Language: UR
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خطبات علوم و معارف کا ایک انمول خزانہ ہیں اور پیش گوئی کے الہامی الفاظ ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیاجائے گا‘‘ پر شاہدناطق ہیں۔ آپؓ کا دور خلافت نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے جو ایک تاریخ ساز دور تھا۔ اس نہایت کامیاب اور طویل دور میں آپؓ نے اپنے خطبات جمعہ کے ذریعہ جماعت کی تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ سیاسی، سماجی اور مذہبی افقوں پر نمودار ہونےوالے ہر معاملے پر بروقت اور درست رہنمائی عطافرمائی۔ الغرض یہ خطبات جمعہ جماعت احمدیہ کا ایک بہت ہی قیمتی خزانہ اور سرمایہ ہیں۔ جسے فاؤنڈیشن نے یکجا کرکے کتابی شکل دی ہے۔
خطبات و (خطبات جمعہ) ۹۳۱ فرموده سیدناحضرت مرزا بشیرالدین محمد احمد مصلح المو خلیفة الی الثانی مشید زیر اهتمام
KHUTUBAT-I-MAHMUD by HADRAT MIRZA BASHIR-UD-DIN MAHMUD AHMAD KHALIFATUL MASIH II Published by: Islam International publications Ltd.Islamabad, Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU 10 2 AQ U.K.Printed by: Raqeem Prees, Islamabad, Tilford, Surrey.
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيم نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ پیش لفظ اللہ تعالی کے فضل و احسان سے فضل عمر فاؤنڈیشن کو حضرت مصلح موعود کے خطبات چودھویں جلد احباب کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت نصیب ہو رہی ہے.اَلْحَمْدُ لِلّهِ عَلى ذلِكَ - اس جلد میں ۱۹۳۳ء کے ۳۴ خطبات جمعہ شامل ہیں.حضرت فضل عمر سلطان البیان کے خطبات علوم و معارف کا انمول خزانہ ہیں اور پیشگوئی کے الہامی الفاظ وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا" پر شاہد ناطق ہیں.حضرت مصلح موعود کا دورِ خلافت جو کم و بیش ۵۲ سال پر محیط ہے ایک تاریخ ساز دور تھا.اس نہایت کامیاب طویل دور میں حضور کے خطبات نے جماعت کی علمی و روحانی ترقی اور تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا.ہمارا یہ روحانی و علمی ورثہ سلسلہ کے لٹریچر میں بکھرا پڑا تھا.اور جماعت کے دوستوں کو اس سے استفادہ کرنا مشکل تھا.فضل عمر فاؤنڈیشن اس جماعتی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے ان خطبات کو کتابی شکل میں شائع کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں ان خطبات سے پورے طور پر استفادہ کرنے اور جماعتی ذمہ داریوں کو احسن رنگ میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.
فہرست مضامین خطبات محمود خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده 11 (خطبات جمعہ ۱۹۳۳ء) جلد ۱۴ موضوع خطبه ۱۳ جنوری ۱۹۳۳ء رمضان کے مبارک ایام میں غلبہ اسلام کیلئے دعائیں کرو.۲۰ جنوری ۱۹۳۳ء رمضان المبارک کا بابرکت آخری عشرہ.۲۷ جنوری ۱۹۳۳ ء رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو سکتا ہے.۱۷ار فروری ۱۹۳۳ ء اللہ تعالیٰ کے عفو کا صحیح مفہوم سمجھنے کی کوشش کرو.۲۴ فروری ۱۹۳۳ ء اعمال کے ساتھ نیت کی درستی بھی ضروری ہے./ مارچ ۱۹۳۳ء تبلیغ احمدیت میں صبر و استقلال سے مشغول رہنے کی ہدایت.۱۰ مارچ ۱۹۳۳ء تبلیغی جدو جہد کے ساتھ دعائیں بھی کرو.۱۷ مارچ ۱۹۳۳ ء ابتلاؤں کا سلسلہ ایمان کو تازہ رکھنے کیلئے نہایت ضروری ہے.۲۴ / مارچ ۱۹۳۳ء تبلیغ کے ساتھ دعاؤں میں بھی لگے رہو.۳۱ مارچ ۱۹۳۳ء نیکی اور تقویٰ کے ذریعہ فتح حاصل کرو.صفحه ۱۵ ۲۵ I ۴۳ ة LL ۸۷ ۱۴ را پریل ۱۹۳۳ء اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لئے فتح مقدر ہو چکی ہے.۲۱۱۲ اپریل ۱۹۳۳ء خلیفہ وقت کی مجلس میں بیٹھنے والوں کیلئے چند ضروری آداب.۹۶ ۵ مئی ۱۹۳۳ء جذبات فطرت کو کچلنے کی بجائے انہیں شریعت کے ماتحت رکھو.۱۳ ۱۴ ۱۵ ۱۹ مئی ۱۹۳۳ ء حضرت سیده ساره بیگم صاحبہ مرحومہ کی وفات کے متعلق بعض امور.۲۶ مئی ۱۹۳۳ ء ہمارے سپر د عظیم الشان کام کیا کیا گیا ہے.11.۱۳۴
خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده 17 ۱۷ ۱۸ > ۱۹ ۲۰ موضوع خطبه ۲ جون ۱۹۳۳ء نظام سلسلہ کی پابندی کے بغیر ترقی محال ہے.۱۹ جون ۱۹۳۳ء چندوں کی ادائیگی میں سرگرمی دکھاؤ.ہے.۱۶ جون ۱۹۳۳ ء اللہ تعالیٰ کی محبت تمام کامیابیوں کی کلید - ۲۱ جولائی ۱۹۳۳ ء انتہائی قربانی کے بغیر کامل ترقی نہیں ہو سکتی.۱۸ راگست ۱۹۳۳ء تمدنی ترقی اور اس کی حفاظت کا طریق.۰۲۱ ۲۵/ اگست ۱۹۳۳ء زندگی حاصل کرنے کیلئے موت کا پیالہ پینا ضروری ہے.۸ ستمبر ۱۹۳۳ ء ادائیگی نماز اور درس القرآن کے متعلق ضروری ارشاد.۲۲ ۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۶ ۲۷ ۲۸ ۲۹ ۳۰ ۳۲ ۳۳ ۳۴ ۱۵ ستمبر ۱۹۳۳۰ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظموں کے ریکارڈ کے متعلق ضروری اعلان.۲۹ ستمبر ۱۹۳۳ء تعلق اللہ وشفقت علی خلق اللہ کی لطیف تشریح.۶ اکتوبر ۱۹۳۳ء تبلیغ احمدیت کے متعلق جماعت احمدیہ کی پوزیشن.۱۳ اکتوبر ۱۹۳۳ء یوم التبلیغ کے متعلق ضروری ہدایات.۲۰ را کتوبر ۱۹۳۳ء مرکزی کارکنوں اور لوکل انجمن کو ضروری ہدایت.۱۳ نومبر ۱۹۳۳ء یوم التبلیغ کے خوش گن نتائج.۱۰ نومبر ۱۹۳۳ء چندہ کی با قاعدہ ادائیگی کے متعلق آخری انتباہ.۱۴۲ ۱۵۲ ۱۵۷ ۱۶۹ ۱۸۳ ۱۸۷ ۱۹۶ ۲۱۶ ۲۲۹ ۲۴۳ ۲۵۶ ۲۶۳ ۲۷۰ ۱۷ نومبر ۱۹۳۳ء أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمُ کا مصداق بنا چاہیئے.۲۷۹ ۲۴ نومبر ۱۹۳۳ء سیرت النبی کے جلسوں کے متعلق اہم ہدایات.یکم دسمبر ۱۹۳۳ ء جوش کی بجائے صبر اور دعاؤں سے کام لو.۸/ دسمبر ۱۹۳۳ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک رؤیا کی تشریح.۲۹ / دسمبر ۱۹۳۳ ء جماعت احمدیہ کی ترقی اور مولوی ثناء اللہ صاحب.۲۸۸ ۳۲۰
خلیات محمود سال ۱۹۳۳ ۰ رمضان المبارک کے ایام میں غلبہ اسلام کیلئے دعائیں کرو فرموده ۱۳ - جنوری ۱۹۳۳ء) تشد، تعوز اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- سکوں یونکہ میری صحت کی حالت اور آواز دونوں اس قابل نہیں ہیں کہ خطبہ پڑھ لئے صرف نماز میں شامل ہونے کیلئے آگیا ہوں.پہلے تو میرا ارادہ تھا کہ مولوی شیر علی صاحب سے کہہ دوں کہ جمعہ پڑھا دیں مگر چونکہ ایک نکاح کے اعلان کا وعدہ کرچکا تھا، اس لئے مناسب سمجھا کہ وہ اعلان بھی کردوں اور جمعہ بھی خود ہی پڑھا دوں.گزشتہ دو تین سالوں سے میں ہر آئندہ سال کیلئے جماعت کے واسطے ایک پروگرام مقرر کیا کرتا ہوں اور خدا تعالی کے فضل سے جماعت ایک حد تک اس پر عمل بھی کیا کرتی ہے.اس دفعہ بھی میرا منشاء تھا کہ اسی طریق کے مطابق پروگرام مقرر کر دوں مگر گزشتہ جمع میں تو بیماری کی وجہ سے میں آہی کا اور آج مفصل تقریر نہیں کر سکتا.اس لئے اسے آئندہ جمعہ پر اگر اُس وقت تک خدا تعالیٰ صحت عطاء کر دے، ملتوی کرتا ہوں.آج صرف اتنی نصیحت پر خطبہ کو ختم کرتا ہوں رمضان کے ایام ہیں جو تندرست ہیں وہ روزے رکھ رہے ہیں اور جو بیمار ہیں وہ اگر روزے نہ رکھتے ہوں مگر ان کے دل روزہ داروں کے ساتھ ہیں اور گو وہ ظاہراً روزہ داروں شامل نہیں مگر قرآن کریم اور خدا تعالیٰ کی منشاء کے مطابق وہ ان میں شامل ہیں.اور وہ اس محبت اور اخلاص کے مطابق جو انہیں اللہ تعالی اور اس کی عبادات سے ہے، رمضان کی برکات سے حصہ لے رہے ہیں.
خطبات محمود سال ۶۱۹۳۳۳ یہ دن زائد عبادات کے ہیں.اس لئے دوستوں کو چاہیے کہ جہاں وہ اپنے لیے اپنے اعزہ و اقرباء کیلئے دعائیں کریں وہاں سلسلہ کی عظمت اسلام کی ترقی اور اس کے دشمنوں پر غالب آنے کیلئے بھی دعائیں کریں.اللہ تعالی اس رمضان کے ذکر کے قریب اور دراصل اسی تسلسل میں ایک بات بیان فرماتا ہے اور وہ یہ کہ وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلْ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ نے یعنی تم جہاں سے بھی نکلو اپنے مونہوں کو مسجد حرام کی طرف پھیر لیا کرو.اس کا مطلب یہ ہے کہ بحیثیت سپاہی تم خواہ کسی کام میں لگے ہوئے ہو ، تمہاری توجہ کا مرکز تمہارا مقصود اعظم ہونا چاہیئے.اور ہمارے لئے مقصود اعظم اشاعتِ اسلام قرار دیا گیا ہے.اس لئے ہمارے روزے نمازیں، حج ، زکوۃ سب میں اسلام کو غالب کرنے کا جذبہ موجود ہونا چاہیے.دشمن خوش ہے کہ اس نے اسلام کی جڑوں پر تبر رکھ دیا ہے اور اس کی روح کو مٹا دینا چاہتا ہے.اس کے نزدیک اسلام کے نام لیوا موجود ہیں مگر عمل کرنے والا کوئی نہیں.وہ خوش ہے کہ اس نے ایسے بندھن اور ہتھکڑیاں تیار کرلی ہیں کہ جو اسلام کو ہمیشہ کیلئے جکڑ دیں خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول کی روح اور اُس سے محبت کے جذبہ کے متعلق جو بچے مذہب کے غلبہ کا ذریعہ ہوتا ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے مٹادیا ہے.اور خیال کرتے ہیں کہ یورپ کی مادیت نے اسلام کا ہمیشہ کیلئے جنازہ پڑھ دیا ہے.اس حالت میں خدا تعالٰی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث کیا اور ایسے سامان پیدا کردیئے کہ اسلام کو پھر غلبہ دے اور دشمنوں کی خوشی کو ماتم سے بدل دے.بیشک و شمن ظاہری سامانوں کے لحاظ سے بڑا ہے اور خوش ہے کہ عمدہ کھانے کھا کھا کر اس قدر قوت پکڑ چکا ہے کہ اسلام کو مسل ڈالے.مگر خد اتعالیٰ نے فیصلہ کیا ہے کہ روزے رکھ کر اپنے آپ کو ڈبلا کرنے والی قوم کو اس ہ علمیہ دے.خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام یوسف رکھا ہے اور اس کے ایک جانشین کا بھی.اس میں یہ بھی حکمت ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں بادشاہ نے خواب دیکھا تھا کہ ذیلی گائیں موٹی گائیوں کو کھا گئی ہیں.اس میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ عبادات سے اپنے آپ کو ڈبل کرنے والے مرغن اور مقوی اغذیہ کئی کئی وقت کھاکر موٹا ہونے والے دشمن پر غالب آجائیں گے اور مسیح کی ذیلی گائیں موٹی گائیوں کو کھا جائیں گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام گوپال بھی رکھا گیا ہے.اور آپ کی
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ و جماعت کے لوگوں کو گائے قرار دیا گیا ہے.اور حضرت یوسف علیہ السلام نے بتایا ہے کہ ڈیلی گائیں پلی ہوئی گائیوں کو کھا جائیں گی.تم روزے رکھ کر اپنے آپ کو ڈیلی گائیں بناتے ہو اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یوسف اور گوپال قرار دیتے ہو.اور اس طرح موقع پیدا کرتے ہو کہ اللہ تعالٰی اِس رنگ میں اپنا جلال ظاہر کرے کہ موٹی کو ذیلی گائیں کھا جائیں.پس مت گھبراؤ کہ روزے رکھ رکھ کر تم ڈیلے ہو رہے ہو، کیونکہ یہ روزِ ازل سے مقدر ہے کہ ڈبلا بنا کر تمہیں موٹوں پر غالب کیا جائے.خدا تعالی کی شان یہی چاہتی ہے اور اس کے دبدبہ اور شوکت کا یہی تقاضا ہے.میں اللہ تعالٰی سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ان پیشگوئیوں کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وابستہ ہیں ہمارے حق میں پورا کرے ، ہماری کمزوریوں کو دُور کر کے اپنا قرب عطا کرے اور دشمن پر غلبہ دے جو خواہ اندرونی ہو یا بیرونی.ه البقرة : ۱۵۱ الفضل ۱۹ جنوری ۱۹۳۳ء)
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء رمضان المبارک کا بابرکت آخری عشرہ دُعاؤں کی قبولیت کے ایام (فرموده ۲۰ - جنوری ۱۹۳۳ء) تشر ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- چونکہ کھانسی کی وجہ سے میرا گلا ابھی صاف نہیں ہوا اس لئے میں زیادہ تو بول نہیں سکتا لیکن چونکہ یہ رمضان کا آخری عشرہ ہے اور خصوصیت کے ساتھ برکات کے دن ہیں اس لئے جماعت کے دوستوں کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ وہ جس حد تک ہوسکے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں.اللہ تعالٰی نے ہمارے تمام کاموں کی کامیابی کو دعاؤں پر مبنی کیا ہے اور یہی ایک ایسی چیز ہے جس کے ذریعہ مشکل سے مشکل کام میں کامیابی ہو جاتی ہے.نادان اپنی نادانی سے بعض ایسی دعاؤں کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ کی مصلحت کے ماتحت قبول نہیں ہوتیں یا بعض ایسی دعاؤں کی وجہ سے جن کی نسبت وہ خیال کرلیتا ہے کہ قبول نہیں ہوئیں، اس غلط فہمی میں مبتلاء ہو جاتا ہے کہ دعا ایک بے فائدہ چیز ہے.حالانکہ دعا ایسا زبردست آلہ اور زبردست ہتھیار ہے کہ اس کے ذریعہ اگر پہاڑوں کو بھی ہلایا جائے تو وہ ہل جاتے ہیں.بڑے سے بڑے ہتھیار جو اس زمانہ میں ایجاد ہوئے ہیں جن کو پہلے دنیا نہیں جانتی تھی وہ توپ اور ہم ہیں.لیکن توپ کے گولہ کا لگنا بھی یقینی نہیں ہوتا اور توپ بھی کچھ میلوں پر جاکر آخر ہو جاتی ہے.ہوائی جہاز کے بم بھی اکثر خطا جاتے ہیں.پھر ان سے بچنے کے ذرائع بھی موجود ہیں.لیکن دعا ایک ایسی چیز ہے جس کے حملہ سے بچاؤ کسی کیلئے ممکن نہیں.
خطبات محمود مخالف سال ۱۹۳۳ء رسول کریم ان کے زمانہ میں یہود کی خفیہ ریشہ دوانیوں کی وجہ سے ایران کے بادشاہ کو جو آج کل کی انگریزی حکومت کی طرح نصف کرۂ عالم پر قابض تھا اور تمام ایشیاء میں اس کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی، اسے رسول کریم ﷺ کے متعلق خیال پیدا ہوا کہ وہ میرے ہیں اور شاید میری سرحد پر فساد کرنا چاہتے ہیں.اس نے اپنے یمن کے گورنر کے نام خط لکھا کہ میں نے سنا ہے عرب میں ایک ایسا شخص پیدا ہوا ہے جو نبوت کا مدعی ہے، تم فوراً اسے گر فتا کر کے میرے پاس بھیج دو ایرانی حکومت کا جو دبدبہ اور رُعب اُس زمانہ میں تھا اور جس قدر شوکت اسے حاصل تھی، اس کو دیکھتے ہوئے یمن کے گورنر نے گرفتاری کیلئے کوئی فوج بھیجنے کی ضرورت محسوس نہ کی بلکہ صرف تین آدمی بھیج دیئے اور انہیں حکم دیا کہ جاکر اس شخص کو لے آؤ.ساتھ ہی نصیحت کی کہ شاید عرب کا باشندہ ہونے کی وجہ سے وہ کسری کی شان و شوکت سے ناواقف ہو، اس لئے اسے کہنا کہ وہ بغیر کسی حجت اور قیل وقال کے آجائے.میں کسری کے پاس اس کی سفارش کروں گا اور کہوں گا کہ اگر اس کا قصور بھی ہے تو معاف کردے.وہ لوگ رسول کریم اے کے پاس آئے اور آکر اپنا یہ مقصد بیان کیا کہ ہم لئے آئے ہیں کہ تا آپ کو گورنر یمن کے پاس حاضر کیا جائے.آپ نے فرمایا: میں تیسرے دن اس کا جواب دوں گا.انہوں نے کہا ہم خیر خواہی سے آپ کو کہتے ہیں کہ کسی نے کسری کے پاس آپ کی جھوٹی شکایت کردی ہے.اگر آپ گورنر بہن کے پاس حاضر ہو جائیں گے تو وہ آپ کی سفارش کا وعدہ کرتے ہیں.آپ نے پھر وہی جواب دیا اور فرمایا میں تیسرے دن اس کا جواب دوں گا.آپ مدینہ میں تھے اور کسری مدائن میں.مدینہ اور مدائن کے درمیان بیسیوں مضبوط قلعے تھے جن میں دس دس پندرہ پندرہ ہزار فوجی تھے.مدائن کو فتح کرتے وقت باوجود اس کے کہ اسلامی لشکر سیلاب کی طرح بڑھتا چلا جاتا تھا پھر بھی سالہا سال اور ہزارہا مسلمان ایک ایک لڑائی میں شہید ہوئے.مگر باوجود اس کے کہ ہزاروں آدمیوں کے مارے جانے کے بعد مدائن فتح ہوا اور باوجود اس کے کہ اس کو فتح کرنے میں سالها سال لگے، آج تک مسلمان اس فتح کو معجزہ قرار دیتے ہیں اور یورپ اس کی توجیہیں کرتا ہے.پس اگر اس وقت رسول کریم ال کو وہی شوکت حاصل ہوتی جو حضرت عمر کے وقت مسلمانوں کو حاصل تھی.اور اگر آپ اس گستاخی کے جواب میں کسری پر حملہ بھی کرتے تو بھی مدائن کو فتح کرنے میں کئی سال لگتے.اور ممکن تھا کہ اس فتح کے بعد کسری کسی اور علاقہ اس لگے.ا
خطبات محمود سال ۱۹۳۴۳ء میں بھاگ جاتا یا کہیں چھپ جاتا اور اس طرح مسلمانوں کے حملہ سے محفوظ رہتا.غرض انسانی تدابیر کے ساتھ اگر یہ بات ممکن بھی ہوتی، تب بھی اس کیلئے سالوں چاہئیں تھے.مگر رسول کریم ﷺ نے اللہ تعالٰی سے دعا کی اور جب تیسرے دن وہ لوگ جواب کیلئے حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا تم جاؤ.اُس زمانہ میں کسری کی رعایا اُسے خداوند کہہ کر یاد کیا کرتی تھی.گویا وہ ان کا مجازی خدا تھا.اور ہمیشہ بات کرتے وقت وہ کسریٰ کو خداوند کہتے اور کہا کرتے تھے کہ ہمارا خداوند یوں کہتا ہے.آپ نے بھی اسی تلازمہ ان کو مد نظر رکھتے ہوئے فرمایا.جاؤ! میرے خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ آج کی رات اس نے تمہارے خداوند کو مارڈالا ہے.وہ لوگ یہ الفاظ سن کر کانپ اُٹھے اور کہنے لگے شاید یہ دیوانہ ہو گیا ہے جو کسریٰ کی طاقت سے اس قدر ناواقف ہے.انہوں نے کہا.آپ اپنے آپ پر اور اپنے ملک پر رحم کریں کسری کی فوجیں عرب کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گی.آپ نے فرمایا- میں نے جو کچھ کہنا تھا کہہ دیا.میرا وہی جواب ہے، جاکر گورنر سے کہہ دو.وہ لوگ واپس چلے آئے.اور انہوں نے گورنر سے کہا کہ یا تو وہ شخص دیوانہ ہے اور یا خدا کانبی.گورنر کہنے لگا ہم انتظار کریں گے.اگر اس کی یہ بات کچی نکلی تو وہ واقعہ میں خدا کا نبی ہوگا اور ہم اُس کی اطاعت میں جلدی کریں گے.غرض اُس نے انتظار کیا، یہاں تک کہ ایران کے جہاز وہاں پہنچے اور ایران کے بادشاہ کا خط گورنر یمن کے نام آیا.اُس زمانہ میں جیسا کہ دستور تھا گورنر چند قدم بڑھ کر آگے آیا.اس نے ایچی سے خط لیتے ہوئے اسے بوسہ دیا، سینہ سے لگایا اور پھر اسے کھولا.مگر جب اس نے خط اپنے ہاتھ میں لیا تو معا اُس کا رنگ متغیر ہو گیا.کیونکہ اس پر اس بادشاہ کی مہر نہیں تھی جو اُس وقت حکمران تھا جبکہ وہ گورنر بنایا گیا تھا بلکہ اس کے بیٹے کی مہر تھی.اس نے خط کھولا تو اس میں لکھا تھا، ہم نے اپنے باپ کے ظلموں کو دیکھ کر اور یہ محسوس کر کے کہ رعایا اس سے سخت تنگ ہے، اسے فلاں دن قتل کر دیا ہے اور اب ہم تخت حکومت کے وارث ہیں.گورنریمین نے جب حساب لگایا تو اسے معلوم ہوا کہ جس رات کسری قتل ہوا، وہ وہی رات تھی جب رسول کریم ! نے بتلایا تھا کہ آج رات میرے خدا نے تمہارے خداوند کو مارڈالا ہے.پھر آگے لکھا تھا.ہمارے باپ نے عرب کے ایک مدعی نبوت کے متعلق بھی ایک ظالمانہ حکم جاری کیا تھا.ہم اسے بھی منسوخ کرتے ہیں، اس بارے میں قطعا کوئی کارروائی نہ کی جائے ہے.- ا
خطبات محمود سال ۱۹۹۳ اب کجا مدینہ اور کجا مدائن، سینکڑوں میلوں کا فاصلہ ہے.درمیان میں بیسیوں ایسی چھاؤنیاں ہیں جو فوجوں سے پُر ہیں اور جن کا مقابلہ متمدن حکومتوں سے بھی نہیں ہو سکتا تھا.چنانچہ قیصر کی حکومت بھی اپنی شوکت کے باوجود مدائن کو فتح کرنے سے قاصر رہی.اگر رسول کریم ان کے پاس تو پیں بھی ہوتیں تو کہاں تک مار کرتیں.مگر دعا تھی جو آسمان پر گئی اور وہاں سے مدائن پر بم گرا جس نے کسری کو ہلاک کر دیا.ہوائی جہازوں کے بم اِدھر اُدھر گر سکتے ہیں مگر دعا کا ہم کبھی خطا نہیں کرتا اور ہمیشہ نشانہ پر بیٹھتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بھی یہی حال تھا.دشمنوں نے آپ کو گرفتار کرنا چاہا مگر خدا نے ہمیشہ آپ کو محفوظ رکھا.ایک انگریز نما پادری تھا، اُس نے ایک شخص کو سکھلا دیا کہ وہ کے حضرت مرزا صاحب نے اس کے قتل کیلئے اسے بھیجا ہے.وہ زمانہ آج سے ۳۵ سال پہلے کا تھا جبکہ ہر انگریز دنیا میں خدا کا بروز سمجھا جاتا تھا اور جبکہ بڑے سے بڑا نواب بھی اس کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرتا اور کانپتا تھا.اُس وقت ایک پادری شکایت کرتا ہے کہ مرزا صاحب نے ایک شخص کو میرے قتل کیلئے بھیجا ہے.ڈپٹی کمشنر بغیر تحقیقات کے آپ کے نام وارنٹ جاری کر دیتا ہے.مخالف خوش ہوتے ہیں کہ ابھی مرزا صاحب ہتھکڑی پہنے عدالت میں حاضر کئے جائیں گے.مگر ادھر ڈپٹی کمشنر نے وارنٹ جاری کیا، اُدھر بغیر کسی قسم کی زمینی اطلاع کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بتایا جاتا ہے کہ حکومت کی طرف سے ایک خطرہ ہے مگر وہ یونسی اُڑ جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس الہام کو اپنی جماعت میں بیان کر دیتے ہیں.اُدھر عیسائی آریہ اور غیر احمدی مولوی تمام اکٹھے ہو جاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گرفتار کرائیں.چونکہ لیکھرام کا واقعہ ابھی تازہ تھا اس لئے پنڈت رام بهجدت مشهور آریہ وکیل اپنی خدمات عیسائیوں کیلئے مفت پیش کرتا ہے.اور کہتا ہے کہ وہ نہ صرف لاہور کیلئے اپنی خدمات پیش کرتا ہے بلکہ بٹالہ آنے کیلئے بھی ہر وقت تیار ہے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی عیسائیوں کی امداد کیلئے تیار ہو جاتے ہیں.اور کہتے ہیں کہ میں عدالت میں مرزا صاحب کے خلاف گواہی دوں گا کہ یہ شخص واقعہ میں ایسا ہی مجرم ہے.غرض سارے کے سارے دشمن مل کر عدالت میں اِس امید کے ساتھ جاتے ہیں کہ وارنٹ گیا ہوا ہے، ابھی مرزا صاحب کو ہتھکڑی لگائے عدالت میں حاضر کیا جائے گا.لیکن
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ الی تصرف اور خدائی سامان کے جن کے سامنے انسانی تدابیر سب باطل ہو جاتی ہیں، ان کے نتیجہ میں ہوتا یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بالکل آزادی کے ساتھ عدالت میں پہنچتے ہیں.ڈپٹی کمشنر آپ کو نہایت اعزاز سے کرسی پر بٹھاتا ہے.یہ دیکھ کر دشمن حیران ہو جاتا ہے کہ جاری تو وارنٹ ہوئے تھے مگر یہ آزادانہ طور پر یہاں کس طرح پہنچ گئے.مگر ان کو کیا معلوم کہ الہی تصرف نے وارنٹ کے ساتھ کیا کیا.ڈپٹی کمشنر نے وارنٹ تو جاری کردیا لیکن اس کی تعمیل میں التواء ہو گیا.وارنٹ کہیں کاغذوں کے نیچے دب گیا.تیسرے دن اسے خیال آیا میں نے جو وارنٹ جاری کیا ہے مجھے اس کے جاری کرنے کا اختیار نہیں تھا.وہ فوراً گورداسپور تار دیتا ہے کہ میں نے جو مرزا صاحب کے متعلق وارنٹ جاری کیا ہے اس کی تعمیل نہ کی جائے.گورداسپور کی عدالت والے حیران ہوتے ہیں کہ ایسا وارنٹ تو کوئی آیا نہیں.وہ لکھتے ہیں ایسا وارنٹ ہمیں نہیں ملا.آخر وارنٹ جاری کرنے والے ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے کاغذات میں ہی پڑا رہتا ہے اور اُسے بھیجنے کی بھی توفیق نہیں ملتی.گورداسپور کا ڈپٹی کمشنر جو اب تک زندہ ہے، ڈگلس اِس کا نام تھا.وہ سخت متعصب عیسائی تھا اس کے تعصب کی یہ ایک مثال ہے کہ جب وہ آیا تو اس نے آتے ہی کہا کہ میں سنتا ہوں یہاں ایک شخص مسیح ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، کیا ابھی تک اس کو سزا نہیں ملی.یہ حالات تھے مگر مقدمہ کے دوران میں اس کے دل میں یہ بات میخ کی طرح گڑ جاتی ہے کہ مرزا صاحب پر جھوٹا الزام لگایا گیا ہے.سپرنٹنڈنٹ پولیس نے بیان کیا.میں نے دیکھا بٹالہ کے ٹیشن پر ڈگلس صاحب گھبرائے ہوئے پھر رہے ہیں کبھی ادھر جاتے ہیں اور کبھی اُدھر.میں نے ان کیلئے کرسی بچھائی مگر وہ نہ بیٹھے.میں نے کہا آپ بیٹھ جائیں.وہ کہنے لگے میری طبیعت خراب ہے اتنا کہہ کر پھر ان پر گھیرا ہٹ غالب آگئی اور وہ مضطربانہ حالت میں ٹہلنے لگ گئے.میں نے کہا صاحب! آخر بات کیا ہے.انہوں نے کہا میں حیران ہوں کہ کیا کروں؟ ایک طرف مجھ پر زور دیا جارہا ہے کہ مرزا صاحب پہلی دفعہ قابو آئے ہیں، انہیں اچھی طرح سزا دی جائے.دوسری طرف میری یہ حالت ہے کہ میں جدھر جاتا ہوں مرزا صاحب کی صورت میرے سامنے آجاتی ہے.اور وہ یہ کہتی مجھے نظر آتی ہے کہ الزام بالکل جھوٹا ہے.اتنا کہہ کر ڈگلس صاحب بیٹھ گئے.سپرنٹنڈنٹ پولیس نے مجھے بتایا میں تو پہلے ہی کہہ چکا ہوں، یہ شخص سچا ہے.اور جو مقدمہ کھڑا کیا گیا ہے محض جھوٹا اور بناوٹی ہے.وہ پوچھنے لگے پھر اس کیلئے کیا
خطبات محمود ۹ سال ۱۹۳۳ء تدبیر اختیار کی جائے.سپرنٹنڈنٹ پولیس نے کہا تدبیر یہ ہے کہ گواہ کو عیسائیوں کے قبضہ سے نکالا جائے اور اس سے صحیح صحیح واقعہ پوچھا جائے.ڈپٹی کمشنر نے فوراً آرڈر دے دیا.اور سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس نے اس شخص کو اپنی حراست میں لے لیا اور اس سے اصل واقعہ پوچھا.چونکہ وہ بہت ڈرا ہوا تھا اور عیسائیوں نے اسے دھمکایا تھا.اس لئے پہلے تو اس نے میں کہا کہ مرزا صاحب نے مجھے فلاں پادری کو قتل کرنے کیلئے بھیجا.مگر جب اسے تسلی دے کر پوچھا گیا کہ اور کہا گیا کہ اگر وہ سچ بول دے گا تو اسے کسی قسم کی سزا نہیں دی جائے گی تو وہ روتا ہوا سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس کے قدموں پر گر پڑا.اور کہنے لگا مجھے عیسائیوں نے نیہ سکھلایا تھا کہ میں مرزا صاحب پر یہ الزام لگاؤں اور مجھے کہا گیا تھا کہ اگر تم الزام نہیں لگاؤ گے تو تمہیں چوری کے جرم میں ہم سزا دلوادیں گے.سپرنٹنڈنٹ صاحب نے یہ سارا واقعہ ڈیٹی کمشنر صاحب کو بتلا دیا.جس سے ان کی تسلی ہو گئی اور دو تین معمولی پیشیوں کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بری کر دیا گیا.کر سکتا ڈگلس آج تک زندہ ہے اور وہ بیان کیا کرتا ہے کہ میری زندگی میں یہ ایک عجیب واقعہ ہوا.کئی انگریزوں کو وہ یہ واقعہ سنا چکا ہے اور جب اُس سے پوچھا جاتا ہے کہ اپنی زندگی کا کوئی عجیب واقعہ سناؤ تو وہ یہی قصہ بیان کیا کرتا ہے.غرض یاد رکھو جو کام دعا کر سکتی ہے وہ نہ توپ کر سکتی ہے، نہ بندوق کر سکتی ہے، نہ تلوار کر سکتی ہے، نہ گولہ بارود کر سکتا ہے، نہ تیرو تفنگ ہے، نہ فوجیں کر سکتی ہیں.وہ خدا کی حفاظت میں آجاتا ہے اور یاد رکھو کہ یہ وہ دن ہیں جن میں خدا کہتا ہے کہ مجھ سے مانگو میں تمہیں دوں گا.پس ان دنوں میں دعائیں کرو نہ صرف اپنے لئے بلکہ سلسلہ اور اسلام کی ترقی اور جماعت کی اصلاح کیلئے بھی.اور دعا کرو کہ اللہ تعالٰی اپنا فضل فرما کر قلوب میں وہ نور پیدا کرے جو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے.دنیا پر کفر غالب آ رہا ہے، دہریت پھیلی ہوئی ہے اور عقائد میں تزلزل واقعہ ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ کرے کہ وہ دن جن کے متعلق کفر اور فلسفہ کہتا ہے کہ نہیں آئیں گے، جلد از جلد دنیا آئیں دنیا میں اسلام کی شوکت ظاہر ہو اور دین کا جلال چمکے.الفضل ۲۶ - جنوری ۱۹۳۳ء) ے تلازمہ مضمون کی رعایت سے الفاظ کا استعمال- رعایت لفظی ه طبری جلد ۳ صفحه ۲۴۷ تا ۲۴۹ مطبوعہ دار الفکر بیروت ۱۹۸۷ء
خطبات محمود 7 سال ۱۹۳۳ء رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو سکتا ہے فرموده ۲۷ - جنوری ۱۹۳۳ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- آج غالبا رمضان کا آخری روزہ ہے.چونکہ سنا گیا ہے کہ بعض جگہوں پر قادیان سے ایک دن پہلے روزہ رکھا گیا ہے، اس حساب سے اگر وہ روایت صحیح ہے تو آج تیسواں روزہ ہے.رمضان جن برکات کا حامل ہے، ان میں سے سب سے بڑی برکت قرآن کریم ہے.حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر ایک نیکی کے کام کا انعام الگ الگ ہے لیکن رمضان کا انعام میں خود ہوں اے.اس کے معنی یہی ہیں کہ رمضان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے.اور دوسرے معنی اس کے یہ ہیں کہ قرآن رمضان میں نازل ہوا اور یہ خدا تعالیٰ کا نور ہے گویا رمضان کے ذریعہ دنیا کو خدا تعالیٰ ملا.قرآن کریم میں ہے شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ له - پس یہ وہ بابرکت مہینہ ہے جس نے قرآن کریم حاصل کیا اور اس کے ذریعہ بندوں کو خدا سے ملادیا.رمضان کے دن آئے اور چلے گئے.کئی ایسے ہیں جنہیں اس کی برکات سے پورا فائدہ اٹھانے کا موقع ملا.اور کئی ایسے ہیں جنہوں نے بوجہ بیماری یا سفر کے یا بوجہ بڑھاپے کے یا عورتوں نے بعض ایسے ایام کے جن میں شریعت نے خود روزہ رکھنے سے منع کردیا ہے یا ایام حمل یا رضاعت کے جو بچہ کو دودھ پلانے کے دن ہوتے ہیں اور روزہ رکھنے سے بچہ کو ہے، شریعت کی اجازت کے مطابق رمضان سے پورا فائدہ نہیں اٹھایا اور روزے
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ تو نہیں رکھے.مگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ بھی ان میں ہی شامل ہیں جنہوں نے کہ پورا فائدہ اٹھایا.کیونکہ انہوں نے بھی اللہ تعالٰی کے حکم کی تعمیل کی.لیکن کئی ایسے بھی ہوں گے جنہوں نے استطاعت کے باوجود روزے نہیں رکھے یا پوری طرح نہیں رکھے.یہ لوگ جسمانی بیماروں کی طرح معذور نہ تھے کیونکہ روحانی بیماریوں میں عذر قبول نہیں کیا جاتا.میں نے کئی دفعہ بیان کیا ہے کہ روزوں میں شدت ناجائز ہے.مسافر اور بیمار کیلئے روزہ رکھنا ایسا ہی بیہودہ ہے جیسا حائضہ کیلئے روزہ رکھنا اور کون نہیں جانتا کہ حائضہ کا روزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں بلکہ بیوقوفی اور جہالت ہے.اور بعض تو شاید اس بات پر ناراض ہی ہو جائیں کہ دین کا استخفاف کیا جا رہا ہے.بعینہ یہی حال بیمار اور مسافر کا ہے، اس کیلئے بھی روزہ رکھنا نیکی نہیں.اسی طرح وہ بوڑھا جس کے قومی مضمحل ہو چکے ہیں اور روزہ اسے زندگی کے باقی اشغال سے محروم کر دیتا ہے، اس کیلئے بھی روزہ رکھنا نیکی نہیں.پھر وہ بچہ جس کے قومی نشو نما پارہے ہیں اور آئندہ پچاس ساٹھ سال کیلئے طاقت کا ذخیرہ جمع کر رہے ہیں، اس کیلئے بھی روزہ رکھنا نیکی نہیں ہو سکتا.مگر جس میں طاقت ہے اور جو رمضان کا مخاطب ہے، وہ اگر روزہ نہیں رکھتا تو گناہ کا مرتکب ہوتا ہے.بعض ایسے بیوقوف بھی ہیں جو سارا سال نماز کے قریب نہیں جاتے مگر روزہ چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے اور رمضان کے آخری جمعہ کی نماز کو ہی کافی سمجھتے ہیں.ان کی مثال اس بیوقوف اور پاگل کی سی ہے جو کنکر جمع کرکے انہیں موتی سمجھ لے یا طشتریوں کے ٹکڑے اکٹھے کر کے یہ سمجھ لے کہ اس کے پاس روپے ہیں.ایسا ہی وہ شخص بھی جاہل ہے جو نماز تو پڑھتا ہے مگر روزے چھوڑ دیتا ہے.یاد رکھنا چاہیے کہ یہ بھی اہم احکام میں سے ہے.مجھے بتایا گیا ہے کہ میرے ان خطبات سے جو کچھ عرصہ ہوا میں نے روزہ کی بلوغت کے متعلق پڑھے تھے، یہ خیال کرلیا گیا ہے کہ میں نے روزہ سے روکا ہے.میں نہیں جانتا کہ ایسا خیال کرنے والے کتنے لوگ ہیں اور یہ خبر صحیح بھی ہے یا نہیں.میں نے اس کی تحقیقات نہیں کی اور نہ ہی کرنا پسند کرتا ہوں.لیکن اگر کوئی یہ خیال کرنے والے لوگ ہیں تو میں سمجھتا ہوں انہوں نے اپنے پر بھی ظلم کیا اور دوسروں پر بھی.دوسروں پر اس لئے کہ ان کی دیکھا دیکھی ان میں بھی روزہ رکھنے کے متعلق سُستی پیدا ہو گئی.اور اپنے پر اس لئے کہ خدا کے حکم کو نہ مانا.وہ جاہل ہے جو ایسے مکان میں سوتا ہے جس کی ایک دیوار ہی نہیں، اس کا
خطبات محمود ١٢ سال ۱۹۳۳ء قیمتی مال کبھی محفوظ نہیں رہ سکتا.نامکمل دیواروں والے مکان میں اپنے قیمتی مال کو رکھ بے فکر سوجانے والے سے زیادہ بیوقوف کوئی نہیں ہو سکتا.ایسے شخص کی مثال جو نماز پڑھتا ہے اور روزہ نہیں رکھتا، ان تینوں بیوقوفوں کی سی ہوگی جو کہ ایک امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے کہ کوئی پیچھے سے آیا اور اس نے کہا.اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ.ایک نے کہا وَعَلَيْكُمُ السَّلامُ دوسرے نے کہا تجھے پتہ نہیں نماز میں نہیں بولا کرتے.تیسرا بولا تو کتنا بیوقوف ہے خود بولتا ہے اور اسے منع کرتا ہے.امام صاحب بھی عقل میں ان سے کم نہ تھے.کہنے لگے الْحَمْدُ لِلَّهِ ہم نہیں ہوئے.اس طرح ان سب نے ایک دروازہ کھول کر نماز کو باطل کرلیا.تو یاد رکھو ہر چیز کی حدود ہوتی ہیں.انہیں اگر چھوڑ دو تو وہ چیز ہی باقی نہیں رہے گی بلکہ اور دروازے کھلتے جائیں گے.پس ایسے لوگ جن میں طاقت تھی مگر انہوں نے روزے نہیں رکھے ، انہوں نے گناہ کیا.مجھے سے بھی کسی نے مسئلہ دریافت کیا تھا کہ روزہ سے ضعف ہو جاتا ہے کیا ایسی حالت میں روزہ نہیں رکھنا چاہیے؟ میں نے جواب دیا.روزہ ہے ہی اسی لئے.شریعت اسے تو روزہ نہ رکھنے کی اجازت دیتی ہے جو ضعیف ہو چکا.مگر اسے اجازت نہیں دیتی جسے روزہ کے نتیجہ میں ضعف ہوتا ہے.کون ہے جو روزہ رکھنے سے یہ سمجھے کہ گھوڑا خوید سے میں ڈالا جا رہا ہے اور اس کے نتیجہ میں وہ موٹا ہو جائے گا.روزہ سے کمزور ہو جانے کا عذر بیہودہ ہے ہاں شریعت نے چھوٹی عمر کے بچوں کو روزہ رکھنے سے منع کیا ہے.مگر ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ بلوغت کے قریب کچھ مشق ضرور کرانی چاہیئے.مجھے جہاں تک یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے مجھے پہلا روزہ رکھنے کی اجازت بارہ یا تیرہ سال کی عمر میں دی تھی.لیکن بعض بیوقوف چھ سات سال کے بچوں سے روزے رکھواتے ہیں اور سمجھتے ہیں اس کا ثواب ہمیں ہوگا.یہ ثواب کا کام نہیں بلکہ ظلم ہے کیونکہ یہ عمر نشوونما کی ہوتی ہے.ہاں ایک عمر وہ ہوتی ہے کہ بلوغت کے دن قریب ہوتے ہیں اور روزہ فرض ہونے والا ہی ہوتا ہے.اُس وقت کچھ مشق کرانی چاہیے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اجازت اور سنت کو اگر دیکھا جائے تو بارہ تیرہ سال کے قریب کچھ کچھ مشق شروع کرانی کی چاہیے.مگر سارے روزے رکھوانے نہیں چاہئیں حتی کہ اٹھارہ سال کی عمر ہو جائے جو میرے نزدیک روزہ کیلئے بلوغت کی عمر ہے.مجھے پہلے سال صرف ایک روزہ رکھنے کی اجازت حضرت
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دی تھی.اس عمر میں تو صرف شوق ہوتا ہے جیسے بچے جب فٹ بال کھیلتے ہیں تو ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ تم نے کتنے گول کیے.اس طرح جب رمضان کے دنوں میں اکٹھے بیٹھتے ہیں تو ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں تم نے کتنے روزے رکھے ، تم نے کتنے رکھے؟ اور اس شوق میں وہ زیادہ رکھنا چاہتے ہیں مگر یہ ماں باپ کا کام ہے کہ انہیں روکیں.پھر ایک عمر ایسی ہوتی ہے کہ اس میں چاہیے کہ بچوں کو جرات دلائیں کہ وہ کچھ کچھ روزے رکھیں.اور ساتھ ہی یہ بھی دیکھیں کہ زیادہ نہ رکھیں.اور دیکھنے والوں کو بھی اس پر اعتراض نہ کرنا چاہیے کہ سارے روزے کیوں نہیں رکھتا.کیونکہ اگر بچہ اس عمر میں سارے رکھے گا تو آئندہ نہیں رکھ سکے گا.عورتوں میں روزہ کی بلوغت اس سے پہلے شروع ہو جاتی ہے.اور وہ پندرہ سال کی عمر ہے کیونکہ لڑکی پندرہ سال کی عمر میں اتنی طاقت حاصل کرلیتی ہے جتنی لڑکا اٹھارہ سال کی عمر میں.پھر بعض بچے طاقتور ہوتے ہیں.اس لئے ان کی بلوغت پہلے بھی شروع ہو سکتی ہے کیونکہ روزہ کی بلوغت انسانی قومی پر منحصر ہوتی ہے.اسی طرح بعض بچے کمزور ہوتے ہیں.میں نے دیکھا ہے کہ بعض لوگ اپنے بچوں کو مجھ سے ملاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اس کی عمر پندرہ سال ہے مگر وہ دیکھنے میں سات آٹھ سال کا معلوم ہوتا ہے.ایسے بچے میں سمجھتا ہوں روزہ کیلئے شاید اکیس سال کی عمر میں بالغ ہوں.روزہ کا اثر انسان کے جسم پر پڑتا ہے، شریعت نے مختلف بلوغتیں رکھی ہیں.مال کی حفاظت کیلئے بلوغت چوبیس سال کی ہے.نماز کیلئے دس سال ہے کیونکہ حکم ہے اگر اس عمر میں نہ پڑھے تو مار کر پڑھاؤ.حدیثوں میں الگ الگ بلوغتیں مقرر ہیں.اور کسی امر میں شریعت نے تنگ نہیں کیا بلکہ رعایت رکھی ہے.اور اگر کوئی اس سے ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے تو اپنے دین کو برباد کرتا ہے.ایک قوی آدمی پندرہ سال کی عمر میں اٹھارہ سال کے برابر ہو سکتا ہے.لیکن اگر وہ میرے ان الفاظ کو ہی پکڑلے تو نہ وہ مجھے ظلم کرے گا اور نہ خدا پر بلکہ اپنی جان پر ظلم کرے گا.اسی طرح اگر کوئی چھوٹی عمر کا پورے روزے نہ رکھے اور لوگ اس پر طعن کریں تو وہ اپنی جان پر ظلم کریں گے نہ اس پر نہ مجھ پر اور نہ خدا تعالی پر.مگر ان باتوں میں احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے جہاں شریعت روکتی ہے وہاں رکنا چاہیے.اور جہاں حکم دیتی ہے وہاں عمل کرنا چاہیئے.اب رمضان تو گذرچکا ہے اور کوئی کہہ سکتا ہے کہ اب ان نصائح کا کیا فائدہ ہے.ہی
خطبات محمود ۱۴ سال ۱۹۳۳ء وہ پنجابی میں کہتے ہیں عید دے بعد تنہا پھو کہنا اے" یعنی عید کے گزر جانے کے بعد پاجامے کی کیا ضرورت ہے اور وہ کس کام آسکتا ہے.مگر یہ باتیں اب بھی کام آسکتی ہیں اور اس طرح کے جنہوں نے بغیر کسی عذر کے روزے نہیں رکھے وہ عید کے بعد پھر رکھیں.شریعت نے اس کی بھی اجازت دی ہے کہ اگر کوئی غلطی کر بیٹھا ہے تو معلوم ہونے پر اس کی اصلاح کرلے.کیونکہ عقل کی معذوری بھی تو دراصل معذوری ہی ہے اور گو آج کا دن تھوڑا ہی باقی ہے مگر رمضان کی کچھ گھڑیاں ابھی باقی ہیں.ان میں خوب دعائیں کرو اور سورج غروب ہونے سے ایک منٹ پہلے بھی اگر کوئی اس بات کو سمجھ لے تو وہ محروم نہیں رہ سکتا اور گھنٹوں میں تو ایسی زبردست دعائیں ہو سکتی ہیں جو زمین و آسمان کو ہلا سکتی ہیں.اور گو بظاہر یہ خطبہ بے فائدہ نظر آتا ہے مگر حقیقتاً ایسا نہیں.ابھی کئی گھڑیاں اور کئی گھنٹے باقی ہیں.پھر کئی منٹ اور کئی سیکنڈ ہوں گے اور ایک سیکنڈ بلکہ اس کے بھی قلیل حصہ میں خداتعالی سے تعلقات قائم ہو سکتے ہیں.اُس کا جو سلوک اپنے بندے سے ہوتا ہے، اس کیلئے نہ کسی لمبے عرصہ کی حد بندی ہوتی ہے اور نہ قلیل عرصہ کی.یہ اوقات تو ہمارے لئے ہیں.اس کے متعلق یہ خیال بھی کرنا کہ اس پر وقت کا کوئی اثر ہوتا ہے، اس کی تمام صفات کو معطل قرار دے لینے کے مترادف ہے.پس یہ گھڑیاں ضائع مت کرو.یہ بہت بڑی نعمت ہے.جن دنوں میں قرآن مل سکتا ہے ان میں سب کچھ مل سکتا ہے.جنت بھی مل سکتی ہے، بادشاہتیں اور حکومتیں بھی مل سکتی ہیں.قرآن جنت اور بادشاہوں سے بہت بڑا ہے کیونکہ وہ خدا تعالی کا قرب ہے.اور جنت تو اللہ تعالیٰ کے قرب کا نتیجہ ہے.اور جن ایام میں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو سکے، ان میں اور کیا چیز ہے جو نہ مل سکتی ہو.الفضل ۲ - فروری ۱۹۳۳ء) له بخارى كتاب الصوم باب هل يقول اني صائم اذا شتم البقرة: ١٨٦ کے خوید: سرسبز کھیتی
خطبات محمود ۱۵ اللہ تعالیٰ کے عفو کا صحیح مفہوم سمجھنے کی کوشش کرو فرموده ۱۷ - فروری ۱۹۳۳ء) سال ۱۹۳۳ء تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- ابھی تک میری آواز چونکہ ایسی نہیں کہ میں اس قدر اونچا بول سکوں کہ تمام دوست اسے بخوبی سن سکیں.اس لئے مجبوراً جس حد تک میری آواز اُٹھ سکتی ہے، اس حد تک اپنی طاقت کے مطابق بولوں گا.اور اپنے مافی الضمیر کو جہاں تک اپنی آواز پہنچا سکوں، پہنچانے کی کوشش کروں گا.مجھے ایک عجیب کمزوری جماعت میں نظر آتی ہے.اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رحم اس کے عضو اس کے فضل اور اس کے کرم کا غلط مفہوم جماعت میں پیدا ہو رہا ہے.بعض لوگ حقیقت کا اندازہ لگانے سے دانستہ یا نادانستہ ہچکچاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے عفو اور اس کی رحمت کے متعلق آیتوں کو غلط اور بے محل استعمال کرتے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالی بہت رحم کرنے والا اور بہت کرم کرنے والا ہے.لیکن ہم دنیا میں اس کی دوسری صفات کو بھی ہر وقت ظاہر ہوتا دیکھ رہے ہیں.ہم روزانہ لوگوں کو بیمار ہوتا دیکھتے ہیں، روزانہ اندھوں اور گونگوں اور لنگڑوں اور لولوں کو دیکھتے ہیں.ہم ماں باپ کے اکلوتے بچوں کو مرتے دیکھتے ہیں.ہم خاندان میں سے ایک ہی روزی کمانے الے مرد کو جان دیتے دیکھتے ہیں.ہم دودھ پیتے بچہ کو چھوڑ کر دنیا سے گزر جانے والی ماں کو ہیں.آپس میں عشق و محبت رکھنے والوں کو ایک دوسرے سے جدا ہوتے دیکھتے ہیں.غرض یہ نظارے ہم روزانہ دیکھتے ہیں.اور خدا کے یہ افعال روزانہ ہماری آنکھوں کے سامنے
خطبات محمود 14 سال ۱۹۳۳ء آتے ہیں.باوجود اس کے ہم اللہ تعالیٰ کے رحم پر حرف گیری نہیں کرتے.اللہ تعالی کی جس صفت کے ماتحت ان افعال کا ظہور ہوتا ہے، وہ بتاتی ہے کہ رحم اور عفو کا یہ مفہوم نہیں کہ شخص کوئی فعل کرے اور پھر کہہ دے میری توبہ تو وہ اس کے اثرات و نتائج سے محفوظ ہو جائے.اگر عفو اور رحم اور توبہ کا یہی مفہوم ہوتا تو نہ دنیا میں بیماریاں ہوتیں نہ موتیں تیں، نہ دوسری تکالیف پیش آتیں ، نہ خدا کی گرفت کسی اور صورت میں ظاہر ہوتی اور نہ اگلے جہان کے عذاب باقی رہتے.کون کہہ سکتا ہے کہ اللہ تعالی کی مثال اس راجہ کی سی ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ "اندھیری نگری چوپٹ راجہ".بلکہ اس کی طرف سے پیدائش فتا گرفت اور عقوبت ایک قانون کے ماتحت جاری ہے.اس کی طرف سے ہلاکت بھی ایک قانون کے ماتحت جاری ہے اور اس کی طرف سے رحم بھی ایک قانون کے ماتحت جاری اور ہے.جو دیکھو رسول کریم ال کے وقت ایک نوجوان انصاری کے منہ سے ایک بات نکلی رسول کریم ال تک پہنچ گئی.باقی سب انصار نے اس سے بیزاری کا اظہار کیا، بڑوں اور چھوٹوں نے امراء اور غرباء نے غرض تمام کی تمام جماعت نے اس کے خیال سے نفرت کا اظہار کیا.اس کو رد کیا اسے باطل قرار دیا اور اس بات کا اعلان کیا کہ ہم نہ کبھی اس خیال کو صحیح سمجھتے تھے نہ اب سمجھتے ہیں اور نہ آئندہ سمجھیں گے.مگر باوجود اس کے کہ وہ قوم کا خیال نہ تھا، باوجود اس کے کہ وہ کسی ذمہ دار فرد کا قول نہ تھا اور باوجود اس کے کہ وہ صرف ایک فرد کا قول تھا.اور پھر باوجود اس کے کہ تمام لوگ اس قول پر نادم بھی ہوئے، پھر بھی رسول کریم ﷺ نے فرمایا اے انصار! اپنا صلہ اب تم مجھ سے حوض کوثر پر ہی مانگنا کیا کوئی خیال کر سکتا ہے کہ محمد اس سے زیادہ رحم کر نیوالا کوئی شخص پیدا ہوا یا ہو.آئندہ پیدا ہو گا.یا کوئی خیال کر سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحم اُس وقت معطل ہو گئی تھی.نہیں بلکہ یہ سب چیزیں بعض قوانین کے ماتحت ہوتی ہیں.ایسے باریک قوانین جن کو بہت انسان نہیں سمجھ سکتے.اصل بات یہ ہے کہ اکثر لوگوں کو بعض باتوں پر غور کرنے کا موقع نہیں ملتا.انہیں میں سے ایک اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں.اللہ تعالیٰ کی صفات اتنی انواع کی ہیں کہ انہیں اپنے طور پر سمجھنے والا کبھی نامکمل علم بھی حاصل نہیں کر سکتا.چہ جائیکہ اسے مکمل ! علم حاصل ہو سکے.ہم جن گلیوں میں سے روزانہ گزرتے ہیں اگر کسی وقت انہیں میں سے سکتا - ہے یا
خطبات محمود 16 سال ۱۹۳۳ نو ایک گلی میں چلتے چلتے یکدم رک جائیں اور پھر دیکھیں کہ ارد گرد کیا چیزیں ہیں تو کئی چیزیں ایسی دکھائی دیں گی جو پہلے کبھی خیال میں بھی نہیں آئی ہوں گی، حالانکہ سالہا سال سے اس گلی میں سے گزر رہے ہوتے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اتنی مختلف انواع کی چیزیں پیدا کی ہیں کہ انسان کو ان سب پر غور کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا اور انسان جو کچھ دیکھتا ہے اس کے ہزارویں بلکہ لاکھویں حصہ پر بھی غور نہیں کرتا.ہوا کا ہر جھونکا جو ہمارے جسم کو لگتا ہے، وہ ایک اچھا یا بُرا اثر ہمارے اندر ضرور پیدا کرتا ہے.اسی طرح ہر ہوا کا کش جو ہم ناک سے لگاتے ہیں، وہ اچھی یا بری کیفیت پیدا کرتا ہے.اسی طرح ہر دفعہ جب ہم اپنی آنکھ جھپکتے ہیں اور نور کی شعاعوں یا ظلمت کی تاریکی کو دیکھتے ہیں تو دل اور دماغ اور جسم اور روح پر اچھا یا بُرا اثر ضرور قائم ہوتا ہے ، مگر ہم کتنی دفعہ اس اثر کو محسوس کرتے ہیں.وہ ہوا کا جھونکا جو ہمارے اندر بیماری کے جرمز پیدا کر دیتا ہے یا نمونیہ کی طرف جسم کو راغب کر دیتا ہے یا وہ پانی کا قطرہ جس کے پیتے ہی ہیضے کی طرف طبیعت مائل ہو جاتی ہے یا وہ سیدھا سادھا سانس جو رسل کے جراثیم لے کر ہمارے جسم میں داخل ہوتا ہے.ہم کب اس کے اثرات محسوس کرتے ہیں.ہمیں تو یہ پتہ بھی نہیں لگتا کہ ہم نے ایسا سانس لیا ہے جو کل ہمیں بد ہضمی کا شکار بنادے گا.یا ایسا قطرہ پانی کا پیا ہے جو ہیضہ کا شکار کر دے گا.پس اگر ہم غور و فکر سے کام لیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ کتنی ہی ایسی چیزیں ہین جن پر غور کرنے کا ہمیں موقع نہیں ملتا.تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ غافل انسان اِدھر توجہ نہیں کرتا.اگر تم یہ کہو گے تو یہ تمہاری بیوقوفی ہوگی.کیونکہ اگر انسان تمام کی تمام چیزوں غور کرنے لگے تو نہ صرف یہ کہ اس کا علم نہ بڑھے بلکہ اور بھی کم ہو جائے.مثلا اگر وہ یہی سوچنے لگے کہ ہوا کا جھونکا جو مجھے لگا ہے، اس نے اچھا اثر پیدا کیا ہے یا بُرا.اور اُٹھتے بیٹھے کھاتے پینے، سوتے جاگتے ، چلتے پھرتے ہیں ایک خیال اس پر سوار رہے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ نہ تجارت کر سکے گا نہ زراعت نہ ملازمت کر سکے گا نہ کوئی اور کاروبار - وہ یہی سوچتا رہے گا کہ یہ ہوا کا جھونکا جو مجھے لگا تھا' اچھا تھا یا برا تھا.اب غور کرو! اس طرح سوچتے رہنے سے اس کا علم بڑھے گا یا کم ہو گا.اسی طرح اگر ہم ہر پانی کے قطرہ کے متعلق یہ سوچنے لگیں کہ اس نے ہمارے جسم پر اچھا اثر پیدا کیا ہے یا بُرا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم بجائے علم میں ترقی کرنے کے علم سے محروم رہ جائیں گے.پس جو
خطبات محمود ۱۸ سال ۱۹۳۳ء غور کرسکے.شخص یہ کہتا ہے کہ آہ غافل انسان اپنے اردگرد کی تمام چیزوں کو نہیں دیکھتا اور ان پر غور نہیں کرتا، وہ خود اپنی جہالت کا اظہار کرتا ہے.کیونکہ کوئی انسان تمام کی تمام چیزوں کو دیکھ سکتا ہی نہیں.اور اللہ تعالیٰ نے اسے ایسا بنایا ہی نہیں کہ وہ ارد گرد کی تمام چیزوں پر پھر کیا طریق ہے جس سے اس کا پتہ لگتا ہے.اس کا پتہ الہام سے لگتا ہے جو ایک ساعت میں نازل ہوتا اور علوم کا دروازہ انسان کیلئے کھول دیتا ہے.اللہ تعالی کی لاتعداد صفات ہیں جن میں ایک صفت اس کی ربوبیت ہے.اس کی ربوبیت کے اربوں ارب حصوں میں سے ایک اور روٹی ہے.پھر وہ صفات ہیں جو دوسری مخلوق سے تعلق رکھتی ہیں یا وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات سے تعلق رکھتی ہیں یا وہ صفات ہیں جن کا ہمیں علم نہیں.یا کئی ہیں جو اگلے جہاں تعلق رکھتی ہیں مثلاً قرآن کریم میں ہی اشارہ کیا گیا ہے کہ قیامت میں اللہ تعالٰی کی دوگنی صفات کام کریں گی.اور رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ مَالاً عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرِ تو وہی صفات جو کل ہمارے سامنے آنے والی ہیں، آج ہماری طاقتیں ایسی کمزور ہیں کہ ہم انہیں خیال میں بھی نہیں لا سکتے.جب ہم ان کو بھی خیال میں نہیں لا سکتے جو کل ہمارے سامنے آنے والی ہیں تو دوسرے مخلوق سے جو صفات تعلق رکھتی ہیں یا جو خدا کی ذات سے تعلق رکھتی ہیں ان کو خیال میں کیونکر لا سکتے ہیں.پس یہ بات نہیں کہ ہم غافل ہیں.ہاں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو غافل ہوں.جیسا کہ قرآن کریم میں بعض لوگوں کے متعلق آتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیات سے گزر جاتے ہیں مگر ان کی طرف توجہ نہیں کرتے لیکن وہ لوگ محدود دائرہ کے اندر ہیں.اکثر حصہ لوگوں کا ایسا ہوتا ہے کہ اگر وہ ہر چیز کی حقیقت معلوم کرنا چاہیں تو بھی نہیں کر سکتے.اور اگر کریں تو ایسے چکر میں پھنس جائیں گے جس سے نکلنے کی کوئی صورت نہ ہوگی.غرض ان چیزوں کو انسانی علم دریافت نہیں کر سکتا، صرف اللہ تعالیٰ کا الہام ہی ہے جو ان کا علم دیتا ہے.انہی چیزوں میں سے صفات الہیہ ہیں.صفات الہیہ کا علم بھی الہام کے ذریعہ ملتا ہے، عقل کے ذریعہ نہیں.الہام جتنا جتنا پر وہ اٹھاتا جاتا ہے اتنا اتنا علم ہوتا جاتا ہے.پس میں کہتا ہوں تم میں سے کئی عالم بھی نہیں سمجھ سکتے کہ اللہ تعالیٰ کا رحم کس طرح نازل ہوتا ہے اور نہ کوئی دعوی کر سکتا ہے کہ وہ اس امر کو سمجھتا ہے.ہاں خدا تعالیٰ کا الہام بتادیتا ہے.اور جن کو تجربہ ہو وہ جانتے ہیں کہ کس طرح بڑے بڑے وسیع مضامین جن کو سوچ کر نکالنا تو الگ رہا، جن کو سوچنا بھی کئی مہینوں کی محنت -
خطبات محمود ۱۹ سال ۱۹۳۳ء حصہ چاہتا ہے، سیکنڈ سے بھی تھوڑے عرصہ میں انسانی قلب پر نازل ہو جاتے ہیں.پس جتنا معلوم ہو اس سے فائدہ حاصل کرنا چاہیے اور جو نہ معلوم ہو، بجائے اس کے کہ اس پر حاوی ہونے کی کوشش کرو اسے اپنے حال پر رہنے دو.مجھے افسوس سے معلوم ہوا ہے کہ رحم اور گناہ کی کیفیت کے متعلق ہماری جماعت کے لوگوں کا علم نہایت کو تاہ ہے.کئی سمجھتے ہیں ان کے جو جی میں آئے کہہ دیں اور پھر زبان سے یہ کہنے پر کہ ہم معافی مانگتے ہیں، انہیں کوئی گرفت نہ ہونی چاہیے اور معافی مل جانی چاہیئے.وہ ہیں ان کا یہ پہلو اختیار کرنا صحیح ہے، حالانکہ ایسی صورت میں وہ معافی نہیں مانگتے بلکہ عفو کا منہ چڑاتے ہیں اور بسا اوقات جب وہ رحم کیلئے اپیل کر رہے ہوتے ہیں، رحم سے ہنسی کر رہے ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو تو بہ کے قابل ظاہر نہیں بنا رہے ہوتے بلکہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم بے صبر آدمی ہیں.صحابہ کرام میں ہم دیکھتے ہیں، ان میں سے چند لوگوں کو ایک دفعہ سزائیں ملیں.انہوں نے سزا کی حکمت کو سمجھا اور کم از کم مجھے کوئی ایسا حوالہ یاد نہیں جس میں یہ ذکر ہو کہ انہوں نے رسول کریم ﷺ سے معافی مانگی ہو.ممکن ہے ہو.بعض دفعہ ال انسان بھول بھی جاتا ہے لیکن جہاں تک مجھے یاد ہے سزا کے بعد انہوں نے عفو کی درخواست! نہ کی.اور میں سمجھتا ہوں ان کیلئے ایسی درخواست کرنا جائز بھی نہ تھا.سزا کیا ہوتی ہے؟ سزا بسا اوقات ندامت پیدا کرنے کا ایک ذریعہ ہوتی ہے.سزا بعض اوقات ایک دل کا زنگ دور کرنے کا باعث ہوتی ہے.پس کیا تم سمجھتے ہو کہ وہ چاقو جسے تیز کرنے کیلئے سان پر چڑھایا جائے اسے اگر زبان دی جائے اور وہ چلائے کہ مجھ پر رحم کرو.تو اس کی درخواست اس قابل ہوگی کہ اسے قبول کرلیا جائے.چاقو کیلئے سان پر چڑھنا ضروری ہے تاکہ اس کا زنگ دور ہو.پس کئی سزائیں دنیا میں رحمت ہوتی ہیں اور کئی سزائیں اظہار ناراضگی کا ایک ذریعہ ہوتی ہیں.جو حصہ سزا کا اظہار ناراضگی سے تعلق رکھتا ہو، اس میں عفو کی درخواست میں جلدی کرنی چاہیئے.کیونکہ اپنے پیارے اور محبوب کی ناراضگی کسی صورت میں بھی برداشت نہیں کی جاسکتی.مگر جو حصہ خفگی یا ناراضگی کا غصے پر دلالت نہیں کرتا بلکہ اصلاح کے پہلو پر حاوی ہو.اس میں اُس وقت تک معافی کی درخواست نہیں کرنی چاہیے جب تک حقیقی ندامت پیدا نہ ہو یا جو سزا زنگ کے دُور کرنے کیلئے جاری کی گئی ہو اس میں اُس وقت تک عفو کی درخواست نہیں کرنی چاہیئے جب تک زنگ ڈور نہ ہو جائے.ہاں جو قلبی ناراضگی سے تعلق
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء ہوتا رکھتی ہو، اس میں جتنی جلدی عفو طلب کیا جائے اتنا ہی اچھا ہوتا ہے.اور وہ سزا کے ساتھ وابستہ نہیں بلکہ ناراضگی کے ساتھ وابستہ ہے.چاہے ناراضگی کے ساتھ سزا ہو یا نہ ہو.بسا اوقات انسان ناراض ہوتا ہے لیکن سزا نہیں دیتا.اور جو حصہ ندامت پیدا کرنے ہے، اس میں اُسی وقت عفو کا حق ہوتا ہے جب ندامت پیدا ہو جائے.اُس وقت کسی کا یہ کہنا میرا قصور تو کوئی نہیں لیکن مجھے معاف کردو.در حقیقت اس حقیقت کا انکار ہے جس کیلئے سزا دی گئی تھی.اور اس حالت میں معاف کر دینے کے معنے یہ ہیں کہ اس کو اسی مقام پر کھڑا رہنے دیا جائے جس پر وہ پہلے کھڑا تھا.جب مجرم کا احساس ہی کسی کے دل میں پیدا نہیں ہوا اور جو غرض تھی یعنی یہ کہ اس سے ایک زیادہ سمجھنے والی ہستی اور ایک ذمہ دار ہستی محسوس کرتی ہے کہ اس نے غلطی کی، وہ اس پر ندامت کا اظہار کرے.جب وہ غرض ہی پوری نہ ہوئی تو معافی طلب کرنے کے کیا معنی ناراضگی تو ایک روک ہوتی ہے جیسے ایک گھوڑے کے گلے میں اس لئے رسی ڈال دی جائے کہ وہ کسی اور طرف نہ جاسکے.لیکن اگر وہ گھوڑا اسی طرف زبردستی چلا جائے جس طرف سے اسے روکا گیا ہو تو پھر اس روک کا کیا فائدہ.اسی طرح اگر بغیر اصلاح ہونے کے معاف کردیا جائے تو ناراضگی کا مقصد فوت ہو جاتا ہے.اگر خیالات میں یا ذہن میں کچھ تبدیلی پیدا نہیں ہوئی اور ابھی تک کسی میں جرم کے سمجھنے کی قابلیت بھی پیدا نہیں ہوئی تو ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اس کے دل میں حقیقی ندامت پیدا ہوئی ہے.اُس نے تو ابھی تک اپنے مجرم کو بھی نہیں سمجھا کیا تم سمجھتے ہو کہ اگر کوئی خدا تعالٰی سے یہ کہے کہ اے خدا! تیرا رسول خَاتَمَ النَّبی ہے تو جھوٹا مگر یہ کہنے سے تو مجھ پر گرفت نہ کر تو کیا ایسا شخص راستی پر ہو گا.بھلا اس سے زیادہ احمق اور کون ہو سکتا ہے جو ایک طرف تو جھوٹا کہتا ہے اور دوسری طرف یہ کہتا ہے کہ مجھ پر گرفت نہ کیجیئو - یا کوئی یہ دعا کرے کہ اے خدا تیرا نبی ہے تو جھوٹا مگر تو کہتا ہے اس لئے مان لیتا ہوں.ایک طرف جھوٹا کہنا اور دوسری طرف یہ کہنا کہ تو کہتا ہے اس لئے مان لیتا ہوں، ایک پاگل کی بڑ سے زیادہ اس کی حقیقت کیا ہوگی.نبی کے بھیجنے کی غرض و غایت یہ ہوتی ہے کہ وہ معلم ہو.اور جب کوئی اسے معلم سمجھتا ہی نہیں اور تسلیم کرنے کیلئے تیار ہی نہیں کہ وہ کوئی تعلیم دے سکتا ہے تو اس سے وابستگی کیا معنی بھتی ہے.
خطبات محمود ۲۱ سال ۱۹۳۳ء پس یہ ایسی ہنسی کے قابل بات ہے کہ میں حیران ہو جاتا ہوں ہماری جماعت جسے صفات اللہ کا علم ہونا چاہیئے تھا اس کے بہت سے افراد اس علم سے بالکل کو رے ہیں.کئی ہیں جو منہ سے تو دعوئی بیعت کرتے ہیں مگر حرام ہے کہ وہ کسی بات میں اطاعت کریں.یہ تو ہوگا کہ مثلا میں چندہ مانگوں تو وہ کسی کے مقابلہ میں بڑھ کر چندہ دے دیں مگر ان کی ذہنی کیفیت نہیں بدلے گی.اور یہی کہیں گے کہ جو وہ سمجھتے ہیں وہی صحیح ہے.ایسا انسان در حقیقت ہو سکتا رکہتا کو نہیں سمجھتا.معلم اور متعلم میں فرق ہوتا ہے.یوں تو بعض دفعہ شاگر بھی صحت ہے اور استاد غلطی پر.مگر سمجھا یہی جاتا ہے اور عام قاعدہ یہی قرار دیا جاتا ہے کہ جو معلم کہ ہے وہی صحیح ہے.اس نکتہ کو فرض کر کے آگے چلنا پڑتا ہے.اور وہ شخص جو اس امر کو مد نظر نہیں رکھتا نقصان اٹھاتا ہے.میں دیکھتا ہوں کہ اس قسم کی طبائع ہماری جماعت میں موجود ہیں.وہ سمجھتی ہیں کہ جو بات وہ کہتی ہیں وہی ٹھیک ہے.ایسے انسان کوئی فائدہ حاصل نہیں کر سکتے.اگر یہاں ہوں تو قادیان کی رہائش سے اور اگر باہر ہوں تو میری بیعت سے.اس لئے کہ جس دروازہ سے نور حاصل ہو سکتا ہے اس کو انہوں نے اپنے اوپر بند کر رکھا ہے.اور جب دروازہ ا.بند کیا ہوا ہو تو نور کہاں سے داخل ہو..حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق ایک واقعہ آتا ہے.دیکھو وہ کس طرح سزا اور اس کی غرض کی اہمیت کو سمجھتی تھیں.وہ اپنے بھانجے سے ایک دفعہ ناراض ہوئیں.کیونکہ اس نے کہا تھا کہ حضرت عائشہ کا ہاتھ روکنا چاہیئے، وہ بہت صدقہ و خیرات کرتی ہیں.اور اگر اسی طرح کرتی رہیں تو رشتہ داروں کیلئے کچھ بھی باقی نہیں رہے گا.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ سُن کر قسم کھائی کہ میں اس کی شکل کبھی نہیں دیکھوں گی.صحابہ " کو اس سے بہت تکلیف ہوئی اور انہوں نے صلح کی کوشش شروع کی مگر کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی.آخر سب صحابہ نے مل کر یہ تجویز کی کہ صحابہ" کا ایک وفد حضرت عائشہ کے پاس جائے.اور ان کے بھانجے کو بھی ساتھ لے لیا جائے اور لے جاکر خالہ سے بھانجے کی ملاقات کرادی جائے.خالہ کی محبت بھی مادرانہ محبت کی طرح ہوتی ہے.جب وہ اپنے بھانجے کو دیکھیں گی تو مادرانہ محبت ان پر غالب آجائے گی اور وہ اس کا قصور معاف کردیں گی.یہ تجویز سوچ کر چند السابقون الاولون صحابہ حضرت عائشہ کے دروازہ پر پہنچے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی.حضرت عائشہ نے اجازت دے دی.اب چونکہ سب کو اکٹھی اجازت مل گئی تھی اور اس میں ان ريم
خطبات محمود ۲۲ سال ۱۹۳۳ء کا بھانجا بھی شامل تھا اس لئے اسے بھی اجازت ہو گئی.اس پر صحابہ تو باہر ہی رہے اور وہ اندر چلے گئے اور جاکر اپنی خالہ سے چمٹ گئے اور معافی مانگنے لگ گئے آخر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر رقت طاری ہو گئی اور انہوں نے معاف کر دیا.لیکن معاف بھی کس لطیف رنگ میں کیا.ان پر اعتراض کیا گیا تھا کہ وہ بہت صدقہ و خیرات کرتی ہیں اس لئے آپ نے فرمایا میں تمہیں معاف تو کرتی ہوں لیکن میں نے عہد کیا تھا کہ اِس قسم کو نہیں توڑوں گی اور اگر تو ڑوں تو پھر کچھ صدقہ و خیرات کروں گی.اب ممکن ہے کچھ سے مراد میں جو کچھ لوں وہ اللہ تعالیٰ کے حضور نہ ہو.اس لئے آئندہ میرے پاس جو چیز آیا کرے گی وہ میں صدقہ میں دے دیا کروں گی ہے.تو وہی چیز جس سے روکنے کیلئے حضرت عائشہ رضی اللہ کے بھانجے نے اعتراض کیا تھا، اسی کو انہوں نے اپنی زندگی کا جزو قرار دے لیا.ورنہ خود رسول کریم ای کا حکم ہے کہ صلہ رحمی کرو.اور ایک دوسرے سے محبت و پیار رکھو.اور ایسے امور میں قسم کا کفارہ دے دینا نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ اس کا حکم ہے.پس حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جو کچھ کیا، اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت کیا.لیکن باوجود اس کے چونکہ خیال ہو سکتا تھا کہ شاید محبت کے غالب آنے کی وجہ سے آپ نے معاف کیا ہے، اس وجہ سے آپ نے اس کی توبہ یہ قرار دی کہ جب تک میں زندہ رہوں گی صدقہ و خیرات کرتی رہوں گی.کیسی لمبی تو بہ ہے اور کتنا چھوٹا فعل تھا.کون ہے جو اِس طرح ندامت کا اظہار نہیں کر سکتا کہ جب اس سے پوچھا جائے کہ تم نے یہ فعل کیا؟ تو وہ کہے ہاں جی میں نے کیا مگر میری توبہ.اگر یہی تو بہ ہے تو خدا نے جو نظام قائم کیا ہے وہ کچھ حقیقت نہیں رکھتا.اور وہ بالکل بے معنے ہو جاتا ہے.رسول کریم ای کے زمانہ میں وحشی ایک حبشی تھا.اس نے اپنے کفر کے زمانہ میں ایک ایسی حرکت کی جس سے رسول کریم ﷺ کو سخت صدمہ پہنچا.پھر کچھ مدت کے بعد وہ اسلام میں داخل ہو گیا.اسلام بذات خود تمام گناہوں کو مٹادیتا ہے.مگر رسول کریم ﷺ نے اسے فرمایا تم میرے سامنے نہ آیا کرو ہے.وہ تو بہ کرچکا تھا گناہ اس کے معاف ہو چکے تھے پھر بھی اس کا ایک فعل اس پر ایسا داغ لگا چکا تھا جس کا مٹانا اس کیلئے زندگی میں قریباً ناممکن تھا.رسول کریم ال جانتے تھے کہ میرا فرض ہے کہ میں اس کیلئے دعائیں کروں لیکن ممکن ہے یہ میرے سامنے آجائے اور اس کے آنے پر میری دعا میں روک واقعہ ہو جائے کیونکہ اس نے ایک عظیم الشان خادم اسلام کو شہید کیا تھا.پس
سال ۱۹۳۳ء خطبات محمود ۲۳ رحم اور عفو وسیع مضامین ہیں.خطبہ کی کوتاہی اس کے ایک حصہ کے بیان کرنے سے بھی قاصر ہے اور میں اس کے ایک حصہ کی مثال کو بھی بیان نہیں کر سکتا.کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ہے.بہر حال میں بتانا چاہتا ہوں کہ توبہ ، رحم اور عفو کو مضحکہ مت بناؤ اس سے گناہوں پر دلیری اور جرات پیدا ہو جاتی ہے.اگر انسان یہ سمجھ لے کہ میرا جو جی چاہے کرلوں بعد میں کہہ دوں گا.معاف کردو تو نتیجہ اس کا یہ ہوگا کہ جُرم کی عظمت جاتی رہے گی اور قلبی سوزش جو گناہ کے بعد پیدا ہونی چاہیئے، وہ پیدا نہیں ہوگی.مومن کے دل میں سوزش اور قلبی موت دونوں ہی حالتوں میں پیدا ہوتی ہے.اُس وقت جب وہ گناہ کرتا ہے اور اُس وقت بھی جب وہ گناہ نہیں کرتا.اور در حقیقت وہ قلبی موت نہیں جاتی جب تک آسمان سے اس پر زندگی کا پانی نہ چھڑ کا جائے اور جب تک خدا اسے آپ موت سے نہ بچائے.یا پھر یہ کہ اس پر جسمانی موت وارد ہو جائے یہ دونوں موقعے ایسے ہیں جبکہ مومن زندہ ہو جاتا ہے.اس وقت بھی جب فرشتے اس کی جان نکالتے ہیں اور لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ مرگیا ہے اور اس وقت بھی جب کہ خدا کے فرشتے اس پر زندگی کا پانی چھڑکیں اور وہ نازل ہو کر کہیں کہ ہم نے تجھے زندہ کر دیا.اب اگر تو اپنے آپ کو مُردہ سمجھے گا تو یہ خدا پر بدظنی ہوگی.مومن سے جب گناہ سرزد ہوتا ہے تو پھر گناہ کی سوزش اسے زندہ کرتی ہے اور جب وہ گناہ نہیں کر رہا ہوتا اُس وقت وہ گناہوں کی عظمت اور اپنی کمزوری سے غافل نہیں ہوتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میں ہر وقت گناہ کے کنارے کھڑا ہوں.کبھی میں سمجھتا ہوں خدا کے کئی گناہگار اور خطا کار بندے ایسے ہوں گے کہ وہ بھی اس بات کیلئے تیار ہو جائیں گے کہ خدا تعالی بیشک ہمیں دوزخ میں ڈال دے مگر وہ ہم سے ناراض نہ مت سمجھو کہ کوئی دوزخی اپنے قلب میں خدا کی محبت نہیں رکھتا.کئی ایک انسانوں کے ہو.یہ دلوں میں نیکی کا بیج ہوتا ہے مگر اسے بڑھنے کا موقع نہیں ملتا.آتا ہے کہ کوئی شخص تھا بڑا گناہ گار اُس کا ایک بیٹا بھی تھا جو سخت نافرمان تھا اُس نے نیکی کبھی نہیں کی تھی اور نہ باپ کی فرمانبرداری کی تھی.دونوں باپ بیٹے کے مرنے پر حکم ہوا کہ باپ اور بیٹا دونوں کو دوزخ میں ڈال دیا جائے.اُس وقت وہ بیٹا جس نے کبھی باپ کی فرمانبرداری نہیں کی تھی عاجزانہ طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور گر گیا اور کہنے لگا خدایا.مجھے آج تک موقع نہیں ملا کہ میں اپنے باپ کی فرمانبرداری کروں یا اس کے ساتھ کوئی حسن سلوک کروں میں تیرے حضور دعا
خطبات محمود سوم ۴ ۶۱۹۳۳ کرتا ہوں کہ تُو اِس وقت میرے باپ کی سزا بھی مجھ پر ڈال دے اور مجھے زیادہ لمبے عرصہ کیلئے دوزخ میں پھینک دے، تاکہ میں اپنے باپ کو تکلیف میں نہ دیکھ سکوں.اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا.دیکھو میرے بندے کے دل میں محبت کا بیج موجود ہے، جاؤ میں نے تم دونوں کو معاف کیا اس طرح وہ دوزخی جنتی بن گیا.مگر اس لئے کہ اس کے دل میں اطاعت کا پیج موجود تھا جو آخری وقت میں پھوٹ پڑا.حالانکہ وہ ایسا وقت ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں آتا ہے.اُس وقت رشتہ دار ایک دوسرے پر اپنی سزا ڈالنے کی کوشش کریں گے اور چاہیں گے کہ کسی طرح ان کا چھٹکارا ہو جائے ہے.ایسے موقع پر وہ جس نے ساری عمر نافرمانی میں گزار دی، اپنے باپ کی سزا بھگتنے کیلئے تیار ہو گیا.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بدی خواہ کتنی بڑھ جائے نیکی کے بیج کو نہیں مٹاسکتی.ایسے آدمی میرے نزدیک ہوں گے بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ یقینا ہوں گے جن کو قیامت کے دن دوزخ میں ڈالنے کا حکم ہوگا تو کہہ دیں گے کہ ہم بیشک سزا کو برداشت کریں گے اور زگنے یا تنگئے عرصہ کیلئے جہنم میں پڑنا بھی گوارا کرلیں گے مگر اے خدا! تیری ناراضگی ہم برداشت نہیں کرسکتے کیونکہ سزا اصل چیز نہیں اصل چیز خفگی اور ہے جو محبت کے تعلق کو ظاہر کرتی ہے.وہ شخص جو سزا کو اصل چیز قرار دیتا ہے، وہ ناراضگی گویا محبت کا انکار کرتا ہے.لہ بخاری کتاب المغازی باب غزوة الطائف الفضل ۲۶ - فروری ۱۹۳۳ء) له بخارى كتاب التفسير - تفسير سورة السجدة زير آيت فلا تعلم نفس ما اخفـى لـهــم من قرة أعين بخاری کتاب المناقب باب مناقب قريش ه بخاری کتاب المغازى باب قتل حمزة ه المعارج: ۱۲ تا ۱۴
خطبات محمود ۲۵ اعمال کے ساتھ نیت کی درستی بھی ضروری ہے فرموده ۲۴ - فروری ۱۹۳۳ء بمقام راجپورہ) سال ۱۹۳۳ء تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- ہے اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ ہر ایک ترقی کے ساتھ کچھ نہ کچھ قربانی ضرور رکھتا زمیندار اُس وقت تک غلہ حاصل نہیں کر سکتا جب تک دانے اپنے گھر سے نکال کر باہر کھیت میں نہیں پھینک دیتا.اسی طرح علم حاصل کرنے کیلئے بھی انسان اپنی قوتوں کو خرچ کرتا ہے حقیقت تو ہے کہ اپنے بہت سے علم کو بھی ضائع کرتا ہے.کیونکہ جن چیزوں کو وہ پہلے تسلیم کر رہا ہوتا ہے جب تک انہیں قربان نہیں کرتا علم حاصل نہیں کر سکتا.معمولی سے معمولی بھی انسان کو بڑی بڑی قیمتیں ادا کرنی پڑتی ہیں، سوائے ایسی نعمتوں کے جن کے بغیر انسان کی زندگی ناممکن ہے.انہیں خدا تعالیٰ نے مستثنیٰ رکھا ہے جیسے ہوا ہے، اس کیلئے کوئی قربانی نہیں کرنی پڑتی.اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر ایسی قوتیں رکھی ہیں کہ ہوا خود بخود ہی سانس کے ساتھ اس کے اندر جاتی رہتی ہے.اس سے اتر کر پانی ہے جو بہت سستی چیز ہے.مگر اس کیلئے بھی کہیں کنویں کھودنے پڑتے ہیں اور کہیں سفر کر کے دوسری جگہ سے لانا پڑتا ہے.تو سب ترقیات قربانی چاہتی ہیں لیکن دُنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ترقی تو چاہتے ہیں مگر قربانی نہیں کرتے.وہ چاہتے ہیں کہ انہیں عزت، مال، دولت وغیرہ سب کچھ مل جائے مگر اس کے مقابلہ میں کسی قسم کی قربانی نہ کرنی پڑے.ایسے ہی لوگ ترقیات سے محروم رہتے ہیں.ان کے دل مسرت سے پُر ہوتے ہیں کہ کاش یہ ملے وہ ملے مگر وہ کامیاب نہیں ہو سکتے
خطبات محمود ۲۶ سال ۱۹۳۳ء کیونکہ وہ کامیابی کا اصل طریق اختیار نہیں کرتے.جو نعمتیں پیشگوئیوں کے نتیجہ میں ملتی ہیں ان کیلئے بھی قربانی ضروری ہوتی ہے.رسول کریم و ملک کے ساتھ اللہ تعالی نے جو وعدے کئے ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس کیلئے قربانی نہ کرنی پڑی ہو.مثلا فتح مکہ ہی ہے.اس کیلئے خود رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کو پہلے اپنا وطن ترک کرنا پڑا.پھر کئی جانیں ضائع ہوئیں، کئی مسلمانوں کے اعضاء ضائع ہو گئے.گویا جانیں دے کر، اعضاء دے کر وطن اور جائیدادیں ترک کرنے کے بعد یہ پیشگوئی پوری ہوئی.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں، ان کیلئے بھی قربانیاں کرنی پڑیں گی.وہ بھی اسی خدا کی طرف سے ہیں جس نے محمد کو وحی کی تھی.اور جب محمد ﷺ کی پیشگوئیاں بغیر قربانی کے پوری نہ ہوئیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کس طرح پوری ہو سکتی ہیں.ان کیلئے بھی یقیناً قربانی ضروری اور اِس قربانی میں ہر شخص کو کچھ نہ کچھ حصہ لینا پڑے گا.خصوصا زمیندار طبقہ کو اس طرف متوجہ کرتا ہوں.اس طبقہ میں احمدیت پھیلتی تو جاتی ہے مگر جس قسم کی زندگی بسر کرنے کے قابل احمدیت بنانا چاہتی ہے وہ ابھی ان کے اندر پیدا نہیں ہوئی.بہت ایسے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کو مان لیا یا نماز پڑھ لی، روزے رکھ لئے، تو یہ کافی ہے.حالانکہ نماز روزے ایک اور غرض کیلئے ہیں.اللہ تعالٰی کو اس سے کیا غرض ہے کہ کوئی شخص ہاتھ منہ پاؤں دھو کر اس کے آگے جھکے یا سجدہ کرے یا بیٹھ جائے.یہ چیزیں دراصل انسان کے دماغ کو کھولنے اور اس کے اندر حس پیدا کرنے کیلئے ہیں.اور ان سے اسے یہ بتانا مقصود ہے کہ اسے کس وقت صبر کرنا چاہیئے کس موقع پر دوسروں کے ساتھ ہمدردی کرنی چاہیے، دوسروں کیلئے قربانی کرنی چاہیئے.انسانی پیدائش کی دو غرضیں ہیں.ایک یہ کہ بندوں میں باہم نیکی اور حسن سلوک پیدا ہو اور انسان دنیا میں خدا تعالیٰ کا نائب ہو کر رہے.یہ غرض تبھی پوری ہو سکتی ہے جب انسان دماغ سے سوچے کہ خدا تعالیٰ نے اس کے اندر کیا طاقتیں رکھی ہیں.لیکن خالی نماز سے یہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا.جس شخص کے اندر تکلیف کے وقت دوسروں کی مدد کرنے، مصیبت زدہ سے ہمدردی اور دوسروں کیلئے کامل شفقت نہیں، اس کے صرف اُٹھنے بیٹھنے سے اللہ تعالیٰ کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے.دوسرا مقصد انسان کی پیدائش کا یہ ہے کہ انسان خدا تعالیٰ سے مل جائے اور صرف نماز
خطبات محمود ۲۷ سال ۱۹۳۳ء سے یہ مقصد بھی حاصل نہیں ہو سکتا.نماز بیشک اس کا ایک ذریعہ ہے مگر اس ذریعہ کو اگر صحیح طور پر استعمال نہ کیا جائے تو اس کا کوئی فائدہ نہ ہوگا.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص گھوڑے پر چڑھ کر چکر ہی کاتا رہے.ظاہر ہے کہ کولہو کے بیل کی طرح چکر کاٹتے رہنے سے کوئی منزل مقصود پر نہیں پہنچ سکتا.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز لڑائی جھگڑے اور فتنہ و فساد سے روکتی ہے.اب جو شخص نماز پڑھنے کے باوجود ان باتوں سے باز نہیں رہتا تو معلوم ہوا اس نے ٹھیک طور پر نماز نہیں پڑھی.اسی طرح نماز کے متعلق قرآن کریم - معلوم ہوتا ہے کہ یہ قرب الہی کا ذریعہ ہے.مگر جس کے دل میں محبتِ الہی پیدا نہیں ہوتی ایک نور اس کے قلب میں پیدا نہیں ہوتا، وہ کس طرح کہہ سکتا ہے کہ میں نماز پڑھتا ہوں.محبت ایک ایسی چیز ہے جو اگرچہ الفاظ میں ادا نہیں ہو سکتی لیکن ہر شخص اسے بخوبی محسوس کر سکتا ہے اور پہچان سکتا ہے کہ اس کے اندر محبت ہے یا نہیں.انسان کو اپنے بیوی بچوں محبت ہوتی ہے، انہیں دیکھ کر اس کے دل میں ان کیلئے مسرت اور خیر خواہی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں.اسی طرح اگر خدا تعالی کیلئے محبت اس کے دل میں جوش مارتی ہے تو اس کی صحیح ہے.کیونکہ جب تک دل میں احساس نہ ہو اُس وقت تک اگر کوئی شخص زبان سے کہتا رہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ سے محبت ہے تو وہ اپنے آپ کو بھی اور دوسروں کو بھی دھوکا دیتا ہے.لیکن اگر واقعی اللہ تعالیٰ کے ذکر پر اس کے دل میں محبت جوش مارتی ہے، رقت، درد اور سوزو گداز پیدا ہوتا ہے.جس طرح اگر کسی شخص کا بچہ کہیں ڈور گیا ہوا ہو اور تم اس کے پاس اس کا ذکر کرو تو اس کے جسم میں ایک خاص احساس پیدا ہو جائے گا.اس کے بدن کے رونیں کھڑے ہو جائیں گے اور طبیعت میں رقت اور نرمی کی کیفیت پیدا ہو جائے گی.یا جس عورت کا خاوند کہیں دور گیا ہوا ہو، اس کے سامنے یہ ذکر کرو کہ وہ آنے والا ہے تو اس کا چہرہ متغیر ہو جائے گا اور اس کی شکل ظاہر کرے گی کہ اس کے اندر کوئی خاص احساس پیدا ہوا ہے.یہی حالت اگر اللہ تعالیٰ کے ذکر پر انسان کے اندر پیدا ہو تو وہ خیال کر سکتا ہے کہ اس کے دل میں اللہ تعالی سے کچھ محبت ہے.لیکن جب منہ سے محبت محبت کہا جائے لیکن دل کے اندر کوئی تغیر نہ پیدا ہو تو یہ محبت محض لفظی ہوگی.کیونکہ حقیقی محبت ضرور انسان کے اندر تغیر پیدا کرتی ہے.یہ دو مقصد ہیں انسانی پیدائش کے اور ان کیلئے قربانی کی ضرورت ہے.پھر قربانی کے ساتھ نیت کی بھی ضرورت ہے.اگر کوئی شخص کسی مسافر سے کہے کہ بارش نماز
خطبات محمود ۲۸ سال ۱۹۳۳ء ہو رہی ہے، چلو میرا مکان قریب ہی ہے.اس میں آرام کرو.مگر دل میں اسے لوٹنے کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے اس سے ہمدردی کی اور میں دوسروں کیلئے قربانی کرتا ہوں.یا جس طرح لوگ مچھلیوں کو آٹا ڈالتے ہیں مگر اس سے مقصد انہیں پکڑنا ہوتا ہے.اس..لئے یہ قربانی نہیں کہلا سکتی کیونکہ اس میں اپنا فائدہ ہے.اور قربانی وہ ہے جس میں دوسرے کو فائدہ پہنچے اور اپنا نقصان ہو.لیکن جب کوئی کام اپنے فائدہ کو مد نظر رکھتے ہوئے یا ریاء کیلئے کیا جائے تو وہ قربانی نہیں کہلا سکتا.مثلاً اگر کوئی نماز اس لئے پڑھتا ہے کہ مسلمانوں کے گھر پیدا ہوا ہوں اگر نہ پڑھی تو لوگ طعن کریں گے ، تو یہ اس کیلئے ثواب کا موجب نہیں ہو سکتی.غرض جو کام اپنے فائدہ کیلئے یا دوسروں کو اپنی طرف مائل کرنے یا ان سے اپنی تعریف کرانے کیلئے کیا جائے، اس کا کوئی ثواب نہیں مل سکتا.پھر جو کام عادتا کئے جاتے ہیں، ان کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا.دیکھو بعض لوگ کبڑے چلتے ہیں.لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ انہوں نے بوجھ اُٹھایا ہوتا ہے.اسی طرح بعض لوگ روزے محض اس لئے رکھتے ہیں کہ ان کے ماں باپ رکھتے تھے، اس سے انہیں بھی عادت ہو گئی تو یہ کوئی ثواب کا کام نہیں..پس جو کام ریاء کیلئے یا ذاتی اغراض کے ماتحت یا عادتاً کیا جائے وہ قربانی نہیں کہلا سکتا.قربانی وہ ہے کہ کوئی کام اس لئے کیا جائے کہ یا خدا راضی ہو جائے اور یا اس کے بندوں کو فائدہ پہنچے.اور نماز روزہ سے یہ مقصود ہے کہ انسان کے اندر رقت اور درد پیدا ہو.اسی طرح صدقہ و خیرات اور چندوں کا یہ مقصد ہے کہ بندوں کے ساتھ مہربانی کی عادت پیدا ہو.لیکن اگر یہ نیکیاں کسی عادت کے ماتحت یا ریاء کے طور پر یا کسی اور غرض کو مد نظر رکھ کر کرتا ہے تو یہ ایسا ہی ہے جیسے مچھلی کو آٹا ڈالنا.ایک شخص بارش کے بعد مکان کی چھت پر دانہ ڈالتا ہے تا چڑیاں اور پرندے وغیرہ سیر ہو سکیں.لیکن چڑی مار بھی جانوروں کیلئے دانہ ڈالتا ہے جس کا مقصد چڑیوں کو پھنسانا ہوتا ہے.ان دونوں میں کتنا فرق ہے.ایک کی غرض دوسروں کو فائدہ پہنچانا ہے مگر دوسرے کی غرض اپنی ذات کو فائدہ پہنچانا ہے.اسی طرح ایک زمیندار اپنے کھیت میں دانہ ڈالتا ہے اور ایک کوٹھے پر پرندوں کے کھانے کیلئے ڈالتا ہے.ان دونوں میں بھی کتنا فرق ہے ایک اپنے نفع کیلئے ڈالتا ہے اور دوسرا بظاہر ضائع کر رہا ہے لیکن خدا کی دوسری مخلوق کو فائدہ پہنچا رہا ہے.تو یاد رکھنا چاہیے کہ اصل چیز نیت ہے.اگر نیت درست ہو تو کام بھی اچھا ہو گا.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے الاعمال بالنيات له - ظاہری شکل پر نتائج ال الْأَعْمَالُ
خطبات محمود ۲۹ سال ۱۹۳۳ء مترتب نہیں ہو سکتے، اصل چیز نیت ہے.کسی شخص کے بدن پر بچھو چڑھ گیا ہو اور دوسرا زور کے ساتھ مکا مار کر بچھو کو مارڈالتا ہے.مگر ایک اور اسے یونہی ممکا مار دیتا ہے تو دونوں میں کتنا فرق ہے.ایک کے ساتھ تو وہ لڑ پڑے گا مگر دوسرے کا شکریہ ادا کرے گا کیونکہ بچھو کو مارنے والے نے اسے فائدہ پہنچایا.اگر مکا مارنے کی بجائے اسے متوجہ کرتا تو ممکن تھا کہ قبل اس کے کہ بچھو تک اس کا ہاتھ پہنچتا، وہ ڈنگ مار دیتا.اُس نے اپنی تکلیف کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دوسرے کو ضرر سے بچایا.مگر ایک اور نے اسے تکلیف دینے کیلئے مکا مارا تو عمل کی ظاہری شکل نہیں دیکھنی چاہیئے.کئی لوگوں کی نماز بھی ایسی ہی بُری ہو سکتی ہے جیسے چوری - قرآن کریم میں آیا ہے وَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ ہے.تو ظاہری اعمال کے ساتھ نیت کی درستی بھی ضروری ہے.اور اصل نیت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو " اخلاق کی درستی ہو جائے.اور اگر ساتھ کے ساتھ یہ چیزیں حاصل نہ ہوں تو انسان سمجھ لے کہ اس کی نیت میں خرابی ہے اور اسن نے نماز صحیح طریق پر ادا نہیں کی.زمیندار جب گھر پے سے گھاس کاتا ہے یا درانتی کے ساتھ کوئی فصل کاتا ہے تو وہ ساتھ کے ساتھ کٹ کر مٹھی میں آتی جاتی ہے.اگر ایک بار در انتی چلانے کے ساتھ اس کی مٹھی میں کچھ نہ آئے تو معاً اسے توجہ پیدا ہو جاتی ہے.اور اگر کسی اور طرف متوجہ ہو یا کسی سے باتیں کر رہا ہو تو فوراً دیکھ کر ہاتھ کو ٹھیک کرتا اور درانتی کو صحیح طور پر چلاتا ہے.لیکن بہت سے ہیں کہ نمازیں پڑھتے رہتے ہیں، روزے رکھتے ہیں جس کا نتیجہ کچھ نہیں نکلتا مگر وہ کوئی خیال نہیں کرتے.حالانکہ اگر ان کی نمازیں صحیح ہو تیں تو کچھ تو نتیجہ نکلنا چاہیئے تھا.کوئی وجہ نہیں کہ آدمی صحیح طور پر نماز پڑھے اور اس کا خدا کے ساتھ تعلق نہ ہو.وہ روزے رکھے مگر وحشی کا وحشی ہی رہے اور بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی اس کے دل میں پیدا نہ ہو.اگر وہ ٹھیک طور پر نماز پڑھتا روزے رکھتا تو نتیجہ بھی ضرور ظاہر ہوتا.اس کا محروم رہنا دو صورتوں سے خالی نہیں.یا تو نماز سے فائدہ حاصل ہی نہیں ہو سکتا اور یا اس نے اس کا ٹھیک طور پر استعمال نہیں کیا.پس نماز روزہ اور دیگر عبادات میں ہمیشہ نیت درست رکھنی چاہیئے.تا صحیح نتیجہ حاصل ہو اور اگر حاصل نہ ہو تو چاہیے کہ انسان فکر کرے.کیونکہ وہ بات جو قرآن کریم نے بیان کی ہے غلط نہیں ہو سکتی.ضرور نقص اس کی اپنی طرف سے ہے.اگر ایک ماہر مالی کسی کو اپنا آزمایا ہوا اور تجربہ شدہ بیج دے اور وہ نہ چھوٹے تو اس کے یہی معنے ہوں رپر
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء گے کہ جس نے بیج لیا تھا اسے ہونا نہیں آیا.اسی طرح نماز روزہ میں فوائد تو ضرور ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے.اب جسے حاصل نہیں ہوتے تو اس کا اپنا نقص ہے.چاہیے کہ وہ اسے دور کرے اور اپنے نفس کی خرابی کی اصلاح کرے.(الفضل ۲ - مارچ ۱۹۳۳ء) له بخاری باب كيف كان بدء الوحى الى رسول الله الماعون: ۵
خطبات محمود اسم سال ۱۹۳۳ تبلیغ احمدیت میں صبر و استقلال سے مشغول رہنے کی ہدایت - (فرموده ۳ مارچ ۱۹۳۳ء) تشد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- اللہ تعالی کی قائم کردہ جماعتیں ہمیشہ تلواروں کے سائے تلے پلا کرتی ہیں.اور جو شخص اس قانونِ قدرت سے بچنا چاہتا ہے درحقیقت وہ اپنی کمزوری ایمان کی شہادت دیتا ہے.ہمارے زمانہ میں اللہ تعالٰی نے ابتلاء اور ٹھوکریں اور رنگ کی رکھی ہیں.پہلے زمانہ میں اس قسم کے ابتلاء اور ٹھوکریں نہیں تھیں.اُس وقت زیادہ تر تلوار تھی.مخالف تلوار اُٹھاتا اور کسی کی گردن اڑا دیتا یا پکڑتا اور پھانسی پر لٹکا دیتا.اب بظاہر یہ نظر آتا کہ اس قسم کی تلوار باقی نہیں رہی کیونکہ انگریزی حکومت میں تلوار اور گولی سے کسی کو ذہنی مخالفت کی وجہ سے قتل نہیں کیا جاتا.مگر جب کسی قوم کے اخلاق بُرے ہوتے ہیں اور اس سے تلوار لے لی جاتی ہے تو اس تلوار کی بجائے اس کی زبان کی تلوار چلنی شروع ہو جاتی ہے.تلوار بعض اوقات نیک آدمی کے ہاتھ سے بھی لے لی جاتی ہے اور بعض اوقات بد آدمی کے ہاتھ سے بھی.مگر فرق ہے کہ جب تلوار ایک نیک آدمی کے ہاتھ سے لے لی جائے تو اس کے اخلاق میں قسم کی بڑی تبدیلی پیدا نہیں ہوتی.اور تلوار چھن جانے کے باوجود وہ پھر بھی بہادر ہوتا ہے.ہے.پھر بھی رحم دل اور حوصلہ مند ہوتا ہے.اور پھر دشمنوں سے درگزر کرنے والا ہوتا لیکن جب بڑے آدمی سے تلوار لے لی جائے تو وہ گالی گلوچ اور طعن و تشنیع پر اتر آتا ہے.تم تجربہ کرکے دیکھ لو گندے اخلاق کے آدمی کو ذرا دق کرو وہ فوراً گالیاں دینا شروع "
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء کردے گا.لیکن اگر وہ تلوار چلانے والا ہو گا تو گالیاں نہیں دے گا بلکہ لڑنے لگ جائے گا.اسی لئے جو قومیں قتل کرتی ہیں، ان میں گالیاں دینے کی عادت کم ہوتی ہے.اور جو قتل نہیں کرتیں، ان میں گالیاں دینے کی عادت زیادہ ہوتی ہے.پس در حقیقت گالی قتل کے قائم مقام ہوتی ہیں.اور اس میں کیا شبہ ہے کہ بعض دفعہ گالی کا زخم تلوار کے زخم سے بہت سخت ہوتا ہے.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ کوئی ریچھ تھا، اس کا ایک آدمی سے دوستانہ تھا.اس کی بیوی ہمیشہ اسے طعن کیا کرتی تھی کہ تو بھی کوئی آدمی ہے، تیرا ریچھ سے دوستانہ ہے.ایک دن اس کی دل آزار گفتگو اس قدر بڑھ گئی اور ایسی بلند آواز سے اُس نے کہنا شروع کیا کہ ریچھ نے بھی سن لیا.ریچھ نے تب ایک تلوار لی اور اپنے دوست سے کہا.یہ تلوار میرے سر پر بار اس گفتگو کے متعلق حیرت نہیں ہونی چاہیئے.یہ صرف ایک کہانی ہے یہ بتانے کیلئے کہ کوئی آدمی ریچھ کی شکل کا ہوتا ہے اور کوئی انسان کی صورت کا) اس شخص نے بہتیرا انکار کیا.مگر ریچھ نے کہا کہ ضرور میرے سر پر مار - آخر اُس نے تلوار اُٹھائی اور ریچھ کے سر پر ماری.وہ لہولہان ہو گیا اور جنگل کی طرف چلا گیا.ایک سال کے بعد پھر اپنے دوست کے پاس آیا اور کہنے لگا میرا سر دیکھ کہیں اس زخم کا نشان ہے؟ اس نے دیکھا تو کہیں زخم کا کوئی نشان دکھائی نہ دیا.تب ریچھ نے کہا بعض جنگل میں بوٹیاں ہوتی ہیں.میں نے علاج کیا اور زخم اچھا ہو گیا.لیکن تیری بیوی کے قول کا زخم آج تک ہرا ہے.تو بعض اوقات تلوار کے زخم سے زبان کا زخم بہت زیادہ شدید ہوتا ہے.اور یہ تلوار ایسا زخم لگاتی ہے جو کبھی بھولنے میں نہیں آتا.پس گو لوہے کی تلوار چھین لی گئی لیکن چونکہ اخلاق درست نہ تھے اس لئے انہوں نے ایسی تلوار تلاش کی جو پُر امن حکومت میں رہتے ہوئے مخالف پر چلا سکیں.اور چونکہ لوہے کی تلوار ان سے لے لی گئی تھی اس لئے انہوں نے زبان کی تلوار چلانی شروع کردی.اور اس کے چلانے میں ایسا ملکہ حاصل کیا ہے کہ اس بارے میں وہ فرعون اور ابو جہل سے بھی بڑھ گئے ہیں.قرآن مجید میں دشمنانِ اسلام کے اعتراضات درج ہیں.اور احادیث میں وہ گالیاں بھی درج ہیں جو مخالف دیا کرتے تھے.مگر وہ ساری گالیاں ملا کر کسی ایک دشمنِ احمدیت کی گالیوں کے پاسنگ بھی نہیں.جس وقت اس کی زبان کھلتی ہے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک تیز رو گھوڑا ہے جو ایک چابک کی بھی برداشت
خطبات محمود سمسم سال ۱۹۳۳ء نہیں کر سکتا.مگر سوار اسے ہنٹر پر ہنٹر مارتا چلا جاتا ہے.ان گالیوں کے ساتھ طعن بھی ہوتا ہے، جھوٹ بھی ہوتا ہے، فریب بھی ہوتا ہے، اشارے بھی ہوتے ہیں، بغض بھی ہوتا ہے، کینہ بھی ہوتا ہے، حسد بھی ہوتا ہے.غرض دنیا کی تمام شرارتیں ان میں ملادی جاتی ہیں.اور گو بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ وہ الفاظ ہیں مگر وہ بغض اور کینہ کے پتھر ہوتے ہیں جو اپنے مقابل کو دینا چاہتے ہیں.قدرتی طور پر یہ گالیاں بعض لحاظ سے بہت تلخ ہوتی ہیں.اس لئے کہ جب ایک شخص کسی کے آقا پر تلوار کا وار کر رہا ہو تو قربانی کرنے والا اپنا سینہ آگے کردیتا ہے.اور کہتا ہے کہ آؤ تم مجھے مارلو - وہ خود زخم برداشت کرتا ہے مگر اپنے آقا کو تلوار نہیں لگنے دیتا.لیکن یہ گالی کی تلوار وہ ہے جسے کوئی شخص خواہ کس قدر جانثار کیوں نہ ہو، روک سکتا.یہ اسی پر پڑتی ہے جس پر چلائی جاتی ہے.جب ابو جہل، عتبہ اور شیبہ نے محمدی نہیں.み رقم رض تلواریں اُٹھا ئیں تو طلحہ اور زبیر آگے آگئے اور انہوں نے اپنے سینوں اور ہاتھوں پر ان تلواروں کو لے لیا.علی اور حمزہ آگے آگئے اور انہوں نے اپنے سینوں اور ہاتھوں پر ان تلواروں کو لے لیا.اسی طرح انصار میں سے لوگ نکلے اور انہوں نے تلواروں کو اپنے سینوں اور ہاتھوں پر لیا.لیکن میں جانتا ہوں کہ اس زمانہ کی تلواریں یعنی گالیوں کی بوچھاڑ وہ چیز ہیں جنہیں کوئی مخلص اپنے نفس پر نہیں لے سکتا.وہ حیران ہوتے ہیں کہ ان گالیوں کی تلوار کو طرح اپنے سینوں پر لیں.کیونکہ گالی ایسی چیز ہے جسے کوئی دوسرا شخص نہیں لے سکتا.اخلاص رکھنے والے گولیاں اپنے سینوں میں کھاسکتے ہیں، بندوقوں اور توپوں کے راستہ میں حائل ہو سکتے ہیں مگر گالی کو نہیں روک سکتے.پس اس لئے ان کی وجہ سے جوش تلوار چلانے سے بہت زیادہ ہوتا ہے.پچھلے سے پچھلے سال جب میں سیالکوٹ گیا اور کشمیر کی تحریک کے متعلق میرا لیکچر ہوا تو دشمنوں کی طرف سے مجھ پر پتھر برسائے گئے.اُس وقت جماعت کے مخلصین نے میرے چاروں طرف گھیرا ڈال لیا.اور گو اُچٹ کر تین چار پتھر مجھے بھی آلگے مگر وہ نہایت معمولی تھے زیادہ زخم گھیرا ڈالنے والوں کو آئے اور پچیس کے قریب احمدی شدید زخمی ہوئے.لیکن باوجود اس کے انہیں غصہ نہ رہا تھا.کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ہم جس کو بچانا چاہتے تھے، اسے بچالیا.لیکن جب کوئی گالیاں دیتا ہے اور حملہ کو انسان اپنے اوپر نہیں لے سکتا تو اس کا جوش بڑھتا جاتا ہے.کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ جسے میں بچانا چاہتا ہوں، اسے نہیں بچاسکتا.غرض گالی وہ رتیر
خطبات محمود سلام سلام سال ۱۹۳۳ء ہے جو تمام جانثاروں کے سروں پر سے گزر کر وہاں پہنچ جاتا ہے جس کی طرف پھینکا جاتا ہے.پس اس میں کوئی شبہ نہیں کہ گالیوں کا زخم بہت گہرا ہوتا ہے.اور اس لحاظ سے ہم نہیں کہہ ہیں سکتے کہ ہمارے زمانہ کے ابتلاء پہلے سے کم ہیں.ہمارے زمانہ میں بھی ویسے ہی ابتلاء ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ ان کی نوعیت اور شکل بدل گئی ہے.مگر یہ ابتلاء بھی مخلصوں کیلئے منافقوں کیلئے نہیں.ایک منافق آدمی جو خود بھی دشمنوں کے ساتھ مل کر حملہ کراتا ہو، اس کے سامنے اگر تلوار کا حملہ ہو تو اسے کیا تکلیف ہو سکتی ہے.عبداللہ بن ابی بن سلول جو یہ کہا کرتا تھا کہ لیخْرِ جَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ لو سب سے زیادہ معزز یعنی وہ سب سے زیادہ ذلیل یعنی نَعُوذُ بِاللهِ محمد اللو کو مدینہ سے نکال دے گا.گویا وہ بد بخت رسول کریم ای سے زیادہ ذلیل سمجھتا اور کہا کرتا کہ جب چاہوں گا انہیں مدینہ سے نکال دوں گا.ایسے آدمی کے سامنے اگر کوئی محمد ﷺ کو گالیاں دیتا تو اسے کیا تکلیف ہو سکتی تھی، وہ تو خوش ہی ہوتا.پس مخلص ہی ہے جسے تکلیف ہوتی ہے.اور مخلص ہی ہے جس کیلئے گالی اور تلوار برابر ہیں، بلکہ گالی میں زیادہ تکلیف ہے.کیونکہ دشمن تلوار مارے تو یہ بیچ میں حائل ہو.وسکتا گالی کو کسی طرح روک نہیں سکتا.اور اگر اس کو جاکر کہے جو گالیاں دیتا ہے کہ تو گالی.قوم ہے نہ تو ممکن نہیں کہ وہ گالی دینا چھوڑ دے.وہ تو کہے گا کہ میں اور زیادہ گالیاں دوں کیونکہ میری گالیاں انہیں تکلیف دیتی ہیں.پس وہ ایک پتھر سے دو حملے کرتا ہے.اس پر بھی جو ایک کا مطاع ہے اور اس پر بھی جو اس کے ساتھ وابستہ ہے.غرض گالیاں اپنی ذات میں کوئی کم تکلیف وہ حملہ نہیں.لیکن بہر حال جس طرح صحابہ نے صبر و استقلال کے ساتھ تمام تکالیف کو برداشت کیا، ہمارا فرض ہے کہ ہم بھی صبر سے اس ابتلاء کو برداشت کریں.میں قطعاً نہیں کہہ سکتا اور نہیں کہتا کہ ہمیں بے غیرت ہو جانا چاہیے، بلکہ میں کہتا ہوں کہ مومن کی غیرت سے زیادہ کسی اور کی غیرت نہیں ہوتی.سب سے زیادہ غیور مومن ہوتا ہے، گو سب سے زیادہ عفو کرنے والا بھی مومن ہوتا ہے.پس میں یہ نہیں کہتا کہ تم بے غیرت ہو جاؤ لیکن میں کہتا ہوں کہ تم اپنی غیرت کو صحیح طور پر استعمال کرو.اگر کوئی محمد مصطفی ﷺ کو گالیاں ہے یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو برا بھلا کہتا ہے تو ہماری غیرت یہ بھی کہہ ہے کہ آؤ! اس شخص کو قتل کردیں.ہماری غیرت یہ بھی کہہ سکتی ہے کہ جس طرح یہ
خطبات محمود ۳۵۰ سال ۴۱۹۳۳ گالیاں دیتا ہے.اسی طرح ہم بھی اسے گالیاں دیں.مگر یہ بدلہ کوئی صحیح بدلہ نہیں ہو گا.قتل اور گالی یہ دونوں چیزیں ایسی ہیں جن سے اسلام نے منع کیا ہے.اور اگر کوئی شخص قتل کرتا یا بالمقابل گالیاں دینا شروع کر دیتا ہے تو وہ بھی اُسی صف میں کھڑا ہو جاتا ہے جس میں دشمن کھڑا ہے.آخر دشمن کیوں بُرا ہے؟ کیا اسی لئے نہیں کہ وہ نبیوں کی تعلیم سے انکار کرنے والا ہے.پس اگر تم بھی نبیوں کی کسی تعلیم کا انکار کرتے ہو تو تم بھی بُرے سمجھے جاؤ گے اور بجائے دشمن کو نقصان پہنچانے کے اپنا نقصان کر بیٹھو گے.آخر اس کمبخت نے تو مرنا تھا ہی، آج نہیں تو کل مرجائے گا.تم اگر اسے قتل کرتے ہو تو یہ تمہاری کوئی کامیابی نہیں.یا گالیاں دیتے ہو تو یہ تمہارے لئے کوئی عزت کی بات نہیں بلکہ تم اپنا ہی نقصان کرتے ہو.پس یہ طریق بدلہ لینے کا نہیں.بدلہ لینے کا طریق یہ ہے کہ ہم دشمن کے وہاں چوٹ لگائیں جو ہمارے لئے عزت کا موجب ہو اور اُس کیلئے فائدہ کا باعث ہو.دیکھو قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.تم ہمیں برا تو کہتے ہو لیکن اَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا.پتہ بھی ہے، تمہارے بیٹے اور بیٹیاں، بھانجے اور بھانجیاں ، عزیز اور رشتے دار سب کو ایک ایک کر کے محمد ا کی گود میں لا رہے ہیں.اسلام کے زمانہ میں ہمیں یہ نظارے نظر آتے ہیں.ایک شخص شدید دشمن ہو تا رات اور دن رسول کریم اللہ کی مخالفت میں لگا رہتا مگر وہ خود یا اس کا کوئی عزیز بیٹا یا بیٹی، بیوی یا بہن داخل اسلام ہو جاتی.حضرت عمر ان کا ہی واقعہ ہے.وہ اپنی جوانی کے دنوں میں اسلام کی مخالفت میں بہت بڑھ چڑھ حصہ لیا کرتے.حتی کہ ان کے گھر کی ایک خادمہ مسلمان ہو گئی تھی، وہ اسے سخت پیٹا کرتے.اور جب خود مسلمان ہو گئے تو وہ یہ کہہ کر چڑایا کرتی کہ تم تو مجھے مسلمان ہونے کی وجہ سے پیٹا کرتے تھے، اب خود مسلمان ہو گئے ہو.انہوں نے ایک دفعہ عزم کیا کہ رسول کریم ﷺ کو قتل کردیں.تلوار سنبھالے جارہے تھے کہ راستہ میں انہیں ایک دوست ملا.اس نے پوچھا خیر تو ہے کا ارادہ ہے؟ کہنے لگے محمد ( ا ) کو قتل کرنے جارہا ہوں.اس نے کہا واہ واہ بڑے با غیرت ہو محمد کو تو قتل کرنے چلے ہو مگر اپنے دل کا حال معلوم نہیں کہ بہن اور بہنوئی مسلمان ہو چکے ہیں.کہنے لگے ہیں! یہ بات ہے، اچھا میں پہلے ان کا ہی صفایا کرتا ہوں.اللہ تعالی کی حکمت ہے رسول کریم اللہ ہمیشہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ یا اللہ ! ابو جہل یا عمر بن الخطاب ان دونوں میں سے کسی کو مسلمان کردے کیونکہ یہ دونوں پرجوش اور اعزاز کدھر
خطبات محمود رکھنے والے تھے.جب بہن کے گھر پہنچے تو دروازہ اندر سے بند تھا اور اندر ایک صحابی قرآن شریف پڑھا رہے تھے.انہوں نے دستک دی تو اندر سے پوچھا گیا کون ہے.انہوں نے کہا میں ہوں جلدی کھولو.انہوں نے حضرت عمر کی آواز سن کر اس صحابی کو تو کہیں چھپا دیا اور قرآن کے اوراق بھی پوشیدہ کر دیئے ، پھر دروازہ کھولا.حضرت عمر نے غصہ سے پوچھا دروازہ کھولنے میں دیر کیوں لگی ہے.کہا گیا یونسی دیر ہوگئی ہے.کہنے لگے بتاؤ کیا وجہ تھی؟ انہوں نے کچھ عُذر وغیرہ کئے مگر ان کی تسلی نہ ہوئی.اور چونکہ طبیعت میں سخت جوش تھا اس لئے بہنوئی کو مارنا شروع کردیا.ان کی بہن اپنے خاوند کو بچانے کیلئے آگے بڑھیں تو چونکہ حضرت عمر جوش میں ہاتھ اُٹھا چکے تھے، اس لئے بہن کے بھی ایک مکا لگا اور خون بننے لگا.حضرت عمر جہاں نہایت سخت مزاج تھے وہاں رقیق القلب بھی بہت تھے.بہادر آدمی جب عورت پر دار ہوتے دیکھتا ہے تو سخت ندامت اور پشیمانی محسوس کرتا ہے.اسی بناء پر حضرت عمر بھی نادم ہوئے اور کہنے لگے اچھا مجھے دکھاؤ تو تم کیا پڑھ رہے تھے ؟ اس طرح انہوں نے اپنی شرمندگی کا اظہار کرنا چاہا.میں نے ابھی بتایا ہے کہ بہادر آدمی عورت پر ہاتھ نہیں اُٹھایا کرتا.پھر میں نے یہ بھی کہا ہے کہ حضرت عمر اپنی لونڈی کو پیٹا کرتے تھے.دراصل اُس زمانہ کے اخلاق کے لحاظ سے لونڈی اور غلام انسان نہیں سمجھے جاتے تھے.اس لئے انہیں مارنا پیٹنا کوئی بات نہ تھی ایک ثر اور آزاد عورت پر ہاتھ اُٹھانا سخت عیب متصور ہوتا تھا.انہوں نے جب قرآن کے اوراق مانگے تو بہن نے کہا ہم نہیں دیں گے، تم ان کی بے حرمتی کرو گے.انہوں نے قسم کھائی کہ میں بے حرمتی نہیں کروں گا اِس پر قرآن کی آیات دکھائی گئیں.چونکہ دل پہلے ہی رقت حاصل کرچکا تھا اور روحانیت کا دروازہ کھل چکا تھا اس لئے جوں جوں پڑھتے جاتے آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے جاتے.پھر سیدھے رسول کریم ﷺ کے پاس پہنچے.وہاں بھی صحابہ دروازے بند کئے بیٹھے تھے.جب انہوں نے دروازہ کھولنے کیلئے کہا تو چونکہ بڑے تیز مزاج تھے ، بعض صحابہ کو خدشہ پیدا ہوا کہ ایسا نہ ہو یہ سختی کریں.حضرت حمزہ نے کہا کوئی بات نہیں دروازہ کھول دو.اگر اس نے ہاتھ اُٹھایا تو اس کا سر توڑ دوں گا.دروازہ کھولا گیا اور حضرت عمر اندر آئے.رسول کریم ﷺ نے ان کے دامن کو جھٹکا دے کر فرمایا.عمر! کس نیت سے آئے ہو؟ انہوں نے گردن جھکائی اور عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ کی بیعت کرنے کیلئے آیا ہوں ہے.غرض یہ سزا تھی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مخالفین کو مل رہی تھی.اور -.رض
خطبات محمود ۳۷ سال ۱۹۳۳ء یہی سزا ہے جو نیکی اور تقویٰ پیدا کرتی ہے.اگر ہم کسی کو مار دیتے ہیں تو اسے ہمیشہ کیلئے نیکی سے محروم کر دیتے ہیں اور اگر کسی کو گالی دیتے ہیں تو بھی اس کے دل میں بغض پیدا کر کے سے نیکی سے محروم کرتے ہیں.صحیح اور مفید طریق یہ ہے کہ ظالم کی بجائے ہم مظلوم بنیں.اور اگر دشمن غصے اور کینہ کا اظہار کرے تو ہم نرمی، محبت اور ملائمت میں ترقی کرتے جائیں.اگر وہ دنیا کی اصلاح سے نہیں روکے تو ہم اور زیادہ اس اصلاح پر کمربستہ ہو جائیں.اس زمانہ میں بھی میں دیکھتا ہوں کہ پھر احمدیت کے خلاف جوش پیدا ہو رہا ہے.اس کے مقابلہ میں میں دیکھتا ہوں کہ بعض احمدیوں کے دلوں میں بھی ویسا ہی جوش ہے جیسے حضرت حمزہ کے دل میں تھا کہ انہوں نے کہا.آنے تو دو اگر اس نے کوئی خلاف حرکت کی تو اس کا سر توڑ دوں گا.یہ حضرت حمزہ کے الفاظ تھے.مگر رسول کریم ﷺ نے یہ نہیں کہا کہ میں سرتوڑ دوں گا.بلکہ آپ نے کہا عمر! تم کب تک ہمارے پیچھے پڑے رہو گے.انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! میں تو تو بہ کرنے آیا ہوں ہے.رسول کریم ﷺ کے کیا درد کے الفاظ ہیں اور کس طرح محبت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے.گویا ایک طرف تو رسول کریم انہیں یہ بتارہے ہیں کہ تم ہمیشہ ظلم کرتے ہو اور پھر یہ بھی اظہار فرمارہے ہیں کہ ہم کبھی اس ظلم کا جواب نہیں دیتے.اور تیسری طرف یہ پوچھ رہے ہیں کہ عمر! تم نیکی کا کب تک انکار کرو گے.یہی چیز ہے ہے جس سے آج بھی ہم کامیاب ہو سکتے ہیں.خدا نے ہمیں تلوار نہیں دی بلکہ آج ہمیں اس نے بے بس بنایا ہے اور اس لئے بنایا تا وہ ہمارے صبر کی آزمائش کرے.پس میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس عظیم الشان جہاد کے موقع پر گھبرائے نہیں.بلکہ یاد رکھے کہ ہمارا پیدا کرنے والا آقا اور رب جو پہلوں اور پچھلوں تمام کو پیدا کرنے والا ہے چاہتا ہے کہ ہمارے حوصلہ اور صبر کی آزمائش کرے.وہ چاہتا ہے کہ دیکھے جماعت غیرت سے صحیح طور پر کام لیتی ہے یا نہیں.اور غیرت کو صحیح طور پر استعمال کرنے کا یہی مفہوم ہے کہ اگر پہلے یہ نیت تھی کہ دس آدمیوں کو احمدی بنائیں گے.تو جب مخالف مارتا ہے تم کہو اب ہم میں یا تمہیں یا چالیس یا پچاس آدمیوں کو احمدی بنا کر رہیں گے.یہ ہے بدلہ اور یہ ہے وہ تلوار جو خدا نے ہمارے ہاتھ میں دی ہے.دوسری تلوار خدا نے ہمیں نہیں دی.اور اس کا منشاء ہے کہ وہ بغیر تلوار کے ہمیں دنیا پر غالب کرے.پس جو شخص اس منشاء کو پورا نہیں کرتا وہ اپنی ہلاکت کی آپ بنیاد رکھتا ہے آنکھ کا کام
خطبات محمود ۳۸ سال ۱۹۳۳ء انکار ہے کہ وہ دیکھے اور کان کا کام ہے کہ وہ سُنے.جو آنکھ دیکھنے سے اور جو کان سننے کر دے گا یا جو ناک سونگھنے سے انکار کرے گی، وہ ضائع ہو جائے گی.کیونکہ جس غرض کیلئے اور انسان کوئی چیز پیدا کی گئی ہو اگر وہ اسے پورا نہ کرے تو اسے رکھا نہیں جاتا.پس شدائد کو برداشت کرتے ہوئے صبر سے کام لو.اور دیکھو کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء کیا ہے.اس وقت خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہارے صبر کی آزمائش کرے.محمد ﷺ کے صحابہ اگر مکہ میں صبر سے کام نہ لیتے تو وہ اللہ تعالی کی درگاہ سے راندے جاتے.اور اگر محمد ال کے صحابہ مدینہ میں تلوار نہ اٹھاتے تو بھی خدا کی درگاہ سے راندے جاتے.انہوں نے اللہ تعالیٰ کی منشاء کو سمجھا ا کامیاب ہوئے.تم بھی اللہ تعالیٰ کا منشاء دیکھو.تمہاری تلوار تمہاری بندوق، تمہاری توپ اور تمہارا ہتھیار اس وقت صرف تبلیغ ہے.تلواریں اور تو ہیں لوگ خود بناتے ہیں مگر جو چیز تم کو دی گئی ہے، وہ خدا نے اپنے ہاتھ سے تمہارے لئے بنائی ہے.اور کون کہہ سکتا ہے کی بنائی ہوئی خدا کی بنائی ہوئی تلوار ایک سی ہوتی ہے.پس بزدل مت بنو غیور بنو.مگر جو خدا نے تمہارے لئے شاہراہ مقرر کی ہے، اس کے مطابق کام کرو.تم نکل جاؤ اُس کلام کو لے کر جو خدا کی طرف سے نازل ہوا.تم نکل جاؤ اس تعلیم کو لے کر جو مسیح موعود کی معرفت تمہیں ملی.دشمن ٹھٹھا کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ ایک مجنون آدمی تھا.مگر تم جانتے ہو کہ دنیا کے تمام نور اس کے کلام سے نکل کر پھیل رہے ہیں.جانتے ہو کہ خدا نے انہیں مردود قرار دے دیا جو اُس کے دامن سے وابستہ نہیں.تم جانتے ہو کہ اس کی تعلیم دلوں میں تقویت دینے والی اور خدا سے ملا دینے والی ہے.تم جانتے ہو کہ وہ خدا کا عشق پیدا کرنے والی ہے.تم جانتے ہو کہ وہ محمد ا سے محبت پیدا کرنے والی ہے.پس اس تلوار کو تھامو اور دنیا میں دیوانہ وار نکل جاؤ.پھر اگر دنیا کی تلواریں بھی تم پر پڑیں اور وہ تمہاری گردنیں اڑا دیں تو تمہیں کچھ پرواہ نہیں ہونی چاہیئے.کیونکہ تم ابدی زندگی پاؤ گے اور خدا کی گود میں چلے جاؤ گے.کون موت سے ڈرتا ہے؟ وہی جسے خیال ہو کہ موت کے بعد اس سے باز پرس ہوگی.مگر جسے یقین ہو کہ موت میں زندگی کا راز مضمر ہے، وہ ان کب موت سے خوف کھا سکتا ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ہی ایک صحابی کا واقعہ ہے.وہ ایک دفعہ میدانِ جنگ بھاگ نکلے.لوگوں کو حیرت ہوئی کیونکہ وہ بہت بہادر تھے.اور بعضوں نے ان سے پوچھا کہ آپ
خطبات محمود ۳۹ سال ۱۹۳۳ء.کیوں بھاگے؟ آپ سے تو ہمیں یہ توقع نہیں تھی.انہوں نے کہا.اصل وجہ یہ ہے کہ میں ہمیشہ بغیر زرہ کے لڑا کرتا تھا.آج اتفاقا رات کو میں نے زرہ پہنی اور لڑائی کے وقت اُتارنی یاد نہ رہی.میرا مد مقابل وہ ہے جو دس بارہ مسلمانوں کو قتل کرچکا ہے.میں نے خیال کیا کہ اگر میں زیرہ پہنے ہی مرگیا تو اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دوں گا کہ آگئے تو کبھی زرہ پہنی نہیں تھی مگر آج موت کے ڈر سے پہن لی.تاکہ خدا سے ملنے کا جو دروازہ کھلنے والا ہے وہ نہ کھلے ھے.تو جس کو یقین ہوتا ہے کہ موت موت نہیں بلکہ زندگی کا دروازہ ہے، وہ موت سے کبھی نہیں ڈرتا.آخر تم کس لئے گھبراتے ہو کیا اس لئے کہ وہ تمہیں ماریں گے؟ مگر میں کہتا ہوں وہ تمہیں نہیں مارسکتے کیونکہ اگر ہم واقعی محمد اللہ پر ایمان لے آئے ہیں تو دشمن ہمیں نہیں مار سکتا.ہم زندہ رہیں گے اور مرنے کے بعد بھی زندہ رہیں گے.پس تبلیغ پر زور دو اور تکالیف میں صبر سے کام لو.دشمن اگر تمہیں مارتا ہے تو تم اور تبلیغ کرو.وہ گالی دیتا ہے تو تم اُس کیلئے دعا کرو.یہ رنگ اور یہ نمونہ دکھاؤ تو ایک سال کے اندر ہی عظیم الشان تبدیلی پیدا ہو جائے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کئی کتابوں میں تحریر فرمایا ہے کہ مجھے جمالی رنگ میں اللہ تعالی کی طرف سے مبعوث فرمایا گیا ہے.پس جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جمالی رنگ میں آئے تو تم تلوار کس طرح چلا سکتے ہو.خدا تعالیٰ تمہیں اگر جلالی رنگ دینا چاہتا تو پہلے تلوار دیتا.اور اب بھی اگر جلالی زمانہ لانا چاہے گا تو پہلے تلوار دے گا.کس طرح ہو سکتا ہے کہ خدا تعالی تلوار تو چھین لے اور حکم دے کہ تم دشمنوں کے ساتھ تلوار سے لڑو.اِس قسم کا حکم خدا تعالیٰ نہیں دے سکتا.اس وقت تمہارے ہاتھ میں تلوار نہیں بلکہ تمہارے دشمن کے ہاتھ میں تلوار ہے.عیسائیوں کے پاس تلوار ہے، زرتشتیوں کے پاس تلوار ہے، غیر احمدیوں کے پاس تلوار ہے.اور ہندوؤں کے ہاتھ میں بھی ایک رنگ میں تلوار ہے کیونکہ اکثر ریاستیں ان کی ہیں.مگر ہمارے ہاتھ میں تلوار نہیں حتی کہ کوئی ایک ریاست احمدیوں کی نہیں.پس ہمارے پاس نہ ماتحت تلوار ہے نہ افسر تلوار- پھر کس طرح ہے ہم تلوار سے دشمن کا مقابلہ کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی جہاد کے متعلق یہی فرمایا ہے کہ اگر خدا موجود زمانے میں جہاد بالسیف چاہتا تو مسلمانوں کو پہلے تلوار دیتا.پس بہادر بنو اور جرات سیکھو.جرات یہ نہیں کہ ذرا سی تکلیف پر شور مچانا اور گھبرانا شروع کردو کہ ہماری کوئی بات نہیں سنتا.تمہاری بات اگر کوئی نہیں سنتا تو تم چیخو اور ہو
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء چلاؤ اور اللہ تعالی کے حضور زاری کرو، دعائیں کرو کہ وہ تمہاری باتوں میں اثر ڈالے.اور دعا کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی فوج خود بخود لوگوں کے دلوں کو تمہاری طرف پھیر دے گی.پس تبلیغ ہی تمہاری فوج ہے اور تبلیغ ہی تمہارے سپاہی.قرآن مجید میں خدا تعالیٰ صاف فرماتا ہے کہ تمہاری تلواریں کام نہیں کرتی بلکہ ہمارے فرشتے کام کرتے ہیں.غرض روحانی سلسلوں ) میں نظر آنے والی فوجیں کام نہیں کرتیں بلکہ نہ نظر آنے والی فوجیں کام کیا کرتی ہیں.اگر تم سارے اکٹھے بھی ہو جاؤ تو بھی تم کتنے ہو، ایک مٹھی بھر ہی تو ہو.تم اللہ تعالیٰ کے حضور زاری کرو اس سے دعائیں اور التجائیں کرو اور مدد اور استعانت چاہو.دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ہمت اور حوصلہ دے.پھر دیکھو گے کہ کس طرح فرشتے اُترتے اور دوسروں کے دلوں تمہاری باتیں اثر کرنا شروع کردیتی ہیں.پھر اللہ تعالیٰ کی اس تائید پر تم جتنا چاہو فخر کرنا.ایک امیر کا واقعہ لکھا ہے کہ وہ رات کو گانا بجانا جاری رکھتا جس سے ہمسایوں کو تکلیف ہوئی.محلہ کے لوگوں نے ایک بزرگ کے پاس جو اسی محلہ میں رہتے تھے ، شکایت کی کہ اس وہ سے نیند اور اخلاق خراب ہوتے ہیں.انہوں نے امیر کو سمجھایا کہ ایسا نہیں کرنا چاہیئے.چونکہ بادشاہ کا مصاحب تھا اس لئے اس نے بادشاہ سے شکایت کردی.بادشاہ نے اس بزرگ کو بلوایا اور کہا کیا بات ہے؟ انہوں نے واقعہ سنایا اور کہا کہ یہ رُک جائیں تو اچھا ہے ورنہ ان کیلئے بہتر نہیں ہو گا.بادشاہ نے کہا کس طرح اچھا نہیں ہو گا.اس کا کون کچھ بگاڑ سکتا ہے؟ بزرگ نے کہا یوں تو میں نہیں کر سکتا مگر ایک چیز ہے جس سے میں مقابلہ کروں گا اور وہ راتوں کے تیر ہیں.بادشاہ سلامت! بیشک آپ کے پاس فوجیں ہیں، بندوقیں ہیں مگر آپ کے پاس راتوں کے تیر نہیں.ان کی اس دلیری کا اتنا اثر ہوا کہ بادشاہ نے اس امیر کو منع کردیا اور امیر نے معافی مانگی.تو راتوں کے تیر تمہیں ملے ہوئے ہیں.جاؤ اور ان سے دشمنوں کا مقابلہ کرو.قرآن تمہیں ملا ہوا ہے.جاؤ اور اس سے دشمنوں کا مقابلہ کرو.حدیثیں تمہیں ملی ہوئی ہیں.جاؤ اور ان سے دشمنوں کا مقابلہ کرو.یہی تمہاری تلواریں ہیں، یہی تو ہیں ہیں اور یہی بندوقیں ہیں.کونسا مسئلہ ہے جس میں ہم دشمن کو شکست نہیں دے سکتے.ہم ہر مسئلہ میں اسے نیچا دکھاتے ہیں.مگر وہ دھوکا کرتا ہے، فریب کرتا ہے، ملمع سازی سے کام لیتا ہے.کوئی دنیا کا بڑے سے بڑا پروفیسر یا سائنسدان کسی مسئلہ میں ایک بچے احمدی کو شکست نہیں دے سکتا.اور آج تک ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ہوا جس میں دلائل کی رو سے کسی احمدی نے
خطبات محمود اسم سال ۱۹۳۳ء شکست کھائی ہو.مگر دشمن جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ بول بول کر لوگوں کو ورغلاتا اور انہیں جماعت کے خلاف اکساتا ہے.تم یاد رکھو جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے.قرآن مجید میں آتا ہے جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا تو حق آگیا اور باطل بھاگ گیا.اور اس میں تعجب کی کون سی بات ہے.باطل ہمیشہ بھاگا ہی کرتا ہے.پس بیشک وہ جھوٹ سے کچھ عرصہ تک لوگوں کو ور غلالیں مگر وہ جھوٹ نہیں جو بھاگے نہیں اور وہ بچ نہیں جو پھیلے نہیں.پس ان دنوں زیادہ جوش سے تبلیغ پر کمربستہ ہو جاؤ.پرسوں پھر تبلیغ کا دن ہے اور یہ دن خصوصیت سے ہندوؤں میں تبلیغ کیلئے ہے.بیرونی جماعتیں تو زور شور سے تیاری کر رہی ہیں مگر قادیان میں سستی معلوم ہوتی ہے.ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ اِس دن تبلیغ کرے.چاہے تقریر کے ذریعہ اور چاہے تحریر کے ذریعہ.بہر حال تبلیغ کرنی ہے.اور جو باہر کی جماعتیں ہیں مثلاً لاہور اور گجرات جہاں کہ آج کل بہت زیادہ مخالفت ہو رہی ہے.وہ میرے اس خطبہ کو یاد رکھیں اور سمجھ لیں کہ جب تک وہ خدا کے منشاء کے مطابق کام نہیں کریں گی ، کامیاب نہیں ہوں گی.ہمارے دل میں بیشک ان کی محبت ہے مگر ہماری محبت ان کے کام نہیں آسکتی.آج خدا چاہتا ہے کہ ہر انسان کو خود مدد دے.پس خدا کی محبت دل میں پیدا کرو تاکہ خود زمین و آسمان کا خدا تمہاری مدد کرے.آج سے تیرہ سو سال پہلے جب محمد ال دنیا میں آئے اور خدا نے تلوار کے ذریعہ اسلام کی مدد کی تو دشمن نے اعتراض کیا اور کہا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا.تب خدا کی غیرت نے کیا کہ وہ ایک دوسرے زمانہ میں تلوار مسلمانوں سے لے لے اور پھر ادیان باطلہ پر اسلام غالب کر کے ثابت کرے کہ اسلام دلائل کی رو سے غالب ہوا کرتا ہے نہ کہ تلوار کے ذریعہ.پس تم جاؤ اور دلائل کی تلوار سے مخالفین کو اسلام کے قدموں میں ڈال دو.اور یاد رکھو کہ آج اگر کوئی شخص اسلام کے نام پر تلوار چلاتا ہے تو وہ اسلام کا ازلی دشمن ہے کیونکہ وہ اس زبردست دلیل صداقت کو باطل کرنا چاہتا ہے جس کے متعلق خدا کا ارادہ ہے کہ دنیا پر ظاہر کرے.تم اگر اِس وقت ایک زبردست آدمی پر انگلی بھی رکھتے ہو اور وہ گر جاتا ہے تو و شور مچاسکتا ہے اور کہہ سکتا ہے کہ میں اس کی اُنگلی سے گرا.اس طرح وہ ذلیل جو خدا دنیا میں قائم کرنی چاہتا ہے کمزور ہو جاتی ہیں.وہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء پس جاؤ اور گالیاں کھاؤ کہ اسی میں برکت ہے.ماریں کھاؤ کہ اسی میں برکت ہے.اپنے ہاتھوں کو روکو اور غیرت کا بر محل استعمال کرنا سیکھو.اللہ تعالی ہماری جماعت کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ اس نعمت کی قدر کرے جو خدا نے اسے دی.اور ان ہتھیاروں سے مسلح ہو کر جو خدا نے نازل فرمائے دنیا کے دلوں کو اسلام کیلئے مسخر کرے.الفضل ۹ - مارچ ۱۹۳۳ء) له المنفقون: ٩ ، بخارى كتاب التفسير تفسير سورة المنافقون باب يقولون لئن رجعنا الى المدينة ليخرجن الأعز منها الاذل ه الرعد: ۴۲ الطبقات الكبرى لابن سعد جلد ۳ صفحه ۲۶۷ تا ۲۶۹ مطبوعه دار صادر بیروت ۱۹۸۵ء - الكامل فى التاريخ لابن الاثير جلد ۲ صفحه ۸۶ مطبوعه دار صادر بیروت ۱۹۶۵ء ه فتوح الشام للواقدى صفحه ۲۹۹ مطبوعه نولکشور ه بنی اسراءیل: ۸۲
خطبات محمود سم لهم سال ۱۹۳۳ء تبلیغی جدوجہد کے ساتھ دُعائیں بھی کرو فرموده ۱۰ - مارچ ۱۹۳۳ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- اس ہفتہ میں ہمارے دوسرے نیوم التبلیغ کی تاریخ تھی اور جو رپورٹیں باہر سے آئی ہیں اور جو کام اس جگہ ہوا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تحریک بھی اللہ تعالیٰ کے فضل - بہت کچھ برکت کے سامان اپنے اندر رکھتی ہے اور اس کے نتیجہ میں دنیا کی اصلاح کی بہت کچھ امید کی جاسکتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام اللہ تعالیٰ کے کلام میں جَرِيٌّ اللهِ حُلل الانبياء لے رکھا گیا ہے.یعنی وہ اللہ تعالی کا بہادر جرنیل جو تمام انبیاء کے لباس پہن کر آیا ہے.ہر نبی کا خلعت وہ خلعت جو حضرت موسیٰ کو دیا گیا، وہ خلعت جو حضرت عیسی" کو دیا گیا وہ خلعت جو حضرت کرشن ، حضرت رام چندر ، حضرت بدھ ، حضرت زرتشت کو دیا گیا غرض کہ جو کسی بھی ملک اور کسی بھی قوم کے نبی یا اوتار کو دیا گیا وہ سارے کے سارے جمع کرکے اللہ تعالٰی نے اپنے اس جرنیل کو پہنا دیئے ہیں.یہ کوئی معمولی الہام نہیں ، کوئی معمولی دعوی نہیں.حُلل سے مراد اور خلعتوں کے معنی وہ کپڑوں کا لباس نہیں جو انبیاء اپنے اپنے زمانوں میں پہنتے تھے.یہ معنے تو بالبداہت غلط ہیں.حُلل سے مراد یقیناً وہی لباس ہیں جو اللہ تعالٰی نے ان کو پہنائے تھے.یعنی تقویٰ کا لباس مراد ہے، جسے قرآن کریم نے حقیقی لباس قرار دیا ہے.یا وہ انعامات الہی کا لباس مراد ہے جو کہ ان کی ترقیات کا معیار ہوتا ہے.اس کے ذریعہ انسان کے مدارج کو پہچانا جاتا ہے.اور
خطبات محمود مهم مهم سال ۱۹۳۳ء عظمت کو شناخت کیا جاتا ہے.ان دونوں میں سے کوئی لباس مراد لے لو یہ دعویٰ بہت عظیم الشان بنتا ہے اور کوئی جھوٹا شخص ایسا دعوئی نہیں کر سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک احمدی کے دماغ میں نقص ہو گیا اُس نے یہ دعویٰ کیا کہ مجھے الہام ہوتا ہے اور مجھے اللہ تعالٰی حضرت موسیٰ، حضرت عیسی اور محمد الله کا نام دیتا ہے.وہ شخص یہاں آیا تو آپ کے سامنے اس کا ذکر کیا گیا.آپ نے نصیحت کی اور فرمایا دیکھو جب تمہیں الہام ہوتا ہے کہ تو موسیٰ ہے تو کیا حضرت موسیٰ والے معجزے اور نشان بھی دیئے جاتے ہیں.جب تمہیں ابراہیم کہا جاتا ہے تو کیا حضرت ابراہیم کی سی تائید اور نصرت بھی حاصل ہوتی ہے اور آئندہ نسلوں کے متعلق انہی برکات کا وعدہ دیا جاتا ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دی گئیں.جب عیسی کہا جاتا ہے تو کیا دعاؤں کی قبولیت کے معجزات بھی دیئے جاتے ہیں جو حضرت عیسی سے وابستہ ہیں.اس نے جواب دیا کہ نہیں ملتا تو کچھ نہیں.آپ نے فرمایا بس پھر وہ شیطان ہے جو آپ کے ساتھ کھیلتا ہے.اللہ تعالی کی طرف سے جو وعدے کئے جاتے ہیں ان کے ثبوت بھی ہوتے ہیں.شیطان جھوٹ بولتا اور بندے سے کھیلتا ہے.یہ دعویٰ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے کیا کوئی معمولی دعوئی نہیں.پھر جب کوئی شخص دعوی کرے تو اس کیلئے شبور چاہئیں.اور یہ ثبوت دو قسم کے ہوتے ہیں ایک مادی اور دوسرا روحانی روحانی ثبوتوں کا مہیا کرنا اللہ تعالیٰ کا کام ہوتا ہے اور مادی ثبوتوں کا مہیا کرنا بندوں کا.جب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق یہ فرما دیا کہ تو ابراہیم موسیٰ، عیسی ہے، کرشن ہے.اور جب کہ اس نے فرما دیا کہ سب انبیاء کے نام لینے کی ضرورت نہیں.تو جَرِيُّ اللهِ فِى حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ ہے.یعنی تو وہ جرنیل ہے جو سب انبیاء کے لباس پہن کر آیا ہے.تو اس دعوئی کے ساتھ اللہ تعالی پر بھی ایک ذمہ داری عائد ہوتی تھی اور وہ یہ کہ جب اس نے آپ کو موسیٰ کہا تو اس کی کوئی علامت بھی دیتا.اور اُس نے دی، چنانچہ آپ کو موسیٰ قرار دینے کے ساتھ اس نے یہ بھی فرمایا کہ موسیٰ کی طرح عصا بھی تجھے دیا گیا ہے.جو دشمن کے بنائے ہوئے سانپوں کو کھا جائے گا.جتنے سحر لوگ کریں گے، وہ سب ان کو باطل کردے گا.پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو صرف موسیٰ ہی نہیں کہا بلکہ ساتھ یہ بھی فرمایا کہ تیرے خلاف تیرے دشمنوں کے منصوبے خاک میں ملا دیئے جائیں گے.اسی طرح آپ کو عیسی کہا گیا تو
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء حضرت عیسی کو دعاؤں کی قبولیت کا جو معجزہ دیا گیا تھا، وہ بھی آپ کو دیا گیا.حضرت عیسی بیماروں کیلئے دعا کرتے اور وہ شفایاب ہو جاتے.اللہ تعالٰی نے آپ کو بھی فرمایا کہ تیری دعائیں قبول کرنے کا ہم نے فیصلہ کرلیا ہے.اُجِيْبُ كُلَّ دُعَائِكَ إِلَّا فِي شُرَكَائِكَ سے سوائے ان بعض دعاؤں کے جو تو نے اپنے شرکاء کے متعلق کی ہیں باقی تیری دعائیں قبول کی جائیں گی.گویا آپ سے اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ سے بھی بڑھ کر وعدہ کیا.وہ تو صرف دعا کے ساتھ بیماروں کو اچھا کرتے تھے لیکن یہاں فرمایا کہ ہم بیماروں، تند رستوں، غریبوں، بے اولادوں غرض کہ سب کے متعلق تیری دعا قبول کریں گے.اور اس طرح آپ کو صرف حضرت عیسی کا نام ہی نہیں دیا گیا بلکہ ساتھ نشان بھی دیئے گئے.پھر آپ کو کرشن اور رو در گنو پال بھی کہا گیا اور ساتھ ہی وعدہ فرمایا کہ کرشن کی خوبیاں بھی تجھے عطا کریں گے.تیری جماعت میں ایسے لوگ داخل کریں گے جو گائے کی طرح نفع رساں اور مسکین طبع ہوں گے.ایک طرف علوم کا سر چشمہ ان سے پُھوٹے گا دوسری طرف وہ سختی اور تشدد کے مقابلہ میں نرمی اور محبت کا اظہار کریں گے جس طرح گائے دودھ دیتی ہے.پھر اس کے اندر اللہ تعالٰی نے ایک جذبہ محبت بھی رکھا ہے.دوسرے جانوروں مثلاً گھوڑے، اونٹ، بھینس وغیرہ پالتو جانوروں میں سے کسی کو دیکھ لو ان میں سے جس کی آنکھ میں سب سے زیادہ محبت اور انکسار پایا جاتا ہے، وہ گائے ہے.اس کی آنکھ کو دیکھ کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے جذبات کو ہم تک پہنچانا چاہتی ہے.مگر زبان بند ہونے کی وجہ سے مجبور ہے.اسی سے شاید ہندوؤں کو خیال ہوا کہ گائے ہماری ماں ہے.جو معنے گائے کی آنکھ میں نظر آتے ہیں وہ اور کسی حیوان کی آنکھ میں دکھائی نہیں دیتے.اس میں ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے اسے کوئی شناخت ہے اور کچھ بتانا چاہتی ہے.اس کے دل میں خیالات آتے ہیں مگر چونکہ بولنے کیلئے زبان نہیں.اس لئے سارا زور آنکھ پر ڈال کر اپنے جذبات کا اظہار کرنا چاہتی ہے.اس لئے گائے مسکینی کا نشان قرار دیا گیا ہے اور وہ باوجود فائدہ پہنچانے کے مسکینی کا نشان ہے.سو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالٰی نے بتایا کہ تیری جماعت میں لوگ ہوں گے جو اپنا خون دوسروں کو چوسوائیں گے مگر پھر بھی مسکینی کے ساتھ رہیں گے.وہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کے جمال کے مظہر ہوں گے.وہ دنیا کے فائدہ کیلئے اپنا سب کچھ قربان کردیں گے مگر پھر بھی یہی سمجھیں گے کہ ہم نے ابھی تک کچھ نہیں کیا.پھر آپ کو ابراہیم کہا
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ میں تیری اولاد کو بڑھاؤں گا اور ترقی دوں گا.غرض آپ کو اللہ تعالی نے جن انبیاء کے نام دیئے ان کی روحانی تائیدیں بھی ساتھ دیں.صرف الفاظ ہی الفاظ نہیں ہیں.یا مثلاً جامع کمالات نبی کا نام آپ کو دیا گیا اور آپ کو ان کا شاگرد اور مظہر قرار دیا تو ان کے نشانات بھی آپ کو دیئے.نبی کریم کا سب سے بڑا معجزہ قرآن ہے کہ اس کا مثل کوئی کلام نہیں.سو اللہ تعالیٰ نے آپ سے یہ وعدہ کیا کہ ہم تجھ سے ایسا کلام لکھوائیں گے کہ دنیا اس کی مثل لانے سے قاصر رہے گی.چنانچہ آپ نے دنیا کو یہ چیلنج دیا مگر کوئی مقابلہ پر نہ آسکا.رسول کریم اللہ کا دوسرا معجزہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو اپنے کلام کی معرفت عطا کی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ایسے معارف و حقائق سکھائے کہ اس میں بھی کسی کو بھی آپ کے مقابل پر آنے کی جرات نہ ہوئی..غرض اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو نام دیا اس کے ساتھ روحانی تائید بھی دی.مگر ہر چیز کا جس طرح ایک روحانی پہلو ہوتا ہے، اسی طرح مادی بھی ہوتا ہے.جس طرح حضرت کرشن کا روحانی محلہ یہ ہے کہ گئو صفت لوگ آپ کو دیئے گئے.اسی طرح اس کا مادی یا جسمانی صلہ ہے کہ ان کی قوم آپ کو مان لے.جس طرح حضرت عیسی کی دعاؤں کی قبولیت کا معجزہ روحانی حلہ ہے جو آپ کو دیا گیا.اسی طرح ان کا جسمانی صلہ یہ ہے کہ ان کے ماننے والے آپ کی جماعت میں داخل ہو جائیں.پھر جس طرح حضرت موسیٰ کا عصا اور ید بیضاء عطا کیا جو حضرت موسیٰ کا روحانی گلہ ہے ان کا جسمانی محلہ یہ ہے کہ یہودی آپ پر ایمان لائیں.جس طرح زرتشت نبی کی تعلیم کی وسعت آپ کو دی گئی جو روحانی محلہ ہے اس طرح اس کا جسمانی پہلو یہ ہے کہ ان کو ماننے والے آپ کی جماعت میں شامل ہو جائیں.اور ایک شخص کا کسی کا وارث ہو جانا اسی مقام پر اسے کھڑا کر دیتا ہے.جب ایک بادشاہ فوت ہو اور دوسرا اس کی مملکت کا حکمران مقرر ہو تو وہی نام وہ اختیار کرلیتا ہے.جو اللہ تعالیٰ کا کام تھا وہ اس نے کردیا یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حضرت موسیٰ حضرت عیسی ، حضرت کرشن اور دیگر انبیاء کے نام اور ان کے کمالات عطا کر دیئے اور ظلی طور پر آپ کو محمد ﷺ کا نام اور آپ کے کمالات بھی دیئے.اب دوسرے حصہ کو پورا کرنا ہمارا کام ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر امت کے لوگوں کو لاکر آپ کی جماعت میں داخل کریں.ہمارا یہ یوم التبلیغ کیا تھا وہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ جرى اللهِ فِى حُلل الانبیاء کی پیشگوئی کو پورا کرنے کا ایک ذریعہ تھا.اور اس ذریعہ سے جتنے لوگوں کو ہم اسلام میں داخل کریں گے، اتنے ہی زیادہ اس پیشگوئی کو پورا کرنے والے ہوں گے.ابھی مجھے ساری رپورٹیں نہیں ملیں مگر جو ملی ہیں وہ بہت خوشکن ہیں.غیر احمدیوں نے ہماری مخالفت کی اور مقابلے پر آمادہ ہو گئے.مگر ہندوؤں نے جس محبت اور شرافت سے باتیں سنیں اور جس روح کا اظہار کیا، اس کا دسواں حصہ بھی مسلمانوں نے اس موقع پر نیز پچھلے یوم التبلیغ کے موقع پر نہیں کیا تھا.سوائے شاز کے ہر جگہ ہندوؤں نے احمدیوں کا تپاک کے ساتھ استقبال کیا.خوشی کے ساتھ بٹھایا اور محبت کے ساتھ باتیں سنیں.قادیان کے ایک دوست جو تبلیغ کیلئے باہر گئے ہوئے تھے ، انہوں نے سنایا کہ انہیں ایک ہندو نے جو موٹر میں بیٹھے تھے اپنے ساتھ بٹھالیا کہ اپنی باتیں سناؤ اور ساتھ لے جاکر ان کی باتیں سنتے رہے.پھر قادیان کے قریب آکر انہیں اُتار دیا.امرتسر میں ہمارے ایک دوست ایک سکھ عالم کے پاس گئے تو انہوں نے نہایت تکریم کے ساتھ بٹھایا.اور اس امر پر افسوس کیا کہ آپ تبلیغ تو ہم لوگوں کو کرتے ہیں اور ان مولویوں کو کیا ہو گیا ہے کہ یہ آپ کی خوامخواہ مخالفت کر رہے ہیں.انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں اسلام کا سخت مخالف تھا اور رسول کریم ( ا ) کو ڈاکو سمجھتا تھا مگر مرزا صاحب کی کتب کے مطالعہ کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ میں سخت غلطی تھا اور اُس دن سے میں آپ کی بہت عزت کرتا ہوں.خدا جانے ان مولویوں کو کیا ہوگیا اور یہ لوگوں کی مخالفت کیوں کرتے ہیں.میرے دل میں اگر اسلام کی عزت ہے تو محض مرزا صاحب کے طفیل ہے.اس میں شبہ نہیں کہ غیر احمدیوں میں بھی مخالفت کرنے والے بہت محدود ہیں.اور عام تعلیم یافتہ طبقہ جیسا کہ اخبارات وغیرہ سے پتہ لگتا ہے، ان کی اس حرکت کو بُرا سمجھتا ہے اور یہ خوشکن تبدیلی ہے.مگر ہندوؤں کی بیداری مسلمانوں سے بہت زیادہ بڑھی ہوئی ہے.بعض جگہ مسلمانوں نے ہمارے دوستوں کو گالیاں دیں اور کہا کہ یہاں سے نکل جاؤ.لیکن ہندوؤں نے ان کو بد زبانی سے روکا اور کہا یہ تو ہمیں تبلیغ کرتے ہیں، تم کیوں منع کرتے ہو.پھر ان کو بٹھایا اور ان کی باتیں سنیں.لیکن غیر احمدیوں نے بعض جگہ احمدیوں کے مکانوں اور دکانوں پر جاکر سیاپے کئے ، گالیاں دیں اور یہ نہ سوچا کہ ان باتوں سے بھلا کیا بنتا ہے.یہ تو جھوٹے اور شکست خوردہ کی علامات ہیں.جب کوئی شکست کھاتا ہے تو گالیوں پر اُتر آتا ہے.لیکن جو غالب ہوتا ہے وہ گالی نہیں دیتا.کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ایک تھپڑ پر
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء مار کر مخالف کے دانت باہر نکال دوں گا.دو لڑکے جب آپس میں لڑ رہے ہوں تو جو مارے وہ تو چُپ چاپ کھڑا ہو جاتا ہے.لیکن جو مار کھائے، وہ روتا بھی ہے اور گالیاں بھی دیتا جاتا ہے.تو ان غیر احمدیوں کی ایسی حرکات کو ہم کچھ نہیں سمجھتے.بہرحال ان دونوں ایام التبلیغ سے ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ دنیا میں شریف انسانوں کی کمی نہیں.پہلے یوم التبلیغ پر یہ معلوم ہوا تھا کہ مسلمانوں میں شرفاء کی کمی نہیں.اور دوسرے سے یہ ظاہر ہو گیا کہ ہندوؤں میں ذاتی شرافت رکھنے والے لوگ مسلمانوں سے بھی زیادہ ہیں.مسلمان مذہب کے لحاظ سے ان سے زیادہ پُر شوق ہیں.مگر چونکہ یہ قاعدہ ہے کہ جب کوئی قوم گر رہی ہوتی ہے تو اس کے اخلاق بھی گر جاتے ہیں.اس لئے ذاتی شرافت رکھنے والے ہندوؤں میں بہت زیادہ معلوم ہوتے ہیں کیونکہ ہندو قوم اب اُٹھ رہی ہے.ہمیں یقین ہو گیا ہے کہ اگر ہماری تبلیغی مساعی جاری رہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الهام اللهِ فِى حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ اپنے مادی رنگ میں بھی بہت جلد پورا ہو جائے گا.یعنی ہر مذہب کے لوگ سلسلہ میں داخل ہو جائیں گے.لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ اس کیلئے صرف تبلیغ کی ضرورت نہیں.اس کیلئے صرف ایک دن کی تبلیغ کافی نہیں بلکہ مستقل تبلیغ اور ساتھ ہی دعاؤں کی ضرورت ہے.دل انسانی تدبیروں سے فتح نہیں ہو سکتے جس کیلئے اللہ تعالیٰ چاہے اسی کیلئے فتح ہو سکتے ہیں.اور اس کے رستہ میں پھر کوئی روک نہیں ٹھر سکتی.لیکن جس سے اللہ تعالیٰ دلوں کو پھیر دے، اس کے اخلاق بھی سب بیچ ہو جاتے ہیں.بعض اشخاص اچھے اخلاق رکھتے ہیں مگر لوگ پھر بھی ان سے بیزار ہی ہوتے ہیں.اور بعض سخت مزاج ہوتے ہیں مگر لوگ ان پر فریفتہ ہوتے ہیں.بعض لوگ راستباز ہوتے ہیں مگر لوگوں میں ان کا اعتبار نہیں ہوتا.اور بعض جھوٹ بھی بول لیتے ہیں مگر لوگوں کو ان پر اعتماد ہوتا ہے.اور ان کا جھوٹ ظاہر ہو جانے پر بھی کہہ دیتے ہیں کہ غلطی ہو ہی جاتی ہے.مگر اس کے مقابلہ میں ایک راستباز کی کچی بات کو بھی بناوٹ اور فریب کہہ دیتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ ایک شخص بہت نمازیں پڑھا کرتا تھا.مقصد اس کا یہ تھا کہ متقی مشہور ہو جائے اور لوگ اس کی عزت کریں.مگر اللہ تعالیٰ کو چونکہ اسے ہدایت کا رستہ دکھانا اور اس سے خاص سلوک کرنا تھا اس لئے اس کی اس قدر عبادتوں کے باوجود لوگ اسے منافق اور ریا کار ہی کہتے.دس بارہ سال تک وہ کوشش کرتا رہا مگر کامیابی نہ ہوئی.ایک دن وہ
خطبات محمود ۴۹ سال ۱۹۳۳ء گزر رہا تھا کہ اس نے سنا دو لڑکے آپس میں کہہ رہے تھے یہ بڑا منافق ہے.اس کے دل پر اس سے سخت چوٹ لگی.اور اس نے سوچا کہ اتنی مدت دنیا کو خوش کرنے کی کوشش کی مگر نتیجہ کچھ نہ نکلا اب دنیا کی عزت وذلت کو نظر انداز کر کے اللہ تعالیٰ کو خوش کرنا چاہیئے.یہ نیت کر کے وہ جنگل میں چلا گیا.اللہ تعالٰی کے آگے خوب رویا اور سچی توبہ کی اور کہا کہ اے اللہ ! ب کسی بندے کی طرف میرا خیال نہیں، میرا مقصود تیری ذات ہی ہے.اس طرح وہ توبہ کر کے آرہا تھا کہ رستہ میں دو آدمی اُسے ملے جو اُسے دیکھ کر کہنے لگے کہ دیکھو اسے لوگ منافق کہتے ہیں، بھلا یہ شکل منافقوں والی ہے.دنیا بھی کیسی بابل ہے ہمیشہ نیکوں کو بُرا کہتی ہے.تو اصل بات یہ ہے کہ قلوب اللہ تعالٰی کے اختیار میں ہیں.ہمارا فرض تبلیغ ہے مگر اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری کے بغیر اس میں کامیابی نہیں ہو سکتی.اس لئے ایک طرف تبلیغ کرو اور دوسری طرف دعاؤں پر زور دو.اور اس گھڑی سے زیادہ خوشی کی گھڑی جو دعا میں گزرے اور کون سی ہو سکتی ہے.دعا کیا ہے؟ یہ بندہ اور خدا کی رُو در رو گفتگو ہے.اپنی ماں سے بچھڑا ہوا بچہ جب اُسے دیکھتا ہے.اِس کا دل بلیوں اچھلنے لگتا ہے.اِسی طرح جس شخص کا اللہ تعالی پر ایمان ہو اُسے دعا میں ایسا لطف آتا ہے کہ دعا کرتے وقت اگر اسے تمام دنیا کی بادشاہت بھی دے دی جائے تو وہ اُسے ٹھکرا دے گا اور کہہ دے گا کہ جاؤ اسے لے جاؤ.اِس وقت میری آنکھیں میرے محبوب پر لگی ہوئی ہیں.دعا دراصل اللہ تعالی نے انسان کو مقام محمدی کی ایک جھلک دکھانے کیلئے ایک سلسلہ قائم کیا ہے.گویا انبیاء کو جو مقام ہر وقت نصیب ہوتا ہے، وہ دُعا کے وقت ہر ایک مومن کو حاصل ہو سکتا ہے.پس تبلیغ بھی کرو اور ساتھ ہی دعاؤں پر زور بھی دو.اس طرح ایک طرف تو دنیا کی اصلاح ہو جائے گی اور دوسری طرف تمہاری اپنی اصلاح ہوگی اور تم روحانیت میں ترقی کرو گے.یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک شخص اللہ تعالیٰ کے بندوں کی اصلاح کرے اور اللہ تعالی اسے کفر و ضلالت کی موت دے.جو شخص بھولے ہوئے بندوں کو راہ راست پر لانے کی کوشش کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کی شان کبھی پسند نہیں.کرتی کہ وہ خود گمراہ ہو جائے.اگر اس کے اندر کوئی نقص بھی ہے جس کی وجہ سے وہ خدا کو نہیں پاسکتا تو اللہ تعالی اسے خود دور کر دے گا.اور اس کی موت سے قبل اس کے عمل اگر اسے اللہ تعالیٰ کے قریب نہیں پہنچا سکے تو اللہ تعالی کی نصرت اسے اس مقام : پر کھڑا کردے گی.کیونکہ اس نے بنی نوع انسان کی ہمدردی اور عشق الہی کا ایسا نظارہ پیش کیا کہ اگر
خطبات محمود سال ۱۹۳۲۳ء وہ اب بھی خدا کو نہیں مل سکتا تو معلوم ہوا کہ وہ اپاہچ ہے اور جانتے ہو ایک ماں اپنے اپانی بچے سے کیا سلوک کرتی ہے.وہ اپنے دو سال کے تندرست بچے کو تو اُنگلی پکڑا کر ساتھ چلائے لیکن آٹھ دس سالہ پانچ بچے کو گود میں اٹھالے گی.اسی طرح جب دوسرے لوگ چل کر اللہ تعالیٰ کے حضور پہنچیں گے.اللہ تعالی کی محبت اس اپانچ کو گود میں اٹھا کر لے جائے گی.پس یہ مت سمجھو کہ تبلیغ کر کے تم خدا یا رسول پر کوئی احسان کرتے ہو بلکہ خود اپنے آپ پر احسان کرتے ہو.کیونکہ ایسا کر کے تم خدا کی رسیوں سے کھنچے ہوئے اس کے پاس پہنچ جاؤ گے.پس اس معاملہ میں تمہارا احسان دوسروں پر نہیں بلکہ اپنی جان پر ہی ہو گا.الفضل ۱۶ - مارچ ۱۹۳۳ء) لہ تذکرہ صفحہ ۷۹- ایڈیشن چهارم سے تذکرہ صفحہ ۲۶- ایڈیشن چهارم
خطبات محمود ۵۱ ^ سال ۱۹۳۳ء ابتلاؤں کا سلسلہ ایمان کو تازہ رکھنے کیلئے نہایت ضروری ہے فرموده ۱۷ مارچ ۱۹۳۳ء بمقام مسجد احمد یہ لاہور) - تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں نے آج کا قیام لاہور میں محض اس غرض کیلئے کیا ہے کہ تا میں جمعہ کا خطبہ یہاں پڑھ سکوں.کیونکہ کئی دنوں سے میرے دل میں یہ خیال تھا کہ میں لاہور کے دوستوں کو بعض ایسے امور کے متعلق جو ان دنوں ان کے سامنے ہیں بعض نصائح کروں.اور اس کی بہتر صورت مجھے یہی نظر آئی کہ میں ایک جمعہ لاہور میں پڑھاؤں اور اس طرح اپنے خیالات سے دوستوں کو آگاہ کردوں.چند دنوں سے ہماری جماعت کی مخالفت دوسرے لوگوں میں بڑھ رہی ہے.اور وہ معاندت کی رو جو پچھلے چند سالوں سے دبی ہوئی تھی پھر نئے سرے سے طاقت پکڑ کر ایک نئے رنگ میں دنیا میں عموماً اور ہندوستان میں خصوصاً ظاہر ہونے لگی ہے.یہ ایک طبعی امر ہے کہ جب ایک انسان کے خلاف کوئی جدوجہد شروع کی جاتی ہے تو وہ اسے مبرا مناتا ہے.اور میں سمجھتا ہوں اس طبعی احساس سے ہماری جماعت بھی آزاد نہیں ہو سکتی.یہ قدرتی بات ہے کہ اس مخالفت کی رو کو دیکھ کر جو ہمارے خلاف جاری ہے، اس معاندانہ پروپیگنڈا کو دیکھ کر جو ہمارے خلاف کیا جارہا ہے اور اُن گالیوں کو سن کر جو ہمیں یا ہمارے بزرگوں کو دی جاتی ہیں، ہمارے دوستوں کے دلوں میں وہ حیوانیت جو انسان کے ساتھ ایک خاصہ لازمہ کے طور پر لگی ہوئی ہے کچھ نہ کچھ جوش دکھائے اور ان کی طبیعت بھی گو اینٹ کا جواب پتھر سے.
