (الفضل ۱۸- نومبر ۱۹۳۴ء) سے بخاری کتاب النكاح باب الصفرة للمتزوج وباب كيف يدعى للمتزوج بخاری کتاب التفسير- تفسير سورة السجدة زير آيت فلا تعلم نفس ما أخفي لهم من قرة اعين
خطبات محمود ۳۷۵ اعلان کردہ سکیم کے متعلق چند باتیں (فرموده ۱۶- نومبر ۱۹۳۴ء) سال تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں نے اپنی طرف سے پچھلے خطبہ جمعہ میں اُس مضمون کو ختم سمجھا تھا جو حکومت کے بارے میں تھا اور غالباً آج کے خطبہ میں مجھے اُس حصہ کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہ اور اپنے ارادہ کے مطابق تو میں فیصلہ کر چکا تھا کہ اس بارے میں سردست کچھ اور کہنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اس دوران میں مجھے ایک خط ملا جس نے مجھے پھر تحریک کی کہ اس حصہ کے متعلق میں اپنے خیالات کی کسی قدر اور وضاحت کردوں.یہ وضاحت ان واقعات کے متعلق نہیں ہے جن کو تفصیل کے ساتھ میں نے بیان کیا تھا بلکہ یہ وضاحت اس طریق عمل کے متعلق ہے جو ہماری جماعت کو میرے نزدیک حکومت کے متعلق اختیار کرنا چاہیئے.یا جس طریق عمل پر ہم ہمیشہ کاربند رہتے چلے آئے ہیں.میں یہ وضاحت سے کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میری ساری عمر میں میرا نقطہ نگاہ یہ کبھی نہیں ہوا کہ میں غیر معمولی جوش دکھاؤں یا غیر معمولی طور پر اپنے آپ کو جوشوں کے حوالے کردوں.ساری عمر میں مجھے ایک واقعہ یاد ہے اور وہ خلافت سے پہلے کا ہے اس میں کچھ میری عمر کا بھی تقاضا تھا مگر بہر حال ساری عمر میں مجھے وہی واقعہ یاد ہے جس کے متعلق اب مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ اس وقت میرے فیصلے کا توازن باقی نہیں رہا تھا اور اگر ایک ساعت اور ایک لحظہ کے اندر اندر میری غلطی مجھے پر واضح نہ ہو جاتی تو شاید مجھ سے کوئی ایسی حرکت ہو جاتی جس کے متعلق بعد میں مجھے
خطبات محمود ٣٤٦ سال ۱۹۳۴ء نشانات شرمندگی محسوس ہوتی اور میں خیال کرتا کہ میں نے جلد بازی سے کام لیا.اس واقعہ کے علاوہ مجھے اپنی ساری زندگی میں کوئی ایسا واقعہ نظر نہیں آتا جبکہ میرے ہوش و حواس کھوئے گئے ہوں، جبکہ غصہ یا غیرت نے میری عقل کو کمزور کر دیا ہو اور جبکہ میری قوت فیصلہ میں کسی وجہ سے ضعف آگیا ہو بلکہ ہر حالت میں خواہ وہ خطرناک ہو یا معمولی، خواہ حکومت سے تعلق رکھنے والی ہو یا رعایا سے ہمیشہ خدا تعالیٰ کے فضل سے میری عقل میرے جذبات پر غالب رہی ہے اور میری دینی سمجھ میرے جوشوں کی راہنمائی کرتی رہی ہے اور یہی بات اس موقع پر بھی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس موقع پر میرے دل میں غیرت پیدا ہوئی اور سلسلہ کی ہتک اور سلسلہ کے متعلق آئندہ خطرات کو دیکھتے ہوئے میری طبیعت میں ایسا جوش پیدا ہوا جو بغیر تسلی اور اطمینان کے دینے کو تیار نہیں.اور اِنْشَاءَ اللہ اس کے بغیر نہیں دبے گا مگر باوجود اس کے میں نے عقل نہیں کھوئی اور نہ اس راستہ کو ایک منٹ کیلئے بھی چھوڑا ہے جس کی سلسلہ احمدیہ ہمیں تعلیم دیتا ہے اور جس کی دنیا میں ہم ہمیشہ تبلیغ کرتے رہتے ہیں.پس میری تمام سکیم اور میرے تمام جذبات کے چاروں کونے اور اس کی بنیادیں ان پر ہیں جن کو شریعت نے قائم کیا اور جن کو سلسلہ احمدیہ نے دنیا پر ظاہر کیا اور میری کا ایک باریک ذرہ بھی ان بنیادوں سے باہر نہیں جن کو شریعتِ اسلام اور سلسلہ احمدیہ نے قائم کیا ہے.پس مجھے ان لوگوں کی باتیں ناپسند ہیں جو کہتے ہیں کہ یہ کون سی اہم بات تھی شخص کے فعل پر اتنا جوش دکھانا نہیں چاہیئے تھا اور گو میں نہیں کہہ سکتا اس قسم کی بات کہنے والے بہت سے لوگ ہیں کیونکہ ایک سے زیادہ خط مجھے اس بارہ میں نہیں آیا.لیکن چونکہ ممکن ہے کہ بعض اور بھی لوگ ہوں جو یہ خیالات رکھتے ہوں اس لئے میں نے ”لوگ" کا لفظ استعمال کیا.اس لکھنے والے نے لکھا ہے کہ حکومت کی طرف سے جو نوٹس دیا گیا وہ ایک شخص کا فعل ہے.پس اس سے زیادہ ہمیں اس کو اہمیت نہیں دینی چاہیے.میں نے اپنے گزشتہ خطبات میں بتایا ہے کہ یہ ایک شخص کا فعل نہیں اور نہ ہی ہمارے متعلق حکومت کا یہ ایک فعل ہے بلکہ افعال کا ایک لمبا سلسلہ ہے جس میں کچھ مقامی ضلع کے افسر اور کچھ مرکزی گورنمنٹ کے افسر شامل ہیں مگر دوسری طرف جو مخط آیا ہے اس کے لحاظ سے ممکن ہے کہ اس قسم کے خیالات رکھنے والے لوگ بھی ہماری جماعت میں ہوں اس لئے میں وضاحت سے بعض باتیں کہہ دینا چاہتا ہوں.ایک
خطبات محمود ۳۷۷ سال ۱۹۳۴ء جس خط کا میں نے ذکر کیا ہے اس کا مضمون یہ ہے کہ ہم دیر سے محسوس کر رہے ہیں کہ انگریز لوگ بغیر شورش اور فساد کے کوئی بات نہیں مانا کرتے اور یہ کہ اس دوست کے نزدیک اب وقت آگیا ہے کہ ہم گورنمنٹ کے متعلق اس وفاداری کی تعلیم پر جو ہمارے سلسلہ میں موجود ہے، دوبارہ غور کریں اور سوچیں کہ کیا اس کی تشریح حد سے بڑھی ہوئی تو نہیں اور کیا وفاداری کا جو مفہوم ہم سمجھتے چلے آئے ہیں، وہ خوشامد اور نکما پن تو نہیں.غرض اس دوست کے نزدیک ہمارے لئے ضروری ہے کہ ان تمام باتوں پر غور کر کے ہم پھر ایک رائے قائم کریں اور اس کے مطابق اپنے سلسلہ کی پالیسی کو ڈھالیں.گو اس خط میں جو مجھے لکھا گیا، سلسلہ کی تعلیم کی عظمت کو قائم رکھا گیا ہے اور گو اسلام کی عظمت اور اس کے احکام کی پابندی کو بھی ملحوظ رکھ لیا گیا ہے لیکن اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُس نوجوان کے دل میں اور ممکن ہے بعض اور نوجوانوں کے دلوں میں بھی یہ خیال ہے کہ سلسلہ کی وفاداری کی تعلیم کے جو سمنے لئے گئے ہیں، وہ زیادہ گرے ہوئے اور اپنے اندر تذلّل رکھنے والے ہیں.مگر میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ حکومت کی وفاداری کی ہمارے سلسلہ کی طرف سے جو تعریف کی گئی ہے وہ ایسے وثوق اور یقین کے ماتحت کی گئی ہے کہ میں آج بھی اسے ویسا ہی صحیح اور درست سمجھتا ہوں جس طرح آج سے پہلے درست سمجھا کرتا تھا.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ یہی تعریف ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور رسول کریم ﷺ اور خدا تعالیٰ کے منشاء : کو پورا کرنے والی ہے.اور خواہ آئندہ کیسے ہی خطرناک حالات پیش آئیں بغیر ایک منٹ کے توقف کے میں اسی راہ پر چلنے کو تیار ہوں جس پر ہم ہمیشہ سے چلتے آئے کیونکہ مجھے یقین کامل ہے کہ حکومت کی وفاداری کی ہمارے سلسلہ میں جو تعلیم ہے اور اس کی جو تشریح کی گئی ہے، وہ کیا بلحاظ ضرورت کے کیا بلحاظ خدا تعالی کے حکم اور اس کے منشاء کے اور کیا بلحاظ اسلام کے مفاد اور اس کی ترقی کے بالکل صحیح اور درست ہے اور اس میں تبدیلی کا کوئی امکان نہیں.اُس دوست نے اپنے خط میں ایک واقعہ بھی پیش کیا ہے اور لکھا ہے کہ وہ ایک دفعہ پبلک پراسیکیوٹر کے سلسلہ میں سب انسپکڑی کیلئے بطور امیدوار پیش تھے، لاہور کے سینئر سپرنٹنڈنٹ مسٹرہارڈنگ کے سامنے جب انہوں نے اپنے آپ کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں احمدیہ جماعت میں سے ہوں اور احمد یہ جماعت وہ ہے جو حکومتِ برطانیہ کی ہمیشہ وفادار رہی ہے.تو مسٹر ہارڈنگ نے کہا میں احمدیہ جماعت کی وفاداری کی کوئی حیثیت نہیں سمجھتا.وہ
خطبات محمود رو ٣٧٨ سال ۱۹۳۴ء د لکھتے ہیں جب ہماری جماعت کی وفاداری کے کوئی معنے ہی نہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم لاکھوں روپیہ حکومت کی بہودی کیلئے خرچ کریں اور اپنی سینکڑوں قیمتی جانوں کو خطرات میں ڈالیں اور حکومت کی وفاداری ان معنوں میں کرتے چلے جائیں کہ نازک اور مشکل مواقع پر اس کی حمایت کریں.پہلے فریق کی غلطی میں پیچھے ثابت کرچکا ہوں اور بتا چکا ہوں کہ وہ ایک شخص کا فعل ہے اور نہ اپنی ذات میں منفردانہ واقعہ ہے.اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اگر یہ اکیلا فعل بھی ہو اور ایک شخص کا ہی فعل ہو تب بھی بعض دفعہ ایک شخص کا ہی فعل نہایت بڑے نتائج پیدا کر دیا کرتا ہے.اور اگر ہمیں بعد میں بھی کبھی معلوم ہو کہ کسی ایک شخص کے فعل ہمارے سلسلہ کی آئندہ ترقی پر اثر پڑتا یا ہمارے اور گورنمنٹ کے تعلقات خراب ہوتے ہیں تو لازماً ہمارا فرض ہو گا کہ ہم سلسلہ کی عظمت اور گورنمنٹ سے اپنے تعلقات کی درستی کیلئے اس کا ازالہ کریں.ورنہ مذہبی اور سیاسی دونوں لحاظ سے سلسلہ کو نقصان پہنچ سکتا ہے.اسلام میں اس کی مثال موجود ہے.جب رسول کریم ﷺ نے ہوازن پر فتح پائی تو مال غنیمت میں ان کے بہت سے گلے اور ریوڑ بھی آئے، مکہ کے نو مسلموں کے متعلق رسول کریم ا چاہتے تھے کہ ان کے دلوں کو محبت اور پیار سے اسلام کی طرف مائل رکھیں، دوسرے اس لئے کہ مکہ والے سمجھتے تھے کہ شاید مسلمان ہماری پرانی مخالفت کی وجہ سے دل میں ہم - بغض رکھتے ہیں، رسول کریم ﷺ نے یہ ظاہر کرنے کیلئے کہ ہم پرانی مخالفتوں کو یاد نہیں رکھتے بلکہ بُھلا دیا کرتے ہیں، ریوڑوں کے ریوڑ ان میں تقسیم کر دیئے.اس پر انصار میں سے ایک نوجوان جو اس حکمت کو نہیں سمجھتا تھا کھڑا ہوا اور اس نے کہا تلواروں سے تو ہماری خون ٹپکتا ہے مگر جب ہم نے جانیں قربان کر کے فتح حاصل کی تو مال گے والے لے گئے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہوازن کے معرکہ میں سب سے زیادہ قربانی انصار نے ہی کی تھی.میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ جنگ حنین میں کفار کے مقابلہ میں ان نومسلموں کی وجہ سے جو صحابہ کے ساتھ جنگ میں شامل ہو گئے تھے اور کچھ ان کفار کی وجہ سے جو مسلمانوں کی طرف.ہو کر لڑے، ان میں بھاگڑ پڑ گئی اور وہ میدان جنگ سے بھاگ نکلے یہاں تک کہ صرف بارہ آدمی رسول کریم ﷺ کے پاس رہ گئے.اس وقت ہوازن کے چار ہزار تجربہ کار تیرانداز مسلمانوں پر تیروں کی بارش برسا رہے تھے اور مسلمانوں کے گھوڑے اور ان کے اونٹ
خطبات محمود ٣٧٩ سال ۱۹۳۴ء بے تحاشا بھاگے جارہے تھے.رسول کریم ﷺ نے جب یہ حالت دیکھی تو آپ نے حضرت عباس سے جن کی آواز بہت بلند تھی کہا عباس زور سے آواز دو کہ اے انصار! خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے.آپ نے اس موقع پر مہاجرین کو نہیں پکارا بلکہ انصار کو پکارا.انصار خود کہتے ہیں جب ان کے کانوں میں یہ آواز پہنچی کہ اے انصار! خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے تو انہیں یوں معلوم ہوا کہ صور اسرافیل پھونکا جارہا ہے اور قیامت کا دن آگیا ہے.جو شخص اپنی سواری کو موڑ سکا وہ اپنی سواری کو دوڑاتے ہوئے اور جس کی سواری نہ مرسکی اس نے تلوار سے اس کی گردن اڑاتے ہوئے تیزی سے رسول کریم کی طرف بڑھنا شروع کیا یہاں تک کہ چند منٹ میں ہی میدان صحابہ سے بھر گیا اور مسلمانوں کی شکست فتح میں تبدیل ہو گئی ہے.یہ فتح جو ہوازن کے مقابلہ میں مسلمانوں کو حاصل ہوئی، خصوصیت سے انصار کی فتح تھی مگر جب ایک بیوقوف نوجوان نے یہ الفاظ کہے کہ خون ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے مگر ریوڑ مکہ والے لے گئے تو رسول کریم ال نے انصار کو جمع کیا اور فرمایا اے انصار! مجھے تمہاری طرف سے یہ بات پہنچی ہے.انصار رو پڑے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں یہ ایک نادان نوجوان کے منہ کے الفاظ ہیں.رسول کریم ال نے ان کی اس بات کی طرف کوئی دھیان نہ دیا اور فرمایا.تم کہہ سکتے تھے کہ محمد ( ا ) اکیلا تھا اس کی قوم نے اسے رد کردیا، اس کے وطن والوں نے اسے اپنے گھر سے نکال دیا، اس کی تکذیب کی، اس کی تکفیر کی اور اس کے قتل کا ارادہ کیا مگر ہم گئے اور اسے اپنے وطن میں لائے، اپنی عزتیں اس پر قربان کیں، اپنی جانیں اس پر خدا کیں اور جب لڑائی ہوئی تو اس کے دائیں بھی لڑے اور بائیں بھی، آگے بھی لڑے اور پیچھے بھی، یہاں تک کہ اس کے بھائیوں سے لڑ کر وہ شہر جس میں سے اسے نکالا گیا تھا، فتح کیا اور اس کیلئے جانی اور مالی ہر رنگ کی قربانی کی مگر جب مال دینے کا وقت آیا تو اس نے اپنے رشتہ داروں اور وطن والوں کو تو مال دے دیا مگر ہمیں یاد نہ رکھا.انصار ایسی مخلص جماعت بھلا اس کو کب برداشت کر سکتی تھی.ان کی روتے روتے ہچکی بندھ گئی اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! ہم تو کہہ چکے یہ ایک نادان نوجوان کا فعل ہے، ہم اس سے بیزار ہیں.رسول کریم ﷺ نے پھر ان کی بات کی طرف کوئی دھیان نہ دیا اور فرمایا اے انصار! تم ایک اور بات بھی کہہ سکتے تھے اور وہ یہ کہ خدا
خطبات محمود ٣٨٠ سال ۱۹۳۴ء نے محمد ( ا ) کو مکہ میں پیدا کیا مگر مدینہ والوں کی قربانیاں خدا تعالی کو کچھ ایسی پسند آئیں کہ وہ اپنے خَاتَمَ النَّبِيِّن کو مکہ سے اٹھا کر مدینہ میں لے آیا پھر مدینہ والوں کی قربانیوں کو خدا تعالیٰ نے نوازا اور انہیں توفیق دی کہ وہ اس کے وعدوں کے پورا کرنے والوں میں شامل ہوئے اور جب خداتعالی نے خاص اپنی طاقتوں اور بے انتہا قدرتوں کے نتیجہ میں ملک عرب کو اس کے رسول کے تابع کردیا اور مکہ جس میں سے اسے نکالا گیا تھا فتح ہو گیا تو مکہ والے تو اونٹ اور بھیڑیں ہانک کر لے گئے مگر مدینہ کے لوگ خدا کے رسول کو اپنے گھر لے آئے.انصار نے پھر روتے ہوئے کہا یا رسُول اللہ ! جو کچھ ہوا وہ ہمارے ایک بیوقوف نوجوان کا قول تھا ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں.آپ نے فرمایا جو کچھ ہونا تھا ہو چکا.اس ایک نادان کے قول کی وجہ سے اب تم دنیا کی بادشاہت سے ہمیشہ کیلئے محروم رہو گئے ، تم نے جو کچھ لینا ہے، وہ مجھ سے حوض کوثر پر آکر لینا ہے.تیرہ سو برس گزر گئے اس واقعہ کے بعد عرب حاکم ہوئے مصری حاکم ہوئے ، سپینش نسل کے لوگ حاکم ہوئے، مورش حاکم ہوئے، پٹھان حاکم ہوئے مغل حاکم ہوئے مگر رسول کریم ﷺ کے گرد جانیں قربان کرنے والے انصار کسی چھوٹی سی ریاست کے مالک بھی نہ بن سکے.کتنی بڑی اہمیت ہے جو ایک نادان کے قول کو دی گئی اور یہ اہمیت اسی لئے دی گئی کہ بات برداشت کرلی جاتی تو یہ امر مشتبہ ہو جاتا کہ نبی کے زمانہ میں جب کوئی قوم قربانی کرتی ہے تو وہ احسان نہیں کرتی بلکہ در حقیقت اس پر خدا تعالیٰ کا احسان ہوتا ہے کہ اسے خدمت دین کی توفیق دی گئی.پس اگر یہ تعلیم بھی کر لیا جائے کہ یہ ایک شخص کا فعل ہے یا اپنی ذات میں منفردانہ واقعہ تب بھی یہ معاملہ اپنی ذات میں کچھ کم اہمیت نہیں رکھتا بلکہ اس قابل رہتا ہے کہ اس کی طرف زیادہ توجہ کی جائے مگر جیسا کہ میں ثابت کرچکا ہوں کہ یہ ایک شخص کا فعل نہیں بلکہ ایک سے زیادہ افسر اس میں شریک ہیں.دوسرے یہ اکیلا واقعہ نہیں بلکہ واقعات کا ایک لمبا سلسلہ ہے جس کی یہ ایک کڑی ہے.اسی طرح جو دوسرا اعتراض ہے اس کے بارہ میں میں تسلیم کرلیتا ہوں کہ مسٹرہارڈنگ نے یہ کہا ہو کہ میں جماعت احمدیہ کی وفادارانہ خدمات کی کوئی قیمت نہیں سمجھتا.گو ممکن ہے اس دوست کو بات کے سمجھنے میں کوئی غلط فہمی ہوئی ہو لیکن یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ مسٹرہارڈنگ نے یہ کہا ہم نہیں کہہ سکتے کہ ساری انگریز قوم انہی خیالات کی مؤید ہے کیونکہ وہ صرف ایک کی غلطی ہے اور ان الفاظ کے اگر.
خطبات محمود PAI سال ۱۹۳۴ء معنی یہ ہیں کہ ہم جماعت احمدیہ کی وفاداری کے بدلے اسے عہدے نہیں دے سکتے.یہ ایسی غلطی ہے جو کئی انگریزوں کو لگی ہے.وہ ایسے وقت جبکہ انہیں کسی وفادار جماعت کی ضرورت ہو، جماعت احمدیہ کو مدد کیلئے بلاتے ہیں مگر جب عہدے دینے کا سوال ہو تو کانگرسیوں کو دے دیتے ہیں.مگر اس کا خمیازہ بھی گورنمنٹ بھگت رہی ہے اور اب حالت یہ ہے کہ حکومت کے اپنے راز بھی محفوظ نہیں.ایک دفعہ گورنمنٹ آف انڈیا کے ایک افسر کو مجھ سے کسی مدد کی ضرورت پیش آئی تو انہوں نے مجھ سے خواہش کی کہ میں ان کیلئے کوشش کروں.اس غرض کیلئے میں نے ایک خط لکھوایا مگر جس دوست کو وہ خط بھجوایا گیا تھا انہوں نے لکھا کہ مجھے خط ایسی حالت میں ملا ہے کہ مجھے شبہ ہے وہ رستہ میں کھولا گیا ہے اور اس کا مضمون ڈاک خانہ میں پڑھ لیا گیا ہے.پھر عجیب بات یہ ہے کہ خط یہاں سے ٹکٹ لگا کر بھیجا گیا تھا مگر وہاں جب پہنچا تو اس پر کوئی ٹکٹ نہ تھا.لطیفہ یہ ہوا کہ چٹھی رساں جب خط لے کر گیا تو وہ کہنے لگا کہ تھا تو بیرنگ مگر میں ڈاک خانہ سے اسے چوری لے آیا ہوں تاکہ آپ کو پیسے نہ دینے پڑیں مگر اس کا صاف یہ مطلب تھا کہ خط کھولا گیا اور اس کا مضمون پڑھ لیا گیا مگر چونکہ خط کھولتے وقت ٹکٹ پھٹ گیا اس لئے اسے بغیر ٹکٹ ظاہر کیا گیا.مگر بلا ٹکٹ خط پہلے پوسٹ مین کے ہاتھ میں نہیں آسکتا بلکہ کلرک کے ہاتھ میں آنا چاہیے تھا اور اس صورت میں وہ فوراً بیرنگ کر دیا جاتا لیکن ایسا نہ ہونے کے یہ معنی ہیں کہ پوسٹ مین کو یہ سکھا کر روانہ کیا گیا کہ تم کہہ دینا کہ یہ خط تھا تو بیرنگ مگر میں اسے چوری لے آیا ہوں تاکہ آپ کو پیسے نہ دینے پڑیں.اس سے پہلے کبھی یہ خیر خواہی ڈاک خیر خواہی ڈاک خانہ والوں کے ذہن میں نہ آئی تھی.پس بات صاف تھی کہ وہ خط کھولا گیا اور اس کے مضمون کو پڑھ لیا گیا.اب یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ خط کس نے پڑھا؟ سو اس کے متعلق دو ہی صورتیں تھیں.ہمیں یہ بھی معلوم تھا کہ کانگرس کی تائید میں خط کھولے جاتے ہیں.چنانچہ کئی دفعہ سے جب ولایتی مال آتا تو کانگرسیوں کو اطلاع مل جاتی اور امرتسر وغیرہ سٹیشنوں پر گاڑی پہنچنے پہلے ہی کانگرسی پہنچ جاتے اور شور مچانا شروع کر دیتے.پس ہمیں معلوم تھا کہ ڈاک خانہ کے عملہ میں سے بہت سے لوگ کانگرسیوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور وہ خطوط کھول کر پڑھ لیتے ہیں تاکہ اگر کوئی اہم بات ہو تو کانگرس کو اس سے آگاہ رکھا جائے.خصوصاً گورنمنٹ کے خطوط کو تو وہ ضرور پڑھتے تھے.پھر یہ بھی ہو سکتا تھا کہ گورنمنٹ نے خود اس خط کو کھولا ہو
خطبات محمود ۳۸۲ سال ۱۹۳۴ء ا کیونکہ ان دنوں اس علاقہ میں شورش تھی اور قیاس ہو سکتا تھا کہ گورنمنٹ نے ڈاک پر سنسر بٹھایا ہوا ہو.بہر حال جب مجھے معلوم ہوا کہ خط کھولا گیا تو میں نے شکایت کی کہ اگر اس علاقہ میں سنسر تھا تو اس افسر کو پہلے بتا دینا چاہیے تھا تاکہ اس خط کا مضمون نااہل لوگوں کی نظروں سے نہ گزرتا.اس صورت میں ہم آدمی کے ہاتھ خط بھیجوا دیتے.اس کا جواب اس افسر نے یہ دیا کہ واقعہ سے ظاہر ہے کہ خط کھول کر پڑھا گیا ہے لیکن اس علاقہ میں سنسر نہیں ڈاک خانہ میں جو کانگرس سے ہمدردی رکھنے والے لوگ ہیں، وہ بھی خط پڑھ لیتے ہیں ایسے لوگوں نے کھولا ہو گا.پس اب تو گورنمنٹ کے خطوط بھی محفوظ نہیں رہے اور اگر کوئی اہم راز کی بات لکھنی ہو تو گورنمنٹ کو اپنے آدمیوں کے ذریعہ وہ خبر بھجوانی پڑتی یا اور قابل اعتماد ذرائع کو اختیار کرنا پڑتا ہے.غرض گورنمنٹ کی اب یہ حالت ہے کہ اس کے اپنے خطوط بھی محفوظ نہیں اور اس کی کوئی بات ایسی نہیں جو دوسروں کے پاس پہنچ نہ جاتی ہو.ایک دفعہ گورنمنٹ کے ایک سیکرٹری شملہ میں چائے پر میرے پاس آئے.میں نے انہیں کہا کہ آپ کی ہر بات کانگرس کے پاس پہنچتی رہتی ہے آپ کو بھی کوئی ایسا انتظام کرنا چاہیے کہ ان کی باتیں آپ کو پہنچتی رہیں.انہوں نے کہا آپ کو یہ کس نے بتایا ہے کہ ہم نے کانگرس میں اپنے آدمی نہیں رکھے ہوئے.ہماری باتیں انہیں پہنچتی رہتی ہیں اور ان کی باتیں ہمیں معلوم ہوتی رہتی ہیں.یہ حالت اسی لئے ہوئی ہے کہ گورنمنٹ خیال نہیں رکھتی کہ وفادار جماعتوں کو اعلیٰ عہدوں پر پہنچائے.اگر اعلیٰ عہدوں پر اس کی وفادار جماعت کے ارکان ہوں تو اس کے راز مخفی رہیں اور کبھی بھی وہ حالت نہ ہو جو آج کل ہے.جو سراوڈ وائر(SIR O'DWYER) سابق لیفٹیننٹ گورنر (LIEUTENANT GOVERNOR) مسلمانوں کے نہایت خیر خواہ اور ہندوستانیوں کے ہمدرد افسر تھے وہ کہا کرتے تھے کہ ہندوستان کی گورنمنٹ ایسے اصول پر قائم ہے کہ نہ دشمن کو اس سے ڈرنے کی ضرورت ہے اور نہ دوست کو کسی امداد کی امید.اور جب تک یہ حالت پیدا نہ ہوگی کہ گورنمنٹ واضح کر دے کہ اس کا دوست فائدہ میں رہتا اور اس کا دشمن نقصان اٹھاتا ہے، اس وقت تک صحیح معنوں میں امن قائم نہیں ہو سکتا.پس مسٹر ہارڈنگ نے جو کچھ کہا اس سے جو نتیجہ نکالا گیا ہے وہ درست نہیں اس لئے کہ کسی ایک شخص کا فعل ساری قوم کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا.کیا انگریز قوم ساری ہی ایسی ہے کہ وہ وفاداروں کی قدر نہیں کرتی.کبھی نہیں، ہم تو
خطبات محمود ۳۸۳ سال ۱۹۳۴ء ایسے انگریزوں کو جانتے ہیں کہ جب انہیں معلوم ہو کہ کوئی قوم یا فرد اپنے جائز حقوق کیلئے جدوجہد کر رہا ہے تو وہ دھڑتے اور جرات کے ساتھ اس کی تائید کرتے ہیں.میں ایسے انگریز افسروں کے نام بھی لے لیتا اگر مجھے یہ یقین ہوتا کہ میرے نام لینے سے ان کے راستہ میں کوئی مشکلات پیدا نہیں ہوں گی.خود پنجاب گورنمنٹ میں بھی ایسے افسر ہیں جو ہمیشہ ہمارے ساتھ وفاداری کا سلوک کرتے چلے آئے ہیں اور جب بھی ہمیں مشکلات پیش آئی ہیں انہوں نے ہمارا ساتھ دیا ہے اور جب انہیں معلوم ہوا ہے کہ حکام ہمارے متعلق نا واجب سختی سے کام لے رہے ہیں تو انہوں نے اس کا ازالہ کیا ہے.پس اگر کسی مسٹرہارڈنگ نے یہ کہا کہ ہم جماعت احمدیہ کی وفاداری کی کوئی قدر نہیں کرتے، تو ایسے بھی تو انگریزوں میں بہت سے افسر ہیں جو ہماری وفاداری کی قدر کرتے اور اسے عزت و عظمت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.پس ایک شخص کے قول سے ہم بہت سے انگریز افسروں کے فعل کو کس طرح باطل کر سکتے ہیں.مؤمن کا تو یہ کام ہے کہ وہ نیکی کو یاد رکھتا اور بدی کو بھول جاتا ہے.پھر جبکہ ایسے انگریز افسروں کی کمی نہیں جو نیک کام کرتے اور ہمدردی اور خیر خواہی کے رنگ میں ضرورت پر مدد کرتے اور تکالیف کے ازالہ کی کوشش کرتے ہیں اور جب جانتے ہیں کہ حق ہمارا ہے تو وہ ہمیں دلوانے کی سعی کرتے ہیں اور بسا اوقات اپنا رستہ چھوڑ کر بھی ہم سے ہمدردی کرتے ہیں.تو ایسی حالت میں چند کو تاہ بین انگریزوں کا فعل ہم پر ذرہ بھر بھی اثر انداز نہیں ہو سکتا.دوسرے میرے نزدیک یہ شکایت کرنے والے کی اپنی غلطی ہے کیونکہ اس نے ہماری جماعت کی خدمات سے خود فائدہ اٹھانا چاہا جو کسی طرح درست نہیں.ہم گورنمنٹ سے جو تعلق رکھتے اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرتے ہیں تو یہ اپنے کسی فائدہ کیلئے نہیں کرتے بلکہ اس لئے کرتے ہیں کہ ہمارا مذہب ایسا کرنے کا حکم دیتا ہے اور گورنمنٹ کا فرض ہے کہ وہ وفاداروں کا لحاظ کرے اور انہیں دوسروں پر ملازمت وغیرہ میں ترجیح دے مگر وہ ایسا کرتی نہیں.حکومت کے بہت سے افسر قربانیوں کو نہیں دیکھتے، صرف گردو پیش کے خوشامدیوں پر ان کی نظر ہوتی ہے.ان کی مثال بالکل وہی ہے جو ہمارے ملک میں مشہور ہے کہ ”اٹھاں ونڈے ریوڑیاں مُڑ مُڑ اپنیاں نوں.یعنی ریوڑیاں بانٹنے والا اندھا اپنوں کو ہی ریوڑیاں دیتا ہے.جس کسی سے ذاتی تعلقات ہوتے ہیں، اسے ملازمت وغیرہ میں ترجیح دے دی جاتی ہے.اس کا یہ ہوتا ہے کہ ملک میں بے چینی پھیلی رہتی ہے اور گورنمنٹ پر لوگوں کے اعتماد کو نتیجه
خطبات محمود صدمه ۳۸ سال ۱۹۳۴ء پہنچتا ہے.ہمارا ہی ایک عزیز تھا، گو اس سے جدی رشتہ تو نہیں مگر بعض اور رشتوں کے لحاظ سے اس سے ہمارا تعلق ہے، ایک دفعہ تحصیلداری کیلئے اس نے نام پیش کیا اور سلسلہ کے کارکنوں نے اس کی سفارش کی کہ اس خاندان سے حکومت کے پرانے تعلقات ہیں اس نوجوان کا اگر خیال رکھا جائے تو اچھا ہو گا خصوصاً جبکہ وہ ذاتی طور پر بھی قابل ہے مگر انگریز کمشنر نے اتنی تکلیف بھی گوارا نہ کی کہ اس کا نام بھیجوا دیتا اور دوسرے ایسے امیدواروں کے نام بھجوادیے جو صرف حاشیہ نشینی کا امتیاز رکھتے تھے.اس کے بعد کمشنر سے کہا گیا کہ اب آپ کو اختیار ہے آپ چاہیں تو بلا سکتے ہیں چنانچہ اس نے ہمارے عزیز کو بلالیا.غرض بعض انگریز یقیناً ایسے ہیں جو اس قسم کی غلطی کرتے ہیں.مگر در حقیقت انہیں اس طرح نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ملک کی بہتری اسی میں ہے کہ جو لوگ حکومت سے تعاون کرنے والے ہوں ان کا زیادہ خیال رکھا جائے اور ان کی اقتصادی حالت درست کی جائے.اس لحاظ سے خواہ ہم خود نہ مانگیں گورنمنٹ کا فرض ہے کہ وہ ہمارا لحاظ رکھے لیکن یہاں چونکہ ہماری جماعت کے ایک آدمی نے اعتراض کیا ہے، اس لئے میں کہتا ہوں کہ اس نے غلطی کی کیونکہ جماعت کی خدمات سے خود فائدہ اٹھانے کی سعی کرنا بہت معیوب بات ہے.اسی قسم کی غلطی جماعت کے ایک اور دوست نے بھی کی تھی.وہ لائل پور کے رہنے والے ہیں انہوں نے کسی ذاتی مفاد کیلئے ڈپٹی کمشنر کے سامنے جماعت کی وفادارانہ خدمات پیش کیں اور چونکہ آدمی مخلص تھے اس لئے انہوں نے مجھے بھی لکھ دیا کہ میں نے ڈپٹی کمشنر کو یہ کہا ہے.میں نے انہیں فوراً لکھا کہ یہ آپ نے سخت غلطی کی آپ ڈپٹی کمشنر کے پاس جائیں اور اس سے کہیں کہ میں نے جو کچھ کہا وہ غلطی سے کہا اور یہ کہ میرے لئے ایسا کہنا جائز نہ تھا.پس قومی خدمات سے کسی فرد کو فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی.ہاں یہ مرکزی افسروں کا کام ہے کہ وہ حکام کے کانوں میں یہ بات ڈالتے رہیں کہ حکومت سے تعاون اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے والوں سے نمایاں سلوک ہونا چاہیے تاکہ یہ سلوک ان کے جذبات اطاعت کو بیدار کرنے میں محمد ہو.ورنہ ہمارا اصل یہ ہے کہ ہم نہ ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں نہ جائز بلکہ اس بات کے قائل ہیں کہ اپنی قابلیت سے فائدہ اٹھایا جائے.اگر ہم کبھی سفارش سے کام کراتے ہیں تو اس لئے کہ ہم دیکھتے ہیں جب زید نے سفارش سے فلاں عہدہ حاصل کرنا ہے تو ہم کیوں نہ بکر کی سفارش کر دیں.پس یہ ایک عام رو کے ماتحت ہمارا
خطبات محمود ۳۸۵ سال ۱۹۳۳ طریق عمل ہے ورنہ اگر عہدوں کا ملمنا لیاقت پر موقوف رکھا جائے تو ہم کبھی کسی کی سفارش نہ کریں.پس میرے نزدیک اس دوست کا فعل ایک غلطی ہے.ہمارا اصول یہ ہے کہ ہم حکومت کی خدمات اپنے عقائد کی بناء پر کرتے ہیں، اسی طرح ملک اور سیاست کے فائدہ کیلئے کرتے ہیں نہ کہ انگریزوں پر احسان کرنے کیلئے.پس یہ جائز نہیں کہ جماعتی خدمات کو شخصی مفاد کیلئے پیش کیا جائے.برطانوی حکومت سے تعاون کی وجہ حقیقت میں یہ ہے کہ برطانوی ایمپائر (EMPIRE) کے متعلق مجھے یقین کامل ہے کہ دنیا کے آئندہ امن کیلئے یہ بطور بیج ہے.آج جس قدر دنیا میں فساد نظر آتا ہے ایک قوم دوسری قوم پر اور ایک حکومت دوسری حکومت پر چڑھتی نظر آتی ہے اس کشمکش کو دور کرنے کیلئے برطانوی ایمپائر بہترین نمونہ ہے.اس کے ماتحت بعض آزاد ملک ہیں جو اپنی اقتصادیات افواج اور بری اور بحری جنگوں کے خود مختار ہیں مگر اس کے باوجود اخلاقی رنگ میں ان کا انگلستان سے بھی تعلق ہے.وہ انگلستان کیلئے قربانی کرنے پر تیار رہتے ہیں اور انگلستان ان کیلئے قربانی کرنے پر آمادہ رہتا ہے.یہ حکومت کا ایک ایسا خوبصورت نمونہ ہے جسے توڑنا دنیا پر ظلم کرتا ہے.ہم اگر اس نمونہ کی طرف دنیا کو لانے کی کوشش کریں تو کل کو وہ مشن بھی کامیاب ہو کر رہے گا جو خدا تعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے اور جس کا مقصد یہ ہے کہ دنیا سے فساد دور کیا جائے اور عالمگیر طور پر امن قائم کیا جائے.مجھے اپنے اس عقیدہ پر اس قدر یقین ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ جب میں اس کے متعلق انگریزوں سے گفتگو کرتا ہوں تو ان میں سے کئی اپنے دل میں بنتے ہوں گے اور کہتے ہوں گے کہ ہم نے آج ایک پاگل دیکھا ہے.مگر میں وہ کچھ دیکھ رہا ہوں جو خود انگریزوں کو بھی نظر نہیں آتا کیونکہ میری آنکھوں کو غیب بینی کی قوت دی گئی ہے اور وہ اس سے محروم ہیں.میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ دنیا آئندہ انہی کے ساتھ وابستہ ہو کر ترقی کرے گی مگر میں یہ جانتا ہوں اور ایک اور ایک دو کی طرح مجھے یہ یقین ہے کہ اگر دنیا پرامن تعاون کی راہ پر ترقی کرنا چاہتی ہے تو اسے برطانوی حکومت کے نمونہ پر ایک ڈھانچہ تیار کرنا ہوگا.بهر حال برٹش ایمپائر (BRITISH EMPIRE) اپنے نمونہ اور اپنی ذات کی وجہ سے دنیا میں امن قائم کرنے میں محمد ہے اور خواہ انگریز ہمارے دشمن ہو جائیں، تب بھی میں اس بارے میں اختلاف نہیں کر سکتا کیونکہ وہ ان کا ذاتی فعل ہو گا اور یہ اصول کا سوال ہے.یوں بھی اگر انگریزی حکومت کا دوسری حکومتوں سے مقابلہ کر کے دیکھو تو بہت بڑا فرق نظر آئے
خطبات محمود ۳۸۶ سال ۱۹۳۴ء گا.اس میں شبہ نہیں کہ انگریزوں میں اکھڑ ظالم اور خود پسند ہر قسم کے لوگ ہیں مگر ان میں اچھے سے اچھے لوگ بھی پائے جاتے ہیں.بلکہ اب بھی کثرت ایسے انگریزوں کی ہے جو کوشش کرتے ہیں کہ دنیا میں امن قائم ہو اور اکثریت ایسے انگریزوں کی ہے جو دوسری حکومتوں کے ارکان کے مقابلہ میں بہت زیادہ اچھے ہیں.میں نے فرانسیسی اور روسی حکومت کی رعایا کو دیکھا ہے.ان دونوں حکومتوں کے ماتحت لوگوں نے میرے سامنے جو تکالیف بیان کیں، وہ ان تکالیف سے بہت زیادہ ہیں جو انگریزوں کے متعلق بیان کی جاتی ہیں.شام میں جب میں گیا تو میں نے دیکھا کہ وہ لوگ فرانسیسی حکومت سے جس کے وہ ماتحت رہتے ہیں اتنے شاکی تھے کہ کر حیرت ہوتی تھی.پھر ان کی باتیں ایسی تھیں جو دل پر نہایت گہرا اثر ڈالتیں.انگریزوں کے متعلق جو باتیں بیان کی جاتی ہیں وہ استدلالی رنگ میں بیان کی جاتی ہیں.مگر ان کی باتیں واقعات کے پیرایہ میں تھیں.خود مجھے ایک عجیب تجربہ ہوا جب میں انگلستان جاتے ہوئے شام گیا تو وہاں میں نے ایک تبلیغی رسالہ چھپوایا.مسلمانوں نے اس پر شور مچایا کہ اسے ضبط کرلینا چاہیے.اتفاقاً میں اسی دن فرانسیسی گورنر سے ملنے گیا تھا جب میں وہاں پہنچا تو وہ نہایت ہی میٹھی زبان میں مجھ سے ہمکلام ہوا اور کہنے لگا آپ کیا پئیں گے شربت پئیں گے؟ کافی پئیں گے؟ طبیعت کیسی ہے، آپ کی کیا تواضع کروں، بالکل وہی طریق تھا جو ہمارے ہاں مروج ہے.دورانِ گفتگو میں اس ٹریکٹ کا ذکر بھی آگیا کہ لوگ اس کے خلاف بلاوجہ شور کر رہے ہیں اور میں نے سنا ہے کہ حکومت اسے ضبط کرنا چاہتی ہے تو وہ کہنے لگا یہ بالکل غلط بات ہے ہمیں مذہبی معاملات میں دخل دینے کا کیا حق ہے مگر بعد میں معلوم ہوا کہ حکومت نے واقعہ میں اسے ضبط کرلیا تھا.جب بعض افسران کے پاس شکایت کی گئی کہ گورنر تو اس فعل کو ناجائز قرار دیتا ہے پھر یہ کس طرح ضبط ہوا تو انہوں نے بتایا کہ خود گورنر کے حکم سے ایسا ہوا ہے اور ہمارے آدمیوں کو بتایا گیا کہ جب وہ آپ کو شربت پلا رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ ہم مذہبی معاملات میں دخل نہیں دیا کرتے تو اس سے پہلے وہ اس نوٹس پر دستخط کر چکا تھا.اس ایک مثال سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ سارے فرانسیسی افسر ایسے ہی ہوتے ہیں.ان میں نیک اور فرض شناس افسر بھی ہیں لیکن گو وہ زبان کے بہت میٹھے ہوتے ہیں، تعلقات میں ایسی صورت اختیار کرلیتے ہیں جو تشدد اور سختی کا رنگ اپنے اندر رکھتی ہے اسی لئے مراکو وغیرہ میں ان کے خلاف سخت جذبہ منافرت پھیلا ہوا ہے.روسی حکومت کے حالات تو سب پر ظاہر ہیں وہ مذہب
خطبات محمود ۳۸۷ سال ۱۹۳۴ء میں دست اندازی کرتی ہے.پس انگریزوں کے اخلاق روسی اور فرانسیسی افسروں سے بہت زیادہ اچھے ہیں.گو میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ہندوستانیوں کے اخلاق سے روسیوں اور فرانسیسیوں کے اخلاق اچھے ہیں.ہمارے ہندوستانی تو اخلاق کو بھون کر کھاگئے ہیں اور جب بھی انہیں کسی سے مخالفت ہو، وہ اس کا تختہ الٹنے کی دھمکی دینے سے نیچے نہیں رہتے.ان کی مثال بالکل ان فقیروں کی سی ہوگئی ہے جو کہتے ہیں.پیسہ دو اور اگر نہ دیں تو کہتے ہیں " اُلٹاواں چوداں طبق".غرض یہ فقیر بن گئے ہیں.اخلاق کھو بیٹھے ہیں اور سوائے تختہ الٹنے کے اور کوئی کام نہیں جانتے.میں نے گزشتہ خطبات کو جو لمبا کیا تو اسی وجہ سے کہ میں سمجھتا ہوں اگر حکومت سے ہماری صلح ہو جائے تو یہ زیادہ بہتر ہوگا بہ نسبت اس کے کہ ہمیں کوئی اور طریق عمل تجویز کرنا پڑے.ورنہ سکیم تو میں ابتداء میں ہی بتا سکتا تھا.پھر بعض ایسے نقصانات کے خدشہ نے بھی مجھے اب تک سکیم کے بیان کرنے سے روکا ہوا ہے جو ممکن ہے مسلمانوں اور سلسلہ کیلئے کسی پہلو سے مضر ہوں.میں جانتا ہوں کہ گو ہماری جماعت تھوڑی ہے مگر خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت کو علم اور فہم عطا کیا ہوا ہے.ہم اگر ایک دو قدم اس طرف چلیں گے تو دوسرے مسلمان چند دن مخالفانه شور مچا کر ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں گے اور پھر اگر ہم ایک قدم چلیں گے تو وہ دس قدم چلیں گے اور بالکل تحریک کشمیر کی سی حالت ہو جائے گی.کشمیر میں نہایت عمدگی سے کام ہو رہا تھا احرار نے جونہی دیکھا کہ ہمیں کامیابی ہو رہی ہے فوراً درمیان میں آگودے اور اعلان کردیا کہ کشمیر میں جتنے لے کر چلو.چنانچہ اس کے نتیجہ میں انہوں نے بہت کچھ فائدہ اٹھایا اور یقیناً اگر میری طرف سے سارے ہندوستان میں تنظیم نہ ہوئی ہوتی تو کبھی اتنے آدمی اکٹھے نہ کر سکتے.اسی احرار کانفرنس کے موقع پر دیکھ لو انہوں نے اعلان کیا کہ ساٹھ ہزار بلکہ ایک لاکھ فرزندانِ توحید جمع ہوں گے.مگر ان کے جس قدر آدمی آئے ان کے متعلق ریل والوں کا اندازہ ہے کہ اڑھائی تین ہزار تھے باقی ستاون ہزار آدمی کہاں گیا حالانکہ اتنی دیر سے شور مچا رکھا تھا اور کوشش بھی بہت کی گئی تھی.لیکن تحریک کشمیر کے پر چونکہ میری وجہ سے تمام ہندوستان میں جوش پیدا ہو چکا تھا، اس لئے ستائیس ہزار کے قریب آدمی جیل خانوں میں چلے گئے اور جتنے بھی دور دور سے آئے.اس سے سے پہلے نہرورپورٹ کے موقع پر بھی گو یہ درمیان میں آئے مگر انہیں ناکامی ہوئی.پس گزشتہ واقعات موقع
خطبات محمود ۳۸۸ سال ۱۹۳۴ء بتاتے ہیں کہ ہماری تحریک سے یہ خود فائدہ اٹھاتے ہیں.ان حالات میں بالکل ممکن ہے کہ ہماری آئینی تحریک کو یہ دخل دے کر غیر آئینی بنادیں.کشمیر کی تحریک کو ہی دیکھ لو یہ سب آئین کے اندر تھی، کشمیر گورنمنٹ نے سنسر بٹھا بٹھا کر ہمارے خطوط پکڑے، جو اب تک اس کے پاس محفوظ ہیں مگر وہ کسی خط کو شائع کردے ہمیں کوئی خطرہ نہیں کیونکہ ہم ہمیشہ خداتعالی کے فضل سے قانونی سے قانونی اور آئینی رنگ میں کام کرنے والے ہیں.مگر چونکہ ایسے موقعوں پر لوگوں میں جوش بھی پیدا کرنا پڑتا ہے اس لئے اس قسم کے لوگ فائدہ اٹھا کر کام کو ا خراب کر دیتے ہیں.پس چونکہ اول میں ڈرتا ہوں کہ مبادا ایسے کارکن مجھے میسر نہ ہوں جو پورے طور پر میری بات کو سمجھنے والے ہوں اور وہ میرے منشاء کے خلاف کام کرنے لگیں.دوسرے مجھے یہ بھی خوف ہے کہ نہیں عام مسلمان اس سے ناجائز فائدہ اٹھا کر ہماری آئینی تحریک کو خراب نہ کردیں اس وجہ سے میں نے بات کو اس خیال سے لمبا کیا ہے کہ اگر حکومت سے محبت سے سمجھوتہ ہو جائے تو یہ ہمارے لئے زیادہ اچھا رہے گا بجائے اس کے کہ اختلاف کر کے ہمیں بات کو پھیلانا پڑے.گو بعض تجاویز ایسی بھی ہیں جن کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ ممکن ہے ان کے بروئے کار لانے میں زیادہ خطرہ نہ ہو اور نہ بالعموم دوسرے لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں مگر سیاسیات میں کوئی شخص کہہ نہیں سکتا کہ آئندہ کو کس طرف چلی جائے گی.پس میں نے اب تک یہ طریق رکھا ہے کہ حکومت پنجاب کے پاس اپیل کی جائے اور اگر وہاں شنوائی نہ ہو تو آگے قدم بڑھایا جائے مگر میں یقین رکھتا ہوں کہ اس طریق پر چلنے سے اللہ تعالیٰ ہمیں کامیابی عطا فرمائے گا.کشمیر کے سلسلہ میں اگر اسی طریق سے ہمیں کامیابی ہو گئی تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم یہاں کامیاب نہ ہوں.گورنمنٹ کیلئے ایسا کرنا کوئی مشکل امر بھی نہیں.دُنیا میں ہمیشہ دو وجہوں سے ، حکومتیں تلافی مافات کرنے سے رکتی ہیں.یا تو اس لئے کہ تلافی کرنا اس کیلئے ناممکن ہوتا ہے.یا اس لئے کہ تلافی کرنے میں وہ اپنی ہتک سمجھتی ہیں لیکن اس موقع پر نہ ناممکن ہونے کا سوال ہے اور نہ ہتک کا بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اگر حکومت اپنی بات پر قائم رہتی ہے تو اس میں ہماری ہتک ہے اور اگر وہ اس کا ازالہ کردے تو اس میں اس کی ہتک نہیں بلکہ عزت ہے.گورنمنٹ نے ہماری کسی جائداد کو تو لوٹا نہیں جس کا واپس کرنا اس کیلئے مشکل ہو رہا ہے.وہ کیوں دلیری نہیں کہہ دیتی کہ اسے واقعات غلط رنگ میں پہنچائے گئے ہیں اور اس بناء پر اُس نے جو ށ
۴۱۹۳۴ ۳۸۹ خطبات محمود کچھ کیا اُس پر اسے بہت افسوس ہے.اگر گورنمنٹ ایسا کہہ دے تو یہ اس کی عزت کا موجب ہوگا کیونکہ سچ کا اقرار کرنا ذلت نہیں بلکہ عزت ہوتا ہے اور دنیا میں ہمیشہ وہی معزز سمجھا جاتا ہے جو حق پر قائم رہتا ہے.لیکن اگر ہم اپنی بات چھوڑ دیں تو اس میں ہماری ذلت ہے کیونکہ ہماری بے غیرتی اور بزدلی کا ثبوت ملتا ہے کہ ناحق اور بلاوجہ تذلیل کو برداشت کر لیا.پس قربانی گورنمنٹ کی طرف سے ہونی چاہیے نہ کہ ہماری طرف سے.دُنیا میں بھی جب دو قربانیوں کا مقابلہ ہو اور ایک کی قربانی اسے ذلیل کرنے والی اور دوسرے کی قربانی اسے معزز بنانے والی ہو تو اسے ہی قربانی کرنی پڑتی ہے جس کی قربانی اسے معزز بنانے والی ہو.پس گورنمنٹ کیلئے اس میں کوئی مشکل نہیں ، صرف ہمت کی بات ہے.غرض چونکہ ہم اگر بات چھوڑ دیں تو اس میں ہماری تذلیل ہوتی ہے، نہ صرف اپنی نگاہوں میں بلکہ دشمنوں کی نگاہوں میں بھی اور پھر اخلاق بھی بگڑتے ہیں کیونکہ کوئی قوم جو بغیر کسی جرم کے ذلت برداشت کرلیتی ہے کبھی سر نہیں اٹھا سکتی اور اس قابل ہوتی ہے کہ مٹی میں اسے دفن کر دیا جائے.لیکن اگر حکومت قدم اٹھائے تو یہ اس کی عزت کا موجب ہے اس لئے گورنمنٹ کا ہی فرض ہے کہ وہ اپنی غلطی کا اقرار کرتے ہوئے صلح کیلئے ابتداء کرے.اسی سلسلہ میں میں جماعت کے لوگوں کہنا چاہتا ہوں کہ وہ کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جو عاقبت بینی سے خالی ہو.مثلاً قادیان میں ہی حال میں ایک جلسہ ہوا اس کے ریزولیوشنوں میں بلاوجہ ایسے افسروں کے نام لے لئے گئے جن کے نام لینے نہیں چاہیے تھے.جماعت کا صرف اتنا کام ہے کہ جو مرکز کی طرف سے نام ظاہر کئے جائیں، وہ لے اور جن کا نام مرکز سے ظاہر نہ کیا جائے اسے نہ لے.اب میں اعلان کردہ سکیم کے متعلق چند باتیں کہنا چاہتا ہوں.پہلی بات جو میں آج بیان کرنا چاہتا ہوں، وہ اس سکیم کی اہمیت کے متعلق ہے.یہ بات میں کئی دفعہ بیان کرچکا ہوں کہ احرار کا فتنہ کوئی بڑا فتنہ نہیں، ان کے جلسہ کے بعد بھی میں یہ نہیں کہتا کہ ان کا فتنہ کوئی غیر معمولی فتنہ ہے مگر جب میں کہتا ہوں کہ یہ فتنہ کوئی بڑا فتنہ نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں فتنے ہوتا کہ یہ اپنی ذات میں کوئی بڑا فتنہ نہیں بلکہ یہ مطلب ہے کہ اس سے بڑے بڑے جماعت کے سامنے آنے والے ہیں.ممکن ہے بعض لوگوں کے دلوں میں شبہ پیدا ہو کہ ایک طرف تو کہا جاتا ہے کہ یہ فتنہ کوئی بڑا فتنہ نہیں اور دوسری طرف کہتے ہیں کہ اس فتنہ کے استیصال کیلئے ہمیں ہر قسم کی قربانی کیلئے تیار رہنا چاہیے.اگر یہ بڑا فتنہ نہیں تو اس کیلئے اتنی
خطبات محمود ٣٩٠ سال ۱۹۳۴ بڑی قربانیوں کیلئے تیار کرنے کی کیا ضرورت ہے.سو یاد رکھنا چاہیے کہ جب میں یہ کہتا ہوں کہ فتنہ کوئی بڑا فتنہ نہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ مت سمجھو کہ یہ آخری فتنہ ہیں ہے جو بلکہ سمجھو کہ یہ بڑی لڑائیوں کا پیش خیمہ ہے اور اس سے بہت بڑے بڑے فتنے جماعت کے سامنے آنے والے ہیں کیونکہ ہم نے احمدیت کسی ایک شہر یا ملک میں نہیں پھیلانی بلکہ ساری دنیا کو احمدیت میں شامل کرنا ہے.پس جبکہ ہمارا مقصد ساری دنیا کا مقابلہ کرنا ہے تو ہم کس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ اگر لاہور کے چوہدری افضل حق صاحب، مولوی مظہر علی صاحب اور عطاء اللہ صاحب بخاری اور مولوی ظفر علی صاحب اور ان کے دوستوں کو ہم شکست دے لیں تو ساری دنیا ہمارے لئے فتح ہو جائے گی.اگر ہم ایسا خیال کریں تو یہ ویسی ہی بات ہوگی جس طرح کوئی شخص چماروں کی ایک جھونپڑی گرا آئے اور سمجھے کہ اس سے ملک کا بادشاہ ڈر کر بھاگ جائے گا.ان بیچاروں کی ہستی ہی کیا ہے، ان کی تو جو کچھ حیثیت قائم ہوئی، وہ ہماری مخالفت کی وجہ سے ہوئی ہے ورنہ ان کی قوم کے اپنے لوگ بھی پرائیویٹ طور پر انہیں بہت بُرا سمجھتے ہیں.پس جب میں یہ کہتا ہوں کہ یہ کوئی بڑا فتنہ نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ہمیں اس فتنہ کا مقابلہ نہیں کرنا چاہیے یا ہمیں اس کے استیصال کا فکر نہیں کرنا چاہیے بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس سے بھی بڑے فتنے جماعت کے سامنے آنے ہیں.اور ہماری جماعت کا جہاں یہ فرض ہے کہ وہ سمجھے کہ یہ کوئی بڑا فتنہ نہیں، اس سے بڑے فتنوں کا اس نے مقابلہ کرنا ہے وہاں اس کا یہ بھی فرض ہے کہ اس فتنہ کو بھی مٹائے کیونکہ اگر ہمیں اس چھوٹے فتنہ میں کامیابی نہ ہوئی تو بڑے فتنوں کے مقابلہ میں ہمیں کس طرح کامیابی حاصل ہوگی.پس اس نقطہ نگاہ کے ماتحت ہمیں ہوشیار ہو جانا چاہیے کہ اگر ہم اس فتنہ کے مقابلہ میں ہار گئے جو کوئی بڑا فتنہ نہیں تو پھر اس سے بڑے فتنوں کے مقابلہ میں ہمارا کیا بنے گا.مجھ سے بہت لوگوں نے وعدے کئے ہیں کہ وہ اپنی جانیں اور اپنے اموال سلسلہ کیلئے فدا کرنے کو تیار ہیں.اس قربانی کا وعدہ کرنے والی بہت سی جماعتیں ہیں اور بہت سے جماعتوں کے افراد ہیں، پھر مردوں کے علاوہ عورتوں نے بھی اپنے آپ کو اس قربانی کیلئے پیش کیا ہے اور میں سمجھتا ہوں اگر سب کو ملا لیا جائے تو ہزاروں کی تعداد ہو جاتی ہے.اور میں یقیناً دل میں خوشی محسوس کرتا ہوں کہ ہماری جماعت میں اللہ تعالیٰ نے قربانی کی ایسی روح پھونک دی ہے کہ وہ دین کیلئے ہر قسم کی تکلیف برداشت کرنے کیلئے تیار ہے اور ہر اس آواز والے
خطبات محمود سال لبیک کہنے کو آمادہ جو خدا اور اس کے رسول یا اس کے نائبوں کی طرف سے بلند ہو.پس یہ نہایت خوشی کی بات ہے.مگر چونکہ یہ وعدے پیش از وقت ہیں اور چونکہ وہ سکیم میں نے ابھی بیان نہیں کی جس کے بیان کرنے کا ارادہ ہے اس لئے میں پورے طور پر خوش نہیں کیونکہ ممکن ہے لوگوں نے قربانی کا صحیح اندازہ نہ کیا ہو اور جب قربانی کا حقیقی مطالبہ ان کے سامنے رکھا جائے تو ان میں سے بعض مذرات پیش کرنے لگ جائیں.میرا اپنا اندازہ یہ ہے کہ لوگ بڑی لیکن وقتی قربانیوں کیلئے تو فوراً تیار ہو جاتے ہیں لیکن اگر ان سے مسلسل چھوٹی قربانیوں کا مطالبہ کیا جائے.مثلاً ان سے دس دس منٹ روز کی مسلسل ایک لمبے عرصہ تک قربانی طلب کی جائے تو وہ چند دنوں کے بعد ہی رہ جائیں گے.اگر حکم دیا جائے کہ جاؤ اور لڑ کر مرجاؤ تو میں سمجھتا ہوں سو میں سے ایسا اخلاص رکھنے والے جیسا کہ ہماری جماعت کے افراد میں ہے، نوے لڑ کر مر جانے کیلئے تیار ہو جائیں گے لیکن اگر ایک سو سے کہا جائے کہ پیدل چلتے ہوئے بنگال پہنچ جاؤ تو سو میں سے پچاس معذر تیں کرنی شروع کردیں گے.کوئی کہے گا میری بیوی بیمار ہے، کوئی کہے گا میرے بچے بیمار ہیں، کوئی کہے گا میں چل نہیں سکتا.یہ سو میں سے پچاس کا اندازہ میں نے اپنی جماعت کے متعلق لگایا ہے ورنہ دوسرے مسلمانوں میں سے تو سو میں سے شاید ایک قائم رہے اور نانوے اپنے عہد سے منحرف ہو جائیں لیکن جان دینے کی قربانی کا اگر سوال ہو تو میں سمجھتا ہوں کہ ایسی حالت میں بھی جبکہ مسلمانوں کا نظام ٹوٹ چکا اور ان کی اسلامی محبت مرچکی ہے، ان میں سے سو میں سے ایک دو ضرور نکل کھڑے ہوں گے لیکن اگر تھوڑی مگر مستقل قربانی کا مطالبہ کیا جائے تو لاکھوں مسلمانوں میں سے ایک بھی نہیں نکلے گا.اور میں جب کہتا ہوں کہ لاکھوں مسلمانوں میں سے ایک بھی نہیں نکلے گا تو میں مبالغہ نہیں کرتا بلکہ مسلمانوں کے متعلق اپنا تجربہ بیان کرتا ہوں.مسلمانوں کے سامنے کئی سیاسی کام آئے مگر دو چار دن جوش دکھا کر و رہ گئے.پس عام مسلمانوں کے مقابلہ میں اپنی جماعت کے متعلق مستقل قربانی کے سلسلہ میں جب میں پچاس فیصدی افراد کا اندازہ لگاتا ہوں تو درحقیقت میں اپنی جماعت کی بہت کچھ تعریف کرتا ہوں.لیکن ہماری تسلی تو پچاس پر نہیں ہوتی بلکہ سو پر ہوا کرتی ہے اور جب تک ہم سو فیصدی مکمل نہ ہو جائیں اس وقت تک امن نصیب نہیں ہو سکتا.میں سمجھتا ہوں اگر میں قربانی کیلئے اپنا نام پیش کرنے والوں میں سے کسی کو بلا کر کہوں
خطبات محمود ۳۹۲ سال ۱۹۳۴ء کہ تم نے قربانی کا وعدہ کیا ہے روزانہ رات کو نو بجے سے صبح ساڑھے پانچ بجے تک کھڑے رہا کرو تو بالکل ممکن ہے وہ اس قربانی کیلئے تیار نہ ہو لیکن اگر میں یہ کہوں کہ جاؤ اور کود کر مرجاؤ تو ایک منٹ بلکہ ایک لحظہ کیلئے بھی وہ اس سے انکار نہیں کرے گا.یا مثلاً میں کہوں کہ چھ بجے میرے دفتر میں آؤ اور خاموش بیٹھے رہو اور شام کو اپنے گھر واپس چلے جایا کرو تو آٹھویں دن ہی مجھے رقعے آنے شروع ہو جائیں کہ میں بریکار بیٹھا ہوں مجھے کام نہیں، کوئی کام بتائیے.حالانکہ حقیقی قربانی وہی ہوتی ہے جو خواہ قلیل ہو مگر انسان استقلال سے اسے سرانجام دے اور بغیر وجہ پوچھے اسے کرتا چلا جائے.اگر قربانی کے وقت اس کی غرض اور مقصد پوچھنے کی بھی ضرورت محسوس ہو تو پھر بیعت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی.ہر عقلمند آدمی اپنے مفید مطلب کام کیا ہی کرتا ہے اور ایسا نادان تو کوئی ہوتا ہے جو اپنے لئے مفید کام بھی کرنے کو تیار نہ ہو.مثل مشہور ہے کہ کوئی کشمیری جیٹھ، ہاڑ کے دنوں میں دھوپ میں بیٹھا تھا، ایک شخص پاس سے گزرا تو وہ اسے دیکھ کر کہنے لگا میاں ذرا سائے میں آجاؤ ، دھوپ میں کیوں جل رہے ہو.وہ کشمیری کہنے لگا میں سائے میں تو آجاتا ہوں مگر مجھے کیا دو گے.اس نے کہا اگر تمہیں اپنے نفس کیلئے سائے کی ضرورت نہیں تو بیشک دھوپ میں مرو، مجھے تمہیں انعام دینے کی کیا ضرورت ہے.اس قسم کے نادان تو شاذونادر ہوتے ہیں ورنہ کون ایسا انسان ہے جسے کہا جائے میاں چلو فلاں جگہ روپے دبے پڑے ہیں اور وہ نہ جائے یا کوئی بات اسے مفید نظر آئے اور وہ نہ کرے.پس جو باتیں عام طور پر عقل میں آسکتی ہیں ان کیلئے کسی بیعت کی ضرورت نہیں، بیعت اس لئے ہوتی ہے کہ جب کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تب بھی اس پر عمل کیا جائے، ہاں یہ ضروری شرط ہے کہ وہ نص قرآن کے خلاف نہ ہو.اس کے علاوہ جو بات بھی خلیفہ وقت کے بیعت کرنے والے کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ خواہ اس کی غرض سمجھ میں آئے یا نہ آئے اس پر عمل کرے اور خواہ سو سال تک اسے کسی بات کی سمجھ نہیں آتی اس کا حق نہیں کہ وہ انحراف کرے بلکہ اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ امام کی ہدایت کے ماتحت کام کرے.پس پہلا امر ہر انسان کے سامنے یہ ہونا چاہیئے کہ ہم نے فلاں کی بیعت کرنی ہے یا نہیں.اگر بیعت کرلی گئی ہے تو پھر کوئی عُذر قبول نہیں کیا جاسکتا.ہاں انسان مشورہ دے سکتا ہے مگر مشورہ دینا اور چیز ہے، اعتراض کرنا اور چیز اور عمل میں کوتاہی کرنا اور چیز ہے.پس میں اس سکیم کے پیش کرنے سے پہلے یہ بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ میری سکیم میں ایسی ہی
خطبات محمود ۳۹۳ سال ۱۹۳۴ء قربانیوں کا مطالبہ ہے جو گو چھوٹی چھوٹی ہیں مگر لمبی اور کافی عرصہ لینے والی ہیں.چونکہ ممکن ہے اس سکیم کے سننے کے بعد بعض لوگ کہہ دیں کہ ہمارے لئے کام کرنا مشکل ہے اس لئے میں بتادینا چاہتا ہوں کہ اس سکیم کے بعد جو لوگ اپنے نام پیش کریں گے، وہی حقیقی طور پر قربانی کرنے والے سمجھے جائیں گے.سکیم کی اہمیت ظاہر کرنے کیلئے میں دوسری بات یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ اس وقت ہمارے خلاف جو فتنہ ہے یہ صرف مذہبی نہیں، نہ صرف سیاسی اور نہ صرف اقتصادی ہے بلکہ یہ مذہبی بھی ہے اقتصادی بھی اور سیاسی فتنہ بھی.یہ سیاسی مخالفت ہے اس لئے کہ ہم نے کانگرس کی پچھلے دنوں شدید مخالفت کی.یہاں تک کہ کانگرس والوں نے خود تسلیم کیا کہ احمدیہ جماعت کی مخالفت مؤثر ثابت ہوئی ہے.ہمارے آدمی چونکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے تمام ہندوستان میں پھیلے ہوئے ہیں اور وہ کام کرنا جانتے ہیں پھر ان کے اندر ایک حد تک استقلال بھی پایا جاتا ہے اس.ہے اس لئے کانگرس کے لاکھ والنٹیئر ز جتنا کام کرتے ہیں، اتنا کام ہمارا ایک ہزار آدمی کر لیتا ہے اسی طرح ہمارا تھوڑا روپیہ ان کے بہت سے روپیہ کے مقابلہ میں کام دے کانگرس کی ناکامی اتنی واضح ہے کہ اس کے لیڈر محسوس کرتے ہیں کہ اس کی ناکامی میں بہت حد تک دخل احمدیہ جماعت کا بھی ہے.پھر یہ اس لئے بھی سیاسی فتنہ ہے کہ عام طور پر اسلامی مسائل کی وجہ سے مسلمانوں میں جوش پیدا کر کے ان کی سیاست کو تباہ کیا جاتا تھا جیسے خلافت کا مسئلہ پیدا کیا گیا، ہجرت کا سوال اُٹھایا گیا، یا میکلیگن کالج کا جھگڑا پیدا کیا گیا ان پر ایک مذہبی رنگ چڑھایا گیا تھا جسے اُتار کر ہم نے رکھ دیا اور بتا دیا کہ یہ مذہبی نہیں بلکہ سیاسی تحریکیں ہیں.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمیں ہر تحریک میں آگے آنا پڑا اور ہر تحریک کے وقت ہم نے اصل حقیقت کو بے نقاب کیا.غرض مسلمانوں کی ہجرت کا پول ہم نے کھولا خلافت کے متعلق غلط جوش کے دنوں میں ہم نے ان کی صحیح راہنمائی کی، میکلیگن کالج کے جھگڑے کے وقت ہم نے صحیح طریق عمل بتایا اور لوگوں پر ظاہر کیا کہ یہ مذہب کے بہانے سے سیاسیات میں طاقت حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سیاسی طرز کے مسلمانوں نے سمجھا کہ جب تک یہ جماعت موجود ہے اس وقت تک ہم سیاسی طور پر مسلمانوں کو بیوقوف نہیں بناسکتے پس وہ بھی ہمارے مخالف ہو گئے.تیسری مثال اس کی وہ شور ہے جو پچھلے دنوں کمیونل ایوارڈ یعنی فرقہ وارانہ تصفیه حقوق کے نام سے اٹھا.سکھوں اور جاتا ہے.یہ
خطبات محمود ۳۹۴ سال ۱۹۳۴ء ہندوؤں نے گورنمنٹ کو نوٹس دیا تھا کہ ہم ایک لاکھ والٹیئر ز اس کے خلاف جنگ کرنے کیلئے تیار کریں گے.اس پر ہم نے بھی اپنی جماعت کی تنظیم شروع کردی اور گورنمنٹ کے سامنے اپنی خدمات رکھ دیں.نتیجہ یہ ہوا کہ اس کو بھی قوموں نے محسوس کیا اور انہوں نے کہا کہ اگر ہم گورنمنٹ کو دھمکی دیتے ہیں تو یہ دھمکی کا اثر بھی قبول ہونے نہیں دیتے آؤ اس جماعت کا ہی متحدہ مقابلہ کریں.پچھلے دنوں ایک اخبار والوں کو دھمکی دی گئی کہ اگر مسلمانوں کے حقوق کی تائید سے وہ نہ رُکے تو اس کے دروازوں پر پکٹنگ کیا جائے گا.ہم نے جب یہ سنا تو اپنے نوجوانوں کی خدمات پیش کردیں اس پر کسی نے پکٹنگ نہ کیا.پس لوگوں نے دیکھا کہ جب وہ دھمکیاں دیتے ہیں تو ہم ان کی دھمکیوں کو باطل ثابت کر دیتے ہیں، سیاسی لحاظ سے دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں تو اس کا مقابلہ کرتے ہیں ، مذہب کے نام پر لوگوں کو بہکانا چاہتے ہیں تو اس میں روک بن جاتے ہیں اور ان کا پول کھول دیتے ہیں، طاقت اور گھمنڈ سے مرعوب کرنا چاہتے ہیں تو یہ اپنی خدمات پیش کر دیتے ہیں اس لئے ہندوؤں، سکھوں اور مسلمانوں میں سے ہر شخص ہماری کوششوں پر بُرا مناتا ہے.اور ہماری مخالفت کرنا اپنے مقاصد کیلئے مفید سمجھتا ہے.سیاسی مخالفت کے اسباب میں سے ایک ہمارا اس وقت شمشیر کے جہاد کی مخالفت کرنا بھی ہے.مولوی اس مسئلہ کی مدد سے عوام کو خوب بھڑکا سکتے تھے ہم نے اس حربہ کو بھی چھین لیا ہے.پس ہماری جماعت کی مخالفت نہایت وسیع پیمانہ پر ہے اور سیاستدان یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک احمدیوں کو کمزور نہ کر دیا جائے یا احمدیوں اور حکومت میں لڑائی نہ کرا دی جائے اس وقت تک ان کا قدم مضبوطی سے جم نہیں سکتا.یہ صرف خیالی بات نہیں بلکہ خود مجھ سے آل انڈیا کانگرس کمیٹی کے ایک ذمہ دار آدمی نے کہا کہ پنڈت جواہر لال نہرو جب یورپ کی سیاحت سے واپس تشریف لائے تو سٹیشن پر ہی دورانِ گفتگو میں انہوں نے مجھ سے کہا کہ مجھے دورانِ سیاحت میں محسوس کرایا گیا ہے کہ اگر ہم ہندوستان میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے احمدیہ جماعت کو کچل دینا چاہیئے.اس غرض کیلئے انہوں نے کئی کوششیں بھی کیں مگر خدا کے فضل سے کامیاب نہ ہوئے.اب کانگرس والوں کی ایک طرف تو یہ کوشش ہے کہ ہمیں مسلمانوں سے لڑا کر کمزور کر دیا جائے اور دوسری طرف یہ کوشش ہے کہ ہماری انگریزوں سے لڑائی ہو جائے.ممکن ہے انگریز افسروں میں سے کوئی اس غلط فہمی میں
خطبات محمود ۳۹۵ سال ۱۹۳۴ء.مبتلاء ہو جائے مگر ہماری اطاعت چونکہ اصول مذہبی کی بناء پر ہے اس لئے ہم حکومت کی اطاعت سے کبھی انحراف نہیں کر سکتے گو اگر حکومت نے ہماری ہتک کا ازالہ نہ کیا تو پھر ہمارا تعلق اس سے محض قانونی اطاعت والا رہ جائے گا ، محبت والا تعلق باقی نہ رہے گا اور ہم ہر موقع پر اس سے سودا کیا کریں گے.پس گورنمنٹ ہمیں تاجر بنادے گی مگر ہم اطاعت پھر بھی کرتے رہیں گے.سیاسی مخالفت کی وجوہ میں سے ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ہم یکین اسلام ازم کے مخالف ہیں حالانکہ جب میں یورپ گیا تو راستہ میں عربی ممالک میں اتحادِ اُم اسلامیہ کی سکیم میں نے بنائی جسے بعد میں شیخ یعقوب علی صاحب نے دوسرے سفر کے موقع پر اور پھیلایا اور پھر ان کے لڑکے محمود احمد صاحب نے بلاد اسلامیہ کے سفر میں لوگوں میں اس کی اشاعت کی جس کے نتیجہ میں مؤتمر اسلامی کا اجلاس ہوا.پس عالم اسلامی کے اتحاد کا میں بڑے زور سے قائل ہوں مگر میں اس اتحاد کا قائل نہیں جو لڑائیوں اور فتنہ وفساد کیلئے ہو، ہم اخلاق کو درست کر کے اتحاد رکھنے کے قائل ہیں.اس امر کے قائل نہیں کہ انگریزوں یا کسی دوسری قوم سے خواہ مخواہ لڑا جائے.غرض ان وجوہ سے سیاسی لوگ ہمارے مخالف ہیں اور چونکہ کچھ لوگ حکومت میں بھی کانگرسی خیال کے داخل ہیں وہ بھی ان وجوہ سے دل میں ہمارے مخالف ہیں.اور ایسے لوگ اعلیٰ سے اعلیٰ عہدوں پر ملتے ہیں چنانچہ عدم تعاون کی تحریک کے دنوں میں کئی ہندوستانی افسروں نے کانگرس کو مخفی امداد دی اور جو لوگ کانگرس کی مخالفت کرتے تھے انہیں دھمکایا اور ڈرایا کہ تم پالیٹکس میں دخل دیتے ہو.چنانچہ مجھے جب بعض واقعات معلوم ہوئے تو اس وقت میں نے لارڈ ارون (LORD IRWIN) کو لکھا کہ آپ کے بعض افسر اس قسم کے ہیں جو کانگرس کی تحریکات کا مقابلہ کرنے سے بھی اپنے آدمیوں کو روکتے اور اسے پالیٹکس میں دخل قرار دیتے ہیں جس کا صاف یہ مطلب ہے کہ وہ کانگرس کے مؤید ہیں.اس پر حکومت نے یہ اعلان کیا کہ گورنمنٹ کی تائید میں حصہ لینا منع نہیں ، گورنمنٹ کے خلاف حصہ لینا منع ہے.مجھے کئی ایسے افسروں کا علم ہے جنہوں نے کانگرس کے خلاف کام کرنے والے افسروں پر ظلم کئے اور انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی.یہ کانگرس سے ہمدردی رکھنے والے افسر ہمیشہ کانگرس کو حکومت کی خبریں پہنچاتے رہتے ہیں چنانچہ بائیکاٹ کے زمانہ میں ریلوے کے کئی ایسے افسر جب بھی انگریزی مال آتا تھا، کانگرس والوں کو اطلاع دے دیتے تھے.اسی
خطبات محمود سیال ۱۹۳۴ء طرح پولیس میں ایسے افسر تھے جو کانگرسیوں کی گرفتاری کی خبر وارنٹ پہنچنے سے قبل انہیں پہنچادیتے.چنانچہ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ جب پولیس کے سپاہی وارنٹ لیکر پہنچتے تو کانگری ایسے شخص کو ہار پہنا کر پہلے سے پولیس کے منتظر ہوتے تھے.اس قسم کے لوگ سیاسی اختلاف کی وجہ سے چاہتے ہیں کہ گورنمنٹ اور جماعت احمدیہ میں لڑائی ہو جائے اور وہ حکومت میں ہو کر حکومت کی جڑیں کاٹ رہے ہیں.ان لوگوں نے وہی چال چلی ہے جو کہتے ہیں ایک باغ والے نے تین شخصوں کے خلاف چلی تھی جو اس کے باغ کا میوہ کھاگئے تھے.کہتے ہیں کہ کسی باغ میں سید مولوی اور زمیندار تینوں اکٹھے چلے گئے اور اس کے میوے توڑ توڑ کر کھانے لگے.باغ کا مالک جب آیا تو اس نے دیکھا کہ تین آدمی ہیں اور وہ اکیلا ہے.اس نے سوچا کہ اس طرح مقابلہ تو مشکل ہے.پھر کچھ سوچ کر وہ سید اور مولوی کو الگ لے گیا اور سید سے کہنے لگا کہ آپ تو آل رسول ہیں یہ سب باغ آپ کے نانا کا مال ہے جہاں سے جی چاہے کھائیں اور مولوی سے کہا کہ آپ بھی رسول کریم اللہ کے گدی نشین ہیں.آپ کے فعل پر بھی اعتراض نہیں کیا جاسکتا مگر اس زمیندار کا کیا حق تھا کہ میرے باغ میں آتا اور میوے توڑ توڑ کر کھاتا.چونکہ ان دونوں کی تعریف ہو گئی تھی وہ کہنے لگے بات تو ٹھیک ہے.مالک کہنے لگا تو پھر انصاف قائم کرنے میں آپ میری مدد کریں چنانچہ تینوں نے مل کر زمیندار کو پکڑا اور اسے خوب مارا.پھر اسے ایک درخت سے باندھ دیا.اس کے بعد مالک سید کو الگ لے جاکر کہنے لگا یہ مولوی بھی کچھ کم مجرم نہیں کیونکہ یہ مسئلے کرنے والا نوکر ہے.آلِ رسول کا ہی حق ہے کہ میوے کھائے، خادموں کا بھلا کیا اختیار ہے کہ وہ آلِ رسول کے ہم رتبہ بنیں.سید کیلئے اس سے زیادہ فخر کی بات اور کیا ہو سکتی تھی کہ اسے مولوی پر ترجیح دے دی گئی.اس نے کہا بات تو تم نے ٹھیک کہی.مالک کہنے لگا تو پھر انصاف قائم کرنے میں میری مدد کرو.چنانچہ مولوی کو بھی دونوں نے مل کر خوب مارا اور ایک درخت سے باندھ دیا گیا.اب صرف اکیلا سید رہ تھا.مالک نے جھٹ اس کی گردن پکڑ لی اور کہا خبیث دوسروں کا مال کھانے والا بھی کبھی آل رسول ہوا کرتا ہے.چنانچہ اسے بھی خوب مارا اور درخت سے باندھ دیا.ہم نے رہ گیا یمی دوسرے کا مال تو نہیں کھایا بلکہ ہر ایک کو اس کا حق ولاتے ہیں لیکن بہر حال لوگ ہم سے بد گمانی رکھتے ہیں کہ گویا ہم انگریزوں سے مل کر ان کے حقوق کا نقصان کر رہے ہیں اور اس غصہ میں وہ ہمارے خلاف چالیں چلتے ہیں.اور اب انہوں نے یہ تدبیر سوچی ہے کہ گورنمنٹ
خطبات محمود ۳۹۷ سال ۱۹۳۴ء میں اور ہم میں اختلاف ڈلوا کر دونوں کو الگ الگ نقصان پہنچائیں.گورنمنٹ کی بنیاد چونکہ مذہب پر نہیں اس لئے ممکن ہے وہ ان کے قابو میں آجائے مگر ہم انشاء اللہ ان کے قابو میں نہیں آسکتے.علاوہ سیاسی مخالفت کے موجودہ فتنہ کے تحت میں مذہبی مخالفت بھی کام کر رہی ہے.علماء میدان دلائل میں شکست کھاچکے ہیں، وفات مسیح کے مسئلہ کو پیش کیا جائے تو جھٹ کہہ دیتے ہیں، اسلام کا اس سے کیا تعلق کہ مسیح ناصری زندہ ہیں یا مرچکے حالانکہ اگر اسلام کا اس سے کوئی تعلق نہیں تو یہ لوگ اسی وجہ سے ہم پر کفر کے فتوے کیوں لگاتے رہے ہیں.اسی طرح نبوت کا مسئلہ ہے سوائے شور مچانے کے اور کوئی بات نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے پہلے بزرگ خود لکھ چکے ہیں کہ امت محمدیہ میں غیر تشریعی نبوت کا سلسلہ جاری ہے اب وہ رو کس طرح کریں گالیاں دیں تو اپنے بزرگوں پر بھی پڑتی ہیں.غرض میدان دلائل میں علماء ہمارے سامنے مات کھاچکے ہیں اور اب تو میں نے کثرت سے تعلیم یافتہ لوگوں کے مونہوں سے سنا ہے کہ ہم یہ تو مانتے ہیں کہ نبوت کا دروازہ کھلا ہے صرف یہ بتائیے کہ حضرت مرزا صاحب کس طرح نبی بن گئے.سمجھدار اور دیانت دار نو مسلم تو اس بات کو کبھی برداشت ہی نہیں کر سکتے کہ نبوت کا دروازہ بند مانا جائے.میں جب ولایت گیا تو ایک نہایت ہی مخلص احمدی نومسلم مسٹر شیلے جو بہت بوڑھے تھے اور اب فوت ہوچکے ہیں، مجھ سے ملنے کیلئے آئے وہ مزدوری کیا کرتے تھے اور ان کی عادت تھی کہ جب بھی مسجد میں آتے چونکہ چائے وغیرہ پلائی جاتی تھی اس لئے چھ آنے یا نو آنے کے قریب ہمیشہ چندہ دے جاتے تا یہ نہ سمجھا جائے کہ وہ مفت میں چائے پی رہے ہیں.نہایت ہی مخلص اور اسلام سے محبت رکھنے والے تھے.مجھ سے جب ملنے کیلئے آئے تو باتیں کرتے وقت محبت کے جذبہ سے سرشار ہو کر مجھ سے کہنے لگے.آپ مجھے یہ بتائیں کیا مرزا صاحب نبی تھے.میں نے کہا ہاں نبی تھے.اس پر ان کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا اور کہنے لگے مجھے بڑی خوشی ہوئی.پھر کہنے لگے آپ مجھے بتائیں کیا آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد مسلمانوں کیلئے نبوت کا دروازہ کھلا ہے، گو یہ علیحدہ ہے کہ اللہ تعالی کی نظر انتخاب کسی خاص شخص پر پڑے اور دوسروں پر نہ پڑے.میں نے کہا یقیناً خدا تعالیٰ نے امت محمدیہ کیلئے باب نبوت کو کھلا رکھا ہے اس پر ان کا چہرہ پھر دمک اٹھا اور کہنے لگے مجھے بڑی خوشی ہوئی.پھر باوجود اس کے کہ انہیں معلوم تھا کہ میں.
