Khutbat-eMahmud V13

Khutbat-eMahmud V13

خطبات محمود (جلد 13)

خطبات جمعہ ۱۹۳۱ء تا ۱۹۳۲ء
Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خطبات علوم و معارف کا ایک انمول خزانہ ہیں اور پیش گوئی کے الہامی الفاظ ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیاجائے گا‘‘ پر شاہدناطق ہیں۔ آپؓ کا دور خلافت نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے جو ایک تاریخ ساز دور تھا۔ اس نہایت کامیاب اور طویل دور میں آپؓ نے اپنے خطبات جمعہ کے ذریعہ جماعت کی تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ سیاسی، سماجی اور مذہبی افقوں پر نمودار ہونےوالے ہر معاملے پر بروقت اور درست رہنمائی عطافرمائی۔ الغرض یہ خطبات جمعہ جماعت احمدیہ کا ایک بہت ہی قیمتی خزانہ اور سرمایہ ہیں۔ جسے فاؤنڈیشن نے یکجا کرکے کتابی شکل دی ہے۔


Book Content

Page 1

(خطبات جمعہ) ۶۱۹۳۲-۱۹۳۱ فرموده سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین حمو اسم اصلح الموعود خليفة اسیح الثانی زیر اهتمام

Page 2

KHUTUBĀT-I-MAHMUD by HADRAT MIRZA BASHIR-UD-DIN MAHMUD AHMAD KHALIFATUL MASIH II Published by: Islam International Publications Ltd.Islamabad, Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU 10 2 AQ U.K.Printed by: Raqeem Press, Islamabad, Tilford, Surrey

Page 3

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ پیش لفظ اللہ تعالٰی کے فضل و احسان سے فضل عمر فاؤنڈیشن کو حضرت مصلح موعود کے خطبات جمعہ کی تیرہویں جلد احباب کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت نصیب ہوری ہے.الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ.اس جلد میں ۱۹۳۱ء ۱۹۳۲۴ء کے ۷۸ خطبات جمعہ شامل ہیں.حضرت فضل عمر سلطان البیان کے خطبات علوم و معارف کا انمول خزانہ ہیں اور پیشگوئی کے الهامی الفاظ وہ علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا" پر شاہد ناطق ہیں.حضرت مصلح موعود کا دور خلافت جو کم و بیش ۵۲ سال پر محیط ہے.ایک تاریخ ساز دور تھا.اس نہایت کامیاب طویل دور میں حضور کے خطبات نے جماعت کی علمی و روحانی ترقی اور تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا.ہمارا یہ روحانی و علمی ورثہ سلسلہ کے لٹریچر میں بکھرا پڑا تھا.اور جماعت کے دوستوں کو اس سے استفادہ کرنا مشکل تھا.فضل عمر فاؤنڈیشن اس جماعتی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ان خطبات کو کتابی شکل میں شائع کر رہی ہے.اللہ تعالی ہمیں ان خطبات سے پورے طور پر استفادہ کرنے اور جماعتی ذمہ داریوں کو احسن رنگ میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 4

L ۲۷ فهرست مضامین خطبات محمود خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده ۴ ۱۲ (خطبات جمعہ ۳۲-۱۹۳۱ء) جلد ۱۳ موضوع خطبه ۲ جنوری ۱۹۳۱ء نئے سال سے فائدہ اٹھاؤ ۹/ جنوری غیر مبائعین کے پیچھے نماز ۱۶/ جنوری دہریت اور الحاد کی رُو کو روکو ۲۳/ جنوری رمضان المبارک رسول کریم ملی کی عید ہے ۳۰/ جنوری حضرت مسیح موعود کے ایک حوالہ کی تشریح اور تبلیغی اشتہارات کے متعلق اعلان / فروری تبلیغی سرگرمیوں میں اضافہ کی ضرورت ۱۳ فروری دین اور دنیا دونوں کیلئے رمضان کی کیفیت پیدا کرو ۲۰/ فروری عید میں عید ۲۷ فروری قومی نقائص اور کمزوریاں شجر احمدیت کے پھل لانے کا وقت ۶/ مارچ قومی اصلاح کیلئے عملی کوشش ۱۳/ مارچ خلیفہ اور نظام سلسلہ کا احترام ۲۰/ مارچ ۲۷/ مارچ مسلمان غیروں کے مقابلہ میں متحد ہو جائیں ۱۴ ۱/۳ اپریل ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے ۱۵ ۱۱۰ اپریل خُذُوا حِذْرَكُمْ کے حکم الہی پر عمل کرو ۱ ۱/۲۴ پریل جماعت احمدیہ منصوری کی ذمہ داریاں ۳۵ ۴۱ ۵۴ لا ۷۴ ۸۶ ۹۴ ١٠٣ HP ۱۲۹ ۱۳۵

Page 5

صفحہ ۱۵۰ ۱۶۲ ۱۸۵ 190 ۲۰۴ ۲۰۹ ۲۱۷ ۲۲۳ ۲۳۴ ۲۳۸ ۲۴۶ ۲۵۷ ۲۶۴ ۲۶۷ ۲۷۴ ۲۷۸ ۲۸۸ ۲۹۶ ۳۰۴ J.خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده 12 ۱۸ 19 ۲۰ ۲۱ ۲۲ موضوع خطبہ ۱۵/ مئی ۱۹۳۱ء جماعت احمدیہ کا ہر فرد بیدار ہو ۲۹/ مئی.قاضی محمد علی صاحب کیوں تعریف کے مستحق ہیں جماعت احمدیہ کی چالیس سالہ جوبلی منائی جائے ۵/جون ۱۲/جون جمعہ کی رات کو ہر احمدی تہجد پڑھے ١٩/ جون بٹالہ میں جماعت احمدیہ کا کامیاب جلسہ ۲۶/ جون اپنی دوستیاں خدا تعالی کے مقرر کردہ اصول کے ماتحت رکھو ۲۳ ۳/ جولائی حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کا انتقال ۱۰۲۴ جولائی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طرز تحریر کی تقلید کرو ۲۵ ۱۷ جولائی حقیقی ایمان اور یقین نبی کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے ۲۶ ۱۷ اگست روحانی اور دنیوی مراتب اربعہ ۲۷ ۱۴ ستمبر ۲۸ ۲۹ 11 ستمبر خدا تعالی سے ملنے کی حسرت نہیں بلکہ ارادہ پیدا کرو مرمت مسجد لندن اور چندہ خاص کی تحریکیں کامل جماعت وہی ہو سکتی ہے جو ہر قسم کی قابلیتیں ظاہر کرے ۲۵ ستمبر i ۳۰ ۹/ اکتوبر مایوسی اور ناقص انکسار کبر اور خود پسندی سے بچو ۳۱ ۲۳/اکتوبر قربانی کا مطالبہ نہیں بلکہ بیج کو صحیح جگہ پر ڈالنے کا مشورہ ہے ۳۲ ۶/ نومبر سخت مخالفت کے باوجود جماعت کو آگے بڑھنا چاہئے ۳۳ ۱۳/ نومبر مسئلہ کشمیر اور جماعت احمدیہ ۲۰۳۴/ نومبر ایذا دینے والوں سے محبت اور شفقت کا سلوک کرو ۱۳۵/ دسمبر سالانہ جلسہ کی قدر و قیمت کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا ۱۸۳۶/ دسمبر مهمان نوازی کے متعلق ضروری ہدایات

Page 6

صفحہ ۳۲۳ ۳۴۳ ۳۴۸ ۳۶۲ ۳۸۰ ۳۹۴ ۳۹۸ ۴۰۲ ۴۲۲ ۴۳۲ ۴۳۷ ۴۴۷ ۴۵۱ خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده ج موضوع خطبه ۳۷ ۲۵ / دسمبر ۱۹۳۱ء مومن کی عملی زندگی اور سورۃ فاتحہ ۳۸ ۸/ جنوری ۱۹۳۲ء نظام جماعت کے احترام اور دعوت الی اللہ پر زور دینے کی تحریک ۳۹ ۱۵/ جنوری رمضان المبارک سے فائدہ اٹھاؤ ۲۲/ جنوری مسلمانان کشمیر کی مال اور دعا سے مدد کرو ۴۰ ۴۱ ۲۹/ جنوری حق دار کو اس کا حق فورا ادا کر دو ۴۲ ۵/ فروری مسلمانان کشمیر کی مدد کرو اور فتنہ و فساد سے بچو ۴۳ ۱۲ / فروری دعوت الی اللہ پر زور دو اور مخالفین کاڈر دل سے نکال دو ۱۹۴۴ / فروری کشمیر کے مظلومین کی امداد کرو ۴۵ ۲۶/ فروری امید سے ہی ہر قوم ترقی کر سکتی ہے ۴۴۶/ مارچ دینی اور دنیوی امور میں مایوسی سے بچو ۴۷ ۱۸/ مارچ تمام مخلوق ایک دوسرے سے وابستہ ہے ۴۸ ۲۵/ مارچ خدا کا فضل اپنے ساتھ تکالیف بھی رکھتا.۴۹ یکم اپریل مومن کی نگاہ ہر طرف ہونی چاہئے ۵۰ ۱/۸ اپریل اللہ تعالی کے فضلوں پر امید اور یقین رکھو ۵۱ ۱۵ / اپریل دنیا کی ترقی کامدار اور اللہ تعالیٰ کے قرب کا حصول الہام الہی پر منحصر ہے ۲۲۵۲ اپریل ہر نیکی استقلال کے ساتھ کرنی چاہئے ۵۳ ۲۹/ اپریل کامیابی کیلئے کامل اطاعت ضروری ہے ۱۳۵۴ مئی / جماعت احمدیہ کی شاندار مالی قربانی ۵۵ ۲۰/مئی ہر کام میں ہمیں دوسروں سے نمایاں غلبہ حاصل ہونا چاہئے

Page 7

صفحه ۴۶۴ ۴۷۹ ۴۹۳ ۵۱۳ ۵۱۹ ۵۲۶ ۵۳۳ ۵۴۰ ۵۵۲ ۵۶۸ ۵۷۲ ۵۷۸ ۵۸۷ ۶۰۲ ۶۰۷ ۶۱۷ ۶۲۸ ۶۳۵ ۶۴۰ خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبہ ۱۵۶ ۲۷/ مئی ۱۹۳۲ء دوسروں کی اصلاح کیلئے گداز اور سوز پیدا کرو ۳/ جون تعلیم الاسلام ہائی سکول کے قیام کا مقصد ۵۸ یکم جولائی ہر احمدی قیام امن کیلئے جد وجہد کرے ۵۹ ۸/ جولائی نوجوان اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں ۶۰ ۲۹ جولائی حقیقی بہادر بننے کی کوشش کریں = ་་ ۶۲ ۵/ اگست ۱۲/ اگست حقیقی پکار خدا کیلئے ہی ہے اذان کی حکمتیں اور نماز با جماعت کی تاکید ۱۹۶۳/ اگست قرآن کریم کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرو ۲۶۶۴/ اگست ۶۵ ۱۲ ستمبر ۶۷ 19 ستمبر ۱۶ ستمبر ، جماعت کے مخلصین سے قربانیوں کا مطالبہ ہماری ہمدردی کا دائرہ وسیع ہونا چاہئے ہر کام میں استقلال سے کام لینا چاہئے امراء اور حکام کو دعوت الی اللہ کی جائے ۲۳ ستمبر اسی دنیا میں جنت حاصل کرنے کی کوشش کرو ۷ اکتوبر ہر گھڑی میں صراط مستقیم طلب کرو ۱۴/ اکتوبر جرات اور موقع شناسی سے کام لینا چاہئے ۲۱/اکتوبر دعوت الی اللہ ۶۹ اے ง ۲ ۲۸/اکتوبر اللہ تعالی سے ہم کلام ہونے کی سعادت حاصل کرو ۲۵۷۳/ نومبر ۱۲۷۴ دسمبر جلسہ سالانہ بہت بڑی نعمت ہے خاکساری مذہب کا ایک ضروری جزو ہے ۱۹۷۵ دسمبر حقیقی نیکی کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ہے ۷۶ ۱۶/ دسمبر السّلامُ عَلَيْكُم کہنے کی تاکید ۷۷ ۲۳/ دسمبر اسلام ہی زندہ خدا پیش کرتا ہے ۷۸ ۳۰/دسمبر تم خدا اور اس کے رسول کے متاد ہو

Page 8

خطبات محمود 1 نئے سال سے فائدہ اٹھاؤ (فرموده ۲- جنوری ۱۹۳۱ء) سال تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- جلسہ کے ایام سے پہلے ہی مجھے نزلہ کی شکایت تھی مگر وہ بند تھا.کل سے یہ تکلیف بہت بڑھ گئی ہے اور میں نماز میں بھی نہیں آسکا تھا اس لئے آج میں اختصار کے ساتھ احباب کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ہمیں اللہ تعالٰی نے ایک نیا سال عطا کیا ہے اور موقع دیا ہے کہ اس سے فائدہ اٹھا ئیں.نئی جماعت کے قائم کرنے کا منشاء ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ پہلی سے بڑھ جائے جب کسی طالب علم کو آٹھویں جماعت میں ترقی دی جاتی ہے تو غرض اس سے یہی ہوتی ہے کہ وہ ساتھ میں سے بڑھ جائے اور دسویں والا نویں سے بڑھ جائے.پس اللہ تعالٰی کے اپنے سامان اور مخفی سامانوں کے مطابق ۱۹۳۰ء سے ۱۹۳۱ء بڑھا ہوا ہونا چاہئے.اس میں شبہ نہیں کہ بعض طالب علم ساتویں جماعت میں ہو کر بھی چھٹی والوں سے کمزور ہوتے ہیں مگر یہ ان کی اپنی سستی اور غفلت ہوتی ہے سکول بنانے والے اور اس کے منتظمین یہی انتظام کرتے ہیں کہ اگلی جماعت والا پچھلی جماعت کے لڑکے سے بڑھ کر ہو.پس یہ نیا سال پچھلے سال سے اپنی استعدادوں کے لحاظ سے بڑھ کر ہے ہم خواہ فائدہ اٹھائیں یا نہ اٹھا ئیں.ہاں ہم چاہیں تو اس سال میں وہ خوبیاں اپنے اندر پیدا کر سکتے ہیں جو پچھلے سال نہیں کر سکے اور چاہیں تو پچھلی بھی ضائع کر دیں کیونکہ دنیا میں ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں کہ وہ پچھلا لکھا پڑھا سب بھلا دیتے ہیں پھر بعض عمریں بھی ایسی ہوتی ہیں کہ جن میں سب کچھ بھول جاتا ہے.پس ہماری جماعت کا فرض ہے کہ ان فیوض سے پوری طرح نفع کا حاصل کرے جو اس نئے سال سے وابستہ ہیں.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے كُلَّ يَوْمِ هُوَ فِي

Page 9

خطبات محمود سال ۱۹۳۱ء شان اس یوم سے مراد دور نبوت ہی نہیں کیونکہ نبوت کا دور تکمیل کا دور ہوتا ہے.اس سے چھوٹے ایام بھی ہوتے ہیں اور ان میں سے ایک سال بھی ہے.ہر سال خدا تعالیٰ کا سلوک بندوں سے جدا گانہ ہوتا ہے اور اس کی بعض نئی صفات ظاہر ہوتی ہیں گو وہ اپنی شان میں ایسی اعلیٰ وارفع نہ ہوں جتنی انبیاء کے دور میں ہوتی ہیں مگر بہر حال تجدید اور زیادتی ضرور ہوتی ہے اور زیادتی چاہے ایک پیسہ کی ہو وہ زیادتی ہی ہے کیونکہ تھوڑا تھوڑامل کر بھی زیادہ ہو جاتا ہے.کسی نے کہا قطره قطره شود دریا معمولی معمولی منافع لینے والے تاجر بڑی دولت پیدا کر لیتے ہیں بلکہ جتنی زیادہ کسی کی تجارت وسیع ہو اتنا ہی وہ کم منافع لیتا ہے اس کے ہاتھ سے اربوں روپیہ کامال نکلتا ہے اس لئے وہ نہایت معمولی منافع سے ہی کروڑوں روپیہ کمالیتا ہے پس اگر تھوڑی سی زیادتی بھی کسی سال میں پیدا ہو تو وہ بھی مفید ہوتی ہے اور اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اللہ تعالیٰ کی ہر صفت بلکہ ہر صفت کا ہر ظہور انسان کے لئے مفید اور ضروری ہے.پس اس نئے سال میں اللہ تعالیٰ کی جس قسم کی صفات بھی ظاہر ہوں اور ان کا جو بھی ظہور ہو اور جتنی بھی اس کی مقدار ہو وہ پہلے ہمارے پاس نہیں اور ضرورت ہے بلکہ فرض ہے کہ کوشش کر کے ہم اسے حاصل کریں.شاید اسی سال کی زیادتی ہمارے وزن کو زیادہ کر دے اور ہم فَهُوَ فِي عِيْشَة راضية کے مصداق گردہ میں داخل ہو جا ئیں.اور شاید اسی کمی کی وجہ سے ہم ت وا مَا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَاتُه هَادِيَةٌ ٣ کے مصداق لوگوں میں شامل ہو جائیں.تھوڑی کمی کو پورا کرنے کے لئے بھی کوشش کی ضرورت ہے خواہ وہ تھوڑی ہی ہو اور عین ممکن ہے کہ اس خیال سے کہ یہ سال کیا نئی چیز لایا ہو گا ہم وہ خفیف کی کوشش نہ کر سکیں اور نجات سے محروم رہ جائیں.اور یہ بھی ممکن ہے کہ جو تھوڑے اوزان اس سال حاصل کر لیں ان سے نہ صرف پچھلی غلطیوں کی تلافی ہو جائے بلکہ نئے سال کے ظہور کا بھی فائدہ حاصل کیا جا سکے اور صرف نجات ہی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہو جائیں.رسول کریم و سلم نے فرمایا ہے کہ ایک شخص تمام عمر ایسے اعمال کرتا رہتا ہے کہ دوزخ کے قریب پہنچ جاتا ہے مگر مین دروازہ پر جا کر اسے ایسا جھٹکا لگتا ہے کہ وہ جنت کے قریب پہنچ جاتا ہے.اسی طرح ایک شخص ساری عمر ایسے اعمال کرتا ہے کہ جنت کے دروازہ پر پہنچ جاتا ہے مگر وہاں

Page 10

خطبات محمود سال ۱۹۳۱ء اسے یک لخت ایسا جھٹکا لگتا ہے کہ دوزخ میں جا پہنچتا ہے.پس کیا معلوم ہے کہ یہ سال ہم میں سے بعض کیلئے جنت میں پہنچا دینے والے جھٹکے کا سال ہو اس لئے اپنی معمولی غفلت سے ایسے ابدی فائدہ سے محروم نہ رہو جسکی مثال ہی نہیں مل سکتی اور جس کے متعلق رسول کریم ما الا اللہ نے فرمایا ہے.کہ لَا عَينَ رَأَتْ وَلَا أُذُنَّ سَمِعَت پس آؤ کوشش کر کے پچھلے سال کی جو کو تاہیاں ہیں انہیں دور کرین اور نئے سال کے ظہور اور اس میں خدا تعالیٰ کی تجلیوں سے فائدہ اٹھانے والے بنیں.میں اللہ تعالٰی سے دعا کرتا ہوں کہ یہ نیا سال ہماری ذاتی اور قومی ترقیوں کا موجب ہو بلکہ دوسری دنیا کی روحانی ہدایت کا بھی موجب ہو اور وہ ہدایت حاصل کر کے ہمارے ساتھ آشامل ہو.الرحمن : ٠ القارعة :٨ القارعة : ٩ ١٠٠ (الفضل ۸- جنوری ۱۹۳۱ء) ل ترمذی ابواب القدر باب ما جاء ان الاعمال بالخواتيم ه بخارى كتاب التفسير - تفسير سورة السجدة باب قوله " فلا تعلم نفس ما أخفى لهم"

Page 11

خطبات محمود 2 غیر مبالعین کے پیچھے نماز (فرموده ۹- جنوری ۱۹۳۱ء).سال ۱۹۳۱ء تشہد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.ابھی مجھے ایک رقعہ دیا گیا ہے اور خواہش کی گئی ہے کہ اس میں جو سوال تحریر ہے اس کے متعلق کچھ بیان کروں کو مقدم تو وہی مضمون ہوتا ہے جسے انسان وقت کے لحاظ سے خود منتخب کرے لیکن چونکہ یہ سوال جو رقعہ میں تحریر ہے اور بھی بعض لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو تا رہتا ہے اور گو اس کے متعلق پہلے بھی جواب دیئے گئے ہیں مگر پھر بھی بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بار بار دہرانے کے محتاج ہوتے ہیں اور بہت سے سلسلہ میں نئے داخل ہونے والے گویا اخبارات کو پڑھنا گناہ اور جرم خیال کرتے ہیں وہ چونکہ اخبارات کو دیکھتے نہیں اس لئے انہیں نہیں ہو تاکہ بیسیوں بار فلاں امر کے متعلق اظہار خیال کیا جا چکا ہے اور باوجود کئی بار جواب چھپ جانے کے وہ ویسے کے ویسے ہی کو رے رہتے ہیں.اگر چہ ایسے لوگوں کے لئے دوبارہ بیان کرنا بھی ویسا ہی ہے لیکن اس خیال سے کہ ممکن ہے خطبہ میں چونکہ تفصیل ہوگی اس لئے شاید وہ بھی فائدہ اٹھا سکیں اور ممکن ہے بعض وہ لوگ جن کو مختصر خطوط سے تشفی نہیں ہو سکتی وہ بھی سمجھ سکیں میں پھر اسے بیان کرتا ہوں.معلوم " وہ سوال جو میں نے بتایا ہے کہ پہلے بھی کئی بار پیش ہو چکا ہے اور اب بھی مسجد میں داخل ہو تے وقت میرے سامنے پیش کیا گیا ہے یہ ہے کہ غیر مبالکین کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟ مجھے اس سوال پر ہمیشہ حیرت ہوتی ہے اور جب بھی یہ میرے سامنے پیش ہوا مجھے حیرت ہوئی.سوال کرنے والے دو شقوں میں شامل ہوتے ہیں یا یوں کہہ لو کہ ان کی دو طرح تقسیم ہو سکتی ہے.ایک

Page 12

خطبات محمود سال ۱۹۳۱ء تو وہ لوگ ہیں جو ان کے پیچھے نماز حرام سمجھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ان لوگوں کے پیچھے جو نبوت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے منکر ہیں نماز کیونکر جائز ہو سکتی ہے ان کے پیچھے نماز ایسی ہی ہے جیسے غیر احمدی کے پیچھے.پھر آپ اس صریح مسئلہ میں کس طرح خلاف فیصلہ دے سکتے ہیں.دوسرے وہ لوگ ہیں جن کے نزدیک جائز ہے ان کا مقصد اس سوال سے یہ ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کو مان لیا اور ایمان لے آئے ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے کس طرح روکا جاسکتا ہے.مجھے دونوں پر تعجب آتا ہے اور میں حیران ہو تا ہوں کہ انسان با وجود بار بار توجہ دلانے کے کیوں اسی جگہ کھڑا رہتا ہے جہاں وہ پہلے ہوتا ہے صاف رستہ نظر آنے کے بعد کیوں اس پر چل کر فائدہ نہیں اٹھاتا اور روشنی کے موجود ہوتے ہوئے کیوں آنکھیں نہیں کھولتا ہمیں خدا تعالیٰ کی طرف سے جو کتاب ملی ہے وہ نہایت وسیع مطالب اپنے اندر رکھتی ہے اور اس نے متواتر تدبر اور فکر کی طرف توجہ دلائی ہے.خدا تعالیٰ نے جب ہمیں ماں کے پیٹ سے پیدا کیا تو ساتھ ہی دماغ دیکر بھیجا اور چونکہ یہ کل مخفی تھی اور پوشیدہ چیز بعض دفعہ پہچانی نہیں جا سکتی اس لئے اس نے اپنا کلام نازل کیا اور بتایا کہ یہ مشین تمہارے سر کے اندر موجود ہے اس سے کام لو.چنانچہ متواتر قرآن کریم نے تدبر اور فکر کا لفظ استعمال کر کے بعینہ اسی طرح جس طرح کہ ایک ست بیل کو مار مار کر چلایا جاتا ہے انسان کو اسی طرف توجہ دلائی ہے کہ سامان تمہارے اندر موجود ہے اس سے فائدہ اٹھاؤ.مگر پھر بھی بہت سے لوگ ہیں جو تدبر سے کام نہیں لیتے.ایک کام جو ہم روزانہ کرتے ہیں جب اس کے متعلق کوئی شخص جواز کا فتویٰ پوچھے تو کیوں حیرت نہ ہو.صبح سے لے کر شام تک ایک کام کیا جائے اور ختم کرنے کے بعد کسی سے پوچھا جائے کہ یہ کام اس طرح کرنا چاہئے یا کسی اور طرح.حالانکہ اسی دن اسے کئی بار کر چکے ہوں تو کس قدر حیرانی کی بات ہو گی.ہم جس شہر میں رہتے ہیں اس میں کئی اقسام کی سبزیاں پکتی ہیں.آلو کچالو ٹماٹر مجدو گاجر ، شلجم ، مٹر، بھنڈی وغیرہ کوئی سبزی ایک موسم میں ہوتی ہے اور کوئی دوسرے میں لیکن ہر ایک موسم میں عام طور پر کئی قسم کی سبزی مل جاتی ہے مگر ہمارے گھروں میں ایک ہی دن سب نہیں پکتیں بلکہ حسب حیثیت ایک یاد ہو ہی پکتی ہیں.کبھی کئی لوگ گوشت ہی پکا لیتے ہیں سبزی نہیں پکاتے.پھر کئی دال ہی پکاتے ہیں یہ غریب آدمیوں کا طریق ہے لیکن اس غربت کو اگر نظر انداز بھی کر دیا جائے تو بھی دیکھنا چاہئے جو لوگ امیر ہوتے ہیں کیا وہ ساری سبزیاں ایک دن میں پکاتے ہیں.بھی کسی کو دیکھا ہے کہ وہ نوکر کو سودا و غیرہ لانے کے لئے بازار بھیجے اور کہے جس قدر سبزیاں

Page 13

خطبات محمود سال بازار میں ہوں سب لے آؤ.یا کبھی کسی نے نو کر کو گھر والوں سے یہ سوال کرتے دیکھا ہے کہ آپ گو بھی کیوں منگاتے ہیں مرکیوں نہیں منگاتے.اگر وہ ایسا سوال کرے تو اسے زجر کی جائے گی اور گھر والی کہے گی مجھے جو پسند تھا منگوالیا تم کو اس سے کیا غرض ہے.تو ثابت ہوا کہ دنیا میں انسان صرف یہ نہیں دیکھا کر تا کہ فلاں چیز مضر ہے یا نہیں یا میں اسے خرید سکتا ہوں یا نہیں بلکہ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ پسند ہے یا نہیں.قرآن کریم میں مومن کی صفت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ حلال طیب کھاتے ہیں.اب جو حلال ہے اسے کھانا جائز ہے.پھر طیب سے کیا مراد ہوئی.اگر اس سے بھی مراد حلال ہی ہوتی تو یہ لفظ زائد سمجھا جاتا.مگر خد اتعالیٰ کا کلام زوائد سے پاک ہوتا ہے.طیب سے مراد یہ ہے کہ جو طبیعت کے موافق اور پسندیدہ ہو.ہو سکتا ہے ایک چیز حلال ہو مگر ایک طبیعت کے لئے اس کا کھانا منتر ہو اس کے لئے وہ طبیب نہ ہوگی.تو ہم صرف یہ نہیں دیکھتے کہ ایسا کر سکتے ہیں یا نہیں بلکہ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کرنا چاہئے یا نہیں.اور ہر کام کے وقت یہی سوال ہمارے دل میں پیدا نہیں ہو تا کہ یہ کرنا جائز ہے یا نہیں بلکہ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اس کا کرنا مناسب بھی ہے یا نہیں.دنیا میں اربوں انسان خدا تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں اور ان میں سے ہزاروں کے ناموں وغیرہ سے ہمیں واقفیت ہوتی ہے لیکن کیا جس کے نام سے واقفیت ہو اس سے ضرور دوستی پیدا کر لیتے ہیں.کیوں بعض کو ان میں سے دوستی کے لئے چنتے ہیں اس لئے کہ ان سے دوستی رکھنا ہمارے نزدیک مناسب ہوتا ہے حالانکہ جائز دوسروں سے بھی ہے مگر چونکہ ہمارے لئے انکی دوستی نامناسب ہوتی ہے اس لئے نہیں رکھتے.ایک غریب آدمی کے بچوں کو امیر کے بچوں کے ساتھ کھیلنا جائز ہے مگر ہو شیار اور عظمند غریب اپنے بچوں کو امیروں کے بچوں سے کھیلنے سے روکتا ہے.کیونکہ وہ جانتا ہے کہ امیر کے بچوں کے ساتھ کھیلنے پر وہ ضرور شام کو آکر کہیں گے کہ اس نے اس قسم کا گیند لیا ہے ہمیں بھی منگوا دو.یا اس کے پاس فلاں کھلونے ہیں ہمیں بھی لے دو.اب شریعت تو غرباء اور امراء کے بچوں کو باہم کھیلنے سے نہیں روکتی قانون بھی نہیں روکتا مگر غریب خود اپنی حیثیت کو دیکھتا ہے کہ اگر کھیلیں گے تو ایسے حالات پیدا ہو جائیں گے جو میرے لئے مناسب نہیں اس لئے وہ روکتا ہے.اسی طرح ہر مسلمان کو لڑکی دینا جائز ہے مگر کیا کوئی ہر مسلمان کو لڑکی دینے پر رضامند ہو سکتا ہے.اگر کوئی کسی لولے لنگڑے اندھے اور برے آدمی کو لڑکی دے دے تو کیا یہ منع ہے؟ ہرگز نہیں لیکن کیا کوئی ایسا کرتا ہے محض اس خیال سے کہ یہ جائز ہے.پس وہ لوگ جو یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا غیر مبالعین کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے میں ان سے پوچھتا ہوں کیا انہوں

Page 14

خطبات محمود q سال ۱۹۳۱ء نے کبھی اپنی لڑکی کسی لولے لنگڑے ، بہرے اور اندھے کو دی ہے.اگر نہیں تو کیوں نہیں.کیا یہ حرام ہے؟ کیوں کبھی انہوں نے مجھ سے یہ فتوئی نہیں پوچھا کہ کسی ایسے مسلمان کو جس کی ناک کٹی ہوئی ہو ، دانت ٹوٹے ہوئے ہوں بھرا ہو ، لولا لنگڑا ہو اور اندھا ہوا سے لڑکی دینا جائز ہے یا نہیں.اگر وہ پوچھیں تو میں یہی کہوں گا کہ ہاں جائز ہے.اور اگر جو از معلوم ہو جانے کے بعد وہ لڑکی دے دیں گے تو میں کہوں گا بیشک تمہیں سوال کرنے کا حق تھا مگر لڑکی کے معاملہ میں تو وہ کہیں گے طیب کا حکم ہے قرآن کریم میں آیا ہے فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاء یعنی طیب عورت سے نکاح کرو اور دوسری جگہ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِباس لب کہہ کر مرد اور عورت کو برابر کا درجہ دے دیا ہے پس عورت کے لئے بھی طیب مرد ضروری ہے جب وہاں جائز اور طبیب دونوں پہلو دیکھتے ہو تو یہاں کیوں صرف جائز کا لفظ تمہارے دل میں گدگدیاں لے رہا ہے.جب تک کوئی ایسی رگ تمہارے اندر نہیں پھڑک رہی جو ان کی طرف مائل ہے.کیا ایسے لوگوں میں سے کسی نے کبھی یہ فتوی بھی پوچھا ہے کہ گو بھی اور تسلیم وغیرہ کے چھلکے جو لوگ اتار کر باہر پھینک دیتے ہیں انہیں کھانا جائز ہے یا نہیں ؟ اگر پوچھے تو میں کہو نگاہاں جائز ہے اسی طرح اگر کوئی پوچھے کہ سوکھے ہوئے ٹکڑے جنہیں لوگوں نے باہر پھینک دیا ہو کھانے جائز ہیں ؟ تو میں کہونگا جائز ہیں کیونکہ اب وہ پھینکنے والے کا مال نہیں رہا.مگر ایسے فتوے کبھی کسی نے نہیں پوچھے.پس کیوں باقی جائز امور کے متعلق ایسے فتوے نہیں پوچھتے اور صرف غیر مبالکین کے پیچھے نماز پڑھنے کے متعلق پوچھا جاتا ہے.اگر ایسے لوگ ہر جائز چیز کو استعمال کرنے والے ہوتے اور یہ فتوے بھی پوچھتے کہ فلاں کپڑا جو ایک ہی دن میں پھٹ جائے خرید کر پہننا جائز ہے یا نہیں چنے میں تدل ملا کر اس کی روٹی کھانا جائز ہے یا نہیں.لیکن ہزاروں لاکھوں باتیں جو جائز ہیں ان کے متعلق نہیں پوچھتے تو پھر غیر مبالکین کے پیچھے نماز کے متعلق انہیں جائز نا جائز کی فکر اس قدر کیوں ہے.ان کی تو یہ حالت ہے کہ شہروں کے شہر دیکھتے جاؤ کہیں کوئی نظر نہ آئے گا کجا تو ان کا یہ دعویٰ تھا ہم نانوے فیصدی ہیں اور کجا اب یہ حالت ہے کہ کئی علاقوں میں ان کا نام و نشان نظر نہیں آتا.پس ایسے لوگوں کے پیچھے نماز کے جائز یا نا جائز کی اہمیت ہی کیا ہو سکتی ہے.لکھا ہے کوئی شخص حضرت ابن عمر کے پاس آیا اور آکر پوچھا.اگر احترام میں مچھر مار دیا جائے تو کیا کفارہ ہے آپ نے نظر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور فرمایا تم خارجی ہو.تم نے حضرت عثمان کو شہید کیا اور مجھ سے فتویٰ نہ پوچھا تم نے حضرت علی کو شہید کیا اور مجھ سے فتوی نہ پوچھا مگر آج مچھر مارنے کے لئے مجھ سے

Page 15

- خطبات محمود سال ۱۹۳۱ء فتوئی پوچھنے آئے ہو.پس غیر مبائعین کے پیچھے نماز کے متعلق فتویٰ پوچھنا بھی ایسا ہی ہے اور لاکھوں جائز باتوں کے کرنے کیلئے تو کوئی فتویٰ نہیں پوچھا جا تا مگر یہ پوچھتے ہیں.یہ نفس کا دھوکا ہے اور جواز کا فتویٰ نہیں فساد کا فتویٰ پوچھا جاتا ہے.ایسا فتویٰ پوچھنے والا پہلے میلے کے ڈھیر سے اٹھا کر سڑے ہوئے ٹکڑے کھائے، شاہجم اور گوبھی کے چھلکے کھائے بوسیدہ کپڑے پہنے اور باوجود استطاعت کے ایسے بوسیدہ مکان میں رہے کہ جو معمولی سی بارش سے بھی ٹپکنے لگے جس وقت اس کی خوراک نجس ہوگی ، پوشاک نجس ہوگی اور رہائش کی جگہ نجس ہوگی اس وقت اگر آکر وہ یہ سوال پوچھے گا تو میں کہونگا چونکہ تیرا ہر کام نجس ہے اس واسطے تیرے لئے نجس بھی جائز ہے.تیرا کھانا پینا اوڑھنا بچھونا، رہنا سہنا سب نجس ہے اس لئے تو بیشک نماز کو بھی نجس کرلے.لیکن جس شخص میں غیرت ہے اور جو سمجھتا ہے کہ جائز ہی نہیں بلکہ ہر چیز میں طیب بھی دیکھنا چاہئے وہ ہر گز ایسا نہیں کرے گا جو شخص ایسا سوال کرتا ہے اسے سوچنا چاہئے اگر وہ گرے پڑے ٹکڑے اور سبزی کے چھلکے کھانے کا فتویٰ پوچھے گا اور اسے کہا جائے گا ان کا کھانا جائز ہے مگر وہ اس پر عمل نہیں کریگا تو اس مسئلہ میں کیوں فتوے پوچھتا ہے جب تک اس کی نیت خراب نہیں.وہ دراصل میری زبان کو پکڑنا چاہتا ہے لیکن اسے یاد رکھنا چاہئے میں اسے اس کے عمل سے پکڑوں گا.وہ اگر کے گا کہ تم نے کہا ہے غیر مبائعین کے پیچھے نماز جائز ہے تومیں کہوں گا کیا تم ہر جائز عمل کرتے ہو.رسول کریم میری نے فرمایا ہے تم میں سے امام وہ ہونا چاہئے جو اتقی ہو.تم جب یہ پسند کرتے ہو کہ اعلے کھانا کھاؤ.عمدہ کپڑے پہنو تو نماز کے لئے اعلیٰ امام کیوں نہیں چاہتے.اعلیٰ سے میری مراد ہر ایک کی حیثیت کے مطابق اعلیٰ ہے زمیندار بھی اپنی حیثیت کے مطابق اعلیٰ کھا سکتے ہیں اور عمدہ پہن سکتے ہیں.کھدر بھی اعلیٰ قسم کا ہوتا ہے مگر کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ایک زمیندار کے پاس پیسے ہوں اور وہ دکاندار سے کسے کہ مجھے ردی قسم کا کھدر دے دو کھد ر لینے والا بھی وہی کھد رلے گا جو اس کی آنکھوں کو اچھا لگے گا اسی طرح اگر کوئی جوار بھی کھائے گا تو دیکھے گا کہ عمدہ قسم کی ہو نہ یہ کہ وہ ایسی تلاش کریگا جس میں آدھی مٹی ملی ہوئی ہو حالانکہ ایسی بھی حرام نہیں.پس جب ہر چیز میں سے اعلیٰ کو پسند کیا جاتا ہے اور ہر شخص کے معیار کے مطابق ادنیٰ و اعلیٰ درجے ہیں اور ہر انسان اعلیٰ کو ہی پسند کرتا ہے اور جب رسول کریم میل و یا لیلی نے فرمایا ہے کہ امام وہ ہونا چاہئے جو اتھی ہو تو دیکھنا چاہئے کیا غیر مبائعین اتقی ہو سکتے ہیں اگر خلافت کا احترام ادنی نیکی بھی سمجھی جائے تو یہ یقینی بات ہے کہ ایک غیر مبائع اسے ترک کرتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ خلافت کا احترام کوئی

Page 16

خطبات محمود سال ۱۹۳۱ء معمولی بات نہیں.پھر اس کے علاوہ وہ اگر چہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کا دعوی کرتے ہیں لیکن اس میں کیا شک ہے کہ وہ آپ کو اصل درجہ سے نیچے گراتے ہیں اور ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے سورج چڑھا ہوا ہو اور کوئی شخص کہے کہ سورج نہیں چڑھا ہوا بلکہ تھوڑی سی روشنی ہے شاید جگنو کی روشنی ہو.کیا ایسا شخص نے سورج جگنو کی شکل میں نظر آئے فوج میں بھرتی ہو سکتا ہے؟ بے شک وہ اندھا تو نہیں مگر پھر بھی فوج کے قابل نہیں لیکن جو شخص خدا کے روحانی سورج کو دیکھ کر کہتا ہے کہ جگنو ہے اور ایک شخص کہتا ہے یہ چونکہ روشنی کاتو اقرار کرتا ہے اس لئے اسکے پیچھے نماز پڑھ لینے میں کیا حرج ہے وہ کس طرح سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی گرفت سے بیچ.جائے گا.کیا خد اتعالیٰ اس سے یہ نہ پوچھے گا کہ اور کونسی تمام جائز چیزوں کو تم نے اختیار کیا کہ اس عمل کرنا ضروری سمجھا.اللہ تعالیٰ نے جائز تو بہت کچھ کیا ہے مگر ساتھ ہی احسن کو اختیار کرنے کا حکم بھی دیا ہے اور اگر کوئی اعلیٰ اور احسن کو چھوڑ کر عبد ا ادنی کو اختیار کرتا ہے تو یقینا نیکی کا استخفاف کرتا ہے اور ایسے شخص کا ایمان کبھی سلامت نہیں رہ سکتا اس کی روحانی صحت ضرور خراب ہو جائیگی جس طرح ایک شخص کو جو عمدہ غذا کھانے اور عمدہ ہوا میں رہنے کا عادی ہو اگر ادنی غذا ملنے لگے اور اسے ایسی جگہ رکھا جائے جہاں صاف اور عمدہ ہوا نہ مل سکے تو ضروری ہے کہ اس کی صحت خراب ہو جائے پھر غیر مبالکین کے پیچھے نماز پڑھنے کی کوئی خاص ضرورت ہو تو امر مجبوری ہے اگر ساری دنیا پر غیر مبائع ہی ہوتے تو کوئی کہہ سکتا تھا مبائع تو شاید ہی کسی جگہ کوئی مل سکے اس لئے اس جواز سے فائدہ نہ اٹھائیں تو کیا کریں مگر جب صورت یہ ہے کہ سارے ہندوستان میں شاید ہی چند مقامات ایسے ہوں جہاں یہ لوگ کچھ نمایاں ہوں وگر نہ اول تو کہیں ان کا نشان ہی نہیں ملتا اور اگر کہیں ہوں بھی تو بالکل غیر اہم حیثیت میں ہیں اور اگر میں پچیس مقامات پر بھی ہوں تو بھی مبائعین کے مقابلہ میں انکی حیثیت ہی کیا ہے.لاہور میں ہی جہاں ان کا مرکز ہے ان سے ہماری جماعت بہت زیادہ ہے پھر کیا مصیبت پڑی ہے کہ کوئی اپنے راستہ سے ہٹ کر خاص طور پر ان کی تلاش کرے جب تک اس کے اپنے اندر بھی کوئی رگ غیر مباقعیت کی نہ ہو اور کند ہم جنس باہم جنس پرواز والا مضمون نہ ہو ایسے سوالات کرنے والوں سے میں یہ دریافت کرتا ہوں کہ کیا لنگڑا اور کانا گھوڑا گھوڑا نہیں ہے اور ضرور ہے لیکن کیا تم گھوڑا خرید نے کے وقت اسے خریدتے ہو اسی طرح کسی غیر مبالغ کے پیچھے نماز پڑھنا بھی نماز تو ہے مگر اندھی اور لنگڑی اولی اگر تم باقی چیزیں بھی لنگڑی اور اولی اختیار کرتے ہوا سے بھی اختیار کر لو لیکن اگر ہر چیز

Page 17

محمود ۱۲ سال ۱۹۳۱ء میں سے بہتر بلکہ بہترین حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہو تو کیا وجہ ہے کہ مازوہ چاہتے ہو جو لنگڑی ہو.یاد رکھو کہ سورج کو جگنو د یکھنے والے ہزاروں آدمی ایک ایسے شخص کے مقابلہ میں جو سورج کو اپنی اصلی شان میں دیکھتا ہے کوئی حیثیت نہیں رکھتے.ایک زمانہ تھا جب یہ لوگ کہا کرتے تھے کہ نانوے فیصدی احمدی ہمارے ساتھ ہیں پھر خدا تعالیٰ کا فضل ہم پر ہوا اس نے ہمیں زیادہ کر دیا تو اب وہی لوگ جو کبھی اپنی کثرت کو نہایت فخر سے پیش کیا کرتے تھے کہہ رہے ہیں کہ اَكْثَرُهُمُ الْفَسِقُونَ" کثرت فاسقوں کی ہوتی ہے.شیعہ کہا کرتے ہیں کہ مسلمان صرف ڈھائی ہی تھے حضرت مسیح موعود ان کے مقابل میں یہ دلیل پیش کیا کرتے تھے کہ ایسا عقیدہ رکھنے سے رسول کریم میں اور ولیم کی قوت قدسیہ پر حرف آتا ہے لیکن یہی بات آج وہ لوگ کہہ رہے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان رکھنے کے مدعی ہیں.میں نے کل ہی پیغام کا ایک پرچہ پڑھا جس میں لکھا ہے کہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کا ایک کثیر حصہ گمراہ ہو گیا ہے.بفرض محال اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نبی نہ مانا جائے صرف مسیح موعود مہدی اور مجددہی مانا جائے تو کیا یہ کہنے سے کہ آپ کی جماعت کے اکثر افراد گمراہ ہو گئے آپ پر وہی اعتراض نہیں آتا جو شیعوں کے عقیدہ سے رسول کریم میں سلیم پر آتا ہے.عجیب بات ہے کہ عبدالحکیم مرتد نے جب یہ اعتراض کیا کہ مرزا صاحب کی جماعت کے اکثر لوگ گندے ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی پر زور تردید فرمائی اور یہاں تک لکھا کہ میری جماعت میں سے اکثر صحابہ کا نمونہ ہیں.مگر آج وہ لوگ جو آپ کو ماننے کے مدعی ہیں وہی کہہ رہے ہیں جو عبدالحلیم نے کہا تھا کیا اس کے صاف معنے یہ نہیں کہ ان کے نزدیک عبدالحکیم سچا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام جھوٹے.بهر حال آج ہماری کثرت کا دشمن کو بھی اعتراف ہے پھر کیا ضرورت ہے کہ اقلیت کو تلاش کر کے اس کے پیچھے نماز پڑھیں.پھر ان لوگوں کے پیچھے جن کا فتویٰ یہ ہے کہ مبالعین کے پیچھے نماز حرام ہے.اس کے مقابل پر اگر ہم بھی ایسا ہی فتوی دے دیں تو فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعتدى عَلَيْكُمْ کے ماتحت ہم پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہو سکتا لیکن میں نے ایسا فتویٰ کبھی نہیں دیا.بغداد سے ایک غیر مبائع نے یہ فتوی دریافت کیا کہ یہاں مبائعین کی جماعت ہے اور میں اکیلا ہوں اور نماز با جماعت کی کوئی صورت نہیں سوائے اس کے کہ یا ان لوگوں کے ساتھ پڑھی

Page 18

خطبات محمود ۱۳ سال ۱۹۳۱ء جائے اور یا غیر احمدیوں کے پیچھے اس کا مولوی محمد علی صاحب نے اسے جو جواب دیا اس میں یہ تو مجھے اس وقت یاد نہیں کہ غیر احمدیوں کے متعلق کیا لکھا مگر یہ تاکید کردی کہ مبائع امام کے پیچھے نماز نہ پڑھو.اس کا سوال غالبا نماز جمعہ کے متعلق ہی تھا اور مولوی صاحب نے لکھا کہ جمعہ نہ پڑھو.گھر میں ظہر کی نماز پڑھ لیا کرو.مگر مبالکین کے پیچھے جمعہ نہ پڑھو.اتنی تاریک دلی اور ظلمت کے بعد اور انسانیت اور اسلام سے اس درجہ نفرت کے بعد کہ ہمارا اسلام بھی انہیں کفر نظر آتا ہے ان کا عقیدہ ہے کہ ہر کلمہ گو مسلمان ہے مگر ہم کلمہ بھی پڑھیں تو ہمارے پیچھے ان کی نماز نہیں ہو سکتی.وہ روزانہ اس امر پر بحثیں کرتے ہیں کہ کلمہ گو کافر نہیں ہو سکتا.مگر کوئی ان سے اتنا نہیں پوچھتا کہ جب مبائع کلمہ گو ہیں تو وہی فتویٰ جو دو سروں کے متعلق دیتے ہو مبالکین کے متعلق کیوں بھول جاتے ہو.اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے فتوے محض بغض کی وجہ سے ہیں نہ کہ خدا اور اسلام کے لئے.ہم سے چونکہ انہیں انتہائی بغض ہے اس لئے ہمارا اسلام بھی انہیں کفر نظر آتا ہے پس باوجود اس انتہائی بغض کے جو یقینی طور پر ہندوؤں میں بھی نہیں ہو گا اگر ایک بدترین دشمن ہندوؤں میں سے لیا جائے، ایک بدترین دشمن عیسائیوں میں سے لیا جائے، ایک بد ترین دشمن دہریوں میں سے لیا جائے اور ایک بد ترین دشمن پیغامیوں سے لیا جائے تو یقینا پیغامی دشمنی اور بغض میں دہریہ عیسائی اور ہندو سے بھی بڑھا ہوا ہو گا.ان کے عالی ممبر بغض کے مجسمے ہیں اگر کسی نے زمین پر چلتی پھرتی دوزخ کی آگ دیکھنی ہو تو ان لوگوں کو دیکھ لے.میں نہیں سمجھتا ان سے زیادہ بغض اور کینہ والے لوگ کبھی دنیا میں ہوئے ہوں.ممکن ہے کبھی ہوئے ہوں اور تاریخ والوں نے دوزخ کی اس آگ سے آئندہ نسلوں کو محفوظ اور بے خبر رکھنے کے لئے ان کا ذکر کرنا مناسب نہ سمجھا ہو مگر جہاں تک تاریخ سے پتہ چلتا ہے ان لوگوں کا بغض سب سے بڑھا ہوا ہے.جلسہ کے موقع پر میں نے ان کے بغض کی ایک مثال ہیں.ان لوگوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے اختلاف کو دشمنی کا موجب نہیں بنایا جیسے شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم اور ان کی اولاد اسی طرح ملک غلام محمد صاحب رئیس لاہور سید عبد الجبار شاہ صاحب سابق بادشاہ سوات دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر ہدایت کا راستہ کھول دے اور اس گڑھے سے ان کو نکال لے.مرزا محمود احمد

Page 19

۱۴ سال ۱۹۳۱ء پیش کی تھی کہ کس طرح یہ لوگ ہمیں بد نام کرنے کے لئے بد ترین قسم کا ھوٹ بولنے سے بھی دریغ نہیں کرتے.اس پر پیغام صلح نے ایک مضمون لکھا ہے جس میں بیان کیا ہے کہ مرزا مظفر بیگ ایک نو آموز چھوٹے ایڈیٹر تھے ان سے کسی غلطی کا سرزد ہو جانا بہت ممکن بلکہ اقتضاء عمر تھا.خوامخواہ مختصر سے مرزا کے خلاف یوں اظہار غیظ و غضب کیا گیا.جس کا مطلب یہ ہے کہ دیکھو ! یہ کتنے عجیب لوگ ہیں کہ ایک نا تجربہ کار اور نو آموز جھوٹ بولنے والے اس پر اس قدر ناراض ہو گئے.گویا وہ چونکہ نا تجربہ کار تھا اس لئے اس نے ایسا جھوٹ بول دیا جس پر گرفت ہو سکی.اور ایڈیٹر پیغام کا مطلب یہ ہے کہ مزا تو جب ہے کہ ایڈیٹر پیغام جیسے تجربہ کار کا جھوٹ پکڑیں.پیغام کے چھوٹے ایڈیٹر کو تو اتنی سمجھ نہ تھی کہ جھوٹ میں دس فی صدی بچ بھی ملا لینا چاہئے اس لئے اس سو فی صد جھوٹ بول دیا پس مظفر بیگ پر ناراض نہیں ہو نا چاہت تھا.کیونکہ وہ نا تجربہ کار اور نو آموز تھا.وہ ابھی امیر صاحب کے زیر تربیت ہے جب وہ تجربہ حاصل کرلے گا اس وقت اگر اس کا جھوٹ پکڑ لو تو پھر ناراض ہونے کا حق ہو گا.ایسی گندی ذہنیت رکھنے والے لوگوں کے متعلق کرید کرید کر یہ پوچھنا کہ ان کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں سوائے اس کے کچھ معنی نہیں رکھتا کہ اپنے دل کا گند ظاہر کیا جائے.شریعت کی حدود کو تو میں توڑ نہیں سکتا اور چونکہ میراند ہب بندوں کی خاطر نہیں اس لئے میں یہ تو کہوں گا کہ جائز ہے جائز ہے جائز ہے، مگر اسی طرح جس طرح روزی پر سے گو بھی یا شلجم کے پھلکے اٹھا کر یا گلی میں پڑے ہوئے ٹکڑے کھانا جو شخص ان چیزوں کے جواز پر عمل کرتا ہے اسے اس جواز پر عمل کرنے کا بھی حق ہے.ایک شخص نے کسی سے کہا حضرت خلیفہ المسیح الاول سے کہو جس طرح فلاں شخص کو غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے اسی طرح مجھے بھی دے دیں.آپ نے فرمایا پہلے اس جیسے ہو جاؤ پھر تمہیں بھی اجازت دے دوں گا.وہ تو نماز پڑھتا ہی نہیں تھا میں نے اس خیال سے کہ نماز میں کھڑے ہونے کی اسے عادت ہی ہو جائے اجازت دے دی تھی.اس سوال کو دریافت کرنے والے ایک کشمیری دوست ہیں.انہوں نے اپنی طرف سے نہیں بلکہ اپنے بعض اور دوستوں کی طرف سے یہ سوال دریافت کیا ہے.میں اس کا یہ جواب دیتا ہوں کہ ان کے ملک میں سیب بہت ہوتا ہے.کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ انہوں نے بازار میں جا کر دکاندار سے کہا ہو کہ جو ردی سے ردی سیب تمہارے پاس ہوں وہ مجھے دے دو یا ان کے ملک میں لوگ

Page 20

خطبات محمود چاول زیادہ کھاتے ہیں کیا انہوں نے کبھی ناقص درجہ کے چاول خریدنے کی خواہش کی ہے یا انہوں نے قصاب کی دکان پر جا کر یہ کہا ہے کہ کل کا گوشت ہو تو دے دو اور اگر پرسوں کا ہو تو وہ اور بھی بہتر ہے اور اگر پندرہ میں یوم کا پڑا ہوا ہو جس میں کیڑے بھی پیدا ہو گئے ہوں تو وہ بہت ہی اچھا ہے.وہ جس دن یہ طریق عمل اختیار کریں گے اس وقت میں موٹے حروف میں ان کے سوال کا یہ جواب لکھوا کر انہیں بھجوادوں گا کہ جائز ہے اور تم اپنا رستہ چھوڑ کر بھی ان کے پیچھے نماز پڑھا کرو.لیکن جب وہ ایسی اشیاء کے متعلق بھی جن کا مزا ایک منٹ سے زیادہ قائم نہیں رہ سکتا جواز کو استعمال نہیں کرتے تو نماز جیسی چیز کے لئے وہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کیوں تڑواتے ہیں کہ امام وہ ہونا چاہئے جو اتقی ہو.الفضل ۱۵ جنوری ۱۹۳۱ء) النحل : ۱۱۵ ل النساء : م البقرة : ١٨٨ رياض السنة باب فضائل الصحابة مسلم کتاب المساجد باب من احق بالامانة 3 ال عمران: ااا ك البقرة : ۱۹۵

Page 21

خطبات محمود 14 3 دہریت اور الحاد کی رو کو روکو (فرموده ۱۶ جنوری ۱۹۳۱ء) سال ۱۹۳۱ء تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایسے رنگ میں پیدا کیا ہے کہ وہ ایک دو سرے سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ انسان کیا تمام مخلوق کا تعلق آپس میں اس رنگ کا ہے کہ سب کی سب چیزیں ایک دوسرے پر سہارا لئے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کی احتیاج رکھتی ہیں.یہ احتیاج اور ایک دوسرے پر سہار ا لینا اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان کو کوئی تکمیل حاصل نہیں ہو سکتی جب تک اس کے گردو پیش کے حالات بھی درست نہ ہو جائیں.ایک کسان ملک کے دو سرے حالات سے ناواقف ہوتے ہوئے اپنے علاقہ میں ایک کھیت ہو تا ہے اور خیال کرتا ہے کہ اس نے وہ سارے سامان جو کھیت کی تکمیل کے لئے ضروری ہیں جمع کرلئے ہیں لیکن یکدم بارش آتی ہے ایسی بارش جو یا تو مٹی کو ایسا سخت کر دیتی ہے کہ اس سے بیج نکل ہی نہیں سکتا یا اگر نکلا ہوا ہو تا ہے تو کھیت میں پانی کھڑا ہو جانے کی وجہ سے گل سڑ جاتا ہے یا ایسی آندھی آتی ہے جس سے فصل گر جاتی ہے.زمیندار غریب نے جتنے سامان اس کے اختیار میں تھے جمع کر لئے مگر دور دراز مقامات پر ہونے والے تغیرات جن میں سے کوئی تو بحیرہ عرب میں ہوا اور کوئی خلیج بنگال میں ان میں اس کا کیا دخل تھا.دنیا کے دور کناروں پر دو چار پانچ بلکہ دس ہزار میل کے فاصلے پر بعض سامان ایسے پیدا ہوئے کہ سمندر سے زیادہ ابخرات اٹھے جن سے بادل بنے اور انہیں ہوا ئیں اس کے ملک میں لے آئیں.اور یہ جو ان علاقوں کے نام سے بھی واقف نہیں اس کی تمام سال کی محنت برباد ہو گئی.ان حالات میں ایک عظمند زمیندار کسی طرح بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ

Page 22

سال ۱۹۳۱ء خطبات محمود وہ باقی دنیا کے حالات اور واقعات سے مستغنی ہے.اگر دس ہزار میل دور سمندر کا اثر اس پر اسکتا ہے اگر دور دراز کے جنگلوں سے وہ متاثر ہو سکتا ہے جہاں ٹڈی پل کر آتی ہے تو وہ کس طرح کہہ سکتا ہے کہ دنیا میں خواہ کچھ ہو اس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا.ہمارے ملک میں پچاس فیصدی سے زائد زمیندار ایسے ہونگے کہ جنہوں نے بلوچستان کا نام بھی نہ سنا ہو گا مگر وہاں کے جنگلوں میں ٹڈی پلتی ہے اور وہاں سے چل کر ان کے کھیتوں کو برباد کر جاتی ہے.پس اگر ایک زمیندار بلوچستان کے جنگلوں سے بھی مامون نہیں اور اگر وہ خلیج بنگال یا بحیرہ عرب کے تغیرات سے بھی مامون نہیں تو پھر کوئی انسان کس طرح خیال کر سکتا ہے کہ ہمسایہ اور اپنے گاؤں یا شہر کے لوگوں کے اخلاق اور عادات کا اس پر کوئی اثر نہ ہو گا.ہزاروں میل سے ریت کے ذرات یا پانی آکر جب ایک زمیندار کے کھیت کو تہ و بالا اور اس کی محنت کو برباد کر سکتے ہیں تو انسان کے ہمسایہ میں جو طوفان بے تمیزی یا گناہوں کی لر پیدا ہو رہی ہو اس سے وہ کس طرح محفوظ رہ سکتا ہے مگر انسان اپنی غفلت کی وجہ سے اسی بات کو دیکھتا ہے جو اس پر وارد ہو کر اسے جگا دیتی ہے.جس وقت ٹڈی آتی ہے اس وقت خیال کرتا ہے کہ کہیں پاس سے ہی آگئی ہوگی اور اسے یہ خیال بھی نہیں آتا کہ کتنی دور سے آئی ہے.بادل برستا ہے تو وہ خیال کرنا ہے چالیس پچاس میل سے آیا ہو گا.اسے یہ خیال بھی نہیں آتا کہ یہ کئی ہزار میل سے چلا آیا ہے.اور پھر بعض تو یہ خیال کرتے ہوں گے کہ شاید کوئی ایسی چیز ہے جس سے پانی گر پڑتا ہے وہ یہ نہیں جانتے کہ ایسے حالات کے ماتحت جو انسان کے قبضہ سے باہر ہیں سمندر کے ابخرات بعض خاص ہواؤں کے ذریعہ اڑ کر یہاں آتے اور برستے ہیں.غرض اگر انسان کی نظر جاتی ہے تو نہایت محدود دائرہ تک.اور کئی باتوں کی طرف تو اس کی نظر جاتی ہی نہیں.حالانکہ جس طرح ہزاروں میل پر ان سمندروں اور میدانوں سے تباہی کے سامان پیدا ہوتے ہیں اسی طرح قریب اور دور کے انسان سے بھی دوسرے انسان کی تباہی کے سامان پیدا ہوتے رہتے ہیں.ایک زمانہ تھا کہ ہندوستان یورپ کے نام سے بھی واقف نہ تھا.عرب بھی اگر چہ واقف تو تھے مگر بھلا بیٹھے تھے.اپنے اپنے طریق اور رسومات کو لے کر سب اپنی اپنی جگہ بیٹھے ہوئے تھے اور خیال کرتے تھے کہ ہمیں ان طریقوں سے کون ہٹا سکتا ہے.آج سے پچاس سال قبل اگر ہندوستان کی اعلیٰ خاندان کی ایک مسلمان عورت کو کہا جاتا کہ برقعہ پہن کر سٹیشن پر چلی جاؤ تو وہ کبھی یہ بات نہ مان سکتی تھی.وہ ڈولی میں جاتی پھر پردہ تان کر گاڑی میں اسے داخل کیا جاتا.جس کی

Page 23

خطبات محمود ٹڈی IA سال تمام کھڑکیاں بند کر دی جاتیں اور منزل پر پہنچ کر پھر اسی طرح اسے اتارا جاتا.اس وقت کسے خیال آسکتا تھا.کہ اس حالت میں کبھی تغیر ہو جائیگا.مگر آج دیکھو ہزاروں میل سے ایک وباء آتی ہے اور اس کے ماتحت وہ ہندوستانی عورتیں جن کی نانیاں اور وادیاں ڈولی میں اپنے گھر میں آئیں اور پھر وہاں سے ان کے تابوت نکلے آج بے تکلفی سے مردوں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے سڑکوں پر پھر رہی ہیں.اس وقت ہندوستانی مسلمان خیال کرتے تھے کہ ہم بالکل محفوظ ہیں کیونکہ اپنی رسوم اور رواج کو چھوڑنے کا کوئی خیال ہمارے دل میں نہیں مگر یہ کس طرح ممکن تھا کہ ایک انسان دوسرے سے اثر قبول نہ کرتا.جس طرح ہزاروں میل سے آئے ہوئے بادل اور ی فصل کو تباہ کر دیتی ہے اسی طرح ہزاروں میل سے آئے ہوئے خیالات بھی ہمارے خیالات کو تباہ کر سکتے ہیں اور جب تک ہم ایک ایسا دائرہ نہ بنائیں جس سے کوئی چیز گذر نہ سکے ہم محفوظ نہیں رہ سکتے.یہ وائر ہے دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک آسمانی اور ایک زمینی - آسمانی دائرہ تو یہ ہے کہ قریب کے زمانہ میں مامور کے ہاتھ میں ہاتھ دیا ہو یا اس کے ہاتھ میں ہاتھ دینے والوں کے ہاتھ میں ہاتھ دیا ہو یا ان کے ہاتھ میں ہاتھ دینے والوں سے تعلق پیدا کیا جائے یہ آسمانی دائرہ ہے جس میں آجانے والی جماعتیں باوجود شرارت اور بدی کی فراوانی کے زیادہ تر محفوظ رہتی ہیں اور اللہ تعالی ان کی دستگیری فرماتا ہے.چنانچہ دیکھ لو آج ساری دنیا میں جو فسادات پھیل رہے ہیں احمدی جماعت خدا تعالی کے فضل سے ان سے محفوظ ہے.ہم دو سرے لوگوں سے علم میں بڑھے ہوئے نہیں مگروہ دہریت کی رو میں ایسے بے جارہے ہیں کہ گویا وہ ایک ایسا پودا ہیں جس کی جڑیں نہیں اس کے مقابلہ میں احمدی جماعت میں بھی بے شک بعض کمزوریاں ہیں مگر پھر بھی وہ نمایاں طور پر ممتاز نظر آتی ہے.اور بہت ساری ہوا ئیں جو دنیا کو تباہ کر رہی ہیں احمدی جماعت محض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تعلق کی وجہ سے ان سے اللی حفاظت میں ہے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا كَانَ اللهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِيهم یعنی اللہ تعالیٰ ان کو ہلاک نہیں کرے گا جس حالت میں کہ اے رسول تو ان میں ہے.اور نبی کے قرب کا زمانہ بھی اس کے ہونے کا ہی ہوتا ہے اور اس کی جماعت سے تعلق رکھنے والے اس کی خاص حفاظت میں ہوتے ہیں.سب سے بڑھ کر عذاب عقیدہ کی خرابی ہے اس کے مقابلے میں کوئی بھی عذاب کچھ حقیقت نہیں رکھتا.ایک شخص طاعون سے مرکز بھی جنت میں جا سکتا ہے مگر دہریت کی رو میں بہہ کر جو مرتا ہے اس کا ٹھکانا جہنم ہی ہے.اور جب تک اس ہسپتال میں رہ کر اس کی صفائی نہ ہو جائے اس وقت

Page 24

خطبات محمود ۱۹ سال ۱۹۳۱ء تک وہ اس مقام کو حاصل نہیں کر سکتا جس کے لئے اس کو پیدا کیا گیا تھا.پس حفاظت کا ایک ذریعہ تو نبی کا قرب ہے اور دو سرا ذریعہ قرآن کریم نے یہ بیان کیا ہے کہ وَمَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ یعنی جو لوگ بدی کے سامانوں کو تباہ کر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں وہ بھی عذاب سے بچائے جاتے ہیں.استغفار کے معنے ڈھانپ دینے کے ہیں بدی کا بیج دنیا سے بالکل تو مٹایا نہیں جا سکتا کیونکہ جس طرح فرشتے دنیا میں نیکی کو قائم کرتے ہیں شیطان بدی کو قائم کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور جب تک انسان کو یہ اختیار ہے کہ بدی اور نیکی میں سے جو راستہ چاہے اختیار کرلے کوئی نہ کوئی ضرور شیطان کے ساتھ شامل ہو تا رہے گا مگر مؤمن کا کام یہ ہے کہ وہ بدی کو مٹانے کی کوشش کرتا ہے جس طرح گندگی کو بالکل تو تا بود نہیں کیا جا سکتا لیکن گڑھا کھود کر اس میں ڈال کر اوپر سے مٹی ڈالی جا سکتی ہے اس طرح اس کی عفونت سے انسان بیچ سکتا ہے.اسی طرح ہم بدی کو دنیا سے بالکل مٹاتو نہیں سکتے.مگر اسے دبا سکتے ہیں.پس دوسرا ذریعہ یہ ہے کہ بدی کو دبایا جائے اور اسے پھیلنے سے روکا جائے.اس کا طریق یہی ہے کہ ان لوگوں کو جو بدی پھیلانے والے ہیں اپنے اندر شامل کر لیا جائے اور اس طرح ان کے بد ارادوں کو دور کر دیا جائے پس يَسْتَغْفِرُونَ سے مراد یہاں تبلیغ ہی ہے اور تباہی سے بچنے کے یہی دونوں طریق ہیں.ایک نبی کا قرب اور اس کی جماعت میں شمولیت یا یہ کہ کوشش کر کے بدی کو دبا دیا جائے اور جہاں یہ دونوں باتیں جمع ہوں وہ تو نُور عَلى نُورٍ ہے.بے شک تباہی پھیلانے والی چیزوں کو اللہ کی مدد سے ہی دبایا جا سکتا ہے مگر اللہ تعالٰی کی مدد بھی انسانی اعمال سے وابستہ ہے.اگر کوئی شخص آگ میں ہاتھ ڈال کر منہ سے استغفار کرتا رہے تو اس کا ہاتھ جلنے سے بچ نہیں سکتا.آگ سے بچنے کا یہی طریق ہے کہ اس میں ہاتھ بھی نہ ڈالا جائے اور استغفار بھی کیا جائے.جو شخص آگ میں ہاتھ تو نہیں ڈالتا مگر استغفار بھی نہیں کرتا وہ بھی خطرہ میں ہے کیونکہ کوئی انسان محض اپنی کوشش اور سعی کے ذریعہ مصائب اور مشکلات سے نہیں بچ سکتا.دنیا میں جس قدر بیماریوں میں لوگ مبتلاء ہوتے ہیں کیا ان میں انسان اپنی مرضی سے مبتلاء ہوتا ہے اور ان کے جرمز Germs اپنے جسم میں خود داخل کرتا ہے.مثلا ٹائیفائڈ کا کیڑا ہوتا ہے جس کے جسم میں داخل ہوا سے تپ محرقہ ہو جاتا ہے یا بعض عوارض کی وجہ سے ایسے جر مز Germs پیدا ہو جاتے ہیں جن سے نمونیہ ہو جاتا ہے.کیا کوئی شخص ایسا ہوتا ہے جو کوشش کر کے ان بیماریوں کے کیڑے اپنے جسم میں داخل کر لیتا ہے.ہرگز نہیں.بلکہ ہر ایک کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ جو مز Germs داخل نہ ہوں مگر انسان کی

Page 25

خطبات محمود سال ۱۹۳۱ء انتہائی کوشش کے باوجود بھی غفلت کے وقت میں یہ اندر چلے جاتے ہیں.اگر تو انسان کا تمام وقت ہوشیاری ہی میں گذرے.تو بے شک وہ اپنی حفاظت کر سکتا ہے.لیکن اگر حقیقت یہ ہے کہ بعض اوقات اس پر غفلت کے بھی آتے ہیں اس لئے لازمی ہے کہ غفلت کے وقت میں اس کی حفاظت کرنے والا کوئی اور ہو.پس محفوظ رہنے کا طریق یہی ہے کہ ہوشیاری کی حالت میں تو انسان خود اپنی حفاظت کرے اور غفلت کے وقت میں کوئی ایسی ہستی اس کی حفاظت کرے جس پر غفلت نہیں آسکتی.ایسی ہستی خداتعالی ہی ہے اور استغفار دونوں طرف سے ہوتا ہے.اس کا ایک حصہ انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے اور ایک حصہ خدا تعالیٰ کے قبضہ میں ہے.ایک کا نام تدبیر ہے اور ایک کا دعا.ہوشیاری کا حصہ تدبیر کا ہوتا ہے اور غفلت کا حصہ دعا کا.بعض نادان کہتے ہیں کہ جب تدبیر پوری پوری کرلی جائے تو پھر دعا کی کیا ضرورت ہے مگر وہ یہ نہیں سوچتے کہ انسان کہاں تک تدبیر کر سکتا ہے اور اس کی کتنی واقفیت اور کس حد تک رسائی ہے جس سے وہ تدبیر میں فائدہ اٹھا سکتا ہے.بہت سی باتیں ایسی ہیں جو اس کے اختیار میں نہیں ان کا کیا علاج وہ کر سکتا ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الاول سنایا کرتے تھے کہ ریاست رامپور کے ایک وزیر کا ایک نہایت وفادار پٹھان نوکر تھا جو اپنی وفاداری کے بہت دعوے کیا کرتا تھا.کسی نے اسے کہا کہ تم اپنے آقا سے وفاداری کے دعوے تو بہت کرتے ہو مگر خدا تعالٰی سے کوئی واسطہ اور تعلق تمہیں نہیں.وہ کہنے لگا کہ میں کسی خدا کو نہیں جانتا میرا خدا میرا آقا ہی ہے.میں بھوکا مرتا تھا میرے بیوی بچوں کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں تھا خدا نے میری کوئی مدد نہ کی مگر اس نے مجھے کھانے کے لئے دیا یہی میرا خدا ہے.ایک دفعہ نواب صاحب کی تاج پوشی یا پیدائش کا دن تھا.اس تقریب پر وہاں جلسہ ہوا.شہر کے تمام لوگ جمع تھے اور وزیر صاحب لڈو بانٹ رہے تھے.ایک موقع پر جو لوگوں نے ہجوم کیا تو وزیر صاحب نے انہیں پیچھے ہٹانے کے لئے کوڑا ہلایا.جو انفاق سے ایک پٹھان کو جا لگا جس کے شاید نواب صاحب سے رشتہ داری کے تعلقات بھی تھے.اس نے فورا چاقو نکال لیا اور کہا تم نے میری ہتک کی ہے.اس پر وزیر اور سختی سے پیش آیا.پٹھان نے اس کے پیٹ میں چاقو مار دیا.یہ دیکھ کر اس پٹھان نوکر نے جو وفاداری کے بہت دعوے کیا کرتا تھا جلدی سے چاقو کو پکڑنے کے لئے جو ہاتھ مارا تو وہ اور زیادہ اندر گھس گیا جس سے موت واقعہ ہو گئی.تو بیسیوں باتیں انسان کے اختیار میں نہیں ہوتیں بلکہ ہر کام کا کچھ حصہ ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے اور کچھ نہیں.جو ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے اس کے لئے ہم تدبیر کر سکتے ہیں.مگر جو نہیں ہوتا اس کے لئے

Page 26

خطبات محمود ۲۱ سال ۶۱۹۳۱ دعا کے سوا کچھ نہیں کر سکتے اس لئے خدا تعالیٰ نے يُسْتَغْفِرُونَ فرمایا ہے پس آفات سے نجات کے دو ذرائع ہی ہو سکتے ہیں.ایک نبی کے قرب کی دیوار ہے جس کے اندر جماعت محفوظ رہ سکتی ہے اور دو سرا ذریعہ یہ ہے کہ انسان تدبیر سے بدی کو مٹادے اس کے لئے حتی الامکان کوشش کرے اور ساتھ ہی خدا تعالٰی سے دعا بھی کرتا رہے جب یہ دونوں باتیں مکمل ہو جاتی ہیں تو انسان محفوظ ہو جاتا ہے.وگرنہ اس کے بغیر وہ ہمیشہ خطرہ میں ہوتا ہے اور معلوم نہیں کہ کس وقت پاس سے ہی آگ پیدا ہو کر اسے تباہ کر دے.پچھلے سال جب انہی دنوں میں ڈلہوزی گیا تو وہاں میں نے ایک رؤیا دیکھا کہ میں لاہور گیا ہوں اور کالجوں کے تمام طلباء میں دہریت پھیل رہی ہے اور معلوم ایسا ہوتا ہے کہ وہ خدا کے متعلق مجھ سے سوال کرنا چاہتے ہیں میں دل میں خیال کرتا ہوں ہمیشہ میں یہ بات کہا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ مجھے قرآن سکھاتا ہے اور ہر اعتراض کا جواب سمجھاتا ہے یہ گروہ جو اس وقت کوشش کر رہا ہے کہ سوالات کر کے خدا تعالیٰ کی ہستی کو مشتبہ کردے اسے اس وقت کیا جواب دوں جو تسلی بخش ہو.میں جواب سوچتا ہوا ٹہل رہا ہوں کہ اس عرصہ میں یکدم ایسا معلوم ہوا کہ آسمان سے میرے قلب میں ایک کھڑکی کھلی ہے جس سے مجھے اطمینان ہو گیا کہ ان کو اب میں سمجھا سکوں گا اس سے تھوڑی دیر کے بعد ان کا پیغام آیا کہ ہماری تسلی ہو گئی ہے اور اب ہم آپ سے کچھ نہیں پوچھنا چاہتے.خدا تعالیٰ کی عجیب قدرت ہے کہ اسی مہینہ میں اور پورے ایک سال کے بعد ایک غیر احمدی طالب علم کا مجھے خط آیا کہ اور تو تمام کام آپ کی جماعت اچھے کرتی ہے مگر یہ ٹھیک نہیں کہ آپ لوگ خدا کی ہستی کو منوانے کی کوشش کرتے ہیں ہم لوگ اب ایسی باتوں سے باکل آزاد ہو چکے ہیں اور ہم نے اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ خدا کوئی نہیں.یہ ایک کو ہے جو ممکن ہے ہمارے بچوں پر بھی اثر کرے لیکن اگر اسے ہم ابتداء میں ہی روک دیں تو وہ اس سے محفوظ رہ سکتے ہیں.جو مرض ہمارے ہمسایہ کے گھر میں پیدا ہو چکا ہو وہ ممکن ہے ہمارے گھر میں بھی آجائے طاعون اگر آج ہمسایہ کے گھر میں ہے تو عین ممکن ہے دو روز بعد ہمارے گھر میں آجائے اگر ہمارے ہمسایہ کے کھیت میں مڈی ہے اور ہم اس کے ساتھ ملکرد ہیں اسے تباہ کرنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کھیت میں تو نہیں تو یہ سخت غلطی ہے اس کا کھیت کھا کر وہ ضرور ہمارے کھیت میں آئے گی.پس ضروری ہے کہ ہم سب مل کر اس کو کا مقابلہ کریں یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ ہم اس سے محفوظ ہیں ہمیں کیا ضرورت ہے کہ اسے روکیں.ہمارے ملک میں ایک قصہ مشہور ہے کہ تین آوارہ نوجوان جن میں سے

Page 27

خطبات محمود ۲۲ ۱۹۳۱ء ایک سید اور ایک مولوی اور ایک زمیندار تھا ایک باغ میں داخل ہوئے اور تمام میوے تو ڑتوڑ کر کھانے لگے.اتنے میں باغ کا مالک بھی آگیا مگر وہ اکیلا تھا اس نے سوچا کہ یہ تینوں مشٹنڈے ہیں اگر سختی کروں تو ممکن ہے مجھے ہی ماریں اس لئے حکمت سے کام کرنا چاہئے.اس خیال سے اس نے سید اور مولوی کو تو جھک کر ادب سے سلام کیا اور کہا آپ کا تو یہ اپنا باغ ہے آپ آل رسول اور رسول اللہ کے گدی نشین ہیں جو کچھ بھی ہمارا ہے وہ آپ کا ہی ہے آپ کا تو حق تھا کہ جو چاہتے کرتے لیکن اس جاٹ کا کیا حق تھا اس نے میرا باغ کیوں اجاڑ دیا انہوں نے کہا ہاں ٹھیک ہے اس کا کوئی حق نہ تھا اس نے کہا تو پھر آپ دونوں انصاف کو مد نظر رکھتے ہوئے میری مدد کریں چنانچہ انہوں نے اسے مدد دی اور اس نے اسے خوب ہی مارا اور پھر باندھ دیا اسکے بعد وہ سید صاحب سے کہنے لگا کہ آپ تو آل رسول ہیں آپ کا تو یہ اپنا مال ہے مگر یہ مولوی جو دو سروں کو کہا کرتا ہے کہ کسی کی چیز کو ہاتھ نہ لگاؤ اس کا کیا حق تھا کہ میرے مال کو استعمال کرتا اس سے سید خوش ہو گیا اور یہ سمجھ کر کہ میرا مرتبہ بہت بلند ہے کہنے لگا ہاں ٹھیک ہے اس نے کہا تو میری مدد کیجئے اور اس کی مدد سے اس نے مولوی کو بھی خوب مارا اور پھر باندھ کر ایک طرف ڈال دیا آخر اس نے سید کو بھی گردن سے پکڑ لیا اور کہا بڑا آل رسول بنا پھرتا ہے رسول اللہ تو لوگوں کے حق دلوایا کرتے تھے تو کیسا سید ہے جو لوگوں کے باغ اجاڑتا پھرتا ہے اور اسے خوب اچھی طرح مارا.غرض پراگندگی سے بنا بنایا کام بھی خراب ہو جاتا ہے اور دشمن ایک ایک کر کے سب کو مار لیتا ہے اس لئے جماعت کا فرض ہے کہ مشترکہ کوشش سے اس کو کو روک دے.ہر فرد کو چاہئے کہ اپنے گردو پیش کی تمام باتوں کا اچھی طرح سے خیال رکھے دہریت پر وہ اور سود وغیرہ کے متعلق جو بھی حالات ہوں ان پر پوری طرح نگاہ رکھے جس طرح ایک پہرہ دار ہر طرف دھیان رکھتا ہے اور صرف یہ خیال نہ کرے کہ ہم محفوظ ہیں الْحَمْدُ لِلہ ہم میں تو یہ بیماری نہیں.طاعون سے بچنے کا طریق یہی ہے کہ اسے مٹادیا جائے جو قوم اس پر تسلی کر لیتی ہے کہ دو سر نکلے کے گھر میں ہی دباء ہے ہم میں نہیں وہ کبھی محفوظ نہیں رہ سکتی اگر ہمارے ہمسایہ کے گھر میں آگ لگی ہے تو دو گھنٹہ کے بعد ہمارے گھر میں بھی وہ ضرور آئیگی.پس ہمارا پہلا فرض یہ ہے کہ ہمسایہ کے گھر میں ہی آگ پر قابو پا نیکی کوشش کریں نہ یہ کہ اپنے گھر میں آنے کے منتظر رہیں اسی طرح بیہ بھی ضروری ہے کہ دوسروں کے عقائد کو درست کریں تبھی ہماری نسلیں بھی محفوظ رہ سکتی ہیں اسی طرح پردہ کے متعلق ہندوستان میں یہ رو پیدا ہو رہی ہے کہ اسے بالکل چھوڑ دیا جائے

Page 28

خطبات محمود ۲۳ سال ۱۹۳۱ نو ایسے لوگ اپنی پستی کا تمام الزام پر دہ پر لگاتے ہیں حالانکہ جو پردہ ترک کر رہے ہیں وہ دل سے بھی دوسروں کے غلام بنتے جارہے ہیں یعنی ذہنی اور روحانی غلامی اختیار کر رہے ہیں اور ہم جو پردہ ضروری سمجھتے ہیں اس سے آزاد ہیں کیونکہ ہم اس تہذیب کے سخت مخالف ہیں جسے وہ اپنی ترقی کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور ظاہری غلامی ہمارے نزدیک کوئی چیز نہیں.ظاہری حکومت آخر کسی نے تو کرنی ہے اگر ہندوستانیوں کی اپنی حکومت ہو تو بھی کیا سارے ہی حکمران ہو نگے ایک حصہ ہی حکومت کریگا پس ظاہری غلامی کوئی چیز نہیں غلامی در اصل دماغی خطرناک ہوتی ہے.پس پردہ چھوڑنے والے پورے طور پر یورپ کے غلام بنتے جارہے ہیں لیکن پردہ جس کے متعلق کہتے ہیں کہ اس نے انہیں زوال تک پہنچایا اسے مسلمانوں نے اختیار کرنے کے باوجود تمام دنیا کو فتح کر لیا تھا.رسول کریم میں امی کی بیویاں پردہ کرتی تھیں مگر جنگوں میں بھی شامل ہوتی تھیں جنگ صفین میں حضرت عائشہ خود کمان کرتی رہیں بڑے بڑے جرنیل بھی اس وقت پیچھے ہٹ گئے مگر وہ برابر میدان میں موجود رہیں پس اپنا نقص کسی اور طرف منسوب کرنا حماقت ہے.یہاں قادیان میں ہی پر دہ ہے مگر یہاں کی عورتیں دوسری اقوام کی عورتوں کی نسبت زیادہ پڑھی ہوئی ہیں.میں نے ایک دفعہ معلوم کرایا تو پتہ لگا کہ ان پڑھ لڑکیاں بہت کم ہیں مگر ان پڑھ لڑکے بہت زیادہ ہیں مگر یہاں پر وہ با قاعدہ ہے پھر کئی ایک لڑکیاں مولوی کا امتحان دے چکی ہیں کئی نے انٹرنس کا امتحان پاس کر لیا اور اب کئی ایف اے کی تیاری کر رہی ہیں اس کے مقابلہ میں ان میں جو پردہ کی مخالف ہیں ابھی تک وہی جہالت اور تاریکی پھیلی ہوئی ہے بیشک ان کے پاس سامان زیادہ ہیں اور اگر وہ کوشش کریں تو ہم سے بڑھ جائینگی لیکن ان کی ترقی مال و دولت کیوجہ سے ہوگی نہ کہ پردہ چھوڑنے کے باعث پھر یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ پردہ چھوڑنے والوں کو حکومت کی امداد بھی حاصل ہے پچھلے گورنر صاحب کی بیوی پردہ کی سخت مخالف تھیں حتی کہ انہوں نے پر دہ کلب میں جاتا ترک کر دیا تھا کیونکہ وہ اسے بہتک سمجھتی تھیں.اور بہت سے مسلمانوں کی بیویوں نے محض اسوجہ سے پردہ ترک کر دیا کہ لاٹ صاحب کی بیوی کی ملاقات سے محروم نہ رہ جائیں.ہماری جماعت کے لوگوں کو یاد رکھنا چاہیئے ہمارا کام صرف ؛ فات مسیح ہی منوانا نہیں بے شک یہ بھی بہت ضروری ہے مگر یہ روئیں جو چل رہی ہیں دہریت ں اور اسلامی احکام سے روگردانی کی اور یہ کہ اسلام نے عورتوں کو حقوق نہیں دیتے ان کا مقابلہ کرنا بھی ہمارا فرض ہے.اور اس کا بہترین طریق یہ ہے کہ ہم عورتوں کی تعلیم کا پورا انتظام کریں.اگر ان عورتوں سے جو اسلامی احکام کی خلاف

Page 29

۲۴ سال ۱۹۳۱ء ورزی کرنے پر تلی ہوئی ہیں ہم خود کہیں گے کہ یہ طریق تمہارے لئے مفید نہیں بلکہ نقصان رسان ہو گا.تو سابقہ اثرات کے ماتحت وہ ہماری بات نہیں سنیں گی اور کہہ دیں گی تم ظالم مرد ہو تم نے عورتوں کے حقوق غصب کر رکھے ہیں.لیکن اگر عورتیں جاکر انہیں کہیں گی کہ ہم علی وجہ البصيرة اور تجربہ کی بناء پر کہتی ہیں کہ اسلام کی تعلیم اعلیٰ اور فائدہ بخش ہے تو اس کا ان پر اثر ہو گا.عورتوں کے متعلق جو رو چلی ہے اس کا اگر مرد مقابلہ کریں گے تو اس کامیابی سے نہیں کر سکیں گے جس طرح صرف عورتیں کر سکتی ہیں.اگر عورتیں کہیں ہم اسلامی احکام کی پابندی کرتی ہوئی تمام حقوق سے فائدہ اٹھارہی ہیں تو ان کو خیال ہو گا کہ اگر یہ اٹھارہی ہیں تو ہم کیوں نہیں اٹھا سکتیں.اسی وجہ سے میں نے مجلس شوری میں عورتوں کے حق رائے دہندگی کے متعلق سوال اٹھایا تھا.میں نے ۱۹۲۴ ء میں ولایت سے ایک چٹھی لکھی تھی جس میں بتایا تھا کہ اب ہندوستان میں پردہ کے خلاف کو چلے گی میرے اس وقت کے جو مضامین الفضل میں چھپے تھے ان میں یہ چٹھی بھی تھی.اب گزشتہ دو سال سے پردہ کے خلاف جو تحریک شروع ہو گئی ہے میں نے کئی سال قبل اس کے متعلق خبر دی تھی اور مجلس شوری میں اسی وجہ سے حقوق رائے دہندگی کا سوال اٹھایا تھا کہ جس حد تک شریعت عورتوں کو حق دیتی ہے ہمارا فرض ہے کہ دیں تا انہیں اسلامی تعلیم سے ہمدردی پیدا ہو اور جب تک ان کے اندر یہ جذبہ پیدا نہ ہو وہ عورتوں کو اسلامی احکام پر چلنے کی دعوت نہیں دے سکتیں اور عورتوں میں تبلیغ نہیں کر سکتیں.تم میں سے کوئی یہ نہیں کہتا کہ مدرسه احمدیه یا جامعہ احمدیہ اُڑا دیا جائے کیونکہ سب جانتے ہیں کہ جب تک مبلغ نہ ہوں تبلیغ نہیں ہو سکتی.یہی وجہ ہے مجلس شوری کے موقع پر زور دیا جاتا ہے کہ مبلغین کی تعداد زیادہ کی جائے.پھر یہ کس طرح خیال کیا جا سکتا ہے کہ عورتوں میں اسلامی احکام کے خلاف جو رو چل رہی ہے جب تک عورتیں تبلیغ کا کام نہ کریں اسے روکا جا سکتا ہے لیکن جو عورت خود اپنے کو مظلومہ سمجھے وہ دوسری کو کیا تبلیغ کر سکے گی.پس دونوں چیزیں ضروری ہیں عورتوں کو تعلیم بھی دی جائے اور ان کے حقوق بھی جو اسلام نے انہیں دیئے ہیں ہمیں چاہئے خود ہی دے دیں تا ان کے اندر جوش پیدا ہو اور وہ اسلام کی جنگ اپنی جنگ سمجھ کر لڑیں.عورتوں کے جلسوں میں مرد تو تقریریں نہیں کر سکتے عورتیں ہی کر سکتی ہیں اور عورتوں کے جلسوں میں جو کچھ بیان کیا جاتا ہے اس کے نوٹ بھی عورتیں ہی لے سکتی ہیں اس لئے عورتوں کو ہی اس کام کے لئے تیار کرنا چاہئے.اور انہیں جو حقوق اسلام نے دیئے ہیں دے دینے چاہئیں.

Page 30

خطبات محمود ۲۵ سال ۱۹۳۱ء پچھلے دنوں باہر سے ایک نوجوان یہاں آیا ہوا تھا.اس کا اپنی بیوی سے کچھ جھگڑا تھا.اس نے مجھے لکھا ایک بزرگ نے مجھے کہا ہے اگر تمہارا کہنا نہیں مانتی تو ڈنڈا لے کر سیدھا کرو یہ پڑھ کر مجھے تو شرم ہی آئی کہ کس طرح ایسے شخص کو بزرگ سمجھ رہا ہے جو بیوی کو مارنے کی تلقین کرتا ہے بزرگی اسلام کی تعلیم جاری کرنے میں ہے نہ کہ رد کرنے میں.ممکن ہے کوئی شخص بیوی کو مار کر چپ کرا دے مگروہ بیوی کو نہیں دراصل اسلام کو مارتا ہے.کیونکہ وہ عورت اور اس سے تعلق رکھنے والی دوسری عورتیں ایسے مذہب سے بیزاری کا اظہار کریں گی.پھر مارنے سے ممکن ہے اس کے گھر میں تو امن ہو جائے مگر وہ اسلام کے گھر کو اجاڑنے کی کوشش کرے گا.پس وہ بزرگ کہلانے والے اگر اس وقت یہاں موجود ہوں تو وہ سن لیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں بزرگ نہیں بلکہ خورد سے بھی چھوٹے ہیں.دنیا میں انصاف عدل اور رحم سے ہی امن قائم ہو سکتا ہے جب تک یہ نہیں اس وقت تک کامیابی نہیں ہو سکتی.غرض عورتوں کو تعلیم بھی دینی چاہئے ، اچھی تربیت بھی کرنی چاہئے اور آزادی بھی جس حد تک اسلام نے دی ہے دینی چاہئے بلکہ اسلام نے تو آزادی ہی دی ہے اس لئے یوں کہنا چاہئے کہ جس حد تک اس نے قید کا حکم دیا ہے اس سے زیادہ کے لئے مردوں کو کوشش نہیں کرنی چاہئے کیونکہ جیسے دماغ ہمارے ہیں ویسے ہی عورتوں کے بھی ہیں.میں امید کرتا ہوں کہ قادیان کے لوگ عموماً اور باہر کی جماعتیں خصوصاً اس طرف متوجہ ہوں گی.کئی کام ایسے ہیں جن میں مرکزی جماعت کو زیادہ توجہ دینی پڑتی ہے اور کئی ایسے ہیں جن میں باہر کی جماعتوں کو زیادہ متوجہ ہونا ضروری ہوتا ہے اور یہ بات زیادہ تر باہر کی جماعتوں سے تعلق رکھتی ہے.انہیں چاہتے کہ عورتوں کو پردہ وغیرہ کے مسائل اچھی طرح سمجھا کر اور پوری طرح مطمئن کر کے ان کے ذریعہ خلاف اسلام خیالات کو دور کرنے کی کوشش کریں.اگر ہم نے مردوں پر فتح پانی ہے تو یقینا عورتوں سے شکست نہیں کھا سکتے اور اگر عورتوں سے شکست کھا گئے تو مردوں پر ہماری فتح بھی جھوٹی ہوگی اس میں کیا شک ہے کہ مرد کو خدا تعالیٰ نے نسبتاً زیادہ قوت دی ہے اور اسے قوام ٹھرایا ہے.پس اگر دلائل کے میدان میں ہم نے مردوں کو فتح کر لیا ہے تو یقیناً عورتوں کو بھی کرلیں گے.پس چاہئے کہ باہر کے شہروں کی جماعتیں اپنی عورتوں کو اچھی طرح اسلام سے واقف و آگاہ کر کے کوشش کریں کہ وہ دوسری عورتوں سے مل کر ان کے خیالات کی اصلاح کریں وگرنہ اگر یہ کرو زیادہ بڑھی تو اس کا مقابلہ مشکل ہو گا.ابتداء میں جو کام آسانی سے ہو سکتا

Page 31

خطبات ۲۶ ہے بعد میں بہت مشکل سے ہوتا ہے.اسی طرح دہریت کی رو مردوں میں پھیل رہی ہے اس کے متعلق تعلیم یافتہ لوگوں کو کوشش کرنی چاہئے.میر افشاء ہے کہ ہستی باری تعالیٰ کے متعلق چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ شائع کئے جائیں اس لئے دوستوں کو توجہ ولا تا ہوں خصوصاً کالجوں کے طلباء کو کہ اپنے اپنے ہاں اپنی انجمنیں بنا کر ایسے ٹریکٹ منگوا کر تقسیم کریں.اور اگر ہم پورے زور سے کام کریں تو دہریت کا جوش تین چار ماہ میں ہی ٹھنڈ ایڑ سکتا ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ سے زیادہ نمایاں اور ثابت شدہ چیز اور کوئی نہیں.لوگوں کو صرف دھوکا لگ جاتا ہے.اور اگر چھ سات ماہ تک بھی ہم اس رو کا مقابلہ کریں تو اسے روک سکتے ہیں.خدا تعالیٰ نے جو دلائل ہمیں دیتے ہیں ان کے مقابلہ میں کون ٹھہر سکتا ہے.پس تعلیم یافتہ اوگ اور خصوصا کالجوں کے طلباء اپنی اپنی جگہ پر تیار ہو کر اطلاع دیں کہ وہ ایسے ٹریکٹوں کی اشاعتوں میں کہاں تک حصہ لے سکتے ہیں.میرا خیال ہے آٹھ صفحات کا ایک ٹریکٹ ۱۴۴۱۳ روپیہ ہزار تک چھپ سکے گا اور لاہور میں میں سمجھتا ہوں.ڈیڑھ دو ہزار طلباء کالجوں میں ہوں گے.گویا چوبیس پچیس روپیہ میں ماہوار ان میں ایک ٹریکٹ تقسیم کیا جا سکتا ہے اور چھ سات ماہ میں ہی اس کا نمایاں اثر ظاہر ہو سکتا ہے.اسی طرح انگریزی میں بھی ایسے ٹریکٹ شائع کئے جائیں.تامد راس ، کلکتہ، رنگون وغیرہ مقامات پر جہاں اردو نہیں کبھی جاتی انہیں تقسیم کیا جاسکے اور اس طرح اگر خدا تعالیٰ چاہے تو تھوڑے عرصہ میں ہی طلباء کے اندر ایک تغیری عظیم پیدا کیا جا سکتا ہے.جس سے وہ اسلام کے لئے بہت مفید ثابت ہو سکتے ہیں.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالٰی ہمارے محدود ذرائع کے باوجود اپنے غیر محدود فضل سے ہم سے زیادہ سے زیادہ کام لے اور ہمیں اس مقصد میں کامیاب کرے جس کے لئے ہم پیدا کئے گئے ہیں.الفضل ۲۲ جنوری ۱۹۳۱ء) ال الانفال: ۳۴

Page 32

خطبات محمود ۲۷ 4 سال ۱۹۳۱ رمضان المبارک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عید ہے فرموده ۲۳- جنوری ۱۹۳۱ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان کے ماتحت پھر ہم میں سے بہتوں کو اس مبارک مہینہ میں سے گذرنے کا موقع ملا ہے جس میں اللہ تعالی کی پاک کتاب نازل ہوئی اور جس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ کی پاک کتاب نازل ہوئی ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لئے سب دن برابر ہیں لیکن وہ اپنی وفا کا اظہار کرنا چاہتا ہے.انسان باتوں کو بھلا دیتا ہے لیکن خدا تعالیٰ اپنے بندوں کے کاموں کو بھلانا نہیں چاہتا.اس لئے جب کبھی بھی وہ دن آتا ہے جس میں کسی بندہ نے کوئی خاص کام کیا ہو اس دن اللہ تعالیٰ کے خاص فضل نازل ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ کے تمام کام موسموں سے مشابہت رکھتے ہیں اور روحانی کام جسمانی کاموں سے مماثلت رکھتے ہیں.یعنی جس طرح جسمانی کاموں کے موسم ہوتے ہیں اسی طرح روحانی کاموں کے بھی موسم ہوتے ہیں.جس طرح ایک درخت وقت پر پھل دیتا ہے اسی طرح جب کسی انسان کو نیکی کی توفیق ملتی ہے اور وہ کوئی خاص قربانی دین کے لئے بنی نوع انسان کے فائدے کے لئے یا خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کرتا ہے تو جب وہی دن پھر آتا ہے اللہ تعالی اس قربانی کی یاد کے طور پر اس دن پھر اپنے فضل نازل کرتا ہے.گویا وہ ایک درخت بن جاتا ہے جو اپنے موسم میں پھل دیتا ہے.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے نیک اعمال کو شجرہ طیبہ قرار دیا ہے.یعنی وہ ہر سال پھل دیتے ہیں جس دن کوئی شخص نیک عمل کرتا ہے.اگلے سال پھر اسی دن اس نیک عمل کو پھل لگتا ہے.اور اگر انسان کو شش کر کے سال کے ۳۶۰ دنوں میں ہی ایسے شجر لگالے تو تمام عمر

Page 33

خطبات محمود YA.سال ۱۹۳۱ء کے لئے آسانی اور سہولت کا رستہ اس کے لئے کھل جاتا ہے.جب وقت کے گا خود بخودا سے نیکی کی طرف رغبت ہوگی.کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ایک افیونی کا جب افیون کھانے کا وقت آئے تو اسے بے چینی شروع ہو جائے لیکن اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہونے کے لئے اگر سچی تڑپ پیدا کر لی جائے تو عین وقت پر انسان کے اندر خود بخود رغبت اور تحریک نہ ہو.پس جو شخص کسی وقت کوئی نیکی کرتا ہے وہی وقت جب دوبارہ آتا ہے تو پھر اس کے اندر نیکی کی تحریک پیدا ہوتی ہے اس کے مقابلہ میں اسی وقت اللہ تعالیٰ کے فضل کا دروازہ بھی کھل جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے پیچھے رہنا پسند نہیں کرتا.اس کا نام غیور ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ وہ بندہ کے فعل سے بڑھ کر اپنی صفات اس کے لئے ظاہر کرتا ہے اس لئے جب بندہ دوبارہ نیکی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی دوبارہ اس پر فضل نازل کرتا ہے اور پہلے سے زیادہ کرتا ہے اور اس طرح وہ درخت ہمیشہ کے لئے پھل دیتا رہتا ہے.لیکن تمام کام ایک قسم کے نہیں ہوتے بعض اہم ہوتے ہیں اور بعض چھوٹے جس طرح بعض درخت ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں خوردبین سے دیکھا جا سکتا ہے اور بعض اتنے بڑے کہ اگر انسان ان کی چوٹی کو دیکھنے کی کوشش کرے تو سر سے پگڑی یا ٹوپی گر جائے گی.اسی طرح بعض روحانی اعمال بھی خوردبینی ہوتے ہیں.اور جس طرح خوردبین سے نظر آنے والے درخت کا پھل بھی اسی نسبت سے ہوتا ہے.خوردبینی اعمال کے مقابلہ میں فضل بھی اسی حیثیت کا ہوتا ہے اس لئے بہت سے لوگ اس حقیقت سے غافل ہوتے ہیں.چونکہ ان کی نیکی معمولی ہوتی ہے اور دوبارہ جب وہی وقت آتا ہے تو پھر وہ نیکی کرتے ہیں اور اس کے مقابلے میں فضل بھی نازل ہوتا ہے.لیکن جس طرح کئی قسم کی نباتات ، دیواروں ، کپڑوں بلکہ بعض دفعہ ہمارے جسموں پر بھی اگتی ہیں مگر ہمیں اس کا احساس نہیں ہو تا اور ظاہر ہے کہ اس کے پھل بھی ایسے ہی ہونگے.اسی طرح چونکہ بعض لوگوں کے روحانی اعمال خوردبینی ہوتے ہیں اس لئے ان کے پھل بھی ایسے ہی ہوتے ہیں جو بادی النظر میں محسوس نہیں ہو سکتے لیکن جو اعمال بڑے ہوتے ہیں ان کا فضل ایک بڑے درخت کے پھل کی طرح صاف نظر آجاتا ہے جس طرح حضرت ابراہیم کو بڑھاپے میں جبکہ انہیں کوئی امید نہ تھی اولاد کاملنا اور معمولی اولاد نہیں بلکہ ایسی اولاد جس کی پیدائش سے پہلے پیشگوئی کی گئی تھی.یعنی انهامی اولاد پھر معمولی اولاد نہیں بلکہ جس کے متعلق وعدہ تھا کہ وہ نبی جو دنیا کے لئے مستقل فیضان کا موجب ہو گا اس کی نسل سے ہو گا.ایسی اولاد کا بڑھاپے میں ملنا پھر آپ کا رویا میں دیکھنا کہ اپنے بچہ کو ذبح کر رہا ہوں اور اسے ذبح کرنے کے لئے

Page 34

خطبات محمود ۲۹ ال ۱۹۳۱ء تیار ہو جانا.گو یا خد اتعالیٰ کے ان تمام وعدوں پر اپنے ہاتھ سے چھری پھیر دینا تھا.وہ کامیابیاں جو حضرت اسماعیل" سے متعلق تھیں جب ہمیں یاد ہیں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی ضرور یاد ہوں گی.مگر ان سب کی حضرت ابراہیم نے کوئی پرواہ نہ کی.بیٹے کی قربانی کوئی بڑی چیز نہیں.اگر حضرت ابراہیم " صرف بیٹے کی قربانی کرتے تو ان کے مقام اور مرتبہ کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم اسے اتنی اہمیت دینے کے لئے تیار نہ تھے مگر جو چیز حیرت میں ڈالنے والی ہے وہ حضرت اسماعیل کی قربانی ہے.ہر بیٹا اسماعیل نہیں ہو سکتا.ایسا بیٹا اربوں بلکہ سینکڑوں اربوں میں سے کوئی ایک ہی ہو سکتا ہے.وہ وہ بیٹا تھا جس نے ہمیشہ کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عزت کو قائم کرنا اور جس کی نسل سے اس عظیم الشان نبی نے پیدا ہو نا تھا جس کا فیضان قیامت تک جاری رہنے والا تھا.گویا اس بیٹے کی زندگی قیامت تک حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے نیکی قائم رکھنے والی تھی.آپ نے ایک رؤیا دیکھا اور اسے ذبح کرنے کے لئے تیار ہو گئے.گو یا خد اتعالیٰ کے ایک حکم پر سب کچھ قربان کر دیا.جب ایک عمل کے نتیجہ میں جنت حاصل ہو سکتی ہے تو اس کے ثواب کا کیا اندازہ ہو.ہو سکتا ہے جسے اربوں جنتیوں کا ثواب ملنا تھا.مگر وہ اس بیٹے کو قربان کرنے پر آمادہ ہو گئے.گویا خدا کے لئے اربوں جنتوں کو قربان کرنے کے لئے رضامند ہو گئے.پس جب انہوں نے ایسی عظیم الشان قربانی کی تو خدا تعالیٰ نے کہا ہم بھی اس دن کو ہمیشہ یاد رکھیں گے اور در حقیقت عید الاضحی کے دن ہم اس قربانی کی یاد کو تازہ کرتے ہیں اور اس دن کو عید بنا کر خدا تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے کہ یہ خاص فضلوں کا دن ہے.اس دن ہمارا افضل خاص جوش میں ہو تا ہے کیونکہ اس دن ابراہیم نے ہماری رضا کے لئے اسماعیل کے گلے پر چھری پھیر نی چاہی تھی.تو اللہ تعالی کے حضور بڑی خدمات کو بڑے دنوں کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے.خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے دو عید میں مقرر کی ہیں اور اسلام کی ہر بات تمام زاویوں کے لحاظ سے مکمل ہوتی ہے.دنیا میں ہم دیکھتے ہیں قربانیاں دو قسم کی ہوتی ہیں یعنی انفرادی اور قومی قربانیاں.ان دونوں کی یاد میں خدا تعالیٰ نے دو عیدیں رکھیں.عید الاضحی انفرادی قربانی کی یاد ہے اور عید الفطر قومی قربانی کی.جس کے یہ معنے ہیں کہ بہت سے لوگوں نے مل کر ایک بڑا کام کیا ہے اور ایک قوم کی قوم نے خدا تعالیٰ کے لئے اپنے آپ کو فاقوں میں ڈال دیا پس عید الاضحی فردی قربانی کی عید ہے اور عید الفطر قومی قربانی کی.ایک یہ بتاتی ہے کہ اگر ساری قوم مل کر کوئی بڑا کام کرے تو خدا تعالٰی اسے نہیں بھلاتا اور دوسری یہ سکھاتی ہے کہ خدا تعالی انفرادی قربانی کو بھی نہیں بھلاتا.رمضان اپنے اندر بڑی برکتیں رکھتا ہے

Page 35

خطبات محمود اور یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کی عید ہے.کیا لطیف رق ہے محمد رسول اللہ اور دوسرے انبیاء کی قربانی میں.حضرت ابراہیم کی قربانی بڑی تھی لیکن اس کے بدلہ میں کیا ملا.اس کی یاد اس طرح قائم کی گئی کہ کھاؤ اور پیو لیکن محمد رسول اللہ کی قربانی کے بدلے میں امت محمدیہ کے لئے بھی ایک قربانی رکھی گئی.اور وہ یہ کہ روزے رکھو اور فاقے کرو.گویا محمد رسول اللہ مسلم کی عید قربانی میں ہی تھی.باقی انبیاء اپنی قربانیوں کے نتیجہ میں کھاتے پیتے تھے مگر محمد رسول اللہ مان عالم نے ایسا نہیں کیا.حتی کہ اپنی اولاد کے لئے بھی صدقہ حرام فرما دیا.پس رمضان آپ کی قربانی کی عید ہے جس طرح عید الا ضحی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی اور عید الفطر مسلمانوں کی قربانی کی عید ہے اور سب سے بڑی عید رمضان کی عید ہے.اگر چہ دوسری دونوں عیدیں بھی بڑی ہیں مگر ان سب سے بڑھ کر رمضان ہے.جب محمد رسول اللہ میر کی قربانی کی یاد کے لئے انسان کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے.اس میں کیا شبہ ہے کہ قرآن کریم کے نزول سے بڑھ کر اور کوئی عید نہیں ہو سکتی، ہر چیز کی خوشی اس کے فوائد کی مقدار کے مطابق ہوتی ہے.اگر ایک چیز کے ہزار فائدے ہوں اور دوسری کے لاکھ تو لاکھ فوائد والی چیز ملنے یہ پہلی سے بہت زیادہ خوشی ہوگی.چونکہ سب سے بڑھ کر نعمت قرآن کریم ہے اس لئے جس وقت اس کا نزول ہوا وہ نہایت ہی قیمتی اور بابرکت ہے.عید الفطر کا تو یہ مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے تم میں خوشی مناتے ہیں لیکن اصل عید رمضان ہی ہے.خوشی میں لوگ کیا کیا کرتے ہیں یہی کہ ایک اور آپس میں احسان کرتے ہیں اور حدیثوں میں آتا ہے رسول کریم میں اور رمضان میں تمام وقتوں سے زیادہ صدقہ دیا کرتے اور احسان کیا کرتے تھے.ان دنوں میں آپ کے صدقہ دینے کی مثال تیز آندھی کی طرح ہوتی تھی.اس سے معلوم ہوا کہ آپ اسے عید سمجھتے تھے.جس طرح تہواروں کے موقع پر بادشاہ اور رؤساء لوگوں کو عطیے دیتے ہیں اسی طرح رسول کریم میں کلیم رمضان میں مخلوق کو پہلے سے بھی زیادہ فیض پہنچاتے تھے کیونکہ آپ کی عید اس میں تھی کہ خدا تعالیٰ کے لئے اور بنی نوع کے لئے قربانی کریں.ان ایام میں ہم پر بعض ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں یعنی پو پھٹنے سے لے کر تمام وہ عاقل بالغ جو بیمار نہ ہوں بچے کمزور بوڑھے نہ ہوں یا پھر حائضه.حاملہ یا دودھ پلانے والی عورتیں جو گو بیمار نہ ہوں لیکن روزہ کی برداشت نہ کر سکتی ہوں.عام طور پر اکثر عورتوں کو حمل یا دودھ پلانے کی حالت میں غیر معمولی تکلیف کا امکان ہوتا ہے.یا پھر مسافر نے ہمارے رسول کی خوشی میں خوشی منائی آؤ اب ہم تمہاری سرے کو عطیے دیتے

Page 36

خطبات سال ۱۹۳۱ء کے سوا باقی سب کے لئے غروب آفتاب تک روزہ رکھنا فرض ہے.شریعت کے تمام مسائل میں سہولت ہوتی ہے مگر سہولت کی بھی حد ہوتی ہے.رسول کریم میں میں نے اس امر کو پسند فرمایا ہے کہ جتنی دیر سے سحری کھائی جائے اور جتنی جلدی افطار کیا جائے اچھا ہے لیکن اس کے یہ معنے بھی نہیں کہ دن کے روشن ہو جانے کے بعد کھا پی لیا جائے.پھر کئی اس امر پر بخشیں کرتے رہتے.ہیں کہ روشنی کا ذرا شبہ ہو جانے پر بھی کھانا چھوڑ دینا چاہئے.حالانکہ قرآن کریم نے يَتَبَيَّنَ لَكُمْ فرمایا ہے.جس طرح کسی کمزور نظر والے کاتبین کے بعد بھی نہ دیکھ سکتا اس امر کی دلیل نہیں کہ ابھی تبین نہیں ہوا.اسی طرح کسی وہمی یا تیز نظر والے کا شک بھی اسے ثابت نہیں کر سکتا.يتبيَّنَ لَكُمْ کے معنی یہ ہیں کہ جب قومی لحاظ سے عام طور پر لوگ کہیں کہ تبین ہو چکا ہے اس وقت تک کھانا جائز ہے اذان کی اس میں کوئی شرط نہیں یہ صرف وہیوں کے لئے ہے.مجھے اس دفعہ کے جلسہ سالانہ کی تقریروں میں سے ایک بزرگ صحابی کی تقریر میں یہ بات پڑھ کر سخت تعجب ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اذان کے بعد کھانا پینا ترک کر دیتے تھے حالانکہ قرآن حدیث فقہ اور عقل کے مطابق اذان کوئی دلیل نہیں اور تبین کی کوئی علامت نہیں.رسول کریم من از ان کو تبین کی علامت بنانے کی کوشش ضرور کرتے تھے.چونکہ لوگ عام طور پر اندر گھروں میں ہوتے ہیں.اس لئے رسول کریم میم و احتیاط کے طور پر کوشش فرماتے تھے کہ اذان ایسے وقت پر ہو جب تبین ہو جائے.لیکن اذان بجائے خود تبتین کی کوئی دلیل نہیں.یہ ان صاحب کی غلط فہمی ہے جنہوں نے کہا کہ حضرت مسیح موعود اذان پر کھانا پینا چھوڑ دیتے تھے.اگر چہ میں اس وقت بچہ تھا لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دفعہ کسی نے اذان قبل از وقت دے دی.تو آپ نے اس کے بعد خود بھی کھایا گھر میں سب کو کھلایا اور فرمایا کہ باہر بھی کہلوا دو کہ اذان پہلے ہو گئی ہے ابھی کھانے پینے کا وقت ہے اگر یہ صحیح ہو کہ حضرت مسیح موعود اذان سن کر کھانا پینا چھوڑ دینا ضروری سمجھتے تھے تو اس سنت پر عمل کرنے کے لئے ضروری ہو گا کہ اگر کوئی بے وقوف تین بجے ہی اذان دے دے تو سب لوگ کھانا پینا چھوڑ دیں مگر اس سے اذان کا تعلق نہیں.سحری ختم ہونے کا تعلق تبین سے ہے.اور چونکہ ہر ایک گھر میں بیٹھا ہوا تبین نہیں دیکھ سکتا اس لئے محلہ یا شہر یا گاؤں کے جو بزرگ ہوں.انہیں کو شش کرنی چاہئے کہ اذان ایسے وقت ہو جب پوری طرح تبقین ہو جائے.مجھے اس وقت پوری طرح تو یاد نہیں.خیال ہے کہ غالبا رمضان میں رسول کریم میں تعلیم کسی نابینا کو مؤذن مقرر فرمایا کرتے تھے.کیونکہ وہ مختلف

Page 37

خطبات محمود ۳۲ لوگوں سے پوچھنے کے بعد اذان دے سکتا تھا پھر یہ بھی حکم ہے کہ افطار میں جلدی کی جائے.اس میں بھی بعض لوگ سختی سے کام لیتے ہیں.سورج جب ہماری نظروں سے غائب ہو تا ہے اس سے آٹھ منٹ قبل ڈوب چکا ہوتا ہے کیونکہ اس کی روشنی ہم تک آٹھ منٹ میں پہنچتی ہے.مگر شریعت نے چونکہ ظاہر پر احکام کی بنیاد رکھی ہے اس لئے نظر سے غائب ہونے کے بعد افطاری کا حکم دیا اور اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ نظروں سے غائب ہونے سے آٹھ منٹ قبل وہ ڈوب چکا ہوتا ہے.غروب ہونے کے بعد مزید احتیاط کی ضرورت نہیں رہتی.رسول کریم میں پر نے انکار میں دیر کرنا قومی تباہی کے آثار میں سے بیان فرمایا ہے اس لئے دیر نہ کرنی چاہئے.دیر کرنا وہم اور بیماری ہے نیکی نہیں.انسان اگر مسافر یا بیمار ہو تو روزہ نہ رکھے.آج تک اس امر پر بخشیں ہوتی رہی ہیں کہ سفر کسے کہتے ہیں.لوگوں نے سفر کا اندازہ لگانے میں غلطیاں کی ہیں.سفر خود ہی ظاہر ہوتا ہے.پھر بیماری کے بارہ میں غلطی لگ سکتی ہے.بعض دفعہ انسان زیادہ بیمار نظر آتا ہے مگر خدا تعالی کا ایسا فضل ہوتا ہے.کہ موقع پر اسے توفیق مل جاتی ہے.گذشتہ رمضان سے پہلے مجھے اس قدر ضعف تھا کہ میں سمجھتا تھا شاید روزے نہ رکھ سکوں.لیکن جب روزے رکھنے شروع کئے تو کوئی تکلیف نہ ہوئی بلکہ بدن میں طاقت آگئی.لیکن اب کے کھانسی قریباً اچھی ہو چکی تھی اور اس خیال سے کہ اب نہیں ہوگی میں نے پہلا روزہ بھی رکھ لیا مگر اس سے کھانسی بہت بڑھ گئی ہے.اور بعض اوقات بہت زیادہ تکلیف ہو جاتی ہے.حالانکہ میرا خیال تھا کہ اس سال صحت ایسی ہے کہ میں روزے رکھ سکوں گا لیکن رکھنے سے سخت تکلیف ہوئی.اس طرح تندرستی کے خیال کے ماتحت بیمار کا روزہ رکھنا معذوری میں داخل ہے لیکن جو سمجھتا ہو کہ میں بیمار ہوں اور پھر روزہ رکھے وہ گناہ کرتا ہے اور خود کشی کا مرتکب ہوتا ہے اسی طرح مسافر کو بھی روزہ نہیں رکھنا چاہئے.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عصر کے وقت جب افطاری میں بہت تھوڑا وقت باقی تھا مسافروں کے روزے افطار کرا دیئے تھے.ہاں نفلی روزہ مسافر بھی رکھ سکتا ہے اور رمضان کا روزہ بھی اگر مسافر رکھے تو یہ اس کا نفلی روزہ سمجھا جائے گا مگریہ حرکت پسندیدہ نہیں.خدا تعالٰی نے جو رخصت دی ہے اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے پھر اس مہینہ میں صدقہ و خیرات زیادہ کرنی چاہئے جو لوگ بوجہ معذوری روزہ نہ رکھ سکیں انہیں چاہئے کہ جو کھانا وہ گھر میں کھاتے ہوں ویسا ہی ایک آدمی کو کھلا دیں اور اگر استطاعت ہو تو خواہ خود روزہ رکھیں تو بھی محتاج کو کھانا کھلانا چاہئے.ان دنوں میں اپنے غریب بھائیوں کی امداد کا خاص خیال

Page 38

خطبات محمود ٣٣ سال ۱۹۳۱ء رکھنا چاہیئے.روزہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ یہ بتاتا ہے کہ دیکھو تمہیں اس عارضی فاقہ کشی سے کتنی تکلیف ہوتی ہے اس لئے غور کرو ان لوگوں پر کیا گذرتی ہوگی جنہیں روز ہی فاقہ ہوتا ہے پس ان دنوں میں خصوصیت سے یہ بات یاد دلائی گئی ہے کہ غرباء کا خاص خیال رکھنا چاہئے.مگر اب کچھ ایسی رسم ہو گئی ہے کہ روزہ ایسے طور پر رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے جس سے قطعا کسی قسم کی تکلیف نہ ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام فرمایا کرتے تھے ہمارے ملک میں روزے خوید کا کام دیتے ہیں جس طرح گھوڑے کو خوید دی جاتی ہے جس سے وہ موٹا ہو جاتا ہے اسی طرح رمضان میں لوگ اتنا کھاتے ہیں کہ بجائے کوئی تکلیف محسوس کرنے کے اور موٹے ہو جاتے ہیں.گھی ، دودھ اور مقوی اغذیہ خوب کھاتے ہیں.میرا یہ مطلب نہیں کہ عمدہ اور مقوی چیزیں نہ کھائی جائیں.صحت کے لئے جتنا ضروری ہو ضرور کھائیں لیکن یہ یاد رہے کہ روزہ روزہ کے لئے ہے.اگر کوئی شخص صبح و شام اتنا کھالے کہ نفخ ہو جائے اور صحت اور روحانیت کو فائدہ کی بجائے نقصان پہنچ جائے یا غریبوں کی امداد کر سکنے کی بجائے خود مقروض ہو جائے تو ایسا رمضان اس کے لئے کوئی اچھا رمضان نہیں ہو سکتا.یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی لولا لنگڑا بکرا قربان کر دے.حالا نکہ ایسا بکرا قربانی میں نہیں کیا جاتا.پس ان دنوں خیرات زیادہ کرو ، عبادات زیادہ کرو اور جو معذور نہ ہوں وہ روزے رکھیں.پھر قومی طور پر دیکھا جائے کہ رمضان سے احباب کما حقہ فائدہ اٹھا ر ہے ہیں یا نہیں.میں نے ایک رمضان میں ایک خطبہ میں کہ دیا تھا کہ طالب علم چونکہ ابھی ایسی حالت میں ہوتے ہیں کہ ان کے جسم کی نشو و نما کا زمانہ ہوتا ہے اور خصوصاً امتحان کے دنوں میں انہیں بہت دماغی محنت کرنا پڑتی ہے اس لئے وہ معذور ہیں.اس پر مجھے کئی رقعے اور خطوط آئے کہ آپ نے طلباء کے لئے روزے نہ رکھنے کا دروازہ کھول دیا ہے لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے جس دین پر بغیر سوچے سمجھے اندھا دھند عمل کیا جائے وہ دین نہیں بلکہ محض ایک رسم ہے.قرآن میں صرف بیمار اور مسافر کے لئے روزہ نہ رکھنا جائز قرار دیا ہے.دودھ پلانے والی عورت اور حاملہ کے لئے کوئی ایسا حکم نہیں.مگر رسول کریم میں نے انہیں بیمار کی حد میں رکھا ہے اسی طرح وہ بچے بھی بیمار کی حد میں ہیں جن کے اجسام ابھی نشو و نما پا رہے ہیں خصو صادہ جو امتحان کی تیاری میں مصروف ہوں.ان دنوں ان کے دماغ پر اس قدر بوجھ ہوتا ہے کہ بعض پاگل ہو جاتے ہیں کئی ایک کی صحت خراب ہو جاتی ہے.پس اس کا کیا فائدہ ہے کہ ایک بار روزہ رکھ لیا اور پھر ہمیشہ کے لئے محروم ہو گئے.

Page 39

خطبات محمود ۳۴ سال ۱۹۳۱ء حضرت خلیفۃ المسیح الاول فرمایا کرتے تھے ایک چھوٹی عمر کے بچہ کو روزہ رکھوایا گیا.جس سے وہ سخت تکلیف میں مبتلاء ہو گیا.مگر اسے مجبور کیا گیا کہ کچھ نہ کھائے پیئے.ادھر افطاری کے لئے بڑے زور و شور کی تیاریاں ہو رہی تھیں.دور نزدیک سے لوگ جمع ہو رہے تھے لیکن جب اذان ہوئی تو اس غریب نے جان دے دی.یہ کوئی دین یا ثواب کا کام نہیں بلکہ عذاب اور وبال ہے.دین وہی ہے جو عقل کے مطابق ہو.ہمارا کام ہے کہ نگرانی کریں اور صحیح راستہ لوگوں کو بتا ئیں.اگر ہمارے الفاظ سے کسی کو غلطی لگتی ہے اور ان سے کوئی ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے تو وہی زبان پھر بھی موجود ہے.دوسری بار اس غلطی کو دور کیا جا سکتا ہے.مگر یہ کس طرح جائز ہو سکتا ہے کہ لوگ اپنی اپنی شریعت بنا لیں اور ہم زبان بند رکھیں اس خیال سے کہ ہمارے الفاظ سے کسی کو غلط فہمی نہ ہو جائے.پس دین کو رسم نہ بناؤ.دین نے جو سختیاں اور سہولتیں اور جو درمیانی راستے بتائے ہیں انہیں کھول کھول کر بیان کرو اور جن کو ٹھو کر لگ جائے انہیں پھر سمجھاؤ.اللہ تعالیٰ نے انبیاء اور مامورین کا سلسلہ اسی لئے قائم کیا ہے کہ لوگوں کی غلطیوں کی اصلاح ہو.میں امید کرتا ہوں کہ احباب جماعت اس مہینہ کا رہی اعزاز کریں گے جس کا یہ مستحق ہے اور انہیں شرائط کے ساتھ کریں گے جو شریعت نے مقرر کی ہیں.دین کے بارہ میں نہ تو وہ نرمی اختیار کریں گے جو ایسے لوگوں نے اس میں داخل کر دی ہیں جو الحاد کے مرتکب ہو رہے ہیں اور نہ وہ سختیاں قبول کریں گے جن سے دین ایک رسم بن کر رہ گیا ہے بلکہ درمیانی راستہ اختیار کریں گے.الفضل ۲۹ جنوری ۱۹۳۱ء) ابراهیم ۲۵ ل بخاری کتاب الزكوة باب اخذ صدقة التمر عند صرام القتل بخاری کتاب الصوم باب تعجيل الافطار البقرة:١٨٨ ه بخاري كتاب الصوم باب لا يمنعكم من سحور كم اذان بلال ل بخاری کتاب الصوم باب تعجيل الافطار بخاری کتاب الصوم باب تعجيل الافطار

Page 40

خطبات محمود ۳۵ 5 سال ۱۹۳۱ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک حوالہ کی تشریح اور تبلیغی اشتہارات کے متعلق اعلان فرموده ۳۰- جنوری ۱۹۳۱ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں نے پچھلے جمعہ کے خطبہ میں رمضان کے متعلق بعض باتیں بیان کی تھیں اسی سلسلہ میں آج بھی ایک حوالہ کے متعلق جو الفضل کے تازہ پرچہ (۳۰.جنوری ۱۹۳۱ء صفحہ اول) میں شائع ہوا ہے ابتداء کچھ کہنا چاہتا ہوں.اس کے بعد ایک اور مضمون کی طرف توجہ دلاؤں گا.اسلامی مسائل کی بنیاد تفقہ پر ہے ان کے اندر باریک صمتیں ہوتی ہیں اور جب تک ان کو نہ سمجھا جائے انسان دھوکا کھا کر بعض دفعہ گمراہی کی طرف نکل جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک دفعہ کسی مجلس میں بیان فرمایا کہ انسان اگر تقویٰ سے کام لے تو چاہے تو شادیاں کرلے.یہ بات سلسلہ کے اخباروں میں سے ایک میں شائع ہوئی جس پر یہ چر چا شروع ہو گیا کہ معلوم ہوتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مذہب یہی ہے کہ چار کی حد نہیں شادیاں کوئی جتنی چاہے کرلے.حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم نے اس بحث اور جھگڑے کو جو باہر ہو تا تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں پہنچایا اور پوچھا کہ اس سے آپ کا کیا مطلب تھا.آپ نے فرمایا میرا مطلب یہ تھا کہ اگر ایک بیوی مرجائے یا کسی وجہ سے طلاق دی جائے تو انسان اسکی بجائے اور شادی کر سکتا ہے اس طرح خواہ تئو شادیاں کر لے اس سے آپ نے اس خیال کی تردید فرمائی جو بعض مذاہب نے پیش کیا ہے کہ عمر بھر دوسری شادی نہ کرنی چاہئے.اب

Page 41

خطبات محمود ٣٩ سال ۱۹۳۱ء اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ قول تشریح کے بغیر رہ جاتا تو کچھ عرصہ کے بعد یہی سمجھا جاتا کہ آپ کا مذہب ہی تھا کہ جتنی شادیاں چاہو کر سکتے ہو صرف تقویٰ کی شرط ہے.اسی بارہ میں مجھے یاد آیا حضرت خلیفۃ المسیح الاول کا اعتقاد ایک عرصہ تک یہی تھا کہ چار سے زیادہ شادیاں جائز ہیں.ان دنوں چونکہ چھوٹی جماعت تھی اور دوست اکثر با ہم ملتے تھے ایسے مسائل پر بڑی لمبی بحثیں ہوتی رہتی تھیں.انہیں دنوں ایک زمانہ میں یہ مسئلہ بھی زیر بحث آیا حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے فرمایا چار بیویوں کی حد بندی شریعت سے ثابت نہیں اور ابو داؤد کی ایک روایت بھی پیش کی جس میں لکھا تھا کہ حضرت امام حسن کے اٹھارہ یا انیس نکاح ہوئے.اسی مجلس میں کسی نے یہ بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ عقیدہ نہیں.اس پر حضرت خلیفہ اول نے یہ خیال کیا ممکن ہے آپ کے پاس یہ معاملہ پوری طرح پیش نہ کیا گیا ہو اس لئے کسی سے کہا یہ کتاب لے جاؤ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ حوالہ دکھا آؤ.کتاب لانے والا رستہ میں مجھے بھی ملا وہ بغل میں کتاب دبائے نہایت شوق سے جا رہا تھا.میں نے دریافت کیا کیا بات ہے.اس نے بتایا حضرت مولوی صاحب نے یہ حوالہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دکھانے کے لئے بھیجا ہے.میں بھی جواب کے شوق میں اس کی واپسی کا منتظر رہا.وہ تھوڑی دیر کے بعد واپس آیا.میں نے دیکھا جاتے وقت تو وہ بہت خوش خوش کیا تھا مگر واپس آتے وقت سر جھکائے آ رہا تھا.میں نے پوچھا کیا بات ہے تو اس نے بتایا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ مولوی صاحب سے جاکر پوچھو کہاں لکھا ہے کہ یہ ساری بیویاں ایک ہی وقت میں تھیں اور بات بھی یہی ہے.ایک تاریخ نویس تو جب لکھے گا یہی لکھے گا کہ فلاں شخص نے اتنے نکاح کئے.آگے سوچنے سے یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ سب ایک ہی وقت میں کئے یا بعض ان میں سے پہلی بیویوں کی وفات پر کئے.پس تفقہ کے ساتھ مسائل کی شکل بدل جاتی ہے.آج جو الفضل کا پرچہ شائع ہوا ہے اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک حوالہ درج ہوا ہے.جس کے متعلق مجھے خطرہ ہے کہ اسے صحیح طور پر نہ سمجھنے کی وجہ سے کسی کو ٹھوکر نہ لگے اور وہ یہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں ” میری تو یہ حالت ہے کہ مرنے کے قریب ہو جاؤں تب روزہ چھوڑتا ہوں.طبیعت روزہ چھوڑنے کو نہیں چاہتی.یہ مبارک دن ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کے نزول کے دن ہیں."

Page 42

خطبات محمود ۳۷ سال ۱۹۳۱ء عین ممکن ہے بعض لوگ اس سے یہ بات نکال لیں کہ سفر اور بیماری میں جب تک موت کی حالت نہ ہو جائے روزہ نہیں چھوڑنا چاہئے اور اس سے یہ دھوکا لگ سکتا ہے کہ روزہ کے متعلق سفر اور بیماری کے احکام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نزدیک قابل قبول نہیں.حالا نکہ آپ کی مجلس میں بیٹھنے والے اور آپ کی صحبت سے فیض یاب ہونے والے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان باتوں میں آپ بڑا زور دیا کرتے تھے.مجھے خوب یاد ہے.غالبا مرز الیعقوب بیگ صاحب جو آج کل غیر مبائع ہیں اور ان کے لیڈروں میں سے ہیں ایک دفعہ باہر سے آئے عصر کا وقت تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے زور دیا کہ روزہ کھول دیں اور فرمایا سفر میں روزہ جائز نہیں اسی طرح ایک دفعہ بیماریوں کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا.ہمارا مذ ہب یہی ہے کہ رخصتوں سے فائدہ اٹھانا چاہئے.دین سختی نہیں بلکہ آسانی سکھاتا ہے.وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ بیمار اور مسافر اگر روزہ رکھ سکے تو رکھ لے ہم اسے درست نہیں سمجھتے.اس سلسلہ میں حضرت خلیفہ اول نے مخی الدین ابن عربی کا قول بیان کیا کہ سفر اور بیماری میں روزہ رکھنا آپ جائز نہیں سمجھتے تھے اور ان کے نزدیک ایسی حالت میں رکھا ہوا روزہ دوبارہ رکھنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے سن کر فرمایا.ہاں ہمارا بھی یہی عقیدہ ہے.پس الفضل میں مندرجہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوالہ کا یہ مطلب نہیں کہ بیماری اور سفر میں جب تک موت کے قریب انسان نہ پہنچ جائے روزہ نہ چھوڑے.بلکہ یہ الفاظ بڑھاپے اور عام ضعف کے متعلق ہیں یعنی جب انسان بیمار نہیں بلکہ مثل بیمار ہوتا ہے.تفقہ کے ذریعے پہلے مسلمانوں نے اور خود رسول کریم ﷺ نے بھی بعض امور کا فیصلہ کیا ہے.قرآن کریم میں صرف بیمار یا مسافر کو روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے.مگر رسول کریم نے حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو بھی اس رخصت سے فائدہ اٹھانے کا حق دیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ تفقہ سے آپ نے ان کو بھی بیمار کی حد میں داخل کر دیا اور اس طرح جو شخص بمنزلہ بیمار کے ہو اسے بھی اجازت دے دی اور اس کے ماتحت یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ انسان جب بوڑھا ہو جائے یا کمزور ہو تو اس وقت بھی وہ بیمار ہی سمجھا جائے گا.لیکن بیماری کی بنیاد تو ظاہر حالت پر ہوتی ہے مگر بڑھاپا اجتہاد سے تعلق رکھتا ہے.بعض حالات میں بڑھاپا اور کمزوری نظر نہیں آتی.کئی لوگوں کو دیکھا ہے وہ ۳۵٬۳۰ سال کی عمر میں ہی یہ رٹ لگانے لگ جاتے ہیں کہ اب تو ہم

Page 43

خطبات محمود ۳۸ سال ۱۹۳۱ء بوڑھے ہو گئے اور کئی ۷۰۶۰ سال کی عمر میں بھی یہ کہتے ہیں ابھی ہماری عمر ہی کیا ہے.ابھی ہم کون سے بوڑھے ہو گئے ہیں.یعنی کئی تو اتنی بڑی عمر تک پہنچ کر بھی اپنے آپ کو بوڑھا نہیں سمجھتے اور کئی چھوٹی عمر میں ہی بوڑھا خیال کرنے لگ جاتے ہیں.خصوصاً عورتوں میں تو یہ عام مرض ہے کہ تیس برس کے قریب پہنچ کر ہی وہ اس طرح ذکر کرنے لگ جاتی ہیں گویا دو سو سال کی بوڑھی ہیں.جب کوئی بات ہو کہیں گی اب ہماری کوئی عمر ہے.وہ دن گئے جب ہماری عمر تھی.حالانکہ ہندوستانی عورتوں پر تو وہ دن کبھی آتے ہی نہیں.وہ چونکہ اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتیں.ورزش یا سیر وغیرہ نہیں کرتیں.اس لئے ان پر وہ دن کبھی آتے ہی نہیں جب وہ اپنے آپ کو جو ان کہہ سکیں.یا تو ان پر وہ دن ہوتے ہیں جب وہ کہتی ہیں ابھی ہم جو ان نہیں ہو ئیں.یا پھر فورا ہی بڑھاپا شروع ہو جاتا ہے.تو بعض لوگ ۳۵ ۴۰ سال کی عمر میں اپنے آپ کو بوڑھا سمجھنے لگ جاتے ہیں اور بعض کہتے ہیں روزہ رکھنے سے ضعف ہو جاتا ہے.میں نے اس پر ایک بار خطبہ بھی پڑھا تھا کہ ضعف کوئی بیماری نہیں روزہ تو ہے ہی اس لئے کہ ضعف ہو.یہ تو بتا تا ہے کہ پیٹ بھر کر کھانے والے ان غریبوں کی حالت کا اندازہ کریں جن کی قریباً ہر وقت ایسی حالت رہتی ہے.اگر تو شریعت کہتی کہ روزہ کا منشاء یہ کہ انسان موٹا تازہ اور طاقتور ہو جائے.تو بے شک کہا جا سکتا تھا کہ ہمیں چونکہ روزے سے ضعف ہو جاتا ہے اس لئے روزہ نہیں رکھ سکتے.مگر جب اس سے غرض ہی یہ ہے کہ جفاکشی اور ہمدردی کی عادت ڈالی جائے اور انسان خدا تعالیٰ کی صفات اپنے اندر داخل کرے تو پھر کمزوری اور ضعف کوئی عذر نہیں ہو سکتا.پس یہ ضعف والا معاملہ نازک ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مذکورہ بالا الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ ضعف بڑھاپے اور کمزوری کی وجہ سے جو روزہ چھوڑا جائے وہ اس وقت تک نہ چھوڑا جائے جب تک سخت معذوری نہ ہو.لیکن بیمار اور مسافر کے لئے یہ شرط نہیں ایک مسافر خواہ کتناہی بنا کتنا کیوں نہ ہوا سے روزہ نہیں رکھنا چاہئے.اسی طرح وہ شخص جسے ڈاکٹر کہتا ہے کہ بیمار ہے اگر روزہ رکھے گا تو اس کا روزہ نہیں ہو گاوہ صرف بھوکا رہے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس حوالہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ حالت جس میں انسان بمنزلہ بیمار کے ہو اس میں بہت احتیاط سے کام لے.جو شخص بیمار یا مسافر ہو وہ تو خدا تعالیٰ سے کہے گا میں نے آپ کا حکم مانا اور روزہ نہ رکھا.لیکن جو بیمار سے مشابہ ہے وہ یہی کہہ سکتا ہے کہ میں نے قیاس کیا میں بیمار ہوں اس لیئے میں نے روزہ نہ رکھا.اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ثبوت لاؤ تمہارا قیاس ٹھیک

Page 44

خطبات محمود ۳۹ سال ۱۹۳۱ء تھا بیمار اور مسافر سے تو کوئی ثبوت نہیں مانگا جائے گا.مگر مشابہت کے لئے ثبوت کی ضرورت ہے اس لئے ایسے معاملہ میں بہت احتیاط سے کام لینا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا منشاء یہ ہے کہ انسان ایسے معاملے میں جلد بازی سے کام نہ لے بلکہ احتیاط کرے تا ایسا نہ ہو کہ اسے اجتہاد میں غلطی لگ جائے.پس یہ الفاظ ان امور کے متعلق ہیں جن میں انسان اجتہاد کر کے روزہ چھوڑتا ہے.اسی طرح امتحان دینے والے طلباء ہیں وہ بھی اجتہاد سے کام لے کر ہی چھوڑ سکتے ہیں اس لئے ان کو ایسا فیصلہ کرتے وقت اچھی طرح سوچ سمجھ لینا چاہئے کہ کیا واقعی روزہ رکھنے سے ہم نقصان میں مبتلاء ہو جائیں گے.اگر اس کے آثار ظاہر ہوں تو بے شک چھوڑ دیں لیکن اگر اس کا کوئی امکان نہ ہو تو وہ اپنے کو بمنزلہ بیمار قرار نہ دیں پس یہ حکم صرف اجتہاد کے متعلق ہے بیمار اور مسافر کے متعلق نہیں.اس کے بعد میں دوسرے امر کو لیتا ہوں جس کے متعلق میں نے ایک گذشتہ خطبہ میں اشارہ بھی کیا تھا اور سالانہ جلسہ کی تقریر میں بھی اس کا ذکر کیا تھا.میں نے بیان کیا تھا کہ پچھلے سال تبلیغی اشتہارات تقسیم کرنے کا فیصلہ جو میں نے کیا تھا.ارادہ ہے اسے اس سال جاری کر دیا جائے.اشتہارات تبلیغ کا ایک بہت عمدہ ذریعہ ہیں.وہ بہت کثرت سے تقسیم کئے جاسکتے ہیں اور انہیں ایسے علاقوں میں پہنچایا جاسکتا ہے جہاں کے لوگ سلسلہ کے نام تک سے بھی واقف نہ ہوں.میرا ارادہ ہے پہلا اشتہار کل تک لکھ دوں.جو فروری کے شروع میں شائع ہو سکے گا.اشتہارات کی تقسیم کے متعلق اگر چہ پہلے بھی جماعتوں نے نام لکھائے ہوئے ہیں مگر میں چاہتا ہوں کہ پھر غور کر کے ہر جماعت اپنے لئے اتنی تعداد مقرر کر لے جسے آسانی کے ساتھ ہر ماہ باقاعدہ تقسیم کر سکے.اس کے علاوہ دوست مجھے ان مضامین سے آگاہ کریں جن کے متعلق وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے علاقہ میں ضرورت ہے.ممکن ہے بعض علاقوں میں کسی خاص مضمون پر لکھنے کی ضرورت ہو جس کا مجھے پتہ نہ ہو کیونکہ میں تو باہر نہیں جاتا اگر چہ دوستوں کے خطوط اور ملاقاتوں وغیرہ سے مجھے خدا تعالی کے فضل سے بہت کچھ حالات معلوم ہوتے رہتے ہیں پھر بھی انسان محتاج ہے اس لئے جو دوست با ہر تبلیغ کرتے ہیں وہ مجھے لکھیں کہ کن مضامین پر اشتہار ضروری ہیں ؟ میرے خیال میں تو یہ امر بہت ضروری ہے کہ تعلیم یافتہ مسلمانوں کو یہ بتایا جائے کہ ہمیں کسی آنے والے کی احتیاج ہے.پہلے تو لوگ یہ کہتے تھے.چونکہ حضرت مسیح نے آسمان سے آتا ہے اس لئے کسی اور کی ضرورت نہیں مگر اب وہ زمانہ آیا ہے کہ کہتے ہیں رسول کریم کے بعد ہمیں

Page 45

خطبات محمود سال ۱۹۳۱ و کسی کی بھی ضرورت نہیں.اس کے علاوہ اور بھی کئی مسائل ہو سکتے ہیں.پس احباب مجھے اطلاع دیں تا ایک پروگرام کے ماتحت کام شروع کیا جاسکے.اس کے علاوہ میرا ارادہ ہے کہ کچھ اشتہار عورتوں کو مذہب اسلام کی حقانیت سے آگاہ کرنے کے لئے شائع کئے جائیں اور ان اشتہارات کا بوجھ سلسلہ کی عورتیں اٹھانے کی کوشش کریں اور ہر شہر کی احمدی مستورات ایسے اشتہارات منگوا کر پڑھی لکھی عورتوں میں تقسیم کریں تا عورتوں کے اندر جو دہریت کی رو چل رہی ہے اس کا مقابلہ کیا جائے.تیسرے میرا ارادہ طالب علموں میں اشتہارات شائع کرنے کا ہے تا ان کے اندر الحاد اور دہریت کی پیدا شدہ رو کو روکا جاسکے.پچھلے ایک خطبہ میں میں نے کہا تھا لا ہور کے کالجیٹ طلباء میں ہر ماہ ایک اشتہار تقسیم کرنے کا خرچ تقریبا ۲۵ روپے ماہوار ہو گا.اس پر ایک دوست نے لکھا ہے میں اس کے لئے ۲۵ روپے ماہوار دیتا رہوں گا.مگر چونکہ ضرورت ہے کہ دوسرے علاقوں کے طلباء کے لئے بھی انگریزی وغیرہ دوسری زبانوں میں ایسے اشتہار تقسیم ہوں اس لئے جو دوسرے دوست اس کار ثواب میں حصہ لینا چاہیں وہ شریک ہو سکتے ہیں.اس کے علاوہ میرا ارادہ ہے کچھ اشتهار ادنی اقوام کے لئے شائع کئے جائیں جن میں انہیں بتایا جائے کہ ان کی نجات اسلام میں آنے سے ہی ہو سکتی ہے تا ان کے اندر بھی بیداری پیدا ہو.پانچویں قسم کے اشتہارات ہندوؤں میں شائع کرنے کا ارادہ ہے.ہندوؤں میں ابھی تبلیغ کی بہت ضرورت ہے.یوپی بہار مدراس اور گجرات وغیرہ علاقوں میں ہندوؤں کے اندر ہندی تامل ، مرہٹی اور انگریزی وغیرہ زبانوں میں اشتہار تقسیم کئے جائیں تا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے کرشن ہونے کی نسبت سے جو ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے وہ پوری ہو سکے.پس دوست جس مضمون سے دلچسپی رکھتے ہوں اس کے متعلق مفید مشورہ یا امداد سے دفتر نظارت دعوة و تبلیغ کو اطلاع دیں (الفضل ۵ فروری ۱۹۳۱ء)

Page 46

۴۱ 6 خطبات محمود تبلیغی سرگرمیوں میں اضافہ کی ضرورت (فرموده ۰۶ فروری ۱۹۳۱ء) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں نے پچھلے سال یہ اعلان کیا تھا کہ جو اضلاع یا جو تحصیلیں ایک ہزار نئے احمدی جماعت میں داخل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے ان کے علاقہ میں ایک مستقل مبلغ رکھنے کا انتظام ہم کر دیں گے لیکن جہاں تک مجھے یاد ہے اعلان ایسے موقع پر ہوا جب وقت بہت کم تھا اس لئے دوبارہ اس سال کے شروع میں میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ اگر کوئی تحصیل ایک سال میں ایک ہزار نئے احمدی پیدا کرے تو اس کے لئے اور اگر کوئی سارا ضلع اتنی تعداد پوری کرے تو اس کے لئے ہم ایک مستقل مبلغ دیدیں گے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جماعت اللہ تعالٰی کے فضل اور کرم سے ترقی کر رہی ہے اور روزانہ بڑھ رہی ہے.یہ ترقی کو ہماری امنگوں اور ارادوں کے مطابق نہ ہو مگر ہماری کوششوں سے ضرور زیادہ ہے.یہ درست ہے کہ جتنی ہماری خواہش اور ارادہ ہے اتنی تیزی سے جماعت ترقی نہیں کر رہی لیکن جس قدر کوشش ہماری طرف سے ہو رہی ہے اس سے وہ ضرور زیادہ ہے.ہم میں سے ہر ایک اگر اپنے نفس کے متعلق اپنے بیوی بچوں کے متعلق اپنے متعلقین اور اپنے دوستوں کے متعلق غور کرے تو معلوم ہو گا کہ ہم میں سے بہت کم لوگ حقیقی تبلیغ کی طرف متوجہ ہیں.یوں ریل میں سفر کرتے ہوئے یا کسی اور موقع پر تبلیغی گفتگو کرنا اور بات ہے لیکن تبلیغ کا جنون بہت کم لوگوں کو ہے.اور پھر جو روپیہ ہم تبلیغ پر صرف کرتے ہیں وہ بھی بہت کم ہے.ہمارا بہت سا روپیہ تعلیم پر خرچ ہوتا ہے اور یہ کوئی ہماری خصوصیت نہیں.دوسری اقوام بھی اپنی تعلیم پر خرچ کرتی ہیں اس لئے یہ خرچ دینی نہیں بلکہ دنیوی ہی کہنا چاہئے.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دنیا میں نہ آئے ہوتے یا اگر اسلام بھی نہ ہو تا تو بھی ایک ہوشیار قوم ہونے کے لحاظ سے ہمارا فرض تھا کہ تعلیم پر روپیہ خرچ کرتے کیونکہ دنیوی

Page 47

خطبات محمود ۴۲ سال ۱۹۳۱ء آرام و آسائش اس سے وابستہ ہے اس کے بغیر حکومت میں اثر و رسوخ حاصل نہیں ہو سکتا، ملازمتیں نہیں مل سکتیں، جتھا نہیں بن سکتا، ترقی حاصل نہیں ہو سکتی.انہی وجوہات سے تمام قومیں تعلیم پر روپیہ خرچ کرتی ہیں.ہماری جماعت کو منتقلی کر کے پنجاب میں تعلیم کے لحاظ سے سکھ بڑھے ہوئے ہیں.مگر کیا وہ تعلیم کو نہ ہی کام سمجھ کر اس میں ترقی کر رہے ہیں اور اس پر خرچ کرتے ہیں.ہماری ایک معقول رقم جو پچاس ہزار سے بھی زیادہ ہے سالانہ تعلیم پر خرچ ہوتی ہے اور یہ خرچ دینی نہیں بلکہ دنیوی ہے.اسی طرح کچھ حصہ اخراجات کا غریبوں، مسکینوں، بیواؤں، قیموں اور دوسرے حاجتمندوں پر خرچ ہو جاتا ہے.تین چار ہزار روپیہ تو قادیان کے ہسپتال پر ہی خرچ ہو جاتا ہے.پھر بیواؤں ، یتیموں اور دوسرے مستحقین پر جو خرچ کئے جاتے ہیں وہ اگر جمع کئے جائیں تو یہ رقم بھی پچاس ساٹھ ہزار کے قریب ہو جائے گی اور یہ خرچ بھی خالص طور پر دین کے لئے نہیں قرار دیا جا سکتا.اگر ہم زندہ اور ہوشیار قوم ہوتے تو چاہے کوئی مذہب ہو تا یہ رقم ضرور خرچ کرنی پڑتی.انگریز ، امریکن جر من سب ہی یہ خرچ کرتے ہیں.سڑکیں بناتے ہیں، ہسپتال جاری کرتے ہیں ، یتیم خانے کھولتے ہیں ، بیواؤں، مسکینوں اور کمزوروں کے لئے انتظامات کرتے ہیں.پس اس میں بھی ہماری کوئی خصوصیت نہیں اور خرچ ایسا ہی ہے جیسے ایک جیب سے نکال کر دوسری میں ڈال لیا.یہ خرچ اسلام پر نہیں بلکہ اپنی ذات پر ہی ہم کرتے ہیں.پس ہمارے سالانہ بجٹ کا تبلیغی خرچ بہت ہی کم ہے.پھر کچھ حصہ دفتر کے اخراجات چلانے کا چلا جائے گا.یہ بھی کوئی دینی خرچ نہیں.مثلاً نظارت امور عامہ ہے یہ اس لئے ہے کہ ہمارے بیٹے بیٹیوں کی شادی بیاہ کا انتظام کرے، بے کاروں کے لئے ملازمتیں تلاش کرے ، جھگڑوں وغیرہ کا تصفیہ کرائے.پہلے لوگ نائیوں وغیرہ کے ذریعے رشتے ناطوں کا بندو بست کرتے تھے اور ان کو روپے دیتے تھے.اب یہ کا یہ کام امور عامہ کے سپرد کر دیا گیا ہے.پھر ہر دیہات میں جھگڑے فساد طے کرنے والے پہنچوں پر خرچ کیا جاتا تھا.اب وہی کام امور عامہ سرانجام دیتا ہے اور اب احمد کی اپنے اپنے گاؤں میں نائیوں اور پہنچوں پر کوئی خرچ نہیں کرتے وہی خرچ نظارت امور عامہ پر ہو جاتا ہے.ایک احمدی فخریہ کہتا ہے کہ میں اتنا چندہ دیتا ہوں مگر اس نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ اس میں بڑا حصہ تو انی اخراجات کا ہے جو احمدیوں کے اپنے فوائد اور اغراض کے متعلق ہیں.اس طرح ہمارے اخراجات میں خالص دینی تبلیغ کا جو حصہ ہے وہ بہت کم ہے جو صرف وہ رقم ہے جو ٹریکٹوں وغیرہ کی

Page 48

ما خطبات محمود ۴۳ ۱۹۳۱ء اشاعت ، جلسوں کے انعقاد اور مبلغین پر خرچ ہوتی ہے.یہ تبلیغی خرچ ہے.اس میں ہماری جماعت دوسری جماعتوں سے ممتاز ہے.دوسری قومیں اگر تبلیغ کے لئے کچھ خرچ کرتی ہیں تو سچ کی اشاعت کے لئے نہیں بلکہ جھوٹ پھیلانے کے لئے کرتی ہیں.نظارت امور عامہ کے کاموں ، بیواؤں اور یتیموں کی حفاظت وغیرہ اخراجات کے لحاظ سے ہم میں اور دوسرے لوگوں میں کوئی فرق نہیں.یہ اخراجات ہر قوم اپنی ترقی کے لئے کر رہی ہے.اگر کوئی قوم اپنی بیواؤں کا خیال نہ رکھے گی تو وہ آوارہ ہو جائیں گی اور انہیں غیر لے جائیں گے.اسی طرح اگر یقیموں کا انتظام نہ کیا جائے گا تو وہ بھی آوارہ ہوں گے یا دوسروں کے قبضے میں چلے جائیں گے یا ساری عمر قوم پر بوجھ بنے رہیں گے.بھیک مانگتے پھریں گے اور تمام عمر ا نہیں پاس سے کھلانا پڑے گا.لیکن اگر بچپن میں انہیں کسی کام کے قابل بنا دیا جائے تو وہ قوم کی عزت اور مال میں اضافہ کا موجب ہوں گے.پس اگر رقم کے لحاظ سے دیکھیں تو ہم تبلیغ پر بہت کم خرچ کر رہے ہیں.ایک سال یہ تجویز ہوئی تھی کہ ہر سال دس نئے مبلغ رکھے جایا کریں مگر اس پر عمل نہیں کیا جا سکا حالانکہ دنیا کو فتح کرنے والی قوم کے لئے یہ بھی کوئی بات ہے کہ سال میں صرف دس مبلغوں کا اضافہ کرے مگر ہم یہ بھی نہیں کر سکے بمشکل تین رکھ سکتے ہیں اور بعض سالوں میں اتنے بھی نہیں رکھے جاسکتے.حالانکہ جو کام ہم نے اپنے ذمہ لیا ہے اس کے لحاظ سے تو چاہئے کہ ہر سال تین چار سو مبلغ رکھے جائیں اور کوئی تحصیل تھانہ بلکہ کوئی قصبہ ایسا نہ ہو جہاں ہمارا مبلغ نہ رہے.یہ کام اگر چہ دین کا ہے مگر ایک لحاظ سے اس میں دنیوی لحاظ سے بھی فائدہ ہے.جتنی تبلیغ زیادہ ہو گی اتنے احمدی زیادہ ہوں گے.اور پھر اس لحاظ سے چندوں میں بھی اضافہ ہو گا.یعنی جتنے اخراجات بڑھیں گے آمد میں بھی اسی لحاظ سے ترقی ہوتی جائے گی.لیکن ابھی تک تو ہم اتنا بھی نہیں کر سکے کہ ہر سال دس مبلغ ہی رکھ سکیں.پس تبلیغ کے لئے روپیہ کے لحاظ سے بھی ہماری جدوجہد کم ہے اور آدمیوں اور وقت کے لحاظ سے بھی بہت کم ہے اور علمی لحاظ سے بھی کم ہے.ابھی تک اتنی علمیت ہماری جماعت میں پیدا نہیں ہوئی اور ایسے سامان مہیا نہیں ہوئے کہ نادر علمی ذخائر جمع کر دیں.غیر قومیں اس لحاظ سے اس قدر کام کر رہی ہیں جسے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.انیس سو سال کے بعد حضرت مسیح ناصری کی زندگی کے حالات آج جمع کئے جارہے ہیں مگر ہم حضرت مسیح موعود کی زندگی کے حالات کی اشاعت کی طرف ابھی متوجہ بھی نہیں ہو سکے جو بالکل تھوڑے عرصہ کی بات ہے پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی کتابوں کی اشاعت نہایت ہی اہم کام ہے مگر آپ کی بعض کتابیں ایسی ہیں جو دس سال

Page 49

خطبات محمود مهم بوم سال ۱۹۳۱ء ہوئے چھپی تھیں مگر ابھی تک پڑی ہیں اور بعض دس سال سے ختم ہیں اور ہر دوبارہ نہیں چھپ سکیں دونوں لحاظ سے یہ رونے کا مقام ہے.لیکن باوجود اس کے ہم دیکھتے ہیں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب ہماری جماعت میں اضافہ نہیں ہوتا.ہر سال دس پندرہ ہزار کی زیادتی ہوتی ہے اور یہ اگر چہ کچھ نہیں مگر ہماری کوششوں کے مقابل میں بہت زیادہ ہے.ہماری کوششیں تو اس قدر حقیر ہیں کہ شاید تو بھی احمدی نہ کر سکیں مگر خد اتعالیٰ اپنے فضل سے جماعت کو بڑھا رہا ہے.پھر اگر ہم اپنے ارادوں اور امنگوں کو پورا کر سکیں تو کس قدر شاندار منظر ہو مگر یہ نہیں ہو سکتا جب تک ہم میں سے ہر ایک مبلغ نہ ہو ہر ایک کے اندر یہ جوش نہ ہو کہ اپنے ساتھیوں کو احمدی بنائے اگر ہم اس طرح کریں تو سال میں لاکھوں احمدی پیدا کرلیں مگر نقص یہ ہے کہ جماعت کے لوگ اس طرف پوری توجہ نہیں کرتے اور جو متوجہ ہوتے ہیں وہ اصولی طور پر کام نہیں کرتے بعض دوستوں کو میں نے دیکھا ہے دس دس سال ایک شخص کے متعلق لکھتے رہے ہیں وہ ہمارے زیر تبلیغ ہے اس کے لئے دعا کی جائے حالانکہ اتنے عرصہ تک اپنا سارا زور اسی پر صرف نہیں کرتے رہنا چاہئے بلکہ اور لوگوں کو بھی تلاش کر کے تبلیغ کرنی چاہئے.ایک بڑا نقص یہ پیدا ہو گیا ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ سوشل نہیں رہے وہ مدنی الطبع نہیں ہیں دوسروں سے زیادہ میل جول نہیں رکھتے جہاں جماعت کی تعداد زیادہ ہو گئی ہے وہاں کو اہو کے بیل کی طرح دوست آپس میں ہی چکر لگاتے رہتے ہیں ایک دوست کے مکان سے اٹھے تو دوسرے کی نشست گاہ پر چلے گئے.وہاں سے اٹھے تو تیسرے کے ہاں جابیٹھے.اس طرح آپس میں ہی چکر لگاتے رہتے ہیں اور انہیں تبلیغ کا موقع نہیں ملتا.یہی وجہ ہے کہ جہاں اسکے رُکتے احمدی ہیں وہاں تبلیغ زیادہ ہے.مگر جہاں بڑی جماعتیں ہیں وہاں کوئی کام نہیں ہو تا.مثلاً لاہور سیالکوٹ امرتسر وغیرہ مقامات پر اب کافی جماعتیں ہیں مگر تبلیغ بہت کم ہے.اگر جماعتیں ایسا انتظام کریں کہ ایک رجسٹر میں تمام احباب جماعت کے نام لکھیں اور ہر ایک کے ذمہ لگائیں کہ وہ کم سے کم دس پندرہ لوگوں سے دوستانہ تعلقات پیدا کرے اور انہیں تبلیغ کرتا رہے پھر ان کے کام کی رفتار کو با قاعدہ دیکھا جائے اور ہر سال ان میں سے غیر موزوں لوگوں کو چھوڑ کر ان کی جگہ اور نئے دوست بنائے جائیں تو چند سالوں میں ہی ایسی ترقی ہو سکتی ہے جو حیرت انگیز ہو اور جس کے مقابلہ میں ہمارے مخالفین اس طرح بہتے چلے جائیں گے جس طرح دریا کے سامنے خس و.خاشاک بہہ جاتا ہے.مگر ضرورت ہے کہ جماعتیں خاص طور پر باقاعدہ اصول کے ماتحت تبلیغ

Page 50

خطبات محمود ۴۵ سال ۱۹۳۱ء کریں ان کی مثال اس جنگلی بھینسے کی طرح نہ ہو جو ایک دفعہ جب سر اٹھاتا ہے تو جو سامنے آئے اسے مارتا چلا جاتا ہے بلکہ اس جرنیل کی طرح جسے راستہ میں جہاں روک پیدا ہو وہاں نیا اور آسان راستہ اپنے لئے پیدا کر لیتا ہے اگر اس طرح کام کیا جائے تو بہت ترقی ہو سکتی ہے.ہمارا مرکزی صیغہ تبلیغ بھی اصلاح کا محتاج ہے.وہ موجودہ مبلغوں سے بھی بہت زیادہ کام لے سکتا ہے اور جماعت سے بھی زیادہ کام کر سکتا ہے مگر نہیں کراتا.ایک مبلغ باہر جاتا ہے اور آکر رپورٹ دے دیتا ہے کہ میں نے وہاں اتنے گھنٹے تقریر کی اور اس میں یہ باتیں بیان کیں.اس پر سمجھ لیا جاتا ہے کہ اس نے بڑا کام کیا لیکن اگر میں اس سینہ کا ناظر ہو تا تو ایسی رپورٹ سن کر فورا اس مبلغ سے کہہ دیتا کہ تم نالائق ہو اور اس صیغہ میں کام کرنے کے اہل نہیں ہو.تقریر میں زیادہ کر لینا کوئی خوبی کی بات نہیں اور نہ ان کا کوئی مفید نتیجہ نکل سکتا ہے بلکہ زیادہ تقریریں کرنے والا شخص بہت جلد ناکارہ ہو کر رہ جاتا ہے.ہزاروں لوگوں کو سنانا کوئی آسان کام نہیں.مگر متواتر ایک دو مہینے تک بڑے بڑے مجمعوں میں تقریریں کی جائیں تو گلا خراب ہو جائے گا اور آئندہ کام کرنے کے قابل نہ رہے گا اس لئے صرف تقریر کر کے آجانے والا مبلغ ہمارے لئے کوئی زیادہ مفید نہیں ہو سکتا اسے تو آکر یہ رپورٹ دینی چاہئے کہ جماعت کی تعلیمی اور اخلاقی حالت کیسی ہے ، کتنے لوگ وہاں کی جماعت کے زیر تبلیغ ہیں ، وہ جماعت کس حد تک کامیابی کے ساتھ تبلیغ کر رہی ہے، اس میں کتنے دوست ست تھے انہیں میں نے چست کرنے کے لئے کیا کوشش کی ، کتنے نئے آدمی جو پہلے کام نہیں کرتے تھے میں نے ان کو کام پر لگایا.یہ باتیں ہیں جو ہر مبلغ کو جماعت کے متعلق دیکھنی اور کرنی چاہئیں ورنہ تقریر کا کیا ہے اس پر تو زیادہ سے زیادہ ایک دو گھنٹے صرف ہوتے ہیں.مگر سمجھا یہ جاتا ہے کہ ہم نے اتنی تقریریں اور اتنے مباحثات کئے اس لئے بڑا کام کیا.حالانکہ جتنے مباحثات وغیرہ کرائے جاتے ہیں وہ بھی زیادہ ہیں گویا ایک لحاظ سے تو ہم اپنے مبلغین کو ست کر رہے ہیں اور دوسرے لحاظ سے ان کا خون کر رہے ہیں جو کام اس وقت ان سے لیا جا رہا ہے اگر اسی طرح کچھ عرصہ تک متواتر لیا جاتا رہا تو وہ ناکارہ ہو جائیں گے اور جو کام ان سے لینا چاہیئے وہ ضائع ہو جائے گا.پس سوچ سمجھ کر ان کی تقریروں اور مناظروں کی تعداد مقرر کرنی چاہیئے تا صحت خراب نہ ہو اور اصل کام کو بھی نقصان نہ پہنچے.اس کے مقابل میں نظام اور آرگنائزیشن کا کام ان سے زیادہ لینا چاہئے ایک مقام پر ایک مبلغ جائے اور آکر وہاں کی جماعت کے متعلق رپورٹ کرے پھر اس کے بعد دوسرا جائے اور دیکھے کہ پہلے نے جو رپورٹ کی

Page 51

خطبات محمود سال ۱۹۳۱ء ہے وہ کس حد تک صحیح ہے اور اس میں کیا ترمیم اور تنسیخ ہونی چاہئے.وہ مین سال تک اس طرح کام کر کے دیکھو کتنی بیداری پیدا ہو جاتی ہے اس بات کا پورا پورا ریکارڈ ہونا چاہئے کہ فلاں مبلغ فلاں جگہ گیا اور اس نے یہ کام کیا اس کے چند ماہ بعد ایک اور کو وہیں بھیجا جائے جو دیکھے کہ پہلے حالات میں کس قدر تغیر واقعہ ہو گیا ہے.آیا اس کے بعد جماعت ست ہو گئی ہے یا چست.اسی طرح ایک دوسرے کے کام کو چیک کر اکر ان سے بہت کام لیا جا سکتا ہے.اور اس طرح جماعتوں میں بھی بیداری پیدا ہو سکتی ہے.مگر اب کام صرف تقریریں کرنا ہی سمجھ لیا گیا ہے اس لئے جہاں کوئی مبلغ جائے وہاں سے یہ لکھا آجاتا ہے کہ فلاں مولوی صاحب نے صرف دو گھنٹے تقریر کی ان کا خیال ہو تا ہے ۲۴ گھنٹے ہی تقریر کرنی چاہئے تھی.مگر انہیں شاید علم نہیں اگر اس طرح کیا جائے تو تھوڑے ہی عرصہ میں اس مبلغ کا جنازہ نکل جائے.گلا ایسی چیز نہیں جس سے سارا دن کام لیا جاسکے.ہاتھ پیر وغیرہ ایسے اعضاء ہیں جن سے سارا دن کام لیا جا سکتا ہے مگر گلا اتنی دیر کام نہیں کر سکتا.عیسائی پادری ہفتہ وار تقریر کرتے ہیں اور وہ بھی پندرہ ہیں منٹ سے زیادہ نہیں.اگر کبھی وہ ایک گھنٹہ تقریر کر دیں تو سامعین شور مچا دیتے ہیں کہ ہمارا وقت ضائع کیا جا رہا ہے.تو وہ ہفتہ میں صرف پندرہ بیس منٹ ہی تقریر کرتے ہیں مگر ان کے ہاں ایک بیماری کا نام ہی Clergyman's sore throat ہے یعنی پادریوں کے گلے کی بیماری.گویا ان کو یہ بیماری اس وجہ سے ہو جاتی ہے کہ وہ ہفتہ میں چند منٹ تقریر کرتے ہیں مگر ہماری جماعت کے بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہمارے مبلغین کا گلا لو ہے یا لکڑی کا ہے اور وہ امید کرتے ہیں کم از کم دس بارہ گھنٹے ایک مبلغ بولتا ر ہے حالانکہ وہ جتنا بولتے ہیں میرے نزدیک وہ بھی زیادہ ہے ان سے بولنے کا کام کم اور نظام کا زیادہ لینا چاہئے اگر ہمارا مرکزی صیغہ اس طرح کام کرے تو بہت ترقی ہو سکتی ہے.اس کے علاوہ ایک اور طریق ہے اس کا بھی تجربہ کر کے فائدہ اٹھانا چاہئے.جنگ عظیم میں ایک جرمن جنرل میکنسن نے ایک نیا طریق جنگ ایجاد کیا تھا اور اسے اس میں کامیابی بھی بہت ہوئی تھی اور شہرت بھی بہت حاصل کی تھی جس محاذ پر بھی وہ گیا اس نے فتح پائی روسی محاذ پر جرمنوں کو پے در پے شکستیں ہو رہی تھیں مگر اس نے جاکر روسیوں کو ایسی بری طرح شکست دی کہ کئی لاکھ روسی جرمن دلدلوں میں پھنس کر تباہ ہو گئے پھر ا سے رومانی محاذ پر بھیجا گیا وہاں بھی اس نے کامیابی حاصل کی.پھر آسٹریا جو جرمنی کا حلیف تھا اسے نکستیں ہو رہی تھیں ان کی مدد کے

Page 52

خطبات محمود سال ۱۹۳۱ء لئے اسے بھیجا گیا.وہاں بھی اس نے بہت کامیابی حاصل کی اس کا طریق جنگ یہ تھا کہ وہ تو ریختہ پھیلانے کے بجائے سارا کا سارا ایک جگہ جمع کر دیتا تھا اور سب سے یکدم گولہ باری کراتا.وہ محاذ جنگ اس طرح قائم کرنا کہ ایک میل پر گولہ پھینکنے والی توپوں کو آگے رکھتا.دو میل پر پھینکنے والی توپوں کو ان سے ایک میل پیچھے اور تین میل پر گولہ پھینکنے والی کو دو میل پیچھے اس طرح تمام تو پخانہ کھڑا کر کے سب سے ایک دم گولہ باری شروع کر دیتا گویا تمام کا تمام تو پخانہ ایک ہی مقام پر گولہ باری شروع کر دیتا.جس کا کوئی مقابلہ نہ کر سکتا نتیجہ یہ ہو تاکہ جس محاظ پر بھی وہ گیا دشمن کو سب کچھ چھوڑ کر بھاگنا پڑا.پس ایک طریق جنگ یہ بھی ہے اس کا بھی تجربہ کیا جائے.ان اضلاع میں جہاں جماعتیں قائم ہیں جیسے گورداسپور ، سیالکوٹ، گجرات گوجرانوالہ لاہور امر تسر وہاں یکدم بہت سے مبلغ لگا دیئے جائیں.ایک ضلع پہلے لے لیا جائے اور وہاں اپنے تعلیم یافتہ مبلغین کے علاوہ آنریری مبلغین بھی جمع کر دیئے جائیں.آنریری طور پر کام کرنے والے باہر سے بھی آئیں جس طرح ملکانوں کے ارتداد کے وقت ہوا تھا.اور ایک ضلع میں ہی ۱۰۰ کے قریب مبلغ اکٹھے کر دیے جائیں جو تعلیم یافتہ تجربہ کار مبلغ ہوں ان کو جرنیل مقرر کر دیا جائے اور باقی ان کے ماتحت اور نائب ہوں اور مختلف حلقے مقرر کر کے تمام ضلع میں شور مچادیا جائے.اس سے بھی بہت فائدہ ہو سکتا ہے.اب تو کسی اتے دستے کو تبلیغ کی جاتی ہے.وہ خیال کرتا ہے میں اگر احمدی ہو گیا تو باقی رشتہ دار کیا کہیں گے.مگر جب سب رشتہ داروں کو اکٹھی تبلیغ ہو رہی ہو اور وہ ایک دوسرے سے ملتے وقت ذکر کریں کہ ہمارے ہاں بھی احمدی مبلغ آیا ہوا ہے جو بہت عمدہ باتیں بیان کرتا ہے تو سب کہیں گے چلو احمد کی ہو جائیں.اس طرح وہ ڈر جو اکیلے احمدی ہونے سے ہوتا ہے دور ہو جائے گا.اس ڈر کی وجہ سے بھی لاکھوں آدمی ضائع ہو جاتے ہیں.ہر جگہ اگر تحقیق کی جائے تو کئی لوگ ایسے ملیں گے جو ایک وقت احمدی ہونے کے لئے بالکل تیار تھے مگر کسی وجہ سے رک جانے کے باعث دور جا پڑے.اور بعد میں ان میں سے بعض اشد مخالف بن گئے.پس اگر یکدم دھاوا بول دیا جائے تو ڈرنے والے رکیں گے نہیں اس طریق جنگ کا مکانا تحریک میں تجربہ کر چکے ہیں اور اس سے آریوں جیسی منتظم اور روپیہ والی قوم کو ایسی شکست دے چکے ہیں کہ اب اس پر آٹھ سال گزر چکے ہیں لیکن آریہ اب بھی اس علاقہ کا رخ نہیں کرتے.اور وہ ملکانے جن کو آریہ پر چارک کہا کرتے تھے تم آریہ ہو کر ٹھا کر بن جاؤ گے.اب وہ انہیں تلاش کر کر کے پوچھتے ہیں کہ اب کیوں بھاگ گئے ہو اور ہمیں ٹھا کر کیوں نہیں بناتے.پس اسی طرح یہاں بھی دو ایک اضلاع کو

Page 53

خطبات محمود لے کر اس کا تجربہ کرنا چاہئے.بہر حال جو علاقہ ایک ہزار احمدی ایک سال میں بنادے اسے ایک مستقل مبلغ دے دیا جائے گا.میں یہ کوئی ایسا وعدہ نہیں کر رہا جو پورا نہ کیا جاسکے.ایسی جماعت کو ایک مبلغ دیتا مرکز پر کوئی بوجھ نہیں ہو گا.کیونکہ ہزار احمدی سے چندہ میں بھی کافی اضافہ ہو جائے گا.بلکہ میں سمجھتا ہوں لاہور جیسے شہر میں اگر تو احمدی بھی ہو جائے جن میں سے پچاس کمانے والے ہوں تو بھی ایک مبلغ دیا جا سکتا ہے.اسی طرح امر تسر یا دو سرے بڑے شہر ہیں ان میں مبلغ رکھے جاسکتے ہیں کیونکہ شہری لوگوں کی آمدنی دیہات کے رہنے والوں سے زیادہ ہوتی ہے.شہر میں اوسط آمدنی پچیس تھیں روپے ہوتی ہے اور اگر پچاس کمانے والے نئے احمدی ہو جائیں تو ان کے چندہ سے ہی مبلغ کے اخراجات پورے ہو سکتے ہیں.اور وصیت وغیرہ ملا کر تو آمد بہت بڑھ سکتی ہے.اس کے علاوہ آئندہ کے لئے احمدیت میں داخل ہونے والوں کا سلسلہ وسیع ہو سکتا ہے.ادھر ہم مبلغین کلاس کو وسعت دے سکتے ہیں.زیادہ طلباء کو وظائف دے کر اس میں داخل کر سکتے ہیں.پس لاہور امرتسر، دہلی، لکھنو، بمبئی ، کلکتہ کراچی، ملتان وغیرہ شہروں کی جماعتیں اگر اس سال تنو نئے احمدی دے دیں جن میں سے پچاس کمانے والے ہوں تو انہیں ایک مبلغ دے دیا جائے گا.لاہور میں ہماری جماعت دو ہزار کے قریب ہے.اور نمرد چھ سات سو سے کسی طرح کم نہیں اتنی بڑی تعداد کے لئے سال بھر میں ۱۰۰ یا ۲۰۰ نئے احمدی بنالینا کچھ مشکل نہیں اور اگر وہ سب مل کر 100 بھی بنالیں تو انہیں ایک مستقل مبلغ دیا جا سکتا ہے.مگر دیہات میں چونکہ آمدنی کم ہوتی ہے اور ایک زمیندار کی اوسط آمدنی آٹھ دس روپے ماہوار سے زیادہ نہیں ہوتی اس لئے وہاں ایک ہزار احمدیوں پر ہی مبلغ دیا جا سکتا ہے لیکن ان کے لئے ایک ہزار کا احمدی بنا لینا بھی ایسا ہی ہے جیسے شہر میں ایک 100 کا بنانا کیونکہ شہروں کے لوگ زیادہ متعصب زیادہ کج بحث اور زیاد سخت دل ہو چکے ہیں.پس اگر دس پندرہ گاؤں مل کر کوشش کریں تو وہ بھی ایک مبلغ لے سکتے ہیں.سوچنا چاہئے کہ جب سچائی ہمارے پاس ہے تو ہزار نئے احمدی بنا لینا کیا محال ہے.پس شروع سال میں میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ جو جماعتیں کوشش کر کے نئے احمدی بنا ئیں وہ مستقل مبلغ لے سکتی ہیں.ضلع سیالکوٹ میں ہماری جماعت کا اتنا اثر ہے کہ اگر کوشش کرے تو ایک ہزار احمدی سال میں نہایت آسانی سے ہو سکتا ہے.اسی طرح ضلع گورداسپور میں بھی قریبا جات قو میں سب احمدی ہو چکی

Page 54

خطبات محمود ۴۹ سال ۱۹۳۱ء - ہیں.اور ان دونوں اضلاع میں بہت آسانی سے ایک ہزار نئے احمدی بنائے جاسکتے ہیں.دو تین سو تو عام طور پر ان اضلاع میں ہوتے ہی رہتے ہیں.پس اگر ذرا زور اور لگادیں تو یہ جماعتیں مستقل مبلغ لے سکتی ہیں اور پھر یہ سلسلہ وسیع ہوتے ہوتے ہر تحصیل ، تھانہ ، بلکہ ہر ضلع اور ہر قصبہ کے لئے مبلغ مقرر کئے جاسکتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ جب تک ہر قصبہ میں ہمارا مبلغ نہ ہو پورے طور پر تبلیغ نہیں ہو سکتی.مگر یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ جماعتیں بڑھیں.ایک اور ذریعہ بھی خدا تعالیٰ نے ہمارے حوصلے بلند کرنے کا پیدا کر دیا ہے.لوگ عام طور پر اس واسطے بھی کم حوصلگی دکھاتے ہیں کہ انہیں معلوم نہیں ہوتا ہماری تعداد کتنی ہے.اب مردم شماری ہو رہی ہے اور اس کی آخری تاریخ ۲۶ فروری ہے.اس سے ہمیں ایک حد تک یہ پتہ لگ جائے گا کہ ہماری تعداد کتنی ہے.ہمیں خود قادیان کی ٹھیک آبادی کا علم نہ تھا.اب معلوم ہوا ہے کہ قادیان کی آبادی ساڑھے چھ ہزار ہے.اور یہاں احمدیوں کی تعداد ساڑھے چار ہزار بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسلمان تو پر بھاری ہوتا ہے.اس لحاظ سے پانچ لاکھ کے لئے قادیان کی احمدی جماعت ہی بھاری ہو سکتی ہے.لیکن اگر یہ نہیں تو اس کے مقابلہ میں پیٹھ دکھانا تو مومن کے لئے خدا تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے.گویا اس لحاظ سے بھی قادیان کی جماعت پچاس ہزار پر بھاری ہونی چاہئے.کیونکہ جو مومن دس کے مقابلہ میں بھاگتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے حضور جواب دہ اور قابل مواخذہ ہے.اور یوں تو ایک مسلمان کو شو کا مقابلہ کرنا چاہئے.اگر قادیان کے ارد گرد ننگل بھینی ، کھارا وغیرہ کی احمدی آبادی کو بھی ملا لیا جائے تو آٹھ نو ہزار کی آبادی ہو جاتی ہے اور ہمارے ضلع کی کل آبادی آٹھ نو لاکھ کی ہے گویا یہی جماعت سارے ضلع کے لئے کافی ہے.مؤمن ہمیشہ بہادر ہوتا ہے.قرآن کریم میں خدا تعالی فرماتا ہے اگر تم مارے جاؤ گے تو جنت میں جاؤ گے.اور اگر جیت جاؤ گے تو حکمران ہو جاؤ گے : پس مومن کو کسی حالت میں بھی ڈرنا نہیں چاہئے.ہمیشہ بزدل انسان ڈرا کرتا ہے.مؤمن کے لئے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں.جب وہ جانتا ہے کہ اگر میں غالب ہو گیا تو حاکم بن جاؤں گا اور اگر مارا گیا تو جنت میں چلا جاؤں گا.پس مومن کے لئے کوئی فکر کی بات نہیں ہو سکتی.اگر صرف ضلع گورداسپور کے احمدیوں کی مردم شماری صحیح طور پر ہو جائے تو میرے خیال میں ہیں پچیس ہزار سے زیادہ ہوگی.مگر حیرانی کی بات یہ ہے کہ ایک پچھلی مردم شماری میں تمام ہندوستان میں احمدیوں کی تعداد اٹھائیس ہزار بتائی گئی تھی حالانکہ سیالکوٹ اور گورداسپور میں ہی اس سے زیادہ احمدی ہوں گے.مردم شماری کی رپورٹ کو دیکھ کر

Page 55

خطبات محمود ایک شخص خیال کر سکتا ہے کہ یہ جو اپنی تعداد لاکھوں تک بتاتے ہیں یہ مبالغہ ہی ہو گا کیونکہ سرکاری رپورٹ غلط نہیں ہو سکتی حالانکہ مردم شماری کرنے والوں کا یہ سفید جھوٹ تھا کہ احمدیوں کی تعداد ہندوستان میں ۲۸ ہزار ہے.ان کی تو یہ حالت ہے کہ 1911ء میں جب امر تسر میں کئی تو احمدی تھے وہاں صرف ایک احمدی لکھا گیا تھا اور وہ بھی ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کو مگر اس کی ذمہ داری ہم پر ہے کیونکہ ہم خود تعداد ٹھیک درج کرانے کا انتظام نہیں کرتے اور اس طرح غفلت سے بہت سخت نقصان ہوتا ہے.میں الفضل میں مردم شماری کے متعلق ایک اعلان کرا رہا ہوں.افسوس کہ اب وقت بہت کم رہ گیا ہے.چاہئے تھا کہ سال چھ مہینے قبل یہ کام شروع کیا جاتا مگر پہلے توجہ نہ کی جاسکی.اب اگر چہ اخبار میں مسلسل اعلان شائع ہو رہا ہے مگر لاکھوں کی جماعت ہے جو دور دور بکھری ہوئی ہے اور اخبار کی اشاعت دو ہزار ہے.اگر ایک پرچہ کو دس آدمی بھی پڑھیں تو پھر بھی ہیں ہزار کو اطلاع ہو سکتی ہے اور اگر ان میں سے ہر ایک تلو کو بتائے تو بھی دو لاکھ سے زیادہ کو اطلاع نہیں ہو سکتی اس لئے اب جو اعلان کیا جارہا ہے اس سے پورے فائدہ کی امید نہیں ہو سکتی.اس کے لئے بہت پہلے کوشش شروع کرنی چاہئے تھی.خیر اب بھی جتنا وقت ہے اس کے لحاظ سے کوشش کرنی چاہئے اور اگر پورا نہیں تو ادھورا کام ہی کر لینا چاہئے.اٹھائیس ہزار کی تعداد کس قدر شرمناک ہے.مگر یہ خطرناک طور پر غلط ہے.میں نے گورنمنٹ کی تین سال کی رپورٹیں پڑھی ہیں.ان میں بھی ہماری تعداد ستر ہزار سے زائد بتائی گئی ہے مگر یہ بھی غلط ہے.ہماری جماعت خدا تعالٰی کے فضل سے بہت زیادہ ہے.پس اگر سارے مل کر کوشش کریں تو مردم شماری میں ہماری تعداد بہت ثابت ہو سکتی ہے.آج ہی ضلع گورداسپور کے دو دیہات کے دوست ملنے آئے تھے.ان سے معلوم ہوا کہ دھرم بکوٹ میں جو معمولی سا گاؤں ہے سو (۱۰۰) سوا سو (۱۲۵) کے قریب احمدی ہیں.اس طرح بیسیوں گاؤں ایسے ہیں جن میں احمدیوں کی تعداد سینکڑوں سے زیادہ ہے.اور اگر پوری طرح مردم شماری کی جائے تو میں سمجھتا ہوں اسی ضلع میں ہیں، پچیس ہزار سے زیادہ احمدی نکلیں گے مگر بعض لوگ ستی سے کام لیتے ہیں.شمار کنندگان عام طور پر ہندو ہوتے ہیں جو ان قوموں کو خصوصیت کے ساتھ کم دکھانے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کا مقابلہ کر رہی ہیں اور اس لحاظ سے وہ احمدیوں کی تعداد خصوصیت سے کم درج کرتے ہیں اور مسلمانوں کو بالعموم کم دکھاتے ہیں.اب اگر ہر شمار کنندہ کمی کرنے لگے تو مسلمانوں کی تعداد میں لاکھوں کی کمی ہو سکتی ہے اور غور کرو اس سے مسلمانوں کو کتنا نقصان اور ہندوؤں کو

Page 56

خطبات محمود ۵۱ سال ۱۹۳۱ء کتنا فائدہ پہنچ سکتا ہے اس لئے احتیاط کے ساتھ دیکھنا چاہئے اور شمار کنندگان کو مجبور کرنا چاہئے کہ وہ ہر ایک احمدی کے نام کے آگے احمدی لکھے اور اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ ایک نومولود بچہ بھی بغیر درج ہونے کے نہ رہ جائے.اگر کسی جگہ شمار کنندگان احمدی لکھنے سے انکار کریں تو گورنمنٹ کو تاریں دینی چاہئیں ہمیں یہاں اطلاع دینی چاہئے ہم اس کے متعلق انتظام کریں گے.گورنمنٹ نے لاہور میں ایک خاص افسراسی غرض سے مقرر کر رکھا ہے اسے اطلاع دینی چاہئے غرضیکہ شور ڈال دینا چاہئے.مختصر یہ کہ اس سلسلہ میں جس قدر بھی ممکن ہو کوشش کی جائے.اول تو ضرورت ہے کہ ہر جگہ پوری پوری مردم شماری کرائی جائے.اگر بڑے بڑے سو دو سو مقامات پر بھی ہو جائے تو بھی اس امر کا اندازہ کرنے کے لئے کافی ہے کہ سرکاری شمار کنندگان کی رپورٹ کہاں تک بھیج ہے.اب میں سمجھتا ہوں وہ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے طور پر ٹھیک ٹھیک مردم شماری کریں.لیکن اب جو موقع پیدا ہوا ہے اس سے بھی ضرور فائدہ اٹھانا چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ کوئی احمدی درج ہونے سے نہ رہ جائے کیونکہ جماعت کے زیادہ ہونے سے ہر احمد ی کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے.پس میں امید کرتا ہوں کہ تمام جماعتیں مردم شماری کی طرف خاص توجہ کریں گی.اور اگر ہم گورداسپور اور سیالکوٹ صرف دو ضلعوں کی مردم شماری ہی پوری طرح کرا کر یہ بتادیں کہ انہیں دو اضلاع میں ہماری جماعت ہیں پچیس ہزار سے بہت زیادہ ہے.تو باقی اضلاع میں اگر ناقص طور پر بھی مردم شماری ہو گی تو اسی سے حکومت سمجھ سکتی ہے کہ تمام ہندوستان میں جماعت کی تعداد بہت زیادہ ہے.پس اس کے لئے پوری پوری کوشش کی ضرورت ہے.یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ ہم پوری طرح کام نہیں کر سکتے.اور چونکہ سب مقامات پر یہ انتظام نہیں ہو سکے گا اس لئے ہم کیوں تکلیف اٹھا ئیں بلکہ جو دوست جس قدر کام کر سکتے ہوں کریں کیونکہ اگر چند مقامات پر بھی ٹھیک ٹھیک مردم شماری ہو جائے تو وہ بھی اندازہ لگانے کے لئے کافی ہوگی مگر اصل چیز تبلیغ ہے اور پورے طور پر اس کی طرف متوجہ ہونا چاہئے فتح ہمارے قدموں پر پڑی ہے ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ایک دفعہ پورے زور سے دھاوا بول دیا جائے.خدا تعالی کے فضل سے جماعتیں ہر جگہ پھیل چکی ہیں صرف ایک نعرہ کی دیر ہے اور دنیا کی فتح ہمارے آگے ہے.دوسرے مسلمان بہت مست ہو رہے ہیں اور دوسری قومیں ان کو ڈرا دھمکا رہی ہیں.تم دیکھ رہے ہو کہ سکھ کس طرح ہر جگہ مسلمانوں کو دباتے جارہے ہیں اور گورنمنٹ بھی ان کے سامنے

Page 57

خطبات محمود ۵۲ جھکتی جارہی ہے مگر یاد رکھو اگر مردم شماری میں اپنی تعداد پانچ لاکھ لکھانے میں بھی ہم کامیاب ہو جائیں تو گورنمنٹ ہم سے ان سے بھی زیادہ ڈرے گی جتنا تمیں لاکھ سکھوں سے ڈرتی ہے.مگر افسوس ہے کہ باوجود بہت کچھ نظام کے ہماری جماعت ابھی تک پورے طور پر منتظم نہیں ہو سکی پھر بھی جتنی منتظم ہے اس کا بھی کافی رعب ہے.اور اگر پنجاب میں پانچ لاکھ ہی منتظم کی جاسکے تو کوئی قوم بھی مسلمانوں کے حقوق پر دست درازی نہیں کر سکے گی اور ان کے مطالبات کے خلاف آواز بلند نہیں کر سکے گی.پھر ہم مبلغ بھی ہزاروں رکھ سکتے ہیں.مگر نقص یہی ہے کہ باوجو د نظام کے جماعت ابھی پورے طور پر منظم نہیں ہو سکی.جماعتیں ابھی چھوٹی چھوٹی ہیں اور دور دراز علاقوں میں پھیلی ہوئی ہیں.سینکڑوں گاؤں ایسے ہیں جہاں پانچ پانچ چھ چھ احمدی ہیں مگر سال ہا سال گزر جاتے ہیں کوئی مبلغ وہاں نہیں جاتا اور اگر جائے تو خرچ بہت زیادہ ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت روز بروز بڑھ رہی ہے.گذشتہ جمعہ میں بھی اور آج بھی مسجد اس قدر بھری ہوتی ہے کہ حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں جلسہ کے دنوں میں بھی اتنے لوگ نہ ہوتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کے آخری جلسہ میں تو لوگ اس قبر سے ورے ورے ہی تھے.اس وقت جمعہ کے لئے جس قدر لوگ بیٹھے ہیں ان کی تعداد اس سے چھ سات گنا زیادہ ہے یہ اللہ تعالی کا کتنا فضل ہے.اللہ تعالیٰ دلوں پر قبضہ کر کے اس طرف لا رہا ہے.اگر چہ ہمارے دشمن بھی ہیں مگر وہ دل میں اتنا ضرور سمجھ رہے ہیں کہ اسلام کی خدمت کرنے والی جماعت یہی ہے اس وقت مخالفت پھر زور سے شروع ہوئی ہے مگر یہ اسی لئے ہے کہ دشمن سمجھتا ہے ہم بڑھ رہے ہیں.اس مخالفت کی مثال ایسی ہی ہے جیسے دو ٹیمیں رسہ کشی کرتی ہیں اور جب ایک ٹیم دوسری کو کھینچ کر بالکل لائن پر لے آتی ہے تو وہ آخری بار پھر قدم جمانے کے لئے پورا زور لگاتی ہے.اس وقت کھینچنے والی ٹیم کا کیا فرض ہوتا ہے یہی کہ وہ بھی ایک بار پھر پورا زور لگائے اور فتح حاصل کر لے.پس اس مخالفت کے مقابلہ میں ہمیں ایک بار پھر پورا زور لگا کر فتح حاصل کر لینی چاہئے.کم از کم ایک سال ہی پورے زور سے تبلیغ کرو اور سمجھ لو کہ اس سال تم اپنے لئے مرگئے اور صرف تبلیغ کے لئے زندہ ہو.اگر تم اس طرح کرو تو پھر اگلے سال مجھے وعظ کرنے اور کہنے کی ضرورت نہیں ہوگی اور کامیابی اور ترقی کی خوشی میں تم خود بخود اس کام کو کرنے پر مجبور ہوگے.جس طرح ایک انیمی کو وقت مقررہ پر افیم کھانے کے لئے کسی بیرونی تحریک کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ خود بخود کھا لیتا ہے اسی طرح ایک سال اس طرح تبلیغ کرنے کے

Page 58

خطبات محمود ۵۳ سال ۱۹۳۱ء بعد تم بھی کسی تحریک کے محتاج نہ رہو گے اور خود بخود دلی شوق سے اس میں پوری پوری سرگرمی دکھاؤ گے.اور خدا کے لئے ایک سال دینا کوئی بڑی بات نہیں.بلکہ اب تو گیارہ مہینے ہی رہ گئے ہیں.اگر تم اس طرف متوجہ ہو گے تو اللہ تعالیٰ بہت برکت ڈالے گا جس طرح وہ ہمارے ہر کام میں برکت ڈال رہا ہے.اس سال دیکھ لو لوگوں کو کس قدر مالی مشکلات رہی ہیں.مگر چونکہ جماعت ایک نظام کے ماتحت ہے اس لئے باوجو د مالی مشکلات کے اس سال کا چندہ گذشتہ سال سے زیادہ ہے.حالانکہ اس سال میں زمیندار اجناس کے سنتے ہونے کی وجہ سے چندوں میں پورا پورا حصہ نہیں لے سکے.ان کے لئے یہ ایسا سال تھا کہ بڑے بڑے آسودہ حال زمینداروں کو فاقہ کشی کی نوبت آگئی کیونکہ بھاؤ گر گئے ہیں.مگر نظام کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ہم پر اتنا فضل کیا کہ ہماری مالی حالت میں ترقی ہو گئی.اور اگر پورا پورا کام کیا جاتا تو شاید پچھلے سال کا قرضہ بھی اتارا جا سکتا بلکہ ہم کچھ جمع بھی کر لیتے.پس اسی طرح اگر دوست تبلیغ کے کام میں لگ جائیں تو میں سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ کے فضل سے آئندہ جلسہ سالانہ پر وہ ایک غیر معمولی کامیابی کا مشاہدہ کریں گے.ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ وقت کی قدر کریں اور یہ سمجھ لیں کہ اسلام اس وقت غیر معمولی مصائب میں سے گزر رہا ہے اور چونکہ ہماری جماعت اس کی مدافعت کے لئے کھڑی ہے اس لئے اسے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں دریغ نہ کرنا چاہئے.وہ دیوانہ دار تبلیغ میں لگ جائیں اور کسی اور طرف توجہ نہ کریں.ایک بزرگ کا قول مشہور ہے وہ کہتے ہیں میں نے اپنے ایک مرید کو ایک بدی میں مبتلاء دیکھا تو مجھے بہت شرم آئی اور اس سے نفرت پیدا ہو گئی.مگر اس نے کہا جناب میں نے آپ کی صحبت میں رہنے کے باوجود جب اپنے فسق میں کمزوری نہیں آنے دی تو آپ کو چاہئے کہ آپ اپنے تقویٰ میں کمزوری نہ آنے دیں.پس اگر دنیا گمراہی میں بڑھ رہی ہے تو ہمیں ہدایت کی اشاعت میں ہرگز سستی نہ کرنی چاہئے.سچی بات یہی ہے کہ تقویٰ ہی اصل چیز ہے.کفر کی مثال اس عمارت کی ہے جو ریت کے تو وہ پر کھڑی ہو.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ارادوں میں استقلال میں ہمت میں کوشش میں اپنے فضل اور رحمت و کرم اور اپنی برکت میں برکت دے.آمین.ا نفضل -۱۳- فروری ۱۹۳۱ء)

Page 59

خطبات محمود ۵۴ 7) دین اور دنیا دونوں کے لئے رمضان کی کیفیت پیدا کرو فرموده ۱۳- فروری ۱۹۳۱ء) سال ۱۹۳۱ تشهد تعوز اور سورۃ فاتحہ کے بعد فرمایا :- آج کا دن اس لحاظ سے بھی مبارک ہے کہ جمعہ کا دن ہے جو مسلمانوں کی عید ہے اور اس لحاظ سے بھی مبارک ہے کہ رمضان کے ان ایام میں آیا ہے جن میں خدا تعالیٰ اپنے بندے کے زیادہ قریب ہو جاتا ہے اور پھر اس لحاظ سے بھی مبارک ہے کہ رمضان کے اس آخری عشرہ میں آیا ہے جس میں رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ ایک خاص وقت قبولیت دعا کا ایسا آتا ہے جس میں خدا تعالیٰ کی برکات نازل ہوتی ہیں.پھر ہمارے لئے تو اس لحاظ سے بھی مبارک ہے کہ ہمیں اس دن اس مقام پر جمع ہونے اور عبادت کرنے کا موقع ملا ہے جسے خدا تعالیٰ نے اپنی رضا کے لئے مخصوص کر دیا ہے.اور جب ہم یہ بات دیکھیں کہ وہ مسجد جس کے بڑھاتے وقت بعض لوگ خیال کرتے تھے کہ اس قدر نمازی کہاں سے آئیں گے آج اس میں نماز پڑھنا تو کجا سب کے بیٹھنے کے لئے بھی جگہ نہیں تو یہ حالت دیکھ کر ہمارے دل خدا تعالیٰ کے افضال اور احسانات کی وجہ سے شکر و امتنان کے جذبات سے پر ہو جاتے ہیں.آج سے پورے چالیس سال قبل جو جماعت کی بلوغت کا زمانہ ہے یعنی ۱۸۹۱ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی مسیحیت کے متعلق کتابیں شائع کرنی شروع کیں اور اب ۱۹۳۱ ء ہے گویا آج ہماری جماعت کی عمر بلوغت کو پہنچ رہی ہے.بلوغت روحانیہ کے لئے چالیس سال کا عرصہ مقرر ہوتا ہے جو اب پورا ہوتا ہے.آج سے چالیس سال قبل ایک شخص نے جو مولوی کہلاتا تھا جس کی نظر باوجود دعوی علم کے ہمیشہ نیچے کی طرف رہتی تھی اور جو خداتو اب کی طرف نہیں دیکھ سکتا تھا.اس نے ایک دوسرے شخص کی نسبت جس

Page 60

خطبات محمود ۵۵ سال ۱۹۳۱ء کی برکات کا ظہور آج ہم دیکھ رہے ہیں اعلان کیا کہ میری تائید اور امداد و نصرت سے ہی اس شخص کو شہرت حاصل ہوئی ہے.میں نے ہی اسے بڑھایا ہے اب میں ہی اسے نیچے گراؤں گا لیکن جس مولوی نے یہ دعوی کیا اس کے در و دیوار گر گئے.اس کی اولاد برباد ہو گئی سوائے شہاز کے جو اس کی شہرت کو حاصل کرنا تو درکنار اس کے قریب ترین مقام کو بھی حاصل نہ کر سکے.اور عام لوگوں کی سی زندگی بسر کرتے ہیں.اس کا کوئی بچہ تو مر گیا کوئی پاگل ہو گیا.ایک کے متعلق تو سنا تھا کہ آریہ ہو گیا اور اس کے بعد جلد مر گیا.گویا جس شخص نے کہا تھا کہ میں نے ہی اسے بڑھایا ہے اور میں ہی گراؤں گا وہ خود اپنے اعمال سے الجھ کر گر گیا.لیکن وہ جسے اس نے گرانا چاہا تھا اس کی آواز کو خد اتعالیٰ نے دنیا کے کناروں تک پہنچا دیا اور اس قدر برکت اور ترقی دی کہ دنیا حیران ہے اور حیران ہوتی جائے گی یہاں تک کہ دنیا میں اسے ایسی قبولیت حاصل ہو جائے گی کہ لوگ خیال کریں گے شاید دنیا اس کی پیدائش کے دن سے ہی اسے مانتی چلی آئی ہے.جیسے رسول کریم ﷺ کے دشمن آج خیال کرتے ہیں اور کہتے ہیں آپ پہلے دن سے ہی ترقی کے آثار لے کر آئے تھے.انبیاء کے دشمن ایک زمانہ میں تو خیال کرتے ہیں ہم اسے مناڈالیں گے اس کی حقیقت ہی کیا ہے لیکن اور دوسرے زمانہ میں وہ خیال کرتے ہیں یہ شروع سے ہی اسی حالت میں چلا آرہا ہے کہ کوئی اس کا مقابلہ نہ کر سکے اور یہ بڑھتا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق ہم نے خود وہ زمانہ دیکھا ہے جب دشمن کہتا تھا میں اسے مسل ڈالوں گا.اب یہ دیکھنا باقی ہے جب دشمن یہ کہے گا کہ شروع سے ہی حالات ان کے لئے ساز گار تھے.پس ایک زمانہ تو ہم دیکھ چکے ہیں جب کہا جاتا تھا یہ تعلیم پھیلنے والی نہیں اور اب بھی کہا جاتا ہے کیا ہوا اگر کچھ لوگ ایمان لے آئے عام طور پر لوگ ان باتوں کو مانے کے لئے تیار نہیں لیکن ایک زمانہ آئے گا جب کہیں گے بھلا ایسی باتوں کو بھی کوئی رد کیا کرتا ہے دنیا کا ان کو مان لینا کوئی تعجب کی بات نہیں.دراصل جاہل اور عالم میں فرق یہی ہے کہ جاہل اس زمانہ کی خبر دیتا ہے جس سے وہ واقف نہیں ہو تا اور عالم صحیح واقفیت کی بناء پر خبر دیتا ہے اس زمانہ کے نہ ماننے والے اگلے زمانہ کی خبر دیتے ہیں کہ یہ تعلیم آہستہ آہستہ رد کر دی جائے گی.لیکن اگلے زمانہ کے پیچھے کی خبر دیں گے کہ اسے کون رد کر سکتا تھا دنیا اس کے ماننے کے لئے بالکل تیار تھی کیونکہ یہ ضرورت زمانہ کے مطابق تھی.اور اس طرح دونوں قسم کے لوگ اپنے زمانہ کے سوا دو سرے زمانہ کی خبر دیں گے اور یہی علامت جاہلوں کی ہوتی ہے.لیکن اس ترقی کو دیکھ کر جہاں ہمیں خوشی ہے وہاں ہم پر ایک ذمہ داری بھی عائد ہوتی

Page 61

خطبات محمود ۵۶ ہے.ہم سے پہلوں نے اہم پہلے ہی کہیں گے کیونکہ ان میں سے بعض وفات پاچکے ہیں اگر چہ بعض زندہ بھی ہیں) اس مسجد کو وسیع کیا تھا جس سے ہم نے فائدہ اٹھایا اب ہمیں چاہئے اسے اور وسیع کریں تا اگلے فائدہ اٹھائیں.نیز مسجد میں جبکہ کی اس قدر تنگی ہمیں یہ سبق سکھاتی ہے کہ یہ وقت ہے کہ ہم روحانی اور جسمانی طور پر پھیلیں خدا کی برکات کے نزول کی علامت ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ مومنوں پر عرصہ حیات تنگ ہونے دیتا ہے تا وہ زیادہ قوت کے ساتھ پھیلیں کیونکہ جتنا کسی طاقت والی چیز کو دبایا جائے اتنا ہی وہ زیادہ زورت باہر نکل کر پھیلنے کی کوشش کرتی ہے.یورپین لوگوں نے ہوائی بندوقیں تیار کی ہوئی ہیں جن میں ہوا کی زیادہ مقدار کو ایک تنگ جگہ میں روک دیا جاتا ہے.جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب اسے چلایا جائے تو وہ کئی گز دور تک چھرہ پھینک سکتی ہے.اسی طرح بعض جگہ تو ہوائی تو ہیں بھی بنائی گئی ہیں.پس ہوا کو بھی اگر دبایا جائے تو وہ بھی زیادہ زور کے ساتھ باہر نکلتی ہے.اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندوں کو دباتا ہے.کبھی ان پر جگہ تنگ کرتا ہے ، کبھی دو سروں کو ظلم کرنے کا موقع دیتا ہے، کبھی وہ اپنے بڑھے ہوئے حوصلوں کے مقابل میں اپنے محدود سامان اور ذرائع کو دیکھ کر تنگ ہوتے ہیں حتی کہ وہ ہر طرف سے تنگ ہو کر ہوا کی طرح باہر نکلتے ہیں اور اپنے مقدور سے بہت دور تک بڑھ جاتے ہیں.یہ رمضان کا مہینہ ہے جو خود ترقی کی طرف بلاتا ہے.رمض کے معنے ہیں گرمی کا تیز ہو جانا.بعض نادان خیال کرتے ہیں رمضان اسے اس لئے کہتے ہیں کہ اس کا گرمی سے تعلق ہے حالانکہ یہ سرا سر غلط ہے.یہ کیونکر ہو سکتا ہے جبکہ رمضان ہمیشہ بدل بدل کر مختلف موسموں میں آتا ہے کبھی سخت گرمی میں اور کبھی سخت سردی میں.اگر اس کا تعلق سمسی مہینوں سے ہو تا تو یہ معنی درست سمجھے جاسکتے تھے مگر اس کا تعلق قمری مہینوں سے ہے پھر اگر رمضان صرف عربوں کے لئے ہوتا تو کہا جا سکتا تھا کہ چونکہ وہ ملک گرم ہے وہاں کی گرمی کی وجہ سے اس کا یہ نام رکھا گیا.لیکن اول تو اس کا تعلق قمری مہینوں سے ہے اس لئے سردی میں بھی آتا ہے.مثلا آج کل کونسی گرمی ہے سحری کے وقت گرم کپڑا اوڑھ کر سحری کھائی اور نماز پڑھنی پڑھتی ہے.اس وقت کی سردی مضبوط آدمی ہی برداشت کر سکتا ہے کئی کمزوروں کو ان دنوں نمونیا ہو جاتا ہے اس لئے گرمی سے تعلق ہونے کی وجہ سے اس کا نام رمضان نہیں پس اول تو عرب میں بھی یہ سردیوں میں آتا ہے لیکن اگر گر میوں میں بھی ہو تا تو محض اس وجہ سے اس کا نام رمضان اسی وقت رکھا جا سکتا تھا جب یہ صرف عرب کے لئے ہو تا لیکن دنیا میں کئی ممالک ایسے ہیں جہاں سارا سال ہی سردی رہتی ہے.جیسے یورپ اور وہ مذہب