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء f دینے کی طرف مائل نہ ہو مگر اینٹ کا جواب روڑے سے دینے کی طرف مائل ہو جائے.پس میں نے سمجھا میرا فرض ہے کہ اس وقت لاہور جو مخالفت کا مرکز بن گیا ہے، یہاں کی جماعت کو اپنے خیالات سے آگاہ کردوں تا کہ وہ لوگ جو میرے ہاتھ پر بیعت کرنے کی وجہ سے مجھے معلم کا درجہ دے چکے ہیں، اپنے آئندہ طریق عمل کو میری ہدایات کے مطابق ڈھالیں.در حقیقت جماعت کی غرض یہ ہوا کرتی ہے کہ افراد اپنے اپنے طور پر کام نہ کریں بلکہ اجتماعی کام ایک فیصلہ کے ماتحت کیا جائے.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِم نے یعنی امام ایک ڈھال کے طور پر ہوتا ہے اور جماعت کو اس کے پیچھے ہو کر لڑنا چاہیئے.وہ انسان ہرگز عظمند نہیں کہلائے گا جو دشمن پر حملہ تو کر دے لیکن ڈھال کو اپنے پیچھے کرلے.ایسے شخص کو ڈھال کا بوجھ اُٹھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا.کیونکہ ڈھال کا منشاء یہ ہوتا ہے وتا ہے کہ اس کے ذریعہ حملہ آور کے حملہ کو روکا جائے.اور اگر یہ غرض پوری نہ ہو تو نہ صرف یہ کہ ڈھال کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ وہ ایک زائد بوجھ ہو گا جو سپاہی کی مستی کو کم کردے گا.جنگ کا اصول یہی ہے کہ جتنا ہلکا پھلکا سپاہی ہو ، اتنی ہی زیادہ عمدگی کے ساتھ وہ جنگ کر سکے گا.اور اگر وہ ڈھال سے فائدہ نہیں اُٹھاتا تو اُس کی ڈھال ایک زائد بوجھ شمار کی جائے گی.بعینہ اسی طرح امام بھی ایک بوجھ ہوتا ہے کیونکہ ہر انسان فطرتی آزادی محسوس کرتا ہے جسے وہ امام کی اتباع کے ذریعہ قربان کر دیتا ہے.پہلے وہ ہر کام اپنی مرضی سے کر لیا کرتا تھا مگر آب اُسے بہت سے کاموں میں امام سے مشورہ لینا پڑتا ہے یا بہت سے کاموں میں اسے امام کے فیصلہ کی تعمیل کرنی پڑتی ہے.پس یہ زائد بوجھ اگر ہمارے لئے مفید نہ ہو تو یقیناً نقصان دہ ہوگا.اور اگر ہم اس سے وہی فائدہ حاصل نہیں کرتے جو اس کا مقصد مقرر کیا گیا ہے تو اس بوجھ کے اُٹھانے کا دعویٰ کوئی حقیقت نہیں رکھتا.جس طرح ڈھال کے متعلق کوئی شخص یہ پسند نہیں کرے گا کہ اسے اپنے پیچھے کرلے اور ایسا کرنے والے کو ہر انسان بیوقوف سمجھے گا.اسی طرح رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں الْاِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ یعنی اگر تم کسی شخص کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہو تو تمہارا فرض ہے کہ تم اس کو آگے رکھو اور آپ پیچھے رہو.لیکن اگر تم خود آگے رہتے ہو اور اُسے پیچھے کرتے ہو، تو تم اُس بیوقوف کی طرح ہو جو ڈھال کو اپنے پیچھے کرتا اور پھر دشمن پر حملہ آور ہوتا ہے.آج کل بجائے ڈھالوں کے خندقوں کے ذریعہ جنگ کی جاتی ہے.جن کو انگریزی میں
خطبات محمود ۵۳ سال ۱۹۳۳ ٹرنچز (TRENCHES) کہتے ہیں.کوئی انسان جو ٹرنچز کو چھوڑ کر جنگ کرے، اسے کامیابی کی امید نہیں ہو سکتی.کیونکہ خندقیں اسی لئے کھودی جاتی ہیں کہ انسان ان کی حفاظت لڑائی کرے.اسی طرح امام کی حفاظت کی ضرورت ہوا کرتی ہے.اور جو.میں رہ کر دشمن سے لڑائی کرے.اپنے امام کی آواز کے بغیر اور اُس کی حفاظت کے بتلائے ہوئے طریق کے علاوہ دشمن سے جنگ کرتا ہے، وہ کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکتا.پس میں سمجھتا ہوں اس اہم اور نازک موقع پر جو نہ صرف لاہور میں خطرناک صورت اختیار کر رہا ہے بلکہ باہر بھی مختلف مقامات پر رونما ہو رہا ہے، میرا فرض ہے کہ میں جماعت کو وہ ہدایات دوں جن سے اپنے آئندہ طریق عمل کو درست رکھ سکے.سب سے پہلے میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں رفتنے اور ابتلاء کوئی نئی چیز نہیں ہیں بلکہ جب سے انسان پیدا کیا گیا ہے، جب سے خدا کا کلام نازل ہونا شروع ہوا اور جب سے خدا تعالٰی نے انسان کو اپنا قرب عطا کرنے کا وعدہ کیا اُسی وقت سے ابتلاؤں کا سلسلہ شروع ہے.اور رسول کریم ال فرماتے ہیں کہ جتنا زیادہ کوئی شخص خداتعالی کا پیارا ہوتا ہے، اتنا ہی زیادہ وہ ابتلاء اور مصائب دیکھا کرتا ہے ہے - اور قرآن شریف میں خاص طور پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ مت خیال کرو کہ تم ایمان لے آئے اور اب تمہیں ابتلاء میں نہیں ڈالا جائے گا بلکہ جب تک اللہ تعالی ابتلاؤں کے ذریعہ تمہارے ایمان کی آزمائش نہ کرے، اُس وقت تک تمہیں ایمان کے مطابق ثمرات حاصل نہیں ہوں کے ہے.ان ابتلاؤں کے آنے کی غرض یہ ہوا کرتی ہے کہ اللہ تعالی چاہتا ہے کہ دنیا کو معلوم ہو جائے کہ اس کے بندے کے ایمان کی حقیقت کیا ہے.اور خداتعالی کے سامنے بھی یہی ابتلاء اُس کی قوتِ ایمان کا ثبوت ہوں.یوں دنیا میں ہر شخص دعوی کرتا ہے کہ میں بڑا نیک ہوں اور دعویٰ کرتا ہے کہ میرا ہی طریق عمل درست ہے.تم ہندوؤں ، عیسائیوں اور سکھوں میں سے کسی کے پاس چلے جاؤ ان میں سے ہر ایک یہی کہتا سنائی دے گا کہ میرا مذہب ہی سچا ہے.مگر سوال یہ ہے کہ کیا کوئی ان میں سے ہے جو اس دعوئی کو اپنے عمل سے بھی ثابت کرتا ہو.اگر اس نقطہ نگاہ سے مذاہب کا موازنہ کیا جائے گا تو معلوم ہوگا کہ ایسا شخص صرف مومن اور پکا مومن ہی ہوتا ہے.کچھ سال ہوئے میں شملہ گیا، وہاں کی آریہ سماج کے سیکرٹری صاحب جو گریجویٹ تھے ، مجھ سے ملنے کیلئے آئے اور ان سے مذہبی گفتگو شروع ہو گئی.دورانِ گفتگو وہ
خطبات محمود ۵۴ سال ۱۹۳۳ کہنے لگے کیا آپ بتاسکتے ہیں مرزا صاحب نے آپ کو وہ کیا چیز دی ہے جو مجھے حاصل نہیں.میں اس سوال کے اور بھی جواب دے سکتا تھا.میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے فیوض و برکات کے ثبوت میں الہام الہی کا دروازہ کھلنا بھی پیش کر سکتا تھا.اسی طرح اللہ تعالیٰ کے اُن فضلوں کو پیش کر سکتا تھا جو آپ کی متابعت سے مجھ پر نازل ہوئے.مگر میں نے اُس وقت کی گفتگو کے مطابق کہا کہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یقین بخشا ہے.ان کو یہ عجیب بات معلوم ہوئی اور انہوں نے کہا یقین! بھلا یہ کس مذہب والے کو حاصل نہیں؟ اوروں کا ذکر اگر جانے بھی دیا جائے تو کم از کم مجھے یہ یقین ضرور حاصل ہے.اور اگر یقین ہی ایسی نعمت ہے جو آپ کو مرزا صاحب کی وجہ سے ملی تو آپ نے اسلام کو کیوں ترجیح دی؟ کیوں آپ آریہ سماج کو سچا مذہب نہیں سمجھتے جبکہ اس میں بھی انسان کو یقین حاصل ہو سکتا ہے.میں نے کہا اس لئے کہ یقین کا مفہوم جو آپ سمجھتے ہیں، وہ میں اس وقت مراد : نہیں لے رہا.جس قسم کا یقین آپ پیش کرتے ہیں وہ عیسائیوں کو بھی حاصل ہے.اور ان میں بھی اس یقین کی وجہ سے جانی، مالی اور وقتی قربانی کرنے والے سینکڑوں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں.اپنے میں مان لیتا ہوں کہ وہ اس یقین کی وجہ سے اپنی جانیں بھی عیسائیت کی راہ میں قربان کرنے کیلئے تیار ہیں.میں مان لیتا ہوں کہ وہ اپنی عزت و ناموس کو اپنے مذہب کی خاطر قربان کرنے کیلئے تیار ہیں.میں مان لیتا ہوں کہ وہ اپنے بیوی بچوں، عزیزوں اور رشتہ داروں کو بھی قربان کرنے کیلئے تیار ہیں.غرض میں مان لیتا ہوں کہ وہ جان و مال عزت و آبرو حتی که بیوی بچوں کی قربانی کیلئے بھی تیار ہیں.مگر اس قسم کی قربانی دوسرے فرقوں میں بھی پائی جاتی ہے.اور آپ کو تو صرف دعوی ہے، عیسائیوں میں ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں کہ ایک پادری چین یا افریقہ میں مارا گیا تو اس کی قوم ڈری نہیں بلکہ اُس کی جگہ لینے کیلئے بیسیوں درخواستیں پہنچ گئیں.کلیسیا کی تاریخ میں اس قسم کی سینکڑوں مثالیں ملتی ہیں.اور تاریخی واقعات سے ثابت ہے کہ بعض جگہ عیسائی مشنری مارے گئے، بعض جگہ ان کے گوشت کھائے گئے، مگر باوجود اس کے وہ قوم ڈری نہیں.بلکہ ہزاروں مرد اور عورتیں اُسی وقت اپنی خدمات پیش کر دیتے رہے.پس میں نے کہا کہ اگر یقین کے یہ معنے ہیں تو میں انہیں تسلیم نہیں کرتا.آپ اپنی قوم کیلئے اپنا سارا مال بھی قربان کر سکتے ہیں، اپنی جان بھی قربان کرسکتے ہیں بلکہ
خطبات محمود ۵۵ سال ۱۹۳۳ء اپنی بیوی اور بچوں کی جان بھی قربان کرسکتے ہیں.کیونکہ یہ ساری چیزیں قومی ترقی کیلئے قربان کردی جایا کرتی ہیں.اور دنیا میں یہ تمام چیزیں لوگ قوم کیلئے قربان کرتے چلے آئے ہیں.مذہب کیلئے وہ قربانی ہونی چاہیے جو اس سے زیادہ اہم ہو.بھلا کون سا وہ ملک ہے، جہاں کسی نہ کسی وقت لوگوں نے اپنی بیوی بچوں کو ملک کیلئے قربان نہیں کیا.کون سا وہ ملک ہے جس نے مالی قربانی نہیں کی.کون سا وہ ملک ہے جس نے جانی قربانیاں دنیا کے سامنے پیش نہیں کیں.ہر ایک نے کیں، کسی نے آج اور کسی نے گل.حضرت آدم سے لیکر آج تک لوگ بہ قربانیاں کرتے چلے آئے کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے.اگر آج مصریوں میں قربانیاں نہیں تو کسی وقت ان میں بھی قربانیاں تھیں.یا اگر ہمیں نظر آتا ہے کہ ہندوستان اب ایسی قربانیاں پیش نہیں کرتا تو کسی وقت اس نے بھی پیش کی تھیں.غرض یہ سب قربانیاں ہوتی چلی آئی ہیں مگر ان کا مذہب کی سچائی سے کوئی تعلق نہیں.اور نہ ہی ان قربانیوں کو مذہب میں یقین کا " نتیجہ کہا جاسکتا ہے.زیادہ لوگ یہ کہیں گے کہ یہ ایک قومی تعصب ہے.انہوں نے کہا تو پھر آپ ؟ زیادہ سے کس قربانی کو یقین کے ثبوت میں اپنی طرف سے پیش کرنا چاہتے ہیں.میں نے کہا آپ قوم کی خاطر اپنے بیوی بچوں کو قتل کرا سکتے ہیں.یہاں تک کہ ان کی روحانیت کو بھی تباہ کر سکتے ہیں.مگر ایک چیز ہے جسے کوئی سمجھدار قربان کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتا.اور میں اس کی مثال میں کہتا ہوں کہ میں قرآن ہاتھ میں لے کر یہ کہتا ہوں کہ مجھے یقین ہے کہ یہ خدا تعالی کا کلام ہے.اور مجھے یقین ہے کہ میرا اسے خدا تعالیٰ کا کلام سمجھنا نہ صرف دلائل اور شواہد وبینات مبنی ہے بلکہ مشاہدہ پر اس کی بنیاد ہے.اور میں اس یقین کی بناء پر کہتا ہوں کہ اے خدا! اگر یہ بات غلط ہے، اگر یہ تیری طرف سے نازل کردہ کلام نہیں، اگر تو نے اسے دنیا کی راہنمائی کیلئے آخری شرعی کتاب کی صورت میں نازل نہیں فرمایا.اور اگر محمد ال تیری طرف.نہیں بلکہ ان کا دعوئی ان کے نفس کا افتراء تھا تو اے خدا! مجھے کو اور میرے بیوی بچوں اور اولاد کو ہمیشہ کیلئے اس دنیا اور آخری جہان میں ہر قسم کی نیکیوں سے محروم کردے.اگر آپ کو آریہ سماج کے سچا ہونے پر یقین ہے تو ایسی ہی دعا آپ بھی کریں.وہ کہنے لگے آپ میرے بیوی بچوں کا کیوں ذکر کرتے ہیں.میں نے کہا جب آپ کو اپنے مذہب کی صداقت پر کامل یقین ہے تو ان کا ذکر کرنے سے آپ کا کیا نقصان.وہ کہنے لگے یہ بہت بڑی بات ہے کہ
خطبات محمود ۵۶ سال ۱۹۳۳ء انسان ہمیشہ کیلئے اپنے اور اپنے بیوی بچوں کے متعلق یہ دعا کرے کہ وہ ہر قسم کی بھلائیوں سے محروم ہو جائیں.میں نے کہا میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ انسان دنیا کیلئے اپنے بیوی بچوں کی جان قربان کر سکتا ہے مگر جس چیز کو وہ قربان نہیں کر سکتا وہ یہ ہے کہ انہیں ہمیشہ کیلئے نقصان اور تباہی کے گڑھے میں گرا دیا جائے.وہ بعض دفعہ یہ سمجھ لیتا ہے کہ اگر میں ہلاک ہو گیا تو کیا.بعض دفعہ یہ خیال کر لیتا ہے کہ اگر میری اولاد نہ رہی تو اس میں کیا حرج ہے.مگر وہ اپنی نسل پر ابدی لعنت ڈالنے کیلئے تیار نہیں ہو گا.وہ وقتی طور پر جانی اور مالی قربانی کر سکتا ہے اور عارضی طور پر اپنے آپ کو یا اپنی نسل کو مصائب و مشکلات کا نشانہ بنا سکتا ہے مگر وہ ہمیشہ کیلئے نیکی کا بیچ مٹانے کیلئے تیار نہیں ہوتا اور نہ کوئی سمجھدار انسان تیار ہو سکتا ہے.ایپک غرض میں جتنا زیادہ ان پر زور دوں، اتنا ہی وہ انکار کرتے چلے جائیں اور آخر بالکل لاجواب ہو گئے.پس یقین ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو ہر ایک قربانی پر آمادہ کر دیتی ہے.اور ہی ہے جس کا ابتلاؤں کے ذریعہ اللہ تعالی اظہار کرنا چاہتا ہے اور دکھانا چاہتا ہے کہ واقعی میرے مومن بندے اپنی صداقت پر کامل یقین رکھتے ہیں.ورنہ کون سی وہ قوم ہے جو خیال نہیں کرتی کہ وہ سچائی پر قائم ہے.کیا کوئی ہندو اس لئے ہندو مذہب پر قائم ہوتا ہے کہ اسے اس کی صداقت پر شبہ ہوتا ہے، ہرگز نہیں.اکثر ہندو خیال کرتے ہیں کہ ان کا مذہب سچا ہے یا کیا کوئی عیسائی عیسائیت پر اس لئے قائم ہوتا ہے کہ وہ اسے جھوٹا سمجھتا ہے ہرگز اکثر عیسائی خیال کرتے ہیں کہ عیسائیت ہی سچائی کی حقیقی راہ ہے.یہی حال سکھوں کا ہے، یہی حال دوسری اقوام کا ہے.جس طرح مسلمانوں کو یقین ہے کہ ان کا مذہب سچا ہے اسی طرح ہندوؤں اور سکھوں کو بھی یقین ہے اور اسی طرح دوسری اقوام کو بھی یقین ہے.اور اسی سے اس امر کا ثبوت ملتا ہے کہ شریر دنیا میں کم ہیں.اور شریف زیادہ اگر دنیا میں شریفوں کی کثرت نہ ہوتی تو انسانی پیدائش کی غرض باطل ہو جاتی.تم اگر ایک ڈاکو کے اعمال کو دیکھو گے تو ان میں بھی نیکی کا عنصر غالب دکھائی دے گا.لوگ بعض دفعہ کسی کو جھوٹا کہہ دیتے ہیں.حالانکہ اگر وہ گنے لگیں کہ یہ جھوٹ کتنی دفعہ بولتا ہے اور سچ کتنی دفعہ تو اس کے جھوٹ بہت کم ہوں گے اور سچ بہت زیادہ.ہم اگر ایسے شخص کو بُرا کہتے ہیں تو اس کے عیب دار ہونے کی وجہ سے نہ اس وجہ سے کہ وہ کلیه نیکیوں سے محروم ہو چکا ہے.ایک ریشمی کرتا میں چھوٹا سا سوراخ ہو جائے تو تمام کرتا عیب دار ہو جائے گا حالانکہ وہ سوراخ پیسہ
خطبات محمود ۵۷ سال کے برابر ہو گا.اسی طرح ہم جھوٹے کو جھوٹا اس کے فعل کی شناخت کی وجہ سے کہتے ہیں' نہ اس وجہ سے کہ وہ کبھی سچ بولتا ہی نہیں یا بہت کم سچ بولتا ہے.اسی طرح بعض دفعہ کسی کو کذاب کہا جاتا ہے، تو اس کی وجہ بھی یہ ہوتی ہے کہ اس نے کوئی بڑا جھوٹ بولا ہوتا ہے.ورنہ کوئی انسان آج تک ایسا نہیں گزرا جس کے جھوٹ اس کے سچ سے زیادہ ہوں.حضرت آدم سے لے کر اِس وقت تک جس قدر بھی جھوٹ بولنے والے ہوئے ہیں، ان تمام کے جھوٹ کم ہیں اور بیچ زیادہ یہی حال چوری وغیرہ دوسرے عیوب کا ہے.اگر انسان کی بدیاں اس کی نیکیوں سے بڑھ جاتی ہیں تو یقینا اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کو مٹادیتا اور دنیا میں قیامت آجاتی.قرآن مجید صاف طور پر فرماتا ہے.اَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُتُ فِي الْأَرْضِ ہے جو چیز فائدہ رساں ہوتی ہے اسے ہی دنیا میں قائم رکھا جاتا ہے.اگر انسان نفع رساں نہ ہوتے اور اگر ان کی بدیاں نیکیوں سے زیادہ ہو جاتیں تو انہیں ہرگز دنیا میں نہ رکھا جاتا بلکہ تباہ کر دیا جاتا.غرض اللہ تعالیٰ نے یقین کے اظہار کیلئے دنیا کو پیدا کیا ہے.مگر اس خالی دعوئی میں تمام مذاہب شریک ہیں اور سب لوگ نیک نیتی سے اپنے آپ کو سچا سمجھتے ہیں.ان حالات میں کس طرح ہو سکتا تھا کہ اللہ تعالٰی سچا اور جھوٹا یقین کرنے والوں میں فرق نہ کرے.اور بتائے نہیں کہ کس کا یقین سچا ہے اور کس کا جھوٹا.اسی کے اظہار کیلئے حقیقی اور غیر حقیقی یقین کرنے والوں میں فرق کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو ایسے ابتلاؤں میں سے گزارتا ہے جن میں اس کا ایمان چمک اُٹھتا ہے.اور دنیا پر ظاہر ہو جاتا ہے کہ ابتلاؤں کی بھٹی ان کے ایمانوں کو اور زیادہ جلا دے دیتی ہے.جب ابتلاء آتے ہیں، مصائب کی آندھیاں اُٹھتی ہیں، حوادث کے پہاڑ کرتے ہیں، اُس وقت ایمان رکھنے والوں کے دل اللہ تعالیٰ کی محبت سے لبریز ہو جاتے اور ان کے ایمان از سرنو تازہ ہو جاتے ہیں.مگر دوسرے شخص گھبرا جاتے ہیں، وہ پریشان ہو جاتے ہیں.اور ان کی پریشان خاطری ظاہر کر دیتی ہے کہ حقیقی استقامت ان کے دلوں میں موجود نہیں.پس ایمان تازہ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ابتلاؤں کا سلسلہ جاری رہے.اور جو شخص ان ابتلاؤں سے گھبراتا ہے وہ دنیا پر ظاہر کرتا ہے کہ گویا اسے حقیقی ایمان نصیب نہیں.پس یہ پہلا گھر ہے جسے ہماری جماعت کو یاد رکھنا چاہیئے.دوسرا امر جس کی طرف میں اپنی جماعت کے دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ کبھی اللہ تعالیٰ اپنی جماعت اور
خطبات محمود.سال ۱۹۳۳ء سلسلہ کو دوسروں کے ہاتھوں قائم نہیں کیا کرتا بلکہ ہمیشہ اپنے ہاتھ سے اسے بڑھاتا اور اپنے ہاتھ سے ہی اسے ترقی کی انتہائی منازل تک پہنچاتا ہے.یہ بات اللہ تعالی کی غیرت اور اس کی شان کے خلاف ہے کہ وہ الہی سلسلہ کو دوسروں کے ہاتھ سے قائم کرے.جب بھی کوئی خدا کی جماعت دنیا میں قائم ہوئی ہمیشہ خدا کے ہاتھ سے قائم ہوئی.اور گو جُزوی طور پر دوسرے لوگ بھی شریک ہو جاتے ہیں مگر حقیقی امداد اور نصرت اللہ تعالی ہی کی طرف سے آتی ہے.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے تمام حکومتوں سے آزاد جگہ پیدا کیا.اگر رسول کریم ﷺ کسی منتظم حکومت کے ماتحت ہوتے تو چاہے وہ حکومت دشمن بھی ہوتی ، پھر بھی دشمن کی حکومت ایک رنگ حفاظت کا اپنی رعایا کو ضرور دیتی ہے.مثلاً یہی کہ ایسی حکومت میں بھی ہر شخص ایذاء پہنچانے کا مجاز نہیں ہو سکتا.بلکہ اگر حکومت دشمن ہو تو وہ یہی چاہے گی کہ میں خود سزا دوں، یہ نہیں کہ خالد بکر جو اُٹھے فساد برپا کرنا شروع کر دے.اس طرح حکومت کی تنظیم میں فرق پیدا ہوتا ہے اور وہ اس کی اجازت نہیں دے سکتی.مثلاً افغانستان میں ہی ہمارے بعض احمدی بھائی سنگسار کئے گئے مگر حکومت نے یہ فعل خود کیا دوسروں نے نہیں.پس باجود اس کے کہ اُس وقت کی حکومت افغانستان کا فعل نہایت ہی ظالمانہ اور عدل و انصاف کے خلاف تھا، پھر بھی اس نے اس حد تک کیا کہ ظلم بھی اپنے ہاتھ سے کیا دوسروں کے ذریعہ نہیں.لیکن رسول کریم ﷺ کو جو آخری ہدایت نامہ دے کر بھیجا گیا، اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ وہ کامل طور پر اسی کی تائید و نصرت سے پھیلے، انسانی ہاتھ کا اس میں دخل نہ ہو.تب اللہ تعالٰی نے آپ کو ایک ایسے ملک میں پیدا کیا جس میں کوئی بھی حکومت نہ تھی.اس میں شبہ نہیں کہ عرب کے لوگ آپس میں بعض موقعوں پر مشورہ کرلیا کرتے تھے مگر کوئی ایسا قانون نہ تھا جس میں افراد افراد کو نقصان پہنچا سکتے ہوں.بیشک ان میں یہ قانون تھا کہ لڑائی سے پہلے فلاں شخص کے پاس روپیہ جمع کرا دیا جائے یا مثلاً یہ قانون تھا کہ جھنڈا فلاں شخص اُٹھائے مگر ایسا کوئی قانون نہ تھا کہ اگر کوئی کسی کو قتل کرنا چاہے تو وہ نہ کر سکے.پس گو ان میں تنظیم کا ایک رنگ تھا مگر افراد کی آزادی پر حد بندی کیلئے نہیں بلکہ اپنے شہر یا قبائل کی حفاظت کیلئے.ایسے ملک میں رسول کریم اے کے دعویٰ نبوت کرنے کے یہ معنے تھے کہ آپ کی جان کی اُس وقت کوئی بھی قیمت نہ تھی.اور اگر کوئی شخص نقصان پہنچانا چاہتا تو اُسے اُس کے ارادہ سے کوئی شخص نہ روک سکتا تھا.لیکن اللہ تعالٰی بتلانا.
خطبات محمود ۵۹ سال ۱۹۳۳ء چاہتا تھا کہ مجھے اپنے دین کی اشاعت کیلئے کسی انسانی مدد کی ضرورت نہیں.اور چونکہ رسول کریم ال و افضل الانبیاء اور سید الرسل ہیں اس لئے ضروری تھا کہ آپ کے زمانہ میں ایسے حالات پیدا ہوتے جو باقی انبیاء کے حالات زمانہ سے ممتاز ہوتے.لوگ کہتے ہیں کہ باقی انبیاء کو بھی ابتلاؤں سے گزرنا پڑا.یہ ٹھیک ہے مگر ان کے زمانہ کے ابتلاء اس حد نہیں پہنچے جس حد تک رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ابتلاء تھے.تک میرا منشاء اس سے یہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ کا یہ ارادہ ہے کہ وہ خالص اپنی نصرت اور تائید سے اپنا سلسلہ دنیا میں پھیلائے اور یہ کہ انسانی کوششوں کا اس میں کوئی دخل نہ ہو تو اس وقت ہمارا یہ کہنا کہ موجودہ مشکلات کے موقع پر کوئی حکومت یا انجمن ہماری مدد کرے اللہ تعالیٰ کی اس قدیم سنت کے خلاف ہو گا.خدا تعالیٰ نے بیٹک ایک منظم گورنمنٹ سے ہمارا واسطہ رکھا ہے اس لئے کہ تلوار ہمارے پاس نہیں مگر حکومت سے امداد طلب کرنا اللہ تعالیٰ کی نصرت پر بدظنی ہے اگر واقعی یہ سلسلہ خداتعالی کی طرف سے ہے اور اگر واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دنیا کی ہدایت کیلئے بھیجا ہے تو نہ لوگوں کے آرام دینے سے ہمیں سہولت حاصل ہو سکتی ہے اور نہ گورنمنٹ کا ساتھ دینے سے ہماری مشکلات میں کمی واقعہ ہو سکتی ہے.اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ اس کے انبیاء کی جماعتیں تلواروں کے سایہ تلے پلا کرتی ہیں.ان کیلئے پھولوں کی سیج نہیں بچھائی جاتی بلکہ کانٹوں کے بستر بچھائے جاتے ہیں.وہ دن اور رات ابتلاء دیکھتے ہیں.صبح اور شام مصائب اپنے سروں پر منڈلاتے دیکھتے ہیں مگر وہ ڈرتے نہیں.ان کے ایمان کمزور نہیں ہوتے بلکہ وہ خوش ہوتے اور سمجھتے ہیں کہ ترقی اور سلسلہ کی اشاعت کے سامان ہو رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اپنی جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا ہے."اگر کوئی میرے قدم پر چلنا نہیں چاہتا.تو مجھ سے الگ ہو جائے.مجھے کیا معلوم ہے کہ ابھی کون کون سے ہولناک جنگل اور پر خار بادیہ در پیش ہیں جن کو میں نے طے کرنا ہے.پس جن لوگوں کے نازک پیر ہیں وہ کیوں میرے ساتھ مصیبت اُٹھاتے ہیں.جو میرے ہیں وہ مجھ سے جدا نہیں ہو سکتے نہ مصیبت سے نہ لوگوں کے سب وشتم سے نہ آسمانی ابتلاؤں اور آزمائشوں سے اور جو میرے نہیں وہ عبث دوستی کا دم مارتے
خطبات محمود ۶۰ سال ۱۹۳۳ء ہیں کیونکہ وہ عنقریب الگ کئے جائیں گے اور ان کا پچھلا حال اُن کے پہلے سے بد تر ہو گا" ھے - لیکن اگر ہم یہ امید کریں کہ ہمارے راستہ میں ابتلاء آئیں اور گورنمنٹ انہیں ہٹاتی جائے یا ابتلاء آئیں اور پبلک انہیں دور کرتی چلی جائے تو دراصل وہ چیز جس کو خدا تعالیٰ نے ایمان کے اظہار کیلئے پیدا کیا ہے ہم اسے مٹاتے اور اپنے ایمانوں کو مخفی رکھنا چاہتے ہیں.پس میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ اس زمانہ میں مخالفوں کی طرف سے جو شور برپا ہے اور جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ یہ آخری شور ہے اس شور کو بڑھنے دو بڑھنے دو اور بڑھنے دو یہاں تک کہ وہ ایک طوفان کی صورت اختیار کرلے تا ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ پھر بعد میں کہہ دیں کہ ہم نے ابھی احمدیت کو مٹانے میں پورا زور صرف نہیں کیا.ہم تو خدا تعالی کی جماعت ہیں.مجھے ایک انگریز مبصر کی وہ بات بہت پسند آتی ہے جو اس نے ایک موقع پر جبکہ جنگی قرضوں کا مسئلہ زیر بحث تھا، کہی تھی.اُس وقت بعض انگریزوں کی تجویز تھی کہ قرضہ کو اس طرح تقسیم کردیا جائے کہ اس وقت سے چالیس پچاس سال کے بعد اس کی ادائیگی کا موقع آئے.اُس وقت اُس انگریز مبصر نے کہا یہ بڑی بیوقوفی ہوگی کہ ہم اپنے بوجھ اپنی نسلوں پر ڈال دیں.اگر اس بوجھ کو دُور کرنا ہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اسے دور کردیں.اسی طرح میں کہتا ہوں اس وقت اگر ہم اس غلطی کا ارتکاب کریں کہ گورنمنٹ سے کہیں کہ وہ اس مخالفت کو روکے یا پبلک سے اپیل کریں کہ وہ اس شور کو بند کرائے تو اس غلطی کا نتیجہ نکلے گا کہ ہماری آئندہ نسلوں کے سامنے مخالفوں سے کہا جائے گا کہ احمدیت کیوں نہ پھیلتی، اس میں خدا کی تائید کا دخل نہیں، احمدی ایک منظم گورنمنٹ کے ماتحت رہتے تھے اور اگر کوئی ظلم کرتا تو گورنمنٹ اپنے زور سے اسے روک دیتی تھی.پس ان پر کوئی ظلم کر ہی نہیں سکتا تھا، اسی وجہ سے وہ پھیل گئے.اور یہ وہ سوال ہوگا جس کا جواب دینا ہماری نسلوں کیلئے نہایت ہی مشکل ہو جائے گا.پس مشکلات کا دلیری سے مقابلہ کرو نہ تم گورنمنٹ سے درخواست کرو کہ وہ تمہاری مدد کرے اور نہ تم پبلک سے اپیل کرو کہ وہ اس فتنہ کو روکے.تمہاری اپیل صرف ایک ہی ذات کے سامنے ہونی چاہیے اور وہ تمہارا خدا ہے.اگر یہ سچ ہے کہ ہم زندہ خدا کی جماعت ہیں اور یقینا سچ ہے.اگر یہ سچ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس نے اپنی طرف سے
خطبات محمود 41 سال ۱۹۳۳ء دنیا کی اصلاح کیلئے مبعوث کیا اور یہ یقینا سچ ہے.اگر یہ سچ ہے کہ ہم نے اس ماہور کو جو اس نے بھیجا صدق دل سے تسلیم کیا اور یہ یقینا سچ ہے، تو پھر یقینا یہ بھی سچ ہے کہ دنیا کی کوئی قوم دنیا کی کوئی طاقت اور دنیا کی کوئی حکومت ہمیں مٹا نہیں سکتی.ہم رسول کریم ﷺ سے وابستگی کی وجہ سے اور ان بشارات کی وجہ سے جو پہلی کتب میں آپ کے متعلق ہیں، وہ کونے کا پتھر ہیں کہ جو ہم پر گرے گا وہ چکنا چور ہو جائے گا اور جس پر ہم گریں گے اسے بھی ہیں کر رکھ دیں گے.پس یہ خیال کرنا کہ دنیا کی مخالفتیں، دنیا کی شرارتیں اور دنیا کی عداوتیں ہمارا کسی قسم کا نقصان کر سکیں گی، بالکل غلط ہے.ہم خدا تعالی کی گود میں ہیں اور جو خدا کی گود میں ہو، اسے کوئی ہلاک نہیں کر سکتا.ہم پر ابتلاء آتے ہیں تو آنے دو.یہ ویسے ہی ابتلاء ہیں جیسے بچہ جب اپنی ماں کی گود میں ہوتا ہے تو بعض دفعہ وہ اس کی صحت کی خاطر اسے دودھ پلانا بند کر دیتی ہے.وہ اپنے بچے کی دشمن نہیں ہوتی بلکہ اس کی صحت کی محافظ ہوتی ہے.اسی طرح اگر خدا تعالٰی بھی بعض اوقات ہمیں مصائب میں ڈالتا ہے تو اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ ہماری اصلاح ہو جائے.اور پیش آمدہ ابتلاؤں سے بچنے کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم نہ اپنی اصلاح چاہتے ہیں اور نہ ان کے نتیجہ میں جو اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہوا کرتے ہیں، وہ حاصل ) پرا.کرنا چاہتے ہیں.پس میں یہاں اس لئے آیا ہوں کہ آپ لوگوں کو بتاؤں کہ ان خیالات کو جانے دو کہ حکومت سے امداد کی درخواست کی جائے یا پبلک سے کسی قسم کی اپیل کی جائے.اس وقت ہمارا کوئی دوست نہیں، نہ حکومت دوست ہے نہ پبلک ہماری دوست ہے.عیسائی ہمارے کس طرح دوست ہو سکتے ہیں جبکہ ہم عیسائیت کے سب سے بڑے دشمن ہیں.ہندو اور سکھ کسی طرح دوست ہو سکتے ہیں جبکہ ہم ان کے عقائد کو بھی غلط ثابت کرتے ہیں.اسی طرح کوئی تنظر سیاست ہماری کس طرح دوست ہو سکتی ہے جبکہ ہم سب سے بڑی سیاست ہیں.اور جو تقسیم ہماری جماعت کے اندر ہے وہ اور کسی جماعت میں نہیں پائی جاتی.پھر پبلک بھی ہماری دوست نہیں ہو سکتی کیونکہ کونسا وہ فرقہ ہے جسے ہم فتح کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے.یہی حال دوسرے مذاہب والوں کا ہے.پس کوئی جماعت نہیں جو ہمارے ساتھ دوستی رکھتی ہو اور نہ کوئی جماعت ہمارے ساتھ حقیقی محبت کرتی ہے.ہمارے تعاون کی وجہ سے اگر حکومت ہمارے ساتھ تعاون کرتی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ حکومت سے ہمارا کلی طور پر تعاون ہو سکتا
خطبات محمود ур سال ۱۹۳۳ء ہے.پس ہے.اس لئے کہ اگر بعض دفعہ اتفاق ہو سکتا ہے تو بعض دفعہ اختلاف بھی ہو سکتا گورنمنٹ کی مدد یا پبلک کی توجہ پر انحصار رکھنا شرک ہے.تمہارا تو گل محض اللہ تعالی کی ذات پر ہونا چاہیئے.اگر یہ نہ ہو تو ہم کس منہ سے کہہ سکتے ہیں.إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ له - اس کا تو یہ مطلب ہے کہ اے خدا! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں.مگر واقعہ یہ ہوگا کہ ہم خدا کی بجائے گورنمنٹ اور پبلک کی مدد کے خواہشمند ہوں گے.اور یہ شرک ہے.ہمیں اپنے عمل سے ثابت کرنا چاہیے کہ ہم سب کے خیر خواہ ہیں.لیکن ہماری خیر خواہی کے باوجود اگر وہ مخالفت پر اُترتے ہیں تو ہمیں اس کی ذرہ بھر بھی پرواہ نہیں کرنی چاہیے.ہمارا کام یہ ہے کہ ہم خیر خواہی کریں اور اس خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ جہاں کوئی معیوب بات دیکھیں، اس کے خلاف آواز بلند کریں اور یہی معقول پسند انسان کا طریق ہوا کرتا ہے.پس ہم خدا کو چھوڑ کر نہ کسی کے دوست ہوئے نہ ہیں اور نہ ہو سکتے ہیں.ہم اصول پابند ہیں اور سچائی کے حامی مسلمان بعض دفعہ اعتراض کردیا کرتے ہیں کہ تم تو ہمارے مفادِ مشترکہ میں ہمارے ساتھ ہو پھر فلاں بات میں کیوں اختلاف کرتے ہو.ہم کہہ دیتے ہیں کہ ٹھیک ہے مگر ہماری خیر خواہی کا تقاضا یہی ہے کہ اس امر میں خلاف ہوں.یا مثلاً کشمیر کی ایک ہی جب شروع ہوئی تو گورنمنٹ نے کہہ دیا کہ لوجی ہم تو احمدیوں کو بڑا اچھا سمجھتے تھے مگر یہ تو ایسے نکلے.ہم نے ان کی باتوں کی کبھی پرواہ نہیں کی.کیونکہ مومن کا کام ہے کہ وہ سچائی کا حامی ہو یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی کا ایک نام حق بھی ہے.اور اسی بناء پر لوگ اپنے بچوں کا نام عبد الحق رکھ لیا کرتے ہیں.پس گورنمنٹ ہو یا پبلک اپنے ہوں یا پرائے، ہم سب معاملہ کرنے میں ہمیشہ سچائی کے پابند رہتے ہیں.کشمیر کے معاملہ میں ہی ایک جگہ کشمیر کے علاقہ میں ہندوؤں پر مسلمانوں نے زیادتی کی، ہم نے اس موقع پر ہندوؤں کی تائید کی.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں سارے مسلمان ہمارے مخالف ہو گئے اور ایک گاؤں کے احمدی تین ماہ تک جنگلوں میں بھاگے پھرے.جب وہ شکایت لے کر آئے تو میں نے کہا کہ ہم کشمیریوں کا اس لئے ساتھ دیتے ہیں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ مظلوم ہیں اور ان کی اعانت کرنا مسلمانوں پر فرض ہے.پس ان کی مظلومیت کی وجہ سے ہم ان کے ساتھ ہیں لیکن اگر وہ جھوٹی گواہی دلوانا چاہتے ہیں تو تم ہرگز نہ دو.اور جو کچی بات ہے وہ بیان کردو کیونکہ ہمارا کام
خطبات محمود ۶۳ سال ۱۹۳۳ء سچائی کو پھیلانا ہے...پس ہمارا کام ہے کہ سچائی کیلئے کھڑے ہو جائیں اور اگر سچائی کیلئے ہمیں قربانیاں بھی کرنی پڑیں تو ان سے دریغ نہ کریں.کیا چیز ہے جو دشمن ہم سے لے سکتا ہے.وہ ہم سے مال لے لے گا لیکن اگر ہم نے سچے دل سے یہ عہد کیا ہوا ہے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے تو یہ مال کیا چیز ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی ایک دین ہے جب تک وہ ہمارے پاس رکھتا ہے، ہم اس کا شکریہ ادا کریں گے.اور جب خدا کہے گا کہ اب مال چھوڑ دو تو ہم چھوڑ دیں گے.پھر اور کیا چیز دشمن ہم سے لے سکتا ہے.وہ زیادہ سے زیادہ ہمیں قتل کر سکتا ہے لیکن اس سے بڑھ کر اور کیا خوش قسمتی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں ہم شہید ہو جائیں اور ابدی زندگی پائیں.یہی وجہ ہے کہ جو خدا تعالیٰ کی تائید میں مارا جاتا ہے اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ زندہ ہے، مُردہ نہیں کیونکہ بظاہر یہ خیال آتا ہے کہ ایک انسان جو ہیں سال کی عمر میں مارا گیا اگر وہ چالیس سال اور زندہ رہتا اور اسے نیکیوں کا موقع ملتا تو وہ بہت بڑا روحانی درجہ حاصل کرلیتا.اور جو مقام اُسے ہیں سال کی عمر میں حاصل تھا اُس سے بہت بلند مقام کا وارث ہو کر دنیا سے اُٹھتا.اس وسوسہ کو دُور کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو شخص شہید ہو گیا اور اللہ تعالیٰ کے راستہ میں مارا گیا، اُس کی نیکیاں جاری رہتی ہیں اور ہمیشہ اس کا درجہ بلند ہوتا رہتا ہے.پس وہ ہمیشہ زندہ رہے گا اسے مُردہ کہنا ہی غلط ہے.غرض اگر ہماری جان بھی دشمن لے لیتا ہے تو یہ کون سی بڑی بات ہے.بلکہ یہ تو خوشی کی بات ہے کہ ہمارا مولیٰ جو دُور تھا موت کے بعد ہمارے قریب ہو گیا.یا اگر ہمارے عزیز اور رشتہ دار دین کے راستہ میں مارے جاتے ہیں تو یہ سب چیزیں بھی خدا ہی کی ہیں، ہمارا ان پر کیا حق ہے.دیکھ لو رسول کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے بچے بھی دیئے.اور پھر اس نے اُٹھا بھی لئے.ایک دفعہ آپ قبرستان کے قریب سے گزر رہے تھے کہ ایک بڑھیا اپنے بچے کی قبر پر رو رہی تھی.آپ نے فرمایا اے عورت! صبر کر.وہ کہنے لگی اگر تیرا بچہ مرتا تو تجھے پتہ لگتا کہ کتنا درد ہوتا ہے.آپ نے فرمایا اے بی بی! میرے گیارہ بچے مرچکے ہیں.اتنا کہہ کر آپ وہاں سے چلے آئے.بعد میں کسی نے اسے بتایا کہ بدبخت یہ تو رسول اللہ ا تھے.وہ یہ سنتے ہی دوڑتی ہوئی آئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ ! میں نے صبر کیا.آپ نے فرمایا صبر تو وہ ہے جو شروع میں کیا جائے ورنہ رودھو.
خطبات محمود ۶۴ سال ۱۹۳۳ - کر تو سب کو صبر آجاتا ہے ہے.غرض مصائب کا وقت ہی ہوتا ہے جب صبر کا موقع ہوتا ہے.اور اس موقع پر صبر کرنے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ بہت بڑے فضل نازل فرمایا کرتا ہے پس ان باتوں کی پرواہ نہ کرو اور دشمن جو کچھ کہتا یا کرتا ہے، اسے کہنے اور کرنے دو.صبر اور حلم - ان تمام باتوں کو برداشت کرو.اللہ تعالی تمہارا اس ذریعہ سے امتحان لینا چاہتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے.گالیاں سن کر دعا رو پا کے دکھ آرام دو کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکسار یہی مومن کی نشانی ہوتی ہے.اس خیال کو جانے دو کہ گورنمنٹ سے امدد کی اپیل کی جائے بعض نے مجھے بھی کہا ہے کہ "زمیندار" کے متعلق گورنمنٹ کو توجہ دلائی جائے.مگر میں نے کہا یہ فضول بات ہے.گورنمنٹ ہماری مخالفت سے کس کس کو روکے گی.آج اس نے فرض کرو پنجاب میں اس مخالفت کو روک بھی لیا تو کل صوبہ سرحد میں ہماری مخالفت شروع ہو جائے، پرسوں یوپی میں شروع ہو جائے، پھر کون ہماری حفاظت کرے گا.اور اگر فرض کرلیا جائے کہ گورنمنٹ آف انڈیا ہندوستان میں سے ہماری مخالفت کو دور بھی کر دے تو کل اگر چین میں ہماری مخالفت شروع ہو جائے، افغانستان ہمارا دشمن ہو جائے، مصر اور شام میں عداوت کی آگ مشتعل ہو جائے، پھر کس گورنمنٹ سے کہیں گے.پس یہ طریق فضول ہے.اگر افغانستان کے احمدی گالیاں کھا سکتے بلکہ اپنی جانیں احمدیت کے راستہ میں قربان کرسکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم گالیوں سے گھبرا جائیں اور اگر ہم گھبراتے ہیں تو اس کا صاف طور پر یہ مطلب ہے کہ ہم بُزدل ہیں.انگریزی حکومت اگر خود اپنی فرض شناسی کا ثبوت دیتے ہوئے کوئی قدم اُٹھاتی ہے تو یہ اس کا اپنا کام ہے.اگر وہ مجھتی ہے کہ احمدی ظالم ہیں تو وہ خود دخل دے اور اگر جھتی ہے کہ غیراحمدی ظلم کر رہے ہیں تو وہ آپ دخل دے.اس طرح اگر وہ دخل دے گی تو ہم سمجھیں گے کہ یہ خدائی فعل ہے.اور اگر وہ دخل نہیں دیتی تب بھی ہم یہی سمجھتے ہیں کہ یہ خدائی فعل ہے.پس گالیوں سے گھبرانا نہیں چاہیے.اور اگر گالیاں سن کر تمہیں تکلیف ہوتی ہے تو قرآن مجید نے اس کا علاج بھی بتا دیا ہے.اور وہ یہ ہے کہ جہاں گالیاں دی جارہی ہوں وہاں سے اُٹھ کر چلے آنا چاہیئے.اس اصل کے مطابق جس اخبار میں تمہیں گالیاں دی جاتی.
خطبات محمود ۶۵ ہیں، اگر تم ان کی برداشت نہیں کرسکتے تو اُسے نہ پڑھو.مگر یہ کیا کہ آپ ہی ایسا اخبار خریدو اور جب اُسے پڑھو تو غصے میں آجاؤ.اُس کے نزدیک تو دین کی خدمت ہی یہی ہے کہ وہ تمہیں گالیاں دیتا رہے.اور جب وہ اسے خدمت دین سمجھتا ہے تو اس کا حق ہے کہ گالیاں دے.غرض اُس کا کام ہے کہ وہ پتھر مارے اور تمہارا کام ہے کہ تم پھر کھاؤ.اُس کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک نبی کا منکر ہے اور ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم نبی کے ماننے والے ہیں.پس جو نبی کے منکروں کا کام ہے وہ منکر کرے اور جو نبی کے ماننے والوں کا نمونہ ہوتا ہے، ضروری ہے کہ ہم دکھائیں.نبی کے منکروں کا کیا کام ہوتا ہے؟ یہی کہ وہ گالیاں دیتے ہیں، مارتے اور پیٹتے ہیں.پس اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو اپنی حیثیت کے مطابق کرتے ہیں اور اگر تم انہیں گالیوں سے باز رکھنا چاہتے ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم چاہتے ہو نبی کے منکر وہ کام کریں جو نبی کے ماننے والے کیا کرتے ہیں.حالانکہ ایسا نہیں ہو سکتا.پس اگر وہ نبی کے منکر ہیں اور یقیناً منکر ہیں تو ان کا کام ہے کہ وہ نبی کے منکروں کا طریق عمل اختیار کریں.اگر تم کسی ایک نبی کے منکر کی مثال ہی میرے سامنے پیش کردو کہ وہ بڑا شریف، بڑا نیک اور بڑا پارسا تھا، تو میں مان لوں گا کہ ان منکروں کو بھی شریف بن کر رہنا چاہیئے.اور تب لوگوں کا حق ہے کہ ان سے شرافت اور انسانیت کے نام پر اپیل کریں.لیکن اگر سارے نبیوں کے مخالفوں کا ہمیں یہی دستور دکھائی دیتا ہو کہ وہ گالیاں دیتے آئے، انبیاء کے ماننے والوں کو ستاتے اور دُکھ دیتے آئے، انہیں مارتے اور پیٹتے رہے، ان پر پتھر برساتے رہے، اور بالمقابل ہمیں یہ نظر آتا ہو کہ نبی کے ماننے والوں نے ہمیشہ گالیاں کھائیں، تکالیف برداشت کیں، دُکھ سے رنج و غم برداشت کئے تو پھر اب بھی ہمارا کام ہے کہ ہم گالیاں کھائیں اور ان کا کام ہے کہ وہ گالیاں دیں.غالب اخلاق کے لحاظ سے تو کہا جاتا ہے اچھا نہیں تھا لیکن اس کے بعض شعر سچائی سے پر ہیں کہتا ہے وہ اپنی خُو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں سبک سر ہو کے کیوں پوچھیں کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو جب انہوں نے اپنی ایک خو بنائی ہے اور جب وہ اپنی خُو نہ چھوڑنے کیلئے تیار نہیں تو ہم اپنی وضع کیوں بدلیں.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خدا تعالیٰ کی طرف سے تھے اور یقینا تھے تو پھر آپ کے منکروں کو یقینی طور پر وہی نمونہ دکھانا چاہیے تھا جو ہمیشہ سے انبیاء کے
خطبات محمود ۶۶ سال ۱۹۳۳ء منکرین دکھاتے چلے آئے ہیں.اُن کا فرض ہے کہ وہ ابراہیم کے منکروں کی طرح ہمارے لئے آگ جلائیں اور اُس میں ڈال دیں.اُن کا فرض ہے کہ وہ موسیٰ کے منکروں کی طرح ہمارے پلوٹھوں کا ہلاک کردیں.اُن کا فرض ہے کہ وہ عیسیٰ کے منکروں کی طرح ہمیں صلیب یہ لٹکائیں.پھر اُن کا فرض ہے کہ وہ رسول کریم ای کے منکروں کی طرح ہمیں اپنے وطن سے بے وطن کردیں.ہمیں موت کے گھاٹ اتارنے کی کوشش کریں.اور ہر رنگ میں تکلیف اور اذیت پہنچا کر خیال کریں کہ وہ نیکی کا کام کر رہے ہیں.اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو ہر ایک مخالف کا حق ہو گا کہ ہم سے پوچھے اگر مرزا صاحب نبی تھے تو کیا ان کے منکروں نے وہ کام بھی کئے جو دوسرے انبیاء کے منکر کرتے چلے آئے ہیں.کیا تم اس وقت یہ جواب دو گے ہم نے انہیں نصیحت کر کے روک رکھا تھا.اور اگر یہی جواب دو گے تو کون اسے تسلیم کرے گا.پس جو اُن کا کام ہے وہ اُنہیں کرنے دو اور جتنا شور وہ بچانا چاہتے ہیں، انہیں مچانے دو.اور یاد رکھو کہ وہ جتنی زیادہ ہماری مخالفت کرتے ہیں، قرآن مجید کی اس آیت کی اتنی ہی زیادہ صداقت ظاہر کرتے ہیں کہ يَا حَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِّنْ رَّسُولِ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُ ون کے لوگوں کی حالت پر افسوس ہے کہ جب بھی ان کے پاس ہمارا کوئی رسول آیا انہوں نے اس سے ہنسی اور مذاق کیا.پس وہ جس قدر ہم پر ہنسی اڑاتے ہیں، جتنی زیادہ ہماری مخالفت کرتے ہیں، اُسی قدر وہ ہماری تائید اور صداقت میں ثبوت مہیا کرتے ہیں.اور عظمند کیلئے یہی مخالفت بعض دفعہ ماننے کا موجب ہو جاتی ہے.رسول کریم ﷺ کے زمانہ کا ہی واقعہ ہے.جب آپ نے مختلف بادشاہوں کو تبلیغی چٹھیاں لکھیں تو اُس وقت ہر قل نے کہا کہ عرب کا کوئی آدمی ملواؤ جس سے میں اس نبی کے حالات دریافت کروں.ابوسفیان حاضر ہوا تو اُس نے پوچھا اس کی قوم اسے مانتی ہے یا نہیں؟ ابو سفیان نے کہا نہیں.نہ صرف مانتی نہیں بلکہ مخالفت کرتی ہے.ہر قل نے کہا یہی انبیاء کے مخالفین کیا کرتے ہیں شہ - اُس وقت قل نے یہ نہیں کہا کہ چلو جب خود اُس کی قوم اسے نہیں مانتی تو میں کیوں مانوں.بلکہ اس نے کہا کہ اگر قوم نہیں مانتی تو یہ اُس کی صداقت کا ثبوت ہے کیونکہ ہر نبی کی قوم میں اس کی مخالف ہوا کرتی ہے.پھر علاوہ اس کے ان گالیوں کا ایک اور فائدہ بھی ہے جس سال میں خلیفہ ہوا اُسی سال میں نے اپنی جماعت کے علماء کو جمع کیا تھا اور میں نے انہیں کہا کہ ہم سب سے ایک
خطبات محمود 46 سخت کو تاہی ہوئی ہے.اور میں نہیں جانتا کہ اس کو تاہی کی ہمیں کیا سزا ملے گی.انہوں نے پوچھا وہ کیا؟ میں نے بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف مخالفوں کی طرف سے نہایت ہی گندہ لٹریچر شائع کیا جاتا رہا ہے اور اب بھی شائع ہوتا رہتا ہے مگر ہمارے پاس وہ لٹریچر محفوظ نہیں.اگر کل اعتراض کیا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتابوں میں.مند سے بعض سخت الفاظ لکھے ہیں اور ہمارے پاس مخالفوں کی گالیاں نہ ہوئیں تو ہم کس سکیں گے کہ یہ گالیاں نہیں بلکہ مشفقانہ زجر ہے اور میں نے صیغہ وے وہ تالیف و تصنیف کی بنیاد ہی اس امر پر رکھی تھی اور میں نے اس کا فرض مقرر کیا تھا کہ کوشش سے ایسا لٹریچر جمع کرے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بُرا بھلا کہا گیا ہو.کچھ لڑیچر اُس وقت جمع بھی کیا گیا تھا مگر ابھی سو میں سے ایک حصہ بھی ہم اکٹھا نہیں کر سکے.اس کا نتیجہ دیکھ لو آج مخالف کس دیدہ دلیری سے کہہ رہے ہیں کہ مرزا صاحب گالیاں دیا کرتے تھے.ان کے سامنے وہ گالیاں نہیں جو مخالفوں نے دیں.وہ سخت الفاظ نہیں جن سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مخاطب کیا گیا.وہ گندی تحریرات موجود نہیں جنہیں ایک شریف انسان سننے کی بھی تاب نہیں رکھ سکتا.پس اس نقص کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مشفقانہ زجر اور اظہارِ حقیقت کو گالی قرار دیا جاتا ہے.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سینکڑوں خطوط ایسے آیا کرتے تھے جن میں گالی گلوچ کے سوا اور کچھ و تا.بعض خطوط میں نے بھی پڑھے ہیں.میں مثال کے طور پر بیان کر دیتا ہوں.بعض میں لکھا ہوتا تھا کہ میں فلاں تاریخ کو آنے والا ہوں، اپنی بیوی اور بیٹی کو تیار رکھنا.میں انہیں ساتھ لے آؤں گا.اس قسم کی تحریریں اگر ہمارے پاس موجود ہوتیں تو ہم مخالفوں کے سامنے رکھتے اور بتاتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو کچھ فرمایا وہ اظہارِ حقیقت تھا.ایک مخالف بیشک کہہ سکتا ہے کہ یہ اظہارِ حقیقت نہیں مگر کم از کم وہ اس امر کو تسلیم کریں گے کہ اس قسم کے الفاظ اظہار واقعہ کے طور پر کہے جاسکتے ہیں.انسان بے دین بھی ہو سکتے ہیں.کج فہم بھی ہو سکتے ہیں، بے حیا بھی ہو سکتے ہیں مگر یہ کہنا کہ اپنی بیوی کو تیار رکھنا میں اسے فلاں تاریخ لینے کیلئے آؤں گا.اسے کسی پہلو کے لحاظ سے بھی اظہارِ حقیقت نہیں کہا جاسکتا.پس آج گالیاں سن کر بجائے اِس کے کہ تم گورنمنٹ سے یہ کہو کہ وہ انہیں روکے تم یہ سمجھو کہ خدا نے پھر تمہارے لئے گالیوں کے جمع کرنے کا ایک موقع پیدا کر دیا ہے.
خطبات محمود ۲۸ سال ۱۹۳۳ء ایک بزرگ کے متعلق مشہور ہے وہ مکہ میں مقید تھے.گرمی کے دن تھے انہیں سخت پیاس لگی انہوں نے دعا کی کہ الہی ! ہماری دعوت کر، تکلیف بہت زیادہ ہے.اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا سن لی بارش ہوئی جس کے ساتھ خوب اولے برسے.انہوں نے اولوں کو اکٹھا کیا اور پھر انہیں دوستوں میں تقسیم کر دیا.بعضوں نے پوچھا کہ آپ خود کیوں نہیں کھاتے.انہوں نے کہا بس یہی خواہش ہے کہ اس خوشی میں کہ اللہ تعالی نے میری دعا قبول کرلی تمام برف دوستوں میں تقسیم کردوں.تو اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے یہ سامان پیدا کئے ہیں.بجائے اس کے کہ ان گالیوں کو بند کروانے کی کوشش کرو تم اس لڑ پچر کو جمع کرلو.یہ لٹریچر بذات خود پھر اس بات کا ثبوت ہوگا کہ صداقت کس طرف ہے ایک ایک لفظ ایک ایک گالی جسے اب تم گورنمنٹ کے پاس لے جانا چاہتے ہو تم اسے خدا تعالیٰ کی نعمت سمجھ کر اپنی فائلوں میں محفوظ کرلو.یہی وقت ہے جس کے ضائع ہو جانے کا ہمیں افسوس تھا.خدا تعالیٰ نے یہ موقع پیدا کر دیا ہے اب اس سے فائدہ اُٹھاؤ.آج دشمن خوش ہے اور وہ گالیاں دے کر خیال کرتا ہے کہ ہم احمدیت کو مٹادیں گے.لیکن میں سچ کہتا ہوں کہ اگر مولوی ظفر علی کی اولاد باقی رہی تو آج سے چوتھی پشت کے سامنے "زمیندار" کے یہ گالیوں سے بھرے ہوئے فائل رکھنے پر وہ اپنے دادا کو گالیاں دینے نہ لگ گئے تو جو جی میں آئے کہنا.یہ گالیاں گالیاں نہیں بلکہ دعائیں ہیں جو تمہیں مل رہی ہیں.حضرت خلیفۃ المسیح الاول فرمایا کرتے تھے.میرے ایک بزرگ تھے انہوں نے ایک کام شروع کیا چند دنوں کے بعد فرمانے لگے.معلوم ہوتا ہے خدا تعالیٰ کو یہ کام پسند نہیں آیا.آپ نے پوچھا کیوں؟ انہوں نے فرمایا اس لئے کہ کسی نے اس کام کو بُرا نہیں کہا.پھر کہنے لگے میرا تجربہ ہے کہ جو کام اللہ تعالیٰ کو پسند ہو اُسے عام لوگ ضرور ناپسند کرتے ہیں.چونکہ اب کسی نے کچھ کہا نہیں.اس لئے مجھے فکر ہے کہ اللہ تعالی کو یہ کام ناپسند نہ ہو.چار پانچ دن کے بعد پھر جو ملے تو بڑے خوش تھے.اور فرمانے لگے اللہ تعالیٰ نے وہ کام قبول کرلیا.کیونکہ مجھے ایک لمبا خط اس کے متعلق گالیوں کا ملا ہے.پس تم بھی اپنے نفس کو مولو.اور اس سے پوچھو اے نفس! کیا تیرے کسی گوشہ میں قرآن کریم کی بے حرمتی ہے.کیا تیرے کسی گوشہ میں محمد ا کی دشمنی ہے، اے نفس! کیا تیرے اندر بنی نوع انسان کی دشمنی اگر تمہارا نفس ان تمام سوالوں کے جواب میں کہے کہ نہیں نہیں.میں سب کچھ دین کیلئے قربان کرنے کو تیار ہوں.محمد ﷺ سے دشمنی کیسی، آپ کے ادنی اشارے پر جان
خطبات محمود 44 سال ۱۹۳۳ء دینے کیلئے تیار ہوں اور قرآن سے دشمنی کیا ایک ایک لفظ پر عمل کرنا جزو ایمان قرار دیتا ہوں.اور بنی نوع انسان سے عداوت کیسی.میں تو چوہڑوں اور چماروں کیلئے بھی قربان ہونے کو تیار ہوں.تو پھر یہ سمجھ لو کہ یہ گالیاں آپ کو نہیں مل رہیں بلکہ اسلام کے منکروں کو مل رہی ہیں.اور اگر تمہیں مخاطب کر کے دی جاتی ہیں تو وہ جھوٹ کا پلندہ ہیں جو قیامت کے دن تمہارے لئے شفاعت کا موجب ہو جائے گا.اگر ہم عام طور پر اشاعتِ اسلام میں لگے رہتے ہیں، اگر ہم عام طور پر قرآن کریم کے احکام پر عمل کرتے رہیں تو بھی جو کمزوریاں ہمارے اندر رہیں گی ان کی شفاعت کیلئے خدا تعالیٰ کے سامنے "زمیندار" کے پرچے آجائیں گے اور خدا کہے گا کہ جاؤ ان گالیوں کے بدلے میں نے اپنے بندوں کو معاف کر دیا.پس تم اپنے دل کی کیفیت کو بدل ڈالوں اور جیسا کہ میں نے ایک پچھلے خطبہ میں کہا تھا مومن اللہ تعالیٰ کا عاشق ہوتا ہے.اپنے اندر عشق پیدا کرو.رسول کریم اے کی مثال دیکھ لو جب آپ طائف میں تبلیغ اسلام کیلئے گئے تو دشمنوں نے آپ پر پتھر برسائے.آپ اس تکلیف کی وجہ سے لہولہان ہو گئے اور جب آپ آرہے تھے تو آپ کو الہام ہوا کہ اے محمد ! اگر تو چاہے تو ابھی ان پر عذاب نازل کر کے ان کا تختہ الٹ دوں.آپ نے فرمایا انہوں نے جو کچھ کیا ناواقفی کی وجہ سے کیا ہے - کون کہہ سکتا ہے کہ ہم لوگ رسول کریم ﷺ سے زیادہ تبلیغ کرنے والے ہیں.اگر رسول کریم ﷺ کی قوم تبلیغ کے باوجود جاہل کہلا سکتی تھی تو ہماری قوم تبلیغ کرنے کے باوجود کیوں جاہل نہیں کہلا سکتی.جتنا جتنا کوئی شخص گند ظاہر کرتا ہے اُتنا ہی زیادہ وہ اپنے آپ کو قابل رحم ثابت کرتا ہے.اگر کوئی شخص زیادہ بیمار ہو جائے تو کیا تم اس کا سر پھوڑ دیا کرتے ہو.یا زیادہ لائق ڈاکٹر سے اس کا علاج کراتے ہو.پس اس وقت وہ جتنی زیادہ مخالفت کرتے ہیں تمہارا فرض ہے کہ تم اتنے ہی جوش سے ان کیلئے دعائیں کرو.اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ وزاری سے کام لو اور اپنے حلقہ تبلیغ کو اور زیادہ وسیع کردو.جس وقت تمہیں یہ چیزیں حاصل ہو جائیں گی، تمہاری کامیابی یقینی ہوگی.خطرات اور گالیاں ہمیشہ آرام کی حالت میں تکلیف دیتی ہیں اور اگر انسان دیوانہ وار تبلیغ کرتا رہے تو یہ گالیاں اُسے بُری معلوم نہیں ہوتیں.ریڈروں میں ہی ہم قصہ پڑھا کرتے تھے کہ کسی عورت کا بچہ عُقاب لے گیا اور پہاڑ کی چوٹی پر جابیٹھا وہ چوٹی اتنی بلند تھی اور ایسی طرز پر واقعہ تھی کہ کوئی انسان اس پر چڑھ نہیں سکتا تھا.مگر جب ماں نے دیکھا کہ اس کا بچہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۴۳ تو عقاب کے قبضہ میں ہے تو وہ دیوانگی کی حالت میں پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئی اور اپنے بچے کو گود لے لیا.جب بچہ اُس نے اُٹھالیا، اُس کی عقل قائم ہوئی اور جوش جاتا رہا.تو اُس نے شور مچانا شروع کردیا کہ مجھے کسی طرح اُتارا جائے.آخر لوگوں نے بڑی مشکلوں سے اسے.أتارا نہیں پس یاد رکھو جب عشق پیدا ہو جاتا ہے تو تکالیف نظر نہیں آتیں.میں تو جب بھی ، گالیاں پڑھتا ہوں، میرے دل میں گالیاں دینے والے کے خلاف کچھ بھی احساس پیدا ہوتا.تب میں اپنے نفس سے سوال کرتا ہوں کہ کیا تیرے اندر غیرت کی کمی ہے؟ اور میرا نفس مجھے یہ جواب دیتا ہے کہ میرے اندر غیرت کی کمی نہیں بلکہ محبت کی زیادتی مجھے مجبور کرتی ہے کہ میں ان پر رحم کروں.دیکھو اللہ تعالٰی اس مخالفت کے ذریعہ یہ بتانا چاہتا ہے کہ دنیا میں گند موجود ہے.اگر یہ مخالفت نہ ہوتی تو لوگ تسلی اور اطمینان کی حالت میں بیٹھ جاتے اور خیال کرتے کہ اب دنیا سے گند مٹ گیا.لیکن خدا تعالٰی نے اس ذریعہ سے بتادیا ہے کہ مرض موجود ہے اس کے علاج کی فکر کرو.پس یہ مخالفت اللہ تعالی کی طرف سے ایک نعمت ہے.اور شکر کرو کہ اللہ تعالٰی نے موت سے پہلے تمہیں بیدار کردیا.اگر تم اسی حالت میں ہے مرجاتے تو خدا کو کیا جواب دے سکتے.خدا تعالیٰ نے اب تمہیں بتا دیا ہے کہ شیطان مرا نہیں.پس اُسے مارنے کیلئے تیار ہو جاؤ.ہمارے دشمن لوگ نہیں بلکہ شیطان ہے.یہ تو جتنی زیادہ گالیاں دیتے ہیں اُتنا ہی زیادہ ہمیں ان پر رحم آتا ہے.یہ طریق ہے جو ایک سچے مومن کو اختیار کرنا چاہیئے.اور اسی کو اختیار کرکے کامیابی اور برکت حاصل ہو سکتی ہے.یہ مت خیال کہ دنیا تمہاری مخالف ہو گئی ہے.یہی گالیاں ہیں جو کھاو کا کام دیں گی.اور انہیں گالیوں کی وجہ سے انہیں کے بھائی بندوں میں سے لوگ ہمارے سلسلہ میں داخل ہوں گے.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک بڑے ادیب جو محاورات اردو کی کتاب بھی چالیس جلدوں میں شائع کرنے کا ارادہ رکھتے تھے اور جس کا کچھ حصہ نواب صاحب رامپور نے شائع بھی کرایا تھا، قادیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرنے آئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُن سے دریافت کیا کہ آپ کو سلسلہ کی تبلیغ کس نے کی؟ انہوں نے کہا مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے.بچپن کی وجہ سے مجھے اس جواب پر بڑی حیرت ہوئی.اور جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پوچھا کہ کس طرح؟ تو انہوں
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء نے بتایا کہ میں نے جب مولوی محمد حسین صاحب کی تحریریں پڑھیں تو مجھے ان میں اس قدر غصہ اور دیوانگی نظر آئی کہ جب تک حقیقی خطرہ سامنے نہ ہو اُس وقت تک وہ غصہ اور دیوانگی پیدا نہیں ہو سکتی.پس میں نے اُس وقت سمجھا کہ ضرور حضرت مرزا صاحب میں صداقت ہے.تب میں نے درثمین وغیرہ پڑھی.اور مجھے معلوم ہو گیا کہ دشمن جو کچھ کہتے ہیں ، غلط ہے.میں حضور کی بیعت کیلئے قادیان آیا.تو اللہ تعالٰی اِس ذریعہ سے بھی شریف الطبع لوگوں کو ہدایت دیتا ہے.وہ سوچتے ہیں کہ ایک قوم جو اسلام کی خدمت کر رہی ہے آخر کیا وجہ ہے کہ اسے اس قدر گندی گالیاں دی جاتی ہیں.اور جب وہ سوچتے ہیں تو انہیں ہدایت مل جاتی ہے.ابھی دیکھ لو خواجہ حسن نظامی صاحب اور اخبار حقیقت لکھنو" وغیرہ نے اعلان کر دیا ہے کہ ہم ان گالیوں سے بیزار ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شریف لوگوں کے دلوں پر یہ اثر ہو رہا ہے کہ احمدیوں پر بلاوجہ ظلم کیا جا رہا ہے.پس یہ نیک اثر ہے اور اس اثر کو بڑھنے دو.باقی ایک ہی ڈر ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ دشمن ہمیں کہیں مار نہ ڈالیں.مگر ایک ساعت کیلئے بلکہ ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصہ کیلئے بھی جس شخص کے دل میں یہ خیال آتا ہے اس کے اندر ایمان کی ایک رائی کا کروڑواں حصہ بھی داخل نہیں ہوا.میں تو یقین رکھتا ہوں کہ یہ دشمن کیا اگر نگریز اور جرمن اور چین اور جاپان اور روس اور اٹلی وغیرہ تمام حکومتیں بھی مل جائیں تب بھی وہ ہمیں تباہ نہیں کر سکتیں اور اگر تباہ کر دیں تو یقیناً ہمارا سلسلہ جھوٹا ہے.بنی نوع انسان تمام کے تمام مل جائیں، امراء غرباء علماء و ادباء" بڑے اور چھوٹے، عالم اور جاہل، مرد اور عورتیں اجتماعی حیثیت میں بھی ہمارے سلسلہ کو مٹادیں.تو اس میں کوئی شبہ نہیں ہوگا اور یہ ت یقینی ہوگی کہ حضرت مرزا صاحب کا دعویٰ نَعُوذُ بِاللهِ جھوٹا اور ہم بھی اپنے دعوئی میں کاذب ہیں.مشرق اور مغرب کے لوگ، شمال اور جنوب کے باشندے بھی اگر مل جائیں تو وہ ایک تنکا کے برابر بھی ہمیں اپنی جگہ سے ادھر اُدھر نہیں کرسکتے.یہ تو اللہ تعالیٰ کا سلسلہ ہے اور وہ خود اس کا محافظ اور نگران ہے.تمہارا کام ہے کہ تم محبت اور پیار سے لوگوں کو سمجھاؤ.اور اگر کوئی مخالفت میں بڑھتا چلا جاتا ہے تو تم اُس کیلئے دعاؤں میں بڑھتے چلے جاؤ.کیونکہ برتن سے وہی ٹپکتا ہے جو اُس کے اندر ہو.اگر وہ گالیاں دیتے ہیں تو دیں کیونکہ ان کے پاس گالیوں کے سوا اور کوئی چیز نہیں.مگر تمہارا فرض ہے کہ تم نرمی اور محبت کا ثبوت پیش کرو بات
خطبات محمود ۷۲ سال ۱۹۳۳ء کیونکہ تمہارے پاس یہی چیز ہے جس سے کامیابی ہوگی.وہ اگر گالیاں بھی دیں تو جیسے شہد کے چھتے پر اگر کوئی شخص پتھر مارے تو اُس سے شہد ہی ٹیکے گا.اسی طرح تمہارا فرض ہے کہ تم گالیوں کے جواب میں دعائیں دو.مت خیال کرو کہ نرمی سے کیا بنتا ہے.دل اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں.نرمی کا اثر ہوتا ہے اور آخر سخت دل بھی جھکنے پر مجبور ہو جاتے ہیں.پس تم ثابت کردو کہ تمہارے اندر نیکی اور تقویٰ ہے.اگر مخالف پتھر مارتے ہیں تو تم دعائیں دو.گالیاں دیتے ہیں تو انہیں برداشت کرو.اور اللہ تعالیٰ سے رو رو کر دعائیں کرو کہ ان لوگوں کو ہدایت دے.اور یاد رکھو کہ اگر اللہ تعالٰی سے دعائیں کرو گے تو اس کی نصرت اور تائید ایسے رنگ میں ظاہر ہوگی کہ انسانی تدابیر اس کا مقابلہ نہیں کر سکیں گی.باقی حکومت ہر جگہ ساتھ نہیں دے سکتی وہ جنگلوں اور پہاڑوں میں ہمارے ساتھ نہیں ہو سکتی.چین، جاپان ، افغانستان، مصر اور شام وغیرہ میں اس حکومت کی تائید ہمارا کچھ نہیں بنا سکتی.پس ساری دنیا میں پھیلنے کا عزم رکھنے والی قوم کو کسی ایک جگہ کے آدمیوں کی دوستی پر انحصار نہیں کرنا چاہیے بلکہ ایسی ہستی سے دوستی پیدا کرنی چاہیے جو ہر جگہ موجود ہے اور وہ خدا تعالیٰ ہے..الفضل ۲۳- مارچ ۱۹۳۳ء) له بخاری كتاب الجهاد باب يقاتل من وراء الامام ويتقى به ترمذی ابواب الزهد باب فى الصبر على البلاء.سے العنكبوت: ۴۳ الرعد: ۱۸ ه انوار الاسلام صفحه ۲۴٬۲۳ روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۲۴٬۲۳ له الفاتحة: ۵ بخارى كتاب الاحكام باب ماذكر ان النبى لم يكن له بواب، بخارى كتاب الجنائز باب زيارة القبور ونس: ۳۱ شه بخاری باب كيف كان بدء الوحى الى رسول الله الله ه مسلم كتاب الجهاد والسير باب مالقى النبى من أذى المشركين والمنافقين
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء تبلیغ کے ساتھ دُعاؤں میں بھی لگے رہو فرموده ۲۴ - مارچ ۱۹۳۳ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں نے پچھلے جمعہ لاہور میں اس بات پر خطبہ پڑھا تھا کہ مومن کو ابتلاء آتے ہی رہتے ہیں اور اسے صبر سے کام لینا چاہیئے.اور ان دنوں ہماری جو مخالفت ہو رہی ہے بجائے اس کے کہ ہم اس سے گھبرائیں یا ڈریں یا لوگوں پر توکل کرکے حکومت یا اپنے ہم وطنوں سے اپیل کریں، ہمیں چاہیے کہ اس کے ازالہ کا صحیح طریق اختیار کریں.یعنی تبلیغ کریں اور محبت میں اور ترقی کریں تا اللہ تعالیٰ ہمارے کام میں برکت دے.وگرنہ جب تک مخالف موجود ہیں، اُس وقت تک مخالفت ہوتی رہے گی.اگر آج دب بھی گئی تو تکل پھر شروع ہو جائے گی.لیکن تبلیغ ایک ایسا ذریعہ ہے جو ہمیشہ کیلئے مخالفین کو بھی ہمارا ساتھی بنادے گا.اس کے بغیر ہمارے سب تعلقات اور دوستی خواہ وہ حکومت سے ہو یا ہم وطنوں سے عارضی علاج ہے.جیسے شدید درد کے موقع پر بیمار کو افیون دے دی جاتی ہے تا اُسے نیند آجائے لیکن یہ اصل علاج نہیں ہوتا.اصل علاج یہی ہے کہ تکلیف کے منبع کو دور کیا جائے.اسی طرح ہماری مخالفت کا منبع اختلاف ہے اور اس کا اصل علاج یہ ہے کہ اسے دور کیا جائے.آج میں اسی بات کے دوسرے حصہ کو بیان کرتا ہوں.اور وہ یہ ہے کہ تبلیغ کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے پاس جس کے ساتھ ہمارا حقیقی تو کل ہو سکتا ہے ہماری اپیل ہونی چاہیئے.گورنمنٹ خواہ کیسی ہی خیر خواہ کیوں نہ ہو ، وہ اپنی دوسری رعایا کا خیال رکھنے پر مجبور ہے.مجھے
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء خوب یاد ہے کہ پنجاب کے ایک گورنر نے مجھے کہا تھا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہم تمام اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کر سکتے ہیں.اُس وقت میں نے اسے یہی جواب دیا تھا کہ کم سے کم آپ کا یہ فرض ضرور ہے.لیکن میں سمجھتا ہوں انسانی نقطہ نگاہ سے یہ بات حکومت کیلئے ناممکن ہے.اور اس کا ایک ثبوت نہایت واضح طور پر ہمارے سامنے آچکا ہے.ایک دفعہ فوج میں ملازم احمدیوں کو کوئی شکایت تھی جس کے سلسلہ میں ایک دوست چیف آف دی جنرل سٹاف سے ملے.اُس نے اظہارِ ہمدردی کیا اور کہا ہم جانتے ہیں آپ مظلوم ہیں.اور ناحق صرف مذہبی مخالفت کی وجہ سے آپ کو تکلیف دی جاتی ہے.اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ آپ وفادار ہیں اور ہر حال میں آپ پر اعتماد کیا جاسکتا ہے.لیکن آپ اگر اپنے آپ کو میری جگہ رکھ کر دیکھیں تو یقیناً آپ کے مد نظر یہی بات ہوگی کہ جو کام آپ کے سپرد ہے جس طرح بھی ہو سکے وہ چلے.یعنی فوجی نظام درست رہے.اور اگر ہم آپ کی خاطر دوسروں کو ناراض کرلیں تو کیا ہمیں پوری فوج دے سکیں گے.مثلاً ہمیں دولاکھ سپاہیوں کی ضرورت ہے، کیا آپ مہیا کرسکتے ہیں.اگر نہیں تو سمجھ لیں کہ ملک کی حفاظت کیلئے ہمیں ان لوگوں کے ساتھ صلح رکھنی پڑتی ہے اور ان کے احساسات کا لحاظ ضرور رکھنا ہوتا ہے.لیکن یہ بندوں کا حال ہے اور وہ مجبور بھی ہیں.اس لئے ہماری حقیقی اپیل اللہ تعالی کے پاس ہونی چاہیے.مگر اللہ تعالیٰ بھی یہ نہیں کیا کرتا کہ فرشتے انسان کی صورت میں بھیج کر امداد کرے جو لوہے کی تلواروں سے لڑیں.اور نہ ہی آسمانوں سے آوازیں آیا کرتی ہیں بلکہ وہ دلوں میں محبت پیدا کر دیتا ہے.اللہ تعالیٰ کے سامان بھی بشری ہی ہوتے ہیں لیکن لوگ سمجھتے نہیں.ایک شخص ایک کام کیلئے چھ ماہ تک دعائیں کرتا ہے.آخر ایک آدمی اُسے مل جاتا ہے جو ایک ہی دن میں اس کا کام کر دیتا ہے.اور وہ اپنی ناسمجھی کی وجہ سے کہنے لگ جاتا ہے کہ چھ ماہ تک دعا کرتا رہا تو کچھ نہ بنا.اور فلاں آدمی نے ایک ہی دن میں کام کر دیا.حالانکہ وہ نادان نہیں جانتا کہ وہ آدمی ملا ہی دُعا کے نتیجہ میں تھا.اور اپنی ناواقفی کی وجہ سے وہ دعا کی قبولیت کے نتیجہ کو اس کے خلاف سمجھ لیتا ہے.ایک شخص کا کوئی عزیز یا وہ خود بیمار ہے، وہ صحت کیلئے دعا کرتا ہے اور اسے کوئی اچھا ڈاکٹر مل جاتا ہے.اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی دعا کو قبول کر کے اس ڈاکٹر کو بھیج دیا.نہیں کہ دعا سے صحت نہ ہو سکی.اور اس ڈاکٹر نے بیمار کو اچھا کر دیا.اس ڈاکٹر کا مل جانا دعا " ¡
خطبات محمود ہی کردے.۷۵ سال ۱۹۳۳ کے نتیجہ میں ہے.تو دل اللہ تعالی کے اختیار میں ہیں وہ چاہے تو ہمارے دوست پیدا اور چاہے تو دشمنوں میں پھوٹ ڈال دے.مگر جو کچھ بھی ہو دعاؤں کے نتیجہ میں ہی ہوگا.یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہماری تبلیغ میں وہ ایسا اثر ڈال دے.اور ایسے لوگ جماعت میں داخل ہو جائیں جن کے رُعب ہیبت کثرت اور جتھے سے ڈر کر مخالف باز آجائیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو جائیں.مگر جو بھی ہو دعا کے نتیجہ میں ہوگا.اللہ تعالی سامان بیشک پیدا کردیتا ہے مگر وہ دعا کا نتیجہ ہوتا ہے.انسان ہزاروں مشکلات میں گھرا ہوتا ہے اور نہیں جانتا کہ کیا کرے مگر اللہ تعالیٰ غیب سے اس کیلئے سامان پیدا کر دیتا ہے.اور وہ اسے دیکھ کر اللہ تعالیٰ کو ہی چھوڑ دیتا ہے اور خیال کرلیتا کہ فلاں وجہ سے میری مشکلات آسان ہو گئیں.بعض نادان شکوہ کرتے ہیں کہ ہم دعائیں کرتے ہیں مگر قبول نہیں ہوتیں.حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالٰی دعاؤں کے نتیجہ میں زمینی سامان پیدا کر دیتا ہے.پھر بعض اوقات انسان کسی بہت بڑی مصیبت میں مبتلاء ہونے والا ہوتا ہے اور وہ بچالیتا ہے.مثلاً ایک شخص بخار میں مبتلاء ہے جو رسل کا پیش خیمہ ہے.وہ دعا کرتا ہے کہ خدایا میرا بخار اتار دے اور نہ اُترنے پر سمجھتا ہے کہ میری دعا قبول نہیں ہوئی.حالانکہ اس کیلئے ایک خطرناک بیماری یعنی رسل مقدر تھی جو اسے معلوم نہیں اور اس لئے نہیں جانتا کہ دعا کی وجہ سے اس کے سر سے کتنی بڑی مصیبت ٹل گئی ہے.تو دعا کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ بعض اوقات کسی بڑی مصیبت کو ٹال دیتا ہے اور چھوٹی کو اپنی کسی مصلحت کی وجہ اس سے رہنے دیتا ہے.پس مومن کو اللہ تعالی ابتلاؤں سے آزماتا ہے.یہ ابتلاء کبھی جانی ہوتے ہیں، کبھی مالی کبھی دماغ اور دل کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور کبھی عزت کے ساتھ کبھی اس کے احساسات کو صدمہ پہنچایا جاتا ہے، کبھی عقل و شعور پر حملہ کیا جاتا ہے، کبھی مالی نقصان ہو جاتا ہے، کبھی اسے یا اس کے کسی عزیز کو بیماری آجاتی ہے، کبھی اس کے مال پر مصائب آتے ہیں.غرضیکہ کئی رنگ کے مصائب آتے ہیں اور اس وقت جب وہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتا ہے تو وہی ابتلاء اور مصائب اس کیلئے ترقیات کا موجب ہو جاتے ہیں.اگر ان کے ذریعہ اس کے اندر درد اور سوز اور دعا کی توفیق پیدا ہو جاتی ہے تو وہی مصائب اس کی ترقیات کیلئے کھاد کا کام دیتے ہیں.پس حقیقی کامیابی کا راز یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کی جائیں.اور اس یقین اس ہے
خطبات محمود <4 سال ۱۹۳۳ء کے ساتھ کہ وہ دعاؤں کو سنتا ہے.خواہ کوئی ظاہری نتیجہ نکلے یا نہ نکلے.کیونکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بعض اوقات وہ کسی بڑی بلا کو ٹال دیتا ہے جس کا انسان کو علم نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ صدقات علانیہ اور خفیہ دونوں طرح کیا کرو اور خود بھی اسی طرح کرتا ہے.کبھی تو دعا کے نتیجہ میں صاف طور پر اللہ تعالیٰ کا ہاتھ انسان کے ساتھ دکھائی دیتا ہے اور بعض اوقات وہ اس کی حاجت روائی کے ایسے سامان پیدا کر دیتا ہے کہ اسے خود بھی معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی دعا قبول ہو گئی.ایک دفعہ ایک صحابی رات کے وقت صدقہ کرنے کیلئے نکلے تو اندھیرے میں ایک چور کے ہاتھ میں دے دیا.رسول کریم ﷺ کو معلوم ہوا تو فرمایا ٹھیک ہے.تو اللہ تعالٰی نے نصیحت کی ہے کہ صدقات سِرًّا وَّ عَلَانِيَةً کیا کرو.کبھی تو اس طرح کہ کسی کو پتہ بھی نہ لگے اور کبھی اس طرح کہ دوسرے دیکھیں.اور ان کو بھی نیکی کی تحریک ہو.اسی طرح اللہ تعالیٰ کبھی تو دعاؤں کے ظاہری نتائج بھی ظاہر کر دیتا ہے اور کبھی دوسروں کے دلوں میں تحریک کے ذریعہ اسے قبول کرلیتا ہے.کبھی تو ایسے رنگ میں قبول کرتا ہے کہ صاف نظر آتا ہے اس کا ہاتھ اس میں کام کر رہا ہے اور کبھی پوشیدہ طریق پر کہ ایسا معلوم یا معلوم ہوتا.ہے دعا قبول نہیں ہوئی اور کسی اور ذریعہ سے کام ہوا ہے.لیکن مومن جانتا ہے کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے.وہ سارا دن محنت کر کے روٹی کماتا ہے مگر پھر بھی یہی کہتا ہے کہ اللہ تعالی نے دی ہے.وہ آگ میں پڑ کر اسے پکاتا ہے اور پھر بھی یہی کہتا ہے کہ خدا نے کھلائی.پس دعائیں کرو اور کامل توکل اور یقین کے ساتھ کرو.اور یاد رکھو کہ خداتعالی اپنی جماعت کو ضائع نہیں کیا کرتا.مصیبتیں بیشک آرہی ہیں اور یہ کیا ہیں، ابھی ایسی ایسی آئیں گی کہ جو ذہن میں بھی نہیں آسکتیں.مگر یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ انہیں دور کردے گا اور اپنی ستاری کی صفت کے ماتحت ہماری کمزوریوں سے بھی درگزر فرمائے گا.اُس کا نام جو ستار ہے تو یہ مومن کیلئے ہی ہے.پھر اپنی غفاری کی صفت کے ماتحت ہمارے لئے ان مصائب کے نتائج بھی بہتر کر دے گا اور اپنا رحم شامل حال کر کے بجائے نیچے گرنے کے ہمیں اوپر اُٹھادے گا.پس یہ مصائب کچھ حقیقت نہیں رکھتے.اور مومن کیلئے کوئی مصیبت نہیں سوائے اس کے کہ اس کے دل میں دعا کی توفیق اور درد پیدا نہ ہو.اگر یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں.چونکہ بارش اور کیچڑ ہے اس لئے جمعہ کی نماز کے بعد میں عصر کی نماز بھی پڑھا دوں گا تا دوبارہ آنے کی تکلیف نہ ہو.الفضل ۳۰ مارچ ۱۹۳۳ء)
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء نیکی اور تقویٰ کے ذریعہ فتح حاصل کرو (فرموده ۳۱ - مارچ ۱۹۳۳ء) تشہد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- فتح کا لفظ ایک ایسا خوش کن لفظ ہے کہ انسانی طبیعت بے اختیار اس کی طرف مائل و جاتی ہے.فتوحات کے زمانہ میں فاتح کے عیب بھی خوبیاں بن جاتی ہیں اور اس کے نقص بھی کمال نظر آتے ہیں.چنانچہ دیکھ لو.ہمارے ہی ملک میں کچھ عرصہ پہلے جب مسلمان فاتح اور حکمران تھے.ہندو اسلامی لباس فیشن کے طور پر اختیار کرتے تھے.وہ لمبے لمبے مجھے جنہیں آج مسلمان بھی ترک کر بیٹھے ہیں اُس زمانہ میں ہندو فخر سے پہنتے اور فارسی میں شعر کہنا ایک ہندو کی عزت افزائی کا موجب سمجھا جاتا.جس طرح آج مسز نائیڈو اور ٹیگور اپنی قوم میں معزز قرار دیئے جاتے ہیں، اس لئے کہ انہوں نے مغربی علم ادب کا تتبع کیا ہے.ٹیگور مغربی نقطۂ نگاہ پر اپنے خیالات کے اظہار کیلئے اور مسز نائیڈو انگریزی اظہار خیال کیلئے.اسی طرح اُس زمانہ میں مرزا قتیل کی بڑی عزت تھی.کیونکہ وہ فارسی میں اچھے شعر کہتے تھے.آج فارسی کا پڑھنا معیوب ہے.فارسی اور عربی دان ملا اور ملنٹے کہلاتے ہیں.اور عالم صرف وہی شخص سمجھا جاتا ہے جو انگریزی پڑھا ہوا ہو.مگر آج سے دو اڑھائی سو سال پہلے علم کے معنے یہ تھے کہ لوگ عربی یا فارسی پڑھے ہوئے ہوں.اس کے یہ معنی نہیں کہ اِس زمانہ میں انگریزی کو کوئی خصوصیت حاصل ہے.یا پہلے زمانہ میں عربی اور فارسی کو کوئی خصوصیت حاصل تھی بلکہ صرف یہ نہیں کہ اُس زمانہ میں فارسی اور عربی فاتحین کی زبان تھی اور اس زمانہ میں انگریزی
خطبات محمود فاتحین کی زبان ہے.۷۸ ۱۹۳۳ء اسی طرح کسی زمانہ میں داڑھیاں بڑھانا تہذیب کا نشان قرار دیا جاتا ہے.اور اس زمانہ میں داڑھیاں منڈوانا تہذیب کا نشان سمجھا جاتا ہے.اس لئے نہیں کہ داڑھی کے ساتھ تہذیب کا کوئی خاص تعلق ہے.داڑھی اور تہذیب کا کوئی بھی جوڑ نہیں.بلکہ اُس وقت اس لئے داڑھیاں بڑھائی جاتی تھیں کہ فاتح قوم داڑھیاں رکھتی.اور اب اس لئے منڈائی جاتی ہیں کہ فاتح قوم داڑھیاں منڈاتی ہے اور اپنے اپنے اوقات میں لوگ اس کی تائید میں دلائل بھی لے آتے ہیں.پھر کسی زمانہ میں طب کا سارا زور اس امر پر تھا کہ خوب نمک مرچ ڈال کر اور بھون بُھون کر گوشت کو استعمال کرنا چاہیے.یہ نہایت ہی مقوی اور خون صالح پیدا کرنے والی غذا ہے.اور اُس وقت طب اپنے مخفی خزانے نکال نکال کر اس کی تائید میں پیش کر رہی تھی.مگر آج طب کا سارا زور اس امر پر ہے کہ گوشت اُبلا ہوا کھانا چاہیئے.مرچیں کم ڈالنی چاہئیں، نمک اور گرم مصالحہ زیادہ نہیں ڈالنا چاہیے.طب بے شک ایک علم ہے مگر میرے نزدیک اُس وقت طب کا علم بھی فاتح قوم سے مغلوب تھا اور وہ اُسی کی تائید کر رہا تھا.مگر آج وہی طب کا علم اپنے رنگ میں اس وقت کی فاتح قوم کی تائید کر رہا ہے.یہ مثالیں اس امر کا ثبوت ہیں کہ علوم خواہ کتنے ہی وسیع کیوں نہ ہوں اور ان کی بنیاد خواہ تبحر پر ہی کیوں نہ ہو ، فتح کے سامنے مجھک جاتے ہیں.پس فتح ایک نہایت ہی دلکش لفظ ہے اور انسانی ذہن نہایت جلدی اس کی طرف مائل ہو جاتے ہیں.لیکن اگر کوئی شخص غور کرے تو اُسے معلوم ہو گا کہ ہر فتح فتح نہیں کہلا سکتی.بلکہ کئی فتوحات ایسی ہوتی ہیں کہ جب وقوع میں آتی ہیں تو لوگ اس کی عظمت کرتے اور اپنا سر اُن کے آگے جھکا دیتے ہیں.مگر بعد میں آنے والے لوگ جبکہ ہیبت ان کے دلوں سے ہٹ جاتی ہے، جبکہ دماغ حکومت کے جابرانہ دباؤ سے آزاد ہو جاتے ہیں، اس فتح کو نہایت ہی نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.اور ہر شخص کہتا ہے یہ ظلم ہوا، دنیا کی ترقی میں روک واقع ہو گئی.وہ فتح تھی خونریزی کی، وہ فتح تھی ظلم کی، وہ فتح تھی جبر و تعدی کی.مگر شکست تھی علوم وہ کی، شکست تھی حقیقی تہذیب کی.پس اگرچہ ایک ساعت کیلئے اور تھوڑے سے وقت کیلے فتح نہایت ہی مقبول اور محبوب نظر آتی ہے لیکن اس کے بعد اُس کی شناعت اور بُرائی لوگوں کی نظر میں نمایاں ہو جاتی ہے.اور وہ اس کے نقصانوں کو خود دیکھ لیتے ہیں.مومن کا کام
خطبات محمود 49 سال ۱۹۳۳ء ہے کہ وہ حقیقی فتح تلاش کرے.وہ فتح جو ناجائز ذرائع سے حاصل ہو، وہ فتح جس کے حاصل.کرنے کیلئے ایسی تدابیر اختیار کرنی پڑتی ہوں جو انسانیت اور شرافت کے خلاف ہوں، وہ مومن کیلئے فتح نہیں شکست ہے.دشمن کا ماردینا کتنی کامیابی کی بات سمجھا جاتا ہے مگر رسول کریم کے زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ جنگ کے میدان میں جنگ میں شامل ہونے والی ایک عورت کی لاش ملتی ہے.جنگ بھی ایسی جس کی فتح پر اسلام کی فتوحات کا انحصار تھا.اور دشمن بھی ایسا جس نے اپنی ساری عمر اسلام کے مٹانے کیلئے خرچ کردی تھی.ایسا دشمن مارا جاتا ہے.ایسی لڑائی فتح ہوتی ہے.لیکن ایک عورت کی لاش دیکھ کر محمد ﷺ کی ساری خوشی غم میں بدل جاتی ہے.آپ کے چہرہ پر ایک رنگ آتا اور ایک جانا.صحابہ کہتے ہیں ہم نے کبھی رسول کریم ﷺ کو اتنا غضب میں نہیں دیکھا جتنا اُس روز اے.اس میں رسول کریم ای کا کوئی دخل نہ تھا.اسلامی تشکر کا کوئی دخل نہ تھا.ایک ایسے موقع پر جبکہ اپنے پرائے میں تمیز کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور بسا اوقات ایک اپنا اپنے ہاتھ سے قتل ہو جاتا ہے، اتفاقاً حادثہ کے طور پر وہ عورت ماری جاتی ہے.لیکن چونکہ اس سے اسلامی فتح مشتبہ ہو جاتی اور دشمن کو انگشت نمائی کا موقع ملتا تھا.وہ کہہ سکتے تھے محمد الله ) کے متبعین نے عورت کو قتل کر دیا.اس لئے رسول کریم ﷺ کو یہ حملہ بہت ہی سخت نظر آیا اور آپ کی ساری خوشی غم بدل گئی.جو دراصل سبق ہے اس بات کا کہ آپ کے نزدیک فتح کوئی چیز نہ تھی، بلکہ نیک اور جائز ذرائع سے حاصل کردہ فتح کی قیمت آپ کے دل میں تھی.ایک اور موقع پر کچھ صحابہ " بعض لوگوں پر حملہ کر کے ان کا مال لے آئے.جس وقت حملہ کیا گیا حج کے ایام آچکے تھے اور اُن دنوں لڑائی جائز نہ تھی.اس موقع پر بھی رسول کریم کا چہرہ غمگین ہو گیا.اور آپ نے فرمایا تم نے یہ کیا کیا.پھر جو مارے گئے ان کا خون بہا دیا گیا ہے.اس لئے نہیں کہ عام جنگی قوانین کے لحاظ سے یہ کوئی بُری بات تھی.ہمیشہ لوگ ایسا کرتے اور خود عرب کے لوگ کرتے، بلکہ محض اس لئے کہ رسول کریم کا نقطہ نگاہ دوسروں سے بالا تھا.پس یاد رکھو ہماری جماعت کا مقصد فتح حاصل کرنا نہیں، بلکہ اخلاق کے ذریعہ فتح حاصل کرنا ہے.بسا اوقات انسان کو یہ نظر آتا ہے کہ فتح میرے ہاتھ میں ہے.اور بسا اوقات وہ خیال کرتا ہے کہ تھوڑے سے مکر سے تھوڑے سے فریب سے تھوڑے سے دعا سے اور تھوڑے سے جھوٹ سے وہ اسے حاصل کر سکتا ہے.ممکن ہے وہ نہ دین اور
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء کر سکتا ہو ، ممکن ہے اسے فریب سے بھی شکست ہو جائے اور ممکن ہے وہ باوجود دعا کے بھی کامیابی حاصل نہ کر سکے.مگر سمجھتا یہی ہے.اُس وقت لالچ اور حرص اس میں پیدا ہوتی ہے.وہ کہتا ہے میں ایک قدم ہاں صرف ایک قدم گناہ کی طرف اُٹھاتا ہوں، پھر میرے لئے نیکی کے دروازے کھلے ہیں.مگر وہ نہیں سمجھتا کہ اس ایک قدم کے اٹھانے سے وہ نیکی سے دور چلا جائے گا.گناہوں کے قریب ہو جائے گا.اور جب تک کچی توبہ کرکے واپس نہیں آئے گا وہ گناہوں میں بڑھتا چلا جائے گا.تم ایک قدم شمال کی طرف اُٹھاؤ کبھی جنوب کی طرف دوسرا قدم نہیں اُٹھے گا.جب تک شمال کی طرف منہ نہ پھیر لو جب تک اس طرف سے رجوع نہ کرلو..پس یہ خیال کہ تھوڑی سی غلطی کے بعد پھر نیکی کے اختیار کرنے کے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں، بہت بڑی غلطی ہے.ہر غلطی دوسری غلطی کی طرف لے جاتی ہے.ایک دوسری کی طرف دوسری تیسری کی طرف تیسری چوتھی کی طرف.پھر موت کی سی توبہ کئے بغیر گناہ آلودہ زندگی سے نجات ممکن نہیں ہوتی.مگر کون موت تلاش کرتا ہے، بہت کم اور بہت کم گناہوں کی طرف قدم اُٹھانے والے زیادہ ہوتے ہیں مگر موت والی توبہ کرنے والے کم ہوتے ہیں.اور اگر غلطی کی طرف قدم اٹھا کر خیال کر لیا جائے کہ یہی فتح کا راستہ ہے اور بظاہر فتح حاصل بھی ہو جائے تو یہ ایک دن نیکی کی فتح کی بجائے ظلم اور تعدی کی فتح کہلائے گی.پس ہماری جماعت کو یاد رکھنا چاہیئے کہ ہمارا مقصد فتح نہیں بلکہ نیکی اور تقوی کی فتح حاصل کرنا ہے.ہمارا مقصد دین اسلام کے احکام کے مطابق فتح حاصل کرنا ہے اور یہ چیزیں حاصل نہیں ہوتیں جب تک انسان خدا کیلئے موت قبول کرنے کیلئے تیار نہ ہو.موت اور صرف موت کے ذریعہ یہ فتح حاصل ہو سکتی ہے.اور جو موت قبول کرنے کیلئے تیار نہیں اسے فتح بھی حاصل نہیں ہو سکتی.پھر موت بھی ایک وقت کی نہیں بلکہ وہ جو ہر منٹ اور ہر گھڑی آتی ہے.کتنی مائیں ہیں جو کنویں میں گرتے ہوئے بچے کو دیکھ کر خود کود نہیں پڑیں گی.میں سمجھتا ہوں بہت کم.اتی فیصدی بلکہ شائد اس سے بھی زیادہ مائیں ایسی ہوں گی کہ اگر ان کا بچہ پانی میں گر پڑے تو وہ پانی کے کنارے پر کھڑے ہو کر نہیں روئیں گی بلکہ وہ بغیر سوچے سمجھے اس میں گود جائیں گی.بے شک اگر وہ تیرنا نہیں جانتی تو ڈوب جائیں گی.مگر کودتے وقت ان کے دل میں خیال نہیں آئے گا کہ ہم غرق ہو جائیں گی.اُس وقت ایک ہی خیال ان کے دل میں ہوگا کہ
خطبات محمود Al سال ۱۹۴۰۳ء پر یہ ہم نے اپنے بچے کو بچانا ہے.مگر کتنی مائیں ہیں کہ جب ان کا بچہ بیمار ہو جائے اور اس کی بیماری لمبی ہوتی چلی جائے، سال دو سال چار سال، دس سال پندرہ سال میں سال بلکہ اس سے بھی زیادہ تو پھر بھی وہ استقلال سے تیمارداری میں مصروف رہیں.یقیناً ایسی بہت کم مائیں ملیں گی.کوئی دو سال کوئی چار سال کوئی پانچ سال کوئی چھ سال کوئی آٹھ یا دس سال تک جائے گی.اور سینکڑں میں سے کوئی ایک ماں ہوگی جو ہیں سال تک استقلال کے ساتھ تیمارداری میں مصروف رہے.اور اگر وہ ہیں سال تک استقلال دکھائے تو بھی گو اس کی زبان الفاظ ہوں گے کہ خدایا! اسے شفا بخش مگر دل میں یہی کہے گی کہ خدایا! کیا تیرے پاس میرے بچہ کیلئے موت نہیں؟ وہ ایک وقت کی موت کیلئے تیار ہو جائے گی مگر ہر وقت کی موت کیلئے تیار نہیں ہو سکتی.بیشک عام محبت سے ماں کی محبت بہت زیادہ ہوتی ہے.اور دوسرا شخص جہاں ایک وقت میں گھبرا جاتا ہے.ماں مہینوں نہیں سالوں استقلال کے ساتھ اس تکلیف کو برداشت کرتی رہتی ہے.مگر بہر حال کوئی ماں مہینوں اور کوئی سالوں میں تھک جائے گی.اور بہت کم ایسی مائیں ہوں گی جو آخر تک اس مصیبت کو برداشت کریں.اس لئے کہ جو موت آہستہ آہستہ آتی ہے، اس کے آنے سے پہلے انسان خوب جانتا اور سمجھتا ہے کہ یہ موت آ رہی ہے.مگر جو یکدم آجائے اُس وقت عقل قائم نہیں رہتی اور انسان اس مصیبت میں گود پڑتا ہے.جب ایک ماں اپنے بچہ کو پانی میں گرتے دیکھتی ہے تو اُس کی عقل ماری جاتی ہے.اور بغیر سوچے سمجھے وہ اس میں کود جاتی ہے.مگر جب سالہا سال اسے ایک بیمار کی نگہداشت کرنی پڑتی ہے اور وہ دیکھتی ہے کہ بیمار اچھا نہیں ہوتا تو وہ ہر گھڑی اپنی موت اپنے سامنے دیکھتی ہے.اور عقل و ہوش کی قائمی کی وجہ سے اپنی جان دینے کیلئے تیار نہیں ہوتی.پس وہ اندر ہی اندر اس غم سے گھلنے لگ جاتی ہے.وہ سوچتی ہے کہ زندگی میں یہ موت ایسی ہے کہ میں کسی سوسائٹی میں بیٹھ نہیں سکتی، رشتہ داروں سے مل نہیں سکتی، سیر کیلئے نہیں جاسکتی، کسی کام کاج کے قابل نہیں رہی.پس یہ موت اسے آہستہ آہستہ اپنی طرف آتی دکھائی دیتی ہے.اور جو چیز آہستہ آہستہ اور ڈراتے ڈراتے پاس آئے اُس کا خوف بہت زیادہ ہوتا ہے.شیر اگر یکدم سامنے آجائے اور انسان کو پتہ نہ ہو کہ یہ شیر ہے تو ممکن ہے کہ اُسے کئی انسان مار لیں.مگر جب وہ دو تین میل سے ہاؤ کہہ کر آواز نکالتا ہے تو سننے والا کانپ اُٹھتا ہے.پھر اور قریب آکر بولتا ہے تو اور زیادہ خوف طاری ہو جاتا ہے.اور جب -
خطبات محمود AF سال ۱۹۳۳ء بالکل قریب آجاتا ہے تو انسان کے ہاتھ پاؤں میں سکت نہیں رہتی.اس کی وجہ کیا ہے یہی کہ وہ آہستہ آہستہ ڈراتا ہوا آتا ہے.اگر وہ یکدم آدمی کے پاس پہنچ جائے تو کئی انسان اسے مار لیں.میں نے ایک دفعہ اخبار میں ایک عورت کے متعلق پڑھا تھا کہ وہ اپنے کھیت میں تھی.وہیں زچگی ہوئی اور اسے بچہ پیدا ہو گیا.واپس آرہی تھی کہ راستہ میں اسے چیتا مل گیا وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ چیتا ہے.اُس نے بچہ زمین پر رکھا.اور چیتے سے لڑنے لگ گئی.یہاں تک کہ اس کا گلا گھونٹ کر اسے مارڈالا.تو وہ لوگ جو آہستہ آہستہ خطرہ کو برداشت کریں کم ہوتے ہیں.ہاں یکدم خطرہ میں کود جانے والے بہت ہوتے ہیں.آج کل ہی کانگرس کی وجہ سے جو فسادات ہوتے ہیں، ان میں جب گولی چلائی جاتی ہے تو سینکڑوں آدمی کھڑے رہتے ہیں.اور کہتے ہیں ہمیں کچھ پرواہ نہیں، مار ڈالو.مگر جب جلسہ ہو رہا ہو اور پولیس اس کے متعلق کیے کہ منتشر ہو جاؤ ورنہ لاٹھی چارج کیا جائے گا تو ایک بھی آدمی جلسہ گاہ میں نہیں ٹھہرتا.اس لئے کہ گولی چلنے اور عقل آنے کے درمیان کوئی وقفہ نہیں ہوتا.مگر لاٹھی چارج کرنے اور عقل سے کام لینے میں وقفہ ہوتا ہے.اور انسان عواقب کو سوچ لیتا ہے.گزشتہ ایام کے واقعات دیکھ لو.جہاں گولیاں چلیں وہاں یہ نظر آئے گا کہ لوگوں نے بڑی جرات اور بہادری دکھائی.مگر جہاں ڈنڈے چلے، وہاں انہوں نے بزدلی دکھائی.اس کے یہ معنے نہیں کہ ڈنڈا گولی سے زیادہ خطرناک چیز ہے.بلکہ یہ ہے کہ گولی چلنے اور عقل سے کام لینے میں کوئی وقفہ نہ تھا.اس لئے لوگوں نے اپنے سینے آگے کر دیئے.مگر ڈنڈا چلنے سے پہلے وقت ہوتا ہے.اور لوگ اپنے انجام کو سوچ لیتے ہیں، اس لئے بھاگ گئے.غرض جو موت آہستہ آہستہ آتی ہے وہی اصل موت ہوتی ہے اور اسے برداشت کرنا انسان کو دلیر اور جری ثابت کرتا ہے.ہم دیکھتے ہیں صحابہ " میں اس موت کو برداشت کرنے کی قوت تھی.چند صحابہ " ایک دفعہ پکڑے گئے.اور ایک صحابی سے کو ایسے کافر نے خرید لیا جس کے ایک رشتہ دار کو اس صحابی کے کسی مسلمان رشتہ دار نے قتل کیا تھا.اور اس غرض سے خرید لیا تاکہ اپنے رشتہ دار کا بدلہ لینے کیلئے قتل کرے.کئی دن تک اپنے گھر میں اس صحابی کو قید رکھا.اور روزانہ قتل کی تیاریاں کی جاتیں.وہ صحابی اپنی آنکھ سے سب کچھ دیکھتے اور انہیں معلوم ہو تا رہتا تھا کہ اب موت میں کتنا وقت باقی رہ گیا ہے.آخر جب اُن کے قتل کئے جانے کا وقت قریب آگیا تو انہوں نے کہا مجھے اُسترا دیں تاکہ میں اپنے جسم کی صفائی کرلوں.انہیں اُسترا دیا گیا.وہ اُسترا
خطبات محمود ٨٣ سال ۱۹۳۳ء لے کر بیٹھے ہی تھے کہ ایک بچہ کھیلتے کھیلتے ان کے پاس آگیا.انہوں نے پیار سے اسے اپنے پاس بٹھالیا.گھر والوں نے جب یہ دیکھا کہ اُسترا ہاتھ میں ہے اور ہمارا بچہ پاس بیٹھا ہے تو اُن کا رنگ فق ہو گیا.وہ ڈرے کہ کہیں بچے کو قتل نہ کردے.صحابی نے ان کے چہروں کو بھانپ لیا کہ انہیں کیا خطرہ لاحق ہے اور کہا مسلمان غدار نہیں ہوتا.اس بچے نے کیا قصور کیا ہے جو میں اسے قتل کروں ہے.جس وقت وہ انہیں ھے مارنے کیلئے باہر لے گئے تو ایک شخص نے چھا کہ کیا آپ بتا سکتے ہیں اگر اس وقت آپ اپنے گھر میں آرام سے بیٹھے ہوتے اور محمد آپ کی جگہ ہوتے تو آپ کو کتنی خوشی ہوتی.اس صحابی نے جواب دیا کہ یہاں محمد ہوں اور میں آرام سے گھر میں بیٹھا رہوں، یہ تو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا.میں تو یہاں بیٹھا ہوا یہ بھی برداشت نہیں کر سکتا کہ محمد اس کے پاؤں میں کانٹا چھے اور میں آرام سے بیٹھا رہوں نے.یہ وہ لوگ تھے جن کی نظروں میں موت کی کوئی حقیقت نہ تھی.وہ ایمان کے لحاظ سے معصوم بچے تھے جیسے بچہ آگ میں ہاتھ ڈال دیتا ہے اسی طرح وہ بھی مصائب میں کود پڑتے.مگر بچہ جہالت کی وجہ سے ایسا کرتا ہے اور وہ علم کی وجہ سے ایسا کرتے.مینی چیز ہے جو انسان کو ایماندار ثابت کرتی ہے.اور یہی چیز ہے جس سے کامیابی حاصل ہوا کرتی ہے.پس اگر تم بھی چاہتے ہو کہ تمہیں اللہ تعالی کی طرف سے انعامات ملیں تو تم اس موت کیلئے اپنے آپ کو تیار کرو.بہت ہیں جو اِس بات سے ڈرتے ہیں کہ انہیں مالی نقصان پہنچ جائے گا.بہت ہیں جو ڈرتے ہیں کہ انہیں جانی نقصان پہنچ جائے گا.بہت ہیں جو ڈرتے ہیں کہ لوگ انہیں گالیاں دیں گے یا دیتے ہیں.مگر اس کے باوجود وہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا قرب انہیں حاصل ہو جائے گا.اُس کی محبت ان کے دلوں میں قائم ہو جائے گی.حالانکہ اللہ تعالی کی محبت اور بُزدلی کبھی اکٹھی نہیں ہو سکتی.وہ شخص جو ہر وقت کی موت قبول کرنے کیلئے تیار نہیں، اسے خدا تعالی ہر وقت کی زندگی دینے کیلئے کیسے تیار ہو.کیا چیز ہے انسانی زندگی؟ زیادہ سے زیادہ کوئی سو سال زندہ رہا یاڈیڑھ سو دو سو یا اڑہائی سوسال تک پہنچا.لیکن اگر کوئی شخص اڑہائی سو سال کی موت قبول کرنے کیلئے تیار نہیں تو وہ کس طرح یہ خیال کر سکتا ہے کہ اربوں ارب سالوں کی بلکہ ایک غیر محدود زندگی اسے حاصل ہو جائے گی.کتنی چھوٹی سی چیز ہے جس کی قربانی کا مطالبہ کیا جاتا ہے.اِس خیال کو جانے دو کہ یہ محدود قربانی ہے.اس امر کو نظرانداز کردو کہ قربانی کی طاقتیں بھی اللہ تعالی کی مہیا کردہ ہیں.اگر انسان اس
خطبات محمود ۸۴ سال ۱۹۳۳ء تھے.معمولی زندگی کو بھی اللہ تعالٰی کے راستہ میں قربان کرنے کیلئے تیار نہیں تو وہ کس طرح اس سودے کی امید کر سکتا ہے جس کا تعلق ہمیشہ کی زندگی سے ہے.پس ابتلاء اور مصیبتیں مومن کا خاصہ ہیں اور ایمان کے چلا کیلئے ان چیزوں کا ہونا ضروری ہے.اگر ابتلاؤں، ٹھوکروں اور گالیوں سے بے عزتی ہوتی ہے تو ماننا پڑے گا کہ نَعُوذُ بِاللهِ رسول کریم ﷺ کی بے عزتی ہوئی کیونکہ آپ کو گالیاں دی گئیں.اتنی کہ کسی اور کو آج تک نہیں ملیں.تکالیف پہنچائیں گئیں اور اس قدر کہ کوئی شخص ان کی نظیر پیش نہیں کر سکتا.ایک دفعہ آپ نماز پڑھ رہے دشمن ایک اوجھڑی اُٹھالائے جو غلاظت سے بھری ہوئی تھی اور آپ کے اوپر ڈال دی ہے ایک دفعہ آپ کے جلے میں رسی ڈال کر کھینچا گیا اور کوشش کی گئی کہ آپ " کا دم گا جائے ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بھی اسی طرح کی تکلیفیں دی گئیں.آپ کا راستہ بند کیا گیا، لیکچروں میں پتھر برسائے گئے.غرض ہر رنگ میں ہتک کی گئی گالیاں بھی دی گئیں.ایک دفعہ آپ مجلس میں بیٹھے تھے کہ ایک مخالف آیا اور آپ کو گندی گالیاں دینے لگ گیا.اس پر بعض کو غصہ بھی آیا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں روک دیا.تھوڑی دیر کے بعد جب وہ گالیاں دے کر خاموش ہو گیا تو آپ نے فرمایا.آپ لوگ معذور ہیں کیونکہ آپ کو یہی تعلیم دی گئی ہے.غرض رسول کریم ﷺ کو اور ہر رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو تکالیف پہنچائیں گئیں.اگر یہ تکلیفیں ذلّت ہیں تو پھر ہمارے لئے عزت کی کون سی بات ہے.جب ہمارے پیاروں نے گالیاں کھائیں تو کیا ہم ان سے زیادہ معزز ہیں کہ ہمیں یہ گالیاں ذلت معلوم ہوں.اور اگر ذلّت نہیں بلکہ عزت ہیں تو پھر وہ کون سا بیوقوف ہے جو دعا کرے کہ خدایا! مجھے عزت نہ بخش.جب خدا کیلئے گالیاں کھانا خدا کیلئے ماریں کھانا خدا کیلئے جانی اور مالی نقصان برداشت کرنا ہتک عزت کی بات نہیں بلکہ معزز بنانے والی بات ہے تو وہ شخص جو یہ کہتا ہے کہ مجھے عزت نہ ملے یا پاگل ہے یا منافق.لیکن خدا کے دربار میں پاگلوں اور منافقوں کی عزت نہیں ہو سکتی، وہاں مخلص بندوں کو ہی جگہ ملتی ہے.پس اپنے اخلاق کو درست کرو اور یاد رکھو کہ جو اخلاق سے فتح حاصل ہوتی ہے وہی حقیقی فتح ہوتی ہے اور جو لڑائی یا گالیاں دینے سے فتح ہو، وہ شیطان کیلئے ہے خدا کیلئے نہیں.ایسی فتح کی موجودگی میں پھر بھی خدا کا خانہ خالی رہے گا اور جب تم یہ سمجھ رہے ہوگے کہ یہ
خطبات محمود ۸۵ سال ۶۱۹۳۳ خدا کیلئے فتح ہوئی، شیطان اُس وقت خوش ہو رہا ہوگا اور کہے گا کہ میں نے اب بھی انہیں اپنے قبضہ میں رکھا.پس خدا کے سپاہی بنتے ہوئے شیطان کے سپاہی مت بنو.اور اخلاقی نرمی اور محبت سے قلوب فتح کرنے کی کوشش کرو.یہ مت خیال کرو کہ نرمی سے کچھ نہیں بنتا اور کہ تم اپنی تدابیر سے دنیا پر غالب آسکو گے.اگر تم اپنی کوششوں پر انحصار رکھتے ہو تو تم ومن نہیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی تائید پر بھروسے رکھو.ہمیں خدا تعالیٰ نے نشان کے طور پر دنیا کے سامنے رکھا ہے.مچھلی کو آتا نہیں پکڑا کرتا بلکہ مچھلی ماہی گیر پکڑا کرتے ہیں.اسی طرح ہم آٹا ہیں، طعمہ ہیں جو اس لئے پھینکے گئے تا دنیا اسے کھائے.لیکن چونکہ خدا کا کانٹا ہمارے پیچھے ہے اس لئے جب بھی ہمیں کوئی کھانے کیلئے آئے گا خود شکار ہو کر رہ جائے گا.پس بے شک ہم ایک طعمہ ہیں اور اس لئے پھینکے گئے ہیں کہ دنیا ہمیں کھائے.مگر ہمیں کھا کوئی نہیں سکتا کیونکہ خدا کا ہاتھ ہمارے پیچھے ہے اور وہ ہمیں کھانے والے کا شکار کرتا ہے.پھر اس کامیابی میں بھی ہمارا دخل نہیں.جیسے اگر کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ آٹا مچھلی کو پکڑتا ہے تو وہ پاگل ہے.مچھلی کو کانٹا پکڑتا ہے جو شکاری کے ہاتھ میں ہوتا ہے.پس یہ مت خیال کرو کہ تم نے کوئی کام کرتا ہے.تم کو خدا نے دنیا کے سامنے پھینک دیا ہے تاکہ وہ لوگ آئیں.تم پر منہ ماریں.تمہیں ایک طعمہ کی شکل دی گئی ہے تاکہ لوگوں کے دلوں میں لالچ پیدا ہو.اور وہ تمہاری طرف ہاتھ بڑھائیں تا خدا کا ہاتھ انہیں کھینچ لے.اور پس اپنی کمزوری کو نہ دیکھو کہ یہ کمزوری دشمن کو شکار کرنے کا ایک ذریعہ ہے.جس طرح مچھلی والا جتنی زیادہ آٹے میں خوشبوئیں ملاتا ہے جو مچھلی کو پسند ہوں تاکہ وہ انہیں سونگھے اور کانٹے کی طرف آئے تاکہ پکڑی جائے.اسی طرح تم بھی اپنے اندر جس قدر کمزوریاں دیکھو یہ سمجھ لو کہ خدا کا جال اور زیادہ وسیع ہو رہا ہے تاکہ تمہاری کمزوریوں کو دیکھ کر دشمن کو لالچ اور حرص پیدا ہو اور وہ تمہارے قریب آجائے.تاکہ پکڑا جائے.پس آج تمہاری ہر کمزوری دشمن کو شکست دینے کا ایک ذریعہ ہے اور ہر ایک چیز جو بظاہر تمہارے ضعف کی علامت سمجھی جاتی ہے، اِس امر کا ثبوت ہے کہ فتح کرنے والا آگیا اور تمہارے دل مَتَى نَصْرُ الله نے کہنے کیلئے تیار ہو گئے.پس اپنے نفوس میں تبدیلی پیدا کرد قلوب کو پاک کرو، زبانوں کو شائستہ اور اپنے آپ کو اس امر کا عادی بناؤ کہ خدا کیلئے دکھ اور تکلیفوں کو برداشت کر سکو.تب تم خدا کا ہتھیار ہو جاؤ گے اور پھر خدا ساری دنیا کو کھینچ کر تمہاری طرف
خطبات محمود AY سال ۱۹۲۳۳ء لے آئے گا.اگر یہ تبدیلی تم اپنے اندر پیدا نہیں کرتے تو پھر کچھ بھی نہیں.اور اگر اس صورت میں فتح آبھی جائے تو وہ ذلت سے بدتر ہے.اور وہ خدا کی نہیں بلکہ شیطان کی فتح ہے.(الفضل ۶- اپریل ۱۹۳۳ء) ترمذی ابواب السير باب ماجاء في النهي عن قتل النساء والصبيان حضرت حبیب طبری جلد ۳ صفحه ۱۳۹ تا ۱۴۱ مطبوعه دار الفکر بیروت لبنان ١٩٨٤ء حضرت زید بن الدئنه طبری جلد ۳ صفحه ۱۴۱ مطبوعه دار الفکر بیروت لبنان ۱۹۸۷ء ه بخاری کتاب مناقب الانصار باب مالقى النبى واصحابه من المشركين بمكة البقرة: ۲۱۵
خطبات محمود 11 اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لئے فتح مقدر ہو چکی ہے (فرموده ۱۴ - اپریل ۱۹۳۳ء) سال ۱۹۴۳ء تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- فلسفیوں میں اس بات پر اختلاف ہے کہ آیا وہ چیزیں جو دنیا میں ہمیں نظر آتی ہیں خواہ وہ دیکھی جانے والی یا چھوٹی جانے والی سُنی جانے والی یا سو لکھی جانے والی چیزوں میں سے ہیں، ان کا وجود اصلی ہے یا شکی؟ اور اس خیال پر اس قدر بحثیں ہوئیں ہیں کہ بعض لوگ تو حقائق اشیاء کے گلی طور پر منکر ہو گئے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی چیز نہیں.اگر ہے تو محض انسانی احساس وگرنہ جو کچھ ہے وہ سب وہم ہی وہم ہے.پرانے زمانہ میں ان لوگوں کو سوفسطائی اور ان کے عقیدہ کو سفسط کہتے تھے.اور ان کے متعلق ایک قصہ مشہور ہے کہ ہندوستان کے بادشاہوں میں سے ایک کے پاس اس عقیدہ کا ایک آدمی آیا.اس کا یہی دعوی تھا کہ ہم جو کچھ دیکھتے ہیں یہ سب وہم ہے.مختلف لوگوں نے اس سے ے گفتگو کی مگر اس کا جواب دینے سے عاجز رہے.آخر بادشاہ کو ایک تدبیر سو جبھی اور اس نے کہا اچھا میں اسے سمجھاتا ہوں.اس نے اسے ایک جگہ کھڑا کر کے ایک مست ہاتھی لانے کا حکم دیا.اور خود ارد گرد چھتوں پر محفوظ جگہ بیٹھ گئے اور ایک دیوار کے ساتھ ایک سیڑھی بھی لگادی.جب ہاتھی نے اس پر حملہ کیا تو وہ بھاگ کر سیڑھی پر چڑھنے لگا.اس پر بادشاہ نے یہ سمجھ کر کہ میں اب اسے قائل کرلوں گا اسے کہا کہ بھاگتے کیوں ہو، ہاتھی وغیرہ کچھ نہیں محض وہم ہے.وہ بھی اپنے علم کا پکا تھا.کہنے لگا بادشاہ سلامت بھاگ کون رہا ہے یہ
سال ۱۹۳۳ء خطبات محمود شخص سفید AA بھی وہم ہی ہے.گویا اس خیال میں لوگوں نے اس قدر ترقی کی کہ ہر چیز کی حقیقت سے انکار کر دیا.اور وہی چیز جو کسی زمانہ میں سفسط کہلاتی تھی اب اسی بیہودگی اور لغویت کا نام برکلے کا فلسفہ ہے.گویا اسے ایک اور رنگ میں پیش کیا جاتا ہے.ایسے لوگ کہتے ہیں کہ اس میں شبہ ہی کیا ہے کہ سب کچھ ہمارا اپنا وہم ہے.اس کا ثبوت یہ ہے کہ ایک چیز کو ایک دیکھتا ہے اور دوسرا زرد- گویا مختلف چیزیں مختلف نگاہوں میں مختلف طور پر نظر آتی ہیں.اور یہ اسی لئے ہے کہ حقیقت میں وہ کچھ نہیں محض اپنے واہمہ کا انعکاس ہے.اور اس زمانہ میں سائنس کے حملہ سے بچنے کیلئے عیسائیت نے اسی فلسفہ کو اختیار کیا ہے.جب سائنس نے بعض ایسی تعلیمات پیش کیں جن کی عیسائیت پر زد پڑتی ہے تو پادریوں نے برکلے کے فلسفہ کے ماتحت ہی پناہ لی.اور کہہ دیا کہ سائنس کیا ہے، موجودات و مشاہدات سب وہم ہیں اور حقائق پر ان کا کوئی اثر نہیں پڑسکتا.لیکن بعض لوگوں نے اس کے الٹ اس بات کو لیا ہے کہ موجودات جو ہمیں نظر آتی ہیں، یہی قطعی اور یقینی چیز ہیں.اور انسانی دماغ جن چیزوں کو سوچتا ہے وہ سب ظنی اور وہمی ہیں.اور اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ دونوں قسم کے خیالات اپنے اندر سچائی رکھتے ہیں.ہر چیز اپنی ذات میں کچھ نہیں محض اللہ تعالی کے ارادہ اور کن کا انعکاس ہے.اور اس میں بھی کیا شبہ ہے کہ انسان غلطی کرتا ہے چیز کچھ ہوتی ہے اور وہ کچھ سمجھتا ہے.پس سچائی دونوں کے درمیان ہے اور در حقیقت دونوں چیزوں کی صحت سے سچائی پیدا ہوتی ہے.سورج موجود ہے مگر اندھی آنکھ اسے نہیں دیکھ سکتی.پھر بینا آنکھ بے شک اسے دیکھ سکتی ہے مگر تاریکی میں کچھ بھی نظر نہیں آتا.لیکن اس کے یہ معنے نہیں ہو سکتے کہ آنکھ میں دیکھنے کی طاقت نہیں.طاقت تو ضرور ہے مگر بیرونی روشنی کے بغیر اس سے کام نہیں لیا جاسکتا.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہی قانون مقرر فرمایا ہے کہ دو چیزیں مل کر علم پیدا ہوتا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں وہ فرماتا ہے کہ ہم نے ہر چیز کا جوڑا پیدا کیا ہے اے.اسی طرح علم کیلئے بھی جوڑا ہے.باہر کی چیزیں جب دماغ سے ملتی ہے تو علم پیدا ہوتا ہے.علم کیا چیز ہے؟ دراصل بچہ ہے جو انسانی دماغ اور باہر کی چیزوں کے ملنے سے پیدا ہوتا ہے جن لوگوں کے دماغ میں نقص ہو وہ باہر کی چیزوں سے غلط نتائج اختیار کرلیتے ہیں.اور جب باہر کی چیزوں میں ا نقص ہو تو ذہن اس کی تکمیل نہیں کر سکتا اور اس وقت بھی غلط نتیجہ پیدا ہوتا ہے.صحیح نتائج ،
خطبات محمود ۸۹ سال ۱۹۳۳ء وہی لوگ اخذ کر سکتے ہیں جن کے دماغ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تکمیل عطا ہوتی ہے.اور صاف کی جاتی ہے، وہی صحیح طور پر دیکھ سکتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ انبیاء یا ان کے اظلال یعنی اولیاء اللہ جن باتوں کو دیکھیں گے، دوسرے اُنہیں دیکھ نہیں سکتے.چیز موجود ہے ایک کو نظر آتی ہے مگر دوسرے کو نہیں.حضرت خلیفۃ المسیح الاول سنایا کرتے تھے کہ آٹھم کی پیشگوئی کے موقع پر جب مخالفین نے ہنسی ٹھٹھا شروع کردیا اور کہا کہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی.حالانکہ اس میں ایسی شرط تھی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آتھم کو موت سے بچالیا.تو نواب صاحب بہاولپور کی مجلس میں بھی ایک دن اس پر ہنسی کی جارہی تھی.پیر غلام فرید صاحب چاچڑاں والے بھی جو نواب صاحب کے پیر تھے ، وہاں موجود تھے.لوگ ہنسی کرتے رہے اور وہ خاموش بیٹھے رہے.آخر نواب صاحب نے بھی اس میں حصہ لینا شروع کردیا.جب انہوں نے بھی تمسخرانہ انداز میں کوئی بات کہی تو آپ بولے.آپ چونکہ نواب صاحب کے پیر تھے اور یوں بھی مستغنی طبیعت کے آدمی تھے، اس لئے بات کہنے میں مجھجھکتے نہ تھے.آپ نے جوش سے کہا کون کہتا ہے یہ پیشگوئی غلط نکلی.کون کہتا ہے آتھم زندہ ہے وہ مرگیا اور مجھے تو اس کی لاش نظر آتی ہے.غرض یہ نگاہ اور تھی بظاہر وہ زندہ تھا مگر جن لوگوں کی نظر کو اللہ تعالٰی نے تیز کیا تھا، ان کیلئے وہ زندہ نہیں بلکہ مردہ تھا.کئی چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ ایک ظاہر بین جس کی روحانی نظر کمزور ہو اپنی کمزوری کی وجہ سے ان کو نہیں دیکھ سکتا.کیونکہ جب اندر اور باہر دونوں جگہ درستی نہ ہو، نتائج صحیح پیدا نہیں ہو سکتے.پانی میں انگلی ڈال کر دیکھو ٹیڑھی نظر آئے گی.کیونکہ شعائیں جس طرح ہوا میں سفر کرتی ہیں اس طرح پانی میں نہیں کر سکتیں.آنکھ وہی ہے جو اُنگلی کو باہر دیکھتی تھی اور انگلی بھی وہی ہے لیکن پانی میں ڈال کر دیکھو تو ٹیڑھی نظر آئے گی.کے لوگوں نے کئی تماشے بنا رکھے ہیں اور کئی تو انہیں اپنی غلطی سے معجزات سمجھنے لگ جاتے ہیں.تو میں بتا رہا تھا کہ دونوں چیزوں کے صحیح ہونے سے صحیح نتیجہ پیدا ہو سکتا ہے.چیز بھی ٹھیک رکھی ہو اور نظر بھی صحیح طور پر ڈالی جائے پھر نتیجہ صحیح ہوگا.انبیاء جب دنیا میں آتے ہیں تو لوگ خیال کرتے ہیں کہ چند دن کی بات ہے، یہ سلسلہ خود بخود تباہ ہو جائے گا.کیونکہ اپنی نظر کی کمزوری کی وجہ سے وہ اُن آسمانی فرشتوں کو نہیں دیکھ سکتے جو اُن کی تائید کیلئے نازل ہو رہے ہوتے ہیں.بعض لوگوں کی نظر دس گز ہیں گز سے زیادہ دور نہیں دیکھ :
سال ۴۱۹۳۳ ہے.سکتی.پھر بعض سو گز سے آگے نہیں دیکھ سکتے.بعض دو سو گز سے آگے اور بعض میل سے آگے نہیں دیکھ سکتے.اب اگر ایک میل سے زیادہ فاصلہ پر کوئی فوج ہو تو وہ یہی کہیں گے کہ ہماری تباہی کے کوئی سامان نہیں ہو رہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہو رہے ہیں.لیکن ان کی نظر چونکہ کمزور ہے، اس لئے وہ دیکھ نہیں سکتے.تو جب بھی کوئی نبی مبعوث ہوتا ہے.آسمانی سامان چونکہ لوگوں کو نظر نہیں آتے، اس لئے وہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ چند دن کی بات لیکن انبیاء کو چونکہ خاص نظر عطا کی جاتی ہے، وہ دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ ان کی تائید کیلئے آسمان سے فرشتوں کا نزول ہو رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر کرم دین کی طرف سے گورداسپور میں جب مقدمہ چل رہا تھا تو مجسٹریٹ کو آریوں نے ورغلایا کہ مرزا صاحب کو ضرور سزا دے دو.کیونکہ ایسا موقع پھر نہیں ملے گا.اور سزا بھی تھوڑی دینا جس کی اپیل نہ ہو سکے.اور وہ بھی اس کیلئے بالکل تیار تھا.بعض دوستوں کو اس کا ن ہوا تو انہوں نے گھبرا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اس کا ذکر کیا.اور ڈرتے ڈرتے کہا کہ ایسی متوحش خبر سنی ہے اور معتبر ذریعہ سے سنی ہے کیونکہ اس کا راوی ایک معتبر ہندو تھا.بعض ہندوؤں کو بھی راستی سے اُلفت اور پیار ہوتا ہے اگر چہ بظاہر وہ اپنی قوم میں شامل رہتے ہیں.ایسے ہی ایک ہندو نے یہ بات بتائی تھی.وہ دوست سناتے ہیں کہ جس وقت.بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سنائی گئی، آپ چارپائی پر گنی کا سہارا لے کر لیٹے ہوئے تھے اور دوست ارد گرد بیٹھے تھے.یہ بات سن کر آپ بیٹھ گئے اور فرمایا آپ لوگ گھبراتے کیوں ہیں کون ہے جو خدا کے شیر پر ہاتھ ڈال سکے، وہ ایسا کرکے تو دیکھے.اب وہ ایک نگاہ تھی جسے اللہ تعالٰی نے تیز کیا ہوا تھا.وہ دیکھ رہی تھی کہ انجام کیا ہو گا.حالات وہی تھے مگر آپ کو ایک کام چونکہ آسمان پر ہوتا ہوا دکھائی دے رہا تھا، اس لئے آپ بے فکر تھے.لیکن دوسروں کو چونکہ یہ نظر حاصل نہ تھی اور وہ ظاہری حالات کو ہی دیکھ سکتے تھے، اس لئے ان کے اندر گھبراہٹ کا پیدا ہونا لازمی تھا.رسول کریم ﷺ کی زندگی کا بھی ایک اسی قسم کا واقعہ ہے.جب آپ حضرت ابوبکر کے ساتھ غارِ ثور میں گئے تو دشمن اس قدر سر پر آگیا کہ ذرا سرجھکاتا تو دیکھ سکتا تھا.غار ثور ایک اچھی کھلی جگہ ہے اور باہر کھڑے ہو کر اگر دیکھا جائے تو اندر بیٹھا ہوا آدمی صاف نظر آسکتا ہے.دشمن اس غار کے بالکل منہ پر کھڑا تھا اور اتنا قریب کہ اگر ذرا بھی سر جھکائے تو دیکھ لے.اس وقت حضرت ابوبکر کے دل میں
خطبات محمود 91 سال ۶۱۹۳۳ رم گھبراہٹ محسوس ہوئی لیکن اپنی جان کیلئے نہیں بلکہ رسول کریم ﷺ کی جان کیلئے.آپ نے سوچا کہ دشمن سر پر ہے، بظاہر اب پکڑے جانے میں کسی قسم کے شبہ کی گنجائش نہیں ہو سکتی، غار کا منہ کھلا ہے اور ہم بالکل سامنے ہیں.لیکن رسول کریم ﷺ جانتے تھے کہ یہ لوگ خدا تعالی کے تصرف کے ماتحت ہیں.اس لئے آپ نے کہا- لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا - چونکہ رسول کریم ﷺ کی نظر حضرت ابو بکر سے بہت زیادہ دور رس اور تیز تھی، اس لئے وہ ان باتوں کو بھی دیکھ رہے تھے جو حضرت ابو بکر کو نظر نہ آتی تھیں.یوں حضرت ابوبکر کی نظر بھی بہت تیز تھی.ایک دفعہ رسول کریم ﷺ نے ایک خطبہ بیان کیا کہ اب مسلمانوں کیلئے فتوحات کا زمانہ قریب آگیا ہے.یہ سن کر آپ رونے لگ گئے.یہ دیکھ کر کسی نے کہا کہ دیکھو بڑھے کی مت ماری گئی.رسول کریم و فتوحات کی بشارت دیتے ہیں اور یہ رورہا ہے لیکن آپ نے بتایا کہ جب امت کو فتح حاصل ہو جائے تو نبی کا کام ختم ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے اپنے پاس بلا لیتا ہے.تم لوگ فتح پر خوش ہو لیکن مجھے آنحضرت ا کی صحبت میں خوشی ہوتی ہے ہے.اور آپ کا یہ قیافہ صحیح نکلا کیونکہ اس کے کچھ عرصہ بعد ہی رسول کریم و وفات پاگئے.حضرت ابو بکر نے جو کچھ بیان کیا یہ سنت اللہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے پاس بھی ایک شخص نے بیان کیا کہ یہ بات بہت گھبراہٹ ہے کہ احمدیت کی فتح جلد جلد نہیں ہوتی.اور بعض لوگوں نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملادی.لیکن آپ کے چہرہ پر افسردگی کے آثار ظاہر ہو گئے.اور فرمایا.جب فتح آجاتی ہے تو پھر نبی کی ضرورت نہیں رہتی.ابھی جماعت کی تربیت کا کام باقی ہے جب یہ ختم ہو جائے گا تو اللہ تعالی فتوحات کے دروازے بھی کھول دے گا.تو حضرت ابوبکر کی نگاہ بیشک بہت صحیح تھی، اس نے وہ کچھ دیکھا جو اور نہ دیکھ سکتے تھے.مگر رسول کریم ﷺ کی نظری تیزی اس میں بھی نہ تھی اس لئے غار ثور میں آپ کو گھبراہٹ کا ہونا لازمی تھا.- غرض دنیا کے ظاہری حالات حقیقت نہیں ہوتے حتی کہ بعض فلسفی تو انہیں کوئی قیمت ہی نہیں دیتے.گو یہ غلط عقیدہ ہی ہے لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو ایک حد تک صحیح بھی ہے.ظاہر کی سب کیفیتیں قابل اعتبار نہیں ہوتیں.اسی طرح ساری دماغی کیفیتیں بھی صحیح نہیں ہوتیں.دونوں مل کر صحیح ہوتی ہیں.اور اس صحیح چیز کا مقام کسی کو معلوم نہیں ہوتا.سوائے ان لوگوں کے جو اللہ تعالیٰ سے خبر پاتے ہیں.یہ مختلف نظروں کی جنگ کئی بار دنیا میں
خطبات محمود ۹۲ سال ۱۹۳۳ء ہو چکی ہے جب بھی کوئی نبی آیا.اس نے اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ مجھے فتح عطا کرے گا.لیکن اس کے دشمنوں نے کہا کہ یہ چند روز کی بات ہے.یہ اور اس کے ساتھی سب تباہ ہو جائیں گے اب دیکھ لو کس کی نگاہ ٹھیک نکلی.انہی کی صحیح نکلی جنہوں نے خدا سے خبر پاکر اعلان کیا تھا.جنہوں نے اپنی عقلوں سے دیکھا تھا ان کا اندازہ غلط نکلا.لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ اگر ان کی فتح کے پس پردہ اور سامان نہ ہوتے تو دشمنوں کا وہ اندازہ جو انہوں نے ظاہری حالات کو مد نظر رکھ کر کیا تھا ضرور صحیح نکلتا.ظاہری حالات کو دیکھتے ہوئے کون کہہ سکتا ہے کہ حضرت موسیٰ حضرت عیسی اور رسول کریم ﷺ اپنے دشمنوں پر فتح پاسکتے تھے مگر آخر یہی ہوا.اور دنیا نے شکست کھائی.ایسا ہی ایک نظارہ اس وقت ہمیں دکھائی دیتا ہے.ایک انسان جو دنیا کی نظروں میں کمزور تھا.اس نے کہا کہ میں وہ کچھ دیکھتا ہوں جو دوسرے نہیں دیکھ سکتے.اور جو میں دیکھتا ہوں اگر سارے دیکھیں تو ولی اللہ ہو جائیں.وہ نہیں جانتے کہ خدا کی تلوار اُن کی گردنوں پر رکھی ہوئی ہے.اور غیب سے ان کی تباہی کے سامان ہو چکے ہیں.ہاں اگر مجھے قبول کرلیں تو عذاب سے بچ جائیں گے.لیکن اگر مجھے قبول نہیں کریں گے تو ایک دن آئے گا کہ وہ کہیں گے.کاش! ہماری مائیں ہمیں نہ جنتیں.یہ ویسا ہی عظیم الشان دعوئی ہے جیسا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کیا.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کیا.اور محمد رسول اللہ ا نے کیا.اور دنیا نے بھی اس کی تضحیک اور تردید اس طرح کی جس طرح گزشتہ انبیاء کے مخالفوں نے کی تھی.حتی کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے کہا کہ میں نے اسے بڑھایا تھا اور میں ہی اسے نیچے گراؤں گا.لیکن ہوا کیا؟ باوجود اس کے ہر ایک نے اس کی مخالفت کی.مگر اللہ تعالٰی نے جیسا کہ خبر دی تھی زور آور حملوں کے ساتھ اس کی سچائی کو ظاہر کیا.دنیا نے اسے قبول نہ کیا مگر اللہ تعالٰی نے اسے قبول کیا.وہ مخالفوں میں سے ایک ایک کو کھینچ کر لایا اور اس کے جھنڈے تلے کھڑا کر دیا.مجھے حافظ روشن علی صاحب مرحوم کا ایک لطیفہ بہت پسند ہے.اُن سے کسی کا مباحثہ ہوا.اس نے کہا تم لوگ اپنی فتح کا اعلان کرتے پھرتے ہو.یہ تو بتاؤ تم ہو کتنے؟ انہوں نے کہا کہ یہ جواب تو ایسا ہی ہے جیسے مرغابیاں ایک شکاری کو دیں جس کے پاس دو چار مرغابیاں ہوں لیکن وہ نہیں جانتیں کہ وہ جب بھی بندوق چلائے گا ان میں سے اور کئی مار لے گا اور پھر چلائے گا تو اور مارے گا آخر مرغابیاں ہی مرس گی.پس حقیقت میں اللہ تعالی کی طرف سے پیدا شدہ سامانوں کو جولوگ دیکھتے ہیں ان کی ،
خطبات محمود ۹۳ سال ۱۹۳۳ء رائے صحیح نکلتی ہے.اس زمانہ کے مامور کیلئے بھی خدا تعالی کی طرف سے یہی مقدر ہے کہ اس کی جماعت بڑھے.اگر دشمن شور مچاتا ہے تو نوح کے زمانہ میں بھی اس نے یہی کیا تھا.ابراہیم کے زمانہ میں بھی اس نے یہی کیا تھا.موسی ، عیسی اور محمد مصطفی ﷺ کے زمانہ میں بھی اس نے یہی کیا تھا.یہ منہ جو تم دیکھ رہے ہو، یہ نہیں بولتے بلکہ وہی بول رہے ہیں جو پہلے انبیاء کے زمانہ میں تھے.اگر یہ اور ہوتے تو ان کو کیا پتہ تھا کہ پہلے انبیاء کے مخالفین بھی یہی کچھ کہتے رہے ہیں.پس یہ جو تمہارے بھائی، رشتہ دار، محلہ والے اور شہر والے کہتے ہیں، یہ دراصل وہی ہیں جو پہلے انبیاء کے زمانہ میں تھے.یہ اگر اور ہوتے تو ان کو کیا پتہ تھا کہ پہلے انبیاء کے مخالف کیا کہتے تھے.اور بولتا دراصل شیطان ہے.اور قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ صرف ڈراتے ہیں.یہ شیطان کی تخویف ہے جو وہ ہمیشہ کرتا رہا ہے.مگر کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ کبھی خدا کے پہلوان گر گئے ہوں اور شیطان غالب آگیا ہو.ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی آواز ہی اونچی رہی ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان کی بیداری کیلئے دو چیزیں رکھی ہیں.ایک دل کی آواز ہے اور ایک باہر کی.اندر کی بیداری اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے اور باہر کی بیداری کیلئے چونکہ جھنجوڑنا ضروری ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے پیارے کو خود تکلیف نہیں دینا چاہتا، اس لئے یہ اس نے شیطان کے ذمہ رکھی ہے.وہ کالے کتے کو چھوڑ دیتا ہے جو کاٹتا ہے اور انسان جاگ اٹھتا ہے.پس یہ آوازیں جگانے کیلئے ہیں اور یہ بیداری تکلیف کی چیز نہیں کہ ہم اس سے گھبرائیں بلکہ یہ ترقیات کا موجب ہے.اس لئے ان چیزوں سے کبھی مت گھبراؤ یہ آواز اگر اللہ تعالی کی طرف سے ہے تو اس کے نتائج بھی اچھے ہوں گے.جس کے پاس حقیقی علم ہو وہ ان باتوں سے کیسے گھبرا سکتا ہے.ظاہری سامانوں کو تو فلسفی بھی نہیں مانتا جس کی بنیاد ظاہر پر ہے، پھر مذہب اسے کس طرح مان سکتا ہے.جب اس نے ترک کردیا جس کی بنیاد ہی اس پر تھی تو وہ جس کی بنیاد باطن پر ہے، وہ کیسے مان سکتا اسے ہے.پس یاد رکھو کہ سب چیزیں اللہ تعالٰی کے اختیار میں ہیں، وہ جس طرح چاہے ان سے کام لے سکتا ہے.انسان اگر آنکھوں پر سُرخ عینک لگالے تو ہر چیز اسے سرخ نظر آئے گی.اور اگر سبز لگالے تو ہر چیز سبز نظر آئے گی.گویا نظر عینک کا رنگ اختیار کرلیتی ہے.یہی حال دنیا کا ہے اللہ تعالی جو رنگ اسے دینا چاہے وہ اختیار کرلیتی ہے.نظر تو عینک کا رنگ اختیار کرلیتی ہے
خطبات محمود ۹۴ سال ۱۹۳۳ء مگر اللہ تعالی کی عینک دنیا کو اپنے رنگ میں رنگین کر دیتی ہے.وہ کہتا ہے زرد ہو جا اور وہ زرد ہو جاتی ہے.وہاں تو صرف انعکاس کی ضرورت ہے.پس ہمارے لئے گھبراہٹ کی کوئی بات نہیں.ایک چیز ہے جو مقدر ہے.اور ان مقدرات سے ہے جن میں تبدیلی نہیں ہو سکتی.جیسا که فرمايا لا تَبْدِيلَ لِكَلِمت اللہ سے جس طرح ماں کے پیٹ کے بچہ کیلئے ضروری ہے کہ وہ انسان بنے خواہ چھوٹا یا بڑا بہر حال وہ انسانیت کے رستے پر چلے گا.اگر وہ ضائع بھی ہو جائے تب بھی انسانیت کے رستہ پر ہی ہو گا.اس کیلئے ایک رستہ مقرر ہے جس میں کوئی ردو بدل نہیں سکتا.اسی طرح ہمارے لئے مقدر ہے کہ بہر حال اللہ تعالٰی کے مسیح کے ماننے والے غالب آئیں گے.اس لئے یہ تو سوال ہی زیر بحث نہیں آسکتا کہ ہم جیتیں گے یا ہمارے مخالف، فتح اور جیت ہمارے لئے مقدر ہو چکی ہے.سوال صرف یہ ہے کہ زید کے ہاتھ سے ہوگی یا بکر کے ہاتھ سے.ہماری جدوجہد یہ ہے کہ ٹوٹ میں سے زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کر سکیں.ہماری آپس کی کوشش ہے کہ ہر ایک دوسرے سے زیادہ حصہ ٹوٹ میں سے لینا چاہتا ہے اور جو جتنا سچائی اور اخلاص کے ساتھ خدمت کرے گا اور صحیح تو کل پر قائم ہو گا، اسی کے مطابق وہ حصہ پائے گا.پس ہمارے سامنے یہ سوال نہیں کہ ہم جیتیں گے یا ہمارے مخالف بلکہ ہے کہ دشمن کی ہار سے زیادہ انعام کس کے حصہ میں آئیں گے.پس حقیقت میں ہماری لڑائی غیر سے نہیں بلکہ آپس میں مقابلہ ہے.یہ سوال نہیں کہ ثناء اللہ جیتے گا یا احمدی بلکہ یہ ہے کہ گجرات کی جماعت زیادہ حصہ حاصل کرے گی یا سیالکوٹ کی.اللہ تعالی نے ہمارے لئے فتح مقدر کردی ہے.لیکن اس میں سے حصہ پانے کا معاملہ ہم پر چھوڑ دیا ہے کہ یہ باہم طے کرلو.اگر کسی کو اس کے متعلق کوئی وسوسہ ہے تو اسے سمجھ لینا چاہیئے کہ اس کی نظر کمزور ہے.ایک اندھا دوسرے سے راہنمائی حاصل کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک رستہ بتایا لیکن اس میں اسے شبہ ہے.اور اگر ہمارے اندر حوادث ہے گھبراہٹ پیدا ہوتی ہے تو اس کے یہ معنے ہیں کہ ایک بینا سے ہم نے راستہ نہیں پایا.پس ہماری جماعت کو اپنے اندر ایمان پیدا کرنا چاہیے اور ایسی نظر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ ہم ان چیزوں کو دیکھ سکیں.جن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دیکھا.اور اگر ان کو دیکھ لیں تو پھر کوئی گھبراہٹ ہمارے لئے باقی نہیں رہ سکتی.بچوں والے گھر میں انسان روز دیکھتا ہے کہ ماں ادھر اُدھر کام میں لگی ہوتی ہے.بچہ سوتے ہوئے اُٹھتا ہے اور رونے لگ جاتا ہے.لیکن..