خطبات محمود ۳۹۸ سال ۱۹۹۳۴ تو جماعت احمدیہ کا خلیفہ اور حضرت مسیح موعود کا بیٹا ہوں، مجھے کہنے لگے آپ نے حضرت مرزا صاحب کو دیکھا ہے.میں نے کہا ہاں دیکھا ہے.اس پر پھر ان کا چہرہ روشن ہو گیا اور کہنے لگے مجھے بڑی خوشی ہوئی، آپ اپنا ہاتھ پکڑائیے.پھر انہوں نے مجھ سے مصافحہ کیا اور یہ کہتے ہوئے کیا کہ آج میں نے ایک نبی کے دیکھنے والے سے مصافحہ کیا ہے.غرض سمجھدار اور بے غرض یورپین تو مسلم یہ عقیدہ کبھی برداشت ہی نہیں کر سکتے کہ کوئی ایسا نبی آئے جو تمام ترقیات کے دروازے بنی نوع انسان کیلئے بند کردے.ان میں سے ہر معقول پسند انسان کہے گا کہ محمد کو جو چاہو بڑے سے بڑا درجہ دے لو مگر وہ رستہ نہ کھولو جس کے نتیجہ میں دنیا کی.ترقیات رُک جائیں.علماء کے سامنے جب یہ باتیں پیش کی جاتی ہیں تو وہ ان کا کوئی جواب نہیں دے سکتے پھر لوگ انہیں کہتے رہتے ہیں تم کرتے کیا ہو.احمدیوں میں سے تو کوئی افریقہ جاکر لوگوں کو مسلمان بنا رہا ہے اور کوئی امریکہ ، کوئی انگلستان جارہا ہے اور کوئی ماریشس اور دمشق وغیرہ مگر تم بجز اس کے کہ گھر بیٹھے روٹیاں توڑتے رہتے ہو اور لوگوں پر کفر کے فتوے لگاتے ہو اور کیا کرتے ہو.یہ باتیں جب ان کے سامنے پیش کی جاتی ہیں تو وہ ان کا کوئی جواب نہیں دے سکتے.پس ہمارے وجود سے مولویوں کی زندگی تلخ ہوگئی ہے اور وہ دل میں کہتے ہیں کہ ہم تو احمدیوں کو چھوڑ دیں یہ ہمیں نہیں چھوڑتے ہم کیا کریں.جیسے کسی نے کہا تھا میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں پر کمبل مجھے نہیں چھوڑتا.غرض علماء پر ایک عجیب مصیبت نازل ہے.ہم ان سے لڑیں یا نہ لڑیں لوگ جب سنتے کہ فلاں ملک میں احمدیوں کے ذریعہ اتنے مسلمان ہو گئے، افریقہ میں اتنے اور امریکہ میں اتنے لوگ داخل اسلام ہوئے تو وہ مولویوں سے پوچھتے ہیں کہ تم سوائے کافر بنانے کے اور کیا کرتے ہو.مولوی جب یہ باتیں سنتے ہیں تو بجز اس کے انہیں کچھ نہیں سوجھتا کہ وہ کہتے ہیں ہم لٹھ تیار کرلیں کہیں احمدی نظر آیا تو اس کا سر پھوڑ دیں گے پھر نہ یہ کمبخت دنیا میں رہیں گے اور نہ لوگ ہمیں ستایا کریں گے.ہر مولوی چونکہ اپنے ساتھ چیلے بھی رکھتا ہے اور ان چیلوں کا آگے حلقہ احباب ہوتا ہے اس طرح یہ مخالفت پھیل جاتی ہے.دوسری طرف آریوں نے بھی محسوس کرلیا ہے کہ ہماری جماعت کی وجہ سے ان کی ترقی رک رہی ہے.جب ملکانا میں ارتداد شروع ہوا اور تھوڑے ہی عرصہ میں یعنی قریباً دو مہینہ کے اندر اندر انہوں نے ہیں ہزار آدمی مسلمانوں میں سے مرتد کرلئے تو اس وقت لاہور میں ڈھنڈورا پیٹا گیا ہیں.
خطبات محمود ۳۹۹ سال ۱۹۳۴ء مبلغ کہ کیا کوئی مسلمان ملکانوں کی خبر گیری کرنے والا نہیں.پھر اشتہار دیئے گئے جن میں لکھا گیا تھا کہ احمدی لوگ کہا کرتے ہیں کہ وہ اسلام کے محافظ ہیں بتائیں کہ کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ وہ بیدار ہوں اور اسلام کی حفاظت کریں.اس پر میں نے اپنی جماعت میں اعلان کیا تو خدا تعالی کے فضل سے تین سو آدمیوں نے اپنی جانیں پیش کردیں اور ایک ایک وقت میں سو سو ہمارا مکانا میں کام کرتا رہا ایک لاکھ کے قریب ہمارا روپیہ خرچ ہوا اور خدا تعالیٰ کے فضل نتیجہ یہ نکلا کہ آریوں کو ہر میدان میں شکست دے دی اور یہ جو اُن کا خیال تھا کہ وہ مسلمانوں میں ایک عام رو ارتداد کی چلا دیں گے غلط ثابت ہوئی.گاندھی جی کو جو اس وقت جیل میں تھے، جب یہ حالت معلوم ہوئی تو انہوں نے اس پر اظہار ناراضگی کرنا شروع کیا اور سیاسی لیڈروں نے کہنا شروع کیا کہ آپس میں صلح کرلو اور اپنے اپنے مبلغ واپس منگوالو.سوامی شرد ہانند جی اس وقت زندہ تھے انہوں نے پر زور آواز اٹھائی کہ ہمیں گاندھی جی کی بات مان لینی چاہیے اور آپس میں صلح کرلینی چاہیئے.چنانچہ دہلی میں ایک میٹنگ ہوئی.ہمارے بعض دوستوں نے کہا کہ اس میٹنگ میں ہمیں نہیں بلایا گیا.میں نے کہا آپ لوگ تسلی رکھیں ہمیں بلانے پر مجبور ہوں گے کیونکہ ہمارے بغیر یہ صلح ہو ہی نہیں سکتی.چنانچہ و دوسرے ہی دن ڈاکٹر انصاری، مولانا محمد علی صاحب اور حکیم اجمل خانصاحب کی طرف سے میرے نام تار آیا جس میں لکھا تھا کہ آپ اپنے نمائندوں کو یہاں بھیجئے.میں نے اپنے دوستوں سے کہا دیکھو وہ ہمارے بلانے پر مجبور ہو گئے ہیں میں تو پہلے ہی جانتا تھا کہ وہ ہمارے بغیر صلح کرہی نہیں سکتے.خیر جب میں نے اپنی طرف سے نمائندے بھیجے تو میں نے انہیں کہہ دیا کہ وہاں یہی امر پیش کیا جائے گا کہ گاندھی جی چونکہ سخت اذیت پارہے ہیں اس لئے کام سب بند کر دینا چاہیئے اور اپنے اپنے مبلغ واپس منگوا لینے چاہئیں، آریہ اپنے گھروں میں چلے جائیں اور مسلمان اپنے گھروں میں، مگر آپ اس کے جواب میں یہ کہیں کہ آپ لوگ میں ہزار مسلمان آریہ بنا چکے ہیں ان میں ہزار کو آپ کلمہ پڑھا کر مسلمان کر دیں تو ہم اپنے گھروں میں آجائیں گے اور آپ اپنے گھروںں میں آجائیں، ورنہ جب تک ہمیں ہزار اشخاص اسلام میں واپس نہیں آتے اس وقت تک ہماری تبلیغ جاری رہے گی چنانچہ ایسا ہی ہوا.جب ہمارے نمائندے گئے تو انہوں نے یہی امر پیش کیا کہ آپ بیس ہزار مسلمان آریہ کرچکے ہیں جب تک آپ انہیں واپس نہیں کرتے ہم تبلیغ سے کس طرح رُک سکتے ہیں اور اگر صلح کرلیں تو اس کے یہ معنے 83
خطبات محمود ۴۰۰ سال ۱۹۳۴ء ہیں کہ ہم گھاٹے میں رہے.آریہ بھلا اس بات کو کب تسلیم کرسکتے تھے کہ ہم میں ہزار لوگوں کو کلمہ پڑھا کر اسلام میں واپس کر لیں.وہ نہایت مایوس ہوئے اور سوامی شرد ہانند جی نے کہا کہ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ گاندھی جی ناراض ہوں اور تکلیف اٹھائیں.ہمارے نمائندوں نے کہا بات بالکل صاف ہے اگر اس پر بھی کوئی نقصان پہنچنے کا احتمال ہے تو ہم کیا کرسکتے ہیں.عجیب بات یہ ہوئی کہ ہماری یہ بات بعض مسلمان سیاسی نمائندوں کی سمجھ میں آگئی اور وہ بھی کہنے لگے برابری تو سبھی ہوتی ہے جب میں ہزار لوگ اسلام میں واپس ہوں.جمعیۃ العلماء" کا نمائندہ بھی وہاں موجود تھا اس نے بڑے جوش سے سوامی شرد ہانند جی کو کہا کہ ان احمدیوں کی ہستی ہی کیا ہے انہیں چھوڑئیے اور ہم سے معاہدہ کیجئے میں سات کروڑ مسلمانوں کی طرف سے آپ سے معاہدہ کروں گا کہ وہاں کوئی مسلمان تبلیغ نہیں کرے گا.سوامی جی حقیقت سے خوب واقف تھے وہ کہنے لگے مولانا آپ کے وہاں پچاس مبلغ ہوں تو حرج نہیں لیکن اگر ایک احمدی مبلغ بھی وہاں موجود ہو تو اس کا رہنا خطرناک ہے.یہ باتیں ہیں جن کی وجہ سے آریہ غصے سے بھرے ہوئے ہیں.ادھر عیسائی الگ مخالف ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے مشنوں کو جس قدر نقصان پہنچ رہا ہے سب احمدیوں کی وجہ سے ہی ہے.اچھوتوں میں ہم جو تبلیغ کرتے ہیں اس کی وجہ سے بھی انہیں دشمنی ہے.چنانچہ اس وقت تک سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں اچھوت ہماری جماعت میں شامل ہو چکے ہیں اس کا بھی انہیں غصہ ہے.پھر یہ کوششیں نہ صرف اندرون ہند بلکہ بیرون ہند میں بھی ہماری طرف سے جاری ہیں.گذشتہ دنوں چرچ آف انگلینڈ کی طرف سے ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی اس میں سات مختلف مقامات پر افریقہ کے ذکر میں بیان کیا گیا کہ احمدیوں نے عیسائیت کی ترقی کو نقصان پہنچایا ہے.غرض ان حالات کی وجہ سے مسلمان، عیسائی اور آریہ تینوں قومیں متحد ہو کر ہمیں مٹانا چاہتی ہیں.پھر ہماری جماعت کی موجودہ مخالفت میں اقتصادی تغیرات کا بھی دخل ہے کیونکہ مالدار طبقہ ہمیشہ غرباء کو لوٹتا رہتا ہے اور ہماری جماعت اس تحریک کے مخالف ہے اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ امراء ہماری جماعت کی مخالفت کرتے ہیں.دو تین مہینے ہوئے کہ ایک انگریز پولیٹیکل ایجنٹ نے ہماری جماعت کے ایک افسر کو کہا کہ فلاں ریاست میں آپ لوگوں کی نکلتا
خطبات محمود ۴۰۱ سال ۱۹۳۴ء کی وجہ یہ سکتا طرف سے تبلیغ ہو رہی ہے مجھ سے وہاں کے وزیر نے شکایت کی کہ ان کی تبلیغ سے خطرات ہیں ہمیں اس کے روکنے کی اجازت دی جائے.تو میں نے لکھا کہ اگر احمدی اچھوتوں میں تبلیغ کریں تو انہیں روک دو ہاں اگر مسلمانوں میں تبلیغ کریں تو اس میں کوئی حرج نہیں اور اس بیان کی کہ اچھوتوں میں تبلیغ کرنے سے زمیندار ناراض ہوتے ہیں کہ ہمارے کاموں کو نقصان پہنچتا ہے.غرض اچھوت قوموں کی ترقی اور سدھار جو ہمارے ذریعہ ہو.ہے، وہ نہ آریوں کے ذریعہ ہو سکتا ہے اور نہ عیسائیوں کے ذریعہ مسلمان ہی وہ قوم ہے جس میں اچھوت جذب ہو کر ایک ہو سکتے ہیں.اس میں شبہ نہیں کہ جب کوئی اچھوتوں میں سے نیا نیا نکل کر آتا ہے تو اس سے تعلقات رکھنے پسند نہیں کئے جاتے مگر آہستہ آہستہ خود ہی مسلمانوں میں جذب ہو جاتے ہیں.جیسے کوئی کھیت میں جائے اور تازہ پاخانہ پڑا ہوا دیکھے تو دو چار دن شلجم کدو کھانے کو اس کا جی نہیں چاہتا مگر دو چار دن کے بعد خود بخود کھانے لگ جاتا ہے.اسی طرح اچھوت دوچار نسلوں میں ہی مسلمانوں میں اس طرح مل جاتے ہیں کہ ان کا کچھ پتہ نہیں لگتا.بہر حال اچھوتوں میں تبلیغ کرنے کی وجہ سے مالدار طبقہ کو ہم پر غصہ آتا ہے.پھر غرباء کی جب ہم ناجائز مدد نہیں کرتے تو انہیں بھی ہم پر غصہ آتا ہے.وہ جب سٹرائکیں کرتے ، کارخانوں کو آگ لگاتے اور بائیکاٹ کی تحریکات جاری کرتے ہیں تو ہم ان کی مخالفت کرتے ہیں اور اس طرح مزدور طبقہ سمجھتا ہے کہ ہم ان کے دشمن ہیں حالانکہ ہم غرباء کو ان کے حقوق دلاتے اور امراء کو دست درازیوں اور تعدیوں سے مجتنب رہنے کی تعلیم دیتے ہیں.ہم یہ نہیں چاہتے کہ امراء غرباء کی تذلیل کریں مگر ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ غرباء امراء کو قتل کریں اور ان پر ناجائز حملے کریں.دونوں ہمارے مخالف ہو جاتے ہیں.پس اقتصادی اصول پر بھی ہماری مخالفت شروع ہو گئی ہے.ان تینوں وجوہات کی بناء پر مذہبی، سیاسی اور اقتصادی رنگ میں ہماری مخالفت کی جاتی ہے.ہم ہر ایک کے دوست اور خیر خواہ ہیں مگر چونکہ دوسرے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم اس حد تک ان کے دوست نہیں جس حد تک وہ چاہتے ہیں، اس لئے وہ ہماری دشمنی کرتے ہیں اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج تمام لوگ ہماری مخالفت کر رہے ہیں.مگر سوال یہ رہ جاتا ہے کہ اب یہ لوگ کیوں زیادہ مخالفت کر رہے ہیں ہماری جماعت تو ابتداء سے انہی اصول کی قائل ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ ہماری اور ان کی مثال بلی اور چوہے کی سی ہے.بلی جب چوہے کو پکڑتی
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ تو ان ہے تو اسے اچھی طرح جھنجوڑتی ہے پھر جب اس کی جان نکلنے کے قریب ہوتی ہے تو وہ اسے چھوڑ دیتی اور خود ایک طرف بیٹھ جاتی ہے.تھوڑی دیر کے بعد جب چوہا سانس لینا شروع کرتا اور اسے کچھ طاقت محسوس ہوتی ہے تو وہ بلی کو دیکھنا شروع کرتا ہے کہ کہیں یہ غافل ہو تو میں بھاگوں بلی بظاہر اس سے غافل ہوتی ہے مگر کنکھیوں سے اسے دیکھتی جاتی ہے.جب چوہا موقع پاکر دوڑنے لگتا ہے تو جھٹ بلی چھلانگ لگا کر اس کی گردن مروڑ لیتی ہے.یہی حال ہمارا اور ان کا تھا شروع شروع میں گو ہماری تعلیم یہی تھی اور ہم انہی عقائد کو پیش کرتے تھے، مگر بڑے بڑے مالدار یہ کہا کرتے تھے کہ ان کے ساتھ بحث کرنا وقت کو ضائع کرنا ہے بھلا کیا پڑی اور کیا پدی کا شوربہ ، ہم جب چاہیں گے انہیں مسل دیں گے، مولوی لوگ سمجھتے کہ الا کے کفر کے فتوے ہماری جماعت کو مٹادیں گے، سیاستدانوں کے سامنے جب ہماری جماعت کا ذکر آتا ہے تو وہ کہتے ہیں یہ چھوٹی سی جماعت ہے، اس نے کیا کر لیتا ہے آپس میں اتحاد رکھنا چاہیے.اقتصادی لوگوں کے سامنے ابھی ہماری تعلیمیں آئی ہی نہ تھیں.غرض ہماری جماعت کو چوہے کی طرح سمجھا جاتا تھا.مگر تھوڑے ہی عرصہ بعد انہیں معلوم ہوا کہ وہ جسے چوہا سمجھتے تھے شیر ہے اور جسے ناقابل التفات سمجھتے تھے وہ جماعت دنیا کو کھانے لگ گئی ہے.وہ بڑے بڑے باوقار لوگ جو اپنی کرسیوں پر اس خیال میں مست بیٹھے تھے کہ ہم جب چاہیں گے احمدیوں کو مسل کر رکھ دیں گے، وہ بھی ہمارے نظام اور جماعت کی ترقی کو دیکھ کر حیران رہ گئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ جماعت شیر ہے جو ایک دن دنیا پر غالب آکر رہے رہے گی.پس لوگ ہمارے دشمن ہیں مگر ہم کسی کے دشمن نہیں، ہم مسلمانوں کے بھی خیر خواہ ہیں اور ہندوؤں کے بھی بلکہ ہندوؤں کے بزرگوں کو سچا تسلیم کر کے مسلمانوں کی نگاہ میں کافر بنتے ہیں، سکھوں کے بھی خیر خواہ ہیں کیونکہ حضرت باوا نانک صاحب کو خدا کا ولی اور نہایت نیک انسان ہیں، حکومت کے بھی خیر خواہ ہیں کیونکہ انارکسٹوں کا مقابلہ کرتے اور قانون کی پابندی ضروری سمجھتے ہیں، کانگرس کے بھی خیر خواہ ہیں کیونکہ ہم ملک کی جائز حد تک آزادی کو ضروری قرار دیتے ہیں ، امراء کے بھی خیر خواہ ہیں کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ سٹرائکیں ہوں اور لوگ انہیں قتل کریں، غریبوں اور مزدوروں کے بھی خیر خواہ ہیں کیونکہ ہم کوشش کرتے ہیں کہ جو ان پر ظلم ہوتے ہوں ان کا ازالہ کیا جائے اور ان کے حقوق انہیں دلوائے جائیں.غرض ہم سب کے خیر خواہ ہیں اور ہمارا قصور اگر ہے تو یہ کہ ہم اتنے خیر خواہ نہیں جتنی مجھتے
خطبات محمود م سال ۱۹۳۴ء خیر خواہی ناجائز ہوتی ہے اور اسی بناء پر سب لوگ ہمارے دشمن ہو گئے ہیں اور اب ہماری ترقی کو دیکھ کر سب جماعتیں پریشان ہو گئی ہیں اور ہمارے تباہ کرنے کیلئے متفق ہو گئی ہیں.یا پھر موجودہ فتنہ کی یہ وجہ ہے کہ اللہ تعالٰی ہماری آزمائش کرنا چاہتا ہے، ہم جو روزانہ اس کے سامنے فخر سے کہتے ہیں کہ اے اللہ ! ہم تجھ پر اور تیرے رسولوں پر ایمان لائے اور اس کیلئے ہم ہر قسم کی قربانیاں کرنے کیلئے تیار ہیں.اس کے مطابق اب خدا تعالی دیکھنا چاہتا ہے کہ ہم حد تک قربانیاں کرتے ہیں اور ہمارے دلوں میں کتنا ایمان ہے.پس ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ اس امتحان میں کامیاب ہونے کی کوشش کرے.اگر ہماری جماعت اس میں کامیابی کیلئے کوشش نہیں کرے گی تو یقیناً وہ خدا کے سامنے جواب دہ ہوگی اور اگر وہ اس میں کامیاب ہو گئی تو پھر خدا تعالیٰ اس کے سامنے اور امتحان لائے گا جس میں اسے کامیاب ہونا پڑے گا کیونکہ خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ جب کوئی قوم ایک امتحان میں کامیاب ہو جائے تو دوسرا امتحان اس کے سامنے پیش کردیا جاتا ہے.بڑی ڈگریاں حاصل کرنے کیلئے ہمیشہ پہلے چھوٹے امتحان پاس کرنے پڑتے ہیں.یہ پرائمری کا امتحان ہے جو تم نے پاس کرنا ہے اگر اس میں کامیاب ہو گئے تو پھر مڈل اور انٹرنس اور ایف اے اور بی اے وغیرہ کا امتحان دینا ہو گا.پس اگر تم ایم اے بننا چاہتے ہو تو نیچے کے امتحان پاس کرو اور اپنی جانوں اور اپنے مالوں کو قربانی کرنے کیلئے تیار ہو جاؤ اور حوادث کے سمندر میں یہ کہتے ہوئے گود جاؤ هرچه بادا باد ما کشتی در آب انداختیم اور یاد رکھو کہ ان امتحانوں کا پاس کرنا ذلت نہیں بلکہ ان میں سے نکلنے کے بعد ہر شخص کندن بنتا چلا جاتا ہے..سکیم کی اہمیت بتانے پر ہی میں آج کے خطبہ کو ختم کرتا ہوں اور سکیم کا حصہ اگلے جمعہ ملتوی کرتا ہوں کیونکہ میں نے جو نوٹ لکھے ہیں ان میں میں ابھی تک کوئی ترتیب قائم نہیں کر سکا.اس سکیم کے بیان کرنے میں جتنی دیر ہوتی چلی جارہی ہے اس سے ان لوگوں کے استقلال کا امتحان ہوتا جارہا ہے جنہوں نے قربانی کیلئے اپنا نام پیش کیا، ان پولیس والوں کے صبر کا بھی امتحان ہو رہا ہے جو میرا خطبہ لکھنے کیلئے آجاتے ہیں، گورنمنٹ کے صبر کا امتحان بھی ہو رہا ہے کیونکہ وہ منتظر ہے کہ میں کیا کہتا ہوں.پس اس وقت سب کے صبر کا امتحان ہو رہا ہے بقیہ باتیں میں اِنْشَاءَ اللہ اگلے خطبہ جمعہ میں بیان کروں گا مگر مضمون کا پہلا حصہ
خطبات محمود ۴۰۴ سال ۱۹۳۴ء چونکہ عورتوں سے خصوصیت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.اس لئے میں اعلان کرتا ہوں کہ اس دن عورتیں کثرت سے آئیں مسجد کے پاس کے دفتر کے حصے بھی ان کیلئے خالی کر دینے چاہئیں.اور گو ان کی چھتیں کمزور ہیں (اگرچہ دفتر کی چھتیں کمزور نہیں ہونی چاہئیں) مگر پھر بھی سو ڈیڑھ سو عورتیں اوپر بیٹھ سکتی ہیں.بہر حال عورتوں کا آنا ضروری ہے کیونکہ سکیم کا ابتدائی سے عورتوں کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور اگر وہ شامل نہ ہوں تو مضمون کا بہت سازور ضائع ہو جاتا ہے.اگلے جمعہ بھی دوستوں کو بارہ بجے پہنچ جانے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ خطبہ ساڑھے بارہ بجے شروع کیا جاسکے.خصوصیت (الفضل ۲۲- نومبر ۱۹۳۴ء) ه السيرة الحلبية الجزء الثالث صفحه ۱۲۴-۱۲۵ مطبعة محمد على صبيح الازهر مصر ۱۹۳۵ء له بخاری کتاب المناقب باب مناقب الانصار و باب قول النبي ال للانصار اصبر واحتى تلقوني على الحوض
خطبات محمود ۴۰۵ ۳۷ مخلصین جماعت احمدیہ سے جانی اور مالی قربانیوں کے مطالبات فرموده ۲۳ - نومبر ۱۹۳۴ء) سال ۱۹۳۴ء تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں نے گزشتہ جمعہ میں اس آئندہ تجویز کے متعلق اور اس لائحہ عمل کے متعلق جو میں جماعت کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں تمہیدی طور پر ایک بات بیان کی تھی.اب میں اسی تمہید کے سلسلہ میں ایک اور بات بیان کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ دنیا میں بعض باتیں انسان کو مجبوراً اپنے مخالفوں سے چھپانی پڑتی ہیں.وہ اپنی ذات میں قبری نہیں ہوتیں.اس فعل کے معاً بعد اگر ان کو ظاہر کر دیا جائے تو دنیا کا کوئی شخص اعتراض نہیں کر سکتا لیکن جس وقت ان پر عمل کیا جارہا ہو ، اگر مخالف کو اس کا علم ہو جائے تو انسان کے لئے کامیابی مشکل ہو جاتی ہے.مثلاً ایک فوج ایک شہر پر حملہ کرتی ہے ایک مظلوم قوم کی فوج جو ظالم کے دفاع کیلئے بلکہ اس قلعہ کے فتح کرنے کے لئے آگے بڑھتی ہے جو اس کا اپنا تھا تو یہ نہ صرف اچھی بات بلکہ ثواب کا موجب ہے لیکن اگر یہ لوگ دشمن کی فوج کو یہ کہلا بھیجیں کہ ہم فلاں درہ سے داخل ہوں گے، اتنے سپاہی، اتنی بندوقیں ، اتنی تو ہیں ہمارے ساتھ ہوں گی، ہمارے لڑنے کا طریق یہ ہوگا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ دشمن ان کے پہنچنے سے پہلے ہی ان کا توڑ سوچ لے گا اور آسانی سے ان کے حملہ کو رد کردے گا.پس گو اس قسم کا حملہ نیک کام ہے اور ثواب کا موجب ہے مگر اس کے اظہار کی
خطبات محمود ۴۰۶ سال ۱۹۳۴ء ا جرأت کوئی نہیں کرے گا اور سوائے کسی بیوقوف کے کوئی اس کی تفاصیل کو ظاہر کرنے کیلئے تیار نہ ہوگا.اس طرح اگر ہم تبلیغ کیلئے کوئی جگہ مچن لیں یا کوئی طریق تبلیغ تجویز کریں اور اس کا اعلان بھی کر دیں.تو اس کا لازمی یہ نتیجہ ہو گا کہ مخالف بھی اپنا سارا زور اس تجویز کو ناکام بنانے میں صرف کردے گا اور اس طرح بالکل ممکن ہے کہ ہماری تجویز بہت حد تک نامکمل رہے.پس جس طرح ایک ہوشیار جرنیل کا کام ہے کہ دشمن کی طاقتوں کو خاص طرف لگائے رکھے اور اپنی طاقتوں کو دوسری طرف خرچ کرے تاکہ زیادہ سے زیادہ کامیابی حاصل کرسکے.اسی طرح تبلیغی منتظم کا فرض ہے کہ مخالف پروپیگنڈا کو ایسی جہت پر لگائے رکھے کہ تبلیغ کے کام کو نقصان نہ پہنچے اور مخالف فریق کو اصل کام کی حقیقت کا علم نہ ہو اور اس طرح دشمن کو اس سے غافل رکھ کر کامیابی حاصل کرے.پس ان حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے میری کے بعض حصے ایسے ہیں کہ میں انہیں تفصیلاً بیان نہیں کروں گا کیونکہ اگر انہیں بیان کردوں تو نتیجہ اتنا اہم اور شاندار نہیں نکل سکتا جتنا بعض تفاصیل کو نظرانداز کرنے کی صورت میں نکل سکتا ہے.مجھے یہ بات اس لئے وضاحت سے بیان کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے کہ قرآن کریم میں خفیہ انجمنیں بنانے اور پوشیدہ کارروائیاں کرنے کی ممانعت ہے اور میں نے اس لئے یہ بات کھول کر بیان کی ہے کہ دونوں میں فرق معلوم ہو سکے.اگر کوئی خفیہ انجمن کسی کو مارنے یا قتل کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو یہ ایسا فعل نہیں کہ کسی وقت بھی اگر اس کو ظاہر کیا جائے تو لوگ کہیں کہ یہ بہت اچھا فیصلہ ہے.کوئی ایسی خفیہ کارروائی جو کسی کو قتل کرنے یا اس کے گھر کو یا کھلیان کو آگ لگانے کے متعلق ہو جب بھی ظاہر ہوگی ہر شخص یہی کہے گا کہ یہ بہت بُرا فعل ہے لیکن میں جو بات کہتا ہوں وہ ایسی نہیں.میں علی الاعلان کہتا ہوں کہ ہم تبلیغی کام کریں گے ہاں اس میں ایک حد تک اخفاء ہوگا.یعنی محاذ جنگ کی یا ذرائع تبلیغ کی خبر دشمن کو نہیں دیں گے.وہ تبلیغ ہوگی جو جائز فعل ہے.فرق صرف یہ ہوگا کہ ذرائع تبلیغ اور مقام کو پوشیدہ رکھیں گے اور اس طرح تبلیغ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کریں گے لیکن اس ساری سکیم میں کوئی دھوکے کا عصر موجود نہ ہوگا.پس ایسی تحریکات میں جو میں کروں گا مؤمنین کو ایک حد تک ایمان بالغیب لانا پڑے گا اور یہ بھی ان کے ایمان کی ایک آزمائش ہوگی.قرآن کریم کی پہلی سورۃ میں ہی جو مقدمہ یا دیباچہ کے بعد ہے یعنی سورۃ بقرہ اس کی
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء ابتداء میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.الم - ذلِكَ الْكِتُبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَیبِ ہے - تو مومن کو کچھ ایمان بالغیب بھی چاہیئے.رسول کریم ﷺ صحابہ کو بدر کے موقع پر مدینہ سے نکال کر لے گئے مگر خدا تعالٰی سے علم پانے کے باوجود ان کو یہ نہیں جتایا کہ لڑائی یقیناً ہونے والی ہے.بدر کے قریب پہنچ کر ان کو جمع کیا اور اس وقت بتایا کہ میں نے کہا تھا اللہ تعالی کی طرف سے وعدہ ہے کہ دو میں سے ایک چیز ضرور مل کر رہے گی.یا تو وہ قافلہ جو شام سے آنے والا ہے اور یا دوسرا فریق جو دھمکی دینے والا ہے مل جائے گا.اب میں تم کو بتاتا ہوں کہ ان دو فریق میں سے اللہ تعالیٰ نے جنگ کو ہی چنا ہے.صحابہ بوجہ پورا علم نہ ہونے کے تیاری کر کے نہیں آئے تھے اور بہت سے تو گھروں سے ہی نہ آئے تھے اور بظاہر حالت مسلمانوں کو کمزور کرنے والی تھی.مگر مصلحت یہی تھی کہ سارے حالات ظاہر نہ کئے جائیں.ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ رسول کریم ﷺ کو تفاصیل مدینہ میں ہی معلوم تھیں یا مدینہ سے باہر نکلنے کے بعد اللہ تعالٰی نے بتائیں مگر بہر حال قرآن کریم اور حدیث سے یہ ثابت ہے.کہ کچھ عرصہ تک اس علم کو اخفاء میں رکھا گیا اس لئے عین موقع پر چونکہ لوگ تیار نہ تھے آپ نے دریافت فرمایا کہ اب بتاؤ کیا منشاء ہے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر صحابہ لڑائی نہ کرنے کا مشورہ دیتے تو رسول کریم اللہ بھی نہ کرتے.خدا تعالیٰ کے سامنے صرف آپ ہی جواب وہ تھے اس لئے اگر صحابہ لڑائی نہ کرنے کا مشورہ دیتے تو آپ پھر بھی جنگ کرتے، اور کہتے کہ مجھے خدا تعالی کا حکم ہے، اس لئے میں اکیلا جاتا ہوں.آپ کے پوچھنے کا مطلب صرف صحابہ کو ثواب میں شامل کرنا تھا.غرض آپ نے مشورہ پوچھا اور اس پر مہاجرین کھڑے ہوئے اور کہا یا رسول اللہ ! ہم جنگ کیلئے حاضر ہیں.مگر اس کے باوجود آپ نے پھر دوبارہ پوچھا کہ اے دوستو! مشورہ دو کیا کرنا چاہیے.پھر مہاجرین نے کہا یا رسول اللہ ! ہم تیار ہیں.مگر آپ نے سه باره فرمایا دوستو! مشورہ دو کیا کرنا چاہیئے.تب ایک انصاری کھڑے ہوئے اور کہا یا رسول اللہ ! آپ کی بات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی مراد ہم سے ہے.ہم نے سمجھا تھا کہ جو مشورہ دیا گیا ہے وہ ہم سب کی طرف سے ہے مگر آپ کا منشاء یہ معلوم ہوتا ہے کہ انصار جواب دیں.آپ نے فرمایا ہاں میرا یہی منشاء ہے.تب اس صحابی نے کہا یا رسول اللہ ! شاید آپ کو اس معاہدہ کا خیال ہے جو آپ کو مدینہ میں بلانے کے وقت کیا گیا تھا.نومسلمین نے جب رسول کریم ﷺ کو مدینہ آنے کی تحریک کی تو حضرت عباس بھی اللہ نے رسول کریم اے
خطبات محمود ۴۰۸ سال ۱۹۳۴ء..طرف سے ان لوگوں سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ اگر دشمن رسول کریم ﷺ کو نقصان پہنچانے یا ڑنے کیلئے مدینہ پر حملہ کریں گے تو مدینہ کے لوگ اپنی ہر چیز قربان کرکے آپ کی حفاظت کریں گے ، لیکن اگر مدینہ سے باہر جنگ ہو تو وہ ذمہ وار نہیں ہوں گے.اس صحابی کا اسی معاہدہ کی طرف اشارہ تھا.یا رسول اللہ ! وہ وہ وقت تھا جب ہمیں اسلام کی پوری طرح خبر نہ تھی اور اب اس پیغام کی اہمیت کا ہمیں علم ہوچکا ہے کیا اب بھی ہم کسی قربانی سے دریغ کر سکتے ہیں.کچھ منزلوں پر سمندر تھا اس جہت کی طرف اشارہ کر کے کہا یا رسول اللہ ! آپ ہمیں اس سمندر میں گھوڑے ڈالنے کا حکم دیجئے ہم کسی چون و چرا کے بغیر سمندر میں کود پڑیں گے اور اگر جنگ ہوئی تو ہم آپ کے آگے لڑیں گے اور پیچھے لڑیں گے، دائیں لڑیں گے اور بائیں لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکے گا جب تک ہماری لاشوں کو کچل کر نہ جائے ہے.تب رسول کریم ﷺ نے فرمایا بہت اچھا خدا کا یہی حکم تھا.اس صحابی کا جواب اتنا پیارا ہے کہ ایک اور صحابی جو رسول کریم ال کے ساتھ بہت سی جنگوں میں شامل ہوئے حسرت کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ کاش مجھے ان جنگوں میں شامل ہونے کی سعادت حاصل نہ ہوئی ہوتی اور یہ الفاظ میرے منہ سے.نکلے ہوتے ہے.یہ الفاظ ایسے موقع پر اور اس خاص حالت میں جبکہ رسول کریم الله و انصار سے مشورہ لے رہے تھے اور اس خیال کے ماتحت لے رہے تھے کہ وہ مدینہ سے باہر جنگ کرنے کے پابند نہیں اس جوش اور محبت میں کیے گئے تھے کہ رسول کریم اے کے ساتھ جنگوں میں شامل ہونے کی سعادت سے بھی زیادہ قیمتی معلوم ہوتے ہیں اس لئے نہیں کہ الفاظ جنگ سے افضل ہیں یا زیادہ درجہ کھتے ہیں بلکہ اس لئے کہ ان الفاظ میں جس محبت کا اظہار ہے وہ ایک بے پایاں سمندر کی طرح حدوبست سے آزاد معلوم ہوتی ہے.غرض ایسے مواقع پر رسول کریم ال اخفاء سے کام لیتے تھے مگر ایسے حالات میں کہ مطلب کے حصول کیلئے اظہار مضر ہوتا.پس ایسا اخفاء ناجائز نہیں.ہاں جو اخفاء اس لئے کیا ہے کہ فعل قانونا یا اخلاقا یا مذہباً جرم ہے اور اس لئے کیا جاتا ہے کہ تا اس فعل کا مرتکب قانونی یا مذہبی یا اخلاقی جُرم کا مرتکب نہ قرار دیا جائے، وہ ناجائز ہے لیکن جو چیز سراسر جائز ہے، اس میں مطلب براری اور کامیابی کیلئے ایک حد تک اخفاء جائز ہے.پس بعض باتوں کے متعلق دوستوں کو صرف مجملاً ہدایت سن کر اس پر قربانی کیلئے اپنے آپ کو پیش کرنا ہو گا.
سال ۱۹۳۴ء خطبات محمود ۴۰۹ تبلیغ یہی وجہ ہے کہ میں نے سکیم کو لازمی قرار نہیں دیا کیونکہ اس کے بعض حصے ایسے ہیں کہ جن کو تفصیلاً بیان نہیں کیا جائے گا اور میں مخلصین سے مطالبہ کروں گا کہ اس اخفاء کے باوجود جو اپنے آپ کو قربانی کیلئے پیش کر سکتا ہے کرے اور جو نہیں کرنا چاہتا نہ کرے اور اس طرح میں کسی کیلئے ادنی اعتراض کی بھی گنجائش نہیں رہنے دینا چاہتا.چاہے ایک شخص بھی اس میں شامل نہ ہو، میں اللہ تعالیٰ کے سامنے صرف اپنی ذات کا ذمہ دار ہوں.میرا کام " کرنا تربیت کرنا، فرائض کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنا اور ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کے احکام کو رکھ دینا ہے.مجھ پر ذمہ داری صرف میری جان کی ہے میں اس کا ذمہ دار ضرور ہوں کہ اللہ تعالی کی آواز کو پہنچا دوں.اس صورت میں اگر اللہ تعالیٰ مجھ سے سوال کرے تو میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اپنا فرض ادا کر دیا.پس دوسروں کے کام کی ذمہ داری مجھ پر نہیں.اور مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ سکیم کامیاب ہوتی ہے یا نہیں.میرا کام صرف یہ ہے کہ جب دیکھوں کہ اسلام یا سلسلہ کی تبلیغ میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے یا وقار کو نقصان پہنچ رہا ہے تو اس کے ازالہ کیلئے قدم اٹھاؤں، قطع نظر اس سے کہ کوئی میرے ساتھ شامل ہوتا ہے یا نہیں.تیسری بات جو تمہیدی طور پر میں کہنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ کوئی بڑی قربانی نہیں کی جاسکتی جب تک اس کیلئے ماحول نہ پیدا کیا جائے.اچھا پیج ایسی جگہ جہاں وہ آگ نہیں سکتا یا ایسے موسم میں جب وہ پیدا نہیں ہوتا کوئی فائدہ نہیں دے سکتا اور اسے اُگانے کی کوشش کا نتیجہ یہ ہوگا کہ محنت ضائع جائے گی کیونکہ اس زمین میں یا اس موسم یا ان حالات میں وہ آگ ہی نہیں سکتا.پس کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ ماحول ٹھیک ہو اور گرد و پیش کے حالات موافق ہوں اگر گرد و پیش کے حالات موافق نہ ہوں تو کامیابی نہیں ہو سکتی.اس نکتہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت سے لوگ نیکی سے محروم رہ جاتے ہیں ان کے اندر نیکی کرنے کا مادہ بھی موجود ہوتا ہے اور جذبہ بھی مگر وہ ایسا ماحول نہیں پیدا کر سکتے جس کے ماتحت صحیح قربانی کر سکیں.پس ماحول کا خاص طور پر خیال رکھنا ضروری ہے.میرے ایک بچہ نے ایک دفعہ ایک جائز امر کی خواہش کی تو میں نے اسے لکھا کہ یہ بے شک جائز ہے مگر تم یہ سمجھ لو کہ تم نے خدمت دین کیلئے زندگی وقف کی ہوئی ہے اور تم نے دین کی خدمت کا کام کرنا ہے اور یہ امر تمہارے لئے اتنا بوجھ ہو جائے گا کہ تم دین کی خدمت کے رستہ میں اسے نباہ نہیں سکو گے اور تمہارے رستہ میں مشکل پیدا کردے گا.تو میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے لوگ نیکیوں سے
خطبات محمود اس ۱۰ سیال ۱۹۳۴ء لئے محروم رہ جاتے ہیں کہ وہ ماحول پیدا نہیں کرسکتے.وہ صرف یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے جب کہا کہ قربانی کریں گے تو کرلیں گے حالانکہ یہ صحیح نہیں.ماحول کی ایک مثال میں پیش کرتا ہوں.ایک شخص کی آمدنی دس روپے ہے وہ پانچ روپے میں گزارہ کرتا ہے اور پانچ روپے کی قربانی کر سکتا ہے لیکن اگر وہ شادی کرے تو دس روپے ہی صرف ہو جائیں گے.اس صورت میں ممکن ہے وہ ایک آدھ روپیہ تو بچا سکے مگر یہ نہیں کہ پانچ کی ہی قربانی کر سکے.پس قربانی حالات کے مطابق ہوتی ہے.جب قربانی کیلئے چیز ہی پاس نہ ہو تو قربانی کہاں سے دے گا.اسلام نے یہ جائز نہیں رکھا کہ انسان شادی نہ کرے یا اولاد پیدا نہ کرے یہ میں نے مثال دی ہے کہ انسان کی جتنی ذمہ داریاں زیادہ ہوں گی ، اتنی ہی مالی قربانی وہ کم کر سکے گا.پس آپ لوگ کتنے بھی ارادے قربانی کے کریں جب تک ماحول میں تغیر نہ ہو، انہیں پورا نہیں کرسکتے.مجھے ہزار ہا لوگوں نے لکھا ہے کہ ہم قربانی کیلئے تیار ہیں اور جنہوں نے نہیں لکھا وہ بھی اس انتظار میں ہیں کہ سکیم شائع ہولے تو ہم بھی شامل ہو جائیں گے.مگر میں بتاتا ہوں کہ کوئی قربانی کام نہیں دے سکتی جب تک اس کیلئے ماحول پیدا نہ کیا جائے.یہ کہنا آسان ہے کہ ہمارا مال سلسلہ کا ہے مگر جب ہر شخص کو کچھ روپیہ کھانے پر اور کچھ لباس پر اور کچھ مکان کی حفاظت یا کرایہ پر کچھ علاج پر خرچ کرنا پڑتا ہے اور پھر اس کے پاس کچھ نہیں بچتا تو اس صورت میں اس کا یہ کہنا کیا معنی رکھتا ہے کہ میرا سب مال حاضر ہے.اس قسم کی قربانی نہ قربانی پیش کرنے والے کو کوئی نفع دے سکتی ہے اور نہ سلسلہ کو ہی اس سے فائدہ پہنچ سکتا ہے.سلسلہ اس کے ان الفاظ کو کہ میرا سب مال حاضر ہے کیا کر.جبکہ سارے مال کے معنی صفر کے ہیں.جس شخص کی آمد سو روپیہ اور خرچ بھی سو روپیہ ہے، وہ اس قربانی سے سلسلہ کو کوئی نفع نہیں پہنچا سکتا.جب تک کہ پہلے خرچ کو سو سے نوے پر نہیں لے آتا تب بیشک اس کی قربانی کے معنی دس فیصدی قربانی کے ہوں گے.اس قسم کے دعوے کر دینا صرف یہ ثابت کرتا ہے کہ کہنے والا بے سوچے سمجھے بات کرنے کا عادی ہے.وہ پیش تو سب مال کرتا ہے لیکن یہ غور نہیں کرتا کہ اس کے پاس تو مال ہے ہی نہیں.ایک شخص کی اگر ایک پیسہ کی بھی جائداد نہ ہو اور وہ یہ کہے کہ میری ساری جائداد حاضر ہے تو اس سے اسلام کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے.بعض لوگ غلطی سے ایسی بات پیش تو کر دیتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ وہ کس حد تک قربانی کر سکتے ہیں.پس دیکھنے والی بات یہی ہے کہ قربانی کیلئے
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء اپنے آپ کو پیش کرنے والے کس حد تک قربانی کر سکتے ہیں یا کس حد تک اپنے حالات میں تبدیلی کرسکتے ہیں.غرض جو شخص بغیر حالات کے تغیر کے کہتا ہے کہ میرا سب مال حاضر ہے.اگر تو وہ اس بات کو سمجھتے ہوئے کہ میرے پاس تو دینے کو کچھ بھی نہیں، ایسا دعویٰ کرتا ہے تو وہ منافق بیوقوف ہے.لیکن اگر وہ بغیر غور کئے اخلاص کے جوش میں یہ دعویٰ کرتا ہے تو وہ مخلص بیوقوف ہے.اگر عظمند ہوتا تو اسے سوچنا چاہیئے تھا کہ اس کے مال کا کونسا حصہ ہے جس کی وہ قربانی پیش کرتا ہے.جب تک وہ اپنے خرچ کو سو سے کم کر کے پچانوے نوے یا ساٹھ ستر پر نہیں لے آتا وہ قربانی کر ہی کیا سکتا ہے.قربانی تو اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ ایسا شخص اپنے اخراجات کو کم کرے اور پھر کہے کہ میں نے اپنے اخراجات میں یہ تغیرات کئے ہیں اور ان سے یہ بچت ہوتی ہے جو آپ لے لیں.پس ضروری ہے کہ قربانی کرنے سے پیشتر اس کیلئے ماحول پیدا کیا جائے اس کے بغیر قربانی کا دعویٰ کرنا ایک نادانی کا دعوی ہے یا منافقت.یاد رکھو کہ یہ ماحول اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتا جب تک عورتیں اور بچے ہمارے ساتھ نہ ہوں.مرد اپنی جانوں پر عام طور پر پانچ دس فیصدی خرچ کرتے ہیں سوائے ان عیاش مردوں کے جو عیاشی کرنے کیلئے زیادہ خرچ کرتے ہیں ورنہ کنبہ دار مرد عام طور پر اپنی ذات پر پانچ دس فیصدی سے زیادہ خرچ نہیں کرتے اور باقی نوے پچانوے فیصدی عورتوں اور بچوں پر خرچ ہوتا ہے اس لئے بھی کہ ان کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور اس لئے بھی کہ ان کے آرام ا کا مرد زیادہ خیال رکھتے ہیں.پس ان حالات میں مرد جو پہلے ہی پانچ یا دس یا زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس فیصدی اپنے اوپر خرچ کرتے ہیں اور جن کی آمدنی کا اسی نوے فیصدی عورتوں اور بچوں پر خرچ ہوتا ہے اگر قربانی کرنا بھی چاہیں تو کیا کرسکتے ہیں جب تک عورتیں اور بچے ساتھ نہ دیں اور جب تک وہ یہ نہ کہیں کہ ہم ایسا ماحول پیدا کر دیتے ہیں کہ مرد قربانی کردیتے پس تیسری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ قربانی کیلئے پہلے ماحول پیدا کیا جائے اور ہمیں اپنے بیوی بچوں سے پوچھنا چاہیے کہ وہ ہمارا ساتھ دیں گے یا نہیں.اگر وہ ہمارے ساتھ قربانی کیلئے تیار نہیں ہیں تو قربانی کی گنجائش بہت کم ہے.مالی قربانی کی طرح جانی قربانی کا بھی یہی حال ہے.جسم کو تکلیف پہنچانا کس طرح ہو سکتا ہے جب تک اس کیلئے عادت نہ ڈالی جائے.جو مائیں اپنے بچوں کو وقت پر نہیں جگاتیں، وقت پر پڑھنے کیلئے نہیں بھیجتیں، کرتے اس
خطبات محمود اور سال ۶۱۹۳۴ وہ ان کے کھانے پینے میں ایسی احتیاط نہیں کرتیں کہ وہ آرام طلب اور عیاش نہ ہو جائیں قربانی کیا کر سکتے ہیں.عادتیں جو بچپن میں پیدا ہو جائیں وہ نہیں چھوٹتیں.اس میں شک نہیں کہ وہ بہت بڑے ایمان سے دب جاتی ہیں مگر جب ایمان میں ذرا بھی کمی آئے پھر عود کر آتی ہیں.پس جانی قربانی بھی اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک عورتیں اور بچے ہمارے ساتھ متحد نہ ہوں.جب تک مائیں متحد نہیں ہوں گی تو وہ روز ایسے کام کریں گی جن سے بچوں میں سستی غفلت پیدا ہو.پس جب تک مناسب ماحول پیدا نہ ہو کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا.ہماری مالی قربانی سوائے کمزوروں کے موجودہ ماحول کے لحاظ سے انتہائی حد تک پہنچی ہوئی ہے اور جب تک ماحول تبدیل نہ ہو اور بیوی بچوں کو ساتھ شامل نہ کیا جائے اس وقت تک مزید قربانیوں کا دعوئی پورا نہیں ہو سکتا.موجود حالات کے لحاظ سے اگر کوئی زیادہ سے زیادہ قربانی کرے گا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ مقروض ہو جائے گا اور تھوڑے ہی عرصہ میں اس کا اثر اس کی جائداد پر پڑے گا اور اس طرح جتنی قربانی وہ پہلے کرتا تھا وہ بھی کرنے کے قابل نہیں رہے گا.ایسی قربانی کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی ایک ہاتھ والا انسان ایک طرف سے ہاتھ کاٹ کر دوسری طرف لگانا چاہے.دوسری طرف ہاتھ تو کیا لگے گا دوسرا ہاتھ بھی وہ کھو بیٹھے گا.پس اگر ماحول کے بغیر قربانی کی جائے تو قربانی کرنے والا یقیناً مقروض ہو جائے گا اور اس کی جائداد پر اثر پڑ کر اور کم ہو جائے گی اور اس طرح یہ قربانی سلسلہ کیلئے مفید ہونے کی بجائے مضر ہوگی.مزید قربانیوں کیلئے ماحول پیدا کرنے کے واسطے ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ ہمارا روپیہ خرچ کہاں ہوتا ہے.جو پیسہ ہم خرچ کرتے ہیں، اس میں سے ایک حصہ جائداد کی حفاظت کیلئے بھی صرف ہوتا ہے، تجارت اور زمینداری کی مضبوطی کیلئے بھی ہوتا ہے، صدقات اور چندوں پر بھی خرچ ہوتا ہے اور یہ سب خرچ مال کو کم کرنے کا نہیں بلکہ بڑھانے کا ذریعہ ہیں.پس ان اخراجات کو چھوڑ کر جب ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا باقی آمد کن کن مدات میں خرچ کرتی ہے تو اس کی موٹی موٹی آٹھ مرات معلوم ہوتی ہیں.اول غذاء ہر انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے ہر شخص کھانا کھانے پر مجبور ہے اللہ تعالٰی نے انسان کو پیدا ہی ایسا کیا ہے اور کھانے پینے کا حکم دیا ہے.جو شخص نہ کھائے گا وہ سلسلہ کو فائدہ نہیں پہنچا سکتا بلکہ مرجائے گا اس لئے یہ خرچ بہرحال قائم رہنا ہے.دوسرے لباس کا خرچ ہے.اس کے متعلق بھی خدا تعالی کا حکم ہے کہ لباس پہنو اور
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء ننگے نہ رہو.تیسرے عورتوں کے زیورات پر خرچ ہوتا ہے یہ ضروری نہیں مگر ساری دنیا میں ہو رہا ہے.چوتھے بیماریوں کے علاج وغیرہ پر خرچ ہوتا ہے اور یہ بھی قریباً ہر شخص کو کرنا پڑتا ہے.شاید ہی کوئی ایسا آدمی ہو جو کبھی بیمار نہ ہوا ہو وگرنہ ہر شخص بیمار بھی ہوتا ہے اور و چنده که ان ڈاکٹروں کی فیسوں اور دوائیوں وغیرہ کا خرچ کرنا پڑتا ہے.پانچویں آج کل بڑا خرچ تماشوں وغیرہ پر ہوتا ہے اور یہ خرچ شہروں وغیرہ میں خصوصیت سے زیادہ ہوتا ہے.طالب علم ہفتہ میں ایک دو بار ضرور سینما دیکھتے ہیں اور ایک کافی تعداد ان کی دو روپیہ ماہوار کے قریب اس پر ضرور خرچ کر دیتی ہے حالانکہ آٹھ آنے ماہوار بھی نہیں دے سکتے.تھیٹر، سرکس اور دوسرے تماشے وغیرہ اتنے ہیں کا گننا بھی مشکل ہے.پھر بعض دفعہ کرکٹ اور فٹبال وغیرہ کے میچ ہوتے ہیں ان پر بھی ٹکٹ ہوتا ہے پھر گھوڑ دوڑیں ہیں.ہمارے ملک میں گو اس کا رواج کم ہے مگر پھر بھی یہ ایک خرچ ہے.غرض تماشوں کا خرچ بھی آج کل کافی ہو جاتا ہے.لاہور میں سترہ اٹھارہ سینما ہیں.روزانہ دو کھیل ہوتے ہیں اور اس طرح ۳۵-۳۶ سمجھو.اگر فی شو دو سو آدمی بھی سمجھا جائے گو اس سے زیادہ ہوتے ہیں تب بھی سات ہزار نے روزانہ تماشا دیکھا اور ٹکٹ کی قیمت اگر ایک روپیہ بھی اوسط رکھ لی جائے تو گویا سات ہزار روپیہ روزانہ سینما پر خرچ ہوتا ہے.یہ اندازہ میرے نزدیک بہت کم کر کے لگایا گیا ہے مگر اس کے مطابق بھی سوا دو لاکھ روپیہ ماہوار اور پچیس لاکھ روپیہ سالانہ سینما پر خرچ ہوتا ہے.دوسرے تماشے وغیرہ بھی شامل کرلئے جائیں تو ان اخراجات کا اندازہ پچاس لاکھ بھی کم ہے.یہ رقم صرف لاہور کی ہے اور پنجاب بھر میں ڈیڑھ دو کروڑ روپیہ سے کم خرچ نہ بنے گا.اگر دیہات کی کھیلیں بھی شامل کرلی جائیں تو چونکہ دیہاتی آبادی زیادہ ہوتی ہے پنجاب میں یہ خرچ تین کروڑ کے قریب پہنچ جاتا ہے اور یورپ میں تو یہ خرچ بہت ہی زیادہ ہے.انگلستان کی آبادی چار کروڑ ہے مگر اندازہ کیا گیا ہے کہ ایک سال میں وہاں سینما پر چار کروڑ پاؤنڈ خرچ ہوا.اگر اس کے ساتھ دوسرے تماشوں اور گھوڑ دوڑوں وغیرہ کو شامل کرلیا جائے تو خرچ اس سے دوگنے سے کم نہ ہوگا.گویا اندازہ ایک ارب بیس کروڑ روپیہ.یا تیس روپیہ فی کس سالانہ یا اڑھائی روپیہ فی کس ماہوار اور
خطبات محمود ۴۱۴ سال ۱۹۳۴ء ہمارے ملک میں اوسط تین پیسے فی کس روزانہ آمد ہے.یعنی ڈیڑھ روپیہ فی کس ماہوار - جس میں سے تمام اخراجات پورے کرنے ہوتے ہیں.مگر انگلستان میں اڑھائی روپیہ فی کس ہر مہینہ میں تماشوں پر خرچ ہوتا ہے.اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کتنا بڑا خرچ ہے اور یہ آمدنی پر بہت بڑا بوجھ ہے.چھٹا خرچ شادی بیاہ کا ہے.اس میں بھی بڑا خرچ ہوتا ہے.یہاں قادیان میں میں نے دیکھا ہے کہ ولیمہ کا مرض بہت ترقی کرتا جاتا ہے.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بھی ولیمہ کی دعوتیں ہوتی تھیں مگر بہت محدود رسول کریم ال کے زمانہ میں بڑے سے بڑا ولیمہ بھی اتنا نہیں ہوا ہوگا جتنے ہمارے ہاں چھوٹے ہوتے ہیں.اور وہ اس میں شاید میری نقل کرتے ہیں حالانکہ میرے تعلقات ساری جماعت کے ساتھ باپ بیٹے کے سے ہیں اور ایسے پر ہر خاندان کے ساتھ مجھے محبت کا تعلق ظاہر کرنا پڑتا ہے.میں نے دیکھا ہے کہ اس قدر کثرت کے ساتھ لوگوں کو بلا لینے کے باوجود بھی مجھ پر شکوہ ہوتا ہے کہ ہمیں نہیں بلایا گیا.اور اب تو مجھے بھی یہ تعداد تھوڑی کرنی پڑے گی.پس اگر کمپنیوں اور ڈوموں کا مرض گیا ہے تو اس کی جگہ ولیموں نے لے لی ہے حالانکہ ولیمہ پر دس پندرہ دوستوں کو بلالینا کافی ہوتا ہے.یا جیسا کہ سنت ہے ایک بکرا ذبح کیا شوربا پکایا اور خاندان کے لوگوں میں بانٹ دیا.پھر میں نے دیکھا ہے کہ اب تک یہ مرض بھی چلا جارہا ہے کہ لڑکی والے یہ پوچھتے ہیں، زیور کیا دوگے اور ایسا کہتے ہوئے انہیں شرم نہیں آتی.کوئی شخص اپنی طرف سے جس قدر چاہے لیکن لڑکی والوں کی طرف سے ایسی بات کا کہا جاتا لڑکی کو فروخت کرنے کے مترادف ہے.پھر مہر بھی حد سے زیادہ مقرر کئے جاتے ہیں.ہمارے گھروں میں عام طور پر ایک ہزار روپیہ مہر ہوتا ہے بعض زیادہ بھی ہیں.زیادہ ان حالتوں میں ہیں جن میں عورتوں کو شرعی نہیں مل سکتا وہاں مہر اتنا ہے کہ وہ کمی پوری ہو جائے مگر یہاں میں نے دیکھا ہے کہ معمولی معمولی آدمی دس دس اور پانچ پانچ ہزار مہر مقرر کرتے ہیں حالانکہ ان کی جائدادیں اور آمدنیاں بہت ہی کم ہوتی ہیں.باہر سے ایک دوست نے مجھے خط لکھا کہ قادیان کے ایک آدمی نے مجھے کہا ہے کہ آپ کے گھروں میں دس پندرہ ہزار مہر مقرر کیا جاتا ہے حالانکہ یہ بالکل غلط ہے.بهر حال مہر حیثیت کے مطابق ہونا ضروری ہے.ساتواں خرچ آرائش و زیبائش مکانات پر ہوتا ہے.اگر کوئی شخص خود سادہ ہی رہنا دے.حصہ
خطبات محمود ۴۱۵ سال ۱۹۳۴ء چاہے تو بھی دوسروں کیلئے اس کو ایسا خرچ کرنا پڑتا ہے.میں خود زمین پر بیٹھنے کا عادی ہوں اور زمین پر بیٹھ کر ہی کام کرتا ہوں سوائے اس کے کہ جلدی میں کوئی خط لکھنا ہو.پیڈ میز پر پڑا ہو اور وہیں بیٹھ کر لکھ دوں.وگرنہ عام طور پر میں زمین پر بیٹھتا ہوں مگر مجھے کاؤچ وغیرہ بھی رکھنے پڑتے ہیں کیونکہ میرے پاس انگریز بھی آجاتے ہیں اور ایسے ہندوستانی بھی جو کوٹ پتلون پہنتے ہیں تو یہ بھی ایک خرچ ہے جو پہلے نہیں تھا اور اس پر بھی کافی رقم صرف ہو جاتی آٹھواں خرچ تعلیم کا ہے.تعلیم بہت گراں ہو گئی ہے.پہلے زمانہ میں مدارس کچھ نہیں لیتے تھے وہ مفت پڑھاتے تھے اور آسودہ حال لوگ ان کی خدمت کر دیتے تھے.کتابیں بھی مدرسہ کی ہوتی تھیں جو طالب علم تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد دوسروں کیلئے وہیں چھوڑ آتے تھے.طالب علموں کے کھانے پینے کا خرچ عام طور پر شہر والے برداشت کر لیتے تھے اور بہت ہی کم ایسے طالب علم ہوتے تھے جنہیں اپنا انتظام کرنا پڑتا.رہائش کیلئے مساجد کے ساتھ کو ٹھڑیاں وغیرہ بنی ہوتی تھیں.مگر آج کل تعلیم بہت گراں ہے، کالج میں لڑکا جاتا ہے تو چالیس سے لے کر ڈیڑھ سو تک ماہوار اس پر خرچ کرنا پڑتا ہے، بعض کالجوں کے خرچ زیادہ ہوتے ہیں، پھر بعض زیادہ تعلیموں پر زیادہ خرچ آتا ہے.مثلاً میڈیکل اور سائنس کی تعلیم پر بہت خرچ ہوتا ہے.بعض کالجوں کی فیسیں زیادہ ہوتی ہیں اور اس طرح چالیس سے لے کر ڈیڑھ سو تک خرچ ہوتا ہے.یہ ہندوستان کے عام کالجوں کے حالات ہیں.بعض کالجوں کے اور بھی زیادہ خرچ ہوتے ہیں اور یورپ میں تو تین سو سے لے کر پانچ سو روپیہ تک ماہوار خرچ ہوتا ہے لیکن نوکریوں کا یہ حال ہے کہ آخری عمر میں پہنچ کر شاید پانچ سو روپے تنخواہ مل سکے.تو تعلیم بھی آج کل بہت گراں ہے.ان اخراجات کی موجودگی میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہمارا سب سلسلہ کیلئے قربان ہے تو اس کا کیا نتیجہ ہو سکتا ہے.جو شخص عملا کچھ فائدہ نہ پہنچا سکے اس کا زبانی دعوی کوئی حقیقت نہیں رکھتا.میں نے جب بھی وقف کی تحریک کی ہے تو میں نے دیکھا ہے چند آدمی ضرور اپنے نام پیش کر دیتے ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا.پس ایسی قربانی کا دعویٰ کرنا جسے کرنے والا نہ خود کر سکے اور نہ میں اس سے کوئی فائدہ اٹھا سکوں وہی بات ہے کہ سو گز واروں، ایک گز نہ پھاڑوں" پس اگر جماعت قربانی کرنا چاہتی ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ماحول تیار کرے اور یہ بچوں اور
خطبات محمود سال عورتوں کو ساتھ ملائے بغیر نہیں ہو سکتا.یہی وجہ ہے کہ میں نے کہا تھا کہ مسجد کے پہلو میں جو جگہ عورتوں کیلئے پہلے ہوتی تھی آج وہ ان کیلئے پھر تیار کردی جائے تا وہ سُن لیں کہ سلسلہ کو قربانیوں کیلئے ان کی امداد کی کس قدر ضرورت ہے.اگر قربانیاں نہ کرسکنے کی وجہ سے سلسلہ کی ترقی میں روک پیدا ہوتی ہے تو اس کی ذمہ داری عورتوں پر ہے.بیسیوں مرد ایسے ہیں جن میں سے میں بھی ایک ہوں کہ عورتوں اور بچوں کے اخراجات پورے کرنے کے بعد جیب بالکل خالی ہو جاتی ہے اور حالت گر زرمے طلبی سخن دریں است" کی مصداق ہو جاتی ہے وہ اگر قربانی کا ارادہ بھی کریں تو کچھ نہیں کرسکتے.کیونکہ ان کے پاس ہوتا ہی کچھ نہیں.عام طور پر زیادہ خرچ عورتوں اور بچوں کا ہی ہے.سوائے کسی ایسے بخیل کے جو اِن کو بھوکا رکھتا ہو یا ان کو آرام پہنچانے کا خیال نہیں رکھتا اور ایسے شخص سے ہم کیا امید رکھ سکتے ہیں.پس ہم قربانی کیلئے اس بات کے سخت محتاج ہیں کہ عورتیں ہمارا ساتھ دیں وگرنہ ہماری قربانی لفظی قربانی رہ جائے گی اس لئے میں عورتوں کو خصوصیت کے ساتھ توجہ دلاتا ہوں کہ ہ قربانیوں کی طرف توجہ کریں اور ان امور میں جو میں آگے بیان کروں گا مردوں کا ہاتھ بٹائیں.ان کے تعاون کے بغیر جو شخص قربانی کرنا چاہے گا وہ زبردستی ان کے اخراجات کو کم کرے گا اور اس طرح ایک تو وہ ثواب سے محروم رہ جائیں گی اور دوسرے گھر میں فساد رہے گا.ہماری مستورات کو یاد رکھنا چاہیئے کہ ان سے پہلے ایسی مستورات گزری ہیں جنہوں نے ایسی ایسی قربانیاں کیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.حضرت عائشہ " ہی کے متعلق لکھا ہے کہ وہ بہت صدقات کرتی تھیں اور اس وجہ سے ایک دفعہ ان کے بھانجے سے غلطی ہوئی اور اس نے کہا کہ ہماری خالہ یونہی روپیہ اڑا دیتی ہیں اور وارثوں کا کوئی خیال نہیں رکھتیں حالانکہ انکے بھی حقوق شریعت نے رکھے ہیں.حضرت عائشہ نے جب یہ سنا تو ان کو بہت افسوس ہوا اور انہوں نے قسم کھائی کہ اس سے کبھی بات نہ کروں گی اور اگر کروں تو مجھ پر غلاموں کا وہ وہ آزاد کرنا فرض ہو گا.لوگوں نے اسے ملامت کی کہ تم نے ایسا کیوں کہا ہے، معافی مانگو.معافی مانگنے گئے مگر حضرت عائشہ نے کہا کہ میں نے قسم کھائی ہوئی ہے اس لئے ہرگز بات نہ کروں گی.صحابہ نے یہ کیا کہ کئی آدمی اکٹھے ہو کر حضرت عائشہ کے دروازے پر گئے اور ان کے بھانجے کو بھی ساتھ لے گئے اور اس طرح اجازت مانگی کہ کیا ہم اندر آجائیں اور اسے سکھا دیا کہ جاکر اپنی خالہ سے لپٹ جانا.حضرت عائشہ نے اجازت دے دی اور کہا آجاؤ.وہ
خطبات محمود سال رحم اندر داخل ہو گئے اور ان کے ساتھ ہی وہ بھانجا بھی چلا گیا اور جاکر خالہ سے لیٹ گیا.معافی مانگی حضرت عائشہ نے معاف کردیا مگر فرمایا کہ میں نے غلاموں کی آزادی کا وعدہ کیا تھا اور کوئی حد نہ مقرر کی تھی.اب مجھے ساری عمر ہی غلام آزاد کرنے پڑیں گے.چنانچہ آپ ساری عمر خرید خرید کر غلاموں کو آزاد کرتی رہیں کیونکہ آپ کو ہمیشہ شک رہا کہ شاید میرا عہد پورا ہوا یا نہیں ہے.ماں کیلئے سب سے بڑی قربانی بچے کی ہوتی ہے مگر اس کیلئے بھی ایک عورت کی مثال پیش کرتا ہوں جو پہلے شدید کافرہ تھی.ایرانیوں کے ساتھ ایک جنگ میں مسلمانوں کو سخت شکست ہوئی وہ اس کا ازالہ کرنے کیلئے پھر جمع ہوئے مگر پھر بھی ایرانی بوجہ کثرت تعداد اور فراوانی اسباب کے غالب ہوتے نظر آرہے تھے.ہاتھیوں کے ریلے کا مقابلہ بھی ان سے سے ہوتا تھا.چنانچہ آخری دن کی جنگ میں بہت سے صحابہ مارے گئے تھے.آخر مشکل نے مسلمانوں نے مشورہ کیا کہ اگلے روز آخری اور فیصلہ کن جنگ کی جائے.خنساء نام ایک عورت جو بڑی شاعرہ اور ادیب گزری ہے ان کے چار بیٹے تھے انہوں نے اپنے چاروں بیٹوں کو بلایا اور کہا کہ میرے بچو! میرے تم پر بہت سے حقوق ہیں، تمہارا باپ جواری تھا میں نے چار دفعہ اپنے بھائی سے جائداد تقسیم کرا کر اسے دی مگر اس نے چاروں دفعہ جوئے میں برباد کر دی گویا نہ صرف یہ کہ اس کی اپنی جائداد کوئی نہ تھی بلکہ اس میرے بھائی کی جائداد کو بھی لٹادیا مگر اس کے باوجود اس کی موت کے بعد میں نے اپنی عصمت کی حفاظت کی اور اس کے خاندان کو بٹہ نہیں لگایا اور بڑی محنت سے تمہاری پرورش کی.آج اس حق کو یاد کرا کر میں تم سے مطالبہ کرتی ہوں کہ تم یا تو جنگ میں فتح حاصل کر کے آنا اور یا مارے جانا.ناکامی کی حالت میں مجھے واپس آکر منہ نہ دکھانا وگرنہ میں اپنا یہ حق تمہیں نہ بخشوں گی ہے.اس جنگ کی تفاصیل ایسی ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے گویا ہر مسلمان اپنی جان کو میدانِ جنگ میں اس طرح پھینک رہا تھا جس طرح کھیل کے میدان میں فٹ بال پھینکا جاتا ہے.عین دوپہر کے وقت جب معرکہ جنگ نہایت شدت سے ہو رہا تھا خنساء آئیں، انہوں نے دیکھا کہ اس معرکہ سے بہادروں کا زندہ واپس آنا مشکل ہے انہوں نے اس وقت ہاتھ اٹھا کر دعا کی کہ اے خدا! میں نے اپنے بچے دین کیلئے قربان کر دیئے ہیں، اب تو ہی ان کی حفاظت کرنے والا ہے.خدا تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ جنگ میں فتح ہو گئی اور ان کے بچے بھی زندہ واپس آگئے.اسی طرح ہندہ کی مثال ہے.اس نے اور اس کے خاوند