Page 62

خطبات ނ محمود ۵۷ سال ۱۹۳۱ء جس کا دعوئی ہو کہ وہ سارے جہان کے لئے ہے ایسا نام کیسے اختیار کر سکتا ہے جو کسی خاص ملک مختص ہو.پس رمضان کے معنے وہی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائے ہیں کہ یہ روحانی گرمی پر دلالت کرتا ہے.ان دنوں میں اللہ تعالیٰ انسان کو خاص طور پر روحانی کاموں میں لگا دیتا ہے تا اس کے اندر ایسی گرمی پیدا کرے کہ وہ اس کے فیوض حاصل کر سکے.اردو میں بھی گرم ہو جاؤ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ خوب تیزی اور سرگرمی سے کام کرو.پھر زور کے ساتھ کام کرنے کے نتیجہ میں بھی گرمی پیدا ہو جاتی ہے.عربی کا بھی ایک محاورہ ہے کہ جب لڑائی تیز ہو تو کہتے ہیں حمی یا یہ کہ لڑائی کا نور گرم ہو گیا.تو گرم ہونے کے یہ معنے بھی ہوتے ہیں کہ کام کو پوری جدوجہد سے کیا جائے.پس رمضان کے معنے یہ ہیں کہ انسان خدا تعالیٰ کے قرب کے لئے گرمی پیدا کرتا ہے.اور غور کرو کیا یہ کم گرمی ہے کہ وہ لوگ جو گیارہ مہینوں میں کبھی تجھ نہیں پڑھتے.ان دنوں وہ بھی پڑھنے لگ جاتے ہیں.اور جو کبھی ایک وقت بھی فاقہ نہیں کرتے وہ تمام مہینہ سارا سارا دن بھوکے رہتے ہیں.اور جو صدقات اور خیرات سے اسلئے ہی چڑاتے کہ مال خرچ ہو جائے گاوہ بھی اس مہینہ میں زیادہ خرچ کرتے ہیں.غرض وہ چیزیں جو انسان کو زیادہ نافل بنادیتی ہیں یعنی زیادہ کھانا پینا زیادہ سونا زیادہ باتیں کرنا اور زیادہ مالدار ہونا ان سب میں تبدیلی ہو جاتی ہے اور ان کی بجائے چستی پیدا کرنے والی باتیں انسان اختیار کر لیتا ہے یعنی کم کھانا کم سونا کم باتیں کرنا.اور مال خرچ کرنا زیادہ مال جمع کرنے والے بھی ست ہو جاتے ہیں غرضیکہ سب چستی پیدا کر نیوالی باتیں رمضان میں جمع ہو جاتی ہیں.کہ انسان کم کھاتا ہے.تھوڑا ہوتا ہے ذکر الہی میں مشغول رہنے کی وجہ سے کم باتیں کرتا ہے اور مال زیادہ خرچ کرتا ہے.جو لوگ صدقہ نہ بھی کریں ، رمضان کے مہینہ میں وہ اپنی خوراک پر ہی زیادہ خرچ کرتے ہیں ہر شخص روز کہاں پر اٹھے کھاتا ہے.مگر رمضان میں عام طور پر لوگ پر اٹھے کھاتے ہیں.یا افطاری پر ہی کچھ نہ کچھ زیادہ خرچ کرتے ہیں.غرضیکہ اس مہینہ میں ضرور زیادہ خرچ ہو جاتا ہے.اور جو لوگ زیادہ صدقہ خیرات کرنے کے عادی نہیں وہ اپنے جسم کی حفاظت کے لئے ہی زیادہ خرچ کر دیتے ہیں وہ چاہے خدا کے لئے نہ کریں مگر اپنے نفس کے لئے ضرور کر دیتے ہیں.غرض رمضان میں یہ بتایا گیا ہے کہ انسان محنت کرے تب ہی اس کے لئے عید ہو سکتی ہے اور اپنے اندر یہ سبق رکھتا ہے کہ اگر انسان واقعی اپنے اوپر رمضان کی حالت طاری کرلے تو اس پر کوئی مصیبت نہیں آسکتی.اور جو ساری کی ساری قوم کم کھائے کم سوئے ، مالی

Page 63

۵۸ خطبات محمود قربانیاں کرے اور ذکر الہی میں مشغول رہے وہ کب ترقی سے محروم رہ سکتی ہے خصو صاًوہ قوم جو اللہ تعالیٰ کے لئے سب کچھ کرے جو سعی و تدبیر بھی کرے اور خدا تعالیٰ کی برکت بھی اس کے شامل حال ہو وہ ضرور کامیاب ہو کر رہتی ہے.ہمیں غور کرنا چاہئے کہ کیا واقعی ہم اور ہماری اولادیں رمضان کی حالت میں سے گذر رہی ہیں.کیا ان میں کوشش اور محنت کی عادت پیدا ہو رہی ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ احمدیوں کی اولادیں دوسروں سے بہت اچھی ہیں مگر ان کی تربیت کے لئے جس کوشش اور قربانی کی ضرورت ہے ہم ابھی اس کا دسواں حصہ بھی نہیں کر رہے حالانکہ جس طرح بڑوں کے اندر ترقی کرنے کی روح موجود ہے اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ ہماری اولادوں کے اندر ہونی چاہئے اور اس ذمہ داری کو ماں باپ کو اپنی اولاد کے متعلق اور مدرسین کو قوم کے بچوں کے متعلق اٹھا نیکی کوشش کرنی چاہئے.اس وقت یہاں چار درسگاہیں ہیں گر لز سکول، ہائی سکول احمد یہ سکول اور جامعہ احمدیہ ان چاروں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کے متعلق اگر ہمارے کارکن رمضان کو مد نظر رکھیں اور کوشش کریں کہ ان کے اندر قابلیت کے ساتھ محنت اور جفاکشی کی عادات پیدا ہوں تو ہمارے لئے حقیقی رمضان آسکتا ہے.یاد رکھنا چاہئے کہ انسان کے اندر خواہ کتنا اخلاص کیوں نہ ہو وہ اپنے گردو پیش کے حالات سے بچپن میں جو اثر قبول کرتا ہے وہ باقی رہ جاتا ہے.میں نے دیکھا ہے حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی طبیعت سادہ تھی.آپ کھلی کھلی بات کرنے سے ہچکچاتے نہ تھے.بعض دفعہ غیرت یا نصیحت کے جوش میں آپ سخت الفاظ بھی کہہ دیتے تھے اور کئی بار آپ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا.میاں یہ ہماری تربیت کا نقص ہے.ہمارے وقت میں تربیت کے ایسے مواقع نہ تھے جیسے اب ہیں.آئندہ نسلوں کے لئے بہتر تربیت کا موقع ہے.اور یہ بات ٹھیک ہے.ابتدائی لوگ خواہ اخلاص میں کتنی ہی ترقی نہ کر جائیں چونکہ ان کا بچپن ایسے لوگوں میں گذرا ہو تا ہے جو صحیح تربیت سے محروم تھے اس لئے کبھی غصہ کے وقت ان کی زبانوں پر وہی الفاظ جاری ہو سکتے ہیں جو انہوں نے بچپن میں دوسروں سے سنے تھے.بخاری میں صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت ابو بکڑ کے منہ سے بھی ایک گالی کی روایت کی گئی ہے.جو ایک شخص کو رسول کریم اللہ کے حضور میں بے ادبی کرتے ہوئے دیکھ کر بے اختیار آپ کے منہ سے نکل گئی.لیکن جب ایمان پھیل جاتا ہے تو مومن اپنی اولادوں کی بہتر تربیت کر سکتے ہیں.(انبیاء کی ذات مستثنیٰ ہے کہ ان کی تربیت اللہ تعالیٰ کرتا ہے)

Page 64

خطبات محمود ۵۹ سال ۱۹۳۱ء اور پہلوں سے بہتر بنا سکتے ہیں اس لئے اس بات کو مد نظر رکھنا چاہئے کہ بچوں کے اندر پہلوں کی خوبیاں تو آئیں مگر ان کی کوتاہیاں نہ آنے پائیں.پھر بعض لوگ تربیت تو اچھی کرتے ہیں مگر ان کے اندر اخلاص پیدا کرنیکی کوشش نہیں کرتے.ان کے الفاظ شستہ ہوتے ہیں گفتگو سلجھی ہوئی ہوتی ہے، ادب بھی ان میں ہوتا ہے مگر ان کے دل ٹھنڈے ہوتے ہیں ان کے اندر وہ گرمی نہیں ہوتی جو دین کے متعلق ان کے ماں باپ میں تھی.ایسے لوگ انسان نہیں بلکہ مشینیں ہوتے ہیں جو قوم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے.قوم کو وہی نسل تباہی سے بچا سکتی ہے جس کے اندر ظاہری تربیت کے ساتھ اخلاص بھی ہو.اگر صرف ظاہری تربیت ہی ہو انسان کی زبان صاف ہو جسم صاف ہوں اور لباس بھی صاف ستھرے ہوں وہ محنتی بھی ہوں مگر ان کے دلوں میں دین کے لئے اخلاص نہ ہو تو کسی فائدہ کا موجب نہیں ہو سکتے.اور اگر دل میں اخلاص ہو اور تربیت میں نقائص رہ جائیں اور پہلے اثرات ان میں منتقل ہو جائیں تو پھر بھی کما حقہ ترقی نہیں ہو سکتی.ترقی کے لئے ضروری ہے کہ ظاہری تربیت اور اخلاص دونوں موجود ہوں.پس ضرورت ہے کہ یہ دونوں باتیں ہم اپنی اولادوں میں پیدا کریں.حضرت مسیح علیہ السلام کی بعض نصیحتیں مجھے بڑی پیاری لگتی ہیں بلکہ یہ فقرہ میں نے غلط کیا انبیاء کی ساری باتیں ہی پیاری ہوتی ہیں یوں کہنا چاہئے کہ ان کی جو باتیں انجیل میں باقی رہ گئی ہیں وہ سب بہت ہی پیاری ہیں.ایک موقع پر کچھ لوگ اپنے بچوں کو ان کی مجلس میں لائے.شاگردوں نے ان کو جھٹر کا مگر آپ نے فرمایا بچوں کو میرے پاس آنے دو اور انہیں منع نہ کرو کیونکہ خدا کی بادشاہت ایسوں ہی کی ہے.میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو کوئی خدا کی بادشاہت کو بچے کی طرح قبول نہ کرے وہ اس میں ہر گز داخل نہ ہو گا".سے اس میں آپ نے دو سبق دیئے ہیں.اول تو یہ کہ اپنی اولادوں کو ٹھنڈ ا مت کرو.انہیں جوش میں بڑھنے دو تا ان کے اندر سردی پیدا نہ ہو کیونکہ جب بھی قواعد کی بہت سختی سے پابندی کرائی جائے تو اس سے بھی کسی قدر سردی پیدا ہو جاتی ہے.میں نے دیکھا ہے پہلے میرے مسجد میں آنے پر صفیں بنانے کا اور راستہ دینے کا طریق نہ تھا اور لوگ خصوصاً بچے مجمع میں گھتے ہوئے آگے آتے اور مصافحہ کرنے کی کوشش کرتے تھے مگر جب سے صفیں بنانے کا قاعدہ ہوا ہے بعض اوقات پاس سے گذر جانے پر بھی بعض لوگ اس خیال سے چپ چاپ بیٹھے رہتے ہیں کہ قاعدہ کی پابندی میں کہیں غلطی نہ ہو جائے.ایسا ہی کوئی قاعدہ وہاں بنایا گیا ہو گا جس پر آپ نے فرمایا کہ

Page 65

خطبات محمود ۶۰ بچوں کو آگے آنے دو.کیونکہ ان کو آگے لانا ہی خدا کی بادشاہت کولا نے کا ذریعہ ہے.ان لوگوں کے نزدیک چونکہ دنیوی ترقیات ہی بڑی کامیابی تھی اس لئے حضرت مسیح ناصری علیہ السلام نے ان کے ہی محاورے کے مطابق خدا تعالیٰ کی بادشاہت کا محاورہ دنیا میں ان کی بادشاہت کے معنوں میں استعمال کیا.اور بتایا کہ اگر یہی اخلاص بچوں کے اندر قائم رہا تو مسیحیت کی بادشاہت دنیا میں بہت جلد قائم ہو جائے گی.دوسرا مفہوم اس فقرہ کا یہ تھا کہ بچوں کے اندر جو جوش و خروش ہے اگر بڑے بھی اپنے اندرای سم کا جوش و خروش پیدا کرلیں تو وہ خدا کی بادشاہت میں داخل ہو سکتے ہیں.یہ بات بھی ہمارے تجربہ سے ظاہر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے بڑھیا جیسا ایمان خدا تک پہنچا سکتا ہے.بڑھیا عورت جس بات کو صحیح اور در سمجھتی ہو خواہ لاکھ دلائل دیئے جائیں اس کے خلاف نہیں مان سکتی.پس خدا تعالی تک پہنچنے کے لئے انبیاء جیسا ایمان یا پھر کم سے کم بڑھیا جیسا ایمان ضرور ہونا چاہئے.یعنی ایک دفعہ صداقت کو سوچ سمجھ کر مان لینے کے بعد پھر کوئی چیز راستہ میں روک نہ ہوئی چاہئے.اور کسی قسم کے اوہام سے قطعا متاثر نہ ہونا چاہئے.بعض نادان فروعات کو عقل سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں.اصول کو تو عقل کے مطابق دیکھنا چاہئے.مثلا یہ کہ نماز کی کوئی ضرورت ہے یا نہیں یا اسلام خدا تعالیٰ سے ملا سکتا ہے یا نہیں.لیکن اس بات کو عقل سے سمجھنے کی کوشش کرنا کہ ظہر کے فرض چار کیوں ہیں اور فجر کے دو کیوں بیوقوفی ہے.ایسی تفاصیل بھی روحانی طور پر سمجھ میں آسکتی ہیں.مگر دلیل سے انہیں سمجھنا مشکل ہوتا ہے.کوئی شخص مغرب کے چار فرض پڑھ کر دیکھ لے.اس کے ایمان میں ضرور نقص پیدا ہو جائے گا مگر یہ دلیل کی بات نہیں بلکہ تجربہ کی ہے.اسی طرح کوئی صبح کی نماز میں چار رکھتیں فرض پڑھ کر دیکھے.روحانی طور پر معا تنزل حکمتیں شروع ہو جائے گا.حالانکہ بظا ہر یہ زیادہ عبادت ہے.تو یہ تفاصیل اپنے اندر نہایت باریک رکھتی ہیں.اول تو انسانی دماغ سب کو سمجھ نہیں سکتا.اور جس حد تک سمجھ سکتا ہے وہ کان سے نہیں بلکہ قلب سے سمجھ سکتا ہے.قلب کے اندر ایک نور پیدا ہوتا ہے جس سے کسی حد تک وہ ان کی حکمتوں سے آگاہ ہو جاتا ہے پس بڑھیا جیسے ایمان کے یہ معنی ہیں کہ ایک دفعہ اصول سمجھ لے اور پھر تفاصیل کی باریکیوں میں نہ پڑے.بچوں کی تربیت در حقیقت قومی ترقی کا ذریعہ ہے.اس لئے اپنی اولادوں کے اندر دین کے لئے گرمی اور جوش پیدا کرو تاکہ وہ اپنی زندگی کو دنیا کے لئے مفید اور بابرکت بنا ئیں.دنیا میں احساس ہی انسان کو کہاں سے کہاں تک پہنچا دیتا ہے.آج

Page 66

خطبات محمود 41 کل مسلمان خیال کرتے ہیں کہ خاص قواعد کی پابندی سے ترقی ہو سکتی ہے.حالانکہ ترقی کا انحصار اخلاق پر ہے.جب اخلاق مضبوط ہوں تو ظاہری طور پر کوئی قوم خواہ کتنی کمزور کیوں نہ ہو وہ برابر بڑھتی چلی جاتی ہے.انبیاء کی جماعتیں کیوں اس قدر ترقی کر جاتی ہیں اس وجہ سے کہ ان کے اخلاق اعلیٰ ہوتے ہیں.ان کے راستہ میں جو روک آتی ہے وہ اس پر غالب آجاتے ہیں.ان کے دشمن گو بهت مال دار اور صاحب حکومت ہوتے ہیں مگر وہ ذلیل در سوا ہو جاتے ہیں کیونکہ اخلاق کی تلوار کے مقابلہ میں کوئی نہیں ٹھر سکتا.اوہے کی تلوار بہت تھوڑے لوگوں کو قتل کر سکتی ہے.مگر اخلاق کی تلوار بہت کام کرتی ہے.رسول کریم ملی است ولی اگر لوہے کی تلوار سے دنیا کو فتح کرتے تو آپ میں کی وفات کے بعد یہ تلوار زنگ آلود ہو جاتی.مگر چونکہ آپ نے اخلاق کی تلوار سے دنیا کو فتح کیا اور نئی زندگی عطاء کی اس لئے چودہ سو سال کے قریب گذر جانے کے بعد بھی آپ کی تلوار اسی طرح لوگوں کو اپنے آگے جھکا رہی ہے جس طرح پہلے زمانے میں جھکاتی تھی.ہم لوگ کون ہیں ؟ وہی جنہیں محمد رسول اللہ کی تلوار نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے ذریعے ذبح کیا.ہم لوگ وہ بکریاں ہیں جنہوں نے اپنی مرضی سے وہ چھری اپنی گردنوں پر چلوائی اس لئے ہمیں نئی زندگی عطا کی گئی لیکن جن کی گردنوں پر وہ زبردستی چلائی جاتی ہے وہ ہمیشہ کے لئے مرجاتے ہیں.خدا تعالیٰ کے انبیاء گڈریا اور رائی ہوتے ہیں اور تمام دنیا ان کے سامنے بکریوں کی مانند ہوتی ہے.جو لوگ اپنی مرضی سے اپنی گردنوں پر تلوار چلاتے ہیں انہیں نئی زندگی عطا کی جاتی ہے لیکن جن گردنوں پر وہ خفگی اور ناراضگی سے چلائی جائے وہ ہمیشہ کے لئے نابود ہو جاتے ہیں.ہمیں اپنے حالات اور تکالیف یاد کر کے استاد کھ نہیں پہنچتا جتنا محمد رسول اللہ کی تکالیف اور مصائب کا حال پڑھ کر ہوتا ہے.وہ حالات یا د کر کے آج بھی ہچکی بندھ جاتی ہے.ایک چھوٹی سی بات ہے.رسول کریم کی وفات کے بعد جب مسلمانوں کو ترقیات حاصل ہو ئیں.اور ہر قسم کے آرام و آسائش کے سامان مہیا ہو گئے تو ایک دفعہ ایک عورت نے حضرت عائشہ کو دیکھا آپ عمدہ آٹے کی روٹی کھارہی تھیں اور آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے.اس نے دریافت کیا کہ یہ کیا بات ہے.آپ نے فرمایا میں یہ روٹی کھا تو رہی ہوں کیونکہ خدا کی نعمت ہے مگر تکلیف بھی محسوس کر رہی ہوں کیونکہ رسول کریم میں الم کے زمانہ میں چکیاں نہ ہوتی تھیں.ہم پتھروں پر دانے کوٹ کر آٹا بناتے تھے جو بہت موٹا ہو تا تھا اور اس کی روٹیاں رسول کریم مولی کھایا کرتے تھے.اگر آپ میں لیا اور آج زندہ ہوتے تو ہم یہ روٹیاں آپ

Page 67

خطبات محمود Чр ایم کو کھلاتے ہے.اگر چہ ترقی کا زمانہ آگیا اور رسول کریم ملی پر سے ، لیف اور مصائب کا ل لم زمانہ گذر گیا پھر یہ تکالیف ہمیں ہی نظر آتی ہیں آپ انہیں تکالیف نہ سمجھتے تھے مگر حضرت عائشہ کے گلے کو عمدہ آئے والی روٹی پکڑ لیتی تھی اور آپ کے آنسو رواں ہو جاتے تھے.اب اس کا ہم پر بھی اثر ہوتا ہے اور میں تو جب یہ واقعہ پڑھتا ہوں یا بیان کرتا ہوں تو میرے گلے میں بھی کوئی چیز پھنسنے لگتی ہے.حالانکہ بظاہر یہ امر ہنسی کے قابل معلوم ہوتا ہے کیونکہ اب اس زمانہ کو چودہ سو سال گزر چکے.خدا تعالیٰ نے رسول کریم میل پر بعد میں بہت فضل بھی کئے ، آپ میر کو وفات سے قبل فتوحات بھی دیں ، طاقت دی ، پھر آپ کے غلاموں کو طاقت اور بادشاہت عطا کی وہ بڑے بڑے بادشاہوں کے تخت پر متمکن ہوئے اور ان کے زیور اور لباس آپ میر کی پیشگوئی کے مطابق غریب مسلمانوں میں تقسیم کئے گئے گویا بالکل نئے حالات پیدا ہو گئے مگر آج بھی محمد رسول الله ما امی کی تکلیف کا کوئی واقعہ پڑھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چیز دل کو مسلنے لگ گئی ہے.یہ بظاہر ایک مجنونانہ ہی بات ہے مگر کیا تم میں سے کوئی ہے جو اس جنون کو چھوڑنے کے لئے تیار ہو.دنیا کی تمام عقلیں اس جنون پر قربان اور دنیا کی تمام خوشیاں اس رنج پر فدا کرنے کے قابل نظر آتی ہیں.کیوں؟ اس لئے کہ رسول کریم مالا مال الملک کو خدا تعالیٰ نے ایسے اخلاق دیئے کہ اس چھری نے آج چودہ سو سال کے بعد بھی ہم سب کو ذبح کر رکھا ہے.آپ مل کے اخلاق آج بھی ہمارے دلوں پر اپنا اثر ڈال رہے ہیں.گویا آپ اسلام کے اخلاق وائرلیس کا سب سے بڑا آلہ تھا.وائرلیس کا آلہ دس پندرہ ہزار میل پر خبر پہنچا سکتا ہے مگر رسول کریم میں مالی کے اخلاق وائرلیس کا ایسا زبر دست آلہ ہیں کہ نہ صرف اپنی زندگی میں بلکہ آج چودہ سو سال بعد بھی وہ خبر برابر چلی جارہی ہے.دراصل یہ ہے صحیح رمضان جو نہ صرف اپنے اندر گرمی پیدا کر دے بلکہ دوسروں کے دلوں کو بھی گرما دے.اور ضرورت ہے کہ ہم اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو بھی اسی گرمی سے گرما دیں.مومن کو ہر بات میں لوگوں سے آگے ہونا چاہئے اور اسے صبر نہیں آنا چاہئے جب تک سب سے بالا مقام پر نہ پہنچ جائے.مومنانہ غیرت یہ کس طرح گوارہ کر سکتی ہے کہ نہ ماننے والے ماننے والوں سے کسی بات میں آگے بڑھ جائیں.لیکن کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ مومن تو دنیا میں صرف چند لاکھ ہوں اور منکر کروڑوں کی تعداد میں ہوں.کیا کوئی زندہ قوم اس ذلت کو برداشت کر سکتی ہے.پس تم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے والے کہلاتے ہو اور آپ کے ذریعہ محمد رسول اللہ مین ایم کے سپاہیوں میں داخل ہو چکے

Page 68

خطبات محمود ура سال ۱۹۳۱ء ہو.تمہارا فرض ہے کہ اس وقت تک دم نہ لو جب تک تمام دنیا کو آپ میر کی غلامی میں داخل نہ کر لو.پھر کیا کوئی غیرت مند مومن یہ بات برداشت کر سکتا ہے کہ جو اخلاق محمد مال دنیا میں پیدا کرنا چاہتے تھے وہ تو دنیا سے مفقود ہو جائیں اور ان کی جگہ اور باتیں لے لیں.کیا یہ گرمی کہلا سکتی ہے.گرم جوشی آگے نکلنے کا نام ہے.ٹھنڈی چیز ہمیشہ دب کر رہتی ہے.گرمی تو ابل ابل کر باہر نکلتی ہے جس طرح ہنڈیا ابلتی ہے.رمضان کے معنے یہ ہیں کہ خدا تعالی کا بندہ ٹھنڈا نہیں ہوتا بلکہ اہل رہا ہے.پس ہمیں سوچنا چاہئے کہ کیا ہم اپنی اور دوسروں کی اصلاح کے لئے اسی طرح ابل رہے ہیں جس طرح اُبلنے کا حق ہے.اس میں شبہ نہیں کہ ہماری جماعت میں اصلاح اور ترقی کا خیال ہے مگر یہ سخت غلطی ہے کہ انسان دوسروں کو دیکھ کر مطمئن ہو جائے اور یہ خیال کرلے کہ میں دو سروں سے بہت ترقی یافتہ ہوں.ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ اس مقام پر پہنچ جائے جو واقعی خوشی کا مقام ہے.کیا اندھے کو دیکھ کر کوئی کا نا خوش ہو سکتا ہے اور کہہ سکتا ہے کہ غنیمت ہے میری ایک آنکھ تو سالم ہے.اگر چہ اس میں موتیا ہی اترا ہوا ہے.پس اگر ہم یہ خیال کر کے مطمئن ہو کر بیٹھ جائیں کہ ہم دوسروں سے اچھے ہیں تو ہماری حالت ایسے ہی ہوگی جیسے مشہور ہے کہ ایک سپاہی کہیں سفر پر جارہا تھا.راستے سے دور کسی نے نہایت عاجزی سے اسے پکارا.سپاہی اگر چہ عام طور پر سنگ دل ہوتے ہیں مگر کبھی ان میں بھی رحم کے جذبات پیدا ہو سکتے ہیں.اسے بھی ترس آگیا اور وہ پکارنے والے کی طرف بڑھا.پاس جا کر دیکھا کہ دو آدمی لیے ہیں.اس نے پوچھا کہو کیا بات ہے.ان میں سے ایک نے کہا میری چھاتی پر پیر پڑا ہے.ذرا اٹھا کر میرے منہ میں ڈال دینا اس پر سپاہی کا رحم غصہ سے بدل گیا اور اس نے کہا نا معقول انسان ! تو نے خواہ مخواہ میرا سفر خراب کیا.کیا خود بیراٹھا کر منہ میں نہ ڈال سکتے تھے.یہ سن کر دوسرا بولا آپ اس قدر خفا نہ ہوں یہ بہت ہی کاہل اور ست آدمی ہے.اس سے زیادہ ست تو شاید دنیا بھر میں کوئی نہ ہو تمام رات گتا میرا منہ چاہتا رہا مگر یہ اسے دھتکار نہ سکا.یہی مثال ہماری ہوگی اگر ہم اس بات پر مطمئن ہو جائیں کہ غیر احمد یوں عیسائیوں اور ہندوؤں سے ہماری حالت اچھی ہے گو بالکل اچھی نہیں.برائی چھوٹی کیا اور بڑی کیا آخر برائی ہے اور اسے دور کرنا چاہئے.کیا کوئی عقل مند اس بات پر اطمینان اور خوشی کا اظہار کر سکتا ہے کہ دوسرے کے کھانے کے برتن میں اونس بھر پیشاب پڑا ہے اور میرے میں فقط ایک ڈرام ہی ہے.پس ضرورت ہے کہ ہم صرف یہ نہ دیکھیں کہ دوسروں سے اچھے ہیں یا نہیں بلکہ یہ دیکھیں کہ

Page 69

خطبات محمود ۶۴ سال ۱۹۳۱ء خدا نے جو اخلاق کا معیار قائم کیا ہے اس پر ہم پورے اترتے ہیں یا نہیں.پھر بعض لوگ بجائے اس کے کہ اپنا نقص دیکھیں اور اس کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں دوسروں کے نقائص دیکھتے رہتے ہیں اور ہمیشہ یہی کہتے ہیں جماعت میں یہ نقص پیدا ہو گیا وہ نقص پیدا ہو گیا.مگر یاد رکھو ایسا شخص منافق ہو تا ہے.اگر وہ خود اخلاق کے اس مقام پر پہنچا ہو تا جو اسلام کا مطمح نظر ہے تو کبھی ایسی باتیں نہ کرتا کیونکہ جو شخص اس مقام پر پہنچ جائے وہ عام نصیحت تو کر سکتا ہے مگر بے چینی اور بیدلی کبھی نہیں پھیلا تا.اب دیکھو میں نے جو کچھ بیان کیا ہے یہ بھی تو جماعت کو نقائص اور کمزوریوں کی طرف ہی توجہ دلائی ہے.مگر کیا کوئی ہے جو میرے اس خطبہ کو سن کر یہاں سے مایوس ہو کر اٹھے.ہرگز نہیں.بلکہ ہر ایک تازہ ہمت لے کر اٹھے گا.باوجودیکہ میں نے بھی کمزوریوں کی طرف ہی متوجہ کیا ہے.منافق مایوسی پیدا کرتا ہے اس کی غرض اصلاح نہیں ہوتی بلکہ وہ تباہ کرنا چاہتا ہے.پس اپنے اخلاق کو اس نقطہ نگاہ سے نہ دیکھو کہ دوسروں کی کیا حالت ہے بلکہ تمہارے پیش نظر وہ مقام ہونا چاہئے جس پر خدا تعالیٰ کھڑا کرنا چاہتا ہے.اگر ایسا کرو گے تو ترقی حاصل ہوگی اور تمہارے اندر گرمی پیدا ہوگی.اور تم اس مقام پر ضرور پہنچ کر رہو گے.جو شخص میر کے لئے گھر سے نکلے وہ تو جہاں سے چاہے واپس لوٹ سکتا ہے لیکن جس کے پیش نظر کوئی منزل ہو وہ راستہ سے نہیں پلٹا کر تا اسی طرح اگر خدا تعالی کا مقرر کردہ مقام تمہارا مقصود ہو گا تو چلتے جاؤ گے جب تک کہ اس پر نہ پہنچ جاؤ.پس اخلاق کے بلند مقام کو حاصل کرنے کے لئے اپنی کوشش کو سیر کی مانند نہ رکھو بلکہ اس سفر کی مانند بناؤ جو منزل مقصود پر پہنچنے کے لئے اختیار کیا جاتا ہے.اور جب تک اس تک پہنچ نہ جاؤ.دم نہ لو.یہی حال تمہاری دنیا کا ہونا چاہئے.اس میں بھی کسی سے پیچھے نہ رہو کیونکہ مومن کسی میدان میں دوسروں سے پیچھے رہنا پسند نہیں کرتا.سید احمد صاحب سرہندی کے ایک مخلص مرید اور خلیفہ سید اسماعیل شہید دہلوی نے کہیں سے سن لیا کہ کوئی سکھ اس قدر تیرتا ہے کہ اس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا.آپ نے دریافت کیا کیا کوئی مسلمان بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.کہا گیا نہیں.آپ کو اس سے بہت شرم آئی.اور آپ نے تیرنے کی مشق شروع کی اور اس میں اتنا کمال حاصل کیا کہ آخر اس سکھ کو مقابلے کے لئے چیلنج دے دیا.تو مومن کسی میدان میں بھی شکست کو تسلیم کر ہی نہیں سکتا اس لئے ہمارے اندر ترقی کی وہ روح ہونی چاہئے کہ ہمار ا ز میندار دوسرے زمیندار نے ، ہمارا لوہار دوسرے لوہار سے ہمارا ترکھان دوسرے ترکھانوں سے ہمارا پروفیسر دوسرے پروفیسر سے اور ہمارا وکیل دوسرے وکیل سے

Page 70

خطبات محمود ۲۵ سال بڑھ کر ہو.جب ہم خدا تعالیٰ کی باتوں کو سمجھ اور سیکھ سکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں ہو سکتی کہ دنیوی علوم کو دوسروں سے بہتر طور پر نہ سیکھ سکیں.اور یہ اپنی سستی ہوگی اگر کوئی کوشش نہ کرے وگرنہ مومن کے معنی ہی یہ ہیں کہ اس کی نظر بہت باریک چیزوں تک پہنچتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام فرمایا کرتے تھے چودھویں رات کے چاند کی روشنی میں کئے شبہ ہو سکتا ہے مگر پہلی رات کا چاند ہر ایک کو نظر نہیں آیا کرتا.جو لوگ انبیاء پر ابتداء میں ایمان لاتے ہیں وہ ایسے ہی ہوتے ہیں جو پہلی رات کے چاند کو دیکھتے ہیں اور یہ اس بات کا ثبوت ہو تا ہے کہ ان کی نظر بہت تیز ہے.پس جو شخص پہلی رات کا چاند دیکھ سکتا ہے وہ دوسری تیسری اور چوتھی کا کیوں نہ دیکھ سکے گا.روحانی علم اور معرفت پہلی رات کا چاند ہے اور دنیوی علوم بعد کی راتوں کے.اگر ہم خدا کی باتیں سیکھ سکتے ہیں تو دنیوی علوم کیوں نہیں سیکھ سکتے.ضرور سیکھ سکتے ہیں مگر مشکل یہی ہے کہ آنکھیں کھول کر دیکھتے نہیں.ہمارے اندر یہ احساس ہونا چاہئے کہ ہر میدان میں دوسروں سے آگے نکل جائیں جس طرح ہم دینی علوم میں دوسروں سے آگے ہیں اسی طرح کوشش کرنی چاہئے کہ دنیوی کاموں ، دنیوی علموں اور صنعتوں میں بھی دوسروں سے آگے ہوں.اور جتنا وقت ان کاموں میں لگائیں اس کی نسبت سے دوسروں سے آگے بڑھ جائیں.میرا یہ مطلب نہیں کہ ان میں ہی منہمک ہو جائیں بلکہ یہ ہے کہ جتنا وقت ان کے لئے دیں اس کی نسبت سے دنیا سے آگے نکل جائیں.اور یہ کوئی مشکل بات نہیں.اللہ تعالٰی نے بندہ کے اندر بہترین قابلیتیں رکھی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ نے ہر فن کے آدمی عطا کئے ہوئے تھے.جو اس بات کا ثبوت تھا کہ ان کے ذہن ایسے تیز تھے کہ وہ جس فن میں کوشش کرتے ترقی کر جاتے.آپ فخر سے اس کا ذکر بھی فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں ہر فن میں کمال رکھنے والے آدمی خدا تعالیٰ نے دیئے ہیں.مثلاً حضرت خلیفہ اول کو طب میں بہت کمال حاصل تھا حتی کہ دہلی کے بڑے بڑے اطباء کے مایوس العلاج مریض آپ کے پاس آکر شفا پاتے تھے.یہ علیحدہ بات ہے کہ آپ شہرت پسند نہ تھے وگر نہ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کا کوئی طبیب آپ کے پایہ کا نہ تھا اور آپ کو یہ ترقی احمدیت میں آکر ہی حاصل ہوئی.یہاں آنے سے پہلے آپ اگر چہ شاہی طبیب تھے مگر زیادہ سے زیادہ اس علاقہ کے لوگ آپ سے فائدہ حاصل کر سکتے تھے لیکن یہاں آنے کے بعد خد اتعالیٰ نے آپ کو ایسا ملکہ عطا کیا کہ ہندوستان کے ہر حصہ سے لوگ آپ کے پاس علاج کے لئے آنے لگے.حالانکہ یہ جگہ بالکل علیحدہ پڑی تھی اور اس زمانہ میں سفر کی مشکلات بھی تھیں.

Page 71

خطبات محمود ۶۶ سال اسی طرح باقی علوم و فنون میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کو خد اتعالیٰ نے بہت برکت عطا کر رکھی تھی تھی کہ چلنے اور دوسرے جفا کشی کے کاموں میں بھی وہ بڑھے ہوئے تھے.مولوی یار محمد صاحب ان پر خدا تعالیٰ رحم کرے آج کل ان کے دماغ میں نقص ہے وہ دو گھنٹے میں گورداسپور سے چل کر قادیان اور یہاں سے واپس گورداسپور پہنچ جاتے تھے بلکہ بعض دوستوں نے سنایا کہ بعض اوقات وہ مغرب کے وقت وہاں سے روانہ ہوئے ہیں اور پھر عشاء کی نماز میں جا شامل ہوئے.گویا ہر رنگ میں کمال رکھنے والے آدمی آپ کو ملے ہوئے تھے اور اصل بات یہ ہے کہ جب انسان دین میں ترقی حاصل کر لیتا ہے تو اللہ تعالی اسے ایسی توفیق دے دیتا ہے کہ اگر وہ دنیا میں بھی بڑھنا چاہے تو بڑھ سکتا ہے.پس دین و دنیا دونوں کے لئے ہمیں اپنے اندر رمضان کی کیفیت پیدا کرنی چاہئے.ہمیں چاہئے آگے بڑھیں اور پھر دوسروں کو بھی بڑھائیں.مومن کا کام یہی ہے کہ پہلے خود بڑھتا ہے اور پھر پیچھے والوں کو ساتھ ملاتا ہے پھر بڑھتا ہے اور پھر دوسروں کو بڑھاتا ہے حتی کہ اس مسابقت میں اس کی جان نکل جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے سابق کا نام دیا جاتا ہے.میں اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمارے دین اور دنیا کے حالات کو اس طرح بدل دے کہ اپنی آپ مثال ہوں دین میں بھی ترقی کرنے والے ہوں اور دنیا میں بھی آگے بڑھنے والے ہوں.ہم بھی ایسے ہوں اور ہماری آئندہ نسلیں اور ان کی آئندہ نسلیں بھی ایسی ہوں یہاں تک کہ دنیا میں وہ کامل امن اور انصاف اور عدل قائم ہو جائے جو خداتعالی محمد رسول اللہ ا کے ذریعہ قائم کرنا چاہتا تھا اور دنیا یہ محسوس کرے کہ اسلام کا آئیڈیل اور نصب العین فرضی اور وہمی نہیں تھا بلکہ فی الواقع قائم ہونے والا تھا الفضل ۱۹- فروری ۱۹۳۱ء) بخاری کتاب الصوم باب فضل ليلة القدر طبری جلد ۳ صفحه ۲۱۹ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۷ء لوقا باب ۱۸ آیت ۱۶ ۷ ابرٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء کہ ترمذی ابواب الزهد باب ماجاء في معصية النبي صلى الله عليه وسلم

Page 72

خطبات محمود 46 8 عید میں عید (فرموده ۲۰ فروری ۱۹۳۱ء) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.بعض دنوں کو بعض زمانوں سے مشابہت ہوتی ہے اور اس مشابہت کی وجہ سے وہ اور بھی زیادہ مبارک ہو جاتے ہیں.حج ایک عبادت ہے اور بہت بڑی عبادت ہے ساری دنیا کے مسلمان جنہیں خدا تعالیٰ توفیق دے اس موقع پر جمع ہوتے ہیں.اور اللہ اس کے رسول اس کے دین اس کی کتاب اور اس کی عظمت کے گھر سے عقیدت اور اخلاص کا اظہار کرتے ہیں اپنے بھائیوں سے اخوت و محبت اور مخلصانہ خیالات ظاہر کرتے ہیں.ایک دوسرے کے حالات سے واقف ہوتے ہیں.جب یہ حج کا دن جمعہ کے دن آئے تو حج اکبر کہلاتا ہے یعنی اس دن دو عید میں جمع ہو جاتی ہیں.دو برکتیں اکٹھی ہو جاتی ہیں.اسی طرح آج بھی ہمارے لئے دو عید میں جمع ہو گئیں ایک عید الفطر اور دوسری عید الجمعہ پس اس لحاظ سے یہ دن اور بھی زیادہ برکتوں اور افضال کا موجب ہو گیا.اور پھر اس لحاظ سے اور بھی اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے جبکہ یہ دن ایک خاص زمانہ پر دلالت کرتا ہے اس لحاظ سے اس دن کی پوری تمثیل اگر کسی قوم کے سامنے آسکتی ہے تو وہ صرف ہماری ہی جماعت کے سامنے آسکتی ہے.کیونکہ آج کا دن بتا رہا ہے کہ عید کے دن ایک اور عید بھی آسکتی ہے اور یہ وہ زمانہ ہے جس میں محمدیت کے اندر احمدیت کی عید آئی ہے.رسول کریم میں کا زمانہ تو قیامت تک ہے اس لئے آپ کے ذریعہ جو عید قائم ہوئی وہ کبھی ختم نہیں ہو سکتی بد قسمت لوگ اپنے لئے خود ختم کر لیں تو کر لیں مگر انکی مثال ایسی ہی ہوگی جیسے عید کے دن کسی کے گھر ماتم ہو جائے اس سے عید نہ جاتی رہے گی.اسی طرح اگر مسلمان کہلانے والے

Page 73

خطبات محمود ۶۸ سال ۱۹۳۱ء رسول کریم مال سے منہ موڑ لیں اور آپ کی لائی ہوئی شریعت کو ترک کر دیں تو اس سے آپ کے زمانہ کا انقطاع نہیں ہو سکتا.ہم یہ تو کہیں گے کہ ایسے لوگوں کے گھروں میں ماتم بپا ہو گیا اور وہ ماتم کر رہے ہیں مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ رسول کریم میں ایم کے ذریعہ قائم شدہ عید نہ رہی وہ عید اسی طرح جاری رہے گی.ہاں اس کے دوران میں ایک اور عید آسکتی ہے اور وہ آئی یعنی آخری زمانہ کا مصلح اور مامور جس کی نسبت خدا تعالیٰ نے انبیاء سے پیش گوئیاں کرائیں اسے ظاہر کر دیا.پس جس طرح آج جمعہ کے دن عید آگئی ہے اور اس طرح دو ہری عید بن گئی ہے اسی طرح رسول کریم من لا علم کی عید میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عید شامل ہو گئی.نادان کہتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی کیونکر آسکتا ہے.کیا آپ کا زمانہ ختم ہو گیا.ہم کہتے ہیں کیا آج عید جمعہ کے آنے سے ختم ہو گئی آج جمعہ بھی آیا اور عید بھی آئی.آج ہم عید بھی منا رہے ہیں اور جمعہ بھی آج عید بھی شام تک چلی جائیگی اور جمعہ کا دن بھی کیونکہ آج عید جمعہ کے اندر آگئی.پس جس طرح آج کا دن دو عیدیں اپنے اندر جمع رکھتا ہے اسی طرح موجودہ زمانہ جو ہے یہ بھی دو عیدوں کا مجموعہ ہے دو عظیم الشان ظہور اس میں ہوئے اس میں ایک دور تو ایسا آیا جو اولیت کے لحاظ سے تمام مقامات اور تمام درجات سے افضل ہے اور دو سرا ایسا ہے جو آخریت کے لحاظ سے تمام مقامات سے افضلیت رکھتا ہے یعنی یہ زمانہ محمد م کا زمانہ ہے جو اپنے فیوض کے لحاظ سے تمام انبیاء کے زمانوں سے خواہ وہ شرعی نبی ہوں یا غیر شرعی افضل ہے پھر یہ زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ ہے.جو تمام انبیاء کے زمانوں سے جو کسی شرعی نبی کی شریعت کے اظہار یا اس کے قائم کرنے کے لئے آئے افضل ہے.پس اس زمانہ میں دو افضلیتیں جمع ہو گئیں.اولیت کی افضلیت بھی اور آخریت کی افضلیت بھی اور یہ اپنی برکتوں اور فضیلتوں کے لحاظ سے غیر معمولی برکات کا زمانہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام لکھتے ہیں میں امتی نبی ہوں.اس سے شاید کوئی یہ سمجھے کہ امتی نبی ہونے کی وجہ سے آپ کا درجہ کم ہو گا اس لئے آپ فرماتے ہیں امتی نبی ہو نا درجہ کی کمی پر دلالت نہیں کرتا بلکہ یہ فخر کا مقام ہے کیونکہ مجھ میں دو کمال جمع ہو گئے.میں ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی ہوں تاکہ آنحضرت میر کی قوتِ قدسیہ اور کمال فیضان ثابت ہو.پس اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ امتی کی اپنے متبوع سے نچلے درجہ میں ہی ہو گا.لیکن جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی مصلحت اور حکمت نے آنحضرت ملی کے افاضہ روحانیہ کا کوئی

Page 74

خطبات محمود 49 سال ۱۹۳۱ء کمال ثابت کرنے کے لئے مجھے یہ مرتبہ بخشا ہے کہ آپ کے فیض کی برکات سے مجھے نبوت کے مقام تک پہنچایا تو میرے عقیدہ میں اپنے متبوع کے غیر کی نسبت اپنے آپ کو افضل قرار دیتے ہیں کیونکہ آپ میں ایک وقت میں دونوں کمال جمع ہو گئے.ایک کامل استاد کا انعکاس اپنے اندر رکھنے کا کمال اور دو سرا کامل استاد ہونے کا.آپ منور ہوئے ایک ایسے سورج سے جس کی مثال نہیں.اور منور کئے گئے ایک ایسی امت کے لئے جس کی مثال نہیں مل سکتی کیونکہ وہ امت امت محمدیہ ہے.اگر آپ نے عکس لیا تو ایک ایسی ہستی سے جو مجھ میں نام کی ہستی ہے اور اگر عکس ڈالا تو انیسی امت پر جو ساری امتوں کے لئے قابل رشک ہے.پس جو انسان اس امت کو قابل رشک بنانے میں معتد بہ کام کرتا ہے.اس کے درجہ کی افضلیت کا کون انکار کر سکتا ہے.پس یہ زمانہ آج کے دن کی طرح ایک خاص خصوصیت رکھتا ہے اور اس کے لئے ہمیں بھی ویسی ہی تیاری کرنی چاہئے جیسی کہ دو عیدوں کے لئے کرتے ہیں.دو عیدوں کے ایک دن جمع ہونے کے کیا معنی ہیں.یہ کہ دو خطبے پڑھے گئے اور دو نمازیں ادا کی گئیں.دراصل مسلمان کی عید کے معنے ہی یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ کے لئے وہ اور زیادہ قربانی کرتا ہے.جب خدا تعالیٰ نے ہمیں ایسے زمانہ میں پیدا کیا جو دو عیدوں کا مظہر ہے اس میں محمدیت کا جلال اور احمدیت کا جمال ظاہر ہوا تو ہمیں بھی چاہئے کہ دو ہرا کام کریں.خدا تعالیٰ کا کوئی کام بلا حکمت نہیں ہوتا.وجہ کیا ہے کہ اس نے اس زمانہ میں دو شاخیں جمع کر دیں اسی وجہ سے کہ اس زمانہ میں دنیا میں ایسا فتنہ رونما ہونا تھا جس کے مقابل کا پہلے کبھی نہیں ہوا.چنانچہ رسول کریم می فرماتے ہیں.اس آخری زمانہ کے فتنہ کے متعلق نوح سے لے کر آخر تک تمام انبیاء خبریں دیتے آئے ہیں.چونکہ اس زمانہ کا فتنہ ایسا تھا جس کی مثال پہلے کسی زمانہ میں نہ ملتی تھی اس لئے اس کو دور کرنے لئے نبی بھی ایسا بھیجا گیا جس کی مثال پہلے نہیں ملتی.یعنی اسے دو نور عطا کئے گئے.ایک رسول کریم ملی کا امتی ہونے کا اور دوسرا نبی ہونے کا پس اس نے نبی ہونے کے لحاظ سے تو یہ بتایا کہ آقا کیسا ہونا چاہیئے اور امتی ہونے کے لحاظ سے یہ بتایا کہ تابع کیسا ہونا چاہئے.گویا اس زمانہ میں ایک بہت بڑا فتنہ نبوت کا انکار تھا.اور دوسرا نبی کی اطاعت کا مفہوم بدل گیا تھا.آج مسلمان کہلانے والے کہتے تھے اس سے اسلام کا کیا تعلق کہ نماز پڑھی جائے یا نہ پڑھی جائے.ان کی مثال اس شخص کی سی تھی جس کے متعلق مشہور ہے کہ اس کا دعویٰ تھا میں بڑا بہادر ہوں.پرانے زمانے میں ہر شخص اپنی خاص صفت کے مطابق اپنے جسم پر نشان گدوا تا تھا.آج کل یہ رسم بہت کم ہو گئی ہے.افریقہ یا امریکہ

Page 75

خطبات محمود سال ۱۹۳۱ء کے اصلی باشندوں میں پائی جاتی ہے.ان میں سے اگر کوئی کار ہائے نمایاں کرے تو ان کا نشان اپنے جسم پر کرواتا ہے.حتی کہ بعض کے سارے جسم پر ایسے نشانات ہوتے ہیں.جب اس شخص کے دل میں یہ و ہم پیدا ہوا کہ میں بڑا بہادر ہوں تو اسے خیال آیا کہ اس کا نشان گدوانا چاہئے.اور اس کے لئے اس نے شیر کی شکل تجویز کی.یہ فیصلہ کر کے وہ گودنے والے کے پاس گیا.اور اسے کہا میرے جسم پر شیر کی شکل گود دو کیونکہ سب سے بہادر جانور یہی ہوتا ہے اور میں بھی سب سے بڑا بہادر ہوں.گودنے والے کو اپنی اجرت سے غرض تھی اسے کیا کہ کوئی شیر کے مشابہ ہے یا گیدڑ کے.وہ شیر کی شکل گودنے کے لئے تیار ہو گیا.لیکن جب اس نے سوئی لے کر جسم میں سرمہ بھرنا شروع کیا تو اس شخص نے درد محسوس کر کے پوچھا یہ کیا کرتے ہو گودنے والے نے کہا شیر کا کان گودنے لگا ہوں.اس نے کہا یہ بتاؤ اگر شیر کا کان کٹ جائے تو وہ شیر رہتا ہے یا نہیں.گودنے والے نے کہا شیر ہی رہتا ہے.اس نے کہا اچھا کان چھوڑ دو آگے گودو.اس نے جب دوسراکان گودنا شروع کیا تو پھر اس نے پوچھا شیر کا دوسرا کان بھی نہ ہو تو وہ شیر رہتا ہے یا نہیں.اس نے کہا رہتا ہے.کہنے لگا اسے بھی چھوڑ دو.اسی طرح کہتے کہتے اس نے ٹانگیں.دم وغیرہ کے متعلق بھی کہہ دیا کہ اگر یہ عضو نہ ہوں تو شیر رہتا ہے یا نہیں.گودنے والے نے کہا ایک آدھ عضو نہ ہو تب تو شیر رہتا ہے لیکن یہاں تو تم نے سارا شیر ہی غائب کر دیا.یہی حال ان لوگوں کا تھا.انہوں نے اسلام کا ایک ایک حکم ترک کر کے سارا اسلام اڑا دیا.جب انہیں نماز کے لئے کہا گیا تو کہہ دیا اگر ہم نماز نہ پڑھیں تو کیا ہم مسلمان نہیں رہتے.روزہ کے لئے کہا گیا تو کہہ دیا کیا اگر روزہ نہ رکھیں تو مسلمان نہیں رہتے.اسی طرح حج اور زکوۃ کے لئے کہہ دیا.آخر ان کی حالت اس عورت کی لونڈی کی سی ہو گئی جس کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ ہر روز سحری کو اٹھ کر کھانا کھا لیتی مگر روزہ نہ رکھتی.ایک دن عورت نے اسے کہا جب تم روزہ نہیں رکھتی ہو تو سحری کیوں کھاتی ہو.اس پر وہ کہنے لگی میں نماز نہیں پڑھتی روزہ نہیں رکھتی.کیا سحری بھی نہ کھاؤں تو کافر ہی ہو جاؤں.گویا سحری کھانا بھی اس کے نزدیک مسلمان ہونے کی علامت تھی اور نماز نہ پڑھنے روزہ نہ رکھنے کی صورت میں اس کا سحری کھا لینا ہی کافی تھا.پس سوائے اس کے کہ وہ مسلمان کہلاتے کونسی بات مسلمانوں والی ان میں رہ گئی تھی.ان میں سے جو لوگ تعلیم یافتہ کہلاتے ہیں ان کو دیکھو تو نہ وہ نمازیں پڑھیں گے ، نہ روزے رکھیں گے نہ حج کریں گے نہ زکوۃ دیں گے نہ اخلاق فاضلہ ان میں پائے جائیں گے مگر سب سے زیادہ

Page 76

نطبات وہی کہیں گے کیا یہ باتیں نہ ہوں تو ہم مسلمان نہیں رہتے.ان باتوں کا مسلمان ہونے سے کیا تعلق.ان سے پوچھو ان باتوں کو چھوڑ کر اور کیا کرتے ہو کہ تمہیں مسلمان سمجھا جائے.عقائد ان کے درست نہیں ، اعمال ان کے ٹھیک نہیں، دعایر انہیں ایمان نہیں ، قیامت ، جزاء و سزا کے وہ منکر ہیں ، تمام صفات سے معطل خدا کو وہ مانتے ہیں رسول کریم ملی کو صرف ایک بڑا آدمی وہ قرار دیتے ہیں اور یہ نہیں مانتے کہ آپ میل پر خدا تعالٰی کا الہام نازل ہوا پھر کون سی چیز مسلمان ہونے کی ان میں رہ گئی ہے.غرض اس زمانہ میں امتیت کا مفہوم بالکل بدل گیا تھا.پہلے تو فدائیت میں غلو کا یہاں تک نظارہ نظر آتا ہے جو کام رسول کریم میم نے کیا صحابہ بھی وہی کرنا اپنے لئے خیر اور برکت کا موجب سمجھتے تھے.حتی کہ آتا ہے رسول کریم نے ایک دفعہ جہاں بیٹھ کر پیشاب کیا ایک صحابی وہیں بیٹھ گئے.لیکن آج کل یہ حالت ہو گئی کہ رسول کریم نے جو کچھ کیا اس میں سے کچھ بھی نہ کریں گے اور یہ احسان جتائیں گے کہ ہم نے محمد کو مان لیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلانے ایسے زمانہ میں ظاہر ہو کر بتایا کہ محمد م کا امتی کیسا ہونا چاہئے.آپ نے ایسی کامل اتباع کی کہ اس زمانہ میں بھی جسے روشنی کا زمانہ کہا جاتا ہے دنیا کو مانا پڑا کہ ایسا شخص بھی ہو سکتا ہے جو رسول کریم میر کا منبع ہو جس کے پاس دنیا کے عقل مند آئیں اور اسے مائیں یہ نظارہ ہے جو آپ نے رسول کریم میں کا امتی ہونے کا دکھایا ایک دفعہ ایک سٹیشن پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف رکھتے تھے کہ پنڈت لیکھرام نے آکر آپ کو سلام کیا.چونکہ وہ آریوں میں بہت مشہور تھا اس لئے بعض ایسے آ لوگوں نے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ تھے لیکن ان کی نظر وہاں تک نہ پہنچتی تھی جہاں تک خدا تعالیٰ کے نبی کی پہنچتی تھی انہوں نے سمجھا کہ لیکھرام کے آکر سلام کرنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بہت خوش ہوں گے اس لئے انہوں نے کہا حضور پنڈت لیکھر ام سلام کہتے ہیں مگر آپ نے کوئی جواب نہ دیا انہوں نے سمجھا آپ نے لیکھرام کو دیکھا نہیں.لیکھرام نے بھی یہی خیال کیا اور دوسری طرف سے ہو کر پھر سلام کیا اور بتانے والوں نے پھر اس کا نام لیا.آپ نے فرمایا اسے شرم نہیں آتی میرے آقا کو تو گالیاں دیتا ہے اور مجھے سلام کرتا ہے.یہ وہ نظارہ تھا جو امتی ہونے کے لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس موقع پر دکھایا.غرض آپ نے آکر موجودہ زمانہ کے دونوں بڑے نقص دور کر دیئے نبی ہونے کا انکار کرنے والوں کے لئے نبی ہو کر اور امتی کی حقیقت سے ناواقف ہو جانے والوں کے لئے امتی

Page 77

خطبات محمود ۷۲ سال ۱۹۳۱ء ہو ہو کر آپ رسول کریم میں تعلیم کے امتی بنے تو ایسے کامل امتی ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی.آپ نے رسول کریم میل کے متعلق وہ عشق وہ فداکاری اور وہ محبت دکھائی جس کی کوئی نظیر نہیں مل سکتی.ایک شخص کا غیر احمدی ہونے کی حالت کا قول مجھے یاد آگیا.اب تو وہ احمدی ہے.جب رسول کریم میں تعلیم کے خلاف مسلسل بد زبانی کی گئی اور مذہبی پیشواؤں کے خلاف بد زبانی کے متعلق ایکٹ بنا تو اس نے کہا اگر مرزا صاحب اس وقت ہوتے تو وہ ضرور اس ایکٹ کی زد میں آجاتے.یہ تو اس نے اپنی اس وقت کی حالت کے لحاظ سے کہا کیونکہ وہ نہ جانتا تھا کہ آپ کو اس ایکٹ کی زد میں لا کر جیل خانہ میں لے جانے والا کوئی پیدا نہیں ہو سکتا تھا.مگر یہ کہنے سے مراد یہ تھی کہ رسول کریم ملک کے خلاف لکھنے والوں کو آپ ضرور دندان شکن جواب دیتے اور پھر وہ حکومت کے پاس چیختے چلاتے جاتے.غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے امتی ہونے کا ایسا نظارہ دکھایا کہ اب جوں جوں یہ نظارہ دنیا کے سامنے آتا جائے گا آنکھیں رکھنے والے اور دیکھنے والے یہ نہ کہہ سکیں گے کہ امتی ہونے کا مفہوم بدل گیا.اسی طرح لوگ نبوت کے منکر چکے تھے.اور کہا جاتا تھا پرانے زمانہ میں الہام نازل ہونے کا جو دعویٰ کیا جاتا تھا اسے لوگ مان لیتے تھے.اب دنیا تعلیم یافتہ ہو گئی ہے اس لئے اب کوئی نہیں مان سکتا.ایسے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ دعویٰ کیا کہ میرا آقا اور سردار تو الگ رہا مجھ پر خدا کا الہام نازل ہوتا ہے.پہلے پہل دنیا نے اس کا انکار کیا اور اس دعوئی پر ہنسی لیکن ابھی کوئی زیادہ زمانہ نہیں گزرا کہ کئی عیسائی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں بھی یہ کہنے والے پائے جاتے تھے کہ گو ہم مرزا صاحب کا دعوی نہ مانیں لیکن ہم انہیں جھوٹا اور فریبی نہیں کہہ سکتے جو کچھ وہ کہتے ہیں اسے سچ مان کر اور سمجھ کر کہتے ہیں.کئی انگریزوں نے ایسی کتابیں لکھی ہیں جن میں لکھا ہے کہ ہم مرزا صاحب کو جھوٹا نہیں کہہ سکتے.یہ تو نہ ماننے والوں کے بیانات ہیں.لیکن ماننے والے بھی لاکھوں موجود ہیں.غرض اس زمانہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ نے نبوت منوا کر دکھادی.نادان پیغامی لاہور میں بیٹھے شور مچاتے رہتے ہیں کہ مرزا صاحب کو نبی بنا کر اسلام کو نقصان پہنچادیا گیا.مگر وہ کیا جانیں کہ محمد م کی نبوت پر جو اعتراض کئے جاتے ہیں انہیں دور کرنے کے لئے نبی کا آنا ہی ضروری تھا.دنیا کہتی تھی محمد کا زمانہ جہالت کا زمانہ تھا اس وقت جو بات تسلیم کرائی گئی موجودہ روشنی کے زمانہ میں اس کی کوئی وقعت نہیں ہو سکتی.یہ نہ صرف اسلام کے مخالف ہی کہتے ہیں.بلکہ خود مسلمان کہلانے

Page 78

خطبات محمود ۷۳ سال ۱۹۳۱ء والے نئی روشنی کے دلدادہ سو میں سے نانوے ایسے ہوں گے جو یہ کہتے تھے کہ قرآن کے الفاظ خدا کے الفاظ نہیں بلکہ رسول کریم ملی الا علی کے اپنے الفاظ ہیں ان میں بہت اچھے خیالات ہیں لیکن یہ کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئے یہ ہم نہیں مان سکتے.غرض اس زمانہ میں سب سے بڑا حربہ یہی چلا کہ الہام کیا چیز ہے ؟ یہ ایک وہم ہے جس میں لوگ مبتلاء رہے.میں کہتا ہوں خواہ تم کچھ کہو خود میرے کانوں نے جب خدا تعالیٰ کی آواز سنی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی غلامی کی وجہ سے سنی تو میں کس طرح انکار کر سکتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو نہ صرف الہام ہوئے بلکہ آپ کی غلامی اختیار کرنے والے ہزاروں الہام پا رہے ہیں.اس سے ثابت ہو گیا کہ نبوت ایک حقیقی چیز ہے.غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے دو مقام ظاہر فرمائے ایک کامل امتی بن کر امتیت کی جو شکل بگڑ چکی تھی اس کی اصلاح کی اور اصل شکل میں قائم کر کے اسے نئی زندگی بخشی.دوم نبی بن کر نبوت کا جو مقام رسول کریم میں ہم نے آکر بتایا تھا اسے قائم کیا.اس طرح آپ کے ذریعہ دونوں مقام محمدیت کا اور احمدیت کا ظاہر ہوئے.پس یہ بہت بڑی برکات کا زمانہ ہے.ہم نہیں جانتے کہ یہ کب تک چلے مگر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اس کی برکات کو کانوں سے سنا آنکھوں سے دیکھا، جسموں سے محسوس کیا اور دعا کرتے ہیں کہ آئندہ بھی ہم اور ہماری نسلیں اور ان کی نسلیں جب تک خدا تعالیٰ کا فضل شامل حال ہو اور ہمیشہ ہی شامل ہو ان برکتوں سے حصہ پائیں اتر مذی ابواب الفتن باب ما جاء في الدجال الفضل ۳ مارچ ۱۹۳۱ء)

Page 79

۷۴ 9 قومی نقائص اور کمزوریاں (فرموده ۲۷ - فروری ۱۹۳۱ء) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.دنیا میں نقائص ہمیشہ دو قسم کے ہوا کرتے ہیں.ایک فردی نقائص ہوتے ہیں اور ایک قومی نقائص.اسی طرح خوبیاں بھی دو قسم کی ہوا کرتی ہیں.ایک فردی خوبیاں ہوتی ہیں اور ایک قومی خوبیاں.یعنی ایک تو ایسی خوبیاں ہوتی ہیں جو من حیث القوم کسی قوم میں نہیں ہوتیں.گو بعض افراد اپنی طبیعت کے لحاظ سے یا اپنی کوشش اور علم کے لحاظ سے ان خوبیوں کو اپنے اندر پیدا کر لیتے ہیں.اسی طرح بعض نقائص ایسے ہوتے ہیں جو قومی لحاظ سے تو کسی خاص قوم سے وابستہ نہیں ہوتے مگر بعض افراد میں وہ نقائص پائے جاتے ہیں.ایسے نقائص کا موجب کوئی ایک سبب نہیں ہو تا بلکہ ہر ایک شخص کے لئے علیحدہ علیحدہ اسباب اور علیحدہ علیحدہ موجبات ہوتے ہیں کیونکہ بدی یا خوبی اپنے ماحول کے اثرات کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے.جس طرح کوئی بیج بغیر زمین کے نہیں اگ سکتا اسی طرح کوئی نیکی یا بدی بغیر کسی ماحول کے پیدا نہیں ہو سکتی.ارد گرد کے اثرات جب تک کسی نیکی یا بدی کے لئے خاص زمین تیار نہ کر دیں اس وقت تک وہ نیکی یا بدی نشو و نما نہیں پاسکتی.لیکن آگے ماحول بھی دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تو ایسا ماحول یعنی اثر ڈالنے والے ایسے سامان ہوتے ہیں جو خاص اس فرد سے تعلق رکھتے ہیں جیسے بعض قسم کی چیز خاص شہروں کی مخصوص زمینوں میں اگتی ہے.وہ چیز ملک کے لحاظ سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ خاص قطعہ کی خاص زمین کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے.جیسے ہندوستان میں زعفران پیدا ہوتا ہے مگر یہ تمام ہندوستان میں نہیں پیدا ہو تا بلکہ خطہ کشمیر میں پیدا ہوتا ہے اور پھر سارے کشمیر میں نہیں پیدا ہو تا

Page 80

خطبات محمود <A سال ۱۹۳۱ء بلکہ وہاں صرف دو سو گھماؤں کے قریب ایک زمین کا قطعہ ہے جس میں زعفران پیدا ہوتا ہے.ایسی خوبیاں جو بھی ہوں ہم کہیں گے کہ یہ جزوی خوبیاں ہیں.اسی طرح بعض انسانوں میں بھی جزوی خوبیاں یا جزوی نقائص پائے جاتے ہیں.پھر بعض ایسی باتیں ہوتی ہیں جو سارے ملک سے تعلق رکھتی ہیں مثلا گیہوں ہے یہ ہندوستان کے ساتھ بحیثیت ملک تعلق رکھتی ہے.قریباً ہندوستان کے ہر علاقہ میں گیہوں پیدا ہوتی ہے یا آم ہیں قریبا ہندوستان کے ہر علاقے میں آم پیدا ہوتے ہیں بہت کم ایسے علاقے ملیں گے جہاں آم نہیں ہو گا.پس تمام نیکیاں اور بدیاں دو قسم کی ہیں ایک وہ جو افراد سے تعلق رکھتی ہیں اور ایک وہ جو کسی قوم سے تعلق رکھتی ہیں.افراد کی بدیاں تو افراد کی اصلاح سے تعلق رکھتی ہیں یعنی وہ افراد جن میں بدیاں ہوں اگر کوشش کریں تو اپنی اصلاح کر سکتے ہیں یا اگر وہ کوشش کریں تو ان کی فردی نیکیاں بڑھ جائیں گی.لیکن جو قومی اثرات کے ماتحت بدیاں یا نیکیاں پیدا ہوں ان میں کسی ایک فرد کی کوشش کار آمد ثابت نہیں ہو سکتی کیونکہ فرد جزو ہے گل کا اور جو خرابی کل میں ہوگی اس سے وہ بھی اثر پذیر ہو گا.مثلا اگر کوئی شخص زہر کھالے تو یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ زہر اس کے ہاتھ یا پاؤں یا دماغ یا دوسرے اعضاء پر اثر نہ کرئے.کیونکہ زہر جب بھی جسم میں داخل ہو گا تو وہ سارے اعضاء میں تقسیم ہو جائے گا.یا اسی طرح ہم غذا کھاتے ہیں گوشت کھائیں یا چاول یا پھل استعمال کریں اس طرح جو طاقت حاصل ہوگی وہ سارے جسم میں پھیل جائے گی.دل بھی اس سے حصہ لے گا دماغ بھی حصہ لے گا ہاتھ پاؤں طحال اور معدہ سب اس غذا سے حصہ لیں گے کیونکہ انسانی جسم کے تمام اعضاء افراد ہیں کل کے.اس لئے وہ اعضاء نیکی میں بھی حصہ لیتے ہیں اور بدی میں بھی.غذا کا بھی اثر قبول کرتے ہیں اور زہر کا بھی.اسی طرح جو نیکی یا بدی قومی طور پر پیدا ہو وہ ساری قوم پر اثر ڈالتی ہے.پس جو قومی نیکیاں یا بدیاں ہوں ان کا مقابلہ ایک حصہ بدن یعنی کوئی خاص فرد نہیں کر سکتا.نہ بدیوں کو دور کر سکتا ہے اور نہ نیکیوں کو وسیع طور پر پھیلا سکتا ہے کیونکہ کل کا اثر جزو پر ضرور پڑتا ہے سوائے اس کے کہ کوئی حصہ نکما یا بیمار ہو جائے اور اس وجہ سے وہ اپنے کل سے پورے طور پر فائدہ حاصل نہ کر سکے تو یہ اس کی جزوی خصوصیت ہو جائے گی.مثلا عمدہ زمین میں اگر عمدہ بیج ڈالا جائے تو ضرور اعلیٰ پھل پیدا ہو گا.لیکن اگر کسی بیج میں نقص ہو جائے تو عمدہ زمین میں بھی نہیں اگ سکے گا اور باقی اگ آئیں گے.یہ اس کا فردی نقص ہو گا قومی نہیں ہو گا.اور ہم کہیں گے کہ فلاں بیچ میں نقص ہو گیا ہے کھیت میں نقص نہیں نہ سارے بیچ میں نقص ہے مگر یہ ایک استثنائی

Page 81

خطبات محمود 24 سال ۱۹۳۱ء صورت ہے.قاعدہ کلیہ دنیا میں یہی ہے کہ اگر کل کو فائدہ ہو تو جزو بھی فا و حاصل کرے گا اور اگر گل کو نقصان پہنچے تو جزو بھی نقصان میں شریک ہو گا.افراد کی بدیاں تو افراد سے وابستہ ہوتی ہیں اور ہر شخص کی علیحدہ علیحدہ تشخیص ہونی ضروری ہوتی ہے.مگر قومی بدیوں کے لئے تمام قوم کو غور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے.اور ساری قوم کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ ان کو دور کرنے کی کوشش کرے کیونکہ اگر بحیثیت قوم وہ ان بدیوں کے مقابلہ کے لئے کھڑی نہ ہو یا ان بدیوں کا علاج کرنے کے لئے تیار نہ ہو تو بحیثیت قوم اس میں بہت سے گناہ اور نقائص پیدا ہو جاتے ہیں اور اگر وہ نقائص مملک ہوں تو ایک وقت اس قوم کو ہلاک کر دیتے ہیں.پس جہاں یہ ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے نفس کی کمزوریوں کو دیکھے وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ ہم بحیثیت قوم بھی اپنی کمزوریوں کو دیکھیں.اور جو بحیثیت قوم ہم میں کمزوریاں پائی جاتی ہیں ان کا علاج اور تدارک مشترکہ طور پر کریں کیونکہ بغیر مشترکہ طور پر علاج کرنے کے ہم کسی اور طریق سے کامیاب نہیں ہو سکتے.جیسے دریا میں جب سیلاب آتا ہے تو کوئی ایک زمیندار اسے نہیں روک سکتا بلکہ اسے روکنے کے لئے گورنمنٹ کی امداد کی ضرورت ہوتی ہے جو مجموعہ افراد کا نام ہے.گورنمنٹ کس چیز کا نام ہے اس کا کہ سارے افراد کا تجویز کردہ ایک مجموعہ ہوتا ہے جسے گورنمنٹ کہا جاتا ہے.جب تک گورنمنٹ سیا اب کے روکنے میں امداد نہیں دیتی اس وقت تک وہ رک نہیں سکتا.اسی طرح جو بدیاں مجموعہ افراد سے پیدا ہوتی ہیں اور قومی بدیاں کہلاتی ہیں جب تک تمام لوگ بحیثیت قوم ان کے ازالہ کی کوشش نہ کریں اس وقت تک ان کا استیصال نہیں ہو سکتا.میں چاہتا ہوں کہ ایک سلسلہ خطبات کے ذریعہ قومی بدیوں پر کچھ بیان کروں اور ایسے رنگ میں بیان کروں جس سے عملی پہلو اختیار کرنے کا جماعت کے احباب کو موقع مل سکے یہ تو کسی انسان کے اختیار میں نہیں کہ اپنی باتوں پر عمل کرانے بھی لگ جائے کیونکہ ہر شخص کا اپنا اختیار ہوتا ہے جس بات پر چاہے عمل کرے اور جس پر چاہے نہ کرے لیکن اگر پورے طور پر کوئی بات ذہن نشین ہو جائے تو بسا اوقات انسان ہمت کر کے اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور کچھ کر دکھاتا ہے لیکن اگر بات ہی ذہن نشین نہ ہو تو کچھ نہیں کر سکتا.میرے نزدیک احمدیہ جماعت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں چار پہلوؤں سے قومی بدیوں پر غور کرنا چاہئے وہ چار ذرائع ایسے ہیں جن کے ذریعہ ہم قومی امراض کی تشخیص کر سکتے ہیں پہلا ذریعہ وہ تعلیمات ہوتی ہیں جو کسی قوم میں جاری ہوں اور جن پر عمل کرنا ہر شخص اپنا فرض سمجھتا ہو.چونکہ ہر شخص ان باتوں پر عمل کرتا ہے اس

Page 82

۱۹۳۱ ،، خطبات محمود لئے اگر وہ باتیں بری ہوں یا ان سے بد نتائج نکل سکتے ہوں تو ہر شخص اس برائی میں مبتلاء ہو جاتا ہے.مثلاً ہندو قوم کی تعلیمات میں اگر کوئی نقص ہو تو لازمی طور پر ان کی تمدنی و معاشرتی زندگی میں بھی اس سے برے نتائج رونما ہوں گے کیونکہ جب ہر شخص کو وہ عقائد رکھنے ضروری ہیں تو لازماً اگر ان عقائد کے بد نتائج پیدا ہو سکتے ہوں تو قوم کا ہر فرد اس کے برے نتیجہ میں گرفتار ہو جائے گا.اب جو مسلمان قرآن مجید کو خدا تعالیٰ کا کلام سمجھتا ہے وہ بہر حال یہ بھی سمجھتا ہے کہ قرآن میں کسی قسم کا نقص نہیں اور اس کی کوئی تعلیم ایسی نہیں جو برے نتائج پیدا کر سکے یا جن کی وجہ سے کوئی بدی پیدا ہو جائے کیونکہ جب تعلیم بالکل بے عیب ہے تو اس کا برا نتیجہ کیونکر نکل سکتا ہے اور مسلمانوں میں برائی کہاں سے آسکتی ہے یہ ایک سوال ہے جو طبعاً ہر شخص کے دل میں پیدا ہو سکتا ہے اور ہونا چاہئے لیکن اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے اگر چہ قرآن میں تو کوئی نقص نہیں مگر ایک بات ہے جسے ہم نظر انداز نہیں کر سکتے اور وہ یہ ہے کہ ہو سکتا ہے قرآن کے سمجھنے میں نقص پیدا ہو جائے.پس اگر چہ قرآن میں تو کوئی نقص نہیں لیکن جب اس کے معنے سمجھنے میں نقص پیدا ہو جائے تو یہ نقص تمام قوم کو متاثر کر دے گا.اگر قرآن مجید کے مطالب سمجھنے میں بزرگوں نے بعض غلطیاں کی ہوں تو چونکہ دنیا اپنے بڑوں کے پیچھے پیچھے چلتی ہے اس لئے لازماً ایسی غلطیاں ساری قوم میں رائج ہو جائیں گی اور یہ فردی بدیاں نہیں کہلائیں گی بلکہ قومی بدیاں ہو جائیں گی.ہماری جماعت چونکہ نئی جماعت ہے اور اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قائم کیا ہے اس لئے پرانی روایات کا اگر چہ ہم پر کوئی اثر نہیں ہو سکتا لیکن پھر بھی ہماری جماعت اس سے پورے طور پر محفوظ نہیں رہ سکتی کیونکہ اس میں کثرت انہیں لوگوں کی ہے جو پہلوں سے نکل کر آئی ہے.یا ایسی اولادیں ہیں جو اپنے پرانے رشتہ داروں کے اندر رہتی اور اس طرح ان سے اثر قبول کرتی ہیں.پس اگر ہم اپنی قومی بدیاں دیکھنا چاہیں تو اس کا بھی یہ ذریعہ ہے کہ غیر احمدیوں میں جو قومی نقائص ہیں ہم ان پر غور کریں اور دیکھیں کہ کیا ہم میں بھی تو وہی نقائص پیدا نہیں ہو رہے.کیونکہ بیشتر حصہ ہماری جماعت میں انہی میں سے آیا ہے.اور اگر چہ وہ احمدیت میں داخل ہو کر بدل گئے مگر چونکہ ایسے نقائص عادت کے ساتھ وابستہ ہو جاتے ہیں اس لئے جلدی نہیں چھٹ سکتے.پس ایک تو ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ دوسروں میں کون کون سی قومی بدیاں ہیں اگر انہیں دیکھ کر ہم اپنی تشخیص کریں گے تو ہمارے لئے بہت ہی آسانی پیدا ہو جائے گی.دوسری

Page 83

خطبات محمود سال ۱۹۳۱ء حالات پر اثر ڈالنے والی چیز آب و ہوا ہوتی ہے.یہ آب و ہوا ایک مسلمان، یک ہندو اور ایک عیسائی پر بالکل یکساں اثر کرتی ہے.اگر ملک کی آب و ہوا کی وجہ سے کوئی خاص قسم کا نقص پیدا ہوتا ہے تو وہ سب پر یکساں اثر ڈالے گا.اور اس سے جو برائی پیدا ہو گی وہ بھی قومی برائی کہلائے گی فردی نہیں.پس ہمیں ایک یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ آیا ہندوستان کی آب و ہوا میں ایسے نقائص تو نہیں جو تمام قوموں میں من حیث القوم پائے جاتے ہوں خواہ وہ عیسائی ہوں یا ہندو یا سکھ یا دو سرے مذاہب والے.اگر ہم غور کریں گے تو ایسے نقائص کا اثر اور رنگ بھی ہمیں اپنے اندر نظر آجائے گا.تیسری چیز یہ ہوا کرتی ہے کہ ہم دیکھیں ہمارے ارد گرد جو دو سرے مذاہب بستے ہیں علاوہ ملکی آب و ہوا کے ان میں کون کون سے قومی نقائص ہیں کیونکہ جس طرح ملک کی عام آب و ہوا سے قوم متاثر ہوتی ہے اسی طرح اپنی ہمسایہ اقوام اور مذاہب سے بھی اثر قبول کرتی ہے.ہم روزانہ دیکھتے ہیں والدین سچ بولنے والے ہوتے ہیں مگر ان کا بچہ جھوٹ بولنے لگ جاتا ہے.اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ ہمسایہ لڑکوں سے جن کے ساتھ کھیلتا ہے اثر لیتا ہے اور گو اس کے ماں بات سچ بولنے والے ہوتے ہیں مگر ہمسایوں یا دوستوں اور ہمجولیوں کے بد اثرات کی وجہ سے وہ جھوٹ بولنے لگ جاتا ہے اور اپنے ساتھیوں کو دیکھ کر یہ بھی اسی بد عادت میں مبتلاء ہو جاتا ہے جس میں دوسرے اس کے ہمسایہ یا دوست مبتلاء ہوتے ہیں.پس جب ہمسائیگی کا بھی اثر پڑتا ہے تو ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ بحیثیت قوم ہندوؤں میں یا بحیثیت قوم سکھوں میں جو ہندوستان میں رہتے ہیں کیا بدیاں ہیں اور یہ کہ کیا ہم میں بھی ان کا اثر ہے یا نہیں.اور اگر ہم غور کریں گے تو یقینا ان کا اثر بھی ہمیں اپنے اندر مل جائے گا.چوتھی بات یہ ہوا کرتی ہے کہ کسی قوم میں اپنے مخصوص حالات کی وجہ سے کوئی نقص پیدا ہو جائے.ہر قوم کے اپنے اپنے مخصوص حالات ہوتے ہیں جن کے ماتحت اس میں بعض نیکیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور بعض کمزوریاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں چنانچہ اس کی موٹی مثال میں اپنی جماعت کی پیش کرتا ہوں.ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر جگہ پھیلی ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے دور دور کے لوگوں کے قلوب کو فتح کر لیا ہے.ادھر ہماری جماعت کا عقیدہ ہے کہ کبھی غیر احمدیوں کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہئے اور چونکہ احمدی ایک ایک دو دو اکثر مقامات پر پائے جاتے ہیں اس لئے من حیث القوم احمدیوں میں یہ بات پیدا ہو گئی ہے کہ وہ گھر میں نماز پڑھ لیتے ہیں.اب ان میں یہ نقص پیدا ہو گیا ہے کہ وہ گھر میں نماز پڑھنے کی طرف بہت جلد راغب ہو جاتے ہیں.یہ اس لئے پیدا ہوا کہ چونکہ اکثر جگہ احمدیوں کی اپنی

Page 84

خطبات 49 سال ۱۹۳۱ء مسجدیں نہیں اور جہاں ایک ایک دور و احمدی ہیں وہ اگر غیر احمدیوں کی مسجدوں میں نماز پڑھیں تو انہیں تنگ کیا جاتا اور مارا پیٹا جاتا ہے اس لئے وہ گھروں میں نماز پڑھتے رہے اپنی کو تاہی اور سستی کی وجہ سے نہیں بلکہ حالات کی وجہ سے مگر اب ان میں نقص پیدا ہو گیا ہے کہ وہ عموما فرض نمازیں بھی گھروں پر پڑھ لیتے ہیں اور جہاں جہاں مسجدیں بن گئی ہیں وہاں بھی مساجد میں نماز پڑھنے کے لئے لوگ تھوڑے آتے ہیں.ہماری جماعت کے دوستوں میں دین کے لئے جوش بھی ہو گا.اخلاص بھی ہو گا محبت بھی ہوگی مگر نماز میں گھروں میں پڑھیں گے.اس کے مقابلہ میں ایک غیر احمدی چاہے اس کی نماز ظاہر داری کے لئے ہی کیوں نہ ہو اور خواہ اس کی نماز پریشان خیالات کا مجموعہ ہی کیوں نہ ہو پھر بھی وہ مسجد میں نماز کے لئے جائے گا.ہمارے دوست نماز پڑھتے وقت بے شک اتنے خضوع اور تضرع سے نماز پڑھیں گے کہ ان کی گھگھی بندھ جائے گی اور رو رو کر اپنی سجدہ گاہ تر کر دیں گے مگر عموما نماز پڑھیں گے تو گھروں میں.یہ نقص ہے جو مخصوص حالات کی وجہ سے ہماری جماعت میں پیدا ہو گیا ہے.یہ چار ذرائع ہیں جن کی وجہ سے کسی قوم میں بدیاں پھیلتی ہیں.پس ہمیں ان چاروں کے ماتحت غور کرنا چاہئے کہ کون کون سی بدیاں ان سے پیدا ہو سکتی ہیں اور پھر ہمیں اپنی قوم کو دیکھنا چاہئے کہ اس کی کیا حالت ہے.اگر وہ بدیاں نہیں اپنے اندر نہ بھی ملیں تب بھی ہمیں اپنے بچاؤ کا سامان کرنا چاہئے.اور ایسے ذرائع سوچنے چاہئیں جن کے ماتحت ایسی بدیاں ہم میں داخل ہی نہ ہو سکیں.عقل مند کا کام یہ ہوتا ہے کہ حفظ ما تقدم کرتا ہے.مثلاً انفلوئنزا جب آتا ہے تو ہم پہلے سے ہی اس کے لئے حفظ ما تقدم کی تدابیر اختیار کرنا شروع کر دیتے ہیں.یہ نہیں کہ ہم اس وقت کا انتظار کریں جب میں زکام لگ جائے اور چھینکیں آنی شروع ہو جائیں یا مثلا جب طاعون پھیلتی ہے تو ہم گلٹی کے نکلنے کا انتظار نہیں کرتے بلکہ ابھی ہماری غدودیں بھی نہیں پھولتیں اور کوئی بھی اثر ہمارے جسم پر نہیں ہوتا کہ ہم شہر سے باہر کھلی ہوا میں چلے جاتے ہیں.اور اگر ہم انتظار کریں کہ پہلے غدودیں پھول لیں پھر ہم علاج کریں گے تو یقیناً اس وقت کا علاج کار آمد ثابت نہیں ہو سکتا بلکہ انسان کا بچنا محال ہو جاتا ہے.کیونکہ ایسا انسان بیماری کو آپ بلاتا اور موت کو خود دعوت دیتا ہے.پس ضروری ہے کہ ہماری نظر وسیع ہو اور ہم دیکھیں کہ کوئی بیماری ہم میں نہیں یا ہمارے ملک میں تو نہیں اور اگر ہمارے ملک میں وہ بدی موجود ہو تب بھی ضروری ہو گا کہ ہم اس کے ازالہ اور مقابلہ کے لئے تیار ہو جائیں کیونکہ اگر ہم ایسا کر سکے تو ایسی قومی بدیوں سے ہم

Page 85

خطبات محمود دوسروں سے زیادہ محفوظ رہیں گے.جس طرح وباء کے ایام میں جو اشخاص حفاظت نفس کے لئے تدابیر اختیار کرتے ہیں وہ نسبتا دو سروں کے مقابلہ میں وباء کا بہت کم شکار ہوتے ہیں.میں نے بتایا ہے سب سے پہلی چیز جو انسان پر اثر کرتی ہے وہ اس کا منبع ہوتا ہے.جسمانی لحاظ سے ہمارا منبع وہ فرق ہیں جو اگرچہ اسلام کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں مگر عقائد اور اعمال کے لحاظ سے اسلام میں بہت کچھ تبدیلی کر چکے ہیں.ہمیں غور کرنا چاہئے کہ انہوں نے کہاں کہاں ٹھو کر کھائی.اور پھر اس کے قومی لحاظ سے کیسے خطرناک نتائج پیدا ہوئے تاہم اپنے آپ کو ان بدیوں سے محفوظ رکھ سکیں.اس وقت میں ان تمام باتوں میں سے صرف ایک بات بیان کرتا ہوں.مسلمانوں کو کتاب تو قرآن جیسی کامل ملی تھی مگر بد بختی سے ایسی غلطیاں ان میں پیدا ہو گئیں جن کی وجہ سے ان میں مخصوص امراض کا پیدا ہو جانا لازمی امر تھا.چنانچہ پہلی چیز جو قومی بدی پیدا کرنے کا باعث ہوئی وہ مسلمانوں کا یہ یقین تھا کہ قرآن نہایت مکمل کتاب ہے.اور اس میں ان تمام باتوں کا بالتفصیل ذکر موجود ہے جو اول سے آخر تک انسانوں کی ہدایت کا موجب ہیں.بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ میں نے قرآن کی ایک مسلمہ خوبی کو عیب بتایا ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ دراصل یہ ہے تو خوبی مگر اس کے غلط طور پر سمجھنے کی وجہ سے مسلمانوں میں بہت بڑا عیب پیدا ہو گیا.اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ قرآن کامل کتاب ہے اور اس میں شبہ نہیں کہ قیامت تک کے لئے یہی ہدایت نامہ ہے جس میں تمام اعلیٰ تعلیمیں جمع کر دی گئی ہیں.مگر اس میں بھی شک نہیں اللہ تعالی نے جو انسانی دماغ کا خالق ہے وہ یہ جانتا تھا کہ دماغ کی یہ خاصیت ہے کہ اگر اسے سوچنے کی عادت نہ ڈالی جائے تو یہ مُردہ ہو جاتا ہے اور اس میں ترقی کرنے والی کیفیت باقی نہیں رہتی اس لئے گو قرآن کو اس نے کامل بنایا مگر ہر حکم جو دیا اس کا ایک حصہ انسان کے دماغ کے لئے چھوڑ دیا.کچھ اصول بتائے اور کچھ فروع اور بعض جگہ فروع کو جان بوجھ کر چھوڑ دیا گیا تا انسان انہیں خود تلاش کرے اور تا انسانی دماغ ناکارہ نہ ہو جائے اس لئے قرآن مجید ایسی عبارت اور ایسے الفاظ میں نازل کیا گیا کہ ان پر جتنا زیادہ غور کرو اتنے ہی زیادہ معارف پر اطلاع ہوتی ہے.وگر نہ اگر سب کو یکساں فائدہ پہنچانامد نظر ہو تا تو مضمون ایسا کھلا ہو تاکہ ہر شخص خواہ وہ غور کر تایا نہ ان مضامین سے آگاہ ہو جاتا.مگر قرآن مجید کے مضامین اتنے گہرے اور باریک ہیں کہ کوئی دوسری کتاب اس خصوص میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.صاف ظاہر ہے کہ اس سے منشاء الہی یہی ہے کہ انسانی دماغ معطل اور بے کار نہ ہو بلکہ وہ سوچے اور غور کرے تاکہ اس کا نشو و نما ہو تا رہے.یہی

Page 86

سال ۱۹۳۱ء نہیں M وجہ ہے کہ رسول کریم می لا علم کے زمانہ میں جب مسلمانوں نے بار بار چھوٹے چھوٹے مسائل دریافت کرنے شروع کئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا نیا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْتَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَلَكُمْ تَسُوكُم اے ایمان والو ایسی باتیں کبھی دریافت نہ کرو جو تمہیں اگر بتلا دی جائیں تو تم دکھوں میں پڑ جاؤ.ہم نے کئی مسائل جان بوجھ کر چھوڑ دیئے ہیں کیونکہ اگر ہر بات ہم بیان کر دیں تو تم دکھ میں مبتلاء ہو جاؤ گے.اب خدا تعالیٰ کا تو کوئی حکم ایسا نہیں ہو سکتا جو انسان کو تکلیف میں ڈال دے اور اس کے لئے دکھ کا موجب ہو اگر واقعی کوئی حکم نقصان رساں ہے تو پھر وہ خدا کا حکم کہلا سکتا.پس اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ خدا تعالٰی اگر کوئی بات بتا تا تو وہ دکھ کا باعث ہو جاتی بلکہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.اگر ہم تمام تفاصیل بیان کر دیں تو تمہارا دماغ ناکارہ ہو جائے گا اور اس کا ارتقاء رک جائے گا اور یہ تمہارے لئے دکھ کی بات ہوگی.وگر نہ مسلمان تو ایک منٹ کے لئے بھی یہ تسلیم نہیں کر سکتا کہ خدا تعالیٰ کا کوئی حکم ایسا بھی ہو سکتا ہے جو دکھ کا موجب ہو اس کا تو ہر حکم خیر اور برکت کا ہی موجب ہے مگر دماغوں کا نتعطل سب سے بڑی نحوست ہے اور یہی نحوست واقع ہو جاتی ہے اگر تمام تفاصیل اور باریکیاں بھی خدا تعالیٰ خود بیان کر دیتا.پس اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو کہ وہ قرآن کامل کتاب ہے مسلمانوں نے نہ سمجھا.نتیجہ یہ ہوا کہ جب تک یہ حکمت ان کے سامنے رہی کہ قرآن نهایت وسیع مطالب رکھتا ہے اس وقت تک تو ان کی قابلیتیں بڑھتی گئیں مگر جب ان میں یہ غلطی پیدا ہو گئی کہ اس اکملیت کا مفہوم یہ ہے کہ قرآن کے معارف میں ترقی نہیں ہو سکتی اور اس سے نئے نئے علوم نکالے نہیں جاسکتے تو انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ پچھلے بزرگوں نے جو کچھ لکھا ہے اس کا تو انکار نہیں ہو سکتا وہ تو جو کچھ قرآن کے معارف لکھ گئے سو لکھ گئے مگر آگے کسی کا حق نہیں کہ قرآن سے نئے نئے معارف نکال کر لوگوں کے سامنے پیش کرے کیونکہ یہ کامل کتاب ہے اور اس نے آپ ہی آپ سب کچھ بیان کر دیا ہے.مسلمانوں کے لئے یہ تو مشکل تھا کہ پہلوں کو غلطی خوردہ کہتے اس لئے انہوں نے کہا کہ پہلوں نے تو جو کچھ لکھا وہ ٹھیک لکھا ان کا حق تھا کہ وہ لکھتے مگر آگے کسی کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا.حالانکہ قرآن میں اگر واقعی نئے نئے علوم ہیں تو پھر اگر پہلوں کا حق تھا کہ وہ قرآن کے نئے علوم بیان کریں تو ہمارا کیوں حق نہیں.اور اگر قرآن خدا تعالیٰ کا کلام نہیں اور اس سے نئے نئے معارف ہم نہیں نکال سکتے تو نئے معنے کرنے پر جیسے ہم مجرم ہیں ویسے ہی پہلے بھی مجرم ہیں.کیا وجہ ہے کہ میں اگر قرآن سے کوئی نئی بات نکالوں تو گناہ ہو جائے اور اگر ابن عباس قرآن کی کسی آیت کے نئے معنے کریں

Page 87

خطبات محمود AN سال ۱۹۳۱ء تو کہا جائے سبحان اللہ ! رسول اللہ کے بھیجے نے کیسے اچھے معنے کئے.آج اگر زید قرآن سے کوئی نئی بات نکالے تو وہ تو مجرم اور واجب القتل شمار کیا جائے لیکن اگر رازی اس قسم کے مطالب بیان کریں تو انہیں امام تسلیم کیا جائے.اگر قرآن مجید سے نئے معارف نکل سکتے ہیں تو جیسے ان کا حق تھا کہ وہ نکالیں ویسے ہی ہمار ابھی حق ہے کہ ہم نکالیں اور اگر نہیں نکل سکتے تو پھر پہلے اور پچھلے دونوں مجرم میں کسی کی بھی تعریف نہ کرو.غرض یہ بالکل متضاد باتیں ہیں کہ ایک ہی منہ سے تو وہ قرآن کے نئے معارف بیان کرنے والوں کی تعریفیں کرتے ہیں.حضرت عباس اور امام رازی کے مداح بنتے ہیں.لیکن اگر کوئی اور قرآن سے اچھی باتیں نکالے تو اسی منہ سے اسے ملزم ٹھہراتے تو ہیں حالانکہ یہی حرکت پہلوں سے بھی ہوئی.پس یہ تضاد ہے اور محض اس وجہ سے ہے کہ بزرگوں کو جھٹلانا مشکل ہوتا ہے وگر نہ قرآن کے سیاق و سباق پر غور کر کے اگر مطالب بیان کرنے اور نئے نئے معارف نکالنے گناہ اور نقص ہے تو سب اس میں شریک ہیں.لیکن اس خیال نے مسلمانوں کے دماغوں کو معطل کر دیا اور ان کی ایسی حالت ہو گئی کہ اگر کوئی قرآن سے نئی بات نکالے تو کہتے ہیں کہ اس نے نعوذ بااللہ قرآن کو خراب کر دیا.جب یہ بات مسلمانوں کے دلوں میں پیدا ہو گئی تو جس شخص کے دل میں یہ خیال پیدا ہو جائے کہ روحانی ترقیات کا سلسلہ اب بند ہے لازماً جسمانی ترقیات کے بند ہو جانے کا خیال بھی اسے پیدا ہو جاتا ہے.چنانچہ دیکھ لو ساتویں صدی تک مسلمانوں میں ایجاد کا سلسلہ جاری رہا.مسلمانوں میں طب کے بھی ماہر نظر آتے ہیں علم کیمیا کے بھی ماہر نظر آتے ہیں، بیت اور علم ہندسہ کے بھی ماہر نظر آتے ہیں مگر اسی صدی میں جب یہ خیال غالب آجاتا ہے کہ اب قرآن سے نئے معارف نکالنے گناہ ہیں جو کچھ ضروری تھا وہ سب بیان ہو چکا تو دنیاوی ایجادات کا سلسلہ بھی رک گیا.نہ طب میں ترقی ہوتی ہے نہ علم ہندسہ میں نہ الجبرا میں نہ انجنیئر نگ میں معا تمام علم اٹھ جاتا ہے اور ساری باتوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے.یہ عجیب بات ہے کہ ساتویں صدی تک ہی تفسیروں کی کتابیں لکھی جاتی ہیں اور جب یہ خیال دلوں میں بیٹھ جاتا ہے کہ اب نئی باتیں قرآن سے نکالنی گناہ ہیں سب کچھ مٹنا شروع ہو جاتا ہے کیونکہ جب روحانی علوم کے متعلق یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اب ان میں ترقی نہیں ہو سکتی تو جسمانی علوم میں بھی تنزل شروع ہو جاتا ہے.پس یہ ایک بدی ہے اور قومی بدی ہے.مسلمانوں میں کبھی یہ احساس نہیں دیکھو گے کہ نئی ایجادات کی طرف توجہ کریں بلکہ وہ پرانی چیزوں کو لے کر یوں چھٹے رہیں گے کہ گویا ان چیزوں کی

Page 88

خطبات محمود ۸۳ سال ۱۹۳۱ء جدائی سے ان کی جان نکلتی ہے.پس اسی زمانہ سے جب سے مسلمانوں نے قرآن کے متعلق یہ خیال کر لیا کہ اس سے نئی باتیں نہیں نکالی جا سکتیں قوم کی ترقیات رک گئیں اور علوم کا سلسلہ معدوم ہو گیا.جو نبی مسلمانوں کی یہ حالت بدل جائے ان کی باقی حالت بھی بدل جائے گی اور وہ بھی ترقیات کے میدان میں پہلے کی طرح بڑھنے شروع ہو جائیں گے.عیسائیوں پر بھی ایک زمانہ ایسا آچکا ہے جس میں وہ یہ خیال کرتے تھے کہ جو ہمارے پہلے بزرگ لکھ چکے ہیں وہی کافی ہے اب ہمیں غور و فکر کی ضرورت نہیں اور وہی زمانہ تھا جس میں وہ ظاہری علوم کے لحاظ سے بھی گر گئے.پھر جب لو تھر وغیرہ ہوئے تو انہوں نے کہا ہمیں انجیل پر غور کرنا چاہئے پہلوں کی باتوں پر ہی بیٹھے نہیں رہنا چاہئے.اس دن سے ان میں ایجادیں شروع ہو گئیں.ہندو اقوام میں دیکھ لوجب سے ان میں مذہبی اصلاحیں شروع ہوئی ہیں اسی وقت سے ان میں ترقی ہوئی ہے.ایک طرف برہمو سماجی پیدا ہو گئے ایک طرف آریہ سماجی پیدا ہو گئے جنہوں نے ہندوؤں کے دماغ میں نشو و نما پیدا کرنے کی کوشش کی.اس سے پہلے ہندوؤں کی دنیوی ترقی رکی ہوئی تھی.مگر جب ایک طرف سے برہمو نے ان کی عقل کو تیز کیا اور ایک طرف سے آریوں نے انہیں جگانا شروع کیا تو مداان میں علوم کا سلسلہ شروع ہو گیا اور ترقی کی طرف ان کا قدم اٹھنے لگا.پس قرآن سے توجہ ہٹا لینے کی وجہ سے اور یہ خیال کرنے کی وجہ سے کہ ہمیں اپنی عقل اور دماغ سے کام لینے کی ضرورت نہیں مسلمان گر گئے.حالانکہ رسول کریم می پیر کو جو کتاب ملی اس میں بار بار یہی دعا سکھائی گئی تھی قل رَبِّ زِدْنِي عِلماً اے خدا میرا علم بڑھا.اے خدا میرا علم بڑھا.اے خدا میرا علم بڑھا.پس یہ نادانی تھی جو مسلمانوں نے کی اور جس کا برا نتیجہ بھی انہوں نے دیکھا.میں ابھی صرف اس اصل کو بیان کرتا ہوں.یہ امر کہ یہ نقص ہماری قوم میں ہے یا نہیں اسے میں کسی دوسرے وقت بیان کروں گا.مگر مسلمانوں میں یہ ایک بدی ہے اور قومی بدی ہے چھ سو سال سے مسلمان تباہ ہوتے چلے آرہے ہیں.ہر قسم کے علوم کی ترقیات مسلمانوں میں رک گئیں.لطیفہ یہ کہ پہلے سمات سالوں میں گانے کے علم میں بھی مسلمانوں میں ترقی نظر آتی ہے.اس علم پر بڑی بڑی کا ہیں ملتی ہیں اور آج یورپ تسلیم کر رہا ہے کہ ہمارا گانا مسلمانوں کی نقل ہے لیکن جس دن انہوں نے قرآن سے بے توجہی کی اسی دن سے اس بات میں بھی گر گئے.حتی کہ میں سمجھتا ہوں مسلمانوں میں کامیاب چور بھی پیدا ہونے بند ہو گئے.ذہین شخص چوری کرے گا تو اس میں بھی ہوشیاری دکھائے گا لیکن ہیو قوف چوری کرے گا تو وہ آپ بھی پھنسے گا اور دو سروں کو بھی پھنسائے گا.مثل ا

Page 89

محمود ۸۴ سال ۱۹۳۱ء مشہور ہے.ایک شخص نیا نیا چور بنا تھا اس نے کہیں چوری کی.تفتیش کے لئے جب پولیس آئی تو یہ بھی ساتھ ہو گیا اور کہنے لگا میں بھی تحقیقات میں مدد دیتا ہوں.گاؤں کے دوسرے آدمی بھی ساتھ ہو لئے چلتے چلتے کہنے لگا دیکھو یہ چوروں کے پاؤں کے نشان ہیں اور بار بار یہ کہے.پہلے تو پولیس والوں نے کچھ توجہ نہ کی.مگر آخر انہوں نے دل میں کہا ہمیں تو نظر نہیں آتے اسے جو نظر آرہے ہیں ضرور کوئی بات ہے.ان کا روز مرہ کا کام ہوتا ہے وہ سمجھ گئے کہ یہ بھی چوری میں شامل ہو گاوہ اسے شاباش دیتے گئے اور کہنے لگے اچھا آگے چلو.وہ سارا واقع بیان کرتا جائے معلوم ہوتا ہے چور پہلے یہاں ہے پھر یہاں اور اس جگہ سے وہ کو ٹھڑی میں داخل ہوا.بڑا سراغرساں بن کر وہ سارے حالات بتا تا گیا اور پولیس والے بھی تعریفیں کرتے گئے.آخر کہنے لگا معلوم ہو تا ہے چور اس کو ٹھڑی کے دروازے سے داخل ہوا.اس نے اسباب اکٹھا کرنا شروع کیا اور جب لے کر چلا تو رکھئے معلوم ہوتا ہے یہاں اسے ٹھوکر لگی اور جب ٹھوکر لگی تو گھڑی اندر اور میں باہر.بے اختیار اس کے منہ سے " میں " نکل گیا.انہوں نے کہا " میں " تو یہاں بیٹھ جائے اور باقیوں کو پھر دیکھ لیں گے.تو دماغی نشود نما اور قابلیت کی ہر چیز میں ضرورت ہوتی ہے.ایسا شخص جب نیکی کی طرف جاتا ہے تو نیکی میں ترقی کر جاتا ہے.اور اگر بدی کی طرف جاتا ہے تو بدی میں ترقی کر جاتا ہے.مگر بیوقوف شخص دونوں پہلوؤں میں نیچے رہتا ہے.پس مسلمانوں میں جب قابلیت مٹ گئی اور ان کی دماغی نشو و نما جاتی رہی تو سب کچھ معدوم ہو گیا.عمدہ جرنیل بھی مسلمانوں میں نہ رہے بلکہ نیک بھی جو ہوتے رہے وہ بھی ادنی درجہ کے ہوتے رہے.بڑے بڑے صوفیاء اور اولیاء جو ہوئے ہیں پہلی سات صدیوں میں ہی ہوئے ہیں سوائے ان کے جن کو خدا نے خود اصلاح امنت کے لئے کھڑا کیا.جیسے مجددین وغیرہ.پس یہ ایک عیب تھا جو مسلمانوں کو کہاں سے کہاں لے گیا.ہمیں چاہئے کہ ہم غور کریں کیا ہم میں بھی تو یہ نقص پیدا نہیں ہو رہا اور اگر ہو گیا ہے تو اس کے ازالہ کی کوشش کریں.وگرنہ جس نقص نے تمام مسلمانوں کو مصیبت میں ڈال دیا وہ ہمارے لئے بھی مشکلات کا موجب ہو سکتا ہے میں اس وقت صرف اس حصہ کو بیان کرتا ہوں باقی حصے انشاء اللہ آہستہ آہستہ بیان کروں گا تا جماعت میں احساس پیدا ہو اور وہ ایسی سکیم سوچے جس سے اس قسم کی امراض کو ہم دور کر سکیں.اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی تو میں متعدد خطبات میں اس کو تفصیلاً بیان کروں گا.اب میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں فردی اور قومی امراض سے نجات دے اور اُن نقائص

Page 90

خطبات محمود ۸۵ سے جو پہلوں کی تباہی کا موجب ہوئے محفوظ رکھے اور وہ خوبیاں ہمارے اندر پیدا کرے جو پہلوں کی ترقیات کا موجب ہو ئیں لى المائدة : ١٠٢ وطه : ۱۱۵ (الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۳۱ء)

Page 91

خطبات محمود AY 10 سال ۱۹۳۱ء شجر احمدیت کے پھل لانے کا وقت (فرموده ۶ - مارچ ۱۹۳۱ء بمقام پھیرو چیچی تعوز اور سورۃ فاتحہ کی کے بعد فرمایا:.اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب کوئی روشنی آتی ہے تو شروع شروع میں اس کا اثر نہایت ہی محدود ہوتا ہے.بظاہر لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ ابھی اندھیرا ہی ہے لیکن آہستگی کے ساتھ وہ اپنا کام کرتی چلی جاتی ہے.یہاں تک کہ ایک دن ایسا آجاتا ہے جبکہ یکدم دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا ہو جاتا ہے اس کی مثال بالکل دنیا کی روئیدگیوں کی سی ہوتی ہے جیسے مثلا کھیتیاں اگتی ہیں گیہوں اکتوبر میں ہوئی جاتی ہے اور آہستہ آہستہ بڑھنا شروع ہو جاتی ہے.مارچ میں آکے یکدم بالیں نکل آتی ہیں اور اپریل میں کائی جاتی ہے پہلے چار ماہ تک وہ گھاس ہی ہوتی ہے اور کیا ہوتی ہے اگر اس چار ماہ کے عرصہ پر ہی وہ ختم ہو جائے تو محض بھوسہ ہی ہو گی وہ بھی ردی قسم کا.اس کا اصل کام آخری دو ماہ بلکہ ڈیرھ ماہ میں ہوتا ہے یہی ترکاریوں کا حال ہوتا ہے مہینوں سبزہ رہتا ہے جو گھاس کی طرح پھیلا ہوتا ہے پھر چند دن میں پھل لگنا شروع ہو جاتا ہے اور جلدی جلدی مقصد پورا ہونے لگتا ہے.اسی طرح درخت لگائے جاتے ہیں ان کے پھل کے لئے سالہا سال انتظار کرنا پڑتا ہے ابتداء میں ایک پھل دار درخت محض لکڑی ہی ہوتا ہے لیکن جب اس کی نشوو نما کے مکمل ہونے کا زمانہ آتا ہے تو چند دن میں اسے بُور آجاتا ہے پھر پھل لگتا ہے جسے لوگ کھانے لگ جاتے ہیں.یہی اللہ تعالیٰ کے سلسلوں کا حال ہوتا ہے.جب وہ دنیا میں قائم کئے جاتے ہیں تو نہایت کمزور ہوتے ہیں مگر وہ ترقی کرتے چلے جاتے ہیں جیسے گیہوں کا پودا جب بڑھ رہا ہو تا ہے تو اس کا پھل نظر نہیں آتا اور لوگ کہتے ہیں یہ گھاس ہی ہے جس طرح ایک پھل دار درخت ترقی کر رہا ہوتا ہے

Page 92

خطبات محمود ۸۷ سال ۱۹۳۱ء وو.اور ابھی اسے پھل نہیں لگتا تو لوگ کہتے ہیں یہ لکڑی ہی ہے لیکن یکدم وہ دن آجاتا ہے جب اسے بور لگتا ہے پھر پھل بنتا ہے اور وہ پکتا ہے تو لوگ کھالیتے ہیں.اس کے بعد وہ پھر تازہ بتازہ پھل ہمیشہ دیتا رہتا ہے اسی طرح الہی سلسلہ کا حال ہوتا ہے اور قرآن کریم میں الہی سلسلہ کو تشبیہ بھی بال دار درخت سے ہی دی گئی ہے چنانچہ فرمایا.ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طيبة اهُ لُهَا ثَابِتٌ وَتَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ کہ وہ پاکیزہ کلام جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اسکی مثال پھل دار درخت کی سی ہوتی ہے.پہلے خدا اس کی جڑیں مضبوط کرتا ہے اور شاخیں بڑھاتا ہے.پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ پھل دینے لگ جاتا ہے لیکن دوسرے درختوں اور اس درخت میں ایک فرق ہوتا ہے اور وہ یہ کہ دوسرے درخت اپنے موسم میں سال میں ایک یا دو بار پھل دیتے ہیں.مگر یہ ایسا درخت ہوتا ہے تُؤتِي أَكَلَهَا كُلَّ حَيْنِ بِإِذْنِ رَتِهَا یہ ہر وقت ہی پھل دیتا رہتا ہے.آخر بندہ کے لگائے ہوئے درخت میں فرق ہوتا ہی چاہئے.بندہ جو درخت لگاتا ہے وہ ایک موسم میں پھل دیتا ہے مگر خدا کا لگایا ہوا درخت ہر وقت پھل دیتا ہے.البتہ ابتداء میں خدا تعالیٰ کا لگایا ہوا درخت بھی انسانوں کے لگائے ہوئے درختوں سے مشابہت رکھتا ہے.مدت تک اس کے متعلق نا واقف لوگ یہی کہتے ہیں کہ معمولی لکڑی ہے.آخر اسے بور لگتا ہے اور پھر پھل لگتا ہے.جس طرح انسانوں کے لگائے ہوئے درختوں کی لکڑی کو پھل کے لئے تیار ہونے کے لئے چار چار پانچ پانچ چھ چھ سال لگتے ہیں.لیکن جب پھل لگنے کا وقت آتا ہے تو اس پر چند ہفتے ہی لگتے ہیں.اس سے زیادہ وقت صرف نہیں ہو تا پہلے بُور لگتا ہے اور چند ہی دنوں بعد گٹھلی بن جاتی ہے پھر وہ رس دار ہو جاتا ہے اور کھانے کے قابل بن جاتا ہے.اللہ تعالیٰ بھی جب دنیا میں کوئی جماعت قائم کرتا ہے تو اس کا بھی یہی حال ہو تا ہے.پہلے پہل لوگ اس کے متعلق سمجھتے ہیں یہ روئیدگی تو ہے مگر اس کا فائدہ کیا.اس زمانہ میں سلسلہ احمدیہ کے متعلق بھی عام سوال یہی کیا جاتا رہا کہ مانا حضرت صاحب آئے اور انہوں نے ایک جماعت بنائی مگر اس کا فائدہ کیا ؟ کیا مسلمان دوسروں کے مظالم سے بچ گئے.کیا مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہو گیا.کیا ساری دنیا میں اسلام پھیل گیا.تو پھر اس سلسلہ کا فائدہ کیا ؟ مگر یہ ایسا ہی سوال ہے کہ جب پھل دار درخت لگایا جا رہا ہو اور وہ ابھی ابتدائی حالت میں ہو تو کوئی کہے اس میں اور کیکر کے درخت میں کیا فرق ہے.کیکر کو بھی پھل نہیں لگتا اور اس کا بھی پھل نظر نہیں آتا.لیکن ایسا معترض نہیں جانتا کہ لکڑی کی تیاری میں بھی وقت لگتا ہے.اسی طرح انبیاء کی جماعتیں ہوتی ہیں.پہلے پہل لوگ کہتے

Page 93

خطبات محمود AA سال ۱۹۳۱ء ہیں ایک نئی جماعت تو بن گئی لیکن فائدہ کیا ہوا.اس کی وجہ سے تو فتنہ بڑھ گیا لیکن جب وقت آتا ہے تو تناور درخت بن جاتا ہے.اس بُور لگتا ہے پھر پھل بنتا ہے.قوموں کا پھل نیکی و تقوی طاقت و غلبہ ہوتا ہے.اگر قوم اپنی جنس کو غالب اور عزت والا بنا دے نیکی اور تقویٰ کا سامان پیدا کر دے تو یہی اس کے پھل ہیں لیکن یہ پھل اپنے وقت پر لگتے ہیں اس سے پہلے وہ بھی دوسرے درختوں کی لکڑیوں کی طرح کی لکڑی ہوتی ہے اور جیسے ایک پھل دار درخت کے متعلق اس وقت جبکہ ابھی اس کے پھل دینے کا وقت نہ آئے ایک نادان کردیتا ہے کہ اس میں اور کیکر میں کیا فرق ہے.ایسا ہی الہی سلسلہ کے متعلق کہہ دیا جاتا ہے.مگر جس طرح آم کا درخت بھی پہلے کیکر کے درخت کی طرح لکڑی رکھتا ہے مگر دراصل اس میں فرق ہوتا ہے اور وہ یہ کہ کیکر کے درخت کو کبھی شیریں پھل نہیں لگے گا لیکن آم کو لگ جائے گا کیونکہ اس میں پھل پیدا کرنے کی طاقت رکھی گئی ہے جو کیکر میں نہیں.وہ شروع میں بھی جلانے کے قابل ہوتا ہے اور آخر میں بھی.لیکن آم کا درخت کو شروع میں پھل نہیں دیتا لیکن اپنی عمر کو پہنچ کر پھل دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے جو سلسلہ قائم کیا وہ دوسرے سلسلوں سے مستثنی نہیں ہو سکتا.خدا تعالی کے کام ایک ہی جیسے ہوتے ہیں.یہ سلسلہ بھی ابتداء میں ایک سبزی کی طرح پیدا ہوا اسی طرح جس طرح اور سبزیاں پیدا ہوتی ہیں.خواہ مضبوط درخت کی روئیدگی ہو پہلے پہل اسے بچہ بھی مل سکتا ہے.دیکھنے والوں نے کہاد عومی تو اتنا بڑا کیا جاتا ہے لیکن ماننے والے چار پانچ ہی ہیں.یہ ایسا ہی وقت تھا جبکہ درخت کی کونپل نکلتی ہے اور بچہ بھی اسے مسل سکتا ہے.پھر یہ کو نپل بڑھنی شروع ہوئی.اس وقت لوگوں نے دیکھ کر کہا کیا ہوا یہ ڈنٹھل ہی تو ہے اس کا کیا فائدہ پھر جب وہ اور طاقت پکڑنے لگی تو کہنے والوں نے کہنا شروع کیا یہ تنا تو بن گیا لیکن کیکر اور بکائن کے مقابلہ میں اس کی کیا حقیقت ہے نہ وہ پھل دیتے ہیں نہ یہ پھل دیتا ہے.پھر تا بڑھنا شروع ہوا اس پر یہ کہنا شروع کیا کہ اب یہ نازک لکڑی نہ سہی سخت ہی سہی مگر لکڑی ہی ہے اس میں اور کیکر کی لکڑی میں کیا فرق ہے.جب لوگ یہ کہہ رہے تھے تو باغبان کی آنکھ دیکھ رہی تھی کہ اسے ضرور پھل لگے گا اور وہ اس کی پرورش کر رہا تھا.ایک بے وقوف بے شک بکائن اور کیکر کے درخت میں اور کھجور اور آم کے درخت میں کوئی فرق نہیں دیکھے مگر باغبان ان کا فرق ضرور جانتا ہے.اسے اگر کیکر کے دس میں درخت کاٹ کر بھی آم کا ایک درخت بچانا پڑے تو وہ کیکروں کو کاٹ دے گا.اگر بکائن کے کئی درخت اکھیڑ نے پڑیں تو ان کو

Page 94

خطبات محمود ۸۹ اکھیڑ کر کھجور کو بچالے گا.کیونکہ وہ سمجھتا ہے گو آج آم کا درخت پھل نہ دے لیکن آخر پھل دے گا.کھجور کا درخت آخر پھل دے گا گو آج نہ دے.یہی فرق سلسلہ احمدیہ میں اور دوسرے فرقوں میں ہے اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اس کے لئے غیرت دکھاتا ہے لیکن دوسروں کے لئے نہیں.دوسروں کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ اس کی جو حفاظت کر رہا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ باغبان کی نظر میں یہ ضرور پھل دار ہے.اس میں اس نے کوئی خوبی رکھی ہے اسی وجہ سے اس کی حفاظت کرتا ہے.جب ہم دیکھیں کہ دوسرے درختوں کو کاٹ کاٹ کر اس کے گرد باڑ بنا تا جاتا ہے تو ماننا پڑتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں اس کی قدر ہے.جب ہم دیکھتے ہیں کہ خداتعالی عیسائیوں سے ہندوؤں سے سکھوں سے اور مسلمانوں سے کاٹ کاٹ کر لاتا اور حضرت مرزا صاحب کے گر دباڑ بنا تا جاتا ہے تو صاف معلوم ہوا کہ اس کی اس کے نزدیک زیادہ قدر ہے.ورنہ وجہ کیا ہے کہ اہل حدیث سے اہل سنت سے شیعوں سے خارجیوں سے مالکیوں سے شافعیوں سے کاٹ کاٹ کر لاتا اور احمدیت کی باڑ بناتا ہے.ہندوؤں سے کاتا اور احمدیت کی باڑ مضبوط کرتا ہے.سکھوں اور عیسائیوں سے کا تھا اور احمدیت کی باڑ اونچی کرتا ہے.اتنی جو اس سلسلہ کی حفاظت کر رہا ہے تو معلوم ہوا اس درخت کی اس کی نگاہ میں خاص قدرو قیمت ہے.مگر یہ قدر و قیمت ایسی ہے جو عام طور پر دنیا کو اس وقت تک نظر نہیں آسکتی تھی جب تک خدا تعالیٰ پھل نہ پیدا کر دے.اب ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے ترقی کرتی کرتی اس مقام پر پہنچ چکی ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ پھل پیدا ہونے کا وقت آگیا ہے.خدا تعالیٰ نے ہر جگہ جماعت کے قدم جما دیئے ہیں.کسی جگہ ایک کسی جگہ دو کسی جگہ دس ، کسی جگہ ہیں ، کسی جگہ تو کسی جگہ ہزار کسی جگہ دو ہزار بیج ہوئے جاچکے ہیں.اور سارے ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں جماعت پھیل چکی ہے.اب موقع ہے جماعت کے لئے کہ پھل پیدا کرنے میں حصہ لے اللہ تعالیٰ اپنا نور پھیلانے کے لئے جماعت کے لوگوں سے بھی کام لیا کرتا ہے اب جماعت کا فرض ہے کہ وہ اس روشنی کو مکمل طور پر پھیلانے کے لئے کوشش کرے.لیکن افسوس ہے کہ جماعت کے سارے افراد میں پوری طرح یہ خیال نہیں پیدا ہوا.بعض اس کے لئے کوشش کرتے ہیں مگر بعض نہیں کرتے.اگر اس وقت سب کے سب جماعت کے لوگ مل کر زرا کوشش کریں تو ہزار ہا لوگ سلسلہ میں داخل ہونے کے لئے تیار ہیں.پچھلے دنوں دیکھا ہے کہ اسی جلسہ سالانہ کے بعد کئی جگہ بڑی بڑی جماعتیں قائم ہو گئی ہیں پہلے جہاں ایک آدھ احمدی تھا اب وہاں اچھی خاصی جماعتیں ہیں اور یہ یک دم تغیر ہوا ہے.اور

Page 95

خطبات محمود سو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور سے یہ حکم نافذ ہو چکا ہے کہ اب جلد جماعت کی ترقی کا وقت آگیا ہے.میں نے دیکھا ہے ہماری جماعت کے افراد اپنے رشتہ داروں کو تبلیغ کر کے بہت جلد ترقی کر سکتے ہیں.مثلاً یہاں پھیرو چیچی میں ہی کئی سو کی جماعتوں ہے.اسی مردم شماری میں معلوم ہوا ہے یہاں احمدیوں کی تعداد چار سو آٹھ ہے.گاؤں کے لحاظ سے یہ بہت بڑی جماعت ہے اور بہت کم ہوں گے ایسے گاؤں جن میں اتنی بڑی جماعت ہو.میرے خیال میں دو اڑھائی سے گاؤں ہی ایسے ہوں گے جن میں اتنی یا اس سے زیادہ جماعت ہو باقی سو پچاس ڈیڑھ سو افراد کی جماعتوں والے گاؤں ہیں.اب پھیرو چیچی کی جماعت ان ہزاروں شہروں اور گاؤں سے نکل کر اس طبقہ میں آگئی ہے جن کی تعداد دو اڑھائی سو ہے.اگر یہاں تبلیغی سیکرٹری ہے جیسا کہ ہمارے نظام کے لحاظ سے ہونا چاہئے اور یہاں کے چار سو احمدیوں کے ایک تو گھر سمجھ لیں تو ان کی رشتہ داریاں کئی دوسرے دیہاتوں میں ہوں گی.اب سیکرٹری تبلیغ ایسا نقشہ بنائیں کہ یہاں کے احمدیوں کی رشتہ داریاں کہاں کہاں ہیں.ان کی رشتہ داریاں کم از کم سو مقامات پر ہوں گی گویا سو مقامات پر یہاں کے لوگ آسانی سے تبلیغ کر سکتے ہیں.تبلیغ کے لئے ایک بڑی مشکل یہ ہوتی ہے کہ جہاں کوئی احمدی نہ ہو وہاں اگر تبلیغ کے لئے جائیں تو کہاں ٹھہریں اور کسے اپنی باتیں سنائیں.کوئی نہ کوئی ہمدردی اور تعلق رکھنے والا ہونا چاہئے تو یہاں کے لوگوں کے لئے سو گاؤں ایسے نکل سکتے ہیں جہاں ان کی رشتہ داری ہو اور ان میں سے پچاس ساٹھ ایسے ہوں گے جہاں ان کے رشتہ دار احمدی نہ ہوں گے.اب پہلے یہ انتظام کریں کہ احمدی پہلے اپنے رشتہ دار کے پاس جائیں اور اسے سمجھا ئیں جب وہ سمجھ جائے تو اسے کہیں اپنے بھائی بندوں کو جمع کرو تاکہ وہ بھی باتیں سن لیں.اس طرح گفتگو کرنے میں کوئی دشمنی اور عداوت نہیں پیدا ہوتی کیونکہ انگیخت ہمیشہ غیر کیا کرتا ہے.قریبی رشتہ دار جمع کئے جائیں اور انہیں باتیں سنائی جائیں تو پھر فتنہ نہیں پیدا ہو تا.قرآن کریم میں بھی تبلیغ کا یہی گر بتایا گیا ہے.وَانْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ جو تمہارے سب سے قریبی رشتہ دار ہیں پہلے ان کو تبلیغ کرو.اصل بات یہ ہے کہ قریبی رشتہ داروں کو اگر کوئی اور نہ بڑھکائے تو وہ لڑائی جھگڑا نہیں کرتے چاہے مانیں یا نہ مانیں لیکن باتیں سن لیتے ہیں.تو اپنے رشتہ دار سے کہا جائے کہ تم اپنے قریبی رشتہ داروں ، باپ بیٹے ، بہنوئی خسر، سالے وغیرہ کو جمع کرو تاکہ ان کو بھی باتیں سنائیں.جب ان کو سنانے کا موقع مل جائے اور معلوم ہو کہ بیج بویا گیا ہے تو قادیان لکھ کر مبلغ منگوالیں اور کوشش کریں کہ اس گھر کے لوگ احمدی ہو جائیں.پھر

Page 96

خطبات محمود سارے گاؤں میں تبلیغ شروع کر دی جائے.اسی طرح اگر پھیر و چیچی والے کو شش کریں تو کئی گاؤں ایسے نکلیں گے جہاں احمدی نہیں.وہاں اگر ان کی اپنی رشتہ داری نہیں تو ان کے رشتہ داروں کی رشتہ داری ہوگی اور رشتہ داروں کے رشتہ دار اپنی ہی رشتہ دار ہوتے ہیں.اس طرح ان گاؤں میں بھی تبلیغ کا موقع نکل سکتا ہے.اگر یہاں کی جماعت اس طرح تبلیغ کرنے کی کوشش کرے اور اسی طرح سارے ہندوستان کی جماعتیں کوشش کریں تو لاکھوں احمدی تھوڑے سے عرصہ میں بن سکتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ ہم اپنی بہت سی تبلیغی کو ششیں ضائع کر دیتے ہیں.ایک زمیندار اگر بغیر زمین میں ہل چلائے اور سہاگہ پھیرے اس میں بیج ڈال دے تو پیج ضائع ہو جائے گا.بیج اُگانے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ہل چلایا جائے.اور پھر سہا کہ پھیرا جائے تب بیج پیدا ہو گا.یونہی کسی کو تبلیغ شروع کر دیتا اپنی کوشش کو ضائع کر دیتا ہے ہمیں کو شش کرنی چاہئے کہ ہمارا کوئی لفظ ضائع نہ جائے.ہم اسے ایسی جگہ سنائیں جہاں اثر کر سکے اور ایسی جگہ قریبی رشتہ دار ہی ہوتے ہیں.پس ہماری جماعت کے لوگوں کو چاہئے کہ عقل اور سمجھ کے ساتھ تبلیغ کریں.بے سبھی کی تبلیغ کا وہ تجربہ کر چکے ہیں نتیجہ تو کچھ نہ کچھ نکلتا رہا ہے مگر بہت سانج ضائع ہی جاتا ہے.لیکن اگر تمام جماعت کے لوگ اپنے رشتہ داروں کی فہرست بنا ئیں اور دیکھیں کہ کہاں کہاں ان کی رشتہ داری ہے یا ان کے رشتہ داروں کی رشتہ داری ہے تو میں سمجھتا ہوں پنجاب میں کوئی گاؤں ایسا باقی نہ رہ جائے جہاں کسی نہ کسی احمدی کی رشتہ داری نہ ہو.اب سینکڑوں گاؤں ایسے ہیں جہاں احمدیوں کو تبلیغ کا موقع نہیں ملتا حالانکہ خدا تعالیٰ نے رشتہ داروں کا ایسا ذریعہ بنایا ہے کہ ایک گاؤں بھی خواہ وہ پہاڑ میں ہی کیوں نہ ہو احمدیوں کی رشتہ داری سے خالی نہ ہو گا.یوں ایک مبلغ جہاں جاکر تبلیغ کرتا ہے وہاں چونکہ سارے کے سارے لوگ اس کے مخالف ہوتے ہیں اس لئے ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا.لیکن اگر یہ پتہ لگایا جائے کہ فلاں گاؤں میں کس کی رشتہ داری ہے اور پھر اسے ساتھ لے لیا جائے تو پھر وہ لوگ اچھی طرح باتیں سن لیں گے اور اس طرح تقریر دشمنوں کے کانوں میں ہی نہیں بلکہ دوستوں کے کانوں میں بھی پڑے گی.یہ تبلیغ کا ایسا ذریعہ ہے کہ اگر اسے استعمال کیا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ چند سال میں حیرت انگیز تغیر ہو سکتا ہے.گورداسپور کے متعلق میں نے غور کیا ہے اگر ہم پورے زور سے کام کریں تو ایک سال میں ہی فتح کر سکتے ہیں.لوگوں کے دل مان چکے ہیں اب صرف ملانوں کی مخالفت موجود ہے اور اگر ملانوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ لوگوں کے دل مان چکے ہیں تو وہ پھر مخالفت نہ کریں گے.جلسہ کے

Page 97

خطبات محمود ۹۲ بعد ہی ایک جگہ جہاں صرف چار احمدی تھے جب میں نے تحریک کی کہ لوگ دل میں احمدی ہوں وہ مردم شماری میں اپنے آپ کو احمدی لکھا دیں تو اس پر پچاس نے اپنے آپ کو لکھایا.اسی طرح اور کئی جگہ ہوا اور اس تحریک سے بہت فائدہ پہنچا.شاہ پور کے ضلع میں ایک جگہ اس تحریک کا یہ اثر ہوا کہ ایک مسجد کے امام نے ارادہ کیا کہ اس موقع کو نہیں جانے دینا چاہئے اس کے لئے اس نے عقل مندی سے کام لیا لوگوں کو اکٹھا کیا اور اعلان کیا کہ میں نے سچائی کا پتہ لگا لیا ہے.تم میں سے کون ہے جو میرا ساتھ دے.میں نے فیصلہ کیا ہے کہ مردم شماری میں میں اپنے آپ کو احمدی لکھاؤں.اس پر سب نے کہہ دیا ہم بھی احمدی لکھا ئیں گے.اس وقت تو انہوں نے مردم شماری کے کاغذات میں احمدی لکھانے کا فیصلہ کیا لیکن عید کے موقع پر چار کی بجائے ڈیڑھ سو آدمی ہو گئے.اسی طرح قادیان کے قریب کے تین گاؤں کا بیشتر حصہ احمدی ہو چکا ہے اور باقی لوگ بھی.احمدی ہونے کے لئے تیار ہیں.لائل پور اور کئی دیگر اضلاع سے بھی اطلاعیں آئی ہیں جن سے معلوم ہو تا ہے کہ دل تو مان چکے ہیں اب ضرورت اس بات کی ہے عقل اور ہوشیاری سے تبلیغ کی جائے.پھر جوں جوں جماعتیں بڑھتی جائیں گی جماعت میں زور بڑھتا جائے گا اور میں سمجھتا ہوں کہ جماعت اگر اس نظام اور ترتیب سے تبلیغ کے لئے کوشش کرے جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے تو بالکل ممکن ہے کہ بہت جلد عظیم الشان ترقی حاصل ہو جائے.اگر ایک گاؤں کے سارے رشتہ دار احمدی ہو گئے ہوں تو اس گاؤں کو چھوڑ کر اور جگہ رشتہ داریاں نکل آئیں گی.وہاں تبلیغ شروع کر دی جائے اور جو لوگ نئے احمدی ہوں ان کے رشتہ داروں میں تبلیغ شروع کر دی جائے.اس وقت یہ خطبہ اگر چہ ایک گاؤں میں ہو رہا ہے لیکن چونکہ لکھا جا رہا ہے اور اللہ تعالٰی کے فضل سے چھپ کر شائع ہو جائے گا اس لئے باہر کی جماعتوں کو بھی مخاطب کر کے میں کہتا ہوں انہیں معلوم ہونا چاہئے اس وقت ڈائنا مائٹ رکھا جا چکا ہے اور قریب ہے کہ مخالفت کا قلعہ اُڑا دیا جائے.اب صرف دیا سلائی دکھانے کی دیر ہے.جب دیا سلائی دکھا دی گئی قلع کی دیوار پھٹ جائے گی اور ہم داخل ہو جائیں گے.پس اس وقت پر زور محنت کوشش اور فکر کی ضرورت ہے.اور ترتیب اور انتظام کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے.تبلیغ کی بہترین صورت یہی ہے و انذر عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَن رشتہ داروں اور قرابت رکھنے والوں کو تبلیغ کی جائے اور جب ایک گاؤں کے رشتہ دار احمدی ہو جائیں تو دوسری جگہ کے رشتہ داروں میں تبلیغ شروع کردی جائے.جو رشتہ دار احمدی ہو جاتا ہے آگے اس کے ذریعہ اس کے رشتہ داروں میں تبلیغ کی جائے.

Page 98

خطرات محمود ۹۳ اگر اس طرح کوشش کی جائے تو وہ وقت آگیا ہے اور ایسے آثار پیدا ہو رہے ہیں کہ جماعت بہت جلد ترقی کر جائے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہماری جماعت کے تمام افراد کو خواہ وہ پڑھے لکھے ہوں یا نہ ہوں احمدیت کی تبلیغ کی توفیق عطا فرمائے.حقیقی علم در اصل خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی آتا ہے.دین کا علم محض کتابوں سے حاصل نہیں ہو سکتا جو لوگ خدا کی راہ میں کام کرنے کے لئے نکلتے ہیں اور مومن اور متقی بنتے ہیں خدا تعالٰی خود انہیں علم دیتا ہے.میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہماری جماعت کے پڑھے ہوئے اور ان پڑھنے سب لوگوں کو ایسا تقویٰ اور طہارت دے کہ ان کی زبان میں برکت ہو اور وہ عظیم الشان کام جس کے کرنے کے ہم بظاہر قابل نہیں ہیں اسے عمدگی کے ساتھ کر سکیں.دل ایک شخص کا بھی بدلنا مشکل ہو تا ہے کُجا ساری دنیا کا دل بدلنا لیکن اگر اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہو تو ہم کامیاب ہو سکتے ہیں.خدا تعالیٰ ہم پر اپنا خاص فضل کرے تاکہ ہم بھی اپنی زندگی میں اس ثمر اور پھل کو دیکھ لیں جو مقدر کیا گیا ہے.الفضل ۱۲ مارچ ۱۹۳۱ء) ابراهیم ۲۵ ابراهیم ۲۶ الشعراء : ۲۱۵

Page 99

خطبات محمود ۹۴ 11 قومی اصلاح کے لئے عملی کوشش (فرموده ۱۳ مارچ ۱۹۳۱ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- جلسہ سالانہ کے بعد سے برابر مجھے کھانسی کی تکلیف رہی ہے.کچھ دنوں جو باہر جا کر رہا ہوں اس سے بہت افاقہ ہوا ہے مگر چونکہ کلی طور پر ابھی آرام نہیں ہوا.اس سے ڈاکٹر صاحب نے لمبے خطبے یا لمبی تقریر سے روکا ہے.اس وقت تک کہ خدا تعالٰی کے فضل سے یہ شکایت جاتی رہی ہے اس وجہ سے میں آج کوئی لمبا خطبہ پڑھنے کے لئے تو کھڑا نہیں ہوا لیکن میں سمجھتا ہوں وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی ہر رنگ میں تنظیم کریں اور اس کے لئے ضروری ہے کہ میں متواتر ایسے خطبات پڑھوں جو جماعت کی تنظیم اور نظام کے لئے مفید اور ضروری ہوں.میں نے جب سے خطبات پڑھنے شروع کئے ہیں اور حضرت خلیفہ اول کی زندگی سے ہی یہ سلسلہ شروع ہے کیونکہ ۱۹۱۰ء میں جب آپ گھوڑے سے گرے تو جمعہ پڑھانے کے لئے مجھے ہی مقرر فرمایا تھا.پس ان کی زندگی میں بھی قریباً تین سال تک میں ہی خطبات جمعہ پڑھتا رہا ہوں.سوائے ان چند ناغوں کے جو اس وجہ سے ہوئے کہ کبھی آپ کی طبیعت اچھی ہوئی تو آپ نے خود آکر پڑھا دیا یا اگر میں یہاں نہ ہوا تو کسی اور نے پڑھا دیا اور اس طرح قریباً بیس سال ہو گئے ہیں کہ میں جمعہ پڑھاتا ہوں.اس سارے عرصہ میں بالعموم میں نے اس بات کا لحاظ رکھا ہے کہ ایسا خطبہ پڑھوں جس سے پیش آمدہ حالات میں راہ نمائی ہو اور جو جماعت کی تعلیم و تربیت کے لئے مفید اور ضروری ہو.مگر میں دیکھتا ہوں صرف خطبات جب تک اسباب کی صورت میں اس کے ساتھ تعلیم نہ ہو.زیادہ موثر نہیں ہو سکتے.بے شک خطبہ سے انسان کے اندر جوش پیدا ہو جاتا ہے مگر وہ مدرسہ کی پڑھائی جیسا کام

Page 100

خطبات محمود ۹۵ سال ۱۹۳۱ء نہیں دے سکتا کیونکہ انسان اسے بھول جاتا ہے اور ہر جمعہ کا خطبہ پچھلے جمعہ کے خطبہ کی پیدا کردہ رو کو بہا کر لے جاتا ہے.اس سے میرا یہ مطلب نہیں کہ خطبہ بے اثر چیز ہے یا غیر مفید ہے کیونکہ روح پیدا کر نا درس و تدریس سے بھی ایک لحاظ سے زیادہ اہم کام ہے.اس وقت ہم دیکھتے ہیں کہ دوسری قوموں کو ترقی کے بہت سے مواقع حاصل ہیں مگر چونکہ ان کے اندر روح نہیں اس واسطے وہ ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتیں.پس جماعت کے اندر روح ، جوش ، ہمت اور تازگی پیدا کرنا بھی بہت اہم کام ہے اور یہ سوائے خطبہ کے ہو نہیں سکتا اس لئے میں یہ تو نہیں کہتا کہ خطبہ غیر مفید ہے بلکہ میرا مطلب صرف یہ ہے کہ جماعت کی تعلیم و تربیت کے لئے یہ مکمل ذریعہ نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ اور ذرائع بھی اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تا اس سے پیدا شدہ جوش سے فائدہ بھی اٹھایا جا سکے.خطبات بجلی پیدا کر دیتے ہیں.مگر جب تک بجلی سے لیمپ نہ روشن کئے جائیں پنکھے نہ چلائے جائیں ، مشینیں نہ چلائی جائیں اس وقت تک اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا اس لئے اس سال سے میں نے ارادہ کیا ہے کہ جماعت کو عملی حصہ کی طرف متوجہ کیا جائے.میں نے اپنے زمانہ خلافت میں نظارتیں قائم کی ہیں اور چونکہ جماعت میں ناظروں کی طرف توجہ کرنے کا مادہ بہت کم تھا اس لئے جب بھی کوئی معاملہ میرے پاس آتا میں یہی جواب دیتا کہ نظارت متعلقہ میں لے جاؤ کیونکہ میں دیکھتا تھا لوگ سارے کام خلیفہ سے ہی کرانا چاہتے ہیں.میں نے بعض دفعہ یہ جانتے کہ ہوئے کہ نقصان ہو رہا ہے اس نقصان کو برداشت کر لیا تا ایک نظام قائم ہو جائے اور جماعت میں تنظیم کی روح پیدا ہو سکے مگر اب چونکہ ایک حد تک تنظیم کا احساس جماعت میں پیدا ہو چکا ہے نظار توں کو کام کا موقع دے کر میں جو مقصد حاصل کرنا چاہتا تھا وہ ایک حد تک پورا ہو گیا ہے اور اب خدا کے فضل سے اس روح کے تباہ ہونے کا خطرہ باقی نہیں رہا اس لئے میں اب پہلے سے زیاده براه راست توجہ نظارتوں کے کام کی طرف دوں گا.اسی سلسلہ میں میرا منشاء ہے کہ قادیان اور اس کے ارد گرد کے احمدیوں میں عملی طور پر اصلاح کا قدم اٹھایا جائے.یہ اصلاحی پروگرام تین طریق پر جاری کیا جا سکتا ہے.ایک طریق تو تبلیغ کا ہے یعنی جماعت کو مجبور کیا جائے کہ تبلیغ کرے اور اپنے ارد گرد کے علاقہ یا حلقہ اثر میں کام کرنے کے لئے اپنے اوقات میں سے کچھ وقت تبلیغ کے لئے وقف کرے.اب صداقت احمدیت اس قدر روشن ہو چکی ہے کہ اگر اشد ترین دشمنوں کو بھی کریدا جائے تو معلوم ہو گا کہ وہ بھی دل میں قائل ہو چکے ہیں.بہت سے لوگ

Page 101

خطبات محمود ۹۶ سال ۱۹۳۱ء اپنی مجالس میں جب سمجھتے ہیں کہ کوئی احمدی سننے والا نہیں تسلیم کرتے ہیں کہ اسلام کی نجات احمدیت کی اشاعت سے ہی وابستہ ہے.سوائے ان چند ایک مولویوں کے جن کی روزی کا دار و مدار ہی ہماری مخالفت پر ہے جن کے ایمان رزق سے باہر نہیں جاتے جنہیں خدا اور رسول سے محبت نہیں بلکہ اپنی تنخواہ اور روٹی سے محبت ہے ایسے لوگوں کو چھوڑ کر باقی جو عام لوگ یا ایسے علماء جو کسی کے محتاج نہیں وہ باوجود مخالفت کے تسلیم کرتے ہیں کہ اسلام کی خدمت جو جماعت احمدیہ کر رہی ہے وہ کوئی اور نہیں کر سکتا اور یہ قبول صداقت کے لئے پہلا قدم ہوتا ہے جب لوگوں کے دلوں میں صداقت کا رعب قائم ہو جائے اور وہ خوبی کو تسلیم کرنے لگ جائیں تو پھر ان کے لئے ماننا آسان ہوتا ہے اور آگے قدم اٹھانا دو بھر نہیں ہوتا.پس ہمیں پہلا قدم یہ اٹھانا چاہئے کہ تبلیغ کے لحاظ سے ایسی نظیر قائم کر دیں کہ باہر کے لوگ بھی اس طرف توجہ کرنے پر مجبور ہو جائیں.اس کے متعلق پہلے بھی میں نے ایک خطبہ پڑھا تھا.اور پھر ایک پھیرو چیچی میں پڑھا.وہ بھی چھپ کر شائع ہو چکا ہے اور جو لوگ اخبار پڑھنے کے عادی ہیں انہیں معلوم ہو گیا ہو گا کہ میرا انشاء ہے ہر احمدی سے سال میں کچھ عرصہ تبلیغ کا کام لیا جائے.عورتوں اور بچوں کو ابھی میں منتقلی کرتا ہوں کیونکہ ان کے تبلیغ کرنے کے متعلق میں نے ابھی کوئی سکیم نہیں سوچی.ہاں مردوں کے متعلق میں سکیم تیار کر چکا ہوں جس کے ماتحت کوئی احمد کی خواہ پڑھا ہوا ہو یا ان پڑھ ہو کچھ وقت تبلیغ کے لئے دے.میں نے عام اعلان کیا ہے کہ جماعت کے جو دوست خوشی سے تبلیغ کے لئے اپنا نام پیش کرنا چاہیں کریں لیکن قادیان کے لئے یہ صورت نہیں کہ جو اپنے نام لکھوائیں ان کے نام لکھے جائیں بلکہ یہاں کے تمام مردوں اور بالغ بچوں کے نام لکھ لئے جائیں.اور نظارت دعوۃ و تبلیغ کا یہ فرض ہے کہ ایک ہفتہ کے اندراندرید فہرست مکمل کرے.یہ نہیں کہ تحریک کی جائے کہ لوگ تبلیغ کے لئے اپنے نام لکھا ئیں بلکہ سب کے نام لکھ کر پھر اعلان کیا جائے کہ جو لوگ معذور ہوں وہ اپنے مذرات پیش کر کے اپنے نام کٹوا سکتے ہیں.گویا یہ تبلیغ کے لئے جبری بھرتی ہے.مگر اس میں معقول معذوریوں اور مجبوریوں کا لحاظ رکھا جائے گا.مردم شماری سے پتہ لگا ہے کہ یہاں احمدیوں کی تعداد گذشته مردم شماری سے دوگنی سے بھی زیادہ ہے.گذشتہ مردم شماری میں ہماری تعداد ۲۴۰۰ لکھی گئی تھی اور اس سے دوگنی ۴۸۰۰ ہے مگر اس مردم شماری میں ۵۵۰۰ معلوم ہوئی ہے.گویا سوا دو گئی اور قادیان کے ارد گرد بھی کثرت سے احمدی ہیں اور اندازہ ہے کہ ایک ایک میل کے حلقہ کے احمدیوں کو اگر شامل کر لیا

Page 102

خطبات محمود سال ۱۹۳۱ء جائے تو آٹھ ہزار احمدی ہوں گے.گذشتہ مردم شماری میں سارے پنجاب میں ہماری تعداد ۲۸۰۰۰ بتائی گئی تھی.بے شک یہ غلط ہے مگر سرکاری رپورٹ کو چونکہ سند سمجھا جاتا ہے اس لئے " بیرونی ممالک میں اگر کسی نے ہمار ا ذ کر کیا تو اس رپورٹ کی بناء پر اتنی ہی تعداد بتائی.مگر میں سمجھتا ہوں اگر ٹھیک طرح سے مردم شماری کی جائے تو صرف ضلع گورداسپور میں ہی ہماری تعداد ۲۸۰۰۰ ہو گی.مگر مردم شماری میں ہمیشہ غلطی ہو جاتی ہے حتی کہ اس سال منگل میں بھی جو یہاں سے بہت قریب ہے اور جہاں کثرت سے احمدی ہیں کئی سو احمدی درج ہونے سے رہ گئے اور اس قسم کی غلطیاں ہر جگہ ہوئی ہوں گی.اگر ان کا ازالہ کیا جاسکے تو صرف اسی ضلع میں ۲۸۰۰۰ احمدی ہوں گے.غرض اب لوگ اسے ایک عظیم الشان تحریک سمجھنے لگ گئے ہیں اور سمجھتے جاتے ہیں کہ اس سے پیچھے ہٹنا اسلام سے دشمنی ہے.اور جب یہ صورت پیدا ہو جائے تو یہی وقت يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا کا ہوتا ہے.جب مسلمانوں کو یہ معلوم ہو تا جا رہا ہے کہ اسلام کی زندگی اور موت کا سوال احمدیت سے وابستہ ہے تو نیک دل لوگ اس بزدلی کے لئے تیار نہیں ہو سکتے کہ اس قربانی میں شریک نہ ہوں جس کا اسلام اس وقت مطالبہ کر رہا ہے.چنانچہ ارد گرد کے حلقوں میں خدا کے فضل سے زبر دست تحریک شروع ہو گئی ہے.اور ابھی مجھے بتایا گیا ہے کہ آج بہت سے لوگ بیعت کے لئے آئے ہیں.یہی وہ نظارہ ہے جو رسول کریم میں نے يَدْخُلُونَ فِي دینِ اللهِ أَفْوَا جا کے موقع پر دیکھا تھا.میں نے ایک سکیم تیار کی ہے.اس کے ماتحت جماعت کے ہر ایک فرد سے جو قادیان میں رہتا ہے یا جو پاس کے کسی گاؤں سے اس کے لئے آمادگی ظاہر کرے ایک یا دو ہفتے تبلیغ کا کام لیا جائے گا.اس سکیم کے ماتحت ایک کمانڈر ہو گا اور دو اس کے نائب ہوں گے.ہر نائب کو پچاس مبلغ دیئے جائیں گے جو خواہ ہفتہ کے بعد چلے جائیں خواہ دو ہفتہ کے بعد لیکن برابر ایک معین عرصہ تک علاقہ ملکانا کی طرح ایک مبلغ ایک گاؤں میں موجود رہے گا.اور اس طرح تو گاؤں میں یک دم تبلیغ ہوتی رہے گی.ایسا کرنے سے وہ ڈر بھی نکل جائے گا جو رشتہ داروں کی مخالفت کا لوگوں کے دلوں میں ہوتا ہے.جب چاروں طرف تبلیغ ہو رہی ہوگی اور ہر طرف سے یہی آواز آئے گی کہ بات تو بچی ہے تو پھر رشتہ داروں کے ڈر کی وجہ سے لوگ نہیں رکیں گے.اس سکیم کو تجربہ کے بعد اور بھی وسعت دی جائے گی.حتی کہ گورداسپور کے ضلع میں کوئی ایسا گاؤں نہ ہو گا جہاں کوئی احمدی مبلغ پندرہ روز نہ رہ آیا ہو.دوسری حکیم تعلیم و تربیت کے متعلق ہے.اس سلسلہ میں ابھی

Page 103

خطبات محمود ۹۸ سال ۱۹۳۱ء ہم نے کوئی زیادہ کوشش نہیں کی.سرکاری رپورٹ یہ ہے کہ پنجاب میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ قوم سکھ ہے یعنی گیارہ فیصدی ہندو سات فیصدی اور مسلمان چار فیصدی ہیں.مگر ہمارے اپنے اندازہ کے لحاظ سے احمدی خدا کے فضل سے اٹھارہ انیس فی صدی تعلیم یافتہ ہیں.گویا سب قوموں سے زیادہ تعلیم یافتہ احمدی ہیں.حالانکہ ابھی اس کے متعلق ہم نے پورا زور نہیں لگایا اور میں چاہتا ہوں قادیان اور اس کے ارد گرد کا ہر احمدی خواہ وہ بوڑھا ہی ہو اور اس کی عمر ستر سال ہی کیوں نہ ہو مرنے سے پیشتر لکھنا پڑھنا ضرور سیکھ لے.اور یہ صورت بھی اسی قسم کی جبری بھرتی سے پیدا ہو سکتی ہے.یعنی ہر پڑھا لکھا احمدی وقت دے اور ہر گاؤں میں جاکر ان پڑھوں کو تعلیم دے.ایسے قواعد ہیں کہ جن پر عمل کرنے سے تھوڑے دنوں میں ہی دستخط کرنا اور معمولی کتاب وغیرہ پڑھنا سکھایا جا سکتا ہے.اور جب اس قدر لکھنا پڑھنا آجائے تو پھر آگے خود بخود ترقی کی جاسکتی ہے.میں نے دیکھا ہے یہاں ایک میاں شادی خان صاحب سیالکوٹ کے رہنے والے تھے.پہلے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دروازہ پر بیٹھے رہتے تھے.بعد میں سیکرٹری کے دفتر میں کلرک ہو گئے تھے اور حافظ روشن علی صاحب کے خسر تھے.جب وہ یہاں آئے اور کوئی کام نہ ملا تو انہوں نے کہا چلو ثواب ہی حاصل کریں.اور وہ حضرت مسیح علیہ الصلوۃ و السلام کی ڈیوڑھی پر بیٹھ گئے.کوئی باہر سے رقعہ وغیرہ لا تاتو اندر پہنچا دیتے یا اندر سے کوئی پیغام آتا تو باہر پہنچا دیتے.ایک دن میں نے دیکھا کہ وہ انگریزی کی ابتدائی ریڈر (READER) لئے پڑھ رہے ہیں.میں ان دنوں ابھی بچہ ہی تھا.میں نے پوچھا آپ کیا پڑھتے ہیں کہنے لگے خالی بیٹھا رہتا ہوں خیال آیا کہ کچھ پڑھ ہی لوں.جو کوئی انگریزی دان وہاں آتا اس سے کچھ نہ کچھ پوچھ لیتے اور اسی طرح تھوڑے ہی دنوں میں وہ آٹھویں نویں جماعت تک کی انگریزی پڑھ گئے.پس اگر کوشش کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ بڑی عمر کے آدمی بھی پڑھنا لکھنا نہ سیکھ سکیں.زمینداروں کو اُن پڑھ ہونے کی وجہ سے ہی کئی لوگ دھوکا دے جاتے ہیں.جو جی چاہے لکھ کر اس پر ان کا انگوٹھا لگوا لیتے ہیں.حالانکہ انہیں کچھ پتہ نہیں ہو تاکہ کیا لکھا ہے.پس ہر ایک احمدی زمیندار کو اتنا ضرور سیکھ لینا چاہئے کہ کوئی جھوٹے دستخط اس سے نہ کرا سکے.اور میرا خیال ہے قادیان کے رہنے والوں کے متعلق کوشش کی جائے کہ یہاں کے رہنے والے ہر ایک احمدی کو کچھ نہ کچھ عربی ضرور آجائے اس کے لئے خواہ ہفتہ میں ایک دن اسے پڑھایا جائے.مگر اتنا ضرور ہو کہ جب کبھی وہ باہر تبلیغ کے لئے جائے تو کوئی ملا اپنی عربی دانی سے

Page 104

خطبات محمود ٩٩ سال ۱۹۳۱ء اسے نہ ڈرا سکے اور جب وہ اسے ڈرانے کے لئے عربی الفاظ کی خنجر نکالے تو یہ بھی اس کے مقابلہ میں اس سے زیادہ تیز تلوار استعمال کر سکے.اس کے لئے نظارت تعلیم و تربیت دعوۃ و تبلیغ کی مردم شماری سے فائدہ اٹھا سکتی ہے اور اس کے اندر اخلاقی تعلیم اور درستگی اخلاق بھی شامل ہیں.تیسرا قدم جو میں چاہتا ہوں کہ اٹھایا جائے یہ ہے کہ جماعت میں کوئی نکما نہ رہے اور کوئی آدمی ایسا نہ ہو جو کمائی نہ کرتا ہو.بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص کچھ کماتا نہیں وہ کھانا کہاں سے ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ کئی لوگ ایسے ہیں جو قطعا کوئی کمائی نہیں کر رہے اس لئے میں امور عامہ کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ ایک ایسی مردم شماری کرے جس میں ہر آدمی کا نام ہو اس کی قابلیت کہ وہ کیا کام جانتا ہے اور کیا کام کرتا ہے یا بیکار ہے تو تمام تفصیلات درج ہوں.خواہ مرد ہو یا بیوہ عورت سب کے متعلق یہ معلومات بہم پہنچائی جائیں.خاوند والی عورت کے اخراجات کا کفیل تو اس کا خاوند ہوتا ہے مگر یوں کے گزارہ کی صورت معلوم کرنی ضروری ہے پس ہر بالغ مرد بیوہ عورت یا بن بیاہی جوان لڑکی کے متعلق یہ معلومات امور عامہ حاصل کرے.ناکارہ لوگ قوم کی گردن میں پتھر کی حیثیت رکھتے ہیں اور قوم کی ترقی میں ایک روک ہوتے ہیں.اگر انسان تھوڑا بہت بھی کام کرے تو وہ خود بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے اور قوم کی ترقی میں بھی کسی حد تک مقید ہو سکتا ہے.اس طرح کی مردم شماری سے یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ ہمارے ہاں کتنے پیسے جاننے والے لوگ ہیں.بعض موزوں آدمیوں کو تعاون سے مدد دی جاسکتی ہے.اگر کسی تاجر کی تجارت کسی وجہ سے تباہ ہو گئی ہو اور اس کے پاس سرمایہ نہ ہو تو اسے نقد روپیہ دینے سے اس کی عادت کے خراب ہونے کا احتمال ہوتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ اگر نقصان ہو گیا تو پھر بھی روپیہ مل سکتا ہے لیکن اگر اسے تعاون کے ذریعہ مدد دی جائے تو وہ سنبھل جاتا ہے.بمبئی کے بوہرے اسی طرح کرتے ہیں اگر ان میں سے کسی کی تجارت کو نقصان پہنچ جائے تو سارے مل کر ایک چیز کی تجارت اس کے حوالے کر دیتے ہیں.مثلاوہ فیصلہ کر دیں گے کہ دیا سلائی کی ڈبیہ سوائے فلاں کے کوئی نہ بیچے اور جب کوئی گاہک ان کے پاس آئے تو اس کی دکان پر بھیج دیتے ہیں.اور اس طرح ایک مہینہ کے اندراندروہ کافی سرمایہ جمع کر کے پھر ترقی کر سکتا ہے.اسی طرح اگر ہماری جماعت کے کسی تاجر کا نقصان ہو جائے تو بجائے اس کے کہ سلسلہ کے روپیہ سے اسے مدد دی جائے ایسا انتظام کر دیا جائے کہ وہ خود بخود اپنے آپ کو سنبھال سکے.اسے کہہ دیا جائے جو کچھ تمہارے پاس ہے اس سے فلاں چیز کا کاروبار شروع کر دو.یا اگر کچھ بھی نہیں تو تمہیں ادھار سودالے دیتے ہیں اور تم

Page 105

خطبات محمود سال ۱۹۳۱ء 19.مثلاً آٹا فروخت کیا کرو ادھر سب سے کہہ دیا جائے کہ پندرہ روز تک آٹا اسی سے خریدیں.اور کوئی دکاندار آٹا فروخت نہ کرے.اسی طرح دوسرے دکانداروں کو اگر چہ گاہکوں سے چھٹی مل جائے گی مگر ان کا آٹا پھر بھی فروخت ہو تا رہے گا کیونکہ بیچنے والا انہیں سے لے کر بیچے گا.اور آٹا اگر انیس سیر کا بکتا ہے تو وہ پندرہ دن تک ساڑھے اٹھارہ سیر بیچے.اور اس طرح ہر روپیہ ، آدھ سیر کی بچت سے پندرہ روز میں اسے کافی سرمایہ مل جائے گا.اور یہ عملی قدم اٹھا کر کمزوروں کو بھی آگے بڑھایا جا سکتا ہے اور پھر جو کام نہیں جانتے انہیں کوئی مفید پیشہ سکھایا جاسکتا ہے اور جن کے پاس کوئی کام نہیں ان کے لئے کام کا بندوبست کیا جا سکتا ہے.پس میں ان نظارتوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ اگلے جمعہ تک یہ مردم شماری مکمل کر دیں.مردم شماری کے دنوں میں گورنمنٹ بھی جبرا اوگوں کو اس کام پر لگا سکتی ہے اور اگر کوئی انکار کرے تو سزا کا مستوجب ہو تا ہے.پس میں بھی ان ناظروں کو حق دیتا ہوں کہ جسے چاہیں اپنی مدد کے لئے پکڑ لیں.کسی کو انکار کا حق نہ ہو گا.اور اگر کوئی انکار کرے تو میرے پاس اس کی رپورٹ کریں لیکن یہ ان کا ضروری فرض ہے کہ ایک ہفتہ کے اندر اندر یہ مکمل کر دیں اور اس کے لئے ہر آدمی سے سوائے اس کے کہ پہلے اسے دوسرا ناظر لے چکا ہو کوئی خواہ کارکن ہو یا غیر کارکن، تاجر ہو یا صنعت پیشہ امداد لیں.گورنمنٹ سارے ہندوستان میں ایک دن میں مردم شماری مکمل کر دیتی ہے.اسی طرح یہاں بھی گھروں پر نشان لگا کر چند گھنٹوں میں مردم شماری کرلی جائے.اور پھر اعلان کر دیا جائے کہ جو شخص تبلیغ کے لئے وقت دینے میں کوئی گذر رکھتا ہو وہ پیش کرے.میرا منشاء ہے کہ اب جو صرف سلسلہ کی طرف سے مالی امداد دی جاتی ہے.آئندہ اس کا سلسلہ بند کر دیا جائے اور یہ شرط کر دی جائے کہ جو کوئی جتنی امداد طلب کرے اتنا خود بھی کمائے مثلاً ایک مستحق شخص اگر پانچ روپے طلب کرتا ہے تو ہم اسے کہیں ہم پانچ روپے تو دیتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ اتنی ہی کمائی تم خود بھی کرو.اس طرح تمہارے پاس دس روپے ہو جائیں گے اور تم خود آرام پاؤ گے.غرض یہ کہ کوشش کی جائے کہ کوئی شخص نکمانہ ہو اور اپنے لئے اپنے خاندان کے لئے بلکہ دنیا کے لئے مفید ثابت ہو.صحابہ کرام میں کام کرنا کوئی عیب نہ تھا.حضرت علی رسول کریم میر کے بھائی تھے.مکہ کے رؤوسا میں سے تھے اور معزز ترین خاندان کے فرد تھے.مگر باوجود اس کے جب آپ پہلے پہل مدینہ میں گئے تو دیگر صحابہ کے ساتھ گھاس کاٹ کر بیچا کرتے تھے.مگر کیا آج کوئی معمولی زمیندار بھی ہے جو ایسا کرنے کے لئے تیار ہو.وہ بھو کا مرنا پسند کرے

Page 106

خطبات محمود H سال ۱۹۳۱ء گا مگر رسول کریم ملی کے بھائی مکہ کے رئیس اور اعلیٰ خاندان کے فرد حضرت علی نے یہ کام کیا.اور اصل اسلامی روح یہی ہے کہ کوئی شخص نکما نہ ہو.چاہے علمی کام کرے جیسے مدرس مبلغ وغیرہ.اور چاہے ہاتھ سے کام کرے جیسے لوہار ترکھان جو لاہا وغیرہ پیشے ہیں.دراصل کوئی پیشہ ذلیل نہیں ہندوستانیوں نے اپنی بیوقوفی سے بعض پیشوں کو ذلیل قرار دے دیا اور پھر خود ذلیل ہو گئے.انگریز آج کسی وجہ سے ہم پر حکومت کر رہے ہیں.اگر غور کیا جائے تو فن بافندگی ہی ان کی اس عظمت اور شوکت کا موجب ہے.مگر ہم یہ کہہ کر کہ جولا ہے کا کام ذلیل ہے خود محکوم اور ذلیل ہو گئے.پس ہاتھ سے کام کرنا ذلیل فعل نہیں ذلیل کام صرف وہ ہیں جو کمینہ ہیں.مثلاً کنچنی کا پیشہ یا گانے والی رنڈیاں ایکٹر میراثی یا ڈوم وغیرہ.باقی اگر کوئی نائی ہے اور محنت کرتا ہے تو وہ ذلیل کیوں ہو گیا.وہ اس سے زیادہ شریف ہے جو کسی اعلیٰ قوم سے تعلق رکھنے کے باوجود محنت نہیں کرتا اور نکھتا ہے.اگر کوئی جو لاہا ہے تو وہ دوسروں کے ننگ ڈھانکتا ہے وہ خود کس طرح ذلیل ہو سکتا ہے.اسی طرح لوہار ترکھان کے پیشے بھی ذلیل نہیں.یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اگر کوئی ہل کو پکڑ کر جانوروں کے پیچھے لح ملح کرتا پھرے تو معزز ہو لیکن اگر ہتھو ڑا چلائے تو ذلیل ہو جائے یا اگر کوئی دفتر میں کام کرے تو معزز ہو لیکن اگر کپڑا بنے تو ذلیل ہو جائے.یہ عجیب قسم کی ذلت اور عزت ہے.جب وہی دماغ.وہی جسم ہے تو پیشہ اختیار کر لینے سے ذلیل کیوں ہو گیا.ایک شخص اگر نکما بیٹھا ر ہے لوگوں کا صدقہ کھائے اور مانگتا ر ہے تو وہ معزز ہو لیکن اگر کوئی کھڑی پر کپڑا بنے تو وہ ذلیل ہو جائے.یہ عجیب قسم کی ذلت اور عزت ہے جسے کوئی بیوقوف ہی سمجھے گا ہماری عقل میں تو یہ آتی نہیں.پس ہماری جماعت میں احساس ہونا چاہئے کہ محنت کرنا بُرا نہیں اپنے لئے اپنے خاندان کے لئے اپنی قوم کے لئے دین کے لئے اور خدا کے لئے کوئی کام کرنا ذلت کا موجب نہیں بلکہ اس میں عزت ہے.اس لئے جو لوگ کوئی نہ کوئی کام کر سکتے ہیں وہ ضرور کریں اور ہر حال میں مفید بننے کی کوشش کریں.میری غرض یہ ہے کہ ہماری جماعت کے تمام افراد دین اور دنیا کے لئے مفید نہیں.پس تینوں نظار میں اگلے جمعہ تک تمام تفصیلات بہم پہنچائیں.ناظر اعلیٰ بحیثیت افسران سب کے کام کے لئے جو اب وہ ہوں گے.اور اسی طرح صد را انجمن ذمہ دار ہوگی کہ یہ نظار تیں اگلے جمعہ تک یہ کام ختم کر دیں.اور میں تمام جماعت سے امید کرتا ہوں کہ وہ تعاون کرے گی اور نظارتوں کا ہاتھ بٹائے گی.میں خدا تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ توفیق عطا فرمائے کہ ہمارا وجود اس غرض کو پورا کرنے

Page 107

خطبات محمود ١٠٢ سال ۱۹۳۱ء والا ہو جس کے لئے ہم پیدا کئے گئے ہیں.ہم دینی لحاظ سے بھی اور دنیوی لحاظ سے بھی ترقی کرنے والے ہوں اور ہمارا ہر قدم ہمیں ترقی کی طرف لے جائے النصر : 3 بخارى كتاب المساقاة باب بيع الحطب والكلاء الفضل ۱۹ مارچ ۱۹۳۱ء)

Page 108

خطبات محمود ۱۰۳ 12 خلیفہ اور نظام سلسہ کا احترام (فرموده ۲۰ - مارچ ۱۹۳۱ء) ر تعوز اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- چونکہ مجھے برابر گلے کی تکلیف جاری ہے اور اس کے ساتھ ہی کچھ دنوں سے بخار کی بھی ہلکی سی حرارت رہتی ہے اس لئے میں ڈاکٹری مشورہ کے ماتحت کوئی لمبی تقریر نہیں کر سکتا میں آج صرف ایک ایسے اعلان کے متعلق جو ابھی میرے سامنے پیش ہوا ہے کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں.میں نے متواتر جماعت کے دوستوں کو توجہ دلائی ہے اور اس کے متعلق پہلے بھی کئی دفعہ کارروائی ہو چکی ہے.مگر باوجود اس کے بعض لوگ اپنے ذاتی اغراض اور اپنے ذاتی فوائد کو مد نظر رکھتے ہوئے سلسلہ کے فوائد اور سلسلہ کے اغراض کو نظر انداز کر دیتے ہیں.بات یہ ہے کہ کسی صورت میں بھی خلیفہ وقت کو عدالتوں میں گواہ کے طور پر نہیں بلانا چاہئے.اول تو ہمارے مقدمات ہماری عدالتوں میں ہی رہنے چاہئیں اور انہیں اسی جگہ طے کر لینا چاہئے لیکن اگر کوئی مقدمہ طے نہ ہو سکے اور اس کے تصفیہ کے لئے عدالتوں میں جانا ہی پڑے تو کبھی بھی خلیفہ وقت کو عدالت میں نہ بلایا جائے کیونکہ وہ اپنے عہدہ کے لحاظ سے اتنے وسیع تعلقات رکھتا ہے کہ ہر شخص سے اس کا معاملہ ہوتا ہے.پس قطع نظر اس ادب اور احترام کے جو لوگوں کے دلوں میں اس کے متعلق ہو تا ہے اور قطع نظر اس ادب اور احترام کے جو اس مقام پر کھڑا ہونے کی وجہ سے اسے حاصل ہو تا ہے اگر عقلی طور پر بھی اس بات کی اجازت دے دی جائے تو سوائے اس کے کہ خلفاء روزانہ گواہیوں کے لئے کسی نہ کسی کھری میں کھڑے ہوں ان کا کوئی اور کام ہی نہیں رہ جاتا.دن بھر میں پندرہ میں جھگڑے خلیفہ کے پاس ضرور آئیں گے اور اس لحاظ سے وہ سارے معاملات میں

Page 109

خطبات محمود ۱۰۴ سال ۱۹۳۱ء گواہ بنایا جا سکتا ہے.پس اگر اس امر کی اجازت دے دی جائے تو ایسا دروازہ کھل جاتا ہے جس سے سلسلہ کا تمام کام تباہ ہو جاتا ہے.اور پھر ایسی گواہی کے لئے بلانا جس میں کسی قسم کا فائدہ نہ ہو وہ اور بھی زیادہ نہ صرف نقصان پہنچانے والا اور سلسلہ کے نظام کو درہم برہم کر دینے والا ہے بلکہ ادب اور احترام کے بھی بالکل خلاف ہے.میں نے پچھلے دنوں لوگوں کے نکاح پڑھنے بند کر دیتے تھے اور یہ اس لئے کہ اس وقت کسی نے میرا نام گواہی میں لکھا دیا تھا.اس کے بعد سے میں صرف ایسے ہی نکاحوں کا اعلان کیا کرتا ہوں جن کے متعلق مجھے یقین ہو جائے کہ یہ عورت ایسی ہی ہے کہ خواہ اسے ساری عمر اپنے ماں باپ کے گھر بیٹھنا پڑے یہ کوئی مقدمہ نہیں کرے گی اور یہ مرد ایسا ہے خواہ اسے کتنا ہی نقصان اٹھانا پڑے مجھے عدالت میں بطور گواہ پیش نہیں کرے گا.پس میں اس وقت سے سوائے ایسے مردوں اور عورتوں کے اور کسی کا نکاح نہیں پڑھایا کرتا مگر آج مجھے اطلاع ملی ہے کہ ایک مقدمہ میں میری گواہی رکھی گئی ہے.اس کے متعلق سوائے شرارت اور منصوبہ بازی کے اور کوئی وجہ ذہن میں نہیں آسکتی.میری گواہی اس میں صرف اتنی ہے کہ ایک عورت نے مجھے لکھا کہ میرے معاملہ میں افسران متعلقہ توجہ نہیں کرتے میں نے اس پر لکھ دیا کہ توجہ کریں.پس اصل بات جو مجھ سے تعلق رکھتی ہے صرف اتنی ہے نہ مجھے معلوم ہے کہ کوئی وصیت کی گئی تھی یا نہیں نہ مجھے کوئی اور واقعات معلوم ہیں.میں صرف اس بات کا مجرم ہوں کہ میں نے ایک عورت کی شکایت سن کر افسران متعلقہ کو توجہ دلائی.کیا کوئی عظمند بھی سمجھ سکتا ہے کہ اس کے ساتھ مقدمے کا کوئی تعلق ہے؟ ان حالات کو دیکھتے ہوئے خلفاء کے لئے اب روہی صورتیں باقی رہ جاتی ہیں.یا تو وہ کسی کی مظلومیت کی طرف قطعاً کوئی توجہ نہ کیا کریں کیونکہ انہوں نے جب کسی معاملہ کے متعلق لکھا کہ اس پر توجہ کی جائے تو دوسرے انہیں گواہ بنالیں گے یا پھر یہ صورت ہے کہ ایسے شریر آدمیوں کو قرار واقعی سزادی جائے.پہلی بات پر تو کبھی عمل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ خلافت کے معنے ہی یہ ہیں کہ لوگوں کے حقوق کا خیال رکھا جائے اور زیر دست کو زبر دست کے ظلم سے بچایا جائے اور اس امر کو نظر انداز کر دینے کے معنے یہ ہوں گے کہ خلافت کو ہی باطل قرار دیا جائے.البتہ دوسری بات پر عمل کیا جا سکتا ہے اور وہ یہی ہے کہ ایسے شخص کو جماعت سے نکال دینے کا اعلان کر دیا.جائے.جماعت کے معنے یہ ہیں کہ ہم لوگ متفق ہو کر ایک اقرار کرتے ہیں اور وہ یہ کہ ہم نظام سلسلہ کی مضبوطی کے لئے مل کر کوشش کرتے رہیں گے لیکن وہ جو نظام سلسلہ کو توڑتا ہے ہم ہر

Page 110

خطبات محمود ۱۰۵ سال ۱۹۳۱ء وقت اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ جب اسے نظام کا احترام نہیں تو ایسے شخص کی جماعت سے علیحدگی کا اعلان کر دیا جائے لیکن جماعت سے نکالنے کا مفہوم احمدیت سے نکالنا نہیں ہو تا.احمدیت اعتقاد اور ایمان سے تعلق رکھتی ہے یہ علیحدہ چیز ہے.ہو سکتا ہے ایک شخص کو ہم جماعت سے نکالیں اور وہ احمدیت پر قائم ہو.یہ ایک غلطی ہے جو بعض لوگوں کو لگ جاتی ہے.پہلے بھی میں نے بیان کیا تھا کہ اس قسم کا اخراج احمدیت سے اخراج نہیں ہو تا.ہم اس قسم کی گفر بازی کا سلسلہ جماعت احمدیہ میں جاری کرنا نہیں چاہتے.خلفاء تو کیا دراصل انبیاء کو بھی اس قسم کا اختیار نہیں ہو تا بلکہ در حقیقت اسلام سے خدا بھی نہیں نکالتا.بندہ ہی ہے جو خود اپنے آپ کو اس سے نکال لیتا ہے.جب ایک بندہ اپنے منہ سے کہتا ہے کہ میں اللہ اور رسول پر ایمان لاتا ہوں تو خدا تعالیٰ بھی یہی کہتا ہے کہ بہت اچھا.پس جماعت سے اخراج کا جو بھی اعلان ہو وہ احمدیت سے اخراج کا مفہوم نہیں رکھتا.میں یہ تشریح کر دیتا ہوں تا لوگ دھوکے میں نہ رہیں.اس کے معنے صرف یہ ہیں کہ جس غرض کے لئے خلافت کو قائم کیا گیا ہے اور جو عظیم الشان مقصد اس کا رکھا گیا ہے کہ لوگ ایک نظام کے ماتحت آئیں چونکہ وہ شخص اس میں اشتراک عمل کے لئے تیار نہیں ہو تا اس لئے وہ ہمارے ساتھ کام نہیں کر سکتا ہم اسے جماعت سے علیحدہ کر دیتے ہیں مگر احمدیت سے نہیں نکالتے.بلکہ نکال سکتے ہی نہیں.ہمارا احمدیت سے نکالنے میں کسی قسم کا اختیار نہیں ہے.میں ساتھ ہی اپنی جماعت کے دوستوں کو یہ نصیحت کرنی چاہتا ہوں کہ وہ اپنے معاملات میں عقل اور تدبیر سے کام لیا کریں.در حقیقت جوش کے وقت ہی انسان کی عقل اور اس کے ایمان اور اس کے تعلقات کی آزمائش ہوتی ہے.وہی وقت ہو تا ہے جب پتہ لگتا ہے کہ اس کا تعلق دین سے کس قدر ہے.ایک عورت کا ذکر ہے کہ رسول کریم میں نے اسے دیکھا کہ وہ اپنے مُردہ دیکھا بچہ پر رو رہی ہے.آپ نے اسے فرمایا اے عورت صبر کرو.وہ کہنے لگی جس کے بچے مر جائیں اسے ہی پتہ لگتا ہے کہ بچوں کے مرنے کا کتنا صدمہ ہوتا ہے.آپ نے تو اسے نصیحت کرنی تھی آگے اس کا اختیار تھا چاہے مانتی یا نہ مانتی.آپ اتنا فرما کر کہ میرے تو کئی بچے فوت ہو چکے ہیں وہاں سے چل دیئے.کسی نے اس عورت سے کہا بیوقوف تجھے پتہ بھی ہے یہ کہنے والا کون تھا.یہ تو مجھ میں لیے تھے.وہ یہ سنتے ہی بھاگتی ہوئی آئی اور آکر رسول کریم میں اللہ سے کہا یا رسول اللہ ا میں نے صبر کیا.آپ نے فرمایا صبر تو پہلے موقع پر ہی ہوتا ہے.رو دھو کر تو سب کو صبر آجاتا ہے کون ہے جو ہمیشہ ہی روتا رہتا ہے رونے والوں کو آخر ایک عرصہ کے بعد صبر آہی جاتا ہے.صرف ایک

Page 111

خطبات محمود سال ۱۹۳۱ء عورت مشہور ہے جس نے اپنے بھائی کو رونا شروع کیا اور وہ پھر ساری عمر روتی رہی اس کا نام خنساء تھا.وہ عرب کی مشہور شاعرہ گزری ہے.اس نے اپنے بھائی کی یاد میں نہایت دردانگیز مرثیے کے ہیں اور وہ ہمیشہ اس کا ذکر کر کے روتی رہی.حضرت عمر نے بھی ایک دفعہ اس عورت کو بلایا اور اس سے مرضیہ سنا.حضرت عمر پر بھی اتنا اثر ہوا کہ آپ بھی رونے لگ گئے.کسی نے پوچھا اپنے بھائی کی یاد اتنی آخر کیوں رکھتی ہو.کہنے لگی میرا خاوند اچھا امیر آدمی تھا مگر جواری اور شرابی تھا.اس نے اپنی تمام دولت عیاشی میں گنادی.جب سب کچھ لٹا چکا اور ہم سخت تنگ ہو گئے تو میں نے اسے کہا آؤ ہم اپنے بھائی کے پاس چلیں اور اس سے کہیں کہ وہ ہماری مدد کرے.میں اپنے بھائی کے پاس گئی اور اس نے اپنی آدمی دولت تقسیم کر کے مجھے دیدی مگر تھوڑے دنوں کے بعد میرے خاوند نے وہ تمام دولت پھر شراب اور جوئے میں اُڑا دی اور پھر جب ہم تنگدست ہوئے تو میں نے کہا چلو پھر اپنے بھائی کے پاس چلتے ہیں.میں جو وہاں گئی تو اس نے پھر اپنی آدھی دولت مجھے دیدی مگر میرے خاوند نے پھر دولت گنادی خنساء کہتی ہے میں نے پھر اس سے کہا چلو پھر اپنے بھائی کے پاس چلیں اور جب میں سہ بارہ گئی تو میری بھاوج نے میرے بھائی سے کہا یہ روز مال ضائع کر کے اور دولت لٹا کر آجاتے ہیں انہیں تم کیوں مال دیتے ہو مگر میرے بھائی نے اس کی بات نہ مانی اور پھر اپنی آدھی دولت ہمیں دیدی اور میری بھاوج سے کہا تجھے کیا ہے اگر میں مرگیا تو تو اور خاوند کرلے گی مجھ پر اگر کوئی روئے گی تو یہ میری بہن روئے گی اور کون مجھ پر نوحہ کرے گا.پس اگر میں ایسے فیاض اور نیک دل بھائی کو یاد نہ کروں تو اور کیسے کروں.حضرت عمر کے بھائی بھی اسلام کی راہ میں شہید ہو چکے تھے اور آپ کو بھی اپنے بھائی کا سخت صدمہ تھا.آپ نے خنساء کے مرثیوں کو سن کر کہا کہ مجھے شعر کہنا آتا تو میں بھی اپنے بھائی کا مرضیہ کہتا.مگر معلوم ہوتا ہے کہ وہ عورت بہت ذہین تھی.کہنے لگی جو مبارک موت آپ کے بھائی کو نصیب ہوئی اگر اسی طرح میرا بھائی بھی شہید ہو تا تو میں تو کبھی اس کا مرضیہ نہ کہتی.تو جوش کے وقتوں میں ہی انسانی تعلقات کا اندازہ ہوتا ہے.یہ میں نے ایک مثال بتائی ہے جو وفاداری کی مثال ہے.اگر چہ اسلام نے اس قسم کے رونے کو بھی پسند نہیں کیا.صرف خاوند والی عورت کے لئے ایک مدت رکھ دی ہے اور کہہ دیا ہے اس سے زیادہ سوگ نہیں کرنا چاہئے.وگر نہ باقیوں کے لئے تو تین دن سے زیادہ سوگ کو بھی پسند نہیں کیا.اس کے بعد سینہ کے جوش ٹھنڈے ہو جاتے ہیں صرف مصنوعی ذرائع سے انہیں بعد میں تیز کیا جاتا ہے.تو وہ جوش جو چند دنوں کے بعد خود بخود ٹھنڈے ہونے

Page 112

خطبات محمود 1.6 سال ۱۳۱ ۱۹۳ء والے ہوں اگر ان میں بھی انسان اپنے نفس کو قابو نہ رکھے تو کس قدر افسوس ہو گا.میں نے بیسیوں آدمیوں کو دیکھا ہے وہ ایک دوسرے سے لڑتے ہیں اور پھر کہتے ہیں اس شخص سے تو میری صلح بالکل ناممکن ہے مگر تھوڑے ہی دنوں کے بعد ان دونوں میں پھر محبت قائم ہو جاتی ہے.اور میں جب ان سے کہتا ہوں بتاؤ تم تو کہتے تھے میری اس سے بالکل صلح نہیں ہو سکتی پھر کس طرح صلح ہو گئی.تو وہ یہی جواب دیتے ہیں کہ وہ تو غصے کی بات تھی اب غصہ جاتا رہا.تو یہ جلد بازی ہوتی ہے کہ جوش کے وقت انسان اپنے نفس پر قابو نہ رکھ سکے.احمدیت ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ ہم جوش کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھیں اور اگر ہم اسی لڑکے سے سبق حاصل کر لیں جس سے ایک دفعہ میں نے سبق سیکھا تھا تو یہ بھی اچھی بات ہے.میں چھوٹا تھا ہماری ایک کشتی تھی بعض لڑکے ہماری عدم موجودگی میں اس کشتی کو پانی میں لے جاتے اور ایسی بری طرح استعمال کرتے کہ اسے نقصان پہنچ جاتا.آخر اس کشتی میں ٹوٹ جانے کی وجہ سے پانی آنے لگا.مجھے بڑا غصہ تھا میں اپنے ہمجولیوں سے کہتا رہتا کہ مجھے ایک دفعہ لڑکے پکڑ دو جو اس کشتی کو خراب کر دیتے ہیں پھر میں انہیں خوب سزا دوں گا.خیر وہ نہ پکڑے گئے اور کشتی برابر خراب ہوتی چلی گئی اور میرا غصہ بھی بڑھتا گیا.ایک دن انہیں ہمارے ساتھیوں میں سے کسی لڑکے نے کشتی پر سوار دیکھ لیا اور اس نے آکر مجھے اطلاع دی کہ چلیں اب موقع ہے.میں گیا وہ لڑکے احمدی تو نہیں تھے مگر ہماری ریاست کی وجہ سے مجھ سے ڈرتے تھے.انہوں نے جو نہی مجھے دیکھاڈر کر بھاگ گئے صرف ایک لڑکا پکڑا گیا.مجھے غصہ تھا میں نے اسے مارنے کے لئے زور سے جو اپنا ہاتھ اٹھا یا تو بجائے اس کے کہ وہ مقابلہ کرتا اس نے جھٹ اپنا منہ میرے سامنے کر دیا اور پنجابی میں کہا "اچھا جی مارکو." اس کا یہ کہنا تھا کہ معا میرا ہاتھ شل ہو گیا اور میرا سارا غصہ جاتا رہا بلکہ بعد میں میں نے اپنے نفس میں ندامت محسوس کی.تو اگر اسی طرح ہماری جماعت میں لڑنے والوں کو ، ظلم کرنے والوں اور دوسری تعدی کرنے والوں کو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ اس طریق کو چھوڑ دیں تو کم از کم ہمارے مظلوم ہی اس طریق کو اختیار کریں.چند ہی دنوں میں دیکھ لیں گے کہ کس طرح آپس میں صلح قائم ہو جاتی اور عداوت دور ہو جاتی ہے.اگر کوئی گالیاں دے رہا ہے تو آگے سے یہ بھی لال پیلی آنکھیں نہ نکالے بلکہ کہے اگر تم احمدیت کی تعلیم پر عمل نہیں کرتے تو نہ سہی میں احمدیت کی تعلیم کو نہیں چھوڑ سکتا تمہاری گالیوں کے مقابل پر میں کوئی گالی دینے کے لئے تیار نہیں.اسی طرح اگر کوئی مارنے لگے تو کہو مار لو میں تم پر ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا.ہاں یہ ضرور یاد رہے یہ طریق اپنوں کے

Page 113

خطبات محمود سال ۱۹۳۱ء لئے ہے دشمنوں کے لئے نہیں.حضرت مسیح ناصری کی تعلیم صرفہ یہ ہے کہ دشمن کا مقابلہ نہ کیا جائے اور اگر کوئی ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا بھی پیش کر دیا جائے.مگر دشمنوں کے سامنے اس قسم کی تعلیم ہر وقت کام نہیں آتی ہاں دوستوں پر یہ تعلیم نہایت گہرا اثر کرتی ہے.البتہ دل میں کینہ بٹھانے والا چونکہ اس طریق سے متاثر نہیں ہو سکتا اس لئے اس کے لئے سزا کا طریق بھی جاری کیا گیا ہے.اگر حضرت مسیح ناصری سزا کا طریق بھی جاری کرتے تو کون انسان ان کی اس تعلیم کی خوبی سے انکار کر سکتا مگر انہوں نے صرف ایک پہلو پر زور دیا.پس ہم یہ نہیں کہتے کہ حضرت مسیح کی تعلیم کسی جگہ بھی کار آمد نہیں بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ جزو ہے کل کا.اسلام نے کل پیش کیا ہے مگر حضرت مسیح نے اس کا ایک جزو پیش کیا.پس ہمارا اعتراض تعلیم کی خوبی پر نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ یہ تعلیم ہر جگہ کام آنے والی نہیں اپنی جگہ بے شک یہ ایک مفید تعلیم ہے.رسول کریم میر کی فتح اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فتح اور ان تمام انبیاء کی فتح جن کی تاریخیں محفوظ ہیں اور جن پر ایمان لانا ہمارے فرائض میں داخل ہے حلم بردباری، محبت اور ، پیار سے ہی ہوئی.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی مجلس میں ایک شخص آیا اور آپ کو آتے ہی گالیاں دینے لگ گیا اور جب خوب گالیاں دے چکا اور بیٹھ گیا تو آپ نے فرمایا تسلی ہو گئی یا کچھ اور ہی جاتی ہے.اسی طرح ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام لاہور تشریف لے گئے تھے وہاں راستہ میں ایک شخص نے آپ کو دھکا دیدیا.لوگ اس کو مارنے لگے مگر آپ نے فرمایا نہیں اسے کچھ نہ کہو.اس نے تو اپنے اخلاص سے ہی دھکا دیا ہے.وہ دراصل مدعی نبوت تھا.آپ نے فرمایا اس نے سمجھا ہے کہ ہم ظالم ہیں اور اس کا حق مار رہے ہیں اس لئے اس نے دھکا دیدیا.پیغمبر اسنگھ جو یہاں آیا کرتے تھے ان کا وہ بھائی تھا.وہ سنایا کرتے تھے کہ میرا بھائی بعد میں ساری عمر شرمندہ رہا اور کہتا تھا مجھ سے تخت غلطی ہوئی کہ میں نے حضرت مرزا صاحب کو دھکا دیا.تو اخلاقی نمونہ اور محبت کا اثر تو پاگلوں پر بھی ہو جاتا ہے صحیح عقل والوں پر کیوں نہ ہو گا.ہمارے بہت سے جھگڑے آسانی سے آپس میں طے ہو سکتے ہیں سرکاری عدالتوں میں جانے کی ضرورت ہی نہیں رہتی بلکہ سلسلہ کی عدالتوں میں بھی نہیں جانا نہیں پڑ تابشر طیکہ ہم انہیں خود سلجھا لیں.پھر ہمارے پاس اتنی دولت ہی کہاں ہے جس کے متعلق اپنے جھگڑے عدالتوں میں لے جایا کریں.اور وہ دولت جو ایمان اور سلسلہ کے نظام سے علیحدہ کر دینے والی ہو وہ تو جہنم کی آگ ہے دولت نہیں.مگر میں کہتا ہوں ہمارے پاس دولت ہے ہی کہاں.ہماری ایک کنگال جماعت

Page 114

خطبات محمود 1.9 سال ۱۹۳۱ء ہے.ہمارے امراء بھی دوسرے امراء کے مقابلے میں غریب ہیں.مجھے حضرت خلیفہ اول کی ایک بات ہمیشہ یاد رہتی ہے.آپ سے کسی نے کہا آپ کی جماعت میں تو بڑے بڑے امراء ہیں.آپ نے فرمایا مجھے تو کوئی نظر نہیں آتا.اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ہماری جماعت کے امراء کی دوسری جماعتوں کے امراء کے مقابلہ میں کچھ بھی حقیقت نہیں بلکہ وہ تو ایسوں کو نو کر رکھ سکتے ہیں.جب ہماری جماعت کی یہ حالت ہے تو آپس میں لڑنا جھگڑنا اور مقدمات کرنا اور ان کو لمبا کرنا کتنی سخت حماقت ہے.نرمی محبت اور عفو سے کام لینا چاہئے ورنہ پھر نہ نظام سلسلہ کا کوئی فائدہ ہو سکتا ہے نہ ایمان کا کوئی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے اور نہ ہی جماعت میں شامل ہونے سے کوئی فائدہ مترتب ہو سکتا ہے.اگر ہمارے اخلاق اچھے نہ ہوں بلکہ ہم درندے بنے ہوئے ہوں تو ہمیں جماعت میں داخل ہونے سے کیا فائدہ.پس علاوہ اس کے میں اعلان کرتا ہوں کہ میں نظام سلسلہ کی بغاوت کو قطعا برداشت نہیں کر سکتا میں ہمیشہ عفو سے کام لیا کرتا ہوں.مگر ایسے موقع پر عفو کرنا سلسلہ ہے دشمنی کرنا ہوتا ہے) نصیحت کرتا ہوں کہ عدالتیں چھوڑ ہمارے مقدمات قضاء میں بھی نہیں آئے چاہئیں.مومن کاج تو اس کا دل ہوتا ہے پھر ہمارے دل سے بڑھ کر اور کونساج فیسا کر سکتا ہے.کہتے ہیں ایک بزرگ کو قاضی القضاة بنادیا کیا دوست مبارکباد دیتے آئے تو دیکھا کہ وہ زورت ہیں.انہوں نے کہا یہ رونے کا کونسا مقام ہو سکتا ہے.آپ خوش ہوں کہ آپ کو قاضی بنا دیا گیا.انہوں نے جواب میں کہا اس سے بڑھ کر رونے کا مقام اور کونسا ہو سکتا ہے کہ مدعی کو بھی پتہ ہو گا کہ حقیقت کیا ہے اور مدعا علیہ کو بھی پتہ ہو گا کہ حقیقت کیا ہے وہ دونوں سو جا کھے ہوں گے مگر مجھے کچھ پتہ نہیں ہو گا میں ایک اندھا ہوں گا اور ان کے درمیان فیصلہ کروں گا کیا یہ رونے کا مقام نہیں؟ تو دو سرامج تو کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتا.اگر انسان ایمان کی آنکھ سے دیکھے تو اسے حج کی ضرورت نہیں رہتی.میں نے یہ واقعہ کسی تاریخ میں تو نہیں دیکھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ اسلام سے سنا ہے.آپ فرماتے تھے ایک صحابی اپنا گھوڑا بیچنے نکلے انہوں نے اس کی قیمت دو سویا تین سو دینار بتائی دوسرے صحابی جو اس گھوڑے کو خریدنا چاہتے تھے کہنے لگے میرے اندازہ میں یہ گھوڑا زیادہ قیمت کا ہے پس میں اس سے زیادہ قیمت دوں گا.بیچنے والے کہیں کہ اپنے حق سے زائد نہیں لے سکتا میں اتنی ہی لوں گا.یہ وہ لوگ تھے جو اخلاق کا صحیح نمونہ تھے.مومن کو کوشش کرنی چاہئے کہ بجائے اس کے کہ دوسرے کا حق مارنے کی کوشش کرے دو سرے کا حق دینے کی کوشش کرے.بلکہ اگر کوئی ہم سے اپنا حق لینے کا مطالبہ نہ کرے تو ہم اس پر ناراض ہوں.اگر ہم

Page 115

سال ۱۹۳۱ء اس روح کو پیدا کر لیں تو ہماری جماعت کے اندر کبھی جھگڑے اور فسادا.پیدا نہ ہوں.اور اب تو ہماری جماعت روحانی بلوغت کو پہنچ چکی ہے اب ہمارے اندر قربانی کا زیادہ مادہ ہونا چاہئے اور اپنے جھگڑے اور فسادات کو جس حد تک کم ہو سکیں کم کرنا چاہئے.اللہ تعالٰی ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اس کے حکموں پر عمل کریں اور ہمارے اندر نیکی تقومی اور صلاحیت کی روح پیدا ہو اور جھگڑے اور فسادات ہمارے اندر سے دور ہو جائیں.حضور جب دوسرے خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے تو ایک صاحب نے کھڑے ہو کر دریافت کیا حضور جس شخص کے جماعت سے اخراج کا حضور نے اعلان کیا ہے اس کا نام کیا ہے ؟ اس پر کسی نے کہہ دیا خطبے میں نہیں بولنا چاہئے.حضور نے اس پر مسکراتے ہوئے فرمایا ) ایک پر انا لطیفہ تھا وہی اب ہو گیا.خطبے میں بولنا منع ہے مگر ایک صاحب بول ہی پڑے.جس شخص کا میں نے ذکر کیا ہے اس کا نام امور عامہ کے بورڈ پر لکھا جاچکا ہے.(بعد میں یہ صاحب مقدمہ واپس کر کے معافی مانگ چکے ہیں.اس وجہ سے نام لکھنے کی ضرورت نہیں.یہ صاحب جو بولے ہیں ان کی عادت ہے کہ ایسے موقع پر اپنے نفس کو قابو میں نہیں رکھ سکتے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی تلاشی کا واقعہ سنارہے تھے.یہ تلاشی پنڈت لیکھرام کے واقعہ قتل کے سلسلہ میں سپرنٹنڈنٹ پولیس گورداسپور نے لی تھی.آپ نے فرمایا سپر نٹنڈنٹ پولیس ایک چھوٹے دروازہ میں سے گزرنے لگا تو اس کے سر کو سخت چوٹ آئی اور سر چکرا گیا ہم نے اسے دودھ پینے کو کہا لیکن اس نے انکار کیا کہ اس وقت میں تلاشی کے لئے آیا ہوں اور یہ میرے فرض منصبی کے مخالف ہو گا.اس پر یہی صاحب جو اب بولے ہیں جھٹ بولے.حضور اس کے سر میں خون بھی نکلا تھا یا نہیں.حضرت صاحب نے ہنستے ہوئے فرمایا میں نے اس کی ٹوپی اتار کر نہیں دیکھی تھی.ا خیر تو خطبے میں بولنا منع ہے.مگر لطیفہ یہ ہے کہ خطبے میں ہی ایک دوسرے صاحب نے انہیں نصیحت کر دی ہے کہ خطبے میں بولنا نہیں چاہئے.یہ ویسی ہی بات ہے جیسے کہتے ہیں کہ کہیں جماعت ہو رہی تھی.ایک شخص آیا اور کہنے لگا السّلامُ عَلَيْكُم.نماز پڑھتے ہوئے ہی ایک شخص کہہ اُٹھا وَعَلَيْكُمُ السّلام دوسرا کہنے لگا تمہیں پتہ نہیں نماز میں بولنا منع ہے پھر تو نے سلام کا جواب کیوں دیا تو خطبے میں بولنا بھی منع ہے اور بول کر منع کرنا بھی منع ہے بعد میں منع کیا جا سکتا ہے یا اشارہ سے سمجھایا جائے.خطبے میں نہیں بولنا چاہئے ہاں امام خود بول کر منع کر سکتا ہے.الفضل ۲۶ مارچ ۱۹۳۱ء)

Page 116

خطبات محمود بخارى كتاب الجنائز باب زيارة القبور کے خنساء کے بھائی کا نام مخر تھا سال ۱۹۳۱ء غالباً سہو ہے.یہ الفاظ حضرت عمر نے متمم بن نویرہ سے کیے تھے.جس نے اپنے بھائی مالك بن نويرة كا مرقيہ کہا تھا (اسد الغابة )

Page 117

خطبات محمود ۱۱۲ 13 مسلمان غیروں کے مقابلے میں متحد ہو جائیں (فرموده ۲۷- مارچ ۱۹۳۱ء) سال ۱۹۳۱ء تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- اگر چہ گلے کی خرابی کی وجہ سے میں زیادہ بول نہیں سکتا مگر میں سمجھتا ہوں یہ وقت اس قسم کا ہے کہ اپنی مجبوریوں کے باوجود بھی اب ہم سب کو کام کرنا پڑے گا اور گو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جا تا مگر طاقت کا اندازہ بھی زمانوں کے ساتھ بدلتا رہتا ہے.ایک شخص اگر بیمار پڑا ہو تو تھوڑے سے کام کے لئے بھی کوئی اسے نہیں کے گالیکن اس گھر میں اگر آگ لگ جائے تو اسے بے اختیار اٹھ کر بھاگنا پڑے گا.اس وقت بھی اگر چہ وہ اپنی طاقت کے مطابق ہی کام کرے گا مگر اس وقت طاقت کا اندازہ بدل جائے گا گویا طاقت کا اندازہ بھی حالات کے مطابق بدلتا رہتا ہے.ایک وقت تھوڑی کمزوری کے عذر کو بھی تسلیم کر لیا جاتا ہے مگر دوسرے وقت اوسط درجہ کی کمزوری کا عذر ہی قابل سماعت ہوتا ہے اور معمولی کمزوری کا لحاظ نہیں کیا جاتا.پھر ایک وقت وہ بھی ہوتا ہے جب انتہائی کمزوری کا عذر ہی مانا جا سکتا ہے اور اس سے کم کا مذر تسلیم نہیں کیا جا سکتا.پس طاقتوں کے اندازے زمانہ کی حالت کے لحاظ سے بدلتے رہتے ہیں.یہی حال اس وقت ہے.اب ایسا زمانہ آگیا ہے کہ عام مسلمانوں کے لئے عموماً اور احمدیوں کے لئے خصوصاً اپنے نفسوں پر زور دینے کے دن ہیں.سیاسی خطرات اپنے ساتھ مذہبی خطرات بھی لا ر ہے ہیں.ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے اخبار " سٹیٹسمین " میں مسٹر گاندھی کا ایک انٹرویو شائع ہوا جس میں لکھا تھا سو راج کے زمانہ میں اگر غیر ملکی مشنری ہندوستانیوں کے عام فائدہ کے لئے روپیہ خرچ کرنا چاہیں گے تو اس کی تو انہیں اجازت ہوگی لیکن اگر وہ لوگوں کو

Page 118

محمود ١١٣ سال ۱۹۳۱ء عیسائیت کی تبلیغ کریں گے تو میں انہیں ہندوستان سے نکل جانے پر مجبور کروں گا جس کے معنے سوائے اس کے اور کوئی نہیں ہو سکتے کہ ہندوستانیوں کی اپنی حکومت کے زمانہ میں مذہبی تبلیغ بند ہو جائے گی کیونکہ اگر عیسائیت کی تبلیغ ممنوع ہوگی تو اسلام کی تبلیغ بھی یقینا جاری نہیں رہ سکے گی اور مسٹر گاندھی اور ان کے چیلوں سے امید بھی یہی ہے کہ وہ مذہبی تبلیغ کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے.اس بیان کے شائع ہونے کے بعد درد صاحب جو ان دنوں دہلی میں تھے گاندھی جی سے ملے اور ان سے دریافت کیا کہ کیا آپ نے سوراجیہ میں مذہبی تبلیغ کی بندش کا اعلان کیا ہے.گاندھی جی نے اس سے انکار کر دیا لیکن درد صاحب نے جب اخبار نکال کر سامنے رکھا تو کہنے لگے ہاں ایسی گفتگو ہوئی تو ضرور تھی مگر میرا مطلب یہ نہ تھا جو شائع ہوا ہے بلکہ میرا مطلب صرف یہ تھا کہ جاہل اور غیر تعلیم یافتہ لوگوں کو تبلیغ کرنا مناسب نہیں ہاں میرے جیسے لوگوں کو تبلیغ کی جاسکتی ہے.لیکن یہ گذر گناہ بدتر از گناہ کا مصداق ہے اور اس کے معنے بھی یہی ہیں کہ تبلیغ بند کردی جائے گی.تعلیم یافتہ لوگوں تک تبلیغ کو محدود رکھنے کے یہ معنی ہیں کہ اعلان کر دیا جائے گا اس ملک میں صرف گاندھی جی ، مسٹر پٹیل ، پنڈت مالوی ، پنڈت جواہر لال نہرو اور مسٹر رنگا سوامی آئر و غیره چند ایک لوگوں کو ہی تبلیغ کی جاسکتی ہے باقی چونکہ سب جاہل ہیں اس لئے انہیں کسی قسم کی تبلیغ نہیں کی جاسکتی اور اس وقت تمام مبلغوں کو سوائے اس کے چارہ نہ ہو گا کہ ان لوگوں کے دروازوں پر جا کر بیٹھے رہیں.اس پابندی کو مد نظر رکھتے ہوئے کون عظمند یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ تبلیغ کی اجازت ہو گی.یہ تو تبلیغ کی بندش کا ایک نہایت نا معقول بہانہ ہے.پھر ایک اور غور طلب امر یہ ہے کہ گاندھی جی نے ان پڑھوں اور جاہلوں کے اوپر اپنے آپ کو ہی رکھا ہے.گویا ان کے سوایا ان جیسی شخصیت رکھنے والے چند ایک لوگوں کے سوا باقی تمام اہل ملک جاہل ہیں.لیکن اگر یہ بھی تسلیم کر لیا جائے کہ جاہل سے ان کی مراد ادنی اقوام ہیں تو بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان بیچاروں کو ہمیشہ کے لئے ہی اسی حالت میں رکھا جائے گا اور کبھی بھی چوہڑوں، چماروں سانسیوں اور گونڈ بھیل وغیرہ اقوام کو علم و تہذیب نہ سکھائی جائے گی کیونکہ اگر کوئی سکھائے گا تو پھر یہی سوال پیدا ہو گا کہ کیوں سکھاتا ہے.کچھ سکھانا اگر امریکن مشنریوں کے لئے مجرم ہو گا تو مسلمان مبلغین کے لئے بھی جائز نہیں ہو سکتا کیونکہ جو بات قانونا جرم ہو وہ سب کے لئے ہی جُرم ہوگی.یا پھر اس کے یہ معنے ہوں گے کہ ہندوؤں کو ہندو ہی سکھا سکیں گے اور یہ بھی تبلیغ کی بندش کے ہی مترادف ہے.