خطبات محمود ۹۵ سال ۱۹۳۳ء ماں جب کہتی ہے کہ میں پاس ہی ہوں تو وہ چُپ ہو جاتا ہے.اسی طرح بعض لوگوں کو فتح نظر نہیں آتی اور وہ گھبرا کر روتے ہیں کہ اب کیا ہو گا.لیکن آسمان کے فرشتے کہتے ہیں کہ فتح قریب ہے تو تسلی ہو جاتی ہے.اور یوں بھی دیکھو، دنیا میں کون ہے جو خداتعالی کے کام میں رُکاوٹ پیدا کر سکے.کیا کوئی ایسی ہستی ہے؟ اگر نہیں اور یقیناً نہیں اور پھر خدا نے ایک فیصلہ کر دیا ہے تو اس میں شبہ کی کیا گنجائش ہو سکتی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس کے وعدوں پر یقین رکھیں.اور وہ بینائی عطا کرنے کہ جو کچھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور خدا کے دوسرے مقربین نے دیکھا وہ سارے دیکھ سکیں.اور ہم میں سے کوئی ایسا نہ ہو جس کے دل میں کرب اور گھبراہٹ ہو کیونکہ یہ بیماری ہے جو قلتِ نظر کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے.الذريت: ۵۰ الفضل ۲۰ - اپریل ۱۹۳۳ء) التوبة : ۴۰ + شرح مواهب اللدنية الجزء الثاني صفحه ۱۲۲ ۱۲۳ دار الكتب العلمية بيروت لبنان ١٩٩٦ء کے بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی ا باب قول النبي سدوا الابواب الا باب ابي بكر ه یونس: ۶۵
خطبات محمود ۹۶ ۱۲ خلیفہ وقت کی مجلس میں بیٹھنے والوں کیلئے چند ضروری آداب (فرموده ۲۱ - اپریل ۱۹۳۳ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- چونکہ ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے روز بروز بڑھ رہی ہے اور نئے اور پرانے ہر قسم کے دوست قادیان میں آتے رہتے ہیں، یہاں کے باشندوں کی تعداد بھی اب اتنی ہو چکی ہے کہ وہ اس بات کے محتاج ہیں کہ وقتاً فوقتاً ان کی تربیت کا خیال رکھا جائے.کیونکہ انہیں دینی کتب کے پڑھنے، دینی باتیں سننے اور دینی تربیت حاصل کرنے کا بوجہ کثرت آبادی اتنا موقع نہیں ملتا جتنا پہلے ملا کرتا تھا، اس لئے آج کا خطبہ میں اس امر کے متعلق پڑھنا چاہتا ہوں کہ جو دوست اُس مجلس میں شامل ہوتے ہیں جس میں میں موجود ہوتا ہوں، ان کو کیا طریق عمل اختیار کرنا چاہیے.پہلی بات جو ہمارے دوستوں کو مد نظر رکھنی چاہیے یہ ہے کہ مجھے سے ملنے والے نہ صرف احمدی ہوتے ہیں بلکہ غیر احمدی ، ہندو، سکھ اور عیسائی ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں.پھر احمدیوں میں سے نئے بھی ہوتے ہیں اور پرانے بھی.سمجھدار طبقہ کے بھی ہوتے ہیں اور کم سمجھ کے بھی.واقف بھی ہوتے ہیں اور ناواقف بھی.ایسے لوگوں کی کبھی علمی رنگ کی ہوتی ہیں اور کبھی کج بحثی والی، کبھی ان میں تحقیق حق مد نظر ہوتی ہے اور کبھی محض چھیڑ خوانی مقصد ہوتا ہے.مگر خواہ کوئی بھی مقصد و مدعا ہو، دو باتیں ہیں جو ہماری جماعت کے ان لوگوں کو جو اس مجلس میں موجود ہوں مد نظر رکھنی چاہئیں.اور جو مجھے افسوس ہے کہ بعض اوقات دوستوں کے مد نظر نہیں رہتیں.گفتگو میں
خطبات محمود..96 سال ۱۹۳۳ء اول تو یہ کہ جب کوئی کلام امام کی موجودگی میں کرتا ہے اور امام کو مخاطب کرکے کرتا ہے تو دوسروں کا حق نہیں ہوتا کہ وہ خود اس میں دخل دیں اور مخاطب کو خود اپنی طرف مخاطب کر کے اس سے گفتگو شروع کردیں.علاوہ اس کے کہ یہ عام آداب کے خلاف ہے دشمن کو یہ کہنے کا موقع ملتا ہے کہ امام خود جواب نہیں دے سکتا اور اس کے معتقدین کو ضرورت پیش آتی ہے کہ اس کے حملہ کو اپنے اوپر لے لیں.چنانچہ ایک دوست کی ایسی ہی سادگی کی وجہ سے ایک دفعہ مجھے یہ بات بھی سننی پڑی.کوئی صاحب اعتراض کر رہے تھے کہ ایک جوشیلے احمدی بول اُٹھے یہ بات تو بالکل صاف ہے، اس کا تو یہ مطلب ہے.آخر سوال کرنے والے نے چڑ کر کہا میں تو آپ کے امام سے مخاطب ہوں.اگر وہ جواب نہیں دے سکتے تو میں آپ سے گفتگو شروع کر دیتا ہوں.یہ فقرہ اُس دوست نے اپنی سادگی یا بیوقوفی کی وجہ سے کہلوایا.کیونکہ عام آداب کے یہ خلاف ہے کہ کسی کی گفتگو میں دخل دیا جائے.یہ محض اعصابی کمزوری کی علامت ہوتی ہے.اور اس کے اتنے ہی معنے ہوتے ہیں کہ ایسا شخص اپنے جذبات کو دبا نہیں سکتا.ایسی دخل اندازی اس کے علم پر دلالت نہیں کرتی بلکہ اس کی کمزوری اور کم فہمی پر دلالت کرتی ہے.پس ہمیشہ اس امر کو مد نظر رکھنا چاہیے کہ جب امام کی مجلس میں امام سے گفتگو ہو رہی ہو تو سب کو خاموش ہو کر سامع کی حیثیت اختیار کرنی چاہیئے.اور کبھی اس میں دخل اندازی کر کے خود حصہ نہیں لینا چاہیے سوائے اس صورت کے کہ خود امام کی طرف سے کسی کو کلام کرنے کی ہدایت کی جائے.مثلاً بعض دفعہ کوئی ضروری کام آپڑتا ہے، اس کیلئے مخاطب کرنا پڑتا ہے یا بعض دفعہ قرآن کی کسی آیت کی تلاش کیلئے اگر کوئی حافظ قرآن ہوں تو ان سے آیت کا حوالہ پوچھنا پڑتا ہے.یا ہو سکتا ہے کہ کسی کو عیسائیت کی کتب کے حوالہ جات بہت سے یاد ہوں اور ضرورت پر اس سے کلام کرنی پڑے.ایسی حالتوں میں سامعین میں سے بھی بعض شخص بول سکتے ہیں مگر عام حالات میں دخل اندازی بالکل نا واجب ہوتی ہے.ہماری شریعت نے ان تمام باتوں کا لحاظ رکھا ہے چنانچہ خطبوں کے متعلق بھی رسول کریم اللہ نے تاکید فرمائی ہے کہ اس دوران کلام نہیں کرنی چاہیے اے.غرض جب امام سے گفتگو ہو رہی ہو تو اس میں دخل نہیں دینا چاہیے کیونکہ اس طرح یا تو بات ناقص اور ادھوری رہ جائے گی اور یا دشمن پر یہ اثر پڑے گا کہ شاید امام اس کا جواب نہیں دے سکتا اور معتقدین نے گھبرا کر اس حملہ کو اپنی طرف منتقل کرلیا ہے پس ایک تو اس امر کا لحاظ
خطبات محمود رکھنا چاہیے.سال ۱۹۳۳ء ہے دوسرے اس امر کو مد نظر رکھنا چاہیئے کہ مخاطب اور مخاطب کا ایک تعلق ہوتا ہے.وہ آپس میں بعض دفعہ بعض مجبوریوں کی وجہ سے ایک رنگ کی شدت کا پہلو بھی اختیار کرلیتے ہیں یا اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں.ایسے موقع پر سامعین کو اپنے جذبات پر قابو رکھنا چاہیئے اور دوسرے کی گفتگو پر ہنسنا نہیں چاہیے.کیونکہ گفتگو کا اصل مطلب تو یہ ہوتا ہے کہ اس شخص کو ہدایت حاصل ہو.لیکن اگر گفتگو کے ضمن میں ایسا رنگ پیدا ہو جائے جس سے اس کے دل میں تعصب پیدا ہو جانے کا خطرہ ہو، تو وہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا.میں نے دیکھا ہے نوجوان اور خصوصاً طالب علم، اگر بعض دفعہ کوئی ایسا جواب دیا جا رہا ہو جو دوسرے کے کسی نقص کو نمایاں کرنے والا ہو، تو ہنس پڑتے ہیں.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سائل سمجھتا مجھے لوگوں کی نگاہ میں بیوقوف بنایا گیا.اور اُن کے ہنس پڑنے سے وہ خیال کرتا ہے کہ اس گفتگو کا مقصد مجھ پر ہنسی اُڑانا ہے، بات سمجھانا مد نظر نہیں.اس وجہ سے اس کے اندر نفسانیت کا جذبہ پیدا ہو جاتا اور حق کے قبول کرنے سے وہ محروم رہ جاتا ہے.پس جو لوگ ایسے موقع پر جبکہ امام کسی کو ہدایت دینے کی فکر میں ہوتا ہے، ہنس پڑتے ہیں وہ دراصل اس کی شخص کو ہدایت.سے محروم کرنے کی فکر میں ہوتے ہیں.ان کے نزدیک ہنسی ایک معمولی چیز ہوتی ہے مگر جس پر ہنسی اُڑائی جاتی ہے، اس کے نزدیک خطرناک حملہ ہوتا ہے.پس دوستوں کو چاہیے کہ اگر دورانِ گفتگو میں کوئی ایسا جواب دیا جائے جس سے ہنسی آسکتی ہو یا دوسرے کی کسی کمی کو نمایاں کر کے دکھایا جائے تو وہ اپنے جذبات کو دبائے رکھیں.جواب دینے والا تو مجبور ہے کہ وہ ایسے نمایاں طور پر کسی کا نقص بیان کرے کہ اُسے اپنی غلطی کا احساس و جائے مگر ہنسنے والا اس مقصد پر پردہ ڈال دیتا اور سائل یہ سمجھنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ان کا مقصد مجھے غلطی بتانا نہیں بلکہ بیوقوف بنانا ہے.رسول کریم ﷺ کے صحابہ کے متعلق ایک حدیث آتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ رسول کریم ﷺ کی مجلس میں بیٹھتے تو یوں معلوم ہوتا کہ ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں ہے.اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ سوالات نہیں کرتے تھے.ان سے زیادہ سوال کرنے والا ہمیں کوئی نظر نہیں آتا.حدیثیں ان کے سوالات سے بھری پڑی ہیں.بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ جب رسول کریم کلام کر رہے ہوتے تو وہ ہمہ تن گوش ہو جاتے.اور یوں معلوم ہوتا کہ گویا ان کے سروں پر
خطبات محمود ٩٩ سال ۱۹۳۳ء ނ پرندے بیٹھے ہیں اگر انہوں نے ذرا حرکت کی تو پرندے اُڑ جائیں گے.تیسری چیز جس کو مد نظر رکھنا ضروری ہے یہ ہے کہ جو لوگ چند دنوں کیلئے عارضی طور پر باہر سے یہاں آتے ہیں ان کو آگے بیٹھنے کا زیادہ موقع دینا چاہیے.میں ان لوگوں میں نہیں ہوں جو یہ سمجھتے ہیں کہ قادیان کے لوگ آگے نہ بیٹھا کریں بلکہ ان کے ایک حصہ کا آگے بیٹھنا ضروری ہوتا ہے.اور دوسرے حصہ میں سے اگر کوئی شخص کوشش کر کے آگے بیٹھتا اور اس طرح اپنے حق کو مقدم کرلیتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اسے اس حق سے محروم کیا جائے.میں سمجھتا ہوں اگر کسی کو متواتر آگے بیٹھنے کا موقع ملتا رہے تو آخر میں وہ ست ہو جاتا ہے.لیکن اگر کوئی شخص متواتر آگے بیٹھنے کے باوجود سُست نہیں ہوتا اور وہ ہمیشہ کوشش کر کے آگے جگہ حاصل کرتا ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ محض اس وجہ سے کہ وہ ہمیشہ آگے بیٹھا کرتا ہے، اُس کی محبت کو مسل دیا جائے اور اس کے جذبہ اخلاص کی قدر نہ کی جائے.پس ہم ایسے لوگوں کی محبت کی قدر کئے بغیر نہیں رہ سکتے.رسول کریم ﷺ کے زمانہ کا واقعہ ہے غرباء آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا یا رسول اللہ ! ہمیں ایک بڑی مشکل نظر آتی ہے.جب ہم جہاد کیلئے جاتے ہیں تو امراء بھی جہاد کیلئے چل پڑتے ہیں.جب روزوں کا وقت آتا ہے تو ہمارے ساتھ یہ بھی روزوں میں شریک ہو جاتے ہیں.جب نمازیں پڑھتے ہیں تو یہ بھی اخلاص سے نمازیں پڑھتے ہیں.مگر یا رسول اللہ ! جب چندہ دینے کا وقت آتا ہے تو ہم کچھ نہیں دے سکتے اور یہ ہم سے آگے نکل جاتے ہیں.اس وجہ سے ہمیں بڑی تکلیف ہے.اور ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ مال کی وجہ سے انہیں جو فوقیت حاصل ہے، اس کا ہم کیا جواب دیں.رسول کریم ﷺ نے فرمایا اس کا جواب یہ ہے کہ کہ ہر نماز کے بعد تینتیس تینتیس وقع سُبْحَانَ اللهِ، اَلْحَمْدُ لِلَّهِ اور چونتیس دفعہ اللہ اکبر پڑھ لیا کرو.یہ سو دفعہ ذکر الہی ہو جائے گا اور بڑے ثواب کا موجب ہوگا.انہوں نے بڑے شوق سے اس پر به عمل شروع کر دیا.مگر چونکہ صحابہ میں سے ہر شخص نیکی کے حصول کیلئے کوشاں رہتا تھا.امراء کا کوئی ایجنٹ بھی وہاں موجود تھا.اس نے اُنہیں جا کر بتا دیا کہ رسول کریم ﷺ نے یہ ذکر بتایا ہے اور انہوں نے بھی پڑھنا شروع کر دیا.کچھ دنوں بعد پھر غرباء رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ تو امراء نے بھی پڑھنا شروع کر دیا.آپ نے فرمایا پر اپنا فضل نازل کرنا شروع کردے تو میں اسے کس طرح روک دوں سے جب خدا
خطبات محمود.سال ۶۱۹۳۳ باوجود اس کے کہ دولت انسان کو اعمال میں ست کر دیتی ہے اگر وہ ست نہیں ہوتے، بلکہ تقویٰ اور اخلاص میں بڑھ رہے ہیں تو میں انہیں نیکی سے کس طرح محروم کر سکتا ہوں.اسی طرح باوجود اس کے کہ متواتر صحبت انسان کو ست کر دیتی ہے اگر کوئی شخص اپنے اخلاص میں ترقی ہی کرتا چلا جاتا ہے تو کون ایسے شخص کو محروم کر سکتا ہے.پس میرا یہ منشاء نہیں کہ قادیان کے وہ مخلصین جو اپنے اوقات اور کاموں کا حرج کر کے اس مسجد میں نماز پڑھنے آتے ہیں جس کے متعلق اللہ تعالی نے برکات کے وعدے کئے ہیں اور پھر اپنے امام کی مجلس میں حاضر ہوتے ہیں، انہیں محروم کر دیا جائے.بلکہ میرا منشاء صرف یہ ہے کہ باہر سے آنے والوں کے حق کو نظر انداز نہ کیا جائے.اور اگر کبھی قادیان کے مخلصین باری باری اپنا حق بھی چھوڑ کر باہر کے لوگوں کو آگے بیٹھنے کا موقع دے دیا کریں تو میرے نزدیک یہ ان کیلئے ثواب کا موجب ہوگا.پھر ایک اور چیز بھی ہے جس سے یہ موقع نکالا جاسکتا ہے.بچوں کے متعلق رسول کریم ﷺ کا یہ حکم ہے کہ وہ پیچھے رہیں ہے.اس لحاظ سے سکولوں کے طالب علم جو چھوٹی عمر کے ہوں.اگر بعض دفعہ باہر سے آنے والے دوستوں کیلئے ان کو پیچھے بٹھا کر موقع نکالا جائے تو یہ بھی ایک طریق ہے جس سے فائدہ اُٹھایا، جاسکتا ہے.مگر بچوں کے پیچھے بٹھانے کا بھی میں یہ مطلب نہیں سمجھتا کہ ان کے اندر اخلاص کا جو جذبہ پیدا ہو رہا ہے اسے کچل دیا جائے.پچھلے دنوں یہ طریق نکالا گیا تھا کہ میرے آنے پر چونکہ ہجوم زیادہ ہو جاتا ہے، اس لئے قطار باندھ کر مصافحہ کیا جائے اور کسی کو آگے بڑھنے نہ دیا جائے.میں نے مستقل طور پر اسے کبھی پسند نہیں کیا کیونکہ جب جذبات کو دبادیا جائے تو آہستہ آہستہ مُردنی پیدا ہو جاتی ہے.بچوں میں بھی اگر خلوص کے جذبات پیدا ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم انہیں دبا دیں.مگر یہ ایک ذریعہ ہے جس سے ہم دوسروں کیلئے موقع پیدا کرسکتے ہیں.بچے اور رنگ میں بھی فائدہ حاصل کر سکتے ہیں اور بوجہ قادیان میں مستقل رہنے کے ان کیلئے اور مواقع پیدا ہو سکتے ہیں.پس اگر باہر سے آنے والے لوگوں کیلئے رسول کریم ﷺ کے ایک ارشاد کے ماتحت بچوں کو پیچھے رکھا جائے.جبکہ اور موقعوں پر بھی وہ فائدہ اُٹھا سکتے ہیں تو اس سے ان کے جذبات کو ٹھیس لگنے کا احتمال نہیں ہو سکتا.مو پھر ایک اور ہدایت اس موقع کے متعلق میں یہ دینا چاہتا ہوں کہ اسلام نے اجتماع کے وقعوں پر حفظان صحت کا خصوصیت سے خیال رکھا ہے.مجھے افسوس ہے کہ ابھی تک ہماری
سال ۱۹۳۳ء خطبات محمود جماعت نے اس طرف پوری توجہ نہیں کی.حفظانِ صحت کا خیال نہ صرف اپنی ذات کیلئے مفید ہوتا ہے بلکہ دوسروں پر بھی اس کا اچھا اثر پڑتا ہے.بعض لوگ مضبوط ہوتے ہیں اور کئی قسم کی بدعنوانیاں کرنے کے باوجود ان کی صحت میں نمایاں خرابی پیدا نہیں ہوتی.جس سے وہ خیال کرتے ہیں کہ چونکہ ان پر کوئی بُرا اثر نہیں پڑا اس لئے دوسروں پر بھی کوئی خراب اثر ان کی وجہ سے پیدا نہیں ہو سکتا.حالانکہ دنیا میں سینکڑوں نہیں ہزاروں آدمی ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے اندر بیماریوں کے اثرات موجود ہوتے ہیں.اور اپنی قوت کی وجہ سے وہ ان کا اثر محسوس نہیں کرتے مگر ان سے ملنے والے ان کے اثرات سے متاثر ہو جاتے ہیں.یہی وجہ.ہے محض ہے رسول کریم ﷺ نے جمعہ اور عیدین کے موقع پر فرمایا کہ نہا کر آؤ اچھے کپڑے پہن کر آؤ خوشبو استعمال کرو اور ان امور کی تاکید کی ہے.آپ خود ہمیشہ غسل کرتے اور دوسروں کو غسل کرنے کی تاکید فرماتے.خوشبو استعمال کرتے اور دوسروں کو خوشبو لگانے کی تاکید کرتے.حالانکہ جمعہ یا عیدین کے ساتھ غسل کی کوئی خصوصیت نہیں.ہر وقت انسان غسل کر سکتا اور ہر وقت خوشبو استعمال کر سکتا ہے.جمعہ اور عیدین کے ساتھ غسل جو رکھا گیا ہے وہ اس لئے کہ ان موقعوں پر جبکہ اژدہام ہوتا ہے کئی لوگوں کو جلدی بیماریاں ہوتی ہیں، بعضوں کو کھجلی ہوتی ہے، بعضوں کو بغل گند کی شکایت ہوتی ہے، بعضوں کے ہاتھ یا منہ وغیرہ میں بیماری ہوتی ہے، مگر تازہ بتازہ غسل کے ساتھ کچھ عرصہ کیلئے اس قسم کی بیماریاں دب جاتی ہیں.اور پاس بیٹھنے والے اتنی تکلیف محسوس نہیں کرتے جتنی دوسری صورت میں کرسکتے ہیں.یا مثلاً رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ مسجد میں گندنان ، پیاز اور لہسن وغیرہ ایسی چیزیں کھا کر مت آیا کرو.یہ چیزیں اپنی ذات میں مضر نہیں لیکن ان کی بو سے دوسروں کو تکلیف ہوتی ہے.اور رسول کریم ﷺ نے فرمایا ان کے کھانے سے فرشتے نہیں آتے ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ جب کوئی شخص اپنے بھائی کو تکلیف دیتا ہے تو خدا تعالیٰ کے ملائکہ اس سے الگ ہو جاتے ہیں.یہ ایک مثال ہے جو رسول کریم ﷺ نے دی.ورنہ اگر کسی کو کوئی ایسی بیماری ہے جس سے بُو پیدا ہوتی ہے اور وہ اس کا وقتی علاج کرکے بھی مجلس میں نہیں آتا تو وہ بھی فرشتوں کی معیت سے محروم رہتا ہے.عام طور پر میں دیکھتا ہوں ہمارے ملک میں پچانوے فیصدی لوگوں کے منہ سے بدبو آتی ہے.یہ بدبو کسی بیماری کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ محض اس بے احتیاطی کی وجہ سے ہوتی ہے کہ وہ کھانے کے بعد گلی نہیں کرتے.یہ
خطبات محمود ١٠٢ سیال ۱۹۳۳ء رمیانی وقفوں میں اگر مٹھائی یا کوئی میوہ وغیرہ کھاتے ہیں تو اس کے بعد منہ کی صفائی نہیں کرتے.یا لمبے عرصہ تک خاموش رہنے اور منہ بند رکھنے کے بعد بھی منہ میں بدبو پیدا ہو جاتی ہے.ایسے لوگ بھی صفائی کی طرف توجہ نہیں کرتے.اور جب مجلس میں ایسے لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے تو ہر ایک کی تھوڑی تھوڑی بُو مل کر ایسی تکلیف وہ چیز بن جاتی ہے کہ بیسیوں کمزور صحت والوں کو سردرد، نزلہ اور کھانسی وغیرہ کی شکایت ہو جاتی ہے.- اسلام نے ہمارے لئے ہر بات کے متعلق احکام رکھے ہیں.یہ احکام بیکار اور فضول نہیں بلکہ نہایت ضروری ہیں.اور انہی چھوٹی چھوٹی چیزوں کے مجموعہ کا نام اسلامی تمدن ہے.اسلامی تمدن نماز کا نام نہیں، روزے کا نام نہیں، زکوۃ کا نام نہیں بلکہ ان چھوٹے چھوٹے احکام کے مجموعہ کا نام ہے جو ایسا تغیر پیدا کر دیتے ہیں کہ اس کی وجہ سے وہ سوسائٹی دوسری سوسائیٹیوں سے نمایاں اور ممتاز نظر آتی ہے.یورپین لوگ یوں تو صفائی کے بڑے پابند ہیں.مگر کھانا کھانے کے بعد منہ کی صفائی کرنے کے وہ بھی عادی نہیں.اور اس وجہ سے اگر ان کے اُن پوڈروں اور بوڈی کلون وغیرہ خوشبوؤں کو نکال دیا جائے جو وہ اپنے چہروں پر ملتے ہیں تو صاف طور پر ان کے منہ سے بدبو محسوس ہوتی ہے.اب چونکہ انہیں ہندوستانیوں سے ملنے کا وقع ملا ہے، اس لئے آہستہ آہستہ ان میں یہ احساس پیدا ہو رہا ہے اور مجھے بھی بعض انگریزوں سے ملنے کا موقع ملا ہے میں نے دیکھا ہے کہ اب مسلمانوں سے مل کر وہ صفائی کے اس پہلو کو بھی سیکھ رہے ہیں.غرض مجلس میں آنے والوں کو یہ امور مد نظر رکھنے چاہئیں اگر کسی شخص کو بغل گند ہو یا اُس کے ہاتھوں کی انگلیاں خراب ہوں اور ان میں ایسی بُو ہو جو دوسروں کو ناگوار گزرے تو اسے چاہیے کہ وہ ایسی صفائی کے بعد مجلس میں آئے جس سے اس کے اثر کو کم سے کم معتر بنایا جاسکے.یوں تو اللہ تعالیٰ نے ہر مرض کا علاج پیدا کیا ہے لیکن اگر کسی کو علاج میسر نہیں آتا تو وہ عارضی صفائی کے بعد مجلس میں آیا کرے.پھر مجلس میں ان چیزوں کے بعد ایک اور چیز کی بھی ضرورت ہوتی ہے.میں نے دیکھا ہے کہ جب لوگ بیٹھتے ہیں تو ایسا تنگ حلقہ بناتے ہیں کہ اس میں سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے.کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ مجلس میں زیادہ دیر بیٹھنے کو میرا جی چاہا مگر تنگ حلقہ کی وجہ سے تھوڑی ہی دیر میں مجھے سردرد ہو گیا اور میں اُٹھنے پر مجبور ہو گیا.اور بسا اوقات میں صحت کے ساتھ مجلس میں بیٹھتا ہوں اور بیمار ہو کر اُٹھتا ہوں.ہر شخص اپنے اخلاص میں یہ خیال کرتا ہے کہ اگر میں ایک انچ
سال ۱۹۳۳ء خطبات محمود ۱۰۳ آگے بڑھ گیا تو کیا نقصان ہے.اور اس طرح ہر شخص کے ایک ایک انچ بڑھنے سے وہی مثال ہو جاتی ہے.جیسے کہتے ہیں کہ ایک شخص کو وہم کی بیماری تھی.وہ جب باجماعت نماز میں کھڑا ہوتا تو کہتا ” چار رکعت نماز فرض پیچھے اس امام کے" اور پھر خیال کرتا کہ امام اور میرے درمیان تو کئی صفیں ہیں، نیت ٹھیک نہیں ہوئی.یہ خیال کرکے وہ بڑھتے بڑھتے پہلی صف میں آجاتا.اور امام کی طرف اشارہ کر کے کہتا پیچھے اس امام کے.آخر اس طرح بھی اس کی تسلی نہ ہوتی تو وہ امام کو ہاتھ لگا کر کہتا پیچھے اس امام کے.پھر بڑھتے بڑھتے اس کے وہم کی یہاں تک کیفیت ہو جاتی کہ وہ امام کو دھکے دینے لگ جاتا اور کہتا جاتا پیچھے اس امام کے.ہر شخص مجلس میں آگے آنا چاہتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ میرے ذرا سا آگے بڑھنے سے کیا نقصان ہو جائے گا.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حلقہ نہایت ہی تنگ ہو جاتا ہے اور صحت پر اس کا بُرا اثر پڑتا ہے.مگر علاوہ اس کے کہ صحت کیلئے یہ مفید بات نہیں اس کا نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ زیادہ آدمی اس حلقہ سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے.مجھے ایسے حلقہ میں سخت تکلیف ہوتی ہے کیونکہ مجھے گلے اور آنکھوں کی ہمیشہ تکلیف رہتی ہے.پھر یہ حلقہ تو بڑی بات ہے میری تو یہ حالت ہے کہ اگر لیمپ کی بیتی خفیف سی بھی اونچی رہے اور اس سے ایسا دھواں نکلے جو نظر بھی نہ آسکتا ہو، تو مجھے شدید ر کھانسی اور نزلہ ہو جاتا ہے.ناک کی جس اللہ تعالی نے میری ایسی تیز بنائی ہے کہ میں دوسرے لوگوں کی نسبت کئی گئے زیادہ ہو یا خوشبو محسوس کرلیتا ہوں.یہاں تک کہ جانوروں کے دودھ سے پہچان لیتا ہوں کہ انہوں نے کیا چارہ کھایا ہے.جس شخص کے ناک کی حسّ اتنی شدید واقع ہو وہ اس قسم کی باتوں سے بہت زیادہ تکلیف محسوس کرتا ہے.ایک اور ادب مجلس کا یہ مد نظر رکھنا چاہیئے کہ جہاں تک ہو سکے مجلس کو مفید بنانا چاہیئے.اور خصوصاً جو باہر سے دوست آئیں اُنہیں چاہیے کہ اپنی مشکلات پیش کر کے میرے خیالات کرنے کی کوشش کیا کریں.بہت لوگ خیال کرتے ہیں کہ شاید یہ بے ادبی ہے مگر میں معلومی ہے انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ یہ بے ادبی نہیں بلکہ مجلس کو مفید بنانا ہے.میں نے دیکھا بسا اوقات مجلس میں دوست خاموش بیٹھے رہتے ہیں اور میں بھی خاموش بیٹھا رہتا ہوں.میری اپنی طبیعت ایسی ہے کہ میں گفتگو شروع نہیں کر سکتا.اس مقام کے لحاظ سے جو اللہ تعالٰی نے مجھے عطا فرمایا ہے میں کوشش کرتا ہوں کہ بولوں مگر طبیعت کی افتاد ایسی ہے کہ کوشش کے باوجود میں کلام شروع نہیں کر سکتا.اور جب کوئی شخص سوال کرے تبھی میرے لئے گفتگو کا
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء راستہ کھلتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں جو دوست باہر سے آیا کرتے تھے، وہ مشکل مسائل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پوچھا کرتے اور اس طرح گفتگو کا موقع ملتا رہتا تھا.اور بعض دوست تو عادتاً بھی کر لیا کرتے اور جب بھی وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی مجلس میں بیٹھتے کوئی نہ کوئی سوال پیش کر دیا کرتے.مجھے ان میں سے دو شخص جو اس کام کو خصوصیت سے کیا کرتے تھے اچھی طرح یاد ہیں.ایک میاں معراج دین صاحب عمر جو آج کل قادیان میں ہی رہتے ہیں اور دوسرے میاں رجب الدین صاحب جو خواجہ کمال الدین صاحب کے خسر تھے.مجھے یاد ہے مجلس میں بیٹھتے ہی یہ سوال کر دیا کرتے کہ حضور فلاں مسئلہ کس طرح ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس مسئلہ پر تقریر شروع فرما دیتے.تو جو دوست باہر سے آتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اپنے مطالب پیش کرنے کے علاوہ مشکل مسائل دریافت کیا کریں تاکہ مجلس زیادہ سے زیادہ مفید ہو اور ان کے علاوہ دوسروں کو بھی فائدہ پہنچے.میں نے بتایا ہے کہ اول تو میری عادت ہے کہ میں گفتگو شروع نہیں کر سکتا.لیکن اگر میں کبھی نفس پر زور دے کر گفتگو شروع بھی کردوں تو بھی مجھے کیا معلوم ہو سکتا ہے کہ کسی کو کیا مشکلات درپیش ہیں.گو ایسا بھی ہوتا ہے کہ بسا اوقات اللہ تعالیٰ القاء اور الہام کے ذریعہ زبان پر ایسی گفتگو جاری کر دیتا ہے کہ جو اس وقت کی مجلس کے مطابق ہو.مگر پھر بھی کئی خیالات ایسے ہو سکتے ہیں جن کے متعلق کوئی شخص چاہتا ہو کہ وہ مجھ سے ہدایت لے لیکن سوال نہ کرنے کی وجہ سے وہ اس سے محروم رہے.پس باہر سے آنے والوں کو چاہیے کہ وہ اس تبلیغی زمانہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایسے سوالات پوچھا کریں جن کے جوابات سے عام لوگوں کو فائدہ پہنچے.مگر ایک چیز ہے جس کا خیال رکھنا چاہیئے اور وہ یہ کہ بعض لوگ سوال تو کرتے ہیں مگر ان کی غرض یہ نہیں ہوتی کہ مجھ سے کچھ سنیں بلکہ یہ ہے کہ اپنی سنائیں.بعض مبلغین میں بھی یہ عادت پائی جاتی ہے.جب وہ میرے پاس ہیں تو وہ شروع سے آخر تک مباحثہ کی روئداد سنانا شروع کر دیتے ہیں.اور کہتے ہیں اس نے یہ اعتراض کیا میں نے یہ جواب دیا اس نے فلاں اعتراض کیا میں نے فلاں جواب دیا.اور اس ذریعہ سے وہ اپنی گفتگو کو اتنا لمبالے جاتے ہیں کہ وہ ملال پیدا کرنے والا طول بن جاتا ہے اور پھر لوگوں کو بھی غصہ آتا ہے کہ یہ اپنی بات کیوں ختم نہیں کرتے.جو لوگ میرے پاس آتے ہیں ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ مجھ سے کچھ سنیں یہ نہیں ہوتی کہ دوسروں آتے.
خطبات محمود ۱۰۵ سال ۱۹۳۳ء کی سنیں.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کی طرف سے خلاف آداب حرکات سرزد ہو جاتی ہیں.مثلاً یہی کہ کہتے ہیں جَزَاكَ اللهُ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بس کریں اب ہم سے زیادہ باتیں نہیں سنی جاتیں.مگر وہ بھی اپنی طبیعت کے ایسے پختہ ہوتے ہیں کہ جَزَاكَ اللهُ خوش ہوکر اور زیادہ باتیں سنانے میں مشغول ہو جاتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ جزاك الله تعریف کیلئے نہیں بلکہ گفتگو بند کرانے کیلئے کہا گیا ہے.پس یہ ایک مرض پیدا ہو رہا ہے جس کی طرف میں توجہ دلاتا ہوں لوگ میری وجہ سے یہ تو دوسرے کو نہیں کہہ سکتے کہ چُپ کرو اور میں بھی حیا کی وجہ سے کچھ نہیں کہہ سکتا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے اشاروں میں انہیں بات کہی جاتی ہے جو گرے ہوئے اخلاق پر دلالت کرتے ہیں.انہیں چاہیے کہ وہ بجائے اس کے کہ اپنی گفتگو سنائیں جو وہ پوچھنا چاہتے ہوں پوچھیں.پچھلے ایام میں میں ایک جگہ گیا وہاں بہت سے دوست میرے ملنے کیلئے جمع ہوگئے.مگر و گھنٹہ تک ایک شخص مجھے اپنا مباحثہ ہی سناتا رہا اور آخر رات کے ساڑھے گیارہ بجے کے قریب اُس کی گفتگو ختم ہوئی.مگر اُس وقت اتنا وقت گزر چکا تھا کہ میں بھی اُٹھ کھڑا ہوا اور دوست بھی جو میری باتیں سننے کیلئے آئے تھے چلے گئے.وہ اس سارے عرصہ میں یہی سناتے رہے کہ اس نے یوں کہا میں نے یوں جواب دیا پھر اس نے یہ کہا میں نے یہ کہا.حالانکہ مباحثات کی تفصیل کی مجھے ضرورت نہیں ہوتی اور کو دوسروں کو ضرورت ہو بھی مگر وہ محبت اور اخلاص کی وجہ سے میری باتیں سننے کے مشتاق ہوتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ دوسروں سے باتیں سننے کیلئے کافی اوقات ہیں.پس گفتگو ایسے رنگ میں ہونی چاہیئے کہ دوستوں کا اصل مقصد یعنی یہ کہ وہ میری باتیں سننے کیلئے آتے ہیں کسی طرح فوت نہ ہو جائے اور وقت ضائع نہ ہو.اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت کو ایسا بنایا ہے کہ لمبی چوڑی فلسفیانہ تقریریں اس پر وہ اثر پیدا نہیں کرتیں جو اخلاص سے کسی ہوئی ایک چھوٹی سی بات کر جاتی ہے.گھروں میں روزانہ ا جاتا ہے.بعض اوقات بچہ رضد میں آکر ایک بات نہیں مانتا، ہزاروں دلائل دو وہ کچھ نہیں لیکن جب ماں کے بیٹا یوں کرنا اچھا نہیں ہوتا تو وہ فوراً سمجھ جاتا ہے.اس پر غیر کی زبردست دلیلیں اثر نہیں کرتی مگر ماں کا یہ فقرہ کہ ایسا کرنا اچھا نہیں ہوتا فوراً اثر کر جاتا ہے.اسی طرح لوگوں کے سامنے اخلاص ہوتا ہے وہ دوسروں کی فلسفیانہ تقریریں سننا پسند نہیں کرتے بلکہ اپنے امام کے منہ سے چند سادہ کلمات سننا چاہتے ہیں اور یہ محبت کے کرشمے ہیں.سنتا
خطبات محمود 1.4 سال ۱۹۳۳ء جب تک اور جس سے اخلاص اور محبت ہوگی اس کی سادہ بات بہ نسبت دوسروں کی لمبی فلسفیانہ تقریر کے بڑا اثر کرے گی.پس مجلس کو زیادہ سے زیادہ مفید بنانے کی کوشش کرنی چاہیے اور وقت ضائع نہیں کرنا چاہیئے.پھر یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہیے کہ میری مجلس میں جیسا کہ میں بتاچکا ہوں ہر قسم کے لوگ آتے ہیں.عالم بھی آتے ہیں اور جاہل بھی اور بعض دفعہ پاگل بھی آتے ہیں.چنانچہ کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ ایک پاگل شخص آیا ہے اور اس نے اپنی باتیں سنانی شروع کردیں.میں سمجھتا ہوں کہ ایسے لوگوں کا ایک ہی جواب ہوتا ہے اور وہ یہ کہ خاموشی سے وقت گزار دیا جائے.مگر دوسرے لوگ چونکہ اس امر کو نہیں سمجھتے اس لئے بعض دفعہ وہ بیچ میں آکودتے ہیں.اور سمجھتے ہیں کہ ہماری مدد کی ضرورت ہے.یہ دماغی خلل والے کئی لوگ میرے پاس آتے ہیں اور اس قسم کے سوال کرتے ہیں جن کے متعلق وہ خیال کرتے ہیں کہ وہ معقول ہیں مگر میں ان کی دماغی حالت کو جانتا ہوں.پس میں مختصر جواب دے دیتا ہوں یا خاموش رہتا ہوں اور جب وہ تکرار کرتے ہیں تو میں کہتا ہوں میں نے سن لیا اس پر غور کروں گا.مگر ناواقف آدمی دخل دے دیتا ہے اور اس طرح بات کو خراب کر دیتا ہے.اسی طرح میں سمجھتا ہوں ایک مصافحوں والا معاملہ بھی ہے.باہر سے آنے والے دوست جن کو یہاں آنے کا بار بار موقع نہیں ملتا یا جمعہ کے موقع پر جبکہ مقامی لوگوں میں سے ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں ہفتہ بھر ملنے کا اور کوئی موقع نہیں ملا ہوتا، مجھ سے مصافحہ کرتے ہیں اور ان کیلئے مصافحہ کی معقولیت میری سمجھ میں آسکتی ہے.کیونکہ مصافحہ قلوب میں وابستگی اور پیوستگی پیدا کرتا ہے اور یہ معمولی چیز نہیں.بلکہ احادیث سے ثابت ہے کہ عیدین وغیرہ مواقع صحابہ خصوصیت سے رسول کریم ﷺ کے ساتھ مصافحہ کیا کرتے.مگر مجھے شبہ ہے کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہر نماز کے وقت مصافحہ کرنا دینی ضرورتوں میں سے کوئی ضرورت ہے.بعض لوگ محبت میں گداز ہوتے ہیں میں ان کو الگ کرتا ہوں کیونکہ ان پر کوئی قانون جاری نہیں ہو سکتا.میں نے دیکھا ہے بعض لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں سارا سارا دن اس کھڑکی کے سامنے بیٹھے رہتے جس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام باہر آیا کرتے تھے.اور جب باہر آتے تو وہ آپ سے مصافحہ کرتے یا آپ کے کپڑوں کو ہی چھو لیتے.ایسے لوگ محبت کی وجہ سے مجبور ہوتے ہیں.مگر مجھے شبہ ہے کہ
خطبات محمود سال ۴۱۹۳۳ بعض لوگ دوسروں کو دیکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہر وقت مصافحہ کرنا ضروری ہے.مصافحہ کا اصل وقت تو وہ ہوتا ہے جب کوئی شخص باہر جارہا ہو یا باہر سے آیا ہو.یا ساتویں آٹھویں دن اس لئے مصافحہ کرے کہ تا دعاؤں میں اسے یاد رکھا جائے اور اس کا تعارف قائم رہے یا کسی بیمار نے بیماری سے شفا پائی ہو تو وہ یہ بتانے کیلئے مصافحہ کرے کہ اب وہ اچھا ہو گیا ہے یہ اور چیز ہے.مگر پالالتزام بغیر اس کے کہ نفس اس مقام پر پہنچا ہوا ہو کہ انسان مصافحہ کرنے پر مجبور ہو جائے دوسروں کو دیکھ کر یہ کام کرنا کوئی پسندیدہ امر نہیں.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں قاضی سید امیر حسین صاحب مرحوم کہ جو میرے استاد بھی تھے بوجہ اس کے کہ وہ اہلحدیث میں سے آئے تھے بعض مسائل میں اختلاف تھا.ایک دفعہ سوال زیر بحث تھا کہ مجلس میں کسی بڑے آدمی کے آنے پر کھڑا ہونا جائز ہے یا نہیں.قاضی سید امیرحسین صاحب فرمایا کرتے تھے کہ یہ شرک ہے.اور رسول کریم ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے.آخر یہ جھگڑا اتنا طول پکڑ گیا کہ اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے پیش کیا گیا.اُس وقت یہ سوال ایک رقعہ پر لکھا گیا اور میں رقعہ لے کر اندر گیا.اس وقت اگرچہ میں طالب علم تھا مگر چونکہ مذہبی باتوں سے مجھے بچپن سے ہی دلچپسی رہی ہے اس لئے میں ہی وہ رقعہ اندر لے گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے جواب میں زبانی کہا یا تحریر کیا مجھے اچھی طرح یاد نہیں.خیال یہی آتا ہے کہ آپ نے تحریر فرمایا کہ دیکھو وفات کے موقع پر کوئی ایسی حرکت کرنا جیسے دو ہتر مارنا شریعت نے سخت ناجائز قرار دیا ہے.لیکن جہاں تک مجھے خیال ہے روایت تو صحیح یاد نہیں.آپ نے غالبا حضرت عائشہ " کا ذکر کیا کہ رسول کریم ﷺ کی وفات کے موقع پر انہوں نے بے اختیار اپنے سینہ پر ہاتھ مارا ہے روایت لکھ کر آپ نے تحریر فرمایا کہ ایک چیز ہوتی ہے تکلف اور بناوٹ.اور ایک چیز ہوتی ہے جذبہ بے اختیاری.جو امر جذبۂ بے اختیاری کے ماتحت ہو اور ایسا نہ ہو جو نص صریح سے ممنوع ہو بعض حالتوں میں وہ جائز ہوتا ہے اور وہاں یہ دیکھا جائے گا کہ یہ فعل کرنے والے نے کس رنگ میں کیا.سجدہ تو بہر حال منع ہے خواہ کسی جذبہ کے ماتحت ہو مگر بعض افعال ایسے ہوتے ہیں کہ وہ بعض صورتوں میں تکلف اور بعض صورتوں میں جذبہ بے اختیاری کے ماتحت صادر ہوتے ہیں.اس کے بعد آپ نے تحریر فرمایا کہ اگر کوئی شخص اس لئے کھڑا ہوتا ہے کہ ایک بڑے آدمی کے آنے پر چونکہ باقی لوگ کھڑے ہیں اس لئے میں بھی کھڑا ہو
خطبات محمود ۱۰۸ سال ۱۹۳۳ء جاؤں تو وہ گنہگار ہو گا.مگر وہ جو بے قرار ہو کر کھڑا ہو جاتا ہے جیسے معشوق جب عاشق کے سامنے آئے تو وہ اس کیلئے کھڑا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، اس پر گرفت نہیں.قاضی سیدامیرحسین صاحب مرحوم نہایت ہی مخلص احمدی تھے.میں نے ان سے بہت عرصہ پڑھا ہے وہ احمدیت کے متعلق اپنے اندر عشق کا جذبہ رکھتے تھے.مجھے یاد ہے میری خلافت کے ایام میں ایک دفعہ جب میں مسجد میں آیا تو قاضی صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے مجھے دیکھتے ہی کھڑے ہو گئے میں نے کہا قاضی صاحب! آپ تو کسی کی تعظیم کے لئے کھڑا ہونا شرک قرار دیا کرتے تھے کہنے لگے.”کی کراں میں سمجھدا تے ایسی ہاں پر دیکھدے ہی کچھ ہو جاندا ہے رہیا جاندا ہے ہی نہیں.یعنی کیا کروں میں سمجھتا تو یہی ہوں.لیکن آپ کو دیکھ کر ایسا جذبہ طاری ہوتا کہ میں بیٹھا نہیں رہ سکتا.تو حالات کے مختلف ہونے اور جذبات کی بے اختیاری کی وجہ سے دلتے رہتے ہیں.میں سمجھتا ہوں مصافحہ بھی اسی رنگ کی چیز ہے جب مصافحہ رسم و رواج کے ماتحت ہو یا دکھاوے کے طور پر یا اس لئے ہو کہ شاید یہ شرعی احکام میں سے ہے یا اخلاص کے اظہار کا یہ بھی کوئی ذریعہ ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں.لیکن جب کوئی دیر سے ملتا ہے اور چاہتا ہے کہ بتلائے کہ میں آگیا ہوں یا بیمار چاہتا ہے کہ میں بتاؤں مجھے صحت ہو گئی ہے.یا کوئی اس لئے مصافحہ کرتا ہے کہ تا دعاؤں میں وہ یاد رہ سکے تو ایسے موقعوں پر مصافحه ایک نہایت ہی مفید مقصد کو پورا کر رہا ہوتا ہے.مگر دوسرے اوقات میں وہ بعض دفعہ وقت کو ضائع کرنے والا بھی ہو جاتا ہے.یہ چند باتیں ہیں جو میں نے کہی ہیں اور کچھ باتیں اِس وقت بھول بھی گئی ہیں اور بعض ممکن ہے ابھی اور بھی بیان کرنے والی ہوں، انہیں پھر بیان کردوں گا.لیکن یہ تمام باتیں اپنی اپنی جگہ بہت سے مفید مقاصد رکھتی ہیں جماعت کو چاہیے کہ انہیں مد نظر رکھے.مجالس کو کھلا رکھنا چاہیے، قرآن کریم سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ ضروری ادب ہے اور اس کے بہت سے فائدے ہیں یہی فائدہ نہیں کہ دوسروں کو جگہ مل جائے گی اور صحت پر اس کا خوشگوار اثر پڑے گا بلکہ اور بھی باریک روحانی مطالب پر مشتمل فوائد ہیں اور یہ مختصر خطبہ ان کا حامل نہیں ہو سکتا.اسی طرح کھڑکیوں کو کھلا رکھنا چاہیے جسم اور گھروں کی صفائی کا خیال رکھنا چاہیئے.اور مجلس میں خوشبو لگا کر آنا چاہیئے.بدبودار چیزیں کھا کر اجتماع کے موقعوں پر نہیں آنا چاہیئے اور بدبودار چیزیں ہی نہیں اگر کسی کو کوئی بغل گند وغیرہ کی بیماری ہو تو اچھی طرح صفائی کر کے
خطبات محمود ١٠٩ سال ۱۹۳۳ء معلوم آئے.مجلس کو مفید بنانے کی کوشش کرنی چاہیے.مشکل مسائل درپیش ہوں تو ان کے متعلق سوال کرنا چاہیے.جب گفتگو ہو رہی ہو تو اس وقت دخل نہیں دینا چاہیئے اور کسی کی عمی کر کے اس پر ہنسنا نہیں چاہئیے.ان باتوں پر عمل کرنے سے مجلس میں برکت ہوتی تعلقات مضبوط ہوتے اور فائدہ زیادہ ہوتا ہے.لیکن اگر یہ باتیں نہ ہوں تو صحت کے خراب ہونے کے خیال سے یا وقت کے ضائع ہونے کے خطرہ سے طبیعت میں اس امر پر بشاشت پیدا نہیں ہوتی کہ مجلس میں بیٹھا جائے.میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے دوست آئندہ مجالس میں ان امور کو مد نظر رکھیں گے.الفضل ۲۷ - اپریل ۱۹۳۳ء) له بخارى كتاب الجمعة باب الانصات يوم الجمعة والامام يخطب ابن ماجه کتاب اقامة الصلوة باب ماجاء في الاستماع للخطبة والانصات بخاري كتاب الجهاد باب فضل النفقة في سبيل الله سے مسلم كتاب الصلوة باب استحباب الذكر بعد الصلوة وبيان صفته ه ابوداؤد كتاب الصلوة باب مقام الصبيان من الصف و بخارى كتاب الجمعة باب الدهن للجمعة گندنا: ایک ترکاری کا نام جو لہسن سے مشابہ ہوتی ہے مسلم كتاب المساجد و مواضع الصلوة باب نهى من اكل ثوما او بصلاً او كرانا او نحوها طبقات ابن سعد جلد ۲ صفحه ۲۶۲ دار صادر بیروت
خطبات محمود ۱۳ سال ۱۹۳۳ء جذبات فطرت کو کچلنے کی بجائے انہیں شریعت کے ماتحت رکھو (فرموده ۵ - مئی ۱۹۳۳ء) ہے تشهد تعوز اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے فرمایا:- انسانی اعمال ہمیشہ ایک دائرہ میں چکر لگاتے ہیں.اختلاف نظر آتا ہے، امتیاز نظر آتا ہے ترقی نظر آتی ہے، منزل نظر آتا ہے مگر ان تمام امور کے باوجود ہر انسان کے اعمال میں ایک اتحاد کی صورت بھی ہوتی ہے.مومن سے انسان کا فر ہو جاتا ہے، بدکار سے نیکوکار بن جاتا معمولی درجہ سے ترقی کرتے کرتے شہادت صدیقیت یا نبوت کے مقام تک جا پہنچتا ہے.مگر باوجود اس کے اس کے کاموں میں اسی طرح ایک اشتراک کی حالت چلی جاتی ہے جس طرح مالا میں تاگا جاتا ہے.بعض قسم کی مالاؤں میں کہیں سونے کے حصے پروئے ہوئے ہوتے ہیں، کہیں موتی.پھر کہیں چھوٹے موتی ہوتے ہیں کہیں بڑے.اور بعض میں مختلف قسم کے پتھر پر وئے ہوئے ہوتے ہیں مگر باوجود اس کے ان سب میں ایک اتحاد ہوتا ہے.ایک تاگا ہوتا ہے جو سب کو پروئے رکھتا ہے.یہ چیز ہے جسے بدلا نہیں جا سکتا.اور اسی کے متعلق ایک روایت ہے جو بعض نے رسول کریم ﷺ کی طرف منسوب کی اور بعض کہتے ہیں کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص تجھے یہ خبر دے کہ احد پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل گیا تو تو اس کو مان لیجیئو لیکن اگر کوئی شخص تجھے یہ خبر دے کہ فلاں شخص کی طبیعت بدل گئی تو تو اسے نہ مانتا اے.گویا احد پہاڑ کا اپنی جگہ سے ٹل جانا آسان ہے مگر انسانی طبیعت کا بدل جانا مشکل ہے.
خطبات محمود (1 سال ۱۹۳۳ اس جگہ طبیعت کے بدل جانے سے بھی وہی حد اشتراک مراد ہے جو ہر انسان کے اعمال میں پائی جاتی ہے.ورنہ یہ تو ظاہر بات ہے کہ مومن سے انسان کافر ہو جاتا ہے اور کافر سے مومن.پھر ایمان میں ترقی کرتے کرتے کہیں کا کہیں نکل جاتا ہے.کسی زمانہ میں اس کی طبیعت نا تجربہ کاری کی وجہ سے غصہ اور جوش کی طرف مائل ہوتی ہے پھر عمر ڈھل جانے اور تجربہ حاصل ہو جانے کے بعد نرمی کی طرف اس کا میلان ہو جاتا ہے.مگر ایک چیز ہے جو سب میں مشترک ہے اور وہ انسان کا دائرہ عمل ہے.اس دائرہ سے کسی کو باہر نکالنا انسانی قدرت میں نہیں.جو کچھ کیا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے نقص کو چھپا دیا جائے جیسے لکڑی پر پالش کر دی جائے تو پالش سے لکڑی کی گرہ دور نہیں ہو جاتی، البتہ ہوشیار ترکھان مختلف قسم کے رنگوں اور پالش وغیرہ سے اس لکڑی کے عیب کو چھپا دیتا ہے.اسی طرح جو خامیاں انسانی طبیعت کے اندر ہوتی ہیں، ان پر پردے ڈال دیئے جاتے ہیں.اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.كَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَيَأْتِهِمْ سے یعنی ہم مومنوں کی سیئات کا کفارہ کر دیتے ہیں اور ان کے عیوب پر پردہ ڈال دیتے ہیں.پس انسانی فطرت کے اختلاف سے کبھی دنیا میں گھبرانا نہیں چاہیئے.مگر بعض لوگ ہوتے ہیں جو فطرتوں کے اختلاف سے گھبرا جاتے ہیں.کسی کو غصے ہوتے دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کیسی بڑی جماعت ہے، اس کے افراد آپس میں لڑتے ہی رہتے ہیں.یا کسی کی حد سے بڑھی ہوئی نرمی کو دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کیسی بڑی جماعت ہے، اس کے افراد میں جوش ہی نہیں.حالانکہ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ایسے لوگ خدا تعالی کی قدرت سے ہمیشہ پیدا ہوئے ہو رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے.کوئی سلسلہ اور کوئی جماعت ان کی طبیعت کو بدل نہیں سکتی.جس چیز کو بدلا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ طبیعت کے بد اثرات کو کمزور کر دیا جائے یا اس کے بداثرات کو باطل کردیا جائے.اور اس وجہ سے کبھی ان پر غفران کی صفت کام کرتی ہے یعنی ان کے عیوب پر ایسا پردہ ڈال دیا جاتا ہے جس سے عیوب میں کمی آجاتی ہے.اور کبھی اس میں تکفیر مد نظر ہوتی ہے یعنی انتہائی کوشش سے کمزوریوں کو اس طرح مٹادیا جاتا ہے کہ ظاہری نظر انہیں دیکھ ہی نہیں سکتی.یہی کام ہے جو مذہب کا ہے.اور یہی کام ہے جو انبیاء کرتے ہیں.ورنہ طبیعت انسانی اپنی حد بندی سے باہر نہیں جاسکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے اپنی بعض کتابوں میں اسی حقیقت پر زور دیا ہے.اور غلطی سے بعضوں نے یہ سمجھ لیا ہے
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء کہ اگر یہی حالت ہے تو پھر نیکی کی جدوجہد کی کیا ضرورت ہے.اور پھر کیوں خدا ایک کو بڑا کردیتا ہے اور ایک کو چھوٹا.جو بڑا ہوا اس میں اس کی خوبی کیا تھی.خداتعالی نے اس کی طبیعت کو ایسا ہی بنایا تھا.اور اگر کوئی چھوٹا ہوا تو اس میں اس کا کیا قصور ہے.اس کی طبیعت ہی ایسی تھی کہ وہ بلندی کی طرف پرواز نہ کر سکے مگر یہ صحیح نہیں.اصل بات یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے انسان کی طبیعت ایک دائرہ کے اندر چلتی ہے حتی کہ ایک ہی.مثلاً طبیعت ایک وقت میں مومن ہوتی ہے اور دوسرے وقت میں کافر مگر دائرہ وہی ہوتا ہے.ایک انسان ہے جس کی طبیعت بدظنی کی طرف مائل ہے.اب بدظنی ایک طبعی چیز ہے.کبھی اس کا اثر ماں کے پیٹ میں ہی ہونا شروع ہو جاتا ہے.کبھی باہر آکر.کبھی باپ دادا کے اثرات کے نیچے انسان بدظنی میں مبتلا ہوتا ہے.اور کبھی اور وجوہات سے حتی کہ بعض دفعہ ایک ہی سلسلہ میں دس پندرہ خاندانوں سے تعلق رکھنے والے افراد ایسے ملیں گے کہ ان سب کی طبیعت بدظنی کی طرف مائل ہوگی.مذہب کے اثر کے ماتحت ایسے لوگ نیک تو ہو جائیں گے.مگر نیکی میں خواہ کسی قدر بلند مقام حاصل کر جائیں، ان کا میلان اسی طرف رہے گا.فرق صرف یہ ہوگا کہ بدظنی کا رنگ بدل جائے گا.مثلاً اگر ایسا شخص نیک ہو جائے گا تو حد درجہ کی احتیاط کرے گا.یہ زیادہ احتیاط بھی بدظنی کا ایک رنگ ہے.بدظنی کیا چیز ہوتی ہے وساوس کی کثرت کا نام بدظنی ہے.یہی وساوس کی کثرت اگر نیکی نہ ہونے کی صورت میں بدظنی کی شکل میں نمودار ہوتی ہے، تو نیک ہونے کی حالت میں زیادہ احتیاط کی شکل اختیار کرلیتی ہے.اور انسان کہتا ہے کہ اگر میں نے یوں کیا تو اس طرح نہ ہو جائے، اور اگر اس طرح کروں تو اس طرح نہ ہو جائے.گویا بدظنی کی شکل بدل جائے گی.وساوس کی نوعیت تبدیل ہو جائے گی.مگر میلان وہی رہے گا.نیک ہو کر بھی وہ یہی خیال کرتا رہے گا کہ اگر میں فلاں سے معاملہ کروں تو اسے ٹھوکر نہ لگ جائے.شاید فلاں سے تعلق رکھنے کا اچھا نتیجہ پیدا نہ ہو.یہ وہی میلان ہے جو کفر کی حالت میں بدظنی کی شکل میں تھا.مگر ایمان کی حالت میں احتیاط کی صورت میں آگیا.چیز وہی ہے صرف اس کا نام بدل جاتا ہے.تو اول تو انسانی اعمال کے دائرے اتنے وسیع ہیں کہ یہ کہہ دینا کہ ترقی کے راستے محدود ہیں صحیح نہیں.اور اگر دائرے وسیع نہ ہوں تب بھی انسانی طبیعت کا میلان مٹ نہیں سکتا.مثلاً ابھی میں نے بدظنی کی مثال دی ہے یہ بدظنی نیکی کی حالت میں تردد کی ایک شکل ہے.تردد یہی ہوتا ہے کہ جب انسان کے سامنے کوئی چیز
خطبات محمود ١١٣ سال ۱۹۳۳ء پیش کی جاتی ہے تو وہ کہتا ہے جس حالت میں ایک چیز میرے سامنے پیش کی گئی ہے، میں کیوں اسے اسی صورت میں مان لوں.ایک شخص اگر نیک سمجھا جاتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ میں بھی اسے نیک تسلیم کروں.یہی تردّد ہے جو ایمان کی کمزوری کی حالت میں بدظنی کی شکل اختیار کو لیتا ہے.اسی طرح ہزاروں ایسے انسان ہو سکتے ہیں جو ایک ہی دائرہ کے اندر گھومنے والے ہوں.مگر ایک تو اس دائرہ میں چکر کاٹ کر صدّیقیت کے مقام تک پہنچ گیا ہو اور ایک کافر بن گیا ہو.ایک بدظنی کی صورت میں ابو جہل ہو گیا ہو.اور دوسرا احتیاط کی صورت اختیار کر کے ابوبکر بن گیا ہو.اور اگر مختلف دائرے ہوں تب بھی اس کیلئے خدا نے دو صورتیں مقرر کی ہیں.اور وہ یہ کہ جس حد تک کوئی شخص کسی بُرائی کے ازالہ کیلئے کوشش کر سکتا ہے، اس حد تک کوشش کرنے کے باوجود اگر اس کے اعمال میں بعض کمزوریاں باقی رہیں تو اللہ تعالی ان کمزوریوں کو اپنے فضل سے ڈھانپ دیتا ہے.اور دوسرے یہ کہ اگر سوال بھی کرتا ہے.تو ان امور کے متعلق جو اس کے دائرہ کے اندر ہوں.اور جو اس کے دائرہ عمل سے باہر ہوں ان کے متعلق سوال نہیں کرتا.کیونکہ سوال تبھی کیا جاسکتا ہے جب کسی کے اندر ایک چیز کا مادہ رکھا گیا ہو اور اس نے اس سے کام نہ لیا ہو.مگر جس چیز کا مادہ ہی انسان کے اندر نہ رکھا گیا ہو، اس کے متعلق سوال کیا کیا جاسکتا ہے.کیا ایک نابینا سے خدا تعالیٰ پوچھ سکتا ہے کہ اس نے دیکھا کیوں نہیں.یا ایک بہرے سے سوال کر سکتا ہے کہ اس نے سنا کیوں نہیں.اسی طرح ایک ایسے انسان سے جس کے اندر بعض باتیں طبعی طور پر نہیں پائی جاتیں وہ یہ سوال نہیں کرے گا کہ تم نے ایسا کیوں نہیں کیا، کیونکہ وہ لوگ عمل کرنے سے معذور ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک دفعہ ایسی ہی دو مختلف طبیعتیں رکھنے والوں کا اجتماع ہو گیا.۴.اپریل ۱۹۰۵ء کو جو خطرناک زلزلہ آیا.اس موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو زلازل کے متعلق کثرت سے الہامات ہوئے.آپ خدا تعالیٰ کے کلام کا ادب اور احترام کرتے ہوئے باغ میں تشریف لے گئے.کئی بیوقوف کہہ دیا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام طاعون سے ڈر کر باغ میں چلے گئے.اور تعجب ہے کہ میں نے بعض احمدیوں کے منہ سے بھی یہ بات سنی ہے حالانکہ طاعون کے ڈر سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کبھی اپنا گھر نہیں چھوڑا.اس وقت چونکہ زلازل
خطبات محمود ما سال ۱۹۳۳ء متعلق آپ کو کثرت سے الہامات ہو رہے تھے، اس لئے آپ نے یہی مناسب خیال فرمایا کہ کچھ عرصہ باغ میں رہیں.باقی دوستوں کو بھی آپ نے وہیں رہنے کی تحریک کی.اور چونکہ جلدی تھی اس لئے کچھ تو خیموں کا انتظام کیا گیا اور کچھ لوگوں نے اینٹوں پر چٹائیاں وغیرہ ڈال کر رہنے کیلئے جھونپڑیاں بنالیں.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم بھی وہیں جاکر رہے.آپ کی طبیعت بڑی جوش والی تھی.جب احمدی نہیں ہوئے تھے تب بھی جوشیلی طبیعت رکھتے تھے.اور جب احمدی ہوگئے تب بھی طبیعت میں جوش رہا.آپ نصیحت میں ہمیشہ جلد بازی کیا کرتے اور آپ کی باتوں میں ایک جلال کا رنگ پایا جاتا تھا.آپ کی طبیعت کا اسی سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ ایک دفعہ ایک نوجوان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں کوئی امتحان دے کر قادیان آیا.اور مسجد میں اُس نے خوب رو رو کر کرنی شروع کیں.اور خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے اور اس کی رحمت کو جذب کرنے کیلئے وہ بھی دعا کیا کرتا کہ خدایا! میرے گناہ معاف کر اور بہت اونچی آواز سے رو رو کر دعائیں مانگتا.سترہ اٹھارہ سال اُس کی عمر تھی.حضرت مولوی عبد الکریم نے جب اپنے روتا دیکھا تو سخت غصہ کی حالت میں کہنے لگے میرا جی چاہتا ہے اس لڑکے کو مسجد کی چھت سے اُٹھا کر نیچے پھینک دوں.اس نے گناہ ہی ایسے کون سے کئے ہیں جن کی وجہ سے یہ اس قدر چیخ رہا ہے.تو ان کی طبیعت عجیب طرز کی تھی.اتفاق ایسا ہوا کہ جب وہ باغ میں گئے تو جو شہر میں ان کے ہمسائے تھے.وہی باغ میں ہمسائے ہو گئے.لیکن شہر میں ہمسائگت کے باوجود مکانوں میں پندرہ بیس گز کا فاصلہ تھا.اور وہ اوپر رہتے اور مولوی عبد الکریم صاحب نیچے کے مکانوں میں.مگر باغ میں بالکل قریب قریب جگہ ملی.ان صاحب کے بچوں کو رونے کی زیادہ عادت تھی.میں ان کا نام اس لئے نہیں لیتا کہ وہ زندہ ہیں.مولوی عبدالکریم صاحب نے جب ان بچوں کا شور سنا تو انہیں سخت تکلیف ہوئی.آپ نے انہیں بلا کر ایک دفعہ نہایت جوش سے کہا.میری سمجھ میں نہیں آتا کہ سارا دن آپ کے بچے شور مچاتے ہیں.میں دُور بیٹھا ہوا ہوتا ہوں لیکن میرے کان کھائے جاتے ہیں.ایک آپ ہیں کہ پاس بیٹھے رہتے ہیں اور آپ کی طبیعت پر ذرا اثر نہیں ہوتا بچوں کو شور کرنے سے باز رکھو.مولوی عبدالکریم صاحب کی اپنے رنگ کی طبیعت تھی، انہوں نے نہایت جلال میں یہ کہا.آگے ان کی طبیعت نہایت نرم تھی.وہ مُسکرا کر نہایت آہستگی سے کہنے لگے مولوی صاحب! جب مجھے پاس بیٹھے غصہ نہیں آتا تو آپ کو
خطبات محمود 11A سال ۱۹۳۳ء دور بیٹھنے سے غصہ کیوں آجاتا ہے.یہ دو طبیعتیں ہیں اور دونوں اپنی جگہ پر ایک نیکی کے مقام پر ہیں.ایسی طبیعتوں والے دو آدمی اگر کفر میں چلے جاتے تو ایک کفر میں جو شیلا ہوتا اور دوسرا کفر میں ٹھنڈا.لیکن جب دونوں ایمان کے دائرہ میں آگئے تو ایک ایمان میں جوشیلا نکلا اور دوسرا ایمان میں نرم طبیعت کا.طبیعتیں وہی ہیں مگر اپنے اپنے دائرہ میں ترقی کر رہی ہیں.میری غرض اس سے یہ ہے کہ بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی نیکی کی جدوجہد میں دوسروں کی نقل اختیار کرنا ایک معیار قرار دے لیتے ہیں.یعنی اگر ان کے محلہ یا قرب و جوار میں کوئی ایسا شخص رہتا ہے جو بہت ہی نرم طبیعت کا ہے تو وہ نیکی یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بھی اس کی طرح نرم طبیعت بنالیں.اور اس طرح ان کی تمام کوششیں جو وہ نیکی کے حصول کیلئے کرتے ہیں، رائیگاں چلی جاتی ہیں اور نیکی کے میدان میں ترقی کرنے سے محروم رہتے ہیں.مومن کو چاہیے کہ وہ اپنے جذبات کا مطالعہ کر کے انہیں خداتعالی کی راہ میں لگانے کی کوشش کرے.اگر وہ نرم طبیعت رکھتا ہے تو غصے والے کی نقل کرکے کامیاب نہیں ہو سکتا.اور اگر سخت طبیعت رکھتا ہے تو کبھی نرم طبیعت والے کی نقل کرکے نیکی میں ترقی حاصل نہیں کر سکتا.بلکہ اگر وہ ان نیکیوں میں ترقی کرنے کی کوشش کرے جو اس کی طبیعت کے لحاظ سے سخت طبیعت والے کیلئے مخصوص ہیں تو وہ بہت جلد میدانِ روحانیت میں آگے نکل جائے.اگر جوش رکھنے والا شخص یہ کہتا ہے کہ میں اپنی طبیعت کو نرم بناؤں تو وہ غلطی کرتا ہے.کیونکہ خدا نے اس کی طبیعت کو آگ والا بنایا ہے اور آگ کا جو کام ہے وہی آگ کرے گی.یہ نہیں ہو سکتا کہ آگ پانی کا کام کرے.ہاں آگ کے آگے مختلف کام ہو سکتے ہیں.آگ جلاتی بھی ہے اور روٹی بھی پکاتی ہے.اسی طرح اگر وہ چاہے تو اپنی آگ والی طبیعت کو اچھے رنگ میں بھی استعمال کر سکتا ہے اور بُرے رنگ میں بھی.لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ آگ پانی بن جائے.اگر خدا نے اسے آگ بنایا ہے تو وہ پانی والا کام نہیں کر سکتی.اور اگر پانی بنایا ہے تو وہ آگ کا کام نہیں دے سکتا.آگ اگر چاہے کہ وہ پانی بن کر آٹا گوندھے تو وہ نہیں کر سکتی.اسی طرح پانی اگر چاہے کہ وہ آگ بن کر روٹی پکائے تو وہ بھی نہیں کر سکتا.پس ہر ایک شخص کو اپنی طبیعت دیکھ کر اس کے مطابق نیکی میں ترقی کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے.اور اگر کوئی ایسا کرے گا تو وہ اعلیٰ سے اعلیٰ روحانی انعامات حاصل کرے گا.لیکن اگر وہ اپنی طبیعت کو بدل کر ایک اور رنگ میں نیکی کی جدوجہد کرے گا تو اس کی تمام کوششیں رائیگاں چلی جائیں گی.نرم یا
خطبات محمود 114 یہاں تک کہ وہ وقت آجائے گا جب اس کی کوششوں کا دروازہ بند ہو جائے گا.پس یاد رکھو بہت سے لوگ نیکیوں سے اس لئے محروم رہتے ہیں کہ وہ دوسروں کی نقل کرنا نیکی کا کمال ہیں.اور خیال کرتے ہیں کہ یہی نقل اصل نیکی ہے.حالانکہ روحانیت میں ترقی کرنے کا اصل یہ ہے کہ انسان اپنے میلانوں کو دیکھے، ان پر غور کرے اور پھر ان کے مطابق نیکی میں ترقی کرے.کوئی میلان ایسا نہیں جسے نیکی میں تبدیل نہ کیا جاسکتا ہو.اگر کسی میں غصہ ہے تو یہ کون سی بُری بات ہے، آخر دنیا میں ایسے لوگ بھی تو ہونے چاہئیں جو جوش رکھتے ہوں تاکہ مظلوم کی اعانت کیلئے بڑھ سکیں.اور اگر وہ غصہ نکال دیں گے تو بعض نیکیوں سے محروم رہیں گے.انہیں چاہیے کہ وہ بجائے غصہ مٹانے کے اُسے خُبث شرارت اور گمراہی کے مٹانے صرف کریں.اسی طرح ہر جذبہ نیکی کی طرف لایا جا سکتا ہے.پس اگر تم روحانی ترقی حاصل کرنا چاہتے ہو تو بجائے نقل کرنے کے اپنے جذبات اور شریعت کا مطالعہ کرو.اور ان جذبات کو نیکی کے میدانوں میں لے آؤ.پھر اس میدان میں اپنے جذبات کو خوب جولانیاں کرنے دو.کیونکہ جتنی بھی وہ جولانیاں کریں گے ، اتنی ہی تمہارے لئے نیکیاں لکھی جائیں گی.یہ گر ہے جو روحانیت میں کام آسکتا ہے، اسے یاد رکھنا چاہیے.میں نے دیکھا ہے بہت سے لوگ اس لئے نیکیوں سے محروم رہتے ہیں کہ وہ پانی پر زور دیتے ہیں کہ آگ کا کام کرے.اور آگ سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ پانی کا کام کرے.آگ پانی کا کام نہیں کر سکتی اور پانی آگ کا کام نہیں کر سکتا.ریت لوہے کا کام نہیں کر سکتی اور لوہا ریت کا کام نہیں کر سکتا.ریت کیلئے خدا نے اور بہت سے کام مقرر کئے ہیں.بلکہ اب تو ریت کے پُل بھی تیار ہونے لگ گئے ہیں.جو سیمنٹ سے بھی زیادہ مضبوط ہوتے ہیں.لیکن جہاں ریت اس مفید کام پر صرف ہوتی ہے.وہاں پر بُرے رنگ میں بھی استعمال ہو جاتی ہے.ایک چور ریت کی مٹھی بھر کر شریف آدمی کی آنکھوں میں جھونک دیتا ہے اور خود بھاگ جاتا ہے.پس ریت بُرا کام بھی دے سکتی ہے اور اچھا بھی.اسی طرح لوہے سے اچھا کام بھی لیا جاسکتا ہے اور بُرا بھی.ایک ہی تلوار ہوتی ہے مگر اس سے ناحق کا خون بھی کیا جاسکتا ہے اور وہی تلوار ملک، قوم اور مذہب کی حفاظت کیلئے بھی استعمال ہو سکتی ہے.پس ہر انسانی جذبہ اچھی طرف بھی جاسکتا ہے اور بُری طرف بھی.تمہیں چاہیے کہ تم بجائے اپنے جذبات کو النے کے اسی میدان میں ترقی کرنے کی کوشش کرو جو تمہارے لئے مقرر کیا گیا ہے.بعض کا
خطبات محمود 114 سال ۱۹۳۳ء میلان شاعری کی طرف ہوتا ہے.اگر وہ شعر کہنے کی طرف ذرا بھی توجہ کریں تو بہت اچھے شعر کہہ سکتے ہیں.مگر بعض کا نثر کی طرف میلان ہوتا ہے وہ کتنا ہی زور لگائیں شعر ان سے نہیں بنتا.اور اگر بنے گا بھی تو نہایت پھس پھسا.پس اپنے اندر جو مادہ ہو اسی کو اللہ تعالیٰ کے راستہ میں ترقی دینے کی کوشش کرنی چاہیے.اللہ تعالی ہماری جماعت کو توفیق عطا فرمائے کہ جو جذبات اس کے اندر رکھے گئے ہیں، ان سے وہ اعلیٰ اور مفید کام لے تاکہ ایک نیک اور دائم رہنے والا نقش دنیا میں باقی رہے جو ہمیشہ نیکی کی یاد دلاتا رہے اور خدا تعالی کے فضلوں کی بارش ہم پر برساتا رہے.الفضل 11 - مئی ۱۹۳۳ء) له مسند احمد بن حنبل -جلد ۲ صفحه ۴۴۳ المكتب الاسلامي بيروت ۵۱۳۱۳ ت المائدة: ٦٦
خطبات محمود ||A ۱۴ حضرت سیدہ سارہ بیگم صاحبہ مرحومہ کی وفات کے متعلق بعض امور (فرموده ۱۹ - مئی ۱۹۳۳ء) سال ۱۹۲۳۴۳ء تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- پیشتر اس کے کہ میرے خیالات مجتمع ہوں اور میں انہیں تحریر میں لانے کے قابل ہوں.میں چاہتا ہوں کہ اس امر کے متعلق جو میرے دل میں ہے، بعض باتیں آج کے خطبہ میں بیان کر دوں.لیکن پیشتر اس کے کہ میں اصل مضمون کو شروع کروں میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ ان تمام دوستوں کا جو قادیان کے رہنے والے ہیں یا باہر کے اس ہمدردی کا شکریہ ادا کردوں جو انہوں نے میری بیوی کی وفات پر ظاہر کی ہے.انسان اس دنیا میں مرنے کیلئے ہی آیا ہے.اگر موت نہ ہوتی تو کوئی ترقی نہ ہوتی اور انسان کی پیدائش لغو ٹھرتی.ہم میں سے کون ہے جو دیانتداری کے ساتھ کہہ سکے کہ وہ اس دنیا میں ہزار دو ہزار چار ہزار سال کی زندگی کو پسند کرتا ہے بلکہ برداشت بھی کر سکتا ہے.بہت سے لوگ اپنی زندگی بچانے کیلئے مختلف قسم کی تدابیر اختیار کرتے ہیں.لیکن سمجھدار لوگ جن کے دل میں ذرا بھی خدا تعالیٰ کا خوف ہوتا ہے وہ کبھی بھی اس عام زندگی سے جو خدا تعالیٰ نے انسان کیلئے مقدر کر رکھی ہے، زیادہ کی خواہش نہیں کرتے.جاہل، بے دین اور ایمان نہ رکھنے والوں کیلئے قرآن کریم نے کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ہزار سال زندہ رہیں، حالانکہ دنیا کی عمر کے لحاظ سے ہزار سال بہت تھوڑے ہیں.لیکن اس سے یہ معلوم ہو سکتا
خطبات محمود 119 سال ۱۹۳۳ و ہے کہ بے دین لوگ بھی ہزار سال سے زیادہ زندہ رہنے کیلئے تیار نہیں.گویا جن کو خدا تعالیٰ ایمان نہیں اور سمجھتے ہیں کہ ساری خوشیاں اسی دنیا میں ہیں، ان کی نظر بھی ہزار دو ہزار سال تک ہی جاتی ہے.اس سے زیادہ وہ بھی برداشت نہیں کر سکتے.پس یہ دنیا رہنے کیلئے نہیں ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ آخرت کیلئے کچھ سامان جمع کرے.یہاں وہ اُس مکان کے لئے سامان فراہم کرنے کے واسطے بھیجا گیا ہے جہاں اس نے مستقل رہنا ہے.یا یہ کہ اسے موقع دیا گیا ہے کہ دو مقرر شدہ مکانوں میں سے ایک کو اپنے لئے مخصوص کرلے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ہر شخص کا ایک گھر جنت میں اور ایک دوزخ میں ہوتا ہے !.کوئی انسان تو اپنے اعمال سے جنت کے گھر کو چھوڑ بیٹھتا ہے اور دوزخ کے گھر کو اختیار کرلیتا ہے.اور کوئی دوزخ کے گھر کو ترک کر کے جنت کا گھر اختیار کر لیتا ہے.اگر ہم قرآن کریم پر نظر ڈالیں تو ایک تیسرا گروہ ہمیں نظر آتا ہے.جو دونوں کو استعمال کرتا ہے.پہلے وہ دوزخ کے گھر کی طرف جاتا ہے اور پھر جنت کے گھر کی طرف.پس کسی انسان کی موت ایک ایمان دار انسان کیلئے کوئی ایسا حادثہ نہیں جو غیر معمولی ہو یہ قانون اٹل ہے.یہ نہ بدلنے والی سنت ہے جس کو صدیق، شہید، صالح بلکہ انبیاء بھی نہیں بدل سکے.لیکن جہاں پر ایک اٹل قانون خدا تعالیٰ نے بنایا ہے کہ ہر انسان موت کا شکار ہو گا وہاں ایک اور اٹل قانون بھی ہے کہ ایک عرصہ تک اکٹھی رہنے والی چیزیں جب ایک دوسرے سے جدا ہوتی ہیں تو دل میں درد محسوس ہوتا ہے.رسول کریم ایک دفعہ ایک مجلس میں بیٹھے تھے کہ کوئی شخص آپ کو بلانے آیا کہ آپ کی صاحبزادی بلاتی ہیں کیونکہ آپ کا نواسہ بیمار ہے.آپ تشریف لے گئے اور ساتھ دوسرے صحابہ بھی تھے.بچہ اُس وقت نزع کی حالت میں اور بہت تکلیف میں تھا.آپ نے اسے گود میں اٹھالیا.اور اس کی حالت کو دیکھ کر آپ کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے.وہ بچہ وہیں فوت ہو گیا.تب ایک صحابی نے جو حقیقت سے آگاہ نہ تھا اور جسے عرفان کا مقام حاصل نہیں تھا کیا کیا اللہ تعالیٰ کا رسول بھی روتا ہے.آپ نے فرمایا تمہیں اللہ تعالیٰ نے سنگ دل بنایا ہوگا مجھے رحم دل بنایا ہے ہے.تو رسول کریم ﷺ جو سب سے زیادہ قرب الہی کے مقام پر تھے، انہوں نے بھی اس بچہ کی جدائی پر تکلیف محسوس کی.بلکہ جب اس پر اعتراض کیا گیا تو اسے سنگدلی قرار دیا.ایک اور واقعہ مجھے یاد پڑتا ہے اور میرا حافظہ ایک سے زیادہ واقعات کو ملاتا نہیں.تو وہ اس طرح ہے
خطبات کے محمود ย سال ۱۹۳۳ء کہ آپ نے اپنے چچازاد بھائی کو ایک لشکر کا نائب سالار بنا کر بھیجا آپ نے فرمایا کہ اس لشکر سردار زید بن حارثہ ہوں گے.لیکن اگر وہ شہید ہو جائیں تو جعفر ہوں گے.اور اگر وہ شہید ہوں تو پھر عبد الله " ان کی جگہ ہوں گے.خدا تعالی کی قدرت جنگ ہوئی اور زید مارے گئے جنہیں لوگ رسول کریم اللہ کا بیٹا کہا کرتے تھے.جعفر نے کمان ہاتھ میں لی لیکن وہ بھی مارے گئے.اور پھر عبداللہ " کمانڈر ہوئے لیکن وہ بھی کام آئے.اس پر لشکر میں بہت گھبراہٹ پیدا ہوئی.بعض مسلمان اپنے مقاموں سے پیچھے ہٹنا شروع ہوئے.اُس وقت حضرت خالد بن ولید نے آگے بڑھ کر اسلام کا جھنڈا تھام لیا اور کہا مسلمانو! یہ بھاگنے کا وقت نہیں بلکہ دلیری دکھانے کا ہے.اور اللہ تعالیٰ نے اُن کی ایسی نصرت کی کہ باوجودیکہ دشمن کی فوج بہت زیادہ تھی، وہ مرعوب ہو گیا.رات ہو گئی اور حضرت خالد نے مسلمانوں کو اندھیرے میں پیچھے ہٹالیا.اور اس طرح مسلمان تباہی سے بچ گئے.قبل اس کے کہ کوئی انسان آپ تک یہ خبر پہنچاتا رسول کریم ال سی کو بذریعہ وحی اس کی اطلاع ہو گئی.آپ منبر پر تشریف لائے مسلمانوں کو جمع کیا اور فرمایا مجھے اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ زید مارے گئے اور پھر جعفر اور عبداللہ بھی جنگ میں کام آئے.پھر ایک سَيْفٌ مِنْ سُيُوفِ اللَّهِ اس جگہ کھڑی ہوئی.اور اس کے ذریعہ اللہ تعالی نے مسلمانوں کو تباہی سے بچالیا.جب یہ لشکر واپس آیا تو جن جن لوگوں کے رشتہ دار مارے گئے تھے، انہیں تفصیلی حالات معلوم ہوئے تو کسی کی ماں نے کسی کی بہن نے کسی کی بیوی اور کسی کے اور رشتہ داروں نے رونا شروع کیا.تاریخ میں آتا ہے کہ جب رونے کی آوازیں آنا شروع ہوئیں تو رسول کریم کا بھی رو پڑے اور فرمایا سب گھروں سے رونے کی آوازیں آتی ہیں مگر جعفر کے گھر سے کوئی آواز نہیں آتی.اس کی وجہ تھی کہ وہ مدینہ میں مسافر تھے.اور یہاں ان کا کوئی قریبی رشتہ دار نہ تھا.یہ ایک درد کا اظہار تھا.اس کے یہ معنی ہرگز نہ تھے کہ یہ کوئی اچھی چیز تھی.جعفر " چونکہ رسول کریم کے چیرے بھائی تھے.اور سب رشتہ داروں کو چھوڑ کر رسول کریم ﷺ کے ساتھ ہجرت کر آئے تھے.دوسروں کو روتے دیکھ کر آپ کو خیال ہوا کہ اگر ان کے بھی عزیز یہاں ہوتے تو وہ بھی روتے.صحابہ کرام " جو رسول کریم ﷺ کی ہر خواہش کو پورا کرنا ضروری : سمجھتے تھے، انہوں نے آکر اپنی مستورات کو گھروں سے کھینچ کھینچ کر نکالا کہ حضرت جعفر کے گھر جاؤ.اور تھوڑے ہی عرصہ میں ان کے گھر کہرام مچ گیا.رسول کریم ﷺ نے دریافت ا
سال ۱۹۳۳ء خطبات محمود رض ۱۲۱ تعلیم گویا فرمایا کہ یہ کیا ہو رہا ہے.صحابہ نے عرض کیا کہ مدینہ کی عورتیں جعفر کے گھر میں روتی ہیں.ونکہ آپ کا یہ اصل منشاء نہ تھا اس لئے آپ نے فرمایا ان کو روکو.آپ نے یہ الفاظ محض اظہارِ درد کیلئے فرمائے تھے کہ جعفر وطن سے دور تھا، اس پر رونے والا کوئی نہیں.یہ اس کی مسکینی کی موت کا احساس تھا.مگر وہ تھوڑے سے عزیز جو مدینہ میں تھے اور باقی صحابیہ عورتوں کے دلوں میں بھی وہ درد پیدا ہوچکا تھا جو آپ پیدا کرنا چاہتے تھے.اس لئے لوگوں نے جاکر روکا مگر وہ نہ رکیں.اس پر کسی نے آکر رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ وہ بند نہیں ہوتیں.آپ نے فرمایا کہ ان کے منہ پر مٹی ڈالو یعنی ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو سے لیکن بعض لوگوں نے اس کا مفہوم صحیح نہ سمجھا اور فی الواقعہ مٹی اُٹھالی.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو جب علم ہوا تو آپ نے ان کو ڈانٹا اور بتایا کہ آپ کا یہ مطلب نہیں.غرض قدرتی طور پر جب ایک شخص کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اور وہ دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو ایک درد پیدا ہوتا ہے.مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ مومن اسے دائمی جدائی سمجھتا ہے.مومن کیلئے جُدائی دائمی نہیں ہوتی، یہ ایک سفر ہے جس میں کوئی پہلے پہنچ جاتا ہے اور کوئی پیچھے.بعینہ اس طرح جس طرح ایک طالب علم کسی بیرونی ملک میں حصول تا کیلئے جاتا ہے تو ماں باپ یا دوسرے رشتہ داروں پر رقت طاری ہو جاتی ہے حالانکہ وہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ یہ معین وقت کی جدائی ہے جس کے نتیجہ میں جدا ہونے والا ترقیات حاصل کرے گا کمائے گا خود کھائے گا اور ہمیں کھلائے گا.مگر یہ ایک غیر معین جدائی ہوتی ہے.اور دیر اس جدائی سے زیادہ اثر ڈالتی ہے.کیونکہ معلوم نہیں ہوتا وہ کب ختم ہو.اور اس رنگ کا افسوس مومن کو ضرور ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے مولوی عبدالکریم صاحب کو خاص عشق تھا.اور ایسا عشق تھا کہ اسے وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے اُس زمانہ کو دیکھا دوسرے لوگ اس کا قیاس بھی نہیں کرسکتے.وہ ایسے وقت میں فوت ہوئے جب میری عمر سولہ سترہ سال تھی.اور جس زمانہ سے میں نے ان کی محبت کو شناخت کیا ہے.اُس وقت میری عمر بارہ تیرہ سال کی ہوگی یعنی بچپن کی عمر تھی.لیکن باوجود اس کے مجھ پر ایک ایسا گہرا نقش ہے کہ مولوی صاحب کی دو چیزیں مجھے کبھی نہیں بھولتیں.ایک تو اُن کا پانی پینا اور ایک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ان کی محبت.آپ ٹھنڈا پانی بہت پسند کرتے تھے اور اسے بڑے شوق سے پیتے تھے.اور پیتے وقت غٹ غٹ کی ایسی آواز آیا کرتی تھی کہ گویا ا
خطبات محمود ۱۲۲ سال ۱۹۳۳ و اللہ تعالیٰ نے ان کیلئے جنت کی نعمتوں کو جمع کرکے بھیج دیا ہے.اس زمانہ میں اس مسجد اقصیٰ کے کنویں کا پانی بہت مشہور تھا.اب تو معلوم نہیں لوگ کیوں اس کا نام نہیں لیتے.آپ کا طریق یہ تھا کہ کہتے بھی کوئی ثواب کماؤ اور پانی لاؤ.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام خود موجود ہوتے تو اور بات تھی.وگرنہ آپ سیڑھیوں پر آکر انتظار میں کھڑے ہو جاتے اور پھر لوٹا لے کر منہ سے لگالیتے.دوسرے آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں بیٹھے ہوتے تو یوں معلوم ہوتا کہ آپ کی آنکھیں حضور کے جسم میں سے کوئی چیز لے کر کھارہی ہیں.اُس وقت گویا آپ کے چہرے پر بشاشت اور شگفتگی کا ایک باغ لہرا رہا ہوتا تھا.اور آپ کے چہرہ کا ذرہ ذرہ مسرت کی لہر پھینک رہا ہوتا تھا.جس طرح مسکرا مسکرا کا آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی باتیں سنتے اور جس طرح پہلو بدل بدل کر داد دیتے وہ قابل دید نظارہ ہوتا.اگر اس کا تھوڑا سا رنگ میں نے کسی اور میں دیکھا تو وہ حافظ روشن علی صاحب مرحوم تھے.غرض مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے خاص عشق تھا.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی آپ سے ویسی ہی محبت تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طریق تھا کہ مغرب کی نماز کے بعد ہمیشہ بیٹھ کر باتیں کرتے.لیکن.مولوی صاحب کی وفات کے بعد آپ نے ایسا کرنا چھوڑ دیا.کسی نے عرض کیا کہ حضور اب بیٹھتے نہیں.تو فرمایا کہ مولوی عبد الکریم صاحب کی جگہ کو خالی دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے.حالانکہ کون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے زیادہ اللہ تعالی کو حتی اور دوبارہ زندگی دینے والا یقین کرتا ہو..پس باوجود اس کے کہ موت ایک لازمی چیز ہے اور ہر ایک کیلئے مقدر ہے، ایسے مواقع طبعاً ایک تکلیف ہوتی ہے.اور اس تکلیف کے درجہ کے مطابق ہی اس ہمدردی سے بھی مسرت ہوتی ہے جو دوستوں کی طرف سے ظاہر ہو.اور وہ ہمدردی اور اشتراک جو یہاں کے دوستوں نے عام طور پر ظاہر کیا، وہ اس رنج کے مقابل میں ویسا ہی اطمینان پیدا کرنے والی چیز تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت میں اتحاد پیدا کیا ہے کہ جس کی نظیر کہیں نہیں مل سکتی.رنج کے وقت تو انسان یہ خیال ہی نہیں کر سکتا کہ دوسروں پر کیا اثر ہے.اس لئے صبح کے وقت میں جب قادیان میں داخل ہوا تو میرے دل کے کسی گوشہ میں بھی کوئی خیال نہ تھا کہ لوگ کیا احساس رکھتے ہیں.لیکن جونہی میں یہاں آیا یہاں کے ہر ایک چہرہ نے میری توجہ کو
خطبات محمود اپنی طرف کھینچ لیا.اور میں نے محسوس کیا کہ اکثر افراد اپنے دلوں میں ویسا ہی درد محسوس کرتے ہیں جیسا کہ اپنے کسی عزیز کی موت پر ہو سکتا ہے.باہر کی جماعتوں کے احساسات کا اندازہ تو میں لفظوں سے ہی لگا سکتا ہوں کیونکہ اُن کے چہرے میرے سامنے نہ تھے.اور صحیح اندازہ انسان شکل سے ہی لگا سکتا ہے کیونکہ شکلیں مستقل طور پر تصنع سے بنائی نہیں جاسکتیں لیکن الفاظ بنائے جاسکتے ہیں.مگر معلوم ہوتا ہے کہ جماعت نے اس رنج کو مجموعی طور پر ایک سا محسوس کیا ہے.جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے میرا ارادہ ہے کہ اس بارہ میں کچھ خیالات تحریر کروں.لیکن ابھی تک وہ پراگندہ ہیں اور مجتمع نہیں ہو سکے.اس لئے کچھ دنوں تک تو انہیں تحریر میں نہیں لاسکتا.لیکن ایک بات ہے جس کا اظہار میں ابھی کر دینا چاہتا ہوں.اس لئے نہیں کہ کسی پر الزام دوں، اس لئے نہیں کہ کسی پر شکوہ کروں.اللہ تعالی بہتر جانتا ہے کہ میں نے دو دن تک اس سوال کے سارے پہلوؤں کو اُلٹ پھیر کر دیکھا ہے اور اسی نتیجہ پر پہنچا ہوں.اور واقعات بھی اس ایمان کی تصدیق کرتے ہیں جو قرآن کریم نے ہمارے دل میں پیدا کیا ہے کہ خواہ رنج ہو یا خوشی، اس کے پیچھے اصل ایک ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے منشاء کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا.میرے دل کے جذبات خواہ اس درد کو محسوس کریں اور شدید طور پر محسوس کریں جو ایک طبعی امر ہے.مگر ایمان اور عقل دونوں کہہ رہے ہیں کہ ہم اس جذباتی درد کا ساتھ نہیں دے سکتے.وہ اس سے انکار نہیں کرتے کہ درد محمد رسول اللہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی ظاہر ہوچکا ہے.مگر وہ کہتے ہیں کہ کتنا ہی یہ کبھی ہمارے دائرہ سے باہر کی چیز ہے، ہم اس میں شریک نہیں ہو سکتے.جذبات، عقل اور ایمان اکٹھے ہو جاتے ہیں، کبھی جدا جدا اور کبھی دو دو.تو میری عقل اور ایمان اگرچہ جذبات پر اعتراض تو نہیں کرتے مگر شریک ہونے سے بھی انکار کرتے ہیں.اور کہتے ہیں کہ اس جگہ اللہ تعالٰی نے دائرے مختلف بنائے ہیں.اس حادثہ سے قبل میں نے کئی رویا دیکھے اور بھی بہت سے لوگوں نے دیکھے جن میں اس کی طرف اشارہ تھا.میں جب ڈلہوزی میں تھا تو اس وقت میں نے ایک رؤیا دیکھا کہ میں قادیان سے باہر ہوں.اور قادیان سے اطلاع آئی ہے کہ وہاں ایک ایسی وفات واقع ہوئی ہے جس سے زمین و آسمان ہل گئے ہیں.یہ خبر سن کر میں سوچتا ہوں کہ میں اب وہاں کیسے پہنچوں گا.اُس وقت گویا کوئی میری تسلی کیلئے کہتا ہے.ہندو یا سکھ کی موت ہوگی.میں اس پر کہتا ہوں کہ ہندو یا سکھ کی موت پر تو زمین و آسمان
خطبات محمود ۱۲۴ سال ۱۹۳۳ء نہیں ہل سکتے.پھر وہ خیال پیش کرتا ہے کہ اس سے ہندوؤں اور سکھوں کی زمین و آسمان مراد ہوگی.اس کے بعد مجھے حضرت اُم المؤمنین کی بیماری کی اطلاع پہنچی تو اس رویا کی طرف میرا خیال گیا اور رستہ میں میں نے دوستوں کو یہ سنایا لیکن اللہ تعالٰی نے انہیں شفا دے دی.ڈلہوزی سے میری واپسی پر مولوی سید عبدالستار صاحب جو بہت مخلص، علم اور خدارسیدہ انسان تھے، ان کی وفات ہو گئی تو میں نے اس خواب کو اُس پر چسپاں کیا.اور اگرچہ میری موجودگی میں وہ فوت ہوئے مگر میں نے خیال کیا کہ وہ بیمار تو میری عدم موجودگی میں ہوئے تھے.اس لئے وفات خواہ میری موجودگی میں ہوئی، یہ رویا پورا ہو گیا.مگر رویا میں یہ تھا کہ میں پہاڑ پر نہیں ہوں بلکہ میدانی علاقہ میں ہوں اور وفات میری غیر حاضری میں ہوئی ہے.پھر جس دن ساره بیگم کی وفات ہوئی ہے، اُس دن صبح جب میں اٹھا تو میری زبان پر جاری تھا مُردہ قادیان یا مردہ قادیانی.میں نے اس سے خیال کیا کہ مخالفین جو کہتے ہیں، قادیانی مُردہ باد شاید اس سے یہ مراد ہو کہ کوئی مخالف ہمارے خلاف کوئی کتاب لکھے گا یا لیکچر دے گا.اور یہ خیال اتنا غالب تھا کہ جب مجھے بیماری کا تار پہنچا تو پھر بھی اس طرف میرا خیال نہیں گیا.پھر رسید حبیب اللہ صاحب نے اسی دن خواب دیکھا کہ ہمارے خاندان میں کوئی وفات ہو گئی ہے.ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب نے مجھے لکھا کہ میں نے آپ کی بعض بیویوں کی وفات کے متعلق خواب دیکھا ہے.میاں عطاء اللہ صاحب پلیڈر نے لکھا کہ اُسی دن جس دن اخبار پہنچا جس میں یہ خبر درج تھی مجھے خواب میں ایک مزار دکھایا گیا جس پر میرا نام درج تھا.میں گھبرا کر اُٹھ بیٹھا اور تھوڑی دیر کے بعد ہی اخبار کا وہ پرچہ پہنچ گیا جس میں یہ خبر درج تھی.قاضی عبدالرحیم صاحب نے اپنی بیوی کا ایک عجیب کشف لکھا ہے جسے وہ ہذیان سمجھتے رہے کیونکہ ان کی بیوی گزشتہ جمعہ کے روز سخت بیمار تھی.اُن کی لڑکی امتہ العزیز کے ساره بیگم مرحومہ کے ساتھ بہت تعلقات تھے.مولوی کا امتحان دونوں نے اکٹھے دیا تھا.آخری بار میں نے اسے سارہ بیگم مرحومہ کے ساتھ ہی دیکھا تھا.اور انہوں نے مجھے بڑے اصرار کے ساتھ کہا تھا کہ یہ کچھ بیمار ہیں، انہیں ضرور کوئی دوائی دو.قاضی صاحب نے لکھا ہے کہ جمعہ کے روز ان کی بیوی بہت بیمار تھیں.اور بار بار کہہ رہیں تھیں کہ امتہ العزیز آئی ہے اور کہتی ہے کہ میں شام تک سارہ بیگم کے پاس رہی ہوں اور انہیں لینے آئی ہوں.وہ بار بار اس بات کو زہراتی تھیں اور کہتی تھیں کہ مجھے سارہ بیگم کے پاس لے چلو.میں ان
خطبات محمود ۱۲۵ سال ۱۹۳۳ء ا لگتا ہے کہ سے پوچھوں کہ امتہ العزیز آئی ہے یا نہیں.اُسی دن پٹھانکوٹ میں ایک دوست نے خواب دیکھا.شائد اُس دن جب وہ بیمار ہوئیں یا اُس دن جب وفات ہوئی.یہ مجھے یاد نہیں رہا انہوں نے دیکھا کہ میں بہت افسردہ ہوں اور زمین کھدوا رہا ہوں ان سب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ وفات اللہ تعالی کی طرف سے مقدر تھی.لیکن ان خوابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے ان کی وفات کو اہمیت دی ہے.جبھی تو راولپنڈی، دہلی، پٹھانکوٹ ضلع جالندھر اور مختلف مقامات پر اس کی اطلاع دی.ان کے علاوہ اور بھی بہت سے خواب ہیں جو مجھے یاد نہیں رہے.مگر اس کثرت سے ہیں کہ ایک اچھا خاصہ مجموعہ بن جاتا ہے.اور بظاہر پتہ اللہ تعالیٰ نے اس رنج کو ایک قومی رنج قرار دیا ہے.تبھی تو ملک کے مختلف گوشوں میں اس کی قبل از وقت خبر دی.اور اس طرح گویا واقعہ سے پہلے ہی ہمدردی کا اظہار کردیا.حدیث قدسی میں بھی آتا ہے کہ وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيْءٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِى عَنْ نَفْسِ الْمُؤْمِنِ يَكْرَهُ الْمَوْتَ وَأَنَا أَكْرَهُ مَسَاقَهُ وَلَا بُدَّلَهُ مِنْهُ ى یعنی اللہ تعالی کو مومن بندے کی جان نکالنے میں تردد ہوتا ہے.اور اس وقت عرش الہی کانپتا ہے یہی وہ بات تھی جس کی طرف میرے رویا میں اشارہ تھا کہ زمین و آسمان کانپ گئے ہیں اور اس کا بھی یہی مطلب ہے.مگر ایک بات ایسی کہ جب سے میں یہاں آیا ہوں، میرے کان میں پڑ رہی ہے.اور وہ جس صورت میں کہ دوستوں تک پہنچی طبعاً ان کیلئے بھی اور میری قلبی کیفیت کے پیش نظر میرے واسطے بھی رنج کا موجب ہے.بعض حالات ایسے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے عام طور پر دوستوں کو رنج اور شکوہ ہے.اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر سچا اُنس اور ہمدردی ہو تو اس قسم کا شکوہ پیدا ہونا بھی ایک طبعی امر ہے.میں نے اس معاملہ کی تحقیقات کی ہے جس حد تک کہ میں شرعاً جائز سمجھتا تھا.اور جس نتیجہ پر میں پہنچا ہوں وہ یہ ہے کہ جب ایک امر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر ہوچکا ہو اور اللہ تعالی اس کیلئے بیسیوں رویا اور کشوف دیکھا چکا ہو، اس کے متعلق یہ کہنا کہ یہ ہوتا تو یوں ہو جاتا.یوں ہوتا تو یہ ہو جاتا قطعاً غلط ہے.امتہ الحی مرحومہ کی بیماری کی اطلاع مجھے بمبئی میں ملی تھی.اور میرے دل نے محسوس کیا کہ یہ خطرناک ہے.وہاں سے جب میں ریل میں سوار ہوا تو منہ کھڑکی سے باہر نکال لیا تا کرب کی حالت کوئی اور نہ دیکھ سکے اور اللہ تعالٰی سے دعا شروع کی.اور اس نتیجہ پر پہنچ گیا کہ مجھے وہاں پہنچنے کا موقع مل جائے گا.اگرہ پہنچتے پہنچتے حالات کے تسلی بخش ہونے کی اطلاع بھی مل گئی.ابھی دو روز ہی
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء ہوئے میں والدہ صاحبہ حضرت اُم المؤمنین سے یہی باتیں کر رہا تھا.انہوں بھی نے بتایا کہ اُس وقت امتہ الحئی مرحومہ کی حالت بہت خطرناک تھی لیکن پھر سنبھل گئی.غرضیکہ میں پہنچ گیا اور اس کے دس بارہ روز بعد ان کی وفات ہوئی.کیونکہ یہی مقدر تھا جیسا کہ ولایت جانے سے پہلے ہی بتایا گیا تھا.مگر دعاؤں کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجھے ان سے اور انہیں مجھ سے ملنے کا موقع مل گیا.ان کا علاج تین ڈاکٹر کر رہے تھے.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب جو بہت مشہور ڈاکٹر ہیں.ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب جیسے عمر رسیدہ اور تجربہ کار ڈاکٹر جو میڈیکل میں پروفیسر بھی رہ چکے ہیں اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب یہ تینوں معالج تھے.جس روز عصر کے قریب ان کا انتقال ہوا اسی دن نو بجے کے قریب میں نے ان تینوں کو جمع کیا اور کہا کہ کئی باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ انسان کہنے سے شرماتا ہے.لیکن اگر اسے اپنی موت کا یقین ہو جائے تو کہہ دیتا ہے.اسی طرح کئی باتیں جو بظاہر پوچھنا مناسب نہیں ہوتیں وہ پوچھ بھی لی جاسکتی ہیں.یا یہ دریافت کیا ہے کہ اگر کوئی خواہش ہو تو بتا دو.پس اگر حالت ایسی ہو تو بتادیں تا انہیں بھی بتادیا جائے.اور ان کے دل میں اگر کوئی بات ہو تو کہہ دیں.مگر متیوں نے جن میں سے دو بڑے لمبے تجربہ والے اور تیسرے بھی اچھا تجربہ رکھنے والے تھے، متفقہ طور پر کہا کہ کوئی خطرناک بات نہیں.یہ ہسٹیریا کے دورے ہیں.لیکن اس بیان کے چار گھنٹے بعد وہ فوت ہو گئیں.پس ڈاکٹری ایک ظنی علم ہے اور اس کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کس حد تک صحیح ہوگا اور کس حد تک غلط بعض اوقات علاج ایک رحمت کے فرشتے کی صورت میں نازل ہوتا ہے.اور بعض اوقات کچھ بھی اثر نہیں رکھتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام فرمایا کرتے تھے کہ جرمنی کا ایک بادشاہ تھا اسے خناق ہو گیا.اور برابر آٹھ گھنٹے یورپ کے چوٹی کے ڈاکٹروں اور ملک الموت میں گشتی ہوتی رہی، آخر ملک الموت غالب آگیا.ڈاکٹروں کا کام زندہ کرنا نہیں، صرف کوشش ہے اور اگر کوئی دیانت داری سے کوشش کرتا ہے تو اس پر کوئی شکوہ نہیں.اس لئے میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ شکوہ نہیں بلکہ اصلاح ہے اور آئندہ کی احتیاط کیلئے ہے.ایسے موقع پر میں شکوہ کرنا فضول سمجھتا ہوں.اس لئے کہ جو نقصان ہو چکا اس کے متعلق شکوہ فضول ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ غلطی ہوئی.کیونکہ ممکن ہے میں خود بھی ہوتا تو یہ غلطی ہو جاتی.مگر میں جانتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان یا خلیفہ وقت کے نقصان کو ساری جماعت اپنا نقصان سمجھتی ہے.اور اس طرح چونکہ اس سے
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء لاکھوں انسانوں کا تعلق ہے اور انہوں نے اسے محسوس کیا ہے.میرے پاس تو بعض ایسے خطوط آئے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کئی دوستوں نے ایسا محسوس کیا ہے کہ انہیں اپنے عزیزوں کے متعلق بھی ایسا صدمہ نہ ہوتا.آج ہی ایک خط آیا ہے.ایک دوست لکھتے ہیں کہ میں اخبار پڑھ رہا تھا اور اس قدر رنج ہوا کہ ساری خبر بھی نہ پڑھ سکا اور الٹا لیٹ کر چیچنیں مارنے لگ گیا.شور سن کر میری بیوی آئی اور وجہ دریافت کرنے لگی.میں رقت کے سبب بات بھی نہ کر سکتا تھا.آخر اُس نے اخبار اٹھا کر پڑھا تو اس پر بھی وہی کیفیت طاری ہو گئی.حتی کہ گاؤں کے غیر احمدی، ہندو، سکھ سب اکٹھے ہو گئے کہ کیا تمہارے ہاں کوئی ماتم ہو گیا ہے.تو ایک ایسی خبر جس کا اثر لاکھوں انسانوں پر پڑتا ہو اس کے متعلق بعض احتیاطوں کی ضرورت ہے.اور میں سمجھتا ہوں چاہیے تھا کہ جس وقت رات کو سارہ بیگم بیمار ہوئی تھیں، اُسی وقت مجھے تار دے دیا جاتا.اور میرا تجربہ ہے جو کبھی فیل نہیں ہوا کہ جب بھی مجھے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی توفیق مل گئی ہے، وہ بات یا تو ٹل گئی ہے یا ملتوی ہو گئی ہے.میں نے جب سے ہوش سنبھالا یہ میرا تجربہ ہے حتی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب لاہور میں بیمار ہوئے تو آپ نے فرمایا محمود کو جگاؤ میں جاگا تو کوٹھے پر دعا کیلئے گیا.مگر دل میں دعا کیلئے جوش نہ پیدا ہوا.الفاظ تو منہ سے نکلتے تھے مگر دل میں جوش نہیں پیدا ہوتا تھا.آخر ایک گھنٹہ کی کوشش کے بعد اگر جوش پیدا ہوا تو اِس امر پر کہ خدایا کیا میرے دل میں تجھ پر اور تیرے رسولوں پر ایمان نہیں رہا کہ تیرا رسول اور ہمارا امام اس حالت میں ہے اور میرے دل میں دعا کیلئے جوش پیدا نہیں ہوتا.اور اس طرح میں ایک گھنٹہ روتا رہا مگر صحت کی دعا کی طرف توجہ اور وہ حالت جس میں انسان سمجھتا ہے کہ میں نے خدا سے بات منوالی ہے، نہ پیدا ہو سکی.دوسری ضروری چیز یہ تھی کہ مقامی امیر کو فوراً اطلاع دی جاتی.بیسیوں لوگوں نے مجھ سے شکوہ کیا ہے کہ اگر پتہ لگتا تو کم سے کم دعا ہی کرتے.اور انہیں افسوس ہے کہ دعا بھی نہ کر سکے.اگر مقامی امیر کو اطلاع ہو جاتی تو سینکڑوں لوگ دعا کرتے اور ممکن ہے ان سے اتنا وقت مل جاتا کہ میں واپس آجاتا.پھر جو تار مجھے دیا گیا، اس کے الفاظ اتنے کمزور تھے کہ سوائے معمولی بیماری کے جو ہر حاملہ کو ہو سکتی ہے، کوئی زیادہ بات ظاہر نہ ہوتی تھی.پھر آپریشن کرنے یا اس کے ختم ہونے کی مجھے کوئی اطلاع نہیں دی گئی.مگر میں پھر کہوں گا کہ تقدیر ایسی ہی تھی.کیونکہ جب مجھے اطلاع ملی تو میں نے اسباب باندھنے کیلئے کہا.اُس وقت
سال ۱۹۳۳ء خطبات محمود مطمئن ۱۲۸ میری ایک بیوی اپنے بھائی کے ہاں تھیں.انہیں کہلا بھیجا کہ اگر جاتا ہو تو تیار ہو جاؤ.اور دوسری طرف حالات دریافت کرنے کیلئے تار لکھ کر شیخ یوسف علی صاحب پرائیویٹ سیکرٹری کو دیا.لیکن مجھے یہ وہم بھی نہ تھا کہ ایسے ضروری تار کیلئے یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ ایکسپریس بھیجا جائے.انہوں نے آرڈنری بھیج دیا جو وفات کے پندرہ منٹ بعد یہاں پر پہنچا.اُدھر میں تھا کہ اس وقت تک جو جواب نہیں آیا تو آرام ہی ہوگا.اور میں نے یہ خیال کیا کہ شیخ صاحب نے ایسی بیوقوفی کہاں کی ہوگی کہ آرڈنری (ORDINARY) تار دیا ہو.یقیناً آرام ہوگا جو اب تک جواب نہیں آیا.میرا ذہن بھی اس طرف نہیں گیا کہ شیخ صاحب نے ایسی غلطی کی ہے.میں جواب نہ ملنے کے یہی معنی سمجھتا رہا کہ آرام ہے.کیونکہ جب آرام ہو تو تار دینے کی جلدی نہیں ہوا کرتی.جب وفات کی خبر ملی تو یہاں پہنچنے تک مجھے یہ رنج رہا کہ جلد تار کا جواب کیوں نہیں دیا گیا.مگر یہاں آکر معلوم ہوا کہ وہ وفات کے پندرہ منٹ بعد یہاں پہنچا تھا.یہ غلطی راولپنڈی میں میری موجودگی میں ہوئی.پس میں اس غلطی کو ایک نادانستہ غلطی سمجھتا ہوں.لیکن ساتھ ہی یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ایک غلطی تھی.ایسے موقع دوستوں کو اطلاع ہونی چاہیے تھی تا دعا کی تحریک ہو.اور اس کیلئے مقامی امیر کو فوراً اطلاع دینی چاہیے تھی.وہ فوراً اطلاع کرتے اور دوستوں کو اطلاع ہو جاتی.پھر فوراً میری طرف بھی ع بھیجنی چاہیے تھی.اگر مجھے رات کو ہی تار دے دیا جاتا تو وہاں کثرت سے ہوائی جہاز ملتے ہیں.ممکن تھا اگر انتظام ہو سکتا تو میں ایک گھنٹے میں یعنی صبح سات آٹھ بجے تک یہاں پہنچ سکتا.پھر اگر آپریشن ہونا ہوتا تو میرے سامنے ہوتا اور اگر وفات ہی مقدر تھی تو وہ بھی میرے اطلاع سامنے ہوتی.اپک دوسری احتیاط جو ضروری تھی یہ ہے کہ زچگی بہت بڑی تکلیف کا موجب ہوتی ہے خصوصاً دوسری بار تو ہر عورت یہی سمجھتی ہے کہ وہ مر جائے گی سوائے اُجڑ جاہل عورتوں کے جن کی حس مردہ ہو چکی ہو.سب تعلیم یافتہ اور سمجھدار عورتیں ہر حمل کے موقع پر یہی کہتی اور ہیں کہ ہم اب کے مر جائیں گی.مگر باوجود اس کے یہ صحیح نہیں ہوتا.اس لئے جو عورت ایسا کیے اس کے متعلق سمجھ لینا کہ کوئی خاص بات ہے یہ تو صحیح نہیں مگر باوجود اس کے اس میں کلام نہیں.اطباء اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ زچگی کے بعد عورت کو نئی زندگی حاصل ہوتی ہے.پھر کسی کا یہ خیال کرنا کہ کسی کے مشورہ کی ضرورت نہیں، بالکل غلط بات ہے.قادیان
خطبات محمود ۱۲۹ سال ۱۹۳۳ء تھا.ہو.میں اس وقت چھ ڈاکٹر تھے.ڈاکٹر غلام احمد صاحب جو طب کی بڑی سے بڑی ڈگری ولایت.حاصل کر کے آئے ہیں.ان کے برابر ابھی تک ہماری جماعت میں کسی نے ڈگری حاصل نہیں کی.ان کے علاوہ ڈاکٹر عبدالسمیع صاحب تھے.ڈاکٹر سید رشید احمد صاحب تھے.ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب، بھائی عبدالرحیم صاحب کے لڑکے - ڈاکٹر نذیر احمد صاحب پسر ماسٹر عبدالرحمن جالندھری تھے.ڈاکٹر لعل دین صاحب تھے.ان میں سے ایک ولایت کا تعلیم یافتہ، ایک اسسٹنٹ سرجن، چار سب اسٹنٹ سرجن تھے.ان میں سے ممکن ہے بعض کا علم نہ ہو لیکن بعض کا ضرور علم لیکن باوجود اس کے نہ تو تیمارداروں کو اور نہ ہی معالجوں کو یہ خیال آیا کہ ہم سے بھی وسکتی ہے، کسی اور کو بھی مشورہ کیلئے بلائیں.میرے رشتہ داروں کو خیال کرنا چاہیے تھا کہ اگر میں یہاں ہوتا تو کیا کرتا.وہ کہتے ہیں کہ ہم نے ڈاکٹر صاحب کو کہا تھا کہ کیا اور ڈاکٹر بلانے کی ضرورت ہے.تو انہوں نے کہا کہ ہاں کوئی اور ڈاکٹر آجائے تو اچھا ہے کیونکہ اس طرح نرس فارغ ہو جائے گی اور مجھے اس کی بہت ضرورت ہے.لیکن اس کے بعد نہ رشتہ داروں کو دوسرا ڈاکٹر بلانے کا خیال آیا اور نہ ڈاکٹر صاحب کو.حالانکہ ایسی حالت خطرناک تھی خون آرہا تھا بچہ ٹیڑھا ہوا ہوا تھا، کمزوری تھی.اول تو چاہیے تھا کہ امرتسر سے کسی کو بلالیا جاتا یا وہاں پہنچا ہی دیا جاتا.لیکن اگر یہ نہیں ہو سکتا تھا تو کم سے کم یہاں کے ڈاکٹروں سے تو مشورہ کیا جاتا.یہ خود معالج کی اپنی عزت کے بچاؤ کیلئے ضروری تھا.ہندوستانی ڈاکٹروں میں سے ننانوے فیصدی ایسے ہیں جو دوسرے سے مشورہ کو اپنی ہتک سمجھتے ہیں.اس میں شک نہیں کہ ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب تجربہ میں جتنے سب اسٹنٹ سرجن میں نے دیکھے ہیں، ان سے اچھے ہیں.مگر باوجود اس کے یہ معنے نہیں کہ انہیں مشورہ کی ضرورت نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا قاعدہ تھا اور خود میں بھی جب ۱۹۱۸ء میں بیمار ہوا تو میں نے بھی ایسا ہی کیا کہ طبیب اور ڈاکٹر سب جمع کرلئے.ڈاکٹروں کی دوائی بھی کھاتا تھا اور طبیبوں کی بھی.کیا معلوم اللہ تعالی کس سے فائدہ دے دے.اگر کوئی ڈاکٹر اپنے کو خدا سمجھتا ہے تو سمجھے، ہم تو اسے بندہ ہی سمجھتے ہیں.یورپ کے ڈاکٹروں میں یہ مرض نہیں.وہاں کے ڈاکٹر جب دیکھیں کہ حالت خطرناک ہے یا ان کا جو اندازہ ہے کہ اتنے دنوں میں آرام ہوگا وہ پورا نہ ہو تو خود کہہ دیتے ہیں کہ دوسرا ڈاکٹر بلاؤ.اور پھر اس سے خود تبادلۂ خیالات کرکے مناسب علاج تجویز کریں گے.بلکہ ان کے ہاں علاج کے ساتھ ڈاکٹر کا یہ بھی فرض ہے کہ جو ڈاکٹر کسی فیملی کا