خطبات محمود ۴۱۸ سال ۱۹۳۴ ابوسفیان نے بیس سال تک رسول کریم ﷺ سے جنگ کی اور فتح مکہ پر مسلمان ہوئے.رسول کریم کے ساتھ پہلے وہ اس قدر شدید بغض رکھتی تھی کہ جنگ اُحد میں حضرت حمزہ کی شہادت کے بعد اس نے ان کے ناک اور کان کٹوائے تھے اور بعض روایات میں ہے کہ ان کا کلیجہ نکال کر چبایا تھا.اُحد کی جنگ میں جب حضرت حمزہ شہید ہوئے تھے اس جنگ میں مسلمانوں کو پیچھے ہٹنا پڑا اور اس طرح مسلمان شہداء کی لاشیں کفار کے رحم پر تھیں.اس وقت ہندہ نے اس وجہ سے کہ حضرت حمزہ نے ایک خاص آدمی کو مارا تھا، ان کی لاش کا مثلہ کروایا.تو وہ ایسی خطرناک دشمن تھیں مگر فتح مکہ کے بعد وہ اور ان کے خاوند ابوسفیان بھی ایمان لے آئے اور ان کے لڑکے حضرت معاویہ بھی.ایک جنگ کے موقع پر ہرقل کی فوجوں کے ساتھ سخت معرکہ درپیش تھا.مسلمانوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ ساٹھ ہزار تھی اور و کی دس لاکھ بھی بعض نے لکھی ہے اور تین چار لاکھ تو مسیحی مؤرخین نے بھی بیان کی ہے گویا ان کی تعداد مسلمانوں سے کم سے کم پانچ چھ گنا تھی.ایک دفعہ دشمن کی طرف سے ایسا سخت ریلا ہوا کہ مسلمانوں کو پیچھے ہٹنا پڑا.ہندہ نے جو اپنے خیمہ میں تھیں، جب غبار اڑتے دیکھا تو کسی سے پوچھا کہ یہ کیسا غبار ہے.اس نے بتایا کہ مسلمانوں کو شکست ہو گئی ہے اور وہ پسپا ہو رہے ہیں.ہندہ نے عورتوں سے کہا کہ اگر مردوں نے شکست کھائی ہے اور اسلام کے نام کو بٹہ لگایا ہے آؤ ہم مقابلہ کریں.عورتوں نے ان سے دریافت کیا کہ ہم کس طرح مقابلہ کر سکتی ہیں.انہوں نے کہا کہ ہم مسلمانوں کے گھوڑوں کو ڈنڈے ماریں گی اور کہیں گی کہ تم نے پیٹھ دکھائی ہے تو اب ہم آگے جاتی ہیں.اس وقت ابو سفیان اور دوسرے صحابہ واپس آرہے تھے کیونکہ ریلا بہت سخت تھا انہیں دیکھ کر ہندہ آگے آئیں اور ان کے گھوڑوں کو ڈنڈے مارنے شروع کئے اور ابو سفیان سے کہا کہ تم تو کفر کی حالت میں بھی اپنی بہادری کی بہت شیخیاں مارا کرتے تھے مگر اب مسلمان ہو کر اس قدر بُزدلی دکھا رہے ہو حالانکہ اسلام میں تو شہادت کی موت زندگی ہے.اس پر ابوسفیان نے مسلمانوں سے کہا کہ واپس چلو ہندہ کے ڈنڈے دشمن کی تلوار سے زیادہ سخت ہیں تے.چنانچہ مسلمانوں نے پھر حملہ کیا اور خدا تعالی نے ان کو فتح دی.تو مسلمان عورتوں کی زندگیوں میں قربانی کے ایسے شاندار نمونے ملتے ہیں جن سے بڑھ کر نمونہ پیش نہیں کیا جاسکتا.اسی طرح مردوں نے بھی بے شمار قربانیاں کی ہیں.احد کی جنگ
خطبات محمود ۴۱۹ سال ۱۹۳۴ء میں بہت سے مسلمان شہید ہو گئے تھے.ایک زخمی صحابی کا قول کتنا پیارا اور دردناک ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سمجھتے تھے کہ قربانی کے کیا معنی ہیں.جب رسول کریم ﷺ محفوظ ہو گئے اور کفار بھاگ گئے تو مسلمانوں نے لاشوں کا معائنہ کیا کہ دیکھیں کون کون شہید ہوا ہے ایک انصاری اپنے کسی رشتہ دار کی تلاش میں تھے کہ انہوں نے دیکھا.ایک صحابی سے زخمی پڑے ہیں اور ان کی ٹانگیں کئی ہوئی ہیں وہ اس کے پاس پہنچے اور کہا بھائی تمہاری حالت خطرناک ہے.اپنے متعلقین کو کوئی پیغام دینا ہو تو دے دو.انہوں نے کہا ہاں میں منتظر ہی تھا کہ کوئی اس طرف آئے تو میں اسے پیغام دوں میرا رشتہ داروں کو یہ پیغام ہے کہ اے عزیزو! ہم نے جب تک زندہ تھے رسول کریم ﷺ کی جو ہمارے پاس خدا تعالیٰ کی ایک امانت ہیں، اپنی جانوں سے حفاظت کی.اب ہم جاتے ہیں اور یہ امانت تمہارے سپرد ہے تمہارا فرض ہے کہ اپنے مال و جان سے اس کی حفاظت کرو ہے.اس کے سوا نہ کسی کو سلام دیا نہ کوئی پیغام بلکہ یہی کہا کہ میرے رشتہ داروں سے کہنا کہ جس رستہ سے میں آیا ہوں اسی سے تم بھی آؤ.تو یہ قربانیاں ہیں جو صحابہ کرام نے کیں.مگر ان کے باوجود رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ اے دوستو! ان قربانیوں کو کچھ نہ سمجھو تم سے پہلے کچھ لوگ گزرے ہیں جن کو آروں سے چیرا گیا اور جن کو آگ میں جلایا گیا محض اس وجہ سے کہ وہ خدا پر کیوں ایمان لائے 12 تمہاری قربانیاں ان کے مقابلہ میں کچھ حقیقت نہیں رکھتیں.اصل بات یہ ہے کہ قربانی کرنا مشکل نہیں ایمان لانا مشکل ہے.جس کے دل میں ایمان پیدا ہو جائے اس کیلئے کوئی بھی قربانی مشکل نہیں ہوتی.اور میں امید کرتا ہوں کہ جن مردوں کے دلوں میں ایمان ہے وہ عورتوں کی اور جن عورتوں کے دلوں میں ایمان ہے وہ مردوں کی اور جن بچوں کے دلوں میں ایمان ہے وہ اپنے ماں باپ کی مدد کریں گے اور آئندہ قربانیوں کے بارہ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے.قربانیوں کیلئے نیا ماحول پیدا کرنے کیلئے میں جو باتیں پیش کرنا چاہتا ہوں ان میں سے میں پہلے علاج کو لیتا ہوں.شریعت کا حکم ہے کہ بیمار کا علاج کرانا چاہیئے.اس لئے میں یہ تو نہیں کہتا کہ علاج کرانا بند کر دیا جائے.مگر اس سلسلہ میں ڈاکٹروں سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں.آج کل ڈاکٹروں میں عام مرض ہے کہ وہ کبھی خیال نہیں کرتے کہ جو دوائی وہ لکھ رہے ہیں، اس کی قیمت اور اس کے فائدہ میں نسبت کیا ہے.ایک اشتہار ان کے پاس آتا ہے کہ فلاں دوائی کلیجی کے خون سے تیار کی گئی ہے اور جگر کیلئے بہت مفید ہے اور وہ محض
خطبات محمود ۴۲۰ سال ۱۹۳۴ء.حصہ تجربہ کیلئے کسی مریض کو وہ لکھ دیں گے حالانکہ اس کی قیمت دس بارہ روپے ہوگی.مجھے خوب یاد ہے آج سے پچیس سال پہلے ڈاکٹری نسخہ کی قیمت دو تین آنہ سے زیادہ نہیں ہوتی تھی اور آج کل جو قیمتی ادویات ڈاکٹر لکھ دیتے ہیں ان کے بغیر ہی مریض صحت یاب ہو جاتے تھے.میں نے خود حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل سے سنا ہے کہ کوئی بیماری ایسی نہیں جس کا علاج پیسہ دھیلا یا دمڑی سے نہ ہو سکتا ہو.آپ ایک بزرگ صوفی کا ذکر کرتے تھے جنہوں نے اس موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے کہ انسانی بیماریوں کا علاج انسان کے جسم کے اندر ہی موجود ہے.بعض بیماریوں کا علاج بال ہیں اور بعض کا علاج کان کی میل ہی ہے.آنکھ کی بعض بیماریوں میں کان کی میل بہت فائدہ دیتی ہے.لیکن آج کل ڈاکٹر مریضوں کا بہت سا روپیہ علاج پر خرچ کراتے ہیں اور ہر گھر میں کوئی نہ کوئی بیمار ضرور ہوتا ہے.بعض گھروں میں کئی کئی مریض ہوتے ہیں ڈاکٹر نسخے پر نسخے لکھتے ہیں اور ان پر اس قدر روپیہ خرچ آتا ہے کہ بعض لوگوں نے مجھے بتلایا ہے کہ ان کی آمد کا چوتھائی علاج پر صرف ہو جاتا ہے.بعض غریب لوگوں نے مجھ سے ذکر کیا کہ ہم بیماری کی وجہ سے اتنے سو روپیہ کے مقروض ہو گئے ہیں حالانکہ دس پیسہ میں اس بیماری کا علاج ہو سکتا تھا.پس ڈاکٹر اس بات کا عہد کرلیں کہ وہ اپنا سارا زور لگائیں گے کہ روپوں کا کام پیسوں میں ہو اور جب تک وہ یہ نہ سمجھیں کہ بغیر قیمتی دوا کے جان کے نقصان کا احتمال ہے اس وقت تک قیمتی ادویات پر خرچ نہ کروائیں گے.مثلاً بعض ٹیکے ایسے ہیں جو بعض بیماریوں میں بہت مفید ہوتے ہیں اور ان کے بغیر چارہ نہیں ہوتا.میں ان کی ممانعت نہیں کرتا اور وہ مہنگے بھی نہیں ہوتے.میرا مطلب ایسی دوائیوں.ہے جو آئے دن پیٹنٹ ہو رہی ہیں بڑی قیمتیں ان کی ہیں حالانکہ وہ چیزیں سستے داموں اپنے ہاں تیار کی جاسکتی ہیں یا پھر ان کی ضرورت ہی نہیں ہے اس طرح سے ملک کا اور ہماری جماعت کا روپیہ بے فائدہ باہر جاتا ہے اور قوم میں قربانی کی روح کم ہوتی ہے.یورپ میں یہ روبیہ عیاشیوں میں صرف ہوتا ہے اگر ہماری جماعت کے ڈاکٹر یہ عہد کرلیں کہ علاج میں ایسے غیر ضروری مصارف نہیں ہونے دیں گے اور جماعت کے لوگ یہ کوشش کریں کہ اپنے طبیوں سے ہی علاج کرائیں گے تو پچاس ہزار روپیہ سالانہ کی بچت ہو سکتی ہے.پنجاب میں سرکاری رپورٹ کے مطابق ہماری تعداد ۵۶ ہزار ہے مگر ہم اسے صحیح نہیں سمجھتے.اُس وقت بھی جبکہ یہ مردم شماری ہوئی ہم اپنی تعداد ڈیڑھ دو لاکھ سمجھتے تھے اور اب تو اس سے بہت ہے
خطبات محمود ٣١ موم سال ۱۹۲۳۳۳ء روبیه زیادہ ہے.اگر بفرض محال سارے ملک میں اپنی تعداد چار لاکھ بھی سمجھ لیں اور دو آنہ فی کس علاج کی اوسط رکھ لیں پھر اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ دیہات میں عام طور پر لوگ علاج نہیں کراتے اگر اس تعداد کا دسواں بیسواں حصہ بھی لے لیا جائے تو باقاعدہ علاج کرانے والوں کی تعداد ہیں ہزار بن جاتی ہے اور جس طرز پر یہ علاج ہوتا ہے اس پر اڑھائی سالانہ کی اوسط بھی رکھی جائے تو یہ خرچ پچاس ہزار ہو جاتا ہے.میں نے اپنے گھروں میں دیکھا ہے کہ اوسطاً پچیس روپیہ ماہوار دوائیوں کا خرچ پڑ جاتا ہے.جس نئے طبیب سے مشورہ کیا اس نے دس میں روپیہ کا نسخہ لکھ دیا.اس طرح مختلف نسخہ جات پر قریباً پچیس روپیہ ماہوار خرچ ہو جاتا ہے.علاوہ ان دوائیوں کے جو ہسپتال سے آتی ہیں اور علاوہ ان کے جو میں نے خود منگوا کر اپنے گھر میں گھر کے استعمال کیلئے یا غرباء کے استعمال کیلئے رکھی ہوئی ہیں.تو تماشوں کے خرچ کی طرح علاج کا خرچ بھی اتنا بار گراں ہے کہ یہ بھی ایک تماشا بنا ہوا ہے.لیکن اگر ڈاکٹر یہ عہد کرلیں کہ وہ اپنے دماغ پر زور دے کر ایسے نسخے لکھیں گے جو ستے داموں تیار ہو سکیں اور قیمتی پیٹینٹ ادویہ استعمال کرا کے نئی نئی دوائیوں کے تجربوں پر ملک کا روپیہ ضائع نہیں کرائیں گے تو یہ بار بہت حد تک ہلکا ہو سکتا ہے.اس کے علاوہ سات مدات اور ہیں جن میں سے اول غذا ہے.غذا میں کثرت اور تنوع اس قدر پایا جاتا ہے کہ اس پر بہت خرچ ہو جاتا ہے.مسلمانوں میں تو کھانے کا اس قدر مرض ہے کہ جہاں بھی چند مسلمان جمع ہوں وہاں کھانے پینے کا ضرور ذکر ہوگا.کوئی کہے گا یار فلاں چیز کھلاؤ.کوئی کہے گا یار! میں تمہارے ہاں گیا تھا تم نے فلاں چیز نہیں کھلائی.ایک غریب دوست نے ایک دفعہ ایک اور بھائی کی دعوت کی اور مجھے بھی اس دعوت میں بلایا.اس دعوت میں پلاؤ نہ تھا جو صاحب مدعو تھے انہوں نے ہنس کر کہا کہ میری تو سمجھ میں بھی یہ بات نہیں آسکتی کہ پلاؤ کے بغیر بھی کوئی دعوت ہو سکتی ہے.آسودہ حال لوگوں میں تو تنوع بہت ہی زیادہ پایا جاتا ہے اور میرے زیادہ تر مخاطب آسودہ حال لوگ ہی ہیں غرباء کو تو روکھی سوکھی روٹی بمشکل ملتی ہے.کھانے کے متعلق دیہاتیوں کی ذہنیت کا پتہ اس سے لگ سکتا ہے کہ کسی شخص نے کہا کہ ملکہ معظمہ کیا کھاتی ہوں گی.تو دوسرے نے کہا کہ ان کا کیا کہنا ہے.گڑ کی بھیلی اُٹھائی اور کھالی.پس میں یہ باتیں ان لوگوں کیلئے کہہ رہا ہوں اور ان سے ہی قربانی کا مطالبہ کرتا ہوں جو آسودہ حال ہیں اور ایک سے
خطبات محمود ۴۲۲ سال ۱۹۳۴ء زیادہ کھانے جن کے گھروں میں پکتے ہیں.ورنہ غرباء کی قربانی تو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی ہو چکی ہے.وہ کبھی روکھی سوکھی روٹی کھا لیتے ہیں، کبھی شکر یا گڑ سے ، کبھی پیاز سے اور کبھی چٹنی سے اس لئے میرے مخاطب وہ نہیں بلکہ وہ ہیں جن کے گھروں میں اچھے اچھے کھانے پکتے ہیں اور جو کثرت سے کھاتے ہیں یا جن کے کھانوں میں تنوع پایا جاتا ہے.ایسے لوگ مالی یا جانی کسی قسم کی قربانی نہیں کر سکتے جب تک اپنے حالات میں تبدیلی نہ کریں.انہیں اگر سفر پر جانا پڑے تو شکایت کرتے ہیں کہ کھانا اچھا نہیں ملتا، دودھ نہیں ملتا، مکھن اور ٹوسٹ نہیں ملتے کیونکہ وہ اچھے اچھے کھانے کھانے کے عادی ہوتے ہیں اور تکلیف نہیں اٹھا سکتے.اسی طرح لباس میں بھی زمیندار میرے مخاطب نہیں ان کا لباس پہلے ہی سادہ اور ضرورت کے مطابق ہوتا ہے.بلکہ بعض اوقات ضرورت سے کم ہوتا ہے.وہ صرف لنگوٹی باندھ لیتے ہیں یا اونچا تہہ بند جس سے بدن کا کچھ حصہ نگا رہتا ہے.اور اس میں اگر کسی اصلاح کی ضرورت ہے تو یہ کہ اسے بڑھایا جائے.شہری لباس میں لوگ بہت غلطیاں کرتے ہیں اور غلطی نہ ہو تو بھی ضرورت سے زیادہ لباس پر خرچ کرتے ہیں.لباس کی غرض یہ ہے کہ عریانی نہ ہو اور زینت ہو لیکن عام طور پر لباس کے بعض حصے زینت سے نکل کر فخر اور فیشن کی طرف چلے گئے ہیں.مد نظر فیشن ہوتا ہے گرمی سردی سے حفاظت یا محض زینت مد نظر نہیں ہوتی.بہت سے لوگ ان اغراض کیلئے نہیں بلکہ دکھانے کیلئے کپڑے بناتے ہیں.ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ کسی کو یہ دکھائیں کہ تمہارے جیسا کوٹ ہم نے بھی بنالیا ہے.زیور کلیه زیبائش کیلئے ہے اس میں بھی اصلاح ہو سکتی ہے.شادی بیاہ اور خوشی کے مواقع پر بھی اخراجات میں ایسی اصلاح ہو سکتی ہے کہ نئے ماحول کے ماتحت اس سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے.تعلیم کے متعلق میری سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا ہو سکتا ہے.یہ ایک ایسا سودا.ہے کہ جس سے بہر حال قوم کو فائدہ پہنچتا ہے.مدرسوں کی فیسیں کالجوں اور بورڈنگوں کی فیسیں اور اوزاروں یا آلات کی قیمت بہر حال خرچ کرنی پڑتی ہے اور اس میں کوئی نقصان نہیں یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص زمین خرید لے.ہاں طالب علموں کے کھانوں اور لباسوں میں اخراجات و کم کیا جاسکتا ہے.ان باتوں کے بیان کرنے میں ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ اگر میں خالی نصیحت کروں تو ہر کوئی یہی کہے گا کہ بہت اچھا.مگر عمل بہت کم لوگ کر سکیں گے اور اگر ضروری قرار دے دوں تو اس کا یہ نتیجہ ہو سکتا ہے کہ ایسی باتوں کو مستقل طور پر تمدن میں
خطبات محمود ۳۲۳ سال ۱۹۳۴ تو داخل کر دیا جائے.بعض صوفیاء نے خاص حالات کے ماتحت بعض شرطیں لگادیں مثلاً یہ کہ کفنی پہن لو اور زیبائش کو ترک کردو.مگر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بعد میں فتوحات بھی ہوئیں بادشاہتیں بھی مل گئیں مگر وہ کفنی نہ گئی.اسی طرح بعض نے خاص حالات کے ماتحت اچھے کھانے کھانے کی ممانعت کی مگر زمانے بدل گئے حالات میں تبدیلیاں ہو گئیں لیکن اس میں تبدیلی نہ ہوئی اور اب تک ایسے لوگ ہیں کہ پلاؤ کھانے لگیں تو اس میں مٹی ڈال لیں گے.تو ایک طرف مجھے یہ اندیشہ ہے کہ کوئی بدعت نہ پیدا ہو جائے اور دوسری طرف صراحتاً نظر آتا ہے کہ اس کے بغیر ہم ایسی قربانیاں نہیں کر سکتے جو سلسلہ کی ترقی کیلئے ضروری ہیں.کھانے پینے اور رہائش کیلئے اسلام نے تین اصول مقرر کئے ہیں.پہلا یہ ہے کہ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثُ نے یعنی جوں جوں اللہ تعالیٰ کی نعمت ملے اسے ظاہر کیا جائے.خدا تعالیٰ اگر مال دیتا ہے تو جسم کے لباس سے اسے ظاہر کرے اور تحدیث نعمت کرے اس کے استعمال سے اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرے.دوسری تیسری ہدایت یہ دی که كُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا س یعنی کھاؤ پیو مگر اسراف نہ کرو.یعنی جب معلوم ہو کہ کھانا پینا حد سے آگے بڑھ گیا ہے تو چھوڑ دو.یا یہ کہ جب زمانہ زیادہ قربانی کا مطالبہ کرے تو اس وقت فوراً اپنے خرچ میں کردو.اسراف بھی دو طرح کا ہوتا ہے.ایک شخص کی آمد ایک ہزار یا دو تین ہزار روپے ماہوار ہے اس کے گھر میں اگر چار پانچ کھانے پکتے ہوں یا پندرہ میں روپے گز کا کپڑا وہ پہنتا ہے یا آٹھ دس سوٹ تیار کرا لیتا ہے تو اس کے مالی حالات کے مطابق اسے ہم اسراف نہیں کہہ سکتے لیکن اگر اس کے بیوی بچے بیمار ہو جائیں اور وہ ایسے ڈاکٹروں سے علاج کرائے جو قیمتی ادویات استعمال کرائیں اور اس طرح ہزار میں سے نو سو روپیہ اس کا دوائیوں پر خرچ ہو جائے لیکن کھانے اور پہننے میں پھر بھی وہ کوئی تبدیلی نہ کرے تو یہ اسراف ہوگا.پس اصل یہ ہے کہ جب کوئی زمانہ ایسا آئے کہ مقابل پر دوسری ضروریات بڑھ جائیں تو اس وقت پہلی جائز چیزیں بھی اسراف میں داخل ہو جائیں گی.اسلام ہر وقت ایک قسم کی قربانی کا مطالبہ نہیں کرتا.اگر ایسا ہوتا تو حضرت ابو بکر ایک خاص جنگ کے وقت اپنا سارا اور حضرت عمر اپنا آدھا مال نہ پیش کرتے.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بیسیوں جنگیں ہوئیں مگر حضرت ابوبکر نے اپنا سارا اور حضرت عمر نے آدھا مال نہیں دیا.ایک جنگ کے موقع پر حضرت عمر " کو یہ خیال آیا کہ آج زیادہ قربانی کا موقع ہے میں حضرت ابوبکر سے بڑھ جاؤں گا اور اس
خطبات محمود رض ۴۲۴ سال ۱۹۳۴ء خیال سے اپنا آدھا مال لے کر گئے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے قبل حضرت ابوبکر نے آدھا مال بھی کبھی نہیں دیا تھا وگرنہ حضرت عمر " کو یہ خیال کس طرح ہو سکتا تھا کہ اپنا آدھا مال دے کر حضرت ابوبکر سے بڑھ جاؤں گا لیکن حضرت ابو بکر اس موقع کی نزاکت کو دیکھ کر اپنا سارا مال دینے کا فیصلہ کر چکے تھے.چنانچہ جب وہ اپنا سارا مال لے کر گئے تو رسول کریم ﷺ جو آپ کے داماد تھے اور ان کے گھر کی حالت سے واقف تھے اسے دیکھتے ہی فرمانے لگے کہ آپ نے اپنے گھر میں کیا چھوڑا.حضرت ابوبکر نے کہا کہ خدا اور اس کے رسول کا نام ہے - اسی وقت حضرت عمر بڑے فخر سے آدھا مال لے کر آرہے تھے مگر جب وہ وہاں پہنچے تو انہوں نے حضرت ابوبکر" کا یہ جواب سنا اور سمجھ لیا کہ میں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا.ارم پس ہر زمانہ کیلئے قربانی الگ الگ ہوتی ہے.بعض لوگ نادانی سے یہ اعتراض کر دیتے ہیں کہ جماعت میں امراء اچھا کھانا کھاتے اور اچھا لباس پہنتے ہیں مگر یہ خیال نہیں کرتے کہ اسلام کی یہ تعلیم نہیں کہ ہمیشہ ہی اچھا کھانا نہ کھایا جائے یا اچھے کپڑے نہ پہنے جائیں بلکہ اصول یہ ہے کہ جب امام آواز دے اس وقت اس کی آواز کے مطابق قربانی کی جائے.اس وقت جو شخص اس قربانی کیلئے ماحول پیدا نہیں کرتا وہ اسراف کرتا ہے اور قابل مواخذہ ہے.پس ایک اسراف عام حالات کے ماتحت ہے اور ایک خاص حالات کے ماتحت.جو لوگ چاہتے ہیں کہ امیر اور غریب ہمیشہ ایک ہی سطح پر رہیں.وہ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ کے خلاف عمل کرتے ہیں.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں سب ایک سطح پر نہیں تھے.جنگ تبوک کے موقع پر ابو موسیٰ اشعری رسول کریم ﷺ کے پاس آئے اور کہا یا رسُول اللہ ! ہمارے لئے سواری کی ضرورت ہے.آپ نے فرمایا میرے پاس سواری نہیں ہے.انہوں نے پھر کہا مگر آپ نے پھر یہی جواب دیا کہ میرے پاس نہیں ہے ہے.حالانکہ آپ کے پاس اپنے لئے سواری تھی.اور آپ تبوک کی طرف سواری پر ہی گئے تھی اسی طرح بعض صحابہ اچھے کھانے کھاتے تھے اور بعض کو کئی کئی فاقے ہوتے تھے تو سب کو ہمیشہ برابر نہیں کیا جاسکتا.قربانی کے اوقات میں امام جو ہدایت کرے اس کے مطابق عمل کرنا ہر ایک کا فرض ہوتا ہے.جیسے اب ہم کہتے ہیں کہ غرباء یہ قربانی نہیں کر سکتے آسودہ حال لوگ کریں تو ان پر اس کی تعمیل فرض اب جو یہ قربانی نہیں کرتا وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک مستوجب سزا ہے اور اس وقت میں ہو
خطبات محمود ۴۲۵ سال ۱۹۳۴ء غرباء جو مطالبہ کر رہا ہوں وہ اسی اصل کے ماتحت ہے.اسی طرح جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ دین کے بارہ میں امراء کو سادگی کی تعلیم بھی نہ دی جائے وہ بھی غلطی پر ہیں.بیشک روپیہ امراء کا اپنا لیکن اسلام کے امراء اور دوسرے امراء میں ضرور فرق چاہیے.مثلاً اسلام کے امراء کو خرچ کرنا چاہیے اور اسلام کیلئے بھی.پس اس جنگ میں میرے مخاطب آسودہ حال لوگ ہوں گے اور انہیں اپنے حق چھوڑنے پڑیں گے.جنگ کی حالت میں خداتعالی بھی اپنے حق چھوڑ دیتا ہے.جنگ کی حالت ہو تو حکم ہے کہ آدھے لوگ ایک رکعت نماز پڑھ لیں اور آدھے حفاظت کیلئے کھڑے رہیں.ان کے بعد ان کی جگہ دوسرے آجائیں ہے.گویا صرف ایک رکعت نماز کردی.پھر بعض حالتوں میں قصر یعنی جلدی جلدی نماز پڑھنے کی اجازت ہے اور خطرے کی حالت میں گھوڑے کی پیٹھ پر اشارے سے نماز پڑھ لینا جائز ہے.جو اس بات کا ثبوت ہے کہ خطرے کے حالات میں اللہ تعالیٰ بھی اپنا حق چھوڑ دیتا ہے.پھر بندوں کو کیا حق حاصل ہے کہ خطرہ کی حالت میں اپنا حق چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوں.پس اصول یہ ہیں کہ (1) ہر حالت میں غریب اور امیر کو ایک سطح پر لانے کی کوشش نہ کہ اپنے کرو.اس سے نظام انسانیت بدل جاتا ہے.(۲) آسودہ حال لوگوں کیلئے ضروری ہے اموال کا ایک حصہ غرباء کیلئے اور ایک حصہ دین کیلئے وقف کریں.گو ہماری جماعت میں لکھ پتی اور کروڑپتی لوگ نہیں مگر جو لوگ کھاتے پیتے ہیں وہ ہمارے معیار زندگی کے مطابق آسودہ حال ہیں.چونکہ اس وقت ہمارا سلسلہ خاص حالات میں سے گزر رہا ہے اس لئے جو لوگ عام حالات میں آسودگی سے رہتے ہیں وہ اس امر کا ثبوت دیں کہ پہلے وہ اگر کھاتے پیتے تھے تو خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اور خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت جب قربانی کیلئے انہیں بلایا گیا تو ؟ انہوں نے سب کچھ چھوڑ دیا.اگر وہ ایسا کر دیں گے تو ثابت ہو جائے گا کہ غرباء کا ان پر جو یہ اعتراض تھا کہ وہ عیاشی کے ماتحت کھاتے پیتے اور پہنتے تھے، وہ غلط تھا.وہ خدا تعالیٰ کے کے ماتحت کھاتے پیتے تھے جب اس کا حکم اس کے خلیفہ کے ذریعہ سے اپنی حالت بدلنے کے متعلق ملا تو انہوں نے اپنی حالت کو بدل دیا.اس اصل کے بیان کرنے کے بعد اب میں پہلا مطالبہ کرتا ہوں اور تین سال کیلئے جماعت کے مخلصوں کو بلاتا ہوں کہ جو ان شرائط پر عمل کر سکتے ہوں اور جو سمجھتے ہوں کہ و ان شرائط کے ماتحت آسکتے ہیں وہ کھانے پینے ، پہننے ، رہائش اور زیبائش میں ایسا تغیر کریں کہ وہ
خطبات محمود سال " قربانی کے لئے آسانی سے تیار ہو سکیں اور اس کیلئے میں بعض باتیں پیش کرتا ہوں.پہلی بات یہ ہے کہ کھانے میں سادگی پیدا کی جائے اس کیلئے ایک اصل ہمیں شریعت سے ملتا ہے.رسول کریم ﷺ کا زمانہ خوف و خطرات کا زمانہ تھا اس وقت جو آپ نے مسلمانوں کو احکام دیئے تھے ، ہم ان سے سبق حاصل کر سکتے ہیں.آپ کا اپنا طریق بھی یہ تھا اور ہدایت بھی آپ نے یہ کر رکھی تھی کہ ایک سے زیادہ سالن استعمال نہ کیا جائے اور اس پر اتنا زور دیتے تھے کہ بعض صحابہ نے اس میں غلو کر لیا.چنانچہ ایک دفعہ حضرت عمر کے سامنے سر کہ اور نمک رکھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ دو کھانے کیوں رکھے گئے ہیں جبکہ رسول کریم ﷺ نے صرف ایک کھانے کا حکم دیا ہے.آپ سے کہا گیا کہ یہ دو نہیں بلکہ دونوں مل کر ایک سالن ہوتا ہے مگر آپ نے کہا نہیں یہ دو ہیں.اگرچہ آپ کا یہ فعل رسول کریم ﷺ کی محبت کے جذبہ کی وجہ سے غلو کا پہلو رکھتا ہوا معلوم ہوتا ہے.غالباً رسول کریم ﷺ کا یہ منشاء نہ تھا لیکن اس مثال سے یہ پتہ ضرور چلتا ہے کہ آپ نے یہ دیکھ کر کہ مسلمانوں کو سادگی کی ضرورت ہے، اس کی کس قدر تاکید کی تھی.میں حضرت عمر والا مطالبہ تو نہیں کرتا اور یہ نہیں کہتا کہ نمک ایک سالن ہے اور سرکہ دوسرا.مگر یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ آج سے تین سال کیلئے جس کے دوران میں ایک ایک سال کے بعد دوبارہ اعلان کرتا رہوں گا تاکہ اگر ان تین سالوں میں حالت خوف بدل جائے تو احکام بھی بدلے جاسکیں.ہر احمدی جو اس جنگ میں ہمارے ساتھ شامل ہونا چاہے یہ اقرار کرے کہ وہ آج سے صرف ایک سالن استعمال کرے گا.روٹی اور سالن یا چاول اور سالن یہ دو چیزیں نہیں بلکہ دونوں مل کر ایک ہوں گے.لیکن روٹی کے ساتھ دو سالنوں یا چاولوں کے ساتھ دو سالنوں کی اجازت نہ ہوگی.معمولی گزارہ والے گھروں میں بھی عورتیں تھوڑی تھوڑی مقدار میں ایک سے زیادہ چیزیں چسکا کے طور پر تیار کر لیتی ہیں اس عہد میں آنے والے لوگوں کیلئے اس کی بھی اجازت نہیں ہوگی سوائے اس صورت کے کہ کوئی دعوت ہو یا مہمان گھر پر آئے اس کے احترام کیلئے اگر ایک سے زائد کھانے تیار کئے جائیں تو یہ جائز ہو گا.مگر مہمان کا قیام لمبا ہو تو اس صورت میں اہل خانہ خود ایک ہی کھانے پر کفایت کرنے کی کوشش کرے یا سوائے اس کے کہ اس شخص کی کہیں دعوت ہو اور صاحب خانہ ایک سے زیادہ کھانوں پر اصرار کرے.یا سوائے اس کے کہ اس کے گھر کوئی چیز بطور تحفہ آجائے یا مثلاً ایک وقت کا کھانا تھوڑی مقدار میں بیچ کر دوسرے.-
خطبات محمود ۴۲۷ سال ۶۱۹۳۴ وقت کے کھانے کے ساتھ استعمال کر لیا جائے.یہ قربانی ایسی نہیں کہ اس سے کسی کی خواہ کتنا ہی مالدار ہو ذلت ہوتی ہو یا کسی کی صحت کو نقصان پہنچے لیکن اس قاعدہ پر عمل کر کے آسودہ حال لوگوں کے گھروں میں اچھی خاصی بچت ہو سکتی ہے.ہاں ایک اجازت میں دیتا ہوں بعض لوگ عادی ہوتے ہیں کہ کھانے کے بعد میٹھا ضرور کھائیں بلکہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اگر میٹھا نہ کھائیں تو نفخ ہو جاتا ہے.ہمارے گھر میں تو یہ عادت نہیں مگر میں نے بعض لوگوں کو شکایت کرتے سنا ہے.ایسے لوگوں کیلئے اجازت ہے کہ ایک سالن کے ساتھ ایک میٹھا بھی تیار کرلیں.مگر ایسے لوگ شاذ ہوتے ہیں شاید ہزار میں ایک انگریزوں میں تو اس کا رواج ہی ہے مگر ہندوستان میں عام طور پر نہیں.اسی طرح جو لوگ کبھی کبھار کھانے کے ساتھ کوئی میٹھی چیز تیار کرلیں، ان کیلئے بھی جائز ہو گا.مگر میٹھی شئے بھی ایک ہی ہو نیز اس اجازت سے ناجائز فائدہ نہ اٹھایا جائے.یعنی یہ میٹھے کی خلافِ عادت بھرمار نہ کی جائے.مہمان بھی اگر جماعت کا ہو تو اسے بھی چاہیے کہ میزبان کو مجبور نہ کرے کہ ایک سے زیادہ سالن اس کے ساتھ مل کر کھائے.ہر احمدی اس بات کا پابند نہیں بلکہ اس کی پابندی صرف ان لوگوں کیلئے ہوگی جو اپنے نام مجھے بتادیں اور ان سے میں امید رکھوں گا کہ اس کی پابندی کریں.(بعض لوگوں نے ناشتہ کے متعلق بعد از خطبہ سوال کیا ہے.سو اس کا جواب بھی اس جگہ درج کر دیتا ہوں.چونکہ چائے پینے کی شئے ہے اسے کھانے میں شمار نہ کیا جائے گا.ہاں اس کے ساتھ جو چیز کھائی جائے اس کیلئے ضروری ہوگا کہ ایک ہی ہو.یعنی روٹی اور کوئی سالن یا بھیجیا وغیرہ) لباس کے متعلق میرے ذہن میں کوئی خاص بات نہیں آئی.ہاں بعض عام ہدایات میں دیتا ہوں.مثلاً یہ کہ جن لوگوں کے پاس کافی کپڑے ہوں وہ ان کے خراب ہو جانے تک اور کپڑے نہ بنوائیں.پھر جو لوگ نئے کپڑے زیادہ بنواتے ہیں، وہ نصف پر یا ر گزاره تین چوتھائی پر یا ۴/۵ پر آجائیں.مثلاً اگر دس جوڑے بنواتے ہیں تو آٹھ یا چھ یا پانچ پر کرلیں.جو عورتیں اس میں شامل ہوں وہ اپنے اوپر ایسی ہی پابندی کرلیں.مردوں اور عورتوں کو اس کے متعلق تفصیلات سے مجھے اطلاع دینے کی ضرورت نہیں ہاں سب سے ضروری بات عورتوں کیلئے یہ ہوگی کہ محض پسند پر کپڑا نہ خریدیں گی.یہاں عورتوں کی دُکانیں مردوں سے زیادہ چلتی ہیں کیونکہ عورتیں صرف پسند آنے پر ضرورت کے بغیر بھی کپڑا خرید لیتی ہیں.پس عورتیں یہ بھی معاہدہ کریں کہ صرف پسند ہونے کی وجہ سے وہ کوئی کپڑا نہ خریدیں گی بلکہ
محمود سال ۱۹۳۴ء جب ضرورت ہو کپڑا لیں گی.اس عادت کو ترک کریں گی کہ جب پھیری والے کی آواز سنی کپڑا دیکھنے کو منگوا لیا اور نہ یہ کہ گئے تو ایک دوپٹہ کا کپڑا خرید نے لیکن ایک پاجامہ کا کپڑا آگیا اور وہ بھی ساتھ خرید لیا.عورتوں میں یہ مرض بہت ہے کہ وہ ضرورت پر نہیں بلکہ کپڑا پسند آجانے پر کپڑا خرید لیتی ہیں.یہ عادت اسراف میں بہت محمد ہے.مرد جو فیشن کی پابندی کرتے ہیں وہ بھی ایسا نہیں کرتے کہ دُکانوں پر جاکر دیکھتے پھریں اور جو کپڑا پسند آئے وہ خرید لیں مگر عورتیں ایسا کرتی ہیں.پس جو عورتیں اس تحریک میں شامل ہوں، وہ اس بات کی پابند ہوں گی کہ صرف پسند آجانے پر کوئی کپڑا نہ خریدیں بلکہ ضرورت ہو تو خریدیں.دوسری پابندی عورتوں کیلئے یہ ہے کہ اس عرصہ میں گوٹہ ، کناری فیتہ وغیرہ قطعا نہ خریدیں.یہ باتیں میں کانگرس کے نقطہ نگاہ سے نہیں کہتا اس لئے اس کا یہ مطلب نہ سمجھا جائے کہ پہلے جو چیزیں موجود ہیں ، ان کو بھی ضائع کرنے یا جلا دینے کا حکم ہے بلکہ یہ مطالبات اس لئے ہیں کہ ہمیں دین کیلئے قربانی کی ضرورت ہے.پس پچھلا اگر موجود ہو اسے استعمال کیا جاسکتا ہے مگر آئندہ سے خریدنا بند کردیں.تیسری شرط اس مد میں یہ ہے کہ جو عورتیں اس عہد میں اپنے آپ کو شامل کرنا چاہیں ہ کوئی نیا زیور نہیں بنوائیں گی اور جو مرد اس میں شامل ہوں گے وہ بھی عہد کریں کہ عورتوں کو نیا زیور بنوا کر نہیں دیں گے، پرانے زیور کو تڑوا کر بنانے کی بھی ممانعت عورتیں پرانے زیوروں کو تڑوا کر بھی نئے بنانے کی عادی ہوتی ہیں اور اس میں بھی روپیہ ضائع ہوتا ہے.اور جب ہم جنگ کرنا چاہتے ہیں تو روپیہ کو کیوں خواہ مخواہ ضائع کریں.خوشی کے دنوں میں ایسی جائز باتوں سے ہم نہیں روکتے لیکن جنگ کے دنوں میں ایک پیسہ کی حفاظت بھی ضروری ہوتی ہے.ہاں ٹوٹے ہوئے زیور کی مرمت جائز ہے اور اسے مرمت کرا کر استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن نیا بنانے کی اجازت نہیں.علاج کے متعلق میں کہہ چکا ہوں کہ اطباء اور ڈاکٹر سستے نسخے تجویز کیا کریں اس کیلئے مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں.پانچواں خرچ سینما اور تماشے ہیں.ان کے متعلق میں ساری جماعت کو حکم دیتا ہوں کہ تین سال تک کوئی احمدی کسی سینما، سرکس، تھیٹر وغیرہ غرضیکہ تماشہ میں بالکل نہ جائے.آج سے تین سال تک کیلئے میری یہ جماعت کو ہدایت ہے اور ہر مخلص احمدی جو میری بیعت کی قدروقیمت کو سمجھتا ہے اس کیلئے سینما یا کوئی اور تماشہ وغیرہ دیکھنا یا کسی کو دکھانا ناجائز ہے.وہ ہے.
خطبات محمود ۴۲۹ سال ۱۹۳۴ء مستثنیٰ صرف وہ لوگ ہیں جو سرکاری ملازم ہیں اور ان کو خاص سرکاری تقریبوں پر ایسے تماشوں میں جانا پڑ جائے.بعض سرکاری تقریبوں کے موقع پر کوئی کھیل تماشہ بھی مجزوِ پروگرام ہوتا ہے ایسے موقع پر اگر جانا لازمی ہو تو جانے کی اجازت ہے.لیکن اگر لازمی نہ ہو تو پھر انہیں چاہیے کہ خواہ مخواہ دوسروں کو انگشت نمائی کا موقع نہ دیں.جب چھوڑنے میں مشکلات ہوں تو مجبوری ہے لیکن جب نہ دیکھنے میں کوئی حرج نہ ہو تو ایسی جگہ جانے کی جو بدنامی کا موجب ہو، کوئی ضرورت نہیں.سینما کے متعلق اب میری یہی رائے ہے کہ یہ سخت نقصان وہ چیز ہے.اگرچہ آج سے صرف دو ماہ قبل تک میرا خیال تھا کہ خاص فلمیں دیکھنے میں حرج نہیں لیکن اب غور کرنے اور اس کے اثرات کا مطالعہ کرنے کے بعد کہ ملک پر اس کا کیا اثر ہو رہا ہے، میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ موجودہ فلموں کو دیکھنا ملک اور اس کے اخلاق کیلئے ہے اور اس لئے قطعا ممنوع ہونا چاہیئے.میں نے تھوڑے ہی دن ہوئے فرانس کے متعلق پڑھا ہے کہ وہاں گورنمنٹ کو فکر پڑ گئی ہے کیونکہ کئی گاؤں اس لئے ویران ہو گئے ہیں کہ لوگ سینما کے شوق میں گاؤں چھوڑ کر شہروں میں آکر آباد ہو گئے ہیں.اس طرح کے اور بہت سے حالات ہیں جن پر نظر کرکے میں سمجھتا ہوں کہ یہ چیز دنیا کے تمدن کو برباد کردے گی مگر میں ہمیشہ کیلئے اس کی ممانعت نہیں کرتا کیونکہ یہ حرمت کی صورت ہو جاتی ہے اور اس کیلئے علماء سے مشورہ کی ضرورت ہے اس لئے فی الحال ضرورت دینی کے لحاظ سے تین سال کیلئے اس کی ممانعت کرتا ہوں اور یہ میرے لئے جائز ہے.نمائش وغیرہ کے مواقع پر تجارتی حصے کو دیکھنا جائز ہے.کپڑے دیکھو، پیج دیکھو دوسری چیزوں کو دیکھو اور ان سے اپنے لئے اور اپنے خاندان کیلئے فائدے کی باتیں نکالو.مگر تماشے کا حصہ دیکھنا جائز نہیں.ملک چھٹا شادی بیاہ کا معاملہ ہے.چونکہ یہ جذبات کا سوال ہے اور حالات کا سوال ہے اس لئے میں یہ حد بندی تو نہیں کر سکتا کہ اتنے جوڑے اور اتنے زیور سے زیادہ نہ ہوں.ہاں اتنا رہے کہ تین سال کے عرصہ میں یہ چیزیں کم دی جائیں جو شخص اپنی لڑکی کو زیادہ دینا چاہے وہ کچھ زیور کپڑا اور باقی نقد کی صورت میں دیدے.ساتواں مکانوں کی آرائش و زیبائش کا سوال ہے.اس کے متعلق بھی کوئی طریق میرے ذہن میں نہیں آیا.ہاں عام حالات میں تبدیلی کے ساتھ اس میں خود بخود تبدیلی ہو سکتی ہے.جب غذا اور لباس سادہ ہو گا تو اس میں بھی خود بخود لوگ کمی کرنے لگ جائیں گے.
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء پس میں اس عام نصیحت کے ساتھ کہ جو لوگ اس معاہدے میں شامل ہوں وہ آرائش و زیبائش پر خواہ مخواہ روپیہ ضائع نہ کریں، اس بات کو چھوڑتا ہوں.بعض عورتیں پرانے کپڑوں سے بڑی بڑی اچھی زیبائش کی چیزیں تیار کرلیتی ہیں انہیں اجازت ہے کیونکہ اس میں روپیہ کا ضیاع نہیں بلکہ دستکاری کی ترقی ہوتی ہے.ہاں نئی چیزیں خریدنے پر پیسے خرچ نہ کئے جائیں.آٹھویں چیز تعلیمی اخراجات ہیں.اس کے متعلق کھانے پینے میں جو خرچ ہوتا ہے، اس کا ذکر میں پہلے کر آیا ہوں.جو خرچ اس کے علاوہ ہیں یعنی فیس یا آلات اور اوزاروں یا سٹیشنری اور کتابوں وغیرہ پر جو خرچ ہوتا ہے، اس میں کمی کرنا ہمارے لئے مضر ہو گا اس لئے نہ تو اس میں کمی کی نصیحت کرتا ہوں اور نہ ہی اس کی گنجائش ہے.پس عام اقتصادی حالات میں تغیر کیلئے میں ان آٹھ قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہوں.جو لوگ ان قربانیوں کو کرنا چاہیں وہ مجھے لکھ کر اس کی اطلاع دیں، جو جماعتیں ایسا کرنا چاہیں وہ ریزولیویشن پاس کر کے مجھے بھیج دیں یا اگر کوئی ایسے لوگ ہوں جن کے سوائے ساری جماعت ان قربانیوں کیلئے آمادہ ہو تو صرف ان کے نام لکھ کر بھیجے جا سکتے ہیں.یہ تین سال کا عہد ہو گا جسے ہر سال کے بعد دو ہرایا جائے گا اور اگر ضرورت ہوئی تو کسی بات کو درمیان میں بھی چھوڑا جاسکے گا.جہاں یہ گی.باتیں دوسرے گھروں کیلئے اختیاری ہیں وہاں ہمارے اپنے گھروں میں لازمی ہوں قرآن کریم میں حکم ہے.يَأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَوةَ الدُّنْيَا وَ زِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعَكُنَّ وَ أُسَرِحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلاً - ها پس اس حکم کے ماتحت ایک نبی کا خلیفہ ہونے کی حیثیت سے میں بھی اپنے بیوی بچوں کیلئے ان باتوں کو لازمی قرار دیتا ہوں.وہ بچے جو میرے قبضے میں ہیں ان پر ان باتوں کی پابندی لازمی ہے.ہاں جو علیحدہ ہو چکے ہیں اور شادی شدہ ہیں وہ خود ذمہ دار ہیں وہ اپنے طور پر قربانی کریں.باقی جماعت میں سے جو چاہیں کریں اور جو نہ چاہیں نہ کریں.خدا تعالیٰ کے سامنے براہ راست جواب دہ میں ہی ہوں دوسرے لوگ میرے تابع ہیں.جو ان باتوں میں میری متابعت کرنا چاہیں وہ کریں اور جو نہ کرنا چاہیں نہ کریں لیکن اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ جب تک عورتیں تعاون نہ کریں، اخراجات کم نہیں ہو سکتے اور کوئی ایسی رقم نہیں بچ سکتی جو سلسلہ کے کام آسکے اور جب تک یہ کام نہ ہو اس وقت تک یہ کہنا کہ ہمارے مال سلسلہ کیلئے حاضر ہیں غلط ہے.پہلے مال بچاؤ پھر ان کو حاضر کرو.جس شخص کی بیوی بچے اس قربانی کیلئے تیار نہ ہوں وہ
خطبات محمود ۳۱ سال ۱۹۳۴ء اپنے آپ کو ہی پیش کر سکتا ہے اور اپنے کھانے اور پہننے میں کمی کر سکتا ہے.اسی طرح جس عورت کا خاوند تیار نہ ہو وہ اگر چاہے تو اپنا نام پیش کر سکتی ہے بچے بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں اور اگرچہ وہ اور کسی چیز میں نہیں مگر اپنے جیب خرچ میں کمی کر سکتے ہیں وہ اگر دو آنے ماہوار بھی بچائیں تو قومی مال میں زیادتی کر سکتے ہیں.پس یہ مطالبات ہیں جو میں ان دوستوں سے کرتا ہوں جو اس کے اہل ہیں جو اس کے ماتحت آتے ہی نہیں ان سے کوئی مطالبہ نہیں.پس جو افراد یا جماعتیں اس میں شامل ہونا چاہیں، ان کیلئے میں آئندہ ایک ماہ کی مدت مقرر کرتا ہوں.ہندوستان کے رہنے والے ایک ماہ تک اپنے نام پیش کریں.اور دوسرے ممالک میں رہنے والے چار ماہ کے اندر اندر جس وقت سے وہ یہ عہد کریں گے اسی وقت سے سال شروع ہو گا.جماعت سے قربانی کا دوسرا مطالبہ جو دراصل پہلے ہی مطالبہ پر مبنی ہے.میں یہ کرتا ہوں کہ جماعت کے مخلص افراد کی ایک جماعت ایسی نکلے جو اپنی آمد کا ۱/۵ سے ۱/۳ حصہ تک سلسلہ کے مفاد کے لئے تین سال تک بیت المال میں جمع کرائے.اس کی صورت یہ ہو کہ جس قدر وہ مختلف چندوں میں دیتے ہیں یا دوسرے ثواب کے کاموں پر خرچ کرتے ہیں یا دار الانوار کمیٹی کا حصہ یا صے انہوں نے لئے ہیں (اخبارات وغیرہ کی قیمتوں کے علاوہ) وہ سب رقم اس حصہ میں سے کاٹ لیں اور باقی رقم اس تحریک کی امانت میں صدر انجمن احمدیہ کے پاس جمع کرا دیں.مثلاً ایک شخص کی پانچ سو روپے آمد ہے اور وہ موصی بھی ہے.اور دارالانوار کا ایک حصہ بھی اس نے لیا ہوا ہے وہ دس بارہ روپے ماہوار اور ثواب کے کاموں میں بھی خرچ کرتا ہے.اس شخص نے ۱/۵ دینے کا عہد کرلیا اور یہ سو روپے کی رقم ہوئی.وصیت ایسے شخص کی پچاس ہوئی دار الانوار کمیٹی کے ۲۵ ہوئے.چندہ کشمیر اور دوسرے کار ہائے ثواب مثلاً بارہ روپے ہوئے یہ کل رقم ۸۷ ہوئی.باقی تیرہ روپے ماہوار اس شخص کو انجمن میں اس تحریک کی امانت میں جمع کراتے رہنا چاہیئے.اور اگر ۱/۴ کا عہد کیا تو ۱۳ + ۲۵ اڑ میں روپیہ جمع کراتے رہنا چاہیے.عہد کرنے والے شخصوں کو تین سال تک متواتر ایسا کرنا ہو گا.اس مطالبہ کے ماتحت جو آنا چاہے اسے چاہیے کہ جلد سے جلد مجھے اطلاع دے.اور یہ بھی اطلاع دے کہ کس قدر حصہ کا عہد ہے اور چندے وغیرہ نکال کر کس قدر رقم اوسطاً اس کی امانت میں جمع کرانے والی پہنچے گی جسے وہ با قاعدہ جمع کراتا رہے گا.مقررہ تین سال کے بعد
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء جتنی رقم جمع ہوگی وہ یا تو نقد یا رقم کے برابر جائداد کی صورت میں اسے واپس دے دی جائے گی.اس میں یہ بھی فائدہ ہے کہ احتیاط اور کفایت کے ساتھ دوست خرچ کریں گے اور بچت کر سکیں گے بعد میں وہ تمام کی تمام رقم انہیں واپس مل جائے گی.مگر اس رقم میں آنے شامل نہیں ہوں گے.مثلاً جس شخص کے ذمہ پچاس روپیہ آٹھ آنہ بنتے ہیں وہ یا پچاس روپیہ دے یا اکاون- طالب علم بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں اور اپنے خرچ میں سے ایک روپیہ بچا کر بھی جمع کراسکتے ہیں یہ ضروری شرط ہے کہ آنے اس میں نہیں لئے جائیں گے.پس ایسی صورت میں کہ اس تجویز میں طالب علم ، عورتیں، مرد سب شامل ہو سکتے ہیں.آسانی کے ساتھ اس میں دو ہزار آدمی حصہ لے سکتے ہیں.اور اوسط آمد ایک آدمی کی اگر پانچ رو بیه ماہوار بھی رکھ لی جائے تو ہر ماہ میں دس ہزار کی امانت داخل ہو سکتی ہے.جو تین سال میں چار لاکھ کے قریب ہو سکتی ہے.تین سال کے بعد یہ روپیہ تین سال کے بعد یہ روپیہ نقد یا اتنی ہی جائداد کی صورت میں واپس کردیا جائے گا.جو کمیٹی میں اس رقم کی حفاظت کیلئے مقرر کروں گا اس کا فرض ہو گا کہ ہر شخص پر ثابت کرے کہ اگر کسی کو جائداد کی صورت میں روپیہ واپس کیا جارہا ہے تو وہ جائداد فی الواقع اس رقم میں خریدی گئی ہے.اس سب کمیٹی کے ممبر علاوہ میرے مندرجہ ذیل احباب ہوں گے.(۱) مرزا بشیر احمد صاحب (۲) چوہدری ظفر اللہ خان صاحب (۳) عبدالرحمن صاحب مصری (۴) مرزا محمد اشرف صاحب (۵) مرزا شریف احمد صاحب (۶) ملک محمد صاحب لاہور (۷) چوہدری محمد شریف صاحب وکیل منٹگمری (۸) چوہدری حاکم علی صاحب سرگودہا اور چوہدری فتح محمد صاحب.اس کمیٹی کا کام میں اسی کو بتاؤں گا باقی میں اس کی غرض نہیں بتا سکتا.بہرحال یہ قربانی مالی لحاظ سے بھی ، ثواب کے لحاظ سے بھی اور جماعت کی ترقی کے لحاظ سے بھی مفید ہوگی.إِنْشَاءَ اللهُ غلام جماعت سے قربانی کا تیسرا مطالبہ میں یہ کرتا ہوں کہ دشمن کے مقابلہ کیلئے اس وقت بڑی ضرورت ہے کہ وہ جو گندہ لٹریچر ہمارے خلاف شائع کر رہا ہے اس کا جواب دیا جائے.یا اپنا نقطہ نگاہ احسن طور پر لوگوں تک پہنچایا جائے اور وہ روکیں جو ہماری ترقی کی راہ میں پیدا کی جارہی ہیں انہیں دور کیا جائے اس کیلئے بھی خاص نظام کی ضرورت ہے.روپیہ کی ضرورت ہے، آدمیوں کی ضرورت ہے اور کام کرنے کے طریقوں کی ضرورت ہے.طریق میں بیان نہیں کرتا یہ میں اس کمیٹی کے سامنے ظاہر کروں گا جو اس غرض کیلئے بنائی جائے گی اس کام کے
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء واسطے تین سال کیلئے پندرہ ہزار روپیہ کی ضرورت ہوگی.فی الحال پانچ ہزار روپیہ کام کے شروع کرنے کیلئے ضروری ہے بعد میں دس ہزار کا مطالبہ کیا جائے گا اور اگر اس سے زائد جمع ہو گیا تو اسے اگلی مدات میں منتقل کر دیا جائے گا.اس کمیٹی کا مرکز لاہور میں ہوگا اور اس کے ممبر مندرجہ ذیل ہوں گے.(۱) پیر اکبر علی صاحب (۲) شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور (۳) چوہدری اسد اللہ خان صاحب بیرسٹر لاہور (۴) ملک عبدالرحمن صاحب قصوری (۵) ڈاکٹر عبدالحق صاحب بھائی گیٹ لاہور (۶) ملک خدا بخش صاحب لاہور (۷) چوہدری محمد شریف صاحب وکیل منٹگمری (۸) شیخ جان محمد صاحب سیالکوٹ (۹) مرزا عبد الحق صاحب وکیل گورداسپور (۱۰) قاضی عبدالحمید صاحب وکیل امرتسر (۱) سید ولی اللہ شاہ صاحب (۱۲) شمس صاحب له یا اگر وہ باہر جائیں تو مولوی الله و تا صاحب (۱۳) شیخ عبد الرزاق صاحب بیرسٹر لائل پور (۱۴) مولوی غلام حسین صاحب جھنگ (۱۵) صوفی عبدالغفور صاحب حال لاہور.اس کام کیلئے اللہ تعالی جن دوستوں کو توفیق اور اخلاص دے سو سو یا دو دو سو یا زیادہ مقدار میں یکمشت چندہ دیں.ہاں غرباء کو ثواب میں شامل کرنے کیلئے میں ان کیلئے اجازت دیتا ہوں کہ اس تحریک کیلئے وہ دس دس یا ہمیں نہیں کی رقوم بھی دے سکتے ہیں یا دس دس ماہوار کرکے دے سکتے ہیں یہ کام تین سال تک غالبا جاری رہے گا.اس کمیٹی کے اجلاس میں ہی میں اس کے کام کے طریقے بتلاؤں گا.میں خود اس کا ممبر نہیں ہوں مگر مجھے حق ہوگا کہ جب چاہوں اس کا اجلاس بلاؤں اور ہدایات دوں.اس کمیٹی کا کام یہ ہوگا کہ میری دی ہوئی ہدایات کے مطابق دشمن کے پروپیگنڈا کا بالمقابل پروپیگنڈا سے مقابلہ کرے.مگر اس کمیٹی کا کام یہ ہوگا کہ تجارتی اصول پر کام کرے مفت اشاعت کی قسم کا کام اس کے دائرہ عمل سے خارج ہو گا.جماعت سے قربانی کا چوتھا مطالبہ یہ ہے کہ قوم کو مصیبت کے وقت پھیلنے کی ضرورت ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو کہتا ہے کہ مکہ میں اگر تمہارے خلاف جوش ہے تو کیوں باہر نکل کر دوسرے ملکوں میں نہیں پھیل جاتے اگر باہر نکلو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری ترقی کے بہت سے راستے کھول دے گا.اس وقت ہم دیکھتے ہیں کہ حکومت میں بھی ایک حصہ ایسا ہے جو ہمیں کچلنا چاہتا ہے اور رعایا میں بھی.ہمیں کیا معلوم ہے کہ ہماری مدنی زندگی کی ابتداء کہاں سے ہوتی ہے.قادیان بے شک ہمارا مذہبی مرکز ہے مگر ہمیں کیا معلوم کہ ہماری شوکت و طاقت کا مرکز کہاں
خطبات محمود سلام س مهم سال ۱۹۳۴ء ہے.یہ ہندوستان کے کسی اور شہر میں بھی ہو سکتا ہے اور چین، جاپان، فلپائن، سماٹرا، جاوا روس، امریکہ، غرضیکہ دنیا کے کسی ملک میں ہو سکتا ہے اس لئے جب ہمیں یہ معلوم ہو کہ لوگ بلاوجہ جماعت کو ذلیل کرنا چاہتے ہیں، کچکتا چاہتے ہیں تو ہمارا ضروری فرض ہو جاتا ہے کہ باہر جائیں اور تلاش کریں کہ ہماری مدنی زندگی کہاں سے شروع ہوتی ہے.ہمیں کیا معلوم ہے کہ کون سی جگہ کے لوگ ایسے ہیں کہ وہ فوراً احمدیت قبول کرلیں گے اور ہمیں کیا معلوم ہے کہ جماعت کو ایسی طاقت کہاں سے حاصل ہو جائے گی کہ اس کے بعد دشمن شرارت نہ کر سکے گا.مجھے شروع خلافت سے یہ خیال تھا اور اسی خیال کے ماتحت میں نے باہر مشن قائم کئے تھے.بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ بیرونی مشنوں پر روپیہ خرچ کرنا بیوقوفی ہے مگر میں جانتا ہوں کہ یہ خیال صرف اسی وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ ایسے لوگوں نے سلسلہ کی اہمیت کو نہیں سمجھا اور اسے ایک انجمن خیال کرلیا ہے.مذہبی سلسلے ضرور ایک وقت دنیا کے توپ خانوں کی زد میں آتے ہیں اور وہ کبھی ظلم و ستم کی تلوار کے سایہ کے بغیر ترقی ہی نہیں کر سکتے.پس ان کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ مختلف ممالک میں ان کی شاخیں ہوں تاکہ ایک جگہ وہ ظلم و ستم کا تختہ مشق ہوں تو دوسری جگہ پر ان کی امن کے ساتھ ترقی ہو رہی ہو اور تاکہ ان کا مذہبی لٹریچر دشمن کی دست برد سے محفوظ رہے.جو شخص بھی اس سلسلہ کو ایک آسمانی تحریک سمجھتا ہے اسے اس امر کیلئے تیار ہونا پڑے گا اور جو اس نکتہ کو نہیں سمجھتا وہ حقیقت میں اس سلسلہ کو بالکل نہیں سمجھتا.غرض سلسلہ احمدیہ کسی جگہ بھی اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھ سکتا اس لئے جب تک ہم سارے ممالک میں اپنے لئے جگہ تلاش نہ کریں ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.ہماری مثال فقیر کی طرح ہے جو سب دروازے کھٹکھٹاتا فرض ہے کہ دنیا میں نئے نئے رستے تلاش کریں اور نئے نئے ممالک میں جاکر تبلیغ کریں.ہمیں کیا معلوم ہے کہ کہاں لوگ جوق در جوق داخل ہوں گے.چونکہ ہمارا پہلا تجربہ بتاتا ہے کہ با قاعده مشن کھولنا مہنگی چیز ہے اس لئے پرانے اصول پر نئے مشن نہیں کھولے جاسکتے اس لئے میری تجویز ہے کہ دو دو آدمی تین نئے ممالک میں بھیجے جائیں.ان میں سے ایک ایک انگریزی دان ہو اور ایک ایک عربی دان.سب سے پہلے تو ایسے لوگ تلاش کئے جائیں کہ جو سب یا کچھ حصہ خرچ کا دے کر حسب ہدایت جاکر کام کریں مثلاً صرف کرایہ لے لیں آگے خرچ نہ مانگیں یا کرایہ خود ادا کر دیں خرچ چھ سات ماہ کیلئے ہم سے لے لیں یا کسی قدر - ہے.ہمارا
خطبات محمود ۴۳۵ سال ۱۹۳۳۴ء رقم اس کام کیلئے دے سکیں.اگر اس قسم کے آدمی حسب منشاء نہ ملیں تو جن لوگوں نے پچھلے خطبہ کے ماتحت وقف کیا ہے ان میں سے کچھ آدمی مچن لئے جائیں.جن کو صرف کرایہ دیا جائے اور چھ ماہ کیلئے معمولی خرچ دیا جائے اس عرصہ میں وہ ان ملکوں کی زبان سیکھ کر وہاں کوئی کام کریں اور ساتھ ساتھ تبلیغ بھی کریں اور سلسلہ کا لٹریچر اس ملک کی زبان میں ترجمہ کر کے اسے اس ملک میں پھیلائیں اور اس ملک کے تاجروں اور احمدی جماعت کے تاجروں کے درمیان تعلق بھی قائم کرائیں.غرض مذہبی اور تمدنی طور پر اس ملک اور احمدی جماعت کے درمیان واسطہ بنیں.پس میں اس تحریک کے ماتحت ایک طرف تو ایسے نوجوانوں کا مطالبہ کرتا ہوں جو کچھ خرچ کا بوجھ خود اٹھائیں ورنہ وقف کرنے والوں میں سے ان کو مچن لیا جائے گا جو کرایہ اور چھ ماہ کا خرچ لے کر ان ملکوں میں تبلیغ کیلئے جانے پر آمادہ ہوں گے جوان کیلئے تجویز کئے جائیں گے.اس چھ ماہ کے عرصہ میں ان کا فرض ہوگا کہ علاوہ تبلیغ کے وہاں کی زبان بھی سیکھ لیں اور اپنے لئے کوئی کام بھی نکالیں جس سے آئندہ گزارہ کر سکیں.اس تحریک کیلئے خرچ کا اندازہ میں نے دس ہزار روپیہ کا لگایا ہے.پس دوسرا مطالبہ اس تحریک کے ماتحت میرا یہ ہے کہ جماعت کے زی ثروت لوگ جو سو سو روپیہ یا زیادہ روپیہ دے سکیں اس کیلئے رقوم دے کر ثواب حاصل کریں.غرباء کی خواہش کو مد نظر رکھ کر میں اس کی بھی اجازت دیتا ہوں کہ جو سو نہیں دے سکتے وہ دس ہیں تمھیں یا زیادہ رقوم جو رہا کوں پر مشتمل ہوں ادا کریں، یا دس دس بیس بیس ماہوار کر کے اس میں شامل ہو جائیں.تمام غیر ممالک میں احمدیت کا جھنڈا گاڑنا نہایت اہم اور ضروری ہے.میں نے پہلے بھی اس کی طرف توجہ دلائی ہے.چنانچہ ایک دفعہ کی تحریک پر ایک نوجوان جن کا نام کرم دین ہے، چپکے سے چلے گئے اور جہاز پر جاکر کوئلہ ڈالنے پر ملازم ہو گئے.اس طرح انگلستان جاپہنچے، جماعت نے سات آٹھ دن تک کھانا وغیرہ ان کو دیا اس کے بعد انہوں نے پھیری کا کام شروع کردیا اور ساتھ ہی کام بھی سیکھنے لگ گئے.اور اس وقت وہ انگلش ویر ہاؤس لاہور میں اڑھائی تین سو روپیہ تنخواہ پاتے ہیں.پس میں اس تجربہ سے بھی سمجھتا ہوں چھ سات ماہ کی مدت کام تلاش کرنے کیلئے کافی ہے اور اگر اس میں بھی کوئی کام پیدا نہیں کر سکتا تو وہ نالائق ہے.ایسے نوجوان با قاعدہ مبلغ نہیں ہوں گے مگر اس بات کے پابند ہوں گے کہ باقاعدہ رپورٹیں بھیجتے رہیں اور ہماری ہدایات کے ماتحت تبلیغ کریں.پس الله
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء پہلے مطالبہ کو ملا کر یہ پچیس ہزار کا مطالبہ ہوا جس میں سے پندرہ ہزار کی فوری ضرورت ہے.جماعت سے قربانی کا پانچواں مطالبہ یہ ہے کہ تبلیغ کی ایک سکیم میرے ذہن میں ہے جس پر سو روپیہ ماہوار خرچ ہو گا اور اس طرح بارہ سو روپیہ اس کیلئے درکار ہے جو دوست اس میں حصہ لے سکتے ہوں، وہ لیں.اس میں بھی غرباء کو شامل کرنے کیلئے میں اجازت دیتا ہوں کہ وہ اس تحریک میں حصہ لینے کیلئے پانچ پانچ روپے دے سکتے ہیں.جماعت سے قربانی کا چھٹا مطالبہ یہ ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ وقف کنندگان میں سے پانچ افراد کو مقرر کیا جائے کہ سائیکلوں پر سارے پنجاب کا دورہ کریں.اور اشاعتِ سلسلہ کے امکانات کے متعلق مفصل رپورٹیں مرکز کو بھیجوائیں.مثلاً یہ کہ کس علاقہ کے لوگوں پر کس طرح اثر ڈالا جاسکتا ہے، کون کون سے بااثر لوگوں کو تبلیغ کی جائے تو احمدیت کی اشاعت میں خاص مدد مل سکتی ہے، کس کس جگہ کے لوگوں کی کس کس جگہ کے احمدیوں سے رشتہ داریاں ہیں کہ ان کو بھیج کر وہاں تبلیغ کرائی جائے وغیرہ وغیرہ.حصہ پانچ آدمی جو سائیکلوں پر جائیں گے، مولوی فاضل یا انٹرنس پاس ہونے چاہئیں.تین سال کیلئے وہ اپنے آپ کو وقف کریں گے.پندرہ روپیہ ماہوار ان کو دیا جائے گا.تبلیغ کا کام ان کا اصل فرض نہیں ہوگا اصل فرض تبلیغ کیلئے میدان تلاش کرنا ہوگا، وہ تبلیغی نقشے بنائیں گے.گویا جس طرح گورنمنٹ سروے (SURVEY) کراتی ہے وہ تبلیغی نقطہ نگاہ سے پنجاب کا سروے کریں گے.ان کی تنخواہ اور سائیکلوں وغیرہ کی مرمت کا خرچ ملا کر سو روپیہ ماہوار ہوگا اور اس طرح کل رقم جس کا مطالبہ ہے ساڑھے ستائیس ہزار بنتی ہے.مگر اس میں سے ساڑھے سترہ ہزار کی فوری ضرورت ہے جو دوست اس میں لے سکیں فوراً لیں.عام چندے ان چندوں میں شامل نہیں.اس تحریک میں بھی غرباء کو حصہ دلانے کیلئے میں اجازت دیتا ہوں کہ جو لوگ پانچ پانچ روپیہ اس مد میں مدد دے سکیں وہ بھی اس میں حصہ لے سکتے ہیں خواہ یکمشت یا پانچ روپیہ ماہوار کرکے.ہاں جو لوگ اس سے کم حیثیت رکھتے ہیں وہ نہ میرے مخاطب ہیں اور نہ ان کے ثواب میں کمی آتی ہے کیونکہ خدا تعالی دلوں کو دیکھتا ہے.اب آج کے خطبہ میں میں صرف یہ چھ مطالبات کرتا ہوں، بقیہ باتیں اگلی دفعہ بیان کروں گا.ایک بات سادہ زندگی کے متعلق ہے جس میں جو مرد، عورت، بچے شامل ہونا چاہیں وہ اپنا نام مجھے لکھ دیں.دوسرے وہ جو ۱/۵ سے ۱/۳ حصہ تک اپنی آمدنیوں میں سے وقف کر سکیں تین