Page 119

۶۱۹۳۱ ۱۱۴ خطبات محمود غرضیکہ جو تغیرات ملک میں ہونے والے ہیں اور جو باتیں ظاہر ہو رہی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر یہ حالات نہ بدلے اور ہندو لیڈروں کی دماغی حالت کی اصلاح نہ ہوئی تو ہندوستان میں ایک بھاری کشمکش شروع ہو جائے گی.لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مسلمان اس کے لئے تیار ہیں ؟ قطعاً نہیں.مسلمانوں کی حالت اس وقت بالکل بنیوں کی سی ہے.پہلے بنیوں کی جس حالت پر ہم ہنتے تھے اب بعینہ وہی حالت مسلمانوں کی ہو رہی ہے.بنیوں کا قاعدہ تھا کہ جب آپس میں لڑتے تو ایک دوسرے کو فحش گالیاں دیتے جو اس میں بڑھ جاتا اسے دوسرا کہتا اچھا اب گالی دو تو تمہیں بتاؤں پھر وہ دو چار گالیاں دے دیتا اور وہ کہتا اچھا اب دے کر دیکھ.وہ پھر گالیاں دے دیتا.اس پر کہتا اچھا اب دے کے دیکھو پنیری مارتا ہوں یا نہیں.اس پر پنسیری اٹھا کر اسے حرکت دیتا.وہ پھر دو چار گالیاں دے دیتا اور کہتا پنیری مار کے تو دیکھ.اب یہ مقابلہ شروع ہو جاتا.وہ کہتا مار پنیری اور یہ کہتا تو نکال گالی.اس تقرار میں بہت سے ہندو جمع ہو جاتے اور سمجھتے بہت بڑا فساد ہو گیا ہے.مگر اب مسلمانوں کا یہی حال ہے.وہاں تو بنیا پنسیری مارتا نہیں تھا صرف ہاتھ میں پکڑ کر ہلاتاہی تھا مگر اب جہاں بھی فساد ہو مسلمان مارے جاتے ہیں اور ہر فساد کے بعد مسلمان اعلان کر دیتے ہیں تم ہمیں جانتے نہیں ہم اچھی طرح تمہاری خبر لیں گے اور تمہیں بتادیں گے کہ مسلمانوں پر حملہ کرنے کا کیا نتیجہ ہوتا ہے مگر معلوم نہیں ان کے بتانے کا وقت کب آئے گا.مالی طور پر وہ ہندوؤں کے غلام بن چکے ہیں، ذہنی طور پر ان کے زیر اثر ہیں ، تعلیمی اور دنیوی ترقیات کا راستہ ہندوؤں نے ان پر بند کر رکھا ہے اور تبلیغ کہ یہی ان کی قومی ترقی کا واحد ذریعہ ہے اسے بھی بند کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں.سوراجیہ مل جانے کے بعد اگر مسلمانوں نے اس پر شور و شرکیا تو گاندھی جی صاف کہہ دیں گے میں نے کوئی دھوکا تو نہیں کیا میں نے پہلے ہی اعلان کر دیا تھا جو ”سٹیٹسمین ” میں چھپ بھی چکا ہے.اس وقت ساری دنیا مسلمانوں کو ہی ملامت کرے گی کہ اگر تمہیں کوئی اعتراض تھا تو اس وقت کیوں نہ بولے.لیکن مسلمان ہیں کہ ہر طرف سے مار کھاتے ہیں مگر کہے یہی جاتے ہیں کہ اب مار کر دیکھو.آخر اس کا نتیجہ کیا ہو گا؟ انسان ہمیشہ کے لئے تو مار برداشت نہیں کر سکتا ایک دن خاتمہ ہو جائے گا اور آئندہ نسلوں کے لئے ان کا یہی فقرہ یاد گار رہ جائے گا کہ اب مار کر دیکھو.لیکن کیا بعد میں آنے والے اس یاد گار کو عزت و فخر کے ساتھ دیکھیں گے نہیں بلکہ اسے خفت کے ڈر سے چھپانے کی کوشش کریں گے.کیونکہ یہ بہادری نہیں بلکہ ذلت و رسوائی کے آثار

Page 120

محمود ۱۱۵ سال ۱۹۳۱ء ہیں.یو پی میں ہندوؤں کی طرف سے مسلمانوں پر تشدد کے واقعات برابر ہو رہے ہیں.پہلے بنارس میں فساد ہوا.پھر آگرہ اور میرزا پور میں اور اب کانپور میں ہندوؤں نے مسلمانوں کو نہایت بے دردی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا ہے لیکن مسلمان ہیں کہ آرام سے اپنی اپنی جگہ بیٹھے ہیں اور سمجھتے ہیں، بنارس والوں کو ہی مار پڑی ہے ہمیں تو کسی نے کچھ نہیں کہا حالانکہ جس جگہ بھی مارا گیا ہے مسلمان ہونے کی وجہ سے ہی مارا گیا ہے.اور اگر اسی طرح ہو تا گیا تو آہستہ آہستہ سب کی باری آجائے گی.پس مسلمانوں کے زندہ رہنے کی یہی صورت ہے کہ وہ متحد ہوں.ایک مقام پر اگر مسلمانوں پر ظلم ہو تو تمام مسلمان اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر یہ سمجھ لیں کہ یہ ان پر نہیں بلکہ ہم پر ظلم ہوا ہے اور پھر جو کچھ ان کے اختیار میں ہو اور ان کے عقائد کے مطابق درست ہو اس کے مطابق اپنے بھائیوں کی امداد کریں ہاں کسی سے اس کے عقیدہ کے خلاف امید رکھنی درست نہیں.ہر جگہ کے مسلمان اگر اب بھی اس طرح کریں تو ان کا رعب چونکہ ابھی باقی ہے گو طاقت جاتی رہی ہے وہ تباہی سے بچ سکتے ہیں.کیونکہ رُعب بھی ایک بہت بااثر چیز ہے.کہتے ہیں رستم کے گھر میں کوئی چور داخل ہو گیا.رستم اس وقت بوڑھا اور ضعیف ہو چکا تھا.چورنے اسے نیچے گر الیا اور چھاتی پر بیٹھ کر تیار تھا کہ اس کا گلا دبا دے کہ اس نے کہا وہ رستم آگیا.اس کا اتنا کہنا تھا کہ چور خوفزدہ ہو کر اسے چھوڑ کر بھاگ گیا کیونکہ اسے تو و ہم میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ میں رستم کو گرا سکتا ہوں وہ تو یہ سمجھ کر کہ اس کا کوئی معمولی نوکر ہے اس کی چھاتی پر چڑھ بیٹھا تھا.تو مسلمانوں کا رعب ابھی تک باقی ہے مگر روز برو زدہ کمزور ہوتے جارہے ہیں اور اگر اسی طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے وہ مار کھاتے رہے تو جو کچھ اپنے زمانہ میں سکھوں نے ان کے ساتھ کیا تھا وہی بلکہ اس سے بھی زیادہ اب ہندو کریں گے.اور جب کوئی قوم مار کھاتی جاتی ہے تو حکومت بھی اس کی کوئی مدد نہیں کرتی حکومت زبر دست کا ساتھ دیتی ہے.دیکھ لو جہاں جہاں فسادات ہوئے مقدمات میں ہندو تو چھوٹ گئے مگر مسلمان پکڑے گئے حتی کہ گواہیاں دینے والے مسلمان بھی دھر لئے گئے.ایک واقعہ تو ہمارے علم میں بھی ایسا ہوا.فسادات لاہور کے سلسلہ میں پہلے تو پولیس والے پیچھے پیچھے پھرتے تھے کہ لوگ گواہیاں دیں لیکن جب ایک مسلمان نے گواہی دی تو اسے بھی ایک اور مقدمہ میں پھانس دیا اور آخر وہ دس سال کے لئے جیل میں بھیج دیا گیا.تو گور نمنٹ بھی ایسے موقع پر زبر دست کاری ساتھ دیتی ہے.ڈھاکہ بنارس ، آگرہ، میرزا پور وغیرہ سب جگہ یہی ہو رہا

Page 121

خطبات محمود ہے.اور اب بھی دیکھ لینا کانپور میں یہی ہو گا.ہندوؤں کے پاس روپیہ ہے ، اثر ہے ان کے وکیل ہیں ، اتحاد اور اتفاق ہے مگر مسلمانوں کا کوئی جتھا نہیں.پھر ایسے فسادات کے موقع پر مسلمان تو اپنے بھائیوں کی مدد کرتے نہیں اور پولیس کا اپنا کوئی Interest ہوتا نہیں اس لئے مقدمات خراب اور ملزم بری ہو جاتے ہیں غرضیکہ یو پی میں مسلمانوں پر سخت مظالم ہو رہے ہیں.اور جب یہ وباء پھیل گئی تو یہ ایک ہی صوبہ سے مخصوص نہیں رہے گی بلکہ ہر جگہ پھیل جائے گی.پس میں احباب جماعت کو خصوصیت سے متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ یہ دن کام کرنے کے ہیں.ہم بے شک مذہبی طور پر پابند ہیں کہ قانون کی پابندی کریں مگر مجھے یقین ہے کہ ہم قانون کی حدود کے اندر رہتے ہوئے بھی گورنمنٹ پر زور ڈال سکتے اور ظالم کا ہاتھ پکڑ سکتے ہیں.اسلام نے جب قانون کی پابندی کا حکم دیا ہے تو یقینا ہماری مشکلات کے ازالہ کے لئے بھی راستہ رکھا ہے مگر ضرورت ہو کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو عقل دی ہے اس سے فائدہ اٹھایا جائے.اور اس وقت میں انہی صورتوں میں سے جو ہندوؤں کے مظالم سے پیدا ہو رہی ہیں ایک صورت کے متعلق کچھ بیان کرتا ہوں جو خصوصیت سے احمدیوں کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.یوں تو وہ سب مسلمانوں سے تعلق رکھتی ہے مگر بیوقوفی کی وجہ سے بعض مسلمانوں میں یہ مرض ہے کہ اگر ایک کے ساتھ زیادتی ہو تو دوسرے خاموش ہوتے بلکہ خوش ہوتے ہیں اور مظلوم کی مدد نہیں کرتے.ہمارا دامن خدا تعالیٰ کے فضل سے اس سے پاک ہے.جب بھی کسی پر کسی قسم کا ظلم ہو ا ہم نے اس کی ہر جائز طریق سے مدد کی ہے اور انشاء اللہ آئندہ بھی کرتے رہیں گے.اللہ تعالی باقی مسلمانوں کو بھی سمجھ دے کہ وہ بھی ایسا ہی کریں.سرحد میں سنیوں نے جب شیعوں پر ظلم کیا اور ان کو وہاں سے نکال دیا تو ہندوستان کے سنی کچھ نہ بولے بلکہ ان میں سے بعض سنیوں سے سے کسی نہ کسی رنگ میں اظہار ہمدردی کرتے رہے اور اگر چہ ہم بھی سنی ہیں کیونکہ شیعوں سے خلافت کے مسئلہ میں ہمارا اتفاق نہیں مگر میں نے شیعوں سے ہمدردی کا اظہار کیا جس کا شیعوں پر اثر ہوا اور بعض دوسرے مواقع پر انہوں نے مجھے بھی ہمدردی کے خطوط لکھے.پس چاہئے کہ غیر کے مقابل پر تمام مسلمان متحد ہو جائیں.اگر شیعوں پر ہندو ظلم و ستم کریں تو سنی شیعوں کا ساتھ دیں اور اگر حنفیوں پر کوئی زیادتی ہو تو اہلحدیث ان کی مدد کریں اسی طرح سب غیر کے مقابل پر آپس میں متحد ہو جائیں.اگر مسلمان زندہ رہنا چاہتے ہیں تو انہیں ایک ایسا سمجھوتہ کرنا چاہئے کہ اگر دیگر اقوام کی طرف سے کسی اسلامی فرقہ پر ظلم ہو تو خواہ اندرونی طور پر اس سے کتنا ہی شدید اختلاف کیوں

Page 122

خطبات محمود 114 نہ ہو اس موقع پر سب کو متفق ہو جانا چاہئے.یہی وہ چیز تھی جس نے ابتدائی زمانہ اسلام میں باوجود مسلمانوں کے باہمی اختلافات کے انہیں نقصان سے بچائے رکھا.حضرت معاویہ اور حضرت علی میں شدید اختلاف تھا مگر جب شاہ روم کے حملہ کا علم ہوا تو حضرت معاویہ نے انہیں لکھا اگر تم نے اسلامی ممالک پر حملہ کیا تو اگرچہ علی سے میری لڑائی ہے مگر اس کی طرف سے پہلا جرنیل جو تمہارے مقابل پر آئے گا وہ معاویہ ہو گا.اس سے وہ ایسا ڈرا کہ مسلمانوں کی باہم پندرہ ہیں سال تک لڑائیاں ہوتی رہیں مگر اسے جرات نہ ہوئی کہ حملہ کرے حالانکہ مسلمان اس وقت اتنے کمزور ہو چکے تھے کہ روم کی چوتھائی طاقت بھی انہیں مغلوب کر سکتی تھی.اللہ تعالی کا نشاء کیا تھا اس کا تو علم نہیں لیکن ظاہری سامانوں کے لحاظ سے یہی حالت تھی مگر چونکہ ان کے اندر قومی روح زبر دست تھی اس لئے باوجود کمزوری کے دشمن خم کھاتے تھے.آج بھی اگر یہی روح پیدا ہو جائے اور سب مسلمان مخالفوں کے مقابل پر اکٹھے ہو جائیں تو کسی کو ان پر تعدی کرنے کی جرأت نہ ہو.مسلمانوں کے بزرگوں کی ہتک ہو تو سب متفقہ آواز اٹھا ئیں.رسول کریم یا لیلی کی ہتک کی جائے تو اس صورت میں تو سب اکٹھے ہو ہی جاتے ہیں اگر چہ بعض ایسے بھی ہیں جو اس حالت میں بھی دیکھتے ہیں کہ کس مضمون کے جواب میں یہ بنک ہوئی ہے اور ا سوقت بھی اس قسم کے بہانے تلاش کرتے ہیں کہ اگر اپنے آدمی پر حملہ کیا جائے تو بہتر ہے.لیکن رسول کریم کی ذات سے اتر کر اگر کسی اسلامی بزرگ پر حملہ کیا جائے تو بھی سب بیزاری کا اظہار کریں.مسلمان بادشاہوں پر چاروں طرف سے حملے ہوتے ہیں.سیوا جی ایک ڈاکو تھا اور اورنگ زیب ایک بادشاہ مگر اورنگ زیب پر ہر سال بیشمار حملے ہوتے ہیں مگر گورنمنٹ کی رگِ انتظام کبھی نہیں پھڑکتی لیکن سیوا جی کو ڈا کو لکھنے پر اخبارات سے نوٹس لے لیتی ہے اور مقدمہ چلانے کی دھمکی دیتی ہے.حتی کہ امتحان کے پرچوں میں مسلم بادشاہوں کو گالیاں دی جاتی ہیں مگر گورنمنٹ کوئی نوٹس نہیں لیتی کیونکہ وہ جانتی ہے کہ مسلمان شور نہیں ڈالیں گے.اور مسلمان شور کیا ڈالیں گے جب ان کے اپنے اندر ایسے بے غیرت لوگ موجود ہیں جو خود اسکے خلاف مضامین شائع کرتے ہیں.غرض گورنمنٹ اور نگ زیب کی ہتک پر تو کوئی نوٹس نہیں لیتی مگر سیوا جی کو ڈا کو لکھنے پر مقدمہ چلانے کی دھمکی دیتی ہے حالانکہ اس میں کیا شک ہے کہ وہ ایک باغی اور ڈاکو تھا اور ایسا ہی ڈاکو تھا جیسا سندر سنگھ وغیرہ ڈا کو گذرے ہیں.اگر یہی سُندر سنگھ زرا اور طاقت پکڑ کر کسی ایک ضلع پر قابض ہو جاتا تو اس کی وہی حیثیت ہوتی جو سیوا جی کی تھی.لیکن کیا انگریز اس بات کو پسند

Page 123

i ۱۱۸ خطبات محمود کریں گے کہ ان کی حکومت کو تو گالیاں دی جائیں اور سُندر سنگھ کی عزت کی جائے.مگر ان کا اپنا رویہ یہی ہے کہ وہ مسلمان بادشاہوں کی ہتک پر تو خاموش رہتے ہیں مگر سیوا جی کو ڈا کو لکھنے پر نوٹس لیتے ہیں حالانکہ اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ سیوا جی ایک ڈاکو تھا اور اس نے دھوکا سے ایک اسلامی جرنیل کو قتل کر دیا.پھر اگر سیوا جی باغی نہیں تھا تو بھگت سنگھ کیوں ہے.اگر سیوا جی کو محب وطن سمجھا جائے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ بھگت سنگھ کو پھانسی دیا جاتا.سیوا جی کیا تھا اپنے زمانہ کا بھگت سنگھ اور سکھد یو تھا اس سے زیادہ اس کی اصلیت کچھ نہیں گورنمنٹ اگر اس کی حمایت اور تائید کرتی ہے تو بھگت سنگھ وغیرہ کو پھانسی دینا ظلم ہے.اور سوچنے کی بات ہے کہ اگر انگریزوں کا باغی سزائے پھانسی کا مستحق ہے تو مسلمان بادشاہ کے باغی کی عزت کیوں کی جاتی ہے اور اگر اسے کوئی باغی یا ڈاکو کہہ دے تو اسے کیوں نوٹس دیا جاتا ہے کہ تم پر مقدمہ چلایا جائے گا.یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ جیسے کوئی آدمی لاٹھی لے کر کھڑا ہو گیا اور اپنی بیوی سے کہنے لگا کہ اگر روٹی پکاتے وقت تمہاری کہنیاں ہلیں تو میں لاٹھی ماروں گا حالانکہ جو روٹیاں پکائے گا اس کی کہنیاں ضرور ہلیں گی اور اس پر سزا دینا کوئی عظمند جائز نہیں سمجھ سکتا.اسی طرح جو ڈا کے ڈالے گا اسے ڈاکو ہی کہا جائے گا اور کوئی سمجھدار اسے قابل تعزیر قرار نہیں دے سکتا.دنیا میں ڈاکے ڈالنے والے کو ڈاکو ہی کہا جاتا ہے کوئی اسے ولی اللہ نہیں کہہ سکتا.اگر سیواجی کو ولی اللہ کہا جائے تو بھگت سنگھ ، سکھدیو را جگور داور غدر کے سب باغی ولی اللہ قرار پائیں گے.جو گورنمنٹ سیوا جی کو باغی اور ڈاکو کہنے پر نوٹس لیتی ہے وہ گویا ملک کو تعلیم دیتی ہے کہ باغی اور ڈاکو قابل عزت ہستیاں ہیں اور اس طرح خود نوجوانوں کے اندر باغی بننے کا اشتیاق پیدا کرتی ہے.اور مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ بھگت سنگھ وغیرہ باغی خود گورنمنٹ کی اس روش نے پیدا کئے ہیں کہ وہ سیواجی وغیرہ باغیوں کی عزت کو قائم کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے وہ اپنے عمل سے ثابت کر رہی ہے کہ اورنگ زیب کو جو چاہے کہہ لو مگر سیوا جی کی شان میں کچھ نہیں کہا جاسکتا.اس سے بھی بڑھ کر گورنمنٹ کی غفلت شعاری کی مثال دیکھو بنگال میں ایک خبیث اور بد باطن نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کو نَعُوذُ یا الله ولد الزنا لکھا ہے مگر حکومت نے اس پر کوئی نوٹس نہیں لیا.یہاں پنجاب میں ایک شخص حضور علیہ السلام کے اخلاق اور ننگ و ناموس پر نہایت کمینہ اور دل آزار حملے کر رہا ہے گورنمنٹ کو بار ہا تو جہ دلائی گئی اور کئی بار کہنے کے بعد اس نے اطلاع دی ہے کہ

Page 124

خطبات د محمود 119 سال ۱۹۳۱ء اسے تنبیہ کر دی گئی ہے مگر وہ برابر لکھتا جارہا ہے.اسی طرح بٹالہ سے نہایت گندے اور اشتعال انگیز اشتہار آئے دن نکلتے رہتے ہیں مگر حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی لیکن الفضل میں لیکھو لکھ دیا گیا تو حکومت نے اس پر نوٹس لیا کہ ایسا کیوں لکھا گیا ہے حالانکہ صاف بات ہے کہ جوتی کو جوتی ہی کہا جائے گا اور لکڑی کو لکڑی اور پانی کو پانی ہی کہا جائے گا.کوئی منظمند پانی کو جناب معلی القاب کس طرح کہہ سکتا ہے.اسی طرح لیکھو کا نام ہی جب لیکھو تھا تو اسے اور کیا کہا جائے.اور یہ ثابت کرنے کے لئے کہ اس کا نام ہی لیکھو تھا میں نے چند حوالے نکلوائے ہیں جنہیں ابھی پڑھ کر سناؤں گا.آریہ اسے شہید کہتے ہیں اور ہم بھی اس کی شہادت کے قائل ہیں کیونکہ اس کی موت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت پر شہادت تھی.اللہ تعالیٰ نے کفار کی موت کا نام آیة اللہ رکھا ہے لیکھو بھی قیامت تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کی شہادت دے گا اس لئے وہ بے شک شہید ہے مگر عبرت کے لئے اور لوگوں کو یہ بتانے کے لئے کہ اللہ تعالی کی گرفت کیسی ہوتی ہے.آریہ ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر قتل کا الزام لگاتے رہتے ہیں مگر گورنمنٹ کی رگِ حمیت میں کبھی جوش نہیں آیا صرف اس لئے کہ ہم مسلمان ہیں اور قانون کے مطابق عمل کرتے ہیں اس لئے اسے ہمارے احساسات کی کوئی قدر نہیں.یا پھر اس کی یہ وجہ ہے کہ ہم اقلیت میں ہیں.سابق گورنر پنجاب نے رو در رو بھی کہہ دیا تھا کہ ہم اقلیتوں کے احساسات کا کوئی پاس نہیں کر سکتے.اس وقت تو میں نے اور رنگ میں جواب دیا تھا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس کا جواب یہ بھی ہے کہ پھر حکومت کو بھی اقلیتوں سے مدد کی کوئی توقع نہیں رکھنی چاہئے.ہم جس انسان کو اپنا امام سمجھتے ہیں اور جس کی خاطر اپنی جان و مال ننگ و ناموس قربان کر دینا سعادت دارین یقین کرتے ہیں جسے ہم دنیا کا نجات دہندہ مانتے ہیں جس کا تھا کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کا کلام نازل ہوتا ہے اور جس نے دنیا کو چیلنج دیا کہ میرے مقابل پر روحانی علوم پیش کرے اس کے مقابل میں لیکھرام کی کیا حقیقت ہے.لیکن آر یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قاتل کہتے جائیں تو گورنمنٹ کو کوئی جوش نہیں آتا مگر لیکھو کہنے پر وہ سمجھتی ہے بہت بہتک ہو گئی.حالانکہ اس کا نام ہی لیکھو تھا اگر اس کا نام لیکھرام ہو تا تو میں سمجھتا ہوں پھر بھی لیکھو کہنے میں چنداں حرج نہ تھا.کیونکہ ہندوؤں میں نام کو چھوٹا کر کے پکارا جاتا ہے مگر اس کا نام ہی لیکھو تھا چنانچہ اس شہید کے متعلق جو شہادت تھا اس امر کی کہ آریہ مت خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ان کی پارٹی کے لیڈر لالہ منشی رام جو بعد میں سوامی شردھانند کے نام سے مشہور دعوئین

Page 125

خطبات محمود ہوئے لکھتے ہیں ۱۲۰ پشاور میں آریہ سماج تو قائم ہوا.مگر اس کی وسعت لیکھرام سے باہر نہ تھی جن کو مرنے کے بعد دھرم کی مورتی مانا گیا.اور جن کے نام کے ساتھ لفظ پنڈت خود اپنے آپ کو باعزت سمجھتا تھا.انہیں اس وقت " لیکھو " کہہ کر پکارا جاتا تھا.مشہور ضرب المثل ہے کہ تا یہ تیرے تین نام پر سو - پر سا- پر سرام".اسی طرح کہا جا سکتا ہے کہ اپنا آپ قربان کر دینے والے لیکھرام بھی لیکھو سے لیکھرام اور پھر دھرم ویر پنڈت لیکھرام بن گئے." پھر لکھا ہے لیکھو مہاشہ اس وقت پشاور شہر میں مائی رنجی کی دھر مثالہ میں رہتے تھے.اسی جگہ آریہ سماج کے ہفتہ واری نہیں بلکہ روزانہ اجلاس ہونے لگے نہ کوئی نوٹس لگایا جاتا اور نہ ہی ڈھنڈورا پٹوایا جاتا.ویدک دھرم کا سپاہی لیکھو اپنے تین چار دوستوں کو سمجھانے بیٹھتا.پانچ میں سے چار دوستوں کو تو سمجھا لیا اور وہ خدا خدا کہلانے سے شرمندہ ہو کر ایشور کی پناہ میں آگئے.مگر پانچواں کٹر ہمہ اوستی تھا.جس نے لیکھو کو بھی ہمہ اوست کا سبق پڑھایا تھا.جب کسی طرح بھی قابو نہ آیا تو " لیکھو" سے لیکھرام بنے ہوئے دوست نے کہا کمبخت تیری سمجھ میں کچھ نہیں آتا.تب بھی ہماری خاطر سے ہی آریہ بن جا.مجلس احباب تو نہ ٹوٹے گی ۲.دیکھو اس کے سوانح لکھنے والا اور ان کی پارٹی کا لیڈر تو کہتا ہے کہ اس کا نام ہی لیکھو تھا.مگر گورنمنٹ کہتی ہے لیکھو لکھ دینے سے سخت ہتک ہو گئی اور تم نے لیکھو لکھ کر سخت جرم کر دیا.ایک مثل مشہور ہے کسی شخص کا نام تھا کا لو.وہ ٹھیکیداری کرتا تھا.جب کچھ روپیہ پیسہ اس کے پاس ہو گیا تو اس نے اپنا نام محمد کالو رکھ لیا.ایک لطیفہ گو مسلمان نے یہ دیکھ کر اسے کہا کہ محمد کے ساتھ تو کالو کی کوئی مناسبت نہیں اگر تمہیں نام کو لمبا کرنے کاہی شوق ہے تو ہم تمہیں تین دفعہ کالو کالو کالو کہہ دیا کریں گے.اس طرح اگر گورنمنٹ کو یہ شوق ہے کہ لیلھو کا نام لمبا کر کے لیا جائے تو جب تک آریہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر قتل کا الزام لگانا نہیں چھوڑتے اس وقت تک ہم تین دفعہ لیکھو لیکھو لیکھو تو کہہ دیا کریں گے مگر لیکھرام نہیں کہہ سکتے.جب تک ہمارے بزرگوں کی عزت قائم نہیں ہوتی ہم بھی دوسروں کی عزت نہیں کریں گے.

Page 126

خطبات محمود گورنمنٹ کا کوئی قانون نہیں کہ لیکھو کو لیکھو نہ کہا جائے.اس لئے ہم لیکھو کہہ کر کسی قانون شکنی کے مرتکب نہیں ہو سکتے.اور جب تک آریہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر قتل کا الزام لگانے سے باز نہ آجائیں برابر کہتے جائیں گے.اور اگر حکومت نے اس رویہ کو نہ بدلا اور لیکھو کے چیلوں کو اس شرارت سے باز نہ رکھا تو آج سے ایک ماہ بعد میں اپنی جماعت سے ایک ہزار ایسے آدمیوں کا مطالبہ کردوں گا جو ان کے لیڈروں کے حالات اصلی صورت میں شائع کریں.اور اگر اس کے بدلہ میں گورنمنٹ انہیں جیل میں بھیجنا چاہے تو بخوشی چلے جائیں.ہر ہفتے ہم ایسے اشتہار شائع کریں گے اور تمام شہروں میں انہیں تقسیم کریں گے.یہاں تک کہ آریہ محسوس کرلیں کہ جیسے لیڈر ان کے ہیں ویسے ہی ہمارے بھی ہیں اور گورنمنٹ بھی محسوس کرے کہ جیسے احساسات ان کے ہیں ویسے ہی ہمارے بھی ہیں.محض اس وجہ سے کہ ہم تھوڑے ہیں ہمارے احساسات کی پرواہ نہیں کی جاتی لیکن مسلمان کبھی تھوڑے نہیں ہو سکتے اور مومن کبھی بزدل نہیں ہو سکتا.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وفات پائی تو میں اس وقت بچہ ہی تھا مگر میں نے آپ کی لاش مبارک کے سرہانے کھڑے ہو کر اقرار کیا تھا کہ اگر میں اکیلا بھی رہ جاؤں گا تو بھی احمدیت کی اشاعت کروں گا اور تمام دنیا کا مقابلہ کروں گا اور میں اسی ارادہ اورای امنگ کی توقع ہر احمدی سے کرتا ہوں.کوئی بزدل احمدی نہیں ہو سکتا جو دین کی خاطر جان دینے کے لئے تیار نہیں وہ علیحدہ ہو جائے اور قید تو کوئی چیز ہی نہیں اگر کسی کے اندر کمزوری یا بزدلی ہے تو مومنوں سے اس کا جوڑ نہیں ہو سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا ہے "اگر کوئی میرے قدم پر چلنا نہیں چاہتا تو وہ مجھ سے الگ ہو جائے.مجھے کیا معلوم ہے کہ ابھی کون کون سے جنگل اور پر خار بادیہ در پیش ہیں جن کو میں نے طے کرتا ہے.پس جن لوگوں کے نازک پیر ہیں وہ کیوں میرے ساتھ مصیبت اٹھاتے ہیں.جو میرے ہیں وہ مجھ سے جدا نہیں ہو سکتے.نہ مصیبت میں نہ لوگوں کی سب و شتم میں نہ آسمانی ابتلاؤں اور آزمائشوں سے." پس اگر کوئی احمدی ایسا ہے جو مار کھانے یا جیل جانے سے ڈرتا ہے تو وہ ہٹ جائے.مگریہ نہیں ہو سکتا کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تذلیل برداشت کر سکیں.قانون کے اندر رہتے ہوئے جو کچھ ہم سے ہو سکتا ہے اس سے ہر گز دریغ نہیں کریں گے اور اگر ہمارے اس رویہ کی وجہ سے غیر قو میں ہمارے خون کی ندیاں بھی بہا دیں تو ہم پر واہ نہیں کریں گے.اور یہ ظاہر

Page 127

خطبات محمود ۱۲۲ سال ۱۹۳۱ء ہے کہ اگر ہم نے جو ابا ان کے بزرگوں کے پوست کندہ حالات شائع کئے تو وہ اسی طرح ہمارا خون بھی بہائیں گے جس طرح بنارس ، آگرہ ، میرزا پور اور کانپور وغیرہ میں مسلمانوں کا بہایا ہے مگر ہم سب مظالم برداشت کریں گے لیکن اپنے بزرگوں کی عزت قائم کر کے دم لیں گے.اگر آریہ یہ چاہتے ہیں کہ ہم ان کے بزرگوں کی عزت کریں اور اگرچہ پیشگوئی کے واقعات کو ہم چھپا نہیں سکتے.مگر ان کی خاطر لیکھو کو پنڈت لیکھرام صاحب لکھا کریں تو اس کی یہی صورت ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو قاتل کہنے سے باز آجا ئیں.یا پھر اگر ان کی رگوں میں شرافت کا خون ہے تو ثابت کریں کہ آپ قاتل تھے وگرنہ اس شرارت اور خباثت سے باز آجا ئیں نہیں تو پھر ہم ان کے تمام پرانے سے لے کر نئے راہنماؤں اور لیڈروں تک سب کی دھجیاں ایسی اڑائیں گے کہ ہندوستان کا بچہ بچہ ان پر ہنسے گا.ہم گورنمنٹ کے نوٹسوں سے قطعاً نہیں ڈرتے.سب سے پہلے تو میرا یہ خطبہ شائع ہو گا جس میں میں نے کئی بار لیکھو کو لیکھو کہا ہے اور آئندہ بھی ہم برابر اس وقت تک کہتے جائیں گے جب تک گورنمنٹ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عزت کو اسی طرح قائم کرنے کی طرف متوجہ نہ ہوگی جس طرح وہ دوسرے مذاہب کے بزرگوں کی کر رہی ہے.مباہلہ والوں کو ہی دیکھ لو اب گورنمنٹ نے ان پر مقدمہ چلایا ہے.حالانکہ وہ پہلے دو سال تک نہایت گندے اور ناپاک حملے کرتے رہے.گویا لاکھوں احمدیوں کی دل آزاری کے لئے گورنمنٹ کے اندر کوئی حمیت نہیں مگر لیکھو کے لئے بہت ہے.اخبار زمیندار مجھے ہمیشہ موسیو مرزا لکھتا ہے مگر کبھی حکومت نے کوئی نوٹس نہیں لیا مگر لیکھو لکھنا وہ گوارا نہیں کر سکتی.اس کی وجہ یہی ہے کہ آریہ شورش بپا کر دیتے ہیں اور احمدیوں نے کبھی گورنمنٹ کی پریشانی میں اضافہ کرنا مناسب نہیں سمجھا.شرفاء کا قاعدہ تو یہ ہے کہ وہ اپنے محسن کی قدر کرتے ہیں مگر افسوس کہ گورنمنٹ ایسا نہیں کرتی اور مجھے مزید افسوس اس وجہ سے ہے کہ پنجاب گورنمنٹ کے موجودہ ارکان سے میں ذاتی طور پر واقف ہوں اور جانتا ہوں کہ وہ سب کے سب شریف لوگ ہیں مگر ان کی موجودگی میں ایسی صریح نا انصافی نہایت ہی حیرت انگیز ہے.گورنر پنجاب کو میں جانتا ہوں وہ بہت اچھے آدمی ہیں اور ہر ایک شریف آدمی نیکی دوستی پر ناز کر سکتا ہے.وہ انگریزی تہذیب کا نمونہ ہیں.فائننس نمبر ایک نہایت شریف انگریز ہے.جن کے خلاف میں پہلے بہت کچھ سنا کرتا تھا لیکن واقفیت کے بعد میں انہیں نہایت ہی شریف انسانوں میں سے سمجھتا ہوں اور ان کے اس وقت اس عہدہ پر تقرر کو ملک کی خوش قسمتی خیال کرتا ہوں ہوم

Page 128

۱۲۳ خططت محمود سیکرٹری کو میں ہمیشہ سے اپنے دوستوں میں سمجھتا ہوں اور انہوں نے بھی ہمیشہ مجھے اور جماعت احمدیہ کو ایسا ہی سمجھا ہے.باوجود اس کے کہ وہ مسلمان بھی نہیں مگر میں اپنے تجربہ کی بناء پر ان پر اسی طرح اعتبار کرتا ہوں جس طرح ایک احمدی پر - ریویو نیو ممبر ایک مسلمان ہیں جو گو ہماری جماعت میں شامل نہیں لیکن سعید نوجوان ہیں اور ہمیں ان کی نسبت بہت کچھ امید ہے اور میں ان کے مستقبل کی نسبت بعض خاص وجوہ سے خاص دلچسپی رکھتا ہوں.پس میں ان لوگوں کی موجودگی میں ایک منٹ کے لئے بھی خیال نہیں کر سکتا کہ باوجو د واقعات کا علم ہونے کے انہوں نے یہ قدم اٹھایا ہے یقیناً انہیں دھوکا دیا گیا ہے.انہیں یہ نہیں بتایا گیا کہ آریوں نے پہلے یہ شرارت کی ہے.اور نیز انہیں یہ دھوکا دیا گیا ہے کہ لیکھو کا نام لیکھرام تھاور نہ میں ایک منٹ کے لئے بھی خیال نہیں کر سکتا کہ وہ یہ فیصلہ کرتے کہ آریہ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو قاتل کے جائیں لیکن کوئی نوٹس نہ لیا جائے اور احمدی اگر لیکھو کو لیکھو لکھیں تو فوراً انہیں دار ننگ دی جائے.پس میں ان ذمہ دار اصحاب کو بتانا چاہتا ہوں کہ قطع نظر آریہ سماج کے باغیانہ رویہ اور ہماری خدمات سے انہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ آریہ لوگ اپنی خباثت سے ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو قاتل لکھتے ہیں اور اب بھی انہوں نے ایسا کیا ہے.پس اس کے جواب میں ہمارا حق ہے کہ جبکہ گورنمنٹ ان کا منہ بند نہیں کرتی ہم ان کا منہ بند کریں.اسی طرح واقعہ ہے کہ لیکھو کا اصل نام لیکھو تھا اس میں ان کی کوئی ہتک نہیں.نام ماں باپ رکھتے ہیں انہوں نے لیکھو نام رکھا تو یہ ان کے وقت کے معیار کے مطابق تھا.آریہ لوگ اس نام کو بدلنے کا پورا حق رکھتے ہیں لیکن وہ دوسروں کو مجبور نہیں کر سکتے.جب تک وہ اپنے رویہ کو بدل کر اخلاقی حق پیدا نہ کرلیں.پھر تعجب ہے.باوجود اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے والد ماجد کا نام غلام مرتضیٰ تھا.اور بھائی کا نام غلام قادر اور آپ کا اپنا نام بھی اسی سلسلہ میں تھا مگر بٹالہ یا کسی اور جگہ سے ایک اشتہار شائع ہوا کہ آپ کا نام سندھی تھا.گورنمنٹ کو متواتر توجہ دلائی گئی مگر اس نے کوئی نوٹس نہ لیا.اس شخص کے لئے اسے کوئی جوش نہیں آتا جس کے احسان کے نیچے گورنمنٹ کا پورا پورا رہا ہوا ہے.۱۸۷۰ء سے اس وقت تک اس کا خاندان اور اس کا سلسلہ گورنمنٹ پر احسانات کر رہا ہے اور ان ساٹھ سالہ احسانات کے صلہ میں گورنمنٹ کا ایک پائی کا احسان بھی ہم پر نہیں.اگر گورنمنٹ یہ ثابت کر دے کہ ہم نے کبھی اس سے ایک پیسے کے دسویں حصہ کا بھی احسان قبول کیا ہے تو میں ہر سزا بھگتنے کے لئے تیار ہوں.گورنمنٹ ہمارے In

Page 129

خطبات سال ۱۹۳۱ ء خاندان اور سلسلہ کے احسانات کے نیچے دبی ہوئی ہے.ایسے محسن خاندان کے فرد اور ایسے محسن سلسلہ کے بانی کو لوگ سندھی کیں.نعوذ بااللہ ولد الزناء کہیں.اور دوسرے اتہامات لگا ئیں تو گور نمنٹ کو کوئی جوش نہیں آتا لیکن لیکھو کو اگر لیکھو کہا جائے تو اسے بہت غیرت آتی ہے.فساد کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے.اور نگ زیب کو بے شک جو کچھ کوئی چاہے کہتا جائے اس میں کوئی حرج نہیں لیکن ایک ڈاکو کو ڈا کو کہنا برداشت نہیں کر سکتی.حالانکہ اگر سیواجی قابل اعزاز ہے تو بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی بھی عزت کے قابل ہیں.اس نے سیوا جی ایسے باغیوں کی حمایت کر کے خود اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری ہے اور نوجوانوں کو بغاوت پر آمادہ کیا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ وہ کلرک یا سپرنٹنڈنٹ جس نے الفضل کا وہ پرچہ افسران بالا کے پیش کیا جس میں لیکھو لکھا گیا تھا اس خطبہ پر بھی نشان کر کے پیش کرے گا اور اس وقت حکومت پنجاب کے ارکان کو جنہیں میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ بہت شریف آدمی ہیں سمجھ آجائے گی کہ ہمارے دل ان باتوں سے کس قدر رنجیدہ ہیں.بے شک ہم گورنمنٹ کو مصیبت میں نہیں ڈالنا چاہتے مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ ہماری حیات مُردہ ہیں.مومن ہونے کی وجہ سے ہمارے احساسات اور جذبات دوسروں سے کئی گنا زیادہ تیز ہیں.ہم سب اقوام کے بزرگوں کی عزت کرنا چاہتے ہیں لیکن اگر ہمارے بزرگوں کی کوئی تحقیر کرے گا تو ہم ان کے لیڈروں کو سانپوں ، بھیڑیوں اور ذلیل کیڑوں سے بھی زیادہ حقیر دیکھیں گے اور ایسا سبق دیں گے کہ قیامت تک یاد رکھیں گے.ہمیں جو گالیاں چاہے دے لے مگر اپنے بزرگوں کی شان میں ہم ادنیٰ سے ادنی ہتک بھی برداشت نہیں کر سکتے.قتل سے زیادہ سنگین الزام کسی شریف آدمی پر اور کیا لگایا جاسکتا ہے اگر آریہ سمجھتے ہیں یہ الزام صحیح ہے تو وہ ثابت کریں.اور اگر گورنمنٹ بھی واقعی آپ کو قاتل سمجھتی ہے تو اس نے کیوں چھوڑ دیا.اس کے یہ معنی ہیں کہ وہ خود قاتلوں اور مجرموں کی طرفدار ہے.لیکن اگر وہ نہیں سمجھتی تو اس کا فرض ہے کہ آریوں کو اس بہتان طرازی سے روکے.پس ہم ہر گز ایسے نوٹسوں کو تسلیم نہیں کرتے.ہم قانون کی پابندی کرتے ہیں.گور نمنٹ اگر کوئی قانون بنائے گی کہ لیکھو کو لیکھو نہ کہا جائے تو خدا تعالٰی ہمارے لئے کوئی اور راہ نکال دے گا جس سے ہم آریوں کی دُکھتی رگ کو پکڑ سکیں گے کیونکہ اسلام کوئی حکم ایسا نہیں دیتا جس سے مشکلات میں اضافہ ہو جائے.اگر اس نے قانون کی پابندی کا حکم دیا ہے تو ایسے راستے بھی بتائے ہیں کہ قانون کے اندر رہتے ہوئے بھی اپنی غیرت کا ثبوت دے سکیں.اسلام کے متعلق کوئی شخص یہ نہیں کہہ

Page 130

۱۲۵ سکتا.درمیان قعر دریا تخته بندم کرده سال ۱۹۳۱ء.بازی گوئی کہ دامن ترمکن ہوشیار باش یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک طرف تو وہ ہماری زبان بندی کر دے اور دوسری طرف حکم دے کہ غیرت دکھاؤ.اس لیئے آریوں کو بھی یا درکھنا چاہئے کہ ہم بیشک قانون کی پابندی کریں گے مگر اس کے باوجود ان کی دُکھتی رگ کو پکڑ سکتے ہیں یہاں تک کہ وہ سیدھے ہو جائیں.میں اپنے مصنفین کو اجازت دیتا ہوں کہ بد اخلاقی کو چھوڑ کر وہ جیسا سخت چاہیں لکھیں میری طرف سے انہیں اجازت ہے.باقی رہا گورنمنٹ کا معاملہ سودہ ان کی ذات سے تعلق رکھتا ہے.قانون کی پابندی کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ تم قید سے ڈرو.اگر تم نے کوئی جرم نہیں کیا اور اظہار صداقت کے جرم میں تمہیں جیل جانا پڑے تو بھاگے ہوئے جاؤ.لیکن وہی شخص قلم اٹھائے جو جماعت سے کوئی امداد نہ لے.جو ڈیفنس وہ خود پیش کر سکتا ہے کرے اور اگر اس میں استطاعت نہیں اور وہ ایسا نہیں کر سکتا تو خاموشی کے ساتھ جیل میں چلا جائے اور سزا بھگت لے.تمہارا فرض صرف یہ ہے کہ قانون کی پابندی کرو.خدا نے بھی اسلام نے بھی بانی سلسلہ احمدیہ نے بھی اس کا حکم دیا ہے اور میں بھی اس کی تائید کرتا ہوں لیکن اگر تم کوئی ایسا فعل کرتے ہو جو قانوناً ممنوع نہیں بلکہ گورنمنٹ کہتی ہے کہ تم نے جرم کیا ہے.مثلاً کوئی ایسا قانون موجود نہیں کہ لیڈروں کے خلاف سختی سے مت لکھو بلکہ گورنمنٹ کہتی ہے جو ایسا کرے گا اسے ہم پکڑ لیں گے اس لئے اگر ضروری ہو تو لکھو اور سزا بھگت لو.ہاں اگر گورنمنٹ یہ قانون بنا دے کہ کوئی شخص فلاں فلاں لفظ مت استعمال کرے تو اس وقت بے شک تم لکھنا چھوڑ دو اور اپنے لئے اور راستہ تلاش کرو.جماعت کے لوگوں کو دلیری دکھانی چاہئے.میں نے سنا ہے بعض کو کہا گیا کہ تبلیغ کے لئے جاؤ تو انہوں نے کہا سکھوں کے گاؤں ہیں وہاں تکلیف کا خوف ہے.میں کہتا ہوں لعنت ہے ایسی احمدیت پر.تمہارے اندر تو یہ جرات ہونی چاہئے کہ ایک آدمی پر اگر ایک سارا سکھ گاؤں حملہ کرے تو وہ اکیلا سب کو بھگا دے.تمہارے ذمہ نہ صرف اپنی بلکہ تمام مسلمانوں کی حفاظت ہے.جو لوگ محمد رسول اللہ امام کی طرف منسوب ہوتے ہیں.ان کی حفاظت تمہارا فرض ہے.اس لئے دلیر بنو اور جرات دکھاؤ.چونکہ پہلے کی طرح کے مظالم کا زمانہ اب قریباً ختم ہو گیا ہے.اس لئے میں دیکھتا ہوں بعض تم میں سے بزدل ہوتے جاتے ہیں.پہلے دنوں میں یہ حالت نہ تھی.

Page 131

خطبات محمود سا سال ۱۹۳۱ء میں چھوٹا تھا اور بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا.بعض احمدی ایک جگہ بھرتی ڈس رہے تھے کہ کچھ سکھوں نے انہیں روکا.مجھے یاد ہے بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی اکیلے ان کے درمیان کود پڑے اور کہا ایک مسلمان دس پر بھاری ہوتا ہے آئے جو سامنے آتا ہے.یہ فقرہ میں نے اسی وقت سب سے پہلے بنا اور حدیثوں میں بعد میں پڑھا اس پر سب بھاگ گئے.پس ایسے بزدلوں کے لئے جو کہتے ہیں سکھوں کے گاؤں ہیں اس لئے ہم تبلیغ کے لئے نہیں جاسکتے احمدیت میں کوئی جگہ نہیں.تم میں سے ہر ایک کے اندر یہ جرات ہونی چاہئے کہ وہ ہزار غیر مسلموں پر بھی فتح پائے گایا بہادروں کی طرح لڑتا ہوا جان دیدیگا.اگر تمہارے اندر یہ ہمت اور جوش پیدا ہو جائے تو موجودہ تعداد سے نصف ہوتے ہوئے بھی دنیا کو فتح کر سکتے ہو.پس ادھر اگر میں گورنمنٹ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ہمارے احساسات کا خیال رکھے تو دوسری طرف آریوں کو بھی یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ ان کے لیڈروں کی ہم عزت کریں تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ادب کریں اور ان پر جھوٹے اتہام لگانا چھوڑ دیں.ورنہ ہم گورنمنٹ کی وارننگز سے نہیں ڈرتے.ہمارے گورنمنٹ سے دو تعلق ہیں.ایک اطاعت کا وہ ہم ہر حالت میں کریں گے.دوسرا اپنا راستہ چھوڑ کر بھی مدد کرنے کاوہ ہمارا احسان ہے اور وہ کام اسی وقت کریں گے جب کہ گورنمنٹ ہمارے احساسات کا اور مسلمانوں کے حقوق کا خیال رکھے لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ ہندو کلرکوں کی شرارت ہے.یا ممکن ہے کسی مسلمان کی ہی ہو کیونکہ مسلمانوں میں بھی ایسے لوگ ہیں جن کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے کہا تھا اماں اماں اگر میں تھانیدار ہو گیا تو پہلے تجھے ہی حوالات میں ڈالوں گا.ایسے مسلمان اپنا بڑا کارنامہ یہی سمجھتے ہیں اور ان کے نزدیک اپنی رواداری کے اظہار کا یہی ذریعہ ہے کہ خود مسلمانوں کے خلاف حکام سے شکایات کریں.بہر حال کچھ بھی ہو مجھے امید ہے افسران بالا کا اس میں دخل نہیں.یہ ماتحتوں کی شرارت ہے اور گورنمنٹ کو جب حالات کا علم ہو گا تو وہ اس پر ضرور نادم ہوگی اور اگر نہیں تو اسے یاد رکھنا چاہئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے خلفاء کی عزت قائم کرنے کے لئے احمد کی ہر وقت تیار ہیں.اور خواہ انہیں کسی قسم کی قربانی کرنی پڑے وہ ہرگز پیچھے نہیں ہٹیں گے.بے شک ہم فتنہ و فساد نہیں پیدا کریں گے لیکن پھر بھی ایسے راستے ہیں کہ قانون کے اندر رہتے ہوئے بھی ہم اپنے بزرگوں کی تحقیر کرنے والوں کو ایسی دکھتی رگ سے پکڑ سکیں کہ انہیں ہوش آ جائے.میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ یہ بہادری نہیں کہ کسی پر

Page 132

خطبات محمود ۱۲۷ حملہ کیا جائے.میرے نزدیک قوم کی اخلاقی زندگی جسمانی زندگی سے بہت زیادہ قیمتی ہے.میں یہ تو پسند کروں گا کہ جسمانی طور پر اسے ہیں ڈالا جائے بجائے اس کے کہ اس کے اخلاق بگاڑ دیئے جائیں اس لئے میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ تم میں سے کوئی اخلاقی کمزوری دکھائے اور کسی پر حملہ کرے.لیکن مومن کا یہ کام ہے کہ وہ دلیری کے ساتھ پیغام حق پہنچائے پھر اگر کوئی حملہ کرے تو دلیری کے ساتھ اس کا مقابلہ کرے.اگر اس کے پاس صداقت ہے تو وہ یقین رکھے کہ دس ہزار دشمن پر بھی خدا تعالیٰ اسے غالب کرے گا اور اگر وہ مارا بھی جائے تو اس کے لئے جنت مقدر ہے.ہم کس لئے دنیا میں زندہ رہنا چاہتے ہیں؟ اس لئے کہ خدا تعالٰی کی رضاء حاصل کرنے کی توفیق مل جائے.اور اگر ایک دفعہ قتل ہو جانے سے یہ مقصد حاصل ہو جائے تو اس سے آسان سودا اور کیا ہوگا.یہ چھڑی تمہاری گردن پر نہیں بلکہ تمہارے نفس پر ہوگی جس کے لئے تم مدت سے کو شاں تھے.پس تم ڈرتے کس بات سے ہو.دنیا تمہارے قدموں کے نیچے ہے.اس نیت کے ساتھ گھروں سے نکلو کہ اس سال ہم نے ساری دنیا کو احمدی کرنا ہے.میں نے اعلان کیا تھا کہ شہری جماعتیں تبلیغ کی طرف توجہ کریں.لکھنو کی جماعت نے کوشش شروع کی.پندرہ سولہ سال سے وہاں کوئی احمدی نہ ہوا تھا مگر اب مجھے بتایا گیا ہے کہ تین ماہ کی کوشش سے ہی وہاں ہیں آدمی جماعت میں داخل ہو چکے ہیں.جن میں بارہ کمانے والے ہیں.میں نے وعدہ کیا تھا جو شہری جماعتیں دوران سیال میں تو ایسے احمد کی بنائیں گی جن میں سے پچاس کمانے والے ہوں گے ان کو ایک مستقل مبلغ دیا جائے گا.مجھے امید ہے اگر لکھنؤ والوں نے کوشش جاری رکھی تو وہ مبلغ لے سکیں گے.میں مستقل مبلغ دینے سے ڈرتا نہیں ہوں بلکہ میری تو خواہش ہے کہ جماعتیں اس کوشش میں کامیاب ہو کر مبلغ حاصل کر لیں.ہمارے پاس صداقت ہے اور صداقت سے کون انکار کر سکتا ہے.صداقت آخر دنیا کو ماننی ہی پڑے گی.ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ تم کھڑے ہو جاؤ اور دیوانہ وار پیغام حق پہنچاؤ تاخد اتعالیٰ دنیا کو اپنے رسول کے قدموں میں ڈال دے اور تا تم اسی دنیا میں جنت حاصل کر سکو.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.بزدلی کو دور کر کے ہمارے اندر بہادری بڑھائے اور اس قدر تقویت دے کہ اگر ایک کے مقابلہ میں ساری دنیا بھی ہو تو وہ پیچھے نہ ہٹے بلکہ ڈٹ جائے.اسی طرح میں یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ گورنمنٹ کے اعلیٰ حکام کو صحیح فیصلوں کی اور اس کے چھوٹے افسروں کو صحیح رپورٹ کی توفیق دے اور وہ جھوٹی

Page 133

۱۲۸ خطبات محمود رپورٹیں کرنا اور دھوکا دینا چھوڑ دیں.پھر خدا تعالی آریوں کو بھی سمجھ دے.ہمارا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ ہم ان پر حکومت کریں وہ ابنائے وطن ہیں اور ہمیں بھائیوں کی طرح عزیز ہیں مگر ہم یہ گوارا نہیں کر سکتے کہ وہ ہمارے بزرگوں کی توہین کریں.اور اگر وہ اب بھی اس معاملہ میں ہم سے صلح کرلیں تو اب بھی وہ ہمارے اند ر باپ کی سی محبت ماں کی سی شفقت بڑے بھائی کی سی ہمدردی اور چھوٹے بھائی کا سا ادب پائیں گے.اللہ تعالیٰ انہیں سمجھ دے وہ شرافت سیکھیں اور ایسا رویہ اختیار نہ کریں جو ہمارے دلوں کو دکھانے والا اور ملک کے امن کو برباد کرنے والا ہو الفضل ۱۲ اپریل ۱۹۳۱ء) مجمع بحار الانوار جلد ا صفحه ۲۶ زیر لفظ "ارس" مطبوعہ نو ککشور ۱۳۱۴ھ که آریہ پتھک لیکھرام بندی صفحه ۲۴۴۲۳ سے انوار اسلام صفحه ۲۴٬۲۳ - روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۲۴٬۲۳

Page 134

۱۲۹ 14 خطبات محمود ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے (فرموده ۳- اپریل ۱۹۳۱ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- چونکہ نماز کے بعد مجلس شوری کا انعقاد ہو گا اس لئے ایک تو میں جمعہ کے ساتھ عصر کی نماز ملا کر پڑھاؤں گا دوسرے وقت کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نہایت اختصار کے ساتھ جمعہ کا خطبہ بیان کروں گا.میں متواتر پہلے بھی کئی دفعہ اپنی جماعت کے دوستوں کو توجہ دلا چکا ہوں اور میں سمجھتا ہوں ابھی اس بات کی ضرورت ہے کہ آئندہ اور بھی توجہ دلائی جائے اور وہ یہ ہے کہ ہمار ا سلسلہ ایک مذہبی سلسلہ ہے اور مذ ہی سلسلہ ہونے کے لحاظ سے اس کے تمام کام بجائے مادی بنیادوں پر رکھے جانے کے روحانی بنیادوں پر رکھنے گئے ہیں.دنیا میں لوگ مشکلات کے اندازے لگا کر اپنی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ کیا کرتے ہیں لیکن ہمارا اندازہ اپنی کامیابی یا ناکامی کے متعلق ان مشکلات کو مد نظر رکھ کر نہیں لگایا جا سکتا جو اس وقت ہمارے سامنے ہیں بلکہ ہماری کامیابی یا ناکامی کا اندازہ ہمارے ایمان کی زیادتی یا اس کی کمی سے لگایا جا سکتا ہے.ایک فوج جو اپنی تعداد میں کم ہو ، سامانِ جنگ اس کے پاس تھوڑا ہو ، روپیہ بھی اس کی حکومت کے پاس کافی نہ ہو اور اس فوج کے سپاہی بھی قدو قامت کے لحاظ سے چھوٹے ہوں ان میں استقلال اور جرات کا مادہ بھی نہ ہو اس کے مقابل پر اگر ایک ایسی فوج ہو جس کے سپاہیوں میں استقلال کا مادہ پایا جاتا ہو جو فنون جنگ سے اچھی طرح واقف ہوں اور جن کی تعداد بھی زیادہ ہو.تو اپنے مقابل پر ایسی زبردست فوج کو دیکھ کر وہ اس بات کا اندازہ کرتی ہے کہ اس کے سامان کس حد تک اسے کام دے سکتے ہیں اور وہ کہاں تک کامیابی حاصل کر سکتی ہے.لیکن خدا کی جماعتوں کے اندازے ظاہری سامانوں سے

Page 135

١٣٠ سال ۱۹۳۱ء نہیں ہوتے کیونکہ وہ اپنے ہاتھوں سے نہیں لڑتے ، وہ اپنی زبانوں سے نہیں لڑتے ، وہ اپنے روپوں سے نہیں جنگ کرتے اور نہ ظاہری سامان حرب سے آمادہ پیکار ہوتے ہیں بلکہ اس چیز سے جنگ کرتے ہیں جو ان کے دلوں میں ہوتی ہے اور وہ چیز ایمان ہے.پس جب خدا کی کسی قائم کردہ جماعت کے دلوں میں ایمان مضبوطی سے گڑا ہوا ہو تو خواہ ظاہری سامان اس کے پاس کم ہوں وہ کامیاب ہو جاتی ہے.لیکن اگر اس کا ایمان کم ہو تو چاہے ظاہری سامان کتنے ہی زیادہ ہوں وہ شکست کھا جاتی ہے.قرآن مجید نے دو جنگوں کا ذکر کیا ہے اور ان دونوں جنگوں سے یہی سبق مومنوں کو سکھایا ہے.ان میں سے ایک جنگ بدر ہے جس میں تعداد کے لحاظ سے مسلمان بہت تھوڑے تھے سامان کم تھا اور فنون جنگ کی مہارت کے لحاظ سے ان میں بہت کچھ کمزوریاں بھی تھیں پھر فاقہ کشیوں اور غربت کی وجہ سے مسلمانوں میں اور زیادہ کمزوری تھی.نہ ان کے چہروں سے رونق ٹپکتی تھی اور نہ ان کے جسم موٹے تازے تھے، نہ جنگ کا سامان ان کے پاس کافی تھا مگر باوجود اس کے مقابلہ ایسے دشمن سے ہو ا جس کے پاس سامان زیادہ تھا جو فنونِ جنگ میں بڑا ماہر اور تجربہ کار تھا جس کے پاس بڑی طاقت تھی اور روپیہ بھی کافی تھا لیکن جنگ کا نتیجہ تو جو کچھ ہوا وہ بعد کی بات ہے.ابتداء میں قریش ہی نے جب ایک شخص کو بھیجا اور کہا جاؤ اندازہ لگاؤ کہ مسلمان کتنی تعداد میں ہیں کیونکہ اگر چہ انہیں نظر آرہا تھا کہ تھوڑے سے مسلمان ان کے سامنے پڑے ہیں لیکن وہ یقین نہیں کر سکتے تھے کہ اتنے ہی لڑنے آئے ہوں کیونکہ جب ایک طرف اپنی طاقت اور جمعیت کو دیکھتے اور دوسری طرف مسلمانوں کی قلت اور بے سرو سامانی پر نظر کرتے تو سمجھ ہی نہ سکتے کہ یہ تھوڑے سے لوگ ہم سے لڑنے کے لئے آئے ہیں.ان کا خیال تھا تھوڑے سے لشکر کے پیچھے ایک اور بہت بڑا لشکر پوشیدہ ہے وگرنہ اتنی بہادری سے یہ قلیل التعداد یہ لوگ کیونکر کھڑے وسکتے ہیں.انہوں نے ایک شخص کو مسلمانوں کے لشکر کا اندازہ لگانے کے لئے بھیجا.وہ شخص گیا اور اپنے گھوڑے پر چکر لگا کر واپس آکر کہنے لگا ان کے پیچھے اور تو کوئی فوج نہیں.میں نے خود دیکھا ہے مجھے اور کوئی اسلامی لشکر نظر نہیں آیا.لیکن اے قوم! میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ ان کا مقابلہ نہ کرنا کیونکہ میں جدھر گیا اور میں نے جسے دیکھا مجھے گھوڑے کی پیٹھوں پر آدمی نظر نہیں آئے بلکہ موتیں نظر آئیں.یہی جنگ تھی جس میں دو چھوٹی عمر کے لڑکے جو پندرہ پندرہ سال کی عمر کے تھے ابو جہل پر حملہ آور ہوئے.یہ اتنی چھوٹی عمر کے تھے کہ باوجود ایک ایک آدمی کی بے

Page 136

خطبات محمود ۱۳۱ حد ضرورت کے ان کے متعلق سوال پیدا ہوا کہ انہیں جنگ میں شامل ہونے کی اجازت دے دی جائے یا نہ - آخر بمشکل انہیں اجازت ملی.عبدالرحمن بن عوف جو پرانے تجربہ کار اور مشہور جرنیل تھے انہیں ان میں سے ایک لڑکے نے کہنی مار کر دریافت کیا چاوہ ابو جہل کون ہے جس نے کی زندگی میں رسول کریم یا ہم کو سخت اذیتیں پہنچائی ہیں.وہ کہتے ہیں میں افسوس کر رہا تھا کہ آج ہمیں ان تمام تکالیف کا بدلہ لینے کا موقع ملا ہے جو کفار نے رسول کریم میں ہم کو اور ہمیں پہنچا ئیں مگر میرے دائیں بائیں دولڑکے ہیں.اگر مضبوط آدمی ہوتے تو ان کی مدد سے میں بھی نمایاں کام کرتا.مگر اب انہوں نے میری کیا مدد کرنی ہے اگٹا مجھے ان کی مدد کرنی پڑے گی اور ان کی حفاظت کا خیال رکھنا پڑے گا.وہ اسی خیال میں تھے کہ ایک نے ان سے پوچھا ابو جہل کون ہے.معاً اسی وقت دوسرے لڑکے نے بھی آہستگی سے کہنی مار دی تاکہ اس کا دوسرا ساتھی نہ سن لے اور پوچھا چچا ابو جہل کون ہے.وہ حیران رہ گئے اور انہوں نے خیال کیا میں نے غلط سمجھا تھا کہ یہ بچے ہیں یہ کچھ نہیں کر سکیں گے.بلکہ یہ دراصل کفار کے لئے مصیبت ہیں بلا ہیں اور عذاب ہیں جو خدا کی طرف سے مقرر کئے گئے ہیں.انہوں نے انگلی اٹھائی اور اشارہ سے بتایا کہ وہ ابو جہل ہے.اس کے آگے اور پیچھے عرب کے مشہور جرنیل کھڑے تھے چاروں طرف سے وہ لوگوں میں گھرا ہوا تھا مگر ان کے انگلی اٹھانے کی دیر تھی کہ وہ دونوں بچے یوں جھپٹے جس طرح ایک چیل بوٹی پر جھپٹا مارتی ہے.یا ایک شکرا اپنے شکار پر جھپٹتا ہے.ان میں سے ایک تو راستہ ہی میں مارا گیا مگر دو سرا پہنچ گیا اور اس نے ابو جہل کی گردن پر تلوار مار کر اسے ایسا زخمی کر دیا کہ وہ بعد میں ہلاک ہو گیا.یہ وہ جنگ تھی جس میں مسلمانوں کے پاس سامان بہت کم تھا حتی کہ بعض تاریخوں سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے پاس اسلحہ بھی پورے نہ تھے.بعض کے پاس تلواریں بھی نہ تھیں.ایسے بے سامان اپنے سے تین گنادشمن کے ساتھ لڑے اور عرب کے بڑے بڑے صنادید جو آنحضرت مال کے مقابل پر ہمیشہ لڑتے رہے تھے یا تو مارے گئے یا بری طرح شکست کھا کر میدان سے بھاگ گئے.مگر ایک اور لڑائی ہوئی جو رسول کریم میں کی موجودگی میں اور آپ کی زندگی میں ہی ہوئی.اس میں اسلامی لشکر بارہ ہزار تھا اور کفار تین چار ہزار کے قریب مگر جس وقت اسلامی لشکر بڑھ رہا تھا دشمن کے تیر انداز دروں میں چھپے ہوئے تھے انہوں نے اسلامی لشکر پر تیروں کی بوچھاڑ شروع کر دی اور اتنے زور سے تیر برسائے کہ بارہ ہزار کا لشکر تین چار ہزار لشکر کے مقابلہ میں بھاگ نکلا اور رسول کریم میل ملا کے پاس ان بارہ ہزار میں سے.

Page 137

۱۳۲ مسال ۱۹۳۱ء محمود صرف بارہ آدمی رہ گئے اور ایسے خطرے کی حالت پیدا ہو گئی کہ صحابہ نے سمجھا اس وقت ہماری ب سے بڑی خدمت یہی ہے کہ ہم رسول کریم میم کو پیچھے ہٹالیں.چنانچہ بعضوں نے آپ کی سواری کی باگوں کو تھام لیا اور آگے بڑھنے سے روکا اور چاہا کہ آپ میر پیچھے ہیں مگر آپ نے فرمایا چھوڑ دو نبی اپنا قدم پیچھے نہیں ہٹایا کرتا آپ نے اپنی سواری آگے بڑھائی اور فرمایا انا النَّبِيُّ لَا كَذِبُ أَنَا ابْنُ عَبْدُ الْمُطَّلِبُ.صحابها اپنے میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں مگر خدا کا نبی اور رسول ہوں میں جھوٹا نہیں.پھر آپ نے حضرت عباس کو فرمایا آواز دو اے انصار ! خدا اور اس کا رسول تمہیں بلاتا ہے.انہوں نے آواز دیا.ایک انصاری کا بیان ہے کہ نو مسلم دو ہزار کے قریب تھے جو کہا کرتے تھے اب ہمیں خدمت بجالانے کا موقع ملنا چاہئے اور آگے ہو کر لڑنا چاہئے.چونکہ وہ لوگ اسلام میں حدیث العہد تھے اور ایمان میں پختہ نہیں تھے اس لئے جب تیر بر سے تو وہ پیچھے کی طرف بھاگے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ باقی لشکر بھی بھاگنے لگا اور ان کے گھوڑے بھی بدک کر میدان سے بھاگ نکلے.گھوڑوں کو موڑتے تھے مگر وہ نہیں مڑتے تھے.جس وقت حضرت عباس کی آواز انہوں نے سنی تو وہ کہتے ہیں ہمیں یوں معلوم ہو ا جس طرح ایک فرشتہ قیامت کے دن صور پھونک رہا ہے.جتنے زور سے کوئی شخص اپنی سواری کو موڑ سکتا تھا اس نے موڑا اور جن سے نہ ہو سکا وہ اپنی سواریوں سے کود پڑے اور تلواروں سے ان کی گردنیں اڑا دیں.اور تھوڑی ہی دیر میں وہ رسول کریم کے گرد جمع ہو گئے.یہ وہ جنگ ہے جس میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی ، سامان زیادہ تھا اور وہ خیال کرتے تھے آج ہم اپنے نفس کی طاقت سے غالب آجا ئیں گے.مگر خدا نے پسند نہ کیا اور باوجود سامانوں کی کثرت کے تعداد کی زیادتی کے انہیں نیچا دکھایا.پس خدا کی قائم کردہ جماعتوں کے پاس اگر سامان کم ہوں تو خدا اپنے فرشتے نازل فرماتا ہے اور انہیں دوسروں پر غلبہ عطا فرماتا ہے لیکن اگر انہیں اپنی کثرت پر گھمنڈ ہو جائے تو انہیں نیچا بھی دکھاتا ہے.میں اپنی جماعت کے دوستوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہم لوگ بھی اس وقت ایک عظیم الشان جنگ کے لئے کھڑے ہوئے ہیں.ساری دنیا سے اس وقت ہماری جنگ ہے مگر اس میں ہمیں فتح ظاہری سامانوں کی وجہ سے نہیں ہو سکتی.ہماری فتح ہمارے ایمان پر ہے جتنا ہمارا ایمان قوی ہو گا اتنی ہی جلدی

Page 138

خطبات محمود سال ۱۹۳۱ء اللہ تعالیٰ کی نصرت اور اس کا فضل بھی نازل ہو گا.پس اپنے اندر ایمان پیدا کرد - عرفان پیدا کرو اور خدا پر توکل پیدا کرو.اگر خدا پر ایمان اور توکل پیدا کر لو گے تو دنیا کی حکومتیں بھی تمہارے مقابل پر کچھ چیز نہیں.بندوقیں، تو ہیں، تلواریں ، گھوڑے اور سواریاں یہ کیا چیز ہیں ؟ خدا کی مخلوق ہی تو ہیں.وہ خدا جو تو پوں کو چلانے کا قانون پاس کر سکتا ہے وہ انہیں تو پوں کو بند بھی کر سکتا ہے.تیرھویں صدی کے مجدد نے پشاور پر جس وقت حملہ کیا تو انہوں نے کہا ہمارے پاس چونکہ تو ہیں نہیں ہیں اور دشمن کے پاس ہیں اس لئے ہمیں یک دم توپ خانے پر حملہ کر دینا چاہئے.چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا.پانچ سو سوار اس غرض کے لئے تیار ہوئے اور انہوں نے توپ خانے پر حملہ کر دیا.اور انہیں تو پیچیوں کو مجبور کر کے ان سے دشمنوں پر تو ہیں چلوائیں.تو مومن کا سب سے بڑا ہتھیار اس کا ایمان اور یقین ہے.وہ کہتا ہے اگر میں مر بھی گیا تو جس وقت میری آنکھ بند ہوگی اللہ تعالیٰ کے نئے فضلوں کا دروازہ میرے لئے کھل جائے گا.پس مومن تو کبھی بھی موت سے نہیں ڈر سکتا.اور وہ جو موت سے نہیں ڈرتا وہ مغلوب بھی نہیں ہو سکتا.صرف ایک چیز ہے جس سے دنیا زیادہ ڈرتی ہے اور کوئی اس سے بچ نہیں سکتا اور وہ موت ہے.تمام ذلتیں ، تمام رسوائیاں اور تمام ناکامیاں محض موت کے ڈر سے آتی ہیں.یہی چیز ہے جس کا خوف جتنا زیادہ دور کیا جائے اتنا ہی زیادہ مفید ہوتا ہے.مومن تو موت کو فتح کرنے کے لئے آیا ہے نہ کہ موت سے مغلوب ہونے کے لئے اور وہ خدا ہے یہ وعدہ لے کر آیا ہے کہ اس کے لئے ایسی راہ کھول دی جائے گی جس کے بعد اس پر کوئی موت واقع نہیں ہو سکتی.پس دنیا میں جو چیز خطرناک سمجھی جاتی ہے وہ موت کا خیال ہے.جس پر موت غالب آجاتی ہے وہ ذلیل و رسوا ہو جاتا ہے اس لئے موت کا ڈر اپنے دلوں پر کبھی غالب نہ آنے دو بلکہ موت کو فتح کرو اور یا درکھو کہ جو خدا کے لئے قربانی کرنے والے ہوں وہ ہمیشہ کی زندگی پاتے ہیں.پس میں جماعت کے احباب کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے ایمان اور یقین کو مضبوط کریں.ہم سے زیادہ اس بات کا کون اہل ہے کہ اس کا ایمان مضبوط ہو.ہمارے لئے تو خدا تعالیٰ نے اتنی کثرت سے نشانات نازل فرمائے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں اگر وہ نشان ہزار نبیوں پر بھی تقسیم کئے جائیں تو ان کی نبوت بھی ثابت ہو سکتی ہے.جب خدا نے اتنی کثرت سے نشانات دکھائے ہیں تو ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم اپنا ایمان بھی پہلوں سے ہزار گنا بڑھ کر رکھیں.اگر ہم کسی چیز میں زیادہ نمک ڈالیں تو وہ نمکین ہو جاتی ہے.یا زیادہ میٹھا ڈالیں تو اس

Page 139

خطبات محمود سال ۱۹۳۱ء میں مٹھاس بڑھ جاتی ہے پھر کیا وجہ ہے کہ ہمیں نشان تو پہلے نبیوں سے ہزاروں گنا بڑھ کر دکھلائے جائیں مگر ہم ایمان میں پہلوں سے نہ بڑھیں.پس ہم پہلی امتوں سے ہزاروں درجہ اپنے ایمان میں بڑھ سکتے ہیں کیونکہ اس زمانہ کے نبی کو رسول کریم ان کی غلامی میں خدا نے وہ نشانات دیئے ہیں جو پہلے نبیوں سے ہزاروں درجہ زیادہ ہیں.پس ضروری ہے کہ ہم پہلوں سے ہزاروں درجہ بڑھ کر اپنے اندر ایمان پیدا کریں تا اس کے نتیجہ میں ہم خدا کے فضل سے بھی پہلوں سے ہزاروں درجے بڑھ کر مستفیض ہوں.ہمارا فرض ہے ہم مادیت کو ترک کریں ، روحانیت کو اپنے اندر پیدا کریں اور اس عہد کو یاد رکھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ کیا کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے.اه سیرت ابن ہشام عربی جلد ۲ صفحه ۲۷۴ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ل بخاری کتاب المغازی باب قتل ابى جهل الفضل ۱۹ اپریل ۱۹۳۱ء) ترمذی ابواب فضائل الجهاد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم باب ما جاء في الثبات عند القتال ۴ سیرت ابن ہشام عربی جلد ۴ صفحه ۸۷ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء

Page 140

خطبات محمود ۱۳۵ 15 سال ۱۹۳۱ء خُذُوا حِذْرَكُمْ کے حکم الہی پر عمل کرو فرموده ۱۰ اپریل ۱۹۳۱ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ جب وہ کسی قوم سے نیک سلوک کرنا چاہتا ہے تو اس کے اندر اپنے فضل سے استغفار کا مادہ بھی پیدا کر دیتا ہے.یعنی جب وہ کسی قوم کو تباہی سے بچانا چاہتا ہے تو اس کے اندر استغفار کی روح پیدا کر دیتا ہے.اور جب کسی قوم کو ترقی دینا چاہتا ہے تو اس کے دل میں ہوشیاری اور بیداری کا جذبہ پیدا کر دیتا ہے.ایک ہی قسم کے آدمی ہوتے ہیں ، ایک ہی قسم کا کھانا کھاتے ہیں ، ایک ہی ملک کے رہنے والے ہوتے ہیں ، ایک ہی خاندان کے افراد ہوتے ہیں مگر بعض ان میں سے خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن جاتے ہیں اور بعض محروم رہ جاتے ہیں.اور دونوں اپنی زندگی اپنے اعمال اپنے افعال اور اپنے طریق کے لحاظ سے بالکل ایک دو سرے سے ممتاز نظر آتے ہیں.رسول کریم میں تعلیم کے صحابہ بھی مکہ کے ہی لوگوں میں سے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے چونکہ ان پر اپنے فضل نازل کرنے کا ارادہ فرمایا اس لئے ان کے اندرایسی ہوشیاری اور بیداری پیدا کر دی کہ جس کی وجہ سے دشمن باوجود کثیر تعداد میں ہونے کے ان کے مقابلہ سے عاجز آگئے.مکہ کے سارے لوگ ایک ہی قسم کا کھانا کھاتے تھے ، ایک ہی چشموں سے پانی پیتے تھے، ایک ہی قسم کی ضرورتیں دونوں کو لگی ہوئی تھیں کھانے پینے ، پہننے کے دونوں محتاج تھے مگر باوجود اس کے کہ احتیاجیں دونوں کو تھیں، قوم ایک ہی تھی، ملک ایک ہی تھا زمانہ اور وقت ایک ہی تھا.پھر صحابہ میں ایسی ہو شیاری اور بیداری تھی کہ ان کے مقابلہ میں کفار کی کوئی حقیقت ہی معلوم نہیں ہوتی.

Page 141

| محمود ۱۳۹ سال ۹۳۱ صحابہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ رات دن جاگتے تھے باوجود اس کے کہ وہ سوتے بھی تھے نگران کی نیند بھی جاگنے کے ہی برابر معلوم ہوتی ہے.ہر صحابی کی خواہ وہ کہیں جا رہا ہو اور خواہ کچھ کر رہا ہو آنکھیں کھلی رہتی تھیں کان کھڑے رہتے تھے ، دل ہو شیار رہتا تھا اور جس تیز ہوتی تھی.اگر کوئی تجارت کے لئے نکلتا تو بھی اس کے سامنے ایک ہی مقصد ہوتا اور وہ یہ کہ مِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ جس کے معنی یہ ہیں کہ خواہ کسی رستہ سے آؤ تجارت کر دیا زراعت، صنعت و حرفت کرد خواه سپاه گری، تمہارا طریق کار خواہ کچھ ہو تمہارے پیش نظر جو مقصد ہو وہ ایک ہی ہو اور وہ یہ کہ قولِ وَ جَهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ یعنی دنیا میں توحید کا ایک مرکز قائم کر دو.مسجد حرام کیا تھی ؟ وہ مرکز تھا جو تو حید کے لئے قائم کیا گیا.پس صحابہ کو حکم دیا گیا کہ ہر کام میں وہ اپنے پیش نظر یہی ایک مقصد رکھیں کہ شرک کو مٹاکر تو حید قائم کی جائے.صحابہ نے اس حکم پر عمل کیا اور قابل رشک طور پر کیا.ان کا نمونہ اور ان کی قربانی حیرت میں ڈال دیتی ہے.وہ ایسے بیدار لوگ تھے کہ رسول کریم میر کا صیغہ خبر رسانی ان کی بیداری کی وجہ سے غیر معمولی طور پر مکمل نظر آتا ہے.باوجودیکہ آپ نے کوئی جاسوس نہ رکھے ہوتے تھے مگر منافق کہتے تھے مواد کے وہ تو کان ہی کان ہے معلوم نہیں اتنی خبریں کہاں سے اسے پہنچ جاتی ہیں گویا وہ مجسم کان ہے.اور اس میں کیا شبہ ہے کہ جس قوم کے افراد ہوشیار اور ذ کی ہوں اس کے سردار کو کان بننا پڑے گا.جب ما تحت آنکھیں کھلی رکھیں تو سردار کو کان بنتا پڑتا ہے.نادانوں نے بطور اعتراض یہ کہا کہ آپ کان ہیں مگر دراصل انہوں نے تاریخی طور پر تائیدی شهادت بہم پہنچاوی اور منافق کی تائیدی شہادت سے بہتر اور کیا شہادت ہو سکتی ہے.پس چونکہ رسول کریم انا لا السلام کے صحابہ آنکھ ہی آنکھ تھے.کوئی چیز ان کی نظروں سے پوشیدہ نہ رہتی تھی اس لئے آنحضرت میں ہم سے بھی پوشیدہ نہ رہ سکتی تھی کیونکہ صحابہ جو کچھ آنکھ سے دیکھتے تھے زبان سے رسول کریم میں اللہ کے گوش گزار کر دیتے تھے اور آپ سن لیتے تھے یہ عیب نہیں بلکہ تعریف ہے.قومی ترقیات کا پہلا زینہ یہی ہے کہ قوم کے افراد میں بیداری اور ہوشیاری ہو اور جب یہ بات کسی قوم میں پیدا ہو جائے تو دیکھنے والے دیکھتے ہیں کہ یہ قوم خدا تعالیٰ کے فضلوں کی وارث بننے والی ہے.جب بارش ہوتی ہے تو یکدم نہیں ہو جاتی بلکہ پہلے ٹھنڈی ہوا چلتی ہے پھر بادل آتے ہیں اور ایک قسم کا جس ہوتا ہے جس کے ساتھ ایک قسم کی جنگی ہوتی ہے پھر تھوڑا تھوڑا ترشح ہوتا ہے اس کے بعد زور سے بارش ہوتی ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ کے فضل نازل

Page 142

خطبات محمود ۱۳۷ سال ۱۹۳۱ء ہونے سے پہلے ان کے پیش خیمے اور ہر اول ہوتے ہیں.یہی حال سلسلوں کی ترقی کا ہے.جب خدا تعالی کسی قوم کو ترقی دینے لگتا ہے تو ایسے تغیرات پیدا کرتا ہے جن سے پتہ لگتا ہے کہ اب اس کے فضلوں کی بارش ہوگی.اور جس طرح دھوپ میں یکدم بارش نہیں ہونے لگتی اسی طرح بغیر آثار کے کسی قوم کو بھی ترقی حاصل نہیں ہو سکتی.اگر کوئی شخص یہ دیکھتا ہے کہ اس کے اندر خدا کے فضلوں کے آثار نہیں ، اس کی آواز میں باتوں میں ، خیالات میں خدا تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے والے آثار موجود نہیں تو وہ کس طرح امید کر سکتا ہے کہ اس کے لئے خدا کے فضل آرہے ہیں.اسے چاہئے پہلے اپنے اندر تبدیلی پیدا کرے اور پھر خدا کا فضل ڈھونڈے.پہلے استغفار کرے اور دعاؤں میں لگا ر ہے اور جب اس میں کامیاب ہو جائے تو پھر امید رکھے کہ خدا کے فضلوں کا مورد بننے والا ہے.میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اول تو مومن کو ہر حالت کے لئے ہی یہ حکم ہے خُذُوا حِذْرَكُم ۳.کہ اپنی حفاظت کا سامان اپنے پاس رکھو مگر خصوصاً ان حالات میں جن سے ہمار ا ملک اس وقت گذر رہا ہے اور جب ایسے سامان پیدا ہو رہے ہیں جن کے ہوتے ہوئے سخت احتیاط اور بیداری کی ضرورت ہے تو ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ اپنے کان اور آنکھیں کھلی رکھے اور کوئی قدم نہ اٹھائے مگر اس کے ساتھ ایک نیا علم حاصل کر رہا ہو جو اسلام اور سلسلہ کے لئے مفید ہو.پھر اگر اسے کوئی ایسی بات معلوم ہو جو کسی قومی مسئلہ سے تعلق رکھتی ہو تو چاہئے کہ اسے ان لوگوں تک پہنچائے جن کے سپر د اجتماعی اور اشتراکی کام ہیں.دشمن کے مقابلہ کے لئے پیشتر سے تیار رہنا چاہئے.جو شخص یہ انتظار کرتا ہے کہ دشمن جب گھر پر حملہ کرے گا تو اس کا مقابلہ کرلوں گا وہ بیوقوف ہے.اگر یہ معلوم ہو جائے کہ دشمن کیا ارا دے کر رہا ہے تو مقابلہ آسان ہو جاتا ہے.پس ہمارے احباب کا یہ بھی کام ہونا چاہئے کہ اپنے مذہبی اور سیاسی مخالفین کی خبر رکھیں کہ وہ ہمارے یا اسلام کے یا ملک کے امن و امان کے خلاف کیا مشورے کرتے ہیں کیا ارادے رکھتے ہیں اور ان کی کیا رائے ہے اور پھر یہ معلومات مجھ تک یا سلسلہ کے ذمہ دار کارکنوں تک پہنچا ئیں.پھر یہ بھی ان کا فرض ہے کہ استغفار اور دعائیں کرتے رہیں ، تاکہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کے رستہ میں ہماری کمزوری روک نہ ہو.اگر ہم استغفار کرتے رہیں تو اس طرح ہماری کمزوری پر پردہ پڑ جائے گا کیونکہ جب انسان استغفار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے عفو سے کام لے کر اس کی کمزوریوں پر پردہ ڈال دیتا ہے.نام میں بے شک کمزوریاں ہیں مگر اس میں کیا شبہ ہے کہ ہم جس کام کے لئے کھڑے ہوئے ہیں وہ بہت قیمتی ہے اور اگر ہم استغفار

Page 143

خطبات محمود ۱۳۸ سال ۱۹۳۱ء کرتے رہیں تو اللہ تعالیٰ اسے تباہ نہیں ہونے دے گا.اس کے ساتھ ہی دوستوں کو چاہئے قوت عملیہ کو مضبوط کریں اور اپنے اندر قربانی کا مادہ پیدا کریں کیونکہ جب تک کسی قوم کے اندر قربانی کی روح پیدا نہ ہو اس پر خدا کے فضل نازل نہیں ہو سکتے.فضل حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ قربانی ہی ہے مگر قربانی جرات اور دلیری کے بغیر نہیں ہو سکتی.بزدل آدمی کبھی قربانی نہیں کر سکتا.قربانی کے لئے ضروری ہے کہ انسان مصائب اور مشکلات کا اپنے آپ کو عادی بنائے اسی لئے شریعت نے نماز تہجد اور روزہ کا حکم دیا ہے جس سے انسان کو اپنے آرام کی قربانی کرنی پڑتی ہے.زکوۃ کا حکم دیا ہے جس سے مال کی قربانی کا سبق دینا مقصود ہے اور حج کا حکم دیا ہے جو عزیز و اقرباء اور وطن کی قربانی ہے.ان احکام کے ذریعہ شریعت نے بتایا ہے کہ اگر ترقی کرنا چاہتے ہو تو اپنے آرام و آسائش، عزیز و اقرباء، مال وطن غرضیکہ ہر چیز کی قربانی کے لئے تیار ہو جاؤ.یہ احکام گویا اصل تیاری کے لئے ایک مشق رکھی گئی ہے اور بتایا ہے کہ بغیر مشق کے کوئی کام نہیں ہو سکتا.ایمان بے شک انسان کو آگے لے جاتا ہے مگر پھر بھی تدبیر کی ضرورت ہوتی ہے.رسول کریم امن کے زمانہ میں بھی صحابہ کرام کے دوستانہ مقابلے کرا دیا کرتے تھے.جن میں تیراندازی اور دوسرے فنونِ حرب اور قوت و طاقت کے مظاہرے ہوتے تھے.اور حدیث میں آتا ہے اسی قسم کے کھیل آپ نے مسجد میں بھی کرائے اور حضرت عائشہ ان سے فرمایا اگر دیکھنا چاہو تو میرے پیچھے کھڑی ہو کر کندھوں کے اوپر سے دیکھ لو.نادان کہتے ہیں یہ حدیث غلط ہے کیونکہ اس سے رسول کریم میں ہلالی پر اعتراض ہوتا ہے کہ آپ کھیل دیکھتے تھے حالانکہ یہی وہ خوبی ہے جسے چھوڑ کر مسلمان آج تباہ ہو رہے ہیں.اسلام نے ہر وقت ہوشیار اور دشمن کے مقابلہ کے لئے تیار رہنے کا حکم دیا ہے اور اس کے ساتھ ہی عورت کو بھی بزدلی سے بچانا چاہا ہے.ہندوستان میں مغلیہ حکومت کی تباہی میں عورت کی بزدلی اور مرد کے دل میں عورت کی بے جا محبت کا بہت دخل ہے.غدر کے زمانہ میں انگریزوں کے ہمدردوں نے جب دیکھا کہ باغی فوج نے ایک ایسے مقام پر تو پیں رکھی ہیں جہاں سے صاف انگریزی فوجوں پر زد پڑتی ہے اور وہ تباہ ہو جائیں گی تو انہوں نے زینت محل کو جو بادشاہ کی چہیتی بیوی تھی مگر اس خیال سے کہ میرا بیٹا تخت نشین ہو انگریزوں سے بھی ساز باز رکھی تھی گو اس وقت تخت اور بادشاہت برائے نام ہی تھی مگر پھر بھی اسے خواہش تھی کہ میرا بیٹا اسے حاصل کرے یہ پیغام بھیجا کہ اگر کچھ فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہو تو یہاں سے تو پہیں اٹھوا دو کیونکہ وہ جگہ انگریزی فوجوں کے لئے نہایت خطرناک ہو سکتی

Page 144

L خطبات محمود ۱۳۹ سال ۱۹۳۱ء تھی اور خیال ہے کہ اگر وہاں سے تو ہیں ہٹائی نہ جاتیں تو شاید غدر کا نتیجہ بالکل الٹ ہو تا.زینت محل نے بادشاہ سے کہا کہ میرا تو دل گھٹتا ہے اور میں بے ہوش ہو جاؤں گی.یا تو یہاں سے تو ہیں اٹھوا دو اور یا پہلے مجھے مار دو.بادشاہ نے اس کے کہنے پر تو ہیں وہاں سے ہٹوا دیں.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کے ہاتھ سے حکومت نکل گئی.اگر یہ واقعہ صحیح ہے تو بادشاہ پر زینت محل کے اس بہانہ کا اسی وجہ سے اثر ہوا کہ وہ جانتا تھا یہ تو پوں کی آوازیں سننے کی عادی نہیں.اگر اس کے سامنے پہلے بھی تو ہیں چلتی رہی ہو تیں تو اس وقت وہ ہر گز یہ بہانہ نہ بنا سکتی کیونکہ بادشاہ کہہ سکتا تھا جب پہلے تم ان کی آوازیں سنتی رہی ہو تو آج کیوں بے ہوش ہو جاؤ گی.تو عورتوں کو دلیری اور حوصلہ کے کاموں سے الگ رکھنے کا یہ نتیجہ ہوا کہ زینت محل نے بادشاہ کو دھوکا دیدیا.حضرت عائشہ کوئی جنگی منظر دیکھ کر ہر گز یہ نہ کہہ سکتی تھیں کہ میرا دل گھٹتا ہے کیونکہ رسول کریم انہیں جنگی کرتب دکھاتے اور جنگ میں ہمیشہ کسی نہ کسی بیوی کو ساتھ رکھتے تھے.اس سے بعض نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ سفر میں بیوی کو ساتھ رکھنا سنت ہے.بے شک ہے مگر اس سے بڑی سنت یہ ہے کہ عورتوں کے اندر جرات اور بہادری پیدا کی جائے کیونکہ جب تک ان میں بهادری نہ ہو کوئی قوم جیت نہیں سکتی.قومی ترقی میں سب سے بڑی روک عورت کی بزدلی ہوتی ہے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ ہمارے گھر میں کوئی سیڑھی سے گر پڑا میں اسے بچانے کے لئے کودنے لگا تو میری بیوی مجھے چمٹ گئی کہ ایسانہ کرو - آخر مجھے دھکا دیکر اسے پیچھے ہٹانا پڑا.بجائے اس کے کہ وہ یہ خیال کرتی کہ میرا خاوند اسی وقت محبت کے قابل ہو سکتا ہے جب اس کے دل میں جرات اور بہادری ہو اس نے الٹا مجھے روکنا چاہا.پس ہماری جماعت کا فرض ہے کہ عورتوں کو دلیر بنائے.صحابہ نے عورتوں کی بہادری سے بڑے بڑے فائدے اٹھائے ہیں.جنگ یرموک میں مسلمانوں کے لئے نہایت ہی نازک موقع تھا.اس میں عیسائیوں کے لشکر کی تعداد چھ سے دس لاکھ بیان کی جاتی ہے.اور روم کا بادشاہ یہ عہد کر کے آیا تھا کہ یا تو میں مسلمانوں کو تباہ کر دوں گا یا خود واپس نہیں آؤں گا اور اگر چہ وہ خود جنگ میں تو شامل نہ ہو اگر ان کے پیچھے تمام انتظامات کر تا رہا تھا اور اس نے اپنے لشکر کے کمانڈر سے جس کا نام غالبا ما ہا ن تھا وعدہ کیا تھا کہ اگر تم کامیاب ہو گئے تو میں اپنی لڑکی کی شادی تمہارے ساتھ کردوں گا.اس جنگ میں مسلمانوں کی تعداد ساٹھ ہزار تھی اور ان کے میسرہ کو شکست ہو گئی.اول تو کسی وقت بھی پہلو کو شکست ہو تو بہت خطرہ ہوتا ہے کیونکہ دشمن گھیرا ڈال کر ساری

Page 145

خطبات محمود ۱۴۰ سال ۱۹۳۱ عو فوج کو تباہ کر سکتا ہے.مگر جس صورت میں فوج پہلے ہی قلیل ہو تو پھر اس.بچنے کی کوئی صورت نہیں ہو سکتی.اور دشمن ایک ایک آدمی چن کر قتل کر سکتا ہے.اگر خدا کی نصرت شامل حال نہ ہوتی تو اس دن ایک مسلمان کا بچنا بھی محال تھا کیونکہ دشمن کی تعداد بہت زیادہ تھی اور پھر بازو سے شکست ہو چکی تھی.اس وقت مسلمانوں کی عورتوں نے لشکر کو بچایا.جو لوگ پیچھے ہے ان میں ابو سفیان بھی تھے.وہ اگر چہ بڑے بہادر تھے اسلام میں بڑے بڑے کام کر چکے تھے اور اعلیٰ درجہ کے جرنیل تھے مگر جب باقی لشکر پیچھے ہٹا تو ان کو بھی ہٹنا پڑا.اس وقت ان کی بیوی ہندہ جو مسلمانوں میں غضبناک نگاہوں سے دیکھی جاتی ہے لکڑی ہاتھ میں لے کر آگے بڑھی اور اپنے خاوند کے گھوڑے پر مار کر کہنے لگی تمہیں شرم نہیں آتی کفر کی حالت میں تو اسلام کا اس قدر مقابلہ کیا اور اب اسلام کی حالت میں پیچھے بھاگتے ہو.ابو سفیان کی طبیعت بامذاق تھی وہ یقیناً بہادر آدمی تھے صرف ساتھیوں کے پیچھے ہٹنے نے انہیں مجبور کر دیا تھا کہ پیچھے ہٹیں.لیکن جس وقت ہندہ نے یہ فقرہ کہا تو انہوں نے چیخ کر ساتھیوں کو پکارا اور کہا واپس آؤ.یہ بھاگنے کی موت اس موت سے بہت بد تر ہے جو میدان جنگ میں آئے.چنانچہ مسلمان پھر آگے بڑھے اور میدان مار لیا.تو عورت کا ایک فقرہ تھا جس نے جنگ کا نقشہ بدل دیا.اور یہاں تک لکھا ہے کہ نصف گھنٹہ تک عورتیں خود لڑتی رہیں اور جو Gap ہو گیا تھا چو میں قناتیں غرضیکہ جو کچھ کسی کے ہاتھ آیا لے کر اس کی حفاظت کرتی رہیں.یہاں تک کہ مسلمانوں کا لشکر کوٹ کر واپس آگیا.اسی طرح ایران سے ایک جنگ کے موقع پر بھی یہ خیال کیا جاتا تھا کہ مسلمان ہیں ڈالے جائیں گے کیونکہ اس سے پہلے روز مسلمان سخت زک اٹھا چکے تھے اور ان کے قریباً بیس ہزار آدمی شہید ہو چکے تھے.مسلمانوں کا اس قدر جانی نقصان اس سے پہلے کبھی نہ ہوا تھا.اس وقت ایک عورت تھی جس کے تین چار لڑکے لڑائی میں شریک تھے ہمارے ملک کی اگر کوئی عورت ہوتی تو اول تو وہ اپنے ایک بچہ کو بھی جنگ میں شامل نہ ہونے دیتی اور اگر بہت ہی مجبور کیا جاتا تو ایک دو کو بھیجتی اور ایک دو اپنے پاس رکھتی اور جسے بھیجتی اسے بھی یہی نصیحت کرتی کہ بیٹا دیکھنا بڑھیا ماں کا خیال کرنا اور اپنی جان کی فکر رکھنا.مگر وہ ماں اور بڑھیا ماں جس کا نام خنساء تھا تین دن کی لڑائی کے بعد جب بظاہر مسلمانوں کے بچنے کی کوئی امید نہ تھی کیونکہ مسلمانوں کو پہلی دفعہ ہاتھیوں سے مقابلہ پڑا تھا اور وہ انہیں پاؤں میں کچلتے جاتے تھے ، آئی اور اپنے بیٹوں سے کہا میں نے تمہارے باپ دادا کی عزت میں کبھی خیانت نہیں کی اور امید کرتی ہوں کہ اس خدمت کے

Page 146

خطبات محمود ۱۴۱ سال ۱۹۳۱ء صلہ میں جو میں نے تمہارے آباء و اجداد کی عزت کی حفاظت کرنے میں کی ہے تم آج میری عزت کی حفاظت کرو گے اور میدان سے پیٹھ دکھا کر نہیں بھا گو گے.اگر خدا تعالیٰ زندگی دے تو کامیاب ہو کر آؤ وگرنہ پیٹھ دکھا کر نہ آؤ.اس شیر دل عورت کے لڑکوں نے بھی اس دن ایسی جنگ کی کہ سب نے ان کی تعریف کی اور اللہ تعالیٰ کو بھی اس کا اخلاص ایسا پسند آیا کہ اس کے سب بیٹے زندہ واپس آگئے.پھر عورت کی بہادری کا ایک اور واقعہ بیان کرتا ہوں.حضرت سعد بن وقاص بڑے بہادر آدمی تھے اور رسول کریم ﷺ کے ساتھ کئی جنگوں میں شریک ہو چکے تھے اور اس میں کیا شبہ ہے رسول کریم میں اللہ کی زندگی میں لڑائی جیسی سخت ہوتی تھی بعد میں کبھی نہیں ہوئی کیونکہ اس وقت آپ کی حفاظت کا سوال بھی ہو تا تھا.تو آپ کے بعد ایک جنگ میں آپ جرنیل تھے اور آپ کی بیوی بھی ساتھ تھی جو ایک مسلمان جرنیل کی بیوہ تھیں مگر ان کی وفات کے بعد سعد بن وقاص سے شادی کرلی تھی آپ کے بدن پر بہت پھوڑے نکلے ہوئے تھے.اس لئے جنگ میں شامل نہ ہو سکے.عورت کی یہ فطرت ہے کہ بیوہ یا مطلقہ ہونے کی صورت میں وہ دوسرے خاوند کے سامنے اپنے پہلے خاوند کا ذکر نہیں کرتی کیونکہ اگر اس کے دل میں واقعی اس کا احترام ہو اور وہ اس کا نام لیتے ہوئے اس کا اظہار نہ کرے تو یہ غداری ہوتی ہے اور اگر کرے تو خاوند کے دل میں رشک پیدا ہوتا ہے.حضرت سعد ایک اونچی جگہ پر بیٹھے تھے اور وہیں سے احکام صادر کر رہے تھے.آپ پر چے لکھ لکھ کر پھینکتے جاتے اور سپاہی آگے لے جاکر افسروں کو پہنچاتے جاتے تھے.ایرانیوں کا ایک سفید ہاتھی تھا جو قد و قامت میں بھی بہت بڑا تھا اور لڑائی کے لئے بھی اسے خاص طور پر تیار کیا گیا تھا.اس نے مسلمانوں کا ایک قبیلہ سارے کا سارا مار ڈالا.اور اس میں سے ایک بھی زندہ نہ چھوڑا.سعد بیٹھے پہلو پر پہلو بدلتے مگر بیماری کی وجہ سے کچھ نہ کر سکتے تھے.صرف حکم لکھتے جاتے.ان کی بیوی کو بھی سخت اضطراب تھا جب اس نے دیکھا مسلمان اس طرح پیسے جارہے ہیں تو وہ بے اختیار اپنے پہلے خاوند کا نام لے کر چلا اٹھی کاش! آج مٹی ہو تا.یہ ایک ایسی طنز تھی جو سعد سے برداشت نہ ہو سکی.وہ وہ شخص تھے جنہوں نے رسول کریم اے کے ساتھ لڑائیوں میں بڑے بڑے کار ہائے نمایاں کئے تھے.اور اب بھی اگر معذور نہ ہوتے تو ضرور میدان جنگ میں ہوتے تاہم ان کی بیوی کا منشاء یہ تھا کہ خواہ کچھ ہو ضرو ر میدان میں جاؤ.بیوی کی اس طنز سے انہیں سخت غصہ آیا اور انہوں نے اسے ایک تھپڑ مار دیا.بیوی نے کہا یہ کیا بہادری ہے کہ ایک عورت کو تھپڑ مارتے ہو اور دشمن مسلمانوں کو شہید کرتے جارہے ہیں اور ان کے

Page 147

خطبات محمود ۱۲ سال ۱۹۳۱ء مقابلہ کے لئے نہیں نکلتے.حضرت سعد پر اس کا ایسا اثر ہوا کہ انہوں نے خیال کیا جب میری بیوی کو یہ خیال ہے تو ممکن ہے دوسرے مسلمان بھی یہی سمجھتے ہوں کہ میں ڈر کی وجہ سے میدان میں نہیں آتا اس لئے شام کو انہوں نے سارا لشکر جمع کیا اور کپڑے اتار کر دکھائے کہ دیکھو میرے بدن پر سر سے پاؤں تک پھوڑے نکلے ہیں.تو ابتدائی ایام میں مسلمان عورتوں نے بڑا کام کیا.مگر اسی وجہ سے کہ انہیں جنگوں میں شامل ہونے کا موقع دیا گیا.رسول کریم میں ہمیشہ انہیں جنگوں میں شامل رکھتے تھے.لڑائی کے فنون سکھاتے تھے اور مشق کراتے تھے.مگر اب مسلمانوں نے یہ باتیں چھوڑ دی ہیں.میں نے لجنہ اماء اللہ قائم کی ہیں مگر وہ ابتدائی حالت میں ہیں.بعض عورتیں بعض اوقات ہمت دکھاتی ہیں مگر کئی اور اگر لڑائی میں شامل ہونے کے لئے تیار نہیں کر سکتے تو کم از کم ان کے اندر اتنی جرات تو لئے جان دینے کے لئے جائے تو انہیں بجائے صدمہ کے اس خیال سے خوشی ہو کہ اس ثواب میں ہم بھی شریک ہیں.جو آدمی جنگ کے لئے ایسی حالت میں نکلتا ہے کہ اپنے گھر والوں کے دل ٹوٹے ہوئے دیکھتا ہے.وہ خود شکستہ دل ہو جاتا ہے.لیکن اگر اسے یہ محسوس ہو کہ گو فطری طور پر میرے گھر والوں کو میری جدائی کا غم ہے مگر وہ خوش بھی ہیں اور اگر چہ دعا کرتے ہیں خدا تعالیٰ میری حفاظت کرے لیکن اگر میں شہید ہو جاؤں تو بھی انہیں خوشی ہی ہوگی تو وہ اپنے اندر خاص دلیری اور جرأت محسوس کرے گا.اگر ہم مذہب کو سچا سمجھتے ہیں تو موت کیا چیز ہے ؟ یہ تو ایک دروازہ ہے خدا تعالیٰ تک پہنچانے کا اور خدا تعالی کے راستہ میں تکالیف اٹھانے سے بڑھ کر انعام اور کیا ہو سکتا ہے؟ لیکن یہ بھی یادر کھو! بلا وجہ دوسری قوموں کی دل شکنی کسی طرح جائز نہیں مسلمان کو ہمیشہ خود حفاظتی کے لئے اٹھنا چاہئے.صلح میں بھی اور جنگ میں بھی.مسلمان کو دوسروں کے مذاہب کا احترام کرنا چاہئے جب تک وہ مجبور نہ ہو جائے.جب مخالفین ہمارے بزرگوں کو گالیاں دیں اور کسی طرح باز نہ آئیں تو ایک لمبے عرصہ تک صبر کرنے کے بعد ہم بھی جواب دے سکتے ہیں تا انہیں محسوس ہو کہ ان کا رویہ ہمارے لئے کس قدر تکلیف دہ ہے.رسول کریم میم نے فرمایا ہے اگر مو ا سيد قوم ہے کہ دوسروں کے بزرگوں کا احترام کرو.اور لوگ خواہ کریں یا نہ کریں ہمارا فرض ہے کہ کریں سوائے اس کے کہ وہ باز نہ آئیں اور برابر ہماری دل آزاری کرتے جائیں.اس صورت میں اگر جوابی طور پر ہماری طرف سے کچھ کہا جائے تو وہ جائز ہے.ہمت ہار بیٹھتی ہیں.ہمارا فرض ہے کہ ہم انہیں دلیر بنا کر اس کہ اگر ہم میں سے کوئی اسلام کے

Page 148

خطبات محمود ۱۴۳ سال ۱۹۳۱ء اسی طرح معابد و هرم سالہ اور مندر وغیرہ ہیں ان کا احترام بھی ضروری ہے سوائے اس کے کہ دشمن ایسی شرارت پر آمادہ ہو اور اسے محسوس کرانے کے لئے کہ یہ ہمارے لئے کس قدر باعث تکلیف ہے جو ابی طور پر کچھ کرنا پڑے.چنانچہ مسلمانوں نے جب کبھی مندر گرائے اسی صورت میں گرائے ہیں.محمود غزنوی پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس نے مندر مسمار کئے حالانکہ اس کی یہ کار روائی جوابی تھی.پہلے ہندوؤں نے افغانستان پر حملے کر کے مسلمانوں کے معابد مسمار کئے اور پھر اس نے ایسا کیا.اور ایسی صورت میں بے شک ہمارا بھی حق ہے تا دشمن کو یہ بتایا جا سکے کہ شرافت سے کام لے اور لڑائی میں بھی آپے سے باہر نہیں ہونا چاہئے وگرنہ مندر بھی قابل احترام ہیں خواہ ان میں بت پرستی ہی کی جائے کیونکہ یہ بھی در اصل روحانیت میں ترقی کے لئے ہے گو غلط طریق ہے.اور یہی احساس ایک دن بت پرست کو خدا تعالیٰ تک پہنچا سکتا ہے.اگر کوئی بچے دل سے بتوں کے آگے سجدہ کرتا ہے تو اس سے بھی اس کے اندر ایک ایسی نرمی پیدا ہو جاتی ہے کہ اگر کوئی اس کے سامنے خدا تعالٰی کو پیش کرے تو وہ مان لے گا.اس کے اندر نیت موجود ہے جس سے آدھا سفروہ طے کر چکا ہے بقیہ آدھا جو طے کرتا ہے اتنا مشکل نہیں رہ جاتا.کامیابی کے لئے صحیح نیت اور صحیح راستہ کی ضرورت ہوتی ہے اور جس کے اندر صحیح نیت موجود ہو اس نے آدھا راستہ طے کر لیا بشرطیکہ وہ بناوٹ یا رسم و رواج اور آباء و اجداد کی دیکھا دیکھی ایسا نہ کرتا ہو اور اس کے اندر اخلاص اور سنجیدگی موجود ہو.اس لئے ان کے معاہد کا بھی احترام کرنا چاہئے.ہاں اگر ده شرارت کریں اور ہمارے معابد کی بے حرمتی کریں تو فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُم لے کے ماتحت تم بھی ایسا کر سکتے ہو.میں امید کرتا ہوں کہ ہماری جماعت جہاں عورتوں کے اندر بہادری اور جرات پیدا کرنے کی کوشش کرے گی وہاں یہ بھی خیال رکھے گی کہ سوائے اس کے کہ دوسروں کی طرف سے ابتداء کی جائے جس کے بعد بے شک اسے بھی حق ہو گا وہ دوسروں کے معاہد کی جہاں وہ اپنے اپنے رنگ میں خدا کی یاد کرتے ہیں یا ان کی قومی یادگاروں کی بے حرمتی نہ کرے گی.ہاں جب ابتداء دو سروں کی طرف سے ہو تو اس کی ذمہ داری ان پر ہوگی.اور جب ایسا ہو تو انہیں یا درکھنا چاہئے کہ مومن دلیر ہوتا ہے اور جان کی پرواہ کبھی نہیں کرتا.کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس وقت کونسی لڑائی در پیش ہے کہ ایسی باتیں بیان کی جاتی ہیں مگر یاد رکھنا چاہئے اسلام ہر وقت تیار رہنے کا حکم دیتا ہے.اگر ساری دنیا میں امن ہو تب بھی مسلمانوں کو ہمیشہ ہو شیار اور بیدار رہنا چاہئے.جب یہاں

Page 149

محمود ۱۴۴ سال ۱۹۳۱ء مسلمانوں کی حکومت تھی اس وقت انہوں نے جنگ کے لئے تیاری کا خیال نہ کیا اور ست اور غافل ہو گئے.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سکتے اور بزدل بن گئے.عورتوں کے دل چڑیا کے دل کی طرح ہو گئے.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان تباہ ہو گئے اور دوسروں کے غلام بن گئے.اپنے زمانہ حکومت میں اگر وہ دشمن کے مقابلہ کے لئے تیار ہوتے تو یہ دن ہر گز نہ دیکھنے پڑتے اور ہمارے دشمنوں کو یہ کہنے کا موقع نہ ملتا کہ چونکہ ہمارا مذ ہب سچا ہے اس لئے ہم ترقی کر رہے ہیں.یہ خیال مت کرو کہ چونکہ لڑائی نہیں.اس لئے ہمیں مقابلہ کی تیاری کرنے کی ضرورت نہیں.کون کہہ سکتا ہے کہ ملک میں کب جنگ شروع ہو جائے.دوسری قومیں ہمیشہ لڑائی شروع کرنے کے اشارے کرتی رہتی ہیں.پہلے بھی وہ ایسے اشارے کیا کرتی تھیں اور پھر ان کے ارادے پورے بھی ہو گئے.اب پھر وہ ایسا ہی کرہی ہیں اس لئے ہمیں ہمیشہ تیار رہنا چاہئے.اور میں کہتا ہوں وہ دن آئے یا نہ آئے ہمیں بہر حال تیار رہنا چاہئے اور ہماری تیاری رائیگاں نہیں جائے گی.ہم اس سے اور رنگ میں بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں.جنگ عظیم کے دنوں میں جو کار خانے بندوقیں تو ہیں اور دیگر جنگی اسلحہ جات تیار کیا کرتے تھے صلح کے بعد اب وہ دو سرے کام کرتے ہیں.اس لئے اگر جنگ نہ بھی ہو تو بھی ہم اپنی تیاری کو تعلیم و تبلیغ کے کام میں لگا سکتے ہیں.اگر جنگ نہ ہو تو بھی تعلیم و تبلیغ کا کام اور اقتصادی جنگ تو ہو رہی ہے اس میں ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں.اس لئے ہماری جماعت کو چاہئے خود خُذُوا حِذْرَكُمْ کے حکم پر عمل کرے.اور دوسرے مسلمانوں کو بھی اس پر کار بند کرنے کی کوشش کرے.کیونکہ ان کی حفاظت بھی ہمارے ذمہ ہے.اور اتنی بڑی قوم کی حفاظت ہم اسی صورت میں کر سکتے ہیں کہ اسے بھی تیار کریں اور اصل قوت تو خد اتعالیٰ سے ہی آتی ہے اس لئے دعا ئیں بھی کرنی چاہئیں اور اس سے امید رکھنی چاہئے کہ وہ اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا کر دے کہ ہم اس کے فضلوں کے وارث بن سکیں.(الفضل ۱۹- اپریل ۱۹۳۱ء) البقرة :۱۵۰ ل التوبة : ٦١ النساء : ۷۲ بخاری کتاب الصلوة باب اصحاب الحراب في المسجد

Page 150

۱۴۵ سال ۱۹۳۱ء ه.تاريخ الامم و الملوک لابی جعفر محمد بن جریر الطبری جلد ۴ صفحه ۳۶۸ مطبوعه بیروت لبنان ۱۹۸۷ء ل تاريخ الامم و الملوک لابی جعفر محمد بن جرير الطبری جلد ۴ صفحه ۴۰۲٬۳۶۶ مطبوعہ بیروت لبنان ۱۹۸۷ء ک ابن ماجه کتاب الادب باب اذا اتاكم کریم قوم فاکر موه البقرة : ۱۹۵

Page 151

خطبات محمود 16 جماعت احمدیہ منصوری کی ذمہ داریاں (فرموده ۲۴- اپریل ۱۹۳۱ء بمقام منصوری) سال ۱۹۳۱ء تشهد تعوز اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- اللہ تعالی کی طرف سے مختلف قسم کی خصوصیات مختلف چیزوں کو عطا ہوتی ہیں.اور ان خصوصیتوں کے لحاظ سے ان کو درجہ ملتا ہے حتی کہ مقامات اور جگہوں کو بھی بعض دوسری جگہوں پر فوقیت اور فضیلت حاصل ہو جاتی ہے.مکہ مکرمہ کی زمین بھی بظاہر دیسی ہی زمین ہے جیسی باقی دنیا کی لیکن چونکہ اللہ تعالٰی نے اس مقام کو خانہ کعبہ کے لئے چن لیا اس لئے اس جگہ کو اس خصوصیت کی وجہ سے دوسرے مقامات پر فضیلت حاصل ہو گئی.مدینہ منورہ بھی اور شہروں کی طرح ہی کا ایک شہر تھا لیکن جب اللہ تعالی نے اسے ایک خاص غرض کے لئے چنا اور رسول کریم مکہ سے ہجرت کر کے وہاں تشریف لے گئے تو اسے اور شہروں پر فضیلت حاصل ہو گئی یہی حال اور مقامات کا ہے.رسول کریم ﷺ سفر میں جاتے ہوئے اگر کسی مقام پر رستہ میں ٹھہرے بھی ہیں تو صحابہ نے اس مقام کو بھی خاص مقام قرار دے دیا حتی کہ سفر میں ایک دفعہ رسول کریم نے جہاں بیٹھ کر پیشاب کیا وہاں حضرت عبد اللہ بن عمر پیشاب کے لئے بیٹھے اس طرح اس مقام کو بھی ایک خصوصیت حاصل ہو گئی.ایسی خصوصیات کی وجہ سے ان مقامات کے رہنے والوں کی ذمہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں.اللہ تعالی نے مکہ مکرمہ کو چنا جس سے مکہ کو خاص خصوصیت حاصل ہو گئی لیکن اس کے ساتھ ہی وہاں کے رہنے والوں کو ذمہ دار قرار دیا گیا کہ وہ اسلام اور ہدایت کو دنیا میں پھیلائیں.اہل مکہ نے باوجود اس کے کہ پہلے رسول کریم اے کی بہت مخالفت کی لیکن بعد میں انہوں نے اپنی اس ذمہ داری کو خوب نباہا.اسی طرح اہل مدینہ کی !

Page 152

خطبات محمود ۱۴۷ سال ۱۹۳۱ء ذمہ داریاں مدینہ کو رسول کریم ﷺ کی آمد کی وجہ سے خصوصیت حاصل ہونے کے ساتھ ہی بڑھ گئیں اور اہل مدینہ نے اپنی ذمہ داریوں کو خوب نباہا.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مختلف فضیلتیں مختلف مقامات کو دیں ہیں.مجھے آج اس مسجد میں داخل ہوتے ہوئے خیال آیا کہ منصوری کو بھی ایک خاص فضیلت حاصل ہے اور وہ یہ کہ ہندوستان میں صرف یہی ایک پہاڑی مقام ایسا ہے جہاں احمدیوں کی مسجد ہے.شملہ میں جماعت ہے لیکن اس کی کوئی مسجد نہیں دارجلنگ میں جماعت ہے لیکن وہاں کی جماعت کے پاس بھی کوئی مسجد نہیں.ڈلہوزی میں بھی ہماری جماعت کے لوگ جاتے رہتے ہیں لیکن وہاں بھی احمدیوں کی کوئی مسجد نہیں لیکن اس جگہ مسجد ہے جس کی وجہ سے یہاں کی جماعت کی ذمہ داریاں بھی بڑھ گئی ہیں کیونکہ مسجد کی آبادی بھی ضروری ہوتی ہے.خانہ کعبہ کو پاک رکھنے اور آباد کرنے کا فرض وہاں کے لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا تھا.یہاں کی جماعت پر مسجد کی آبادی اور تبلیغ کی ذمہ داری اور پہاڑی مقامات کی نسبت زیادہ عائد ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ کا گھر ہمیشہ بڑھا کرتا ہے.حضرت مسیح موعود فرمایا کرتے تھے کہ خدا کے گھر ہمیشہ بڑھتے رہتے ہیں.جب قادیان میں مسجد اقصیٰ کے پاس ایک اونچا مکان ہندوؤں کا بنے لگا تو بعض دوستوں کو بہت برا محسوس ہوا اور انہوں نے کہا ایسا مکان مسجد کے ساتھ نہیں بننا چاہئے جو اس کی ترقی میں روک ہو.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا مسجد خدا کے فضل سے ترقی کرے گی اور بڑھ جائے گی اس لئے یہ مکان بھی مسجد کے ساتھ شامل ہو جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے یہ الفاظ سننے والے موجود ہیں.اس مکان کا ایک حصہ خرید لیا گیا اور اب باقی حصہ بھی اسی ماہ میں خرید لیا گیا ہے.اب یہ مکان یا تو مسجد کے ساتھ شامل کر لیا جائے گایا سلسلہ کے اور کاموں کے لئے استعمال ہوگا.میں سمجھتا ہوں کہ منصوری کی احمد یہ مسجد کے آباد کرنے کی اگر ہماری جماعت کے لوگ کوشش کریں تو ضروری ہے کہ اس مسجد کے اظلال بھی ارد گرد کے علاقے میں پیدا ہو جائیں.رسول کریم میم نے فرمایا ہے اتي اخرُ الأَنْبِيَاءِ وَإِنَّ مَسْجِدِى اخرُ الْمَسَاجِدِ اس سے مراد یہی ہے کہ اور مساجد جو دنیا میں بنیں گی وہ حضرت نبی کریم ﷺ کی مسجد کا ظل ہوں گی.اسی طرح ممکن ہے کہ یہاں کے لوگوں کے اخلاص میں اللہ تعالٰی برکت دے اور اس مسجد کے اظلال کے طور پر ارد گرد کے علاقے میں احمدی مساجد قائم ہو جائیں.دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ بڑے لوگوں کی چیزوں کی لوگ قدر اور حفاظت کرتے ہیں اسی ا

Page 153

خطبات محمود ۱۴۸ طرح اللہ تعالی کی طرف منسوب ہونے والا گھر بھی محفوظ اور برکتوں کا موجب ہوتا ہے.میں دیکھتا ہوں کہ جن جن جماعتوں نے اخلاص کے ساتھ اپنے شہروں میں مسجدیں تعمیر کرائی ہیں ان جماعتوں نے ترقی بھی کی ہے.ہاں یہ ضروری ہے کہ مسجد میں دکھاوا نہ ہوں ان میں اللہ تعالیٰ کا ذکر خشوع و خضوع سے ہونا ان کی ظاہری خوبصورتی سے بہت بہتر ہے.میں نے ایک مسجد کو دیکھا جسے ایک ایسی جماعت نے جس میں چند ہی احمدی تھے تعمیر کرایا تھا اور اس پر ہزاروں روپیہ خرچ ہوا تھا.مجھے خیال آیا کہ اس مسجد پر بلحاظ جماعت کے زیادہ روپیہ خرچ ہوا ہے.اس میں میں نے خطبہ اس مضمون پر پڑھا کہ مسجد میں ذکر الٹی کے لئے ہوتی ہیں ان میں نقاشی کے ذریعہ اسراف کی ضرورت نہیں مگر میری نصیحت پر ان لوگوں نے اس وقت کوئی توجہ نہ کی.آخر تھوڑے دنوں کے بعد ہی وہاں کی جماعت کمزور ہو گئی اور وہ شخص جس نے مسجد کی تعمیر میں زیادہ حصہ لیا تھا اور مجھ ذاتی طور پر بہت تعلق ظاہر کرتا تھا غیر مبائع ہو گیا اور غالبا اب وہ احمدی بھی نہیں.پس اگر ایک مسجد سادہ ہو اور اس میں خشوع و خضوع سے نماز ادا کرنے والے نمازی جمع ہوں تو وہ ایسی مسجد سے بہت بہتر ہے جو کہ عمارت کے لحاظ سے عالیشان ہو مگر اس میں خدا کا نام لینے والا کوئی نہ ہو.جس اخلاص سے یہاں کے لوگوں نے مسجد قائم کی ہے یقیناً یہ اخلاص برکتوں کا موجب ہوگا اور اگر یہ لوگ اس نیت سے تبلیغ کریں کہ اللہ تعالیٰ اس مسجد کو نمازیوں سے بھر دے تو میں امید رکھتا ہوں کہ اس نیت سے ان کی تبلیغ زیادہ بابرکت ہوگی.جس جگہ مسجد بنائی جاتی ہے وہاں کے لوگوں میں وہ اس بات کے لئے گدگدی پیدا کرتی رہتی ہے کہ اسے آباد رکھا جائے.حضرت ابراہیم کی مثال ہمارے سامنے ہے.جب انہوں نے بیت اللہ کی تعمیر کی تو دعا کی کہ الہی ! اس کو آباد کر دے.چنانچہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مختلف قبائل اپنے وطنوں کو چھوڑ کر وہاں آباد ہو گئے.مساجد خداتعالی کی یاد کا کام دیتی ہیں.اگر چہ بظاہر اینٹیں اور پھر نظر آتے ہیں لیکن وہ ایک نشان کے طور پر ہوتی ہیں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لئے بنائی جاتی ہیں اور مسجد کو دیکھ کر فورا خدایاد آجاتا ہے.جس طرح ہم کسی اپنے دوست کے مکان کے پاس سے گزریں تو اس مکان کو دیکھ کر ہمیں وہ دوست یاد آجاتا ہے اسی طرح مسجد کو دیکھنے سے بھی انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے.پس میں امید کرتا ہوں کہ اگر یہاں کے دوست یہ نیت کرلیں کہ وہ مسجد کو آباد کریں گے اور ساتھ ہی دعا ئیں بھی کریں اور مسجد کی آبادی کو مد نظر رکھتے ہوئے جوش کے ساتھ تبلیغ کریں تو بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے اخلاص میں برکت دے اور وہ اس جگہ کو دوسری جگہوں پر

Page 154

خطبات محمود ۱۴۹ سال ۱۹۳۱ء فضیلت والی بنانے کا موجب ہو جائیں.پہاڑ دنیا کے قیام کا باعث ہوتے ہیں اسی لحاظ سے انبیاء کو بھی پہاڑ قرار دیا گیا ہے اور جبال سے مراد علماء دین بھی لئے جاتے ہیں.سو پہاڑوں کو انبیاء اور علماء کے ساتھ نسبت ہے اس باطنی نسبت کے ساتھ اب پہاڑوں کو الٹی سلسلوں کے ساتھ ایک نسبت ظاہری بھی ہو گئی ہے.اب ہمارا تمدن اس طرح کا ہو گیا ہے کہ ہندوستان کی آبادی کا معتدبہ حصہ اور اعلیٰ طبقہ پہاڑوں پر گرمیوں میں جمع ہو جاتا ہے.اگر ایسے مختلف پہاڑی مقامات پر ہماری جماعتیں مضبوط ہو جائیں تو پھر ہم سارے ہندوستان کے چیدہ لوگوں میں تبلیغ کر سکتے ہیں.سارے بنگال میں دورہ کرنا ہمارے لئے مشکل ہے لیکن دارجلنگ میں سارے بنگال کے چیدہ لوگوں کو تبلیغ کی جاسکتی ہے.شملہ مری ، ڈلہوزی میں جماعتیں مضبوط ہونے سے سارے صوبہ پنجاب میں تبلیغ ہو سکتی ہے.اسی طرح اگر کشمیر میں تبلیغ کا انتظام مضبوط ہو جائے تو چونکہ وہاں تمام ہندوستان کے لوگ جاتے ہیں اس لئے کشمیر کے ذریعہ تمام ہندوستان میں تبلیغ ہو سکتی ہے.الغرض چند ایک پہاڑوں پر جماعتوں کے مضبوط ہو جانے سے سارے ہندوستان میں تبلیغ کے راستے ہمارے لئے کھل سکتے ہیں.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ ہمارے یہاں کے دوستوں کے اخلاص میں ترقی دے.اگر یہاں کسی کو تاہی یا غفلت کی وجہ سے پہلے تبلیغ مؤثر طور پر نہیں ہوتی تو اللہ تعالٰی موانع کو دور فرما دے.اسی طرح دوسرے ایسے مقامات میں اللہ تعالی سامان مہیا فرمائے جہاں تبلیغ کسی صوبہ یا ملک کے لئے موثر ہو سکتی ہے.ا بخاری کتاب الحج باب ذات عرق لاهل العراق مسلم کتاب الحج باب فضل الصلوة بمسجدى مكة والمدينة الفضل ۵ - مئی ۱۹۳۱ء)

Page 155

خطبات محمود ۱۵۰ 17 سال ۱۹۳۱ء جماعت احمدیہ کا ہر فرد بیدار ہو (فرموده ۱۵- مئی ۱۹۳۱ء) تعوز اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.قریباً ایک ماہ بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ عرصہ ہو گیا ہے کہ میں نے اسی مسجد میں قادیان کے احباب کے سامنے خطبہ جمعہ پڑہا تھا.اس وجہ سے کئی ایسی باتیں ہیں جن کے متعلق میں کچھ کہنا چاہتا ہوں لیکن وہ تمام باتیں ایک دن میں ختم نہیں ہو سکتیں پھر نئی نئی باتیں پچھلی باتوں کو پیچھے ڈال دیتی ہیں اور تازہ باتوں کو مقدم کرنا پڑتا ہے.چنانچہ میں نے پہلے ایک خطبہ کہا اور اس سلسلہ میں بعض اور خطبات کہنے کا وعدہ کیا تھا لیکن بعد میں آنے والے واقعات اس رنگ میں زور پکڑ گئے کہ انہوں نے میری ساری توجہ اپنی طرف کھینچ لی.پس میں اب بھی نہیں کہہ سکتا کہ پچھلے دنوں جو واقعات ہوئے ان کے متعلق میں پورے طور پر بیان کر سکوں گا یا نہیں.مگر بہر حال جو کچھ میں کہہ سکتا ہوں اس وقت تک کہ اللہ تعالیٰ ایسی باتیں پیدا کر دے جو ان باتوں سے زیادہ توجہ کی مستحق اور ان سے مقدم کرنے کے قابل اور اپنے وقت کے لحاظ سے ضروری ہوں بیان کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں.آج میں بوجہ اس کے کہ وقت زیادہ ہو چکا ہے اور اب ہم ایسے وقت میں سے گزر رہے ہیں کہ اگر خطبہ کو طول دیا جائے تو عصر کا وقت آجائے نہایت اختصار کے ساتھ اپنے دوستوں کو اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ جب کوئی قوم کسی عظیم الشان کام کے لئے کھڑی ہوتی ہے تو اس کی دشمنی بھی بہت زیادہ ہو جاتی ہے بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ جتنا بڑا کام اور مقصد کسی جماعت کے سامنے ہوتا ہے اتنی ہی زیادہ اس کی مخالفت بھی ہوتی ہے.بالکل اسی طرح جیسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جتنے زیادہ فضل ہونے والے ہوں، اتنے ہی زیادہ اس کی طرف سے ابتلاء

Page 156

خطبات محمود 101 بھی پیدا کئے جاتے ہیں.ہم رسول کریم ان کی زندگی کا اگر پہلے انبیاء کی زندگیوں سے مقابلہ کر کے دیکھیں ای طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کا بعض اور انبیاء کی زندگی سے مقابلہ کریں یا حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی کا ان کے قریب کے نبیوں کی زندگی سے مقابلہ کریں تو صاف معلوم ہو تا ہے کہ جتنا بڑا کوئی رسول ہوا اتنے ہی زیادہ ابتلاء اور مشکلات اس کے کے سامنے پیش آئے.پس اگر ہم یہ صحیح طور پر سمجھتے ہیں اور اس میں ہمارے نفسوں کا دھوک یا غلطی نہیں کہ ہماری جماعت کے ذمہ ایسا عظیم الشان کام ہے جو رسول کریم میں لاہور کے مانے والوں کے علاوہ کسی اور کے سپرد نہیں ہوا اور دراصل یہ سلسلہ ہے ہی رسول کریم می تعلیم کے سلسلہ کی شاخ اور آپ کی بعثت کا دو سرا ظهور تو لازماً دو سرا ظہور اپنی مشکلات کے لحاظ سے پہلے ظہور کے مشابہ ہونا چاہئے اور دو سرا ظہور اپنی مشکلات میں پہلے ظہور کے مشابہ ہے اور ہم نہیں کہہ سکتے کہ دوسرا ظہور اپنی مشکلات اور مصائب میں پہلے ظہور سے بڑھ کر ہے یا پہلا ظہور دوسرے ظہور سے اپنی مشکلات میں بڑھا ہوا تھا.بلکہ دونوں آپس میں مشابہ ہیں اور ایسے مشابہ کہ ایک ماں کے توام بچے بھی آپس میں ایسے مشابہ نہیں ہوتے.تو ام بچے پھر دو ہوتے ہیں مگر الٹی سلسلے ہمیشہ ایک ہی کہلاتے ہیں دو نہیں ہوتے.پھر تو ام بچوں کے جسم جدا ہوتے ہیں اور روح بھی جد ا مگر الہی سلسلوں کے جسم تو دو ہوتے ہیں مگر روح ایک ہی ہوتی ہے.پس ہم نہیں کہہ سکتے کہ رسول کریم میں کے زمانہ کے لوگوں کو اس زمانہ کے لوگوں کی نسبت زیادہ کام تھا.یا ان کے راستہ میں زیادہ مشکلا اور زیادہ روکیں تھیں اور یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ اس زمانہ کے لوگوں کو زیادہ کام ہے یا ان کے راستہ میں ان سے زیادہ روکیں ہیں کیونکہ دونوں ایک ہی قسم کے سلسلے ہیں.ان دونوں کی جڑھ ایک ہی ہے مگر شاخیں مختلف ہیں.پس دونوں سلسلے اپنی مخالفت اور ان روکوں میں جو دشمنوں کی طرف سے پیدا کی جاتی ہیں.آپس میں مشابہ ہیں.اگر ہم یہ تسلیم کریں اور یقینی طور پر تسلیم کریں اور ایمان رکھیں کہ ہم رسول کریم میں اللہ کی امت ہیں ہم میں اور صحابہ میں کچھ فرق نہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وجود علیحدہ وجود نہیں بلکہ رسول کریم میل کا ہی وجود ہے تو لازماً ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ ساری مشکلات جو صحابہ رضی اللہ عنہم کے سامنے آئیں ہمارے سامنے بھی آئیں گی.پس ہم ایک منٹ کے لئے بھی یہ وہم نہیں کر سکتے کہ ہمارا راستہ آسان اور ہماری مشکلات کم

Page 157

خطبات محمود ۱۵۲ سال ہیں.اگر فی الواقع ہماری مشکلات تھوڑی ہیں اور ہمیں ان مصائب کا سامنا نہیں جن کا سامنا صحابہ کو کرنا پڑا تھا تو ہم رسول کریم می و مسلم کی امت بھی نہیں اور نہ ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آپکے بروز ہو سکتے ہیں کیونکہ ممکن نہیں کہ رسول کریم میں دوبارہ دنیا میں آئیں مگر ابو جہل نہ آئے.جس طرح ممکن نہیں کہ موسیٰ آئے مگر فرعون نہ آئے اسی طرح نا ممکن ہے کہ محمد رسول الله می ہو تو آجائیں مگر عقبہ اور رشیبہ وغیرہ نہ آئیں.اللہ تعالی کی سنت یہی ہے کہ جب آدم مبعوث ہو تو ابلیس بھی آئے.اور جب محمد رسول اللہ من آئیں تو ابو جہل اور دوسرے معاند بھی پیدا ہوں.پس جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بروز ہیں محمد رسول اللہ کے تو اس زمانہ میں ضروری ہے کہ عقبہ ، شیبہ ابو جہل اور دوسرے دشمن بھی پیدا ہوں اور ہمیں ان کا مقابلہ کرنا پڑے.مجھے متواتر اپنی جماعت کو بیدار کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور بتانا پڑتا ہے کہ ان کے سامنے ایک ایسا عظیم الشان کام ہے جس کے لئے دن اور رات کی محنت کی ضرورت ہے.قسم قسم کی روکیں ہیں جو ہمارے راستہ میں حائل ہیں ہر قسم کے دشمن ہیں جو چاروں طرف سے ہمارا احاطہ کئے ہوئے ہیں.میں جانتا ہوں اتنی بیداری تو کم از کم ہماری جماعت میں ضرور موجود ہے کہ جب توجہ دلائی جائے تو کو بعض پھر بھی سوئے رہتے ہیں مگر اکثر اٹھ بیٹھتے ہیں اور کام کرنا شروع کر دیتے ہیں مگر کچھ عرصہ کے بعد وہ پھر سو جاتے ہیں اور ان مشکلات کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو ان کے سامنے ہیں.اور کئی تو ایسے ہیں جو خواہش رکھتے ہیں کہ بجائے سخت راستہ پر چلانے کے میں انہیں آرام دہ راستہ پر چلاؤں اور بجائے مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لئے کہنے کے آرام و آسائش کی زندگی بسر کرنے دوں.ایسے لوگوں کو نظر انداز کر کے باقیوں کی یہ حالت ہے کہ جب توجہ دلائی جائے تو بیدار ہو جاتے ہیں اور گو یہ حالت ایسی خوش آئند نہیں جس پر اطمینان کیا جا سکے لیکن بہر حال یہ حالت مردنی پر دلالت نہیں کرتی کو اسے اعلیٰ درجہ کی زندگی بھی نہیں کہا جا سکتا.مگر بہت سے ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنے اندر کامل زندگی پیدا کرلی ہے.اور میں سمجھتا ہوں اگر کوئی بھی خلافت نہ ہوئی سلسلے کا کوئی بھی نظام نہ ہو تا تب بھی وہ اسی ذوق شوق سے کام کرتے کیونکہ انہوں نے محسوس کر لیا ہے کہ سلسلہ کا کام کسی خاص شخص کا کام نہیں بلکہ اس کی ذمہ داری ہر شخص پر عائد ہوتی ہے اور ہم میں سے ہر ایک کو ایسا ہونا چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھ کر سلسلہ کا کام کرے.اس میں کیا شبہ ہے کہ بغیر اچھے سوار کے اچھی طرح گھوڑا نہیں چلتا مگر اس میں بھی کیا شبہ ہے کہ اچھے سوار کے لئے اچھے گھوڑے کی بھی

Page 158

خطبات ۱۵۳ سال ۱۹۳۱ء ضرورت ہوتی ہے اور وہ بغیر اچھے تھوڑے کے اپنے کمال کا اظہار نہیں کر سکتا.پس اسی طرح اگر چہ یہ صحیح ہے کہ خلافت کے بغیر سلسلہ کی ترقی نہیں ہو سکتی مگر خلیفہ کو جب تک اخلاص رکھنے والے اور قربانی کرنے والے کارکن نہ میں خلافت بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتی.یہ دونوں چیزیں لازم و ملزوم ہیں.خلافت کی مثال گاڑی بان کی ہے اور لوگوں کی مثال گھوڑوں کی.جس طرح بغیر اچھے گھوڑوں کے گاڑی نہیں چل سکتی اور بغیر گاڑی بان کے گھوڑے بھی نہیں چل سکتے اسی طرح ضروری ہے کہ سلسلہ میں خلافت حقہ قائم رہے مگر یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے لوگ بھی پیدا ہوتے رہیں جو دین کے کام کو اپنی ضروریات سے بہت زیادہ اہم خیال کریں.ایسے لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ تمام مشکلات کا جو ان کے سامنے ہوں اندازہ لگائیں اور ان کے مطابق اپنی حفاظت کا انتظام کریں.ایک جرنیل اسی وقت ہوشیار اور کامیاب جرنیل سمجھا جاتا ہے جب وہ دشمن کی فوج کی خبر رکھے اور پتہ لگاتا رہے کہ مقابلہ میں کتنی فوج ہے کہاں کہاں پڑی ہے اور کہاں کہاں سے حملہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے.ہماری جماعت بھی اسی وقت اپنے مقصد میں کامیاب ہوگی جب اپنے دشمنوں کی تیاریوں کی خبر رکھے گی ان کی نقل و حرکت سے آگاہ رہے گی اور پھر مقابلہ کرنے کے لئے تیاری کرے گی.نهایت خطرناک نقص ہماری جماعت میں یہ پیدا ہو گیا ہے کہ وہ سمجھتی ہے ہم بالکل مامون ہیں اور ہمیں کسی قسم کا خطرہ نہیں.سوائے ان ٹیم مجنونوں کے جو ہر شخص کو اپنا دشمن سمجھنے لگتے ہیں جو عظمند ہیں اور جنہیں اپنے حقیقی دشمن کا پتا ہونا چاہئے وہ بھی اپنے دشمنوں کا علم نہیں رکھتے.میں اسے ان کی حسن ظنی پر محمول نہیں کرتا بلکہ اس بارے میں طبیعت میں عدم میلان کی وجہ سے یا صحیح طور پر سلسلہ کی ترقی کے لئے جن امور کا علم حاصل ہونا ضروری ہے ان سے ناواقفیت کی وجہ سے وہ اپنے دشمنوں کی سرگرمیوں سے آگاہ رہنے کی کوشش نہیں کرتے حالانکہ جس طرح رسول کریم کے بیرونی دشمن تھے اسی طرح اندرونی دشمن بھی تھے اور جس طرح وہاں دشمن اور منافق پائے جاتے تھے اسی طرح ہماری جماعت میں بھی ہیں.پھر جس طرح اس وقت ہر مذہب اسلام کے مقابل کھڑا تھا اور ابراہیمی پیشگوئی کے مطابق اسماعیل کے بھائیوں کی تلوار اس کے سامنے کچھی ہوئی تھی اسی طرح ضروری تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بھی تمام فرقوں میں سے ایک حصہ کی تلوار آپ کی جماعت کے مقابل پر کچھی ہوتی.خواہ وہ دشمن سکھوں میں سے ہوں یا ہندوؤں اور عیسائیوں میں سے.پھر جس طرح رسول کریم میں یا لیلی

Page 159

خطبات محمود ۱۵۴ سال ۱۹۳۱ء کے زمانہ میں کچھ لوگ اندرونی طور پر فتنے پیدا کرتے ابلیس کی طرح لوگوں میں تفرقہ ڈالتے اور ان کے ایمانوں کو خراب کرتے اور بیرونی دشمنوں کو مسلمانوں کے خلاف ابھارتے اسی طرح اس زمانہ میں بھی ایسے منافق لوگوں کا پیدا ہونا ضروری تھا.مگر کتنے ہیں جو ان اندرونی دشمنوں سے آگاہ ہیں.ہر قوم ہمارے خلاف تیاریاں کر رہی ہے اور اندرونی دشمن الگ ہیں جو فتنہ پیدا کرنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں مگر بہت لوگ ان دشمنوں سے آگاہ نہیں رہتے.قادیان میں ہی مستریوں کا فتنہ کبھی اتنا ترقی نہ کرتا اگر وقت پر لوگ ان کی دشمنی سے آگاہ ہو جاتے چونکہ لوگوں کو ناواقفیت ہوتی ہے اس لئے بعض ایسے منافقوں کی تائید کر دیتے ہیں.یہاں قادیان میں ہی ایک منافق آدمی نهایت شدت سے مخالفت کے سامان کرتا رہتا ہے مگر ہمارے وقف کنندگان میں سے ایک نے اس کے ذکر پر میرے متعلق کہا کہ ان کو کیا معلوم ہم خوب جانتے ہیں یہ منافق نہیں بلکہ بڑا مخلص ہے حالانکہ اگر وہ ذرا بھی اپنی آنکھوں کو کھول کر دیکھتا تو اس کے لئے اس کا نفاق سمجھنا کچھ بھی مشکل نہ تھا.تم میں ایسے لوگ موجود ہیں جو صبح اور شام پولیس کے پاس جاتے ہیں اور ان سے ملتے ہیں.رات اور دن ان کا کام ہی یہ ہے کہ پولیس سے ملتے ہیں اور ان کے ملنے کی غرض محض یہ ہوتی ہے کہ جماعت کے متعلق جھوٹی خبریں پہنچا ئیں.تم ایسے لوگوں کو دیکھتے ہو مگر تم میں ان کی حالت کا کچھ بھی احساس نہیں ہوتا.آخر ہمارے دوست سوچتے نہیں احمدی نمبر دس کے بد معاش تو نہیں ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ وہ صبح و شام پولیس سے ملتے ہیں حالانکہ ان کا پولیس سے کوئی بھی تعلق نہیں اور نہ ہی سلسلہ کی طرف سے انہیں کسی عہدہ پر مقرر کیا گیا ہے کہ انہیں ملنے کی ضرورت ہو.ایسے لوگ محض جماعت کی مخالفت کے لئے جاسوسی کے فرائض انجام دینے کے لئے وہاں جاتے ہیں.اگر اصلاح غرض ہے تو پہلے اپنی اصلاح کیوں نہیں کرتے.اور پھر اس طریق سے اصلاح ہو کس طرح سکتی ہے.ان کا کام سوائے اس کے کچھ نہیں کہ وہ رات اور دن یہی سوچتے رہیں کہ ہم کیا کیا جھوٹ بنائیں اور کس طرح پولیس کو جاکر خبر دیں.تم میں ایسے لوگ موجود ہیں مگر تمہیں کبھی خیال نہیں آتا کہ آخر ان لوگوں کی جائداد میں کہاں سے بن رہی ہیں آمد کا بظاہر کوئی ذریعہ نہیں.جن دنوں کام تھا اور آمد تھی ان دنوں تو جائدادیں بنی نہیں مگر جب کام نہیں رہا تو جائدادیں بنی شروع ہو گئیں.کوئی نہیں سوچتا کہ ان لوگوں کے پاس اتنا مال کہاں سے آگیا کہ معا آمد بند ہوئی اور ان کی جائدادیں بنی شروع ہو گئیں اور گزارہ بھی خوب چلتا رہا.اگر تم آنکھیں کھول کر دیکھو تو منافقوں کا پتہ لگانا کچھ بھی مشکل نہیں.اول تو منافق کی بڑی علامت یہ

Page 160

خطبات محمود ۱۵۵ سال ۱۹۳۱ء ہے کہ وہ سلسلہ کے کاموں پر اعتراض کرے گا مگر اس زمانہ میں جو شخص اعتراض کرے وہ مخلص سمجھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے یہ قوم کی اصلاح کے لئے کہہ رہا ہے.حالانکہ وہ اعتراض انہی لوگوں کے پاس جا کر کرتا ہے جن کے سپرد اصلاح کا کام نہیں ہوتا.اگر واقعہ میں اس کے دل میں درد ہوتا اور اصلاح کا حقیقی خیال موجود ہو تا تو اسے چاہئے تھا کہ ان لوگوں کے پاس جاتا جو ذمہ دار ہیں اور جن کے سپرد نظام سلسلہ کا کام ہے مگر وہ ان کے پاس نہیں جاتا بلکہ اوروں کے پاس بیان کرتا ہے.جس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اس کی غرض محض فتنہ اور فساد ہے.اصلاح نہیں.کیا کوئی شخص ایسا ہو سکتا ہے جسے اپنے بچے سے شکایت ہو تو وہ ہر شخص کے پاس جاکر اس کی شکایت کرتا پھرے ایسا وہ کبھی نہیں کرے گا.مگر یہ منافق لوگ مجھ سے ایسی باتوں کا ذکر نہیں کرتے بلکہ اوروں کے پاس کرتے رہتے ہیں اور جب کہا جائے کہ کیوں او پر بات نہیں پہنچاتے تو کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں ان سے ڈر آتا ہے اور ان کا اتنا ادب ہے کہ ہم ان کے سامنے بات بھی نہیں کر سکتے.گویا خدا کا ادب نہیں رسول کا ادب نہیں اگر ادب ہے تو صرف میرا ہے کیونکہ جانتے ہیں خدا سامنے نہیں اور رسول فوت ہو چکا ہے.حی و قیوم خدا پر ایمان نہیں.رسول کا دل میں پاس نہیں.صرف میرا وجو د درمیان میں رہ جاتا ہے.پس وہ مجھ سے ڈرتے ہیں مگر کسی ادب کی وجہ نہیں بلکہ سزا کے خوف سے.وگرنہ ان کے دلوں میں نہ خدا کا خوف نہ رسول کا ادب ہے اور نہ ہی خلافت کا احترام ہے.ایک کے متعلق وہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا دوسرے کے متعلق سمجھتے ہیں کہ وہ دنیا میں ہے ہی نہیں.اس نے کیا کر لیتا ہے.صرف خلافت کا وجود رہ جاتا ہے جس کی سزا سے انہیں خوف آتا ہے.پس میں اپنی جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ نہ صرف ہندوؤں ، عیسائیوں اور سکھوں میں سے دشمن لوگوں کی خبر رکھا کریں بلکہ اندرونی دشمنوں کا بھی خیال رکھا کریں.وہ جب تک ان دشمنوں سے آگاہ نہیں رہیں گے.کبھی ترقی نہیں کر سکتے.رسول کریم میں کی یہ حالت تھی کہ آپ برابر دشمنوں کی خبریں منگایا کرتے تھے اور اس طرح ہو شیار اور چوکس رہتے تھے کہ اندرونی دشمن یعنی منافق بھی کہنے لگے هُوَ ادو.هو ادب اس کا کام یہی ہے کہ ہر وقت لوگوں کی باتیں سنتا رہتا ہے جو بھی کہیں بات ہو اس کے پاس پہنچ جاتی ہے.ان لوگوں کے مونہہ چاہے یوں تعریف نہ کریں مگر ان کا یہ کہنا بھی تو صحابہ کی ہوشیاری اور رسول کریم ما السلام کی بیداری کی دلیل ہے.ابھی تھوڑا عرصہ ہوا میں نے ایک خطبہ پڑھا تھا اس پر کسی نے مجھے ایک خط لکھا وہ دوست مخلص تھے اور ہیں.اس ضمن میں میں یہ

Page 161

۱۵۶ سال کہہ دینا چاہتا ہوں کہ گو میں نے ان کے نام کو چھپایا تھا مگر میں نے سنا ہے کہ پھر بھی بعضوں کو پتہ لگ گیا ہے اس وجہ سے ضروری ہے کہ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دوں کہ انہوں نے میرا جواب پہنچتے ہی صفائی کے ساتھ مجھ سے معافی مانگ لی ہے اور میں نے بھی معاف کر دیا ہے.خیر تو جب میرا خط ان کے خط کے جواب میں شائع ہوا تو ایسے ہی منافقوں میں سے ایک شخص برابر اس تلاش میں رہا کہ پتہ لگائے کہ یہ کون مولوی ہے جنہوں نے مجھے خط لکھا تھا اور آخر ایک دن ایڈیٹر الفضل سے کہنے لگا ہماری پارٹی میں سے تو کوئی ایسا شخص معلوم نہیں ہو تا.گویا وہی بات کہہ دی جو ایک جولا ہے نے کسی تھی کہ گھری اندر اور میں باہر اور اس طرح تسلیم کر لیا کہ ان کی بھی ایک پارٹی ہے.وہ بات بہت اہم تھی اور اگر چہ میں سمجھتا ہوں لکھنے والے غلط فہمی میں مبتلاء ہو گئے تھے مگر بہر حال وہ غلطی تھی اور بہت بڑی غلطی میں نے ان کی تردید کی مگروہ شخص کہنے لگا کہ ہمیں اپنی پارٹی میں سے تو کوئی شخص ایسا نظر نہیں آتا اور واقعی وہ اس پارٹی میں نہیں تھے صرف انہیں غلط فہمی ہوئی جس کی تردید ہو گئی.تو دراصل منافقوں کے کلام سے بھی اندازہ لگانے والے لگا سکتے ہیں اور وہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ لوگ مومن نہیں بلکہ منافق ہیں.پچھلے دنوں جب لوکل کمیٹی کے پریذیڈنٹ کا انتخاب ہوا تو ایسے ہی شخصوں میں سے ایک نے ایک دکان پر کہا کہ ہم تو حکم پر چلتے ہیں جس طرف اشارہ ہو گیا ہم چل پڑے.گویا اس کے کہنے کی غرض یہ تھی کہ پریذیڈنٹ کا انتخاب میرے اشارہ سے ہوا ہے حالانکہ مجھے علم ہی نہ تھا کہ پریذیڈنٹ کا اس وقت انتخاب ہونے والا ہے بعد میں مجھے پتہ لگا.مگر غرض اس کی یہ تھی کہ وہ ظاہر کرے کہ گویا میں دھڑے بندی میں شامل تھا اور میری اعانت اور اشارہ سے انتخاب ہوا.بظاہر یہ مخلصانہ فقرہ ہے کہ ہم تو ان کے پیچھے پیچھے چلتے ہیں جس طرف انہوں نے اشارہ کیا ہم چل دیئے مگر دراصل اس فقرہ میں نہایت شرارت بھری ہوئی ہے جس کا مطلب صاف طور پر یہ ہے کہ خلیفہ بھی ہے تعصب نہیں بلکہ وہ بھی دھڑے بندی کرتا ہے اور اشارہ کر دیتا ہے کہ فلاں کے حق میں رائے دینا.اس قسم کے منافق قادیان میں بھی رہتے ہیں اور باہر بھی.میں اپنی جماعت کو توجہ دلاتا ہوں افسروں کو بھی اور کارکنوں کو بھی کہ وہ اس قسم کے منافقوں کا خیال رکھیں اور جلد تران کا بھانڈا پھوڑ دیا کریں.سلسلہ سے دشمنی ہوگی اگر ایسے لوگوں کا خیال نہ رکھا جائے اور ان کا مناسب انتظام نہ کیا جائے.میں یقین رکھتا ہوں کہ ایسے لوگوں کو جماعت سے علیحدہ کر دینے سے سلسلہ کو کبھی نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ تم اگر ایک کو نکالو تو خدا اس کے بدلے ہزار آدمی سلسلہ میں

Page 162

خطبات محمود ۱۵۷ سال ۱۹۳۱ء داخل کرے گا.آخر سلسلہ کی اشاعت کی ذمہ داری تو مجھ پر ہے میں کیوں نہیں ڈرتا مجھے کامل یقین ہے کہ اگر میں ایک شخص کو بھی جماعت سے نکالوں تو خدا اس کے بدلے سینکڑوں آدمی مجھے دے گا.میں دیکھتا ہوں کہ مستریوں کو جماعت سے نکالنے کے بعد جماعت نے اتنی جلد ترقی کی ہے کہ پچھلے سالوں میں ایسی ترقی نہیں ہوئی.پس تم میں سے ہر فرد کا فرض ہے کہ وہ یوں سمجھے ہر جگہ اس کے دشمن ہیں اندرونی بھی اور بیرونی بھی.مگر میرا مطلب یہ نہیں کہ تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی پر بد ظنی کرے.مخلص شخص کی غلطی وقتی ہوتی ہے جو جوش کے وقت اس سے صادر ہوتی ہے.لیکن منافق آدمی ہمیشہ ایسی باتیں کرتا رہتا ہے اور پھر اس کا نام اتفاق رکھتا ہے.مخلص آدمی سے اگر کہا جائے کہ یہ باتیں ناظر اعلیٰ سے کہو یا خلیفہ وقت کے پاس جا کر کہہ دو تو وہ فورا تسلیم کرے گا.مگر منافق کے گا میں نہیں جاتا مجھے ڈر آتا ہے اور جس وقت کوئی شخص نظام سلسلہ کی تحقیر کرے اور اعلانیہ اعتراض کرے اور جب کہا جائے کہ ذمہ دار افسروں تک بات پہنچاؤ تو وہ کہے گا کہ مجھے ڈر آتا ہے تو فورا سمجھ جاؤ کہ وہ منافق ہے.رسول کریم مینی لی نے منافق کی ایک یہ بھی علامت بیان فرمائی ہے کہ وہ دھوکا دیتا ہے.ورنہ خلیفہ چھوڑ اگر حق بات کہنے سے ایک نبی بھی ناراض ہو جائے تو ڈر کی بات نہیں ہوتی.کیونکہ اس شخص کا خدا سے معاملہ ہوتا ہے لیکن اس کی اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ اگر میں وہاں جاؤں گا تو میرا جھوٹ کھل جائے گا.جیسے لوگوں نے اگر کسی کو بیوقوف کہنا ہو تو کہا کرتے ہیں یہ تو بڑا بادشاہ ہے.اسی طرح منافق بھی الفاظ تو اس قسم کے استعمال کریں گے کہ ہمیں ڈر آتا ہے مگر دراصل مقصد یہ ہو تا ہے کہ ہم اپنے جھوٹ کے افشاء سے ڈرتے ہیں.پس میں اپنی جماعت کو عموماً اور قادیان والوں کو خصوصاً توجہ دلاتا ہوں کہ ایسے لوگوں کی نگرانی رکھیں اور ان کی حرکات تاڑتے رہیں پھر مجھے بتائیں تا ایسے منافقوں کو جماعت سے نکال کر جماعت کو محفوظ کر دیا جائے کیونکہ وہ شخص جو ارتداد اختیار کرتا ہے یا جماعت سے بوجہ نفاق علیحدہ کر دیا جاتا ہے جب وہ ہماری جماعت سے نکل جائے تو ہمارے ساتھ اس کا تعلق کم ہو جاتا ہے اور پھر اس کا ضرر بھی کم ہو جاتا ہے.میں ان لوگوں کو بھی جو بغیر ضرورت کے پولیس کے لوگوں سے ملتے رہتے ہیں تو جہ دلاتا ہوا کہتا ہوں کہ ہم انہیں اشتباہ کی نظروں سے دیکھنے پر مجبور ہیں کیونکہ ہمارے ملک کی پولیس کی حالت اتنی خراب اور ان کا طریق اتنا قابل اعتراض ہے کہ ان سے بلا وجہ ملنا عام طور پر اچھے نتیجے پیدا نہیں کرتا.باوجود اس کے کہ پولیس ملک میں امن قائم کرنے کے لئے مقرر ہے ہم دیکھتے ہیں

Page 163

خطبات محمود ۱۵۸ سال ۱۹۳۱ء کہ اس کے ایک حصہ کے افعال فساد پیدا کرنے کے موجب ہوتے ہیں پولیس میں ایسے لوگ موجود ہیں اور خود پولیس کے اعلیٰ افسران اسے تسلیم کرتے ہیں.چنانچہ غالبا بہار کے انسپکٹر جنرل پولیس نے ایک موقع پر بیان کیا تھا کہ پولیس کے ادنیٰ کارکنوں میں سے وہ شاید ہی کسی پر اعتبار کر سکتے ہوں.اور گو ہم اس قدر وسیع ملامت نہ کر سکتے ہوں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ پولیس کے ملازموں کا ایک حصہ ضرور ایسا ہے کہ ان کا کھانا ان کا پینا ان کا اوڑھنا ان کا بچھونا ، جھوٹ اور افتراء اور دھوکا اور فریب اور رشوتیں لینا ہے.ایسے لوگوں کے اخلاق اس درجہ گرے ہوتے ہیں کہ وہ لوگ جو ان کے ساتھ ملنے والے ہوں اور ان کی صحبت میں حظ اٹھاتے ہوں وہ بھی اچھے اخلاق والے سمجھے نہیں جاسکتے.اس میں شبہ نہیں کہ پولیس میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں اور ایسے لوگ مسلمانوں میں سے بھی ہیں اور غیروں سے بھی ہندوؤں سے بھی اور سکھوں سے بھی اور انگریزوں میں سے تو بہت زیادہ کیونکہ انگریز قوم میں رشوت ستانی بہت کم پائی جاتی ہے یہی وجہ ان کی ترقی کی ہے.وہ بعض دفعہ سفارش کو منظور کر لیتے ہیں اور لحاظ بھی کرتے ہیں مگر رشوت لینے کی عادت ان میں بہت کم ہے.ہندوستانیوں میں رشوت لینے کی عادت بہت زیادہ ہے.انگریزوں میں اسی طرح جھوٹ بھی کم ہے اور اسی لئے وہاں کے مقدمات کی آسانی سے تحقیق ہو جاتی ہے.سر جان سائمن نے بھی کہا تھا کہ ہندوستان کے مقدمات میں اس قدر اینچ بیچ ہوتے ہیں کہ ہمیں حیرت آجاتی ہے.دراصل حکومت کی وجہ سے ان میں جھوٹ اور فریب بہت کم ہے بلکہ وہ بخوشی اپنے جرم کا اقبال کرتے ہیں.مگر ہمارے ملک میں اگر کسی کو ڈاکہ ڈالتے ہوئے بھی دیکھ لیا جائے تو وہ آگے سے یہی کہے گا یہ لوگ میرے دشمن ہیں اور مجھے پھنسانا چاہتے ہیں میں نے تو کوئی ڈاکہ نہیں ڈالا.تو ہمارے ملک کی پولیس کے ادنی کارکنوں کا اکثر حصہ ایسا خراب اور گندہ ہے کہ ان کی صحبت میں بیٹھنا بھی انسان کو خراب کر دیتا ہے.اور چونکہ پولیس چوکی بورڈنگ کی طرح ہوتی ہے جہاں سب لوگ مل جل کر رہتے ہیں اور وہ شخص جو شریف آدمیوں سے بھی ملنے کے لئے جائے بُروں کی صحبت سے محفوظ نہیں رہ سکتا اس لئے جو لوگ ان سے ملنے والے ہیں میں انہیں تنبیہ کرتا ہوں ایسا نہ ہو وہ بعد میں کہہ دیں کہ ہمارے اخلاص پر حملہ کیا گیا ہے یا بلا وجہ ہمارے متعلق کارروائی کی گئی ہے.اور پھر قادیان کی پولیس تو ہماری جماعت کے خلاف رہتی ہے.خود میرے سامنے ایک آفیسر نے ایسی باتیں کیں جن سے مجھے یقین ہوتا ہے کہ وہ جماعت کے متعلق صاف دل نہیں رکھتا اور اگر

Page 164

خطبات محمود ۱۵۹ سال اس اس سے جماعت یا اس کے بعض افراد کو نقصان پہنچے تو یہ قابل تعجب بات نہ ہوگی.پس ایسی حالت میں جب کہ قادیان کی پولیس خود ہماری جماعت کے خلاف ہے جماعت کو زیادہ احتیاط اور بیداری کی ضرورت ہے.آخر ملنے کی تمہیں ضرورت کیا ہے.اگر تمہیں اپنی جان کا خطرہ ہے تو مومنوں کو یہ خطرہ تو کبھی دبازی نہیں سکتا.دیکھ لو کانگریس والوں نے جس دن اپنے دل سے ڈر نکال دیا اسی دن سے حکومت ان سے ڈرنے لگ گئی.اسی طرح تم بھی جس دن کہو گے کہ اگر ہمیں جیل خانے لے جانا چاہتے ہو تو بے شک لے جاؤ ہم اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے تو سمجھ لو اسی دن دشمنوں کی جراتیں پست ہو جائیں گی اور وہ یقینا تم سے ڈرنے لگیں گے.جب تک تم اپنے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پڑنے سے ڈرتے ہو جیل خانے جانے سے گھبراتے ہو اور ڈرتے رہتے ہو کہ ہمیں کہیں نقصان نہ پہنچ جائے اس وقت تک کبھی ترقی نہیں کر سکتے.اور اگر تم جھوٹے الزاموں میں گرفتار کئے جاتے ہو اور بلا قصور مبتلائے آلام بنائے جاتے ہو تو ان مصائب کو آنے دو اور خوشی سے انہیں برداشت کرو کیونکہ تمہیں جو بھی نقصان پہنچے گا.اس کا بدلہ تمہیں اللہ تعالٰی دے گا اور اصل عزت تو وہی ہے جو جھوٹا الزام آنے کے بعد اللہ تعالی کے حضور بڑھتی ہے دنیا کی عزتیں کیا ہیں.کچھ بھی نہیں.پس ایسی تمام اقسام کے لوگ خواہ وہ کسی رنگ میں منافقت کر رہے ہوں ان کا خیال رکھنا چاہئے اور ذمہ دار افسروں کو اطلاع دینی چاہئے تا وہ تحقیق کے بعد مجھے اطلاع دیں اور ایسے لوگوں کو جماعت سے خارج کر دیا جائے.آخر دنیا میں جھوٹے بھی ہیں فاسق بھی ، فاجر بھی ہیں اور کافر بھی ہم کوئی ٹھیکیدار نہیں کہ سب کا خیال رکھیں.جس دن ایک شخص ہم سے علیحدہ ہو جائے پھر وہ جو چاہے کرے ہم اس سے بری الذمہ ہوں گے.لیکن اگر تم ہو شیاری سے کام نہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ کو ناراض کر لو گے اور خدا کہے گا میں نے اس بندے کو دل اور دماغ دیا تھا عقل دی تھی مگر اس نے کچھ نہ سوچا نہ سمجھا.پس اپنے کانوں کو کھول کر رکھو.اور ہر شخص کی جو منافقت کرتا ہے نگرانی کرو اور مجھے ایسے لوگوں کی اطلاع دو.مگر اطلاع دے کر اصلاح کی کوشش کرو.اب اکثر یوں ہوتا ہے کہ ایک مجرم اور منافق کو ایک قصور پر جب ملامت کی جاتی ہے تو وہ دس آدمیوں کے سامنے کہہ دیتا ہے کہ میں معافی مانگتا ہوں حالانکہ وہ نو د فعہ اسی قصور کا ارتکاب کر چکا ہوتا ہے.اگر وہ لوگ سلسلہ کے کارکنوں کو ایسی اطلاعات پہنچا دیتے تو جس وقت تیسری یا چوتھی بار ایسے شخص کے متعلق خبر پہنچتی تو ذمہ دار افسر اس کا مناسب انتظام کر سکتے مگر اب جس وقت کوئی منافق اس قسم کی بات کرتا ہے تو سننے والے سمجھتے ہیں یہ پہلی دفعہ ایسی بات

Page 165

خطبات محمود 14.سال ۱۹۳۱ء کر رہا ہے اس لئے یہ در گذر کے قابل ہے.حالانکہ وہ اس سے پہلے کئی مرتبہ اور کئی جگہوں میں ایسی بات کہہ چکا ہوتا ہے.پس نقص یہ ہے کہ ایسی خبریں اپنی ذات تک محدود رکھی جاتی ہیں اور ان لوگوں تک نہیں پہنچائی جاتیں جو مناسب انتظام کر سکتے ہوں.تو منافق کی نگرانی رکھنا اور اس کی خبر افسران متعلقہ کو پہنچانا اہم فرائض میں سے ہے.اسی طرح باہر کے دشمن ہیں ان کا بھی خیال رکھنا چاہئے.میں لوکل کمیٹی کے کارکنوں کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ خاص طور پر حالات کا مطالعہ کرتے رہیں اور جہاں اپنے آدمیوں میں سے کمزوروں کے اعمال کا خیال رکھیں وہاں پولیس کے مقامی کارکنوں کے کاموں کا خیال بھی رکھیں اور اگر قابل اعتراض بات دیکھیں تو اسے فورا ضلع کے حکام کے نوٹس میں لائیں اور ضروری ہو تو محکمہ امور خارجہ کی معرفت اوپر کے حکام کے سامنے بھی لائیں لیکن صداقت کو ہاتھ سے کبھی نہ چھوڑیں اور بلاوجہ کسی سے دشمنی نہ کریں.اور اگر دیکھیں کہ کسی شخص کے متعلق غلط اطلاع ملی ہے تو غلطی کی اصلاح کر دیں.انہیں یا درکھنا چاہئے کہ ہر محکمہ میں اچھے بھی آدمی ہوتے ہیں اور برے بھی.پس جہاں برے آدمیوں کے شر سے بچیں وہاں اچھے آدمیوں کے کام کی قدر بھی کریں.اور اگر کوئی ایسا شخص جس سے جماعت کو شکوہ ہو اپنی اصلاح کرلے تو چاہئے کہ جماعت بھی اس کے متعلق اپنا رویہ بدل لے اور کینہ سے کام نہ لے کہ کینہ ور آدمی اللہ تعالیٰ کا مقبول نہیں ہو سکتا.میں اپنے مخالفوں سے بھی کہتا ہوں کہ خواہ وہ ہندو ہوں یا سکھ ہوں یا مسیحی انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ گو ہم کمزور ہیں لیکن پھر بھی اللہ تعالٰی کے فضل سے ایک منتظم جماعت ہیں.انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اگر ستایا جائے تو ایک چیونٹی بھی ایسا کاٹتی ہے کہ سوتے ہوئے کو بیدار کر دیتی ہے.اور اس لحاظ سے اگر ہم چیونٹی کی طرح بھی کمزور ہوں تب بھی ہم اپنی جماعت کی حفاظت کے لئے وہ کچھ کر سکتے ہیں کہ جو دوسروں کے لئے تکلیف کا موجب ہو.پس بلا وجہ ہماری مخالفت کے طریق سے انہیں باز رہنا چاہئے.اور یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ گو ہم چیونٹیوں کی طرح کمزور ہیں لیکن ہم اللہ تعالی کی حفاظت میں ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں شیروں کے قائم مقام بنایا ہے.جو احمدی اس حقیقت کو نہ سمجھتا ہو وہ چاہے کمزوری دکھائے مگر جو شخص حقیقی طور پر سمجھتا ہے کہ وہ شیروں کے قائم مقام ہے وہ کبھی بزدلی نہیں دکھاتا اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد ہوتی ہے اور وہ کسی تکلیف یا ذلت یا نقصان کی پرواہ نہیں کرتا.اگر وہ خدا کے لئے جیل جاتا ہے تو اسے آزادی

Page 166

خطبات محمود 141 سال اس خیال کرتا ہے اور اگر اسے تکلیف پہنچے تو راحت خیال کرتا ہے.اگر وہ مارا جائے تو اسے حقیقی زندگی سمجھتا ہے.سوچو تو سہی کہ کیا تکلیفیں یوں نہیں آتیں پھر ان تکلیفوں سے انسان کیوں ڈرے جو خدا تعالیٰ کے لئے اسے برداشت کرنی پڑیں.پس تکلیفوں کے آنے سے کبھی مت گھبراؤ اور مشکلات کی پرواہ نہ کرو.اگر اللہ تعالیٰ کی رضا کے ماتحت ایک مصیبت آتی ہے تو خوشی سے برداشت کرو.پس ڈرو نہیں بلکہ ہوشیار رہو اور دشمنوں کی خبر رکھو.بیرونی دشمنوں کی بھی خبر رکھنی چاہئے اور اندرونی منافقوں کی بھی نگرانی کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.الفضل ۹ - جون ۱۹۳۱ء) التوبة : ٦١

Page 167

خطبات محمود ۱۶۲ 18 سال ۱۹۳۱ قاضی محمد علی صاحب کیوں تعریف کے مستحق ہیں (فرموده ۲۹ مئی ۱۹۳۱ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.پچھلے دنوں ہماری جماعت میں جو واقعہ ہوا ہے اس کے متعلق چونکہ مختلف دوستوں کے مختلف خیالات ہیں اس لئے میں چاہتا ہوں کہ اختصار کے ساتھ ایسی بات کہہ دوں جو جماعت کے اخبار نویسوں مبلغوں اور دوسرے لوگوں کے لئے ہدایت کا کام دے سکے.میری اس واقعہ سے مراد قاضی محمد علی صاحب مرحوم کا واقعہ ہے.جماعت میں دو قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں کچھ لوگ تو اپنے جوش محبت اور وفور اخلاص کی وجہ سے یہ کوشش کرتے ہیں کہ قاضی صاحب مرحوم کے واقعہ کو لوگوں کی نظروں کے سامنے تازہ اور زندہ رکھا جائے اور کچھ لوگ ایسے ہیں کہ وہ بھی اپنے رنگ میں (اگر کوئی خاص بات ان میں سے کسی کے خلاف ثابت نہ ہو جائے) سلسلہ کی محبت اور تعلیم سے اخلاص کی وجہ سے چاہتے ہیں کہ جو کچھ ہو چکا ہو چکا اب اس کے متعلق ہمیں خاموش ہو جانا چاہئے کیونکہ سختی اور ظلم کا مقابلہ بختی اور ظلم سے کرنا ہماری تعلیم کے خلاف ہے.میں دیکھتا ہوں بعض جگہ اس اختلاف سے فتنہ کا خوف ہے اور بعض دوستوں میں اس اختلاف کے باعث لڑائی کا ڈر ہے.چونکہ یہ اپنی نوعیت کا نرالا واقعہ ہے اور ہماری جماعت میں پہلے اس قسم کا کوئی واقعہ نہیں ہوا اور چونکہ ہم اگر خاموش بھی رہنا چاہیں تو دشمن ایسے حالات میں ہمیں کب خاموش رہنے دیتے ہیں اس لئے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اس کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کروں.سب سے پہلے میں جماعت کے دوستوں کو تنبیہ کرتا ہوں کہ وہ لوگ جو اس واقعہ کو زندہ اور

Page 168

خطبات محمود ۱۶۳ سال ۱۹۳۱ء تازہ رکھنا چاہتے ہیں اور وہ جو اس بارے میں خاموشی کو پسند کرتے ہیں ان دونوں قسم کے لوگوں میں جہان مخلص لوگ ہیں وہاں منافقوں کا عنصر بھی شامل ہے اور کسی ایک فریق کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ منافق اسی میں ہیں.منافق ہوشیار ہوتا ہے اور ہر رنگ میں بات کو ایسی طرح پیش کرتا ہے کہ اعتراض پیدا کرنے کا موجب ہو سکے.پس ضروری نہیں کہ انہی لوگوں میں ہی منافق ہوں جو اس واقعہ کے متعلق خاموشی کو پسند کرتے ہیں.اس خیال کے سارے لوگ منافق نہیں ان میں بھی مخلص ہیں اور ان کی غرض اس سے یہ ہے خواہ غلط فہمی کی وجہ سے ہی ہو کہ سلسلہ پر کوئی ایسا حرف نہ آئے جس سے آئندہ کسی اعتراض کا جواب ہم نہ دے سکیں اور اس میں کیا شک ہے کہ سلسلہ کی محبت افراد کی محبت پر غالب ہونی چاہئے ایسے لوگ یقیناً مخلص ہیں.مگر ان میں ایک منافقوں کا گروہ بھی ہے جس کی غرض یہ بتاتا ہے کہ جماعت میں ایسے افراد بھی ہیں جو ظلم و تعدی کرنے والوں کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں.اس ارادہ اور نیت کے ساتھ خاموش رہنے کا مشورہ دینے والے منافق ہیں.پھر وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اس واقعہ کو زندہ رکھنا چاہئے اور نوجوانوں اور کارکنوں کے لئے یہ ایک سبق ہونا چاہئے ان میں بھی منافق ہیں اور وہ اس خیال کو ایسے رنگ میں پیش کرتے ہیں جس سے ظاہر ہو کہ ہماری جماعت اصولاً تشدد کو پسند کرتی ہے.ایسے لوگ قاضی صاحب کی محبت کی آڑ میں لوگوں کے اندر سلسلہ پر اعتراض کا مادہ پیدا کرنا چاہتے ہیں.اور منافق کا طریق یہی ہوتا ہے کہ وہ بات کو ایسے رنگ میں پیش کرتا ہے کہ بظاہر تو بہت اخلاص کا اظہار ہوتا ہے مگر در پر وہ وہ سلسلہ پر اعتراضات کے لئے لوگوں کو تیار کرنا چاہتا ہے جیسا کہ ایک پچھلے خطبہ میں میں بیان کرچکا ہوں کہ لوکل کمیٹی کے صدر کے انتخاب کے بعد ایک شخص نے ایک دکان پر جاکر کہا کہ ہم نے تو اسی کے حق میں رائے دی جس کے متعلق او پر اشارہ ہوا تھا ہم نے تو ان کی منشاء پوری کی.اب بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایسی بات کہنے والا بہت مخلص ہے مگر دراصل وہ منافق ہے کیونکہ وہ لوگوں میں یہ خیال پیدا کرنا چاہتا ہے کہ گویا میں بھی پارٹیوں میں شامل ہوں اور اشارے کر کے پریذیڈنٹ منتخب کراتا ہوں حالانکہ نہ میں نے کبھی ان باتوں میں دخل دیا نہ دیتا ہوں اور نہ ہی اسے جائز سمجھتا ہوں.ایسی بات بظاہر تو اخلاص کا پہلو رکھتی ہے مگر ہے دراصل منافقت اور وہ بھی اشد قسم کی ایک منافقت بغیر جھوٹ کے ہوتی ہے مگر یہ ایسی منافقت ہے جو سراسر دروغ پر مبنی ہے.الغرض دونوں خیال کے لوگوں میں مخلص بھی ہیں اور منافق بھی.اس لئے دونوں کو ہوشیار رہنا چاہئے.

Page 169

خطبات محمود ۱۶۴ سال ۱۹۳۱ء میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ ہمارے سلسلہ میں سے کوئی شخص اگر یہ خیال کرے کہ ہمارے خلاف جو کوئی بد گوئی کرے اسے قتل کر دینا چاہئے یا مارنا پیٹنا چاہئے تو میں اس کے قطعی خلاف ہوں کیونکہ ہماری تعلیم اس کی بالکل اجازت نہیں دیتی اور ایسا کرنے والا خواہ ہمارا اکتنا ہی عزیز کیوں نہ ہو ہم ہر گز اس کی تائید نہیں کر سکتے اور اگر یہ واقعہ بھی صرف اس حد تک ہو تا تو گو جو کچھ قاضی صاحب سے سرزد ہو اوہ سلسلہ اور میری ذات کے لئے تھا مگر اس صورت میں غالبا ان کا جنازہ بھی نہ پڑھتا.پس جو لوگ اس واقعہ کی اس رنگ میں تعریف کرتے ہیں اگر وہ جاہل اور بے خبر نہیں تو یقیناً منافق ہیں.جو لوگوں کے اندر یہ خیال پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارے عدم تشدد اور امن پسندی کے دعوے جھوٹے ہیں.پھر جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس قسم کا کوئی واقعہ ہوا مگر اب اس کا ذکر نہیں کرنا چاہتے وہ بھی یا جھوٹے ہیں یا ناواقف - قاضی صاحب نے آخری دم تک ا رویہ سے ثابت کر دیا ہے کہ وہ نہایت راستباز آدمی تھے اور اگر ان کے بیان کے خلاف پچاس گواہ بھی ہوں تو ہم یہ ماننے پر مجبور ہیں کہ یا تو ان کو غلط فہمی ہوئی ہے اور یا وہ جھوٹ بولتے ہیں اس لئے کہ ہم جانتے ہیں قاضی صاحب نے اپنی جان کو خطرے میں ڈالا اور بالآخر اسے قربان کر دیا مگر سچائی کو ایک لمحہ کے لئے بھی نہیں چھوڑا اور جب کبھی کسی نے ان کو ایسا مشورہ دیا کہ وہ اپنے بیان کو ایسے رنگ میں ڈالیں کہ قانونی طور پر محفوظ ہو جائیں تو انہوں نے سختی کے ساتھ ایسا کرنے سے انکار کر دیا باوجودیکہ کہ قانون دان انہیں مشورہ دیتے تھے کہ ان کی جان بچ سکتی تھی اور الفاظ کے معمولی ہیر پھیر سے وہ پھانسی کی سزا سے بچ سکتے تھے مگر انہوں نے معمولی سا اختلاف بھی پسند نہیں کیا اور تختہ دار پر لٹک جانا گوارا کر لیا.بلکہ سچائی کی خاطر ان کے اندر اس قدر غلو تھا کہ انہوں نے بعض ایسی باتیں بیان کر دیں جن کا سچائی کے لئے بھی بیان کرنا ضروری نہ تھا اور انہیں کی وجہ سے وہ گر فتار بلاء ہوئے.یعنی انہوں نے کہا کہ میں گھر سے اس لئے چلا تھا کہ ان لوگوں کو سزا دوں مگر بعد میں میرا ارادہ بدل گیا تھا.جب یہ ارادہ بدل گیا تھا تو سچائی کی خاطر وہ اسے بیان کرنے پر ہرگز مجبور نہ تھے بلکہ شریعت ایسے موقع پر یہی کہے گی کہ اسے چھپالو کیونکہ خدا نے اس سے بچالیا.اور جب پہلی نیت بدل گئی تو اس جگہ سے بیان شروع کرو جہاں سے دیانتداری کے ساتھ تم سمجھتے ہو کہ نیا واقعہ شروع ہوتا ہے.اور جو یہاں سے چلتا ہے جبکہ لاری میں بیٹھے ہوئے انہیں جوش دلایا گیا اور وہ لڑ پڑے.ایسا راستباز انسان کہتا ہے کہ مجھے معلوم نہیں میرے ہاتھ سے مقتول قتل ہوا یا کسی دوسرے کے ہاتھ سے.پس یہ واقعہ یوں نہیں کہ قاضی صاحب نے

Page 170

خطبات محمود ۱۶۵ سال ۱۹۳۱ء غیرت اور جوش میں آکر ایک شخص کو قتل کر دیا بلکہ ایک لڑائی میں ایک ایسا قتل ہوا ہے جس کی نسبت یقینا نہیں کہہ سکتے کہ کس کے ہاتھ سے ہوا ہے.غرض اگر واقعہ یہ ہو تاکہ قاضی صاحب دیدہ دانستہ ایک شخص کو قتل کر دیتے تو بے شک قابل اعتراض بات تھی مگر واقعہ جو کچھ ہوا اور جس کو ایک سرکاری گواہ نے بھی جو ایک کم عمر لڑکا تھا اور اس وجہ سے جھوٹ بولنے میں پختہ نہ تھا تائید کی.وہ یہ ہے کہ بیہودہ باتیں کر کے اور مباہلہ کا پرچہ دے کر انہیں اشتعال دلایا گیا اور انہوں نے کہا ایسی باتیں نہ کرو میرا دل جاتا ہے.پس استغاثہ کا ایک گواہ بھی جو بوجہ کم عمری جھوٹ بولنے میں مشاق نہ تھا قاضی صاحب کے بیان کی تائید کرتا ہے.باقی گواہوں نے جو گواہی دی وہ خواہ غلط نہمی کی بناء پر ہو خواہ انہوں نے جھوٹ بولا ہو مگر ہم ان کی گواہیوں کو قاضی صاحب کے بیان پر ہرگز ترجیح نہیں دے سکتے کیونکہ قاضی صاحب نے سچائی کو آخری دم تک قائم رکھا اور ایک لڑکے نے بھی ان کے بیان کی تصدیق کی ہے کہ مستریوں نے ایسی باتیں کیں کہ قاضی صاحب نے کہا ایسی باتیں نہ کرو میرا دل جلتا ہے جس سے معلوم ہوا کہ انہیں پہلے اشتعال دلایا گیا جس کے نتیجے میں لڑائی ہوئی.اس کے بعد وہ کہتے ہیں مجھے معلوم نہیں کس کے ہاتھ سے کون قتل ہوا.اگر ان کے ہاتھ سے ہوا تو انہوں نے محمد علی سمجھ کر اسے مار دیا اور اگر میرے ہاتھ سے ہوا تو میں نے عبد الکریم سمجھ کر مارا.چونکہ اندھیرا تھا اس لئے معلوم نہیں کس کے ہاتھ سے کوئی قتل ہوا.پس شریعت کی رو سے تو قابل سزا قتل واقعہ ہوا ہی نہیں کیونکہ قتل وہ ہے جو ارادہ سے کیا جائے.ان کا پہلے جو خیال تھا وہ بدل گیا تھا پھر اشتعال کی وجہ سے لڑائی ہوئی جس میں معلوم نہیں کس کے ہاتھ سے کون قتل ہوا.اپنی نسبت قاضی صاحب کا بیان ہے کہ مجھے مار مار کر بے ہوش کر دیا گیا اور رجب مجھے ہوش آیا تو میں نے یہ کہتے سنا کہ کوئی مر گیا ہے.پس جب نہ قتل کا ارادہ تھا نہ قتل کیا صرف لڑائی ہوئی جس میں معلوم نہیں کس کے ہاتھ سے کون قتل ہوا تو ان پر قتل عمد کا الزام کیسے لگایا جا سکتا ہے.پس ہم قاضی صاحب کی تعریف اس وجہ سے کرتے ہیں کہ ہمیں یقین ہے انہوں نے قتل نہیں کیا اور جو یہ کہتا ہے کہ انہوں نے بہت اچھا کیا جوش میں آکر دشمن کو قتل کر دیا وہ جھوٹا ہے اور اپنے مرحوم بھائی اور سلسلہ پر الزام لگا تا اور بہتان باندھتا ہے.واقعہ صرف یہ ہے کہ وہ غیرت کی وجہ سے لڑے اور لڑائی میں ایک آدمی مارا گیا یہ معلوم نہیں کس کے ہاتھ سے مارا گیا.موت بے شک واقع ہوئی مگر بالا رادہ قتل اسے نہیں کہا جا سکتا اور جو ایسا کہتا ہے وہ جھوٹا ہے.عدالت کے فیصلہ کے ہم پابند نہیں اس نے اپنا کام کیا اور اپنی رائے

Page 171

خطبات محمود 144 سال ۱۹۳۱ء کے مطابق انہیں پھانسی دیدیا اس پر اس کا کام ختم ہو گیا مگر ہم اس کے فیصلہ کو صحیح ماننے کے لئے پابند نہیں ہیں.اس نے اپنے نقطہ نگاہ پر بنیاد رکھی.وہ ان کی سچائی سے اس طرح واقف نہ تھی جس طرح ہم واقف ہیں.عدالت یہ سمجھتی ہے کہ کوئی ملزم کب مانا کرتا ہے کہ میں نے یہ فعل کیا.مگر ہم نے ان کی صداقت کو دیکھا ہے.متواتر ایسے واقعات ہوئے کہ انہیں جھوٹ بولنے کے لئے ورغلایا گیا مگر انہوں نے ایک لمحہ کے لئے صداقت کو نہ چھوڑا اور میں ذاتی طور پر واقف ہوں کہ وہ شخص جھوٹا نہ تھا.اور پانچ نہیں اگر پانچ ہزار گواہ بھی اس کے خلاف شہادت دیں تو ہم انہیں ہی جھوٹا سمجھیں گے کیونکہ ہمارے سامنے یہ بات ہوئی ہے کہ انہوں نے جان دیدی مگریچ کو نہ چھوڑا.ہم عدالت پر بھی بد دیانتی کا الزام نہیں لگا سکتے.ممکن ہے ہم میں سے اگر کوئی حج ہوتا تو شاید وہ بھی یہی فیصلہ کرتا.گو میری یہ بھی رائے ہے کہ اگر عدالت دوسرے نقطہ نگاہ سے دیکھتی تو ضره ر چھوڑ دیتی.خود شہادتوں سے بھی ایک ایسا نقطہ نگاہ ثابت ہو تا تھا کہ اگر عدالت چاہتی تو چھوڑ دیتی مگر حالات ایسے تھے کہ غلطی کا بھی احتمال ہے اس لئے ہم عدالت پر کوئی الزام نہیں لگاتے.وہ مجبور تھی کہ شہادتوں کی بناء پر جو اس کی سمجھ میں آئے فیصلہ کر دے مگر ہم بھی مجبور ہیں کہ دس ہزار شہادتوں کے مقابلہ میں بھی قاضی صاحب کے بیان کو سچا سمجھیں.عدالت نے اگر چہ دیانتداری سے فیصلہ کیا مگر غلط کیا.واقعہ یہی ہے کہ قاضی صاحب نے قتل نہیں کیا.ایک آدمی ضرور مرا نگر معلوم نہیں کس کے ہاتھ سے.خود ہائیکورٹ کے ان ججوں سے جنہوں نے فیصلہ کیا اگر پوچھا جائے تو وہ بھی کہیں گے کہ ہم غلطی کر سکتے ہیں.انہوں نے ان گواہوں پر اعتبار کیا جن کی گواہی ہمارے نزدیک قاضی صاحب کے بیان سے ہرگز معتبر نہیں تھی مگر عدالت ایسا فیصلہ کرنے مجبور تھی.کیونکہ شہادتوں کی رو سے یہی فیصلہ ضروری تھا.مگر ہم اپنے نقطہ نگاہ سے اس کے فیصلہ کی تائید نہیں کر سکتے.پس ہم جب قاضی صاحب کی تعریف کرتے ہیں تو اس وجہ سے نہیں کہ انہوں نے ایک آدمی کو مار دیا بلکہ اس وجہ سے کہ انہوں نے سچائی کو اختیار کیا.آخر دم تک اس پر قائم رہے اور بالآخر جان دیدی مگر صداقت کو نہ چھوڑا.اور یہ وہ روح ہے جو ہم چاہتے ہیں ہر احمدی کے اندر پیدا ہو.اسی وجہ سے میں ان کے جنازہ میں شامل ہوا.بعض لوگوں نے کہا ان کی وصیت منسوخ ہونی چاہئے.مگر میں نے سختی سے ان کے خیال کی تردید کی کیونکہ اپنے ذاتی علم اور تجربہ کی بناء پر ہم ان کے بیان کو ہائی کورٹ کے فیصلہ سے زیادہ سچا سمجھتے ہیں.خود ہائی کورٹ بھی یہ نہیں کہتی کہ اس کے فیصلوں کو ضرور درست سمجھا جائے.قانون صرف یہ چاہتا ہے کہ اس کے.

Page 172

خطبات محمود 194 سال ۱۹۳۱ء فیصلہ پر عمل کیا جائے اور بد دیانتی پر مبنی قرار نہ دیا جائے.سو عمل ہو چکا اور ہم عدالت پر بد دیانتی کا الزام نہیں لگا سکتے کیونکہ یہ کہنا کہ دشمنی سے یہ سزا دی گئی سخت بے حیائی ہوگی.بھلا فیصلہ کرنے والے انگریز جوں کو کسی سے کیا دشمنی یا لگاؤ ہو سکتا ہے.انہوں نے جو کچھ کیا اپنے نزدیک صحیح سمجھ کر کیا اگر چہ وہ غلط ہے.انہوں نے جس بات کو زیادہ وزن دار سمجھا اس کی بناء پر فیصلہ کر دیا.مگر ہم جس بات کو اپنے نزدیک زیادہ معتبر سمجھتے ہیں اس کی بناء پر فیصلہ کرتے ہیں.اصل علم اللہ تعالی کو ہی ہے دونوں ایک دوسرے کی نگاہ میں بری ہیں.دونوں کی نیت پر اعتراض نہیں جاسکتا.انہوں نے اپنی نیت اور علم کے مطابق فیصلہ کیا اور اس بناء پر کیا کہ قاضی صاحب نے قتل کیا ہے اور ہم تعریف کرتے ہیں تو اس لئے کہ انہوں نے قتل نہیں کیا اور سچائی کے لئے جان دیدی.اور تو شخص کہتا ہے کہ انہوں نے بالا رادہ قتل کیا اور اچھا کیا وہ منافق ہے اور جماعت پر اعتراض کرانا چاہتا ہے.اسی طرح جو یہ کہتا ہے کہ انہوں نے غلطی کی ہے وہ بھی یا تو بیوقوف ہے یا شرارت کرتا ہے گو یادہ یہ قرار دیتا ہے کہ انہوں نے قتل کیا حالانکہ نہیں کیا.غرض جو یہ کہتا ہے کہ بالا رادہ قتل کیا اور اس بناء پر تعریف کرتا ہے وہ بھی منافق ہے کیونکہ سلسلہ کی تعلیم کے خلاف وہ یہ خیال پھیلانا چاہتا ہے کہ اگر کوئی گالی دے تو اسے قتل کر دینا چاہئے اور جو یہ کہتا ہے کہ انہوں نے دیدہ و دانستہ قتل کیا اور اس وجہ سے وہ قابل مذمت ہے وہ بھی فتنہ گر ہے.پس دونوں قسم کے لوگوں میں منافق ہیں.ہاں ایک درمیانی راستہ ہے اور وہ یہ کہ اشتعال پیدا ہوا اور لڑائی ہو گئی اس میں ایک شخص مارا گیا اور یہی صحیح ہے.مگر یاد رکھو کہ وہ اشتعال جس میں انسان معذور سمجھا جاتا ہے وہی ہے جو اسباب کے ساتھ فوراہی پیدا ہو جائے.قانون کے نزدیک بھی قابل عفو اشتعال یہی ہے کہ وہ فوری ہو جس کے دبانے کا امکان بہت کم ہوتا ہے.رسول کریم ﷺ نے بھی یہی فرمایا ہے کہ اگر جوش آئے تو کھڑے ہونے کی صورت میں بیٹھ جاؤ یا پانی پی لو یا وہاں سے ہٹ جاؤ.جس کے معنے یہ ہیں کہ اشتعال فوری ہوتا ہے اور زمانہ کے گزرنے کے ساتھ جوش مدھم ہو جاتا ہے اس کے بعد جو کچھ ہوتا ہے وہ کینہ تو زی ہے.آنا فانا جو کچھ ہو جائے وہ بھی بے شک قابل اعتراض یا قابل افسوس ہو گا مگر اتنا نہیں جتنا وہ فعل جو کینہ تو زی کے ماتحت کیا جائے.اشتعال کے ماتحت لڑائی کو بھی ہم اچھا نہیں کہتے مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت انسان کے لئے اپنے پر قابو رکھنا قریب ناممکن ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے کا واقعہ ہے.میں نے خود تو نہیں سنا مجھے

Page 173

خطبات محمود IYA سال ۱۹۳۱ء دوستوں نے سنایا ہے.یہاں ایک دوست تھے جنہیں پروفیسر کہا جاتا تھا.وہ پہلے تماشوں وغیرہ کے تماشے کیا کرتے تھے یعنی پتوں وغیرہ کا رنگ تبدیل کر دینا یا کسی کی جیب سے پتہ اُڑا لینا یا چھوٹا بڑا کر دینا وغیرہ وغیرہ.اور چونکہ وہ نوکر رکھ کر با قاعدہ تھیٹر وغیرہ بنا کر کھیل کیا کرتے تھے اس لئے بجائے بازی گر یا مداری کے پروفیسر کہلاتے تھے.بعد میں جب احمدی ہوئے تو یہ کام چھوڑ دیا اور تجارت کرنے لگے مگر پر و فیسر ہی کہلاتے رہے.مخلص آدمی تھے مگر طبیعت میں تیزی بہت تھی.کچھ دنوں لاہور میں دکان کرتے تھے.کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شان میں کوئی بے ہودہ لفظ کہا تو اسے پکڑ کر مارا.خواجہ کمال الدین صاحب یہاں آئے تو حضرت مسیح موعود سے شکایت کی کہ ان کو سمجھا دیا جائے اس طرح فتنہ پیدا ہوتا ہے.آپ نے انہیں سمجھانا شروع کیا اور فرمایا ہماری تعلیم یہی ہے کہ نرمی سے کام لیا کرو.اگر کوئی گالیاں بھی دے تو برداشت کیا کرو.ان کی طبیعت چونکہ تیز تھی اس لئے انہوں نے جو بات کی وہ اگر چہ بے ادبی کی تھی مگر اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جوش کے وقت انسان کی حالت کیا ہوتی ہے.انہوں نے کہا بس جی بس ایسی نصیحت رہنے دیں آپ کے پیر کو جب کوئی گالی دے تو آپ جھٹ مباہلہ کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور ہمارے پیر کو برابھلا کہا جائے تو ہمیں خاموش رہنے کی نصیحت کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ سن کر ہنس پڑے اور بھی سب اہل مجلس ہنس پڑے.صحیح بات یہی ہے کہ ایسی حالت میں انسان کو سمجھانا بہت مشکل ہوتا ہے.گو یہ غلطی ہوتی ہے مگر اس کی ذمہ داری اس پر ہوتی ہے جس نے ایسی حالت پیدا کی.جیسے ہندوؤں نے رسول کریم ایل کی تنگ کرنے کے لئے کتابیں لکھیں اور اس کے نتیجہ میں بعض قتل ہوئے.جو شخص ایسی حالت پیدا کرتا ہے وہ خود قتل کرنے والے سے بھی زیادہ مجرم ہے.چنانچہ قرآن شریف نے فرمایا ہے الْفِتْنَةُ اشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ علمی کو جوش اور اشتعال دلانا بہت زیادہ خطر ناک ہے.کیونکہ وہ خود پیچھے رہ کر دو سرے کو گنہ گار بنانا چاہتا ہے.الغرض ایسی حالت میں خواہ کسی پر کتنا ہی تصرف کیوں نہ ہو سمجھانا مشکل ہو جاتا ہے.ایک دفعہ یہاں کسی نے مشہور کر دیا کہ ہندوؤں نے نیر صاحب اور پیر محمد یوسف بھٹہ والے کو مار دیا ہے.نوجوان طالب علم اور دوسرے لوگ سب کے سب لاٹھیاں لے کر دوڑ پڑے.اتفاق سے میں ایسی جگہ بیٹھا تھا کہ میں نے اوپر سے لوگوں کو گلی میں سے جاتے دیکھ لیا.ان کے چہرے متغیر تھے کئی ایک اور ہے تھے.آنکھیں سرخ تھیں.میں نے پوچھا کہ کہاں جاتے ہو ؟ مگر وہ رُکے نہیں.جب کئی آواز میں دے کر رو کا اور پوچھا کہ کہاں جاتے ہو تو انہوں نے بتایا کہ اس طرح !