خطبات محمود معالج.۱۳۰ سال ۱۹۳۳ء ہو وہ حالت خراب ہونے کی صورت میں فوراً کہہ دے کہ دوسرے ڈاکٹر کو بلاؤ.اور اگر میری رائے پر چلنا ہو تو فلاں فلاں کو بلاؤ.اس کے یہ معنے نہیں کہ مریض ضرور بچ جائے گا.کیونکہ لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ إِلا الْمَوت سے دس ہزار ڈاکٹر بھی اگر جمع ہو جائیں.تو جس نے مرنا ہے وہ مرے گا.مگر کہنے والوں کو تو یہ موقع نہیں ملے گا کہ ڈاکٹر کی غلطی سے وفات واقع ہو گئی.پس ڈاکٹر کی عزت کی حفاظت کیلئے بھی یہ ضروری ہے جب وہ یہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ کرتا ہوں میں ہی کرتا ہوں تو خدا تعالیٰ کی مدد بھی اس کے شامل حال نہیں رہتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سلطان عبد الحمید خان معزول کی بہت تعریف فرمایا کرتے تھے.اور سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ جنگ کی تیاریاں کی گئیں.اور جب مکمل ہو گئیں تو کسی نے کہا کہ ایک چیز رہ گئی.اس پر اس نے بہت ہی پیاری بات کہی کہ کوئی خانہ خدا کیلئے بھی چھوڑ دو.تو خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوئے ملک الموت کا رستہ تو ڈاکٹر نہیں روک سکتے لیکن دوسروں کا مشورہ ضروری ہے، سوائے اس کے کہ مریض خود کسی اور کو بلانا پسند نہ کرے یا غریب ہو.لیکن ڈاکٹر کا فرض ہے کہ یہ بات پیش کردے.اور حالات ایسے ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ مشورہ کی ضرورت تھی.زندہ بچہ ہاتھ کٹا ہوا آدھ گھنٹہ تک خون کے چوبچہ میں پڑا رہا.اگر ایک دو ڈاکٹر اور بھی وہاں ہوتے تو دو اگر ماں کی طرف متوجہ رہتے تو ایک بچہ کو بھی دیکھ یوں تو کسی کو کیا پتہ ہے کہ کیا ہونے والا ہے لیکن اپنی کوشش ضروری تھی.میں خود باہر سے ڈاکٹر اپنے لئے یا اپنے خاندان کے لوگوں کیلئے نہیں بلایا کرتا.میرے لئے صرف ایک دفعہ باہر سے ڈاکٹر آیا ہے.مگر مجھے آج تک معلوم نہیں کہ اُس کی فیس کس نے ادا کی.مجھ سے کہا گیا کہ کسی کو بلانا چاہیئے تو میں نے جواب دیا کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں.کہا گیا کہ فیس انجمن ادا کردے لیکن میں نے کہا میں اپنے لئے انجمن سے فیس نہیں دلوانا چاہتا.پھر مجھے پتہ نہیں کس نے بلایا اور فیس کس نے دی.کیونکہ میں سمجھتا ہوں مارا اتنا ہی فرض ہے جتنی اللہ تعالیٰ نے وسعت دی ہے.پھر میں دیکھتا ہوں کہ اس قسم کی کمزور حالت میں ایک ہی علاج ہوا کرتا ہے کہ تندرست آدمی کا خون مریض کو انجیکٹ کردیا جائے.اور میں نے آتے ہی دریافت کیا کہ کیا یہ بھی کیا گیا، تو معلوم ہوا نہیں.حالانکہ مریض کو بچانے کیلئے بالکل غیر متعلق اپنا خون پیش کر کے انہیں بچالیتے ہیں.میری ایک بیوی گزشتہ دنوں لاہور ہسپتال میں سکتا.لوگ
خطبات محمود سال ۶۱۹۳۳ تھیں.انہوں نے بیان کیا کہ چند دنوں کے عرصہ میں دو دفعہ مریضوں کیلئے وہاں کی انگریز لیڈی ڈاکٹروں نے اپنے خون پیش کردیئے.اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ سوگوار چہرے جو میں نے یہاں آکر دیکھے، اگر ان میں سے کسی ایک کو بھی کہا جاتا کہ تمہاری صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اگر تھوڑا سا خون دے دو تو میرے خیال میں ان میں سے کوئی بھی انکار نہ کرتا.اور اس حالت میں صرف یہی آخری علاج تھا.اور میں سمجھتا ہوں حواس باختگی میں کسی کا ذہن اس طرف گیا ہی نہیں.میں نے ڈاکٹر غلام احمد صاحب سے دریافت کیا کہ انگلینڈ میں ایسے وقت میں کیا کرتے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ صرف یہی ایک علاج ہے.آج کل اگر کوئی طالب علم امتحان کے پرچے میں نمک کی پچکاری کو جو یہاں عام طور پر کرتے ہیں بطور علاج لکھ دے تو اسے فیل کر دیا جائے.تو صرف یہی ایک علاج تھا اور جس آدمی کا خون لیا جائے، اسے ایک گھنٹہ کیلئے بھی لیٹنا نہیں پڑتا.لنڈن میں ہزاروں لوگ اپنے نام درج کرا چھوڑتے ہیں کہ جب بھی ضرورت ہو ہمارا خون لے لیا جائے.اور جب کوئی ایسا کیس آئے، ان لوگوں کو فون کر دیا جاتا ہے.اور وہ ریلوں موٹروں میں چاروں طرف سے آجاتے ہیں.میں سمجھتا ہوں اگر دوسرا کوئی ڈاکٹر وہاں ہوتا تو یہ بات اس کے ذہن میں ضرور آجاتی.اور گو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں نہ پچکاری کے سامان ہیں نہ خون ٹیسٹ کرنے کے لیکن اگر یہ خیال پیدا ہو جاتا تو یا مریضہ کو لاہور، امرتسر لے جانے کی یا وہاں سے تجربہ کار ڈاکٹر کو مع سامان لانے کی کوشش کی جاتی.پس میں ان حالات سے متاثر ہو کر ایک تو یہ کہتا ہوں کہ ہمارے احمدی ڈاکٹر اس اکبر کو چھوڑ دیں جس میں ہندوستان کے ڈاکٹر عام طور پر مبتلا ہیں اور میں سمجھتا ہوں اگر ایک دو ڈاکٹر بھی اس واقعہ سے سبق حاصل کر کے اس بد عادت کو چھوڑ دیں اور تیس چالیس جانیں بھی اس طرح بچ جائیں تو سارہ بیگم کی موت کام آجائے گی.خدا کا فرستادہ مسیح موعود علیہ السلام جسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا.اُجِيْبُ كُلَّ دُعَائِكَ إِلَّا فِي شُرَكَائِكَ ل - جس سے وعدہ تھا کہ میں تیری سب دعائیں قبول کروں گا سوائے ان کے جو شرکاء کے متعلق ہوں.وہ ہنری مارٹن کلارک والے مقدمہ کے موقع پر مجھے جس کی عمر صرف 9 سال کی تھی دعا کیلئے کہتا ہے.گھر کے نوکروں اور نوکرانیوں کو کہتا ہے کہ دعائیں کرو.پس جب وہ شخص جس کی سب دعائیں قبول کرنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہوا تھا، دوسروں سے دعائیں کرانا ضروری سمجھتا ہے
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء اور اس میں اپنی ہتک نہیں سمجھتا تو ایک ڈاکٹر کا دوسرے ڈاکٹر سے مشورہ کرنا کس طرح ہتک کا موجب ہو سکتا ہے.پس دیانت، ایمان اور دین کے لحاظ سے ایک معالج کا فرض ہے کہ جب حالت خطرناک دیکھے تو مشورہ دے کہ کسی اور کو بلالیا جائے.ڈاکٹروں کا قاعدہ ہے کہ دوسرے کا نسخہ دیکھ کر کہتے ہیں، یہی تو میں دے رہا تھا.حالانکہ ہو سکتا ہے کہ ہزار دفعہ جو چیز دی گئی ہے وہ ایک دفعہ کسی نئی دوائی کے ساتھ ملا کر دی جائے تو اس سے جان بچ جائے.پس یہ دو باتیں ہیں جو اس وقت کہنا چاہتا ہوں.گزشتہ پر شکوہ نہیں، پر آئندہ احتیاط کیلئے.گزشتہ واقعہ کے متعلق تو میں برابر ڈاکٹر صاحب پر اعتراضات کا دفعیہ کرتا رہا ہوں.اور جو بھی ملا ہے اسے سمجھایا ہے لیکن آئندہ کی احتیاط کیلئے یہ باتیں بیان کرنا ضروری ہیں.اپنے لئے نہیں بلکہ دوسروں کیلئے کیونکہ ہر عورت اپنے گھر کیلئے بمنزلہ ستون کے ہوتی ہے جس کے ٹوٹنے پر گھر کے ویران اور بچوں کے برباد ہونے کا خطرہ ہوتا ہے.ایک بھنگی کی عورت بھی اپنے گھر میں ویسی ہی ہے جیسے ایک بادشاہ کی.پس میں اس موت کو ایک قربانی سمجھوں گا اگر ہمارے احمدی ڈاکٹر اس عادت کو چھوڑ دیں.غرض دو باتیں میں کہتا ہوں ایک اپنے متعلق دوسری عام.اپنے متعلق یہ کہ اگر میں باہر ہوں تو میرے عزیزوں اور قائمقام کو اطلاع ہونی چاہیے تا مجھے ہو سکے.اللہ تعالیٰ مستغنی ہے اور میں اُس کے غضب سے پناہ مانگتا ہوں.لیکن پھر بھی گریہ وزاری سے دعا کی توفیق ملنے کے بعد میں نے کسی بات کو ٹل جانے یا ملتوی ہوئے بغیر نہیں دیکھا.میرے پاس روپیہ نہیں ہے لیکن کسی کو مجھ پر یہ بدگمانی نہیں ہونی چاہیے تھی کہ میں ان تاروں کا خرچ نہ دیتا.اگر پندرہ پندرہ منٹ کے بعد بھی مجھے اطلاع دی جاتی تو مجھے خرچ ادا کرنے میں کوئی اعتراض نہ ہوتا بلکہ تازیست میری روح اس کے زیر احسان رہتی.عام نصیحت یہ ہے کہ جب مرض سخت ہو ڈاکٹر کو خود زور دینا چاہیے کہ دوسرے ڈاکٹروں مشورہ کیا جائے اور اگر غریب کو ڈاکٹر بلانے کی توفیق نہ ہو تو اپنے رسوخ اور دوستانے سے کام لے کر خود ڈاکٹر دوسرا ڈاکٹر بلائے.اللہ تعالی جانتا ہے کہ اگر ہزاروں ایسے غریب مریض جن کی موت پر ایسی ہی غلطیاں ہوتی ہیں، ان کی بہتری مد نظرنہ ہوتی تو میں یہ بات ہر گز نہ کہتا کیونکہ اس واقعہ کی تو اب اصلاح نہیں ہو سکتی.اور ساتھ ہی مجھے یہ بھی یقین ہے کہ ہر ابتلا میں اللہ تعالٰی نے برکتیں رکھی ہوتی ہیں.اور یہ میں کبھی نہیں مان سکتا کہ رحمن رحیم خدا بندے پر ظلم کرے گا.سے ہر
خطبات محمود ١٣٣ سال ۱۹۳۳ء سانس، ہر قدم ہر نظر اور ہر شنوائی اور ہر لفظ جو انسان کے منہ سے نکلتا ہے اور ہر ہوا جو ناک میں جاتی ہے، اللہ تعالیٰ کی رحمت کے طفیل میں ہم اس کے ساتھ وابستہ بداثرات اور عذابوں بچتے ہیں.پھر میں کس طرح اس پر بدظنی کر سکتا ہوں.وہ ہاتھ جس سے لاکھوں میٹھی قاشیں ہم نے کھائی ہیں.اگر علاج کے طور پر کوئی کڑوی بھی کھلائے تو سوائے الْحَمْدُ لِلَّهِ کے ہمارے منہ سے کچھ نہیں نکل سکتا.اس لئے بندوں کے فعل پر اعتراض نہیں کرتا تا اس سے اشارہ اپنے آقا کا شکوہ نہ ہو جائے.لیکن اس خیال سے کہ شاید بعض غریبوں کی اس میں بہتری ہو جائے اور کئی اور بے کس عورتوں کی جانیں بچ جائیں، میں نے یہ بات کہہ دی ہے.(الفضل تیم جون ۱۹۳۳ء) له بخاری کتاب التفسير باب قوله فَأَمَّا من اعطى واتَّقَى کے مسلم کتاب الجنائز باب البكاء على الميت سے بخاری کتاب الجنائز باب من جلس عند المصيبة يعرف فيه الحزن ه بخاری کتاب الرقاق باب التواضع ولا بدله منہ کے الفاظ اس روایت میں نہیں ہیں) مسلم کتاب السلام باب لكل داء دواء والاستحباب التداوى (الا الموت کے الفاظ اس روایت میں نہیں) نہ تذکرہ صفحہ ۲۶- ایڈیشن چهارم
خطبات محمود سم ١٣ سال ۱۹۳۳ء ۱۵ ہمارے سپرد عظیم الشان کام کیا گیا ہے (فرموده ۲۶ - مئی ۱۹۳۳ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- اللہ تعالیٰ نے اپنی بعض حکمتوں کے ماتحت جو ہمارے فہم اور ادراک سے بالا ہیں، جماعت احمدیہ کو ایک ایسے کام کیلئے چنا ہے جسکی عظمت اور بڑائی کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات بالکل ناممکن نظر آتی ہے کہ اعداد و شمار کے لحاظ سے ایسی کمزور جماعت مال اور دولت کے لحاظ ایسی کمزور جماعت، علم اور تجربہ کے لحاظ سے ایسی کمزور جماعت اخلاق اور تربیت کے لحاظ سے ایسی کمزور جماعت اس کام کے دسویں بلکہ ہزارویں حصہ کو بھی کرنے کی اہلیت رکھتی ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ باوجود تمام سامانوں کے فقدان کے باوجود ہر قسم کے مخالف ذرائع کی موجودگی کے کہ ان میں سے بعض ہمارے اپنے ہاتھوں کے پیدا کردہ ہیں اور بعض حالات زمانہ کے اور بعض ہمارے دشمنوں کے پیدا کئے ہوئے ہیں، پھر بھی ہماری جماعت ترقی کرتی جاتی ہے.لیکن ایسا صرف اللہ تعالی کے فضل سے ہو رہا ہے.انسانی عقل انسانی فہم ان باتوں کو سمجھنے سے بالکل قاصر ہے.جب ہماری کوتاہیوں کے باوجود جماعت اس رنگ میں ترقی کر رہی ہے جو حیرت انگیز ہے تو اگر ہمارے دوست اپنے آپ کو فرداً فرداً اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا مستحق بنالیں، تو پھر یہ ترقی کتنی شاندار کتنی سریع السیر اور زود رفتار ہو گی.اس کا اندازہ بھی انسانی ذہن نہیں لگا سکتا.ابھی تک ایک کثیر جماعت ہمارے احباب کی ست، غافل، بے پرواہ اور اپنے فرائض اور کتنی
خطبات محمود ۱۳۵ سال ۱۹۳۳ تو سے ناواقف ہے.ان ذرائع سے تہی دست ہے جو مذاہب کو بڑھانے والے ہوتے ہیں وہ سوزو گداز وہ گریہ وزاری، وہ گرم گرم بننے والے آنسو وہ انکسار جو انسان کے دل کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اُسے خدا تعالیٰ کی رحمت اس کی رافت اور اس کے من واحسان کے سامنے لے جا کر پھینک دیا کرتا ہے، ابھی ہماری جماعت کے بہت سے افراد میں سے مفقود ہے.ہم میں سے ایک بڑے حصہ کے دن اور راتیں ایک سے ہیں.ان کے نہ دن بیداری میں کٹتے ہیں اور نہ راتیں بیداری میں گزرتی ہیں.اگر راتوں کو ان کے جسم بے جان مُردے کی طرح چارپائی پر پڑے رہتے ہیں تو دن کو ان کی روح غفلت کے پردوں میں لپٹی ہوئی ، صبح سے شام تک کا وقت گزار دیتی ہے.ہم ان کے متعلق یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ ان کی راتیں وہ بھی دن ہو گئی ہیں بلکہ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ان کے دن بھی راتیں بن گئے ہیں.دعاؤں کی رغبت جو انسان کے اندر ایک ایسا ولولہ پیدا کر دیتی ہے جو اسے نچلا بیٹھنے نہیں دیتا بلکہ حرکت مجبور کرتا ہے، وہ ابھی بہت سے افراد میں نہیں پایا جاتا.اپنے نفس کا وہ مطالعہ جو انسان کو تیح پر مجبور کر دیتا ہے، نعمائے الہی پر وہ گہرا غور جو تحمید اور تقدیس کے کلمات خود بخود جاری کر دیتا ہے، محمد رسول اللہ ﷺ کے احسانات کا وہ عظیم الشان احساس جو بے خبری میں بھی زبان پر درود جاری کر دیتا ہے، ابھی تک بہت کم لوگوں میں پایا جاتا ہے.غرض وہ حالت جس کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے کہ مَا كَانَ اللهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَانْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ لے وہ کم لوگوں میں پائی جاتی ہے.ہمیں یہ تعلیم دی گئی تھی کہ دنیا میں ہوتے ہوئے بھی خدا کے ہوکر رہو ہمیں یہ کہا گیا تھا کہ یہ دین نہیں ہے کہ دنیا کو چھوڑ دو.کیونکہ جو شخص مواقع رفتن سے بھاگ کر علیحدہ کھڑا ہو جاتا ہے، وہ بزدل ہوتا ہے جس کی آنکھیں نہ ہوں وہ اگر کہے کہ میں بد نظری سے بچنے والا ہوں تو جھوٹا ہے.بہرا اگر کہے کہ میں کسی کی غیبت نہیں سنتا تو اس کی کوئی خوبی نہیں.جس کی زبان کائی گئی ہو وہ اگر کہے کہ میں کسی کو گالیاں نہیں دیتا تو کوئی اس کی تعریف نہیں کرے گا.ہمیں کہا گیا تھا کہ دنیا میں رہتے اور لوگوں سے ملتے ہوئے اگر دلوں کو صاف رکھو گے اور کسی وقت اور کسی حالت میں خدا سے غافل نہ رہو گے ، تب متقی کہلاؤ گے.ہمارے بہت سے دوستوں نے اس کے ایک حصہ پر عمل کیا مگر دوسرے پر نہیں.انہوں نے کہا ہمیں حکم ہے کہ دنیا سے انتطاع نہ کرو اس لئے ہم اس کی طرف جاتے ہیں.مگر وہ دوسرے حصہ کو بھول وہ
خطبات محمود ۱۳۶ سال ۱۹۳۳ء گئے کہ دنیا میں ہوتے ہوئے بھی اس سے علیحدہ رہو.انہیں کہا گیا تھا کہ دنیا میں جاؤ اور تیل مل کر جاؤ تا جس طرح چکنے گھڑے پر پانی نہیں ٹھر تا اسی طرح دنیوی کششوں کے پانی کی تیز دھار بیشک تم پر مرے مگر تم پر کوئی اثر نہ کرے.لیکن ہمارے بعض دوستوں کی مثال اُس عورت کی سی ہے جو ہر روز اٹھ کر سحری کھائی مگر روزہ نہ رکھتی تھی.ایک دن اس کی مالکہ نے اسے کہا کہ سحری کے وقت ہم تم سے کوئی کام تو لیتے نہیں، اگر تمہیں روزہ نہیں رکھنا ہوتا تو اُٹھنے کا کیا فائدہ.اس نے جواب دیا کہ بی بی! میں نماز نہ پڑھوں، روزہ نہ رکھوں، سحری بھی نہ کھاؤں تو کافر ہو جاؤں.وہی مثال ہم میں سے بعض کی ہے.وہ حصہ جو ان کے مطلب ہے اسے تو لے لیتے ہیں لیکن جس میں ان کو قربانی کرنی پڑتی ہے اسے چھوڑ دیتے ہیں.انہیں یہ تو یاد رہ جاتا ہے کہ آقا نے کہا تھا کہ جاؤ دنیا میں رہو اور دنیوی معاملات لو مگر یہ بھول جاتا ہے کہ یہ بھی کہا تھا کہ خبردار! تمہارا دل دنیا میں نہ پھنسے.گویا اتنا یاد رہا کہ دنیا کی نعمتیں خدا تعالیٰ نے انسان کیلئے پیدا کی ہیں مگر یہ یاد نہیں کہ ان کے آقا نے یہ بھی کہا تھا کہ انسان کا دل صرف خدا کیلئے ہے.مفید مد میں.حصہ مجھے یاد ہے ایک دفعہ جبکہ میں سکول میں پڑھتا تھا، ایک طالب علم جو بہت مخلص تھا اب فوت ہوچکا ہے اللہ تعالیٰ مغفرت کرے.وہ ایک دن ایسے ذوق سے ریوڑیاں کھا رہا تھا کہ جس میں حرص کا رنگ پایا جاتا تھا.اس بات نے میرے دل پر اثر کیا اور اس عمر کے مطابق میں نے سمجھا کہ شاید اس لئے اس قدر جلدی جلدی کھا رہا ہے تا دوسرے لڑکے آکر شامل نہ ہو جائیں.اس پر مجھے تعجب ہوا اور میں نے پوچھا کہ اس قدر جلدی کیا ہے؟ اس نے جواب دیا سنا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ریوڑیاں بہت پسند ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک دوائی ایسٹرن سیرپ کا بھی استعمال کیا کرتے تھے جو بہت کڑوی ہوتی میں نے کہا آپ صرف ریوڑیاں ہی نہیں کھاتے بلکہ ایسٹرن سیرپ کو بھی پسند فرماتے ہیں، آپ بھی کیوں نہیں استعمال کرتے.غرض ہماری جماعت کا ایک حصہ اُس چیز کو تو لے لیتا ہے جو میٹھا ہے.وہ جب سنتا ہے عیسائیت نے رہبانیت کی تعلیم دی ہے تو قرآن کریم اور سلسلہ احمدیہ کی کتب کو ہاتھ میں لے کر کہتا ہے کہ رہبانیت کے مقابلہ میں یہ کیا ہی اچھی تعلیم پیش کرتی ہیں.جب ہندو مذہب کے ماننے والے اس کے سامنے اپنے بزرگوں کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ کس طرح سالہا سال اُلٹے
خطبات محمود ۱۳ سال ۱۹۳۳ء آتا ہے.لٹکے رہتے، سردیوں میں ٹھنڈے پانی میں کھڑے رہتے اور گرمیوں میں آگ کے سامنے بیٹھے رہتے، پھر سورج کی طرف دیکھتے رہتے تو ہمارا وہ حصہ مسکراتے ہوئے سرمارتا ہے اور کہتا ہے اسلام کی فوقیت ہے کہ وہ ایسی باتوں سے منع کرتا ہے.اور ہمارے مذہب نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو رڈ کرنے سے روکا ہے.قرآن کریم کہتا ہے.اَمَّا بِنِعْمَتِ رَبِّكَ فَحَدِّثُ سے یعنی اللہ تعالٰی کی نعمتوں کو استعمال کرو.وہ یہ تو کہتے ہیں مگر ان کو دوسری آیتیں بھول جاتی ہیں کہ خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں تمہاری جانیں، تمہارے مال ، بیوی بچے ماں باپ، بھائی بہن، دوست عزیز سب بیچ ہیں.اگر ان کی محبت تمہیں خدا اور رسول اور دین کے مقابلہ میں کچھ بھی وزن رکھتی معلوم ہو تو تم کسی کام کے نہیں.وہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالی نے مومن کی جان و مال کو جنت کے عوض خرید لیا ہے.وہ بھول جاتے ہیں کہ قرآن مجید میں اَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَ تَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ سے یعنی کیا تم ایک حصہ کو قابل عمل سمجھتے ہو اور دوسرے کو ترک کر دیتے ہو، یہ کون سی قربانی ہے، کون سی فدائیت ہے جو ہم سے آدھا حصہ چھڑا دیتی ہے اور صرف آدھا منواتی ہے.اور آدھا حصہ بھی وہ جو میٹھا ہے.جب تک ہماری جماعت میں یہ بیداری نہ پیدا ہو جائے اس وقت تک وہ کامیاب نہیں ہو سکتی.اس کیلئے کسی بڑے علم کی ضرورت نہیں.کئی نادان سمجھتے ہیں ہم پڑھے ہوئے نہیں ہم ان باتوں کو کہاں سمجھ سکتے ہیں.حالانکہ ہمارا دین صرف پڑھے ہوئے لوگوں کیلئے نہیں بلکہ وہ ہر عالم و جاہل کیلئے ہے.بالکل موٹے اصول ہیں، سیدھی سادی باتیں ہیں.خدا کو ایک قرار دینا یعنی اس کے مقابل پر ہر چیز کو بیچ سمجھنا.محمد ﷺ کو رسول ماننا.یعنی یہ سمجھنا کہ تمام نیکیاں صرف آپ کے ذریعہ حاصل ہو سکتی ہیں.اس کیلئے کون سے علم کی ضرورت ہے.کبھی کہ نے اس امر کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ کوئی اسے بتائے کہ اسے خدا سے زیادہ محبت ہے یا بیوی بچوں سے.وہ خدا کیلئے زیادہ وقت صرف کرتا ہے یا اپنے اور اپنے بیوی بچوں کیلئے ہر جاہل سے جاہل انسان محسوس کر سکتا ہے.کیا کوئی ایسا بھی انسان ہے جو کہے کہ مجھے کوئی بتائے میں اپنی بیوی سے زیادہ محبت کرتا ہوں یا غیر عورت سے.مجھے بتایا جائے کہ مجھے اپنے بیٹے سے زیادہ محبت ہے یا ہمسائے کے بیٹے سے.اگر آج تک کسی نے یہ باتیں کسی عالم سے دریافت کی ہوں تو میں کہتا ہوں وہ حقدار ہے کہ کسے لا الہ کے معنی میری سمجھ میں نہیں آتے کوئی مجھے سمجھائے.اگر وہ یہ سمجھ سکتا ہے کہ بیٹا زیادہ پیارا ہے یا ہمسائے کا بچہ تو کیا وہ -
خطبات محمود ۱۳۸ سال ۱۹۳۳ء.یہ معلوم نہیں کر سکتا کہ اسے خدا زیادہ پیارا ہے یا اپنے بیوی بچے.لا الہ کے معنے یہ ہیں کہ خدا کے مقابلہ میں وہ کسی چیز کو کوئی وقعت نہیں دیتا.صرف زبان کا اقرار کچھ نہیں، زبان سے جھوٹ موٹ کہنا کوئی خوبی نہیں، اس میں تو ایک دیہاتی زیادہ ہنرمند ہوتا ہے.ایک تحصیلدار یا گرداور یا کوئی اور افسر اگر اسے ایک کام کہتا ہے تو وہ جواب دیتا ہے کہ ہاں جی آپ سے ہمیں کون عزیز ہے، ضرور کام کر دیا جائے گا.حالانکہ واقعہ یہ ہوتا ہے کہ اگر مقابلہ کا وقت آئے اور اس کے کسی بچہ یا رشتہ دار کے مقابلہ میں ایک ڈپٹی کی جان آجائے تو وہ اس کی کوئی پرواہ نہ کرے گا اور اپنے بچہ کو بچانے کی کوشش کرے گا.اسی طرح ان لوگوں کا حال ہے.زبان سے تو کہتے ہیں مگر بیوی بچوں کے مقابلہ میں، اپنے نفس کے مقابلہ میں خدا تعالی کی بات کو ترجیح نہیں دیں گے.جس کے معنے یہ ہیں کہ انہیں لا اله پر ایمان نہیں.اس میں کون سی باریک بات ہے جو سمجھ میں نہیں آسکتی.یہ چیز ہے جس کی ہمیں ضرورت ہے.اور جب تک یہ خیال رہے گا کہ اس کیلئے علم کی ضرورت ہے، یہ حاصل نہ ہو سکے گی.وہ جو یہ کہتا ہے کہ ہم دین کو بغیر علم کے نہیں سیکھ سکتے، وہ دنیا کو گمراہ کرنے والا ہے.علم کے اور فوائد ہیں مگر دین انسان کی فطرت میں ہے.قرآن کریم جس طرح ظاہری صورت میں ہے، اسی طرح انسان کے دل پر بھی لکھا ہوا ہے اور کوئی بات نہیں جو باہر سے کسی سے سیکھنی پڑے.پس ضروری ہے کہ ہماری جماعت میں وہ تبدیلی پیدا ہو جس کے ساتھ خدا تعالیٰ کی نصرت حاصل ہوتی رہے.لیکن اگر دین نہیں تک رہے کہ لوگ خطبے سننے کیلئے آجائیں تو یہ کوئی فائدہ مند چیز نہیں.خطبوں میں تو غیر احمدی بھی بکثرت آجاتے ہیں.لیکن اگر سن کر اور کپڑے جھاڑ کر چلے گئے اور کسی بات پر عمل نہ کیا تو آنے سے کیا فائدہ ہمیں کہا تو یہ گیا تھا کہ دنیا میں جاؤ مگر چکنے گھڑے کی طرح رہو.لیکن ہم میں سے بعض دنیا میں ایسے دھنس گئے کہ دین کی مجلسوں کیلئے چکنے گھڑے ہو گئے.پس جب تک ہر احمدی کو خواہ وہ عالم ہو یا جاہل، امیر ہو یا غریب، بڑا ہو یا چھوٹا یہ محسوس نہیں ہوتا کہ دین کا سمجھنا مشکل نہیں، اسلام کا وہ ایسا ہی مخاطب ہے جیسے محمد مصطفی ، جب تک اس کے اندر ایسی تبدیلی پیدا نہیں ہوتی کہ اللہ تعالیٰ کی محبت سب محبتوں پر غالب ہو، اُس وقت تک اللہ تعالیٰ کے وہ خاص فضل نازل نہیں ہو سکتے جن کے بغیر یہ کام جو ہمارے سپرد کیا گیا ہے، اس کا ہونا مشکل ہے.یہ تبدیلی کرو پھر دیکھو تمہاری روح میں کتنی تاثیر پیدا ہو جاتی ہے.دوسرے تمہاری باتوں کو کس شوق سے پر
۱۳۹ سال ۱۹۳۳ء خطبات محمود سنتے اور مانتے ہیں.تبلیغ کا کام کس قدر آسان ہو جاتا ہے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ ہے.یعنی انہیں عبادت سے خالی نہ رکھو خود عبادت کرو اور بیوی بچوں کو اس کیلئے نصیحت کرو.میں نے پچھلے سال نصیحت کی تھی کہ ہماری جماعت کے دوست کم سے کم جمعہ کی رات کو تہجد پڑھنے کی عادت ضرور ڈالیں.ان دنوں اس کا چرچا رہا لیکن اب جو میں نے تحقیقات کی تو معلوم ہوا کہ پھر سستی پیدا ہو گئی ہے.ہزاروں نے اُس وقت تهجد شروع کردی تھی بلکہ کئی نے تو دوسرے ایام میں بھی شروع کردی، مگر پھر بھول کر اُسی جگہ آگئے جہاں سے چلے تھے.اُن کی مثال اس کمزور جانور کی سی ہے جسے جب تک کہ اس کا آقا ہانکتا رہے وہ چلتا رہتا ہے اور جب چھوڑ دے تو کھڑا ہو جاتا ہے.اسی طرح جب تک ان کو ہانکا جائے ، چلتے ہیں اور جب چھوڑ دیا جائے کھڑے ہو جاتے ہیں اور نہیں جانتے کہ ایسی نیکیوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا، ان کا ثواب تو ہانکنے والے کو ملے گا.جو جانور ہانکنے سے چلے وہ اچھا نہیں سمجھا جاتا.ایسے آدمیوں کی نیکیاں تو اُس کی ہیں جس نے انہیں ہانکا.اصل نیکی اُسی کی ہے جس نے ایک دفعہ نصیحت کو سن کر پلے باندھ لیا اور پھر اس پر برابر عمل کیا.اسی طرح میں نے تبلیغ کی تحریک کی تو ابتداء میں بہت جوش پیدا ہوا مگر تھوڑے عرصہ کے بعد پھر سرد ہو گیا.قادیان کے لوگ اس بات کے عادی ہو گئے ہیں کہ جس طرح جانور کے کوئی سونٹا لے کر چلتا ہے اسی طرح ان کے پیچھے کوئی ہانکنے والا ہو.اس طرح وہ چلتے جاتے ہیں جو نہی ہانکنے والا پیچھے ہے وہ بھی گھر جاتے ہیں.چاہیے تھا کہ وہ دوسروں کو جگاتے مگر یہاں کے عوام کیا اور افسر کیا خود محتاج ہیں کہ جس طرح بے ہوش آدمی کے منہ پر پانی کا چھینٹا دیا جاتا ہے اسی طرح ان کو بھی چھینٹا دے کر کوئی ہوش میں لاتا رہے.اللہ تعالی ستار ہے اور اس کے بندوں کو بھی ستار ہونا چاہیے لیکن اگر میں اسی وقت کہوں کہ جن لوگوں نے اس ہفتہ میں تبلیغ کی ہے، وہ کھڑے ہو جائیں تو تمہاری کتنی پردہ دری ہوگی.اور اگر اس تین ہزار کے قریب کے مجمع میں سے صرف ساتھ اُٹھ کھڑے ہوں تو تمہاری کتنی ناک کٹے مگر میں ایسا کرتا.یاد رکھو ہر چیز کی ایک حد ہوا کرتی ہے.ایمان کی بھی ایک حد ہے اور کفر کی بھی نستی کی بھی اور ہوشیاری کی بھی، نیند کی بھی بیداری کی بھی.تمہارے سامنے کتنا عظیم ا کام ہے.اس کیلئے بیداری پیدا کرو.پہلے اپنے نفسوں کے اندر بیداری پیدا کرو اور پھر دوسروں تم نے ڈیڑھ ارب مخلوق کو اسلام میں داخل کرنا ہے.ذرا سوچو تو سہی تمہاری نہیں کے اندر.الشان
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء کوششیں کیا اس کے مطابق ہیں؟ پھر ہماری کوششیں کچھ نہیں کر سکتیں جب تک دل پگھل نہ جائیں اور آستانہ الہی پر اس طرح نہ گر جائیں کہ اللہ تعالی کی رحمت جوش میں آجائے.اللہ تعالی اپنے فضلوں سے تمہیں ہوشیار کرتا ہے.کہیں مخالفوں کو مخالفت کا جوش دلاتا ہے، کہیں آپس میں ہی لڑائی جھگڑا ہو جاتا ہے اور اس سے وہ چاہتا ہے کہ تم بیدار ہو جاؤ.اس کے معنے یہ ہیں کہ تمہارے اندر ایمان ہے.جب ایمان باقی نہ رہے تو خدا تعالیٰ چھوڑ دیتا ہے اور بیدار نہیں کرتا.تھے ۲۳ افعال الہی شاہد ہیں کہ اس وقت تک ہمارے اندر کامل ایمان والے باقی ہیں لیکن اس بیداری سے فائدہ اُٹھانا چاہیے.تمہارا ایک دوست اُس وقت جبکہ تم سوتے ہو تمہیں آواز دیتا ہے اور تم جاگ اُٹھتے ہو.پھر کیا وجہ ہے کہ خدا تعالی کی آواز سے بیدار نہیں ہوتے.ایک سے بچے کی کس قدر چھوٹی سی آواز ماں کو جگادیتی ہے.حالانکہ ماں اور بیٹے سے زیادہ گہرے تعلقات خدا اور بندے کے ہیں.پھر جب خدا کہتا ہے کہ اُٹھو تو کیوں تم میں بیداری پیدا نہیں ہوتی اور کیوں تم گھروں سے باہر نہیں نکلتے تاکہ دوسروں کو بیدار کرو.اس زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا خدا خود آسمان سے اُترا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دل پر اترا آپ کے قلم پر اترا آپ کی زبان پر اُترا.وہ قلم کے ذریعہ سے چلایا اور سال تک چلاتا رہا.رمز میں نہیں بلکہ کھلے الفاظ میں اُس نے کہا کہ دنیا تباہ ہونے والی ہے لئے بیدار ہو جاؤ.وہ آپ کی زبان پر نازل ہوا اور کھلے الفاظ میں اُس نے بیدار کیا اور چلایا، بادشاہ اور آقا ہونے کے باوجود درد کی آواز سے چلایا.ایسی درد کی آواز جو درد زہ والی عورت کی آواز سے بھی زیادہ دردناک ہو اور کہا میرے بندو اُٹھو.مگر دنیا سوتی رہی اور اس نے کروٹ تک نہ بدلی.کئی اُٹھے اور انہوں نے کمریں کس لیں اور اسی حالت میں جانیں دے دیں اور خدا کی رحمت میں داخل ہو گئے.کئی ایک نے کریں کہیں، اب تک بیدار ہیں اور اگر خدا کی رحمت شامل حال رہی تو موت تک بیدار ہی رہیں گے.مگر کئی ایک اُٹھے اور تھوڑی دیر کام بھی کیا مگر پھر سو گئے.کئی بیدار ہوئے اور مثلا وضو کیلئے پانی لینے کی غرض سے لوٹا لے کر گھڑے کے پاس گئے.گھڑے پر ہاتھ رکھا اور سو گئے.کئی ایک نے آنکھیں کھولیں مگر لیٹے پڑے ہیں.اور اتنا بھی نہیں جانتے کہ ہم سوتے ہیں یا جاگتے.پس جاہل، عالم، امیر غریب سب اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو.پہلے اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو اور پھر دوسروں کے اندر.اس.
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء یہ عذاب قیامت کا وقت ہے.یہ مت خیال کرو کہ تمہارے لئے امن ہے.جس قیامت سے کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے تھے، وہ سروں پر ہے.جب تک ہم لئے خود موت قبول نہ کریں گے اُس وقت تک یہ عذاب نہیں ملے گا.وہ عذاب سر پر اسلئے غلط فہمی میں مبتلا ہو کر سُستی مت کرو.اور یہ خیال نہ کرو کہ اب گرمی ہے سردیاں آئیں تو تبلیغ کریں گے.اگر سردیوں سے پہلے ہی تم یا وہ لوگ جن کو تم نے تبلیغ کرنی ہے مرگئے تو خدا کو کیا جواب دو گے.خدا تعالیٰ نے بندوں کیلئے ہر قسم کی سہولتیں رکھیں ہیں.آج کل دن میں اگر نہیں تو رات کو تبلیغ بہت اچھی ہو سکتی ہے.پس اس کام کی اہمیت کو سمجھو اور اس کیلئے تیاری کرد تا ظاہری طور پر جو نور تمہیں حاصل ہوا ہے، وہ تمہارے دل میں بھی پیدا ہو جائے.کیونکہ جب تک آنکھوں میں بصارت نہ ہو، باہر کی روشنی کچھ فائدہ نہیں دے سکتی.پس اللہ تعالیٰ نے ظاہر میں جو نور بخشا ہے، اسے دل میں بھی پیدا کرو.الفضل ۴ - جون ۱۹۳۳ء) له الانفال: ۳۴ ه الضُّحى: ١٣ سے البقرة: ٨٢ بخاری کتاب الصلوة باب كراهية الصلوة في المقابر
خطبات محمود 14 سال ۶۱۹۳۳ نظام سلسلہ کی پابندی کے بغیر ترقی محال ہے (فرموده ۲ - جون ۱۹۳۳ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کے متعلق شاعر کا یہ مقولہ کہ : گویم مشکل وگرنه گویم مشکل صادق آتا ہے.یہ کیفیت انسانی قلب کی کہ بعض وجوہات سے انسان ایک بات نہیں کہنا چاہتا اور بعض دوسری وجوہ سے کہنا چاہتا ہے یا ایک بات اسے کہنی پڑتی ہے، ہر ملک اور ہر قوم میں تسلیم کی گئی ہے.ہمارے ملک میں بھی بعض کہانیوں میں اس مسئلہ کو بیان کیا گیا ہے.ہم چھوٹے ہوتے تھے اور کہانیاں سنتے تھے.تو اُس وقت کئی بوڑھی خادمائیں یہ کہانی سنایا کرتی تھیں کہ ایک عورت نے اپنے خاوند کے آگے کتے کا گوشت پکا کر رکھ دیا.یہ دیکھ کر اس کا بچہ جسے جادو کے زور سے کوئی حیوان بنادیا گیا تھا، یہ کہتا جارہا تھا بولوں تو ماں ماری جائے نہ بولوں تو باپ کتا کھائے.اس کا بھی وہی مطلب ہے کہ گویم مشکل وگرنه گویم مشکل"- بات کروں تب بھی مشکل نہ کروں تب بھی مشکل ایک امام کیلئے اپنے اتباع اور مریدوں میں سے بعض کے عیوب اور غلطیاں بیان کرنا ایک نہایت ہی تاریخ کام ہوتا ہے.لیکن بعض دفعہ لوگ اپنی بیوقوفی سے مجبور کر دیتے ہیں کہ عیب کو بیان کیا جائے.زید ایک غلطی کرتا ہے، امام چاہتا ہے کہ اُس کو چھپائے یا اسے ایک دائرہ میں محدود رکھے.جس شہر میں وہ بات ہوئی ہو اس سے باہر نہ نکلے.لیکن ایسے آدمی کے.
خطبات محمود ۱۴۳ سال ۱۹۳۳ تو دوست اس کی تائید میں باتیں بنانے لگ جاتے ہیں.جس پر امام کو بھی بولنا پڑتا ہے اور اس طرح وہ بات نہ صرف ایک شہر سے نکل کر ساری دنیا میں پھیل جاتی ہے بلکہ تاریخ میں بھی محفوظ ہو جاتی ہے.ایسے ہی بیوقوف دوستوں کے متعلق کسی نے کہا ہے خدا مجھے میرے دوستوں سے بچائے.جس شخص کو اللہ تعالٰی معرفت اور علم بخشے، اُسے حاکم بننے کا کبھی شوق نہیں ہوتا.کیونکہ وہ جانتا ہے حکومت کی ذمہ داریاں کتنی وسیع ہوتی ہیں.حاکم بننے کا خواہشمند ہمیشہ جاہل ہوتا ہے.اسی لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص خود کسی عہدہ کا طالب ہو، اُسے وہ عہدہ نہ دیا جائے اے.مگر جاہل لوگ جن کے دل معرفت سے خالی ہوتے ہیں، وہ کہا کرتے ہیں ہمیں فلاں بات کا موقع کیوں نہیں دیا جاتا.وہ اپنے لئے مختلف مواقع کو حق تصور کرتے ہوئے اگر ان سے انہیں فائدہ اٹھانے نہ دیا جائے تو کہہ دیتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں آگے بڑھنے سے روکا جاتا ہے.اسی طرح بعض بیوقوف اپنے متعلق یہ خیال کرلیتے ہیں کہ فلاں کام ہم سے اچھا کوئی نہیں کر سکتا.اس طرح ایسے لوگ بھی اپنی جہالت کا اظہار کرتے ہیں.پھر کچھ اور لوگ ہوتے ہیں ان کا یہ مقولہ ہوتا ہے کہ دنیا میں جو بھی فیصلہ کیا جاتا ہے وہ غلط ہوتا ہے سوائے اُس کے جس پر اُن کی مہر ثبت ہو.وہ منہ سے تو رسول کریم کو خاتم النبین کہتے ہیں مگر دراصل اپنے آپ کو خاتم الانسانیت سمجھ رہے ہوتے ہیں.کوئی فیصلہ ہو جب تک اُن کی مہر اس پر نہ لگے، وہ کبھی اسے صحیح تسلیم نہیں کریں گے خواہ وہ خود دنیا کے جاہل ترین انسانوں میں سے کیوں نہ ہوں.ایسے آدمیوں کی باتوں کی بعض دفعہ پرواہ نہیں کی جاتی مگر بعض دفعہ کرنی پڑی ہے، کیونکہ بعض دفعہ عقلمندوں کو بھی اس سے ٹھوکر لگنے کا احتمال ہوتا ہے.میرے نوٹس میں پچھلے دنوں قادیان کے ایک واقعہ کے حالات لائے گئے.قادیان میں ایک نکاح ہوا.ایسا نکاح جو میرے نزدیک نہایت ہی ناپسندیدہ اور ہمارے سلسلہ کے طریق کے بالکل خلاف تھا.اس کے متعلق امور عامہ نے کچھ سزائیں دی ہیں.اور اس بارے میں میرے پاس متعدد لوگوں کی طرف سے شکایتیں پہنچی ہیں.ان رقعوں میں نزلہ بر عضو ضعیف مے ریزد" کے ماتحت امور عامہ کو سخت بُرا بھلا کہا گیا ہے.میں نزلہ ر عضو ضعیف مے ریزد" اس لئے کہتا ہوں کہ وہ فیصلہ میرا تھا، امور عامہ کا نہیں تھا.مگر دانستہ یا نادانستہ طور پر بعض لوگوں نے امور عامہ کو بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا.اگر وہ شکایت کرنے والے ایمان دار ہیں تو بیوقوفی سے اور اگر بے ایمان ہیں تو شرارت سے انہوں نے اس لئے
خطبات محمود ۱۴۴ سال ۱۹۳۳ء نظارت امور عامہ کو کوسنا شروع کر دیا کہ وہ براہ راست خلیفۂ وقت کو اس رنگ میں مخاطب نہیں کرسکتے تھے.پس انہوں نے امور عامہ کو بُرا کہہ کر خلیفہ وقت کو بُرا بھلا کہا.لیکن بہرحال اگر وہ ایمان دار ہیں تو بیوقوفی سے اور اگر بے ایمان ہیں تو شرارت سے انہوں نے امور عامہ پر قسم رقسم کے الزام لگائے اور لکھا کہ امور عامہ کے کارکن جلد بازی کرتے ہیں، ظلم کرتے ہیں، دباؤ ڈالتے ہیں، دھینگا مشتی کرتے ہیں.حالانکہ وہ فیصلہ محلی طور پر میرا کیا ہوا اور میرا ہی لکھوایا ہوا تھا.ایسے آدمیوں کے متعلق یا تو میں یہ سمجھوں کہ وہ سلسلہ احمدیہ کی حقیقت سے قطعی طور پر نا واقف ہیں اور یا مجھے معاف کریں، وہ اول درجہ کے احمق ہیں.یا پھر یہ ہے کہ ان کے دلوں میں خلافت اور نظام سلسلہ کے متعلق کسی قسم کا ایمان باقی نہیں.جس امر کے متعلق وہ شور مچارہے ہیں کہ دھینگا مشتی ہوئی زبردستی کی گئی، ظلم کیا گیا اس کی حقیقت یہ ہے کہ اس نکاح کے متعلق تین دفعہ مجھ سے اجازت مانگی گئی اور تینوں دفعہ میں نے کہا کہ نکاح نہیں کرنا چاہیے.مگر میری تین دفعہ کی ممانعت کے باوجود سمال ٹاؤن کمیٹی کے دفتر میں چند اوباش اور آوارہ گرد لونڈوں کو اکٹھا کر کے نکاح پڑھ دیا گیا.خلیفہ وقت کے ایک حکم کا انکار بھی انسان کو جماعت سے مخارج کر دیتا ہے مگر یہاں.حالت ہے کہ خلیفہ تین مرتبہ ایک بات کو دہراتا اور کہتا ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیئے، میں اس کی اجازت نہیں دیتا مگر وہی بات کرلی جاتی ہے.پھر یہ بیوقوف کہتے ہیں ناظر امور عامہ ظالم ہے.کہ اُس نے سزا دی.حالانکہ اگر ان کے اندر غیرت ہوتی اور واقعہ میں ان کے دلوں میں ایمان ہوتا تو بجائے اس کے کہ امور عامہ یہ سزا دیتا، انہیں خود ایسے لوگوں کو سزا دینی چاہیئے تھی.حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے.ایک دفعہ کسی منافق کا ایک یہودی سے جھگڑا ہو گیا.وہ دونوں رسول کریم ﷺ کے پاس گئے.اور رسول کریم ان نے جو فیصلہ فرمایا یا جو فرمانے لگے ، اُس منافق نے سمجھا کہ یہ میرے خلاف ہو گا.تب اُس نے یہودی سے کہا بہتر ہے کہ ہم حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس چلیں اور وہاں سے فیصلہ کرائیں.وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دروازہ پر پہنچے اور کہا ہمارا فیصلہ کردیجئے.گفتگو کے دوران میں یہودی نے یہ بھی کہہ دیا کہ یہ رسول کریم ﷺ کے فیصلہ کو ماننے کیلئے تیار نہیں ہوا.آپ نے کہا اچھا یہ بات ہے.میں ابھی آتا ہوں یہ کہہ کر گھر میں گئے تلوار لی اور باہر آکر اُس منافق کی گردن اڑادی اور کہا جسے رسول کریم کا فیصلہ منظور نہیں اُس کا
خطبات محمود فیصلہ - ۱۴۵ سال ۶۱۹۳۳ یہ ہے ہے.تو بجائے اس کے کہ امور عامہ سزا تجویز کرتا، اگر ان لوگوں کے دلوں میں ایمان ہوتا تو چاہیئے تھا کہ خود سزا دیتے.یہ نہیں کہ ان لوگوں کو اِس سے انکار ہو کہ میں نے انہیں منع نہیں کیا.انہوں نے خود اپنے بیان میں اس امر کو تسلیم کیا ہے کہ ہم نے تین دفعہ پوچھا، مگر تینوں دفعہ ہمیں روکا گیا لیکن باوجود اس کے نکاح کر دیا گیا.اس پر جب سزا دی گئی تو میں نے پانچ پانچ صفحوں کے بعض لوگوں کے خطوط پڑھے جن میں ایسی ایسی دلالیاں کی گئی ہیں کہ دلالہ جو عرب میں مشہور ہے، اُس نے بھی نہیں کی ہوں گی.ایک شور مچارکھا ہے کہ ہو گیا، اندھیر نگری اور چوپٹ راجہ والی مثال بن گئی.قادیان کے مخلصین مجاہدین اور مہاجرین جو سلسلہ کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہیں اور اپنے اخلاص اور تقویٰ میں بے نظیر ہیں ان کی کوئی بات سنی نہیں جاتی.بغیر سوچے سمجھے دباؤ ڈالا جاتا اور ہر طرح اپنی حکومت جتائی جاتی ہے.میں ایسے لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ فرمانبرداری کس جانور کا نام ہے.تین دفعہ فیصلہ دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ نکاح نہ ہو مگر دو چار بیوقوف اور دو چار لونڈے سمال ٹاؤن کمیٹی کے دفتر میں نکاح پڑھ دیتے ہیں.کیا قادیان کے نکاح اسی طرح ہوا کرتے ہیں.میں ان جو فروش گندم نما احمدی کہلانے والوں سے پوچھتا ہوں کہ وہ جو سزا دیئے جانے پر پانچ پانچ صفحے کے مجھے خط لکھتے ہیں کہ کتنا ظلم اور اندھیر ہو گیا کیا وہ خط اُن کی فرمانبرداری اور اطاعت کی روح پر دلالت کرتے ہیں یا اس بات پر کہ ان کے اندر اطاعت کی روح ہی نہیں؟ وہ لوگ جنہوں نے براہ راست نافرمانی کی، انہوں نے تو ممکن ہے کسی معذوری کے ماتحت ایسا کیا ہو.ہے جس کے پاس لڑکی رہتی ہو، اُس نے چاہا ہو کہ میں جلدی اس کے بوجھ سے فارغ ہو جاؤں.اور ممکن ہے لڑکے نے یہ خیال کیا ہو کہ مجھے اور رشتہ تو ملتا نہیں چلو اسی سے نکاح کرلوں بعد میں معافی مانگ لوں گا.مگر یہ خط لکھنے والے وہ ہیں جن کا اس نکاح سے کوئی بھی واسطہ اور تعلق نہیں.اور محض پرائے شگون میں ناک کٹا کر اپنے آپ کو جہنم میں گرا رہے ہیں.بظاہر وہ خطوط میں اپنا اتقاء بھی ظاہر کرتے ہیں مگر اُن کا اتقاء ایسا ہی ہے.جیسے عبد اللہ بن ابی بن سلول، بنو قینقاع اور بنو نضیر کے معاملہ میں ظاہر کرتا تھا.وہ بھی یہی کہتا تھا کہ رحم -رحم مگر کیا قرآن نے اُسے رحیم قرار دیا.قرآن مجید اُسے رحیم نہیں بلکہ منافق قرار دیتا اگر نظام سلسلہ کو اس رنگ میں چلایا جائے اور اس قسم کے احمقوں کی بات کو مان لیا جائے تو وہی بے لگامی احمدیت میں آجائے جو اس وقت دوسروں میں ہے.ممكن ہے.
خطبات محمود ۱۴۶ سال ۱۹۳۳ء پس گو میں کئی دفعہ جماعت کے لوگوں کو توجہ دلا چکا ہوں کہ اگر انہوں نے بیعت کی ہے تو اس کے کوئی معنے ہونے چاہئیں، کوئی قیمت ہونی چاہیئے.چاہے دھیلہ یا دمڑی ہی کیوں نہ ہو.مگر اس قسم کی بیعت کی کہ منہ سے بیعت کا اقرار کیا جائے اور اطاعت کے معاملہ میں خلیفہ وقت کی صریح نافرمانی کی جائے، ایک دمڑی بھی قیمت نہیں.مگر اب میں پھر توجہ دلاتا ہوں کہ کمزور سے کمزر ایمان والوں کی بیعت کی بھی کچھ نہ کچھ قیمت ہوتی ہے.چاہے وہ کوڑی ہی ہو لیکن اس قسم کی نا معقول حرکت کے بعد تو بیعت کی کوڑی بھر بھی قیمت نہیں رہتی.اور یہ اطاعت کا اقرار نہیں بلکہ دھوکا بازی اور فریب ہے جسے کوئی بھی دنیا میں وقعت دینے کیلئے تیار نہیں ہو سکتا.انسانوں کے سامنے ایسا آدمی ممکن ہے متقی بن جائے اور حقیقت سے ناواقف انسان اسے دیکھ کر کہے کہ کیا ہی متقی شخص ہے.مگر خدا کے حضور وہ متقیوں کی فہرست میں نہیں ہو سکتا.اور ایسا شخص جو اِن حالات میں دوسرے پر رحم کرنے کی تلقین کرتا ہے اگر خود اسے کسی دفتر کا چپڑاسی بھی بنا دیا جائے تو وہ ساری دنیا کی گردنیں کاٹنے لگ جائے اور کہے کہ چپڑاسی کی یہ لوگ کیوں بات نہیں مانتے.میں دیکھتا ہوں کہ اس قسم کے خطوط لکھنے والے اگر مدرس ہیں تو چھوٹے چھوٹے طالب علموں کے متعلق ایسے ایسے بغض ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.دکاندار ہیں تو وہ اپنے معاملات میں اتنے بغیض ہوتے ہیں کہ گویا خدا کی خدائی بھی ان کی حکومت کے آگے بیچ ہے.مگر کوئی سلسلہ کے نظام کے خلاف بغاوت کرے تو اُس وقت یہ لوگ گود کر سب سے آگے آجائیں گے اور کہیں گے رحم کریں، رحم کریں.میں سمجھتا ہوں کبھی کوئی جماعت منافقوں سے خالی نہیں ہوئی.اگر رسول کریم ﷺ کے وقت منافق موجود تھے تو اب بھی ہونے چاہئیں.مگر عموماً اس قسم کے لوگوں کا ذکر نہیں کیا جاتا.ہاں مومنوں کو بیدار کرنے کیلئے کبھی کبھی یہ باتیں بتائی جاتی ہیں.چونکہ اُن کی باتیں سننے والا یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ جسے سزا دی گئی وہ ہمارا ایک بھائی ہے، اس لئے وہ کہہ دیتا ہے کہ کتنا ظلم ہو گیا.حالانکہ منافق جب لوگوں سے باتیں کرتے ہیں تو انہیں یہ نہیں بتاتے کہ خلیفہ وقت سے تین دفعہ پوچھا گیا اور تینوں دفعہ انکار کے باوجود چند لفنگوں اور بد معاشوں کو اکٹھا کرکے نکاح پڑھوادیا گیا.بلکہ وہ کہتے ہیں تو یہ کہ ہمیں یہ پتہ نہیں تھا کہ مسجد مبارک میں نکاح ہونا ضروری ہے.اور اگر کسی اور جگہ نکاح پڑھوائیں گے تو ہمارا بائیکاٹ کر دیا جائے گا.وہ تین دفعہ کے انکار کا ذکر نہیں کرتے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ سزا صرف اس لئے لئے
خطبات محمود ۱۴۷ سال ۱۹۳۳ دی گئی ہے کہ کیوں یہ نکاح مسجد مبارک میں نہیں ہوا؟ یہ سننے والا جھٹ کہہ اُٹھتا ہے، کتنا بڑا ظلم ہے.شریعت میں یہ کہاں لکھا ہے کہ ہر نکاح مسجد مبارک میں ہی ہو.یا کیا جماعت کے ذمہ دار افسروں کی طرف سے اعلان ہوا ہے کہ نکاح ہمیشہ مسجد مبارک میں ہی پڑھے جایا کریں.تب سننے والا کہتا ہے یہاں کے لوگ کتنے ظالم اور سیاہ دل ہو گئے کہ مسجد مبارک میں نکاح نہیں ہوا تو محض اس بناء پر بائیکاٹ کر دیا گیا.منافق کھا جائیں گے اس بات کو کہ مجلس شوریٰ میں یہ فیصلہ ہوچکا ہے کہ قادیان کے نکاح اور باہر کے بھی ایک مقرر شدہ فارم کی خانہ پُڑی اور اُس کی تصدیق کے بعد پڑھے جائیں مگر ایسا نہیں کیا گیا.وہ اس بات کو بھی کھا جائیں گے کہ تین دفعہ خلیفہ وقت سے پوچھا گیا، مگر اُس کے انکار کے باوجود چند لونڈے جن میں سے چند اوباش اور چند بد معاش تھے ، انہیں اکٹھا کر کے سمال ٹاؤن کمیٹی کے دفتر میں نکاح پڑھ دیا گیا.سمال ٹاؤن کمیٹی کے دفتر میں آخر کیا برکت ہو سکتی تھی سوائے اس کے کہ اس نکاح کی پوشیدگی مد نظر تھی.وہ اِن تمام باتوں کو کھا جائیں گے اور صرف یہ کہہ کر پروپیگنڈا کریں گے کہ دیکھئے کتنا ظلم ہو گیا ہے.صرف اتنے قصور پر کہ کیوں یہ نکاح مسجد مبارک میں نہیں ہوا ہمارا بائیکاٹ کیا جاتا ہے.اور اس طرح ناواقفوں کو دھوکا دینے کی کوشش کی جاتی بالکل ممکن تھا میرے حکم کے سننے میں انہیں کوئی غلط فہمی ہو گئی ہو.گو میں نہیں سمجھ سکتا کہ تین دفعہ کے واضح انکار کے باوجود کس طرح کوئی غلط فہمی ہو سکتی ہے.خصوصاً جبکہ ان کا اقرار ہے کہ انہیں کہا گیا کہ اس نکاح کی اجازت نہیں لیکن انہوں نے اس کے باوجود نکاح کردیا.تا ہم مان لیا جا سکتا تھا کہ انہیں غلط فہمی ہوئی مگر وہ جو کہا جاتا ہے کہ ”خدا مجھے نادان دوستوں سے بچائے" ان کے منافق دوست ہیں جو اس معاملہ کو بھیانک شکل دیتے چلے جارہے ہیں.پس اس لئے اب انہیں جتنی بھی شدید سزا ملے اس کی ذمہ داری ان منافق پروپیگنڈا کرنے والوں پر ہے جو ان کی تائید میں لکھتے ہیں اور محض جھوٹ اور فریب سے کام لے کر لکھتے ہیں.اگر اس موقع پر رحم کیا جائے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے جو ذمہ داری مجھ پر عائد ہے، اس سے میں عہدہ برآ نہیں ہو سکتا.خلیفہ وقت کا کام ہے کہ وہ ایک مضبوط چٹان کی طرح ہو.ایسی چٹان کہ دنیا بھر کے سمندر بھی مل کر اُسے ہلا نہ سکیں.اگر چند منافقوں.میں ڈر جاؤں اور ایسے موقع پر رحم کرنے پر آمادہ ہو جاؤں جبکہ رحم مناسب نہیں، تو میں اپنی
سال ۱۹۳۳ء خطبات محمود ۱۴۸ خلافت کی ذمہ داریوں میں کوتاہی کرنے والا ہوں گا.مجھے یہ چند منافق کیا اگر دنیا کی حکومتیں بھی مل کر ایک مقصد سے ہٹانا چاہیں تو نہیں ہٹا سکتیں.اور اگر میں یا کوئی اور خلیفہ اس لئے نرمی کرے کہ لوگ اسے مجبور کرتے ہیں تو یقیناً وہ خدا کا قائم کردہ خلیفہ نہیں ہو سکتا.رحم ہمارا کام ہے لیکن دباؤ سے ماننا ہمارا کام نہیں، بلکہ دباؤ کو کچلنا ہمارا کام ہے.یہ لوگ کیا ہیں، شیطان کا ایک آلہ ہیں.مگر خدا کے خلفاء شیطان پر غالب آیا کرتے ہیں، مغلوب نہیں ہوتے.اور ایک دن آتا ہے کہ شیطانی ہتھیاروں کو وہ توڑ کر رکھ دیتے ہیں.مومن بہادر ہوتا ہے، بزدل نہیں ہوتا.وہ ایک وقت رحم کرتا ہے، اتنا رحم کہ لوگ خیال کرتے ہیں شاید یہ بزدل ہے مگر جب دباؤ ڈالا جائے، اسے ڈرایا اور دھمکایا جائے تو اُس وقت وہ سخت ہو جاتا ہے.اتنا سخت کہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ شائد اس سے بڑھ کر سنگدل کوئی نہیں مگر یہ دونوں قسم کے لوگ غلطی پر ہوتے ہیں وہ بزدل نہیں بلکہ رحم دل ہوتا ہے اور سنگدل نہیں بلکہ مستقل مزاج اور اولوالعزم ہوتا ہے.میں نہیں جانتا، یہ غلطی ہماری جماعت میں کب تک چلی جائے گی اور کہ اور کب تک وہ اِس کا ارتکاب کرتے رہیں گے کہ صیغوں کا نام لے لے کر کہیں کہ امور عامہ ایسا کرتا ہے، فلاں محکمہ ایسا کرتا ہے.کیا خلیفہ وقت ایسا ہی بیوقوف ہے کہ وہ ایسوں کو ناظر اور افسر مقرر کرے جو ظالم ہوں اور لوگوں پر تندی کرنے والے ہوں.ناظر امور عامہ جس کا نام لے کر اس معاملہ میں مجھے کو سا جاتا ہے، اُس کی یہ حالت ہے کہ وہ تین دفعہ اس نکاح کے معاملہ میں میرے پاس سفارش کر چکے ہیں اور تینوں دفعہ نہایت سختی سے میں ان کی سفارش کو رد کرچکا ہوں.اور اب تک بھی میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ آخر یہ نکاح کرنے کرانے والوں کو کس لئے معاف کروں.تین دفعہ ایک بات کہی جاتی ہے مگر تین دفعہ سننے کے باوجود اس کے خلاف کیا جاتا ہے.پھر اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم سے منافقت ہو گئی، غلطی ہو گئی ، گناہ ہو گیا بے دینی ہو گئی.آپ نے تین دفعہ کہا مگر ہم نے نہ مانا.اب ہم اپنے ں فعل پر پچھتاتے ہیں تو یہ اور بات تھی.مگر وہ ایک ہی سانس میں یہ کہتے ہیں کہ ہمیں تین دفعہ ایک بات کہی گئی اور ہم نے نہ مانی.اور اُسی سانس میں یہ کہتے ہیں کہ یہ کوئی غلطی اس نہیں.رو اگر ان کا اپنے فعل پر پچھتانے والا رویہ ہوتا تو ممکن تھا میں انہیں معاف کر دیتا.مگر وہ تو ایک ہی سانس میں یہ کہتے ہیں کہ ہمیں تین دفعہ حکم ملا مگر ہم نے نہ مانا.اور پھر یہ بھی کہہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء دیتے ہیں کہ ہمیں پتہ نہیں تھا کہ اس طرح نکاح نہیں ہونا چاہیے تھا.اگر تین دفعہ کہنے کے باوجود بھی ایک بات کسی شخص کی سمجھ میں نہیں آسکتی تو میں نہیں سمجھ سکتا اسے کتنی دفعہ بات سمجھانی چاہیئے.اس گناہ اور منافقت کی وجہ اصل میں یہ ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں جو ناظر ہے وہ بیوقوف ہے.میں نے دیکھا ہے قادیان کی لوکل جماعت کے پریذیڈنٹ چونکہ بدلتے رہتے ہیں اس لئے ان کے متعلق یہ بات خوب نظر آتی ہے.ایک وقت جب ایک شخص پریذیڈنٹ ہوتا ہے تو دوسرا آکر کہتا ہے دیکھئے کیا اندھیر نگری ہے، کوئی سننے والا ہی نہیں، ہر کوئی اپنی حکومت جتاتا ہے لیکن جب دوسرے وقت وہی شخص خود پریذیڈنٹ ہو جاتا ہے تو شکایت کرتا ہے پلک بالکل جاہل اور احمق ہے، وہ تو کام کرنے ہی نہیں دیتی.گویا جب خود پریذیڈنٹ ہوتا ہے تو پبلک کو احمق قرار دیتا ہے.اور جب پبلک میں شامل ہو جاتا ہے تو پریذیڈنٹ کو احمق کہنے لگ جاتا ہے.اسی طرح میں نے پبلک کے بعض افرا کو دیکھا ہے، کہہ دیں گے یہ پریذیڈنٹ نہایت ہی بیوقوف اور جاہل ہے.پھر جب ان میں سے کوئی پریذیڈنٹ ہو جاتا ہے تو یکدم پبلک باہل بن جاتی اور وہ عظمند ہو جاتے ہیں.یہ لوگ جو اس وقت معترض ہیں اور کہتے نہیں کہ ناظر نے یوں کر دیا اگر میں انہیں ناظر بنادوں اور دوسرے ہی دن ان سے پوچھوں کہ پبلک کا کیا حال ہے تو وہ کہہ دیں گے جی کیا پوچھتے ہو، جاہل آدمی ہیں قرآن میں بھی لکھا ہے اکثر لوگ جاہل ہوتے ہیں ، یونسی نکتہ چینی کرتے رہتے ہیں.گویا جب دوسرا شخص ناظر ہوتا ہے اُس وقت تو یہ کہا جاتا ہے کہ پبلک کی آواز ہی اصل چیز ہے اور جب اپنے سپرد کام ہوتا ہے تو اُس وقت پبلک جاہل بن جاتی ہے.یہ دیانتداری اور تقویٰ کا طریق نہیں.تقویٰ وہ ہوتا ہے جو ایک اصل کے ماتحت ہو.چاہے تم حاکم ہو یا محکوم، تمہارا اصل ایک رہے.لیکن جب تمہارا قانون بدلتا رہتا ہے، تم خود حاکم بنو تو اور قانون ہو جاتا ہے محکوم بنو تو اور تو پھر تم مومن نہیں بلکہ منافق ہو خواہ تم جانتے ہو یا نہ - اللہ تعالٰی نے کچھ اصول مقرر فرمائے ہیں اور وہی ہر جگہ کام آیا کرتے ہیں چاہے کوئی حاکم ہو یا محکوم.پس اگر اپنی اصلاح چاہتے ہو تو ان جاہل لوگوں کی طرح مت بنو جن کا آج کل یہ کام ہے کہ گورنمنٹ انگریزی جسے بھی افسر مقرر کرے، اس کے خلاف شورش برپا کر دیتے ہیں، جب تک یہ بات تمہارے اندر پیدا نہیں ہوگی اور تم اپنے افسروں کی اطاعت نہیں کروگے، اُس وقت تک تمہارا ترقی کرنا بالکل محال ہے.تمہاری مثال اُس وقت اُس چیتے کی سی ہوگی جو اپنی زبان کا خون چوستا
خطبات محمود ۱۵۰ سال ۱۹۳۳ء جارہا تھا اور سمجھتا تھا کہ سل بڑی مزیدار ہے.تم ان حرکات سے نہ صرف اپنا ہی نقصان کرتے ہو بلکہ اپنی اولادوں کا بھی نقصان کرتے ہو اور صرف اپنا ہی خون نہیں کرتے بلکہ اپنی الادوں کا بھی خون کرتے ہو.جب تک یہ مادہ ہماری جماعت کے اندر پیدا نہ ہو کہ جو جماعتی کام ہوں، ان میں افسروں کی رائے کو اپنی رائے پر مقدم کرے اُس وقت تک ترقی کیا ایمان بھی پیدا نہیں ہو سکتا.قرآن مجید کا صاف حکم ہے اَطِيْعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَ أولى الْأَمْرِ منكم سے بھلا غیر احمدی تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ افسر اُولی الامر نہیں کیونکہ وہ ہم میں سے نہیں مگر تم خدا کو کیا جواب دو گے کیا خدا تمہیں یہ نہیں کہے گا کہ تم میں سے ہی بعض لوگوں کو میں نے اُولی الامر کیا مگر تم پھر بھی ان کی اطاعت سے کنارہ کشی کرتے رہے.اس میں شبہ نہیں کہ افسر بھی غلطی کر سکتے ہیں مگر زید یا بکر کو جب سزا ملے تو یا گلانہ طور پر ھے ہو کر شور مچادینا کہ ظلم ہو گیا نہایت ہی غلط طریق ہے.اس صورت میں ممکن ہے لوگ تمہیں نیک بخت کہہ دیں مگر خدا کے حضور تم نیک بخت نہیں بلکہ بدبخت شمار کئے جاؤ گے.اور اللہ تعالیٰ کے دفتر میں نیک بختوں میں سے تمہارا نام کاٹ کر بد بختوں میں لکھ دیا جائے گا.پھر.قیامت کے دن بھی یہ لوگ جو آب تمہاری تعریف کر رہے ہیں تعریف نہیں کریں گے بلکہ سب سے پہلے تمہارے منہ پر تھوکیں گے.پس اس نیک بخت کہلانے کا کیا فائدہ جو آخر میں تمہیں ذلیل و رسوا کرنے والا ہے.اللہ تعالیٰ کی یہی سنت ہے کہ جب کوئی شخص خدا کیلئے کام کرتا ہے تو وہ اُس کے گناہوں کو بھی چھپا دیتا ہے اور جب اپنے نفس کیلئے کام کرتا ہے تو اس کی نیکیوں کو بھی گناہ کی صورت میں ظاہر کر دیتا ہے.دیکھو قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ایمان والوں کے متعلق فرماتا ہے کہ وہ اللہ تعالی سے یہ دعا کیا کرتے ہیں رَبَّنَا وَاتِنَا مَا وَعَدَ تَنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلَا تُخْزَنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ ، اے خدا! جو تُو نے اپنے رسولوں کے ذریعہ ہم.وعدے کئے ہیں وہ پورے فرما اور قیامت میں ہماری رسوائی کا کوئی سامان نہ ہو.کیونکہ تیرا مومنوں سے یہ وعدہ ہے کہ ان کے عیوب پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے اور تو وعدوں کو وفا کرنے والی ذات ہے.پس جو شخص خدا کیلئے کام کرتا ہے اُس کا عیب بھی چھپادیا جاتا ہے اور جو نفس کیلئے کرتا ہے اُس کی نیکی بھی بدی بن جاتی ہے.جیسے قرآن مجید میں آتا ہے.وَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ ہے.بعض لوگ نماز تو پڑھتے ہیں مگر نماز پڑھنے کے باوجود اُن کیلئے ویل
خطبات محمود ۱۵۱ سال ۱۹۳۳ء ہوتی ہے تو ایک شخص کی نماز بھی اس کیلئے رُسوائی کا موجب ہو جاتی ہے اور دوسرے کا عیب بھی اُس کی رسوائی کا ذریعہ نہیں بنتا.اصل چیز یہ ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کا ہو جائے اور جب کوئی شخص خداتعالی کا ہو جاتا ہے تو اُس کے عیب چھپائے جاتے ہیں اور دنیا و آخرت میں اگر بظاہر اس کو کوئی ذلت بھی پہنچتی ہے تو اُس کے بدلہ میں اور بیسیوں عزت کے سامان پیدا کردئے جاتے ہیں اور جو شخص اپنے نفس کیلئے کام کرتا ہے اُس کے سامنے اگر عزت کے سامان بھی ہوں تو وہ اُس کیلئے ذلت کا ذریعہ بن جاتے ہیں.پس اپنی نیتوں کو درست کرو اور خدا کیلئے کام کرنے کی عادت ڈالو، چوہدری بننے کی کوشش نہ کرو.دیکھو محمد ال اصل عزت کے مالک تھے مگر انہیں مکہ کا ایک کتا بھی بھونک ملے.لیتا تھا.اس کے مقابلہ میں جو اپنے آپ کو عزتوں والا سمجھتے تھے اور جو رسول کریم ا گالیاں دیا کرتے تھے ان کا کیا حشر ہوا.پس اصل عزت وہی ہے جو خدا کی طرف.کوئی شخص خداتعالی کا ہو جاتا ہے تو اُس کی ذلت بھی عزت میں تبدیل ہو جاتی ہے اور جب کوئی خدا کا نہیں ہوتا تو اُس کی عزتیں بھی ذلت میں بدل جاتی ہیں.الفضل ۸ - جون ۱۹۳۳ء) له مسلم كتاب الامارة باب النهى عن طلب الامارة والحرص عليها ه (۱) روح المعانى الجزء الخامس صفحه ۶۷ مکتبه امدادیه ملتان ) الصارم المسلول على شاتم الرسول صفحه ۴۰٬۳۹ ابن تیمیه طبعة اولی حیدر آباد دکن س النساء: ٦٠ ته ال عمران: ۱۹۵ هم الماعون: ۵
خطبات محمود ۱۵۲ ۱۷ چندوں کی ادائیگی میں سرگرمی دکھاؤ (فرموده ۹ - جون ۱۹۳۳ء) سال ۱۹۳۳ء تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کئے بعد فرمایا:- میں سردرد کی وجہ سے زیادہ تو نہیں بول سکتا لیکن میں قادیان کے دوستوں کو اور باہر کی جماعت کے دوستوں کو بھی اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اس نئے سال یعنی بجٹ کے سال کا ایک مہینہ ختم ہو چکا ہے.میں نے اس سال مجلس شوری کے موقع پر بیان کیا تھا ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے.بیشک نئے آدمیوں میں کمزوری ہوتی ہے مگر نیا ہونا بھی دو طرح کا ہوتا ہے، ایک نیا ہونا نام کا ہوتا ہے اور ایک حقیقت کا کوئی شخص دو مہینے چار مہینے یا مہینے نیا رہا بھی تو اُسے نیا سمجھا جاسکتا ہے.مگر یہ کہ نئی جماعت یا نئے احمدی پچاس سال تک نئے ہی رہیں، ایک تعجب انگیز امر ہے.اور یہ نیا ہونا نام کا ہو گا حقیقت کا نہیں.جیسے دلہن جب بیاہ کر لائی جاتی ہے تو اسے دلہن کہہ کر پکارا جاتا ہے.پھر وہ بڑی ہو جاتی ہے.اس کے بچے ہونا شروع ہو جاتے ہیں، لڑکے اور لڑکیوں کے بعد اُس کے پوتے اور پوتیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں مگر اسے دُلہن ہی کہہ کر پکارتے رہتے ہیں.اب اتنے عرصہ کے بعد کہ سلسلہ احمدیہ کو قائم ہوئے پچاس سال سے بھی زائد ہو گئے ہیں اور بیعت کے زمانہ پر بھی چھیالیس سال کے قریب گزر چکے ہیں، ہماری جماعت نئی نہیں کہلا سکتی اور نہ اس کے اکثر افراد نئے احمدی کہلا سکتے ہیں.چھیالیس سال کے زمانہ میں صحابہ نے نصف دنیا فتح کرلی تھی.سے ۱۳ سال کے عرصہ کے بعد رسول کریم ﷺ نے ہجرت کی.اور ۲۳ سال کے بعد بعثت رم
خطبات محمود ۱۵۳ سال ۱۹۳۳ء ا آپ فوت ہوئے.ساڑھے پچیس سال ابھی آپ کے دعوئی پر نہیں گزرے تھے کہ عرب سارا فتح ہو چکا تھا.شام کا بہت سا حصہ بھی فتح ہو چکا تھا.۳۲ سال ابھی آپ کے دعوئی پر نہیں گزرے تھے کہ صحابہ نہ صرف شام بلکہ اناطولیہ کا ایک حصہ بھی فتح کر چکے تھے.مصر فتح ہو چکا تھا، ایران فتح ہوچکا تھا اور عراق بھی فتح ہو چکا تھا.دنیا کی دو زبردست سلطنتیں جو آج کل انگریزی اور روسی حکومت کی طرح تھیں انہیں شکست دے کر ان میں سے ایک کو بالکل برباد کر چکے تھے.اور ایک کی حکومت کا بیشتر حصہ لے چکے تھے.اور چھیالیس سال کے انتقام پر کہ یہ ہماری جماعت کی بیعت کا زمانہ ہے، وہ ایران سے گزر کر چین کے بہت سے علاقے کر چکے تھے، افغانستان کو بھی فتح کر چکے تھے.اور ہندوستان میں بھی اسلامی فوجیں داخل ہو چکی تھیں.اُدھر یورپ کے کناروں تک اسلامی جھنڈا لہرانے لگ گیا تھا.غرض صحابہ کرام کے عمل کو دیکھتے ہوئے چاہیئے تھا کہ اتنے ہی عرصہ میں جماعت احمدیہ بھی متمدن دنیا کو فتح کرلیتی یا کم از کم اس کے نیچے سرنگ لگادیتی.لیکن ہماری جماعت کے لوگ ہمیشہ اپنی زمہ داریوں سے بچنے کیلئے کہہ دیا کرتے ہیں کہ ابھی نئی جماعت ہے، افراد پوری سرگرمی نہیں دکھا سکتے.مگر یہ نیا ہونا ایسا ہی ہے جیسے بڑھیا کو لوگ ڈلہن کہہ دیا کرتے ہیں.اپنے آپ کو نیا کہنے سے کوئی انسان نیا نہیں بن سکتا.ایک بڑھا جس کے دانت جھڑ چکے ہوں اگر اپنے آپ کو بچہ کے تو یہ نہیں کہ لوگ اسے بچہ کہنے پر تیار ہو جائیں گے بلکہ نہیں گے اور محول کریں گے.پس ہماری جماعت کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرے.میں نے اعلان کیا ہوا ہے کہ اگر لوگ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس نہیں کریں گے تو ایسے افراد یا جماعتوں کو اس طریق پر جکڑ دیا جائے گا کہ یا تو مجبور ہو کر انہیں جماعت کے ساتھ چلنا پڑے گا.اور جس رنگ میں مخلصین جماعت خدمت کر رہے ہیں، اسی طرح اسیر بھی خدمت دین کرنی پڑے گی اور یا پھر انہیں جماعت کو چھوڑ دینا پڑے گا.بزدل اور کمزور آدمی ہمیشہ باقیوں کو بھی خراب کیا کرتے ہیں.جب ہم تھوڑے تھے تب بھی دنیا ہم سے مرعوب اب ہم زیادہ ہو گئے ہیں اور اب بھی دنیا ہم سے مرعوب ہے.لیکن اگر وہی اخلاص اور قربانی ہم میں ہوتی جو تھوڑے ہونے کی حالت میں پائی جاتی تھی تو میں سمجھتا ہوں آج دنیا پہلے سے بیسیوں گنا زیادہ ہم سے مرعوب ہوتی.اب جبکہ مالی سال کا ایک مہینہ گزر چکا ہے قادیان کے لوگ اور کار کن دیکھ لیں کہ انہوں نے پہلے مہینہ کا حصہ ادا کر دیا ہے یا نہیں.اگر ادا کر دیا
خطبات محمود ۱۵۷ سال ۱۹۳۳ ہے تو سمجھ لیں کہ بارہ مصیبتوں میں سے ایک مصیبت ان پر سے ٹل گئی ہے.چندہ دینا مصیبت نہیں بلکہ غفلت کے بدلہ میں سزا ملنے کی مصیبت مراد ہے.خداتعالی کے راستہ میں - قربانی کرنا ہمیشہ ترقی نعمت اور برکت کا موجب ہوتا ہے.پس یہ مراد نہیں کہ قربانی کرنا مصیبہ ہے بلکہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں نے اپنے فرض کو ادا کر کے اس مصیبت سے اپنے آپ کو بچالیا جو نہ ادا کرنے کی صورت میں ان پر آسکتی تھی.یعنی یا تو وہ اپنی کمزریوں کی وجہ سے جماعت سے نکال دیئے جاتے یا کسی اور گرفت میں آجاتے.لیکن اگر اپنے فرائض کو ادا نہیں کیا گیا تو سب سے پہلی جماعت جو زجر کے نیچے آنی چاہیے اور آئے گی، وہ قادیان کی جماعت ہے.میں قادیان کے دوستوں اور باہر کی جماعتوں کی بھی عنقریب ایک لسٹ طلب کروں گا اور دیکھوں گا کہ کون کون سی جماعتوں نے اپنا مئی کا فرض ادا کر دیا ہے پھر جن کے متعلق یہ معلوم ہوگا کہ انہوں نے مئی میں اپنا فرض ادا نہیں کیا ان کے متعلق مناسب تدابیر اختیار کروں گا.اس میں شبہ نہیں کہ بجٹ سال کے آخر میں ختم ہوتا ہے لیکن اس میں شبہ نہیں کہ اگر شروع سال سے احتیاط نہ کی گئی تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگ غافل رہیں گے اور اس طرح ان کے گناہوں کا ایک حصہ ہمیں بھی اٹھانا پڑے گا.نگران کا فرض ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو ہروقت ہوشیار کرتا رہے اور اگر ہم ہر مہینہ انہیں توجہ نہیں دلائیں گے تو جو شخص اپنا فرض ادا نہیں کرے گا وہ بارہ مہینے کے بعد جب انتہائی سزا کا مستحق ہوگا تو اللہ تعالیٰ کے حضور جس طرح وہ سزا کا مستحق ہوگا، اسی طرح نگران بھی اس سزا کا حصہ دار ہوگا.پس میں سمجھتا ہوں یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ہر مہینے یہ دیکھتے چلے آئیں کہ ذمہ داریاں ادا ہو رہی ہیں یا نہیں.اب دوسرے مہینہ کی ذمہ داری شروع ہو رہی ہے.آج 9 تاریخ ہے.میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جلد سے جلد مئی کی ذمہ داری ادا کر دیں.اور جون کی ذمہ داری ادا کرنے کیلئے بھی سرگرم عمل ہو جائیں.ورنہ ان لوگوں کو جو منہ سے احمدیت کا دعویٰ کرتے ہیں اور جن کا شور صرف اس لئے ہوتا ہے کہ فلاح خرچ گھٹادو فلاں مد میں کمی کردو میں ہوشیار کرتا ہوں کہ انہیں اس بات پر تیار رہنا چاہیئے کہ یا تو اپنے آپ کو مشقتوں میں ڈال کر اپنی ذمہ داریوں کو ادا کریں یا بُزدلوں کی طرح پیٹھ موڑ کر چلے جائیں.اور یہ میدان ان لوگوں کیلئے چھوڑ دیں جو بظاہر غیر مؤمن ہیں مگر اللہ تعالیٰ کے حضور مومنوں میں شامل ہیں یعنی وہ آئندہ جماعت میں داخل ہونے والے لوگ جن کی قربانیاں ان پچھلوں کیلئے شرمندگی کا موجب ہوں گی.اور جن
خطبات محمود ۱۵۵ سال ۱۹۳۳ء کا اپنے آپ کو اللہ تعالٰی کے راستہ میں فدا کر دینا پیٹھ پھیرنے والوں کیلئے ذلت کا داغ ہوگا.بہت ہیں جو پیچھے آتے ہیں مگر اپنے اخلاص کی وجہ سے آگے نکل جاتے ہیں.جیسے صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید ' تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ وہ پیچھے آئے مگر آگے نکل گئے.اگر کمزور لوگ جماعت سے خارج ہو کر اپنی جگہیں خالی کردیں گے تو میں سمجھتا ہوں یہ یقیناً جماعت کی کمزوری کا باعث نہیں ہوں گے بلکہ اُن لوگوں کو آگے لانے کا باعث ہوں گے جو ابھی جماعت میں داخل نہیں ہوئے.اگر کمزور ایمان والے غداری کریں تو میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے ہی وہ جماعت سے نکلیں گے خدا تعالٰی کی غیرت جوش میں آئے گی اور اُن لوگوں کو آگے لے آئے گی جو ابھی پیچھے ہیں اور اس طرح یہ کمی اور خلا پورا کر دیا جائے گا.پس میں یہاں کے دوستوں کو اور باہر کی جماعتوں کو بھی اس خطبہ کے ذریعہ آگاہ کر دیتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں تا ایسا نہ ہو کہ وہ بعد میں کہہ دیں ہمیں علم نہیں تھا اور ہم یہ سمجھ رہے تھے کہ سال کے آخر میں حساب لیا جائے گا.سال کے بعد کا حساب کوئی فائدہ نہیں دے سکتا کیونکہ نہ تو وہ انہیں بچا سکتا ہے جنہیں سزا ملنی ہے اور نہ ہی سلسلہ کو کوئی فائدہ دے سکتا ہے.محاسبہ ساتھ کے ساتھ ہو گا مگر انتہائی سزا سال کے آخر میں دی جائے گی.در حقیقت اخلاص کا تقاضا تو یہ ہونا چاہیئے تھا کہ مجھے اس قسم کے خطبہ کی ضرورت ہی پیش نہ آتی.کیونکہ ہر مومن ایک عمود اور ستون ہوتا ہے جس پر دنیا قائم ہوتی ہے.اُسے کھڑا کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی.کھڑا ہمیشہ اسے کیا جاتا ہے جس کی جڑ نہ ہو.پس میرا یہ خطبہ گو مخلصین کی ایک رنگ میں ہتک ہے کیونکہ وہ لوگ ایسے ہیں جنہیں خدا کے فضل سے پائے ثبات بخشا گیا.اور انہیں توفیق دی گئی ہے کہ وہ باقیوں کیلئے عمود اور ستون بنیں.دراصل میرے مخاطب وہ نہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جو مخلصین کے نام پر بٹہ لگانے ہیں اور جن کی مثال پیش کر کے مخالف لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ایسے لوگ بھی جماعت میں پائے جاتے ہیں.ورنہ ہر مالی تحریک کے موقع پر میں نے دیکھا ہے نادہندہ خاموشی سے گھر میں بیٹھے رہتے ہیں اور مخلصین جو پہلے ہی بوجھ سے دبے ہوئے ہوتے ہیں، آگے نکل آتے ہیں اور کہتے ہیں آئندہ ۱/۸ کی بجائے ہم ۱/۷ دیں گے یا ۷ /ا کی بجائے ۱/۶ دیں گے یا ۱۶ کی بجائے ۱/۵ دیں گے.تب میں سوچتا ہوں کہ دیکھو جن کے متعلق میں چاہتا والے
خطبات محمود ۱۵۶۰ سال ۱۹۳۳ء ہوں کہ انہیں بوجھ سے نکالوں، وہ تو بوجہ اخلاص کے موجودہ وقتوں اور مالی مشکلات کے باوجود ہر آواز پر لبیک کہتے ہیں مگر بُزدل اور کمزور ایمان والا بیٹھا رہتا ہے اور کہتا ہے دیکھوں کون لوگ اس کے مخاطب ہیں.دیکھوں کون اس آواز پر لبیک کہتا ہے.میرا منشاء ہے کہ اب ایسے لوگوں کو مخاطب کیا کروں تا وہ جاگیں اور بیدار ہوں یا پھر دوسروں کیلئے اپنی جگہ خالی ہی کردیں.پس اس خطبہ کے ذریعے میں پہلے قادیان والوں کو اور پھر باہر کی جماعتوں کو توجہ دلا کر ! اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوتا ہوں.میری ذمہ داریاں تو پھر بھی رہیں گی ہاں اپنی ذمہ داری کے ایک حصہ کو میں ادا کرتا ہوں.اور امید رکھتا ہوں کہ اگر کوئی کو تا ہی رہ گئی ہے تو لوگ کوشش کر کے اس داغ سے اپنے آپ کو بچالیں گے.جو اپنا فرض ادا نہ کرنے سے انسان کے دل اور اُس کے ماتھے پر لگا دیا جاتا ہے.الفضل ۱۵ - جون ۱۹۳۳ء)
خطبات محمود ۱۵۷ IA اللہ تعالیٰ کی محبت تمام کامیابیوں کی کلید ہے (فرموده ۱۶ - جون ۱۹۳۳ء) سال ۱۹۳۳ء تشد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- وہ ہے انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایسے طور پر بنایا ہے کہ اگر غور سے دیکھا جائے تو وہ مقام جسے صراط کہتے ہیں اور جس کا نام حدیثوں میں جسرِ صراط آیا ہے.اور جس کے متعلق آتا تلوار کی دھار سے بھی زیادہ باریک اور تیز ہے ا ، در حقیقت اسی دنیا میں انسان اس مقام پر کھڑا کیا گیا ہے.ایک چھوٹی سے حرکت، ایک ذرا سی لغزش، ایک معمولی سی کمزوری ایک خفیف سا ضعف اُسے کہیں کا کہیں لے جاتا ہے.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں ایک انسان بظاہر نیک معلوم ہوتا ہے.وہ جنتیوں کے سے عقیدے رکھتا اور جنتیوں کے سے کام کرتا ہے.وہ اپنے اعمال کے زور اور طاقت سے جنت کے قریب ہوتا چلا جاتا یہاں تک کہ جنت کے دروازہ پر جا پہنچتا ہے.تب خدا کی قدرت اُسے اُٹھاتی اور وہاں سے دور پھینک دیتی ہے یہاں تک کہ وہ دوزخ میں جاگرتا ہے.پھر فرمایا اس کے مقابل میں ایک اور انسان بداعمالی میں مبتلا ہوتا ہے.وہ بد اعمالیاں کرتا ہے اور ہر لمحہ دوزخ کے قریب ہوتا چلا جاتا ہے.ہر قدم جو وہ اُٹھاتا ہے اسے دوزخ کے نزدیک کردیتا ہے یہاں تک کہ وہ اس کے دروازہ پر جاپہنچتا ہے.اس کے اور دوزخ کے درمیان کوئی روک حائل نہیں رہتی مگر اچانک خدا کی حکمت اسے وہاں سے دور پھینک دیتی ہے اور وہ اپنے آپ کو جنت میں پاتا ہے ہے.اس کے یہ معنی نہیں کہ خداتعالی ظالم بادشاہ
خطبات محمود ۱۵۸ سال ۱۹۳۳ء سے وہ کی طرح جسے چاہتا ہے دوزخ میں ڈال دیتا ہے.اور جسے چاہتا ہے جنت میں ڈال دیتا ہے ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان جب تک کہ اس کا آخری سانس جاری ہے، ایسے خطرات میں مبتلا ہوتا ہے کہ ایک چھوٹی سے چھوٹی بات بھی اسے کہیں کا کہیں پھینک دیتی ہے.یہی بات رسول کریم ﷺ نے بتائی اور سمجھایا کہ انسانی اعمال اور اس کا قلب ایسے خطرات میں گھرا ہوا ہے.اور اس قسم کی مشکلات اس کے سامنے ہیں کہ بعض دفعہ ذرا سی بے احتیاطی.اپنی تمام عمر کی کارروائیوں کو باطل کر دیتا ہے.پس اگر یہ زندگی جس کی مثال رسول کریم نے ان الفاظ میں بیان فرمائی کہ ایک انسان دوزخ کے کنارے کھڑا ہوتا ہے مگر جنت میں چلا جاتا ہے اور دوسرا جنت کے کنارے کھڑا ہوتا ہے مگر دوزخ میں چلا جاتا ہے.جسر صراط نہیں تو اور کون سی چیز جسر صراط کہلانے کی مستحق ہے.یہی وہ چیز ہے جو تلوار سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز دھار رکھتی ہے.لوگ سمجھتے ہیں یہ بڑی وسیع زندگی ہے.لوگ خیال کرتے ہیں اس کے دائرے بڑے وسیع ہیں حالانکہ حقیقت میں ایک ایک قدم میں جو انسان اٹھاتا ہے ہزاروں خطرات پنہاں ہوتے ہیں.اسی طرح ایک ایک حرکت کے نیچے ہزاروں برکتیں بھی مخفی ہوتی ہیں.کتنا عظیم الشان فرق ہے جو ہم انسانی زندگی رم میں دیکھتے ہیں.رسول کریم ایک شخص سے کو وحی لکھاتے ہیں، وہ آپ کا مقرب سمجھا جاتا ہے.بالکل ممکن ہے کہ اُس وقت بہت سے صحابہ اِس وجہ سے اس پر رشک کرتے ہوں کہ اسے رسول کریم ﷺ کے قریب بیٹھنے کا موقع ملتا ہے اور اُسے تازہ وحی سننے اور لکھنے کا شرف حاصل ہوتا ہے.مگر ایک دن قرآن مجید لکھتے لکھتے جبکہ رسول کریم ال اسے تازہ وحی لکھا رہے تھے یکدم اس کی زبان پر وہی وہی جاری ہو جاتی ہے جو رسول کریم اسے لکھانا چاہتے ہیں.قرآن مجید کی عبارت کا زور اُس کی فصاحت اس کی طبعی ترکیب ایک حد تک پہنچ کر بے اختیار اس کی زبان پر یہ وحی جاری کردیتی ہے.فَتَبَارَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخَالِقِينَ ہے.اور رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں.ہاں لکھو.یہی وحی ہے.تو وہ بجائے اس کے کہ سجدے میں گر جاتا اور کہتا کہ اللہ تعالٰی نے مجھ پر کتنا فضل نازل کیا کہ اس کے کلام کا میرے دل پر بھی پر تو پڑ گیا.وہ خیال کرتا ہے کہ یہ قرآن انسانی کلام ہے، خدا کا نہیں.میں نے ایک فقرہ کہا وہی جب پسند آگیا تو اسے قرآن مجید میں لکھوا دیا.اس خیال کے ماتحت وہ مرتد
سال ۱۹۳۳ء خطبات محمود ۱۵۹ ہو جاتا ہے ہے.وہ جنت کے دروازہ پر بیٹھا ہوا تھا، صرف اس میں داخل ہونے کی دیر تھی مگر مرتد ہو جاتا ہے.اور مرتد بھی کتنا خطرناک.بعض انسان کمزوری اعمال کی بناء پر مرتد ہوتے ہیں اور بعض اس لئے مرتد ہوتے ہیں کہ ان کا خیال ہوتا ہے جو قدر ان کی کی جانی چاہیے تھی، وہ نہیں ہوئی.مگر وہ اس لئے مرتد ہوتا ہے کہ نَعُوذُ بِالله رسول کریم ال دھو کے باز ہیں اور اپنے پاس سے وحی بناتے ہیں.گویا ٹھو کر بھی لگی تو انتہائی.کئی ٹھوکریں ایسی ہوتی ہیں جو درمیانی درجوں پر لگتی ہیں.مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ڈاکٹر عبدالحکیم کو ٹھوکر لگی.مگر وہ مرتد ہو کر جہاں یہ کہتا تھا کہ مرزا صاحب (نَعُوذُ بِاللَّهِ) بڑے دھوکے باز ہیں، فریبی اور مکار ہیں.وہاں یہ بھی کہا کرتا تھا کہ آپ کا اللہ تعالٰی سے تعلق بھی Cear ہے گویا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مفتری قرار نہیں دیتا تھا.مگر معمولی سی بات پر یکدم یہ نتیجہ نکال لیتا ہے کہ نَعُوذُ بالله رسول کریم اپنے پاس سے باتیں بنالیتے ہیں.اس کے مقابل میں ہم ایک اور شخص کو دیکھتے ہیں.رسول کریم ﷺ منبر پر کھڑے ہو کر نعمائے جنت کا ذکر فرماتے ہیں.اور اس ذکر میں خداتعالی جو آپ پر فضل نازل کرنے والا تھا، ان کو بھی بیان کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اللہ تعالی جنت میں انبیاء پر کیا کیا احسان کرے گا.وہ شخص بے تاب ہو کر کھڑا ہو جاتا ہے.اس کے کوئی خاص اعمال نہیں کوئی نمایاں قربانیاں نہیں، مگر وہ کہتا ہے کہ یا رسول اللہ ! دعا کیجئے میں بھی ان نعمتوں میں شریک ہو جاؤں.کتنا چھوٹا سا یہ عمل ہے کہ ایک وقتی خواہش سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں.اور یہ ایسی خواہش ہے جو نعمائے جنت کا ذکر سن کر ہر شخص کے دل میں پیدا ہو سکتی ہے اور ہر شخص کو لالچ آجاتا ہے.مگر خدا تعالی کو اس کا یہ بے ساختہ پن پسند آجاتا ہے اور جب وہ کھڑا ہو کر کہتا ہے یا رسول اللہ ! دعا کیجئے میں بھی ان نعمتوں میں شریک ہو جاؤں تو رسول کریم فرماتے ہیں ہاں تم بھی ان میں شریک ہو گے.تب اور لوگ کھڑے ہوتے ہیں اور کہنا شروع کرتے ہیں یا رسول اللہ ! دعا کیجئے ہم بھی شریک ہو جائیں.مگر آپ فرماتے ہیں پہلے کہنے والے کو یہ حق مل چکا، نقل کرنے والوں کیلئے اب موقع نہیں ہے.ان بعد میں بولنے والوں میں سے کئی وہ لوگ ہوں گے، جنہوں نے بڑی بڑی قربانیاں کی ہوں گی اور پہلے شخص زیادہ کی ہوں گی مگر اس شخص کی بے ساختگی خدا تعالی کو پسند آگئی.وہ عمل جس میں اسے کوئی قربانی کرنی نہیں پڑی جس میں اسے کوئی تکلیف اٹھانی نہیں پڑی جس میں اسے کسی جہاد
سال ۱۹۳۳ خطبات محمود 14.سے واسطہ نہیں پڑا اللہ تعالٰی کو پیارا معلوم ہوا اور اسے ان نعمتوں کا وارث قرار دے دیا.جو رسول کریم اللہ بیان فرمارہے تھے.ނ.اسی طرح حدیثوں میں آتا ہے ایک شخص قیامت کے دن اللہ تعالی کے حضور پیش ہو گا.اس کے عیب بیان کئے جائیں گے.اس کے گناہ بہت زیادہ ہوں گئے.وہ اپنے گناہوں کو دیکھ کر سمجھے گا کہ اب میرے لئے کوئی نجات کا ذریعہ نہیں.اللہ تعالٰی اس کے چھوٹے سے چھوٹے گناہ بھی اس کے سامنے پیش کرے گا.ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا اور جس طرح مجرم کو خاموش کرایا جاتا ہے.اسی طرح گناہوں کی ایک لمبی فہرست اس کے سامنے پیش کی جائے گی.اور وہ یہی کہتا رہے گا کہ ہاں میرے ایسے ہی اعمال ہیں.سوائے خدا کے فضل کے مجھے کوئی چیز نہیں بچا سکتی.اللہ تعالی کو اس کی یہ ادا پسند آجائے گی.وہ فرشتوں کہے گا.جاؤ میں نے اس کے جتنے گناہ گنوائے، ان کے بدلہ میں اِس کی نیکیاں لکھی جائیں اور اسے جنت میں داخل کردیا جائے.تب وہ بندہ اللہ تعالٰی کی مغفرت سے دلیر ہو کر کہے گا.میرے اور بھی گناہ ہیں.انہیں بھی شمار کیا جائے رسول کریم ا اتنا بیان فرما کر ہنسے اور فرمایا.اللہ تعالٰی بھی اس بندے کی اس بات پر ہنسا.اور کہا میرے بندے کو دیکھو.میری مغفرت کو دیکھ کر کتنا دلیر ہو گیا اب اپنے گناہ خود گنا رہا ہے ہے.غرض یہ بھی ایک ادا ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند آگئی.مگر ان ساری باتوں پر اگر غور کرو گے تو معلوم ہوگا کہ ایک ہی چیز ہے جو ان سب میں مشترک ہے.اور وہ اس عظیم الشان ہستی پر جو ہماری خالق و مالک ہے اعتماد اور اس سے سچی محبت ہے.اس میں شبہ نہیں بظاہر یہ اعمال چھوٹے نظر آتے ہیں مگر ان کی تہہ میں ایک اعتماد ہے اپنے رب پر اور محبت ہے اپنے خدا سے.اگر ایک طرف ایسے شخص کے گناہ بہت زیادہ ہیں تو دوسری طرف خدا سے اس کا کوئی گہرا لگاؤ بھی معلوم ہوتا ہے.یہ محبت اور لگاؤ ہی ہے جو انسان کو کھینچ کر کہیں کا کہیں لے جاتا ہے.جب کسی بندے کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت پیدا ہو جاتی ہے، تو پھر اس محبت کی چھوٹی سے چھوٹی چنگاری بھی اس کے دل میں ہو تو وہ دوزخ کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کیلئے بہت کافی ہوتی ہے.کیونکہ جس کے دل میں محبت الہی کی آگ ہے، وہ دوزخ کی آگ میں نہیں ڈالا جا سکتا.اگر ممکن ہوتا کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کی چنگاری دل میں رکھنے والا دوزخ میں چلا جاتا تو یقیناً دوزخ بھی اس کیلئے جنت ہو جاتی اور یقینا جہنم کی آگ اس کیلئے سرد کی جاتی.یہی وجہ ہے دیکھو حضرت ابراہیم مخص
خطبات محمود 141 سال ۱۹۳۳ء.علیہ السلام کو جب لوگوں نے آگ میں ڈالا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا.يَانَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ ہے اے آگ تیرے اندر ایک اور آگ داخل ہو رہی ہے.اب تیرا کام ہے.کہ اس آگ کے مقابل میں سرد ہو جا.ابراہیم کے دل میں میری محبت کی آگ بھڑک رہی ہے.اور میرے عشق کی آگ کا کوئی آگ مقابلہ نہیں کر سکتی.جس طرح سورج کے مقابل پر شمعیں ماند پڑ جاتیں ہیں، اسی طرح میری محبت کی آگ کے مقابلہ میں تیری آگ کوئی حیثیت نہیں رکھتی، پس ابراہیم کیلئے تو سرد ہو جا.جس طرح انگارا کے مقابلہ میں کسی اور گرم چیز کی گرمی کم محسوس ہوتی ہے.اسی طرح اللہ تعالی کی آگ ایسی شدید ہے کہ دوسری تمام آگیں اس کے مقابلہ میں سرد پڑ جاتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بھی الہام ہے آگ.آگ سے ہمیں مت ڈرا آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے شے.اس کا بھی مفہوم ہے کہ ہمارے دل میں تو عشق الہی کی آگ شعلہ زن ہے.اس آگ کے مقابلہ میں ظاہری آگ کی کیا حیثیت ہے.ایک گرم تو ا انسان کے ہاتھ کو تو جلادیتا ہے مگر انگارے کو نہیں جلا سکتا.اسی طرح آگ اس شخص کو نہیں جلا سکتی جس کے دل میں اللہ تعالی کی محبت کی آگ بھڑک رہی ہو.میں لحاظ میں جب چھوٹا تھا تو اُس وقت میں نے ایک رؤیا دیکھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر مقدمہ دائر تھا.اور آپ کی عادت تھی کہ مشکلات میں دوسروں کو بھی دعا کرنے کیلئے ارشاد فرمایا کرتے تھے یہاں تک کہ گھر کے بچوں کو بھی دعا کیلئے کہتے.اس مقدمہ کے دوران میں بھی سب کو دعا کیلئے فرمایا.اور مجھے بھی کہا.مارٹن کلارک والا مقدمہ تھا.اُس وقت میری عمر نو دس سال کے قریب ہوگی.میں نے دعا کی اور پھر میں نے ایک رؤیا دیکھا جو اُس زمانہ کے نہایت عجیب تھا.میں نے دیکھا کہ میں گھر میں داخل ہونے لگا ہوں اور وہ گلی جو ہماری ڈیوڑھی کی طرف جاتی ہے اور پھر میرے بڑے بھائی مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے گھر کی طرف چلی جاتی ہے، اُس میں داخل ہوا ہوں.راستے میں میں نے دیکھا کہ پولیس والے کھڑے ہیں.اُس زمانہ میں ہمارے گھر میں ایک تہہ خانہ ہوتا تھا جسے اب بند کردیا گیا ہے.اُس کی سیڑھیوں میں جو ٹوٹ جانے کی وجہ سے ناقابل استعمال تھیں اُپلے اور ٹوٹا پھوٹا سامان پڑا رہتا تھا.میں جب اندر داخل ہونے لگا.تو پہلے تو پولیس والوں نے روکا مگر میں داخل ہو گیا.اندر جاکر میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کھڑے ہیں.اور آپ کے •
خطبات محمود ۱۶۲ سال ۱۹۳۳ء ارد گرد اُپلے وغیرہ لوگوں نے رکھے ہوئے ہیں.جس سے میں یہ سمجھا کہ گویا لوگ آپ کو جلانا چاہتے ہیں.میں گھبرا کر اس میں روک بننا چاہتا ہوں مگر لوگ مجھے آگے آنے نہیں دیتے.اتنے میں میں دیکھتا ہوں کہ انہوں نے جلدی جلدی دیا سلائی جلانی شروع کی اور کوشش کی کہ آگ لگا دیں مگر آگ لگی نہیں.میں اسی گھبراہٹ میں ہوں کہ میری نظر دروازے کے اوپر کے حصہ پر پڑی.میں نے دیکھا کہ وہاں موئے حروف میں لکھا ہوا ہے.”ہمارے پیارے بندوں کو کوئی نہیں جلا سکتا.غرض اللہ تعالی کی محبت کی آگ جب کسی کے دل میں ہو تو کوئی آگ اسے نہیں جلا سکتی.ممکن ہے کہ کبھی بشری کمزوریوں کی وجہ سے، کبھی صحت کی خرابی کی وجہ سے، بھی بد صحبت اور کبھی تعلیمی غلطیوں کی وجہ سے وہ گناہوں میں مبتلا ہو جائے.لیکن اگر اللہ تعالی کی محبت کی آگ اس کے دل میں ہوگی تو وہ اسے ان تمام گناہوں سے ایک نہ ایک دن نکال کر لے آئے گی بشرطیکہ حقیقی محبت ہو، بناوٹی اور سطحی نہ ہو.دل میں ایک سوز ہو ایسا سوز جو ہر روز اور ہر دن اس کے دل میں زیادہ سے زیادہ جلن پیدا کرتا رہے.یہی وہ سوز ہے جس کے پیدا کرنے کیلئے انبیاء صیہم السلام آئے.اسی سوز کے پیدا کرنے کیلئے دین آئے.یہی وہ سوز ہے جس کیلئے روزے رکھے جاتے ہیں.نمازیں پڑھی جاتیں اور حج کیا جاتا ہے.حج کیا ہے؟ ماں کی محبت کا ایک نظارہ ہے جس کی یاد تازہ کرائی جاتی ہے.صفا اور مروہ پر بڑے بڑے مہذب آدمی جو بیٹھنے سے اٹھنے پر ہی کئی منٹ لگادیتے ہیں جو وقار سے چلتے اور تیز چلنے والوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ کیسے چھچھورے ہیں.ایسے مہذب لوگ بھی ایک بے سلا کپڑا کفن کی طرح لپیٹ لیتے اور صفا سے مروہ اور مروہ سے صفا تک دوڑے چلے جاتے ہیں.وہاں بازار لگا ہوا ہوتا ہے.اونٹ گدھے اور گھوڑے گزر رہے ہوتے ہیں مگر وہ معزز جو اپنے وقار کے ماتحت لوگوں کو اس وجہ سے حقارت سے دیکھتے ہیں کہ وہ کیوں جلدی جلدی چلتے ہیں اس جگہ جب دو ستونوں کے پاس پہنچتے ہیں تو دوڑ پڑتے ہیں.محض اس لئے کہ حضرت ہاجرہ حضرت اسماعیل کو دیکھنے کیلئے وہاں دوڑی تھیں.حضرت ابراہیم" کا لایا ہوا پانی ختم ہو گیا.جب حضرت اسماعیل پیاس کے مارے تڑپنے لگے.جب ماں سے ان کی یہ تکلیف دیکھی نہ گئی تو گھبرا کر حضرت ہاجرہ قریب کی پہاڑی صفا پر اس خیال سے چڑھ گئیں کہ ممکن ہے انہیں پانی کا کوئی سراغ مل جائے یا کوئی قافلہ دکھائی دئے جس سے وہ پانی لے سکیں.مگر جب کہیں پانی کا پتہ نہ چلا تو وہ اُتریں اور پاس ہی پچاس گز کے قریب ایک اور ٹیلہ تھا
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء.اس پر چڑھ گئیں.یہی وہ ٹیلہ ہے جسے مروہ کہا جاتا ہے.انہیں وہاں سے بھی پانی کا کوئی نشان دکھائی نہ دیا.جب وہ صفا اور مروہ کے اوپر ہوتیں تو وہاں سے انہیں حضرت اسماعیل نظر آجاتے.لیکن جب نیچے اُترتیں تو وہ نظروں سے پوشیدہ ہو جاتے، اس لئے بے تابانہ طور پر وہ دوڑتی تھیں.حج کے موقع پر صفا و مروہ پر دوڑتا اسی چیز کی یادگار ہے کہ ایک ماں اپنے بچہ کو آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتی تھی.اس یاد کو تازہ رکھنے کیلئے آج بادشاہ اور غریب بڑے اور چھوٹے صاحب وقار اور غیر ذی وقار سب کو وہاں دوڑنا پڑتا ہے.خواہ ان کا دل دوڑنے کو چاہے یا نہ.میں نے دیکھا ہے لوگوں کے دوڑنے پر بعض لوگ ہنستے بھی ہیں محول بھی کرتے ہیں.بعض بدو دوڑنے والوں کے درمیان سے اپنے گدھوں کو ہانک دیتے ہیں تاکہ وہ ان کی دوڑ میں روک بن جائیں مگر لوگ دیوانہ وار دوڑتے چلے جاتے ہیں.اس لئے نہیں کہ آج وہاں کوئی زندہ نشان ہے بلکہ اس لئے کہ آج سے ہزار ہا سال پہلے حضرت ہاجرہ وہاں اس لئے دوڑی تھیں کہ ان کا بچہ ان کی نظر سے اوجھل نہ ہو.وہ ماں کی محبت کا بہترین مظاہرہ تھا.آج جو اللہ تعالٰی ہم سے یہ کام کراتا ہے تو آخر کیوں کراتا ہے.ہزاروں مائیں دنیا میں آج بھی ایسی ہیں کہ اگر انہیں اپنے بچوں کیلئے جان قربان کرنی پڑے تو کر دیں.غرض جو کچھ حضرت ہاجرہ نے کیا اس سے زیادہ کرنے والی مائیں دنیا میں آج بھی مل سکتی ہیں.مگر کیوں اللہ تعالیٰ نے حضرت ہاجرہ کے واقعہ کو تازہ رکھا اور کیوں باقی ماؤں کے واقعات کو کوئی وقعت نہیں دی جاتی.اس لئے کہ باقی مائیں اس لئے بچوں کیلئے قربانی کرتی ہیں کہ اتفاق ان کو مصیبتوں میں ڈال دیتا ہے.مگر حضرت ہاجرہ نے اپنی مرضی سے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنے آپ کو مصیبت میں ڈالا.جب حضرت ہاجرہ کو حضرت ابراہیم نے وادی غیر ذی زرع میں چھوڑا تو اُس وقت انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پوچھا اے ابراہیم! ہمیں کہاں چھوڑے جاتے ہو.یہاں تو پینے کیلئے پانی نہیں کھانے کیلئے غذا نہیں.کوئی آدمی نہیں جس سے امداد لی جاسکے.حضرت ابراہیم علیہ السلام رقت کی وجہ سے اس کا کوئی جواب نہ دے سکے.اور جب بار بار پوچھنے کے باوجود وہ خاموش رہے تو حضرت ہاجرہ نے پوچھا کیا خدا کے حکم کے ماتحت ہمیں یہاں چھوڑے جاتے ہو.انہوں نے کہا ہاں.یہ سن کر حضرت ہاجرہ معالوٹیں.اور انہوں نے کہا اگر یہ بات ہے تو پھر خدا ہمیں ضائع نہیں کرے گانا.یہ کہا اور بغیر اس خواہش کے کہ یہ معلوم کریں، حضرت ابراہیم علیہ السلام کس رستہ سے واپس جارہے.
خطبات محمود ۱۹ سال ۱۹۳۳ء پرا ہیں، وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو چھوڑ کر واپس آجاتی ہیں.اور اس یقین و توکل کے ساتھ واپس آتی ہیں کہ اگر خدا نے ہمیں اس جگہ رہنے کیلئے بھیجا ہے تو وہ خود ہمارے لئے کھانے پینے کا انتظام کرے گا.غرض حضرت ہاجرہ اور دوسری ماؤں میں یہ فرق ہے کہ دوسری مائیں مجبوری یا حالات کی وجہ سے مشکلات میں پڑتی ہیں.اور حضرت ہاجرہ نے اللہ تعالٰی کے حکم کے ماتحت اس پر توکل اور یقین رکھتے ہوئے اس مصیبت میں پڑنا قبول کیا.اللہ تعالی کی غیرت کیونکر برداشت کر سکتی تھی کہ حضرت ہاجرہ نے جب ایک عورت اور جوان عورت ہو کر جس کی امنگیں اُسے دوسری طرف لے جاسکتی ہیں، اللہ تعالی پر یقین رکھا اور اسے وفادار سمجھا تو وہ اس سے بڑھ کر اس کیلئے وفا نہ دکھلائے.اللہ تعالٰی نے جوابا کہا.ہاجرہ نے اپنے بچے کو میرے لئے قربان کیا اب میں اس کی اولاد کو کبھی قربان نہ ہونے دوں گا.اس نے میری محبت کی خاطر اپنی محبت کو قربان کر دیا، اب میں بھی اس کی محبت کو ہمیشہ قائم رکھوں گا.کوئی بادشاہ ہو یا گدا امیر ہو یا غریب، چھوٹا ہو یا بڑا ہر ایک جو خدا پر ایمان رکھنے والا ہے آئے گا اور ہاجرہ کے کام کی نقل کرے گا.تا میں دنیا کو بتاؤں کہ اگر ہاجرہ دو ستونوں کے درمیان اپنے بچے کو اپنی نظروں سے اوجھل نہیں کر سکتی تو کیا میں اپنے پیارے بندوں کو اپنی نظروں اوجھل ہونے دیتا ہوں.پس صفا اور مروہ پر دو ستونوں کے درمیان دوڑنا ہمیشہ یہ امر یاد دلاتا ہے کہ جب کچی محبت دل میں ہوتی ہے تو کوئی شخص اپنے محبوب کو نظروں سے غائب ہونے نہیں دیتا.اس کیلئے اور مثالیں بھی چینی جا سکتی تھیں مگر خدا تعالیٰ نے اس کی مثال مچنی جس نے خدا کیلئے اپنے آپ کو قربان کر دیا.جب حضرت ہاجرہ کی یاد میں صفا اور مروہ پر حاجی دوڑتے ہیں اور یہ اقرار کرتے ہیں کہ ایک ماں کی مامتا اپنے بچے کو پوشیدہ ہونے نہیں دیتی، تب رسول کریم کی یہ بات بھی یاد آجاتی ہے کہ جنگ بدر کے موقع پر ایک مشرکہ عورت کا بچہ کھویا گیا.وہ دیوانہ وار جبکہ تلواریں چل رہی تھیں، مسلمان فاتح ہو چکے تھے اور کفار کی جان خطرہ میں تھی، اپنے بچے کو تلاش کرنے لگی.اُس وقت اُس کی اپنی جان بھی خطرہ میں تھی مگر جب اُس کی قوم کے بہادر سپاہی میدان سے بھاگ رہے تھے، وہ دیوانہ وار کبھی لاشوں کو دیکھتی کبھی زندہ بچوں کو دیکھتی.آخر تلاش کے بعد اپنا بچہ اُسے مل گیا، اُس نے اُسے چھاتی سے لگالیا.اُس وقت اُسے کوئی خبر نہ تھی کہ ہمارے بہادر اس لڑائی میں مارے گئے.اسے کچھ
خطبات محمود ۱۶۵ سال ۱۹۳۳ء احساس نہ تھا کہ اس کی قوم کے سردار اس لڑائی میں کام آئے.وہ اطمینان سے اپنے بچہ کو لے کر ایک گوشہ میں بیٹھ گئی.تب رسول کریم ﷺ نے جن کی نگاہ ہر لطافت کو دیکھنے والی تھی اس نظارہ کو دیکھ کر اپنے صحابہ سے فرمایا تم نے اس کی بے تابی کو دیکھا.پھر تم نے یہ بھی دیکھا کہ بچہ ملنے پر اسے کیسا اطمینان حاصل ہو گیا.آپ نے فرمایا اللہ تعالٰی کو جب اس کا کھویا ہوا بندہ ملتا ہے تو وہ اس سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے لاہ.غرض دو ستونوں کے درمیان جب دوڑتے ہیں تو اُس وقت رسول کریم ﷺ کی یہ بات یاد آجاتی ہے کہ ماں کی محبت جو اپنے بچہ سے ہوتی ہے اس سے بہت زیادہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے محبت ہوتی ہے.تب انسان ہے کہ میرا رب بھی مجھے نظروں سے پوشیدہ نہیں کرے گا اور وہ بھی مشکلات کے موقع مجھتا میری مدد فرمائے گا.مگر کتنے ہیں جنہیں یہ یقین ہوتا ہے کہ خداتعالی انہیں ضائع نہیں کرے گا.کتنے ہیں جنہیں یہ یقین ہوتا ہے کہ خدا اُن کے دُکھ کو دیکھ کر بیتاب ہو جائے گا.پھر کتنے ہیں جنہیں یقین ہوتا ہے کہ خدا جب انہیں تکلیف میں دیکھے گا تو ان کی نصرت فرمائے گا.جانے دو اُن کافروں کو جو اللہ تعالیٰ پر یقین نہیں رکھتے، جانے دو اُن منافقوں کو جن کے دل زنگ آلود ہو چکے مومنوں میں سے کتنے ہیں جنہیں یہ یقین ہوتا ہے یقینا کم اور بہت کم.اگر انہیں خداتعالی کی محبت پر یقین اور اعتماد ہوتا، اتنا ہی جتنا حضرت ہاجرہ کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر اعتماد تھا تو یقینا کوئی بندہ ضائع نہ ہوتا.جب حضرت ہاجرہ نے یہ کہا کہ خدا مجھے ضائع نہیں کرے گا تو دیکھو کس طرح وہ بچائی گئیں.خدا تعالیٰ نے ان کیلئے وہ کام کیا جو کئی نبیوں کیلئے بھی نہ کیا تھا.حضرت اسمعیل علیہ السلام نبی ہوئے مگر بعد میں.اُس وقت نبی نہیں تھے.نبی بھی پیائے ہوئے مگر ان کیلئے چشمے نہیں پھوڑے گئے.چشمہ حضرت اسمعیل کیلئے اُس وقت پھوڑا جب ان کی کمزور ماں نے یقین اور ایمان کا پہاڑ خدا کے سامنے پیش کر دیا.ہر چیز کی اپنی نسبت کے لحاظ سے قیمت ہوا کرتی ہے.امیر آدمی اگر ایک کروڑ روپیہ بھی دے دے تو کوئی بڑی بات نہ ہوگی مگر غریب آدمی اگر ایک روپیہ بھی دے دے تو وہ بہت بڑی بات رکھے گا.حضرت ہاجرہ نے اپنی کمزوری کے مقابلہ میں جو اخلاص دکھایا وہ بہت ہی زیادہ تھا.اسی لئے خدا تعالیٰ نے اس رنگ میں انہیں نوازا.اور یہی چیز ہے جو انسان کے تمام اعمال میں نور پیدا کر دیتی ہے.خدا تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ اللهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ سے اس کے یہی معنی ہیں کہ خدا تعالیٰ کی محبت اور عشق جس چیز میں داخل ہو جائے وہ چیز روشن ہو جاتی ہے..