خطبات محمود ٣م سال ۱۹۳۴ء سروے سال تک ایسی رقم واپس نہیں ہو سکے گی اور تین سال کے بعد روپیہ یا جائداد کی صورت میں واپس ہوگی.تیسرے پراپیگنڈا کیلئے ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جس کے لئے پندرہ ہزار روپیہ کی ضرورت ہے.جس میں سے پانچ ہزار فوری طور پر چاہیے.چوتھی بات یہ ہے کہ تین نئے ممالک میں دو دو کر کے چھ آدمیوں کو کچھ کرایہ یا خرچ دے کر بھیجا جائے اور ہر سال وہاں ایک ایک آدمی اور ضرور بھیجا جاتا رہے.اس طرح بہت سے آدمی تھوڑے عرصہ میں ہی مختلف ممالک میں پہنچ جائیں گے.یہ خرچ اتنا کم اور اس کے نتائج اتنے اہم ہیں کہ جس کا ابھی اندازہ نہیں کیا جاسکتا.ہمارے ایک ایک مشن کا خرچ پانچ پانچ ہزار روپیہ سے زیادہ ہے مگر اس طرح پانچ ہزار سے تین نئے مشن قائم ہو سکیں گے.یہی پرانے زمانہ میں صوفیاء کا دستور تھا اور ایسا ہی وقت اب ہمارے لئے آگیا ہے.پانچویں بات یہ ہے کہ سو روپیہ ماہوار کی ایسے ذرائع تبلیغ کیلئے ضرورت ہے جنہیں میں ظاہر نہیں کرتا.جن کے سپرد یہ کام ہو گا، انہیں اسے ظاہر کروں گا.اور چھٹی بات یہ ہے کہ سو روپیہ ماہوار کی سارے پنجاب کے کیلئے ضرورت ہے.یہ چھ باتیں ہیں جو آج میں پیش کرتا ہوں اور بھی تجاویز ہیں جو اگلے جمعہ میں بیان کروں گا.ایک طرف تو مالدار لوگ ساڑھے ستائیس ہزار روپیہ فوراً جمع کردیں.اور دوسرے نوجوان جنہوں نے اپنے نام پیش کئے ہیں دوبارہ غور کر کے مجھے اطلاع دیں کہ کیا وہ ان شرائط کے ماتحت غیر ممالک کو جانے کیلئے تیار ہیں یا سائیکل پر سروے کا کام ان کے سپرد کیا جائے تو کیا وہ اس کیلئے تیار ہیں.ترجیح غیر ممالک میں جانے کیلئے ان لوگوں کو دی جائے گی جو اپنا خرچ کر سکیں.سائیکلوں پر جانے والے آدمی محنتی ہونے چاہئیں.پھر اخراجات میں کمی کر کے جو لوگ تین سال تک امانت کے طور پر بیت المال میں جمع کرا سکیں، وہ بھی مجھے اپنے نام بتادیں.میں سمجھتا ہوں کہ جس جوش کے ساتھ دوستوں نے پہلے قربانیوں کیلئے اپنے آپ کو پیش کیا تھا.اس سے اگر آدھے جوش کے ساتھ بھی کام کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ مطالبات پورے نہ ہو جائیں.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالٰی ہمیں اپنے دین کیلئے بیش از پیش قربانیوں کی توفیق دے اور کارکنوں کو بھی توفیق دے کہ جماعت کے اموال کو دیانت کے ساتھ اور ایسے طریق پر صرف کر سکیں کہ بہتر سے بہتر نتائج پیدا ہوں.وہ اپنے فضل اور برکت کے دروازے ہم پر کھول دے.اور سلسلہ کی ترقی کا جو کام ہمارے ذمہ ڈالا ہے اسے خود ہی پورا کرے.(الفضل ۲۵- نومبر ۱۹۳۴ء).ا
خطبات محمود البقرة: ٢ تام ۴۳۸ سال ۱۹۳۴ء ه بخاری کتاب المغازی باب غزوة بدر سے عمدة القارى بشرح الصحيح البخارى جلد ۱۷ صفحه ۸۴٬۸۰ مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ بلوچستان ۱۴۰۲ھ کے بخاری کتاب المناقب باب مناقب قريش هم اسدالغابة جلد ۵ صفحه ۴۴۱-۴۴۲ دار احياء التراث العربي بيروت لبنان ۱۳ سيرت ابن هشام الجزء الثالث صفحه ۱۰۰-۱۰ مطبعة مصطفى البابي الحلبى مصر ١٩٣٦ء نه الضحى: ١٢ الاعراف: ۳۲ ے ترمذی ابواب المناقب باب فی مناقب ابى بكر الصديق بخاری کتاب المغازی باب غزوة تبوك وهي غزوة العُسرة م بخاری ابواب صلوة الخوف باب قول اللَّه تَعَالَى وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ ه الاحزاب: ٢٩
خطبات محمود ۴۳۹ ۳۸ سال ۱۹۳۴ء مخلصین جماعت احمدیہ سے جانی اور مالی قربانیوں کے مزید مطالبات فرموده ۳۰ نومبر ۱۹۳۴ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں نے گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں احباب کے سامنے اس تحریک کے جو میرے نزدیک اُس فتنہ کا مقابلہ کرنے کیلئے ضروری ہے جو اس وقت جماعت احمدیہ کے خلاف مختلف جماعتوں کی طرف سے کھڑا کیا گیا ہے، چھ حصے ایسے بیان کئے تھے جن کے ذریعہ سے اس مخالفت کا سدباب کیا جاسکتا ہے اور سلسلہ کی ترقی کے راستہ سے روکوں کو دور کیا جاسکتا ہے.میں نے بعض نئے کام تجویز کئے تھے تاکہ ان کے ذریعہ سلسلہ احمدیہ کی اشاعت کو وسیع کیا جائے اور تبلیغ کیلئے نئے مقامات تلاش کئے جائیں.اس کیلئے میں نے ساڑھے ستائیس ہزار روپیہ کی اپیل کا اعلان کیا تھا.اصل مخاطب اس اپیل کے تو وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالی سوروپیہ یا سو سے زائد رقم دینے کی توفیق دے لیکن چونکہ خدا تعالٰی نے غرباء کے دلوں میں قربانی کا زیادہ مادہ رکھا ہوتا ہے بلکہ وہ تو اپنی ذات میں مجستم قربانی نظر آتے ہیں کیونکہ ان کی ساری عمر ہی قربانی میں گزر جاتی ہے.میں نے مناسب نہ سمجھا کہ ان کو اس ثواب میں شمولیت سے محروم رکھوں اس لئے چاروں سکیموں کے متعلق جن میں سے ایک پندرہ ہزار کی ہے، دوسری دس ہزار کی اور دو اڑھائی اڑھائی ہزار کی.غرباء کیلئے اس رنگ میں رستہ کھولا کہ جو چاہے کسی ایک میں یا ایک سے زیادہ میں یا سب میں شریک ہو سکے.یعنی پندرہ اور دس ہزار
خطبات محمود ۴۴۰ سال ۱۹۳۴ء کی تحریکوں میں دس دس روپے دے کر اور اڑھائی اڑھائی ہزار کی تحریکوں میں پانچ پانچ روپے ادا ادا کر کے خواہ کسی ایک میں، خواہ دو میں، خواہ تین میں اور خواہ چاروں میں شامل ہو جائے.چنانچہ میں دیکھتا ہوں کہ زیادہ تر اسی طبقہ جماعت نے توجہ کی ہے.گو ابھی تحریک قادیان کی جماعت تک ہی پہنچی ہے اور باہر وہ خطبہ کل یا آج تک پہنچا ہو گا اور وہ بھی قریب کے شہروں اور دیہات میں ورنہ بہت سے علاقوں میں وہ خطبہ ایک ہفتہ بعد اور بعض جگہ دو تین ہفتہ کے بعد پہنچے گا اس لئے اس خطبہ کے پورے جواب کی دو ماہ سے کم اور ہندوستان سے باہر سے تین چار ماہ سے کم انتظار کی مدت نہیں ہو سکتی.پس میں ابھی نہیں کہہ سکتا کہ جن کو خدا تعالیٰ نے توفیق دی ہے، وہ توفیق نہیں جو کمزور انسان قربانی سے بچنے کیلئے تجویز کرتا ہے، بلکہ وہ توفیق جو خدا تعالیٰ کے نزدیک قربانی کیلئے کافی ہے وہ اس خطبہ کا کیا جواب دیں گے.مگر میں سمجھتا ہوں جماعت احمدیہ کے غرباء کا طبقہ جو اصل میں مخاطب نہیں، اگر قادیان کی جماعت کے لحاظ سے اندازہ لگایا جائے تو وہ اس چندہ میں بھی دوسروں سے بڑھ جائے گا.گو جنہوں نے دس دس یا پانچ پانچ روپے دینے کا وعدہ کیا ہے وہ سارے کے سارے ایسے نہیں ہیں جو قطعی طور پر دس یا پانچ دینے والوں میں شامل کئے جائیں ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جن کو دس یا پانچ سے زیادہ دینے کی توفیق ہے مگر کئی ایسے بھی ہیں کہ انہوں نے جو کچھ دیا ہے انہیں اتنا دینے کی بھی توفیق نہ تھی.اسی سلسلہ میں بعض عورتوں نے مجھ سے پوچھا ہے کہ ہم بھی اس تحریک میں حصہ لینا چاہتی ہیں مگر ہمیں اتنی توفیق نہیں کہ دس یا پانچ روپے یکمشت ادا کر سکیں.ہمارے ملک میں رواج یہی ہے کہ عام طور پر عورتوں کو خرچ نقد نہیں دیا جاتا بلکہ کھانے پینے کی اشیاء اور پہننے کا کپڑا خرید کر دے دیا جاتا ہے سوائے شہری خاندانوں کے.پس اس میں شبہ نہیں کہ اکثر عورتیں ایسی ہیں جو دس روپے یا پانچ روپے یکمشت نہیں دے سکتیں مگر انہوں نے خواہش کی ہے کہ انہیں بھی اس ثواب میں شامل ہونے کا موقع دیا جائے اور یہ اجازت دے دی جائے کہ وہ ایک ایک یا دو دو روپیہ ماہوار کر کے ادا کردیں.عورتوں کا یہ جوش اور یہ اخلاص یقیناً قابل شکریہ بھی ہے اور قابل قدر بھی.قابل شکریہ تو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کے اس طبقہ کو بھی جو کمزور اور ضعیف ہے، دین کیلئے قربانی کرنے کا شوق اور طاقت بخشی ہے اور قابل قدر اس لئے کہ خدا تعالی کیلئے کام کرنا ہر مومن کا ذاتی فرض ہوتا ہے اور جو بھی اس
خطبات محمود اسلام موم سال ۱۹۳۴ء کام میں اس کا ہاتھ بٹاتا ہے اس کی اسے قدر کرنی چاہیئے.پس میں نے عورتوں کے اخلاص کی قدر کرتے ہوئے انہیں یہ تجویز بتائی کہ جس طرح قادیان میں بھی اور باہر بھی کمیٹیاں ڈالی جاتی ہیں اور جن کے نام کا قرعہ نکلے، ان کے نام سے ان تحریکوں میں رقم جمع کرا دیں.مثلاً اگر ایک سو یا دو سو عورتیں ان تحریکوں میں شامل ہونے کا ارادہ رکھتی ہیں تو وہ سب مل کر کمیٹی ڈال لیں اور اس میں روپیہ روپیہ یا دو دو روپے دیتی رہیں ہر ماہ جتنی رقم جمع ہو اس کیلئے قرعہ ڈال لیں.مثلاً اگر سو روپے کی رقم ہو تو دس دس روپے کے قرعے جن دس عورتوں کے نام نکلیں ان کی طرف سے اس تحریک میں جمع کرا دیں اسی طرح اگلے مہینے اور دس عورتوں کے نام جمع کرا دیں.اگر مردوں میں سے بھی بعض غرباء اس رنگ میں حصہ لینا چاہیں تو وہ بھی ایسا کر سکتے ہیں مگر ضروری ہوگا کہ دس کی رقم یا پانچ کی رقم اگر اس تحریک میں حصہ لے جس کیلئے کم سے کم پانچ روپے کی رقم مقرر ہے خزانہ میں یکمشت جمع کرائی جائے.گو اصل مخاطب ان تحریکوں کے آسودہ حال لوگ ہیں رستہ ان کیلئے کھلا ہے جو ثواب حاصل کرنے کی شدید خواہش رکھتے ہیں اور کسی نیک کام میں بھی دوسروں سے پیچھے نہیں رہنا چاہتے.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ایک دفعہ غرباء نے آپ سے شکایت کی کہ یا رسول اللہ ! ہم جہاد کیلئے جاتے ہیں تو ہمارے اُمراء بھائی بھی جاتے ہیں، ہم نمازیں پڑھتے ہیں تو وہ بھی پڑھتے ہیں، ہم روزے رکھتے ہیں تو وہ بھی رکھتے ہیں، ہم ذکر الہی کرتے ہیں تو وہ بھی کرتے ہیں مگر مشترک ضرورتوں اور دینی کاموں کیلئے جب مال دینے کا وقت آتا ہے تو وہ دیتے ہیں ہم نہیں دے سکتے ، وہ زکوۃ دیتے ہیں مگر ہم نہیں سکتے وہ صدقہ و خیرات کرتے اور غرباء کی مدد کرتے ہیں مگر ہم نہیں کرسکتے.غرض وہ کئی کے ثواب حاصل کرتے ہیں مگر ہم محروم رہتے ہیں اور ان کو ہم پر فوقیت حاصل ہے کیونکہ ہم ثواب کے کاموں میں ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے.یا رسُول اللہ ! ہمیں بتائیں ہم کیا کریں تا کہ ان کی طرح ثواب حاصل کر سکیں.یہ جوش اور یہ سوال بتاتا ہے کہ کچی مخلص جماعتوں میں یہ سوال نہیں پیدا ہوا کرتا کہ فلاں ایسا نہیں کرتا اس لئے ہم بھی ایسا نہیں کرتے بلکہ یہ جوش پایا جاتا ہے کہ فلاں مومن میں فلاں نیکی پائی جاتی ہے، ہم وہ نیکی کس طرح حاصل کریں.جب کسی جماعت کے اکثر افراد میں یہ جذبہ پایا جاتا ہے تو وہ اعلیٰ معیار کی جماعت کہلاتی ہے لیکن جس قوم میں اس قسم کے سوالات پیدا ہوں کہ فلاں نے غلطی کی
خطبات محمود تھی، سمسم سال ۱۹۳۴ء اسے نہیں پکڑا گیا پھر ہمیں کیوں گرفت کی جاتی ہے یا یہ کہ فلاں شخص فلاں نیکی اور ثواب کا کام نہیں کرتا تو ہم کیوں کریں وہ تباہ ہو جاتی ہے کیونکہ اس قسم کے غذرات کا مطلب ہوتا ہے کہ اس قوم کی نظر آگے بڑھنے والوں اور ترقی کرنے والوں کی طرف نہیں ہوتی بلکہ کمزوروں اور پیچھے رہنے والوں پر ہوتی ہے.حالانکہ جس قوم نے آگے بڑھنا ہوتا ہے وہ آگے والوں کو دیکھتی ہے اور جس نے پیچھے ہٹنا ہوتا ہے وہ پیچھے رہنے والوں کو دیکھتی ہے اور جس قوم کی نظر آگے کی طرف ہوتی ہے، وہی ترقی کرتی ہے اور جس کی نظر پیچھے کو ہوتی ہے وہ تنزل کے گڑھے میں گرتی ہے.مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض احمدی کہلانے والے بھی یہ سوال کرتے ہیں کہ فلاں میں یہ کمزوری پائی جاتی ہے اور فلاں میں یہ تو پھر ہمیں اس کمزوری کی وجہ سے کیوں گرفت میں لایا جاتا ہے.گویا ان کے نزدیک دین کی خدمت کرنا اور دین کیلئے قربانی کرنا ایک چٹی ہے جسے اسی صورت میں برداشت کیا جا سکتا ہے کہ ہر ایک شخص کو اس میں شامل کیا جائے نیکی اعلیٰ مقصد نہیں جس کے حصول کیلئے دوسروں سے بڑھنے کی خواہش کی جائے.مگر صحابہ میں وہ جوش تھا کہ ان میں سے غرباء نے رسول کریم ا ہیں اور وہ سے یہ سوال کیا کہ ہم کس طرح ثواب حاصل کرنے میں امراء کا مقابلہ کر سکتے کیا طریق ہے کہ ہم نیکی حاصل کرنے میں ان سے پیچھے نہ رہیں.رسول کریم نے انہیں فرمایا کیا میں تمہیں ایسی ترکیب بتاؤں کہ اگر تم اس پر عمل کرو تو امراء سے کئی سوسال پہلے جنت میں داخل ہو جاؤ.انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! وہ کیا ترکیب ہے؟ آپ نے فرمایا.ہے کہ تم ہر نماز کے بعد ۳۳ ۳۳ دفعہ تسبیح و تحمید اور ۳۴ بار تکبیر کہہ لیا کرو.انہوں ایسا ہی کرنا شروع کر دیا.مگر معلوم ہوتا ہے جو جذبہ قربانی اور ایثار کا اُس وقت کے غرباء میں پایا جاتا تھا وہی امراء میں بھی موجود تھا انہوں نے ٹوہ لگائی کہ رسول کریم ال اور غرباء میں کیا بات چیت ہوئی.آخر انہیں پتہ لگ گیا کہ رسول کریم ﷺ نے ان کو ایک ایسا گر بتایا ہے کہ جس پر عمل کرنے سے وہ اس ثواب کے بھی حقدار ہو جائیں گے جس میں وہ پہلے شریک نہ ہوسکتے تھے اور انہوں نے بھی وہ نسخہ معلوم کر لیا اور پھر اس پر عمل کرنا شروع کر دیا.دیکھ کر غرباء پھر رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ امراء کو منع کردیں کیونکہ انہوں نے بھی وہی کرنا شروع کر دیا ہے جو آپ نے ہمیں بتایا تھا.یہ سن کر رسول کریم ال نے فرمایا جسے خدا تعالیٰ نیکی کرنے کی توفیق دے اسے میں
خطبات محمود ۴۴۳ سال ۱۹۳۳ء نہیں روک سکتا ہے.حقیقی جذبہ قربانی یہ ہوتا ہے.ایسے ہی لوگوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اور ان کے حسّاس اور اخلاص سے بھرے ہوئے دلوں کو ٹھیس سے بچانے کیلئے میں نے ان کو قربانی کرنے کا طریق بتادیا ہے.کئی غرباء ایسے ہیں کہ انہوں نے دس روپیہ والی تحریک میں حصہ لے کر سو دوسو چار سو دینے والوں سے بھی بہت بڑی قربانی کی ہے.مثلاً مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض ایسے لوگ جنہوں نے دس روپے دیئے ہیں انہوں نے سارے ماہ کی آمدنی دے دی ہے.اور بعض جنہوں نے ہمیں روپے دیئے ہیں ان کی سارے مہینہ کی آمدنی میں روپے ہی تھی.گویا انہوں نے ایک مہینہ کی ساری کی ساری آمدنی دے دی.اب اگر چار سو ماہوار کمانے والا ایک سو روپیہ دیتا ہے یا پانچ سو ماہوار کمانے والا ایک سو کی رقم پیش کرتا ہے تو اس کے معنے ہوئے کہ وہ اپنی آمدنی کا ۱/۴ اور ۱/۵ حصہ دیتے ہیں حالانکہ ایسی ضرورتوں کو پورا کرنے کے بعد جو لازمی ہوتی ہیں ان کے پاس زیادہ رقم بچتی ہے.میں نے غرباء اور امراء کا مقابلہ اس رنگ میں بھی کیا ہے کہ جس چیز کے بغیر گزارہ نہیں ہو سکتا اس پر ان کا خرچ کتنا ہوتا ہے.مثلاً ایک غریب شخص ہے جس کے کھانے والے پانچ کس ہیں.اگر فی کس کے حساب سے ڈیڑھ روپیہ ماہوار کا آٹا رکھا جائے تو صرف آٹا ساڑھے سات روپے کا ہوا اور اگر اس کی ماہوار آمد بیس روپے ہو تو گویا ۱/۳ رقم سے زیادہ اس کی آئے پر صرف ہوتی ہے اور اگر پکوائی وغیرہ کو مد نظر رکھ لیا جائے تو گویا اس کی آمد میں سے ۴۵ فیصدی رقم خشک روٹی پر خرچ ہو جاتی ہے.اس کے مقابلہ میں اگر پانچ سو ماہوار آمد والے شخص کے بھی پانچ کس ہی کھانے والے ہوں تو آئے پر اس کی رقم بھی اتنی ہی خرچ ہوگی جتنی ہیں روپے آمد والے غریب کی خرچ ہوتی ہے.اور اس طرح امیر کی صرف ڈیڑھ فیصدی رقم ایسی ضرورت پر خرچ ہوئی جس کے بغیر چارہ نہیں مگر غریب کی ایسی ضرورت پر ۴۵ فیصدی رقم صرف ہوگی.یہ کتنا بڑا فرق ہے اور غریب کی قربانی کو یہ کتنا شاندار بنا دیتا ہے.غرض کئی غرباء ایسے ہیں کہ میں جانتا ہوں انہوں نے اس تحریک میں حصہ لے کر بظاہر مطلوبہ رقم کو زیادہ نہیں بڑھایا لیکن جماعت کے اخلاص اور جذبہ قربانی میں بہت بڑا اضافہ کر دیا ہے اور ایسی قیمتی چیز پیش کی ہے جسے ہم خدا تعالیٰ کے سامنے رکھ سکتے ہیں.جس طرح ایک موتی کا کیڑا سمندر کی تہہ میں بیٹھ کر ایسا موتی تیار کرتا ہے جو بادشاہ کے سامنے پیش کیا
خطبات محمود - سلام سلام سلام.سال ۶۱۹۳۴ جاسکتا ہے، اسی طرح مومن بچے اخلاص سے جو کام کرتا ہے وہ موتی سے بھی زیادہ قیمتی ہوتا ہے کیونکہ وہی خدا تعالیٰ کے سامنے رکھا جاتا ہے.دین کیلئے ہر قربانی کرنے والی جماعت خداتعالی کے سامنے وہی موتی رکھے گی جو سچا اخلاص دکھانے والوں اور حقیقی قربانی کرنے والوں نے تیار کئے ہوں گے.پس اعلیٰ قربانیوں کے ذریعہ جو روحانی موتی پیدا ہوتے ہیں وہی جماعت کی زیب و زینت کا موجب ہوتے ہیں.ایسے موتی تیار کرنے والے بظاہر پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوتے ہیں اور غربت کے ہاتھوں وہ اس حالت کو پہنچے ہوتے ہیں کہ کسی مجلس میں شامل ہو جائیں تو اس مجلس کی زینت نہیں سمجھے جاتے بلکہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ مجلس کی حیثیت کو بگاڑنے والے ہیں.کئی اسی مزاج کے لوگ کہا کرتے ہیں کہ مجلس شورٹی میں شمولیت کیلئے کئی غربت زدہ زمیندار آجاتے ہیں.مگر یاد رکھنا چاہیے اس مجلس کے سوا ایک اور بھی مجلس ہونے والی ہے اور اُس مجلس میں ہم ہی شامل نہ ہوں گے بلکہ ہمارے باپ دادے اور ہماری آئندہ ہونے والی اولادیں بھی شامل ہوں گی حتی کہ آدم کی اولاد کے جتنے بچے پیدا ہوئے، وہ سارے کے سارے شامل ہوں گے اُس وقت ظاہری لباسوں اور دنیوی وجاہتوں کو پیش نہیں کیا جائے گا بلکہ ایک نئی چیز پیش کی جائے گی وہ چیز جو ایسی جگہ رکھی جاتی ہے ہمیں نظر نہیں آتی یعنی وہ خدا تعالی کے خزانہ میں رکھی جاتی ہے.کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک کام کا اچھا نتیجہ اس دنیا میں مل رہا ہوتا ہے اور بُرا اُدھر یعنی اگلے جہان میں محفوظ کیا جارہا ہوتا ہے.اور کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ اچھا نتیجہ اُدھر جمع ہو رہا ہوتا ہے اور بُرا اس دنیا میں مل رہا ہوتا ہے.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے درمیان میں ایک پردہ پڑا ہو اور کچھ بہلنے لگے ہوں جن میں سے بعض کا منہ پردہ کے ایک طرف اور بعض کا دوسری طرف، بعض میں سے رس ادھر گرتا ہو اور بعض میں سے اُدھر، بعض کا چھلکا ایک طرف گرتا ہو اور بعض کا چھلکا دوسری طرف یہی حال انسانی اعمال کا ہوتا ہے بعض کا رس اِدھر یعنی اس دنیا میں گرتا ہے اور چھلکا دار الاقامہ یعنی ہمیشہ کے گھر میں.اور بعض کا چھلکا اس دنیا میں گرتا ہے اور رس اُدھر جب لوگ مرکز اگلے جہان میں جائیں گے تو بعض سے کہا جائے گا کہ لو تمہارے اعمال کا چھلکا محفوظ ہے اسے دوزخ میں ڈال دیتے ہیں، اس سے تمہارے جلانے کیلئے اچھی آگ پیدا ہوگی.یہی چیز تمہاری طرف سے یہاں محفوظ رکھنے کیلئے آئی تھی حالانکہ وہ دنیا میں خوش ہو رہے ہوں گے کہ انہوں نے اپنے لئے بہت اچھا رس پیدا کیا.اور کئی ایسے ہوں گے کہ دنیا - کہ
خطبات محمود ۴۴۵ سال میں ان کو لوگ حقیر اور ذلیل سمجھتے ہوں گے مگر ان کے بیلنے کا منہ اگلے جہان کی طرف ہوگا اور اس میں سے نکلنے والے رس سے شکر اور کھانڈ بن رہی ہوگی.جب وہ وہاں جائیں گے تو اس کے ڈھیر ان کے سامنے لگادیئے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ لو یہ فقد تمہارے اعمال نے تیار کیا تھا.اسے لو اور اپنا منہ میٹھا کرو.اس دنیا میں ان کو ذلیل سمجھا جاتا تھا کیونکہ ان کے کام ادھر گر رہا تھا اور رس اگلے جہاں میں.لیکن کچھ وہ لوگ جو یہاں معزز سمجھے جاتے ہونگے وہاں ذلیل ہوں گے کیونکہ ان کے اعمال کا فضلہ وہاں جمع ہو رہا تھا اور اس اس جہان میں.اس دن جب کہ تمام اگلے پچھلے انسان جمع کئے جائیں گے امتیں انہی پر فخر کریں گی جنہیں دنیا کی مجلسوں میں ذلیل سمجھا جاتا تھا مگر جو اپنے اخلاص کی وجہ سے خدا تعالی کے نزدیک معزز تھے.اس مجلس میں وہی معزز قرار دیئے جائیں گے اور ہزاروں آدمی جو یہاں انہیں رشتہ دار سمجھنے کیلئے تیار نہیں، وہاں اپنے آپ کو ان کے قریبی رشتہ دار قرار دیں گے.قرآن کریم میں اس موقع کا کیا ہی عجیب نقشہ کھینچا گیا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.مومنوں کے ساتھ منافقوں کی ایک ایسی جماعت ہے جو قربانیوں میں شامل نہیں ہوتی اور وہ مومنوں سے کہتے ہیں تم مخلص ہو ہم منافق ہی سہی تم قربانیاں کرو ہم شریک نہیں ہو سکتے.فرمایا جب قیامت کے دن مومنوں کو نور دیا جائے گا جو جنت کی طرف راہنمائی کرے گا تو وہ لوگ جو دنیا میں مومنوں سے تمسخر کرتے تھے ٹھوکریں کھاتے ہوئے ان کے پیچھے چلتے ہوں گے اور عاجزانہ طور پر درخواست کریں گے کہ ہمیں بھی نور دے دو.چونکہ نور خداتعالی ہی دے سکتا ہے اس لئے مومن ان سے کہیں گے یہ نور تمہیں نہیں دیا جاسکتا تم پیچھے مڑو وہاں سے ہی نور مل سکتا ہے ہے.یعنی اُسی دنیا میں سے مل سکتا ہے جس سے تم نے حاصل نہیں کیا.پس یہ جو غرباء ہیں، ان کی رقوم سے گو کوئی معتدبہ زیادتی نہیں ہوئی مگر وہ جو اس کا نتیجہ جماعت کو ملنے والا ہے اور جو خدا تعالی کی طرف سے فضل کی صورت میں نازل ہونے والا ہے اس میں یقیناً ان کا بہت بڑا حصہ ہے.اور آسودہ حال لوگ تبھی ان کے برابر ثواب کماسکتے ہیں جبکہ رقم کی زیادتی کے ساتھ نہیں بلکہ نسبتی قربانی کے ساتھ ان کے برابر ہو جائیں.ورنہ وہ یاد کہ خدا تعالیٰ کے دین کے کام روپیہ سے نہیں ہوا کرتے بلکہ خدا تعالی کی طرف سے اخلاص کا جو نتیجہ پیدا کیا جاتا ہے اس کی وجہ سے کامیابی حاصل ہوتی ہے.ہمیں خدا تعالی کے
خطبات محمود به سوم سوم سال ۱۹۳۴ء فضل سے جو نتائج حاصل ہو رہے ہیں ان کے مقابلہ میں ہمارے روپیہ کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہے.اس کی نسبت دشمن بہت زیادہ روپیہ خرچ کر رہا ہے باوجود اس کے ہم روز بروز بڑھ رہے ہیں اور دشمن گھٹ رہے ہیں.یہ روپیہ سے نہیں ہو رہا بلکہ جس اخلاص سے ہماری جماعت کے مخلص روپیہ دیتے ہیں اس کے نتیجہ میں ہو رہا ہے.پس میں نے ایسے مخلصین کو ان تحریکات میں شمولیت سے محروم نہیں رکھنا چاہا.پھر میں نے کچھ ایسے لوگوں کیلئے پردہ پیدا کیا ہے جو زیادہ حصہ لے سکتے ہیں مگر ممکن ہے زیادہ رقم میں حصہ نہ لیں بوجہ اپنے بخل کے اور جو آج کم مجل دور کرتا ہے ہو سکتا ہے کہ گل خدا تعالیٰ اسے اور زیادہ مخجل دور کرنے کی توفیق دے دے ایسے لوگ بھی ان تحریکوں میں شامل ہو جائیں اور اس طرح جماعت کا ایک حصہ ایمانی تباہی سے بچ جائے گا..کھانے وغیرہ کے متعلق گذشتہ جمعہ کے خطبہ میں میں نے جو کچھ کہا تھا کئی دوستوں نے اس کے متعلق سوالات کئے ہیں.بعض کا جواب تو میں نے خطبہ پر نظر ثانی کرتے وقت دے دیا ہے.مگر ایک سوال ایسا ہے جس کے متعلق اب کچھ کہنا چاہتا ہوں.کہا گیا ہے کہ بعض گھرانوں میں نوکروں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، بعض لوگ غرباء اور بتائی کو اپنے ہاں رکھ لیتے ہیں تا کہ وہ تھوڑا بہت کام کردیا کریں اور تعلیم حاصل کرتے رہیں، بعض کے ہاں یوں بھی ملازمین کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اگر وہی کھانا جو وہ خود کھائیں ملازمین کو بھی دیں تو ان کا خرچ گھنٹے گا نہیں بلکہ بڑھ جائے گا.حدیثوں میں غلاموں کے متعلق تو آتا ہے کہ جو کھانا خود کھاؤ“ وہی ان کو بھی کھلاؤ سے لیکن غلام اور ملازم میں فرق ہے.غلام مجبور ہوتے ہیں کہ اپنے آقا کے ہاں ہی رہیں لیکن ملازم مجبور نہیں ہوتے.وہ جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو کھانا اچھا نہیں ملتا دوسری جگہ جاسکتے ہیں اس لئے جو لوگ ان کو اپنے جیسا کھانا نہیں دے سکتے وہ شرعی طور پر مجبور نہیں.اور اگر وہ ملازمین والا کھانا خود نہ کھانا چاہیں تو ان کیلئے الگ پکواسکتے ہیں لیکن اگر اس کھانے میں سے کھانا چاہیں جو ملازموں کیلئے پکایا جائے تو پھر اپنا کھانا ملازمین کو دے دیں.لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ہے چونکہ میرے مد نظر ہے اسلئے میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ ملازموں کو بھی وہی کھانا کھلاؤ جو خود کھاؤ.وہ لوگ جنہوں نے کئی ملازم رکھے ہوئے ہوں یا پرورش کے طور پر کچھ لوگوں کو رکھا ہوا ہو، ان کی مشکلات کو مد نظر رکھتا ہوا میں یہ نہیں کہتا کہ ان کے ہاں ایک ہی کھانا پکے جبکہ شریعت میں اس کیلئے کوئی پابندی نہیں ہے لیکن یہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء شرط ضرور لگاتا ہوں کہ وہ اس کھانے کو جو ملازمین وغیرہ کیلئے پکے خود استعمال نہ کریں اور اگر استعمال کریں تو جھجر کے ایک نواب صاحب کی طرح کریں جن کے متعلق کہتے ہیں کہ کھانا تیار ہونے کے بعد وہ باورچی کو بلا کر کہتے کہ تم نے میرے لئے جو سب.سے اچھا کھانا پکایا ہے وہ لے آؤ.جب وہ لے آتا تو اپنے ایک خاص ملازم کو دے کر کہتے کہ یہ لے جاؤ اور کسی فوجی سپاہی کو دے کر اس کا کھانا لے آؤ اور اس طرح اس کا کھانا منگا کر کھالیتے.بعض کا خیال ہے کہ وہ اس بات سے ڈرتے تھے کہ کھانے میں انہیں زہر نہ دے دیا جائے اس لئے ہر روز کسی نئے سپاہی کے کھانے سے اپنے کھانے کا تبادلہ کر لیتے لیکن بعض کا خیال ہے کہ وہ سپاہی منش تھے اور چاہتے تھے کہ سپاہیانہ روح قائم رہے اور کمزوری پیدا نہ ہو.مومن چونکہ نیک گمان رکھتا ہے ہم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ وہ سپاہیانہ زندگی کے قیام کیلئے ایسا کرتے تھے.پس اگر کسی کو خواہش پیدا ہو کہ ملازم کیلئے جو کھانا پکا ہے، وہ خود کھائے تو اپنا کھانا اسے دے دے.یہ نہیں کہ ملازموں کے نام سے دوسرا کھانا تیار کرلیا جائے اور پھر اس میں خود بھی شرکت کرلی جائے.بعض لوگ پوچھتے ہیں کیا چٹنی کھانی جائز ہے.انہیں میں کہتا ہوں جو کام کرو اخلاص اور دیانت سے کرو.اس تحریک کی غرض اقتصادی حالت کا درست کرنا اور چسکوں سے بچاتا ہے.پس اگر کسی دن طبیعت خراب ہوئی اور سادہ چٹنی کی ضرورت محسوس ہوئی تو ر بات ہے لیکن ان بہانوں سے منہ کے چسکے پیدا کرنے سے کیا فائدہ ہے.اس سے بہتر ہے کہ انسان تحریک میں شامل ہی نہ ہو.پس کبھی کبھار اور ضرورتا استعمال میں حرج نہیں ورنہ بہانہ خوری سمجھی جائے گی.اب میں ساتواں مطالبہ پیش کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اس وقت کی تبلیغی ضرورتوں کو مد نظر رکھ کر ان تمام مطالبات کے باوجود جو میں کرچکا ہوں ہماری تبلیغی ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں اور پھر بھی ہماری مثال اُحد کے شہیدوں کی سی رہتی ہے کہ اگر کفن سے ان کے سر ڈھانپتے تو پاؤں ننگے ہو جاتے اور اگر پاؤں ڈھانپتے تو سر ننگے ہو جاتے ہے کیونکہ اُس وقت اتنا کپڑا میسر نہ تھا جو پورا آسکتا.ہماری بھی اس وقت یہی حالت ہے ہم اگر ایک طرف توجہ کرتے ہیں تو دوسری جہت خالی رہ جاتی ہے اور اگر دوسری جہت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو پہلی خالی ہو جاتی ہے.ایسی صورت میں ضروری ہے کہ تبلیغی کوششوں کی کوئی اور راہ بھی ہو.یعنی ایسی ریزرو فورس ہو کہ ضرورت پڑنے پر اس سے کام لے سکیں اور مبلغین کے کام کے
خطبات محمود ۴۴۸ سال ۱۹۳۴ء علاوہ اس کے ذریعہ اپنی ضرورتیں پوری کریں.سمجھ لو کہ اس وقت پنجاب میں جماعت کی تعداد ۵۶ ہزار ہی ہے جیسا کہ مردم شماری کی رپورٹ میں لکھا گیا ہے اسی نسبت سے سارے ہندوستان میں ایک لاکھ احمدی سمجھ لو.تب بھی ان میں سے دس ہزار عاقل بالغ مرد بوڑھے بچے اور عورتیں نکال کر ہوتے ہیں.یہ وہ کم سے کم تعداد ہے جو میسر آسکتی ہے.اس میں سے کم از کم ایک ہزار سرکاری ملازم ہوں گے اور سرکاری ملازموں کو کچھ نہ کچھ رخصتیں ملتی ہیں.بعض اس قسم کے ملازم ہوتے ہیں کہ اگر ایک سال کی رخصت نہ لیں، دوسرے سال بھی نہ لیں تیرے سال تین ماہ کی رخصت مل جاتی ہے.اگر چار سو بھی ایسے ہوں جن کی رخصتیں اس طرح جمع پڑی ہوں یا قریب کے عرصہ میں جمع ہونے والی ہوں اور وہ سلسلہ کی خدمت کیلئے ان رخصتوں کو وقف کردیں تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ ایک سال کیلئے کام کرنے والے سو مبلغ مل گئے.ایسے اصحاب تین تین ماہ کی چھٹیاں لے لیں اور ان چھٹیوں کو سلسلہ کی خدمت کیلئے وقف کر دیں.پھر ہم انہیں جہاں چاہیں تبلیغ کیلئے بھیج دیں.اگر چار سو ایسے اصحاب اپنے آپ کو پیش کریں تو ایک سو مبلغ سال بھر کام کرنے والے اور اگر دو سو پیش کریں تو پچاس مبلغ سال بھر کام کر سکتے ہیں اور اس طرح تبلیغ کیلئے اچھی خاصی طاقت حاصل وسکتی ہے.ان کے متعلق میری سکیم یہ ہے کہ ان کو ایسی جگہ بھیجیں جہاں احمدی جماعتیں نہیں.اور جہاں تین ماہ ایک اکیلا احمدی رہے گا جس کا دن رات کام تبلیغ کرنا ہوگا ناممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے وہاں نئی جماعت نہ قائم ہو جائے.اگر دوسو اصحاب بھی اپنے آپ کو پیش کردیں تو پچاس کو ایک وقت میں تبلیغ کیلئے پچاس نئے مقامات پر بھیج سکتے ہیں کہ وہاں تبلیغ کرو.اس طرح تین ماہ میں پچاس نئی جماعتیں قائم ہو جائیں گی.اگلے تین ماہ میں پچاس، اور پچاس مقامات پر بھیج دیں گے اس طرح خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک سال میں دو سو مقامات پر نئی جماعتیں قائم ہو سکتی ہیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک احمدی میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ جس طرح ڈائنامیٹ کے ذریعہ چٹان کو اُڑا دیا جاتا ہے اسی طرح احمدی کا وجود ڈائنامیٹ کی حیثیت رکھتا ہے جو تاریکی اور ظلمت کو مٹادیتا ہے، نئی فضا پیدا کردیتا ہے اور نیا ماحول بنا دیتا ہے.اس میں شبہ نہیں کہ جہاں نئی جماعت قائم ہوگی وہاں مخالفت بھی بڑھ جائے گی، لوگ پہلے سے زیادہ گالیاں دینے لگ جائیں گے احمدیوں کو مارنے پیٹنے پر اُتر آئیں گے زنگ آلود دلوں کے زنگ اور ترقی کریں گے اور ان کی روح کی موت اور بھیانک شکل اختیار
خطبات محمود ۴۴۹ سال ۱۹۳۴ء کرلے گی مگر باوجود اس کے ایک طبقہ ایسا بھی پیدا ہو جائے گا جس کے دل ہل جائیں گے اور جس کی روح جنبش میں آجائے گی اور خواہ کتنی ہی ہلکی ہو محبت الہی کی ایک بار یک شُعاع اُڑ کر خدا کی محبت کے سورج میں جا جذب ہوگی.ایک سال میں دو سو نئی جماعتوں کا قائم ہو جانا معمولی بات نہیں.اس طرح اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو چارپانچ سال میں ہی عظیم الشان تغیر پیدا ہو جائے گا.مبلغین کو ہم اس طرف نہیں لگا سکتے ان کی بہت تھوڑی تعداد ہے پھر ان کے ذمہ مباحثات اور جماعت کی تربیت کا کام ہے.ان کی مثال تو اُس دانے کی سی ہے جس کی نسبت کہتے ہیں کہ ”ایک دانہ کس کس نے کھانا" تبلیغ کی وسعت کیلئے ایک نیا سلسلہ مبلغین کا ہونا چاہیے اور وہ یہی ہے کہ سرکاری ملازمین تین تین ماہ کی چھٹیاں لے کر اپنے آپ کو پیش کریں تاکہ ان کو وہاں بھیج دیا جائے جہاں ان کی ملازمت کا واسطہ اور تعلق نہ ہو.مثلاً گورداسپور کے ضلع میں ملازمت کرنے والا امرتسر کے ضلع میں بھیج دیا جائے، امرتسر کے ضلع میں ملازمت کرنے والا کانگڑہ یا ہوشیار پور کے ضلع میں کام کرے گویا اپنے ملازمت کے علاقہ.باہر ایسی جگہ کام کرے جہاں ابھی تک احمدیت کی اشاعت نہیں ہوئی اور وہاں تین ماہ رہ کر تبلیغ کرے.میں سمجھتا ہوں وہ جماعت جو یہ کہتی ہے کہ وہ جان اور مال کی قربانیاں کرنے طرح تیار ہے، اس کیلئے یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے کہ اس میں سے چار سو اصحاب ایسے نکلیں جو اپنی تین تین ماہ کی رخصت اپنے گھروں میں نہ گزاریں بلکہ دوسری جگہ دین کی خدمت میں صرف کریں.وہاں بھی وہ اپنے ملازمت کے کام سے آرام پاسکتے ہیں.ہاں زیادہ بات یہ کہ وہاں ان کے ذریعہ جو جماعت قائم ہوگی اس کے نیک اعمال ان کے نامہ اعمال میں بھی لکھے جائیں گے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے جو کسی کے ذریعہ ہدایت پاتا ہے اس کے نیک اعمال اس کے نامہ اعمال میں بھی لکھے جاتے ہیں جس کے ذریعہ اسے ہدایت ملتی ہے اے.پس اس سکیم پر عمل کرنے سے ایسے شاندار نتائج نکل سکتے ہیں جو باقاعدہ کے ذریعہ پیدا نہیں ہو سکتے اور ملک کے ہر گوشہ میں احمدیت کی صدا گونج سکتی ہے.ایسے اصحاب کا فرض ہو گا کہ جس طرح ملکانہ تحریک کے وقت ہوا وہ اپنا خرچ آپ برداشت کریں.ہم اس بات کو مد نظر رکھیں گے کہ انہیں اتنی دور بھیجا جائے کہ ان کیلئے سفر کے اخراجات برداشت کرنے مشکل نہ ہوں اور اگر کسی کو کسی دور جگہ بھیجا گیا تو کسی قدر بوجھ اخراجات سفر
۴۵۰ سیال ۱۹۳۴ء کا سلسلہ برداشت کرلے گا اور باقی اخراجات کھانے پینے ، پہننے کے وہ خود برداشت کریں.ان کو کوئی تنخواہ نہ دی جائے گی نہ کوئی کرایہ سوائے اس کے جسے بہت دور بھیجا جائے.آٹھواں مطالبہ وہ ہے جو پہلے شائع ہوچکا ہے یعنی ایسے نوجوان اپنے آپ کو پیش کریں جو تین سال کیلئے اپنی زندگیاں وقف کریں.اِس وقت تک سوا سو کے قریب نوجوان اپنے آپ کو پیش کرچکے ہیں جن میں سے تیس چالیس مولوی فاضل ہیں.باقی انٹرنس ایف اے اور بی اے پاس ہیں.یہ تعداد روزانہ بڑھ رہی ہے.اور میں سمجھتا ہوں یہ قربانی کی روح کہ تین سال کیلئے دین کی خدمت کیلئے اپنے آپ کو وقف کیا جائے اسلام اور ایمان کے رُو سے تو کچھ نہیں لیکن موجودہ زمانہ کی حالت کے لحاظ سے حیرت انگیز ہے.وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ میں لوگ روپیہ حاصل کرنے کیلئے شامل ہوتے ہیں اگرچہ ان کی بات بیوقوفی کی ہے کیونکہ اگر احمدی روپیہ کی خاطر احمدی ہیں تو انہیں روپیہ دیتا کون ہے.مگر یہ ان کی آنکھیں کھول دینے والی بات ہے کہ جب احمدی نوجوانوں کو تین سال کیلئے اپنے آپ کو وقف کرنے کیلئے بلایا گیا تو مولوی فاضل، انٹرنس پاس ایف اے اور بی-اے سینکڑوں کی کی تعداد میں اپنے آپ کو پیش کر رہے ہیں.اس قسم کی مثال کسی ایسی قوم میں بھی جو جماعت احمدیہ سے سینکڑوں گئے زیادہ ہو ملنی محال ہے.وہی جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ آٹھ نو کروڑ مسلمانان ہند کے نمائندے ہیں ایسی مثال تو پیش کریں.وہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے ریاست کشمیر کے خلاف ایجی ٹیشن کے دوران میں ہزاروں آدمیوں کو قید کر دیا تھا لیکن جیسا کہ میں نے پہلے بتایا تھا قید ہونے کیلئے اپنے آپ کو پیش کر دینا اور بات ہے اور کسی مسلسل قربانی کیلئے پیش کرنا اور بات فوری اشتعال دلا کر تو بُزدلوں کو بھی لڑایا جاسکتا ہے.بدر کی جنگ میں مکہ کے جو رؤساء شریک ہوئے، ان میں اکثر کا یہ خیال ہو گیا تھا کہ جنگ نہ ہو.انہوں نے کہا مسلمان بھی ہمارے ہی بھائی بند ہیں اگر جنگ ہوئی تو یہی ہوگا کہ ہم ایک دوسرے کو قتل کریں گے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سب لوگ تیار ہو گئے کہ صلح کرلیں مگر ابو جہل جو اس ساری شرارت کا رُوح رواں تھا، مخالفت کرنے لگا اور لوگوں نے اسے سمجھایا کہ جنگ کرنے سے ہماری طاقت بڑھے گی نہیں بلکہ گھٹے گی.ابو جہل نے اپنا منصوبہ بگڑتا دیکھ کر ایک رئیس مسلمانوں کے ہاتھ سے کچھ عرصہ پہلے مارا گیا تھا اس کے بھائی بندوں میں جوش پیدا کرنا چاہا.دوسرے رؤساء نے انہیں بلا کر کہا کہ ہم میں دیت کا رواج ہے، ہم تمہارے مقتول کی دیت جو
خطبات محمود ۴۵۱ سال ۱۹۳۴ ادا کر دیتے ہیں.اس پر وہ دیت لینے کیلئے تیار ہو گئے.تب ابو جہل نے اور شرارت کی.اس نے مقتول کے ایک بھائی کو بلا کر کہا کہ تمہارے بھائی کا بدلہ لئے بغیر فوج واپس لوٹنا چاہتی ہے اگر ایسا ہوا تو تم کسی کو منہ نہ دکھا سکو گے.اس نے کہا پھر میں کیا کروں.عرب میں یہ طریق تھا کہ جب کوئی اپنی مظلومیت اور مصیبت کی فریاد کرنا چاہتا تو ننگا ہو کر رونا پیٹنا اور واویلا کرنا شروع کر دیتا ابو جہل نے کہا تم ننگے ہو کر پیٹنا شروع کردو.اس نے ایسا ہی کیا وہ ننگا ہو کر رونے پیٹنے لگ گیا.ایسی حالت میں جونہی اس نے کہا کہ میرا بھائی ایسا بہادر تھا، ایسا محسن تھا مگر آج اس کی بے قدری کی جارہی ہے اور کوئی اس کا انتقام لینے کیلئے تیار نہیں.تو اہل عرب جو احسان کی قدر کرنے میں مشہور تھے ، انہوں نے تلواریں اور لڑائی شروع ہو گئی.وہ اسلام کیلئے تو عظیم الشان فتح کا دن تھا مگر جنہوں نے لڑائی کرائی ، ان کیلئے کیسا دن تھا.اُس دن کفار کے تمام بڑے بڑے سردار مارے گئے ہے اور جیسا کہ بائیبل کی پیشگوئی تھی کہ قیدار کی شوکت باطل ہو جائے گی ہے.مکہ کی وادیوں میں رونے اور پیٹنے کے سوا کوئی شغل نہ رہا کیونکہ ہر خاندان میں سے کوئی نہ کوئی مارا گیا.تو فوری طور پر لڑا دینا بالکل معمولی بات ہے اصل میں قربانی وہی ہوتی ہے جو لمبے عرصہ کیلئے ہو.پس وہ لوگ جو اپنے آپ کو آٹھ کروڑ مسلمانانِ ہند کے نمائندے کہتے ہیں، وہ بھی جماعت احمدیہ کی قربانی کے نمونہ کی قربانی پیش نہیں کرسکتے.وہ نوجوان جنہوں نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے، ان کے متعلق آگے تجربہ سے پتہ لگے گا کہ کس قدر شاندار قربانیاں کرتے ہیں.مگر ان میں سے بعض نے ایثار اور اخلاص کا جو اظہار کیا ہے وہ ویسا ہی معلوم ہوتا ہے جیسا کہ بدر کے موقع پر دو انصاری لڑکوں نے یہ کہہ کر دکھایا تھا کہ ابو جہل کہاں ہے.اور جبکہ عبدالرحمن " ابھی اس حیرت میں تھے کہ انہوں نے کیا سوال کیا ہے اور وہ ابو جہل کی طرف انگلی سے اشارہ ہی کرنے پائے تھے کہ دونوں لڑکے کود کر اُس پر جاپڑے اور اگرچہ وہ زخمی ہوگئے لیکن انہوں نے ابو جہل کو جا گرایا اور اُس کی گردن پر تلوار چلادی.اس کے ارد گرد جو محافظ کھڑے تھے وہ دیکھتے کے دیکھتے ہی رہ گئے شے.بعض نوجوانوں نے ایسے ہی جوش کا اظہار کیا ہے وہ دین کی خاطر ہر قسم کی قربانی کرنے اور ہر قسم کی تکلیف اُٹھانے کیلئے تیار ہیں.پھر یہ قربانی ایک دو دن کیلئے یا ایک دو ماہ کیلئے نہیں بلکہ مسلسل تین سال کیلئے ہے.میں نے بتایا تھا کہ بعض نوجوانوں کو ہندوستان سے باہر بھیجا جائے گا اور بعض کو ہندوستان میں ہی دورہ کیلئے بھیجوں گا.0
خطبات محمود ۴۵۲ بعض اور کے ذریعہ سے میں تجربہ کرنا چاہتا ہوں جماعت کے اخلاص کا ان نوجوانوں کے اخلاص کا جو تو گل کر کے نکل کھڑے ہوں اور جو اتنی بھی فکر نہ کریں کہ کل کی روزی انہیں کہاں سے ملے گی وہ خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرکے چلے جائیں اور تبلیغ کرتے پھریں.اسی طرح جس طرح حضرت عیسی علیہ السلام کے وہ حواری نکلے تھے جنہیں کہا گیا تھا کہ اپنے پاس کچھ مت رکھو اور کل کی روٹی کی فکر نہ کرو پھر جہاں سے خدا تعالیٰ انہیں کھلائے کھالیں اور جہاں سے پلائے پی لیں ہے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے ہر گاؤں کے لوگوں کیلئے ضروری ہے کہ جو مہمان آئے تین دن تک اس کی مہمانی کریں لے.پس اگر کسی گاؤں کے لوگ انہیں کھلائیں تو کھالیں اور اگر نہ کھلائیں تو سمجھیں کہ اس گاؤں والوں نے اپنا حق پورا نہیں کیا.اس میں گاؤں والوں کا قصور ہو گا، مہمان بننے والوں کا نہیں.بعض نوجوانوں کو میں اس طرح استعمال کرنا چاہتا ہوں اور بعض کیلئے اور طریق اختیار کروں گا.بہرحال ان کی آزمائش کی جائے گی اور دیکھا جائے گا کہ قربانی کے متعلق ان کے دعوے کیسے ہیں.میں امید کرتا ہوں ان کے دعوے ایسے نہیں ہوں گے جیسا کہ اپنے بازو پر ر گدوانے والے کا دعویٰ تھا.گودنے والے نے جب اس کے بازو پر سوئی ماری تو اس نے کہا کیا گودتے ہو؟ اس نے کہا دایاں کان گودتا ہوں وہ کہنے لگا کیا دائیں کان کے بغیر شیر رہتا ہے یا نہیں؟ گودنے والے نے کہا رہتا ہے.اس نے کہا پھر اسے چھوڑ دو آگے چلو.اس کے بعد جب اس نے سوئی ماری تو وہ پوچھنے لگا اب کیا گودتے ہو؟ اس نے کہا بایاں کان گود تا ہوں.کہنے لگا اگر وہ بھی کٹ جائے تو شیر رہتا ہے یا نہیں؟ اس نے کہا رہتا ہے.وہ کہنے لگا اسے بھی چھوڑ دو.اسی طرح اس نے ہر ایک عضو پر کہا آخر گودنے والے نے سوئی رکھ دی اور کہنے لگا اب کوئی شیر نہیں رہتا.میں امید کرتا ہوں کہ جن نوجوانوں نے اپنے آپ کو دین کی خدمت کیلئے پیش کیا ہے ان کا پیش کرنا اس رنگ کا نہ ہوگا بلکہ حقیقی رنگ کا ہوگا اور میں سمجھتا ہوں کہ جو نوجوان میری سکیم کے ماتحت کام پر نہ لگائے جائیں ان میں سے بھی جو بریکار گھروں پر بیٹھے ہیں اور جو باہمت ہیں، انہیں خود بخود نکل جانا چاہیے.وہ جائیں اور جہاں سے خدا انہیں دے کھائیں اور ساتھ تبلیغ کرتے رہیں.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے جہاں کوئی جائے، وہاں سے اسے تین دن تک کھانا کھانے کا حق ہے ہے.اب یہ اسلامی طریق جاری نہیں ورنہ ہوٹلوں وغیرہ کی ضرورت ہی نہ رہے.جہاں کوئی جائے وہاں کے لوگوں کا فرض ہو
خطبات محمود ۴۵۳ سال ۱۹۳۴ء کہ اسے کھانا دیں.اس قسم کا نظام تو جب خدا تعالیٰ چاہے گا قائم ہوگا اور اُسی وقت حقیقی و امن دنیا کو حاصل ہوگا.آج کل تو موجودہ حالات پر ہی قناعت کرنی ہوگی.اس موجودہ گری ہوئی حالت میں بھی میں سمجھتا ہوں زمیندار طبقہ مہمان نوازی کے فرائض کو نہیں بھولا اور یہ آسمانی فقیر جہاں کہیں جائیں گے اول تو ضرورت نہ ہوگی کہ خود کہیں کہ کھانے کو دو لیکن اگر ضرورت پیش آئے تو ایسا کرنا بھی جائز ہے.صحابہ نے خود مهمانی مانگی.ایک جگہ کچھ صحابہ گئے تو وہاں ایک شخص ان کے پاس آیا اور آکر کہنے لگا کہ ایک آدمی کو سانپ نے ڈس لیا اس کا کوئی علاج جانتا ہے.ایک صحابی نے کہا میں جانتا ہوں مگر دس بکریاں لوں گا.چنانچہ دس بکریاں لے کر انہوں نے سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کیا اور وہ شخص اچھا ہو گیا.بعض ساتھیوں نے اس کے اس فعل پر اعتراض کیا اور بکریوں کی تقسیم رسول کریم ﷺ سے استصواب کر لینے تک ملتوی کی گئی.رسول کریم ﷺ کے حضور جب معاملہ پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا بالکل جائز ہے بلکہ تم ان بکریوں میں میرا حصہ بھی رکھو سے.رسول کریم ﷺ کا یہ فرمانا کہ میرا حصہ بھی رکھو اس غرض سے تھا کہ ان لوگوں کا شک دور ہو جائے.اور آپ کا بکریوں کو جائز قرار دینا میرے نزدیک اس قدر کم کر کے روپیہ لینے کی اجازت کیلئے نہ تھا جس قدر کہ یہ بتانے کیلئے کہ مہمانی مسافر کا حق ہے اور اگر کسی جگہ کے لوگ یوں مہمانی نہ دیں تو دوسرے جائز ذرائع سے اسے.سے اسے حاصل کیا جاسکتا ہے.مہمانی طلب کرنا سوال نہ ہوگا بلکہ حق ہوگا.ہماری جماعت یہ حق ادا کرتی ہے سینکڑوں غیر احمدی آتے اور لنگر خانہ سے کھانا کھاتے ہیں.ہم نے کبھی کسی کو منع نہیں کیا اور جب ہم ان کو مہمان نوازی کا حق دیتے ہیں تو ہمارے آدمی جاکر اگر یہ حق لیں تو یہ ناجائز نہیں ہے.پس وہ ہمت اور جوش رکھنے والے نوجوان جو میری سکیم میں آنے سے باقی رہ جائیں وہ اپنے طور پر ایسے علاقوں میں چلے جائیں جہاں احمدیت ابھی تک نہیں پھیلی اور وہاں دورہ کرتے ہوئے تبلیغ کریں.چند معمولی دوائیں ساتھ رکھ کر عام بیماریوں کا جن کے علاج میں کوئی خطرہ نہیں ہوتا علاج بھی کرتے جائیں.ایسا معمولی علاج انہیں سکھایا جاسکتا ہے اور ارزاں ادویہ مہیا کی جاسکتی ہیں.یہ مزید ثبوت ہو گا اس بات کا کہ ہمارے نوجوان دین کے متعلق اپنی ذمہ داریاں سمجھتے ہیں اور انہیں خود بخود ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب اس قسم کے لوگ کسی جماعت میں پیدا ہو جائیں تو خواہ وہ کتنی ہی کمزور اور کتنی ہی قلیل کیوں نہ ہو
خطبات محمود ۴۵۴ سال ۱۹۳۴ء دوسروں کو کھا جاتی ہے.رسول کریم ﷺ نے مومنوں کی جماعت کو سانپ قرار دیا ہے ہے اصلی سانپ میں یہ عیب ہوتا ہے کہ وہ عقل نہ ہونے کی وجہ سے ہر ایک کو کاٹ کھاتا ہے مگر جب ایک سپاہی دشمن پر گولی چلاتا ہے تو اس کے اس فعل کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے.کیا اُس وقت وہ سانپ والا ہی کام نہیں کرتا کرتا ہے.مگر بے قصور شخص کے متعلق نہیں بلکہ کھلے دشمن کے متعلق اس لئے قابل قدر سمجھا جاتا ہے.پس مومن کا کام دشمن کی طاقت کو توڑتا ہے اور اس کے فریب کے جال کو تباہ کرنا.مگر اس سے پہلے وہ خود اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتا ہے جب وہ ایسا کرلیتا ہے تو جو شخص ایسے مومن کے خلاف اٹھتا ہے وہ یا تو اس کے زہر سے مارا جاتا ہے یا اس کے تریاق سے بچایا جاتا ہے.نواں مطالبہ اس سلسلہ میں یہ ہے کہ جو لوگ تین ماہ نہ دے سکیں کیونکہ بعض ایسے ملازم ہوتے ہیں جن کو اس طرح کی چھٹی نہیں ملتی جیسے مدرس ہیں یا جن کی تین ماہ کی رخصت جمع نہیں ہے یا جنہیں ان کا محکمہ تین ماہ کی رخصت نہ دینا چاہے ایسے لوگ جو بھی موسمی چھٹیاں یا حق کے طور پر ملنے والی چھٹیاں ہوں، انہیں وقف کردیں.ان کو قریب کے علاقہ میں ہی کام پر لگا دیا جائے گا.میں سمجھتا ہوں اگر دوست چھٹیوں کو ہی معقول طریق پر تبلیغ میں صرف کریں تو تھوڑے عرصہ میں کایا پلٹ سکتی اور رنگ بدل سکتا ہے.ہر عقل مند کو ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ اپنی طاقت کو صحیح طور پر استعمال کرے اور جب ایسا ہو تو بہت سی چیزیں جو دوسری صورت میں وقت کو ضائع اور طاقت کو کم کرنے والی ہوتی ہیں، طاقت کو بڑھا دیتی ہیں.اب اگر ایک ہزار آدمی اس طرح تبلیغ کیلئے اپنی چھٹیاں دے تو قریباً سو مبلغ ایک وقت میں کام کرنے والے مہیا ہو سکتے ہیں.اور اگر چار پانچ سال تک بھی یہ سلسلہ جاری رہے تو علاوہ مستقل مبلغوں اور ان لوگوں کے جو انفرادی طور پر تبلیغ کا کام کرتے ہیں واضح تبدیلی پیدا کرسکتے ہیں.ان میں کھیتی باڑی کرنے والے لوگوں کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے.دین کی تبلیغ کرنے کیلئے کسی مولوی فاضل یا انٹرنس پاس کی ضرورت نہیں.یہ شرط تو میں نے ممالک غیر میں بھیجنے والوں کے متعلق لگائی تھی ورنہ بعض پرائمری پاس بھی بہت اچھی لیاقت رکھتے ہیں اور مڈل پاس بھی.اور زمینداروں میں سے بھی ایف اے ، انٹرنس، مڈل اور پرائمری پاس مل سکتے ہیں.اس طرح اگر چار ہزار آدمی بھی کام میں لگ جائیں تو اس کے معنی ہوں گے کہ تین سو سے بھی زائد مبلغ ایک وقت میں کام کرنے والے نئے مل گئے.اتنے
خطبات محمود ۴۵۵ سال ۱۹۳۴۳ نو کہتا مبلغ اگر پنجاب میں لگادئیے جائیں جو دن رات تبلیغ کے سوا اور کوئی کام نہ کریں تو غور کرو کتنا عظیم الشان کام ہو سکتا ہے.اصل سوال قربانی کے جذبہ اور ارادہ کا ہوتا ہے.اور سوائے روپیہ کے جس کام کا ارادہ کریں گے کہ یہ ہونا چاہیئے وہ ہونے لگ جائے گا.جس طرح خدا تعالی ہے تو ہو جاتا ہے، اسی طرح خدا تعالیٰ کے بندوں کو بھی یہ خاصیت دی جاتی ہے اور ان کی بھی یہی حالت ہوتی ہے.ہم جو کُن کہنے والے کی جماعت ہیں ہمارے لئے بھی یہی کہ جس کام کو ہم کہیں ہو جا وہ ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ نے اپنے کئی مخلص بندوں کو یہ رتبہ دیا ہے کہ وہ جب کسی کام کے متعلق کہتے ہیں ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے.کئی دفعہ میرے پاس خط آتے ہیں کہ فلاں مقصد میں کامیابی کیلئے دعا کریں.میں جواب میں لکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کا مقصد پورا کرے مگر لکھا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ آپ کا مقصد پورا کرے گا.پھر خبر آتی ہے کہ مقصد پورا ہو گیا.کئی دفعہ کرے گا" کے لفظ کو کاٹنے کو دل کرتا ہے لیکن تجربہ نے مجھے بتادیا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے اس لئے اب میں بہت کم ایسا کرتا ہوں.غرض اپنے متعلق إِلَّا مَا شَاءَ اللہ خدا تعالی کا یہی تصرف دیکھا ہے کہ اُسی طرح ہو جاتا ہے.إِلَّا مَا شَاءَ اللہ اس لئے کہتا ہوں کہ لفظی الہام بھی کئی دفعہ مل جاتا ہے تو قلبی الہام بھی بدلے ہوئے حالات میں بدل سکتا ہے.پس اللہ تعالی کے مومن بندوں کو بھی یہ طاقت دی جاتی ہے کہ وہ جس بات کو کہیں کہ ہو جا وہ ہو جاتی ہے.ضرورت اس بات کی ہے کہ جماعت ارادہ کرے کہ تبلیغ کرنی ہے، پھر تبلیغ ہونے لگے گی.ہم فیصلہ کرلیں کہ ہم مبلغ بن کر گے تو خدا تعالیٰ مبلغ بننے کی توفیق دے دے گا.ہم پختہ ارادہ کرلیں کہ لوگوں کو رہیں سلسلہ احمدیہ میں داخل کریں گے تو وہ داخل ہونے لگ جائیں گے.دیکھو آک کا بڑا آک کے پتوں میں رہ کر ایسا ہی رنگ اختیار کرلیتا ہے اور تیتری جن پھولوں میں اُڑتی پھرتی ہے، ان کا رنگ حاصل کرلیتی ہے.کیا ہم بڑوں اور تیتریوں سے بھی گئے گزرے ہیں اور ہمارا خدا ( نَعُوذُ بالله) آک اور پھولوں سے بھی گیا گذرا ہے کہ بڑا آک کے پتوں میں رہتا ہے تو ان کا رنگ قبول کرلیتا ہے تیتریاں جن پھولوں میں رہتی ہیں وہ ان کا رنگ اخذ کرلیتی ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے بندے اس کے پاس جائیں اور وہ اس کا رنگ نہ قبول کریں.دراصل وہ اپنے دل کی بدظنی ہی ہوتی ہے جو انسان کو ناکام و نامراد رکھتی ہے.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں.خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے.اَنَا عِنْدَ ظَنْ عَبْدِی ہی ہے.جیسا بندہ ہمارے متعلق گمان کرتا
خطبات محمود ۴۵۶ سال ۱۹۳۴ تو ہے ویسا ہی ہم اس سے سلوک کرتے ہیں.وہ جن کے دلوں میں اپنی ہستی کا یقین نہیں ہوتا یا خدا تعالیٰ کے متعلق یقین نہیں ہوتا ان کو کچھ نہیں ملتا.لیکن جو یہ سمجھتے ہیں کہ خدا تعالٰی نے ہمیں معزز بنایا ہے اور بڑی بڑی طاقتیں عطا کی ہیں اور وہ یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ خدا تعالی بڑا رحم کرنے والا اور بڑے بڑے انعام دینے والا ہے، وہ خالی نہیں رہتے اور اپنے ظرف کے مطابق اپنا حصہ لے کر رہتے ہیں.وہی خدا کے بچے بندے ہیں ان کا خدا ان سے خوش ہے اور وہ اپنے خدا سے خوش ہیں.زمینداروں کیلئے بھی چھٹی کا وقت ہوتا ہے.انہیں سرکار کی طرف سے چھٹی نہیں ملتی بلکہ خدا تعالی کی طرف سے ملتی ہے.یعنی ایک موقع آتا ہے جو نہ کوئی فصل بونے کا ہوتا ہے اور نہ کاٹنے کا.اس وقت جو تھوڑا بہت کام ہو اسے بیوی بچوں کے سپرد کر کے وہ اپنے آپ کو تبلیغ کیلئے پیش کر سکتے ہیں.ہم ان کی لیاقت کے مطابق اور ان کی طرز کا ہی کام انہیں بتادیں گے اور خدا تعالٰی کے فضل سے اس کے اعلیٰ نتائج رونما ہوں گے.مثلاً ان سے پوچھیں گے کہ تمہاری کہاں کہاں رشتہ داریاں ہیں اور کہاں کے رشتہ دار احمدی نہیں.پھر کہیں گے جاؤ ان کے ہاں مہمان ٹھرو اور ان کو تبلیغ کرو.اس پر کچھ خرچ بھی نہ ہوگا کیونکہ رشتہ داریاں قریب قریب ہوتی ہیں.یا پھر بہت تھوڑا کرایہ خرچ ہو گا.اس طرح وہ ان کے ہاں رہیں اور انہیں تبلیغ کریں.اس عرصہ میں اگر ایک بھی بیج بویا گیا تو آگے وہ خود ترقی کرے گا.اس طرح سینکڑوں مبلغ باقاعدہ طور پر کام کرنے والے پیدا ہو سکتے زمینداروں سمیت پانچ چھ سو بلکہ ہزار تک مبلغ ایک وقت میں کام کر سکتے ہیں.دسواں مطالبہ یہ ہے کہ اپنے عہدہ یا کسی علم وغیرہ کے لحاظ سے جو لوگ کوئی پوزیشن رکھتے ہوں یعنی ڈاکٹر ہوں، وکلاء ہوں یا اور ایسے معزز کاموں پر یا ملازمتوں پر ہوں جن کو لوگ عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایسے لوگ اپنے آپ کو پیش کریں تاکہ مختلف مقامات کے جلسوں میں مبلغوں کے سوائے ان کو بھیجا جائے.میں نے دیکھا ہے کہ اکثر لوگوں پر یہ اثر ہوتا ہے کہ مولوی آتے ہیں تقریریں کر جاتے ہیں اور یہ ان کا پیشہ ہے.وہ لوگ ہمارے مولویوں کی قربانیوں کو نہیں دیکھتے اور انہیں اپنے مولویوں پر قیاس کرلیتے ہیں حالانکہ ان کے مولویوں اور ہمارے مولویوں میں بہت بڑا فرق ہے.ہمارے مولوی حقیقی عالم ہوتے ہیں اور ان کے مولوی محض جاہل.مگر لوگ ظاہری شکل دیکھتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ احمدی مولوی بھی عام مولویوں کی طرح ہی ہیں.لیکن تقریر کرنے والا کوئی وکیل، کوئی ڈاکٹر یا کوئی اور عہدہ دار ہو تو ! ہیں.