Page 174

خطبات محمود 149 سال ۱۹۳۱ تو ہمارے آدمیوں کو مار دیا گیا ہے.میں نے کہا یہ بیوقوفی ہے کہ بغیر سوچے سمجھے چل پڑے ہو.پہلے تحقیقات تو کر لو.وہ میرے کہنے سے رک تو گئے مگر کسی نے کہہ دیا کہ ابھی اور بھی کئی ایک کو مار رہے ہیں.بس یہ سنتا تھا کہ وہ پھر بھاگ پڑے اور میں نے پھر سختی سے روکا اور ان میں سے ہی ایک کو کہا کہ پہلے تم جاؤ اور جاکر تحقیقات کر آؤ کیا معاملہ ہے.اس وقت میں نے دیکھا کہ لوگ میرے حکم سے کھڑے تو تھے.مگر ان کا برا حال ہو رہا تھا اور تھر تھر کانپ رہے تھے.جب فتنہ پرداز شخص نے دیکھا کہ اب یہ رک گئے ہیں اور میرا جھوٹ کھل جائے گا تو اس نے کہا کہ ابھی ایک آدمی آیا ہے جس نے بتایا ہے کہ وہاں ہمارے بھائی خاک و خون میں تڑپ رہے ہیں.مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ پاس ہی گلی میں کھڑا بہکا رہا تھا.بس یہ سن کر لوگ بے اختیار ہو کر پھر بھاگ پڑے.آخر میں نے کہا کہ تم میں سے جو شخص ایک گز بھی حرکت کرے گا میں اسے جماعت سے خارج کر دوں گا.چونکہ اس کے مقابلہ میں ان کی کوئی پیش نہ جاسکتی تھی اس لئے وہاں کھڑے تو رہے مگر ان کی جو حالت تھی اس کا مجھ پر آج تک اثر ہے.ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے.اور جس طرح ایک پتہ کا پتا ہے بعینہ اسی طرح وہ کانپ رہے تھے اور مجنونوں کی طرح واسطے دے رہے تھے کہ ہمیں جانے کی اجازت دی جائے.تو ایسی حالت میں سمجھانا بہت مشکل ہوتا ہے اور ایسی حالت جوش میں اگر کوئی حرکت سرزد ہو جائے تو اس کی ذمہ داری اسی پر ہوتی ہے جو اشتعال دلاتا ہے.اور قاضی صاحب مرحوم کے واقعہ کے متعلق خود ہائی کورٹ نے لکھا ہے کہ اس کی ذمہ داری ان لوگوں پر ہے جن کی طرف سے دل آزاری کی گئی.ایسے اشتعال کی حالت میں تو انسان کی وہی حالت ہوتی ہے جو حافظ شیرازی نے اپنے ایک شعر میں بیاں کی ہے.یعنی درمیان قعر دریا تخته بندم کرو باز میگوئی کہ دامن ترمکن ہشیار باش یعنی پہلے تو کسی کو دریا میں قید کر دیا جائے اور پھر کہا جائے کہ دیکھنا گیلا مت ہوتا.کسی کے دماغی توازن کو پراگندہ کر کے یہ امید رکھنا کہ وہ ہوش سنبھالے رکھے ظالمانہ امید ہے.گو مومن سے اس کا خد اپھر بھی یہ امید رکھتا ہے کہ وہ ایسی حالت میں بھی قابو میں رہے لیکن اگر نہ رہ سکے اور پھر تو بہ کرے تو خدا بہت جلد اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے.پھر ایک زائد بات یہ ہے کہ قاضی صاحب نے ارادہ قتل نہیں کیا صرف جوش میں لڑ پڑے اور قتل ایک اتفاقی امر تھا پھر انہوں نے اس فعل پر ندامت کا اظہار کیا اور گورنمنٹ کو جو چٹھی لکھی اس میں بھی لکھا کہ افسوس ایک ناکردہ گناہ

Page 175

14 میری لڑائی میں مارا گیا اور اس پر بھی اظہار افسوس کیا کہ لڑائی کرنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی تعلیم کے خلاف ہے.جس کا اب مجھے پتہ لگا ہے.پس جب انہوں نے توبہ کرلی اور اپنی جان دے کر اور خون بہا کر توبہ کی تو یہ کیا ایسے بیسیوں قصور بھی ہوں تو دھل سکتے ہیں.پس میں بنانا چاہتا ہوں کہ ہم کیوں ان کی تعریف کرتے ہیں اس لیئے نہیں کہ انہوں نے جاکر ارادہ سے ایک شخص کو مار دیا کیونکہ یہ تسلیم شدہ ہے کہ ان کا ارادہ بدل گیا تھا.اصل واقعہ صرف یہ ہے کہ لڑائی ہوئی اور معلوم نہیں کس کے ہاتھ سے ایک آدمی مارا گیا اور ہمیں افسوس ہے کہ مارا گیا.کیونکہ بظاہر اس کا کوئی اتنا قصور معلوم نہیں ہو تا سوائے اس کے کہ اس نے مستریوں کی ضمانت دی ہوئی تھی اور دوستانہ میں یہ ایک معمولی بات ہے.پس ہمیں اس کے مارے جانے پر افسوس ہے اور اس کے رشتہ داروں سے ہمدردی ہے.لیکن قاضی صاحب نے سلسلہ کی خاطر اپنی جان کی کوئی پرواہ نہیں کی اور سچائی کی خاطر قربان ہو گئے.اور کون ہے جو اپنی صداقت شعاری کی تعریف نہ کرے.ان کے سامنے متواتر ایسے مواقع آئے کہ وہ ذرا سا جھوٹ بول کر جان بچا سکتے تھے مگر انہوں نے ایسا نہ کیا تا سلسلہ پر کوئی حرف نہ آسکے.پس کون ہے جو کہے گا کہ ان کے نام کو زندہ نہ رکھنا چاہئے.ہمیں ہر احمدی سے توقع رکھنی چاہئے کہ وہ بچائی کے قیام کے لئے جان دینے سے قطعا نہ ڈرے.یہ روح ہے جو قاضی صاحب نے اپنے عمل سے ظاہر کی ہے.اور ہم ہر جماعت اور ہر گورنمنٹ کے سامنے یہ کہنے سے ذرا بھی شرمندہ نہیں کہ ہم اس روح کو سلام کرتے ہیں اور اسے اپنی جماعت کے لئے نمونہ قرار دیتے ہیں.جو اس کے خلاف کہتا ہے وہ جھوٹا ہے یا غلطی خوردہ ہے اور یا منافق ہے.الفضل ۱۸ جولائی ۱۹۳۱ء) مسند احمد بن حنبل جلد ۵ صفحه ۱۵۲ البقرة : ١٩٢

Page 176

خطبات محمود 141 19.جماعت احمدیہ کی چالیس سالہ جوبلی منائی جائے (فرموده ۵ جون ۱۹۳۱ء) ۱۹۳۱ء تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.اللہ تعالی کا فضل ہے کہ آج سے چالیس سال پہلے جس امر کا وہم و گمان بھی نہیں تھا آج ہم اپنی آنکھوں سے اسے پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں.یہ مضمون اس قسم کا ہے کہ ایک احمدی اسے بیان کرتے وقت آسانی سے اپنے جذبات کو قابو میں نہیں رکھ سکتا اور اس کے ساتھ ذکر حبیب ایسا وابستہ ہے کہ محبت کے جذبات اطناب و طوالت کی طرف خود بخود لے جاتے ہیں لیکن اتفاقاً سردرد کا دورہ جو مجھے مہینہ میں ایک دفعہ ہو جاتا ہے آج جمعہ کے دن ہوا ہے.اس وجہ سے پہلے تو میرا یہی ارادہ تھا کہ میں جمعہ کے لئے نہ جاؤں لیکن تھوڑی ہی دیر پہلے کسی قدر افاقہ ہو گیا اور میں نے سمجھا خطبہ پڑھنے کے لئے مسجد میں چلے جانا چاہئے.پس آج اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے خطبہ پڑھنے کا موقع دیا ہے اور چونکہ اس جلسہ کے بعد سے گلے کی خرابی کچھ اس قسم کی ہو گئی ہے کہ ہر خطبے کے بعد مجھے حرارت ہو جاتی ہے.چنانچہ پچھلے جمعہ بھی ایسا ہی ہوا اس لئے میں اپنی صحت کی خرابی کی وجہ سے اختصار سے خطبہ بیان کرنے پر مجبور ہوں.اگر چہ مضمون اطناب اور طوالت کی طرف کھینچتا ہے.چالیس سال ہو گئے وہ چالیس سال جن میں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والی ہستیاں اپنی بلوغت کا پہلا مقام حاصل کرتی ہیں.جس عرصہ کے متعلق اللہ اپنے کلام مجید میں بَلَغَ اشده فرماتا ہے وہ بلوغت تامہ کا پہلا درجہ قومی لحاظ سے ہماری جماعت پر آگیا ہے.۱۸۹۰ء کے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا.اور ۱۹۳۰ء کے آخر میں

Page 177

خطبات محمود سال ۱۹۳۱ء پورے چالیس سال اس دعوئی پر گزر گئے گویا سلسلہ احمدیہ نے اپنی بلوغت پالیا.لوگ کہتے تھے اس بچہ کو ہم پیدا ہی نہیں ہونے دیں گے.پھر لوگ کہتے تھے اگر یہ پیدا ہو بھی گیا تو ہم اس کا گلا گھونٹ دیں گے جیسے فرعون نے کہا تھا کہ بنی اسرائیل کے بچوں کا گلا گھونٹ دو مگر یہ دوسرا درجہ تھا.ان کی پہلی کوشش یہ تھی کہ یہ بچہ پیدا ہی نہ ہو اور یہ حمل جو روحانی حمل ہے گر جائے.اسی کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس الہام میں اشارہ ہے کہ يُرِيدُونَ أَنْ يَروا طَمَتَكَ وَاللهُ يُرِيدُ أَنْ تُرِيْكَ إِنْعَامَةَ الْإِنْعَامَاتِ الْمُتَوَاتِرَةَ أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ ا و لا دتی ہے یعنی لوگ تیرا حیض دیکھنا چاہتے ہیں مگر خد اتعالیٰ تجھے انعامات دکھائے گا جو متواتر ہوں گے.اور تجھ میں حیض نہیں بلکہ وہ بچہ ہو گیا ہے.ایسا بچہ جو ہنز لہ اطفال اللہ ہے.نادان اس پر اعتراض کرتے ہیں حالانکہ اس کے معنے یہ تھے کہ جس طرح حاملہ عورت کو حیض نہیں آتا ای طرح دنیا میں اب ایک روحانی بچہ پیدا ہونے والا ہے مگر لوگ چاہتے ہیں وہ روحانی حمل گر جائے اور پھر دنیا میں حیض ہی حیض پھیل جائے.مگر فرمایا.ایسا نہیں ہو گا بلکہ روحانیت کے نشوز اور نشوز کا جو بچہ ہے ہم اسے قائم رکھیں گے اور اپنے وقت پر اسے دنیا میں پیدا کریں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.اس روحانی حمل سے ایک بچہ پیدا ہوا.دنیا نے پھر چاہا کہ اس بچے کو فنا کر دے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام میں بتایا گیا کہ آپ کے کئی دشمن فرعون ہیں.فرعون کی یہی کوشش تھی کہ بنی اسرائیل کے بچوں کو فنا کر دے مگر خد اتعالیٰ نے ان کوششوں میں ان لوگوں کو نا کام رکھا.پس مخالفین کی پہلی کوشش تو یہ تھی کہ اس بچہ کی ولادت ہی نہ ہو مگر جب اس کو شش میں انہیں کامیابی حاصل نہ ہوئی اور وہ بچہ پیدا ہو کر طفل بن گیا تو اس وقت چاہا کہ اسے ہلاک کر دیں اور اس کا گلا گھونٹ دیں مگر خدا نے بتایا تھا یہ بچہ جوانی کو پہنچے گا اور بچپن میں نہیں مارا جائے گا.چنانچہ وہ زمانہ آیا جب طفولیت سے نکل کر سلسلہ نے جوانی کی طرف اپنا قدم بڑھایا.اس وقت بھی اس کے دشمن دنیا میں موجود تھے.مگر اللہ تعالیٰ نے وہی سامان کیا جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کے متعلق کیا تھا.یعنی وہ ہاتھ جو شیطان کی طرف سے اٹھ کر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ہلاک کرنا چاہتا تھا اس کی بجائے خدا نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے ہاتھ اٹھایا اور اس کے ذریعہ سے انہیں ہلاکت سے بچالیا.خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ پیشگوئی تھی کہ حضرت اسماعیل کے مقابلہ میں ان کے بھائیوں کی تلوار ہمیشہ اٹھی رہے گی.پس اس ابتلاء سے بچانے کے لئے خدا تعالیٰ نے یہ راہ نکالی کہ خود اپنے ہاتھ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت اسماعیل علیہ

Page 178

خطبات محمود 14 سال ۱۹۳۱ء السلام کو وادی غیر ذی زرع میں چھوڑ آئے.یہ وہ قربانی تھی جس نے اسماعیلی نخل کو ہلاکت سے بچالیا.ہماری جماعت کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات میں دوحة إسْمَاعِيلَ كمم کر پکارا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ بھی اسماعیلی سلسلہ ہے اور اس کے ساتھ بھی کہہ دشمنوں کا اسی طرح سلوک ہو گا جس طرح حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ اس کے بھائیوں کا تھا.مگر جس طرح حضرت اسماعیل کو خود ابتلاء میں ڈال کر خدا نے دشمنوں کے ابتلاؤں سے بچالیا اسی طرح خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو خود ہی ابتلاؤں میں ڈال کر ہلاکت اور دوسروں کے حملوں سے محفوظ کرلے گا.پس خدا تعالیٰ نے جس طرح حمل کے وقت میں پھر رضاعت اور طفولیت کے ایام میں دشمنوں کے حملوں سے ہماری جماعت کو محفوظ رکھا اسی طرح جب جماعت اپنی جوانی کو پہنچی اور دشمنوں کی تلوار نے اسے ہلاک کرنا چاہا تو اس وقت بھی خدا نے اس کی حفاظت فرمائی اور دشمنوں کو ناکام رکھا.پھر وہ وقت آیا جب جماعت احمدیہ اپنے کمال کو پہنچی اور ان ابتلاؤں میں سے گزری جو اس کے لئے مقدر تھے.چنانچہ پہلے وہ ابتلاء آیا جسے مسیحیت کا ابتلاء کہنا چاہئے.خدا تعالیٰ نے آپ کو بتایا تھا کہ آپ مسیح موعود ہیں مگر وہ مسیح نہیں جو صلیب پر لٹکایا جائے بلکہ وہ جو اس لئے آیا ہے کہ صلیب کو توڑے اور دجالی فتن کو پاش پاش کر دے.اس میں خدا نے یہ پیشگوئی مخفی رکھی تھی کہ جب جماعت اپنی ۳۳ سالہ عمر کو پہنچے گی جو مسیح موسوی کی ایک خاص وقت کی عمر تھی تو عیسائیت کی صلیب کو تو ڑ دیا جائے گا.یہ کام خدا نے میرے سپرد کیا کیونکہ پورے ۳۳ سال بعد جب وہ زمانہ آیا جو صلیبی رفتن کو تو ڑ دینے والا تھا تو اس زمانہ میں خلافت کے مقام پر خدا نے مجھے کھڑا کیا ہوا تھا اور میرے ذریعہ سے خدا تعالیٰ اسلام کی مدد کر رہا تھا.پھر جماعت کی روحانی بلوغت کاملہ کا زمانہ بھی میرے ہی زمانہ خلافت میں آیا.یعنی آج ہماری جماعت کو پورے چالیس سال ہو گئے.گویا جس طرح مسیحیت کا زمانہ میری خلافت میں آیا اسی طرح بلوغت کاملہ یعنی اسدہ کے پہنچنے کا زمانہ بھی خدا نے میرے ساتھ وابستہ کر دیا.پس آج ہماری جماعت جتنا بھی خوش ہو اس کا حق ہے اور جس قدر بھی اللہ تعالیٰ کا شکر بجالائے کم ہے کیونکہ آج ہماری جماعت کو قائم ہوئے چالیس سال ہو گئے اور آج وہ روحانی بلوغت اسے حاصل ہو گئی جو چالیس سال گزرنے کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے.آج سے چالیس سال پہلے ہماری جماعت کی کیا حالت تھی.اس کا وہی لوگ اندازہ کر سکتے ہیں جنہوں نے اپنی آنکھوں سے وہ زمانہ دیکھا جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے

Page 179

دعوی کیا.اس وقت میں بچہ تھا دو پونے دو سال کی عمر ہو گی.پس اس وقتہ ، کے حالات تو میں بتا نہیں سکتا مگر چھ سال کی عمر سے میں سلسلہ کے حالات دیکھتا آرہا ہوں اور آتھم کے وقت سے میں سلسلہ کی حالت جانتا ہوں بلکہ اس سے بھی کچھ پہلے کے حالات جب میری عمر پانچ سال یا ساڑھے پانچ سال کی تھی اس وقت کے مجھے بعض واقعات یاد ہیں، دشمنوں کی شرارتیں یاد ہیں ، ان کے منصوبے یاد ہیں ان کی وہ کوششیں یاد ہیں جو ہمارے خلاف شب و روز کیا کرتے تھے.اس زمانہ کے تمام واقعات میرے ذہن میں اس وقت تک ایسی صورت میں جمع ہیں جس طرح غبار کے پیچھے سے کوئی چیز نظر آتی ہو.مجھے وہ زمانہ خوب یاد ہے جب ہمیں اپنے گھروں سے نکلنے نہیں دیا جاتا تھا کیونکہ خطرہ تھا کہ دشمن کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچائیں.اس زمانہ میں ہمیں گھروں میں یوں بند رکھا جاتا جیسے کہتے ہیں پرانے زمانوں میں بعضوں کو بھورے میں سالہا سال تک رکھا جاتا تھا.ہمیں نہایت سختی سے کہا جاتا کہ کہیں سے کھانے پینے کی کوئی چیز نہ لینا مبادا اس میں کسی دشمن کی شرارت ہو.پھر ایک یہ زمانہ آیا کہ ہم دیکھتے ہیں مختلف مقامات میں احمدیت ایسی غالب ہو گئی ہے کہ لوگ اس کے مقابلہ سے عاجز ہیں اور کہتے ہیں اس درخت کا کاٹنا ناممکن ہے.لیکن باوجود احمدیت کی اس عظیم الشان ترقی کے ایک بات ہے جو ہمیں مد نظر رکھنی چاہئے اور وہ یہ کہ جہاں چالیس سال گذرنے پر بلغ اشدہ ہے کی خوش خبری حاصل ہوتی ہے وہاں اللہ تعالیٰ کی یہ بھی سنت ہے کہ ایسے زمانہ میں ابتلاء بھی زیادہ پیدا کیا کرتا ہے.ہمارے سلسلہ کی زندگی کی مثال رسول کریم اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگیوں کی سی ہے اور حضرت رسول کریم میں اور حضرت موسیٰ علیہ اسلام اور ان دونوں کی امتوں کو جو ابتلاء پیش آئے وہ کسی سے مخفی نہیں مگر جو ابتلاء آنحضرت ا اللہ کو پیش آئے وہ حضرت مسیح ناصری کو بھی نہیں پیش آئے.حضرت مسیح کو بھی تکلیف پہنچی مگر وہ عارضی تکلیف تھی.جسے خدا تعالٰی نے جلدی راحت سے بدل دیا.صرف چند گھنٹوں کی تکلیف تھی جو حضرت مسیح ناصری کو پہنچی اس کے بعد خدا تعالیٰ نے انہیں وہاں سے بیچا کر ایک نئے ملک میں جگہ دی جہاں ان کو آرام اور آسائش سے رکھا اسی وجہ سے کہا جا سکتا ہے کہ مسیحیت کی تکلیف عارضی تھی مگر آنحضرت می یم اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تکالیف بہت بڑھی ہوئی تھیں.یہ علیحدہ بات ہے کہ حضرت مسیح کے واقعات صلیب بن کر ہم رفت محسوس کریں.مگر وہ روزانہ کی صلیب جو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آنحضرت میر کے سامنے پیش ہوتی وہ ایک دن کی صلیب سے لاکھوں گئے زیادہ تکلیف دہ تھی.

Page 180

خطبات محمود ۱۷۵ سال ۱۹۳۱ء پس جہاں چالیس سال پورے ہونے پر ہمیں خوشی ہے کہ باوجود دشمنوں کی کوششوں کے خدا تعالیٰ نے سلسلہ کو زندہ رکھا اور نہایت اعلیٰ مقام پر پہنچایا.لوگ چاہتے تھے کہ یہ حمل گر جائے مگر حمل نہ گرا.پھر وہ چاہتے تھے اس روحانی بچہ کو ہلاک کر دیں مگر اس میں بھی انہیں کامیابی نہ ہوئی.پھر وہ زمانہ بھی ہم نے دیکھا جب مسیحیت کے زمانہ میں لوگوں نے پھانسی پر لٹکانا چاہا مگر خائب و خاسر رہے.پھر وہ زمانہ بھی آگیا جب موسوی اور آنحضرت میم کے زمانہ کے ابتلاؤں سے ہمیں گزرنا پڑا.اب اگر ہم حقیقی طور پر مومن ہیں اور خدا تعالی کی قدرتوں اور طاقتوں پر سچا ایمان رکھتے ہیں تو میں کوشش کرنی چاہئے کہ اب نہ صرف بلوغت بلکہ بلوغت کاملہ کی زندگی میں حاصل ہو.گو چالیس سالہ عمر بلوغت کاملہ کا ظہور ہے مگر ایک بلوغت روحانیہ کا زمانہ چالیس سے پچاس سال بلکہ ترین سال تک کا بھی ہے اور میں دیکھتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی بعثت ترین سال کی عمر کے قریب قریب بنتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا دعوی اعلان دعوئی کے لحاظ سے بہر حال ۵۰ سال سے اوپر کا ہے.اور اگر الہامات کے زمانہ کو شامل کر لیا جائے تو اس وقت آپ کی ۴۴ ۴۵ سال کی عمر بنتی ہے.پس یہ بھی بلوغت کا ایک زمانہ ہے جو پچاس سال کے قریب آتا ہے اور یہ ایک قسم کی جو ہلی ہے کیونکہ پچاس سال کسی کا عمر پا جانا بڑی خوشی کی بات ہوا کرتی ہے.مگر پہلی بلوغت چالیس سالہ ہے اور ہمیں سب سے اس بلوغت کے آنے پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ باوجو د دشمنوں کی کوششوں کے ہماری جماعت چالیس سال کی عمر تک پہنچ گئی اور میں سمجھتا ہوں ہمیں خاص طور پر اس تقریب پر خوشی منانی چاہئے کیونکہ اللہ تعالٰی کے قوانین میں سے ایک قانون یہ بھی ہے کہ اگر بندہ اس کی نعمت پر خوشی محسوس نہیں کرتا تو وہ نعمت اس سے چھین لی جاتی ہے اور اگر خوشی محسوس کرے اور اللہ تعالی کی حمد کرے تو زیادہ زور سے اللہ تعالیٰ کے فیضان نازل ہوتے ہیں.پس میرا خیال ہے ہم کو اس سال چالیس سالہ جوبلی منانی چاہئے یعنی اس بات کی خوشی میں کہ سلسلہ احمدیہ نے اپنی روحانی بلوغت حاصل کرلی ہے یہ بھی کیا جائے کہ مقررہ تاریخوں پر جلسے منعقد کئے جائیں.اور ان جلسوں میں سلسلہ کے حالات اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے واقعات خصوصیت سے سنائے جائیں.مگر سب سے بڑی جو ہلی یہ ہے کہ ہم سال حال تبلیغ کے لئے مخصوص کر دیں اور اتنے جوش اور زور کے ساتھ تبلیغ میں مصروف ہو جائیں کہ ہر جماعت اپنے آپ کو کم از کم دو گنی کرے.یہ جو ہلی ایسی ہوگی جو آئندہ نسلوں میں بطور یاد گار رہے گی.اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے

Page 181

خطبات محمود 124 سال ۱۹۳۱ء والے اپنی یادگاروں کے قیام کے لئے اینٹوں پتھروں اور چونے کے محتاج نہیں ہوتے بلکہ وہ دنیا میں روحانیت قائم کرنا چاہتے ہیں اور یہی ان کی بہترین یادگار ہوتی ہے کہ اس مقصد کو پورا کر دیا جائے جس کے لئے وہ دنیا میں مبعوث ہوئے.پس بهترین ذریعہ اس یاد گار کا یہی ہو سکتا ہے کہ ہم خصوصیت سے اس سال تبلیغ پر زور دیں اور اس نہایت ہی خوشی اور مسرت کی تقریب پر جماعت اپنے آپ کو دگنا کرنے کی کوشش کرے.اور یہ کوئی بڑی بات نہیں بلکہ اگر سنجیدگی سے کوشش کی جائے تو یقیناً ہر جماعت اس کوشش میں کامیاب ہو سکتی ہے اور اس کی تبلیغ میں ایسی برکت ہو سکتی ہے کہ لوگ خود بخود کھنچے چلے آئیں.میں نے دیکھا ہے.دو تین جماعتیں نہایت جوش کے ساتھ تبلیغی کام میں منہمک ہیں جن میں سے ایک لکھنو کی جماعت ہے امید کی جاتی ہے کہ اگر انہوں نے اپنی تبلیغی کوششوں کو جاری رکھا تو سال کے آخر تک وہ اپنے آپ کو ایک مستقل مبلغ کا مستحق ثابت کر دیں گے اسی طرح ڈیڑھ مہینہ ہوا میں لاہور گیا تھا وہاں کی جماعت کو میں نے نصیحت کی تھی کہ وہ اپنی سستی دور کرے اور جوش کے ساتھ تبلیغی کام میں مصروف ہو.اس کے بعد لاہور کی جماعت نے تنظیم کی اور تبلیغی کام کو سنبھالا تو میں دیکھتا ہوں وہاں سے بہت خوش کن خبریں آرہی ہیں اور کئی جگہیں ایسی ہیں جہاں نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں.اسی طرح اور بھی کئی جماعتیں ہیں جو نہایت زور کے ساتھ تبلیغ مصروف ہیں.ضلع گورداسپور کی جماعت بھی تبلیغی لحاظ سے اچھا کام کر رہی ہے گو ہم اسے انتہائی نہیں کہہ سکتے بلکہ اگر وہ کوشش کریں تو اور بھی زیادہ اس کو وسعت دے سکتے اور اس کے شاندار نتائج پیدا کر سکتے ہیں مگر بہر حال موجودہ کام بھی قابل تعریف ہے.اسی طرح اگر ہندوستان کی دیگر تمام جماعتیں یہ امر مد نظر رکھیں کہ ہماری جماعت کا یہ چالیس سالہ عہد بغیر کسی عظیم الشان یادگار کے قائم ہونے کے نہ گذرے جس کا طریق یہی ہے کہ ایسی عمدگی سے تبلیغ کی جائے کہ اس سال ہر جگہ کی جماعت اپنی تعداد کو دوگنی کرلے تو یہ کچھ بھی مشکل نہیں.۱۸۹۰ء کے آخر میں غالبا نو مبر یا اکتوبر کا مہینہ تھا جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مسیحیت کا دعویٰ کیا اس حساب سے اکتالیسواں سال پورا ہونے میں صرف پانچ یا چھ مہینے باقی ہیں اور شاید ممکن ہے دسمبر بھی اس میں شامل ہو اور ابھی پورے چھ ماہ وقت رہتا ہو ہمیں ان چھ مہینوں میں اس جوبلی کی یادگار قائم کرنے میں پورا زور لگانا چاہئے.میں نے پہلے بھی کہا تھا اگر ہمارے عزیز اپنے اپنے رشتہ داروں کو تبلیغ کرنی شروع کر دیں تو بہت حد تک جماعت کا حلقہ وسیع ہو سکتا ہے.احمدی اپنے

Page 182

خطبات محمود 166 سال ۱۹۳۱ء غیر احمدی رشتہ داروں کے پاس جائیں اور ان سے کہیں یہ دُوری اور بعد آخر کب تک رہے گا.ہمارے اندر جو جدائی ہے آؤ ہم خدا کے لئے اسے چھوڑ دیں اور محض اس کی رضاء کے لئے آپس میں اتحاد کر لیں.اس طریق پر اگر سمجھایا جائے تو خدا کے فضل سے مفید نتائج پیدا ہو سکتے ہیں.یہ مت سمجھو کہ وہ تمہارے مخالف اور دشمن ہیں اور تمہاری باتیں نہیں سنیں گے.یاد رکھو دل خدا کے اختیار میں ہیں اگر اخلاص اور سچائی کے ساتھ جاؤ تو خدا کلام میں اثر ڈالے گا اور دوسروں کے دل تمہاری طرف کھنچے چلے آئیں گے.اس نیت کے ساتھ جاؤ کہ چالیس سالہ جو بلی کی یاد گار قائم کرنی ہے اور اللہ تعالٰی سے دعائیں کرتے جاؤ کہ وہ تمہاری مدد کرے.اگر اس نیت اور اس ارادہ کے ساتھ جاؤ گے تو یقینا خدا تعالیٰ تمہاری تائید اور نصرت کرے گا.پھر اس سے اُتر کر یوں تو ہر سال ہی جلسے ہوتے ہیں مگر اس سال ایک تاریخ مقررہ پر جلسے کئے جائیں اور ان جلسوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی ان خدمات پر روشنی ڈالی جائے جو آپ نے اسلام کی اشاعت کے لئے سر انجام دیں اسی طرح اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے آپ کی کوششوں کا ذکر ہو ، آپ کی قربانیوں کا بیان ہو ان احسانات کا ذکر ہو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تمام دنیا پر اور خصوصیت سے مسلمانوں پر کئے اور اس طرح تمام ہندوستان میں ایک ہی دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قربانیوں احسانات کوششوں اور آپ کی دینی جد وجہد کا ذکر ہو اور سب لوگوں کو آپ کے کام سے واقف کیا جائے.اس کے متعلق میں انشاء اللہ بعد میں کوئی اعلان کروں گامگر اس پاک تقریب کو ہمیں بغیر کسی خاص خوشی منانے کے نہیں جانے دینا چاہئے.پھر ایک اور بات ہے جو ہماری جماعت کو مد نظر رکھنی چاہئے اور وہ یہ کہ ترقیات کے ساتھ ساتھ مشکلات اور مصائب بھی پیدا ہوا کرتے ہیں اور بغیر مشکلات اور تکالیف کے دینی یا دنیوی ترقی دینا اللہ تعالی کی سنت کے خلاف ہے.اللہ تعالیٰ جب بھی کسی قوم کے لئے ترقیات کا وقت لاتا ہے اس سے پہلے مشکلات بھی پیدا کر دیا کرتا ہے.میں نے دیکھا ہے ۱۹۲۴ء میں ہمارے سلسلہ کے لئے ایک نیا دور تھا مگر اس دور سے پہلے ایک لمبے عرصہ تک جو قریباً تین سال تک کا تھا اپنی ذات میں بھی کئی قسم کی بیماریاں مشکلات اور تکالیف آئیں.اور جماعت بحیثیت مجموعی بھی کئی قسم کی مشکلات میں گرفتار رہی.اور مجھے رویا میں متواتر بتلایا جاتا رہا کہ یہ تکالیف ترقیات کا پیش خیمہ ہیں اس لئے ان سے گھبرانا نہیں چاہئے.اس کے بعد میں نے اب دیکھا کہ جب جماعت اپنی روحانی بلوغت کو پہنچنے والی تھی اور ایک نیا دور ہماری جماعت میں شروع ہونے والا تھا تو تین سال پہلے

Page 183

خطبات محمود LGA سال ۱۹۳۱ء سے ہی کہیں مباہلہ والوں کی شرارتوں کا آغاز ہو گیا کہیں اپنی صحت خراب ہو گئی پھر جماعت بھی سخت مالی مشکلات میں گرفتار رہی.اور قسم قسم کے ابتلاء تھے جو آئے اور محض یہ بتانے کے لئے آئے کہ اب کوئی خاص تغیر سلسلہ میں واقع ہونے والا ہے.جس طرح بچہ پیدا ہونے سے بھی ماں کو تکلیف ہوتی ہے اور کچھ عرصہ بعد میں بھی.اسی طرح روحانی امور میں پہلے بھی تکالیف آتی ہیں اور جب روحانی بچہ پیدا ہو جاتا ہے تو پھر بھی کچھ دیر تک رہتی ہیں.اور ابھی ہمیں یہ تکلیفیں کیا آئی ہیں بہت سے ابتلاء ہیں جو آنے والے ہیں.شیطان تو ایک بڑی فتنہ پرداز ہستی ہے ایک چھوٹے بچے سے بھی اگر کوئی ایسی چیز لینی ہو جسے وہ نہ دینا چاہتا ہو تو وہ بھی اپنا حق چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتا ایک چور سے اپنا مال واپس لینے کے لئے لڑنا پڑتا ہے.پس جب ہم شیطان سے وہ بادشاہت لینی چاہتے ہیں جو ہم سے چھین کر وہ لے گیا ہے تو اس کا واپس لینا بھی کوئی آسان کام نہیں بلکہ شیطان اس کے لئے لڑنے گا اور دم تو ڑ کر لڑے گا اور پورا زور لگائے گا کہ یہ چیز اس کے قبضہ سے نہ نکلے.پس ہماری جماعت کے دوستوں کو مشکلات کے مقابلہ کے لئے تیار رہنا چاہئے اور گھبرانا نہیں چاہئے.یہ مشکلات چیز ہی کیا ہیں یہ تو مومن کے ایمان کو بڑھاتی اور اسے تقویت پہنچاتی ہیں نہ کہ ہمت کو پست کرتی اور کمزور بناتی ہیں.قرآن مجید میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومنوں پر جب مشکلات آتی ہیں تو وہ کہتے ہیں یہ تو وہی باتیں پوری ہو رہی ہیں جو خدا نے پہلے سے نہیں کہ دی تھیں.پس بجائے ڈرنے اور خوف کھانے کے ان کا ایمان زیادہ ہو جاتا ہے اور وہ اور بھی زیادہ خدا کے قریب ہو جاتے ہیں.اسی طرح ہماری جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ ہر مصیبت پر بجائے گھبرانے کے یہ یقین اور ایمان رکھیں کہ اب خدا کی نصرت قریب آرہی ہے.اگر ہم مومن ہیں اور واقعی مومن ہیں اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خدا کی طرف سے ہیں اور واقعی خدا کی طرف سے نہیں تو ہمیں اس بات پر بھی یقین رکھنا چاہئے کہ ہر مصیبت جو ہم پر آئے ہماری ترقی کا موجب ہے تنزل کا موجب نہیں ہو سکتی.مولانا روم فرماتے ہیں ہر بلا کیں قوم را حق داده اند زیر آن گنج گرم بنهاده اند اللہ تعالٰی کی طرف سے جو مصیبت بھی مسلمانوں پر آتی ہے اس کے نیچے رحمت کا ایک مخفی خزانہ ہوتا ہے.یہی ایمان ہے جو انسان کو خدا کے قریب کرتا ہے اور اس کے فضلوں کا وارث بنا دیتا ہے وگرنہ جو شخص مصیبتوں پر گھبراتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ اب میں مرنے لگا وہ مومن

Page 184

خطبات محمود 169 سال ۱۹۳۱ء نہیں بلکہ اپنے اندر نفاق کا شعبہ رکھتا ہے.حقیقی ایمان تو یہ ہے کہ جس طرح ماں جب اپنے بچے کو چھیڑ مارنے لگے تو وہ خیال کرتا ہے شاید مجھے پیار کرنے لگی ہے کیونکہ اس کو اپنی ماں کی محبت پر کامل یقین ہوتا ہے.اسی طرح انسان خدا کے متعلق بھی یہی خیال اور یقین رکھے کہ وہ ہر وقت اس پر اپنی رحمتیں اور برکتیں ہی نازل فرمائے گا.پس اگر ہمیں خدا کی محبت پر یقین ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ اگر اس کی طرف سے کوئی ابتلاء بھی آئے تو وہ ہمیں جگانے اور بیدار کرنے کے لئے ہو گا ہلاک کرنے کے لئے نہیں.جس طرح ماں جب اپنے بچے پر ہاتھ اٹھاتی ہے تو کسی دشمنی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی اصلاح اور تادیب کے لئے.اور اس میں کیا شبہ ہو سکتا ہے کہ ماں اور باپ کا تھپڑ دو سروں کے پیار سے زیادہ اپنے اندر پیار رکھتا ہے کیونکہ وہ سراسر اصلاح کے لیئے ہوتا ہے.پس اگر ماں باپ کی سزا صرف اصلاح کی غرض سے ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ابتلاء آئے کیو نکر سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ ہمیں تباہ کرنے کے لئے ہے.پس مشکلات سے کبھی مت ڈرو بلکہ خدا کی نصرت پر یقین رکھو اور اس سے دعائیں کرو.مجھے اس خطبہ اور چالیس سالہ جوبلی کی طرف ایک رڈیا سے توجہ پیدا ہوئی ہے.میں نے رویا میں دیکھا کہ سلسلہ کے راستہ میں بعض مشکلات درپیش ہیں.میں نے دیکھا بعض دوستوں نے ان کے ازالہ میں کو تاہی کی اور رڈیا میں یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ دشمنوں کی شرارتوں سے خوف کھا رہے ہیں.تب اچانک میں نے دیکھا کہ دشمنوں میں سے ایک نے وار کر دیا لیکن اللہ تعالٰی نے ایسے غیر معمولی سامان پیدا کر دیئے کہ وہی دار الٹ کر اس پر جاپڑا جس نے وار کیا تھا.اور جب میں نے دیکھا کہ بعض دوست ڈر رہے ہیں اور دشمن اپنا وار کر چکا اوروہ دارالٹ کر اسی پر جا پڑا تو میں نے خود اس کے حملے کا مقابلہ کرنا چاہا.اس پر اچانک ایک اور دشمن ظاہر ہوا اس نے میرا مقابلہ کیا.مگر باوجود اس کے کہ اس کا وار مجھ پر تھا اور باوجود اس کے کہ وہ دار مجھ پر پڑا بھی مگر نقصان مجھے نہیں پہنچا بلکہ اس دشمن کو نقصان پہنچ گیا.پھر ایک تیسرے دشمن نے وار کرنا چاہا مگر پیشتر اس کے کہ وہ وار کر تا خدا نے اس کا ہتھیار اس سے چھین لیا.پھر چوتھی مرتبہ ایک اور دشمن ظاہر ہوا.اور اس نے بھی وار کرنا چاہا مگر خدا تعالیٰ نے وار کرنے سے پیشتر ہی اس دار کا خودا سے ہی شکار کر دیا.تو چار متفرق طور پر وار ہوئے اور چاروں میں خدا تعالے نے غیر معمولی تائید اور نصرت فرمائی.ایک دار دشمن نے کیا مگر وہ اُلٹ کر اسی پر پڑ گیا.دوسرا دار بظاہر نشانے پر پڑا لیکن نقصان مجھے نہیں پہنچا بلکہ اسی کو پہنچا جس نے دار کیا تھا.پھر تیسرے نے دار کیا مگر پیشتر اس کے کہ

Page 185

خطبات محمود • وہ دار کرتا اس کا ہتھیار اس سے چھین لیا گیا.پھر چوتھے نے وار کیا مگر خدا نے وہی وار اس پر وارد کر دیا.چار وار ہیں اور دراصل یہ چار دہائیوں کے قائم مقام ہیں.ہم اس وقت تک چار دہائیاں ختم کر چکے ہیں یعنی جماعت کی چالیس سالہ زندگی پوری ہوئی.اور ہر دس سالہ زندگی پر دشمن نے خار کھائی.پہلے دس سال میں مجددیت کے مقابلہ میں دشمن کھڑا ہوا.دوسرے دس سالوں میں خدا نے نبوت کی تشریح کرائی.تیسرے دس سال میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کے جو اندرونی دشمن تھے ان کا مقابلہ کرایا.اور چوتھے دس سال میں سلسلہ کی بنیاد مختلف بلاد میں مضبوط کر دی.پس یہ چار ترقیات ہیں جو جماعت کو حاصل ہوئیں اور یہ چار دور ہیں جن سے ہماری جماعت گذری اور ہر ترقی پر دشمن نے ہمارا مقابلہ کیا.لیکن اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ ابھی یہ چار دوار اور کس رنگ میں کب اور کس شکل میں ہوں گے مگر اتنا ضرور ہے یہ چاروں کے حملے جاری رہیں گے پس ہمیں بھی ان حملوں کے مقابلہ کے لئے تیار رہنا چاہئے.اور اس خوشی کا بھی اظہار کرنا چاہئے جو چالیس سال دے کر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے فضل سے نوازا ہے اور ہمیں اپنے عمل اور طریق سے دشمن کو بتا دینا چاہئے کہ مومن کبھی بزدل نہیں ہو تا.یادر کھو اللہ تعالی کی نصرتیں اسی وقت تک آنے سے رکی رہتی ہیں جب تک دلوں میں بزدلی اور دشمنوں کا خوف کایا ہوا ہو.تمہارے رستہ کی ساری روکیں صرف تمہاری طرف سے ہیں دشمنوں کی طرف سے نہیں.خدا تعالیٰ نے دشمنوں کی پیدا کردہ روکوں کے متعلق تو بہت پہلے سے کہہ دیا ہے کہ میں انہیں دور کر دوں گا اور مخالفوں کو ان کی کوششوں میں کامیاب نہیں ہونے دوں گا.اس نے پہلے سے کہہ رکھا ہے دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا.لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا ".پس دشمنوں کے تباہ ہونے کی خبر تو تمہیں پہلے سے مل چکی ہے اب صرف ایک ہی چیز ہے جو تمہاری ترقیات میں روک ہے اور وہ تمہاری اپنی بزدلی اور خوف ہے.اللہ تعالی گو روحانی سلسلوں کے دشمنوں کو تباہ ضرور کرتا ہے مگر اپنے بندوں کے ہاتھوں سے ہی کراتا ہے.اگر بندے غفلت سے کام لیں بزدلی دکھا ئیں اور ایسی زندگی بسر کریں جس میں ہو شیاری نہ ہو تو گو پھر بھی اس کی نصرت آتی ہے مگر دیر سے اور اگر دلیر ہوں جری ہوں اور دشمنوں کا مقابلہ کرنے پر آمادہ ہوں تو بہت جلد اس کی مدد آتی ہے.پس دلیر بنو اور تکالیف کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ.

Page 186

خطبات محمود IAI سال ۱۹۳۱ء کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہونی چاہئے جو تمہیں ڈرا سکے.خواہ تمہارے مقابل پر کوئی دشمن ہو یا نہ ہو.تمہارے دل میں یہ احساس ہونا چاہئے کہ اگر قطار میں باندھ کر تمہیں کھڑا کر دیا جائے اور خدا کے لئے تمہیں ذبح ہونا پڑے تو تیار ہو جاؤ اور اپنے دل میں ذرا بھی ملال پیدا نہ کرو.یہ مت خیال کرو کہ اس وقت کوئی دشمن نہیں جس سے ہمارا مقابلہ ہو کیونکہ کوئی نہیں جانتا کہ کب ایسے مقابلہ کی ضرورت پیش آجائے.مومن بے شک امن پسند ہوتا ہے اور کوئی ایسا موقع پیدا نہیں ہونے دیتا جس کی وجہ سے مصائب میں پڑے.لیکن دل میں یہ ضرور احساس ہونا چاہئے کہ اگر خدا کے لئے جیل جانا پڑے تو بخوشی جیلوں میں جائیں گے.میں مسلمانوں کو دیکھتا ہوں کہ جب بھی جیل میں جانے کا سوال ان کے سامنے آجاتا ہے معا ان کے سارے جوش ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں.یوں تو وہ لٹھ مار کر دو سروں کا سر پھوڑنے کے لئے تیار ہو جائیں گے مگر جیل کا نام سن کر گھبرا جائیں گے.لیکن ایک سکھ قوم ہے جو جیل کا ذرہ بھی ڈر محسوس نہیں کرتی اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اب سکھ جیل خانوں سے نہیں بلکہ جیل خانے سکھوں سے ڈرنے لگے ہیں کیونکہ گورنمنٹ ڈرتی ہے کہ اگر اتنے آدمیوں کو جیل خانے میں بند کر دیا تو انہیں کھلائیں گے کہاں سے.ایک آدمی پر پچاس ساٹھ روپے ماہوار بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی خرچ آتا ہے.کھانے اور کپڑے کے اخراجات.رہائش کا انتظام اور نگرانی پر جو خرچ ہوتا ہے اگر سب کا اندازہ لگایا جائے تو پچاس ساٹھ روپے فی آدمی پڑتا ہے.اور اگر دس ہزار آدمی قید خانے میں ہوں اور پانچ لاکھ ہی ماہوار اخراجات کی اوسط ہو تو ساٹھ لاکھ روپیہ سالانہ خرچ کرنا پڑتا ہے.اور اگر ایک لاکھ قیدی ہوں تو پچاس لاکھ ماہوار.اور چھ کروڑ روپیہ سالانہ خرچ ہوتا ہے.اگر اس قدر آدمی گورنمنٹ قید کر لے تو باقی محکموں کو کس طرح چلائے اور لوگوں کو تنخواہیں کہاں سے دے.اصل بات یہ ہے کہ جب سکھوں نے کہہ دیا کہ ہم جیل خانے جاتے ہیں ہمیں قید کا کچھ فکر نہیں تو گو ر نمنٹ کو اپنی فکر پڑ گئی.کیونکہ تھوڑے لوگوں کو تو وہ قید کر سکتی ہے مگر سارے کے سارے جب قید ہونے کے لئے تیار ہو جائیں تو انہیں کہاں قید کر سکتی ہے.اسی لئے گورنمنٹ نے گزشتہ ایام میں یہ طریق رکھا کہ وہ سکھوں کو ریل میں بیٹھا کر لے جاتی اور انہیں دور دراز جگہوں پر چھوڑ آتی.کیونکہ وہ سمجھتی تھی انہیں قید کرنا اپنے سر مصیبت لینا ہے.تو سکھوں نے قید سے ڈرنا چھوڑ دیا.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب جیل خانے ان سے ڈرنے لگے ہیں.پہلے تو گونمنٹ دھمکی دیتی تھی کہ اگر تم فلاں بات سے باز نہ آئے تو ہم تمہیں قید کر دیں گے.اور یا اب یہ حالت ہے کہ پبلک گورنمنٹ سے کہتی

Page 187

خطبات محمود TAY ہے کہ ہمیں یہ حق دیتا ہے تو دے دو وگر نہ ہم جیل خانے جاتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ دلیری بڑی چیز ہے.تم موت کے لئے تیار ہو جاؤ موت تم سے بھاگنے لگے گی.جیل خانوں کے لئے تیار ہو جاؤ جیل خانے تم سے دور بھاگیں گے اور مار کھانے کے لئے تیار ہو جاؤ تو مارنے والے تم سے بھاگنے لگیں گے.پس دلیر بن جاؤ اور یقین رکھو کہ ہر چیز تمہاری خادم ہے اور تمھیں کوئی چیز گزند نہیں پہنچا سکتی.اس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام میں اشارہ ہے کہ "آگ سے ہمیں مت ڈراؤ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے." یعنی چونکہ ہم آگ سے ڈرتے نہیں اس لئے آگ نہ صرف ہماری غلام ہے بلکہ ہمارے غلاموں کی بھی غلام ہے.کچی بات یہ ہے کہ جب کوئی قوم یہ فیصلہ کر لیتی ہے کہ ہم نے کسی سے نہیں ڈرنا تو تمام قومیں اس سے ڈرنے لگتی ہیں.پس اپنے دلوں سے بزدلی نکال دو اور یا دور کھو کہ جس دن تم نے بزدلی دور کر دی اس دن تمام قو میں تم سے ڈرنے لگیں گی.پھر اللہ تعالی کے حضور دعا ئیں بھی کرو.جب اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہو رہے ہوں اس وقت ایسے ایسے رنگ میں دعائیں قبول ہوتی ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.ابھی چند دن کا واقعہ ہے مجھے ایک مشکل در پیش تھی اور میرے ذہن میں اس کا کوئی حل نہ آتا تھا.طبیعت میں ایک قسم کی گھبراہٹ تھی اور میں حیران تھا کہ کیا کروں دل میں خیال آیا میں نے کاغذ اور قلم رکھ دیا اور اللہ تعالی سے دعا کی کہ الٹی میرے پاس اس مشکل کا کوئی حل نہیں اور میرے واہمہ میں بھی نہیں آتا کہ میں اس کا کیا حل نکالوں تو خود ہی اپنے فضل سے میری رہبری فرما.صرف ایک منٹ میں نے دعا کی ہوگی.پھر میں اپنے کام میں مشغول ہو گیا.ابھی پانچ منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ وہ مشکل جس کاحل میرے واہمہ میں بھی نہیں آتا تھا حل ہو گئی.یعنی پانچ منٹ کے اندرہی میرے دروازے پر دستک ہوئی اور جس مشکل کی وجہ سے میں گھبرا رہا تھا اس کا حل حاصل ہو گیا.پس جو اللہ تعالی کے حضور کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی اعانت کرتا ہے.صرف اللہ تعالیٰ کی مدد کا پورا یقین ہونا چاہئے.اور جس وقت یقین سے دعا کی جائے تو وہ اللہ تعالی کے حضور سے رد نہیں کی جاتی بلکہ قبول ہو جاتی ہے.حضرت ابن عباس سے کسی نے پوچھا سب سے زیادہ توجہ سے آپ کس کا کام کیا کرتے ہیں.انہوں نے کہا میں اس شخص کا کام سب سے زیادہ توجہ سے کرتا ہوں جو مجھے یہ کہدے کہ اے ابن عباس تیرے سوا میرا یہ کام کوئی اور شخص نہیں کر سکتا.اگر ابن عباس کے دل میں اتنی غیرت ہو سکتی ہے کہ جب کوئی شخص ان پر بھروسہ کرے تو وہ ان کا کام کر دیں تو کیا ہمارے مولی

Page 188

خطبات محمود TAP سال ۱۹۳۱ء میں اتنی بھی غیرت نہیں کہ ہم کہیں خدایا تیرے سوا ہمارا کوئی مددگار نہیں تو وہ ہماری التجاء نہ سنیں.ایسا کبھی نہیں ہو سکتا بلکہ جب ہم یقین سے کہیں کہ خدایا تو نے ہی یہ کام کرنا ہے تو وہ کام پورا بھی کر دیتا ہے مگر نقص یہی ہے کہ یقین کی کمی ہے منہ سے تو کہتے ہیں کہ خدایا یوں کر مگر دل خدا کی نصرت پر یقین نہیں رکھتا.ایسی دعا خدا کی درگاہ سے رد کر دی جاتی ہے اور دعا کرنے والے کے منہ پر ماری جاتی ہے.پس دعائیں کرو عبادت کی عادت ڈالو اور ذکر الہی کیا کرو اور ضروری بات یہ ہے کہ تہجد کی عادت ڈالو.مجھے افسوس ہے ہماری جماعت میں بہت کم ایسے لوگ ہیں جو تجد کے لئے اٹھتے ہیں.اگر زیادہ نہیں کر سکتے تو کم از کم اتنا تو کریں جو ایک دفعہ انصار اللہ کے بچوں سے میں نے کہا تھا کہ یہ عہد کرو کہ جمعہ کی رات تجد ضرور پڑھنی ہے.ایک رات تہجد پڑھ لو اور چھ راتیں سولو.اس طرح آہستہ آہستہ باقی دنوں میں بھی اٹھنے کی عادت ہو جائے گی.اگر دوست رات تمام تعالیٰ کے حضور دعا ئیں کرے تو ہماری متحدہ دعا ئیں اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے میں عظیم الشان اثر دکھائیں گی.پس کم از کم ہفتہ میں ایک دن سوائے سفر یا بیماری یا ایسی ہی کسی اور معذوری کے جو استثنائی صورتیں ہیں ہر جمعہ کی رات اٹھو اور تہجد پڑھا کرو.اگر ہم اس طرح کریں تو بہت بڑی کامیابی حاصل ہو سکتی ہے.ہماری جماعت کے لاکھوں آدمی اگر ہر جمعہ کی رات تجد کے تھے انھیں اور سب اللہ تعالیٰ کے حضور سربسجود ہوں تو ہر ہفتے میں ایک دن ہمیں رمضان جیسی برکتوں والا میسر آسکتا ہے.پس جو لوگ تہجد پڑھا کرتے ہیں وہ تو پڑھای کریں مگروہ جو اٹھ نہیں سکتے انہیں میری یہ نصیحت ہے کہ وہ کم از کم جمعہ کی رات ضرور اٹھیں اور تہجد پڑھیں.میں جمعہ کی تخصیص اس لئے کرتا ہوں تا سارے دوست ایک ہی رات اٹھیں اور مشرق مغرب کے احمدی اللہ تعالیٰ کے حضور سلسلہ عالیہ کی کامیابی اور اپنے اندر اخلاص تقویٰ اور طہارت پیدا ہونے کے لئے چلا ئیں.پس اس جوبلی کی یادگار کا اس کو بھی حصہ ہی قرار دے لو کہ تمام بالغ احمدی خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں کوشش تو یہ کریں کہ ہمیشہ تجد پڑھیں لیکن اگر ہمیشہ اس عمل نہیں کر سکتے تو جمعہ کی رات مخصوص کر لیں اور سب اللہ تعالیٰ کے حضور متفقہ طور پر دعائیں مانگیں.میں اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتا ہوں کہ جیسا اس نے حمل کے ایام میں ہماری حفاظت فرمائی رضاعت اور طفولیت کے اوقات میں ہمارا پاسبان رہا اور جوانی کے وقت بھی ہمیں اس نے اتناہی عہد کرلیں اور اسے پورا کرنے کی کوشش کریں اور جمعہ ساٹھ ستر

Page 189

خطبات محمود IAP سال ۱۹۳۱ء دشمنوں کے حملوں سے محفوظ رکھا وہ ہمارے گہل کا زمانہ اس سے بھی زیادہ با برکت بنائے.اور بلغ اشده کا زمانہ جو اس نے ہمیں عنایت فرمایا ہے اس میں وہ ہمارے سلسلہ کو اکناف عالم میں پھیلائے اور ایسے ایسے اسباب پیدا فرمائے جو ہماری جماعت کی بیش از پیش ترقیات کا موجب ا ہوں.ل الاحقاف : ١٦ تذکرۃ صفحہ ۳۹۹- ایڈیشن چهارم کے تذکرۃ ۵۹۵- ایڈیشن چهارم الاحقاف ١٦ ه الاحزاب ۲۳.تذكرة صفحه ۱۰۴- ایڈیشن چهارم کہ تذکرۃ صفحہ ۳۹۷- ایڈیشن چهارم الفضل ۱۱- جون ۱۹۳۱ء)

Page 190

محمود ۱۸۵ 20 جمعہ کی رات کو ہر احمدی تہجد پڑھے (فرموده ۱۲- جون ۱۹۳۱ء) سال ۱۹۳۱ء تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.میں نے متواتر دوستوں کو بتایا ہے کہ الہی قرب کا رستہ پل صراط کہلاتا ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ وہ صرف ایک ہی رستہ ہے اور یہ کہ وہ ایسا باریک رستہ ہے کہ اگر ہم اس سے ذرہ بھی دائیں بائیں ہو جا ئیں تو تمام کوششیں ضائع ہو جاتی ہیں وہ رستہ در حقیقت دعا اور تدبیریا تو کل اور تدبیر کے درمیان کا رستہ ہے.اگر ہم دونوں پیر تو کل کی طرف رکھ لیں تب بھی کامیابی سے محروم رہ جائیں گے اور اگر دونوں پیر تدبیر کی طرف رکھ لیں تو بھی کامیابی سے محروم رہیں گے بظاہر یہ عجیب بات معلوم ہوتی ہے کہ دونوں پیر تو کل کی طرف رکھیں تو کیوں محروم رہیں گے.مگر یہ عجیب نہیں.تو کل پیدا کرنے والے نے ہی تدبیر کو بھی پیدا کیا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ دونوں سے کام لیا جائے.آنکھیں بڑی اچھی چیز ہیں لیکن اگر ہاتھ پاؤں سے جو بہ نسبت آنکھوں سے ادنیٰ حیثیت رکھتے ہیں کام نہ لیں تو زندگی بے کار ہو جائے گی اور کوئی نہیں کہے گا کہ ہم نے آنکھوں سے جو زیادہ اچھی چیز ہیں کام لیا ہے پھر کیا وجہ ہے کہ ہاتھ پاؤں بے کار ہو گئے.اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا ایک کام رکھا ہے اور وہ چیز اپنے مقام کے لحاظ سے ادنیٰ و اعلیٰ نہیں کہلاتی بلکہ ضرورت کے لحاظ سے ادنیٰ و اعلیٰ سمجھی جاتی ہے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک چیز زیادہ نفع رساں ہے مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس پر تو نکل کر کے دوسری کو نظر انداز کر سکتے ہیں.ڈاکٹر ایک نسخہ لکھتا ہے اس میں ایک چیز ا ہم ہوتی ہے اور باقی اس کی مصلح ہوتی ہیں اصل مقصود نہیں ہو تیں لیکن اگر انہیں چھوڑ دیا جائے تو اصل مقصود دوائی بجائے کسی نفع کے اور بیماریاں پیدا کر دے گی.پس مقام تو کل گو سب سے اعلیٰ

Page 191

محمود IAM سال ۱۹۳۱ء مقام ہے مگر باوجود اس کے مقام تدبیر کو ہم ترک نہیں کر سکتے.ہاں اس میں شبہ نہیں کہ مقام تدبیر ادنی ہے کیونکہ اس میں بندہ کی کوشش کا دخل ہوتا ہے اور توکل اللہ تعالے پر ہوتا ہے اور اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ بندے کی چیز اللہ تعالٰی کی چیز کے سامنے بیچ اور ناقص ہوتی ہے.پس میں اپنے دوستوں کو جہاں مقام تدبیر پر کھڑا ہونے کی تلقین کرتا ہوں وہاں مقام تو کل کے لئے اس سے بھی زیادہ کہتا ہوں کیونکہ وہ مخفی ہے اور مخفی چیز کی طرف توجہ رکھنا ذرا مشکل ہوتا ہے.انسان کو اپنی تدبیر اور کوشش تو نظر آتی ہے مگر خدا کا حکم نظر نہیں آتا.انسان سمجھتا ہے میں نے جلاب لیا میگنیشیا پی لیا اور دست آگیا.مگر وہ یہ نہیں جانتا کہ وہ جس وقت میگنیشیا پینے لگا تھا تو خدا تعالیٰ نے من کہا تھا جس کے باعث وہ اسے پی سکا.پھر ملائکہ نے اس کے اندر تغیرات پیدا کئے.میگنیشیا بھی ویسا ہی پوڈر ہے جیسا کہ دوسری دوائیاں ہیں مگر خدا تعالیٰ نے محسن سے اس کے اندر خاص تاثیرات ودیعت کیں پھر اسکے دماغ کو رغبت ہوئی اور معدہ کو قبولیت کی طاقت ملی.ممکن ہے کوئی اس سے انکار کر دے لیکن حقیقت یہی ہے کہ خدا تعالی کے حسن سے ہی ڈاکٹر نسخہ لکھتا ہے.كُن سے ہی مریض کو اسے استعمال کرنے کی توفیق ملتی ہے.محسن سے ہی اس کا حلق اسے اندر لے جاتا ہے.وگرنہ کئی لوگ کہہ دیتے ہیں ہم کڑوی دوائی پی نہیں سکتے.پھر گن سے ہی معدہ اسے قبول کرتا ہے.اور محن سے ہی اس کی ہڈیاں اور اعضاء ر یکسہ اس سے مشارکت اختیار کرتے ہیں اور اس سے جلاب آجاتا ہے.گو یا اتنے حسن کے بعد اثر ہوتا ہے.اب جلاب تو انساں کو نظر آجاتا ہے ممر من نظر نہیں آتا.پس مقام تو کل انسان کو نظر نہیں آتا کیونکہ اس کے اسباب مخفی ہوتے ہیں اس لئے اس طرف زیادہ توجہ دلانے کی ضرورت ہوتی ہے.پنجاب کے ایک راجہ ہیں انہیں قبض کی بیماری ہے ڈاکٹر لوگ جتنا زیادہ علاج کرتے ہیں وہ بڑھتی ہی جاتی ہے.انہیں مشورہ دیا گیا کہ جا کر یورپ کے چشموں کا پانی استعمال کریں.اس سے چند دن تو آرام رہا مگر بعد میں اس سے بھی زیادہ شکایت بڑھ گئی.پھر اینجا شروع کیا گیا اس سے کچھ دن تو آرام ہوا مگر پھر وہ بھی بے کار ثابت ہوا اور اب یہ حالت ہے کہ پانچ سات دفعہ اینیما کیا جائے تو پاخانہ آتا ہے.غرض علاج دراصل اللہ تعالیٰ کے محسن کے محتاج ہوتے ہیں کیونکہ ہم دیکھتے ہیں بعض مواقع پر وہ بالکل کوئی فائدہ نہیں دیتے.مقام تو کل کا ادنی مقام دعا ہے اس سے تو کل شروع ہوتا ہے.گو دعا بھی اپنے اندر تدبیر کا ایک پہلو رکھتی ہے یعنی بندہ مانگتا ہے.دعا سے بھی انسان کو ایک تسکین ہوتی ہے اور خدا تعالٰی کے

Page 192

خطبات محمود IAZ حضور آہ و زاری سے بہت حد تک اطمینان حاصل ہو جاتا ہے.پس میں نے پچھلے جمعہ کے خطبہ میں احباب کو توجہ دلائی تھی کہ اگر اس اہم عبادت کو جس کے متعلق مومن سے امید کی گئی ہے کہ اسے روزانہ ہی بجالائے اور سوائے بیماری یا کسی اور مجبوری کے پسند یہی کیا گیا ہے کہ باقی اوقات میں بھی اسے بجالائے اگر زیادہ نہیں تو ہفتہ میں کم از کم ایک دن کے لئے اختیار کریں.آخر اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسی طرح باقاعدہ تہجد گزاری کی عادت جماعت کو ہو جائے گی اس لئے اگر روزانہ نہیں تو ہفتہ میں ایک بار ہی سہی.یہ ایسا آسان طریق ہے کہ جس سے ساری جماعت میں وحدت پیدا ہو سکتی ہے.تجد اور ذکر الہی اس وقت دنیا میں مفقود ہو رہا ہے.اول تو مسلمان عام نمازیں بھی نہیں پڑھتے.مگر تہجد تو بالکل ہی متروک ہے.کئی لوگ ذکر بھی کرتے ہیں.مگر تجد نہیں پڑھتے.تمہیں بیسیوں ایسے لوگ نظر آئیں گے جو رات کے بارہ بجے ہی اٹھ کر بیٹھ جاتے ہیں اور اللہ ہو اللہ جو کرنا شروع کر دیتے ہیں.مگر اس نماز کی توفیق انہیں نہیں ہوتی جس کا قرآن کریم میں ذکر ہے اور جسے رسول کریم م ا ا ا ا ر ادا کرتے رہے.وہ اللہ ھو اللہ ھو میں ہی ساری رات ختم کر دیں ہو گے اور سچ پوچھو تو سوائے چنیں مارنے کے اس کی اور کیا حقیقت ہے.گویا شیطان اسے مار رہا ہوتا ہے اور ایسا آدمی آگے سے چیچنیں مارتا ہے.اگر روحانیت ہوتی تو کیا وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا حکم نہ بجالا تا اور ساری رات اللہ ھو کرتا رہتا.ہمارے ہمسایہ میں ایک ہندو ہے وہ با قاعدہ اپنی تجد پڑھتا ہے.یہ تو پتہ نہیں وہ کیا کہتا ہے کیونکہ میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا سوائے ایس ایس کے مگر جو کچھ بھی ہے اپنے رنگ میں اخلاص ہے.وہ کبھی آہستگی سے بولتا ہے تو سیتا رام سمجھ میں آتا ہے باقی ایس ایس کے سوا کچھ پتہ نہیں لگتا مگر عام طور پر رات کو اٹھ کر وہ یہ عبادت بجالاتا ہے.خصوصاً سردیوں کے موسم میں اگر دوست تجد پڑھنا شروع کر دیں اور دوسروں میں بھی اس کی تحریک کریں تو بہت ہی مفید ثابت ہو سکتا ہے.بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان پر عام وعظ یا خطبہ کا اثر نہیں ہو تا لیکن اگر انہیں خاص طور پر تحریک کی جائے تو وہ قبول کر لیتے ہیں.اگر ہر شہر یا ہر محلہ میں ایسے آدمی مقرر ہو جائیں جو کم از کم جمعہ کی رات کو ہی دوستوں کو تہجد کے لئے جگائیں تو میں سمجھتا ہوں تھوڑے ہی دنوں میں ان کو عادت ہو جائے گی.اور اس وجہ سے رغبت دعا کی بھی ہوگی.اور یقینا یہ ایسی بات ہے جو خدا تعالیٰ کے فضل کو زیادہ کھینچے گی.قرآن کریم کی آیت واحد وجهَةٌ هُوَ مُوَلَّيْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ " کے اور بھی معنی ہیں مگر اس کے ایک معنی ہم بھی 1

Page 193

خطبات محمود IAA سال ۱۹۳۱ء کرتے ہیں.ایک تو اس کے معنے یہ ہیں کہ ہر کوئی کسی چیز کو دنیا میں اپنا مقصود بناتا ہے اور تم خیرات کو اپنا مقصود بناؤ.لیکن دوسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ ہر شخص اپنا کوئی نہ کوئی مقصد بنائے بیٹھا ہے اور خیرات سے غافل ہے.باقی دنیا بھی مذہب کے پیچھے لگی ہوئی ہے مگر اس کا مقصد خدا تعالی کی رضامندی حاصل کرنا نہیں.پس یہ میدان خالی ہے اس لئے فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ تم ہمت کرو اور اس میدان میں آگے بڑھ جاؤ.خیرات کا میدان ہمیشہ انبیاء کی جماعتوں کے لئے خالی ہوتا ہے.نبی اسی وقت آتے ہیں جب حقیقی نیکی دنیا سے مفقود ہو جاتی ہے.عادت کے ماتحت نماز روزہ ، زکوۃ یا حج نیکی نہیں بلکہ نیکی وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی رضاء کے حصول کے لئے سوچ سمجھ کر کی جائے اور یہی وقت ہمیں نصیب ہوا ہے.ساری دنیا اپنے اپنے کام میں لگی ہوئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے ہر کسے با کار خود بادین احمد کار نیست پس یہ موقع ہے اس نیکی کے مقام کو حاصل کر لو جس سے باقی لوگ غافل ہیں اور اسے حاصل کرنے کا ایک عمدہ ذریعہ تجد ہے اور اس کا جو طریق میں نے بتایا ہے اس سے ست لوگ بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں.یعنی جمعہ کی رات ہر احمدی تجد کے لئے اٹھے اور ہر شہر اور ہر قریہ اور ہر محلہ میں ایسے لوگ کھڑے ہو جائیں جو دوستوں کو اس کے لئے جگا ئیں جیسے رمضان میں جگاتے ہیں.ایک دوست غلام قادر سیالکوٹی ہیں بے چارے غریب آدمی ہیں کیونکہ ان کا پیشہ اچھی طرح نہیں چلتا مگر ہیں مخلص.وہ رمضان کی راتوں کو بارہ بجے سے ہی پیسہ لے کر لوگوں کو جگانا شروع کر دیتے ہیں.پس اگر اسی طرح ہر جگہ ایسا انتظام کیا جائے کہ کچھ دوست اپنے شہر یا محلہ یا نصف محلہ کے لوگوں کو جگا دیا کریں یعنی وہاں رہنے والے ایسے لوگوں کو جن کے پاس خود جاگنے کے سامان نہیں.جن کے پاس الارم والی گھڑیاں ہیں یا نوکر ہیں یا جو بورڈنگ وغیرہ میں کسی ایسی جگہ رہتے ہیں جہاں کسی نہ کسی کو جاگ آہی جاتی ہے ایسے لوگوں کو چھوڑ کر باقی لوگوں کو جو ممکن ہے خود بخود نہ جاگ سکیں اور جن کے پاس سامان بھی نہ ہوں ان کو اگر تعاون کر کے جگا دیا جائے تو دعاؤں کی بہت کثرت ہوگی.جو لوگ اس وقت اٹھیں گے وہ اگر کچھ بھی نہ کریں تو بھی دس پانچ اچھے فقرے تو منہ سے ضرور ہی نکالیں گے اور لاکھوں احمدیوں کے ایسے کروڑوں فقرے جمع ہو کر عرش الہی کو ہلا دیں گے.پس جماعت اس بلوغت پر جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت پر چالیس سال

Page 194

خطبات محمود ۱۸۹ سال ۱۹۳۱ء گذرنے پر ہمیں حاصل ہوئی ہے بطور یاد گار اگر اس نیکی کو اپنے اندر پیدا کر لے تو خدا تعالے کے فضل سے یقین ہے کہ دہریت کی رو جو اس وقت دنیا میں جاری ہے رک جائے گی.اور بے دینی اور الحاد کو شکست ہو جائے گی.اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا نزول شروع ہو جائے گا.دنیا میں ہر چیز قدم بقدم ترقی کرتی ہے.بڑے بڑے کام بھی یکدم نہیں ہو جایا کرتے بلکہ آہستہ آہستہ ہوتے ہیں.رسول کریم مل مل کے زمانہ میں بھی سارے مسلمان تجد نہیں پڑھتے تھے آہستہ آہستہ انہیں عادت ڈالی جارہی تھی حتی کہ پھر وہ زمانہ آیا کہ حضرت عمر رضی اللہ کے زمانہ میں جنگ کے دنوں میں بھی جبکہ ثابت ہے رسول کریم میں بھی چھوڑ دیتے تھے مسلمان تہجد پڑھتے تھے.ممکن ہے رسول کریم میں اور یہ بھی جنگ کے دنوں میں تہجد کے لئے اٹھا کرتے ہوں مگر یہ ثابت ہے کہ نہیں بھی اٹھتے تھے لیکن حضرت عمر رضی اللہ کے زمانہ میں مسلمان جنگ کے دنوں میں بھی تجد پڑھتے تھے حتی کہ ایک دفعہ جب ہر قل نے ان پر شب خون مارنے کا ارادہ کیا تو اس پر خوب بحث ہوئی اور آخری فیصلہ ہوا کہ نہ مارا جائے کیونکہ مسلمانوں پر شبخون مارنا بے سود ہے اس لئے کہ وہ تو سوتے ہی نہیں بلکہ تجد پڑھتے رہتے ہیں.یہ بھی ترقی کی علامت ہے جو ابتداء میں نہ تھی.شروع شروع میں رسول کریم منیر کو اس کے لئے بہت تحریک و تحریص کی ضرورت پیش آتی تھی مگر بعد میں آہستہ آہستہ کمزور بھی اس کے عادی ہو گئے.پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اس سال جہاں تبلیغ کو خصوصیت کے ساتھ اپنے پروگرام میں داخل کریں وہاں جمعہ کی رات کو تہجد کا بھی ضرور التزام رکھیں.اگر کوئی بیمار ہو اور اٹھ نہ سکے تو لیٹے لیٹے ہی دعا کر لے.اور اسے قومی شعار بنا لیا جائے اور اس سے ترقی کرتے کرتے باقاعدہ تہجد کی عادت ڈالی جائے.میں اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ وہ دوستوں کو اپنے فضل سے اس کی توفیق دے.اور ہر قسم کے کبر اور خود پسندی سے دور رکھے اور ان راہوں پر چلنے کی توفیق دے جو اس تک پہنچتی ہوں.(الفضل ۱۸- جون ۱۹۳۱ء) ا بنی اسرائیل ۷۹ ۸۰ ٢ البقرة : ١٤٩

Page 195

19.21 بٹالہ میں جماعت احمدیہ کا کامیاب جلسہ (فرموده ۱۹ جون ۱۹۳۱ء) سال ۱۹۳۱ء تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.پچھلے دنوں بٹالہ میں ایک مقامی انجمن کا جلسہ ہوا تھا اور اس میں ہمارے دوستوں کو بھی چیلنج دیا گیا تھا اس لئے وہاں کی مقامی جماعت کی درخواست پر صیغہ دعوت و تبلیغ کی طرف سے بٹالہ میں ایک احمد یہ جلسہ کا بھی انتظام کیا گیا اس جلسہ کے متعلق بعض باتیں میں اس وقت کہنی چاہتا ہوں.ایک تو میں اس بات پر افسوس کرتا ہوں کہ باوجود اس کے کہ ہماری جماعت کا ایک ذمہ دار افسر مجسٹریٹ ضلع سے یہ معاہدہ کر کے آیا تھا کہ ہماری جماعت کے لوگ اس جلسہ کے ایام میں اپنے ہاتھوں میں سونے نہیں رکھیں گے پھر بھی جماعت کے بعض لوگوں کے پاس سونٹے رہے.اس کی دو ہی تشریحیں ہو سکتی ہیں اور وہ دونوں ہی افسوسناک ہیں.ایک تو یہ تشریح ہو سکتی ہے کہ وہ ذمہ دار افسر جنہوں نے معاہدہ کیا تھا کہ ہماری جماعت کے دوست ان ایام جلسہ میں اپنے ہاتھ میں سونے نہیں رکھیں گے انہوں نے اس اعلان کو پوری طرح پھیلایا نہیں معمولی اعلان کر دیا.مگر تعمد کے طور پر ساری جاعت میں انہوں نے اعلان نہ کرایا.اور یہ قدرتی بات ہے کہ جہاں ہزار بارہ سویا چودہ سو کا اجتماع ہو وہاں سارے کے سارے دوست ایک وقت اکٹھے نہیں ہو سکتے.کچھ لوگ احتیاجوں کے رفع کے لئے باہر جاتے ہیں.کچھ پورے وقت کے لئے بیٹھ نہیں سکتے اور انہیں ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ وہ اپنے جسم کو حرکت دینے کے لئے باہر جائیں.ایسے لوگوں کو اس بات کا علم نہیں ہو سکتا کہ باقی دوستوں سے سونے لے لئے گئے ہیں.پس یا تو یہ صورت پیش آئی اور اگر یہی صورت پیش آئی تو یہ بھی قابل اعتراض ہے.کیونکہ جب کوئی شخص ہماری

Page 196

محمود 191 سال ۱۹۳۱ء جماعت کی طرف سے ایک معاہدہ کر کے آتا ہے تو وہ اپنی ذات کی طرف سے معاہدہ نہیں کرتا بلکہ جماعت کی طرف سے کرتا ہے اور احمد یہ جماعت کا لفظ ایسا بے قیمت نہیں کہ اس نام پر جب کوئی معاہدہ کیا جائے تو اسے جب چاہے تو ڑ دیا جائے.پس اگر ذمہ دار افسر نے جماعت کے سب لوگوں کو آگاہ نہیں کیا اور اپنے نمائندے ایسے مقرر نہ کئے جنہوں نے تمام جگہوں میں گھوم گھوم کر لوگوں کو اس معاہدہ سے آگاہ کیا ہو تو اس نے خطر ناک جرم کیا اور جماعت کی بدنامی کا موجب بنا.دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اس افسر نے تو اپنے عہد کو نباہ دیا اور یہ اعلان کروا دیا ہو کہ کوئی شخص اپنے ہاتھ میں سوشانہ رکھے اور سب کو اچھی طرح معلوم ہو گیا ہو کہ ہاتھوں میں سوشار لکھنے کی اجازت نہیں مگر پھر بھی بعض افراد نے اس حکم کی تعمیل نہ کی.اگر واقعی ایسا ہی کیا گیا اور اس ذمہ دار افسر نے تمام افراد کو اطلاع دے دی مگر پھر بھی بعض افراد نے خواہ وہ ایک فیصدی ہی کیوں نہ ہوں اس حکم کی تعمیل نہیں کی تو یہ بھی افسوسناک بات ہے.کیونکہ خواہ قلیل حصہ ہی اس پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں ہوا تب بھی اس نے رسول کریم کے اس حکم کی نافرمانی کی جس میں آپ نے فرمایا ہے مَنْ أَطَاعَ أَمِيرِى فَقَدْ اَ طَاعَنِي وَمَنْ عَلَى أَمِيرِى فَقَدْ عَصَانِی " یعنی جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی.پس یہ دو صورتیں ہیں جن میں سے کوئی نہ کوئی پیش آئی تیسری کوئی صورت میری سمجھ میں نہیں آتی.انہی دو صورتوں میں سے ایک نہ ایک کو درست اور صحیح تسلیم کرنا پڑے گا.یا تو یہ ماننا پڑے گا کہ اس افسر نے جماعت کو پورے طور پر اطلاع نہیں دی اور اس صورت میں قصور اس کا اپنا تھا جماعت کا نہیں.اور یا یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس نے اعلان تو کر دیا مگر جماعت کے بعض لوگوں نے خواہ وہ کتنے ہی قلیل کیوں نہ ہوں اس حکم کی اطاعت نہیں کی اور یہ دونوں صورتیں جماعت کی پیشانی پر بد نما دھبہ ہیں اور دشمنوں کو حرف گیری کا موقع دیتا ہے..آپ لوگوں کو یا د رکھنا چاہئے کہ آپ اپنی تعداد کے لحاظ سے مخالفین کے مقابل میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں.پنجاب میں ہماری جماعت سب سے زیادہ ہے اور اگر چہ گورنمنٹ کی مردم شماری ہماری جماعت کے متعلق ایسی نہیں جس پر اعتبار کیا جا سکے مگر بہر حال گذشته مردم شماری میں ہماری تعداد پنجاب میں ۲۸ ہزار تھی اور اس دفعہ پنجاب میں ۵۵ ہزار احمدی قرار دیئے گئے.سرکاری لحاظ سے ہماری تعداد گذشتہ مردم شماری کی نسبت دگنی ثابت ہو گئی.مگر ہم جانتے

Page 197

خطبات محمود ۱۹۲ سال ۱۹۳۱ء ہیں یہ تعداد بالکل غلط ہے.ضلع ہوشیار پور کے ایک گاؤں میں ۲۳۴ مرد لکھے گئے اور صرف ۲۳ عورتیں حالانکہ جس قدر مرد ہوں عموماً اسی قدر عورتیں بھی ہوا کرتی ہیں مگر لکھی گئیں صرف ۲۳- اسی طرح بٹالہ کی تحصیل میں نہایت غلط مردم شماری کی گئی.قادیان میں ہی باون شو کے قریب احمدی ہیں اور اگر تنگل ، نواں پنڈ ٹھیکری والہ اور دوسرے گاؤں جو قادیان کے اردگرد ہیں ، ملالئے جائیں تو اسی جگہ کی جماعت ساڑھے چھ ہزار کے قریب بن جاتی ہے.مگر بٹالہ کی ساری تحصیل کے گل احمدی آٹھ ہزار لکھے گئے حالانکہ بٹالہ سے پرے گاؤں کے گاؤں ایسے ہیں جہاں احمدیوں کی بہت کثرت ہے.مثلا د ہرم کوٹ ، ونجوان اٹھوال اور شکار بھی بٹالہ میں ہی ہیں.پھر پاس ہی چار پانچ میل کے فاصلہ پر سیکھواں اور تلونڈی جھنگاں ہے.ان تمام گاؤں کے احمدیوں کی مجموعی تعداد بھی سات آٹھ ہزار سے کم نہیں.اور اس لحاظ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تحصیل بٹالہ کی کل احمدی آبادی کتنی ہوگی.مگر قادیان کے ارد گرد جہاں ہم نے کوشش کی تھی کہ مردم شماری صحیح لکھی جائے وہاں بھی بعض جگہ اس سے بھی کم مردم شماری ہوئی.پس اس قسم کی باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے سرکاری مردم شماری پر اعتبار تو نہیں کیا جا سکتا مگر پھر بھی دنیا اسی سے اندازہ لگاتی ہے.لیکن اگر ہم اپنی تعداد مردم شماری والی تعداد سے بڑھا بھی لیں کیونکہ ہماری تعداد واقعی پنجاب میں اس سے بہت زیادہ ہے تو ان کمزور احمدیوں کو چھوڑ کر جو اپنا نام ظاہر نہیں کرتے پنجاب کے معروف احمدی دو لاکھ کے قریب بن جائیں گے.پھر بھی دو لاکھ اڑھائی کروڑ کے مقابل میں کیا حقیقت رکھتا ہے.بنوا کے مقابلہ میں ایک بھی احمدی نہیں بنتا.مگر کیا وجہ ہے کہ آپ لوگوں کا اس قدر رعب ہے اور کیوں دنیا خیال کرتی ہے کہ آپ لوگوں میں غیر معمولی طاقت اور قوت پائی جاتی ہے.اس کی وجہ محض اطاعت اور فرمانبرداری ہے کیونکہ لوگ سمجھتے ہیں پچپن ہزار نہ سہی اگر احمدیوں کو پچیس ہزار بھی سمجھ لو تب بھی ان کا مقابلہ کرنا آسان کام نہیں کیونکہ یہ تمام لوگ ایک ہاتھ پر جمع ہیں اور جہاں بھی انہیں اشارہ ہو ٹوٹ پڑنے کے لئے تیار ہیں اور اگر پچیس ہزار بھی مرنے مارنے پر تیار ہو جائیں تو انہیں تھوڑا خیال کرنا سخت غلطی ہوتی ہے.پس یاد رکھیں کہ آپ لوگوں کا تمام تر رعب اور وہ عزت اور وقار جو سلسلہ کو حاصل ہے محض اطاعت کی وجہ سے ہے وگر نہ کثرت تعداد کے لحاظ سے مسلمان کم نہیں مگر وہ پراگندہ ہیں اس وجہ سے انہیں کوئی نہیں پوچھتا.اگر کثرت ہی کی وجہ سے کوئی قوم معزز ہو سکتی تو مسلمان آج کیوں ذلیل ہوتے.مگر ان کی تو کوئی عزت نہیں لیکن آپ لوگوں کو ایک نمایاں درجہ حاصل ہے

Page 198

خطبات محمود ۱۹۳ سال ۱۹۳۱ء اور ایسی طاقت آپ لوگوں کے اندر پائی جاتی ہے جسے دوسرے لوگ محسوس کرتے ہیں.یہ مقام محض اطاعت کی وجہ سے آپ لوگوں کو حاصل ہوا ہے.اس میدان میں اپنے آپ کو فیل کر دو پھر کوئی نہیں جو تمہاری طاقت کا قائل ہو اور تمہارے رُعب سے خوف زدہ ہو.پس اپنے ہاتھ سے اپنی ذلت کرانا کوئی معقول بات نہیں ہو سکتی.میں اس کی تحقیقات کراؤں گا اور کمیشن بٹھا کر اس بات کا فیصلہ کراؤں گا کہ آیا اس ذمہ دار افسر نے صحیح طور پر تمام لوگوں کو اطلاع دیدی تھی یا نہیں اور اگر دے دی تھی تو وہ لوگ جو باوجود اطلاع کے سونے ہاتھ میں لئے رہے ان کے ناموں کا پتہ لگا کر تنبیہ کی جائے گی بلکہ تنبیہ کی بھی ضرورت نہیں.ان کا فعل ایسا ہو گا جو خود انہیں شرمندہ اور نادم کرنے کے لئے کافی ہو گا.اور اگر یہ ثابت ہوا کہ اس افسر نے جماعت کو اس بات سے پورے طور پر آگاہ نہیں کیا تھا تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی کیونکہ وہ وقار جو ہماری جماعت کا تمام لوگوں کی نظروں میں تھا اس کو اس نے صدمہ پہنچایا.مخالف لوگ ہمارے ایمان کے تو قائل ہی نہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو تو وہ جھوٹا سمجھتے ہیں صرف ایک ہی چیز ہے جس کے وہ قائل ہیں اور جس کا ان کے دلوں پر گہرا اثر ہے اور وہ سلسلہ کا وقار اور اس کی شان اور عظمت ہے.اس صورت میں گویا وہ ایک ہی چیز جس کا مخالفین کے قلوب پر اثر ہے اس افسر نے اپنی غفلت اور کو تاہی کی وجہ سے اسے نقصان پہنچایا.پس اس غفلت کے ثابت ہو جانے پر اس افسر کے خلاف کارروائی کی جائے گی.لیکن جو ہوا سو ہوا آئندہ کے لئے میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ اگر وہ کہیں جائیں تو اگر خلیفہ وقت ساتھ ہو تو اس کی ورنہ جو بھی افسر ہو اس کی ایسی اطاعت اور فرمانبرداری کریں کہ دشمن خواہ وہ کس قدر نابینا ہی ہو آپ لوگوں کی اطاعت اور فرمانبرداری کو دیکھ کر اقرار کرے کہ اس جماعت کو اطاعت میں جو درجہ حاصل ہے اس کی دنیا میں کہیں نظیر نہیں ملتی.رسول کریم میں اور کے زمانہ میں اطاعت پر اس قدر زور دیا جاتا تھا کہ لوگ بعض دفعہ اطاعت میں غلو کر جاتے تھے.ایک دفعہ رسول کریم میم کے زمانہ میں ایک شخص کو امیر بنا کر بھیجا گیا کسی مقام پر صحابہ اور اس امیر میں اختلاف ہو گیا.امیر کہنے لگا تم پر میری یہاں تک اطاعت فرض ہے کہ اگر میں آگ جلا کر تم سب کو حکم دوں کہ اس میں کود پڑو تو تمہیں کو د جانا ہو گا.اس پر بعض صحابہ نے کہا یہ معصیت ہے کیونکہ جب شریعت کہتی ہے لا تلقوا بِأَيْدِيكُمْ إلى التهلكة کہ اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو.تو آپ کے حکم پر ہم آگ میں کس طرح کو دسکتے ہیں.مگر بعض نے کہا بے شک ہم آگ میں بھی کود پڑیں گے کیونکہ رسول کریم

Page 199

خطبات محمود ۱۹۴ سال لم نے فرمایا ہے اپنے اپنے امیر کی اطاعت کرو.جب رسول کریم میں اللہ کے سامنے یہ معاملہ پیش ہوا تو آپ نے فرمایا اگر تم آگ میں کود پڑتے تو خود کشی کرتے کیونکہ جہاں کسی حکم کے متعلق شریعت کی نصوص بینہ موجود ہوں وہاں اگر ان کے خلاف حکم دیا جائے تو اس حکم میں اطاعت فرض نہیں ہوتی.مگر باوجود اس کے اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول کریم میم اس قدر اطاعت پر زور دیا کرتے تھے کہ آپ نہیں بلکہ آپ کے مقرر کردہ امیر کے حکم پر بھی صحابہ کی جماعت میں سے ایک حصہ باوجود یہ جانتے ہوئے کہ خود کشی حرام ہے آگ میں کود پڑنے کے لئے تیار ہو گیا.پس اطاعت امیر کوئی معمولی بات نہیں.جماعت کو چاہئے کہ وہ ہمیشہ ایک نظام کے ماتحت رہے.مجھے معلوم ہوا ہے کہ پہلے دو دن بٹالہ میں کوئی خاص انتظام نہ تھا جس کی وجہ سے بعض لوگ شہر میں پھرتے رہے اور اس وجہ سے جلسہ میں حاضری بھی کافی نہ تھی.اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگوں پر مختلف امراء کا تقرر نہ کیا گیا تھا.اگر مختلف ٹولیوں میں لوگوں کو تقسیم کر کے ہر ٹولی کا ایک علیحدہ امیر بنا دیا جاتا اور لوگ جہاں بھی جاتے اپنے امیر سے اجازت لے کر جاتے اور پھر وہ سارے امراء اس امیرالجیش کے ماتحت ہوتے جو یہاں سے مقرر کیا گیا تھا تو کبھی اس طرح پراگندگی واقع نہ ہوتی.پس آئندہ کے لئے جماعت کو چاہئے کہ وہ امیروں کی بھی اطاعت کرے اور امیر الامراء کی بھی.مگر بہر حال اگر ہماری جماعت کی طرف سے کو تاہیاں بھی ہو ئیں تب بھی خدا کا شکر ہے کہ دشمنوں پر ایسار عب بیٹھا کہ باوجود مباحثہ کے لئے بار بار بلانے کے وہ اپنے گھروں سے نہیں نکلے.یہ احمدیت کی ایسی نمایاں فتح ہے کہ اگر ان میں ذرا بھی شرم و حیا ہوئی تو وہ آئندہ احمدیوں کو مناظرہ کا چیلنج نہیں دیں گے.ہمارے دشمنوں نے اس جلسہ کے متعلق بعض عجیب و غریب باتیں شائع کرائی ہیں.ایک اخبار میں میں نے پڑھا اور مجھے پڑھ کر ہنسی آئی کہ چار ہزار احمدی نیزوں، تلواروں ، بلموں اور ہتھیاروں سے مسلح ہو کر بٹالہ پر حملہ آور ہوئے اور شہر میں خوف و ہراس پیدا ہو گیا.ہمارے متعلق تو جو خبر انہوں نے شائع کرائی وہ بہر حال جھوٹی ہے.مگر اپنے متعلق جو انہوں نے لکھا وہ جھوٹی نہیں ہو سکتی اور اس سے ظاہر ہو گیا کہ احمدیوں کے جانے پر ان پر سخت خوف و ہراس طاری ہو گیا تھا.پس یہ کتنا بڑا خدا کا فضل ہے کہ آپ لوگ قلیل تعداد میں وہاں جاتے ہیں اور پھر بعض سے کوتاہیاں بھی سرزد ہوتی ہیں مگر تمیں ہزار کی آبادی کا شہر ڈرنے لگتا ہے اور ڈرتا بھی کس سے ہے خدائے واحد کے مسیح احمد کی بھیڑوں سے جس کی بھیڑوں سے جو لوگ ڈر گئے وہ اس کے شیروں کے مقابل کس طرح آسکتے ہیں.احمد یہ جماعت کا

Page 200

خطبات محمود ۱۹۵ طریق عمل موجود ہے.احمدی ہمیشہ حملے کے جواب میں لڑتے ہیں خود کبھی ابتداء نہیں کرتے چنانچہ انہوں نے بھی تسلیم کیا ہے کہ ہم لوگ امن اور سکون سے رہے، وگر نہ یہ لوگ حملہ کر دیتے.اس طرح انہوں نے تسلیم کر لیا کہ اگر ان کی طرف سے چھیڑ خوانی ہوتی تو احمدی بھی جو ابا حملہ کرتے.اس سے ثابت ہو گیا کہ وہ لوگ خود تسلیم کرتے ہیں کہ احمدی کبھی ابتداء حملہ نہیں کرتے بلکہ جو ابا حملہ کیا کرتے ہیں.اور وہ لوگ جو دوسروں کے حملوں کے جواب میں حملہ کیا کریں ان پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا اگر ان پر اعتراض ہو تو پھر رسول کریم میں پر بھی اعتراض وارد ہو گا.کسی نادان نے یہ باتیں اس قوم کے اخبار ملاپ میں شائع کرائی ہیں جو ہمیشہ رسول کریم میں پر یہ اعتراض کرتی چلی آئی ہے کہ آپ نَعُوذُ بِاللہ خونخوار تھے اور آپ کی تمام جنگیں ظالمانہ تھیں.اسے شائع کراتے وقت اتنی بھی سمجھ نہ آئی کہ ایسی باتیں میں ایسے اخبار میں شائع کرا کے خود اعتراض کا موقع دے رہا ہوں.مگر کچھ بھی ہو اس نے ایسا کیا اور اپنی حماقت کا ثبوت دیا.پس اس وقت ایک تو میں نصیحت کرتا ہوں کہ پوری پوری اطاعت کا مادہ پیدا کرد او ر دو سرے اللہ تعالیٰ کے احسانات کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس نے باوجود ہماری کمزوری کے ایسی نمایاں فتح دی جس کا دشمن کو بھی اقرار کرنا پڑا اگر چہ الفاظ ایسے کھلے نہ ہوں مگر غور کرنے والے کے لئے ان الفاظ سے اس حقیقت کا سمجھنا کچھ بھی مشکل بات نہیں.اس کے بعد میں ایک مضمون کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں جو بٹالہ میں غیر احمدیوں کے جلسہ میں ایک شخص نے بیان کیا.میں نے سنا ہے سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری نے اپنے جلسہ میں بیان کیا کہ احمدیوں کے مقابل پر ہمیں کسی کوشش کی ضرورت نہیں.سیاسی طور پر مسلمان کانگریس کی مدد کریں.احمد ی ہمیشہ سے خوشامدی چلے آئے ہیں چنانچہ ان کا پیر بھی خوشامدی ہی تھا.جس دن ہمیں حکومت ملی اور میں وزیر اعظم ہو گیا یہ لوگ میرے بوٹ چاٹا کریں گے.اور گاندھی جی کی تعریف کرتے ہوئے کہا.مسلمانوں کو اس کے پیچھے چلنا چاہئے یہی وہ شخص ہے جس نے ہندوستان کو آزادی دلائی.میرزا صاحب نے آکر دنیا کو کونسی آزادی دلائی تھی انہوں نے تو آکر غلام بنا دیا.پھر کہا.یہ لوگ جب سوراج مل گیا گاندھی جی کی سرداری تسلیم کریں گے اور اب تو گائے پر لڑتے ہیں پھر گائے کا پیشاب پیا کریں گے.دراصل انبیاء کی جماعتیں غیروں کے لئے بمنزلہ آئینہ ہوتی ہیں سید عطاء اللہ شاہ نے ان الفاظ میں اپنے ہی باطن کا اظہار کیا ہے کیونکہ کانگریس کے وہ تنخواہ دار ملازم ہیں

Page 201

خطبات محمود 194 سال ۲۱۹۳۱ یہی وجہ ہے کہ ۹۵ فیصدی مسلمان جس سکیم کے سخت مخالف ہیں وہ اسی کی تائید کرتے اور ملک میں غداری کرتے پھرتے ہیں.یہ غداری تو پیشاب سے بھی بد تر ہے کیونکہ پیشاب کا پینا تو پھر بھی بیماری میں جائز ہو سکتا ہے.فقہاء نے ضرور تا شراب کو بھی جائز رکھا ہے.جب ضرور تا شراب پینا جائز ہو سکتا ہے تو پیشاب کا استعمال بھی کسی وقت جائز سمجھا جا سکتا ہے مگر قومی غداری دھوکا اور غریب تو کبھی اور کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہوتا.پس وہ لوگ جو دھوکا اور فریب کے عادی ہیں وہ گائے کا پیشاب اگر ایک دفعہ نہیں ہزار دفعہ بھی پی لیں تو ان کے متعلق تعجب نہیں ہو سکتا اور منہ سے تو شاید اب بھی وہ گاندھی جی سے یہی کہتے ہوں کہ حضور ہم گائے کا پیشاب کیا پاخانہ بھی کھانے کے لئے تیار ہیں کیونکہ ان کا مقصد محض گاندھی جی کی خوشنودی ہے.یا د رکھنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقابل میں گاندھی وغیرہ کی کچھ بھی حقیقت نہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خدا کی طرف سے مامور ہو کر آئے پس جو بھی آپ کے مقابل پر اٹھے گا خواہ وہ گاندھی ہویا کوئی اور اللہ تعالی اسے یوں کچل ڈالے گا جس طرح ایک جوں مار دی جاتی ہے.نادان کہتے ہیں کہ گاندھی جی نے انگریزوں کو ہرا دیا.اول تو یہ بات ہی غلط ہے لیکن پھر بھی اگر گاندھی جی انگریز کیا ساری دنیا کو بھی ہرا دیں تب بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام کے مقابل میں اس کی کچھ حیثیت نہیں کیونکہ گاندھی جی کی فتوحات لوگوں کو خوش کر کر کے ہوئیں.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دنیا کو ناراض کر کے جیتا.یہاں تک کہ دنیا کا ایک معتدبہ حصہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قدموں میں آگرا اور ابھی کیا ہے دنیا دیکھے گی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر کس طرح مخلوق اکٹھی ہوتی ہے اور ایسا ہو گا کہ ان مخالفین کی اولادیں یا تو ان کی طرف اپنے آپ کو منسوب ہی نہیں کریں گی یا پھر ان پر لعنتیں بھیجیں گی.گاندھی جی اور ان کی تحریکیں ہستی ہی کیا رکھتی ہیں اس خدا کے جرنیل کے مقابل میں جو دنیا کا نجات دہندہ بن کر آیا.پھر گاندھی جی تو اسلامی تعلیم پر بھی اعتراض کرتے ہیں جب وہ یہ کہتے ہیں کہ میرا عقیدہ ہے کہ دفاع میں بھی جنگ جائز نہیں.اس طرح کیا وہ رسول کریم میں اللہ پر یہ اعتراض نہیں کرتے کہ گویا نعوذُ بِاللہ آپ نے اندفاعی جنگیں کر کے برا کام کیا.پس ایسے شخص کی تعریف کرنا در اصل رسول کریم میر کی علانیہ جتنک کرنا ہے مگر مونہہ سے مسلمان کہلاتے ہوئے اس شخص نے گاندھی جی کی تعریف کی جو مسلمانوں کے کھلے دشمن ہیں

Page 202

خطبات محمود 194 سال ۱۹۳۱ء اور تعریف بھی اس رنگ میں کی کہ گویا وہ مسلمانوں کے رہبر بننے کے قابل ہیں.حالانکہ وہ شخص محمد میر کی جوتیوں کا تسمہ کھولنے کے بھی قابل نہیں.گاندھی جی ساری دنیا کے بھی فاتح ہو جائیں تب بھی اخلاقی لحاظ سے وہ محمد میر کے مقابل میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے.وہ جبھی حقیقی عزت حاصل کر سکتے ہیں جب رسول کریم می و لیور کی غلامی میں آجائیں پس ایسے شخص کی تعریف کرنا اور اس کی مدح کے راگ گانا انتہاء درجہ کی نادانی اور حماقت ہے کیا یہ وہی شخص نہیں جس کی آنکھوں کے سامنے ہندؤوں کی طرف سے مسلمانوں پر تشدد ہوتا ہے مگر وہ چپ بیٹھا رہتا ہے.ملک میں یہ تمام فتنہ اور فساد پیدا کرنے والے دراصل کا نگریس کے لوگ ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے افعال کے متعلق نفرت کا اظہار نہیں کیا جاتا محمد مال تو جس بات کو سچا سمجھتے تھے اسے کبھی بھی چھپاتے نہیں تھے مگر یہ گروہ کام کچھ اور کرتا ہے اور زبان سے کچھ اور اظہار کرتا ہے یہی وہ گروہ ہے جس کی مرضی سے خون کئے جاتے ہیں اگر ان کی مرضی سے یہ سب کچھ نہیں ہو تا تو کیا وجہ ہے کہ بنارس میں جب ایک کپڑا بیچنے والے مسلمان کا قتل کا نگریسوں کی طرف سے ہوا اور اس پر غیر معمولی فساد ہو گیا تو کانگرس نے اس کی تحقیق نہیں کرائی.پھر کیوں کانپور میں جو وارداتیں ہوئیں ان پر نوٹس نہیں لیا گیا محض اس لئے کہ یہ جانتے تھے لوگ ہمارا ہی کام کر رہے ہیں یہ عجیب بات ہے کہ فعل کی حقیقت سے تو نفرت کا اظہار نہیں کرتے.مگر عدم تشدد کا دعویٰ کیا جاتا ہے جس کے اندر ذرہ بھر بھی صداقت نہیں مگر محمد جو کہتے تھے وہی کرتے بھی تھے.آپ کا قدم راستی پر تھا اور آپ ایسے بلند مقام پر پہنچے ہوئے تھے کہ جس کی گرد تک بھی یہ لوگ نہیں پہنچ سکتے.دراصل یہ دنیا دار لوگ ہیں جدھر عزت اور دولت دیکھتے ہیں اسی طرف جھک جاتے ہیں.لار ڈارون سے ملاقت ہوئی گاندھی جی اس پر ریشہ معظمی ہو گئے اور ہندو یہ کہتے ہوئے پھولے نہیں سماتے تھے کہ لارڈارون نے گاندھی جی سے چھ گھنٹے تک ملاقات جاری رکھی.اگر یہ لوگ مردم پرست نہ ہوتے تو چھ گھنٹے کیا ساٹھ گھنٹے کی ملاقات بھی انہیں ان کے اصل مقصد سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹا سکتی مگر یہ جیسا موقع دیکھتے ہیں اس کے مطابق اپنے اعمال میں تغیر کر لیتے ہیں.ان کے محض بناوٹی اخلاق ہیں، دھوکے کی ٹٹیاں ہیں اور پھر منہ کھولتے ہیں اس سچائی اور راستبازی کے بادشاہ پر جسے آدم سے لے کر آج تک تمام انبیاء پر فضیلت حاصل ہے اور جسے اللہ تعالی نے سید ولد آدم قرار دیا ہے.کہنے کو تو کہتے ہیں ہمارا اصل عدم تشدد ہے.مگر کانگرسیوں

Page 203

خطبات محمود ۱۹۸ کے سارے کام دیکھ لو.لوگوں کو مارا بھی جاتا ہے بیٹا بھی جاتا ہے اور دھوکا اور فریب پیٹ بھر کر کیا جاتا ہے مگر اس پر کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا.ایک تماشہ ہے جو ان لوگوں نے بنا رکھا ہے.پھر بھی یہ لوگ گاندھی کو محمد ملی اور آپ کے خدام کے مقابل میں پیش کرتے ہیں.حالانکہ محمد مین ایر تو کیا آپ کے خادموں کے خادموں کے مقابلہ میں بھی گاندھی کی کچھ حیثیت نہیں.ہم دنیاوی لحاظ سے گاندھی جی کا اعزاز کرتے ہیں لیکن اگر خود ان کے چیلے چانٹے مذہبی پیشواؤں کے مقابل پر انہیں کھڑا کریں اور ہم جوابا حقیقت کا اظہار کریں تو ہم معذور ہیں.اگر گاندھی جی یا ان کے چیلوں کو ہماری یہ باتیں بُری لگیں تو اس کی تمام تر ذمہ داری خود گاندھی جی پر ہے.سید عطاء اللہ شاہ کی تو ہستی ہی کیا ہے ان کے بڑے بڑے لیڈر بھی جماعت احمدیہ کی تعریف کرتے ہیں.ڈاکٹر سید محمود صاحب جو کانگریس کے سیکرٹری ہیں انہوں نے میرے سامنے کہا کہ میں.آپ کے سیاسی خیلات سے اختلاف رکھتا ہوں لیکن مذہبی لحاظ سے آپ کی اسلامی خدمات کا قائل ہوں.ہمارے در د صاحب جب گاندھی جی سے ملنے گئے تو اس وقت بھی گاندھی جی کے سامنے ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ مسلمانوں میں اگر کوئی کام کرنے والی جماعت ہے تو وہ احمد یہ جماعت ہی ہے.جس پر خود گاندھی جی نے کہا کہ میں اس امر کو خوب جانتا ہوں.پس لیڈروں کے تو یہ خیال ہیں مگر یہ ان کے شاگردوں کا شاگرد کہتا ہے کہ جماعت احمد یہ گائے کا پیشاب پیا کرے گی.احمد یہ جماعت گائے کا پیشاب نہیں بنے گی بلکہ وہ اس جیسے بے غیرت لوگوں کو پینے سے بچائے گی.کیونکہ ہمارا کام ہی یہ ہے کہ ہم اسلام کی وہ عظمت قائم کریں جو ہر قسم کے شرک کو دنیا سے ملیا میٹ کر دے.ہر شخص اپنے مقام پر اچھا سمجھا جاتا ہے لیکن اگر اس کو اس کے اصل مقام سے بڑھا دیا جائے تو یہ اچھا نتیجہ پیدا نہیں کرتا.باپ اپنی جگہ قابل اعزاز ہستی ہے اور بادشاہ اپنی جگہ.لیکن اگر کوئی باپ کو بادشاہ کے مقابل پر کھڑا کرتا ہے تو وہ خود اپنے آپ کو ذلیل کراتا ہے کیونکہ بادشاہ کی تمام رعایا عزت کیا کرتی ہے.پھر اگر کوئی اسے خدا کے ایک نبی کے مقابل کھڑا کرتا ہے تو وہ اسے اور ذلیل کراتا ہے.اسی طرح اگر لوگ اپنے جیسے کسی انسان کو خدا کے مقابل پر کھڑا کریں تو اسے بہت ہی زیادہ ذلیل اور رسوا کراتے ہیں.پس ہماری جماعت ان لیڈروں کا ہمیشہ سے ادب کرتی چلی آئی ہے اور ہم ہمیشہ گاندھی جی کی جائز حد تک تعظیم کرتے چلے آئے ہیں لیکن اگر ان کے چیلے گاندھی جی کو ہمارے مامور کے مقابل پر کھڑا کرتے ہیں تو ہم انہیں بتائے دیتے ہیں کہ اخلاقی طور پر ہم گاندھی جی کی کچھ بھی حیثیت نہیں سمجھتے.محمد مایا اللہ کا ایک ادنیٰ سے ادنی ترین غلام جس سے

Page 204

خطبات محمود ١٩٩ سال ۱۹۳۱ء ادتی ہو نا نا ممکن ہو اسے بھی ہم گاندھی جی سے ہزاروں درجے افضل سمجھتے ہیں.پس اگر کانگریس کے دلدادہ اور کانگریس کے تنخواہ دار ایجنٹ چاہتے ہیں کہ ہم ان کے لیڈروں کا ادب کریں تو وہ انہیں ہمارے بزرگوں کے مقابل کھڑا نہ کریں.دونوں کے مقاصد میں زمین و آسمان کا فرق ہے.ایک دنیا کے لئے لڑ رہا ہے اور چاہتا ہے کہ دنیا کو دنیا دے اور ایک بھولی بھٹکی دنیا کو خدا سے ملانا چاہتا ہے.اگر چہ اللہ تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ جو اس کے لئے دنیا چھوڑ دے اسے دنیا بھی مل کر رہتی ہے اور زمانہ دیکھے گا کہ وہی مسیح موعود جو دنیا کو روحانی بادشاہت کے لئے بلا رہا ہے آخر دنیا بھی اس کے قدموں میں لاڈالی جائے گی اور دنیا کے بادشاہ آپ کے غلاموں میں داخل ہو کر آپ کے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.آج نہیں گل گل نہیں پرسوں اس سال نہیں اگلے سال اس سے زیادہ بڑھالو پچاس سال سویا دو سو سال بعد یقینا یہ باتیں جو لکھی جائیں گی پوری ہوں گی اور دنیا دیکھے گی کہ ساری حکومتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قدموں میں لاڈالی جائیں گی اور دنیا کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ محمد مینی کی لائی ہوئی تعلیم (کیونکہ اصل مبداء تو آپ کی ہی تعلیم ہے) ایسی اعلیٰ اور ارفع اور مکمل ہے کہ اس پر چلنے سے انسان کو دین بھی ملتا ہے اور دنیا بھی مل جاتی ہے.ہمارے نزدیک دنیا کی ترقی محض محم ملی علیہ و سلم کی اتباع میں ہے بادشاہوں اور جرنیلوں کی اتباع میں نہیں اور محمد من الا اللہ کا ادنیٰ سے ادنی شاگر د دنیا کے بڑے سے بڑے بادشاہ سے افضل ہے.دنیا کے بادشاہ اور دنیا کی حکومتیں اور سلطنتیں کبھی بھی امن اور راحت اور چین حاصل نہیں کر سکیں گی جب تک وہ خدا کے مامور کی جماعت میں شامل نہ ہوں گی.پس یہ بیہودہ اور فضول بات ہے کہ جو لوگ خدا کی طرف سے آتے ہیں ان کا مقابلہ دنیاوی لیڈروں سے کیا جائے.سیاسی لیڈر اپنی جگہ اچھا کام کر رہے ہیں اگر چہ ان کے بعض کاموں سے ہمیں اختلاف اور شدید اختلاف ہے مگر پھر بھی ہم سمجھتے ہیں وہ ملک کی خیر خواہی کے لئے کر رہے ہیں.لیکن وجہ کیا ہے کہ ان کے چیلے انہیں ہمارے بزرگوں کے مقابل کھڑا کرتے ہیں اور ایسی طرف قدم اٹھاتے ہیں جس طرف انہیں اٹھانا نہیں چاہئے.دنیا میں کون سا ایسانہی آیا ہے جسے پہلے ہی دن حکومت مل گئی ہو.رسول کریم یا تیرہ برس مکہ میں رہے مگر کون کہہ سکتا تھا کہ وہی شخص جو مکہ کی گلیوں میں کسمپرسی کی حالت میں پھرا کرتا تھا ایک دن دنیا کا بادشاہ بن جائے گا.حضرت مسیح ناصری کی امت واقعہ صلیب کے بعد سینکڑوں سال تک تکلیفیں اٹھاتی رہی پھر خدا نے انہیں جب حکومت دی تو اتنی لمبی حکومت دی کہ اب تک قائم ہے.ایک وقت تھا کہ اسلامی حکومت نے عیسائی

Page 205

خطبات محمود سال ۱۹۳۱ء سلطنت کو تباہ کر دیا تھا مگر پھر بھی آگ کی چنگاری کی طرح عیسائی حکومت دبی رہی.اسلامی حکومتوں کے زمانہ میں تو وہ دبے رہے مگر پھر بھڑک اٹھے.پس یکلخت سلطنت اور حکومت تو کبھی نہیں ملتی.یہی حال جماعت احمدیہ کا سمجھنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو اللہ تعالی حکومت دے گا مگر اپنے وقت پر.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام دیر آمد ازراه دور آمده یہ الہام ہے تو ایک شخص کے متعلق مگر اس میں جو حقیقت بیان کی گئی ہے وہ یہی ہے کہ جو چیز دیر سے ملتی ہے وہ دیر پا بھی ہوتی ہے.زراہ دور آمدہ کا منشاء یہی ہے کہ خدا نے اس کو بہت دور سے بھیجا ہے اور وہ بہت دیر پا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے ذریعہ رسول کریم می ولی کا جو یہ دوسرا ظہور ہوا ہے اس میں جب احمد یہ جماعت کو حکومت ملی تو اس کا بڑا لمبا دور ہو گا.اتنا لمبا کہ ممکن ہے قیامت ہی آجائے اور ممکن ہے اسی دور سے ایک دو سرا دور شروع ہو جائے.بہر حال وہ حکومت کا اتنا لمبادور ہو گا کہ اس سے بڑھ کر لمبا دور اور کسی حکومت کا نہ ہو گا.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمارے دشمنوں کو اس بات کی سمجھ عطا فرمائے کہ خدا کے شیروں کے مقابل کھڑا ہونا کوئی اچھی بات نہیں ہے.ہم تو ان کے دلی خیر خواہ ہیں.دنیا کی عزت تو گاندھی جی کو ملی ہے ہم چاہتے ہیں انہیں دین کی بھی عزت مل جائے تاخد ا کے حضور میں بھی وہ گاندھی جی ہو جائیں.ابھی تو وہ دنیا کی نگاہ میں ہی گاندھی جی ہیں خدا کی نظر میں نہیں اور خدا کی نگاہ میں گاندھی جی وہ صرف اسی صورت میں ہو سکتے ہیں جب کہ وہ کہیں غلام احمد کی ہے.اس صورت میں خدا نہیں کہے گا کہ اس جے کہنے کے بدلہ میں تو بھی جی ہو جا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں نصیحت کی ہے کہ ہم سب کی بھلائی چاہیں اس لئے ہم تو یہی چاہتے ہیں کہ اللہ تعالی گاندھی جی کو اپنے حضور عزت دے تا ایسا ہو کہ وہ روحانی لیڈر بھی بن جائیں.آخر خدا نے ہم سے لے کر تو انہیں کوئی رتبہ نہیں دیتا کہ ہمیں تشویش ہو بلکہ ہمارے ذریعہ سے جب انہیں کوئی رتبہ حاصل ہو گا تو اللہ تعالٰی ہمیں اور زیادہ انعام دے گا.پس چونکہ ان کی روحانی ترقی ہمارے مدارج کو بڑھائے گی کم نہیں کرے گی اس لئے ہماری تو ان کی ہدایت کے لئے دعا ہے مگر ہم یہ نہیں چاہتے کہ رسول کریم می پر اعتراض کئے جائیں.

Page 206

خطبات محمود سال ۱۹۳۱ء گاندھی جی ہوں یا کوئی اور رسول کریم میں اور کے مقابلہ میں ہمیں ان کی کوئی پروا نہیں ہو سکتی.دیکھو شراب کے استعمال کو روکنے کے لئے کانگرسیوں کو کس طرح پکینگ کرنا پڑا.کیا محمد میاریم نے بھی کبھی اس طرح کیا تھا.مگر یہاں کیا ہوتا ہے.ماریں کھائی جاتی ہیں.عورتیں نکلتی ہیں ان پر الزام لگتے ہیں.مگر شراب پینے والے برابر شراب پئے جاتے ہیں.ادھر آنحضرت صرف ایک حکم دیتے ہیں اور شراب کا پینا کلیتہ بند ہو جاتا ہے.آنحضرت میم کے زمانہ میں جس قدر شراب پی جاتی تھی وہ کسی سے مخفی نہیں.لوگ شراب پیتے اور اس پر علانیہ فخر کرتے.دن رات میں وہ آٹھ آٹھ دفعہ پیتے اور بدمست رہتے.اسی حالت میں ایک دن مجلس میں شراب پی جارہی تھی لوگ بد مست ہو رہے تھے.بعض بکو اس کر رہے اور کہہ رہے تھے اور لاؤ اور لاؤ ایسے وقت میں گلی میں سے ایک شخص کی آواز آتی ہے کہ آج محمد میں والی ایم نے فرمایا ہے کہ شراب پینا حرام ہے.یہ سن کر وہ بد مست لوگ شراب پینا بند کر دیتے ہیں.ایک کہتا ہے جلدی دروازہ کھولو اور پوچھو یہ کیا کہہ رہا ہے.دوسرا اٹھتا ہے اور لٹھ اٹھا کر شراب کے مٹکوں پر مارتا ہے اور انہیں چور چور کر کے کہتا ہے پہلے ان کا فیصلہ کرلیں تو پھر پوچھیں گے کہ کہنے والا کیا کہتا ہے.شراب بہہ جاتی ہے اور پھر وہ دروازہ کھولتا ہے اور پوچھتا ہے رسول کریم میں نے کیا حکم دیا ہے.جب کہا جاتا ہے رسول کریم میں یوں نے شراب کی بندش کا حکم دیا ہے تو کہتے ہیں ہم نے پہلے ہی مٹکے تو ڑ دیئے ہیں اور اب کوئی شراب کے قریب بھی نہ جائے گا.گویا رسول کریم میر کا حکم سن کر معا ان بد مستوں کا نشہ کافور ہو جاتا ہے اور ایک ہی آواز کا یہ اثر ہوتا ہے کہ وہ اپنے مشکوں کو تو ڑ دیتے اور شراب مدینہ کی گلیوں میں بہا دیتے ہیں اور اس قدر شراب بہتی ہے کہ لکھا ہے مدینہ کی گلیوں میں اس دن یوں شراب بھی جس طرح موسلادھار مینہ کا پانی گلیوں میں بہتا ہے.یہ وہ نمونہ ہے جو آنحضرت میم کی قوت قدسیہ کا ہے.اس کے مقابل میں گاندھی جی کا نمونہ کیا ہے وہ اب تک ملک سے شراب کو نہیں مٹا سکے.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کتنی عظیم الشان قوت قدسیہ کا مالک تھا وہ انسان جسے خدا تعالیٰ نے دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجا اور جس کے ذریعہ دنیا میں اسلام قائم ہوا.مگر عطاء اللہ شاہ مسلمان کہلا تا ہوا گاندھی جی کی تعریف کرتا ہے اور آنحضرت میں ایم کی ہتک کرتا ہے.کیوں ایسے گلے بند نہیں ہو جاتے جن سے ایسی ایسی باتیں نکلتی ہیں اور کہاں ہیں ان کی آنکھیں جو اس عظیم الشان اعجاز کو دیکھیں کہ شراب سے بد مست لوگ ایک جگہ جمع ہیں.مناد کی آواز پر ایک دروازہ کھولنے دوڑتا ہے کہ معلوم کرے وہ کیا کہہ رہا ہے.مگر دو سرا کہتا ہے کہ

Page 207

خطبات محمود ۲۰۲ سال ۱۹۳۱ء پہلے ان مٹکوں کو تو ڑو اور پھر پوچھو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے.کجا یہ اثر اور کجا یہ کہ پکٹنگ ہو رہی ہے، شرابیوں کی منتیں کر رہے ہیں ، لوگوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر شراب خانوں سے علیحدہ کر رہے ہیں، جہاں بس چلے وہاں مارتے ہیں، عورتوں کی بے حرمتی ہو رہی ہے جو تیاں چلتی ہیں مگر شرابی ہیں کہ شراب پیئے جا رہے ہیں.عرب کی تاریخ پر غور کر کے دیکھ لو اور عیسائیوں سے گواہی لے لو معلوم ہو جائے گا کہ عرب میں جس قدر شراب پینے کا رواج تھا اس کا نتواں حصہ بھی ہندوستان میں نہیں.مگر م م م ایک لفظ اور آپ کا ایک اشارہ وہ کام کر جاتا ہے جو آج دنیا کی متحدہ جد وجہد بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.پس رسول کریم میں تعلیم کے مقابلہ میں گاندھی جی کی قوت قدسیہ کا تو ذکر ہی کیا.جب گاندھی ارون معاہدہ ہوا تو نو جوانوں نے شروع شروع میں کہہ دیا کہ ہم اس بارے میں گاندھی جی کی بات نہیں مانتے.مگر محمد من ال سلیم نے بالمقابل طاقتوں سے وہ وہ معاہدات کئے کہ لوگوں کے دل ٹکڑے ٹکڑے ہوتے تھے لیکن جب آپ فرماتے کہ یہ میرا حکم ہے تو معا تمام جوش دب جاتے اور کچھ فتنہ پیدا نہ ہوتا.حدیبیہ کے مقام پر مسلمانوں کے دل اس وقت ٹکڑے ہو رہے تھے جب کہ انہیں حج سے روکا گیا تھا.اور ان کی تلواریں میانوں سے باہر نکل رہی تھیں اور وہ چاہتے تھے کہ اگر انہیں ذرا بھی اشارہ ہو جائے تو مکہ کے دشمنوں کو کاٹ کر رکھ دیں اور بزور حج کرلیں.مگر رسول کریم میں اللہ اسی جگہ حج کی قربانی کرتے اور حجامت بنوا لیتے ہیں.یہ دیکھتے ہی تمام لوگ اس طرح قربانیاں کرنے کے لئے دوڑتے اور حجامتیں بنواتے ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے نہ انہیں اپنی ندامتوں کا خیال رہا نہ شرمندگی کا دل میں کچھ احساس رہا.سب باتیں دور ہو گئیں اور صرف ایک ہی مقصد ان کے سامنے رہ گیا کہ رسول کریم می و علوم کی تقلید میں قربانیاں کرو اور سرمنڈاؤ- پس رسول کریم میں تعلیم کی جو قوت قدسیہ تھی اور آپ کے شاگر دان خاص کو جو اللہ تعالیٰ نے شان عطا فرمائی تھی وہ نرالی رنگ کی ہے.اگر آج ہندوستان کو حکومت مل جائے تو گاندھی جی کا کیا کام رہ جائے گا مگر محمد میل کا نام ابد تک رہنے والا ہے اور ہمیشہ آپ کی غلامی کا دم بھرنے والے لوگ موجود رہیں گے.پس گاندھی جی کا رسول کریم من و مال کے مقابل میں ذکر کرنا نہایت نا سمجھی کی بات ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر کسی کے اندر ذرہ بھر بھی شرافت ہو گی اور وہ اس بات پر غور کرے گا جو میں نے بیان کی ہے تو وہ یقینا اپنے دل میں اس بات پر شرمندگی محسوس کرے گا.(الفضل ۲۵- جون ۱۹۳۱ء)

Page 208

- خطبات محمود ۲۰۳ اه مسلم كتاب الامارة باب وجوب طاعة الامراء في غير معصية و تحريمها في المعصية البقرة : ١٩٦ مسلم كتاب الامارة باب وجوب طاعة الامراء فى غير معصية و تحريمها في المعصية مسند احمد بن حنبل جلد ا صفحه ۵ ه تذكرة صفحه ۱۶۵- ایڈیشن چهارم ل تذکرۃ صفحہ ۷۲۳- ایڈیشن چهارم

Page 209

خطبات محمود 22 سال ۱۹۳۱ء اپنی دوستیاں خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ اصول کے ماتحت رکھو فرموده ۲۶- جون ۱۹۳۱ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- d رسول کریم میں اللہ فرماتے ہیں قیامت کے دن چند قسم کے آدمیوں پر اللہ تعالیٰ کا سایہ ہو گا اور ان آدمیوں میں سے ایک وہ دو شخص ہوں گے جو اللہ تعالی کے لئے آپس میں محبت کرتے ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسی لئے ان لوگوں کو جو ابتدائی زمانہ میں بیعت کرتے تھے جب فی اللہ لکھا کرتے تھے.اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہو تا تھا کہ آپ نے اللہ تعالٰی کے لئے مجھ سے تعلق پیدا کیا ہے اور قیامت کے روز آپ اللہ تعالی کے سایہ کے نیچے ہوں گے.لیکن جہاں دوستی اور محبت ایسی اعلیٰ چیز ہے کہ انسانوں کو اللہ تعالیٰ کے سایہ کا مستحق بنا دیتی ہے وہاں میں دیکھتا ہوں یہی بعض اوقات تباہی اور بربادی کا موجب بھی ہو جایا کرتی ہے.میرا روز مرہ کا مشاہدہ ہے اور قریباً ہر روز کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ میرے سامنے آجاتا ہے کہ ایک شخص اچھا نیک دیندار و مخلص ہوتا ہے مگر ابھی ایسے اعلیٰ مقام پر نہیں پہنچا ہو تاکہ اللہ تعالیٰ کی خاص حفاظت میں ہو.وہ اپنی ذات میں خوبیاں رکھتا ہے مگر کسی دوست یا رشتہ دار کی وجہ سے ٹھو کر کھا کر کہیں کا کہیں جا نکلتا ہے.اس کے اندر اپنی ذات میں تباہی کے سامان نہ تھے مگر اس کے دوست نے اسے تباہ کر دیا.کیا کوئی خیال کر سکتا ہے کہ ایسی دوستی کسی مصرف کی ہو سکتی ہے جو کسی کو بچانا تو الگ رہا خود کو بھی تباہ کر دے.دوستی کے معنی یہ ہیں کہ ایک انسان دوسرے دوست کے کام آئے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ اس کی عارضی تکلیف کو دائمی تکلیف پر مقدم کر دیا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک شخص کا ریچھ سے دوستانہ

Page 210

۲۰۵ سال ۱۹۳۱ء تھا.اس نے اسے پالا تھا یا کسی مصیبت کے وقت اس پر احسان کیا تھا.اس وجہ سے وہ اس کے پاس بیٹھا کرتا تھا.یہ گویا ایک حکایت ہے جو حقیقت بیان کرنے کی غرض سے بنائی گئی ہے.اگر چہ ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ آدمی ریچھ وغیرہ جانوروں کو پال کر اپنے ساتھ ہلا لیتا ہے.مگر جب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام سے کوئی حکایت روایت کرتا ہوں تو اس کے یہی معنی ہوتے ہیں کہ یہ حقیقت بیان کرنے کی غرض سے ایک قصہ ہے یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ تادشمن یہ اعتراض نہ کرے کہ یہ ایسے بے وقوف لوگ ہیں کہ سمجھتے ہیں ریچھ انسانوں کے پاس آکر بیٹھتے ہیں.یہ پرانی حکایتیں سبق حاصل کرنے کے لئے ہوتی ہیں اور ان سے مراد ایسے خصائل رکھنے والے انسان ہوتے ہیں.مثلاً پرانی حکایتوں میں بادشاہ کے دربار کو شیر کا دربار اور اس کے امراء ووزراء کو دو سرے جانوروں کی صورت میں پیش کیا جاتا تھا اور اس طرح وہ بادشاہ بھی جس کے متعلق بات ہوتی نہایت مزے لے لے کر پڑھتا.خیر تور بچے اس آدمی کا دوست تھا اور اس کے پاس آتا تھا.ایک دن اس کی والدہ بیمار پڑی تھی اور وہ پاس بیٹھا پنکھا ہلا رہا اور مکھیاں اُڑا رہا تھا.اتفاقاً اسے کسی ضرورت کے لئے باہر جانا پڑا اور اس نے ریچھ کو اشارہ کیا کہ تم ذرا اکھیاں اُڑاؤ میں باہر ہو آؤں.ریچھ نے اخلاص سے یہ کام شروع تو کر دیا مگر انسان اور حیوان کے ہاتھ میں فرق ہوتا ہے.اور حیوان ایسی آسانی سے ہاتھ نہیں ہلا سکتا جتنی آسانی سے انسان ہلا سکتا ہے.وہ مکھی اُڑائے لیکن وہ پھر آبیٹھے پھر اُڑائے پھر آبیٹھے.اس نے خیال کیا مکھی کا بار بار آکر بیٹھنا میرے دوست کی ماں کی طبیعت پر بہت گراں گذرتا ہو گا.چنانچہ اس کا علاج کرنے کے لئے اس نے ایک بڑا سا پتھر اٹھایا اور اسے دے مارا تا مکھی مرجائے.مکھی تو مرگئی مگر ساتھ ہی اس کے دوست کی ماں بھی کچلی گئی.یہ ایک مثال ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بعض نادان کسی سے دوستی کرتے ہیں مگر دوستی کرنے کا ڈھنگ نہیں جانتے.وہ بعض دفعہ خیر خواہی کرتے ہیں مگر ہوتی دراصل تباہی ہے.اگر اپنے دوست کے بچے خیر خواہ ہوتے تو بے ایمانی کی طرف نہ لے جاتے بلکہ اگر اسے اس طرف مائل بھی دیکھتے تو اسے روکتے.رسول کریم میں ہم نے دوستی کا نقشہ کیا خوب کھینچا ہے.فرمایا اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم - صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ اور یہ کیا بات ہے کیا ہم ظالم کی مدد بھی کیا کریں.آپ نے فرمایا جب تو ظالم کا ہاتھ ظلم سے روکے تو تو اس کی مدد کرتا ہے گویا فرمایا اصل مدد کے معنی یہ نہیں کہ کسی کی نشاء کے مطابق چلتے جاؤ بلکہ یہ ہیں کہ اس کے فائدہ کے لئے اس کے خلاف بھی چلنا پڑے تو چلو اور بجائے اس کے کہ اس کے ساتھ مل کر

Page 211

خطبات محمود ۲۰۶ سال ۱۹۳۱ء ظلم کرو.اسے بھی اس سے رو کو.اگر تم ایسا نہیں کرتے تو اسے تباہ کرتے ہو.پر صحیح دوستی رہی ہے جو سمجھ اور عقل سے ہو.اگر انسان دیکھے کہ اس کا دوست فتنہ و فساد اور منافقت کی راہوں پر چلتا ہے تو اس کا فرض ہے اس سے اسے رو کے مگر میں افسوس سے دیکھتا ہوں کہ کئی ایک ایسے لوگ ہیں کہ اگر انہیں شیطان سے دوستی کا موقع نہ ملتا تو ایسی حالت میں مرتے کہ خدا تعالیٰ کی رحمت کے فرشتے لمبے ہاتھ کر کے ان کا استقبال کرتے بعض دوستوں کی بیچ کے لئے تباہ ہو گئے.ایک شخص کا کسی سے جھگڑا ہوا اس کے ایک دوست نے ناحق دوستی ادا کرنے کے دھوکا میں اس جھگڑے میں خوب حصہ لیا.وہ پہلا شخص تو اپنی فطرتی نیکی کی وجہ سے تو بہ کر کے پھر اپنی جگہ پر آگیا مگروہ دوست جس نے اس کی خاطر اس میں حصہ لیا تھا مرتد ہو گیا.پس یا د رکھو دوستیاں جہاں اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ ہیں وہاں بعض اوقات تباہی و بربادی کا موجب بھی ہو جاتی ہیں اس لئے دوستوں کو ہمیشہ چاہئے کہ اس بات کا خیال رکھیں کہ دوستی تقویٰ اور سلسلہ کی خدمات کا موجب ہو نہ کہ راہ حق و صداقت سے دور لے جانے کا باعث.انسان بعض اوقات دوست کی حمایت کر کے نقصان اٹھالیتا ہے اور کبھی دوست اسے تباہ کر دیتا ہے.انسان کی دوستی ایک عارضی شے ہے اصل دوستی اللہ تعالیٰ سے ہی ہے.وہ بے شک ہمارا خالق ہے اور ہم اس کی مخلوق ہیں.لیکن جب وہ خود فرماتا ہے کہ اللہ تعالٰی ہی مومنوں کا ولی ہے تو جو انعام اس نے خود ہمیں دیا ہے باوجود یکہ ہم اس کے مستحق نہیں مگر اس کی عنایت کو ہم رد بھی نہیں کر سکتے پس یہ خطاب ہے جو اللہ تعالی کی طرف سے مومنوں کو دیا گیا ہے.یہ اس لئے فرمایا کہ اسلام نے دوستی پر اتنا زور دیا ہے کہ ممکن تھا بعض لوگ اسی کی وجہ سے تباہ ہو جاتے اس لئے اس کی صراحت کردی کہ مومنوں کا اصل دوست اللہ تعالیٰ ہی ہونا چاہئے.الیکشن وغیرہ کے موقع پر بعض لوگ لکھتے ہیں ہم اپنے فلاں دوست کو ووٹ دینے کا وعدہ کر چکے ہیں اب اس وعدے کو کیسے تو ڑ سکتے ہیں.میں ہمیشہ ایسے لوگوں کو یہی جواب لکھوایا کرتا ہوں کہ تمہاری اصل دوستی اللہ تعالیٰ سے ہے.انبیاء کی جماعت حزب اللہ ہوتی ہے اور جو شخص اللہ تعالٰی سے کوئی عہد کرتا ہے وہ گویا اس جماعت سے کرتا ہے.اور جس طرح ایک شخص اگر کسی کا دوست ہو تو اس کے بیوی بچوں ، بھائی بہنوں ماں باپ سب سے ہی وہ خیر خواہی کرتا ہے.اسی طرح جو شخص اللہ تعالیٰ سے دوستی کرتا ہے وہ اس کے حزب سے بھی کرتا ہے.پس جو شخص یہ اقرار کرتا ہے کہ میں مومن ہوں اس کا پہلا عبد اللہ تعالیٰ سے ہوتا ہے اور اس عہد کی موجودگی میں وہ کسی اور سے عہد کرہی

Page 212

محمود ۲۰۷ سال ۱۹۳۱ء نہیں سکتا.میری اگر ایک چیز ہے اور میں اسے دینے کا وعدہ ایک شخص سے کر چکا ہوں تو دو گھنٹہ بعد اگر کسی اور کو دینے کا وعدہ کرلوں اور پھر کہوں کہ میں اسے کیسے تو ڑ دوں تو یہ نا معقول بات ہے.دوسرا وعدہ تو وعدہ ہو ہی نہیں سکتا جب کسی اور کو دینے کا وعدہ پہلے کیا جا چکا ہے.اسی طرح اگر ایک شخص اللہ تعالٰی کو سارے حقوق دے دیتا ہے تو اس کے باقی تمام وعدے اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع ہو جائیں گے.اور اگر وہ پہلے عہد کے خلاف کوئی بات کرتا ہے تو وہ معاہدہ کہلاہی نہیں سکتا.اصل دوستی مومن کی اللہ تعالیٰ سے ہوتی ہے باقی باتیں سب اس کے تابع ہیں اور انہیں اس پر قربان کیا جا سکتا ہے.اللہ تعالی کی دوستی یہ نہیں کہ وہ خود دنیا میں آئے اور انسان سے تعلق پیدا کرے اس کی دوستی یہی ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ جو جماعت کی اصلاح کا کام کرتے ہیں وہ خواہ نبی ہوں یا غیر نبی ، خلیفہ ہوں یا غیر خلیفہ مامور ہوں یا غیر مامور ان سے دوستی کی جائے.ایک جگہ اگر ایک شخص کی کوشش سے چند ایک لوگوں کو ہدایت ہو جاتی ہے تو گو وہ نہ خلیفہ ہے اور نہ پریذیڈنٹ یا سیکرٹری مگر اس جگہ وہ خدا کا نمائندہ ہے بلکہ جہاں کوئی مومن نہ ہو وہاں غریب اللہ تعالیٰ کا دوست ہے.چنانچہ بائبل میں لکھا ہے پھر وہ بائیں طرف والوں سے کہے گا اے ملعونو! میرے سامنے سے اس ہمیشہ کی آگ میں چلے جاؤ جو ابلیس اور اس کے فرشتوں کے لئے تیار کی گئی ہے.کیونکہ میں بھو کا تھا تم نے مجھے کھانا نہ کھلایا.پیاسا تھا تم نے مجھے پانی نہ پلایا.پر دیسی تھا تم نے مجھے گھر میں نہ اتارا - نا تھا تم نے مجھے کپڑا نہ پہنایا.بیمار اور قید میں تھا تم نے میری خبر نہ لی.تب وہ اسے جواب میں کہیں گے اے خداد ند ا ہم نے کب تجھے بھو کا یا پیا سایا پر دیسی یا ننگا یا بیمار یا قید میں دیکھ کر تیری خدمت نہ کی.اس وقت وہ ان سے جواب میں کہے گا.میں تم سے سچ کہتا ہوں چونکہ تم نے ان سب چھوٹوں میں سے کسی ایک کے ساتھ یہ نہ کیا اس لئے میرے ساتھ نہ کیا.اور یہ ہمیشہ کی سزا پائیں گے.مگر راستباز ہمیشہ کی زندگی." تو جس جگہ ایمان کا سوال نہ ہو وہاں غریب ہی خدا کا دوست ہو تا ہے اور اسی سے تعلق خدا تعالیٰ سے تعلق ہوتا ہے.پس مومنوں کو چاہئے کہ اپنی دوستیوں کو کسی اصول کے ماتحت رکھا کریں اس کے بغیر دوستی نہیں بلکہ دشمنی ہے اور ایسا شخص قیامت کے دن کے گا کاش ! یہ میرا دوست نہ ہو تا.تانہ مجھے تباہ کرتا اور نہ خود تباہ ہوتا.(الفضل ۲- جولائی ۱۹۳۱ء)

Page 213

خطبات محمود ۲۰۸ سال ل بخاری کتاب الايمان باب قول النبي صلى الله عليه وسلم بنى الاسلام على خمس بخارى ابواب المظالم والقصاص بابا عن اخاک ظالمااومظلوما سه متی باب ۲۵ آیت ۴۱ تا ۴۵ بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۹۴ء

Page 214

۲۰۹ 23 حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کا انتقال (فرموده ۳- جولائی ۱۹۳۱ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام ہے وَلَا نُبْقِي لَكَ مِنَ الْمُخْزِيَاتِ ذكرا یعنی ہم تیرے متعلق ایسی باتوں کو جو تیرے لئے شرمندگی یا رسوائی کا موجب ہو سکیں مٹا دیں گے.اس الہام کو میں دیکھتا ہوں کہ ان عظیم الشان کلمات الیہ میں سے ہے جو متواتر پورے ہوتے رہتے ہیں اور جن کے ظہور کا ایک لمبا سلسلہ چلا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے متعلق جو اعتراض کئے جاتے تھے ان میں سے ایک اہم اعتراض یہ بھی تھا کہ آپ کے رشتہ دار آپ کا انکار کرتے ہیں اور پھر خصوصیت سے یہ اعتراض کیا جاتا تھا کہ آپ کا ایک لڑکا آپ کی بیعت میں شامل نہیں.یہ اعتراض اس کثرت کے ساتھ کیا جاتا تھا کہ جن لوگوں کے دلوں میں سلسلہ کا ورد تھا وہ اس کی تکلیف محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے.میں دوسروں کا تو نہیں کہہ سکتا لیکن اپنی نسبت کہہ سکتا ہوں کہ میں نے متواتر اور اس کثرت سے اس امر میں اللہ تعالٰی سے دعائیں کیں کہ میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے ہزارہاد فعہ اللہ تعالی سے دعا کی ہوگی اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں بغیر ذرہ بھر مبالغہ کے کہ بیسیوں دفعہ میری سجدہ گاہ آنسوؤں سے تر ہو گئی.اس وجہ سے نہیں کہ جس شخص کے متعلق اعتراض کیا جاتا تھا وہ میرا بھائی تھا بلکہ اس وجہ سے کہ جس شخص کے متعلق اعتراض کیا جاتا تھا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بیٹا تھا اور اس وجہ سے کہ یہ اعترض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام پر پڑتا تھا.میں نے ہزاروں دفعہ اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور آخر اللہ تعالٰی نے اس کا نتیجہ یہ دکھایا کہ مرزا سلطان احمد صاحب جو ہماری دوسری

Page 215

خطبات محمود سال ۱۹۳۱ء والدہ سے بڑے بھائی تھے اور جن کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی وفات کے بعد عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ان کے لئے اب احمدیت میں داخل ہونا نا ممکن ہے احمدی ہو گئے.ان کا احمدی ہونا ناممکن اس لئے کہا جاتا تھا کہ جس شخص نے اپنے باپ کے زمانہ میں بیعت نہ کی ہو اور پھر ایسے شخص کے زمانہ میں بھی بیعت نہ کی ہو جس کا ادب اور احترام اس کے دل میں موجود ہو اس کے متعلق یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ کسی وقت اپنے چھوٹے بھائی کے ہاتھ پر بیعت کرلے گا.لیکن کتنا زبردست اور کتنی عظیم الشان طاقتوں اور قدرتوں والا وہ خدا ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام سے مدتوں پہلے فرما دیا تھا وَ لَا تُبَقِي لَكَ مِنَ الْمُجْزِيَاتِ ذِكْرًا یعنی ہم تیرے اوپر جو جو اعتراض کئے جاتے ہیں ان کا نشان بھی نہیں رہنے دیں گے بلکہ سب کو مٹادیں گے.تین سال کے قریب ہوئے مرزا سلطان احمد صاحب شدید بیمار ہوئے.قریباً ایسی ہی بیماری تھی.نفخ تھا اور بخار بھی تھا.میں ڈاکٹر صاحب سے ان کا علاج کرا تا تھا لیکن سب سے بڑی فکر جو مجھے ان کے متعلق تھی وہ یہ تھی کہ اگر یہ اسی حالت میں فوت ہو گئے تو مخالفوں کا اعتراض باقی رہ جائے گا.اس میں شبہ نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا نام اللہ تعالیٰ نے نوح بھی رکھا تھا اور اگر مرزا سلطان احمد صاحب ہدایت سے محروم رہتے تو ہم کہہ سکتے تھے جس طرح پہلے نوح کا بیٹا ہدایت سے محروم رہا اسی طرح دوسرے نوح کا بیٹا بھی آپ کے ساتھ شامل نہ ہوا.مگر ساتھ ہی مجھے خیال آتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے ہر نبی کی دوسری بعثت اس کی پہلی بعثت سے زیادہ شاندار ہوتی ہے.آپ نے فرمایا پہلا آدم آیا اور اسے شیطان نے جنت سے نکال دیا مگر دو سرا آدم اس لئے آیا ہے تا انسانوں کو دوبارہ جنت میں دخل کرے.پھر فرمایا پہلا مسیح آیا اور اسے دشمنوں نے دکھ دیا اور صلیب پر لٹکایا مگر یہ دوسرا مسیح اس لئے نہیں آیا کہ صلیب پر لٹکایا جائے بلکہ اس لئے آیا ہے تاوہ صلیب کو توڑے اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دے.پس خدا تعالیٰ کے اس رحیمانہ سلوک کو دیکھتے ہوئے خیال آتا تھا کہ باوجودیکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام اللہ تعالیٰ نے نوح رکھا ہے پھر بھی آپ سے وہ سلوک ہو گا جو پہلے نوح سے بڑھ کر ہو.چنانچہ اللہ تعالی نے ایک طرف جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام نوح رکھا تو دوسری طرف آپ کے بیٹے کو ہدایت سے محروم کر دیا نا بتائے کہ یہ نوح کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے ہے.مگر پھر اس بیٹے کو ہدایت نصیب کی تا ظاہر کر دے کہ پہلا نوح آیا اور اس

Page 216

طبات محمود ۲۱۱ کا بیٹا ہدایت سے محروم رہا مگر یہ دوسرا نوح آیا تو اس کا بیٹا بھی اگر چہ ایک عرصہ تک ہدایت سے دور رہا مگر پھر خدا نے اسے ہدایت میں داخل کر کے ظاہر کر دیا کہ پہلے نوح کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ کا سلوک تھا اس سے بڑھ کر اس کا سلوک دو سرے نوح کے ساتھ ہے.عام طور پر میں دیکھتا ہوں لوگوں کو پہلی حالت کا ذکر کرنے میں ایک قسم کا حجاب ہوتا ہے.چنانچہ جب ہماری تائی صاحبہ بیعت میں داخل ہو ئیں تو ہماری جماعت میں سے کئی لوگ کہنے لگے تائی صاحبہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مخالفت نہیں کیا کرتی تھیں.مگر چھپانے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی یہ واقعات ہیں جو اللہ تعالیٰ کی شان کو زیادہ ظاہر کرنے والے ہیں.میں نے دیکھا ہے ہم چھوٹے ہوتے تھے ایک سیڑھی تھی جو ہمارے دونوں گھروں کے درمیان تھی.ہم وہاں سے گزرتے تو ہماری تائی صاحبہ اکثر کہتیں.جیسے کو ادیسے کو کو یعنی جس رنگ کا باپ ہے یہ بچے بھی اسی رنگ میں رنگین ہیں.مجھے یہ کہتے ہوئے کچھ حجاب نہیں آتا.کیونکہ ہم کہتے ہیں یہ قلب کی حالت ہو اور پھر ہدایت نصیب ہو تو یہ معجزہ ہو جا تا ہے.اور پھر ان کا درجہ بھی بڑھ جاتا ہے کیونکہ باوجود اتنی مخالفت کے اللہ تعالیٰ نے آخر کوئی نیکی دیکھی ہی تھی جو انہیں ہدایت دیدئی.یہی حال میں دیکھتا ہوں مرز اسلطان احمد صاحب کا تھا.اس رنگ میں تو نہیں جس رنگ میں تائی صاحبہ کا تھا مگر ایک اور رنگ میں ان کا بھی ضرور ایسا ہی حال تھا.اس میں شبہ نہیں کہ مرزا سلطان احمد صاحب ہمیشہ یہ یقین رکھتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جھوٹ نہیں بولتے.اپنا باپ ہونے کے لحاظ سے نہیں بلکہ فی الواقع ان کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی راستبازی گھر کر چکی تھی.مگر یہ نہیں کہ وہ آپ کے الہامات کی ایسی عظمت اور شان سمجھتے ہوں جیسے ایک مامور کے الہامات کی سمجھنی چاہئے.مجھے ان کا ایک فقرہ خوب یاد ہے.شروع شروع میں جب میں نے ان سے ملنا شروع کیا تو ایک دن باتوں باتوں میں کہنے لگے.مجھے یقین ہے ہمارے والد صاحب کو رسول کریم میں امام کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے بھی بڑھ کر محبت تھی.اپنے رنگ میں انہوں نے یہ فقرہ محبت میں ہی کہا ہو گا.مگر مجھے بڑا ہی بُرا معلوم ہوا کیونکہ خدا کے مقابلہ میں کسی رسول سے زیادہ محبت ہو ہی کس طرح سکتی ہے.اسی طرح ایک دفعہ کہنے لگے اگر یہ سٹڈیشن کا قانون پہلے نکلتا تو ہمارے والد صاحب ضرور قید ہو جاتے کیونکہ انہوں نے رسول کریم مالی کی شان قائم رکھنے کے لئے کسی مصیبت کی بھی پرواہ نہیں کرنی تھی.اس قسم کے الفاظ ممکن ہے محبت کی وجہ سے ان کے منہ سے نکلے ہوں مگر ایسے الفاظ ہم

Page 217

خطبات محمود ۲۱۲ سال لوگوں کے مونہوں سے جو مامورین کی حقیقی قدرو منزلت جانتے ہیں کبھی نہیں نکل سکتے.غرض الهام الہی کا ادب اور وقار احمدیت کی حد تک ان کے دل میں نہ تھا.اگر چہ وہ یقین رکھتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جھوٹے نہیں.ایسی قلبی کیفیت کے باوجود اللہ تعالٰی نے انہیں ہدایت دی اور ایسے وقت میں دی کہ صاف طور پر وہ اللہ تعالیٰ کا ایک نشان معلوم ہوتا ہے.دسمبر ۱۹۳۰ء میں انہوں نے بیعت کی اور چھ مہینوں کے بعد وہ فوت ہو گئے.جس سے صاف طور پر پتہ چلتا ہے کہ ان کی بیعت الہی تصرف کے ماتحت ہوئی.اللہ تعالیٰ خوب جانتا تھا کہ اب یہ جلد ہی فوت ہو جانے والے ہیں اس لئے اگر انہوں نے بیعت نہ کی تو ایک مخزیہ رہ جائے گی.پس خدا نے انہیں بیعت میں داخل کر کے اس تجزیہ کو بھی دور فرما دیا.اس سے پہلے بعض دوست جب انہیں بیعت کے لئے کہتے تو وہ یہی جواب دیتے کہ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ سلسلہ سچا ہے مگر مجھے اس بات سے شرم آتی ہے کہ اپنے چھوٹے بھائی کے ہاتھ پر بیعت کروں.قریباً سال بھر ان کی یہ حالت رہی اور اس سے پہلے ان کی یہ حالت تھی کہ وہ کہتے تھے یہ سلسلہ تو سچا ہے مگر ابھی میں نے فیصلہ کرنا ہے کہ لاہوری حق پر ہیں کہ قادیانی جماعت.مجھے ان کے جب یہ خیالات معلوم ہوئے تو میں نے انہیں تحریک کی کہ اپنی احمدیت کا اعلان کر دیں کیونکہ اس سوال کا فیصلہ کئے بغیر بھی تو ایک شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لا سکتا ہے.اس پر انہوں نے اعلان کر دیا کہ میں سلسلہ احمدیہ میں داخل تو ہوتا ہوں مگر ابھی میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ قادیانی جماعت حق پر ہے یا لاہوری.اس اعلان کے ایک سال کے بعد انہیں شرح صدر ہو گیا اور انہیں یقین ہو گیا کہ جماعت قادیان ہی صداقت پر ہے اور یہی سلسلہ سچا ہے.مگر شرم یہ آتی کہ میں اپنے چھوٹے بھائی کے ہاتھ پر کسی طرح بیعت کروں.آخر ایک دن ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ مرزا سلطان احمد صاحب بیعت کرنا چاہتے ہیں اور انہوں نے کہا ہے میں تو چل نہیں سکتا آپ کو کسی دن فرصت ہو تو میری بیعت لے لیں.اس دن میری طبیعت اچھی نہیں تھی اور میں بیمار تھا مگر میں نے کہا میں ابھی ان کے پاس چلتا ہوں.ممکن ہے بعد میں دل بدل جائے اور پھر یہ وقت ہاتھ نہ آئے اس لئے میں اس وقت گیا اور انہوں نے میری بیعت کرلی.بیعت کے بعد میں یہ دیکھتا رہا کہ ان کی بیعت خلوص دل سے ہے یا صرف ظاہری طور پر.مگر میں نے دیکھا بیعت سے پہلے میرے نام جو ان کے رقعے آتے تھے ان میں ایک ایسا رنگ پایا جاتا تھا جس طرح کوئی علیحدہ شخص ہوتا ہے.مگر بیعت کے بعد میرے نام ایک دن انہوں نے ایک رقعہ لکھا.

Page 218

خطبات محمود ۲۱۳ سال ۱۹۳۱ء میں نے اسے پڑھا.اس کے نیچے میرزا سلطان احمد لکھا ہوا تھا.مگر پڑھنے اور یقین ہونے کے باوجود کہ یہ مرزا اسلطان احمد صاحب نے ہی رقعہ لکھا ہے مجھے شبہ ہوا کہ یہ کسی اور نے نہ لکھا ہو کیونکہ وہ رقعہ اس قدر مخلصانہ انداز میں لکھا ہوا تھا اور اس قدر ادب اور احترام اس میں پایا جاتا تھا جس طرح پرانے مخلص احمدی خط لکھا کرتے ہیں.اس میں شبہ نہیں کہ انہیں ایسی حالت میں بیعت کی توفیق ملی جب ان کے قومی مضمحل ہو چکے تھے اور دوسروں کو ہی چارپائی سے اٹھانا پڑتا تھا.اور دوسروں کو بہی کھلانا اور پلانا پڑتا تھا.مگر ہدایت دماغ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے ظاہری جسم کے ساتھ تعلق نہیں رکھتی.چنانچہ رسول کریم م ا ا ا لاول نے اسی لئے فرمایا ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کی اس وقت تک تو بہ قبول فرماتا ہے مَا لَمْ يُغَر غر جب تک نزع کی حالت نہیں آتی.گویا جب تک اس کا دماغ معطل نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ دماغ کے موت کے اثر سے متاثر ہو جانے سے پہلے پہلے ہر شخص کی توبہ قبول کر سکتا ہے.اور میں سمجھتا ہوں یہ اللہ تعالی کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے عین وفات کے قریب انہیں بیعت کی توفیق عطا فرمائی.بیعت کے بعد ان کے اندر اس قدر اخلاص پیدا ہو گیا تھا کہ مرزا سلطان محمد صاحب جب ایک دفعہ قادیان آئے تو بعض دوستوں اور میاں بشیر احمد صاحب کو بھی خیال آیا کہ انہیں تبلیغ کرنی چاہئے.چونکہ مرزا سلطان احمد صاحب سے ان کے پرانے تعلقات تھے اس لئے انہیں تحریک کی گئی کہ وہ مرزا سلطان محمد صاحب کو تبلیغ کریں.چونکہ آپ چل نہیں سکتے تھے اس لئے دو آدمیوں کا سہارا لے کر اس مکان پر گئے جہاں مرزا سلطان محمد صاحب ٹھہرے ہوئے تھے.وہاں جا کر انہیں تبلیغ کی اور کہنے لگے جب تبلیغ کرنی ہے تو اپنے مکان پر بلا کر نہیں کرنی چاہئے بلکہ وہیں چلنا چاہئے جہاں وہ ٹھہرے ہوئے ہیں.چنانچہ باوجود بیماری کی سخت تکلیف کے وہ وہاں گئے اور انہیں تبلیغ کی.پس اللہ تعالی کا یہ ایک عظیم الشان فضل ہوا ہے کہ ہمارے رستہ میں جو ایک مخریہ تھی اللہ تعالیٰ نے اسے دور کر دیا.اور جس طرح تائی صاحبہ کو بیعت میں داخل کر کے اللہ تعالٰی نے یہ الہام پورا کیا اسی طرح مرز ا سلطان احمد صاحب کو بھی بیعت میں داخل کر کے اللہ تعالٰی نے اس مخزید کو دور کر دیا جو آپ کے بیعت میں داخل نہ ہونے کی وجہ سے تھی.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کے تقریباً تمام آدمی بیعت میں داخل ہو چکے ہیں.صرف ایک آدمی ایسے ہیں جو ابھی بیعت میں شامل نہیں ہوئے اور وہ مرزا سلطان محمد صاحب ہیں.ان کی وجہ سے مخالفین سلسلہ پر بہت اعتراض کرتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کچھ تعجب نہیں اگر اللہ تعالیٰ سلسلہ کے رستہ سے اس مخزیہ کو بھی

Page 219

خطبات محمود ۲۱۴ سال ۱ بجائے کسی اور طریق کے بیعت کے ذریعہ سے دور کردے.دوستوں کو چاہئے کہ وہ دعا کریں اللہ تعالی انہیں بھی بیعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائے تا دشمنوں کے تمام اعتراضات کا قلع قمع ہو جائے.اس کے بعد میں احباب کو بتانا چاہتا ہوں کہ تین چار دن ہوئے جماعت اہلحدیث کی طرف سے ایک اشتہار شائع ہوا ہے جس میں مجھے مباہلہ کا چیلنج دیا گیا ہے.چیلنج دینے والے گھر یالہ ضلع لاہور کے کوئی شخص سید محمد شریف صاحب ہیں.جو اپنے آپ کو امیر جماعت اہلحدیث لکھتے ہیں.میں نے پہلے ان کا نام نہیں سنا ہو ا تھا مگر دوستوں نے بتایا کہ واقعی وہ اہلحدیث کے ایک حصہ کے سردار ہیں اور اہلحدیثوں نے ایک جلسہ کر کے انہیں اپنا امیر تسلیم کیا تھا.بہر حال میں نے ان کا نام سنا ہو یا نہ اس میں شبہ نہیں کہ جب اہلحدیثوں نے انہیں اپنا سردار منتخب کیا تو ان میں انہوں نے ضرور کوئی خاص خوبی دیکھی ہوگی.بٹالہ کی انجمن اہلحدیث کی طرف سے جب مجھے وہ اشتہار پہنچا تو اس میں انہوں نے یہی لکھا کہ ہم اپنے امیر کی طرف سے یہ اشتہار آپ کو بھیج رہے ہیں.اسی طرح امرتسر کی جماعت غزنویہ کے جو صاحب سیکرٹری ہیں ان کی طرف سے بھی جب اشتہار آیا تو اس میں بھی انہوں نے یہی لکھا کہ میں اپنے امیر کی طرف سے یہ اشتہار آپ کی طرف بھیج رہا ہوں اس سے پتہ لگتا ہے کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ وہ جماعت اہلحدیث کے امیر ہیں اس میں ضرور کوئی صداقت پائی جاتی ہے اور پنجاب کے اہلحدیثوں کا کچھ حصہ انہیں سردار تسلیم کرتا ہے.اس اشتہار کی عبارت میں شرارت نہیں پائی جاتی.آگے اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ تفصیلات کے مطے کرنے میں ان کا کیا رویہ ہو جائے.مگر اب تک اس اشتہار سے یہی سمجھا جاتا ہے کہ چیلنج دینے والا خواہش رکھتا ہے کہ دونوں فریق میں مباہلہ ہو اور دنیا پر کھل جائے کہ صداقت کس طرف ہے اور جھوٹ کس طرف.یہ ہمارے لئے نہایت خوشی کی بات ہے کہ وہ موقع جس کی تلاش میں ہم مدتوں سے تھے وہ امیر جماعت اہلحدیث کے چیلنج کی وجہ سے ہمیں میسر آ گیا.مگر مباہلہ کے متعلق قرآن مجید سے جو کچھ ہمیں معلوم ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ مباہلہ ایک جماعت سے ہونا چاہئے.چنانچہ جس آیت میں مباہلہ کا ذکر ہے اس میں یہی آتا ہے قُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَ كُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَذِبِينَ اس میں جس قدر صیغے ہیں سب کے سب جمع کے ہیں جس سے صاف طور پر معلوم ہو تا ہے کہ مباہلہ دراصل دو جماعتوں کے درمیان ہوتا ہے.ضرورتا اور احتیاجا بعض دفعہ افراد سے بھی

Page 220

خطبات محمود ۲۱۵ مباہلہ ہو جاتا ہے اور یہ ممنوع نہیں.مگر اصل مباہلہ وہی ہے جو بڑی جماعتوں کے درمیان ہو.تا اس کا ایسا نمایاں نتیجہ پیدا ہو جس میں شکوک و شبہات کی قطعاً گنجائش نہ ہو.پس میر انشاء یہ ہے کہ اگر ان کا چیلنج نیک نیتی پر مبنی ہے اور اس میں ان کے مد نظر کوئی ایسی بات نہیں جو فتنہ اور فساد کا موجب ہو تو میں ان کے چیلنج کو قبول کرلوں.اور ان سے خواہش کروں کہ وہ اپنی جماعت میں سے ایک ہزار آدمی مباہلہ کے لئے تیار کریں.اسی طرح ایک ہزار آدمی مباہلہ کے لئے ہماری جماعت میں سے نکلے.اور سب کے نام شائع کر دیئے جائیں تا اس مباہلہ کا اثر کسی رنگ میں بھی مشتبہ نہ رہے.کیونکہ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ کے نشانات ہمیشہ خارق عادت طور پر ظاہر ہوتے ہیں پھر بھی دشمن ان میں سے اعتراض کا پہلو نکال ہی لیتا ہے.چنانچہ رسول کریم مال کے دشمنوں پر اگر چہ خارق عادت عذاب آئے مگر پھر بھی لوگ اعتراض ہی کرتے رہے.لیکن اگر یہی خارق عادت سینکڑوں نشانات اکٹھے ہو جائیں تو اس صورت میں ان نشانات کا عظیم الشان اثر ہو تا ہے.پس میں اعلان کرتا ہوں کہ ہماری جماعت کے وہ دوست جو یقین اور وثوق اور اپنے مشاہدہ کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لاچکے ہیں وہ استخارہ کرنے کے بعد اس مباہلہ کے لئے اپنا نام پیش کریں تا ایک ہزار کی فہرست فریق مخالف کے پاس چلی جائے اور ان سے بھی مطالبہ کیا جائے کہ وہ اپنی جماعت میں سے ایک ہزار آدمی کی فہرست ہمارے پاس بھیج دیں.فرقہ اہلحدیث ہماری جماعت سے سوڈیڑھ سو سال پہلے سے قائم ہے بلکہ وہ تو یہی کہتے ہیں کہ ہم شروع سے ہی چلے آتے ہیں.خواہ کچھ ہو اس جماعت کے افراد ہماری جماعت سے بہت زیادہ ہیں.اور اگر وہ ذرا بھی کوشش کریں تو ان کے لئے ایک ہزار آدمیوں کا اکٹھا کرنا کچھ بھی مشکل نہیں.یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر وہ اپنی جماعت میں سے ہزار آدمی اس مباہلہ کے لئے اکٹھے نہ کر سکیں تو ہم انہیں پانچ سو یا چار سو کی بھی اجازت دیدیں.مگر ہماری طرف سے ایک ہزار آدمی ہی مباہلہ میں پیش ہوں گے.تایہ مباہلہ نمایاں حیثیت رکھتا ہو اور اس میں شک اور شبہ کی گنجائش نہ رہے.اگر مباہلہ میں دوسری طرف صرف ایک آدمی ہی پیش ہو تو عذاب تو اس پر بھی آسکتا ہے لیکن اگر وہ مر بھی جائے تو کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ اس کی عمر ختم ہو گئی آخر ایک دن اسے مرنا ہی تھا پس یہ عذاب نہیں بلکہ اتفاق ہے.لیکن اگر دوسری طرف سے ایک ہزار آدمی مباہلہ کے لئے آئیں اور ان میں سے کثیر حصہ کو اللہ تعالیٰ ایسا سمجھے کہ اس پر اتمام حجت ہو چکی ہے اور پھر ان میں سے پانچ سویا سات سو پر ایسی حالت طاری ہو جائے جو صریح عذاب کی حالت ہو تو لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوں

Page 221

خطبات محمود ۲۱۶ سال ۱۹۳۱ء گے کہ یہ اتفاق نہیں بلکہ خارق عادت قدرت کا ظہور ہے.اکیلے آدمی کے متعلق شبہات دلوں میں رہ سکتے ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک ایک آدمی کے ساتھ مباہلے ہوئے اور ان لوگوں کو عذاب بھی آیا اور بعض لوگ مر بھی گئے مگر لوگوں نے یہی کہا کہ ایسے واقعات ہوتے ہی رہتے ہیں.رسول کریم میں یہ بھی تو مسیلمہ کذاب کی زندگی میں فوت ہو گئے تھے لیکن اگر کثیر تعداد میں لوگ مباہلہ کے لئے نکلیں اور ان میں سے اکثر عذاب الہی کا نشانہ بن جائیں تو پھر شک اور شبہ کی گنجائش نہیں رہتی.چنانچہ رسول کریم میں کی لڑائیوں میں ایک نمایاں بات پائی جاتی تھی اور وہ یہی کہ رسول کریم میل کے لشکر کے مقابلہ میں بڑے بڑے لشکر اٹھتے اور شکست کھا جاتے.ان سے اکثر مارے یا قید کر لئے جاتے.مگر رسول کریم کے لشکر میں تھوڑے ہی مارے جاتے اور قلیل ہی زخمی ہوتے.یہ نمایاں فرق اتنا بڑا نشان ہو تا ہے جس سے دشمن حیران رہ جاتا ہے.پس کثیر تعداد پر جو عذاب الہی نازل ہو تو وہ ایسے رنگ میں نازل ہوتا ہے جو مومنوں کے لئے اطمینان قلب کا باعث اور ان کے ایمانوں کی زیادتی کا موجب ہو تا ہے.مگر ایک فرد پر اگر عذاب نازل ہو تو منافقین اس میں سے اعتراض کی راہ نکال لیتے ہیں اور اس طرح مباہلہ کا اثر فوت ہو جاتا ہے.اگر ایک شخص کو کوئی سخت ذلت پہنچے تو وہ کہہ سکتے ہیں اسے ہم عذاب تسلیم نہیں کرتے.لیکن اگر ایک طرف انہیں یہ نظر آئے کہ ہزار میں سے دس یا پندرہ کو کوئی معمولی سی تکلیف پہنچی ہے مگر دوسری طرف ہزار میں سے پانچ سو یا سات سو عذاب الہی کا شکار ہو گیا ہے تو لوگ محسوس کرتے ہیں کہ صداقت اسی طرف ہے جس طرف اللہ تعالی کی تائید شامل حال رہی.پس میں اعلان کرتا ہوں کہ قادیان اور بیرو نجات سے بھی جو دوست مباہلہ میں شامل ہونا چاہیں وہ نور اختیار ہو جائیں.اور استخارہ کرنے کے بعد اپنے اپنے نام پیش کریں.اور میں سمجھتا ہوں یہ ایک مبارک موقع ہے جو خدا نے ہماری جماعت کے لئے پیدا کر دیا.استخارہ ایک ایک رات کا بھی کافی ہے.پس استخارہ کے بعد دوست اپنے نام پیش کر دیں تا جلد سے جلد یہ لسٹ مکمل کر کے شائع کر دی جائے.(الفضل 11 جولائی ۱۹۳۱ء) لا تذكرة صفحه ۵۳۸ طبع چهارم که مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ۱۳۲ ال عمران: ۷۲

Page 222

خطبات PIZ 24 سال ۱۹۳۱ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طرز تحریر کی تقلید کرو (فرموده ۱۰- جولائی ۱۹۳۱ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وجود تے دنیا میں جو بہت سی برکات ظاہر ہوئی ہیں ان میں سے ایک بڑی برکت آپ کا طرز تحریر بھی ہے.جس طرح حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے الفاظ جو ان کے حواریوں نے جمع کئے ہیں یا کسی وقت بھی جمع ہوئے ان سے آپ کا خاص طرز انشاء ظاہر ہوتا ہے اور بڑے بڑے ماہرین تحریر اس کی نقل کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا طرز تحریر بھی بالکل جداگانہ ہے.اور اس کے اندر اس قسم کی روانی ، زور اور سلاست پائی جاتی ہے کہ باوجود سادہ الفاظ کے باوجود اس کے کہ وہ ایسے مضامین پر مشتمل ہے جن سے عام طور پر دنیا ناواقف نہیں ہوتی اور باوجود اس کے کہ انبیاء کا کام مبالغہ ، جھوٹ اور نمائشی آرائش سے خالی ہوتا ہے اس کے اندر ایک ایسا جذب اور کشش پائی جاتی ہے کہ جوں جوں انسان اسے پڑھتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے الفاظ سے بجلی کی تاریں نکل نکل کر جسم کے گرد لپٹتی جارہی ہیں.اور جس طرح جب ایک زمیندار گھاس والی زمین پر ہل چلانے کے بعد کہا کہ پھیرتا ہے تو سہاگہ کے ارد گرد گھاس پنتا جاتا ہے اسی طرح معلوم ہوتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریر انسانوں کے قلوب کو اپنے ساتھ لپیٹتی جارہی ہے.اور یہ انتهاء درجہ کی ناشکری اور بے قدری ہوگی اگر ہم اس عظیم الشان طرز تحریر کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے طرز تحریر کو اس کے مطابق نہ بنائیں.میں تو عام طور پر دیکھتا ہوں کہ دانستہ یا نادانستہ طور پر دنیا اس طرز تحریر کو قبول کرتی جارہی ہے.جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ

Page 223

خطبات محمود ۲۱۸ سال ۱۹۳۱ء و السلام نے اردو میں کتابیں لکھنی شروع کیں اس وقت تحریر کا رنگ ایسا تھا کہ آج اسے پڑھنا اور برداشت کرنا سخت مشکل ہے.مگر آہستہ آہستہ زمانہ کی تحریر بھی اسی رنگ میں ڈھل گئی جس رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے ڈھالا تھا.مجھے افسوس ہے کہ سلسلہ کے نوجوان مصنف اور محرر اپنی تحریریں ایسے رنگ میں لکھتے ہیں جو اس زمانہ کے اوباشانہ مصنفوں سے تو مشابہت رکھتا ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریر سے مشابہت نہیں رکھتا.میں کئی ایک کی تحریروں کو جب دیکھتا ہوں تو وہ ایسی ہوتی ہیں کہ اگر نیچے سے نام کاٹ دیا جائے تو میں بے تکلفی سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی تحریر ہے مگر اپنے ذہن کو انتہائی ذہول میں ڈال کر بھی نہیں کہہ سکتا کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریر کے رنگ میں ہے کیونکہ دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے.ایک کے اندر ایک رنگ کی چستی تو نظر آئے گی مگر روحانیت نہیں ہو گی.نہی اور استہزاء کا پہلو تو ہو گا سنجیدگی اور وقار نہیں ہو گا.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریر پر زور ہونے کے علاوہ سنجیدگی اور وقار سے باہر نہیں جاتی.پرانے زمانہ میں کبھی کبھی آپ نے دوسروں کے اشعار بھی نقل کئے ہیں مگر ایسے برجستہ کہ شوخی نام کو نہیں بلکہ درد اور سوز کو قائم رکھا ہے.پس میں اپنی جماعت کے مضمون نگاروں اور مصنفوں سے کہتا ہوں کسی کی فتح کی علامت یہ ہے کہ اس کا نقش دنیا میں قائم ہو جائے.پس جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نقش قائم کرنا جماعت کے ذمے ہے آپ کے اخلاق کو قائم کرنا اس کے ذمہ ہے ، آپ کے دلائل کو قائم رکھنا ہمارے ذمہ ہے ، آپ کی قوت قدسیہ اور قوت اعجاز کو قائم کرنا جماعت کے ذمہ ہے ، آپ کے نظام کو قائم کرنا جماعت کے ذمہ ہے وہاں آپ کے طرز تحریر کو قائم رکھنا بھی جماعت کے ذمہ ہے.اور یہ مصنفوں اور مضمون نگاروں کا کام ہے.باقی جماعتیں تو اپنی ذمہ داریوں کو اختیار کئے ہوئے ہیں اور ایک حد تک ان پر کار بند بھی ہیں مگر مصنف اور مضمون نگار ابھی اس طرف متوجہ نہیں ہوئے.چاہئے کہ ہماری تحریرات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے رنگ میں رنگین ہوں تا آئندہ یہ سلسلہ ایسے رنگ میں جاری ہو کہ یہ بھی آپ کی ایک نشانی سمجھی جائے.عیسائیت کا طرز تحریر ساری دنیا سے جدا گانہ ہے.اور عیسائی لٹریچر کی بنیاد انجیل پر ہے.عیسائی سکولوں میں اناجیل کے بعض حصے ایسے رنگ میں پڑھائے جاتے ہیں کہ نوجوانوں کو اس طرز تحریر اور زبان سے مناسبت پیدا ہو جائے.ہمارے مضمون نگاروں اور مصنفوں کو بھی چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ

Page 224

خطبات محمود ۲۱۹ سال ۱۹۳۱ء والسلام کی تحریروں کو ایسے رنگ میں پڑھیں کہ اس طرز کی نقل کر سکیں.اور اس لٹریچر کی نقل کرنے کی کوشش نہ کریں جس میں شوخی اور ہنسی کا پہلو ہو تاکہ وہ دو خدمتیں بجالانے والے ہوں.ایک خدمت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دلائل کے قیام کی اور دوسری آپ کے طرز تحریر کو جاری کرنے کی.موجودہ صورت میں وہ ایک رنگ میں تو خدمت کر رہے ہیں یعنی سلسلہ کے دلائل کو قائم کر رہے ہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طرز تحریر کو چھوڑ کر دوسرے رنگ میں حملہ کر رہے ہیں کیونکہ وہ اپنے عمل سے بتارہے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا طرز تحریر نہیں بلکہ مولوی ثناء اللہ وغیرہ کا طرز تحریر قابل تقلید ہے جس میں دوسروں کو گالیاں دیتا یا تھوڑی دیر کے لئے ہنسالینا مد نظر ہوتا ہے.پس ہمارے اخبار نویسوں ، رسالہ نویسوں اور کتابیں لکھنے والوں کو چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام کے طرز تحریر کی نقل کریں.میں نے ہمیشہ یہ قاعدہ رکھا ہے خصوصاً شروع میں جب مضمون لکھا کرتا تھا.پہلا مضمون جو میں نے تشحیذ میں لکھا وہ لکھنے سے قبل میں نے حضرت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام کی تحریروں کو پڑھاتا اس رنگ میں لکھ سکوں اور آپ کی وفات کے بعد جو کتاب میں نے لکھی اس سے پہلے آپ کی تحریروں کو پڑھا اور میرا تجربہ ہے کہ خدا تعالٰی کے فضل سے اس سے میری تحریر میں ایسی برکت پیدا ہوئی کہ ادیبوں سے بھی میرا مقابلہ ہوا اور اپنی قوت ادبیہ کے باوجود انہیں نیچا دیکھنا پڑا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریر اپنے اندر ایسا جذب رکھتی ہے کہ اس کی نقل کرنے والے کی تحریر میں بھی دوسرے سے بہت زیادہ زور اور کشش پیدا ہو جاتی ہے.یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ مسیح ناصری تو دنیا کے لٹریچر کا رنگ بدل دے مگر مسیح محمدی نہ بدلے.اگر انجیل نے انیس سو سال تک دنیا کے لٹریچر کا رنگ بدلا ہے تو مسیح محمدی اس سے بہت زیادہ عرصہ تک بدلے گا مگر اس کی طرف پہلا قدم اٹھانا ہمارا کام ہے.اگر ہمارا طرز تحریر وہی ہو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہے تو پھر دیکھو کتنا اثر ہوتا ہے.ولائل بھی بے شک اثر کرتے ہیں مگر سوز اور در دان سے بہت زیادہ اثر کرتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات میں دلائل کے ساتھ ساتھ درد اور سوز پایا جاتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایسا پانی ہے جس میں ہلکی سی شیرینی ملی ہوئی ہے.وہ بے شک شربت نہیں لیکن ہم اسے عام پانی بھی نہیں کہہ سکتے.وہ پانی کی تمام خوبیاں اپنے اندر رکھتا ہے مگر دوسری طرف پانی سے زائد خوبیاں بھی اس کے اندر موجود

Page 225

۲۲۰ سال ۱۹۳۱ء ہیں اور میں سمجھتا ہوں جو کام اس وقت ہمارے مصنف اور محرر کر رہے ہیں اس سے دو گنا کر سکتے ہیں اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طرز تحریر کو اختیار کریں.اس وقت پرانے لوگوں کا طرز تحریر اور ہے اور نئے لوگوں کا اور ہر ایک کا جداگانہ طرز ہے اور ہر شخص اپنے رنگ میں چل رہا ہے جس سے قومی لٹریچر کی بنیاد قائم نہیں ہو سکتی.اگر قومی حیثیت سے جماعت کسی طرز تحریر کو اختیار کر سکتی ہے تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا طرز تحریر ہے.اس کو چھوڑ کر اگر ہر کوئی اپنا جداگانہ طریق اختیار کرے تو نتیجہ یہ ہو گا کہ جماعت کسی کی بھی نقل نہیں کرے گی کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سوا کسی اور کی یہ پوزیشن نہیں کہ جماعت اس کی نقل کرے.اگر ہر ایک کی طرز تحریر علیحدہ ہو تو سلسلہ کا طرز تحریر کوئی نہ ہوگا حالا نکہ ہونا یہ چاہئے کہ ہمارے مصنف کی تصنیف کو پڑھ کر خواہ وہ مذہبی ہو یا سیاسی یا ادبی یا کسی اور موضوع پر ہو نوے فیصدی یہ پتہ لگ جائے کہ یہ کسی احمدی کی تصنیف ہے.اس کے اندر سنجیدگی، وقار ، سلاست اور روانی ایک جگہ جمع ہونی چاہئے.اس کے اندر ایک طرف امید کو بڑھایا جائے تو دوسری طرف خشیت پیدا کرنے کا خیال رکھا جائے یہ نہیں کہ ایک چیز کو بڑھایا اور دوسری کو مٹا دیا جائے.وہ ایک ایسی نہر کی طرح ہو جو باغ کے درمیان میں سے گزرتی ہے اور دائیں بائیں دونوں طرف سیراب کرتی ہے.اس کے کناروں پر درخت ہیں جس کے سایہ میں لوگ آرام کرتے ہیں.اگر ہمارے دوست ایسی طرز تحریر اختیار کریں تو تھوڑے ہی عرصہ میں اگر دنیا اس کی نقل نہ کرے تو کم از کم محسوس ضرور کرنے لگ جائے گی کہ یہ نیا طرز تحریر ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دنیا میں قائم کیا ہے.اور یہ صورت یقیناً ہمارے لئے زیادہ با برکت زیادہ مفید اور زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہوگی یہ معمولی بات نہیں ہے.اس موقع پر میں مثالیں دے کر نہیں سمجھا سکتا.اس کا آسان گریہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کسی کتاب کو اٹھاؤ اور اس کے دس صفحے پڑھ جاؤ پھر آج کل کے کسی احمدی مصنف کی کتاب کے دس صفحے پڑھو صاف پتہ لگ جائے گا کہ نمایاں فرق ہے.لیکن اگر کسی میری تصنیف کے دس صفحے پڑھو تو صاف معلوم ہو گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طرز تحریر کی نقل ہے کیونکہ میں نے جس وقت سے قلم اٹھایا ہے ہمیشہ اس بات کو مد نظر رکھا ہے سوائے کسی خاص موقع کے جہاں کوئی اور بات مد نظر ہو اور روانی اور سلامت وغیرہ مد نظر نہ ہوں جسے عام کتابوں اور تحریروں میں شامل نہیں کیا جا سکتا بلکہ جدا گانہ موقع اور محل ہوتا ہے.ایسی تحریروں کو چھوڑ کر

Page 226

خطبات محمود ۲۲۱ سال ۱۹۳۱ء - باقی کو اگر کوئی مبصر پڑھے تو صاف معلوم ہو گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرز تحریر کی نقل کی ہے.مگر جدید مصنفوں کی تحریروں میں یہ بات نہیں بلکہ ان کی طرز ایسی ہے کہ معلوم ہوتا ہے دوسروں کو ہنسانا یا ڈرانا مد نظر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریروں کی روانی کی مثال ایسی ہے جیسے پہاڑوں پر بر سا ہوا پانی بہتا ہے بظاہر اس کا کوئی رخ معلوم نہیں ہو تا مگر وہ خود اپنا رخ بناتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریروں میں الہی جلال ہے اور وہ تصنع سے بالا ہے.جس طرح پہاڑوں کے قدرتی مناظران تصویروں سے کہیں زیادہ دلفریب ہوتے ہیں جو انسان سالہا سال کی محنت سے تیار کر کے میوزیم میں رکھتا ہے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عبارت بھی سب سے فائق ہے.انسان کتنی محنت سے پہاڑ کی تصویر تیار کرتا ہے مگر کیا وہ پہاڑ کے اصل نظاروں کا کام دے سکتی ہے.لاکھوں روپیہ کے صرف سے سمندروں کی تصویر میں تیار کی جاتی ہیں.مگر سمند رجوش میں ہو تو کیا اس وقت کے نظاروں کا کام تصویر دے سکتی ہے.تصویر کے اندر نہ وہ دلکشی ہو سکتی ہے اور نہ ہیبت و شوکت.اسی طرح باقی سب تحریریں تصویر میں ہیں.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات قدرتی نظارہ.اس لئے اگر خداتعالی توفیق دے تو خدائی نظارہ کی نقل کرد تا تمہارا اپنا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا قانون دنیا میں پھیلے.ابھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قرب کا زمانہ ہے اس وقت کئی باتیں قومی شعار بنائی جاسکتی ہیں جن کا بعد میں بنانا مشکل ہو گا.کیونکہ ایک تو دور دراز مقامات اور ممالک میں جماعتیں پھیل جائیں گی اور دوسرے لوگ بھی ایک رنگ کے عادی ہو جائیں گے.رسول کریم سے قبل کے زمانہ کے اشعار اگر دیکھیں تو ان میں لفاظی بہت نظر آئے گی مگر آپ کے زمانہ اور زمانہ مابعد میں مسلمان شعراء کے کلام میں لفاظی چھوڑ قرآن کریم والی سلاست کی جھلک دکھائی دیتی ہے.اللہ تعالیٰ کے انبیاء کی آمد سے دنیا کا نقشہ بدل جاتا ہے اور لٹریچر بھی بدل جاتا ہے.پس ہمارا فرض ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تتبع میں دنیا کا لٹریچر بدل ڈالیں تا ہر انسان آپ کی اس خوبی کا بھی اعتراف کرے.اس کے علاوہ روحانی تبدیلیاں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دنیا میں پیدا کیں انہیں بھی اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے.میں نے تحریک کی تھی کہ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب تہجد پڑھی جائے.قادیان کے متعلق تو مجھے معلوم نہیں یہاں کیا حال ہے ہاں باہر سے جو خطوط آتے ہیں ان سے معلوم ہوتا

Page 227

خطبات محمود ۲۲۲ سال ۱۹۳۱ء ہے کہ جماعت نے اس طرف توجہ کی ہے بلکہ بعض جماعتوں نے تو باقاعد؟ کے لئے باجماعت تہجد پڑھنی شروع کر دی ہے.قادیان والوں کو باہر والوں سے ہر گز پیچھے نہیں رہنا چاہئے.اگر چہ میں نے سنا ہے یہاں بھی کوشش کی جاتی ہے لیکن اگر ان جگہوں پر جہاں ممکن ہو مثلا بورڈنگ ہاؤسوں میں یا مہمان خانہ میں باجماعت تجد کا انتظام کر دیا جائے تو بہت اچھا ہو گا.باجماعت تہجد ناجائز نہیں.رسول کریم مال الملک کے زمانہ میں جب صحابہ آکر تہجد کی نماز میں شامل ہو جاتے تو آپ نے اسے ناپسند کرنے کی وجہ سے نہیں روکا بلکہ منع کرتے ہوئے فرمایا خداتعالی کو یہ اس قدر پسند ہے کہ مجھے خطرہ ہے کہ اسے فرض نہ بنا لیا جائے.پس اگر ان جگہوں پر جہاں ممکن ہو با جماعت تحجد کا انتظام کر لیا جائے تو زیادہ روحانیت پیدا ہوگی اور اصل مقصد یہی ہوتا ہے کہ روحانیت کو دنیا میں پھیلائیں.(الفضل ۱۷ جولائی ۱۹۳۱ء) ا بخارى كتاب التهجد باب تحريض النبي صلى الله عليه وسلم في قيام الليل والنوافل من غير ايجاب.....