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ نو اس میں یہ گر بتلایا گیا ہے کہ اگر کسی چیز کو روشن کرنا ہو تو خدا تعالی کی محبت کو اس میں داخل کردو.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ چیز روشن ہو جائے گی.اگر وہ نور مکان میں نازل ہوگا تو وہ مکان روشن ہو جائے گا.اگر دل پر نازل ہو گا تو دل روشن ہو جائے گا.یہی نور جب بیت اللہ نازل ہوا تو وہ روشن ہو گیا.ورنہ بیت اللہ کیا ہے اینٹوں اور پتھروں کا ایک گھر ہی ہے.پھر یہی نور مسجد نبوی پر نازل ہوا تو اُسے منور کر دیا، ورنہ ایک گارے کی عمارت سے زیادہ اس کی کیا حیثیت تھی.پھر یہی نور جب رسول کریم ﷺ کے دل پر نازل ہوا تو آپ " سورج بن گئے.یہی معنے ہیں اللهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ کے کہ زمین و آسمان میں جس چیز کو بھی روشن کرنا ہو اس میں اللہ تعالیٰ کا نور داخل کر دو وہ منور ہو جائے گی.مکہ کی عمارت کیا ہے.ایک ادنیٰ قسم کے پتھروں کی بنی ہوئی ہے.اس کے مقابلہ میں تاج محل کی کتنی شاندار عمارت ہے.مگر کتنوں نے تاج محل سے نور حاصل کیا اور کتنوں کو مکہ سے ہدایت ملی.اسی طرح قرآن کیا ہے.وہی حروف ہیں جن کو ہم روزانہ بولتے ہیں.وہی کاغذ ہیں جن پر گندے سے گندے مضامین بھی لکھے جاتے ہیں.وہی سیاہی ہے جس سے فحش اشعار بھی لکھے جاتے ہیں.پھر انہی پتھروں کے ذریعہ قرآن چھاپا جاتا ہے جن پر غلیظ سے غلیظ گالیاں بھی چھاپی جاتی ہیں.مگر اسی سیاہی سے لکھا ہوا اور اسی کاغذ پر چھپا ہوا جب قرآن آتا ہے تو وہ دنیا کی ہدایت کا موجب بن تا ہے.یہ کیا چیز ہے.وہی ہے جسے اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ میں بیان کیا گیا ہے.چونکہ خدا اس میں آگیا اس لئے یہ دنیا کی ہدایت کا ذریعہ بن گیا.پس جہاں خدا تعالی ہے وہ ہے.اور جہاں وہ نہیں وہاں ظلمت اور سیاہی کے سوا اور کچھ نہیں.خدا تعالی کی محبت ایسی چیز ہے جو انسان کو منور کر دیتی ہے.جس دل میں یہ نہیں وہ ظلمتوں سے پُر ہے.یہ چیز ہے جو اپنے دل میں پیدا کرو.دنیا کے علوم کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے.بڑے بڑے ڈاکٹر بڑے بڑے ماہر دنیا میں ایسے ہوتے ہیں جو مصیبت کے وقت خود کشی کر لیتے ہیں.کروڑوں روپیہ روپیہ گھر میں پڑا ہوتا ہے مگر دیوالیہ کے خطرہ سے اپنے آپ کو گولی مار کر مرجاتے ہیں.ادھر رسول کریم کے ساتھیوں کا طریق عمل یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ہاتھ سے اپنے اموال کو قربان کیا جانوں کو فدا کیا، پھر بھی مایوس نہ ہوئے کیونکہ انہیں یقین تھا کہ اللہ تعالی ان کی حفاظت کرے گا.جن دشمنوں نے رسول کریم ﷺ کا تعاقب کیا اگر ایسے ہی دشمن آج یورپ کے بڑے سے بڑے بادشاہ کا بھی تعاقب کریں اور موقع پر پہنچ جائیں تو میں سمجھتا ہوں سوائے اس
خطبات محمود.196 سال ۶۱۹۳۳ کے اس کیلئے کوئی چارہ نہیں رہے گا کہ وہ ریوالور اپنے سر میں مار کر ہلاک ہو جائے.رسول کریم ﷺ کے دشمن اتنے شدید تھے کہ انہوں نے آپ کی دشمنی کی وجہ سے عورتوں کی شرم گاہوں میں نیزے مارے جلتے ہوئے پتھروں پر مردوں کو لٹایا اور قسم قسم کے دکھ پہنچائے.ایسے شدید معاند غارثور کے منہ پر پہنچ جاتے ہیں.آپ کیلئے اُس وقت بظاہر کوئی جائے پناہ نہ تھی.حضرت ابو بکر کہتے ہیں یا رسول اللہ ! دشمن اتنا قریب آچکا ہے کہ اگر وہ ذرا جھکے تو ہمیں دیکھ سکتا ہے.مگر رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا کوئی فکر کی بات نہیں، اللہ تعالی ہمارے ساتھ ہے.یہ کیا چیز تھی.محمد ﷺ اپنے تجربہ کے لحاظ سے اپنے ظاہری علوم کے لحاظ سے اس قسم کی تدابیر تو نہیں جانتے تھے جو یورپ کے جرنیل جانتے ہیں.نہ آپ کے پاس حفاظت کا کوئی سامان تھا.آج کل تو یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ جیب میں ہم ہے.دشمن کو مار دیں گے.مگر وہ کیا چیز تھی جس نے رسول کریم ﷺ کے منہ سے کہلوایا- لا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا.یہ وہی نور ہے جو اللهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ کے ماتحت آپ کے دل میں تھا.پس اللہ تعالی کی محبت ایک ایسی چیز ہے جس کے بغیر کوئی حقیقی مسکھ نہیں مل سکتا.مگر اللہ تعالیٰ کی محبت کا حصول ایک صراط پر سے گزر کر ہوتا ہے.یہ راستہ بظاہر آسان ہے بباطن مشکل مگر بعض دفعہ بظاہر مشکل اور باطن آسان ہوتا ہے.میرا دوسرا فقرہ پہلے کے خلاف نہیں بلکہ دونوں فقرے دو مختلف کیفیات کو ظاہر کرتے ہیں.جب ظاہر میں مشکل ہوتا ہے تو باطن میں آسان ہوتا ہے اور جب ظاہر میں آسان ہوتا ہے تو باطن میں مشکل ہوتا ہے.کیونکہ جہاں ہمارا ایک رحم کرنے والے خدا سے واسطہ ہے وہاں غیور خدا سے بھی واسطہ ہے وہ جہاں رحم کرتا ہے وہاں غیرت سے بھی کام لیتا ہے.اس وقت میں یہ اشارہ ہی کرتا ہوں.آج میں اس مضمون کو بیان نہیں کر سکتا.کیونکہ وقت بہت ہوچکا ہے دراصل مضمون میرا وہی تھا.اگر خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو اس حصہ مضمون کو پھر کبھی بیان کروں گا.الفضل ۲۲ - جون ۱۹۳۳ء).له بخاری کتاب التوحيد باب قول الله تعالى وجوه يومئذ ناضرة الى ربها ناظرة الخ، کتاب الرقاق باب الصراط جسر جهنم و بخاری کتاب القدر باب العمل باالخواتيم
خطبات محمود ۱۶۸ سال ۱۹۳۳ء سے عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح المومنون: ۱۵ ه السيرة الحلبيه جلد ۳ صفحه ۱۰۴ مطبع محمد على صبيح ميدان الازهر مصره ۱۹۳۵ء له بخارى كتاب الرقاق باب يَدْخُلُ الجنة سبعون ألفا بغير حساب كه بخاری کتاب المظالم باب قول الله تعالى الا لعنة الله على الظالمين الانبياء: ش تذکرہ صفحہ ۳۹۷- ایڈیشن چهارم نه بخاری کتاب الانبياء باب يزفون النسلان في المشي بخاری کتاب الادب باب رحمة الولد و تقبیله و معانقته (مفهوم) له النور: ٣٦ شرح مواهب اللدنية الجزء الثاني صفحه ۱۲۲-۱۲۳ دار الكتب العلمية بيروت لبنان ١٩٩٩ء
خطبات محمود 149 ۱۹ انتہائی قربانی کے بغیر کامل ترقی نہیں ہو سکتی (فرموده ۲۱ - جولائی ۱۹۳۳ء) سال ۱۹۳۳ء تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- چونکہ جس جگہ (پالم پور) اِن دنوں میرا قیام ہے.وہ رستہ کے لحاظ سے اور مسافت کے لحاظ سے بھی ایسی ہے کہ نہایت آسانی سے پانچ چھ گھنٹہ میں یہاں پہنچا جا سکتا ہے.اس لئے میرا ارادہ تھا کہ میں ایک دو جمعوں کے بعد آنے والے جمعہ کے دنوں میں قادیان نماز پڑھایا کروں گا.اسی ارادہ کے ماتحت اس ہفتہ میرا ارادہ تھا کہ قادیان جاؤں اور جمعہ کی نماز پڑھاؤں.اور اس کے بعد لاہور میں کشمیر کمیٹی کے اجلاس میں ہوتا ہوا واپس چلا جاؤں.اس خیال کے بعد بعض مضامین میرے ذہن میں آئے اور میں نے خیال کیا کہ ان کے متعلق خطبہ میں میں اپنے خیالات ظاہر کروں گا.لیکن آج ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ مجھے اپنا ارادہ بدلنا پڑا بلکہ اس کے اثر کے ماتحت وہ مضامین بھی ذہن سے نکل گئے.وہ واقعہ ایک رویا تھا.ایسی عجیب قسم کا رویا جس کو آنکھ کھلتے وقت میں سمجھنے سے بالکل قاصر تھا اور دل پر ایک عجیب ہیبتناک اثر تھا.مگر جوں جوں اس کی ظاہری صورت کی ہیبت دور ہوتی گئی اور تعبیر روشن ہوتی گئی، اس کے اثر کی کیفیت بھی ساتھ کے ساتھ بدلتی گئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام علم الرؤیا پر بحث فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ بعض دفعہ ایک بہت بڑے خواب کی تعبیر چھوٹی ہوتی ہے.اور بعض دفعہ چھوٹی خواب ہوتی ہے مگر اس کی تعبیر بہت بڑی ہوتی ہے.بعض خوابوں میں برا نظارہ دکھایا جاتا ہے مگر اس کی تعبیر ا چھی
خطبات محمود لکھا.14 سال ۱۹۳۳ء ہوتی ہے.اور بعض دفعہ نظارہ اچھا دکھایا جاتا ہے مگر اُس کی تعبیر بری ہوتی ہے.میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ سارا کا سارا مضمون آپ نے کسی ایک کتاب میں لکھا ہے یا متفرق مقامات پر.مگر ہے اور اس جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خواب میں ایک بہت بڑے نظارہ کی تعبیر چھوٹی ہونے کی مثال دیتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ چاند، سورج، ستارے آپ کو سجدہ کرتے ہیں.مگر تعبیر کیسی معمولی نکلی کہ ماں باپ اور بھائی ان کے تابع ہو جائیں گے.خواب میں تو دکھایا گیا کہ سورج، چاند، ستارے سجدہ کرتے ہیں مگر تعبیر یہ ہے کہ باپ، سوتیلی ماں اور گیارہ بھائی ان کی اطاعت کرتے ہیں.یہ ایک بڑی خواب کی چھوٹی تعبیر کی مثال ہے.پھر چھوٹی خواب کی بڑی تعبیر کی مثال آپ نے وہ دی ہے.جس میں مصر کے بادشاہ نے دیکھا تھا کہ سوکھی گائیں بڑی گائیوں کو کھا گئی ہیں.بظاہر یہ ایک کتنا چھوٹا سا نظارہ ہے.اور بظاہر کتنی معمولی بات ہے مگر ایسا شدید قحط پڑا کہ ہزارہا میل کے علاقہ میں سات سال تک دنیا اس سے تباہ ہوتی رہی اور آخر آٹھویں سال اللہ تعالی کی مدد آئی.اور اُس نے اِس بلا کو دور کیا.اسی طرح کبھی برا نظارہ ہوتا ہے مگر تعبیر اچھی ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے بعض خوابوں کی تعبیریں بیان فرمائی ہیں.مثلاً آپ نے فرمایا کہ خواب میں پاخانہ نظر آئے تو اس کی تعبیر مال ہوتی ہے.یا خون نظر آئے تو اس کے معنی بھی مال کے ہوتے ہیں.اس کے برعکس بعض چیزیں اچھی ہوتی ہیں مگر ان کی تعبیر بری ہوتی ہے.مثلاً خواب میں گئے کھانایا بینگن کھانا یہ اچھی چیزیں ہیں، مگر تعبیر ان کی رنج و غم کا پہنچتا ہے.اسی طرح اگر کوئی شخص بکر الٹکا ہوا دیکھے تو اس کے معنی موت کے ہوتے ہیں.یا کچا گوشت دیکھے جو سَیدُ الطَّعَامِ لَحْم کے مطابق بہت اچھی چیز ہے مگر اس کی تعبیر بھی غم ہے.تو خوابوں کی تعبیر کا عجیب معاملہ ہوتا ہے.خواب میں ایک شخص اپنے دوست کے متعلق دیکھتا ہے کہ وہ مرگیا ہے لیکن مراد اس سے یہ ہوتی ہے کہ وہ دین میں کامل ہو گیا یا اس کی زندگی لمبی ہوگی.ہاں بعض دفعہ اس سے بے دینی بھی مراد ہوتی ہے.خواب میں ہنستا ہمیشہ برا ہوتا ہے مگر رونے کی تعبیر خوشی ہے.سونا دیکھے جو ایک قیمتی چیز ہے تو اس کے معنی رنج کے ہوتے ہیں لیکن اگر چاندی دیکھے جو سونے کے مقابلہ میں بہت کم قیمت رکھتی ہے تو اس کے معنی خوشی اور ترقی کے ہوتے ہیں.یہ سب تعبیریں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے مختلف مقامات پر لکھی ہیں.پھر آپ نے یہ بھی تحریر فرمایا ہے کہ بعض دفعہ انسان
خطبات محمود 121 سال ۱۹۳۳ء ایک رویا دیکھتا ہے جس کے ساتھ بعض کیفیات ہوتی ہیں.جو اصل میں خواب کا حصہ نہیں وتیں بلکہ دنیا سے متعلق ہوتی ہیں.مثلاً ایک شخص دیکھتا ہے کہ وہ گنا کھاتا اور خوش ہو رہا ہے یا بینگن کھا کر خوش ہو رہا ہے مگر مراد اس سے غم ہی ہے.یہ خوشی دراصل دنیا سے متعلق کیفیت ہے.چونکہ وہ گنے یا بینگن کو دیکھ کر دنیا میں خوش ہوتا ہے.اس لئے وہ خوشی خواب کا حصہ نہیں.یا ایک شخص بیان کرتا ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا کوئی شخص کچا گوشت تقسیم کر رہا ہے اور میں نے اس کے ساتھ لڑ کر اپنا حصہ بھی لے لیا تو یہ شوق اور خوشی دنیا کا حصہ ہے.جو اسے گوشت کو دیکھ کر حاصل ہوئی.اصل خواب گوشت دیکھنا ہی ہے.یا مثلاً ایک شخص خواب میں دیکھتا ہے کہ اس کا کوئی دوست مرگیا.اور وہ روتا ہے تو یہ رونا دنیا کی کیفیت ہے جو دوست کے مرنے پر پیدا ہوتی ہے.اصل یہی ہے کہ اس کے دوست کی عمر بڑھے گی یا اللہ تعالیٰ کی محبت اس کے اندر پیدا ہوگی.اسی طرح ایک شخص سونے کے کنگن خواب میں دیکھتا ہے اور خوش ہوتا ہے.یہ خوشی اس لئے ہے کہ وہ سونے کو دنیا میں اچھا سمجھتا ہے، ورنہ تعبیر اس کی اچھی نہیں.رسول کریم ﷺ نے خواب میں سونے کے کنگن دیکھے لیکن ! آپ چونکہ معرفت میں کامل تھے.اس لئے آپ نے انہیں پسند نہیں کیا.چنانچہ فرمایا کہ میں نے پھونک ماری اور وہ اُڑ گئے.اس کی تعبیر آپ نے یہ فرمائی کہ دو کاذب مدعی میرے مقابل پر آئیں گے مگر ناکام رہیں گے اہ.غرض میں جب رؤیا دیکھنے کے بعد اٹھا تو میری عجیب کیفیت تھی اور یہ ایسا نرالا رویا تھا جو کسی اثر کے ماتحت بالکل نہیں ہو سکتا.اور اگر اس کی تعبیر مجھ پر جلد نہ کھل جاتی تو ایک لمبے عرصے تک میرے لئے تعجب اور پریشانی کا موجب بنی رہتی.وہ رویا یہ ہے کہ میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ ایک کمرہ ہے جس کی بہت سی مشابہت اس گول کمرہ سے ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعوئی سے پہلے مہمانوں کیلئے اور اپنے آرام کیلئے بنوایا تھا.ہم چھوٹے چھوٹے تھے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام اس میں مہمانوں کے ساتھ کھانا کھایا کرتے تھے.اور اگر مجالس مسجد میں نہ فرماتے تو وہاں بیٹھتے تھے.رویا میں مجھ پر یہ اثر تو نہیں کہ یہ وہی گول کمرہ ہے مگر مشابہت اس سے ضرور ہے.میں دیکھتا ہوں کہ میں اس کے اندر ہوں.وہاں ایک میز پڑی ہے.ایک کرسی اس کے ایک طرف اور ایک دوسری طرف ہے شاید کوئی تیسری بھی ہو.مگر مجھے اُس وقت خیال نہیں.جو کرسی شمال کی طرف ہے اس پر ایک ایسا شخص بیٹھا ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ سلسلہ کا دشمن
خطبات محمود ۱۷۲ سال ۱۹۳۳ء بیٹھے ہے.دوسری پر میں سمجھتا ہوں کہ میں بیٹھا تھا.ہم سے ہٹ کر مشرق کی طرف کچھ لوگ اور ہیں جو ابتداء میں ہماری طرف متوجہ نہیں تھے.میز پر ایک چھوٹی سی شیشی یا گلاس جیسا عرب لوگ قہوہ نوشی کیلئے استعمال کرتے ہیں اور ایک بوتل ہے.جس میں میں سمجھتا ہوں زہر ہے.میں نے بوتل میں سے کچھ قطرے گلاس میں ڈالے ہیں اور پانی یا کوئی اور پینے کی چیز حل کرنے کیلئے اس میں ملائی ہے.گویا میں اُسے پینا چاہتا ہوں.رویا میں ہی مجھ پر یہ اثر ہے کہ یہ ایسا زہر ہے جو قاتل ہے اور جس سے خود کشی کی جاتی ہے.اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ دشمن سلسلہ بھی یہی سمجھتا ہے کہ میں خود کشی کر رہا ہوں.اور چاہتا ہوں کہ وہ یہی سمجھتا رہے.لیکن میں بخوبی جانتا ہوں کہ پینے کیلئے میں نے جو ڈالا ہے وہ اتنا زہر نہیں کہ ہلاک کر سکے بلکہ اتنی مقدار دوائی ہے.ہاں مخالف یہی سمجھتا ہے کہ یہ خود کشی کرنے لگا ہے.اتنے میں میں نے مڑ کر دوسرے لوگوں کی طرف دیکھا.اور پھر مڑا ہوں کہ اس زہر کو پی لوں.مگر خیال آیا کہ شاید اس مخالف نے میرے دوسری طرف متوجہ ہونے پر اس میں زہر کی مقدار زیادہ نہ کردی ہو اور حیران ہوں کہ اب کیا کروں.آخر میں فیصلہ کرتا ہوں کہ اسے گرادوں اور پھر مقررہ مقدار ڈال کر پیئوں.لیکن ساتھ ہی مجھے یہ بھی خیال ہے.کہ یہ مخالف جو سمجھتا ہے کہ میں خود کشی کرنے لگا ہوں.اس پر ظاہر ہو جائے گا کہ یہ خود کشی نہیں کر رہا.اس پر خیال کرتا ہوں کہ اسے نہیں پھینکوں گا.لیکن پھر خیال آتا ہے کہ ممکن ہے اس نے اور زہر ملادیا ہو اور پھر اسے پھینک دینے کا فیصلہ کرتا ہوں.مگر جب پھینکنے لگتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ یہ کہے گا اگر واقعی خود کشی کرنے لگا تھا تو اور چند قطرے ملا دینے کی وجہ سے ڈر کیوں گیا.یہ بات اُس کے ارادہ کی اور زیادہ محمد ہوتی اور اس کیلئے آسانی پیدا کرتی.اور واقعی جب میں پھینکنے لگتا ہوں تو وہ یہی اعتراض کرتا ہے.کہ اگر واقعی آپ خود کشی کرنے لگے تھے تو پھر اسے پھینکنے نے کی کیا وجہ ہے مگر میں اسے گرا دیتا ہوں اور پھر اپنے ہاتھ میں بوتل لے کر اس میں اتنے ہی قطرے ڈالتا ہوں جو میں سمجھتا ہوں انتہائی خوراک ہے.اور پھر گلاس کو بھی اور بوتل کو بھی اپنے ہاتھ میں پکڑے رکھتا ہوں تاکہ میری نگاہ ادھر اُدھر ہونے پر اس میں وہ پھر اضافہ نہ کردے.جو لوگ پرے ہٹ کر بیٹھے ہیں، ان میں سے بھی بعض اپنے دوست معلوم ہوتے ہیں.ان میں سے ایک کو دیتا ہوں کہ اس میں پانی یا عرق ڈال دو.یہ رویا ہے جو میں نے دیکھا اور ظاہر ہے کہ ایک مومن کیلئے خودکشی کی ظاہری شکل
خطبات محمود 147 سال ۱۹۳۳۳ء بھی ایسی بھیانک ہے کہ رؤیا دیکھتے ہوئے یک لخت میری آنکھ کھل گئی.اور اس کا میرے دل ایک عجیب بوجھ تھا.میں اسے دل سے نکالنا اور بھلانا چاہتا تھا مگر یہ پھر غالب آجاتی تھی یہاں تک کہ میں نے اسے بھلانے کی بجائے سمجھنے کی کوشش شروع کردی.اور غور کرنے پر مجھے معلوم ہوا کہ یہ تو ایک نہایت عجیب بات تھی.اور اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ جب کبھی کسی مومن جماعت کو اللہ تعالی قائم کرتا ہے تو اس کے سپرد ایسے کام کر دیتا ہے جنہیں لوگ خود کشی سمجھتے ہیں ان جماعتوں سے اللہ تعالی کی راہ میں اپنی جانیں، اپنے مال اپنے اوقات اور اپنی عزت و آبرو سب کچھ قربان کر دینے کا مطالبہ کیا جاتا ہے.یہاں تک کہ لوگ کہنے لگ جاتے ہیں کہ یہ پاگل ہیں اور خود کشی کر رہے ہیں.لیکن اللہ تعالٰی ان لوگوں کیلئے ایک نگران مقرر کرتا ہے جو اس بات کا اندازہ کرتا رہتا ہے کہ جماعت کی قربانی آخری حد سے آگے نہ بڑھنے پائے.اور ان کیلئے زہر کا مترادف نہ ہو جائے بلکہ اس سے نیچے نیچے رہے.اور حقیقت یہ ہے کہ سب زہر ایک مقررہ حد تک نہایت مقوی ہوتے ہیں.سنکھیا خطرناک قسم کا زہر ہے.مگر پرانے ملیریا میں جب کونین دیتے دیتے تھک جائیں تو اس کی مقررہ مقدار سے فائدہ ہوتا ہے.پھر آتشک جیسے موذی مرض کا علاج بھی پارہ اور سنکھیا وغیرہ زہروں کے مرکبات سے کیا جاتا ہے.اسی طرح سرطان اور پرانے زخم وغیرہ جو اچھے نہیں ہوتے ان میں بھی سنکھیا وغیرہ کھلاتے یا اس کی دھونی دیتے ہیں.اسی طرح افیون بھی زہر ہے مگر ہزارہا ادویات میں اس کا استعمال ہوتا ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ افیون آدھی طب ہے.پھر بیش ایک نہایت خطرناک زہر ہے جس کی تھوڑی سی مقدار بھی انسان کو ہلاک دیتی ہے.مگر بیش ہی ہے جس سے گری ہوئی طاقت کو دوبارہ قائم کیا جاتا ہے.جن لوگوں کو مردانہ قوتوں کے متعلق مایوسی ہو چکی ہو وہ ربیش وغیرہ کے نسخوں سے ہی صحت یاب ہوتے ہیں.غرض جب اللہ تعالی کوئی رسول مبعوث کرتا ہے تو اس کے ساتھ جو دینی تعلیم ہوتی ہے اس کے رو سے ایسی قربانیاں کرنی پڑتی ہیں کہ ایک حد سے گزر کر خودکشی کے مترادف ہو جاتی ہیں مگر اس سے نیچے نیچے وہ ترقی کیلئے ضروری ہوتی ہیں.جیسے قرآن کریم میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو کیونکہ اس کے بغیر روحانی زندگی حاصل نہیں ہو سکتی.مگر اتنا نہیں کہ بالکل تہی دست ہو جاؤ اور نہ ہی ہاتھوں کو بالکل روک رکھو.اسی طرح جانوں کی قربانی کا حکم ہے.قرآن کریم میں جنگ احد کے متعلق آتا ہے کہ منافق کہتے اگر ہمیں علم ہوتا لڑائی کر
خطبات محمود ۱۷۴ سال ۱۹۳۳ء ہوگی تو ہم ضرور رسول اللہ ﷺ کا ساتھ دیتے ہے.اس کے یہ معنے نہیں کہ انہیں علم نہیں تھا کہ لڑائی ہو گی.بات یہ ہے کہ انہوں نے مشورہ دیا تھا کہ لڑائی کیلئے مدینہ سے باہر نہ ں.اور اس پر دو روز سخت بحث ہوتی رہی.منافق باہر نکل کر لڑنے کو خود کشی قرار دیتے تھے اور جب وہ یہ کہتے کہ اگر ہمیں لڑائی کا علم ہوتا تو ضرور جاتے تو اس کا مطلب یہی تھا کہ ہم تو اسے لڑائی نہیں بلکہ خود کشی سمجھتے تھے اس لئے نہ گئے.تو منافقوں نے اس وقت یہی کہا کہ یہ خودکشی ہے مگر اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ یہ خود کشی نہیں.جب تک اس طرح جانیں قربان نہ کی جائیں اور ایسی انتہائی قربانی نہ کی جائے کہ اس سے ایک قدم آگے خود کشی ہو اور دشمن کی نظر میں وہی خود کشی ہو کمزور ایمان والے ساتھی بھی اسے خود کشی ہی سمجھتے ہوں.لیکن ہم اللہ تعالی کی طرف سے عطا کردہ علم کی روشنی میں جانتے ہوں کہ یہ خود کشی نہیں.یہ نکتہ تھا جو اللہ تعالی نے اس خواب کے ذریعے مجھے بتایا.یہ نظارہ بتاتا ہے کہ ایک ایسی حد تک قربانی کرو کہ اگر ایک قدم بھی آگے بڑھو تو خود کشی بن جائے.اور اگر اس حد سے پیچھے رہو تو قربانی مکمل نہ ہوگی اور فائدہ نہیں ہوگا.پس میں سمجھا کہ اللہ تعالی کا منشاء یہی ہے کہ میں خطبہ میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاؤں اور بتاؤں کہ اگر ترقی چاہتے ہو تو اپنی قربانیوں کو اس حد تک پہنچادو کہ اُس سے ایک قدم آگے خود کشی ہو.پس کیا بلحاظ اموال، اوقات اور کیا بلحاظ جانوں کے عزیز و اقارب کے وطن اور رشتہ داروں کی محبت اور عزت و آبرو کے قربانی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرو.اور سب لحاظ سے قربانی کو اس حد تک پہنچا دو کہ دشمن کی نظر میں تو وہ صریح خود کشی ہو مگر ہم جانتے ہوں کہ وہ خود کشی نہیں.ہاں اس سے ایک قدم آگے ضرور خود کشی ہے.یہ چیز ہے جس سے جماعت ترقی کر سکتی ہے اور جب تک یہ نہیں ہوگی کامیابی محال ہے.اس وقت تک جس قسم کی قربانیوں کو ہماری جماعت کے لوگ قربانیاں سمجھتے ہیں، ویسی تو بہت سی دوسری قومیں بھی کر رہی ہیں.حالانکہ مومن و غیر مومن میں فرق یہی ہے کہ غیر مومن موت سے ڈرتا ہے مگر مومن ہرگز نہیں ڈرتا.اور جب غیر مومن بھی ویسی ہی قربانیاں کرتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہماری قربانیاں موت کے مترادف نہیں.کیونکہ مومن موت کو خوشی سے قبول کرتا ہے لیکن غیر مومن اس سے ڈرتا ہے.پس معلوم ہوا ہے کہ جو قربانی ہم کرتے ہیں وہ موت کی حد تک نہیں پہنچی.وگرنہ
خطبات محمود ۱۷۵ سال ۱۹۳۳ء غیر مومن ویسی قربانی نہ کر سکتا.ہمیں دیکھنا چاہیئے کہ کیا ہماری قربانیاں اس حد تک پہنچ گئی ہیں کہ دشمن کہہ رہے ہوں کہ یہ خود کشی کر رہے ہیں.ہر جماعت کو اور ہر فرد کو اپنی اپنی جگہ سوچنا چاہیے کہ کیا ہماری جانی و مالی قربانیاں ایسی ہیں کہ دشمن کہیں اب نہیں بچ سکتے.یہ اپنے ہاتھوں موت کے منہ میں جارہے ہیں.کیا ہمارے وقت اور عزت و آبرو کی قربانی اس حد تک پہنچ چکی ہے.اگر پہنچ گئی ہے تو وہ جماعت یا فرد سمجھ لے کہ اس نے ایک حد تک انتہائی قربانی کی.لیکن اگر یہ نہیں ، اگر دشمن اس کی بجائے یہ اعتراض کرتا ہے کہ ان میں اور ہم میں کیا فرق ہے؟ دونوں روپیہ خرچ کرتے ہیں، اوقات خرچ کرتے ہیں.اگر یہ عزت کی قربانی کر سکتے ہیں تو ہم بھی موقع آنے پر اس سے دریغ نہیں کرتے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہماری قربانیاں اس حد تک نہیں پہنچیں جو انتہائی قربانی کی حد ہے.یہ امر کہ ہماری قربانیاں انتہائی حد کو پہنچ گئی ہیں دو ہی طریق سے معلوم ہو سکتا ہے.ایک یہ کہ خداتعالی خود کہہ دے اور الہام کے ذریعہ بتادے.یا پھر نتائج کے ذریعہ پتہ لگ جائے یعنی اللہ تعالیٰ ایسے نتائج پیدا کردے کہ دنیا کے قدم اس قوم کے سامنے لڑکھڑا جائیں اور دشمن پر لرزہ طاری ہو جائے.اگر تو الہام ہو یعنی خدا تعالیٰ کہہ دے کہ تمہاری قربانیوں کی مقدار پوری ہو چکی تو ایسا انسان سمجھ لے کہ اس نے اپنا حق ادا کردیا.جیسا کہ قرآن کریم میں صحابہ کے متعلق آتا ہے.فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ ہے.یعنی ان میں سے بعض نے اپنا حق پورا ادا کر دیا اور بعض منتظر ہیں کہ موقع ملے تو ادا کریں.یہ اشارہ ایک صحابی ہے کے متعلق ہے جو جنگ میں شریک نہ ہو سکے تھے.لیکن اس کا انہیں اس قدر افسوس اور رنج تھا کہ جس طرح کسی عزیز کی موت کا ہو سکتا ہے.وہ کہتے تھے محمد رسول الله ان جنگ کیلئے تشریف لے گئے اور اپنی جان کو خطرے میں ڈالا اور میں شامل نہ ہو سکا.اس سے بڑھ کر افسوسناک بات اور کیا ہے.ایسی حالت میں بے اختیار ان کے منہ سے نکلا.اچھا پھر موقع آنے دو میں بتاؤں گا کہ کس طرح جنگ کی جاتی ہے.پھر وہ ایک دوسری لڑائی میں شامل ہوئے اور ایسی جنگ کی کہ واقعی حق ادا کر دیا لیکن اتفاق ایسا ہوا کہ اللہ تعالٰی کی بعض مصلحتوں کے ماتحت مسلمانوں کو پیچھے ہٹنا پڑا اور رسول کریم اللہ سے مسلمان جدا ہو گئے.اُن کی بھاگنے کی قطعا نیت نہ مگر پھر بھی حالت ایسی ہو گئی تھی کہ انہیں میل پاؤ میں پیچھے ہٹنا پڑا.اس افراتفری میں ایک وقت ایسا آیا کہ رسول کریم ال ان کے ساتھ ایک وقت صرف ایک درجن اور ایک
خطبات محمود 124 سال ۱۹۳۳ء تو پانچ چھ ہی صحابہ رہ گئے.اُس وقت رسول کریم ﷺ کو ایک پتھر لگا اور آپ بے ہوش ہو کر گر پڑے.اور وہ صحابہ جو آپ کے ساتھ تھے وہ بھی یا تو شہید ہو گئے اور یا زخمی ہو کر آپ کے ارد گرد گر پڑے.اُس وقت صحابہ کفار پر حملہ کر رہے تھے کہ کسی نے آنحضرت ا کی شہادت کی خبر مشہور کر دی.اُس وقت ایسا زبردست ریلا ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی جو آخر تک آپ کے ساتھ رہے تھے، آپ سے جُدا ہو گئے.اور اس وحشت ناک خبر سے دلگیر ہو کر ایک صحابی بیٹھ گئے.اتنے میں وہی صحابی ادھر سے گزرے انہیں یہ واقعہ معلوم نہ تھا.اور یوں بھی مسلمان لڑائی سے بالکل نہ ڈرتے تھے.اسے ایک معمولی چیز سمجھتے تھے.وہ اُس وقت ہاتھ میں کھجوریں لئے کھاتے جارہے تھے.انہوں نے دوسرے صحابی سے اس طرح بیٹھنے کی وجہ پوچھی اور جب اس نے سنایا کہ رسول کریم ا ا ا ا ا ا ا ا شہید ہوگئے ہیں تو وہ کہنے لگے اگر رسول کریم شہید ہو چکے ہیں تو ہمیں زندہ رہ کر کیا کرتا ہے.چلو جہاں آپ گئے ہیں وہیں ہم بھی چلیں.یہ کہہ کر لڑائی میں کود پڑے اور شہادت کے بعد جب اُن کی لاش کو دیکھا گیا تو اس پر قریباً اسی (۸۰) زخم تھے ھے.اللہ تعالیٰ نے قضى نَحْبَہ میں انہی کی طرف اشارہ کیا ہے انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ اگر کبھی موقع آیا تو دکھادوں گا کہ جنگ کس طرح کرتے ہیں اور فی الواقع دکھا دیا.خداتعالی فرماتا ہے.مِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ - یعنی ایسے بھی ہیں جو حق ادا کرنا چاہتے ہیں.مگر اللہ تعالیٰ کی مشیت سے وہ پھر بچ جاتے ہیں.یہ وہ جماعت ہے جس کے متعلق اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اس نے اپنے مقصد کو پالیا.بعض لوگ اپنے لئے ایک گول (GOAL) مقرر کرلیتے ہیں اور پھر عمل سے وہاں پہنچ کر دکھا دیتے ہیں.مگر بعض کو موقع نہیں ملتا ، ہاں وہ دل میں ضرور خواہش رکھتے ہیں کہ کاش! ہمیں بھی ایسا موقع میسر آئے.جس وقت حضرت خالد بن ولید کی موت کا وقت قریب آیا اور دوست احباب عیادت کیلئے آئے تو آپ بے اختیار رو پڑے.دوستوں نے پوچھا آپ کیوں روتے ہیں؟ آپ نے تو اسلام کی بہت خدمات کی ہیں.انہوں نے کہا کہ میں موت کے ڈر سے نہیں روتا بلکہ اس کی وجہ اور ہے.میرے بدن سے کپڑا اُٹھا کر دیکھو.سر سے لے کر پاؤں تک کوئی ایک انچ جگہ بھی ایسی ہے جہاں زخم نہ لگ چکا ہو.اور جب انہوں نے دیکھا تو واقعی کوئی ایک انچ جگہ ایسی نہ تھی جہاں زخم کا نشان نہ ہو.آپ نے کہا کہ میں ہر جنگ میں شریک ہوا.اور ہر موقع پر میں نے اپنے آپ کو خطرہ میں ڈالا تاکہ شہادت کا درجہ
خطبات محمود 166 سال ۱۹۳۳ء پاؤں.مگر افسوس کہ آج میں چارپائی پر پڑا مر رہا ہوں اور مجھے میدانِ جنگ میں شہادت نصیب نہ ہوئی ہے.حضرت خالد بن ولید " جنگوں میں شریک ہوتے رہے ہیں.کون کہہ سکتا ہے کہ انہیں شہادت نصیب نہیں ہوئی.تلوار کا ہر زخم جو اُنہیں لگا ان کیلئے شہادت تھی.مگر منشاء الہی یہی تھا کہ اُن کی وفات ان کے زخموں سے نہ ہو.غرضیکہ یہی وہ قربانی ہے جس کے نتیجہ میں ترقی حاصل ہو سکتی ہے.جسے دشمن خود کشی سمجھے مگر مومن جانتا ہو کہ اگرچہ یہ خود کشی نظر آتی ہے مگر میرے لئے خود کشی نہیں بلکہ ترقی کا ذریعہ ہے.پھر یہی وہ قربانی ہے جسے دیکھ کر منافق کہتے ہیں کہ یہ لوگ بیوقوف ہیں.اور پھر ہمیں بھی بیوقوف بنانا چاہتے اور کہتے ہیں کہ تم بھی اسی طرح قربانی کرو.غرضیکہ دشمن اور کمزور ساتھی سب اسے ہلاکت سمجھتے ہیں مگر مومن جانتا ہے کہ یہ زندگی قائم کرنے کا ذریعہ ہے.یہ وہ مقام ہے جس کے ساتھ حقیقی راحت حاصل و سکتی ہے.لیکن جب تک نظر آنے والے زہر کی آخری مقدار میں سے ایک قطرہ بھی کم ہے اُس وقت تک قربانی نہیں.قربانی کے معنی موت کے ہیں.اور تم نے جو کچھ کیا اگر اس کے بعد زندہ رہ سکتے ہو تو وہ قربانی نہیں.پس اس رویا سے میں نے سمجھا کہ خود ساختہ مضمون بیان کرنے کی بجائے یہی بیان کروں اور جماعت کو بتاؤں کہ تمہارے لئے ایک دروازہ کامیابی کا کھلا ہے اور وہ موت کا دروازہ ہے.اگر اللہ تعالٰی کا قرب حاصل کرنا چاہتے ہو تو جنون کی پیدا کرو.کیونکہ جب انسان اپنی زندگی کو خدا کی راہ میں قربان کردیتا ہے، جسب دوست دشمن سب سمجھنے لگتے ہیں کہ یہ مرنے لگا ہے اور جس وقت صرف ایک کھڑکی کھلی ہوتی ہے جس سے اللہ تعالی کی آواز آتی ہے جو بتاتی ہے کہ یہ ہلاکت نہیں.مگر انسانی علم زندگی نہ کہہ سکے صرف خدا کا علم ہی بتائے کہ یہ موت نہیں، اُس وقت تم حقیقی ترقی حاصل کرسکتے ہو.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں دیکھو مسلمانوں میں کیسی نیکی کیلئے رقابت پائی جاتی تھی.کسی شخص نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ کام تو آپ نے بھی بڑے بڑے کئے ہیں پھر کیا وجہ ہے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تعریف لوگ زیادہ کرتے ہیں.آپ نے فرمایا ابوبکر" کا مقام اُسی کے ساتھ ہے.میرے دل میں بھی نیکی میں اُن سے آگے بڑھنے کا خیال تھا.ایک دفعہ رسول کریم ان نے مالی قربانی کا ارشاد فرمایا اور رقابت کے خیال سے میں نے اپنے دل میں کہا کہ میں آج ابوبکر کو شکست دوں گا چنانچہ آپ نے اپنا آدھا مال لیا اور رسول کریم ان کی خدمت میں حاضر کر دیا.اُس وقت میرا دل فخر سے پر تھا کہ آج میں حالت ات
خطبات محمود ۱۷۸ سال ۶۱۹۳۳ ނ " ابوبکر سے بڑھ جاؤں گا.لیکن جب میں وہاں پہنچا تو ابوبکر پہلے موجود تھے.اور جو کچھ ساتھ لائے تھے، رسول کریم کے سامنے رکھا تھا.رسول کریم ال نے جو ہر طرح صحابہ کا خیال رکھتے تھے ، پہلے ان چیزوں کو دیکھا اور پھر حضرت ابوبکر کی طرف دیکھا اور دریافت فرمایا کہ ابوبکر تم نے گھر میں کیا چھوڑا ہے انہوں نے فرمایا کہ صرف خدا اور اُس کا رسول یعنی جو کچھ تھا لے آیا ہوں.حضرت عمر " کہتے ہیں یہ سُن کر میری گردن نیچی ہو گئی.اور میں نے سمجھ لیا کہ میں ابوبکر کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے.ایسی قربانیاں کرنے والے ہمارے سلسلہ میں بھی تھے اور اب بھی ہیں.ایسے لوگ اس وقت موجود ہیں جنہیں میں نے حکماً روکا ہوا ہے کہ اس زیادہ چندہ دینے کی تم کو اجازت نہیں دی جا سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بھی ایسے لوگ تھے.مجھے یاد ہے.میں ایک دفعہ حضور کی مجلس میں بیٹھا تھا کہ ایک منی آرڈر آیا جس کے کوپن پر کچھ لکھا تھا.جسے پڑھ کر آپ پر ایک عجیب کیفیت طاری ہو گئی جیسے جذبہ وفا کو دیکھ کر ایک رقت سی طاری ہو جاتی ہے.پھر آپ نے بتایا یہ منی آرڈر منشی رستم علی صاحب کا ہے اور لکھا ہے کہ حضور کی تحریر مالی تکالیف کے متعلق پہنچی.اور اللہ تعالی کی حکمت ہے کہ اس نے ساتھ ہی میرے لئے اس میں حصہ لینے کا موقع بہم پہنچا دیا یعنی میری ترقی کا حکم آگیا ہے.ان کی تنخواہ ۷۰ روپے کے قریب تھی اور ترقی ہونے پر ایک سو کم و بیش کا اس میں اضافہ ہوا تھا.انہوں نے لکھا یہ اضافہ اور جتنے عرصہ کی بقایا ترقی ملی ہے.وہ میں بھیجتا ہوں اور پہلی تنخواہ سے چندہ بھی بھیجتا رہوں گا.ہے وہ سب " حضور ر کیلئے آج بھی ایسے نمونے ہیں مگر ان لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا قرب حاصل تھا، اس لئے اُن کی قربانیاں عشق کے ساتھ ہوتی تھیں مگر افسوس کہ آج تحریکیں کرنی پڑتی ہیں.میرے دل پر ایک واقعہ کا بہت گہرا اثر ہے.منشی اروڑے خان صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عشق تھا.وہ کپور تھلہ میں رہتے تھے.اور کپور تھلہ کی جماعت کے اخلاص کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس قدر تعریف فرمایا کرتے تھے کہ آپ نے انہیں ایک تحریر بھی لکھ دی تھی جو انہوں نے رکھی ہوئی ہے کہ اس جماعت نے ایسا اخلاص دکھایا ہے کہ یہ جنت میں میرے ساتھ ہوں گے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بار بار درخواست کرتے کہ حضور کبھی کپور تھلہ تشریف لائیں.آپ نے بھی وعدہ کیا ہوا تھا کہ جب موقع ہوا آئیں گے.
خطبات محمود ۱۷۹ سال ۱۹۳۳ء ایک بار جو فرصت ملی تو اطلاع دینے کا وقت نہ تھا.اس لئے آپ بغیر اطلاع دیئے ہی چل پڑے.اور کپور تھلہ کے سٹیشن پر جب اُترے تو ایک شدید مخالف نے آپ کو دیکھا جو آپ کو پہچانتا تھا.اگر چہ وہ مخالف تھا مگر بڑے آدمیوں کا ایک اثر ہوتا ہے.منشی اروڑا صاحب سناتے ہیں کہ ہم ایک دُکان پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ وہ دوڑا دوڑا آیا اور کہنے لگا تمہارے مرزا صاحب آئے ہیں.یہ سن کر جوتی اور پگڑی وہیں پڑی رہی اور میں ننگے پاؤں اور ننگے سر سٹیشن کی طرف بھاگا.مگر تھوڑی دور جاکر خیال آیا کہ ہماری ایسی قسمت کہاں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمارے ہاں تشریف لائیں.اطلاع دینے والا مخالف ہے، اس نے مخول نہ کیا ہو.اس پر میں نے کھڑے ہو کر اسے ڈانٹنا شروع کردیا کہ تو جھوٹ بولتا ہے، مذاق اُڑاتا ہے.مگر پھر خیال آیا کہ شاید آہی گئے ہوں.اس لئے پھر بھاگا.پھر خیال آیا کہ ہماری ایسی قسمت نہیں ہو سکتی.اور پھر اسے کوسنے لگا.وہ کہے مجھے بُرا بھلا نہ کہو.میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں اس پر پھر چل پڑا.غرضیکہ میں کبھی دوڑتا اور کبھی کھڑا ہو جاتا.اسی حالت میں جارہا تھا کہ سامنے کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لارہے ہیں.تو یہ جنون والا عشق ہے.ایک طرف تو اتنی محبت ہے کہ ننگے پاؤں اور ننگے سر بھاگ اٹھے مگر پھر جب اپنے عاشق اور ان کے معشوق ہونے کا خیال آتا تو دل کہتا کہ وہ ہمارے پاس کہاں آسکتے ہیں.حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام جب فوت ہوئے ہیں تو کچھ عرصہ بعد منشی اروڑے خان صاحب قادیان آگئے تھے.ایک دفعہ آپ نے مجھے پیغام بھیجا کہ میں ملنا چاہتا ہوں.میں جو اُن ملنے کیلئے باہر آیا تو دیکھا اُن کے ہاتھ میں دو یا تین اشرفیاں تھیں.جو انہوں نے یہ کہتے ہوئے مجھے دیں کہ اماں جان کو دے دیں مجھے اس وقت یاد نہیں کہ وہ کیا کہا کرتے تھے.مگر اماں جان یا اماجی بہرحال ماں کے مفہوم کا لفظ ضرور تھا.اس کے بعد انہوں نے رونا شروع کیا.اور چھینٹیں مار مار کر اس شدت کے ساتھ رونے لگے کہ ان کا تمام جسم کانپ رہا تھا.مجھے خیال تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یاد انہیں ڈلا رہی ہے مگر وہ کچھ اس بے اختیاری سے رورہے تھے کہ میں نے سمجھا کہ اس میں کسی اور بات کا بھی دخل ہے.غرضیکہ وہ دیر تک کوئی پندرہ بیس منٹ بلکہ آدھ گھنٹہ تک روتے رہے.میں پوچھتا رہا کہ کیا بات ہے.وہ جواب دینا چاہتے مگر رقت کی وجہ سے جواب نہ دے سکتے.آخر جب ان کی طبیعت سنبھلی تو انہوں نے کہا کہ میں نے جب بیعت کی، اُس وقت میری تنخواہ سات روپیہ
خطبات محمود | A سال ۱۹۳۳ء تھی.اور اپنے اخراجات میں ہر طرح سے تنگی کرکے اس کیلئے کچھ نہ کچھ بچاتا کہ خود قادیان جاکر حضور کی خدمت میں پیش کروں.اور بہت سا رستہ میں پیدل طے کرتا تاکہ کم سے کم خرچ کر کے قادیان پہنچ سکوں.پھر ترقی ہو گئی اور ساتھ اس کے یہ حرص بھی بڑھتی گئی.آخر میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ میں حضور کی خدمت میں سونا نذر کروں.جو تھوڑی سی تنخواہ میں سے علاوہ چندہ کے پیش کرنا چاہتا تھا.لیکن جب تھوڑ تھوڑا کر کے کچھ جمع کر لیتا تو پھر گھبراہٹ سی پیدا ہوتی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھے اتنی مدت ہو گئی ہے، اس لئے قبل اس کے کہ سونا حاصل کرنے کیلئے رقم جمع ہو، قادیان چلا آتا اور جو کچھ پاس ہوتا.حضور کی خدمت میں پیش کر دیتا.آخر یہ تین پونڈ جمع کئے تھے اور ارادہ تھا کہ خود حاضر ہو کر پیش کروں گا کہ آپ کی وفات ہو گئی.گویا اُن کے تمیں سال اس حسرت میں گزر گئے.انہوں نے کیلئے محنت بھی کی لیکن جس وقت اس کی توفیق ملی حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہوچکے تھے.اندازہ ہو سکتا شخص.بظاہر یہ کتنی چھوٹی سے بات ہے.اُس وقت بھی سلسلہ کے کاموں پر ڈیڑھ دو ہزار روپیہ ماہوار خرچ ہوتا تھا.اور اب تو لاکھوں روپیہ سالانہ کا خرچ ہے اور ظاہر ہے کہ اس قدر اخراجات میں ان کے سونے کی کیا حیثیت ہو سکتی تھی.لیکن اس سے ان کے عشق کا ہے.ایک شخص اسی آرزو میں عمر گزار دیتا ہے کہ روپیہ جمع کرکے سونا نذر کرے.سوچنا چاہیے کہ آج کتنے ہیں جو اس سے ہزارواں حصہ بھی عشق رکھتے ہیں.ایک نے تمہیں سال تک کوشش کی.اب کتنے ہیں جو سلسلہ کیلئے قربانی کرنے کیلئے ایک ماہ بھی اس خواہش میں گزارتے ہیں.اس میں شک نہیں کہ اس وقت بھی ایسے لوگ ہیں.مگر ہیں جن میں قربانی کا مادہ نہیں.یہی چیز تھی.جو خدا تعالیٰ نے مجھے رویا میں دکھائی اور بتایا کہ جب تک خود کشی تک تمہاری قربانی نہ پہنچ جائے.جس وقت دشمن یہ خیال نہ کرنے لگے اب یہ مرگئے اُس وقت تک کامیابی محال ہے.پس یہ اللہ تعالی کا پیغام ہے جو میں پہنچاتا ہوں.اور یہ کوئی نیا پیغام نہیں وہی ہے جو قرآن کریم میں موجود ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں موجود ہے، آپ کے الہامات میں موجود ہے.مگر اللہ تعالی نے پھر مجھے تازہ پیغام دیا ہے جو میں نے آپ لوگوں کو پہنچادیا ہے.رسول کریم کے متعلق احادیث میں آتا ہے کہ بارش ہوتی تو آپ اس کا قطرہ زبان پر لے کر فرماتے کہ یہ میرے رب
خطبات محمود سال ۶۱۹۳۳.کا تازہ فضل ہے ہے.پس جب تک تمہارے اندر زندگی کی امید باقی ہے، وہ یاد دہانی کراتا رہے گا.مگر جب اُس نے یاد دہانی چھوڑ دی اور تم قصوں میں پڑگئے تو وہ موت کا وقت ہو گا.پس یہ اُس کی تازہ یاد دہانی ہے.لیکن دراصل وہی پیغام ہے جو اُس نے آدم ، نوح ، موسیٰ ، " عیسی ، ابراہیم اور محمد مصطفی ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیا تھا.یعنی اگر خدا کا قرب چاہتے ہو خواہ وہ فردی ہو یا جماعتی ، تو موت قبول کرو.اور صرف یہی نہیں کہ خود ہی سمجھو بلکہ دوست دشمن سب کہیں کہ یہ ہلاکت کے منہ میں جارہے ہیں.اور منافق اس موت میں تمہارے ساتھ شریک نہ ہو سکیں.دشمن خوش ہو کہ بس یہ مرنے لگا ہے.اور صرف پھیلنے کا بہانہ چاہیئے کہ یہ گیا.جب یہ مقام حاصل ہو تو پھر اللہ تعالیٰ ایسے بندوں کو مرنے نہیں دیتا.اسے اپنے بندوں کیلئے غیرت ہے.ایسی غیرت کہ اس نے ان شہداء کے متعلق جو سچ سچ مرچکے.جن کے متعلق وہ خود فرما چکا ہے کہ اس دنیا میں واپس نہیں آسکتے.جن کے متعلق رسول کریم ﷺ کو اس نے کشف میں دکھایا کہ ایک صحابی شہ کو جو جنگ بدر میں شہید ہوچکا تھا، اللہ تعالی نے اپنے حضور باریاب کیا اور اس سے پوچھا کہ تمہاری اگر کوئی خواہش ہو تو بتاؤ میں اسے پورا کروں گا.مگر جب اس نے کہا کہ میری خواہش تو ایک ہی ہے کہ مجھے پھر زندہ کیا جائے تا پھر میں تیری راہ میں مارا جاؤں اور پھر زندہ کیا جاؤں پھر مارا جاؤں تو باوجودیکہ اللہ تعالٰی نے اس کی خواہش کو پورا کرنے کا وعدہ فرمایا تھا، پھر بھی اسے فرمایا کہ اگرچہ تیری خواہش کا رد کرنا مجھ پر گراں گزر رہا ہے مگر میں عہد کرچکا ہوں کہ مردوں کو زندہ کر کے پھر دنیا میں نہیں بھیجا جائے گا ہے.غرض باوجود اس کے کہ وہ لوگ مرگئے اور اس طرح ان کی موت واضح ہو چکی.پھر بھی حکم دیتا ہے کہ ان کو مُردہ مت کہو.اور اس صحابی نے جو خواہش کی یہی اصل مقصود ہے جو اللہ تعالیٰ کے بندہ کے سامنے ہونا چاہیئے.جب تک یہ نہ ہو ترقی نہیں ہو سکتی.اور جب یہ ہو جائے تو پھر انسان کبھی نہیں مر سکتا.دیکھ لو ایک طرف تو ان لوگوں کو ایسے مُردے کہا ہے کہ جو باوجود اس قدر قرب الہی کے واپس نہیں آسکتے.ادھر اس صحابی کو یہ جواب دیتا ہے مگر ان سب باتوں کے باوجود لوگوں کو یہی حکم دیتا ہے کہ ان کو مُردے مت کہو کیونکہ وہ زندہ ہیں لاہ.اور جو ان مُردوں کو مرا ہوا کہنا برداشت نہیں کر سکتا وہ تم زندوں کو مُردہ دیکھنا کیسے گوارا کرے گا.اگر تم اس کی راہ میں مرجاتے ہو اور قبر میں دفن ہو کر کتبہ بھی لگ جاتا ہے -
خطبات محمود HAP سال ۱۹۳۳ء تو بھی اللہ تعالی کہتا ہے اگر ایسے لوگوں کو مُردہ کہا تو اس کی سزا دی جائے گی.تو یاد رکھو.راز ہے جسے سمجھ لینے کے بعد تم پر موت وارد نہیں ہو سکتی.نہ تم کو کوئی فرشتہ مار سکتا ہے، نہ کوئی بادشاہ نہ تمہیں زمین نگل سکتی ہے اور نہ آسمان کھا سکتا ہے کیونکہ جو اس مقام پر پہنچ جائے اس کیلئے موت نہیں بلکہ وہ ہمیشہ زندہ ہے (الفضل ۲۷ - جولائی ۱۹۳۳ء) ه بخاری کتاب التعبير باب اذا طار الشيئ في المنام ال عمران: ۱۶۸ کے الاحزاب: ۲۴ رم صحابی انس بن نفر تھے ، بخاری کتاب الجهاد باب قول الله عزوجل من المومنين رجال صدقوا ما عاهدوا الخ ه تاريخ الخميس جلد ۲ صفحه ۲۴۷ للنشر والتوزيع بيروت ۱۳۸۳هـ وأسد الغابة في معرفة الصحابة جلد ۲ صفحه ۹۵ بیروت لبنان ۱۳۷۷هـ ترمذی ابواب المناقب باب مناقب ابی بکر الصدیق مصنف ابن ابی شیبه الجزء الثامن صفحه ۵۵۵٬۵۵۴ مطبوعہ کراچی ۱۹۸۶ء پر اسی مفہوم کی احادیث درج ہیں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن حرام ه اسدالغابة جلد ۳ صفحه ۲۳۲ دار احیاء التراث العربی بیروت ۱۳۷۷ھ له البقرة: ۱۵۵
خطبات محمود TAY سال ۴۱۹۳۳ تمدنی ترقی اور اُس کی حفاظت کا طریق فرموده ۱۸ - اگست ۱۹۳۳ء بمقام پالم پور) تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- پچھلے خطبات میں میں نے بتایا تھا کہ کس طرح سورۃ فاتحہ میں انسانی تمدن کی ترقی کیلئے اللہ تعالی نے گر بتائے ہیں.ان میں سے ایک گرملِكِ يَوْمِ الدِّين لے میں بتایا گیا ہے.میں نے بتایا تھا کہ انسانی ترقی اور لوگوں کی زندگی آرام سے بسر ہونے کا انحصار علاوہ گزشتہ خطبات میں بیان کردہ امور کے رحیمیت پر بھی ہے.جب تک انسان یہ عادت نہ ڈالے کہ وہ خوبی کی قدر کرے، اُس وقت تک سوسائٹی اور اس کے قیام کیلئے مفید نہیں ہو سکتا.اچھی بات کو دیکھنا تمدنی ترقی اور اس کی حفاظت کیلئے ضروری ہے.لیکن جس طرح اچھی باتوں کا دیکھنا تمدن کے قیام کیلئے ضروی ہے، اسی طرح اس کیلئے بعض اور باتیں ملحوظ رکھنا بھی ضروری ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ کے الفاظ میں بیان کی ہیں.مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ میں دو باتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.ایک تو یہ کہ ہر کام کا خدا تعالیٰ نے انجام مقرر کیا ہے کوئی کام خواہ اچھا ہو یا بُرا نتیجہ پیدا کرنے سے خالی نہیں.خفیف سے خفیف کام بھی نتیجہ پیدا کئے بغیر نہیں رہتا.اس زمانہ میں وائرلیس نے یہ ثابت کردیا ہے کہ کس طرح خفیف حرکات کا غیر محدود اثر پیدا ہوتا ہے.ہزاروں میل پر ایک شخص بولتا ہے.اُس کی آواز ہوا میں ایک تغیر پیدا کردیتی ہے.ہوا کا وہ اثر ہزارہا میل پر ایک آلہ کے ذریعے بند کر لیا جاتا ہے اور اسی صورت میں ہم اسے دوسری جگہ سن لیتے ہیں.غرض وائرلیس نے ثابت کردیا ہے کہ خفیف سے خفیف
خطبات محمود ۱۸۴ سال ۱۹۳۳ء ہے حرکت بھی ضائع نہیں جاتی.ہونٹ کی حرکت ہاتھ کی حرکت سے بھی کم ہے کیونکہ ہونٹ اپنی جگہ پر ہی ہلتا ہے جبکہ ہاتھ اِدھر اُدھر حرکت کرتا ہے.اتنی خفیف حرکت اتنا اثر پیدا کر دیتی وہ اثر ہزارہا میل پر بھی کم نہیں ہوتا.دنیا چونکہ محدود ہے اس لئے ہم ہزاروں میل کہتے ہیں ورنہ اگر کروڑوں میل پر بھی سننے کا موقع ملتا تو وہاں بھی وہ حرکت سنتے.غرض کوئی چیز ضائع نہیں جاتی خواہ اچھی ہو خواہ بُری.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے بار بار ہمیں اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ غفار ہے، ستار ہے، وہ مُكَفِّرُ السَّيِّئَاتِ ہے.پس تو ہزاروں سال پہلے کا کیا ہوا ہر بُرا فعل بھی موجود ہے اور نتائج سے خالی نہیں لیکن جن کو خداتعالی معاف کردے ان کے برے اعمال اور اثرات کو وہ چھپا دیتا ہے اور ستاری سے کام لیتا ہے.اس کے مقابلہ میں نیکیاں ہیں، وہ بھی اسی طرح موجود ہیں.اور چونکہ وہ لوگوں کیلئے خوشی کا موجب ہیں اس لئے وہ اسی طرح ان کے سامنے آجاتی ہیں.گویا ہر کام کیلئے ایک يَوْمُ الدِّين ہے.اور ہر چیز کی ایک انتہاء ہے.ہر چیز کا بدلہ اُس کے وقت پر دیا جاتا ہے.جیسا کہ ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ کام ختم ہونے پر حساب کیا جاتا ہے.مالک دوسری بات مُلِكِ يَوْمِ الدِّین میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے کہ وہ انجام کے وقت کا ہے.گویا اللہ تعالٰی کا فیصلہ انسان کے عمل کے مطابق نہیں ہوتا بلکہ انسانی عمل اور پھر اس کی سزا کے نتیجہ کو مد نظر رکھ کر کیا جاتا ہے.یعنی وہ یہ دیکھتا ہے کہ میری جزاء کیا نتائج پیدا کرے گی.مالک یہ نہیں دیکھتا کہ کام کیا ہوا ہے بلکہ وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ اب مناسب کیا ہے.نوکر ہمیشہ مالک کی ہدایات کو مد نظر رکھتا ہے لیکن اگر وہ پوری طرح ان پر عمل نہ کر سکے تو مالک موقع اور محل دیکھتا ہے اور حالات کے تغیر پر حکم بدل دیتا ہے.وہ انجام کے موقع پر اپنی مالکیت کو ملحوظ رکھتا ہے.وہ یہ دیکھتا ہے کہ نتیجہ کیا اثرات پیدا کرے گا.اسی لئے کبھی ایک غلطی پر سزا دیتا ہے اور کبھی معاف کر دیتا ہے.اگر سزا دینا بہتر ہو تو سزا دے دیتا ہے اور اگر معاف کر دینا بہتر ہو تو معاف کردیتا ہے.گویا دو باتیں ہمیں سکھائی گئی ہیں جن پر انسانی تمدن اور اس کی ترقی کا انحصار ہے.ایک تو یہ کہ کاموں کا جائزہ لیا جائے اور نتائج کو نظر انداز کر دیا جائے.دنیا میں تمام سوسائٹیاں اسی لئے تباہ ہوتی ہیں کہ وہ نتائج کو نہیں دیکھتیں.ہمیں نتیجہ دیکھنا چاہیے.اگر نتیجہ خراب ہو تو کام میں نقص پیدا ہو گا.حکومتیں اسی لئے تباہ ہوتی ہیں کہ وہ کام کا جائزہ نہیں لیتیں.وہ دیکھتی ہیں کہ پولیس کام کر رہی ہے لیکن نتائج کا جائزہ نہیں
خطبات محمود ۱۸۵ سال ۱۹۳۳ء لیتیں.وہ دیکھتی ہیں کہ فلاں شعبہ میں کام کیا جاتا ہے لیکن نتائج پر غور نہیں کرتیں.وہ ایک مقام پر کھڑی ہو کر ترقی روک دیتی ہیں جو ہمیشہ نتائج نہ دیکھنے سے رُکتی ہے.ایسے حالات میں لازماً قوم سوجاتی ہے اور سوتے سوتے مرجاتی ہے.غرض ہر کام کا نتیجہ دیکھنا چاہیے صرف کام دیکھنا کافی نہیں.اگر نتائج توقع کے مطابق نہیں تو غور کریں کہ نتیجہ کا وقت ہے یا نہیں.اگر ابھی نتیجہ دیکھنے کا وقت نہیں تو کام لمبا کریں.پھر دیکھیں کہ نتائج کیا نکلتے ہیں.لیکن اگر نتیجہ کا وقت آگیا ہے اور نتیجہ توقع کے مطابق نہیں تو یا کام کرنے والوں میں نقص ہوگا یا اس کام کی تجویز ہی ناقص ہوگی.اگر کام کرنے والوں میں نقص ہو تو آدمی بدل دینے چاہئیں اور اگر سکیم ناقص ہو تو اسے بدلنے کا فکر کرنا چاہیے.اگر پھر بھی نتائج اچھے نہ نکلیں تو اس کی وجہ یہ ہوگی کہ جس چیز کے مقابلہ کی کوشش کر رہے ہیں وہ زیادہ طاقتور ہے.اس کے مقابلہ کیلئے اس سے زیادہ قوت کی ضرورت ہوگی.مثلاً اگر ہم ایک پہاڑ اکھاڑنا چاہیں تو اُس کیلئے ویسی ہی سختی سے مقابلہ کی ضرورت ہوگی.انسانی تمدن کی ترقی کیلئے دوسرا یہ امر ضروری ہے کہ اعمال کے نتائج کے جائزہ کے وقت سلوک مالکانہ ہو.اگر سزا سے کام بنے تو سزا دینا چاہیے اور اگر معاف کرنا بہتر ہو تو معاف کر دینا چاہیئے.بعض لوگ اپنی طبیعت کا لحاظ رکھتے ہیں.اگر طبیعت میں اُس وقت غصہ ہوا تو نقص پر سزا دے دی.اور اگر طبیعت اس وقت نرمی کی طرف مائل ہوئی تو اسی نوعیت کے کام پر معاف کردیا.یہ عفو نہیں اور نہ یہ سزا ہے یہ تو نفس پرستی ہے.اگر عفو اسی کا نام ہے تو دنیا میں ایسا کوئی شخص بھی نہ ہوگا.جو عفو نہ کرے.چنانچہ جابر بادشاہ بھی اپنے دوستوں کو اکثر معاف کر دیتے ہیں.ظالم شخص بھی بعض اوقات اس طرح کے عفو سے کام لے لیتا ہے.وہ کہتا ہے کہ اسلام ہے، نے ایسے عفو کی تعلیم دی ہے ، غلط کہتا ہے.اسلام نے ہرگز یہ تعلیم نہیں دی.اسلام نے جو تعلیم دی ہے وہ یہ ہے کہ موقع اور محل کے مناسب کام کرنا چاہیئے.اگر تم غصہ کی حالت میں ہو اور اُس وقت عفو مناسب ہے تو اسلام کہتا ہے کہ عفو کرو.اگر تمہاری طبیعت نرمی کی طرف مائل ہے لیکن اس وقت سزا دینا مناسب ہے تو اُس وقت سزا دو.گویا ہمیشہ نتائج مد نظر رکھو اپنے دل کی حالت کو نہ دیکھو.مالک کا یہ کام نہیں کہ وہ اپنی حالت دیکھے بلکہ اسے تو یہ امر مد نظر رکھنا چاہیئے کہ نتائج کیا ہوں گے.خدا موقع اور نتائج کو مد نظر رکھتا ہے، وہ کام کو نہیں دیکھتا.ان دو امور کے بغیر نہ کوئی فرد نہ کوئی خاندان شخص جو
خطبات محمود امور ۱۹۳۳ء اور نہ ہی کوئی قوم ترقی کر سکتی ہے.اور نہ ہی اپنی ترقی پر قائم رہ سکتی ہے.اگر کوئی قوم یہ دو ملحوظ رکھے تو تنزل کی طرف کبھی جاہی نہیں سکتی.اس میں ضعف و اختلال پیدا ہو ہی نہیں سکتا.یہ ظاہری اسباب اسے تنزل سے محفوظ رکھیں گے.باطنی اسباب پر اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی اسے تنزل سے بچائے رکھیں گے.خدا تعالی اسے تباہ نہ ہونے دے گا إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِانْفُسِهِمْ ہے.جب تک کوئی قوم اپنی حالت کو منزل سے بچانے کیلئے تدابیر پر عمل پیرا رہے گی اس وقت تک اللہ تعالی بھی اس کی حالت نہیں گرائے گا.جب تک وہ اپنی ترقی کا راستہ کھلا رکھے گی اُس وقت تک خدا تعالیٰ بھی اُس کی ترقی کا دروازہ کھلا رکھے گا.یہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو قومیں ترقی کی راہ پر گامزن رہیں وہ ترقی کرتی چلی جائیں.له الفاتحة ) له الرعد: ۱۲ الفضل ۲۷ - اگست ۱۹۳۳ء)
خطبات محمود ING.۲۱ زندگی حاصل کرنے کیلئے موت کا پیالہ پینا ضروی ہے فرموده ۲۵ - اگست ۹۱۳۳ء بمقام پالم پور) سال ۱۹۳۳ء تشد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- اللہ تعالی قرآن مجید میں ایک قوم کے لوگوں کے متعلق فرماتا ہے کہ وہ اپنے گھروں سے موت کے خوف سے نکلے.انہوں نے چاہا کہ وہ زندگی حاصل کریں.ان کی اس خواہش کو پورا کرنے کیلئے اللہ تعالی نے انہیں جو تدبیر بتائی وہ یہ تھی کہ تم اپنے لئے موت اختیار کرو.ایک ایسی قوم جو موت سے بچنے کیلئے گھر سے نکلی' اسے قدرتی طور پر یہ علاج عجیب نظر آیا.وہ لوگ حیران ہوئے اور ہونا چاہیے تھا.جنہوں نے اپنا وطن خواہ وہ اختیار کردہ ہی ہو، املاک خواہ تھوڑے ہی ہوں، اپنی عزت یا رتبہ خواہ قلیل ہی ہو، اپنے جلیس، ہم صحبت ، دوست اور ملک جس کی وہ زبان سمجھتے تھے ، جہاں کے لوگ ان کی دیانت اور وہ ان کی دیانت سے واقف وہ تھے، سب کچھ چھوڑ دیا، صرف اس لئے کہ انہیں زندگی ملے اور وہ موت سے بچیں.ایک ایسے ملک کی طرف چلے گئے جہاں کی زبان وہ نہیں جانتے تھے.ان کی وہاں کوئی جائداد نہیں تھی.وہاں کے لوگ ان کی دیانت اور یہ اُن کی دیانت سے واقف نہ تھے.جہاں کے لوگوں کی نگاہ میں ان کے چھوٹے بڑے میں کوئی تمیز نہ تھی.ان تمام وقتوں کو برداشت کرتے ہوئے جنگل بیابان میں غیر معروف جگہ پر ناواقف قوم میں چلے جانا معمولی قربانی نہ تھی.اور یہ قربانی صرف اس لئے کی گئی تھی کہ انہیں جان بہت پیاری تھی ورنہ وہ اس ملک کو چھوڑتے ہی کیوں؟ مگر وہ جب وہاں پہنچے تو خدا تعالیٰ سے انہوں نے سوال کیا کہ وہ زندگی
خطبات محمود ۱۸۸ سال ۱۹۳۳ء کہاں ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا موت قبول کرو، پھر تم زندہ ہو جاؤ گے.وہ حیران ہوئے کیونکہ جو پیالہ فرعون اُنہیں پلا رہا تھا، وہی اللہ تعالٰی نے انہیں دیا.فرعون نے فیصلہ کیا تھا تم مرجاؤ.انہوں نے کہا ہم زندہ رہنا چاہتے ہیں.اس لئے ہم خدا تعالیٰ سے فریاد کریں گے.لیکن جب انہوں نے خدا تعالیٰ سے فریاد کی تو وہاں سے بھی یہی جواب ملا کہ مرجاؤ.انہیں دونوں جگہوں سے موت کا پیالہ ہی ملا.وہ حیران تھے کہ فرعون کو دوست سمجھیں یا خدا تعالی کو دشمن - فرعون اُنہیں زندہ کرنا چاہتا تھا یا خدا تعالی مارنا.کیونکہ دنوں پیالوں پر موت لکھی ہوئی تھی.وہ گھبرائے ان میں سے کمزوروں نے کہا ہم تو موت سے بچنے کیلئے آئے تھے.اگر یہی پیالہ ہمیں پینا ہو تا تو وہیں کیوں نہ پی لیتے.اتنی تکالیف برداشت کرنے کی کیا ضرورت تھی.ہم اس پیالہ کو پینے کیلئے تیار نہیں.ہم سے دھوکا کیا گیا ہے.اگر موت ہی ہمیں ملنی تھی تو کیوں ہم سے زندگی کا وعدہ کیا گیا تھا.اتنی امیدیں دلانے کے بعد ہمیں قوم میں کیوں شرمندہ کرایا.وہ ہنسیں گے کہ بیوقوف موت سے بھاگے تھے، وہاں بھی موت ہی نصیب ہوئی.وہ اس مشکل کو حل نہ کر سکے.سوائے اس کے کہ ان میں سے کمزوروں نے کہا کہ ہم یہ پیالہ پینے کیلئے تیار نہیں.عزت کی زندگی جس کا ہم سے وعدہ تھا، وہ ہمیں دو.یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم تھی.فرعون انہیں تباہ کرنا چاہتا تھا.موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا تمہارے سب لڑکے مارے جائیں گئے.لازما لڑکیاں غیروں سے بیاہی جائیں گی.تمہاری نسل مٹ جائے گی اور غیروں کی نسل جاری رہے گی، تم اس موت سے بچو اور ذلت کی زندگی برداشت نہ کرو.خدا نے تمہیں بتایا ہے کہ حیات کا پیالہ تمہارے لئے کنعان کی زمین میں تیار ہے.انہوں نے گھر بار چھوڑا مال جو نہ اٹھایا گیا وہیں چھوڑا.عزت سے ہاتھ دھوئے ایک باقاعدہ حکومت کا آرام کھویا.وہ نکلے اور چل پڑے.قرآن مجید میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَهُمْ الُوفٌ ہے.یعنی وہ چند ہزار تھے.ان میں سے بہت سی عورتیں بچے بھی ہوں گے.عام طور پر قریباً پانچواں حصہ بالغ مرد ہوتے ہیں.پھر ان میں کچھ بوڑھے بھی ہوں گے.متمدن اقوام میں سے چھ فیصدی مرد جنگ کے قابل ہوتے ہیں اور غیر متمدن قوموں میں سے سولہ فیصدی.اگر وہ پچاس ہزار بھی ہوں تو ان میں سے زیادہ سے زیادہ آٹھ ہزار لڑائی کے قابل مرد ہوں گے.وہ بھی نا تجربہ کار پیتھیرے بھلا کیا جانیں کہ جنگ کیا ہوتی ہے.انہوں نے کہا لاؤ جو تم نے وعدہ کیا تھا.ایک زبردست قوم کے لوگ جن کے چہرے خون سے بھرے ہوئے تھے جنہیں اگر دائیں طرف عرب کے جنگجوؤں ،
خطبات محمود ١٨٩ سال ۱۹۳۳ء گئے ایسے سے مقابلہ کرنا پڑتا.تو بائیں طرف یونانیوں سے.تہذیب کے گہوارہ میں پلی ہوئی تین قوموں یونانیوں، ایرانیوں اور مصریوں سے انہیں واسطہ پڑتا.وہ تینوں کے طریق کار سے واقف تھے.وہ خود بھی مہذب اور بڑے بڑے شہروں میں رہنے والے تھے.اور بنی اسرائیل سے قریباً دس زیادہ تھے.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جواب میں یہ قوم دکھا کر اپنی قوم سے کہا کہ اس قوم کو ماردو، پھر حکومت تمہارے ہاتھ میں آجائے گی.بنی اسرائیل پر حیرت کا اظہار کرنا آسان ہے لیکن ذرا سوچو! تمہارا ایک دوست تمہاری دعوت کرے.وقت مقررہ پر وہ آکر تمہیں بلالے جائے.جب وہ بازار میں پہنچے تو ایک بڑے ہوٹل میں چلا جائے.جہاں ہر ایک چیز پانچ چھ گنا زیادہ قیمت پر ملتی ہے.اور کہے کہ یہ ہوٹل ہے اس پر آپ آٹھ دس روپیہ خرچ کرکے کھانا کھا سکتے ہیں.دوسری طرف ایک ایسا مکان بھی ہے جہاں سے کھانوں کی خوشبو آرہی ہے.آپ اندر گھس جائیں، ان کے سر لٹھ سے پھوڑ دیں اور کھانا لے لیں.اس جواب کو سن کر تمہاری حالت کیا ہوگی.تم اس کو ذلیل کرنے والا تمسخر خیال کروگے اور اس دوست سے ناراض ہو جاؤ گے.شاید تم میں سے جون ست پر حملہ ہی کر بیٹھیں.یہی حالت یہاں ہے سینکڑوں میل سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو اس وعدہ پر کہ وہاں انہیں بادشاہت ملے گی ، لائے مگر وہاں پہنچ کر انہیں کہہ دیا کہ اس قوم کو ماردو اور ان سے حکومت چھین لو.اس جہالت کو دیکھ کر جو بنی اسرائیل میں اُس وقت پھیلی ہوئی تھی، خیال کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اس جواب پر سر پیٹ لیا ہو گا.وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف دیکھتے ہوں گے کہ تم نے وعدے کیا کئے تھے اور اب کہہ کیا رہے ہو.وہ کہتے ہوں گے وہیں ہمیں کیوں نہ کہہ دیا کہ فرعون کا سر اُڑا دو اور حکومت چھین لو.وہاں پر تو ہم کر بھی سکتے تھے کیونکہ ہمارے آدمی فرعون کے گھروں میں کام کرتے تھے.وزراء ہمارے واقف تھے اور کئی سہولتیں ہمیں میسر تھیں لیکن یہاں پر زبان اور ہے اس لئے ہم جاسوسی بھی تو نہیں کرسکتے.وہ ذرائع ہمیں یہاں میسر نہیں.ان لوگوں کو مارنا بھلا کون سا آسان کام تھا کہ تم ہمیں وہاں سے نکال لائے اور یہاں آکر کہہ دیا کہ ان کو ماردو اور ملک پر قبضہ کرلو.یہ خدا کا وعدہ تھا لیکن خدا انہیں نظر نہیں آتا تھا، ورنہ اس سے ہی جھگڑا کرتے.حضرت موسیٰ علیہ السلام انہیں نظر آتے تھے.بظاہر حالات انہوں نے شرافت سے کام لیا.ورنہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر حملہ آور ہوتے کہ تم نے ہمارے ساتھ دھوکا کیا.بائیبل
خطبات محمود 14.سال ۱۹۳۳ء میں ذکر ہے کہ وہ روئے پیٹے اور بچوں کی طرح روٹھ گئے.قرآن کریم فرماتا ہے.انہوں نے کیا.اے موسیٰ! فَاذْهَبْ أَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلاَ إِنَّا هُهُنَا قَاعِدُونَ ہے.ہمارے مد مقابل ایک تجربہ کار جنگجو قوم ہے.ان کے پاس اسلحہ بھی ہم سے زیادہ ہیں.وہ اپنے وطن میں ہیں اور راستوں سے اچھی طرح واقف ہیں.ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کا تعاقب کیسے کریں.وہ محفوظ قلعوں میں ہیں اور ہم جنگلوں میں.تم نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ ہمیں بادشاہت دو گے.اس لئے ہم تو ہاتھ نہیں اُٹھائیں گے اور یہیں بیٹھے رہیں گے تم اور تمہارا خدا جاؤ اور ملک فتح کر کے ہمیں دے دو.بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان سے غداری کی.انہوں نے ان سے ایک وعدہ کیا تھا جسے لفظاً پورا نہیں کیا.وہ بھی مولوی ثناء اللہ صاحب کی قسم کے لوگوں کی طرح ان سے اس وعدہ کے لفظی ایفاء کا مطالبہ کرتے ہیں.ایک ظاہر بین کی نگاہ میں مطالبہ بالکل معقول معلوم ہوتا ہے لیکن جب ہم اس واقعہ کو ایک اور نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں تو اس کی شکل ہی بدل جاتی ہے.رسول کریم ﷺ نے مکہ کی فتح پر انصار سے مخاطب ہو کر فرمایا.اے انصار! کیا تم نے یہ کہا ہے کہ خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے اور مال غنیمت مہاجرین میں تقسیم کیا جارہا ہے.انہوں نے عرض کیا.حضور ہم میں سے ایک نوجوان نے نادانی سے ایسا کہہ دیا.آپ نے فرمایا تم کہہ سکتے ہو کہ محمد ال کو ہم نے بے در پایا' ہم نے اسے اپنے گھروں میں جگہ دی.اس کے بھائی اس کے خون کے پیاسے تھے ، ہم اس کے آگے پیچھے لڑے.دنیا میں اس کی بات کوئی نہ سنتا تھا، ہم نے لوگوں تک اس کا پیغام پہنچایا.پھر جب فتح ہوئی تو اس نے مال اپنی قوم میں تقسیم کردیا.لیکن تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ محمد ال نے ہمیں قرب الہی حاصل کرایا، تقویٰ دیا، خدا کی محبت دی.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و نصرت سے اسے فتح دی اور خدائی فوجوں نے مکہ فتح کیا.مکہ اس کا پیدائشی مقام تھا اور مہاجرین کا وطن.انہیں توقع تھی کہ مکہ فتح کر کے وہ اپنے گھروں پر قبضہ کریں گے مگر مکہ والے چند اونٹ لے گئے اور ہم اپنے ساتھ رسول اللہ کو لے آئے سے یہی دونوں رُخ یہاں ہیں.اگر حکومت کے رنگ میں کوئی تغیر خدا تعالی کو منظور نہیں تھا تو اسے بھلا اس سے کیا تھا کہ حضرت موسیٰ بادشاہ ہوں یا فرعون مصر بنو لاوی کا ہو یا بنی اسرائیل کا.اگر وہ ایسی ہی حکومت پسند کرتا جیسی فرعون کی تھی تو فرعون سے حکومت
خطبات محمود 191 سال ۱۹۳۳ء چھین کر بنی اسرائیل کو کیوں دینا چاہتا.خدا تعالیٰ تو ایسی قوم کو بادشاہت دینا چاہتا تھا جو اخلاق کی خوشنما حکومت قائم کرتی.خدا تعالی بنی اسرائیل کو ایک ایسی زندگی نہیں دینا چاہتا تھا جو ختم ہو جاتی.ایسی زندگی تو چمار بھی دیتا ہے جب وہ بچہ پیدا کرتا ہے.لیکن خدا انہیں ایسی زندگی دینا چاہتا تھا جو کوئی اور نہیں دے سکتا تھا.خدا تعالی انہیں اخلاق فاضلہ کی ہمیشہ کی زندگی دینا چاہتا تھا جو فرعون انہیں نہیں دے سکتا تھا.اور ایسی زندگی بغیر تربیت اور قربانی کی عادت کے انہیں نہیں مل سکتی تھی.خدا تعالیٰ انہیں ایک تازہ نشان کے ساتھ زندہ کرنا چاہتا تھا.ان میں سے ہر ایک دس دس کے مقابل کھڑا ہوتا، پھر خدا ان کو فتح دیتا تو وہ ایک زندہ نشان دیکھتے جس سے ان کی اصلاح ہوتی اور اس طرح ان کو حقیقی زندگی ملتی.گویا پیالے دونوں موت کے تھے لیکن فرعون کے پیالہ میں شربت بھی موت کا تھا اور خدا تعالیٰ کے پیالہ میں زندگی کا.فرق تھا جسے وہ سمجھ نہ سکے.اگر وہ فرعون کا پیالہ پی لیتے تو ہمیشہ کیلئے انہیں موت ملتی.لیکن اگر وہ خدا تعالیٰ کا پیالہ پی لیتے تو وقتی موت ہوتی جس کے بعد انہیں ہمیشہ کیلئے زندگی ملتی.مگر انہوں نے اس فرق کو نہ سمجھا اور خدا تعالیٰ کا پیش کردہ موت کا پیالہ پینے سے بھی اسی طرح انکار کر دیا جس طرح فرعون کا پیالہ پینے سے انکار کیا تھا.تب اللہ تعالٰی نے پھر انہیں فرمایا کہ.فَقَالَ لَهُمُ اللهُ مُؤتُوا ہے.تم اپنے ہاتھ سے موت لینے سے انکار کرتے ہو، ہم خود تمہیں - موت دیتے ہیں.تم اس موت کا مقابلہ نہیں کر سکو گے.لیکن اللہ تعالٰی نے فرعون کی دی ہوئی موت اور اپنی دی ہوئی موت میں فرق رکھا.وہ لوگ گھر سے تو اللہ تعالیٰ کے وعدہ پر اعتبار کر کے ہی نکلے تھے.اللہ تعالیٰ نے کچھ عرصہ کی موت کے بعد انہیں پھر زندگی دے دی.اور اس طرح اس وعدہ کو پورا کر دیا.یہ ایک چھوٹی سی آیت ہے لیکن اس میں اللہ تعالیٰ نے قومی جدوجہد کا نقشہ بیان کردیا ہے.سورۃ بقرۃ میں اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کے چار کام بتاتا ہے.يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ہے - اول آیات الہی سنانے کا کام، دوسرا تعلیم کتاب کا تیسرا حکمت کا چوتھا تزکیہ نفس کا.یہ آیت جس کا میں نے ذکر کیا ہے يُعَلِّمُهُمُ الْحِكْمَةَ کے ماتحت ہے.یہاں قوموں کی ترقی کے ذرائع بیان کئے گئے ہیں.اللہ تعالٰی نے اس جگہ مثال دے کر بتایا ہے کہ اس طرح قومیں ترقی کر سکتی ہیں.جب کبھی بھی کسی قوم کو موت کا ڈر ہو، اس کا یہی علاج ہے کہ یا تو وہ اپنے ہاتھ سے موت قبول کرلے یا خدا کے ہاتھ
خطبات محمود ۱۹۲ سال ۱۹۳۳ء سے.اپنے ہاتھ سے موت قبول کرنے میں کئی آسانیاں ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام فرمایا کرتے تھے کہ جب تم اپنے ہاتھ سے ابتلاء لو تو تم اسے کم کرسکتے ہو.جیسے سردی میں وضو کیلئے پانی کی ٹھنڈک تم دور کر سکتے ہو.ایسے ہی جنگ میں تم بخوشی موت قبول کرتے ہو لیکن تم اس سے بچاؤ کیلئے تلوار ہاتھ میں پکڑ لیتے ہو اور بدن پر زرہ پہن لیتے ہو تاکہ جہاں تک ہوسکے موت کے اثر کو کم کردو.اگر تم زخمی ہو تو علاج کراسکتے ہو لیکن خدا تعالی کی دی ہوئی موت سے تم کوئی بچاؤ نہیں کر سکتے.خدا تعالی کا قانون کام کرتا چلا جاتا ہے.اور وہ یہ نہیں دیکھتا کہ اس طرح تکلیف کم ہوگی یا زیادہ.مثلاً ہیضہ یا طاعون کی وبائیں بلالحاظ مارتیں چلی جاتی ہیں.الغرض تم خود ایک چیز کی تکلیف کم کر سکتے ہو.اسی لئے جب کانٹا چبھ جائے تو تم اسے اپنے ہاتھ سے نکالنے کی کوشش کرتے ہو.کیونکہ دوسرے سے تمہیں یہ توقع نہیں سکتی کہ وہ اس تکلیف کو کم کرنے کی ایسی ہی کوشش کرے گا جیسی تم خود کرسکتے ہو.پس جب قوم کی موت آتی ہے تو اس کا علاج زندہ رہنا نہیں بلکہ یہ ہے کہ وہ موت کو قبول کرے.دنیا میں تین قسم کی قومیں ہوتی ہیں.ایک تو وہ جو موت کو خود قبول کرلیتی ہیں.بعد میں انہیں ہمیشہ کیلئے زندگی مل جاتی ہے.جیسے رسول کریم ﷺ کے ساتھی قُل لَّوْ كُنْتُمْ فِي بُيُوتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِيْنَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ إِلَى مَضَاجِعِهِمْ له - میں بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ یہاں ان کا ذکر ہے جن کیلئے مقتول ہونا مقدر ہوتا ہے.حالانکہ یہاں یہ مطلب نہیں یہاں قتل کا لفظ موت کے معنی میں ہے.چونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کی موت کی طرف اشارہ کرنا منظور تھا.اس لئے قتال نہیں کہا بلکہ قتل کہا ہے گویا یہ قتال بھی قتل ہی ہے.صحابہ کے سامنے موت پیش ہوئی.انہوں نے اسے قبول کر لیا نتیجہ میں انہیں ہمیشہ کی زندگی مل گئی.جنگ کے موقع پر تمام صحابہ حضور کے ساتھ نہیں گئے تھے کیونکہ رسول کریم ﷺ نے کسی مصلحت کی وجہ سے انہیں جنگ کی خبر نہیں دی تھی گو آپ کو اس کا علم تھا.آپ نے صحابہ سے دریافت فرمایا.مجھے مشورہ دو کہ لڑنا چاہیے یا نہیں.مہاجرین نے عرض کیا ضرور یارسول اللہ ! آپ نے دوبارہ فرمایا مشورہ دو.ہمیں لڑنا چاہیے یا نہیں؟ مہاجرین نے پھر عرض کیا.ضرور یا رسول اللہ ! پھر آپ نے فرمایا.تم مشورہ کیوں نہیں دیتے.اس پر ایک انصاری کھڑے ہوئے اور عرض کیا.یا رسول اللہ ! آپ کی مراد ہم.ہے.انصار سے معاہدہ تھا کہ مدینہ کے اندر وہ آنحضرت کے ساتھ مل کر دشمن کا مقابلہ پاور رض
خطبات محمود ۱۹۳ سال ۱۹۳۳ء.کریں گے ، مدینہ سے باہر وہ حفاظت کے ذمہ دار نہیں ہوں گے.اس وجہ سے رسول کریم انہیں سے مشورہ لینا چاہتے تھے.اس انصاری نے آپ کے مطلب کو سمجھ لیا اور عرض کیا یا رسول اللہ بے شک ہمارا یہ معاہدہ تھا کہ مدینہ سے باہر ہم نہیں لڑیں گے.لیکن وہ تو ابتدائی زمانہ تھا اب خدا کا نور ہم نے خود اُترتے دیکھ لیا ہے.اب یہ لیا ہے.اب یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ آپ میدان جنگ میں جائیں اور ہم نہ جائیں.ہم ان انصار کی طرف سے بھی جو علم نہ ہونے کی وجہ سے مدینہ میں رہ گئے ہیں، حضور کو یقین دلاتے ہیں کہ اگر وہ بھی یہاں موجود ہوتے تو ضرور آپ کے ساتھ جنگ میں شامل ہوتے.یا رسول اللہ ! آپ ہم کو حکم دیجئے کہ سمندر میں گھوڑے ڈال دو.پھر دیکھئے ہم ڈالتے ہیں یا نہیں.یا رسول اللہ ! ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی اور آگے بھی اور پیچھے بھی اور کوئی شخص آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک ہماری لاشوں پر سے نہ گزرے ہے.یہ فقرہ صحابہ کو اس قدر پسند تھا کہ ایک صحابی نے جو ۱۴ یا ۱۸ جنگوں میں شریک ہوئے تھے کہا کرتے تھے کہ باوجود اس کے کہ مجھے اتنی جنگوں میں شمولیت کا فخر حاصل ہے، میرے نزدیک صحابی کا وہ فقرہ میری ساری لڑائیوں سے بہتر تھا، کاش کہ وہ میرے منہ سے نکلتا ہے.غرض ایک تو یہ قوم تھی جنہوں نے بخوشی موت کو قبول کیا اور اس کے مطابق اس سے سلوک ہوا.دوسری قوم حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تھی.اللہ تعالیٰ نے ان سے زندگی کا وعدہ کیا تھا.اس نے وعدہ کے لفظا ایفاء کا مطالبہ کیا کہ تم بادشاہت دو ہم لے لیں گے.وہ مولوی ثناء اللہ صاحب والی سیرت کے لوگ تھے.جیسے مولوی صاحب الفاظ الہام کو دیکھتے ہیں.وہ بھی الفاظ الہام کو دیکھتے تھے.انہوں نے کہا.تم ہم کو زندگی دینے کے وعدے پر لائے تھے.تم نے ہمیں بادشاہت دینے کا وعدہ کیا تھا، تم ملک لے کر ہمیں دو ہم لڑ کر ملک لینے کو تیار نہیں.اگر تم ایسا نہیں کر سکتے تو سمجھ لو کہ تم جھوٹے ہو اور تمہارا الہام جھوٹا ہے.خدا نے اُنہیں موت دے دی.مگر چونکہ زندگی کا وعدہ بھی کیا ہوا تھا اس لئے زندگی بھی دے دے.لیکن چالیس سال کے بعد جبکہ وہ نسل جس نے خود موت لینے سے انکار کر دیا تھا، بیابانوں میں تباہ ہو چکی تھی.خدا تعالیٰ نے إِنَّا هُهُنَا قَاعِدُونَ کہنے والوں کے بچوں کو جنہوں نے یہ فقرہ نہیں کہا تھا اُٹھایا اور زندگی کا وعدہ ان کے زمانہ میں پورا کر دیا (ثُمَّ احْيَاهُمْ) 2 - تیسری قسم کی قوم وہ ہے جس سے کوئی وعدہ نہیں ہوتا.یہ قوم جب موت کے منہ میں آتی ہے تو اس
خطبات محمود ۱۹۴ سال ۱۹۳۳ء سے سلوک اس کی اپنی ہمت کے مطابق ہوتا ہے.کبھی اپنی کوشش سے یہ بچ جاتی ہے، کبھی ہلاک ہو جاتی ہے.ہماری جماعت سے بھی خدا تعالیٰ نے زندگی کا وعدہ کیا ہے.اس لئے ہمیں بھی پہلے موت کا پیالہ پینا ہوگا.کیونکہ آدم سے لے کر اب تک خدا تعالی کی یہی سنت رہی ہے کہ زندگی حاصل کرنے سے پہلے موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے.وہ لوگ جاہل ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم سے زندگی کا پیالہ دینے کا وعدہ ہے، ہمیں زندگی کا پیالہ ہی ملنا چاہیے ورنہ خداتعالی کا وعدہ جھوٹا ہے.اب خواہ تم حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کا وطیرہ اختیار کرد یا محمد الان سیتی کی قوم کا بہر حال تمہیں موت کا پیالہ پینا ہو گا.اگر تم اپنے ہاتھ سے نہ سے وہ پیالہ پی لو تو تم ہمیشہ کیلئے زندہ رہو گے.لیکن اگر خدا کے ہاتھ سے پیو تو کم سے کم چالیس سال تک کی موت تمہیں نصیب ہوگی.نادان ہیں ہم میں سے وہ جو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں زندگی کے پیالہ کا وعدہ ہے.آسمانی اصطلاح میں زندگی کے پیالہ سے مراد موت کا پیالہ لے کر زندگی کا نصیب ہونا ہوتا ہے.اب یہ بات تمہارے اختیار میں ہے کہ تم حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی طرح موت کا پیالہ پینے سے انکار کرد و یا محمد ﷺ کے صحابہ کی طرح موت کا پیالہ قبول کرلو اور ہمیشہ کی زندگی لے لو.یہ بھی یاد رکھو کہ یہ کافی نہیں کہ تم میں سے ہر ایک اپنے متعلق فیصلہ کرلے کہ وہ کس قوم کی طرح ہوگا.خدا کا فیصلہ کثرت پر ہو گا.تم میں سے اکثر جس قوم کی طرح ہوں گے ویسا ہی تم سے سلوک کیا جائے گا.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں بھی اور نہیں تو کم از کم حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہ السلام ایسے تھے جو محمد ﷺ کی قوم کی طرح تھے.مگر ان سے بھی ویسا ہی سلوک کیا گیا جیسا دوسروں کے ساتھ.ان کو بھی حکومت نہ دی گئی اور وہ بھی وہیں فوت ہو گئے.ان کے بعد حضرت یوشع کو حکومت ملی جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دعوئی کے وقت ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے یا ابھی کمسن تھے.اور ان میں نہیں تھے جنہوں نے موت کا پیالہ قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا.پس ہمیں دیکھنا چاہیے کہ جماعت میں سے کثرت کس طرف ہے؟ اگر تم میں رسول کریم ﷺ کے ساتھیوں کی طرح کے لوگ زیادہ ہیں، تو تم میں سے کمزور بھی بچ جائیں گے.جیسے رسول کریم ﷺ کے ساتھ کمزور بھی فتح یاب ہوئے تھے.اور اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی طرح کے لوگوں کی کثرت ہے تو پھر ان کو بھی جو محمد ﷺ کی قوم کی طرح ہیں، موت قبول کرنا ہوگی.بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے قربانی سے انکار کردیا سے.
خطبات محمود ۱۹۵ سال ۱۹۳۳ء تھا حالانکہ ہم چندہ دیتے ہیں.وہ یہ نہیں سوچتے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے تو آخری موت سے انکار کیا تھا ورنہ انہوں نے اپنے مکان چھوڑ دیئے.اپنے بھاری اسباب چھوڑ دیئے.اپنا وطن چھوڑ دیا.اپنے دوست چھوڑ دیئے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی آواز پر کہا گویا جائداد کا نصف حصہ سے زیادہ قربان کردیا.کیونکہ غیر منقولہ جائداد منقولہ کی نسبت زیادہ ہوتی ہے.پس یہ خیال کرنا غلطی ہے کہ ان لوگوں نے قربانی نہیں کی وہ تو ہمارے بہت سے چندہ دینے والوں سے بڑھ کر تھے.انہوں نے تو صرف آخری پیالہ جو صاف موت کا پیالہ تھا پینے سے انکار کیا ورنہ چندہ تو انہوں نے خوب دیا.کیونکہ اپنا وطن، اپنے مکان ، اپنی اور اپنے بھاری اسباب سب خدا کیلئے چھوڑ دیئے.پس جب خداتعالی کہتا ہے کہ انہوں نے موت قبول نہیں کی تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ خداتعالی کے نزدیک موت قبول کرنا ان قربانیوں سے بڑھ کر کوئی چیز ہے.پس ہمیں بھی وہم دور کر کے موت کیلئے تیار ہو جانا چاہیے ورنہ زبانی دعوے پاگلوں کی بڑسے زیادہ وقعت نہیں رکھتے.زمینیں الفضل ۳ - ستمبر ۱۹۳۳ء) له البقرة: ۲۴۴ ته المائدة: ۲۵ سے بخاری کتاب مناقب الانصار باب مناقب الانصار البقرة: ۲۴۴ هم البقرة: ١٣٠ ته ال عمران: ۱۵۵ بخاری کتاب المغازی باب قول الله تعالى اذ تستغيثون ربكم الخ شه عمدة القاري في شرح البخاری جلد ۱۷ صفحه ۸۴۸۰ مطبوعه مكتبة الرشيدية الطبعة الاولی کوئٹہ پاکستان البقرة : ۲۴۴
خطبات محمود 194 ۲۲ ادائیگی نماز اور درس القرآن کے متعلق ضروری ارشاد (فرموده ۸ - ستمبر ۱۹۳۳ء) سال ۱۹۳۳ء تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں نے اُس خطبہ جمعہ میں جو پالم پور کے قیام کے دوران میں قادیان آکر پڑھا تھا یہ ارادہ ظاہر کیا تھا کہ چونکہ جگہ قریب ہے اس لئے میرا ارادہ ہے کہ ایک دو جمعہ کے وقفہ کے بعد یہاں آکر خطبہ پڑھ دیا کروں.لیکن انسان عالم الغیب نہیں اور اللہ تعالی کی مشیتیں اسی کو معلوم ہیں، یہاں سے واپس جاتے وقت جب ہم پٹھانکوٹ پہنچے تو معلوم ہوا کہ دریائے چیکی کا میل جو چالیس سال سے محفوظ چلا آرہا تھا اور نہایت مضبوط میل تھا پانی کے زور سے اس کا ایک بہت بڑا حصہ ٹوٹ کر بہہ گیا ہے اور موٹروں کی آمد ورفت جب تک کہ پل دوبارہ نہ بن جائے.نا ممکن ہو گئی ہے.اس وجہ سے جو میرا ارادہ تھا کہ درمیان میں آتا رہوں گا وہ پورا نہ ہوسکا.اور اس عرصہ میں ایسے کئی مضامین جن کے متعلق اگر مجھے موقع ملتا تو میں انہیں بیان کرتا، بیان ہونے سے رہ گئے.اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو مجھے امید ہے آئندہ مختلف اوقات میں ان کے متعلق کچھ کہنے کا موقع مل جائے گا.انہی امور میں سے جن کے متعلق میں نے پالم پور کے قیام کے دنوں میں ہی بعض باتیں کہنے کا ارادہ کیا تھا، ایک بات کے متعلق آج کچھ کہنا چاہتا ہوں.لیکن اس کے شروع کرنے سے پیشتر ایک اور معاملہ کے متعلق جو کل ہی ہوا ہے، میں اپنی جماعت کو عموماً اور قادیان کی جماعت کو خصوصاً واقف و آگاہ کرنا چاہتا ہوں.میں نے پہلے بھی اس بارے میں ایک دفعہ دوستوں کو مسجد مبارک میں نماز سے
خطبات محمود 192 سال ۱۹۳۳ء بعد میں کھڑے ہو کر جو صحیح طریق ہے.اس سے آگاہ کیا تھا.مگر مجھے افسوس سے معلوم ہوا ہے کہ پھر ویسی ہی غلطی ہوئی.کل صبح کی نماز پڑھانے جب میں مسجد میں آیا تو وہاں سے جاتے ہی مجھے کچھ حرارت اور سینہ اور سر کے درد کی تکلیف ہو گئی جس کی وجہ سے میں سارا دن نمازوں میں نہ آسکا.جیسا کہ یہاں طریق ہے اور جیسا کہ ہونا چاہیے کیونکہ کسی کو معلوم نہیں ہو سکتا کہ بیماری کب آتی ہے اور کب دور ہو جاتی ہے.ہر نماز کے وقت موذن دریافت کرلیتا ہے کہ آیا میں نماز پڑھانے کیلئے آؤں گا یا نہیں.اسی طرح کل بھی مؤذن آتا رہا اور میں جواب دیتا رہا کہ میں نہیں آسکتا.مغرب کے وقت بھی وہ آیا اور میں نے کہا کہ میں نہیں ہے آسکتا.لیکن وہ خادمہ جس نے یہ پیغام پہنچایا' اس نے بجائے یہ کہنے کہ میں نہیں آسکتا یہ کہہ دیا کہ میں ابھی آتا ہوں.معلوم ہوتا ہے وہ مؤذن بھی ناواقف ہے.کیونکہ پہلے اس نے شروع وقت میں اطلاع دی تھی.اگر واقف ہوتا تو پانچ سات منٹ کے بعد پھر دریافت کرلیتا لیکن و خاموش بیٹھا رہا.یہاں تک کہ جب مغرب کی نماز کا وقت ختم ہونے میں دو چار منٹ ہی باقی رہ گئے.تو اُس نے پھر مجھے آواز دی.میں نے خیال کیا کہ چونکہ یہ دُور جگہ ہے (اُس وقت حضور کو بھی دارالحمد میں تشریف رکھتے تھے.اس لئے وہ ذرا پہلے عشاء کی نماز کی اطلاع دینے آگیا ہے.لیکن میرے دریافت کرنے پر اُس نے کہا کہ میں مغرب کے وقت سے ہی بیٹھا ہوا ہوں اور مغرب کی نماز کی اطلاع دے رہا ہوں.کیونکہ خادمہ نے آپ کے متعلق کہا تھا کہ ابھی آتے ہیں.وہ ایسا تنگ وقت کہ میں سمجھا اگر لوگ اس کی اطلاع کے انتظار میں ابھی تک ہوئے ہیں اور انہوں نے نماز نہیں پڑھی تو پھر مغرب کا وقت گزر گیا.اس لئے بے اختیار میرے منہ سے نکلا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کاش! لوگوں نے اتنی سمجھ کی ہو کہ نماز پڑھ لی ہو.مگر مجھے افسوس کے ساتھ معلوم ہوا کہ لوگوں نے اُس وقت تک نماز نہیں ھی تھی.اور وہ اطلاع دینے والے کے انتظار میں رہے.حالانکہ میں نے ایک دفعہ مسجد مبارک میں کھڑے ہو کر اعلان کیا تھا اور بتایا تھا کہ رسول کریم ﷺ ایک دفعہ کسی جھگڑے کو طے کرنے کیلئے نواحی مدینہ میں تشریف لے گئے.جب نماز کا وقت تنگ ہونے لگا تو صحابہ نے حضرت ابو بکر میں بیٹی کو آگے کھڑا کر کے ان کی اقتداء میں نماز ادا کر لی اے.جب رسول کریم ا کی موجودگی میں صحابہ اس خیال سے ایک شخص کو آگے کھڑا کر لیتے ہیں کہ نماز کا وقت فوت نہ ہو جائے تو اور کوئی انسان اس پایہ کا نہیں ہو سکتا کہ اس کی عدم موجودگی کی
خطبات محمود ۱۹۸ سال ۱۹۳۳ء رم وجہ سے نماز کا وقت فوت کر دیا جائے.مگر معلوم ہوتا ہے بعض لوگ یاد دہانی کے محتاج ہوتے ہیں اور انہیں پچھلی باتیں بھول جاتی ہیں.اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ اس موقع پر پھر یہ بات بیان کردوں تاکہ زیادہ لوگ اس مسئلہ سے آگاہ ہو سکیں کہ جب کبھی نماز میں دیر ہونے لگے یا ایسے حالات ہوں جیسا کہ کل تھے تو نماز پڑھ لینی چاہیئے.مثلاً کل کے حالات ایسے تھے کہ سب کو معلوم تھا، میں بیمار ہوں.اور یہ قیاس کر لینا آسان تھا کہ جب میں باقی نمازوں میں نہیں آیا تو اس نماز میں نہیں آسکوں گا.ایسے وقت میں اپنے میں سے کسی کو آگے کھڑا کر کے نماز پڑھ لینی چاہیئے تھی.جیسا کہ رسول کریم اے کہیں دور نہیں گئے تھے بلکہ نواحی مدینہ میں ہی تھے لیکن صحابہ نے یہ خیال کر کے کہ اگر رسول کریم ای آنا بھی چاہیں تو نماز کے وقت نہیں پہنچ سکتے ، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اقتداء میں نماز ادا کرلی.یہی سنت ہے اور یہی صحیح طریق ہے.اس میں شبہ نہیں.نمازوں کو جمع کرکے ادا کر لینا بھی جائز ہے.مگر اس طرح امام کا ارادہ معلوم ہونے کے بعد ہوتا ہے.جب ایسی اطلاع نہیں تھی تو اس کے یہی تھے کہ نمازیں الگ الگ ادا ہوں گی.اور جب مغرب کا وقت ہو چکا تھا تو لوگوں کا فرض تھا کہ اگر ان میں وہ لوگ ہوتے جن کے متعلق میں نے کہا ہوا ہے کہ اگر میں نہ آسکوں تو فلاں شخص نماز پڑھا دیا کریں.اور اگر وہ بھی نہ ہوں تو فلاں شخص تو انہیں آگے کھڑا کر کے نماز پڑھ لیتے.اور اگر ان میں سے کوئی نہ ہوتا تو اپنے میں سے کسی کو بھی کھڑا کر کے نماز ڑھی جاسکتی تھی.اس میں مسجد مبارک یا مسجد اقصیٰ کا کوئی امتیاز نہیں.بلکہ جس مسجد میں بھی وقت تنگ ہونے لگے اور یہ شبہ ہو جائے کہ اگر امام کا اور انتظار کیا گیا تو شاید نماز کا وقت جاتا رہے تو اپنے میں سے کسی شخص کو کھڑا کر کے نماز ادا کر لیا کریں.خواہ میں امامت کراتا ہوں یا کوئی اور اس لحاظ سے مسجد مبارک یا مسجد اقصیٰ اور دیگر مساجد میں کوئی امتیاز نہیں.نماز خدا تعالیٰ کے احکام میں سے ہے.اور اس کے احکام کا ایک نبی بھی ویسا ہی تابع ہوتا ہے جیسا کہ کوئی اور شخص.ہاں اللہ تعالٰی نے ائمہ دین کو ان کے کاموں کے لحاظ سے اس بات کی اجازت دی ہے کہ اگر وہ ضرورت محسوس کریں تو نمازیں جمع کرلیا کریں.رسول کریم اے نے بھی اس طرح نمازیں جمع کرائی ہیں.گو میں نے قرآن مجید پر اس مسئلہ کے لحاظ سے ابھی تک غور نہیں کیا.ممکن ہے اس میں بھی یہ مسئلہ مل جائے.لیکن رسول کریم ﷺ کی سنت سے تو بہر حال ثابت ہے..
خطبات محمود معلوم ١٩٩ سال ۱۹۳۳ء ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بھی یہی طریق تھا کہ اگر امام اپنی ذمہ داریوں کی وجہ سے دیکھے کہ اب نمازوں کا جمع کرادینا مناسب ہے تو وہ نماز جمع کرا سکتا رسول کریم ال کے متعلق ثابت ہے کہ آپ نے بغیر کسی ایسی ظاہری وجہ کے جو لوگوں کو ہو.نمازیں جمع کرائیں ہے.اور آپ کے ساتھ صحابہ بھی نمازیں جمع کر لیتے تھے.اسی طرح سفر پر جاتے وقت جب رسول کریم ان نمازیں جمع کرتے تو دوسرے لوگ بھی نمازیں اکٹھی پڑھتے.حالانکہ ان میں ایسے بھی ہوتے جو سفر پر جانے والے نہ ہوتے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیماری کی وجہ سے گھر میں نمازیں جمع کرلیتے.جن میں گھر کے اور لوگ بھی شامل ہو جاتے.اعجازا مسیح کی تحریر کے وقت ستر دن تک ظہر و عصر کی نمازیں جمع ہوتی رہیں.حالانکہ نہ بارش ہوتی اور نہ کوئی اور وجہ تھی.مگر جب آپ جمع کرتے تو دوسرے بھی جمع کر لیتے تھے.پس یہ تو جائز ہے اور اگر میری طرف سے اعلان ہوتا کہ میں نمازیں جمع کراؤں گا تو لوگ انتظار کر سکتے تھے.پھر جمع دونوں وقت ہو سکتی ہیں.پہلے وقت میں بھی اور آخر وقت میں بھی.پس اگر میں نے کہا ہوتا اور لوگ انتظار کرتے رہتے تو جائز تھا.لیکن یہاں قرائن قوی موجود ہیں کہ دیر ہوئی.اور لوگوں نے بغیر نمازوں کے جمع کرنے کی اطلاع کے نماز نہ پڑھی.حالانکہ میں نے کہہ دیا تھا کہ میں نہیں آسکتا.یہ ادب نہیں بلکہ بے ادبی ہے.کیونکہ اس سے اللہ تعالیٰ کے حکم کی بے ادبی ہوتی ہے.پس میں آئندہ کیلئے اعلان کرتا ہوں کہ دوستوں کو چاہیے اس بارے میں احتیاط رکھیں.اس کے بعد میں دوسرا مسئلہ لیتا ہوں.اس کے متعلق مجھے دو مہمانوں کی طرف سے رپورٹیں پہنچیں اور وہ نہایت ہی تکلیف دہ ہیں.تمام دوستوں کو معلوم ہے کہ قریباً دو تین سال سے حلق کی خرابی کی وجہ سے میں قرآن مجید کا درس نہیں دے سکا.سال میں دو تین مہینے مجھے شدید کھانسی رہتی ہے اور اس دفعہ تو اس کا دوسرا دورہ بھی شروع ہو گیا.جلسہ سالانہ سے کھانسی کا دورہ شروع ہوا اور اپریل میں ختم ہوا.اور اب سوا مہینے سے پھر کھانسی شروع ہے.جن لوگوں نے نمازوں میں میری پہلی آواز سنی ہے، وہ جانتے ہیں کہ اب میری آواز بھرائی ہوئی ہوتی ہے اور موجودہ اور پہلی آواز میں نمایاں فرق ہے.اس وقت اور مجبوری کی وجہ سے میں درس نہیں دے سکتا.لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں نے درس دینے کا ارادہ چھوڑ دیا ہے.نیت ہمیشہ یہی رہتی ہے.کہ اگر اللہ تعالیٰ ذرا بھی افاقہ دے تو میں پھر درس دینا شروع کردوں.لیکن جب تک بھی یہ روک ہے
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء.اُس وقت تک میں نے ایک اور صاحب کو درس دینے کیلئے مقرر کیا ہوا ہے.میرے پاس اس درس کے متعلق دو رپورٹیں آئی ہیں.عجیب بات یہ ہے کہ وہ دونوں ایک ہی رنگ میں رنگین ہیں.لیکن باوجود اس قدر تشابہہ کے ایک رپورٹ ایک مقام سے آئی ہے اور دوسری دوسرے مقام سے.ممکن ہے وہ رپورٹیں ایک ہی دن کی ہوں.ان میں اتنا تشابہہ ہے کہ حیرت ہوتی ہے.ایک رپورٹ تو ملک نادر خان صاحب تحصیلدار ضلع منٹگمری کی ہے.وہ یہاں مئی کے آخر یا جون کے شروع میں آئے.میں پالم پور میں ہی تھا کہ ان کا خط مجھے ملا.غالباً مہینہ کے قریب عرصہ ہو چکا ہے.انہوں نے لکھا کہ میں جب قادیان میں گیا تو ایک بات میں نے نہایت ہی تکلیف وہ دیکھی.اور وہ یہ کہ مجھے معلوم تھا کہ آپ کی بیماری کی وجہ سے درس ایک اور صاحب کے سپرد ہے.سپرد ہے.مجھے درس میں شامل ہونے کا خیال تھا.جب میں اس نیت سے شہر کی طرف آرہا تھا تو ایک جگہ دیکھا کہ مداری کا تماشہ ہو رہا ہے، جہاں مرد اور عورتیں جمع ہیں حالانکہ وہ درس کا وقت تھا.پھر وہاں سے چل کر آگے آیا تو دیکھا کہ بہت سے لوگ ایک طرف جارہے ہیں.میں نے پوچھا یہ کدھر جارہے ہیں تو مجھے بتایا گیا کہ کبڈی کا میچ ہوگا.میں نے کہا یہ درس کا وقت ہے، کیا آج درس نہیں ہوگا؟ تو انہوں نے بتایا کہ آج کبڈی کی وجہ سے درس نہیں ہو گا.وہ لکھتے ہیں کہ مجھے اس سے سخت افسوس ہوا.اور دل پر اس خیال سے صدمہ گزرا کہ قادیان میں کبڈی کی وجہ سے قرآن مجید کا درس ملتوی کر دیا جاتا ہے.پھر میرے قادیان آنے سے چند دن پہلے چوہدری غلام محمد صاحب پوہلا مہاراں ضلع سیالکوٹ نے مجھے خط لکھا.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی اور نہایت مخلص لکھتے ہیں کہ میں قادیان گیا.اور درس قرآن مجید سننے کیلئے مسجد کو جانے لگا.تو ایک نوجوان کو نہایت بے تابی سے دوڑتے ہوئے آتے دیکھا.میں نے اس سے پوچھا.اس قدر بے تابی کی کیا وجہ ہے.وہ کہنے لگا کہ آج کبڈی کے میچ کا فیصلہ ہو گیا ہے.میں مولوی صاحب کہنے جا رہا ہوں کہ آج درس نہیں ہونا چاہیئے.اور بعد میں معلوم ہوا کہ واقعی اُس روز احمدی ہیں.درس بند کر دیا گیا.کیونکہ کبڈی جیسا ضروری کام ہونے والا تھا.یہ امر میرے لئے اس قدر تکلیف دہ اور رنج کا موجب ہوا کہ میں نے فیصلہ کیا کہ میں کہ قادیان جا کر پہلا خطبہ اسی کے متعلق پڑھوں گا.بعض اور دوستوں نے بھی اطلاع دی ہے جب درس ہوتا ہے تو بہت ہی کم لوگ اس میں شامل ہوتے ہیں.عموماً چھوٹی جماعتوں کے '
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء بچے ہوتے ہیں یا ایک دو مہمانوں میں سے بھولے بھٹکے وہاں چلے جاتے ہیں.باقی مدرسوں کے ٹیچر طالب علم ، قادیان کے رہنے والے اور باہر سے آنے والے مہمان اسے فرض کفایہ سمجھتے ہیں.وہ خیال کرتے ہیں کہ اگر ایک بچہ بھی درس میں شامل ہو جائے تو تمام قادیان والوں کا فرض ادا ہو جاتا ہے.میں نے پہلے بھی کہا تھا اور اب پھر کہتا ہوں کہ جو لوگ آدمیوں کیلئے درس سنتے ہیں، وہ خدا کی رضا کے وارث نہیں ہو سکتے.ایسے آدمی بے شک ہو سکتے ہیں بلکہ ہیں، جن کو خدا تعالیٰ نے اس قدر علم دیا ہو کہ خاص حالات میں یا خاص کاموں کی وجہ سے اگر درس میں شامل نہ ہو سکیں تو انہیں نقصان نہ پہنچے.پھر بعض لوگ معذور ہوتے ہیں، بعض سفر پر ہوتے ہیں.ان وجوہات سے اگر سو میں سے پندرہ یا بیس کی نسبت بھی کمی آجائے تو لوگ معذور سمجھے جاسکتے ہیں.اور خیال کیا جاسکتا ہے کہ کچھ بیمار ہوں گے، کچھ سفر پر ہوں گے.اور جب اللہ تعالی نے بیمار کو اجازت دی ہے کہ اگر وہ کھڑا ہو کر نماز نہ پڑھ سکے تو بیٹھ کر پڑھ لے اور اگر بیٹھ کر نہ پڑھ سکے تو لیٹ کر پڑھ لے.تو قرآن مجید کا درس تو بہرحال نوافل میں سے ہے، اس کے متعلق بھی ایسی معذوریاں پیش آسکتی ہیں.اور اگر اس طرح درس سننے والوں میں کچھ کمی واقع ہو جائے تو یہ قابلِ اعتراض بات نہیں.لیکن اگر قادیان میں رہنے والوں میں سے ایک فیصدی آدمی بھی درس میں شریک نہ ہوں تو کس قدر افسوس کی بات ہے.اِس وقت قادیان میں چھ ہزار احمدی بستے ہیں.ان میں سے اگر دس بارہ سال تک کے لڑکے لڑکیوں کو نکال دیا جائے اور انہیں ڈیڑھ ہزار فرض کرلیا جائے ، گو لڑکوں کے نکالنے کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی.تو ساڑھے چار ہزار باقی رہ جاتے ہیں.ان میں سے سوا دو ہزار اگر عورتیں نکال دی جائیں تو سوا دو ہزار مرد رہ جاتے ہیں.ان میں سے اگر ایک فیصدی آدمی بھی درس میں شامل ہوں تو بائیس (۲۲) آدمی بنتے ہیں، جنہیں درس میں شامل ہونا چاہیئے.مگر مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض دفعہ درس میں ۱۵ ۱۶ آدمی بھی نہیں ہوتے.حالانکہ ایک فیصدی کے لحاظ سے ۲۲ دو فیصدی کے لحاظ سے ۴۴ اور ۴ فیصدی کے لحاظ سے ۸۸ آدمی شامل ہونے چاہئیں.اور یہ اس صورت میں ہے جب کہ عورتیں اس تعداد سے نکال دی گئی ہیں.اور جبکہ دس بارہ سال تک کے بچے بھی اس میں شامل نہیں کئے گئے.لیکن اگر نوے یا سو آدمی بھی درس میں شامل نہیں ہو سکتے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ قادیان کے آزاد عاقل، بالغ اور سمجھدار لوگوں میں سے چار پانچ فیصدی لوگ بھی درس میں شامل ہونے کیلئے تیار نہیں.
خطبات محمود ۲۰۲ سال ۱۹۳۳ء میں نہیں جانتا ایسی روحانی مُردنی کے ہوتے ہوئے کسی شخص کو روحانی ترقی کا خیال بھی کس طرح پیدا ہو سکتا ہے.میں اس امر کو مان لیتا ہوں کہ آپ لوگوں میں سے سو ڈیڑھ سو ایسے لوگ ہوں گے جو سمجھتے ہوں کہ وہ قرآن مجید کے معارف کی سمجھ اس حد تک بلکہ اس سے زیادہ رکھتے ہیں جو درس دینے والے کو حاصل ہے.مگر ایسے لوگوں کو تو میں نے اپنے درس میں بھی شامل ہوتے نہیں دیکھا.حالانکہ میں کبر اور خود پسندی سے بچتے ہوئے اور ہر قسم کے دعووں سے اجتناب کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ قرآن مجید خدا تعالیٰ نے مجھے خود سمجھایا ہے.اس لئے میں ان کے دعووں کو ذرہ بھر بھی وقعت دینے کیلئے تیار نہیں.کہتے ہیں.ہر موسیٰ کیلئے خضر ہوتا ہے.اور ممکن ہے کوئی ایسا خضر بھی موجود ہو.مگر میں یہ تو تسلیم نہیں کر سکتا کہ قادیان کی اینٹ اینٹ کے نیچے خضر بیٹھا ہوا ہے.غرض ایسے لوگ تو وہ ہیں جو میرے درس میں بھی شامل نہیں ہوتے.اور اپنے آپ کو چوہدری اور نمبردار سمجھتے ہیں.وہ خیال کرتے ہیں کہ درس سننے سے مستغنی ہیں.ایسے لوگوں کو مستثنیٰ کرتے ہوئے اگر ہم معذوروں کو بھی نکال دیں تو ۸۰ فیصدی یعنی ۱۷ ۱۸ سو کے قریب ایسے لوگ ہونے چاہئیں جنہیں درس میں ضرور شامل ہونا چاہیئے.اور اگر اس قدر شامل نہ ہوں بلکہ صرف تمہیں چالیس شامل ہو جائیں تو گویا صرف دو یا سوا دو فیصدی آدمی درس میں حصہ لیتے ہیں.اور باقی تمام ایسے ہیں جو اپنے آپ کو چوہدری یا نمبردار سمجھتے ہیں.میں نے کئی دفعہ بیان کیا ہے.حضرت خلیفہ اول بیماری کی حالت میں بیٹھے بیٹھے جب لوگوں کی کثرت کی وجہ سے تکلیف محسوس کرتے تو فرماتے.دوست اب تشریف لے جائیں.اس پر پچاس فیصدی کے قریب لوگ تو چلے جاتے اور باقی بیٹھے رہتے.پانچ دس منٹ انتظار کرنے کے بعد جب آپ زیادہ تکلیف محسوس کرتے تو فرماتے.آپ سب لوگ چلے جائیں مجھے تکلیف ہے.اس پر پھر کچھ چلے جاتے اور کچھ بیٹھے رہتے.مجھے یاد ہے ہمیشہ تیسری بار ایسے موقع پر حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے اب نمبردار بھی چلے جائیں.کیونکہ نمبردار وہی ہوتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ہم مخاطب نہیں.تو آپ ہمیشہ یہ فقرہ کہا کرتے تھے.مگر جو حالات مجھے معلوم ہوئے ہیں، ان سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ قادیان میں ایسے نمبردار بہت زیادہ ہیں.پہلے تو میرا دل چاہا کہ میں ایک دن درس میں جاکر ان لوگوں کے نام لکھوالوں جو درس میں شامل ہوتے ہیں.پھر خواہ بیماری ہو یا تکلیف میں ایک دو دن درس دوں.اور سب لوگوں
خطبات محمود ٢٠٣ سال ۱۹۳۳ء طریق کو حکماً جمع کر کے اپنے درس میں صرف ان کو شامل ہونے کی اجازت دوں جو پہلے درس میں شامل ہوئے تھے.اور اس طرح لوگوں کے دلوں میں ندامت پیدا کروں.لیکن پھر مجھے خیال آیا کہ گو اس سے بعض لوگوں کی اصلاح ہوگی.لیکن بعض لوگ بے حیائی میں ترقی کر جائیں گے.اس لئے میں نصیحت کے طور پر آپ لوگوں سے کہتا ہوں کہ قادیان میں آپ لوگوں کا آنا قرآن مجید اور دین سیکھنے کیلئے ہے.اگر یہاں کی زندگی سے کوئی برکت حاصل کرنی ہے تو اس سے حاصل کرنی چاہیے جس سے حاصل ہو سکتی ہے.یاد رکھو ہر چیز کیلئے خدا تعالیٰ نے دروازے مقرر کئے ہیں.اور ان سے گزرے بغیر کبھی کامیابی نہیں ہو سکتی.قرآن مجید نے اس مضمون کو نہایت وسیع طور پر بیان فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ ہمیشہ گھروں میں ان کے دروازوں آیا کرو.اس سے لوہے، اینٹ پتھر یا لکڑی کے ہی دروازے مراد نہیں کیونکہ آج کل ہر قسم کے دروازے تیار ہو رہے ہیں.بلکہ گھر سے تمام وہ چیزیں مراد ہیں جو انسان کے آرام کا موجب ہوں.جب تک انسان ان دروازوں سے داخل نہ ہو جن سے آرام حاصل کیا جاسکتا ہے اُس وقت تک آرام حاصل نہیں ہوتا.مثلاً دنیاوی علوم ہیں جو استاد سے سیکھے بغیر نہیں آتے.روحانی علوم خدا تعالیٰ کی محبت پیدا کئے بغیر اور اس کے احکام پر چلنے اور شعائر اللہ کا ادب اور احترام کرنے اور قرآن مجید پر غور و تدبر کرنے اور اسے سمجھنے کی کوشش کئے بغیر نہیں حاصل ہوتے.روحانیت اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک اپنے اندر عشق سوزوگداز اور تڑپ پیدا نہ کی جائے.پس قرآن مجید کے درس کو نظر انداز کردینا سخت نادانی اور غفلت ہے.استاد اپنے شاگرد کے علم سے خوب واقف ہوتا ہے.اور گو شاگرد بعض دفعہ سمجھتا ہے کہ میں استاد سے بھی زیادہ لائق ہو گیا ہوں مگر استاد جانتا ہے کہ شاگرد کی علمی قابلیت کس حد تک ہے.پس گو آپ لوگ اپنے آپ کو قرآن سننے سے مستغنی سمجھیں اور خیال کریں کہ آپ لوگوں کو بہت قرآن آتا ہے مگر میں آپ لوگوں کا استاد ہوں.اور میں جانتا ہوں کہ آپ لوگوں میں سے ایک فیصدی بھی ابھی قرآن کو پوری طرح سے نہیں سمجھے.ننانوے فیصدی لوگ محتاج ہیں اس بات کے کہ وہ بار بار درس سنیں یہاں تک کہ موت سے پہلے ان پر ایسا وقت آجائے کہ وہ قرآن کا کچھ نہ کچھ فہم رکھتے ہوں.پس اگر آپ لوگ سمجھتے بھی ہوں کہ آپ عالم قرآن ہیں تو کم از کم آپ کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ آپ کے استاد کی رائے یہی ہے کہ آپ ابھی قرآن نہیں جانتے اور اس کی نصیحت آپ کو یہی ہے کہ چونکہ
سال ۱۹۳۳ء خطبات محمود ۲۰۴ آپ لوگوں کا بیشتر حصہ قرآن مجید کے معارف سے ناواقف ہے اس لئے آپ لوگوں کا فرض ہے کہ دوسروں سے قرآن نہیں.ہاں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو قرآن کو خوب سمجھتے ہیں اور وہ روحانی جماعت ہی کیا جس میں چند لوگ بھی ایسے نہ ہوں..پس قادیان میں بیشک ایسا گروہ ہے جو قرآن کو سمجھتا ہے اور جو پچاس، ساٹھ سو نفوس پر مشتمل ہے لیکن اگر وہ بھی اس وجہ سے درس میں شامل نہیں ہوتے کہ درس دینے والا ان کی قابلیت کے برابر ہے یا ان سے علم میں کم ہے تو میرے نزدیک وہ متکبر ہیں اور تکبر کرنا کوئی اچھی بات نہیں.ہاں اگر اور دینی کاموں کی وجہ سے نہیں آتے تو معذور ہیں، گنگار نہیں.لیکن ان میں سے بھی بعض لوگوں کے متعلق مجھے معلوم ہے کہ وہ اوروں سے کہتے ہیں کہ درس میں ہوتا ہی کیا ہے لمبا سا درس ہوتا ہے.کوئی کام کی بات تو بیان نہیں کی جاتی.میں سمجھتا ہوں ایسے آدمی یقینا اللہ تعالی کا عرفان نہیں رکھتے.ممکن ہے انہوں نے طوطے کی طرح قرآن مجید کے بعض مضامین کو رٹ لیا ہو لیکن ان کی زبانیں اور ان کے دل علوم قرآنی کے منکر ہیں.کیونکہ قرآن مجید سے محبت اور عشق رکھنے والا انسان ایک لمحہ کیلئے بھی کسی کو قرآن سننے سے روک نہیں سکتا.میں نے تو دیکھا ہے کہ اسلامی علوم اتنے باریک اور اس قدر متنوع ہیں کہ بعض دفعہ ایک بچے کے منہ سے بھی ایسی باتیں نکل جاتی ہیں جو حیرت کا موجب ہوتی ہیں.کُجا یہ کہ ایسے شخص کا درس سنتا جس کی عمر قرآن مجید پڑھانے میں گزر گئی.میں نے خود مذہب کے متعلق بچوں سے بعض ایسی باتیں سنی ہیں کہ میں نے محسوس کیا ہے اب تک میرے سامنے اس شکل میں وہ نہیں آئی تھیں.اور میں تو سمجھتا ہوں کہ مومن ڑیوں سے بھی فائدہ اٹھالیتا ہے، دیواروں سے بھی فائدہ اٹھالیتا ہے، پتھروں سے بھی فائدہ اٹھالیتا ہے.اگر.یہ چیزیں ہمیں نقصان پہنچا سکتی ہیں تو فائدہ کیوں نہیں پہنچا سکتیں.اگر ایک اینٹ سر پر گر کر کسی انسان کی جان لے سکتی ہے تو وہ فائدہ بھی دے سکتی ہے.جس چیز میں زہر ہے اس میں تریاق بھی ہے.اور قرآن مجید سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ زہر کم ہے اور تریاق زیادہ.پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ کبر خود پسندی اور قرآن مجید سے تغافل کو چھوڑ کر درس سنا کریں ابھی نہیں دیکھ لو، جمعہ میں کتنے زیادہ آدمی موجود ہیں.گو میں سمجھتا ہوں کہ نمبردار اب بھی شامل نہیں ہیں کیونکہ وہ ایسے ہیں جو پہلے رکوع یا پہلی رکعت میں شامل ہوتے ہیں یا جب جمعہ پڑھ کر لوگ واپس جارہے ہوں تو وہ آرہے ہوتے ہیں اور
خطبات محمود ۲۰۵ سال ۴۱۹۳۳ راستہ میں ہی پوچھ لیتے ہیں.اچھا جمعہ ہو گیا.پھر میں نے دیکھا ہے بہت لوگ اپنے بچوں کو ساتھ لانے میں غفلت کرتے ہیں.میں نے آج ہی جمعہ کیلئے آتے ہوئے بہت سے بچوں کو یا دھر اُدھر دکانوں پر کھڑے دیکھا ہے حالانکہ اگر بچے بھی مسجد میں آجائیں تو اس سے دگنی جگہ بھی کفایت نہیں کرسکتی.سکولوں کے ہیڈ ماسٹر اگر توجہ کریں تو چار پانچ سو لڑکا ہی درس میں شامل ہو سکتا ہے.میں نے دیکھا ہے میرے درس میں سات آٹھ سو کے قریب آدمی جمع ہو جاتے تھے حالانکہ اس وقت سے ہماری قادیان کی جماعت کی تعداد دُگنی ہو چکی ہے.معمولی حالتوں میں تین ساڑھے تین سو آدمی آیا کرتے تھے.اور آج تو سولہ یا سترہ سو باقاعدگی کی حالت میں اور چھ سات سو بغیر اطلاع کئے بھی جمع ہو جانے چاہئیں: قرآن کا درس تو ایسی چیز ہے جسے زیادہ وسیع کرنا چاہیئے.محلوں کی مساجد میں درس ہونا چاہیے تاکہ کمزور اور بیمار لوگ اپنی اپنی مساجد میں ہی درس سن لیا کریں.پس بجائے کم کرنے کے ہمیں درس کو زیادہ وسیع کرنا چاہیے.ہماری جماعت کے لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک شعر پڑھا کرتے ہیں بلکہ دشمن بھی پڑھ لیتے ہیں جو یہ جمال و حسنِ قرآن نور جان ہر مسلماں ہے قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے و شخص "نور جان ہر مسلمان کو چھوڑتا ہے اس کے پاس باقی کیا رہا جب جان ہی نہ رہی تو بے جان کو تو لوگ دفن کر دیتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس شعر میں قرآن مجید سے اپنے عشق کا اظہار کیا ہے آپ فرماتے ہیں.ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے یعنی لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ ہمارا بچہ فلاں چاند میں پیدا ہوا.اب دو سال کا ہو گیا ہے اب چار سال کا ہو گیا فرمایا لوگوں کو تو اس بات کا فکر ہوتا ہے کہ ان کا بچہ کتنا بڑھا مگر ہمیں اس بات کا فکر رہتا ہے کہ قرآن کتنا بڑھا اس کا علم لوگوں میں وسیع ہوا یا کم ہو گیا.پس یاد رکھو قرآن ہماری جان، ہماری غذا اور ہماری روحانی ترقی کا واحد ذریعہ ہے.یہاں مختلف سکولوں کے طالب علم رہتے ہیں جن میں اگر پرائیویٹ طلباء بھی شامل کرلئے جائیں تو سات آٹھ سو کے قریب ان کی تعداد ہو جاتی ہے کیونکہ سو ڈیڑھ سو پرائیویٹ طالب علم ہوتے ہیں.اگر سکولوں
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء کے اساتذہ بجائے رخنہ ڈالنے کے لڑکوں کو درس میں لے آیا کریں تو تعداد میں کافی وسعت ہو سکتی ہے.وہ کہنے کو تو یہ کہتے ہیں کہ ہم رخنہ نہیں ڈالتے لیکن میں ان سے پوچھتا ہوں کہ اگر انہوں نے رختہ نہیں ڈالا تو کیا وجہ ہے کہ طالب علم درسوں میں شامل نہیں ہوتے.ہیڈ ماسٹروں کا طالب علموں پر اثر ہوتا ہے چاہے وہ بورڈ ر ہوں یا غیر بورڈر.بورڈروں کی تعداد ہی اگر لی جائے تو دوسو کے قریب وہی طالب علم ہوں گے.اور اگر ہیڈ ماسٹر اور اساتذہ بورڈروں کے ساتھ ہی دوسرے طالب علموں پر بھی اثر ڈالیں تو چار پانچ سو طالب علم شامل ہو سکتے ہیں.اسی طرح لنگر والوں کی رپورٹ ہوتی ہے کہ اڑہائی تین سو آدمی روزانہ کھانا کھاتے ہیں اگر لنگر والوں کے دل میں دین کی تڑپ ہوتی تو وہ ان لوگوں سے کہتے کہ یہ روٹی تو آپ لوگوں کو گھر میں بھی مل سکتی ہے جس روٹی کیلئے آپ یہاں آئے ہیں وہ عصر کے بعد مسجد میں تقسیم ہوتی ہے آپ لوگوں نے اگر یہ کھانا کھایا ہے تو اس اصل کھانے میں بھی شریک ہوں.بلکہ اب تو تعلیم و تربیت کیلئے مستقل مبلغ اور مولوی صاحب مقرر کئے جاچکے ہیں.انہیں بھی یہ توفیق نہ ملی کہ وہ اپنے درس کے بعد لوگوں سے کہہ دیا کریں کہ ایک او درس بھی ہوتا ہے آپ لوگ اس میں بھی شریک ہوا کریں.وہ سارے قادیان کی تربیت کیلئے مقرر کئے گئے ہیں.ان کا فرض تھا کہ وہ گھر گھر جاتے اور محلوں میں وعظ کرتے کہ دلوں سے قرآن کی محبت اُٹھ رہی ہے آپ لوگ چلیں اور درس میں شامل ہوں.معلوم ہوتا ہے انہوں نے بھی یہی کافی سمجھ لیا ہے کہ میرا جو درس ہو جاتا ہے پھر اور کسی درس میں شامل ہونے کی کسی کو کیا ضرورت ہے.اس کی تو وہی مثال ہوئی جس پر ہم ہنسا کرتے ہیں کہ کوئی پنڈت علی الصبح نہانے کیلئے دریا کی طرف جا رہا تھا.چونکہ سخت سردی تھی اس لئے وہ حیران تھا کہ کیونکر نہائے.اتنے میں اس نے دیکھا کہ ایک اور پنڈت دریا کی طرف سے اشنان کر کے واپس آرہا ہے.اس نے پوچھا کہ کس طرح اشنان کیا' سردی بڑی سخت ہے.وہ کہنے لگا کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کروں.پانی میں نہیں گودا جاتا تھا، آخر میں نے ایک کنکر اٹھاکر دریا میں پھینک دیا اور کہا ”تو را اشنان سو مورا اشنان" یعنی جا کنکر تیرا نہانا میرا نہانا ہو گیا.دوسرے نے سو کہا پھر یہ تو بڑی آسان بات ہے.اس نے وہیں اس کو مخاطب کرکے کہہ دیا.” تو را اشنان مورا اشنان" اور گھر واپس آگیا.یہ طرز عمل کتنا دردناک ہے کہ ہر شخص سمجھ لے میرا جو درس ہو گیا اب کسی اور کے درس کی کیا ضرورت ہے.مجھ سے بڑھ کر اور کون سا سمجھ دار
خطبات محمود ۲۰۷ سال ۱۹۳۳ء ہو سکتا.ہے.یہ نہایت ہی افسوسناک طریق ہے اس سے آہستہ آہستہ قلب پر زنگ لگ جاتا ہے اور بہت سے گناہ سرزد ہونے لگتے ہیں کیونکہ خدا کے کلام کی بے حرمتی معمولی چیز نہیں.میں سمجھتا ہوں قرآن مجید کے سمجھنے اور سننے کی طرف اگر بڑے لوگ توجہ کرتے تو ان کے بچوں میں کئی قسم کے عیب پیدا نہ ہوتے.کئی فتنے کئی بدیاں کئی برائیاں اور بے حیائیاں ایسی ہیں جن سے وہ بیچ سکتے تھے اگر وہ قرآن سننے آتے اور بچوں کو بھی ہمراہ لاتے.کیونکہ قرآن سنا ہوا ضائع نہیں جاتا بلکہ اپنا اثر دکھاتا ہے.مجھے یاد ہے جب میں درس دیا کرتا تھا تو دو ہندو بازار سے باقاعدہ آکر شامل ہوا کرتے تھے.افسوس ہے ہندوؤں میں بھی اتنی نیکی ہو کہ وہ قرآن سننے کیلئے آجائیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قائم کردہ جماعت کے لوگوں میں درد پیدا نہ ہو.میں سمجھتا ہوں شاید میری بیماری کا لمبا ہونا بھی تمہاری سزا کیلئے ہو کیونکہ تم قرآن ایک آدمی کیلئے سنتے تھے.خدا تعالٰی نے کہا اچھا جب تم آدمی کیلئے قرآن سنتے ہو تو ہم اس آدمی کو توفیق ہی نہیں دیتے کہ وہ تمہیں قرآن سنا سکے.قرآن کسی انسان کی خاطر نہیں سننا چاہیے بلکہ قرآن قرآن کی خاطر سننا چاہیے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بڑھ کر قرآن جاننے والا اور کون ہوگا.مگر کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد ہم نے قرآن کا پڑھنا چھوڑ دیا.پھر حضرت خلیفۃ المسیح الاول کو قرآن سے کتنی محبت تھی.مگر کیا ان کی وفات کے بعد ہم نے قرآن کا پڑھنا چھوڑ دیا.اس وقت بھی قرآن دنیا کی ہدایت کا ذریعہ تھا، اب بھی ہے.اور جب پھر دنیا میں شرارت پھیل جائے گی، ظلمت غالب آجائے گی اور ایک نئے موعود کی ضرورت ہوگی اس وقت بھی قرآن ہی لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ ہوگا.آدمی مٹ جائیں گے، مر جائیں گے، فنا ہو جائیں گے ، بھلا دیئے جائیں گے مگر ایک کتاب ہے جو زندہ رہے گی جو نہیں بھلائی جائے گی اور وہ قرآن ہے اس سے محبت کرو تا دین سے تمہیں محبت ہو اور اللہ تعالیٰ کا نور حاصل کر سکو.اللہ تعالیٰ کے عرفان کا ایک چھینٹا جب کسی وقت پڑ جاتا ہے تو آدمی کی زندگی سنور جاتی ہے.عرفان بھادوں کی بارش کی طرح برستا ہے، کسی پر پڑتا ہے اور کوئی محروم رہ جاتا ہے.جس پر وہ چھینٹا پڑ جاتا ہے وہ عارف بن جاتا ہے.اس لئے جو لوگ اس چھینٹے سے حصہ لینے کیلئے باہر نکلتے رہتے ہیں کبھی نہ کبھی ان پر چھینٹا پڑ جاتا ہے.لیکن وہ جو اندر بیٹھے رہیں وہ اس نور سے اس عرفان کے چھینٹے سے محروم رہتے ہیں.پس آدمیوں پر نظر ڈالنا چھوڑ دو اور نہ صرف خود
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء قرآن پڑھو اور سنو بلکہ دوسروں کو بھی سناؤ اور پڑھاؤ.اگر مجھے یہی نظر آجاتا کہ قادیان کے گھر گھر میں درس ہوتا ہے تو گو میں پھر بھی مسجد اقصیٰ کے درس میں شامل نہ ہونے کو جائز نہ سمجھتا مگر میں سمجھتا کہ قرآن پڑھنے میں کمی نہیں آئی.لیکن اب نہ تو گھروں میں درس ہوتے ہے.ہیں اور نہ اپنے طور پر پڑھا جاتا ہے، نہ ہی اس میں شامل ہونے کی کوشش کی جاتی حالانکہ خود قرآن پڑھ کر اتنا عرفان حاصل نہیں ہوتا جتنا سن کر یا دوسرے کو پڑھا کر حاصل ہوتا ہے.پس اس غفلت سے توبہ کرو اور آئندہ کیلئے قرآن کے درس میں شامل ہو کر اسے وسیع کردو تاکہ اللہ تعالٰی کے فضل سے ہمیشہ تم میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں جو قرآن سننے والے، پڑھنے والے، پڑھانے والے اور قرآن مجید سے برکات اور فیوض حاصل کرنے والے ہوں کیونکہ یہی وہ چیز ہے جو انسانی روح کو ہمیشہ زندہ رکھتی ہے.الفضل ۱۴ - ستمبر ۱۹۳۳ء) ه بخارى كتاب مواقيت الصلوة باب من دخل ليؤم الناس فجاء الامام الاول فتأخر الاول أولم يتأخر جازت صلوته ه ترمذی ابواب الصلوة باب ماجاء في الجمع بين الصلوتين
خطبات محمود ۲۰۹ ۲۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظموں کے ریکارڈ کے متعلق ضروری اعلان (فرموده ۱۵ - ستمبر ۱۹۳۳) سال ۶۱۹۳۳ تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- نظمیں ہفتہ ایک واقعہ میرے علم میں لایا گیا ہے.اور وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعض نظموں کو گراموفون کے ریکارڈ میں بھرا گیا ہے.میں پالم پور میں تھا کہ مجھ سے بعض نوجوانوں نے سوال کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ریکارڈ میں بھرنا جائز ہے یا نہیں.میں نے انہیں جواب دیا تھا کہ ریکارڈ اپنی ذات میں کوئی ایسی چیز نہیں جسے ہم جائز یا ناجائز کہہ سکیں.ریکارڈ جائز بھی ہو سکتا ہے اور ناجائز بھی.اس میں ثواب کی باتیں بھی ہو سکتی ہیں اور عذاب کی بھی.پس ریکارڈ اپنی ذات میں ایسی چیز نہیں کہ اس کے جائز یا ناجائز ہونے کا سوال پیدا ہو.سوال یہ ہے کہ نظمیں اس میں کس طرح بھری ! گئی ہیں.اس کے بعد جب میں پالم پور سے آتے ہی لاہور چلا گیا تو میرے سامنے یہ سوال پیش کیا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دو نظمیں ریکارڈ میں لائی گئی ہیں.کیا ہمیں وہ ریکارڈ لینے چاہئیں یا نہیں.اُس وقت بھی میں نے یہی جواب دیا کہ ریکارڈ اپنی ذات میں کوئی چیز نہیں.سوال یہ ہے کہ اس میں نظمیں کس طرح بھری گئی ہیں.اگر راگ کے وزنوں میں بھری گئی ہیں تو میں اسے ناپسند کرتا ہوں.لیکن اگر معمولی خوش الحانی کے ساتھ شاعری کے اوزان میں قطع و برید کئے بغیر ایسا ہی جیسا کہ ہم عام طور پر خوش الحانی سے سن
خطبات محمود ۲۱۰ سال ۱۹۳۳ تو لیتے ہیں بھری گئی ہیں تو مفید بھی ہو سکتی ہیں.اور جن لوگوں کی مالی حالت ایسی ہو کہ ان کا ایسے ریکارڈ خریدنا اسراف میں داخل نہ ہو وہ خرید بھی سکتے ہیں.اور وقت ضائع نہ ہونے کی عد تک سن بھی سکتے ہیں.حضرت مسیح موعود نے نظمیں لکھی ہی اس لئے ہیں کہ لوگ پڑھیں اور سنیں، نہ کہ کتابوں میں بند کر کے رکھ دینے کیلئے.اس کے بعد میں جب قادیان آیا تو چند دن بعد ایک صاحب نے مجھے ایک لمبا خط لکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دو نظمیں طبلے اور مزامیر وغیرہ کے ساتھ ریکارڈ میں لائی گئی ہیں.اور بعض نوجوان پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ ہمیں چاہیئے ایسے ریکارڈ خریدیں اور گھروں میں رکھیں.لکھنے والا نوجوان ایک مولوی ہے اور تعلیم یافتہ ہے.مگر باوجود اس کے اس نے بڑی گھبراہٹ ظاہر کی اور جس کا نام اس نے لکھا ہے، وہ دین سے بالکل ناواقف اور جماعتی نظام کے لحاظ سے بھی زیر عتاب ہے.اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ ایسے شخص کے پروپیگنڈا کی کیا وقعت ہو سکتی ہے.اور اس طرح گھبرانے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے.میں نے ابھی تک وہ ریکارڈ نہیں سنا اور اس لئے نہیں کہہ سکتا کہ ان رپورٹوں میں سے کچی کون سی ہے.آیا ریکارڈ مزامیر کے ساتھ بھرا گیا ہے.راگ کے وزنوں پر ہے یا معمولی خوش الحانی کے ساتھ.دو تین روز ہوئے ایک صاحب نے مجھے خط لکھا تھا کہ میں نے کوشش سے ایسے ریکارڈ تیار کرائے ہیں جو میں آپ کو سنانا چاہتا ہوں.اگر یہ مبالغہ نہیں اور ان کے تیار کرانے میں قادیان کے کسی شخص کا حصہ ہے تو جیسا کہ میں نے شروع میں بتایا ہے، ریکارڈ اپنی ذات میں تو کوئی بُری چیز نہیں.بلکہ اس کے اخراجات جو اسراف کی حد تک پہنچتے ہوں، اس کا سننا جو وقت ضائع کرنے کی حد تک پہنچتا ہو اور اس میں ایسی چیز جو اپنی ذات میں ناپسندیدہ ہو بھروانا اسے بُرا بنادیتی ہے.اور چونکہ میں نے یہ ریکارڈ نہیں سنا اس لئے نہیں کہہ سکتا کہ کیسا ہے.لیکن اعلان کرتا ہوں کہ اگر یہ عام خوش الحانی کے ساتھ جیسا کہ ہمارے بعض بچے پڑھتے ہیں، بھرا گیا ہے تو اگر اس کا خریدنا اسراف کی حد تک نہیں پہنچتا اور اس کا سننا وقت ضائع کرنے تک نہیں تو یہ جائز ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے اپنی ایک نظم مولوی عبدالکریم صاحب سے خود فونوگراف میں بھرائی تھی.اُس وقت فونوگراف ہوتے تھے، آج کل گراموفون ہیں.آپ نے اس غرض سے ایک نظم تیار بھی کی.جس کا ایک شعر یہ ہے.