خطبات محمود ۴۵۷ سال ۱۹۳۴ء لوگوں میں یہ احساس پیدا ہوگا کہ اس جماعت کے سب افراد میں خواہ وہ کسی طبقہ کے ہوں دین سے رغبت اور واقفیت پائی جاتی ہے اور خواہ ان کے منہ سے وہی باتیں نکلیں جو مولوی بیان کرتے ہیں مگر ان کا اثر بہت زیادہ ہوگا.ایسے طبقوں کے لوگ ہماری جماعت میں چار پانچ سو سے کم نہیں ہوں گے مگر اس وقت دو تین کے سوا باقی دینی مضامین کی طرف توجہ نہیں کرتے.اس وقت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب قاضی محمد اسلم صاحب اور ایک دو اور نوجوان ہیں، ایک دہلی کے عبدالمجید صاحب ہیں جنہوں نے ملازمت کے دوران میں ہی مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا وہ لیکچر بھی اچھا دے سکتے ہیں، سرحد میں قاضی محمد یوسف صاحب ہیں غرض ساری جماعت میں دس بارہ سے زیادہ ایسے لوگ نہیں ہوں گے.باقی سمجھتے ہیں انہوں نے فراغت پالی ہے کیونکہ لیکچر دینے کیلئے مولوی تیار ہوگئے ہیں.اسی طرح ایک تو ان کی اپنی زبانوں کو زنگ لگ رہا ہے پھر دوسرے لوگ بھی ان سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے.مجھے ہے کہ خواجہ کمال الدین صاحب کو لیکچر دینے کا شوق تھا اور انہوں نے اس رنگ میں خدمت کی ہے.کسی نے ان کے متعلق کہا وہ شہرت چاہتے ہیں اس لئے لیکچر دیتے پھرتے ہیں.میں نے کہا اگر وہ شہرت کیلئے ایسا کرتے ہیں تو تم خدا کیلئے کیوں اسی طرح نہیں کرتے.بہرحال ان کو ڈھن تھی اور وہ لیکچر دینے جایا کرتے تھے.میں نے ان کے کئی لیکچر منے ہیں.جب وہ لیکچر دیتے ہوئے اس موقع پر آتے کہ خواہ تم حضرت مرزا صاحب کو بُرا کہو مگر میں عیسائی ہونے لگا تھا مجھے انہوں نے ہی بچایا تو اس طرح لوگوں کے دلوں میں حضرت اقدس کے متعلق اُنس پیدا ہو جاتا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قدر بھی کرتے کہ انہوں نے خواجہ صاحب کو عیسائی ہونے سے بچایا.میں سمجھتا ہوں اگر اچھی پوزیشن رکھنے والا ہر شخص اپنے حالات بیان کرے اور بتائے کہ اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو قبول کر کے کس قدر روحانی ترقی حاصل ہوئی اور کس طرح اس کی حالت میں انقلاب آیا.پھر ڈاکٹر یا وکیل یا بیرسٹر ہو کر قرآن اور حدیث کے معارف بیان کرے تو سننے والوں پر اس کا خاص اثر سکتا ہے.ضروری نہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات ہی بیان کی جائے بلکہ ان مسائل کو بیان کرنا بھی ضروری ہے جو قبول احمدیت میں روک بنے ہوئے ہیں.مثلاً فسق و فجور میں لوگوں کا مبتلاء ہونا، نمازوں سے دوری مذہب سے بے رغبتی وغیرہ ان امور کے متعلق اگر کوئی بیرسٹریا وکیل یا حج یا ڈاکٹر لیکچر دے تو کئی لوگ ایسے ہوں گے جنہوں نے مولویوں کے ہو
خطبات محمود ۴۵۸ مونہوں سے ان کے متعلق باتیں سن کر کوئی توجہ نہ کی ہوگی مگر پھر مان لیں گے.اس قسم کے لوگ اگر علاوہ اس قربانی کے جس قدر چھٹی مل سکے اس میں تبلیغ کریں، اپنے نام دے دیں اور کہہ دیں کہ جہاں موقع ہو ان کو بلالیا جائے تو ان سے بہت مفید کام لیا جاسکتا ہے اور یہ کام زیادہ نہ ہو گا.سال میں ایک ایک دو دو لیکچر حصہ میں آئیں گے.یہ لوگ اگر لیکچروں کیلئے معلومات حاصل کرنے اور نوٹ لکھنے کیلئے قادیان آجائیں تو میں خود ان کو نوٹ لکھا سکتا ہوں یا دوسرے مبلغ لکھا دیا کریں گے.اس طرح ان کو سہارا بھی دیا جاسکتا ہے.شروع شروع میں خواجہ صاحب یہاں سے بہت نوٹ لکھایا کرتے تھے پھر آہستہ آہستہ ان کو مشق ہو گئی.جن اصحاب کے میں نے نام لئے ہیں کہ اس رنگ میں تبلیغ کرنے میں حصہ لیتے ہیں ان کیلئے بھی ابھی گنجائش ہے کہ اور زیادہ حصہ لیں.اس طرح بھی تبلیغ میں نئی رو پیدا کی جاسکتی ہے.اگر دو تین سو ڈاکٹر وکیل اور بیرسٹر اور اچھے عہدیدار لیکچر دینے لگیں تو لوگوں کی طبائع میں ایک نیا رنگ پیدا ہو سکتا ہے.مولویوں کے لیکچر کے متعلق تو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ فلاں ان کا مولوی اور فلاں ہمارا مولوی ان کی آپس میں لڑائی دیکھنی چاہیئے.لیکن جب لیکچر دینے والے ڈاکٹر بیرسٹر وکیل یا دوسرے معزز پیشوں اور عہدوں کے لوگ ہوں گے تو لوگ صرف تماشہ نہیں بلکہ کچھ حاصل کرنے کیلئے جمع ہوں گے اور بہت سے لوگ سلسلہ کی طرف رغبت کرنے لگیں گے.پرانے دوستوں میں سے کام کرنے والے ایک میرحامد شاہ صاحب مرحوم بھی تھے.ان کو خواجہ صاحب سے بھی پہلے لیکچر دینے کا جوش تھا اور ان کے ذریعہ بڑا فائدہ پہنچا.وہ ایک ذمہ دار عہدہ پر لگے ہوئے تھے باوجود اس کے تبلیغ میں مصروف رہتے اور سیالکوٹ کی دیہاتی جماعت کا بڑا حصہ ان کے ذریعہ احمدی ہوا.گیارھواں مطالبہ یہ ہے کہ ایک دفعہ میں نے تحریک کی تھی کہ ۲۵ لاکھ سے ریز روفنڈ قائم کیا جائے اور اس طرح آمد کی ایسی صورت پیدا کی جائے کہ اس کے ساتھ ہنگامی کام کئے جاسکیں.اب ہمارا بجٹ ایسا ہوتا ہے کہ ہم ہنگامی کام پر کچھ خرچ نہیں کرسکتے.یہی دیکھو اس وقت کتنا بڑا ہنگامہ شروع ہے مگر بعض دفعہ دس میں روپے خرچ کرنے کیلئے بھی کام میں روک پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ سمجھا جاتا ہے کہ اس طرح بجٹ کی رقم سے زیادہ خرچ ہو جائے گا.حالانکہ حقیقتاً یہ ہونا چاہیئے کہ دس لاکھ کا بجٹ ہو تو اس میں سے اڑھائی لاکھ مقررہ خرچ کیلئے ہو اور باقی ہنگامی اخراجات کیلئے ہو.یعنی جو حملے جماعت پر ہوں ان کے دفعیہ
سال ۱۹۳۴ء خطبات محمود ۴۵۹ کیلئے خرچ کیا جائے.یا خود دوسروں پر جو حملے کئے جائیں ان میں خرچ ہو.اب تو بجٹ نپا تلا ہوتا ہے اتنی رقم مبلغین کی تنخواہوں کی اتنی مدرسین کی اتنی وظائف کی اور اتنی لنگر کی اتنی کلرکوں اور اتنی ناظروں کی تنخواہوں کی اور بس.مگر ہنگامی خرچ ساڑھے تین لاکھ کے بحبٹ میں دس ہزار یا اس سے بھی کم نکلے گا.حالانکہ اصل چیز جس سے جماعت کی ترقی ہو سکتی ہے ہنگامی کام ہی ہے.ہم سارے ملک کا سروے کریں اور دیکھیں کہ کہاں کہاں کامیابی ہو سکتی ہے اور پھر وہاں زور دے دیں.اب تو اگر کوئی موقع نکلے تو بھی اخراجات کی مشکلات کی وجہ سے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا.پچھلے دنوں بنگال کے متعلق معلوم ہوا کہ وہاں ایک پیر صاحب فوت ہوئے ہیں جنہوں نے اپنے مریدوں کو کہا تھا کہ امام مہدی آگئے ہیں، ان کی تلاش کرو.ہمارے ایک دوست نے ان میں تبلیغ کی اور ان میں سے بعض نے مان لیا لیکن بعض نے کہا کہ ہم میٹنگ کر کے سب کے سب اکٹھے فیصلہ کریں گے.میں نے ایک مبلغ کو مقرر کیا کہ ان لوگوں سے جاکر ملے اور انہیں فیصلہ کرنے میں مدد دے مگر تین چار ماہ کے بعد دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ مبلغ جاکر شہر میں بیٹھا ہوا ہے اور جن علاقوں میں وہ لوگ ہیں وہاں نہیں جاسکا کیونکہ دعوت و تبلیغ کا محکمہ سفر خرچ کا انتظام نہیں کرسکا اور اس طرح ہیں تھیں ہزار آدمی کی ہدایت کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا.کیونکہ اس عرصہ میں مخالفت اس علاقہ میں تیز اور وہ لوگ ڈر گئے.تو کئی ایسے مواقع ہوتے ہیں کہ ہنگامی خرچ کرنے سے بہت بڑی کامیابی حاصل ہو سکتی ہے یا جماعت کے اثر اور وقار میں بہت بڑا اضافہ ہو سکتا ہے.مگر اخراجات نہ ہونے کی وجہ سے ہاتھ بندھے ہوتے ہیں کیونکہ جس قدر آمد ہوتی ہے مقررہ اخراجات پر ہی صرف ہو جاتی ہے.دراصل خلیفہ کا کام نئے سے نئے حملے کرنا اور اسلام کی اشاعت کیلئے نئے سے نئے رستے کھولنا ہے مگر اس کیلئے بجٹ ہوتا ہی نہیں سارا بجٹ انتظامی امور کیلئے یعنی صدر انجمن کیلئے ہوتا ہے.نتیجہ یہ ہے کہ سلسلہ کی ترقی افتادی ہو رہی ہے اور کوئی نیا رستہ نہیں نکلتا.ہم کوئی نئی کوشش نہیں کر سکتے.اسی لئے میں نے اس وقت کہا تھا کہ دس سال کے اندر اندر ایسے تغیرات ہونے والے ہیں کہ ہندوستان کی حالت بدل جائے گی اور اب ایسا ہی ہو رہا ہے.بالشوزم (BOLSHEVISM) ہندو اور مسلمانوں میں پھیل رہی ہے اور یہ دجالیت کا فتنہ کہیں احراریوں کی شکل میں، کہیں کسان سبھا کی صورت میں اور کہیں کے نام کے نیچے کام کر رہا ہے یہ سب ایک ہی رُوسی بالشویک کی شاخیں ہیں خواہ سو شلزم م
خطبات محمود ۴۶۰ سال ۱۹۳۴ء براہ راست ان کے اثر کے نیچے خواہ ان کے خیالات سے گلی یا جزئی طور پر متاثر ہو کر.بالشو زم کی غرض مذہب کو باطل کرتا ہے.ان تحریکوں کا اثر بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ مذہب کے خلاف پڑتا ہے.بظاہر ان شاخوں میں کام کرنے والے بعض افراد مذہب کی تائید کرتے ہیں مگر حقیقت میں ان کی تحریکوں کا مذہب سے تعلق نہیں بلکہ مجموعی اثرات کے خلاف ہی پڑتا ہے.صوبہ سرحد کے سُرخ پوشوں کو دیکھو کتنا اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن جب موقع آیا تو کانگرس کے ساتھ مل گئے.پس ان لوگوں کا دعویٰ نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ جا کد ھر رہے ہیں.یہ ہو ہی کس طرح سکتا ہے کہ ایک اسلام کی خیر خواہ اور اسلام کی محافظ جماعت ہو اور آریہ عیسائی وغیرہ اس کی مدد کریں.یہی دیکھ لو یہاں کے آریوں نے احراریوں کو جلسہ کرنے کیلئے جگہ دی ہندو افسر احراریوں کی ہمارے خلاف مدد کرتے رہے.اگر ہم اسلام کو تباہ کرنے والے اور مسلمانوں کو ہلاکت کے گڑھے میں ڈالنے والے ہیں تو چاہیے تھا کہ غیر مسلم دوڑ کر ہمارے پاس آتے اور کہتے ہم تمہاری مدد کرنے کیلئے آئے ہیں مگر ہوتا کیا ہے یہ کہ ہماری بجائے احراریوں کی مدد کی جاتی ہے.پھر اس کی کیا وجہ تھی کہ بعض افسر تنخواہ تو گورنمنٹ سے پاتے تھے مگر مدد احراریوں کی کر رہے تھے.دراصل وہ حرام خوری کر رہے تھے کہ حکومت سے تنخواہیں لیکر حکومت ہی کی جڑیں کاٹ رہے تھے اور اس کے دشمنوں کی مدد کر رہے تھے.غرض اس قسم ہیں پیدا ہو رہی ہیں جو جلد سے جلد موجودہ نظام دنیا میں تغیر پیدا کر رہی ہیں ایسا تغیر جو اسلام کیلئے سخت مضر ہے.اس کا مقابلہ کرنے کیلئے آج سے دس سال قبل میں نے ریزروفنڈ قائم کرنے کیلئے کہا تھا تاکہ اس کی آمد سے ہم ہنگامی کام کر سکیں مگر افسوس جماعت نے اس کی اہمیت کو نہ سمجھا اور صرف ۲۰ ہزار کی رقم جمع کی.اس میں سے کچھ رقم صدر انجمن احمدیہ نے ایک جائداد کی خرید پر لگادی اور کچھ رقم کشمیر کے کاموں کیلئے قرض لے لی گئی اور بہت تھوڑی سی رقم باقی رہ گئی.یہ رقم اسقدر قلیل تھی کہ اس پر کسی ریز روفنڈ کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی تھی.ہنگامی کاموں کیلئے تو بہت بڑی رقم ہونی چاہیے جس کی معقول آمدنی ہو.پھر اس آمدنی میں سے ہنگامی اخراجات کرنے کے بعد جو کچھ بچے اس کو اسی فنڈ کی مضبوطی کیلئے لگا دیا.جائے تاکہ جب ضرورت ہو اس سے کام لیا جاسکے.دوستوں نے اس کے متعلق بڑے بڑے وعدے کئے.ایک صاحب نے کہا میرے لئے ایک لاکھ روپیہ جمع کرنا بھی مشکل نہیں مگر
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء افسوس وعدوں کو پورا کرنے کی طرف توجہ نہ کی.جن صاحب نے ایک لاکھ کا وعدہ کیا تھا وہ ایک سو بھی مہیا نہ کر سکے.سب سے زیادہ حصہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے لیا تھا انہوں نے دو تین ہزار کے قریب رقم دی تھی.باقی لوگوں نے تھوڑی تھوڑی رقم دی اور پھر خاموش ہو گئے اور پانچ چھ سال سے اس میں کوئی آمد نہیں ہوئی.میں اب پھر جماعت کو اس کی طرف توجہ دلاتا ہوں.اس رقم کا جمع کرلینا کوئی بڑی بات نہیں ہے.میاں احمد دین صاحب زرگر کشمیر فنڈ کیلئے پھرتے رہتے ہیں.کئی لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ وہ اپنا خرچ لیتے ہیں.بیشک ان کو خرچ دیا جاتا ہے کیونکہ کام کرنے والے کو خرچ کرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے مگر میں نے دیکھا ہے جہاں کے متعلق مقامی لوگ کہتے ہیں کہ کچھ نہیں مل سکتا، وہاں سے بھی وہ چالیس پچاس روپے کشمیر ریلیف فنڈ میں جمع کر لیتے ہیں.اور پھر لوگ لکھتے ہیں کہ ان کو وصول کرنے کا ڈھنگ آتا ہے.اس سے معلوم ہوا وصول کرنے کیلئے ڈھنگ کی ضرورت ہے، یہ نہیں کہ ملتا نہیں.اگر ایک ہزار آدمی بھی اس بات کا تہیہ کرلے کہ ریز روفنڈ جمع کرنا ہے اور ہر ایک کی رقم دو سو بھی رکھ لی جائے تو بہت بڑی رقم ہر سال جمع ہو سکتی ہے اور پھر اس کی آمد سے ہنگامی کام بآسانی کئے جاسکتے ہیں اور جب کوئی ہنگامی کام نہ ہو تو آمد بھی اصل رقم میں ملائی جاسکتی ہے.جماعت کو یاد رکھنا چاہیے کہ جب تک ہنگامی کاموں کیلئے بہت بڑی رقم خلیفہ کے ماتحت نہ ہو کبھی ایسے کام جو سلسلہ کی وسعت اور عظمت کو قائم کریں نہیں ہو سکتے.بارھواں مطالبہ یہ ہے کہ جب یہ کام کئے جائیں گے تو مرکز میں کام بڑھے گا.کئی باہر کے لوگ جو کہتے ہیں کہ یہاں کارکنوں کو کم کام کرنا پڑتا ہے.ان سے میں کہا کرتا ہوں کہ خود یہاں آکر کام کرو اور جب کوئی اگر کام کرتا ہے تو پھر کہتا ہے یہاں تو بڑا کام کرنا پڑتا ہے.کل ہی خانصاحب فرزند علی صاحب مجھ سے کہہ رہے تھے کہ جتنا کام نظارت امور عامہ کا کرنا پڑتا ہے میں نے اپنی ملازمت کے پندرہ یا بیس سال کہا) آخری سالوں میں اتنا زیادہ کام نہیں کیا.تو کام تو یہاں ہے اور بہت بڑا کام ہے.میں صبح اپنے دفتر میں آکر کام شروع کرتا ہوں، رقعے اور ڈاک اور دفتروں کے کاغذات دیکھتا ہوں، پھر ملاقات کرنے والوں سے ملاقات کرتا ہوں، اسی میں دفتر کے اوقات کے چھ سات گھنٹے صرف ہو جاتے ہیں اور کسی کام کیلئے کوئی وقت نہیں بچتا.پھر لوگ امید رکھتے ہیں کہ میں سکیمیں پیش کروں، ان کی نگرانی کروں ، تقاریر کروں اور تصانیف بھی کروں: اس میں شبہ نہیں کہ خلیفہ ایک ہی ہو سکتا ہے ناظروں کی طرح
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء زیادہ خلیفے نہیں ہو سکتے لیکن اگر خلیفہ کے ماتحت زیادہ کام کرنے والے ہوں تو اس تک گو معاملات پھر بھی آئیں گے لیکن وہ کام کرنے کے گر بتائے گا اور کام دوسرے کرلیں گے.موجودہ حالات میں کام چل ہی نہیں سکتا جب تک زائد آدمی کام کرنے والے نہ ہوں.مگر بجٹ پہلے ہی پورا نہیں ہوتا تو اور آدمی کس طرح رکھے جاسکتے ہیں اس لئے میں تحریک کرتا ہوں کہ وہ بیسیوں آدمی جو پنشن لیتے ہیں اور گھروں میں بیٹھے ہیں، خدا نے ان کو موقع دیا ہے کہ چھوٹی سرکار سے پنشن لیں اور بڑی سرکار کا کام کریں یعنی دین کی خدمت کریں اس سے اچھی بات ان کیلئے اور کیا ہو سکتی ہے.بیسیوں ایسے لوگ ہیں جو پینشن لیتے ہیں اور جنہیں اپنے گھروں میں کوئی کام نہیں ہے میں ان سے کہتا ہوں کہ خدمت دین آپ کو وقف کریں تا ان سکیموں کے سلسلہ میں ان سے کام لیا جائے یا جو مناسب ہوں انہیں نگرانی کا کام سپرد کیا جائے.ورنہ اگر نگرانی کا انتظام نہ کیا گیا تو عملی رنگ میں نتیجہ اچھا نہ نکل سکے گا.اپنے تیرھواں مطالبہ یہ ہے کہ باہر کے دوست اپنے بچوں کو قادیان کے ہائی سکول یا مدرسہ احمدیہ میں سے جس میں چاہیں تعلیم کیلئے بھیجیں.میں عرصہ سے دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے مرکزی سکولوں میں باہر کے دوست کم بچے بھیج رہے ہیں.اس کی ایک وجہ تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ باہر سکول بہت کھل گئے ہیں.دوسرے پہلے باہر اتنی جماعتیں نہ تھیں جتنی اب ہیں.اب احمدیوں کے بچے اکٹھے ان سکولوں میں چلے جاتے ہیں اور انہیں اس قدر تکلیف نہیں ہوتی جتنی پہلے ہوتی تھی لیکن اس طرح ہماری جماعت کے بچوں کی تربیت ایسی نہیں ہوتی جیسی کہ ہم چاہتے ہیں.میرا تجربہ یہ ہے کہ یہاں پڑھنے والے لڑکوں میں سے بعض جن کی پوری طرح اصلاح نہ ہوئی وہ بھی اِلا مَاشَاءَ اللهُ جب قربانی کا موقع آیا تو یکدم دین کی خدمت کی طرف لوٹے اور اپنے آپ کو قربانی کیلئے پیش کر دیا.یہ ان کی قادیان کی رہائش کا ہی اثر ہوتا ہے.ایک لڑکے کو میں نے آوارگی کی وجہ سے قادیان سے کئی بار نکلوایا لیکن جب وہ اپنے وطن میں گیا اور اس علاقہ کے لوگ جب آئیں تو یہی کہیں کہ وہ خدمت دین کے جوش اور شوق کی وجہ سے ہمارے لئے نمونہ ہے.اسے رسل کی بیماری ہو گئی تھی حتی کہ اسے خون آنے لگ گیا مگر باوجود ایسی حالت کے تبلیغ میں سرگرمی سے مصروف رہتا اور لوگ کہتے اس کا نمونہ بہت اعلیٰ درجہ کا ہے.
خطبات محمود وم سال ۱۹۳۴ و غرض قادیان میں پرورش پانے والے بچوں میں ایسا بیج بویا جاتا ہے اور سلسلہ کی محبت ان کے دلوں میں ایسی جاگزیں ہو جاتی ہے کہ خواہ ان میں سے کسی کی حالت کیسی ہی ہو جس کی خدمت کیلئے آواز اُٹھتی ہے تو ان کے اندر سے لبیک کی سر پیدا ہو جاتی ہے.إِلا مَا شَاءَ اللهُ - لیکن اِس وقت میں ایک خاص مقصد سے یہ تحریک کر رہا ہوں.ایسے لوگ اپنے بچوں کو پیش کریں جو اس بات کا اختیار دیں کہ ان بچوں کو ایک خاص رنگ اور خاص طرز میں رکھا جائے اور دینی تربیت پر زور دینے کیلئے ہم جس رنگ میں ان کو رکھنا چاہیں رکھ سکیں.اس کے ماتحت جو دوست اپنے لڑکے پیش کرنا چاہیں کریں ان کے متعلق میں ناظر صاحب تعلیم و تربیت سے کہوں گا کہ انہیں تہجد پڑھانے کا خاص انتظام کریں.قرآن کریم کے درس اور مذہبی تربیت کا پورا انتظام کیا جائے اور ان پر ایسا گہرا اثر ڈالا جائے کہ اگر ان کی ظاہری تعلیم کو نقصان بھی پہنچ جائے تو اس کی پرواہ نہ کی جائے.میرا یہ مطلب نہیں کہ ان کی ظاہری تعلیم کو ضرور نقصان پہنچے اور نہ بظاہر اس کا امکان ہے لیکن دینی ضرورت پر زور دینے کی غرض سے میں کہتا ہوں کہ اگر ان کی دینی تعلیم و تربیت پر وقت خرچ کرنے کی وجہ سے نقصان پہنچ بھی جائے تو اس کی پرواہ نہ کی جائے.اس طرح ان کیلئے ایک ایسا ماحول پیدا کیا جائے جو اُن میں نئی زندگی کی روح پیدا کرنے والا ہو..چودھواں مطالبہ یہ ہے کہ بعض صاحب حیثیت لوگ ہیں جو اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتے ہیں، ان سے میں کہوں گا کہ بجائے اس کے کہ بچوں کے منشاء اور خواہش کے مطابق ان کے متعلق فیصلہ کریں یا خود یا اپنے دوستوں کے مشورہ سے فیصلہ کریں وہ اپنے لڑکوں کے مستقبل کو سلسلہ کیلئے پیش کردیں.اس کیلئے ایک کمیٹی بنادی جائے گی اس کے سپرد ایسے لڑکوں کے مستقبل کا فیصلہ کر دیا جائے.وہ کمیٹی ہر ایک لڑکے کے متعلق جو فیصلہ کرے اس کی پابندی کی جائے.اب یہ ہوتا ہے کہ اگر ایک لڑکا آئی سی.ایس کی تیاری کرتا ہے تو سب اسی طرف چلے جاتے ہیں اگر وہ سارے کے سارے پاس بھی ہو جائیں تو اتنی جگہیں کہاں سے نکل سکتی ہیں جو سب کو مل جائیں.لیکن اگر لڑکوں کو علیحدہ علیحدہ کاموں کیلئے منتخب کیا جائے اور ان کیلئے تیاری کرائی جائے تو پھر انہیں ملازمتیں حاصل کرنے میں بھی کامیابی ہو سکتی ہے اور سلسلہ کی ضرورتیں بھی پوری ہو سکتی ہیں.موجودہ حالات میں جو احمدی اعلیٰ عہدوں کی تلاش کرتے ہیں وہ کسی نظام کے ماتحت
خطبات محمود موسم سال ۱۹۳۴ء نہیں کرتے.اور نتیجہ یہ ہوا ہے کہ بعض صیغوں میں احمدی زیادہ ہو گئے ہیں اور بعض بالکل خالی ہیں.پس میں چاہتا ہوں کہ اعلیٰ تعلیم ایک نظام کے ماتحت ہو اور اس کیلئے ایک ایسی کمیٹی مقرر کر دی جائے کہ جو لوگ اعلیٰ تعلیم دلانا چاہیں وہ لڑکوں کے نام اس کمیٹی کے سامنے پیش کردیں.پھر وہ کمیٹی لڑکوں کی حیثیت ان کی قابلیت اور ان کے رجحان کو دیکھ کر فیصلہ کرے کہ فلاں کو پولیس کے محکمہ کیلئے تیار کیا جائے، فلاں کو انجینئرنگ کی تعلیم دلائی جائے، فلاں کو بجلی کے محکمہ میں کام سیکھنے کیلئے بھیجا جائے، فلاں ڈاکٹری میں جائے، فلاں ریلوے میں جائے وغیرہ وغیرہ.یعنی ان کیلئے الگ الگ کام مقرر کریں تاکہ کوئی صیغہ ایسا نہ رہے جس میں احمدیوں کو کافی دخل نہ ہو جائے.اب صرف تین یا چار صیغوں میں احمدیوں کا دخل ہے اور باقی خالی پڑے ہیں.میں سمجھتا ہوں اس بارے میں معمولی سا نظام قائم کرنے - سلسلہ کو بہت بڑی طاقت حاصل ہو سکتی ہے اور وہ لڑکے جن کی زندگیاں ضائع ہو جاتی ہیں بچ سکتے ہیں.اور کئی نوجوان جو اچھے اور اعلیٰ درجہ کے کام نہیں کر رہے، کرنے لگ جائیں گے اور کئی محکموں میں ترقی کرنے کا رستہ نکل آئے گا.اگر ایسے سو آدمی بھی اپنے لڑکوں کو پیش کر دیں اور کمیٹی ان لڑکوں کے متعلق فیصلہ کرے تو اس کا نتیجہ بہت اچھا نکل سکتا ہے.دوسرے صوبوں میں یہ کمیٹی اپنی ماتحت انجمنیں قائم کرے جو اپنے رسوخ اور کوشش سے نوجوانوں کو کامیاب بنائیں.اس کام کیلئے جو کمیٹی میں نے مقرر کی ہے اور جس کا کام ہو گا کہ اس بارے میں تحریک بھی کرے اور اس کام کو جاری کرے اس کے فی الحال تین ممبر ہوں گے.جن کے نام یہ ہیں.(۱) چوہدری ظفر اللہ خانصاحب (۲) خانصاحب فرزند علی صاحب (۳) میاں بشیر احمد صاحب.یہ اس تحریک کو کامیاب بنانے کی کوشش کریں اور کام کو جاری کرنے کی ممکن تدابیر عمل میں لائیں.پندرھواں مطالبہ جو جماعت سے بلکہ نوجوانان جماعت سے ہے یہ ہے کہ جیسا کہ نے بتایا ہے بہت سے نوجوان بیکار ہیں.میں ایک مثال دے چکاہوں کہ ایک نوجوان اسی قسم کی تحریک پرولایت چلے گئے اور وہاں سے کام سیکھ کر آگئے.اب وہ انگلش ویئر ہاؤس لاہور میں اچھی تنخواہ پر ملازم ہیں.وہ جب گئے تو جہاز پر کوئلہ ڈالنے والوں میں بھرتی ہو گئے.ولایت جا کرانہوں نے کٹر (Cutter) کا کام سیکھا اور اب اچھی ملازمت کر رہے ہیں.وہ نوجوان جو گھروں میں بیکار بیٹھے روٹیاں توڑتے ہیں اور ماں باپ کو مقروض بنا رہے ہیں، انہیں چاہیے کہ اپنے وطن چھوڑیں اور نکل جائیں.جہاں تک دوسرے ممالک کا تعلق ہے اگر وہ اپنے لئے صحیح انتخاب
خطبات محمود ۴۶۵ کرلیں تو ننانوے فیصدی کامیابی کی امید ہے.کوئی امریکہ چلا جائے کوئی جرمنی چلا جائے کوئی فرانس چلا جائے، کوئی انگلستان چلا جائے کوئی اٹلی چلا جائے ، کوئی افریقہ چلا جائے غرض کہیں نہ کہیں چلا جائے اور جاکر قسمت آزمائی کرے.وہ کیوں گھروں میں بیکار پڑے ہیں باہر نکلیں اور کمائیں پھر خود بھی فائدہ اُٹھائیں اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچائیں.جو زیادہ دور نہ جانا چاہیں وہ ہندوستان میں ہی اپنی جگہ بدل لیں مگر میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ بعض نوجوان ماں باپ کو اطلاع دیئے بغیر گھروں سے بھاگ جاتے ہیں یہ بہت بُری بات ہے.جو جانا چاہیں اطلاع دے کر جائیں اور اپنی خیروعافیت کی اطلاع دیتے رہیں.مدراس کے بمبئی کے علاقہ میں چلے جائیں، بمبئی کے بہار میں، پنجاب کے بنگال میں غرض کسی نہ کسی دوسرے علاقہ میں چلے جائیں.رنگون کلکتہ، ہمیئی وغیرہ شہروں میں پھیری سے ہی وہ کچھ نہ کچھ کما سکتے ماں باپ کو مقروض ہونے سے بچاسکتے ہیں.لیکن اگر کسی کو ناکامی ہو تو کیا ناکامی اپنے وطن میں رہنے والوں کو نہیں ہوتی پھر کیا وجہ ہے کہ وہ باہر نکل کر جدوجہد نہ کریں اور سلسلہ کیلئے مفید وجود نہ بنیں اور بیکار گھروں میں پڑے رہیں.ہیں اور سولہواں مطالبہ یہ ہے کہ جماعت کے دوست اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں.میں نے دیکھا ہے کہ اکثر لوگ اپنے ہاتھ سے کام کرنا ذلت سمجھتے ہیں حالانکہ یہ ذلت نہیں بلکہ عزت کی بات ہے.ذلّت کے معنی تو یہ ہوئے کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ بعض کام ذلت کا موجب ہیں.اگر ایسا ہے تو ہمارا کیا حق ہے کہ اپنے کسی بھائی سے کہیں کہ وہ فلاں کام کرے جسے ہم کرنا ذلت سمجھتے ہیں.ہم میں سے ہر ایک کو اپنے ہاتھ سے کام کرنا چاہیئے.امراء تو اپنے گھروں میں کوئی چیز ادھر سے اُٹھا کر اُدھر رکھنا بھی عار سمجھتے ہیں حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو میں نے بیسیوں دفعہ برتن مانجتے اور دھوتے دیکھا ہے اور میں نے خود بیسیوں دفعہ برتن مانجے اور دھوئے ہیں اور کئی دفعہ رومال وغیرہ کی قسم کے کپڑے بھی دھوئے ہیں.ایک دفعہ میں نے ایک ملازم کو پاؤں دبانے کیلئے بلایا.وہ مجھے دبا رہا تھا کہ کھانے کا وقت وگیا.لڑکا کھانے کا پوچھنے آیا تو میں نے کہا دو آدمیوں کا کھانا لے آؤ.کھانا آنے پر میں نے اُس ملازم کو ساتھ بٹھالیا.لڑکا یہ دیکھ کر دوڑا دوڑا گھر میں گیا اور جاکر قہقہہ مار کر کہنے لگا حضرت صاحب فلاں ملازم کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا رہے ہیں.اسلامی طریق یہی ہے اور میں سفر میں یہی طریق رکھتا ہوں کہ ساتھ والے آدمیوں کو اپنے ساتھ کھانے پر بٹھالیتا ہوں.
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء میں نے دیکھا ہے حضرت خلیفۃ المسیح الاول میں بعض بعض خوبیاں نہایت نمایاں تھیں.حضرت خلیفہ اول اسی مسجد میں قرآن کریم کا درس دیا کرتے تھے مجھے یاد ہے میں چھوٹا سا تھا سات آٹھ سال کی عمر ہوگی ہم باہر کھیل رہے تھے کہ کوئی ہمارے گھر سے نکل کر کسی کو آواز دے رہا تھا کہ فلانے مینہہ آگیا ہے او پلے بھیگ جائیں گے جلدی آؤ اور ان کو اندر ڈالو.حضرت خلیفہ اول درس دے کر اُدھر سے جارہے تھے انہوں نے اُس آدمی سے کہا کیا شور مچارہے ہو؟ اس نے کہا کہ کوئی آدمی نہیں ملتا جو اوپہلے اندر ڈالے آپ نے فرمایا تم مجھے آدمی نہیں سمجھتے.یہ کہہ کر آپ نے ٹوکری لے لی اور اُس میں اوپلے ڈال کر اندر لے گئے.آپ کے ساتھ اور بہت سے لوگ بھی شامل ہو گئے اور جھٹ پٹ اوپلے اندر ڈال دیئے گئے.اسی طرح اس مسجد کا ایک حصہ بھی حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے بنوایا تھا.ایک کام میں نے بھی اسی قسم کا کیا تھا مگر اس پر بہت عرصہ گذر گیا ہے.میں نے اپنی جماعت کے لوگوں کو اپنے ہاتھ سے کام کرنے کیلئے کئی بار کہا ہے مگر توجہ نہیں کرتے کہ اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں اور یہ احساس مٹادیں کہ فلاں آتا ہے اور فلاں مزدور - اگر ہم اس لئے آقا بنتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے بنایا ہے تو یہ بھی ظاہر کرنا چاہیے کہ ہمارا حق نہیں کہ ہم آقا بنیں اور جب کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ اسے آقا بننے کا حق ہے تو وہ مومن نہیں رہتا.کئی لوگ ترقی کرنے سے اس لئے محروم رہ جاتے ہیں کہ اگر ہم نے فلاں کام کیا اور نہ کر سکے تو لوگ کیا کہیں گے.بعض مبلغ خود چوہدری بن کر بیٹھ جاتے ہیں اور دوسروں کو مباحثہ میں آگے کر دیتے ہیں تاکہ وہ ہار نہ جائیں.مجھے یہ سن کر افسوس ہوا کہ ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ نے کہا ہمارے پاس اب صرف دو مبلغ مناظرے کرنے والے ہیں مگر اس کی ذمہ داری ناظر صاحب پر ہی عائد ہوتی ہے.انہیں دو مبلغ ہوشیار نظر آئے انہی کو انہوں نے مناظروں کیلئے رکھ لیا حالانکہ انہیں چاہیئے تھا کہ سب سے یہ کام لیتے اور اس طرح زیادہ مبلغ مباحثات کرنے والے پیدا ہو جاتے کیونکہ کام کرنے سے کام کی قابلیت پیدا ہوتی ہے.بعض لوگ دراصل کام کرنے سے جی چراتے ہیں مگر ظاہر یہ کرتے ہیں کہ وہ اس کام کے کرنے میں اپنی ہتک سمجھتے ہیں.میں ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالنے کا جو مطالبہ کر رہا ہوں اس کیلئے پہلے قادیان والوں کو لیتا ہوں.یہاں کے احمدی محلوں میں جو اونچے نیچے گڑھے پائے جاتے ہیں، گلیاں صاف نہیں، نالیاں گندی رہتی ہیں بلکہ بعض جگہ نالیاں موجود ہی نہیں، ان کا انتظام کریں.وہ جو اوور میئر
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء ہیں وہ سروے کریں اور جہاں جہاں گندہ پانی جمع رہتا ہے اور جو اردگرد بسنے والے دس ہیں کو بیمار کرنے کا موجب بنتا ہے، اسے نکالنے کی کوشش کریں اور ایک ایک دن مقرر کر کے سب مل کر محلوں کو درست کرلیں.اسی طرح جب کوئی سلسلہ کا کام ہو.مثلاً لنگر خانہ یا مہمان خانہ کی کوئی اصلاح مطلوب ہو تو بجائے مزدور لگانے کے خود لگیں اور اپنے ہاتھ سے کام کر کے ثواب حاصل کریں.ایک بزرگ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ جب قرآن پڑھتے تو حروف پر انگلی بھی پھیرتے جاتے کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے قرآن کے حروف آنکھ سے دیکھتا ہوں اور زبان سے پڑھتا ہوں اور انگلی کو بھی ثواب میں شریک کرنے کیلئے پھیرتا جاتا ہوں.پس جتنے عضو بھی ثواب کے کام میں شریک ہو سکیں اتنا ہی اچھا ہے اور اس کے علاوہ مشقت کی عادت ہوگی.اب اگر کسی کو ہاتھ سے کام کرنے کیلئے کہو اور وہ کام کرنا شروع بھی کردے تو کھسیانہ ہو کر مسکراتا جائے گا لیکن اگر سب کو اسی طرح کام کرنے کی عادت ہو تو پھر کوئی عار نہ سمجھے گا.یہ تحریک میں قادیان سے پہلے شروع کرنا چاہتا ہوں اور باہر گاؤں کی احمدیہ جماعتوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اپنی مساجد کی صفائی اور لپائی وغیرہ خود کیا کریں اور اس طرح ثابت کریں کہ اپنے ہاتھ سے کام کرنا وہ عار نہیں سمجھتے.شغل کے طور پر لوہار، نجار اور معمار کے کام بھی مفید ہیں.رسول کریم ﷺ اپنے ہاتھ سے کام کیا کرتے تھے.ایک دفعہ خندق کھودتے ہوئے آپ نے پتھر توڑے اور مٹی ڈھوئی.صحابہ کے متعلق آتا ہے کہ اُس وقت رسول کریم کو جو پسینہ آیا بعض نے برکت کیلئے اسے پونچھ لیا ہے.یہ تربیت ثواب اور رُعب کے لحاظ سے بھی بہت مفید چیز ہے.جو لوگ یہ دیکھیں گے کہ ان کے بڑے بڑے بھی مٹی ڈھونا اور مشقت کے کام کرنا عار نہیں سمجھتے، ان پر خاص اثر ہو گا.بدر کے موقع پر جب کفار نے ایک شخص کو مسلمانوں کی جمعیت دیکھنے کیلئے بھیجا تو اس نے آکر کہا آدمی تو تھوڑے ہی ہیں لیکن موت نظر آتے ہیں ہے.وہ یا خود مر جائیں گے یا ہمیں مار ڈالیں گے.اسی وجہ سے انہوں نے لڑائی سے باز رہنے کی کوشش کی جس کا ذکر میں پہلے کر آیا ہوں.ہماری جماعت کے لوگوں کو بھی مخالفین جب یہ دیکھیں گے کہ یہ ہر کام کرنے کیلئے تیار ہیں اور کسی کام کے کرنے میں عار نہیں سمجھتے تو سمجھیں گے کہ ان پر ہاتھ ڈالنا آسان نہیں.سترھواں مطالبہ یہ ہے کہ جو لوگ بیکار ہیں وہ بیکار نہ رہیں.اگر وہ اپنے وطنوں سے باہر نہیں جاتے تو چھوٹے سے چھوٹا جو کام بھی انہیں مل سکے وہ کرلیں.اخباریں اور کتابیں ہی
خطبات محمود ۴۶۸ ١٩٣ء بیچنے لگ جائیں، ریز روفنڈ کیلئے روپیہ جمع کرنے کا کام شروع کردیں غرض کوئی شخص بیکار نہ رہے.خواہ اسے مہینہ میں دو روپے کی ہی آمدنی ہو کیونکہ دو بہر حال صفر سے زیادہ ہیں.بعض بی.اے کہتے ہیں کہ ہم بیکار ہیں ہمیں کوئی کام نہیں ملتا میں انہیں کہتا ہوں دو روپے بھی اگر وہ کماسکیں تو کمائیں.میں نے جس قدر حساب پڑھا ہے اس سے مجھے یہی معلوم ہوا ہے کہ دو روپے صفر سے زیادہ ہوتے ہیں.غرض کوئی احمدی نکما نہ رہے اسے ضرور کوئی نہ کوئی کام کرنا چاہیئے..اٹھارھواں مطالبہ باہر کے دوستوں سے میں یہ کرتاہوں کہ قادیان میں مکان بنانے کی کوشش کریں.اس وقت تک خدا تعالی کے فضل سے سینکڑوں لوگ مکان بناچکے ہیں مگر ابھی بہت گنجائش ہے.جوں جوں قادیان میں احمدیوں کی آبادی بڑھے گی ہمارا مرکز ترقی کرے گا اور غیر عنصر کم ہوتا جائے گا.غیر عصر کو کم کرنے کے دو ہی طریق ہیں.یا تو یہ کہ وہ یہاں سے چلا جائے اور یہ ہمارے اختیار میں نہیں.یا یہ کہ ہماری آبادی بڑھنے سے ان کی آبادی کی نسبت کم ہو جائے اور یہ ہمارے اختیار کی بات ہے.جب ہم اپنے آپ کو بڑھاتے جائیں گے تو غیر عصر خود بخود کم ہوتا جائے گا ہاں یاد رکھو کہ قادیان کو خداتعالی نے سلسلہ احمدیہ کا مرکز قرار دیا ہے.اس لئے اس کی آبادی اُنہیں لائنوں پر چلنی چاہیے جو سلسلہ کیلئے مفید ثابت ہوں.اس موجودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے میری تاکید ہے کہ قادیان، بھینی اور ننگل کے ہوا سردست اور کسی گاؤں سے آبادی کیلئے زمین نہ خریدی جائے.ابھی ہمارے بڑھنے کیلئے بھینی اور ننگل کی طرف کافی گنجائش ہے.ننگل کے لوگ خوشحال ہیں اور زمین فروخت نہیں کرتے ان کی اس حالت کو دیکھ کر ہمیں خوشی ہوتی ہے.بھینی والے اپنی زمین بیچتے رہتے ہیں مگر اس لئے نہیں کہ وہ اپنی زمین زیادہ قیمت پر بیچ کر اور جائداد پیدا کرتے ہیں بلکہ غربت کی وجہ سے بیچتے ہیں اس بات کا ہمیں افسوس ہے.کاش! وہ پہلی زمینیں فروخت کر کے فروخت کردہ زمین سے زیادہ زمین دوسرے گاؤں میں خریدتے تو ہمارے لئے دوہری خوشی کا موجب ہوتا.یہ مطالبات ہیں جو میں جماعت کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں.ان میں سے ہر ایک لمبے غور اور فکر کے بعد تجویز کیا گیا ہے اور ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو سلسلہ کی ترقی میں ممد نہ ہو.ان میں سے ہر ایک پیج ہے ایسا بیج جو بڑی ترقی پانے والا اور بہت بڑا درخت بننے والا اور دشمنوں کو زیر کرنے والا ہے.ان میں سے کوئی ایک چیز بھی نظر انداز
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ تو 03- ہے.وہ کرنے والی نہیں اور ایک بھی ایسی نہیں کہ اس کے بغیر ہماری ترقی کی عمارت مکمل ہو سکے.پس میں اپنی جماعت کے لوگوں سے کہتا ہوں کہ جس جس سے ہو سکے ان میں حصہ لے اور اس طرح سلسلہ کی ترقی کے وقت کو قریب لانے اور خدا تعالیٰ سے اجر حاصل کرنے کی کوشش کرے.انیسواں مطالبہ - دعا.ایک اور چیز باقی رہ گئی ہے جو سب کے متعلق ہے گو غرباء اس میں زیادہ حصہ لے سکتے ہیں.دنیاوی سامان خواہ کس قدر کئے جائیں آخر دنیاوی سامان ہی ہیں اور ہماری ترقی کا انحصار ان پر نہیں بلکہ ہماری ترقی خدائی سامان کے ذریعہ ہوگی اور یہ خانہ اگرچہ سب سے اہم ہے مگر اسے میں نے آخر میں رکھا ہے اور وہ دعا کا خانہ لوگ جو ان مطالبات میں شریک نہ ہو سکیں اور ان کے مطابق کام نہ کر سکیں وہ خاص طور پر دعا کریں کہ جو لوگ کام کر سکتے ہیں خدا تعالیٰ انہیں کام کرنے کی توفیق دے اور ان کے کاموں میں برکت ڈالے.ہماری فتح ظاہری سامانوں سے نہیں بلکہ باطنی سامانوں سے ہوگی.اگر ہمارے دلوں میں حقیقی ایمان پیدا ہو جائے اور اگر ہم صرف خدا کے ہو جائیں تو ساری دنیا کو فتح کر لینا ہمارے لئے کچھ بھی مشکل نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اگر چالیس مومن بھی کھڑے ہو جائیں تو ساری دنیا کو فتح کر سکتے ہیں ہے.وہ لوگ جو کچھ نہیں کرسکتے وہ یہی دعا کرتے رہیں کہ خدا تعالی چالیس مومن پیدا کردے.ایسے چالیس مومن جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ دنیا کو فتح کرسکتے ہیں.پس وہ لولے لنگڑے اور اپانچ جو دوسروں کے کھلانے سے کھاتے ہیں، جو دوسروں کی امداد سے پیشاب اور پاخانہ کرتے ہیں اور وہ بیمار اور مریض جو چار پائیوں پر پڑے ہیں اور کہتے ہیں کہ کاش! ہمیں بھی طاقت ہوتی اور ہمیں بھی صحت ہوتی تو ہم بھی اس وقت دین کی خدمت کرتے ان سے میں کہتا ہوں کہ ان کیلئے بھی خدا تعالٰی نے دین کی خدمت کا موقع پیدا کر دیا ہے وہ اپنی دعاؤں کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا دروازہ کھٹکھٹائیں اور چارپائیوں پر پڑے پڑے خدا تعالی کا عرش ہلائیں تاکہ کامیابی اور فتح مندی آئے.پھر وہ جو ان پڑھ ہیں اور نہ صرف ان پڑھ ہیں بلکہ کند ذہن ہیں اور اپنی اپنی جگہ گڑھ رہے ہیں کہ کاش! ہم بھی عالم ہوتے کاش! ہمارا بھی ذہن رسا ہوتا اور ہم بھی تبلیغ دین کے لئے نکلتے ان سے میں کہتا ہوں کہ ان کا بھی خدا ہے جو اعلیٰ درجہ کی عبارت آرائیوں کو نہیں دیکھتا، اعلیٰ تقریروں کو نہیں دیکھتا بلکہ دل کو دیکھتا ہے وہ اپنے سیدھے
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء سادھے طریق سے دعا کریں، خدا تعالیٰ ان کی دعا سنے گا اور ان کی مدد کرے گا.رسول کریم ان کے ایک مخلص صحابی بلال " حبشی تھے جن کے نام سے تمام امت اسلامیہ واقف ہے وہ اذان دیا کرتے تھے.چونکہ عرب نہ تھے اس لئے عربی کے بعض حروف ادا نہ کرسکتے تھے."اَشْهَدُ" کی بجائے "اَشْهَدُ " کہا کرتے تھے اور لوگ ان کی اذان پر ہنتے تھے.رسول کریم ال نے ایک دفعہ لوگوں کو ہنستے سنا تو باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ بلال کی آواز تو اللہ تعالی کو بھی پیاری ہے.اللہ تعالیٰ یہ نہیں دیکھتا تھا کہ وہ "ش" ادا نہیں کرسکتے.بلکہ وہ یہ دیکھتا تھا کہ یہ میرا وہ بندہ ہے جسے سخت دھوپ میں گرم ریت پر لٹایا گیا مگر اس نے اَشْهَدُ اَنْ لا إِلَهَ ملے کہنا نہ چھوڑا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ایک دفعہ ایک عالم آیا آپ نے بات کرتے وقت معمولی طور پر ق کا حرف ادا کرتے ہوئے قرآن کہا تو وہ کہنے لگا مسیح موعود بنے پھرتے ہیں اور قرآن کہنا بھی نہیں آتا.اُن دنوں صاحبزادہ عبد اللطيف صاحب شہید آئے ہوئے تھے اُن کا ہاتھ اس کے منہ کی طرف اُٹھنے ہی لگا تھا کہ آپ نے انہیں روک دیا اور پھر جب تک اس شخص سے گفتگو کرتے رہے صاحبزادہ صاحب کا ایک ہاتھ آپ نے پکڑے رکھا اور دوسرا حضرت مولوی عبدالکریم کو پکڑے رکھنے کا ارشاد فرمایا اور وہ اس دوران غصہ سے لرزتے رہے لیکن وہ نادان کیا جانتا تھا کہ خدا تعالیٰ کو آپ کا سیدھا سادہ قرآن کہنا ہی پسند تھا.پس کوئی یہ مت سمجھے کہ اسے عبارت آرائی نہیں آتی کیونکہ خدا تعالٰی الفاظ کو نہیں دیکھتا.اگر اعلیٰ درجہ کے الفاظ میں اس سے کے الفاظ میں اس سے التجا کی جائے تو اسے بھی سنتا ہے اور اگر ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اس کے در اجابت کو کھٹکھٹایا جائے تو بھی کھولتا ہے اور پکارنے والے کی دعا سنتا ہے.پس وہ لوگ جو معذوری اور مجبوری کی وجہ سے کسی مطالبہ کو پورا کرنے میں نہیں لے سکتے میں نے یہ ایسی تجویز بتائی ہے کہ اس میں وہ سب شریک ہو.شخص ہو سکتے ہیں اور یہ سب سے اعلیٰ سب سے اہم اور سب سے ضروری تجویز ہے.وہ جو چارپائیوں پر پڑے ہوئے اپانچ ہیں، وہ جنہیں بات کرنے کا شعور نہیں، وہ جن کے ذہن رسا نہیں ، وہ جو بیمار اور کمزور ہیں، وہ جو قید میں پڑے ہیں، وہ جو مصائب و تکالیف اور مشکلات میں گرفتار ہیں، وہ ب جو یہ کام کرنا چاہتے ہیں مگر کر نہیں سکتے، وہ اس تجویز پر عمل کریں اس طرح وہ کام کرنے والوں سے ثواب حاصل کرنے میں پیچھے نہ رہیں گے کیونکہ وہ خدا تعالی سے کہہ سکتے
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ ہیں ہمارے پاس دل ہی تھا، وہ ہم نے پیش کر دیا اور خدا تعالی ضرور ان کے دل کی قدر کرے گا اور انہیں ایسا ہی اجر دے گا جیسا کام کرنے والوں کو دے گا.رسول کریم ا ایک دفعہ ایک جنگ کیلئے جارہے تھے.آپ نے صحابہ کو دیکھا کہ بہت سخت تکلیفیں اٹھا رہے ہیں، بھوکے پیاسے ہیں، جنگل کاٹ کاٹ کر رستہ بنا رہے ہیں اور اس سخت تشویش اور تکلیف کو دین کی خاطر برداشت کر کے فخر محسوس کر رہے ہیں کہ ہم کو دین کی بہت بڑی خدمت کی توفیق ملی رسول کریم ﷺ نے ان کی اس حالت کو محسوس کر کے فرمایا کہ مدینہ میں کچھ لوگ ہیں جو تمہارے جیسا ثواب حاصل کر رہے ہیں.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ کس طرح ممکن ہے کہ قربانیاں تو ہم کریں، جانیں دینے کیلئے ہم نکلیں ، تکلیفیں ہم اٹھائیں، مصیبتیں ہم جھیلیں اور ثواب ان کو بھی ہمارے برابر ملے جو گھروں میں بیٹھے ہیں.آپ نے فرمایا ہاں وہ اپانچ اور وہ لولے لنگڑے جن کے دل بریاں ہیں اور جو رورہے ہیں کہ ہمیں توفیق حاصل نہیں ورنہ ہم بھی اس جنگ میں شریک ہوتے کیا خدا تعالیٰ ان کو ثواب نہ دے گانے پس ایسے لوگ جو مجبور اور معذور ہیں.خداتعالی کے سامنے نہ کہ اپنے جھوٹے نفس کے سامنے ان کے پاس سب سے کاری حربہ ہے وہ اسے چلا ئیں اس طرح وہ خود بھی ثواب کے مستحق ہوں گے اور جماعت بھی ترقی کرتی جائے گی.یہ وہ 19 تجاویز ہیں جو میں نے جماعت کے سامنے پیش کی ہیں.امید ہے کہ جلد سے جلد ان کو عمل میں لایا جائے گا اور وہ جو دین کیلئے ہر قسم کی قربانی کرنے کیلئے تیار ہیں آگے بڑھیں گے.روپیہ کے متعلق جو تحریک کی گئی ہے اور جو ابھی قادیان میں لوگوں کو پہنچی ہے اس میں اس وقت تک ۶ سو روپیہ نقد اور ۸۰۷ سو کے وعدے ہو چکے ہیں اور مجھے جو خبریں ملی ہیں ان کو مد نظر رکھتے ہوئے کہہ سکتا ہوں کہ اگر محلوں کی کمیٹیاں صحیح طور پر کوشش کریں تو قادیان سے ہی دو تین ہزار روپیہ جمع ہو سکتا ہے.باہر کی جماعتوں کے متعلق مہینہ ڈیڑھ مہینہ تک اندازہ لگایا جاسکے گا.میں نے جو سکیم تجویز کی ہے اس کا فوراً پیش کرنے والا حصہ آج کے خطبہ سے مکمل ہوچکا ہے لیکن بعض زائد خیالات کا اظہار میں اگلے جمعہ کے خطبہ میں کروں گا.جماعت کے لوگ ان مطالبات میں سے جس جس کو پورا کر سکتے ہیں، اس کیلئے اپنے آپ کو پیش کریں.مگر یاد رکھیں یہ جو کچھ ہے پہلا قدم ہے.جس طریق سے الہی سلسلے ترقی کرتے ہیں، اس کے مقابلہ میں یہ بالکل حقیر ہے.جس طرح سپاہی کو مشق کرانے کیلئے اس کے کندھے پر بندوق رکھی جاتی ہے
خطبات محمود م سال ۱۹۳۴ء اور اسے مشق کرائی جاتی ہے اسی قسم کی یہ مشق ہے ورنہ وہ قربانیاں جو ترقی کیلئے ضروری ہیں وہ آگے آنے والی ہیں.قادیان والوں پر سب سے زیادہ ذمہ داریاں ہیں کیونکہ وہ مرکز میں اور نبی کی تخت گاہ میں رہتے ہیں وہ کوشش کر کے ایک دوسرے سے آگے بڑھیں.الفضل ۹- دسمبر ۱۹۳۴ء) ه مسلم كتاب الصلوة باب استحباب الذكر بعد الصلوة و بيان صفته له الحديد: ۱۴ سے مسلم كتاب الايمان باب اطعام المملوك مما يأكل والباسه مما يلبس البقرة: ۲۸۷ م بخاری کتاب الجنائز باب اذالم يجد كفنا إلا ما يوارى رأسه أو قدميه غطی به رأسه له مسلم كتاب العلم باب من سن سنة حسنة أو سيئة ومن دعى الى هدى طبقات ابن سعد جلد ۲ صفحه ۱۶ دار صادر بیروت ه یسعیاہ باب ۲۱ آیت ۱۶ بخاری کتاب المغازی باب فضل من شهد بدراً نه لوقا باب ۹ آیت ۳ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور ۱۹۰۸ء (مفہوماً) الله بخارى كتاب الادب باب اكرام الضيف وخدمته اياه بنفسه بخاری کتاب فضائل القرآن باب فضل فاتحة الكتاب سالے اه ه بخاری کتاب التوحيد باب قول الله تعالى وَيُحَذِّرُكُمُ الله نَفْسَهُ سیرت ابن هشام الجزء الثانی صفحه ۲۷۴ حالات غزوه بدر طبقات ابن سعد جلد ۲ صفحه ۱۶ دار صادر بیروت ملفوظات جلد ۳ صفحه ۳۴۲ بخاری کتاب المغازی باب نزول النبى الحجر
خطبات محمود ۳۹ سال ۱۹۳۴ء مطالبات کی اعلان کردہ سکیم کے متعلق بعض اہم تشریحات (فرموده ۷- دسمبر ۱۹۳۴ء) تشر ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں ان تجاویز کے متعلق جو میرے نزدیک اس فتنہ کے مقابلہ کیلئے موجودہ حالات میں ضروری ہیں جو آج کل جماعت احمدیہ کی ترقی کے راستہ میں روک بن رہا ہے یا روکیں پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے میں سمجھتا ہوں کہ وہ تجاویز ان تجاویز کی پہلی قسط ہیں جن.ہمارے لئے عمل کرنا ضروری ہوگا.آئندہ جو حالات پیدا ہونے والے ہیں ان کا حقیقی علم تو اللہ تعالی کو ہی ہے لیکن اس کے دیئے ہوئے علم کے ماتحت بعض باتیں ہمیں بھی معلوم ہیں.ان کو مد نظر رکھتے ہوئے جن تجاویز کو اختیار کرنا ہمارے لئے ضروری ہوگا وہ میرے ذہن میں ہیں لیکن کوئی شخص یک لخت نیچے سے پھلانگ کر چھت پر نہیں پہنچ سکتا بلکہ مختلف سیڑھیوں سے گزرنا ضروری ہوتا ہے.پس میں سمجھتا ہوں کہ ان سیڑھیوں میں سے وہ تجاویز جو میں نے پیش کی ہیں پہلی سیڑھی ہیں.یا چونکہ اس سے بھی پہلے چندے جماعت دیتی تھی یا قربانیاں کرتی تھی ان کو اگر پہلی سیڑھی قرار دیا جائے تو یہ دوسری ہوگی اور اگر ان ادوار کو جن میں سے جماعت گزرتی رہی ہے گن لیا جائے تو یہ تیسری یا چوتھی ہوگی مگر بہر حال چھت ابھی ہمارے قریب نہیں آئی اور چھت پر پہنچنے کیلئے جن سیڑھیوں پر چڑھنا ہمارے لئے ضروری ہے، ان پر ابھی ہم نہیں چڑھے اور آئندہ اور سیڑھیاں بھی ہمیں چڑھنی پڑیں گی.اور وہ کس مواد کی بنی ہوئی ہوں گی، وہ ایک حد تک میرے ذہن میں ہے اور اسی کو مد نظر رکھ کر میں
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء نے یہ پہلی سیڑھی تیار کی ہے تاکہ آئندہ جن حالات میں سے جماعت کو گزرنا پڑے، ان کیلئے آج ہی تیاری شروع کی جاسکے.میں نے ساری تجاویز کو کھول کر بیان کر دیا ہے سوائے ایک دو باتوں کے جن کا چھپاتا اس لئے ضروری نہ تھا کہ وہ زیادہ اہم تھیں بلکہ اس لئے کہ اگر ان کو ظاہر کر دیا جائے تو ان کا توڑ دشمن آسانی سے کر سکتا ہے اور وہ کام جو تھوڑے خرچ سے ہو سکتا ہے، اظہار کردینے کی صورت میں اس کیلئے زیادہ خرچ کرنے کی ضرورت پیش آئے گی ا وہ باتیں بھی میں نے ان ممبروں کو بتادی ہیں جن کے سپرد وہ کی گئی ہیں.باوجود اس اظہار کے جو میں نے کیا ہے سکیم کے ہر پہلو میں بعض امور کو میں نے مد نظر رکھا ہے جن کی حقیقت کو ظاہر نہیں کیا.فوائد اور اغراض کے بعض پہلو میں نے بتائے ہیں لیکن بعض نہیں بتائے.جس طرح طبیب ایک دوائی دیتا ہے اور اس کا اتنا ہی فائدہ بیان کرتا ہے جتنا مریض کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.ایک دوائی قبض کیلئے بھی مفید ہوتی ہے، کیلئے اور جگر کیلئے معدة بھی، وہی نزلہ اور زکام کیلئے بھی مفید ہوتی ہے.طبیب کے پاس ایک نزلہ کا مریض آتا ہے اور وہ اسے دوائی دے دیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ نزلہ کیلئے مفید ہے یہ ضروری نہیں کہ وہ اسے یہ بھی بتائے کہ یہ جگر اور معدہ کیلئے بھی مفید ہے یہ باتیں وہ معدہ یا جگر کے مریض سے کہے گا.اسی طرح آئندہ کے مصالح کو بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی لیکن وہ مکمل عمارت میرے ذہن میں ہے جس کی حفاظت کیلئے یہ تمام تجاویز کی گئی ہیں.اور وہ حملے بھی میرے ذہن میں ہیں جو ابھی کئے نہیں گئے مگر دشمن کرے گا یا کر سکتا ہے اور دفاع کی تدابیر بھی موجود ہیں اور اسی کے سلسلہ میں میں نے یہ تجاویز پیش کی ہیں.کسی بات کو بالکل آخر وقت پر اختیار کرنا عقلمندی کی علامت نہیں ہوتا.جو شخص بارش شروع ہونے کے بعد اس سے بچنے کیلئے عمارت بنائے جو آگ لگنے کے بعد کنواں کھودے کہ اس سے پانی لے کر آگ بجھائے اور جو بھوک لگنے کے بعد غلہ ہونے کیلئے جائے اس سے زیادہ احمق اور کوئی نہیں ہو سکتا.بارش سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے سے گھر تیار کیا جائے اور بھوک سے محفوظ ہونے پہلے غلہ ہونا ضروری ہے اور جو شخص اپنے گھر کو آگ سے بچانا چاہتا ہے اس ضروری ہے کہ پانی کے پاس رہے تا آگ بجھا سکے.پس ضروری تھا کہ میں ان امور کو مد نظر رکھتا جو موجودہ جدوجہد کے لازمی نتائج ہیں.میں یقیناً جانتا ہوں کہ دشمن بھی یہ نہیں جانتا کہ اس کی تحریکات کے کیا نتائج پیدا ہونے
خطبات محمود ۴۷۵ سال - والے ہیں، اللہ تعالی ہی سب کچھ جانتا ہے اور وہ اپنے بندوں کو جس قدر مناسب سمجھے بتاتا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ان کے انسداد کیلئے کیا کرنا چاہیئے.پس اس سکیم میں میں نے صرف حال کو ہی نہیں بلکہ استقبال کو بھی مد نظر رکھا ہے اور صرف یہی نہیں سوچا کہ موجودہ حملے سے کس طرح محفوظ رہا جائے بلکہ یہ بھی مد نظر ہے کہ آئندہ نتائج سے بھی جماعت کو بچایا جائے.گو یہ بات بھی ہے کہ بعض طبیعی نتائج ایسے ہو سکتے ہیں جن کیلئے ہمیں مزید تدابیر اختیار کرنی پڑیں.مگر یہ دُور کی باتیں ہیں اس لئے ابھی میں ان کو چھوڑتا ہوں.کھانے کے متعلق میں نے بعض ہدایات دی تھیں.اس بارہ میں بعض سوالات کئے گئے ہیں ان کا اب جواب دیتا ہوں تا دوسرے لوگ بھی واقف ہو جائیں.ایک دوست نے سوال کیا ہے کہ عید کے موقع پر کیا ہو گا؟ یہ سوال پہلے ہی میرے ذہن میں تھا اور میں نے پہلے ہی اس پر غور کیا تھا.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ عیدیں ہمارے کھانے پینے کے دن ہیں.21.پس اس حدیث کی بناء پر عیدین کیلئے وہی عہد کہ جو ہم نے دوسرے دنوں کیلئے کیا ہے، اسی صورت میں جاری نہیں کیا جاسکتا ہاں اس صورت میں وہ عیدوں کیلئے بھی ہے کہ عیدوں کے وقع پر بھی کھانے پینے میں کفایت کو مد نظر رکھا جائے.دوسرے دنوں کیلئے تو یہ ہے کہ صرف ایک ہی سالن استعمال کیا جائے یا جو میٹھا کھانے کے عادی ہیں، وہ ایک ہی قسم کی کوئی میٹھی چیز بھی تیار کرلیں یا جو لوگ کبھی کبھار کوئی میٹھی چیز تیار کرلیتے ہیں وہ بھی کر سکتے ہیں لیکن روٹی کے ساتھ یا چاول کے ساتھ سالن ایک ہی ہونا چاہیے مگر عیدوں کیلئے یہ پابندی نہیں کیونکہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ عیدین کھانے پینے کے دن ہیں مگر یہ نہیں فرمایا کہ یہ اسراف کے دن ہیں اور یہ فرمانے سے کہ یہ کھانے پینے کے دن ہیں، یہ مراد نہیں لیا جاسکتا کہ کھانا تو ایک ہی پکایا جائے لیکن کھایا زیادہ جائے کیونکہ زیادہ کھانے سے بدہضمی کی شکایت ہوگی اور اسلام بیمار کر دینے والے حکم نہیں دے سکتا.پس اس کا مطلب یہی ہے کہ ہم عیدوں کے ایام میں ایک.زیادہ کھانے کھا سکتے ہیں.عیدوں کے موقع پر رسول کریم ال خود بھی کھانے استعمال کر لیتے تھے اور پھر کئی دفعہ کھالیتے تھے.پس عیدین کے متعلق میری ہدایت یہی ہے کہ ہمیشہ کی نسبت کھانوں میں کمی کی جائے.جو لوگ پانچ چھ کھانے تیار کرتے ہوں وہ چار کریں اور جو چار پانچ کرتے ہیں وہ تین چار کریں اور وہ لوگ بھی جو اپنے گھروں میں اس سے کم پکاتے ہیں ، وہ بھی یہ امور مد نظر رکھیں کہ زیادہ خرچ والے کھانے نہ پکائیں اور اتنا نہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء پکائیں کہ کھانا بوجھ ہو جائے.حضرت خلیفہ مسیح الاول فرمایا کرتے تھے کہ ایک امیر نے آپ کے پاس شکایت کی کہ مجھے بھوک نہیں لگتی، معدہ خراب ہے اور بہت دوائیاں استعمال کی ہیں مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا.آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ تم کیا کھاتے ہو.اس نے جواب دیا کہ میں ہر طرح کوشش کرتا ہوں کہ کوئی چیز میری طبیعت کے موافق ہو تو میں پیٹ بھر کر کھاؤں اور اسی غرض سے میرے دستر خوان پر تیس چالیس کھانے آتے ہیں اور میں سب کو چکھتا ہوں کہ کونسا مزیدار ہے تا اسے کھاؤں مگر باوجود اعلیٰ سے اعلیٰ کھانوں کی موجودگی کے کسی چیز کے کھانے کو دل نہیں چاہتا حالانکہ بات یہ تھی کہ اتنے کھانے چکھنے سے ہی اس کا پیٹ بھر جاتا تھا.اگر ہر ایک کھانے سے چکھنے کیلئے دو دو لقمے بھی لے تو اسی لقمے ہو گئے اور اتی لقمے کھانے کے بعد انسان اور کیا کھائے گا.آپ فرماتے تھے کہ میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور کہا کہ تمہاری سوء ہضمی کا علاج بہت مشکل ہے اور میرے پاس اس کا کوئی علاج نہیں.اس چکھنے کو آپ چکھنا کہتے ہیں حالانکہ سو کے قریب لقمے اسی طرح کھا جاتے ہیں.پس یہ احتیاط برتی جائے کہ کھانوں کی اقسام زیادہ نہ ہوں اور اتنا نہ ہو کہ ضائع جائے اور ایسے قیمتی کھانے نہ پکائے جائیں جن پر زیادہ خرچ آتا ہو لیکن عیدین کیلئے یہ پابندی نہیں کہ ایک سے زائد کھانے نہ کھائے جائیں.اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ضرور ایک سے زیادہ ہی پکائے جائیں.اور جن کے گھروں میں دوسرے دنوں میں فاقہ ہوتا ہو وہ بھی عید کے روز ضرور ہی ایک سے زیادہ کھانے پکائیں بلکہ صرف یہ مراد ہے کہ چونکہ رسول کریم نے فرمایا ہے کہ عیدین ہمارے لئے کھانے پینے کے دن ہیں اس لئے عیدین کے موقع کو اس پابندی سے مستثنیٰ سمجھا جائے گا کہ ضرور ایک ہی کھانا پکے اور اقتصاد کو مد نظر رکھنے کا عہد ان دنوں میں اسراف سے اجتناب کرنے کی صورت میں نباہا جائے گا بغیر کسی معین صورت پر عمل کرنے کے.عیدین کے موقع پر ایک اور وقت بھی ہے کہ دوست ایک دوسرے کو تحائف بھیجتے ہیں.یہ بھی رسول کریم ﷺ کی سنت ہے ہے اور میں اسے بھی روک نہیں سکتا اور اس طرح بھی ایک سے زیادہ کھانے کھانے پڑتے ہیں اس لئے میں منع نہیں کرتا اور یہی ہدایت دیتا ہوں کہ یہ ملحوظ رہے کہ جس قدر کفایت ممکن ہو کی جائے.بعض دوست سوال کرتے ہیں کہ بعض لوگ عادت یا بیماری کے علاج کیلئے بعض اشیاء
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء استعمال کرتے ہیں.بعض ممالک میں دودھ ساتھ پیتے ہیں.وہ کھانا دودھ کے ساتھ نہیں کھاسکتے مگر علیحدہ دودھ ضرور پیتے ہیں.اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ دودھ پینے کی چیز ہے کھانے کی نہیں گو عربوں میں تو دودھ کھانے کے طور پر ہی استعمال ہوتا تھا اور جب کوئی دودھ پی لیتا تو سمجھ لیا جاتا کہ کھانا کھا لیا مگر ہمارے ہاں یہ رواج نہیں.پس اگر کسی کی صحت پر اثر پڑتا ہو یا عادت ہو تو اس سے لطف پیدا نہیں ہوتا.اول تو دودھ ہمارے ملک میں صحت کیلئے ہی سب کو پینا پڑتا ہے کسی نے کسی وقت پی لیا اور کسی نے کسی وقت.عام طور پر زمیندار لوگ رات کو دودھ ضرور پیتے ہیں اور دوسرے بھی پیتے ہیں.شاید چند افراد میرے جیسے جنہیں ہضم نہیں ہوتا یا وہ لوگ جن کو میسر نہیں آسکتا نہ پیتے ہوں ورنہ عام طور پر لوگ پیتے ہیں.پس ایسے لوگوں کا سوال نہیں ان کو اجازت ہو تو بھی استعمال نہیں کرسکتے.مجھے ہضم ہی نہیں ہوتا.حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے بہت جتن کئے اور فرمایا کہ مجھے نسخہ آتا ہے، دودھ ضرور ہضم ہو جائے گا مگر آخر آپ تھک کر رہ گئے.میں تو زیادہ دودھ کی کچی لتی بھی نہیں پی سکتا.اگر کبھی کسی بیماری کے علاج کے طور پر پینی پڑے تو اس طرح پیتا ہوں کہ دو تین پیچے دودھ کے اور ایک گلاس پانی.اور اگر کبھی دودھ پی لوں تو فورا گلا خراب دودھ ہو جاتا ہے.پس بیمار کیلئے شرط کوئی نہیں.اور یہ تو میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ جو چیز طبیب بتائے اس کے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں.یہ بات جو کھانے کے متعلق میں نے بتائی ہے یہ صحت کی درستی کیلئے ہے نہ کہ خرابی کیلئے اور صحت کیلئے اگر ڈاکٹر پانچ کھانے بھی بتائے تو وہ کھانے ضروری ہیں.یہ آگے ڈاکٹر اور اللہ تعالیٰ کا معالمہ ہے کہ ڈاکٹر دیانت داری سے ایسا مشورہ دیتا ہے یا نہیں.امریکہ میں جن دنوں شراب کی ممانعت کا قانون رائج تھا لوگ ڈاکٹروں کو بڑی بڑی فیسیں دے کر سرٹیفکیٹ لے لیتے تھے کہ صحت کیلئے شراب پینا ضروری ہے اور پھر اس اجازت کی آڑ میں خوب شراب پیتے تھے.پس اگر کوئی شخص ڈاکٹر کو ساتھ ملا کر ایسی اجازت حاصل کرلیتا ہے تو اس کا معاملہ اللہ تعالی کے ساتھ ہے اور ایسے لوگوں کا یہاں سوال نہیں یہاں تو اخلاص والوں سے خطاب ہے.ہمارے ملک میں کہا جاتا ہے کہ تالے تو بھلے مانسوں کیلئے ہوتے ہیں نہ کہ چوروں کیلئے چور تو انہیں جھٹ توڑ لیتے ہیں اسی طرح ہمارے قوانین بھی مخلصین کیلئے ہیں جن کے اندر اخلاص نہیں، ان کیلئے کوئی قانون
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء نہیں.ایسا شخص اگر باہر آکر ہمارے سامنے ایک کھانا کھائے اور اندر کو ٹھڑی میں جاکر پانچ سات کھانے کھائے تو اسے کون روک سکتا ہے.پس بیمار کیلئے پابندی نہیں.ہر شخص جسے ڈاکٹر کہتا ہے کہ اس کی صحت کیلئے ضروری ہے کہ وہ ایک سے زیادہ کھانے کھائے، وہ زیادہ کھانے کھا سکتا ہے مگر یہ اپنا وہم نہ ہو بلکہ طبی خیال ہو اور بیمار کیلئے وہ سب چیزیں جائز ہیں جن کا طبیب حکم دے.فقہاء نے تو بعض حالتوں میں بیمار کیلئے شراب کی بھی اور بعض نجس اشیاء کے استعمال کی بھی اجازت دی ہے اور جب ایسی چیزوں کی ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق اجازت ہے تو جائز چیزوں کی کیسے ممانعت ہو سکتی ہے.باقی رہا دہی کا سوال.بعض لوگ قبض دور کرنے کے لئے دہی کا استعمال کرتے ہیں، انہیں اجازت ہے لیکن کیوں نہ ایسا کرلیا جائے کہ بجائے سالن کے ساتھ علیحدہ دہی کھانے کے اس کو بکو کر پی لیا جائے اس سے چسکا پورا کرنے کا سوال بھی پیدا نہ ہوگا اور عادت بھی پوری ہو جائے گی.اگر سوء ہضمی کا اندیشہ ہو تو پانی نہ ڈالا جائے اور صرف بلو کر اسے پی لیا جائے.وہی روٹی کے ساتھ ہی کھانے سے فائدہ نہیں دیتا بلکہ اس طرح پی لینے سے بھی فائدہ ہوتا ہے.اس کے علاوہ زمینداروں کے متعلق ایک اور سوال ہے کہ ان کے کھیتوں میں مولیاں گاجریں ہوتی ہیں اور وہ ان کو بھی استعمال کر لیتے ہیں لیکن ان کیلئے وہ ایسی ہی ہیں جیسے شہروں کے رہنے والے لوگوں یا زمینداروں میں سے بھی امیر لوگوں کیلئے دودھ ہوتا یا پھل ہوتا ہے.اگر روٹی کھاتے وقت وہ ساتھ گاجر یا مولی رکھ لیں تو اس سے عیاشی نہیں ہو سکتی نہ ان کی بیویوں کو اس کے پکانے پر وقت صرف کرنا پڑتا ہے نہ ہی اسے کھانے کیلئے انہیں خرچ کرنا پڑتا ہے.وہ چیزیں بیچنے کیلئے ہوتے ہیں اس میں سے کوئی چیز اگر خود کھالی تو کوئی حرج نہیں.پس یہ ان کا جائز حق ہے بلکہ ضروری ہے کہ وہ ایسی چیزوں کا استعمال کیا کریں کیونکہ ترکاری کا استعمال صحت کیلئے ضروری ہوتا ہے اور دیہات میں لوگ سبزی ترکاری کم استعمال کرتے ہیں زیادہ تر دالیں وغیرہ ہی کھائی جاتی ہیں.اور اگر زمیندار لوگ ایسی چیزیں کھالیا کریں تو یہ ان کی صحت کو بھی بڑھانے کا موجب ہوگا اور دوسرا سالن نہیں کہلا سکے گا.چوتھی بات دعوت کے متعلق ہے.میں پہلے بھی اس کی اجازت دے چکا ہوں کہ دعوتوں کے موقع پر ایک سے زیادہ کھانے پکانے کی اجازت ہے.ہاں اپنے گھر کی دعوت میں کوشش یہ کرنی چاہیئے کہ خود ایک ہی کھائیں اور اگر دوسرے کے ہاں دعوت ہو اور وہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء بے تکلف ہو تو اس سے بھی کہہ دیا جائے کہ میں ایک ہی کھانا کھاؤں گا لیکن اگر دعوت کرنے والا بے تکلف نہ ہو اور اس کی طرف سے شکوہ کا ڈر ہو تو پھر متعدد کھانے بھی کھائے جاسکتے ہیں.مہمان کو کھلاتے وقت بھی یہی بات مد نظر رہے.اگر مہمان ایسا ہو کہ ڈر ہو کہ وہ اسے بُرا منائے گا کہ میزبان خود ایک کھانا کھاتا ہے تو مہمان کے ساتھ سب کھانوں میں شریک ہو جائے.اگر اس کا خطرہ نہ ہو تو پھر خود ایک ہی کھانا کھائے اس کے آگے ایک سے زیادہ کھانے رکھ دے.مگر جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں کو دعوتوں میں ایک سے زیادہ کھانوں کی اجازت ہے مگر اس میں بھی گذشتہ دستور سے کمی کی کوشش کی ضرورت ہے.میں سمجھتا ہوں اگر غیروں کے ہاں دعوتوں کے مواقع پر بھی ایک ہی کھانے پر اصرار کیا جائے تو اقتصادی فوائد کے علاوہ اس سے پروپیگنڈا بھی بہت ہو سکتا ہے مثلاً جب کوئی کہے گا کہ میں ایک ہی کھانا کھاؤں گا، تو دوسرا شخص ضرور اس کی وجہ دریافت کرے گا کہ کیوں ایک ہی کھانا کھاؤ گے.اس کا جواب یہ دے گا کہ اس وقت اسلام اور سلسلہ احمدیہ جن حالات میں سے گزر رہا ہے وہ بہت پریشان کن ہیں اور ان کیلئے یہ موقع بہت نازک ہے اس لئے میرا فرض ہے کہ اپنے آپ کو اس جنگ کیلئے تیار کروں جو اسلام اور سلسلہ کے وقار کیلئے ہمیں جلد لڑنی پڑے گی اور جفاکشی کی عادت ڈالنے اور چسکے سے بچنے کیلئے ہماری جماعت نے یہ تحریک کی ہے کہ رف ایک ہی کھانا کھایا جائے.تو میزبان کے دل میں ضرور احساس پیدا ہوگا اور یہ بھی ایک رنگ کی تبلیغ ہو جائے گی اور اگر وہ بھی اس تجویز پر عمل پیرا ہو گا تو اس کی اقتصادی حالت بھی درست ہوگی.میں دیکھ رہا ہوں کہ میری اس سکیم کا اثر غیروں پر بھی گہرا ہے.بہت سے لوگ مجھ سے خود ملے ہیں اور کئی خطوط بھی آئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوؤں اور سکھوں میں بھی بعض لوگ تحریک کر رہے ہیں کہ ہم بھی اس پر عمل کریں اور میں نے دیکھا تو نہیں سنا ہے کہ بعض اخبارات نے بھی اس پر نوٹ لکھتے ہیں.اس سکیم کے ضمن میں ایک اور بات ہے.میں نے جو سادگی کی ہدایت کی ہے کہ کھانا سادہ اور لباس سادہ ہو اس کا اثر باہر کے احمدی تاجروں پر تو شاید اتنا نہ پڑے مگر قادیان کے تاجروں پر اس کا اثر زیادہ پڑے گا.ایک طرف تو ہم ان سے چندوں کی اپیلیں کرتے ہیں اور دوسری طرف ان کے گاہکوں کو کھانے اور لباس میں کمی کرنے کی تعلیم دے کر ان کی بکری کم کرتے ہیں اس سے انہیں یقینا نقصان ہو گا.مگر جب میں نے یہ تحریک کی تھی تو اس کا علاج
سال ۱۹۳۴ء خطبات محمود ۸۰م بھی ساتھ ہی سوچا تھا تا دوسرے ذرائع سے ان کو فائدہ پہنچ سکے.باہر جو احمدی دُکاندار ہیں ان کی دُکانیں احمدیوں کی بکری پر نہیں چلتیں بلکہ ان کے گاہک غیر لوگ بھی ہوتے ہیں.بلکہ اگر ایک گاہک احمدی ہو تو دس بارہ دوسرے ہوتے ہیں اس لئے یہ تحریک باہر کے احمدیوں کو اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتی جتنا قادیان کے دُکانداروں کو.پھر باہر کے دُکانداروں کو احمدی گاہکوں کی کفایت سے جتنا نقصان پہنچے گا اس سے زیادہ وہ خود کفایت کر کے فائدہ اٹھا سکیں گے مگر قادیان کے احمدی دُکانداروں کی بکری نوے فیصد احمدیوں سے ہوتی ہے اس لئے وہ ضرور توجہ کے مستحق ہیں اور اس لئے انہیں نقصان سے بچانے کیلئے میں نے دو تجاویز کی ہیں.ایک تجویز ہے کہ یہاں ایک خاصہ طبقہ ایسے لوگوں کا ہے جو سودا سلف باہر سے خریدتا ہے.بعض لوگ تو کھانے پینے کی چیزیں بھی بٹالہ امرتسر سے خریدتے ہیں اور بعض کپڑا وغیرہ اور دیگر استعمال کی چیزیں بٹالہ امرتسر یا لاہور سے خرید لیتے ہیں.بعض دفعہ اس لئے کہ یہاں مناسب چیزیں نہیں ملتیں اور بعض دفعہ اس لئے کہ باہر سے سستی چیزیں مل جاتی ہیں یا مقابلتاً اچھی مل جاتی ہیں.میں نے خود دیکھا ہے کہ جب لاہور وغیرہ شہروں میں جاتا ہوں تو خود بھی اور گھر کے لوگ بھی وہاں سے ضرورت کی چیزیں خرید لاتے ہیں.اگرچہ میں کھانے پینے کی چیزیں باہر نہیں منگواتا مگر مجھے معلوم ہے کہ یہاں کے لوگوں کی ایک کافی تعداد ہے جو کھانے پینے کی اشیاء بھی بٹالہ وغیرہ سے خریدتے ہیں اس لئے میں حکم تو نہیں دیتا مگر تحریک کرتا ہوں کہ جماعت کے ایسے دوست جنہیں اللہ تعالیٰ نے ملکی مفاد کے سمجھنے کی توفیق دی ہو، وہ سب چیزیں یہاں سے ہی خریدا کریں اگر اس سے انہیں کوئی نقصان ہوگا تو یہ نقصان بھی فائدہ کا ہی موجب ہوگا اس لئے جہاں تک ہو سکے یہاں کے دُکانداروں سے ہی چیزیں خریدا کریں.اس سلسلہ میں میں یہاں کے دُکانداروں سے بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جہاں تک ہو سکے چیزوں کی قیمت کم رکھا کریں اور تھوڑی بکری پر زیادہ منافع کا اصول نہ رکھیں.دونوں طرح سے ان کے گھر میں اتنا ہی آجائے گا.پس وہ نفع کم لگائیں.وہ دوسری تجویز اس سلسلہ میں یہ ہے کہ جو دوست باہر سے یہاں آتے ہیں ، وہ بھی ایسی چیزیں جو یہاں سے خرید کر لے جاسکیں جیسے کپڑے وغیرہ یہاں سے تیار کرالیا کریں.میری اس اقتصادی تعلیم سے انہیں جو رقم بچے گی قادیان سے اشیاء خریدنے میں، اگر اس میں سے کچھ خرچ ہو جائے تو بھی وہ نفع میں رہیں گے.میں نے اپنی ذات میں تو اس پر عمل بھی حص.