Page 228

محمود 25 حقیقی ایمان اور یقین نبی کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے (فرمودہ ۱۷ جولائی ۱۹۳۱ء) سال ۱۹۳۱ء تشهد تعوز اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.خدا تعالٰی کے انبیاء ایمان کے قیام کے لئے دنیا میں مبعوث ہوا کرتے ہیں، دلائل دنیا میں موجود ہوتے ہیں ، بحثوں کے سامان کافی سے زیادہ ہوتے ہیں ، منطق کے اصول دنیا کو بھولے نہیں ہوتے اور فلسفہ نے ہمیشہ اپنی حکومت اس عالم میں قائم رکھی ہے مگر باوجود اس کے دنیا ایک چیز سے محروم ہو جاتی ہے، ایک چیز سے خالی اور تہی دست ہو کر رہ جاتی ہے اور وہ یقین اور اطمینان ہے.دنیا میں کلام ہوتا ہے لیکن اس کی تأثیر اُڑ جاتی ہے باتیں ہوتی ہیں مگر ان کا سوز جاتا رہتا ہے ، دل ہوتے ہیں مگر وہ محبت سے خالی ہوتے ہیں ، آنکھیں نظر آتی ہیں مگر نورِ بصارت ان سے مفقود ہو جاتا ہے تب اللہ تعالٰی اپنے رحم اور خاص فضل سے آسمان سے ایک نورا تارتا ہے.وہی ازلی ابدی نور جو ہمیشہ اس کی مخلوق کی راہنمائی کے لئے اترتا ہے گو اس وقت وہ ایک نئی شکل اور نیا بجسم اختیار کر لیتا ہے.اس کے ذریعہ اللہ تعالی لوگوں کے قلوب میں ایمان اور یقین پیدا کرتا ہے.پھر شک اور شبہ کی زندگی مٹادی جاتی ہے اور جلن اور سوزش جو انسانی قلوب محسوس کر رہے ہوتے ہیں ٹھنڈک سردی اور اطمینان سے بدل جاتی ہے.یہی واقعہ آج سے تیرہ سو سال پہلے دنیا میں ظاہر ہوا جبکہ ساری دنیا میں تاریکی پھیلی ہوئی تھی، جبکہ ساری دنیا میں بے اطمینانی پھیلی ہوئی تھی، جبکہ ساری دنیا میں بے ایمانی پھیلی ہوئی تھی، جبکہ ساری دنیا میں بد اعتقادی اور بد خیالی پھیلی ہوئی تھی ، یقین دنیا سے مٹ چکا تھا اور شک و شبہات نے دلوں میں گھر کر لیا تھا اس تاریکی کے زمانہ میں ایسے شک و شبہ کے زمانہ میں خدا تعالٰی نے رسول کریم مام کو مبعوث

Page 229

خطبات محمود سال ۱۹۳۱ء فرمایا.آپ کے آتے ہی روحانیت کے متعلق "شاید" اور "اگر" کے الفاظ دنیا سے مٹ گئے اور ایسا یقین اور اطمینان آپ نے قلوب کو بخشا کہ اس اطمینان اور یقین کی وجہ سے لوگوں کی حالت کچھ سے کچھ ہو گئی.اس وقت بھی دنیا میں بحثیں ہوتی تھیں مگر ان کا رخ تبدیل ہو گیا.خیالات نے بالکل نیا پلٹا کھایا اور ایک ایسی جماعت رسول کریم میں کے ذریعہ قائم ہو گئی جس کا لفظ لفظ یقین اور وثوق کے ساتھ لپٹا ہوا تھا اور ایسا اس کے اندر اطمینان بھرا ہوا تھا کہ اس کے سننے والوں کے دل بھی یقین اور اطمینان سے بھر جاتے تھے.آخر وہی عرب کے لوگ تھے جو رسول کریم کی آمد سے پہلے تھے مگر ان کی حالتیں آپ میر کی پاک صحبت میں بیٹھنے کی وجہ سے اور آپ میر کا پُر تاثیر کلام سننے کی وجہ سے بالکل بدل گئیں حتی کہ ہم دیکھتے ہیں قلوب کے اندر ایسی تبدیلی پیدا ہو گئی کہ ایک بیٹے نے باپ سے کہا وہ بیٹا اس وقت تک اسلام میں داخل نہیں ہو ا تھا) کہ فلاں جنگ کے موقع پر جبکہ آپ اسلام کی طرف سے جنگ کر رہے تھے اور میں کفار کی طرف سے میں نے آپ کو دیکھا آپ اس وقت میری زد میں تھے.باپ نے پوچھا پھر؟ بیٹے نے کہا پھر میں نے کہا یہ میرا باپ ہے پس میں اپنی نظر بچا گیا.یہ سن کر باپ نے جواب دیا خدا کی قسم اگر میں تجھے جنگ میں کسی ایسے موقع پر دیکھ لیتا تو تجھے کبھی زندہ نہ جانے دیتا.یہ واقعہ ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے دلوں کے گوشہ گوشہ میں اللہ تعالیٰ کا پیار اور اس کی محبت کس طرح حاوی اور مسلط ہو چکی تھی.وہ اپنی جان ، مال اولاد کی اسلام کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہ سمجھتے تھے.جو بھی خلاف اسلام بات انہیں نظر آتی جس حد تک ممکن ہو تا اسے مٹانے کی کوشش کرتے.ان کے یقین اور وثوق کی حد یہاں تک پہنچی ہوئی تھی کہ مدینہ منورہ میں رسول کریم میں نے ایک دفعہ فرمایا مردم شماری کی جائے اور پتہ لگایا جائے کہ کل کتنے مسلمان ہیں.مردم شماری کی گئی جس میں سات سو مسلمان نکلے.جب رسول کریم میں تمام ایم کو یہ تعداد بتائی گئی تو ساتھ ہیں بعض صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اب تو ہم سات سو ہو گئے ہیں اب دنیا کی کوئی طاقت ہمیں مٹا نہیں سکتی.خیال تو کرو سات سو کی تعداد کیا ہوتی ہے.پھر کتنا عظیم الشان کام ان کے سپرد تھا.کسی معمولی علاقہ کا فتح کرنا ان کے ذمہ نہ تھا.کوئی معمولی تبلیغی یا تعلیمی انتظام کرنا ان کا کام نہ تھا.کسی ایک ملک کو ہدایت پہنچانا اور وہاں کے لوگوں کو اسلام کے رنگ میں رنگین کرنا ان کے سپرد نہ تھا بلکہ ان کا کام یہ تھا کہ وہ ساری دنیا کو فتح کریں، ساری دنیا کو تعلیم دیں ، ساری دنیا سے شرک مٹاکر اس میں توحید کے خیالات پھیلائیں غرض کسی ایک قوم سے ان کا مقابلہ نہ تھا کسی ایک ملک یا ایک نسل سے ان اليوم

Page 230

خطبات محمود ۲۲۵ سال ۱۹۳۱ء کا واسطہ نہ تھا بلکہ ساری دنیا سارے سلسلے ، سارے جتھے اور ساری جماعتیں ان کے مقابل پر کھڑی تھیں مگر باوجود اس کے کہ اتنا عظیم الشان کام ان کے سپرد تھا ان کے ارادے اور حوصلے اتنے بڑھے ہوئے تھے کہ کہتے ہیں اب تو ہم سات سو ہو گئے ہیں کیا دشمن اب بھی ہم پر غالب آسکتا ہے؟ بدر کی جنگ میں دو نوجوانوں سے جو کچھ ظاہر ہوا وہ ہمارے ایمانوں کو تازہ کرنے والا واقعہ ہے.عبد الرحمن بن عوف ایک تجربہ کار جرنیل اور جنگی خاندان کے فرد تھے کہتے ہیں اس موقع پر ہمارے دلوں میں بہت جوش تھا.چونکہ کے والوں نے ایک لمبے عرصہ تک رسول کریم می ایم اور آپ کے صحابہ کو سخت اذیتیں پہنچا ئیں اور دکھ دیئے تھے اس لئے ہم چاہتے تھے کہ اس جنگ میں اپنے دل ٹھنڈے کریں.ہم اسی امید اور آرزو کے ساتھ بدر میں پہنچے مگر یہ امید بھی کیسی امید تھی.اس وقت صحابہ کی کل تعداد صرف ۳۱۳ تھی اور دشمن کی تعداد ایک ہزار پھر وہ دشمن بھی معمولی نہیں بلکہ ان میں سے ہر شخص تجربہ کار اور فنون جنگ سے پوری طرح واقف تھا اور ان میں بڑے بڑے مشہور سردار تھے.آج کل لوگ دماغی قابلیت کی وجہ سے سردار بنائے جاتے ہیں اس لئے شاید یہ سمجھنے میں دقت ہو کہ سردار سے لڑائی کا کیا تعلق.سویا درکھنا چاہئے کہ اُس زمانہ میں جسمانی قابلیت کی وجہ سے لوگوں کو سردار بنایا جاتا تھا.پس سردار کے معنے یہ ہوتے تھے کہ عرب کا مشہور لڑنے والا انسان.ایسے ہزار لوگوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کا یہ خیال کرنا کہ آج ہم اپنے دل کے حوصلے نکالیں گے جبکہ مسلمانوں کی کل تعداد ۳۱۳ تھی.اور لڑائی میں شامل ہونے والے مسلمان اگر لڑائی کے فنون سے بالکل نابلد نہ تھے تو ان کے کامل ماہر بھی نہ تھے اس یقین اور و ثوق پر دلالت کرتا ہے جو رسول کریم میں کی وجہ سے مسلمانوں میں پیدا ہو گیا تھا.مگر ہماری حیرت کی کوئی انتہاء نہیں رہتی جب عبدالرحمن بن عوف خود بیان کرتے ہیں کہ میں انہی خیالات کی ادھیڑ بن میں تھا کہ آج دشمنوں سے مقابلہ ہو تو ہم اپنے دل کے حوصلے نکالیں کہ اچانک میں نے اپنے دائیں اور بائیں دیکھا تا معلوم کروں کہ میرے دائیں بائیں کون کون ہیں.وہ کہتے ہیں میں نے دیکھا کہ مدینہ کے دو نو عمر لڑ کے جو سولہ سترہ سال کے تھے میرے دائیں بائیں کھڑے ہیں انہیں دیکھ کر میرا دل بیٹھ گیا اور میری امیدوں پر پانی پھر گیا میں نے خیال کیا اب اگر میں لڑائی کروں تو کس برتے پر.مگر کہتے ہیں ابھی میرے دل میں یہ خیال آیا ہی تھا کہ مجھے کہنی کے ساتھ ایک لڑکے نے اپنی طرف متوجہ کیا.میں نے جب دیکھا تو ایک نوجوان نہایت آہستگی سے تاکہ

Page 231

خطبات محمود ۲۲۶ سال ۱۹۳۱ء دوسرائر کا نہ سن لے کہنے لگا چارہ ابو جہل کون ہے جو رسول کریم میں کو تکلیفیں دیا کرتا ہے میرا دل چاہتا ہے میں اس کو ماروں.ابھی اس نوجوان کا یہ فقرہ ختم نہ ہونے پایا تھا کہ دوسرے نے مجھے آہستگی سے کہنی ماری اور پوچھا اچھا وہ ابو جہل کون ہے جو رسول کریم میر کو سخت تکلیفیں دیا کرتا ہے میرا دل چاہتا ہے میں اسے ماروں.عبد الرحمن بن عوف کہتے ہیں میں یہ سن کر ہکا بکا رہ گیا کیونکہ باوجود جنگ کا تجربہ رکھنے اور دل کھول کر لڑنے کا ارادہ کرنے کے یہ خیال میرے دل میں بھی نہ آیا تھا کہ میں ابو جہل کو ماروں.ابو جہل اس وقت قلب لشکر میں تھا اور اس کے سامنے عکرمہ اس کا بیٹا اور ایک اور جرنیل ننگی تلوار کا پہرہ دے رہے تھے.اور عکرمہ ایسا دلیر اور جری انسان تھا جس نے اسلام لانے کے بعد دو دو ہزار تشکر کا اکیلے مقابلہ کیا ہے.ایسا بہادر شخص اس کے سامنے ننگی تلوار کا پہرہ دے رہا تھا اور پھر وہ قلب لشکر میں تھا جہاں پہنچنا سخت مشکل ہوتا ہے.ایسے موقع پر عکرمہ دُہرا فرض ادا کر رہا تھا ایک بحیثیت بیٹا ہونے کے اور ایک بحیثیت سپاہی ہونے کے.دوسرا بھی کوئی مشہور جرنیل عکرمہ کے ساتھ تھا.عبد الرحمن بن عوف کہتے ہیں میں نے حیرت کے ساتھ اپنی انگلی اٹھائی اور کہا وہ جو لشکر کے درمیان کھڑا ہے اور جس کے آگے دو جرنیل ننگی تلواریں لئے ہوئے ہیں وہ ابو جہل ہے.میرا یہ فقرہ ابھی ختم نہ ہونے پایا تھا کہ وہ دونوں یوں جھپٹے جس طرح باز ایک چڑیا پر حملہ کرتا ہے.وہ قلب لشکر میں گھس گئے اور انہوں نے ابو جہل کو زخمی کر کے گرا دیا.گو بوجہ نا تجربہ کاری کے اسے قتل نہ کر سکے مگر اسے کاری زخم لگا اور اسی جنگ میں وہ ہلاک ہو گیا.یہ ہے وہ ایمان اور یقین جو اللہ تعالیٰ کے انبیاء لوگوں کے دلوں میں پیدا کیا کرتے ہیں.میں نے یہ واقعات اس لذت کے اظہار کے لئے سنائے ہیں جس کے متعدد سامان موجودہ زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لوگوں کے دلوں میں یقین اور ایمان پیدا کر کے ہمارے لئے کیا فرما دیتے ہیں.میں نے پچھلے سے پچھلے جمعہ کے خطبہ میں اعلان کیا تھا کہ ایک شخص نے جو امیر جماعت اہلحدیث کہلاتے ہیں ہمیں مباہلہ کا چیلنج دیا ہے.میں نے اعلان کیا تھا کہ اس مباہلہ میں ایک ہزار آدمی ہماری طرف سے شامل ہوں اور ایک ہزار آدمی ان کی طرف سے تا اس مباہلہ کا اثر ہر رنگ میں وسیع اور نمایاں ہو لیکن اس وقت جب میں اعلان کر رہا تھا میں بھی ان جذبات کا اندازہ نہیں کر سکتا تھا جو جذبات جماعت کے دوستوں کے اب میرے سامنے آئے ہیں.آج کل قریباً ساری ڈاک ایسے ہی خطوط سے بھری ہوتی ہے جن میں خواہش اور

Page 232

خطبات محمود ۲۲۷ سال ۱۹۳۱ء - آرزو کی جاتی ہے کہ ہمیں بھی مباہلہ میں شامل کیا جائے اور یوں معلوم ہوتا ہے جس طرح پندرہ پندرہ دن کا بھو کا جب ایک روٹی دیکھے تو اس پر جھپٹتا ہے اسی طرح ہماری جماعت کے دوست بھی مدتوں سے انتظار کر رہے تھے اور وہ اس تلاش میں تھے کہ انہیں کوئی موقع ملے اور وہ اس میدان میں نکلیں.کیا یہ عجیب بات نہیں کہ مخالف فریق کی طرف سے تو یہ بحث ہو رہی ہے کہ ایک سے زیادہ کے ساتھ مباہلہ جائز بھی ہے یا نہیں اور یہاں یہ حال ہے کہ بعض جگہ سے مباہلہ میں شامل ہونے کے لئے تاریں آرہی ہیں اور وہ بھی ایسے الفاظ میں کہ گویا ایک حریص آدمی کے سامنے ایک مزیدار دعوت کا سامان رکھ دیا گیا ہے اور وہ بے اختیار کہہ رہا ہے کہ اس دعوت سے مجھے بھی محروم نہ رہنے دیا جائے.تاریں آرہی ہیں ، خطوط آرہے ہیں، رجسٹری خطوط پہنچ رہے ہیں اور پھر ان میں لکھنے والے ایسی لجاجت اور خوشامد کے الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ بعض دفعہ پڑھتے ہوئے یہ خیال آتا ہے کہ لکھنے والا آخر میں یہ کہنے والا ہے کہ مجھے سارا خزانہ دے دیا جائے.مگر لکھا یہ ہوتا ہے کہ خدا کے لئے مجھے اس مباہلہ سے محروم نہ رکھا جائے اگر ہٹانا بھی پڑے تو کسی اور کو ہٹا دیں مجھے نہ ہٹا ئیں.پھر نو جوانوں کی طرف سے الگ خطوط آرہے ہیں ،بڑھوں کی طرف سے الگ کئی بوڑھے ہیں جو لکھتے ہیں اگر چہ ہماری عمر ۷۰ ۷۵ سال کی ہو گئی ہے مگر عمریں خدا کے ہاتھ میں ہیں اس لئے مباہلہ میں شامل ہونے والوں میں ہمار ا نام ضرور لکھا جائے.اور نوجوان لکھتے ہیں بڑھوں نے بہت خدمت کرلی ہے اب ہم نوجوانوں سے کام لیا جائے اور اس مباہلہ میں نوجوانوں کو ہی پیش کیا جائے.پھر عورتوں کی درخواستیں آرہی ہیں جن میں وہ لکھتی ہیں مرد ہم سے کوئی زیادہ حقدار نہیں کہ انہیں مباہلہ میں شامل ہونے کے لئے کہا گیا ہے اور ہمیں موقع نہیں دیا گیا.پھر بعضوں کے تو پہلے ہی شکایت نامے پہنچ گئے ہیں کہ قادیان والوں نے جب خطبہ سنا ہو گا تو فورا اپنا نام پیش کر دیا ہو گا اور اس طرح ہزار کی تعداد پوری ہو گئی ہوگی.قادیان والوں میں سے کوئی مباہلہ میں شامل نہ ہو سب کے سب باہر سے ہوں کیونکہ قادیان والے آگے ہی ہر تحریک میں سبقت لے جاتے ہیں.پھر کوئی یہاں تک کہہ رہا ہے کہ ان سب باتوں کو خدا پر چھوڑ دو قرعے ڈال لو جس کا نام نکلے اسے مباہلہ میں شامل کر لیا جائے اور جس کا نہ نکلے اس کا نہ شامل کیا جائے.غرض ان خطوط کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت پر ہماری جماعت کو ایسا یقین اور وثوق حاصل ہے جس سے بڑھ کر ممکن نہیں.پھر بعض تو یہ کہہ رہے ہیں کہ استخارہ کی شرط میں نے کیوں رکھی ہے.جب

Page 233

خطبات محمود PPA سال ۱۹۳۱ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا تھا تو سوچ سمجھ کرہی مانا تھا اب استخارہ کیسا.گو یہ ان کی غلطی ہے جیسا کہ میں آگے چل کر بتاؤں گا مگر یہ تمام باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ جماعت کا کثیر حصہ ایسے یقین اور وثوق کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لایا ہے کہ وہ مباہلہ کو ایسا سمجھتے ہیں کہ گویا ایک بہترین دعوت ہے جو ان کے سامنے آئی.اور ایک بہترین ترقی کا موقع ہے جو انہیں ملا ہے.آج ہی ایک ایسے نوجوان کا خط آیا ہے جس سے بہت سے قصور اور غلطیاں سرزد ہوئی تھیں اور ایک زمانہ میں تو ہم سمجھتے تھے شاید وہ جماعت سے علیحدہ ہو چکا ہے اس نے لکھا ہے بے شک مجھ سے غلطیاں ہوئی ہیں مگر مجھے اس مباہلہ میں ضرور شامل کیا جائے اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ میں اپنی اصلاح کروں گا اور خواہش رکھتا ہوں کہ سال بھر قادیان میں ہی رہوں اور اپنی اصلاح کروں.غرض اس قسم کے خطوط آرہے ہیں جن کے پڑھنے سے حیرت ہوتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دلوں پر کیسا تصرف کیا ہے.میرا دل چاہتا ہے کہ ان میں سے بعض خطوط کو شائع کیا جائے تا دشمنوں کو معلوم ہو کہ ہماری جماعت کتنا اخلاص اور یقین رکھتی ہے.یہ ایمان اور وثوق ہے جو خود اپنی ذات میں سلسلہ کی صداقت کا نشان ہے وگرنہ کو نسا انسان دنیا میں ایسا ہو سکتا ہے جو دلوں کو یقین اور وثوق سے بھر دے.یہ صرف اللہ تعالیٰ کی ہی ذات ہوتی ہے جو دلوں کو طاقت دیتی ہے اور ان میں نور ایمان بھر دیتی ہے دوسرے لوگوں کی ایسی حالت نہیں ہوتی.میں نے کئی بار سنایا ہے.ایک دفعہ جب میں شملہ گیا تو وہاں کی مقامی آریہ سماج کے سیکرٹری صاحب جو گریجویٹ تھے مجھ سے ملنے آئے اور باتوں باتوں میں کہنے لگے حضرت مرزا صاحب سے آپ کو کیا ملا.میں نے کہا مجھے آپ سے یقین اور اطمینان ملا.کہنے لگے یہ تو ہر شخص کو حاصل ہوتا ہے میں نے کہا ایسا یقین جس کی وجہ سے انسان اپنی جان دیدے میں اس کا نام یقین نہیں رکھتا.کئی جگہ ایسا ہوا ہے کہ عیسائی مشنری مارے گئے مگر انہوں نے اپنے مذہب کو نہیں چھوڑا.اگر ایک جگہ دس عیسائی مارے گئے تو ان کی جگہ ہیں اور چلے گئے.میں اس کا نام یقین نہیں رکھتا بلکہ میں یقین کا معیار ہی جدا گانہ رکھتا ہوں اور وہ یہ کہ مجھے قرآن کے متعلق یقین ہے کہ یہ خدا کا کلام ہے اور میں ہر جگہ کہنے کو تیار ہوں کہ اے خدا اگر یہ تیرا کلام نہیں اور اگر میں اسے تیرا کلام کہنے میں باطل پر ہوں تو تیری لعنت مجھ پر اور میرے بیوی بچوں پر پڑے اس جہان میں بھی اور اگلے جہان میں بھی اگر آپ کو بھی دیدوں پر ایسا ہی یقین ہے جیسا مجھے قرآن پر تو آپ بھی اسی طرح کہیں.وہ کہنے لگے آپ میرے بیوی بچوں کا کیوں ذکر کرتے ہیں صرف میری ذات

Page 234

خطبات محمود ۲۲۹ سال ۱۹۳۱ء کو رہنے دیں حالانکہ اگر واقعی دید خدا کی طرف سے ہیں تو بیوی اور بچوں کا ذکر آنے سے ڈرنا کوئی حقیقت نہیں رکھتا.مگر وہ میرے بار بار اصرار کے باوجود یہی کہتے رہے کہ یہ طریق ٹھیک نہیں بیوی بچوں کا ذکر نہیں آنا چاہئے.میں نے کہا بہت سے انسان اپنے اوپر لعنت لینے کو تیار ہو جاتے ہیں مگر اپنے بیوی اور بچوں پر لعنت پڑنا گوارا نہیں کر سکتے.گو ایسے بھی انسان ہوتے ہیں جو باوجود جھوٹے ہونے کے اپنے بیوی بچوں پر بھی لعنت ڈال لیتے ہیں مگر ایسے انسان ہزار میں سے ایک کی نسبت سے ہوں گے.مگر باوجود میرے متواتر کہنے کے وہ اس طرح کی قسم کھانے پر آمادہ نہ ہوئے.اب تک ہمارے مخالفین کے سامنے جب بھی مباہلہ کا سوال آیا ہے انہوں نے ایسی ایسی باتیں کیں جو شریعت کے خلاف تھیں.کبھی تو کہہ دیا کہ مباہلہ کے بعد فریق مخالف کی شکلیں سوریا بندر کی ہو جائیں ، کبھی کہہ دیا ایک منٹ میں عذاب آجائے ، کبھی کہہ دیا کڑاہ میں کو دجاؤ.یا مینار سے کود پڑی جو بچ جائے وہ سچا، کبھی کہہ دیا ہم مباہلہ میں تب شامل ہوں گے جب مباہلہ کے بعد ہفتہ عشرہ کے اندر اندر نتیجہ نکل آئے.کبھی ایسے ایسے عذابوں کی خواہش کی جن کا بھیجنا اللہ تعالیٰ کی سنت کے خلاف ہے غرض ہمیشہ ہمارے مخالفین نے دعوت مباہلہ کو کئی قسم کے بہانوں سے ٹالا اور کوشش کی کہ یہ پیالہ ان کے سامنے سے ہٹ جائے مگر کتنا بڑا اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ ہماری جماعت اس دعوت میں شامل ہونے کے لئے بے قرار ہے اور وہ التجائیں کرتی ہے کہ مباہلہ سے انہیں محروم نہ رکھا جائے.یہ جوش اور اخلاص جو اللہ تعالٰی نے صداقت کے اظہار کے لئے ہماری جماعت کو بخشا ہے اپنی ذات میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا ایک بہت بڑا نشان ہے.اور اگر کوئی سوچنے والا ہو تو اس کے لئے اس جوش اور اخلاص کو دیکھ کرہی سلسلہ کی صداقت پر ایمان لانا کچھ مشکل نہیں رہتا.اس کے بعد میں استخارہ کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں.قادیان کے بعض لوگوں کو بھی اور باہر بھی بعض دوستوں کو اس کے متعلق غلط فہمی ہوئی ہے انہوں نے خیال کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی صداقت یا وفات مسیح ایسی کچی باتیں جن کے متعلق ہمار ا یقین ہے کہ یہ درست ہیں ان کے لئے استخارہ کرنا کوئی معنی نہیں رکھتے مگر دراصل انہوں نے سمجھا نہیں.استخارہ اللہ تعالیٰ کی ان عظیم الشان نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے جو دو سرے مذاہب کو حاصل نہیں.باقی جس قدر مذاہب ہیں ان میں دعا ئیں پائی جاتی ہیں مگر استخارہ مسنونہ کا طریق ان میں نظر

Page 235

خطبات محمود ٢٣٠ سال ۱۹۳۱ء نہیں آتا.یہ ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں کو دیکھ کر کسی نے انفرادی طور پر اسے اختیار کر لیا ہو مگر قومی طور پر کسی نے اس کو ویسے قائم نہیں رکھا جیسے رسول کریم می نے قائم کیا ہے.انفرادی طور پر اگر کسی مذہب کے بزرگ نے ایسا کیا ہو تو یہ علیحدہ بات ہے مگر استخارہ کرنا اسلام کے سوا اور کسی مذہب کا جزو نہیں.پس استخارہ مسنونہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت اور اس کے خاص فضلوں میں سے ایک بہت ہی بڑا فضل ہے.اس کا یہ مطلب نہیں ہو تا کہ کوئی چیز اپنی ذات میں اچھی ہے یا نہیں بلکہ ہو سکتا ہے ایک چیز اپنی ذات میں تو اچھی ہو مگر اس کے درمیانی واسطے ایسے ہوں جو کسی شخص کے لئے ضرر رساں ہوں.ایسی تمام باتیں جن میں شریعت کا کوئی خاص حکم موجود نہ ہو ان میں استخارہ کرنا ضروری ہوتا ہے.مگر جن باتوں کا حکم ہے اور شریعت کہتی ہے کہ ان پر ایمان لاؤ ان صریح احکام پر استخارہ نہیں.اب مباہلہ کرنا شریعت کا حکم نہیں بلکہ وہ ایک موت کا بات ہے.اگر کوئی شخص مباہلہ کا اہل ہو اور اس میں شروط پائی جائیں تو مباہلہ ہو سکتا ہے وگرنہ یہ حکم نہیں کہ ہر مسلمان اپنی زندگی میں کم از کم ایک دفعہ ضرور مباہلہ کرے.غرض شریعت کی وہ باتیں جن میں خاص حکم نہیں ہو تا ان میں استخارہ ضروری ہوتا ہے.ہو سکتا ہے کسی شخص کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور کوئی تقدیر مبرم ہو اور اسے کوئی خاص تکلیف پہنچنے والی ہو جسے دشمن اپنے مباہلہ کا اثر قرار دے لے اور کہہ سکتا ہو کہ اس پر یہ عذاب مباہلہ کی وجہ سے آیا.ایسا شخص جب استخارہ کرے گا اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اگر مناسب سمجھے گا تو اس تقدیر کو ٹلا دے گا اور یا اسے مباہلہ میں ہی شامل ہونے نہیں دے گا.غرض ایسے انسان کے ساتھ دو سلوکوں میں سے ایک سلوک ضرور ہو گا.یا تو اللہ تعالٰی اس کی تقدیر کو ٹلا دے گا اور یا اسے مباہلہ کنندگان میں سے نکال دے گا.پس اگر کسی انسان کے لئے اللہ تعالی کے حضور ایسی تکلیف مقدر ہو جو عذاب سمجھی جائے اور دشمن اسے مباہلہ کا اثر قرار دے سکے تو اللہ تعالٰی استخارہ کی وجہ سے یا تو اس تکلیف کو دور کر دے گا اور یا اسے مباہلہ میں شامل ہونے نہیں دے گا.تو استخارہ اس بات کے لئے نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بچے ہیں یا نہیں یا یہ کہ وفات مسیح کا مسئلہ درست ہے یا غلط بلکہ اس بات کے لئے ہے کہ انسان دعا کرے الہی اگر اس مباہلہ میں میرا شامل ہونا کسی ٹھوکر کا موجب ہو تو اس میں شمولیت سے بچالے اور اگر اس میں میرا شامل ہونا اسلام کی فتح اور احمدیت کی ترقی کا موجب ہے تو بھی شامل ہونے کی توفیق عطا فرما.اور اس میں کیا شبہ ہے کہ بعض دفعہ انسان اپنے اعمال کی شامت سے ایسے نتائج کا محل بننے والا

Page 236

خطبات محمود ۲۳۱ سال ۱۹۳۱ء ہوتا ہے جو دشمن کی نگاہ میں قابل اعتراض ہوں ایسی صورت میں یا تو اللہ تعالی ان بد نتائج سے اسے بچالے گا اور یا اسے مباہلہ میں شامل ہونے نہیں دے گا.تو استخارہ اہم سے اہم امور میں نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے.مثلاً شادی کا حکم ہے رسول کریم میر نے فرمایا جس نے شادی نہ کی اور وہ اسی حالت میں مرگیا اس کی عمر ضائع ہو گئی مگر یہ حکم نہیں کہ فلاں عورت سے ضرور شادی کرو.عورت کا انتخاب ہم خود کرتے ہیں مرد دیکھتا ہے عورت اس کے لئے موزوں ہے یا نہیں اور عورت دیکھتی ہے کہ مرد اس کے مناسب حال ہے یا نہیں اس لئے باوجود اس کے کہ شادی کرنے کا حکم ہے استخارہ ضروی ہوتا ہے.پس استخارہ کسی کمزوری کی علامت نہیں بلکہ ایمان کی علامت ہے.جنہوں نے اپنے جوش اور اخلاص میں لکھا ہے کہ جب ہم نے حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام کو اپنے پورے یقین کے ساتھ صادق مانا تو پھر آپ کی صداقت کے متعلق مباہلہ کرنے کے لئے استخارہ کی کیا ضرورت ہے انہوں نے شریعت کی باریکیوں کو نہ سمجھنے کی وجہ سے یہ خیال کیا ورنہ اگر وہ شریعت کی باریکیاں جانتے تو سمجھتے کہ جتنا یہ ضروری امر ہے اتنا ہی اس میں استخارہ کرنا بھی ضروری ہے.اس کے بعد میں قادیان کے دوستوں کو بھی اور باہر کے دوستوں کو بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ مباہلہ کے لئے جس قدر جماعت کے دوستوں کے نام آئیں گے ان میں سے ایک ہزار نام بعض اصول کے ماتحت چنے جائیں گے گو بعض دوستوں نے یہاں تک لکھ دیا ہے کہ بغیر موصی اور تجد خوان اور کسی کو اس مباہلہ میں شامل نہ کیا جائے.اور گو یہ شرطیں اس قابل نہیں کہ انہیں تسلیم کیا جائے مگر بہر حال انتخاب بعض شرائط کے ماتحت ہو گا.بعضوں نے لکھا ہے ہم سفر پر تھے اس لئے اپنا نام جلدی نہ بھیج سکے ، بعض لکھتے ہیں اخبار ہم نے دیر سے پڑھا اس لئے نام بھیجنے میں دیر ہو گئی ایسے تمام دوستوں کو اطلاع ہو جانی چاہئے کہ جب سب نام جمع ہو جا ئیں گے تو ان میں سے مباہلہ میں شامل ہونے والوں کا انتخاب کیا جائے گا جو مناسب ہو گا اسے لے لیں گے اور بعضوں کو چھوڑنا پڑے گا کیونکہ میں نے صرف ایک ہزار آدمی چننا ہے.پس دوستوں کو یہ خیال نہ کرنا چاہئے کہ چونکہ اب دیر ہو گئی ہے اور نام پورے ہو چکے ہوں گے اس لئے اب نام نہ بھیجیں بلکہ اپنے نام برابر بھیجنے چاہئیں.جب گفتگو انتہاء کو پہنچ جائے گی تو مباہلہ کنندگان کی لسٹ شائع کردی جائے گی اور کوشش کی جائے گی کہ ایسے ہی آدمی مباہلہ میں شامل ہوں جن کی احمدیت کی مقامی جماعت تصدیق بھی کرتی ہو.پس وہ تمام آدمی جن کا نام چنا جائے گا ایسے ہوں گے جن سے یا تو میں

Page 237

خطبات محمود سال ۱۹۳۱ء خود ذاتی طور پر واقف ہوں یا میرے ایسے واقف جن پر میں اعتبار کر سکوں وہ ان کے واقف ہوں اور پھر تقویٰ اور طہارت رکھنے والے بھی ہوں اور پھر اس بات کا بھی لحاظ رکھنا پڑے گا کہ اگر ایک جماعت کی طرف سے ہزار آدمی پیش ہوئے اور ان میں سے سنو مخلص ہیں.مگر ایک دوسری جماعت کی طرف سے ایک آدمی پیش ہوا تو ہم اس لئے کہ دوسری جماعت بھی مباہلہ میں حصہ لینے سے محروم نہ رہے اس ایک آدمی کو لے لیں گے اور تنو میں سے ایک مخلص کو ہٹا دیں گے تا سب جاعتیں اس سے حصہ لے سکیں.جبکہ ہماری جماعت نے اس مباہلہ کو دعوت سمجھا ہے تو دعوت میں سب جماعتوں کا ہمیں لحاظ رکھنا پڑے گا اور اگر مباہلہ ہو جائے تو مومن کے لئے واقعی یہ ایک دعوت ہی ہے اور اس پر مومن کو خاص فخر ہو سکتا ہے.حدیثوں میں جہاں تَعَالَوْا نَدْعُ أبْنَاء نَا وَابْنَاءَ كُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَ كُمْ وَانْفُسَنَا وَانْفُسَكُمْ کے ماتحت رسول کریم کی مباہلہ پر آمادگی کا ذکر آتا ہے وہاں چونکہ عام طور پر ایسی روایتوں کے راوی شیعہ ہیں.یا ایسے ہیں جو شیعیت کی طرف مائل تھے اس لئے وہ کہتے ہیں رسول کریم می مباہلہ میں اپنی بیٹی کو ساتھ لے کر نکلے تھے کیونکہ وہ خوب سمجھتے تھے کہ ایسے موقع پر مومنوں پر اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت برستی ہے.اس وقت جبکہ مومن لعنت مانگ رہا ہوتا ہے دراصل اپنے لئے اللہ تعالی سے رحمت طلب کر رہا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْ میری رحمت ہر چیز پر وسیع ہے حتی کہ میرے غضب پر بھی حاوی ہے.تو اگر مخالفوں پر دس لاکھ خدا کی طرف سے لعنتیں اتریں تو کس طرح ممکن ہے کہ مومنوں پر دس لاکھ رحمتیں نہ اتریں.بلکہ اگر وہاں دس لاکھ لعنتیں اتریں گی تو مومنوں پر ان سے کئی لاکھ زیادہ رحمتیں بھی اتریں گی کیونکہ اس کی رحمت اس کے غضب پر پر حاوی ہے.پس مباہلہ بچے انسان کے لانے بڑی بھاری روحانی دعوت ہے اور جب یہ دعوت ہے تو کیونکر ہو سکتا ہے کہ اس دعوت سے بعض جماعتوں کو محروم رکھا جائے.اس وجہ سے ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک جماعت کے اگر پندرہ میں مخلص احمدی ہوں مگر دوسری جگہ کے صرف چند معمولی احمدی ہوں تو چند کی خاطر بعض مخلصی کو چھوڑ دیا جائے تا ساری جماعتیں اس میں حصہ لے سکیں.غرض یہ انتخاب مختلف حالات کو دیکھ کر ہو گا لوگوں کو گھبرانا نہیں چاہئے بالکل ممکن ہے ان کو لے لیا جائے اور بعض پرانے صحابیوں کو چھوڑ دیا جائے.اگر چہ بعضوں نے لکھا ہے کہ مباہلہ میں صرف پرانے لوگوں اور صحابیوں کو لے لیا جائے مگر یہ ٹھیک نہیں.اس کے مقابل پر نئے لوگوں نے لکھا

Page 238

خطبات محمود ۲۳۳ سال ۱۹۳۱ء ہے کہ پرانے لوگوں نے بہت خدمتیں کرتی ہیں اب ہمیں موقع ملنا چاہئے کہ اس میدان میں نکلیں اور یہ دلیل کو پورے طور پر صحیح نہ ہو مگر بالکل بے وزن بھی نہیں ہے.بہر حال ناموں کا انتخاب کیا جائے گا اور جن کو شامل کیا جائے گا ان کی فہرست شائع کر دی جائے گی.ہاں یہ ضروری ہے کہ ایسے موقع پر دعاؤں پر خاص زور دینا چاہئے.پس ان ایام میں خصوصیت سے دعا ئیں کرو بلکہ وہ لوگ جو مباہلہ میں شامل نہ ہو سکیں وہ اپنے بھائیوں کی دعاؤں سے مدد کریں بلکہ میں تو سمجھتا ہوں اگر مباہلہ نہ بھی ہو اور فریق مقابل شریعت کی مقرر کردہ شرائط کو نظر انداز کر کے مباہلہ پر آمادہ نہ ہو تب بھی وہ تمام لوگ جنہوں نے مباہلہ میں شامل ہونے کے لئے اپنے نام پیش کئے ہیں قادیان میں اکٹھے ہوں تا اللہ تعالٰی سے اسلام کی ترقی اور احمدیت کے غلبہ کے لئے خاص طور پر دعا کی جائے اور اللہ تعالیٰ کے حضور التجاء کی جائے کہ وہ اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے کوئی غیر معمولی نشان دکھائے.مگر ابھی یہ تمام باتیں پیش از وقت ہیں.جس وقت فیصلہ ہو جائے گا اس وقت ان باتوں پر غور کر لیا جائے گا.البتہ میں ابھی سے تمام دوستوں کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ وہ خصوصیت سے دعائیں کریں تا اللہ تعالیٰ اپنا کوئی چمکتا ہو انشان دکھائے ایسا خاص نشان جو احمدیت کو دنیا پر غالب کر دے.تا ایسا ہو کہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُله ، کاوہ نظارہ جو مسیح موعود کے زمانہ سے مختص ہے اسے پورا ہوتے دیکھ کر اسلام کی فتح اور دوسرے مذاہب کی شکست ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں- اللهم امين السيرة الحلبيه جلد ۲ صفحه ۱۷۹ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء مسلم کتاب الایمان باب جواز الاستسرار للخائف بخاری کتاب المغازی باب قتل أبي جهل ه ال عمران: ۱۲ الاعراف: ۱۵۷ ك التوبه: ۳۳ (الفضل ۲۳.جولائی ۱۹۳۱ء)

Page 239

خطبات محمود ۲۳۴ 26 26 روحانی اور دنیوی مراتب اربعہ (فرمودہ ۷ - اگست ۱۹۳۱ء بمقام شمله) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- میں نے پچھلے جمعہ میں یہ بیان کیا تھا کہ اللہ تعالی نے ہمیں اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا سکھائی ہے یعنی اے خدا تو ہمیں سیدھا رستہ دکھا مگر کیا سیدھا رستہ ہو ان لوگوں کا جن پر تو نے انعام فرمایا.دوسری جگہ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی یہ تشریح فرمائی ناوالَيْكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِينَ وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ " صحیح راستے پر چلنے والے ان لوگوں کے ساتھ ہوتے ہیں جن پر خدا تعالیٰ نے انعام کیا ہے یعنی نبیوں کی جماعت صدیقوں کی جماعت ، شہیدوں کی جماعت، صالحین کی جماعت.میں نے بیان کیا تھا کہ جس طرح ایک روحانی مقام صالح ہے اسی طرح دنیوی لحاظ سے بھی ایک مقام صالح ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو اس زمانہ کے مطابق بنائے جس میں کہ وہ رہتا ہے.مگر یہ مطابق کرنا اچھے طور پر ہو نہ کہ برے طور پر یعنی وہ زمانہ کی بدیوں سے بچے اور نیکیوں کو حاصل کرے جو نئے علوم نکلیں ان سے واقفیت حاصل کرے.اگر ان میں کوئی نقص ہو تو اسے قبول نہ کرے اور جو حقیقت اور صداقت ہوا سے تسلیم کرلے.اپنے ملک کے کالجوں کے طلباء کی طرف دیکھو وہ نئے علوم تو سیکھتے ہیں اور اپنے تئیں زمانہ کے مطابق بنانے کی کوشش کرتے ہیں.مگر چونکہ ان شخصوں کی کتابیں پڑھتے ہیں اور ان کے علوم سیکھتے ہیں جنہوں نے انہی علوم کی بناء پر ایک انسان کو خدا ثابت کرنا چاہا اس لئے ہمارے طلباء ان علوم سے خدا تعالی کی ہستی کے منکر ہوئے جاتے ہیں.وہ مسئلہ ارتقاء کو ہستی باری تعالٰی کے مخالف سال ۱۹۳۱ء

Page 240

خطبات محمود ۲۳۵ سال ۱۹۳۱ء ایک دلیل قرار دیتے ہیں مگر اتنا نہیں سمجھتے کہ ارتقاء کے مسئلہ کو تو لوگ پیدائش عالم سے ہی مانتے چلے آئے ہیں ڈارون نے جو کام کیا وہ فقط اتنا تھا کہ اس کے بعض مخفی پہلوؤں کو روشن کر دیا.ورنہ ڈارون سے پہلے بھی لوگ دیکھتے تھے کہ بچہ 9ماہ کے بعد پیدا ہوتا ہے.ایک بیج کو درخت بنتے ہوئے عرصہ لگتا ہے.ہر طرف قدرت کے کاموں میں تدریجی ترقی نظر آتی ہے.مگرا سے کوئی خدا تعالیٰ کی ہستی کے مخالف نہ سمجھتا تھا مزید برآں فرمایا کہ ڈارون نے آج آکر ADAPTABILITY کے مسئلہ یعنی ماحول کے مناسب اپنے تئیں بنالینا پیش کیا مگر اسلام نے آج سے تیرہ سو سال پیشتر اس درجہ کا نقص دور کر کے اسے مومن کا ادنیٰ درجہ قرار دیا کیونکہ صلح کا مطلب ہے بہترین طور پر اپنے تئیں کسی چیز کے مناسب حال بنانا.پس صالح وہ ہے جو اپنے زمانہ سے پیچھے نہیں رہتا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ چلتا ہے.اور اپنے آپ کو اس کے مطابق بنالیتا ہے.مگر اس طور سے کہ اس کی ہر بدی سے محفوظ رہتا ہے.دوسرا درجہ شہید کا ہے شہید کے معنی عربی زبان میں نگر ان کے ہیں.روحانی درجہ کے علاوہ شہید کا دنیاوی درجہ بھی ہوتا ہے.دنیا میں انسان کا پہلا مرتبہ یہ ہے کہ اسے علم آتا ہو.دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ دوسروں کو علم سکھلائے یعنی وہ معلم ہو.اس آیت میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے.مؤمن نہ صرف اپنے زمانہ کے علوم اچھی طرح سے حاصل کرے بلکہ علوم میں ایسا کامل ہو جائے کہ دوسروں کو بھی سکھلا سکے.اس کے مطابق دیکھ لو کہ مسلمان کہاں تک شہید کے مقام پر کھڑے ہیں یعنی کہاں تک وہ دینی اور دنیاوی علوم لوگوں کو سکھاتے ہیں.یورپین اقوام کی طرف دیکھو وہ ساری دنیا میں پھیلی ہوئی دینی اور دنیوی علوم لوگوں کو سکھاتی ہیں.دنیاوی علوم کے پھیلانے کے لئے انہوں نے ایسی ایسی جگہوں میں کالج کھولے ہیں جہاں پہلے بالکل جہالت تھی.اور دینی علوم سکھانے کے لئے ان کے مشنری افریقہ آسٹریلیا اور دُور دراز ممالک میں جاتے ہیں حالانکہ یہ تعلیم اسلام نے دی تھی کہ اول ان لوگوں کی جماعت ہو جو روحانی اور دینی علوم حاصل کریں اور پھر ایسے لوگ ہوں جو دو سروں کو یہ علم سکھائیں.تیرا مرتبہ صدیقیت کا ہے.صدیق نبی کے قریب قریب جا پہنچتا ہے اور ان کا جو ہر ایک ہی ہوتا ہے.اور ان میں دوستانہ تعلق ہوتا ہے اخوت کا نہیں.انبیاء خد اتعالیٰ سے جو باپ کے مقام پر ہے براہ راست علوم حاصل کرتے ہیں اس لئے وہ آپس میں بھائی بھائی ہوتے ہیں.مگر صدیق کو نبی سے یہ تعلق نہیں ہوتا.وہ کوشش اور جدوجہد سے کسی طور پر نبی سے اتحاد پیدا کرتا ہے اور

Page 241

خطبات محمود سال ۱۹۳۱ء دوستی کے مقام پر کھڑا ہو جاتا ہے.یہ روحانی مقام صدیقیت ہے.دنیاوی! اسے صدیقیت کا یہ مقام ہے کہ انسان علم میں ترقی کرتا کرتا کسی ایجاد کے موجد یا کسی علم کے بانی سے اس قدر گہرا تعلق اور اتحاد پیدا کر لے کہ اس کے مشابہ ہو جائے.روحانی صدیق کے متعلق ہم دیکھتے ہیں کہ گو وہ براہ راست خدا سے علم حاصل نہیں کرتا مگر نبی کے ذریعہ حاصل کئے ہوئے علوم کی نہایت صحیح تشریح و تفسیر کرتا ہے.یہی حال دنیا دی صدیق کا ہے.پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن کو چاہئے وہ علوم میں اس قدر ترقی کرے کہ گو وہ کسی چیز کا موجد یا کسی علم کا بانی نہ ہو سکے مگر ایجادات اور علوم کے ساتھ لوگوں کی نظر میں اس کا نہایت گہرا اور کبھی نہ ٹوٹنے والا رشتہ قائم ہو جائے.چہارم درجہ نبی کا ہے.روحانی نبی تو خدا سے الفاظ میں الہام پاتے ہیں اور روحانی علوم براہ راست سیکھتے ہیں.اس کے مقابل ایک مادی نبی بھی ہوتے ہیں جو گو الفاظ میں خدا سے الہام نہیں پاتے مگر خدا سے وحی خفی پا کر دنیا میں علوم پھیلاتے ہیں.ایڈیسن کہتا ہے بعض اوقات بیٹھے بیٹھے کسی ایجاد کے متعلق بجلی کی طرح درست خیال قلب میں پڑ جاتا ہے.جیسے یہ مادی نبی ہوتے ہیں ویسے ہی ان کا الہام بھی مادی ہوتا ہے جو ان کے قلب میں القاء ہوتا ہے.ایک خیال ان کے دل میں ڈالا جاتا ہے.یہ روز نئے نئے انکشافات کرتے ہیں.نئے نئے علوم نکالتے ہیں.اور حیرت انگیز ایجادات سے دنیا کو حیران کرتے ہیں.خدا تعالٰی مومنوں سے دنیاوی لحاظ سے جو ادنیٰ سے ادنی بات چاہتا ہے یہ ہے کہ وہ اچھی طرح سے دنیاوی علوم حاصل کریں.پھر یہ کہ وہ اس قدر ان علوم میں کمال حاصل کریں کہ دوسروں کے معلم بن جائیں.پھر یہ کہ وہ اس قدر ترقی کریں کہ اگر چہ کسی ایجاد کے موجد یا کسی علم کے بانی نہ ہوں تو ہر ایجاد اور ہر علم کے ساتھ اس قدر گہرا تعلق پیدا کریں اور اس میں اس قدر کمال حاصل کریں کہ موجدوں اور بانیوں کے مشابہ ہو جائیں.اور جب کبھی کسی ایجاد کا ذکر کیا جائے یا کسی نئے علم کے متعلق تذکرہ ہو اس ایجاد کے موجد یا اس علم کے بانی کے ساتھ ہی ان کا نام بھی زبان پر آجائے.پھر یہ کہ وہ اس درجہ سے بھی ترقی کریں اور نئے نئے علوم نکالیں اور ایجادات کے موجد بنیں.اگر یہ حالت پیدا ہو جائے تو جھگڑے ختم ہو جائیں کیونکہ جھگڑے لاعلمی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں.دنیا میں جس قدر بدیاں پیدا ہوتی ہیں سب جہالت سے اور جتنی نیکیاں پیدا ہوتی ہیں سب علم سے پیدا ہوتی ہیں.اگر ہر احمدی میں یہ حالت پیدا ہو جائے تو دنیا میں ہی لوگوں کو ایک جنت نظر آجائے.اُخروی یا روحانی جنت تو ہم لوگوں کو یہاں نہیں دکھا سکتے ہاں یہ جنت دکھا سکتے ہیں.اگر ہر احمد ہی ان مراتب

Page 242

خطبات محمود ۲۳۷ سال ۱۹۳۱ء کو حاصل کرلے تو سب لوگ کہیں آؤ ہم بھی جنت میں داخل ہو جائیں.عام لوگ چونکہ دنیا میں دوزخ ہی دوزخ دیکھتے ہیں اس لئے خود کشیاں کر لیتے ہیں.لیکن اگر وہ جنت دیکھیں تو کبھی خود کشی نہ کریں.اگر احمدی یہ جنت پیدا کریں تو دنیا کے لوگ ہماری طرف جلد جھک جائیں یہ جنت پیدا کرنا تو بڑی بات ہے ابھی ہماری جماعت میں بعض ایسے لوگ ہیں جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑتے ہیں.خدائی کے ذریعہ ایک جنت قائم کرتا ہے اب اگر ہم اپنے بھائیوں سے لڑیں تو اس قائم کردہ جنت کے درختوں کو اپنے ہاتھوں کاٹنے والے ہوں گے.کوئی شخص یہ نہ کہے کہ میرے ایک درخت کاٹنے سے کیا ہو گا کیونکہ اگر ہر ایک ایسا ہی کہے تو دیکھ لو سب جنت کے درخت کاٹے جائیں گے.پھر خدا ایک اور نبی قائم کرے گا تا وہ جنت بنائے.ادنیٰ سے ادنیٰ مقام صالح کا ہے یعنی وہ جو خدا کے قائم کردہ ماحول سے مناسبت پیدا کرتا ہے.پس ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ اپنے اعمال اور اقوال میں اپنے ماحول سے مناسبت پیدا کریں اور صالح بنیں.اگر ایسا نہیں کر سکتے تو کم از کم صالح بننے کی صلاحیت تو پیدا کریں کیونکہ خدا کوشش کو دیکھتا ہے.میں تو یہ بات ہرگز قبول نہیں کر سکتا کہ جو شخص بدی کا مقابلہ کرتا ہوا مارا جائے وہ غالب نہ ہو اور خدا اس کی مغفرت نہ کرے گا.پس ہمارے دوست کم از کم صالح بننے کی صلاحیت کے لئے جدو جہد کریں.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہماری سب جماعت کو توفیق دے کہ وہ ان مراتب کے حصول کے لئے کوشش کریں اور پھر ہر ایک کو ان چاروں مراتب میں سے کوئی نہ کوئی درجہ ضرور دے.الفضل ۱۸ اگست ۱۹۳۱ء) الفاتحة 1 الفاتحة النساء 0

Page 243

سال ۱۹۳۱ء ٢٣٨ 27 خدا تعالیٰ سے ملنے کی حسرت نہیں بلکہ ارادہ پیدا کرو (فرموده ۴- ستمبر ۱۹۳۱ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.دنیا میں یہ سوال عام طور پر پایا جاتا ہے کہ کیا خدا تعالیٰ مل سکتا ہے؟ یہ قدرتی امر ہے کہ اگر کوئی شخص دہریہ نہ ہو اور خدا تعالیٰ کی ہستی کا قائل ہو تو اس کے دل میں اس قسم کا سوال کبھی نہ کبھی پیدا ہو.دیکھ لو دنیا کی اچھی چیزوں کے دیکھنے کی خواہش ہر انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے.مثلا لوگ خواہش کرتے ہیں کہ ہم فلاں اچھی عمارت دیکھیں.یا میدانی علاقوں میں رہنے والے کہا کرتے ہیں اگر ہمیں موقع ملے تو پہاڑوں کی سیر کریں.یا پہاڑوں میں رہنے والے خواہش کرتے ہیں کہ ہم میدانی شہروں کو دیکھیں.یا خشکی کے رہنے والے کہتے ہیں ہم سمندروں کی سیر کریں.یا سمندروں میں رہنے والے بسا اوقات آرزو کیا کرتے ہیں کہ اگر ہمیں چھٹی ملے تو ہم خشکی کے لطف اٹھا ئیں.اسی طرح لاکھوں اور کروڑوں چیزیں ہیں جن کی انسان خواہش کرتا ہے اور خصوصاً ایسی چیزوں کی جن کی نسبت اسے خیال ہوتا ہے کہ ان کے ملنے میں مشکلات ہیں.حتی کہ ہر انسان دو سرے انسان کی کیفیت کو جو کہ اس پر مخفی ہوتی ہے حاصل کرنے کی خواہش کرتا ہے.امراء خیال کرتے ہیں غریب بڑے مزے میں ہیں انہیں کسی قسم کا غم و فکر نہیں نہ انہیں چور کا ڈر ہے نہ ڈاکے کا خوف اور نہ گورنمنٹ کے ٹیکسوں سے ہراساں.پھر ان کی صحتیں کیسی اچھی ہوتی ہیں کیسے محنتی اور مضبوط ہوتے ہیں یہ لوگ اپنے گھروں میں خوش رہتے ہیں لیکن اگر غریبوں سے پوچھو تو وہ کہیں گے ہماری بھی کوئی زندگی ہے جیسے جانور ہیں ویسے ہی ہم ہیں بلکہ جانوروں کا بھی ان کے مالک کچھ نہ کچھ خیال کرتے ہیں مگر ہمیں تو کوئی پوچھتا ہی نہیں.زندگی ہے

Page 244

خطبات محمود ۲۳۹ سال ۱۹۳۱ء تو امیروں کی ہر وقت ان کی خدمت کے لئے نوکر چاکر حاضر رہتے ہیں.سارا دن آرام سے گزارتے ہیں اور جس چیز کو دل چاہا حاصل کر لیتے ہیں.غرض امیر کے دل میں یہ خیال ہوتا ہے کہ غریب کی حالت مجھے سے بہتر ہے اور غریب کہتا ہے امیر مجھے سے اچھا ہے یہ دونوں اپنی جگہ ایک دوسرے پر رشک کرتے اور حسد کی نظر سے دیکھتے ہیں.غرض جو چیز انسان کو نہ ملی ہو اور اسے امید ہو کہ وہ مل سکتی ہے اس کی ضرور خواہش کرتا ہے.جب ہر چیز حتی کہ ادنی چیزوں کی خواہش بھی انسان کے دل میں پائی جاتی ہے تو کس طرح ممکن ہے کہ ایک شخص خدا پر ایمان لائے اور اس کے دل میں کبھی یہ تڑپ پیدا نہ ہو کہ میرا خدا مجھے مل جائے.شاعر جسے انسانوں کی ذہنیت کے باریک احساسات کے سمجھنے کا فخر حاصل ہوتا ہے اور جس کی نسبت لوگوں کو بھی یقین ہوتا ہے کہ وہ انسان کے باریک در بار یک احساسات محسوس کرتا ہے وہ کبھی انتہائی جوش میں ایک جنگلی ہرن کو دیکھتا اور اس پر رشک کرتا ہے ، کبھی اڑنے والی چڑیوں کو دیکھتا اور ان کو اپنے سے بہتر قرار دیتا ہے ، کبھی پھول کو مخاطب کرتا اور اسے کہتا ہے تو کیسے آرام میں ہے ، پھر کبھی تیتریوں کو دیکھ کر ان سے باتیں کرنے لگ جاتا اور کہتا ہے تم مجھ سے اچھی ہو.غرض انسانی دماغ کی کھلی کتاب کو پڑھنے والا شاعر تیتر یوں بلبلوں کو ملوں، پھول کی پنکھڑیوں اور گھاس کی پتیوں پر نظر ڈال کر اپنے آپ کو ان سے ادنیٰ قرار دیتا اور ان پر رشک کرتا ہے.جب اشرف المخلوقات انسان ان چیزوں پر رشک کرتا ہے تو کیونکر ممکن ہے ایک انسان خدا پر ایمان لائے اور اس کے دل میں اس کے ملنے کی خواہش نہ پیدا ہو.اگر گھاس کی پتی اس کی توجہ اپنی طرف کھینچ سکتی ہے، اگر ہرن کا کلیلیں بھرنا اس کی توجہ کو اپنی طرف کھینچ سکتا ہے ، اگر بلبل کا نغمہ اس کی توجہ کو کھینچ سکتا ہے، اگر کو ئل کی گو گو اس کی توجہ کو کھینچ سکتی ہے ، اگر نسیم کے جھونکے اس کی توجہ کو کھینچ سکتے ہیں تو خدائے واحد اس کی توجہ کو کیوں کھینچ نہیں سکتا اور کیوں اس کے دل میں ایک حسرت انگیز خواہش پیدا نہیں ہوگی کہ کاش میں خدا سے ملوں.پس اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ خواہش انسان کے دل میں ضرور پیدا ہوتی ہے.مگر جہاں انسان کے اندر یہ ایک مرض ہے کہ وہ ہر چیز کی خواہش کرتا ہے وہاں اس کے اندر ایک یہ بھی مرض پایا جاتا ہے کہ وہ دوسرے کی برتری کو قبول نہیں کرتا.وہ ہمیشہ سمجھتا ہے جو کچھ میں جانتا ہوں وہ دوسرا نہیں جانتا.بڑے سے بڑا عقل مند جس نے اپنی زندگی ایک کام کے سمجھنے اور اس کی عمیق تہ تک پہنچنے میں مصروف کر دی ہو جس وقت اپنا تجربہ بیان کر رہا ہو گا چھوٹے سے چھوٹا بچہ بھی اس پر اعتراض کر دے گا اور کہے گا

Page 245

خطبات محمود ۲۴۰ سال ۱۹۳۱ء یوں نہیں بلکہ یوں ہے.یہ خواہش بھی اگر چہ بری نہیں مگر ہر جگہ اس کا استعمال برا ہوتا ہے.یہ خواہش ہر انسان میں خدا نے اس لئے پیدا کی ہے کہ تابندے اور خدا کے درمیان کوئی دوسرا واسطہ نہ ہو.وہ چاہتا ہے میں خود انسان کا معلم بنوں عَلمَ أَدَمَ الْأَسْمَاء كُلَّهَا ! اس نے سارے اسماء آدم کو خود سکھائے.پس وہ ذات جس نے آدم کو تمام اسماء سکھائے کوئی وجہ نہیں کہ آدم کی اولاد کو وہ نہ سکھائے.الرَّحْمَنُ عَلَمَ الْقُرْآنَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ عَلَمَهُ الْبَيَانَ لِ خدا ہی انسان کو بیان سکھاتا ہے اور تمام تشریحات و توضیحات خدا ہی کی طرف سے آتی اور وہی انسان کی رہبری کرتی ہیں.پس اپنی معرفت کا علم اللہ تعالی خود سکھاتا ہے.چناچہ ہر چیز کے اندر اس نے اپنے علوم نقش کر دیئے ہیں.اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتا ہے الذى علم بالقلم کوئی چیز ایسی نہیں جس کے اندر اس نے اپنے روحانی علوم نقش نہ کر دیئے ہوں.کیونکہ وہ برداشت نہیں کر سکتا کہ کوئی شخص یہ کہے کہ مجھے خدا تک فلاں بندے نے پہنچایا.پس چونکہ یہ بات خدا برداشت نہیں کرتا اس لئے ہر انسان کی طرف وہ اپنا ہاتھ خود بڑھاتا ہے اور اسے خود اپنے حضور درجات عطا کرتا ہے.پس انسان کو دوسرے انسان سے مستغنی اور آزاد کرنے کے لئے ہر انسان کے دل میں اللہ تعالی نے یہ خواہش رکھی ہے کہ وہ کہتا ہے مجھے دوسروں سے سیکھنے کی ضرورت نہیں.میں خود براہ راست سیکھوں گا مگر بعض لوگ اس کے غلط معنے سمجھ لیتے ہیں اور وہ بغیر سیکھے کے اپنے آپ کو سیکھا ہوا سمجھ لیتے ہیں اور اس طرح اپنے آپ کو سیکھا ہوا سمجھ لینا صحیح نہیں ہوتا.اللہ تعالے نے ہر انسان کو یہ تو حق دیا ہے کہ وہ سیکھ کر اپنے آپ کو دوسرے سے مستغنی سمجھے مگر یہ حق نہیں دیا کہ وہ بغیر سیکھے اپنے آپ کو سیکھا ہوا سمجھے.چنانچہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے لا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلم ہے جس چیز کا تمہیں علم نہیں وہ بات مت کہو.مگر باوجود اس کے کہ دنیا کے ابتدائی دور میں جو رسول آیا اس کے ذریعہ اللہ تعالٰی نے لا تقف ما لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلم کا حکم دیا یعنی حضرت نوح علیہ السلام کے ذریعے فرمایا کہ جس بات کا علم نہ ہو ست کہو.مگر اب تک انسان نے اس عادت کو نہیں بدلا.اب بھی وہ یہی چاہتا ہے کہ دوسرے کے منہ سے نکلی ہوئی بات کو تحقیر سے نظر انداز کردوں.پس نقص یہ ہے کہ انسان راہنمائی کا محتاج ہوتے ہوئے دوسروں کی راہنمائی قبول نہیں کرتے.جب رسول کریم کی معرفت اللہ تعالٰی نے فرمایا میرا بندہ ترقی کرتے کرتے ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ میں اس کا ہاتھ اور پاؤں بن جاتا ہوں تو اس کا مطلب یہی تھا کہ میں اس بندے کا ہاتھ اپنے دو سرے بندوں کی طرف بڑھاتا

Page 246

خطبات محمود سال ۱۹۳۱ء ہوں اور وہ میرا ہی ہاتھ ہوتا ہے.اِنَّ الَّذِيْنَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ و جو لوگ محمد مین کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں وہ دراصل خدا کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں.پس یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ جس شخص کو محمد ان کے ذریعے ہدایت حاصل ہوئی اسے آپ نے ہدایت دی بلکہ اسے در اصل خدا نے خود ہدایت دی کیونکہ آپ کا ہاتھ خدا کا ہاتھ ہے اور چونکہ خدا کا ہاتھ مادی ہاتھ نہیں اس لئے وہ اپنے بندوں میں سے کسی بندے کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ ضرور قرار دیتا ہے.اور چونکہ خدا کی زبان مادی زبان نہیں اس لئے وہ کسی بندے کی زبان کو اپنی زبان قرار دیتا ہے.اور چونکہ اس کے پاؤں مادی پاؤں نہیں اس لئے وہ اپنے کسی بندے کے پاؤں کو اپنا پاؤں قرار دیتا ہے.پس جب وہ بندے جن کے ہاتھ کو خدا اپنا ہاتھ جن کے پاؤں کو خدا اپنا پاؤں اور جن کی زبان کو خدا اپنی زبان قرار دیتا ہے کسی کی طرف دیکھتے ہیں تو وہ خود نہیں دیکھتے بلکہ خدا دیکھتا ہے.اور جب وہ کسی کی طرف اپنا ہاتھ بڑھاتے ہیں تو دراصل خدا اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھا رہا ہوتا ہے.کوئی نہیں کہہ سکتا کہ فلاں بندے کے ذریعے مجھے ہدایت دی بلکہ ہدایت دینے والا خدا ہی ہوتا ہے.پس یہ خواہش جو انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے کہ میرا خدا مجھے مل جائے اگر اس کے نتیجہ میں وہ صحیح طور پر ان ہاتھوں کو پکڑے جو خدا کی طرف سے اس کی طرف بڑھتے ہیں اور اس زبان سے نکلی ہوئی باتوں کو مان لے جو خدا کے حکم کے ماتحت چلتی ہے تو یقیناوہ ہدایت حاصل کرلے اور خدا کو بھی پالے.مگر بندہ بجائے اس کے کہ ان ہاتھوں کو پکڑلے اور اس زبان سے نکلی ہوئی باتوں کو مانے محض ایک حسرت اپنے دل میں پیدا کرتا ہے اور کہتا ہے کہ کاش مجھے خدامل جائے.ہر شخص جو خدا کو مانتا ہے اس کی زندگی کے حالات پر اگر نظر کی جائے بار ہا تو اس کے دل میں یہ خواہش اٹھتی معلوم ہوگی کہ کاش مجھے خدا مل جائے.ہندو عیسائی، سکھ غرض کسی مذہب کا انسان ہو اگر اس کے تمام حالات زندگی کی ایک کتاب لکھی ہوئی ہو تو اس کے پڑھنے سے نظر آجائے کہ ہر ایسے شخص کے دل میں جو خدا کا ماننے والا ہو بسا اوقات یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش مجھے خدامل جاتا.مگر پھر کتنے لوگ ہیں جنہیں خدا مل جاتا ہے.آخر تو خدا کو سارے ہی مل جائیں گے.جیسے خدا تعالی فرماتا ہے فَادْخُلِي فِي عِبدِي وَادْخُلِي جَنَّتِنا جو میرے بندوں میں داخل ہو ا وہ جنت میں داخل ہو جائے گا.اور جبکہ سب کو خدا نے اپنا بندہ ہی قرار دیا ہے تو آخر کار سب بندے جنت میں داخل ہو جائیں گے اور اس طرح انہیں خدا مل جائے گا.مگر سوال یہ ہے کہ

Page 247

خطبات محمود سال ۱۹۳۱ء مرنے سے پہلے کتنے لوگ ہیں جنہیں خدا مل جاتا ہے.مختلف زمانوں میں ایسے لوگوں کی مختلف نسبتیں رہی ہیں.مگر اس میں شبہ نہیں کہ خدا کو ملنے والے یہ نسبت ان لوگوں کے جنہیں خدا کا قرب حاصل نہیں ہو تا ہمیشہ کم ہوتے ہیں.جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے دلوں میں خدا سے ملنے کا سچا ارادہ پیدا نہیں ہوتا.وہ خیال جو ان کے دلوں میں خدا سے ملنے کا پیدا ہوتا ہے بطور حسرت کے پیدا ہوتا ہے بطور ارادہ کے پیدا نہیں ہو تا.تم اپنے دلوں کو ٹولو اور سوچو کہ کیا خدا سے ملنے کا تمہارے دلوں میں اس طرح خیال پیدا ہوتا ہے کہ آج سے ہم خدا کو حاصل کر کے رہیں گے.یا یوں پیدا ہوتا ہے کہ تم کہتے ہو ہائے خدا مجھے مل جائے.ہائے خدا مجھے مل جائے.یہ کہنا کہ ہائے خدا مجھے مل جائے یہ ارادہ نہیں بلکہ حسرت ہے اور حسرت بطور عذاب کے ہوتی ہے بطور رہنما کے کام نہیں کرتی.پس ایسے لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ سے ملنے کی خواہش بطور ارادہ کے پیدا نہیں ہوئی ہوتی بلکہ حسرت کے رنگ میں پیدا ہوتی ہے اور حسرت ہمیشہ ماضی کے متعلق ہوا کرتی ہے.اگر ہم کسی سے ملنا چاہیں اور وہ ہمیں اب تک نہ ملا ہو تو وہ شخص مستقبل میں ہمیں مل سکتا ہے اور آج اگر حاصل نہیں تو آنے والے کل میں حاصل ہو سکتا ہے مگر آنے والے کل کے متعلق ہمارے دل میں حسرت پیدا نہیں ہوگی بلکہ ملنے کا ارادہ پیدا ہو گا.مگر ہمارا یہ کہنا کہ کاش مجھے فلاں مل جاتا یہ چونکہ گزشتہ زمانہ سے تعلق رکھتا ہے اس لئے یہ ارادہ کے رنگ میں نہیں بلکہ حسرت کے رنگ میں دل میں خیال اٹھتا ہے وگر نہ اگر یہ یقین ہو کہ وہ اب بھی مل سکتا ہے تو حسرت کی کیا ضرورت ہے.انسان کہے گا آج اگر فلاں شخص نہیں ملا تو نہ سہی کل مل جائے گا.پس لوگوں کے دلوں میں خدا سے ملنے کی خواہش تو ہوتی ہے مگر وہ حسرت کے رنگ میں ہوتی ہے ارادہ کے رنگ میں نہیں ہوتی.اگر ارادے کے ساتھ ایسی خواہش انکے دل میں پیدا ہوتی تو یقینا اس کے لئے وہ تیاری اور کوشش بھی کرتے.ایک شخص جو یہ کہتا ہے کل میری فلاں چیز ضائع ہو گئی وہ اس کے لئے کوئی کوشش نہیں کرتا کیونکہ جانتا ہے کہ وہ چیز اب مجھے نہیں مل سکتی ہاں اسکی حسرت پیدا ہوتی ہے.یا اسی طرح جو لوگ اپنے فوت شدہ والدین کو یاد کرتے ہیں وہ ان سے ملنے کی کوشش نہیں کرتے کیونکہ جانتے ہیں وہ نہیں مل سکتے اسی وجہ سے ان کا کام حسرت اور افسوس کرنا ہوتا ہے.لیکن جس کے ہاں اولاد نہ ہو چونکہ اسے امید ہوتی ہے کہ بچہ پیدا ہو جائے اس لئے وہ خود دعائیں کرتا اور دوسروں سے کراتا ہے نیز علاج معالجہ بھی کرتا ہے.تو مستقبل کے لئے کوشش کی جاتی ہیں اور ماضی کے متعلق حسرت ہوتی ہے.اگر اس

Page 248

۲۳ خطبات محمود حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے لوگ بجائے یہ حسرت پیدا کرنے کے کہ کاش خدامل جاتا ازادہ کریں کہ ہم خدا کو مل کر رہیں گے اور اس کے لئے کوشش اور سعی کریں تو انہیں ضرور خداہل جائے کیونکہ انہیں خیال پیدا ہو گا کہ جب ہم خدا سے ملنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کے لئے تیاری بھی کرنی چاہئے.اور جب وہ اس پر غور کرتے تو انہیں کچھ نہ کچھ باتیں اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لئے ضرور سوجھ جائیں.اور جب انسان ارادہ کر کے اپنا ایک قدم اٹھاتا ہے تو اسے اللہ تعالٰی دوسرا قدم اٹھانے کی بھی توفیق دے دیتا ہے.یہاں تک کہ وہ قدم اٹھاتے اٹھاتے اس مقام تک پہنچ جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی محبت کا مقام ہے.پس میں ان لوگوں کو جو خدا تعالٰی سے ملنے کی آرزو رکھتے ہوں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے دلوں سے حسرت نکال دو.اگر حسرتوں میں ہی مبتلاء رہے تو خدا چھوڑ اس کے فرشتے بھی نہیں مل سکیں گے بلکہ فرشتے چھوڑ ان کے آثار بھی تمہیں دکھائی نہیں دے سکیں گے.خدا سے ملنے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ بجائے افسوس کرنے کے کہ ہائے ہمیں خدا نہیں ملا ارادہ کرو کہ ہم ضرور خدا تعالیٰ سے مل کر رہیں گے پھر دیکھ لو چند ہی دنوں کے اندر اندر کس طرح تمہارے نفس کے اندر تبدیلی پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے.خود بخود دل ایسی تدبیریں سو جھائے گا جو اللہ تعالیٰ کے قرب کے لئے ضروری ہوں گی.خود بخود وہ امنگ اور ہمت پیدا کرے گا اور محنت سے کام کرنے کا جوش پیدا ہو گا.پھر اس کے نتیجہ میں انسان ایسے مقام تک پہنچ سکتا ہے جو اس کی زندگی کا مقصد کا ہے.مگر جب تک حسرتوں میں مبتلاء رہو گے اس وقت تک کبھی مقصد حاصل نہیں سکتا کیونکہ حسرت سوائے انسانی ہمت کو پست کرنے اور اس کے استقلال کو کمزور کرنے کے اور کسی کام نہیں آتی.یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ حسرتیں ہم منافق کے دل میں برا کیا کرتے ہیں امن کے دل میں حسرت پیدا نہیں ہوتی.اس کے متعلق تو فرمایا لَا خَوفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُم يَحْزَنُونَ کی اس کے دل پر خوف اور حزن طاری ہی نہیں ہو تا.بلکہ اگر اسکے ہاتھ سے کوئی چیز ضائع ہو جائے تو وہ کہتا ہے ماضی میرے ہاتھ سے نکل گیا اب مجھے مستقبل کے درست کرنے کی فکر کرنی چاہئے.ہزاروں مواقع جو انسان حسرتوں میں گزار دیتا ہے اگر بجائے ان کے بیسیوں منٹ بھی ارادوں میں صرف کر دے تو اس کی حالت میں عظیم الشان تبدیلی پیدا ہو جائے اور وہ کہیں کا کہیں پہنچ جائے.مگر انسان اپنی زندگی کی قیمتی گھڑیوں کو محض حسرتوں میں گزار کر اپنے ارادے کو کمزور اپنی ہمت کو پست اور اپنے استقلال کو ضعیف کر دیتا ہے.پس اللہ

Page 249

خطبات محمود سلام سلام سال ۱۹۳۱ء تعالی سے ملنے کا اپنے دل میں ارادہ پیدا کرو اور یاد رکھو حسرتیں اپنے دل میں کبھی نہ آنے دو کیونکہ یہ منافقت کی علامت ہوتی ہے.لیکن حسرت سے میری مراد وہ حسرت ہے جو ناکامی پر ہوتی ہے.ایک حسرت خواہش کے رنگ میں پیدا ہوتی ہے انسان کہتا ہے کاش فلاں تبدیلی ہو جائے یہ حسرت بری نہیں بلکہ اچھی ہے جیسے اللہ تعالٰی بھی فرماتا ہے يُحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيْهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِهُ ونَ ٨ یہ حسرت ماضی پر غم کرنے کے لئے نہیں بلکہ موجودہ لوگوں گی انگیخت اور ان میں بیداری پیدا کرنے کے لئے ہے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت مخالفت کرنے والے کیوں تباہ ہوئے بلکہ یہ ہے کہ محمد م کے زمانہ کے لوگ عذاب الہی سے بچ جائیں.پس اس حسرت کے حال یا استقبال پر کوئی ناگوار اثر نہیں پڑتا.اور جو اس نیت کے ساتھ حسرت ہو کہ کاش لوگ دین کی طرف متوجہ ہوں وہ ہمت کو بڑھانے والی ہوتی ہے نہ کہ پست کرنے والی.ان دونوں قسم کی حسرتوں کے اگر چہ الفاظ مشترک ہیں مگر ان کے معنوں میں اختلاف ہے.بعض دفعہ ایک ہی لفظ ہوتا ہے مگر معانی کے اختلاف کی وجہ سے مفہوم بالکل بدل جاتا ہے.مثلا درد کا لفظ ہے.ایک شخص کہتا ہے میرے دل میں قوم کا درد ہے مگر دوسرا کہہ رہا ہوتا ہے کہ آج میرے پیٹ میں درد ہے.اب کوئی شخص ایسا نہیں ہو سکتا جو ان دونوں دردوں کا ایک ہی مفہوم لے بلکہ وہ شخص جو یہ کہے کہ میرے دل میں قوم کا درد ہے ہمارے دلوں میں اس کے متعلق ادب اور احترام کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور جو شخص یہ کہے کہ میرے پیٹ میں درد ہے اس کے متعلق ہمارے دلوں میں رحم کے جذبات پیدا ہوتے ہیں.پس اگر چہ حروف کے لحاظ سے درد کا لفظ ایک ہی ہے مگر ایک درد کے ماتحت ہم ایک کی عزت کرتے ہیں اور اس کا ادب اور احترام کرتے ہیں اور دو سرے کی حالت پر رحم کرتے ہیں.قومی درد والے کے ہم محتاج ہوتے ہیں مگر پیٹ کے درد والا ہمار ا محتاج ہوتا ہے.پس ایسی حسرت جو ماضی پر ہو وہ بری ہوتی ہے لیکن جو تحریک پیدا کرنے کے لئے ہو وہ نہ صرف اچھی ہوتی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی برکت کے نزول کی موجب بنتی ہے.غرض ترقی کرنے اور اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے والوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ان کی زندگی کے ایام حسرتوں میں نہ گذر جائیں کیونکہ حسرتیں کرنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوتے بلکہ ارادوں اور ان کی تکمیل میں گزاریں.کیونکہ وہ جو ارادے کرتے ہیں، وہی آگے کی طرف اپنا قدم بڑھایا کرتے ہیں.الفضل ۱۰ ستمبر ۱۹۳۱ء)

Page 250

خطبات محمود البقرة : ٣٢ الرحمن ۲تا۵ العلق : ۵ ک بنی اسراءیل :۳۷ ه الفتح ا ل الفجر : ٣١٣٠ ك البقرة :٣٩ ليس : ٣١ ۲۴۵ سال ۱۹۳۱ ءو

Page 251

خطبات محمود 28 مرمت مسجد لندن اور چندہ خاص کی تحریکیں (فرموده ۱۱- ستمبر ۱۹۳۱ء) سال ۱۹۳۱ء تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.میں نے پچھلے دنوں اپنی جماعت کے لئے دو تحرکیں کی ہیں ایک تحریک تو جماعت کی مستورات کو مخاطب کر کے کی ہے جو مسجد لندن کی مرمت کے لئے چندہ کی اپیل ہے اور دوسری تحریک جماعت کے مردوں کو مخاطب کرکے کی ہے جو سلسلہ کی مالی مشکلات کو دور کرنے ، قرضوں کے ادا کرنے اور جلسہ سالانہ کے اخراجات کو پورا کرنے کے لئے ایک ایک ماہ کی آمدنی دینے کے لئے ہے.عورتوں کو تحریک اندازا آٹھ دس ہزار روپیہ جمع کرنے کے لئے کی گئی ہے.جو ر قم اس امر کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ آج سے دس سال پہلے جب مسجد لندن کی تعمیر کے لئے چندہ کی تحریک کی گئی تو عورتوں نے ۸۳ ہزار روپیہ جمع کر دیا تھا اور اس امر کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ گذشتہ دس سال میں ہماری جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ترقی کر گئی ہے اور اس امر کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ مومن کا ہر قدم ہمیشہ ترقی کی طرف اٹھتا ہے بالکل معمولی اور ادنیٰ تحریک ہے.مگر کام خواہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو اگر با قاعدہ جدو جہد سے نہ کیا جائے تو اس کا نتیجہ کبھی خوشگوار پیدا نہیں ہو سکتا.ایک زمانہ تھا جبکہ مسلمان دنیا میں چند ہزار بلکہ چند ہزار بھی نہیں صرف چند نتواہی تھے مگر ان کے ہر کام میں نمایاں طور پر برکت دکھائی دیتی تھی.آج ہندوستان میں ہی آٹھ کروڑ سے زیادہ مسلمان بستے ہیں لیکن معمولی معمولی تحریکیں بھی ان میں ضائع ہو جاتی ہیں اور وہ کامیاب ہوتی نظر نہیں آتیں.جس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ان میں تنظیم نہیں اور ایسی جدوجہد اور کوشش ان میں مفقود ہے جس کا ہونا کامیابی کے لئے ضروری ہوتا ہے.مسلمانوں میں یا تو اپنی

Page 252

سال ۱۹۳۱ء ذات میں کام کرنے کے لئے کوشش کرنا ہی مفقود ہوتا ہے اور یادہ صحیح طریق اختیار نہیں کرتے جس کے بغیر کامیابی حاصل ہونا نا ممکن ہوتا ہے.پس چونکہ یا تو وہ جد وجہد نہیں کرتے یا ایسے طریق اختیار کرتے ہیں جن کے نیک نتائج پیدا ہونے نا ممکن ہوتے ہیں اس لئے کثرت تعداد کے باوجود معمولی تحریکیں بھی ان میں کامیاب نہیں ہوتیں.ہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت میں تنظیم نہایت اعلیٰ درجہ کی ہے اور جماعت جس کام کے پیچھے پڑ جاتی ہے اور نیک نیتی اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے پڑتی ہے اسے کرلیتی ہے اور گو بعض دفعہ حالات مخالف بھی ہوتے ہیں مگر اللی نصرت انسانی تدابیر کی کمی کو پورا کر دیتی ہے.پس گو مسجد لندن کی مرمت کے لئے احمدی خواتین سے جو اپیل کی گئی ہے نہایت معمولی تحریک ہے مگر میں سمجھتا ہوں جب تک تمام جماعتیں منظم کوشش نہ کریں ممکن ہے کامیابی میں دیر لگ جائے.ہماری جماعت کی عورتوں میں اللہ تعالی کے فضل سے اخلاص رکھنے والیوں کی کمی نہیں جیسا کہ مردوں میں بھی مخلصین کا ایک بہت بڑا حصہ موجود ہے.چنانچہ میں دیکھتا ہوں اس تحریک کے ساتھ ہی ایسی مثالیں سامنے آنی شروع ہو گئی ہیں جو نہایت ہی اعلیٰ اثر پیدا کرنے والی اور روحانیت کو ابھارنے والی ہیں.مثلاً ہماری جماعت میں سیٹھ عبد اللہ اللہ دین صاحب ایک نہایت ہی مخلص اور نہایت ہی قربانی کرنے والے آدمی ہیں وہ ذاتی طور پر اپنے اموال کا ایک بہت بڑا حصہ تبلیغ کے لئے ٹیکٹ اور رسالے شائع کرنے میں خرچ کرتے رہتے ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب ٹیچنگز آف اسلام یعنی "اسلامی اصول کی فلاسفی " " ایکسٹریکٹ فرام ہولی قرآن اور احمد " جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی کتابوں سے ہی اسلامی مسائل پر گری روشنی ڈالی گئی ہے اور اسی طرح بعض اور رسائل اپنے ذاتی خرچ پر شائع کر چکے ہیں.اور ایک ایک کتاب کے چھ چھ سات سات ایڈیشن نکل چکے اور ہزاروں کی تعداد میں یہ کتابیں دنیا میں پھیل چکی ہیں.ان کی اہلیہ کے متعلق جو اخلاص میں انہی کے رنگ میں رنگین ہیں اطلاع ملی ہے کہ وہ کئی سالوں سے اپنے جیب خرچ کی رقم سے کچھ نہ کچھ پس انداز کرتی آرہی تھیں اور اس وقت ایک ہزار روپیہ انہوں نے جمع کر لیا تھا مگر باوجود اس کے کہ میں نے بھی لکھا تھا کہ یہ اس قسم کی عظیم الشان تحریک نہیں جیسی مسجد لندن کی تعمیر کے لئے کی گئی تھی اور میں نے لکھا تھا تمام جماعتوں کی خواتین تھوڑا تھوڑا کر کے یہ بوجھ اٹھا ئیں اور جس قدر آسانی سے چندہ دے سکتی ہیں دیں اور باوجود اس کے کہ دوسروں نے

Page 253

خطبات محمود ۲۴۸ سال ۱۹۳۱ء بھی انہیں مشورہ دیا کہ اس جمع کردہ روپیہ میں سے ایک حصہ اپنے لئے رکھ لیں انہوں نے ساری کی ساری رقم جو کئی سال سے جمع کر رہی تھیں مسجد لندن کی مرمت کے لئے خدا کے راستہ میں دے دی.بعض عزیزوں نے بھی انہیں کہا کہ آپ ایک لمبے عرصہ سے یہ رقم ایک کام کے لئے جمع کر رہی تھیں اس لئے کچھ حصہ اس میں سے اپنی ضروریات کے لئے رکھ لیں مگر انہوں نے کہا نیک کاموں کے لئے روز روز کہاں موقع ملتے ہیں بجائے اس کے کہ یہ مال میں دنیا میں جمع کروں چاہتی ہوں کہ خدا کے بنک میں جمع ہو جائے.اس قسم کی اگر ہماری جماعت میں سے چند خواتین ہی مثالیں پیش کر دیں تو مطلوبہ رقم کا فورا پورا ہو جانا کچھ بھی بڑی بات نہیں اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ ہماری جماعت جو لاکھوں افراد کا مجموعہ ہے اس میں سے چند بھی ایسی مثالیں نہ مل سکیں.اس میں شبہ نہیں ہماری جماعت ایک غریب جماعت ہے مگر اس میں بھی شبہ نہیں کہ آٹھ دس ہزار روپیہ کی تحریک بھی کوئی بڑی تحریک نہیں.اور جو لاکھوں کی جماعت ہو اس کے ایک ہزار میں سے کوئی ایک دو ہزار میں سے کوئی ایک نیا چار ہزار میں سے ہی کسی ایک ایسی مالدار عورت کا ملنا بڑی بات نہیں جو اتنی قربانی کر سکے اور گو وہ آج کل کے مالدار ہونے کے معیار کے لحاظ سے مالدار نہ کہلائیں کیونکہ اب تو وہ زمانہ ہے کہ لاکھ پتی بھی مالدار نہیں کہلا سکتے.صرف کروڑپتی مالدار سمجھے جاتے ہیں.لیکن پھر بھی خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت میں وہ اپنے اموال کا ایک بڑا حصہ دے کر دوسروں سے نمایاں درجہ حاصل کر سکتی ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہزاروں روپیہ رکھنے والوں کا ہماری جماعت میں بھی فقدان نہیں.پس اس قسم کی اگر چند عورتیں ہی کھڑی ہو جائیں تو صرف وہی تمام رقم پوری کر سکتی ہیں.لیکن اس کے لئے ضرورت ہے اخلاص کی اور ضرورت ہے اس تڑپ کی کہ انسان اپنا مال خدا کا مال سمجھے.یہ مثال تو ایک نیک اور مالدار خاتون کی میں نے سنائی ہے اسی طرح ملک کے دوسرے سرے یعنی سرحد کی طرف بھی ایک خاتون نے نہایت قابل قدر ایثار دکھایا.وہاں بھی ہماری مقامی جماعت کے امیر نے مسجد لندن کی مرمت کے لئے چندہ کی تحریک کی.ان کی اہلیہ کے پاس صرف ایک زیور تھا اور وہ سونے کی ڈنڈیاں تھیں.انہیں انہی دنوں میں نے ایک کام کے لئے یہاں بلایا تھا انہوں نے سنایا چلتی دفعہ میری بیوی نے مجھے کہا میرے اور میرے بچوں کے لئے حضرت صاحب سے خاص دعا کرانا.انہوں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کہیں لکھا ہے یا کسی سے میں نے آپ کی یہ روایت سنی ہے کہ خاص دعا کے لئے خاص تحریک کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ قربانی سے ہو سکتی ہے.جب آپ خاص دعا

Page 254

خطبات محمود ۲۴۴۹ سال ۱۹۳۱ء کرانا چاہتی ہیں تو اس کے لئے قربانی بھی کریں.انہوں نے اپنا زیور اتار کر دے دیا اور کہا میری طرف سے قادیان میں یہ چندے کے طور پر دیدیں.غرض ہر طبقہ میں ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں کہ اس تحریک کے موقع پر انہوں نے خاص طور پر جوش دکھلایا.اسی طرح غرباء کی جماعت میں سے نامہ کی احمدی عورتوں کی مثال قابل تقلید ہے.وہاں زیادہ سے زیادہ دس گیارہ آدمی ہوں گے اور وہ بھی نہایت قلیل تنخواہیں لیتے اور مالی لحاظ سے بہت معمولی حیثیت رکھتے ہیں ان کی حیثیت معمولی کلرکوں سے بڑھ کر نہیں اور پھر ریاست کے کلرک تو بہت ہی نچلے درجہ میں ہوتے ہیں.جن ریاستوں کے کمانڈر انچیف کی تین تین سو روپیہ تنخواہ ہو ان کے کلرکوں کی جو مالی حیثیت ہوگی وہ کسی سے مخفی نہیں ہو سکتی لیکن اس جماعت کی طرف سے جو رپورٹ آئی ہے وہ بہت ہی خوش کن ہے.ان کی مجموعی رقم کا اگرچہ میں صحیح طور پر اندازہ نہیں کر سکا کیونکہ اس میں چاندی کے زیورات کی جو رقم شامل تھی وہ میں پڑھ نہیں سکا لیکن اگر اس رقم کا قلیل سے قلیل اندازہ بھی ہو تو بھی ستراتی روپیہ سے کم نہیں بنتے.اور میں سمجھتا ہوں اس وقت تک جن جن جماعتوں کی طرف سے رپورٹیں پہنچتی ہیں ان میں سے نامہ کی جماعت کو اس قربانی میں دوسری جماعتوں پر فوقیت حاصل ہے.اور میں اس موجودہ رپورٹوں کی بناء پر دوسری تمام جماعتوں پر ترجیح دیتا ہوں.دراصل مقابلہ ہمیشہ دو قسم کا ہوتا ہے.ایک فردی مقابلہ ہوتا ہے اور ایک جماعت کا دوسری جماعت سے مقابلہ ہوتا ہے.اس مقابلہ میں جو بحیثیت جماعت ہے نابھہ کی جماعت کو فوقیت حاصل ہے.قادیان کی مستورات ہمیشہ چندہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی رہی ہیں مگر ان میں اب ایک مرض پیدا ہو گیا ہے اور اچھے بھلے آدمی کو بھی جب کوئی مرض ہو جائے تو اس میں پہلی سی طاقت نہیں رہتی اور وہ کمزوری محسوس کرتا ہے.وہ مرض یہاں کے مردوں میں بھی ہے اور عورتوں میں بھی.اور وہ یہ کہ جس مجلس میں میں تقریر کروں اس میں تو لوگ جمع ہو جاتے ہیں مگر جس مجلس میں خلیفہ وقت نہ ہو عموماً کہا جاتا ہے کہ وہ مجلس مزے دار نہیں اور اسی لئے اس میں کئی لوگ شامل نہیں ہوتے.اس دفعہ چندہ کی تحریک کے موقع پر میں بیمار تھا دوسرے میں یہ بھی چاہتا تھا کہ یہ مرض دور ہو اس لئے میں نے کہا کہ تحریک چندہ کے متعلق عورتوں کے جلسہ میں میں شامل نہیں ہوں گا.نتیجہ یہ ہوا کہ پہلے جہاں بعض دفعہ میری تقریر پر ہزار ہزار عورتیں جمع ہو جایا کرتی تھیں اس دفعہ معلوم ہوا ہے کہ زیادہ سے زیادہ دو ستو عورتیں ہوں گی اور چندہ جو زیورات وغیرہ ملا کر ہو اوہ چار سوا چار سو کے قریب ہے حالانکہ اگر صحیح طور پر کوشش کی جائے تو

Page 255

۲۵۰ سال ۱۹۳۱ ایک ہزار بلکہ اس سے بھی زیادہ روپیہ جمع ہو جانا قادیان میں معمولی بات ہے.اس میں شبہ نہیں یہ سخت مالی مشکلات کے دن ہیں اور تجارت پیشہ لوگوں اور مزدور طبقہ کو بھی غیر معمولی تنگی محسوس ہو رہی ہے لیکن اگر اخلاص اور محبت الہی کو مد نظر رکھتے ہوئے کوشش کی جائے تو اس رقم کا جمع ہو جانا مشکل امر نہیں.میں امید کرتا ہوں کہ قادیان کی جماعت جو ہمیشہ دوسروں کے سامنے اپنا نمونہ رکھا کرتی ہے اس موقع پر بھی پیچھے نہیں رہے گی.میں نے عزم کیا ہوا ہے کہ میں اس تحریک کے لئے کوئی خاص علیحدہ تقریر نہیں کروں گا کیونکہ اس کا یہ مطلب ہو گا کہ گویا لوگ خلیفہ وقت کے لئے چندہ دیتے ہیں خدا کے لئے چندہ نہیں دیتے حالانکہ مومنانہ نیت تو یہ ہونی چاہئے کہ چندہ دیتے وقت خواہ کوئی بھی معزز آدمی پاس نہ ہو خواہ کوئی بھی بڑا آدمی دیکھنے والا نہ ہو، خواہ کوئی بھی تعریف کرنے والا نہ ہو خواہ کوئی بھی تعظیم کرنے والا نہ ہو اور خواہ کوئی بھی داد دینے والا نہ ہو تب بھی محض اس لئے کہ اس چندہ کے دینے سے میرا خدا مجھ سے خوش ہو گا اور اس کی رضاء اور محبت مجھے حاصل ہوگی انسان چندہ دے اور وہ کام کرے جس کے کرنے کا اسے حکم دیا جائے.پس قادیان کی احمدی خواتین کو اپنے نمونہ اور عمل سے اپنے دلی اخلاص اور ایمان کا ثبوت دینا چاہئے.ہاں مجھے یاد نہ رہا ایک خاندان کی مثال بھی اس چندہ کی تحریک میں قابل تقلید ہے اور وہ ڈسکہ کی جماعت کا چندہ ہے دفتر محاسب کی رپورٹوں میں اس کا ذکر تھا.وہاں چودھری نصر اللہ خان صاحب مرحوم کے خاندان کا مقام ہے ان کا چندہ بھی نہایت اعلیٰ درجہ کا ہے اور چودھری ظفر اللہ خان صاحب کے خاندان نے اس میں جوش اور اخلاص سے حصہ لیا اور اس جگہ کی جماعت نے بھی اپنے چندہ کی رقم معمولی حالت سے زیادہ ادا کی ہے.اب میں مردوں کی تحریک کو لیتا ہوں.اس وقت ہندوستان کی مالی حالت سخت پریشان کن ہے بلکہ ہندوستان کی ہی کیا ساری دنیا کی حالت مالی لحاظ سے ایسی کمزور ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے فرشتے دنیا سے روپیہ اٹھا کر لے گئے ہیں.زمینداروں کی حالت تو ایسی ہے کہ سنگدل سے سنگدل انسان کو بھی ان کے حالات سنکر رحم آجاتا ہے مگر اقتصادی لحاظ سے دنیا کی حالت خواہ کتنی ہی خراب کیوں نہ ہو اللہ تعالٰی کے کام کبھی رکا نہیں کرتے بلکہ حق یہ ہے کہ خدا کے کام رکنے نہیں چاہئیں.رسول کریم کے زمانہ میں مسلمانوں کی حالت جس قدر کمزور تھی اس کو مد نظر رکھتے ہوئے موجودہ زمانہ کی خرابی کی حالت بھی اچھی ہے.وہاں تو ہمیں یہ نمونہ نظر آتا ہے کہ رسول کریم دشمنوں سے لڑ

Page 256

خطبات محمود ۲۵۱ سال ۱۹۳۱ء رہے ہیں صحابہ آپ میں اللہ کے ساتھ ہیں مگر فاقہ اور بھوک کی وجہ سے انہوں نے اپنے پیٹوں پر پٹیاں باندھی ہوئی ہیں.مگر یہ نمونہ اب کہاں نظر آتا ہے زمینداروں کو بے شک زیور بیچ بیچ کر مالیہ ادا کرنا پڑا مگر انہیں فاقے نہیں آئے پھر یہاں کی اقتصادی حالت کی خرابی غلہ کی ارزانی کی وجہ سے ہے مگر وہاں چیزوں کے فقدان کی وجہ سے تھی.یہاں غلہ تو ہے مگر روپیہ نہیں مگر وہاں نہ روپیہ تھانہ غلہ باوجود اس کے صحابہ کرام نے بڑی بڑی قربانیاں کیں اور ایسی عظیم الشان قربانیاں کیں کہ آج تک یادگار زمانہ ہیں.پس دین کے کام پر قحط کا اثر نہیں پڑتا اور نہیں پڑنا چاہئے چونکہ دنیا کی مالی حالت کو دیکھتے ہوئے خطرات بہت زیادہ ہیں اور ہماری جماعت پر متراستی ہزار روپیہ کا قرضہ ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس سال ہم یہ تمام قرض اتار دیں ممکن ہے اگلے سال مالی حالت اور بھی زیادہ کمزور ہو جائے اور ہمارے لئے قرض اتارنا قریبا نا ممکن ہو جائے اسی لئے میں نے جماعت کے احباب سے اپیل کی ہے کہ وہ ایک ایک ماہ کی آمدنی ان اخراجات کو پورا کرنے کے لئے ادا کر دیں.یہ چندہ خاص ایسا ہے کہ اس میں چندہ ماہواری اور چندہ جلسہ سالانہ بھی شامل ہے اس لئے یہ پہلی تحریکوں کے مقابلہ میں معمولی تحریک ہے.پہلے جب میں نے ایک ایک ماہ کی آمدنی دینے کی تحریک کی اس وقت چندہ ماہواری چندہ جلسہ سالانہ ، چندہ خاص میں شامل نہیں ہو تا تھا.مگر اب کی مرتبہ چندہ ماہواری بھی اس میں شامل ہے اور چندہ جلسہ سالانہ بھی گویا اصل چندہ خاص صرف ساٹھ فیصدی کے قریب رہ جاتا ہے حالانکہ ہماری جماعت اس سے پہلے سوسو فیصدی چندہ بھی دے چکی ہے.زمینداروں کی مالی حالت بے شک خراب ہے مگر ملازموں کی حالت ان سے بدرجہا اچھی ہے کیونکہ چیزیں سستی ہو گئیں مگر ان کی تنخواہ وہی ہے جو انہیں پہلے ملا کرتی تھی میں نے اندازہ لگایا ہے کہ اگر ہماری جماعت معمولی جد و جہد سے بھی کام لے تو ڈیڑھ لاکھ روپیہ بخوبی جمع ہو سکتا ہے جس میں سے ساٹھ ہزار کی رقم معمولی چندہ کے طور پر کام آسکتی ہے اور بقیہ ستراتی ہزار روپیہ پچھلے قرضوں کی ادائیگی کے لئے رہ جائے گا.مگر پھر بھی وہ کمی رہ جاتی ہے جس کا بجٹ کے بناتے وقت خیال نہیں رکھا گیا.شروع سال میں ہمارا بجٹ جن اصول پر بنایا گیا وہ رقم دوران سال میں حاصل نہیں ہوئی کیونکہ ہماری جماعت کا زیادہ تر حصہ زمینداروں پر مشتمل ہے اور زمینداروں سے اس سال یا تو آمد ہوئی ہی نہیں یا ہوئی ہے تو بہت کم اور اس کی وجہ یہی ہے کہ غلہ کی قیمت گر گئی.اور اس طرح پہلے جو رقم زمینداروں کی طرف سے ملا کرتی تھی اس کا اب بعض دفعہ چوتھائی حصہ ملتا ہے.مثلا کسی زمیندار نے اگر تنلو من غلہ دیا

Page 257

خطبات محمود ۲۵۲ سال ۱۹۳۱ء ہے تو پہلے اس کی قیمت میں ساڑھے چار سو کے قریب روپیہ مل جاتا تھا مگرا با سو سوا سو کے قریب ملتا ہے اور گو زمیندار غلہ اتناہی دیتے ہیں جتنا پہلے دیا کرتے تھے مگر اب چونکہ قیمتیں گر گئی ہیں اس لئے پہلے جتنی آمدنی نہیں ہوتی کیونکہ زمیندار جو چندہ دیتے ہیں بصورت غلہ دیتے ہیں بصورت روپیہ نہیں دیتے.پس قدرتی طور پر آمدنی پر اس کا اثر پڑا اور ضرورت محسوس ہوئی کہ چندہ خاص کی تحریک کی جائے.احباب نے اس تحریک میں حصہ لیا ہے مگر ابھی ضرورت ہے کہ اور بھی زیادہ جوش اور اخلاص سے کام کیا جائے اور جلد سے جلد مطلوبہ رقم کو پورا کیا جائے.یہ کام ہم میں سے کسی کا ذاتی نہیں بلکہ خدا کا کام اور اس کے دین کی اشاعت کا فرض ہے اس کے لئے ہمیں جس قدر بھی قربانیاں کرنی پڑیں چاہئے کہ ہم ہر وقت وہ قربانیاں کرنے کے لئے تیار رہیں.اگر اللہ تعالیٰ کے دین کی اشاعت کے لئے اور محض اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے صحابہ نے اپنے پیٹ پر پتھر باند ھے اور کام کیا تو ہمیں بھی تیار رہنا چاہئے کہ اگر کسی وقت ہمیں ایسی ہی قربانی کرنی پڑے تو اس وقت ہم خوشی اور بشاشت کے ساتھ اس میں حصہ لیں.کئی دوست ہیں جو مجھ سے کہا کرتے ہیں کہ میں جماعت سے ایسی ہی قربانی کا مطالبہ کروں مگر میں انہیں کہا کرتا ہوں کہ یہ قربانی اسی وقت جائز ہو سکتی ہے جب ضرورت محسوس ہو اور جب اس کے بغیر کام نہ چل سکتا ہو مثلاً جب معمولی چندوں سے بھی کام نہ چلے اور جب اور کوئی طریق باقی نہ رہے تو اس وقت یہ مطالبہ بھی کیا جا سکتا ہے پس اگر ایسا ہی زمانہ آنے والا ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اسی طرح دینی کام نہ کریں جس طرح رسول کریم میں اللہ کے وقت صحابہ کرام کرتے آئے انہوں نے فاقے کئے ، پیٹوں پر پتھر باندھے اور خدا کے دین کو پھیلایا.مگر اس وقت یہ مطالبہ کسی ایک شخص سے نہیں کیا جائے گا بلکہ ساری جماعت سے کیا جائے گا.یہ نہیں ہو سکتا کہ بعضوں کو لے لیا جائے اور بعضوں کو چھوڑ دیا جائے بلکہ اگر غریبوں سے اس قربانی کا مطالبہ کیا جائے گا تو امیروں سے بھی کیا جائے گا اسی طرح یہ بھی نہیں ہو گا کہ کارکنوں سے مطالبہ کیا جائے اور غیر کارکنوں سے نہیں بلکہ جب مطالبہ کیا جائے گاتو کارکنوں اور غیر کارکنوں دونوں سے کیا جائے گا اور انہیں کہا جائے گا اپنے خوردو نوش کے لئے ہم سے معمولی رقم لے لو اور اپنا سب کچھ خدا کے رستہ میں دے دو.کارکنوں کو بھی اس وقت ہم یہی کہیں گے کہ روٹی کھاؤ اور سال میں صرف دو جوڑے کپڑوں کے ہم سے لو اور اللہ تعالیٰ کے دین کا اسی جوش اور اخلاص سے کام کرتے رہو جس طرح پہلے کرتے ہو.مگر یہ زمانہ ابھی نہیں آیا اور ہم نہیں جانتے یہ زمانہ آئے گا بھی یا نہیں مگر ایسے موقعوں کے لئے بھی مومن تیار

Page 258

خطبات محمود ۲۵۳ سال ۱۹۳۱ء رہتے ہیں اور کبھی اپنے دلوں میں تنگی محسوس نہیں کرتے بلکہ خوش ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں قربانی کا موقع دیگر اپنے قرب میں بڑھانے کا سامان پیدا کیا.اس تحریک کے موقع پر جو اطلاعات موصول ہوئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری جماعت کے احباب نے اس تحریک کو نہایت خوشی سے سنا اور انہیں یوں محسوس ہوا کہ گویا ایک انعام ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لئے نازل ہوا مگر اس میں بھی شبہ نہیں کئی ایسے ہیں جو کمزوری دکھاتے ہیں اور چندہ نہ دینے کے لئے بہانے ڈھونڈتے ہیں اور مجھ سے بھی پوچھتے ہیں کہ ایسے موقع پر ہم کیا کریں.میں اس قسم کے تمام لوگوں کو یہ جواب دینا چاہتا ہوں کہ ہر شخص کا اپنا معاملہ خدا کے ساتھ ہے وہ اپنے حالات کو دیکھ کر اپنے دل سے فتویٰ پوچھ سکتا ہے میرا یہ کام نہیں کہ میں تمام افراد کا انفرادی لحاظ سے اندازہ لگاؤں بلکہ میرا کام یہ ہے کہ میں تمام افراد کا بحیثیت جماعت اندازہ لگاؤں اور ان کے سامنے ان کے حالات کے مطابق ایک تحریک رکھ دوں.آگے ہر شخص اپنے اپنے حالات کے رد سے خدا کے حضور جواب دہ ہے.میں جس وقت تمام جماعت کا اندازہ لگا کر اس کے سامنے ایک تحریک رکھ دیتا ہوں تو میں اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے فرض سے سبکدوش ہو جاتا ہوں.باقی یہ کہ یہ لوگ کس طرح عمل کریں یہ ہر شخص کی اپنی ذمہ داری کا کام ہے.میرا فتویٰ جماعت کے متعلق تو ہو سکتا ہے مگر افراد کے متعلق نہیں ہو سکتا.میں جماعت کو تو یہ کہہ سکتا ہوں کہ لاؤ ایک ایک مہینے کی تنخواہ دے دو مگر میں افراد کو اس طرح نہیں کہہ سکتا کیونکہ ممکن ہے کسی کی حالت ایسی ہو کہ وہ اتنی قربانی نہ کر سکے اور ممکن ہے وہ بہانے ہی بنا تا ہو.اور محض اپنے نفس کی آرام طلبی کے لئے مقررہ چندہ دینے سے ڈرتا ہو.پس ایسا شخص اپنی ذات کے متعلق خدا کے حضور جواب دہ ہو گا تو میں اسے چھوڑ دوں گا مگر خدا کے حضور اسے جواب دینا پڑے گا.پس ایسے شخصوں کو بجائے مجھ سے فتویٰ پوچھنے کے اپنے دل سے فتویٰ پوچھنا چاہئے اگر کوئی شخص مخلص ہو اور اس کے پاس واقعی روپیہ نہ ہو اور وہ حیران ہو کہ ایسے موقع پر کیا کرے تو میں اس کو یہی جواب دوں گا کہ اگر میری کسی وقت ایسی حالت ہو مجھے خدا کے دین کی امداد کیلئے پکارا جائے اور میرے پاس کوئی روپیہ نہ ہو تو میں اس رقم کو اپنے ذمہ قرض سمجھوں گا اور جب میری حالت ادائیگی کے قابل ہو گی اس وقت میں وہ روپیہ ادا کر دوں گا.پس اگر کوئی شخص صوفیانہ طور پر مجھے سے فتویٰ پوچھے تو میں اسے یہی کہوں گا کہ میں تمہاری ذات کے متعلق تو کوئی فتوی نہیں دے سکتا لیکن میں اپنے متعلق کہہ سکتا ہوں کہ اگر کسی وقت میری ایسی ہی حالت ہو اور میں کسی صورت

Page 259

خطبات محمود سال ۱۹۳۱ء میں بھی چندہ نہ دے سکوں تو میں سمجھوں گا کہ اتنا چندہ میرے ذمہ قرض بے حالات کے بدلنے پر یا اتنے عرصہ تک میں وہ رقم قرض سمجھتے ہوئے خدا کے رستہ میں دیدوں گا کیونکہ خدا کے قرض ہمیشہ ادا کئے جاتے ہیں.جب دنیا کے قرض ادا کرنے کے لئے لوگ کو ششیں کرتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں خدا کا قرض اتارنے کی فکر نہ کی جائے.پس اس نیت کے ماتحت اگر دو سرے ہی دن میری حالت بدل جاتی ہے تو اسی وقت مقررہ رقم ادا کرنے کی میں کوشش کروں گا.اس معاملہ میں میں قادیان کی جماعت کو خصوصیت سے توجہ دلاتا ہوں اور انہیں کہنا چاہتا ہوں کہ انہیں دو سروں کے لئے نمونہ بننا چاہئے.آج سے دس سال پہلے قادیان اور لاہور کی جماعتیں لوگوں کے سامنے بطور نمونہ ظاہر ہوا کرتی تھیں مگر افسوس ہے لاہور اس کے بعد گر گیا جس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کے امیر اور کاموں میں مصروفیت کی وجہ سے جماعت کے کاموں کی طرف توجہ نہ کر سکے مگر اب لاہور کی جماعت پھر اٹھ رہی ہے اور میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ وہاں کے مقامی امیر اور دوسرے لوگوں کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ جماعت کی ترقی کی کوشش کر سکیں.میں نے پچھلے دنوں انہیں کچھ نصیحتیں کی تھیں جس کے بعد مجھے بتایا گیا ہے کہ اب ان میں بیداری کے آثار دکھائی دیتے ہیں.مگر جو خبریں وہاں سے آئی ہیں وہ ابھی ایسی نہیں کہ انہیں لوگوں کے سامنے بطور نمونہ پیش کیا جا سکے.بہت سی جماعتیں ایسی ہیں جو ان سے بہت زیادہ اچھا نمونہ دکھا رہی ہیں.پس ابھی انہیں اور کوشش کی ضرورت ہے اسی طرح قادیان کی جماعت کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہمیشہ عزت کے مقام کو محفوظ رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے جو مقام ایک دفعہ کھویا جائے وہ دوبارہ بڑی مشکلوں کے بعد حاصل ہوا کرتا ہے جس طرح گرے ہوئے آدمی کا اٹھنا مشکل ہوتا ہے اسی طرح جو ایک دفعہ کسی عزت کے مقام سے نیچے گر پڑے اس کا دوبارہ وہی مقام حاصل کرنا بہت بڑی قربانیوں اور کوششوں کا متقاضی ہوتا ہے.پس یا دور کھو اگر اس چندے کے موقع پر تم لوگ پیچھے رہ گئے تو سالہا سال کی قربانیوں سے بھی یہ مقام جو تمہیں اب میتر ہے حاصل نہیں ہو سکے گا کیونکہ جب ایک جماعت پیچھے رہ جاتی ہے تو دوسری جماعتیں آگے بڑھتی ہیں اور ان کا جوش اور اخلاص بڑھ جاتا ہے اور پھر وہ نہیں چاہتیں کہ کوئی اور جماعت ان سے بڑھ سکے.پس ان کی کوششیں نمایاں مقام حاصل کر جاتی ہیں اس لئے اپنے اول ہونے کے مقام کو کبھی ضائع نہ ہونے دو کہ یہ نہایت قیمتی مقام ہے.کئی دشمن ہیں جو کہا کرتے ہیں کہ قادیان کے مقامی لوگ خلیفہ موقت کے رعب کی وجہ سے اور اس کے زور اور دباؤ کی وجہ سے چندہ دیتے ہیں لیکن دشمن کی گواہی اس کی

Page 260

خطبات محمود ۲۵۵ زبان کی گواہی ہوتی ہے اور تمہاری گواہی تمہارے دل کی گواہی ہوگی.اگر تم اپنے دلوں میں محسوس کرتے ہو کہ تم کسی دباؤ کی وجہ سے چندہ دیتے ہو تو سمجھ لو کہ تمہارا روپیہ یہاں بھی ضائع ہوا اور اگلے جہان میں بھی اس دنیا میں بھی تم نے اپنے اموال میں کمی کی اور اگلے جہان میں بھی ثواب حاصل نہ کیا لیکن اگر سمجھو کہ تم محض خدا کے لئے چندہ دیتے ہو اور اس قدر اپنے اندر اخلاص اور ایمان رکھتے ہو کہ اگر خدا کے دین کے لئے تمہیں اپنے اموال قربان کرنے پڑیں تو تم تیار ہو ، عزت قربان کرنی پڑے تو تیار ہو عزیزوں اور رشتہ داروں کو چھوڑنا پڑے تو تیار ہو وطن کو قربان کرنا پڑے تو تیار ہو تو دشمن خواہ کس قدر بکو اس کرے تمہارا معاملہ تمہارے خدا کے ساتھ ہے اور وہ تمہیں اس اخلاص اور نیکی کا اپنے حضور عظیم الشان بدلہ دے گا.میں جمعہ کے بعد سیالکوٹ جانے والا ہوں عصر کی نماز جمعہ کے ساتھ ہی انشاء اللہ پڑھا دوں گا خطبہ مجھے چھوٹا پڑھنا چاہئے تھا مگر لمبا ہو گیا.میں امیر کے متعلق چلتے ہوئے اعلان کرادوں گا دو یا تین دن باہر رہوں گا میں امید کرتا ہوں کہ مقامی کارکن بہت جلد یہاں کی جماعت کے چندہ کو میرے سامنے پیش کریں گے.مقامی عہدیداروں کو چاہئے کہ کارکن جنہیں رقوم ان کے عملوں سے ملتی ہیں.بہت جلد ان کے بل پاس کرا کے چندہ کی رقمیں ادا کر دیں تا ایسا نہ ہو کہ یہاں کے کارکن دوسرے لوگوں سے پیچھے رہ جائیں اگر اس میں غفلت ہوئی تو کارکنوں کا قصور ہو گا کہ انہوں نے اول ہونے کے ثواب میں یہاں کے لوگوں کو شامل ہونے سے روکا.لوگ تیار ہیں صرف یہ چاہئے کہ ان کے بل پاس کرا کے رقمیں وصول کرلی جائیں باقی اللہ تعالیٰ سے دعا ئیں کرنی چاہیئں کہ وہ ان مشکلات اور مصائب کے دنوں کو دور فرمائے.اور اصل بات تو یہ ہے کہ میں انہیں مصائب کے دن سمجھتا ہی نہیں کیونکہ مومن کا دل اتنا وسیع ہوتا ہے کہ وہ مصیبت کو مصیبت ہی نہیں سمجھتا.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کا آغاز الحمد للہ سے کیا پس مومن کا تو کام ہی یہ ہے کہ وہ ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے اور وہ یہی کہتا ہے کہ جو خدا کی طرف سے حالت نازل ہوئی وہی اچھی ہے.اگر بظا ہر بری نظر آتی ہے تو وہ میری آنکھوں کا قصور ہے.حضرت مسیح ناصری علیہ السلام نے ایک چور کو اپنی آنکھ سے چوری کرتے دیکھا.انہوں نے اسے کہا دیکھ تجھے اصلاح کرنی چاہئے.وہ کہنے لگا خدا کی قسم! میں نے چوری نہیں کی حضرت مسیح علیہ السلام نے یہ سن کر فرمایا میری آنکھوں نے غلطی کی مگر تیرے قول کو میں نے سچا مان لیا.حضرت مسیح علیہ السلام اگر ایک چور کو کہہ سکتے ہیں کہ میری آنکھیں جھوٹی ہیں مگر تو جھوٹا نہیں تو

Page 261

خطبات محمود ۲۵۶ سال ۱۹۳۱ء کیا ہم ایسے ہیں کہ ہم اپنی آنکھوں کو سچا اور خدا کو جھوٹا سمجھ لیں.اگر حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنی آنکھوں پر چور کے قول کو ترجیح دی تو کیا ہم خدا کی بات کو اپنی سمجھ پر ترجیح نہیں دے سکتے.خدا تعالی فرماتا ہے الحمد للہ یعنی ہماری طرف سے جو بھی حالت پیدا کی جاتی ہے اس کا نتیجہ ہمیشہ حمد ہوتا ہے.مثنوی رومی والے بھی فرماتے ہیں.ہر بلا کیس قوم را حق داده اند زیر آن گنج کرم بنهاده اند کہ خدا کی طرف سے جو مصیبت کسی قوم پر آتی ہے اس کے نیچے اللہ تعالیٰ کی رحمت کا خزانہ مخفی ہو تا ہے.پس ہم تو ان ایام کو مصیبت کے ایام سمجھتے ہی نہیں مگر جو سمجھتا ہے اسے چاہئے کہ وہ اللہ تعالٰی سے دعا کرے کہ وہ اسے استقلال اور استقامت عطا فرمائے اور جو اسے نعمت سمجھتا ہے ایسا شخص کبھی ہلاک نہیں ہوتا.کیونکہ وہ خدا کے ہاتھ میں ہوتا اور عذاب خدا کی طرف سے دوسروں پر نازل ہوا کرتے ہیں اس کی طرف نہیں آیا کرتے.(الفضل ۱۷ - ستمبر ۱۹۳۱ء) الفاتحة ٢

Page 262

خطبات محمود ۲۵۷ 29 سال ۱۹۳۱ء کامل جماعت وہی ہو سکتی ہے جو ہر قسم کی قابلیتیں ظاہر کرے (فرموده ۲۵- ستمبر ۱۹۳۱ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.قرآن کریم کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت رب العلمین بیان کی ہے جس کے بیان کرنے میں خاص حکمتیں ہیں.بہت سی روحانی حکمتوں کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے اس میں اپنے بندہ کے سامنے اس کا مقصد اس کی پیدائش کی غرض اور اسکی منزل مقصود بیان کی ہے.ہم اگر انسانی فطرت پر گہری نگاہ ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ انسان کے اندر انواع و اقسام کی قابلیتیں ہیں جس پیشہ یا جس علم یا فن یا ہنر کی طرف اس نے توجہ کی اسے ایسی ترقیات نصیب ہوئی ہیں کہ دیکھنے والے حیران و ششدر رہ جاتے ہیں.روحانیات کی طرف اگر انسان نے قدم اٹھایا تو انبیاء جیسے وجود اس میں پیدا ہوئے ، فلسفہ کی طرف اگر قدم اٹھایا تو افلاطون جیسے انسان اس میں پیدا ہوئے، سائنس کی طرف اگر توجہ کی تو ڈارون اور نیوٹن جیسے انسان پیدا ہوئے غرض جس جس علم کی طرف انسان نے توجہ کی اس کو اپنے ممکن کمال تک پہنچا دیا.پھر جس وقت لوگ اس خیال میں مبتلاء ہو گئے کہ اب دنیا اپنے ممکن کمال کو پہنچ گئی ہے تو کوئی اور ایسا انسان پیدا ہو گیا جس نے پہلی تمام تحقیقاتوں کو پہلا زینہ قرار دے کر مزید ترقیات شروع کر دیں.خدا تعالیٰ کا قانون قدرت نئے نئے اسرار پیدا کرتا ہے اور اس پر حکومت کرنے والا انسان ان کا انکشاف کرتا جاتا ہے گویا یوں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں دو قدرتیں پیدا کی ہیں جن کے اندر آنکھ مچولی کا کھیل کھیلا جارہا ہے.ایک قانون بار یک درباریک اسرار پیدا کرتا جاتا ہے اور دوسرا نجس اور انکشاف میں لگا ہوا ہے ایک قانون یہ ہے کہ اسرار چھپتے ہیں اور دوسرا یہ کہ انسان ان کی تلاش کرتا ہے اور اس

Page 263

خطبات محمود ۲۵۸ سال ۱۹۳۱ء طرح یہ سارا عالم آنکھ مچولی کی کھیل نظر آتا ہے جسے پنجابی میں ممکن میچی " کہتے ہیں ایک حصہ پوشیدہ مقامات کو تلاش کر کے وہاں قیام کرتا ہے اور دوسرا اسے کھینچ کر باہر لاتا ہے یہ کھیل پورے شدو مد سے جاری ہے.اور اگر کبھی انسان یہ خیال کرے کہ سارے اسرار اب ظاہر ہو چکے ہیں تو دنیا نے اسرار کے ساتھ سامنے آجاتی ہے اور اگر دنیا کہتی ہے کہ اب اسرار کو ظاہر کرنے والا کوئی نہیں تو انسان انہیں نگا کر کے رکھ دیتا ہے.یہ لامتناہی سلسلہ ہے جب ہم اس نظارہ کو دیکھتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو خداتعالی نے بائیبل کے الفاظ میں اپنے جیسا اور اپنی شکل پر پیدا کیا ہے اور قرآنی اصطلاح میں تعبد اپنے تقدس کے اظہار اور اپنی صفات کو ظاہر کرنے والا بنایا ہے.ایسے وجود کے متعلق یہ خیال کرنا کہ وہ صرف ایک ہی کام کے لئے پیدا کیا گیا ہے نادانی ہے.اگر اسے ایک ہی کام کے لئے پیدا کیا جا تا تو قابلیت بھی ایک ہی قسم کی اس کے اندر ودیعت کی جاتی مگر ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کے اندر ہزاروں قابلیتیں ہیں.اس میں شبہ نہیں کہ ماحول سے متاثر ہو کر یا عادات کی وجہ سے یا طبعی میلانات کے باعث وہ بعض چیزوں کو بعض پر ترجیح دے لیتا ہے.مگر جس طرح بعض علاقوں کی زمینوں کی یہ حالت ہے کہ وہ بعض اجناس پیدا کر سکتی ہیں اور بعض نہیں انسانی دماغ کی یہ حالت نہیں.مثلاً بعض ممالک میں گنا نہیں ہوتا.اور بعض میں گندم نہیں ہوتی اسی طرح زعفران ہر ملک میں نہیں ہو سکتا یہی حال زیرہ الانچی وغیرہ کا ہے یہ تو زمینوں کا حال ہے.مگر انسانی دماغ کو خدا تعالٰی نے ایسا بنایا ہے کہ سوائے پاگل کے یا چوٹ وغیرہ کے باعث کسی قسم کا نقص پیدا ہو جانے کے وہ ہر قسم کی کھیتی پیدا کر سکتا ہے یہ تو ممکن ہے کہ بعض مخصوص حالات کی بناء پر ایک چیز ناقص پیدا ہو اور دوسری اچھی.مگر ہو سب سکتی ہیں اور سب کو اگانے کی استعداد اس کے اندر رکھی گئی ہے فرق صرف یہ ہے کہ ایک بچے کو لیٹریری لوگوں کی صحبت میسر آتی ہے اور اسے زبان دانی کا چسکا پڑ جاتا ہے اس لئے وہ ادبی قابلیت میں بڑھ جاتا ہے اور حساب میں کمال حاصل کرنے سے محروم رہ جاتا ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ اس کا دماغ حساب دانی کی اہمیت نہیں رکھتا.اگر ادبی مذاق رکھنے والوں کی بجائے اسے حساب دانوں میں رہنے کا موقع ملتا تو وہ علم ادب کی طرف توجہ کرنے کی بجائے حساب میں منہمک ہو جاتا اور اس میں کمال حاصل کر لیتا.ہاں اس کے لئے مستثنیات بھی ہیں اور بعض وجو د ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی قابلیتیں ہی محدود ہوتی ہیں مگر یہ نقائص ہیں.ایک زمین میں گنا پیدا ہوتا ہے اور دوسری میں روئی لیکن روٹی والی کا کتنا پیدا نہ کر سکتا اس کا نقص

Page 264

خطبات محمود ۲۵۹ سال ۱۹۳۱ء نہیں کیونکہ قدرت نے اسکے اندر یہ استعداد ہی نہیں رکھی.لیکن انسانی دماغ کے اندرچو نکہ خدا تعالیٰ نے مختلف قابلیتیں رکھی ہیں اسلئے اگر کوئی ایک چیز پیدا نہ کر سکے تو وہ یقیناً ناقص سمجھا جائے گا.انسان ایک عالم صغیر کی مثال ہے ہم اگر ایک گلاس ہاتھ میں لیں تو آئینہ بے شک ہمارے ہاتھ نہیں ہو گا لیکن یہ ہمارے ہاتھ کا نقص نہیں سمجھا جائے گا.لیکن اگر ہم ایسی تصویر لینا چاہیں.جس میں گلاس اور شیشہ دونوں آنے چاہیں.اور پھر ایک آجائے اور دوسری نہ آئے تو یہ تصویر کا نقص ہو گا کیونکہ ہمار انشاء یہ تھا کہ دونوں چیزیں آئیں.تو جس دماغ میں ساری قابلیتیں نہ ہوں وہ ناقص ہو گا کیونکہ اس کے اندر ہر قسم کی قابلیتیں ہونی چاہئے تھیں اگر صحیح نشود نما اور تربیت کی جائے تو اچھا زمیندار اچھا تاجر اور اچھا تاجر اچھا زمیندار بن سکتا ہے.اس کی مثال یہ ہے کہ ہمارے علاقہ کی بعض زمینوں میں گیہوں ، کپاس، ماش وغیرہ مختلف اجناس پیدا کرنے کی طاقت موجود ہے لیکن اگر ہم صرف گیہوں کا بیج ڈالیں تو اس کے یہ معنے نہیں ہوں گے کہ زمین میں ماش ہو ہی نہیں سکتا.اگر ہم ماش کا بیج ڈالتے تو وہ بھی یقینا ہو جاتا.ایک اچھا لوہار اگر ترکھان کے پاس کام سیکھنے کے لئے بٹھا دیا جاتا تو اس کے اندر یہ قابلیت تھی کہ وہ اچھا بڑھئی بن سکتا لیکن یہ کام سیکھنے کا اسے موقع نہیں ملا اس لئے اس کی قابلیت اس میں پیدا نہ ہوئی.میری غرض اس بیان سے یہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے انسان کے اندر ساری قابلیتیں رکھی ہیں تو کامل جماعت وہی ہو سکتی ہے جو ساری قابلیتوں کو ظاہر کرے اور ان سے کام لے.وہ لوگ جو قابلیتوں کے دائرہ کو بغیر کسی مجبوری کے محدود کر دیتے ہیں وہ کامل نہیں کہلا سکتے.ہم جب رسول کریم میم کی تعریف کرتے ہیں اور کہتے ہیں وہ سب نبیوں سے اعلیٰ ہیں تو اس کا ثبوت یہ دیتے ہیں کہ آپ انسانی زندگی کے ہر پہلو میں بہترین نمونہ ہیں.پہلے انبیاء میں سے بعض ایسے تھے جن کی بیویاں نہ تھیں اس لئے وہ متاہل زندگی کے متعلق کوئی راہنمائی نہیں کر سکتے مگر آپ کی بیویاں تھیں اس لئے پ اس پہلو میں بھی بہترین نمونہ ہیں.پھر بعض کے بچے نہ ہوئے مگر آپ کے بچے ہوئے اور ان میں سے کئی آپ میں اور ملک کے سامنے فوت ہوئے اس پر آپ نے صبر کا بہتر نمونہ دکھایا غرضیکہ آپ کے اندر جمیع کمالات تھے.آپ جرنیل تھے، سیاست دان تھے ، غریب پرور تھے اور پھر اعلیٰ درجہ کے امراء کو بھی قابو میں رکھنے والے تھے ، حفظان صحت کے اصول میں بھی اعلیٰ بیان کرنے والے تھے اور اقتصادی زندگی کے لئے بھی بہترین قوانین بنانے والے تھے ، آپ مقنن بھی تھے اور قاضی بھی ، آپ نے غربت اور امارت سب حالتوں میں بہترین نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا.

Page 265

خطبات محمود ۲۶۰ سال ۱۹۳۱ء اب یہ سب باتیں اگر خوبیاں نہیں تو رسول کریم میں لال لال ہے ان سب کے پائے جانے سے بہترین اور کامل ترین انسان کیسے بن سکتے ہیں.اگر امارت میں اعلیٰ نمونہ دکھانا اپنی ذات میں خوبی نہیں تو آپ کے لئے یہ کیسے خوبی بن گئی.اگر اعلیٰ درجہ کا جرنیل، اعلیٰ درجہ کا مقنن ، اعلیٰ درجہ کا قاضی اور اعلیٰ درجہ کا سیاست دان ہو تا خوبیاں نہیں تو رسول اللہ مل مل کے لئے یہ خوبیاں کیسے بن گئیں لیکن ہم تسلیم کرتے ہیں کہ یہ سب خوبیاں ہیں اور اعلیٰ درجہ کا کامل انسان وہی ہو سکتا ہے جس میں یہ ساری باتیں اعلیٰ درجہ کی پائی جائیں کیونکہ اگر ان سب کا پایا جانا خوبی نہ ہو تو مجھ میں ہم کو حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی پر کیونکر فضیلت دی جاسکتی ہے.جس دلیل سے ہم آپ کو سب انبیاء سے افضل قرار دیتے ہیں وہی ہمیں بتاتی ہے کہ دنیا کے سارے اچھے کام خواہ وہ دینی ہوں یا دنیوی ہماری توجہ کے محتاج ہیں.جب ہم رسول کریم یا ل ا ل کے کمال کا اظہار کرتے ہیں تو یہ نہیں کہتے کہ آپ خدا تعالیٰ کی عبادت بہت کیا کرتے تھے بلکہ یہ بھی پیش کرتے ہیں کہ عبادت الہی کے ساتھ آپ کے اندر شفقت علی الناس بھی تھی کیونکہ صرف عبادت کرنے سے کوئی شخص افضل نہیں ہو سکتا.یا اگر ہم یہ کہیں کہ رسول کریم میں عالمی جنگ و جدال سے اجتناب کرتے تھے تو ممکن ہے کوئی اعتراض کر دے کہ کیا پتہ بزدل ہوں لیکن ہم یہ نہیں کہتے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ آپ رحم کرنے والے تھے اور رحم تبھی ثابت ہو سکتا ہے جب بہادری ثابت ہو.بہادر انسان ہی رحم کر سکتا ہے اور جو اپنی طاقت تسلیم کرانے کے بغیر رحم کا دعوی کرے وہ بزدل ہوتا ہے.پس اگر بہادری دکھا کر رحم کرنا خوبی کی بات ہے تو ہم صرف رحم کر کے کس طرح تحسین کے مستحق ٹھر سکتے ہیں.ہم میں سے ایک شخص اگر بڑا نمازی ہو تو یہ بے شک ایک خوبی ہے لیکن وہ کامل نہیں کہلا سکتا.کامل اسی وقت سمجھا جائے گا جب ہر طرف اس کی نگاہ ہو.ایک صحابی یا شاید تابعی سے کسی نے سوال کیا کہ کیا آپ تقویٰ کی تعریف کر سکتے ہیں.انہوں نے فرمایا تقویٰ اس کا نام ہے کہ انسان ایسے رستہ پر چل رہا ہو جہاں چاروں طرف کانٹے ہوں اور اس نے ڈھیلا ڈھالا جبہ پہن رکھا ہو پھر وہ دامن بچا کر نکل جائے اسی طرح مومن دنیا کے ہر کام میں ہاتھ ڈالتا ہے اور سلامت نکل آتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے مومن کی مثال تو یہ ہونی چاہئے کہ دست در کار دل بایار - مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے بعض دوستوں نے نیکی کے معیار کو غلط سمجھ رکھا ہے.دین کے لئے چندہ ادا کر کے اور نمازیں پڑھ کر وہ سمجھتے ہیں ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا.دوسروں سے ملنا جلنا ان سے تعلقات رکھناوہ ضروری

Page 266

۲۶۱ سال ۱۹۳۱ء نہیں سمجھتے.انہوں نے اپنے رشتہ داروں تک سے قطع تعلق کر رکھا ہے اور بالکل الگ تھلگ رہتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں ہم نے دین کے لئے بڑی قربانی کی ہے حالانکہ نیک نہیں بلکہ وہ بزدل ہیں.ان کے رشتہ دار اور دوست اعتراض کرتے تھے اور یہ جواب نہ دے سکتے تھے.یا انہیں غصہ آجا تا تھا اس لئے ان سے ملنا جلنا ترک کر دیا.اور یہ کوئی خوبی نہیں بلکہ بزدلی اور کمزوری ہے.اگر وہ ان سے ملتے جلتے اور ان کے کاموں میں شریک ہوتے جن میں وہ ہو سکتے تھے تو یہ بہت زیادہ نیکی تھی.عربی تاریخ میں ایک انجمن کا ذکر آتا ہے جس میں شامل ہونے والوں میں سے اکثر کے ناموں میں فضل آتا تھا اور اس وجہ سے اسے حلف الفضول کہنے لگ گئے تھے.اس کے ممبروں کا باہمی معاہدہ یہ تھا کہ اگر کسی پر ظلم ہو تو وہ مظلوم کی حمایت کریں گے اور اس کا حق اسے ولا ئیں گے.رسول کریم میں تو اللہ بھی اس میں شامل تھے.آپ سے کسی صحابی نے دریافت کیا یا رسول اللہ یہ کیا بات تھی اور کیا آپ بھی اس میں شامل تھے.آپ نے فرمایا ہاں اگر کفار آج بھی کسی اس قسم کے معاہدہ میں شامل ہونے کے لئے بلائیں تو میں شامل ہو جاؤں گا حالانکہ اس وقت آپ نبوت کے مقام پر فائز تھے.تو مومن سارے پہلوؤں کو مد نظر رکھتا ہے.وہ غریبوں کی خبر گیری بھی کرتا ہے، رشتہ دارووں اور دوستوں سے بھی اس حد تک تعلقات رکھتا ہے جس حد تک شریعت اجازت دے ، چندہ بھی ادا کرتا ہے ، نمازیں بھی باقاعدہ پڑھتا ہے عیسائیوں میں ایسی سوسائٹیاں ہیں کہ جہاں فساد ہو اس کے ممبر فور اوہاں پہنچ جاتے ہیں.پھر وہ بیماروں کی تیمار داری کرتے ہیں، آوارہ گرد بچوں کی نگرانی کرتے ہیں اور قیموں کی پرورش کا بار اٹھاتے ہیں.یہ سارے کام اچھے ہیں اگر ان سب کو چھوڑ کر کوئی صرف چندہ ادا کر دینا ہی کافی سمجھ لے تو اس سے زیادہ بے وقوف اور اپنی جان کا دشمن اور کون ہو سکتا ہے.یہ صحیح ہے کہ ہر شخص محمد میں ایلی نہیں بن سکتا مگر کوشش تو ہر ایک کو کرنی چاہئے آگے وہ جو کچھ بن جائے بن جائے لیکن چپ چاپ بیٹھے رہنا اور کوشش نہ کرنا اپنی تباہی کے مترادف ہے.مجھے تعجب ہے کہ رسول کریم میہ کے کامل ہونے کے ثبوت میں جب ہم آپکی دینی و دنیاوی ہر قسم کی خوبیاں پیش کرتے ہیں.جرنیل ہونا کوئی دینی کام نہیں بلکہ دنیوی ہے مگر روحانی تکمیل کے لئے اس خوبی کو بھی ہم پیش کرتے ہیں.پھر رفاہ عام کے کاموں میں حصہ لئے بغیر تکمیل نہیں مانتے تو پھر خود ایک دو نیکیاں کر کے مطمئن ہو کر بیٹھ رہنا کہاں تک درست ہے.پس کوشش کرو کہ ہر قسم کے نیک کاموں میں حصہ لے سکو.میں نے دیکھا ہے اگر ہماری جماعت کسی ایسے کام میں پڑے جو دوسروں کے ساتھ مل کر کیا جاتا

Page 267

خطبات محمود سال ۱۹۳۱ء ہے تو بری طرح فیل ہو جاتی ہے.متواتر تین چار بار میں نے اس کا تجربہ کیا ہے اور ہمیشہ دیکھا ہے کہ ایسی خطرناک شکست ہوئی ہے کہ جس کی حد نہیں.جتنا کام ہو سب کا سب مجھے ہی مرکز میں کرانا پڑتا ہے اور باقی جماعتیں چپ چاپ اس طرح علیحدہ رہ کر دیکھتی رہتی ہیں جیسے کوئی دودھ کا برتن زمین پر گرا کر اس کی طرف کھڑا ہو کر دیکھنے لگ جائے.جب بھی کوئی اس قسم کی تحریک کی جائے دوست کہتے ہیں سمجھ میں نہیں آتا کس طرح کریں.یہی وجہ ہے کہ جماعت کی تکمیل کے وہ پہلو ظاہر نہیں ہوتے جن کے متعلق قابلیت خدا تعالیٰ نے رکھی ہے بلکہ ایسی تحریکات کے وقت بعض تو یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں اس سے کیا کام ہے اور ایسے کاموں سے ہماری جماعت یا روحانیت کو کیا تعلق ہے لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ رسول کریم میں ایک اعلیٰ درجہ کے جرنیل بھی تھے اور یہ آپ کی بہت بڑی خوبی اور آپ کے کمال کا ثبوت ہے.ایسے لوگوں کی مثال تو ایسی ہی ہے جیسے کسی نے گودنے والے سے کہا تھا میرے بازو پر شیر گود دو.اس نے جب سوئی چھوٹی اور درد ہوا تو کہنے لگا کیا بنانے لگے ہو.اس نے کہا دایاں کان.کہنے لگا کیا دائیں کان کے بغیر شیر نہیں ہو سکتا.اس نے جواب دیا ہو تو سکتا ہے.اس نے کہا تو پھرا سے چھوڑو آگے چلو.پھر اس نے بایاں کان شروع کیا.تو پھر اس نے اسی طرح کہا حتی کہ سارا دھر غائب ہو گیا.اصل بات یہ ہے کہ ہر چیز کو الگ الگ کرنے سے کچھ بھی باقی نہیں رہتا.اگر کوئی شخص یہ کہے کہ کیا اچھا جرنیل نبی ہوتا ہے تو میں کہوں گا یہ ضروری نہیں لیکن کامل نبی کے لئے اچھا جرنیل ہونا ضروری ہے.اسی طرح اعلیٰ درجہ کا قاضی ضروری نہیں کہ نبی ہو کافر بھی اچھے اچھے حج ہوتے ہیں کئی ہندو اور عیسائی حج ایسے مشہور ہیں جنہوں نے واقعی دیانتداری کے ساتھ صحیح فیصلے کرنے میں عمر گزار دی.تو ہر اچھا قاضی نبی بے شک نہیں ہو سکتا لیکن نبی کے لئے اچھا قاضی ہونا شرط ہے.بعض معترض کہتے ہیں کہ صرف ان کاموں کے کرنے سے انسان نیک نہیں ہو سکتا.بات بے شک صحیح ہے لیکن نیک بننے کے لئے ضروری ہے کہ انسان ساری نیکیاں اپنے اندر جمع کرے.پس ایک لمبے تجربہ اور دکھ کے احساس کے بعد میں یہ کہنے پر مجبور ہوا ہوں کہ ہماری جماعت کو چاہئے اس بھیڑ چال کی زندگی کو ترک کر دے.ماہرین علم النفس نے تجربہ کیا ہے کہ اگر کسی جگہ فٹ سوافٹ اونچی رہی لگا کر دو چار بھیٹروں کو اسکے اوپر سے گذارا جائے اور بعد میں اس رسی کو ہٹا لیا جائے تو باقی سب بھیڑیں جب وہاں پہنچیں گی ضرور کود کر گذریں گی.یہ زندگی کوئی

Page 268

خطبات محمود ۲۶۳ خوش کن زندگی نہیں کہ ایک ہی طریق پر انسان اندھا دھند چلے.اگر کوئی دوست کسی خاص کام میں ایکسپرٹ بننا چاہے تو یہ اور بات ہے.مثلاً کوئی کہے کہ میں تبلیغ میں ایکسپرٹ ہونا چاہتا ہوں یا چندہ کی فراہمی میں کمال حاصل کرنا چاہتا ہوں اور یہ ثابت بھی ہو جائے کہ وہ واقعی اس کی کوشش کر رہا ہے تو وہ معذور ہے اور جماعتوں کی ترقی کے لئے ماہرین کی بھی ضرورت ہوتی ہے لیکن باقی لوگوں کو ہر خوبی اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.مگر عام طور پر معترضین ماہر بننے کے خواہش مند نہیں ہوتے بلکہ جس کام پر وہ زیادہ زور دیتے ہیں اگر تحقیق کی جائے تو شاید وہ سب سے کم وقت اس کے لئے دینے والے ثابت ہوں گے.بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جو بات بھی پیش کی جائے کہہ دیتے ہیں اس سے ہماری جماعت کا کیا تعلق.مثلا اگر تعلیم کی طرف توجہ کی جائے تو وہ کہہ دیں گے اس پر وقت اور روپیہ خرچ کرنے کا کیا فائدہ ہمارا اصل کام تبلیغ ہے لیکن اگر تحقیق کی جائے تو معلوم ہو گا کہ تبلیغ پر وہ چومیں گھنٹوں میں سے پندرہ منٹ بھی صرف نہیں کرتے ہوں گے.بات صرف یہ ہوتی ہے کہ وہ بہانے بنا کر بچنا چاہتے ہیں.پس ہماری جماعت کا فرض ہے کہ دنیا کے سب اچھے کاموں میں حصہ لینے کی کوشش کرے.انہیں چاہئے Hermits اور متصوفین والی زندگی کو ترک کر کے ایسے مرد میدان بنہیں کہ ہر کام میں دنیا کے لئے نمونہ ہوں اور ان کی فضیلت کو ہر شخص محسوس کرے.ہر وقت چوکس اور چوکنے رہیں اور ان کی مثال ویسی ہی ہو جیسی کسی تابعی نے تقویٰ کی تعریف کی تھی کہ کانٹوں والے رستہ سے ڈھیلا ڈھالا لباس سلامت لے کر نکل جائیں.اگر سب دنیا کو چھوڑ کر ایک محدود دائرہ قائم کر لیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ بس چندے دے کر نماز میں پڑھ کر ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا تو یہ اپنے نفس کو دھوکا دیتا ہے لیکن خدا کو کوئی شخص دھوکا نہیں دے سکتا.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ دین کے مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے اندر تبدیلی پیدا کر سکیں اور نیکی کے ہر میدان کے مرد ثابت ہوں.خداتعالے ہمیں کامیاب کرے.(آمین) (الفضل یکم اکتوبر ۱۹۳۱ء)

Page 269

خطبات محمود 30 مایوسی اور ناقص انکسار کبر اور خود پسندی سے بچو (فرموده ۹- اکتوبر ۱۹۳۱ء) سال ۱۹۳۱ء تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- چونکہ آج کل گاڑی کے جانے کا وقت سوا تین بجے کے قریب ہے اور جو لوگ باہر سے جمعہ کے لئے آئے ہیں انہیں وقت پر پہنچنا ضروری ہے اس لئے میں صرف پانچ سات منٹ میں مختصر خطبہ بیان کروں گا کیونکہ ضروری کام کی وجہ سے مجھے آنے میں دیر ہو گئی ہے اور چونکہ نماز کے معابعد پھر مجھے ضروری کام ہے یعنی جو لوگ کام کے لئے باہر جارہے ہیں انہیں ہدا تیں دینی ہیں اس لئے دوست مصافحہ نہ کریں اور مجھے جانے کے لئے راستہ دیدیں.وہ سورۃ جو میں نے ابھی پڑھی ہے میرا ہمیشہ سے یقین ہے کہ اس کے مطالب پر غور کر کے اور پھر ان پر عمل پیرا ہونے سے انسان کی کامیابی یقینی ہے مگر افسوس کہ لوگ عام طور پر اس چھوٹی سی سورۃ کا بھی ایسے رنگ میں مطالعہ نہیں کرتے کہ اس سے یہ فوائد حاصل کر سکیں باوجودیکہ پچاس ساتھ بار دن میں پڑھتے ہیں مگر اس کے مضامین پر سے اس طرح گذر جاتے ہیں کہ گویا کبھی دیکھی ہی نہیں.یوں بھی انسان جس چیز کو روز دیکھتا ہے اس کا نقشہ کھینچنا مشکل ہوتا ہے.جب کوئی شخص کسی نئے شہر میں جائے تو اس کی ہر چیز کو نہایت غور سے دیکھتا ہے مگر اپنے گھر کے کونوں کی طرف اس نے کبھی اتنی توجہ نہ کی ہوگی اس لئے شاید کثرت سے پڑھنے کی وجہ سے بھی مسلمان اس سورۃ کے مطالب سے غافل ہیں حالانکہ یہ اپنے اندر ایسا حسن رکھتی ہے کہ جس قدر متواتر ا سے پڑھا جائے یہ پہلے سے زیادہ جاذب ہونی چاہئے.انسان اسی صورت میں کامیاب ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی حمد کو کسی صورت اور کسی حالت میں نظر انداز نہ کرے اور کامیابی کی جڑ یہی ہے کہ

Page 270

خطبات محمود ۲۶۵ سال ۱۹۳۱ء انسان اللہ تعالیٰ کی حمد کرے اور اپنے افکار و اعمال کو اس کے تابع کرے.دراصل ناکامی و نامرادی کی دو وجوہات ہوتی ہیں.انتہائی انکسار جس کا ظل ستی اور غفلت ہوتی ہے اور انتہائی تکبر جس کا ظل ظلم اور غضب ہوتا ہے اور یہ دونوں باتیں حمد کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہوتی ہیں.الحمد الله کے معنے یہ ہیں کہ سب خوبیاں اور اعلیٰ صفات خدا کے اندر ہیں اور انسان یہ سمجھ لے تو پھر کبریا غرور اس کے نزدیک کس طرح پھٹک سکتا ہے.تکبر تو اسی وقت پیدا ہو گا جب انسان سمجھے گا میرے پاس کچھ ہے یا میرے اندر فلاں خوبی ہے لیکن جب وہ یہ سمجھے کہ میرا کچھ نہیں جو کچھ ہے اللہ تعالی ہی کا دیا ہوا ہے تو وہ کس طرح فخر کر سکتا ہے جب اس کا اپنا کچھ ہے ہی نہیں تو فخر کس بات کا.جب انسان یہ سمجھے کہ دراصل سب خوبیوں کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اور اس کی ظاہری خوبصورتی یا باطنی علم یا حلم سب خدا تعالیٰ نے دیا ہے.اگر اس کے پاس دولت ہے تو وہ بھی خدا کی عطا کردہ ہے.اور اگر حکومت ہے تو وہ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی ہے اور جب ہر چیز خد اتعالیٰ کی طرف سے ہی عطا ہوتی ہے تو کبر کس بات پر ہو سکتا ہے اسی طرح غضب بھی اس طرح پیدا ہوتا ہے کہ انسان سمجھتا ہے دوسرے کا جو فرض تھا وہ میں نے ادا کیا لیکن جب یہ خیال کرے کہ میں کیا اور میری بساط کیا اگر مجھ سے کچھ کام ہوا ہے تو خدا تعالی کی دی ہوئی توفیق ہے.گویا اگر اپنے کام خدا تعالے کی طرف منسوب کرے تو اس کے لئے کسی کی غفلت پر ناراض ہونے کی کوئی وجہ نہیں - غضب انسان کو اسی وقت آتا ہے جب وہ سمجھتا ہے کہ دو سرا میرے جیسا کام نہیں کرتا.غضب سے یہاں میری مراد تنبیہہ نہیں کیونکہ تنبیہہ دوسرے کی بہتری کیلئے ہوتی ہے لیکن غضب کے اظہار کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ اپنی بڑائی کا اظہار کیا جائے.اور فخر کیا جائے اس سے غرض اصلاح نہیں ہوتی بلکہ دو سرے سے اپنے آپ کو اعلیٰ اور افضل ثابت کرنا ہوتا ہے اور یہ جذبہ اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان سمجھتا ہے کہ جس طرح میں کام کرتا ہوں دو سرا کیوں نہیں کرتا لیکن جب وہ یہ خیال کرے کہ میں کچھ نہیں کر تاخد اتعالیٰ ہی مجھ سے کراتا ہے تو وہ بجائے غضب کا اظہار کرنے کے خدا کا شکریہ ادا کرے گا اس نے مجھے کام کی توفیق دی ہے جو دو سرے کو نہیں دی.ناکامی کی دوسری وجہ انتہائی انکسار ہے.جب انسان یہ خیال کرے کہ میرے پاس کچھ نہیں ہے اور میں کوئی کام کرہی نہیں سکتا تو نا کام رہ جاتا ہے لیکن جب یہ سمجھ لے کہ خدا تعالیٰ کے پاس سب کچھ ہے اور وہ سب خوبیوں کا مالک ہے اور وہ جسے چاہے دے بھی سکتا ہے.تو وہ کبھی مایوس

Page 271

خطبات محمود نہیں ہو سکتا.مایوس ہمیشہ وہی ہوتا ہے جو سمجھے فلاں چیز ہے نہیں یا اگر ہے تو سہی مگر مجھے میسر نہیں آسکتی لیکن جب وہ الحمد اللہ کے جس کے معنے یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ کے پاس سب خزانے ہیں تو نہ ہونے کا تو ازالہ ہو گیا اب آگے میر آنے یا نہ آنے کا سوال رہ گیا اور جب وہ رَبِّ الْعَلَمِينَ " کہتا ہے تو اسے یہ بھی یقین ہو جاتا ہے کہ ہر چیز مجھے مل بھی سکتی ہے اور اس طرح مایوسی کے لئے کوئی جگہ باقی نہیں رہ سکتی.پس اگر صحیح طریق پر اس سورۃ کا مطالعہ کیا جائے تو انسان ایسے مقام پر کھڑا ہو جاتا ہے کہ ایک طرف تو خود پسندی و کبر جس کے نتیجہ میں ظلم اور غضب پیدا ہوتا ہے نزدیک نہیں آنے پاتا اور دو سری طرف انکسار جسے مایوسی کہتے ہیں دور ہو جاتی ہے.پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس سے اس طرف توجہ پیدا ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ سے مانگنا چاہئے کیونکہ وہ کتب العلمین ہے اور سب کو دیتا ہے پس تمہیں ایسا خدا ملا ہے جو ضرورتوں کو پورا کرتا اور مانگنے پر دیتا ہے.دنیا میں ایسے بادشاہ ہوتے ہیں جو خود بخود تو انعام دیتے ہیں لیکن جب ضرورت کے وقت مانگا جائے تو اس مطالبہ کو منظور نہیں کرتے جیسے حکومت برطانیہ ہی ہے.یوں تو ہندوستان کی فلاح و بہبود اور قیام امن کے لئے پوری پوری کوشش کرتی ہے لیکن جب ہندوستانیوں کی طرف سے مطالبہ ہوتا ہے کہ ہمیں فلاں فلاں حق دو.تو یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے کہ اچھا غور کریں گے کہ مصلحت ہے یا نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی حکومت ایسی نہیں وہ اپنے اندر جمہوریت کا رنگ رکھتی ہے باوجودیکہ خدا تعالیٰ قادر مطلق ہے مگر اس نے خود کہہ دیا ہے کہ تم مانگو اور اگر تمہارے مطالبات تمہارے لئے اچھے اور فائدہ مند ہوں گے تو میں انہیں پورا کر دوں گا.پس ہماری جماعت کو چاہئے کہ جہاں مایوسی اور ناقص انکسار سے بچے وہاں کبر اور خود پسندی کو بھی پاس نہ آنے دے اور خوش ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے اپنی رحمتوں کے دروازے کھلے رکھے ہیں اور ہر شخص دعا کرے کہ وہ ان میں داخل ہو سکے کیونکہ جیسا کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ تم کھٹکھٹاؤ تمہارے لئے کھولا جائے گا.جو ان میں داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے اگر خدا تعالیٰ کا فضل شامل ہو تو داخل بھی ہو جاتا ہے.(الفضل ۱۵ اکتوبر ۱۹۳۱ء) ال الفاتحة ٢ ٣ متی بابے آیت سے بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۹۴ء ( مفهوماً) I

Page 272

۲۶۷ 31 خطبات محمود قربانی کا مطالبہ نہیں بلکہ بیج کو صحیح جگہ پر ڈالنے کا مشورہ ہے (فرموده ۲۳- اکتوبر ۱۹۳۱ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اخلاص بھی ان چیزوں میں سے ہے جو دنیا میں انسان کی حیثیت کو بڑھاتی ہیں لیکن اسلام کی بنیاد عقل اخلاص اور عمل پر رکھی گئی ہے.اسلام نے نہ تو اخلاص کی روح کو کھلا چھوڑ دیا ہے نہ صرف عقل کے دروازوں پر اکتفا کی ہے اور نہ ہی عمل کے ترک پر عقل و اخلاص کے نتائج مترتب ہو سکتے ہیں.مجھے اس تمہید کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ آج مصافحہ کے لئے خاص انتظام کرنا پڑا.میں نے دیکھا ہے بعض مواقع پر ضرورت محسوس ہونے کے باوجود بعض احباب قانون کی پابندی پسند نہیں کرتے.جب سے اللہ تعالیٰ نے مجھے خلافت کے منصب پر فائز کیا ہے میں نے کبھی بھی دوستوں سے مصافحہ کرنے سے اجتناب یا ان کے ہجوم سے گھبراہٹ کا اظہار نہیں کیا.باوجود اس کے کہ بعض دوستوں نے بعض مصالح کے ماتحت مشورہ بھی دیا کہ اس میں کمی ہوئی چاہئے مگر میں نے اس بات کو کبھی پسند نہیں کیا کیونکہ یہ اخلاص کی روح کو کچلنے والی بات ہے.قرآن کریم میں خصوصیت کے ساتھ سورۃ لقمان میں ذکر ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو اعلیٰ مقام پر فائز کرتا ہے تو اس کی دوسری علامتوں میں سے ایک علامت یہ ہوتی ہے کہ لوگ اس کے ارد گرد ہجوم کرتے ہیں اور اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اسے برانہ منائے بلکہ ہر ایک کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملے لیکن بعض دفعہ ضرورت مجبور کر دیتی ہے کہ شاید آج کے انتظام کے متعلق میں کچھ نہ کہتا لیکن باہر سے آئے ہوئے ایک دوست نے مجھے ایک چٹھی لکھی ہے جسکی وجہ سے مجھے اس کے متعلق کچھ کہنا پڑا.چونکہ انسان کو جو تکلیف ہوتی ہے اسے یا تو وہ خود محسوس کر سکتا

Page 273

۲۶۸ سال ۱۹۳۱ء ہے یا علاج کرنے والا اس لئے عام طور پر لوگ سنی سنائی بات پر غلط انداز کرلیتے ہیں.پچھلے لاہور کے سفر کے بعد میری بغل کے نیچے قریباً چار انچ لمبائی اور تین انچ چوڑائی میں پھنسیاں نکل آئی تھیں اور آج پہلا موقع ہے کہ میں بازو کو جسم کے ساتھ جوڑ سکا ہوں یا پرسوں چند منٹ کے لئے ایسا کیا تھا جب ایک جنازہ کے لئے باہر آباد گر نہ میں بازو کو جسم سے ملا نہ سکتا تھا حتی کہ نماز کے لئے بھی گاؤ تکیہ رکھنا پڑتا تھا.قریباً چالیس پچاس پھنسیاں تھیں لیکن باوجود اس کے میں بعض دوستوں کو ملنے کا موقع دیتا رہا حالانکہ ڈاکٹری مشورہ کے ماتحت مجھے کسی سے نہ ملنا چاہئے تھا اور مکمل آرام کرنا چاہئے تھا تا حرکت بالکل نہ ہو لیکن دوستوں کی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے میں انہیں ملاقات کا موقع دیتا رہا.مگر چونکہ قاعدہ ہے کہ ہر انسان اپنی ضرورت کو زیادہ اہم سمجھتا ہے اس لئے ایک نے جسے ملاقات کا موقع نہ مل سکا مجھے چٹھی لکھی کہ اگر خواب کے ذریعہ میں نے آپ کی بیعت نہ کی ہوتی تو آج اسے توڑ دیتا.میں سمجھتا ہوں یہ بات انسانی کمزوری سے انتہاء درجہ کی بے خبری کا نتیجہ ہے.انسان کو خدا تعالیٰ نے بعض قوانین کے ماتحت اس طرح جکڑا ہوا ہے کہ وہ خواہ نبی ہو یا ولی ان سے مستثنیٰ نہیں ہو سکتا.اور ان میں سے ایک بیماری ہے.وہ جب آتی ہے تو سب کے لئے یکساں تکلیف کا موجب ہوتی ہے بلکہ جن کو اللہ تعالیٰ سے تعلق ہوتا ہے یا جن پر کوئی دینی یا دنیادی ذمہ داری ہوتی ہے ان کو تکلیف زیادہ ہوتی ہے کیونکہ وہ زیادہ حساس ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک دفعہ جب بھڑنے کا ٹا تو آپ سے اسقدر کرب کے آثار ظاہر ہوئے کہ اس عمر کے لحاظ سے مجھے سخت حیرت ہوئی مگر بعد کے دماغی کام نے بتایا کہ اس سے حس زیادہ تیز ہو جاتی ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دوسروں کی نسبت زیادہ تکلیف محسوس ہوتی ہے.لیکن اس کے علاوہ بھی بعض تکالیف سخت ہوتی ہیں.اور وہ سخت سے سخت طبیعت والے کو بھی کمزور کر دیتی ہیں.پس ان حالات کا لحاظ نہ کرنا انسانی کمزوری کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے.اس رقعہ کو پڑھ کر مجھے سخت تعجب ہوا حالانکہ میں لیٹے لیٹے بھی کام کرتا رہا ہوں اور دوستوں کو ملاقات کا موقع بھی دیتا رہا ہوں مگر اس میں میں نے یہ امر مد نظر ر کھا کہ جو دوست سال یا دو سال سے نہیں مل سکے ان کو موقع دیا جائے.لیکن ان صاحب کو میں اسی سال میں پہلے بھی مل چکا ہوں جبکہ وہ کافی عرصہ تک اپنے اور اپنے خاندان کے حالات وغیرہ بیان کرتے رہے.قریب کے رہنے والوں کو ملاقات کے مواقع دور رہنے والوں سے زیادہ میسر آسکتے ہیں مگر میں حیران

Page 274

محمود ۲۶۹ سال ۱۹۳۱ء ہوں کہ ان صاحب نے رکاوٹوں کا اندازہ کئے بغیر یہ لکھ دیا کہ اگر خواب کی بناء پر بیعت نہ کی ہوتی تو میں اسے تو ڑ دیتا حالانکہ میں سمجھتا ہوں اس قسم کی تحریر کے بعد بیعت خواہ وہ خواب کی بناء پر کی گئی ہو یا الہام کی بناء پر اخلاقی طور پر خود بخود ٹوٹ جاتی ہے.یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ کوئی شخص کے خدایا اگر تو میرا خدا نہ ہوتا تو میں تجھے گالیاں دیتا.سو آج مصافحہ کے متعلق جو انتظام کیا گیا اس کی وجہ یہی ہے کہ پرسوں جب میں باہر گیا تو لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے زخم چھل گئے اور اگر چہ پھنسیوں میں اب پیپ نہیں لیکن بعض زخم ہرے ہیں اور میرے زخموں کی کیفیت بھی کچھ ایسی ہے کہ ذراسی تکلیف سے پھر ہرے ہو جاتے ہیں.اس کے بعد میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمیں ایسا موقع میسر ہے جو دنیا میں اور کسی قوم کو نہیں ہمیں اس سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہئے.دنیا کے اندر کوئی شخص ایسا نہیں ملے گا جو قربانی نہ کرتا ہو ہم جب یہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص قربانی نہیں کرتا تو اس کے معنے صرف یہ ہوتے ہیں کہ جس چیز کے لئے کرنی چاہئے اس کے لئے نہیں کرتا اور جس کے لئے نہ کرنی چاہئے ، اس کے لئے کرتا ہے.وگرنہ دنیا میں کوئی ذلیل ترین انسان بھی ایسا نہ ملے گا جو کسی نہ کسی چیز کے لئے قربانی نہ کرتا ہو.ایک مُسرف انسان اپنے نفس کے لئے قربانی کرتا ہے.لیکن خدا اس کے دین ملک، قوم اور بنی نوع انسان کے لئے نہیں کرتا.اگر ہم ایک بخیل کو دیکھیں تو وہ بھی قربانی کر رہا ہے اور اس احساس کے ماتحت کہ روپیہ قیمتی چیز ہے وہ اپنے نفس کی قربانی کر رہا ہوتا ہے.وہ اچھا کھانا نہیں کھاتا، اچھا کپڑا نہیں پہنتا اپنے بیوی بچوں کے آرام و آسائش کا خیال نہیں کرتا اور اس سے بڑھ کر اور کیا قربانی ہو سکتی ہے.یہی قربانی ہے جو ایک مومن بھی کرتا ہے فرق صرف یہ ہے کہ مومن مال کو خدا کی راہ میں خرچ کر کے اپنے نفس کو تکلیف میں ڈالتا ہے اور بخیل اسے جمع کر کے.لیکن بات وہی ہے ، ایک اپنی جیب میں روپیہ ڈالتا ہے اور کھاتا پیتا نہیں دوسرا خدا کے رستہ میں خرچ کر کے کم کھاتا پیتا ہے گویا تکلیف کے لحاظ سے دونوں ایک ہیں.اور جب یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص قربانی نہیں کرتا تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ وہ خدا کی راہ میں قربانی نہیں کرتا وگرنہ دنیا میں ہر ایک انسان قربانی کرتا ہے جس چیز کی خاطر اسے منظور ہوتی ہے اسے بچالیتا اور باقی کو قربان کر دیتا ہے.مومن کو خدا کی محبت ہوتی ہے اس لئے وہ اسے قائم رکھنے کیلئے باقی سب کچھ قربان کر دیتا ہے لیکن بخیل کو روپیہ عزیز ہوتا ہے جسے بچانے کے لئے وہ باقی چیزوں کو قربان کر دیتا ہے تو قربانی ہر ایک کرتا ہے.ایک

Page 275

خطبات ۲۷۰ سال ۱۹۳۱ ء بھی انسان دنیا میں ایسا نہیں جو نہ کرتا ہو فرق صرف اچھی یا بری جگہ کا..پس جب دنیا میں ہر ایک شخص قربانی کر رہا ہے اور قرآن کریم بھی یہی فرماتا ہے وَلِكُلِّ وَجْهَةٌ هُوَ مُوَلَّيْهَا یعنی ہر ایک انسان کے سامنے ایک مقصد ہوتا ہے اس کی طرف اپنی تمام توجہ کر کے وہ باقی سب سے منہ پھیر لیتا ہے اور باقی کو قربان کر دیتا ہے تو ثابت ہو گیا کہ دنیا میں ہر انسان کسی نہ کسی چیز کے لئے قربانی کرتا ہے کیونکہ اگر ایسے لوگ بھی دنیا میں ہوں جو ایسا نہ کرتے ہوں تو یہ آیت صحیح نہ ہوگی اور قرآن کی تکذیب لازم آئے گی.پس دنیا میں ہر ایک انسان قربانی کرتا ہے.اور جب ہم یہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص قربانی نہیں کرتا تو اس کے معنے صرف یہ ہوتے ہیں کہ اچھی چیز کے لئے نہیں کرتا اور خدا تعالیٰ کے دین یا اس کے بندوں کی بہبودی کے لئے نہیں کرتا.پس جب ہر ایک انسان قربانی کرتا ہے تو فرق صرف یہ ہوا کہ مومن خدا تعالیٰ کے لئے قربانی کرتا ہے اور غیر مومن دوسری چیزوں کے لئے اور یہ فرق کوئی ایسی چیز نہیں کہ اسے کوئی خاص اہمیت دی جاسکے کیونکہ مومن سے صرف یہ مطالبہ ہوتا ہے کہ جب اس نے قربانی کرنی ہی ہے تو کسی دوسری چیز کے لئے کرنے کے بجائے خدا تعالیٰ کے لئے کرے تاجہاں دوسروں کی قربانیاں ضائع ہوں وہاں اس کی قربانی اس کے لئے فائدہ کا موجب ہو.جب ایک شخص کو مجبور کیا جائے کہ اس نے ایک من دانے ضرور باہر پھینکتے ہیں خواہ وہ پتھر پر پھینک دے اور خواہ ہل چلی ہوئی زمین میں تو پھر عقلمند وہی ہے جو پتھر پر پھینک کر دانہ ضائع نہ کرے بلکہ ہل چلی ہوئی زمین میں پھینکے جہاں وہ پھر پھل لا سکے.بعض نادان کہتے ہیں کہ ہم سے خاص قربانی کا مطالبہ کیا جاتا ہے حالانکہ خدا تعالیٰ کسی کی قربانی کا محتاج نہیں اس کا منشاء صرف یہ ہے کہ تم جو لغو قربانی کرتے ہو اسے اپنے فائدہ کے لئے کرو.جس شخص سے دین کے لئے قربانی کا مطالبہ کیا جاتا ہے فرض کرو وہ نہ کرے تو پھر کیا کرے گا؟ وہ روپیہ جمع کر کے اپنے نفس پر اپنے بیوی بچوں کے آرام و آسائش پر خرچ کرے گا.گویا روپیہ بہر حال اس کا خرچ ہو جائے گا.اس کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ یہ تو نہیں کہتا کہ تم فاقے کرو لیکن اگر روزانہ مرغ یا پلاؤ نہ پکائے جائیں تو کیا حرج ہے اور اس سے فائدہ بھی کیا ہے.انسانی جسم میں ترقی ایک حد تک ہی ہو سکتی ہے اس سے زیادہ کسی صورت میں نہیں ہو سکتی اور ایسے خرچ کا کوئی فائدہ بھی نہیں.اس کے مقابلہ میں اگر اپنے چسکہ میں کمی کر دی جائے اور وہی روپیہ خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیا جائے تو وہ آئندہ بھی اس کے لئے ثمرات کا موجب ہو گا.غرض ہم کسی سے قربانی کا مطالبہ نہیں کرتے کیونکہ قربانی تو ہر حال میں انسان کو کرنی ہی پڑتی ہے

Page 276

خطبات محمود سال ۱۹۳۱ء ہم تو صرف جگہ بدلتے ہیں ہر قربانی جو انسان دنیا میں کرتا ہے ضائع جاتی ہے لیکن جو قربانی خدا کے لئے کی جائے وہ بچ جاتی ہے.پھل لاتی ہے چنانچہ حضرت مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں اپنے واسطے زمین پر مال جمع نہ کرو جہاں کیڑا اور زنگ خراب کرتا ہے.اور جہاں چور نقب لگاتے اور چراتے ہیں بلکہ اپنے لئے آسمان پر مال جمع کرو.جہاں نہ کیڑا خراب کرتا ہے نہ زنگ اور نہ وہاں چور نقب لگاتے اور چراتے ہیں.۳۰ قرآن کریم میں آتا ہے اس طرح یہ مال نہ صرف محفوظ رہتا ہے بلکہ ترقی بھی کرتا ہے اور اس قدر بڑھتا ہے کہ انسان اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتا اسی ترقی کے متعلق رسول کریم میں نے فرمایا ہے مَا لَا عَيْنَ رَأَتْ وَلَا أُذُنَّ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرِ یعنی نہ ہی کسی آنکھ نے قربانی کی اس ترقی کو دیکھا ہے نہ ہی کسی کان نے سنا اور نہ ہی کوئی انسانی قلب اس کا قیاس کر سکتا ہے.پس وہ پیج جو اس جگہ بویا گیا جہاں وہ بڑھا اور لا محدود ترقی کی بہر حال اچھا ہے اس سے جو پتھروں پر ڈالا گیا.بعض نادان خیال کرتے ہیں کہ ہم سے دین کے لئے قربانی کرائی جاتی ہے حالانکہ قربانی تو وہ پہلے ہی کرتے ہیں مسرف انسان اپنی جان بچاتا ہے اور روپیہ خرچ کرتا ہے بخیل جان خرچ کر کے روپیہ جمع کرتا ہے.قربانی تو بہر حال ہر انسان دنیا میں کرتا ہے مطالبہ تو صرف اتنا ہے کہ اپنے بیج کو پتھر پر نہ ڈالو بلکہ ہل چلی ہوئی زمین میں ڈالو جہاں وہ بڑھے اور ترقی کرے.اور ایسے مشورہ پر برا مانا ایسا ہی ہے جیسا کہتے ہیں کہ کوئی بے وقوف شخص کہیں بطور مہمان گیا.میزبان روزانہ اسے اچھے اچھے کھانے کھلاتا نرم نرم بستروں پر سلاتا اور خوب اچھی طرح خاطر و تواضع کر تا جب وہ واپس گیا تو دیر کے بعد ملنے کی وجہ سے اس کی ماں رونے لگ گئی.اس پر اس نے کہا ماں جیسی مصیبتیں میں نے دیکھی ہیں خدا کسی دشمن کو بھی نہ دکھائے روزانہ مجھے کیڑے کھلاتے تھے اور نیچے اوپر روئی ڈال کر کوٹتے تھے.پس جسے کہا جاتا ہے کہ خداتعالی کے لئے مال ، عقل وقت جان خرچ کرے وہ اسے اگر اپنے اوپر زیادتی یا ظلم تصور کرتا ہے تو اس کی مثال بھی اسی بیوقوف کی سی ہے جو پلاؤ کو کپڑے سمجھتا تھا.دنیا میں کون ایسا شخص ہے جو یہ چیزیں خرچ نہیں کرتا ہر ایک کرتا ہے ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ ہیو قوقو پتھر پر دانے نہ پھینکو خدا نے جو کھیت تیار کیا ہے اس میں بود و تا پھر بھی تمہاری یہ چیزیں تمہارے کام آسکیں.ذرا سوچو تو سہی کیا اس کا نام بوجھ یا قربانی ہے.اسے بوجھ سمجھنا تو ایسا ہی ہے جیسے کسی بھولے بھٹکے انسان کو راہ پر لگایا جائے اور وہ رونے لگ جائے.اس مشورہ پر اعتراض کرنا یا برا منانا ایسا ہی ہے جیسے عیسائی کہتے ہیں شریعت

Page 277

خطبات محمود ۲۷۱ سال ۱۹۳۱ء ایک لعنت ہے حالہ نکہ اگر کوئی شخص شریعت پر عمل کرتا ہے تو اس میں خدا کا کیا فائدہ ہے اگر کوئی شخص نماز پڑھتا ہے تو وہ خدا کو کیا دے دیتا ہے.کیا جسے صحیح راستہ بتایا جائے وہ رویا کرتا ہے یا شکر گزار ہوتا ہے.ہم کسی سے قربانی طلب نہیں کرتے بلکہ صرف یہ کہتے ہیں کہ اپنے مال کنویں میں مت پھینکو.یہ محض جھوٹ اور افتراء ہے کہ خدا کے لئے قربانی کا مطالبہ ہے ہرگز نہیں بلکہ صرف یہ مطالبہ ہے کہ بیج صحیح جگہ پر ڈالو سورۃ بقرہ کے آخر میں خدا تعالیٰ نے اس امر کا ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے.اگر پتھر پر بیچ ڈالو گے تو خواہ اس پر مٹی بھی پڑی ہوئی ہو پھر جب بارش آئے گی بیج بہہ جائے گا ہے.اس لئے عمدہ زمین میں بیج ڈالو خوب یا د رکھو.خدا رسول خلیفہ بلکہ کوئی مومن بھی کسی سے قربانی کا مطالبہ نہیں کرتا بلکہ صرف یہ مشورہ دیتا ہے کہ اپنے بیج اچھی زمین میں ڈالو تاوہ ضائع نہ ہوں.اور اگر اس حقیقت کو ہماری جماعت مجھے لے تو بہت سے کام آسان ہو سکتے ہیں.بعض نادان خیال کرتے ہیں کہ ہم سے قربانی کرائی جاتی ہے مگر یہ نہیں سوچتے کہ ان کی قربانی سے ہمیں کیا فائدہ ہو سکتا ہے.ہماری ذات پر تو وہ خرچ نہیں ہو گا پھر خدا کو بھی کسی کی قربانی کی کیا ضرورت ہے وہ تو خود سونے چاندی کا پیدا کرنے والا ہے.ہم تو صرف تمہاری بھلائی کا مشورہ دیتے ہیں اور اگر غور کرو تو اس کے لئے شکر گزار ہونا چاہئے کہ ہم نے تمہارے بیج کو ضائع ہونے سے بچالیا.ہاں اگر کسی کو خداتعالی پر ہی ایمان نہ ہو تو اس کا معاملہ علیحدہ ہے اسے چاہئے پہلے اپنے چشمہ کو صاف کرے اس کا منبع خراب ہے جہاں سے گندہ پانی نکلتا ہے.جس سے اس کے اپنے جسم اور ارد گرد بھی خرابی پھیلے گی.اس کے بعد میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے پھر ایک ضرورت کے لئے لاہور جانا پڑا ہے.میرے بعد مولوی شیر علی صاحب امیر ہونگے دوست جاتی دفعہ بھی مصافحہ نہ کریں اور مجھے راستہ دیدیں کیونکہ جھٹکے سے درد محسوس ہوتا ہے.میں نے خطبہ کے شروع میں کہا تھا کہ ہمیں اللہ تعالٰی نے ایسا موقع دیا ہے کہ کسی اور کو نصیب نہیں اس کے فضل سے ہمارے لئے ترقیات کے راستے کھل رہے ہیں مگر ضرورت ہے کہ ہم بھی پہلے سے زیادہ خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں.میں نے کہا تھا کہ دوستوں کو کم از کم جمعہ کی رات کو تسجد ضرور پڑھنی چاہئے.آج کل دعاؤں کی قبولیت کا خاص طور پر موقع ہے اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے.جب انسان اپنے اندر اخلاص پیدا کر لے اور خدا تعالٰی سے تعلق قائم کرلے تو تمام خدشے اور وساوس دور ہو جاتے ہیں اور اس کے دل میں کسی قسم کی ظلمت باقی نہیں رہتی تمام وساوس خود بخود مٹ جاتے ہیں خواہ ظاہری علوم میں وہ کامل نہ بھی ہو.رسول کریم میں یہ بالکل ان پڑھ

Page 278

خطبات محمود ۲۷۳ سال ۱۹۳۱ء تھے لیکن کیا کبھی آپ کو کوئی بھی مسئلہ کسی بڑے سے بڑے عالم سے پوچھنے کی ضرورت پیش آئی؟ اللہ تعالی خود ہی سب کچھ آپ کو سکھاتا تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کو بھی دینی علوم خود اللہ تعالٰی نے سکھائے.دنیوی علوم سے تعلق رکھنے والی بات کا کسی سے پوچھ لینا اور بات ہے لیکن دینی علوم اپنے برگزیدہ بندوں کو خود خدا تعالٰی سکھاتا ہے حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ قرآن کریم کی کوئی آیت ایسی نہیں کہ دشمن نے اس پر اعتراض کیا ہو اور خداتعالی نے مجھے اس کی حقیقت نہ سمجھادی ہو.چند ایک آیات تھیں جن کے متعلق آپ فرماتے.کاش کوئی دشمن اعتراض کرے تا ان کی حقیقت بھی منکشف ہو جائے.مجھ پر اللہ تعالٰی کا خاص فضل ہے کہ کوئی بھی آیت قرآنی ایسی نہیں جو میری سمجھ میں نہ آتی ہو.تو اگر انسان اللہ تعالیٰ پر توکل کرے تو وہ خود ایسے رستے اس کے لئے پیدا کر دیتا ہے کہ کوئی بھی مصیبت اس پر نہیں آتی نہ ہی اس کے دل میں کسی قسم کے وساوس پیدا ہوتے ہیں اور وہ ایسے میدان میں کھڑا ہو جاتا ہے جہاں سورج کی شعائیں براہ راست اس پر پڑتی ہیں اور مومن کو چاہئے خدا تعالیٰ سے ایسا تعلق پیدا کرے.بعض جنازے ہیں جو میں نے پڑھانے ہیں مگر چونکہ آج جمعہ کے بعد مجھے جلدی ہے.اس لئے انشاء اللہ تعالی آئندہ جمعہ میں پڑھاؤں گا.(الفضل ۲۹اکتوبر ۱۹۳۱ء) لقمن : 19 البقرة : ١٤٩ ہ متی باب ۶ آیت ۲۰۱۹ بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۹۴ء بخارى كتاب التفسير سورة السجدة باب قوله فلا تعلم نفس ما أخفي لهم

Page 279

خطبات ۲۷۴ 32 سال ۹۳۱ سخت مخالفت کے باوجود جماعت کو آگے بڑھنا چاہئے (فرموده ۶ نومبر ۱۹۳۱ء بمقام لاہور) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنے ماحول کو دیکھے.اگر کوئی شخص اپنے نفس پر یقین رکھتا ہے تو عموماً وہ کامیاب ہو جاتا ہے لیکن اگر وہ اپنے گردو پیش کے حالات کو اپنی قوت سے زیادہ درجہ دیتا ہے.تو مایوس ہو جاتا ہے اور اپنے آپ کو حقیر قرار دینے سے اس کی طبیعت میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے جوش پیدا نہیں ہوتا.انسان کا نفس ہر تعصب سے آزاد اور مطمئن ہونا چاہئے کیونکہ گناہ وہ ہوتا ہے جس کی کھٹک دل میں باقی رہ جاتی ہے.ہماری جماعت کو اپنے ماحول کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ وہ دو قسم کا ہے اول تو یہ کہ ہم اقلیت میں ہیں اور اقلیت بھی وہ اقلیت جس کی بنیاد جنگ پر ہے بعض اقلیتیں ایسی ہوتی ہیں جن کی بنیاد صلح پر ہوتی ہے.دنیا میں ایک نذیر آیا.پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا.اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا لے پس جس سچائی کا حامل ہمیں بنایا اس کے لئے ضروری تھا کہ وہ زور آور حملوں سے پوری ہو.مسیح نے آکر کہا تھا کہ میں تلوار چلانے کے لئے آیا ہوں صلح کرنے کے لئے نہیں آیا.باوجودیکہ اس کی تعلیم ایک گال پر تھپڑ کھانے کیساتھ دوسری گال بھی پھیر دینے کی تھی.دراصل عیسائیوں نے اس کے معنے بدل دیئے ورنہ مسیح نے اسے جس طرح استعمال کیا تھا وہ صحیح تھا.مسیح کا مطلب یہ تھا کہ میں اپنی بات کو لے کر کھڑا ہو جاؤں گا جو مانتا ہے مانے جو لڑنا چاہے وہ لڑے.ہماری تعلیم بھی یہی ہے کہ ایک طرف تو گالیاں کھائے جاؤ مگر دوسری طرف سچائی کو پھیلانے میں کسی قسم کی سستی نہ کرو.پس ہم ایک طرف صلح کے لئے آئے ہیں اور دوسری طرف سچائی پر اڑ

Page 280

خطبات محمود ۲۷۵ سال ۱۹۳۱ء کر کھڑے ہونے کے لئے.اور دراصل کامیابی کا گر بھی یہی ہوتا ہے.ہم دیکھتے ہیں بحیثیت قوم لوگ ہمارے مخالف ہیں جو مسلمان ہمارے خلاف ہیں وہ بھی مسلمان کہلاتے ہیں ہمارے مفاد اکثر متفق ہیں مگر ان کا ہمارے ساتھ کیا سلوک ہے ؟ اگر ہم کسی وقت ان کی مدد کرتے ہیں تو وہ ہمیں منافق کہتے ہیں اور اگر ہم الگ ہو جاتے ہیں تو کہتے ہیں ہماری مصیبتوں میں ہمار ا ساتھ نہیں دیتے.میں نہیں سمجھ سکتا وہ چاہتے کیا ہیں.ان کی مثال شتر مرغ کی سی ہے کسی نے اس سے کہا " اُڑو " تو اس نے جواب دیا ”بھلا کبھی حیوان بھی اُڑا کرتے ہیں لیکن جب اسے کہا گیا کہ ”اچھا بوجھ اٹھاؤ " تو کہنے لگا " بھلا کبھی پرند بھی بوجھ اٹھاتے ہیں تو ہماری مخالفت کی کوئی نہ کوئی تدبیر سوچ ہی لی جاتی ہے.اگر اچھے اچھے سمجھدار لوگ باوجود اپنے بھائیوں کی مخالفت کے ہمارے ساتھ مل کر کام کریں تو ۹۵ فیصد یہی کہتے ہیں کہ تم کو کام کے لئے کس نے بلایا ہے ؟ مگر ہم وقت پر ان کی مدد کو نہ آئیں تو کہتے ہیں ہمار ا ساتھ نہیں دیتے.ایک مشہور حکایت ہے کہ ایک آدمی کسی عورت سے شادی کر کے کسی نہ کسی بہانہ سے طلاق دیدیا کرتا تھا اور اس کے مال پر قبضہ کر لیتا تھا.آخر کار اسے ایک ایسی بیوی ملی جس میں وہ کوئی نقص نہ نکال سکا ایک دن بیوی روٹی پکا رہی تھی وہ باورچی خانہ میں جا بیٹھا اور کہنے لگا.آج میں کھانا نہیں کھاؤں گا.آخر کار اس نے کہا کہ تو روٹی تو ہا تھوں سے پکا رہی ہے مگر تیری کہنیاں کیوں ہلتی ہیں.بیوی نے جواب دیا کہ تم روٹی اطمینان سے کھاؤ اس کا جواب بھی دے دیتی ہوں.میاں جب روٹی کھا رہا تھا تو بیوی نے کہا کہ روٹی تو تم منہ سے کھاتے ہو تمہاری ڈاڑھی کیوں ہلتی ہے.تو در اصل بعض لوگ بہانوں سے لڑتے ہیں.کسی بکری کے بچے کو بھیڑیے نے کہا کہ تم ندی کا پانی کیوں گدلا کرتے ہو.اس نے جواب دیا کہ پانی تو تمہاری ہی طرف سے آرہا ہے.بھیڑیئے نے کہا ارے تم ہمارے سامنے بولتے ہو اور اسے وہیں تھپڑ مار کر ہلاک کر دیا.دراصل یہ لوگ کثرت کی وجہ سے دلیر ہوتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں ایک احمدی کے مقابلہ میں ان کا ہزار آدمی ہے اس لئے وہ جو بات کہتے ہیں وہی صحیح ہے.مسلمانوں کے علاوہ دوسری اقوام بھی ہماری مخالف ہیں.کل ایک دوست نے سنایا کہ کسی ہندو وکیل نے انہیں بتایا کہ آج کل ہندو اس بات پر تلے بیٹھے ہیں کہ احمدیوں کو جہاں تک ممکن ہو اور جس طریق پر بھی ممکن ہو نقصان پہنچا ئیں.اور ہمارا ایک ماحول تو یہ ہے لیکن یاد رکھو جس کے دل میں انسانیت کی شمع روشن ہوتی ہے وہ مشکلات سے گھبرا تا نہیں بلکہ ہمت ہارنے کی بجائے اس کی ہمت بلند ہو جاتی ہے.دشمن کی عدم موجودگی میں

Page 281

خطبات محمود سال ۱۹۳۱ء جویہ دماغ خالی ہوتا ہے لیکن دشمن کے مقابلہ میں دماغ پر معارف کھلنے لگتے ہیں اس فطرتی اصل کے ماتحت مخالفت کے زمانہ میں ہماری جماعت کو اور دلیر بن جانا چاہیئے.اگر ہم میں کوئی ایسا شخص ہے کہ وہ مصیبت اور گھبراہٹ میں گھبرا جاتا ہے تو اسے چاہئے کہ گھر میں بیٹھ جائے ہم میں اس کی جگہ نہیں ہے.ہماری بنیاد قربانی پر ہے قربانیوں پر ہی ہماری جماعت کا وسطی حصہ ہے اور قربانی پر ہی اختتام ہے وہی لوگ اس جماعت میں آئیں جو بائیکاٹ سہنے گالیاں سننے اور ماریں کھانے کے باوجود ثابت قدم رہیں.یہ گالیاں اور تکالیف تمام ہماری خیر خواہی کے نتیجہ میں ہیں.پس ہمارا یہ فرض ہے کہ اس خیر خواہی کو اختتام تک پہنچائیں.روپیہ اوقات ، عزتیں اور جائدادیں قربان کی جاسکتی ہیں مگر خدا اور اسکار سول قربان نہیں کئے جاسکتے.یہ کہتا ہے کہ میں خدا اور خدا کے رسول میں سے کچھ لے لیتا ہوں اور کچھ چھوڑ دیتا ہوں وہ خدا اور نہا کے رسول کو نہیں پاسکتا.اگر ہمارے کام اس غرض سے ہیں کہ ہم خدا کے لئے کرتے ہیں تو اگر ہم ذرہ بھر بھی چھوڑ دیتے ہیں تو غلطی کرتے ہیں.پس ہمارا مقصود ایسا نازک ہے کہ جب تک ہم پوری طرح قدم نہ رکھیں ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.ہمارا دوسرا ماحول یہ ہے کہ خدا کے رسول اور ان کی جماعتوں کے پیچھے شیطان پڑا ہوتا ہے مگر خدا کے فرشتے اس کے بندوں کے گرد آجاتے ہیں اور اس کی رحمت کی لہریں اس کے بندوں کے چاروں طرف بلند ہو جاتی ہیں.پس جب ہم دشمن کے ماحول کو دیکھتے ہیں تو الٹی ماحول کو دیکھتے ہوئے بھی تو ہمارا فرض ہے کہ کام کریں.یہ بات انسانی فطرت میں داخل ہے کہ جب کوئی دیکھتا ہے میرا آقا میرے پیچھے کھڑا ہے تو بلند ہمت ہو کر تیزی سے کام کرتا ہے لیکن أَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجهُ الله س کے مطابق ہمارا آقاخد اتعالیٰ تو ہمارے چاروں طرف کھڑا ہوتا ہے اس لئے ہمیں جسقدر جرأت اور حوصلہ کا اظہار کرنا چاہئے وہ ظاہر ہے.یاد رکھو.نفسی ذمہ داری سے قومی ذمہ داری بہت زیادہ ہوتی ہے اور اگر کوئی شخص اکیلا ہو تو اکیلا ڈوبے گا لیکن اگر اس کے ساتھ رتی سے پچاس آدمی بندھے ہوں تو وہ سب کو لے ڈوبے گا قومی کمزوریاں نفسی کمزوریوں سے بہت بالا ہوتی ہیں.پس قربانی کرنا سیکھو اوریا درکھو کہ ذراسی غفلت خطرناک نتائج کا موجب ہو سکتی ہے.پہلے مسیح کو لوگوں نے صلیب پر چڑھا دیا تھا مگر خدا نے دوسرے مسیح کو بھیجا کہ صلیب کو توڑ دے.کسی فعل کا تکرار پہلی خامیوں کی اصلاح کی غرض سے ہوتا ہے.جب ہمارے چاروں طرف خدا تعالٰی ہے تو ہمارا ایمان بڑھ جانا چاہئے.اگر انسانی کوشش پر ہماری بنیاد ہوتی تو ہم کب کے تباہ ہو گئے ہوتے موجودہ مخالفت کیا ہے اگر اس

Page 282

خطبات محمود ۲۷۷ سال ۱۹۳۱ء سے دس کروڑ درجہ بھی بڑھ جائے ہمیں تب بھی فکر نہیں کرنا چاہیئے ہم تو خدا کے ہاتھ میں ہیں.پچاس سال سے ہماری جماعت چلی آتی ہے اگر یہ خدا کی طرف سے نہ ہوتی تو کیا آج تک اس کے زندہ رہنے کی کوئی بھی صورت تھی.ایک بچہ کے نزدیک سب سے مددگار اور طاقتور ہستی اس کی ماں ہوتی ہے.ایک دفعہ کسی بادشاہ نے ایک بچہ کو چھیڑ دیا بچہ نے کہا میں اپنی ماں کو بتلا دوں گا.لیکن ہمارا جس کے ساتھ تعلق ہے وہ ہستی خدا تعالیٰ ہے.۱۹۱۳ء میں جب میں نے الفضل نکالا تو سید انعام اللہ شاہ صاحب گھبرائے ہوئے میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ نے مسجد کانپور کے متعلق مضمون لکھ دیا ہے مولوی ظفر علی کہتا ہے کہ میں قلم کی ایک جنبش سے احمدیت کو تباہ کر دوں گا.میں نے جواب دیا احمدیت تو خدا کی چیز ہے اسے کون تباہ کر سکتا ہے اس واقعہ کو پندرہ دن ہی گذرے تھے کہ ظفر علی کا پریس گورنمنٹ نے ضبط کر لیا.اس نے پھر ہمارے خلاف لکھنے کی کوشش کی مگر دوبارہ ضبط کر لیا گیا.جب کوئی یہ کہتا ہے کہ فلاں کام بڑا مشکل ہے تو گویا اس کا خدا پر ایمان نہیں ہوتا وہ سمجھتا ہے کہ کام میں نے کرنا ہے خدا نے نہیں کرنا.ہمیں یہ پرواہ نہیں ہوئی چاہئے کہ لوگ کیا کہتے ہیں لوگوں کی مذمت یا تعریف ہمارا کیا کر سکتی ہے ہمارا ہر ایک کام خدا کے لئے ہے پس بد دل نہیں ہونا چاہئے.ماحول اور حال کو مد نظر رکھنا چاہئے دشمنوں کی طرف سے چوکس رہو اور ساتھ ہی اپنا ایمان بھی مضبوط رکھو کہ تمہارا خدا تمہارے چاروں طرف ہے اللہ تعالی ہماری جماعت کو توفیق دے کہ اسے نہ تو کوئی کام بہت چھوٹا نظر آئے اور نہ ہی بہت مشکل نظر آئے.(الفضل یکم دسمبر ۱۹۳۱ء) له رساله الوصیت صفحه ۵ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۳ نه متی باب ۱۰ آیت ۳۴ بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۹۴ء ( مفہوماً) البقرة : ١١٦

Page 283

خطبات محمود ۲۷۸ 33 ۱۹۳ء مسئلہ کشمیر اور جماعت احمدیہ (فرموده ۱۳- نومبر ۱۹۳۱ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.چونکہ آج اس امر کے متعلق جس کے لئے میں تین مہینہ سے کوشش کر رہا ہوں اللہ تعالیٰ نے کامیابی کا پہلا قدم اٹھانے کی توفیق عطا فرمائی ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں وہ خیالات جو اس عرصہ میں بعض دفعہ ہماری جماعت کے لوگوں کے دلوں میں بھی پیدا ہوتے رہے ہیں ان کے متعلق کچھ بیان کرنا ضروری ہے.مجھے تحریر کے ذریعہ سے اور زبانی بھی کئی دوستوں کے یہ خیالات معلوم ہوئے کہ کشمیر کا مسئلہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اس میں ہماری جماعت کو دخل دینے یا اس معاملہ میں اپنی طاقتوں کو خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آزادی کشمیر کا مسئلہ ایک رنگ میں سیاسی مسئلہ ہے.مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ یہ ایک رنگ میں غیر سیاسی بھی ہے.وہ لوگ جنھوں نے کشمیر یا کشمیر کے لوگوں کو خود نہیں دیکھا ہوا اور وہاں جاکر ان کی حالت سے واقفیت حاصل نہیں کی وہ بے شک یہ سوال کر سکتے ہیں کہ ہندوستان کی تحریک آزادی اور کشمیر کی تحریک آزادی میں کیا فرق ہے اور بے شک وہ کہہ سکتے ہیں کہ گاندھی کی تحریک اور اس تحریک میں ہمیں کوئی فرق نظر نہیں آتا.مگر وہ لوگ جنہوں نے اپنی آنکھوں سے علاقہ کشمیر کو دیکھا وہاں کے مسلمانوں سے ملے اور جن کے تعلقات اہل کشمیر سے گہرے اور دوستانہ ہیں وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ اور واقف ہیں کہ کشمیر کی تمہیں لاکھ آبادی ایسے حالات میں سے گذر رہی ہے جسے غلامی سے کسی صورت میں بھی کم نہیں کہا جاسکتا.یہاں کے لوگ اس امر کا اندازہ ہی نہیں کر سکتے کہ وہ غریب قوم صدیوں سے کسی مصیبت میں مبتلاء چلی آتی ہے.مثال کے طور پر ایک مشہور واقعہ ہے جو موجودہ شورش کے ابتدائی واقعات میں سے ہے اسی سے اندازہ کر لو کہ

Page 284

محمود ۲۷۹ سال ۱۹۳۱ء وہاں آزادی کی کیا قدروقیمت ہے.ہمیشہ ہماری مساجد میں خطبے پڑھے جاتے ہیں اور حکومت کا کوئی قانون انہیں بند نہیں کر سکتا.اگر ہندوستان میں کسی جگہ ہمیں یہ نظارہ دکھائی دے کہ خطیب کو خطبہ پڑھتے ہوئے روک دیا جائے اور اسے پولیس والے یہ کہہ کر خطبہ پڑھنے سے منع کر دیں کہ اس کی حکام سے کیوں اجازت نہیں لی گئی تو بتلاؤ ہندوستان کے لوگ کس حد تک اشتعال میں نہ آجائیں گے اور کیا اس وقت ایک بھی شخص ایسا ہو گا جو یہ کہے کہ یہ سیاسی مسئلہ ہے غیر سیاسی نہیں.مگر کشمیر میں ہوتا رہا ہے کہ خطیب خطبہ پڑھنے کے لئے کھڑا ہوا مگر پولیس والوں نے اسے روک دیا اور کہا کہ تمہیں خطبہ پڑھنے کی اجازت نہیں.اس کے لئے پہلے حکام سے اجازت حاصل کرو.ہمارے ملک میں بازاروں میں تقریریں کی جاتی ہیں میدانوں میں تقریریں ہوتی ہیں مگر کوئی قانون انہیں نہیں روک سکتا.جس قدر ہندوستان کے شہر ہیں ان میں چلے جاؤ کہیں بھی کھلی جگہ میں تقریریں کرنے کی ممانعت نہیں ہوگی.جو معمولی گاؤں ہیں ان میں تو کبھی کبھار کوئی واعظ آجاتا اور وعظ کر دیتا ہے لیکن بڑے شہروں کے اگر چوک دیکھے جائیں تو ان میں روزانہ کوئی نہ کوئی آدمی کچھ نہ کچھ سناتا ہوا نظر آئیگا لیکن کشمیر کے لوگوں کو آج تک اس امر کی بھی اجازت نہیں تھی اور انہیں تقریر کے لئے سرکار سے اجازت لینی پڑتی تھی جو بسا اوقات نہیں ملتی تھی.پھر ہمارے ملک میں اخبارات نکالنے کی عام آزادی ہے اور دراصل قومی ترقی کے لئے اخبارات کا وجود نہایت ضروری ہے کیونکہ جب تک ہم اپنے خیالات دو سروں تک نہ پہنچا ئیں اور ان کے خیالات سے خود فائدہ حاصل نہ کریں کس طرح ترقی کر سکتے ہیں.ہندوستان میں نہایت ادنی اونی اقوام کے بھی اخبارات ہیں بلکہ ہمارے ملک میں جو قوم سب سے زیادہ ادنیٰ سمجھی جاتی ہے یعنی چوہڑے اور چہار ان کے بھی اخبارات اور رسالے ہیں.بلکہ یہ تو وہ لوگ ہیں جن کی عزت کو لوگوں نے ضائع کیا خدا نے ضائع نہیں کیا.مگر ایک وہ قوم ہے جسے لوگوں نے بھی ذلیل کیا اور خدا تعالیٰ نے بھی ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے اسے ذلیل کیا یعنی کنجروں کی قوم اس کے اخبارات بھی ہندوستان میں پائے جاتے ہیں کوئی نہیں جو اخبارات روکے.مگر کشمیر میں عملاً مسلمانوں کو اس آزادی سے محروم رکھا گیا اور اخبارات نکالنے کی اجازت نہیں دی جاتی.بعض لوگوں نے تو بتایا کہ وہ متواتر پچیس سال سے اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ انہیں اخبار نکالنے کی اجازت مل جائے مگر حکومت کی طرف سے اجازت نہیں ملتی.انگریزی علاقہ میں تو اتنا ہی ہے کہ اخبار نکالنے کے لئے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو درخواست دی جاتی ہے اور وہ اسے منظور کر لیتا 7Z321777ZZE

Page 285

خطبات محمود ۲۸۰ سال ۱۹۳۱ء ہے مگر وہاں پچیس پچیس سال سے لوگ کوششیں کرنے کے باوجود ناکام رہے ہیں اور انہیں اتنی اجازت نہیں ملی کہ وہ اخبار کے ذریعہ اپنے خیالات دو سروں تک پہنچا سکیں.آج کل ہندوستان میں ہم وغیرہ کے واقعات کی وجہ سے گورنمنٹ نے اخبارات کے لئے بعض پابندیاں اور شرائط عائد کر دی ہیں مگر پھر بھی سارا ملک ان پابندیوں کے خلاف آواز بلند کر رہا ہے حتی کہ ہم لوگ بھی جو گورنمنٹ کے خوشامدی کہلاتے ہیں ان پابندیوں کو نا پسند کرتے ہیں.پھر ہمارے ملک میں پنچائتیں ہوتی ہیں ، تمام پیشہ ور اقوام کی انجمنیں ہیں، دھوبیوں کی انجمن ہے ارائیوں کی انجمن ہے، قصائیوں کی انجمن ہے، کہیں جلاہوں کی پنچائت ہو رہی ہے تو کہیں تاجروں کی ، پھر پیشہ وروں کے علاوہ سیاسی فرقوں کی بھی پنچائیں ہوتی رہتی ہیں، تعلیمی شوق رکھنے والوں کی بھی پنچائتیں ہیں ،یتیموں اور بیواؤں کی خبر گیری کے لئے بھی انجمنیں قائم کی جاتی ہیں مگر یہ عجیب بات ہے کہ کشمیر میں انجمن بنانے کی بھی اجازت نہیں بلکہ اگر چار یا پانچ اشخاص مل کر کہیں کہ آؤ ہم تیموں کی پرورش اور ان کی نگہداشت کے لئے انجمن بنا ئیں تو اس کے لئے بھی انہیں گورنمنٹ سے اجازت لینی پڑتی ہے اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ گورنمنٹ روک دیتی ہے اور اپنی کسی انجمن کو قائم ہونے نہیں دیتی.یہ انسانی زندگی نہیں بلکہ حیوانی زندگی ہے.گویا ایک اشرف المخلوق انسان کو ایسی قیود کے ذریعہ جانوروں ، بیلوں ، گھوڑوں اور گدھوں کی سی زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا جاتا اور فطرت انسانی کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ فطرت جو ہم نے پیدا کی اسے تبدیل کرنے کا کسی کو اختیار نہیں اور نہ کسی کا یہ حق ہے کہ کسی انسان کو انسانیت سے حیوانیت میں تبدیل کر دے.پس جب یہ کسی کا اختیار نہیں کہ وہ فطرت انسانی کو تبدیل کرے تو یقیناوہ گورنمنٹ جو فطرت انسانی کو تبدیل کرنا چاہتی ہے وہ انسانیت پر ہی نہیں بلکہ مذہب پر بھی حملہ کرتی ہے اور ان حالات میں ہر شخص کا فرض ہو جاتا ہے کہ وہ ایسے مظلوم اور ستم رسیدہ انسانوں کی امداد کرے پس یہ ہرگز صحیح نہیں کہ معاملہ کشمیر ایک سیاسی تحریک ہے بلکہ یہ ایک انسانی ہمدردی کی تحریک ہے اور انسانی ہمدردی مذہب کا جزو ہے.مگر علاوہ اس کے اور بھی بہت سے ایسے پہلو ہیں جن کے ماتحت اس تحریک میں حصہ لینا ضروری ہو جاتا ہے مثلاً اب مسلمانوں کی حالت ایسی ہونے والی ہے کہ اگر آج دنیا کے تمام مسلمان اپنے اندر اتحاد کی صورت پیدا نہیں کریں گے اور دشمنوں کے منصوبوں کا یک جہتی سے مقابلہ نہیں کریں گے تو بالکل ممکن ہے کل ایسی حالت پیدا ہو جائے کہ ہندوؤں کی طاقت انہیں کچل کر رکھ

Page 286

خطبات محمود PAI دے.ہندوستان میں ایک مسلمان کے مقابلہ میں چار ہندو ہیں اور وہ ہر وقت متفقہ طور پر اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ کسی طرح مسلمانوں کو نابود کر دیں ان حالات میں ضروری ہے کہ مسلمان اپنے اندر اتحاد پیدا کریں اور دشمنوں پر ثابت کر دیں کہ وہ اختلاف عقائد کے باوجود.دشمنوں کے ہر حملہ کا اپنی متحدہ قوت سے مقابلہ کرنے کے لئے آمادہ ہیں ابھی پچھلے دونوں صرف KNEAD ALI NEW اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللہ پڑھنے پر چند مسلمان قید کر لئے گئے.گویا ان کا جرم صرف یہ تھا کہ انہوں نے کیوں بلند آواز سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور رسول کریم ﷺ کی رسالت کا اظہار کیا اور یہ صرف ایک ریاست کی حالت نہیں بلکہ ایسا زمانہ ہمارے سامنے آنے والا ہے کہ سارے ہندوستان کی یہی حالت ہو جائے.پس ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے ابھی سے اپنے اندر قوت پیدا کرنا ہمارا نہ ہی فرض ہے سیاسی نہیں.ان امور کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے ان تمھیں لاکھ آدمیوں کی امداد کے لئے جو قیموں کی طرح کمزور اور بے بس تھے اپنا ہاتھ بڑھایا اور بغیر اس خیال کے بڑھایا کہ اس میں احمدیت کی ترقی کا سوال ہو اور اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اخباری لحاظ سے تو آج ہی درنہ ہمیں تو دودن پہلے سے معلوم تھا مہاراجہ صاحب نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ آئندہ ریاست کا قانون ایسی صورت میں منتقل کر دیا جائے گا کہ وہاں تقریریں کرنے کی اسی طرح اجازت ہوگی جس طرح گورنمنٹ انگریزی کے قانون میں ہے اسی طرح اخبارات کے نکالنے کی بھی وہاں ایسی ہی آزادی ہوگی جیسے ہندوستان میں ، پھر انجمنیں بنانے کی بھی وہاں اسی طرح اجازت ہوگی جیسے یہاں اسی طرح وہ پرانی مساجد جو گورنمنٹ کے قبضہ میں ہیں اور جن میں آج تک شالی وغیرہ ڈالی جاتی تھی مسلمانوں کے حوالے کر دی جائیں گی.اسی طرح ایک کمیشن بٹھا دیا جائے گا جو قانون سے اس امتیاز کو جو پہلے ہندو اور مسلمانوں میں تھا دور کر دے گا مثلا اس سے پیشتر یہ حالت تھی کہ اگر ایک مسلمان بکری پالے تو اس سے فی بکری پہلے سال دو روپے سات آنے دوسرے سال دو روپے دس آنے اور تیسرے سال دو روپے تیرہ آنے ٹیکس وصول کیا جاتا تھا لیکن اگر ہندو بکری پالے تو اس سے فی بکری صرف تین آنے ٹیکس لیا جاتا تھا جس کا نتیجہ یہ تھا کہ بگروال قوم اس بات کے لئے تیار تھی کہ وہ ہندو ہو جائے اور اس طرح اس ٹیکس سے بچ سکے اور گو مہاراجہ صاحب کی نیت یہ نہ ہو کیونکہ وہ بذات خود نہایت شریف طبیعت رکھتے ہیں لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وزراء کی یہ نیت ضرور تھی کہ اس طرح مسلمانوں پر دباؤ ڈال کر

Page 287

خطبات محمود ۲۸۲ سال ۱۹۳۱ء انہیں ہندو بننے پر مجبور کیا جائے اور ریاست سے اسلام کو مٹا دیا جائے.ایسے تمام قوانین کے متعلق اعلان کیا گیا ہے کہ آئندہ ان میں تغیر کیا جائے گا اور تمام قوانین انگریزی حکومت کے قوانین کی طرح بنا دئیے جائیں گے اور کوئی ایسا قانون برقرار نہیں رہیگا جس میں مسلمانوں اور ہندوؤں میں امتیاز روا رکھا گیا ہو.اسی طرح یہ بھی فیصلہ کر دیا گیا ہے کہ جن لوگوں کو پولیس اور دوسرے افسروں نے دانستہ یا نادانستہ یا شرارت کے طور پر مارا پیٹا یا گولیوں کا نشانہ بنایا ہے ان کے متعلق تحقیقات کر کے اگر وہ مجروح ہیں تو ان کی امداد کی جائے اور اگر وہ مر چکے ہیں تو ان کے پسماندگان کو معقول معاوضہ دیا جائے جس سے وہ اپنی غربت اور مفلوک الحالی کی اصلاح کر سکیں.اسی طرح یہ بھی فیصلہ کر دیا گیا ہے کہ کمیشن تحقیقات کر کے رپورٹ کرے کہ کس حد تک حکومت کشمیر کے باشندوں کے صلاح و مشورے سے کی جایا کرے گویا جس طرح ہندوستان کا طرز حکومت ہے اسی طرح وہاں بھی انتخابات ہوا کریں گے.جس کے یہ معنی ہیں کہ وہاں کوئی قانون ایسا نہیں بن سکے گا جو مسلمانوں کے خلاف ہو بلکہ آئندہ ایسے ہی قانون نافذ ہوا کریں گے جو ساری رعایا کے لئے مفید اور نفع رساں ہوں.اور چونکہ مسلمان وہاں پچانوے فیصدی ہیں اس لئے بہر حال ایسے تمام قوانین کا زیادہ تر فائدہ مسلمانوں کو ہی پہنچے گا.ان کے علاوہ اور بہت سی باتیں ہیں جن تصفیہ کے لئے کمیش بٹھائے گئے ہیں.ممکن ہے کمیش کی تحقیقات کے دوران میں ایسی کئی باتیں پیدا ہو جائیں جو ہمارے مدعا کے خلاف ہوں اس لئے گو ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ ہمارا کام ختم ہو گیا مگر یہ ہم ضرور کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں پہلی فتح حاصل ہو گئی اور میں تو سمجھتا ہوں کہ یہ خالی ہماری ہی فتح نہیں بلکہ یہ خود مہاراجہ کی فتح ہے اس لئے کہ ایک بادشاہ کی سب سے بڑی فتح یہی ہوتی ہے کہ اس کی رعایا اس سے خوش ہو جائے.خود سوچ لو کہ اگر ایک آدمی کے ارد گرد روپوں کی تھیلیاں رکھی ہوئی ہوں مگر اسے قولنج کا دورہ شروع ہو جائے تو اسے وہ روپوں کی تھیلیاں کیا فائدہ پہنچا سکتی ہیں.رعایا کی ناراضگی ایسی ہی ہے جیسے کسی حکمران کو رسل ہو جائے یا جیسے دق ہو جائے یا جیسے کو ڑھ ہو جائے یا جیسے قولنج ہو جائے ایسے شخص کو روپوں سے کیا لذت حاصل ہو سکتی ہے اور وہ جواہرات کی تھیلیوں سے کیا فائدہ حاصل کر سکتا ہے لیکن اگر اس کی ساری تھیلیاں اس سے لے لی جائیں اور اس کے گھر سے باہر پھینک دی جائیں مگر اس کی رسل دور ہو جائے اسکی قولنج جاتی رہے یا اس کا کوڑھ اس سے مفقود ہو جائے تو یقینا وہ آرام محسوس کرے گا اور کہے گا کہ خدا نے

Page 288

ا خطبات محمود ۲۸۳ سال ۱۹۳۱ء مجھ پر بڑا احسان کیا.پس گو اس فیصلہ میں بظا ہر فتح کشمیری مسلمانوں یا ان کے ہمدردوں کی نظر آتی ہے مگر در حقیقت یہ مہاراجہ کی فتح ہے کیونکہ جس دن سے انہوں نے اپنی رعایا کو انسانیت کے ابتدائی حقوق دے دیئے اور رعایا ان سے خوش ہو گئی اسی دن سے ان کی حکومت مستحکم ہو گئی اور وہ حقیقی طور پر مہاراجہ کہلانے لگے کیونکہ جبر دنیا میں انسان کو کبھی معزز نہیں بنا تا جو چیز انسان کو اعزاز دیتی اور اسے رفعت و عزت کا وارث بناتی ہے وہ محبت اور حسن سلوک ہے.دنیا میں کتنے ہی بڑے بڑے بادشاہ گذرے ہیں لیکن آج ان کی کوئی وقعت نہیں اور لوگوں کی نظر میں ان کی معمولی قدر و قیمت بھی نہیں لیکن اس کے مقابلہ میں وہ لوگ جنہوں نے نبوت یا بادشاہت کے لحاظ سے دنیا میں انصاف کیا اور ظلم و جفا کو مٹایا آج دنیا ان کی تعریف میں رطب اللسان ہے نوشیرواں کون تھا ایک کافر سلطنت کا بادشاہ تھا اس کی حکومت سے بعد میں مسلمانوں نے جنگیں کیں اور اس کی سلطنت کی جڑیں اکھیڑ دیں لیکن نوشیرواں کی تعریف کرنے والے بھی مسلمان ہی ہیں اور خود رسول کریم میں نے فرمایا کہ مجھے خوشی ہے کہ میری پیدائش اس کے زمانہ میں ہوئی.پس گو نوشیرواں اس تخت کا مالک تھا جس کے خلاف مسلمانوں کو لڑائی لڑنی پڑی نوشیرواں اس تخت کا مالک تھا.جس کے ایک مالک نے مسلمانوں کو دکھ پہنچایا مگر باوجود اس کے کہ وہ ایک دشمن خاندان کا فرد تھا.پھر بھی تمام مسلمان اس کے عدل و انصاف کی تعریف کرتے اور اسے مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں.حاتم طائی کون تھا ایک معمولی رئیس سے زیادہ اس کی وقعت نہیں تھی مگر آج اس کا نام اس حد تک مشہور ہے کہ گاؤں کے ان پڑھ لوگ بھی بعض دفعہ طنز دو سرے کو کہہ دیا کرتے ہیں ”بڑا حاتم بنا پھرتا ہے "وہ ایک معمولی نمبردار تھا مگر اس کے حسن سلوک اور سخاوت کا یہ اثر ہے کہ آج بچہ بچہ اس کے نام سے واقف اور اس کی تعریف کرتا ہے.گاؤں کے ادنی اونی لوگوں سے ملوان کے سامنے نپولین کا ذکر کرو تو وہ اس سے ناواقف ہوں گے لیکن ذرا سخاوت کا ذکر چھیڑ دو تو وہ فورا کہہ اٹھیں گے کہ فلاں شخص تو حاتم ہے ، چلے جاؤ ان گاؤں میں جو ریل سے دور ہیں جہاں کے باشندے تعلیم یافتہ نہیں اور جو معمولی علوم سے بھی واقفیت نہیں رکھتے ان میں سے بھی کسی کا نام حاتم ہو گا حالانکہ یہ کوئی اسلامی نام نہیں محض اس لئے کہ وہ سخاوت اور وفا میں مشہور ہے لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں اور اس کے نام پر اپنے بچوں کے نام رکھتے ہیں حالانکہ اس کی حیثیت ایک نمبردار سے زیادہ نہیں تھی.اس کی حالت کا اس سے پتہ لگتا ہے کہ اس کی بیوی نے اس لئے اس سے طلاق کی خواہش کی تھی کہ وہ اسے مالی

Page 289

سال ۱۹۳۱ء ۲۸۴ 33 لحاظ سے آرام میں نہیں رکھ سکتا تھا اور جو کچھ اس کے پاس ہو تا مہمان دازی میں صرف کر دیتا اگر اس کی بادشاہوں والی حالت ہوتی تو محض مالی تنگی کی وجہ سے اس کی بیوی کو طلاق لینے کی کیا ضرورت تھی.مشہور ہے کہ حاتم کا ایک رقیب تھا جو بہت دولتمند آدمی تھا اس نے حاتم کی بیوی سے کہا کہ تو اس سے طلاق لے لے میں تجھ سے شادی کروں گا جب وہ الگ ہو گئی تو بجائے اس کے وہ اس کے مکان سے چلی جاتی حاتم نے خود ہی وہ مکان چھوڑ دیا اور آپ علیحدہ کسی اور مکان میں رہنے لگ گیا اس نے پہلا مکان بیوی کے پاس ہی رہنے دیا.چونکہ وہ ڈیرہ حاتم کا ہی مشہور تھا اس لئے ایک دن کچھ مہمان آگئے عورت نے اس آدمی کو جس نے اس کے ساتھ شادی کرنے کا وعدہ کیا تھا کہلا بھیجا کہ ایک دو اونٹنیاں مہمانوں کے لئے بھیج دو ابھی چونکہ یہ حاتم کا ہی ڈیرہ مشہور ہے اس لئے لوگ آجاتے ہیں آہستہ آہستہ جب ان کو علم ہوتا جائے گا کہ یہ حاتم کا ڈیرہ نہیں تو وہ نہیں آئیں گے مگر ابھی چونکہ آتے ہیں اس لئے ایک دو اونٹنیاں ان کی مہمان نوازی کے لئے بھیج دو.اس نے جب یہ پیغام سنا تو بہت ناراض ہوا اور کہنے لگا حاتم تو لوٹا ہی سخاوت کی وجہ سے گیا تھا کیا تو چاہتی ہے کہ مجھے بھی تباہ کر دے.لکھا ہے اس واقعہ کی حاتم کو بھی اطلاع ہو گئی اس نے خیال کیا کہ ڈیرہ آخر میرے ہی نام پر ہے اگر مہمان بھوکے رہ گئے تو میرا ہی نام بد نام ہوگا وہ چپکے سے آیا اور اس کی جتنی اونٹنیاں تھیں وہ اس مکان میں چھوڑ کر چلا گیا یہ اخلاق تھے جو حاتم کے تھے.آج کل شیخو پورہ وغیرہ اضلاع میں زمینداروں کے پاس اونٹ اور اونٹنیاں ہوتی ہیں یہی حالت حاتم کی تھی لیکن جو شہرت ، محبت ، سخاوت اور وفا کی وجہ سے اسے حاصل ہوئی وہ آج بڑے بڑے بادشاہوں کو بھی حاصل نہیں.تو جو اخلاق سے فتح دنیا میں حاصل ہو سکتی ہے ، وہ جبر اور تعدی سے کبھی حاصل نہیں ہو سکتی.میں سمجھتا ہوں کہ اس نئے اعلان کے بعد اگر وزراء اور نئے افسروں نے اسی روح سے کام کیا جس روح کا مہاراجہ صاحب نے اظہار کیا ہے تو وہ اپنے ملک کو کھو ئیں گے نہیں بلکہ اسے حاصل کریں گے اور اپنے نام کو دوام بخشیں گے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ ہم ایک ریاست سے گذر رہے تھے چند لوگ جو ریاست کے باشندے تھے اپنے کسی پہلے راجہ کی تعریف میں شعر پڑھ رہے تھے.میں نے پوچھا موجودہ راجہ کی کیوں تعریف نہیں کرتے کہنے لگے وہ راجہ جو اس سے پہلے گزر چکا تھا بہت اچھا تھا.تو در حقیقت نیکی اور محبت ہی ایسی چیز ہے جو لوگوں کے قلوب پر اثر کرتی ہے اور انہیں تعریف کرنے پر مجبور کر دیتی ہے.ورنہ جبر سے کبھی کوئی حکومت اعزاز حاصل نہیں کر سکتی.