PII سال ۱۹۳۳ء خطبات محمود آواز آرہی ہے یہ فونوگراف سے ڈھونڈو خدا کو دل سے نہ لاف و گزاف سے پس اگر یہ ریکارڈ ایسا ہی ہے تو اس پر ہمارا کوئی اعتراض نہیں.اور اگر کسی کے پاس گراموفون ہو اور خریدنے کی طاقت رکھتا ہو تو وہ بیشک اسے خریدے.لیکن اگر یہ راگ کے اوزان میں ہے اور مزامیر کے ساتھ ہے تو یہ ناپسندیدہ ہے.اس سے وہ غرض جو ان نظموں کی ہے یعنی خشیت الہی پیدا کرنا فوت ہو جاتی ہے.اس لئے ایسے ریکارڈ کو خریدنا یا اس میں مدد دینا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام کو بُرے طریق پر استعمال کرنا ہے.اور میں جماعت کو ہدایت کرتا ہوں کہ کوئی ایسا ریکارڈ ہرگز نہ خریدے دوسرے لوگ تو انہیں خریدیں گے نہیں.اور اگر ہم بھی نہ خریدیں تو خود بخود ان کا رواج بند ہو جائے گا.اور آئندہ کسی کمپنی کو ایسا کرنے کی جرات نہ ہوگی.اس رنگ میں ریکارڈ تیار ہونا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام کی ہتک ہے.اور ہر احمدی کا فرض ہے کہ اس کے خلاف پروٹسٹ کرے.اس پر بعض کہتے ہیں کہ یوں بھی تم گراموفون کے ریکارڈ سنتے ہو.جن میں ڈھولک وغیرہ ہوتی ہے تو اس کا کیا حرج ہے.میں انہیں کہوں گا کہ تم تھئیٹر THEATRE) اور بعض اوقات رنڈیوں کا ناچ بھی دیکھ لیتے ہو.لیکن کیا تم کبھی پسند کرسکتے ہو کہ تمہاری بیوی بھی کسی مجلس میں جاکر ناچے.اگر تم اس کیلئے تیار نہیں ہو تو ایسا کہنے والے سے میں کہوں گا کہ اے بے حیا! حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام کیلئے تیرے دل میں اتنی بھی عزت نہیں.جتنی اپنی بیوی کے متعلق ہے.جن لوگوں میں یہ چیزیں رائج ہیں وہ کبھی شریف اور اعلیٰ اخلاق والے نہیں سمجھے گئے.ڈھول اور باجہ وغیرہ بجانے اور گانے والے کے گروہ میں شمار نہیں ہو سکتے خواہ ان میں سے کوئی دس ہزار روپیہ تنخواہ پانے والا ہی کیوں نہ ہو.اگر یہ باتیں ہتک کا موجب نہیں تو ان کے اختیار کرنے والوں کو کیوں اتنا ذلیل سمجھا جاتا ہے.یورپ میں جو اس وقت موسیقی پرستی میں انتہا تک پہنچ گیا ہے.وہاں بھی اس وقت تک یہی حال ہے کہ ناچنے اور گانے والی لڑکیاں شرفاء کے ساتھ شادی نہیں کر سکتیں.حتی کہ اگر کوئی نوجوان ایسا کرے تو تمام خاندان اس کا بائیکاٹ کردیتا ہے.اگر یہ افعال اپنی ذات میں پسندیدہ ہوتے تو میں نہیں سمجھتا کہ ان کا ارتکاب کرنے والوں کو سوسائٹی میں کیوں عزت نہ ملتی.اگر واقعی قوالی سے انسان کے اندر نیک خیال پیدا ہوتے ہیں تو قوالوں کو اولیاء اللہ میں بھی معززین
خطبات محمود PIY ۴۱۹۳۳ شامل ہونا چاہیے تھا.مگر نہیں، انہیں میراثی سمجھا جاتا ہے.ذرا اچھی قسم کا میراثی سی.لیکن میراثی میراثی ہی ہے خواہ وہ اعلیٰ قسم کا ہو یا ادنیٰ قسم کا بہر حال ادنیٰ لوگوں میں ہی سمجھا جاتا ہے.گزشتہ تیرہ سو سال میں ایسی متعدد مثالیں ملیں گی کہ بڑے بڑے بادشاہوں نے اپنی لڑکیاں بھوکے صوفیاء کو دے دیں.مگر مجھے کوئی ایسی مثال یاد نہیں کہ کسی شریف انسان نے اپنی لڑکی دس ہزار ماہوار آمد رکھنے والے قوال کو دے دی ہو.ممکن ہے ایسے کمینہ خیالات کا کوئی بادشاہ ہوا ہو لیکن جہاں تک میرا مطالعہ ہے ایسا کسی نے نہیں کیا.تیس روپیہ ماہوار آمد رکھنے والے صوفی کو تو لڑکی دے دی مگر کسی نے آج تک کسی بڑے سے بڑے قوال کو.نہیں کہا کہ جب تم گاتے ہو تو لوگوں میں روحانیت پیدا ہو جاتی ہے اور خداتعالی مل جاتا ہے.تم بڑے بزرگ ہو میں تمہیں اپنی بیٹی پیش کرتا ہوں کہ اسے خادمہ سمجھو.کیا وجہ ہے کہ صوفیاء والا مقام قوالوں کو نہیں دیا جاتا.حالانکہ صوفی وہ ہوتا ہے جو خود خدا رسیدہ ہو.مگر قوال کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ خدا تک پہنچاتا ہے.اگر فطرت کے اندر اس کا عیب مخفی نہیں تو اس کی کیا وجہ ہے کہ کسی قوال کو کسی روحانی مقام پر نہیں سمجھا جاتا.میں اپنی بچیوں کیلئے جو استانیاں رکھتا ہوں.ان میں سے ایک معلوم نہیں کون سی تھی مگر ایک دن ایک استانی ذکر کر رہی تھی کہ ہمارے ہاں عام لڑکیاں ناچتی ہیں.اور اس میں کوئی حرج نہیں.میں نے یہ موقع ٹال کر دو تین روز بعد اس رنگ میں کہ وہ سمجھ جائے اسے کہا آپ کی قوم میں ایک بہت بڑا ظلم ہوتا ہے.اور وہ یہ کہ شرفاء ناچنے والی لڑکیوں سے شادیاں نہیں کرتے حالانکہ پہ پیشہ تو اچھا ہے.سب لڑکیاں ہی ناچتی ہیں.کسی نے اس کے عوض میں پیسے لے لئے کسی نے شوقیہ ایسا کرلیا.وہ کہنے لگی ناچنے والیوں کو ذلیل ضرور سمجھا جاتا ہے.اس پر میں نے کہا کہ یہ یا تو آپ کی سوسائٹی کا نقص ہے کہ ایک اچھے پیشہ کو بُرا سمجھتی ہے یا آپ کے فیصلہ میں نقص ہے کہ ایک بُرے کام کو اچھا قرار دیا جاتا ہے تو سوسائٹی کا متفقہ فیصلہ ہے کہ یہ پیشہ ذلیل ہے اور باوجود اس کی بہت بڑی تعریف کرنے کے بھی ان لوگوں سے جو اس پیشہ کو اختیار کرتے ہیں شرفاء تعلقات کو اچھا نہیں سمجھتے.باقی رہا یہ امر کہ ایسی مثالیں بھی مل سکتی ہیں کہ امراء نے ناچنے والیوں سے شادیاں کرلیں.تو یاد رکھنا چاہیے کہ سوال عام ہے.مثالیں تو ہر بات کی مل جاتی ہیں.پس اگر یہ نظمیں ڈھولک وغیرہ کے ساتھ بھروائی گئی ہیں تو جس نے کہا کہ میں نے کوشش سے ایسا کرایا ہے میں اسے کہوں گا کہ تو نے
خطبات محمود ٣١٣٠ سال ۱۹۳۳ء بڑی بے حیائی کی.اگر تو اپنی ماں، بہن یا بیوی کو ڈھولک کے ساتھ گانے کیلئے تیار کرتا.اور اس کا گانا لوگوں کو سناتا تو یہ اتنا معیوب نہ ہوتا جتنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام کا مزامیر کے ساتھ گانا تیار کرانا.اور جماعت کا فرض ہے کہ اس کے خلاف گورنمنٹ کے پاس سخت پروٹسٹ کرے کہ ایسے ریکارڈ کو ضبط کیا جائے.کیونکہ اگر یہ رستہ کھل گیا تو کل کوئی تھئیٹر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نقل کرنے کیلئے تیار ہو جائے گا.عام ریکارڈوں میں طبلہ وغیرہ سن لینا تو ایسا ہی ہے جیسا کوئی پاخانہ میں چلا جاتا ہے.اب کوئی کہے کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر پاخانے میں لٹکادی ہے.تو ہم اس کے خلاف سخت اظہار ناپسندیدگی کریں گے یا نہیں؟ بعض چیزوں کی غفلت کی حالت میں اجازت ہو سکتی ہے جیسے کھیل ہے.عام لوگوں کیلئے کھیلنے کی اجازت تو ہے مگر یہ کبھی نہیں ہوا کہ خدا کا کوئی نبی کرکٹ یا فٹ بال کی الیون میں ملازم ہو گیا ہو.کسی بات کا جائز ہونا اور بات ہے مگر اس کا مقام ادنیٰ ہونا اور بات ہے.اللہ تعالیٰ کے کلام کو اعلیٰ مقام پر رکھنا مومن کا فرض ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظموں کا ڈھولک وغیرہ سے گانا ایسا ہی ہے جیسے کوئی قرآن شریف کو زمین پر رکھ دے.بظاہر تو اس میں حرج معلوم نہیں ہوتا مگر ایسا کرنے والے کے دل پر زنگ لگ جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کا کلام اس لئے ہوتا ہے کہ اسے پڑھنے سے دل میں خشیت الہی پیدا ہو.مگر ڈھولک وغیرہ طرب پیدا کرنے والی چیزیں ہیں جو خشیت کے منافی ہیں.ابن سیرین سے کسی نے بیان کیا کہ فلاں شخص کو قرآن پڑھنے پر حال آجاتا ہے.آپ نے کہا کہ اس کو کسی پتلی دیوار پر بٹھا کر قرآن پڑھایا جائے پھر سارا قرآن پڑھنے پر بھی اگر اسے حال آجائے تو کہنا.بعض لوگوں کی جنون کی حالت ہو جاتی ہے.ایسے لوگ ممکن ہے ایسی دیوار پر جابیٹھیں.مگر ایسے لوگ پہلی صدیوں میں نہیں تھے بعد میں ہوئے ہیں.جن کو عادت ہو جائے انہیں خواہ مینار پر بٹھا دو پھر بھی یہی حالت ہو جائے گی.مگر عام طور پر یہ حالت نہیں ہوتی.اس سے بہر حال یہ پتہ لگتا ہے کہ صحابہ کرام اور تابعین کا اس کے متعلق کیا خیال تھا.حالانکہ قرآن کریم کو عمدگی سے پڑھنے کا حکم ہے.چنانچہ فرمایا.وَ رَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلاً له - عمر خوش الحانی علیحدہ چیز ہے اور راگ علیحدہ راگ میں الفاظ کو مد نظر نہیں رکھا جاتا بلکہ نر اور تال کو دیکھا جاتا ہے.مگر خوش الحانی میں صرف آواز کا ہی خیال ہوتا ہے.الفاظ کو نہیں بگاڑا جاتا.اور ڈھولک تو بالکل ہی اور چیز ہے.اس کے سننے سے اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں پیدا نہیں
خطبات محمود ۲۱ ١٩٣٣ء ہو سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام سے مقصود دنیا کی لذت حاصل کرنا نہیں.آپ نے تو فرمایا ہے کہ ہمارا شعر و شاعری سے کوئی تعلق نہیں.یہ محض اس لئے ہے کہ شاید کوئی اس ذریعہ سے حق کو پالے.لیکن جب گراموفون یا ہارمونیم یا ڈھولک کے ساتھ اسے شروع کر دیا جائے تو پھر یہ کلام میراثیوں اور کنجریوں کیلئے رہ جائے گا.شرفاء اس کا پڑھنا اور سننا پسند نہیں کریں گے.پس اگر معمولی خوش الحانی سے یہ ریکارڈ بھرے گئے ہیں تو اجازت ہے کہ جماعت کے وہ لوگ جنہیں وسعت ہو، بیشک خریدیں.لیکن اگر راگ یا ڈھولک وغیرہ اور مزامیر ہیں تو پھر صدر انجمن احمدیہ کو بھی چاہیئے کہ پروٹسٹ کرے اور اس کمپنی کے پاس بھی پروٹسٹ کرے.نہ صرف یہ کہ ان ریکارڈوں کو احمدی خریدیں نہیں بلکہ اس کے خلاف سخت پروٹسٹ کریں.کیونکہ ایسے رستے کھلنے سے بات کہیں سے کہیں پہنچ جائے گی.مجھے رپورٹ دینے والے نے لکھا ہے کہ اس شخص کو جب کہا گیا کہ مفتیوں نے ریکارڈ سننے کے خلاف فتویٰ دیا ہوا ہے.تو اس نے کہا کہ مفتیوں کا کیا ہے.وہ ان باتوں کو کیا جانیں.بے شک ان کا فتویٰ ابھی نامکمل ہے اور اس پر میں نے اپنا آخری فیصلہ نہیں دیا.لیکن ہر بے حیا کا کام نہیں کہ مفتیوں کے فتاوی پر تنقید کرے.ڈاکٹر کے نسخہ پر ڈاکٹر ہی کسی رائے کا اظہار کر سکتا ہے.ماہر فن کے کام پر ماہر فن کو ہی کسی اعتراض کا حق ہو سکتا ہے اگر ہر شخص ڈاکٹر کے نسخہ کو رد کرنے لگ جائے تو دنیا میں موت ہی موت پھیل جائے.بے شک ڈاکٹروں سے علاج کرانے پر بھی لوگ مرتے ہیں.مگر پھر بھی اصل یہی ہے کہ جس کو کسی معاملہ میں کمال ہو، اس کی رائے کو وقعت دی جاتی ہے یہ نہیں کہ جو احمق اٹھے اور اس کے جی میں جو آئے بکتا جائے.پس میں امور عامہ کو ہدایت کرتا ہوں کہ اس معاملہ کی تحقیق کرے اور اگر ثابت ہو کہ یہ ریکارڈ ڈھولک اور مزامیر کے ساتھ بھرا گیا ہے تو ایسے ذرائع اختیار کرے کہ اس کا انسداد ہو جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود اپنی تصویر کھنچوائی.لیکن جب ایک کارڈ آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا جس پر آپ کی تصویر تھی، تو آپ نے فرمایا کہ اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی.اور جماعت کو ہدایت فرمائی کہ کوئی شخص ایسے کارڈ نہ خریدے.نتیجہ یہ ہوا کہ آئندہ کسی نے ایسا کرنے کی جرات نہ کی.حالانکہ کارڈ پر تصویر چھاپنا ایسی بے حرمتی نہیں جیسی کہ ڈھولک سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظمیں گانا.پیس امور عامہ کو چاہیے کہ تحقیقات کرے
خطبات محمود ۲۱۵ سال ۱۹۳۳ء اور جماعت کے متعلق نگرانی کی جائے.اگر کوئی ایسا ریکارڈ رکھے تو مجھ سے پوچھے بغیر اس کا فوراً بائیکاٹ کر دیا جائے اور مجھے صرف اطلاع دے دی جائے.اور امور عامہ کو چاہیے کہ باہر کی جماعتوں کو بھی لکھے کہ اس کے خلاف پروٹسٹ کریں.کیونکہ یہ ایسی بے حرمتی ہے جس کی ہم قطعاً اجازت نہیں دیں گے.کیا تبلیغ کیلئے اس کے سوا اب اور کوئی رستہ نہیں رہ گیا.بے شک اس طرح بھی " حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کلام دوسروں تک پہنچتا ہے مگر سوچنا چاہیے کس ذریعہ جب ہم چوہڑوں کے ہاتھ میں جو پاخانہ اور نجاست سے آلودہ ہوں، قرآن دے کر دوسروں تک نہیں پہنچاتے تو پھر ایک گندی اور گنہگار زبان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام کو دوسروں تک پہنچانا کس طرح گوارا کر سکتے ہیں.یہ تبلیغ نہیں بلکہ تذلیل ہے.یہ عزت کرسکتے نہیں بلکہ ہتک ہے.پس بیرونی جماعتوں کو بھی اطلاع دی جائے کہ وہ پروٹسٹ کریں.آگے یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ کوئی ایکشن لے یا نہ لے.مگر ہمارے لئے آئینی پروٹسٹ کا جو رستہ کھلا ہے اس پر ضرور چلنا چاہیئے.ہاں اگر کوئی ایسا ریکارڈ ہو جس میں صرف خوش الحانی نظمیں بھری گئی ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں.لاکھوں کی جماعت میں ہزاروں لوگوں کے پاس گراموفون ہوں گے.اور ان میں سے جس کے پاس وقت ہو اور اس قدر وسعت ہو کہ اس کا ایسے ریکارڈ خریدنا اسراف میں داخل نہ ہو وہ ضرور خریدیں گے.لیکن گناہ سے ملوث کر کے ذلیل طریق پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام کو پیش کرنے کی ہم کبھی اجازت نہیں دے سکتے.المزمل : ۵ الفضل ۲۱ - ستمبر ۱۹۳۳ء)
خطبات محمود ۲۴ تعلق باللہ و شفقت على خلق اللہ کی لطیف تشریح (فرموده ۲۹ - ستمبر ۱۹۳۳ء) سال ۱۹۳۳ء تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- اللہ تعالیٰ نے جہاں انسان کو اس غرض کیلئے پیدا کیا ہے کہ وہ صفات الہیہ کا مظہر ہو وہاں اس مقصد کے حصول کیلئے اس نے کچھ ذرائع بھی مقرر کر دیئے ہیں.کچھ تو ایسے ذرائع ہیں جو انسان کی نگاہ کو خالص اللہ تعالیٰ ہی کیلئے کر دیتے ہیں جیسا کہ نماز ہے، روزہ ہے.اور کچھ ایسے ہیں جو اس کی توجہ کو بندوں کی طرف پھیر دیتے ہیں.کیونکہ اللہ تعالی کی دو قسم کی جلوہ گریاں ہیں.اس کی ایک صفات تنزیہی کہلاتی ہے جو اس کو منزہ اور پاک ٹھراتی ہیں ان تمام قسم کی کثافتوں سے جو مادیات میں پائی جاتی ہیں، مخلوقات میں نظر آتی ہیں.اور ایک ایسا جلوہ ہے جسے وہ تنزل اختیار کر کے ظاہر کرتا ہے.یہ صفات اس کی صفات تشبیہ کہلاتی ہیں.یعنی ایسی صفات جو مخلوقات کی صفات سے مشابہہ نظر آتی ہیں.گویا اس کے یہ جلوے اس کی مخلوق کے ذریعہ نظر آتے ہیں.دنیا کا ذرہ ذرہ قطع نظر اس سے کہ بُرا ہو یا اچھا، قطع نظر اس سے کہ نجس ہو یا پاک، قطع نظر اس سے کہ سکھ دینے والا ہو یا دکھ دینے والا قطع نظر اس سے کہ غضب ظاہر کرنے والا ہو یا محبت ظاہر کرنے والا اس میں اللہ تعالیٰ کا جلوہ نظر آتا ہے اور ہر دیکھنے والے کو نظر آتا ہے.پس جہاں اس نے اپنی صفات تنزیہ کے سمجھنے کیلئے ایسی عبادتیں مقرر کی ہیں جو مخلوقات کی طرف سے انسان کو لا پرواہ کر کے اس کی نظر کو آسمان کی طرف بلند کر دیتی ہیں جیسا
خطبات محمود ۲۱۷ سال ۱۹۳۳ء کہ نماز ہے، روزہ ہے، حج ہے، وہاں اس نے اپنی صفاتِ تشبیه وکھانے کیلئے اور اپنی صورت تنزلیہ کو ظاہر کرنے کیلئے کچھ ایسے احکام بھی دیتے ہیں جن میں انسان کی نظر بندوں کی طرف جاتی ہے.تب وہ اللہ تعالیٰ کی ان صفات کو دیکھتا ہے جو اس کے بندوں کے ذریعہ ظاہر ہوا کرتی ہیں.اور یہی صورت مکمل ہوتی ہے.وگرنہ ان میں سے کوئی ایک پہلو اپنی علیحدہ صورت میں مکمل نہیں کہلا سکتا.جولوگ صفات تشبیہ دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں صفات تنزیمہ کو نہیں دیکھتے یا انہیں نہیں جانتے.وہ لوگ غلطی سے وحدت الوجود کے مرض میں مبتلاء ہو جاتے ہیں.ہمہ اوستی کہلانے لگ جاتے ہیں.وہ پیالے کے اندر کے شربت کو تو بھول جاتے ہیں مگر پیالے کو حقیقی مقصود قرار دے لیتے ہیں.لیکن وہ لوگ جو صفاتِ تشبیه سے نظر ہٹا لیتے ہیں اور صفات تنزیہ کی طرف نظر رکھتے ہیں، وہ بھی دھوکا میں پڑ جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو ایسا محدود قرار دینے لگ جاتے ہیں جس سے خدا کی خدائی ہی باطل ہو جاتی ہے.ایک علیحدہ عرش پر بیٹھے ہوئے دنیا وَمَافِیهَا سے الگ تھلگ خدا کو ایسی محدود صورت میں پیش کرتے ہیں جس کو قبول کرنے کیلئے انسانی عقل تیار نہیں ہو سکتی.ایسے لوگ آہستہ آہستہ دعا کی قبولیت کا انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں ایک قانون ہے جو خدا نے جاری کردیا، اس کے مطابق چاہے کوئی مرے یا جیئے ، دعا اس میں کچھ نہیں کر سکتی.اور کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو کہ قانون کیا؟ ایسی منزہ ہستی کو قانون جاری کرنے کی کیا ضرورت ہے.بندے آپ ہی آپ پیدا ہوئے اور آپ ہی آپ ایک وقت مقررہ کے بعد دنیا سے چلے جاتے ہیں، خدا کو دنیا سے کیا واسطہ - اسی قسم کے خیالات ترقی کرتے کرتے بعض لوگوں کو وساوس کی دنیا میں ڈال کر آخر دہریہ بنا دیتے ہیں.مگر کامل مذہب وہی ہے جو خدا تعالیٰ کی ان دونوں قسم کی صفات کو پیش کرتا ہے.وہ ایک طرف تو خدا تعالیٰ کی شان کو ایسی منزہ صورت میں پیش کرتا ہے کہ مخلوق کی عادات اطوار اور شمائل کو خدا تعالیٰ سے علیحدہ ثابت کرتا ہے اور دوسری طرف اس کے چہرے کو دنیا کے ذرہ ذرہ میں اس طرح دکھا دیتا ہے کہ ہر سمجھدار انسان کو یہ یقین ہو جاتا ہے کہ باوجود ایسی منزه شان رکھنے کے وہ دنیا سے غافل نہیں بلکہ دنیا کا ہر ذرہ اس کی شان کو ظاہر کر رہا ہے.یہی کیفیت جب بعض لوگوں کے قلوب پر ایک خاص اثر پیدا کرتی ہے تو وہ خاص خاص کیفیات کے ماتحت اپنے اندر ایک خاص قسم کے روحانی جذبات پیدا ہوتے محسوس کرتے ہیں جنہیں لوگ خدا کو دیکھنے یا خدا کی جلوہ گری کے دیکھنے سے موسوم کیا کرتے ہیں.
خطبات محمود - PIA سال ۱۹۳۳ء حضرت نظام الدین صاحب اولیاء جو کہ دہلی کے بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں اور نظامیہ سلسلہ ان کے نام پر جاری ہے، حضرت معین الدین صاحب چشتی کے خلفاء میں سے تھے.بیان کیا جاتا ہے کہ وہ ایک دن بازار میں سے گزر رہے تھے.بہت سے شاگرد ان کے ساتھ تھے.انہوں نے راستہ میں ایک خوبصورت بچہ دیکھا اور بڑھ کر اسے پیار کیا.شاگردوں نے بھی بڑھ بڑھ کے اسے پیار کرنا شروع کردیا.اور یہ خیال کیا کہ چونکہ ہمارے پیر نے ایسا کیا ہے اس لئے اس میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہوگی.مگر ان کے ایک مقرب شاگرد جو دوسرے تمام شاگردوں سے ممتاز سمجھے جاتے تھے، انہوں نے اس موقع پر بچہ کو پیار نہ کیا بلکہ خاموش کھڑے رہے.بعض تنگ نظروں نے انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھا اور کہا ایسا مقرب شاگرد ہو کر پیر کی متابعت نہیں کرتا.حضرت نظام الدین صاحب آگے بڑھے تو راستہ میں ایک بھڑ بھونجے کی بھٹی نظر آئی.آگ جل رہی تھی.چونکہ بھڑ بھونجے لکڑیاں نہیں جلاتے بلکہ یتے وغیرہ جمع کر لیتے ہیں اور انہی سے بھٹی میں آگ روشن کرتے ہیں، اس لئے بڑے بڑے شعلے ہیں.انہوں نے جونہی آگ کے شعلوں کو دیکھا نہایت اطمینان اسے جھکے اور آگ کے شعلہ کو بوسہ دیا.تب باقی شاگرد تو پیچھے ہٹ گئے مگر وہ جس نے بچہ کو بوسہ نہ دیا تھا، آگے بڑھا اور اس نے بھی آگ کو بوسہ دیا.اور اپنے ساتھیوں سے کہا اب کیوں اسے بوسہ نہیں دیتے.پھر ان سے کہنے لگا اے نادانو! کیا تم نے یہ سمجھا تھا کہ انہوں نے بچہ کو بوسہ دیا.حضرت نظام الدین صاحب کو اس بچہ میں خدا کا جلوہ نظر آیا.اور وہ اُس وقت ایسی محویت میں تھے کہ انہوں نے بوسہ دیا مگر بچے کو نہیں بلکہ انہوں نے خدا کی صنعت کو بوسہ دیا.مجھے اس میں خدا کی صنعت نظر نہ آئی میں نے اسے صرف بچہ ہی سمجھا، اس لئے بوسہ نہ دیا.پھر یہاں آکر انہوں نے آگ میں خدا کی جلوہ گری دیکھی جو مجھے بھی نظر آگئی اور میں نے اسے بوسہ دیا.پس دونوں جگہ خدا کی جلوہ گری تھی.اور وہی اس بات کی مستحق تھی کہ اسے بوسہ دیا جائے.مگر ایک جگہ مجھے نظر نہ آئی اور ایک جگہ نظر آگئی.غرض ایسی کیفیات کہ ہر ذرہ میں خدا نظر آتا ہے روحانی انسانوں پر وارد ہوتی رہتی ہے.مگر وہ کیفیت بھی وارد ہوتی ہے جبکہ دنیا کا ہر ذرہ حقیر نظر آتا ہے.اور ذرہ تو بہت چھوٹی چیز ہے، زمین و آسمان اور اس کا مجموعہ بھی حقیر نظر آتا ہے.جب وہ سمجھتا ہے کہ دنیا میں سوائے خدا کے کچھ نہیں.اور جب بجائے وجود کے عدم میں خدا نظر آنے لگتا ہے.یہ خدا تعالیٰ کی صفات تنزیہہ کا جلوہ ہوتا ہے.کامل انسان.
خطبات محمود ۲۱۹ سال ۱۹۳۳ء کے اندر یہ دونوں چیزیں پائی جاتی ہیں.اگر وہ ایک قسم کی چیزیں دیکھے اور دوسری قسم کی چیزوں کو نہ دیکھے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ کسی ابتلاء میں ڈالا گیا ہے.ورنہ جس شخص کو خدا تعالیٰ اپنا حقیقی قرب عطا کرتا ہے، اسے دونوں لحاظ سے کمال دیتا ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے جہاں نماز روزہ اور حج کی عبادت مقرر کی ہے وہاں اس نے زکوٰۃ صدقات اور بنی نوع انسان سے شفقت و محبت سے پیش آنے کا بھی حکم دیا ہے.ان احکام کی غرض یہ ہے کہ جب انسان یہ کام کرے گا اور خدا کیلئے کرے گا تو خدا کا نور اسے ان چیزوں میں بھی نظر آنے لگے گا.وہ شخص جو خدا کو ایک بادشاہ کی بادشاہت میں دیکھتا ہے جب وہ ایک فقیر کو گا تو اس کی کمزور حالت میں بھی اسے خدا کا جلوہ نظر آجائے گا.گویا ایک بادشاہ کی بادشاہت میں ہی اسے خدا کا جلوہ نظر نہیں آتا بلکہ فقیر کی فقیری میں بھی نظر آتا تندرست کی تندرستی میں ہی اسے خدا کا جلوہ دکھائی نہیں دیتا بلکہ بیمار کی بیماری اور ضعیف کی ضعیفی میں بھی نظر آتا ہے.تب اس کیلئے خدا کی ایک مکمل صورت پیدا ہو جاتی ہے.اور مکمل صورت ہی محبت کرنے کے قابل ہوتی ہے..ہے.انہی احکام کے ماتحت صوفیاء نے اسلام کا خلاصہ یہ بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے محبت ا اور بنی نوع انسان سے شفقت.جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق صفات تنزیہ کو ظاہر کرتا ہے اور بنی نوع انسان سے تعلق صفات تشبیہ کو ظاہر کرتا ہے.اور جب یہ دونوں کامل ہوں تو خدا کی صورت نظر آجاتی ہے.اسی وجہ سے اسلام نے ہمدردی اور شفقت کی تعلیم دنیا کو دی.ہزارہا احکام رسول کریم ﷺ کے ایسے ملتے ہیں جو بظاہر تمدنی احکام نظر آتے ہیں مگر ان میں شفقت عَلَى النَّاسِ پائی جاتی ہے.کتنی چھوٹی چھوٹی باتوں کا رسول کریم ان نے خیال رکھا.آپ نے فرمایا راستوں میں پاخانہ نہ پھروالے کانٹے اور پتھر وغیرہ تکلیف دینے والی چیزیں راستہ میں ہوں تو انہیں ہٹا دو تے.بے کس کی مدد کرو.یہاں تک کہ اگر تم سوار ہو کر کہیں جارہے ہو.اور ایک تھکی ماندی غیر قوم کی عورت دیکھو اور تم اسے منزل مقصود پر پہنچا دو تو یہ تمہارے لئے ثواب کا موجب ہو گا ہے.پھر ایک لقمہ بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو؟ یہ ایک نیکی ہے جس کا تمہیں ثواب ملے گا ہے.اسی طرح فرمایا.جب کسی دوست سے ملو تو خوشی اور بشاشت سے ملوھے.جب کوئی شخص ظلم کرتا ہو تو اسے سے روکو نے.مصیبت زدہ کو دیکھو تو حتی المقدور اس سے ہمدردی کرو ہے - ہمسائے کا
خطبات محمود ۲۲۰ سال ۱۹۳۳ء خیال رکھو ہے.اس طرح باتیں نہ کرو کہ لوگوں کو تمہاری آواز بُری معلوم ہوا.حتی کہ احساسات کا خیال اس قدر رکھا کہ فرمایا.جب مجلس لگی ہو تو دو آدمی ایک دوسرے سے کانوں میں باتیں نہ کریں.شاید کسی کو خیال گزرے کہ وہ اسی کے متعلق باتیں کر رہے ہیں ہے.مسجدوں میں جاؤ تو بُودار چیزیں کھا کر نہ جاؤ اے.دیکھو کس طرح کان، ناک، آنکھ اور ہاتھ وغیرہ کا اسلام نے خیال رکھا ہے.گویا ہر انسانی عضو جو ہے اس کے شر سے لوگوں کو بچانے کی کوشش کی ہے.اور اس کے خیر سے لوگوں کو متمتع کرنے کی تلقین کی ہے.بظاہر یہ تمدنی احکام ہیں مگر یہ خدا تعالٰی تک پہنچانے کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہیں.انہی امور کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے دو سال ہوئے "احمدیہ کور" قائم کرنے کا حکم دیا تھا.مگر مجھے افسوس ہے کہ اب تک محکمہ متعلقہ نے اس حکم کی پورے طور پر تعمیل نہیں کی." احمدیہ کو ر" نام کی تو بنی ہوئی ہے مگر جس رنگ میں میں نے حکم دیا تھا، وہ ابھی پورا نہیں ہوا.میں نے کہا تھا کہ پندرہ سال سے لے کر ۲۵ سال کی عمر تک ہر احمدی کو جبری طور پر اس کور میں بھرتی کیا جائے.مگر اس حکم کی تعمیل جو کچھ میں نے پچھلے دنوں دیکھی وہ یہ تھی کہ کل ۳۵ نوجوان کور میں موجود تھے.حالانکہ قادیان میں سے ہی ایک ہزار نوجوان اس عمر کے اکٹھے کئے جاسکتے تھے.محکمہ متعلقہ نے قادیان سے گل ۳۵ نوجوان جمع کئے ہیں تو یقینا باہر کی جماعتوں کا جو حال جب سکتا ہے وہ ظاہر ہے، بہر حال یہ نقص مجھے نظر آیا.اس کی طرف تو میں بعد میں توجہ کروں گا مگر ایک چیز جو میرے لئے خوشی کا موجب ہوئی، وہ یہ کہ پریڈ دیکھنے کے معا بعد قادیان میں ہیضہ کی شکایت پیدا ہو گئی.میں نے "احمدیہ کور" کے نوجوانوں کے متعلق حکم دیا کہ ان کو اس موقع پر بیماروں کی خدمت اور دوسرے کاموں کیلئے بلالیا جائے.احمد یہ کور میں گو ایسے نوجوان بھی ہیں جن کی اخلاقی حالت پر ہمیں اعتراض رہا ہے.اور اس کور کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ ایسے نوجوانوں کی اصلاح ہو مگر جو رپورٹیں مجھے پہنچی ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لڑکوں نے نہایت ہی محنت کے ساتھ دن رات ایک کر کے کام کیا.اور یہ بات ہمیں امید دلاتی ہے کہ اگر احمدیہ کور کے نظام کو وسیع کیا جائے تو لڑکوں کی اخلاقی حالت کی درستی میں بھی ہمیں بہت کچھ مدد مل سکتی ہے.لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہیضہ کی شکایت کے ایک عام مصیبت کا وقت تھا اور صرف ہیضہ ہی نہیں بلکہ ہر ایک وبا مصیبت ہوتی کیونکہ کوئی پتہ نہیں ہوتا اس میں کون کس وقت مبتلا ہو جائے گا.اور بعض جگہ تو ایسی ہے.
خطبات ت محمود ۲۲۱ سال ۱۹۲۳۳ء شدت سے وبائیں پڑتی ہیں کہ گھروں کے گھر ویران ہو جاتے ہیں.ایسی حالت میں لوگوں نے ان کے ساتھ جو صفائی پر مقرر تھے ، تعاون نہیں کیا.مستقل نظام کی غرض یہ ہوتی ہے کہ جب ایک عام مشکل کا وقت آجائے تو اس وقت وہ نظام کام آئے.ورنہ اپنی اپنی صلیب تو ہر شخص کو اٹھانی ہی پڑتی ہے.نظام کے قائم کرنے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ بغیر دیر لگنے کے کام شروع ہو جائے.گویا قوم تیار رہتی ہے کہ کوئی مصیبت آئے، وہ اس کا مقابلہ کرنے کیلئے آمادہ ہے.مگر معلوم ہوتا ہے لمبا امن بھی انسان کو غافل کر دیتا ہے.جنگ سے پہلے انگریزوں کا نظام بہت مشہور تھا.مگر جنگ کے ایام میں بڑے بڑے لوگوں نے تسلیم کیا کہ انگریزی جرنیلوں میں سے کوئی بھی خاص شان کا ثابت نہیں ہوا.یہاں تک کہ ایک بہت بڑے ہوشیار جرنیل نے جو جنگ کے دنوں میں نہایت اعلیٰ عہدے پر رہا مجھ سے ذکر کیا کہ کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں تھا جس کی قوم میں خاص عزت ہوتی.اور ہم محسوس کرتے تھے کہ ہماری فوج کو عام نظام کے لحاظ سے کام دے رہی ہے.مگر اس کی ایسی پوزیشن نہیں کہ اس میں سے کوئی شخص سب پر بالا ثابت ہو سکے.یہ نتیجہ تھا اس اطمینان کا جو انگریزی قوم میں پیدا ہو چکا تھا.جب تک وہ خطرات میں گھرے رہے، اُس وقت تک ان میں ولنگٹن (WELLINGTON)، نیپیئر (NAPIER) اور کلائیو (CLIVE)، جیسے لوگ پیدا ہوتے مگر جب اطمینان کا لمبا دور آیا اور لوگ آسائش کی طرف مائل ہوگئے تو انسانی فطرت جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ مادہ رکھا ہے کہ وہ زور لگانے سے ترقی کر سکتی ہے، کمزور ہو گئی.اور اس طرح قوم کی ترقی رُک گئی.اس وقت تقریباً ہر جرنیل کے متعلق کہتا ہیں لکھی جارہی ہیں.رہے.اور ثابت کیا جا رہا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی خاص شان کا ثابت نہیں ہوا.لائڈ جارج (LLOYED GEORGE) نے لارڈ کے چند کے خلاف ایسے مضامین لکھے ہیں کہ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ لارڈ کے چند جیسا جنگ سے ناواقف شخص ہی کوئی نہیں تھا.لکھتے ہیں کہ ان میں دنوں میں جبکہ انگلستان کیلئے زندگی اور موت کا سوال در پیش تھا بران جنگ سے آئے ہوئے تاروں کو لارڈ کے چند جو وزیر جنگ تھے.پڑھتے ہی نہ تھے.حتی کہ جب عام لوگوں میں خبر مشہور ہو جاتی تو انہیں بھی معلوم ہوتا.اور بعد میں پتہ لگتا کہ دفتر میں دیر سے ایسے تار پہنچ چکے ہیں.اب نہ معلوم ان میں مبالغہ ہے، زیادتی ہے یا کیا ہے.بہر حال یہ کہنا پڑتا ہے کہ لمبے امن کی وجہ سے ان کے کام میں نقائص پیدا ہوئے.اسی طرح
خطبات محمود ۲۲۲ سال ۱۹۳۳ء شاید لمبے امن کے نتیجہ میں یا کسی اور وجہ سے میں نے دیکھا کہ اس موقع پر فوراً ہمارے محکموں نے اپنی ذمہ داری کو محسوس نہیں کیا.شاید یہ وجہ تھی کہ انہوں نے ابتداء میں خیال کیا کہ ایک دو کیس ہوئے ہیں، خطرے کی کون سی بات ہے.حالانکہ اصول یہ ہے کہ جس بیماری کے متعلق یہ معلوم ہو کہ وہ پھیلنے والی ہے اس کا ایک کیس نہیں بلکہ آدھا کیس بھی ہو تو انتظام ضروری ہوتا ہے.آدھا کیس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی وبائی مرض کا مریض ایک جگہ ٹھر کر پھر کسی دوسری جگہ روانہ ہو جائے یا ایک شخص وبائی مرض میں مبتلا ہو کر اچھا ہو جائے تو اس پر بھی ذمہ دار لوگوں کو ہوشیار ہو جانا چاہیئے.کیونکہ یہ بیماری اپنی ذات میں ہی ایسی ہے کہ خدا نے اس کو پھیلنے کیلئے بنایا ہے.یہی وجہ ہے کہ گو عام وبائی بیماریوں سے اتنی موتیں نہیں ہوتیں جتنی دوسرے امراض سے ہوتی ہیں.مگر وبائی امراض سے عام گھبراہٹ اور بے چینی پیدا ہو جاتی ہے.کیونکہ ان کے متعلق امکان ہوتا ہے کہ یہ ملکوں کے ملکوں کا صفایا کردیں.ایک دفعہ روس میں ہیضہ پھیلا.وہاں سے یورپ میں گیا اور گاؤں کے گاؤں اس نے ویران کردیئے.جیسے آندھی چلتی ہے اور چیزوں کو اُڑا لے جاتی ہے.اسی طرح ہیضہ پھیلا اور سینکڑوں شہر اور دیہات برباد ہو گئے.یہی حال طاعون اور انفلوئنزا کا ہوتا ہے.جب یہ بیماریاں زور پکڑ جائیں تو ان کا سنبھالنا نہایت مشکل ہوتا ہے.یہ بیماریاں آگ کی طرح ہوتی ہیں.بچے بھی دیا سلائی جلا کر پھونک مارتے ہیں تو تجھ جاتی ہے.لیکن جب آگ قبضہ سے باہر ہو جائے تو کس طرح میلوں میں بربادی پھیلاتی چلی جاتی ہے.یہی حال وباؤں کا ہوتا.ہے.پس وبا کا مقابلہ کرنے کیلئے فوراً تیار رہنا چاہیے.کیونکہ خدا نے اس کے اندر یہ خاصیت رکھی ہوتی ہے کہ وہ بڑھے اور پھیلے.مگر مجھے افسوس ہے کہ فوری طور پر انتظام نہیں کیا گیا.اور جب انتظام کیا گیا تو لوگوں نے اس کا مقابلہ کیا.میرے پاس رپورٹیں پہنچی ہیں کہ جب کنوؤں میں دوائی ڈالنے کیلئے بعض کے گھروں پر آدمی گئے تو انہوں نے دوائی ڈالنے والوں کو گالیاں دیں.اس ضمن میں میرے پاس ایسے ایسے اشخاص کے نام پہنچے ہیں کہ میں نے پڑھ کر انگشت بدنداں ہونے کے سوا کوئی چارہ نہ دیکھا.ان میں تعلیم یافتہ لوگ بھی ہیں.اور میں سمجھ ہی نہیں سکتا کہ وہ ایسی بیوقوفی کے مرتکب کس طرح ہوئے.مجھے تو یہ حالات پڑھ کر وہ قصہ یاد آجاتا رہا.کہتے ہیں کہ کوئی کشمیری سخت گرمی کے دنوں میں دھوپ میں بیٹھا ہوا تھا.ایک شخص پاس سے گزرا تو اسے کہنے لگا.میاں! تمہارے پاس ہی سایہ ہے، دھوپ میں کیوں
خطبات محمود بیٹھے ٣٢٣ سال ۱۹۳۳ء ہو.وہ کہنے لگا سایہ میں بیٹھوں تو کیا دو گے.وہ دوا جو لوگوں کی جانیں بچانے کیلئے کنوؤں میں ڈالی گئی اس کے ڈلوانے سے نہ صرف بعض لوگوں نے انکار کیا بلکہ ڈالنے والوں کو گالیاں دیں.میں حیران ہوں کہ ایک تو وہ ہیں جو اپنی جانوں کو خطرات میں ڈال کر مریضوں کی نگہبانی کرتے ہیں.گلیوں، بازاروں اور کنوؤں کی صفائی کا اہتمام کرتے ہیں.اور ایک گھر بیٹھے کام کرنے والوں کو بُرا بھلا کہتے ہیں.پھر ڈاکٹر جو کام کرتے ہیں، ان کی جان بھی خطرے میں ہوتی ہے.ہماری جماعت کے ایک نہایت ہی مخلص دوست ڈاکٹر بوڑے خان صاحب تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں میں بھی ان کا ذکر آتا ہے.ایک دفعہ ان کے پاس ایک مریض آیا.انہوں نے اس کا آپریشن کیا.وہ بیمار تو شاید اچھا ہو گیا.مگر اس کے زہر کی وجہ سے ان کا دوسرے دن انتقال ہو گیا.ان کی جلد پر کچھ خراش تھی.جس سے وہ زہر سرایت کر گیا اور وفات پاگئے.پس ڈاکٹر کمپونڈر اور منتظم اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں اور یہ ان کا احسان ہوتا ہے.لیکن بجائے ان کی قدر کرنے کے اُلٹا اُن پر ناراض ہونا بہت قابل تعجب بات ہے.ایسے موقع پر چاہیئے تو یہ تھا کہ لوگ کہتے ہمارا نظام زیادہ حرکت کیوں نہیں کرتا.اور بجائے اس کے کہ کنوؤں میں دوائی ڈالنے پر انہیں اعتراض ہوتا وہ کہتے کہ اور دوائی کیوں نہیں ڈالی گئی.چنانچہ مجھے کئی دنوں تک یہ اعتراض رہا کہ کنوؤں میں دوائی ڈالی گئی ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں.کیونکہ جو پانی ہمارے ہاں آتا تھا وہ اتنا سرخ نہیں ہوتا تھا جتنا کیڑوں کی ہلاکت کیلئے ہونا چاہیے.اور میری طرف سے اصرار تھا کہ اور دوائی ڈالو تاکہ پانی صاف ہو سکے.پس ان دنوں مجھے بعض لوگوں کی عجیب قسم کی ذہنیت معلوم ہوئی.اور پتہ لگا کہ صرف ہماری جماعت میں بلکہ قادیان میں ایسے آدمی موجود ہیں جو ایسے نازک وقت میں تین چار دن بھی پانی کی معمولی سی تکلیف برداشت نہیں کرسکتے.حالانکہ یہاں کثرت سے نلکے ہیں جن کا پانی نسبتا اچھا سمجھا جاتا ہے اور پانی کی زیادہ تکلیف محسوس نہیں ہو سکتی.اگر ایسے لوگ جہاں نلکوں کا پانی نہ ملتا ہو شکوہ کریں تو ان کا شکوہ بھی درست نہیں سمجھا جاسکتا مگر جہاں کثرت سے نلکے ہوں، وہاں لوگوں کا دو چار دن کیلئے تکلیف اُٹھا لینا کوئی بڑی بات نہیں مگر مجھے افسوس ہے کہ بعض لوگوں نے اس موقع پر اپنے آپ کو فیل شدوں میں داخل کیا اور پاس شدگان سے نکال لیا.پھر ان بچوں کو جنہوں نے اپنی جانیں خطرہ میں ڈالیں، گالیاں دینا اور بھی قابل شرم بات ہے.انہیں چھٹیاں تھیں اور ان کے یہ کھیلنے کودنے کے دن تھے مگر باوجود
سال ۱۹۳۳ء خطبات محمود.اس کے کہ وہ بچے تھے اور ان کیلئے کھیلنے کا موقع تھا، انہوں نے ایسا نمونہ دکھایا جو دوسروں کیلئے قابل شرم ہے.اور مجھے بھی اس لئے شرم آئی کہ میں نے دیکھا میرے بچے ان میں نظر نہ آئے.میں پوچھنے والا ہی تھا کہ میرے بچے ان میں کیوں شامل نہیں ہوئے اور میں نے اپنی ایک بیوی سے آج ہی اظہار افسوس کیا کہ میں نے تمہارے بچوں کو ان خدمت کرنے والے بچوں میں نہیں دیکھا جس کا مجھے بہت دکھ ہے.جب قومی مصیبت کا وقت آئے تو ہر فرد کا کام ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو بطور والٹیئر پیش کرے.فردی مصیبتوں میں بھی اسلام نے ہمدردی کا حکم دیا ہے اور قومی مصیبت تو ایسا رنگ رکھتی ہے جس میں ہمدردی کے لحاظ سے کسی قسم کا دریغ کرنا انسان کو ایمان سے خارج کر دیتا ہے.پس نہ صرف یہ کہ لوگوں کو مزاحم نہیں ہونا چاہیے تھا بلکہ ہر ماں باپ کو محسوس کرنا چاہیے تھا کہ ہمارے بچوں کو اس میں کیوں شامل نہیں کیا گیا.میں نے بیشک احمدیہ کور" کے نوجوانوں کو ہی اس غرض کیلئے تجویز کیا تھا مگر مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کور میں صرف پینتیس (۳۵) نوجوان ہیں.اگر مجھے معلوم ہوتا کہ والٹیئروں کی اس قدر قلت ہے تو میں حکم دیتا کہ اپنے آپ کو جو شخص چاہے اس خدمت کیلئے پیش کرے.میں یہی خیال کرتا رہا اگو میں پریڈ کے موقع پر دیکھ چکا تھا) کہ والٹیئر صرف اسی قدر نہیں بلکہ باقی پچھلے سال سیکھ چکے ہیں، وہ شامل نہیں کئے گئے.اگر مجھے معلوم ہوتا کہ اس قدر والٹیئر ہیں تو میں کہتا کہ باقی نوجوانوں سے بھی امداد حاصل کی جائے تاکہ کسی غلط فہمی کے باعث کوئی نوجوان ثواب سے محروم نہ رہ جائے.پس ایک طرف تو میں ان نوجوانوں کی خدمت پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ان کی کمزوریوں پر پردہ ڈالے.انہیں نیکیوں کی توفیق عطا فرمائے اور اعلیٰ درجہ کی ترقیات عطا کرے.اور دوسری طرف میں جماعت کے ان لوگوں پر اظہار افسوس کرتا ہوں جنہوں نے جہالت کا نمونہ دکھایا.یاد رکھو ایمان اور علم اکٹھے ہوتے ہیں.ایمان اور جہالت اکٹھے نہیں رہ سکتے.الا مَا شَاءَ اللہ کسی کو غلطی لگے تو یہ اور بات ہے.حضرت عمر " کے زمانہ میں ایک دفعہ شدید طاعون پھیلا.آپ نے صحابہ سے مشورہ لیا کہ کیا کرنا چاہیئے نے کہا کہ لوگ پہاڑوں پر پھیل جائیں ہے.آج بھی طاعون کا یہ بہترین علاج سمجھا جاتا ہے کہ لوگ کھلی جگہوں میں پھیل جائیں.اس وقت ایک صحابی ایسے بھی تھے.جن کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی وہ حضرت ابو عبیدہ " تھے.جو کمانڈر انچیف تھے اور بہت بڑے صحابی تھے.
خطبات محمود ۲۲۵ سال ۱۹۳۳ء انہوں نے کہا اے عمر ! کیا آپ خدا کی قضاء سے بھاگتے ہیں اَتَفِرُّ مِنْ قَضَاءِ اللهِ.آپ نے فرمایا- اَفرُ مِنْ قَضَاءِ اللَّهِ إِلَى قَضَاءِ اللهِ : ہاں میں خدا کی قضاء سے بھاگ کر خدا کی قضاء کی طرف ہی جا رہا ہوں خدا کی خدائی سے تو باہر نہیں جا رہا.یہ صحابہ " کا طریق عمل موجود ہے.اور گو ایک صحابی نے غلطی بھی کی لیکن کثرت نے غلطی نہیں کی مگر یہاں ہر محلہ میں ایسی مثالیں پائی گئیں کہ لوگوں نے نظام کا مقابلہ کیا.حالانکہ یہاں صرف ان کی ذات کا یا ان کے بیوی بچوں اور مجلے والوں کی زندگی کا سوال نہیں تھا بلکہ قادیان والوں کی عزت اور خود قادیان کی عزت کا سوال تھا.مگر اتنی چھوٹی سی بات پر کہ کنوؤں میں دوائی ڈالی گئی.بعض نے برا منایا علاج کرانے سے انکار کیا گیا.اس میں شبہ نہیں کہ مریضوں کے ساتھ شروع شروع میں وہ سلوک نہیں ہوا جو ہونا چاہیے تھا.مگر ان سب باتوں کا علاج ہو سکتا تھا اور وہ علاج یہ تھا کہ براہ راست میرے پاس شکایت کی جاتی.جہاں میں اس بات کو سخت ناپسند کرتا ہے ہوں کہ مقررہ نظام سلسلہ کی پابندی نہ کرتے ہوئے کوئی معالمہ براہ راست میرے سامنے پیش کیا جائے.وہاں میں کئی دفعہ بتلا چکا ہوں کہ ایسی باتیں جو وقتی ہوتی ہیں اور فوری اصلاح کی محتاج ان میں کسی انتظار کی ضرورت نہیں ہوتی.میرے سامنے فوراً وہ معاملہ پیش کرنا چاہیے مگر لوگ اس کے برعکس کرتے ہیں.بعض دفعہ نہایت ہی ضروری مضمون سامنے ہوتا توجہ اس کی طرف لگی ہوتی ہے، دروازہ زور زور سے کھٹکھٹایا جاتا ہے.اور جب کنڈی کھولی جاتی ہے تو ایک چھوٹا سا بچہ ہوتا ہے جس کے ہاتھ میں ایک رقعہ ہوتا ہے اور اس میں ہوتا ہے میرے لئے دعا کریں.محمد احمد طالب علم جماعت دہم.بھلا یہ بھی کوئی رقعہ میں لکھنے والی بات تھی.وہ مجھ سے زبانی بھی یہ کہہ سکتا تھا.اور مسجد میں آنے کے وقت کہہ سکتا تھا مگر اس طرح سارا دن رقعوں پر رقعے چلتے ہیں جن میں کوئی ضروری بات نہیں ہوتی.لیکن کوئی ہوتا ہے لکھا اہم امر جو فوری توجہ کا محتاج ہو، اس کے متعلق اطلاع دینے میں سستی دکھائی جاتی ہے.لیس ہر بات سوچ سمجھ کر کرنی چاہیے.دعا کیلئے اس طرح رفعے لکھنے وقت کو ضائع کرنا ہے.بہترین طریق یہ ہے کہ جسے ضرورت ہو وہ خاص موقعوں پر زبانی یاد دہانی کرا دے.اور نہ یوں تو ہمیشہ ہی دعا ہوتی رہتی ہے.خاص موقعوں کی دعا اہمیت رکھتی ہے.اور اس وقت بھی زبانی یاد کرانا رقعہ لکھنے کی نسبت زیادہ بہتر ہوتا ہے.سوائے ان لوگوں کے جو قادیان سے باہر رہتے ہیں یا سوائے ان بیماروں کے جو قادیان میں ہوں مگر چل کر نہ آسکتے ہوں.ان کے
خطبات محمود ۲۲۶ سال ۱۹۳۳ء علاوہ باقی قادیان کے لوگوں کو رقعوں میں دعا کیلئے لکھنے کی بجائے زبانی یاد دہانی کرانی چاہیے.مگر جس طرح وہ غلطی ہے اسی طرح یہ بھی غلطی ہے کہ اہم ضرورت درپیش ہو اور مجھے اطلاع نہ کرائی جائے.اگر کسی شخص کو ہیضہ ہو جائے یا کوئی اور وبائی مرض ، تو چاہے دن ہو یا رات اگر اس کیلئے کوئی انتظام نہیں ہوتا تو ہر وقت مجھے اطلاع کرائی جاسکتی ہے اور خدا تعالی کے فضل سے میں اس کیلئے انتظام کر سکتا ہوں.مگر بعض لوگوں نے اس وقت شکوہ کیا جب مریض فوت ہو چکا یا اچھا ہو کر ہسپتال سے آگیا.فوجوں میں قانون ہے کہ جب کوئی شکایت پیدا ہو اسی وقت پیش کرو.بعد میں اگر شکایت کی جائے تو اس پر کوئی توجہ نہیں کی جاتی.بلکہ ابھی پچھلے دنوں دو افسروں کی لڑائی ہوئی جب مقدمہ چلا تو بڑے افسر کو سزا ہوئی.مگر چھوٹے کو بھی اس وجہ سے سزا دی گئی کہ اس نے اپنے جواب دعوئی میں ایک چھ مہینہ پہلے کی اپنے افسر کی کسی غلطی کا ذکر کیا تھا.اسے کہا گیا کہ تو نے اِس کا اُسی وقت ذکر کیوں نہ کیا؟ اگر نہیں کیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم یہ غلطی معاف کر چکے تھے.اور اب کرتے ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم کینہ تو ز ہو.غرض اس وقت کی شکایت فائدہ دے سکتی ہے جب اس کا ازالہ کیا جاسکے.بعد میں شکایت کرنا کینہ پر دلالت کرتا ہے.اور کینہ رکھنا مومن کا کام نہیں تا.چاہیئے کہ جس وقت کوئی شکایت پیدا ہو اور ضروری ہو، وہ اسی وقت پیش کی جائے.ہاں حض شکایتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو اہم نہیں ہوتیں.ان میں اگر دو چار دن کی دیر ہو جائے تو کوئی بات نہیں.پس ہسپتال میں گو نقائص بھی تھے مگر ایسے نقائص دور ہو سکتے تھے.پھر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ مریضوں کا اسی میں فائدہ ہوتا ہے کہ انہیں ہسپتال پہنچادیا جائے.کیونکہ اس طرح تمام مریض کسی نہ کسی ڈاکٹر کے ہر وقت زیر نظر رہتے ہیں.لیکن گھروں میں علیحدہ علیحدہ ڈاکٹر اس توجہ سے مریضوں کو نہیں دیکھ سکتے جس طرح وہ ایک جگہ دیکھ سکتے ہیں.پھر اس میں یہ بھی فائدہ ہے کہ مرض اس طرح محدود جگہ میں رہتا ہے اور زیادہ شدت سے نہیں پھیل سکتا.پس یہ جماعت کے فائدہ کی باتیں ہیں.مگر باوجود اس کے بعض نے کنوؤں میں دوائی ڈالنے والے بچوں کو گالیاں دیں.چونکہ وہ طالب علم ہیں اس لئے قابل معافی ہیں.ورنہ ایسے موقع پر شکایت کرنا بھی درست نہیں ہو سکتا.جو لوگ خدا کیلئے کام کرتے ہیں، وہ اس بات کی پرواہ نہیں کیا کرتے کہ لوگ انہیں کیا کہتے ہیں.مگر چونکہ وہ بچے ہیں اور اخلاق کا اعلیٰ معیار ابھی نہیں سمجھتے، اس لئے قابل معذوری ہیں.اس نظام میں ایک نقص یہ بھی ہو گیا
خطبات محمود ۲۲۷ سال ۱۹۳۳ء کہ خود ناظر امور عامہ ہسپتال میں جاتے اور وہاں کافی عرصہ مریضوں کی نگہداشت کے متعلق کام کرتے.میرے نزدیک چاہیئے یہ تھا کہ بجائے اس کے کہ خود ناظر امور عامہ وہاں جاتے ایک افسر مقرر کر دیا جاتا جو وہاں کے کام کی نگرانی کرتا.اور ناظر امور عامہ تمام نظام کی نگرانی کرتے.اسی طرح اس لئے بھی نقص ہوا کہ کام کرنے والے لوگوں کو پتہ نہیں تھا کہ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں.مثلاً خیمے لگانا یہ ڈاکٹروں کا کام نہیں بلکہ والٹیئروں کا تھا.اس امر کو سمجھنے کی وجہ سے سے بھی نقص پیدا ہو گئے.آئندہ کیلئے چاہیے کہ ایسے موقعوں پر ایک کمانڈر انچیف مقرر کر دیا جائے اور اس کے ماتحت کام کرنے والوں کے الگ الگ فرائض مقرر کردئیے جائیں.اور کمانڈر انچیف کبھی بھی ناظر امور عامہ نہیں ہونا چاہیئے.کمانڈر انچیف اور وزارت کا عہدہ کبھی بھی اکٹھا نہیں ہوا.اور اگر اکٹھا کیا گیا تو کام خراب ہو گیا.خلفاء بھی کمانڈر انچیف نہیں ہو سکتے.ہاں انبیاء یہ فرض بھی سرانجام دیتے ہیں کیونکہ ان کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر وقت لوگوں کی تربیت کریں.اور ان کی موجودگی ہر وقت ہی ضروری ہوتی ناظر امور عامہ کا یہ کام ہے کہ ایسے موقعوں پر وہ جس کو کمانڈر انچیف مقرر کریں.اور جو اس کے ماتحت ہوں.ان کے متعلق دیکھیں کہ وہ دیانتداری اور پوری بسرگرمی سے کام کر رہے ہے.ہیں یا نہیں.پس ایسے موقعوں پر امور عامہ کو چاہیے کہ وہ زیادہ تنظیم اور زیادہ آرگنائزیشن کا ثبوت پیش کرے کیونکہ وبائی ایام ایک عام مصیبت کے ایام ہوتے ہیں.انتظام ایسا ہونا چاہیے کہ کوئی گھبراہٹ اور افراتفری پیدا نہ ہو.میں ایک دفعہ پھر امور عامہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ فیصلہ جو مجلس شوری کے ذریعہ میں نے کیا تھا یہ نہیں تھا کہ وہ ۳۵ آدمیوں کی ایک کور بنادے.بلکہ میرا فیصلہ یہ تھا کہ پندرہ سال سے لے کر ۲۵ سال کی عمر تک کے تمام نوجوانوں کو اس میں جبری طور پر بھرتی کیا جائے تاکہ ان کے اخلاق کی نگرانی ہو اور تاکہ ان نوجوانوں کو قومی اور دینی خدمت کا موقع مل سکے.کیونکہ بعض موقعوں پر قومی خدمت کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے.اور گو ہمارے لئے دین مقدم ہے مگر چونکہ بعض قومی کام بھی دین کے تابع ہوتے ہیں اس لئے ان میں بھی حصہ لینا چاہیے.اور اپنے اندر قربانی کا مادہ پیدا کرنا چاہیئے.اسی طرح جہاں میں بعض لوگوں پر اس لئے اظہارِ افسوس کرتا ہوں کہ انہوں نے کام میں رکاوٹیں ڈالیں، وہاں کور کے نوجوانوں کے کام پر اظہار خوشنودی کرتا ہوں اور اللہ تعالٰی سے دعا کرتا ہوں کہ وہ
خطبات محمود ۲۲۸ سال ۱۹۳۳ء انہیں ایسے کاموں کی توفیق عطا فرمائے جو خالص اس کی رضا کے ہوں.ان کی تربیت نہایت اعلیٰ پیمانہ پر کرے، انہیں دینی خدمات کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے اخلاص میں برکت دے.اور نہ صرف انہیں بلکہ تمام نوجوانوں کو توفیق عطا فرمائے.ہر شخص ان میں سے اپنے آپ کو تیار رکھے اور ضرورت کے وقت اس کا قدم پیچھے نہ ہٹے بلکہ آگے کی طرف بڑھے.خطبہ ثانی میں فرمایا:- میں چاہتا ہوں کہ جن دوستوں نے ابھی تک ٹیکا نہیں کرایا، وہ ضرور ٹیکا کرالیں.کیونکہ جہاں طاعون کے ٹیکا کے متعلق ہمارا یہ فتویٰ ہے کہ مخلص احمدیوں کو نہیں کرانا چاہیئے، وہاں یہ ٹیکا کرانے میں کوئی حرج نہیں.پچھلے جمعہ میں نے ڈیکا کرایا تھا.جس کی وجہ سے نماز جمعہ کے وقت بخار ہو گیا اور میں نہ آسکا.آج بھی ٹیکا کرا کے آیا ہوں اور اب اپنے جسم میں درد محسوس کرتا ہوں.اس لئے دوست جاتے وقت مجھ سے مصافحہ نہ کریں.(الفضل ۵ - اکتوبر ۱۹۳۳ء) له مسلم كتاب الطهارة باب النهي عن التخلي في الطرق والظلال ه مسلم كتاب البر والصلة باب فضل ازالة الاذى عن الطريق کھے بخاری کتاب الفرائض باب ميراث البنات مسلم كتاب البر والصلة والادب باب استحباب طلاقة الوجه عند اللقاء له بخاری کتاب المظالم باب أعِنْ أَحَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا بخاری کتاب المظالم باب لَا يَظْلِمُ الْمُسْلِمُ الْمُسْلِمَ وَلَا يُسْلِمُهُ شه بخاری کتاب الادب باب من كان يومن بالله واليوم الآخر فلا يؤذ جاره شه بخاری کتاب الصلح باب هل يشير الامام بالصلح نه مسلم کتاب السلام باب تحریم مناجاة الاثنين دون الثالث بغیره رضاءه لله بخارى كتاب الاطعمة باب ما يكره من الثوم وَالْبُقُولِ مسلم کتاب السلام باب الطاعون والطيرة میں حضرت ابو عبیدہ کے یہ الفاظ آئے ہیں ”افرارا من قدر الله" اور حضرت عمر کا جواب بایں الفاظ ہے ”نفر من قدر الله الى قدر الله"
خطبات محمود ۲۲۹ ۲۵ تبلیغ احمدیت کے متعلق جماعت احمدیہ کی پوزیشن (فرموده ۶ - اکتوبر ۱۹۳۳ء) سال ۱۹۳۳ تو تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-.ہر شخص اس بات کو جانتا ہے یعنی ہر ایسا شخص جس نے سلسلہ احمدیہ کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہو، جانتا ہے کہ ہماری جماعت کا اصل مقصد اشاعتِ مذہب، اشاعت دین اور قیام دین ہے.اشاعت دین اور قیامِ دین کے ساتھ ضمنی تعلق رکھنے والی دوسری چیزوں کی طرف بھی ہم توجہ کر لیتے ہیں اور بعض دفعہ توجہ کرنی پڑتی ہے.مگر ہماری وہ توجہ ایسی ہی ہوتی ہے.جیسے ضرورت کے وقت کسی شخص کو پاخانہ میں جانا پڑتا ہے.پاخانہ کوئی دلکش یا سیر کی جگہ نہیں ہوتی مگر انسان وہاں جانے پر مجبور ہوتا ہے.اور جب خدا تعالیٰ کے قانون کے ماتحت اس کا جسم پاخانے کے متعلق احتیاج محسوس کرتا ہے وہ وہاں جاتا ہے.اسی طرح اور کئی انسانی افعال ہیں.گو بظاہر جسمانی نظر آتے ہیں مگر بعض دفعہ روحانی ضرورتوں کے ماتحت کرنے پڑتے ہیں.بسا اوقات کام کے اوقات انسان پر ایسے آتے ہیں کہ وہ چاہتا ہے کہ کھانا نہ کھائے یا وہ چاہتا ہے کہ اس کی نیند ہی اُڑ جائے.مگر باوجود کسی اشد ضرورت کے اور باوجود اس بات کے کہ وہ اس وقت نہ صرف اپنی بلکہ اپنے بیوی بچوں کی جان قربان کرنے کیلئے بھی تیار ہوتا ہے، اسے کھانا کھانا پڑتا ہے، سونا پڑتا ہے.اس لئے کہ طبیعت میں اللہ تعالٰی نے کھانے اور سونے کی احتیاج رکھی ہے.اور گو یہ معاملات بظاہر جسمانی نظر آتے ہیں مگر اس وقت روحانی بن جاتے ہیں.کیونکہ اگر وہ کھانا نہ کھائے گا تو اس کے قومی مضمحل ہو جائیں گے.اور اگر وہ سوئے
خطبات محمود دین ۲۳۰ سال ۱۹۳۳ء گا نہیں تو اس کے اعضاء بے کار ہو جائیں گے اور وہ ضعیف ہو جائے گا.پس گو کھانا اور سونا جسمانی امور ہیں مگر اس وقت اس کیلئے روحانی بن جاتے ہیں.ایسی ہی ضرورتوں کے ماتحت کے علاوہ بعض دفعہ دوسرے کام بھی ہمیں کرنے پڑتے ہیں.مگر وہ ہمارا مقصود نہیں ہوتے بلکہ ہمارا اصل مقصد دین کا قیام اور اس کی اشاعت ہے.اور اسے ہم ہر چیز پر مقدم رکھتے ہیں.وہ دین کیا ہے اور آیا وہ دین ہے بھی یا نہیں.یہ دوسری بحث ہے.مگر بہرحال ہماری نگاہ میں وہ دین ہے.اور ہم دین کی خدمت سمجھ کر ہی اس کیلئے کام کرتے ہیں.اس لئے کوئی ایسی چیز اور کوئی ایسی دلیل جو ہمارے اس نقطہ نگاہ کے خلاف پڑے.ہمیں اپیل نہیں کر سکتی.اور نہ ہمیں اپنے مقصد سے پھرا سکتی ہے.اگر کوئی شخص ہمارے دلوں تک پہنچنا چاہتا ہے.تو اس کیلئے ایک ہی راہ ہے.اور وہ یہ کہ وہ ثابت کردے کہ جس چیز کے پیچھے تم پڑے ہو وہ دین نہیں.لیکن بغیر یہ بات ثابت کرنے کے اگر وہ یہ کہے کہ یہ دین تو ہو گا لیکن ہماری خاطر یا فلاں وجہ سے اس کی طرف سے توجہ ہٹا لو تو ایسے شخص کی باتیں ایسی ہی ہوں گی جیسے ایک بہرے آدمی کے سامنے کوئی شخص بات کرے.کیونکہ وہ بات ہمارے کانوں میں داخل نہیں ہو سکتی.میں نے پچھلے دنوں میں بعض مضامین دیکھے ہیں جو میرے لئے آج کے خطبہ کے محرک ہوئے ہیں.اور بھی مضامین ہیں.لیکن وہ ایسے رنگ میں ہیں کہ میں سمجھتا ہوں وہ قابل التفات نہیں.لیکن اسی قسم کے مضامین میں سے وہ مضمون قابل التفات ہیں.اور میں انہی کو سامنے رکھتا ہوں.وہ مضمون اخبار "انقلاب" میں شائع ہوئے ہیں.ان میں ہمارے یوم التبلیغ کے خلاف لکھا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ گویا یہ دن قائم کر کے ہم مسلمانوں میں فتنہ ڈالنا چاہتے ہیں.دلیل یہ دی گئی ہے کہ جب تم تبلیغ کرو گے تو لوگوں کو جوش آئے گا اور جب جوش آئے گا تو وہ بھی اسی طرح بخشیں کریں گے.اس طرح بعض جگہ احمدیوں کو جوش آجائے گا اور وہ دوسروں سے لڑیں گے.اور بعض جگہ غیر احمدیوں کو جوش آجائے گا اور وہ احمدیوں سے لڑیں گے اور مسلمانوں کا اتحاد ٹوٹ جائے گا.پھر ساتھ ہی کہا گیا ہے کہ احمدیت کون سی نئی چیز پیش کرتی ہے.وہی خدا ہے، وہی رسول ہے، وہی قبلہ ہے، وہی قرآن ہے، وہی نماز روزہ اور حج وغیرہ ہے.اس میں کون سی ایسی نئی چیز ہے جس کی وجہ سے کے اتحاد کو اس کیلئے قربان کر دیا جائے.چونکہ یہ مضامین ایک ایسے اخبار میں شائع ہوئے ہیں مسلمانوں
خطبات محمود ۲۳۱ سال ۱۹۳۳ جس کا ہمیشہ سے یہ دعوئی رہا ہے کہ وہ بلاوجہ کسی شخص یا جماعت کی مخالفت نہیں کرتا.اور جہاں تک میرا تجربہ ہے گو غلطی ہر شخص سے ہو جاتی ہے اور اس اخبار سے بھی غلطیاں ہوئی ہوں گی مگر ایک حد تک یہ اخبار اپنے اس دعویٰ کے مطابق عمل کرتا رہا ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں، یہ بات جو اس نے پیش کی ہے اس قابل ہے کہ اس کا احترام کیا جائے.یہی وجہ ہے کہ میں اسے قابل جواب سمجھتا ہوں.ورنہ کئی لوگ جن کی طبیعت میں نیش زنی کا مادہ ہوتا ہے ایسی باتیں لکھتے رہتے ہیں جن کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی.سب سے پہلے تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ بات جس کی طرف "انقلاب" ہمیں توجہ دلانا چاہتا ہے ہماری جماعت کے متعلق ہرگز نہیں کی جاسکتی.وہ نسلی مذاہب جو سینکڑوں سال سے قائم ہیں.کے متعلق اگر یہ بات کہی جاتی تو خواہ یہ غلط ہی ہوتی، اس کی ظاہری شکل معقول بنائی جاسکتی تھی.لیکن ہماری جماعت تو اس پچاس سال کے عرصہ میں قائم ہوئی ہے جبکہ مسلمانوں میں نفاق و شقاق پیدا ہو چکا تھا.اور جب مسلمانوں میں اتحاد کی کوئی صورت ہی نہ رہی تھی.جب ہم سے کوئی شخص مخاطب ہوتا ہے تو ہم اس سے سوال کر سکتے ہیں کہ تم کس سے ان وہ خطاب کرتے ہو.ہم میں سے وہ کون سا شخص ہے.جس کی نسبت یہ کہا جاسکتا ہے کہ آباء واجداد سے احمدی چلا آرہا ہے.ہماری جماعت تو بنی ہی تبلیغ سے ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ۱۸۹۱ء میں دعوئی مسیحیت کیا.اور ۱۸۸۸ء کے آخر میں بیعت لی اے.گویا زیادہ سے زیادہ اس زمانہ کے ۴۴ سال بنتے ہیں.اور مسیحیت کے زمانہ کو مد نظر رکھا جائے تو ۴۲ سال اور سوائے چند نوجوانوں کے جو اس دعوئی کے بعد احمدیوں کے ہاں پیدا ہوئے.کثیر حصہ وہ ہے جو تبلیغ کے ذریعہ احمدی ہوا.پس ہماری جماعت کو تبلیغ سے روکنے کے تو کوئی معنے ہی نہیں بنتے اس لئے کہ ہماری جماعت تو بنی ہی تبلیغ سے ہے.اگر یہ تبلیغ فتنہ کا موجب تھی تو جس دن یہ جماعت شروع ہوئی، اس دن بھی فتنہ تھی.اور جب یہ بڑھی تو گویا فتنہ بڑھتا گیا کیونکہ ۴۵ سال ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اکیلے تھے.آپ نے دوسرے کو تبلیغ کی.تو دو ہو گئے.تیسرے کو تبلیغ کی تو تین ہوگئے.پھر چوتھے کو تبلیغ کی تو چار ہو گئے.پس ہم میں سے کس کو کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ اپنے آباء واجداد کے مذہب پر ہو.تبلیغ کر کے فتنہ پیدا نہ کرو.ہر شخص کہے گا کہ میں تو اسی تبلیغ کے ذریعہ احمدی ہوا ہوں.میرے باپ دادا کب احمدی تھے.پس ہماری جماعت کے متعلق یہ کہنا کہ تبلیغ نہ کرو.اس سے
سال ۶۱۹۳۳ خطبات محمود ہوتے ۲۳۲ فتنہ پیدا ہو گا.بالکل خلاف اصول ہے.کیونکہ ہماری جماعت کا بہت بڑا حصہ اسی تبلیغ کے ذریعہ احمدی بنا.بلکہ میں کہہ سکتا ہوں کہ ہم میں سے ہر فرد خواہ وہ نوجوان ہی کیوں نہ ہو، ایسے ہی خیالات اور حالات میں سے گزرا ہے جو تبدیلی مذہب کے وقت پیدا ہوتے ہیں.اگر کسی شخص کا باپ احمدی ہے تو ماں مخالف ہوتی ہے.اور اگر ماں باپ دونوں احمدی ہوں تو کئی قریبی رشتہ دار ایسے ہوتے ہیں جو مخالف ہوتے ہیں.اور جن کی وجہ سے وہ حالات جو تبدیلی مذہب پر پیدا ہوتے ہیں، اس پر بھی وارد ہو جاتے ہیں.بعض دفعہ ایسے چچے نکل آتے ہیں جو غیر احمدی ہوتے ہیں.کہیں ماموں کہیں ماموں کے بیٹے کہیں ساس اور کہیں کسر غیر احمدی ہوتے ہیں، کہیں بہنوئی مخالف ہوتے ہیں.غرض اس کے قریبی رشتہ داروں میں ایسے مخالف ہیں جن کی وجہ سے وہ اس کشمکش میں پڑچکا ہوتا ہے جس میں از سرنو مذہب اختیار کرنے والا پڑتا ہے.پس ہم میں سے جو پیدائشی احمدی ہے وہ بھی تو احمدی ہے کیونکہ نواحمدی کے وال میں جو کشمکش پیدا ہونی چاہیئے وہ اس کے دل میں بھی پیدا ہو چکی ہوتی ہے.پس ہم میں اسے کوئی شخص پرانا احمدی نہیں.اول تو کثیر حصہ وہ ہے جو پہلے اپنے آپ کو غیر احمدی سمجھتا تھا پھر تبلیغ کے ذریعہ احمدی ہوا.دوسرے جو احمدیت میں پیدا ہوا وہ بھی دل میں ایک کشمکش اختیار کرچکا ہے.پس اگر یہ تبلیغ فتنہ ہے تو ہم میں سے ہر شخص اس فتنہ سے گزر کر آیا ہے.اور اس طرح ہمارا وجود ہی مٹانے کے قابل ہو جاتا ہے.لیکن اس غلطی سے قطع نظر کر کے اصل سوال کو لیتے ہوئے میں سمجھتا ہوں.ہمیں اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں کہ ہمارے پاس کوئی بڑی بات ہے یا نہیں.کیونکہ میرے نزدیک بڑی اور چھوٹی چیز کی بحث ایک ایسی ہے جسے کسی معین صورت میں طے نہیں کیا جاسکتا.میں اس اصل کو تسلیم کرتا ہوں اور کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ بعض چھوٹی باتیں اتحاد عمل کیلئے قربان کر دینی چاہئیں.مگر چھوٹی اور بڑی بات سب نسبتی امور ہیں.اگر کسی شخص کا ایک طرف ایک پیسہ ضائع ہو رہا ہو اور دوسری طرف آنہ.تو ہم کہیں گے کہ پیسے کو چھوڑ دو اور آنے کا خیال رکھو.اس وقت پیسہ چھوٹی چیز ہوگی اور آنہ بڑی.لیکن اگر ایک طرف آنہ ضائع ہو رہا ہو اور دوسری طرف | چونی تو ہم کہیں گے کہ آنے کو چھوڑو اور چوٹی کی فکر کرو.اس وقت ہم آنے کو چھوٹا قرار دیں گے اور چوٹی کو بڑا.اب کوئی نادان کہے کہ ابھی تو تم نے آنے کو بڑا کہا تھا اور ابھی چھوٹا شخص
خطبات محمود.۳۳۳ سال ۱۹۳۳ و کہتے ہو تو یہ اس کی غلطی ہوگی.اور کوئی شخص اس کی بات کی معقولیت تسلیم نہیں کرے گا.کیونکہ پہلے آنہ پیسے کے مقابل میں تھا اس لئے بڑا تھا.مگر اب آنہ چوٹی کے مقابل ہے اس لئے چھوٹا ہے.اسی طرح اگر ایک شخص کا ایک طرف ایک روپیہ ضائع ہوتا ہو اور دوسری طرف چوٹی.تو ہم نہیں کے چوٹی کو چھوڑو اور روپیہ کا خیال رکھو.اس پر بھی اگر کوئی شخص کہے کہ ابھی چوٹی کو تم بڑا کہہ رہے تھے اور اب اسے چھوٹا قرار دیتے ہو تو ہم اس کو بھی قابل رحم سمجھیں گے.کیونکہ پہلے چوٹی آنے کے مقابل تھی، اس لئے بڑی تھی.اور اب چونی کا روپیہ سے مقابلہ ہے اس لئے چھوٹی ہو گئی.پھر ایک روپے کا اگر دس بیس چالیس یا پچاس روپوں سے مقابلہ ہو تو ایک روپیہ چھوٹا ہو جائے گا اور دس میں روپے بڑے.غرض کسی چیز کو چھوٹا قرار دینا اپنی ذات میں بالکل بے معنی امر ہے.چھوٹا اور بڑا ہونا نسبتی طور پر ہوتا ہے.دنیا میں کوئی چیز چھوٹی نہیں اور کوئی چیز بڑی نہیں.ہر چھوٹی چیز کے مقابلہ میں بڑی چیز ہے اور ہر بڑی چیز کے مقابل میں ایک چھوٹی ہے.پس جب ہم یہ کہتے ہیں کہ بڑی چیز کیلئے چھوٹی چیز کو قربان کردو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دونوں کا موازنہ کرو.اور دیکھو کہ ان دونوں میں سے کس کو چھوڑنا چاہیے اور کسے رکھنا چاہیے.جس کو رکھنا ہو گا وہ بڑی ہوگی.اور جسے چھوڑنا ہوگا وہ چھوٹی.پس کسی ایک چیز کو بڑا یا چھوٹا کہہ دینا غلطی ہے دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ دو چیزوں میں سے کون سی چیز چھوٹی ہے اور کون سی بڑی.یہ نہیں کہ ہر حالت میں وہ چھوٹی ہوتی ہے اور ہر حالت میں دوسری چیز بڑی.پس یہ تو صحیح ہے کہ چھوٹی چیز کو بڑی چیز کے مقابلہ میں قربان کر دینا چاہیے.لیکن یہ صحیح نہیں کہ کوئی چیز معین طور پر چھوٹی ہے.اور کوئی چیز معین طور پر بڑی.ہر چیز نسبت کے وقت آکر چھوٹی بھی ہو جائے گی اور بڑی بھی.مثلاً نماز کے وقت کی پابندی ایک بہت بڑی چیز ہے.مگر رسول کریم نے ایک دفعہ جہاد کے دوران تین نمازوں کو جمع کرکے پڑھا.ظہر کا وقت آیا اور گزر گیا.عصر کا وقت آیا اور گزر گیا.پھر مغرب کے وقت آپ نے تینوں نمازیں جمع کرائیں ہے.اور بعض لوگوں کے نزدیک تو رسول کریم ا نے تین سے بھی زیادہ نمازیں جمع کرائیں.حالانکہ اگر کسی وجہ سے ظہر و عصر کی نمازیں جمع کی جائیں تو جائز ہوتا ہے.لیکن عصر و مغرب کا جمع کرنا ناجائز ہے.اور ظہر و عصر اور مغرب کا جمع کرنا تو بالکل ناجائز ہے.لیکن لڑائی کے دوران میں نمازوں کے اوقات چھوٹے
خطبات محمود ۲۳۴ سال ۱۹۳۳ء درجہ کے ہو گئے.اور رسول کریم ال نے ان پر جہاد کو ترجیح دی.اسی طرح ایک مسلمان کی جان کتنی قیمتی چیز ہے.رسول کریم ﷺ حدیث قدسی میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کہتا ر سکتا ہے.جب کسی مومن کی جان نکلنے کا وقت آتا ہے.تو اس سے عرشِ عظیم کانپ جاتا ہے سے مگر اسی جان کے متعلق دوسرے موقع پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیوں نہیں جنگ میں جاتے اور جاکر مرجاتے.گویا ایک وقت تو مسلمان کی جان اتنی قیمتی ہوتی ہے کہ عرش عظیم اس کے نکلنے سے کانپ جاتا ہے.اور دوسرے وقت اتنی چھوٹی ہو جاتی ہے کہ جان کا نہ دینا منافقت ہو جاتی ہے.پس بڑا چھوٹا ہونا نسبتی امور ہوتے ہیں.مجھ سے ایک دفعہ ایک نوجوان گفتگو کر رہا تھا ڈاڑھی کے متعلق گفتگو تھی.چونکہ وہ ہم میں سے ہی تھا.اور جانتا تھا کہ ہم ہر مذہبی چیز کو اس کے اصل مقام پر کھڑا کرتے ہیں.اس لئے اس نے یہ خیال کرکے کوشش کی کہ ایسی دلیل پیش کرے جس کے مقابلہ میں خاموش ہونا پڑے.اس نے کہا ڈاڑھی اور روحانیت کا تعلق کیا ہے.اگر ڈاڑھی رکھ لی جائے تو اس سے روحانی ترقی کس طرح ہو سکتی ہے.ڈاڑھی اور روحانیت کا جوڑ ہی کیا ہے.چند ٹھوڑی کے بال ہیں، اگر رکھ لئے تو روحانیت پر کیا اثر ہے اور نہ رکھنے سے روحانیت میں کیا کمی آسکتی ہے.اور اگر ڈاڑھی کا روحانیت سے کوئی تعلق نہیں تو اسے مذہب میں کیوں شامل کیا جاتا ہے.میں نے اسے جواب دیا.کہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ ڈاڑھی اور روحانیت کا آپس میں تعلق نہیں.مگر محمد ﷺ کی اطاعت اور روحانیت کی ترقی کا آپس میں بڑا تعلق ہے.اس میں شبہ نہیں کہ ڈاڑھی کے چھوٹے بڑے ہونے سے روحانیت نہ بڑھتی ہے.نہ گھٹتی ہے.مگر محمد اس کی اطاعت ہے.مگر محمد ﷺ کی اطاعت یا عدم اطاعت میں اس کی ترقی یا تنزل ضرور ہوتا ہے.غرض نسبتی لحاظ سے ایک چیز بڑی اور ایک چھوٹی ہوتی ہے.اگر محمد ال کا حکم اور آپ کا نمونہ ہمارے سامنے نہ ہوتا تو جو شخص کہتا کہ ڈاڑھی رکھو اور جو کہتا کہ نہ رکھو اور آپس میں اس وجہ سے جھگڑتے.میں ان دونوں کو بیوقوف سمجھتا.لیکن جب خدا کے رسول نے کہا.چاہے کسی حکمت سے کہا.ہماری سمجھ میں وہ حکمت آتی ہو یا نہ آتی ہو، بہر حال ہمیں اسے اختیار کرنا چاہیے.ڈاکٹر بسا اوقات جب ہمیں نسخہ دیتا ہے تو کئی دواؤں کے متعلق ہمیں معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیوں ڈالی گئیں.مگر ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ بیوقوفی سے تجویز کیا گیا ہے، اس لئے ہم نہیں پیتے بلکہ ڈاکٹر کے نسخہ کو تسلیم کرتے ہیں.کیونکہ کہتے ہیں یہ ڈاکٹر کا تجویز کردہ نسخہ ہے اور ضرور کسی حکمت کے ماتحت دوائیں تجویز کہ
سال ۱۹۳۳ء خطبات محمود ۲۳۵ کی ہوں گی.اسی طرح جو شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے اس کا حق ہے.کہ کسے یوں کرو اور یوں نہ کرو.اگر کسی بات کی وجہ ہماری سمجھ میں نہ آئے تو یہ ہماری غلطی ہو گی.یہ نہیں کہ وہ بات غلط ہو.اسی طرح ڈاڑھی رکھنے کی وجہ کسی کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے.چونکہ محمد نے حکم دیا ہے اس لئے رکھنی چاہیے.فوائد یا عدم فوائد کا سوال نہیں بلکہ محمد ﷺ کی اطاعت اور عدم اطاعت کا سوال ہے.اور آپ کی اطاعت کے ساتھ روحانیت کا بہت بڑا تعلق ہے.مشه ، پس تمام امور نسبتی ہوتے ہیں.بعض جگہ چھوٹی چیزیں بڑی بن جاتی ہیں اور بعض جگہ بڑی چیزیں چھوٹی بن جاتی ہیں.رسول کریم ﷺ ایک دفعہ مجلس میں تقریر فرمارہے تھے.جب تقریر ختم ہوئی تو آپ نے فرمایا.اللہ تعالٰی نے مجھے ایک بات بتائی ہے.اور وہ یہ ہے کہ اس مجلس میں تین شخص آئے.ایک نے دیکھا کہ جگہ بھری ہوئی ہے اور بیٹھنے کیلئے گنجائش نہیں، وہ واپس چلا گیا.اس کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا.جس طرح اس نے اس مجلس.پھیرا، اسی طرح میں نے بھی اس سے منہ پھیر لیا.وہ گھر سے تو اسی ارادہ سے آیا تھا کہ رسول کریم کی مجلس میں بیٹھے.مگر چونکہ واپس چلا گیا اس لئے اللہ تعالی نے اس سے منہ پھیر لیا.کتنی چھوٹی سی بات تھی اور کتنا اہم نتیجہ رونما ہوا.پھر فرمایا ایک اور شخص آیا.اس نے بھی دیکھا کہ مجلس بھری ہوئی ہے.مگر اسے واپس جانے میں شرم محسوس ہوئی اور وہ ان کنارے پر ہی بیٹھ گیا.خدا تعالیٰ نے فرمایا جس طرح یہ شخص واپس جانے سے شرمایا، اسی طرح میں بھی اس کے گناہوں کی گرفت سے شرماؤں گا.کتنا چھوٹا سا فعل تھا مگر اس کا نتیجہ کتنا اہم نکلا.پھر فرمایا مجھے خدا نے خبر دی ہے کہ ایک تیسرا شخص آیا اس نے بھی دیکھا کہ مجلس بھری ہوئی ہے لیکن اس نے تاڑ رکھی اور جب اسے ذرا بھی آگے جگہ معلوم ہوئی تو وہ کودتا پھاند تا آگے بڑھا اور قریب ہو کر بیٹھ گیا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا.جس طرح یہ میرے رسول کی باتیں سننے کیلئے آگے بڑھا، اسی طرح میں بھی اسے آگے بڑھاؤں گا اور اپنے قرب کا مقام عطا کروں گا ہے.کتنا چھوٹا فعل تھا مگر اس کا نتیجہ کتنا اہم نکلا.تو چھوٹی بڑی کی بحث عقل کی بات نہیں.یہ تمام امور نسبتی ہوتے ہیں اور نسبتی امور میں بعض دفعہ نہایت ہی باریک امتیاز کی وجہ سے ایک چھوٹی چیز بڑی ہو جاتی ہے.اور ایک بڑی چیز چھوٹی.مثلاً رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ سیدھی رکھو ورنہ تمہارے دل ٹیڑھے ہو جائیں گے ھے.اب دلوں کا ٹیڑھا ہونا کتنی
خطبات محمود FFY سال ۱۹۳۳ء خطرناک بات ہے.بعض دفعہ جب دل میں کچی واقع ہو جائے تو کس طرح انسان کا قدم صداقت سے پھر جاتا ہے.مگر صفوں کا سیدھا رکھنا کتنی معمولی بات ہے.اسی طرح رسول کریم ا اس لیے ایک دفعہ ان انعامات کا ذکر فرمارہے تھے.جن کا اللہ تعالی نے آپ کی ذات سے وعدہ فرمایا تھا.ایک صحابی کھڑا ہوا اور اس نے کہا یا رسول اللہ دعا کیجئے میں بھی آپ کے ساتھ رہوں.آپ نے فرمایا.ہاں خدا نے تمہاری اس خواہش کو قبول فرمایا.پھر ایک اور صحابی اُٹھ کھڑا ہوا.اور اس نے کہا یا رسول اللہ میں بھی آپ کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں.آپ نے فرمایا اب نہیں وہ دعا تو پہلا شخص لے گیا تھے.اس کی ادا اللہ تعالی کو ایسی بھائی کہ وہ بات جو رسول کریم ﷺ کو کتنی قربانیوں کے بدلے حاصل ہوئی تھی.اسے محض ایک فقرے سے حاصل ہو گئی.تو چھوٹے بڑے کیلئے کوئی معین قانون نہیں.یہ بات انسان کا دل ہی جانتا ہے کہ کونسی چیز بڑی ہے اور کون سی چھوٹی.یا پھر بعض اوقات سے اس کا تعلق ہوتا ہے.پس اس بحث میں پڑنا انسان کو ایسی اُلجھن میں ڈال دیتا ہے جو کبھی حل نہیں ہو سکتی.یہی چھوٹی بات جس کے متعلق "انقلاب" کہتا ہے کہ کیا ہے.معمولی سا امر ہے.اس چھوٹی سی بات کیلئے ہمارے پانچ آدمی کابل میں سنگسار کئے گئے.تم کابل کے مولویوں سے پوچھو کہ کیا یہ چھوٹی سی بات تھی.جس کے بدلے پانچ مومنوں کو سینکڑوں مولویوں کی تصدیق اور ان سے فتویٰ لینے کے بعد شہید کر دیا گیا.خدا کے حضور وہ کیا کہیں گے کہ ایسی معمولی چیز جس کی تبلیغ بھی درست نہیں، اس کیلئے پانچ شخصوں کو سنگسار کر دیا گیا اور سنگسار بھی معمولی طریق سے نہیں بلکہ حکومت کے محکمہ قضاء نے علماء کے فتویٰ کے بعد جس پر سینکڑوں مولویوں کے دستخط تھے ، سنگسار کیا.جس کا مطلب یہ ہے کہ سارا افغانستان اس کا ذمہ دار ہے.چھوٹی سی تھی تو افغانستان والوں پر کتنی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.اور کس طرح یہ سارے افغانستان کو جہنمی بنا دیتا ہے.کیونکہ قرآن کریم میں خداتعالی فرماتا ہے کہ مومن کی جان لینے والا جہنمی ہوتا ہے.پس وہی چیز جو دفتر انقلاب کے نزدیک بالکل چھوٹی ہے، کابل میں بہت بڑی ہو جاتی ہے.پھر یہی چھوٹی چیز لاہور میں ہی زمیندار کے دفتر میں بہت بڑی بن جاتی ہے.اور وہاں سے ہم یہ سنتے ہیں کہ تیرہ سو سال میں اسلام میں اس سے بڑا فتنہ پیدا نہیں ہوا.جب اس سے بڑا فتنہ تیرہ سو سال میں ظاہر نہیں ہوا تو پھر یہ بات چھوٹی کہاں ہوئی ، بڑی ہوئی.مگر بہر حال میں سمجھتا ہوں اس بحث میں پڑنا فضول ہے کیونکہ چیز وہی ہے.انقلاب والے بات
خطبات محمود ۲۳۷ سال ۱۹۳۳ء کہتے ہیں کہ یہ معمولی سی بات ہے.زمیندار والے کہتے ہیں کہ یہ اتنا بڑا فتنہ ہے جو تیرہ سو سال میں ظاہر نہیں ہوا.اب اگر یہ چیز گمراہی کے لحاظ سے بڑی ہے تو اگر حق ثابت ہو جائے تو حق کے لحاظ سے بھی بہر حال بڑی ہوگی.یہ ایک ہی شہر میں رہنے والے ایک ہی مذہب کی طرف منسوب ہونے والے اور ایک لمبے عرصے تک اکٹھا کام کرنے والوں کا حال ہے ایک کہتا ہے چھوٹی چیز ہے.اور دوسرا کہتا ہے کہ یہ اتنی بڑی چیز ہے کہ تیرہ سو سال میں اتنی بڑی چیز ظاہر نہیں ہوئی.ایک کے نزدیک ضلالت ہے مگر معمولی سی ضلالت اور ایک کے نزدیک گمراہی ہے اور بہت بڑی گمراہی.پس اگر احمدیت حق ہے تو انقلاب والوں کے نزدیک چھوٹا سا حق ہے.اور زمیندار والوں کے نزدیک اتنا بڑا حق کہ تیرہ سوسال میں اتنا بڑا حق ظاہر نہیں ہوا.چیز کے حجم کا سوال ہے.ایک اسے چھوٹا کہتا ہے اور ایک بڑا.اگر ہم گمراہی کا نام حق رکھ دیں تو حجم تو اتنا ہی رہے گا، چھوٹا نہیں ہو جائے گا.پس اس اختلاف کو طے کرنا انسانی عقل سے بالکل ناممکن ہے.بحثیں ہو سکتی ہیں لیکن وہ ایسا لمبا راستہ ہوگا جس کا طے کرنا مشکل ہو گا.اسی طرح رفع یدین کا مسئلہ ہے.ہم بھی اسے چھوٹا سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں جس کا جی چاہے ہاتھ اٹھائے جس کا جی چاہے نہ اٹھائے.مگر جن لوگوں نے اس کی وجہ سے مصیبتیں برداشت کی ہیں، ان کی ڈاڑھیاں منڈوائی گئیں، منہ کالے کئے گئے اور ملکوں سے نکال دیئے گئے.حضرت عبداللہ صاحب غزنوی کو ہی جب افغانستان سے نکالا گیا تو انہیں گدھے پر سوار کیا گیا، منہ کالا کیا گیا اور جگہ بہ جگہ پھرایا گیا.جھگڑا یہی تھا کہ یہ آمین بالجر ، رفع یدین اور تشد میں انگلی اُٹھانے کے قائل تھے.اسی طرح اور بہت سے چھوٹے چھوٹے امور ہیں جن کی وجہ سے بزرگان دین کو تکلیفیں دی گئیں.مگر جنہوں نے تکلیفیں دیں وہ انہیں بڑی ہی سمجھتے تھے.پس اپنے اپنے رنگ اور اپنے اپنے خیال کے مطابق ایک چیز کو چھوٹا بڑا سمجھا جاسکتا ہے.اس لئے ایک اور امر ہے جس سے معقول تصفیہ ہو سکتا ہے.اور وہ یہ کہ تبلیغ احمدیت کو چھوٹی سے چھوٹی چیز قرار دے لو جتنی چھوٹی انقلاب والوں نے کبھی ہے، اس سے بھی دس ہزار گنا چھوٹا بلکہ دس کروڑ گنا چھوٹا سمجھ لو.مگر ایک چیز ہے جو اسے بڑا بنادیتی ہے اور وہ یہ کہ ہمارا دعوی یہ نہیں کہ ہم نے پہلے کچھ سوچا غور کیا اور پھر اسے دنیا میں پھیلانے کیلئے نکل کھڑے ہوئے بلکہ ہمارا دعوئی یہ ہے کہ ہمیں خدا نے کہا جاؤ اور یہ چیز دنیا کو پہنچاؤ.اور اگر یہ بات سچی ہے کہ ہمیں خدا نے ہی کہا جاؤ اور دنیا میں احمدیت کو پھیلاؤ تو یہ کہنے کے کہ
خطبات محمود ٢٣٨ سال ۱۹۳۳ تو عمل تبلیغ نہ کرو معنی یہ ہوں گے کہ جانے بھی دو خدا تو ایسی باتیں کہا ہی کرتا ہے.مگر کیا کوئی معقول اور سمجھدار انسان یہ بات ماننے کیلئے تیار ہو گا.یہ تو ان کا حق ہے کہ وہ کہیں یہ بات خدا نے نہیں کی.بلکہ حضرت مرزا صاحب کو (نَعُوذُ باللهِ) دھوکا لگا.مگر یہ کہنا کہ مانو تو خدا کی طرف سے لیکن اس پر عمل نہ کرو اسے کوئی بھی شخص تسلیم نہیں کر سکتا.پس اگر ہم عقل سے ایک بات پیش کرتے تو اس کے متعلق کہا جاسکتا تھا کہ یہ چھوٹی ہے یا بڑی.لیکن جب ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر آسمان سے کلام نازل کیا اور حکم دیا کہ یہ تعلیم لے کر دنیا میں کھڑے ہو جاؤ اور لوگوں سے منواؤ تو پھر یہ بات چھوٹی نہیں ہو سکتی.پس جب تک ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ خدا نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم تبلیغ احمدیت کریں اس وقت تک ہمارا فرض ہے کہ ہم تبلیغ احمدیت کرتے رہیں.ہاں یہ دوسرے شخص کا کام ہے کہ وہ ثابت کرے خدا نے یہ بات نہیں کہی بلکہ تمہارے نفسوں کو دھوکا لگا ہے.مگر جب تک وہ یہ ثابت نہیں کر سکتے خدا کا حکم چھوٹا نہیں کہلا سکتا.اس پر کرنا ہمارا فرض ہے.اگر انقلاب والے یہ کہتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب سے غلطی ہوئی انہیں دھوکا لگا خدا نے انہیں اس امر کا حکم نہیں دیا تو یہ ان کا جائز حق تھا.مگر ایک بات پھر بھی میں کہوں گا کہ جس وقت وہ ہمیں مخاطب کر کے یہ کہتے کہ مرزا صاحب کو دھوکا لگا اور اس پر بحث کرتے تو بہر حال انہیں یہ تسلیم کرلینا پڑتا کہ یہ چھوٹی بات نہیں بلکہ بڑی بات ہے.اور انہیں مانا پڑتا کہ چھوٹی باتوں پر بھی بحثیں جائز ہوتی ہیں.لیکن ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ یہ چھوٹی چیز ہے یا بڑی.ہم یہ جانتے ہیں کہ خدا نے اس کا حکم دیا.ایک روڑی پر پڑا ہوا حقیر تنکا جسے آلائش لگی ہوئی ہو.اگر اس سے بھی یہ چھوٹی چیز ہے تو ہمارے لئے بڑی ہے.کیونکہ ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ خدا نے کہی.پس سوال یہ نہیں کہ یہ بات چھوٹی ہے یا بڑی بلکہ سوال یہ ہے کہ یہ بات کس نے کہی.ٹالسٹائے روس کا ایک رئیس گزرا ہے.بہت مشہور آدمی تھا.حتی کہ گاندھی جی آج کل جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ بھی ٹائٹائے کی کتابوں کو ہی پڑھ کر انہوں نے اثر قبول کیا.اس کا ایک پردادا بادشاہ کا چپڑاسی تھا.ایک دفعہ بادشاہ نے حکم دیا کہ میں ایک ضروری کام کرنا چاہتا ہوں.تم دروازے پر کھڑے ہو جاؤ اور کسی کو اندر نہ آنے دو.اتفاق ایسا ہوا کہ ایک گرینڈ ڈیوک (GRAND DUKE) اسی وقت بادشاہ سے ملنے کیلئے آیا.روسی قوانین میں یہ امر
سال ۱۹۳۳ء خطبات محمود معلوم ۲۳۹ داخل ہے کہ گرینڈ ڈیوک اگر بادشاہ سے ملنے آئے تو اسے کوئی شخص نہیں روک سکتا.جونہی وہ دروازہ سے اندر داخل ہونے لگا چپڑاسی جو ٹالسٹائے کا پردادا تھا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا.اور کہنے لگا حضور بادشاہ سلامت نے منع کیا ہے.اسے سخت غصہ آیا اور اس نے محسوس کیا کہ اس کی ہتک ہوئی.کیونکہ ایک چپڑاسی نے اسے اندر جانے سے روکا.اس نے کہا کیا تمہیں نہیں کہ میں گرینڈ ڈیوک ہوں اور مجھے قانون نے حق دیا ہے کہ میں اندر جاؤں.وہ کہنے لگا.میں جانتا ہوں لیکن بادشاہ سلامت کا یہی حکم ہے.وہ گھوڑے پر سوار تھا.اسی وقت اس نے چابک نکالا اور دو تین اسے رسید کئے.ٹالسٹائے سر نیچا کر کے مار کھاتا رہا.اس نے سمجھا کہ اب اسے اچھا سبق حاصل ہو گیا ہے.پھر جو وہ دروازے کی طرف بڑھا تو وہ پھر راستہ روک کر کھڑا ہو گیا.اور کہنے لگا بادشاہ کا حکم یہی ہے کہ اندر کوئی نہ آئے.اس نے پھر چابک نکال کر پہلے سے بھی زیادہ زور کے ساتھ اسے مارا.وہ خاموش ہو کر مار کھاتا رہا.گرینڈ ڈیوک نے سمجھا کہ اب یہ ٹھیک ہو گیا ہو گا.اس لئے اس نے پھر دروازہ سے گزرنا چاہا مگر وہ پھر رستہ روک کر کھڑا ہو گیا.اور کہنے لگا.حضور بادشاہ سلامت کی طرف سے اجازت نہیں.گرینڈ ڈیوک کہنے لگا کیا تمہیں معلوم نہیں میں کون ہوں اور مجھے تم روک نہیں سکتے.اس نے کہا ہاں میں جانتا ہوں.آپ فلاں گرینڈ ڈیوک صاحب ہیں.اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ کو قانوناً اندر جانے کی اجازت ہے.مگر وہ قانون بھی بادشاہ کا ہے اور یہ حکم بھی بادشاہ کا ہے.اس پر اس نے پھر اسے مارنا شروع کیا.جب خوب مار چکا تو بادشاہ نے اوپر سے یہ نظارہ دیکھ کر نہایت غصہ سے کہا ٹالٹائے کیا ہے؟ اس نے کہا حضور گرینڈ ڈیوک آئے ہیں اور اندر آنا چاہتے ہیں.اس نے کہا دونوں اوپر آجاؤ.جب او پر پہنچ گئے تو بادشاہ کہنے لگا ٹالسٹائے! تم نے گرینڈ ڈیوک کو کیوں روکا.اس نے کہا.حضور کا حکم ایسا ہی تھا.پھر گرینڈ ڈیوک سے پوچھا کیا اس نے تم کو بتایا تھا کہ یہ میرا حکم ہے.اس نے کہا بتایا تھا.بادشاہ کہنے لگا پھر تم نے ٹالٹائے کو نہیں مارا بلکہ اس کو مارا ہے جس نے حکم دیا تھا کہ کوئی شخص اندر نہ آئے.اچھا ٹالٹائے میں تم کو حکم دیتا ہوں کہ گرینڈ ڈیوک کو اسی چابک سے مارو.روس میں یہ قانون ہے کہ برابر کا افسر دوسرے افسر کو مارسکتا ہے، چھوٹا نہیں مار سکتا.گرینڈ ڈیوک کہنے لگا میں فوجی افسر ہوں اور قانونا مجھے یہ نہیں مار سکتا.اس نے ٹالسٹائے کو اسی وقت کوئی فوجی عہدہ دے دیا.اور کہا اب مارو- گرینڈ ڈیوک پھر کہنے لگا روس کا یہ بھی قانون ہے کہ نواب ہی دوسرے نواب کو سزا دے سکتا ہے، میں نواب
خطبات محمود ۲۴۰ سال ۱۹۳۳ء ہوں یہ نواب نہیں.اس لئے یہ مجھے نہیں مار سکتا.بادشاہ نے اسے کہا.کاؤنٹ ٹالسٹائے میں تم کو حکم دیتا ہوں کہ اسے مارو - گویا کاؤنٹ کہہ کر اسے نواب بنادیا.اسی وقت سے ٹالسٹائے کے خاندان کے افراد کاؤنٹ ٹالسٹائے کہلانے شروع ہو گئے.تو اصل چیز بادشاہ کا حکم ہے.جب اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ کرو تو کیا ہمارا حق ہے کہ ہم کہیں یہ بات چھوٹی ہے یا بڑی.ہمارے ملک میں بھی یہ مثال مشہور ہے کہ محمود غزنوی کے پاس ایاز کے مخالفوں نے ایک دفعہ شکایت کی آپ کا بہت بدخواہ ہے.اس نے کہا اس کا تجربہ کرنا چاہیے دربار منعقد کیا.اور نہایت ہی قیمتی موتی جو دو تین لاکھ روپیہ کی مالیت کا تھا رکھ کر اس شخص سے جس نے شکایت کی تھی کہا کہ ہتھوڑا لے کر اسے توڑ دو.وہ کہنے لگا حضور میں آپ اور آپ کے باپ دادا کا نمک خوار ہوں، مجھ سے ایسی گستاخی کہاں ہو سکتی ہے کہ میں موتی تو ڑ دوں.بادشاہ کہنے لگا.تم بڑے خیر خواہ ہو.پھر دوسرے کو کہا.اب بادشاہ نے ایک کو جو کہہ دیا کہ تم بڑے خیر خواہ ہو تو لگے انکار کرنے اور کسی نے بھی موتی نہ توڑا.آخر ایاز کی باری آئی.اس نے ہتھوڑا اُٹھایا اور ایک ہی وار سے اسے چکنا چور کر دیا.سب لوگ گھبرا کر کہنے لگے حضور ! ہم نہ کہتے تھے کہ ایاز آپ کا بدخواہ ہے.بادشاہ ایاز سے کہنے لگا.ایاز ! ان سب نے میرے مال کا نقصان نہ کیا مگر تم نے اتنی دلیری سے کیوں نقصان کر دیا.ایاز کہنے لگا انہیں مال سے محبت ہوگی مگر میرے لئے تو بادشاہ کے حکم کا ایک ایک لفظ اس موتی کے مقابلہ میں قیمتی ہے.اس جواب کاسب پر اثر ہوا اور انہیں تسلیم کرنا پڑا کہ ایاز کے اخلاص کا مقابلہ وہ نہیں کرسکتے.تو سب بحثوں کو جانے دو رہنے دو یہ بات کہ یہ چھوٹی چیز ہے یا بڑی.سوال یہ ہے کہ جب خدا نے اس کا حکم دیا تو آیا ہمارے اخلاص کا تقاضا ہے یا نہیں کہ ہم اسے دنیا میں پھیلائیں.صوفیاء کہا کرتے ہیں.الامر فوق الادب.پس تسلیم کرلو کہ تبلیغ احمدیت ایک چھوٹی بات ہے.مگر جب تک ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ خدا نے کہا اسے پھیلاؤ - تو خواہ یہ چھوٹی ہے یا بڑی، ہم اسے دنیا میں پھیلا کر ہی دم لیں گے.ہاں یہ ہر شخص کا حق ہے کہ وہ ثابت کرے کہ تمہیں اللہ تعالیٰ نے ایسا نہیں کہا.مگر اسی دن جب وہ اس بحث کا آغاز کریں گے، خود ہی اس بحث میں مشغول ہو جائیں گے جس سے وہ اب روک رہے ہیں.اور اس طرح ثابت کردیں گے کہ یہ معمولی بات نہیں بلکہ اہم ہے.باقی رہا یہ امر کہ تبلیغ سے اختلاف پیدا ہوتا ہے.سو یہ بھی غلط ہے.اختلاف تو دنیا میں ہمیشہ ترقی کا موجب ہوتا ہے.جب زمین کو چھپٹی کہا
خطبات محمود امهم علم سال ۱۹۳۳ جاتا تھا، اس وقت اگر زمین کو گول کہنے والے چپٹی کہنے والوں سے اختلاف نہ کرتے تو دنیا اس عظیم الشان نکتہ سے محروم رہ جاتی.اسی طرح اگر اس امر میں اختلاف نہ کیا جاتا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے یا سورج زمین کے گرد گھومتا ہے تو دنیا بہت سے فوائد سے محروم رہ جاتی.جب پانی کو مفرد کہا جاتا تھا، اس وقت اگر اختلاف نہ کیا جاتا اور ثابت نہ کیا جاتا کہ پانی مفرد نہیں بلکہ بعض گیسوں سے مرکب ہے تو علمی ارتقاء کس طرح ہو سکتا.غرض دنیا کی ترقی اختلاف پر مبنی ہے.اور ترقی کا ذریعہ یہی ہے کہ جو نیا خیال ہو اسے لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے.ہاں وہ شخص جو لڑتا ہے وہ خود فساد کی ابتداء کرتا ہے.اس کا قصور اس کے ذمہ ہے.نہ اس کے ذمہ جو کوئی بات بتاتا ہے.رہا یہ کہ اس طرح دوسروں کو بھی جوش آئے گا اور وہ بحث کریں گے تو اس میں حرج ہی کون سا ہے.میں تو ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ جس کا جی چاہیے آئے اور اگر مجھے اپنی باتیں سمجھائے.اگر ہم یہ اپنا حق سمجھتے ہیں کہ دوسروں کو اپنی باتیں سنائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ دوسروں کی باتیں سننے سے ہم کنارہ کشی کریں.اگر کوئی شخص اس طرح اپنی باتیں سنانا چاہے کہ میرے کام میں زبردستی روک نہ بن جائے یا فتنہ پیدا ہونے کا احتمال نہ ہو تو اگر میری فرصت کے اوقات میں زبانی ایسی صورت میں گفتگو کرتا ہے کہ جس میں گالی گلوچ یا طعن و تشنیع نہیں تو میں ایسے شخص کی باتیں سننے کیلئے ہر وقت آمادہ ہوں.اسی طرح ہر احمدی کو دوسرے کی باتیں سننے کیلئے تیار رہنا چاہیئے.ہاں اگر کوئی احمدی دوسرے سے لڑتا ہے تو میں اس کو پاگل خیال کروں گا.جس طرح میں اس احمدی کو پاگل سمجھتا ہوں جو دوسروں کی باتیں نہ سنے اسی طرح اس احمدی کو بھی میں پاگل خیال کروں گا جو تبلیغ کرتے ہوئے لڑ پڑے.غرض تبلیغ ایک نہایت ضروری چیز ہے.اور یہ لغو بحث ہے کہ یہ چیز چھوٹی ہے یا بڑی.ہمارا یقین ہے کہ یہ بات خدا نے کی.پس ہمیں اس کے چھوٹے بڑے ہونے سے غرض نہیں.ہمارے سامنے مقصد یہ ہے کہ ہم اسے لوگوں کے کانوں تک پہنچائیں.بت کے سامنے جھک جانا کتنی چھوٹی بات ہے.ایک جسم کی معمولی سی حرکت ہے مگر خدا کے حکم کے ماتحت یہی چیز بڑی بن گئی.پس چھوٹی بڑی چیز کے سوال میں پڑنا فضول ہے.ہمارا عقیدہ ہے کہ خدا نے کہا کہ جاؤ اور دنیا کو یہ پیغام پہنچاؤ.ساری دنیا اسے چھوٹا کہے، ہمارے نزدیک بڑی ہی ہے.ہاں اس کا علاج یہ ہے کہ وہ سمجھائیں کہ تمہیں خدا نے نہیں کہا.لیں جس دن وہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء سمجھا دیں گے تمام جھگڑا ختم ہو جائے گا.ورنہ جب تک وہ یہ نہیں سمجھاتے ہمارے نزدیک بڑی ہی ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم دنیا کو پہنچائیں.اگر کوئی لڑتا ہے تو یہ اُس کا قصور ہے اور اگر ہمارا آدمی لڑتا ہے ایسے آدمی کو ہم خود سزا دیں گے.اور سمجھیں گے کہ گیا تو تھا وہ خدا کا پیغام پہنچانے مگر لگ گیا شیطان کا پیغام دینے.پس جب تک کوئی اس پوزیشن سے ہمارے دل پر پہنچنا نہ چاہے اس وقت تک اس کی بات کا ہم پر اثر نہیں ہو سکتا.الفضل ۱۲ - اکتوبر ۱۹۳۳ء) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یکم دسمبر ۱۸۸۸ء کو بیعت کے متعلق اشتہار دیا.۱۲- جنوری ۱۸۸۹ء کو دس شرائط بیعت کا اشتہار دیا.۲۳- مارچ ۱۸۸۹ء کو مکرم صوفی احمد جان صاحب کے مکان (واقع لدھیانہ) پر پہلی بیعت لی.(تاریخ احمدیت جلدا صفحه ۳۳۵ تا ۳۳۹ نیا ایڈیشن) له السيرة الحلبية جلد دوم صفحه ۳۴۳ مطبع محمد علی صبیح ۱۹۳۵ء.الازهر الاز کے بخاری کتاب المناقب باب مناقب سعد بن معاذ میں حضرت سعد بن معاذ کے بارہ میں یہ الفاظ آئے ہیں اهْتَزَّ الْعَرْشُ لِمَوْتِ سَعْدِ بْنِ مُعَادٍ" ه بخاری کتاب العلم باب من قعد حيث ينتهى به المجلس وباب من رأى فرجة في الحلقة فجلس فيها شه بخاری کتاب الاذان باب تسوية الصفوف عند الاقامة وبعدها ه بخاری کتاب الرقاق باب يدخل الجنة سبعون الفا بغير حساب
خطبات محمود سلام سال ۱۹۳۳ء يوم التبلیغ کے متعلق ضروری ہدایات (فرموده ۱۳ - اکتوبر ۱۹۳۳ء) نشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- سال مجلس شوری کے موقع پر جماعت کے نمائندوں سے مشورہ کرنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا تھا کہ ہر سال ایک یوم التبلیغ احمدیت کیلئے اور ایک یوم التبلیغ اسلام کیلئے مقرر کیا جایا کرے.یوں تو مومن کیلئے ہر دن یوم تبلیغ ہی ہوتا ہے.کیونکہ رسول کریم ای فرماتے ہیں کہ جو شخص حق کے پہنچانے سے خاموش رہتا ہے وہ گویا شیطان اخرس ہے اے- اب کون مومن یہ پسند کرے گا کہ کوئی دن اس پر ایسا آئے جب کہ وہ شیطان کہلائے.پس ہر مومن اپنا فرض سمجھتا ہے کہ وہ پیغامِ حق جو خدا تعالی کی طرف سے دنیا کی ہدایت کیلئے نازل ہوا حتی الوسع لوگوں تک پہنچاتا رہے.خواہ قلم سے پہنچائے، خواہ زبان سے اور خواہ عمل سے.مگر بہر حال اس کی تبلیغ کرتا ہے.پس یوں تو تبلیغ ہر مومن کا فرض ہے.اور یقینی طور پر میں کہہ سکتا ہوں کہ ہر سچا مومن ہر روز تبلیغ کرتا ہی ہوگا.لیکن بعض کمزور طبائع ایسی ہوتی ہیں جو بیدار کئے جانے کی محتاج ہوتی ہیں.اور اس بات کی منتظر ہوتی ہیں کہ کوئی آئے اور انہیں تبلیغ کرنے کی تحریک کرے.گویا عملاً اس بات کا انتظار کر رہی ہوتی ہیں کہ کوئی آکر انہیں جگائے.سونے والے دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں.ایک وہ جن کے ماتحت سونا ہوتا ہے اور ایک وہ جو خود سونے کے ماتحت ہوتے ہیں.جن کے قبضہ میں نیند ہوتی ہے، وہ جب چاہتے ہیں اٹھ بیٹھتے ہیں خواہ رات کے پہلے حصہ میں اٹھنا چاہیں یا آخر حصہ میں.مگر
خطبات محمود سلام ۲۴۴ سال ۱۹۳۳ء بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ نیند ان پر غالب ہوتی ہے.وہ آٹھ نو بلکہ دس بجے صبح تک رہیں گے.کیونکہ جتنا کوئی شخص نیند کو بڑھانا چاہے اسی قدر وہ بڑھتی چلی جاتی ہے اور سوتے آنکھیں کسل زیادہ ہوتا جاتا ہے.ایسے لوگوں کو اگر کوئی دس بجے بھی جگائے تو وہ سستی سے ملتے جمائیاں اور انگڑائیاں لیتے اُٹھیں گے.اور یوں معلوم ہو گا کہ گویا انہیں سوئے ابھی دو منٹ نہی ہوئے تھے کہ جگا دیا گیا.مگر دوسرا شخص جس نے نیند کو اپنے قابو میں کیا ہوتا ہے.اگر اس کے سوتے ہوئے پاس سے بھی کوئی شخص گزر جائے تو وہ جاگ اُٹھتا ہے خواہ شروع رات میں کوئی گزرے یا آخر رات میں.یہی کیفیت روحانی حالت میں بھی ہوتی ہے.بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ آپ ہی آپ ان کی آنکھ کھلتی رہتی ہے اور تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد وہ جاگتے ہیں.اور اگر وقت نہیں ہوتا تو پھر سو جاتے ہیں.پھر آنکھ کھل جاتی ہے اور وہ ذکر الہی کرلیتے ہیں.یا بعض ایسے لوگ ہوتے ہیں کہ کسی کے گزرنے سے تو ان کی آنکھ نہیں کھلتی.جوانی کا غلبہ ہوتا ہے اور وہ سوئے چلے جاتے ہیں.مگر وقت پر اٹھ بیٹھتے ہیں جیسے تجد کی نماز یا فجر کی نماز کے وقت تو جیسی جیسی کسی کو توفیق ہوتی ہے، اس کے مطابق وہ جاگ اُٹھتا اور اپنے کام میں مشغول ہو جاتا ہے.مگر بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ وہ سوئے چلے جاتے ہیں اور نہیں جاگتے جب تک کوئی شخص انہیں آکر نہ جگائے.اسی طرح روحانیت میں بھی ہوتا ہے.مومن تو سب کہلاتے ہیں مگر تبلیغ اور روحانیت کی ترقی کی طرف بعض لوگ توجہ نہیں کرتے.جب تک کوئی شخص انہیں توجہ نہ دلائے.ایسے لوگوں کو کبھی سیکرٹری تبلیغ بیدار کرتا ہے، کبھی پریذیڈنٹ بیدار کرتا ہے.یہ لوگ انگڑائیاں لیتے آنکھیں ملتے اور سستی ظاہر کرتے ہوئے اُٹھتے ہیں.اور جیسے نیند کا متوالا کہتا ہے یہ بھی کہتے ہیں اتنی جلدی کیا ہے.آپ فکر کیوں کرتے ہیں زیادہ دیر تو نہیں ہوئی.پھر تھوڑی دیر بیٹھے رہیں گے، حیران ہوں گے کہ ان لوگوں کو جلدی کی کیوں فکر پڑی ہے.اور جب زیادہ اصرار کیا جائے گا تو اُٹھ بیٹھیں گے.اور دوسروں کے ساتھ مل کر تبلیغ میں مشغول ہو جائیں گے.غرض ایسی طبائع کیلئے ضروری ہے کہ بیداری کے سامان مہیا کئے جائیں.اور ایسے ہی وہ سامانوں میں سے ایک تبلیغ کا ون بھی ہے.چونکہ اس دن ساری جماعت فیصلہ کرلیتی ہے کہ و تبلیغ میں حصہ لے گی اس لئے سُست لوگ بھی اُٹھ بیٹھتے ہیں.خواہ وہ شکایت ہی کرتے ہوئے اُٹھیں، احتجاج کرتے ہوئے اٹھیں.مگر بہر حال اُٹھ بیٹھتے ہیں اور تبلیغ میں مشغول ہو جاتے
خطبات محمود ۲۴۵ سال ۱۹۳۳ ہے ہیں.اسی طرح اس دن یہ بھی پتہ لگ جاتا ہے کہ منافق کون ہے اور سُست کون.کیونکہ منافق اور ست آدمی میں بظاہر فرق نہیں ہوتا.رسول کریم ﷺ نے منافق کی نشانی یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ عشاء اور صبح کی نماز میں نہیں آتا ہے.ست آدمی بھی ان نمازوں میں نہیں آتا.اور بظاہر یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ عشاء اور صبح کی نمازوں میں نہ آنے والوں میں سے ست کون ہے اور منافق کون تبلیغ کا دن اس امتیاز کو بھی ظاہر کردیتا ہے.ست آدمی کے سامنے تبلیغ کرنے کا سوال آئے گا تو وہ بہانے بنائے گا.کہے گا تبلیغ ہر روز ہی ہونی چاہیئے، صرف ایک دن تبلیغ کیلئے مخصوص کر لینے کی کیا ضرورت ہے.وہ اس قسم کی باتیں کرے گا کہ خیال آئے گا وہ ہر روز ہی تبلیغ کرتا رہتا ہے.حالانکہ وہ اس دن کی تبلیغ سے بچنے کیلئے اس قسم کی باتیں کر رہا ہوگا اور خود بھی یہی سمجھے گا.مگر کہے گا دوسروں سے یہی کہ ایک خاص دن مقرر کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس طرح فساد بڑھے گا.جھگڑے ہوں گے.اور لڑائی ہو جانے کا بھی امکان ہے.مگر جب اس پر زیادہ زور دیا جائے گا تو وہ اٹھ کھڑا ہو گا.کہے گا اچھا حکم جو ہوا تبلیغ کیلئے چل پڑتے ہیں.گو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ایک دن کو تبلیغ کیلئے کیوں مخصوص کر لیا گیا ہے.اس طرح لوگوں کے کہنے سے اٹھتا اور تبلیغ کیلئے نکل کھڑا ہوتا ہے.اس کے مقابلہ میں منافق آدمی صرف اعتراض کرے گا اور تبلیغ کیلئے نکلے گا نہیں کیونکہ تبلیغ کیلئے نکلنا اس کیلئے موت ہے.اگر ظاہر میں لوگوں کو دکھانے کیلئے تبلیغ کیلئے نکل بھی پڑے گا تو دیکھنے والے دیکھیں گے کہ وہ لوگوں میں تبلیغ نہیں کر رہا ہوگا.بلکہ کہیں تو وہ لہو و لعب میں مشغول ہوگا.کہیں اس شکایت میں مصروف ہوگا کہ یہ اسلام کیلئے اتحاد کے دن تھے مگر انہوں نے خوامخواہ فتنہ ڈال دیا.اور دوسروں کو اپنے اندر شامل کرنے کی کوشش شروع کر دی.وہ نام کا تو احمدی ہو گا مگر اس کے اعمال ظاہر کر دیں گے کہ وہ احمدی نہیں بلکہ منافق ہے.تو کم از اس دن کا یہ بھی فائدہ ہے کہ اس طرح سُست اور منافق آدمی کا پتہ چل جاتا ہے.پھر تمام لوگوں کی مجموعی طاقت میں بھی ایک برکت ہو جاتی ہے.جیسے عمرہ ہمیشہ ہی ہو سکتا ہے.مگر حج کیلئے خدا تعالیٰ نے ایک دن مقرر کر دیا.جس میں ہر صاحب استطاعت شخص مکہ میں جاتا ہے.اس امر کی پرواہ نہیں کی گئی کہ جب سب لوگ اکٹھے ہو کر جائیں گے تو غیروں کو انگیخت ہوگی اور دشمن کہے گا کہ یہ کیا ہونے والا ہے.پس باوجود اس کے کہ یہ اعتراض حج پر بھی ہو سکتا ہے اور باوجود اس کے کہ
سال خطبات محمود شخص ہی اعتراض جمعہ پر بھی ہو سکتا ہے کیونکہ جمعہ کے روز بھی حکم ہے کہ لوگ اکٹھے ہو کر نماز پڑھیں اور اسلام اس کا حکم دیتا ہے.پھر عیدین پر بھی یہ اعتراض ہو سکتا ہے کیونکہ وہاں بھی ہے ہے کہ اردگرد کے گاؤں والے ایک خاص جگہ اکٹھے ہو کر عبادت کریں.اسلام نے ان امور کو قائم رکھا ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ اتحاد عمل سے برکت پیدا ہوتی ہے.فرداً فرداً بھی بیشک لوگ تبلیغ کرتے ہیں.لیکن ذہنی طور پر اگر یہ خیال نہ ہو کہ سارے ہی تبلیغ کر رہے ہیں تو برکت میں کمی آجاتی ہے.اگر کوئی شخص یہ خیال کرے گا کہ آج ہر تبلیغ کر رہا ہے تو وہ سمجھے گا کہ آج مقابلہ کا دن ہے.اور وہ کوشش کرے گا کہ تبلیغ میں دوسروں سے پیچھے نہ رہ جائے.اور اس طرح روزانہ کی نسبت زیادہ عمدگی سے تبلیغ کے فرائض سرانجام دے گا.پس یوم التبلیغ ایک نہایت ہی ضروری دن ہے اور اس میں فتنہ کی کوئی صورت نہیں.مگر اس میں بھی شبہ نہیں کہ ہم اپنے اعمال سے اس میں اعتراض کی صورت پیدا کرسکتے ہیں.بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ہر چیز سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں.اور بعض کی طبائع جوشیلی ہوتی ہیں.گو مقصد ان کا ناجائز فائدہ اٹھانا نہ ہو.مگر جوش کی وجہ سے ناجائز بات ان سے ظہور میں آجاتی ہے.جیسا کہ ایک صحابی کے متعلق آتا ہے.کہ جب رسول کریم ال فتح مکہ کیلئے تشریف لا رہے تھے تو حضرت عباس نے ابو سفیان کو پکڑ کر رسول کریم ان کی خدمت میں پیش کیا.جس وقت اسلامی لشکر آگے چلا تو ابو سفیان کہنے لگا.میں بھی دیکھوں لشکر کتنا بڑا ہے.وہ ایک طرف کھڑا ہو کر دیکھنے لگا.لشکر اپنے اپنے پھریرے اور جھنڈے کے نیچے جا رہا تھا کہ اتنے میں ایک انصاریوں کا دستہ گھوڑے دوڑاتا ہوا پاس سے گزرا.وہ انصاری اس شان اور تبختر کے سے جارہے تھے کہ ابوسفیان پوچھنے لگا یہ کون ہیں.سالار لشکر نے بھی یہ سن لیا.وہ کہنے لگا.ہم کون ہیں؟ اس کا ابھی پتہ لگ جائے گا جب ہم مکہ پہنچ کر تمہارے رشتہ داروں کی کھوپڑیاں توڑیں گے.اس نے رسول کریم ال سے شکایت کی کہ آپ تو کہتے تھے کہ مکہ میں خون نہیں بہایا جائے گا لیکن یہاں ابھی سے جبکہ مکہ میں لشکر پہنچا نہیں.کھوپڑیاں توڑنے کے ارادے ہو رہے ہیں.رسول کریم تعالی نے اس صحابی کو معزول کر دیا اور اس کے بیٹے کو سالار لشکر بنادیا ہے.اس طرح آپ نے قبیلہ کے احساسات کا خیال بھی رکھ لیا اور قصوروار کو سزا بھی دے دی.جس شخص نے یہ فقرہ کہا وہ منافق نہیں بلکہ مومن تھا لیکن جوشیلی طبیعت رکھتا تھا.اسی طرح کا ہر حصہ
خطبات محمود ۲۴۷ سال ۱۹۳۳ء حضرت عمر بن اللہ کی بھی بڑی جو شیلی طبیعت تھی.جب بھی کوئی ناپسندیدہ بات دیکھتے فوراً تلوار لے کر کھڑے ہو جاتے.اور رسول کریم ﷺ سے عرض کرتے.اجازت ہو تو سر کاٹ دوں تو بعض طبائع ایسی ہوتی ہیں جن میں جوش ہوتا ہے.وہ مخلص ہوتے ہیں مگر طبیعت کا جوش انہیں غلط راہ پر چلا دیتا ہے.پھر کئی شرارتی بھی ہوتے ہیں جو ہم میں مل جاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کسی طرح لڑائی کرا دیں.مجھے یاد ہے قادیان میں ایک دفعہ میں گھر کے اس کمرہ میں بیٹھا ہوا تھا جو گلی کے اوپر واقع ہے کہ یکدم مجھے شور کی آواز سنائی دی.میں نے دیکھا تو کچھ لوگ پرانے بازار کی طرف بھاگے جارہے ہیں.میں نے آواز دی کہ کیا ہوا مگر انہوں نے کوئی جواب نہ دیا.دوبارہ آواز دی مگر انہوں نے پھر کوئی جواب نہ دیا.یہاں تک کہ وہ نصف گلی تک پہنچ گئے.میں نے پھر آواز دی.تو مولوی رحمت علی صاحب جو آب جاوا میں ہیں، اُس وقت طالب علم تھے کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے اطلاع آئی ہے کہ نیر صاحب کو بازار میں ہندوؤں نے ماردیا ہے.اور کئی احمدیوں کو بھی زخمی کردیا ہے.میں نے کہا اگر نیر صاحب کو ہندوؤں نے مار دیا ہے یا اور دس ہیں احمدیوں کو مجروح کر دیا ہے تو اس پر کوئی کارروائی کرنا میرا کام ہے تمہارا نہیں.تم آگے مت جاؤ.میرے اس کہنے پر وہ کھڑے تو ہو گئے مگر میں نے دیکھا کہ وہ اور دوسرے لڑکے غصہ سے اس طرح تھر تھر کانپ رہے تھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ ان کے جسم کی ہر ایک بوٹی جوش غضب کے نیچے ہے.تھوڑی ہی دیر ٹھہرے ہوں گے.کہ بے اختیار وہ پھر دوڑ پڑے.میں نے پھر آواز دی مگر انہوں نے نہ سنی.پھر پکارا تو انہوں نے پھر بھی نہ سنا.یہاں تک کہ وہ اس موڑ پر پہنچ گئے.جہاں پہلے درد صاحب رہتے تھے.میں نے اُس وقت سمجھا.اگر اب بھی یہ نہ رُکے تو میری نظر سے اوجھل ہو جائیں گے.اور پھر ان کا رکنا ناممکن ہو گا.اس لئے میں نے کہا.اگر ایک قدم بھی تم نے اب آگے بڑھایا تو میں سب کو جماعت سے خارج کردوں گا.میرے اس کہنے پر وہ رُک گئے.بعد میں معلوم ہوا کہ ایک غیر شخص دوست بن کر آیا.وہ کہنے لگا نیر صاحب مارے گئے ہیں.اور دس ہیں احمدی ہندو بازار میں تڑپ رہے ہیں.حالانکہ نیر صاحب اُس وقت گھر میں آرام سے بیٹھے تھے.اور باقی احمدیوں میں سے بھی کوئی شخص وہاں نہ تھا.اور نہ کسی پر حملہ ہوا تھا.محض جھوٹ کسی نے یہ بات اُڑادی تاکہ سنتے ہی احمدی لڑ پڑیں اور مخالف مقدمہ دائر کردیں کہ احمدی فساد کرتے ہیں.اگر میں ان کو روک نہ دیتا تو بازار میں پہنچنے سے پہلے اگر رستہ میں ہی کوئی ہندو
خطبات محمود مسم سال ۱۹۳۳ء مل جاتا تو اس سے لڑائی ہو جاتی.غرض جوشیلی طبائع جوش کی حالت میں نتائج کو نہیں دیکھتیں.پھر بعض دفعہ اکسانے والے کھڑے ہو جاتے ہیں.اور اس طرح فساد ہو جاتا ہے.پس میں جہاں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ تبلیغ کے دن کو وفاداری، دیانتداری، اخلاص، تقوئی اور شجاعت کے ساتھ نباہنا چاہیے اور اس طرح تبلیغ کرنی چاہیئے کہ گویا تم نے اپنے فرائض کا حق ادا کر دیا.وہاں میں یہ بھی نصیحت التبليغ کرتا ہوں کہ ایسا نہ ہو کہ تمہارے جو شوں سے کوئی شخص ناجائز فائدہ اٹھائے.اور یوم ا بجائے مفید ہونے کے مضر ہو جائے.حضرت خلیفہ اول اپنے ایک عزیز کے متعلق فرمایا کرتے تھے.کہ وہ بڑی جوشیلی طبیعت رکھتے تھے.ایک دن کوئی رئیس آپ سے ملنے آیا.اس کا پاجامہ ذرا لمبا تھا اور مخنوں سے نیچے پڑتا تھا.نہ معلوم اس نے تبختر کی نیت سے لمبا رکھا ہوا تھا یا لمبا بن گیا تھا.جب وہ ملنے کیلئے آیا اور مجلس میں بیٹھ گیا.تو فرماتے میرے اس عزیز کے ہاتھ میں مسواک تھی.اس نے وہ مسواک اس رئیس کے پاؤں پر آہستہ آہستہ مارنی شروع کی.اور ساتھ ساتھ اس حدیث کے عربی الفاظ دہرانے شروع کر دیئے جس میں آتا ہے کہ وہ تہ بند جو ٹخنوں سے نیچے ہو وہ آگ میں ہے.وہ مسواک مارتا جائے اور کہتا جائے.یہ آگ میں ہے، یہ آگ میں ہے.آپ فرماتے ہیں تھوڑی دیر تو وہ رئیس میرے لحاظ سے چپ رہا.آخر اسے یہ ذلت محسوس ہوئی کہ محفل میں اس سے یہ سلوک کیا جائے.اس نے نہایت ہی غصہ سے کہا.تجھے کسی بیوقوف نے کہا ہے کہ میں مسلمان ہوں، میں مسلمان نہیں.وہ جانتا تھا کہ جب تک میں اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہوں یہ حکم مجھ پر جاری رہے گا.اس لئے ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ ہے کہ میں اپنے مسلمان ہونے سے انکار کردوں.یہ ایک چھوٹی سی بات تھی مگر غلط طریق پر پیش کرنے سے اس شخص کو پہلی حالت سے بھی خراب کردیا.تو تبلیغ کے بھی ڈھنگ ہوتے ہیں.گو میں اس بات کا قائل نہیں ہوں کہ کبھی سختی نہیں ہونی چاہیئے.بعض جگہ اسلام سختی کا حکم بھی دیتا ہے.جیسے بعض دفعہ والدین کو بچوں پر مردوں کو عورتوں پر اور عورتوں کو خاوندوں پر ایک حد تک سختی کرنے کی اجازت ہے.حدیثوں میں آتا ہے اگر کوئی مرد تجد کیلئے اُٹھے اور اسے اپنی بیوی کے منہ پر پانی کا چھینٹا ڈال کر جگانا پڑے تو اس طرح اسے تہجد کیلئے جگائے.اسی طرح اگر بیوی کی آنکھ کھل جائے تو وہ بھی پانی کا چھینٹا ڈال کر خاوند کو جگا سکتی ہے ہے.گویا ایک حد تک دونوں کو ایک دوسرے پر سختی کی اجازت ہے.پھر
۲۴۹ سال ۱۹۳۳ء خطبات محمود استاد کو شاگردوں پر مالک کو مملوک پر اور والیوں کو اپنے اپنے حلقہ کے لوگوں پر ایک حد تک سختی کرنے کا حق حاصل ہے.لیکن جہاں سختی کا کوئی حق نہیں راہ چلتا مسافر ہے، برابر کا دوست ہے، افسر ہے، کسی قوم کا سردار ہے، بڑا آدمی یا کوئی غیر متعلق نا واقف شخص ہے، وہاں اگر آدمی سختی سے کام لے گا تو یقیناً ایسی سختی فتنہ و فساد کا موجب ہوگی.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ اس دن کو نہایت محبت اخلاص اور تقوی کے ساتھ گزارنا چاہیئے.اور کوئی ایسی حرکت نہیں کرنی چاہیے جس سے فساد ہو.مثلاً میرے نزدیک یہ بھی ایک غلط طریق ہے جسے اختیار کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کہ جلوس نکالا جائے.جلوس تبلیغ کا حصہ نہیں.اور اگر حصہ ہوتا تو رسول کریم ال تبلیغ کیلئے ضرور جلوس نکالتے.مگر آپ نے کبھی جلوس نہیں نکالا.جلوس اور اغراض کے ماتحت نکالے جاتے ہیں.مثلاً اگر دشمن ہم سے لڑتا ہو دق کرتا ہو.تو فوجی رنگ میں اس پر رُعب بٹھانے کیلئے ایک وقت جلوس بھی مفید ہو سکتا ہے.بلکہ ایسے موقع جلوس کا نکالنا یا اپنی طاقت کے اظہار کیلئے کوئی طریق اختیار کرنا ثواب کا موجب ہو جاتا ہے.جیسا کہ رسول کریم ﷺ جب صلح حدیبیہ کے بعد عمرہ کیلئے تشریف لائے تو آپ نے ایک کو دیکھا.کہ وہ اکڑ اکڑ کر چل رہا ہے.آپ نے اس سے پوچھا تم اس طرح کیوں چلتے ہو.اس نے کہا یا رسول اللہ راستہ میں ملیریا کا زور رہا.ہم میں سے بہت سوں کو بخار نے آگھیرا.خبر کافروں تک بھی پہنچ چکی ہے.اگر ہم جھکے چلیں تو یہ خیال کریں گے کہ مسلمانوں میں کوئی طاقت اور ہمت نہیں.پس میں اکڑ کر چلتا ہوں تاکہ ان لوگوں کو معلوم ہو و کہ ہم ان کے مقابلہ کیلئے تیار ہیں.رسول کریم ﷺ نے اس صحابی کی اس گفتگو کو پسند کیا اور فرمایا اللہ تعالی کو بھی یہ بات پسند آئی ہے تے.تو بعض جگہ اکڑنا بھی مفید ہوتا ہے مگر ہر چیز کا موقع اور محل ہوتا ہے.جب دشمن ہم پر رعب ڈالنا چاہیے، وہ گرانا اور ذلیل کرنا چاہے، اس وقت اگر ہم نڈر ہو کر چلتے ہیں، جلوس نکالتے اور اپنا رُعب قائم کرتے ہیں تو یہ جائز ہوگا.مگر تبلیغ لڑائی کا وقت نہیں ہوتا یہ تو لجاجت، منتیں اور ترلے کرنے کا وقت ہوتا ہے.بھلا سوچو تو اگر کسی سے جاکر کے کہ پیسہ دو.ورنہ تمہارا سر پھوڑ دوں گا تو کیا اسے پیسہ مل جائے گا.سوالی کو تو ترلے ہی زیب دیتے ہیں.جب ہم تبلیغ کرتے ہیں تو لوگوں سے ایک دان ایک صدقہ ایک خیرات طلب کرتے ہیں.ان کی سب سے زیادہ قیمتی چیز کی ان کے دل کی ان کے ایمان کی گو اس کے بدلہ میں ہم ایک نہایت قیمتی چیز انہیں دیتے بھی ہیں.اور حقیقی صحابی شخص -
خطبات محمود ۲۵۰ سال ۱۹۳۳ء وہ لٹھ ایمان کی دولت سے انہیں مالا مال کرتے ہیں.مگر جب وہ بات کر رہے ہوتے ہیں اس وقت تو اُسی کو ایمان سمجھ رہے ہوتے ہیں جو ان کے پاس ہوتا ہے.پس سب سے پیاری اور قیمتی چیز ہم ان سے مانگتے ہیں.ان کا دل ان کا دماغ اور ان کی جان اپنے قبضہ میں کرنا چاہتے ہیں.ایسے موقع پر اگر ہم لٹھ لے کر کھڑے ہو جائیں تو کتنی بُری بات ہو گی.ترلے کے مقام پر کتنی بُری چیز معلوم ہوتی ہے.میرا یہ مطلب نہیں کہ جب تم تبلیغ کرنے کیلئے نکلو تو تمہارے ہاتھوں میں سونٹانہ ہو.یہ تو میرا حکم ہے اور ہر مخلص احمدی کا فرض ہے کہ وہ اپنے ہاتھ میں سونٹا رکھے.بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ سونٹے کی نمائش نہ کی جائے.عاجزانہ رنگ میں دوسروں کے پاس جاؤ.تمہارے چہروں سے محبت کے آثار ظاہر ہوں.زبان پر شیریں الفاظ جاری ہوں.آنکھوں میں نمی ہو.اور یوں معلوم ہو کہ گویا یہ خیال تمہیں تڑپا رہا ہے کہ ایک عزیز تمہارا تباہ ہو رہا ہے.اسے بچانے کیلئے تم آئے ہو تم اپنے ڈوبتے بھائی کو بندوق کی گولی - نہیں بچا سکتے بلکہ اسے سہارا دے کر اپنے اوپر اٹھا لیتے ہو.یہی طریق تبلیغ میں بھی اختیار کرو.پس گو جلوس سے جہاں احمدیوں کی کثرت ہو وہاں دوسرے یہ سمجھ سکتے ہیں کہ کتنے سے بڑے جلوس میں احمدی جارہے ہیں.اور جہاں احمدیوں کا زور نہ ہو وہاں دوسرے لوگ.خیال کرسکتے ہیں کہ احمدی نڈر ہوتے ہیں.مگر باوجود اس خیال کے لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانیں گے نہیں.بلکہ ایسی حالت میں اگر کسی غیراحمدی کو گھیر لیا جائے تو اس وقت اس کے اسی قسم کے خیالات ہوں گے جیسے ڈاکوؤں میں اگر کوئی شخص گھر جائے تو اس کے قلب کی کیفیت کیا ہوتی ہے.وہ بظاہر تو یہی کہہ رہا ہو گا کہ ہاں حضرت عیسی وفات پاگئے.مگر دل میں یہ کہہ رہا ہوگا کہ خدایا! مجھے ان سے نجات دے.بظاہر باتیں سنتا جائے گا مگر اصل خیالات اس کے ادھر ہی ہوں گے کہ الہی میں کس مصیبت میں پھنس گیا مجھے جلدی ان سے چھٹکارا دے.پس اس قسم کا طریق اختیار کرنا تبلیغ کو نقصان پہنچانا ہے.پھر بعض دفعہ انسان اتنی لمبی اور فضول بات شروع کر دیتا ہے کہ دوسرا تنگ آجاتا ہے.میں نے ملاقاتوں کے وقت دیکھا ہے بعض لوگ اس بات کے عادی ہوتے ہیں کہ پہلے پورا پیٹ بھر کر باتیں کرلیں.اور جب انہیں کہا جائے کہ اب وقت ختم ہو گیا تو وہ کہہ دیں کہ ایک بات اور کہنی ہے.پھر وہ ایک بات اسی طرح لمبی ہوتی جاتی ہے جس طرح ہمارے ملک میں مثل مشہور ہے کہ شیطان کی آنت کے برابر.پھر وہ ایک بات ختم کر لیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ذرا سی ایک اور بات بھی
خطبات محمود ۲۵۱ سال ۱۹۳۳ ہو.ہے.حالانکہ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ ان کا اتنا وقت مقرر ہے.اور اسی وقت میں انہیں تمام گفتگو کرنی چاہئیے مگر وہ پہلے پیٹ بھر کر اور اور باتیں کرتے رہیں گے.اور جب وقت ختم ہوگا تو انہیں ایک بات اور یاد آجائے گی.پھر جب وہ بات ختم ہوگی تو دوسری یاد آجائے گی اور اس طرح باتوں میں سے باتیں نکالتے جائیں گے یہانتک کہ ان باتوں کا نمبر آٹھ دس تک پہنچ جائے گا.پس ہمیشہ اس امر کو مد نظر رکھنا چاہیے کہ گفتگو سے دوسرے کے دل میں ملال پیدا نہ مگر یہ بھی یاد رہے کہ ملال دو قسم کا ہوتا ہے.بعض لوگ تو پہلے ہی کہہ دیتے ہیں کہ ہم تمہاری باتیں نہیں سننا چاہتے.وہ شروع سے ہی توجہ نہیں کرتے.اور بعض لوگ توجہ تو کرتے ہیں مگر جب گفتگو کی طوالت دیکھتے ہیں تو بیزار ہو جاتے ہیں.اس لئے ہمیشہ یہ امر مد نظر رکھنا چاہیے کہ جب بات ملال کی حد تک پہنچ جائے تو انسان خاموش ہو جائے.ایک دن میں کوئی شخص مانا نہیں کرتا سوائے اس کے کہ کوئی شخص پہلے سے تیار ہو.اس لئے اس ایک دن میں جتھے بازی اور نمائش نہیں کرنی چاہیئے.ہاں یہ ضرور ہے کہ لوگ پہلے مسجدوں میں جائیں اور وہاں رو رو کر دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے سینے حق قبول کرنے کیلئے کھول دے.انہیں باتیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.اعلیٰ دلائل سمجھائے اور ہماری زبان اور ہمارے ہر کام میں ایسی برکت ڈالے جس سے دوسرے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں.پس اکٹھے ہو کر مسجدوں میں دعائیں کرو مگر جب باہر نکل رہے ہو تو اُس وقت جتنے والی صورت نہ ہو.پھر تبلیغ میں اس امر کو بھی مد نظر رکھنا چاہیئے کہ وہ شخص جو صفائی سے کہہ دے کہ میں تمہاری باتیں سننا نہیں چاہتا اسے باتیں نہیں سنانی چاہئیں.رسول کریم ال عکاظ کے میلہ میں جب تبلیغ کیلئے تشریف لے جاتے تو جہاں جہاں لوگ اکٹھے ہوتے وہاں جاکر فرماتے میں کچھ باتیں سنانا چاہتا ہوں.بعض کہتے ہم سنتا چاہتے ہیں اور بعض کہہ دیتے کہ ہم نہیں سننا چاہتے.جو لوگ سننے سے انکار کرتے رسول کریم وہاں سے اٹھ آتے.اسی طرح حضرت مسیح ناصری نے بھی حواریوں کو نصیحت کی ہے کہ اگر کوئی تمہیں قبول نہ کرے اور تمہاری باتیں نہ سنے تو اس گھر یا اس شہر سے باہر نکلتے وقت اپنے پاؤں کی گرد جھاڑ دو ہے.لیکن بعض لوگ اس قسم کے ہوتے ہیں کہ ان کے دل میں تو یہ خیال ہوتا ہے کہ ہم باتیں سنیں مگر ظاہر یہی کرتے ہیں کہ ہم سننا نہیں چاہتے.گویا ان کی مرضی ہوتی ہے کہ باتیں سنانے کیلئے اصرار کیا جائے اور یہ عظمند کا کام ہوتا ہے کہ وہ معلوم کرے کہ کسی کا انکار بالکل
خطبات محمود ۲۵۲ سال ۱۹۳۳ تو انکار ہے یا زیادہ اصرار کی خواہش رکھنے والا انکار ہے.بچپن میں جب ہم مدرسہ میں پڑھا کرتے تھے تو ہمارے ایک استاد تھے.ان کی عادت تھی کہ جب ہم سکول میں جاتے اور ہمارے پاس کوئی کھانے کی چیز دیکھتے تو کہتے دیکھنا مجھے نہ کھلا دینا.وہ یہ کہتے جاتے اور ہم اصرار کے ساتھ ان کے منہ میں مٹھائی یا کوئی اور چیز ڈالتے جاتے اور وہ کھاتے جاتے.تو بعض لوگوں کی مراد نہیں کہنے سے دراصل ہاں ہوتی ہے.گویا انکار سے مراد یہ نہیں ہوتی کہ تم اٹھ جاؤ بلکہ یہ ہوتی ہے کہ باتیں سنانے کیلئے ذرا اصرار کرو.ہاں ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جو واقعہ میں سننا نہیں چاہتے.اور جو یہ کہے کہ میں سننا نہیں چاہتا اسے خدا بھی نہیں سناتا اور نہ ایسا شخص فائدہ اٹھانے کے قابل ہوتا ہے.پس وہاں سے اٹھ جاؤ.اللہ تعالیٰ کی مخلوق بہت وسیع ہے ایک نہیں سنتا تو دوسرے کے پاس جاؤ.وہ بھی نہیں سنتا تو تیسرے کے پاس جاؤ.وہ بھی نہ سنے تو چوتھے کے پاس جاؤ اگر کوئی بھی نہیں سنتا تو بازار میں کھڑے ہو کر تقریر شروع کردو.ممکن ہے کسی راستہ پر گزرنے والے کے کان میں کوئی بات پڑ جائے اور اسے فائدہ ہو جائے اور اگر کوئی بھی نہیں سنتا تو جیسے مسیح نے کہا اس گاؤں یا شہر کی گرد اپنے پاؤں سے جھاڑ دو.اور دوسرے گاؤں میں تبلیغ کیلئے نکل جاؤ.اور ایسے طریق سے اپنی باتیں سناؤ جس میں محبت کا رنگ پایا جائے.یہ نہ ہو کہ سننے والے کو یہ محسوس ہو کہ گویا تم زبردستی اپنی باتیں سنا رہے ہو.اگر زبردستی سناؤ گے تو وہ بظاہر تو تمہاری باتیں سنے گا مگر دل میں تمہیں گالیاں دیتا جائے گا.اور کہے گا میں کس مصیبت میں پھنس گیا.احمدی کیسے ضدی اور نامعقول ہوتے ہیں.اس طرح احمدیت کا نقش اس کے دل پر یہ نہیں بیٹھے گا کہ احمدی نہایت مخلص ہوتے ہیں.بلکہ وہ خیال کرے گا کہ احمدی نہایت ضدی اور نامعقول ہوتے ہیں.پس ایسا آدمی احمدیت کی طرف مائل نہیں ہو سکتا.تیسری بات یہ یاد رکھو کہ دلائل اتنا اثر نہیں رکھتے جتنا اخلاص اور عمل اثر رکھتا ہے.پس یوم التبلیغ آنے سے پہلے اس کیلئے تیاری کرو اگر کسی سے لڑائی اور جھگڑا ہے تو اس سے معافی مانگو اور صلح کرلو تاکہ یہ صلح تمہارے کام آئے.اگر تم عاجزانہ رنگ میں حق پر ہوتے ہوئے دوسرے سے معافی مانگتے اور اس کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھاتے ہو تو اس پر نہایت ہی خوشگوار اثر پڑے گا.اور وہ خیال کرے گا کہ احمدی کتنے اچھے ہوتے ہیں کہ باوجود قصور وار نہ ہونے کے معافی طلب کرتے ہیں.اس طرح احمدیت کے متعلق اس کے دل میں نہایت اچھے خیالات ہوں گے اور جب تم تبلیغ کروگے تو اس سے لازماً متأثر ہوگا.