خطبات محمود MAL سال ۱۹۳۴ء شروع کر دیا ہے.اب جو میں لاہور گیا تو گھر کیلئے بعض چیزوں کی ضرورت تھی.میرے بچوں یا بیویوں نے کہا کہ فلاں فلاں چیز کی ضرورت ہے، مگر جو چیزیں قادیان میں مل سکتی ہیں یا جن کے قائم مقام یہاں مل سکتے ہیں، ان کے متعلق میں نے یہی کہا کہ وہ قادیان سے ہی جا کر خریدیں گے.اس طرح قادیان کے دُکانداروں کا کچھ نقصان دور ہو جائے گا بلکہ ممکن ہے کہ بالکل ہی دور ہو جائے.اسی طرح جلسہ سالانہ یا مجلس شوری کے موقع پر جو لوگ آتے ہیں وہ سارے کے سارے بڑے شہروں کے رہنے والے ہی نہیں ہوتے بلکہ کئی ایسے مقامات رہائش رکھنے والے ہوتے ہیں جہاں چیزوں کی قیمتیں ایسی ہی ہوتی ہیں جیسی یہاں وہ بھی اگر ایسی چیزیں جو آسانی سے ساتھ لے جاسکیں، یہاں سے خرید لیں یا کپڑے یہاں سے بنوالیا کریں تو یہاں کے دُکانداروں کی بکری زیادہ ہو سکتی ہے.چودھری نصر اللہ خان صاحب مرحوم کئی دفعہ اپنے کپڑے یہاں سے بنوایا کرتے تھے.کسی نے ان سے کہا کہ آپ رہتے سیالکوٹ میں ہیں اور کپڑے یہاں سے بنواتے ہیں، یہ کیا بات ہے.تو انہوں نے جواب دیا کہ اس سے دوہرا ثواب مجھے مل جاتا ہے.اس سے قادیان میں روپیہ کے چلن میں زیادتی بھی ہو جاتی ہے اور بھائی کو فائدہ بھی پہنچ جاتا ہے.میں سمجھتا ہوں اگر چودھری صاحب مرحوم کے نقش قدم پر چلنے والے چند دوست بھی پیدا ہو جائیں تو قادیان کے دُکانداروں کا نقصان ہی دور نہیں ہو سکتا بلکہ انہیں فائدہ بھی پہنچ سکتا ہے.دوسری نصیحت میں قادیان کے دُکانداروں کو یہ کرتا ہوں کہ انہیں سودا ستا خریدنے کی کوشش کرنی چاہیئے.میں نے خود کئی دفعہ مقابلہ کیا ہے اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہاں کے بعض دکاندار اشیاء مهنگی خریدتے ہیں.ایک دوست سے میں نے ایک دفعہ ایک چیز کا ریٹ دریافت کرایا تو اس نے بٹالہ یا امرتسر کا ریٹ سولہ روپیہ بتایا اور دوسرے نے کہا کہ نو یا دس روپیہ تک آجائے گی.اور اس نے اس سے بھی کم میں کہ جتنا بتایا تھا، لا کر بھی وہ چیز دے دی چیز بھی نسبتا اچھی تھی.اور میرا ذاتی تجربہ ہے کہ اگر چیز احتیاط سے خریدی جائے تو اچھی اور سستی مل جاتی ہے.میں جب ولایت جانے لگا تو میری ایک لڑکی جو اُس وقت چھوٹی تھی رونے لگی.میں نے اس سے کہا کہ رو نہیں میں تمہارے واسطے اچھی سی گڑیا لاؤں گا.یہ آتے وقت مجھے یاد آیا اور میں نے اس کیلئے ایک گڑیا کوئی چار روپیہ میں خریدی.بعض دوستوں نے اسے دیکھا اور کہا کہ بڑی عجیب چیز ہے، کتنے میں آئی ہے.میں نے انہیں کہا کہ وعده چال - رفتار
خطبات محمود ۴۸۲ سال ۱۹۳۴ء میں نے قریباً چار روپیہ میں خریدی ہے مگر بازار میں گیارہ بارہ سے کسی طرح کم میں نہ آئے دور کا سفر تھا اور دوسروں کے بھی پیچھے بچے تھے.ایک دو کو خیال آیا کہ ہم بھی ایسی گڑیا لے چلیں وہ گئے اور واپس آکر کہنے لگے کہ یہ تو کہیں بھی سولہ شلنگ سے کم میں نہیں ملتی.جو گیارہ روپے کے قریب بنتے ہیں.تو میں نے تجربہ کیا ہے کہ اگر مجھے خود سودا خریدنے کا موقع ملے تو چیز مستی مل جاتی ہے.ولایت کی ایک بڑی دکان ہے جہاں سے بادشاہ اور ملکہ بھی سودا خریدتے ہیں میں نے وہاں سے ایک چیز خریدی.ان کا دستور ہے کہ چیز کی قیمت کم نہیں کرتے مگر میں نے کم کرا کے خریدی.ایک انگریز نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے یہ چیز کہاں سے لی ہے.میں نے اسے بتایا کہ فلاں دُکان سے لی ہے اور قیمت کم کرا کے لی ہے.وہ حیران ہوا اور کہنے لگا کہ وہاں تو قیمت کم کرنے کا کوئی نام لے تو وہ باہر نکال دیتے ہیں کہ تم ہماری ہتک کرتے ہو.تو انسان اگر ہوشیاری سے سودا کرے تو ستا خرید سکتا ہے.رسول کریم ال نے ایک دفعہ ایک صحافی کو ایک دینار دیا کہ ایک بکرا خرید لاؤ.وہ گیا اور واپس آکر بکرا بھی دے دیا اور دینار بھی.آپ نے فرمایا دینار کیسا واپس کر رہے ہو.اس نے کہا کہ میں شہر سے ذرا دور چلا گیا تھا اور وہاں سے ایک دینار میں دو بکرے خریدے کیونکہ وہاں سستے ملتے تھے.رستہ میں ایک شخص نے دریافت کیا کہ بکرے کا کیا لو گے.میں نے کہا ایک دینار اور یہاں چونکہ ایک دینار ہی کا بکرا ملتا ہے، اس نے ایک دینار دے کر بکرا خرید لیا اس لئے دینار بھی حاضر ہے اور بکرا بھی.آپ نے اس کیلئے دعا کی کہ خدا تعالی ہمیشہ اس کے سودے میں برکت دے اور صحابہ کا بیان ہے کہ وہ اگر مٹی میں ہاتھ ڈالتا تو سونا ہو جاتی.لوگ تجارت کیلئے اسے اس کثرت سے روپیہ دیتے کہ اسے انکار کرنا پڑتا مگر پھر بھی لوگ اس کی ڈیوڑھی میں پھینک کر چلے جاتے ہے.تو اگر ہوشیاری سے چیز خریدی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ سستی نہ بعض لوگ جاتے ہیں اور دُکاندار سے کہہ دیتے ہیں کہ ستا سودا دینا اور سمجھ لیتے ہیں کہ ستا خریدنے کی ہم نے پوری کوشش کرلی.یہ سادگی ہے یا بددیانتی کہ محنت نہ کی اور سمجھ لیا کہ کرلی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک السَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ صحابی تھے جو بہت مخلص تھے مگر بہت سادہ طبیعت تھے.وہ آتے وقت آپ کیلئے ضرور کوئی نہ کوئی پھل وغیرہ لے آتے مگر ان کے خریدنے کا طریق یہ تھا کہ دُکان پر گئے اور کہا میاں اچھے
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء سیب ہیں.اب دکاندار کیوں کہے گا کہ اچھے نہیں ہیں وہ کہہ دیتا کہ ہاں بہت اچھے ہیں.یہ کہتے کیا بھاؤ دوگے وہ اگر کہتا کہ روپیہ کے سولہ تو یہ کہتے کہ بارہ دو مگر اچھے چن کر دے دو میں نے اپنے پیر کے لئے لے جاتے ہیں.وہ وہی جو سولہ کے حساب سے دیتا اٹھا کر دے دیتا اور وہ لے آتے حالانکہ ان میں اتنی ہی اچھائی ہوتی تھی جتنی کہ اعلیٰ چیز اور اعلیٰ دکان سے خریدنے میں ہو سکتی تھی.سولہ کے کم کر کے بارہ لینے میں انہیں کوئی زیادہ اچھی چیز نہ مل جاتی تھی.پس بے احتیاطی.سے سودا خریدنا یا سادگی سے ہوتا ہے یا بد دیانتی سے.کوشش کر کے اور مختلف دُکانیں پھر کر اگر چیز خریدی جائے تو سستے داموں مل سکتی.ہے.اب میں نے اس سکیم کے متعلق مجموعی طور پر اس کی وہ تفصیلات جو موجودہ حالات میں ضروری تھیں، سب بیان کردی ہیں اور اس میں میں نے مندرجہ ذیل امور مدنظر رکھے ہیں.(۱) یہ کہ جماعت کے اندر اور باہر ایسا ماحول پیدا ہو جائے کہ جس سے جماعت کی ذہنیت اور اقتصادی حالت اچھی ہو جائے اچھی ذہنیت کے بغیر کام نہیں چل سکتا.اگر کسی شخص کے سامنے اعلیٰ سے اعلیٰ کھانا رکھا ہو مگر وہ یہ سمجھے کہ اچھا نہیں تو مزا نہیں اٹھا سکتا.جب سے ایک ہی سالن کھانے کی پابندی پر شدت سے عمل شروع کیا ہے میں نے خود اس کا تجربہ کیا ہے.پہلے اگر دو سالن کبھی آتے تو کئی دفعہ ایک کو ناپسند اور دوسرے کو پسند کیا کرتا تھا مگر جب ایک ہی کھانا ہو تو جن نقائص کو دو کی صورت میں زبان محسوس کرتی ہے وہ محسوس نہیں ہوتے کیونکہ جب زبان کو معلوم ہو کہ دوسرا نہیں ملنا تو اعتراض کا مادہ کم ہو جاتا ہے.پس ذہنیت بڑا بھاری اثر رکھتی ہے.کوئی غریب آدمی پیدل چلا جا رہا ہو اور کوئی کمہار اسے کہے کہ پیدل کیوں چلتے ہو آؤ میرے گدھے پر بیٹھ جاؤ تو اس کا دل باغ باغ ہو جائے گا اور وہ خیال کرے گا کہ اتنے میل پیدل چلنے سے بچ گئے لیکن اگر کوئی امیر آدمی جا رہا ہو اور اسے غصہ آ رہا ہو کہ نوکر کو گھوڑا لانے کا حکم دیا تھا وہ نہیں لایا.یا کسی دوست رشتہ دار کو اطلاع دی تھی کہ فلاں جگہ پر گھوڑا بھیج دینا اور اس نے نہیں بھیجا اور وہی گدھے والا اسے کہے کہ آؤ میرے گدھے پر سوار ہو جاؤ تو وہ بجائے کسی جذبہ امتتان کے اظہار کے اتنی مغلظات سنائے گا کہ شاید اسے کانوں میں انگلیاں دے لینی پڑیں اور اپنی ذہنیت کے بدلہ میں وہ امیر آدمی پر چڑھنے کی دعوت کا انکار کرتے کرتے خود گدھا بن جائے گا.تو ذہن کا اثر بڑی چیز ہے اگر ذہنیت تبدیل ہو جائے تو آدھی لڑائی فتح ہو سکتی ہے.کسی امیر آدمی کو جو ایک بزرگ گدھے
خطبات محمود سهم اسم سال ۱۹۳۴ء سے اخلاص نہیں رکھتا، اس کا مستعمل کپڑا دے کر دیکھو کس قدر ناراض ہوگا لیکن اگر اخلاص ہو اور وہ سمجھے کہ مستعمل کپڑے میں برکت ہوگی تو خود لجاجت کرکے لے گا.رسول کریم ﷺ کے ایک صحابی ایک جنگ میں قید ہو کر مکہ میں پہنچے ، کفار انہیں طرح طرح کے دکھ دیتے تھے اور مار دینے کا فیصلہ کر چکے تھے ایسی حالت میں ان سے کسی نے کہا کہ کیا تمہارے نزدیک اچھا نہ ہوتا کہ تم مدینہ میں آرام سے اپنے گھر میں بیٹھے ہوتے اور تمہاری جگہ یہاں محمد( ال ) ہوتے.اگر ان صحابی کے دل میں اخلاص نہ ہوتا تو وہ کہتے کہ میرے ایسے نصیب کہاں مگر انہوں نے جواب دیا کہ تم تو یہ کہتے ہو مگر میں تو یہ بھی برداشت نہیں کر سکتا کہ میں گھر میں آرام سے بیٹھا ہوں اور محمد رسول اللہ ﷺ کے پاؤں میں مدینہ ہی کی کسی گلی میں کانٹا چھ جائے ہے.ہمارے پیر ہر اس کانٹے کی جستجو کرتے ہیں جو آپ کے پاؤں میں چھنے والا ہو.ہے غرض ذہنیت کے تغیر سے بہت بڑا تغیر ہو جاتا ہے.ایک شخص جو پانسو روپیہ ماہوار تنخواہ لیتا ہے اگر تنزل کر کے اس کی تنخواہ چار سو روپیہ کر دی جائے تو اس کے ہاں ماتم بپا ہو جائے گا اور وہ بے چین ہو جائے گا کہ اب خرچ کیونکر چلے گا.لیکن اگر ایک تین سو ماہوار پانے والے کی تنخواہ چار سو کردی جائے تو وہ اور اس کے گھر والے خوشی سے اچھلتے پھریں گے اور سمجھیں گے کہ اب خوب آرام سے گزر ہوگی.پس اس سکیم میں اول تو میرے مد نظر یہ بات ہے کہ ذہنیت میں ایسا تغیر کروں کہ جماعت خدمت دین کیلئے تیار ہو جائے اور آئندہ ہمیں جو قدم اٹھانا پڑے اسے بوجھ نہ خیال کیا جائے بلکہ بشاشت کے ساتھ اٹھایا جاسکے.ذہنیت کے کھنے کے ساتھ ساتھ ماحول کا تغیر بھی میرے منظر ہے یعنی اقتصادی حالت کی درستی اور مشقت کی عادت میں پہلے بیان کرچکا ہوں کہ جو لوگ محمدہ عمدہ کھانے اور عمدہ لباس پہننے کے عادی ہوں وہ اگر ضرورت پڑے تو باہر خدمت دین کیلئے نہیں جاسکتے.امیروں کی اولاد عام طور سے محروم رہ جاتی ہے.اول تو والدین کی حد تک پہنچنا یوں بھی مشکل ہوتا ہے لیکن جب جفاکشی کی عادت نہ ہو تو بالکل ہی اچھے کام نہیں کرسکتے.میں نے اس سکیم میں اس بات کو مد نظر رکھا ہے کہ ایسا ماحول پیدا کر دیا جائے کہ ان کے اندر اچھے کام کرنے کی اہلیت پیدا ہو جائے.دوسری بات میرے مد نظر یہ ہے کہ ہر طبقہ کے لوگوں کو یہ احساس کرا دیا جائے کہ
خطبات محمود ۴۸۵ سال ۱۹۳۴ تو اب وقت بدل چکا ہے اس سکیم کا اثر سب ہی پر پڑے گا.جو شخص زیادہ کپڑے بنوانے کا عادی ہے جب وہ جاکر اور کپڑے خریدنے لگے گا تو معاً اسے خیال آئے گا کہ اب ہماری حالت بدل گئی ہے، جب بھی بیوی سبزی ترکاری کیلئے کہے گی اور دو تین کی بجائے صرف ایک ہی منگوانے کو کہے گی تو فوراً اسے خیال آجائے گا کہ اب ہمارے لئے زیادہ قربانیاں کرنے کا وقت آگیا ہے، جب بھی نوکر کھانا پکانے لگے گا اور صرف ایک ہنڈیا چڑھائے گا اسے محسوس ہو جائے گا کہ اب اس گھر کی حالت بدل گئی ہے غرضیکہ کوئی حصہ ایسا نہیں جس میں احساس نہ پیدا ہو گا کہ اب جماعت کی حالت بدل گئی ہے اور اسے بھی اپنی حالت کو بدل لینا چاہیئے ورنہ تم جماعت کا مخلص حصہ نہیں سمجھے جاؤ گے.تیسری بات میں نے یہ مد نظر رکھی ہے کہ جس قدر اطراف سے سلسلہ پر حملہ ہو رہا ہے، سب کا دفعیہ ہو.اب تک ہم نے بعض رستے مچن لئے تھے اور کچھ قلعے بنالئے تھے مگر کئی حملے دشمن کے اس لئے چھوڑ دیتے تھے کہ فلاں کو دور کرلیں پھر اس طرف توجہ کریں گے.مگر اس سکیم میں اب میں نے یہ مد نظر رکھا ہے کہ حتی الوسع ہر پہلو کا دفعیہ کیا جائے اور کوئی حملہ ایسا نہ ہو جس کے جواب کیلئے ہم تیار نہ ہوں.مثلاً یہ بھی ہم پر ایک حملہ تھا کہ کا نگری کھڈر پہنتے ہیں اور آپ کی جماعت مذہبی جماعت ہوتے ہوئے اس قدر قربانی نہیں کرتی.ہم جواب دیتے تھے کہ کانگرسی وہ روپیہ جو کھڈر پہننے سے بچتا ہے کانگرس کو نہیں دے دیتے لیکن ہماری جماعت تو اس قدر مالی قربانی کرتی ہے کہ کانگرس والے اس کا عشر عشیر بھی پیش نہیں کرسکتے.مگر یہ جواب گو درست تھا مگر سوال کا پہلو بچا کر دوسرے رنگ میں دیا جاتا تھا اس جہت سے ہم کوئی جواب نہ دے سکتے تھے جس طرف سے کہ یہ حملہ کیا جاتا تھا.مگر اب ہم کہیں گے کہ صرف کھدر پہننا کوئی عظمندی نہیں عظمندی یہ ہے ؟ که اقتصادی حالت کو درست کیا جائے اور ہم نے ایسا عہد کیا ہے کہ جس سے ہماری اقتصادی حالت درست ہو جائے.مثلاً بیش قیمت لباس نہ استعمال کیا جائے، گوٹا کناری اور فیتہ لیس وغیرہ نہ خریدے جائیں.کانگری کھدر کے ساتھ ایسی سب چیزیں استعمال کر لیتے تھے مگر ہم نے یہ سب چیزیں چھوڑ دی ہیں، اسی طرح ہم نے کپڑوں میں کفایت کے علاوہ کھانے، شادیوں اور دعوتوں میں بھی تغیر کر دیا ہے.پس اب ہم ان کے اصول کو صحیح قرار دیتے ہوئے بھی جواب دے سکتے ہیں.
خطبات محمود ۴۸۶ سال ۱۹۳۴ء چوتھی بات میں نے یہ مد نظر رکھی ہے کہ سلسلہ کی طرف سے پہلے ہم نے ایک دو رستے مقرر کر رکھے تھے اور انہی راہوں سے دشمن پر حملہ کرتے تھے اور باقی کو یہ کہہ کر چھوڑ دیتے تھے کہ ابھی اور کی توفیق نہیں مگر اب سکیم میں میں نے یہ بات مد نظر رکھی ہے کہ حملے وسیع ہوں اور بیسیوں جہات سے دشمن پر حملے کئے جائیں.ہمارے حملے ایک ہی محاذ پر محدود نہ ہوں بلکہ جس طرح دفاع کیلئے ہم مختلف طریق اختیار کریں، اسی طرح حملہ کیلئے بھی مختلف مجاز ہوں.پانچویں بات یہ ہے کہ مغربیت کے بڑھتے ہوئے اثر کو جو دنیا کو کھائے جاتا ہے اور جو دجال کے غلبہ میں محمد ہے اسے دور کیا جائے.اس سلسلہ میں میں نے عورتوں کی کے سلسلہ میں کچھ عرصہ ہوا ایک لیکچر دیا تھا اگرچہ مجھے افسوس ہے کہ ہمارے کارکنوں نے سے فائدہ نہیں اٹھایا اور سکول میں لڑکیوں کی تعلیم کو اس طرز پر نہیں بدلا جو میں نے بتائی تھی.مگر میں نے اپنے گھر میں اسے رائج کر دیا ہے اور اپنی لڑکیوں کو سکول سے ہٹا کر ایسے رنگ میں انہیں گھر پر تعلیم دلانی شروع کردی ہے کہ تا ایک طرف انگریزی بولنی اور لکھنی آجائے دوسری طرف دینی تعلیم اور اردو زبان کی تعلیم زیادہ ہو.سکولوں میں گو انگریزی اور اس کے لوازمات پر زور دیا جاتا ہے مگر پھر بھی طالبات کو انگریزی بولنی نہیں آتی حالانکہ کسی زبان کے سیکھنے میں اصول یہ ہونا چاہیے کہ طالب علم اس میں گفتگو کر سکے مگر سکولوں کی غرض حاصل نہیں ہوتی.اُستانیوں کو بھی بولنی نہیں آتی تو لڑکیاں کس طرح سیکھیں گی بلکہ میں نے دیکھا ہے لڑکوں کو بھی انگریزی بولنی نہیں آتی.مگر میں نے اپنے گھر میں اس طرز پر تعلیم شروع کرائی ہے کہ انگریزی بولنے کی مشق ہو اور باقی تعلیم دینی ہو.گو بچوں کی تعلیم پر مجھے ایک بہت بڑی رقم خرچ کرنی پڑتی ہے کیونکہ کئی اُستاد اور اُستانیاں رکھنی پڑتی ہیں اور بوجھ ناقابل برداشت ہوتا ہے مگر مقصود روپیہ سے زیادہ قیمتی ہے اور جب تک ہمارے زنانہ سکول کی حالت نہ بدلے، ایسا کرنا پڑے گا.اس وقت میں نے اس امر کو پھر دہرادیا ہے تالوگوں کو معلوم رہے کہ لڑکیوں کی موجودہ تعلیم کا میں سخت مخالف ہوں، ما دوسرے مخلصین اگر صحیح طرز ابھی اختیار نہ کر سکیں تو بھی ان کے دل میں یہ خلش ضرور ہو کہ ہم نے اسے بدلنا ہے.غرض مغربیت کے اثر کو زائل کرنا بھی اس سکیم میں میرے مد نظر ہے اور جوں جوں وہ زائل ہوتا جائے گا اسلام کی محبت اور اس کا دخل بڑھتا جائے گا
خطبات محمود سال ۱۹۳۴۳ تو اسی لئے میں نے ہاتھ سے کام کرنے اور ایک ہی سالن کھانے کی عادت ڈالنے کی ہدایت کی ہے.یہ دونوں باتیں مغربیت کے خلاف ہیں.چھٹی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کیلئے زیادہ جدوجہد کی جائے کیونکہ ہماری فتح اسی سے ہو سکتی ہے اس لئے دعا کرنا میں نے اپنی سکیم کا ایک جزو رکھا ہے.اس کی غرض یہی ہے کہ ہماری تمام ترقیات اسی سے وابستہ ہیں اور جب ہمارے اندر سے غرور نکل جائے اس وقت اللہ تعالٰی کا فضل نازل ہو سکتا ہے.اللہ تعالی کو یہی پسند ہے کہ امن کی بنیاد ایسے اصول پر قائم ہو کہ انسانیت کے لحاظ سے سب برابر ہوں.اس سکیم میں میں نے یہ بات بھی مد نظر رکھی ہے کہ امیر و غریب کا بعد دُور ہو.مثلاً بعض گھر ایسے ہوتے ہیں جہاں مہمان زیادہ آتے ہیں وہ چار پانچ کھانے پکاتے ہیں اور جو مہمان بلند پایہ ہوں انہیں میز پر پنے ساتھ بلا کر کھانا کھلا لیتے ہیں اور جو ذرا کم درجہ کے ہوں انہیں کہہ دیا جاتا ہے کہ آپ اپنے کمرہ میں تشریف رکھیں، وہیں کھانا آپ کو پہنچ جائے گا مگر جب ایک ہی سالن پکے گا تو اس کی بھی ضرورت نہ ہوگی.ساتویں بات اس سکیم میں میرے مد نظر یہ ہے کہ جماعت کے زیادہ سے زیادہ افراد کو تبلیغ کیلئے تیار کیا جائے.پہلے سارے اس کیلئے تیار نہیں ہوتے اور جو ہوتے ہیں وہ ایسے رنگ میں ہوتے ہیں کہ مبلغ نہیں بن سکتے.اول تو عام طور پر ہماری جماعت میں تبلیغ کا انحصار مبلغوں پر ہی ہوتا ہے وہ آئیں اور تقریریں کر جائیں.ان کے علاوہ انصار اللہ ہیں مگر وہ ارد گرد جاکر تبلیغ کر آتے ہیں اور وہ بھی ہفتہ میں ایک بار اس سے تبلیغ کی عادت پیدا نہیں ہو سکتی اور نہ ہی تبلیغ کرنے کا ہنر آتا ہے.کسی بات کو سیکھنے کیلئے تسلسل اور تواتر سے کام کرنے کی تی ضرورت ہوتی ہے.میرے پاس موٹر ہے اور میں نے کئی بار کوشش کی ہے کہ اسے چلانا سیکھی لوں اور جب کبھی سفر پر جاتا ہوں تو اس کی مشق شروع کرتا ہوں مگر واپس آکر چھوڑ دیتا ہوں اور پھر اگر کبھی باہر جانے کا موقع ملا تو اسے شروع کیا اور اس طرح میں چار سال میں بھی موٹر چلانا نہیں سیکھ سکا لیکن اگر چار سال کی جگہ چار دن مسلسل سیکھتا تو سیکھ لیتا.پس اب میں نے تجویز پیش کی ہے کہ تین ماہ کیلئے جو دوست فراغت حاصل کر سکیں وہ تبلیغ کیلئے اپنے آپ کو پیش کریں اور اس طرح متواتر تین ماہ تک گھر سے دور جاکر تبلیغ کریں.اپنے گاؤں کے اردگرد ایک تبلیغی وفد بن کر چلا بھی جائے تو اگر کسی مخالف کو غصہ بھی آئے تو وہ یہ خیال
خطبات محمود ۴۸۸ i سال ۱۹۳۴ کر کے چپ ہو رہے گا کہ یہ زیادہ آدمی ہیں، ایسا نہ ہو ماریں اور اس طرح ان کو تبلیغ کی ٹریننگ نہ ہوگی.مگر جب اپنے ماحول سے دور جاکر اور مسلسل طور پر ایک شخص کام کرے گا تو اسے مبلغ والی صحیح تربیت حاصل ہوگی.پس اس سکیم میں یہ بھی میرے مد نظر ہے کہ تبلیغ کا دائرہ زیادہ سے زیادہ وسیع کیا جائے اور ایسے مبلغ پیدا کئے جائیں جو بغیر معاوضہ کے تبلیغ کریں.آٹھویں بات اس سکیم میں میرے مد نظر یہ ہے کہ مرکز کو ایسا محفوظ کیا جائے کہ وہ بیرونی حملوں سے زیادہ سے زیادہ محفوظ ہو جائے.اس بات کو اچھی طرح سوچنا چاہیے کہ ایک سپاہی اور جرنیل میں کتنا فرق ہے مگر یہ فرق ظاہر میں نظر نہیں آتا.مثال کے طور پر آنکھوں کو لے لو سپاہی اور جرنیل کی آنکھ میں کیا فرق ہے.سوائے اس کے کہ سپاہی کی نظر تیز ہوگی اور جرنیل بوجہ بڑھاپے کے اس قدر تیز نظر نہ رکھتا ہو گا.اسی طرح دونوں کے جسم میں کیا فرق ہے سوائے اس کے کہ سپاہی نوجوان اور مضبوط ہونے کی وجہ سے زیادہ بوجھ اٹھا سکتا ہے اور جرنیل اس قدر نہیں اٹھا سکتا.یا سپاہی زیادہ دیر بھوک برداشت کر سکتا ہے اور جرنیل ایسا نہیں کر سکتا.مگر باوجود اس کے جرنیل کی جان ہزاروں سپاہیوں سے زیادہ قیمتی ہوتی ہے اور بعض دفعہ ساری کی ساری فوج اسے بچانے کیلئے تباہ ہو جاتی ہے.نپولین کو جب انگریزوں اور جرمنوں کی متحدہ فوج کے مقابل میں آخری شکست ہوئی ہے تو اس وقت اس کی فوج کے ایک ایک سپاہی نے اسی خواہش میں جان دے دی کہ کسی طرح نپولین کی جان بچ جائے کیونکہ ہر ایک یہی سمجھتا تھا کہ اگر نپولین بچ گیا تو فرانس بھی بچ جائے گا، ورنہ مٹ جائے گا.نپولین کا جو گارڈ تھا وہ چنندہ بہادروں پر مشتمل تھا اور اس کے سب سپاہی اس قدر بہادر تھے کہ یورپ میں ضرب المثل تھی کہ نپولین کا گارڈ جب حرکت میں آتا ہے تو زمین ہل جاتی ہے.جب واٹرلو کے میدان میں جنگ کا پہلو فرانسیسیوں کے حق میں خراب نظر آنے لگا تو گارڈ آگے بڑھے اس دن انگریز اور جرمن بھی یہ سمجھ کر لڑ رہے تھے کہ اگر آج شکست ہوگئی تو دنیا میں ہم زندہ نہ رہ سکیں گے اس لئے وہ بھی سر اور دھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھے اس لئے جب گارڈ نے حملہ کیا تو انگریزی فوج اس کے صدمات کو جرات سے سہہ گئی.اور گارڈ کا پہلا حملہ ناکام رہا تو فرانسیسیوں کیلئے خطرہ اور بھی بڑھ گیا.اتنے میں گولہ بارود بھی فرانسیسیوں کا ختم ہو گیا اور گارڈ کو تلواروں اور کرچوں سے لڑنا پڑا.وہ گولیاں کھا کھا کر گر رہے تھے مگر پیچھے نہ ہٹتے تھے.لکھا ہے کہ اس وقت کسی نے انہیں کہا کہ تم بندوقیں کیوں استعمال نہیں
خطبات محمود ۴۸۹ سال ۱۹۳۴ کرتے تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے پاس گولی بارود نہیں.اس نے کہا پھر بھاگتے کیوں نہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ بھاگنا ہمیں نپولین نے سکھایا نہیں.اور اس وقت بعض فرانسیسی افسر آگے بڑھے اور نپولین کے گھوڑے کی باگ پکڑ کر اسے موڑنا چاہا اور اس سے درخواست کی کہ آپ واپس لوٹیں.اس نے جواب دیا کہ میں کس طرح لوٹ سکتا ہوں جب میرے سپاہی جانیں دے رہے ہیں مگر انہوں نے کہا کہ فرانس کی عزت آپ سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ آپ واپس لوٹیں.تو بعض دفعہ بعض چیزوں کو ایسی اہمیت حاصل ہوتی ہے کہ ان کے مٹنے کے بعد شان قائم نہیں رہ سکتی.پس قادیان اور باہر کی اینٹوں میں فرق ہے.اس مقام کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں اسے عزت دیتا ہوں جس طرح بیت الحرام، بیت المقدس یا مدینه و مکہ کو برکت دی ہے اور اب اگر ہماری غفلت کی وجہ سے اس کی تقدیس میں فرق آئے تو یہ امانت میں خیانت ہوگی اس لئے یہاں کی اینٹیں بھی انسانی جانوں سے زیادہ قیمتی ہیں اور یہاں کے مقدس مقامات کی حفاظت کیلئے اگر ہزاروں احمدیوں کی جانیں بھی چلی جائیں تو پھر بھی ان کی اتنی حیثیت نہ ہوگی جتنی ایک کروڑ پتی کیلئے ایک پیسہ کی ہوتی ہے.پس قادیان اور قادیان کے وقار کی حفاظت زیادہ سے زیادہ ذرائع سے کرنا ہمارا فرض ہے.نویں بات اس میں میرے مد نظر یہ ہے کہ جماعت کو ایسے مقام پر کھڑا کر دیا جائے کہ اگلا قدم اٹھانا سہل ہو.میں نے اس سکیم میں اس بات کو مد نظر رکھا ہے کہ اگر آئندہ اور قربانیوں کی ضرورت پڑے تو جماعت تیار ہو اور بغیر مزید جوش پیدا کرنے والی تحریکات کرنے کے جماعت آپ ہی آپ اس کیلئے آمادہ ہو.دسویں بات اس میں میں نے یہ مد نظر رکھی ہے کہ ہماری جماعت کا تعلق صرف ایک ہی حکومت سے نہ رہے اب تک ہمارا حقیقی تعلق صرف ایک ہی حکومت سے ہے سوائے افغانستان کے جہاں ہماری جماعت اپنے آپ کو ظاہر نہیں کر سکتی اور احمدی کام نہیں کر سکتے باقی سب مقامات پر جہاں جہاں زیادہ اثر رکھنے والی جماعتیں ہیں.مثلاً ہندوستان نائیجیریا گولڈ کوسٹ، مصر، سیلون، ماریشس وغیرہ مقامات پر وہ سب برطانیہ کے اثر کے نیچے ہیں دیگر حکومتوں سے ہمارا تعلق نہیں سوائے ڈچ حکومت کے ، مگر ڈچ بھی یورپین ہیں اور یورپینوں کا نقطہ نگاہ ایشیائی لوگوں کے بارہ میں جلدی نہیں بدلتا.ہمیں ایسی حکومتوں سے بھی لگاؤ پیدا کرنا
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء چاہیے جن کی حکومت میں ہم شریک ہوں یا جو ہم پر حکومت کرنے کے باوجود ہمیں اپنا بھائی سمجھیں.مشرقی خواہ حاکم ہو مگر وہ محکوم کو بھی اپنا بھائی سمجھے گا.اسی طرح جنوبی امریکہ کے لوگ ہیں انہوں نے بھی چونکہ کبھی باہر حکومت نہیں کی اس لئے وہ بھی ایشیائی لوگوں کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں.پس اس سکیم میں میرے مد نظر ایک بات یہ بھی ہے کہ ہم باہر جائیں اور نئی حکومتوں سے ہمارے تعلقات پیدا ہوں، تاہم کسی ایک ہی حکومت کے رحم پر نہ رہیں.یوں تو ہم خداتعالی کے ہی رحم پر ہیں مگر جو حصہ تدبیر کا خدا نے مقرر کیا ہے اسے اختیار کرنا بھی ہمارا فرض ہے اس لئے ہمارے تعلقات اس قدر وسیع ہونے چاہئیں کہ کسی حکومت یا رعایا کے ہمارے متعلق خیالات میں تغیر کے باوجود بھی جماعت ترقی کر سکے..گیارھویں بات یہ مد نظر ہے کہ آئندہ نسلیں بھی اس درد میں ہماری شریک ہو سکیں.اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ ایک نعمت دی ہے کہ ہمارے دلوں میں درد پیدا کردیا ہے.گورنمنٹ نے جو ہماری ہتک کی یا احرار نے جو اذیت پہنچائی اس کا یہ فائدہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ ہمارے دلوں میں درد کی نعمت پیدا کردی.اور وہی بات ہوئی جو مولانا روم نے فرمائی ہے ہر بلائیں قوم را حق داده است زیر آن گنج کرم بنهاده است حصہ یعنی ہر آفت جو مسلمانوں پر آتی ہے اس کے نیچے ایک خزانہ مخفی ہوتا ہے.پس یقینا یہ بھی ایک خزانہ تھا جو خدا تعالیٰ نے ہمیں دیا کہ جماعت کو بیدار کردیا اور جو لوگ مست اور غافل تھے ، ان کو بھی چوکنا کر دیا.پس یہ ایک ایسا واقعہ تھا جو دنیوی نگاہ میں مصیبت تھا مگر خدا تعالیٰ کے نزدیک رحمت تھا اور میں نے نہیں چاہا کہ اس سے صرف موجودہ نسل ہی.لے بلکہ یہ چاہا ہے کہ آئندہ نسلیں بھی اس سے حصہ پائیں.اور میں نے اس سکیم کو ایسا رنگ دیا ہے کہ آئندہ نسلیں بھی اُس طریق پر نہیں جو شیعوں نے اختیار کیا ہے بلکہ عقل سے اور اعلیٰ طریق پر جو خدا کے پاک بندے اختیار کرتے آئے ہیں اسے یاد رکھ سکیں اور اس سے فائدہ اٹھا سکیں.اس کے علاوہ اور بھی فوائد ممکن ہے اس میں ہوں مگر یہ کم سے کم تھے جو میں نے بیان کر دیئے ہیں.یا یوں کہو کہ یہ سکیم کا وہ حصہ ہے جو خدا تعالیٰ نے فضل سے مجھے بتایا.اس سکیم کے ثواب کو وسیع اور فائدہ کو زیادہ کرنے کیلئے اس میں اپنے
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء ہے.عمل کا مندرجہ ذیل امور ہیں.اول ایک سالن کھانا.اس میں سب شامل ہو سکتے ہیں.امیر زیادہ کو کم کرکے ایک کھا سکتا ہے اور غریب تو کھاتا ہی ایک ہے.بعض غریب خیال کرتے ہیں کہ ہمیں اس میں شامل ہونے کی ضرورت نہیں مگر ایسا خیال کرنے والوں نے دراصل اس سکیم کے مغز کو نہیں سمجھا حالانکہ ان کا حق زیادہ ہے کہ ثواب میں شریک ہوں ثواب ہمیشہ نیت کا ہوتا ہے نہیں.دنیا میں کون ہے جو اپنی بیوی سے پیار نہیں کرتا اور وہ کون مومن ہے جو اپنی بیوی سے حسن سلوک نہیں کرتا مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کے منہ میں اس لئے لقمہ ڈالتا ہے کہ اسے ثواب حاصل ہو اس کیلئے ایک نیکی لکھی جاتی ہے ھے پس جو کام یوں بھی کئے جاتے ہیں وہ نیت کرلینے سے نیکی بن جاتے ہیں.جو لوگ ایک ہی سالن کھاتے ہیں وہ پہلے مجبوری سے کھاتے تھے مگر اب اگر نیت کرلیں تو یہی مجبوری ان کیلئے نیکی بن جائے گی اس لئے کوئی ایسا شخص نہیں جو اس میں شامل نہ ہو سکتا ہو بلکہ غرباء زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں.کئی امیر ایسے ہو سکتے ہیں جو اپنے دل میں یہ کہتے ہوں گے کہ ہم تو تین چار سے کم سالن پر گزارہ نہیں کر سکتے اور پھر وہ زبان سے اعتراض کریں گے کہ گاندھی جیسی تحریکیں شروع کردی ہیں لیکن وہ غریب جسے یہ پتہ لگے کہ اس مجبوری کی حالت سے وہ ثواب حاصل کر سکتا ہے اور پھر بھی نہ کرے تو اس سے زیادہ بیوقوف کون ہو سکتا ہے.اور ایسے غریب کی مثال تو اس شخص کی ہوگی جو گرمیوں کے موسم میں دھوپ میں بیٹھا تھا کسی نے کہا میاں اٹھ کر سائے میں ہو جاؤ تو وہ کہنے لگا کیا دو گے.تو جو لوگ کھاتے ہی ایک سالن ہیں، ان کا حرج کیا ہے کہ اسے عبادت بنالیں.جو غرباء خیال کرتے ہیں کہ یہ ہدایت امیروں کیلئے ہی ہے انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ بیشک امیر کیلئے ظاہری قربانی ہے مگر دل کی قربانی تو غریب کیلئے بھی ہے.غریب سے غریب آدمی جسے فاقے بھی آجاتے ہوں، اس پر بھی کبھی نہ کبھی ایسا موقع ضرور آجاتا ہے کہ وہ دو کھانے کھا سکے، کبھی کوئی دوست تحفہ ہی بھیج دیتا ہے، کبھی کوئی سبزی ترکاری اپنے کھیت میں سے یا اگر اپنی نہ ہوئی تو ہمسایہ سے مانگ کر ہی پکائی جاتی ہے کچھ ساگ پکالیا کچھ دال، کبھی آلو بھی پکالئے اور مشلغم بھی تو اس طرح غریب بھی بعض اوقات دو بھا جیان بنا لیتے ہیں گو ان میں گوشت نہیں ہوتا مگر ہنڈیاں دو کئی دفعہ وہ بھی پکا لیتے ہیں.اب اگر ایسا شخص جسے کبھی کبھی ایسا موقع ملتا ہے دوسرا سالن یا ترکاری چھوڑ دے تو اس کی یہ دو قسم کا سالن
خطبات محمود ۴۹۲ سال ۲۱۹۳۴ قربانی اس امیر سے زیادہ ہے جسے روز کا چسکا ہے.پس غریب یہ نہ سمجھیں کہ وہ اس میں شامل نہیں ہوسکتے.ہو سکتے ہیں اور ان کیلئے ثواب کے حصول کا ویسا ہی موقع ہے جیسا امراء کیلئے ، اس لئے جماعت کے ہر فرد کو اس میں شامل ہونے کا عہد کرنا چاہیئے.اطلاع دینا ضروری ہے.میں نے کہا تھا کہ جو دوست اس میں شامل ہوں وہ مجھے اطلاع دیں.لیکن میں جانتا ہوں کہ بیسیوں لوگ ایسے ہیں جنہوں نے عہد تو کیا ہے مگر مجھے اطلاع نہیں دی.قادیان کے صرف دو محلوں نے بحیثیت مجموعی اس کی اطلاع دی ہے.ایک دارالسعت اور ایک دار الرحمت.محلہ دارالرحمت ہر تحریک میں دوسروں سے آگے رہتا ہے مگر اس تحریک میں دار السعت بھی سبقت لے گیا ہے.باقی کسی محلہ نے محلہ کے طور پر اطلاع نہیں دی.(اس عرصہ میں دارالبرکات نے بھی اطلاع دے دی ہے فَجَزَا هُمُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ ) اگرچہ مجھے معلوم ہے کہ بیسیوں افراد ہیں جنہوں نے اس میں حصہ لیا ہے.ان کے اطلاع نہ دینے کی دو ہی وجہیں ہو سکتی ہیں.یا تو یہ کہ وہ ڈرتے ہیں کہ شاید یہ عہد ٹوٹ نہ جائے اور یا پھر یہ اکبر کی علامت ہے.جب میں نے کہا ہے کہ وہ اطلاع دیں تو کیوں نہیں دیتے.دوسری بات میں نے غرباء کو شامل کرنے کیلئے یہ کسی ہے کہ ہاتھ سے کام کرنے کی عادت پیدا کی جائے.غرباء پہلے بھی ایسا کرتے ہیں مگر مجبوری کے ماتحت.اب وہ یہ کہیں گے کہ چونکہ مذہبی اخلاق کے حصول اور قومی ترقی کیلئے ہمیں یہ ہدایت ہے اس لئے ہم ایسا کرتے ہیں.تیسرے میں نے دعا کو ضروری قرار دیا ہے کہ غریب امیر کے علاوہ اپانچ اور لنگڑے لولے بھی اس میں شامل ہو سکیں.جو امیر اپانچ ہو، وہ تو روپیہ دے کر بھی شریک ہو سکتا لیکن غریب اپانچ کیلئے کوئی صورت نہ تھی اس لئے میں نے دعا کو ضروری قرار دے دیا ہے.تا ایسے لوگ دعاؤں میں شریک ہو کر ثواب حاصل کر سکیں اور یہ ایک ایسی بات ہے کہ گھر میں ہے بیٹھی ہوئی عورت بلکہ چارپائی کے ساتھ چسپاں مریض بھی اس میں حصہ لے سکتا ہے.چوتھے سکیم کے اثر کو وسیع کرنے کیلئے اور اس خیال سے کہ جماعت کے زیادہ سے زیادہ لوگ اس میں شریک ہوں، مالی قربانیوں میں میرے مخاطب کو پہلے امراء ہی تھے مگر میں نے یہ رعایت بھی کردی ہے کہ جو غرباء دس دس یا پانچ پانچ روپے نہ دے سکیں ، وہ کمیٹیاں
خطبات محمود ۹۳ سال ۱۹۳۴ء ڈال کر ایک ایک روپیہ یا آٹھ آٹھ آنے جمع کر کے جس جس کے نام پر قرعہ نکلتا جائے، جمع کراتے جائیں.اختیاری پانچویں بات اس کے فوائد کو وسیع کرنے کیلئے میں نے یہ رکھی ہے کہ اس سکیم کو رکھا ہے.میں نے سب حالات سامنے رکھ دیئے ہیں اور ان کا علاج بھی بتا دیا ہے مگر نہیں رکھا کہ جو حصہ نہ لے اسے سزا دی جائے بلکہ سزا و ثواب کو خداتعالی پر ہی چھوڑ دیا ہے تا جو حصہ لے اسے زیادہ ثواب ملے.تحریکات دو قسم کی ہوتی ہیں، جبری اور اختیاری.نماز جبری ہے اور نفل اختیاری اور دونوں ضروری ہیں.جبر فائدہ عام کیلئے ہوتا ہے اور اختیار میں ثواب بڑھ جاتا ہے اس لئے رسول کریم اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ بندہ نفل کے ذریعہ اپنے رب کے حضور ترقی کرتا ہے ہے.جماعت يُقِيمُونَ الصَّلوةَ ے سے ترقی کرے گی مگر افراد نفل ہے.تو یہ فرق ہے جو شریعت نے رکھا ہے.اس کی تفاصیل بیان کرنے کا اس وقت موقع نہیں.اس سکیم میں میں نے فضلی ترقی مد نظر رکھی ہے ہاں اس کے بعض حصے جبری ہیں جیسے سینما کے متعلق حکم.رسول کریم ﷺ بھی دونوں طرح سے کام لیتے تھے.جنگ بدر کی بھرتی اختیاری تھی اور تبوک کی جبری اس لئے میں ہدایت کرتا ہوں کہ اس تحریک کو چلانے والے مندرجہ ذیل باتوں کو مد نظر رکھیں.(۱) یہ کہ وہ صرف میری تجاویز کو لوگوں تک پہنچادیں اس کے بعد مردوں پر اس میں شامل ہونے کیلئے زیادہ زور نہ دیں.ہاں عورتوں تک خبر چونکہ مشکل سے پہنچتی ہے.اور باہر کی مشکلات سے ان کو آگاہی بھی کم ہوتی ہے، اس لئے رسول کریم ال مردوں میں تو چندہ کیلئے صرف اعلان ہی کر دیتے تھے کہ کون ہے جو اپنا گھر جنت میں بنائے ہے.مگر عورتوں سے اصرار کے ساتھ وصول فرماتے تھے بلکہ فرداً فرداً اجتماع کے مواقع میں انہیں تحریک کرتے تھے.ایک دفعہ ایک عورت نے ایک کڑا اتار کر دے دیا تو آپ نے فرمایا دوسرا ہاتھ بھی دوزخ ، بیچان - پس عورتوں کے معاملہ میں اجازت ہے کہ ان میں زیادہ زور کے ساتھ تحریک کی جائے مگر مجبور اُنہیں بھی نہ کیا جائے.اور مردوں پر تو زور بالکل نہ دیا جائے صرف ان تک میری تجاویز کو پہنچادیا جائے اور جو اس میں شامل ہونے سے عذر کرے اسے ترغیب نہ دی جائے.کارکن تحریک مجھے دکھا کر اور اسے چھپوا کر کثرت سے شائع کرا دیں.اور چونکہ ڈاک خانہ میں بعض اوقات چٹھیاں ضائع ہو جاتی ہیں، اس لئے جہاں سے جواب نہ ملے دس
خطبات محمود ۴۹۴ سال ۱۹۳۴ء پندرہ روز کے بعد پھر تحریک بھیج دیں اور پھر بھی جواب نہ آئے تو خاموش ہو جائیں.اس طرح بیرونی جماعتوں کے سیکرٹریوں کا فرض ہے کہ وہ میرے خطبات جماعت کو سنادیں جو جمع ہوں انہیں یکجا اور جو جمع نہ ہوں ان کے گھروں پر جاکر لیکن کسی پر شمولیت کیلئے زور نہ ڈالیں اور جو عذر کرے اسے مجبور نہ کریں.تیسری بات یہ مد نظر رکھی جائے کہ ہندوستان کے احمدیوں کا چندہ پندرہ جنوری ۱۹۳۵ء تک وصول ہو جائے.جو ١٦ جنوری کو آئے یا جس کا ۱۵ جنوری سے پہلے پہلے وعدہ نہ کیا جاچکا ہو اسے منظور نہ کریں.پہلے میں نے ایک ماہ کی مدت مقرر کی تھی مگر اب چونکہ لوگ اس مہینہ کی تنخواہیں لے کر خرچ کر چکے ہیں، اس لئے میں اس میعاد کو ۱۵ جنوری تک زیادہ کرتا ہوں.جو رقم ۱۵ جنوری تک آجائے یا جس کا وعدہ اس تاریخ تک آجائے وہی لی جائے.زمیندار دوست جو فصلوں پر چندہ دے سکتے ہیں یا ایسے دوست جو قسط وار روپیہ دینا چاہیں، وہ ۱۵ جنوری تک ادا کرنے سے مستثنیٰ ہوں گے.مگر وعدے ان کی طرف سے بھی -۱۵ جنوری تک آجانے ضروری ہیں.جو رقم یا وعدہ ۱۲ جنوری کو آئے اسے واپس کر دیا جائے.ہندوستان سے باہر کی جماعتوں کیلئے میعاد یکم اپریل تک ہے.جن کی رقم یا وعدہ اس تاریخ تک آئے وہ لیا جائے ، اس کے بعد آنے والا نہیں.اس صورت میں جو لوگ اس میں حصہ لینا چاہتے ہیں، ان کیلئے ضروری ہے کہ اپنے وعدے اس تاریخ کے اندر اندر بھیج دیں.رقم فروری مارچ اپریل میں آسکتی ہے.یا جو دوست بڑی رقوم دس ہیں، تمھیں، چالیس کی ماہوار قسطوں میں ادا کرنا چاہیں یا اس سے زیادہ دینا چاہتے ہوں، انہیں سال کی بھی مدت دی جاسکتی ہے.مگر ایسے لوگوں کے بھی وعدے عرصہ مقررہ کے اندر اندر آنے چاہئیں.اس میعاد کے بعد صرف انہی لوگوں کی رقم یا وعدہ لیا جائے گا جو حلفیہ بیان دیں کہ انہیں وقت پر اطلاع نہیں مل سکی.مثلاً جو ایسے نازک بیمار ہوں کہ جنہیں اطلاع نہ ہو سکے یا دور دراز ملکوں میں ہوں.لیس کارکنوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جماعتوں پر ایسے وقت بھی آتے ہیں کہ وہ امتیاز کرنا چاہتا ہے.اس کا منشاء یہی ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کو ثواب سے محروم رکھا جائے.پس جن کو خدا تعالی پیچھے رکھنا چاہتا ہے انہیں آگے کرنے کا ہمیں کوئی حق نہیں اور ہم کون ہیں جو اس کی راہ میں کھڑے ہوں.ہمارے مد نظر روپیہ نہیں بلکہ یہ ہونا چاہیے کہ خدا کے دین کی شان کس طرح ظاہر ہوتی ہے.اللہ تعالٰی غیرت والا ہے.وہ کسی کے
خطبات محمود ۴۹۵ سال ۱۹۳۴ مال کا محتاج نہیں.یہ مت خیال کرو کہ دین کی فتح اس ساڑھے ستائیس ہزار روپیہ پر ہے اور بعض لوگ اگر اس میں حصہ نہ لیں گے تو یہ رقم کیسے پوری ہوگی.جب اللہ تعالی اس کام کو کرنا چاہتا ہے تو وہ ضرور کردے گا.اگر اللہ تعالیٰ کا یہی منشاء ہے روپیہ پورا نہ ہو تو وہ اس کے بغیر بھی کام کر دے گا.پس رقم کو پورا کرنے کے خیال سے زیادہ زور مت دو.کارکنوں کا کام صرف یہی ہے کہ تحریک دوسروں تک پہنچادیں اور دس پندرہ دن کے بعد پھر یاد دہانی کردیں.اسی طرح جماعتوں کے سیکرٹری بھی احباب تک اس تحریک کو پہنچادیں.یہ کسی کو نہ اجائے کہ اس میں حصہ ضرور لو.جو کہتے ہیں ہمیں توفیق نہیں، انہیں مت کہو کہ حصہ کیونکہ خدا تعالیٰ نہیں چاہتا کہ جو باوجود توفیق کے حصہ نہیں لیتے ان کا حصہ اس پاک تحریک میں شامل ہو.اگر ایسا شخص دوسروں کے زور دینے پر حصہ لے گا تو وہ ہمارے پاک مال کو گندہ کرنے والا ہوگا.پس ہمارے پاک مالوں میں ان کے گندے مال شامل کر کے ان کی برکت کم نہ کرو.میں نے پچھلے ایک خطبہ میں کہا تھا کہ غرباء زیادہ حصہ لے رہے ہیں اور ان کیلئے میں نے جو سہولتیں رکھی ہیں، ان کو استعمال کر رہے ہیں اور غالباً یہ بھی کہا تھا کہ مالی طور پر ان روپیہ سے شاید زیادتی نہ ہو مگر اخلاص کے لحاظ سے ضرور ہوگی.مگر اب معلوم ہوا ہے کہ غرباء شاید مال کو بھی بڑھا دیں گے کیونکہ یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ جب انہوں نے لبیک کہا تھا تو کے ان کے دل کے ذرہ ذرہ سے لبیک کی صدا اٹھ رہی تھی.اس کے بالمقابل بعض لوگ بھی ہیں کہ جو زیادہ حصہ لے سکتے تھے مگر انہوں نے نہیں لیا اور بعض کو بظاہر جتنی توفیق تھی اس سے زیادہ حصہ لے رہے ہیں.جو لوگ میرے مخاطب تھے یعنی آسودہ حال ان میں سے اس وقت تک صرف پانچ چھ نے ہی حصہ لیا ہے.میں نے آسودگی کا جو معیار اپنے دل میں رکھا تھا وہ یہ تھا کہ جو لوگ ڈیڑھ سو یا اس سے زیادہ آمد رکھتے ہیں، وہ آسودہ حال ہیں.ہماری جماعت میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے جو فی الواقع امیر ہوں.متوسط طبقہ زیادہ ہے اور انہی کو ہم امیر کہہ لیتے ہیں مگر ہمارے متوسط طبقہ نے جو قربانیاں کی ہیں وہ اپنی شان میں بہت اہم ہیں.بعض نے تو ان میں سے چار چار ماہ کی آمدنیاں دے دی ہیں اور زیادہ تر حصہ بھی انہی لوگوں نے لیا ہے جو غرباء یا متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور انہوں نے ثابت کردیا ہے کہ گو ان کے وسائل کمزور ہیں مگر دل وسیع ہیں.رسول کریم ﷺ کی پیشگوئی تھی.
خطبات محمود ۴۹۶ سال ۱۹۳۴ء بَدَءَ الْإِسْلَامُ غَرِيبًا وَ سَيَعُودُ غَرِيبات - اسلام غریب ہی شروع ہوا اور آخر زمانہ میں پھر غریب ہو جائے گا.کون ہے جو بچہ سے پیار کرتا ہے مگر اس کا باپ یا اس کی ماں؟ کون ہے جو بھائی سے پیار کرتا ہے مگر اس کا بھائی؟ کون ہے جو غریب الوطن سے ہمدردی کرتا ہے مگر اس کا ہم وطن ان غریبوں نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنی غربت میں بھی غریب اسلام کو نہیں بھولے کیونکہ وہ بھی غریب ہیں اور اسلام بھی غریب اور اس طرح وہ اس کے رشتہ دار ہیں اور اس کی غربت کی حالت کو دیکھنا پسند نہیں کرتے اور اپنے خون سے اس کی کھیتی کو سینچ کر وہ اس کی حالت کو بدلنا چاہتے ہیں- رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ - بعض لوگ مالی لحاظ سے غریب ہوتے ہیں اور بعض دل کے غریب ہوتے ہیں اور دل کے غریب وہ ہوتے ہیں جو کبر محسوس نہ کریں.میں نے بیسیوں تحریکیں اپنی خلافت کے زمانہ میں کی ہیں مگر کئی امراء اور علماء ہماری جماعت کے ایسے ہیں کہ انہوں نے ان میں بہت ہی کم حصہ لیا ہے.اس لئے جو امراء دینی تحریکات میں حصہ لیتے ہیں، ان کو بھی میں غرباء میں ہی شامل کرتا ہوں کیونکہ وہ دل کے غریب ہیں.تحدیث نعمت کے طور پر میں چودھری نصر اللہ خان صاحب مرحوم کی اکثر اولاد بالخصوص چودھری ظفر اللہ خان صاحب کا ذکر کرتا ہوں.میں نے آج تک کوئی تحریک ایسی نہیں کی جس میں انہوں نے حصہ نہ لیا ہو.خواہ وہ تحریک علمی تھی یا جسمانی یا بالی یا سلوک کی خدمت کی انہوں نے فوراً اپنا نام اس میں پیش کیا اور پھر خلوص کے ساتھ اسے نباہا.جب میں نے ریز روفنڈ کی تحریک کی تھی تو کئی لوگوں نے اپنے نام دیئے مگر ان میں سے صرف چودھری ظفر اللہ خان صاحب ہی ہیں، جنہوں نے پوری طرح نباہا اور ہزاروں روپیہ جمع کر کے دیا حالانکہ اس وقت ان کی پوزیشن ایسی نہ تھی جیسی اب ہے کہ کوئی خیال کرے کہ اپنے اثر سے روپیہ جمع کرلیا ہو گا.چودھری نصر اللہ خان صاحب مرحوم گو ۱۹۰۰ء کے بعد داخل سلسلہ ہوئے مگر انہوں نے اخلاص کا بہت نیک نمونہ دکھایا اور وہی نمونہ کم و بیش ان کی اولاد میں بھی ہے اور ان کی اہلیہ میں بھی اخلاص کا وہ نیک نمونہ ہے بلکہ وہ صاحب کشوف بھی ہیں، ان کو ہمیشہ بچے خواب آتے رہتے ہیں.مجھے ان کی اولاد سے اس لئے بھی محبت ہے کہ جب میں نے آواز دی کہ جو لوگ اپنے گزارہ کیلئے کافی روپیہ کما چکے ہوں، وہ اپنا بڑھاپا دین کیلئے وقف کر دیں تو چودھری نصر اللہ خان صاحب مرحوم نے اس پر لبیک کہا اور نہایت اخلاص سے صدر
خطبات محمود سال ۱۹۳۴ء انجمن احمدیہ میں کام کرتے رہے اور وفاداری اور فرمانبرداری سے کام کیا.ان کو چونکہ میرے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ہے، اس لئے مجھے ان کی قدر ہے اور ان کی اولاد نہ صرف اپنے لئے بلکہ اپنے باپ کیلئے بھی مجھے پیاری ہے.اور اب کہ ان کا ذکر آیا ہے میں ان کی اولاد کیلئے دعا کرتا ہوں کہ ان کے دل کا متاع کبھی ضائع نہ ہو.اگر اللہ تعالی انہیں دنیا کی نعمتیں دے تو یہ اس کا فضل ہے لیکن ان کے دل کی غربت ضرور قائم رہے بلکہ بڑھتی رہے.کیونکہ اگر یہ نہ ہو تو دنیوی مال و دولت ایک لعنت ہے.بڑے میرا یہ مطلب نہیں کہ ان کے سوا جماعت میں اور مخلص نہیں ہیں.اور بھی بڑے مخلص ہیں.ایک سیٹھ عبداللہ بھائی ہیں.انہوں نے اتنی مالی قربانیاں کی ہیں کہ وہ پہلے حقیقتاً امیر آدمی تھے مگر اب عملاً غریب ہیں.انہوں نے تبلیغ کا بھی بہت کام کیا ہے.مالی قربانی انہوں نے بالکل ایسی کی ہے جس طرح سیٹھ عبدالرحمن حاجی اللہ رکھا صاحب نے کی تھی.لیکن تبلیغی خدمت ان کی ایسی ہے جس کی مثال موجودہ جماعت میں نہیں ملتی.انہیں تبلیغ کا جنون ہے.ان کے ذریعہ ایسی ایسی جگہوں پر احمدیت پہنچی ہے کہ جہاں اور کوئی نہ پہنچا سکتا.مجھے دو چار دن ہوئے ایک گریجوایٹ رجسٹرار کا ایک ایسے علاقہ سے خط آیا جس کا نام بھی میں نے کبھی نہ سنا تھا.اس نے لکھا کہ میں سکندر آباد آیا تھا وہاں سیٹھ صاحب کے لڑکے یا کوئی رشتہ دار کسی کے ساتھ باتیں کر رہے تھے جو میں نے سنیں.بعد میں ان کو خط لکھا اور انہوں نے مجھے لڑ پچر بھیجا جسے پڑھ کر مجھ پر حق کھل گیا.تو ایسے ایسے مقامات پر ان کے ذریعہ تبلیغ ہے کہ ہم جہاں نہ پہنچ سکتے تھے.وہ تبلیغی لڑ پچر بہت پھیلاتے ہیں اور اس کام میں وہ اپنی مثال آپ ہی ہیں.اور میں سمجھتا ہوں تبلیغ کے میدان میں ایک بھی احمدی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا.وہ جب احمدی ہونے کے قریب تھے تو مجھے ایک دوست نے دعا کیلئے لکھا.اور میں نے رویاء دیکھا کہ ایک مکان ہے جس کے صحن میں ایک تخت ہے جس پر وہ شخص بیٹھا ہے جس کے لئے مجھے دعا کی تحریک کی گئی ہے، اس وقت تک میں نے ابھی سیٹھ صاحب کو نہ دیکھا تھا میں نے دیکھا کہ تجد کا وقت ہے آسمان میں چھلنی کی طرح سوراخ ہیں جن میں سے خدا کا نور چاروں طرف سے اس شخص پر گرتا ہے.میں نے اس خواب کی اطلاع اسی وقت دے دی تھی.اللہ تعالیٰ ان پر اور ان کے خاندان پر خاص فضل فرمائے اور ہمیشہ ان میں دین کی خدمت اور سلسلہ کی اشاعت کا جوش قائم رہے اور ان کے خاندان کے وہ افراد جو
خطبات محمود حصہ سال ۱۹۳۴ء احمدیت میں ابھی تک داخل نہیں، اللہ تعالیٰ انہیں بھی احمدیت میں داخل کرے.ان کے علاوہ طبقہ امراء میں اور لوگ بھی ہیں جو نہایت مخلص اور کچی قربانی کرنے والے ہیں مگر ان دو کا نام میں نے اس لئے لے دیا ہے کہ ایک تنوع اور دوسرے کی مالی اور تبلیغی قربانیاں بے مثال ہیں.اللہ تعالیٰ ان دوسروں کے گھروں کو بھی برکتوں سے بھر دے ان مخلصین کے علاوہ جو لوگ ان سے اثر لیں وہ بھی دوسری اقوام کے امراء سے یقینا بہتر ہیں کیونکہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی شخص خدا تعالیٰ کے نور سے حصہ لے اور اس کی کچھ بھی اصلاح نہ ہو.مگر جب تک حقیقی روح قربانی کی پیدا نہ ہو ، خطرہ کا مقام ہے.قربانی کی روح اور شئے ہے اور قربانی اور شے ہے.انسان کو ابتلاء سے قربانی محفوظ نہیں کرتی بلکہ قربانی کی روح محفوظ کرتی ہے.جس میں وہ روح پیدا نہ ہو گو وہ قربانی میں لے پھر بھی کچے دھاگے کی طرح ہے جس کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہے.جماعت کے مخلص امراء میں سے سیٹھ عبداللہ بھائی کو ایسا درجہ حاصل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس قسم کے چالیس مومنوں کی خواہش کی تھی، وہ ایسے ہی ہیں.ان کا تبلیغی جوش حقیقتاً اس درجہ کا ہے کہ صاف نظر آتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو تبلیغ میں خدا تعالیٰ کے سامنے ذمہ دار سمجھتے ہیں.اور ان کی مالی قربانی اس رنگ کی ہے کہ مجھے ان سے بڑے بڑے مطالبہ میں کوئی جھجک نہیں ہو سکتی اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر ان جیسے چالیس آدمی پیدا ہو جائیں تو بہت بڑا انقلاب پیدا ہو سکتا بہرحال اس وقت اخلاص کی ضرورت ہے اور میں نے سلسلہ کے حالات، خطرات اور ان کا علاج کھول کھول کر بیان کر دیا ہے.اب وہ وقت ہے کہ اگر ہم نے کروٹ نہ بدلی تو ظاہری حالات کے لحاظ سے ہمارا زندہ رہنا مشکل ہے.اس میں شک نہیں کہ خدا تعالی اس سلسلہ کو زندہ رکھنے گا مگر ہم نے صحیح قربانی نہ کی تو خداتعالی ہمیں مٹا کر دوسری قوم کے سپرد یہ کام کرے گا.وہ پہلے سختی کو صاف کرے گا کیونکہ جس تختی پر پہلے لکھا جاچکا ہو اس پر اور نہیں لکھا جاسکتا.اس وقت ہمارے لئے حالات ایسے ہیں جنہیں عام لوگ نہیں سمجھ سکتے.میں نے حد تک انہیں ظاہر کیا ہے اور اگر ہم زندہ رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں اب کروٹ بدلنی اور ایک ہوش میں آنا چاہیے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ہر طرف کفر است جو شاں ہمچو افواج یزید دینِ حق بیمار و بے کس بیچو زین العابدین ہے.