Page 290

خطبات محمود ۲۸۵ سال ۱۹۳۱ء ہمیں جب یہ فتح حاصل ہوئی ہے تو اگر چہ اس میں شبہ نہیں میں اس کمیٹی کا پریذیڈنٹ ہوں جس نے یہ تمام جد و جہد کی مگر اس میں بھی شبہ نہیں کہ یہ احمدیوں کی کمیٹی نہیں تھی صرف دو احمدی اس میں شامل تھے باقی سب احمدیت سے اختلاف رکھنے والے تھے لیکن باوجود اختلاف عقائد کے انہوں نے نہایت دیانتداری سے کام کیا ہے اور شدید مخالفت کے باوجود انہوں نے ایسے اخلاص اور سرگرمی سے اس کام میں حصہ لیا ہے کہ مجھے یقین ہو گیا ہے مسلمانوں میں اتحاد کا راستہ کھلا ہوا ہے اور ان کا مطلع ایسا تاریک نہیں جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے.مگر ساتھ ہی ایک اور گروہ ہے جس نے ہماری مخالفت بھی کی اور بعض جگہ انہوں نے ایسی سخت مخالفت کی کہ احمدیوں کا بازاروں میں چلنا پھرنا مشکل ہو گیا ہے انہوں نے بعض جگہ عورتوں کو اور بعض جگہ بچوں اور بوڑھوں تک کو پیٹا اور کہا جاتا ہے کہ انہوں نے کہا ہم احمدیت کو کچل کر رکھ دیں گے.قادیان اپنے جتنے بھیجیں گے اور احمدیوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیں گے حالانکہ اگر یہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہے اور جیسا کہ ہم یقین رکھتے ہیں یہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہے تو پھر کسی کی مجال نہیں کہ اس کو تباہ کر سکے بلکہ اگر دنیا کے سارے بادشاہ مل کر بھی کہیں کہ ہم احمدیت کو دنیا سے مٹا کر رکھ دیں گے تو میں انہیں کہوں گا ایاز قدرے خود را بشناس تمہاری حیثیت ہی کیا ہے کہ تم اس الہی سلسلہ کو مٹا سکو پہلے اپنی حیثیت دیکھو اور پھر اپنے منہ سے ایسی بات نکالو.پس ان دھمکیوں سے تو نہ ہم پہلے کبھی ڈرے اور نہ اب ڈر سکتے ہیں اللہ تعالیٰ اس کا محافظ ہے اور وہی ہمیشہ اس کی حفاظت فرمائے گا.لیکن اس میں بھی شبہ نہیں کہ مومنوں پر ہمیشہ عارضی تکلیفیں آیا کرتی ہیں اور آج کل تو ہمارے خلاف کچھ اس قسم کا جوش پایا جاتا ہے کہ کوئی تعجب نہیں ہم پر وہی وقت آجائے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ابتدائی ایام میں جماعت پر آیا تھا مگر میں دیکھتا ہوں کہ ابھی سے بعض لوگ ان معمولی تکلیفوں کی وجہ سے گھبرا رہے ہیں حالانکہ اگر اللہ تعالی ان مصائب کی وجہ سے ہمارے اندروہی زمانہ لے آئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا زمانہ تھا تو ہم سے بڑھ کر خوش قسمت اور مبارک شخص اور کون ہو سکتا ہے.تم میں سے کتنے ہیں جو حسرت اور افسوس سے کہا کرتے ہیں کاش ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا زمانہ پاتے.وہ وقت گزر گیا اور تم میں سے بعض نے دیکھا اور اکثروں نے نہ دیکھا لیکن اگر خدا اب مصائب کے ذریعہ سے ہی وہی زمانہ ہمارے اندر لے آنا چاہتا ہے تو یہ مصیبتیں کیا ہیں ہمارے لئے راحت اور خوشی کا باعث ہیں اور جنت ہیں جس کی ہم تمنا کیا کرتے ہیں پس میں

Page 291

خطبات محمود ۲۸۶ ۱۹۳۱ء جماعت کو ہو شیار کرنا چاہتا ہوں کہ آج کل ہمارے سلسلہ کی سخت مخالفت ہو رنا ہے اور یہ وقت ہے کہ خصوصیت سے ہم اپنے اندر چستی پیدا کریں، ہوشیاری پیدا کریں اور ایمان کی روح پیدا کریں اور ان مصائب کی وجہ سے گھبرائیں نہیں بلکہ خوش ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قرب میں بڑھانے کا سامان مہیا کیا.پھر ہمارا فرض ہے کہ باوجود لوگوں کی دشمنی اور عداوت کے ان کے ساتھ احسان اور مروّت کا سلوک کریں.نادان ہے وہ جو کہتا ہے کہ فلاں شخص چونکہ ہمارا دشمن ہے اس وجہ سے اس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرنا چاہئے اگر وہ فی الحقیقت ہمارا دشمن ہے تو سب سے بڑی نیکی وہی ہوا کرتی ہے جو انسان اپنے دشمن کے ساتھ کرے.ہر باپ اپنے بچے کو کھلاتا پلاتا ہے ، ہر بھائی اپنے بھائی کی خبر گیری کرتا ہے اور ہر عزیز اپنے عزیز کی امداد کرتا ہے.پس اگر چہ یہ بھی خوبی اور نیکی ہے مگر بڑی نیکی وہی ہے جو دشمن سے کی جائے اور بڑا احسان وہی ہے جو مخالفوں سے کیا جائے.پس ہمارا فرض ہے کہ ہم باوجود ان کی مخالفت کے ان کے ساتھ نیکی کا سلوک کریں اور ایسی کوئی حرکت نہ کریں جو عداوت کا پہلو اپنے اندر رکھتی ہو.پھر ہمیں خوشی بھی ہے کہ جہاں ہمیں اپنے مخالفوں کی طرف سے بہت سی تکلیف کی باتیں سننی پڑیں وہاں بہت سی خوشگوار باتوں کا بھی ان کی طرف سے ظہور ہوا انہوں نے باوجود عقائد کے لحاظ سے شدید اختلاف رکھنے کے جس اخلاص اور محبت سے ہمارے افسر بن کر نہیں ، ہمارے برابر ہو کر نہیں بلکہ ہماری ماتحتی میں کام کیا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ وہ اس قدر قابل تعریف ہے کہ میں کہہ سکتا ہوں انہوں نے اپنا حق ادا کر دیا اور ہمارے دلوں میں انہوں نے اپنے اخلاص اور محبت کی وجہ سے جگہ حاصل کرلی.انہوں نے جس خلوص دل کے ساتھ میرے ساتھ مل کر کام کیا ہے اسے دیکھ کر اس کام نے میرے دل میں خوشی کی لہر پیدا کر دی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ابھی مسلمانوں میں جب ایسے لوگ موجود ہیں تو یقیناً ان میں اتحاد کا رستہ بند نہیں ہوا بلکہ ابھی باقی ہے اور ہم اس پر چل کر مسلمانوں میں کامل طور پر اتحاد پیدا کر سکتے ہیں لیکن اگر یہ نہ بھی ہوتا اور سارے مسلمان بالاتفاق ہمارے خلاف ہوتے تب بھی میں یہی کہتا کہ ان مصیبتوں سے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں یہی تو وہ چیز ہے جس کی ہم انتظار کر رہے تھے.پس مصیبتوں کی وجہ سے اور مختلف شہروں میں اپنی جماعت کی مخالفت کو دیکھ کر اپنے قدم کو ست مت ہونے دو اور یہ اچھی طرح سمجھ لو کہ یہی چیزیں ہیں جو انسان کو خدا کا مقرب بنا دیتی ہیں.اگر ہم محض اس وجہ سے کہ لوگ ہمارے دشمن ہیں ہم پر مختلف قسم کے الزام دھرتے اور ہمیں بد نام کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان سے الگ ہو جائیں تو

Page 292

خطبات محمود ۲۸۷ سال ۱۹۳۱ء اتحاد کی کوئی صورت باقی نہیں رہے گی.اس آپس کی ناچاقی اور اختلاف سے فائدہ اٹھا کر دشمن متحد ہو کر مسلمانوں پر حملہ کر دے گا اور اسلام کی طاقت کو بالکل کچل کر رکھ دے گا.پس اس وقت ضرورت ہے کہ ہم وہی نمونہ دکھا ئیں جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تعلیم دی که گالیاں سن کر دعا دو پا کے دکھ آرام دو کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکسار لوگ ہمیں دھتکاریں تو ہم انہیں محبت کے ساتھ بلائیں اور حسن سلوک کریں، وہ گالیاں دیں تو ہم دعا دیں، وہ منہ پھیر لیں تو ہم انہیں لپٹ جائیں اگر ہم یہ نمونہ دکھا ئیں گے تو ان کے دلوں میں بھی درد پیدا ہو گا اور ان کے قلوب میں بھی محبت پیدا ہوگی اور آخر وہ دن آجائے گا جب مسلمانوں کی ترقی کے لئے اللہ تعالیٰ ان میں کامل طور پر اتحاد پیدا کر دے گا اور شیطان مسلمانوں میں تفرق و تشتت پیدا کرنے سے بالکل مایوس ہو جائے گا اور وہ سمجھ لے گا کہ اس جماعت میں پھوٹ ڈلوانا نا ممکن ہے.پس اختلاف عقائد کے باوجود آپس میں محبت اور پیار رکھنا چاہئے اور در حقیقت موجودہ زمانہ کی انتہائی مشکلات اسی امر کا تقاضا کرتی ہیں کہ ہم دوسروں سے اس اصل کے ماتحت صلح کر لیں کہ ہر فرقہ اپنے اپنے عقائد پر قائم رہتے ہوئے متحدہ طور پر کام کرے اور جن امور میں مسلمانوں کا قومی مفاد ہو ان میں باہمی اختلافات کو نظر انداز کر دیا جائے.در اصل یہ ایک نہایت ہی اہم سوال ہے اور اسی امر کو مد نظر رکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے صلح کی کوشش فرمائی تھی مگر اس وقت تو لوگوں نے اس اصل کو تسلیم نہ کیا لیکن آج لوگ تیار ہیں کہ وہ اختلاف کے باوجود آپس میں صلح رکھیں اور ہر ایسی تحریک سے بچیں اختلاف پیدا کرنے والی اور مسلمانوں کو باہم لڑانے والی ہو.پس ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئے اور یقین رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی بہبودی کے لئے سامان پیدا کرے گا اور ان کی ترقی کے لئے ان میں اتحاد قائم کر دے گا کیونکہ مایوس ہمیشہ شیطان کے بھائی ہوا کرتے ہیں لیکن خدا کے پیارے اور محبوب بندے ہمیشہ وہی ہوتے ہیں جو اس کی رحمتوں سے کبھی مایوس نہیں ہوتے.الفضل ۱۹ نومبر ۱۹۳۱ء)

Page 293

خطبات محمود ۲۸۸ 34 سال ۱۹۳۱ء ایذاء دینے والوں سے محبت اور شفقت کا سلوک کرو (فرموده ۲۰- نومبر ۱۹۳۱ء بمقام لاہور) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں گلے کی خرابی اور کھانسی کی وجہ سے زیادہ بول نہیں سکتا لیکن ایک سوال جو آج کل کے حالات کے مطابق جماعت کے دلوں میں پیدا ہو رہا ہے اس کے متعلق مختصر ا کچھ بیان کروں گا.پچھلے دوماہ سے ہماری جماعت کے خلاف اس قدر ایجی ٹیشن ہو رہا ہے کہ میں سمجھتا ہوں ہر دس خطوط میں سے جو مجھے آتے ہیں ایک ضرور ایسے واقعات پر مشتمل ہوتا ہے کہ ہمارے علاقہ میں جماعت کے خلاف سخت شور و شر ہے بعض جگہ احمدیوں کو پیٹا جاتا ہے ، گالیاں دی جاتی ہیں اور برا بھلا کہا جاتا ہے، سلسلہ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف بد زبانی کی جاتی ہے اور یہ حالت اس حد تک ترقی کر گئی ہے کہ بعض جماعتوں کے دوست اب صبر کو قائم نہیں رکھ سکتے.آج بھی مجھے یہ کہا گیا ہے کہ آپ کی صبر کی تعلیم سے مخالف ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں ، صبر کے غلط معنی کئے جارہے ہیں اور تکالیف اب نا قابل برداشت ہو گئی ہیں اگر OFFENCE کی نہیں تو DEFENCE کی اجازت اسلام ضرور دیتا ہے اور ہمیں اب اپنی مدافعت کرنی چاہئے.ان تکالیف کو میں بھی سمجھتا ہوں اور یہ مجھ پر اثر کئے بغیر نہیں رہ سکتیں.ممکن ہے اپنے اندازہ میں میں غلطی کروں لیکن میرا اندازہ یہ ہے کہ شاید ان لوگوں کو جو مظالم کا تختہ مشق بنائے جارہے ہیں اس قدر تکلیف نہ ہوتی ہو جتنی مجھے ہوتی ہے لیکن باوجود اس کے ایک چیز ہے جسے ہم نظر انداز نہیں کر سکتے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک خاص مقصد کے لئے کھڑا کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ دنیا میں اسلام کے بعض اصول جو لغو سمجھے گئے تھے اور لوگ انہیں اپنی ترقی کی راہ میں روک

Page 294

خطبات محمود ۲۸۹ سال ۱۹۳۱ء خیال کرنے لگے تھے ہمارے ذریعہ خدا تعالیٰ دنیا کو بتانا چاہتا ہے کہ ان پر عمل کرتے ہوئے بھی کامیابی ہو سکتی ہے.اگر ہم بھی زمانہ کی رو کے ساتھ بہہ جائیں تو ممکن ہے دشمن پر حملہ کر سکیں، اس کا سر پھوڑ سکیں بلکہ کسی کو جان سے بھی مار سکیں اور پھر یہ بھی ممکن ہے کہ قانون کی گرفت سے بھی بچ جائیں مگر ہمارا اسلسلہ اس کے لئے قائم نہیں ہوا.دنیا میں پہلے بھی لوگ ایک دوسرے کو مارتے اور آپس میں سر پھوڑتے تھے مقدمات پہلے بھی چلتے تھے پہلے بھی کئی دفعہ حج یہ فیصلہ کر دیتے تھے کہ مارنے والا ظالم نہیں بلکہ در اصل مظلوم اور قانون کی گرفت سے باہر ہے لیکن جو چیز پہلے نہیں ہوتی تھی وہ یہ ہے کہ خدا رسول اور دین کے لئے قربانی نہیں کی جاتی تھی صبرو استقلال کا نمونہ نہیں دکھایا جاتا تھا.پس میں ان حالات کو مخالفانہ جوش کو اور اس کے نتائج کو خوب سمجھتا ہوں مگر کیا کروں قرآن کریم نے ابتداء میں ہی یہ تعلیم دی ہے اور جس جگہ رسول کریم میم کے خلاف دشمنوں کی عداوتوں کا ذکر کیا ہے وہیں یہ گر بھی سکھایا ہے کہ وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةُ إِلَّا عَلَى الْخَشِعِينَ الَّذِيْنَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلْقُوْا رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رجِعُونَ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مسلمانوں کا یہ کام ہے کہ صبر اور صلوٰۃ کے ساتھ استعانت کریں جس کے معنی یہ ہیں کہ صبر اور صلوٰۃ کے ذریعہ خدا کی مدد حاصل کی جائے.بعض لوگ کہتے ہیں رسول کریم مینی اسلیمی نے مدافعت کی اجازت بھی تو دی ہے.میں مانتا ہوں بے شک دی ہے مگر کسی اصل کے ماتحت.یہ نہیں کہ افراد کو جنگ کی اجازت دے دی ہو آپ میں ہم نے فرمایا ہے الا مَامُ جُنَّةَ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ : یعنی امام ڈھال ہوتا ہے اور اس کے پیچھے ہو کر لڑا جاتا ہے اس سے آگے ہو کر لڑائی نہیں کی جاسکتی.یہ نہیں کہ انفرادی لڑائی کو جائز کر لو اور اپنے آپ ہی DEFENCE کے لئے تیار ہو جاؤ.یہ امام کا کام ہے کہ اس موقع کا فیصلہ کرے جب مدافعت جائز ہو بغیر اس کے یہی حکم ہے کہ صبر اور صلوٰۃ کے ساتھ خدا تعالیٰ کی نصرت حاصل کرو.صلوۃ کے معنی دعا کے بھی ہیں اور محبت و شفقت کے سلوک کے بھی.جبھی ہم دعا مانگتے ہیں كه اللهم صل على محمد الی الحمد کے ساتھ محبت و شفقت کا سلوک کر یہ نہیں کہ آپ مُحَمَّدِ کے لئے دعائیں کر.کیونکہ خدا سے بڑھ کر کونسی ہستی ہے.جس کے سامنے وہ دعا کرے اس لئے اس جگہ صلوٰۃ کے معنی فضل اور رحمت کے ہیں اور ہم درخواست کرتے ہیں کہ اے خدا محمد مالم پر اپنے افضال اور رحمتیں نازل کر پس اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة میں بتایا

Page 295

خطبات محمود ۲۹۰ سال ۱۹۳۱ء ہے کہ صبر سے کام لو دعا سے کام لو اور پھر محبت اور سلوک سے کام لو.صبر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ایسا زمانہ ہو جس میں ایسے لوگ پائے جائیں جن پر ظلم ہو تا ہو کیونکہ صبر کے لئے ضروری ہے کہ ظالم موجود ہو اور دوسروں کے حق تلف کر رہا ہو اور صلوٰۃ کے معنے یہ ہیں کہ مومن باوجود ظلم کے شفقت اور محبت کا سلوک کرتا ہے نہ صرف یہ کہ وہ تعدی کو برداشت کرتا ہے بلکہ ظالم کے ساتھ رحمت اور حسن سلوک کا معاملہ کرتا ہے اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کے حضور دعا ئیں بھی کرتا رہتا ہے.قرآن کریم کے الفاظ ذہ معانی ہوتے ہیں.چنانچہ رسول کریم میایی نے فرمایا ہے قرآن کریم کے سات بطن ہیں اور جب تک کوئی معنے اس کی دوسری تعلیم کے خلاف نہ ہوں سب جائز ہیں پس صلوٰۃ کے معنے دعا کے بھی ہیں اور رحمت و شفقت کے بھی.آگے فرمایا وَ إِنَّهَا لَكَبيرة خدا تعالیٰ رسول کریم م ا م سے فرماتا ہے.جب تم یہ کہو گے کہ فلموں پر صبر کرو اور پھر بھی دشمن سے رحم اور محبت سے پیش آؤ تو لوگ کہیں گے اس طرح ہم کچلے جائیں گے انہیں کہہ دو فرض کر لو کہ کچلے بھی گئے تو پھر کیا آخر تم نے خدا سے ملنا ہے اور تمہارا بدلہ خدا کے پاس ہے تمہارے اعمال ضائع نہیں ہوں گے اگر کوئی تمہیں مار بھی ڈالے تو بھی غم نہ کرو کیونکہ تم خدا سے ملنے والے ہو وہ تمہیں اس کا بدلہ دے گا.پس ظلم کی حالت میں صبر کرو دعائیں کرو اور رحم و شفقت سے کام لو.یہ بات فی الوقعہ بڑی مشکل ہے اور سوائے اس کے نہیں ہو سکتی کہ انسان حقیقی تذلل اختیار کرلے اور اس طرح کرنے والے وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلْقُوْا رَبِّهِمْ کے مصداق ہوں یعنے جنہیں لوگوں کی تکالیف سے گھبراہٹ نہیں ہوتی کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کی ملاقات کا یقین رکھتے ہیں وَانَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ان کے اعمال کے نتائج کا دن آنے والا ہے رجِعُونَ سے مراد آخری بدلہ ہے جو قیامت کے دن ملے گا اور مومن کو اس یقین ہوتا ہے.پس میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ آدھا تیتر اور آدھا بٹیر بن کر کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی کامیاب انسان اسی طرح ہو سکتا ہے کہ یا پکا دیندار بن جائے یا پکا دنیا دار - یہ طریق کامیابی کا نہیں کہ ایک ٹانگ دین کی طرف ہو اور دوسری دنیا کی طرف ہم خدا کی جماعت ہیں اس لئے خدا کی جماعتوں والا ہی رویہ اختیار کرنا چاہئے.تم بہادری دکھاؤ مگر یاد رکھو بہادری کے یہ معنی نہیں کہ کسی کا سر پھوڑ دو بلکہ بہادری یہ ہے کہ اپنا سر صداقت کی خاطر اگر پھوڑا جائے تو پرواہ نہ کرو ایسی حالت میں بھی میدان سے نہ بھا گو بلکہ اپنے کام میں لگے رہو.بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ بزدلی کی

Page 296

خطبات محمود ۲۹۱ سال ۱۹۳۱ء تعلیم ہے مگر نہیں یہ بزدلی کی تعلیم نہیں رسول کریم م م کو لوگ سخت تکالیف پہنچاتے تھے مگر آپ ما تبلیغ میں برابر لگے رہتے تھے اور لوگوں کی مار پیٹ سے ڈر کر اسے بند نہیں کرتے تھے وہی بات تمہارے اندر ہونی چاہئے.قرآن کریم میں مومن کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لوگ ان پر ظلم کرتے ہیں اور وہ تبلیغ حق میں مصروف رہتے ہیں.پس یہ مت خیال کرو کہ یہ بزدلی ہے بلکہ یہ وہ حقیقی بہادری ہے جو خدا تعالیٰ نے سکھائی ہے.میں نسلاً بھی کسی بزدل قوم سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ اس نسل کا ہوں جو بارہ تیرہ سو سال تک تلواروں کے سایہ میں پلتی رہی ہے اور مذہبیا بھی میں کسی بزدل مذہب سے تعلق نہیں رکھتا ہم حضرت مسیح کی جماعت کے مشابہ ہیں اور حضرت مسیح وہ تھے جنہوں نے کہا کہ میں صلح کرانے کے لئے نہیں بلکہ تلوار چلانے کے لئے آیا ہوں.پس ہم بھی تلوار چلانے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں مگر وہ تلوار لو ہے یا فولاد کی نہیں بلکہ دلائل کی ہے ہم یہ کبھی نہیں کر سکتے کہ اپنے عقائد میں کسی قسم کی تبدیلی کر دیں.بزدلی اس کا نام تھا کہ لوگوں سے ڈر کر اپنے عقائد ترک کر دیتے اس کے لئے ہم کسی صورت میں تیار نہیں.مگر میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ صلح اور محبت کا طریق اختیار کرو ماریں کھاؤ تکالیف برداشت کرو لیکن اپنا کام نہ چھوڑو.اگر دنیا کے تبلیغ نہ کرو تو اس کی بات مت مانو خواہ سنگسار ہی کر دیئے جاؤ حتی کہ جو تمہارا امام ہے خواہ مقامی اور خواہ جماعت کا وہ یہ فیصلہ کر دے کہ اب برداشت کرنا خود کشی کے مترادف ہے ایسی حالت میں بے شک مقابلہ کرو اور اس صورت میں اگر مارے بھی جاؤ گے تو شہید ہوگے لیکن اس حالت سے پہلے مقابلہ کرنا سلسلہ کے لئے بھی اور خود تمہارے لئے بھی بدنامی کا موجب ہو گا.پس میں آپ لوگوں سے جو مشکلات میں ہیں (یہ اتفاقی امر ہے کہ میں آج جماعت لاہور کو مخاطب کر رہا ہوں.اگر چہ یہاں ابھی ایسے حالات پیش نہیں آئے اگر چہ عین ممکن ہے کہ کل یہاں بھی ایسے ہی حالات پیدا ہو جائیں اور اگر نہ بھی ہوں تو بھی بہر حال بالقوة تمام مومن اس تکلیف میں شریک ہیں جو ان کی کسی جماعت کو پہنچائی جارہی ہے اور اس لحاظ سے گویا یہ مصائب سب پر آرہے ہیں) کہتا ہوں کہ خوب یاد رکھو تکلیف کا علاج خدا تعالیٰ نے یہی بتایا ہے کہ صبر سے کام لو دنیا تمہیں دبانا چاہے تو ہر گز مت رہو.لیکن جس شرارت سے دشمن تم پر حملہ کرتا ہے تم نہ کرو مگر ساتھ ہی اپنا کام ہر گز نہ چھوڑو.اگر جماعت میں کوئی ایسا دوست ہے جو یہ کہہ سکے کہ میں روزانہ چھ سات گھنٹہ اپنی نوکری یا دو سرا کوئی کام کرنے کے بعد بھی تبلیغ کیلئے اپنے ارد گرد کے ؟

Page 297

خطبات محمود ۲۹۲ سال ۱۹۳۱ء لوگوں کے پاس گیا.لوگوں نے مجھے گالیاں دیں مارا پیٹا مگر میں پھر گیا.مجھ پر اور میرے دین پر دل آزار حملے کئے گئے مگر میں پھر بھی گیا اور پھر بھی میرے پاس وقت بیچ رہا ہے تو بے شک میں سمجھوں گا اس کے پاس لڑائی کے لئے بھی وقت ہے.لیکن جب ہمارے پاس اتنا بڑا کام ہے تو لڑائی کی ہمیں فرصت ہی کہاں ہو سکتی ہے میں یہ کس طرح مان لوں کہ ایک شخص تبلیغ کے لئے تو وقت نہیں نکال سکتا مگر لڑائی کے لئے اسے وقت مل سکتا ہے.اگر تم اسلام کے لئے اپنی عزت اور جان قربان کر دینے کا دعویٰ کرتے ہو تو وقت کی قربانی کیوں نہیں کرتے.جس کے لئے میں بار بار اپلیں کرتا ہوں روپیہ کیوں نہیں دیتے جس کے لئے بار بار اپلیں کرتا ہوں جان اور روپیہ بہر حال وقت سے زیادہ قیمتی ہے.زندگی ساٹھ یا ستر سال یا کم و بیش عرصہ تک سانس لینے کا نام ہے اور جب ایک شخص دین کے لئے ایک گھڑی بھر وقت نہیں دے سکتا تو میں کس طرح مان لوں کہ وہ سنجیدگی سے کہہ رہا ہے کہ دین کی خاطر اپنی جان دینے کے لئے آمادہ ہے.ایسا شخص خدا کو دھوکا دینا چاہتا ہے.یا یوں کہہ لو کہ وہ اپنے نفس کو دھوکا دے رہا ہے وگر نہ کیا وجہ ہے کہ وہ روزانہ دو گھنٹے بھی تبلیغ کے لئے نہیں دے سکتا.تم میں کتنے ہیں جو روزانہ اپنے محلہ میں یا ارد گرد کے گاؤں میں جا کر پیغام حق پہنچاتے ہیں اور تبلیغ کرتے ہیں.اسے میں تبلیغ نہیں سمجھتا کہ دوسری گفتگو کے دوران میں کبھی احمدیت کا ذکر بھی آگیا بلکہ تبلیغ یہ ہے کہ خالص طور پر تبلیغ ہی کی جائے اور اسی نیت سے دوسروں کے پاس جایا جائے یہ نمونہ اپنے اندر پیدا کرو اور پھر دیکھو کس طرح چھ ماہ کے اندرہی ا دنیا میں انقلاب بپا ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جس حالت میں یہ جماعت میرے سپرد ہوئی تھی اس سے ہر حالت میں ترقی ہی ترقی کر رہی ہے.جب میں خلیفہ ہوا تو مردم شماری کے کاغذات میں پنجاب کے اندر احمدیوں کی تعداد اٹھارہ ہزار تھی پھر دوسری مردم شماری میں اٹھائیس ہزار ہوئی اور اب کے خدا کے فضل سے چھپن ہزار ہے.اگر چہ میں بخوبی جانتا ہوں کہ یہ غلط ہے اور جماعت اس سے بہت زیادہ ہے.ہندوستان کے بعض دوسرے صوبوں میں تو جماعت میرے ہی زمانہ میں قائم ہوئی ہے اور پنجاب جو سلسلہ کا مرکز ہے اس میں بھی سرکاری رپورٹ کے مطابق جماعت دوگنی ہو گئی ہے اگر چہ یہ صحیح تعداد نہیں اور جماعت اس سے بہت زیادہ ہے اور دوسرے ممالک میں بھی ساری جماعتیں میرے ہی زمانہ میں قائم ہوئی ہیں جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اللہ تعالٰی اپنے فضل سے جماعت کو میرے ہاتھ میں ترقی دے رہا ہے.پس کسی قسم کی گھبراہٹ ظاہر نہ کرو اور اپنے اوقات کو ایسے رنگ میں خرچ کرو کہ وہ زیادہ سے زیدہ فائدہ کا

Page 298

خطبات محمود ۲۹۳ : سال ۱۹۳۱ء موجب ہو سکیں.کسی کے ساتھ لڑائی خواہ اس کا نام دفاع ہی کیوں نہ رکھو بغیر موقع محل کے نہ کرو رسول کریم میر نے مکہ کی زندگی اور پھر مدینہ کی ابتدائی زندگی میں ہرگز کوئی مقابلہ نہیں کیا پھر دیکھو مدینہ میں عبد اللہ بن ابی مشہور منافق نے آپ میں میر کی گردن میں پنکھ ڈال دیا مگر آپ نے ہر گز لڑائی نہیں کی بلکہ برداشت کیا حالانکہ آپ کے پاس طاقت تھی پھر اس نے یہاں تک کہا کہ ہمیں مدینہ پہنچ لینے دو وہاں جا کر ہمارا معزز ترین آدمی یعنی میں ذلیل ترین یعنی محمد کو نکال دے گا اس وقت بھی رسول کریم م ا ا ا ا م نے کسی قسم کا دفاع نہیں کیا حالانکہ ہر قسم کی طاقت حاصل تھی تو ہر حملہ کا دفاع ضروری نہیں ہوتا اور حملہ کرنا تو ہر حالت میں اسلام میں ممنوع ہے ہاں دفاع جائز ہے مگر امام کے ماتحت ہو کر حملہ تو اگر امام بھی کرے گا تو وہ خدا کی گرفت کے نیچے ہو گا اور دفاع بھی اللہ تعالی کی طرف سے ممنوع ہے سوائے اس کے کہ امام کے حکم کے ماتحت کیا جائے میں سمجھتا ہوں کہ ابھی ہم نے صبر کاوہ نمونہ دنیا کو نہیں دکھایا اور ابھی وہ مصائب ہم پر نہیں آئے جن سے دنیا متاثر ہو.ہمارے افغانستان کے بھائیوں نے وہ نمونہ دکھایا تو دیکھو کس طرح ساری دنیا اس سے متاثر ہو گئی.ہماری تو ابھی وہی حالت ہے جیسے باپ کی کمائی بیٹا کھاتا ہے ابھی افغانستان کے بھائیوں کی قربانیوں سے ہی ہم فائدہ اٹھا ر ہے ہیں آپ لوگوں میں سے ابھی کسی نے جان نہیں دی افغانستان کے بھائیوں کی قربانیوں سے ہی فائدہ اُٹھایا جا رہا ہے.پس ہر موقع پر صبر اخلاق اور شفقت کا نمونہ دکھاؤ اور ایسا نمونہ دکھاؤ جو دوسروں پر اثر کئے بغیر نہ رہے.جو شخص گھر میں آرام سے بیٹھا ہے اور اسی کا نام صبر رکھتا ہے وہ جھوٹا اور بزدل ہے.صبر کے معنے یہ ہیں کہ اپنا کام بھی بند نہ ہو اور دشمنوں کے مظالم بھی برداشت کئے جائیں.ممکن ہے کوئی شخص یہ خیال کرے کہ یہ لوگ قادیان میں آرام سے بیٹھے ہیں اور انہیں کوئی کچھ نہیں کہتا سب مصائب باہر کی جماعتوں کے لئے ہیں مگر یہ خیال کرنا غلطی ہے.جس شہر کی جماعت سمجھتی ہو کہ اسے بہت زیادہ گالیاں دی جاتی ہیں وہ اگر سارے سال کی گالیاں جمع کرے تو بھی ان سے کم ہونگی جو مجھے ایک دن میں ملتی ہیں.پھر منافقوں اور بیرونی دشمنوں کی فتنہ انگیزیاں ایسے حالات پیدا کر دیتی ہیں کہ عین ممکن ہوتا ہے قادیان کو دار الحرب بنادیں.کانگرس کی تحریک سول نافرمانی کے دوران میں چار پانچ لوگ ایسے وہاں آئے جن کا مقصد سوائے شرارت کے اور کوئی سمجھ میں نہیں آتا تھا.ایک دفعہ مدراس کے علاقہ کا ایک کانگرسی ہندو ملنے کے لئے آیا اور اس نے اصرار کیا کہ مجھے بالکل علیحدہ ملاقات کا موقع دیا جائے میں نے کہا کہ ہمارا دستور ہے کہ سیکرٹری کی

Page 299

خطبات محمود ۲۹۴ سال موجودگی میں ملاقات ہو مگر وہ نہ مانا اور آخر جب پوچھا کہ ملاقات کی غرض کیا ہے تو چونکہ اس سے کوئی معقول جواب نہ بن سکا اس لئے اس نے کہہ دیا کہ میں اپنی جائداد کے متعلق مشورہ کرنا چاہتا ہوں اب سوچنا چاہئے کہ مدر اس کے ایک کانگرسی ہندو کو اپنی جائداد کے متعلق مجھ سے مشورہ کرنے کی کیا ضرورت تھی.ایسے لوگ متواتر قادیان میں آتے رہے ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ جب سے گاندھی جی آزاد ہو گئے اور سول نافرمانی بند ہو گئی ہے اس وقت سے کوئی ہندو ایسے مشوروں کے لئے میرے پاس نہیں آتا.بعض ہندوؤں کے دلوں میں بھی خدا تعالی بات ڈال دیتا ہے اور وہ مجھے اطلاع دے دیتے ہیں کہ آپ کے متعلق فلاں منصوبہ کیا جارہا ہے اور کئی ایک نے ایسی اطلاعات دی ہیں.تو یہ بالکل غلط ہے کہ ہم قادیان میں امن سے بیٹھے ہیں.میں نے کہا ہے کہ جتنی گالیاں کسی ایسی جماعت کو جہاں مخالفت پوری شدت پر ہو سال بھر میں ملتی ہیں اس سے زیادہ مجھے ایک دن میں ملتی ہیں بلکہ میں تو یہ بھی کہوں گا کہ صوبہ بھر کی گالیاں بھی مجھ سے کم ہیں اور ان حالات میں ہمارے لئے بھی صبر کا بہت موقع ہے آپ لوگوں سے زیادہ گالیاں اور مصائب ہم کو اٹھانے پڑتے ہیں دشمن کی نظر افراد پر نہیں ہوتی بلکہ لیڈر پر ہوتی ہے پھر اس کی نگاہ خدا پر نہیں ہوتی اور وہ یہ نہیں سمجھتا کہ یہ سلسلہ الہی ہے اور خدا اس کا بانی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں سمجھاجاتا تھا کہ اگر آپ کو مار دیا جائے تو سب کام بند ہو جائے گا.پھر آپ کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے متعلق یہ خیال تھا پھر میرے متعلق پہلے تو یہ کہا جاتا تھا کہ یہ بچہ ہے مگر اب کہتے ہیں بہت ہوشیار آدمی ہے اگر یہ نہ ہو تو سلسلہ فورا مٹ جائے حقیقت یہ ہے کہ الہی سلسلوں کو مٹانا انسانی کام نہیں مگر دشمن یہ خیال نہیں کرتا.جو لوگ سیالکوٹ کے جلسہ میں موجود تھے وہ جانتے ہیں کہ سب پتھر مجھ پر ہی پھینکے جارہے تھے اور وہی لوگ زخمی ہوتے تھے جو میرے ارد گرد تھے ممکن ہے اتفاقا کسی اور کو بھی چوٹ آگئی ہو مگر مارنے والوں کا نشانہ میں ہی تھا مخالفوں کو اتنی عداوت آپ لوگوں سے نہیں جتنی مجھ سے ہے یا جو پہلے ائمہ سے تھی یا آئندہ سے ہوگی گالیاں اور خطرات مجھے آپ لوگوں سے کہیں زیادہ ہیں مگر میرا یہ کام نہیں کہ شور مچاتا پھروں آپ لوگ بھی ہمت سے کام لیں.خوب یا د رکھو کہ استَعينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوۃ ہی اصل نمونہ ہے پس مخلوق پر ثابت کرو کہ تم بزدل نہیں ہو.جنگ احد کے موقع پر رسول کریم میں یا یہ صحابہ کو لے کر ایک محفوظ مقام پر بیٹھے تھے کہ ابو سفیان نے پکارا کیا تم میں محمد ہے.آپ نے فرمایا جواب مت دو.پھر اس نے حضرت ابو بکر اللہ اور حضرت بکر

Page 300

خطبات محمود ۲۹۵ سال ۱۹۳۲ء عمر اللہ کا نام لیا مگر آپ نے فرمایا جواب مت دو.اس پر اس نے خیال کیا کہ یہ سب مارے گئے اور کہنے لگا اتعمل حبل اسے سن کر آپ میں مالا مال ضبط نہ کر سکے اور فرمایا اب بولو - الله اعلى وَاجَل کے اپنے نفسوں کی خاطر تو ضبط سے کام لیا مگر جو نہی خدا کا نام آیا آپ میں خاموش نہ رہ سکے.یورپین مصنف یہ تو لکھتے ہیں کہ آپ پہلے اس وجہ سے نہ بولتے تھے کہ خطرہ تھا مگر آگے یہ نہیں کہتے کہ اللہ تعالی کے نام پر آپس میں تعلیم کی غیرت نے کیوں خاموشی گوارہ نہ کی.دشمن خطرہ سے بچنے کے لئے غیرت کا ذکر نہیں کرتا اور یہ نہیں کہتا کہ خدا کا نام جب سنا تو سب خطرات کو آپ نے فراموش کر دیا.پس جماعت کو چاہئے صبر استقلال اور ہمت سے کام لے اور اپنی کوششوں کو بھی زیادہ کرے.تم میں سے ہر ایک دنیا کو بتادے کہ مومن بزدل نہیں ہوتا.البقرة : ٤٤٤٦ (الفضل ۲۶- نومبر ۱۹۳۱ء) بخاری کتاب الجهاد باب يقاتل من وراء الامام ويتقى به مشكوة المصابيح كتاب العلم جلد احدیث نمبر ۲۳۸ مطبوعہ بیروت بار سوئم ۱۹۸۵ء بخاری کتاب المغازى باب غزوة احد

Page 301

۲۹۶ 35 سالانہ جلسہ کی قدر و قیمت کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا (فرموده ۱۱- دسمبر ۱۹۳۱ء) سال ۱۹۳۱ء تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- آج دسمبر کی گیارہ تاریخ آگئی ہے اور اس لحاظ سے صرف دو ہفتے ہمارے اس سالانہ اجتماع میں باقی رہ گئے ہیں جسے اللہ تعالی کی منشاء اور اس کے خاص ارشاد کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت کے لئے تجویز فرمایا تھا.دنیا میں ہر ایک چیز کی قیمت محض ظاہری اسباب کے ذریعہ نہیں لگائی جاتی کیونکہ ایسی کئی چیزیں ہیں جن کی قیمت لگانا انسانی طاقت سے باہر ہوتا ہے اور اگر ہم ان کی صحیح قیمت کا اندازہ لگانا چاہیں تو درحقیقت ہمارے لئے بہت بڑی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اور یہ ممکن ہی نہیں ہو تاکہ ہم ان کی صحیح قیمت لگا سکیں.رسول کریم میں فرماتے ہیں.كَلِمَتَانِ خَفِيفَتَانِ عَلَى الْمَسَانِ ثقيلتان في الميزاندا دو فقرے ایسے ہیں کہ خَفِيفَتَانِ عَلَى الْمَسَانِ زبان پر تو نہایت ہلکے پھلکے نظر آتے ہیں.مگر ثَقِيلَتَانِ فِی المیزانِ قیامت کے روز جس دن انسانی اعمال کا اندازہ لگایا جائے گا ان کی قیمت بہت زیادہ پڑے گی.اس طرح ایک دفعہ رسول کریم میں مل کر لی بعض ان بشارات کا ذکر فرمارہے تھے جو آپ میل کے متعلق اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہوئیں اور جو آپ مسی ایل کی اخروی زندگی کے ساتھ متعلق تھیں ان سے متاثر ہو کر ایک صحابی کھڑے ہوئے اور انہوں کہا یا رسول اللہ دعا کیجئے میں بھی آپ کے ساتھ رہوں.آپ میں ای کویر نے فرمایا ہاں ایسا ہی ہو گا تم ہمارے ساتھ رہو گے.اب وہ عظیم الشان انعامات جن کا اندازہ لگانے سے انسانی ذہن قاصر ہے اور بلند ترین مدارج جو رسول کریم میں تعلیم کیلئے اللہ تعالی کے !

Page 302

خطبات محمود ۲۹۷ سال ۱۹۳۱ء حضور مقدر کئے گئے تھے ان میں ایک صحابی بھی جس کے اعمال ویسے نہیں تھے شامل ہو گیا حالانکہ اس صحابی کے اعمال کیا تھے محض اس کی یہ خواہش تھی کہ میں رسول کریم کے ساتھ رہوں اور آپ سے ایک لمحہ بھر کے لئے بھی جدا نہ ہو سکوں.بظاہر یہ خواہش معمولی دکھائی دیتی ہے مگر اس کی قیمت اللہ تعالیٰ کے حضور وہ تھی جس کا اندازہ انسانی ذہن نہیں لگا سکتا.اس پر ایک اور شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا یا رسول اللہ ا میرے لئے بھی دعا کیجئے میں بھی آپ کے ساتھ رہوں.آپ نے فرمایا یہ تو ہو نہیں سکتا کہ اب نقل کے طور پر جو شخص کھڑا ہو جائے میں اس کے لئے دعا کروں دعا تو ایک شخص لے گیا.تو بظا ہر وہ اخلاص معمولی سا دکھائی دیتا ہے مگر اس کے بدلہ میں اللہ تعالٰی نے جو انعام دیا وہ نہایت ہی عظیم الشان ہے.معلوم ہوتا ہے وہ صحابی اس تکلیف اور گھبراہٹ کی برداشت نہ کر سکا جو اسے اس خیال سے ہوئی کہ رسول کریم میں ہم اگر اتنے بلند مقامات حاصل کر گئے تو ہمیں آپ کی صحبت کہاں میسر آئے گی وہ بے چینی اور سخت گھبراہٹ کی حالت میں کھڑا ہوا اس وقت اسے انعامات کی خواہش نہیں تھی اسے بلند مدارج کی فکر نہ تھی اسے کسی خاص مقام کے حصول کی تڑپ نہ تھی اسے محض یہ خیال بے چین کر رہا تھا کہ رسول کریم کو اگر خدا نے اتنے بلند ترین مدارج عطا فرما دیے تو ہم آپ کے پاس کہاں پہنچ سکیں گے آپ کی صحبت ہمیں کب میسر آئے گی اور کب آپ کے فیض سے ہم مستفیض ہو سکیں گے.وہ اس جدائی کے صدمہ سے کھڑا ہوا اور اس نے بے تابانہ عرض کیا یا رسول اللہ ! دعا کیجئے اللہ تعالی مجھے بھی آپ کے ساتھ رکھے.اور چونکہ اس دعا کرانے کا محرک محض اخلاص اور رسول کریم م م ا ا ا ا ل لا کا عشق تھا.کسی انعام کا لالچ اس کے پیچھے نہ تھا اس لئے خدا کے حضور یہ خواہش مقبول ہوئی اور اس نے کہا کہ اچھا جب تو اس قدر بے قرار ہے تو جہاں محمدمن یم کو رکھا جائے گا اسی مقام پر تجھے بھی رکھا جائے گا.بات معمولی تھی اور اس کا اندازہ بھی معمولی ہی لگایا جا سکتا ہے مگر چونکہ اس آرزو کے پیچھے ایک درد تھا ایک سوز تھا، ایک کرب تھا ایک رنج تھا اس لئے اس کا اندازہ نہ زبان کے الفاظ سے ہو سکتا تھا نہ لب ولہجہ اس کی قیمت بتا سکتا تھا اور نہ کسی اور طرح ہمیں اس کی قیمت معلوم ہو سکتی تھی مگر انجام نے بتادیا کہ وہ خواہش کتنی عظیم الشان یں اس کی قیمت معلوم پس ہر چیز کی قیمت کا ہم صحیح قیاس نہیں کر سکتے.بہت دفعہ معمولی دکھائی دینے والی چیزیں اس قدر اہمیت رکھتی ہیں کہ ہمارا انہیں نظر انداز کر دینا سخت غلطی ہوتا ہے ہمارا جلسہ سالانہ بھی ایسے

Page 303

خطبات محمود ۲۹۸ سال ۱۹۳۱ء ہی اہمیت رکھنے والے امور میں سے ہے.بظاہر یہ ایک اجتماع ہے اور بالکل ویسا اجتماع ہے جیسے ہر جماعت اپنے اپنے جلسے منعقد کیا کرتی ہے.آریہ اور سناتنیوں کے بھی معمولی جلسے ہوتے ہیں اور سالانہ اجلاس بھی ہوتے ہیں ، کانگرس کے بھی جلسے ہوتے ہیں ، مسلم لیگ کے بھی جلے ہوتے ہیں ایجو کیشنل کانفرنس کے بھی جلسے ہوتے ہیں، پھر انجمن حمایت اسلام بھی اپنے جلسے منعقد کیا کرتی ہے ، مسلمانوں کے علاوہ سکھوں ، عیسائیوں اور آریوں کی انجمنیں بھی جلسے کرتی ہیں.ان کے علاوہ جس قدر سیاسی انجمنیں ہیں یا اقتصادی اور تمدنی معاملات کے سلجھانے کے لئے انجمنیں ہیں یا پیشہ وروں کی جمعیتیں ہیں سب کے سالانہ اجتماع ہوا کرتے ہیں اور لوگ ایسے موقعوں پر اکٹھا ہوا ہی کرتے ہیں.اگر اللہ تعالیٰ کا خاص ارشاد اس ہمارے جلسہ سالانہ کے قیام کے لئے نہ ہوتا اور اسکی طرف سے اشارہ نہ ہو تا تب بھی ممکن تھا جب ہماری ایک جماعت تھی تو اس کے لئے سالانہ جلسہ بھی مقرر کر دیا جاتا جس میں مقررہ دنوں میں تمام لوگ اکٹھے ہوتے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اسکی بنیاد قائم کرنا بتاتا ہے کہ اس جلسہ کی دوسرے اجتماعات کی طرح صرف ظاہری قیمت نہیں بلکہ اس میں کوئی مخفی بات ہے اور اس کا اندازہ لگانا ایسا ہی مشکل ہے جیسے اس صحابی کے قول کا جس نے کہا تھا یا رسول اللہ ! دعا کیجئے میں جنت میں آپ کے ساتھ رہوں.بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ انعام کا خواہش مند ہے اور بلندی درجات کا ذکر بن کر لالچ کرتا ہے اور کہتا ہے مجھے بھی وہ مقام حاصل ہو جائے.مگر لالچ پر تو انعام نہیں ملا کرتا.انعام قربانی پر ملتا ہے لیکن اس صحابی کو انعامات کامل جانابتا تا ہے کہ گو اس کی بظاہر لالچ معلوم ہوتی تھی مگر اس کے دل کو کچھ ایسا گہرا زخم لگا تھا جسے الفاظ بیان کرنے سے قاصر ہیں اور اسے رسول کریم میں کے الفاظ سے کچھ ایسا کرب محسوس ہوا تھا کہ اس نے کہا میں رسول کریم ملی کے برابر کہاں پہنچ سکتا ہوں جب نہیں پہنچ سکتا تو گویا رسول کریم سے میری جدائی ہو جائے گی.اس دکھ اور تکلیف کی وہ برداشت نہ کر سکا اور اس نے کہا یا رسول اللہ دعا کیجئے میں آپکے ساتھ رہوں تب اسکی قلبی کیفیات کو دیکھ کر اور اس دُکھ اور درد کو دیکھ کر جو اسے محسوس ہوا اللہ تعالیٰ نے یہی مناسب سمجھا کہ اسے بھی اس مقام پر رکھا جائے جس مقام پر محمد مالی و مالی و کو رکھا جائے.پس ہم نتائج سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس صحابی کو کیسا دکھ پہنچا تھا وگرنہ الفاظ سے نہیں کر سکتے.اسی طرح بظاہر ہمارا جلسہ بھی ویسا ہی دکھائی دیتا ہے جیسے اور دنیا میں سینکڑوں جلسے ہوتے

Page 304

2 خطبات محمود 1992 سال ۱۹۳۱ء رہتے ہیں اور بظاہر یہی دکھائی دیتا ہے کہ جس طرح اور جلسوں میں لوگ تقریریں کرتے ہیں اسی طرح یہاں بھی تقریر میں ہوتی ہیں مگر ان جلسوں کی شمولیت میں ہم وہ برکات نہیں سمجھتے جو اس جلسہ میں شامل ہونے سے حاصل ہوتی ہیں.دراصل اس جلسہ کو اللہ تعالیٰ نے ایک قسم کے حج کے مشابہ قرار دیا ہے.اصل حج تو وہی ہے جو رسول کریم کے وقت تھا اور قیامت تک می جاری رہے گا مگر اس میں بھی شبہ نہیں کہ اس اجتماع کو اللہ تعالٰی نے حج کے مشابہ ضرور قرار دیا ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.زمین قادیاں اب محترم ہے ہجوم خلق ނ ارض حرم ہے اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ قادیان وہ زمین ہے جس میں خدا کے ارشاد کے ماتحت لوگ اکٹھے ہوتے ہیں اور یہ ان کا اکٹھا ہونا ویسا ہی ہے جیسے ارضِ حرم میں لوگ ہر سال اکٹھے ہوتے ہیں پس یہ اجتماع ارض حرم کے اجتماع کے مشابہ ہے.یہ حج نہیں ہو تا مگر حج کے مثل ضرور ہوتا ہے اور ان دنوں قادیان مکہ نہیں بن جاتا مگر مکہ والی برکات یہاں بھی نازل ہونے لگتی ہیں.پس یہ جلسہ کے ایام معمولی برکات کے دن نہیں بلکہ بہت بڑا ثواب اور اللہ تعالیٰ کے حضور بلند درجات حاصل کرنے کے دن ہیں.اور اب جبکہ جلسہ سالانہ قریب آرہا ہے تمام جماعتوں کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ قادیان پہنچیں اور ہر احمدی کو خواہ وہ کسی گوشہ دنیا میں کیوں نہ پڑا ہو مگر اسکے لئے ان دنوں قادیان پہنچنا ممکن ہو یہ عزم کر لینا چاہئے کہ وہ جلسہ میں ضرور شامل ہو گا.میں اپنی جماعت کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ یہ ثواب حاصل کرنے کے دن ہیں ، یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی برکات جذب کرنے کے دن ہیں یہ اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کے حضور درجات حاصل کرنے کے دن ہیں اب ان کا کام ہے کہ وہ چاہیں تو اس جلسہ میں شامل ہو کر اللہ تعالیٰ کے قرب اور اس کی رحمتوں سے حصہ وافرلیں اور چاہیں تو اس میں شامل نہ ہو کر ایک ثواب کے موقع سے محروم رہ جائیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ گذشتہ ایام میں چندہ خاص کی وجہ سے جماعت کو مالی تنگی ہے اور اس موقع پر اور روپیہ خرچ کر کے آنا ایک بوجھ سا معلوم ہوتا ہے.خصوصاً ایسے وقت میں جبکہ ساری دنیا میں مالی تنگی کا دور دورہ ہے لیکن میں سمجھتا ہوں یہ روکیں مومن کے راستہ میں حائل نہیں ہونی چاہئیں.ہم تو ایک خدا کے مامور کی تیار کردہ جماعت ہیں ہمارے راستہ میں تو جو بھی مشکلات آئیں ہمارا فرض ہے کہ ہم انہیں عبور کر جائیں اور کبھی بھی مشکلات سے ڈر کر

Page 305

خطبات محمود سال ۱۹۳۱ء اپنے فرائض کو نظر انداز نہ کریں.میں نے کئی دفعہ باہر شہروں میں دیکھا ہے کہ بہت سے ننگے سر ننگے پیر اور نیلے کپڑے پہنے ہوئے سندھی لوگ دور دور سے پیدل چل کر آتے ہیں تا کسی بزرگ کی قبر کی زیارت کر سکیں حالا نکہ اب کیا ہے ان کی قبروں میں وہ صرف نشان ہیں اس شان و شوکت کا جو کسی زمانہ میں ایک بزرگ کی وجہ سے ظاہر ہوئی مگر اب معدوم ہے.مگر یہ جلسہ سالانہ نشان ہے اس شان و شوکت کا جو زندہ ہے اور ہمیشہ دائم و قائم رہے گی.پھر وہ ظہور وقتی اور مقامی حیثیت رکھتا ہے اور عالمگیر صورت اسکی نہیں تھی.مگر یہ وہ ظہور ہے جس کا قیامت تک سلسلہ جاری رہے گا اور جو تمام زمانوں پر حاوی ہے.پھر وہ رسول کریم میں کی کسی ایک صفت کو ظاہر کرنے والا ظہور تھا مگر یہ آپ کے سارے جلال کو ظاہر کرنے والا ظہور ہے پس ان دونوں کا کیا مقابلہ ہو سکتا ہے.مگر لوگ ہیں کہ پانچ پانچ سو میل سے پیدل چل کر ان قبروں کی زیارت کے لئے آتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ محبت روکوں کو دور کر دیا کرتی ہے.اگر دل میں اخلاص ہو ، دل میں درد ہو دل میں محبت ہو تو خواہ کتنی بڑی مشکلات سامنے آجائیں وہ ایک حقیر اور ذلیل چیز نظر آتی ہیں اور انسان انتہائی حقارت سے انہیں ٹھکرا دیتا ہے مگر اس کے لئے ضرورت ہے کہ عشق کی چنگاری دل میں روشن ہو ، ضرورت ہے کہ خشک فلسفہ دماغ پر غالب نہ ہو اور ضرورت ہے کہ محبت دل میں گد گدیاں لے رہی ہو.اگر انسان کی یہی حالت ہو تو پھر مشکلات کے پہاڑ بھی اگر اس کے سامنے آجائیں تو وہ ٹل جاتے ہیں، دریا آجائیں تو خشک ہو جاتے ہیں اور انسان ان پہاڑوں کو عبور کرتا ہوا اور دریاؤں کو چیرتا ہوا اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں اس کا محبوب و مطلوب ہو.مگر یہ اسی وقت ہوتا ہے جب محبت کو نظر انداز نہ کیا جائے ، جب اخلاص کو آنکھوں سے اوجھل نہ کیا جائے، جب عشق کی چنگاری دل میں روشن رکھی جائے اور اگر ایسا ہو تو تمام روکیں نہایت ہی بے وقعت اور ذلیل نظر آتی ہیں اور انسان نہایت آسانی کے ساتھ اپنا کام سرانجام دے سکتا ہے.پس باوجود ان روکوں کے جو اس سال ہماری جماعت کے احباب کے راستے میں حائل ہیں میں سمجھتا ہوں کہ احمدیہ جماعت نہ صرف اسی اخلاص اور محبت سے جلسہ سالانہ پر آسکتی ہے جس طرح پہلے جلسوں میں شامل ہوتی رہی بلکہ پہلے سے زیادہ تعداد میں آسکتی ہے اور میں یہ بھی امید کرتا ہوں کہ جس طرح ہماری جماعت کے احباب ہر سال جماعت کے علاوہ دوسرے لوگوں کو اپنے ہمراہ لایا کرتے ہیں اسی طرح اس سال بھی آئیں گے بلکہ کوشش کریں گے کہ پہلے سالوں

Page 306

خطبات محمود سال ۱۹۳۱ء سے زیادہ لوگوں کو اپنے ہمراہ لائیں کیونکہ ہر سال مومن کے لئے پہلے سالوں سے زیادہ کامیابیاں اپنے ساتھ لایا کرتا ہے.اس کے بعد میں قادیان کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ ان پر سب سے زیادہ ذمہ داریاں ہیں کیونکہ قرب کے مقام پر آنا کوئی معمولی بات نہیں ہوتی.شبلی ایک مشہور بزرگ گذرے ہیں ان کی زندگی کا ایک مشہور واقعہ ہے وہ اپنے زمانہ میں بہت بڑے کامیاب گورنر اور بادشاہ وقت کے خاص مقربین میں سے تھے ایک دفعہ ایسی حالت میں جب کہ وہ بادشاہ کے دربار میں بیٹھے تھے ، ایک جرنیل بادشاہ کے سامنے پیش ہو ا جس نے بہت بڑی خدمات ملکی سرانجام دی تھیں.بادشاہ نے خوش ہو کر اسے ایک بیش قیمت خلعت بطور انعام دیا اس کی بد قسمتی تھی کہ اسے اس روز کچھ نزلہ کی شکایت تھی اور وہ رومال لانا گھر سے بھول گیا تھا.اتفاقاً اسے دربار میں چھینک آئی اور کچھ فضلہ اس کے ناک سے گرا اس نے گھبراہٹ میں ایک طرف مونہہ کر کے اسی خلعت کے ایک کو نہ سے ناک پونچھ لیا.بادشاہ کی نظر اتفاقا اس پر جاپڑی اور اس نے جب دیکھا کہ جرنیل نے اس کی خلعت کو ایسے بے جاطور پر استعمال کیا ہے تو وہ غصہ سے بھر گیا اس نے حکم دیا کہ اس جرنیل.اسے خلعت اتار لو اسے عہدہ سے معزول کر دو اور اسے اسی وقت دربار سے نکال دو تا آئندہ یہ میرے سامنے کبھی پیش نہ ہو.اس کی تمام قربانیاں اور جاں نثاریاں اور اس کی تمام فدائیت بادشاہ کی نظر سے گر گئی مجھلا دی گئی ، مٹادی گئی ، نظر انداز کر دی گئی اور اس کا صرف ناک پونچھنا نہایت ہیبت ناک اور بھیانک صورت میں بادشاہ کے سامنے آگیا.وہ جرنیل اس وقت ذلیل کیا گیا اس کا خلعت اتار لیا گیا.جس وقت اسے دربار سے نکالا جا رہا تھا تو شیلی جو اس بادشاہ کی طرف سے ایک علاقہ کے گورنر تھے اور اپنے علاقہ کے خطرناک طور پر ظالم گورنر مشہور تھے ان کی چیخیں نکل گئیں اور وہ بے اختیار رونے لگ گئے پھر وہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا بادشاہ سلامت ! میرا استعفیٰ منظور ہو میں گورنری سے دستبردار ہو تا ہوں.بادشاہ حیران رہ گیا اور اس نے کہا شبلی تجھے کیا ہو گیا، شیلی نے کہا بادشاہ سلامت آپ نے جو اس جرنیل کو خلعت دیا تھاوہ اس کی قربانیوں کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتا تھا اس نے مدتوں اپنی جان کو خطرے میں ڈالا اپنی بیوی کو بیوگی کے سرے پر اور اپنی بیٹی کو قیمی کے کنارے پر رکھا، اس نے دن اور رات کام کیا اپنے آرام اور آسائش کو قربان کیا مگر آج جب وہ آپ کے دربار میں پیش ہوا اور آپ نے اس کی قربانیوں کو دیکھتے ہوئے اسے خلعت دیا تو محض معمولی سی فرو گذاشت پر آپ نے اسے عہدہ سے

Page 307

خطبات محمود ۳۰۲ سال ۱۹۳۱ء معزول کر دیا، خلعت اتار لیا اور دربار سے نکلوا دیا.میں سوچتا ہوں مجھے بھی اپنے خدا کی طرف سے ایک گورنری کا خلعت ملا ہوا ہے معلوم نہیں میں نے کتنوں پر ظلم کیا ہو گا کتنوں کو نقصان پہنچایا ہو گا اور کس قدر اس خلعت کی بے حرمتی کی ہوگی.میں نہیں سمجھ سکتا جب میں اپنے خدا کے دربار میں حاضر ہوا تو اس خلعت کی بے حرمتی کی وجہ سے میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا.پس بادشاہ سلامت میرا استعفیٰ منظور کر لیجئے مجھے بھی یہ خلعت منظور نہیں.بادشاہ نے انہیں بہتیرا سمجھایا مگر وہ نہ مانے اور استعفیٰ دے دیا تو قرب کا مقام جہاں بہت سی برکات کا موجب ہوتا ہے وہاں ایسے مقام میں رہنے سے انسانی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے.آپ لوگوں کی ذمہ داریاں بھی دوسرے لوگوں سے بہت بڑھی ہوئی ہیں اور آپ لوگوں کو بھی خدا کی طرف سے ایک خلعت ملا ہے اور وہ خلعت مہمانوں کی آؤ بھگت اور ان کی خاطر تواضع ہے.یہ خلعت خدا کے قائم مقام ہونے کا ہے ؟ ہونے کا ہے کیونکہ سلسلہ حقہ کے مہمانوں کا اصل مہمان نواز در اصل خدا تعالیٰ ہی ہوتا ہے اور جس قدر مہمان آئیں وہ خدا کے مہمان ہوتے ہیں پس چونکہ انکا اصل میزبان خدا تعالیٰ ہوتا ہے اس لئے جو جماعت ان کی مہمان نوازی کے لئے کھڑی ہوتی ہے وہ در حقیقت خدا تعالی کے قائم مقام ہوتی ہے.ایسے عظیم الشان مقام پر جو جماعت کھڑی ہو اگر وہ اللہ تعالی کی اس خلعت کی بے حرمتی کرے یا اپنے اس شرف کو کسی کو تاہی کی وجہ سے بٹہ لگائے تو یہ کس قدر افسوس کا مقام ہو گا.پس میں آپ لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے اوقات اور اپنے مکان آنے والے مہمانوں کو مہمان نوازی کے لئے پیش کریں.ہر شخص جس کے پاس کوئی مکان ہو وہ جس حد تک ممکن ہو سکے اپنا مکان مہمانوں کے لئے خالی کر دے اور اسے ان لوگوں کے سپرد کر دے جو منتظم مکانات ہیں.صرف اپنے حصہ میں اتنا مکان رکھا جا سکتا ہے جس سے کم رکھنا نا ممکن ہو اور جو زائد حصہ ہوا سے خود بخود کارکنوں کے سامنے پیش کر دینا چاہئے.مجھے کئی لوگوں کی شکایات پہنچتی ہیں کہ وہ باوجود وعدہ کرنے کے اپنے مکانات دینے سے انکار کر دیتے ہیں اور صرف تین دن کے لئے بھی اپنے آپ پر تنگی برداشت نہیں کرتے.میں ایسے لوگوں سے کہوں گا کہ تم نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد کیا ہوا ہے اگر تم سال میں سے صرف تین دن کے لئے بھی اس عہد پر عمل نہیں کر سکتے تو تم سے زیادہ جھوٹا اور کوئی نہیں ہو سکتا.تم دنیا کے سامنے تو یہ کہتے ہو کہ ہمارا مال اور ہماری جان اللہ تعالٰی کے راستہ میں قربان ہونے کے لئے حاضر ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ تم صرف ایک ہفتہ کے لئے بھی اپنے مکانات خالی نہیں کرتے اور

Page 308

خطبات محمود ۳۰۳ سال ۱۹۳۱ء اس طرح اپنے عمل سے اپنے قول کی تکذیب کرتے ہو.دنیا میں کون ایسا بیوقوف سے بیوقوف اور بیہودہ سے بیہودہ انسان ہے جو شادی کے موقع پر اپنے مکانوں کو بند رکھے اور یہ پسند کرے کہ میں تو آرام میں رہوں مگر میرے مہمان گلی میں پڑے رہیں.جب شادیوں کے موقع پر آنے والے مہمانوں کا احترام کیا جاتا ہے تو وہ جو خدا کے مہمان ہوں ان کے لئے جو شخص اپنے مکانات خالی نہیں کرتاوہ خدا کے حضور بہت بڑا مجرم ہے.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ ہر وہ شخص جس کے پاس مکان ہو ، ہر وہ شخص جس کے پاس وقت ہو، ہر وہ شخص جس کے پاس صحت ہو وہ اپنے مکان اپنے وقت اور اپنی صحت کے لحاظ سے جس حد تک قربانی کر سکتا ہے کرے اور اپنی طاقتوں کو سلسلہ کے کارکنوں کے سپرد کر دے تاوہ ایک بے حقیقت حقیر اور نہایت ادنی سا ثبوت اس امر کا جیسا کرونے کہ وہ فی الواقع دین کو دنیا پر مقدم رکھتا ہے.میں نے بتایا ہے میرے پاس کئی لوگوں کے متعلق ایسی شکایات آتی ہیں کہ وہ اپنے مکان خالی نہیں کرتے.اس کے متعلق میں جہاں مکانات دینے والوں کو کہتا ہوں کہ وہ کم سے کم جگہ اپنے لئے مخصوص کر کے باقی مکان مہمانوں کے لئے خالی کر دیں وہاں میں مکانات لینے والوں کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ انہیں دوسروں کی تکالیف اور مجبوریوں کا خیال رکھنا چاہئے.میں تو سمجھتا ہوں اگر ہمارے مکانات کی تنگی کسی وقت اس حد تک پہنچ جائے کہ مکانوں میں سے ہمارے نکلے بغیر مہمانوں کا گزارہ نہ ہو سکے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم مکانوں سے نکل جائیں اور سارے مکان اپنے مہمانوں کے لئے خالی کر دیں.میں امید کرتا ہوں کہ باہر کے دوست اور قادیان کے احباب بھی ان نصائح پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے جو میں نے ابھی کی ہیں اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی کوشش کریں گے یہ خدا کی ذمہ داریاں ہیں اور ان کا ادا کر نا تمام ذمہ داریوں سے بڑھ کر ضروری ہے.الفضل ۱۷ - دسمبر ۱۹۳۱ء) ل.بخارى كتاب الرد على الجهمية وغيرهم التوحيد باب قول الله ونضع الموازين القسط بخاری کتاب الرقاق باب يدخل الجنة سبعون الفا بغير حساب.تذكرة الاولياء باب ۷۸ درباره ابو بکر شبلی

Page 309

خطبات محمود ۳۰۴ 36 مهمان نوازی کے متعلق ضروری ہدایات (فرموده ۱۸- دسمبر ۱۹۳۱ء) سال ۱۹۳۱ء تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں نے پچھلے جمعہ قادیان کے تمام دوستوں کو جلسہ سالانہ کے متعلق اپنی خدمات پیش کرنے کے لئے خطبہ پڑھا تھا اور بیرون جات کے احباب کو بھی باوجو د مشکلات کے قادیان آنے اور ساتھ اپنے دوستوں کو لانے کی نصیحت کی تھی.میں پچھلی دفعہ خصوصیت کے ساتھ قادیان کی مستورات کو اس امر کی طرف توجہ دلانا بھول گیا تھا کہ اب چونکہ ہمارے جلسہ سالانہ کے موقع پر کثرت کے ساتھ باہر سے عورتیں بھی آیا کرتی ہیں اور ان کی مہمان نوازی کا بوجھ یہاں کی عورتوں پر ہی ہوتا ہے اس لئے میری ان نصائح کو جو میں نے گذشتہ جمعہ مردوں کو کی تھیں عورتیں بھی اپنے متعلق سمجھ لیں.ہندوستان کی عورتیں بالعموم باقی دنیا کی نگاہوں میں نہایت ہی ذلیل اور حقیر سمجھی جاتی ہیں اس واسطے کہ لوگ خیال کرتے ہیں وہ تعلیم میں بہت پیچھے ہیں اور اس واسطے کہ لوگ خیال کرتے ہیں وہ عمل میں بہت پیچھے ہیں یہ داغ کچھ ان کے ماتھے پر ایسا لگا ہے کہ باوجود گذشتہ پچاس سالہ جد و جہد کے وہ اب تک اس الزام سے بری نہیں ہو ئیں.میں نہیں کہہ سکتا عورتیں اس معاملہ میں کس حد تک ذمہ دار ہیں اس لئے کہ عورتوں کی ذمہ داری دو مختلف نقطہ ہائے نگاہ سے بالکل مختلف ہو جاتی ہے.اگر ہم اس امر کو تسلیم کریں کہ مرد عورت ہر امر میں مساوی ہیں تو یہ ذمہ داری عورتوں پر زیادہ ہو جاتی ہے اور یہ گذر عورتوں کا باقی نہیں رہ جاتا کہ مردوں نے ہمیں تعلیم نہیں دی مردوں نے ہمیں ترقی کرنے نہیں دی کیونکہ جب دونوں مساوی ہیں تو ایک دوسرے کی امداد پر بھروسہ کر کے اگر ترقی کے میدان میں پیچھے رہ جاتا ہے تو یہ اس کا اپنا قصور ہے.اس

Page 310

خطبات محمود ۳۰۵ سال ۱۹۳۱ء صورت میں مرد کہہ سکتے ہیں کہ ہم بھی مساوی ہیں اور تم بھی مساوی ہم نے کوشش کی اور ترقی کر گئے اگر تم بھی کوشش کرتیں تو ترقی کر جاتیں لیکن چونکہ تم نے خود ترقی کے لئے جد وجہد نہیں کی اس لئے ہماری طرح تمہیں عروج حاصل نہیں ہوا.مگر ایک اور نقطہ نگاہ ہے جو اس سے بالکل مختلف ہے اور وہ یہ کہ گو بعض باتوں میں مرد اور عورت مساوی ہیں مگر بعض باتوں میں اختلاف بھی رکھتے ہیں.اگر اس اصل کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر عورتوں کی ذمہ داری کسی قدر کم ہو جاتی ہے اور وہ کہہ سکتی ہیں کہ تعلیم کے معاملہ میں عورتوں کو مردوں کی امداد کی ضرورت ہے یادہ کہہ سکتی ہیں کہ عمل کے میدان میں بھی عورتوں کو مردوں کی مدد کی ضرورت ہے.پس میں نہیں کہہ سکتا کہ عمل کے میدان میں بھی عورتوں کو مردوں کی مدد کی ضرورت ہے.مگر بہر حال اس واقعہ سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عورتیں مردوں کی نسبت انتظام میں بہت پیچھے ہیں اور عمل میں بہت پیچھے ہیں اور خصوصیت سے یہ بات ہندوستان میں پائی جاتی ہے.ہندو کہتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے که مسلمان پرده وغیرہ کی رسوم ملک کے اندر لے آئے اور جب عورتوں نے ان پابندیوں کو اختیار کیا تو انکی عملی قوتیں ست ہو گئیں.مسلمان کہتے ہیں جن ملکوں میں ہم ہی ہم ہیں.وہاں کی عورتیں یہاں کی نسبت بہت زیادہ ترقی یافتہ ہیں.پس یہ بلا جو ہندوستانی عورتوں پر پڑی ہندوؤں کی وجہ سے ہی ہے اور اس میں شبہ نہیں کہ اس دعوئی میں ہندوؤں کے دعوی کی نسبت بہت زیادہ وزن ہے بہر حال واقعہ یہی ہے کہ ہمارے ملک کی عورتیں مردوں کی نسبت میدان ترقی میں بہت پیچھے ہیں.اس کی زیادہ تر یہ بھی وجہ ہے کہ انہیں کام کرنے کے مواقع بہت کم میتر آتے ہیں.انسان کے اندر کچھ ایسی بات پائی جاتی ہے کہ اگر اس کے سامنے کسی کام کے بار بار مواقع پیش آتے رہیں تو اسے بہت زیادہ واقفیت پیدا ہو جاتی ہے لیکن عورتوں کے لئے یہاں کام کے مواقع بھی بہت کم میتر آتے ہیں اور اس وجہ سے بھی وہ پورے طور پر اپنی قابلیتوں کا اظہار نہیں کر سکیں لیکن یہ اللہ تعالی کا فضل ہے کہ ہماری جماعت کے لئے ایسے کئی موقعے میتر ہیں.ہماری جماعت کے لوگوں کو تعلیم کا شوق بھی ہے وعظ و نصیحت کے لیکچر اور تقریریں سنے کا بھی شوق ہے اور علاوہ ازیں انہیں سال میں کم از کم ایک دفعہ کام کرنے کا موقع بھی مل جاتا ہے اور یہ موقع ہماری جماعت کے سوا شاذ و نادر ہی کسی اور جماعت کو ملتا ہے.پس اگر کوئی جماعت اس قابل ہے کہ وہ عورتوں کی سستی کو دور کرے تو وہ ہماری جماعت ہی ہے اور اگر کوئی موقع ایسا ہے کہ وہ نظام کے ماتحت جماعت کو کام کرنے کی عادت

Page 311

خطبات محمود سال ۱۹۳۱ء ڈالے تو وہ جلسہ سالانہ ہے پس میں کہتا ہوں کہ وہ بہنیں جو جمعہ کی نماز میں شامل ہونے کے لئے آئی ہیں میری یہ نصیحت سن کر دوسری بہنوں تک اسے پہنچا ئیں گی اور پھر وہ اور در سری تمام خواتین لجنہ اماء اللہ کو جس کے ماتحت ان کے جلسہ کا انتظام ہوتا ہے اپنی خدمات سپرد کر کے باہر سے آنے والی بہنوں کی آسائش کا انتظام کریں گی.مگر چونکہ عورتیں ابھی ایسی ترقی یافتہ نہیں جیسے مرد اور وہ ابھی نظام کے لحاظ سے بہت پیچھے ہیں اس لئے میں جہاں عورتوں کو توجہ دلاتا ہوں وہاں مردوں کو بھی جنکی مائیں بہنیں ، عورتیں اور دوسری رشتہ دار یہاں جمعہ پڑھنے کے لئے آئی ہوئی ہیں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے اپنے گھر جا کر اپنی ماؤں اور بہنوں اور بیٹیوں اور دوسری رشتہ دار عورتوں کو کام کرنے کے فوائد اور اس کا ثواب سمجھانے کی کوشش کریں.ایک زمانہ انسان پر ایسا آتا ہے جب وہ قطعاً اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ اس کام کے عوض اسے کیا ثواب ملے گا.بلکہ وہ صرف یہ دیکھتا ہے کہ اس کا فرض کیا ہے.اور پھر ایک زمانہ اس پر ایسا بھی آتا ہے کہ وہ یہ بھی نہیں دیکھتا کہ یہ اس کا فرض ہے یا نہیں؟ بلکہ وہ کام اس کی طبیعت کا جزو ہو جاتا ہے اور وہ بغیر کسی دوسرے کی تحریک کے اسے خود بخود کرتا چلا جاتا ہے.لیکن چونکہ یہ زمانہ ابھی عورتوں سے بہت دور ہے اس لئے فی الحال جس چیز کے ذریعہ انہیں کام کا شوق دلایا جا سکتا ہے وہ ثواب ہے اگر انہیں پتہ لگ جائے کہ اس کام کے نتیجہ میں ثواب ملے گا تو عورتیں نہایت شوق کے ساتھ کرتی ہیں اور دراصل وہی حربہ کارگر ہوتا ہے جو وقت پر کام آسکے.اگر عورتوں کو سمجھانا شروع کر دیا جائے کہ تمہارا فرض ہے تو ان میں سے بہت سی عورتیں اس کو اپنا فرض سمجھنے سے قاصر رہیں گی اور وہ نہیں سمجھ سکیں گی کہ یہ ان کا فرض کیسے ہے.یا اگر انہیں سمجھایا جائے کہ دوسروں کی خاطر تواضع کرنا انسان کا طبعی جذبہ ہے اور اس سے کام لینا چاہئے تو وہ حیران ہوں گی اور بہت سی پوچھیں گی کہ طبعی جذ بہ کیا ہوتا ہے.مگر ایک چیز ہے جس کے ماتحت ہر عورت خواہ وہ غیر تعلیم یافتہ ہی کیوں نہ ہو بشر طیکہ مومنہ ہو کام کی طرف راغب ہو جاتی ہے اور وہ ثواب ہے.جب کسی عورت کے یہ امر ذہن نشین کیا جائے کہ اس کام کے نتیجہ میں تمہیں اللہ تعالی کی طرف سے ثواب ملے گا خواہ وہ یہ جانتی ہی نہ ہو کہ ثواب کیا چیز ہوتا ہے پھر بھی وہ نہایت شوق سے کام کرنے پر آمادہ ہو جائے گی اور یہ ثواب کا لفظ ایمان کے ساتھ کچھ ایسا وابستہ ہو چکا ہے کہ خواہ کسی امر کی اہمیت سمجھنے کے لئے انسان کے پاس دلائل نہ ہوں اگر اسے پتہ لگ جائے کہ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثواب ملے گا تو اسکے دل میں کچھ نہ کچھ گد گدی

Page 312

خطبات محمود ۳۰۷ سال ۱۹۳۱ء پیدا ہونے لگتی ہے اور اس کے دل میں یہ خواہش اٹھتی ہے کہ آؤ میں بھی ثواب حاصل کروں.پس اگر کوئی اور دلیل ان کی سمجھ میں نہ بھی آئے تو بھی یہ دلیل کہ اس کام کے نتیجہ میں اللہ تعالٰی کی طرف سے ثواب ملے گا انہیں ضرور سمجھ آجائے گی اور وہ نہایت شوق کے ساتھ اپنی خدمات پیش کر دیں گی.پس انہیں سمجھاؤ کہ باہر سے آنے والے مہمانوں کے لئے تکلیف اٹھانی چاہئے اگر چند راتیں جاگنا پڑے اگر چند دن تکالیف برداشت کرنی پڑیں اگر تھوڑے دنوں کے لئے اپنے بچوں سے بے اعتنائی کرنی پڑے اور اگر جلسہ کے ایام میں قادیان کی عورتیں جو ہمیشہ وعظ و نصائح سنا کرتی ہیں تھوڑی سی قربانی کر کے باہر سے آنے والی خواتین کو آگے بیٹھنے کے لئے جگہ دیدیں تو یہ کوئی بڑی قربانی نہیں ہے بلکہ اس طرح خود ان کی تربیت ہو جائے گی اور ایسے رنگ میں ہوگی کہ وہ آئندہ بہتر طور پر کام کرنے کے قابل ہو جائیں گی میں اس کے ساتھ ہی مردوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اگلا جمعہ چونکہ جلسہ کے اندر ہی ہو گا کیونکہ اس دن اللہ تعالٰی کے فضل سے ایک کافی تعداد مہمانوں کی آچکی ہوگی اس لئے انہیں محنت اور اپنے نفس پر تکلیف برداشت کر کے ان دنوں میں کام کرنا چاہئے.کئی ایسے ہیں جو تکلیف کی برداشت نہیں کرتے اور کئی ایسے ہیں جو محنت سے کام سر انجام نہیں دیتے اور پھر کئی ایسے ہیں جو دوسرے کی تلخ بات کو برداشت نہیں کر سکتے.مگر یاد رکھو اللہ تعالیٰ کے لئے جو تلخ بات سننی پڑتی ہے اس سے زیادہ شیریں بات اور کوئی نہیں ہو سکتی اس وقت خواہ انسان کو کتنا ہی غصہ آئے اپنے آپ پر قابو رکھنا چاہئے اور کوئی ایسی بات مونہہ سے نہیں نکالنی چاہئے جس سے دوسرے کی دل آزاری ہو.تم اپنی زندگی میں سے ماضی پر غور کر کے دیکھ لو بہترین لذت تمہیں انہی گھڑیوں میں آئی ہوگی جن میں تم نے خدا کے لئے اپنے نفس پر کوئی تکلیف برداشت کی ہوگی کیا آج ہم اس امر پر خوش ہو سکتے ہیں کہ آج سے چند سال پہلے دین کی خدمت کی وجہ سے ہمیں عزت حاصل ہوئی یا شہرت مل گئی یا روپیہ حاصل ہو گیا لیکن ہم ہمیشہ فخر محسوس کریں گے اگر اللہ تعالیٰ کی رضاء کی خاطر ہم نے گالیاں سنیں یا الزام اپنے سمر لئے یا اپنی بہتک عزت کی پرواہ نہ کی.اپنے نفسوں کو خوب مولو اور غور کر کے دیکھو تم کونسی چیز فخر کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کیا کرتے ہو کیا یہ کہ خدا کے دین میں داخل ہو کر تمہیں روپیہ مل گیا یا یہ کہ خدا کے دین میں داخل ہو کر تمہیں تکالیف برداشت کرنی پڑیں.اگر تم اس امر میں فخر سمجھو کہ تمہیں دین کی خدمت کے بدلہ میں روپیہ مل گیا تو یہ اور بات ہے لیکن اگر اس میں فخر سمجھو کہ تمہیں اللہ تعالٰی کی راہ میں تکالیف اٹھانی پڑیں اور تمہیں اپنی عزت یا مال یا جان کی قربانی

Page 313

خطبات محمود ٣٠٨ کرنی پڑی تو تمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ آئندہ بھی اگر اللہ تعالٰی کی خاطر تمہیں قربانیاں کرنی پڑیں تو ان سے دریغ نہیں کرنا چاہئے.اور در حقیقت انسان کو اللہ تعالیٰ کے قریب وہی چیز کرتی ہے جو اللہ تعالی کے راستے میں قربان کی جاتی ہے.یہ اللہ تعالی کا کام ہے کہ وہ اپنے احسان گنائے کیونکہ وہ احسان کرنے والا ہے اور یہ بندے کا کام ہے وہ اپنی قربانیاں یاد کرے کیونکہ وہ قربانیوں کے لئے پیدا کیا گیا ہے خدا چونکہ ازلی اور ابدی خدا ہے اس لئے قربانی خدا کی طرف سے نہیں ہوتی کیونکہ قربانی ادنی کی طرف سے ہوتی ہے اعلیٰ کی طرف سے نہیں مگر جب اونی قربانی کرتا ہے تو وہ اعلیٰ کی طرف ترقی کر جاتا ہے.پس بندے کو ہمیشہ اپنی قربانیوں پر نگاہ رکھنی چاہئے جس طرح خدا تعالیٰ اپنے احسانات پر نگاہ رکھتا ہے.لیکن چونکہ قربانیاں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہی ہوتی ہیں اور ان کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے اس لئے بندہ ان قربانیوں پر احسان نہیں جتلا سکتا.پس اللہ تعالٰی کے لئے اگر چند دن تکالیف برداشت کرنی پڑیں تو برداشت کرو اور اگر اپنے اوقات کو قربان کرنا پڑے تو بخوشی کرو اور محنت اور شوق سے کام کرو اور اپنے نفس کو ایسے طور پر مارو کہ گویا وہ ہے ہی نہیں کیونکہ جب تک انسان اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنے نفس کو ذبح نہیں کرتا وہ ترقی نہیں کر سکتا.اللہ تعالیٰ کے مامور جب دنیا میں آتے ہیں تو وہ اسی غرض کے لئے آتے ہیں کہ تالوگوں کے نفوس پر موت وارد کر کے انہیں ایک نئی زندگی عطا کریں پس اگر نئی زندگی حاصل کرنا چاہتے ہو تو اپنے آپ پر موت وارد کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں وہی شخص بڑھتا ہے جو اپنے آ.موت وارد کرتا ہے.الفضل ۲۴- دسمبر ۱۹۳۱ء)

Page 314

خطبات محمود ۳۰۹ 37 مومن کی عملی زندگی اور سورۃ فاتحہ (فرموده ۲۵- دسمبر ۱۹۳۱ء) سال ۱۹۳۱ء تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.حضرت خلیفۃ المسیح الاول فرمایا کرتے تھے کہ ایک ہندوؤں کا مذہبی راہنما پنجاب یا یوپی کے علاقہ سے آیا تو ایک بڑا ہندو افسر جو آپ سے ملنے والا تھا اس نے آکر بتایا کہ ہمارے ایک بزرگ آئے ہوئے ہیں.جن سے ملنے کیوجہ سے روحانیت تازہ ہو جاتی ہے.فرمانے لگے میں نے اس سے پوچھا کہ آخر روحانیت کے تازہ ہونے کا کیا سبب ہے اس نے جواب دیا کہ وہ ایسی محبت خدا تعالی سے کرتے ہیں کہ گھنٹوں دعاؤں میں لگے رہتے ہیں اور تھکتے نہیں.چنانچہ اس نے ذکر کیا کہ ایک دن انہوں نے پانچ گھنٹے دعا میں صرف کئے تھے میں نے کہا دعاؤں کے گھنٹے تو قیمت نہیں رکھتے قیمت تو اس دعا کی ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے حضور کی جاتی ہے پس دیکھنا یہ چاہئے کہ وہ دعا کیا تھی اور کسی اخلاص سے کی گئی تھی.تم مجھے یہ بتاؤ کہ انہوں نے کیا کیا دعا ئیں کی تھیں تا مجھے معلوم ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ سے کس قسم کا واسطہ اور تعلق رکھتے ہیں.فرماتے وہ تو کچھ نہ بنا سکا لیکن میں نے اسے بتایا کہ ہمارے ہاں ایک دعا ہے انہوں نے تو نہ معلوم کیا کیا مانگا ہو گا نگر ہماری وہ دعا ایسی ہے جو ایک منٹ میں ادا ہو سکتی ہے.تم غور کر کے دیکھو کہ کیا کوئی پانچ گھنٹے کی دعا اس ایک منٹ کی دعا کا مقابلہ کر سکتی ہے.فرماتے تب میں نے اسے سورۃ فاتحہ لکھ کر دی اس کا ترجمہ اسے لکھایا اور اس کا مطلب اچھی طرح بتا دیا.چند دن ہوئے میں ایک جرمن مصنف کی کتاب پڑھ رہا تھا وہ شخص علوم اسلامیہ کا بہترین ماہر سمجھا جاتا ہے اور مستشرقی لوگ یعنی مشرقی علوم کی دریافت اور و تجس کرنے والے اسے اپنا سردار سمجھتے ہیں اس کے نام کا میں صحیح تلفظ تو نہیں جانتا تحقیق و

Page 315

خطبات محمود ۳۱۰ سال ۱۹۳۱ء کیونکہ وہ جر منی لفظ ہے غالبا نو لنگ یا نولڈ اس کا نام ہے اپنی کتاب میں اس نے قرآن کریم کا بھی ذکر کیا ہے اور قرآن مجید کے ذکر میں اس نے سورۃ فاتحہ کو لیا ہے اور اس کے متعلق جو بات لکھی ہے اس کا ایک حصہ تو ہر مسلمان کے دل کو خوشی اور مسرت سے بھر دیتا ہے مگر اس کا دوسرا حصہ دل کو غم اور الم سے پُر کر دیتا ہے وہ ایک ہی فقرہ جسکا آدھا حصہ مسلمان کے دل کو خوشی سے اور دو سرا آدھا حصہ غم سے بھر دیتا ہے یہ ہے کہ قرآن اس نہایت ہی خوبصورت چھوٹی اور قیمتی دعا سے شروع ہوتا ہے جس کو مسلمان ہر روز بلا ناغہ اور متواتر پڑھنے کی وجہ سے اس کی تاثیر سے متاثر ہونے سے بالکل محروم رہ گئے ہیں.اس کا پہلا فقرہ ایک عیسائی عالم کے مونہہ سے کتنی زبر دست تعریف ہے کہ قرآن مجید کی ابتدا ایک چھوٹی مگر نہایت ہی خوبصورت اور قیمتی دعا سے ہوتی ہے لیکن اس کا دوسرا حصہ کہ جس کو مسلمان بوجہ روزانہ پڑھنے کے اس کی خوبصورتی دیکھنے کی قوت کھو بیٹھے اور ان کی بینائی جاتی رہی اور مان کی نگاہ سے ان کی خوبیاں اوجھل ہو گئیں نهایت درد اور رنج کے جذبات پیدا کرنے والا ہے.ایک عیسائی اور پکا عیسائی اگر ایک طرف اس دعا کی خوبصورتی کا اعلان کرتا ہے تو دوسری طرف مسلمانوں کی نابینائی پر افسوس بھی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اتنی خوبصورت چیز ان کی نگاہ سے اوجھل ہو گئی.گویا اس ایک ہی فقرہ میں جہاں وہ مسلمانوں کی عدم توجہ کا شکوہ کرتا ہے وہاں وہ اسلام پر بھی اعتراض کر جاتا ہے اور اسکی وجہ سورۃ فاتحہ کو کثرت سے پڑھنا قرار دیتا ہے کیونکہ وہ لکھتا ہے کہ کم از کم ہیں دفعہ مسلمان اس سورۃ کو دن رات میں پڑھتے ہیں اس لئے کہ اس نے اپنے حساب میں فرائض اور واجب نمازوں کو شامل کیا ہے اور اس طرح میں ہی تعداد بنتی ہے کیونکہ صبح کے دو فرض ، ظہر کے چار ، عصر کے چار مغرب کے تین ، عشاء کے چار اور تین و تر گویا ہمیں دفعہ اس حساب سے سورۃ فاتحہ پڑھی جاتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ چونکہ کم سے کم ہیں دفعہ مسلمان دن رات میں اس سورۃ کو پڑھتے ہیں اس لئے کثرت سے پڑھنے کی وجہ سے اس کی خوبصورتی ان کی نظر سے اوجھل ہو گئی اور اس کے فوائد سے متمتع ہونے کا خیال ان کے دل سے نکل گیا ہے.مگر جس وقت اللہ تعالٰی نے یہ دعا مسلمانوں کے لئے مقرر کی تھی اور جس وقت رسول کریم میں یا کہ ہم نے اسے اپنی سنت سے نمازوں میں پڑھا جانا ضروری قرار دیا تھا کیا اس وقت خدا تعالیٰ کا یہ منشاء تھا کہ ہم اسے کثرت کے ساتھ پڑھنے کی وجہ سے اس کی خوبصورتی سے غافل ہو جائیں یا کیا رسول کریم کی یہ منشاء تھا کہ اس طریق سے مسلمانوں کا دل اس سورۃ کی طرف مائل نہ رہے اور جس طرح کبھی کبھی کسی چیز کو دیکھ

Page 316

خطبات محمود ۳۱۱ سال ۱۹۳۱ء کر شوق پیدا ہوتا ہے اس طرح اس کی طرف شوق پیدا نہ ہو یقینا اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء نہیں تھا اور رسول کریم کا بھی یہ منشاء نہ تھا بلکہ خدا تعالی یہ چاہتا تھا کہ میں اس دعا کے ذریعے اپنی نماز کا ایک حصہ بندوں کو دیدوں.پس نماز کیا ہے ؟ اظہارِ عبودیت کا نام ہے نماز اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور اس کی تحمید بیان کرنے کا نام ہے لیکن باوجود اس کے کہ نماز اظہار عبودیت اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کرنے کا نام ہے.پھر بھی اللہ تعالیٰ نے اس نماز کا ایک حصہ ہمیں دے دیا اور ایک حصہ اپنے لئے رکھا.ہمیں ایک حصہ اس لئے دیا تاہم اس میں اپنے اخلاق پر نگاہ دوڑائیں اپنے فرائض پر غور کریں اور اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی درخواستیں اور ضرورتیں پیش کر کے اس کے نتیجہ میں مختلف قسم کی مصیبتوں اور تکلیفوں سے بچ سکیں.جس وقت ہم اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کرتے ہیں اس وقت سے لے کر سلام پھیرنے تک تمام وقت ہم نے اللہ تعالیٰ کو دیا ہوا ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے نہایت شفقت اور محبت سے کام لے کر اس نماز کا ایک حصہ اور معتد بہ حصہ اپنے بندوں کے لئے وقف کر دیا اور فرمایا کہ گو یہ وقت ہے تو میرے ہی لئے مگر میں اس کا ایک بہت بڑا حصہ اپنے بندوں کے لئے وقف کر دیتا ہوں وہ بندہ جو سارا دن دنیا کے کاموں میں لگارہتا ہے کوئی اپنی ملازمت کر رہا ہوتا ہے اور کوئی تجارت کوئی زراعت کا کام کر رہا ہوتا ہے اور کوئی دوسرا کام وہ اپنا وقت اور تھوڑا سا وقت لیکر اللہ تعالی کے حضور آیا اس لئے کہ تاوہ تھوڑے سے وقت میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کرے.اللہ تعالٰی نے اپنے بندہ کی اس قربانی کو دیکھا اور اسے قبول فرمایا.مگر ساتھ ہی کہا کہ ہم اس تھوڑے سے وقت کا بھی ایک حصہ تمہیں دے دیتے ہیں.پس اللہ تعالی نے اس وقتی قربانی کا بھی ایک بڑا حصہ اپنے بندوں کو واپس کر دیا کیونکہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ لے تو اس وقت ہم خدا تعالیٰ کی تسبیح و تحمید نہیں کرتے بلکہ اپنی بھلائی اور بہتری کی دعائیں کر رہے ہوتے ہیں لیکن باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت اور فضل سے یہ دعا مسلمانوں کو ان کی روحانی ترقیات کے لئے سکھائی واقعہ میں مسلمان اس دعا سے اس قدر غافل ہیں کہ اگر آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نہ آتے اور آج آپ کے ذریعہ اس کے معارف دنیا پر نہ کھولے جاتے تو شاید یہ سورۃ سب سے کم درجہ کی سمجھی جاتی میں اس عیسائی مصنف کی اس سمجھ اور عقل پر عش عش کر اٹھتا ہوں کہ اس نے باوجود عیسائی ہونے کے باوجود

Page 317

خطبات محمود سال ۱۹۳۱ء اسلام سے کوئی حقیقی تعلق نہ رکھنے کے اس سورۃ کی تاثیر اور اس کے فوائد کا اقرار کیا مگر نہ اس لئے کہ اس کی خوبصورتی کا اظہار کرے بلکہ اس لئے کہ مسلمانوں کی اس سے بے اعتنائی کا رونا روئے.اس کے مقابلہ میں مسلمان کم از کم ہیں دفعہ اپنی فرض نمازوں میں اسے دہراتے ہیں مگر باوجود اسکے انہوں نے کبھی اس کے مطالب پر بھی غور کیا؟ وہ طوطے کی طرح رٹنا شروع کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں الحمد اللہ سے بلکہ اس سے بھی پہلے کہتے ہیں بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ خدا کا نام لے کر ہم اس کام کو شروع کرتے ہیں لیکن کتنے کام ہیں جو واقعہ میں ہم خدا کے نام سے شروع کرتے ہیں کتنے کاموں کی ابتداء میں ہماری نگاہ اللہ تعالیٰ پر ہوتی ہے اور کتنے کاموں کے شروع میں ہمارے اندر اخلاص اور محبت الہی بھری ہوئی ہوتی ہے ہم کہتے تو یہ ہیں کہ خدا کا نام لے کر ہم یہ کام شروع کرتے ہیں اور ممکن ہے بہت سے لوگ جب کھانا ان کے سامنے آتا ہو تو وہ بِسْمِ اللہ کہہ کر انے شروع کرتے ہوں لیکن کتنے کہہ سکتے ہیں کہ واقعہ میں ان کا کھانا بسم اللهِ سے شروع ہوتا ہے.بہت کثرت سے ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کا کھانا بسم اللہ سے شروع نہیں ہو تا بلکہ بسم اللہ کہنے سے بہت پہلے سے شروع ہو جاتا ہے جس وقت انہیں بھوک لگتی ہے جس وقت نرم نرم چپاتیوں اور سالن کا خیال انکے دل میں آتا ہے کیا اس وقت بھی انہیں اللہ تعالیٰ کا خیال آتا ہے.کیا جس وقت وہ اپنی ماؤں یا بہنوں یا بیٹیوں یا بیویوں سے کہتے ہیں کہ لاؤ کھانا کیا اس وقت بھی انہیں بسم اللہ یاد آتی ہے پھر کیا جس وقت کھانا سامنے آتا ہے اور اسے دیکھ کر بعض لوگوں کے مونہہ میں پانی بھر آتا ہے کیا اس وقت انکے مونہہ سے بسم اللہ نکلتی ہے آدھا کھانا تو بسم اللہ کہنے سے پہلے ہی کھا لیا جاتا ہے پھر درمیان میں بِسْمِ اللہ گنے سے کیا فائدہ بِسمِ اللهِ میں تو ہم یہ اقرار کرتے ہیں کہ ہمارا ہر فعل اور ہر کام اللہ تعالٰی کے لئے اور اس کے نام کے ساتھ ہو گا پس جب تک بسم الله ہماری زبانوں پر ہی نہیں بلکہ دماغوں اور دلوں پر بھی حاوی نہیں ہوتی اس وقت تک ہم اس اقرار کو پورا کرنے والے نہیں ٹھہرتے.ہاں اگر ہمارے ارادوں اور ہماری خواہشوں پر ہمارے دلوں اور ہمارے دماغوں پر بسم اللہ غالب آجائے تب ہم کہیں گے کہ واقعہ میں ہم اپنا کام بسم اللہ سے شروع کرتے ہیں وگر نہ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو بسم الله کی حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں.رسول کریم میر نے فرمایا ہے کہ کپڑا پہنے سے پہلے یا کوئی بھی کام کرنا ہو تو پہلے بسم الله مگر دنیا میں کوئی ایسا کام نہیں جس کے لئے ایک عرصہ سے پہلے کوشش شروع نہیں کی کہے تو

Page 318

خطبات محمود ۳۱۳ سال ۱۹۳۱ و جاتی.ہم جس وقت اپنے کپڑوں کو میلا دیکھتے ہیں دراصل اسی وقت سے ہمیں اپنے کپڑوں کے بدلنے کا خیال آتا ہے یا جن لوگوں نے کپڑے بدلنے کی باریاں اور تاریخیں مقرر کی ہوتی ہیں وہ بھی اس تاریخ کے آنے سے کئی گھنٹے قبل یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم نے فلاں وقت کپڑے بدلنے ہیں پس دراصل ہم کئی گھنٹے سے کپڑے بدل رہے ہوتے ہیں یہ نہیں کہ جس وقت کپڑے بدلنا شروع کرتے ہیں اسی وقت بدلتے ہیں کیونکہ ہماری نیت کئی گھنٹے سے تھی اور اسوجہ سے ہمار اوہ کام جس پر بسم اللہ کہنی تھی کئی گھنٹے پہلے سے شروع ہو گیا تھا.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم م نے فرمایا کہ جو شخص مسجد میں باجماعت نماز کی انتظار میں رہتا ہے وہ دراصل نماز میں ہی ہوتا ہے.پس جس وقت سے ہم کسی سفر کا خیال کرتے ہیں یا جس وقت سے ہم کسی کی ملاقات کا خیال کرتے ہیں یا جس وقت سے کسی مکان بنانے کا تہیہ کرتے ہیں یا جس وقت سے کھانا کھانے کا ارادہ کرتے ہیں یا جس وقت سے اپنے کپڑے بنانے یا پہننے کا ارادہ کرتے ہیں یا جس وقت سے ہم اپنی بیوی اور بچوں کی پرورش کا خیال کرتے ہیں یا جس وقت سے ہم نکاح کا ارادہ یا خیال کرتے ہیں اگر اس وقت ہم بسم اللہ نہیں کہتے اور اگر اسی وقت سے ہم اللہ تعالیٰ کی طرف اپنی توجہ نہیں کرتے تو در حقیقت ہم بسم اللہ کے فرائض کو قطعا ادا نہیں کرتے.پھر ہم نماز میں کھڑے ہو کر کہتے ہیں الحمد لله ر KNOWLEDGE مگر کتنے ہم میں سے ہیں جو اس وقت دل سے الحمد لله KANANALOGUE TO کہ رہے ہوتے ہیں اور کتنے ہم میں سے ہیں جو فی الواقع یہ سمجھتے اور یقین رکھتے ہیں کہ ہم پر اللہ تعالیٰ کے احسانات ہیں.تم اپنے سب کاموں اور معاملات پر غور کرو تو نہ صرف بعض اوقات اپنے اندر اللہ تعالیٰ کی حمد کا مادہ نہیں پاؤ گے بلکہ بعض دفعہ اپنی نا سمجھی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو ظالم قرار دے رہے ہو گے.نا صرف وہ لوگ جن کو ظاہری صحت اور دولت نہیں ملی بلکہ وہ لوگ بھی جن کو صحت اور دولت ملی ہوتی ہے وہ بھی عام طور پر اللہ تعالیٰ کی حمد نہیں کرتے.تم کسی غریب کے پاس چلے جاؤ وہ یہی کہتا سنائی دے گا کہ میں بڑی مصیبت میں ہوں فاقے ہی فاقے آتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے بے شک نعمتیں پیدا کی ہیں مگر میرے لئے نہیں.پس جس شخص کا دل یہ محسوس کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے لئے نعمتیں پیدا نہیں کیں یا پیدا تو کیں مگر ان نعمتوں کے چھینے والے بھی کھڑے کر دیئے تو وہ کس منہ سے کہہ سکتا ہے کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العلمين وہ اگر ایسا کہے گا اور اس کی قلبی کیفیت اس کے خلاف کہہ رہی ہوگی تو وہ یقیناً جھوٹا اور منافق ہو گا.

Page 319

خطبات محمود سال ۱۹۳۱ء اللہ تعالیٰ تو اس قدر غیرت رکھتا ہے کہ قرآن مجید میں فرماتا ہے بعض منافق لوگ رسول کریم کے پاس آتے اور آکر قسم کھا کر کہتے کہ تو اللہ کا رسول ہے.مگر اللہ تعالی فرماتا ہے تو تو واقعی اللہ کا رسول ہے مگر یہ منافق جو زبان سے تجھے اللہ کا رسول کہہ رہے ہیں یہ اپنے اس دعوئی میں بالکل جھوٹے ہیں کیونکہ ان کے دل تجھے رسول نہیں مانتے.وہ خداجو اپنے رسول کے لئے اس قدر غیرت رکھتا ہے کہ رسالت کا جھوٹا اقرار منافق لوگوں کے منہ پر مارتا ہے اور جو خدا اپنے بندوں کی خاطر اس قدر غیرت دکھلاتا ہے کیا وہ اپنی خاطر غیرت نہیں دکھلائے گا اور کیا کسی کا اس رنگ میں اَلحَمدُ لله رب العلمین کہنا اس کے حضور مقبول ہو سکتا ہے ہرگز نہیں.بھلا غور تو کرو ایک وقت ہماری کافی تعداد خدا تعالیٰ کے حضور کھڑی ہو کر کہتی ہے کہ اے خدا تو ہمارا بڑا ہی محسن ہے ، ہمارا بھی اور ہمارے باپ دادوں کا بھی.ہماری نسلوں اور ہمارے دوستوں اور ہمارے ہم عصروں کا بھی تو حیوانات کا بھی محسن ہے اور نباتات کا بھی ، جمادات کا بھی محسن ہے.اور زمین و آسمان، فرشتوں اور جنات ، مخفی اور ظاہری غرض ہر چھوٹی اور بڑی چیز پر تیرے احسانات ہیں اور تو ہی سب کا پالنے والا اور ان کی پرورش کرنے والا ہے لیکن جب ہم نماز پڑھ کر اٹھیں اور ہماری زبانوں پر یہ ہو کہ ہمیں بڑا دکھ ہے مصیبت ہی مصیبت ہے ، راحت کا کوئی سامان نہیں تو کون کہہ سکتا ہے کہ ہماری یہ نماز مقبول ہوگی اور کون کہہ سکتا ہے کہ ہم الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العلمین کی آیت کی خوبصورتی کے قائل ہیں.اس موقع پر بھی مجھے حضرت خلیفۃ المسیح الاول کا ایک واقعہ یاد آیا.آپ فرمایا کرتے تھے کہ میرا ایک لڑکا تھا ان کی پہلی بیوی سے اولاد فوت ہو جایا کرتی تھی پھر دوسری شادی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے کرائی) فرماتے وہ لڑکا جب جوانی کے قریب پہنچا تو مجھے امید ہوئی کہ آئندہ زمانہ میں میرا نام قائم رکھنے والا بھی خدا نے پیدا کر دیا ہے وہ بارہ تیرہ برس کا ہو گیا.ایک دن جب میں دربار سے آیا اس وقت آپ جموں میں ملازم تھے ) تو لڑکے نے کہا مجھے ایک گھوڑا منگوا دیں میں اس پر سواری سیکھوں گا.فرماتے مجھے بڑی خوشی ہوئی اور میرا دل مسرت سے بھر گیا کہ اب میرا بچہ گھوڑے پر سواری کرنے کے قابل ہو گیا ہے.آپ فرماتے ہیں میں باہر آیا اور ایک شخص کو ہدایت دینے لگا کہ ایسا ایسا گھوڑا خرید کر لاؤ کہ اتنے میں گھر سے رونے کی آواز آئی.میں نے جلدی سے دریافت کیا کہ کیا ہوا تو کسی نے کہا کہ آپ کا بچہ فوت ہو گیا ہے.غالیا اسے کوئی دوائی دی گئی جس سے اچھو آیا اور وہ مر گیا.فرماتے تھے اس اچانک حادثہ کا میری

Page 320

خطبات محمود ۳۱۵ سال ۱۹۳۱ء عش طبیعت پر نہایت ہی گہرا اثر ہوا اور اس صدمہ کی وجہ سے کچھ انقباض سا ہو گیا.اسی اثناء میں مغرب کا وقت آگیا اور میں نماز پڑھانے کے لئے کھڑا ہوا.میں نے اللہ اکبر کہہ کر جب نماز شروع کی تو میرے منہ سے الحمد اللہ نہ نکلے.بہت دیر ہو گئی مگر میں نے قراءت نہ شروع کی.مقتدی خیال کرنے لگے کہ شاید میں بھول گیا ہوں اور خیال نہیں رہا کہ یہ بلند آواز سے قرأت پڑھنے والی نماز ہے بہت دیر ہو گئی مگر میرے منہ سے الْحَمْدُ لِلَّهِ نہ نکلی.میرے دل میں ایک لڑائی شروع تھی میں اس بات کے متعلق ایک دلیل دیتا کہ مجھے الْحَمْدُ لِلهِ کہنی چاہئے مگر پھر خیال آتا کہ میں اللہ تعالیٰ کا شکر کیسے کروں میرا دل تو غمگین ہے.فرماتے تھے جب بہت دیر ہو گئی تو معا مجھے خیال آیا کہ لوگ آخر اسی لئے بچے کی خواہش کرتے ہیں کہ وہ بڑا ہو کر اچھے کام کرے گا اور اس طرح ماں باپ کا نام بلند ہو گا لوگ دعائیں کریں گے مگر کیا کوئی اس امر کا ذمہ دار ہو سکتا ہے کہ اس کی اولاد نیک ہوگی ممکن ہے ایک شخص کا بچہ بڑا ہو کر چور بن جائے ممکن ہے ڈاکو بن جائے ممکن ہے لوگوں کے حقوق تلف کرنے والا بن جائے اور لوگ بد دعائیں دیں کہ یہ تو بڑا ہی خبیث ہے اس کا باپ بھی ایسا ہی ہو گا.جب یہ بھی امکان ہے اور اصل علم غیب اللہ تعالیٰ کو ہی ہے اور وہی خوب جانتا ہے کہ کل کیا ہو گا تو وہ جو کچھ بھی کرے بہر حال ہمارے لئے وہی مفید ہے اور اس نے ضرور ہمارے لئے کسی بہتری کو مد نظر رکھا ہو گا.فرماتے جب مجھے یہ خیال آیا تو میرے دل میں ایک غیر معمولی بشاشت پیدا ہو گئی اور میں نے نہایت بلند آواز سے کہا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العلمينَ مگر مصیبت تو یہ ہے کہ مصیبتوں والے ہی نہیں نعمتوں والے بھی کہتے ہیں کہ ہم مصیبت میں مبتلاء ہیں.اگر کوئی غریب ہے تو وہ کہے گا مجھے تو خدا نے کچھ دیا ہی نہیں اور اگر کوئی امیر ہے اور اپنی تجارت یا کسی دوسرے کام میں مصروف ہے تو وہ کہتا سنائی دے گا کہ مجھے تو مرنے کی بھی فرصت نہیں تم مجھے نماز کے لئے کیا کہتے ہو.اسی طرح جس کے ہاں اولاد نہیں ہوتی وہ کہتا ہے خدا نے مجھے کیا دیا؟ اور جو اولاد والے ہیں وہ کہتے ہیں ہر وقت بچوں کا ہی فکر لگا رہتا ہے کم بختوں کو پالنا بھی بڑی مصیبت ہے.پھر ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں کہ جس وقت انہیں کوئی رتبہ نہیں ملتا اس وقت یہ شکوہ کرتے ہیں کہ ہمیں بڑا درجہ نہیں ملا.اور جب درجہ مل جاتا ہے تو یہ شکایت ہوتی ہے کہ لوگ ہر وقت چمٹے رہتے ہیں اور وہ اپنی ضروریات ہم سے پورا کرانا چاہتے ہیں.غرض اللہ تعالی کی نعمتیں جو اس نے انسانوں کو دیں مخفی ہوں یا ظاہری ساری کی ساری ایسی

Page 321

خطبات محمود ۳۱۶ سال ۱۹۳۱ء ہیں یا ان میں سے اکثر حصہ ایسا ہے جو عام انسانوں کی نظر سے پوشیدہ ر ما ہے اور وہ جو زبان سے الْحَمْدُ لِلَّهِ کہ رہے ہوتے ہیں وہ اس وقت تو نہیں مگر آگے پیچھے یہی کہتے سنائی دیں گے کہ ہم سے تو خدا نے کوئی اچھا سلوک نہیں کیا.پھر جب کوئی نماز میں کھڑا ہو تا ہے اور کہتا ہے الر حمن یہ تمام چیزیں جو مجھے ملی ہیں بغیر میری محنت اور کوشش کے ملی ہیں مگر کتنے ہم میں سے یقین رکھتے ہیں کہ یہ تمام چیزیں انہیں بغیر محنت اور کاوش کے محض اللہ تعالٰی کے فضل اور اس کی صفت رحمانیت کے ماتحت ملی ہیں.وہ نماز میں تو کہتے ہیں کہ الرحمن خدا نے بغیر ہماری محنت اور کوشش کے ہمیں یہ نعمتیں دیں لیکن جب خدا کی راہ میں اموال خرچ کرنے کا سوال آتا ہے تو اس وقت یہ عذر ہوتا ہے کہ ہم نے یہ اپنی محنت سے کمایا.پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ جسے ہم نے اپنی محنت سے کمایا جس کے حصول کے لئے رات اور دن ایک کر دیا وہ اب دے دیں.کیا یہ لطیفہ نہیں کہ نماز میں تو روزانہ کم از کم بیس مرتبہ ایک شخص یہ کہتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے تمام چیزیں بغیر میری محنت کے دیں لیکن جس وقت ایک دفعہ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں مال قربان کرنے کا سوال آتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ کماؤں میں اور کھا ئیں دو سرے.حالانکہ خدا تعالٰی کو رحمن کہنے کے معنے ہی یہ ہیں کہ وہ بغیر محنت کے دیتا ہے.پس جب وہ بغیر محنت کے نماز میں کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے الرحیم خداوہ ہے جو انسانی محنتوں کا اعلیٰ سے اعلیٰ بدلہ دیتا ہے مگر کتنے ہیں جو خد اتعالٰی کی راہ میں قربانی کرنے کے لئے تیار رہتے ہوں اور وہ یہ یقین رکھتے ہوں کہ ہم اگر قربانی کریں گے تو خدا چونکہ رحیم ہے اس لئے ہمیں بھی وہ بہتر سے بہتر بدلہ دے گا اور ہماری قربانی ضائع نہیں ہوگی.دنیا میں ایسے لوگ کتنے ہیں جو یہ یقین رکھتے ہوں کہ خدا کے راستہ میں ایک آنہ دے کر ہمیں اٹھتی واپس ملے گی.وہ منہ سے تو کہتے ہیں کہ خدا تعالی رحیم ہے وہ زبان سے تو اقرار کرتے ہیں کہ جو لوگ اللہ تعالٰی کی راستہ میں اس کی رضاء اور خوشنودی حاصل کرنے کے لئے مال دیتے ہیں انہیں اس کے معاوضہ میں اللہ تعالٰی بہت بڑے انعامات دیتا ہے اور اتنے بڑے درجات دیتا ہے جو انسان کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتے مگر کتنے ہیں جو قربانی کرتے وقت اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہیں اور فی الواقع اللہ تعالی کو ایسا ہی سمجھ کر جان ومال قربان کر دینا آسان سمجھتے ہیں.میں دیکھتا ہوں کہ بعض لوگ جوش سے قربانی بھی کرتے ہیں مگر چار دن کے بعد ان میں سے دیتا ہے تو ان کی کمائی نہیں کہلا سکتا بلکہ اللہ تعالیٰ کا عطیہ اور اس کا احسان ہے.پھر انسان

Page 322

خطبات محمود سال ۱۹۳۱ء کئی لوگ یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ قربانی کر کے ہمارا نقصان ہی ہوا.پس وہ کہاں اللہ تعالٰی کے الرحیم ہونے پر یقین رکھتے ہیں.پھر نماز میں کھڑے ہو کر کہتے ہیں مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ جزاء و سزا کے دن کا مالک ہے.مگر ہم میں سے کتنے ہیں جو جزاء د سزا جو خدا تعالی کے اختیار میں سمجھتے ہیں.کیا ہزاروں مسلمان ایسے نہیں جو رات دن اپنے محلہ کے لوگوں کو مُلِكِ يَوْمِ الدين سمجھتے ہیں یا اپنے بیوی اور بچوں کو ملک یومِ الدِّينِ سمجھتے ہیں کیونکہ وہ بہت سی نیکیوں سے اس لئے محروم رہ جاتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں فلاں کام کرنے سے ہمارے محلہ کے لوگ ہم سے ناراض ہو جائیں گے.یا ہماری قوم کے لوگ ہم سے ناراض ہو جائیں گے یا ہمارے خاندان کے لوگ ہم سے ناراض ہو جائیں گے.پھر یہاں تک حالت گر جاتی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم نے یہ کام کیا تو ہماری بیوی اور بچے ہم سے ناراض ہو جائیں گے.جب یہ دائیں اور بائیں بت ہیں، جب آگے اور پیچھے بہت ہیں تو خدا میلک یوم الدین کیونکر رہا اور خدا کی مالکیت کا وقت کون سا ہوا.خدا تو جب مالک ہو گا اکیلا مالک ہو گا.اس نے تو کہہ دیا ہے میری تمام صفات توحید پر مبنی ہیں.میں تمہاری غلامی کو قبول کرنے کو تیار ہوں بشرطیکہ صرف میری ہی غلامی کرد اور میں تمہاری قربانی بھی قبول کرنے کے لئے تیار ہوں بشرطیکہ تم صرف میرے لئے ہی قربانی کرو.میں تمہاری عبادت بھی قبول کرنے کے لئے تیار ہوں بشرطیکہ تم صرف میری ہی اطاعت کرد - خدا یہ پسند نہیں فرما تاکہ اس کی عبادت یا اسکی غلامی یا اس کی ملکیت میں کوئی دوسرا بھی شریک ہو.جس وقت کوئی دوسرا حصہ دار بنایا گیا خدا تعالیٰ فورا ہٹ گیا.پھر وہ لوگ جو خدا کے شریک ٹھراتے ہیں اور کہتے ہیں اگر ہم نے دین کی فلاں بات مانی تو ہمارے محلے کے لوگ ناراض ہو جائیں گے یا قوم کے لوگ ناراض ہو جائیں گے یا ہمارا افسر ناراض ہو جائے گا.یا ہمارے دوست اور عزیز ناراض ہو جائیں گے وہ اپنے عمل سے اپنے محلہ داروں کو اپنی قوم کے لوگوں کو اپنے افسروں کو اپنے دوستوں اور عزیزوں کو خدا کا شریک ٹھراتے ہیں.مگر تعجب ہے باوجود اس کے وہ منہ ہاتھ دھو کر نماز کے لئے کھڑے ہوتے اور بڑے مزے سے خدا کو کہتے ہیں مُسلِكِ يَوْمِ الدين - اس عبادت کا کیا فائدہ اور روزانہ کم از کم میں مرتبہ اس جھوٹے اقرار کا کیا مطلب؟ اس سے زیادہ دکھ کا موجب اور کیا ہو گا کہ ایک مسیحی مصنف تو سورۃ فاتحہ پر نظر دوڑاتا ہے اور بے اختیار یہ تعریف کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ چھوٹی مگر نہایت ہی خوبصورت اور قیمتی دعا ہے.پھر جب مسلمانوں کے دلوں پر نگاہ ڈالتا ہے تو ڈر کر پیچھے ہتا ہے اور کہتا ہے کہ اتنے تاریک

Page 323

خطبات محمود ۳۱۸ سال ۱۹۳۱ء دل بھی کہیں ہوں گے ؟ کم از کم ہیں دفعہ ایک لیمپ ایک جگہ روشن کر جاتا ہے مگر پھر بھی وہاں تاریکی رہتی ہے.کم از کم بیس مرتبہ ایک قیمتی دعا انکے سامنے آتی ہے اور وہ پھر بھی اس کے فوائد سے نا آشنا ر ہتے ہیں.کتنے افسوس اور رنج کی بات ہے کہ مسلمان ایسی قیمتی دعا سے غافل ہو گئے اور ایک عیسائی کو کہنا پڑا کہ مسلمانوں نے اس خوبصورت مگر قیمتی دعا سے منہ پھیر لیا.یہ ایک تازیانہ ہے جو مسلمانوں کے جگانے کے لئے ہے اور گو بظاہر معمولی الفاظ ہیں مگر ان میں بہت بڑی زجر اور توبیخ پائی جاتی ہے.یہ اس مسلمان کے لئے مرجانے کا مقام ہے جسے سورۃ فاتحہ نظر نہیں آتی مگر ایک عیسائی مصنف کو دکھائی دیتی ہے.پھر وہ افسوس کرتا ہے کہ وہ چیز جو اتنی خوبصورت ہے اس سے مسلمانوں نے کیونکر غفلت اختیار کرلی.مگر دوسروں کا گلہ جانے دو انہوں نے تو اور بہت سی باتوں میں بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی تم جو اس مامور کی اطاعت کرنے والے ہو جس کے متعلق پہلے انبیاء نے یہ پیشگوئی کی تھی کہ اس پر سورۃ فاتحہ کے معارف کھولے جائیں گے اور جس کے متعلق بائیل میں لکھا گیا تھا کہ ”میں نے اس کے داہنے ہاتھ میں ایک کتاب دیکھی جو اندر سے اور باہر سے لکھی ہوئی تھی اور اسے سات مہریں لگا کر بند کیا گیا تھا - اس کا چہرہ آفتاب کی مانند تھا اور اس کے پاؤں آگ کے ستونوں کی مانند اور اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی کھلی ہوئی کتاب تھی." وہ مامور دنیا میں آیا اور اس نے اس فتوحہ یعنی سورہ فاتحہ کی ایک مہر کو تو ڑا اس کے علوم کو دنیا میں پھیلایا.تم جو اس مامور کو مانے والے ہو اپنے نفوس میں غور کرو اور سوچو کہ تم نے اس سورۃ فاتحہ سے کیا فائدہ اٹھایا اور اس فتوحہ سے تم نے کتنی فتوحات حاصل کیں.اگر تم میں سے کسی نے اس کے ذریعہ پہلے کچھ حاصل نہیں کیا تو کم از کم اب توجہ کرو اور اس کے معارف سے آگاہی حاصل کرد - یہ ایک رحمت ہے جو اللہ تعالی نے دی یہ ایک خزانہ ہے جو اس نے بخشا یہ وہ انعام ہے جس سے بہتر دنیا میں نہیں مل سکتا.نہ زمینوں میں نہ زمین کے خزانوں میں نہ ہی آسمان میں.یہ خلاصہ ہے تمام قرآن مجید کا اور یہ خلاصہ ہے ان تمام روحانی ترقیات کا جو انسان کو حاصل ہو سکتی ہیں.پس جس نے پہلے فائدہ حاصل نہیں کیا وہ اب حاصل کرلے.(الفضل ۳۱- دسمبر ۱۹۳۱ء) الفاتحة 1

Page 324

خطبات محمود ل الفاتحة: ٣١٩ الفاتحة ٢- 2- بخارى كتاب الأذان باب فضل صلوة الجماعة ل المنفقون: ٢ ك الفاتحة م د مکاشفہ باب ۵ آیت ابائبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۹۴ء 1 مکاشفہ باب ۱۰ آیت ۲۱ بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۹۴ء

Page 325

Page 326

1932

Page 327

Page 328

خطبات محمود ۳۳۳ 38 سال ۱۹۳۲ء نظام جماعت کے احترام اور دعوت الی اللہ پر زور دینے کی تحریک (فرموده ۸- جنوری ۱۹۳۲ء) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.خطبہ سے پہلے میں دوستوں کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ انہیں اس بات کی عادت ڈالنی چاہئے کہ جس بات کا ایک دفعہ خطبہ سے پہلے اعلان ہو اسے اچھی طرح یا د رکھا جائے نظام سلسلہ نظام سلسلہ جس کا ذکر کرتے ہوئے ہماری زبانیں خشک ہوتی ہیں اسی بات کا نام ہے کہ تمام جماعت ایک قانون کی پابند ہو اور وہ بھی ہر حرکت و سکون کو مقررہ نظام کے ماتحت رکھے.آوارہ گرد لوگوں اور ایک جماعت میں فرق یہی ہوتا ہے کہ آوارہ گردوں کا کوئی نظام نہیں ہو تا.اور ان میں سے ہر شخص اپنی مرضی اور منشاء کے ماتحت کام کرتا ہے مگر جماعت اپنے لئے بعض قوانین مقرر کر کے ان کے ماتحت کام کیا کرتی ہے اور وہ اپنے آپ کو اس بات کی پابند قرار دیتی ہے کہ وہ قائم کردہ نظام سے باہر نہیں نکلے گی.اس اصل کے ماتحت تمام لوگ اتحاد اور پیجہتی سے کام کیا کرتے ہیں.مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک بہت سے دوست ایسے ہیں جو نہ تو نظام جماعت کو قائم رکھنے کی طرف توجہ کرتے ہیں اور نہ ہی اگر کوئی اعلان ہو تو اسے یادر رکھتے ہیں.اور بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اعلان سن کر یہ خیال کر لیتے ہیں کہ یہ اعلان ہمارے لئے نہیں دوسروں کے لئے ہے.مثلاً ابھی چونکہ ایک ٹیکہ کی وجہ سے میرے ہاتھ پر ورم تھا میں نے اعلان کرایا تھا کہ دوست مجھ سے مصافحہ نہ کریں مگر باوجود اس کے کہ جو لوگ مصافحہ کا اس لئے زیادہ حق رکھتے تھے کہ وہ راستہ میں مصافحہ کے لئے بیٹھے تھے انہوں نے مصافحہ تو نہ کیا مگر جب میں ممبر پر پہنچ گیا تو اردگرد کے لوگوں نے مصافحہ کے لئے اٹھنا شروع کر دیا.گویا جو لوگ میرے راستہ میں

Page 329

خطبات محمود ۳۲۴۴ سال ۱۹۳۲ء مصافحہ کی نیت سے بیٹھے تھے سارا قصور انہی کا تھا اور وہی مصافحہ سے محروم رہنے کے قابل تھے مگر دو سروں کا حق تھا کہ وہ مصافحہ کر لیتے.میں نے دیکھا ہے حضرت خلیفہ اول بعض دفعہ جب زیادہ بیمار ہوتے تو فرما دیا کرتے کہ دوست اٹھ کر چلے جائیں.اس پر بعض لوگ چلے جاتے اور بعض پھر بھی بیٹھے رہتے اس وقت آپ فرمایا کرتے نمبردار بھی اٹھ کر چلے جائیں.ایک دفعہ میں بھی آپ کی مجلس میں بیٹھا تھا.آپ نے فرمایا لوگ چلے جائیں اس پر بعض لوگ اٹھے اور میں بھی اٹھ کر جانے لگا تو آپ نے روک لیا اور فرمایا تم ٹھہرو.یہ سن کر کچھ اور لوگ بھی بیٹھ گئے.تب آپ نے فرمایا کہ نمبردار بھی اٹھ کر چلے جائیں.میں دل میں حیران تھا کہ نمبرداروں سے کون مراد ہیں.اتنے میں آپ نے فرمایا بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ایک بات سن کر یہ خیال کر لیتے ہیں کہ اس کا ماننا دوسروں کے لئے ہے ان کے لئے ضروری نہیں.گویا وہ اپنے آپ کو دوسروں سے علیحدہ سمجھ لیتے ہیں اس لئے جب مجھے دوبارہ کہنے کی ضرورت ہو تو میں یہی کہا کرتا ہوں کہ نمبردار بھی اٹھ کر چلے جائیں.میں دوستوں کو بتلانا چاہتا ہوں کہ جب کوئی اعلان ہوتا ہے تو اس سے تمام لوگ مراد ہوتے ہیں سوائے اس کے کہ بعض لوگوں کا استثناء کر دیا جائے اور کہہ دیا جائے کہ فلاں فلاں اشخاص مستثنیٰ ہیں.اور اگر کسی کو مستثنیٰ نہ کیا جائے تو سب کو اس اعلان کی قدر کرنی چاہئے اور اپنے نظام کو قائم رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے.نکاحوں کے متعلق بھی جماعت میں ایک نظام قائم ہو چکا ہے.ایسے بہت سے واقعات ہوئے ہیں کہ جب نکاح ہو گیا تو لڑکی نے کہہ دیا کہ میری یہاں مرضی نہیں یا مجھ سے اس نکاح کی اجازت نہیں لی گئی.اور ایسے نکاح عدالتوں میں جاکر ٹوٹ جایا کرتے ہیں.بلکہ شرعاً بھی ایسے نکاح قائم نہیں رہتے کیونکہ لڑکی کی رضامندی نہایت ضروری چیز ہے.اس لئے دفتر امور عامہ کا فرض قرار دیا گیا ہے کہ وہ اچھی طرح دیکھ لے اور اس بات کی تصدیق کرلے کہ لڑکی رضامند ہے اور اطمینان کر لیا جائے کہ دو معزز آدمیوں کے سامنے لڑکی نے اقرار کیا ہو.یا ان کے دریافت کرنے پر خاموش رہی ہو کیونکہ رسول کریم می نے کنواری کے متعلق فرمایا ہے کہ اس کا سکوت ہی اس کی رضامندی ہے اور یہ مسئلہ اسے اچھی طرح بتا دیا گیا ہو کہ اس کا خاموش رہنا اس کی مرضی سمجھی جائے گی.پس اگر امور عامہ اجازت دے تب نکاح ہو سکتا ہے.یا لڑکی خود نکاح خواں کے سامنے آکر اقرار کرے.مگر اس کے لئے احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے.ساتھ گواہ ہونے چاہئیں تاکہ نکاح خواں پر بعد میں کوئی الزام نہ آئے.

Page 330

خطبات محمود ۳۲۵ سال ۱۹۳۲ء اس کے بعد میں اپنی جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ میں متواتر تا چکا ہوں یہ دن خصوصیت سے تبلیغ کے ہیں اور ان ایام میں نہایت جوش کے ساتھ تبلیغ کی طرف توجہ کرنی چاہئے.میں نے پچھلے سال بلکہ اس سے بھی پچھلے سال سے تبلیغ پر زور دینا شروع کیا ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ اس کا نتیجہ نہایت خوش کن نکل رہا ہے.اور خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت نهایت سرعت کے ساتھ ترقی کر رہی ہے.مگر یہ ترقی نسبتی ہے حقیقی نہیں کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ جماعت کے بہت سے احباب حقیقی طور پر تبلیغ کی طرف متوجہ نہیں اور جو جماعت کی ترقی کی سرعت ہے وہ بھی حقیقی طور پر اس لئے نہیں کہ ابھی اس مضبوطی سے ہم اپنی جماعت کی شاخیں تمام اکناف میں قائم نہیں کر سکے کہ ہم کارکنوں کی ضرورت سے مسنی ہو سکیں.پس ضروری ہے کہ ہم پہلے سے بھی زیادہ جوش اور اخلاص کے ساتھ کام کریں کیونکہ جب تک ہر سال لاکھوں آدمی ہماری جماعت میں شامل نہ ہوں گے اس وقت تک ہم پورے طور پر ترقی نہیں کر سکیں گے.بالعموم پہلی صدی ہی ایسی ہوتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت دنیا میں وسیع طور پر پھیل جاتی ہے.اور ہم یہ ترقی حاصل نہیں کر سکتے جب تک لاکھوں آدمی ہر سال ہماری جماعت میں شامل نہ ہوں.اور اگر ہم نے پہلی صدی میں ہی اپنی جماعت کو دنیا پر غالب نہ کیا تو پھر اور کون سا وقت ہو گا جب ہم تبلیغ کا کام کریں گے جبکہ پہلی صدی ہی اپنے ساتھ عظیم الشان برکات رکھتی ہے اور پہلی صدی میں ہی تعلیم اور تربیت کا بہترین سامان مہیا ہوتا ہے.اگر ہم پہلی صدی میں تبلیغ کی طرف سے کو تاہی کریں گے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ایک طرف تو ہماری ترقی کو نا قابل تلافی صدمہ پہنچے گا اور دوسری طرف ہماری جماعت کی تربیت میں بھی نقص آجائے گا کیونکہ تبلیغی زمانہ میں اگر چہ جماعت خود تربیت کی طرف پوری طرح توجہ نہیں کر سکتی مگر دشمنوں کی طرف سے متواتر مظالم ہوتے ہیں اور وہ الہی سلسلہ میں داخل ہونے والوں کو مختلف قسم کی اذیتیں اور دکھ پہنچاتے ہیں اس لئے انکے ظلم و ستم اور جبرو تشدد کی وجہ سے خود بخود لوگوں کی اخلاقی اور روحانی تربیت ہوتی چلی جاتی ہے.پس الہی سلسلہ کی پہلی صدی میں تبلیغ کا کام تو دوستوں کے سپرد ہوتا ہے اور تربیت کا کام دشمنوں کے سپرد- مگر بعد کی صدیوں میں چونکہ دشمن کم ہو جاتے ہیں اور دشمنوں کے شدائد کی کمی وجہ سے تربیت میں نقص آ جاتا ہے اس لئے اس وقت بہت سے جھگڑے پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں.پس اگر ہم اس وقت تبلیغ میں ستی ظاہر کرتے ہیں تو یہ سستی تربیت پر بھی برا اثر ڈالتی ہے اور جماعت اگر تعداد کے لحاظ سے کم ہوتی ہے

Page 331

سال ۱۹۳۲ء خطبات محمود تو دوسری طرف اس کی تربیت میں بھی کمی آجاتی ہے.کیونکہ جب بھی تبلیغ سرد پڑ جائے گی اسی وقت تربیت بھی سرد پڑ جائے گی.یہی وجہ ہے کہ دشمنوں کے مظالم دکھ اور تکالیف مومنوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ کرتی ہیں اور یہ تکالیف ہی ایسی چیزیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نصرت لا کر مومن کو اللہ تعالیٰ کا مینی مشاہدہ کرا دیتی ہیں.تب وہ ایمان حاصل ہوتا ہے جو خطرے سے بچاتا اور تمام لغزشوں سے انسان کو محفوظ رکھتا ہے.پس میں تبلیغ کے لئے اگر چہ پہلے بھی کئی بار احباب کو توجہ دلا چکا ہوں ، مگر اب پھر توجہ دلاتا ہوں اور دوستوں کو تاکید کرتا ہوں کہ وہ اپنی سستی کو دور کریں اور اس جوش سے تبلیغ کا کام کریں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر سال لاکھوں آدمی سلسلہ میں داخل ہونے شروع ہو جائیں.اس سال علاوہ تبلیغ کے میں ایک نئی بات بھی احباب کے سامنے رکھتا ہوں اور وہ یہ کہ وہ خاندان جس میں رہنے والوں کا آپس میں جھگڑا رہتا ہو کبھی ترقی نہیں کر سکتا.جب ایک گھر معمولی لڑائی جھگڑے کی وجہ سے اپنی طاقتوں کو کمزور کر دیتا ہے تو اگر ایک جماعت میں لڑائی جھگڑا ہو تو یہ کس قدر قابل افسوس بات ہو گی.مجھے نہایت ہی افسوس ہے کہ ابھی تک ہماری جماعت میں اتحاد عمل کی روح پیدا نہیں ہوئی اور کئی لوگ بہت معمولی اور ادنی ادنی باتوں پر آپس میں لڑتے اور ایک دو سرے سے ناراض رہتے ہیں.میں چاہتا ہوں کہ ہم اس نئے سال کو اس غرض کے لئے وقف کر دیں کہ جماعت سے تمام لڑائیاں، جھگڑے، تفرقے اور عناد اللہ تعالیٰ کے فضل سے مٹادیں.میں اپنے دوستوں سے کہتا ہوں اور میرا دوست وہی ہو سکتا ہے جو میری باتوں کو مانے اور ان پر عمل کرے کہ جو اپنے دوسرے بھائی سے کسی وجہ سے نہیں بولتا یا اس سے عداوت اور بغض رکھتا ہے ، وہ میرا یہ خطبہ سننے اور پڑھنے کے بعد فوراً اپنے بھائی کے پاس جائے اور اس سے خلوص دل کے ساتھ صلح کرے.اور آئندہ کے لئے کوشش کرے کہ آپس میں کوئی لڑائی اور جھگڑا.اپیدا نہ ہو.اللہ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ دلوں کا مل جانا بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے.اور فرماتا ہے.قرآن اور رسول کے ذریعہ ہم نے تمہارے دلوں میں اتحاد پیدا فَاصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہ اِخْوَانَا.ہے پس تم خدا کی اس نعمت کے ذریعہ آپس میں بھائی بھائی بن گئے.وہی کلام اور وہی رسول آج بھی ہم میں موجود ہے.اور گو رسول کریم میم کی ذات ہم میں موجود نہیں مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کے فیوض جاری رکھنے کے لئے آپ کا ایک برد زہم میں مبعوث کیا اور وہ اس قدر حدیث العمد اور قریب کے زمانہ میں آیا ہے کہ ابھی ہم میں سے سینکڑوں اسے ا کر دیا.

Page 332

خطبات محمود ۳۲۷ سال ۱۹۳۲ء دیکھنے والے موجود ہیں.پھر اس نے کلام الہی کو بھی اپنے معارف اور ان گروں کی وجہ سے جو اس نے قرآن مجید کے قسم کے لئے ہمیں بتائے تازہ اور زندہ کر دیا.پس یہ دونوں نعمتیں جو اتحاد کے لئے ضروری ہیں آج ہم میں موجود ہیں.اللہ تعالیٰ کا کلام بھی ہم میں موجود ہے اور اللہ تعالیٰ کا رسول بھی ہم میں موجود ہے.پس ہم اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کی وجہ سے آپس میں بھائی مائی تو بن گئے.اب اگر آپس میں لڑائیاں ہیں ، جھگڑے اور تفرقے ہیں، رنجشیں بغض اور عداد تیں ہیں تو یہ اللہ تعالیٰ کے رسول اور اس کے کلام سے دوری کی وجہ سے ہیں.پس ہر بغض جو ذاتیات کی وجہ سے ہے، ہر جھگڑا جو ذاتیات کی وجہ سے ہے، ہر لڑائی جو دنیوی معاملات کی وجہ سے ہے اور ہر کینہ جو دنیاوی وجوہات سے ہے اسے جس قدر جلد دور کر سکتے ہو کرو.تم میں سے ہر ایک شخص کا فرض ہے کہ وہ یہ خطبہ دوسروں تک پہنچائے اور اس خطبہ کے بعد انہیں جو پہلا موقع میسر ہو اس میں اپنے بھائیوں سے صلح کرے.عناد ، بغض کینہ اور جھگڑے سب کو یکسر مٹاکر محبت پیار اور الفت پیدا کرے ، اگر خطبہ سننے کے بعد کسی کو موقع نہ ملے تو اس کا فرض ہے کہ وہ اور موقع نکال کر اپنے بھائی کے پاس جائے اور اس سے اپنے قصور کی معافی مانگے.یاد رکھو رسول کریم میں یہ نے فرمایا ہے جو شخص پہلے اپنے بھائی سے معافی مانگتا ہے وہ پانچ ہم سو سال پہلے جنت میں داخل ہوتا ہے.تم اگر خدا پر ایمان رکھتے ہو ، اگر تمہیں رسول کریم کی باتوں پر یقین ہے اور اگر تمہیں جنت کی کچھ بھی قدر ہے تو اس نعمت کے حصول کے لئے دوڑو اور یاد رکھو کہ پانچ سو سال کا تو لمبا عرصہ ہے اگر تمہیں ایک منٹ بھی پہلے جنت میں داخل ہونے کا موقع ملتا ہے تو اسے ضائع مت کرو.تم سوچو کہ ساٹھ یا ستر سالہ عمر کو بآرام گزارنے کے لئے کیا کیا کوششیں کرتے ہو.اور اگر تمہارا ایک سال بھی آرام سے کٹ جائے تو کتنا اللہ تعالٰی کا شکر بجالاتے ہو.اور آرام کے حصول کے لئے کس قدر قربانیاں کرتے ہو جب تھوڑے سے وقت کو آرام سے گزارنے کی اتنی فکر کرتے ہو تو اگر تمہیں کسی عمل کی وجہ سے ایک لمبا عرصہ آرام اور راحت کا ملتا ہے تو کیوں اسے ضائع کرتے ہو.ہاں جو اللہ تعالیٰ کے لئے لڑائیاں ہیں جو دین کی غیرت کے لئے لڑائیاں ہیں، جو اسلام کے ناموس کے لئے لڑائیاں ہیں وہ بابرکت لڑائیاں ہیں.وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہیں اور ہم ان کے ہرگز مخالف نہیں اور ان دینی لڑائیوں میں گو ہم دوسرے کے غلط عقائد کے مخالف ہوتے ہیں مگر ہم اسے اپنی دعا سے محروم نہیں رکھتے.ان لڑائیوں کو علیحدہ کر کے کہ انکے اور اصول ہیں جو محض اپنے نفس کی وجہ سے لڑائیاں ہیں جو ا

Page 333

خطبات محمود ٣٣٨ سال ۱۹۳۲ء ذاتیات کی وجہ سے جھگڑے ہیں جو اس لئے جھگڑے ہیں کہ فلاں عزت مجھے کیوں حاصل نہیں ہوئی یا فلاں مال مجھے کیوں نہیں ملایا فلاں درجہ کیوں نہیں حاصل ہو ایا مجھے امام الصلواۃ کیوں نہیں بنایا گیا یا لین دین کے معاملات کی وجہ سے جھگڑے ہیں یہ سب دنیوی ہیں اور ان میں سے کوئی بھی دینی جھگڑا نہیں.امامت کو میں نے اس لئے شامل کر لیا ہے کہ بہت سے لوگ اسلئے تفرقہ پیدا کر دیتے اور دوسروں سے بولنا چھوڑ دیتے ہیں کہ فلاں کو کیوں امام بنایا گیا ، مجھے کیوں نہیں بنایا.یہ سب نفس کے دھو کے اور محض ذاتیات کی وجہ سے جھگڑے ہیں.خدا کے لئے وہی لڑائیاں ہوتی ہیں جو دین کے لئے ہوتی ہیں اور ایسے شخص کے متعلق جو دینی لحاظ سے ہمارا دشمن ہے ہمیں یہی حکم ہے کہ اس سے اجتناب کریں.مگر ان دینی لڑائیوں کو چھوڑ کر باقی تمام لڑائیوں اور جھگڑوں کو دور کر دو اور کوشش کرو کہ اگلا جمعہ نہ آئے مگر ایسی حالت میں کہ تمہاری ان بھائیوں سے جن سے تم نہیں بولتے جن سے تم عناد رکھتے ہو اور جن سے لڑائیاں اور جھگڑے ہیں صلح ہو.اور بجائے بغض کے محبت اور بجائے جھگڑے کے آپس میں الفت اور پیار ہو.رسول کریم نے فرمایا ہے کہ جمعہ کے روز ایک ایسی گھڑی آتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کی دعائیں زیادہ قبول کرتا ہے.پس ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ جب اگلے جمعہ میں ہم پر وہ گھڑی آئے جو دعا کی قبولیت کا وقت ہوتا ہے تو ہم میں سے ہر شخص کا دل دو سرے کے بغض سے خالی ہو اور ہم خدا کے کلام اور اسکے رسول کی نعمت سے کامل طور پر مستفیض ہو کر فا صبَحْتُم بنِعْمَتِه اِخْوَانًا کے بچے مصداق ہوں.میں امید کرتا ہوں کہ میری اس نصیحت پر جو گو مختصر الفاظ میں ہے مگر نہایت ہی اہم ہے دوست توجہ کریں گے.میرا گلا چونکہ خراب ہے اس لئے میں زیادہ تقریر نہیں کر سکتا.بعض دفعہ تو معمولی باتیں کرنے کی وجہ سے بھی گلے میں درد ہو جاتا ہے.جلسہ سالانہ میں تقریریں کرنے کی وجہ سے گلے میں تکلیف ہو گئی اور یہ تکلیف اس قدر زیادہ ہو گئی کہ ایک دن گلے سے آواز ہی نہیں نکلتی تھی اور بعض دفعہ میں آہستہ بھی نہیں بول سکتا تھا.اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے گو پہلے کی نسبت بہت سا افاقہ ہے مگر چونکہ تکلیف باقی ہے اس لئے میں زیادہ بول نہیں سکتا.مگر میں دوستوں کو اس قدر اور کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اب رمضان شروع ہونے والا ہے جو اپنے ساتھ بہت بڑی برکات لاتا ہے.ان برکات سے کامل طور پر فائدہ اٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ اپنی رنجشوں کو دور کر دو.رسول کریم یا اللہ فرماتے ہیں کہ وہ لوگ جو خدا کے لئے آپس میں

Page 334

خطبات محمود ۳۲۹ سال ۱۹۳۲ء دوستیاں کرتے ہیں وہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے سایہ کے نیچے ہوں گے اور ہم ہر گز یہ تسلیم نہیں کر سکتے کہ جو شخص قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے سایہ کے نیچے ہو گا وہ اس دنیا میں اس کی رحمت کے سایہ تلے نہ ہو.پس اپنے بھائیوں سے جلد تر صلح کر لو تا اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سایہ تلے جگہ پاؤ.اور یاد رکھو رحمت ایسی چیز نہیں جس کی میں ضرورت نہ ہو بلکہ مؤمن کو ہر وقت اللہ تعالیٰ کی رحمت کی ضرورت ہوتی ہے.حضور جب دو سرا خطبہ پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے تو فرمایا :- میں نے جو خطبہ پڑھا ہے اس میں میں پھر ان لوگوں کو مخاطب کر کے جو اپنے آپ کو نمبردار سمجھتے ہیں کہتا ہوں کہ ان میں سے کوئی شخص یہ خیال نہ کرے کہ میں مظلوم ہوں اس لئے دوسرے سے کیوں صلح کروں اس لئے کہ مظلوم کو صلح کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے کیونکہ جو شخص صلح میں ابتداء کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کا وارث بنتا ہے.پس اگر اس موقع پر بھی ظالم نے ہی ابتداء کی تو اسے دونوں لحاظ سے فائدہ رہا.اس نے یہاں مار پیٹ بھی لیا اور اگلے جہاں میں بھی ثواب کا وارث بن گیا.پس وہ لوگ جو اپنے آپ کو نمبردار سمجھتے ہوں انہیں بھی سمجھ لینا چاہئے کہ خواہ وہ اپنے آپ کو مظلوم سمجھتے ہوں تب بھی ان کو پہلے صلح کرنی چاہئے.تا ایسا نہ ہو کہ اس جہان میں بھی مظلوم رہیں اور اگلے جہان میں بھی ثواب حاصل نہ کر سکیں.ضروری ہے کہ خواہ کوئی مظلوم ہو تو بھی اپنے بھائی کی طرف صلح کے لئے بڑھے اور اپنی باہمی رنجشوں کو دور کردے.الفضل ۱۴ جنوری ۱۹۳۲ء) ا ترمذی ابواب النكاح باب ما جاء في استيمار البكر والثيب ال عمران: ۱۰۴ کے مسلم کتاب الجمعة باب في الساعة التي في يوم الجمعة ه.بخاری کتاب الايمان باب قول النبي صلى الله عليه وسلم بنى الاسلام على خمس

Page 335

خطبات محمود ٣٣٠ 39 رمضان المبارک سے فائدہ اٹھاؤ فرموده ۱۵- جنوری ۱۹۳۲ء) سال ۱۹۳۲ء تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- میں نے پچھلے جمعہ کے خطبہ میں احباب کو نصیحت کی تھی کہ جہاں جہاں تک میری آواز پہنچے اور جماعت کو اطلاع ہو اس سال کے پروگرام میں علاوہ تبلیغ احمدیت کے اس بات کو خاص طور پر مد نظر رکھیں کہ باہم اتحاد و اتفاق کو ترقی دی جائے اور اس سلسلہ میں سب سے پہلا قدم یہ اٹھایا جائے کہ جنہیں یہ اطلاع پہنچے وہ اس جمعہ تک جو آج گزر رہا ہے ، ایسے لوگوں سے جن سے ان کا جھگڑا دنیوی اور نفسانی وجوہات پر ہو صلح کرلیں اور کوئی یہ مت خیال کرے کہ میں مظلوم ہوں اس لئے دو سرے کو پہلے صلح کرنی چاہئے بلکہ مظلوم کو زیادہ ضرورت ہے کہ صلح کرے کیونکہ پہلے صلح کرنے والے کے لئے عظیم الشان انعام کا وعدہ ہے اور یہ یقینا بد قسمتی ہوگی کہ ایک تو انسان مظلوم ہو اور دوسرے صلح کرنے کے انعامات بھی ظالم کو مل جائیں.میں امید کرتا ہوں کہ دوستوں نے نہ صرف قادیان میں بلکہ باہر بھی اس پر ضرور عمل کیا ہو گا.لیکن اس قدر وسیع جماعت کے کانوں تک ایک بات کو اتنی جلدی پہنچانا چونکہ آسان نہیں اور ممکن ہے متواتر ایک بات دہرانے کے بغیر بعض لوگوں تک نہ پہنچ سکے اس لئے مختصر ا میں نے پھر اسے بیان کر دیا ہے.اس کے بعد میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جن کو خدا تعالی توفیق دے وہ رمضان المبارک سے فائدہ اٹھا ئیں.اس مہینہ میں دعاؤں کی قبولیت کا خاص موقع ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ ان دنوں میں خاص طور پر دعائیں سنتا ہے.اگر چہ یہ کہنا کہ خدا کو ان دنوں سے خاص تعلق ہے اس کی ہتک ہے لیکن اس میں شبہ نہیں کہ اس نے اپنے بندوں پر احسان کرنے کے ایسے ذرائع مقرر

Page 336

120 خطبات محمود سال ۱۹۳۲ کر دیتے ہیں جن سے سوتوں میں بیداری پیدا ہو سکے اور وہ سمجھیں کہ اگر سارا سال نہیں تو اس مہینہ میں ہی روحانی فائدہ اٹھا لیں.آج کل چھوٹے چھوٹے بچے بھی روزہ رکھنے پر اصرار کرتے ہیں جن پر روزے فرض نہیں بلکہ وہ بچے بھی جو نماز تو شاید سال میں ایک دو دفعہ ہی پڑھتے ہیں مگر روزہ رکھنے کے لئے بہت بیتاب ہوتے ہیں.اگر چہ یہ اس لحاظ سے تو مفید ہو سکتا ہے کہ بچوں کو بھوک برداشت کرنے کی عادت ہوتی ہے لیکن روزے اس لئے نہیں آئے کہ انسان بھوکا رکھا جائے بلکہ اس لئے ہیں کہ نفس پر قابو پانے کی عادت ڈالی جائے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی طرف انسان کو متوجہ کرنے کے لئے آئے ہیں لیکن جو سحری کو کھانا کھا کر پھر سو جاتا ہے اس کا کیا روزہ ہے.میں نے دیکھا ہے عورتوں میں یہ مرض عام ہے کہ روزہ میں وہ عبادت کم کرتی اور کھانے پینے کی طرف زیادہ توجہ کرتی ہیں.بے شک عورت کے فرائض میں یہ بات داخل ہے کہ وہ گھر میں کھانے کا سامان کرے اور جہاں نوکر وغیرہ نہ ہو خود کھانا تیار کرے لیکن ان دنوں میں ایسا انتظام کرنا چاہئے کہ زیادہ وقت سحری تیار کرنے میں صرف نہ ہو بلکہ نماز پڑھنے میں لگے.اور مردوں کو بھی چاہئے کہ اپنے کھانے یا کھانے کو زیادہ با لذت بنانے کے لئے عورتوں کو اس نعمت سے محروم نہ رکھیں.ممکن ہے بعض عورتیں چاہتی ہوں کہ اس وقت عبادت کریں لیکن مرد ان سے ایسا سلوک کرتے ہوں کہ وہ ڈر کے مارے کھانا پکانے یا اسے زیادہ بالذت بنانے میں وقت صرف کرنے پر مجبور ہوں.آج کل تو سردی کا موسم ہے.رات کا پکایا ہوا کھانا بھی سحری کے وقت استعمال کیا جا سکتا ہے.صرف روٹی پکانے کی ضرورت رہتی ہے.اگر چہ اب تو یورپ والوں نے روٹیاں بھی ایسی ایجاد کر دی ہیں جو آٹھ آٹھ دن تک خراب نہیں ہوتیں.غرضیکہ عورت و مرد سب ان دنوں میں زیادہ عبادت کریں بلکہ جو بیمار یا مسافر ہونے یا کسی اور شرعی عذر کے ماتحت روزہ نہ رکھ سکتے ہوں وہ بھی تہجد پڑھنے کی کوشش کریں اور دعاؤں اور عبادت میں حصہ ہیں.بلکہ ایسے لوگ اگر اپنے دل میں کڑھتے ہوں کہ روزہ کیوں نہیں رکھ سکتے تو روزہ داروں میں شامل ہو سکتے ہیں.رسول کریم میں ایک دفعہ جہاد پر جارہے تھے کہ اپنے ساتھیوں سے فرمایا مدینہ میں بعض لوگ ایسے ہیں جو جہاد کے ثواب میں تمہارے ساتھ شریک ہیں.صحابہ نے عرض کیا.یارسول اللہ یہ کیا بات ہے کہ مشکلات تو ہم اٹھائیں اور ثواب میں وہ بھی شامل ہو جائیں جو اپنے گھروں میں بیٹھے ہیں.آپ نے فرمایا وہ سستی اور کو تاہی کی وجہ سے ہمارے ساتھ آنے

Page 337

خطبات محمود ۳۳۲ سال ۱۹۳۲ء سے نہیں رکے بلکہ ایسی مجبوریوں کی وجہ سے پیچھے رہے ہیں جو ان کے قبضہ سے باہر تھیں.اور تمہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچتی جو ان کو نہ پہنچے.تم کسی وادی میں نہیں چل رہے ہوتے مگر وہ ساتھ ہوتے ہیں.پس وہ انسان جو کسی جائز مجبوری کی وجہ سے کسی عبادت میں شریک نہیں ہو سکتا اور اس کے لئے دل میں کڑھتا ہے ویسا ہی ثواب کا مستحق ہوتا ہے جیسادہ انسان جو عبادت بجالا رہا ہوتا ہے.ایسے لوگوں کو بھی گھبرانے کی ضرورت نہیں.کیونکہ جو شرعی مجبوری کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتا مگر اس پر افسوس کرتا ہے وہ بھی ثواب کا مستحق ہے.ا بخاری کتاب الجهاد والسير باب من حبسه العذر عن الغزو الفضل ۲۱ جنوری ۱۹۳۲ء)

Page 338

خطبات محمود سم سال ۱۹۳۲ء 40 مسلمانان کشمیر کی مال اور دعا سے مدد کرو (فرموده ۲۲- جنوری ۱۹۳۲ء).تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.رسول کریم میں اور ملک کے متعلق احادیث میں آتا ہے کہ آپ نہایت ہی مخیر وجود تھے اور صدقہ و خیرات کی طرف بہت توجہ کیا کرتے تھے.خصوصاً رمضان کے ایام میں آپ صدقہ و خیرات میں بہت ہی زیادہ حصہ لیا کرتے تھے.حتی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا بیان ہے کہ رمضان میں آپ کا صدقہ و خیرات اپنی تیزی میں تیز ہوا سے بھی بڑھ جاتا تھا.اگر اللہ تعالیٰ کا وہ رسول جو دنیا کے لئے اسوہ و نمونہ بنا کر بھیجا گیا تھا جو خدا تعالیٰ کے حضور اپنی پیدائش سے قبل ہی مقبول تھا بلکہ دنیا کی پیدائش کا مقصود تھا اس بات کا محتاج تھا کہ اللہ تعالیٰ کی رضاء کے حصول کے لئے آگے بڑھ کر قدم مارے تو ہم لوگ جو ہزا رہا عیوب اور نقائص رکھتے ہیں کس حد تک اس بات کے محتاج ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضاء حاصل کرنے کے لئے قربانی کے مواقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیں اس امر کا ہم میں سے ہر ایک کو اندازہ کرنا چاہئے.اسلام نے اس بات کا حکم نہیں دیا کہ کوئی انسان دولت کمائے نہیں یا اچھا کھانا نہ کھائے یا عمدہ کپڑا نہ پہنے لیکن اس بات کا دروازہ ضرور کھول دیا ہے کہ اگر کوئی انسان خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا چاہے تو وہ قربانیوں کے ذریعہ ہی حاصل کر سکتا ہے.حدیث میں آتا ہے کہ انسان نوافل کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا ہے.یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ رسول کریم میں اللہ فرماتے ہیں خدا تعالیٰ نے فرمایا میں ایسے بندہ کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے، اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے، میں

Page 339

خطبات محمود م سمسم اس کے ہاتھ ہو جاتا ہوں جن سے وہ پکڑتاہے اور اگر وہ ایک قدم میری طب آتا ہے تو میں ایک گز اس کی جانب بڑھتا ہوں اور انسان ترقی کرتے کرتے اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کا کامل اتحاد ہو جاتا ہے.اس کے متعلق یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ بے شک اللہ تعالی سنتا ہے مگر وہ مادی کانوں کا محتاج نہیں ، وہ دیکھتا ہے مگر مادی آنکھوں کا محتاج نہیں، وہ دراء الوری ہستی ہے اور اس کا انسان کے ہاتھ بننے کے معنے یہ ہیں کہ ایسا انسان جب اپنے ہاتھوں سے کام کرنے لگتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے تصرف کے ماتحت کام شروع کرتا ہے.اور اس کی حفاظت اور نصرت اس کے ساتھ ہوتی ہے.پاؤں بننے کے معنے یہ ہیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی توجہ پر دنیا میں برکات کا نزول ہو سکتا ہے اسی طرح اس بندہ کی آمد و رفت سے بھی برکات الہی وابستہ ہوتی ہیں.آنکھیں بننے کے معنے یہ ہیں کہ جس طرح خدا تعالیٰ جس کی طرف محبت و پیار کی نظر ڈالتا ہے اسے معزز و مقبول بنا دیتا ہے اسی طرح اس انسان کی آنکھوں میں وہی تأثیر پیدا ہو جاتی ہے کہ جس کی طرف نگاہ کرے خدا تعالیٰ کے فضل نازل ہو نا شروع ہو جاتے ہیں.ہم آج کل رمضان سے گزر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے دروازے ہمارے لئے بھی کھل سکتے ہیں اگر ہم کو شش کریں.ہم میں وہ لوگ بھی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے وسعت عطا کی ہے وہ خود بھی آرام و آسائش سے رہ سکتے ہیں اور دس ہیں اور کو بھی رکھ سکتے ہیں.پھر ہم میں وہ بھی ہیں جو صرف اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ ہی بخوبی پال سکتے ہیں اوروہ بھی ہیں جو فاقے کرتے ہیں لیکن ہر ایک تکلیف جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے یا انسان کی سستی سے پیدا ہوتی ہے یا دوسروں کے ہاتھوں پہنچتی ہے اس پر صبر و شکر کرنے سے اتنا ثواب نہیں ہو تا جتنا اس تکلیف کا جو انسان خود اپنے نفس پر وارد کرتا ہے.ایک انسان جسے ایک ہی وقت کھانے کو ملتا ہے وہ اس سے اتنا قرب الہی حاصل نہیں کر سکتا جتنا وہ شخص جسے دونوں وقت کھانا میسر آتا ہے مگر ایک وقت کا وہ خود اپنی مرضی سے نہیں کھاتا بلکہ کسی مسکین کو دے دیتا ہے.پہلے نے بھی سات دنوں میں صرف سات بار کھانا کھایا اور دوسرے نے بھی مگر پہلا ثواب کا اتنا مستحق نہیں ہو سکتا جتنا دو سرا کیونکہ اس نے اپنی مرضی سے ایسا کیا لیکن پہلے نے مجبوری ہے.بے شک مجبوری کے ماتحت تکلیف اٹھانے والا بھی ثواب کا مستحق ہو سکتا ہے مگر اس کے لئے اور شرائط ہیں.اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے صبر کا مقام رکھا ہے.لیکن عبر کے وہ معنی نہیں جو ہمارے ملک میں عام طور پر سمجھے جاتے ہیں بلکہ وہ ہیں جو اس سال جلسہ سالانہ کے موقع پر میں نے بیان کئے تھے.اگر انسان یہ بات حاصل

Page 340

منال ۶۱۹۳۲ ترقی اس وقت ایک کرلے تو وہی ابتلاء اور مصیبت اس کی کا موجب ہو سکتی اب کی بنا پر 1 قوم ہے جو خصوصیت کے ساتھ ان دنوں میں دنیا کے سامنے آرہی ہے اور میں اس کے متعلق جماعت کو تحریک کرتا ہوں.میں تفصیل میں جانا نہیں چاہتا.صرف یہ کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کا منشاء یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسے اٹھائے.تمام انسان اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں اور یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ کسی خاص قوم کو ہمیشہ کے لئے وہ ذلت میں پڑا رہنے دے.بلکہ ایک قوم اگر خود کرتی ہے اور اٹھنا نہیں چاہتی تو بھی ایک وقت خدا تعالیٰ کا فضل ضرور اسے آکر اٹھاتا ہے.ایک وقت تک تو صرف انہی قوموں کو اٹھاتا ہے جو خود ترقی کرنا چاہتی ہیں مگر یہ رحیمیت کی صفت کے ماتحت ہوتا ہے.اور کبھی رحمانیت کا دور آتا ہے اس وقت ایسی اقوام کو بھی جو اپنی ذلّت پر رضامند ہو چکی ہوتی ہیں خدا تعالی ابھارتا ہے.پہلے چوہڑے چمار سانسی وغیرہ اقوام کے لوگوں کو نصیحت کی جاتی اور ترقی کرنے کی طرف توجہ دلائی جاتی تھی تو وہ کہتے تھے کہ ہمیں خدا نے ایسا ہی بنایا ہے.لیکن اب اللہ تعالی نے انکی طرف بھی توجہ کی ہے اور زیادہ دن نہیں گزریں گے کہ خدا تعالی کا ہاتھ انہیں اٹھائے گا اور وہ اس قدر آگے بڑھیں گے کہ ممکن ہے غرور میں آکر دوسروں کو بھی دبانے کی کوشش شروع کر دیں.اس طرح اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کشمیری قوم کو بھی اٹھانا چاہتا ہے.یہ انسانی کام معلوم نہیں ہو تا بلکہ خدا تعالیٰ کا ہی یہ منشاء معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم کو ترقی دے.اس وقت میں ان دنیوی ذرائع اور سامانوں کا ذکر نہیں کروں گا جو اللہ تعالیٰ نے کشمیریوں کو ترقی دینے اور بڑھانے کے لئے مہیا کر دیتے ہیں بلکہ جماعت کو مد نظر رکھتے ہوئے بعض روحانی امور بیان کرتا ہوں.مسئلہ کشمیر کے متعلق کئی لوگوں کو ایسی رؤیا دکھائی گئی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس معاملہ میں کچھ کرنا چاہتا ہے.میں نے خود بھی خواب دیکھا ہے کہ ایک مجلس ہے جس میں بہت سے معززین جمع ہیں.میں ان کے سامنے کشمیر کے حالات بیان کر رہا ہوں اور کہتا ہوں کہ حالات امید افزا ہیں اور درمیانی روکیں کوئی ایسی روکیں نہیں اور انہیں تحریک کرتا ہوں کہ آپ لوگ اگر کچھ رقم خرچ کریں تو آسانی سے یہ کام ہو سکتا ہے.پھر ایسا معلوم ہو تا ہے کہ اس تحریک کے ساتھ ہی ان لوگوں میں حرکت شروع ہوئی اور حاضرین ایک دو سرے کے کان میں باتیں کرنے لگے.اس کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک کاغذ پھرایا جانے لگا.گویا وہ چندہ کرنے لگے ہیں.میں نے اس کی تعبیر یہ سمجھی ہے کہ بعض اوقات جو مایوسی کی گھڑیاں آتی ہیں وہ حقیقی نہیں بلکہ

Page 341

خطبات محمود سال ۱۹۳۲ء ۱ درمیانی رو کیں ہیں.اور مسلمان اگر مالی قربانی کریں تو یہ کام ہو سکتا ہے.ایک اور دوست یعنی مولوی محمد دین صاحب بی اے ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول نے پرسوں ایک خط اور کچھ رقم ارسال کی اور لکھا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ چندہ خاص ادا کرنے کی برکت سے خدا تعالٰی نے توفیق دی کہ میں نے اپنے بچہ کے داخلہ کے لئے جو اس وقت کالج میں پڑھتا ہے کچھ رقم جمع کرلی ہے آپ نے مجھے کہالا ؤ وہ رقم کشمیر کے لئے دیدو.چنانچہ انہوں نے اس خواب کو پورا کرنے کے لئے مبلغ ایک سو پندرہ روپیہ جو انہوں نے جمع کئے تھے مجھے کشمیر کے لئے بھیج دیئے ہیں.اور بھی بعض روحانی امور ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت ثواب حاصل کرنے کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ کشمیریوں کی امداد کرنا ہے.پس جب اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا کام پیدا کر دیا ہے جس سے وہ اپنے بندوں کو ثواب کا موقع دینا چاہتا ہے اور دوسری طرف مہینہ بھی وہ ہے جو خاص طور پر ثواب حاصل کرنے کا ہے تو میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں.یہ اتنا آسان کام ہے کہ اس سے زیادہ آسان اور کوئی قومی کام نہیں.کہتے ہیں محمود غزنوی نے جب ہندوستان پر حملہ کیا تو دو دو روپیہ میں غلام ہکے تھے.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ایک روپیہ بلکہ ایک روپیہ سے بھی بہت کم میں کشمیر کے غلاموں کو آزاد کرایا جا سکتا ہے.وہاں کی آبادی تمیں لاکھ ہے.اور میرا اندازہ ہے کہ ان کی آزادی کی تحریک دو تین لاکھ روپیہ میں بھی پایہ تکمیل کو پہنچ سکتی ہے.کیونکہ الہی سامان ایسے ہوتے ہیں کہ انسان ان کا وہم و گمان بھی نہیں کر سکتا.بعض اوقات تو مشکلات کے پہاڑ نظر آتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ انہیں اس طرح اڑا دیتا ہے گویا کبھی تھے ہی نہیں.بعض اوقات وہاں کے کارکنوں میں ایسی لڑائیاں اور تفرقے پیدا ہو جاتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے اب یہ کام تباہ ہو جائے گا.مگر اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے یا تو تفرقوں کو مٹادیتا ہے اور یا تفرقہ پیدا کرنے والوں کی عزت کو مٹادیتا ہے.جس سے صاف نظر آتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی مدد اور نصرت اس تحریک کے ساتھ ہے.باوجود یکہ ہندوؤں نے اسے مذہبی رنگ دینا چاہا اور ہندو مسلم سوال بنا کر اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کی مگر بعض اوقات سخت مخالف ہندو بھی اس کی تائید کرنے لگ جاتے ہیں اور اب کشمیر و جموں کے ہندوؤں میں بھی یہ رو پیدا ہو رہی ہے کہ یہ تحریک ہمارے لئے بھی فائدہ کا موجب ہے اور ان سامانوں کو دیکھ کر یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کام کو کرنا چاہتا ہے.بندے جو اس میں مدد دیں گے وہ مفت میں ثواب حاصل کرنے والے ہوں گے.اور اس کے لئے قربانیاں بھی کوئی بہت زیادہ کرنے کی ضرورت نہیں.ہندوستان کی

Page 342

خطبات محمود ۳۳۷ سال ۱۹۳۲ء آزادی کے لئے جو قربانیاں کی گئی ہیں اس کے دسویں حصہ میں کشمیر کے مسلمان آزاد ہو سکتے ہیں.اگر چہ ریاست بھی پورا زور لگائے گی.کیونکہ کون ہے جو آسانی سے اپنے غلاموں کو آزاد کرنا پسند کرے.اس کی طرف سے سازشیں کی جائیں گی.کشمیر میں اور یہاں بھی تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی.اور پورا زور لگایا جائے گا اور لگایا جا رہا ہے.لیکن باوجود اس کے اسے کامیابی نہیں ہو گی.مجھے چونکہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا صدر ہونے کی وجہ سے ہر قسم کی اطلاعات ملتی رہتی ہیں اس لئے ان کی بناء پر میں کہہ سکتا ہوں کہ ریاست کی طرف سے پانی کی طرح روپیہ بہانے اور افسروں کے رات دن لگے رہنے کے باوجو د بھی کام نہیں چلے گا.اگر ظاہر میں میں ایک ناکامی ہوتی ہے تو باطن میں دو کامیابیاں بھی اللہ تعالیٰ دے دیتا ہے.پس ہماری جماعت کے دوست جنہیں ہر وقت ثواب حاصل کرنے کا خیال رہتا ہے.ان کے لئے یہ بھی ایک موقع ہے.خصوصاً اس لئے بھی کہ میرے دل میں اس کے لئے تحریک ہو رہی ہے.اور جس کے ہاتھ پر بیعت کی جائے اس کی طرف سے جو تحریک ہو وہ بیعت کرنے والے کے لئے زیادہ قدر و قیمت رکھتی ہے.میرے علاوہ بعض دوسرے دوستوں کو بھی خواب کے ذریعہ سے تحریکیں ہو رہی ہیں.کئی نادان خیال کرتے ہیں کہ یہ سیاسی کام ہے حالانکہ یہ مذہب سے تعلق رکھتا ہے.غلاموں کی آزادی قرآن کریم نے مذہبی کام قرار دیا ہے.کئی جرائم کی سزا کے طور پر غلاموں کی آزادی رکھی ہے اور جس شخص نے ایک بار بھی کشمیر کو دیکھا ہے وہ ریاست کے تمام دعاوی اور جھوٹے پروپیگنڈا کے باوجود یہ کہنے پر مجبور ہو گا کہ کشمیر کے مسلمان یقینا غلام ہیں اور ان کی حالت دیکھنے کے بعد بھی جو یہ کہتا ہے کہ ان کو کسی قسم کے انسانی حقوق حاصل ہیں وہ یا تو پاگل ہے اور یا اول درجہ کا جھوٹا اور مکار - ان لوگوں کو خدا تعالیٰ نے بہترین دماغ دیتے ہیں اور ان کے ملک کو دنیا کی جنت بنایا ہے.مگر ظالموں نے بہترین دماغوں کو جانوروں سے بد تر اور انسانی ہاتھوں نے اس بہشت کو دوزخ بنا دیا ہے.لیکن خدا تعالی کی غیرت نہیں چاہتی کہ خوبصورت پھول کو کانٹا بنا دیا جائے اس لئے وہ اب چاہتا ہے کہ جسے اس نے پھول بنایا ہے وہ پھول ہی رہے اور کوئی ریاست اور حکومت اسے کانٹا نہیں بنا سکتی.روپیہ ، چالا کی مخفی تدبیریں اور پروپیگنڈا کسی ذریعہ سے بھی اسے کانٹا نہیں بنایا جا سکتا.چونکہ خدا تعالٰی کا منشاء یہ ہے اس لئے کشمیر ضرور آزاد ہو گا اور اس کے رہنے والوں کو ضرور ترقی کا موقع دیا جائے گا.اگر تم اس میں حصہ لو گے تو گو بظاہر اس بڑھیا کی مثال ہوگی جس کے متعلق یہ قصہ مشہور ہے کہ وہ سوت کی انٹی لے کر

Page 343

خطبات محمود ٣٣٨ سال ۲ حضرت یوسف علیہ السلام کو خرید نے گئی تھی.لیکن ساتھ ہی یہ مت خیال کرو تمہارا حصہ بہت تھوڑا ہے.ممکن ہے تمہارا پیسہ یا دھیلہ یاد مری ہی اس کی آزادی کا موجب ہو جائے اور اگر چہ دنیا کی نظر میں اس کی کچھ حقیقت نہ ہو مگر خدا تعالیٰ کے علم میں یہ بات ہو کہ اگر وہ دمڑی خرچ نہ کی جاتی تو یہ ملک آزاد نہ ہو سکتا.دوسری چیز دعا ہے.میں دوستوں کو تحریک کرتا ہوں کہ رمضان کی دعاؤں میں کشمیر کی آزادی کو بھی شامل رکھیں.اگر ہمارے پاس ریاست کے مقابلہ میں روپیہ نہیں ، آدمی نہیں فوجیں نہیں اور دوسرے دنیوی اسباب نہیں تو کچھ پرواہ نہیں کیونکہ ہمارے پاس وہ ہتھیار ہے جو دنیا کے سارے بادشاہوں کے پاس نہیں اور جس سے تمام حکومتوں کی متحدہ طاقتوں کو بھی شکست دی جاسکتی ہے اور وہ دعا ہے.پرانے زمانہ میں جب مسلمانوں کے اندر خرابیاں پیدا ہونی شروع ہو ئیں تو ایک بزرگ تھے جنکے ہمسایہ میں ایک امیر رہتا تھا.اس کے ہاں رات کے وقت گانا بجانا ہوتا تھا اور اس سے ہمسایوں کو تکلیف ہوتی تھی.ان کی اس تکلیف کو دیکھ کر اور آوارگی کی اس روح کو روکنے کے لئے اس بزرگ نے کہا اگر کوئی اور اسے نہیں روکتا تو ہم روکتے ہیں.وہ گئے اور گانے والوں کو روک دیا.اس پر امیر نے دریافت کیا کہ خاموشی کیوں ہو گئی ہے.انہوں نے کہا فلاں شخص روکتا ہے.اس نے بزرگ سے دریافت کیا کہ تم کیوں روکتے ہو.آپ نے فرمایا اہل محلہ کو تکلیف ہوتی ہے اس نے کہا تم نہیں جانتے میں بادشاہ کا درباری ہوں.اگر تم لوگ میرا مقابلہ کرو گے تو میں شاہی سپاہی بلاؤں گا.اس بزرگ نے کہا بے شک تم سپاہی لے آؤ ہم بھی مقابلہ کر لیں گے.اس نے پوچھا تم کس طرح مقابلہ کر سکتے ہو.آپ نے جواب دیا کہ میں سپاہیوں سے نہیں بلکہ سام اللیل ( رات کے تیروں سے مقابلہ کروں گا.اس بات کا امیر پر اس قدر اثر ہوا کہ فورا ہی اس کے دل کی حالت بدل گئی اور اس نے کہا رات کے تیروں کا میں واقعی مقابلہ نہیں کر سکتا اور باز آتا ہوں سو اگر تم اس مالی خدمت کے علاوہ جو کر سکتے ہو.سهام اللیل بھی چلاؤ اور دعائیں کرو اور اگر مالی امداد نہیں کر سکتے تو صرف دعائیں ہی کرو تو یہ مدد معمولی مدد نہیں.دنیا چاہے اسے ذلیل سمجھے لیکن خد اتعالیٰ کے نزدیک یہ بہت گراں قدر ہے.رسول کریم میں نے فرمایا ہے کہ یتیم کو دکھ نہ دو اس کی دعا عرش الہی کو ہلا دیتی ہے.کاش مہاراجہ کشمیر کو کوئی بتائے کہ تمہیں لاکھ مظلوموں کی آہیں آپ کے خلاف اٹھ رہی ہیں جن سے عرش الہی کانپ رہا ہے.جس کے مقابلہ میں آپ کی مہارا جگی کوئی حقیقت نہیں رکھتی.اور اگر آپ ان مظلوموں کی

Page 344

خطبات محمود ۳۳۹ سال ۱۹۳۲ء آہوں کو دعاؤں سے نہیں بدل لیں گے تو خدا تعالیٰ کے عذاب میں مبتلاء ہوں گے.اور آپ کی طاقت یا انگریزوں کی امداد آپ کے کام نہیں آئے گی.جو لوگ ان کو مسلمانوں کے حقوق دینے سے روک رہے ہیں وہ ان کے دشمن ہیں.کاش وہ اپنی جان اور اپنے خاندان پر رحم کریں اور آسمانی تیروں سے ڈر کر تمھیں لاکھ انسانوں کو آزاد کر دیں.تا اللہ تعالی کی گرفت سے بچ جائیں اور اس کے فضلوں کے وارث ہو سکیں.مگر شاید ان کے کان میں یہ بات ڈالنے والا کوئی نہیں.افسوس کہ وہ اموال اور اشیاء جو خد اتعالیٰ نے انسان کو اس لئے دی تھیں کہ بنی نوع کی خدمت کر سکے اور ان کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا قرب اور رحمت حاصل کرے انہیں وہ بہت بڑی چیز سمجھ کر کسی کی پرواہ ہی نہیں کرتا.ان کے ذریعہ سب کو اپنے ماتحت رکھنا چاہتا ہے.گویا وہ چیز جو اس لئے عطا ہوئی تھی کہ انسان کو جنت میں لے جائے اسے دوزخ میں گرا دیتی ہے.حکومت ہاتھ میں ہونے سے دماغ پھر جاتے ہیں.فوج اور خدام مغرور بنا دیتے ہیں.اور کوئی نہیں سمجھتا کہ یہ سب کچھ غریبوں کی مدد کے لئے عطاء ہوا ہے نہ کہ ان کے حقوق غصب کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کی یہ نعمتیں حاصل ہونے کے بعد سمجھا جاتا ہے کہ لوگوں کا فرض ہے ہماری خدمت کریں لیکن یاد رکھیں اس طرح کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی.کامیابی خدمت اور قربانی میں ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالٰی متواتر مسلمانوں کو توجہ دلاتا ہے کہ میں تم کو آزمائش میں ڈالنے والا ہوں اور تمھیں حکومت دے کر دیکھوں گا کہ کس طرح عمل کرتے ہو.اور پچھلی قوموں سے نصیحت حاصل کرنے کی متواتر نصیحت کرتا ہے.خدا تعالٰی کا یہ قانون ہے کہ گرے ہوؤں کی مدد کر کے وہ ان کو بڑھاتا ہے اسی وجہ سے مجھے یقین ہے کہ خدا تعالیٰ مہاراجہ صاحب کشمیر کے دل میں ضرور رحم ڈالے گا.اور وہ اپنے ملک کے مسلمانوں کو وہ انسانی حقوق دینے پر آمادہ ہو جائیں گے جن کے بغیر زندگی مشکل ہے.اور یا پھر انکے ہاتھ خود ہی باندھے جائیں گے اور ان کی طاقت کمزور کر دی جائے گی.انگریزی حکومت نے بھی مہاراجہ کشمیر کی تائید میں بعض آرڈی نینس سباری کئے ہیں.بعض نادان شاید خیال کرتے ہوں کہ اس طرح یہ تحریک کچلی جائے گی.لیکن انہیں یاد رکھنا چاہئے جو کام میرے یا کسی اور شخص کے ذریعہ ہو رہا ہو وہ تو رو کا جا سکتا ہے لیکن جسے خدا تعالیٰ کرنا چاہے اسے کسی شخص کو قید و بند میں ڈالنے بلکہ جان سے مار دینے سے بھی نہیں بند کیا جا سکتا.پس اللہ تعالٰی سے دعائیں کرو اور دوسروں کو بھی دعائیں کرنے کی ترغیب دو.کیونکہ دعائیں سننے میں اللہ تعالی کسی کا خیال نہیں کرتا.بلکہ عیسائی، یہودی ہندو' سب کی دعائیں سنتا ہے.اس میں شک

Page 345

خطبات محمود ۳۴۰ سال ۱۹۳۲ء نہیں کہ بعض نعمتیں ایمان سے مخصوص ہیں مگر اکثر غیر مخصوص ہیں اور اس کی رحمت کا فرمومن سب کو ڈھانپ لیتی ہے.کوئی حکومت ایسا آرڈی نینس جاری نہیں کر سکتی کہ دعا نہ کرو اور کوئی حکومت خدا کے فضل کو روک نہیں سکتی.حکومت اس سے تو روک سکتی ہے کہ مظلوموں کی حمایت میں مضمون نہ لکھے جائیں ، جلسے نہ کئے جائیں ، جتھے نہ لے جائے جائیں ، تقریریں نہ کی جائیں ، چندے نہ جمع کئے جائیں لیکن تمہاری دعاؤں کو کوئی نہیں روک سکتا اس کے لئے تو زبان بھی ہلانے کی ضرورت نہیں.ایک دُکھیا دل جب خدا تعالیٰ کے سامنے جھک جاتا ہے تو اس کی دعا ختم ہو جاتی ہے.اور جب خدا تعالیٰ کسی کام کو کرنے کا ارادہ کر لیتا ہے تو کوئی طاقت کچھ نہیں کر سکتی.انگریزی حکومت کے پاس سامان جنگ افواج اسلحہ سب کچھ ہیں لیکن مالی مشکلات میں اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسا پکڑا ہے کہ سب حیران ہیں.چند دنوں میں ہی پونڈ کی قیمت ایسی گری ہے کہ چار پانچ ماہ کے عرصہ میں دنیا کی بہترین مالدار قوم کی حالت دیوالیوں کی سی ہو گئی ہے.یہ ایک نشان ہے تمہارے لئے اور ہر اس شخص کے لئے جو دنیوی سامانوں پر تکیہ کرتا ہے.دراصل کمزور وہی ہے جسے خدا کمزور کرے.اور طاقتور وہی ہے جسے خدا تعالی طاقتور بنائے.پس مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں.دعاؤں کے ذریعہ بھی مدد کرو اور مالی و تبلیغی طور پر بھی.ہر دل جس میں کشمیر کے مظلوموں کے لئے تم درد پیدا کرتے ہو وہ بھی خدمت ہے.اس لئے باہر کی جماعتوں کو اس کی طرف متوجہ کرتا ہوں کیونکہ اس مسئلہ کی طرف ابھی انکی توجہ اتنی نہیں جتنی کہ چاہئے.اس لئے ہر وہ جماعت اور شخص جس تک میری آواز پہنچے رمضان کے دنوں میں خصوصیت کے ساتھ اور بعد میں بھی اس طرف توجہ کرے.ہر گاؤں میں چندہ جمع کیا جائے اور نہیں تو ہر روز مٹھی بھر آتا ہی اس کام کے لئے علیحدہ کر دیا جائے.ہندوستان میں قریباً ساٹھ ہزار قصبے ہیں اور اگر ان میں سے صرف میں ہزار قصبوں میں مسلمان رہتے ہیں اور یہ بیس ہزار قصبے صرف ایک آنہ ماہوار کی رقم جمع کریں.تو بھی ہر مہینہ میں سوا ہزار روپیہ جمع ہو سکتا ہے.یہ خیال مت کرو کہ لوگ توجہ نہیں کرتے.یہ تمہارا کام ہے کہ جاؤ اور جا کر انہیں متوجہ کرو.کشمیر کے مسلمان احمدی نہیں ہیں کہ کوئی ہم پر اعتراض کر سکے.یہ غلام قوم کی آزادی کا سوال ہے اس کے لئے کسی سے مانگنے اور تحریک کرنے میں کوئی شرم نہیں.ایک دو تین ، چار دن بلکہ اس وقت تک جاؤ جب تک کہ خدا تعالیٰ ان غلاموں کو آزاد کرا دے.ویسے غلام تو اس زمانہ میں نہیں ہیں جو پہلے ہوا کرتے تھے.ان کو تو یورپ نے آزاد کرا دیا.اب یہی غلام باقی ہیں جو

Page 346

خطبات محمود اسم ۳ سال ۱۹۳۲ء نام کے طور پر آزاد ہیں لیکن عملاً غلام ہیں.ان کو آزادی دلانے کے لئے ہمیں ثواب کا ایک موقع حاصل ہے.پس جہاں جہاں بھی کوئی احمد کی ہے خواہ جماعت کی صورت میں خواہ اکیلا - میں پھر اسے متوجہ کرتا ہوں کہ وہ اس عظیم الشان کام سے غفلت نہ کرے.یہ ثواب حاصل کرنے کا بہترین موقع ہے.اور جو اس وقت غفلت کرتا ہے وہ اپنی عمر کا بہترین موقع ضائع کرتا ہے.ان کے لئے چندہ جمع کرو.ان کے متعلق لوگوں کے اندر ہمدردری پیدا کرو یہاں تک کہ بچہ بچہ انکی مظلومیت سے آگاہ ہو جائے.اور ہر دل میں ان کے لئے ہمدردری پیدا ہو جائے.بڑے بڑے شہر مثلاً بمبئی ، کلکتہ، دہلی وغیرہ کے مالدار لوگ اگر اپنی زکو تیں ہی دیں تو بھی بہت کام ہو سکتا ہے.تم گھر بیٹھے ہی یہ خیال مت کرو کہ لوگ توجہ نہیں کرتے.جب تک کوئی شخص ہر گھر اور دکان پر نہیں جاتا اور گھر بیٹھے ہی خیال کر لیتا ہے کہ لوگ توجہ نہیں کرتے وہ نادان ہے.اور خود اپنے نفس کو بھی دھوکا دیتا ہے اور خدا کو بھی دھوکا دینے کی کوشش کرتا ہے.بڑے شہروں کے احمدیوں کو چاہئے کہ وفد بنا کر ہر دکان پر جائیں اللہ تعالیٰ یقینا برکت دے گا.پس رمضان کے دنوں میں جب رسول کریم ملی تیز ہوا سے بڑھ کر صدقہ کرتے تھے احباب جماعت کو چاہئے کہ اس کام میں توجہ کریں تا اللہ تعالیٰ ان کو اس کے ثواب میں حصہ دار بنائے.کیونکہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ اس کام کو کرنا چاہتا ہے.اور ہمارے لئے مفت میں اجر حاصل کرنے کا موقع ہے.یہ مت خیال کرد که احرار کی فتنہ انگیزیاں ہمارے خلاف تعصب پیدا کر رہی ہیں.کیونکہ اکثر لوگ دنیا میں عقل سے کام لیتے اور اپنے نفع و نقصان کو سمجھتے ہیں.خود کشمیر میں بہت زیادہ تعصب تھا، مگر اس کام میں نوے فیصدی لوگ ہیں جو کسی قسم کے تعصب کا اظہار نہیں کرتے کیونکہ وہ اپنے نفع کو خوب سمجھتے ہیں.اس لئے یہ خیال مت کرو کہ تعصب ہے بلکہ جن کے دلوں میں تعصب ہے ان کو بھی تم اپنا ہم خیال بنا سکتے ہو.اور حقیقت تو یہ ہے کہ اکثر لوگ ایسے ہیں جن میں تعصب نہیں ، صرف سستی ہے.کیو کہ عام انسان چاہتے ہیں قربانی سے بچ جائیں.اس لئے ممکن ہے کہ بعض تمہاری احمدیت کو بہانہ بنا کر قربانی سے بچنا چاہیں.لیکن اگر انہیں بار بار سمجھایا جائے تو وہ بھی مان جائیں گے.اللہ تعالٰی ہمیں تمام نیک کاموں میں حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے.اور اپنی رضاء کے حصول کے مواقع بہم پہنچائے.اس مظلوم ملک کی بھی امداد کرے اور ہمیں بھی توفیق دے کہ ان کی غلامی کو آزادی سے تبدیل کرنے کے لئے کوشش کریں اور اس طرح غلاموں کو آزاد کرانے کی نیکی

Page 347

خطبات محمود سے محروم نہ رہیں.Flari الفضل ۳۱ جنوری ۱۹۳۲ء) بخاری کتاب الصوم باب اجود ما كان النبي يكون في رمضان بخاری کتاب التوحيد باب ذكر النبي و روايته عن ربه بخاری باب كيف كان بدء الوحى الى رسول الله صلى الله عليه وسلم الخ

Page 348

خطبات محمود ۳۳ 41 سال ۱۹۳۲ء حق دار کو اس کا حق فورا ادا کر دو (فرموده ۲۹- جنوری ۱۹۳۲ء) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.میں نے اپنے ایک پچھلے خطبہ جمعہ میں دوستوں کو نصیحت کی تھی کہ وہ اس سال کے پروگرام میں علاوہ تبلیغ احمدیت کے خصوصیت سے اس امر کو بھی شامل کرلیں کہ وہ موجودہ سال کو اپنی تمام لڑائیوں اور جھگڑوں اور فتنہ اور فسادات کو دور کرنے کی کوششوں میں صرف کر دیں اور جہاں تک ان سے ہو سکے خواہ وہ مظلوم ہی کیوں نہ ہوں اور خواہ ان پر دوسروں کی طرف سے ظلم ہی کیوں نہ کیا گیا ہو ، آپس میں صلح اور صفائی کر لیں.مجھے خوشی ہے کہ جماعت کے دوستوں نے میری اس نصیحت پر نہایت کثرت سے عمل کیا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ جن لوگوں کے دل ابھی تک دوسروں کی طرف سے صاف نہیں ہوئے وہ اس موقع کو غنیمت سمجھتے اور اس سے پوری طرح فائدہ اٹھاتے ہوئے آئندہ کے لئے اپنی اصلاح کریں گے اور جلد سے جلد اپنے قلوب کو دوسروں کی نسبت صاف کر کے اللہ تعالی کے فضلوں کے وارث بن جائیں گے.لیکن جہاں میں نے یہ نصیحت کی تھی کہ لوگ اپنے دلوں کو دوسروں کی نسبت صاف کرلیں اور خواہ وہ مظلوم ہی کیوں نہ ہوں صلح کریں میری یہ نصیحت نا مکمل ہوگی اور فتنوں کا سد باب پوری طرح نہیں ہو گا جب تک میں اس کا دوسرا حصہ بھی بیان نہ کروں اور وہ یہ ہے کہ نہ صرف دوسروں کے متعلق ہر قسم کی کدورت سے اپنے دلوں کو صاف کرو بلکہ اس امر کو بھی مد نظر رکھو کہ کسی مظلوم کا معافی مانگ لینا ایسی بات نہیں جو تمہارے لئے خوشی کا موجب ہو سکے بلکہ خوشی صرف اس کے لئے ہے جس نے معافی مانگی اور تمہیں خوشی اس

Page 349

خطبات محمود مهم مهم سلام سال ۲ وقت حاصل ہو گی جب تم اپنے خدا کو حاضر ناظر جانتے ہوئے اگر دوسروں کے حقوق کو تم نے غصب کیا ہوا ہے تو وہ حقوق ادا کر دو اور اگر تم پر کسی کا مالی یا جانی یا اخلاقا حق ہے تو وہ اسے دے دوو گر نہ اگر تم دوسروں کے حقوق ادا نہیں کرتے تو خواہ دوسرا شخص تم سے ہزار معافی مانگے اس کا درجہ تو بڑھتا جائے گا لیکن تمہارا جرم اور گناہ بھی ساتھ ہی ساتھ بڑھ جائے گا کیونکہ وہ شخص میرے کہنے پر تمہارے پاس گیا اور اس نے مظلوم ہونے کے باوجود تم سے معافی مانگی مگر تم نے باوجو د ظالم ہونے کے اور باوجود اس کے معافی مانگ لینے کے اس کے حقوق کی ادائیگی کا خیال نہ کیا.اور تم نے اپنے دل میں یہ سمجھ لیا کہ وہ نیچا ہو گیا.پس اپنے نفوس کو اس غرور میں مبتلاء نہ ہونے دو کہ ہم نے دو سرے کو نیچا دکھا دیا کیونکہ وہ معافی مانگ کر نیچا نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالٰی کی.بارگاہ میں اونچا ہو گیا کیونکہ اس نے خدا کی فرمانبرداری کی اور خلیفہ وقت کی بات مانی مگر تم جو اس وقت اپنے آپ کو اونچا سمجھ رہے ہو دراصل نیچے گر گئے.جس طرح انسان جتنا اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ میں جھکتا ہے اتنا ہی اس کا درجہ بلند ہوتا ہے حتی کہ حدیثوں میں آتا ہے کہ جو شخص خدا کے لئے نیچے جھکتا ہے خدا اس کو اوپر اٹھاتا ہے یہاں تک کہ اسے ساتویں آسمان پر لے جاتا ہے.اسی طرح جو شخص اپنے بھائی سے معافی مانگتا ہے وہ نیچے نہیں گرتا بلکہ اس کا درجہ بلند ہوتا اور خدا کے حضور بہت بلند ہو جاتا ہے.پس مظلوموں کے معافی مانگ لینے کی وجہ سے تم یہ مت خیال کرو کہ جس نے تم سے معافی مانگی وہ تمہارے سامنے گر گیا بلکہ اسے خدا نے اونچا کر دیا اور جس کو خدا اونچا کرے اسے کوئی نہیں جو نیچا کر سکے.پس اس کے معافی مانگ لینے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ گر گیا یا ذلیل اور رسوا ہو گیا بلکہ اس کے معافی مانگ لینے اور تمہارے غرور اور تکبر کرنے کا یہ مطلب ہے کہ تم اب خدا کے غضب کے خطرہ کے نیچے آگئے کیونکہ جس وقت تم اور وہ دونوں اپنی اپنی ضد پر قائم تھے ، اس وقت تک خدا کا دخل دینار کا ہوا تھا اور اس کی صفات غضبیہ انتظار کر رہی تھیں کہ ان میں سے کون رحمت کی چادر تلے آتا ہے.پس جس وقت ایک نے اپنے سر کو جھکا دیا اور مظلوم ہونے کے باوجو د ظالم کے پاس آیا اور بے قصور ہوتے ہوئے معافی مانگی اور وہ جس نے اس کا حق دبایا ہو ا تھا، اس پر ظلم کیا تھا اسے مالی یا جانی نقصان پہنچایا تھا، اپنی ضد پر اڑا رہا اور اس نے خیال کیا کہ میں نے بڑی فتح پائی.میرا حریف آخر ذلیل اور رسوا ہوا تو یاد رکھو! ایسے شخص کے خلاف خدا کے غضب کی صفت جوش میں آئے گی اور اس کی غیرت دم نہیں لے گی جب تک وہ اسے ہیں کر نہ رکھ دے.

Page 350

خطبات محمود ۳۲۵ سال ۱۹۳۲ء پس اگر تم سے کسی بھائی نے معافی مانگی ہے تو تمہیں اپنے نفوس میں غور کرنا چاہئے کہ آیا تم ظالم تھے یا وہ - مگر بہت دفعہ انسان اپنے نفس کے محاسبہ میں غلطی کر جاتا ہے.میں نے بڑے بڑے ظالموں کو دیکھا ہے.میں نے بڑے بڑے حق مارنے والوں کو دیکھا ہے کہ وہ اپنے دل میں یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہم ظالم نہیں بلکہ مظلوم ہیں.پس میری وہ نصیحت نامکمل رہے گی اگر میں اس کے ساتھ ہی یہ نہ کہوں کہ اب تم مظلوموں کے معافی مانگ لینے کی وجہ سے خدا کے غضب کے خطرہ میں آگئے ہو اور قریب ہے کہ تم میں سے بعض خدا کے غضب اور اس کی گرفت میں شدید طور پر گرفتار ہو جائیں.پس اس خطرہ کو اپنے دلوں میں محسوس کرو اور اگر خود محسوس نہیں کر سکتے تو میں تمہیں خدا کے عذاب سے ڈراتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ خدا کا عذاب نہایت سخت ہو تا ہے ایسا سخت کہ اس سے زیادہ سخت اور کوئی عذاب نہیں ہوتا.پس اپنے نفوس کا محاسبہ اپنی آنکھوں سے نہیں بلکہ دوسروں کی نگاہوں سے کرو کیونکہ بہت دفعہ انسانی آنکھ اپنے ذاتی عیوب معلوم کرنے سے قاصر رہتی ہے اور اگر تم اس محاسبہ کے بعد یہ محسوس کرو کہ تم نے کسی کا حق مارا ہوا ہے تو تم گھبرا جاؤ اور ڈرو تا ایسا نہ ہو کہ خدا کی گرفت کے نیچے آجاؤ اور جلد سے جلد دو سرے کا حق ادا کردو - بلکہ میں تمہیں یہاں تک کہتا ہوں کہ تم میں سے جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ مجھے فلاں کا اگر چہ حق دیتا ہے مگر رات گزار کر کل صبح دے دوں گاوہ اپنے دل میں ڈرے اور بہت ڈرے.اسے کیا معلوم کہ اس کے لئے صبح ہوگی یا نہیں اور اسے کیا معلوم کہ صبح تک اس کے لئے توبہ کا دروازہ کھلا رہے گا یا بند ہو جائے گا کیونکہ کوئی نہیں جانتا کہ وہ رات بھر زندہ رہے گا یا نہیں.اور کوئی نہیں جانتا کہ پھر اس کے لئے توبہ کا دروازہ کھلا رے گا یا نہیں.اسی طرح اگر کوئی شخص اپنے دل میں یہ خیال کرتا ہے کہ میں نے فلاں کا حق دیتا ہے مگر آج نہیں اس پر کل غور کروں گاوہ بھی اپنے دل میں ڈرے اور بہت ڈرے اسے کیا معلوم کل کا دن اس کے لئے آئے گا یا نہیں اور اسے کیا معلوم کہ اگر کل کا دن اس کے لئے چڑھا بھی تو اس کے لئے توبہ کا دروازہ کھلا رہے گا یا نہیں.لیکن اگر کوئی جانتا ہے کہ میں نے فلاں کا حق مارا ہوا ہے اور پھر بھی وہ اس کا حق ادا نہیں کرتا تو وہ اپنے آپ کو یقینی طور پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کے خطرہ میں ڈالتا اور اپنی روح کو شیطان کے حوالے کرتا ہے اور ہر سیکنڈ جو اس کی زندگی کا گزرتا ہے اسے خطرہ اور عذاب کے زیادہ قریب کرتا جا رہا ہے.پس جس قدر جلد سے جلد ہو سکے اپنے بھائی کا حق واپس کر دو بلکہ کوشش کرو کہ اس کے حق سے زیادہ اسے واپس کرو تا اس کی مظلومیت کا بدلہ بھی اتار سکو.اگر تم میری اس

Page 351

خطبات محمود لسمسم سال ۹۳۲ نصیحت پر بھی عمل کرو تب میں سمجھوں گا کہ میری پہلی نصیحت مکمل ہو گئی وگر نہ صرف پہلی نصیحت پر عمل کر کے جماعت کا ایک حصہ اگر خدا تعالیٰ کے فضلوں کا وارث ہو گیا ہے تو جماعت کا دوسرا حصہ اللہ تعالیٰ کے غضب کے خطرہ کے نیچے آگیا ہے.اور بے شک میری اس نصیحت کے نتیجہ میں آپس کے جھگڑے بند ہو گئے ہیں، بے شک بغض اور کیئے جاتے رہے ہیں، بے شک زید اور بکر کے دل آپس میں مل گئے ہیں اور بے شک ہماری مجالس آباد اور ہماری مسجدیں بھائیوں سے بھر گئیں مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ ویرانی کا ایک نیا سامان بھی پیدا ہو گیا اور وہ اللہ تعالیٰ کا غضب اور اس کی غیرت ہے جو اب ان کی خاطر بھڑکے گی جو مظلوم ہو کر ظالموں کے پاس گئے اور ان سے بے قصور ہو کر معافی مانگی مگر وہ ظالم اپنے غرور میں رہے اور انہوں نے کہا کہ خوب ہوا آخر ہمارامد مقابل ہمارے سامنے جھک گیا اور اسے ذلیل ہونا پڑا.یا د ر کھو یہ طریق اختیار کرنے والا کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث نہیں ہو سکتا.اگر اللہ تعالیٰ کی رحمت سے حصہ لینا چاہتے ہو تو اپنے نفوس کی کامل اصلاح کے لئے تیار ہو جاؤ اور تم میں سے جس شخص نے ظلم اور تعدی سے کسی دوسرے کا حق مارا ہوا ہو اس کا فرض ہے کہ فورا حق ادا کر دے.بلکہ ہماری جماعت کو تو دوسروں کے حقوق کے متعلق وہ نمونہ دکھانا چاہئے جو صحابہ کے متعلق مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرمایا کرتے تھے.آپ فرماتے دو صحابی تھے ان میں جھگڑا ہو گیا اور جھگڑا اس بات پر ہوا کہ ایک شخص گھوڑا خرید نا چاہتا تھا اور دوسرا بیچنا چاہتا تھا.گھوڑا خرید نے والا کہے کہ میں اس کی زیادہ قیمت دوں گا کیونکہ میں گھوڑوں کو خوب پہچانتا ہوں اور جانتا ہوں کہ کونسا گھوڑا اچھا ہوتا ہے اور کونسا نا قص.تم تھوڑی قیمت بتلاتے ہو ، میں زیادہ دوں گا.اور گھوڑا بیچنے والا کے میں اتنی قیمت نہیں لوں گا کیونکہ میں گھوڑے کا مالک ہوں اور جانتا ہوں کہ یہ گھوڑا کس قیمت کا ہے.یہ وہ مومنانہ روح ہے جو دو سروں کی نگاہوں میں جماعت کو ممتاز بنا سکتی ہے اور یہ وہ روح ہے جس کے ماتحت لوگ خود بخود سلسلہ کی طرف کھنچے چلے آئیں گے.پس یہ روح اپنے اندر پیدا کرد تا اللہ تعالیٰ کے فضل تم پر نازل ہوں اور تا اللہ تعالیٰ کہہ سکے کہ جب میرا فلاں بندہ کنگال ہو کر دوسروں کو ان کے حق دے دیتا بلکہ ان کے حق سے زیادہ دیتا ہے تو میں جس کے خزانے وسیع اور جس کی رحمت تمام عالم پر محیط ہے کیوں اس کے ساتھ خاص سلوک نہ کروں.پس بندوں سے نمایاں شفقت کا سلوک کرد تا تم پر بھی خدا نمایاں طور پر اپنی رحمت نازل کرے.

Page 352

i] خطبات محمود سال ۱۹۳۲ء میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں اخلاق فاضلہ کا اعلیٰ سے اعلیٰ نمونہ دکھانے کی توفیق عطا فرمائے.ہم صرف ظاہری طور پر ہی نمازیں پڑھنے والے نہ ہوں بلکہ ہمارے دل بھی عبادت گزار ہوں.اور ہم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے خزانوں کی وسعت پر نظر رکھیں اور یہ نہ سمجھیں کہ دو سروں کا حق مار کر ہم بڑے بن سکتے ہیں.ا بخاری کتاب الرقاق باب التواضع الفضل ۴ - فروری ۱۹۳۲ء)

Page 353

خطبات محمود ۳۴۸ 42 مسلمانان کشمیر کی مدد کرو اور فتنہ و فساد سے بچو (فرموده ۵- فروری ۱۹۳۲ء) سال ۱۹۳۲ء تشهد و تعوذ اور سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.یہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ ہے اور آخری عشرہ میں آخری جمعہ اور ۲۷ تاریخ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا ہے جب جمعہ اور رمضان المبارک کی ستائیسویں تاریخ جمع ہوں تو لیلتہ القدر ہوتی ہے.پس یہ دن ایک نہایت ہی مبارک دن ہے اور ایک غنیمت گھڑی ہے جس سے مؤمن جتنا بھی فائدہ اٹھا سکیں تھوڑا ہے.کہا جاتا ہے کہ رمضان کے آخری جمعہ میں لوگ کثرت سے شریک ہوتے ہیں حتی کہ جو لوگ سال بھر نماز کے قریب بھی نہیں آتے وہ بھی اس میں شریک ہو جاتے ہیں ان کا خیال ہے کہ آج کی نماز سارے سال کی نمازوں کی قائم مقام ہو جاتی ہے اور اس کا نام انہوں نے قضا عمری رکھا ہوا ہے.مجھے معلوم نہیں اسی خیال کے ماتحت یا کسی اور وجہ سے ہماری جماعت کے لوگ بھی اس دن کثرت سے شامل ہوتے ہیں.میرا یہ مطلب نہیں کہ ہماری جماعت کے جو لوگ پہلے نمازوں میں نہیں آتے وہ بھی شامل ہوتے ہیں کیونکہ سوائے چند ایک آوارہ لڑکوں کے یا بعض منافقوں کے یہاں کے لوگ پہلے ہی مسجدوں میں با قاعدہ آتے ہیں میرا مطلب یہ ہے کہ اس دن باہر کی جماعتیں بھی شریک نماز ہوتی ہیں اور اس وجہ سے ہجوم زیادہ ہو جاتا ہے چنانچہ آج بھی آپ دیکھ رہے ہیں کہ مردوں اور عورتوں کا اس قدر ہجوم ہے کہ مسجد سے باہر کمروں میں اور مکانوں کی چھتوں پر بھی عورتیں مرد بیٹھے ہیں مگر پھر بھی جگہ کی تنگی ہو رہی ہے اور مرد مسجدوں میں جس طرح ہجوم کر کے تنگی سے بیٹھے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز نہیں پڑھی جاسکے گی ایک دوسرے کی پشت پر سجدہ کرنے کی جو اجازت

Page 354

خطبات محمود ۳۴۹ سال ۱۹۳۲ء شریعت نے دی ہے آج اس پر عمل کر کے بھی شاید گزارہ نہ ہو سکے.پس ان لوگوں کو جو آج نماز میں شامل ہونے کے لئے جمع ہوئے ہیں میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی ان میں سے قضائے عمری کی نیت سے شامل ہوا ہے تو یہ ایک حقیر اور ذلیل چیز ہے جو اس کے پیش نظر ہے اور وہ بجائے نیکی کے بدی کا مرتکب ہوتا اور گنہگار ٹھہرتا ہے.لیکن اگر کوئی اس خیال سے آیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس رات کو لیلتہ القدر قرار دیا ہے اور یہ مقام آپ کی نزول گاہ ہے اور خدا تعالیٰ کے انوار یہاں نازل ہوتے ہیں.اس مسجد کا نام خدا تعالیٰ نے مسجد اقصیٰ رکھا ہے اور اس کے متعلق فرمایا ہے کہ مُبارَک وَمُبَارَكُ كُلُّ امْرِ مُبَارَكَ يُجْعَلُ رفیہ لے یعنی جو کام یہاں کیا جائے گاوہ بابرکت ہو گا.تو اس مسجد کی نماز اس کے لئے زیادہ ثواب کا موجب ہوگی.پس اگر چہ نماز کے متعلق میں یہ کہنے سے تو ڈرتا ہوں کہ اس دن نہ آیا کرو لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ نیک نیت کے ساتھ آؤ اور قضا عمری کا خیال تک دل میں نہیں ہونا چاہئے.ہاں جو شخص نیک نیتی سے گھر کو چھوڑتا ہے اور پیدل چل کر یا سواری کے ذریعہ یہاں آتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے اجر کو ضائع نہیں کرے گا اور وہ ثواب سے محروم نہ رہے گا.پس جہاں میں یہ کہتا ہوں کہ خصوصیت سے اس دن کو عبادت کا دن نہ بناؤ وہاں مسجد میں آنے سے بھی ہرگز نہیں روکتا.نماز کے لئے ضرور آؤ مگر ثواب کی نیت سے آؤ اور یہ خیال لے کر آؤ کہ یہ مقدس جگہ ہے.اس کے بعد میں احباب جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ یہ مسجد جو کسی وقت آدمیوں کی محتاج تھی ، اب ہمارے لئے تنگ ہو رہی ہے اب وہ دن آگیا ہے کہ ہم اسے بڑھانے کی کوشش کریں اس کے جس طرف راستہ ہے ادھر تو بڑھائی نہیں جاسکتی اس لئے اس کے بڑھانے کی صرف یہی صورت ہے کہ دوسری طرف کے مکانات خرید کر اس میں شامل کرلئے جائیں.ایک مکان تو خرید بھی لیا گیا ہے اور اگر خدا نے چاہا تو کسی وقت مسجد میں شامل کیا جاسکے گا.فی الحال اسے جنوبی پہلو میں بڑھانے کی کوشش کرنی چاہئے.میں نے سنا ہے کہ ایک احمدی دوست اپنا مکان فروخت کرنا چاہتے ہیں.کارکنوں کو چاہئے کہ اگر وہ فروخت کریں تو اسے خرید لیں اور اسکی تعمیر کو صرف قادیان والے اپنا فرض سمجھیں.یہ غلط اصول ہے کہ ہم مقامی کاموں میں بیرونی جماعتوں کی امداد کے خواہشمند ہوں.یہ کم ہمتی ہے جسے جس قدر جلد ہو سکے دور کرنا چاہئے.اگر محلہ دار الفضل کے لوگ ڈیڑھ دو ہزار روپیہ خرچ کر کے اپنے لئے مسجد تیار کر سکتے

Page 355

خطبات محمود ۳۵۰ سال ۱۹۳۲ء ہیں.اگر دار الرحمت کے لوگ اتنے ہی خرچ سے اپنے محلہ میں مسجد بنواتی نے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ قادیان کی ساری جماعت مل کر پانچ چھ ہزار روپیہ مرکزی مسجد کے لئے خرچ نہ کر سکے.میں جانتا ہوں کہ بعض بیرونی مخلصین اس بات کو نا پسند کریں گے کہ اس مسجد کی توسیع میں جسے اللہ تعالٰی نے مسجد اقصیٰ قرار دیا اور جو اس کے انوار کی جلوہ گاہ ہے اور جو در حقیقت ایک مرکزی حیثیت رکھتی ہے حصہ لینے سے انہیں محروم کر دیا جائے.لیکن اس کی یہی صورت ہو سکتی ہے کہ اگر کوئی حصہ لینا چاہے تو لے ہم کسی کو حکم نہیں دیں گے کہ وہ ضرور اس میں حصہ لے.یعنی اس میں با قاعدہ چندوں کی طرح جماعت وار اس کو تحریک نہیں کی جائے گی.یا د رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی برکات جس وقت نازل ہونا شروع ہوتی ہیں تو وہ آثار سے پہچانی جاتی ہیں.اگر وہ جماعت جسے دشمن چاہتے تھے کہ کچل دیں.ہر سال یا دوسرے تیسرے سال اپنی سابقہ عمارتوں کو اپنی وسعت کے مقابلہ میں تنگ محسوس کرنے لگے تو یہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا نشان ہے.لیکن یہ بھی اس کی سنت ہے کہ جب وہ کسی جماعت کو وسعت دینا چاہتا ہے لیکن وہ اس کی طرف توجہ نہیں کرتی اور اللہ تعالٰی کے فضلوں کے ساتھ ساتھ ترقی کرنے کی کوشش نہیں کرتی تو وہ پھر اسے تنگ کر دیتا ہے.پس پیشتر اس کے کہ خدا تعالیٰ کے جب یہ خود وسعت نہیں چاہتے تو انہیں کیوں وسعت دی جائے اور اس رنگ میں اس کی نگاہ ہم پر پڑے ، اس طرف توجہ کرو.اور جس قدر جلد ہو سکے مسجد کو وسیع کر دو اور دعائیں کرتے رہو کہ خدا تعالیٰ اور بھی وسعت عطا فرمائے.سر دست ہمیں یوں کرنا چاہئے کہ ممبر کو اور جنوب کی طرف رکھ دیا جائے عورتوں والے حصہ کو بھی مردوں کے حصہ میں شامل کر دیا جائے.اور ملحقہ عمارت خرید کر عورتوں کے لئے مخصوص کر دی جائے.پھر اگر خد اتعالیٰ توفیق دے تو کسی وقت موجودہ ڈاک خانہ والا مکان شامل کر کے اور گلی پر چھت ڈال کر مسجد کو دو گنا کیا جا سکتا ہے.اور اگر چہ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود بھی ہماری ترقیات کے مقابلہ میں یہ کسی وقت تنگ ہی نظر آئے گی لیکن مسجد کی طرف سے ایک جگہ جا کر اسے فی الحال ضرور رکنا پڑے گا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام فرمایا کرتے تھے.کوئی وقت آئے گا کہ ہمارے گھر سے چل کر مسجد میں داخل ہو جایا کریں گے اور راستہ میں سڑک پر نہیں چلنا پڑے گا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مکانات کے پاس پہنچ کر ضرور اس کی وسعت روکنی پڑے گی.ورنہ وہ پیشگوئی پوری نہ ہو سکے گی.یا پھر شاید وہ وقت بھی آجائے کہ پاس کے سب مکانات اور دکانیں

Page 356

خطبات محمود ۳۵۱ سال ۱۹۳۲ء احمدیوں کے ہاتھ آجائیں.اور اس صورت میں ہم گلیوں کو بھی ان کی موجودہ جگہ سے ہٹا سکیں اور مسجد شمال کی طرف بھی بڑھائی جاسکے.اس وقت جو تبدیلی کی جائے اس میں یہ بھی ضروری ہے کہ اس بر آمدہ کی چھت اونچی کی جائے.مجھ سے کئی لوگوں نے شکایت کی ہے کہ خطبہ کی آواز نہیں پہنچتی.حالانکہ جلسہ کے موقع پر جبکہ مجمع بہت زیادہ ہوتا ہے سب لوگ میری آواز سن سکتے ہیں.یہاں نہ سن سکنے کی وجہ صرف یہی ہے کہ بر آمدہ نیچا ہے اور ممبر پر کھڑے ہو کر بولنے سے بر آمدہ کی چھت سے آواز رک جاتی ہے.پس جب تبدیلی کی جائے تو اس امر کو بھی مد نظر رکھا جائے کہ اس بر آمدہ کی چھت اونچے ستونوں پر ڈالی جائے اور اسے ذرا اور پھیلا دیا جائے.اس سے خوبصورت بھی معلوم ہو گا اور آواز بھی صاف سنی جاسکے گی اور جگہ بھی زیادہ نکل آئے گی.اس کے بعد میں احباب کو اسی مضمون کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں جو چند روز قبل بیان کر چکا ہوں یعنی مسئلہ کشمیر کے متعلق میں نے جایا تھا کہ آثار سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توجہ اس طرف ہے.اس کے بعد کثرت سے دوستوں نے رڈیا اس کے متعلق سنائے ہیں جن کی تعداد ۵۰-۴۰ کے قریب ہے.بعض اس واقعہ سے قبل کے ہیں اور بعض بعد کے.اور ان سے معلوم ہوتا ہے کہ میرا یہ استنباط بالکل صحیح تھا کہ اللہ تعالٰی کی اس طرف خاص توجہ ہے اور اس خطبہ کے معابعد ریاست میں فساد پیدا ہو جانا اور حالات کا زیادہ بگڑ جانا ظاہر کرتا ہے کہ یہ مسئلہ خاص طور پر خدا تعالی کی نگاہ میں ہے.جب خدا تعالیٰ کسی کام کو کرنا چاہتا ہے تو ظاہری لحاظ سے اس میں مشکلات اور خرابی بھی پیدا کر دیتا ہے تاجب اس میں کامیابی ہو تو دنیا کو معلوم ہو سکے کہ یہ خاص اسی کا کام ہے.اور اس وقت چونکہ مسلمانان کشمیر پر سخت ظلم ہو رہا ہے اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی ضرور اپنی قدرت کا ہاتھ دکھانا چاہتا ہے.مجھے تو مہاراجہ صاحب کشمیر پر بہت رحم آتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک ایسے باپ کے فرزند ہیں جسے اسلام سے محبت تھی.جس کے حضرت خلیفہ المسیح الاول کے ساتھ بھائی چارہ کے تعلقات تھے اور قادیان آجانے کے بعد بھی برابر ان کے درمیان خط و کتابت جاری رہی اور انہوں نے آپ سے ۱۵ سپارے قرآن شریف کے بھی پڑھے تھے.ان وجوہات کی بناء پر مجھے شروع سے ہی مہاراجہ صاحب کشمیر کے ساتھ دلی ہمدردی ہے.یہی وجہ ہے کہ میری ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ انہیں کسی قسم کا نقصان پہنچے بغیر یہ کام ہو جائے.مگر ریاست کے غریب مسلمانوں پر جو مظالم روا رکھے جارہے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ لاکھوں آہیں ان کے خلاف اٹھ رہی ہیں جو یقینا خدا تعالیٰ کے غضب کو بھڑ کانے کا موجب ہوں

Page 357

خطبات محمود ۳۵۲ سال ۲ ۶۱۹۳۲ گی.پس جہاں دوست مظلومین کشمیر کے لئے دعا کریں وہاں یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مہاراجہ صاحب کو اس وجہ سے کہ وہ ایک نیک باپ کے بیٹے ہیں اپنے غضب سے بچائے کیونکہ اس کی سنت ہے کہ وہ نیکیوں کی اولاد کو اپنے غضب سے بچاتا ہے.میری عادت ہے کہ میں کبھی کسی کے لئے بددعا نہیں کرتا لیکن ریاست کشمیر کی طرف سے غریب مسلمانوں پر اس قدر مظالم روا ر کھے جارہے ہیں کہ کئی بار بددعا کی طرف دل مائل ہو جاتا ہے اور خبرا رو کنا پڑتا ہے.کیونکہ میں خدا تعالی کے اس اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ رحمتِی وَسِعَتْ كُل شي سے بددعا سے پر ہیز کرتا ہوں.میں احباب جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ تمیں لاکھ انسانوں کی قوم سینکڑوں سال سے ظلم اور استبداد کے نیچے چلی آتی ہے.پھر وہ ہماری تحقیق کے مطابق بنی اسرائیل میں سے ہے.وہی بنی اسرائیل جنہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں ان کے ذریعہ فرعون کے مظالم سے نجات دلائی تھی.اور کوئی تعجب نہیں کہ وہ پھر اس فرعونی حکومت سے ان غریبوں کو بھی بچانا چاہتا ہو.اس لئے اس معاملہ میں ہماری مدد اس کی خوشنودی کا موجب ہوگی.پس جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ اس موقع سے محروم نہ رہیں.اور اس معاملہ میں یہ کبھی خیال نہیں کرنا چاہئے کہ وہ لوگ ہماری جماعت سے تعلق نہیں رکھتے ، ہمیں ان کی مدد کی کیا ضرورت ہے.جس طرح خدا تعالیٰ کا احسان اپنے پرائے میں کوئی فرق نہیں کرتا اسی طرح مومن کے احسان میں بھی کوئی اس قسم کی تمیز نہ ہونی چاہیئے.قرآن کریم کی سورۃ نور میں مذکور ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا پر جن لوگوں نے بہتان لگایا ان میں سے بعض کے رشتہ داروں نے آئندہ ان سے حسن سلوک کرنا بند کر دیا.اس پر خدا تعالیٰ نے خاص طور پر حکم دیا کہ احسان کو مت رو کو بلکہ بد ستور کرتے جاؤ.پس یہ خدا تعالی کی تعلیم ہے جس پر ہمیں عمل کرنا چاہئے.اور ان بے چاروں کی تو ایسی مظلومی کی حالت ہے کہ اگر وہ مسلمان بھی نہ ہوتے تب بھی ان کی مدد واجب تھی کیونکہ ہم دنیا میں خدا تعالیٰ کے نمائندے اور مظہر ہیں.اور جس طرح خداتعالی کی رحمت ہر چیز پر حاوی ہے اسی طرح ہمارا احسان بھی عام ہونا چاہئے.اس لئے میں پھر تحریک کرتا ہوں کہ رمضان المبارک کے آخری ایام کی مبارک دعاؤں اور صدقوں میں ان مظلومین کو نہ بھولو.اور چونکہ رسول کریم و سلم نے فرمایا ہے کہ بہترین عبادت وہی ہے جس پر مداومت اختیار کی جائے اس لئے آئندہ بھی جب تک یہ کام ختم نہ ہو اس سلسلہ کو جاری رکھو.میں نے اندازہ

Page 358

خطبات محمود ۳۵۳ سال ۱۹۳۲ء لگایا ہے کہ قلیل ترین اخراجات کے لئے اس تحریک پر دو ہزار روپیہ ماہوار خرچ آتا ہے.اور اگر ہماری جماعت کے دوست ایک پائی کی روپیہ ماہوار چندہ اپنے اوپر مظلومین کشمیر کی امداد کے لئے لازم کرلیں، تو بھی کافی رقم جمع ہو سکتی ہے اور جو لوگ بارہ چودہ بلکہ پچیس تمیں پائی کی روپیہ چندہ دینے کے عادی ہیں ان کے لئے ایک پائی کا اضافہ کوئی بڑی بات نہیں اور یہ کوئی بوجھ نہیں کیونکہ وہ اس کے عادی ہو چکے ہیں.عام طور پر چندہ عام ایک آنہ فی روپیہ یعنی بارہ پائی ادا کیا جاتا ہے.پھر چنده خاص چنده جلسہ سالانہ اور مختلف عارضی تحریکات اسکے علاوہ ہیں.اور ان کو ملا لیا جائے تو جماعت کے چندہ کی اوسط ۱۵ پائی کی روپیہ کے قریب ہو جاتی ہے.اور اگر اس میں ایک پائی کا اضافہ کر لیا جائے تو کوئی بوجھ نہیں.پھر بعض لوگ زیادہ بھی دے سکتے ہیں.ایک دوست نے تو یہ نمونہ دکھایا ہے کہ وہ موصی ہیں لیکن باوجو د دسواں حصہ دین کی راہ میں با قاعدہ ادا کرنے کے اب وہ وعدہ کرتے ہیں کہ میں کشمیر کے لئے جب تک یہ کام ختم نہ ہو جائے اپنی آمد سے ایک آنہ فی روپیہ چندہ دیتا رہوں گا جو پندرہ سولہ روپیہ ماہوار کے قریب ہو گا.غرض جو زیادہ دے سکتا ہو وہ زیادہ دے لیکن کم از کم ایک پائی تو ہر شخص دے اور یہ کوئی بڑا بوجھ نہیں.جو شخص ماہوار سو روپیہ تنخواہ پاتا ہے اسے سو پائی یعنی صرف سوا آٹھ آنہ ماہوار دینے ہوں گے اور یہ کوئی نا قابل برداشت بوجھ نہیں.پچاس روپے والے کو چار آنہ اور ایک دھیلہ دینا پڑے گا.اس قسم کے چندوں میں طالب علم بھی حصہ لے سکتے ہیں.جو طالب علم پندرہ روپیہ ماہوار خرچ لیتا ہے وہ نہایت آسانی کے ساتھ پندرہ پائیاں ادا کر سکتا ہے.پس اگر دوسرے لوگ ستی دکھائیں اور مخالفت کی وجہ سے اس میں حصہ نہ لیں اور جماعت کے دوست ہی ایک پائی کی روپیہ ادا کرنے لگ جائیں تو بھی بہت کام ہو سکتا ہے.مجھے امید ہے کہ قادیان اور باہر کے دوست پوری تندہی کے ساتھ اس طرف متوجہ ہوں گے.مگر اس کے متعلق یہ ضروریا د رکھنا چاہئے کہ میں حکم نہیں دیتا صرف ترغیب دلاتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں اگر میری اس ترغیب کو بھی کارکن با قاعدہ دوستوں کے کانوں تک پہنچادیں تو لوگ اس پر عمل کرنے لگ جائیں گے.ہاں جسے ملال ہو اسے چھوڑ دو.کیونکہ یہ خالص دینی کام نہیں کہ اس میں حکم دیا جاسکے.مگر تحریک ضرور کرو.اس کے بعد میں ایک عظیم الشان ملکی معاملہ کی طرف جماعت کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں اور وہ ہندوستان کا سیاسی فتنہ ہے.ہمارا جہاں یہ فرض ہے کہ ریاست کشمیر کے مسلمانوں کو مظالم سے بچائیں وہاں یہ بھی ہے کہ اپنے ملک کو بھی ہر قسم کی فتنہ انگیزی سے پاک کرنے کی کوشش کریں.