خطبات محمود ۲۵۳ سال ۱۹۳۳ء دیکھو زمیندار جب زمین میں کوئی چیز ہونے لگتا ہے تو پہلے اسے بیج ڈالنے کیلئے تیار کرتا ہے.کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ایک ہی دن میں سخت زمین پر پانی کا چھینٹا دے دینے سے وہ تیار نہیں ہو سکتی.پہلے زمین پر کہیں گھاس ہو گا، کہیں کسی اور چیز کی جڑیں ہوں گی.پھر وہ سخت ہوگی اگر نہی بیج پھینک کر چلا آئے تو ہر شخص اسے بیوقوف کہے گا.اسی طرح تبلیغ کیلئے بھی ہماری طرف سے اگر پہلے سے تیاری نہ ہوگی تو وہ پیج جو ہم پھینکیں گے وہ ضائع ہو جائے گا.پس اخلاص اور محبت سے لوگوں کے قلوب کو اپنی طرف مائل کرو تا جب تم تبلیغ کیلئے جاؤ تو ان کے دل احمدیت کے متعلق اچھے خیالات سے لبریز ہوں اور تمہاری باتوں کا ان پر اثر ہو.باقی اگر کوئی مخالف سختی کرتا ہے اور کوئی احمدی سختی کی وجہ سے بھاگ آتا ہے تو وہ بزدلی سے کام ہے.مومن کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ جب تک یہ سمجھتا ہے کہ ابھی پیغام نہیں پہنچا اپنے مقام سے نہیں ہوتا اور جب دیکھتا ہے کہ پیغام پہنچ گیا تو چلا آتا ہے کیونکہ واپس تو آخر آتا ہی ہوتا ہے.رسول کریم ان کا نمونہ یہی ہے آپ جب طائف تشریف لے گئے تو جتنی باتیں آپ سنا سکے سنادیں.اور جب لوگوں نے کہا کہ ہم باتیں سننے کیلئے تیار نہیں تو آپ واپس تشریف لے آئے.مگر واپسی کے وقت کفار نے آپ کے پیچھے بچے اور کتے لگادیئے.بچے آپ پر پھر پھینکتے اور کتے کاٹتے.مگر باوجود اس کے رسول کریم راستہ میں یہی دعا کرتے رہے کہ الہی! ان پر رحم کر میری قوم نے مجھے پہچانا نہیں ہے.جو شخص بھی آپ کو اس حالت میں دیکھتا وہ خیال ہی نہیں کر سکتا تھا کہ آپ بزدل ہیں بلکہ ہر شخص.کہتا کہ کیا کوہ وقار ہے.لیکن ایسی ہی صورت میں اگر کوئی شخص دوڑتا جائے پیچھے بچے اور کتے لگے ہوئے ہوں اور وہ شور ڈالتا جائے کہ مرگیا، مرگیا مرگیا تو ہر شخص کہے گا کہ یہ بزدل ہے.پس دونوں حالتوں میں فرق ہے اور ہر شخص کی حالت بتا سکتی ہے کہ وہ بزدلی دکھا رہا ہے یا بہادری.میں یہ نہیں کہتا کہ ہر ایسے مقام پر کھڑے رہنا چاہیئے جہاں تشدد ہو.اگر چہ بعض جگہ کھڑا رہنا بھی ضروری ہوتا ہے.مثلاً طائف سے تو رسول کریم ﷺ واپس آگئے مگر حسین کے موقع پر آپ نے کہا چھوڑ دو میرے گھوڑے کی باگ کو اور گھوڑے کو ایڑ لگا کر دشمن کی طرف بڑھے.گویا آپ نے دونوں نظارے دکھلا دیئے.ایک جگہ کچھ بچے اور کہتے آپ کے پیچھے ڈالے گئے اور آپ واپس آگئے.کیونکہ آپ نے سمجھا کہ آپ جو پیغام پہنچانا چاہتے تھے وہ پہنچا چکے.مگر دوسری جگہ جب کہ چار ہزار تیرانداز سامنے تھے اور صرف بارہ صحابہ آپ کے پاس رہ گئے تھے ، آپ نڈر
خطبات محمود ۳۵۴ سال ۱۹۳۳ء ہو کر میدان جنگ میں کھڑے رہے.صحابہ جوش اخلاص میں آپ کے گھوڑے کی باگ پکڑ کر روکنا چاہتے.مگر آپ فرماتے چھوڑ دو میں پیچھے نہیں ہٹوں گا.وہی پیغام ہے وہی پہنچانے والا ہے مگر ایک جگہ سے واپس آگئے اور دوسری جگہ کھڑے رہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ موقع اور محل کو دیکھ کر کام کرنا چاہیے.ایک موقع ایسا بھی آسکتا ہے جب کہ واپس آنا منع ہو.مثلا سیالکوٹ میں جب میں نے ایک دفعہ لیکچر دیا اور مخالفوں نے روکنا چاہا تو اس وقت میں نے سمجھا تھا.میرا لیکچر بند کر دینا اور واپس چلے جانا سلسلہ کی ہتک ہے جسے کسی صورت میں بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا.پس میں نے اس وقت یہی سمجھا کہ چاہے پتھر پڑیں، زخمی ہوں ہم میدان سے نہیں ہٹیں گے.لیکن ایسے موقعے بھی آسکتے ہیں جب کہ واپس چلے آنا مناسب ہو.پس موقع اور محل کے مطابق کام کرو اور بزدلی نہ دکھاؤ.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دشمن کے دل میں بھی محبت پیدا ہو جاتی ہے.مثلاً طائف سے ہی جب رسول کریم ا واپس آرہے تھے تو ایک نہایت ہی اشد ترین دشمن نے جو ہمیشہ آپ کا مخالف رہا کرتا تھا جب آپ کی یہ حالت دیکھی تو وہ خود سامنے نہ جا سکا مگر اس نے اپنے غلام کو بلا کر کہا انگور توڑ کر انہیں کھلاؤ لے.یہ احساس بزدل شخص کیلئے کبھی پیدا نہیں ہو سکتا.پس بہادری دکھاؤ اور نرمی محبت اور خلوص سے دوسروں کو پیغام حق پہنچاؤ.تمہارے سامنے یہ مقصد نہ ہو کہ تمہارا کو: زعب دوسروں پر بیٹھے بلکہ یہ مقصد ہونا چاہیے کہ دوسروں کو ہدایت حاصل ہو.حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے، نہ معلوم اس میں مبالغہ پایا جاتا ہے صحیح واقعہ ہے بہرحال سبق آموز ہے.آپ نے ایک دفعہ ایک نہایت خطرناک دشمن کو گرا لیا.جب وہ گرچکا تو اس نے آپ کے منہ پر تھوک دیا.حضرت علی " اسے چھوڑ کر فوراً کھڑے ہو گئے وہ حیران ہوا اور کہنے لگا نہ آپ میری تلوار سے ڈرے اور نہ نیزے سے لیکن آب جو میں نے تھوک دیا تو آپ مجھے چھوڑ کر کیوں کھڑے ہو گئے.آپ نے کہا اب تک میں تمہارے ساتھ خدا کیلئے جنگ کر رہا تھا.لیکن جب تم نے تھوک دیا تو مجھے غصہ آگیا اور میں نے خیال کیا کہ اب میرا لڑنا نفسانیت کی وجہ سے ہو جائے گا اس لئے میں نے چھوڑ دیا لاہ - پس تبلیغ کرو مگر خدا کیلئے کرو.نفسانی اغراض کے ماتحت تبلیغ کبھی بھی فائدہ نہیں دے سکتی.ہماری جماعت کو قائم ہوئے پچاس سال ہو گئے ہیں مگر ابھی تک اس نسبت سے ہماری جماعت نہیں پھیلی جس نسبت سے اسے پھیلنا چاہیے تھا.جس کی وجہ یہی ہے کہ بعض لوگ کمزوری
خطبات محمود ۲۵۵ سال ۱۹۳۳ء دکھا دیتے ہیں اور بعض کے اخلاص میں کمی ہوتی ہے.اگر سب لوگ خدا کیلئے کام کرتے تو آج بالکل اور حالت ہوتی.پس کوشش کرو کہ یہ دن بابرکت ہو جائے اور ہر شخص سمجھے کہ یوم التبلیغ کیا آتا ہے.دنیا کو فتح کرنے کا نظارہ سامنے آجاتا ہے.ساتھ ہی اللہ تعالی سے دعائیں کرو کہ وہ تبلیغ کی توفیق عطا فرمائے.جہاں چھوٹی جماعتیں ہیں وہاں بڑی جماعتیں قائم ہو جائیں.جہاں کوئی جماعت نہیں وہاں جماعت قائم ہو جائے.نئے آدمی اس سلسلہ میں کثرت سے داخل ہوں.اور جو پرانے ہیں ان کی وہ خود روحانی تربیت کر کے اس مقام پر کھڑا کرے جہاں کھڑا کرنا اس کا منشاء ہے.الفضل ۱۹ - اکتوبر ۱۹۳۳ء) ه بخاری کتاب الاذان باب فضل صلوة العشاء في الجماعة کے تبختر اترا کر چلنا.ناز و ادا سے چلنا.تکبر و غرور سے چلنا ه فتح البارى بشرح البخاری جلد ۸ صفحه بالمطبعة الخيرية قاهره مصر لا ۱۳۲۵ه ه ابوداؤد کتاب الصلوة باب قيام الليل مرقس باب ۶ آیت ) شه مسلم كتاب الجهاد والسير باب في غزوة حنين ه سیرت ابن هشام الجزء الاول صفحه ۱۴۷ مطبوعه مصر ۱۳۹۵هـ
خطبات محمود ۲۵۶ ۲۷ مرکزی کارکنوں اور لوکل انجمن کو ضروری ہدایت فرموده ۲۰ - اکتوبر ۱۹۳۳ء) سال ۶۱۹۳۳ تشر تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- مجھے آج قادیان کی لوکل انجمن کے ایک عہدیدار کی طرف سے ایک رقعہ ملا.جس میں مجھ سے خواہش کی گئی کہ میں آج خطبہ جمعہ میں آنے والے یوم التبلیغ کے متعلق دوستوں کو تحریک کروں.مجھے ہمیشہ تعجب آتا ہے اس بات پر کہ قادیان کی لوکل انجمن کو اور ہمارے مرکزی دفاتر کے کارکنوں کو یہ عادت پڑگئی ہے کہ جہاں کہیں بھی چھت ٹپکتی ہو یا عمارت میں کوئی خلل نظر آتا ہو، ان کا پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ خلیفہ کی طرف دوڑ کر جائیں اور کہیں کہ آپ اسے کندھا دیجئے.جب کوئی تحریک ہو یا کسی کام کے کرنے کا سوال ہو، ناظروں کی طرف اصرار ہوتا ہے کہ آپ تحریک کریں.یا جب لوکل کمیٹی کے متعلق کوئی کام ہوتا ہے تو اس کے عہدہ دار کہتے ہیں آپ لوگوں کو اس کی طرف توجہ دلائیں.حالانکہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ اس قسم کا احساس جماعت میں پیدا کرنا اسے قتل کر دینے کے مترادف ہے.اس موقع کے لحاظ سے جبکہ وہ اعتراض کیا گیا، میں اسے صحیح نہیں سمجھتا.لیکن اس روح کو میں نے بہت پسند کیا جس کے ماتحت وہ اعتراض کیا گیا.ایک دفعہ چندہ عام کے متعلق تحریک ہوئی جسے میری طرف منسوب کیا گیا تو بعض دوستوں کے خطوط آئے کہ ہم سمجھتے ہیں.آپ کا نام اس تحریک میں ناجائز طور پر استعمال کیا گیا ہے.اس قسم کی عام تحریکوں اور روزانہ کاموں میں خلیفہ کا نام
خطبات محمود ۲۵۷ سال ۱۹۳۳ء استعمال نہیں کرنا چاہیئے.گو نازک مواقع پر ضرورت پیش آتی ہے اور اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایسے موقع پر جب سلسلہ کے کام میں خلل واقعہ ہونے کا خطرہ ہو خلیفہ کی طرف سے بھی تحریک کی ضرورت ہوتی ہے.لیکن جو کام ساری جماعت کر رہی ہو اس کے متعلق مرکزی کارکنوں کا یہ کہنا کہ اس کیلئے مرکزی جماعت کو میں تحریک کروں دو ہی معنے رکھ سکتا ہے.ایک تو یہ کہ نَعُوذُ بِاللهِ قادیان منافقوں کی بستی ہے اس میں ایسے لوگ رہتے ہیں کہ تک انہیں کسی کام کیلئے خلیفہ خود نہ کہے گا وہ کچھ نہ کریں گے.یا پھر قادیان کی جماعت پر خطرناک حملہ کیا جاتا ہے.پس یا تو لوکل جماعت کے عہدہ دار بجائے جماعت کی عزت کی حفاظت کرنے کے اس کی تذلیل کرتے ہیں یا پھر واقعہ میں قادیان میں اتنے منافق جمع ہو گئے ہیں کہ سوائے اس کے کہ میرے منہ سے کوئی بات نکلے، کوئی تحریک کامیاب ہی نہیں ہو سکتی.جب کوئی کام کرنے کا موقع آتا ہے میرے پاس اس قسم کی چٹھیاں آنی شروع ہو جاتی ہیں کہ آپ تحریک کریں.مثلاً چندہ کرنا ہو تو کہتے ہیں آپ لوگوں سے کہیں.تبلیغ احمدیت کے متعلق کرنی ہو تو کہتے ہیں آپ کہیں.اگر جماعت میں یہ بات نہیں کہ اس پر میری بات کے سوا کسی کی بات کا اثر نہیں ہوتا.اور وہ کسی کارکن کی بات ماننے کیلئے تیار نہیں ہو سکتی تو پھر ہر بات کیلئے مجھ سے تحریک کرانا نہایت خطرناک حملہ ہے ان لوگوں پر جن کا اخلاص اسے برداشت نہیں کرسکتا.کیونکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ مخلص احباب کو منافق اور بددل قرار دیا ہے.صحیح ہے کہ کچھ بزدل لوگ بھی مرکز میں آجاتے ہیں.وہ چونکہ باہر مخالفین کا مقابلہ نہیں کرسکتے اس لئے تکالیف سے بچنے کیلئے آجاتے ہیں.مگر مرکز میں ان کی کثرت نہیں ہونی چاہیے اور نہ خداتعالی کے فضل سے ان کی کثرت ہے.جو لوگ ایسے ہوں ان کو نظر انداز کر دینا بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ خلیفہ کو ایسی تحریکات میں لایا جائے.اگر قادیان اور اس کے اردگرد سوڈیڑھ سو منافق ہوں تو ان کو چھوڑ دینا بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ خلیفہ سے انہیں کہلایا جائے اور اس سے تحریک کرائی جائے.اس کے متعلق تحریروں میں تو میں نے کئی بار کہا ہے اور شاید خطبہ میں بھی کہا ہے.لوکل کارکنوں اور مرکزی کارکنوں کو خود کام کرنا چاہیئے.اور اگر کوئی شخص کام نہیں کر سکتا تو اسے وہ عہدہ چھوڑ دینا چاہیے اور دوسروں کو کام کرنے کا موقع دینا چاہیئے.اگر لوکل جماعت میں اخلاص ہے اور وہ دینی کاموں میں حصہ لینا اپنا فرض سمجھتی ہے تو اس کیلئے خلیفہ سے کہنا کہ وہ اسے تحریک کرے، اس کے یہ معنی جاتا
خطبات محمود ۲۵۸ سال ۱۹۳۳ء ہیں کہ انجمن کے کارکن خود کچھ کام کرنا نہیں چاہتے اور اپنا کام خلیفہ سے کرانا چاہتے ہیں.یا پھر خدانخواستہ منافقوں کی کثرت ہے اس لئے مجھ سے تحریک کرنے کیلئے کہا جاتا ہے.میں یہ دونوں باتیں پسند نہیں کرتا.مجھے نہ تو یہ بات پسند ہے کہ عہدہ دار منافق ہوں.وہ کام تو خود نہ کریں اور دوسروں سے کراکر اسے اپنا کام قرار دیں.نہ یہ پسند ہے کہ یہاں منافقین ہوں.ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ قادیان میں منافق نہ پائے جائیں.ان کا وجود باہر برداشت کیا جاسکتا ہے لیکن قادیان میں برداشت نہیں کیا جاسکتا.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے.رسول کے پاس منافق آئے کہ لڑائی میں شریک نہ ہونے کی اجازت دے دیں.آپ نے اجازت تو دے دی مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے تو نے کیوں انہیں اجازت دی.ہم مومنوں اور منافقوں میں امتیاز کرنا چاہتے ہیں اے.اگر ہر کام کی تحریک خلیفہ سے کرائی جائے تو بھی مومن اور منافق میں امتیاز نہیں ہو سکتا.ہمیں مومنوں اور منافقوں کا امتیاز ظاہر کرنا چاہیئے.جب باہر کے لوگ ایک کام اپنے کارکنوں کی تحریک پر کر سکتے ہیں تو یہاں کے لوگ وہی کام کارکنوں کے کہنے پر کیوں نہیں کرسکتے.انہیں بھی اسی طرح وہ کام کرنا چاہیے.اگر یہاں کام کرنے والوں کیلئے حلقہ سیع ہے اور ایک کارکن سارے حلقہ میں کام نہیں کر سکتا تو زیادہ آدمی مقرر کر دیئے جائیں.اول تو یہاں کی کثرت کے مقابلہ میں آسانیاں بھی زیادہ میسر ہیں.جمعہ کے دن ساری جماعت کے لوگ ایک جگہ جمع ہوتے ہیں.خطبہ جمعہ سے پہلے یا نماز جمعہ کے بعد ان میں بآسانی تحریک کی جاسکتی ہے.پھر مختلف محلوں کی مساجد ہیں جہاں ہر محلہ کے لوگ نماز کے اوقات میں جمع ہوتے ہیں، ان مساجد میں جاکر تحریک کی جاسکتی ہے.غرض یہاں اگر کام وسیع ہے تو کام کرنے کے وسائل بھی وسیع ہیں.باہر کی جماعتوں کے لوگ جمعہ کے دن ہی جمع ہو سکتے ہیں.اور اس دن بھی بعض ملازم رخصت نہ ملنے کی وجہ سے نہیں آسکتے.اس لئے وہاں تحریک کرنے میں مشکل پیش آتی ہے.لیکن یہاں کا کار کن جمعہ کے علاوہ ہر محلہ کی مسجد میں جاکر بھی جو تحریک کرنا چاہے کر سکتا ہے.وہ صبح کی نماز کے وقت ایک محلہ میں چلا جائے اور وہاں تحریک کرے.پھر ظہر کی نماز دوسرے محلہ میں جاکر پڑھے اور وہاں تحریک کرے عصر کی نماز تیسرے محلہ میں جاکر پڑھے اور وہاں تحریک کرے.اسی طرح مغرب کی نماز چوتھے محلہ کی مسجد میں پڑھنے کے بعد وہاں تحریک کر سکتا ہے.اور عشاء کی نماز کے وقت پانچویں محلہ کی مسجد میں تحریک کی جاسکتی ہے.اس طرح وہ ایک دن میں کام
خطبات محمود کر سکتا ہے.۲۵۹ سال ۱۹۳۳ء اور اگر ایک دن میں کام ختم نہ ہو تو دوسرے دن کر سکتا ہے.مگر یہ نہیں کہ کارکن خود تو کام نہ کرے اور ہر کام کا انحصار خلیفہ پر رکھ کر جماعت کو ایسی بات کا عادی بنائے جو نہایت مضر ہے.یہ قانون قدرت ہے کہ جس طاقت کو بار بار استعمال کیا جائے اس کی عادت ہو جاتی ہے.اور پھر اس سے کم طاقت کا اثر نہیں ہوتا.ڈاکٹر لکھتے ہیں.جو لوگ معدہ کی تقویت کیلئے دوائیں استعمال کرتے رہتے ہیں ان کا معدہ خراب ہو جاتا ہے.اور انہیں زیادہ سے زیادہ طاقت کی دوا استعمال کرنے کی ضرورت رہتی ہے.اسی طرح دوسرے کاموں میں ہوتا ہے.مثلاً تبلیغ کا دن ہے.اس کیلئے جب تک خلیفہ نہ کہے اگر کوئی نہ جائے تو اس طرح اس بات کی لوگوں کو عادت ہو جائے گی کہ ہر بات خلیفہ ہی کے تب اس پر عمل کریں اور یہ جماعت کو مختل کر دینے والی بات ہے.یہی حال دوسری تحریکوں کا ہے.جن کے متعلق خلیفہ سے کہا جاتا ہے کہ لوگوں کو عمل کرنے کیلئے کہے.اس کا نام تو تبریک رکھا جاتا ہے مگر دراصل کارکن اپنی غفلت اور ستی کو اس کے نیچے چھپاتے ہیں.کوشش یہ ہونی چاہیئے کہ اس قسم کے اعلانات سے خلیفہ کی ذات علیحدہ رہے.سوائے ان روحانی اور دینی تحریکات کے جو خلیفہ کے دل میں پیدا ہوں اور جن پر وہ جماعت سے عمل کرانا چا ہے.اسی اصل کے ماتحت ناظروں کو کام کرنا چاہیے اور اسی اصل کے ماتحت لوکل انجمن کے کارکنوں کو بھی.پس بجائے اس کے کہ میں یوم التبلیغ کے متعلق تحریک کروں کو ضمنی طور پر میرے یہ کہنے سے بھی تحریک تو ہو جائے گی، میں اظہار افسوس کرتا ہوا یہ کہتا ہوں کہ یہ طریق غلط ہے.قادیان کے لوگوں کو اپنے عمل.سے یہ بات ثابت کرنا چاہیے کہ وہ زندہ جماعت ہے اور دوسروں سے بڑھ کر اس میں زندگی پائی جاتی ہے.اتفاقاً اس وقت میری نظر پڑ گئی ہے.جنہوں نے مجھے رقعہ لکھا تھا کہ لتبلیغ کے متعلق تحریک کروں، وہ خود اڑہائی بجے آئے ہیں.گویا میری تحریک کے دوسرے تو محتاج ہیں لیکن وہ نہیں.اور میری تحریک دوسروں کیلئے تھی ان کیلئے نہ تھی.آج خطبہ جمعہ جلدی بھی شروع نہیں ہوا کہ وہ موقع پر آنے سے رہ گئے ہوں بلکہ دیر سے شروع ہوا ہے.پچھلے جمعہ کی طرح اگر پہلے شروع ہوتا تو اس وقت تک ختم ہو کر نماز بھی شروع ہو گئی ہوتی بے شک مومن کے کاموں میں چستی ہونی چاہیے اور ایسے ذرائع استعمال کرنے چاہئیں کہ لوگوں میں غفلت اور سُستی پیدا نہ ہو.یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہزاروں دفعہ غفلت چستی کا موجب بن جاتی ہے.اس لئے بعض دفعہ بعض لوگوں کی غفلت برداشت کرلینی چاہیئے.میں یوم
خطبات محمود وہ ۲۶۰ سال ۱۹۳۳ء غفلت ہی ان کی چستی کا باعث بن سکتی ہے.مثلاً یہی یوم التبلیغ ہے ہو سکتا ہے کہ بعض لوگ اس دن تبلیغ کیلئے نہ جائیں.مگر ان کی وجہ سے کونسی ایسی برکتیں نازل ہوئی تھیں کہ ان کے ذریعہ ہزاروں لوگ احمدی ہو جاتے.ایسا منحوس شخص جو ایک دن بھی تبلیغ کیلئے نہیں نکلا سکتا، وہ اگر مجبور کرنے پر نکلے بھی تو اس کی زبان میں کیا اثر ہو سکتا ہے.جس کے سپرد اتنا بڑا کام ہو کہ اس نے مسیح موعود کا پیغام دوسروں کو پہنچانا ہو، اس مسیح موعود کا جسے گزشتہ انبیاء نے سلام کہا.وہ اگر اپنے فرض کو نہ پہچانے اور تبلیغ کیلئے نہ جائے تو کون سی ایسی برکت ہو سکتی ہے کہ ایسے لوگوں کے تبلیغ کیلئے نکلتے ہی خدا تعالیٰ فرشتوں کو حکم دے دے کہ یہ بڑے بابرکت لوگ ہیں.اب تم برکت نازل کرنی شروع کردو.ایسے لوگ نہ نکلیں تو کیا حرج واقعہ ہو سکتا ہے.لیکن جو اخلاص کے ساتھ جانے والے ہوتے ہیں.میری طرف سے تحریک ہونے پر ان کا اخلاص بھی دب جاتا ہے.پھر اس بات میں کیا فرق رہا کہ کوئی زور دینے کی وجہ سے گیا یا خوشی سے گیا.منافق وہ نہیں ہوتا جس میں ایمان نہ ہو بلکہ وہ ہوتا ہے جس میں نامکمل ایمان ہوتا ہے.اور نامکمل ایمان بھی بات سننے اور عمل کرنے پر آمادہ کر سکتا ہے.اور میرے کہنے پر ایسے لوگوں کو بھی کچھ نہ کچھ حصہ لینا پڑتا ہے.حالانکہ اگر وہ تبلیغ نہ کرتے اور جب مخلص آکر حالات بناتے کہ ہمیں لوگوں نے مارا، گالیاں دیں، تکالیف پہنچائیں اور سب کچھ ہم نے خدا تعالیٰ کیلئے برداشت کیا تو منافقوں کو اپنا نفاق دور کرنے کا موقع مل جاتا.اور دوسری دفعہ وہ خدا تعالی کی رضا حاصل کرنے کیلئے خود بخود تبلیغ کیلئے جاتے مگر اب یہ نہ ہو سکے گا.جاتی آئندہ کارکنوں کو خواہ وہ مقامی ہوں یا بیرونی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہر تحریک میں اتنی شدت نہ پیدا کی جائے کہ لوگوں کو اس کی عادت ہو جائے.شدید نیکی بھی عادت بن ہے اور شدید بُرائی بھی.چند دن اگر کوئی شخص شدید خشوع و خضوع پیدا کرے تو پھر یہ اس کی عادت بن جائے گی.شدید زہر کی بھی عادت پڑ جاتی ہے.دیکھو گو بھی کھانے والے کو اس کی عادت نہیں پڑتی وجہ یہ کہ اس میں شدت نہیں ہوتی.لیکن افیم کھانے والے کو عادت ہوتی ہے.کیونکہ افیم میں ایک قسم کی شدت ہوتی ہے.انبیاء اور خدا تعالیٰ کا قول بھی شدت والا ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ خدا تعالی روز روز الهام نازل نہیں کیا کرتا کیونکہ اس کی بھی عادت ہو جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو یہ تحریر فرمایا ہے کہ:
خطبات محمود دو سال ۱۹۳۳ء سکھیا تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے.اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے.کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا.اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں.لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی" سے اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ شدت والی چیز کی عادت ہو جاتی ہے.نبی چونکہ شدت پیدا کرتا ہے، اس لئے اسے ہمیشہ نہیں رکھا جاتا.پھر اگر الہام والی بات کے ہی ماننے کی عادت پڑ جائے تو پھر کوئی اور بات ہی نہ سنے.اور پھر زیادہ شدت والے الہام کی بات مانی جائے عام الہام کی طرف توجہ نہ کی جائے.تو ہر شدت کی عادت ہو جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سناتے تھے کہ بعض لوگوں کو سنکھیا کھانے کی عادت ہو جاتی ہے تو وہ اتنا کھا جاتے ہیں جس سے کئی آدمی مر جائیں.حضرت خلیفہ اول سناتے تھے کہ دہلی کا ایک شہزادہ بھاگ کر ایک راجہ کے پاس گیا.تو اس نے افیون کی گولیوں کی تھالی بھر کر سامنے رکھ دی.شہزادہ کو افیون کھانے کی عادت نہ تھی.اس نے انکار کرنا چاہا لیکن وزیر نے بتایا کہ اس طرح راجہ صاحب ناراض ہو جائیں گے.اور تھالی رکھ لی اور خود ساری گولیاں کھا گیا.کیونکہ اسے افیون کھانے کی عادت تھی.تو ہر شدید چیز کی عادت ہو جاتی ہے.اس لئے ہر موقع پر احساس پیدا کرنا قوم کیلئے مضر ہوتا ہے.ہمیشہ عام کاموں کیلئے چھوٹے ذرائع سے کام لینا چاہیئے اور آہستگی سے کام کرنا چاہیے.کارکنوں کو چاہیے کہ خود کام کریں.اور اگر بعض لوگ کمزوری دکھائیں تو اس سے ڈرنا نہیں چاہیئے.بلکہ ان کے نام نوٹ کرلینے چاہئیں اور پھر ان کی اصلاح کی کوشش کی جائے.رسول کریم اے کے زمانہ میں بھی منافق تھے.پھر ان کی اصلاح ہوتی گئی.ایک حدیث میں آتا ہے کہ حذیفہ رسول کریم اسے منافقوں کا حال پوچھتے رہتے تھے.ایک صحابی کہتے ہیں کہ میں تو حذیفہ " کو دیکھتا رہتا جس کا وہ جنازہ پڑھتے اس کا میں بھی لیتا ورنہ نہ پڑھتا ہے.حذیفہ نے رسول کریم ان کے وقت جن منافقوں کے نام سنے تھے ان کو یاد رکھا حالانکہ انہوں نے بعد میں اصلاح کرلی تھی.تو منافق کی بھی اصلاح ہو جاتی ہے.اور اسے اپنی اصلاح کا موقع ملنا چاہیئے.ہر تحریک اتنی شدید نہ ہونی چاہیے کہ منافق کا پتہ نہ لگ سکے اور اس کا علاج نہ کر سکیں.پڑھ رحم شدید
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء پس میں بجائے یوم التبلیغ کے متعلق تحریک کرنے کے ایسی بات کی تحریک کرتا ہوں کہ مقامی کارکن عام باتوں کی تحریک کیلئے مجھ سے نہ کہا کریں کیونکہ یہ جماعت سے دشمنی - ہے جماعت کی خیر خواہی نہیں.له التوبة: ٤٣ (الفضل ۲۶ - اکتوبر ۱۹۳۳ء) الوصیت صفحہ ۷ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۵ الاستيعاب في معرفة الاصحاب لابي عمر يوسف جلدا صفحه ۱۳۹۴ دار الكتب العلمية بيروت لبنان ۱۹۹۵ء
خطبات محمود ۲۶۳ یوم التبلیغ کے خوش کن نتائج فرموده ۳ - نومبر ۱۹۳۳ء) سال ۱۹۳۳ء تشر ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- گزشتہ سے پیوستہ اتوار کو جو ہمارا یوم التبلیغ تھا.جہاں تک اس کے متعلق رپورٹیں موصول ہوئی ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جن جن جماعتوں نے تبلیغ کی طرف توجہ کی ہے خدا تعالیٰ کے فضل سے انہیں خاص طور پر کامیابی حاصل ہوئی ہے.جماعتوں میں ایک نئی بیداری پیدا ہو گئی ہے اور تبلیغ کا ایک نیا جوش ان میں معلوم ہوتا ہے.پھر تبلیغ کرنے کیلئے جو دوست اپنے شہر کے لوگوں سے ملے یا باہر کسی گاؤں میں گئے ان سے یہ بھی پتہ لگا ہے کہ بہت سی طبائع احمدیت کی طرف مائل ہیں.خصوصاً تعلیم یافتہ طبقہ تو ہماری جماعت کی طرف بہت راغب ہے.ہمارے کئی دوست مخالفوں کی مخالفت دیکھ کر گھبرا جایا کرتے ہیں.اگر انہوں نے بھی اس دن تبلیغ کی ہو اور اس کے نتیجہ میں ان کے بھی وہی تاثرات ہوں جو میں نے بیان کئے ہیں تو انہیں معلوم ہو گیا ہو گا کہ مخالفت کوئی بُری چیز نہیں بلکہ اچھی چیز ہے.اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں نیکی رکھی ہے.اور بُرے سے بُرا کام کرتے وقت بھی نیکی اس کے ساتھ رہتی ہے.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں.جب کوئی مومن گناہ کرتا ہے تو ایمان نکل کر اس کے سر پر چھا جاتا ہے اور گناہ ختم ہونے پر پھر اس میں داخل ہو جاتا ہے اہ.اس کے معنی یہی ہیں کہ انسان کی نیکی اس سے جُدا نہیں ہوتی.عام طور پر جو لوگ ہماری جماعت کی مخالفت کرتے ہیں، وہ بھی ایک قدم نیکی کی طرف بڑھالیتے ہیں.مثلاً مخالفت کرنے
خطبات محمود والا اگر انهماک سال ۱۹۳۳ تو - دیانتدار ہو تو قدرتی طور پر اسے یہ خیال آتا ہے کہ میں ان لوگوں کی باتیں سنوں ! تاکہ انہیں جواب دے سکوں.اور جب وہ باتیں سنتا اور تردید کرنے کیلئے سلسلہ کا لٹریچر پڑھتا ہے تو آخر اس کا دل خود بخود احمدیت کی طرف مائل ہونا شروع ہو جاتا ہے.اور اگر وہ غور و فکر سے لٹریچر پڑھتا رہے تو ایک دن احمدیت کا شکار ہو جاتا ہے.پس مخالفت ہمیشہ فائدہ بخشتی ہے.اور کبھی بھی مخالفت سے مومن کو گھبرانا نہیں چاہیئے بلکہ خوش ہونا چاہیے.ہاں اللہ تعالیٰ کی غناء کو دیکھتے ہوئے دل میں خشیت رکھنی چاہیئے.ڈر اور چیز ہے اور خشیت اور چیز ڈر ہمیشہ بزدلی پر دلالت کرتا ہے مگر خشیت الہی ایمان پر دلالت کرتی ہے.پس بزدلی نہ ہو لیکن خشیت اللہ ضرور ہونی چاہیئے.اس دفعہ دوستوں کے تجربہ سے ظاہر ہوا ہے کہ باوجود لوگوں کی شدید مخالفت کے اور باوجود اس کے کہ مولویوں اور دوسرے لوگوں نے مسلمانوں کو اکسایا اور جوش دلایا.یہاں تک کہ بعض جگہ یہ بھی امید نہیں تھی کہ شہر کے کسی محلہ میں کوئی شخص ہماری بات سن سکے.پھر بھی لوگوں نے نہایت ہی توجہ اور سے ہماری باتیں سنیں بلکہ بعض نے چائے وغیرہ سے خاطر تواضع کی اور بڑی محبت سے باتیں سنیں.سو میں سے ایک مثال اس قسم کی پائی جاتی ہے کہ لوگوں نے مخالفت کی اور ننانوے مثالیں ایسی ہیں کہ لوگوں نے غیر متوقع طور پر ہماری باتوں کو سنا اور اقرار کیا کہ جب آپ اس ارادہ سے آئے ہیں کہ ہمیں اپنی باتیں سنائیں تو آپ کی مخالفت کرنا فضول ہے.غرض اس دفعہ کے یوم التبلیغ سے تین باتیں ثابت ہوئی ہیں.اول یہ کہ قرآن مجید کی یہ بات سچی ہے کہ فطرتِ انسانی میں نیکی رکھی گئی ہے.ورنہ جس رنگ میں ہماری مخالفت شروع اگر اسی طرح کی تمام لوگوں کی ذہنیت ہوتی تو نہ معلوم کس قدر فساد ہوتا.مگر چونکہ فطرتِ انسانی نیک ہے اس لئے تمام لوگ مشتعل کرنے والوں کے دھوکا میں نہیں آتے.بلکہ سمجھتے ہیں کہ باتیں سننے میں کوئی حرج نہیں.اگر اچھی بات ہوئی تو قبول کرلیں گے نہیں تو رد کردیں گے.پس ایک تو ہمیں یہ معلوم ہوا کہ قرآن کریم نے جو یہ فرمایا ہے کہ فطرتِ انسانی نیک ہے.ہمارے مشاہدہ نے بھی اس کی تصدیق کر کے ہمارے دلوں کو مطمئن کردیا ہے.ایمان تو پہلے ہی مضبوط تھا لیکن جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا تھا.خدایا! تو مردے کس طرح زندہ کرے گا؟ اور کہا تھا کہ اس پر میرا ایمان تو ہے لیکن میں اس لئے سوال کرتا ہوں کہ لِيَطْمَئِنَّ قَلبی ہے تا مجھے مزید اسمینان ہو جائے.اس طرح ہمارا
خطبات محمود ۲۶۵ سال ۱۹۳۳ء قرآن مجید کے اس بیان کردہ اصل پر ایمان تو تھا لیکن ہمیں اطمینان بھی حاصل ہو گیا.اور معلوم ہو گیا کہ یہ قانون ہمارے لئے بھی جاری ہے.دوسری بات ہمیں یہ معلوم ہوتی ہے کہ مخالفتیں جب جب وہ حق کے مقابلہ پر ہوں ایسا اثر نہیں رکھتیں کہ کامیاب ہو جائیں.مخالفت ہمیشہ اُسی وقت کامیاب ہوا کرتی ہے جب وہ جھوٹ کے مقابل پر ہو.ورنہ حق کے مقابل پر مخالفت کوئی حقیقت نہیں رکھتی.تیسری بات ہمیں اس سے یہ بھی معلوم ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے احمدیت کو وہ دلائل عطا فرمائے ہیں جن کا مقابلہ کرنے کی کسی میں طاقت نہیں.بیسیوں مثالیں ایسی ملتی ہیں کہ ہماری جماعت کے ان پڑھ لوگ تبلیغ کے لئے نکلے.اور مخالف مولویوں کا انہوں نے اس طرح مقابلہ کیا کہ لوگوں کو تسلیم کرنا پڑا کہ ان کے مولوی جواب دینے سے عاجز رہے ہیں.مزید فائدہ یہ بھی ہوا ہے کہ جن لوگوں نے کبھی تبلیغ نہیں کی تھی، انہیں بھی تبلیغ کی طرف توجہ پیدا ہو گئی.اور یہ معلوم ہوا کہ بہت سی طبائع احمدیت کی طرف مائل ہیں.اگر ہم تواتر سے اس اثر کو قائم رکھیں تو تعلیم یافتہ طبقے کا بیشتر حصہ بہت جلد احمدیت میں داخل ہو جائے گا.نہ صرف اس دفعہ بلکہ ہر دفعہ کے یوم التبلیغ سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ طبائع احمدیت کی طرف مائل ہیں.نقص صرف یہ ہے کہ انہیں پوری طرح پیغام پہنچایا نہیں گیا.یا اس طریق پر پہنچایا نہیں گیا جس سے فائدہ حاصل ہو.عموماً لوگ اس طرح تبلیغ کرتے ہیں کہ محلے کے لوگوں کو باتیں سنانی شروع کر دیں.مگر اس طرح بہت کم کرتے ہیں کہ کسی تعلیم یافتہ محنتی اور بارسوخ آدمی کے پاس جائیں اور اسے تبلیغ کریں.عام طور پر ان کا سارا زور ایسے ہی لوگوں کو تبلیغ کرنے پر صرف ہو جاتا ہے جن کی غرض تحقیق حق نہیں ہوتی بلکہ محض بحث کرنا ہوتی ہے.اور ان کا مسلمان بنانے کا سارا زور شیطانوں پر صرف ہوتا ہے.ان لوگوں پر خرچ ہوتا ہے جن کو چھیڑ خانی اور بحث کی عادت ہوتی ہے.پس وہ سارا دن ان سے باتیں کرتے رہتے ہیں اور شام کو جب گھر واپس آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم نے خوب تبلیغ کی.حالانکہ جن سے وہ بحث کر کے آئے ہوتے ہیں وہ شیطان کے چیلے ہوتے ہیں.اور ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ یہ ہمارے ساتھ بحث میں الجھے رہیں تا ایسے لوگوں کے پاس نہ جاسکیں جو سعادت کا مادہ رکھتے ہیں.پس چاہیے کہ ایسے لوگوں کے حلقہ سے بچ کر ان لوگوں کے پاس پہنچا جائے جو حق کے متلاشی ہوتے ہیں.اور خصوصاً ایسے لوگوں سے ملنا چاہیئے جو اپنے اپنے حلقہ میں اثر رکھتے
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء ہوں.جب تک اس رنگ میں تبلیغ نہ کی جائے گی اثر نہ ہوگا یوں تو اللہ تعالیٰ نے رحمت کا ایک چھینٹا برسایا ہے اور لوگ آپ ہی آپ احمدیت میں داخل ہوتے رہتے ہیں.لیکن اس میں شبہ نہیں کہ اصولی طور پر ابھی ہماری جماعت نے بہت کم تبلیغ کی ہے.عام طور پر ان کی وہی مثال رہی ہے کہ جیسے کوئی شکاری تیر چلائے اور اس کا ہر تیر خطا جائے.مگر اتفاقاً کوئی شکار کو بھی جاگے اور وہ گر پڑے- اب تک نشانے پر پہنچنے والے تیر بہت کم چلائے گئے ہیں.اس لئے سوچنا چاہیے کہ اگر تیر خطا ہو کر اس قدر شکار کر سکتا ہے تو نشانے پر اگر تیر لگتے جائیں تو کس قدر شکار ہوں گے.لوگوں کی اس تعداد اور رفتار سے جو جماعت میں داخل ہو رہی ہے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے ہمارے لئے اتنا بڑا شکار جمع کر رکھا ہے کہ ہمارے تیر خالی ہو ہو کر بھی ہزاروں کو کھینچ لاتے ہیں.پھر اگر ارادہ عزم اور صحیح طریق کے ساتھ تیر چلائے تو کس قدر کامیابی ہو سکتی ہے.پس ہماری جماعت کو چاہیے کہ وہ اصولی طور پر تبلیغ کرے اور اپنی طاقت کو ضائع نہ کرے.باقی مخالفت کوئی ایسی چیز نہیں جس سے ہم گھبرا سکیں بلکہ مخالفت اگر سنجیدگی اور اخلاص سے کی جائے تو مخالفت کرنے والے میں کچھ نہ کچھ دین کی محبت ضرور ہوتی ہے.آج ہی مجھے تازہ ڈاک سے گالیوں سے بھرا ہوا ایک خط ملا ہے.اس کے پڑھنے سے صاف طور پر مجھے معلوم ہوا ہے کہ لکھنے والے کے دل میں دین کی محبت اور اسلام کا درد ہے جس سے مجبور ہو کر اس نے خط لکھا.وہ خط راولپنڈی سے آیا ہے لیکن خدا تعالیٰ نے انسان کی زبان ایسی بنائی ہے کہ اس کی وجہ سے بعض قو میں معلوم کی جاسکتی ہیں.اس خط کی زبان بھی ایسی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص ہزارے کے علاقہ کا ہے.ہمارے ایک دوست جو آج کل عربی پڑھانے پر مقرر ہیں.اپنی طالب علمی کے زمانہ میں جب یہاں آئے تو اُس وقت میں حضرت خلیفہ اول سے پڑھا کرتا تھا آپ نے فرمایا میاں! ان کی زبان دیکھو.یہ "ا" کو ہمیشہ "خ" کہیں گے.اَلْحَمْدُ لِله نہیں بلکہ الْحَمْدُ لِلَّهِ کہیں گے.اس خط میں بھی کئی جگہ خنفیہ خنفیہ لکھا ہوا ہے.میں حیران ہوا کہ یہ کیا لفظ ہے.بعد میں معلوم ہوا حنفیہ کو خنفیہ لکھا گیا ہے.کیونکہ اس علاقہ کے لوگ ”حا" کو "خا" بولتے ہیں.خط ہو لکھنے والے نے دھمکی بھی دی ہے کہ ایسا نہ ہو کہ خنفیہ جماعت کا کوئی آدمی آپ مارڈالے.برا بھلا بھی کہا ہے اور ساتھ ہی لکھا ہے کہ اب جبکہ کئی آدمی ہندوؤں میں سے اسلام میں داخل ہو رہے ہیں آپ اسلام کے اندر ہو کر اس کے ساتھ کیوں دشمنی کررہے
خطبات محمود ۲۶۷ سال ۱۹۳۳ء ہیں.اور گو خط سخت الفاظ میں لکھا ہے مگر صاف معلوم ہوتا ہے کہ لکھنے والے کے دل میں سنجیدگی پائی جاتی ہے.باقی لوگوں کا تجربہ بھی بتلاتا ہے کہ مسلمانوں میں اب سنجیدگی پیدا ہو رہی ہے.وہ بے شک گالیاں دیں گے مگر ایک قسم کی سنجیدگی اور متانت بھی ان میں نظر آئے گی.اور جو پہلے ان پر مُردنی چھائی ہوئی تھی، اس میں اب تغیر پیدا ہو گیا ہے.ایک گالی دینے والا شرارتی ہوتا ہے اور اس کی گالیاں اس کے دل کے بغض و کینہ کا آئینہ ہوتی ہیں.مگر ایک وسرے کی گالیوں کا موجب بغض نہیں بلکہ محبت اور اصلاح ہوتی ہے.جیسے بعض ماں باپ غصہ میں اپنے بچوں کو کوستے اور گالیاں دیتے ہیں.اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ان کے دل میں بچہ سے بغض ہوتا ہے بلکہ انہیں غصے کی عادت ہوتی ہے.اور محبت کے نتیجہ میں وہ گالیاں دیتے ہیں.اس دفعہ یوم التبلیغ کے موقع پر بعض لوگوں نے یہ بھی مشورہ دیا تھا کہ تبلیغ کی جائے کیونکہ اس طرح فساد ہوگا اور گو انہوں نے میرے نزدیک خیر خواہی سے مشورہ دیا تھا اور اس روح کو ہم قابل قدر سمجھتے ہیں مگر اتنی غلطی ان سے ضرور ہوئی ہے کہ انہوں نے سمجھا سارے مسلمان ظفر علی کی ٹائپ کے ہیں.دراصل جو شخص پاس ہو، اس کا انسان پر زیادہ اثر ہوتا ہے.چونکہ ان کے اردگرد ظفر علی ٹائپ کے لوگ رہتے تھے، اس لئے انہوں نے خیال کرلیا کہ سارے لوگ ہی فسادی ہیں.حالانکہ ہمارے تجربہ نے بتادیا ہے کہ اب مسلمانوں کی حالت بدل چکی ہے.اور وہ مذہبی عقائد کے متعلق باتیں سننے کیلئے تیار ہیں.یہ بات اگر قائم رہے تو مسلمانوں کی ترقی کا موجب ہو سکتی ہے.دراصل ساری تباہیاں اختلاف کے برداشت نہ کرنے کی وجہ سے آتی ہیں.پس علاوہ اس کے کہ اس طرح وہ ہماری باتیں سن سکیں گے اور اگر اللہ کا فضل شامل حال ہوا تو انہیں ہدایت حاصل ہو جائے گی.ایک بہت بڑا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ اس رنگ میں مسلمانوں میں اتحاد کی صورت پیدا ہو جائے گی.جب قوم کی یہ عادت ہو کہ وہ اختلاف کی باتیں نہ سن سکے، مخالف قوم کیلئے اس میں تفرقہ ڈالنا بہت آسان ہوتا ہے.کیونکہ تفرقہ بے جا جوش میں آجانے والے لوگوں میں ڈالا جاتا ہے.جس قوم میں سنجیدگی کے ساتھ باتوں میں امتیاز کرنے اور شرافت و سنجیدگی کے ساتھ باتیں سننے کا مادہ ہو، اس میں تفرقہ ڈالنا نا ممکن ہوتا ہے.پس یہ بات علاوہ احمدیت کیلئے مفید ہونے کے مسلمانوں کے متعلق خوشخبری بھی ہے کہ ان میں اب یہ مادہ پیدا ہو گیا ہے کہ وہ دوسروں کی باتیں حوصلہ اور تحمل سے سن سکتے ہیں.اور
: خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء اب کوئی غیر قوم مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی.تفرقہ اسی طرح پڑتا ہے کہ جب کسی مفسد کی کوئی بات سنی جائے تو جوش میں آکر بغیر تحقیق کئے اسے درست مان لیا جائے.اور لٹھ لے کر دوسرے کے مقابل پر انسان نکل کھڑا ہو.لیکن اگر قلب میں سنجیدگی ہو جب کوئی بات بیان کرے تو کسے اچھا میں تحقیق کروں گا.اگر یہ بات کہی گئی ہے تو میں پوچھوں گا کہ کیوں کی گئی.پھر اگر میرا قصور ہوا تو میں اپنی اصلاح کرلوں گا.اور اگر دوسرے کا قصور ہوا تو اسے ملامت کروں گا تو تفرقہ ڈالنے والا خاموش ہو کر چلا جاتا ہے.پس علاوہ اس کے مسلمانوں میں یہ مادہ پیدا ہونے سے ہمارے لئے سہولت ہو گئی ہے.مسلمانوں کی عام حالت کے لحاظ سے بھی یہ خوشخبری ہے.اور امید پڑتی ہے کہ اگر یہ مادہ ان میں ترقی کرتا گیا تو آئندہ فتنے ان میں نہیں اُٹھیں گے.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ بہت جلد ترقی کر سکیں گے.مگر ہمارے لئے یوم التبلیغ اپنے اندر جو سبق رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے راستہ کھول دیا ہے.اگر ہم توجہ کریں گے تو ترقی ہوگی اور اگر نہ کریں گے تو نہیں ہوگی.یہ یوم التبلیغ فرض ہے اور فرض کی ادائیگی ضروری ہوتی ہے.مگر رسول کریم ال فرماتے ہیں.انسان خدا تعالیٰ کا قرب فرائض سے نہیں بلکہ نوافل سے حاصل کرتا ہے ہے.خلیفۂ وقت نے جو کہا اور تم نے مانا وہ تو فرض ادا ہوا.لیکن اللہ تعالیٰ کا قرب نوافل سے ملتا ہے.اسی لئے رسول کریم ﷺ نے فرائض سے نوافل زیادہ رکھتے ہیں.ظہر کے چار فرض ہیں.مگر آٹھ سنتیں اور نوافل الگ ہیں.عصر کے ساتھ یوں تو سنتیں نہیں مگر نوافل کے طور پر چار رکعت پڑھ لی جاتی ہیں.مغرب کے وقت تین فرض دو سنتیں اور دو نفل ، عشاء کے وقت چار فرض، دو سنتیں، تین وتر اور پھر بیٹھ کر دو سنتیں ادا کی جاتی ہیں.صبح کی نماز کے وقت دو فرض اور دو سنتیں ہیں.مگر اس سے پہلے رات کو تہجد کے وقت آٹھ رکعت نفل پڑھے جاتے ہیں.اور اگر اشراق کو شامل کر لیا جائے تو دو نفل وہ ہو جاتے ہیں.گویا پینتیس (۳۵) رکعت نوافل رکھے گئے ہیں.اور یہ بھی وہ جو مسنون ہیں ورنہ ان کے علاوہ بھی عبادت کرنے کا حکم ہے.اس کے مقابلہ میں سترہ (۱۷) رکعت فرائض ہیں.گویا نوافل ڈگنے سے بھی زیادہ ہیں.پھر فرض کی تو تعداد مقرر ہے مگر نفل کی حد ہی نہیں.پس جب نوافل سے قرب الہی حاصل ہوتا ہے تو مقامی طور پر ہر جماعت کو ہمیشہ تبلیغ کی طرف توجہ کرنی چاہئیے.اور جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اپنی اپنی جگہوں پر ہفتہ وار پندرہ روزہ
خطبات محمود ۲۶۹ سال ۱۹۳۳ء یا ماہوار تبلیغ ڈے مقرر کر کے خود بخود تبلیغ کیا کریں.اس طرح ثواب بھی ہوگا اور لوگوں کو ہدایت بھی ہوگی.بعض لوگوں نے مشورہ دیا تھا کہ یوم التبلیغ بڑھا دیئے جائیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں بجائے فرض میں زیادتی کرنے کے نوافل میں زیادتی کرنی چاہیئے.اور یہ اسی طرح ہو سکتی ہے کہ تمام جماعتیں اپنی اپنی جگہوں پر ایک تبلیغ ڈے.پندرہ روز یا مہینہ کے بعد مقرر کر کے تبلیغ کیا کریں.کیونکہ فرض تو سب پر عائد ہوتا ہے اور نوافل ہر شخص علیحدہ علیحدہ اپنی طاقت اور اپنے شوق کے مطابق ادا کر سکتا ہے.پس جماعتوں کو نفلی یوم التبلیغ مقرر کرنے چاہئیں بلکہ افراد بھی اپنی سہولت کے مطابق پندرہ روزہ تبلیغ ڈے مقرر کر سکتے ہیں.اگر اس طرح تمام جماعتیں اور افراد اپنے اپنے طور پر یوم التبلیغ مقرر کر کے تبلیغ کرنے لگ جائیں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے تبلیغ کے بہتر سے بہتر نتائج پیدا ہونے لگ جائیں گے.الفضل ۹ - نومبر ۱۹۳۳ء) '() ه ترمذی ابواب الایمان باب لا يزني الزاني و هو مؤمن البقرة: ٢٦١ سے بخاری کتاب الرقاق باب التواضع
خطبات محمود የረ ۲۹ چندہ کی باقاعدہ ادائیگی کے متعلق آخری انتباہ فرموده ۱۰ - نومبر ۱۹۳۳ء) سال ۱۹۳۳ء ہوں.تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں سردرد اور گلے کی تکلیف کی وجہ سے اونچا نہیں بول سکتا اور نہ ہی زیادہ بول سکتا لیکن میں اس بات کے متعلق اختصاراً جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس سال بجٹ کے موقع پر سب کمیٹی کی سفارش تھی اور اس پر مجلس شوری کی بھی سفارش تھی کہ بجٹ پورا نہ ہو تو چندہ خاص لگایا جائے.لیکن میں نے فیصلہ کیا تھا کہ پہلے چندہ کی وصولی کے متعلق پوری کوشش کی جائے جو اب تک نہیں ہوتی رہی.اگر اس کے بعد بھی بجٹ پورا نہ ہو اور نہ ہی قرضہ کی ادائیگی کی کوئی اور صورت نظر آئے تو پھر چندہ خاص لگایا جائے گا.تشخیص سے معلوم ہوا کہ ہماری آمد کا بجٹ بہت ہی کم تجویز کیا جاتا رہا ہے.اور در حقیقت اس سے بہت زیادہ آمدنی ہونی چاہیئے تھی.بہت سے نادہندہ اور کمزور لوگ چندہ کی ادائیگی میں سستی کرتے اور جماعتیں بھی اپنے بجٹ کو پورا کرنے کیلئے کہ انہوں نے تمام رقوم ادا کردی ہیں ایسے نادہندوں کو چندہ کی فہرست سے خارج کر دیتیں جس کی وجہ سے وہ اور ست ہو جاتے.اور اگر کبھی وقتی جوش کے ماتحت وہ چندہ دے بھی دیتے اور اس طرح ایک جماعت کے چندہ میں اضافہ ہو جاتا تو وہ جماعت مستقل نیک نامی حاصل کرلیتی.اور اس کے متعلق خیال کیا جاتا کہ اس کا چندہ بہت بڑھ گیا ہے.یا بعض دفعہ کوئی چُست آدمی بھی اس وجہ سے سست ہو جاتا کہ بجٹ تو پورا ہو ہی چکا ہے، اب مزید چندہ دینے کی کیا ضرورت
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء ہے.ان نقائص کو دور کرانے کیلئے میں نے تشخیص کرائی اور معلوم ہوا پچاس فیصدی سے بھی زیادہ لوگ ایسے ہیں جو صحیح طور پر باقاعدگی کے رنگ میں چندہ نہیں دیتے.تشخیص کے نتیجہ میں بعض جماعتوں کا سوا یا اور بعض کا ڈیوڑھا اور بعض کا ڈگنا چندہ ہو گیا.اور مجموعی طور پر جماعت کے چندہ میں پچاس فیصدی کے قریب اضافہ ہوا.گزشتہ سال کی پہلی ششماہی کے خاتمہ پر جماعت پر چالیس ہزار روپے قرض تھا.مگر اس سال پہلی ششماہی پر کوئی قرض نہیں ! نکلا.مگر جہاں یہ خوشی کی بات ہے کہ جماعت نے پچھلے چھ ماہ میں چندوں کی ادائیگی پر پورا زور لگایا اور کو پورا تو پھر بھی نہیں کہا جاسکتا.ہاں یہ ضرور کہنا پڑتا ہے کہ پہلے سے زیادہ زور لگایا.اور باوجود بجٹ میں زیادتی ہونے کے خرچ کا بجٹ گزشتہ سال کے مقابلہ میں بڑھا نہیں.اور قرضہ میں بھی زیادتی نہیں ہوئی.یا حسابی رنگ میں ایسی نمایاں زیادتی نہیں ہوئی جسے بیان کیا جاسکے.وہاں پچھلے سال کا ستر اکہتر ہزار روپیہ کا قرض ابھی تک ادا نہیں ہوا.گو چھ مہینہ میں بجائے بڑھنے کے قرض اپنی جگہ ٹھرا رہا مگر قرض کا اپنی جگہ پر قائم رہنا بھی کوئی خوشی کی بات نہیں.کب تک ستر اکہتر ہزار کا قرض چلا جائے گا.اسے بہر حال ادا کرنا ہے.مگر اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ پچھلے ماہ سے ادائیگی چندہ کے متعلق جماعت کی توجہ میں کمی آگئی ہے.اور بعض ہفتوں میں تو اتنی کمی ہوئی ہے کہ حیرت ہو جاتی ہے.پچھلے سال انہیں دنوں جماعت کے چندہ کی ہفتہ وار چار ہزار آمد تھی مگر اس سال دو ہزار سے کچھ ہی اوپر ہے.جس کے معنے یہ ہیں کہ جس طرح برے بیل کو اس کی عادت ہو جاتی ہے کہ کوئی اسے کچھ کہہ دے اور لٹھ لے کر اس کے پیچھے لگا رہے، تب وہ چلے.اسی طرح ہماری جماعت کو بھی اس بات کی عادت ہو گئی ہے کہ اسے جگایا اور بیدار کیا جائے.ہلایا اور جھنجوڑا جائے.اگر اسے بیدار نہ کیا جائے تو وہ نہیں اُٹھتی.لیکن اس طرح کام کرنے والوں کو کوئی ثواب نہیں ملے گا.اور قیامت کے دن وہ اپنے نامہ اعمال کو خالی دیکھیں گے.اور انہیں معلوم ہو گا کہ ان کی تمام نیکیاں یا تو ناظر بیت المال کے نام لکھی ہوئی ہوں گی یا محصلین کے نام اور یا میرے نام لکھی ہوئی ہوں گی.کیونکہ جو زور دے کر دوسروں کو چلاتے ہیں ثواب انہیں کو ملے گا.باقی کام کرنے والوں کو اُسی وقت ثواب مل سکتا ہے جب وہ بغیر کسی کے کہے خود بخود کام کرتے چلے جائیں.لیکن اگر کوئی اور شخص ان سے کام کراتا ہے تو پھر یہ ان کیلئے ثواب کا موجب نہیں بلکہ کہنے والے کو اس کا ثواب ملے گا.اور جبکہ دنیا میں اس خیال سے مطمئن بیٹھے ہوئے
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ و ہوں گے کہ وہ نیکیاں کما رہے ہیں.اگلے جہاں میں وہ نیکیاں ان کے نام نہیں لکھی ہوں گی 89 71 لکھتا ؟ که اور یہ ایک نہایت ہی تکلیف دہ اور قابل افسوس بات ہے.میں نے متواتر جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ مومن کا فرض یہ ہے کہ وہ استقلال اور توجہ سے کام کرتا چلا جائے.یہ کوئی اچھا طریق نہیں کہ کچھ دن کام کیا اور پھر سو گئے.رسول کریم ﷺ سے ایک دفعہ لوگوں نے پوچھا.یا رسول اللہ " ! سب سے اچھا کام کون سا ہے.آپ نے فرمایا سب سے اچھا کام وہ ہے جس پر دوام اختیار کیا جائے اے.ایک نیکی چاہے چھوٹی ہو مگر اس پر دوام رکھا جائے تو وہ اس بڑی نیکی سے افضل ہے جسے ایک دفعہ کر کے انسان پھر ترک کر دے.پس یہ کوئی مفید طریق نہیں کہ چند دن اپنے کاموں سے ایک شور سا پیدا کردو اور پھر ہمیشہ کیلئے خاموش بیٹھ جاؤ.اور چند افراد میں یہ نقص ہو تو پھر تو کسی حد تک اسے برداشت بھی کیا جاسکتا ہے.لیکن اگر اکثروں میں بلکہ جماعت کے کارکنوں تک میں یہ نقص پایا جاتا ہو تو کتنی افسوناک بات ہوگی.میں نے دیکھا ہے بعض دفعہ نہایت معمولی معمولی نقصان کی وجہ سے بعض افراد اپنے فرائض کی ادائیگی میں کو تاہی کر دیتے ہیں.ابھی ایک بڑی جماعت کے سیکرٹری کا مجھے خط ملا ہے.اس جماعت کے ڈیڑھ دو سو افراد ہیں.چونکہ جماعت کے دوست شہر کے دور دور حصوں میں رہتے ہیں اس لئے چندہ کی وصولی کیلئے میرا سب کے پاس جانا مشکل ہوتا ہے اور اس وجہ سے چندہ وصول نہیں ہوتا.کوئی اس سے پوچھے کہ اگر تمہارے لئے چندہ کا وصول کرنا مشکل ہے تو پھر تم نے یہ ذمہ داری لی ہی کیوں کہ تم چندہ وصول کیا کرو گے؟ اور اگر تمہارا حوصلہ اتنا ہی گرا ہوا تھا کہ مہینہ میں ایک دفعہ بھی تم دوستوں کے پاس نہیں جاسکتے تھے تو پھر تمہیں یہ عہدہ لینے اور سیکرٹری مال کہلانے کی کیا ضرورت تھی.پھر اگر تم نے محض ثواب کی نیت سے یہ عہدہ لیا تھا اور اتنی ہمت نہیں کہ لوگوں کے پاس پہنچتے تو یوں بھی کر سکتے تھے کہ مختلف محلوں میں اپنے نائب مقرر کر دیتے.اور اگر نائب بھی خود مقرر نہیں کر سکتے تھے تو اپنے امیر یا انجمن کے پریذیڈنٹ سے کہتے کہ میں سب جگہ نہیں پھر سکتا، میرے لئے نائب چاہئیں.مگر اس نے صرف عہدہ لے لیا اور سمجھ لیا کہ اب مجھے ثواب مل جائے گا.کیونکہ میں نے اتنی ذلّت جو برداشت کرلی کہ جماعت احمدیہ کا سیکرٹری کہلانا شروع کر دیا.اس کے بعد آنکھیں بند کرکے بیٹھ گیا اور سمجھ لیا کہ دنیا کا سارا ثواب رکھیچ رکھا کر اس کے نامہ اعمال میں درج ہونا شروع ہو جائے گا.میں نے
خطبات محمود ۲۷۳ سال بجٹ کے موقع پر جو تقریر کی تھی اس میں کہا تھا کہ جو لوگ کام نہیں کر سکتے ، انہیں چاہیئے کہ وہ بجائے روک بننے کے ہمارے راستہ سے ہٹ جائیں.جیسا کہ گھوڑ دوڑ میں اگر ایک کنکر بھی راستہ میں پڑا ہوا ہو تو وہ دوڑ میں روک بن سکتا ہے.اور اس کی وجہ سے پہلی سی تیزی نہیں رہ سکتی.اسی طرح روحانی جماعتوں میں بھی جبکہ سمجھدار اور اخلاص رکھنے والے دوڑ میں شامل ہوتے ہیں بعض لوگ درمیان میں روک بن کر آکھڑے ہوتے ہیں.جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جماعت میں وہ تیزی نہیں رہتی جو رہنی چاہیے.اس لئے میں نے کہا تھا کہ ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ علیحدہ ہو جائیں اور صاف صاف کہہ دیں کہ جب ہماری مرضی ہوگی کام کریں گے اور جب نہیں ہوگی نہیں کریں گے.اگر ایسے لوگ ہمارا ساتھ نہیں دینا چاہتے تو چھوڑ دیں.اب بھی میں یہی کہتا ہوں کہ ایسے لوگوں کو علیحدہ ہو جانا چاہیے.خوامخواہ جھوٹی تعداد بڑھانے کا فائدہ کیا ہے؟ ایک زمانہ تھا جب ساری دنیا میں اتنے احمدی بھی نہیں تھے جتنے آج جمعہ میں بیٹھے ہیں مگر اُس وقت بھی کام ہو رہا تھا.اُس وقت بھی سلسلہ کی طرف لوگ متوجہ ہوتے تھے.اور اُس وقت بھی یورپ اور امریکہ میں احمدیت کا نام پھیلا ہوا تھا.اور خواہ لوگوں کی کثرت نہ تھی اور تھوڑے سے لوگ احمدیت میں شامل تھے مگر وہ چند آدمی بھی دنیا میں شور مچارہے تھے.اور خدا تعالی انہی کی آواز کو دنیا میں پھیلا رہا تھا.کیونکہ جہاں انسانی کوششوں میں کمی ہو وہاں خدا تعالیٰ کا فضل اس کمی کو پورا کر دیتا ہے.میں نے یہ بھی کہا تھا کہ جماعت کو اس طرف فوری توجہ کرنی چاہئیے.ورنہ مجھے کوئی ایسا قدم اُٹھانا پڑے گا جو سزا کی قسم کا ہو گا.سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ قادیان کی جماعت میں بھی بیداری نہیں.عام طور پر یہ شکایت پائی جاتی ہے کہ یہاں کے لوگوں کے پاس جب چندہ وصول کرنے والے پہنچتے ہیں تو وہ کئی قسم کے مذر اور حیلے بہانے کرنے لگ جاتے ہیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں کے لوگ بھی حقیقی طور پر خدمت دین کا بوجھ اُٹھانے کیلئے تیار نہیں.یہ تو نہیں کہ ایسے ہوں.سینکڑوں ایسے ہیں جو عام چندوں کی ادائیگی کے باوجود ہر طرح دینی خدمات میں لیتے ہیں.اور درحقیقت وہی لوگ سلسلہ کے عمود اور ستون ہیں.اور انہی کو سلسلہ کا سچا کہا جاسکتا ہے.مگر جو ایسے نہیں ان کے متعلق مجھے یہ کہنے کی ضرورت پیش آئی ہے کہ وہ قادیان میں رہ کر دوسروں کیلئے زیادہ اعلیٰ نمونہ بننے کی کوشش کریں.جن دینی قربانیوں کا ہم خادم
خطبات محمود سال ۲۱۹۳۳ سے مطالبہ کیا جاتا ہے وہ پہلے لوگوں کی قربانیوں سے بہت کم ہیں.پھر میں نہیں سمجھ سکتا کہ وہ جماعت جسے آخری جماعت قرار دیا گیا ہو جس نے ایک نبی کے ہاتھ پر بیعت کی ہو، اس کے افراد اور خصوصیت سے وہ لوگ جو مرکز میں رہتے ہوں مالی قربانیوں میں نستی دکھائیں.مرکز میں رہنے کا میں نے اس لئے ذکر کیا ہے کہ یہاں رہنے سے انسان پر نسبتاً زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے.ورنہ ہر شخص جو اس جماعت میں داخل ہے خواہ وہ مرکز میں رہتا ہو یا باہر کوئی وجہ نہیں کہ وہ ستی دکھائے.پس ایک دفعہ میں پھر جماعت کو بیدار کر دیتا ہوں اور گو میرا یہ بیدار کرنا چنداں مفید نہیں.کیونکہ اس طرح ثواب بیدار کرنے والے کو ہی ملتا ہے.مگر اس لحاظ سے کہ شاید یہ آخری انتباہ مؤثر ہو میں اعلان کرتا ہوں کہ ناظر بیت المال نے چندہ کی ادائیگی کیلئے ایک میعاد مقرر کردی ہے.اور گو میں نے انہیں کہا تھا کہ تین ماہ کے ختم ہونے پر میرے پاس رپورٹ کریں کہ کن کن جماعتوں نے چندہ نہیں دیا مگر اس وقت انہوں نے کہہ دیا کہ رپورٹ تیار تھی صرف پیش نہیں ہو سکی.اور اب چھٹے مہینے کے خاتمہ پر بھی انہوں نے یہی کہا ہے کہ رپورٹ تو تیار ہے مگر پیش نہیں ہو سکی.لیکن میں سمجھتا ہوں یہ محض ان کا وہم ہے.میرے نزدیک رپورٹ مکمل طور پر نہ پہلے تیار تھی اور نہ اب تیار ہے.لیکن بہر حال انہوں نے چندہ کی ادائیگی کیلئے ایک میعاد مقرر کردی ہے.اس میعاد میں بھی جو لوگ یا جماعتیں چندہ نہیں دیں گی میعاد کے خاتمہ پر ان جماعتوں کے نام میرے سامنے پیش کئے جائیں گے.اور میں اعلان کرتا ہوں کہ جو جماعتیں نادہندہ ثابت ہوں گی، مالی سیکرٹریوں کو فوراً تین ماہ تک کیلئے معطل کر دیا جائے گا.اس تین ماہ کے عرصہ میں لوگوں سے چندہ وصول کرنا نئے سیکرٹریوں کا کام ہو گا.لیکن گزشتہ بقایا کو وصول کرنا ان معطل شدہ سیکرٹریوں کے ذمہ ہوگا.اگر وہ تین ماہ میں اس کام کو مرکز کی تسلی کے مطابق کر دیں گے تو انہیں ان کے عہدہ پر بحال کر دیا جائے گا ورنہ ایک سال تک انہیں اس عمدہ سے معطل رکھا جائے گا.اور اس ایک سال کے عرصہ میں کسی جماعت میں انہیں کوئی عہدہ نہ دیا جائے گا.میں سمجھتا ہوں کئی منافق قادیان کے بھی اور باہر کے بھی ایسے ہوں گے جو کہہ دیں گے چلو چھٹی ہوئی ، ہم کام کرنے سے بچ گئے.لیکن میرے وہ مخاطب نہیں بلکہ ایسے لوگ ہیں جو اپنے پہلو میں سلسلہ کا درد رکھتے ہیں.اور منافقوں کے متعلق تو میں خود چاہتا ہوں کہ انہیں جس قدر جلد ممکن ہو جماعت سے الگ کر دیا جائے میری زبردست خواہش ہے کہ مجھے
خطبات محمود ۲۷۵ سال ۱۹۳۳ء کوئی بہانہ مل جائے جس سے میں انہیں الگ کرنے میں کامیاب ہوں.اور میں ہمیشہ بہانہ ڈھونڈتا رہا ہوں کہ مجھے ان پر شرعی طور پر گرفت کرنے کا کوئی موقع مل جائے اور میں انہیں جماعت سے خارج کردوں.میرا پہلے بھی یہ رویہ تھا کہ ایسے لوگوں کو اصلاح کا موقع دیتا اور جب بھی مجھے کوئی ذرا بہانہ مل جاتا انہیں معاف کر دیتا.مگر ایک سال سے بلکہ اسی سال کے شروع سے میں سمجھ رہا ہوں کہ ایسے لوگ جماعت پر بار اور اس کی کمزوری کا موجب ہو رہے ، ہیں.اور ایسے لوگوں کو جماعت سے نکال دینا ان کی موجودگی سے زیادہ بہتر ہے.پس اس کے منافق آدمی اگر ایسے خیالات کا اظہار کریں گے تو ان کے اس قسم کے اقوال میری مدد کرنے اور میرا ہاتھ بٹانے والے ہوں گے.اور میں جو انہیں جماعت سے نکالنے کا موقع تلاش کرتا رہتا ہوں میرے لئے اپنے ارادہ کو عملی جامہ پہنانے میں کامیابی ہوگی.لیکن میں انہیں نکالوں یا نہ اللہ تعالیٰ کے حضور وہ جماعت سے خارج ہی ہوں گے.ایسے لوگ دراصل سب سے زیادہ بد قسمت ہوتے ہیں اور ایسے ہی لوگوں پر یہ شعر بالکل چسپاں ہوتا ہے کہ.نه خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے CT وہ دنیا سے قطع تعلق کر کے ایک ایسی جماعت میں شامل ہوتے ہیں جو لوگوں میں بدنام ہے.اور پھر یہاں آکر بھی وہ اپنی منافقت کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے سے محروم رہتے ہیں.اس طرح وہ نہ دنیا کے رہتے ہیں نہ دین کے.پس سب سے بدتر حالت منافقین کی ہوتی ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے منافقین کے متعلق فرمایا ہے کہ.فِي الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِيه - وہ دوزخ کے نچلے حصہ میں ہوں گے.بظاہر کافر سب سے زیادہ نقصان رساں نظر لیکن حقیقت یہ ہے کہ منافق اس سے بھی زیادہ ایذاء رساں ہوتا ہے.اس لئے اسے ہے.سزا بھی زیادہ دی گئی ہے.کافر باہر سے حملہ کرتا ہے مگر منافق اندر رہ کر اور جماعت میں شامل ہو کر نقصان پہنچانے کے درپے ہوتا ہے.اور باہر اگر پاخانہ کے ڈھیر پڑے ہوئے ہوں تو وہ اتنی تکلیف نہیں دیتے جتنی ایک پیپ سے بھری چھوٹی سی پھنسی انسان کو تکلیف دیتی ہے.منافقین کے خیالات کی نہ میں پرواہ کرتا ہوں اور نہ سلسلہ کی ترقی میں وہ کوئی خاص روک بن سکتے ہیں.کیونکہ منافق علیحدہ ہو کر اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتا جتنا اندر رہ کر نقصان پہنچایا کرتا ہے.ایسا منافق جو بات بات پر نکتہ چینی کرنے والا اور قربانی و ایثار کی خواہش اپنے اندر رکھنے والا نہ ہو وہ خدا کی درگاہ سے راندہ ہوا ہوتا ہے.اور راندہ ہوا اتنا نقصان نہیں پہنچاتا جتنا
خطبات محمود نقصان وہ منافق پہنچاتا ہے جو ایمان تو لے آتا ہے مگر پھر گرتا چلا جاتا ہے.پس منافق ایک نہایت ہی بدبودار چیز ہے اتنی بدبودار کہ اللہ تعالٰی دوزخیوں کو بھی اس کی تکلیف سے بچانے کیلئے اُسے سب سے نیچے طبقہ میں رکھا ہے.لیکن مؤمنوں کی ترقی میں وہ روک نہیں ہو سکتے.ترقی میں روک عملی منافق ہوتا ہے.جس کے دل میں تو ایمان ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ میں ان کے ساتھ چلوں اور دوڑوں مگر گر پڑتا ہے اور روک بن جاتا ہے.جیسے بچے جب والدین کے ساتھ چلتے ہیں تو گر پڑتے ہیں اور انہیں اُٹھانا پڑتا ہے.پس ایسے لوگوں کیلئے جن کے دلوں میں تو ایمان ہے مگر دوڑ میں وہ ساتھ نہیں رہ سکتے یہ سزا جو میں نے تجویز کی ہے بہت بڑی سزا ہے.اور جب انہیں معلوم ہوگا کہ انہیں سلسلہ کی خدمت سے محروم کردیا گیا ہے تو وہ اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں گے.رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ بعض لوگوں کو یہ سزا دی کہ ان سے کلام نہ کیا جائے.جنہیں یہ سزا دی گئی اُن میں سے ایک سے کا یہ حال تھا کہ اس دوران میں ایک بادشاہ نے اسے لکھا کہ میں نے سنا ہے تمہارے آقا محمد (ﷺ) نے تمہارے ساتھ بد سلوکی کی ہے.تم ہمارے پاس چلے آؤ.وہ کہتے ہیں میں اُن دنوں اتنا دق تھا اتنا دق تھا کہ میں سمجھتا تھا کہ دنیا میں میرا کہیں ٹھکانہ نہیں.اسی دوران میں ایک دن میں اپنے چچازاد بھائی کے پاس گیا.وہ اس وقت باغ میں تھا.میرے اس سے بہت گہرے تعلقات تھے.میں نے اس سے کہا باقی لوگ تو شاید میرا حال نہیں جانتے مگر اے بھائی! تو تو جانتا ہے کہ میں منافق نہیں ہوں.اور مجھ سے جو غلطی ہوئی یہ صرف ایک غفلت تھی.وہ کہتے ہیں میرا خیال تھا کہ میرا بھائی مجھ سے اتفاق کرے گا.لیکن اُس نے میری طرف منہ بھی نہ کیا اور آسمان کی طرف منہ کر کے کہنے لگا.خدا اور اس کا رسول بہتر جانتا ہیں اس جواب سے مجھے اتنی تکلیف ہوئی کہ میں نے یقین کرلیا میرے لئے دنیا میں اب کہیں سکھ اور آرام کی جگہ نہیں.ایسی حالت میں میں آرہا تھا کہ خط ملا.ایسے نازک موقع پر کمزور تو الگ رہا اچھا سمجھدار آدمی بھی بعض اوقات پھسل جاتا ہے.لیکن انہوں نے اس امر کی پرواہ نہ کی اور دل میں کہا یہ شیطان کی آخری آزمائش ہے انہوں نے سفیر سے خط لے لیا اور ایک بھٹی جل رہی تھی اس میں ڈال کر کہا یہ اس خط کا جواب ہے.ان لوگوں کیلئے رسول کریم ﷺ سے کلام کرنا کتنی قیمتی چیز تھی.اس کا بھی وہ آپ ہی ذکر کرتے ہیں.کہتے ہیں میں رسول کریم ﷺ کی مجلس میں جاتا اور آپ کو السَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہتا.پھر ہے.کہتے
طبات محمود سال ۱۹۳۳ء آپ کے لبوں کو دیکھتا کہ آیا وہ جواب دینے کیلئے ہلتے ہیں یا نہیں.اور جب ملتے نظر نہ آتے تو میں باہر چلا جاتا.اور خیال کرتا کہ رسول کریم ال نے شاید میری آواز نہیں سنی.باہر سے پھر مجلس میں آکر السَّلامُ عَلَيْكُمْ کہتا.اور پھر رسول کریم اللہ کے ہونٹوں کو دیکھتا کہ ہ جواب کیلئے حرکت میں آئے ہیں یا نہیں.اور جب میں انہیں ہلتے نہ دیکھتا تو پھر خیال کرتا کہ شاید رسول کریم اے نے میری آواز نہیں سنی.اور پھر مجلس سے باہر چلا جاتا اور پھر آکر سلام کہتا.گویا بالکل دیوانگی کی حالت تھی ہے..غرض جو لوگ عملی منافق نہیں یعنی ان کے دل میں تو ایمان ہے لیکن اپنی مستیوں اور غفلتوں کی وجہ سے ان کے قلب پر زنگ لگنا شروع ہو گیا ہے، اُن کیلئے تو یہ سزا بیداری کا موجب ہوگی.اور جو حقیقی منافق ہیں، ان کا اس ذریعہ سے علم ہو جائے گا.پھر اگر ایسے لوگ جماعت سے الگ بھی ہو جائیں تو خواہ دس ہزار کیوں نہ ہوں، ان کی علیحدگی کی وجہ سے جماعت میں اتنی کمی بھی نہیں آسکتی جتنی مچھر کے ایک پر کے ٹوٹنے سے دنیا میں آتی ہے.اور ایسے آدمی جب نکلتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ ان کے بدلے میں اور لوگ سلسلہ میں داخل کرتا ہے جو مخلص ہوتے ہیں.پس میں قادیان کی جماعت کو خصوصاً اور باہر کی جماعتوں کو عموماً تنبیہ کرتا ہوں کہ اس عادت کو چھوڑ دیں کہ چند دن کام کیا اور پھر سُست ہو کر بیٹھ گئے.ابھی تم نے فتوحات ہی کون سی حاصل کی ہیں کہ تم آرام سے بیٹھ جانے کی فکر میں ہو.تمہارے بیٹھ جانے پر وہی مثال صادق آتی ہے کہ کسی گیڈری کے بچہ پیدا ہوا تو اس دن بارش کی چند بوندیں گریں.وہ اپنی ماں سے کہنے لگا.ماں! ماں! میں جب سے دنیا میں آیا ہوں اتنی زور کی بارش کبھی نہیں ہوئی.وہ کہنے لگی بچہ تجھے دنیا میں آئے ابھی کتنی دیر ہوئی ہے.ہماری جماعت کو قائم ہوئے ابھی قلیل عرصہ ہوا ہے پھر قلیل فتوحات ہیں.دنیا میں فتوحات کا تو کیا ذکر ابھی اپنے نفوس پر فتوحات حاصل کرنا باقی ہے.اور ایسا رنگ اپنے اندر پیدا کرنا ہے کہ دشمن بھی کہہ اُٹھے کہ فلاں شخص احمدی معلوم ہوتا ہے.ان حالات میں ہمارے لئے یہ کب جائز ہے کہ ہم آرام سے بیٹھ رہیں.جب آرام کرنے کا وقت آئے گا تو دیکھا جائے گا.اور دیکھا کیا جائے گا اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ جب کوئی قوم آرام کرنے کیلئے بیٹھی ہے تو پھر بیٹھ ہی جاتی ہے.حضرت موسیٰ کی قوم کو کس نے بٹھایا.جب انہیں ترقی مل گئی تو انہوں نے کہا آؤ اب ہم آرام کریں.خدا تعالیٰ نے کہا ہم تو کام کرنے والے ہیں.تم آرام کرنا چاہتے ہو تو
خطبات محمود ۲۷۸ سال ۱۹۳۳ تو آرام کرو.ہم کسی اور قوم کو کھڑا کر دیتے ہیں.تب اُس نے مسیح کی قوم کو چنا.اور مسیح کی قوم نے کام کیا، کام کیا اور کام کیا یہاں تک کہ جب اسے بھی ترقیات مل گئیں تو اس نے بھی کہا آؤ ہم آرام کریں.خدا تعالیٰ نے اسے بھی چھوڑ دیا.اور اس نے محمد ال کے ذریعہ مسلمانوں کو اپنے دین کی خدمت کیلئے چنا.جب مسلمان ترقی کر گئے تو انہوں نے بھی کہا آؤ ہم آرام کریں.خدا تعالیٰ کی سنت کے ماتحت مسلمانوں کی ترقیات بھی معدوم ہو گئیں.اور اس نے عیسائیوں کے ذریعہ مسلمانوں کو خوب ریلا اور پیلا.مگر چونکہ رسول کریم ﷺ سے وعدہ تھا کہ مسلمانوں کو دوبارہ زندگی عطا کی جائے گی.اس لئے اس نے آپ کے خلفاء میں سے کو کھڑا کر کے اس کی جماعت کے ذریعہ دین کا کام کرانا شروع کر دیا.پس آرام کا کوئی دن نہیں آئے گا.اور اگر ہماری جماعت نے بھی آرام کرنا چاہا تو جس دن ہماری جماعت بیٹھ جائے گی خدا ہماری جماعت کو چھوڑ کر کسی اور کو منتخب کرلے گا.کیونکہ اللہ تعالی کہتا ہے ہم کبھی آرام نہیں کرتے.مَامَسَّنَا مِنْ لُغُوبِ سے ہم تو تھکتے نہیں.جو تھک جاتے ہیں ہم ایک شخص انہیں چھوڑ دیتے ہیں.پس وہی قوم حقیقی طور پر دنیا میں کامیابی حاصل کر سکتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفت مَا مَسَّنَا مِنْ لَّغُوبٍ کا مظہر بنتی ہے اور ان تھک کوششیں جاری رکھتی ہے.پس بیدار بنو اور اپنی سستی اور غفلت کی عادتوں کو چھوڑ دو کہ دین کے معاملہ میں سستی اور غفلت کبھی اچھا نتیجہ پیدا نہیں کرتی.الفضل ۱۹ - نومبر ۱۹۳۳ء) له بخاری کتاب الایمان باب احب الدين الى الله ادومة ت النساء: ۱۴۶ سے حضرت کعب بن مالک بخاری کتاب المغازی باب حديث كعب بن مالك وق:٣٩
خطبات محمود ۲۷۹ سال ۱۹۳۳ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاء بَيْنَهُمْ کا مصداق بننا چاہیئے (فرموده ۱۷ - نومبر ۱۹۳۳ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایسا بنایا ہے کہ وہ ایک طرف تو اپنے گردو پیش کے اثرات کو قبول کرنے کیلئے بڑی شدت سے مائل رہتا ہے.اور دوسری طرف اس میں یہ بھی طاقت ہے کہ اگر چاہے تو ایسے اثرات کو قبول کرنے سے انکار کردے.گویا ایک طرف تو وہ ایک چٹان ہے ایسی مضبوط چٹان کہ جس سے سمندر کی تیز لہریں ٹکرا کر ہمیشہ واپس لوٹ جاتی ہیں اور اس پر ذرہ بھی نشان پیدا کرنے کے قابل نہیں ہوتیں.اور دوسری طرف وہ ایک پہنچ کے ے کی طرح یا نرم موم کی طرح ہے کہ اس پر ہاتھ ڈالتے ہی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس میں طاقت مقابلہ ہے ہی نہیں.اور یہ دونوں چیزیں انسان کے تمام اعمال کی جڑ ہیں.یعنی کسی جگہ پر اثر کو قبول کرنا اور کسی جگہ پر ردّ کر دینا.نہ تو ہر جگہ اثر قبول کرنا مفید ہو سکتا ہے اور نہ ہر جگہ رد کر دینا.قرآن مجید میں اللہ تعالٰی مومنوں کی یہ صفت بیان فرماتا ہے کہ وہ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ له - ہوتے ہیں.یعنی یہ نہیں کہ وہ ہر اثر کو قبول کرنے والے ہوتے ہیں.کیونکہ اگر ایسا ہو تو وہ شیطان کا اثر بھی قبول کر لیتے ہیں اور یہ بھی نہیں کہ کسی کا اثر قبول کرتے ہی نہیں.کیونکہ اس صورت میں وہ فرشتوں کے اثر کو بھی رو کردیتے ہیں.بلکہ مومن کے اندر دونوں باتوں کا پایا جانا ضروری ہے.ان میں سے ایک کو اپنے اندر پیدا کر کے انسان
خطبات محمود ۲۸۰ سال ۱۹۳۳ء نیک نہیں بن سکتا.اور نہ ہی ایک سے تقویٰ قائم رہ سکتا.ہے.ضروری ہے کہ کامل انسان میں یہ دونوں باتیں پائی جائیں.اس میں یہ بھی طاقت ہو کہ خواہ کتنی ہی تکلیف دہ بات ہو پھر بھی غلط اثر کو قبول نہ کرے اور یہ بھی چاہیے کہ خواہ حالات کتنے ہی مخالف کیوں نہ ہو.پھر بھی اچھی چیز کے اثر کو رد نہ کرے.اسی چیز کو اللہ تعالی نے اس آیت میں بیان فرمایا کہ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ - جب کسی ایسی چیز کا سوال ہو جو مذہب ودین کے خلاف ہو تو چاہیے کہ کہ مومن ایک ایسی چٹان کی مانند ہو جس پر کوئی چیز اثر ہی نہیں کر سکتی.لیکن جہاں تقویٰ کا معاملہ ہو، وہاں ایسا معلوم ہو کہ وہ قبل از وقت ہی مجھک رہا تھا.نیکی کا سوال تو بعد میں پیدا ہوا.اس کے قبول کرنے کا میلان اس کے اندر پہلے ہی موجود تھا.اس درجہ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اُس دیئے سے تشبیہ دی ہے جو قریب ہے کہ آگ کے بغیر ہی جل پڑے.یہی مقام ہے کہ جب انسان اسے ہر قسم کی ملونی سے پاک کر دیتا ہے.تو اسی کو صدیقیت کہتے ہیں.صدیق اور مُصدّق میں یہی فرق ہوتا ہے.مُصدّق تو بعد میں آکر کہتا ہے کہ میں اس کی تصدیق کرتا ہوں.مگر صدیق میں اس کے قبول کرنے کا میلان پہلے ہی موجود ہوتا ہے.یوں تو سب صحابہ مصدق تھے.لیکن صدیقیت میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سب سے بڑھے ہوئے تھے.ہمارے زمانہ میں بھی صوفی احمد جان صاحب جو پیر منظور احمد صاحب اور پیر افتخار احمد صاحب کے والد اور حضرت خلیفہ اول کے خسر تھے، صدیقیت کا مقام حاصل کئے ہوئے تھے.ابھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعوی بھی نہ کیا تھا کہ انہوں نے آپ کو ایک خط لکھا جس میں یہ شعر تھا.ہم مریضوں کی ہے تمہیں پہ نظر تم مسیحا بنو خدا کیلئے ابھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی نہیں سمجھتے تھے کہ میں مسیح موعود ہوں.مگر انہوں نے کہا کہ آپ ایسا دعویٰ کریں ہم آپ کو ماننے کیلئے تیار بیٹھے ہیں.یہی صدیقیت کا مقام ہے.جب رسول کریم ﷺ نے دعوی کیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کسی قریب یا بعید کے مقام پر باہر گئے ہوئے تھے.آپ کا دعوی سن کر لوگ ادھر اُدھر دوڑ پڑے کہ خبر دیں کہ ایسے اچھے آدمی کو کیا ہو گیا ہے.وہ آپ کو پاگل سمجھنے لگ گئے تھے.جھوٹ تو بعد میں اس
خطبات محمود PAI سال ۱۹۳۳ء.وقت کہا جب ضد ہو گئی وگرنہ شروع شروع میں وہ پاگل ہی سمجھتے تھے.آپ کے دعوئی کو سنتے رم ہی عام چرچا شروع ہو گیا.حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت روایت ہے کہ وہ ایک دوست کے گھر میں بیٹھے تھے کہ ایک لونڈی آئی اور اس نے کہا کچھ سنا ہے.آپ نے فرمایا کیا ہوا؟ اس نے کہا تمہارے دوست محمد ﷺ کی عقل ماری گئی ہے.آپ نے دریافت فرمایا کہ بات کیا ہے.اس نے کہا وہ کہتا ہے خدا میرے ساتھ باتیں کرتا ہے، میرے پاس فرشتے آتے ہیں، میں نبی ہوں.حضرت ابو بکر نے سن کر کہا اگر وہ ایسا کہتا تو ٹھیک کہتا ہے.اس کے بعد آپ وہاں ٹھرے نہیں بلکہ فوراً آئے اور رسول کریم ﷺ کے مکان پر پہنچے.رسول کریم ال اس وقت اندر تھے حضرت ابوبکر نے جب دستک دی تو آپ باہر تشریف لائے.حضرت ابوبکر نے کہا.میں نے سنا ہے کہ آپ نے کوئی دعوی کیا ہے.آپ اس خیال سے کہ ابوبکر پرانا دوست ہے ایسا نہ ہو کہ ٹھوکر کھا جائے کوئی دلیل دینے لگے.لیکن حضرت ابو بکر نے کہا مجھے کسی دلیل کی ضرورت نہیں.آپ صرف یہ بتائیں کہ آپ نے کوئی دعویٰ کیا ہے یا نہیں.حضرت ابو بکر " اگر دلیل سننے کے بعد ایمان لاتے تو مصدق ہوتے، صدیق کا مقام نہ حاصل کر سکتے.صدیقیت کیلئے دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ یہ انسان کے اندر سے آتی ہے.اور جب رسول کریم ﷺ نے بتایا کہ ہاں میں نے نبوت کا دعوی کیا ہے تو آپ نے فوراً کہا میں اس کا مُصدّق ہوں ہے.حضرت خلیفہ اول کا بھی قسم کا واقعہ ہے جو آپ خود سنایا کرتے تھے.فرماتے میں جموں میں تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اُس وقت توضیح مرام اور فتح اسلام رسائل چھپوا رہے تھے.ان کا کوئی پروف کسی غیر احمدی نے چرایا اور جموں لے آیا.وہاں اپنے دوستوں سے کہا کہ میں نے اب نوردین کو قابو کرنے کا سامان کر لیا ہے.انہوں نے پوچھا کس طرح قابو کر لیا ہے.اس نے کہا کہ خواہ کچھ بھی ہو میں یہ جانتا ہوں کہ اس کے دل میں رسول کریم کا عشق ضرور ہے.اور اب میں نے ایک ایسی بات مرزا صاحب کی پکڑی ہے کہ جس شخص کے دل میں رسول کریم اللہ کا عشق ہو وہ انہیں کبھی نہیں مان سکتا.آخر کچھ لوگ ایک دن اکٹھے ہو کر ا آئے.اور اس شخص نے خلیفہ اول سے دریافت کیا کہ رسول کریم ا ا ا ا ل و خاتم النبین ہیں یا - نہیں؟ آپ نے کہا ہیں.اُس نے پوچھا آپ کے بعد کوئی رسول آسکتا ہے یا نہیں؟ آپ نے کہا نہیں.اس نے کہا اگر کوئی ایسا دعویٰ کرے؟ آپ نے فرمایا کہ میں سمجھوں گا اس نے اسی
خطبات محمود PAY سال ۱۹۳۳ء غلطی کی.اس پر اس نے وہ پروف نکال کر سامنے رکھ دیا اور کہا دیکھو! مرزا صاحب ایسا دعویٰ کرتے ہیں.خلیفہ اول نے کہا کہ اگر میرزا صاحب کا یہ دعویٰ ہے تو میں سمجھوں گا میرے معنے غلط ہیں کیونکہ جب آپ کو مامور مان لیا تو پھر میں ہی غلطی پر ہو سکتا ہوں وہ نہیں ہو سکتے.سن کر اس کا رنگ زرد ہو گیا.اور اس نے کہا چلو اس کی اصلاح نہیں ہو سکتی.تو صدیقیت یہی ہے کہ نفس عکس قبول کرنے کیلئے پہلے سے تیار ہو.اسے دبانا نہ پڑے بلکہ اس کے متعلق تو یہ خدشہ ہوتا ہے کہ گرفت زیادہ پڑ کر ضرر نہ پہنچ جائے.جیسے ہم جب کسی نرم چیز کو پکڑتے ہیں تو آہستگی سے پکڑتے ہیں لیکن سخت چیز کو پکڑتے وقت زور سے ہاتھ ڈالتے ہیں.أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ کی کیفیت جس شخص کے اندر ہو وہ برداشت نہیں کر سکتا کہ کوئی غیر آکر اس پر اثر ڈالے.وہ اپنے سے اونی اپنے بھائی کا احسان.اُٹھالے گا لیکن اپنے سے اعلیٰ کسی غیر کا احسان اُٹھانا گوارا نہ کرے گا.اس کیفیت کی مثال بھی حضرت ابوبکر میں ملتی ہے.جب مکہ میں مسلمانوں کے خلاف مخالفت کا طوفان اُٹھا.اور قریش نے کہا کہ ان کو ایسا تنگ کرو کہ توبہ پر مجبور ہوجائیں.تو بہ تو انہوں نے کیا کرانی تھی ہاں سختی انتہاء کو پہنچ گئی.قرآن کریم یا نماز تک پڑھنا مشکل تھا.اس وقت حضرت ابوبکر نے رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ اگر اجازت ہو تو کہیں باہر چلا جاؤں جہاں عبادت الہی بلا روک ٹوک ہو سکے.آپ نے اس وقت اجازت دے دی.اگر ؟ بعد میں جب آپ کو علم ہوا کہ آپ کو بھی ہجرت کرنی پڑے گی تو آپ ان کو روکتے رہے.حضرت ابوبکر مکہ سے جانے کی تیاریاں کر رہے تھے کہ ایک سردار مکہ سے ان کے پاس آیا اور پوچھا کہاں جاتے ہو؟ آپ نے کہا میں مکہ کو چھوڑ رہا ہوں یہاں نمازوں وغیرہ کی آزادی نہیں.اس نے کہا ہم آپ کی منت کرتے ہیں کہ آپ نہ جائیں.آپ جیسے آدمیوں سے تو مکہ میں برکت ہے میں لوگوں کو سمجھاؤں گا.پھر اس نے لوگوں سے کہا.لوگوں نے مان لیا اور حضرت ابو بکر کو آزادی ہو گئی ہے.لیکن ایک دن آپ نے جب دیکھا کہ بعض غلام مسلمانوں کو تکالیف دی جارہی ہیں تو آپ نے کہہ دیا کہ میں کسی کی پناہ نہیں چاہتا.مجھے.پسند نہیں کہ باقی مسلمانوں کو دکھ ہو اور میں امن میں رہوں.اس طرح آپ نے دوسروں کا احسان اُٹھانے سے انکار کردیا.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ایک روایت سنی ہے کہ ایک دفعہ حضرت ابوبکر کی مجلس میں آپ کے فرزند عبدالرحمن نے جو
خطبات محمود ۲۸۳ سال ۱۹۳۳ء نہیں مخالف تھے مگر بعد میں انہوں نے بہت ترقی کی کہا کہ ایک دفعہ مجھے دشمنوں کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف جنگ کیلئے جانا پڑا ایک موقع پر آپ ایسی جگہ تھے کہ میں آپ پر وار کر سکتا تھا مگر باپ سمجھ کر میں نے ایسانہ کیا.یہ سن کر حضرت ابوبکر نے کہا خدا کی قسم! اگر میں ایسا موقع پاتا تو ضرور وار کردیتا ہے.تو أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ کے ہی معنے ہیں کہ مومن جہاں ایک طرف حق کے عکس اور اثر کے مقابلہ میں ایسا ٹرم ہوتا ہے کہ ان کا معمولی دباؤ بھی برداشت نہیں کر سکتا اور ایسا ہوتا ہے جیسے تصویر لینے کا شیشہ.وہاں دشمن کے مقابل میں اس کی یہ حالت ہوتی ہے کہ بیٹے کی جان کی بھی اسے کوئی پرواہ ہوتی.اس قسم کے اور بھی لوگ صحابہ میں موجود تھے.حضرت عثمان بن مظعون کے متعلق ایک اسی قسم کا واقعہ آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک شاعر نہ جو کہیں باہر سے آیا ہوا تھا، اپنا کلام سنا رہا تھا.اس نے ایک شعر کا ابھی پہلا ہی مصرعہ پڑھا تھا کہ آپ نے کہا خوب ہے.اس پر وہ بہت جزبز ہوا.اور اس نے کہا مجھے تیرے جیسے انسان کی داد کی کیا ضرورت ہے.پھر اس نے اہل مکہ کو مخاطب کرکے کہا کہ کیا اب تمہارے ہاں شرفاء کی یہی قدر ہوتی ہے.اس کے بعد اُس نے دوسرا مصرعہ پڑھا تو آپ نے فرمایا یہ ٹھیک نہیں.اس پر مکہ کے رؤسا میں سے ایک نے اٹھ کر آپ کو ایسا مکا مارا کہ آپ کی ایک آنکھ نکل گئی.آپ اس واقعہ سے کچھ عرصہ قبل تک ایک شخص کی پناہ میں تھے.مگر خود ہی دوسرے مسلمانوں کی تکالیف کو دیکھ کر اس کی پناہ ترک کر دی تھی.وہ شخص آپ کا عزیز بھی تھا، یہ حالت دیکھ کر اسے رنج ہوا.اور اس نے کہا میری پناہ میں نہ رہنے کا نتیجہ تم نے دیکھ لیا.آپ نے جواب دیا میں اس قسم کا احسان اُٹھانے کو اب بھی تیار نہیں ہوں میری تو دوسری آنکھ بھی اسی کی منتظر ہے ہے.تو صحابہ میں اور بھی کئی صدیق تھے.حضرت ابوبکر تو ایک اعلیٰ نمونہ تھے.حضرت عثمان بن مطعون بعد میں شہید ہوئے.حضرت رسول کریم ﷺ کو آپ سے اتنی محبت تھی کہ وفات کے قریب تک محبت سے ان کا ذکر کرتے رہے.حتی کہ جب آپ کے صاحبزادہ حضرت ابراہیم کی وفات کا وقت آیا.تو آپ نے انہیں اپنی گود میں لیا.اس وقت آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور آپ نے کہا.جا! اپنے بھائی عثمان کے پاس ہے.میں بتا رہا تھا کہ مومن کے اندر ایک طرف تو اتنی شدت ہوتی ہے کہ دوسرے کا اثر اس پر ہو ہی نہیں سکتا اور دوسری طرف ایسی نرمی ہوتی ہے کہ گویا اثر پہلے ہی پڑا ہوا ہوتا
خطبات محمود ۲۸۴ سال ۱۹۳۳ء رم ہے.حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو لوگ عام طور پر کمزور طبیعت کا انسان سمجھتے ہیں.مگر وقع پر معلوم ہوتا ہے کہ دین ومذہب کے بارہ میں آپ کے اندر کس قدر سختی تھی.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں میں بھی آپ کو کمزور طبیعت کا ہی سمجھتا تھا.رسول کریم ال کی وفات پر جب سارے عرب میں بغاوت پھیل گئی اور لوگوں نے زکوۃ کی ادائیگی سے انکار کردیا تو میں نے آپ سے کہا کہ بہتر ہے کہ کچھ دنوں کیلئے زکوۃ لینی چھوڑ دی جائے.جب لوگ ٹھنڈے ہو جائیں گے تو پھر ان کو سمجھا کر اس پر آمادہ کر لیا جائے گا.یہ سن کر حضرت ابو بکر نے خاص طور پر میری طرف دیکھا.آپ کے والد کا نام ابو قحافہ تھا.اور وہ اگرچہ خاندانی آدمی تھے لیکن مالی لحاظ سے ان کی حالت غربت کی تھی.اس لئے خاندانی ہونے کے باوجود انہیں کوئی خاص عزت حاصل نہ تھی.اور حضرت ابو بکر " جب اپنی تحقیر کرنا چاہتے تو اپنے آپ کو ابن ابی قحافہ کہتے.حضرت عمر فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر نے توجہ سے میری طرف دیکھا اور کہا.کیا ابن ابی قحافہ کی طاقت اتنی ہے کہ جس چیز کو رسول کریم ﷺ نے جاری کیا اسے بند کردے.خدا کی قسم! جو شخص رسول کریم ان کے زمانہ میں اونٹ کی ایک رسی بھی دیتا تھا وہ اب اگر انکار کرے گا تو میں اس کیلئے بھی اس کے ساتھ جنگ کروں گا.عمر! یہ سمت خیال کرو کہ ہم تھوڑے ہیں.اگر دشمن مدینہ کے اندر بھی آجائیں اور کتے ہماری عورتوں کی لاشوں کو گھسیٹتے پھریں تو بھی میں زکوٰۃ نہ چھوڑوں گا.حضرت عمر کہتے ہیں - کہ اُس وقت میں نے خیال کیا.واقعی شیخ بڑا بہادر ہے ہے.حضرت عمر " محبت کی وجہ آپ کو شیخ یعنی بوڑھا کہہ دیا کرتے تھے.اور بعد کے واقعات نے بتادیا کہ اُس وقت کی ذرا سی کمزوری کس قدر نقصانات کا موجب ہو سکتی تھی.غور کرو جو شخص مومن کی ذرہ بھر کی تکلیف بھی برداشت نہیں کر سکتا وہ دوسری طرف دین و مذہب کے معاملہ میں اپنے اندر کس قدر سختی رکھتا ہے کہ تمام ملک کی مخالفت کی پرواہ نہیں کرتا.بڑے بڑے بہادر گھبرا اُٹھے ہیں اور چاہتے ہیں کہ صلح کرلی جائے مگر وہ اس کیلئے تیار نہیں ہوتا.تو جو بات کامیاب کرتی ہے وہ یہی ہے کہ آپس میں محبت ہو.مگر جہاں مخالف یا منافق مقابلہ پر آجائے مومن اس کی بات نہ بہت لوگوں کو میں نے دیکھا ہے کہ وہ کسی کافر یا منافق کی حمایت کریں گے اور سن احمدی کی مخالفت جب کسی نے ان سے کہا کہ فلاں احمدی نے مجھے یہ نقصان پہنچایا تو وہ فوراً مان جائیں گے.اور اس کی حمایت کرتے ہوئے احمدی کی مخالفت شروع کردیں گے.وہ جھٹ سکے.
سال ۱۹۳۳ تو خطبات محمود ۲۸۵ کہنے لگ جائیں گے کہ واقعی اس پر بڑا ظلم ہوا.حالانکہ مومن کو چاہیے کہ اپنے بھائی کے متعلق حسن ظنی سے کام لے.میں یہ نہیں کہتا کہ بات سنانے والے پر ضرور بدظنی کرو.لیکن وہ جو بدظنی پیدا کرتا ہے اس کی بات کو بھی بغیر تحقیقات کے نہ مان لو.حسن ظنی نیکی اور احسان پہلے گھر سے شروع ہونا چاہیے.بدظنی سے اسلام نے روکا ہے.لیکن جب دو میں سے کسی ایک پر کرنی پڑے تو جسے اللہ تعالیٰ نے ایمان کی توفیق عطا فرمائی ہے، اس میں کوئی نہ کوئی خوبی زیادہ ماننی پڑے گی.یہ بھی ممکن ہے کہ وہی غلطی پر ہو لیکن پہلے تو اس پر حسن ظنی ونی چاہیئے.ہاں جب معلوم ہو جائے کہ وہ واقعی زیادتی کر رہا ہے تو پھر اس کو روکنا چاہیئے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اپنے بھائی کی خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم مدد کرونا.اور صحابہ کے دریافت کرنے پر بتایا کہ ظالم کو ظلم سے روکنا اس کی مدد کرنا ہے.لیکن جب تحقیق بنی سے اپنے بھائی کا غلطی پر ہونا معلوم نہ ہو جائے، اس وقت تک خیال کی بنیاد لازماً حسن ہونی چاہیئے.اور اگر دوست اس اصل پر عمل شروع کردیں تو بہت سے فتنے مٹ جائیں.میں نے دیکھا ہے کہ یہاں ایک شخص عبداللہ چرخی تھا.اس کے پاس اگر کوئی بیٹھتا تو ہمارے بعض دوست گھبراتے کہ کہیں کوئی اثر قبول نہ کرلے.حالانکہ اگر کسی پر ایسی باتوں کا اثر ہوتا ہے تو یہ ہماری کمزوری اور ہماری تربیت کا نقص ہے کہ اس کے اندر صدیقیت کا مادہ نہیں پیدا کر سکے.انسان کے اندر جب ایمان کی طاقت ہو تو وہ کسی مخالف کے اثر کو قبول کر سکتا ہی نہیں.کئی اعتراضات ایسے ہوتے ہیں جو ہم نے کبھی سئے نہیں.مگر جب وہ ہم پر کئے جاتے ہیں تو جواب اللہ تعالیٰ فوراً سمجھا دیتا ہے.کبھی کسی بڑے سے بڑے لائق اور فاضل انسان کی طرف سے اسلام پر کوئی ایسا اعتراض نہیں کیا گیا جسے سن کر ہم یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہوں کہ اچھا اس پر غور کریں گے فوراً اس کا جواب سوجھ جاتا ہے.تو ایمان کی کھڑکیاں جب کھلی ہوئی ہوں تو کوئی مخالف طاقت اپنا اثر کر نہیں سکتی.مومن کا فرض ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالٰی نے بزرگی دی اور ایمان لانے کی توفیق عطا فرمائی ان کی بات کی طرف زیادہ توجہ دے.اور اگر ایسا کیا جائے تو سب فتنے مٹ جائیں.فتنے دراصل پیدا ہی اس طرح ہوتے ہیں کہ منافقوں کی باتوں پر ایمان لایا جاتا ہے.ہم یہ تو مان سکتے ہیں کہ کسی کو کوئی ایسا معاملہ پیش آیا جو سچا تھا.اور اس سے اسے ابتلاء آگیا.لیکن یہ کہ جو شخص صبح کو بدظن ہوا، شام کو اس کا مقصد اصلاح ہو گیا یہ خیال کرنا بیوقوفی ہوگی.ہر کفر کی ہوا سے دب جانا اور ایمان کی ہوا سے کھڑا ہو جانا کوئی
خطبات محمود ۲۸۶ سال ۱۹۳۳ء خوبی نہیں ہو سکتی.اور ایسے شخص کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص سور بیچنے کیلئے گھر سے چلا.راستہ میں ایک کھمبے کے ساتھ اسے باندھ کر خود قضائے حاجت کیلئے گیا.اس کھمبے کی تختی کمزور تھی.سور نے جو زور لگایا تو وہ دوسری طرف ہو گئی اور اس کا رُخ بدل گیا.وہ جب آیا تو بغیر اس کے کہ وہ غور کرتا کہ میں کدھر سے آیا تھا اور کدھر کو جاتا ہے.اس نے سور کو کھولا اور جس طرف سختی کا رخ تھا اسی طرف لے کر چل پڑا.آخر جب گھر پہنچا تو کہنے لگا.میں نے ساری دنیا کا سفر کرلیا ہے اور زمین گول ہونے کی وجہ سے پھر گھر آگیا ہوں.تو ایسے لوگ محض سختی کے الٹ جانے سے اُلٹے چل پڑتے ہیں اور آنکھ کھول کر نہیں دیکھتے.اس قسم کی فطرت ہمیشہ نقصان کا موجب ہوتی ہے.جس شخص کے دل کی کھڑکیاں کفر کی طرف سے بند ہوں، اس کے اندر کفر کی بات داخل ہی کیسے ہو سکتی ہے.اور ایمان اس کے اندر داخل ہونے سے کس طرح رہ سکتا ہے.کمرہ سے باہر دری جھاڑی جائے تو کمرہ کے اندر کی ہر چیز پر گرد نظر آتی ہے.پھر سوچنا چاہیے کیا ایمان ہی ایسی کمزور چیز ہے کہ کھڑکیاں کھلی ہوں اور وہ اندر نہ آسکے.حالانکہ ایمان نہایت لطیف چیز ہے.اور ہر لطیف چیز زیادہ پھیلتی ہے.اگر کسی نے ایمان کی طرف کی کھڑکی کھولنی ہو تو اس کا یہی طریق ہے کہ أشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ پر عمل کرے.ایسا انسان خطرہ سے باہر ہو جاتا ہے.اسے اگر دشمنوں میں بھی پھینک دو تو وہ ان میں سے بھی بعض کو اپنے ساتھ لے آئے گا.پر کوئی اثر نہ ہوگا اور اگر مومنوں میں ہو تو اور بھی بڑھتا اور ترقی کرتا جائے گا.پس جو لوگ اپنے ایمان کی اصلاح چاہتے ہیں انہیں چاہیے کہ اس آیت پر غور کریں.اور اپنے رشتہ داروں، بھائیوں، دوستوں، افسروں، ماتحتوں غرضیکہ کسی موقع پر جب مذہب اور تصدیق كلمات ونشانات الہیہ کا معاملہ ہو تو کسی کی پرواہ نہ کریں.اور اپنے آپ کو ان کی باتوں بالکل متاثر نہ ہونے دیں.ہاں جب کوئی دینی معاملہ ہو تو ان کے دلوں کی کھڑکیاں بالکل کھلی ہوں تا اللہ تعالیٰ کا نور ان کے اندر داخل ہوسکے.اس له الفتح: ٣٠ الفضل ۲۳ - نومبر ۱۹۳۳ء) له السيرة الحلبية جلدا صفحه ۳۰۹ المطبعة الازهرية مصر ۱۹۳۵ء ނ سے ابن دغنہ
خطبات محمود ۲۸۷ سال ۲۱۹۳۳ بخاری کتاب مناقب الانصار باب هجرة النبي واصحابه الى المدينة 1 حضرت لبید بن ربیعہ که سیرت ابن هشام جلدا صفحه ۱۲۸ مطبوعه مصر ۱۳۹۵هـ ته الاستيعاب في معرفة الأصحاب جلد ۳ صفحه ۱۶۵ دار الكتب العلمية بیروت ۱۹۹۵ء شه تاریخ الخلفاء للسیوطی صفحه ۷۰ مطبوعه لاهور ۱۸۷۰ء بخاری کتاب المظالم باب اعن اخاك ظالما او مظلوما
خطبات محمود ۲۸۸ I سال ۱۹۳۳ء سیرت النبی کے جلسوں کے متعلق اہم ہدایات (فرموده ۲۴ - نومبر ۱۹۳۳ء) تعوز اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- پرسوں انشاء اللہ تعالیٰ رسول کریم اے کے حالات سے دنیا کو آگاہ کرنے اور اپنے نوجوانوں کو ان کے احسانات سے واقف کرنے کا دن آنے والا ہے.اچھی سے اچھی چیز بُرے ہاتھوں میں پڑ کر خراب ہو جاتی ہے.اور بُڑی سے بُری چیز اچھے ہاتھوں میں اگر کچھ نہ کچھ اپنی شکل بدل لیتی ہے.بلکہ کئی ایسی چیزیں جنہیں لوگ بُرا سمجھتے ہیں، وہ اچھے ہاتھوں میں آکر نیکیاں اور خیر بن جاتی ہیں.اس دن کے متعلق بھی ہمارے دوستوں کو خوب اچھی طرح یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام کسی تصنع اور کسی ایسے ذریعہ کو جو اپنی ذات میں ناجائز و ناپسندیدہ ہو اچھے کام کیلئے جائز و پسندیدہ نہیں سمجھتا.ایسے ہی جذبات کے اظہار کے مواقع ہوتے ہیں جبکہ وں کے قدم لڑکھڑا جایا کرتے ہیں.اللہ تعالی نے انسان کو ایسا پیدا کیا ہے کہ وہ ہر وقت ہی صراط پر کھڑا ہے.ذرا سی لغزش اس کو اور اس کی قوم کو کہیں سے کہیں پہنچادیتی ہے.شیعوں کے تعزیوں کو دیکھتے ہو، ان کی کہاں سے کہاں نوبت پہنچ گئی.غم کے اظہار کی بعض کیفیات بعض نے ظاہر کی ہوں گی.بعد میں آنے والوں نے ان پر مبالغہ کی کوشش کی.پھر لوگوں میں سے بعض کمزور ہوتے ہیں.انہیں لیڈری کی خواہش ہوتی ہے.اور وہ چاہتے ہیں کہ پہلوں سے زیادہ کام کر کے دکھائیں.اور جب جائز حد بندی ختم ہو جائے تو چونکہ ناجائز کا ہی دروازہ کھلتا ہے.اس لئے ان میں ایسی باتیں پیدا ہو گئیں.ابتداء میں محض امام حسین کی جسره
خطبات محمود ٢٨٩ سال ۱۹۳۳ء شہادت کا ذکر کر کے لوگ ایک دوسرے کے دل میں محبت قائم رکھتے.پھر ان میں حال کھیلنے والے آگئے.اور جب ان کی وجہ سے لوگوں نے رونا شروع کیا.تو واعظوں میں سے کمزور طبقہ نے خیال کیا کہ اس طرح تو بڑی شہرت ہوتی ہے، لوگوں کو خوب رلانا چاہیے.تب انہوں نے باتوں میں مبالغہ شروع کر دیا تاکہ جو پہلے نہیں روتے وہ بھی روپڑیں.پھر مبالغہ آمیز باتیں سن کر بھی جو لوگ نہیں روتے تھے.انہوں نے طعن و تشنیع اور لوگوں کے ڈر سے جھوٹا رونا شروع کر دیا.حتی کہ ترقی کرتے کرتے واعظوں نے لوگوں کو رلانے اور لوگوں نے رونے کی مشقیں شروع کردیں.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اصل حقیقت جاتی رہی.اور کچھ کا کچھ لوگوں میں باقی رہ گیا.ہندوستان میں ایک ریاست ہے.اس میں کچھ عرصہ پہلے واقعات کربلا ایک نئے رنگ میں دکھائے جاتے تھے.باقاعدہ ایکٹ کیا جاتا اور تمام واقعات کو عملی صورت میں دکھایا جاتا.چنانچہ ہر سال محرم کے دنوں میں وہاں کے نواب صاحب اپنے دربانوں اور حاشیہ نشینوں کو ساتھ لے کر گھوڑوں پر سوار ہو جاتے.اور سڑک پر کسی ایسے قیدی کو کھڑا کرنے کا حکم دے دیتے جسے موت کا حکم مل چکا ہوتا اور اس قیدی کو سکھایا جاتا کہ جب نواب صاحب تجھ سے چھیں کہ تو کون ہے تو تو کہنا میں شمر ہوں یا یزید ہوں.نواب صاحب اپنے ساتھیوں سمیت گھوڑے دوڑاتے ہوئے آتے اور اس سے پوچھتے تو کون ہے.جب وہ کہتا میں شمر ہوں یا یزید ہوں.تو اسے ماردیا جاتا.گویا سمجھا جاتا کہ اس رنگ میں انہوں نے حضرت امام حسین کا بدلہ لے لیا ہے.چالیس پچاس سال کا عرصہ ہوا کوئی قیدی تھا جسے موت کا حکم مل چکا تھا.اسے بھی سکھایا گیا کہ جب نواب صاحب تیرے پاس پہنچیں اور پوچھیں کہ تو کون ہے.تو تو کہنا کہ میں شمر ہوں اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ تجھے چھوڑ دیں گے.لیکن اس کے رشتہ داروں کو کسی طرح نواب صاحب کی اس حرکت کا علم تھا.انہوں نے اسے کہا کہ لوگوں کے دھوکا میں نہ آنا.اس طرح نواب صاحب ماردیا کرتے ہیں.اسے ایک سڑک کے کنارے کھڑا کردیا گیا.اور جب نواب صاحب اپنے ہمراہیوں سمیت گھوڑے دوڑاتے ہوئے آئے.اور اس سے پوچھا کہ تو کون ہے.تو وہ کہنے لگا میں امام حسن ہوں.اس پر وہ گالیاں دیتے ہوئے واپس لوٹ گئے.اور ملازموں نے پھر اسے کئی قسم کے لالچ دینے شروع کئے.مگر اب چونکہ وہ اپنی آنکھ سے بھی نواب صاحب کا حال دیکھ چکا تھا.اس لئے وہ اور زیادہ پختہ ہو گیا.لوگوں نے سمجھا کہ اب یہ
خطبات محمود ٢٩٠ سال ۱۹۳۳ پھنس گیا ہے.نواب صاحب کو اطلاع دی گئی.کہ اب اسے سمجھا دیا گیا ہے.وہ یہی کہے گا کہ میں شمر ہوں.مگر جب پھر نواب صاحب گھوڑے دوڑاتے ہوئے اس جوش سے آئے کہ ابھی اس کی بوٹیاں کردیں.اور اس سے پوچھا کہ تو کون ہے.وہ کہنے لگا میں امام حسین ہوں.نواب صاحب پھر واپس چلے گئے.اسی افراتفری میں وہ وہاں سے بھاگا اور انگریزی گورنمنٹ کی حدود میں پناہ گزیں ہو گیا.گورنمنٹ نے شکایت پہنچنے پر جب معاملہ کی تحقیق کی اور اسے درست پایا تو اسی وقت سے وہاں انگریز وزیر جانے لگا.اور نواب صاحب کے اختیارات میں کمی کر دی گئی.اب دیکھ لو بات کہاں سے کہاں تک پہنچ گئی.کجا یہ کہ لوگ اس واقعہ کو محبت کے رنگ میں سنتے اور کجا یہ کہ پھر یہ ایک پیشہ بن گیا.رلانے والے بھی بطور پیشہ رلاتے ہیں.اور بعض رونے والے بھی بطور پیشہ کے روتے ہیں.چنانچہ ایک ایک آنے چھ چھ پیسے بلکہ پلاؤ کی ایک رکابی پر رونے والے مل جاتے ہیں.مگر کیا کوئی خیال کر سکتا ہے کہ اسلام کا یہی منشاء تھا کہ لوگ اس واقعہ کا ذکر کر کے روئیں یا رُلائیں.یا کوئی خیال کر سکتا ہے کہ اس سے غیر مذاہب والوں پر عمدہ اثر پڑ سکتا ہے.وہ تو یہی سمجھتے ہیں کہ پاگل ہیں جو رو رہے ہیں.اور واقعہ میں جو لوگ پیسے لے کر روئیں ان کے رونے کا دلوں پر کیا اثر ہو سکتا ہے.بے شک ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو عشق و محبت سے کام کرتے اور روتے ہیں.اور گو ہم انہیں غلطی پر کہہ سکتے ہیں لیکن پاگل نہیں کہہ سکتے.مگر جو لوگ پیسے لے کر ماتم میں شریک ہوتے ہیں ساف طور پر ان کے طرز سے ہی پتہ لگ جاتا ہے کہ یہ لوگ دل سے نہیں رور ہے.کیونکہ ایک طرف تو روتے جاتے ہیں.اور پھر تھوڑی دیر کے بعد دوسروں کی طرف آنکھ اٹھا کر تماشہ دیکھنے لگ جاتے ہیں.گو ان کی زبان پر افسوس کے الفاظ ہوتے ہیں مگر ان کی نگاہ سے خالی ہر طرف گھوم رہی ہوتی ہے.اور ہر شخص انہیں دیکھ کر کہتا ہے کہ خبر نہیں انہیں کیا ہوگا.یہ پاگل ہو گئے ہیں یا حد درجہ ہیں یا حد درجہ کے لالچی ہیں کہ چند پیسوں کے عوض رورہے ہیں.غرض ایک ہی چیز ہے مگر پہلے اخلاص اور عقیدت کے اظہار کا ذریعہ سمجھی گئی اور بعد میں تصنع کی صورت اختیار کر گئی.جس پر آج تک یورپین مصنفین ہنسی اڑاتے ہیں.ہم رسول کریم ﷺ کی سیرت پر جلسے منعقد کرنے کیلئے جو دن مقرر کیا ہے اس کی ایک ہی غرض ہے.اور وہ یہ کہ لوگوں کو معلوم ہو رسول کریم اے نے بنی نوع انسان پر کیا کیا احسانات کئے.آپ نے کیا کیا قربانیاں کیں اور کس رنگ میں لوگوں کے سامنے ایک مکمل وہ نے
خطبات محمود ۲۹۱ سال ۱۹۳۳ء ضابطہ پیش کیا.اس دن کا یہ مطلب نہیں کہ اسے تماشہ بنا لیا جائے.اور دلچسپی کا ایک ذریعہ سمجھ لیا جائے.اگر ہم ایسا کریں گے تو پھر رسول کریم ان کی عظمت کیلئے لوگ اکٹھے نہیں ہوں گے بلکہ تماشا دیکھنے کیلئے آئیں گے.فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ کچھ دلیر ہوتے ہیں.وہ تھیٹر میں تماشہ دیکھ لیتے ہیں اور کچھ منافق مولوی ہوتے ہیں.وہ رسول کریم ای کے نام کی آڑ میں اپنی خواہشات کو پورا کرنا چاہتے ہیں.پس اس رنگ میں سوائے اس کے کہ لوگ منافق ثابت ہوں اور کیا ظاہر ہو سکتا ہے.گو رسول کریم یا ان کے نام کے پردہ کے پیچھے ایکٹ کو کسی صورت میں بھی برداشت نہیں کیا جاسکتا.میں قریباً ہر سال کہتا رہا ہوں کہ جماعت کو ایسا رنگ اختیار کرنے سے پر ہیز کرنا چاہیے.منتظمین ہاں ہوں بھی کر دیتے ہیں.مگر باوجود اس کے ہر سال قادیان کے منتظمین اس کا خیال نہیں رکھتے.کسی ایسے جلوس کا نکلنا جس میں رسول کریم ال ان کے اعمال و اقوال کو خوبصورت پیرایہ میں پیش کیا گیا ہو.بری چیز نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی بعض دفعہ جماعت کی ترقی کے خیال کے ماتحت اس قسم کی تجویز کو پسند فرمالیا کرتے تھے کہ بعض شہروں میں جلوس نکالا جائے جس میں سب لوگوں کی ایک ہی طرز کی پگڑیاں ہوں.پس اس قسم کے جلوس میں تو کوئی حرج نہیں.لیکن اگر جلوس میں اس قسم کی حرکات اور اس قسم کے اقوال شامل کر لئے جائیں جو ناجائز ہوں تو پھر وہ تبلیغی جلوس نہیں رہتا.اور گو وہ دلچسپی کا ایک ذریعہ بن سکتا ہے مگر حقیقت کے لحاظ سے وہ ناجائز ہو گا.اور اس بات کا ثبوت کہ لوگ جلوس میں محض اس کی دلچسپی کی وجہ سے شریک ہوتے ہیں نہ کہ تبلیغی نقطہ نگاہ سے اس بات سے مل سکتا ہے کہ جس طرف نظر اٹھائی جائے بچے اور عورتیں جلوس کی طرف دوڑی چلی آتی ہیں.حالانکہ جمعہ کا خطبہ ہو رہا ہو، کوئی تقریر ہو یا قرآن مجید کا درس ہو رہا ہو تو لوگ اس شوق نہیں آتے.جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جلوس میں تبلیغ مد نظر نہیں ہوتی.بلکہ جلوس محض ایک تماشا ہوتا ہے.اور اگر یہ تماشا نہیں تو لوگ اس کی طرف کیوں اس قدر متوجہ ہوتے ہیں.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ جلوسوں کے ضمن میں جماعت کو یہ امر مد نظر رکھنا چاہیے کہ اسے تماشہ نہ بنایا جائے.اور قادیان کی جماعت کو اس میں نمونہ بننا چاہیے.مجھے نہیں معلوم میں نے کسی خطبہ کے ذریعہ اس امر کا اظہار کیا ہے یا نہیں مگر یہ بات یقینی ہے کہ میں ہمیشہ سے یہ نصیحت کرتا چلا آیا ہوں مگر کہنے کا فائدہ بہت کم دیکھا ہے.میرے نزدیک
خطبات محمود ۲۹۲ سال ۱۹۳۳ء اگر تھیٹر دیکھنے کا شوق ہو تو بجائے اس کے کہ رسول کریم ﷺ کے نام کے پیچھے تھیٹر دیکھا جائے.ایسے لوگوں کو چاہیئے کہ وہ ایک دن تھیٹر کا مقرر کرلیں.رسول کریم ﷺ کی ذات کو اس حقیر چیز میں کیوں لایا جاتا ہے.پس آئندہ کیلئے میں پھر نصیحت کرتا ہوں کہ بیشک اس موقع یر جلوس نکلے مگر اس میں ایسے کلمات ہوں جو تبلیغی ہوں.مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی نظمیں پڑھی جائیں.جن میں رسول کریم اس کے کارناموں کا ذکر ہے تاکہ جو لوگ ہمارے جلسہ میں نہیں آتے وہ اپنے گھروں پر ہی ہماری باتیں سن لیں.گویا یہ بھی ایک تبلیغ کا رنگ ہوگا اور میں اس سے منع نہیں کرتا.گو اس رنگ میں جلوس بھی باہر ہی مفید ہوتے ہیں.یہاں تو ایک حد تک تماشہ ہی نظر آتا ہے کیونکہ تبلیغی باتیں ہر وقت لوگوں کے سننے میں آتی رہتی ہیں.مگر باوجود اس کے یہاں بھی جلوس اگر اس خیال سے نکال لیا جائے کہ جنہیں ہماری باتیں سننے کا اتفاق نہیں ہوتا وہ اس طرح سن لیں گے تو کوئی حرج نہیں.مگر یہ ضروری ہے کہ جلوس کے دوران ایسے کلمات استعمال کئے جائیں جن میں رسول کریم ای کے کارناموں، آپ کے اخلاق اور آپ کی قربانیوں کا ذکر ہو.اسی رنگ میں نظمیں بھی ہونی چاہئیں تاکہ جو لوگ نثر سننے کیلئے تیار نہیں ہوتے وہ نظم سن کر ہی فائدہ حاصل کر سکیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو اتنی نظمیں لکھی ہیں ان سے منشاء یہی ہے کہ و لوگ نثر پڑھنا نہیں چاہتے وہ نظم پڑھ لیا کریں.غرض ہر ایسی تدبیر جو جائز ہو اور مومن کے وقار کے مطابق ہو اس کے اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ اچھی بات ہے.لیکن یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ان جلوسوں کو ایک حد کے اندر رکھا جائے.مثلاً ایسے محلوں میں سے جلوس کا گزرنا بھی بے فائدہ ہے جہاں خالص اپنی جماعت کے لوگ رہتے ہیں.کیونکہ محض ایک رسم ہو گی.ہاں اگر ایسی گلیوں یا محلوں میں سے جلوس کو گزارا جائے جہاں غیر احمدی رہتے ہوں اور جنہیں صحیح رنگ میں رسول کریم ﷺ کی زندگی کے حالات معلوم نہ ہوں یا جہاں غیراحمدی واعظ رسول کریم اللﷺ کی ایسی خوبیاں بیان کرتے ہوں جن سے حقیقت میں آپ کی فضیلت ثابت نہیں ہوتی.مثلاً یہ کہ آپ کا حلیہ ایسا تھا، آنکھیں ایسی تھیں، بال ایسے تھے.یا ہندوؤں اور سکھوں کے مکانات کے پاس سے یا بازاروں میں سے جلوس گزارا جائے.جہاں اردگرد کے دیہات کے بھی بعض لوگ موجود ہوتے ہیں.اور اس طرح انہیں باتیں پہنچ سکیں تو اس سے فائدہ ہو سکتا ہے.دوسری چیز جس کی طرف میں ہمیشہ توجہ دلاتا رہا ہوں.اور..