سال ۶۱۹۳۴ خطبات محمود چاہے ۴۹۹ ہیں اور بعینہ یہی حالت آج کل ہو رہی ہے.دشمنوں نے یہ محسوس کرلیا ہے کہ یہ سلسلہ بڑھتا جارہا ہے اور اگر اسے مزید بڑھنے دیا گیا تو کچھ عرصہ بعد ہم اس کی ترقی کو روک نہیں گے اس لئے وہ ہر طرف سے ہم پر حملہ آور ہو رہے ہیں اور ہمیں آج وہی نظارہ پیش ہے جو حضرت امام حسین بنی اللہ کو کربلا میں پیش آیا تھا.ہمارا حسین اس وقت کربلا کے میدان میں ہے اور یزید کا لشکر سامنے پڑا ہے.اس کے ہاتھوں میں کمانیں کھینچی ہوئی ہیں اور تیر حسین کے سینہ کی طرف چھوٹنے والے ہیں.پس جو چاہے کوفہ والوں کی طرح ایک طرف ہو جائے جو آگے آئے اور قربانی کیلئے اپنے آپ کو پیش کرے اور کہے کہ جو تیر سلسلہ کیلئے چھوڑا جائے گا میں اسے خود اپنے سینہ پر کھاؤں گا اور جو ایسا کریں گے وہی برکت والے ہوں گے اور جن کے دلوں میں اخلاص نہیں یا اخلاص کی کمی ہے اللہ تعالیٰ انہیں ظاہر کر دے گا.ہمارا کام صرف یہ ہے کہ اس مقصد کیلئے اپنی جانیں قربان کریں یہ نہیں کہ دوسروں کو مجبور کریں کہ آگے بڑھو.یاد رکھو کہ جو اس جنگ میں مرتا ہے وہ دراصل زندہ ہوتا ہے.پس دوسروں کا فکر نہ کرو بلکہ اپنا فرض ادا کرو.جو قربانی کر سکتا ہے مگر نہیں کرتا وہ کوفہ والوں کی طرح ہے جو اگرچہ جانتے تھے کہ حضرت امام حسین حق پر ہیں مگر ان کی امداد کیلئے میدان میں نہ آئے.جو دشمن ہیں اور نقصان کے درپے خواہ منافقوں سے ہوں خواہ کافروں میں سے وہ یزیدی ہیں اور یزید کا لشکر ہیں.پس جو اس وقت میدان میں آتے ہیں وہ حضرت امام حسین بھی اللہ کے ساتھیوں کی طرح ہیں یہ مت خیال کرو کہ تم تھوڑے ہو اس لئے ہار جاؤ گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ ہر بات دو دفعہ ظاہر کرتا ہے.اور پہلی ناکامی کو دوسری دفعہ کی کامیابی سے دھو دیتا ہے.پہلا آدم جنت سے نکالا گیا اس لئے خدا تعالیٰ نے پھر میرا نام آدم رکھا تاکہ پھر میں اولاد آدم کو جنت میں داخل کروں.پہلے مسیح کو یہودیوں نے صلیب پر لٹکایا تب خدا نے پھر میرا نام مسیح رکھا تا میرے ذریعہ صلیب کو توڑ دے.اسی طرح یاد رکھو کہ پہلا حسین کربلا میں بے گناہ حق کی حمایت کی وجہ سے شہید کیا گیا اور اب دوسرے حسین کے ذریعہ خدا تعالٰی یزید کے لشکر کو شکست دے گا.اس لئے میں تحریک کرنے والوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ صرف اخلاص کو لیں اور روپیہ یا تعداد کی کمی کا خیال نہ کریں.جو لوگ اخلاص کے ساتھ قربانیاں کرتے ہیں صرف وہی اس میں شامل کئے جائیں اور جو لوگ اپنے اندر اخلاص نہیں رکھتے وہ ہمارے ساتھ نہیں چل سکیں گے بلکہ.
خطبات محمود ۵۰۰ سال ۱۹۳۴ء ہمارے لئے بوجھ ہوں گے.یہ ہو نہیں سکتا کہ ہم بچے بھی ہوں اور خون کی ندیوں سے گزرے بغیر کامیاب بھی ہو جائیں کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ بچے کو دیکھ کر کفر جوش میں نہ آئے اور اسے مٹانے اور اس کے حاملوں کو قتل کرنے کے درپے نہ ہو.ہمارا فرض ہے کہ ہم یہ حق ادا کریں.اگر روحانی معنوں میں اپنی جانیں دینی پڑیں تو اس سے دریغ نہ کریں اور اگر جسمانی معنوں میں دشمنوں کے حملوں کا شکار ہونا پڑے تو اس سے دریغ نہ کریں.بہرحال.موت کا قبول کرنا ہمارے لئے ضروری ہے اگر ہم اس کے بغیر کامیاب ہو جائیں تو یہ دنیوی فتح ہوگی.الہی سلسلے بغیر آگ اور خون کی ندیوں میں سے گزرنے کے کامیاب نہیں ہو سکتے.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب آگ دیکھی تھی تو خدا نے اس میں سے پکار کر کہا تھا کہ اني أنا الله اور اس کا یہی مطلب تھا کہ اگر میرے پاس آنا چاہو تو تمہیں آگ میں سے گزرنا ے گا.پس تمہیں آگ میں کودنا ہوگا اور خون کی ندیوں میں سے گزرنا پڑے گا.تب فتح حاصل کر سکو گے اور وہی فتح قیمتی ہے جسے انسان جان دے کر حاصل کرتا ہے.جس طرح کہ ہمارے آقا سیدنا و مولانا حضرت محمد لی اور ان کے نائب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہا اب وقت آگیا ہے کہ اس روحانی اور مذہبی جنگ کی بنیاد رکھی جائے جس سے شیطان کو ہم نے کچلنا ہے اور دشمن سے نڈر ہو کر مقابلہ کیا جائے.اب وقت آگیا ہے کہ مخالفت کو بڑھنے دیا جائے اور دشمن کو حملہ کرنے دیا جائے.یعنی گو اس سے مقابلہ کیا جائے مگر مداہنت کا کوئی رنگ نہ ہو.جھوٹی صلح کے لئے کوئی کوشش نہ کی جائے سوائے ان لوگوں کے جو بچے طور پر ہم سے مل کر کام کرنا چاہیں کسی غیر سے تعلق نہ رکھا جائے.ان صاف دل لوگوں کے ہم خیر خواہ ہوں گے اور انہیں اپنا خیر خواہ سمجھیں گے لیکن اب ہم دوغلی طبیعت والوں سے یا ان سے جو سلسلہ کو حقیر سمجھتے ہیں، کبھی مل کر کام نہیں کریں گے.ہر قوم کا راست باز ہمارا دوست ہو گا مگر زمانہ ساز آدمی خواہ ہماری جماعت میں شامل ہو ہمارا دشمن سمجھا جائے گا.آخر میں میں سابقون کیلئے دعا کرتا ہوں، ان ظاہر و باطن غریبوں کے لئے بھی جن کا دل بھی غریب اور جسم بھی غریب ہے اور ان کیلئے بھی جو ظاہری مالدار نظر آتے ہیں لیکن ان کے دل انکسار اور تذلل اور اطاعت کے جذبات سے لبریز ہیں وہ بھی اپنے آپ کو اسی طرح سلسلہ کا مال سمجھتے ہیں جس طرح غرباء اور لوگوں میں اپنی بڑائی ظاہر نہیں کرتے اور محسوس کرتے ہیں کہ ان کے اموال خدا تعالی کی امانتیں ہیں اور ان کی وجہ سے انہیں غرباء پر کوئی فضیلت
خطبات محمود ۵۰۱ سال ۴۱۹۳۳ حاصل نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنا فضل کرے اور ان کو کامل تقویٰ عطا کرے کہ جو دائمی زندگی کیلئے بطور دوران خون کے ہے کہ جب تک خون چلتا ہے زندگی کی امید رہتی ہے.ہے سابقون کے معنی میرے نزدیک یہ ہی ہیں کہ جس نے سنا اور ہفتہ کے اندر اندر لبیک کہہ دیا رقم دے دی یا وعدہ کر لیا.یا وہ جنہوں نے حکم سنتے ہی دوسری خدمات کیلئے اپنے آپ کو پیش کردیا.کیونکہ یاد رکھو کہ جن نوجوانوں نے تبلیغ کیلئے اپنے نام پیش کئے ہیں، وہ کسی کم نہیں بشرطیکہ وہ اپنے دعوئی کو سچا ثابت کر دکھائیں یا وہ سابقون میں سے ہیں جنہوں نے سنا اور دوسروں کے مشمول کے خیال سے ابھی اطلاع نہیں دی اور اس انتظار میں ہیں کہ دوسروں کی لسٹ کے ساتھ اپنے نام بھجوائیں گے.یا وہ جنہوں نے خیال کیا کہ دوسروں کو بھی تیار کر کے اپنے نام بھجوائیں گے.یا جنہوں نے ارادہ کر لیا مگر کسی روک کی وجہ سے اطلاع نہیں دے سکے.یہ سب سابقون میں سے ہیں کیونکہ سابقیت دل سے تعلق رکھتی ہے نہ کہ ظاہر سے.ہاں جسے جب اطلاع ہو اس کا ہفتہ وہیں سے شروع ہوگا اور سبقت یہی ہے کہ آدمی سنے اور مان لے.رسول کریم ال سے حضرت ابو بکر رضی اللہ نے دریافت کیا تھا کہ کیا آپ نے ایسا ایسا دعویٰ کیا ہے.آپ دلیل دینے لگے تو کہا مجھے دلیل کی حاجت نہیں.صرف یہ فرمائیے کہ دعوی کیا ہے یا نہیں.آپ نے فرمایا ہاں.تو انہوں نے کہا میں ایمان لاتا ہوں اے.رسول کریم انا نے فرمایا ہے کہ جمعہ میں ایک ایسی ساعت آتی ہے کہ اس میں ہر دعا جو کی جائے قبول ہو جاتی ہے ہے.آج رات میں نے تجد میں دعا کی کہ الہی مجھے توفیق دے کہ میں ان سابقون کیلئے دعا کروں اور وہ ساعت مجھے نصیب ہو اور ان کے حق میں میری دعائیں قبول ہوں.گو بعد والے بھی دعاؤں سے حصہ حصہ پائیں گے مگر جس طرح رسول کریم نے محلّقین کو مُقَصِّرِین پر فضیلت دی تھی، سابقون کو ان پر فضیلت ہوگی اور سابق دوہرے اجر پائیں گے اس لئے کہ جو رکتا اور جھجکتا اور پھر اپنے آپ کو پیش کرتا ہے اس سے آواز سنتے ہی لبیک کہنے والے کا درجہ بہر حال زیادہ ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس روحانی جنگ کو اپنی ستی یا تکلیف سے بچنے کے خیال سے پیچھے نہ ڈالیں بلکہ خدا تعالیٰ کے منشاء کے مطابق دلیری اور جرات سے اسے قریب لانے کی کوشش کریں اور پھر اس میں نڈر ہو کر کود جائیں اور آگ اور خون کی ندیوں میں سے
خطبات محمود ۵۰۲ سال ۱۹۳۴ نو جو ہماری قربانیوں کی وجہ سے زمین کے نشیب کو پُر کر رہی ہوں گذر کر اس کے پاس پہنچ جائیں اور اس کے قدموں پر ہاں پاک قدموں پر اپنی محبت کا موتی ڈال دیں تا اس کی محبت کی نگہ ہمیں حاصل ہو اور وہ غریبوں کا والی اپنے غریبوں کو اپنی گود میں اٹھالے.نِعْمَ الْمَوْلى.نِعْمَ الْوَكِيلُ - الفضل ۱۳- دسمبر ۱۹۳۴ء) له بخاری کتاب العیدین باب كلام الامام والناس فى خطبة العيد واذا سئل الامام عن شيء وهو يخطب میں ابو بردة صحابی کا قول ہے اليوم يوم اكل وشرب سے بخاری کتاب المناقب باب سؤال المشركين ان يريهم النبى آية...الخ سے حضرت زید بن دثنه (مرتب) اسدالغابة جلد ٢ حالات حضرت زید بن دثنه طبری جلد ۳ صفحه ۱۴۱ دار الفکر بیروت ۱۹۸۷ء ده بخاری کتاب الایمان باب انما الاعمال بالنية بخاری کتاب الرقاق باب التواضع البقرة: شاه ابن ماجه کتاب الفتن باب بدء الاسلام غريبًا الله البداية والنهاية لأبي الفداء الحافظ ابن كثير جلد ۳ صفحه ۲۷٬۲۶ مطبوعه بیروت ۱۹۶۶ء (مفهومًا) بخارى كتاب الجمعة باب الساعة التي في يوم الجمعة
خطبات محمود ۵۰۳ جماعت احمدیہ کی موجودہ مشکلات و مصائب اور رمضان المبارک (فرموده ۱۴- دسمبر ۱۹۳۴ء) سال ۱۹۳۴ء تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے حسب ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: شَهُرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَتٍ مِّنَ الْهُدَى وَ الْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَ مَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أَخَرَيْرِيْدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ ولتكبروا الله عَلَى مَا هَدْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ.وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِى لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُ ونَه اور پھر فرمایا :- ہم اس وقت رمضان کے مہینے میں داخل ہو رہے ہیں.یہ پہلا جمعہ ہے جو اس مہینہ میں آیا ہے اور ان دنوں کی یاد دلاتا ہے.وہ مبارک دن وہ دنیا کی سعادت کی ابتداء کے دن وہ اللہ تعالٰی کی رحمت اور اس کی برکت کے دروازے کھولنے والے دن جب دنیا کی گھناؤنی شکل، اس کے بدصورت چہرے اور اس کے اذیت پہنچانے والے اعمال سے تنگ آکر محمد مصطفی غار حرا میں جاکر اور دنیا سے منہ موڑ کر اور اپنے عزیز و اقارب کو چھوڑ کر صرف اپنے خدا کی یاد میں مصروف رہا کرتے تھے اور خیال کرتے تھے کہ دنیا سے اس طرح
خطبات محمود ۵۰۴ سال ۱۹۳۴ء بھاگ کر وہ اپنے فرض کو ادا کریں گے جسے ادا کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا کیا ہے.انہی تنہائی کی گھڑیوں میں، انہی جدائی کے اوقات میں اور انسی غورو فکر کی ساعات میں رمضان کا مہینہ آپ پر آگیا.اور جہاں تک معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے چوبیسویں رمضان کو وہ جو دنیا کو چھوڑ کر علیحدگی میں چلا گیا تھا اسے اس کے پیدا کرنے والے اس کی تربیت کرنے والے اس کو تعلیم دینے والے اور اس سے محبت کرنے والے خدا نے حکم دیا کہ جاؤ اور جاکر دنیا کو ہدایت کا رستہ دکھاؤ اور بتایا کہ تم مجھے تنہائی میں اور غار حرا میں ڈھونڈتے ہو مگر میں تمہیں مکہ والوں کی گالیوں اور ان کے شور وشغب میں ملوں گا.جاؤ اور اپنی قوم کو پیغام پہنچا دو کہ میں نے کو ادنیٰ حالت میں پیدا کر کے اور پھر ترقی دے کر اس لئے دنیا میں نہیں بھیجا کہ تم کھاؤ پیو اور مرجاؤ اور کوئی سوال تم سے نہ کیا جائے.وہ لوگ جو اپنی زندگی کا مقصد ہی عیش و طرب سمجھتے تھے، جن کے نزدیک دنیا طلبی ہی خدا طلبی کا نام تھا جو ہر ایک عیش و آرام کو اپنا حق سمجھتے تھے ان کو جاکر یہ کہنا کہ اپنے اوقات نمازیں پڑھنے اور دعائیں کرنے میں صرف کرو اپنے اموال بجائے شراب میں اڑانے اور جوئے میں ہارنے کے خدا کے رستے میں اور غریبوں کی پرورش میں خرچ کرو بظاہر وہی تھی جیسے بھینس کے سامنے بین بجانا.کون امید کر سکتا تھا کہ اس آواز کے مقابلہ میں ان کے قلوب سے بھی ایک آواز اٹھے گی اس سُریلی تان کے مقابلہ میں ان کے قلوب کوئی شعور محسوس کریں گے، خود محمد رسول الله الے بھی حیران رہ گئے جب آپ کو یہ حکم دیا گیا تو آپ نے جبرائیل کو حیرت سے دیکھ کر کہا کہ مَا أَنَا بِقَارِي سے میں تو پڑھنا نہیں جانتا.یعنی اس قسم کا پیغام مجھے عجیب معلوم ہوتا ہے.کیا یہ الفاظ میرے منہ سے مکہ والوں کے سامنے زیب دیں گے کیا میری قوم ان کو قبول کرے گی اور سنے گی مگر اللہ تعالی کی طرف سے آپ کو متواتر حکم دیا گیا کہ جاؤ اور پڑھو.جاؤ اور پڑھو.جاؤ اور پڑھو.تب آپ نے اس آواز پر اور اس ارشاد کی تعمیل میں تنہائی کو چھوڑا اور جلوت اختیار کی مگر وہ کیسی مجلس تھی؟ وہ ایسی مجلس تھی کہ جس میں ایک دوست بیٹھ کر دوسرے دوست کے سامنے اپنے شکوے بیان کرتا ہے، وہ ایسی مجلس نہ تھی جس میں دوست اپنے دوست کے خوش کرنے والے حالات سنتا اور لطف اٹھاتا ہے، وہ ایسی مجلس نہ تھی جس میں انسان اپنی ذہنی کوفت اور تکان کو دور کرتا ہے
خطبات محمود ۵۰۵ سال ۱۹۳۴ء وہ قصوں کہانیوں والی مجلس نہ تھی، شعرو شاعری کی مجلس نہ تھی، وہ ایسی مجلس نہ تھی جس میں مباحثات اور مناظرات ہوتے ہیں بلکہ وہ مجلس ایسی تھی جس میں ایک طرف متواتر اور پیم اخلاص کا اظہار ہوتا تھا تو دوسری طرف متواتر اور پیم گالیاں دشنام، ڈراوے اور دھمکیاں ہوتی تھیں، وہ ایسی مجلس تھی جس میں ایک دفعہ جانے کے بعد دوسرے دن جانے کی خواہش باقی نہیں رہتی، وہ ایسی گالیاں، ایسے ڈراوے اور ایسی دھمکیاں ہوتی تھیں کہ ایک طرف ان کے دینے والے سمجھتے تھے کہ اگر اس شخص میں کوئی حق باقی ہے تو کل اس کے مونہہ سے ایسی بات ہرگز نہ نکلے گی وہ خوش ہوتے تھے کہ آج ہم نے محمد ( ) کی زبان بند کردی اور دوسری طرف جب خدا کا سورج چڑھتا تھا تو خدا کا یہ عاشق خدا کا پیغام مکہ والوں کو پہنچانے کیلئے نکل کھڑا ہوتا.پھر تمام دن وہی گالیاں ، وہی دھمکیاں اور وہی ڈراوے ہوتے تھے اور اسی میں شام ہو جاتی مگر جب رات کا پردہ حائل ہوتا تو وہ سمجھتے کہ شاید آج یہ خاموش ہو گیا ہو گا مگر وہ جس کے کانوں میں خدا کی آواز گونج رہی تھی وہ مکہ والوں سے کیسے خاموش ہو جاتا.اگر تو اس کی رات سوتے گذرتی تو وہ بیشک اس پیغام کو بھول جاتا مگر جب اس کے سونے کی حالت جاگنے کی ہی ہوتی تو وہ کیسے بھول سکتا تھا.وہ سبق جو دہرایا نہ جائے بیشک بھول سکتا ہے مگر جب آپ کی یہ حالت تھی کہ جونہی سرہانے پر سر رکھا وہی اقراء کی آوز آنی شروع ہو جاتی تو آپ کس طرح اس پیغام کو بھول جاتے.اس موقع پر بارش کے چھینٹے پڑنے شروع ہو گئے.اور لوگوں میں کچھ حرکت پیدا ہوئی.اس پر حضور نے فرمایا گھبراؤ نہیں یہ بارش تمہاری مہینوں کی دعاؤں کا نتیجہ ہے.حدیثوں میں آتا ہے کہ جب تازہ بارش ہوتی تو رسول کریم باہر نکل کر منہ کھول دیتے اور جب چھینٹا منہ میں گرتا تو فرماتے کہ یہ میرے رب کا تازہ انعام ہے) سے پس محمد مصطفی ا و و و رمضان میں ہی یہ آواز آئی اور رمضان میں ہی آپ نے غار حرا سے باہر نکل کر لوگوں کو یہ تعلیم سنانی شروع کی.قرآن کریم میں آتا ہے.کہ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ یعنی رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن اترا.اور دوسری جگہ ہے.کہ إِنَّا أَنْزَلْتُهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ.وَمَا اَدْرُكَ مَالَيْلَةُ الْقَدْرِه - یعنی قرآن کریم لیلۃ القدر میں اُتارا گیا ہے.رمضان رمض سے نکلا ہے جس کے معنی عربی میں جلن اور سوزش کے ہیں خواہ دھوپ کی ہو، خواہ بیماری کی.اور اس لئے رمضان کا مطلب یہ ہوا کہ ایسا موسم جس میں سختی کے اوقات اور ایام ہوں.ادھر فرمایا..
خطبات محمود 0.4 سال ۱۹۳۴ء کرتی إِنَّا أَنْزَلْتُهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ہم نے اسے رات کو اتارا اور رات تاریکی اور مصیبت پر دلالت ہے اور اس لئے ان دونوں آیتوں میں یہ بتایا گیا ہے کہ الہام کا نزول تکالیف اور مصائب کے ایام میں ہوا کرتا ہے جب تک کوئی قوم مصائب اور شدائد سے دوچار نہیں ہوتی جب تک ان کے دن راتیں نہیں بن جاتے، جب تک وہ بھوک اور پیاس کی شدت تکلیف نہیں اٹھاتی، جب تک جسم اندر اور باہر سے مصیبت نہیں اٹھاتا اس وقت تک وہ خدا کا کلام نازل نہیں ہو سکتا.اور اس ماہ کے انتخاب میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ بتایا ہے کہ اگر اپنے اوپر الہام الہی کا دروازہ کھلا رکھنا چاہو تو ضروری ہے کہ تکالیف اور مصائب سے گزرو اس کے بغیر الہام نہیں مل سکتا.پس رمضان کلام الہی کو یاد کرانے کا مہینہ ہے اسی لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اس میں قرآن کریم کی تلاوت زیادہ کرنی چاہیئے تھے اور اسی لئے ہم یہاں اس مہینہ میں درس کا انتظام کرتے ہیں اور علاوہ درس کے بھی احباب کو چاہیے کہ اس مہینہ میں زیادہ تلاوت کیا کریں اور معانی پر غور کیا کریں تا ان کے اندر قربانی کی و روح پیدا ہو جس کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی.یاد رکھو کہ پہلے تمہارے دن راتیں بنیں گے پھر خدا تعالی کا کلام نازل ہوگا.یہ مہینہ بتاتا ہے کہ جو چاہتا ہے کہ دنیا کو فتح کرے اس کیلئے ضروری ہے کہ غار حرا کی علیحدگیوں میں جائے.دنیا چھوڑے بغیر نہیں مل سکتی.پہلے اس سے علیحدگی اختیار کرنی ضروری ہوتی ہے اور پھر یہ قبضہ میں آتی ہے وہ قبضہ جسے الہی قبضہ و تصرف ہیں اور جہاں تک اس قبضہ کا تعلق ہے دنیا اس کے پاؤں پر گرتی ہے جو اس سے دور ہے.ایک دنیوی قبضہ ہوتا ہے جیسا وجال کا ہے اس کے ملنے کا بیشک یہی طریق ہے کہ اپنے آپ کو دنیا کیلئے وقف کر دیا جائے لیکن جو خدا کا ہو کر اس پر قبضہ کرنا چاہے وہ اسی صورت میں کر سکے گا جب اسے چھوڑ دے گا.ابو جہل نے دنیا کیلئے کسب کر کے اسے حاصل کیا مگر محمد رسول اللہ ﷺ نے اسے چھوڑ دیا اور پھر یہ آپ کو مل بھی گئی بلکہ ابو جہل سے زیادہ مل گئی ابو جمل زیادہ سے زیادہ ایک رئیس تھا مگر آپ اپنی زندگی میں ہی سارے عرب کے بادشاہ ہو گئے اور آج ساری دنیا کے بادشاہ ہیں.تو جو دنیا رسول کو ملی وہ ابو جہل کو کہاں حاصل تھی.مگر ابو جہل کو جو ملا دنیا کمانے سے ملا لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کو جو ملا وہ بھاگتا دنیا چھوڑنے سے ملا.پس روحانی جماعتوں کو دنیا دنیا چھوڑ دینے سے ملتی ہے اور دنیاوی لوگوں کو دنیا کمانے
خطبات محمود ۵۰۷.سے ملتی ہے.پس رمضان ہمیں توجہ دلاتا ہے کہ اگر مقصد میں کامیاب ہونا چاہتے ہو تو ضروری ہے کہ شدائد اور مصائب کو قبول کرو راتوں کی تاریکیاں قبول کرو اور ان چیزوں سے گھبراؤ ہرگز نہیں یہ کامیابی کا گر ہے اور اسی رستے سے تم بھی خدا تک پہنچ سکتے ہو.پس میں احباب کو توجہ دلاتا ہوں کہ جو مشکلات اس وقت ہمارے سامنے ہیں اور جن کے متعلق میں گذشتہ خطبات میں تفصیل سے بیان کرچکا ہوں ان سے گھبرائیں نہیں اور اس سلسلہ میں جو قربانیاں بھی کرنی پڑیں وہ کریں اور اس میں کوئی گھبراہٹ محسوس نہ کریں کیونکہ یہ ترقی کیلئے ضروری ہیں.دشمن زیادہ سے زیادہ تمہیں جو نقصان پہنچا سکتا ہے وہ یہی ہے کہ ماردے مگر وہ موت جو خدا کی راہ میں تمہیں نصیب ہو بہترین زندگی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ جو لوگ خدا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مُردہ مت کہو کیونکہ وہ زندہ ہیں ہے دراصل ان مشکلات سے نیک وبد میں امتیاز ہو جاتا ہے ست لوگ ہوشیار ہو جاتے ہیں.جب میں ابھی خطبہ بیان کر رہا تھا تو چاروں طرف سے لبیک لبیک اور ہم تیار ہیں کی آوازیں آرہی تھیں مگر جب میں نے تفاصیل کو بیان کیا تو بعض جماعتیں بالکل خاموش ہو گئیں اور پہلی لبیک کو بھول گئیں اور بعض نے اخلاص کا ایسا نظارہ دکھایا کہ میرے ذہن میں بھی نہ آسکتا تھا اور اس طرح ایک امتیاز ہو گیا.سب سے زیادہ قربانی کی مثال اور اعلیٰ نمونہ قادیان کی جماعت نے دکھایا ہے.دشمن اعتراض کرتے ہیں کہ یہاں منافق جمع ہیں.ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ منافق ایسی شاندار قربانیاں نہیں کرسکتے.یہاں کی احمدی آبادی سات ہزار کے قریب ہے.پنجاب میں احمدیوں کی آبادی سرکاری مردم شماری کے رو سے ۱۹۳۱ء میں ۵۶ ہزار تھی جو بہت کم ہے.لیکن اگر ہم اسی کو درست سمجھ کر آج ۷۰ ہزار بھی سمجھ لیں تو گویا قادیان کی جماعت سارے پنجاب کا دسواں حصہ ہے لیکن ساڑھے ستائیس ہزار روپیہ کی تحریکات میں قادیان کی جماعت کی طرف سے پانچ ہزار روپیہ نقد اور وعدوں کی صورت میں آیا ہے اور ایسے ایسے لوگوں نے اس میں حصہ لیا ہے کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.اگرچہ مجھے افسوس ہے کہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو زیادہ حصہ لے سکتے تھے.مگر کم لیا ہے مگر ایک خاصی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے اپنی حیثیت اور طاقت سے زیادہ حصہ لیا ہے.بعض لوگ تو ایسے ہیں جنہوں نے سارا اندوختہ دے دیا ہے، بعض ایسے ہیں جن کی چار چار پانچ پانچ روپیہ کی آمدنیاں ہیں اور انہوں نے کمیٹیاں ڈال کر اس میں حصہ لیا.یا کوئی جائداد فروخت کر کے جو کچھ جمع کیا
خطبات محمود ۵۰۸ سال ۱۹۳۴ نو.ہوا تھا وہ سب کا سب دے دیا ہے.باہر کی جماعتوں میں سے بعض کے جواب آئے ہیں اور بعض کے ابھی نہیں آئے اور نہ ہی آسکتے تھے مگر بظاہر حالات معلوم ہوتا ہے کہ قادیان کی جماعت بڑھ جائے گی.مجھے خوشی ہے کہ قادیان کی جماعت نے حسب دستور اس موقع پر بھی اعلیٰ درجہ کا نمونہ دکھایا ہے اور جو لوگ یہاں کے رہنے والوں پر اعتراض کیا کرتے ہیں ان یہ کافی جواب ہے کہ جب خدا کے دین کیلئے قربانی کرنے کا سوال پیش ہوتا ہے تو یہی سب سے زیادہ اعلیٰ نمونہ دکھاتے ہیں.اس میں شک نہیں کہ باہر سے تکالیف کو دیکھ کر یہاں بعض منافق بھی آجاتے ہیں.ان کے علاوہ یہاں چونکہ احمدیہ جماعت کی کثرت کی وجہ سے کچھ عرصہ پہلے بعض قسم کے مظالم سے لوگ بچے رہتے تھے ، اس وجہ سے بعض گھروں کی لوگ.نسلوں میں خرابی پیدا ہو کر بعض جوانوں میں نفاق پیدا ہو گیا تھا مگر یہ لوگ بہت کم تعداد میں ہیں.ان کے نمایاں نظر آنے کی وجہ یہ ہے کہ جیسے سفید رنگ کے کپڑے پر سیاہی کا ایک داغ بھی نمایاں دکھائی دیتا ہے مگر کالی چیز پر اگر توے کی ساری سیاہی کل دو تو بھی معلوم نہ ہوگی اسی طرح یہاں کے منافق بالکل اسی طرح نظر آتے ہیں جس طرح سفید کپڑے پر سیاہی کا دھبہ وہ اسی لئے نمایاں ہیں کہ یہاں سفیدی زیادہ ہے.باہر کی جماعتوں کو یہاں کی جماعت پر ایک فضیلت ہے کہ وہ ہر وقت دکھوں میں رہتی ہیں اور اس وجہ سے وہاں منافق نہیں ٹھہر سکتے اور باہر کے دوست جب قادیان آتے ہیں تو یہاں کے منافق انہیں نمایاں نظر آتے ہیں جو ہر وقت اعتراض کرتے رہتے اور باہر سے آنے والوں کو غلط فہمیوں میں مبتلاء کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں.باہر کی جماعتوں میں سے بھی بعض نے اخلاص کا عمدہ نمونہ دکھایا ہے اور بعض نے تو اتنی ہوشیاری سے کام لیا ہے کہ حیرانی ہوتی ہے.مثلاً لاہور چھاؤنی کی جماعت کا وعدہ قادیان کی جماعت کے وعدہ کے ساتھ ہی پہنچ گیا تھا.کوئی دوست یہاں سے خطبہ سن کر گیا اور اس سے سن کر دوست فوراً اکٹھے ہوئے اور تحریک میں شامل ہو گئے اور جس وقت مجھے قادیان والوں کی رپورٹ ملی، اس وقت لاہور چھاؤنی کی مل گئی.مگر بعض جماعتیں لاہور چھاؤنی کے پہلو میں اور اس کے رستہ میں ایسی ہیں جنہوں نے تاحال توجہ نہیں کی.یہ نستی یا مستی کا سوال ہے، خیبر کے جلد یا بدیر پہنچنے کا نہیں.سرسری اندازہ یہ ہے کہ چودہ دن کے اندر اندر پندرہ ہزار کے قریب وعدے اور نقد روپیہ آچکا ہے جس میں سے چار ہزار کے قریب نقد ہے.اور ابھی جماعت کا بہت سا حصہ خصوصاً وہ.
خطبات محمود ۵۰۹ سال ۱۹۳۴ء پر لوگ جن کی آمدنیاں زیادہ ہیں.خاموش ہے یا اس انتظار میں ہے کہ جماعت کے ساتھ وعدہ بھجوائے گا.لیکن دوسری طرف متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے یا غرباء میں سے بعض ایسے ہیں کہ جن کے پاس پیسہ نہیں تھا اور انہوں نے چیزیں پیش کردیں اور کہا کہ ہمارا اثاثہ لے لیا جائے.اگرچہ ہم نے لیا نہیں کیونکہ میرے اصل مخاطب امراء تھے مگر اس سے اتنا پتہ تو لگ سکتا ہے کہ جماعت میں ایسے مخلصین بھی ہیں جو اپنی ہر چیز قربان کر دینے کیلئے تیار ہیں.اسی سلسلہ میں مجھے یہ بھی شکایت پہنچی ہے کہ بعض جماعتوں کے عہدیدار لوگوں کو یہ کہہ کر خاموش کر رہے ہیں کہ جلدی نہ کرو، پہلے غور کر لو گویا ان کے غور کرنے کا زمانہ ابھی باقی ہے.ڈیڑھ دو مہینہ سے میں خطبات پڑھ رہا ہوں اور تمام حالات وضاحت سے پیش کرچکا ہوں لیکن ابھی ان کے غور کرنے کا موقع ہی نہیں آیا.یہ مشورہ کوئی نیک مشورہ نہیں یا سادگی پر دلالت کرتا ہے یا شاید بعض خود قربانی سے ڈرتے ہوں اور دوسروں کو بھی اس سے روکنا چاہتے ہوں کہ ان کی بستی اور غفلت پر پردہ پڑا رہے.کیا رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں جہاد کے موقع پر پہلے غور کیا جاتا تھا اور یہ کہا جاتا کہ جلدی نہ کرو، غور کرلو.قرآن کریم میں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرت ہے یعنی دوسروں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اور جلدی کوشش کرو.مگر یہ کہتے ہیں کہ گھر جاؤ ، غور کرلو.حالانکہ غور کیلئے پہلے ہی کافی عرصہ مل چکا ہے.ایسے عہدیداروں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کی اس تلقین سے جو لوگ سبقت کے ثواب سے محروم رہیں گے ان کا عذاب بھی انہی کی گردنوں پر ہوگا.لیکن میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی شخص ثواب سے محروم رہتا ہے تو اپنے کسی فعل کے نتیجہ میں رہتا ہر ہے.یہ نظام کا کوئی سوال نہیں تھا کہ عمدہ داروں کے ماتحت رہ کر ہی کرنا ضروری تھا.شخص اپنے طور پر بھی رقم بھیج سکتا یا اپنا نام لکھوا سکتا تھا.اسے کس نے روکا تھا کہ علیحدہ طور حصہ لیتا اور جو لوگ کسی ایسی وجہ سے ثواب سے محروم ہیں ان کی اپنی بھی غلطی ہے.جماعتی لحاظ سے بعض مقامات سے مجھے اطلاع موصول ہوئی ہے کہ جماعتیں اپنی لسٹیں اکٹھی بھجوائیں گی گویا دیر اس وجہ سے ہے.ان جماعتوں پر یا ان کے افراد پر کوئی الزام نہیں.مگر ان میں سے بھی بعض مخلصین ایسے ہیں جنہوں نے اس دیر کو بھی برداشت نہیں کیا اور رقمیں بھیج دی ہیں اور جماعت کا انتظار بھی نہیں کیا.یہ گو معمولی باتیں ہیں مگر روحانی دنیا میں یہی چیزیں ثواب بڑھا دینے کا موجب ہو جایا کرتی ہیں.ایسی معمولی باتیں بظاہر نسی والی ہوتی ہیں
خطبات محمود ۵۱۰ سال ۱۹۳۴ء مگر روحانی دنیا میں وہ بہت قیمتی ہوتی ہیں.رسول کریم ا یہ ایک دفعہ تقریر فرما رہے تھے بعض لوگ کھڑے تھے آپ نے فرمایا بیٹھ جاؤ.حضرت عبداللہ بن مسعود گلی میں جلسہ میں شامل ہونے کیلئے آرہے تھے آپ نے آواز سنی تو وہیں بیٹھ گئے اور گھسٹ گھسٹ کر چلنا شروع کر دیا ہے.اب بظاہر یہ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ ایک شخص اکڑوں بیٹھا ہوا چلتا جارہا ہے.ایک شخص نے انہیں اس حالت میں دیکھا اور پوچھا کیا کر رہے ہو.آپ نے کہا میں نے رسول کریم ﷺ کا ارشاد بیٹھ جانے کے متعلق سنا اور اس خیال سے کہ کیا معلوم وہاں پہنچنے تک جان ہی نکل جائے اور اس کی تعمیل کا موقع ہی نہ ملے، یہیں بیٹھ گیا.اب جس شخص نے انہیں اس حالت میں دیکھا وہ تو دل میں ہنستا ہو گا کہ یہ شخص کتنا نادان ہے مگر اسے کیا معلوم کہ یہی حرکت کس قدر خداتعالی کے حضور مقبول تھی.کئی باتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں دوسرے جلد بازی سمجھتے ہیں.اور ان کے کرنے والوں کے متعلق بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بڑے خیر خواہ بنے پھرتے ہیں مگر یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ بڑا نکتہ نواز ہے اور وہ ضرور ثواب حاصل کرلیتے ہیں.میں نے کسی گذشتہ خطبہ میں بیان کیا تھا کہ رسول کریم ﷺ نے ایک صحابی کے سپرد ایک مہمان کیا کہ اسے لے جا کر کھانا کھلاؤ.آپ اسے ساتھ لے گئے اور بیوی سے پوچھا کہ کھاتا ہے.اس نے کہا صرف بچوں کیلئے ہی ہے اس سے زیادہ نہیں.انہوں نے کہا کہ یہ ایک تو مہمان ہے اور پھر رسول کریم اللہ کا بھیجا ہوا.بیوی نے کہا کہ پھر اس طرح کرتے ہیں کہ میں بچوں کو یونہی تھپک کر سلادیتی ہوں اس کے بعد دستر خوان بچھا کر کھانا رکھ دوں گی تم کہنا کہ روشنی ذرا اونچی کردو اور میں اونچی کرنے کے بہانہ سے گل کردوں گی اور پھر معذرت کروں گی کہ آگ موجود نہیں اور روشنی کرنے کا کوئی اور سامان بھی نہیں ہمسائیوں کو اس وقت تکلیف دینا مناسب نہیں اس لئے اگر مہمان اندھیرے میں ہی کھانا کھالے تو اس کی مہربانی ہوگی.چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا بچوں کو سلادیا اور بتنی اونچی کرتے ہوئے دیا بجھا دیا مہمان سے معذرت کر دی اور اس نے کہا کوئی حرج نہیں، میں اندھیرے میں ہی کھالوں گا اور پھر خود مہمان کے ساتھ بیٹھ کر یونی منہ مارتے رہے.اس وقت تک پردہ کا حکم نازل نہ ہوا تھا اس لئے اس خیال سے کہ مہمان ہتک محسوس نہ کرے میاں بیوی دونوں اس کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھ گئے اور اس طرح مچاکے مارنے شروع کئے کہ گویا کھانے میں بڑا لطف آرہا ہے.اللہ تعالی کو ان کی یہ م جاننے کی آواز
خطبات محمود ۵۱۱ سال ۱۹۳۴ء حرکت ایسی پسند آئی کہ رسول کریم کو وحی کے ذریعہ اس سے آگاہ کیا اور جب وہ صحابی اگلے روز حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ہنس کر فرمایا کہ کل رات تو تم نے خوب لطیفہ کیا.وہ صحابی گھبرائے کہ شاید میرے متعلق کوئی شکایت کسی نے کردی ہے مگر آپ " نے فرمایا کہ تمہاری اس بات کو دیکھ کر اللہ تعالٰی بھی ہنسا اور میں بھی ہنستا ہوں : اللہ تعالی کی نفسی کے یہ معنے نہیں کہ اس کے دانت اور ہونٹ ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی خوش ہوا.اس نے اس نکتہ کو نوازا اور اس کے عوض ان کے نام پر نیکیاں لکھیں.تو بعض دفعہ چھوٹی باتیں بھی خدا کو پیاری لگتی ہیں.سبقت کرنے والوں کی بعض باتیں بظاہر بیوقوفی کی ہوتی ہیں مگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ بہت مقبول ہوتی ہیں.ہاں اگر ان کے اندر ریاء ہو تو پھر وہ لعنت بن کر گلے کا طوق بن جاتی ہیں.غرض یہ دن جو آئے ہیں، یہ اللہ تعالی کے فضل سے رحمت کا موجب ہیں اور اگر ان سے فائدہ اٹھایا جائے تو عظیم الشان تغیر ہم اپنے اندر پیدا کر سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی بعض ایسی باتیں ظاہر ہو رہی ہیں کہ اللہ تعالی انہیں ہمارے لئے بہت برکت کا موجب بنائے گا.ضرورت صرف استقلال کی ہے اُسی استقلال کی جو اس رمضان والے نے دکھایا.اسے ہر روز دق کیا جاتا اور سمجھ لیا جاتا کہ اب اس کی زبان ہم نے بند کر دی مگر دوسرے روز محمد رسول اللہ ا پھر وہی بات پیش کر دیتے.پس ضرورت ہے کہ دنیا ہم کو بے شرم کے بے حیاء کے ، پاگل کے لوگ کہیں کہ یہ بہت بے شرم ہیں ہم نے ان کو سو دفعہ منع کیا ہے ، کہ ہمارے سامنے یہ باتیں نہ کیا کرو مگر باز نہیں آتے، یہ پاگل ہو گئے ہیں اور ان میں عقل کی کمی ہے.جب یہ بات پیدا ہوگی تو پھر اللہ تعالیٰ کا کلام نازل ہو گا.قرآن کریم کے بعد کسی نئے کلام کی تو ضرورت نہیں اور جو نیا اترے بھی وہ اس کے تابع ہوتا ہے اس لئے کلام الہی کے نزول سے میرا مطلب یہ ہے کہ یہی کلام دوبارہ انسان کے دل پر اُترتا ہے جو اس غار حرا والے کی اتباع کرے.اس پر ایسے ایسے قرآن کریم کے معارف کھولے جاتے ہیں کہ وہ خود حیران رہ جاتا ہے کہ یہ قرآن تو پہلے بھی موجود تھا مگر اب تو یہ بالکل نیا معلوم ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے قبل دنیا میں قرآن تو موجود تھا مگر کس کام آتا تھا.ایک مصری عالم نے ایک مضمون لکھا تھا کہ ہمارے ملک ، قرآن کس کام آتا ہے لوگ اسے اچھے اچھے غلافوں میں لپیٹ کر طاقچوں میں رکھ چھوڑتے ہیں اور کبھی گرد بھی نہیں جھاڑتے یا کسی نے
خطبات محمود ۵۱۲ سال.بہت کیا تو کسی وقت اٹھایا اور بوسہ لے کر پھر وہیں رکھ دیا یا جھوٹ کو سچ کرنے کیلئے عدالت میں اس پر ہاتھ رکھ کر سنجیدگی سے قسم کھالی یا جب کوئی مرجائے اور قرآن شریف سے فائدہ اٹھانے کا وقت اس کیلئے گزر جائے تو کسی کو پیسے دے کر اس کی قبر پر پڑھوا دیا.ہمارے اپنے ملک میں بھی لوگ آٹھ آٹھ آنے اور چار چار آنے لے کر قرآن کریم کی جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں اور اس حد تک اس سے ناواقف ہیں کہ کسی جج نے کسی مسلمان زمیندار سے پوچھا کہ کیا قرآن اٹھاسکتے ہو.اس نے کہا حضور اگر بوجھ ایک من تک ہوا تو اُٹھالوں گا لیکن چونکہ بوڑھا ہو گیا ہوں، اس لئے اس سے زیادہ نہ اٹھا سکوں گا.گویا قرآن اٹھانے کیلئے جسمانی طاقت کو دیکھتے ہیں کہ کتنا بوجھ اٹھا سکتی ہے.یہ نہیں دیکھا جاتا کہ جھوٹی قسم کا بوجھ اٹھانے کی طاقت روح میں ہے یا نہیں.تو قرآن کی حقیقت باقی نہ تھی.اس کے مضامین کو اس قدر بگاڑا جاچکا تھا کہ وہ بجائے قابل فخر ہونے کے قابل نفرت ہو گئے تھے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس غار حرا والے کے نقش قدم پر چل کر قربانی کی اس کا کیا نتیجہ نکلا.وہی قرآن آپ کے ہاتھ میں تھا مگر وہ اژدھا بن گیا، ان حشرات الارض کیلئے جن کے وجود سے دنیا کو پاک کرنا ضروری تھا، وہ تلوار بن گیا ان دجالی لوگوں کیلئے جن کا زندہ رہنا دنیا کی تباہی کا موجب تھا.ہم قرآن کو جہاں سے بھی کھولتے ہیں اسے نور بینات اور فرقان سے پُر دیکھتے ہیں.لوگ پوچھتے ہیں کہ قرآن میں ہے کیا؟ ہم اپنے نفس سے پوچھتے ہیں کہ کونسی آیت قرآن کریم کی ایسی ہے کہ جس کے مطالب و معانی کبھی ختم بھی ہو سکتے ہیں.انہیں قرآن میں کوئی چیز نظر نہیں آتی اور ہمیں اس کے خزانوں کی انتہاء دکھائی نہیں دیتی.ان کیلئے وہ ایک سیاہ تو ا ہے جسے چھوتے ہی ہاتھ منہ کالا ہو جاتا ہے مگر ہمارے لئے وہ سورج سے بھی زیادہ چمکتا ہوا نور ہے.ان کیلئے وہ ایک زہر ہے، ایمان کو ہلاک کر دینے والا.ان میں سے جو لوگ اسے پڑھتے ہیں، وہ زیادہ گمراہ زیادہ دھوکا باز زیادہ فریبی اور زیادہ حریص ہوتے ہیں مگر ہمارے لئے یہ تریاق ہے، تمام روحانی بیماریوں کیلئے.یہ فرق کیوں ہے؟ اس لئے کہ ہمارے آقا ہمارے ہادی اور ہمارے امام نے محمد رسول اللہ اللہ کی اطاعت کے ذریعہ آپ سے ہی قرآن سیکھا پھر وہ علم آپ سے ہمیں پہنچا اور اس وجہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرآن ہمارے لئے نیا نازل ہوا ہے.پس ان مصائب میں قرآن حاصل ہوتا ہے اور ہم اگر ان سے فائدہ اٹھائیں تو قرآن لوہے کا گول ظرف جس پر روٹی پکاتے ہیں
خطبات محمود سواه سال ۱۹۳۴ء ہو حاصل کر سکتے ہیں اور ظاہر ہے کہ وہ مصائب جن کے بدلہ میں اللہ تعالی کا تازہ کلام حاصل : ان سے زیادہ قیمتی چیز اور کیا ہو سکتی ہے.اسے تو اگر جان دے کر بھی لیا جائے تو سستی ہے.پس رمضان ہمیں ہدایت کرتا ہے کہ ہمیں دنیا کیلئے قربانی کرنی چاہیے اور مشکلات و مصائب سے گھبرانا اور ڈرنا ہرگز نہیں چاہئے.خدا کیلئے اپنے اوپر موت وارد کرلینے اور تاریکی قبول کرلینے کے سوا خدا کو ہم نہیں پاسکتے اس لئے ہمارے دوست اس ظاہری رمضان سے بھی زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں تا جو روحانی رمضان ہم پر آیا ہوا ہے اس سے بھی زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکے.اللہ تعالٰی قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ہم نے رمضان اس لئے نازل کیا ہے تا لوگوں کو سہولت پہنچے اور وہ تنگی سے بچ جائیں لیکن ہم دیکھتے ہیں بظاہر ان دنوں میں زیادہ تنگی ہوتی ہے مگر اللہ تعالی فرماتا ہے.یہ بدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْر هم برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ تم ایمان لاؤ اور پھر تنگیوں میں بسر کرو اس لئے ہم نے روزے فرض کئے تا تمہاری تنگیاں دور ہوں.یہ ایسا نکتہ ہے جو مومن کو مومن بناتا ہے اور یہ ہے کہ روزہ میں بھوکا رہنا یا دین کیلئے قربانی کرنا انسان کیلئے کسی نقصان کا موجب نہیں بلکہ سراسر فائدہ کا باعث ہے.جو یہ خیال کرتا ہے کہ رمضان میں انسان بھوکا رہتا ہے، وہ قرآن کی تکذیب کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم بھوکے تھے ، ہم نے رمضان مقرر کیا تا تم روٹی کھاؤ.پس معلوم ہوا کہ روٹی یہی ہے جو خدا تعالیٰ کھلاتا ہے اور اصل زندگی اسی سے ہے.اس کے سوا جو روٹی ہے وہ روٹی نہیں، پتھر ہیں جو کھانے والے کیلئے ہلاکت کا موجب ہیں.مومن کا فرض ہے کہ جو لقمہ اس کے منہ میں جائے، اس کے متعلق پہلے دیکھے کہ وہ کس کیلئے ہے.اگر تو وہ خدا کیلئے ہے تو وہی روٹی ہے اور اگر نفس کیلئے ہے تو وہ روٹی نہیں.جو کپڑا خدا کیلئے پہنا جائے وہی لباس ہے جو نفس کیلئے پہنتا ہے وہ ننگا ہے.دیکھو کیسے لطیف پیرانیہ میں بتایا ہے کہ جب تک خدا کیلئے تکالیف اور مصائب برداشت نہ کرو تم سہولت نہیں اٹھا سکتے.اس سے ان لوگوں کے خیال کا بھی ابطال ہو جاتا ہے جو بقول حضرت مسیح موعود علیہ السلام رمضان کو موٹے ہونے کا ذریعہ بنالیتے ہیں.حضور فرمایا کرتے تھے کہ بعض لوگوں کیلئے تو رمضان ایسا ہی ہوتا ہے جیسے گھوڑے کیلئے خوید وہ ان دنوں میں خوب گھی، مٹھائیاں اور مرغن اغذیہ کھاتے ہیں اور اسی طرح موٹے ہو کر نکلتے ہیں جس طرح خوید کے بعد گھوڑا -.چیز بھی رمضان کی برکت کو کم کرنے والی ہے.ہماری جماعت کے دوستوں نے عام اقرار کیا
خطبات محمود ۵۱۴ سال ۱۹۳۴ء ہے کہ غذا کو سادہ کردیں گے اور صرف ایک سالن پر گزارہ کریں گے.اس میں شک نہیں کہ اس پر عمل میں نے ہر ایک کی مرضی پر چھوڑا ہے اور یہ تحریک اختیاری ہے مگر میں سمجھتا ہوں یہ اختیار صرف نیکی کو زیادہ کرنے کیلئے ہے ورنہ جو احمدی اسے اختیار نہیں کرتا وہ نیکی سے محروم رہتا ہے اس لئے دوستوں کو رمضان کے مہینہ میں خاص طور پر اس اقرار کے متعلق احتیاط برتنی چاہیئے.افطار میں تنوع اور سحری میں تکلفات نہیں کرنے چاہئیں اور یہ نہیں خیال کرنا چاہیئے کہ سارا دن بھوکے رہے ہیں اب پرخوری کرلیں.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں صحابہ کرام افطار وغیرہ کیلئے کوئی تکلفات نہ کرتے تھے کوئی کھجور سے کوئی نمک سے، بعض پانی سے سے اور بعض روٹی سے افطار کر لیے تھے اور ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم بھی اسی طریق کو پھر سے جاری کریں.جبکہ دین کیلئے خدا تعالیٰ وہ زمانہ پھر لایا ہے اور اس کیلئے طرح طرح کے مصائب ہیں (بیشک ذاتی طور پر ہمارے لئے کوئی مصیبت نہیں لیکن جب دین کیلئے مصیبت ہے تو وہ ہمارے لئے ہے) اور خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم وہی دن یاد کریں جب قرآن نازل ہوا تھا.تو ہمارے لئے بھی وہی طریق اختیار کرنا ضروری ہے جو ان دنوں میں تھا.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ - یعنی اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ گنتی پوری کرو.مفسرین نے اس کے یہ معنی کئے ہیں اور میں خود بھی کبھی کبھی یہ معنی کیا کرتا ہوں اور وہ بھی صحیح ہیں کہ اللہ تعالی نے رمضان اس لئے مقرر کر دیا کہ تا دن پورے ہو جائیں.اگر یونہی حکم دے دیتا کہ روزے رکھو تو کوئی دس رکھ لیتا، کوئی ہیں، کوئی کم کوئی زیادہ اس لئے اللہ تعالی نے ایک مہینہ مقرر کر دیا کہ تا پوری ہو جائے.ظاہر میں اس کے یہ معنی بھی ہیں مگر یہ بھی اس کا مطلب ہے کہ اصل زندگی انسان کی وہی ہے جو نیکی میں گزرے جو دنیا کیلئے عمر کا حصہ گزرے وہ باطل ہے اور اس لحاظ سے اس کے یہ معنی ہیں کہ ہم نے روزے اس لئے رکھے ہیں کہ تا تم اپنی عمر پوری کرلو.جو لوگ دنیا میں ہی مصروف رہتے ہیں وہ گویا زندہ ہوتے ہی نہیں.وہ اس دنیا میں ہی مرگئے اور مَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ اَعْمٰی نے جو اس دنیا میں اندھا ہے وہ اگلے جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا اسی طرح روحانیت سے اور لوگوں کو قرآن کریم میں مردہ قرار دیا گیا ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے روزے مقرر کئے ہیں تا تم دنیا میں اپنی مقررہ عمر بسر کرلو.چونکہ بنی نوع انسان کیلئے کھانا پینا لازمی ہے، اس لئے سارا سال تو روزے
خطبات محمود ۵۱۵ ۱۹۳۴ء رکھے نہ جاسکتے تھے.اللہ تعالٰی نے اس اصل کے مطابق کہ ایک نیکی کا ثواب کم سے کم دس ملتا ہے ایک ماہ کے روزے مقرر کر دیئے اور اس طرح رمضان سارے سال کے روزوں کا قائمقام ہو گیا اور جس نے اس میں روزے رکھ لئے، اس نے گویا سارے سال کے روزے رکھ لئے اور اس طرح اس کی زندگی واقعی زندگی ہو گئی.پھر فرمایا وَلِتُكَبِرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدُكُمْ یہ دن اس لئے ہیں کہ تا اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر اس کی تکبیر کرو.یہ نہیں کہ شکوہ کرو کہ ہمیں بھوکا رکھا بلکہ یہ سمجھو کہ بڑا احسان کیا کہ روزہ جیسی نعمت ہمیں عطا کی.یہاں مومن کا نقطہ نگاہ واضح کیا گیا ہے کہ اسے قربانی کا جو موقع ملے وہ اسے اللہ تعالیٰ کا فضل سمجھتا ہے اور جس قوم کا یہ نقطہ نگاہ ہو جائے پھر اسے کوئی تباہ نہیں کر سکتا اور وہ ضرور کامیاب ہو کر رہتی ہے.ایسی قوم حقیقی معنوں میں زندہ قوم ہو جاتی جب ایک شخص کے دل میں یہ خیال ہو کہ مجھ پر جو دینی ذمہ داریاں ہیں وہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہیں تو وہ اس کی بڑائی کرے گا اور جو خدا کی بڑائی کرے، خدا اس کی بڑائی کرتا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالٰی نے ہمیں حکم دیا ہے کہ تمہیں جو کوئی تحفہ دے، تم اسے اس سے بہتر واپس کرو اور جب ہمیں یہ حکم دیا تو کیونکر ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی خود ایسا نہ کرے.انسان اس کی خدمت میں تحفہ پیش کرے اور وہ اس سے بہتر ا سے نہ دے.پس جو خدا کی بڑائی کرتا ہے خدا ضرور اس کی بڑائی کرتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ تکبیر صرف منہ سے نہ ہو جیسے احراری کرتے ہیں.وہ بھی اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہیں مگر دراصل وہ اللہ اکبر نہیں بلکہ اللہ اصغر کہتے ہیں کیونکہ ان کی کوششیں خدا کا نام اونچا کرنے کیلئے نہیں بلکہ نچا کرنے کیلئے ہوتی ہیں.وہ پورا زور لگارہے ہوتے ہیں کہ دین ذلیل اور بدنام ہو.وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اسلام ایسا مذہب ہے جس کے پیرو اوباش اور آوارہ لوگ ہی ہوتے ہیں جو دوسروں کو گالیاں دیتے اور پتھر مارتے ہیں.پس اللہ تعالی ایسے نعروں سے خوش نہیں ہو سکتا.جس تکبیر سے وہ خوش ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ گالیاں کھاؤ، ماریں کھاؤ پتھر کھاؤ اور پھر اللہ تعالی کی تکبیر کرو کہ اس نے ہمیں یہ مواقع عطا کئے ہیں.مجھ حقیقی تکبیر یہی ہے کہ جتنا زیادہ ظلم ہو، اتنا ہی زیادہ انسان اللہ تعالی کی طرف مجھکے کہ پر اس کے کتنے احسان ہو رہے ہیں.جب اس پر مصیبت نازل ہو وہ اللہ تعالی کی تکبیر کرے اور اس کی بڑائی بیان کرے.ایسے شخص کی تکبیر کے بدلہ میں اللہ تعالٰی اس کو بڑھاتا
خطبات محمود ۵۱۶ سال ۱۹۳۴ اور اس کی بڑائی کرتا ہے ورنہ منہ کی تکبیریں کسی کام نہیں آسکتیں.پھر فرمایا وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ- یہ رمضان ہم نے اس لئے اُتارا ہے کہ تم شکر گزار بنو.یعنی تکبیر کے بعد شکر کرو کہ خدا نے اپنی تکبیر کی توفیق دی اور پھر اس بات کا شکر کرو کہ خدا نے اپنے شکر کی توفیق دی اور پھر اس شکر کی توفیق ملنے پر شکر کرو اور اس طرح اللہ تعالی کے شکر کا یہ ایسا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا کہ انسان ہر وقت اسی کے دروازہ پر گرا رہے گا اور اس غلام کی طرح ہو جائے گا جو کسی صورت میں اپنے آقا کو نہیں چھوڑ سکتا.اور یہی وہ بندے ہیں جن کے متعلق فرمایا- وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَنِى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ.اور جس کے اندر یہ حالت پیدا نہیں ہوتی، وہ خدا کا بندہ نہیں شیطان کا بندہ ہے.لیکن جو بندے ایسے ہوں کہ ابتلاء آنے اور تکلیف نازل ہونے پر خوش ہوں اور ان کی مثال لقمان کی سی ہو جائے جن کے متعلق آتا ہے کہ ان کے آقا کے پاس بے موسم کا خربوزہ آیا.چونکہ آقا کو آپ سے بہت محبت تھی اس نے کاٹ کر آپ کو ایک قاش دی اور آپ نے مزے سے کھائی.اس نے ایک اور دی اور وہ بھی آپ نے اس طریق سے کھائی کہ گویا بہت مزیدار ہے.اس پر اس نے خود بھی ایک قاش منہ میں ڈالی تو وہ سخت کڑوی تھی.اس نے کہا کہ آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں کہ یہ کڑوی ہے اور حیرت سے کہا کہ تم پر میں نے اتنا بڑا ظلم کیا اور تم نے بتایا تک نہیں کہ یہ سخت کڑوی ہے.آپ نے کہا کہ میں نے آپ کے ہاتھ سے اس قدر میٹھی قاشیں کھائی ہیں اور اگر ایک دو کڑوی کھانے پر منہ بناتا تو مجھ سے زیادہ بے حیا کون ہوتا.یہی سچے مومن کی علامت ہے.اسے جب ٹھوکر لگتی ہے، جب قربانی کرنی پڑتی ہے، لوگ تو سمجھتے ہیں کہ اس پر مصیبت آئی ہے مگر وہ سمجھتا ہے کہ مجھ پر میرے رب کا احسان ہوا ہے.کتے کو دیکھو، مالک ناراض ہو کر ٹھوکریں مارتا ہے مگر وہ پھر بھی اس کے بوٹ چاہتا ہے تو کیا وفادار انسان کے اندر کتے جتنی وفا بھی نہیں ہونی چاہیئے.یہی وفاداری ہے جو اگر انسان کے اندر پیدا ہو جائے تو وہ خدا کا بندہ بن جاتا ہے.غلام کو دیکھو اس کا آقا خواہ کتنا اسے دھتکارے ، وہ اس کے مکان سے باہر نہیں جا سکتا.آج کل غلام تو نہیں ہوتے مگر بعض زمینداروں کے گھروں میں اس کی مثال ملتی ہے.وہ خاوند بعض اوقات ناراض ہو کر بیوی سے کہہ دیتا ہے کہ نکل جا میرے گھر سے مگر کیا نکل جاتی ہے ؟ نہیں بلکہ اگر وہ نکلنے بھی لگے تو خاوند خود ہی چمٹ جائے کہ کہاں جاتی ہو.
خطبات محمود ۵۱۷ سال ۱۹۳۴ء میرا یہ مطلب تو نہیں تھا.اسی طرح مومن پر مصائب اور دکھ آتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ دیکھتا ہے کہ میرے اس بندہ کو مجھ سے کتنی محبت ہے اور جب وہ بندہ اپنے آپ کو غلام سمجھتا اور عمل سے ثابت کردیتا ہے کہ اب میں خدا کا در چھوڑ کر کہیں نہ جاؤں گا اور اس امتحان میں پاس ہو جاتا ہے تب اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے دروازے اس پر کھلتے ہیں اور اللہ تعالی اس بندے کے متعلق فرماتا ہے انّي قَرِيب جس کے معنی سوائے اس کے اور کیا ہیں کہ خدا تعالیٰ ہر وقت اس کے ساتھ رہے اور جب کوئی بندہ اس حد تک پہنچے تو سمجھ لے کہ اس نے خدا کو پالیا.اللہ تعالیٰ نے اِنّى قَریب میں بتایا ہے کہ بندہ تو معذور ہے کہ مجھ تک پہنچ سکے، اس لئے میں اس کے پاس آجاتا ہوں اور جب بھی وہ مجھے پکارے میں اس کی دعا کو قبول کرتا ہوں.ادھر اس کی آواز نکلتی ہے اور ادھر قبول کی جاتی ہے.اس کے بعد فرمایا فَلْيَسْتَجِيْبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِی یعنی ان کو بھی چاہیے کہ میری باتوں کو زیادہ سے زیادہ قبول کریں اور کیسے بھی ابتلاء ان پر آئیں شک میں نہ پڑیں کہ شاید ہم تباہ ہونے لگے.اپنے پر یقین رکھیں کہ وہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا بلکہ ان ابتلاؤں کے نتیجہ میں ہمیں اور ترقی بخشے گا.پھر فرمایا.لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ ابھی تک تو مجھ کو ان تک آنا پڑتا ہے مگر جب وہ یہ مقام حاصل کرلیں گے تو پھر ان کے اندر یہ طاقت پیدا ہو جائے گی کہ وہ خود مجھ تک آسکیں گے.پہلے انی قریب کہہ کر بتایا تھا کہ میں اس کے پاس آتا ہوں مگر یر شُدُونَ کہہ کر بتایا کہ بندہ میں ترقی کرتے کرتے ایک قسم کی الوہیت پیدا ہو جاتی ہے.پہلے اس کی مثال ایسی وتی ہے جیسے نابینا آدمی کے پاس اس کا دوست بیٹھا رہے مگر پھر یہ مقام حاصل ہو جاتا ہے کہ جیسے بینا کے سامنے اس کا محبوب بیٹھا ہو.پس یہ دن برکت کے ہیں ان سے پورا پورا فائدہ نہ صرف ظاہری بلکہ روحانی رمضان بھی اپنے اوپر وارد کرو اور قربانی کا جو موقع ملے اسے اللہ تعالیٰ کا فضل سمجھو تب تم عبادی میں داخل ہو سکو گے.دیکھو خان بہادری کا خطاب حاصل کرنے کیلئے لوگ لاکھ لاکھ دو دولاکھ روپیہ خرچ کر دیتے ہیں حالانکہ خان بہادر اگر بادشاہ کے دروازے میں بھی گھنے لگے تو پولیس پکڑ کر جیل میں ٹھونس دے کہ یہ بدنیتی سے داخل ہو رہا ہے.مگر خدا کیلئے انسان جو قربانی کرتا ہے اس کے بدلہ میں پہلے تو خدا اس کے پاس آتا ہے مگر جب وہ ترقی کرتا جائے تو خود بھی اس کے پاس پہنچنے کے قابل ہو جاتا ہے اور اس کی مثال ایسی ہو جاتی ہے کہ جیسے پہلے بچہ گہوارہ میں پڑا اٹھاؤ
خطبات محمود ۵۱۸ سال ۱۹۳۴ء ہوا جب روتا ہے تو ماں دوڑ کر اس کے پاس پہنچ جاتی ہے لیکن بچہ جب ذرا بڑا ہو جائے اور اس کی ماں کسی کام میں لگی ہو تو وہ خود دوڑ کر اس کے پاس جا پہنچتا ہے.جب انسان ابتدائی حالت میں قربانی کرتا ہے تو وہ کمزور ہوتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا انی قریب.میں اس کے پاس پہنچ جاتا ہوں مگر جب سختیوں اور مصیبتوں کے ذریعہ وہ ترقی کرتا ہے تو اس کے اندر ایسی طاقت پیدا ہو جاتی ہے کہ خود خدا تک پہنچ سکتا ہے.گہوارہ میں پڑے ہوئے بچہ کو تو کبھی اس کی ماں جھڑک بھی دیتی ہے کہ کام نہیں کرنے دیتا اور اس کے رونے کی پرواہ نہیں کرتی مگر جب و جب وہ خود چلنے پھرنے کے قابل ہو جائے تو خود اس کے پاس جا پہنچتا ہے اور وہ خواہ چولہے کے پاس ہو، اسے جاچٹتا ہے اور لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ کا یہی مطلب ہے کہ انسان ترقی کرتے کرتے خداتعالی تک پہنچ جاتا ہے.اس کے بعد میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جلسہ کے دن قریب ہیں.خطبہ کے پہلے حصہ کے بعد مجھے اب کچھ زیادہ اس کے متعلق کہنے کی ضرورت نہیں اس لئے مختصراً یہ ہدایت کرتا ہوں کہ جو لوگ اپنے مکان دے سکیں، وہ مکان دیں، جو اپنے آپ کو خدمت کیلئے پیش کر سکیں اپنے آپ کو پیش کریں اس بوجھ کو اٹھانے کیلئے ہر طرح تیار رہیں اور ہر تکلیف جو اس سلسلہ میں پہنچے، اسے بخوشی برداشت کریں اور جو کام بھی کرنا پڑے خوشی اور بشاشت سے کریں.وَلِتُكَبِّرُوا الله کے ارشاد کے ماتحت اللہ تعالی کی تکبیر کریں کہ اس نے اس کی توفیق عطا فرمائی اور پھر اس پر اس کا شکریہ ادا کریں کہ اس نے اس نکتہ کو سمجھنے کی توفیق دی.وقت زیادہ ہو گیا ہے اس لئے میں زیادہ بیان نہیں کر سکتا.مگر باہر کے دوستوں کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ دشمن نے یہاں آکر یہ بتانا چاہا ہے کہ وہ قادیان میں اپنی شوکت دکھانا چاہتا ہے اس لئے انہیں بھی چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں یہاں آئیں اور دشمن کو بتادیں کہ ہم گیدڑ بھبکیوں سے ڈرنے والے نہیں ہیں اور مرکز کی طرف زیادہ سے زیادہ کشش رکھتے ہیں.زیادہ تعداد میں آنے سے میرا یہ مطلب نہیں کہ عورتوں اور بچوں کو زیادہ تعداد میں لائیں.جو لوگ اپنے بیوی بچوں کو لانے کا ارادہ کر چکے ہیں وہ ان کو بھی لائیں مگر کوشش یہ کی جائے کہ مرد زیادہ سے زیادہ آئیں اور ساتھ غیر احمدیوں کو بھی لائیں.میرا مطلب یہ ہے کہ میرے اس خطبہ کی تحریک کے نتیجہ میں عورتوں اور بچوں کو نہ لائیں بلکہ مردوں کو لانے کی کوشش کریں لیکن میں عورتوں کو جو ہمیشہ آتی ہیں.یا جو پہلے.ارادہ کر چکی ہیں لانے سے منع بھی نہیں کرتا.