Page 359

خطبات محمود ۳۵۴ سال ۱۹۳۲ء اس وقت یہاں بہت سے فتنے ہیں ایک تو مسلمانوں کی حق تلفی کا سوال ہے اور دوسرے حکومت کے خلاف شورش.اس حکومت کو خواہ غاصبانہ ظالمانہ یا غیر ملکی کہہ لو لیکن بہر حال ملک کا انتظام اس کے ہاتھ میں ہے اسے ایسے طور پر تباہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس سے ملک کے اخلاق بگڑ جائیں اور عام بد امنی شروع ہو جائے اور یہ ایسی باتیں ہیں جن سے ملک کا کوئی حقیقی خیر خواہ آنکھیں بند نہیں کر سکتا.ان دونوں فتنوں کا مسلمانوں کو ہوشیاری سے مقابلہ کرنا چاہئے.بعض نادان کہہ دیتے ہیں کہ حکومت چونکہ ہمارے جائز حقوق کو تسلیم نہیں کرتی اس لئے میں بھی اس جھگڑے میں پڑنے کی ضرورت نہیں بلکہ غیر جانبدار رہنا چاہئے اور کانگریس اور انگریز کو لڑنے دینا چاہئے.بلکہ بعض نادان تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ اگر حکومت ہمارے حقوق نہ دے تو ہمیں کانگرس سے مل جانا چاہئے.بعض احمدیوں کو شکایت ہے کہ فساد کے موقع پر انہوں نے اپنی جانوں کو خطرہ میں ڈال کر حکومت کی مدد کی لیکن جب تعزیری ٹیکس لگا تو احمدی بھی اس میں شامل کر لئے گئے.میں مانتا ہوں کہ یہ سب کچھ درست ہے اور گورنمنٹ کے فرائض میں ہے کہ ایسا نہ کرے لیکن اگر وہ اپنے فرض کی ادائیگی میں سستی اور کو تاہی کرتی ہے تب بھی ہمیں اپنے فرض کو نہیں چھوڑنا چاہئے.اگر انگریز ایک جرم کرتے ہیں تو اس کے یہ معنی نہیں کہ ہم بھی بد اخلاق ہو جائیں.اگر کوئی شخص ہماری چوری کرتا ہے تو ہمیں ہر گز اس کا مال چرا کر نہیں کھالینا چاہئے.خدا تعالی نے ہر چیز کے لئے راستے مقرر کئے ہیں اور حکم دیا ہے کہ ان کے ذریعہ اپنے حقوق حاصل کرو.قرآن کریم میں حکم ہے کہ وَآتُوا الْبُيُوتَ مِنْ اَبْوَا بھا ہے یعنی ہر کام کے لئے اللہ تعالٰی نے دروازے رکھے ہیں اور انہی کے راستہ اسے سرانجام دینا چاہئے.یہ نہیں کہ اپنا مکان سمجھ کر جدھر سے مرضی ہو چلے آؤ بلکہ دروازہ کے راستے سے ہی آؤ.یہ نادانی اور جہالت ہے کہ چونکہ ہمارا حق ہے اس لئے جس طرح بھی لے سکیں لے لیں.کیونکہ باوجود حق ہونے کے اللہ تعالیٰ نے بعض رستے مقرر کئے ہیں اور انہی کے ذریعہ حق لیا جا سکتا ہے.پس گو بعض دفعہ گورنمنٹ امن قائم کرنے والوں کی تذلیل بھی کرتی ہے ان پر تعزیری ٹیکس بھی لگا دیتی ہے ہمیں اپنے فرض کو فراموش نہ کرنا چاہئے.اگر وہ جرم کرتی ہے تو خدا کے سامنے جوابدہ ہوگی.اور شاید اسی دنیا میں حکومت کی کمزوری کی صورت میں وہ اپنی سزا پائے مگر اس کے یہ معنی نہ ہونے چاہئیں کہ ہم اپنے فرائض ترک کر دیں.یہ تو وہی مثال ہوگی کہ کہتے ہیں کوئی شخص کسی کا برتن عاریتا مانگ کر لے گیا اور عرصہ تک واپس نہ کیا.ایک دن جو وہ واپس لینے کے لئے اسکے مکان پر گیا تو دیکھا کہ اس میں

Page 360

خطبات محمود ۳۵۵ سال ۱۹۳۲ء ساگ ڈال کر کھا رہا ہے.مالک یہ دیکھ کر سخت برہم ہوا اور کہنے لگا کہ دیکھو تم میرا برتن ایک دن کے لئے مانگ کر لے آئے تھے لیکن آج تک واپس نہیں کیا اور اس وقت بڑے مزے سے اس میں ساگ ڈال کر کھا رہے ہو.میں بھی دیکھنا تمہارا برتن مانگ کر لے جاؤں گا اور اس میں کوئی نجس چیز ڈال کر کھاؤں گا.اب بظاہر تو وہ بدلہ لینے کی دھمکی دیتا ہے لیکن نہایت ہی نامعقول صورت کا بدلہ ہے.اس نے یہ بھی نہ سوچا کہ نجاست کھانے سے تو اس کا اپنا نقصان ہو گا.پس انتقامی جذبات بھی انسان کو خراب کر دیتے ہیں.یہ اصول ٹھیک نہیں کہ چونکہ انگریز ناجائز کام کرتے ہیں اس لئے ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہئے.حالانکہ ہمیں تو جو کرنا چاہیئے خدا کے حکم کے ماتحت کرنا چاہئے اور ملک میں قیام امن خدا تعالی کا حکم ہے.پس اگر انگریز خود امن نہ بھی قائم کریں.جب بھی ہمیں چاہئے کہ اپنی جانوں کو خطرہ میں ڈال کر بھی اسے قائم کریں.اور یہ انگریز کے لئے نہیں بلکہ خدا تعالٰی کے حکم کے لئے اور اپنی اولادوں کو بد اخلاقی سے بچانے کے لئے ہے.اگر کسی وجہ سے ہم اس فرض سے دست کش ہو جائیں تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ نادانی کی وجہ سے ہم اپنی اولادوں کو بگاڑتے ہیں اور اس میں انگریز کا نہیں بلکہ ہمارا اپنا نقصان ہے.اس لئے میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ قتل و غارت گری جو بعض لوگ ملک میں کر رہے ہیں ، اس کا مقابلہ کرنا اس کا فرض ہے.میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر کہا تھا کہ اس کا مقابلہ کرنے کے لئے میں عنقریب ایک سکیم پیش کروں گا جس کی تفصیلات اس وقت زیر غور ہیں.لیکن جب تک وہ عمل میں نہ آئے جماعت کا فرض ہے کہ جس طرح ہمیشہ اپنی اپنی جگہ پر ایسی تحریکات کا مقابلہ کرتی رہی ہے اسی طرح اس موقع پر بھی کرے.قطع نظر اس سے کہ حکومت ہماری ہتک کرتی ہے ، تذلیل کرتی ہے ، ہمیں سزائیں دیتی ہے ، جرمانے کرتی ہے ہمارا یہ فعل خدا تعالیٰ کی رضاء کے لئے اس کے دین کے قیام کے لئے اسی طرح اپنے ملک اور اپنی اولادوں کی اصلاح کے لئے ہونا چاہئے.ایسی شرارتیں بعض اوقات خود حکومتیں بھی کرادیا کرتی ہیں تارعایا پر زیادہ تشدد اور ظلم کا موقع مل سکے.اور میں کہوں گا اگر خود حکومت کی طرف سے بھی ایسی، حرکات ہو رہی ہوں تب بھی ہمیں اس کا مقابلہ کرنا چاہئے کیونکہ ہم انگریز کے لئے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی رضاء دین ملک اور اپنی اولادوں کی بہتری کے لئے ایسی تحریکات کے مخالف ہیں.اسی طرح ملک کے اندر قانون شکنی کی جو روح پیدا ہو رہی ہے اسے بھی روکنے کی کوشش کرنی چاہئے.آج جن بچوں کو کہا جاتا ہے کہ جاؤ انگریزی قوانین تو ڑ دو وہ کل ضرور باپ سے کہیں گے کہ جاؤ میں تمہاری بات

Page 361

خطبات محمود ۳۵۶ سال ۱۹۳۲ء نہیں مانتا اور اسی طرح شاگر داستادوں کی نافرمانی کریں گے.گویا یہ تحریک ہماری اہلی زندگی کو تباہ اور اولاد کی تربیت کا ستیاناس کرنے والی ہے.اگر آج بچوں کو انگریزی قانون توڑنے کا عادی بنایا جائے گا تو یقینا کل شاگر د استاد کو بیٹی ماں کو اور لڑ کا باپ کو جواب دے گا.اور یہ سلسلہ یہاں تک پھیلے گا کہ ملک کی حالت بالکل خراب ہو جائے گی.دراصل حقوق حاصل کرنے کے لئے صبر، تقوی ، نیکی ہمت اور صداقت سے کام لینا چاہئے.جو قوم سچائی کے ساتھ اپنا حق لینا چاہے اسے کوئی محروم نہیں رکھ سکتا.صداقت خواہ ایک آدمی لے کر کھڑا ہو ، جھوٹ کو اس کے سامنے ضرور ذلت اٹھانی پڑتی ہے.بڑی سے بڑی حکومت بھی اس کے سامنے دب جاتی ہے.جائز حقوق حاصل کرنے کے لئے ناجائز ذرائع اختیار کرنا کسی صورت میں بھی مناسب نہیں.جو قوم جائز ذرائع سے جد وجہد کرتی ہے اور صداقت کے ساتھ اپنے مطالبات منوانا چاہتی ہے ساری دنیا کی حکومتیں مل کر بھی اسے محروم نہیں کر سکتیں.جو حکومت رعایا کے بیدار جذبات کا لحاظ نہیں کرتی اور اسے خوش رکھنے کی کوشش نہیں کرتی، وہ خود بخود تباہ ہو جائے گی.اس لئے گھبراہٹ کی کوئی بات نہیں.پکٹنگ اور سول نافرمانی وغیرہ تحریکات کا پورے زور کے ساتھ مقابلہ کرو.مگر انگریز کے فائدہ کے لئے نہیں بلکہ اپنے دین کے فائدہ کے لئے ملک کے فائدہ کے لئے اور آئندہ نسلوں کے فائدہ کے لئے کسی سے ہر گز مت ڈرو اور یاد رکھو کہ جو انسان سے ڈرتا ہے وہ مشرک ہے اور ہرگز مومن نہیں کہلا سکتا.بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے پولیس میں رپورٹ کی مگر اس نے کوئی توجہ نہیں کی.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے اس قوم کے متعلق جو کبھی بزدلی میں ضرب المثل تھی مگر آج پوری دلیری کا اظہار کر رہی ہے ، مشہور ہے کہ اسکی فوج نے کہا تھا ہم لڑائی پر تو جاتے ہیں مگر ہمارے ساتھ پولیس کے سپاہی حفاظت کے لئے ضرور ہونے چاہئیں.اگر انگریز تمہارا پہریدار بن سکتا تو وہ خود اپنی حفاظت ہی کیوں نہ کر لیتا.وہ آج خود فسادات کی کثرت کی وجہ سے ضعف و اختلال کا شکار ہو رہا ہے.اور اگر ایسا نہ بھی ہو تب بھی ہر اک حکومت ملک میں نظام کو قائم رکھنے کے لئے رعایا کی امداد کی محتاج ہوا کرتی ہے.پس یہ خیال نہ کرو کہ انگریزی پولیس توجہ نہیں کرتی.پولیس اس وقت خود خطرہ میں ہے اور عین ممکن ہے کہ وہ تمہارے مقابلہ میں اپنے مخالفوں کا ساتھ دینے لگ جائے.پولیس کے اندر بھی غدار موجود ہیں ادھر ایک شخص کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہونے کا مشورہ ہوتا ہے اور ادھر اسے اطلاع ہو جاتی ہے.پس یہ خیال مت کرو کہ پولیس مدد کرے گی.

Page 362

خطبات محمود ۳۵۷ سال ۱۹۳۲ء بلکہ اگر سارے علاقہ میں تم اکیلے ہو تب بھی کسی سے خوف مت کھاؤ - آخر ڈر کس بات کا ہے؟ زیادہ سے زیادہ موت کا اور موت مؤمن کے جنت میں داخل ہونے کا دروازہ ہے.کیا اس کے کھلنے پر غم کرنا چاہئے.کیا شادی کی دعوت پر کوئی شخص رویا کرتا ہے.اور کیا بادشاہ سے ملاقات کا موقع حاصل ہونے پر کوئی ملول ہوا کرتا ہے.یاد رکھو جو شخص خدا تعالیٰ سے ملنے کی دعوت پر روتا ہے وہ ہرگز مؤمن نہیں ہو سکتا.خدا تعالٰی نے حکم دیا ہے کہ اپنی جانوں کی حفاظت کرو اس لئے ہم کرتے ہیں.اسلام نے خودکشی سے روکا ہے وگر نہ میں سمجھتا ہوں مومن خدا تعالیٰ سے ملنے کی آرزو میں خود کشیاں کر کے اپنی جانیں دے دیتے تا جلد خدا تعالیٰ کے پاس جا سکیں اور جنت میں داخل ہوں.رسول کریم میں اور اہلیہ کے ایک صحابی حضرت ضرار کا واقعہ لکھا ہے کہ ایک جنگ کے موقع پر ایک عیسائی پہلوان نے مسلمانوں کے بہت سے بہادر اور جنگجو شہید کر دیئے.آخر یہ اسکے مقابلے کے لئے نکلے لیکن جب اس کے سامنے ہوئے تو فورا بھاگ کر واپس آگئے.اس پر عیسائیوں نے فتح مندی کا نعرہ لگایا اور مسلمانوں پر افسردگی چھا گئی کہ اس قدر زبردست سپاہی اور پھر صحابی میدان سے بھاگ نکلا.ایک دو سرے صحابی ان کے پیچھے گئے.جب خیمے کے پاس پہنچے تو حضرت ضرار خیمہ سے باہر نکل رہے تھے.انہوں نے بھاگ آنے کی وجہ دریافت کی تو آپ نے جواب دیا اصل بات یہ ہے کہ میں عام طور پر زرہ کے بغیر لڑتا ہوں لیکن آج اتفاقاً میرے بدن پر زرہ تھی.میں نے سوچا کہ اگر آج مارا گیا تو خدا تعالیٰ کو کیا جواب دوں گا.کیا وہ یہ نہ پوچھے گا کہ کیا تو نے اس واسطے زرہ پہن رکھی تھی کہ تیرا مخالف زبر دست اور طاقتور تھا.اور تو ڈرتا تھا کہ کہیں اس کے ہاتھ سے مارا نہ جاؤں.اسی خیال کے آنے پر میں بھاگا اور آکر زرہ اتار دی اور اب پھر میدان میں جا رہا ہوں پس یاد رکھو جس دن تک تم انگریز کانگرس یا دوسرے مخالفین سے خواہ کس قدر زبر دست کیوں نہ ہوں ڈرتے رہو گے اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے بلکہ مشرک رہو گے اور تمہارا ٹھکانہ جنت نہیں جنم ہو گا.لیکن جس دن تمہارے دلوں سے فوج، پولیس ، مالدار لوگوں اور دوسرے فتنہ انگیز مفسد طبقات کا ڈر اور خوف نکل گیا اور جس دن تم اکیلے خدا تعالیٰ کی راہ میں جان دینے کو خوش نصیبی اور موت کو راحت کا پیغام سمجھنے لگے اور نفس کی حفاظت صرف حکم الٹی کی تعمیل میں کرنے لگ گئے اس دن اور صرف اس دن تم ایمان کے رستہ پر چلنے والے ہو گے.پس نہ کسی انسان سے ڈرو اور نہ کسی حکومت سے میں صرف یہی نہیں کہتا کہ کانگرس سے

Page 363

خطبات محمود ۳۵۸ سال ۱۹۳۲ء نہ ڈرو بلکہ یہ بھی کہتا ہوں کہ انگریزی حکومت سے بھی قطعا نہ ڈرو کیونکہ جو کسی حکومت سے بھی ڈرتا ہے وہ بھی مشرک ہے اور ہر گز ہرگز بخشش کے قابل نہیں.مجھے اس بات کا سخت افسوس ہے کہ احراریوں کی طرف سے پچھلے دنوں مخالفت اور ہمارے خلاف شرارت کی جو رو پیدا کی گئی اس میں بعض لوگوں نے باوجود توجہ دلانے کے بزدلی کا اظہار کیا حالانکہ یہ سلسلہ کی عزت اور وقار کی حفاظت کا سوال تھا.ان لوگوں کی طرف سے ماتمی جلوس نکالے گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ناپاک گالیاں دی گئیں اور طرح طرح کی شرارتوں سے کام لیا گیا.لیکن ہماری جماعت کے بعض لوگ خاموش رہے.حالانکہ چاہئے تھا کہ ان دنوں میں تبلیغ کو اور زیادہ کر دیتے اور دشمنوں پر ثابت کر دیتے کہ ہم کسی کے ڈر یا خوف کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے نام کو ترک نہیں کر سکتے.اور جتنی زیادہ شرارت ان کی طرف سے ہوتی اتناہی زیادہ ، سباب جماعت کو تبلیغ میں کوشش کرنی چاہئے تھی.مگر افسوس کہ بعض دوستوں نے اس موقع پر اچھا نمونہ نہیں دکھایا.راولپنڈی میں بھی بہت شور تھا.مگر وہاں کی جماعت نے اچھا نمونہ پیش کیا.لیکن جہلم کی جماعت کے ایک حصہ نے بزدلی دکھائی.اور سیالکوٹ میں بھی بعض لوگوں نے بزدلی سے کام لیا.مومن کا کام یہ ہے کہ جس قدر دشمن شرارت میں بڑھے وہ بھی اپنے مشن کو پھیلانے کے لئے اپنی کوششوں کو بڑھائے.جب وہ ماتمی جلوس نکالیں ہر احمدی کو چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام زیادہ جوش کے ساتھ پہنچانا شروع کر دے.تا ان کو معلوم ہو سکے کہ ہم کسی سے مرعوب ہونے اور دبنے والے نہیں ہیں.ان جماعتوں کا فرض تھا کہ ان دنوں بازاروں اور گلی کوچوں میں دیوانہ وار مصروف تبلیغ رہتے.انکے سر سے خون بہہ رہا ہو تا بدن لہولہان ہوتا اور ہڈیاں چور چور ہوتیں مگر وہ برابر تبلیغ سلسلہ میں مصروف نظر آتے.اور اس طرح دشمنوں پر ثابت کر دیتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پہلوان بزدل نہیں ہیں اگر پہلے سر پر پگڑیاں رکھ کر تبلیغ کرتے تھے تو ان دنوں ضرار کی طرح ننگے سر نکلتے.لیکن اگر وہ پہلے واقف نہ تھے تو آج سن لیں کہ انہیں ایسا نمونہ دکھانا چاہئے.تاخد اتعالیٰ کے کے وارث ہو سکیں.مؤمن کو ہرگز کسی سے نہیں ڈرنا چاہئے اور ہر گز یہ خیال بھی نہیں کرنا چاہئے کہ کانگرسی زور والے ہیں.اس کے علاوہ مسلمانوں کے حقوق کے حصول کا سوال ہے.جہاں ہمارا یہ فرض ہے کہ قیام امن کے لئے حکومت کو مدد دیں خواہ وہ ہمارے ساتھ کچھ کرے اور اس خیال سے دیں کہ یہ خدا کا حکم ہے وہاں یہ بھی فرض ہے کہ مسلمانوں کی بھی خدمت فضلوں

Page 364

خطبات محمود ۳۵۹ سال ۱۹۳۲ء کریں جو اس وقت ذلیل ہو رہے ہیں.اور حصول حقوق کے لئے ہر قربانی کرنے پر آمادہ رہیں.یاد رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے ہر فتنہ کو دور کرنے کے لئے راستے رکھے ہیں.اور ایسے رستے موجود ہیں کہ بغیر قانون شکنی کے ظالم سے ظالم انسان سے بھی اپنا حق انسان لے سکے.بعض قانون ایسے ہیں کہ خدا تعالٰی نے حکم دیا ہے کہ انہیں نہ مانا جائے مثلاً کوئی حکومت اگر یہ کہے کہ نماز نہ پڑھو تو ہم ہرگز تسلیم نہیں کریں گے.مگر بعض ایسے مسائل ہیں جو جواز کی حیثیت رکھتے ہیں.ان میں مقابلہ تو کرنا چاہئے مگر نا فرمانی کی ضرورت نہیں.مثلاً حکومت اگر یہ فیصلہ کر دے کہ ایک سے زیادہ شادیاں نہ کی جائیں تو ہمارا فرض ہے کہ اس کا مقابلہ کریں.لیکن یہ مناسب نہیں کہ ہم دو شادیاں کر کے اس کی خلاف ورزی کریں.لیکن بعض احکام ایسے ہیں کہ ان کی ضرو ر نا فرمانی کرنی پڑتی ہے.مثلاً اگر کوئی حکومت حکم دے کہ روزہ نہ رکھو یا تبلیغ نہ کرو تو ہم اگر چہ اس سے لڑیں گے نہیں لیکن اس حکم کی نافرمانی ضرور کریں گے.مکہ والے رسول کریم عالم کو عبادت الہی سے روکتے تھے.اور اگر چہ آپ ان کا مقابلہ نہ کرتے لیکن نماز برابر پڑھتے تھے.اسی طرح تبلیغ ہے اگر حکومت اس سے روکے تو اگرچہ اس کے مقابل پر ہم تلواریں نہیں اٹھا ئیں گے لیکن تبلیغ ضرور کرتے رہیں گے.اور ایسے احکام اگر انگریزی حکومت دے تو ہم ضرور اس کی نافرمانی کریں گے.لیکن یہاں کوئی ایسا قانون نہیں کہ سول نافرمانی کو جائز سمجھا جا سکے.ہاں کشمیر میں ایسے قوانین ہیں مثلا یہ کہ انجمنیں نہ بناؤ.اور یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کہا جائے کسی ایک شخص کے ہاتھ پر بیعت مت کرو.پھر تقریر کی ممانعت ہے اور اس کے معنے دوسرے الفاظ میں یہی ہیں کہ تبلیغ نہ کرو.پھر اخبارات نکالنے کی آزادی نہیں حالانکہ یہ بھی تبلیغ کا ذریعہ ہے.حکومت پابندیاں تو عائد کر سکتی ہے جیسے مثلاً تقریر کرنی ہو تو اطلاع دے دی جائے تاکہ ہمارے آدمی وہاں موجود ہوں یا یہ کہ شارع عام پر تقریر نہ کی جائے.لیکن یہ نہیں کہ تقریر کردہی نہیں.یا یہ کہ اخبار جاری ہی نہ کرو اور ایسے قوانین کی خلاف ورزی ہونی چاہئے.اور جب موقع آئے گا ہم کشمیر کے لوگوں کو ایسا کرنے کا مشورہ دیں گے.لیکن انگریز حکومت میں چونکہ انسانی ابتدائی حقوق کے خلاف کوئی قانون نہیں اس کے احکام کے خلاف سول نافرمانی جائز نہیں.کشمیر میں زمین کالگان دینے کے متعلق ہمارا یہی خیال ہے کہ رعایا کو ضرورلگان دینا چاہئے اور اس سے انکار کسی جگہ بھی جائز نہیں.لگان وصول کرنا ہر حکومت کا حق ہے.حضرت مسیح علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ جب آپ کہتے ہیں میں بادشاہ ہوں تو کیا ہم روم والوں کو واجبات دینا بند

Page 365

خطبات محمود سال ۱۹۳۲ء کردیں.آپ نے فرمایا نہیں.جو قیصر کا ہے وہ اسے دو اور جو میرا ہے مجھے دو.گویا آپ کی مراد یہ تھی کہ زمین کالگان وغیرہ تو اہل روم ہی کو دو.لیکن چندہ وغیرہ اور دین کی خاطر قربانیاں میرے ذریعہ کرو.بلکہ انہوں نے لطیفہ کے طور پر کہا کہ سکہ پر کس کی تصویر ہے جواب دیا گیا روم کے بادشاہ کی تو آپ نے فرمایا کہ پھر جو روم کا ہے اسے دو پس مالیہ نہ دینا نا جائز ہے.خواہ حکومت کتنی ہی ظالم کیوں نہ ہو.خوب یاد رکھو جو حکومت رعایا کا آخری پیسہ بھی وصول کر لیتی ہے وہ خود بھی تباہ ہو جاتی ہے.ہاں جس شخص سے حکومت آخری پیسہ لے لیتی ہے اور پھر دینے کے لئے اس کے پاس کچھ نہیں رہتا تو لَا يُكلف الله نفسال کے ماتحت وہ معذور ہے اور تب اگر وہ دن آئے کہ حکومت کپڑے اتار لے اور بیل وغیرہ بیچ لے.جیسا کہ حکومت کشمیر نے میر پور کے علاقہ میں کیا ہے تو وہ یقینا تباہ ہو کر رہے گی.وہ درندہ اور وحشی حکومت جو زمیندار کے بیل وغیرہ بھی چھین لیتی ہے وہ ضرور تباہ ہو کر رہے گی.اور حکومت برطانیہ کی فوجیں تو ہیں اور ہوائی جہاز بلکہ تمام دنیا کی حکومتیں مل کر بھی اسے بچا نہیں سکتیں.وہ ہر گز ہر گز دنیا میں رہنے کے قابل نہیں.اور اسی وجہ سے اگر حکومت کشمیر اس وحشت اور ظلم سے باز نہ آئے گی تو یقینا اس کی رعایا برباد ہو کر خود اسے بھی برباد کر دے گی.کون سا مہاراجہ ہے جو ویرانہ پر حکومت کر سکے.پس باوجود یکہ ہمارا عقیدہ یہی ہے کہ کسی کا حق نہیں کہ حکومت کو ٹیکس نہ ادا کرے.اور جو ایسا کرتا ہے وہ باغی ہے.دوسرے کاموں میں ہم اس سے ہمدردی کا اظہار کریں گے لیکن اس معاملہ میں ہر گز اس کے ساتھ شریک نہیں ہوں گے.میں یہ ضرور کہوں گا کہ مفلوک الحال اور قلاش زمینداروں کو تنگ کرنا اپنی تباہی کا باعث ہے.ہندوستان کے لئے حقوق طلبی میں ہم کسی سے پیچھے نہیں.اگر جائز طور پر حکومت کا مقابلہ کیا جائے تو ہم گاندھی جی کے دوش بدوش کام کرنے کو تیار ہیں.لیکن ناجائز طریق اگر ہمارا بھائی بھی اختیار کرے تو ہم اسے صاف کہہ دیں گے کہ تم بے شک ہمارے بھائی ہو لیکن اس معاملہ میں ہم تمہار ا ساتھ نہیں دے سکتے.پس اس امتیاز کو سمجھو اور دونوں فتنوں کا دلیری کے ساتھ مقابلہ کرو.پھر صوبہ سرحد میں معلوم ہوا ہے کہ بعض افسروں نے بہت زیا دتیاں کی ہیں.حکومت ہند کے وہ وزیر جو اس محکمہ کے انچارج ہیں ان سے میں ذاتی طور پر واقف ہوں اور میری ان سے متعدد بار ملاقات ہو چکی ہے.میں نے دیکھا ہے کہ جب کبھی ان کو کسی نقص کی طرف توجہ دلائی گئی انہوں نے اس پر ضرور توجہ کی ہے.وہ غیر معمولی طور پر شریف آدمی ہیں اور مجھے یقین ہے کہ

Page 366

خطبات محمود سال ۱۹۳۲ء اب بھی علم ہونے کے بعد وہ ضرور مظلوموں کے ساتھ ہم روانہ سلوک کریں گے.اور ان کے مصائب کے ازالہ کی کوشش کریں گے.اور ہم خود بھی جائز و سائل سے اپنے سرحدی بھائیوں کی ہر طرح امداد کے لئے تیار ہیں.خواہ سرخ پوشوں کے افعال و حرکات سے ہمیں اختلاف ہی کیوں نہ ہو.ہمارے خیال کے مطابق سرخ پوش تحریک جائز نہیں.مگر پھر بھی وہاں کے مظلوموں کے ساتھ ہمیں ہمدردی ہے.الفضل -۱۴ فروری ۱۹۳۲ء) ل تذكرة صفحه ۳۵۲- ایڈیشن چهارم الاعراف: ۱۵۷ مشكوة كتاب الايمان باب القصد في العمل البقرة : ١٩٠ البقرة : ۲۸۷

Page 367

خطبات محمود 43 دعوت الی اللہ پر زور دو اور مخالفین کا ڈر دل سے نکال دو (فرموده ۱۲ فروری ۱۹۳۲ء) سال تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- اللہ تعالی پر ایمان جہاں انسان کے اندر اور بہت سی خوبیاں پیدا کر دیتا ہے وہاں ایک جرأت اور بہادری بھی ہے جو ایمان کے ساتھ ہی انسان کے اندر پیدا ہو جاتی ہے.ایمان اور نفاق کبھی ایک انسان کے اندر جمع نہیں ہو سکتے بلکہ جس شخص کے دل میں نفاق داخل ہو جائے ایمان اس کے دل سے نکل جاتا ہے اور جس شخص کے دل میں ایمان داخل ہو جائے نفاق اس کے دل سے نکل جاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالٰی قرآن مجید میں منافقوں کی نسبت فرماتا ہے کہ وہ بزدل ہوتے ہیں لیکن مؤمنوں کی نسبت فرماتا ہے کہ وہ بہادر اور دلیر ہوتے ہیں.اور کافروں کی نسبت فرماتا ہے کہ گو وہ بہادری تو دکھا سکتے ہیں لیکن چونکہ ان کے سامنے امید اور کوئی بڑا مقصد نہیں ہو تا اس لئے ان کی بہادری دیر پا نہیں ہوتی.ان تینوں طبقوں کا اللہ تعالی نے قرآن مجید میں الگ الگ نقشہ کھینچا ہے.مؤمن کے متعلق تو فرمایا کہ اگر معمولی ایمان رکھنے والا بھی ہو تو بھی ایک مؤمن دو مخالفوں پر بھاری ہوتا ہے اور اگر اس کا ایمان اور زیادہ پختہ اور مضبوط ہو جائے تو ایک مؤمن دس مخالفوں پر بھاری ہو جاتا ہے اور اگر اس سے بھی زیادہ ایمان ہو تو اسی نسبت سے وہ اور زیادہ دشمنوں پر بھاری ہوتا ہے.چنانچہ دیکھ اور سول کریم میں اکیلے تھے مگر باو جود اس کے آپ ساری دنیا پر بھاری تھے آپکے سامنے ایک یا دو یا دس یا ہمیں دشمنوں کا سوال نہ تھا بلکہ ساری دنیا آپ کی مخالف تھی ساری دنیا آپ کی دشمن تھی اور ساری دنیا مل کر آپ کو اپنے مقاصد میں ناکام رکھنا چاہتی تھی مگر باوجود اس کے کہ آپ اکیلے تھے اور باوجود اس کے کہ آپ ساری دنیا

Page 368

خطبات محمود سال کے مقابل پر کھڑے تھے پھر بھی آپ ہی غالب ہوئے اور آپکے مخالف ہمیشہ کے لئے مغلوب ہو گئے یہ تو مومنوں کا ذکر تھا.کفار کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں بیان فرماتا ہے کہ گو وہ بھی تکلیفیں برداشت کرتے ، مصیبتیں اور اذیتیں جھیلتے اور رنج و الم سہتے ہیں اور وہی بلا ئیں انہیں بھی پہنچتی ہیں جو مسلمانوں کو پہنچتی ہیں اور وہ ویسی ہی تکالیف برداشت کرتے ہیں جیسی مسلمان برداشت کرتے ہیں مگر تَرْجُونَ مِنَ اللهِ مَا لا يَرْجُونَ اے مومنو تم اللہ تعالیٰ کی طرف سے جن انعامات اور فضلوں کے امیدوار ہو انکے وہ امیدوار نہیں اور چونکہ انکے کاموں کے پیچھے کوئی امید کی شعاع روشن نہیں ہوتی اور نہ ان کے ساتھ اللہ تعالٰی کی تائیدات کے وعدے اور اس کے فضلوں کی بارش ہوتی ہے اس لئے باوجود اس کے کہ وہ بھی جرأت اور بہادری دکھاتے ہیں وہ بھی تکالیف اور مصائب برداشت کرتے ہیں مگر ان کی بہادری دیر پا نہیں ہوتی.وہ وحشت اور تھور کے ساتھ تو کام کرتے ہیں لیکن شجاعت جو استقلال سے کام میں لگے رہنے اور مردانہ وار بڑی سے بڑی مشکلات کا مسلسل مقابلہ کرنے کا نام ہے وہ ان میں مفقود ہوتی ہے.اور منافقوں کے متعلق فرماتا ہے کہ وہ کفار سے وعدہ کرتے ہیں کہ جنگ کے موقع پر ہم تمہاری پشت پناہ ہوں گے تمہاری مدد کریں گے اور تمہارے ساتھ مل کر مسلمانوں کو کچل دیں گے.مگر ان کے سب وعدے جھوٹے ہیں.کبھی منافق بھی بہادر ہو سکتا ہیں ؟ اگر انہوں نے تمہار ا ساتھ نہیں دیا تو ہم تمہیں بتائے دیتے ہیں کہ وقت آنے پر کافروں کا بھی ساتھ نہیں دیں گے کیونکہ وہ منافقت اور دلیری بالکل متضاد چیزیں ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے ان تینوں درجہ کے لوگوں کا ذکر کر دیا.یعنی مومن کافر اور منافق کے اخلاق و عادات کا قرآن مجید میں ذکر فرما دیا.مؤمن کے متعلق تو بتایا کہ ایک ایک مؤمن دس دس کافروں پر بھی بھاری ہوتا ہے اور اگر اس کے ایمان میں مضبوطی اور زیادتی ہوتی چلی جائے تو اسی کیفیت سے وہ اور زیادہ کافروں پر بھاری ہو گا.کافروں کے متعلق فرمایا کہ گو ایک کافر بھی بہادر ہو سکتا ہے لیکن اس کی بہادری دیر پا نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کے سامنے کوئی اعلیٰ مقصود نہیں ہوتا جو اس کی بہادری کو قائم رکھ سکے.زیادہ سے زیادہ اسے تہور کہا جا سکتا ہے.زیادہ سے زیادہ اسے و حشت یا دیوانگی کا نام دیا جا سکتا ہے مگر شجاعت اور دلیری اسے نہیں کہا جا سکتا.اور منافقوں کے متعلق فرمایا جو شخص منافق ہوتا ہے وہ بہادر ہوتاہی نہیں.یہ بالکل غلط ہے اور ہو نہیں سکتا کہ کوئی شخص منافق ہو اور پھر بھی وہ دلیر بہادر اور نڈر ہو.

Page 369

خطبات ن محمود مسلم سال ۱۹۳۲ء پس ہماری جماعت کے لوگ اپنے ولوں میں غور کریں کہ کافر تو وہ ہو میں سکتے کیونکہ وہ اللہ تعالی کے ایک مامور پر ایمان لا چکے اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اس کے پیرو ہیں.پس اب دو ہی باتیں ہیں یا تو وہ مومن ہیں اور اگر مؤمن نہیں تو منافق ہیں اور یاد رکھو کہ مؤمن اور منافق میں یہ ایک امتیازی نشان ہے کہ مؤمن بہادر ہوتا ہے اور منافق بزدل کبھی کسی مومن کے اندر تم بزدلی کا مادہ نہیں پاؤ گے.اور کبھی کسی منافق کے اندر شجاعت کا مادہ نہیں دیکھو گے.پس جتنی جتنی تم میں سے کوئی شخص اپنے اندر بزدلی محسوس کرتا ہے اسے سمجھ لینا چاہئے کہ وہ اتنا ہی نفاق سے حصہ رکھتا ہے.اور جتنا جتنا وہ اپنے آپ کو قربانی کے لئے تیار پاتا ہے اور یہ محسوس کرتا ہے کہ لوگوں کا خوف و ہر اس اس کے دل میں نہیں اسے سمجھ لینا چاہئے کہ اتنا ہی اس کے اندر ایمان داخل ہے.اگر تم میں سے کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ خواہ اس کی ساری دنیا مخالف ہو جائے اپنے اور بیگانے اسے چھوڑ جائیں مالی اور جانی نقصان پہنچائیں ، حکومت اسے قید خانہ میں ڈال دے لوگ اسے ماریں اور پیٹیں بلکہ اس کے قتل پر آمادہ ہو جا ئیں تب بھی وہ ان کا خوف اپنے دل میں ہی محسوس نہیں کرے گا اور ان کی اذیتوں سے نہیں ڈرے گا اور ان کے دکھوں سے متزلزل نہیں ہو گا بلکہ انکی تمام ایذاء ان کا تمام دکھ ان کی تمام مصیبت بخوشی برداشت کرے گا اور رلحہ بھر کے لئے بھی لوگوں کا خوف اور رعب اپنے دل میں نہیں آنے دے گا تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ اس کا دل سمجھتا ہے کہ وہ مومن ہے.اگر وہ کسی موقع پر اپنے آپ کو ایسا ثابت بھی کر دیتا ہے یعنی دنیا کو اپنی دلیری اور مؤمنانہ شجاعت کا ثبوت بہم پہنچا دیتا ہے تب اسے یقین کر لینا چاہئے کہ وہ مؤمن ہے لیکن اگر وہ اپنے آپ کو ان باتوں کے لئے تیار نہیں پاتا اور وہ سمجھتا ہے کہ اگر کوئی ایسا موقع پیش آئے تو اس پر دوسروں کا خوف غالب آجائے گا تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ اس شخص کا دل بھی محسوس کرتا ہے کہ وہ منافق ہے اور اگر کسی موقع پر وہ ایسا ہی ثابت ہوتا ہے یعنی لوگوں سے ڈر جاتا ہے تو اسے یقین کر لینا چاہئے کہ واقعہ میں وہ منافق ہے اگر چہ بظاہر اپنے آپ کو مومن کہتا ہے.میں نے بتایا ہے مؤمنوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑے بڑے انعامات کا وعدہ ہے.ان وعدوں کو دیکھ کر ایک لحظہ کے لئے بھی کسی مؤمن کے دل میں بزدلی اور ڈر جگہ نہیں پاسکتا.بھلا غور تو کرو کتنی عظیم الشان برکات کا پیغام ہے.جو اللہ تعالٰی نے تمہیں قرآن مجید میں دیا ہے کہ تُرْجُونَ مِنَ اللهِ مَا لَا يَرْجُونَ تمہیں یاد رکھنا چاہئے.تمہیں اللہ تعالی کی طرف سے

Page 370

خطبات محمود ۳۶۵ سال ۱۹۳۲ء انعامات کی وہ توقع ہے جو تمہارے مخالفوں کو نہیں.جب تمہارے لئے اللہ تعالٰی کے فضلوں کے وعدے موجود ہیں تو تمہارے لئے ڈر کا کونسا مقام ہے.اگر ایک کافر بھی باوجود یہ نہ جاننے کے کہ اسے دنیا میں فتح حاصل ہوگی یا شکست ، پھر بھی اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر مصیبت کا مقابلہ کرتا ہے تو وہ مؤمن جسے یقین ہو کہ اگر میں فتح سے پہلے مرگیا تو میرے لئے اللہ تعالی کے حضور جنت مقدر ہے اور اگر فتح حاصل ہو گئی تو دونوں جہاں میں کامیابی اور فلاح ہے کیو نکرلوگوں کا خوف کھا سکتا ہے اور کس طرح اس پر بزدلی اور خوف غالب آ سکتا ہے.پس ہماری جماعت کے لوگوں کو چاہئے کہ وہ جس کام میں بھی ہاتھ ڈالا کریں اس میں دوسروں سے ممتاز نمونہ ظاہر کیا کریں کیونکہ نمونہ کا ہی دوسروں پر اثر پڑتا ہے.اگر یہ ناممکن اور بالکل نا ممکن ہے کہ تم آگ جلاؤ اور اس کی گرمی محسوس نہ ہو، برف ہاتھ میں پکڑو اور اس کی خنکی محسوس نہ ہو ، سورج چڑھنے اور اس کی روشنی نظر نہ آئے یا وہ چھپ جائے اور اس کی روشنی موجود رہے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ تمہارے دلوں میں ایمان ہو مگر اس کے آثار نہ ہوں.اگر نہیں یقین ہے کہ تم واقعہ میں مؤمن ہو تو اس ایمان کے نشان بھی ہونے چاہئیں.مونہہ سے ہر شخص کہہ سکتا ہے کہ میرے اندر ایمان ہے لیکن اگر وہ ایمان صرف دعوی ہی دعویٰ ہے اور ایمان اپنی علامات اور نشانات کے ساتھ نظر نہیں آتا تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ وہ ایمان نہیں بلکہ اس کے نفس کا دھوکا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس ایک دفعہ ایک شخص آیا اور اس نے آکر کہا کہ مجھے الہام ہوتا ہے.میں بھی اللہ تعالی کا نبی ہوں اور مجھے یہ الہام ہوتا ہے کہ میں محمد ہوں میں موسیٰ ہوں میں عیسی ہوں اور میں تمام نبیوں کا مثیل ہوں.پس جس طرح آپ کو الہام ہوتے ہیں اسی طرح مجھے بھی ہوتے ہیں.میں کس طرح مان لوں کہ میں اپنے الہامات میں جھوٹا ہوں.مجھے تو روز خدا کہتا ہے کہ تو محمد ہے، تو موسیٰ ہے تو بیٹی ہے.میں نے خود تو نہیں سنا مگر جس دوست نے بیان کیا وہ سناتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے کہا جس وقت خدا تمہیں محمد کہتا ہے تو کیا تمہیں محمدیت کی شان بھی عطا فرماتا ہے اور کیا جب وہ تمہیں موسیٰ کہتا ہے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام والی صفات بھی تم میں پیدا ہو جاتی ہیں یا جب بھیسٹی کہتا ہے تو حضرت عیسی علیہ السلام والا حلم اور ان جیسے معجزات بھی تمہیں ملتے ہیں.کہنے لگا ملتا تو کچھ نہیں مگر خدا مجھے روز کہتا ہے کہ تو محمد ہے ، تو موسیٰ ہے تو بھینی ہے.آپ نے فرمایا تب معلوم ہوا کہ شیطان تم سے کھیل رہا ہے کیونکہ خدا جب کسی کو کوئی نام دیتا ہے

Page 371

خطبات محمود سال ۱۹۳۲ء تو وہ اس جیسی صفات بھی عطا فرماتا ہے.دنیا دی گورنمٹیں جب کسی کو خان بہادر کا خطاب دیتی ہیں تو وہ اس کے دل کو بہادر نہیں بنا سکتیں، صرف نام دے سکتی ہیں.مگر اس نام جیسی صفات دینے سے قاصر رہتی ہیں.مگر جب خدا تعالیٰ کسی کو بہادر کہتا ہے تو اس کو بہادر بنا بھی دیتا ہے کیونکہ اس کا کلام ہر قسم کے جھوٹ اور مبالغہ سے مبرا ہوتا ہے.اگر خدا تمہیں کہتا ہے کہ تم محمد ہو تو محمدی انوار اور صفات بھی تمہیں عطا کرتا ہے.اگر خدا تمہیں کہتا کہ تم موسیٰ اور عیسی ہو تو وہ تمہیں موسیٰ والی برکات اور عیسی والے معجزات بھی عطا کرتا ہے لیکن جبکہ تمہیں کچھ ملتا نہیں تو صاف معلوم ہو رہا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کا کلام نہیں، شیطان کا کلام ہے.پس حقیقت یہ ہے کہ خدا کی طرف سے جب کسی کا کوئی نام رکھا جاتا ہے تو اس نام کے ساتھ ویسی ہی قوتیں بھی اس میں رکھی جاتی ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ وہ خدا کا کلام ہے شیطان کا نہیں.جس وقت اللہ تعالیٰ کسی شخص کا نام مومن رکھتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کے اندر ایمان کے آثار بھی پیدا کر دیتا ہے.اور جب کوئی شخص مؤمن بن جاتا ہے تو اس کے اندر تمام ایمان کی صفات نظر آنے لگتی ہیں اور بچے ایمان کی علامت اللہ تعالیٰ نے یہ مقرر کی ہے کہ اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ العَليْكَةُ الَا تَخَافُوا وَ لا تَحْزَنُوا وَابْشِرُ وَاب الْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ یعنی: و لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے وہی ہمارا محبوب ہے.اور پھر اس کے ساتھ ہی ایمان پر استقامت بھی دکھاتے ہیں تو ملائکہ اس پیغام کے ساتھ ان پر نازل ہوتے ہیں کہ تم کسی قسم کا خوف اور حزن مت کرو بلکہ اللہ تعالیٰ کے انعامات پر خوش ہو جاؤ.اس سے ظاہر ہے کہ ایمان کی علامت اللہ تعالیٰ نے یہ مقرر کی ہے کہ جب کوئی شخص مؤمن بن جاتا ہے تو خوف اور حزن اس کے دل سے مٹا دیا جاتا ہے اور خوف اور حزن یہ دونوں بزدلی کی علامتیں ہیں.ہمیشہ وہی بزدلی دکھاتا ہے جو ڈرتا ہے کہ دشمن اسے ایذاء نہ پہنچا دے یا وہ بزدل ہو تا ہے جو غمگین ہو.غرض اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت بیان فرمائی ہے کہ ایمان لانے کے ساتھ ہی مومن پر ملائکہ کا نزول ہوتا ہے اور وہ اس سے کہتے ہیں کہ اب تمہارے دل سے بزدلی مٹادی گئی.اب تم دلیر اور بہادر ہو گئے اور دنیا کی کسی طاقت سے تم خوف نہیں کھا سکتے.پس جب مؤمنوں کی یہ علامت ہے کہ وہ بہادر اور دلیر ہوتے ہیں تو ہماری جماعت کو بھی چاہئے کہ انکے تمام کام دوسروں سے ممتاز ہوں اور ان میں وہ جرأت اور بہادری پائی جائے جس کی دوسروں میں نظیر نہ مل سکے.میں نے ایک پچھلے جمعہ کے خطبہ میں افسوس کے ساتھ اس امر کا اظہار کیا تھا کہ بعض جماعتوں جو

Page 372

خطبات محمود سال ۱۹۳۲ء نے مخالفین کے مقابل پر کمزوری دکھائی اور انہوں نے تبلیغ میں کو تاہی کی ہے جو مومنانہ شان کے خلاف ہے.اب پھر میں دوستوں سے کہتا ہوں کہ وہ اپنی اصلاح کریں اور جب بھی لوگوں کی طرف سے مخالفت بڑھے ، پہلے سے بھی زیادہ جوش اور اخلاص کے ساتھ تبلیغ میں لگ جائیں اور اس امر کی ہمیشہ کوشش کریں کہ مقابلہ ہمیشہ مخالفت کی نسبت سے ہو.یعنی جتنی جتنی مخالفت زیادہ ہو اتنے ہی زیادہ جوش سے تبلیغ کا کام کرو.اگر پہلے مکانوں اور جلسہ گاہوں میں تبلیغ کرتے تھے تو پھر بازاروں اور کوچوں میں چلے جائیں اور دیوانہ وار لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام پہنچائیں اور دشمنوں پر ثابت کر دیں کہ ہم بزدل نہیں بلکہ جتنے زیادہ ہتھیاروں کے ساتھ مسلح ہو کر دشمن ہمیں دبانے کے لئے نکلتا ہے ہم اتنے ہی زیادہ ابھرتے ہیں اور دکھا دیتے ہیں کہ مومن کبھی بزدل نہیں ہو تا.آخر زیادہ سے زیادہ تمہیں کس بات کا خوف ہو سکتا ہے.یہی ہو گا کہ لوگ تمہیں ماریں گے پیٹیں گے رکھ دیں گے.لیکن اگر تم خدا کی راہ میں ان باتوں کے لئے بھی تیار نہیں اور اگر تم خدا کے لئے قید و بند کی مصیبتیں جھیلنے اور دشمنوں کی مار سہنے کے لئے تیار نہیں تو تم اپنے دعویٰ ایمان میں بچے کس طرح ہو سکتے ہو.اس کے تو صاف معنے یہ ہیں کہ تم مؤمن نہیں بلکہ منافق ہو.لیکن سمجھتے ہو کہ تم مومن ہو.اور اس شخص کی حالت زیادہ خطرناک ہوتی ہے جو بیمار ہو اور پھر یہ سمجھے کہ میں بیمار نہیں ہوں.ایک ایسا شخص جو واقعہ میں منافق ہے اور جسے علم ہے کہ میں منافق ہوں، بالکل ممکن ہے وہ ایک وقت اپنی اصلاح کرلے کیونکہ اسے اپنی بیماری کا علم ہے لیکن وہ شخص جو منافق ہونے کے باوجود اپنے نفاق سے بے خبر ہے وہ اپنی بیماری کا علاج نہیں کر سکتا وہ اسی حالت میں رہے گا اور ہدایت سے محروم ہو جائے گا.دیکھ لو ہر ایک بیمار قابل رحم ہو تا ہے لیکن سب سے زیادہ قابل رحم پاگل ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنی بیماری سے بے خبر ہوتا ہے.ساری دنیا سمجھتی ہے کہ وہ بیمار ہے لیکن وہ اپنے آپ کو تندرست سمجھتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ ایک میں ہی تندرست ہوں باقی سب لوگ بیمار ہیں.چنانچہ کسی پاگل کو پاگل کہہ کر دیکھو وہ سر پھوڑنے کے لئے تیار ہو جائے گا.پس سب سے زیادہ قابل رحم شخص پاگل ہو تا ہے کیونکہ وہ اپنی بیماری کو محسوس نہیں کرتا.اسی طرح وہ امراض بھی خطرناک ہوتی ہیں جو اندرونی تغیرات کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں جیسے سل اور دق ہے.کیونکہ ان مرضوں کا اس وقت علم ہو تا ہے جب مرض بیمار کو نڈھال کر دیتا ہے اور اس کا علاج ناممکن ہو جاتا ہے.لیکن جو بیماریاں ظاہر ہوں اور ان کا پتہ جلدی لگ سکے وہ ایسی خطرناک نہیں ہو تیں.مثلا ملیریا ہے فوراہی جب

Page 373

خطبات محمود ٣٦٨ سال ۱۹۳۲ء حرارت تیز ہو جاتی ہے ہر شخص کو پتہ لگ جاتا ہے کہ اسے بخار ہے لیکن سل اور دق کا مریض سالہا سال سے اپنے جسم میں کمزوری محسوس کرتا ہے مگر وہ خیال کرتا ہے کہ شاید کھانا اچھا نہیں ملتا.یا کام زیادہ کرتا ہوں جسکی وجہ سے کمزوری ہو رہی ہے.حالانکہ اندر ہی اندر مرض اپنا کام کر رہا ہوتا ہے.اور اسے تب پتہ لگتا ہے جب اس کے پھیپھڑ نے زخمی ہو جاتے ہیں اور مرض اپنا کام کر چکتا ہے.غرض ایسی بیماریاں جن کا مریض کو علم نہ ہو اور اندر ہی اندر اسے کھاتی چلی جائیں زیادہ خطرناک ہوتی ہیں.بالکل اسی طرح وہ شخص جو اپنے دل میں نفاق کی بیماری رکھتا ہے مگر اسے محسوس نہیں کرتا خطرے کے بہت زیادہ قریب ہوتا ہے.پس اپنے نقائص کو محسوس کرو.اور ان کی اصلاح کی کوشش کرو.میں متواتر کئی سالوں سے جماعت کو تبلیغ کے لئے توجہ دلا رہا ا ہوں اب پھر توجہ دلاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ تبلیغ کرو اور پورے زور سے کرو.یہ مت خیال کرو کہ تم نے پچھلے سال کافی تبلیغ کر لی.اگر اس سال نہ کرو گے تو کیا حرج ہے.جب تمہاری صبح کی روٹی شام کو کافی نہیں ہوتی تو کس طرح تمہارے پچھلے سال کی تبلیغی کوشش اس سال تمیں سر خرد کر سکتی ہے.جس طرح ایک منٹ پہلے کا سانس تمہارے لئے کافی نہیں بلکہ تمہارے لئے دوسرے منٹ کے لئے ایک اور سانس اور نئی ہوا کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح ایک منٹ پہلے کا ایمان بھی تمہارے لئے کافی نہیں جب تک دوسرے منٹ نیا اور تازہ ایمان تمہارے اندر پیدا نہیں ہوتا.اور اگر تم دیکھتے ہو کہ پہلے کسی وقت تم میں ایمان پیدا ہوا مگر اب نہیں تو یاد رکھو تمہارے دل میں کفر تو آچکا اور تم پر روحانی طور پر موت وارد ہو چکی.پس اپنے ایمان کی فکر کرو اور اس امر کو اچھی طرح سمجھ لو کہ جس طرح تمہیں جسمانی حیات کے لئے ہر لمحہ تازہ ہوا تازہ کھانا اور تازہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے.اسی طرح روحانی زندگی کے لئے تمہیں تازہ بتازہ نشانات روحانیہ کی ضرورت ہوتی ہے اور جس طرح تمہاری جسمانی زندگی بغیر تازہ کھانے اور تازہ ہوا کے قائم نہیں رہ سکتی اسی طرح تمہاری روحانی زندگی بھی بغیر تازہ نشانات کے قائم نہیں رہ سکتی.پس تبلیغ پر زور دو اور دشمنوں کا ڈر اپنے دل سے نکال دو.زیادہ سے زیادہ انکی طرف سے تمہیں جان کا خطرہ ہو سکتا ہے.مگر یہ بھی تو سوچو کہ تم صحابہ کے مثیل ہو اور صحابہ تو شہادت کو ایسا عزیز سمجھتے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق لکھا ہے چونکہ آپ خلافت کی وجہ سے باہر جنگوں پر جا نہیں سکتے تھے اس لئے آپ دعامانگا کرتے تھے کہ الہی مجھے مدینہ میں ہی شہادت کی موت عطا فرما - آخر اللہ تعالیٰ نے مدینہ میں ہی ان کی شہادت کا سامان کر دیا اور ایک شخص نے جو منافق یا

Page 374

خطبات محمود ۳۶۹ سال ۱۹۳۲ء کا فر تھا آپ کو مسجد میں شہید کر دیا ہے.تو صحابہ کی تو یہ حالت تھی کہ وہ خدا کی راہ میں جان دینا اللہ تعالی کا انعام اور اس کا خاص احسان سمجھتے تھے.کیا تمہاری جانیں صحابہ سے زیادہ قیمتی ہیں جنہیں اگر با ہر شہادت کا موقع نہیں ملتا تھا تو وہ گھروں میں ہی شہادت کے لئے دعائیں کیا کرتے تھے.حالا نکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ دعا نہایت ہی خطرناک تھی.اس کا صاف طور پر یہ مطلب تھا کہ یا تو جماعت میں ایسے منافق پیدا ہو جائیں جو مجھے شہید کر دیں یا بیرونی دشمن اتنا قوی ہو جائے کہ وہ مدینہ پر حملہ کرے.اور اتنی کامیابی حاصل کرلے کہ وہ خلیفہ کو شہید کر دے، مگر جوش اخلاص میں انہوں نے اس امر کا خیال نہیں کیا اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں کیں اور اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے اخلاص کو دیکھ کر مدینہ کو بیرونی حملوں سے تو بچالیا لیکن ایک شخص مدینہ سے ہی کھڑا ہوا جس نے آپ کو شہید کر دیا.پس تبلیغ سلسلہ پر زور دو اور پہلے سے زیادہ جوش کے ساتھ کام کرو.اور یاد رکھو کہ موت سے مت ڈرو کیونکہ مؤمن اور خوف دو متضاد چیزیں ہیں.دوسرا کام جو اس وقت ہمارے پیش نظر ہے وہ مظلومان کشمیر کی امداد کا ہے.اس وقت غلط طور پر ریاست کشمیر سخت جوش میں آئی ہوئی ہے اور اس نے اسی جوش میں ہمارے آدمیوں کو جو وہاں کام کر رہے تھے نکال دیا ہے اور خوش ہو رہی ہے کہ اس طرح اس نے ہمارے آدمیوں کو نقصان پہنچا دیا اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئی حالانکہ ہمارے آدمی تو آسمان سے اترتے ہیں اور اگر ایک نکال دیا جائے تو اس کے ہزاروں قائم مقام پیدا ہو جاتے ہیں.افغانستان کو ہی دیکھ لو ہمارے آدمیوں کو وہاں سے نکالا گیا ، انہیں مارا پیٹا اور قید کیا گیا.بعض کو سنگسار بھی کیا گیا مگر کیا ان کی مخالفانہ تدابیر کے ذریعہ وہاں احمدیت مٹ گئی یا کیا ہمارے کام کو نقصان پہنچا.احمدیت کی تاریخ بتلاتی ہے کہ اللہ کے فضل سے باوجود افغانستان میں احمدیوں کو شدید تکالیف دیئے جانے کے پھر بھی احمدیت بڑھی.یہاں تک کہ جب امان اللہ خان افغانستان سے نکلا تو اس کے ایک درباری نے مجھے خط لکھا کہ آپ خیال کرتے ہوں گے شاید افغانستان میں اب احمدی نہیں.اور ہم لوگ آپ سے واقفیت نہیں رکھتے.گو آپ ہمیں نہیں جانتے مگر ہم آپ سے واقف ہیں.ہم امان اللہ خان کے درباریوں میں سے تھے اور احمدی تھے.ہم نے ایک خفیہ انجمن بنار کبھی تھی اور ہمارا کام یہ تھا کہ جب کسی کو دیکھتے کہ وہ سعید اور نیک فطرت رکھتا ہے تو اسے احمدیت کی تبلیغ کرتے تھے.تو اللہ تعالٰی نے ایسے ایسے علاقوں میں ہماری تبلیغ کو کامیاب کیا ہے جہاں ظاہری لحاظ سے سب سے زیادہ مشکلات پیدا کی جارہی تھیں.پھر ہم کیونکر سمجھ لیں کہ اگر کشمیر سے ہمارے آدمیوں کو

Page 375

خطبات محمود ٣٧٠ سال ۱۹۳۲ء نکال دیا گیا یا انہیں کام کرنے سے روکا گیا ہے تو اس سے ہمارے کام کو نقصان پہنچے گا.کوئی کام ہو خواہ دینی ہو یا د نیونی اللہ تعالی کا فضل ہمارے شامل حال ہے اور وہ ہمیں ہر میدان میں کامیابی عطا فرماتا ہے.پس یہ اس ریاست کی بیوقوفی ہے جو یہ خیال کرتی ہے کہ وہ ہمارے آدمیوں کو نکال کر اپنے ارادوں میں کامیاب ہو جائے گی.خواہ وہ ایک ایک کر کے ان تمام لوگوں کو ریاست کشمیر سے نکال دے جو احمدیت پر قائم ہیں اور خواہ سب کے مونہوں کو بند کر دے پھر بھی ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالٰی اس کام کو سرانجام دے گا اور احمدیوں کے علاوہ دوسروں کے دلوں میں تحریک پیدا کرے گا اور وہ ہماری تجاویز کے مطابق کام کریں گے.اور ہم برابر دیکھ رہے ہیں کہ ادھر ریاست ہمارے آدمیوں کو نکالتی ہے اور ادھر اور ایسے آدمی کھڑے ہو جاتے ہیں جو کام کو بند ہونے نہیں دیتے.پس یہ ریاست کی غلطی ہے جو یہ خیال کرتی ہے کہ اس طرح آزادی کی جدوجہد میں وہ رکاوٹیں پیدا کر دے گی.لیکن باوجود اس کے ہر قوم کا فرض ہے کہ جب اس کے نمائندوں کو کسی ملک یا ریاست سے نکال دیا جائے تو وہ تمام کی تمام قوم ایک کامل عزم لے کر اٹھے اور یہ تہیہ کرلے کہ اب خواہ کچھ ہو جائے اس کام سے پیچھے نہیں ہٹے گی.میں بتا چکا ہوں کہ یہ خیال کرنا کہ اس کام کا مذ ہب سے کوئی تعلق نہیں غلطی ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام سے علاوہ تو رات کے نزول کے جو ایک مذہبی کام تھا اللہ تعالیٰ نے یہ کام بھی لیا کہ آپ کے ذریعہ فرعون کے ظلم و تشدد سے بنی اسرائیل کو نجات دلائی.یہی مثال اس وقت ہماری آنکھوں کے سامنے ہے.اس وقت کشمیری قوم بھی ابتدائی انسانی حقوق سے محروم ہے اور سالہا سال سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑی چلی آتی ہے.پس اس وقت ان کی حفاظت کرنا ہمارا نہ ہی فرض ہے.اور گو ایسانہ ہی کام نہیں جیسے تبلیغ ہے مگر بہر حال اس کا مذہب سے تعلق ہے.ہمارا ان مولویوں جیسا فتویٰ نہیں جو یہ کہہ کر کہ یہ مذہبی کام ہے جہاد کا اعلان کر دیتے ہیں بلکہ ہمارا پہلے بھی یہ فتویٰ تھا اور اب بھی ہے اور ہمیشہ یہی ہو گا کہ یہ ایسانہ ہی معاملہ ہے جیسا کہ رسول کریم نے فرمایا مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ وَ عِرْضِهِ فَهُوَ شَهیدو جو شخص اپنے مال اور عزت کی حفاظت میں مارا جاتا ہے وہ شہید ہوتا ہے.یہ اگرچہ ویسی شہادت نہیں ہوتی جو اسلامی جنگوں میں کسی مومن کو حاصل ہوتی ہے.مگر پھر بھی اسے شہادت کا رنگ دے دیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ چونکہ میرے اس بندہ نے اچھے اخلاق کے لئے اپنی جان دی ہے اس لئے شہید ہے.مگر یہ اس قسم کی شہادت نہیں

Page 376

طبات محمود سال ۱۹۳۲ء کہلا سکتی جیسے کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے راستہ میں اپنی جان دیتا ہے.بعینہ اسی طرح یہ بھی ایک مذہبی اور دینی معاملہ کہلائے گا.مگر اس طرح نہیں جیسے تبلیغ اور حفاظت اسلام کا کام ہے وہ اور قتسم کا دینی کام ہے اور یہ اور قسم کا.مگر بہر حال یہ بھی ایک رنگ میں مذہبی کام ہے.گو یہ ایسا نہیں جس کے لئے جہاد کی ضرورت ہو.ہر چیز کا خد اتعالیٰ نے ایک مرتبہ رکھا ہے اور اس مرتبہ کی حدود کے اندرا سے دیکھنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اکثر فرمایا کرتے تھے کہ گر حفظ مراتب نہ کنی زندیقی یہ قول اگر چہ ہے تو کسی اور کا مگر آپ اس کا بہت ذکر فرمایا کرتے تھے.اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تو ہر چیز کو اس کے دائرہ کے اندر نہیں رکھے گا بڑے کو بڑا اور چھوٹے کو چھوٹا نہیں سمجھے گا تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تو زندیق ہو جائے گا.پس شہادت کے مختلف دائرے ہیں.ہو سکتا ہے ایک شخص ہندو ہو یا عیسائی ہو اور وہ اپنے مال یا جان کی حفاظت میں مارا جائے وہ بھی اس حدیث کے ماتحت شہید سمجھا جائے گا اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ اگر ایک مسلمان اپنے مال یا جان کی حفاظت میں مارا جائے تو اسے اللہ تعالیٰ کے حضور اور بھی زیادہ درجہ ملے گا.اور اگر ہند و یا عیسائی مارا جائے تو بھی اللہ تعالی اسے اجر سے محروم نہیں رکھے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر شخص کی بزدلی کو سخت ناپسند فرماتا ہے.پس یہ بھی ایک رنگ میں مذہبی معاملہ ہے اور اس میں ہماری جماعت کو خصوصیت سے توجہ کرنی چاہئے.ہم کشمیر میں عدل اور انصاف قائم کرنا چاہئے تھے مگر باوجود اس کے حکومت نے نہایت ہی ظالمانہ اور غیر منصفانہ طریق پر ہمارے نمائندوں کو وہاں سے نکال دیا ہے.اگر یہ حکومت کسی اور حکومت کے نمائندوں کو اپنے ملک سے نکال دیتی تو یقینا وہ حکومت جس کے نمائندوں کو اس حکومت نے اپنے ملک سے نکالا ہوتا اس کے مقابل پر اعلان جنگ کر دیتی اور اپنی اس تحقیر کا اس سے انتقام لیتی لیکن جبکہ حکومت ہمارے پاس نہیں اور حکومت نے بلاوجہ ہمارے نمائندوں کو وہاں سے نکال دیا ہے.کم از کم میں اخلاقی جنگ کا اعلان ضرور کر دینا چاہئے.ابھی ہمیں خدا نے تو ہیں اور بندوقیں نہیں دیں اور نہ خدا نے ہمیں آزاد اور با اختیار حکومت عطا کی ہے.اگر ہمارے پاس بھی تو ہیں اور بندوقیں ہو تیں اور ہمیں بھی با اختیار حکومت حاصل ہوتی تو یقینا ہم ریاست کے اس ظالمانہ فعل کے خلاف اعلان جنگ کر دیتے اور ہم صبرنہ کرتے جب تک اس ہتک اور تذلیل کی اسے سزا نہ دے دیتے لیکن چونکہ اس جنگ کے سامان ہمارے پاس موجود نہیں اور نہ ہمیں حکومت حاصل ہے اس لئے اب میں کم از کم دو سرے

Page 377

خطبات محمود ۳۷۲ سال ۱۹۳۲ء سامانوں کے ساتھ ریاست کے مقابلہ کا اعلان جنگ کر دینا چاہئے.اور وہ جنگ یہ ہے کہ ہماری جماعت کے نوجوان اس مہم کے سر کرنے کے لئے اپنے آپ کو بطور والنٹیٹر ز پیش کریں.اور وہ اپنے عمل سے دکھا دیں کہ اگر ان کے بھائیوں کو ریاست سے نکال دیا گیا ہے تو وہ ان کی جگہ کام کرنے کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنے کے لئے تیار ہیں.اگر ہماری جماعت کے نوجوان اس طرف توجہ کریں جنہوں نے ابھی تک کوئی ملازمت اختیار نہیں کی یا کوئی کام شروع نہیں کیا اور میں سمجھتا ہوں ایسے سینکڑوں نوجوان ہیں تو اس معاملہ میں ہمیں بہت جلدی کامیابی حاصل ہو سکتی ہے.کئی ہیں جو مہینوں سے اپنی تعلیم سے فارغ ہو چکے اور اب وہ ملازمت کے انتظار میں اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے روٹیاں توڑ رہے ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے اوقات کو رائیگاں نہ کھو ئیں بلکہ اسے کسی اچھے کام پر لگائیں اور اس سے زیادہ اچھا کام اور کیا ہو سکتا ہے کہ انہیں قوم اور ملک و ملت کی خدمت کرنے کی توفیق ملے.ایسے نوجوان جو تعلیم یافتہ ہوں خواہ مولوی فاضل ہوں یا انٹرنس پاس ہوں یا ایف.اے ہوں یا بی.اے ہوں بشرطیکہ تعلیم سے فارغ ہو کر ب کسی ملازمت کی تلاش میں ہوں ان کا فرض ہے کہ وہ قومی خدمات کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں.انہیں کیا معلوم کہ پیشتر اس کے کہ انہیں کوئی نوکری ملے وہ وفات پا جائیں.اور اسی طرح بغیر کوئی مفید کام کئے وہ اس دنیا سے گزر جائیں.موت کا انسان کو پتہ نہیں اور نہ ہی یہ پتہ ہے کہ کل اس پر کیا گزرے گی.پس بغیر کسی مزید انتظار کے انہیں چاہئے کہ وہ ایسا کام کریں جس میں قوم کی بھی خدمت ہے اور اپنے نفس کا بھی فائدہ - ایک نوجوان کے لئے اس سے زیادہ شرم کی اور کیا بات ہو سکتی ہے کہ وہ فارغ ہو کر اپنے ماں باپ کے لئے بوجھ بنا بیٹھا ہو اور وہ ان کو کچھ کما کر کھلانے کی بجائے اپنے گزارے کے لئے ان پر بوجھ ڈالتا ہو.پس نوجوانوں کے لئے یہ ایک نہایت ہی مبارک موقع ہے انہیں چاہئے کہ وہ جلد سے جلد اپنے نام پیش کریں.میں پھر اپنی جماعت کے نوجوانوں کو خواہ وہ قادیان کے ہوں یا باہر کے تحریک کرتا ہوں کہ وہ اس کام میں شریک ہوں اور جائز طور پر اپنی زندگیوں سے مفید کام لیں.جائز طور سے مراد میری یہ ہے کہ جنہیں ایسے کاموں میں حصہ لینا ممنوع نہ ہو گورنمنٹ کے جس قدر ملازم ہیں انہیں حصہ نہیں لینا چاہئے کیونکہ ان کا گورنمنٹ سے معاہدہ ہے لیکن وہ جو ملازم نہیں یا اپنا کوئی کام کرتے ہیں ایسے نوجوان قادیان میں بھی بہت ہیں اور باہر بھی انہیں اپنے نام پیش کرنے چاہئیں.کئی ہیں جنہیں نوکریوں کی تلاش ہے.کئی ہیں جنہیں صنعت و حرفت کا اشتیاق ہے.اور

Page 378

خطبات محمود سال ۱۹۳۲ کئی ہیں جو کوئی پیشہ اختیار کرنا چاہتے ہیں.مگر ابھی بے کار ہیں.میں ان سب سے کہتا ہوں کہ وہ اپنے وقت کو ضائع نہ کریں اور جس قدر جلد ہو سکے اپنے نام متعلقہ دفتر میں بھجوا دیں تاکہ فورا مناسب کارروائی شروع کی جائے.ہم ایسے نوجوانوں کو تنخواہیں نہیں دیں گے.صرف گزارہ کے لے معمولی رقم دیں گے ، رہائش کا انتظام کریں گے اور سفر خرچ دے سکیں گے.اور میں سمجھتا ہوں قومی خدمات کے لئے تو اگر بجائے معاوضہ لینے کے خود جیب سے خرچ کیا جائے تو یہ اور بھی زیادہ بہتر ہے.اور ایسی قربانی زیادہ شاندار ہو جاتی ہے اللہ تعالی کے فضل سے ہماری جماعت کے وکلاء نے کشمیر کے معاملہ میں بہت بڑی قربانی کی ہے.کئی ہیں جنہوں نے اپنی مفت خدمات پیش کیں.اور بغیر ایک پیسہ لینے کے انہوں نے کام کیا.کئی ہیں جنہوں نے اپنے پیٹے چھوڑ دیئے.دکانیں بند کر دیں اور بغیر کوئی معاوضہ لئے کام کرنے لگ گئے.تو جہاں تمہارے بھائیوں میں سے بعض نے مفت کام کیا.بعضوں نے اپنی دکانیں بند کر دیں اور قربانی کے نمونے دکھائے ، وہاں اگر تم جنہیں گزارہ بھی ملتا ہے کام کرنے کے لئے اپنے آپ کو پیش کرو تو یہ کوئی بڑی بات نہیں ہوگی.پس میں چاہتا ہوں کہ ہماری جماعت کے دوست فوری طور پر اپنی خدمات پیش کریں.پنجاب اور صوبہ سرحد کے رہنے والے لوگ زیادہ اچھا کام کر سکتے ہیں.ان سب کو یہ سمجھ کر اپنا نام پیش کرنا چاہئے کہ ریاست کی طرف سے انہیں جو بھی تکلیف پہنچے گی اسے وہ خوشی سے برداشت کریں گے اور قید و بند کی مصیبتیں جھیلنے کے لئے ہر وقت تیار رہیں گے کیونکہ اس کام میں خطرات ضرور ہیں اور سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ تکلیف کے وقت کوئی ہمارا آدمی اپنے نفس پر قابو چھوڑ بیٹھے اور کوئی بات خلاف شریعت اور خلاف روایات سلسلہ کر بیٹھے.ہماری جماعت کو اللہ تعالی نے یہ موقع عطا فرمایا ہے کہ وہ بغیر اس کے کہ قانون شکنی کرے اور بغیر اس کے کہ سلسلہ کی سابقہ پالیسی کو صدمہ پہنچائے قید و بند کی مصیبتیں جھیل کر مظلوموں کی امداد کر سکتی ہے.در اصل جب کسی قوم پر ایک لمبے عرصہ تک مصیبتیں نہیں آتیں تو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس قوم کے لوگوں کے دلوں میں بزدلی پیدا ہو جاتی ہے.مگر اللہ تعالی بزدلی کو کبھی پسند نہیں کرتا.پس اللہ تعالی نے ہماری جماعت کے سامنے یہ موقع رکھا ہے تا اس کی بہادری اور شجاعت کا سکہ لوگوں کے دلوں پر بیٹھے اور لوگ سمجھ لیں کہ مومن بزدل نہیں ہو تا.میں نے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ضرورت کا اظہار کیا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ صرف تعلیم یافتہ لوگ ہی اپنا نام پیش کریں.میں

Page 379

خطبات محمود ۳۷۴ سال ۱۹۳۲ء نے صرف خاص خاص کاموں کی وجہ سے تعلیم کو ضروری قرار دیا ہے.لیکن غیر تعلیم یافتہ لوگ بھی کئی کام کر سکتے ہیں.پس ہر قسم کے لوگوں کو اپنے نام پیش کرنے چاہئیں.کئی ایسے ہو سکتے ہیں جو لمبے عرصہ کے لئے اپنے نام پیش نہ کر سکیں مثلا یہ کہ وہ کسی تاجر کے ملازم ہوں.ایسے لوگوں کو چاہئے کہ وہ جتنے عرصہ کے لئے بھی اپنے نام پیش کر سکیں پیش کر دیں مثلاً لکھ دیں کہ وہ ایک ماہ کے لئے یا دو ماہ کے لئے یا تین ماہ کے لئے یا چار ماہ کے لئے پانچ ماہ کے لئے یا چھ ماہ کے لئے کام کرنے کے لئے تیار ہیں اور اتنے عرصہ کے لئے وہ اپنا وقت فارغ کر سکتے ہیں.ایسے لوگوں سے اتنا ہی عرصہ کام لیا جائے گا.مگر ضرورت یہ ہے کہ ایسے ہی لوگ اپنے نام پیش کریں جو بہادر ہوں اور فرمانبرداری سے کام کرنے والے ہوں.جیسے مکانا کے علاقہ میں ارتداد کے ایام میں ہم نے حکم دے رکھا تھا کہ افسر کی اطاعت ضروری ہے خواہ وہ کوئی حکم دے.اطاعت اور فرمانبرداری ہمیشہ ہی ضروری ہوتی ہے مگر لڑائی کے میدان میں اس کی اور بھی زیادہ ضرورت ہوتی ہے.پس جماعت کے نوجوان آگے بڑھیں اور اس کام کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں.نوجوانوں سے مراد صرف جوان عمر ہی نہیں بلکہ جو ان دل والے بھی ہیں جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ پوری فرمانبرداری سے کام کریں گے انہیں چاہئے کہ وہ اپنے نام پرائیویٹ سیکرٹری کے دفتر میں یا کسی صیغہ میں جس کی طرف وہ خط لکھ رہے ہوں بھیج دیں.میں پھر توجہ دلاتا ہوں کہ اس معاملہ میں چندہ کی ضرورت ہے.پس چندے اکٹھے کرو اور دعاؤں سے کام لو.ہمیں یقین رکھنا چاہئے کہ اس معاملہ میں خدا تعالٰی ہماری مدد کر بے گا.اور وہ ظلم کا نشان تک کشمیر سے مٹادے گا.اللہ تعالیٰ عظیم الشان طاقتوں کا مالک ہے اور وہ جس کام کے کرنے کا ارادہ کرتا ہے کوئی نہیں جو اسے روک سکے خواہ حکومت ہو یا راجہ اور مہا راجہ ہو اللہ تعالیٰ کی مثیت میں کوئی روک نہیں بن سکتا اور جو روک بنتا ہے وہ کاٹا جاتا اور ہلاک کیا جاتا ہے.پس ہمیں تو یہ یقین ہے کہ یہ کام ہو کر رہے گا.ایک نہیں ہزار ریاستیں اپنے ظلم و ستم سے روک ڈالیں پھر بھی اللہ تعالیٰ انہیں شکست دے گا.کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت اور اس کی صفات کے خلاف ہے کہ وہ اتنے لمبے عرصہ تک ایک قوم کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑا رہنے دے.پس کوئی گورنمنٹ اس کام کو روک نہیں سکتی.نہ کوئی حکومت ہے جو اس کام کو ضعف پہنچا سکے.یہ خدا کا کام ہے جو ہو کر رہے گا.آج سے سینکڑوں سال پہلے فرعون نے بنی اسرائیل پر مدتوں ظلم تو ڑے لاکھوں اذیتیں اور تکالیف پہنچائیں.اس نے اپنے غرور میں سمجھا تھا کہ مجھے کوئی ہلاک نہیں

Page 380

خطبات محمود ۳۷۵ سال ۱۹۳۲ء کر سکتا.آخر خدا نے اسے ہلاک کر دیا اور بنی اسرائیل کو نجات دلائی.پس ریاست کا ظلم بھی ایک وقت تک ہے.آخر خدا کی غیرت اسکے بندوں کو نجات دلائے گی.یہ کہنا کہ اب کیا ہو گا ریاست اس قدر تشدد پر اتر آئی ہے، بیوقوفی ہے.یہ خدا کا ارادہ اور اس کی مشیت ہے اور یہ کام ہو کر رہے گا.پس ہمارا حصہ لینا تو محض خون لگا کر شہیدوں میں داخل ہوتا ہے.اس لئے گھبراؤ نہیں.چندہ کی تحریک کو بدستور جاری رکھو.اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں سے کام لو اور جنہیں اللہ تعالی توفیق عطا فرمائے وہ اس مہم میں اپنا نام پیش کریں تا اللہ تعالیٰ کے حضور سرخرو ہو سکیں.میں امید کرتا ہوں کہ ہماری جماعت کے نوجوان ایسی دلیری اور ہوشیاری سے کام کریں گے کہ ان کا مقصد انہیں بہت جلد حاصل ہو جائے گا.بغیر اس کے کہ وہ قانون شکنی کریں اور بغیر ا سکے کہ وہ اپنی روایات سلسلہ کے خلاف کریں انہیں جرات اور بہادری سے کام کرنا چاہئے.ریاست اس وقت خود قانون شکنی کر رہی ہے.اور اگر کسی عدالت میں معاملہ پیش ہو تو وہ یقینا ریاست کو ہی باغی قرار دے گی.پس اس قانون شکنی کی روح کا مقابلہ کرنا ہے.جس کے لئے نہایت ہی دانائی اور ہوشیاری سے کام کرنے کی ضرورت ہے.تا ایسا ہو کہ ہم اگر ایک طرف اللہ تعالیٰ کے حضور بری الذمہ ہو سکیں تو دوسری طرف اس کے بندوں کے شکریہ کے مستحق بھی ہو جائیں.(الفضل یکم مئی ۱۹۳۲ء) ل النساء : ۱۰۵ ل حم السجدة : ٣١ بخاری کتاب المظالم باب من قتل دون ماله

Page 381

خطبات محمود 44 کشمیر کے مظلومین کی امداد کرو.(فرموده ۱۹- فروری ۱۹۳۲ء) سال ۱۹۳۲ء تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.مجھے اس وقت درد سر کی شکایت ہے اس لئے زیادہ نہیں بول سکتا.نیز بعض ضروری ملاقاتوں کی وجہ سے جمعہ کی تیاری میں دیر ہو گئی اور وقت زیادہ ہو گیا ہے اس لئے نہایت اختصار کے ساتھ احباب کو توجہ دلاتا ہوں کہ میں نے رمضان المبارک کے ایام میں دوستوں کو نصیحت کی تھی کہ جہاں اور امور کے لئے دعا کریں، وہاں کشمیر کے مسلمانوں کے لئے جو انتہائی تکلیف اور تعدی کے ہاتھوں میں گرفتار ہیں اور طاقت نہیں رکھتے کہ ظلم اور تعدی کا مقابلہ کر سکیں، دعائیں کریں.میں نے بتایا تھا کہ حکومتیں گو اپنے زور اور طاقت سے کام لیتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنے بندوں کے لئے یہ قانون مقرر کیا ہے کہ امن سے رہیں اور فساد نہ کریں ، وہاں ان کی تکالیف دور کرنے کے لئے راستے بھی رکھے ہیں.یہ خدا تعالیٰ کی شان سے بعید ہے کہ وہ یہ تو حکم دیتا کہ بعض مواقع پر ہاتھ نہ اٹھاؤ مگر ساتھ ہی تکالیف سے نجات پانے کا کوئی راستہ نہ رکھتا.ان راستوں میں سے ایک راستہ دعاؤں کا ہے.جب کوئی شخص مظلومیت کی حالت میں یا مظلوم کی حمایت کی حالت میں دعا کرتا ہے تو خدا تعالیٰ ان دعاؤں کو سنتا ہے.مظلومین کشمیر کے لئے دعاؤں کا پہلا نتیجہ جو ظاہر ہوا ہے وہ وزیر اعظم ریاست کشمیر کی جو وہاں کے بہت سے واقعات کے ذمہ دار ہیں علیحدگی ہے.جو بظاہر تو خرابی صحت کی وجہ سے ہوئی ہے لیکن حقیقتاً اس وجہ سے ہے کہ خدا تعالی نے بعض با اختیار لوگوں پر یہ بات واضح کر دی ہے کہ فسادات کے لمبا ہونے میں وزیر اعظم کا دخل ہے اور اس وجہ سے ان کو مجبور کیا گیا ہے کہ اپنے عہدہ سے علیحدہ ہو جائیں.میں نے کہا تھا کہ مہاراجہ صاحب کے والد نیک آدمی تھے اور وہ خود نوجوان اور نا تجربہ کار ہیں.اور میں ڈرتا

Page 382

خطبات محمود سال ۱۹۳۲ء ہوں اگر انہوں نے اصلاح نہ کی تو ان کو بھی نقصان پہنچے اس لئے میں نے دوستوں سے کہا تھا کہ ان کے والد کی وجہ سے دعا کریں کہ اللہ تعالی انہیں اصلاح کی توفیق عطا فرمائے اور وہ ظلم جو کسی زمانہ میں بھی جائز نہ تھا مگر اس زمانہ تہذیب میں تو بہت ہی بھیانک ہے اس کے لئے ذمہ دار افسروں کو علیحدہ کر دیں.میں یقین رکھتا ہوں کہ ان واقعات و نتائج میں اللہ تعالٰی کا ہاتھ ہے اور پھر میں یہ بھی یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے منشاء کے خلاف جو راجہ مہاراجہ حکومت یا بادشاہ چلے گا وہ دکھ اور عذاب میں گرفتار ہو گا.اور جب اس تحریک میں خدا تعالیٰ کا ہاتھ ہے تو کوئی شخص خواہ وہ کتنا بڑا کیوں نہ ہو ، اگر اس میں دخل دے گا اور اس کی مخالفت کرے گا تو ضرور مونہہ کی کھائے گا.پس دوستوں کو پہلے سے بھی زیادہ دعاؤں اور توجہ کی نصیحت کرتا ہوں.بتیس لاکھ بندگان خدا کی مظلومیت کوئی معمولی بات نہیں.کسی انسان کا اگر ایک بیٹا یا بیٹی بیمار ہو تو اسے کس قدر تکلیف ہوتی ہے لیکن خدا تعالی کی اتنی مخلوق جب اس قدر مصیبت میں گرفتار ہے تو یقینا ہم بھی آرام کی نیند نہیں سو سکتے.ہم اگر اور کچھ نہیں کر سکتے اگر چہ اور بھی کئی طریق سے ہم ان کی مدد کر سکتے ہیں مثلا روپیہ سے لوگوں میں انکے لئے ہمدردی پیدا کرنے سے غرضیکہ کئی ذرائع ہیں لیکن اگر اور کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم دعا تو ضرور کریں.اور یہ کوئی معمولی بات نہیں.وہ لوگ جو خدا پر ایمان نہیں رکھتے بے شک دعاؤں پر تمسخر اڑائیں لیکن جن کا خدا پر ایمان ہے ان کے نزدیک سب سے بڑا حریہ دعا ہے.اس کے مقابلہ میں نہ حکومتوں کی کچھ حقیقت ہے نہ بادشاہوں اور ان کی افواج کی اور جب اللہ تعالیٰ کسی کے ساتھ ہو تو اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا.رسول کریم میں ولی کی زندگی کا ایک واقعہ میں نے کئی بار سنایا ہے.اس زمانہ میں ایران کے بادشاہ کی ویسی ہی طاقت تھی جیسی آج انگریزوں کی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ کیونکہ اب پارلیمنٹ ہے اور اس زمانہ کے ایرانی بادشاہ خود مختار ہوتے تھے.اس زمانہ میں کسی شخص نے رسول کریم میم کے خلاف اسے یہ کہہ کر بھڑکا یا کہ یہ تمہاری سلطنت کے لئے خطرہ ہے.اس پر اس نے یمن کے گورنر کو لکھا کہ سنا ہے کہ عرب میں کوئی شخص اس طرح کا ہے اور اس کا وجود ہماری سلطنت کے لئے خطرہ کا موجب ہو سکتا ہے میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ اسے گرفتار کر کے میرے دربار میں حاضر کرو.اس زمانہ میں ایران کا اس قدر د بد یہ تھا کہ گورنرنے اس حکم کی تعمیل کے لئے مدینہ میں کسی فوج وغیرہ کے بھیجنے کی ضرورت ہی نہ سمجھی بلکہ صرف تین آدمی بھیج دیئے

Page 383

خطبات محمود ۳۷۸ سال ۱۹۳۲ء کہ جاکر پکڑ لاؤ.اور ساتھ ہی کہا میری طرف سے یہ سمجھا دیتا کہ شاید تمہیں معلوم نہ ہو ایران کے بادشاہ کی کتنی طاقت ہے اور اس کی حکم عدولی کیسے نتائج مرتب کر سکتی ہے بہتر ہے کہ تم اپنے آپ کو سپرد کر دو.میں سفارش کروں گا کہ تمہارے ساتھ نرمی کا برتاؤ کیا جائے.وہ پیغامبر مدینہ میں آئے اور یہ حکم سنایا.رسول کریم میں اللہ نے فرمایا میں تیسرے دن جواب دوں گا.اس وقت مسلمانوں کے پاس کوئی ظاہر سامان نہیں تھے.اور زیادہ سے زیادہ ان کا تصرف مدینہ یا اس کے ارد گرد پر تھا.تعداد میں چند ہزار سے زیادہ نہ تھے اور مقابل پر اتنی بڑی سلطنت تھی جتنی آج انگریزوں کی ہے.اور چین شام تک ایرانی حکومت تھی جس کا مقابلہ آسان نہ تھا لیکن رسول کریم کو وہ ایمان حاصل تھا جو دنیا میں کبھی کسی کو حاصل نہیں ہوا.اس لئے آپ کے نزدیک اس حکومت کی کوئی حیثیت نہ تھی.آپ کسی بادشاہ سے نہ ڈرتے تھے.آپ کا بادشاہ صرف ایک تھا یعنی اللہ تعالی - تین دن کے بعد جب انہوں نے دریافت کیا کہ فرمائیے آپ کیا جواب دیتے ہیں اور ساتھ ہی پھر کہا کہ ایران کے بادشاہ کی طاقت بہت زیادہ ہے اسلئے آپ اس کے حکم کا انکار نہ کریں ہاں گور نریمن سفارش کریں گے اور نرمی کا برتاؤ کرانے کی کوشش ہوگی لیکن انکار کی صورت میں تمام عرب تباہ ہو جائے گا.آپ نے فرمایا جاؤ اور جاکر گور نر سے کہہ دو کہ آج رات میرے خدا نے تمہارے خداوند کو مار دیا ہے.یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی مار اس طرح نہیں ہوتی کہ وہ خود خنجر لے کر آئے.بلکہ بندوں کے ہی دلوں میں تحریک کر کے کام لے لیتا ہے.انہوں نے یہ سن کر پھر کہا اس کا نتیجہ بہت نقصان دہ ہو گا.مگر آپ نے فرمایا تم جاکر یہ کہہ دو انہوں نے کہا اگر تو یہ بات کچی ہوئی تو ہم مان لیں گے کہ آپ خدا کے نبی ہیں ورنہ سارے عرب کے متعلق ہمیں ڈر ہے کہ بادشاہ اسے ویران کر دے گا.آخر وہ لوگ واپس آگئے اور گور نر کو یہ جواب سنادیا.اس نے کہا ہمیں جلدی نہیں کرنی چاہئے.ایران کی اطلاع کا انتظار کرنا چاہئے.کچھ دنوں کے بعد ایران سے ایک جہاز آیا جس پر سے چند سفیر اترے اور گور نریمن کو ایک خط دیا.اس زمانہ کے دستور کے مطابق وہ آداب بجالایا اور اسے بوسہ دیا لیکن اس کا دل دھڑکنے لگا کیونکہ اس پر نئی حکومت کی مہر تھی.جب اس نے خط کھولا تو اس میں لکھا تھا کہ ہم نے اپنے باپ کے ظلم و تعدی کو دیکھ کر اسے قتل کر دیا ہے اور اب ہم بادشاہ ہیں اس لئے ہماری اطاعت کا سب سے اقرار لو.ہمارے باپ کے دوسرے ظلموں کے علاوہ اس کا ایک وہ حکم بھی تھا جو اس نے عرب کے ایک شخص کی جس کا کوئی گناہ نہیں گرفتاری کے متعلق دیا تھا اس لئے ہم اسے منسوخ

Page 384

خطبات محمود ٣٧٩ ہے..کرتے ہیں.اس پر گورنر پر کھل گیا کہ رسول کریم مے خدا کے رسول ہیں اور اس علاقہ میں اسلام پھیل گیا.تو اللہ تعالیٰ کے کام کے لئے بندوں سے نہیں ڈرنا چاہئے.یہ خطرہ تو ہو سکتا ہے کہ ہماری کمزوریاں اس میں کوئی خرابی نہ ڈال دیں وگرنہ دنیا کی سب طاقتیں مل کر بھی اسے نہیں روک سکتیں.خدا تعالی کی تائید و نصرت شامل حال ہو تو بڑی بڑی حکومتیں بھی شکست کھا جاتی ہیں.پس اللہ تعالیٰ پر توکل کر کے اس کے مظلوم بندوں کی حمایت میں لگے رہو.ابھی چند روز کی بات ہے کہ یہی وزیر اعظم اتنا زور ریاست میں رکھتے تھے کہ سب ان سے ڈرتے تھے اور کسی کو ان کے منشاء کے خلاف چلنے کی جرات نہ ہوتی تھی.اس وقت میں نے انہیں کہلا بھیجا کہ یہ سب رعب و داب چند روز کی بات ہے اگر آپ اس عہدہ پر رہنا چاہتے ہیں تو مسلمانوں کے ساتھ صلح کرلیں.چنانچہ پچھلے دنوں جو میں لاہور گیا تو ان کے بھائی کے پاس جو لاہور میں رہتے ہیں درد صاحب کو بھیجا کہ جاکر کہیں کہ وہ اپنے بھائی کو یہ سمجھائیں کہ مسلمانوں کے حقوق دے دیں اور ظلم اور تعدی سے باز آجائیں ورنہ وہ اپنے عہدہ پر نہیں رہ سکیں گے.ورد صاحب دس بجے کے قریب وہاں سے واپس آئے اور گیارہ بجے وہ خود اپنے بھائی کے مکان پر پہنچ گئے.ان کے بھائی نے میرا پیغام ان کو پہنچا دیا جسے وہ سنتے ہی جموں چلے گئے.مگر وہاں جو کچھ ہو نا تھا ہو گیا.اس میں شبہ نہیں کہ میں نے الہی خبر کے ماتحت یہ نہیں کہا تھا بلکہ ان کے متعلق جو خبریں مجھے ملیں ان کو میں نے قبول کر لیا کیونکہ میں جانتا تھا کہ اس میں اللہ تعالی کا ہاتھ ہے.کشمیر کے باقی ظالم افسروں کو اس سے سبق حاصل کرنا چاہئے.انسان کے لئے سب سے بڑی تباہی یہ ہوتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ کو نہیں پہچانتا اور غرور میں رہتا ہے.دوستوں کو چاہئے کہ پہلے سے بھی زیادہ دعائیں کریں اور مالی و جانی قربانیوں کے لئے بھی تیار رہیں.میں نے بتایا تھا کہ یہ بھی غلام کو آزاد کرانا ہے.اب اس قسم کے غلام تو نہیں جو پہلے زمانہ کے تھے اس لئے اس زمانہ میں ایسے لوگوں کو جو اس طرح مظلوم اور حکام کی تیغ ستم کے نیچے ہیں ، چھڑانا غلاموں کو آزاد کرانے کے مترادف اور ثواب کا موجب ہے.طبری جلد ۳ صفحه ۱۵۷۲ تا ۴ ۷ ۱۵ مطبوعہ بیروت (الفضل ۲۵ فروری ۱۹۳۲ء) 2

Page 385

خطبات محمود ٣٨٠ 45 امید سے ہی ہر قوم ترقی کر سکتی ہے فرموده ۲۶ - فروری ۱۹۳۲ء) سال ۲ تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.دنیا میں مختلف انسان اپنے لئے مختلف تدابیر تجویز کرتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ ان تدابیر کے ذریعہ کامیاب و با مراد ہو جائیں گے یہ تدبیریں اچھی بھی ہوتی ہیں اور بری بھی جائز بھی ہوتی ہیں اور ناجائز بھی بنی نوع انسان کی ہمدردی اور محبت پر بھی مبنی ہوتی ہیں اور ان کی تکلیف تحقیر اور تذلیل پر بھی کوئی شخص دنیا میں ترقی کرنا چاہتا ہے اس طرح کہ وہ ترقی کر جائے خواہ ساری دنیا تباہ اور برباد ہو جائے اور کوئی شخص دنیا میں ترقی کرنا چاہتا ہے اس طرح کہ وہ دنیا میں ترقی کر جائے اور نہ صرف یہ کہ اسے اس امر کی پرواہ نہیں ہوتی کہ باقی دنیا تباہ و برباد ہو بلکہ وہ ترقی کے لئے اس کی بربادی کی کوشش کرتا ہے.گویا ایک انسان تو ایسا ہوتا ہے جو دوسروں کی بربادی ایسے وقت میں چاہتا ہے جب وہ سمجھتا ہے کہ اب بغیر ان کی بربادی کے میں ترقی نہیں کر سکتا لیکن دو سرا انسان ایسا ہوتا ہے جو خیال کرتا ہے کہ جب تک میں دو سروں کو تباہ نہ کرلوں میں ترقی کر ہی نہیں سکتا.اس کی ساری کوشش اور اس کی ساری سعی اس بات کے لئے صرف ہو جاتی ہے کہ وہ دوسروں کو تباہ اور برباد کرے گویا وہ یہ خیال کر لیتا ہے کہ دنیا اتنی تنگ واقع ہوئی ہے کہ میں دو سروں کو تباہ کئے بغیر ترقی کرہی نہیں سکتا پھر کچھ اور لوگ ہوتے ہیں جو دنیا کی تباہی و بربادی تو نہیں چاہتے لیکن باقی دنیا کے ساتھ ان کو کوئی وابستگی بھی نہیں ہوتی.اگر دنیا کی تباہی کے ساتھ ان کی ترقی وابستہ ہو تو ممکن ہے وہ اپنے قدم کو ڈھیلا کر دیں.ممکن ہے وہ دوسروں کی تباہی کے خیال سے اپنی ترقی کی کوششوں کو کم کر دیں مگر ان میں ایسی خالص ہمدردی نہیں ہوتی کہ وہ

Page 386

خطبات محمود ٣٨١ سال ۱۹۳۲ء دو سروں کو فائدہ پہنچا سکیں پھر کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو علاوہ اپنی ترقی کے دوسروں کی ترقیات کو بھی مد نظر رکھتے ہیں اور جہاں وہ اپنی ترقیات کے لئے کوشش کرتے ہیں اگر انہیں موقع میسر آجائے تو وہ دوسروں کے لئے ترقیات کی کوشش کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے پھر کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو نہ صرف خود ترقی کرتے ہیں بلکہ ان کی تمام زندگی اس غرض کے لئے وقف ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کو فائدہ پہنچا ئیں اور وہ عمر بھر اسی کام میں لگے رہتے ہیں پھر کچھ اور لوگ پہنچائیں ہوتے ہیں.جو ان سے بھی بڑھ کر ہوتے ہیں اور وہ ایسے ہوتے ہیں کہ بسا اوقات اپنا نقصان برداشت کر لیتے ہیں مگر ان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ دوسروں کو فائدہ پہنچ جائے.پھر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی ترقی کو بالکل بھول جاتے ہیں اور ان کی زندگی کی ہر حرکت اور سکون اور ان کا ہر کام دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لئے ہوتا ہے ان کے مد نظر اپنی ترقی نہیں ہوتی بلکہ ان کا مقصود صرف یہ ہوتا ہے کہ کسی طرح بنی نوع انسان ترقی کر جائے.وہ پہلی جماعت جسکو اپنی ترقی بھی اتنی مد نظر نہیں ہوتی جتنی دو سروں کی تباہی و بربادی ہوتی ہے وہ شیطانوں کی جماعت ہوتی ہے اور وہ آخری جماعت جسے اپنی ذات بالکل بھول جاتی ہے اور جس کے مد نظر محض لوگوں کی فلاح اور بہبود ہوتی ہے انبیاء کی جماعت ہوتی ہے.ان دونوں کے درمیان ایک وسیع طبقہ ہے مومنوں کا بھی اور کافروں اور منافقوں کا بھی کسی کے اند ر بدی زیادہ ہوتی ہے اور کسی کے اندر نیکی اور یہ تمام اقسام کے لوگ گذشتہ زمانوں سے اس وقت تک چلے آتے ہیں اور انہی مختلف لوگوں کی وجہ سے دنیا کبھی خوبصورت نظر آتی ہے اور کبھی بد صورت جب کبھی دنیا میں شیطانی تحریکوں کا زور ہوتا ہے وہ نہایت بھیانک شکل اختیار کر لیتی ہے اور لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہ دنیا ر ہنے کے قابل نہیں ہے اور جب کبھی رحمانی تحریکوں کا زور ہوتا ہے لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہ دنیا نہایت اچھی چیز ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ گویا کبھی اس پر تاریکی کا زمانہ نہیں آتا یہ لوگ چونکہ خود اچھے ہوتے ہیں اس لئے انہیں دنیا بھی اچھی نظر آتی ہے اور پہلے لوگ چونکہ خود برے ہوتے ہیں اس لئے انہیں دنیا بھی بری نظر آتی ہے جب اچھوں سے واسطہ پڑتا ہے تو لوگ خیال کرتے ہیں کہ دنیا بڑی اچھی چیز ہے اور جب بروں سے واسطہ پڑتا ہے تو خیال کرتے ہیں کہ دنیا نہایت بری چیز ہے ان تقسیموں کے علاوہ کچھ اور تقسیمیں بھی ہیں بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ اچھوں میں رہ کر یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ بروں میں ہیں.اور بعض بروں میں رہ کر یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ اچھوں میں ہیں کیونکہ بعض انسان اپنی فطرت

Page 387

خطبات محمود سال ۱۹۳۲ء سے ، بعض اپنی طبیعت سے بعض اپنی عادت سے اور بعض اپنی بیماریوں کی وجہ سے اچھی چیز کو برا سمجھتے ہیں اور کئی ایسے ہوتے ہیں جن کی پیدائش ہی ایسی ہوتی ہے کہ وہ ہر چیز میں نیکی ہی نیکی دیکھتے ہیں اور یہ انبیاء کا گر وہ ہوتا ہے جسے اللہ تعالیٰ پیدائش سے بھی پہلے اپنی حفاظت میں لے لیتا ہے.اس سے نیچے اتر کر بعض لوگ ایسے ہوتے کہ وہ اپنی پیدائش کی وجہ سے تو نہیں لیکن اپنی طبیعت کے لحاظ سے ایسے واقعہ ہوتے ہیں کہ وہ ہر چیز میں نیکی دیکھتے ہیں کیونکہ ان کا ماحول ایسا ہوتا ہے کہ ان پر دوسری چیزوں کا ہمیشہ نیک اثر پڑتا ہے پھر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہوں نے اپنی عادت ایسی بنالی ہوتی ہے کہ وہ نیکی ہی نیکی دیکھیں.ان کی طبیعت ایسی نہیں ہوتی لیکن انہوں نے کوشش کر کے اپنے آپ کو ایسا بنا لیا ہوتا ہے کہ وہ جس چیز کو دیکھیں اس کا نیک پہلو ان کے سامنے نمایاں ہو جائے.پھر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں اپنی عادت کی وجہ سے تو ایسا نظر نہیں آتا لیکن انہیں ایسے سامان میسر آجاتے ہیں کہ وہ ہر چیز کو اچھا دیکھتے ہیں.ان کے مقابلہ میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ اپنی فطرت کی وجہ سے ہر چیز کو برا سمجھتے ہیں.کچھ اپنی طبیعت کی وجہ سے ہر چیز کو برا سمجھتے ہیں.یعنی ان کا ماحول ایسا ہوتا ہے کہ ہمیشہ برا پہلوان کی آنکھوں کے سامنے آتا ہے.پھر کچھ لوگ ایسی عادت ڈال لیتے ہیں کہ وہ ہر چیز میں برائی دیکھیں.اور کچھ بیماریوں کی وجہ سے ایسے چڑ چڑے ہو جاتے ہیں کہ انہیں ہر چیز بری ہی نظر آتی ہے.ایک ہی جگہ بیٹھنے والوں ، ایک ہی قسم کا کام کرنے والوں اور ایک ہی مقصد رکھنے والوں کو دیکھ لو ان میں نمایاں فرق نظر آئے گا.ریل کے کسی کمرہ میں داخل ہو جاؤ ، تمہیں نظر آئے گا کہ ایک شخص کے چہرہ پر تو مسکراہٹ نمودار ہوگی اور وہ نہایت بشاشت سے کہے گا کہ آئے تشریف لائیے ، بہت جگہ ہے.مگر دوسرا شخص گھبرایا ہوا نظر آئے گا اور وہ آنے والوں کو یوں سمجھے گا کہ گویا اس پر ایک آفت اور مصیبت آگئی.وہ بے اختیار ہو کر چلائے گا کہ ساری دنیا اسی کمرہ میں آگھسی ہے.ارے میاں کوئی اور بھی کمرہ ہے یا بس یہی کمرہ رہ گیا.یہ دونوں شخص ایک ہی جیسے ماحول میں سے گزر رہے ہوتے ہیں مگر ایک کو دیکھ کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا باؤلا کتا ہمیں کاٹنے لگا ہے اور دوسرے کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ وہ گویا پرانا دوست ہے جو ہم سے ملا ہے.یہ اختلاف طبائع میں جو ہمیں دنیا میں نظر آتا ہے اس کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے انسانی اندازے ایسے ہوتے ہیں کہ اگر ہم صرف انہیں پر انحصار رکھیں تو ہمیں کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی.اگر ہر جگہ ہمارا اندازہ صحیح ہو تو ہمیں یہ تفاوت نظر نہ آئے جو دنیا میں نظر آتا ہے.ایک

Page 388

خطبات محمود ٣٨٣ سال ۱۹۳۲ء شخص کو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کہتا ہے میں مرگیا.دنیا خراب ہو گئی.مجھ پر مصیبتیں ہی مصیبتیں آرہی ہیں.مگر اسی جگہ ہم ایک دوسرے شخص کو دیکھتے ہیں جو اسی جیسے حالات میں سے گزرتے ہوئے کہتا ہے کہ بڑا آرام ہے ، آسائش ہی آسائش ہے.تو یہ اختلاف جو ہم کو نظر آتا ہے بتاتا ہے کہ انسان اپنی نسبت غلط اندازے لگالیا کرتا ہے.بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں ہم سخت مصیبت اور دکھ میں مبتلا ہیں حالانکہ در حقیقت ہم مصیبت اور دکھ میں مبتلا نہیں ہوتے.اور بیسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں ہم آرام اور راحت میں ہیں حالانکہ ہم آرام اور راحت میں نہیں ہوتے.پھر بسا اوقات ہم سمجھتے ہیں ہم جہنم میں پڑے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے ہر قسم کی راحت کے سامان مہیا کئے ہوتے ہیں.اور بسا اوقات ہم سمجھتے ہیں ہم جنت میں ہیں حالا نکہ ہم دوزخ میں گرے ہوتے ہیں.پس اپنے اندازوں سے بہت ہوشیار رہنا چاہئے کیونکہ انسانی انداز نے بہت دفعہ غلط ہو جاتے ہیں.میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے انسان کامیابی کے سامان حاصل ہو جانے کے باوجود محض اس لئے ناکام رہتے ہیں کہ وہ اپنے حالات کا غلط اندازہ لگاتے ہیں اور بہت سے ایسے انسان جنہیں کامیابی کے سامان حاصل نہیں ہوتے ، صحیح اندازہ لگانے کی وجہ سے کامیاب ہو جاتے ہیں.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مؤمن کو ایک گر بتایا ہے.اور وہ ایسا ہے کہ باوجود بعض دفعہ غلط اندازہ لگانے کے انسان نقصانات سے محفوظ ہو جاتا ہے.میں نے لوگوں کی جو تقسیم بتائی ہے وہ اتنی وسیع ہے کہ انسان بمشکل اسے اپنے زیر نظر رکھ سکتا ہے.خصوصاً جب کہ بہت دفعہ ایک انسان بعض مجبوریوں کے ماتحت کسی نقص میں مبتلاء ہو جاتا ہے.مثلاوہ شخص جس کے اندر چڑ چڑا پن پیدا ہو گیا ہے.اور وہ اپنے ارد گرد مایوسی ہی مایوسی دیکھتا ہے.ایسا آدمی مجبور ہے کہ غمگین رہے اور کبھی بشاشت و مسرت اپنے اندر نہ پائے کیونکہ وہ جان کر مایوس نہیں بنتا بلکہ بیماریوں نے نے اسے ایسا کمزور اور اس کے جسم کو اس طرح کھوکھلا کر دیا ہے کہ اس کے اندر چڑ چڑا پن پیدا ہو گیا ہے.ایسے شخص کا بظاہر کیا قصور ہے.اگر وہ ہر چیز میں تاریکی ہی تاریکی دیکھے اور مایوسی اور غم کا شکار ہو جائے تو وہ کوشش کرتا ہے کہ مایوسی اس سے دور ہو جائے.لیکن چونکہ بیماریوں نے اس کے جسم کو نڈھال کر دیا ہوتا ہے اس لئے وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکتا.یہ اور ایسی ہی دیگر مجبوریوں کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک گر بیان فرمایا ہے.اور وہ ایسا کر ہے کہ اگر کوئی شخص اسے مد نظر رکھے تو وہ تمام ایسے مضرات سے محفوظ رہ کر صحیح طور پر

Page 389

خطبات محمود ۳۸ سال ۱۹۳۲ء اپنے اندر نیک خصائل پیدا کر سکتا ہے.وہ گر کیا ہے ؟ وہ وہی ہے جو سورۃ فاتحہ سے شروع کیا گیا ہے.یعنی الحمد اللہ اس میں بتایا گیا ہے کہ انسان کو چاہئے وہ ہمیشہ یہ یقین رکھے اور خوش ہو کہ اس کو خدا نے پیدا کیا ہے اور اس خدا نے پیدا کیا ہے جو کہ رب العلمین ہے.اور اس لئے پیدا کیا ہے تاکہ وہ اسے ترقی دے کر اونچے مرتبہ پر پہنچائے.رب العلمین کہہ کر اللہ تعالٰی نے اس حقیقت پر روشنی ڈالی ہے کہ وہ خدا کسی ایک طبقہ یا جماعت کا خدا انہیں بلکہ تمام قوموں اور ساری جماعتوں کا رب ہے کیونکہ جب کسی شخص کے دل میں یہ خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ خدا کسی خاص قوم کا ہے تو اس وقت لازماً اس کے دل میں یہ خیال بھی پیدا ہو سکتا ہے کہ خدا کسی خاص فرد کا بھی خدا ہے.اگر خدا عیسائیوں کا ہے اور یہودیوں کا نہیں یا مسلمانوں کا ہے اور ہندوؤں کا نہیں.یا اگر وہ ان قوموں کے ساتھ اپنے عام سلوک میں فرق کرتا ہے تو پھر انسانوں میں بھی وہ فرق کر سکتا ہے.تب بالکل ممکن ہے.خدا زید کا ہو مگر بکر کا نہ ہو یا میرا ہو مگر غیر کا نہ ہو اور اگر خدا میرا ہی ہے اور دو سرے کا نہیں تو دوسرے کے لئے مایوسی ہی مایوسی ہے اور وہ کسی وقت خوش نہیں ہو سکتا اور نہ اپنی ہمت بلند کر سکتا ہے کیونکہ وہ کہے گا میرا تو خدا نہیں بلکہ فلاں کا ہے.پس قرآن مجید نے رب العلمین کہہ کر اس مایوسی کے دروازے کو بند کر دیا کیونکہ مایوسی کے مٹانے کا یہ طریق ہے کہ انسان ہمیشہ اس بات پر یقین رکھے کہ خدا رَبُّ العلمین ہے.وہ ہندوؤں کا بھی خدا ہے اور عیسائیوں کا بھی، مسلمانوں کا بھی اور غیر مسلموں کا بھی ، گوروں کا بھی اور کالوں کا بھی ، مشرق والوں کا بھی اور مغرب والوں کا بھی ، وہ رب العلمین خدا ہے.اس کی ربوبیت کی نسبت تمام.جہان والوں کی طرف ہے اور وہ تمام بنی نوع انسان کا خدا ہے.بس رب العلمین کہہ کر مایوسی کے ایک دروازہ کو بند کر دیا.پھر مایوسی کا دوسرا رستہ یہ ہوتا ہے کہ انسان خیال کرے کہ گو خدا سارے لوگوں اور تمام زمانوں کا خدا ہے لیکن کیا اس کا یہ منشاء ہے کہ وہ ہمیں ترقی دے یا کیا اللہ تعالی میں یہ طاقت ہے کہ وہ ہمارے لئے ترقیات کے سامان مہیا فرمائے.ہم خدا کو مانتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا خدا میں ایسی طاقتیں ہیں کہ وہ بنی نوع انسان کی.مایوسی اور تاریکی کو مٹاکر ان کی ترقیات کے لئے نئے سے نئے سامان پیدا فرماتا ہے.اس کا جواب بھی اللہ تعالٰی نے رب العلمین کے الفاظ میں ہی دے دیا کہ رب کے معنی ہیں ایسی ہستی جو ادنی حالت سے ترقی دیتے دیتے انسان کو انتہائی کمال تک پہنچا دے.پس جب ہم اپنے خدا کو رب العلمین کہتے ہیں تو ہمارے لئے مایوسی کا دوسرا دروازہ بھی بند ہو جاتا ہے اور ہم یقین کر لیتے

Page 390

طبات محمود ۳۸۵ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء ہے کہ وہ ہمیں ترقی دے کیونکہ وہ ایسی طاقتیں رکھتا ہے کہ معمولی حالت سے انسانوں کو ترقی دیتے دیتے انہیں بلند ترین مقامات پر لے جاتا ہے.اگر ہم یقین کریں کہ خدا رب العلمین ہے تو خواہ اپنے حالات کے لحاظ سے ہمیں اردگرد مایوسی ہی مایوسی دکھائی دے پھر بھی ہم اسے اپنا نقص تصور کریں گے.اللہ تعالیٰ کی نسبت ہمارا ہر وقت یہی ایمان ہو گا کہ وہ ہماری مایوسی کو دور کر سکتا اور ہمیں تاریکیوں سے نکال سکتا ہے.ایک اندھا شخص اپنی نابینائی کی وجہ سے سورج کو نہیں دیکھ سکتا مگر وہ یہ کہتا ہے کہ گو مجھے سورج نظر نہیں آتا مگر سورج ہے ضرور کیونکہ دوسروں کی شہادت اسے تسلی دے دیتی ہے.اور وہ کہتا ہے کہ گو مجھے اپنی ذات میں سورج کی روشنی نظر نہیں آتی مگر سورج سے انکار بھی نہیں ہو سکتا.کیونکہ ساری دنیا کہتی ہے کہ سورج ہے.اسی طرح وہ شخص جو رَبُّ العلمین خدا پر ایمان لاتا ہے اگر اسے اپنے اردگرد مایوسی اور تاریکی ہی نظر آتی ہے ، تب بھی وہ ہر لمحہ اس یقین اور آرزو سے پر ہوتا ہے کہ اس کا ایک خدا ہے جو اسے ترقی دے سکتا اور اس کی تمام کلفتوں کو دور فرما سکتا ہے اور وہ یہ یقین رکھتا ہے کہ اگر مجھے اللہ تعالیٰ کی صفات نظر نہیں آتیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالٰی قدرتوں کا مالک نہیں بلکہ یہ مطلب ہے کہ میں نابینا ہوں.اس وجہ سے مجھے اس کا جلال اور اس کی قدر تیں دکھائی نہیں دیتیں.پس ایسا انسان بھی مایوس نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ اس کوشش میں لگا رہتا ہے کہ اسے بینائی حاصل ہو جائے.وہ مانتا ہے کہ ترقیات کے سامان ہیں مگر کہتا ہے مجھے نظر نہیں آتے تب وہ اس کوشش میں لگ جاتا ہے کہ اس کی آنکھیں روشن ہو جا ئیں تا وہ بھی اللہ تعالی کی قدرتوں کو دیکھ لے.لیکن جب انسان اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اسے یقین ہو جاتا ہے کہ رَبُّ الْعلمين خدا ہے.تب بھی اس کے دل میں ایک شبہ باقی رہ جاتا ہے.اور وہ یہ کہ مانا خدا انسانوں کو ترقی دینے کا ارادہ رکھتا ہے اور مانا کہ خدا میں طاقت بھی ہے مگر کیا خدا نے اپنے ارادہ کو عمل میں بھی لانا شروع کیا ہے.ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ بہت سے انسانوں میں ایک خوبی ہوتی ہے مگر ایک وقت ان کی خوبی کا ظہور نہیں ہوا ہو تا.اسی طرح یہ شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ بے شک خدا رب العلمین ہے مگر کیا اس کی ربوبیت کا ظہور بھی شروع ہو گیا ہے.اس شبہ کو الحمد اللہ کا دروازہ بند کر دیتا ہے کیونکہ الحمد اللہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ خدا کے احسان نازل ہونا شروع ہو گئے ہیں اور احسان بھی ایسے جو ہر قسم کے انعامات پر مشتمل ہیں.پس حمد کا جو لفظ رکھا گیا ہے اس نے اس شبہ کا بھی ازالہ کر دیا.مگر چونکہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اگر ایک طرف فضل کے

Page 391

خطبات محمود ۳۸۶ سال ۱۹۳۲ء دروازے کھلے ہوں تو ساتھ ہی تباہی اور بربادی کے بھی دروازے کھلے ہوں.اس لئے حمد کے ساتھ ال کا لفظ لگا کر یہ بتا دیا کہ اس کے انعامات کے تمام دروازے کھلے ہیں اور تاریکی کے تمام دروازے بند ہیں.یہ وہ امید ہے جسے اسلام ہر شخص کے دل میں پیدا کرنا چاہتا ہے اور یہ وہ امید ہے جس کو لے کر ہر قوم دنیا میں ترقی کر سکتی ہے.وہ لوگ جو دینی لحاظ سے مایوس ہو جاتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کی روحانیت ترقی نہیں کر سکتی ان کی بھی الحمد اللہ ڈھارس بندھاتی ہے اور وہ لوگ جو دنیا کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں خواہ وہ سیاسی ہوں یا تمدنی ان کو بھی الْحَمْدُ لِلَّهِ امید دلاتی ہے.مایوسی ان سے دور کرتی ہے اور انہیں یہ یقین دلاتی ہے کہ تمہاری منزل تمہارے قریب ہی ہے.پس ہمارے لئے ترقی کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ ہم اپنے حالات میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو مد نظر رکھیں اور یہ دیکھیں کہ ہمارا واسطہ اللہ تعالی سے کس قسم کا ہے.یہ وہ گر ہے جو اللہ تعالٰی نے الحمد اللہ کے الفاظ میں ہمیں بتایا.اسی طرح فرماتا ہے رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شيئا میری رحمت تمام چیزوں پر حاوی ہے اور فرماتا ہے مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا ليَعْبُدُونِ.میں نے جن و انس کو پیدا ہی اس لئے کیا ہے تاوہ میری عبادت کریں.اس آیت میں اللہ تعالی نے پیدائش انسانی کی غرض بیان فرمائی ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان کو خدا ترقی دینا چاہتا ہے.اور وہ خدا جو ترقی دینا چاہتا ہے مایوسی کو کبھی پسند نہیں کر سکتا.یہی وجہ ہے رسول کریم نے فرمایا لكل داء دواء الا الموت کے سوائے موت کے دنیا کی کوئی ایسی مرض نہیں جس کا خدا نے علاج پیدا نہ کیا ہو.اور موت کا دروازہ اس لئے نہیں بند کیا کہ اگلے جہان کی ترقیات اس جہان میں انسان کو حاصل نہیں ہو سکتیں اور اگر ہو جائیں تو ایمان لانے کا فائدہ نہیں رہتا.فرض کرو اس وقت رسول کریم می دنیا میں موجود ہوتے اور ابو جہل بھی موجود ہوتا اور لوگ دیکھتے کہ ابو جہل دوزخ میں جل رہا ہے اور رسول کریم میں جنت میں ہیں تو کفر و ایمان کا امتیاز جا تا رہتا اور ہر شخص جو ابو جہل کو دوزخ میں جلتا دیکھتا کبھی رسول کریم میں یا لیلی کے انکار کی جرات نہ کر سکتا مگر اس طرح ایمان لانے کا اجر نہ رہتا.پس ایمان کے ساتھ اخفاء کا پہلو بھی ضروری ہوتا ہے.اگر کوئی شخص کہے کہ میں ایمان لاتا ہوں کہ سورج دنیا کو روشنی پہنچاتا ہے تو یہ ایمان بے کار ہے کیونکہ سورج ہر شخص کو نظر آسکتا ہے.پس سورج پر ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا.اسی طرح اگر رسول کریم میں درد و الم کو جنت میں اور ابو جہل کو دوزخ میں دیکھ کر

Page 392

خطبات محمود ۳۸۷ سال ۱۹۳۲ ء لوگ ایمان لاتے تو ان کے ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہ ہوتا اور وہ روحانی ترقیات سے محروم رہتے.پس چونکہ ایمان اپنے ساتھ بعض مخفی امور بھی رکھتا ہے اور اگر اس جہان میں ان روکوں کو ہٹا کر سب کچھ سامنے رکھ دیا جاتا تو ترقیات حاصل نہ ہو سکتیں اور انسانی پیدائش کی غرض باطل ہو جاتی.اس لئے اللہ تعالٰی نے موت کا دروازہ کھلا رکھا اور رسول کریم میم نے فرمایا الکل دَاء دَواء الا NETWORKOUT ہر بیماری کی دوا ہے مگر موت کی نہیں.کیونکہ موت بیماری نہیں بلکہ ترقیات کا زینہ ہے.پس جب دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ہر مصیبت کا علاج رکھا ہے تو ضروری ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے کسی وقت بھی مایوس نہ ہوں کیونکہ جس وقت کوئی شخص مایوس ہو جاتا ہے اس وقت وہ خدا سے دور ہو جاتا ہے.شیطان کے قریب ہو جاتا ہے اور شیطان کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے وہ ہلاکت کی طرف بلاتا ہے اور اپنے متعلق فرماتا ہے کہ ہم مغفرت اور رحمت کی طرف بلاتے ہیں.پس جہاں کسی کے دل میں مایوسی پیدا ہو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ وہ شیطان کے قریب ہو رہا ہے اور جب کسی کے دل میں امید اور امنگ پیدا ہو ا نے سمجھ لینا چاہئے کہ وہ خدا کے قریب ہو رہا ہے.مگر ایک بات ہے جس سے ہوشیار رہنا چاہئے اور وہ یہ کہ اگر دل میں امنگ پیدا ہو اور اس کے ساتھ ہی بے فکری کا خیال پیدا ہو تو یہ امنگ بھی شیطانی ہوگی کیونکہ شیطان کا یہ بھی کام ہے کہ وہ جھوٹے وعدے دے کر لوگوں کو غافل اور گمراہ کرتا ہے.لیکن جب امنگ پیدا ہو اور اس کے ساتھ ہی کام کا جوش بھی پیدا ہو اور جب امید ہو تو ساتھ ہئی اور زیادہ جوش سے کام کرنے کا خیال پیدا ہو تو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ امید اور امنگ خدا کی طرف سے ہے.وہ قومیں جو یہ سمجھتی ہیں کہ ہم آپ ہی آپ دنیا میں جیت جائیں گی انہیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ وہ شیطان کے قبضہ میں ہیں.اور وہ قو میں جو یہ کہتی ہیں کہ ہم محنت اور کام کرنے میں دوسروں سے پیچھے نہیں رہیں گی اور ہم زیادہ سے زیادہ کام کرتی چلی جائیں گی انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ وہ خدا کے قبضہ میں ہیں.پس امیدیں بھی دو قسم کی ہوتی ہیں.ایک وہ امید جو شیطان کی طرف سے آتی ہے مگر اس کے ساتھ ہی یہ امید دلائی جاتی ہے کہ کام کرنے کی ضرورت نہیں.چنانچہ اسی امید کی دوسری صورت وہ تو کل تھا جو فیح اعوج میں مسلمانوں نے اختیار کیا اور جس کی وجہ سے وہ ذلیل ہو گئے.مسلمانوں نے خیال تو کیا کہ ہم اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہیں مگر اسکے ساتھ انہوں نے محنت کرنی چھوڑ دی.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ برباد ہو گئے.یہ شیطانی امید تھی.دو سری امید وہ ہے جو رسول کریم

Page 393

خطبات محمود ٣٨٨ کے زمانہ میں صحابہ میں نظر آتی ہے کہ باوجود تو کل کا مقام اختیار کرنے کے وہ محنت و مشقت کے کاموں کے عادی تھے اور پوری سعی اور کوشش کرتے تھے.ایک دفعہ رسول کریم نے حکم دیا کہ مردم شماری کی جائے اور پتہ لگایا جائے کہ مسلمان کس قدر ہیں.جب مردم شماری کی گئی تو معلوم ہوا کہ مسلمان سات سو ہیں.بعض صحابہ نے کہا یا رسول اللہ یہ مردم شماری آپ نے کیوں کروائی.اور پھر کہنے لگے کیا اب بھی ہم کو کوئی ہلاک کر سکتا ہے.اب ہم سات سو ہو گئے ہے.یہ وہ امید تھی جو صحابہ کے اندر نظر آتی ہے.مگر اس کے ساتھ ہی ان کے اندراس قدر ہو شیاری بھی پائی جاتی تھی کہ ایک دفعہ رات کو معمولی سا شور ہو ا سارے صحابہ ہتھیار بند ہو کر باہر نکل آئے اور بعض مسجد میں جمع ہو گئے.رسول کریم میر کو جب پتہ لگا تو آپ نے فرمایا وہی لوگ زیادہ ہو شیار تھے جو مسجد میں جمع ہوئے کیونکہ مسجد مسلمانوں کے جمع ہونے کی جگہ ہے.غرض معمولی سے شور پر تمام صحابہ اکٹھے ہو جاتے تھے.مگر آج یہ حالت ہے کہ مسلمانوں پر بڑی سے بڑی مصیبتیں آتی ہیں اور وہ ہاتھ تک ہلانا عار سمجھتے ہیں.اور خیال کرتے ہیں کہ آپ ہی آپ سب کچھ ہو جائے گا.یہ وہ امید ہے جو قوموں کو تباہی کی طرف لے جاتی ہے.میں اپنی جماعت کے دوستوں کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ انہیں ہمیشہ یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ مسلمانوں کی تباہی کا سب سے بڑا سبب یہی ہے کہ وہ جس کو امید سمجھتے ہیں، وہ ان کی سستی ہوتی ہے.اور جس کا نام تو کل رکھتے ہیں وہ انکی بے عملی کا نشان ہے.آپ لوگوں کو ایسی محنت اور مشقت سے کام کرنا چاہئے کہ وہ باقی لوگوں سے مقابلہ میں بہت بڑھ کر ہو.اگر دوسری قوموں کے لوگ پانچ گھنٹے کام کر کے خوش ہوتے ہیں تو آپ لوگ سات گھنٹے کام کر کے خوش ہوں.اور یہ یاد رکھیں کہ وہ عمل جس کے ساتھ بستی چھا جاتی ہے عمل نہیں.عمل وہی ہے جس کے ساتھ بشاشت پیدا ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے و النزعتِ فَرْقًا وَالنَّشِطَتِ نَشْطَا لا یعنی مومن کام کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ان کے دلوں میں چستی اور امنگ بھی پیدا ہوتی ہے وہ عمل کرتے ہیں مگر اس کے بعد وہ ست نہیں ہو جاتے.بلکہ بشاشت قلبی کے ساتھ اور زیادہ کام کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں.پس آپ لوگ اللہ تعالیٰ پر توکل کریں مگر محنت اور تدبیر میں مخالفوں سے بڑھ کر رہیں.اگر دوسرے لوگ دس گھنٹے کام کرتے ہیں تو آپ لوگوں کو بارہ گھنٹے کام کرنا چاہئے.اور اگر دوسرے اپنی آدھی قوتوں کو کام میں لاتے ہیں تو آپ لوگوں کو اپنی ساری قوتیں صرف کر دینی چاہیں.اگر آپ لوگ یہ طریق اختیار کریں تو پھر آپ کا حق ہے کہ آپ تو کل کریں.اور پھر قلیل -

Page 394

خطبات محمود ۳۸۹ سال ۱۹۳۲ء سے قلیل عرصہ میں آپ دنیا پر غالب آ سکتے ہیں.اللہ تعالٰی فرماتا ہے كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةٌ كثيرة کے کتنے ہی چھوٹے چھوٹے گروہ ہوتے ہیں مگر بڑی بڑی جماعتوں پر غالب آجاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے اگر مجھے چالیس کامل مومن مل جائیں تو میں دنیا پر غالب آجاؤں.اللہ تعالی کا احسان ہے کہ آج اس نے لاکھوں ایسے اشخاص پیدا کر دیئے ہیں جو آپ کی نہیں بلکہ آپ کے خدام کی آواز پر اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہیں.پس صحیح طریق پر اپنی کوششوں سے کام لو اور یقین رکھو کہ دنیا کی بادشاہتیں بھی تمہارے ارادوں میں روک نہیں بن سکیں.ہمیں اللہ تعالی پر ایمان رکھنا چاہئے مگر ستوں والا ایمان نہیں کہ ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ رہے اور امید باندھ لی کہ اللہ تعالی مدد کرے گا.بلکہ ان لوگوں کی طرح جو کام کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ہم نے کچھ نہیں کیا.وہ شخص جس نے کچھ کیا ہی نہیں اس کا حق نہیں کہ وہ خدا پر تو قتل کرے بلکہ خدا پر توکل کرنے والا وہی ہے جو پہلے کام کرے اور پھر اللہ تعالیٰ پر توکل کرے.اگر کوئی شخص ایسا کرے تو صحیح الفاظ میں وہی سچا مومن اور وہی سچا متوکل ہے.پس محنت سے کام کرو اپنی ہمتوں کو بلند کرو.اور یقین رکھو کہ اب دنیا کی نجات تم سے وابستہ ہے.یہ مت خیال کرو کہ تمہیں فاقے آتے ہیں ، یہ مت خیال کرو کہ تم غریب ہو بلکہ یا د رکھو کہ آئندہ بادشاہ بھی تمہارے ذریعہ نجات پانے والے ہیں.پس ہو شیاری سے کام لو اور اس یقین اور توکل کے ماتحت کام کرو کہ دنیا کی نجات آپ لوگوں سے وابستہ ہے.اگر آپ لوگ ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے فرشتے خود اتر کر لوگوں کے دلوں میں تمہاری محبت پیدا کر دیں گے.وقت آگیا ہے کہ تمہیں ترقیات ملیں مگر ضرورت ہے کہ آپ لوگ اپنی اصلاح کریں اور صحیح معنوں میں اللہ تعالیٰ پر توکل اختیار کریں.الفضل ۳ مارچ ۱۹۳۲ء) ل الاعراف: ۱۵۷ الذُریت: ۵۷ مسلم کتاب السلام باب لكل داء دواء او استحباب التداوى کے مسلم کتاب الایمان باب جواز الاسترار بالايمان للخائف.النزعت : ۳۲ بك البقرة :۲۵۰

Page 395

خطبات محمود ۳۹۰ 46 سال ۲ دینی اور دنیوی امور میں مایوسی سے بچو (فرموده ۴- مارچ ۱۹۳۲ء بمقام دیلی) تشهد و تعوز اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: جس طرح جسم ایسے غیر معلوم بیماریاں پیدا کرنے والے اثرات کے نیچے آتا ہے کہ بسا اوقات ان کے اسباب و علل کا علم سالوں کے بعد ہوتا ہے اسی طرح انسان کی روح مختلف اسباب کے اثرات کے نیچے آتی ہے اور اس کا علم انسان کو مدتوں تک نہیں ہو تا بسا اوقات جبکہ انسان یہ خیال کرتا ہے کہ میں روحانی طور پر تندرست ہوں لیکن حقیقت میں وہ بیمار ہوتا ہے جس کا اسے علم نہیں ہو تا اور بسا اوقات وہ یہ سمجھتا ہے کہ میں لاعلاج بیمار ہوں حالانکہ اسی لمحہ کوئی روحانی اثر اس کے اندر ایک تبدیلی کر رہا ہوتا ہے اسی طرح ایک تندرست انسان جس کے اندر بیماری کے جراثیم ہوتے ہیں وہ اپنے آپ کو تندرست خیال کرتا ہے حالانکہ وہ بیماری کی طرف جارہا ہوتا ہے اور ایک دوسرا شخص یہ خیال کرتا ہے کہ میں لاعلاج ہوں لیکن حالت اس کے بر عکس ہوتی ہے یہی حالت روحانی اثرات کے متعلق ہوتی ہے.ایک شخص خیال کرتا ہے کہ میں نیک ہوں حالا نکہ وہ گمراہ ہوتا ہے.لیکن ایک دوسرا شخص جو اپنے آپ کو گمراہ خیال کرتا ہے حقیقتاً اس کے اندر نیکی کی تحریک پیدا ہو رہی ہوتی ہے لیکن جہاں جسمانی بیماریوں کے متعلق یہ آسانی ہے کہ ان کے متعلق انسان کو کم سے کم اس وقت جب بیماری کمال پر ہوتی ہے اس کے لاحق ہو جانے کا اعتراف کرنا پڑتا ہے وہاں روحانی حالت میں جو بیماری ہوتی ہے اس کا احساس نہیں ہوتا.روحانی حالت میں انسان اپنے آپ کو بیمار قرار دینا پسند نہیں کرتا جیسے طاعون والے آدمی بیماری کے دنوں میں اس بیماری کو چھپاتے تھے تاکہ لوگ ان سے دور نہ بھاگ جائیں اور انہیں علیحدہ نہ

Page 396

خطبات محمود سال ۲ ڈال دیا جائے اس طرح روحانی بیماریوں کو لوگ چھپاتے ہیں اس خیال سے کہ لوگ ان سے نفرت نہ کریں کیونکہ روحانی بیماریوں کو حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے حالانکہ چاہئے یہ تھا کہ ان کو بھی رحم کی نظر سے دیکھا جاتا جس طرح جسمانی بیمار کو رحم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے.معلوم نہیں یہ خیال کب سے شروع ہوا لیکن جب سے روحانی بیماروں کو حقیر و ذلیل قرار دیا گیا اسی وقت سے روحانی بیماران بیماریوں کو چھپانے پر مجبور ہوئے اور اس طرح ان بیماریوں کو ترقی) ہوتی گئی.یہ حقارت لوگوں میں صرف عملا ہی نہیں پائی جاتی بلکہ بعض مذاہب نے تو اس کو مذہب کا جزو قرار دیدیا ہے اور ایسے لوگوں کو ذلیل و حقیر قرار دیا ہے جیسے بعض مذاہب کہتے ہیں کہ گناہ کا ارتکاب جب ایک دفعہ ہو جائے تو پھر وہ معاف نہیں ہو سکتا اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو کوئی روحانی مرض لاحق ہو گیا وہ کبھی صحت یاب نہیں ہو سکتا.اور اسے روحانی صحت کی طرف سے بالکل مایوس کر دیا گیا اور جو مریض مایوس ہو جائے وہ صحت یاب نہیں ہو سکتا اس کے مقابلہ میں جیسے کوئی ڈاکٹر کسی مریض سے کے کہ تیر ا علاج ہو سکتا ہے تو وہ چونکہ مایوس نہیں ہوتا اس لئے بسا اوقات شفایاب ہو جاتا ہے.پھر بعض مذاہب ایسے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ گناہ خواہ قابل عفو ہی کیوں نہ ہو جب تک اس کی سزا نہ بھگت لی جائے اس سے بریت نہیں ہو سکتی مگریہ بریت نہیں ہوتی کیونکہ جرم کی سزا تو بھگت لی.بریت اس وقت ہو سکتی ہے کہ جب یہ کہنا کہ وہ چیز جو گناہ کی وجہ سے پیدا ہوئی اس کے اندر سے نکل گئی ہے لیکن سزا کے بھگتنے سے مراد تو یہ ہوتی ہے کہ وہ علت اس کے اندر تو ہے لیکن اس کے نتیجہ کو زائل کر دیا گیا ہے حالانکہ یہ زیادہ خطرناک ہے کیونکہ جب مادہ فاسد اندر ہے تو وہ پھوٹے گا اور ہر دفعہ اس کو اس کی سزا بھگتنی پڑیگی.ان کے مقابلہ میں اسلام یہ کہتا ہے کہ گناہ بھی مرض کی طرح ہے اور انسان اس سے شفا پا سکتا ہے اور تندرست ہو سکتا ہے چنانچہ رسول کریم فرماتے ہیں.التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَنْ لَا ذنب لها کہ گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہو جاتا ہے جس نے کوئی گناہ نہیں کیا ہوتا.گویا دونوں برابر ہو جاتے ہیں بالفاظ دیگر اس شخص کے اندر سے گناہ کے تمام اثرات دور ہو جاتے ہیں اس کی تفصیل یہ ہے کہ جیسے حضرت نبی کریم نے فرمایا.کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی شخص کا دل سارے کا سارا سیاہ ہو جاتا ہے ۲.لیکن اس میں کسی جگہ کچھ سفیدی باقی ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں آہستہ آہستہ اس کا سارا دل سفید ہو جاتا ہے اسی طرح ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی شخص کا دل نورانی ہو تا ہے مگر اس میں ایک ذرہ صلی فروم صلی والی روم

Page 397

خطبات محمود ۳۹۲ سال ۱۹۳۲ء - سیاہی کا ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں آخر کار اس کا سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے غرض گناہ سے بریت اسی طرح ہو سکتی ہے کہ اس کا ذرہ سا بھی اثر اس شخص کے اندر باقی نہ رہے ورنہ وہ کبھی اس کے سارے دل کو سیاہ کر دیگا پھر یہ بھی معلوم ہوا کہ نیک گمراہ ہو سکتا ہے اور گمراہ نیک ہو سکتا ہے اس حالت میں ضروری ہے کہ ایک طرف تو خوف انتہائی درجہ کا ہو اور دوسری طرف امید بھی انتہاء تک ہو کہ اگر انسان گڑھے میں گر پڑا ہو تو وہ سمجھے کہ بلندی کی آخری چوٹی تک پہنچ سکتا ہے یہ دونوں احساس ایک ہی وقت میں ہونے چاہئیں اور یہی دونوں ملکر انسان کو نیک بناتے اور نیکی پر قائم رکھتے ہیں یہی بات سورۃ فاتحہ میں بتائی گئی ہے.فرمایا اهْدِنَا الصِّرَا مَا الْمُسْتَقِيمَ کے یہ امید رکھو کہ تم وہ تمام مدارج رو حانیہ حاصل کر سکتے ہو جو تم سے پہلوں نے حاصل کئے.مگر ساتھ ہی غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ) بھی کہو.کیونکہ جس طرح یہ ممکن ہے کہ ادنی درجہ سے انتہائی مقام تک پہنچ جاؤ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ نیچے گر کر رستہ بھول جاؤ اور خدا کے غضب کے نیچے آجاؤ.پس نیکی کی حالت میں مطمئن اور بدی کے وقت مایوس نہیں ہونا چاہئے.یہ دونوں حالتیں انسان کو تباہ و برباد کر دیتی ہیں.یعنی یہ کہ انسان اپنے آپ کو محفوظ اور مامون قرار دے لے.جیسے جوانی میں کئی لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہم بیمار نہیں ہو سکتے اور کئی قسم کی بد پر ہیزیاں کر لیتے ہیں جو بڑھاپے میں ان کے لئے مصیبت کا باعث بن جاتی ہیں یا جوانی میں ہی ان کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے.یہ حالت بھی خطرناک ہوتی ہے.اور یا پھر جب بیمار یہ سمجھے کہ میں صحت حاصل نہیں کر سکتا یہ بھی نقصان دہ اور انسان کو تباہ کر دینے کا موجب ہوتی ہے.صحیح طریق یہ ہے که اول تو انسان صحت کے ایام میں محتاط رہے.اور اس بات کی کوشش کرے کہ میں بیمار نہ ہو جاؤں یعنی حفظان صحت کے اصول کی پابندی کرے.اور دوسرے یہ کہ جب بیمار ہو تو یہ امید رکھے کہ صحبت پاسکتا ہوں اور سرگرمی کے ساتھ علاج کرائے.جب یہ دونوں باتیں ہوں تو صحت حاصل ہوگی.یہی طریق روحانی صحت کے متعلق اسلام بتا تا ہے اور یہی صحیح مقام ہے جو انسان کو صحیح رستے پر قائم رکھتا ہے.انگلستان میں بیماروں کا علاج سرکاری ڈاکٹر نہیں کرتے بلکہ پرائیویٹ پریکٹس کرنے والے یا اپنی خدمات کو عوام کی خدمت کے لئے وقف کرنے والے ڈاکٹر کرتے ہیں.سرکاری ڈاکٹروں کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ حفظان صحت کے اصول کی تحقیقات کر کے اور لوگوں سے ان پر عمل کراتے ہیں تا بیماری پیدا ہی نہ ہو لیکن ہندوستان میں سرکاری ڈاکٹر بیماروں کا علاج کرتے ہیں مگر یہ دونوں

Page 398

خطبات محمود سال ۱۹۳۲ء باتیں ضروری ہیں کہ اول بیماری سے پہلے اس کی احتیاط کی جائے اور دو سرے بیماری کے آنے پر اس کے دفعیہ کے اسباب استعمال کئے جائیں.پس اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں یہ بتلایا کہ انسان کے میں بیماری میں مبتلاء ہوں.مجھے اس سے نجات دی جائے اور غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ ولا الضالین میں یہ سکھایا کہ انسان کے کہ جب میں صحت یاب ہو جاؤں تو تو ایسے سامان پیدا کر کہ پھر صحت خراب نہ ہو.اس تعلیم سے اسلام نے روحانی بیماروں سے نفرت کرنے کے طریق کو دور کر دیا ہے کیونکہ جو بیمار تندرست ہو سکتے ہیں ان سے نفرت نہیں کی جاتی اور جن بیماریوں کا علاج ہو سکتا ہے ان کے مریضوں سے علیحدگی نہیں اختیار کی جاتی.پس فرمایا کہ ہر وقت ہوشیار رہو.اگر گری ہوئی حالت میں ہو تو مایوس نہ ہو.اور اگر خدا صحت دے تو کبر نہ کرو - مؤمن کو ان دونوں مقامات کے درمیان رہنا چاہئے کامیابی پر مغرور نہ ہو اور تکلیف پر مایوس نہ ہو کیونکہ دونوں کے لئے سامان ہیں.اور جب خداتعالی انسان کو ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق دے اسی وقت کامیابی پر الحمد للہ کہنے کا مستحق ہو جاتا ہے.ہر شخص جو صحیح رستے پر نہیں ہے اس میں دونوں باتوں میں سے ایک نہ ایک بات ضرور ہوگی.مایوسی ترقی کو بند کرتی ہے اور ضرور نیچے گرا دیتا ہے.ہماری جماعت کو ان دونوں نقصوں سے بچنا چاہئے.جبکہ خیرو شر دونوں کے دروازے کھلے ہیں تو مومن کا فرض ہے کہ وہ شر سے بچے اور خیر کو اختیار کرے.دین میں بھی اور دنیا میں بھی.ا ابن ماجه کتاب الزهد باب ذكر التوبة (الفضل ۱۳ مارچ ۱۹۳۲ء) الفاتحة : الفاتحة:

Page 399

خطبات محمود موسم (47 تمام مخلوق ایک دو سرے سے وابستہ ہے (فرموده ۱۸- مارچ ۱۹۳۲ء) سال ۱۹۳۲ء تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس قدر طاقتیں دے کر بھیجا ہے کہ ان کا شکریہ ادا کر نا تو بڑی بات ہے.اب تک انسان ان کا اندازہ بھی نہیں لگا سکا.حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات جس رنگ میں اور جہاں بھی دنیا میں ظاہر ہوں وہ در حقیقت دنیا کے ہر شخص کے ساتھ تعلق رکھتی اور اس کے فائدہ کا موجب ہوتی ہیں.ہزاروں لاکھوں میل پر ایک چھوٹی سی لکھی یا چیونٹی یا کیڑا خواہ وہ ہوائی ہی کیوں نہ ہو اگر اللہ تعالیٰ کی ربوبیت سے فائدہ اٹھاتا ہے تو ساتھ ہی اس کا فائدہ ایک دوسرے انسان کو جو ہزاروں میل پر اور بظاہر اس سے بالکل بے تعلق ہوتا ہے ، ضرور پہنچ جاتا ہے.اگر ایسا نہ ہو تا تو ہمیں کبھی بھی الحمد للہ کہنا نہ سکھایا جاتا.امریکہ کی ایک چیونٹی پر خدا تعالیٰ کی جو روبیت کی صفت ظاہر ہوتی ہے اس کا اگر میرے ساتھ کوئی واسطہ نہیں تو کیا وجہ ہے کہ میں قادیان میں بیٹھا ہوا الحمد لله رب العلمین کے کہتا ہوں.اس صورت میں تو میرے لئے اتنا کہنا کافی تھا کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَتِي يَا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ أَبَانِى الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ ذُرِّيَّاتِي الْحَمْدُ اللهِ رَبِّ احبانِی یا اسی طرح اور دوستوں ہمسایوں اور تعلق رکھنے والے طبقہ کو شامل کرلوں.مگر خدا تعالی کا یہ سکھانا کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ کہو ہر انسان کو بتا تا ہے کہ دنیا کے کسی گوشہ میں بھی اگر کسی پر ہماری ربوبیت کی صفت ظاہر ہوتی ہے تو یہ تجھ پر احسان ہے جس کے لئے خدا کی حمد تجھ پر واجب ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی کوئی چیز دوسری چیزوں سے بے تعلق اور باقی چیزوں سے علیحدہ نہیں ہو سکتی بلکہ تمام مخلوقات خواہ وہ اس دنیا میں ہے یا اس سے باہر ذی روح

Page 400

خطبات محمود ۳۹۵ سال ۲ ہے یا غیر ذی روح جس پر خدا تعالیٰ کی صفت ربوبیت نازل ہوتی ہے اور ماسواء اللہ کوئی چیز ایسی نہیں جو اس سے مستغنی ہو اور اس کے بغیر زندہ اور قائم رہ سکے وہ در حقیقت باقی تمام مخلوق کے لئے بہتری اور ترقی کے سامان اپنے اندر رکھتی ہے.یہ بظاہر ایک معمولی بات نظر آتی ہے.اور ظاہری نظر سے دیکھنے والا انسان اول تو اسکی صداقت میں بھی شبہ کرتا ہے لیکن اگر صحیح بھی سمجھ لے تو خیال کرتا ہے کہ میرا کام اس حد تک ختم ہو جاتا ہے کہ کہہ دوں اَلْحَمْدُ لِلَّهِ لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ ایک بہت بڑی سچائی ہے جس کے جاننے سے انسان کی ترقی وابستہ ہے.اللہ تعالیٰ کو اس سے کیا غرض کہ ہم سے اپنی حمد کرائے.اگر ایک حقیر بندہ یہ کہہ بھی دے کہ اللہ تعالیٰ سب تعریفوں کا مالک ہے تو اس سے اس کی کیا شان بڑھ جاتی ہے.یقینا اس میں بھی ہمارا ہی فائدہ ہے کہ قرآن کریم کی ابتداء الْحَمْدُ لِلہ سے کی گئی.وہ فائدہ کیا ہے ایک تو یہ کہ دنیا میں جتنی تباہیاں آتی ہیں ان میں سے ستانوے فیصدی بلکہ باقی ایک کا بھی بیشتر حصہ اس میں شامل ہے.وہ ساری مخفی اسباب سے تعلق رکھتی ہیں.اور ایک نہایت ہی قلیل کر جو باقی ایک کا اربواں حصہ بھی نہیں ایسا ہے جو ظاہری اسباب سے تعلق رکھتا ہے لیکن انسانی علم چونکہ محدود ہے، اس لئے وہ عام طور پر ظاہری اسباب پر ہی نظر رکھتا ہے اور باطنی کو بھلا دیتا ہے.اور اگر معلوم بھی کرلے تو اسے مشرکانہ رنگ میں اختیار کرلیتا ہے.ستاروں کی روشنی اور گردش کے اثر جب انسان پر پڑتے ہیں تو انہیں خدائی رنگ دے لیتا ہے.ان چیزوں کے متعلق اسے نامکمل سا علم حاصل ہے لیکن اس پر بھی وہ انہیں خدا تعالیٰ کا قائم مقام بنا دیتا ہے.حتی کہ رسول کریم میں نے فرمایا ہے جو شخص یہ کہتا ہے کہ ستاروں کی گردش سے بارش ہوتی ہے وہ کافر ہے ہے.وہ یہ خیال کرتا ہے کہ ستاروں میں بارش اتارنے کی طاقت ہے لیکن یہ نہیں جاتا کہ انہیں گردش دینے والی اور ہستی ہے.گو یا اول تو وہ مخفی اسباب کی طرف توجہ ہی نہیں کرتا اور اگر کرے بھی تو غلط رستہ پر پڑ جاتا ہے.اور بجائے اسکے کہ ان پر قابو پانے کی کوشش کرے ، انہیں اپنا آقا قرار دے کر توحید میں نقص لے آتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ مخفی اثرات کا دنیا کے نتائج میں حصہ بہت زیادہ ہے.دنیا کا کوئی فعل اور حرکت ایسی نہیں جو بے فائدہ ہو اور کوئی چیز ایسی نہیں جو دنیا کی عمارت سے وابستہ نہ ہو.بظاہر مشرقی کو نہ کی اینٹ کا مغربی کو نہ کی اینٹ سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا لیکن اگر اسے نکال لو تو آہستہ آہستہ ساری عمارت گر جائے گی.ایک عظیم الشان عمارت میں کسی جگہ رخنہ ڈال دو اور پھر اسے بند نہ کرو تو وہ بڑھتے بڑھتے ساری عمارت کو خراب کر دے گا.اور جس طرح گوشہ سے نکلی ہوئی ایک

Page 401

خطبات محمود سال ۶۱۹۳۲ اینٹ ساری عمارت کو خراب کر دیتی ہے اسی طرح کوئی مخلوق خواہ وہ کتنی چھوٹی اور غیر اہم کیوں نہ ہو اس کی خرابی ساری دنیا کو خرابی کی طرف لے جاتی ہے.اور اگر ہم یہ سمجھ لیں کہ دنیا کی ساری مخلوق ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہے تو ہم کسی کے ساتھ کسی قسم کی برائی نہیں کر سکتے.جو انسان یہ سمجھتا ہے کہ امریکہ میں رہنے والی ایک مکھی کا بھی فائدہ اسے پہنچے گا تو کیا وہ حسد کر سکتا ہے کہ اس کے ہمسایہ کو فائدہ کیوں پہنچ گیا.ایسا کرنا تو گویا اپنے آپ سے حسد کرنے کے مترادف ہے.کیا کوئی شخص اس بات پر حسد کر سکتا ہے کہ میرا معدہ مقوی غذا ئیں کیوں ہضم کر لیتا ہے.یا میرے دماغ میں اچھے خیالات کیوں آتے ہیں.ہر گز نہیں.وہ سمجھتا ہے کہ ان میں نقص پیدا ہو گیا تو مجھے نقصان پہنچے گا.تصوف والے تیرہ سو سال میں جس بات کو مکمل طور پر معلوم نہیں کر سکے وہ الْحَمْدُ لِلہ کے ایک نکتہ میں ہے.تصوف والوں کا یہی کام تھا کہ وہ دنیا کو بتانا چاہتے تھے کہ دنیا کی ہر چیز میں باہم اتحاد ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.وہ عالم صغیر اور عالم کبیر کی بحثوں میں اسی وجہ سے پڑے ہوئے تھے کہ دراصل وہ بتانا چاہتے تھے.ہر انسان ایک عالم صغیر ہے اور عالم کبیر میں کوئی تغیر ہو یہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور وہ دنیا کے کسی تغیر سے مستثنیٰ نہیں.حتی کہ وہ اپنے اشد سے اشتد دشمن کی تباہی یا اس کے فائدہ سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.اگر یہ نکتہ صحیح ہے اور یقینا صحیح ہے تو اپنے دشمن کے نقصان پر بھی ہمیں ایک رنگ میں افسوس اور اس کے فائدہ پر ایک رنگ میں خوشی ہونی چاہئے.کیونکہ اگر یہ نہ ہو تو ہم الْحَمْدُ لِلہ نہیں کہ سکتے.جس کے یہ معنی ہیں کہ وہ سارے جہانوں کا رب ہے اور ساری دنیا پر احسان کرتا ہے جس کے لئے ہم اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں.لیکن جب اسی دنیا کے بعض اجزاء فردا فرد اہمارے سامنے آتے ہیں.اس وقت اگر ہم کہیں خدا نے فلاں پر احسان کر دیا یہ بڑا ظلم ہوا.تب تو یوں کہنا چاہئے کہ الْحَمْدُ لِلهِ وَانَا سَفُ عَلَى اللهِ یعنی میں اس کی حمد بھی کرتا ہوں لیکن اسکے لئے افسوس کئے بغیر بھی نہیں رہ سکتا کہ اس نے میرے فلاں دشمن پر احسان کر دیا.لیکن ہم ایسا نہیں کہتے بلکہ الحمد الله رب العلمین ہی کہتے ہیں.جس کے معنی سوائے اس کے کچھ نہیں کہ دنیا میں خدا تعالیٰ نے جس کسی پر بھی احسان کیا ہم اقرار کرتے ہیں کہ وہ احسان در اصل ہمارے اوپر ہی ہے.اس نکتہ کو مد نظر رکھتے ہوئے دیکھو کیا کوئی شخص کسی سے اندھا دھند مخالفت کر سکتا ہے اور کسی کا دشمن ہو سکتا ہے.اسی نکتہ کو اگر دنیا سمجھتی تو کبھی کسی نبی کا انکار نہ کرتی اور بھی بہت سے فوائد ہیں لیکن چونکہ میرے گلے میں اتنی تکلیف ہے کہ گھر سے آتے وقت میں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ معذرت

Page 402

خطبات محمود ۳۹۷ سال ۱۹۳۲ء کر کے خطبہ ختم کر دوں گا اس لئے میں اس وقت زیادہ بیان نہیں کر سکتا.یہ استاد سیع مضمون ہے کہ اس پر کئی خطبات پڑھے جاسکتے ہیں.اور اگر دوست اس ایک نکتہ پر غور کریں تو وہ روحانیت کا اعلیٰ مقام جس پر اہل تصوف پہنچانا چاہتے ہیں اس پر پہنچ سکتے ہیں.الفضل ۲۴ مارچ ۱۹۳۲ء).الفاتحة ٢

Page 403

خطبات محمود ٣٩٨ 48 سال ۱۹۳۲ء خدا کا فضل اپنے ساتھ تکلیف بھی رکھتا ہے (فرموده ۲۵ مارچ ۱۹۳۲ء) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.چونکہ مجلس شوری کی وجہ سے نماز جمع ہوگی اور اس وقت بارش بھی ہو رہی ہے جسکی وجہ سے خطبہ کو اور بھی مختصر کرنے کی ضرورت ہے اس لئے میں اس وقت ایک چھوٹے سے خیال کے متعلق جو ابھی مجھے اس مجلس کی حالت اور بارش کے نظارے کو دیکھ کر دل میں پیدا ہوا ہے نهایت مختصر سا مضمون بیان کرنا چاہتا ہوں.بارش اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے ایک بہت بڑا فضل ہے.اور ہم دیکھتے ہیں کہ اگر ایک عرصہ تک بارش نہ ہو تو باوجود نہروں کے ملک میں قحط کے آثار نظر آنے لگتے ہیں.کیونکہ بارش نہ ہونے کی وجہ سے دریاؤں کے پانی خشک ہو جاتے ہیں اور نہریں چونکہ دریاؤں پر ہی انحصار رکھتی ہیں اس لئے دریاؤں کا پانی خشک ہوتے ہی نہریں بھی خشک ہو جاتی ہیں اور دریا خود بارش پر انحصار رکھتے ہیں کیونکہ ان کا پانی بھی پہاڑوں کی چوٹیوں سے جہاں برف بھی ہوتی ہے آتا ہے.اور برف پہاڑی بارش کا ہی نام ہے.پس در حقیقت تمام دنیا کا انحصار اس بارش پر ہے.نہ صرف ظاہری کھیتوں اور پھلوں کا بلکہ حیات انسان کا مدار بھی پانی پر ہی ہے.چنانچہ اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے.وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَي " ہم نے ہر چیز کو پانی کے ذریعہ زندگی بخشی ہے.لیکن باوجود اتنے فضل والی چیز کے جس وقت بارش نازل ہوتی ہے کس طرح لوگ سمٹ سمٹ کر چھوٹی سے چھوٹی جگہوں میں جمع ہو جاتے ہیں.وہ خدا کی وسیع زمین جو اس لئے اس نے بنائی ہے تاکہ انسان اس میں پھرے اور اپنی دماغی اور جسمانی اور روحانی صحت حاصل کرے ، وہ تمام زمین

Page 404

خطبات محمود ۳۹۹ سال ۱۹۳۲ء اس وقت تنگ ہو جاتی ہے.اور لوگ انسانوں کی بنائی ہوئی چیزوں کے نیچے پناہ لینا شروع کر دیتے ہیں.ہمیں اس سے ایک سبق ملتا ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے فضل جب بھی نازل ہوں وہ اپنے ساتھ کچھ تکالیف کے پہلو بھی رکھا کرتے ہیں.اور جتنا جتنا اس کا فضل وسیع ہو اتنا ہی ان تکالیف کا دائرہ بھی وسیع ہوتا چلا جاتا ہے.بارش اگر سو میل کے اندر اندر ہو رہی ہوگی تو سو میل کے اندر جس قدر لوگ ہوں گے ، انہیں کچھ نہ کچھ تکلیف پہنچے گی اور اس کی وجہ سے ان کے کاموں میں کچھ نہ کچھ ابتری پیدا ہو جائے گی.لیکن یہی بارش اگر ہزار میل کے اندر ہو تو ہزار میل کے اندر کے لوگ اس سے متاثر ہوں گے.پس جب بھی دنیا میں اللہ تعالٰی کے فضل نازل ہوتے ہیں ان کے ساتھ دو قسم کی ہی تکالیف نازل ہوا کرتی ہیں.ایک قسم کی تکلیف منکروں کے لئے ہوتی ہے اور ایک قسم کی تکلیف ماننے والوں کے لئے چنانچہ اس بارش کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ نے دو قسم کی تکالیف کا ذکر فرمایا ہے اور پہلے ہی پارہ میں اُو كَصَيِّبِ مِنَ السَّمَاءِ فِيْهِ ظُلُعَتٌ وَرَعْدُ وَ بَرْقُ : کی مثال دے کر بتایا ہے کہ جب بارش آتی ہے تو اس کے ساتھ ہی بجلی اور کڑک بھی ہوتی ہے جو شخص بزدل ہوتا ہے بہت دفعہ بجلی کے کڑکنے سے اسے نقصان پہنچنے کا احتمال ہوتا ہے.اور بعض دفعہ بجلی گر کر مالی یا جانی نقصان بھی پہنچا دیتی ہے.اور جو بزدل نہیں ہو تا وہ اپنے گھر میں بیٹھ جاتا ہے یا جو زمیندار ہوتے ہیں انہیں کھیتوں میں جانا پڑتا ہے.غرض اللہ تعالی کی طرف سے جس قدر فضل نازل ہوتے ہیں وہ اپنے ساتھ کچھ مصائب کے پہلو بھی رکھا کرتے ہیں تاکہ جو کمزور لوگ ہوں وہ اس الہی فضل میں حصہ نہ لے سکیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس لئے فرمایا ہے کہ جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ میرا راستہ آسانی سے عبور ہو سکے گا وہ عبث دوستی کا دم بھرتے ہیں.انہیں کیا معلوم کہ میرے سامنے کون کون سے پر خطر بادیہ در پیش ہیں.میرے ساتھ وہی شخص چل سکتا ہے جو یہ خیال نہ کرے کہ اسے پھولوں کی پیج پر سے گزرنا پڑے گا بلکہ وہ یقین رکھے کہ اسے کانٹوں اور دشوار گزار گھاٹیوں کو عبور کرنا ہو گا.سے پس وہی شخص اللہ تعالٰی کے انعامات سے حصہ لے سکتا ہے جو ہر قسم کی تکالیف کو برداشت کرنے اور ہر قسم کی قربانیاں کرنے کے لئے تیار رہے.جب بارش بھی جو اللہ تعالیٰ کے اور عظیم الشان انعامات کے مقابلہ میں کوئی زیادہ حیثیت نہیں رکھتی ، اپنے ساتھ تکلیفوں کا پہلو ر کھتی ہے اور یہ بھی تھوڑی دیر کے لئے ہمارے کاموں کے دائرہ کو محدود کر دیتی ہے تو اس سے زیادہ فضل اپنے ساتھ کس قدر تکالیف نہ رکھیں گے.پس ہماری جماعت کے دوستوں کو ہمیشہ یہ امرید نظر

Page 405

سال ۱۹۳۲ء رکھنا چاہئے کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بننا چاہتے ہیں تو وہ ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے آمادہ اور تیار رہیں.ایک تھوڑی سی بارش جسے دنیا میں لاکھوں افراد کو زندگی عطا کرنی ہوتی ہے اپنے ساتھ تکلیف رکھتی ہے تو وہ فضل جس نے کروڑوں افراد کو اللہ تعالیٰ کے پیاروں میں شامل کرتا ہے اور وہ جنگ جس نے صدیوں تک بے شمار لوگوں کو اللہ تعالی کی حکومت میں داخل کرنا ہے، اپنے ساتھ کتنی تکالیف اور کس قدر خونریزی نہ رکھے گی.یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ خونریزی اپنی طرف سے ہو یا دشمنوں کی طرف سے یا اللہ تعالی کی طرف سے بطور ابتلاء کے ہو.کیونکہ کبھی آسمانی ہاتھوں سے تکالیف پہنچتی ہیں اور کبھی بندوں کے ہاتھ سے.جب اللہ تعالٰی ایسے احکام دیتا ہے جنہیں مخلص لوگ مانتے ہیں تو اس سے انہیں تکلیفیں پہنچتی ہیں اور کبھی دشمنوں کو ان پر مسلط کر دیا جاتا ہے.لیکن بہر حال جب یہ یقین ہو کہ یہ تکلیفیں ایک عظیم الشان فضل کا پیش خیمہ ہیں تو کوئی عقلمند آدمی ان تکالیف پر کڑھتا نہیں.کبھی تم نے دیکھا کہ کوئی شخص اس بات پر ناراض ہو کہ بارش تو ہوئی مگر مجھے اپنے گھر میں بیٹھنا پڑ گیا یا میرے کپڑے بھیگ گئے.کیونکہ وہ جانتا ہے بارش اللہ تعالی کا فضل ہے اور اس فضل کے ساتھ تکلیف کے پہلو بھی لگے ہوئے ہیں.جب انسان معمولی بارش سے یہ سبق حاصل کرتا ہے تو غور کرو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو اللہ تعالی کی طرف سے دنیا کی آخری بارشوں میں سے ایک بارش ہیں اور جو بارش اس لئے برسائی گئی ہے تاکہ ایمان کی کھیتی کو ترقی ہو اور کفر کا بیج نابود ہو جائے ، وہ اپنے ساتھ کس قدر صعوبتیں نہ رکھے گی اور اس کے لئے کتنی بڑی قربانیوں کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی.پس اپنے آپ کو قربانیوں کے لئے تیار کرو اور ان تکالیف کو زحمت کی بجائے اللہ تعالیٰ کی رحمت یقین کرو اور خوش ہو کہ بلوجود اس کے کہ تمہیں تکلیفیں پہنچ رہی ہیں پھر بھی اللہ تعالیٰ نے تمہیں عظیم الشان نعمت دی.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ ایسا مبارک ہے کہ اس کے دیکھنے کے لئے پہلے انبیاء بھی اپنے دلوں میں حسرتیں لے گئے.کیونکہ یہ محمدی نور کی بعثت ثانیہ کا زمانہ ہے اور محمدی نور کو پہلے تمام نوروں پر فضیلت تامہ حاصل ہے.محمدی انوار کا جو پہلا بعث تھا اس میں اللہ تعالٰی نے ہدایت کو تکمیل تک پہنچایا اور یہ وہ زمانہ ہے جس میں مقدر ہے کہ ہدایت کی اشاعت تکمیل تک پہنچے.پس ایسی عظیم الشان برکات والے زمانہ میں اگر تمہیں کچھ تھوڑی بہت تکالیف پہنچی ہیں تو یہ حقیقت ہی کیا رکھتی ہیں.میں ان تکالیف کو تھوڑی بہت اس.لئے کہتا ہوں کہ پہلے زمانہ میں لوگوں نے ان سے بہت زیادہ قربانیاں کی ہیں.

Page 406

خطبات محمود سال ۱۹۳۲ء پہلے زمانہ میں ہزاروں آدمیوں کو بے دریغ قتل کر دیا جاتا تھا لیکن آج اگر کسی کو معمولی تکلیف بھی پہنچائی جائے تو ساری دنیا میں شور پڑ جاتا ہے.افغانستان میں ہی ہمارے چند آدمی شہید کئے گئے.آج تک ہماری جماعت اس پر فخر کرتی ہے.حالانکہ پہلے زمانہ میں اس طرح بہت سے لوگ شہید کئے گئے.پس کبھی بھی اپنی قربانیوں کو بڑھا کر بیان نہ کرو بلکہ دل میں یہ خواہش پیدا کرد کہ تم جس قدر قربانی کر چکے وہ کم ہے اور آئندہ اس سے زیادہ قربانیاں کرنے کے لئے تیار رہو.مگر اس کے ساتھ ہی اللہ تعالٰی سے دعا بھی کرنی چاہئے تادہ اس عظیم الشان انعام کے مقابلہ میں ہمارے دلوں میں تبدیلی بھی پیدا کر دے اور ہر روز جو ہم پر چڑھے ہماری قربانیوں میں اضافہ ہی الفضل ۳ مارچ ۱۹۳۲ء) ہو تا چلا جائے.الانبياء:٣١ البقرة:٢٠

Page 407

خطبات محمود 49 سال ۱۹۳۲ء مؤمن کی نگاہ ہر طرف ہونی چاہئے ( فرمودہ یکم اپریل ۱۹۳۲ء) تشهد و تعوذ اور سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- میں نے سال کے شروع میں دوستوں کو نصیحت کی تھی کہ آپس کے تنازعات مٹاکر آپس میں صلح اور محبت و الفت کی بنیاد قائم کریں.اور جن دوستوں نے کسی کا کوئی قصور کیا ہو یا نہ بھی کیا ہو اور دو سراغلط فہمی کی وجہ سے ناراض ہو گیا ہو تو اس سے معافی مانگ لیں.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہماری جماعت کے دوستوں کو اس نصیحت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور میں دیکھتا ہوں ہزار ہا دوستوں نے ان ایام میں آپس میں صلح کی اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن گئے.جس طرح ایک دفتر کا آدمی یا ایک تاجر کم سے کم سال کے بعد اپنے حسابات صاف کرتا ہے اسی طرح اگر ہماری جماعت کے دوست بھی آپس کے حسابات صاف کر دیا کریں تو بہت سے نقائص اور عیوب دوز ہو سکتے ہیں.ہم ہر سال بلکہ ہر ماہ اپنے قرض خواہوں کے قرض اتارنے کی فکر کرتے ہیں.اور جس شخص میں شرافت کا احساس ہوتا ہے وہ کوشش کرتا ہے کہ لوگوں کے اس پر جو حقوق ہیں ، انہیں ادا کر دے.مگر تعجب ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرض ادا کرنے کا کوئی دن مقرر نہیں کیا جاتا.حالانکہ اگر سالانہ حساب بھی کیا جائے تو کئی ایسے قرضے ہو سکتے ہیں جنہیں ادا کرنے کی توفیق انسان کو مل سکتی ہے.مثلا یہی ایک قرض ہے کہ لوگ آپس میں محبت سے رہیں.اسے اتارنے کی توفیق پانا کوئی مشکل امر نہیں.بسا اوقات عارضی جوش میں دو دوست لڑ پڑتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب ہم میں صلح نہیں ہو سکتی.مگر کچھ عرصہ کے بعد وہ کیفیت دور ہو جاتی ہے ".

Page 408

خطبات محمود سال ۱۹۳۲ء اور اگر چہ پھر بھی وہ شرم کی وجہ سے صلح نہیں کرتے لیکن خواہش ضرور رکھتے ہیں کہ کاش کوئی درمیان میں پڑ کر صلح کرا دے.بظاہر وہ لڑے ہوئے ہوتے ہیں لیکن دل محبت کے جذبات سے لبریز ہوتے ہیں.اور انہیں دنیا پر شکوہ ہوتا ہے کہ کیوں کوئی ہماری صلح نہیں کرا دیتا.پس اس قرض کی ادائیگی کوئی مشکل امر نہیں.بہت کم لوگ ہوں گے جن کے دلوں میں بغض اور کینہ اس حد تک بھرا ہوا ہو کہ وہ خدا تعالیٰ کی خشیت کو ترک کر کے اس کے ذکر پر بھی صلح پر آمادہ نہ ہوں.لیکن چونکہ اس قرض کی ادائیگی کی طرف توجہ نہیں کی جاتی یہ جمع ہو تا رہتا ہے حتی کہ دل پر زنگ لگ جاتا ہے اور انسان اللہ تعالیٰ کے فضل سے محروم ہو جاتا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ کے بندوں کے اور بھی بہت سے قرضے ہیں جو آسانی سے ادا کئے جاسکتے ہیں، مگر افسوس کہ اس طرف توجہ نہیں کی جاتی.اسی سلسلہ میں دوستوں کو میں توجہ دلاتا ہوں کہ مؤمن چوکس ہوتا ہے.اس کی نگاہ ایک ہی طرف نہیں بلکہ چاروں طرف ہوتی ہے.مومن کو حکم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات حاصل کرے اور اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات اسی رنگ میں انسان کے اندر پیدا نہیں ہو سکتیں جس طرح خدا تعالیٰ کی ہیں.لیکن تمام بزرگان دین اس بات پر متفق ہیں کہ اصل اسلام تَخَلَقُوا بِاخْلَاقِ اللهِ ہے یعنی اللہ تعالی کی صفات اپنے اندر پیدا کرنا اور پھر اس پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْ خدا تعالیٰ کی مانند کوئی چیز نہیں.پس ایک طرف تو یہ حکم ہے کہ اللہ تعالی کے اخلاق پیدا کرو اور دوسری طرف یہ ارشاد ہے کہ خدا جیسی کوئی چیز ہو ہی نہیں سکتی.اور ان دونوں باتوں میں سے ایک بھی غلط نہیں کیونکہ ایک تو یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور دوسرے میں خدا تعالیٰ کے کلام سے مشابہ باتیں ہیں.اور اس صداقت کو رسول کریم میں ہم نے قبول فرمایا ہے.جب دونوں باتیں صحیح ہیں تو مانا پڑے گا کہ کوئی درمیانی راہ موجود ہے جس میں انسان خدا تعالیٰ کی مانند ہو بھی جاتے ہیں اور پھر نہیں بھی ہوتے.اللہ تعالیٰ سب کچھ دیکھتا ہے.دائیں بائیں آگے پیچھے اوپر نیچے.ماضی، حال، مستقبل سب پر اس کی نظر ہے.لیکن ہم نہ تو بغیر آنکھوں کے دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہماری آنکھیں سب طرف دیکھ سکتی ہیں.ہاں ایک اور قسم کی آنکھیں ہیں جن سے ہم بھی ہر طرف دیکھ سکتے ہیں.اور وہ عقل کی آنکھیں ہیں.ظاہری آنکھوں سے تو ہم تُخَلَّفُوا بِاَخلاقِ اللہ پر عمل نہیں کر سکتے مگر باطنی سے کر سکتے ہیں اور چاروں طرف دیکھ سکتے ہیں.پھر جب ہم کوئی کام خواہ وہ اچھا ہو یا برا اختیار کر سکتے ہیں.اور پھر اسی میں منہمک ہو جاتے ہیں.تو گویا خدا جیسا ہونے سے خود انکار کرتے ہیں.کیونکہ

Page 409

خطبات محمود سال ۳۲ خدا تعالی کی طرح ہماری نظر سب طرف نہیں ہوتی لیکن جب کوئی اچھا کام کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی دوسری طرف سے بھی غافل نہیں ہوتے.یہ نہیں کہ روزہ رکھا تو ذکر الہی چھوڑ دیا یا ز کو ۃ ادا کی تو حج نہ کیا.یا اگر حج کو گئے تو زکوۃ ادا نہ کی بلکہ دین کے مکان کی چاروں دیواریں بناتے ہیں تو اس وقت ہم تَخَلَّفُوا بِاخْلَاقِ اللهِ پر عمل کرتے ہوئے چاروں طرف دیکھنے والے ہوتے ہیں.پس میں جماعت کو جب ایک کام کی نصیحت کرتا ہوں تو اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ دو سرے کام چھوڑ دیئے جائیں.اس سال ہماری جماعت سے ایک غلطی ہو رہی ہے.اور وہ یہ کہ تبلیغ کی طرف اتنی توجہ نہیں جتنی پچھلے سال تھی.اس کی وجہ یہی ہے کہ میں نے اس سال میں بعض اور امور کی طرف توجہ دلائی تھی.حالانکہ انہیں کرنے کے لئے کہنے سے میرا یہ مطلب ہر گز نہ تھا کہ دوسرے چھوڑ دیئے جائیں.ہمیں تَخَلَقُوا بِاخْلَاقِ اللہ کا حکم ہے.یعنی اللہ تعالیٰ کی صفات اپنے اندر پیدا کریں.اور اللہ تعالیٰ جب ایک کام کرتا ہے تو دوسری طرف بھی اس کی توجہ ہوتی ہے.میں مانتا ہوں کہ یہ تربیت کا ایک اہم حصہ ہے کہ ہم محبت سے رہیں.اور یہ بھی تسلیم کرتا ہوں کہ مسئلہ کشمیر کے متعلق جو خطبات پڑھے ہیں وہ بھی ضروری ہیں.مگر اسکے یہ معنی ہر گز نہیں کہ ہم اس اہم چیز کو چھوڑ دیں جس پر دنیا کی ترقی اور نجات کا دار و مدار ہے اور وہ تبلیغ ہے.بہت سے لوگ غفلت اور نادانی کی وجہ سے یہ خیال کرتے ہیں کہ تربیت تبلیغ سے زیادہ اہم ہے.مگر یہ غلط ہے.تربیت دراصل انسان کے اپنے نفس سے تعلق رکھتی ہے.مگر تبلیغ میں وہ دو سرے کا محتاج ہوتا ہے.جب بھی کوئی شخص سچائی کو قبول کرے گا تو اس کا زیادہ باعث دوسروں کی باتیں ہوں گی.ایک نو مسلم سے دریافت کرو تو معلوم ہو گا کہ اسے بہت سے لوگوں نے تبلیغ کی لیکن تربیت کی خواہش اپنے نفس سے پیدا ہوتی ہے.اور جس عمدگی سے ایک انسان اپنی تربیت خود کر سکتا ہے دوسرے نہیں کر سکتے.دوسرے صرف ایک ڈھانچہ تیار کرتے ہیں.ایک برتن مہیا کرتے ہیں لیکن اس میں رکھنے والی چیز انسان کے اپنے اندر سے آتی ہے.تربیت کے احساسات انسانی قلب کے اندر موجود ہوتے ہیں.پس تربیت کے لئے دوسروں کا یاد دلانا اتنا ضروری نہیں جتنا تبلیغ کے لئے ضروری ہے.تبلیغ یہ ہے کہ اسے یقین دلا دیا جائے کہ دنیا میں ایک کچاند ہب موجود ہے جو اسے نجات کی طرف لے جائے گا.اور جب وہ بچے مذہب میں داخل ہو جائے گا تو تربیت کا احساس خود بخود پیدا ہونے لگے گا.اگر یہ اصول تسلیم کر لیا جائے کہ تربیت

Page 410

خطبات محمود ۴۰۵ سال ۱۹۳۲ء تبلیغ سے زیادہ اہم ہے تو پھر یہ سوال پیدا ہو گا کہ جو زیادہ قابل ہیں ان کی تربیت پہلے ہونی چاہئے پھر کمزور تو رہ گئے.پھر قابلوں میں سے زیادہ قابلیت رکھنے والوں کو پہلے لیا جائے گا.اور پھر ان میں سے بھی زیادہ موزوں آدمی علیحدہ کئے جائیں گے.اور اس طرح ہوتے ہوتے ہم ایک آدمی پر آجا ئیں گے.اور اس کی بھی پوری طرح تربیت نہ کر سکیں گے.آخر اسے بھی چھوڑ کر دنیا سے کنارہ کش ہو جائیں گے.کیا یہ ممکن نہیں کہ جو شخص ہماری نگاہ میں تربیت کے لئے بہترین ہو وہ ناقص نکلے.اور جسے ہم ناقص قرار دے کر علیحدہ کریں وہ فی الحقیقت زیادہ قابل ہو.لیکن جب ہم تبلیغ کرتے ہیں تو گویا ایسے قلوب تیار کرتے ہیں جن میں تربیت کا احساس موجود ہے اور جتنے لوگ ہماری تبلیغ سے جماعت میں داخل ہوں گے ان سب میں تربیت کا جذبہ موجود ہو گا.دوسرا امر جو اس سلسلہ میں یاد رکھنا چاہئے یہ ہے کہ تربیت کبھی اکیلے نہیں ہو سکتی.انسان اپنے گردو پیش کے حالات سے متاثر ہوتا ہے اور اس کے اعمال کا حصر ایمان پر ہوتا ہے.خدا تعالیٰ نے یونہی ملائکہ کتب رسل اور حشر نشر پر ایمان لانے پر اتنا زور نہیں دیا.اور یہاں تک فرما دیا ہے کہ ان پر ایمان لاؤ ، وگرنہ نجات نہ پاسکو گے.ان باتوں پر ایمان لانے کا حکم دینے میں حکمت ہے.دراصل انسانی اعمال ایمان سے وابستہ ہیں.اور جب تک ایک انسان ایمان میں کامل نہ ہو اس کے اعمال درست نہیں ہو سکتے.اس لئے تبلیغ تربیت سے مقدم ہے.جب تک ہمارے ہمسایہ کے گھر میں طاعون ہے ہم کبھی مامون نہیں ہو سکتے.جو شخص یہ کہتا ہے کہ آؤ ہمسایہ کے گھر ، سے طاعون کو دور کریں تا ہمیں نہ آگے وہ تو بچ جائے گا.لیکن جو خود ہی دوائیاں وغیرہ استعمال کرنے پر زور دیتا ہے اور ہمسایہ کے گھرتے اسے دور کرنے کی کوشش نہیں کرتاوہ ہر وقت خطرہ میں ہے.تربیت پر بے شک زور دینا چاہئے.مگر اتنا نہیں کہ اسے تبلیغ سے زیادہ اہم قرار دے دیا جائے.اور جو ایسا کرتا ہے، اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے اس شخص کی جو ہمسایہ کے گھر سے طاعون دور کرنے کی تو کوشش نہیں کرتا مگر خود دوائیوں کے استعمال پر زور دیتا ہے.تبلیغ بذات خود تربیت کا بہترین ذریعہ ہے.اس سے اپنے نفس کی بھی تربیت ہوتی ہے اور گناہ مٹتے ہیں.اور اگر ہم تبلیغ کو بند کریں گے تو گویا تربیت کے ذرائع محدود کر دیں گے.پس تمام جماعتوں کو چاہئے کہ زیادہ زور اور ہمت سے تبلیغ شروع کریں.یہ نہیں ہونا چاہئے کہ جس کام کے کرنے کی نصیحت کی جائے اسے شروع کر کے باقی چھوڑ دیئے جائیں.ہر امر کی طرف ہر احمدی کی توجہ ہونی چاہئے.جس طرح آدمی گھر میں سب ضروریات کو دیکھتا ہے.بیوی کا خیال کرتے ہوئے ماں باپ کو

Page 411

خطبات محمود ۴۰۶ سال ۱۹۳۲ء فراموش نہیں کرتا اور ماں باپ کی طرف متوجہ ہو کر بیوی بچوں کو نہیں چھوڑ دیتا.اسی طرح دین کی ساری ضرورتیں ہر وقت اس کے پیش نظر رہنی چاہئیں.جب جاکر اس کے ایمان کی تمام دیواریں مکمل ہوں گی.پس گذشتہ تین ماہ میں تبلیغ میں جو ستی ہوئی ہے دوستوں کو چاہئے باقی نو ماہ میں خوب زور دے کر تبلیغ کی اس کمی کو پورا کر دیں.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالٰی ہم سب کو توفیق دے کہ سب فرائض کی طرف ایک وقت میں توجہ کر کے تَخَلَّفُوا بِاخْلَاقِ اللہ کے مصداق بن سکیں.ر خطبہ ثانی میں فرمایا ، بعض آداب ہوتے ہیں.کئی بار سمجھایا بھی جاتا ہے لیکن انسان بھول جاتا ہے.اور بعض نئے لوگ بھی آجاتے ہیں.اس لئے پھر بتاتا ہوں کہ خطبہ کا وقت اس وقت تک ہے جب تک امام مصلیٰ کی طرف نہ جائے.اور اس وقت میں بولنا یا اشارہ کرنا بھی منع ہے.اشد ضرورت کے وقت یعنی دو سرا اگر شریعت کے کسی عظیم کو تو ڑ رہا ہو تو اسے اشارہ سے سمجھایا جاسکتا ہے مگر بولنے کی اس صورت میں بھی اجازت نہیں.دوسرے مسجد میں سوائے ذکر الہی یا دینی اور قومی امور کے متعلق گفتگو کے ذاتی اور خانگی باتیں نہ کرنی چاہئیں کہ رسول کریم میں مذہبی قومی یا سیاسی باتیں تو کر لیتے تھے مگر ذاتی اور خانگی باتیں کرنا آپ کو سخت ناپسند تھا.حتی کہ آپ نے فرمایا اگر کوئی مسجد میں سودا کرے تو خدا اس میں برکت نہ دے ھے یا کسی کی کوئی چیز با ہر گم ہو جائے اور وہ مسجد میں آکر اعلان کر دے تو خدا اس میں برکت نہ دے.پس اس بات کا خیال رکھنا تو چاہئے کہ مسجد میں ذاتی باتیں منع ہیں.d الشورى : ١٢ الفضل ۷.اپریل ۱۹۳۲ء) بخارى كتاب الجمعة باب انصات يوم الجمعة والامام يخطب ۵ ابوداود کتاب الصلوة باب التحلق يوم الجمعه مسلم كتاب الصلوة باب النهي عن نشد الضاله في المسجد

Page 412

خطبات محمود 50 سال ۱۹۳۲ء اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر امید اور یقین رکھو ر فرموده ۸ - اپریل ۱۹۳۲ء) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.قرآن کریم سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں نیکی رکھی ہے اور یہ نیکی ہی ہے کہ باوجو د شیطان کی تمام کوششوں کے اور باوجود تاریکی کے فرزندوں کی تمام معیوں کے دنیا میں خوبصورتی نظر آتی ہے.اور وہ اربوں ارب گناہ جو دنیا میں کئے جاتے ہیں باوجود ان کے دنیا پھر بھی اللہ تعالیٰ کے عظیم الشان فضلوں کی نشان اور آثار معلوم ہوتی ہے.ہم جب مذاہب کا معائنہ کرتے ہیں تو دنیا میں ہمیں سچائی کے ماننے والے بہت تھوڑے نظر آتے ہیں اور شیطانی تعلیموں کو ماننے والے بہت زیادہ لیکن باوجود اس کے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو دنیا کو پیدا کیا تو لغو اور عبث پیدا نہیں کیا اور ہم سمجھتے ہیں کہ جس مقصد کے لئے اللہ تعالٰی نے دنیا کو پیدا کیا وہ پورا ہو رہا ہے.باوجود کفر کی زیادتی کے ہم ایسا کیوں خیال کرتے ہیں.اس وجہ سے کہ گو کفر دنیا میں زیادہ دکھائی دیتا ہے، مگر در حقیقت ایمان کی طلب کفر سے بہت زیادہ ہے.بظاہر جب ہم یقین اور وثوق کے ساتھ کہتے ہیں کہ دنیا کی تمام ترقیات اسلام کے ساتھ وابستہ ہیں اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی کا آخری شرعی کلام قرآن مجید ہے اور اس پر عمل کئے بغیر لوگوں کی نجات ممکن نہیں تو لازما ہمیں یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ ایک عیسائی حق سے دور اور خدا کے قرب سے محروم ہے، ایک سکھ خدا سے دور اور اس کی رضاء سے بے نصیب ہے ، ایک یہودی خدا سے دور اور صداقت پر عمل نہیں کر رہا پھر یہ بھی صاف بات ہے کہ مسلمانوں میں سے جو لوگ بد اعمالیوں میں مبتلاء ہیں اگر ان کو علیحدہ نہ بھی کیا جائے اور سب کو پکا مسلمان سمجھ لیا جائے تب بھی تمام

Page 413

خطبات محمود ۰۸م سال ۱۹۳۲ء مسلمانوں کی تعداد دو سروں کی نسبت بہت کم ہے.اگر عیسائیوں کو سکھوں کو یہودیوں کو پارسیوں کو جینیوں کو کنفیوشس کے ماننے والوں کو جاپان کے مختلف مذہب کے لوگوں کو یا اور چھوٹے چھوٹے مذاہب جو دنیا میں پائے جاتے ہیں ان سب کے ماننے والوں کو جمع کیا جائے تو ان کی تعداد مسلمانوں سے بہت زیادہ ہوگی اور پانچ آدمیوں میں سے یہ مشکل ایک آدمی مسلمان کہلانے والا دکھائی دے گا.غرض ظاہر میں تو کفر زیادہ ہے اور اگر ہم اس طریق سے مردم شماری کریں تو ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ باقی لوگ حق پر نہیں.اور جو حق پر ہیں وہ بہت تھوڑے ہیں.لیکن اگر ہم اس کے علاوہ ایک اور رنگ میں مردم شماری کریں.یعنی ایک تو مردم شماری کا یہ طریق ہے کہ جو شخص یہ کہتا ہو کہ میں عیسائی ہوں اسے عیسائی سمجھ لیا جائے ، جو ہندو کے اسے ہندو قرار دیا جائے جو سکھ کے اسے سکھ شمار کیا جائے اور اس طرح سب کو مسلمانوں کے مقابلہ میں رکھ کر یہ نتیجہ نکال لیا جائے کہ دنیا میں اسلام کم ہے اور کفر زیادہ یہ بھی گننے کا ایک طریق ہے.لیکن اس کے علاوہ ایک اور بھی طریق ہے اور اس طریق کے لحاظ سے موجودہ نقشہ ہی بالکل تبدیل ہو جاتا ہے.اور وہ یہ ہے کہ ہم دیکھیں کتنے عیسائی ہیں جو عیسائیت کو سچا سمجھ کر مانتے ہیں اور کتنے عیسائی ہیں جو اسلام اس لئے قبول نہیں کرتے کہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ اسلام جھو ٹانڈ ہب ہے یا ہندؤں میں سے کتنے ہیں جو صرف جہالت یا غفلت یا تعلیم یا تحقیق کی کمی کی وجہ سے اپنے مذہب کو سچا سمجھتے ہیں اور اسلام کو اس لئے قبول نہیں کرتے کہ وہ یقین رکھتے ہوں کہ دوسرے تمام مذاہب جھوٹے اور باطل ہیں.اگر ہم اس طرح مذاہب کے ماننے والوں کی مردم شماری کریں تو دہریوں کو الگ کر کے کہ وہ خدا کے ہی قائل نہیں.۹۵ یا کم از کم ۹۰ فیصدی ایسے لوگ نظر آئیں گے جو چاہے اپنے ذہن میں جہالت یا غفلت کی وجہ سے ہی ایک بات جمائے بیٹھے ہوں مگروہ اس لئے کسی مذہب پر قائم ہوتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں اس مذہب میں داخل رہنے سے انہیں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوگی.پس ان کے عقائد خراب سہی مگر ان کی نیت تو درست ہے.وہ اسلام کو خدا کے پانے کا سچا مذہب خیال کرتے ہوئے پھر قبول نہیں کرتے.بلکہ اکثر ہندو اس لئے اسلام میں داخل نہیں ہوتے کہ انہیں پیدا ہوتے ہی یہ بتایا جاتا ہے کہ اسلام میں عیب ہی عیب ہیں.اور چونکہ انہوں نے اسلام کی تحقیق نہیں کی ہوتی اس لئے وہ اسلام قبول کرنے سے محروم رہتے ہیں.اسی طرح عیسائیوں میں سے بیشتر اللہ اس لئے اسلام قبول نہیں کرتا کہ اس نے کبھی اسلام کے متعلق غور

Page 414

محمود ۴۰۹ سال ۱۹۳۲ء ہی نہیں کیا ہوتا.پس یہ تمام لوگ تحقیق کی کمی کی وجہ سے انکار کر رہے ہوتے ہیں.وگر نہ سچائی کے وہ بھی پیاسے ہوتے ہیں.اور انہیں بھی اس امر کی تڑپ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وصال حاصل ہو.پس در حقیقت خدا طلبی کا مادہ انسان کے اندر زیادہ ہے بہ نسبت خدا کو چھوڑنے کے ارادہ کے.اگر اس طرح لوگوں کی تعداد کا علم حاصل کیا جائے اور اگر اس طرح مردم شماری کی جائے کہ کتنے دل چاہتے ہیں کہ وہ خدا سے مل جائیں اور کتنے دل ہیں جو نہیں چاہتے کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہو تو ان کی تعداد جو اللہ تعالیٰ کی محبت اور پیار کے خواہاں ہیں خواہ وہ کتنے ہزاروں پردوں کے نیچے چھپے ہوئے ہوں یقینا ۹۰ فیصدی سے بھی زیادہ ہوگی.پس نیکی کا بیج دنیا میں بدی سے بہت زیادہ ہے.یہ اور بات ہے کہ اتفاقی حادثات کی وجہ سے بدی کا درخت بہت اونچا نظر آئے لیکن اگر ہم دیکھیں تو اس بدی کے درخت کے نیچے بھی ڈھیروں ڈھیر نیکی کا بیج جمع ہو گا.پس دنیا کی ظاہری برائیوں اور عیبوں کی وجہ سے کبھی دھوکا نہیں کھانا چاہئے.در حقیقت دنیا نیکی کے لئے قائم کی گئی ہے.اور نیکی ہی اس میں زیادہ موجود ہے.یہ تو میں نے عقائد اور ایمان کے متعلق بتایا ہے کہ اگر اس لحاظ سے دنیا کے تمام لوگوں کو دیکھا جائے تو ان میں اسلام کا پہلو غالب دکھائی دے گا.گو ظاہری طور پر ایسے لوگوں کی تعداد تھوڑی ہو.مگر باطن پر غور کرنے سے ہمیں معلوم ہو گا کہ دنیا میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو چاہتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ملیں.اور اس کا وصال انہیں حاصل ہو.لیکن اگر ہم اعمال کے لحاظ سے دیکھیں تو بھی اس میں ہمیں نیکی کا پہلو غالب نظر آتا ہے.دنیا میں قریباً ہر شہر اور ہر گاؤں میں بعض ایسے لوگ ہوتے ہیں جنہیں لوگ جھوٹا کہا کرتے ہیں.چونکہ ایسے لوگوں کو جھوٹ بولنے کی عادت ہوتی ہے اس لئے جب وہ اس عادت میں ترقی کر جاتے ہیں تو لوگ کہتے ہیں یہ بڑے جھوٹے ہیں.دیہات و قصبات میں ایسا کوئی نہ کوئی آدمی ضرور مل جائے گا جس کے متعلق لوگ کہتے ہوں گے کہ یہ بڑا جھوٹا ہے بلکہ یہاں تک بعض لوگ کہدیں گے کہ اس نے تو کبھی سچ بولا ہی نہیں.مگر ایسے انسان کی زندگی اگر دیکھو تو اس میں بھی نیکی بہت زیادہ نظر آئے گی.کسی ایک دن کاغذ اور قلم دوات لے کر اس کے پاس بیٹھ جاؤ اور سارا دن جو وہ باتیں کرے لکھتے جاؤ.پھر تمہیں نظر آئے گا کہ اگر اس نے تو باتیں کی ہیں تو ان میں سے ۹۸ سچ ہوں گی.اور دو جھوٹ مگر ۹۸ مرتبہ سچ بولنے کو نظر انداز کرتے ہوئے لوگ اس کے دو جھوٹوں کو دیکھ کر کہنا شروع کر دیں

Page 415

خطبات محمود ۴۱۰ سال ۱۹۳۲ء گے کہ یہ تو بڑا جھوٹا ہے اس لئے کہ تھوڑا عیب بھی بہت نظر آتا ہے.اسی طرح لوگ یہاں تک کہہ دیتے ہیں فلاں شخص بڑا چور ہے.لیکن اگر ہم اس کی تمام زندگی دیکھیں اور اس امر پر غور کریں کہ اس نے اپنی تمام عمر کے کاموں کے مقابلہ میں چوری کتنی دفعہ کی تو ہمیں معلوم ہو گا کہ اس نے بہت کم دفعہ کی ہوگی.فرض کرو اس نے اپنی زندگی میں سود و سو چار سویا ہزار مرتبہ چوری کی لیکن اس کی ساری عمر کے اتنے ہی تو کام نہیں ہوں گے.اس نے لاکھوں نیکیاں کی ہوں گی.مگر لاکھوں نیکیاں لوگوں کو نظر نہ آئیں اور اس کی پانچ سو یا ہزار دفعہ کی چوری نے اسے لوگوں میں چور مشہور کر دیا.پس سب سے بڑے چور کی نیکیاں بھی اسکی بدیوں سے بہت زیادہ ہوں گی.اسی طرح اگر ہم ڈاکوؤں کو دیکھیں تو ان میں بھی ہمیں یہی بات نظر آتی ہے.ڈاکوؤں کی کیسی گھناؤنی شہرت ہوتی ہے.ذرالوگوں کو پتہ لگ جائے کہ اس علاقہ میں کوئی ڈاکو آیا ہے وہ کس طرح ڈر کے مارے کانپنے لگ جاتے ہیں.لوٹ مار کے علاوہ ڈاکوؤں کو قتل سے بھی دریغ نہیں ہو تا.لیکن ان کی زندگی میں بھی نیکی کے پہلو غالب نظر آئیں گے.پنجاب میں گزشتہ ہی دنوں ایک ڈا کو پکڑا گیا جس کے پکڑے جانے کی بظاہر کوئی صورت نہیں تھی.لیکن پولیس کو کسی طرح یہ معلوم ہو گیا کہ اس کو اپنی ماں سے بہت محبت ہے.پولیس نے اس کے کان میں کسی ذریعہ سے یہ بات ڈلوادی کہ تیری ماں بیمار ہے.وہ اس خبر کو سن کر تاب نہ لا سکا اور تمام خطرات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی ماں کے پاس پہنچ گیا.جو نہی وہ وہاں پہنچا پولیس نے اسے گرفتار کر لیا تو ماں سے وفاداری اور احسان شناسی ایک ڈاکو میں بھی موجود تھی.پس حقیقت یہ ہے کہ جس طرح عقائد میں اسلام کا پہلو غالب ہے اسی طرح اعمال میں بھی اسلام کا پہلو غالب ہے اور یہی وہ چیز ہے جو ہمارے دل میں ایک بہت بڑی امید پیدا کر دیتی ہے.کیونکہ جب ہم اس نقطہ نگاہ سے دیکھیں تو ہمیں یقین ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے نیکی کے دروازے کھلے رکھے ہیں.اس طرح مایوسی نا امیدی ہمارے دلوں سے نکل جاتی ہے.اور مایوسی اتنی خطرناک چیز ہے کہ رسول کریم ا نے فرمایا ہے.مَنْ قَالَ هَلَكَ الْقَوْمُ فَقَدْ اهلكهما جو شخص یہ کہتا ہے کہ فلاں قوم بلاک ہو گئی در حقیقت اسی نے اس کو ہلاک کر دیا کیونکہ وہ تو ہلاک ہوتی یا نہ ہوتی اس نے اس کے دل میں مایوسی پیدا کر کے اسے تباہ کر دیا کیونکہ جب کوئی قوم مایوس ہو جاتی ہے تو ترقی کی طرف اپنا قدم نہیں بڑھا سکتی.خوشی اور اُمنگ ہی ہے جو قوموں کو عروج تک پہنچاتی ہے.ہمارے ہی ایک بزرگ کا واقعہ مشہور ہے وہ بارہ دفعہ اپنے علاقہ

Page 416

اله خطبات محمود سال ۱۹۳۲ء سے باہر نکلے اور بارہ دفعہ ہی انہیں شکست اٹھانی پڑی.ان متواتر شکستوں کی وجہ سے ان کی حالت اس قدر مخدوش ہو چکی تھی کہ انہیں بعض دفعہ زنانہ بھیس بدل کر باہر جانا پڑتا.تاریخوں والے لکھتے ہیں کہ ایک دن وہ قضائے حاجت کے لئے بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے دیکھا ایک چیونٹی نے دیوار پر چڑھنا شروع کیا.تھوڑا سا اونچا چڑھی تھی کہ نیچے گر پڑی اس نے پھر چڑھنا شروع کیا اور پھر گر پڑی.یہاں تک کہ وہ بیسیوں دفعہ گری مگر برابر چڑھتی رہی اور اس نے ہمت نہ ہاری یہاں تک کہ آخری مرتبہ دیوار پر چڑھ ہی گئی.انہوں نے جب یہ نظارہ دیکھا تو وہ فارغ ہو کر باہر آئے اور انہوں نے اپنے سپاہیوں سے کہا کہ اب میں نے ترقی کار از پالیا ہے.اگر چیونٹی متواتر گرنے کے باوجود اپنی ہمت نہیں ہارتی اور آخر اپنے مقصد کو پالیتی ہے تو مجھے تو خدا نے انسان بنایا ہے میں بارہ شکستوں سے ہی کیوں گھبرا جاؤں.چنانچہ وہ پھر اپنی فوج سمیت نکلے اور اس مرتبہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے ایران افغانستان اور پھر ہندوستان کو بھی فتح کر لیا.پس امید اور یقین ہی ہے جو کامیابی کی منزل کو قریب کر دیتا ہے.اور امید اور یقین ہی ہے جو تاریکیوں کو دور کرتا اور ناکامیوں کو پرے ہٹا دیتا ہے.لیکن مایوسی باوجود کامیابیوں کے سامان مہیا ہونے کے انسان کو نا کامی کے گڑھے میں گرا دیتی ہے.کتنے ہی لوگ ہیں جو خدا کے دروازے میں داخل ہونے سے محض اس لئے محروم رہ گئے کہ وہ مایوس ہو گئے.اور انہوں نے خیال کیا کہ ہم اللہ تعالی تک نہیں پہنچ سکتے.لیکن وہ لوگ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر یقین رکھا وہ باوجود اپنی کمزوریوں کے اس کی رحمت کے سایہ کے نیچے آگئے.رسول کریم میم نے ایک دفعہ اسلام سے پہلی قوموں کے حالات بیان کرتے ہوئے ایک واقعہ بیان فرمایا جس سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ پر امید رکھنے والا انسان آخر نجات پا جاتا ہے.آپ نے فرمایا مجھے اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ پرانے زمانہ میں ایک شخص تھا جو بہت ہی بد کردار تھا.قتل جیسا فعل جس میں بڑے سے بڑا قاتل بھی چند آدمیوں کے قتل سے تجاوز نہیں کرتا اس میں بھی اس نے یہاں تک ترقی کی کہ ستر آدمی مار ڈالے تھے.آخر اس کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنا چاہئے.کیا تعجب ہے کہ میرے گناہوں کی معافی کا بھی کوئی سامان ہو جائے اور اللہ تعالیٰ میرے عیوب سے چشم پوشی کرتے ہوئے مجھے اپنی مغفرت کے دامن کے نیچے چھپالے.وہ اس خیال کے ماتحت ایک عالم کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ میں نے اب تک یہ یہ گناہ کئے ہیں اور علاوہ انکے متر قتل بھی کئے ہیں.کیا میرے لئے بھی اللہ تعالیٰ کے

Page 417

خطبات محمود سال ۶۱۹۳۲ حضور کوئی نجات کی صورت ہے وہ شخص ظاہر میں تو عالم تھا مگر اصل میں ہل تھا اس نے گناہوں کی فہرست کو سن کر کہہ دیا تجھ جیسے گنگار کی معافی کی کوئی صورت نہیں.اس نادان نے اپنے دل کو دیکھا اور اللہ تعالیٰ کے عظیم الشان فضلوں پر نظر نہ کی.کہنے لگا تیرے لئے نجات کی کوئی صورت نہیں اس شخص نے کہا جب میرے لئے نجات کی کوئی صورت نہیں اور میں نے ضرور دوزخ میں ہی جاتا ہے تو جہاں میرے اور سینکڑوں گناہ ہیں ان میں اگر ایک اور کا اضافہ ہو جائے تو کیا حرج ہے.یہ کہ کر اس نے تلوار نکالی اور اس عالم کہلانے والے کو قتل کر دیا.پھر خیال آیا کہ یہ تو بیوقوف تھا اس نے اللہ تعالیٰ کی رحمت کو محددو کر دیا ممکن ہے کسی اور سے اگر میں ملوں تو وہ میرے گناہوں کی معافی کا کوئی طریق بتا سکے.وہ یہ سوچ کر پھر گھر سے نکلا اور ایک اور عالم کے پاس گیا وہ بھی ویسا ہی تھا یعنی کو ظاہر میں عالم دکھائی دیتا تھا مگر دل کا جاہل تھا.اس سے جب ذکر کیا تو اس نے بھی کہہ دیا کہ تیری نجات نہیں ہو سکتی.اس نے کہا جب میری نجات نہیں ہو سکتی تو ایک گناہ اور کر لینے میں کیا حرج ہے یہ کہہ کر اس نے تلوار نکالی اور اس کی بھی گردن اڑادی اسی طرح وہ اور لوگوں کے پاس جاتا رہا وہ اسے یہی جواب دیتے رہے اور یہ انہیں قتل کرتا رہا یہاں تک کہ اس کے ۹۹ قتل ہو گئے آخر کسی نے اسے کہا کہ بے وقوف یہ تو حقیقی عالم نہیں فلاں شخص روحانی عالم ہے تم اگر اس کے پاس جاؤ تو وہ ضرور تمہاری نجات کی کوئی نہ کوئی صورت بتادے گا کیونکہ اس کا عقیدہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے ہر شخص کے لئے کھلے ہیں اور کوئی شخص کتناہی کنگار کیوں نہ ہو اگر وہ خدا تعالیٰ کی طرف جھکے تو خدا تعالیٰ اپنی مغفرت کے دامن میں اسے چھپا لیتا ہے.رسول کریم ما دار السلام فرماتے ہیں وہ یہ خیال کر کے چل پڑا کہ اس روحانی عالم سے بھی مل کر دیکھوں ممکن ہے میری نجات کی کوئی صورت نکل آئے لیکن وہ ابھی راستہ ہی میں تھا کہ بیمار ہو گیا اور اس کی جان نکل گئی تب اللہ تعالیٰ کی رحمت کے فرشتے بھی آئے اور اس کے عذاب کے ملائکہ بھی اور ان میں جھگڑا ہو گیا.عذاب کے فرشتے کہیں کہ ہم اس کی روح کو دوزخ میں لے جائیں گے کیونکہ یہ ساری عمر قاتل بد کردار اور خونریز رہا ہے اور رحمت کے فرشتے کہیں ہم اسے جنت میں لے جائیں گے کیونکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کا دروازہ تلاش کرتا پھرتا تھا مگر نادان اس پر یہ دروازہ بند کر دیتے رہے آخر اللہ تعالیٰ نے ملائکہ سے فرمایا اس زمین کو ناپا جائے جس کی طرف سے یہ سفر کر کے آیا ہے اور اس زمین کو بھی ناپا جائے جس کی طرف اس نے جانا تھا اور دیکھا جائے

Page 418

خطبات محمود ۱۳ سال ۱۹۳۴ء کہ زیادہ حصہ اس نے کس طرف کا طے کیا ہے تاکہ جس زمین کے قریب ہو اس کے مطابق اسے جزاء دی جائے رسول کریم مالی فرماتے ہیں وہ اس حصہ کے زیادہ قریب تھا جس کی طرف سے اس نے سفر کرنا شروع کیا تھا اور اس حصہ سے دور تھا جہاں اس نے جانا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہوئی اور اس نے آگے کے حصہ کے طول کو چھوٹا کر دیا اور جب فرشتوں نے زمین ناپی تو رحمت کے وہ زیادہ قریب نکلا.پس اس کی روح اللہ تعالی کی رحمت کے ملائکہ اٹھا کر لے گئے.یہ ایک کشف تھا جس میں یہ واقعہ ہو انادان لوگ یہ خیال نہ کریں کہ جب اللہ تعالیٰ نے زمین سمیٹی تو درمیان کے شہر اور گاؤں کہاں چلے گئے ملائکہ کا عالم جسمانی نہیں بلکہ روحانی ہے اور اس میں ہر چیز روحانی نظر سے ہی دیکھی جاتی ہے.بسا اوقات روحانی عالم میں چھوٹی دکھائی دینے والی چیز جسمانی عالم میں بڑی ہوتی ہے اور بسا اوقات جسمانی عالم میں بڑی نظر آنے والی چیز روحانی عالم میں نہایت معمولی ہوتی ہے.خواب میں ہی بعض دفعہ انسان دیکھتا ہے کہ اس پر دو دن گزر گئے حالانکہ اسے سوئے ہوئے ایک گھنٹہ ہوا ہوتا ہے اور بعض دفعہ دیکھتا ہے کہ اس نے ایک ہی منٹ کا کوئی نظارہ دیکھا حالانکہ وہ ساری رات سویا ہوتا ہے تو روحانی اور جسمانی عالم میں فرق ہے یہ واقعہ بیان کر کے رسول کریم میں ہم نے ہمیں سمجھایا ہے کہ دنیا میں بدی پر ہمیشہ نیکی غالب رہتی ہے.اور اللہ تعالی بھی قرآن مجید میں فرماتا ہے لَا تَا نَسُوا مِنْ تَوْعِ اللَّهِ لله الله تعالیٰ کی رحمت سے کبھی مایوس مت ہو.اِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا خُدا تو سارے گناہوں کو بخش سکتا ہے اب کو نسا آدمی ہے جو اپنی زندگی میں دنیا کے سارے کے سارے گناہ کر لیتا ہے.ہر شخص گناہوں کے ایک ہی حصہ کا مرتکب ہو تا ہے پس جو ذات اس قدر غفور رحیم ہے.کہ وہ سارے گناہوں کو بخش سکتی اور انسان کے تمام عیوب سے چشم پوشی کر سکتی ہے وہ کچھ حصہ گناہ کو تو بدرجہ اولی بخش سکتی ہے البتہ انسان کو امید اور یقین رکھنا چاہئے کہ خواہ اس کے کس قدر گناہ کیوں نہ ہوں اللہ تعالی کی طرف وہ جب بھی توجہ کریگا خدا اسے رحمت اور مغفرت کے ساتھ ملے گا.پس یاد رکھو دنیا کی تمام ترقیات کا مدار امید پر ہے خواہ یہ ترقیات روحانی ہوں یا جسمانی سیاسی ہوں یا اقتصادی.جو قومیں امید زندہ رکھیں گی وہ کامیاب ہو جائیں گی اور جو امید چھوڑ دیں گی وہ کبھی ترقی نہیں کر سکیں گی ہماری آنکھوں کے سامنے اس کی ایک موٹی مثال ہندوستان اور جاپان کی ہے جاپان نہایت چھوٹا سا ملک ہے.آج کل اس کی آبادی چار کروڑ کے قریب ہے.