خطبات محمود ۲۹۳ سال ۱۹۳۳ء صدمه ہے.ہمیں مجھے ہمیشہ ہی حیرت ہوئی ہے کہ قادیان کے لوگ اس کی طرف توجہ نہیں کرتے وہ یہ ہے ہے کہ ایسے الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر حملہ ہوتا بیشک رسول کریم ﷺ سے محبت ہے.عشق ہے مگر باوجود اس کے ہم اللہ تعالیٰ کی توحید کو یہ نہیں پہنچا سکتے.اور اگر ہم پہنچائیں تو یہ رسول کریم ﷺ سے دشمنی ہوگی.وہ چیز جس نے رسول کریم ال کی آخری گھڑیوں کو تکلیف دہ بنا دیا وہ یہی تھی.ورنہ آپ نے فرمایا تھا.خدا تعالیٰ کا ایک بندہ تھا.اس سے خدا نے پوچھا تم دنیا میں رہنا چاہتے ہو یا ہمارے پاس آنا چاہتے ہو.تو اس نے کہا اے خدا میں تیرے پاس آنا چاہتا ہوں.اب تو مجھے اپنے پاس بلائے.رسول کریم اے نے اپنا حال ہی بیان فرمایا تھا مجلس میں جب آپ نے یہ بات بیان فرمائی تو لوگوں نے سمجھا کہ آپ نے ایک مثال سنائی ہے.شاید یہودیوں میں کوئی شخص ایسا گزرا ہو یا عیسائیوں میں.مگر حضرت ابو بکر میں اللہ یہ بات سن کر رو پڑے.ایک صحابی کہتے ہیں لوگوں نے حضرت ابوبکر کی طرف دیکھنا شروع کیا اور کہا اس بڑھے کو کیا ہو گیا.کسی بندہ سے کہا گیا تھا کہ تو دنیا میں رہنا چاہتا ہے یا خدا کے پاس آنا چاہتا ہے اور اس نے کہا میں خدا کے پاس آنا چاہتا ہوں.اس سے اس کا کیا بگڑا کہ یہ رونے لگ گیا.مگر دراصل رسول کریم ﷺ نے اپنا حال بتایا تھا.اور خبر دی تھی کہ اب آپ دنیا میں زیادہ دیر نہیں رہیں گے.اس وجہ سے حضرت ابوبکر رو پڑے.جب رسول کریم ﷺ نے آپ کی نہ تھمنے والی رقت کو دیکھا تو فرمایا ابوبکر کا مجھ سے اس قدر تعلق ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کے سوا میں کسی کو خلیل بناتا تو ابو بکر کو بناتا.پھر فرمایا مسجد میں جس قدر کھڑکیاں کھلتی ہیں، ان میں سے سوائے ابوبکر کی کھڑکی کے سب بند کردی جائیں اے.اس واقعہ سے معلوم ہو سکتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کی اپنی خواہش تھی کہ اللہ تعالی آپ کو بلا لے.اور گو بظاہر کام پورا نہیں ہوا تھا.اور حضرت عمر " جیسے انسان نے بھی آپ کی وفات پر کہہ دیا تھا کہ آپ پھر واپس آئیں گے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ظاہری نظروں میں کامل طور پر اشاعت اسلام کا کام نہیں ہوا تھا.مگر باوجود اس کے رسول کریم ال نے سمجھا جتنا کام آپ نے کرنا تھا، وہ کرچکے.اور آپ کی خواہش ہے کہ اب اللہ تعالٰی کے پاس چلے جائیں.لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول کریم کو مرض الموت میں سخت تکلیف ہوئی.آپ بار بار فرماتے اللہ تعالٰی یہود و نصاری پر لعنت کرے کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا تے.گویا باوجود رض د
خطبات محمود ۲۹۴ سیال ۶۱۹۳۴۳ اللہ تعالی سے ملنے کی خواہش کے جس بات سے آپ کی زندگی کی آخری گھڑیاں تکلیف میں گزریں وہ یہی تھی کہ کہیں میری امت شرک میں گرفتار نہ ہو جائے.پس اس میں رسول کریم کی عظمت نہ ہوگی.اگر ہم اس رنگ میں آپ سے محبت کا اظہار کریں جس میں مشرکانہ رنگ پایا جاتا ہو.بلکہ میں سمجھتا ہوں رسول کریم ﷺ کی نگاہ میں ابو جہل کے تمام مظالم اور وہ ایذائیں جو اس نے آپ کو دیں، آپ کا گلا گھونٹا آپ پر گند پھینکا اور آپ کو ہر رنگ میں مشکلات و مصائب میں مبتلا کیا حقیر ہوں گی اس امر کے مقابلہ میں کہ آپ کی ذات کے متعلق کسی قسم کا شرک کیا جائے.مگر میں نے دیکھا ہے یہاں جو جلوس نکلتا ہے اس میں بعض قطعات پر لکھا ہوتا ہے.يَا مُحَمَّدُ ".حالانکہ رسول کریم ال وفات پاچکے.اور اب وہ دنیا میں واپس نہیں آسکتے.پس يَا مُحَمَّدُ.کہنا ہرگز جائز نہیں.ہاں بعض دفعہ کشفی طور پر ایک انسان رسول کریم ﷺ کو اس طرح مخاطب کرتا ہے تو وہ روحانی کیف کو میسر نہیں آتا.مگر جب کوئی شخص اس کیف سے خالی ہو کر يَا مُحَمَّدُ " کہتا مخص ہے جو ہر ہے تو وہ نقل کرتا اور مشرکانہ رنگ اختیار کرتا ہے.اسی طرح میں نے دیکھا ہے کہ کچھ تختے ہوتے ہیں ان پر بھی يَا مُحَمَّدُ يَا مُحَمَّدُ " لکھا ہوتا ہے.بھلا يَا مُحَمَّدُ کہنے سے کیا رسول کریم ﷺ تشریف لے آئیں گے.اگر تم یا اللہ کہو تو بات بھی ہے.کیونکہ تمہارا خدا ہر وقت تمہارے پاس ہے.لیکن اگر تم يَا مُحَمَّدُ کہتے ہو تو یہ فضول بات ہے.رسول کریم فوت ہو چکے اور جیسا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا جو محمد ا کی عبادت کرتا تھا، وہ سمجھ لے کہ آپ فوت ہو گئے اور جو خدا کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ خدا زندہ ہے سے.اسی طرح جو شخص خدا کا پرستار ہے وہ تو یا اللہ ہی کے گا.يَا مُحَمَّدُ کبھی نہیں کہے گا.کیونکہ جس چیز کو بھی ہم بغیر کسی خاص کیفیت کے یا کہہ کر مخاطب کریں بے فائدہ اور لغو بات ہے.ہاں کیفیت کی حالت میں ہم کہہ سکتے ہیں.اور وہ ایسا وقت ہوتا ہے کہ تنہائی کی گھڑیاں ہوتی ہیں اور قوت متخیلہ کام کر رہی ہوتی ہے.اس رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنے اشعار میں بعض جگہ رسول کریم ﷺ کو مخاطب کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ روحانی طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رسول کریم کا قرب اس قدر محسوس کیا کہ گویا آپ کو سامنے نظر آگئے.اور اس کشفی حالت کے لحاظ سے آپ نے يَا نَبِيَّ الله وغیرہ الفاظ کہہ دیئے.مگر کون بیوقوف شخص یہ خیال کر سکتا ہے
خطبات محمود ۲۹۵ سال ۱۹۳۳ء.کہ وہ لڑکے جو جلوس میں شامل ہوتے اور اشعار پڑھ رہے ہوتے ہیں وہ ایسے روحانی مقام پر اس وقت فائز ہوتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کا انہیں انتہائی قرب حاصل ہوتا ہے.اور وہ بے اختیار يَا مُحَمَّدُ يَا مُحَمَّدُ کہہ رہے ہوتے ہیں.صاف ظاہر ہے کہ یہ تصنع ہے بناوٹ ہے اور کچھ نہیں.وہ کیفیت جس میں پیدا ہو وہ بے شک کہہ لے.مگر کیا جس میں یہ کیفیت پیدا ہو وہ لوگوں سے پوچھا کرتا ہے کہ میں کہوں یا نہیں.اس کے منہ سے تو آپ ہی بات نکل جاتی ہے.ایسی کیفیت خلوتوں اور تنہائی کی گھڑیوں میں بعض خاص لوگوں پر طاری ہوتی ہے، جلوسوں میں نہیں آسکتی.پھر جب یہ کیفیت آتی ہے تو تصنع نہیں ہوتا یہ کیفیت جب جلوس میں بھی طاری ہو تو کشفی حالت ہی ہوگی.پس ایسے تمام اشعار جن میں خدا تعالیٰ کی توحید کے خلاف باتیں پائی جاتی ہوں، ان کے پڑھنے میں رسول کریم ان کی عزت نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر آپ کی کوئی ہتک نہیں ہو سکتی.گویا آپ کا مقصد توحید پرستی نہیں تھی بلکہ نَعُوذُ بِاللهِ.آپ نے لوگوں سے حضرت عیسیٰ کی پرستش کی بجائے اپنی پرستش شروع کرادی اور یہ ایک نہایت ہی نامعقول اور رسول کریم ال کی ہتک کرنے والی بات ہے.مگر باوجود اس کے کہ میں نے کئی بار سمجھایا پھر بھی یہ بیہودگی نظر آجاتی ہے اور ہمیشہ سے جلوس میں ایسے تختے نظروں کے سامنے آتے رہتے ہیں جن پر يَا مُحَمَّدُ لکھا ہوتا ہے.نہ معلوم جو منتظم ہیں وہ " قرآن مجید اور سلسلہ کے لٹریچر کو نہیں پڑھتے.اور اس امر کو بھی نہیں سمجھتے کہ رسول کریم کی بعثت کی غرض کیا تھی.یا نہ معلوم کیا بات ہے کہ وہ اس طرف توجہ نہیں کرتے اچھے شعر ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فارسی، اردو اور عربی میں رسول کریم ﷺ کی شان میں کہتے ہیں.انہیں سن کر کوئی انسان رسول کریم ﷺ کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا.وہ اشعار لڑکوں سے پڑھاؤ.حضرت مسیح موعود کی نظمیں انہیں یاد کراؤ.یہ کیا کہ يَا مُحَمَّدُ يَا مُحَمَّدُ " کہنا شروع کر دیا.تم يَا مُحَمَّدُ ہزار سال کہتے رسول کریم ﷺ فوت ہو چکے اب وہ دنیا میں نہیں آسکتے.تم يَا مُحَمَّدُ کی بجائے اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرو جو تمہاری رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہے اور تم ابھی پوری بات بھی نہیں کہہ چکے ہوگے کہ وہ تمہارے قریب آجائے گا.وہ خود کہتا ہے.اِنّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ہے.میں قریب ہوں اور پکارنے والے کی پکار کا میں جواب دیتا ہوں.مگر جو رہو.
خطبات محمود ۲۹۶ سال ۱۹۳۳ قریب ہی نہیں اور جس کے اور ہمارے درمیان ایک بہت بڑی دیوار حائل ہے اسے پکارنا کیا اور اس سے جواب کی امید رکھنا کیا؟ پس ایک تو جلوسوں میں ایسا رنگ مت اختیار کرو جو تھیٹر والا ہو یا جس میں مشرکانہ طریق پایا جاتا ہو.ہمیں اگر رسول کریم محبوب ہیں تو اسی لئے کہ آپ نے دنیا میں توحید قائم کی.ورنہ ان میں اور دوسرے انسانوں میں بظاہر کیا فرق ہے.آپ نے خدا کی بڑائی قائم کی پس وہ خود بھی بڑے ہو گئے.اور دراصل جتنا جتنا کوئی خدا کی بڑائی ظاہر کرتا ہے اسی قدر وہ خود بھی بڑا بنتا جاتا ہے.رسول کریم ال نے چونکہ اپنی ذات کو مٹادیا اور چونکہ آپ نے اپنے نفس کی بجائے اللہ تعالی کی وحدانیت کو قائم کیا.اس لئے خدا تعالیٰ نے بھی آپ کو لازوال بزرگی عطا کی.کیونکہ جب انسانی وجود مٹ جائے تب خدا ہی خدا نظر آیا کرتا ہے.پس صحیح طریق اختیار کرو اور یاد رکھو اللہ تعالیٰ کی محبت تمام نیکیوں کی جڑ ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالی نے بتایا ہے.شخص اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے سب چیزوں کی جڑ تقوی اللہ ہے باقی اللہ تعالیٰ کے نبی رسول، خلفاء مجدد، صدیق، صلحاء اور اولیاء سب اللہ تعالی تک پہنچنے کے ذرائع ہیں.ہمارا اصل مقصد خدا تعالیٰ کی ذات ہے.یہ بیوقوفی ہوگی اگر چھوٹے کی محبت کیلئے بڑے کی عظمت کو قربان کر دیا جائے.پس جلوس میں تصنع نہیں ہونا چاہیئے، سادگی اور اخلاص ہونا چاہیئے.مجھے اس وقت یاد نہیں مگر کئی شعر ایسے پڑھے جاتے ہیں جن میں شرک کی بو ہوتی ہے ان کا پڑھنا ہرگز درست نہیں.حضرت سیح موعود علیہ السلام کا کلام پڑھو.درثمین وغیرہ میں سے کچھ حصوں کا انتخاب کرلو.اس میں ضرور مشکلات بھی پیدا ہوں گی.مثلاً یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظمیں لڑکوں کو یاد کرانی پڑیں گی.لیکن اس کے مقابلہ میں جو فائدہ ہے وہ بہت بڑا ہے.اس سے نہ صرف ظاہری لحاظ سے لوگوں پر عمدہ اثر پڑے گا اور وہ رسول کریم ﷺ کے کمالات سے واقف ہوں گے بلکہ باطنی طور پر بھی فائدہ ہوگا.اور لوگوں کے دلوں میں خیال پیدا ہوگا کہ ہم بھی ایسے اشعار لکھیں.جن سے رسول کریم ﷺ کے حالات لوگوں کے سامنے آئیں.ایک نعت کہنے کا پرانا طریق تھا.اور وہ یہ کہ اشعار میں ذکر کیا جاتا رسول کریم اللہ کا ناک ایسا خوبصورت تھا کان ایسے تھے، رنگ ایسا تھا، قد ایسا تھا.اس سے غیر مسلموں میں مسلمانوں کو
خطبات محمود ۲۹۷ سال ۱۹۳۳ء سوائے ندامت کے اور کچھ حاصل نہ ہو سکتا تھا.مجھے یاد ہے میں ایک دفعہ کہیں باہر گیا.تو ی ایک ہندو مجھ سے ملنے آیا اس نے مجھے اس قدر شرمندہ کیا کہ میں پانی پانی ہو گیا.اور گو وہ غیر احمدیوں کا طریق عمل تھا مگر مسلمان ہونے کے لحاظ سے مجھے سخت ندامت ہوئی.وہ کہنے لگا مجھے ایک ایسے بندے کی تلاش تھی جو مجھے خدا تک پہنچائے.اس غرض کیلئے میں مختلف مذاہب کے لوگوں کے پاس گیا.اسی دوران میں جب رسول کریم ﷺ کے حالات معلوم کرنے کیلئے میں مجالس مولود میں پہنچا تو میری حیرت کی کوئی حد نہ رہی.اس کے بعد اس نے وہاں کا ایسا گندہ نقشہ کھینچا کہ میں شرم کے مارے پانی پانی ہو گیا.کہنے لگا مجھے وہاں بتایا جانے لگا کہ آپ کی زلفیں ایسی تھیں، آنکھیں ایسی خوبصورت تھیں، قد اس قسم کا تھا، رنگ اس طرح کا تھا.بھلا مجھے ان باتوں سے کیا.اس نے ان باتوں کو اس طرح بنا بنا کر پیش کیا کہ میری آنکھیں اس کے سامنے جھک گئیں.اس کی وجہ کیا تھی؟ یہی کہ لوگوں کے دل میں رسول کریم ﷺ کی اصل محبت نہیں رہی.اگر وہ آپ کے حالات پڑھتے قرآن مجید پر غور کرتے تو وہ ان باتوں کی طرف کبھی نہ جاتے.مگر چونکہ حالات معلوم کرنے اور قرآن مجید پر غور کرنے میں محنت صرف کرنی پڑتی ہے.مگر یہ معلوم کرنا اور یاد رکھنا بالکل آسان ہے.کہ آپ کا رنگ سفید تھا داڑھی گھنی تھی.اس لئے انہی کو بیان کرنا شروع کردیا.یا رسول کریم الک کے متعلق اس قسم کی من گھڑت کہانیاں سنانی شروع کردیں.کہ ایک گوہ آئی اور اس نے آپ کو سجدہ کیا یا درخت اور پتھر آپ کے سامنے سربسجود ہو گئے.ایسی کہانیاں چونکہ بچوں تک کو بھی جلد یاد ہو جاتی ہیں.اس لئے لوگوں نے رسول کریم ﷺ کے فضائل اسی رنگ میں بیان کرنے شروع کر دئے.چنانچہ دیکھ لو کسی بچے کو قرآن مجید کی کسی آیت کی تفسیر سمجھاؤ.وہ سن لے گا لیکن جب اس سے پوچھا جائے کہ کیا سنا تو کہے گا یاد نہیں.لیکن سے کوئی کہانی سنادو اور تیسرے دن سننا چاہو تو ایک ایک حرف سنادے گا.چونکہ رسول کریم کی قربانیاں آپ کے اخلاق اور آپ کی پاکیزہ زندگی کے واقعات معلوم کرنے کیلئے کی ضرورت تھی اور کہانیاں بیان کرنا اور یاد رکھنا آسان تھا اس لئے لوگوں نے کہانیاں اور قصے بیان کرنے شروع کردئے.پس یہ لوگوں کی نستی اور کو تاہی کا ثبوت ہے، رسول کریم کی محبت نہیں.اگر ہم بھی رسول کریم ﷺ کے متعلق اسی قسم کی باتوں میں الجھ جائیں اور قرآن مجید سے معارف اور نئے نئے علوم نکالنے اور رسول کریم ﷺ کے حقیقی ال.
خطبات محمود ٢٩٨ سال ۱۹۳۳ء فضائل بیان کرنے کی طرف توجہ نہ کریں تو کس قدر افسوسناک بات ہوگی.رسول کریمی کے متعلق اگر یہ بیان کیا جائے کہ آپ کا رنگ کیسا تھا.تو چونکہ رنگ نہیں بدلتا اس لئے اتنا جاننا ہی کافی ہوتا ہے کہ آپ کا رنگ کالا تھا یا گورا - لیکن معارف چونکہ زمانے کے تغیر کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں.اور ان کے متعلق محنت کرنی پڑتی ہے، اس لئے لوگ اس طرف آنے سے جی چراتے ہیں.یا مثلا یہ امر کہ رسول کریم ال کے بال کندھوں سے اونچے تھے یا نیچے.ایک معمولی بات ہے ہر شخص اسے ایک دفعہ بھی سن لے تو یاد رکھ سکتا ہے.لیکن یہ.آپ نے کس کس رنگ میں قربانیاں کیں، بنی نوع انسان سے آپ کے تعلقات کس کے تھے.پھر بنی نوع انسان کے علاوہ ہر فرد سے آپ کا علیحدہ علیحدہ سلوک تھا، زید کا بھی آپ سے تعلق تھا.اور اگر ہم غور کریں گے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ رسول کریم اتے اس کیلئے بھی کچھ قربانیاں کی ہیں.اسی طرح ہر صحابی کے متعلق غور کیا جاسکتا ہے اور نئی نئی باتیں نکالی جاسکتی ہیں.پھر اگر ہم دیکھیں کہ رسول کریم نے کس طرح انسانی فطرت کی گہرائیوں کا مطالعہ کرکے دعائیں سکھائیں ہیں.اور اس مضمون کے ماتحت قرآن مجید پر غور کیا جائے تو سینکڑوں مضامین سامنے آنے شروع ہو جائیں گے.غرض اس طریق کے ماتحت کام کرو اور جب شعر پڑھو تو اچھے شعر پڑھو.اسی طرح اگر خود اشعار بناؤ تو اچھے اشعار بناؤ.پرانے لوگوں میں سے بھی بعض نے رسول کریم ای کی مدح میں نہایت اچھے اشعار کے ہیں.اگر ہم ان سے بھی فائدہ اٹھالیں تو یہ اچھی بات ہوگی.میں نے اب کی دفعہ سیرت النبی کے جلسہ کی آمد سے دو دن پہلے یہ بات سنادی ہے.اب بھی اگر جلوس میں اس.کے اشعار پڑھے گئے یا تختوں پر مجھے لکھے نظر آگئے تو میں جھنڈے وہیں رکھوالوں گا.اور ایسے لوگوں کو جلوس سے الگ کرادوں گا کیونکہ یہ رسول کریم کی ہتک کرنے والی بات ہے.آپ کا اصل مقصد توحید کا قیام تھا.اس پر جتنا جی چاہے زور دو- مگر توحید کے صرف یہ معنے نہیں ہوتے کہ اللہ ایک ہے.اگر پتھر ایک ہو تو کیا یہ بڑی خوبی کی بات سمجھی جاسکتی ہے.اس کے معنے یہ ہیں کہ دنیا کے تمام حسن اس ایک خدا کے سامنے بیچ ہیں.جب اس کے سامنے اچھی سے اچھی چیز بھی جاتی ہے تو ماند پڑ جاتی ہے اور اکیلا خدا ہی نظر آتا ہے.پس ایک ہونے کا یہ مفہوم ہے کہ وہ تمام صفاتِ حسنہ میں منفرد ہے.اور ساری چیزیں اس کے سامنے پھیکی پڑ جاتی ہیں.یہی وہ مفہوم ہے جسے دنیا کے ذہن نشین کرنے کیلئے انبیاء آتے ہیں.
خطبات محمود ۲۹۹ سال ۱۹۳۳ء ب اس مفہوم کو اپنے دل میں بٹھاؤ گے تو اللہ تعالیٰ کی محبت تمہارے دل میں قائم ہوگی اور اس کا قرب تمہیں حاصل ہو گا.پس یاد رکھو تمام ترقیات کا گر توحید ہے.اللہ تعالیٰ کے حسن کو ایسے رنگ میں ظاہر کرنا کہ باقی تمام حسن اس کے سامنے بے حقیقت ہو جائیں.اسی طرح جس طرح سورج کے سامنے ستارے ماند پڑ جاتے ہیں اور نظروں سے غائب ہو جاتے ہیں بلکہ اس بھی زیادہ یہ توحید کا مفہوم ہے.یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ باقی چیزیں معدوم ہو جاتی ہیں کیونکہ جسے خدا نے بنایا وہ معدوم کیسے ہو سکتا ہے.مگر خدا تعالیٰ کا حسن اس قدر ظاہر ہو کہ باقی تمام حسن ماند پڑ جائیں.اور سوائے اللہ تعالیٰ کے حسن کے اور کوئی حسن نظر ہی نہ آئے.یہی توحید ہے.اور جس وقت یہ مقام حاصل ہو جاتا ہے، اس وقت انسان کا دل کسی انسان کی ނ محبت کیلئے فارغ نہیں ہو سکتا.یہ تعلیم ہے، اسے دنیا کے سامنے پیش کرو.رسول کریم ا کی وہ قربانیاں ظاہر کرو.اور آپ کی ان خدمات کو پیش کرو جو آپ نے نوع انسان کیلئے کیں.ورنہ اگر یوں کرو گے تو ہندوؤں کے بازار میں سے گزرتے ہوئے يَا مُحَمَّدُ يَا مُحَمَّدُ کھو گے تو وہ سمجھیں گے یہ پاگل ہو گئے ہیں.لیکن اگر تم یہ بیان کرو گے کہ غیر قوموں رسول کریم اللہ نے کیا کیا احسانات کئے تو وہ بے اختیار آپ کے مداح ہو جائیں گے.تو تم تجربہ کر کے دیکھ لو کہ ان میں سے کون سا رسول کریم ﷺ کی محبت پیدا کرنے والا نسخہ تمہیں معلوم ہوگا کہ قربانیاں پاکیزگی اور اخلاق ہی ایسی چیز ہیں جن سے محبت پیدا ہو.سکتی ن که يَا مُحَمَّدُ يَا مُحَمَّدُ " کہنے سے.پس صحیح طریق اختیار کرو.قادیان والوں پر زیادہ ہے.ہے نہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ یہ ہر وقت دین کی باتیں سنتے رہتے ہیں.میں امید کرتا ہوں کہ اس دفعہ جلوس میں زیادہ عمدگی سے کام کیا جائے گا.اور کوئی ایسا طریق اختیار نہیں کیا جائے گا جس میں تماشہ ہو یا مشرکانہ رنگ پایا جاتا ہو.الفضل ۱۰ - دسمبر ۱۹۳۳ء) له بخاری کتاب المناقب، باب قول النبی ا سدوا الابواب الاباب ابي بكر که بخاری کتاب الجنائز باب ما يكره من اتخاذ المساجد على القبور سے بخاری کتاب المناقب - باب قول النبى الله الله لو كنت متخذا خليلا البقرة: ۱۸۷
خطبات محمود ۳۲ سال ۱۹۳۳ء جوش کی بجائے صبر اور دعاؤں سے کام لو جلسہ سالانہ پر دوسروں کو بھی ساتھ لاؤ (فرموده یکم دسمبر ۱۹۳۳ء) تشد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- آج میرا ارادہ تو یہی تھا کہ جلسہ سالانہ کے متعلق دوستوں کو توجہ دلاؤں.اور انہیں تحریک کروں کہ اس کیلئے تیاری شروع کردیں.لیکن رات کو مجھے ایک ایسی اطلاع ملی جس کی وجہ سے میں نے ضروری سمجھا کہ اگر جلسہ کیلئے خطبہ کو ملتوی نہ کروں تو کم سے کم اس معاملہ کو بھی اس میں شامل کرلوں.کئی لوگ یہ اعتراض کیا کرتے ہیں.حضرت خلیفہ امسیح الاول پر بھی کیا کرتے تھے اور مجھ پر بھی کہ بعض اوقات بغیر تحقیق کے بات بیان کردی جاتی ہے.اور بغیر اس کے کہ دوسرے فریق کے بیانات کو سنا جائے اس کے متعلق اپنے خیالات ظاہر کر دیئے جاتے اگر تو بات اسی طرح ہو جس طرح معترض کہتے ہیں.ہیں تو بیشک قابل اعتراض امر ہے.لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگ نہ تو حضرت خلیفۃ المسیح الاول کا منشاء سمجھتے تھے اور نہ ہی میرے طریق کو سمجھتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ بعض اوقات ایسے امور جن کا تعلق قومی تربیت یا جماعتی عزت کے ساتھ بہت ہی گہرا ہوتا ہے.ان کے متعلق بغیر اس کے کہ انہیں صحیح تسلیم کیا جائے اور بغیر اس کے کہ ان کے متعلق قضائی فیصلہ صادر کیا جائے ضروری ہوتا ہے کہ اس موقع..
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء فائدہ اٹھا کر اظہارِ خیال کردیا جائے.اس کے یہ معنے ہرگز نہیں ہوتے کہ ہم اس واقعہ کو اسی | طرح سمجھتے ہیں جس طرح وہ پیش کیا جاتا ہے.بلکہ یہ فرض کر کے کہ اگر ایسا ہو یا یہ کہ ممکن ہے ایسا ہو سکے یا انسانی کمزوریاں جماعت کے کسی فرد کو اس کی طرف مائل کردیں.اس لئے قبل از وقت جماعت کو بیدار کرنے کیلئے اظہارِ خیال کردیا جاتا ہے.یہ اظہارِ خیال یہ تسلیم کرکے نہیں ہوتا کہ یہ واقعہ صحیح ہے.بلکہ اس لئے کہ جماعت کے کمزور لوگوں سے ایسے واقعات صادر ہو سکتے ہیں.اور یہ واقعہ ایک تحریک ہے جس سے اللہ تعالی چاہتا ہے کہ جماعت کو بہ بیدار کر دیا جائے.پس اس تمہید کے ساتھ کمزور طبائع کے شکوک کو دور کرتے ہوئے میں.یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کہا جاتا ہے.احرار کے ساتھ تعلق رکھنے والے جو لوگ یہاں ہیں.ان میں سے کسی کو کسی احمدی نے مارا ہے.میں نے اس کے متعلق واقعات معلوم نہیں کئے اور نہ گواہیاں لی ہیں.اور نہ ان حالات میں کہ ان لوگوں نے ہماری قضاء سے فائدہ نہیں اُٹھانا مجھے گواہیاں لینے کی ضرورت ہے.پس نہ تو ماضی میرے علم کا ذریعہ ہے اور نہ مستقبل میں اس واقعہ کے متعلق میرے علم کا کوئی امکان ہے.مگر جماعت کی اصلاح اور اس کے اخلاق اور تربیت کی صحیح راہنمائی کیلئے میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کو اپنے خیالات سے آگاہ کردوں.میں نے متواتر یہ بات بیان کی ہے اور میں سمجھتا ہوں.اپنی ذمہ داریوں کے لحاظ سے اگر اسے پہلے کئی سو بار بھی بیان کرچکا ہوں تو بھی مجھے بیان کرتے رہنا چاہیے کہ روحانی سلسلوں کی بنیاد الی افعال پر ہوتی ہے.ان سے پہلے بھی دنیا میں حکومتیں ہوتی ہیں، بادشاہتیں ہوتی ہیں، منصف بھی اور ظالم بھی.ان سے پہلے بھی جتھے ہوتے ہیں، منصف بھی اور ظالم بھی.کمیٹیاں اور نظام ہوتے ہیں.جن میں منصف بھی ہوتے ہیں اور ظالم بھی.لیکن باوجود اس کے کہ دنیا میں اچھے بھی اور بُرے بھی، دونوں قسم کے نظام موجود ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ کو نیا نظام قائم کرنے کی کیا ضرورت ہوتی ہے.یہی کہ اچھے نظاموں کی بنیاد انصاف پر ہوتی ہے اور بروں کی ظلم پر آسمانی بادشاہت ظلم کی برداشت نہیں کر سکتی مگر وہ انصاف سے بھی تسلی نہیں پاسکتی.دنیا کے لوگوں میں سے اچھے انصاف کو دیکھ کر اور بڑے ظلم کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں.لیکن آسمان کے فرشتے پھر بھی روتے ہیں.کیونکہ وہ روحانیت کی بادشاہت دیکھنا چاہتے ہیں.وہ ایسا نظام دیکھنا چاہتے ہیں جس کی بنیاد رحم پر ہو.نوشیرواں اے کو بہترین عادل بادشاہ سمجھا جاتا ہے حتی کہ رسول کریم ﷺ نے بھی اس کی تعریف کی ہے.بلکہ اس بات پر فخر کیا ہے کہ آپ.
خطبات محمود سال ۴۱۹۳۳ اس زمانہ میں پیدا ہوئے ہے.لیکن اگر عدل و انصاف ہی کافی ہوتا تو ایسی عادلانہ حکومت کے بعد اللہ تعالیٰ کو رسول کریم" کے ذریعہ ایک نیا نظام قائم کرنے کی کیا ضرورت تھی.مگر کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس کی اور اسلام کی حکومت ایک سی تھی.اور اسلام نے حکومت کے لحاظ سے دنیا میں آکر اس سے زائد کوئی نئی چیز پیش نہیں کی.عدل کے لحاظ سے تو کسی چیز کی ضرورت نہ تھی مگر آسمانی بادشاہت عدل پر خوش نہیں ہو سکتی.عدل کا دائرہ اخلاق پر ختم ہو جاتا.ہیں.کہ وہ تو ہے.اور اخلاق کا دائرہ عدل سے اوپر نہیں چڑھ سکتا لیکن روحانیت ایک ایسی چیز ہے عدل اس کی تسلی کر سکتا ہے اور نہ روحانیت اس سے تسلی پاسکتی ہے.روحانیت کی بنیاد قربانی پر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جس چیز پر عیسائی خوش ہوتے حقیقت میں کوئی بڑی چیز نہیں.عدل تو صرف انسانی عقل کی ضرورت کو پورا کرنے کا ایک ذریعہ ہے.انسان محض اس ڈر سے کہ فساد نہ پیدا ہو، دوسرے کا حق نہیں دباتا اور اس کے ساتھ عدل کا برتاؤ کرتا ہے.اس کیلئے آسمانی راہنمائی کی کوئی ضرورت نہیں.آسمانی راہنمائی کی ضرورت وہاں ہوتی ہے جہاں انسان سمجھے کہ میں نے جو کچھ کرنا تھا کر لیا.اس سے آمنے میری عقل نہیں چل سکتی.تب آسمان سے اسے ایک نیا رستہ بتایا جاتا ہے.یہی ضرورت ہے آسمانی بادشاہت کی، خدا تعالیٰ کے مرسلین کی اور اس کی کتابوں کی.ہم اگر یہ تسلیم کرلیں کہ وہ بھی عقل کی حد تک آکر ختم ہو جاتی ہیں تو پھر ان کی کوئی ضرورت ہی باقی نہیں رہ جاتی.عقل کہتی ہے کہ اگر کوئی تمہارے ساتھ نیکی کرے تو اس کے ساتھ تم بھی نیک سلوک کرو.اور اگر کوئی ظلم یا شرارت کرے تو اسے اتنی سزا تم بھی دے دو.اگر کسی نے تمہاری حق تلفی نہیں کی تو تم بھی اس کا حق نہ مارو.لیکن یہ نہیں کہتی کہ اگر کوئی تم پر ظلم کرتا ہے تو اسے معاف کردو خواہ کوئی تمہارا بدخواہ ہو اس سے نیک سلوک کرو دوسروں پر احسان کرو.اور حقیقی احسان یہی ہے کہ احسان کرنے والے کو بظاہر کوئی امید نہیں ہوتی کہ اس کے بدلہ میں اس کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا جائے گا.مگر یہ ایک ایسی خوبی ہے جسے آسمانی بادشاہت ہی ظاہر کر سکتی ہے، انسانی عقل اس سے معذور ہے.جب انسان کہتا ہے کہ میں ایسا کیوں کروں تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے بے شک تم عقل سے اس فعل کی حکمت کو نہیں سمجھ سکتے ، مگر اس کا نتیجہ تمہیں میری طرف سے ملے گا.پس جو روحانی جماعتیں ہوتی ہیں، وہ اس لئے قائم کی جاتی ہیں کہ اخلاق کے ایسے
خطبات محمود ٣٠٣ سال ۱۹۳۳ء نمونے قائم کریں جو آسمان چاہتا ہے، وہ نہیں جو فلاسفر بتاتے ہیں.جب محمد رسول الله الله نے دنیا سے یہ کہا کہ ظلم مت کرو تو اس تعلیم میں آپ منفرد نہ تھے.حتی کہ تمام انبیاء اس میں منفرد نہیں ہیں.یونان، عرب ، یورپ، ہندوستان، مصر ہر جگہ اور ہر ملک کے فلاسفر یہی کہتے آئے ہیں.لیکن جس مقام سے دونوں جُدا ہوتے ہیں وہ یہ ہے کہ رسول کریم ایں کہتے ہیں جہاں بظاہر تم اپنی تباہی سمجھتے ہو وہاں بھی خاموش رہو گے.اور یہ وہ بات ہے جو فلاسفر نہیں کہتے.فلاسفر تو عقل سے آگے کوئی چیز مانتا ہی نہیں.اس لئے یہ بات وہی کہہ سکتا ہے جس کا اللہ تعالی پر ایمان ہو.اور یہی وہ چیز ہے جس کیلئے مذہب قائم کیا جاتا ہے.اور اسے کرکے ہی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اپنا مقصد پورا کردیا.محض چند نے دینے سے ہمارا مقصد پورا نہیں ہوتا.چندے دینے میں دوسرے لوگ ہم سے بہت زیادہ قربانی کرتے ہیں.ہماری جماعت میں کتنے لوگ ہیں جنہوں نے دین کیلئے اپنی جائدادیں وقف کی ہوں.لیکن یورپ میں لاکھوں اوقاف ہیں.کئی بار ہم نے اخباروں میں پڑھا ہے کوئی شخص فوت ہوتا ہے تو اس کا ترکہ میں تمیں لاکھ کا ہوتا ہے.مگر اپنی زندگی میں اس نے جو خیرات کی اس کی میزان تمیں چالیس کروڑ تک پہنچتی ہے.پس مالی قربانی ایسی چیز ہے کہ لوگ مذہب سے باہر بھی کرتے آئے ہیں اور کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے.جس چیز سے وہ لوگ خالی ہیں وہ ایسی قربانی ہے جس کا نتیجہ دنیا میں کوئی نہیں نظر آتا.جس میں بظاہر تباہی نظر آتی ہے مگر مومن سمجھتا ہے کہ گو دنیا میں وہ ایک بظاہر بے فائدہ فعل کر رہا ہے لیکن ایک آسمانی بادشاہت ہے جو اس کا نتیجہ پیدا کرے گی.اور یہی وہ چیز ہے جسے قائم کرنے کیلئے ہم کھڑے کئے گئے ہیں.اس کی بجائے ہم اگر سطحی باتوں کو دیکھیں تو خدا کو خوش نہیں کرسکتے.اسی لئے میں نے بارہا یہ نصیحت کی ہے کہ مؤمن کا مظلوم ہونا اس کے ظالم بلکہ عادل ہونے سے بھی بہتر ہے.اس لئے قطع نظر اس سے کہ یہ واقعہ کیا ہے اور محض یہ فرض کرتے ہوئے کہ ہمارے کسی آدمی کی غلطی ہوگی، میں اعلیٰ افسروں کو کہ وہ جماعت کی تربیت کے ذمہ دار ہیں اور مقامی سینگ مینز ایسوسی ایشن (YOUNG MENS ASSOCIATION) کو کہ اس نے اپنی خوشی سے اس کیلئے تعاون شروع کیا ہے اور طوعاً ایک فرض اپنے ذمہ لیا ہے توجہ دلاتا ہوں کہ مذہبی اور اخلاقی حفاظت جسمانی حفاظت سے بھی زیادہ ضروری ہے.رسول کریم الله کے واقعات زندگی کو دیکھو.ان کا مطالعہ کر کے ہر شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ سب سے زیادہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء اثر ان ایام کے واقعات کا ہے جب آپ تکالیف اٹھا رہے تھے.آپ کی مکی زندگی پر دشمن بھی آنکھیں بند کرلیتے ہیں.مگر مدنی زندگی پر کہ جب کچھ شان و شوکت اور طاقت آگئی تھی، اعتراض شروع کر دیتے ہیں.حالانکہ وہ بھی ویسی ہی پاک ہے جیسے مکی زندگی مگر اس کے دیکھنے کی کیلئے ایمان کی آنکھ ضروری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت کو یہی تعلیم دی ہے کہ وہ ہر حال میں صبر سے کام لے.یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ دوسرے نے اشتعال دلایا اور ابتداء کی.چاہیے کہ ہمارے اعمال ایسے پاک ہوں کہ سوائے اس کے کہ دشمن سراسر جھوٹ بولے اسے اعتراض یا حرف گیری کا کوئی بہانہ نہ ملے.بعض لوگ فریب سے جھوٹ بنالیتے ہیں.یہ علیحدہ بات ہے اور اس کا کسی کے پاس کوئی علاج نہیں.لیکن ہماری طرف سے کوئی ادنی موقع بھی دوسروں کیلئے اعتراض کا نہیں ہونا چاہیئے.ہاں جب حقیقی نقصان ہو رہا ہو اس وقت ہر مومن سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی عزت ، مال اولاد دوست رشته دار وطن غرضیکہ کسی چیز کی پرواہ نہ کرے بلکہ صرف یہ مد نظر رکھے کہ یا تو اس دنیا میں اللہ تعالی اسے فتح دے یا پھر اخروی زندگی میں.غرض شکست کا نام تک بھی ہم نہ سنیں.لیکن عارضی چیزوں کو انسان کو خوامخواہ ایسے مقام پر کھڑا نہیں کرنا چاہیے جو اعتراض کا موجب ہوں.میرے نزدیک یہ نہایت ہی ذلیل کی بات ہے کہ کوئی دشمن اگر یہاں آتا ہے تو بعض لوگ گھبرا جاتے ہیں کہ کوئی شرارت نہ پیدا کرے.مگر وہ کیوں کوشش نہیں کرتے کہ وہ بھی احمدی ہو جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام اسد اللہ رکھا گیا ہے.اور اس میں کوئی شک نہیں کہ شیر کا بچہ شیر ہی ہوا کرتا ہے ، گیڈر نہیں.پھر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ جب آپ کو اسد اللہ کہا گیا تو یہ نہیں کہ آپ کو نَعُوذُ باللہ کوئی پنجے دیئے گئے تھے بلکہ آپ جس چیز سے دشمنوں کو مغلوب کرتے تھے وہ دلائل تھے.گویا آپ دلائل کے شیر تھے.اگر کوئی تمہاری کچھار میں آتا ہے تو کیوں اسے دلائل سے قائل نہیں کرلیتے.کیا کوئی شیر کے غار میں جاکر بچ سکتا؟ سکتا ہے.پس جس قسم کے تم شیر ہو اور جو ہتھیار تمہیں دئے گئے ہیں، ان کا شکار یہاں آنے والے دشمن کو بناؤ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہتھیار کیا تھے.آپ دلائل اور دعاؤں کے شیر تھے.اور آپ انہی چیزوں سے حملے کرتے تھے.اور تم میں سے ہر ایک جو پیدائشی احمدی نہیں، وہ پہلے ان ہی حملوں کا شکار ہوا تھا.حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق جو
خطبات محمود ۳۰۵ سال ۱۹۳۳ء آتا ہے کہ آپ مُردے زندہ کرتے تھے.اس کا یہی مطلب ہے کہ وہ بھی اس قسم کے شیر تھے.پہلے وہ مارتے تھے پھر زندہ کرتے تھے یعنی نئی زندگی عطا کرتے تھے.پس گھبرانے کی کیا بات ہے.وہ خدا جس نے پچیس سال قبل افغانستان میں انقلاب کی خبر دی تھی.جس نے بتایا تھا کہ وہاں ہمارے بھائی اس طرح مارے جائیں گے.اور پھر ظلم کا انجام بھی بتادیا تھا، وہ اب بھی موجود ہے.افغانستان کے متعلق بتائے ہوئے واقعات کے پورا کرنے میں کیا تمہارا کوئی دخل ہے.کیا تم میں سے کوئی ہے جس نے اس کیلئے کوئی کام کیا ہو.امان اللہ خان کو تباہ کرنے میں مدد دی یا نادرشاہ کی امداد کی یا اس مصیبت کو وارد کیا جس کی ظلم کے نتیجہ میں پیدا ہونے کی خبر پیش از وقت دی گئی تھی.پس سوچو کہ جس خدا نے افغانستان کے تخت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق اُلٹ دیا کیا تم سمجھتے ہو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تخت گاہ کا وہ خدا نہیں کہ یہاں احراری آئیں اور تمہارے اندر کسی قسم کی گھبراہٹ پیدا ہو.یاد رکھو احراری تو کیا خواہ دنیا کے بادشاہ بھی مخالفانہ ارادوں سے یہاں آئیں، رنے کی کوئی بات نہیں.یہ مانا کہ وہ ہم کو مار سکیں گے مگر خود بھی زندہ نہیں رہ سکتے.پھر کوئی اور قوم پیدا ہوگی جس کے ہاتھ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جھنڈا ہوگا.وہ ہمیں مار سکتے ہیں مگر اس جھنڈے کو نیچے نہیں کر سکتے.احراریوں کی تو کیا حیثیت ہے کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ خواہ سب دنیا کے بادشاہ کھڑے ہو جائیں تب بھی وہ اس جھنڈے کو نہیں جھکا سکتے.پس تم اپنے کسی دشمن سے مت گھبراؤ کیونکہ تمہارے پاس وہ طاقت ہے جس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا.بلی اور چوہا کا باہم کتنا بیر ہے.مگر وہ بھی اس کے متعلق وسعت قلبی سے کام لیتی ہے.کیونکہ وہ جانتی ہے کہ میرے جھپٹے کی مار ہے.تمہارے ہاتھوں میں وہ طاقت نہیں جو دعاؤں میں ہے.اور اگر تم دعاؤں سے کام لو تو ہاتھوں کی طاقت کی ضرورت ہی نہیں رہے گی.اِلَّا مَا شَاءَ اللہ کہ خدا کا یہی منشاء ہو.لیکن اس صورت میں اَلْاِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِہ سے پر عمل ہوگا.پس جماعت کے ذمہ دار لوگوں کا فرض ہے کہ جماعت کی اخلاقی حالت کا خیال رکھیں.یہ کہنا صحیح نہیں کہ کوئی نوجوان تھا.جس کی طرف فلاں غلطی منسوب کی گئی، نوجوانوں کے بھی ہم ذمہ دار ہیں.قرآن شریف میں آتا ہے.قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا ہے.پس اگر ہم میں سے کوئی قابلِ اعتراض حرکت کرے خواہ لاعلمی سے ہی کرے تو بھی ہم اس کی.
خطبات محمود ۳۰۶ سال ۱۹۳۳ء ندامت سے نہیں بچ سکتے کیونکہ یہ ہماری ماضی کی کوتاہیوں کا نتیجہ ہوگا.پس میں صد را منجمن احمد یہ لوکل کمیٹی اور بینگ مینز ایسوسی ایشن کو ان کی ذمہ داری کی طرف متوجہ کرتا ہوں.جماعت کو روحانی اور اخلاقی طریق پر چلانا ان کے ذمہ ہے.ہمارے ہاتھ میں خدا تعالی نے ایسی چیز دی ہے کہ گویا پرانے زمانہ کی کہانیوں میں بیان کردہ واقعات کو سچ کر دکھایا ہے.اور وہ آج ہمارے لئے صداقتیں ہیں.کہانیوں میں آتا ہے کہ کوئی دیو کسی پر مہربان ہو گیا اور اسے اپنے بال دے کر کہا کہ اگر تمہیں کوئی مشکل در پیش ہو تو انہیں گرمی پہنچانا ہم آجائیں گے لیکن یہ سب جھوٹی باتیں ہیں.دیو بھی جھوٹ بال بھی جھوٹ اور اس کا آنا بھی جھوٹ تھا.لیکن کیا اس ہستی کے آموجود ہونے میں کوئی شبہ ہے.جس نے خود بتایا ہے کہ.وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنّى قَرِيبُ أجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوالى و وَالْيَؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ لے.ایک طاقتور ہستی ایسی ہے کہ اس سے صرف سوال کی ضرورت ہے.صرف یہ کہنے کی دیر ہے کہ حضور آجائیے اور وہ کہتا ہے میں آجاتا ہوں.پس اگر کوئی ایسی مشکل ہو جسے ہم اخلاقی اور قانونی طور پر دور نہیں کر سکتے تو خدا تعالیٰ سے دعائیں کرو.حضرت نظام الدین اولیاء کے متعلق لکھا ہے کہ ان کے زمانہ میں ایک بادشاہ ان کا مخالف ہو گیا.وہ کسی کام کیلئے باہر جارہا تھا.اس نے کہا ہم واپس آکر سزا دیں گے.جب اس کی واپسی شروع ہوئی تو آپ کے عقیدت مندوں میں گھبراہٹ پیدا ہونے لگی.اور انہوں نے آپ سے عرض کیا کہ حضور امراء وغیرہ سے سفارش کرائیں تا بادشاہ کا عتاب دور ہو.مگر آپ ہر بار یہی کہتے کہ خیر دیکھا جائے گا.ہنوز دلی دور است حتی کہ بادشاہ شہر کے پاس پہنچ گیا.اور اسلامی بادشاہوں کے طریق کے مطابق شہر سے باہر رات رہا.صبح شہر میں داخل ہونے والا تھا.رات کو بھی آپ کے مریدوں نے کہا کہ کچھ انتظام کیجئے مگر پھر بھی آپ نے یہی جواب دیا کہ ہنوز دلی دور است- جب صبح ہوئی تو بجائے بادشاہ کے شہر میں ورود کے اس کی موت کی خبر پہنچی ہے.ہم جس خدا پر ایمان رکھتے ہیں وہ عجیب طاقتوں کا مالک ہے.مجھے تو شرم آتی ہے کہ ایسے لوگوں کے متعلق میں کیا خطبہ پڑھوں ان کی ہستی ہی کیا ہے کہ ان کا ذکر کیا جائے.اگر ہمارا خدا سے تعلق ہو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء پس اس کو محفوظ رکھو.اور پھر تمہاری سوئی بھی ضائع نہیں ہو سکتی.چہ جائیکہ تمہیں کوئی نقصان پہنچا سکے.کیونکہ سوئی بلکہ بوٹ کا تسمہ بھی ”سب کچھ “ میں شامل ہے.پس چاہیے کہ تقویٰ کو قائم کرو.میں ہر ذمہ دار طبقہ کو خواہ وہ صدر انجمن احمدیہ ہو یا لوکل کمیٹی یا ینگ مینز ایسوسی ایشن نصیحت کرتا ہوں کہ ہمارے افعال کی بنیاد تقویٰ پر ہونی چاہیے.چھوٹوں کی غلطی کی وجہ سے بڑوں کو ندامت اٹھانی پڑتی ہے.اگر وہ کہیں کہ ہمیں علم نہیں تو اس کے معنے یہ ہیں کہ اپنے افراد پر ذمہ دار لوگوں کا اقتدار نہیں.اگر علم ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ خود بھی شامل ہیں.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بھی تیز طبیعت کے لوگ ہوتے تھے.حضرت خالد بن ولید فتح مکہ کے وقت نو مسلم اور پھر جوشیلی طبیعت رکھتے تھے.آپ نے مکہ میں تلوار چلائی.آج تک لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے اشارہ سے ہی ایسا کیا ہو گا.تیرہ سوسال تک اولیاء اللہ اس اعتراض کے دفعیہ میں لگے ہیں.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس کے جواب میں وقت صرف کیا ہے.حالا نکہ محمد رسول اللہ اللہ کو اس کا علم تک نہ تھا.ایک جوشیلے نو مسلم نے ایک حرکت کی جس کا جواب تیرہ سوسال سے دیا جا رہا ہے.پس جن باتوں سے پہلے لوگ گزر چکے ہیں اور جن الزامات کو دور کرنے کیلئے ایک لمبا وقت صرف کیا جاچکا ہے تو کیا ہی عجیب بات ہوگی کہ جب لوگ ان باتوں کو چھوڑ دیں اور جب ثابت ہو جائے.کہ رسول کریم کا ایسی باتوں.کوئی تعلق نہ تھا بلکہ آپ اس بات پر ناراض ہوئے تھے تو نیا جھگڑا شروع ہو جائے کہ اچھا تم کیوں ایسا کرتے ہو.اور پھر ہماری اولادوں کو ہم پر سے یہ اعتراض دور کرنے کیلئے وقت خرچ کرنا پڑے اور جب ہم پر سے یہ دور ہو جائے تو آئندہ آنے والے مامور کی جماعت پر یہ ہونے لگ جائے.اور پھر ان کی اولادیں ان پر سے دور کرنے میں لگی رہیں.اس لئے جوشیلے نوجوانوں کا قابو میں رکھنا بھی فرض ہے.جھوٹ تو سب کے متعلق بولا جاسکتا ہے حتی کہ رسول کریم ﷺ کی مظلومیت کو بھی متعصب لوگوں نے ظلم قرار دے دیا ہے.غرض اگر کوئی جھوٹ پر کمر باندھ لیتا ہے تو اس کا کوئی علاج کسی کے پاس نہیں.مگر اپنی طرف سے ایسا نہیں دینا چاہیے کہ ہمارا سچ مشتبہ ہو اور بہترین چیز تو یہ کہ تم اس چیز کو رہنے ہی کیوں دیتے ہو جس سے اعتراضات پیدا ہوتے ہیں.کیوں معترضین کو بھی اپنے ساتھ صداقت میں شامل نہیں کرلیتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کے بعد ہم نے کتنے
خطبات محمود ۳۰۸ سال ۱۹۳۳ء نہیں نشانات آپ کی صداقت کے دیکھے ہیں.جنگ عظیم، انفلوئنزا انقلاب افغانستان، تائی صاحبہ کا احمدیت میں داخل ہونا ہمارے بڑے بھائی کا احمدی ہونا اور اس طرح تین کا چار کرنا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے بعد تو آپ کے ہاں لڑکا پیدا نہ ہو سکتا تھا.اس لئے یہ الہام اسی رنگ میں پورا ہو سکتا تھا.غرض اتنے نشانات ہیں کہ ایک منٹ کیلئے بھی اس میں شبہ ہو سکتا کہ یہ سلسلہ بندوں کا محتاج نہیں اور ان میں سے بھی نوجوانوں اور پھر ان میں نفس پر قابو نہ رکھ سکنے والے نوجوانوں کا.یہ خدا کا کام ہے.پس اس طریق سے چلو جو اس نے بتایا ہے.یعنی وَ اسْتَعِيْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة سے صبر سے ظلم کو برداشت کرو اور دعاؤں میں لگے رہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام ہے.لَا تُبقى لَكَ مِنَ الْمُخْزِيَاتِ ذِكرات یعنی تجھے ذلیل کرنے والی چیزیں ہم باقی نہیں رہنے دیں گے.اور جب اس قدر الہامات کا پورا ہونا ہم دیکھ چکے ہیں تو اس کی صداقت میں کس طرح شبہ کر سکتے ہیں.اگر احرار کی کارروائیاں آپ کی سبکی کا موجب ہو سکتی ہیں تو یہ یقینی امر ہے کہ وہ باقی نہیں رہ سکتے.خواہ تباہ ہو جائیں اور خواہ احمدی ہو جائیں.پس یہ بات تو ہو کر رہے گی.جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بدنامی کا موجب بنے ہیں وہ یقینا تباہ ہو جائیں گے.خواہ آسمانی حملوں سے ہوں خواہ زمینی حملوں سے.دنیا میں بادشاہ مل کر بھی ان کی عزت قائم نہیں کرسکتے.لئے گھبراہٹ کا طریق اختیار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں.کوشش کرو کہ یہ لوگ اس اللہ تعالی کی تلوار سے مارے جانے کی بجائے اس کے رحم کے مستحق بنیں.- صلح حدیبیہ کے موقع پر ایک عرب سردار جو بہت محسن آدمی تھا، رسول کریم اے کی داڑھی کو ہاتھ میں لیکر مشفقانہ انداز میں کہہ رہا تھا کہ دیکھو بچہ.اس پر ایک صحابی نے اس کے ہاتھ کو جھٹکا دیا کہ پیچھے ہٹاؤ.اس نے اس کی طرف دیکھا اور کہا تمہیں یاد ہے تم فلاں وقت میں مصیبت میں تھے اور میں نے تم پر احسان کیا تھا.اس پر وہ صحابی پیچھے ہے اور صحابہ کا جو اس وقت موجود تھے.بیان ہے کہ ہم سب نے محسوس کیا کہ ہم سب اس کے زیر احسان ہیں.اس پر اس نے پھر ہاتھ بڑھایا تو حضرت ابو بکر نے اسے ہٹایا.اس نے آپ کی طرف دیکھا اور کہا ہاں تم پر میرا کوئی احسان نہیں ہے.حضرت ابوبکر جانتے تھے کہ باقی اس کے احسان کے نیچے ہیں اس لئے کوئی اسے روک نہیں سکے گا.تو جب کافر کے احسان سے آنکھ اوپر نہیں اٹھ سکتی تو خدا کے احسان کے بعد انسان کس طرح سر کشی کر سکتا ہے.پس
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء کوشش کرو ان لوگوں کو زیر احسان بناؤ.انہیں اپنے دلائل کا شکار کرو.اور کسی قسم کی گھبراہٹ کا اظہار نہ کرو کیونکہ فتح بہر حال ہمارے لئے مقدر ہے.دوسری چیز جلسہ سالانہ ہے.اس کے متعلق اختصار کے ساتھ یہ کہہ دیتا ہوں کہ جلسہ کی تاریخیں قریب آرہی ہیں.اس کیلئے اول چندہ کی ضرورت ہوتی ہے.اور مجھے افسوس ہے کہ اس سال چندہ کی رفتار ست ہے.شاید دوستوں کو عادت ہو گئی ہے کہ میری طرف سے تحریک ہونے پر وہ زیادہ توجہ کرتے ہیں مگر اس سال میں نے تحریک نہیں کی کیونکہ میں اس عادت کو دور کرنا چاہتا ہوں.مجھے جس ہفتہ کی رپورٹ موصول ہوئی ہے گزشتہ سال کے اسی ہفتہ میں چندہ اس سال کی نسبت ڈیوڑھا آچکا تھا.گزشتہ سال اس ہفتہ میں بارہ ہزار آیا تھا.مگر اس سال اس ہفتہ میں آٹھ ہزار آیا ہے.حالانکہ اس سال جس طرح بجٹ بنایا گیا تھا یعنی نادہندوں کی نگرانی اور ست ت لوگوں سے بھی وصولی کا انتظام کیا گیا تھا اس کو مد نظر رکھتے ہوئے گزشتہ سالوں کی نسبت آمد زیادہ ہونی چاہیے تھی.بہر حال یہ کام ہو رہا ہے.اور تحریک جاری ہے.اور قادیان والوں نے بھی امید ہے اس میں حصہ لیا ہو گا.میرے پاس جو رپورٹ آئی ہے اس میں یہاں کی جماعت کا نام ہوگا.ان جماعتوں میں تھا جو کام کر رہی ہیں.پس جلسہ کیلئے مالی قربانی بھی ضروری ہے.لیکن قادیان والوں کیلئے اس کے علاوہ جسمانی قربانی بھی ہے.یعنی انہیں کام کرنا چاہیے اور مکانات دینے چاہئیں.مکانوں کے لحاظ سے ہمیں ہر سال دقت محسوس ہوتی ہے.اس کی وجہ ایک یہ بھی ہے کہ لوگ باہر سے اپنے رشتہ داروں یا دوستوں کو لکھ دیتے ہیں کہ مکان چاہیے اور وہ ان کیلئے انتظام کرلیتے ہیں.اور ان کے آرام کی خاطر جماعت کے آرام کو مدنظر نہیں رکھتے.اس طرح کھلی جگہیں محدود افراد سے رک جاتی ہے.اور جن کے رشتہ دار یہاں نہ ہوں ان کو مشکل ہو جاتی ہے.جن لوگوں نے اپنے رشتہ داروں کو جگہ دینی ہو انہیں بھی چاہیئے کہ وہ منتظمین کے ذریعہ دیں.اس سے انہیں یہ بھی فائدہ ہوگا کہ مہمانوں کی خدمت میں انہیں منتظمین کی طرف سے بھی مدد ملے گی.وہ کھانا پہنچائیں گے، پانی، روشنی وغیرہ کا انتظام کریں گے.ایک فائدہ اس کا یہ بھی ہوگا کہ زائد جگہ وہ دوسرے مہمانوں کو دے کر اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے.اس لئے دوستوں کو چاہیے کہ پانچ چھ روز تکلیف اٹھا کر بھی مہمانوں کیلئے جگہ کا انتظام کریں.آخر مہمان بھی تو تکلیف اٹھاتے ہی ہیں.ہمارے ہاں بھی بہت سے مہمان آتے ہیں.اور ہم ایک دو کمرے اپنے لئے رکھ کر سب مکانات ان کے واسطے خالی کر دیتے
خطبات محمود ۳۱۰ سال ۱۹۳۳ء ہیں.ہیں.اور بھی سینکڑوں گھروں میں مہمان آتے ہیں.جن کی خاطر وہ تکلیف اٹھاتے دوسرے مکانوں والوں کو بھی میں یہی نصیحت کرتا ہوں.ایک نقص یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ اپنے آرام کی خاطر کھانے کی پرچیاں زیادہ تعداد کیلئے لے لیتے ہیں تاکہ بار بار کھانا نہ لانا پڑے.اس طرح کھانا ضائع ہوتا ہے.خواہ کھانا لانے کیلئے دو پھیرے بلکہ اس سے بھی زیادہ کرنے پڑیں دوستوں کو چاہیے کہ اتنا ہی کھانا لیں کہ جو باقی نہ بچے اور ضائع نہ ہو.پھر ان لوگوں کے سوا جو کسی طرح اپنے کاروبار جلسہ کے ایام میں چھوڑ نہیں سکتے مثلا دکاندار وغیرہ باقی سب کو چاہیے کہ جلسہ کا کام کریں.بلکہ ایسے لوگ بھی کچھ نہ کچھ وقت دے سکتے ہیں.اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالٰی ان کے کام میں برکت دے گا.پھر مہمانوں کے ساتھ اخلاق سے پیش آنا چاہیئے.کھانا تقسیم کرنے والوں کو چاہیے کہ کسی سے بدسلوکی نہ کریں تا کسی کو ٹھوکر نہ لگے.یہ نہیں چاہیے کہ کوئی دوست آیا تو اسے جلد دے دیا.اور ناواقف جو گھنٹہ بھر سے کھڑا ہو اس کی پرواہ نہ کی جائے.اس سے لوگوں میں یہ خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ یہاں بھی کام دیانتداری سے نہیں ہوتا.پھر باہر کے دوستوں کو چاہیے کہ دوسرے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں اپنے ساتھ لانے کی کوشش کریں.ایسے لوگوں میں سے ہر سال خدا کے فضل سے سات آٹھ سو آدمی بیعت کر جاتے ہیں.لیکن اب کے ایک وقت ہے.یعنی رمضان جلسہ کے ایام میں ہے.ہماری جماعت کے لوگ تو جانتے ہیں کہ دینی کاموں کیلئے رمضان کے چند روزے ملتوی بھی کئے جاسکتے ہیں.لیکن دوسروں کو لانے میں یہ وقت ہوگی.یہاں آتے تو وہی ہیں جو دین سے مس رکھتے ہیں.اور وہ روزے رکھتے ہیں لیکن جو دین سے غافل ہیں وہ آتے ہی نہیں.پھر جو آئیں گے ممکن ہے دوسروں کو روزہ نہ رکھنے کی حالت میں دیکھ کر انہیں ٹھوکر لگے.انہیں کیا معلوم کہ کھانے والوں میں کون مقامی ہے اور کون بیمار یا مسافر یا معذور ہے.اور یہ ایک ایسا ابتلاء ہے جو پہلی بار ہی پیش آئے گا.اس لئے جن لوگوں کو ساتھ لانے کیلئے تیار کیا جائے چاہیے کہ ساتھ کے ساتھ انہیں ان مسائل سے بھی آگاہ کر دیا جائے.اور ابھی سے انہیں سمجھانا شروع کر دیا جائے تا یہاں آکر انہیں دقت نہ ہو..ایک حدیث ہے جو دراصل ابو سفیان کا قول تھا.اور رسول کریم ﷺ نے اس کی تصدیق کی ہے.اور اس کے معنے یہ ہیں کہ جنگ ایک ترازو کی طرح ہوتی ہے.جس کا کبھی ایک پلڑا بھاری ہوتا ہے اور کبھی دوسرا اے.اسی طرح ہماری جماعت ترقی کر رہی ہے کبھی کہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء زیادہ مگر ہمارا زور یہی ہونا چاہیے کہ ہر سال زیادہ سے زیادہ ترقی ہو.اور اگر کسی وجہ سے اس سال زیادہ لوگوں کو ہم شامل نہ کر سکے تو گو اسے اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت سمجھتے ہوئے ہم صبر کریں گے لیکن ندامت ضرور ہوگی.پس آج سے ہی اس کیلئے تیاری شروع کردیں اور ان مسائل سے ان کو آگاہ بھی کرنے لگ جائیں.تعلیم یافتہ لوگوں کا لانا نسبتاً آسان ہوتا ہے.ان کے چھٹی کے دن ہوتے ہیں.اور ان کے اندر تعصب بھی اس قدر نہیں ہوتا.ان کے طبقہ کے معززین انہیں تبلیغ کر سکتے ہیں.اور اس کیلئے ان کو جلسہ یا مشاورت کے موقع پر ساتھ لانا بہت مفید ہو سکتا ہے.مگر اس طرف ہمارے دوستوں کی توجہ بہت کم ہے.بڑے لوگ اس کام میں بہت ست ہیں.چھوٹے طبقہ کے لوگ تو اپنے ساتھ دوسروں کو لے آتے ہیں.مگر بڑے افسر یا تاجر یا زمیندار اس طرف توجہ نہیں کرتے.ہماری جماعت میں کم از کم سات آٹھ سو آدمی ایسے ہیں جو ملک میں معزز سمجھے جاتے ہیں.اور اگر وہ اپنے طبقہ کے لوگوں کو ساتھ لے آئیں تو بہت مفید ہو سکتا ہے.پس یہ بھی ایک خاص کام ہے جس کی طرف میں جماعت کے بڑے لوگوں کو متوجہ کرتا ہوں.اللہ تعالی کے نزدیک تو بڑے چھوٹے کا کوئی امتیاز نہیں جو متقی ہو وہ معزز ہے.لیکن بہر حال یہ دنیا میں ایک امتیاز قائم ہے.اور اگر کوئی شیطان کا بچہ اپنا نام عبدالرحمن رکھ لے تو بہر حال ہمیں اس کو اسی نام سے پکارنا پڑے گا.پس جو لوگ بڑے سمجھے جاتے ہیں انہیں ساتھ لاؤ تا اللہ تعالیٰ ملک کے صنادید کے قلوب کی کھڑکیاں کھولے اور انہیں دیکھ کر دوسرے لوگ بھی متوجہ ہوں.اگر کوئی نواب احمدی ہو جائے تو بے شک اس کی تمام رعایا ایمان نہیں لے آئے گی.لیکن سو دو سو تو اس کی وجہ سے ضرور احمدی ہو جائیں گے.پس ہماری جماعت کے مجسٹریٹ، تحصیل دار بعض وہ جو ڈپٹی کمشنری کے منصب پر ہیں، اگر وہ اپنے طبقہ کے لوگوں کو ساتھ لائیں تو بہت مفید ہو سکتا ہے.بڑے تاجر بڑے زمیندار ڈاکٹر وکلاء بیرسٹر سب اپنے اپنے دائرہ کے لوگوں کو لائیں تو سینکڑوں لوگ آسکتے ہیں.اور اگر وہ آدھا دن بھی جلسے میں بیٹھیں تو اچھا اثر ہو سکتا ہے.چند دوست ایسا کرتے ہیں.مثلاً چوہدری ظفر اللہ خان صاحب ضرور اپنے ساتھ لاتے ہیں اور بھی بعض دوست ہیں.مگر ان کی تعداد محدود ہے.ہاں غرباء بہت لاتے ہیں.امراء تو بعض اوقات خود بھی سستی کر دیتے ہیں.اور یہی چیز ہے جو انہیں غرباء سے پیچھے رکھتی ہے.اور غرباء اپنے آپ کو آگے بڑھالیتے ہیں رسول کریم ال نے غرباء کو روحانی ترقی کے بعض طریق بتائے.
خطبات محمود ۳۱۲ سال ۱۹۳۳۳ء امراء نے بھی ان پر عمل شروع کر دیا.غریب صحابہ نے رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ وہ بھی ایسا کرنے لگے ہیں.آپ نے فرمایا.میں خدا کے فضل کو کیسے روک سکتا ہوں اے.پس اگر امیر چاہیں تو وہ بھی آگے بڑھ سکتے ہیں.مگر وہ خود اپنے لئے رستے بند کر دیتے ہیں.اگر وہ ہمت کریں تو ہر سال جلسہ تبلیغ کے دائرہ کو وسیع کر سکتا ہے.پس ایسے لوگوں کو چاہیے کہ اپنے بھائیوں سے سبق حاصل کریں.ان کی تعداد سات آٹھ سو ہے اگر وہ ایک ایک دوست کو بھی ساتھ لائیں.اور ان میں سے سو دو سو ہی بیعت کر لے یا ان کا بغض دور ہو جائے تو تبلیغ کا دائرہ بہت وسیع ہو سکتا ہے.پس خطبہ کا یہ حصہ گو بہت مختصر ہے مگر میں نے تمام ہدایتیں دے دی ہیں.اور اصل چیز تو یہی ہے کہ یہاں کے اور باہر کے دوستوں کو چاہیے کہ اس بات کے لئے دعاؤں سے بہت کام لیں کہ کسی کو ٹھوکر نہ لگے.بہت سے لوگ جنت لینے آتے ہیں مگر دال پر لڑ کر چلے جاتے ہیں.اور پھر روزہ دار تو اور بھی چڑ چڑا ہو جاتا ہے.اس لئے نفس کو زیادہ دبانا پڑے گا.باہر کے آدمیوں کو بھی خیال رکھنا چاہیے کہ بھوکا شیر زیادہ لڑتا ہے.اس لئے اگر روزہ دار سے کوئی نامناسب حرکت بھی ہو تو در گذر کریں.گو اگر انسان اخلاص سے کام لے تو اللہ تعالی ایسی توفیق عطا کر دیتا ہے کہ بھوکا آدمی بھی پیٹ بھرے ہوئے آدمی کی طرح کام کر سکتا ہے.م الفضل ۷ دسمبر ۱۹۳۳ء) نوشیرواں: (انوشرواں) ایران کے ساسانی شہنشاہ خسرو اول کی عربی شکل.اپنے باپ قباد کی وفات پر ۵۳۱ء میں تخت نشین ہوا اور ساسانی سلطنت کی حدود کو بحیرہ ابیض اور بحیرہ اسود کے ساحلوں تک پہنچادیا اور ۴۸ سال حکومت کے بعد ۵۷۹ء میں وفات پائی (اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد ۳ صفحه ۴۹۸ دانش گاہ پنجاب لاہور ۱۹۶۷ء) ام ہم بخاری کكتاب الجهاد باب يقاتل من وراء الامام ويتقى به التحريم: البقرة: ۱۸۷ سے تذکرہ اولیائے کرام ادبستان صفحہ ۶۹
خطبات محمود البقرة : ٤٦ ۱۳ سال ۱۹۳۳ء شد تذکرہ صفحه ۵۸۰ - ایڈیشن چهارم لبخارى كتاب الشروط باب الشروط فى الجهاد والمصالحة مع اهل العرب الخ له بخارى كتاب الجهاد والسير باب ما يكره من التنازع والاختلاف في الحرب مسلم كتاب المساجد و مواضع الصلوة باب استحباب الذكر بعد الصلوة و بیان صفته
خطبات محمود ۳۱۴ ۳۳ سال ۶۱۹۳۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک رؤیا کی تشریح.نیا آسمان اور نئی زمین بنانے کا مطلب (فرموده ۸- دسمبر ۱۹۳۳ء) تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک رؤیا کا ذکر فرمایا ہے جو آپ نے اپنی الهامی زندگی کے ابتدائی ایام میں دیکھا تھا.وہ رویا اغیار کے نزدیک ہمیشہ محل اعتراض بنا رہا لیکن ہمارے لئے یہ سوچنے کی بات ہے کہ آخر اللہ تعالیٰ کو غرض کیا تھی کہ وہ ایسا رویا لالی ہے.دکھاتا جس پر اعتراض پڑتا.اور جس سے کوئی فائدہ مقصود نہ ہوتا.مگر اصل بات یہ ہے جب کسی بات کو استعارہ یا تشبیہ کے ساتھ بیان کیا جائے تو اس سے خاص فائدہ مد نظر ہوتا ہے ہے.بیشک استعارات و تشبیہات بعض دفعہ فتنہ کا موجب بھی ہو جاتی ہیں.مگر ان کا استعمال اس وقت جائز ہے جب نقصان کی نسبت فائدہ زیادہ ہو.حضرت مسیح ناصری نے جب خدا تعالیٰ کے متعلق یہ کہا کہ وہ تمہارا باپ ہے تو اس استعارہ اور تشبیہ نے بہت نقصان پہنچایا.کروڑہا انسان غلطی سے حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا تصور کرنے لگے اور کرتے ہیں.ان لوگوں کے ایمان کی خرابی اس استعارہ کے استعمال سے ہی پیدا ہوئی.اللہ تعالیٰ نے اس بات کو کسی بڑے فائدہ کیلئے ہی روا رکھا.حضرت مسیح علیہ السلام سے متعلق واقعات کی ذمہ داری مسیحیوں پر ہی ہے.ہمارے لئے قابل حل وہ دقتیں ہیں جو احمدیت کے متعلق ہیں اور ان میں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ رویا ہے کہ مجھے پیدائش عالم کی قدرت دی
خطبات محمود ۳۱۵ سال ۱۹۳۳ء ہے.میں نے دیکھا کہ مجھ میں خدائی قدرتیں آگئیں اور میں نے ایک نیا آسمان اور ایک نئی زمین بنائی.مخالفین اس پر اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مرزا صاحب نے شرک کے کلمات کے اور اپنی ذات کی طرف خدائی طاقتیں منسوب کی ہیں.لیکن جو شخص سر تا پا توحید میں ڈوبا ہوا ہو اور پکار پکار کر کہہ رہا ہو کرم خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار اس کے متعلق ایک منٹ کیلئے بھی یہ خیال کرنا کہ کوئی مشرکانہ کلمہ اس کے منہ سے نکل سکتا ہے سوائے کسی بیوقوف کے اور کسی کا کام نہیں.لہذا ہمارے سامنے شرک کا تو سوال ہی نہیں سوچنا یہ ہے کہ آخر اللہ تعالٰی نے یہ رویا کیوں دکھایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس رویا کے وہ معنے نہیں کئے جو اغیار سمجھے یا جو مفہوم عام طور پر آپ کی جماعت میں سمجھا جاتا ہے.ہر احمدی کا فرض ہے کہ اس رویا کی حقیقت پر غور کرے.میرا خیال ہے اس رویا کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو اپنے فرائض کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.روزانہ عام لوگ مرتے ہیں لیکن کوئی خاص تغیر نہیں ہوتا.دنیا کی جو حالت پہلے ہوتی ہے وہی موت کے بعد رہتی ہے.کبھی مسلمانوں نے توحید کی خاطر جانیں دیں.ہر قسم کی قربانیاں کیں.اسلام کو پھیلایا.اور اس طرح دنیا میں ایک نمایاں تغیر پیدا ہو گیا.اب مسلمان قبروں کو سجدے کرتے اور مردوں سے مرادیں مانگتے ہیں، شرک میں مبتلاء ہیں.اب بھی وہی لا إله ہے لیکن اب وہ کوئی تغیر پیدا نہیں کرتا.اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے پڑھنے والے اس کا مفہوم " جانتے ان کا مسلمان ہونا برائے نام ہے.غیر مسلم تو ایک حد تک معذور ہیں کیونکہ ان کا میلان ہی شرک کی طرف ہے.لیکن وہ مسلمان جو دن میں پانچ دفعہ اقرار عبودیت کرے، نماز اور اذان میں توحید کی شہادت دے، اس کی مشرکانہ حرکات بہت زیادہ قابل مواخذہ ہیں.حضرت مسیح موعود سے پہلے بھی دنیا کی وہی حالت ہو چکی تھی جو رسول کریم ! سے پہلے تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے خداوند تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ ایک نیا آسمان اور نئی زمین بنائیں تا باہر سے آنے والا آدمی یہ سمجھے کہ یہ آسمان اور یہ زمین بالکل نئی
خطبات محمود ۳۱۶ سال ۱۹۳۳ء ہے جب کسی جگہ مکانات بن جاتے ہیں تو اس کا نقشہ بدل جاتا ہے.اسی طرح آسمان اور زمین بھی بدل کر نئے معلوم ہونے لگتے ہیں.بہت سے الہامات کو پورا کرنا نبی کی جماعت کے ذمہ ہوتا ہے.نبی جماعت کیلئے مصالحہ فراہم کرکے خود چلا جاتا ہے.اس مصالحہ سے کام لیتا جماعت کا فرض ہوتا ہے.اگر یہ رؤیا یوں ہوتا کہ ہم جماعت کو نیک اور صالح بنادیں گے تو دل پر کبھی اتنا اثر نہ ہوتا.لیکن نیا آسمان اور نئی زمین بنانے کے الفاظ دل کو ہلا دیتے ہیں.ان میں ایک آئیڈیل (IDEAL) قائم کر دیا گیا ہے.جس پر چلنا ہماری جماعت کا فرض ہے.رسول کریم کے زمانہ اور موجودہ وقت کو دیکھئے ظاہری اقرار کے لحاظ سے ہی دونوں زمانوں میں بڑا فرق نظر آتا ہے.رسول کریم ﷺ نے جب توحید کی تعلیم پیش کی تو کفار اسے بیوقوفی کی بات خیال کرتے تھے.چنانچہ قرآن کریم میں آیا ہے کہ کفار مکہ کہتے تھے اس نے تو بہت سے معبودوں کو کوٹ کر ایک بنادیا ہے گویا سب کو قیمہ کر کے ایک بت بنادیا تھا.وہ قومیں جو اس وقت نہایت مضحکہ خیز اور مجنونانہ حرکتیں کرتی تھیں، آج ظاہرہ طور پر اب ان سے انکاری ہیں.ہندو کہتے ہیں ہم بت پرست نہیں.بت کو سامنے رکھ کر خدا کا تصور کرتے ہیں.عیسائی کہتے ہیں خدا کا ظہور بیٹے اور روح القدس کی صورت میں ہوا در حقیقت خدا ایک ہی ہے.یہی نہیں بلکہ کہتے ہیں کہ صحیح وحدانیت عیسائیت میں ہی ہے.کبھی وہ وقت تھا کہ اقوامِ عالم کے نزدیک توحید ایک ناقابل تسلیم مسئلہ تھا.لیکن آج اسے اتنا فروغ حاصل ہو چکا ہے کہ اسے معمولی بات سمجھا جاتا ہے.اور ہر قوم مدعی ہے کہ ہم نے ہی دراصل توحید کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے.پھر تمدن میں اس ظاہری اقرار کو دیکھئے حضور سرور کائنات سے عورتوں کو کہیں مساوی حقوق حاصل نہیں تھے.اور اگر عورت کو کچھ حقوق حاصل تھے بھی تو وہ نہایت مضحکہ خیز تھے جیسے مرد و عورت کی پوجا.وہ مذاہب جن میں یہ باتیں ابھی رائج ہیں وہ اپنے عقائد کو چھپاتے ہیں.دوسری قومیں جنہوں نے عورتوں کے حقوق رسول کریم سے سیکھے وہ کہہ رہی ہیں کہ یہ تو ہمارے عقائد میں داخل تھے.میں نے عیسائی کتابوں میں پڑھا ہے کہ اسلام میں عورت کی روح تسلیم نہیں کی گئی.صرف انجیل ہی ایسی کتاب ہے جس میں عورت کی روح کو تسلیم کیا گیا ہے.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن میں خود مسیح ناصری کی والدہ حضرت مریم کی عزت قائم کی گئی ہے.ظاہری اقرار کے اعتبار سے عورتوں کا آج اور پہلے کا نقشہ دیکھ لو.پہلے مرد عورت کو ستاتا تھا، مارتا تھا، پیٹتا تھا اور سمجھتا تھا کہ اس پہلے
خطبات محمود سال ۱۹۳۳ء کی مار پیٹ جائز ہے.آج بھی بدستور سابق مرد عورت کو ستاتا اور پیٹتا ہے.یورپ میں بھی ایسا ہوتا ہے.لیکن اب مرد کہتا یہ ہے کہ عورت کو ستانا اور پیٹنا جائز نہیں.عمل وہی ہے لیکن ظاہری اقرار یکسر بدل گیا ہے.اسلام نے ایسا تغیر پیدا کیا کہ غیروں میں بھی اس تغیر کا ظہور ہوکر رہا.صوفیاء لَوْلاكَ لَمَا خَلَقْتُ الْأَفَلاكَ کثرت سے پڑھا کرتے ہیں.اس کا بھی یہی مطلب ہے کہ ایک نیا آسمان اور نئی زمین پیدا ہو گئی.مگر اس الہام کا یہ مطلب نہیں کہ صرف رسول کریم اس نے ہی نیا آسمان اور نئی زمین پیدا کی بلکہ اوروں سے بھی ایسا ہی ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی نیا آسمان اور نئی زمین بنائی.افلاک سے مراد وہ افلاک نہیں ہے جو رسول کریم لال کے بعد پیدا ہوئے تھے.پہلے افلاک کا محور نفس ناطقہ تھا.مقصود رسول کریم کی ذات تھی.لیکن اب آئندہ پیدا ہونے والے افلاک کا محور آپ کی ذات ہے یعنی آئندہ تغیرات کیلئے آپ محور ہیں.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رویا دیکھا کہ آپ نے نیا آسمان اور نئی زمین بناتی ہے یعنی دنیا میں تغیر پیدا کر دیا ہے.اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ایک نیا آسمان اور نئی زمین پیدا کردیں؟ کیا ہمارے نفسوں میں اتنا تغیر پیدا ہو گیا ہے کہ لوگ کہہ اُٹھیں کہ یہ تو بالکل بدل گئے.انہوں نے نیا آسمان اور نئی زمین بنا ڈالی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دو قسم کے نشانات ہیں.ایک تو وہ جن کو پورا کرنا خدا کا کام ہے.دوسرے وہ جن کے پورا ہونے میں ہمارا بھی دخل ہے.ان کے متعلق ہمیں پوری پوری کوشش سے کام لینا چاہیئے.کئی علوم ایسے ہوتے ہیں جن کو نبی ہی سمجھ سکتا ہے.اگر ایسا نہ ہو تو نبی کی ضرورت ہی کیوں ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تیرہ سو سال بعد کئی ایسی باتیں بتائیں جو پہلے موجود تو تھیں مگر مسلمانوں کو ان کا علم نہیں تھا.مثلاً آپ نے بتایا کہ تمام مذاہب کی بنیاد صداقت پر ہے.وہ پیشوا جن کے لاکھوں اور کروڑوں پیرو ہوں اور ایک طویل عرصہ وہ پیرو ان سے ہدایت حاصل کرتے رہے ہیں ان کے پاس ضرور صداقت تھی.یہ علیحدہ بات ہے کہ بعد میں ان کی اصل تعلیم میں تحریف ہو گئی لیکن اس میں کسی کو کلام نہیں کہ اس کی بنیاد صداقت پر تھی.رام کرشن ، زرتشت، بدھ تمام اپنے اپنے زمانہ میں صداقت کے حامل تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پہلے بڑے بڑے بزرگ بھی دوسری قوموں کے بزرگوں کو اگر بُرا نہیں.سمجھتے تھے تو انہیں مشتبہ نگاہوں سے ضرور دیکھتے تھے دوسری قوموں میں سے جو لوگ.
خطبات محمود A سال ۱۹۳۳ء اپنے بزرگوں کو صحیح رنگ میں مانتے ہیں دوسروں کی نسبت ان کی حالت بہتر ہے.ان کی تعلیم پر اگر عمل کیا جائے تو دنیا پرامن بن جائے اور ایک نمایاں تبدیلی نظر آئے.ایسی تعلیم کب جھوٹی ہو سکتی ہے.اس کے برعکس ان کی تعلیم سے اگر بدی پیدا ہو تو ہم کہیں گے کہ وہ شیطان کی تعلیم ہے.کیونکہ ان بزرگوں کی تعلیم شیطان کے خلاف تھی.وہ شیطان سے بچنے کی تلقین کرتے اور تجاویز بتاتے تھے.اگر وہ شیطانی تعلیم کے حامل ہوتے تو شیطان کی مخالفت نہ کرتے.کون ایسا بیوقوف ہے جو خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارے؟ ان کے حملے شیطان پر ہوتے تھے.بھلا شیطان کب شیطان پر حملہ آور ہو سکتا ہے.یہ نکتہ قرآن میں موجود تھا.مگر کسی کو اس کا علم نہیں تھا.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کرشن ہونے کا دعویٰ کیا تو مسلمانوں نے آپ پر کفر کے فتوے لگانے شروع کر دیئے مگر آج تمام مسلمان مانتے ہیں کہ تمام مذاہب کی بنیاد صداقت پر ہے.چوبیس سال کے بعد آج تعلیم یافتہ مسلمانوں کا طبقہ دیگر مذاہب والے دوستوں سے کہتا ہے کہ دیکھو ہمارا مذہب کتنا اچھا ہے کہ آپ کے بزرگوں کو بھی بزرگ کہتا ہے.حضرت مسیح ناصری کے متعلق عقیدہ تھا کہ وہ آسمان پر ہیں.اس عقیدہ کو بہت اہمیت دی جاتی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اگر اس کی تردید کی.یہ صداقت اتنی مقبول ہوئی کہ اب لوگ اس کے متعلق بھی کہتے ہیں کہ یہ عقیدہ تو تھا ہی نہیں.سو ظاہری اقرار کے لحاظ سے نیا آسمان اور نئی زمین بن چکی ہے.لیکن عملاً بھی تو نیا آسمان اور نئی زمین بنانی چاہیئے.آسمان کی پیدائش میں خدا کا ہاتھ ہے لیکن زمین ہمارے ہاتھوں میں ہے.صرف آسمان کا اچھا ہونا ہمارے لئے کافی نہیں زمین کا اچھا ہونا بھی نہایت ضروری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ایک مسلمان سو دینار کا ایک گھوڑا لایا.ایک اور مسلمان وہی گھوڑا اس نئے مالک سے خریدنے کیلئے آیا.گھوڑا اچھا تھا خریدار نے کہا میں اس گھوڑے کی قیمت دو سو دینار پیش کرتا ہوں مالک نے کہا میرے گھوڑے کی قیمت سو دینار ہے میں دو سو دینار کیسے لے سکتا ہوں.یہ کتنا بڑا تغیر تھا جو رسول کریم ﷺ نے کیا کہ آپ سے پہلے جو زمین تھی آپ نے اس کو بدل دیا.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام پہلی زمین کو بدلنے کیلئے تشریف لائے مگر اس مادی زمین کو بدلنے کیلئے نہیں بلکہ اعمال کی ایک نئی زمین پیدا کرنا مقصود تھا.خدا تعالیٰ نے چاہا کہ وہ ہمارے اعمال کو حضرت مسیح موعود
خطبات محمود ۳۱۹ سال ۱۹۳۳ء علیہ السلام کے ذریعہ پھر نیک اور ہمارے ہاتھوں سے زمین کو درست کرائے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں مصالحہ دے گئے ہیں.اس کو استعمال میں لانا ہمارا کام ہے.اب یہ ہے کہ کیا ہم واقعی یہ کام کر رہے ہیں.اگر ہم میں سے کوئی شخص معاملہ کا نہایت صاف ہے اور اس میں امتیازی حیثیت رکھتا ہے تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہاتھ بٹاتا ہے.وہ کہہ سکتا ہے کہ میں نیا ہوں کیونکہ مجھ میں اور دوسروں میں فرق ہے.یہ نشان نئی زمین ہونے کا ثبوت ہو گا.ہزا رہا افراد ہیں جن میں ایسا تغیر پیدا ہوا ہے.پنجاب کا ایک مشہور سرغنہ ڈاکو جسے ڈاکو حصہ دینے آیا کرتے تھے اس کے متعلق مجھے دوستوں نے بتایا کہ وہ کہتا ہے میں نے کوئی نشان نہیں دیکھا بلکہ میں خود نشان ہوں.حضرت مرزا صاحب نے مجھے بدل دیا ہے اور میرے لئے نئی زمین پیدا کردی ہے.رسول کریم ا نے مومن کے دل کو زمین قرار دیا ہے.اگر ہمارا نفس بدل جائے تو اس رویا پر اعتراض کرنے والوں سے ہم کہہ سکتے ہیں دیکھو ہمارا آسمان اور ہماری زمین بدل گئی ہے.کیونکہ ہم خود بدل گئے ہیں.اسی طرح محلے والوں سے کہا جاسکتا ہے دیکھو ہم میں سے کون بدلا ہے تم یا ہم.اس طرح ہر احمدی اپنے ساتھ ایک نیا آسمان اور نئی زمین لئے پھرے تو جہاں کوئی اعتراض کرے فوراً پیش کردے.اعتراض کرنے والا لاجواب ہو جائے گا.کیونکہ اعتراض کی اسی وقت تک گنجائش ہے جب تک کہ ہماری جماعت اس کی طرف توجہ نہیں کرتی.رویا میں استعارہ اور تشبیہ سے کام لیا گیا ہے اس سے جو فائدہ حاصل ہوا ہے اس کے مقابلہ میں اعتراض کی کچھ وقعت نہیں چونکہ نقصان کی نسبت فائدہ زیادہ تھا اس لئے خداوند تعالیٰ نے پرواہ نہ کی کہ مخالفین اعتراض کریں گے.اس طرح سے ایک نئی روح پیدا ہو گئی.(الفضل ۲۱ - دسمبر ۱۹۳۳ء)
خطبات محمود ۳۲۰۰ ۳۴ جماعت احمدیہ کی ترقی اور مولوی ثناء اللہ صاحب فرموده ۲۹ - و سمبر ۱۹۳۳ء) سال ۱۹۳۳ء تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- چونکہ احباب میں سے بہت سے اس گاڑی میں جانے والے ہوں گے جو ساڑھے تین بجے یہاں سے روانہ ہوتی ہے، اس لئے میں جمعہ کی نماز کے ساتھ انشاء اللہ تعالی عصر کی نماز بھی جمع کرادوں گا تا دوستوں کو جانے کیلئے وقت مل سکے.اسی طرح خطبہ بھی میں صرف چند منٹ ہی کہنا چاہتا ہوں تا دوستوں کی روانگی میں کوئی نقص واقع نہ ہو.اور یوں بھی میرے میں چونکہ تکلیف ہے اس لئے زیادہ بلند آواز سے اور زیادہ دیر تک بولنا میرے لئے مشکل ہے..گلے مضمون جس مضمون کے متعلق میں اس وقت کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں وہ ہے تو ایک اہم مو لیکن اس وقت میں اس کے متعلق صرف ایک دو مختصر باتیں ہی کہنا چاہتا ہوں.کیونکہ اس کے متعلق ہمارے سلسلہ میں کافی لٹریچر موجود ہے.اور خود میں بھی ایک کتاب میں اس مسئلہ تفصیلی بحث کرچکا ہوں.اس کے متعلق اب تحریک مجھے اس لئے ہوئی کہ گل جو میں جلسہ شمولیت کیلئے گھر سے نکلا تو اُسی وقت کے قریب ڈاک آئی تھی.اُس ڈاک میں مجھے ایک اشتہار ملا جو مولوی ثناء اللہ صاحب کا تھا.اُس میں انہوں نے افسوس ظاہر کیا تھا کہ احمدیہ جماعت کی ترقی کے راستہ میں صرف ایک ہی روک ہے اور وہ میرا وجود ہے.میں بارہا مولوی محمد علی صاحب کو بھی توجہ دلا چکا ہوں اور میاں محمود احمد صاحب کو بھی کہ وہ اس میں
خطبات محمود ۳۲۱ سال ۱۹۳۳ روک کو دور کرنے کی طرف توجہ کریں اور جماعت احمدیہ کے ماتھے پر جو یہ داغ لگا ہوا ہے اسے مٹائیں مگر باوجود اس کے کہ میں بار بار انہیں توجہ دلانے کی کوشش کرتا رہا ہوں، انہوں نے اس داغ کو مٹایا نہیں.اور نہ سلسلہ احمدیہ کی ترقی میں جو روک واقع ہو رہی ہے اسے دور کیا ہے.میرا منشاء تھا کہ میں دو چار منٹ میں جلسہ سالانہ میں تقریر کے موقع پر اس امر کے متعلق بھی کچھ بیان کردوں گا.لیکن یہ دیکھتے ہوئے کہ اصلی مضمون ادھورا رہ جائے گا.یہ اور اس طرح کے کئی دوسرے نوٹ نظر انداز کر دیئے.آج جمعہ کیلئے آتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ پانچ سات منٹ میں میں اس کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کردوں تا مولوی ثناء اللہ صاحب کو شکوہ نہ رہ جائے.اور وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ میری بات کا جواب نہیں دیا گیا.پہلی بات تو اشتہار سے یہ ظاہر ہو رہی ہے کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کو فکر ہے کہ جماعت احمدیہ کی ترقی کے راستہ میں وہ روک بن رہے ہیں.مگر مولوی صاحب کو سلسلہ کی ترقی کے متعلق جتنا فکر ہونا چاہیے وہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے.اگر واقعہ میں ان کا وجود ہمارے راستہ میں روک بنا ہوا ہوتا تو وہ بحث کی طرف آتے ہی کیوں خاموش بیٹھے رہتے.لیکن ان کا بحث کی طرف آنا بتاتا ہے کہ ان کا یہ خیال غلط ہے.مجھے ان کا یہ اشتہار پڑھ کر وہی لطیفہ یاد آگیا جو کسی نے مجازی رنگ میں جانوروں کے منہ سے بیان کیا کہتے ہیں کہ کوئی گیدڑ تھا اس نے ایک دفعہ تمام گیدڑوں کو جمع کیا.اور کہا ہم پر جو ہے.مصیبت آتی ہے وہ محض ڈم کی وجہ سے آتی ہے.جب ہم کسی جھاڑی میں چھپے ہوئے ہوں تو ڈم باہر نکلی رہتی ہے.اور یوں بھی ہمیں دُم سے پکڑا جاسکتا ہے.پس چونکہ ہم تمام گیدڑوں پر ڈم کی وجہ سے مصیبتیں اترتی ہیں اس لئے میں قومی ترقی و حفاظت کیلئے تجویز پیش کرتا ہوں کہ ہمیں اپنی ڈمیں کٹا دینی چاہئیں.نوجوان گیدڑ تو جیسے آج کل کے نوجوان کانگرس کی ہر تحریک پر نعرے لگانے شروع کر دیتے ہیں بڑے جوش سے آگے بڑھے اور انہوں نے کہا.آپ ہمارے قومی لیڈر ہیں اور آپ کی تجویز نہایت ہی مفید ہے.ہماری بھی یہی رائے ہیں کہ ہم اپنی ذمیں کٹوادیں.لیکن ایک بڑھا گیدڑ اُٹھا اور اس نے کہا جناب نے جو کچھ فرمایا وہ درست اور بجا ہے.لیکن آپ ذرا اپنی پیٹھ تو پھیریں اگر آپ کی دُم موجود ہے تو آپ کا حکم سر آنکھوں پر.لیکن اگر آپ کی ذم کئی ہوئی ہے تو آپ کی تجویز کا ایک ہی مطلب ہے اور وہ یہ کہ آپ محض اپنی ندامت کو دور کرنے کیلئے ہماری زمیں بھی کٹوانا چاہتے ہیں.بھلا کونسا
خطبات محمود ۳۲۲ سال ۱۹۳۳ معقول انسان یہ سمجھ سکتا ہے کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کو یہ فکر لگا ہوا ہے کہ سلسلہ احمدیہ کی ترقی کیوں نہیں ہوتی.صاف بات ہے کہ انہیں ہمارے نہیں بلکہ اپنے وقار کو قائم رکھنے کی فکر ہے.جس کے متعلق وہ دیکھ رہے ہیں کہ وہ روز بروز کم ہوتا جارہا ہے.اگر ان کا وجود ہمارے راستہ میں روک ہوتا تو ہمیں چاہیئے تھا کہ ہم جا جا کر انہیں چھیڑتے.لیکن ان کا وجود تو ہمارے لئے روک ہے ہی نہیں.آج کا نظارہ ہی دیکھ لو.کیا یہ مولوی ثناء اللہ صاحب کے روک بنے ہونے کا ثبوت ہے یا اس بات کا کہ وہ ہماری ترقی کے راستہ میں ذرہ بھر بھی رُکاوٹ کا موجب نہیں.اسی سال کے جلسہ سالانہ پر بیعت اس وقت تک ساڑھے چھ سو سے زائد ہوچکی ہے.جس میں مجسٹریٹ دوسرے سرکاری افسر گریجویٹ اور بڑے بڑے زمینداروں کی ایک معقول تعداد شامل ہے اور ابھی بہت سے لوگ قادیان میں موجود ہیں.تعجب نہیں کہ بیعت کرنے والوں کی تعداد سات سو سے اوپر ہو جائے.پس جبکہ ہمیں ہر روز خدا تعالیٰ کے فضل سے ترقی حاصل ہو رہی ہے تو ہم کیونکر یہ تسلیم کرسکتے ہیں کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کا وجود ہمارے راستہ میں روک بنا ہوا ہے.روک تب ہوتا اگر ہماری تعداد دس ہزار تھی تو ہم تو ہزار رہ جاتے.تب ہمیں فکر ہوتا کہ ہمارے راستہ میں مولوی ثناء اللہ صاحب کی وجہ سے جو روک واقع ہے، اسے دور کرنا چاہیے.لیکن ہمیں تو کوئی فکر نہیں.اور مولوی ثناء اللہ صاحب اشتہار پر اشتہار شائع کر رہے ہیں کہ میری وجہ سے جماعت احمدیہ کی ترقی میں روک واقع ہو رہی ہے، اسے دور کرو.دراصل ان اشتہاروں سے مولوی شاء اللہ صاحب کا مقصد یہ ہے کہ وہ لوگوں پر یہ ظاہر کریں کہ جماعت احمدیہ کی ترقی کے راستہ میں جتنا میرا وجود روک ہے اور کوئی مخالف مولوی اتنی روک نہیں.پس یہ اشتهار ہمارے خلاف نہیں ہے بلکہ اس میں دوسرے مخالف مولویوں کی تضحیک و تذلیل کی گئی ہے اور انہیں یہ جتانا مراد ہے کہ صرف میں ہی جماعت احمدیہ کا کامیاب مخالف ہوں.تمہاری میرے مقابلہ میں حیثیت ہی کیا ہے؟ حالانکہ اگر وہ یہاں آکر دیکھیں تو انہیں معلوم ہو کہ ان کا وجود ہمارے لئے ذرہ بھر روک نہیں بلکہ ترقی کا موجب بنا ہوا ہے.پھر جو مولوی صاحب لکھتے ہیں کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعائے مباہلہ پر بحث کرنے کیلئے چیلنج دیتا رہتا ہوں لیکن مجھے مخاطب نہیں کیا جاتا.اس کی وجہ بھی میں بتادیتا ہوں.انہیں مخاطب نہ کرنے کی وجہ تو یہ ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا
خطبات محمود ، سال ۱۹۳۳ء.ہے.أَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ لو یعنی جاہلوں سے اعراض کرو.اور مولوی ثناء اللہ صاحب اپنے اخبار میں یہ اقرار کر چکے ہیں کہ وہ جاہل ہیں.اس طرح کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے جب مولوی ثناء اللہ کے متعلق دعائے مباہلہ شائع کی اور اس کے نیچے لکھا کہ :- ”میرے اس تمام مضمون کو اپنے پرچہ میں چھاپ دیں اور جو چاہیں اس کے نیچے لکھ دیں." تو مولوی صاحب نے اس کا جواب یہ دیا کہ یہ تحریر تمہاری مجھے منظور نہیں.اور نہ کوئی دانا اس کو منظور کر سکتا ہے" سے جس کا مطلب ان کے نزدیک یہ تھا کہ جاہل ہی اس دعا کو منظور کر سکتا اور اسے معیارِ صدق قرار دے سکتا ہے.مگر اب جو وہ اس کے متعلق بحث کرتے اور اسی دعا کو معیارِ صدق قرار یتے ہیں تو گویا اپنے فیصلہ کے ماتحت جاہل بنتے ہیں.اور قرآن مجید میں آتا ہے اَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ یعنی جاہلوں سے اعراض کرو.اس لئے ہم ان سے اعراض کرتے ہیں.ہمارا انہیں مخاطب نہ کرنے کا دوسرا سبب یہ ہے کہ وہ جتنی دیر زندہ ہیں، اپنے فیصلہ کے مطابق مسیلمہ کذاب بن رہے ہیں.وجہ یہ کہ اُس وقت ان کے اخبار میں یہ بھی شائع ہوا تھا کہ :- آنحضرت ا باوجود سچا نبی ہونے کے مسیلمہ کذاب سے پہلے انتقال ہوئے.مسیلمہ باوجود کاذب ہونے کے صادق سے پیچھے مرا " سے اس طرح لکھا تھا خد اتعالیٰ جھوٹے دغا باز مفسد اور نافرمان لوگوں کو لمبی عمریں دیا کرتا ہے تاکہ وہ اس مہلت میں اور بھی برے کام کرلیں." ہے.پس مولوی صاحب کا طریق فیصلہ یہ تھا کہ سچا فوت ہو جائے اور جو جھوٹا اور مسیلمہ کذاب کا بھائی ہو، وہ زندہ رہے.اس معیار کے ماتحت جب مولوی ثناء اللہ صاحب زنده ہیں تو ہمیں ان سے اس بارے میں جھگڑنے کی کیا ضرورت ہے.وہ تو جتنی دیر زندہ ہیں، اتنا ہی زیادہ اپنے آپ کو مسیلمہ کذاب ثابت کر رہے ہیں.پس ہمارے پاس ان کو اس معاملہ میں مخاطب نہ کرنے کی دو وجہیں ہیں.اول تو یہ کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طریق فیصلہ کے متعلق لکھا تھا کہ اسے کوئی دانا منظور نہیں کر سکتا.لیکن وہ اب
خطبات محمود.سیال ۱۹۳۳ء تسلیم شدہ قرار دے کر جاہل بن گئے ہیں.اور جاہل سے بولنا ہمیں منظور نہیں.دوسری وجہ یہ ہے کہ ان کی زندگی ان کے اخبار کے مسلمہ اصول کے مطابق مسیلمہ کذاب کی سی زندگی ہے اور جبکہ وہ اس زندگی میں سے گزر رہے ہیں تو ہم یہ کیوں کہیں کہ ان کی یہ زندگی چھوٹی ہو کر ان کے گناہوں کی لڑی چھوٹی ہو جائے.باقی ہمارے لئے خدا تعالیٰ کا فیصلہ کافی ہے جو ہر روز ظاہر ہو رہا ہے اور جسے ہر شخص اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ خدایا! سچے اور جھوٹے میں فیصلہ کر.ہم ہیں خدا تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہر روز ظاہر ہو رہا ہے.اور کوئی سورج ہم پر ایسا نہیں چڑھتا جس میں اللہ تعالی کے فضل سے ہمیں پہلے سے زیادہ ترقی حاصل نہ ہوتی ہو.آج تک میں نے اپنی خلافت میں ایک دن بھی ایسا نہیں دیکھا جس میں کسی نہ کسی نے بیعت نہ کی ہو.پس جبکہ ہر روز سلسلہ احمدیہ ترقی کر رہا ہے.ہر روز سلسلہ کی عظمت اور اس کی ہیبت میں اضافہ ہو رہا ہے اور جب کہ ہر روز مولوی ثناء اللہ صاحب کی عزت میں کمی آرہی ہے اور انہیں انتہار پر اشتہار دے کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ رکھنا پڑتا ہے.تو خداتعالی کا یہی فیصلہ لوگوں کو ہے بتانے کے لئے کافی ہے کہ صداقت کس طرف ہے.مولوی ثناء اللہ صاحب ہمیشہ لافیں مارتے رہتے ہیں کہ انہی کا وجود ہمارے سلسلہ کی ترقی میں روک بن رہا ہے.حالانکہ ان کی جو کچھ قدرو منزلت لوگوں کے دلوں میں ہے وہ اس سے ظاہر ہے کہ ان کے اپنے ساتھیوں نے ان پر.کفر کا فتویٰ لگا دیا.غیروں کا فتویٰ کوئی حقیقت نہیں رکھتا.اپنوں نے مولوی ثناء اللہ صاحب پر کفر کا فتویٰ لگایا.پھر اُنہیں مکہ والوں پر بڑا ناز تھا.وہاں سے بھی ان پر کفر کا فتویٰ لگ کر آیا.پھر ایک زمانہ تھا کہ وہی اکیلے اہلحدیثوں میں کرتا دھرتا مانے جاتے تھے مگر پھر وہ وقت بھی آگیا کہ انہیں گرانے اور ذلیل کرنے کے لئے ایک ریٹائرڈ پٹواری یا اسی قسم کے عہدہ کے آدمی کو جن کو علم حدیث میں کوئی خاص ملکہ بھی حاصل نہ تھا، اہلحدیث کا امیر بنا دیا گیا.یہ رُسوائی ہے جو مولوی ثناء اللہ صاحب کے حصہ میں آئی اور آ رہی ہے، اس کے مقابلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھو.جس زمانہ میں آپ فوت ہوئے.اس کا مقابلہ موجودہ زمانہ سے کرو.کتنا عظیم الشان فرق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے قریب جو جلسہ سالانہ ہوا اس میں سات سو افراد شامل ہوئے تھے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس پر اس قدر خوش ہوئے
خطبات محمود ۳۲۵ سال ۱۹۳۳ء تھے کہ آپ گھر میں آکر دیر تک اس کا ذکر کرتے رہے.اور فرمانے لگے اب تو خدا تعالیٰ کی نصرت يَدْخُلُونَ فِی دِینِ اللهِ اَفواجامے کی صورت میں ظاہر ہو رہی ہے.تو کجا یہ کہ جلسہ سالانہ پر سات سو احباب آئے تو اسے بڑی کامیابی سمجھا گیا.اور کجا یہ کہ اب ہیں ہزار کے قریب لوگ آتے ہیں.اور سات سو کے قریب نئے لوگ اس موقع پر بیعت کرتے ہیں.اور سال میں تو پانچ چھ ہزار یا زیادہ لوگ بیعت میں شامل ہوتے ہیں.یہ ترقی ہے جو حضرت سیح موعود علیہ السلام کی مولوی ثناء اللہ صاحب کے متعلق دعا کی موجودگی میں بلکہ خود مولوی ثناء اللہ صاحب کی موجودگی میں حاصل ہو رہی ہے.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کا فیصلہ ہمارے حق میں ہے.ہم ہر روز ترقی کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل یہ ترقی اب اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ سے بھی اگر ذکر ہو تو وہ یہی کہے گا کہ ہم کمزور ہیں.لوگوں کی مخالفت سے ڈر آتا ہے ورنہ ہمیں احمدیت کے قبول کرنے میں کوئی عذر نہیں.اس کے مقابلہ میں مولوی ثناء اللہ صاحب کے متعلق تعلیم یافتہ طبقہ سے سے پوچھو دلوں میں سب نفرت ہی کرتے ہوں گے گو ظاہراً کچھ عزت بھی کریں.پس جب اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہمارے حق میں ہے تو ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ ہم انہیں چھیڑیں.ہاں جب وہ خود چھیڑتے ہیں تو ہم جواب بھی دے دیتے ہیں.مجھے پہلے کبھی ان کا اشتہار نہیں ملا.اس دفعہ ملا تھا سو میں نے جواب دے دیا.لیکن اگر وہ اپنی باتوں پر مصر ہیں تو اب بھی ان کیلئے موقع ہے.اور اگر ایک ذرہ بھی ان میں تخم دیانت کا باقی ہے تو میں اعلان کرتا ہوں کہ وہ اپنے اخبار میں شائع کردیں کہ میں مرزا صاحب کو مفتری کذاب اور دجال خیال کرتا ہوں اور قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے مرزا صاحب کا شائع کیا ہوا طریق مقابلہ تسلیم کرلیا تھا اور اس کو صداقت کے پرکھنے کا معیار اُس وقت بھی سمجھتا تھا اور اب بھی سمجھتا ہوں.اور یقین رکھتا ہوں کہ مرزا صاحب میرے مقابلہ کی وجہ سے ہلاک ہوئے.اے خدا! اگر میں اس دعوئی میں جھوٹا اور کاذب ہوں تو مجھے اپنے عذاب سے ہلاک کردے.اس دعا کے شائع کرنے کے بعد اگر قریب ترین عرصہ میں وہ اللہ تعالی کی لعنت میں گرفتار نہ ہو جائیں اور خدا تعالی کی قمری تجلیات کا نشانہ نہ بن جائیں تو وہ بے شک اپنے آپ کو سچا سمجھیں لیکن یہ دعا شائع کرنے کی آج بھی ان میں جرات نہیں ہوگی.وہ بہانے بنائیں گے بچنے کیلئے کئی طریق سوچیں گے لیکن اس صاف اور سیدھے راستہ کی طرف نہیں آئیں گے کیونکہ باوجود اس کے کہ وہ اس طریق فیصلہ
خطبات محمود ۳۲۶ سال ۶۱۹۳۳ کو رد کر چکے تھے.اور اسے سچائی کے پرکھنے کا ذریعہ تعلیم نہ کرتے ہوئے بعد میں زندہ رہنے والے کو مسیلمہ کے مشابہہ قرار دیتے تھے، وہ اب اس فیصلہ کو اپنی سچائی کی علامت قرار دے کر مسیلمہ ہونے کا عملی ثبوت دے رہے ہیں.بہر حال ان کیلئے دروازہ کھلا ہے.وہ اب اعلان کردیں کہ ان کے عقیدہ میں اس وقت بھی یہ معیار درست تھا اور اب بھی درست ہے.اور ہ کہ اسی دعا کی وجہ سے مرزا صاحب فوت ہوئے ہیں.اور یہ کہ وہ مولوی صاحب کے عقیدہ کی رو سے مفتری اور کذاب تھے.اور اگر میں اس دعا میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر خدا تعالی کی لعنت کی مار پڑے.پھر اگر اس دعا کے شائع ہونے کے بعد اللہ تعالی کی گرفت سے وہ وہ بچے رہیں اور ان کی ذلت و رسوائی کے زیادہ سے زیادہ سابان نہ ہو جائیں تو وہ جتنا چاہیں خوش ہوں لیکن اگر خدا کا نشان ظاہر ہو جائے تو عظمندوں پر واضح ہو جائے گا کہ کون ہے جو خدا کے نزدیک راہ راست پر ہے.دو رخی سے کام نہیں چلتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ہے کہ ”فرشتوں کی کھینچی ہوئی تلوار تیرے آگے ہے" 1 - یہی تلوار ہے جو ہر میدان میں آپ کی جماعت کو کامیاب کر رہی ہے.یہ دو دو سطحوں کے اشتہار کیا حیثیت رکھتے ہیں.انہیں تو ایک بچہ بھی اپنی انگلی.سے پھاڑ سکتا ہے.پس اگر مولوی ثناء اللہ صاحب چاہتے ہیں کہ انہیں ان کی کھوئی ہوئی عزت پھر واپس ملے اور مسیلمہ کذاب کا نام ان سے دور ہو جائے تو اس کی ایک ہی صورت ہے.اور وہ یہ کہ وہ اپنے اخبار میں اس قسم کا اعلان کردیں.مگر وہ ایسا کبھی نہیں کریں گے.کیونکہ ان کی دیر بینہ عادت ہے کہ وہ کبھی صحیح طریق فیصلہ کو اختیار نہیں کیا کرتے.اور ہمارے مقابلہ سے ہمیشہ کنی کتراتے ہیں.اس کے بعد میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ جاتے وقت سفر میں دعائیں کریں.خواہ دوست آج جانے والے ہوں یا گل یا اس کے بعد جانے والے ہوں.بہر حال وہ دعائیں کریں.سفر میں بھی اور حضر میں بھی کہ جو نور وہ یہاں سے لے جارہے ہیں اور جو پیالہ اِس جگہ سے پی رہے ہیں، اس نور سے وہ دوسروں کو بھی مستفیض کریں.اور وہ پیالہ اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں اور دوستوں کو بھی پلائیں.پھر اپنے لئے اپنے عزیزوں رشتہ داروں اور دوستوں کیلئے دعائیں کریں.ان مبلغین کیلئے دعائیں کریں جو سلسلہ کی تبلیغ میں مصروف ہیں.ان لوگوں کیلئے دعائیں کریں جو ہمارے سلسلہ کی طرف متوجہ ہیں.اور ان لوگوں کیلئے بھی جنہیں ابھی تک توجہ نہیں تا اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی نصرت نازل ہو.اور ہم
خطبات محمود ۳۲۷ اپنی آنکھوں سے اس کے فضلوں کے کرشمے اور اس کی رحمتوں کے نظارے دیکھ لیں.الفضل ۴ - جنوری ۱۹۳۳ء) سال ۱۹۳۳ تو ه الاعراف: ۲۰۰ نے اہلحدیث (رساله) ۲۶- اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۶ کے مرقع قادیانی بابت اگست ۱۹۰۰ء صفحه 9 رسالہ اہلحدیث ۲۶ - اپریل ۱۹۰۷ء صفحه ۴ حاشیہ هه النصر: ٣ تو تذکر صفحہ ۶۲۰ - ایڈیشن چهارم
انڈیکس - آیات قرآنیہ ۲- احادیث الهامات حضرت مسیح موعود ۴ اسماء ۵ مقامات - کتابیات ۱۴
۹۴ TAY ۵۷ ۳۵ ۴۱ ۱۵۸ ۱۶۵ آیات قرآنیہ الفاتحة ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ (۴) إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (۵) ۶۲ قُلْ لَّوْ كُنتُمْ فِي..(۱۵۵) ۱۹۲ | يونس رَبَّنَا وَاتِنَا مَا وَعَدْتَنَا لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ عَلَى رُسُلِكَ..(۱۹۵) النساء 1 (10)100 الرعد البقرة اَطِيْعُوا اللَّهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيْرُ مَا وَاسْتَعِيْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ وَأُولى الْأَمْرِ مِنْكُمْ (۲۰) (۴۶) فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ (۱۴۶) أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَ تَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ (۸۶) ١٣٧ المائدة يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِكَ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ (۱۳۰) 191 فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا بِقَوْمٍ ۱۵۰ حَتَّى يُغَيرُ وا...(۱۳) 100 ۲۷۸ أَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ (۱۸) أَوَلَمْ يَرَوْ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا...(۴۲) إِنَّا هُهُنَا قَاعِدُونَ (۲۵) بنی اسراءیل وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ لكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَيَأْتِهِمْ (۲۲) جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ فَوَلٌ وَجْهَكَ (۱۵۱) شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي (۱۸۶) ۱۰ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي (۱۸۷) مَتَى نَصْرُ اللَّهِ (۲۱۵) ٨٥ الانفال الاعراف أَعْرِضْ عَنِ الْحَامِينَ (۸۲) الانبياء (۲۰۰) ۳۲۳ يَا نَارُ كُونِي بَرْداوَ سَلَامًا ۳۰۶۲۹۵ عَلَى إِبْرَاهِيمَ (۷۰) فَقَالَ لَهُمُ اللَّهُ مُوْتُوا (۲۴۴) 191 مَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ المؤمنون وَهُمْ الُوفٌ (۲۴۴) ۱۸۸ وَأَنْتَ فِيهِمْ (۳۳) ۱۳۵ فَتَبَارَكَ اللهُ اَحْسَنُ..(۱۵) لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي (۲۶۱) ۲۶۴ التّوبة النُّور أل عمران لا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا(۳۰) ۱۲۷ اللَّهُ نُورُ السَّمَوتِ..(۳۶)
۲۱۳ ۱۳۷ ۱۵۰-۲۹ ۳۲۵ رَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلاً (۵) الضُّحى أَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ (۱۳) الماعون وَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ (۵) النَّصر ۲۷۸ ۳۴ ۳۰۵ ٣٠٥ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ الله رس) الاحزاب ق فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ مَامَشنَا مِن تغوب (٣٦) (۲۴) يس يُحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ (۳۱) الفتح.۷۵ | المنافقون ۶۶ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ...(1) التحريم قُوا انْفُسَكُمْ وَ أَهْلِيكُمْ نَارًا (۷) أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ..(٣٠) ٢٧٩ المُزَّمِّل
1 الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ الْاِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ...ل ۲۸ ۳۰۵-۵۲ جائے احادیث ہر نماز کے بعد تینتیس تینتیس دفعہ سُبْحَانَ اللهِ الْحَمْدُ لِلَّهِ چونتیس دفعہ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوگا.۱۶۰ اللہ تعالیٰ کو جب اُس کا کھویا ہوا بندہ ملتا ہے تو وہ ماں سے.بھی زیادہ خوش ہوتا ہے الله اكبرُ پڑھ لیا کرو ۹۹ یہ میرے رب کا تازہ جب خدا کسی پر اپنا فضل نازل فضل ہے لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ إِلَّا الْمَوْتِ ۱۳۰ کرنا شروع کر دے تو میں اسے جب کوئی شخص ظلم کرتا ہو لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ...۳۱۷ کس طرح روک دوں ۳۱۲٬۹۹ تو اسے ظلم سے روکو مسجد میں گند نا، پیاز اور لہسن راستوں میں پاخانہ نہ پھرو ۱۸...کھا کر مت آیا کرو 10 مصیبت زده....سے جمعہ اور عیدین کے موقع پر ہمد روی کرو نہا کر آؤ 101 تکلیف دینے والی چیزیں تمہیں اللہ تعالیٰ نے سنگدل راستہ میں ہوں تو انہیں ہٹا دو مَالَا عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيْيءٍ انَا فَاعلة احادیث بالمعنى ہوتا ہے بنایا ہو گا مجھے رحمدل بنایا ہے 119 جس کسی دوست سے ملو تو ۱۲۵ | ہر شخص کا ایک گھر جنت میں خوشی اور بشاشت سے ملو ہوتا ہے اور ایک دوزخ میں ایک لقمہ بھی جو تم اپنی 119 بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو ہر ایک نیکی کے کام کا انعام ان کے منہ میں مٹی ڈالو ۱۲۱ یہ ایک نیکی ہے الگ الگ ہے لیکن رمضان اپنے گھروں کو قبرس نہ بناؤ ۱۳۹ | ہمسائے کا خیال رکھو کا انعام....میں خود ہوں ۱۰ جو شخص کسی عہدہ کا طالب ہو جب مجلس لگی ہو تو دو آدمی جتنا زیادہ کوئی شخص خدا تعالی اُسے عہدہ نہ دیا جائے ایک دوسرے سے کانوں کا پیارا ہوتا ہے اُتنا ہی زیادہ ایک انسان دوزخ کے کنارے میں باتیں نہ کریں کھڑا ہوتا ہے مگر جنت میں ابتلاء اور مصائب دیکھا ۵۳ | چلا جاتا ہے...کرتا ہے مسجدوں میں...بو دار چیزیں ۱۵۸ کھا کر نہ جاؤ صبر تو وہ ہے جو شروع میں کیا ایک شخص قیامت کے دن اس طرح باتیں نہ کرو کہ....باتیں نہ ۱۶۵ IALIA⚫ ۲۱۹ ۲۱۹ ۲۱۹ ۲۱۹ ۲۱۹ ۲۱۹ ۲۲۰٬۲۱۹ ۲۲۰ ۲۲۰
។ ۲۲۰ مرد تہجد کیلئے اُٹھے تو بیوی کو آواز بُری معلوم ہو جس پر دوام اختیار کیا جائے جب کسی مومن کی جان نکلنے جگائے بیوی خاوند کو جگائے ۲۴۸ جا اپنے بھائی عثمان کے پاس کا وقت آتا ہے تو اس سے الہی! ان پر رحم کر میری قوم اپنے بھائی کی خواہ وہ ظالم ہو عرش عظیم کانپ جاتا ہے ۲۳۴ نے مجھے پہچانا نہیں ۲۵۳ یا مظلوم مدد کرو صفیں سیدھی رکھو ورنہ تمہارے دل ٹیڑھے ہو جائیں گے جو شخص حق کے پہنچانے سے خاموش رہتا ہے وہ ۲۷۲ ۲۸۳ ۸۲۵ چھوڑ دو میں پیچھے نہیں ہٹوں گا ۲۵۴ اللہ تعالی یہود و نصاری پر جب کوئی مومن گناہ کرتا ہے لعنت کرے انہوں نے اپنے ۲۳۵ تو ایمان نکل کر اس کے سر پر نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا ۲۹۳ چھا جاتا ہے ۲۶ جہاں بظاہر تم اپنی تباہی سمجھتے انسان خدا تعالی کا قرب...ہو وہاں بھی خاموش رہو گویا شیطان اخرس ہے ۲۴۳ نوافل سے حاصل کرتا ہے ۲۶۸ رسول کریم نے مومن کے ۳۰۳ منافق....عشاء اور صبح کی نماز میں نہیں آتا ۲۴۵ سب سے اچھا کام وہ ہے دل کو زمین قرار دیا ہے ۳۱۹
الهامات حضرت مسیح موعود عربی الهامات اردو الهامات ا جِيْبُ كُلَّ دُعَائِكَ إِلَّا آگ سے ہمیں مت ڈرا آگ فِي شُرَكَائِكَ ۱۳۱۴۴۵ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے ج جَرِقُ اللَّهِ فِي ف حُلْلِ الْأَنْبِيَاءِ ۴۳ فرشتوں کی کھینچی ہوئی ل تلوار تیرے آگے ہے لَا يُقِي لَكَ مِنَ الْمُحْزِيَاتِ ذِكْراً ۱۶۱ ۳۲۶
1+ ۲۴ ۱۲۴ ۲۶۱ ۲۸۹ حبیب اللہ ڈاکٹر سید e حذیفہ حضرت حسن حضرت امام ۱۲۶ ۱۲۵ ۱۲۵۱۲۴ > آتھم ۸۹ امتہ الحی اسماء اسماء ( حرم حضرت مصلح موعود) امته العزيز آدم علیه السلام ۱۸۱٬۵۷٬۵۵ ۱۹۴ ( بنت قاضی عبدالرحیم) ابراہیم حضرت ۹۳٬۹۲٬۷۶۴۴ ۱۶۰ تا ۲۶۳٬۱۸۱۱۶۴ امیر حسین قاضی سید ایاز بڑھ حضرت برکلے 1°A°102 ۲۴۰ حسن نظامی خواجه حسین حضرت امام ۲۸۸ تا ۲۹۰ حشمت اللہ حضرت ڈاکٹر ۱۲۹۱۲۶ ۳۱۷٬۴۳ حمزه " حضرت ۸۸ خ ۳۱۷۴۳ ILA الح رض خالد بن ولید حضرت ۲۲۳ L بوڑے خان حضرت ڈاکٹر بهجدت رام ٹالٹائے ۲۳۸ تا۲۴۰ ٹیگور ز رام چندر حضرت نشاء الله مولوی ۳۲۰٬۱۹۳٬۱۹۰ تا ۳۲۶ رجب الدین میاں جارج لارڈ ج ۲۲۱ رحمت علی حضرت مولوی رستم علی حضرت ، منشی ۱۲۱۱۲۰ رشید احمد سید ذاکر جعفر : حضرت ۲۸۳ ۲۱۳ ابراہیم (حضور کا صاحبزادہ) 1792'11'99 ۱۹۸ ۱۹۷ ۱۷۸ ۱۷۷ ابن سیرین ابوبکر" حضرت ۲۸۰ تا ۳۰۸٬۲۹۴۲۹۳٬۲۸۴ ۲۹۴۱۱۳۳۳۳۲ ۲۲۴ ۲۸۴ ۲۸۰ ۲۸۰ ابو جهل ابوسفیان حضرت ابو عبیدہ حضرت ابو قحافہ احمد جان حضرت صوفی اروڑے خان حضرت منشی اسماعیل ، حضرت افتخار احمد حضرت پیر امان اللہ خان
رشید الدین خلیفه امن روشن علی حافظ ''حضرت زبیر ز ۹۲ ۳۳ نمائشہ حضرت ام المؤمنين عباس ، حضرت ۹ ۲۹۳۱۰۷۲۲۲۱ ۲۴۶ زرتشت مالیه اسلام ۳۱۷۴۶۴۳ عبدا زید بن حارثیه حضرت س ساره بیگم حضرت ' ۱۲۰ ۱۵۹ عبدالحمید خان سلطان عبدالرحمن ابن ابی بکر) ۲۸۳٬۲۸۲ ۱۲۹ عبدالرحمن بالند تحری' ماسٹر عبد الرحمن ڈاکٹر ۱۲۹ ۱۳۱۱۲۷ ۱۲۴ سلطان احمد حضرت مرزا عبدالرحمن حضرت، بھائی ۱۲۹ ش عبدالرحیم نیر حضرت عبدالرحیم حضرت، قاضی ۲۹۰٬۲۸۹ ۳۳ عبدالستار مونوی عبدالسمیع ڈاکٹر شیر علی حضرت مووی عبد الکریم سیالکوٹی b صلحه المغرب ظ ظفر اللہ خان حضرت چوہدری ظفر علی مولوی حضرت مولا تا ۳۳ عبد اللطیف شهید ۳۱۱ YA حضرت صاحبزاده عبد اللہ حضرت عبد الله فرزندی عثمان بن مطعون عطاء اللہ لیڈر میاں علی حضرت عمر، حضرت ۲۸۳ ۱۲۴ ۲۵۴۳۳ ۲۹۳٬۲۸۴۲۳ - ۲۲۵ عیسی علیہ السلام، حضرت ۴۳ ۴۹۰ ۲۵۱۲۵۰٬۱۸۱٬۹۳٬۹۶ ۳۱۸٬۳۱۴٬۳۰۴٬۲۹۵۲۷۸ ۱۲۴ غ ۱۲ غلام احمد قادیانی حضرت مرزا ۳۴۲ ۱۳۹ ۱۵۵ Car'ra'r're أن ۹۵٬۹۴٬۹۱٬۹۰٬۸۴ ۱۲۹۱۲ - ۱۲۶ ۱۲۳ ۱۲۲ ۱۲۱ ۱۲۰ ۱۵۵ ۱۴۱ ۱۴۰ ۱۳۹ ۱۳۱۱۳۰ ۱۷۳۱۷۱ ۱۷۰ ۱۶۹۱۶۱۱۵۹ ۲۸۵ عبد الله بن ابی بن سلول ۱۴۵٬۳۴ عبد اللہ چوٹی
۱۰ ۱۷۸ تا ۲۰۵٬۲۰۰٬۱۹۹٬۱۹۲۱۸۱ کمال الدین خواجہ ۲۷۲٬۲۶۸۲۶۳۲۶۲۵۴۲۵۳ ۱۰۴ ۲۱۴ ۲۱۳ ۲۱۱۲۱۰۲۰۹٬۲۰۷ ۲۶۱۲۶۰۲۵۰٬۲۳۸٬۲۳۱۲۲۳ ۲۹۶۲۲۹۴٬۲۹۲٬۲۹۱۲۸۲ ۲۰ ۳۱۴٬۳۰۸٬۳۰۷٬۳۰۵٬۳۰۳۳۰۲ ۳۱۵ ۳۱۷ ۳۲۲٬۳۱۹تا ۳۲۵٬۳۲۴ غلام احمد ڈاکٹر غلام فرید حضرت چانڑاں والے غلام محمد چوہدری فرعون ف ق قتيل گاندھی لعل دین ڈاکٹر الیکھرام ۸۹ مارٹن کلارک بنری ۲۰۰ محمد رسول الله ال ۱۹۱۲ ۱۸۸٬۳۲ ۲۳۸ ۱۲۹ ۷ ۱۳۱ حضرت خاتم الانبیاء ۱۸۱۶۱۰۷۶۵ ۳۹۳۳٬۲۸٬۲۶۲۲٬۲۰۱۹ ۲۸۰۲۷۷۲۷۶تا۲۸۸٬۲۸۵ ۳۰۸٬۳۰ ۷٬۳۰۳ ۳۰۱۲۹۹۲۲۹۰ ۳۱۶٬۳۱۵٬۳۱۲٬۳۱۱۳۱۰ تا ۳۲۳٬۳۱۹ محمد اسمعیل حضرت میر ڈاکٹر ۱۲۶ محمد حسین بٹالوی مولوی ۷۰۷ ۹۳۴۷۱ محمد صادق حضرت مفتی محمد علی مولوی محمود احمد حضرت مرزا بشیر الدین ۱۲۴ ۳۲۰ مصلح موعود ٬۵۳٬۵۲٬۴۷٬۴۶۴۴۴۴۱ محمود غزنوی ۱۰۳٬۵۴٬۵۳٬۳۳٬۱۲ ۵۵ ۵۸ ۵۹ ۶۰ ۶۳ ۶۸٬۶۶۴ مریم علیہ السلام حضرت ۳۲۰٬۲۵۴۱۷۸ ۲۴۰ ۳۱۶ ۷۷۶۹ ۷۹ ۲۹۰۸۴۸۳۰ ۱۹۳ مسیلمہ کذاب ۳۲۷۱۳۲۴٬۳۲۳ تا کچنر ارو ۲۲۱ کرشن حضرت ۴۳ تا۳۱۸٬۳۱۷٬۴۶ کرم دین بھیں کسری ۹۰ کلائیو(CLIVE) ۹۷ تا ۱۰۱ ۱۰۶ ۱۰۷ ۱۱۰ ۱۱۹ | معراج الدین عمر میاں ۱۲۳٬۳۱۱۲۰ ۱۳۵ ۱۳۷ ۱۳۸ معین الدین چشتی ۱۰۴ ۲۱۸ ۱۳۹ ۱۴۳ ۱۴۴ ۱۴۶ ۱۵۱ ۱۵۲ منظور احمد حضرت پیر ۲۸۰ ۱۵۷ تا ۱۶۰ ۱۶۴ تا ۱۶۷ ۱۷۱ موسیٰ علیہ السلام حضرت ۴۶۴۴۴۴۴۳ ۱۷۵ تا ۱۷۸ ۱۸۰ ۱۸۱ ۱۹۰ تا ۱۹۴ ۱۹۷ تا ۲۳۳٬۲۱۹٬۱۹۹ تا ۲۳۵ ٢٢١ ۲۵۱٬۲۴۹٬۲۴۷ ۲۴۶۲۴۵٬۲۴۳ ۱۸۸۱۸۱۹۳۴۹۲۶۶ ۱۹۲٬۱۸۹ تا ۲۷۷۱۹۵
۱۶۲تا۱۶۵ ۱۶۴ ۶۶ ۲۸۹ ۱۲۸ ۱۹۴ " (قدرت ثانیہ کے مظہراوں) ۸۹٬۶۸ ہاجرہ علیھا السلام حضرت نوشیرواں ۲۶۶٬۲۶٬۲۲۸۴۲۰۲ ہارون ، حضرت ۲۸۰ تا ۳۰۰٬۲۸۲ هر قل ۳۰۱ یزید یوسف حضرت یوسف علی شیخ یوشع E ۲۲۱ ۲۰۰ ۳۰۵ (NAPIER) ۱۲۹ ولنگٹن : (WELLINGTON).0 Moyria نادر خان ملک نادرشاه نائیڈوز نذیر احمد ڈاکٹر ن نظام الدین ادبیاء نوخ ، حضرت نورالدین حضرت مولانا حکیم
۲۵۴٬۲۰۰٬۹۴٬۳۳ ۱۵۳۷۲۶۴ ۵۳ ۲۵۴٬۲۵۳٬۶۹ b ۱۵۳ ۱۵۳٬۱۴۵٬۶۶٬۵۸٬۶۵ ۳۰۳٬۲۸۴٬۱۸۸۱۷۲ ۲۵۱ سرحد سیالکوٹ I' ۲۰۰ 25°21 ۱۲۵ ۲۴۷ اشام اشمله طائف عراق عرب ١٢٦ ۲۸۱ ۸۹ ۱۲ بنجار مقامات پوہلہ مہاراں جاپان جالندھر ج ۱۵۳ ۷۲ ۷۱ ۷۴۴۵۴ ۲۶۱۲۱۸٬۱۲۵ عکاظ قادیان ۷۰۴۷۴۴۱۲۱۱۰ ۹۶۷۱.۱۴۳ ۱۳۹۴۱۲۸۱۲۳ ۱۲۲ ۱۵۲۱۴۹۱۴۷۱۴۵ تا ۱۵۴ ۱۹۶۱۸۰ ۱۷۹ ۱۶۹۱۵۶ ۲۲۳٬۲۲۰٬۲۱۰۲۰۸٬۲۰۶۲۲۰۰ و ; ۱۲۵ 21 ۵۰ افریقہ افغانستان ۱۵۳۷۲۶۴٬۵۸ ۳۰۸٬۳۰۵٬۲۳۷ جاوا جرمنی امرتسر جموں امریکہ ۲۷۳ اناطولیہ ۱۵۳ انگلستان ۲۲۱۱۳۱ چاچڑاں ایران ۱۵۳۶۵ چین بٹالہ ۸۷ دہلی بمبئی ۱۲۵ ڈلہوزی.۸۹ بہاولپور پالم پور پٹھانکوٹ ۱۹۶۱۲۵ | روس رامپور ۲۰۹٬۲۰۰۱۹۶ راولپنڈی ۲۶۶۱۲۸۱۲۵ ا ۲۳۹٬۲۳۸۲۲۲
۲۰۰ ۱۳۱۸۷۶۴٬۵۵٬۵۱ ۳۰۳٬۲۸۹۱۵۳ ۱۶۶۱۵۳٬۱۳۹۱۲۶۵۲ ۳۱۷۳۰۳۲۷۳۲۲۲٬۲۱۱ ۱۳ نتگمری ۵۱۴۱۷ تا ۷۳۵۳ لاہور لنڈن ۱۳۱ ہندوستان مدائن ندیشه ۱۲۱۱۲۰٬۳۸٬۳۴۴۷٬۵ سیمن ۱۹۲۱۷۴ ۱۹۳ ۱۹۷ ۲۸۴٬۹۸ | یوپی ۳۰۳٬۱۷۰٬۱۵۳٬۷۲٬۶۴ پور ۲۸۳٬۲۸۲٬۲۴۶٬۲۴۵ یونان ۲۲۵ ۲۵۶۴۲۴۷۲۲۶ تا۲۵۹ ۲۹۱۲۷۷۲۷۴۲۷۳ ۳۲۲۳۰۹٬۲۹۹٬۲۹۳ 129127 ۲۸۹ ۶۲۳۳ I^^ کپور تھلہ کربلا کشمیر کنعان گجرات گورداسپور
اعجاز المسیح انجیل 194 ٣١٦ ۱۴ کتابیات حقیقت لکھنو (اخبار) رمین انقلاب (اخبار) ۲۳۸٬۲۳۷٬۲۳۱۴۲۳۰ در توضیح مرام ۲۸۱ , 21 ز زمیندار (اخبار) ۲۳۷٬۶۹٬۶۸٬۶۴ فتح اسلام ف ۲۸۱