خطبات محمود ۵۱۹ سال ۱۹۳۴ء غرض دوستوں کو چاہیے کہ جلسہ کے موقع پر کثرت کے ساتھ قادیان میں آکر یہ ثابت کردیں کہ مومن کو خدا تعالی سے جتنا دور کرنے کی کوشش کی جائے، اتنا ہی وہ زیادہ اس کی طرف راغب ہوتا ہے.عربی میں کہتے ہیں الْإِنْسَانُ حَرِيصٌ عَلَى مَا مُنِعَ انسان کو جس چیز سے منع کیا جائے اس کی طرف اس کی رغبت بڑھتی ہے.پس جب دنیا کے متعلق انسان کا یہ خاصہ ہے تو جب خدا تعالیٰ سے مومن کو روکنے کی کوشش کی جائے تو اس کے اشتیاق میں کس قدر اضافہ ہونا چاہیئے.پس دشمن کو اپنے عمل سے بتادو کہ جتنا زیادہ ہمیں قادیان آنے سے روکا جائے اتنا ہی زیادہ ہم آئیں گے اور سر کے بل آئیں گے اور کہ ہم اس کی دھمکیوں سے نہیں ڈرتے اور اس مقام پر ہر حالت میں پہنچ جائیں گے جسے خدا نے برکت دی ہے.(الفضل ۳۰- دسمبر ۱۹۳۴ء) البقرة: ١٨٧١٨٦ ه بخاری باب كيف كان بدء الوحي إلى رسول الله کے مسلم كتاب صلوة الاستسقاء باب الدعاء في الاستسقاء (مفوما) القدر : ٣٢ البقرة: ۱۵۵ البقرة:١٤٩ شه ابوداؤد كتاب الصلوة باب الامام يكلم الرجل في خطبته بخارى كتاب التفسير تفسير سورة الحشر باب قوله ويؤثرون على انفسهم بنی اسراءیل ۷۳
خطبات محمود ۵۲۰ رمضان قومی ترقی کیلئے ضروری چیز ہے (فرموده ۲۱- دسمبر ۱۹۳۴ء) سال ۱۹۳۴ تشہیر ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے حسب ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:- يَا يُّهَا الَّذِينَ امَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ اور پھر فرمایا:- روزے ایک ایسی ضروری چیز ہیں کہ کوئی مذہب دنیا کا ایسا نہیں جس میں ان پر زور نہ دیا گیا ہو گو روزوں کی تعداد میں فرق ہو اور ہے، گو روزہ رکھنے کے طریق میں فرق ہو اور ہے مگر بہرحال روزه کسی نہ کسی صورت میں ہر مذہب میں موجود ہے.یہودیوں میں بھی روزے ہیں ، عیسائیوں میں بھی ہیں، زرتشتیوں میں بھی ہیں اور ہندوؤں میں بھی ہیں اور اب تو ایک نئی قسم کا روزہ نکل آیا ہے جو کانگرس والے رکھتے ہیں.یعنی کسی سے جھگڑا ہوا تو کھانا کھانا چھوڑ دیا.بہرحال یہ معلوم ہوتا ہے کہ روزہ ایک ایسا روحانی ذریعہ ہے کہ اس کی اہمیت کا کوئی انکار نہیں کر سکتا.پس وہ چیز جس کی اہمیت کا کسی کو بھی انکار نہیں، اس کی اہمیت کا انکار بھلا وہ قوم کس طرح کر سکتی ہے جو اللہ تعالی کے تازہ کلام کی حامل ہو.ہر مومن جب ایمان لاتا ہے اور جب اپنے رب سے تعلق پیدا کرتا ہے تو گویا زبان سے یہ اقرار کرتا ہے کہ وہ اب ایسے نیک کام کرے گا جو دنیا پہلے نہیں کرتی تھی.ورنہ جو نیکیاں دنیا پہلے ہی کر رہی تھی، ان کے کرنے
خطبات محمود ۵۲۱ سال ۱۹۳۴ء کیلئے اس کے آگے آنے کی ضرورت ہی کیا تھی.رسول کریم ﷺ پر غار حرا میں جب پہلی وحی نازل ہوئی تو اس کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے نیز اپنی ذمہ داریوں کے احساس کی وجہ سے اور ان کے خطرات کو محسوس کرتے ہوئے آپ اپنی وفادار بیوی حضرت خدیجہ اللہ کے پاس مشورہ کرنے گئے اس وقت حضرت خدیجہ اللہ نے آپ سے یہی کہا کہ اللہ تعالٰی نے جب یہ ذمہ داری آپ پر ڈالی ہے تو ضرور اس کے بجالانے کی توفیق بھی عطا فرمائے گا.اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو الہام ہوتے ہیں وہ یا تو انعامی ہوتے ہیں یا امتحانی کبھی تو اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر اس کا امتحان لینے کیلئے الہام نازل کرتا ہے تا اس کے اندر جو شر ہو وہ ظاہر ہو جائے اور کبھی الہام اس لئے نازل کرتا ہے کہ اپنے بندے کو اونچا کرے.حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے کہا کہ اللہ تعالی آپ کو ضائع نہیں کرے گا.كَلا والله لا يُخْزِيكَ الله ابدا سے یعنی اللہ تعالی آپ کو ہرگز ہرگز رُسوا نہیں کرے گا.اگر آپ کا یہ خیال ہو کہ یہ الہام امتحانی ہے، تو میں اسے مان نہیں سکتی میں چونکہ آپ کی ذات سے پوری طرح آگاہ ہوں، اس لئے میں خدا کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہرگز رسوا نہیں کرے گا.اور ایسا نہ ہونے کی بناء آپ نے جن اخلاق پر بتائی ان میں سے ایک یہ ہے کہ تَكْسِبُ الْمَعْدُومَ = یعنی دنیا سے جو نیکیاں معدوم ہو چکی ہیں، وہ آپ سے ظاہر ہو رہی ہیں.نیا سلسلہ قائم کرنے کی غرض یہی ہو سکتی ہے کہ کوئی ایسی چیز جو پہلے موجود نہیں، اب اس کے ذریعہ قائم کی جائے لیکن اگر وہ پہلے ہی موجود ہو، تو اتنی مصیبتیں اور اتنی تکلیفیں اٹھانے کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے.اور جس جماعت کا یہ دعوئی ہو کہ وہ معدوم اخلاق قائم کرنے کیلئے قائم کی گئی ہے، وہ ان نیکیوں کا جو اس سے پہلے موجود تھیں کیا انکار کر سکتی ہے.اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے خدا تعالیٰ نے فرمایا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ کہ روزے ایسی نیکی ہے جو تم سے پہلے لوگوں پر بھی فرض کی گئی تھی اور وہ بھی اسے بجالاتے رہے ہیں.پس روزے کوئی نئی نیکی نہیں جو تمہارے ذریعہ سے قائم کی جارہی ہے.بعض نئی نیکیاں تمہارے ذریعہ سے بھی قائم کی جائیں گی اور وہی تمہارا اصل مقصد ہیں مگر روزے کوئی نئی نیکی نہیں.روزے تو دنیا میں سب رکھتے ہیں حتی کہ کافر بھی رکھتے ہیں پس تم کو ان سے بہتر طریق پر روزے رکھنے چاہئیں نہ یہ کہ اس میں تمہاری طرف سے کسی قسم کی کمزوری
خطبات محمود ۵۲۲ سال ۱۹۳۳ء ظاہر ہو.پھر فرمایا لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ.یاد رکھو یہ مصیبت نہیں.اگر کوئی دکھ کی چیز ہو تو انسان کہہ سکتا ہے کہ میں دکھ میں کیوں پڑوں مگر فرمایا روزے تمہارے لئے تقویٰ کا باعث ہیں اور بظاہر یہ ہلاکت کا ذریعہ معلوم ہوتے ہیں کیونکہ انسان فاقہ کرتا ہے، جاگتا ہے، بے وقت کھاتا پیتا ہے جس سے معدہ خراب ہو جاتا ہے، پھر ساتھ ہی اس کے یہ احکام ہیں کہ صدقہ و خیرات زیادہ کرو غرباء کی پرورش کا زیادہ خیال رکھو گویا ایک طرف جسمانی اور دوسری طرف مالی نقصان ہے.رمضان میں انسان اپنے مال سے آپ فائدہ نہیں اٹھا سکتا کیونکہ روزہ سے ہوتا.ہے لیکن دوسروں پر خرچ کرتا ہے.ان دنوں وہ ایک طرح اپنے مال کا متولی بن جاتا ہے اپنے لئے صرف قوت لایموت مہیا کرتا ہے اور دوسروں کو فائدہ پہنچاتا ہے.پھر فرمایا الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْکین ہے.یعنی جس میں طاقت ہو وہ غریبوں کو کھانا کھلائے.بظاہر ب سب تباہی کے سلمان ہیں لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ.یہ تمہاری ترقی کا ذریعہ ہے.نجات اُخروی کا باعث نہیں بتایا بلکہ تتقون فرمایا ہے یعنی تمہارے دینی اور دنیوی دونوں قسم کے فوائد اور کامیابیاں اس میں ہیں.اب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کون سے فوائد ہیں جو روزے سے حاصل ہوتے ہیں.ایسے فوائد بیسیوں نہیں مگر میں ان سب کو اس وقت گنا نہیں سکتا اور اس وقت صرف ایک روحانی فائدہ کا ذکر کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ روزہ سے انسان اللہ تعالیٰ سے مشابہت اختیار کرتا ہے.خدا تعالی کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ نیند سے بری ہے انسان ایسا تو نہیں کرتا مگر اپنی نیند کے ایک حصہ کو روزوں میں خدا کیلئے قربان ضرور کرتا ہے.سحری کھانے کیلئے اٹھتا ہے، تہجد پڑھتا ہے، عورتیں جو روزہ نہ بھی رکھیں وہ سحری کے انتظام کیلئے جاگتی ہیں، کچھ وقت دعاؤں میں اور کچھ نمازوں میں جاگنا پڑتا ہے اور اس طرح رات کا بہت کم حصہ سونے کیلئے باقی رہ جاتا ہے اور کام کرنے والوں کیلئے تو دو تین ہی گھنٹے نیند کیلئے باقی رہ جاتے ہیں.اس طرح انسان کو اللہ تعالیٰ سے ایک مشابہت پیدا ہو جاتی ہے.پھر اللہ تعالٰی کھانے پینے سے پاک ہے انسان کھانا پینا بالکل تو نہیں چھوڑ سکتا مگر پھر بھی رمضان میں اللہ تعالیٰ سے وہ ایک قسم کی مشابہت ضرور پیدا کرلیتا ہے کیونکہ وہ کچھ عرصہ کھانا نہیں کھاتا.پھر جس طرح اللہ تعالی سے خیر ہی خیر ظاہر ہوتا ہے، اسی طرح انسان کو بھی روزوں میں خاص طور پر نیکیاں کرنے کا حکم ہے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے جو شخص غیبت، چغلی، بدگوئی وغیرہ بُری باتوں سے پر ہیز نہیں کرتا اس کا روزہ نہیں ہوتا ہے.گویا مومن بھی کوشش کرتا..
خطبات محمود ۵۲۳ سال ہے کہ اس سے خیر ہی خیر ظاہر ہو.اور وہ غیبت، چغلی، لڑائی جھگڑے سے بچتا رہے.اس طرح اس حد تک خداتعالی سے مشابہت پیدا کر لیتا ہے جس حد تک ہو سکتی ہے اور یہ ایک ظاہر بات ہے کہ ہر چیز اپنی مثل کی طرف دوڑتی ہے.فارسی میں مشہور ہے.کند ہم جنس باہم جنس پرواز - حضرت محی الدین ابن عربی نے لکھا ہے کہ میں ایک دفعہ ایک ضروری کام کہیں جارہا تھا کہ ایک کوے اور ایک کبوتر کو اکٹھے بیٹھے دیکھا.میں حیران ہوا کہ ان کا آپس میں کیا جوڑ ہو سکتا ہے.اگرچہ مجھے ضروری کام تھا مگر اسے کسی اور کے سپرد کردیا اور خود یہ معلوم کرنے کیلئے وہیں بیٹھ گیا، ہر شخص اسے نہیں سمجھ سکتا مگر یہ ہے صحیح جو کچھ انہوں نے لکھا وہ لکھتے ہیں میں نے اس کام کو سورۃ فاتحہ کے سپرد کر دیا اور خود وہیں بیٹھا رہا جب وہ دونوں اُڑے تو میں نے دیکھا کہ دونوں لنگڑے تھے.اور یہی وجہ ہے کہ وہ دونوں مل کر بیٹھے تھے.تو مشابہت آپس میں تعلق پیدا کر دیتی ہے.اور جو انسان خدا جیسا بننے کی کوشش کرے، خدا تعالیٰ اسے ہلاک اور برباد ہونے سے بچاتا اور اس کا محافظ ہو جاتا ہے.پس روزہ کا ایک روحانی فائدہ یہ ہے کہ انسان کا خدا تعالٰی سے اعلیٰ درجہ کا اتصال ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ خود اس کا محافظ بن جاتا ہے.جسمانی طور پر یہ فائدہ ہوتا ہے کہ انسان میں قربانی کا مادہ غریبوں کی ہمدردی کا مادہ تکالیف کی برداشت کا مادہ پیدا ہوتا ہے.انسان کے پاس کھانے پینے کی چیزیں ہوتی ہیں مگر وہ کھاتا نہیں اس لئے کہ خدا نے منع کیا ہے اور چیز میسر ہوتے ہوئے اسے خود استعمال نہ کرنے بلکہ دوسروں کیلئے استعمال کرنے سے ہی قربانی کا مادہ پیدا ہو سکتا ہے.اور یہ قومی ترقی کا ایک بڑا گر ہے کہ انسان اپنی چیزوں سے دوسروں کو فائدہ پہنچائے.تمام قسم کی قومی تباہیاں اسی وقت آتی ہیں جب کسی قوم کے افراد میں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ ان کی اپنی چیزیں انہی کی ہیں، دوسروں کا اس میں کوئی حق نہیں ہے اور ان سے فائدہ اٹھانے کا حق انہی کو ہے جن کو دی گئی ہیں.غور کرو خدا تعالیٰ نے جس کو اچھی صحت دی ہو اسے اچھی بھوک لگتی اور اچھی نیند آتی ہے، وہ اگر اپنے کسی عزیز بیمار سے کہے کہ میں ان چیزوں کو کیوں استعمال نہ کروں اور کیوں ان سے فائدہ نہ اٹھاؤں جب خدا نے مجھے دی ہیں اور اس طرح بیمار کو تڑپتا چھوڑ کر اس کے رشتہ دار سوجائیں، کیسا بُرا نتیجہ نکلے گا اور اس گر کو کہ جسے کوئی چیز حاصل ہو، اسی کو اس سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے اگر صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو کتنی بڑی مصیبت دنیا میں آجائے.زمیندار اس گر کو
خطبات محمود ۵۲۴ سال ۱۹۳۳ء استعمال کر کے دیکھیں ، چند ہی دنوں میں ان کا زمیندارہ بند ہو جائے گا.ہر زمیندار کی زمین رستوں پر نہیں ہوتی اسے اپنے کھیتوں میں جانے کیلئے دوسروں کے کھیتوں میں سے گزرنا پڑتا ہے.اب اگر ہر زمیندار لٹھ لے کر کھڑا ہو جائے کہ میں کسی کو گزرنے نہ دوں گا تو چند ہی دنوں میں کام بند ہو جائے.دس میں کھیت ہی شاید بچ سکیں جو رستوں پر واقع ہوں.پس یہ اصول غلط ہے کہ فلاں چیز میری ہے اس لئے میں ہی اسے استعمال کرنے کا حق رکھتا ہوں.دنیا کے نظام کی بنیاد اس اصل پر ہے کہ میری چیز دوسرا استعمال کرے اور رمضان اس کی عادت ڈالتا ہے.روپیہ ہمارا ہے، کھانے پینے کی چیزیں ہماری ہیں، مگر حکم یہ ہے کہ دوسروں کو اس سے فائدہ پہنچاؤ اور کھلاؤ کیونکہ اس سے دنیا کے تمدن کی بنیاد قائم ہوتی ہے.پھر امیروں کو روزہ سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ جب اس تھوڑے سے وقت میں بھوک کی وجہ سے اس قدر تکلیف اٹھانی پڑتی ہے تو ان غریبوں کا کیا حال ہوتا ہو گا جن پر ہمیشہ ہی یہ حالت رہتی ہے.امراء کے ہاں تو افطار کیلئے عصر بلکہ ظہر سے ہی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں، کہیں بادام اور پتے پیسے جارہے ہیں، کہیں بالائی آرہی ہے، کہیں مٹھائیاں تیار ہو رہی ہیں، اگر گرمی کا موسم ہو تو برف اور لیمن وغیرہ مہیا کیا جاتا ہے، بیسیوں قسم کے کھانے تیار ہوتے ہیں ، پھر بھی وہ روزہ کو ایک احسان سمجھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ یہ ایک بڑی مصیبت تھی.گرمی کے موسم میں دن چڑھتے ہی پیاس کی شکایت شروع ہو جاتی ہے اور وہ یوں سمجھتے ہیں کہ روزہ رکھ کر ہم نے گویا دنیا پر ایک احسان کیا ہے.ایسے لوگوں کو یہ احساس ہو سکتا ہے کہ جو لوگ غریب ہیں اور جن کے گھروں میں کھانے کو کچھ نہیں ہوتا، ان کا کیا حال ہوتا ہوگا.کوئی اس سے فائدہ اٹھائے یا نہ اٹھائے مگر اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر ایک حجت قائم کر دیتا ہے تا قیامت کے دن وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ ہمیں تو کوئی پتہ ہی نہیں ہے.اللہ تعالی انہیں فرمائے گا کہ سردیوں میں رمضان آیا اور تم نے تکلیف محسوس کی گرمیوں میں آیا اور تم نے تکلیف محسوس کی، مگریہ خیال نہ آیا کہ جنہیں کھانے کو نہ سردیوں میں ملتا نہ گرمیوں میں، ان کی کیا حالت ہوتی ہوگی.پس رمضان ہر شریف آدمی کے دل میں احساس پیدا کر دیتا ہے اور بُرے آدمی کے دل پر حجت کر دیتا ہے.شریف آدمی تو اس سے غرباء کی حالت کا احساس کرتا اور ان کی خبر گیری کی کوشش کرتا ہے مگر شریر آدمی پر اس سے حجت قائم ہو جاتی ہے تا خدا تعالیٰ کے حضور وہ یہ نہ کہہ سکے کہ مجھے معلوم نہ تھا.بھوک، پیاس کی کیا تکلیف ہوتی ہے.اسی طرح روزہ سے
خطبات محمود ۵۲۵ سال ۱۹۳۴ء کرنے کا حوصلہ.مصیبت برداشت کرنے کی عادت پیدا ہوتی ہے.لڑائیوں، جنگوں اور دینی کاموں میں انسان کو تکالیف برداشت کرنی پڑتی ہیں، فاقے کرنے پڑتے ہیں، جاگنا پڑتا ہے اور یہ سب عادتیں رمضان میں پیدا ہوتی ہیں.گرمیوں کے دنوں میں روزہ دار صبح سے شام تک بھوکا پیاسا رہتا ہے، راتوں کو اٹھتا ہے اور انسان کا یہ قاعدہ ہے کہ جو تکلیف وہ عام حالات میں برداشت کر سکتا ہے، اس سے کئی گنا زیادہ غیر معمولی حالات میں برداشت کر سکتا ہے اور جب روزہ میں انسان کو بارہ چودہ گھنٹے بھوکا پیاسا رہنے کی عادت ہو تو دین کیلئے اگر ضرورت پڑے تو اس سے دو گنا تکلیف برداشت کر سکتا ہے.پس روزہ سے بھوک پیاس کی برداشت کی عادت ہوتی ہے اور دین کیلئے تکالیف برداشت پیدا ہوتا ہے غرض رمضان قومی ترقی کیلئے ضروری چیز ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے رمضان اس لئے نازل کیا ہے کہ تا تم دینی و دنیوی دونوں قسم کی ترقیات حاصل کر سکو.جو قومیں صرف خور و نوش میں لگ جاتی ہیں اور اس میں روپیہ صرف کرنا شروع کر دیتی ہیں، وہ ہمیشہ تنزل کی طرف جاتی ہیں.زیادہ کھانا زیادہ پینا زیادہ سونا اور زیادہ باتیں کرنا، صوفیاء کے نزدیک روحانی ترقی میں روکیں ہیں.جو لوگ زیادہ باتیں کرنے کے عادی ہوتے ہیں وہ ضرور بیہودہ باتیں بھی کرتے ہیں کیونکہ ہر وقت علمی باتیں ہی نہیں کی جاسکتیں اور ہر وقت علمی باتیں سننے والے بھی نہیں مل سکتے.ایسے لوگ عام طور پر غیبت اور چغلی کرتے ہیں.زیادہ سونے والے الہام الہی سے متمتع نہیں ہو سکتے.الہام سے متمتع ہونے کیلئے تھوڑی نیند کی ضرورت ہوتی ہے.تعجب ہے کہ آج کل جو لوگ روحانیت کے ماہر کہلاتے ہیں، وہ اس کے الٹ کہتے ہیں اور یہی ثبوت ہے اس امر کا کہ وہ جس الہام سے بحث کرتے ہیں، وہ خدائی نہیں ہوتا.وہ کہتے ہیں کہ الہام ان لوگوں کو ہوتا ہے جو گہری نیند سوتے ہیں مگر الی الہام کیلئے نیند میں کمی ضروری ہے، ذکاوت حس کیلئے خوراک میں کمی ضروری ہے ، کم بولنا تقوی میں محمد ہے.جو لوگ کم کھاتے ہیں، ان کے احساسات بہت تیز ہوتے ہیں جتنا زیادہ کھایا جائے اتنا ہی زیادہ دماغ میں خمار رہتا ہے اور یہ ساری باتیں رمضان میں حاصل ہوتی ہیں.روزہ دار کو غیبت، چغلی اور لڑائی جھگڑے سے خاص طور پر منع کیا گیا ہے.اس لئے وہ کم بولتا ہے چونکہ رات کو جاگنا پڑتا ہے اس لئے نیند بھی کم ہو جاتی ہے، کھانا پینا بھی کم ہو جاتا ہے.غرضیکہ روحانی ترقی کے جتنے ذرائع ہیں، وہ سب کے سب رمضان میں جمع ہوتے ہیں.
خطبات محمود ۵۲۶ پھر رمضان میں ایک وقت کی بھی برکت ہوتی ہے.اللہ تعالی کی کوئی عادت تو نہیں مگر اس میں عادت سے مشابہت ضرور ہے.انسان کی طرح اس کی آنکھیں نہیں مگر وہ بصیر ضرور ہے، اس کے کان نہیں مگر سمیع ہے، وہ کھاتا پیتا نہیں مگر کھانے سے اسے مشابہت ضرور ہے، گو اس میں عادت نہیں مگر عادت جیسی بات ہے یعنی جب وہ ایک کام کرتا ہے تو اسے پھر دوہراتا ہے.انسانوں میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے.بعض لوگوں کو پیر یا ہاتھ ہلانے کی عادت ہوتی ہے اور وہ بار بار ہلاتے ہیں اور عادت کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ کوئی بات بار بار کی جاتی ہے اور یہ بات اللہ تعالیٰ میں بھی ہے کہ جب وہ ایک خاص موقع پر اپنا فضل نازل کرتا ہے تو اسی موقع پر بار بار فضل کرتا ہے.یہ بات قانون قدرت میں پائی جاتی ہے.اللہ تعالٰی کی اس صفت کے ماتحت چونکہ رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا تھا اس لئے اگر اس رسول کی اتباع کی جائے جس پر قرآن نازل ہوا تو اللہ تعالیٰ کی عادت سے مشابہت رکھنے والی صفت کے ماتحت ان لوگوں کو جو رسول کریم ﷺ سے مشابہت کی وجہ سے دنیا سے علیحدگی اختیار کرتے ہیں اور دنیا میں رہتے ہوئے بھی اس سے تعلقات نہیں رکھتے، کھانے پینے سونے میں کمی کرتے ہیں، بیہودہ گوئی وغیرہ سے پر ہیز کرتے ہیں، ان کو الہام ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے الہام کیلئے اس مہینہ کو خصوصیت سے مچنا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے.پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی ہے.اس میں بھی وہی عادت والی بات بیان کی گئی ہے.خدا تعالی نے ایک دفعہ بہار میں اپنی رحمت کی شان دکھائی تھی اس لئے پھر جب وہ موسم آتا ہے اللہ تعالٰی کی رحمت کی شان کہتی ہے کہ اب کے بندے کیا کہیں گے، اس لئے پھر ہم دکھاتے ہیں اور اگر بندے اس سے فائدہ اٹھائیں تو اگلی بہار میں پھر وہی انعام نازل ہوتا ہے.تو جو صفت الہی عادت کے مشابہ ہے وہ کلام الہی کو اگر درخت تصور کر لیا جائے تو ہر رمضان میں وہ اسے جھنجھوڑتی ہے اور اس سے تازہ بتازہ پھل حاصل ہوتے ہیں.پس ہماری جماعت کے دوستوں کو چاہیے کہ رمضان اور اس کی روح سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جس کی طرف میں نے رمضان کے آنے سے پہلے بھی توجہ دلائی تھی، زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں.اور ایسے رنگ میں اپنی زندگی کو ڈھالیں کہ خدا کیلئے ہو جائے.وہ زندگی کو کھانے پینے اور پہننے کیلئے ہی وقف نہ سمجھیں.اگر دین نہ ہو تو عورتوں کی زندگیاں تو بالخصوص جانوروں کی سی ہوتی ہیں.وہ عورتیں جن کے ہاں نوکر چاکر نہ ہوں، صبح اٹھتے ہی کھانے پکانے کی فکر میں لگ جاتی ہیں.اس ہنڈیا
خطبات محمود ۵۲۷ سال ۱۹۳۴ء میں نمک زیادہ ہو گیا ہے، اس لئے میاں کیلئے فلاں بھیجا بنالوں، بچہ یہ چیز نہیں کھاتا، اس کیلئے یہ بنالوں، اسی طرح ان کا دن کہتا ہے اور ان کی رات سونے یا بچوں کی خبر گیری میں صرف ہو جاتی ہے.رسول کریم ﷺ نے بیوی کو مرد کا آدھا دھڑ قرار دیا ہے ہے اور جس کے گھر میں دین نہ ہو، اس کا گویا آدھا دھڑ قیامت کے دن مارا ہوا ہوگا.جس کی بیوی دین کی طرف توجہ نہین کرتی اور کھانے پینے میں ہی لگی رہتی ہے، وہ قیامت کے دن خدا تعالیٰ کے سامنے کیا لے کر کھڑا ہو گا.اللہ تعالی اسے کہے گا کہ تمہارے جسم کو ترقی دینے کیلئے ہم نے جو چیز دی تم نے مفلوج کر دی ہے.ہو سکتا ہے کہ ایک شخص خود تو نیک ہو مگر بیوی کو نیکی - محروم رکھے، صرف اس لئے کہ کھانا مزیدار پکے تو عورتوں کو دین سے محروم رکھنے کے کئی وہ نقائص ہیں.رمضان سے فائدہ اٹھانے کیلئے میں نے جو تحریک کی ہے، اس میں زمیندار بھی شامل ہو سکتے ہیں اور یہ ایک ایسی آسان سکیم ہے کہ ان کیلئے مفت کرم داشتن والا معاملہ ہے.دنیا خواہ ایسی باتوں کو حقیر سمجھے مگر خدا تعالی بڑا نکتہ نواز ہے.رسول کریم ﷺ ایک مجلس میں یہ بات بیان فرمارہے تھے کہ قیامت کے دن یہ ہو گا اور وہ ہوگا اور میرے لئے اللہ تعالٰی نے خاص درجے رکھے ہیں.ایک شخص ہے اس وقت کھڑا ہوا اور کہا یا رسول اللہ ! دعا کیجئے میں بھی آپ کے ساتھ رہوں آپ نے فرمایا ہاں ایسا ہی ہوگا.اب اس نے کیا قربانی کی تھی.سوائے اس کے کہ کھڑے ہو کر ایک بات کہہ دی تھی.اسی مجمع میں کئی ایسے لوگ موجود تھے جن کی قربانیاں اس سے بہت بڑھی ہوئی تھیں مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اچھا یہ شخص خواہش رکھتا ہے اس لئے ہم اس کی خواہش پوری کرتے ہیں.اس پر ایک اور صحابی کھڑے ہوئے اور کہا یا رسول اللہ ! میرے لئے بھی دعا کیجئے آپ نے فرمایا بس اب نہیں 2.تو اللہ تعالی بڑا نکتہ نواز ہے.اگر ایک شخص پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے ہی ایک حالت وارد ہو مگر جب مطالبہ کیا جائے تو وہ بھی کھڑا ہو کر کہے کہ میں بھی شامل ہوں تو وہ بھی ضرور شامل ہو جاتا ہے.پس رمضان نے ہمیں زندگی کا صحیح طریق بتایا ہے اور جب کسی قوم پر خاص حالات ہوں تو اس طریق سے اِدھر اُدھر ہونا ہلاکت ہے.یہ نہیں کہ ہر وقت ہی اچھے کھانے کھانا ناجائز ہے.جب قوم کے افراد ترقی پر ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن مصیبت کے زمانہ میں ایسا کرنا ہلاکت کا موجب ہوتا ہے.اور ایسے زمانہ میں ہر فرد قوم سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ قربانی
خطبات محمود ۵۲۸ سال ۱۹۳۴ء کرے.اور یہ بوجھ ایسا نہیں کہ کوئی کہہ سکے میں نہیں اٹھا سکتا اس لئے سب کو اس میں شامل ہونا چاہیے سوائے بیماروں کے.بعض لوگ بیماروں کے متعلق پوچھتے ہیں حالانکہ اس کی ضرورت نہیں.ایک مسلول کیلئے ضروری ہے کہ دودھ، مکھن ، بالائی، انڈے غرض کہ تمام ہلکی اور لطیف اغذیہ کا استعمال کرے کیونکہ اس کیلئے یہی علاج ہے اور اس کیلئے یہی حکم ہے.اگر وہ ایسا نہ کرے تو اپنی صحت کو برباد کردے گا اور اس طرح مجرم ہو گا.دیکھو رمضان میں روزہ نہ رکھنا گناہ ہے.مگر عید کے دن روزہ رکھنا گناہ ہے، نماز فرض ہے مگر دن کے طلوع اور غروب کے وقت پڑھنے والا رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ شیطان ہے اس لئے جو لوگ بیمار ہوں ان کیلئے یہی حکم ہے کہ جو چیز ان کی صحت کیلئے ضروری ہو اسے استعمال کریں.پس رمضان سے جو سبق ملتا ہے وہ حاصل کرنا چاہیے.اس سے ہم اپنے اندر عظیم الشان تبدیلی پیدا کر سکتے ہیں مگر لوگ عام طور پر اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے.نہ وہ کھانے میں کمی کرتے ہیں، نہ پینے میں، نہ نیند میں، نہ باتیں کرنے میں.جیسا کہ میں نے بتایا تھا کہ رمضان کو ایسے لوگ خویندے کا ذریعہ بنالیتے ہیں اور آگے سے بھی موٹے ہو جاتے ہیں اس طرح کوئی روحانی فائدہ نہیں ہو سکتا.یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ کسی کے ہاتھ پر غلاظت لگی ہو اور وہ اسے صابن سے صاف کرنے کی بجائے اس سے کپڑے کی گرد جھاڑنے کی کوشش کرے.پس جو لوگ رمضان میں نفس کو موٹا کرتے ہیں ان کو نقصان ہوتا ہے.جب آقا سامنے ہو تو غلام کو اس کا ڈر ہوتا ہے اور رمضان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں قریب آجاتا ہوں.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالٰی ہماری جماعت کے دوستوں کو توفیق دے کہ وہ رمضان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں.اور لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ میں رمضان کی جو غرض بنائی گئی ہے، اسے حاصل کر سکیں.اللہ تعالی انہیں تقویٰ کا وہ مقام عطا کرے کہ اس کی گود میں جا پہنچیں جس کے بعد ان کیلئے کسی قسم کا ڈر نہ رہے.اللہ تعالیٰ ان کے تمام کاموں کا متکفل ہو جائے اور وہ اس کی حفاظت میں آجائیں.له البقرة: ۱۸۴ ۳۲ بخاری باب كيف كان بدء الوحي إلى رسول الله ال البقرة: ۱۸۵ الفضل ۲۷- دسمبر ۱۹۳۴ء)
خطبات محمود ۵۲۹ سیال ۱۹۳۴ء ه بخاری کتاب الصوم باب فضل الصوم و باب من لم يدع قول الزور له والعمل به في الصوم تذکرہ صفحہ ۵۴۷- ایڈیشن چهارم ۱۸ حضرت عکاشہ بن محسن بخاری کتاب الرقاق باب يَدْخُلُ الجنة سبعون بغیر حساب شه خوید: ہرے جو یا گندم الفا
خطبات محمود ۵۳۰ ۴۲ جلسہ سالانہ کے بابرکت ایام میں اپنی دعاؤں کو ہمیشہ اعلیٰ مقاصد پر مشتمل رکھو (فرموده ۲۸- و سمبر ۱۹۳۴ء) سال ۱۹۳۴ء تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- چونکہ آج کا دن ہمارے جلسہ کے ایام میں سے ایک دن ہے.اور اگر جلدی کارروائی شروع نہ کی جائے تو دوسرے وقت کا پروگرام بہت کچھ ادھورا رہ جائے گا.اس لئے میں صرف دو چار منٹ کے خطبہ پر ہی اکتفا کرنا چاہتا ہوں.یوں تو خطبے کا طریق ہی ابتدائے اسلام میں یہ ہوا کرتا تھا کہ خطبہ آدھا وقت لیتا تھا اور نماز اس سے دگنا وقت مگر اُس وقت کے لوگ اشاروں میں بات کو سمجھ جانے کے عادی تھے مگر آج کل کے لوگ تفصیلات کے عادی ہو گئے ہیں اس لئے قرآن مجید کی جن مختصر آیات سے اُس وقت کے لوگ اپنے دلوں کو صاف کرلیا کرتے تھے، اب ان پر کتابوں کی کتابیں لکھی جاتی ہیں تب کہیں لوگ ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں.اس لئے موجودہ زمانہ کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے خطبے بھی لمبے ہو گئے ہیں.آج کا دن اسلامی روایات کے مطابق عید کا دن ہے بلکہ بعض ائمہ نے تو یہاں تک ہے کہ جمعہ کا دن عیدین پر فضیلت رکھتا ہے کیونکہ جمعہ کے دن کا قرآن مجید میں خصوصیت سے ذکر کیا گیا ہے جبکہ عیدین کا اس رنگ میں قرآن مجید میں ذکر نہیں ہاں استنباط و استدلال کیا جاتا ہے مگر یہ ایک فرض مقرر کیا گیا ہے اور جمعہ کی آذان سن کر مسلمانوں کیلئے لازمی قرار دیا گیا ہے کہ وہ جس قدر جلد ہو سکے مسجد میں پہنچ جائیں.لکھا
خطبات محمود ۵۳۱ سال ۱۲۳۴.، پس یہ ہماری عید اور ہمارے لئے نہایت ہی خوشی اور مسرت کا دن ہے.پھر یہ رمضان کا مہینہ ہے اور رمضان کے لحاظ سے یہ عید اور بھی زیادہ شاندار ہو جاتی ہے.گو یہ وہ جمعہ تو نہیں جس کا نام لوگ جمعۃ الوداع رکھ کر اپنی ساری عمر کی نمازیں یا کم از کم ایک سال کی نمازیں خدا تعالی سے بخشوانا چاہتے ہیں.مگر وہ دن تو جاہلوں کا دن ہے اور کوئی مومن جاہل نہیں ہوتا کیونکہ کوئی مومن ایک منٹ کیلئے بھی یہ تسلیم نہیں کر سکتا کہ وہ عبادت جو خدا تعالیٰ کی زیارت کے مترادف ہے، اسے سارا سال تو چھوڑے رکھے مگر ایک دن بجالا کر یہ سمجھ لے کہ سارے سال کی نمازیں ادا ہو گئیں.اگر نماز ایک چٹی ہوتی، اگر نماز ایک سزا ہوتی اور اگر نماز ایک جرمانہ ہوتا تو ہم خیال کرلیتے کہ جتنا کم سے کم جرمانہ ادا کر کے اور جتنی کم سے کم سزا بھگت کر ہم اس مصیبت سے بچ سکتے ہیں، اتنا ہی کم جرمانہ ادا کرنا اور اتنی ہی کم سزا بھگتنی چاہیئے.مگر جبکہ نماز خدا تعالیٰ کا ایک فضل اور انعام ہے اور جبکہ نماز زیارت ہے اپنے محبوب خدا کی تو کیا کوئی ایسا انسان ہو سکتا ہے کہ اسے اس کا محبوب ہلائے مگر وہ نہ جائے اور کہے کہ میں کسی خاص دن جاکر اس محبوب کا گلہ دور کردوں گا اور وہ پھر بھی اس کا محبوب ہی رہے.محبوب کی طرف سے تو اگر ایک اشارہ بھی ہو جائے تو عاشق صادق اس کی تعمیل کئے بغیر نہیں رہ سکتا کجا یہ کہ محبوب اسے روز بلائے اور یہ گھر میں بیٹھا رہے.گو مثال تو ایک پاگل کی ہے پھر ایسے پاگل کی جو آب فوت ہوچکا اور گو وہ ایک ایسے پاگل کی مثال ہے جو میرا استاد بھی تھا مگر بہرحال اس سے عشق کی حالت نہایت واضح ہو جاتی ہے.ایک میرے استاد تھے جو سکول میں پڑھایا کرتے تھے بعد میں وہ نبوت کے مدعی بن گئے ان کا نام مولوی یار محمد صاحب تھا.انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایسی محبت تھی کہ اس کے نتیجہ میں ہی ان پر جنون کا رنگ غالب آگیا ممکن ہے پہلے بھی ان کے دماغ میں کوئی نقص ہو مگر ہم نے تو یہی دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت بڑھتے بڑھتے انہیں جنون ہو گیا اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہر پیشگوئی کو اپنی طرف منسوب کرنے لگے.پھر ان کا یہ جنون یہاں تک بڑھ گیا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے قریب ہونے کی خواہش میں بعض دفعہ ایسی حرکات بھی کر بیٹھتے جو ناجائز اور نادرست ہوتیں.مثلاً وہ نماز میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جسم پر اپنا ہاتھ پھیرنے کی کوشش کرتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کی اس حالت کو دیکھ کر بعض آدمی مقرر کئے ہوئے تھے تاکہ
خطبات محمود ۵۳۲ سال ۱۹۴۴ء جن ایام میں انہیں دورہ ہو وہ خیال رکھیں کہ کہیں وہ آپ کے پیچھے آکر نہ بیٹھ جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت تھی کہ جب آپ گفتگو فرماتے یا لیکچر دیتے تو اپنے ہاتھ کو رانوں کی طرف اس طرح لاتے جس طرح کوئی آہستہ سے ہاتھ مارتا ہے.حضرت سیح موعود علیہ السلام جب اس طرح ہاتھ ہلاتے تو مولوی یار محمد صاحب محبت کے جوش میں فوراً کود کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس پہنچ جاتے اور جب کسی نے پوچھنا کہ مولوی صاحب یہ کیا تو وہ کہتے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے اشارہ سے بلایا تھا.تو جہاں محبت ہوتی ہے وہاں یونہی اشارے بنالئے جاتے ہیں.کجا یہ کہ اللہ تعالی روزانہ بلائے اور بندہ کہے کہ ہم جمعۃ الوداع کے دن قضا عمری پڑھ لیں گے اور اس طرح خداتعالی کی زیارت حاصل ہو جائے گی.پس یہ گو جمعتہ الوداع تو نہیں مگر مسلمان کا ہر جمعہ اپنے ساتھ برکات رکھتا ہے.پھر نہ صرف یہ جمعہ کا دن ہے بلکہ رمضان کے مہینہ میں جمعہ کا دن ہے اور نہ صرف رمضان کے مہینے میں جمعہ کا دن ہے بلکہ ان برکتوں اور فضلوں والے ایام میں جمعہ کا دن ہے جسے حضرت مسیح موعود نے اپنے الہاموں کی بناء پر قائم کیا.اور جس کے متعلق آپ فرماتے ہیں.زمین قادیان اب محترم ہے ہجوم خلق سے ارض حرم ہے.غرض وہ جلسے کے دن جن کے متعلق خاص طور پر اللہ تعالی کی طرف سے برکات کا وعدہ کیا گیا ہے، پھر قادیان کا مقام جسے ارضِ حرم سے تشبیہ دی گئی ہے اور جمعہ کا دن جو خاص فضلوں کے نزول کا دن ہوتا ہے آج ہمیں میسر ہے.پس ہمارے لئے یہ نہایت ہی بابرکت موقع ہے اور ا ہے اور ان برکات سے فائدہ اٹھانے کا طریق یہ ہے کہ ہم اپنے دلوں میں انابت اور تضرع پیدا کریں اور اعلیٰ مقاصد اپنے دل میں پیدا کر کے اللہ تعالٰی سے ان کے حصول کیلئے دعائیں کریں.بہت لوگ دعائیں تو اللہ تعالی سے قبول کرالیتے ہیں مگر وہ اتنی چھوٹی اور اتنی معمولی اور حقیر باتوں پر مشتمل ہوتی ہیں کہ انہیں سن کر حیرت ہوتی ہے.وہ معمولی معمولی باتوں کیلئے اللہ تعالی کے حضور گڑگڑاتے اور عجز و انکسار کا اظہار کرتے ہیں اور ان کی مثال بالکل وہی ہوتی ہے جیسے کوئی بادشاہ کی ملاقات کو جائے مگر اپنا سارا وقت اس کے پاخانے غسل خانے اور باورچی خانے کے دیکھنے میں صرف کر دے اور بادشاہ سے ملاقات اور اس سے گفتگو کا وقت انہی حقیر باتوں میں ضائع کر کے واپس آجائے.پس دعاؤں میں بہت بڑی احتیاط
سال ۱۹۳۴ء خطبات محمود ۵۳۳ کی ضرورت ہے اور گو جیسا کہ حضرت مسیح کہتے ہیں اپنی جوتی کا تسمہ بھی خدا سے مانگ ہمیں اپنی معمولی معمولی ضرورتیں بھی خدا تعالی کے آگے پیش کرنی چاہئیں مگر یہ مستقل مانگنا نہ ہو بلکہ مستقل دعا مومن کی اسی مقصد عظیم کیلئے ہونی چاہیے جس کیلئے اسے پیدا کیا گیا ہے اور جس کو بیان کرتے ہوئے اس نے کہا ہے کہ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ ال انسانی پیدائش کا مقصد یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کا کامل عبد ہو جائے.پس زیادہ تر دعائیں اسی کیلئے ہونی چاہئیں تاکہ خدا ہمیں اپنا بنالے اور ہم اس کے حقیقی بندے بن جائیں اور جب کوئی خدا کا ہو جائے تو اسے اور کسی چیز کی کیا ضرورت رہ سکتی ہے.ہم نے تو زمینداروں کو دیکھا ہے وہ ڈپٹی کمشنر سے اتنا نہیں ڈرتے جتنا سپاہی سے ڈرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں ان پر تصرف انہی معمولی افسروں کا ہے.پس اصل بات تو وہی ہے کہ.جے توں میرا ہو رہیں سب جگ تیرا ہو جب خدا تعالیٰ انسان کا ہو جاتا ہے تو باقی دنیا بھی اس کی ہو جاتی ہے.پس مومن کا اصل مقصد ہونا چاہیے کہ وہ خدا تعالیٰ کا ہو جائے اور خدا اس کا.جب خدا تعالیٰ انسان کا ہو جاتا ہے تو اس کی باقی ضروریات خود بخود پوری ہو جاتی ہیں.جیسے کہا جاتا ہے ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں.پس چھوٹی اور معمولی چیزوں کیلئے دعائیں کرنے سے میں منع نہیں کرتا مگر میں یہ ضرور کہوں گا کہ بڑی برکتوں والے ایام کو معمولی اور حقیر دعائیں مانگ کر کوئی نادان ہی ضائع کر سکتا ہے.میں نے جب حج کیا تو حج کے موقع پر بعض احادیث اور بزرگوں کے اقوال سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب پہلی دفعہ خانہ کعبہ نظر آئے تو اس وقت انسان جو دعا کرے وہ قبول وجاتی ہے.میں جب حج کیلئے روانہ ہوا تو حضرت خلیفہ اول نے مجھے یہ بات بتائی اور فرمایا اس کا خیال رکھنا.جب میں وہاں پہنچا اور میں نے خانہ کعبہ کو دیکھا تو میں نے یہی دعا کی کہ الہی ! میری دعا تو یہ ہے کہ مجھے تو مل جائے اور جب بھی میں تجھ سے دعا کروں تو اسے قبول فرمالیا کر.مجھے جہاں تک خیال پڑتا ہے، حضرت خلیفہ اول نے بھی ایسی ہی دعا کی تھی.تو اہم موقعوں کو معمولی دعاؤں میں ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہمیشہ اعلیٰ سے اعلیٰ مقاصد اپنے دل میں رکھ کر دعائیں کرنی چاہئیں تاکہ خدا تعالی کے خاص فضل ہم پر نازل ہوں.اور نہ صرف ہم پر بلکہ ہماری اولادوں پر بھی نازل ہوں.(الفضل یکم جنوری ۱۹۳۵ء) ؟ الله الذريت: ۵۷
Λ ۱۳ M B انڈیکس - آیات قرآنیہ ۲- احادیث -٣- الهامات حضرت مسیح موعود اسماء ۵ مقامات - کتابیات
1
۲۵۰ (۲۸) ۴۶ ۱۵۹ ۴۰ ۳۱ ΔΥ ۲۶۲ ۴۳۰ ۶۹ 수 الحج يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ (۳۸) النُّور لا نأخذ كُمْ بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ (۳) الفرقان يَارَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا القُرآنَ مَهْجُورًا (۳۱) جَاهِدُ هُم بِهِ (۵۳) العنكبوت وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (۷۰) الاحزاب يَايُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ...(۲۹) الْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ (11) ۴۴۶ ۱۵۲ ۴۲۳ ۱۶۰ AL ۷۵ ۵۱۴ الفاتحة آیات قرآنیہ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ (۲۸۱) لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (۵) اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ۳۲ الا وُسْعَهَا (۳۸۷) (۶) البقرة ۳۳ الاعراف يُبَنِي أَدَمَ قَدْ انْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا (۲۷) الم ذلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ كُلُوا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوا فيه (۳۲) (۳۲) ۴۰۷ يُقِيمُونَ الصَّلوةَ (۳) ۳۹۳٬۴۰۷ التّوبة لِمَ أَذِنْتَ لَهُمْ (۴۳) النَّحل جَادِلُهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۷۵ ۱۸۴ (۱۲۶) ۵۰۹ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًاو يَهْدِي بِهِ كَثِيرً ا (۲۷) اسْتَعِيْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ (۴۶) فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ (۱۳۹) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ بني نی اسراءیل كُلا تُمِدُّ هَؤُلَاءِ وَهَؤُلَاءِ ۵۲۰ (۲۱) ۵۲۲ مَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَعْمَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ (۷۳) ظه محمد وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِسَانِي مَاذَا قَالَ أَيْفًا (۷)) ۵۰۳ ۱۳۹ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ (۱۸۴) الَّذِينَ يُطِيقُوْنَ فِدْيَةٌ طعام مسكين (۵) شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي..(۱۸۷ ۱۸۶) مَتى نَصْرُ اللهِ (۲۱۵) قُلِ الْعَفْوَ (۲۲۰)
:: ۵۰۵ الذريت أَهْلِيكُمْ نَارًا(۷) ٢٣٣ | القدر وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ التَّزعت الا لِيَعْبُدُونِ (۵۷) ۵۳۳٬۱۲۲ وَالتُزِعَتِ غَرْقًا.الواقعه لَا يَمَسُّةٌ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (۸۰) الحديد الَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أن تَخْشَعَ قُلُوبُهم عام التحريم (۳۲) المطفّفين ۳۳ وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ (۳) الاعلى إِنَّا أَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ (۳۲) ۲۷۵۳۱ | الكوثر فَذَكِّرْانُ نَفَعَتِ الذِّكْرَى (10)199 الضُّحى إِنَّا أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَ...۲۴۳ (۲) آخر) ۲۶۴ ۳۶۵ i ۴۲۳ قُوا أَنْفُسَكُمْ وَ أَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ (۱۳)
احادیث احادیث بالمعنی ہو جاتی ہے....جہاں تک اذان کی آواز اَلْاِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ...۲۷۸-۲۷۲ جب انسان خود ہاتھ اُٹھائے پہنچے سب کو نماز کیلئے مسجد اللَّهُ أَعْلَى وَاجَل ۲۳ تو فرشتے ہٹ جاتے ہیں اليدُ العُلْيَا خَيْرٌ مِّنَ الْيَدِ السُّفْلَى انَا النَّبِيُّ لَا كَذِبُ لیلۃ القدر آخری عشرہ میں ۲۰۶ تلاش کرو میں آنا چاہیئے دروازه پر بار بار دستک نہیں دینی چاہیئے لیلۃ القدر میں بندہ جو کچھ مومن ایک سوراخ سے دو دفعہ نہیں کاٹا جاتا جب مومن کے دل میں انَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَلِبُ ۱۶۵ صدق نیت اور اخلاص سے انَا عِنْدَظَنِّ عَبْدِي بِي ۴۵۵ اللہ سے مانگے گا وہ اسے ب بَدَءَ الْإِسْلامُ غَرِيبًا وَسَيَعُودُ غَرِيبًا ج ۴۹۶ دیا جائے گا ۱۳ درد پیدا ہوتا ہے تو اس سے افطاری کا وقت قبولیت دعا عرشِ الہی کانپ اُٹھتا ہے کا وقت ہوتا ہے نبی کا کام اشارہ کرنا نہیں طلحہ کو ایک دوزخی آدمی میں کبھی ایک کمزور شخص کو مارے گا جَفَّ الْقَلَمُ بِمَا هُوَ..۲۶۹ جو علی کے مقابل پر تلوار خ چلائے گا وہ ظالم ہوگا ۲۰ مال دے دیتا ہوں...میری پیٹھ کے پیچھے ہو جاؤ اور کندھے کی اوٹ میں اے علی ! اگر ہمیں تمام دنیا جنگی کرتب دیکھتی جاؤ خَيْرُ الْأُمُورِ ادْوَمُهَا ۱۳۸ مل جائے تو وہ ایک آدمی کی اے لوگو مجھے مشورہ ل ہدایت کے برابر نہیں لَا عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ خدا تعالی کہتا ہے کہ میں نے سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ م مَا أَنَا بِقَارِي مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا الله دَخَلَ الْجَنَّةَ سورۃ فاتحہ کو اپنے اور بندہ کے درمیان تقسیم کر دیا ہے ۱۴۵۲۶ ۳۳ رو سوال نہ کیا کرو ۱۴۴ ۱۷۵ IAL ۲۱۰ ۲۲۴ ۲۳۲ ۴۰۷۲۵۸٬۲۳۷ میں شور سن کر دیکھنے گیا تھا کہ کیا بات ہے اگر ہر وقت ایک ہی حالت فتح ہو یا شکست اس جگہ ۵۰۴ | میں رہے تو انسان مرجائے ۷۰ کو نہ چھوڑنا ادنی بشاشت ایمان بھی ۱۱۵ | جب کسی مومن میں پیدا سزا دینا حکومت کا کام ہے ۲۵۶ ۲۶۸ ۲۷۱
تیرا نہیں ۳۲۱ روک سکتا بالکل ممکن ہے کہ میں ایک جو کھانا خود کھاؤ غلاموں کو کھلاؤ ۴۴۳٬۴۴۲ ہے وہ نیکی کرتا ہے بندہ نوافل کے ذریعہ اپنے ۴۹۱ ۴۴۶ رب کے حضور ترقی کرتا ہے ۴۹۳ شخص کو کوئی چیز دلوادوں حالانکہ وہ اس کا حقدار نہ ہو ۳۲۳ جو کسی کے ذریعہ سے ہدایت کون ہے جو جنت میں اپنا وہ شخص جو صلح کیلئے ابتداء پاتا ہے اس کے نیک اعمال گھر بنائے کرتا ہے وہ جنت میں پانچ اس کے اعمال نامہ میں لکھے دوسرا ہاتھ بھی دوزخ سے بچا ۴۹۳ سو سال پہلے داخل ہو جاتا ہے ۳۷۰ جاتے ہیں جس کے ذریعہ اسے جمعہ میں ایک گھڑی ایسی آتی اے انصار ! مجھے تمہاری طرف ہدایت ملتی ہے ۳۷۹ جو مہمان آئے تین دن ۴۴۹ ہے کہ اس میں جو دعا کی سے یہ بات پہنچی ہے جائے قبول ہوتی ہے اس ایک نادان کے قول کی اُس کی مہمانی کریں ۴۵۲ یہ میرے رب کا تازہ وجہ سے تم دنیا کی بادشاہت ان بکریوں میں میرا حصہ رکھو ۴۵۳ انعام ہے سے محروم رہو گے ۳۸ رسول کریم نے مومنوں کی رمضان میں قرآن کی اے دوستو! تم سے پہلے کچھ جماعت کو سانپ قرار دیا ہے ۴۵۴ تلاوت زیادہ کرنی چاہیئے لوگ گزرے ہیں جن کو بلال کی آواز تو اللہ تعالی کو تمہاری اس بات کو دیکھ کر آروں سے چیرا گیا اور آگ بھی پیاری ہے ۴۷۰ اللہ تعالٰی بھی ہنسا اور میں بھی میں جلایا گیا ۱۹ مدینہ میں کچھ لوگ ہیں جو ہنستا ہوں میرے پاس سواری نہیں ہے ۴۲۴ تمہارے جیسا ثواب حاصل جو شخص غیبت، چغلی اور ہر نماز کے بعد ۳۳٬۳۳ دفعہ کر رہے ہیں تسبیح و تحمید اور ۳۴ بار تکبیر کہہ لیا کرو اس کا روزہ نہیں عیدیں ہمارے کھانے پینے ۴۴۲ کے دن ہیں جسے خداتعالی نیکی کرنے کی جو شخص ثواب کی نیت سے توفیق دے اسے میں نہیں بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالتا ۴۷۱ بد گوئی سے پر ہیز نہیں کرتا ۴۷۵ رسول کریم نے بیوی کو مرد کا آدھا دھڑ قرار دیا ہے ۴۹۳ ۵۰۱ ۵۰۵ ۵۰۶ ۵۲۲ ۵۲۷
الهامات حضرت مسیح موعود عربی الهامات اردو الهامات ل لَا تُبقِي لَكَ مِنَ اگر یہ جز رہی الْمُخْزِيَاتِ ذِكْراً ۱۵۷ سب کچھ رہا ہے بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے ۲۷۳ ۶۶ پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی ف فرشتوں کی کھینچی ہوئی تلوار تیرے آگے ہے ۲۲۶
} ۱۷۶ ۴۳۳ ۳۹۴ ۲۸۹٬۲۸۰ ۴۳۲ ۴۵۸ ۳۲۶٬۳۱۰ ۴۹۹ ۲۲۱ ΓΙΑ ۳۱ ۲۷۱ ۴۳۳ ۵۲۱ ۴۱۷۱۰۳ آتھم آدم حضرت ۴۹۹ ابراهیم حضرت ۲۰۱٬۲۰۰٬۱۴۷۹ ۸۸٬۳۴٬۲۶٬۲۲ ابو بکر حضرت ابو جهل ابوسفیان حضرت ابوموسیٰ اشعری * حضرت اجمل خان حکیم ۴۱۸٬۲۳٬۲۲ ۴۲۴ ۳۹۹ انصاری ڈاکٹر اوڈوائر سر ایڈیسن بچه سقه بشیر احمد حضرت مرزا اسماء ۳۹۹ جلال الدین مولوی ۳۸۲٬۲۸۰ | آف کھریپر ۱۹۴ ۲۱۸ ۴۶۴۴۳۲٬۷۹۳۹ بشیر احمد حضرت شیخ ایڈووکیٹ ۴۳۳ بلال حضرت بوعلی سینا جلال الدین شمس، مولانا جواہر لال نہرو پنڈت چ چیمسفورڈ لارڈ احمد جان حضرت صوفی احمد دین زرگر، میاں احمد نور کابلی ارون لارڈ ۶۴ ༩ ۳۵۲ ۳۹۵٬۲۸۰ اسد اللہ خان چوہدری، بیرسٹر ۴۳۳ ثناء اللہ مولوی ۲۳۰ حاکم علی چوہدری حامد شاہ میر حبیب اللہ خان امیر حسین حضرت امام حفصہ حضرت حمزه حضرت حیرت مرزا خ خالد بن ولید " حضرت خدا بخش ملک خدیجہ حضرت خنساء حضرت ۴۳۳ ۹۹ ۲۸۰ ۱۲۱ ج جان محمد مخ جعفر جیفرے کر جماعت علی شاہ' پیر ۱۲۵ اسمعیل شہید حضرت مولانا افضل حق چوہدری اکبر علی پیر ۳۹۰٬۲۸۷ ۴۳۳ ۲۳۰ ۴۳۳ ۳۲۶٬۳۱۰ الزبتھ اللہ دتہ مولوی امان اللہ خان امیر
۹ ڈگلس کپتان ڈ رحمت علی مولوی رشیده بیگم (حرم حضرت مصلح موعود) ۱۸۵ LA ۳۶۴ ' حضرت ۲۰۱ حضرت مولوی ۳۲۶ ۴۳۳ ۱۸۲ عبدالرحمن ملک، قصوری شهاب الدین سهروردی صالح حضرت b روشن علی حافظ حضرت ۱۷۷٬۸۵ طاہر احمد حضرت مرزا روم مولانا ز زبیر حضرت سکندر سکندر حیات خان سردار ش شاہ ولی اللہ حضرت ۴۹۰ ۱۵۷ ۲۸۷ (خلیفة المسیح الرابع) طلحه حضرت b ۳۹۷ عبد الر عبدالرحمٰن سینه ۲۰۰ ۳۶۴ ۲۰ حاجی اللہ رکھا عبدالرحمن مصری، شیخ عبدالرحمن امیر عبد الرحیم قاضی عبدالرزاق شیخ، بیرسٹر عبدالرحیم درد حضرت مولانا ۴۹۷ ۴۳۲ ۳۲۶ 191 ۴۳۳ ۳۴۵٬۲۲۴ عبدالرحیم نیر حضرت مولوی ۷۹٬۷۸ ظفر علی مولوی ۳۹۰٬۳۶۷٬۲۹۰۱۴۸ عبد الستار مولوی عائشہ حضرت ع ۴۱۷ ۴۱۶۲۳۲ عبد الغفار خان، افغان عبد الغفور صوفی عبد القادر جیلانی حضرت سید ۲۵۱ ۲۵۱ ۴۳۳۷ lAr ۲۲۴ ۴۷۰٬۲۵۲٬۱۵۵ ۱۵۴ ۳۶ ۳۱۶٬۳۱۵ عباس ، حضرت ۴۰۷٬۳۷۹۱۶۵ عبد الحق حضرت مرزا ۴۳۳ عبد القدیر صوفی عبد الحق ڈاکٹر بھائی گیٹ) عبدالکریم سیالکوٹی عبدالحکیم ، ڈاکٹر شبلی شردھانند جی سوامی ۳۹۹۹ ۴۰۰ عبدالحمید قاضی شریف احمد حضرت مرزا ۲۹۵۱۳۹۲ ۳۰۲٬۲۹۸۲۲۹۶، عبدالرحمن بن عوف " حضرت عبدالرحمن شهید ۴۳۲٬۳۵۳۴۶ ۴۳۳ ۱۲۹ ۴۳۳ ۴۵۱ حضرت مولانا عبد اللطیف شهید حضرت صاحزاده عبد اللہ بن مسعود ،حضرت عبد اللہ بن ابی بن سلول ۵۱۰
1 1 غ غلام محمد ملک غلام نبی گلکار غلام احمد قادیانی حضرت مرزا مسیح موعود علیه السلام ۱۳۷۱۳۵٬۳۳٬۳۲٬۲۸٬۲۲۱۳ فتح محمد جالندھری ۴۳۲ ۳۱ ۲۳۸ ۴۳ ۶۴ ۲ ۷۲۶۷ ۸۹۴ ۹۰ فتح محمد چوہدری ۳۳۲٬۳۰۲٬۲۹۸٬۲۹۷ ۹۵٬۹۳ ۱۰۱ ۱۲۴٬۱۴۱۱۰ ۱۳۹٬۱۲۷ فرزند علی خان ۳۴۵٬۲۹۸٬۲۹۳ ۴۶۴۴۶۱۳۵۱ ۳۴۹ ۳۶۳ ٩٩ B ۲۳۰ ۳۳۲ ۴۳۵ ۴۵۷ ۱۳۸۱۳۶۱۳۰ ۱۴۴ ۱۵۴٬۱۴۷ حضرت مولوی ۲۱۳۶۲۰۷ ۲۲۲٬۲۱۵ تا ۲۲۶٬۲۲۴ فرعون ۲۲۴ ۲۵۱ ۲۲۴٬۲۱۳ ۴۵۷ ۱۶۵ ۲۶۸٬۳۴ ۲۹۰ عبد اللہ خان حضرت نواب عبد اللہ خان افغان عبد اللہ سنوری حضرت خشی عبد اللہ سیٹھ عبدالمجید عبد المطلب حضرت عثمان حضرت عطاء اللہ مولوی عطاء اللہ شاہ بخاری ۲۴۳٬۲۳۲ ۲۶۵٬۲۶۰٬۲۵۹٬۲۵۱٬۲۴۷، فضل کریم ڈاکٹر علی” حضرت عمر، حضرت عمرالدین شملوی حضرت مولوی ۳۴۲۶٬۲۰ ۲۸۲٬۲۸۰٬۲۷۹٬۲۷۶۲۲۷۴٬۲۷۰، فضیل ۳۰۸٬۳۰۳٬۲۹۴٬۲۸۸٬۲۸۷۳۲۸۴ فریڈرک ۲۵۵۱۴۵۶۴ ۸۸۳۴٬۲۲ ۳۴۱۳۳۹۳۲۳۳۱۶۳۱۵۴۳۱۱ ۴۲۶۴۴۲۴٬۴۲۳ ۳۷۷٬۳۶۸٬۳۶۲٬۳۵۸۲۳۵۶٬۳۵۴ ۴۸۲٬۴۷۰٬۴۶۵٬۴۵۷۳۹۸٬۳۹۷ عمرو بن العاص حضرت عیسی حضرت ۱۳۱ ۸۹ 'rzdroʻriam'ırs ۱۳۹۷۳۵۸۲۳۵۶۳ ق قاسم علی میر ۴۹۸ تا ۵٬۵۰۰ تا ۵۳۲٬۵۳۱٬۵۲۶٬۵۱۳ غلام حسن مولوی 122 کرم دین اغلام حسین مونوی غلام رسول حضرت مولانا راجیکی ۴۳۳ 162 کمال الدین خواجہ گاندھی گ ۳۱۹۲۰۳٬۸۶٬۸۳۷ ۴۰۰ ۳۹۹٬۳۲۲٬۳۲۱ ۷۲ غلام قادر سیالکوئی ۵۳۳۴۹۹٬۴۵۷٬۴۵۲
64,44304,4h,17,dll, ۲۴۰۲۳۹٬۲۰۷۲۰۶ ۱۹۵ ۲۸۸٬۲۸۴۲۶۵ ۲۶۰۲۵۹٬۲۴۳ ۳۳۷۳۲۴٬۳۲۳٬۳۱۱۳۰۱۲۹۹ والدها الله اله والله الله الله الله الله 1070 ۴۷۹٬۴۸۱۴۶۶۴۴۶۵۴۶۱ ་་ وله والله ولد والد الدوله لوله لوله 07 ولد اولد 7 ال 7 ال 100 ل 40 والد الده اله لد له ولد لها الداله ما والد الد له ولد له اليه والداها ۵۰۶۲۵۰۳٬۵۰۱٬۵۰۰٬۴۹۵ ۵۲۲٬۵۲۱٬۵۱۴٬۵۱۲٬۵۰۹ ۵۲۸٬۵۲۷ > لم ۲۳۰ گل محمد مرزا لیکھرام مارکس م مبارک احمد حضرت مرزا ۴۲ محمد اسلم حضرت قاضی ۲۵۷۱۳۶ محمود احمد شیخ محمد رسول الله ال حضرت ١٠٩٣٢ محمد اسمعیل حضرت میر محمود اللہ شاہ الله الله الله والله ولده إلا الله 17,0V, VV,bv, db, Jb, hb, 76, 44J04,00,70,7h,•7,07,| الله الله ,01,701,411,017 ۱۶۰٬۱۵۸٬۱۵۶۱۴۷۱۴۵ ۱۴۴ | ۱۸۲۱۷۵۱۷۰ ۱۶۵ ۱۶۴ ۱۶ ۲۰۶۲۰۵٬۲۰۱۲۰۰۱۹۷۱۸۳ ۴۲۱۸٬۲۱۵۲۲۱۳ ۲۱۰۲۰۹ ۲۰۸ ۲۳۲٬۲۲۸٬۲۲۵۲۲۲۳٬۲۲۱ ۲۵۵٬۲۵۱٬۲۴۲٬۲۳۷۲۲۳۵ ۲۷۱۲۶۸٬۲۶۷۲۵۹٬۲۵۸٬۲۵۶ ۳۵۸٬۳۵۶۳۲۳٬۳۲۱٬۲۸۵٬۲۷۹ ۳۰ ۳۷۸٬۳۷۷٬۳۱ تا ۱۳۸۰ ولد الوالد الد ولد ولد bo70 محمد اشرف مرزا Vbl ۴۳۲ حضرت سید محمد حسین بٹالوی ۱۸۴٬۶۵ ۱۸۵ ۳۱۵ محمود طرزی محمد حسین حکیم محمد سلیم مولوی محمد شریف ۱۳۳ محی الدین ابن عربی حضرت مظهر علی مولوی معاویہ حضرت امیر ۳۹۵ ۳۵۳٬۳۵۱ ۳۱۰ ۵۲۳ ۳۹۰٬۲۹۰ ۴۱۸۱۲ چوہدری، وکیل ۲۳۲ ۲۳۳ | معراج الدین مرزا ۲۹۴٬۲۷۵ محمد ظفر اللہ خان لله الله الله 70,000 حضرت چوہدری سر ۱۳۶۳٬۳۵۰٬۳۴۲۰ معین الدین چشتی محمد غوث الدها والده اليد ولد الولد 70 ليال ง منصور محمد علی خان حضرت نواب ۱۵۴ منظور محمد حضرت پیر ۳۰۰ مهتاب بیگ مرزا مورنسی محمد علی مولانا محمد یوسف قاضی ۴۵۷ مور محمود احمد حضرت مصلح موعود موسیٰ حضرت Ar ۳۱۶۳۱۵ = ۲۸۰ 10,70,7JI,
۳۸۳٬۳۸۲ ΓΙΑ ۴۱۸ ۲۰۰ F ۵۳۲٬۵۳۱ ۴۹۹ ۳۹۵ ۴۰ ۸۰ ۱۲ میلکم ہیلی سر - ۵۰۰۰۲۷۹٬۲۵۱٬۲۵۰ نعمت اللہ حضرت مولوی نادرشاه ناصر احمد حضرت مرزا ناصر نواب حضرت میر ۲۸۰ (شهید کامل) ۳۲۶۴۳۱۰ ہارون الرشید نورالدین حضرت مولوی ۱۷۴‘ ھر قل ۲۱۸۴۱ ۳۶۴٬۲۲۲ ۲۷۳ نانک حضرت بارا ۲۰۲٬۳۳۹٬۳۳۸ | نپولین ۴۸۹٬۴۸۸٬۲۳۰٬۱۵۸٬۱۵۷ ۶۷٬۵۹٬۴۸٬۳۶٬۳۵٬۳۲ ہندہ ۱۳۶۸ ۱۵۵٬۱۵۴٬۱۲۹٬۱۲۵ ھود حضرت *rry***2*129°22′24 ۴۲۰۳۰۸۲۶۷۲۵۴۲۵۳ ۵۳۳۴۷۷۴۷۶۴۶ یار محمد مولوی یزید نذیر احمد دھلوی ڈپٹی نصر اللہ خان حضرت چوہدری ۳۱ ۴۹۶۴۸۱ یعقوب علی حضرت شیخ عرفانی ولی اللہ شاہ حضرت ۴۳۳٬۳۶۴۴۳۱۰ یوسف حضرت نصرت جہاں بیگم حضرت ہارڈنگ مسٹر نظام الدین مرزا ۲۷۳ ۳۸۰۳۷۷ یوسف علی شیخ
۴۶۵٬۸۰۷۹ له الله الله 17 لد الله له و له ۷۷ ۳۹۸ لد 70 bb, حاله ۳۴۵ ۴۶۵ ۴۳۴ ۳۵۳٬۲۹۱ ۴۶۰٬۴۵۷ ولد الله له ولا الله ۳۵۰ الله مقامات ۱۳۴ | جرمنی ۴۶۵ جھنگ ۲۱۸۱۵۳٬۳۹ چ ۴۶۵٬۴۵۹٬۳۹۱۴۳۰۹ ۴۶۵۳۹ ۴۶۸ بغداد بمبئی بنگال بہار ۱۴۵ ۶۵۳۱۰ (۲۶۵٬۴۰۰٬۳۹۸٬۲۸۸ آئرلینڈ اٹلی افریقہ افغانستان ۲۰۴٬۲۰۳٬۲۰۲٬۸۹۴۷ بجھنے پشاور پنجار hdd,744,464 والد ۷ و والد وله ولد 7, LV1,004,7V4,164,4BA, ۳۰۰٬۲۹۹٬۲۹۸٬۲۹۵٬۲۹۴ d+4‚J*~‚h+d‚7+d‚b+d, دمشق دہلی ڈیرہ غازی خان ۳۴۵٬۳۳۵٬۳۲۳٬۳۲۱۲۳۱۸ رنگون ٬۳۸۳٬۳۵۵٬۳۵۲٬۳۵۰٬۳۴۷ روس جاپان جالندھر جاوا ولد الله د ولد الله الله الله والله ۷۷ 2 س ۵۰۷٬۴۵۵٬۴۴۸ ساؤتھ افریقہ ستکوه (گاؤں) ۴۳۴٬۲۸۸ | سرحد ۲۹۰٬۲۸ سرگودھا ۴۳۴٬۲۸۸۴۷۸ سری گوبند پوره ۴۸۹٬۳۱۰٬۲۸۸٬۲۱۸ ۲۹۷۲۹۰٬۲۷۲٬۱۹۵ ۴۳۳٬۳۸۱٬۳۱۵٬۲۹۸ امرتسر امریکہ انبالہ ۴۸۴۴۸۰٬۴۴۹ ۲۸۸۱۴۵۱۰۸٬۸۰٬29 لد 77 والد والد الله له وانه ۷۵ انگلستان (برطانیه) ۲۸۸٬۲۸۲٬۹۰ ۲۸ لمه الله والله له اوله الله الله انا اه اه الله |۳۸۶٬۳۸۵٬۳۶۳٬۳۵۹٬۳۴۱ لد ٥٧ ولد ولد الله ولد الد ولد الله والله ٧٥ ۲۸۸٬۲۸۵٬۲۱۸٬۸۹ ۸۹ ۴۸۱٬۴۸۰۳۶۷۹۰ ایران بٹالہ
۴۶۱۴۶۰٬۴۵۰٬۳۸۸٬۳۸۷ ۴۶۵ اله قادیان ق •V¸¡V‚dV‚©V¸bll¸ddl¸•71, 10,4h,Oh,Vh,bh,17,77, 1,4,7,1,V1,04,4WN, |'rri°r•ª[r•z°19^°19-'IA• ت ۲۲۴ ۲۲۹ ۲۳۰ ۲۵۷٬۲۴۴ کینیڈا کھریپر کوفه ۱۲۹۰٬۲۸۷٬۲۷۷٬۲۶۹۴۲۶۷ گجرات ۴۹۹ 기 ۲۹۱ ۳۳۲٬۳۲۵٬۳۱۵تا۴۳۴۱۴۳۳۵ گورداسپور ۲۹۵٬۲۹۴٬۱۸۶۶ ۱۳۱۲٬۳۰۳۲۲۹۸٬۲۹۵٬۲۹۱ گوجرانوالہ ۲۳۶۱۹۸۱۳۷۶۸ ۳۰۴٬۳۰۳٬۲۹۹٬۲۹۷ ۳۵۲۲۳۵۰٬۳۴۶۲۳۴۴۳۴۲ ۴۸۹ لولدها اله الله الله الله 10 والله لها ہ کریم کی لا اله الا الله ل ا ل ل ا ل له ولا اله اله ولد اله ولله الله الله الله Vo, oh لاہور لائل پور ل له الله الله الله اله الله لله والله 71130 dd10d,hh,Vh‚IV¸hV,711, 6,04,711+d, الدليل الداء الله او الله لعل الله له 7JI,VI,ALI,771,V71,hd, | hhs]Vhs,172,471,67jJIVA, ۵۳۲٬۵۱۹٬۵۰۸٬۵۰ ۷٬۴۹۴۴۴۸۹ ۳۵۷۳۲۶ ۳۲۳ لوله فا لها ۲۹۷٬۲۹۵۲۲۹۳٬۲۹۰۲۵۹۲۵۱ ۱۲۲ ۳۹۸٬۳۹۰۳۷۷۳۰۳٬۲۹۸ ۴۹۹ ولا اله الا الله لا اله الله الله ولد العبدالله ولد الله وليد الد ولده المد و اطاله ولدا بک کامل الد الله الدوله ۷۶,۷۷ لد 70 ۱۲۵ ولد له وله لها الله او له ۴۸۱۴۵۸٬۴۳۳ ۴۸۹ ٣٨٦ ۲۹۳٬۲۸۲٬۲۰۵۱۷۸ ۱۷۷ ۱۲۰ ۱۶۴ BV,6,4,4, ۵۰۶٬۴۵۱٬۳۸۰ ۰ سکندر آباد سیالکوٹ سندھ سیلون شام شیخوپورہ شملہ طائف کانپور ۳۱۰۲۰۶٬۸۰٬۷۹ کانگڑہ فرانس فلپائن ۴۸۹۴۸۸٬۴۶۵٬۴۲۹ له الله الله کربلا کالی کٹ IV,171,764,1 فیروز پور
ہندوستان ۱۸۶۱۷۷٬۹۰٬۸۹٬۸۷ ۲۰۳٬۹۴تا۲۱۸٬۲۱۷٬۲۰۵ ۳۱۶۳۰۸٬۲۸۸۲۷۲۲۶۹ الدلدل والد الده الدالله له ولد الله اولد الد7 لدان المنه والده الله والله والله ٧,٦٧ المه له والله لهما والله انا والله الله والله انا ۴۹۴۴۴۸۹٬۴۶۵٬۴۵۹٬۴۵۱ لد لده 'TIA'100'ior'lor'29 ٧٧ ولد له ولدان والد الله الله 76 الله خالد والله ۷۷۸,۵۰ اله الله ہوشیار پور یورپ ۱۵ ۵۰۵٬۵۰۴٬۴۸۹٬۴۸۴ ۲۹۰ Vod, bod الد الله الله والد الله الله ۴۲ ۴۸۹ ۳۵۲ VLJ ۲۰۳ ۳۹ ۴۸۸ ۵۰۸٬۴۸۱٬۴۸۰ ۲۹۰ ۱۲۲ متان مكانا نتگمری مونگهیری میانوالی ۴۸۹۳۹۸ ۱۵۴ ۴۶۵ لدھیانہ ماریشس مالا بار مالیر کوٹلہ مدراس مرا کو ۱۰۳۷۹ ۲۲۸٬۲۱۰۲۰۸ نائجیریا ۱۳۵۸٬۲۶۸٬۲۶۷۲۵۹۲۵۸٬۲۳۷ ننکانہ صاحب ۲۹۸٬۴۸۴٬۴۷۱٬۴۰۸٬۴۰۷۳۸۰ ننگل ۳۸۶ نیوزی لینڈ ۴۸۹ معین الدین پور (گجرات) (۲۹۲۴۲۹۱ مه ۱۳۸۰۲۳۷۸٬۲۰۸٬۱۶۳٬۹۹ نیپال واٹرلو ولده والده الدالله لله ولد الية
1 ۱۲۵٬۸۱٬۸۰ ۳۵۹٬۳۵۷٬۳۱۵٬۲۸۴ ۱۳۸۱۲۷ ۳۱ ۱۲۹ زمیندار (اخبار) س سرمه چشم آرید کشاف (تفسیر) لیکچر لاہور ۳۲۳ ۱۹۳ ۳۱ ۳۱ ۱۶ I کتابیات صلح پیغام ع (اخبار) تشحيذ تفسیر رازی ۲۸۴ ۳۲۳٬۲۹۲٬۲۰۵٬۱۰۰ ۴۵۱ ۲۰۱۲۰۰ ۳۵ ۲۰۵٬۶۴ جلالین ۱۲۸٬۶۵۶۴ ز ۳۱ احسان (اخبار) الفضل بائبل بخاری بدر (اخبار) براہین احمدیه بیضاوی (تفسیر)