Page 419

خطبات محمود ۱ سال ۱۹۳۲ء اڑھائی کروڑ اس کی آبادی تھی اس کے مقابلہ میں ہندوستان کی آبادی : بس کروڑ ہے مگر انگریز یہاں پر آئے اور انہوں نے قبضہ جمالیا جس کی وجہ یہی تھی کہ ہندوستانیوں نے امید چھوڑ دی.مگر جاپان انگریز بھی گئے ڈچ بھی گئے امریکن بھی گئے اور سب نے کوششیں کیں کہ کسی طرح جاپان کو زیر کرلیں مگر جاپان والوں نے امید نہ چھوڑی اور دس سال کے عرصہ میں سب کو اپنے ملک سے باہر نکال دیا غرض جو قومیں امید چھوڑ دیتی ہیں وہ ہار جاتی ہیں مگر جو امید قائم رکھتی ہیں اور امید کے ساتھ صحیح طریق اختیار کرتی ہیں اور اس امر کا تہیہ کر لیتی ہیں کہ جو بھی مصیبت آئیگی وہ اسے خوشی اور مسرت سے برداشت کریں گی وہ ایک نہ ایک دن کامیاب ہو کر رہتی ہیں اور یہی مطلب ہے امید کا.امید یہ نہیں کہ گھر میں بیٹھے خیالی پلاؤ پکاتے رہو یہ تو جنون ہے امید یہ ہے کہ انسان صحیح طریق اختیار کرے اور جو بھی علاج اللہ تعالیٰ نے کسی مرض کا مقرر کیا ہے اس سے فائدہ اٹھائے خواہ مرض روحانی ہو یا جسمانی، سیاسی ہو یا اقتصادی بہر حال صحیح طریق اختیار کرے اور اس امر کا عزم کرلے کہ اس معاملہ میں جو بھی مشکلات پیش آئیں گی وہ ست نہیں کر سکیں گی بلکہ اور زیادہ کام کے لئے تیار کر دیں گی.اور پھر یقین رکھے کہ میں کامیاب ہو کر رہوں گا.اگر میں کامیاب نہ ہوا تو کیا ہے میری اولاد یہ کام کرے گی اور اگر وہ بھی مرگئی تو اس کی اولاد کام کرے گی یہاں تک کہ ایک دن یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گا یہ امید ہے جس کی ہمیں ضرورت ہے اور یہ امید ہے جو اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے.وہ قومیں جنہیں امید حاصل ہو جاتی ہے ، وہ ایک نہ ایک دن کامیاب ہو کر رہتی ہیں.اور وہ قومیں جن کے دلوں سے امید نکال لی جاتی ہے انہیں کبھی بھی کامیابی کا منہ دیکھنا نصیب نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ کے انبیاء جو دنیا میں آتے ہیں وہ بھی امید کا پیغام لے کر آتے ہیں.مکہ معظمہ میں جب رسول کریم مل مل کے ساتھ صرف چند صحابہ تھے اور سارا عرب آپ کے خلاف تھا ایسے زمانہ میں کیا فرق تھا رسول کریم میں الہ و سلم کی جماعت میں اور دوسرے لوگوں میں.اور کیوں قرآن مجید اُن پر حجت کرتا ہے کہ دیکھنا با وجود تمہاری ان کوششوں کے مسلمان کامیاب ہوں گے اور تم ناکام رہو گے.پھر وہ کیا چیز تھی جس کی وجہ سے محمد نام کے چند صحابہ یہ یقین رکھتے تھے کہ وہ لا کھوں کفار پر غالب آجائیں گے.وہ امید ہی تھی جو اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کو عطا فرمائی.اور امید ہی تھی جو کفار کے ساتھ نہیں تھی یہی وجہ تھی کہ باوجود لاکھوں ہونے کے کفار ڈرتے تھے.اور کہتے تھے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتیں نہ سننا ان کی مجلس میں نہ جانا یہ

Page 420

خطبات محمود ۴۱۵ سال ۱۹۳۲ نا امیدی نہیں تو اور کیا ہے کہ وہ لاکھوں ہو کر چند مسلمانوں سے خوف کھاتے تھے.اس کے مقابلہ میں رسول کریم کی یہ تعلیم نہیں تھی کہ کفار کی باتیں نہ سنو بلکہ جب بھی رسول کریم پر احکام نازل ہوتے آپ فرمایا کرتے جاؤ اور کفار کو جا کر یہ باتیں سناؤ اور ان کی سند کیونکہ رسول کریم مایا کہ یہ امر خوب جانتے تھے کہ مسلمانوں کا ایک ایک آدمی ایک لشکر ہے.اور کفار کا بڑے سے بڑا لشکر ایک آدمی سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتا.آپ سمجھتے تھے ہمارا جو بھی آدمی ان کے پاس جائے گاوہ ان میں سے کسی نہ کسی کو اپنے ساتھ کھینچ کر لائے گا.مگر کفار یہ خیال کرتے تھے کہ ہمارا کوئی بھی آدمی اگر محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی مجلس میں چلا گیا تو پھر وہ واپس نہیں آئے گا.اس وجہ سے وہ بعض دفعہ کانوں میں روئی ٹھونس لیتے تاکہ کوئی بات رسول کریم می ای الیوم کی ان کے کانوں میں نہ پڑ جائے.یہ مسلمانوں کی امید تھی جس نے انہیں غالب کر دیا اور یہ کفار کی ناامیدی تھی جس نے انہیں تھوڑے سے مسلمانوں کے مقابلہ میں نیچا دکھا دیا.اب بھی اللہ تعالیٰ نے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا ہے تو وہ کیا چیز ہے جو دوسرے مسلمانوں سے ہماری جماعت کو ممتاز کرتی ہے اور کیوں لوگ ہمارے اثر سے ڈرتے اور مولوی لوگ کہا کرتے ہیں کہ ان کے پاس نہ بیٹھو، ان کی کتابیں نہ پڑھو.ان کی باتیں نہ سنو.محض اس لئے کہ وہ جانتے ہیں یہ لوگ غالب آجائیں گے مگر ہم اپنی جماعت کے لوگوں کو دو سروں کی باتیں سننے سے منع نہیں کرتے بلکہ بعض دفعہ ناراض ہو جاتے ہیں کہ کیوں ہماری جماعت کے دوست دوسرے لوگوں سے ملتے نہیں اور کیوں انہیں اپنی باتیں نہیں سناتے.ہم یہ بھی کہا کرتے ہیں کہ دوسرے لوگوں کی کتابیں پڑھو یہ بھی کہا کرتے ہیں ان کے پاس بیٹھو مگر وہ ہمارے پاس بیٹھنے سے منع کریں گے کیونکہ سمجھتے ہیں کہ احمدی اپنی باتیں منوالیں گے.یہی فرق ہے جو ہم میں اور ان میں ہے.اور یہ محض امید کی وجہ سے ہے.ہم دوسروں سے ملنے سے اس لئے منع نہیں کرتے کہ ہم امید رکھتے ہیں ہم فاتح ہیں اور ایک دن دنیا کو فتح کر کے رہیں گے اور وہ اس لئے منع کرتے ہیں کہ انہیں ڈر ہے کہ ہم آج بھی گئے اور کل بھی گئے.ہم جانتے ہیں کہ کوئی صورت ہو ہم ہر طرح ان پر غالب آجا ئیں گے کیونکہ حق ہمارے ساتھ ہے.یہی وجہ ہے کہ اگر وہ قرآن پیش کریں تو ہم قرآن کے رو سے بحث کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.اگر وہ صحیح حدیثوں کے ذریعہ بحث کرنا چاہیں تو ہم اس پر بھی آمادہ ہو جاتے ہیں کیونکہ ہمیں امید اور یقین ہے کہ خدا کا کلام ہمارے ساتھ ہے.اور ہو نہیں سکتا کہ کوئی صحیح حدیث خدا کے کلام کے خلاف ہو اور اس طرح ہمیں شکست اٹھانی

Page 421

خطبات محمود ۴۱۶ سال ۱۹۳۲ ء پڑے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو دیکھ لو آپ اپنے زمانہ میں یہ دعوی فرماتے ہیں کہ تو فی کا لفظ جب انسان کے متعلق آئے اور فاعل اللہ تعالٰی ہو تو اس کے معنی سوائے قبض روح اور موت کے اور نہیں ہوتے.اس کے مقابلہ میں کوئی شخص نہیں اٹھتا اور کسی میں طاقت نہیں ہوتی کہ وہ اس کے خلاف ثابت کر سکے.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جانتے تھے که قرآن او ر لغت عرب آپ کی تائید میں ہیں.اور آپ یقین رکھتے تھے کہ یہ ہو نہیں سکتا کہ خدا کی بات ہو اور پھر لغت عرب کے خلاف ہو.اس کے مقابلہ میں دوسرے لوگوں کے دلوں میں امید نہیں.اور وہ باوجود اس خیال کے کہ احمدیہ جماعت غلطی پر ہے، پھر بھی ڈرتے ہیں کہ کیا خبر کہ قرآن مجید ہمارے خلاف ہی ہو جائے.حالانکہ اگر انہیں اپنی سچائی پر یقین ہو اور اس بات پر بھی یقین ہو کہ احمدی غلط کہتے ہیں تو اس ڈر کے معنے ہی کیا ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کا ایک دلچسپ واقعہ ہے.آپ کے ایک دوست تھے جو مولوی محمد حسین بٹالوی کے بھی دوست تھے.ان کا نام نظام الدین تھا.انہوں نے سات حج کئے تھے.بہت ہنس مکھ اور خوش مزاج تھے.چونکہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام اور مولوی محمد حسین بٹالوی دونوں سے دوستانہ تعلقات رکھتے تھے اس لئے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے دعوئی ماموریت کیا اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے آپ پر کفر کا فتویٰ لگایا تو ان کے دل کو بڑی تکلیف ہوئی کیونکہ ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی نیکی پر بہت یقین تھا.وہ لدھیانہ میں رہا کرتے تھے اور مخالف لوگ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے خلاف کچھ کہتے تو وہ ان سے جھگڑ پڑتے اور کہتے کہ تم پہلے حضرت مرزا صاحب کی حالت تو جا کر دیکھو.وہ تو بہت ہی نیک آدمی ہیں اور میں نے انکے پاس رہ کر دیکھا ہے کہ اگر انہیں قرآن مجید سے کوئی بات سمجھادی جائے تو وہ فورا ماننے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.وہ فریب ہرگز نہیں کرتے.اگر انہیں قرآن سے سمجھا دیا جائے کہ ان کا دعویٰ غلط ہے تو مجھے یقین ہے کہ وہ فور زمان جائیں گے.بہت دفعہ وہ لوگوں کے ساتھ اس امر پر جھگڑتے اور کہا کرتے کہ جب میں قادیان جاؤں گا تو دیکھوں گا کہ وہ کس طرح اپنے دعویٰ سے تو بہ نہیں کرتے.میں قرآن کھول کر انکے سامنے رکھ دوں گا اور جس وقت میں قرآن کی کوئی آیت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ آسمان پر جانے کے متعلق بتاؤں گا وہ فورا مان جائیں گے.میں خوب جانتا ہوں وہ قرآن کی بات سن کر پھر کچھ نہیں کہا کرتے.آخر ایک دن انہیں خیال آیا اور لدھیانہ سے

Page 422

خطبات محمود سال ۱۹۳۲ء قادیان پہنچے اور آتے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کہا کہ کیا آپ نے اسلام چھوڑ دیا ہے اور قرآن سے انکار کر دیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا یہ کس طرح ہو سکتا ہے.قرآن کو تو میں مانتا ہوں اور اسلام میرا مذہب ہے.کہنے لگے الْحَمْدُ لِلہ میں لوگوں سے یہی کہتا رہتا ہوں کہ وہ قرآن کو چھوڑ ہی نہیں سکتے پھر کہنے لگے.اچھا اگر میں قرآن مجید سے سینکڑوں آئیں اس امر کے ثبوت میں دکھا دوں کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر زندہ چلے گئے ہیں تو کیا آپ مان جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا سینکڑوں آیات کا تو کیا ذ کر اگر آپ ایک ہی آیت مجھے ایسی دکھا دیں گے تو میں مان لوں گا.کہنے لگے الْحَمْدُ لِلہ میں لوگوں سے یہی بخشیں کرتا آیا ہوں کہ حضرت مرزا صاحب سے منوانا تو کچھ مشکل بات نہیں.یونہی لوگ شور مچارہے ہیں.پھر کہنے لگے اچھا سینکڑوں نہ سہی میں اگر تو آیتیں ہی حیات مسیح کے ثبوت میں پیش کردوں تو کیا آپ مان لیں گے.آپ نے فرمایا میں نے تو کہہ دیا ہے کہ اگر آپ ایک ہی آیت ایسی پیش کر دیں گے تو میں مان لوں گا.قرآن مجید کی جس طرح سو آیتیوں پر عمل کرنا ضروری ہے اسی طرح اس کے ایک ایک لفظ پر عمل کرنا ضروری ہے.ایک یا سو آنتوں کا سوال ہی نہیں.کہنے لگے اچھا سو نہ سہی پچاس آیتیں اگر میں پیش کردوں تو کیا آپ کا وعدہ رہا کہ آپ اپنی بات چھوڑ دیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پھر فرمایا میں تو کہہ چکا ہوں آپ ایک ہی آیت پیش کریں میں ماننے کے لئے تیار ہوں.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام جوں جوں اس امر پر پختگی کا اظہار کرتے جائیں انہیں شبہ ہو تا جائے کہ شاید اتنی آیتیں قرآن میں نہ ہوں.آخر کہنے لگے اچھا دس آیتیں اگر میں پیش کردوں تو پھر آپ ضرور مان جائیے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہنس پڑے اور فرمایا میں تو اپنی پہلی ہی بات پر قائم ہوں آپ ایک آیت ایسی پیش کریں.کہنے لگے اچھا میں اب جاتا ہوں.چار پانچ دن تک آؤں گا اور آپ کو قرآن سے ایسی آیتیں دکھلا دوں گا.ان دنوں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی لاہور میں تھے اور حضرت خلیفہ اول بھی وہیں تھے اور مولوی محمد حسین بٹالوی سے اس وقت مباحثہ کے لئے شرائط کا تصفیہ ہو رہا تھا جس کے لئے آپس میں خط و کتابت بھی ہو رہی تھی.مباحثہ کا موضوع وفات مسیح تھا.مولوی محمد حسین بٹالوی یہ کہتے تھے کہ چونکہ قرآن مجید کی مفتر حدیث ہے اس لئے جب حدیثوں سے کوئی بات ثابت ہو جائے تو وہ قرآن مجید کی ہی بات سمجھی جائے گی اس لئے حدیثوں کی رو سے وفات و حیات مسیح پر بحث ہونی چاہئے.اور حضرت مولوی صاحب فرماتے کہ

Page 423

خطبات محمود ۴۱۸۰ سال ۱۹۳۲ء قرآن مجید حدیث پر مقدم ہے اس لئے بہر صورت قرآن سے اپنے مدعا کو ثابت کرنا ہو گا.اس پر بہت دنوں بحث رہی اور بحث کو مختصر کرنے کے لئے اور اس لئے کہ تا کسی نہ کسی طرح مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے مباحثہ ہو جائے حضرت خلیفہ اول اس کی بہت سی باتوں کو تسلیم کرتے چلے گئے.اور مولوی محمد حسین صاحب بہت خوش تھے کہ جو شرائط میں منوانا چاہتا ہوں وہ مان رہے ہیں اس دوران میں میاں نظام الدین صاحب وہاں جاپہنچے اور کہنے لگے اب تمام بحثیں بند کر دو.میں اب حضرت مرزا صاحب سے مل کر آیا ہوں اور وہ بالکل تو بہ کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں.میں چونکہ آپ کا بھی دوست ہوں اور حضرت مرزا صاحب کا بھی اس لئے مجھے اس اختلاف سے بہت تکلیف ہوئی.میں یہ بھی جانتا تھا کہ حضرت مرزا صاحب کی طبیعت میں نیکی ہے اس لئے میں ان کے پاس گیا اور ان سے یہ وعدہ لے کر آیا ہوں کہ قرآن سے دس آیتیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر جانے کے متعلق دکھادی جائیں تو وہ حیات مسیح علیہ السلام کے قائل ہو جائیں گے آپ مجھے ایسی دس آیتیں بتلادیں.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی طبیعت میں غصہ بہت تھا اور وہ بہت جلد باز تھے.کہنے لگے کم بخت تو نے میرا سارا کام خراب کر دیا.میں دو مہینے سے بحث کر کے ان کو حدیث کی طرف لایا تھا اب تو پھر قرآن کی طرف لے گیا.میاں نظام الدین کہنے لگے اچھا تو دس آیتیں بھی آپ کی تائید میں نہیں.وہ کہنے لگے تو جاہل آدمی ہے تجھے کیا پتہ کہ قرآن کا کیا مطلب ہے وہ کہنے لگے اچھا تو پھر جدھر قرآن ہے ادھر ہی میں بھی ہوں.یہ کہہ کر وہ قادیان آئے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کرلی.دیکھو قرآن پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کس قدر اعتماد تھا.اور آپ کتنے وثوق سے فرماتے تھے کہ قرآن، آپکے خلاف نہیں ہو سکتا.اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ قرآن کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کوئی خاص رشتہ ہے یا اس کا جماعت احمدیہ سے خاص تعلق ہے.قرآن تو سچائی کی راہ دکھائے گا اور جو فریق سچ پر ہو گا، اس کی حمایت کرے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو چونکہ یقین تھا کہ آپ حق پر ہیں اس لئے قرآن بھی آپ کے ساتھ تھا یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ اگر میرا کوئی دعویٰ قرآن کے مطابق نہ ہو تو میں اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دوں.اس کا یہ مطلب تو ہر گز نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے دعوی کے متعلق کوئی شک تھا بلکہ یہ کہنے کی وجہ یہ تھی کہ آپ کو یقین تھا کہ قرآن میری تصدیق ہی کرے گا.یہ امید ہے جس نے ہمیں دنیا میں کامیاب کر دیا اور آج وہی قرآن ہمارے

Page 424

خطبات محمود ۴۱۹ سال ۱۹۳۲ء ہاتھوں میں ایک زندہ کتاب ہے.کل ہی مجھے ایک دوست نے جو غیر احمدی ہیں ، خط لکھا جس میں وہ لکھتے ہیں.میں نے آج سے کچھ عرصہ پہلے سلسلہ کی مخالف کتابیں پڑھیں اور مجھے ان کے پڑھنے سے یوں معلوم ہوا کہ ان لوگوں میں نہ صرف یہ کہ صداقت نہیں بلکہ ان کا صداقت سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں.پھر میں نے کچھ سلسلہ کی کتابیں پڑھیں تو مجھے محسوس ہوا کہ ان کتابوں میں روحانیت پائی جاتی ہے.مجھے آپ اور ایسی کتابیں بتائیں جو میں پڑھوں اور جن کے پڑھنے سے مجھے سلسلہ کے متعلق مزید واقفیت حاصل ہو.یہ کیا چیز ہے جس کی وجہ سے قرآن ہمیں ہر میدان میں کامیاب کر دیتا ہے.وجہ یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمارے دلوں میں یہ امید بھر دی ہے کہ قرآن خدا کا کلام ہے اور اس پر جو شخص غور کرے گا وہ اس میں نئے حقائق اور نئے معارف پائے گا.باقی لوگ نا امید ہو گئے اور انہوں نے خیال کیا کہ جو کچھ ان کے بزرگوں کو مل گیا وہی سب کچھ تھا.اب آئندہ کے لئے قرآن کے معارف کا دروازہ بند ہو چکا اور چونکہ اللہ تعالیٰ کا ہر شخص سے اس کی نیت کے مطابق معاملہ ہوتا ہے اس لئے جب مسلمانوں نے یہ کہہ دیا کہ اللہ تعالی نے اپنے معارف کا دروازہ بند کر دیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے حقیقتاً ان پر قرآن کے معارف کے دروازے کو بند کر دیا.رسول کریم مال ایک دفعہ وعظ فرما رہے تھے.آپ نے بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالٰی نے بتایا ہے ابھی تین آدمی اس مجلس میں آئے.ایک نے دیکھا کہ بیٹھنے کی کوئی جگہ نہیں وہ یہ دیکھ کر واپس چلا گیا.دوسرا شخص آیا اور اسے جہاں بیٹھنے کی جگہ مل گئی بیٹھ گیا.اسے شرم آئی کہ وہ واپس جائے.پھر تیرا شخص آیا اس نے بھی دیکھا کہ بیٹھنے کے لئے جگہ نہیں.مگر اس نے گھس کر آگے اپنے لئے جگہ بنالی.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ شخص جو آیا اور مجلس سے منہ پھیر کر چلا گیا میں نے بھی اس کی طرف سے منہ پھیر لیا اور جس نے شرم کی اور بیٹھ گیا میں نے بھی اس کے گناہوں سے چشم پوشی کی اور وہ شخص جس نے آگے اپنے لئے جگہ بنالی میں نے بھی اسے اپنے قرب میں جگہ دی تو جیسا انسان خدا سے اپنے متعلق امید رکھتا ہے ویسا ہی اس سے سلوک ہوتا ہے.جب ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے یہ امید پیدا کی ہے کہ وہ ہم پر اپنے معارف کھولے گا تو یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہم پر معارف کا دروازہ کھولا گیا.نہ صرف پہلوں جتنا بلکہ ان سے بہت زیادہ اس لئے کہ ہر زمانہ کے لئے معارف اور علوم الگ الگ ہوتے ہیں.ہمیں اللہ تعالیٰ نے تازہ الہام کے زمانہ کا قرب عطا کیا ہے.پس اس وجہ سے ہم پر بہت زیادہ معارف کھلے.مگر پہلے مفترین میں سے کوئی ایسا مفتر نہیں جسے یہ بات حاصل ہوئی ہو بلکہ تمام مفسرد و سواد ر

Page 425

خطبات محمود ۴۲۰ سال ۱۹۳۲ء چار سو سال کے بعد ہوئے.اس لئے بہت سے معارف حاصل کرنے میں ان سے کوتاہی ہوئی.مگر ہمیں اللہ تعالٰی نے ان سے بہت زیادہ علوم عطا کئے ہیں.نادان ہیں وہ جو کہتے ہیں کہ رازی نے جو کچھ لکھ دیا وہی ہمارے لئے کافی ہے.امام رازی الہام کے سلسلہ سے پانچ چھ سو سال بعد ہوئے اور ہم سے اللہ تعالیٰ نے الہام کے سلسلہ کو یوں قریب کیا ہے جس طرح دو انگلیاں آپس میں پیوست ہوتی ہیں.پس یاد رکھو تمام کامیابیاں امید سے وابستہ ہیں.رسول کریم میں حدیث قدسی میں فرماتے ہیں کہ اَنَا عِنْدَ فَلَنْ عَبْدِی بی خدا بندے سے ویسا ہی معاملہ کرتا ہے جیسا بندہ اس پر گمان کرتا ہے.پس کبھی مت خیال کرو کہ اللہ تعالٰی کی رحمت اور اس کے فضلوں کے دروازے بند ہو چکے ہیں.اور کبھی مت خیال کرو کہ روحانیت کے مدارج پہلے لوگ حاصل کر چکے ہیں.اب حاصل نہیں ہو سکتے.یہ سب باطل خیالات ہیں وہم ہیں اور جنون فاسدہ سے زیادہ ان کی کوئی حقیقت نہیں.جتنا جتنا یہ خیال راسخ ہو تا چلا جائے گا اتنا ہی کفر دلوں میں راسخ ہونا شروع ہو جائے گا.پس خوب سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہر چیز پر وسیع ہے.اور ہر شخص جو اللہ تعالیٰ کی خواہش کرتا ہے وہ اسے پالیتا ہے.بقول مسیح ناصری " جو کوئی مانگتا ہے اسے دیا جاتا ہے اور جو ڈھونڈتا ہے وہ پاتا ہے.اور جو کھٹکھٹاتا ہے اس کے واسطے کھولا جائے گا.پس اللہ تعالیٰ کا دروازہ کھٹکھٹاؤ تاوہ تمہارے لئے کھولا جائے.قرآن مجید بھی فرماتا ہے محلاً تمدُّ هَؤُلَاءِ وَ هَؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَتِكَ کہ جو شخص بھی کوشش کرتا ہے اور جس رنگ میں بھی کوشش کرتا ہے وہ کامیاب ہو جاتا ہے.پس ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ کبھی مایوس نہ ہو.اور نہ کبھی ہمت ہارے کیونکہ تمام قسم کی تاریکیاں ، تمام قسم کے گناہ اور تمام قسم کے عیوب اسی وقت پیدا ہوتے ہیں جب انسان مایوس ہو جائے اور اپنے لئے چھوٹے درجہ پر قانع رہے.مگر وہ جو اللہ تعالٰی کے فضلوں پر امید رکھتا ہے وہ آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں اللہ تعالیٰ کے قرب کا مقام حاصل کر لیتا ہے.اور اگر وہ نہ بھی کرے اور اسی جدوجہد میں مرجائے تب بھی وہ اس سپاہی کی طرح ہو گا جو اپنے ملک کی خاطر لڑتا ہوا مارا گیا.کیا تم یہ خیال کر سکتے ہو کہ وہ سپاہی جس نے اپنے ملک کی خاطر جان دیدی جو اس نے فتح کا دن نہیں دیکھانا مراد رہا.ہر گز نہیں.معمولی سی عقل والی گورنمنٹ بھی اس کی قدر کرتی ہے.اور اگر وہ اسے انعام نہیں دے سکتی تو اس کے بیوی بچوں کو بدلہ دیتی ہے.لیکن اللہ تعالٰی کی

Page 426

خطبات محمود ۴۲۱ سال ۱۹۳۲ء حکومت سے تو کوئی شخص باہر نہیں.جو اس جہاں میں مرجاتا ہے وہ اگلے جہاں میں زندہ ہوتا ہے.پس ایسا شخص بھی جو اللہ تعالیٰ کے قرب کا مقام حاصل کرنے کی جدوجہد میں وفات پا گیا گو اسے قرب حاصل نہیں ہوا اگلے جہاں میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث ہو گا.کیونکہ وہ اس سپاہی کی طرح ہے جس نے اپنے ملک کی خاطر جان دیدی.الفضل ۱۴- اپریل ۱۹۳۲ء) لے مسلم كتاب البر والصلة والادب باب النهي من قول ملك الناس مسلم كتاب التوبة باب قبول توبة القاتل وان كثر قتله يوسف : ۸۸ الزمر : ۵۴ ا بخارى كتاب التوحيد باب قول الله يريدون ان يبدلوا كلام الله....الخ کہ بنی اسراءیل :۲۱

Page 427

محمود ۴۲۲ 51 سال ۱۹۳۲ء دنیا کی ترقی کا مدار اور اللہ تعالیٰ کے قرب کا حصول الهام الہی پر منحصر ہے (فرموده ۱۵ اپریل ۱۹۳۲ء) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- مذہب کی بنیاد حقیقتاً وحی الہی پر ہوتی ہے.اور مذہب کی ضرورت بھی تبھی سمجھی جاسکتی ہے جب انسانی عقل بعض مقامات پر جا کر رک جاتی ہو اور ہمیں مدد دینے سے قاصر رہ جاتی ہو ورنہ اگر انسان اپنی عقل اور تدبیر سے ہی تمام کام چلا سکتا تو یقینا اس امر کی کوئی ضرورت نہ ہوتی اور کوئی ضرورت نہیں تھی کہ اللہ تعالیٰ اپنے الہام کے ذریعہ دنیا کو ہدایت دے یا انبیاء علیہم السلام کو مبعوث کر کے دنیا کے امن کو بظاہر خطرہ میں ڈال دے.اللہ تعالی کی طرف سے دنیا میں جب بھی کوئی مامور آتا ہے تو دنیا میں خطرناک فساد پیدا ہو جاتا ہے اور ظاہر میں نگاہیں محسوس کرتی ہیں کہ بجائے امن ترقی کرنے کے فتنہ فساد کی راہیں کھل گئیں بجائے قلوب میں محبت پیدا ہونے کے لڑائی اور جھگڑے کے لئے راستے پیدا ہو گئے اور بجائے ترقی کرنے کے لوگ تنزل کی طرف مائل ہو گئے اور اس میں کوئی شبہ نہیں اگر ہم انبیاء کی روحانی برکات کو نظر انداز کر دیں اور وہ امیدیں جو ان کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں انہیں بھلا دیں تو یقینا وہ فتنہ و فساد جو ان کی بعثت پر رونما ہوتا ہے اتنا بھیانک اور ایسا خطرناک نظر آتا ہے کہ انسانی عقل اس پر دنگ اور حیران رہ جاتی ہے اور یہ صرف کفار کا ہی نظریہ نہیں ہو تا مومن بھی یہی سمجھتے اور کہتے ہیں بلکہ مومنوں نے ہی کیا کہنا ہے اللہ تعالٰی کے ملائکہ بھی یہی کہتے ہیں جب اللہ تعالٰی نے حضرت آدم علیہ السلام کو مبعوث کیا تو

Page 428

خطبات محمود ۲۳ حرام سال ۱۹۳۲ء اس وقت فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہی کہا آپ کے مبعوث کرنے لگے ہیں ہمیں نظر آتا ہے کہ اس کے ذریعہ دنیا میں سفک دم ہو گا.جھگڑا و فساد پیدا ہو گا.اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی اس بات سے انکار نہیں کیا.بلکہ اسے تسلیم کیا لیکن ساتھ ہی کہا کہ اس کا فائدہ نقصانات سے بہت زیادہ ہے.بے شک اس کے ذریعہ دنیا میں فتنہ و فساد پیدا ہو گا.بے شک باپ بیٹے سے اور بیٹا باپ سے جدا ہو گا.بے شک لوگوں میں تفرقہ اور شقاق پیدا ہو جائے گا.اور بے شک آپس کی محبت اور پیار میں انقطاع واقع ہو جائے گا.لیکن پھر بھی جو فوائد اس کی بعثت سے متعلق ہیں وہ اس قدر زیادہ اور اتنے اہم ہیں کہ ساری دنیا کی تباہی بھی ان کے آگے کوئی حقیقت نہیں رکھتی.پھر ملائکہ نے ہی کیا کہنا ہے خود وہ انبیاء بھی جنہیں اللہ تعالٰی مبعوث کرتا ہے اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ان کے آنے پر دنیا میں فتنہ و فساد بھڑک اٹھتا ہے.حضرت مسیح علیہ السلام کا مشہور قول ہے.انہوں نے کہا کیا تم گمان کرتے ہو کہ میں زمین پر صلح کرانے آیا ہوں.میں تم سے کہتا ہوں کہ نہیں بلکہ جدائی کرانے.کیونکہ اب سے ایک گھر کے پانچ آدمی آپس میں مخالفت رکھیں گے.دو سے تین اور تین سے دو.باپ بیٹے سے مخالفت رکھے گا اور بیٹا باپ سے.ماں بیٹی سے اور بیٹی ماں سے.ساس بہو سے اور بہو ساس سے.میں اس لئے آیا ہوں کہ آدمی کو اس کے باپ سے اور بیٹی کو اس کی ماں سے اور بہو کو اس کی ساس سے جدا کردوں.اور آدمی کے دشمن اس کے گھر ہی کے لوگ ہوں گے.اور پھر انبیاء نے ہی کیا کہنا ہے خود دنیا کو پیدا کرنے اور ان رسولوں کو مبعوث کرنے والا خدا بھی یہی کہتا ہے.چنانچہ وہ فرماتا ہے ہم جب بھی دنیا میں الہام نازل کرتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے.اَمَرُنَا مُتْرَفِيْهَا فَفَسَقُوْا فِيهَا " ہمارے احکام جب اس زمانہ کے مرقد الحال لوگوں کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں اور وہ ان کا انکار کرتے ہیں تو لڑائی اور فساد ترقی کر جاتا ہے.پس ہر ایک ہستی اس بات پر متفق ہے.خواہ وہ خالق ہو یا مخلوق ، نبی ہوں یا فرشتے ، مومن ہوں یا کافر کہ انبیاء کی بعثت کے ساتھ دنیا میں عالمگیر لڑائی رجھگڑا پیدا ہو جاتا ہے.کفر اور اسلام اس بات پر جمع ہو جاتا ہے اور مومن و کافر کا اس بات پر اتفاق ہے کہ انبیاء کے ساتھ دنیا میں فتنہ و فساد نہ صرف رونما ہو تا بلکہ حد سے زیادہ ترقی کر جاتا ہے.مگر سوال یہ ہے کہ پھر کیوں اللہ تعالیٰ ان فتنہ و فساد کی راہوں کا کھلا رہنا برداشت کر لیتا ہے.کیوں نبیوں کو مبعوث کر کے ان جھگڑوں میں اضافہ کر دیتا ہے اور کس لئے سلسلہ نبوت کو بند کر کے دنیا کو امن و چین سے زندگی بسر کرنے نہیں دیتا.اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ فتنہ و فساد خدا کے ا

Page 429

خطبات محمود کم ۲ موم کلام کی وجہ سے پیدا نہیں ہو تا بلکہ نفوس کی گندگی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے.اگر اس فتنہ و فساد کا موجب اللہ تعالیٰ کے انبیاء ہوتے تو کبھی اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو دنیا میں نہ بھیجتا کیونکہ وہ فتنہ و فساد پسند نہیں کرتا.در حقیقت لوگ خود گندے ہوتے ہیں نبی ان میں اور گند پیدا نہیں کرتے بلکہ ان کے اندر جو مخفی گند ہو اسے ظاہر کر دیتے ہیں.جس طرح طبیب ایک بیمار کو مسل دیتا ہے.اور اس کے پیٹ سے گندے مُہرے نکلتے ہیں تو کوئی نہیں کہتا کہ اس طبیب نے میرا پیٹ خراب کر دیا یا جلاب دے کر معدہ کو گندہ کر دیا.بلکہ ہر شخص یہی کہتا ہے کہ پیٹ میں پہلے سے گند موجود تھا طبیب نے مسل دے کر اسے باہر نکال دیا.اور اس کے مخفی عیب کو ظاہر کر دیا.یہی حال انبیاء کی تعلیم کا بھی ہوتا ہے.جب وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہو کر اس کی تعلیم پیش کرتے ہیں تو وہ تعلیم مسہل اور جلاب کی طرح لوگوں کے گند کو باہر نکال دیتی ہے.یہ نہیں کہ وہ گند ان کی وجہ سے پیدا ہو تا ہے بلکہ ان کی وجہ سے ان کا مخفی گند ظاہر ہو جاتا ہے.پس انبیاء علیہم السلام کی مثال اس طبیب کی سی ہوتی ہے جو جلاب کے ذریعہ مادہ فاسدہ کا اخراج کرتا ہے یا ان کی مثال اس جراح کی سی ہوتی ہے جو نشتر کے ذریعہ پھوڑے سے پیپ خارج کر دیتا ہے.بظاہر ایک بند پھوڑے میں کوئی پیپ دکھائی نہیں دیتی لیکن ڈاکٹر کا نشتر کئی کئی چھٹانک بلکہ بعض دفعہ سیروں پیپ اس میں سے نکال دیتا ہے.اور کوئی نہیں کہتا کہ ڈاکٹر نے پیپ پیدا کر دی بلکہ ہر شخص یہی کہے گا کہ پیپ پہلے سے موجود تھی ڈاکٹر نے صرف چیر کر ا سے نکال دیا.پس مریض احسان مند ہوتا ہے نه که معترض اسی طرح اگر انبیاء کی بعثت سے دنیا میں فتنہ و فساد بڑھ جاتا ہے.اگر انبیاء کی بعثت سے لڑائی اور جھگڑا رو نما ہو جاتا ہے اور اگر انبیاء کی بعثت سے لوگوں کے گند اور خرابی میں ترقی ہو جاتی ہے تو اس کی یہ وجہ نہیں کہ وہ خرابی یا فتنہ و فساد انبیاء پیدا کرتے ہیں بلکہ یہ ہے کہ گند پہلے سے موجود ہوتا ہے وہ اس گند کو ظاہر کر دیتے ہیں.پس انبیاء کی بعثت پر تو کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا لیکن اس سے اتنا ضرور تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ انبیاء کی بعثت نہایت ہی اہم مقاصد پر مشتمل ہوتی ہے کیونکہ اگر ان کی بعثت نہایت ہی عظیم الشان امور کی سرانجام دہی کے لئے نہ ہو تو ان کے آنے پر جس قدر فتنہ و فساد پیدا ہوتا ہے اسے دیکھتے ہوئے مصلحت وقت کا تقاضا ہی ہو تاکہ انہیں دنیا میں نہ بھیجا جائے.مگر باوجو دفتنہ و فساد پیدا ہونے کے اللہ تعالیٰ کا انبیاء کو مبعوث کرنا ظاہر کرتا ہے کہ جو بظا ہر نقصان دکھائی دیتا ہے اس سے نفع بہت زیادہ ہے.پس باوجود اس کے کہ انبیاء کی بعثت سے ہر گھر میں فتنہ پیدا ہو جاتا ہے ہر گاؤں

Page 430

خطبات محمود ۴۲۵ میں فتنہ پیدا ہو جاتا ہے.ہر شہر میں فتنہ پیدا ہو جاتا ہے.ہر ملک میں فتنہ پیدا ہو جاتا ہے.اور ہر قوم میں فتنہ پیدا ہو جاتا ہے.پھر بھی اللہ تعالیٰ کا انہیں مبعوث کرنا بتاتا ہے کہ انسانی عقل راہنمائی کے لئے کافی نہیں.اگر انسانی عقل ہی کافی ہوتی تو ایسی صورت میں انبیاء دنیا میں کبھی مبعوث نہ ہوتے.پس ایک طرف جب ہم اس فتنہ پر نگاہ دوڑاتے ہیں جو انبیاء کے آنے کے ساتھ دنیا میں پیدا ہو جاتا ہے اور دوسری طرف ہم انبیاء کے تواتر اور تسلسل کو دیکھتے ہیں تو لازماً ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وحی الہی اپنے ساتھ کوئی ایسی زائد چیز رکھتی ہے جسے ہم بغیر وحی کے حاصل نہیں کر سکتے.انہیں چیزوں میں سے میں اس وقت ایک موٹی چیز کا ذکر کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ عقل کی بنیاد جذبات پر نہیں ہوتی.بلکہ اس کی بنیاد دلیل پر ہوتی ہے اور دلیل جذبات کو دباتی ہے بڑھاتی نہیں.جتنا جتنا کسی امر میں دلیل کا غلبہ ہوتا جائے گا اتنا ہی اس امر میں محبت کا پہلو کم ہو تا چلا جائے گا.اور جتنی جتنی عقل کی اتباع کی جائے گی اتنے ہی جذبات کمزور ہوتے چلے جائیں گے.لیکن اس کے مقابلہ میں جتنا جتنا جذبات ترقی کریں گے اتنا ہی عقل کا پہلو کمزور ہو تا جائے گا.یہاں تک کہ جذبات ترقی کر کے بعض دفعہ ایسی صورت اختیار کرلیں گے کہ وہ عقل کا دروازہ بالکل بند کر دیں گے.چنانچہ کئی مائیں محض جذبات کے غلبہ کی وجہ سے اپنے بچوں کے متعلق ایسی باتوں پر آمادہ ہو جاتی ہیں جو صریح طور پر ان کے لئے نقصان رساں ہوتی ہیں.لیکن جذبات کا غلبہ عقل کے اس پہلو کو کمزور کر دیتا ہے.ہر جگہ وہ عقل سے کام لیں گی لیکن جہاں اپنے بچہ کے متعلق سوال پیدا ہو گا رہ جائیں گی کیونکہ محبت کی بے جا زیادتی انسانی عقل پر پردہ ڈال دیتی ہے.بڑی بڑی عقل اور فہم و فراست والے لوگوں کے متعلق بھی دیکھا جاتا ہے کہ جہاں ان کے دوستوں اور عزیزوں کے متعلق کوئی سوال پیدا ہوتا ہے ، وہاں ان سے کو تاہی ہو جاتی ہے.وہ ساری دنیا کو عقل سکھائیں گے.ساری دنیا کو فہم و فراست کا سبق دیں گے لیکن اپنے دوستوں اور عزیزوں کے متعلق اپنا ہی دہرایا ہوا سبق بھول جائیں گے.ان کے جذبات ان کی عقل پر غالب آجائیں گے.اور وہ رعائتیں کریں گے.بے انصافی شروع کر دیں گے اور اس امر کو بالکل فراموش کر دیں گے کہ نا انصافی اور بے جار عائتیں ہی دنیا کو تباہ کرتی ہیں.پس عقل اور جذبات ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے.ہاں ان دونوں کو جمع کرنے والی ایک زائد چیز ہے اور وہ وحی الہی ہے.خالی عقل کبھی دنیا میں کامیاب نہیں کر سکتی.اسی طرح خالی جذبات دنیا میں کبھی کامیاب نہیں کر سکتے.یہ دونوں متضاد چیزیں ہیں.اور یہ دونوں آپس میں کبھی نہیں مل سکتیں.جس طرح آگ اور پانی

Page 431

خطبات محمود ۴۳۶ سال متضاد چیزیں ہیں اسی طرح عقل اور جذبات متضاد چیزیں ہیں.لیکن جس طرح دانا آدمی آگ اور پانی ملا کر ان سے نہایت مفید کام لینا شروع کر دیتے ہیں.انجن اور مشینیں انہیں دونوں کو ملانے سے چلتی ہیں.اسی طرح ان دو متضاد چیزوں کو بھی ایک اور زبر دست چیز جوڑتی ہے اور وہ چیز جو انسانی مشین کے اندر عقل اور جذبات کو متحد کر دیتی ہے وہ وحی الہی ہے.وگر نہ عقل اپنی جگہ نہایت مفید دکھائی دیتی ہے.اور وہ پورے استقلال کے ساتھ اپنے اس دعویٰ پر اصرار کرتی چلی جاتی ہے کہ دنیا میں صرف جذبات کے ساتھ کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی.اور اگر ہم وحی الہی کو نظر انداز کردیں تو ہمیں ایسا ہی تسلیم کرنا پڑتا ہے.اسی طرح جذبات اپنی جگہ اس دعویٰ پر اصرار کرتے ہیں کہ خالی عقل دنیا میں کچھ نہیں کر سکتی.اگر مجھے نظر انداز کر دیا جائے تو عقل بھی ناکارہ ہو جائے اور اگر ہم اس پر غور کریں تو ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ دنیا کی تمام ترقی جذبات پر مخی منحصر ہے.جذبات کہتے ہیں کہ عقل تو تجربہ کے بعد پیدا ہوتی ہے لیکن وہ بچہ جس نے آگے دنیا کو چلانا ہوتا ہے اس سے ماں باپ کی محبت کس چیز پر مبنی ہوتی ہے.ظاہر ہے کہ انکی محبت عقل پر مبنی نہیں ہوتی.بلکہ جذبات اس کا موجب ہوتے ہیں.اگر جذبات اس محبت کا موجب نہ ہوتے تو کبھی ماں باپ اپنے بچوں کو کھانا نہ کھلاتے.انہیں کپڑے نہ پہناتے.ان کی ضروریات کا خیال نہ رکھتے.کیونکہ عقل کہتی ہے ، ممکن ہے یہ آج تم سے کھا پی کر بڑے ہو کر نا فرمان ہو جائیں.یا عقل کہتی اپنے بچوں پر خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے جو روپیہ ہو اسے اپنے نفس پر خرچ کرو.مگر جذبات عقل پر غالب آجاتے ہیں.اور ماں باپ محض جذبات کی بناء پر کہتے ہیں ہمارا بچہ میں جان سے بھی زیادہ عزیز ہے.اگر عقل کے ساتھ بعض بچے پالے بھی جاتے تو بھی عقل زیادہ سے زیادہ یہ دلیل دے سکتی تھی کہ بچوں کو اس لئے کھلایا پلایا جائے کہ وہ بڑھاپے میں ماں باپ کے کام آئیں گے.مگر ایسے بھی تو بچے ہوتے ہیں جو ماں باپ کی آخری عمر میں پیدا ہوتے ہیں اور ماں باپ کو یقین ہوتا ہے کہ جب تک یہ جوان ہوں گے ہم قبروں میں چلے جائیں گے.مگر باوجود اس کے ماں باپ انہیں پالتے اور ان کی پرورش کرتے ہیں بلکہ جتنے جتنے ماں باپ بوڑھے ہوتے جاتے ہیں اتنی ہی ان کی محبت بچوں سے زیادہ ہوتی جاتی ہے.عام طور پر دنیا میں دستور ہے کہ جوانی کی اولاد اتنی پیاری نہیں ہوتی جتنی بڑھاپے کی ہوتی ہے.حالانکہ جوانی کی اولاد کے متعلق تو یہ خیال بھی کیا جاسکتا ہے کہ یہ کسی وقت ہمارے کام آئے گی.لیکن بڑھاپے کی اولاد کے متعلق تو ایسا خیال بھی پیدا نہیں ہوتا.پس اولاد کی تربیت جذبات سے ہی وابستہ ہے عقل سے نہیں.

Page 432

~~ خطبات محمود ۴۲۷ سال ۱۹۳۲ء اسی طرح سیاسی ترقیات بھی اس قومی یا ند ہی جذبہ کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں جو کسی قوم کے افراد میں جان قربان کر دینے کے متعلق پایا جاتا ہے.اگر لوگوں کے اندر جان قربان کر دینے کے متعلق جذبات نہ پائے جاتے تو دنیا کبھی ترقی نہ کر سکتی.وہی قومیں دنیا میں بڑھتی ہیں اور رہی قومیں دنیا میں بڑھ سکتی ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کو خطرہ میں ڈالا اور اس امر کے لئے تیار ہیں کہ جس وقت بھی ضرورت پیش آئے گی ہر رنگ میں قربانی کرنے کے لئے تیار رہیں گی.لیکن یہ کون سی عقل کہتی ہے کہ جاؤ اور جاکر خود تو مر جاؤ اور پچھلوں کو فائدہ پہنچاؤ.ایسے موقع پر عقل تو ہر شخص سے یہی کہے گی کہ اگر تو مر گیا تو تجھے اس سے کیا فائدہ کہ دوسروں کو فتح حاصل ہوگی.پس عقل جنگ کے موقع پر بھی یہی کے گی کہ مت لڑو.لیکن اس وقت جذبات غالب آجا ئیں گے.اور یہ جذ بہ دل کو چین لینے نہیں دے گا کہ یہ میرا ملک ہے اور میری قوم کو فتح حاصل ہونی چاہیئے اور یہ جذبہ کبھی اس امر پر غور کرنے نہیں دے گا کہ اگر میں مرگیا تو اس سے مجھے کیا فائدہ ہو گا.ایسے موقع پر جذبات کے مقابلہ میں عقلی دلائل بالکل بیچ نظر آئیں گے.پس یہ دعویٰ بھی جذبات کا صحیح ہے کہ بغیر جذبات کے کسی کام کو کر دیکھو ، اس میں کامیابی نہیں ہوگی.غرض ہم جب جذبات کے پہلو کو دیکھتے ہیں تو ہمیں ان کی بات ماننی پڑتی ہے اور اگر ہم عقل کی بات سوچیں تو ہمیں اس کی بات کو درست تسلیم کرنا پڑتا ہے.اس ورطہ حیرت سے اللہ تعالیٰ کا الہام ہی ہے جو باہر نکالتا ہے.اور بتاتا ہے کہ یہ بھی صحیح کہتا ہے اور وہ بھی صحیح کہتا ہے.مگر ان دونوں کی کچھ حدود ہیں.انہیں مد نظر رکھنا چاہئے.الہام کے بغیر جب ہم جذبات کو غالب کریں گے عقل رخصت ہو جائے گی.اور جب عقل کو غالب کریں گے تو جذبات کا پہلو بالکل دب جائے گا.لیکن الہام کہے گا کہ یہ دونوں باتیں درست ہیں.عقل بھی ضروری ہے اور جذبات بھی مفید ہیں.لیکن ہر ایک کے لئے ایک موقع اور محل ہے.پس الہام الہی کے ماتحت یہ دونوں متضاد چیزیں یکجا ہو جائیں گی.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے جرمن والے فرانس کے ملک میں نہ جاسکیں.اور فرانس والے جرمنی میں نہ آسکیں لیکن انگریزوں کے ملک میں یہ دونوں اکٹھے ہو جائیں.کیونکہ انگریز تیسری طاقت ہیں اسی طرح الہام الہی بھی عقل اور جذبات سے بالکل علیحدہ ایک ثالث اور منصف کی حیثیت میں ہے.اور وہ عقل اور جذبات کو اپنی اپنی جگہ پر قائم کر دیتا ہے.جس طرح دنیا میں بھی ہر جھگڑے میں ایک ثالث کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح ان عقلی اور جذباتی لڑائیوں میں بھی ایک ثالث کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ الہام الہی ہے.عقل اور جذبات کی جنگ میں سے مثلاً مرد و عورت کا

Page 433

خطبات محمود ۴۲۸ باہمی نزاع بھی ہے.عورتیں کہتی ہیں ہم دنیا کے ہر شعبہ میں ترقی.سکتی ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ قانون مردوں کے ہاتھ میں ہے.وہ جو چاہتے ہیں اپنے فائدہ کے لئے بنالیتے ہیں.اس کے مقابلہ میں اگر کسی امر میں عورتوں کا دخل ہو تو مرد کہہ دیتے ہیں کہ انہوں نے اپنے فائدہ کو مد نظر رکھا.ایسی صورت میں وحی الہی ہی ہے جو مرد و عورت کے حقوق کے متعلق روشنی ڈالتی اور اس جھگڑے کا درست تصفیہ کر سکتی ہے.اگر وحی الہی ایک ثالث کی حیثیت میں آکر ان جھگڑوں کا فیصلہ نہ کرے تو میاں بیوی آپس میں لڑتے ہی چلے جائیں گے اور باہم زندگی بسر کرنا محال ہو جائے گا.خدا کا الہام بتاتا ہے کہ خدا نہ مرد ہے نہ عورت اس لئے نہ وہ مردوں کے ساتھ رعایت کرتا ہے اور نہ عورتوں کی حق تلفی.اس کا فیصلہ عین انصاف ہے.غرض وحی الہی ایسی چیز ہے جو تمام قسم کی ترقیات کا صحیح راستہ بتاتی ہے.نہ صرف اللہ تعالیٰ سے تعلق وحی الہی کے ذریعہ ہوتا ہے بلکہ دنیاوی ترقیات بھی اسی کے ماتحت ہوتی ہیں.وہ لوگ جو یہ کہا کرتے ہیں کہ ایسی بھی قومیں ہیں جو بغیر وحی الہی کی راہنمائی کے خود بخود اسباب سے کام لینے کی وجہ سے ترقی کر جاتی ہیں جھوٹے ہیں.یورپ کی ترقی محض اسلامی تعلیموں پر عمل کرنے کی وجہ سے ہے.مردو عورت کے تعلقات سود اور بین الاقوامی تعلقات میں آج وہ اسلام کی طرف لوٹ رہا ہے.لیکن یورپ اس بات کا اقرار نہیں کرتا کہ اس نے یہ تمام باتیں اسلام سے سیکھیں بلکہ وہ اسے اپنے تجربات کا نتیجہ قرار دیتا ہے.حالانکہ تجربہ تو انہیں آج ہوا لیکن اسلام آج سے صدیوں پہلے انہیں یہی کہتا تھا جس کا وہ انکار کرتے رہے.بے شک یہ صحیح ہے کہ بہت ہی ٹھوکریں کھانے کے بعد اور ایک لمبے عرصہ تک مختلف مصیبتوں میں مبتلاء رہنے اور تجربہ حاصل کرلینے کی وجہ سے یورپ اسلامی مسائل کی طرف آیا.مگر ہم کہتے ہیں کہ اس تجربہ کی طرف پہلے خیال کیوں نہ آیا.یہ تو صریح طور پر اسلامی تعلیمات کا اثر ہے.لیکن وہ اسے چھپانے کے لئے کہتے ہیں کہ ہمارے تجربات نے ہم پر ایسا ظاہر کیا.کولمبس نے جب نئی دنیا کا سراغ نکالا تو اس وقت اس نے یہی کہا کہ میں نے مسلمانوں سے سنا تھا کہ اس طرف کوئی اور ملک بھی ہے.مجھے خیال پیدا ہوا کہ میں اس کی صحت کا پتہ لگاؤں.در اصل ان تمام تغیرات کی اصل وجہ اسلامی تعلیم ہے.وہ اس کا نام تجربہ رکھتے ہیں لیکن ان میں تجربہ کا خیال بھی اسلام ہی نے پیدا کیا ورنہ اسلام سے پہلے انہوں نے کیوں تجربہ نہ کر لیا.آخر دنیا کروڑہا کروڑ سال سے چلی آتی ہے.پہلے لوگوں نے کیوں نہ تجربہ کر لیا کہ یہ باتیں غیر مفید ہیں اور

Page 434

خطبات محمود ۴۲۹ مفید - کیا وجہ ہے کہ اسلام کے بعد ہی انہیں اس کا خیال آیا.اس کی وجہ یہی ہے کہ اسلام کی تعلیم ان کے کانوں پر متواتر پڑتی رہی.اور جب انہیں اپنی تعلیم میں خامیاں دکھائی دیں تو انہوں نے اسلامی تعلیم سے فائدہ اٹھایا.مگر منسوب اسے اپنے تجربہ کی طرف کر لیا.پس الہام الہی ایک نہایت ہی زبر دست انقلاب پیدا کرنے والی چیز ہے.میں اس وقت الہام الہی کے فوائد بیان کرنے نہیں کھڑا ہوا میرا مدعا یہ ہے کہ ہم جب عقل پر زور دیتے ہیں تو محض اس لئے کہ الہام عقل کی راہ بتاتا ہے.ورنہ جب ہم الہام الہی پر یقین رکھیں تو خواہ لاکھوں عقلیں اس کے خلاف کہیں ہمیں بہر صورت الہام الہی کو مقدم کرنا پڑے گا.بفرض محال ہمیں خدا تعالیٰ کا کلام اگر یہ کہے کہ دنیا میں سورج نہیں تو خواہ ہماری عقل لاکھ کے کہ سورج ہے تب بھی ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ یا تو واقعی سورج نہیں یا ہم سورج کا جو مفہوم سمجھتے رہے تھے وہ غلط ہے.کیونکہ خدا کا قانون تو یہ کہتا ہے کہ سورج ہے اور اس کا قول کہتا ہے کہ نہیں تو چونکہ خدا کے قول و فعل میں اختلاف نہیں ہو سکتا اس لئے سورج کا مفہوم ہم غلط سمجھتے ہیں.اسی طرح ہم علم طبیعات کا احترام کرتے ہیں.مگر اس لئے نہیں کہ اس میں غلطیاں نہیں بلکہ اس لئے کہ خدا کا کلام کہتا ہے کہ صحیح طبیعات خدا کے قول کے خلاف نہیں ہو سکتیں.اور چونکہ خدا کا کلام یہ کہتا ہے اس لئے ہم اس علم کا احترام کرتے ہیں.اسی طرح عقل کی بھی ہم قدر کرتے ہیں.مگر وہ عقل جو الہام الہی کے خلاف ہو وہ عقل نہیں بیوقوفی ہے.پس خوب یا د رکھو ابھی کلام سب سے مقدم چیز ہے اور جو لوگ خدائی الہام کے خلاف چل کر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے لئے کوئی اور عمدہ تعلیم بنا سکیں گے وہ خطرناک غلطی میں مبتلاء ہیں.آج تک کے دنیا کے تجربہ نے بتادیا ہے کہ جو لوگ الہام الہی کے خلاف چلتے ہیں وہ نقصان اٹھاتے ہیں.اور آخر انہیں ٹھوکریں کھا کھا کر اسلام کی طرف آنا پڑتا ہے.کروڑوں کروڑ لوگوں نے تجربہ کیا اور انہیں دھکے کھا کھا کر اسلام کی طرف لوٹنا پڑا اور انہیں تسلیم کرنا پڑا کہ اسلامی تعلیم ہی افضل ہے.اب جو شخص کہتا ہے کہ میں بھی اپنی عقل سے کام لے کر دیکھوں ممکن ہے اللہ تعالیٰ کے الہام نے غلط کیا ہو.اپنی عقل پر سوائے رونے کے اور کیا کیا جاسکتا ہے.پس دنیا کی ترقی کا دارو مدار اور اللہ تعالیٰ کے قرب کا حصول الہام الہی پر ہے.یہاں صرف عقل بالکل رہ جاتی ہے اور اس کا دائرہ عمل نہایت محدود ہو جاتا ہے.جذبات کے لئے بھی ایک میدان ہے اور عقل کے لئے بھی.اور ان دونوں میں جو چیز صلح کراتی ہے وہ ایسا مذ ہب ہے جو کلام الہی پیش کرے.اگر

Page 435

خطبات محمود ۴۳۰ سال ۱۹۳۲ء صرف عقل خداشناسی کے لئے کافی ہوتی تو الہام الہی کی ضرورت نہیں تھی، اسی طرح اگر صرف جذبات خدا کی معرفت حاصل کرنے کے لئے کافی ہوتے تو اللہ تعالی کے کلام کی کوئی ضرورت نہ تھی.مگر کلام الہی نے آکر بتا دیا کہ یہ دونوں چیزیں بغیر ایک تیسری چیز کے ساتھ ملے نتیجہ پیدا نہیں کر سکتیں.اسی امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے.فلسفی کز عقل ہے جو نہ ترا دیوانه است وہ فلسفی جو تجھے صرف عقل کے ذریعہ پہچاننا چاہتا ہے دیوانہ ہے.اللہ تعالیٰ کی معرفت انسان جب بھی پائے گا الہام الہی کی روشنی میں پائے گا.پس یاد رکھو دنیا کی کوئی قوم اس وقت تک حقیقی ترقی نہیں کر سکتی جب تک الہام الہی کے درجہ کو مقدم نہیں کر لیتی.احمدیت اس امر کی صداقت کا زندہ نشان ہے اور چیلنج ہے مذہب کی طرف سے تمام فلسفیوں کو اور عقل کے پیروؤں کو کہ تمہاری عقل نارسا اور اللہ تعالیٰ تک پہنچانے کے لئے ناکافی ہے.لیکن باوجود اس کے کہ احمدیت اسی بنیاد پر قائم کی گئی ہے اگر ہماری جماعت کے افراد بھی عقل کو الہام الہی پر مقدم کرنے لگیں اور وہ بھی کو تاہ نگاہ فلسفیوں کی طرح ہر روحانی چیز کو اپنی عقل کے پیمانہ سے ناپنا چاہیں تو وہ اپنی غرض کو خود باطل کرنے والے ہوں گے.احمدیت کی اسی لئے ضرورت ہے کہ دنیا کو الہام الہی کی ضرورت ہے.اور الہام جذبات اور عقل کے درمیان ثالث اور منصف کی حیثیت میں ان سے صحیح کام کراتا ہے.خالص جذبات ہماری رہنمائی کے لئے کافی ہوتے تو ہمیں الہام الہی کی ضرورت نہیں تھی.اسی طرح اگر صرف عقل کافی ہوتی تب بھی ضرورت نہیں تھی بلکہ الہام کی اسی وقت ضرورت محسوس ہوتی ہے جب ہم تسلیم کرلیں کہ عقل کسی جگہ رہ جاتی ہے اور جذبات کسی جگہ کام دینے سے انکار کر دیتے ہیں.پس یہ کہنا کہ ہم دنیا کے فلسفیوں کی طرح عقل کی اندھا دھند تقلید کریں گے خطرناک غلطی ہے.میں فرض محال کے طور پر کہتا ہوں اگر عقل یہ کہتی ہو کہ دنیا کا کوئی خدا نہیں ہونا چاہئے تو وہ عقل نہیں دیوانگی اور مجنونانہ بڑ ہے.اور اگر فرض بھی کر لو کہ ایسا کہنے والے عقلمند ہوں تب بھی انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اگر وہ کسی مذہب کے قائل ہیں تو انہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان کی عقل ناقص اور ادھوری ہے.ورنہ وہ مذہب کی ضرورت کو خود باطل کر رہے ہوں گے.پس وہ بے وقوف شخص ہے جو یہ ہے جو یہ کہتا ہے کہ اگر ایک طرف مذہب ہے اور دوسری طرف عقل تو ہمیں عقل کو اختیار کرنا چاہئے.کیونکہ اگر چہ اللہ تعالیٰ کا الہام عقل کے

Page 436

ملیات محمود ٣١ سال ۱۹۳۲ء خلاف نہیں ہو تا مگر یہ ضروری نہیں کہ انسانی عقل ہر قسم کی غلطی سے منزہ ہو.ہمیں چاہئے کہ ہم خدا کے کلام کو سوچیں اور اس پر غور کریں اور پتہ لگائیں کہ کہیں ہم سے تو اس کے معنے سمجھنے میں غلطی نہیں ہوئی.اور اگر اپنے آپ اپنی غلطی سے آگاہی نہ ہو تو زندہ انسانوں سے دریافت کرے اور کہے کہ میں تو خدا کے کلام کا یہ مفہوم سمجھتا ہوں مگر مجھے یہ خدا کے فعل کے خلاف دکھائی دیتا ہے آپ بتائیں.پھر اگر وہ کوئی درست راہ بتا ئیں تو اس کے پیچھے چلے.ورنہ پھر اپنے بزرگوں کی کتابیں دیکھے کہ انہوں نے کیا لکھا ہے اور اگر اس تمام تحقیق کے بعد اسے معلوم ہو کہ خدا کے کلام کا وہی مفہوم ہے جو اس نے سمجھا تو وہ اس کو اختیار کرے.اور عقل کی ٹھو کر اس کی کو تاہی اور کمزوری پر محمول کرے اور اگر اسے تحقیق و تجس کے بعد معلوم ہو کہ خدا کے کلام کا مفہوم سمجھنے میں اس سے کو تاہی ہوئی ہے تو وہ نئے معانی کے ماتحت خدا کے قول اور فعل کو متحد کردے اور اگر کسی صورت میں بھی اسے تسلی نہ ہو تو وہ بہر حال خدا کا کلام مقدم کرے اور عقل اور جذبات ان کے ماتحت کرے یہی گر ہے جس سے پہلی روحانی جماعتیں کامیاب ہو ئیں.اور یہی گر ہے جس سے اب ہماری جماعت ترقی کر سکتی ہے.وہ لوگ جو اپنے دماغوں میں فلسفیانہ خیالات رکھنے کی وجہ سے اللہ تعالٰی کے کلام پر اعتراض کرتے اور اپنی عقل کو اس پر حاکم بنانا چاہتے ہیں اگر وہ قرآن مجید کو اپنے لئے خضر راہ نہیں بناتے تو وہ قوم کے لئے طاعون کے کیڑوں سے کم نہیں.اور وہ جتنا جتنا پھیلیں گے اتنا ہی جماعت کو نقصان پہنچے گا.اور جتنے کم ہوں گے اور جتنی جلدی کم ہوں گے اتنا ہی زیادہ اس میں فائدہ ہے.ہمیں اللہ تعالٰی سے دعا کرنی چاہئے کہ وہ ایسے لوگوں کو ہدایت دے اور اس امر کی توفیق عطا فرمائے کہ وہ اللہ تعالٰی کے الہام کو اپنی عقل پر مقدم رکھیں اور اگر کسی وقت انکی ناقص عقلیں اللہ تعالیٰ کے کلام کے مقابلہ میں آجائیں تو وہ سمجھ جائیں کہ یہ ان کی عقل کی کوتاہی ہے.ورنہ خدا کی باتیں بالکل سچ ہیں.متی باب ۱۰ آیت ۳۴ تا ۳۶ مطبوعه ۱۹۰۸ء ( مفهوماً) بنی اسرائیل : ۱۷ الفضل ۲۴ - ایریل ۱۹۳۲ء)

Page 437

خطبات محمود 52 ہر نیکی استقلال کے ساتھ کرنی چاہئے (فرموده ۲۲ اپریل ۱۹۳۲ء) سال ۱۹۳۲ء تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- رسول کریم می لیہ کے متعلق احادیث میں آتا ہے کہ آپ نے فرمایا بہترین نیکی وہی ہے جس پر انسان استقلال کے ساتھ قائم رہے.جو حالت بطور ایک دورہ کے ہوتی ہے وہ حقیقی نہیں بلکہ ایک مرض کا نشان ہوتی ہے.جس طرح ایک دماغی مرض والا انسان کبھی ہنسے تو ہنستا ہی چلا جاتا ہے رونے لگے تو روتا ہی جاتا ہے کھانے لگے تو بس ہی نہیں کرتا اگر سوتا ہے تو سوتا ہی رہتا ہے اور جاگنے لگے تو ہفتوں اسے نیند ہی نہیں آتی ان تمام باتوں میں اس کے ارادہ کا دخل بالکل نہیں ہوتا.اور کسی فعل پر اسے سزا نہیں دی جاتی اسے کوئی نہیں پوچھتا کہ اس قدر رو تا یا ہنستا یوں ہے بلکہ اس کا علاج کرتے ہیں اس کا رونا رنج پر اور ہنسنا خوشی پر دلالت نہیں کرتا.سونا غفلت کی اور بیداری ہوشیاری کی دلیل نہیں ہوتی اسی طرح روحانی حالت میں بھی انسان پر ایسے اوقات آتے ہیں جب وہ کسی بیرونی اثر یا دماغی نقص کی وجہ سے ایک خاص حالت کو انتہاء تک پہنچا دیتا ہے اگر نماز پڑھنی شروع کرتا ہے تو حد ہی کر دیتا ہے.لیکن کچھ عرصہ کے بعد اگر اسے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا بالکل چھوڑ چکا ہے.جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا نمازیں پڑھنا روحانی حالت کی ترقی کیوجہ سے نہ تھا کیونکہ اگر خدا کے لئے وہ پڑھتا تو چھوڑ نہ دیتا.وہ ایک بیماری تھی جس طرح زیادہ کھانے یا زیادہ سونے کی بیماری ہوتی ہے اسی طرح زیادہ نمازیں پڑھنے کی بیماری بھی ہو سکتی ہے.مجھے ایک دفعہ لاہور کے پاگل خانہ میں جانے کا اتفاق ہوا جہاں سارے پنجاب کے پاگل رکھے جاتے ہیں ان میں سے ایک پاگل کو میں نے دیکھا جو شطرنج کھیلتا تھا اور یہ شوق اس پر ایسا سوار تھا کہ

Page 438

خطبات محمود ۳۳ مهم وہ خالی بیٹھ ہی نہ سکتا اس کے علاوہ اسے اور کوئی جنون نہ تھا دنیا کی کوئی بات کرو شطرنج کھیلتے ہوئے اس کا معقولیت سے جواب دیتا تھا اور اگر کوئی اور کھیلنے والا نہ ملے تو خود ہی دو آدمی بن کر لگا رہتا جو نہی اس نے ہمیں دیکھا دو ڑ کر آیا اور ہاتھ جوڑ کر منتیں کرنے لگا کہ خدا کے لئے ایک بازی کھیلو.ڈاکٹر نے بتایا کہ اسے یہی جنون ہے یہی حالت اور بعینہ یہی کیفیت روحانیت میں پیدا ہو سکتی ہے.ایک شخص روڑے رکھنے لگتا ہے تو بس ہی نہیں کرتا یا ہر وقت نمازیں ہی پڑھتارہتا ہے کبھی چندہ دینے پر آئے تو ساری عمر کا اکٹھائی دیدیتا ہے اور ایسا دیتا ہے کہ نسبت کا کوئی خیال ہی نہیں رہتا.بظاہر تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ کتنا نیک ہے جو کچھ گھر میں تھا لا کر چندہ میں دے دیا لیکن یہ نیکی نہیں یہ جنون یا خراب عادت کی علامت ہوتی ہے اصل نیکی وہ ہے جس کا انسان استقلال سے پابند ہو کیونکہ وہ خدا کے لئے ہوگی جس میں انسان سارے پہلو پر نظر رکھے یہ نہیں کہ اس پاگل کی طرح شطرنج ہی کھیلتا رہے اور سب کچھ فراموش کر دے.یوں تو شطرنج بادشاہ اور امراء بھی کھیلتے ہیں تاریخی حیثیت کا تو مجھے علم نہیں لیکن روایا سنا ہے کہ سکندر اعظم کو جن چیزوں سے انتہاء درجہ کی محبت تھی ان میں سے ایک شطرنج کی کھیل تھی اس سے عقل تیز ہوتی ہے اور بڑے بڑے سمجھدار اور بادشاہ بھی اسے کھیلتے ہیں لیکن انہیں کوئی پاگل نہیں کہتا کیونکہ وہ دنیا کے اور کام بھی کرتے ہیں پاگل خانہ میں محبوس شطرنج کے کھلاڑی کو اگر پاگل کہتے ہیں تو اس وجہ سے کہ وہ اور کوئی کام سوائے شطرنج کھیلنے کے نہ کرتا اسی طرح جو شخص روزے ہی رکھتا چلا جائے اور نماز حج زکوۃ سب کچھ چھوڑ دے یا نمازیں ہی پڑھتار ہے اور باقی تمام ارکان اسلام ترک کر دے تو وہ بھی پاگل سمجھا جائے گا.حضرت خلیفہ المسیح الاول سنایا کرتے تھے کہ شاہ ولی اللہ صاحب کی ایک بیٹی تھی انہوں نے اپنے بھائی شاہ محمد اسحاق صاحب سے کہا کہ میں ذکر الہی میں اتنا مزا محسوس کرتی ہوں کہ سمجھتی ہوں نوافل سے ذکر زیادہ مفید ہو گا اس لئے اب میں نفل چھوڑ کر ذکر پر زیادہ زور دیتی ہوں اور صرف فرض اور سنتیں ہی پڑھتی ہوں انہوں نے جواب دیا کہ بہن آپ میں جنون کا مادہ بڑھے رہا ہے جو آپ سے پہلے سنتیں اور آخر کار فرض بھی چھڑا دیگا لیکن انہوں نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے سنتیں تو وہ طریق ہے جو رسول کریم میں میں نے خدا تعالیٰ تک پہنچنے کا بتایا ہے لیکن تھوڑے دنوں کے بعد انہیں سنتیں ترک کر کے ذکر ہی کرنے کا خیال پیدا ہو نا شروع ہوا لیکن ان کی طبیعت کے اندر چونکہ سعادت تھی اس لئے وہ سنبھل گئیں اور بھائی سے بیان کیا کہ اب تو وہی کیفیت

Page 439

خطبات محمود مهم سموم سال ۱۹۳۲ء پیدا ہو رہی ہے کوئی علاج بتاؤ انہوں نے روحانی طریق پر یہ علاج بتایا کہ ذکر کے بجائے لاحول پڑھا کرد وہ ان کے بتائے ہوئے طریق پر لاحول پڑھتی رہیں ایک دن وہ اپنے مصلی پر بیٹھی تھیں کہ کشفی حالت میں دیکھا مصلی کے دوسرے سرے پر ایک بندر بیٹھا ہے جس نے کہا میں شیطان ہوں اور میں نے ضرور تجھ سے فرض بھی چھڑا دینے تھے لیکن تیرے بھائی نے شرارت کی.تو شیطان نے ان سے نیکی ہی کرائی لیکن ایک طرف اتنا متوجہ کر دیا کہ دوسری سب نیکیاں بھلوادیں.ایسی کیفیت در حقیقت یا تو جنون کا نتیجہ ہوتی ہے یا شیطانی اثرات کا.اور جس طرح دورہ کا ہونا نیکی نہیں اسی طرح ایک نیکی کی طرف متوجہ ہو جانا نیکی نہیں.ہمیں اسلام نے ہر بات سکھا دی ہے.رسول کریم میں اور ہم نے فرمایا کہ انسان کو جب جنت میں داخل کیا جائے گا تو اسے ایک پل سے گزرتا ہو گا.جس کا نام جسر الصراط ہے.وہ بال اور تلوار کی دھار سے بھی زیادہ باریک ہو گا.گزرنے والے نے اگر ذرا بھی غفلت کی تو کٹ کر نیچے جاپڑے گا.لوگ سمجھتے ہیں مرنے کے بعد واقعی کوئی ایسا پل ہو گا لیکن ہر عظمند سوچ سکتا ہے ایسے بار یک پل سے انسان کیونکر گزر سکتا ہے.اس پر سے گزرنے کے لئے یا تو انسان مداریوں کی طرح کرتب وغیرہ جانتا ہو ، جو رسوں پر چلتے ہیں یا پھر یہ کہ خود خداتعالی سکھا دے.اگر دوسری صورت ہے تو سکھا کر گزارنے کی کیا ضرورت ہے کیوں نہ یونہی گزار دیا جائے.پس نہ تو یہ خیال صحیح ہے کہ خدا تعالیٰ خود ہی سکھا کر گزار دے گا اور نہ یہ کہ مداریوں جیسے کرتب جانے والے ہی گزر سکیں گے.دراصل رسول کریم می نے بتایا ہے کہ جنت میں ایسے نازک رستے سے گزر کر جانا پڑتا ہے کہ انسان ہو شیار نہ ہو تو دوزخ میں گرنے کا اندیشہ ہوتا ہے.اس صورت میں اگر اگلے جہان میں اس کی تمثیل بھی ہو جائے تو کیا ہے.وہ ماضی کا ایک نظارہ ہو گا جو دکھایا جائے گا.وگر نہ رسول کریم میر نے اس میں یہ بتایا ہے کہ مومن کو دنیا میں ہوشیار رہنا چاہئے.وہ کوئی نیکی نہ چھوڑے اور استقلال کے ساتھ سب نیکیاں کرتا رہے.اور کبھی یہ نہ خیال کرے کہ میں نے جو کچھ کر لیا ہے کافی ہے.مؤمن کے لئے ہوشیار رہنا، ساری نیکیاں کرنا اور پھر استقلال دکھانا بہت ضروری ہے.میں نے اپنے دوستوں کے متعلق دیکھا ہے کہ اکثر میں استقلال کم ہے.اگر تبلیغ کرنے کا اعلان کیا جائے تو کرنے لگیں گے.مگر دوسری نیکیاں مثلاً اہل محلہ کی خبر گیری نماز چندوں کا خیال اتنا نہیں رکھتے.اور اگر کسی وقت چندہ کے لئے کہا جائے تو اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے چندہ کا ہی ذکر رہے گا.نہ نماز کا خیال رہے گا نہ روزہ کا نہ تبلیغ کا.صرف چندہ کسی اجر کا باعث نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ

Page 440

خطبات محمود ۴۴۳۵ سال ۱۹۳۲ء تو ایک عادت ہے.جس طرح ایک شخص کسی خاص کیفیت یا عادت کے ماتحت کچھ کرتا جاتا ہے.میں ایک دفعہ اپنے مکان میں ٹہل رہا تھا گلی میں دو سکھ جارہے تھے.ایک دوسرے سے کہہ رہا تھا او پرتاب سنگھا پکوڑے کھانے آں او پرتاب سنگھا پکوڑے کھانے آں.میں نے جو گلی میں سے جھانکا تو دو سر سکھ گلی کے دوسرے سرے پر جاچکا تھا.مگروہ وہیں دیوار سے ٹیک لگائے کے جارہا تھا.اوپر تاب سنگھا پکوڑے کھانے آں.بعینہ یہی حالت ہمارے بعض دوستوں کی ہوتی ہے.جس بات پر خطبہ پڑھا جائے.اس ہفتہ بس وہی کام کرنے کا انہیں خیال ہو جاتا ہے اور باقی سب ختم ہو جاتے ہیں.وہ یہ نہیں خیال کرتے کہ ہم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تم نے فلاں خطبہ والی نیکی کی تھی یا نہیں بلکہ یہ سوال ہو گا کہ ساری نیکیاں کی تھیں یا نہیں.خطبہ کی غرض صرف یاد دلانا ہے.اور مقصد یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی کسی نیکی کو بھول جائے تو یاد دلا دیا جائے لیکن صرف اسے شروع کر کے باقی کو فراموش کر دینا تباہ کن ہے.اور یہ روحانیت کو قتل کرنے کا افسوسناک طریق ہے.جب کسی خاص امر کی طرف متوجہ کیا جائے تو چاہئے کہ اس پر بھی عمل کریں اور باقی بھی نہ چھوڑیں اور برابر کرتے جائیں.جب تک کہ خود نہ کہا جائے کہ بس کرو.میں نے گزشتہ سال نصیحت کی تھی کہ دوست ہفتہ میں کم از کم ایک دن تجد ضرور پڑھا کریں.کئی دوستوں نے پڑھنا شروع کیا.مگر بعض نے پھر کچھ عرصہ کے بعد بند کر دیا.پھر چندہ خاص کی تحریک ہوئی اور ناظر صاحب بیت المال نے مجھے بتایا ہے کہ بعض دوست جن کی طرف بقائے رہ گئے تھے جب ان کو پھر تحریک کی گئی تو انہوں نے جواب دیا کہ اب تو ہمارے بھائی دے چکے.اب ہمارے دینے کی کیا ضرورت ہے.فرض کرد قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان سے کہے کہ اب تمہارے بھائی جنت میں چلے گئے تم دوزخ میں چلے جاؤ.اگر وہ اس جواب کو مان لینے پر آمادہ ہیں تو بے شک چندہ کی ادائیگی کے متعلق یہ جواب دے دیں.وگر نہ چندہ تو ہر مؤمن پر فرض ہے.جب تک کوئی اپنا حصہ ادا نہیں کر لیتا اس کے لئے تو دو زخ ہی ہے.پھر میں نے صلح کی تحریک کی اور دوستوں نے آپس میں خوب صلح کی لیکن اب میں دیکھتا ہوں پھر لڑائیاں شروع ہو گئی ہیں.جب اس تحریک کی طرف توجہ تھی تو تبلیغ کی طرف سے غافل ہو گئے اور پھر جب تبلیغ کی طرف متوجہ کیا گیا تو چندہ کو بھول گئے.اگر خطبات سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو یہ نہیں ہونا چاہئے کہ جس امر کی طرف توجہ دلائی جائے اس کے سوا باقی سب چھوڑ دو.بلکہ یہ طریق ہونا چاہئے کہ باقی کے ساتھ اسے بھی شامل کر لو.اگر چہ مخلصین کی ایک جماعت ہے جو ہر نیکی میں ترقی کرتی ہے لیکن بعض ایسے

Page 441

خطبات محمود سال ۱۹۳۲ء بھی ہیں جن کی حالت کو دیکھ کر ڈر لگتا ہے.گزشتہ ایام میں میں نے کشمیر کے لئے چندہ کی تحریک کی تھی.دو ماہ تو خوب کوشش کی گئی مگر اب پھر بند ہے حالانکہ کام پہلے سے بھی زیادہ ہو گیا ہے.گویا ایسی حالت ہے جیسے کسی نے افیون کھائی ہوئی ہو اور اسے بار بار ہلانا پڑتا ہو.باہر کی جماعتوں نے تو اس کی طرف توجہ کی ہے لیکن قادیان کی جماعت نے اس میں پوری طرح حصہ نہیں لیا.پر ایک دوستوں نے چندے دیتے ہیں لیکن اس اصول پر نہیں جو میں نے مقرر کیا تھا کہ باقاعدہ ایک پائی ٹی روپیہ چندہ دیا جائے.بعض محکموں نے اس پر عمل کیا ہے مگر یہاں باقی آبادی کارکنوں سے زیادہ ہے.اس طرف بھی مزید توجہ کی ضرورت ہے.یہ کام ابھی بند نہیں ہوا بلکہ بڑھ رہا ہے.جب قادیان والوں میں استقلال نہ ہو تو باہر والے معذور ہیں.یہ مظلوم قوم کے لئے قربانی بالکل معمولی ہے.پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ استقلال سے کام کیا کریں اور جب کوئی کام کرنے کا وعدہ کریں تو انتہاء تک کرتے جائیں.اور پھر اگر کسی تحریک میں حصہ لیں تو دوسری تحریکات کو نہ بھول جائیں.مثلا یہ آخری مہینہ بجٹ پورا کرنے کا ہے.اگر اس کی تحریک کی جائے تو باقی ضروری تحریکوں کو نہ بھول جائیں.نیکی یہ ہے کہ سارے پہلو پر نظر ہوں.مکان چاروں دیواروں سے بنتا ہے.خزانہ اسی عمارت میں رکھا جا سکتا ہے جو شش جہت سے محفوظ ہو.یعنی نیچے اوپر اور چاروں طرف سے.روحانیت بھی اسی طرح ہے.یہ بھی اسی صورت میں محفوظ رہ سکتی ہے جب ہر پہلو مکمل ہو.جو ایک پہلو کو بچاتا ہے.اور باقیوں کا خیال نہیں کر تامین ممکن ہے شیطان کسی طرف سے حملہ آور ہو اور اس کے ایمان کو لوٹ کے لے جائے.انسان کو اپنی طرف سے پوری کوشش کرنی چاہئے.اس کے باوجود اگر کوئی کو تا ہی رہ جائے تو خد اتعالیٰ بنیا نہیں.جب وہ دیکھتا ہے کہ اس کا بندہ ہمت اور پورے زور کے ساتھ کوشش کر رہا ہے تو وہ سارے قرضے معاف کر دیتا بلکہ اپنے پاس سے بھی دیدیتا ہے لیکن جو کوشش ہی نہیں کرتاوہ ضرور مواخذہ کے نیچے ہے.الفضل ۲۸ اپریل ۱۹۳۲ء) ا بخاری کتاب الايمان باب احب الدين الى الله عز و جل ادومه ل بخارى كتاب التوحيد باب قول الله وجوه يومئذ ناضرة الى ربها ناظرة

Page 442

خطبات محمود محمد 53 سال ۱۹۳۲ء کامیابی کے لئے کامل اطاعت ضروی ہے (فرموده ۲۹ اپریل ۱۹۳۲ء) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- کی میں نے غالبا پچھلے جمعہ کے خطبہ میں اس امر کی نصیحت کی تھی کہ مومن کی نظر ہمیشہ وسیع ہونی چاہئے اور اسے صرف ایک ہی طرف نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ چاروں اطراف پر اس کی نگاہ پڑنی چاہئے کیونکہ بعض باتیں انسان اپنی غفلت سے نظر انداز کر دیتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ یہ معمولی ہیں لیکن وہ چھوٹی چھوٹی باتیں مل کر عظیم الشان نتائج پیدا کر دیتی ہیں.رسول کریم میں ایم بعض باتوں کی حکمت سمجھنی بظاہر مشکل معلوم ہوتی ہے لیکن آخر اس کی حکمت اور فلسفہ جب انسان کو معلوم ہوتا ہے تو وہ اس امر پر حیران ہو جاتا ہے کہ رسول کریم میں نے جب نہایت معمولی دکھائی دینے والے امور میں اتنی مفید تعلیم دی ہے تو اور امور میں آپ کی تعلیم کس قدر کامل و مکمل ہو گی.میں نے آج یہاں آتے وقت اس رستے کو چھوڑ کر جس پر میں ہمیشہ آیا کرتا تھا ایک اور رستہ اختیار کیا.جس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے دوست ہر امر کے نتائج پر نگاہ دوڑانے کے عادی نہیں.میں جس وقت یہاں آتا ہوں تو مجھے ایک نہایت ہی تنگ گلی میں سے جس میں سے انسان بمشکل گزر سکتا ہے اور جس کے دو رویہ آدمیوں کی قطاریں کھڑی ہوتی ہیں گزرنا پڑتا ہے جو لوگ کھڑے ہوتے ہیں ان میں سے تو ہر شخص مصافحہ کرنے کے بعد بیٹھ جاتا اور اس زہریلی ہوا سے محفوظ ہو جاتا ہے جو لوگوں کے تنفس کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے.لیکن وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ اس قسم کی ہوا اس شخص کے لئے کس قدر مضر ہوگی جسے اس تمام گلی میں سے گزرنا ہو گا.اسی طرح جب میں آتا ہوں تو لوگ دھوپ میں ہی کھڑے ہو کر مصافحہ شروع کر دیتے ہیں.ان میں

Page 443

محمود ۳۳۸ سال ۱۹۳۲ء سے ہر شخص تو مصافحہ کرنے کے بعد سایہ میں چلا جاتا ہے لیکن یہ نہیں سوچتا کہ باقی لوگ بھی جو رستہ میں کھڑے ہیں اسے دیکھ کر وہ بھی مصافحہ کے لئے اٹھیں گے اور اس طرح مجھے تکلیف ہوگی.ایسے احباب کو یہ بات مد نظر رکھنی چاہئے کہ وہی چیز جو ایک وقت میں مضر نہیں ہوتی اس کا تواتر اور تسلسل دوسرے وقت میں مضر ہو جاتا ہے.میں سمجھتا ہوں رسول کریم میں یہ انہیں نقصانات کو مد نظر رکھتے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ جب میں آؤں تو لوگ کھڑے نہ ہوا کریں " عرب گرم ملک تھا اور پھر صحابہ کی تعداد بھی بڑھ چکی تھی.وہاں بھی اسی قسم کے واقعات پیش آتے ہوں گے کہ لوگ کھڑے ہو جاتے اور ہوا کے رک جانے کی وجہ سے آپ کو تکلیف محسوس ہوتی ہو گی.پس ہر کام کے کرتے وقت اس امر کو سوچ لیا کرو کہ اس کا نتیجہ کیسا نکلے گا.اگر مصافحہ کرنا ہی ہو تو مصافحہ کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ ایسی حالت پیدا کریں جو صحت کے لئے مضر نہ ہو مثلا یہی ہو کہتا ہے کہ وہ کھل کر کھڑے ہو جائیں.تا ہوا کی آمد ورفت بخوبی رہے.لیکن انہیں اپنی حالت پر مجھے قیاس نہیں کرنا چاہئے.وہ جب مصافحہ کر کے بیٹھ جاتے ہیں تو صاف اور کھلی ہوا میں چلے جاتے ہیں.لیکن مجھے بدستور اسی تنگ گلی میں سے گزرنا پڑتا ہے جس میں زہریلی ہوا ہوتی ہے.اور جو صحت انسانی کے لئے سخت مضر ہوتی ہے.پس میں دوستوں کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ان امور کو مد نظر رکھا کریں.یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں لیکن اگر ان کا خیال نہ رکھا جائے تو یہ ایک دن صحت کو سخت نقصان پہنچانے والی ہوں گی.پھر مومن کی عقل نہایت تیز ہوتی ہے.اور وہ چاروں طرف نگاہ دوڑانے کا عادی ہوتا ہے.اس لئے بھی لوگوں کو چاہئے کہ وہ احتیاط کیا کریں.مگر کئی ہیں جو کہہ دیتے ہیں ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کا اگر خیال نہ رکھا جائے تو کیا حرج ہے.حالانکہ یہ چھوٹی باتیں نہیں ، بلکہ تہذیب و تمدن کی بنیادیں ہیں.بظاہر یہ کیا ہی معمولی سا حکم معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم میر نے فرمایا جب تم مسجد میں آؤ تو پیاز اور لہسن کھا کر نہ آیا کرو کوئی کے پیاز اور لہسن کھانے میں کیا حرج ہے.لیکن اگر ہر شخص یہی خیال کرے کہ میرے پیاز کھا لینے سے کیا اندھیر آجائے گا.اور اس طرح ہر شخص کو اجازت ہو کہ وہ بودار چیزیں کھا کر مسجد میں آئے تو مسجد میں سخت تعفن پیدا ہو جائے گا.لوگوں کو عموماً یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ خیال کرتے ہیں ، دوسرے ایسا نہیں کریں گے.لطیفہ مشہور ہے.کہتے ہیں کسی شخص نے اپنے مکان کے لئے اینٹیں بنوائیں.اس کے ہمسائیوں اور دوستوں میں سے ہر ایک نے خیال کیا کہ اگر میں اپنے چولہے کے لئے دو چار اینٹیں لے جاؤں تو قیامت نہ

Page 444

۴۳۹ سال ۲ آجائے گی بلکہ اسے تو پتہ بھی نہ لگے گا.اس خیال کے ماتحت ہر ایک آیا اور دو دو چار چار انیٹیں اٹھا کر لے گیا.صبح جب مالک مکان نے دیکھا تو میدان اینٹوں سے خالی پایا.ان میں سے ہر شخص نے خیال کیا کہ میں ہی اینٹیں لوں گا.میرے سوا کوئی اور نہیں لے گا.انسان کی بھی عجیب حالت ہے.جب وہ بد ظنی کرنے لگتا ہے تو ہر شخص پر کرنے لگ جاتا ہے.اور جب حسن ظنی پہ آتا ہے تو اس کے دائرہ کو بے حد وسیع کر دیتا ہے.انہیں اٹھانے والوں نے بھی حسن ظنی ہی کی.اور ہر ایک نے سمجھا کہ میرے سوا اور کون چوری کرے گا.لیکن جب ہر ایک شخص نے یہی خیال کیا اور اس حسن ظنی کے ماتحت سب نے اینٹیں اٹھالیں تو نتیجہ یہ نکلا کہ ایک اینٹ بھی نہ رہی.اسی طرح مشہور ہے پٹھانوں میں ایک سید جا پہنچا.اس سے ایک شخص کی دشمنی تھی کیونکہ اس نے کسی وقت اس کی داڑھی نوچی تھی.جب سید پٹھانوں کی مجلس میں وعظ کرنے کے لئے کھڑا ہوا تو اس شخص نے نہایت مودبانہ طور پر کھڑے ہو کر کہا.حضور ا آپ بہت بڑے بزرگ ہیں اور آپ کی ہر چیز بابرکت ہے اگر مجھے اپنی داڑھی کا ایک بال عنایت ہو جائے تو بہت احسان ہو.یہ کہہ کر بغیر جواب کا انتظار کئے خود ہی آگے بڑھا اور سید صاحب کی داڑھی کا ایک بال اکھاڑ لیا.پٹھانوں کو ایسے تبرک کا خدا موقع دے وہ بھی ٹوٹ پڑے اور ایک ایک بال اکھاڑنے شروع کر دیئے.نتیجہ یہ ہوا کہ ساری داڑھی نوچی گئی.بظا ہر یہ نہایت معمولی بات دکھائی دیتی ہے کہ ایک بال اکھاڑنے سے کیا ہوتا ہے لیکن ایک ایک بال کے اکھاڑنے کے نتیجہ میں اس کی ساری داڑھی نوچی گئی.پس بعض معمولی باتوں کا اجتماعی لحاظ سے نہایت اہم نتیجہ نکلتا ہے.ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ وہ ان امور کا خیال رکھیں.آج ہی رستے میں مجھ سے ایک صاحب نے ایک سوال کیا.وہ بھی چونکہ اس کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اس لئے میں چاہتا ہوں اسے بیان کردوں.وہ سوال یہ تھا کہ بعض مسائل جو احمدیت پیش کرتی ہے اگر ہم ان کو نہ مانیں تو اس سے کون سا حرج لازم آتا ہے اور انکے ماننے سے ہمیں مادی فائدہ کون سا پہنچ رہا ہے.یہ ایک عام سوال ہے جو آج کل کے تعلیم یافتہ لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ہر چیز کی قیمت روپوں اور پیسوں میں لگانے کے عادی ہیں.وہ کہتے ہیں اگر ہم یہ مسئلہ نہ مانیں تو کیا اس سے قوم کی زراعت کو نقصان پہنچے گا، تجارت کو نقصان پہنچے گا صنعت و حرفت کو نقصان پہنچے گا، تعلیم کو نقصان پہنچے گا آخر اس مسئلہ کے نہ ماننے سے کس چیز کو نقصان پہنچے گا.اگر کسی چیز کو نقصان نہیں پہنچے گا تو اس کے ماننے سے فائدہ کیا.لیکن

Page 445

خطبات محمود ۴۴۰ سال ۱۹۳۲ء حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں ہر چیز کی قیمت روپوں اور پیسوں میں نہیں لگائی جاتی.کیونکہ بعض چیزیں گو نہایت اہم ہوتی ہیں مگر ان کی قیمت مخفی ہوتی ہے.بہت چھوٹی چھوٹی باتیں ایک قوم کی تباہی کا موجب ہو جاتی ہیں اور بہت چھوٹی چھوٹی باتیں ایک قوم کی ترقی کا موجب بن جاتی ہیں.میں نے ایک کتاب میں پڑھا فنونِ جنگ کا ایک ماہر لکھتا ہے کہ نپولین اور انگریزوں کے درمیان جو بحری جنگ ہوئی اور جس میں انگریزوں کے مشہور امیر البحر نیلسن کو فتح ہوئی اس میں انگریزوں کی کامیابی اور نپولین کی ناکامی کی کنجی انگریزی اور فرانسیسی زبان کے الفاظ تھے.فرانسیسی زبان میں حروف زائد کر دیئے جاتے ہیں.یعنی حروف لکھے ہوئے بہت ہوتے ہیں لیکن پڑھنے میں تھوڑے آتے ہیں اور انگریزی زبان میں اس قدر زائد نہیں ہوتے.پرانے زمانہ میں دستور تھا کہ شیشوں کے ذریعے عکس ڈال کر بتاتے کہ اب جہاز دائیں طرف لے جاؤ یا بائیں طرف.مثلا اگر یہ حکم دینا ہو تا کہ دائیں طرف لے جاؤ تو وہ شیشے سے ایک عکس ڈالتے جس کے معنی دال کے ہوتے.پھر ایک عکس ڈالتے جو الف کا مفہوم رکھتا.پھر ایک عکس ڈالتے جو حمزہ پر دلالت کرتا.اسی طرح عکس کے ذریعے حروف بتا کر الفاظ پورے کرتے.انگریزوں اور فرانسیسیوں کی اس لڑائی میں فرانسیسی جو عکس ڈالتے چونکہ ان کے حروف اپنے ساتھ زوائد رکھتے تھے اس لئے جو حکم انگریز افسر آدھ منٹ میں پہنچا دیتا وہ فرانسیسی افسر پونے منٹ میں پہنچاتا.بظاہر.ایک نہایت ہی معمولی فرق تھا لیکن جنگ میں فتح یا شکست کا انحصار اس چند سیکنڈ کی کمی یا زیادتی کے ساتھ وابستہ تھا.چنانچہ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انگریزوں کو کامیابی ہو گئی اور فرانسیسی شکست کھا گئے.ہم دیکھتے ہیں قرآن مجید میں بھی اس کی مثال موجود ہے اور احادیث میں بھی.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم ہمارے رسول کو راعنا ہے نہ کہو اگر اس طرح کہو گے تو تمہارے ایمان ضائع ہو جائیں گے.اب راعنا کے بظاہر یہی معنے ہیں کہ ہمار الحاظ کیجئے اور اس میں کوئی بری بات دکھائی نہیں دیتی.مگر چونکہ کا عِنا کہنے سے ایک خطرناک نتیجہ نکلنے کا احتمال ہے اس لئے اللہ تعالٰی نے یہ لفظ کہنے سے روک دیا.در اصل راع کا لفظ باب مُفاعَلَہ سے ہے.اور اس باب کی خاصیت ہے کہ اس میں جوابی طور پر ایک بات کا پایا جانا ضروری ہوتا ہے.گور اعضا کا عام محاورہ میں یہی مفہوم ہے کہ ہمار الحاظ کر لیکن باب مفاصلہ کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہو گا کہ تم ہمار الحاظ کرو ہم تمہار الحاظ کریں گے.اگر چہ عام محاورے میں اس کے یہ معنے جاتے رہے ہیں لیکن چونکہ لفظ کی بناوٹ ایسی ہے جس میں سودا پایا جاتا ہے اور مفہوم یہ ہوتا ہے کہ اے رسول تو ہمارے

Page 446

خطبات محمود اسلام مهم سال ۱۹۳۳ء ساتھ رعائت کر ہم تیر الحاظ کریں گے اور یہ گستاخی والی روح ہے اس لئے اسلام نے ایسا کہنے سے روک دیا.اور فرمایا کہ اگر ایسا کہو گے تو تمہارے ایمان ضائع ہو جائیں گے.باقی رہے دشمن وہ تو جان بوجھ کر ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ تا مسلمان بھی ان الفاظ کو استعمال کر کے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے محروم ہو جائیں.اسی طرح رسول کریم میں نے حدیث میں فرمایا ہے نمازوں میں اپنی صفوں کو درست کرو ورنہ تمہارے دل ٹیڑھے ہو جائیں گے.بظاہر یہ نہایت چھوٹی سی بات دکھائی دیتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ظاہر کا انسان کے باطن پر اثر پڑتا ہے.جب صفوں میں ایک مومن اپنے بھائیوں کے دوش بدوش اور پہلو بہ پہلو کھڑا ہو گا تو ہمیشہ اس کے دل میں یہ خیال آتا رہے گا کہ روحانی طور پر بھی اسے اپنے تعلقات اخوت کو مضبوط رکھنا چاہئے اور اپنے بھائیوں سے لڑنا نہیں چاہئے.جو شخص پانچ وقت کی نمازوں میں اپنے بھائی سے ایک ذرہ آگے پیچھے نہیں ہو گاوہ اور معاملات میں اختلاف کب گوارا رکھ سکتا ہے.پس صفوں کی درستی کے نتیجہ میں اس کے قلب میں ایسی کیفیت پیدا ہو جائے گی.جو قومی اتحاد کے لئے بمنزلہ روح کے ہوگی.اسی طرح اور بہت سی باتیں ہیں جو بظاہر معمولی دکھائی دیتی ہیں لیکن نتائج کے لحاظ سے نہایت اہم ہوتی ہے.امام ابو حنیفہ سے ایک دفعہ کسی شخص نے پوچھا کہ امام صاحب کبھی آپ کو بھی کوئی نصیحت کرنے والا ملا.آپ نے فرمایا کسی بڑے آدمی سے مجھے وہ فائدہ نہیں ہوا جو ایک بچے کی نصیحت سے ایک دفعہ ہوا.پھر انہوں نے واقعہ سنایا کہ ایک دن بارش ہو رہی تھی.میں گھر سے نکلا.دیکھا کہ ایک لڑکا گلی میں دوڑتا چلا جا رہا ہے.چونکہ اس وقت بارش ہو رہی تھی اور جگہ پھسلنی تھی.میں نے کہا بچے اذرا سنبھل کر چلو.ایسا نہ ہو تمہارے پاؤں پھسل جائیں.وہ لڑکا میری طرف دیکھ کر مسکرایا.اور کہنے لگا امام صاحب آپ سنبھل کر چلتے.میں اگر گر ا تو اکیلا ہی کروں گا لیکن اگر آپ گرے تو ساری دنیا تباہ ہو جائے گی.اس لڑکے کی اس بات کا آج تک مجھ پر اثر چلا آتا ہے غرض بہت سے باتیں بظا ہر چھوٹی نظر آتی ہیں لیکن ان کے نتائج نہایت اہم پیدا ہوتے ہیں.پس اول تو کسی مسئلہ کو اس لئے چھوٹا قرار دینا کہ روپوں اور اشرفیوں میں اس کی قیمت نظر نہیں آتی غلط طریق ہے.دوسرا امریہ ہے کہ وہ مسئلہ جسے ہم اصولی یا فروعی کہیں اس کے متعلق ہمیں غور کرنا چاہیئے کہ آیا وہ حکم خدا کی طرف سے ہے یا نہیں.اگر وہ خدا کی طرف سے ہو تو چاہے ترتیب یا ترکیب میں وہ فروعی کہلائے ایمان کے لحاظ سے فروعی نہیں کہلا سکتا.مثلاً ایک

Page 447

۶۱۹۳۲ ۴۴۲ خطبات محمود باپ اپنے بچے کو حکم دے کہ یہاں بیٹھے رہو میں آتا ہوں یا اور ایسا ہی کوئی چھوٹا سا حکم دے تو کیا بچہ کہہ سکتا ہے کہ یہ فروعی باتیں ہیں ، انہیں اگر میں نہ مانوں تو کیا حرج ہے.اور کیا کوئی بھی بچہ جو اپنے باپ کے حکم کے متعلق ایسا کے وہ باپ سے تربیت حاصل کرنے کے قابل سمجھا جاسکتا ہے.یا مثلا ایک افسر کلرک کو حکم دے کہ فلاں خط نقل کر دو او روہ آگے سے کہے کہ یہ تو معمولی مخط ہے.اگر اسے نقل نہ کیا جائے تو اس سے کو نسا حرج لازم آجائے گا.اور اگر کلرک اسی طرح جواب دینے لگ جائیں تو کیا کبھی دفاتر کا کام چل سکتا ہے.جب اطاعت کا سوال آتا ہے تو اس وقت کسی حکم کے بڑے یا چھوٹے ہونے پر نظر نہیں کی جاتی.بلکہ روح اطاعت کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ پائی جاتی ہے یا نہیں.اس میں شبہ نہیں.بعض خطوط معمولی ہوتے ہیں اور اگر وہ ایک وقت نہ لکھے جائیں تو دفتر کو کوئی بھاری نقصان نہیں پہنچ سکتا.لیکن اگر اس امر کی اجازت دے دی جائے کہ جسے کلرک معمولی سمجھے اس کی نقل نہ کرے تو تمام ڈسپلن اور انتظام درہم برہم ہو جائے.اس کے علاوہ اور بھی کئی چیزیں ہیں جنہیں اپنی ذات میں کو خاص اہمیت حاصل نہیں ہوتی مگر ان کا روح اطاعت کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اس لئے ان کا ماننا ضروری ہوتا ہے کیونکہ روح اطاعت ہی ہے جو ترقی دینے والی ہے.دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی.پس اللہ تعالیٰ کے حکموں کے متعلق یہ کہہ دینا کہ یہ فروعی ہیں ، اگر ان کو نہ مانا جائے تو کون سا حرج لازم آئے گا نہایت خطرناک بات ہے.پس ہمیشہ یہ بات مد نظر رکھنی چاہئے کہ آیا فلاں حکم خدا کی طرف سے ہے یا نہیں.اگر ثابت ہو چکا ہو کہ وہ خدا کی طرف سے ہے تو چاہے وہ فروعی نظر آئے یا اصولی ، عمل کے لحاظ سے وہ اصولی ہی ہو گا.اور اگر وہ خدا کی طرف سے نہیں تو چاہے وہ اصولی ہی کیوں نہ نظر آئے لغو اور بیہودہ ہو گا.پس روحانی امور میں دیکھنے والی چیز یہ ہوتی ہے کہ آیا وہ تعلیم جس کے متعلق ہمیں تردد ہے ، خدا کی طرف سے نازل شدہ ہے یا نہیں.اگر وہ خدا کی طرف سے آئی ہے تو پھر اصولی اور فروعی کی بحث ہی لغو ہے.اور اگر اس طرح بحث کی جائے گی تو نظام قائم نہیں رہ سکے گا.جب معمولی معمولی باتوں میں بھی نافرمانی کرنے سے کام کے خراب ہو جانے کا اندیشہ ہوتا ہے تو تمام عالم کا نظام جو عظیم الشان ضبط کو چاہتا ہے کیو نکر قائم رہ سکتا ہے.پس ایک جواب تو یہ ہے جو میں نے دیا.دوسری بات یہ مد نظر رکھنی چاہئے کہ ہر چیز کے متعلق دنیا میں یہی نہیں دیکھا جاتا کہ اس سے مجھے یا زید یا بکر کو کیا فائدہ پہنچے گا.بلکہ سچائی اپنی ذات میں بھی ایک حیثیت رکھتی ہے.اور سچائی کو

Page 448

خطبات محمود ۴۴۳ سال ۱۹۳۲ء ماننا بذات خود ضروری ہوتا ہے.ایک اندھا شخص جس نے سورج کو نکلتے اور غروب ہوتے کبھی نہیں دیکھا.جسے سورج کے نکلنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا.اور غروب ہو جانے سے کوئی نقصان نہیں پہنچا.کیونکہ اس کے لئے تو ہر وقت رات ہی رات ہے ، وہ بھی اس امر پر مجبور ہے کہ سورج نکلنے کا اقرار کرے.کیا کوئی اندھا شخص کہہ سکتا ہے کہ مجھے اس اقرار کا کیا فائدہ.ہم کہیں گے گو اس کا فائدہ تو نہیں مگر سچائی کا ماننا بھی تو ضروری ہوتا ہے.اگر واقعہ یہ ہے کہ سورج نکل آیا تو سچائی کا تقاضا یہی ہے کہ تم اس کا اقرار کرو.اگر اور حرج کوئی نہیں تو کیا یہ حرج تھوڑا ہے کہ تم ایک سچائی کے منکر ہو جاؤ گے.اس وقت مغربی تہذیب نے جو ایشیائی تمدن پر حملہ کیا ہے اس میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مسلمان نیکی کو نیکی کے لئے اختیار نہیں کرتے.اور مغربی تہذیب کے دلدادہ کہتے ہیں مسلمان جنت کے لئے نمازیں پڑھتے اور اللہ تعالٰی کی عبادت کرتے ہیں.حالانکہ نیکی کو نیکی کی وجہ سے اختیار کرنا چاہئے.ایسے موقع پر ہم ان کے سامنے یہنی امر پیش کر سکتے ہیں کہ اگر نیکی کو نیکی کے لئے اختیار کرنا چاہئے تو کیوں سچائی کو سچائی کے لئے اختیار نہیں کرنا چاہئے.اگر بعض احکام صحیح ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ وہ صحیح ہیں تو وجہ کیا ہے کہ ہم انہیں نہ مانیں.سچائی کی خاطر ہمارا فرض ہے کہ ہم ہر حکم کو خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا.جب اس کا خدا کی طرف سے ہونا ثابت ہو چکا، اسے تسلیم کریں.یہ اس سوال کا دوسرا جواب ہے.پہلا جواب تو یہ تھا کہ اگر ایک حکم اللہ تعالی کی طرف سے ثابت ہو چکا ہے تو پھر انکار کی گنجائش نہیں.پھر ایسے احکام چاہے فروعی ہوں ماننے کے لحاظ سے اصولی ہوں گے.دوسرا جواب میں نے یہ دیا ہے کہ نیکی کو نیکی کی خاطر اختیار کرنا بھی ایک تسلیم شدہ اصل ہے.ہم اس امر پر تو بحث کر سکتے ہیں کہ یہ عقائد بچے ہیں یا نہیں لیکن بچے عقائد کے متعلق یہ نہیں کہہ سکتے.اگر ہم انہیں نہ مانیں تو کیا حرج ہے.یہی بڑا جرم ہے کہ ہم ایک سچائی کے منکر ہو جائیں گے.تیسری بات جو غور کے قابل ہے وہ یہ ہے کہ ہربات کی قدر و قیمت اس کے بیان کرنے والے کی حیثیت سے لگائی جاتی ہے.میں یہ تسلیم کرنے کے لئے ہر گز تیار نہیں کہ اللہ تعالی کا کوئی حکم ایسا بھی ہے جس کا کوئی فائدہ نہ ہو.بلکہ میرا یہ دعویٰ ہے کہ اس نے جو بھی حکم دیا اس کا مانتا اپنے ساتھ ضرور فوائد رکھتا ہے.لیکن بفرض محال مان لو کہ ہمیں ایک چیز کا فائدہ معلوم نہیں.گو جیسا کہ میں نے بتایا ہے میں تو اس امر کا مدعی ہوں کہ ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر الہی تعلیم کے فوائد اور اس کے نہ مانے کے نقصان بتا سکتے ہیں، لیکن بفرض محال تسلیم کر لو کہ میں معلوم نہیں کہ فلاں حکم کا کیا فائدہ ہے تب بھی ہمیشہ ایسے معاملات میں عدم علم 2

Page 449

۶۱۹۳۲۱ ۴۴۴ خطبات محمود کے مقابلہ میں علم کو فوقیت ہوتی ہے.ایک زمیندار نہیں جانتا کہ بنفشہ کو خاصیت کیا ہے.یا وہ نہیں جانتا کہ کو نین کا کیا فائدہ ہوتا ہے لیکن جب ڈاکٹر یا طبیب مریض کو یہ دوائیں دیتا ہے تو مریض انہیں استعمال کرتا ہے اور کبھی یہ اعتراض نہیں کرنا کہ مجھے چونکہ ان کے فوائد معلوم نہیں اس لئے اگر میں ان دواؤں کو نہ کھاؤں تو کیا حرج ہے.اسے بہر حال ڈاکٹروں کی بات کو تسلیم کرنا پڑتا ہے.اسی طرح ہر معاملہ میں ماہر فن کی بات کو ماننا ضروری ہوتا ہے.اس امر کو جانے دو کہ زید یا بکران حکمتوں کو سمجھتا ہے یا نہیں جو کسی امر کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں.اگر ثابت ہو جائے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے تو ہمیں اس پر ایمان لانا ضروری ہے.کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ گو ہمیں کسی چیز کے فوائد کا علم نہ ہو تو بھی اللہ تعالیٰ ہمیں انہی باتوں کی تعلیم دیتا ہے جن میں ہمارا فائدہ ہوتا ہے.پس اگر ہمیں ایک چیز کے فوائد کا علم نہیں یا ایک چیز کے متعلق ہم صحیح نتیجہ پر نہیں پہنچ سکے تو بھی ہمیں یہ ضرور یقین ہوتا ہے کہ یہ خدا کا حکم ہے اور خدا کے احکام ہمارے فائدہ کے لئے ہی ہوتے ہیں.جب ایک عقلمند انسان بھی کسی دوسرے کو ایسی بات نہیں کہہ سکتا جس میں اس کا فائدہ نہ ہو تو ہم یہ کس طرح تسلیم کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ متواتر اپنے مامور اور مرسل بھیجے اور ان کے ذریعہ تعلیم نازل کرے حالانکہ اس تعلیم کا کوئی فائدہ نہ ہو.اصل چیز دیکھنے والی یہ ہوتی ہے کہ وہ شخص جو سلسلہ کی بنیاد رکھتا ہے، خدا کی طرف سے ہے یا نہیں.اگر دلائل عقلیہ اور تجربہ سے ثابت ہو جائے کہ اس سلسلہ کا بانی خدا کی طرف سے تھا اور اس نے جو بھی تعلیم دی اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی تو اگر اس کے بعض احکام ہماری سمجھ میں نہ بھی آئیں تو بھی اس کے علم کو ہمارے علم پر تقدم و تفوق حاصل ہو گا.کیونکہ ہم یقین رکھیں گے کہ یہ عالم الغیب خدا کا حکم ہے اور ہمارا علم نہایت ہی محدود ہے.پس ان وجوہات سے ہم عدم علم پر علم کو ترجیح دیتے ہوئے اس تعلیم کی قدر کریں گے.اور اگر ہم اس طرح غور کریں گے تو وہی چیز جو ہمیں فروعی نظر آتی تھی اور جسے ہم ترک کر دینے کا ارادہ کر رہے تھے اصولی نظر آئے گی اور اس پر عمل کر نامدار نجات سمجھا جائے گا.پھر چوتھی بات یہ مد نظر رکھنی چاہئے کہ کئی ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو باہم مل کر ایک نتیجہ پیدا کرتی ہیں.اپنی ذات میں اکیلی نتیجہ پیدا نہیں کر سکتیں.کہتے ہیں کوئی شخص تھا وہ اپنے آپ کو بہت بہادر سمجھتا تھا.ایک دن وہ ایک نائی کے پاس گیا اور کہنے لگا میرے جسم پر شیر کی تصویر گوددو - دراصل وہ بزدل تھا لیکن سمجھتا تھا کہ میں بہت دلیر ہوں.جس وقت نائی نے سوئی ماری اور اسے درد ہوا تو

Page 450

خطبات محمود ۴۴۵ سال ۱۹۳۲ء کہنے لگا ارے میاں کیا گودنے لگے ہو.گودنے والے نے کہا شیر کی دم بنانے لگا ہوں کہنے لگا اچھا تو اگر دم کٹ جائے تو شیر رہتا ہے یا نہیں اس نے کہا رہتا کیوں نہیں.کہنے لگا اچھا دُم چھوڑو اور آگے چلو پھر جو اس نے سوئی ماری اور اسے درد ہوا تو کہنے لگا اب کیا گودنے لگے ہو.اس نے کہا دایاں کان.کہنے لگا اچھا اگر دایاں کان نہ ہو تو شیر رہتا ہے یا نہیں.اسے بتایا گیا رہتا کیوں نہیں.اس نے کہا اسے بھی چھوڑو اور آگے چلو.پھر وہ بایاں کان گودنے لگا.پھر اس نے روک دیا.اسی طرح وہ ایک ایک عضو پر منع کرتا چلا گیا یہاں تک کہ نائی نے اپنی سوئی رکھ دی اور کہنے لگا ایک دو چیزوں کے نہ ہونے سے تو شیر رہ سکتا ہے لیکن یہاں تو ساری کی ساری ہی چھوڑ دی گئیں.پس ایسی بھی کئی چیزیں ہوتی ہیں جو اکیلی نتیجہ پیدا نہیں کرتیں بلکہ مجموعی لحاظ سے اثر کرتی ہیں.وہی بینگن ہوتا ہے جسے ایک شخص کھاتا ہے مگر اسے کوئی تکلیف نہیں ہوتی.لیکن دوسرے کو اسکے کھانے سے بواسیر ہو جاتی ہے.خود بینگن میں یہ اثر نہیں تھا کہ اسے جو کھائے اسے بواسیر ہو جائے لیکن چونکہ کھانے والے نے اسی دن کوئی اور بھی گرم چیز کھالی ہوگی یا ایک دن پہلے کوئی اور گرم چیز کھائی ہوگی یا متواتر دو تین ہفتہ سے کوئی نہ کوئی گرم چیز کھا تا آیا ہو گا اس لئے ایک دن ان سب نے مل کر اسے بواسیر کا عارضہ لاحق کر دیا.اسی طرح شلغم کدو گوشت اور مرچ وغیرہ زہریں نہیں لیکن ایک لمبے عرصہ تک ان میں سے بعض چیزیں بعض سے مل کر ایسا نتیجہ پیدا کرتی ہیں کہ کھانے والے بیمار ہو جاتے ہیں.انہی چیزوں کا کھانے والا ایک شخص تو پہلوان ہو جاتا ہے لیکن یہی گوشت ، روٹی وال، شلغم اور کدو کھانے والا دوسرا شخص مسلول و مدقوق ہو جاتا ہے.چیزیں یہی ہوں گی جن کے کھانے والے تندرست ہوں گے.لیکن انہیں کی تھوڑی تھوڑی بے احتیاطی ایک شخص کو مسلول و مدقوق بنا دیتی ہے اور انہی کا صحیح استعمال دوسرے کو پہلوان بنا دیتا ہے.پس ایسی بھی چیزیں ہوتی ہیں جنہیں الگ الگ نہیں دیکھا جاتا بلکہ مشترکہ طور پر ان کے نتیجہ پر نگاہ ڈالی جاتی ہے.اسی طرح مسائل دینیہ کا حال ہے.ان میں سے بھی معمولی نظر آنے والے احکام ایسے ہوتے ہیں کہ دوسری تعلیموں کے ساتھ مل کر نہایت شاندار نتائج پیدا کر دیتے ہیں اور انسان کو اس اطاعت کے بدلہ میں اللہ تعالی کی رضاء حاصل ہو جاتی ہے.اور اصل کامیابی تو اللہ تعالٰی کی اطاعت میں ہی ہے.جو شخص اس کی اطاعت میں محو رہتا ہے وہ آخر کامیاب ہو جاتا ہے.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں اپنی اطاعت کی کچی توفیق عطا فرمائے نہ صرف اطاعت کی توفیق بلکہ اپنے احکام کی حکمتیں سمجھنے کی اہمیت بھی عطا فرمائے تا اس کے فضل سے

Page 451

خطبات محمود ہمیں ایمان بالبصیرت حاصل ہو جائے.۱۹۳۱ء الفضل ۵ - مئی ۱۹۳۲ء) مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلوة باب النهى من اكل ثو ما او بصلا ا و كراثا البقرة : ۱۰۵ بخاریى كتاب الأذان باب تسوية الصفوف عند الاقامة وبعدها

Page 452

خطبات محمود ۴۴۷ 54 سال ۱۹۳۲ء جماعت احمدیہ کی شاندار مالی قربانی (فرموده ۱۳- مئی ۱۹۳۲ء) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.آج میں ایک اور امربیان کرنا چاہتا تھا لیکن گھڑی نہ دیکھنے کیوجہ سے قریبا ڈیڑھ بجے کے بعد کام چھوڑ کر کھانا کھایا اور جمعہ کی تیاری کرتے کرتے اب دو سے بھی اوپر ہو چکے ہیں اس لئے نہایت اختصار کے ساتھ ایک امربیان کر دیتا ہوں.گذشتہ مالی سال ختم ہونے پر قریباً ۴۸۰۰۰ قرض تھا جو ترقی کرتے کرتے اکتوبر میں جب میں نے چندہ خاص کی تحریک کی بہتر ہزار کے قریب جا پہنچا اس کے علاوہ کچھ اور قرض بھی تھے علاوہ بلوں کے اور پھر جلسہ سالانہ کے اخراجات بھی تھے جو چندہ خاص سے ہی پورے کرنے تھے سو میں نے جماعت کو تحریک کی کہ ایسی کوشش کی جائے کہ پچھلا قرضہ بے باق ہو جائے اور باوجود اس کے کہ ہماری جماعت کا زمیندار طبقہ مالی حالات کے خراب ہو جانے کی وجہ سے اس میں بہت کم حصہ لے سکتا تھا اور باوجود اس کے کہ ملازموں کی تنخواہوں میں عام طور پر دس فیصدی کی تخفیف کردی گئی تھی اور بعض کی تنخواہوں میں تو اس سے بھی زیادہ کمی ہو گئی تھی اگر چہ بعض کی اس شرح سے کم تھی لیکن بعض کی ۲۵ فیصدی تک تھی اور وہ لوگ اس خطرہ کو محسوس کر رہے تھے کہ سردی کے ایام میں جب اخراجات کی زیادتی ہوتی ہے ان کی آمد کم ہوگی لیکن باوجود ان حالات کے جیسا کہ اللہ تعالی کا دستور ہے کہ ہماری جماعت جب بھی کوئی قربانی کرتی ہے تو وہ اپنے فضل سے اس میں برکت ڈال دیتا ہے اس موقع پر بھی اس نے اپنے فضل سے توفیق دی اور دوستوں نے ڈیڑھ لاکھ چندہ خاص جمع کر دیا اس میں ماہوار چندے بھی شامل تھے جو قریباً ۵۴۰۰۰ ہزار بنتے ہیں اور سالانہ جلسہ کا سولہ سترہ ہزار خرچ

Page 453

خطبات محمود ۴۴۸ سال ۱۹۳۲ء بھی اسی میں تھا یہ اکہتر ہزار ہوا اور قریب بہتر ہزار یا اس سے کچھ تھوڑا قرض تھا.گویا جماعت نے ۳ ماہ میں ایک لاکھ ۴۴ ۴۵ ہزار کی رقم بلوں وغیرہ کے لئے جمع کرنی تھی اور چونکہ بجٹ بھی کھائے میں چلا آتا ہے اور شروع میں ہی بہتر ہزار کے قریب قرض تھا اسی طرح امید کی جاتی تھی کہ باقی مہینوں میں بھی اخراجات کی زیادتی ہوگی اور اس کے لئے علیحدہ رقم پس انداز کرنی ہوگی نتیجہ یہ ہوا کہ شروع سال میں باوجودیکہ جماعت نے پوری رقم ادا کر دی پھر بھی قرض کی رقم ۱۵-۱۶ اہزار باقی تھی.لیکن امید تھی کہ سال کے آخری ایام میں جیسا کہ عام طور پر بجٹ کو پورا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے یہ قرض اتر جائے گا آج میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے اظہار اور تحدیث نعمت کے طور پر یہ اعلان کرنے کے قابل ہوا ہوں کہ جب کہ پچھلے مالی سال کے شروع میں ۴۸۰۰۰ ہزار کے بلوں کے علاوہ اور بھی قرض تھا یہ سال جب ختم ہوا تو بجائے قرضہ کے قریباً ڈیڑھ ہزار رو پید انجمن کے خزانہ میں جمع تھا گویا جماعت نے جو پونے دو لاکھ کی رقم جمع کرنی تھی اور ایسی حالت میں جمع کرنی تھی کہ بیشتر حصہ مالی لحاظ سے مفلوج ہو رہا تھا حتی کہ بڑی بڑی حکومتیں قرضے لینے پر مجبور ہو رہی تھیں اللہ تعالی نے ہماری جماعت کو توفیق دی کہ اس نے گزشتہ قرضوں کو ادا کر کے مالی سال کے شروع میں کو ایک قلیل رقم ہی سہی مگر کچھ نہ کچھ پس انداز ضرور کر لیا.انسانی کوششوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمارے جیسی جماعت کے لئے یہ امر مشکل تھا اور لوگ خیال کرتے تھے کہ یہ رقم جمع نہیں ہو سکتی اور بعض تو گھبرا کر بعض کام بند کر دینے کا مشورہ دے رہے تھے.لیکن جماعت کی عام رائے کا احترام کرتے ہوئے میں اسے پسند نہ کرتا تھا اور ہمیشہ سے میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ جب کوئی جماعت ایک بار پیچھے بہتی ہے تو پھر اس کا قدم پیچھے ہی پہنتا چلا جاتا ہے اور جو جماعتیں ترقی کرنا چاہتی اور توکل پر کام کرتی ہیں ان کا فرض ہے کہ قدم آگے ہی بڑھائیں اور جب کبھی ایسی تخفیف کا سوال پیدا ہو کہ بعض کاموں کو بند کر دیا جائے میرے دل میں ہمیشہ دھڑکن پیدا ہوتی ہے کہ اس کا نتیجہ کہیں خطرناک نہ ہو غرضیکہ عام احساس تھا کہ یہ رقم پوری ہوئی مشکل ہے اور واقعی جب زمینداروں کی حالت اچھی تھی تو دو بار چندہ خاص کی تحریک کی گئی لیکن ایک لاکھ پندرہ ہزار سے زیادہ رقم جمع نہ ہو سکی مگر اس دفعہ جب پہلے کے مقابلہ میں ان کی حالت دسواں حصہ بھی نہ تھی اور ہماری جماعت میں اسی فیصدی زمیندار اور ۱۸-۲۰ فیصدی ملازمت یا تجارت پیشہ یا دوسرے ذرائع آمدنی رکھنے والے ہیں اور گویا اسی ۱۸۰۱۷ فیصدی سے

Page 454

خطبات محمود ۴۴۹ سال ۱۹۳۲ء اتنی آمدنی ہوتی تھی جتنی کہ ساری جماعت مل کر بھی پوری نہ کیا کرتی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے نہ صرف یہ کہ اسے پورا کرنے بلکہ اس سے زیادہ جمع کرنے کی توفیق دی.اور نہ صرف یہ کہ پچھلا قرضہ اتر گیا بلکہ ہم اس سال کو کچھ نہ کچھ سرمایہ سے شروع کر رہے ہیں.ایک دنیا دار کی نظر میں تیرہ چودہ سو ایک حقیر رقم ہے مگر مومن جانتا ہے کہ اللہ تعالٰی کے خزانوں میں یہ بڑی چیز ہے رسول کریم نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص ثواب کی نیت سے اپنی بیوی کے مونہہ میں ایک لقمہ بھی ڈالتا ہے تو اس کے لئے ثواب اور نجات کا موجب ہو جاتا ہے.ایک بزرگ کے متعلق لکھا ہے کہ انہوں نے ایک یہودی کو دیکھا کہ جانوروں کے آگے دانے ڈال رہا تھا انہوں نے خیال کیا کہ جب اس کے اندر ایمان نہیں تو اس نیکی کا اسے کیا فائدہ ہو سکتا ہے انہوں نے اس سے سوال کیا لیکن وہ یہودی جواب میں خاموش رہا کچھ عرصہ بعد وہ حج کے لئے گئے تو دیکھا کہ وہی یہودی احرام باندھے حج کر رہا ہے انہوں نے حیران ہو کر اس سے دریافت کیا کہ تو کہاں ؟ اس نے جواب دیا کہ وہی دانے جن کو آپ حقیر سمجھتے تھے مجھے یہاں لے آئے ہیں تو اللہ تعالی کے حضور پیسوں کی قیمت نہیں بلکہ اخلاص کی قدر ہے.اللہ تعالی یہ نہیں دیکھتا کہ کتنی رقم جمع کی گئی ہے بلکہ یہ دیکھتا ہے کہ کس اخلاص سے جمع کی گئی ہے پس اگر قرضہ ادا کرنے کے بعد ۱۳ پیسے یا تیرہ پائی یا تیرہ کو ڑیاں بھی بچتیں تب بھی اس کے یہ معنی ہوتے کہ جماعت نے اس اخلاص سے کام کیا ہے کہ کچھ نہ کچھ پس انداز کر لیا اور دنیا کی نظر میں یہ زیادتی خواہ کوئی حقیقت نہ رکھتی ہو لیکن اللہ تعالٰی اس کو مزید زیادتی کا موجب بنائے گا.اور مجھے یقین ہے کہ وہ خدا جس نے ایسے وقت میں جبکہ بڑی بڑی حکومتیں دیوالیہ ہو رہی ہیں.ہماری جماعت کو توفیق دی ہے کہ اپنے قرضے ادا کرے وہ اس اخلاص کو ضائع نہیں کرے گا وہ ان کی ہمتوں میں برکت دے گا حو صلوں کو بلند کرے گا اور جن لوگوں نے تنگی کے ایام میں اپنے اوپر بوجھ ڈال کر وہ قرضے اتارے ہیں جو خدا تعالیٰ کے دین کی خاطر اٹھائے گئے تھے اللہ تعالیٰ ان کو ضرور اس کا اجر دیگا.بعض بدلے جلدی مل جاتے ہیں اور بعض دیر سے ملتے ہیں پھر بعض اسی دنیا میں ملتے ہیں اور بعض انگلی دنیا میں.لیکن اللہ تعالی کسی کا قرضہ اپنے اوپر ہر گز نہیں رکھتا یقینا وہ اس کا بدلہ دیتا ہے خواہ یہاں دے خواہ اگلے جہان میں خواہ اس شخص کو ملے خواہ اس کی اولاد کو.کیونکہ اگر خدا بدلہ نہ دے تو وہ ممنون احسان سمجھا جائے گا مگر وہ کسی کا احسان اپنے اوپر نہیں رکھتا وہ شکو ر ہے جب کوئی شخص نیک کام کرتا ہے تو وہ اس کا اعلیٰ سے اعلیٰ بدلہ دیتا ہے.

Page 455

خطبات محمود ۴۵۰ سال ۱۹۳۲ء پس میں جہاں اس امر کا اعلان کرتا ہوں کہ جماعت نے میرے اعلان کے مطابق اور اپنے فرض کا احساس کرتے ہوئے نہ صرف پچھلا قرض ادا کر دیا ہے بلکہ کچھ جمع بھی کر لیا ہے وہاں اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہماری ناچیز کوششوں کو جو اس کے فضل کے نتیجہ میں ہیں قبول فرماتے ہوئے ہمارے ایمانوں کو زوال اور تنزل سے محفوظ رکھے اور ایسے مقام پر کھڑا کر دے کہ کفر اور الحاد سے کوئی ضرر نہ پہنچا سکے.اور ہمارے نیچے اوپر دائیں بائیں آگے پیچھے اس کا فضل ہو اور شیطان کسی طرف سے بھی اس پر حملہ نہ کر سکے وہ ہمیں دنیوی ٹھوکروں سے بچائے ہمارا ہر قدم تقویٰ میں آگے بڑھنے والا ہو اور کوئی چیز اس میں کمزوری نہ پیدا کر سکے.آمین الفضل ۱۹ مئی ۱۹۳۲ء)

Page 456

خطبات محمود ۴۵۱ 55 سال ۱۹۳۲ء ہر کام میں ہمیں دوسروں سے نمایاں غلبہ حاصل ہونا چاہئے (فرموده ۲۰ مئی ۱۹۳۲ء) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- مؤمن کی ذمہ داریاں اس قدر وسیع ہیں اور اس کے مقاصد اتنے اعلیٰ اور ارفع ہیں کہ دوسرے لوگ ان کا اندازہ کرنے سے بھی قاصر ہیں اور انسانی طاقت ان کے شمار سے عاجز آجاتی ہے.یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ہمارے لئے بجائے ہماری ذمہ داریوں کو تفصیل کے ساتھ گنانے کے اجمال کے ساتھ ان کو ہمارے سامنے رکھدیا ہے کیونکہ ہر انسان کی ذمہ داری دوسرے انسان سے مختلف ہوتی ہے.ہر قوم کی ذمہ داری دوسری قوم سے مختلف ہوتی ہے ہر جماعت کی ذمہ داری دوسری جماعت سے مختلف ہوتی ہے.ہر گاؤں کی ذمہ داری دوسرے گاؤں سے مختلف ہوتی ہے اور ہر شہر کی ذمہ داری دوسرے شہر سے مختلف ہوتی ہے پس یہ ممکن ہی نہیں کہ انسانی ذمہ داریوں کو تفصیل کے ساتھ انسانی فہم اور ادراک کے اندر رکھتے ہوئے بیان کیا جا سکے بے شک اللہ تعالٰی عالم الغیب ہے اور وہ ہر فرد کی ذمہ داریوں کو جانتا ہے ہر جماعت کی ذمہ داریوں کو جانتا ہے ہر قوم کی ذمہ داریوں کو جانتا ہے ہر گاؤں کی ذمہ داریوں کو جانتا ہے اور ہر شہر کی ذمہ داریوں کو جانتا ہے مگر سوال یہ نہیں کہ اس عالم الغیب ہستی کے علم میں یہ تمام ذمہ داریاں ہیں یا نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا انسان کے لئے بھی ان تمام ذمہ داریوں کو یکجائی طور پر سمجھنا ممکن ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی قوئی اس قدر محدود ہیں کہ وہ ایک وقت میں ایک ہی کام کی طرف متوجہ ہو سکتے ہیں اور جب وہ ایک کام کر رہے ہوتے ہیں تو دوسرے کو چھوڑ دیتے ہیں اگر انسان غصے کی حالت میں ہو تو وہ رحم کے جذبات کو بھولا ہوا ہوتا ہے اور اگر وہ محبت کے جذبات لئے ہوئے ہو تو وہ غصے کی کیفیت کو نظر انداز کر دیتا ہے اسی طرح جب حکومت کے جذبات اس کے دل میں پیدا ہوتے ہیں تو انکساری کی حالت اس کے دل سے محو ہو جاتی ہے اور جب رحم

Page 457

۴۵۲ سال ۱۹۳۴ء اور انکساری کے جذبات غالب ہوں تو حکومت کے جذبات دبے ہوئے ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالٰی کی یہ شان نہیں وہ ایک ہی وقت میں عفو بھی کر رہا ہوتا ہے اور رحم بھی سزا بھی دے رہا ہوتا ہے اور انعام بھی اسی وقت اور اسی لمحہ میں جب کہ اس کا ایک بندہ مصیبت اور دکھ میں مبتلاء ہوتا ہے شفقت اور رافت کے جذبات جس چیز کا ہم نام رکھتے ہیں اس قسم کی صفت بھی اس کے لئے ظاہر ہو رہی ہوتی ہے.پس ہم نہیں کہہ سکتے کہ جس وقت غضب خدا کی طرف سے نازل ہو رہا ہوتا ہے رحم نازل نہیں ہو تا یا جس وقت رحم نازل ہو رہا ہوتا ہے غضب کی صفت کام نہیں کرتی بلکہ ایک ہی وقت میں دونوں صفات پورے زور اور کامل جلال کے ساتھ ظاہر ہو رہی ہوتی ہیں اور یہی نہیں کہ مختلف وجودوں پر ان کا ظہور ہوتا ہے یعنی ایک پر اگر رحم کی صفت نازل ہو رہی ہوتی ہے تو دوسرے کے لئے خدا کے غضب کی صفت کام کر رہی ہوتی ہے.بلکہ بسا اوقات ایک ہی انسان پر ایک ہی وقت میں خدا تعالٰی کی دونوں صفات نازل ہو رہی ہوتی ہیں اور نازل بھی پورے زور اور قوت کے ساتھ ہوتی ہیں.اگر ایک انسان پر خدا تعالٰی کی صفت غضیہ کا نزول ہو رہا ہوتا ہے تو اس پر اس کی قوت رحمت بھی نازل ہو رہی ہوتی ہے.مگر یہ بات اللہ تعالی کے ساتھ مخصوص ہے کیونکہ وہ مجسم نہیں بلکہ غیر محدود ہے.جس قدر چیزیں مجسم ہوا کرتی ہیں.ان کی طاقتیں بھی محدود ہوتی ہیں.پس گو اللہ تعالی کو تو ان چیزوں کا علم ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ تمام چیزیں بندوں کے علم میں بھی لائی جاسکتی ہیں.یہ تو ظاہر ہے کہ انسان محدود ہے اور وہ طاقتیں بھی محدود لے کر آیا ہے.پھر محدود وقت میں وہ جس قدر باتیں کرتا اور مختلف کام سر انجام دیتا ہے ان کا پورے طور پر سمجھنا بھی اس کے لئے ناممکن ہے.مثلاً نہایت ہی قلیل وقت ایک منٹ میں ایک انسان نے اپنا ہاتھ ہلایا.اگر اس کے ہاتھ ہلانے کا اسے پورا علم دیا جائے اور اس کی اس حرکت سے جو جو تغیرات ہوئے ان کا ایک ایک حصہ اس کے سامنے بیان کرنا شروع کر دیا جائے تو ایک لمبی تفصیل کے بعد وہ اپنے ہاتھ ہلانے کی کیفیت اور اس کے ذریعہ پیدا ہونے والے تغیرات کو سمجھ سکے گا.لیکن اس نے صرف ہاتھ ہی نہیں ہلایا ہو گا بلکہ اسی طحہ میں پاؤں بھی ہلایا ہو گا.اور اگر پاؤں کے ملنے اور ایک ایک جوڑ کی حرکت کی تفصیل سامنے رکھی جائے تو ایک لمبا وقت درکار ہو گا.لیکن یہیں پر بس نہیں ہوگی، بلکہ اسی منٹ میں اس کے پھیپھڑ سے بھی کام کر رہے تھے.دماغ بھی کام کر رہا تھا اور دل بھی کام کر رہا تھا.اور باقی اعضاء بھی کام کر رہے تھے.ان تمام کے ایک منٹ کے

Page 458

خطبات محمود ۴۵۳ سال ۱۹۳۲ء کام کا علم بہت وقت چاہتا ہے.اب اگر انسان اپنے تمام اعمال کا پتہ لگانا چاہے تو ایک انسان کی پچاس سالہ زندگی کے تمام اعمال معلوم کرنے کے لئے بھی دس کروڑ یا دس بیس ارب سال کی زندگی در کار ہو گی تب جا کر وہ کتاب مکمل ہو گی جسے پڑھ کر وہ پتہ لگا سکے گا کہ اس نے پچاس سالہ زندگی میں کیا کیا کام کئے.اور چونکہ کاموں کی وجہ سے ہی انسان پر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ انسانی کمزوری دور کرنے کا ذریعہ مقرر کر دیا.یعنی نہایت ہی پاکیزہ الفاظ میں اجمال کے ساتھ ایک ایسا قانون بنا دیا جسے اگر مد نظر رکھے تو اپنی زندگی کے لئے صحیح مقاصد میا کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے.وہ قانون قرآن مجید ہے جو یوں تو مجمل ہے مگر ایک حصہ اس اجمال کا بھی خلاصہ ہے.پھر ایک حصہ ایسا ہے جو اس خلاصے کا بھی خلاصہ ہے.مگر باوجود اس کے وہ مفصل ہے اور اس میں تفصیل کے ساتھ تمام باتوں کو بیان کر دیا گیا ہے.پس ایک طرف تو ہم قرآن مجید کا نام خلاصہ رکھتے ہیں اور دوسری طرف اسے مفصل کہتے ہیں.گویا قرآن مجید مفصل بھی ہے اور خلاصہ بھی.خلاصہ اس لحاظ سے کہ اس کی ایک ایک آیت میں سینکڑوں مطالب پنہاں ہیں اور ایسے مطالب جو ختم ہونے میں ہی نہ آئیں ایک آیت میں بیان کر دینا خلاصہ ہی کہلا سکتا ہے تفصیل نہیں کہلا سکتا.لیکن وہ تفصیل بھی ہے یعنی اس میں الفاظ ایسی ترتیب کے ساتھ رکھے گئے ہیں کہ وہ سوچنے والوں کو خود بخود تفصیل کی طرف لے جاتے ہیں بشرطیکہ ہم اپنی حالت کو قرآن مجید کے مطابق بنائیں تو چونکہ تفصیل بھی اسی میں سے نکلتی ہے باہر سے نہیں آتی اس لئے وہ مفضل بھی ہے.پس خلاصہ ہے اور ایسا خلاصہ کہ اس جیسا کامل خلاصہ دنیا میں کبھی نہیں ہوا اور وہ تفصیل ہے اور ایسی تفصیل کہ اس جیسی کامل تفصیل بھی دنیا میں کبھی پیش نہیں کی گئی.وہ نہایت ہی مختصر الفاظ میں ہے اور اتنے مختصر الفاظ میں کہ اس سے کم الفاظ میں اتنے مضامین بیان کر نانا ممکن ہے.اور پر وہ استاد واضح ہے کہ اس سے زیادہ کسی بات کو کھولا نہیں جاسکتا.مگر وہ خدا جس کی صنعتیں اور حکمتیں عجیب و غریب ہیں ، اس نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس نے قرآن مجید کا بھی خلاصہ کیا جس کا نام سورۃ فاتحہ ہے.سورۃ فاتحہ خلاصہ ہے تمام قرآن مجید کا لیکن سورۃ فاتحہ قرآن مجید کی تفسیر بھی ہے.اس کی ہر آیت قرآن مجید کے لئے بمنزلہ کنجی ہے.اور اگر سورۃ فاتحہ کی آیات سے باقی قرآن مجید کی آیتوں کو کھولنا شروع کیا جائے تو وہ یوں کھلتی نظر آتی ہے جیسے بزاز کی دکان میں کپڑوں کے تھان کھولے جاتے ہیں.پس سورۃ فاتحہ خلاصہ ہے اور ایسا خلاصہ کہ اس جیسا کامل خلاصہ کبھی نہیں ہوا.مگر اس سورۃ کا بھی ایک خلاصہ ہے.جس کے دوحصے

Page 459

خطبات محمود ۴۵۴ سال ۲۱۹۳۲ دو ہیں ان میں سے ایک حصہ تو قرآن مجید میں آیا ہے اور ایک حصہ قرآن مجید سے باہر ہے.سورۃ فاتحہ کا خلاصہ جو قرآن مجید کے اندر آیا ہے وہ بسم اللہ ہے.بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ جو سورۃ فاتحہ کا خلاصہ ہے لیکن یہ سورۃ فاتحہ کی کنجی بھی ہے.اور یہ بھی ایسا خلاصہ ہے جس سے بہتر خلاصہ ناممکن ہے.لیکن ساتھ ہی ایسی تفصیلات بھی اپنے اندر رکھتا ہے جس کی نظیر ناممکن ہے.ایک بزرگ لکھتے ہیں میں ایک دفعہ بسم الله الرحمن الرحیم کی تفسیر لکھنے بیٹھا لیکن میں ابھی ب پر ہی غور کر رہا تھا کہ مجھ پر اس قدر معارف کھلے کہ میں نے یقین کر لیا کہ اس کی تفسیر لکھنا نا ممکن ہے.پھر اس سورۃ فاتحہ کا دوسرا خلاصہ جو قرآن مجید کے باہر آیا ہے اور جو بطور گر ہمیں شو کھایا گیا ہے - DNA ALTANANA TAN اللہ ہے ADNAN ALI NADNAN الله خلاصہ ہے سورۃ فاتحہ کا اور خلاصہ ہے قرآن مجید کا.اس کے اندر ساری تفصیل ہے.اور اس کے اندر سارا اجمال بھی ہے یہی کلمہ ہے جو ہر چیز کو انتصار کے ساتھ اپنے اندر لئے ہوئے ہے اور ہر چیز کو تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم نے فرمایا مَنْ قال لا إله إلا الله دَخَلَ الْجَنَّةَ جو شخص لا إله الا اللہ کے گا جنت میں داخل ہو جائے گا.اب اگر لا إِلَهَ إِلَّا الله اپنی ذات میں ایسا فقرہ ہوتا جس کا پڑھ لینا انسان جنت میں داخل کر سکتا تو پھر سورۃ فاتحہ کی کیا ضرورت تھی.اور اگر ہم صرف سورۃ فاتحہ پڑھنے سے جنت میں داخل ہو سکتے تو پھر باقی قرآن کی کچھ ضرورت نہیں رہتی.پس لا اله الا اللہ کی اپنی ذات میں کوئی حیثیت ماننے اور اسے قرآن مجید یا سورۃ فاتحہ سے الگ خیال کرتے ہوئے انسان کا جنت میں داخل ہو سکتا سورۃ فاتحہ کو بے کار قرار دے دیتا ہے.اور سورۃ.فاتحہ کو بے فائدہ ماننے سے باقی قرآن کو بے فائدہ ماننا پڑتا ہے.دراصل رسول کریم میں ہم نے جب یہ فرمایا مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ کہ جو شخص لا اله الا الله کے وہ جنت میں داخل ہو جاتا ہے.اور پھر کہا کہ قرآن مجید سے ہی انسان کی نجات وابستہ ہے.تو آپ نے یہ بتایا کہ کلمہ کوئی مستقل چیز نہیں بلکہ قرآن اور سورۃ فاتحہ کا ایک خلاصہ ہے.اور یہ ایسا مکمل خلاصہ ہے کہ جو اس پر عمل کرے گا.وہ قرآن پر عمل کرے گا.اور اس کے نتیجہ میں جنت میں داخل ہو جائے گا.اگر من GNU AND ENGLANA ALNA NANG LG خَلَ الْجَنَّةَ کے یہ معنے نہ لئے جائیں کہ یہ کلمہ خلاصہ ہے تمام قرآن مجید کا تو قرآن باطل ہو جاتا ہے.اور اگر قرآن مجید کو ضروری مانیں تو اس حدیث کو باطل ماننا پڑتا ہے.تطبیق کی صورت یہی ہے کہ اسے قرآن مجید کا خلاصہ قرار دیا جائے اور در اصل رسول کریم میم نے جو کچھ فرمایا اس کا یہی مطلب ہے کہ قرآن مجید کے تمام مطالب م سهام باور

Page 460

خطبات محمود ۴۵۵ سال ۱۹۳۲ء اس کے اندر آ جاتے ہیں.پس لا اله الا اللہ وہ کلمہ ہے جس کو اسلام نے اجمال کے طور پر ہمارے سامنے رکھا ہے.اس اجمال میں انسانی زندگی کے تمام مقاصد مخفی ہیں.اور ہم میں سے جتنی کسی کی سمجھ تیز ہوتی ہے اتنی ہی اس میں سے مفید باتیں نکال لیتا ہے.اور جتنی کسی کی عقل کمزور ہوتی ہے اسی قدر باتیں اس پر بند رہتی ہیں.اگر ہم اس کلمہ طیبہ کو اپنے سامنے رکھیں تو ہر قسم کی کمزوریوں اور کو تاہیوں کے بد نتائج سے محفوظ رہ سکتے ہیں.ہو سکتا ہے بعض لوگ مختلف قسم کی برائیوں میں بتلاء ہو چکے ہوں.ان کو بھی لا الہ الا الله کام دے سکتا ہے اور اگر بعض روحانی تکالیف آنے والی ہوں تو ان سے بھی انسان بچ جاتا ہے.یہ ایک نہایت ہی مختصر فقرہ ہے.مگر اس کے اندر نہایت ہی وسیع مطالب ہیں.اس کلمہ میں کہا گیا ہے کہ لا الہ الا اللہ سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی معبود نہیں.بظاہر کتنی چھوٹی بات نظر آتی ہے اور ہم خیال کرتے ہیں کہ اس کا اتنا ہی مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کی عبادت نہیں کرنی چاہئے اور ہم خیال کرتے ہیں کہ ہمارے بیوی اور بچوں کے تعلقات، دوستوں اور رشتہ داروں کے تعلقات، ہمسایوں اور قرابت والوں کے تعلقات استاد اور شاگرد کے تعلقات ، حکومت اور رعایا کے باہمی تعلقات کا اس لا اله الا الله سے کوئی تعلق نہیں.حالانکہ ہمارا کوئی کام نہیں خواہ وہ روحانی ہو یا جسمانی.اقتصادی ہو یا تمدنی جس کا اس لا اله الا اللہ سے تعلق نہیں.کیونکہ عبودیت کا تعلق محض نماز سے نہیں ہو تا.اور ہم صرف عبادت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے حضور عبودیت کا اظہار نہیں کرتے بلکہ ہم اپنے ہر فعل سے اللہ تعالٰی کی عبودیت بجا لاتے ہیں اس لئے ہمارے ہر کام کا کلمہ طیبہ سے تعلق ہے.دنیا میں جس قدر بھی انسانی کام ہوتے ہیں وہ دو رنگ کے ہوتے ہیں یا تو ان میں حکومت کا رنگ پایا جاتا ہے یا تعبد کایا بعض چیزوں میں حاکمانہ رنگ ہوتا ہے یا بعض میں محکومانہ یا ہم بعض چیزوں کے لئے خود خدا بنتے ہیں یا بعض چیزوں کو اپنا خدا بناتے ہیں.اگر ہم کسی کپڑے کے متعلق یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر وہ ہمیں میسر نہ آیا تو ہماری زندگی تلخ ہو جائے گی تو دراصل اس کپڑے کو ہم اپنا خدا بناتے ہیں.اسی طرح اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم نے اپنی بیوی کی فلاں بات نہ مانی تو وہ ہمیں ذلیل کرے گی تو اس کو ہم اپنا خدا بناتے ہیں.اگر ایک افسر کے متعلق ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ میں نقصان پہنچائے گا تو اس افسر کو اپنا خدا سمجھتے ہیں.اور اگر افسر یہ خیال کرتا ہے کہ اگر ماتحت نے میری بات نہ مانی تو میں اسے نقصان پہنچاؤں گا تو وہ اپنے آپ کو اس کا خدا قرار دیتا ہے.اسی

Page 461

خطبات محمود سال ۱۹۳۲ء طرح اگر تجارت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر فلاں چیز کی تجارت نہ کی تو اس دفعہ سخت نقصان پہنچے گا تو دراصل اس چیز کو اپنا خدا سمجھتے ہیں.اور اگر ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ تجارت میں فائدہ ہمیں اپنی عقل اور قابلیت سے ہوا تو ہم اپنی عقل کو خدا قرار دیتے ہیں.ایک طالب علم اگر یہ سمجھتا ہے کہ مجھے اگر استاد نے نہ پڑھایا تو مجھے نقصان ہو گا تو وہ اپنے استاد کو خدا قرار دیتا ہے.اور اگر استاد کہتا ہے کہ میں ہی علم سکھاتا ہوں اور اگر نہ سکھاؤں تو لڑ کے جاہل ہی رہیں تو وہ اپنے آپ کو ان کا خدا قرار دیتا ہے.غرض دنیا میں ہمارے جس قدر معاملات ہیں یا تو ان میں تعبیر کا رنگ پایا جاتا ہے یا حکومت کا.یا ہم دو سرے کو اپنا خدا بنا رہے ہوتے ہیں یا اپنے آپ کو دو سرے کا خدا قرار دے رہے ہوتے ہیں.پس ہمارا ہر کام ہمارا ہر فعل اور ہماری ہر حرکت لا اله الا الله کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.اور ان دونوں صورتوں میں یا تو ہم لا اله الا اللہ کا اقرار کر رہے ہوتے ہیں یا ہم لا اله الا اللہ کا انکار کر رہے ہوتے ہیں.جب ہم لا اله الا اللہ کہتے ہیں تو شرعی نقطہ نگاہ سے اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ دنیا میں جو بھی معاملات پیش آئیں گے ان میں نہ ہم اپنے آپ کو کسی کا خدا قرار دیں گے اور نہ کسی کو اپنا خدا سمجھیں گے.اگر ہم افسر ہیں تو یہ خیال رکھیں گے کہ ہم افسر نہیں بلکہ حقیقی افسر اللہ تعالیٰ ہی ہے.اور اگر ہم ماتحت ہیں تو خیال رکھیں گے کہ ہمارا افسر کوئی انسان نہیں ، بلکہ خدا ہی افسر ہے.اس خیال کے ماتحت جب ہم کسی کام میں ہاتھ ڈالیں گے تو اس میں بھلائی ہی بھلائی ہوگی.یہی لا الہ الا اللہ کا خلاصہ ہے.یہی خلاصہ سورۃ فاتحہ کا ہے اور یہی قرآن مجید کا خلاصہ ہے.قرآن اسی لئے نازل ہوا ہے کہ تاوہ بتائے کہ بے شک دنیا میں کام کرو مگر اللہ تعالٰی کی الوہیت کو نقصان نہ پہنچاؤ - آخر اللہ تعالیٰ نے دنیا کو کیوں بنایا اسی لئے کہ اس کی الوہیت کا ظہور ہو.لیکن اگر ہم اپنے کاموں میں اپنے اسباب کو خدا بنا لیتے ہیں.بیوی اور بچوں کو خدا بنا لیتے ہیں.افسروں کو خدا بنا لیتے ہیں.اور اسباب کو الوہیت پر غالب کر دیتے ہیں تو ہم بجائے خدا کے ظہور کو قائم کرنے کے اس کے ظہور کو مٹانے والے ہوتے ہیں.اور ایسی صورت میں ہم قطع NANA ALNA NANA اللہ کہنے والے نہیں ہوتے.پس مومن کو چاہئے کہ وہ اپنے کاموں میں لارا ADATA WAL اللہ کو مقصود بنائے اور کوشش کرے کہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت کا ظہور دنیا پر ہو.اگر ہم اس مفہوم کو سمجھ لیں اور کچے دل سے لا اله الا اللہ پر عمل کریں تو میں یقین رکھتا ہوں کہ ہمارے تمام کاموں میں برکت پیدا ہو جائے.مجھے نہایت ہی تعجب آتا ہے کہ ہماری جماعت جو اس لئے دنیا میں قائم کی گئی ہے کہ وہ اسلام کو

Page 462

خطبات محمود ۴۵۷ سال ۲ زندہ مذہب ثابت کرے اور بھولی بھکی دنیا کو ہدایت کی طرف لائے.ابھی تک اس میں بہت ہیں جو لا ANANTANA اللہ کے اس مفہوم کو مد نظر نہیں رکھتے.اسی لئے ہماری جماعت کے کاموں میں مجھے وہ برکت نظر نہیں آتی جو آنی چاہئے.اس میں شبہ نہیں کہ بحیثیت جماعت ہمارے کاموں میں برکت ہوتی ہے اور اللہ تعالی کی تائید اور نصرت ہمارے شامل حال ہے لیکن انفرادی کاموں میں ہمیں اس نصرت الہی کا مشاہدہ نہیں ہوتا.اور نہ انفرادی کاموں میں وہ برکت نظر آتی ہے جو اللہ تعالی کے مقبولوں کے کاموں میں نظر آنی چاہئے.حالانکہ اس خیال کے ماتحت کہ ہم اللہ تعالیٰ کے جلال کے لئے دنیا سے تعلق رکھتے ہیں ہمیں اپنے دنیاوی کاموں میں بھی دوسروں پر نمایاں فوقیت ہونی چاہئے.اور جس کام میں بھی ہم اپنا ہاتھ ڈالیں، ہمیں اس میں دوسروں پر غلبہ حاصل ہونا چاہیے.کیونکہ لا الہ الا اللہ کا مقصود دنیا کو یہی بتاتا ہے کہ ساری دنیا کی گردنیں اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہیں.اور جب ساری دنیا کی گردنیں اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہیں تو جو اللہ تعالیٰ سے تعلق کے دعویدار ہوں ان کے ہاتھ میں بھی ساری دنیا کی گردنیں ہونی چاہئیں.لیکن اگر بجائے دوسروں کی گردنیں ہمارے ہاتھ میں ہونے کے ہماری گردنیں ان کے ہاتھ میں ہوں تو کس طرح کیا جا سکتا ہے کہ ہم لا اله الا اللہ کو مانتے ہیں اس پر عمل کرتے ہیں.خد اتعالیٰ کی یہ شان ہے کہ وہ کبھی اپنے پیاروں پر دوسروں کو غلبہ نہیں دیتا.کیا کبھی تم نے دیکھا کہ کوئی باپ اپنے بیٹے کے پیچھے کتنے ڈال دے.یا کسی ماں کو تم نے دیکھا کہ وہ شیر کے آگے اپنا بچہ پھینک دے.جب ایک باپ اپنے بیٹے کے پیچھے کتے نہیں ڈالتا اور نہ ماں اپنے بچے کو شیر کے آگے ڈالتی ہے تو کس طرح ممکن ہے کہ خدا جو ماں باپ سے بہت زیادہ شفقت کرنے والا ہے وہ اپنے بندوں پر دو سروں کو مسلط کر دے اور انکی گردنیں اغیار کے ہاتھوں میں دیدے.اگر باوجود لا اله الا اللہ کہنے کے کسی کی یہ حالت ہو تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ بظاہر وہ سمجھتا ہے کہ وہ لا الہ الا اللہ کہتا ہے لیکن در اصل اس مقصد کے مطابق اپنے آپ کو بناتا نہیں جو لا اله الا اللہ کا ہے اور اسی لئے ان فیوض اور برکات سے محروم رہتا ہے جو اس سے وابستہ ہیں.بیسیوں کام ہیں جن میں ہماری جماعت سستی اور غفلت سے کام لے رہی ہے.لیکن وہ امر جس نے اس وقت مجھے یہ خطبہ پڑھنے پر مجبور کیا ہے ہمارے سکولوں کی حالت ہے.مجھے تعجب اور افسوس آتا ہے کہ اس وقت ہمارا ہائی سکول ایسے طالب علم پیدا نہیں کر رہا جو سلسلہ اور اسلام کی روح لے کر کھڑے ہونے والے ہوں.اور جو کسی ٹھوس فلسفہ پر قائم ہوں.بالکل پاگلوں کی سی باتیں ہوتی ہیں نہ انہیں نیکی اور

Page 463

خطبات محمود ۴۵۸ سال ۹۳۲ بدی میں موازنہ کرنا آتا ہے اور نہ ان کی تربیت ایسی اعلیٰ پیمانے پر کی جاتی ہے جس طرح کرنی چاہئے.ان پر جب دوسرے لوگ اعتراض کرتے ہیں تب پتہ لگتا ہے کہ انکی تربیت کیسی ناقص ہو رہی ہے.ایک زمانہ تھا کہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام پر اعتراض کرتے کہ یہ کیسے نی ہیں جبکہ یہ بادام روغن کھاتے ہیں.میرے سامنے بھی حضوں نے کہا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی زندگی ویسی نظر نہیں آتی جیسی انبیاء کی ہوتی ہے.حالانکہ وہ نادان یہ نہیں سمجھتے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر شخص سے علیحدہ سلوک ہوتا ہے.سید عبد القادر صاحب جیلانی کے متعلق لکھا ہے کہ وہ نہایت ہی قیمتی لباس پہنا کرتے تھے.بعض دفعہ اڑھائی اڑھائی ہزار روپے کا ان کا ایک جوڑا ہو تا تھا.لوگ اعتراض کرتے تو آپ فرماتے میں تو کوئی لباس نہیں پہنتا جب تک خدا مجھے نہیں کہتا اے عبد القادر ! تجھے میری ذات کی قسم تو فلاں لباس پہن ہے.اب اگر خدا کے حکم کے ماتحت ایک شخص ہزاروں روپے کا بھی لباس پہنتا ہے اور دوسرا اعتراض کرتا ہے تو معترض بیوقوف اور فلسفہ الہیات سے ناواقف ہے کوئی بورڈر نہیں کہتا کہ ہمارا سپرنٹنڈنٹ جس وقت چاہے بورڈنگ سے چلا جاتا ہے اور جب چاہے آجاتا ہے لیکن ہمیں کہتا ہے کہ باہر جانے پر اجازت لو آپ تو کبھی اجازت لیتا نہیں اور ہمیں اجازت لینے کو کہتا ہے حالانکہ مساوات چاہئے.ایک طالب علم کبھی یہ نہیں کہتا کہ ہمارا استاد آکر خود تو کرسی پر ڈٹ جاتا ہے لیکن ہمیں بنچ پر بیٹھنا پڑتا ہے اور ہمیں کہتا ہے سبق یاد کرو.ہر شخص کا منصب الگ الگ ہوتا ہے.اور اس منصب کے مطابق ہر شخص کے کام مختلف ہوتے ہیں کسی کو حکمتوں پر خدا کسی رنگ میں آزماتا ہے اور کسی کو کسی رنگ میں - نادان ہے وہ جو اللہ تعالی کی اعتراض کرتا ہے اور اپنی بیوقوفی کی وجہ سے یہ نہیں سمجھتا کہ میں کہاں اور وہ کہاں.کوئی دو آدمی ایک ہی جیسی حالت کے نہیں ہوتے ایک شخص تو میروں دودھ پی جاتا ہے اور اسے کچھ نہیں ہوتا لیکن ایک میں ہوں کہ اگر دو تولہ دودھ بھی پی لوں تو بخار چڑھ جاتا ہے اب اگر میں کہوں کہ آدمی تو ہم دونوں ہیں پھر وجہ کیا کہ وہ کئی سیر دودھ پی جاتا ہے اور میں دو تولہ بھی نہیں پی سکتا تو یہ صحیح نہیں ہو گا بے شک ہم آدمی دونوں ہیں لیکن طاقتوں میں فرق ہے اسی طرح لوگ اس امتیاز کو نہیں سمجھتے کہ اللہ تعالٰی بعضوں کو کھلاتا ہے اور بعض کو بھوکا رکھتا ہے پہلے ہمارے سکولوں میں سے جو طالب علم نکلتے تھے وہ ایسے سوالوں کا بخوبی جواب دے لیا کرتے تھے لیکن اب میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے سکولوں میں سے جو طالب علم نکل رہے ہیں ان کے دماغ ایسے اعلیٰ نہیں جیسے

Page 464

خطبات محمود ۴۵۹ سال ۱۹۳۲ء ہونے چاہئیں بحیثیت جماعت اللہ تعالٰی کے فضل سے ہم دنیوی شعبوں میں بھی ترقی کر رہے ہیں اور سوائے محکمہ پولیس کے کہ اس میں رشوت ستانی ہوتی ہے اور اس میں ہمارے آدمیوں کا گزارہ کرنا مشکل ہے ہماری جماعت قریبا ہر محکمہ میں اپنی تعداد سے زیادہ حصہ لے رہی ہے اور جس رنگ میں ہماری جماعت مختلف محکمہ جات میں ترقی کر رہی ہے اسے دیکھتے ہوئے امید کی جاتی ہے کہ تھوڑے ہی عرصہ میں ہماری جماعت مختلف شعبوں میں بہت اچھا غلبہ حاصل کرلے گی یہ غلبہ مجھے افراد میں نظر نہیں آتا اور یہ تربیت کا نقص ہے اگر صحیح رنگ میں لڑکوں کے دماغوں کی تربیت کی جائے تو ان کے لئے دماغی ترقی کرنا اور مشکل سے مشکل مسائل کو سلجھانا کچھ بھی مشکل نہیں لیکن افسوس ہے کہ لڑکوں کی تربیت کی طرف بہت کم توجہ کی جاتی ہے اسی طرح میں اپنے سکولوں کے نتائج کو دیکھتا ہوں کہ وہ نہایت ہی افسوسناک ہوتے ہیں بلکہ اس سال تو جو نتیجہ نکلا اس کے لحاظ سے ہمارے سکول نے نہایت شرمناک نمونہ دکھایا ہے طالب علم شکایت کرتے رہتے ہیں کہ استاد محنت نہیں کراتے اور جس قدر وقت دینا چاہئے وہ وقت صحیح طور پر تعلیم میں استعمال نہیں کرتے ان کی نسبت باہر کے سکولوں کے استاد بہت زیادہ محنت کراتے اور مقررہ اوقات سے زیادہ وقت دیتے ہیں چنانچہ ابھی پچھلے دنوں میرا ایک عزیز بچہ آیا ہوا تھا میں نے اس سے دریافت کیا کہ تمہیں موسمی چھٹیاں کتنی ہوتی ہیں وہ کہنے لگا چونکہ اس دفعہ مجھے دسویں جماعت کا امتحان دینا ہے اس لئے اس سال دس بارہ سے زیادہ چھٹیاں نہیں ہونگی کیونکہ چھٹیوں کے ایام میں بھی استاد محنت کراتے ہیں غرض طالب علم تو یہ شکایت کرتے ہیں کہ استاد اتنا وقت نہیں دیتے جتنا انہیں دینا چاہئے اور استاد شکایت کرتے ہیں کہ ان کے اوقات اتنے مصروف ہیں کہ انہیں پڑھائی کے لئے مزید وقت نہیں ملتا اور یہ کہ ہم تو لڑکوں سے کہتے ہیں کہ وہ اگر پڑھیں مگر وہ پڑھتے نہیں یہ اتنے متضاد بیان ہیں کہ ایک وقت میں قطعا صحیح سمجھے نہیں جاسکتے یہ کہنا کہ استادوں کے وقت بہت لگے ہوئے ہیں اور انہیں زیادہ وقت دینا مشکل ہے اسے تو میں بالکل باطل اور لغو سمجھتا ہوں جتنا وقت وہ اس وقت تعلیم پر صرف کر رہے ہیں میرے نزدیک اس سے تین چوتھائی وقت بھی اگر وہ صحیح طور پر استعمال کریں تو اس سے نہایت اعلیٰ نتائج نکل سکتے ہیں اور لڑکوں کی تعلیم بھی مکمل ہو سکتی ہے مگر شرط یہی ہے کہ وہ وقت کا صحیح استعمال کریں اسی طرح یہ خیال کہ لڑکوں کے درس میں شریک ہونے کی وجہ سے ان کی پڑھائی کا حرج ہوتا ہے بالکل بیہودہ ہے جس درس میں وہ شامل ہی نہیں ہوتے اس کا نقصان انہیں کیو نکر پہنچ سکتا ہے.قادیان کے 3

Page 465

خطبات محمود ۴۶۰ سال ۱۹۳۲ء لوگوں نے یہ طریق اختیار کیا ہوا ہے کہ جن دنوں میں درس دینے لگوا ان دنوں میں کثرت سے شامل ہونگے مگر جب کوئی اور درس دے تو اس وقت شامل ہونا ضروری نہیں سمجھتے اس پر میں کہہ سکتا ہوں کہ میرے درس میں وہ مجھے سننے کے لئے آتے ہیں نہ کہ قرآن سننے کے لئے اگر قرآن سننے کے لئے آئیں تو دوسرے کے درس میں بھی شامل ہوں.پس جس درس میں لڑکے شامل ہی نہیں ہوتے اس کو وہ اپنے لئے آڑ کیونکر بنا سکتے ہیں.قرآن تو انہیں روز بلاتا ہے اور کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی طرف آؤ مگر وہ کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں تیری برکت منظور نہیں ہم بغیر قرآن کے ہی اچھے ہیں پس اول تو میری سمجھ میں یہ کبھی نہیں آیا کہ جس درس میں وہ شامل نہیں ہوتے اس سے ان کی پڑھائی میں کیونکر حرج واقعہ ہو سکتا ہے اور اس سال تو میں نے درس نہیں دیا پس یہ سال تو ان کے لئے اچھا تھا وہ بہت اچھی طرح محنت کر سکتے تھے مگر نتیجہ جیسا خراب نکلا وہ ظاہر ہے.پھر یہ بات بھی میری سمجھ میں کبھی نہیں آئی کہ استاد کہتے ہیں ہم زیادہ وقت نہیں دے سکتے.اگر یہ درست ہے تو وہ کس منہ سے دوسروں پر اپنی فضیلت اور دینداری ثابت کر سکتے ہیں کیا وہ یہی کہا کرتے ہیں کہ ہم لوگ بڑے دیندار اور نہایت خدا پرست ہیں کیونکہ ہم اپنی تنخواہ کی گھنٹیوں میں ہی پڑھایا کرتے ہیں ان کے بعد کسی کو نہیں پڑھاتے ہم بڑے متقی اور خدارسیدہ ہیں کیونکہ ہمیں اپنے طالب علموں کی تربیت کا کوئی خیال نہیں ہم بڑے پاک اور صاحب تقویٰ ہیں کیونکہ ہمیں اپنی تنخواہوں کی وصولی کا ہی خیال ہوتا ہے لڑکوں کے اچھے یا برے ہونے کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی.اور ہم ہی دنیا میں مسلمان جماعت ہیں کیونکہ ہمیں کوئی خیال نہیں ہو تاکہ لڑکے پاس ہوتے ہیں یا لیں.لیکن تم لوگ چونکہ اپنے طالب علموں کی تعلیم و تربیت پر بہت زور دیتے ہو اس لئے خدا تم سے ناراض ہے تم قطعا اس کے حضور مقبول نہیں کیونکہ تمہارے لڑکے نہایت اعلیٰ نمبروں پر پاس ہوتے ہیں.کہیں جاکر ذرا یہ تقریر تو کرو کیسی نا معقول ہوگی.پس اگر استادوں کی یہ حالت ہے تو نہایت ہی افسوسناک ہے.اور اگر استاد تو کہتے ہیں کہ ہم محنت کرانے کے لئے تیار ہیں مگر ماں باپ اپنی بے جا محبت کی وجہ سے انہیں سکول کے اوقات کے بعد پڑھنے نہیں دیتے تو یہ بھی افسوسناک ہے.اگر کسی کا بچہ ایک سال پڑھائی میں شامل ہونے کی وجہ سے موسمی چھٹیوں میں گھر نہیں آسکتا تو اس سے انہیں کبیدہ خاطر نہیں ہونا چاہئے.آخر ایک انگریز ماں کا بھی ویسا ہی کلیجہ ہوتا ہے جیسا ہندوستانی ماں کا.مگر وہ ایک سال کے لئے نہیں بلکہ بعض دفعہ سالہا سال کے

Page 466

خطبات محمود سال ۱۹۳۲ء لئے اپنے بچوں کو اپنے پاس سے اس لئے جدا کر دیتی ہیں کہ وہ تعلیم حاصل کریں.پس وہ ماں باپ جو اپنی اولاد کے ایسے دشمن ہیں کہ کہتے ہیں.بچو! چھٹیوں میں ہمارے پاس آؤ.ہم تمہیں کھلا ئیں گے تمہیں محنت کرنے کی ضرورت نہیں.اور وہ استاد جو لڑکوں کی تعلیم کی نگرانی نہیں کرتے.میں نہیں سمجھ سکتا وہ کس طرح DATA ALI AND اللہ کہنے والے ہو سکتے ہیں.لا الہ الا اللہ کہنے کی تو ایک ہی غرض ہے اور وہ یہ کہ تمہارا یہ مقصد ہو کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور اس کی حکومت کو قائم کرو لیکن وہ لوگ جو سستی اور غفلت کو دنیا میں قائم کرنا چاہے.وہ تو شیطان کی حکومت کو قائم کرنا چاہتے ہیں نہ کہ اللہ تعالیٰ کی حکومت کو.میں اس نقطہ نگاہ سے اپنے سکول کے نتائج کو نہیں دیکھتا کہ ان میں سے کتنے لڑکے کامیاب ہوئے اور کتنے لیل بلکہ میں اس نقطہ نگاہ کے ماتحت دیکھتا ہوں کہ ہم خدا تعالیٰ کی جماعت کہلاتے ہیں اور ہماری ذلت اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہوتی ہے.میں انٹرنس کو انٹرنس کی حیثیت میں ایف اے کو ایف اے کی حیثیت میں بی اے کو بی اے کی حیثیت میں اور مولوی فاضل کو مولوی فاضل کی حیثیت میں نہیں دیکھتا بلکہ میں اسے اللہ تعالیٰ سے وابستگی کے لحاظ سے دیکھتا ہوں اور میں اس لحاظ سے دیکھتا ہوں کہ ان نتائج سے سلسلہ پر کیا اثر پڑتا ہے.میں صرف انٹرنس میں لڑکوں کے فیل ہونے کو ہی نا پسند نہیں کرتا بلکہ میں تو یہ بھی برداشت نہیں کر سکتا کہ ہمارے بچے کسی کھیل میں ہار جائیں کیونکہ میں سمجھتا ہوں جب کوئی قوم اپنے آپ کو اللہ تعالی کی طرف منسوب کرتی ہے تو اس کے افراد اور دوسری جماعتوں کے افراد میں بہت نمایاں فرق ہوتا ہے.بہت نمایاں فرق ہوتا ہے.بہت نمایاں فرق ہوتا ہے.کبھی کوئی شخص اس امر کو تسلیم نہیں کر سکتا کہ ایک تار کا بجلی کے ساتھ تعلق ہو اور پھر بھی اس میں کوئی اثر نہ ہو.اگر کسی تار میں واقعہ میں بجلی کا کوئی اثر نہیں تو دو باتوں میں سے ایک کا ہونا ضروری ہے یا تو اس کا تعلق کبھی ہوا ہی نہیں اور اگر کبھی ہوا تھا تو اب منقطع ہو چکا ہے.بعینہ اسی طرح بلکہ اس سے بھی بہت بڑھ کر اللہ تعالٰی کے تعلق کا اثر ہونا چاہیے.اور اگر ایسا اثر دکھائی نہیں دیتا تو اس کا صاف طور پر یہ مطلب ہے کہ ہمارا اللہ تعالٰی سے کوئی تعلق نہیں بلکہ محض زبانی دعوئی ہے.پس میں اپنے دوستوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے ان کی ناکامیاں بہت بری لگتی ہیں.دوستوں کی ناکامیوں کا تو کیا کر میں تو دشمن کی ناکامی کو بھی نا پسند کرتا ہوں.پس جب میں دشمن کی ناکامی کو بھی پسند نہیں کرتا تو اپنے دوستوں کی ناکامی کو کس طرح برداشت کر سکتا ہوں.اسی وجہ سے میری

Page 467

خطبات محمود دو ۶۳ سوم سال ۱۹۳۲ء ناراضگی ہوتی ہے.ورنہ میری ناراضگی کسی کی ذات سے نہیں ہوتی.پس اپنے دوستوں سے کہتا ہوں کہ وہ ل ALTA ATLANTA اللہ ذرا غور سے پڑھا کریں.اس میں ان کے سامنے ایک مقصد رکھا گیا ہے.اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کریں.اگر وہ ایسا کریں گے تو انہیں عزت حاصل ہوگی اور اگر نہیں کریں گے تو اپنی عزت کو ضائع کرنے والے ہوں گے.کئی ہیں جو نادانی سے کہہ دیا کرتے ہیں کہ فلاں شخص یوں کرتا ہے ہم بھی اسی طرح کریں تو کیا حرج ہے.حالانکہ اگر کوئی شخص ناپسندیدہ طریق اختیار کرتا ہے تو تمہیں اس سے کیا.تمہیں اپنے کام سے کام ہونا چاہئے.اگر تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور جنت کا دروازہ کھلا ہے تو کیا تم اس لئے اسے اپنے اوپر بند کر لو گے کہ فلاں شخص دوزخ کی طرف جا رہا ہے، میں کیوں جنت کی طرف جاؤں.پس تم کیوں دوسروں کے کاموں کی طرف دیکھتے ہو.تم لا اله الا الله کو اپنے سامنے رکھو اور اس میں جو مقصد بتایا گیا ہے، اسے حاصل کرنے کی کوشش کرو.میں نے کئی لوگوں کو کہتے سنا ہے جب یہ کہا جائے کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو تو وہ کہہ دیا کرتے ہیں سارے ایسا کرتے ہیں.میری سمجھ میں کبھی یہ بات نہیں آئی کہ ساروں کے کرنے سے ایک کام تمہارے لئے کیونکر جائز ہو سکتا ہے.تمہار ا براہ راست خدا تعالیٰ سے تعلق ہے.فرض کرو ساری دنیا میں کوئی روحانیت باقی نہیں رہتی اور نہ دیانت وامانت پائی جاتی ہے تو کیا اس سے یہ جائز ہو گا کہ تم بھی دیانت و امانت کو جواب دے دو.مجھے یاد ہے میں ایک دفعہ ریل میں سفر کر رہا تھا کہ ایک ریل کے ملازم سے جو بہت بوڑھا تھا کسی نئے ملازم نے پوچھا کہ تمہاے زمانہ میں کیا کچھ ہو تا تھا.وہ کہنے لگا آج کل تو اس محکمہ میں نہایت کمینے اور ذلیل لوگ آگئے ہیں.ہمارے زمانے میں بہت شریف لوگ ہوتے تھے.مجھے اس کی اس بات سے نہایت خوشی ہوئی.اور مجھے شوق ہوا کہ میں اس کی تفصیل سنوں.مگر میری حیرت کی کوئی انتہاء نہ رہی جب اگلے فقروں میں اس نے کہا کہ آج کل ایسے کمینے لوگ آگئے ہیں کہ اگر پیسے کا بھی نقصان ہو جائے تو فور اشور مچا دیتے ہیں کہ نین ہو گیا.حالانکہ ہمارے زمانہ میں گنگا بہہ رہی تھی.اگر ہزاروں کا مال بھی نکال لیا جاتا تو کوئی نہ پوچھتا.لاکھوں روپیہ کا مال روزانہ سٹیشنوں پر سے گزرتا.اس میں سے اگر کچھ لے لیا تو کیا حرج ہو گیا.مگر اب ایسے شریف لوگ کہاں.اب تو سب بد معاش آگئے ہیں.میں پوچھتا ہوں کہ تمہارے نزدیک بھی نیکی اور بدی کا معیار یہی رہ گیا ہے.اور کیا تم بھی اس قسم کی فضاء کو پسند کرتے ہو.تمہیں تو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ اگر ساری دنیا بھی بدی کرے تب بھی تم نیکیوں پر قائم رہو تم سے دوسروں کے متعلق سوال

Page 468

خطبات محمود لم سال ۱۹۳۲ء نہیں ہو گا بلکہ تم سے یہی پوچھا جائے گا کہ تم نے کیا کیا.پس لوگوں کے پیچھے نہ چلو، بلکہ نیکی کے پیچھے چلو.اللہ تعالی نے بھی قرآن مجید میں یہی بتایا ہے کہ بندے اور خدا کے درمیان اور کوئی واسطہ نہیں ہو تا.اللہ تعالیٰ نے بے شک رسول کریم میں دی اور کو ہمارے لئے اسوہ حسنہ بنایا.مگر جواب دہی کے متعلق رسول کریم می لی نے فرما دیا ہے کہ ہر شخص اپنے اعمال کا آپ ذمہ دار ہو گا.سلیم پس اپنے نفس کی اصلاح کرو اور اس کا طریق یہی ہے کہ تم دوسروں کے عیوب نہ دیکھو بلکہ اپنے عیب دیکھو.تم دوسروں کے عیب دیکھنے کی وجہ سے قیامت کے دن بخشے نہیں جاؤ گے.بلکہ تمہاری خوبیاں ہی تمہارے کام آئیں گی.اگر تم اپنی یہ حالت بنالو کہ دوسرے کے عیب نہ دیکھو بلکہ اس کی خوبیاں دیکھو اور اپنی خوبیاں نہ دیکھو بلکہ غیب دیکھو تو وہ دن تمہارے لئے عید کا دن ہو گا.مگر جب تک تم دوسروں کے عیب دیکھتے رہو گے اور جب تک تم اپنے عیوب کو دیکھنا پسند نہیں کرو گے ، اس وقت تک جنت کا دروازہ تمہارے لئے بند رہے گا.کیونکہ کوئی شخص اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہو سکتا جب تک وہ دوسروں کے عیب دیکھتا رہتا ہے.اور کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے عیوب کی اصلاح نہیں کرتا.پس تمہیں اپنے عیوب نظر آنے چاہئیں اور دوسروں کی خوبیاں.اگر تم ایسا کرو گے تو تمہارے مقاصد کی نوعیت ہی بدل جائے گی.بے شک یہ کام آسان نہیں بلکہ بہت مشکل ہے.لیکن اگر ایک دفعہ انسان عزم کرلے کہ میں نے دوسرے کی خوبیاں ہی دیکھنی ہیں تو یہ مشکل بھی آسان ہو جاتی ہے.میں اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمارے نوجوانوں کو نیکی اور تقویٰ میں ترقی کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے بڑوں کو بھی اس امر کی توفیق دے کہ وہ اپنے پیچھے نیکیاں چھوڑ جائیں.ایسا نہ ہو کہ وہ نیکیاں تو اپنے ساتھ لے جائیں اور بدیوں کا بیج اپنی قوم کے لئے چھوڑ جائیں.الفضل ۲۶ مئی ۱۹۳۲ء) ام ترمذی ابواب الإيمان باب فيمن يموت ولا يشهد ان لا اله الا الله لسفينة الاولياء مصنفه دارا شکوه صفحه ۷۳ بخارى كتاب النكاح باب المراة راعيه في بيت زوجها

Page 469

خطبات محمود موسم سال ۱۹۳۲ء 56 دوسروں کی اصلاح کے لئے گداز اور سوز پیدا کرد (فرموده ۲۷ - مئی ۱۹۳۲ء) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اللہ تعالی نے کچھ قوانین بنائے ہیں اور وہ قوانین اپنے بندوں کے انتظام کی درستی اور ان کے حالات کی اصلاح کے لئے دنیا میں جاری کئے ہیں.ان قوانین اور اس آئین کو مد نظر ر کھے بغیر کبھی دنیا میں اصلاح نہیں ہو سکتی.نادان انسان اپنی جہالت کی وجہ سے خدا تعالی کے قانون کو ناقص سمجھتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ میری تدبیریں ہی مجھے کامیاب بنا ئیں گی.مگر وہ صرف عنکبوت کی طرح اپنے لئے گھر بناتا ہے.اور جس طرح عنکبوت اپنے گھر میں آپ ہی پھنس کر مرجاتی ہے.اسی طرح وہ بھی اپنی تدبیروں میں آپ ہی اُلجھ کر رہ جاتا ہے.تب اسے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین کی نگہداشت نہ کی جائے اور جب تک ان کے مطابق عمل نہ کیا جائے دنیا میں کبھی اصلاح نہیں ہو سکتی.ہمارے ہندوستان کے لوگ تو اپنے علم اور عقل میں ابھی بہت پیچھے ہیں.یورپ جس نے اپنے خیال میں علم کا انتہائی مقام حاصل کرلیا ہے اور جس کے بعض افراد اپنے غرور کی وجہ سے یہ خیال کرنے لگے ہیں کہ وہ خدا کی خدائی کو بھی باطل کر دیں گے.وہ بھی اپنی تدبیروں کے جال میں پھنس رہا ہے.اور اپنی عقل کے ہاتھوں سخت تنگ آ رہا ہے.اور ان نقصانات کی وجہ سے جو اس کی کوششوں کی وجہ سے ظاہر ہوئے وہ حیرت سے اس دنیا کو جو اس نے اپنے ہاتھوں تیار کی تھی قرآن مجید کے الفاظ میں کہہ رہا ہے وَقَالَ الْإِنْسَانُ مَا لھا اس دنیا کو کیا ہو گیا.میں نے کیا کیا تدبیریں اس کی درستی کے لئے کیں.کتنے عجیب و غریب طریق اس کو مناسب حال بنانے کے لئے

Page 470

خطبات محمود ۴۶۵ سال ۱۹۳۲ خو نکالے مگر بجائے اصلاح کے یہ زمین خراب ہوتی چلی گئی.اور بجائے فائدہ کے نقصان ہی ہو تا چلا گیا.پس اگر وہ یورپ جو اپنے علم کے لحاظ سے اپنی عقل کے لحاظ سے اپنے تجربہ کے لحاظ سے اپنے مال کے لحاظ سے اپنی دولت کے لحاظ سے اپنی شوکت کے لحاظ سے اپنے سامانوں کے لحاظ سے اپنے آدمیوں کے لحاظ سے اپنے جتھے کے لحاظ سے اپنی تنظیم کے لحاظ سے غرض ہر جہت سے ہم سے بڑھ کر ہے اس میدان میں اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر نا کام رہا ہے تو میں حیران ہو تا ہوں ان لوگوں پر جو ایک مچھر کی حیثیت بھی نہیں رکھتے اور اپنے ایجاد کردہ طریقوں سے لوگوں کی اصلاح کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں.اگر انسانی تدبیروں کے ساتھ اصلاح کے مدعی دوسرے لوگ ہوتے.اگر دوسری قومیں دوسری جماعتیں اور دوسری انجمنیں اپنی تدبیروں کے پیچھے پڑتیں تو وہ معذور سمجھی جاسکتی تھیں کیونکہ انہوں نے اللہ تعالٰی کا ہاتھ نہیں دیکھا.اللہ تعالٰی کا ہاتھ پوشیدہ ہے.اور پوشیدہ ہاتھ کی طرف دیکھنا اور اس سے مدد حاصل کرنا وہ نادانی سمجھتے ہیں.اور نہیں جانتے کہ حقیقی دانائی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے مدد حاصل کی جائے.لیکن میں حیران ہو تا ہوں کہ وہ لوگ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کو دیکھا، اپنی نادانی اور جہالت کی وجہ سے وہ بھی انسانی تدبیروں کے ساتھ اصلاح کے مدعی بنتے ہیں.اگر خوش قسمتی سے ہمیں اچھی بیویاں مل گئی ہوں تو یہ اور بات ہے مگر کتنے ہیں تم میں سے جنہیں بیویاں ان کے مناسب حال نہ ملیں اور پھر وہ اپنی بیوی کی اصلاح پر ہی قادر ہو سکے.اگر خوش قسمتی سے تمہارا بچہ نیک اور خدا پرست ہے تو یہ خدائی فعل ہے.اس میں تمہارا دخل نہیں لیکن کتنے ہیں تم میں سے کہ اگر ان کا ایک بچہ بھی خراب ہو گیا تو وہ اس کی اصلاح پر قادر ہو سکے ہوں.پس تم اگر ایک بیوی کی اصلاح نہیں کر سکتے ، اگر تم اپنے ایک بچے کی اصلاح پر قادر نہیں ہو سکتے تو کس طرح تم ساری قوم کے بچوں اور ساری قوم کے آدمیوں کی درستی اپنی تدابیر کے ذریعہ کر سکتے ہو.اگر تم ایسا دعویٰ کرتے ہو تو یہ دعوئی باطل اور غلط ہے.اور سوائے جنون کے میں اس کا اور کوئی نام رکھنے کے لئے تیار نہیں.بچوں کی درستی محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوتی ہے اور محض اللہ تعالی کے بنائے ہوئے قوانین کے ماتحت ہوتی ہے.جس وقت خدا تعالیٰ اصلاح کرنا چاہتا ہے اس وقت خود بخود ایسا انتظام کر دیتا ہے جس کے ماتحت آپ ہی آپ اصلاح ہو جاتی ہے.یا تو ایک وقت وہ ہوتا ہے کہ بندے کو شش کرتے ہیں اور کچھ نہیں ہوتا.اور یا ایسا وقت آجاتا ہے کہ بندے کچھ نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ اپنا کام سرانجام دے لیتا ہے.-

Page 471

.خطبات محمود سال ۱۹۳۲ء حافظ روشن علی صاحب مرحوم ایک واقعہ سنایا کرتے تھے.آپ کہتے ایک دفعہ میں نے احمدیہ چوک میں دیکھا کہ جلسہ کے ایام میں ایک دو آدمی ایک طرف سے آرہے تھے اور کوئی پندرہ ہیں آدمی دوسری طرف سے.وہ کہتے ہیں جو نہی وہ ایک دوسرے کے قریب پہنچے اور ان دونوں گروہوں کی ایک دوسرے پر نگاہ پڑی تو ایک طرف سے آنے والے دوسری طرف سے آنے والوں کی طرف لپک کر بڑھے اور بے اختیار اس طرح چیچنیں مار مار کر رونے لگے جس طرح ایک بے صبر عورت اپنے بچے کی موت پر رویا کرتی ہے.وہ کہتے مجھے حیرت ہوئی کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے کہ یہ ملے اور ملتے ہی رونے لگ گئے.میں اسی حالت میں انکے پاس گیا اور انہیں تسلی دی.میں نے سمجھا شاید بے صبری اس لئے دکھا رہے ہیں کہ ان کا کوئی عزیز فوت ہو چکا ہے اور اس موقع پر اسے یاد کر کے رو پڑے ہیں.لیکن جب میں ان کے پاس گیا تو انہوں نے بتایا اس رونے کی وجہ کوئی دنیاوی صدمہ نہیں بلکہ اس کا باعث یہ ہے کہ ایک طرف سے جو لوگ زیادہ تعداد میں آرہے تھے وہ کسی زمانہ میں احمدیت کے شدید مخالف تھے اور جو دوسری طرف کے تھے وہ احمدی تھے اور چونکہ ہموطن اور رشتہ دار تھے.اس لئے ان کی شدید مخالفت کی وجہ سے یہ اپنا وطن چھوڑ دینے پر مجبور ہو گئے تھے.اور کچھ عرصہ سے آپس میں کوئی تعلق نہ رہا تھا.اللہ تعالیٰ نے کچھ عرصہ کے بعد ایسے سامان مہیا کر دیئے کہ وہی لوگ جو احمدیت کے شدید ترین مخالف تھے اور جنہوں نے اپنے احمدی رشتہ داروں کو اپنے وطن سے نکل جانے پر مجبور کر دیا تھا خود احمدی ہو گئے.مگر اس کا ان کے احمدی رشتہ داروں کو علم نہ ہوا.اب جلسہ کے موقع پر جو یہ اچانک ایک دو سرے کے سامنے آئے تو وہ جنہوں نے اپنے عزیزوں پر کسی زمانہ میں ظلم وستم کئے تھے انہیں اپنے ظلم یاد کر کے رونا آگیا.اور وہ لوگ جنہیں اپنے گھروں سے نکالا گیا تھا انہیں یہ خیال کر کے رونا آگیا کہ وہی لوگ جنہوں نے محض قادیان کی وجہ سے ہمیں اپنے گھروں سے نکالا تھا آج خود قادیان میں چکر لگا رہے ہیں.تم سوچو آخر وہ لوگ جنہوں نے احمدیت کی خاطر اپنے گھروں سے نکلنا قبول کر لیا وہ اپنے اُن رشتہ داروں کو تبلیغ تو ضرور کرتے ہوں گے سمجھاتے ہوں گے اور سب کچھ جو ان کے بس میں ہوتا ہو گا کرتے ہوں گے مگر اس وقت قلوب کی اصلاح نہ ہوئی اور جب وقت آ گیا تو وہی دشمن جنہوں نے ایک وقت اپنے احمدی رشتہ داروں کو گھروں سے نکال دیا تھا اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی اصلاح ہو گئی اور انہوں نے بھی احمدیت کو قبول کر لیا.حضرت عمرو بن العاص کے متعلق لکھا ہے کہ جس وقت وہ وفات پانے لگے تو انہیں بہت ہی کرب اور

Page 472

سال ۱۹۳۲ خطبات محمود کریم کا تکلیف تھی.وہ بار بار اس کا اظہار کر رہے تھے.ان کے بیٹے نے ان سے کہا آپ گھبراتے کیوں ہیں.آپ نے تو اسلام کی بہت بڑی خدمات سرانجام دی ہیں.پھر مرنے کا کیا خوف ہے.انہوں نے کہا اے میرے بیٹے ! اگر رسول کریم میر کی زندگی ہی میں میری وفات ہو جاتی تو مجھے گھبراہٹ نہ ہوتی.آپ کے وصال کے بعد نہ معلوم فتنہ و فساد کے زمانہ میں ہم نے کیا کیا حرکتیں سرزد ہوئیں.اور نہ معلوم وہ خدا کو کس قدر پسند آئیں اور چونکہ اس موقع پر رسول کریم ملی الا الالم ذکر آگیا تھا.جس پر صحابہ بے تاب ہو جایا کرتے تھے اس لئے باوجود شدت کرب اور نزع کی تکلیف کے وہ بے قرار ہو گئے.اور انہوں نے کہا اے میرے بیٹے! ایک زمانہ تھا کہ مجھے رسول سے زیادہ نا پسند وجود دنیا میں کوئی اور معلوم نہ ہو تا تھا.یہاں تک کہ اس نفرت و حقارت کی وجہ سے میں نے اس وقت آنکھ اٹھا کر آپ کی شکل دیکھنا پسند نہ کیا.میں دنیا میں سے بد ترین جگہ وہ سمجھتا تھا جہاں رسول کریم میں موجود ہوتے.اور اس نفرت میں میں اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ ایک چھت کے نیچے کبھی میں رسول کریم میں ایم کے ساتھ کھڑا ہونا پسند نہیں کرتا تھا.میری جتنی طاقتیں تھیں وہ میں آپ کے خلاف صرف کرتا اور ہر ممکن طریق سے آپ کو نقصان پہنچانے کے درپے رہتا.پھر ایک دن وہ آیا جب اللہ تعالٰی نے میرے دل کو کھول دیا.صداقت مجھ پر ظاہر ہو گئی.اور مجھے معلوم ہو گیا کہ میں غلطی پر تھا.تب میں نے رسول کریم م کو قبول کیا.مگر اے میرے بیٹے اپھر مجھے رسول کریم میں سے اس قدر عشق ہو گیا اور اتنی گہری محبت میرے دل میں آپ کے لئے پیدا ہو گئی کہ میں اس محبت کی وجہ سے آپ کی طرف دیکھ سکا.گویا ایک وقت تو نفرت کی وجہ سے میں رسول کریم میں کو نہیں دیکھ سکا اور دو سرے وقت رُعب حسن کی وجہ سے نہیں دیکھ سکا.پھر اے میرے بیٹے ! میری یہ حالت ہو گئی کہ دنیا میں سب سے زیادہ پیاری جگہ مجھے وہ معلوم ہوتی جہاں رسول کریم میں موجود ہوتے.اور چونکہ میں دونوں حالتوں میں آپ کو نہیں دیکھ سکا اس لئے آج اگر مجھ سے کوئی شخص رسول ریم میر کاحلیہ پوچھے تو میں نہیں بتا سکتا کیونکہ پہلے بغض کی وجہ سے میں نے آپ کی شکل نہ دیکھی اور پھر محبت کی وجہ سے آپ کی شکل نہ دیکھ سکا.یہ تبدیلی جو حضرت عمرو بن العاص کے دل میں پیدا ہوئی اور جسے وہ خود بیان کرتے ہیں تم دیکھ سکتے ہو کتنی زبر دست تبدیلی ہے.ایک وقت تو اتنا بغض کہ آپ کو اس بغض کی وجہ سے نہ دیکھ سکے.اور پھر اتنی محبت کہ اس محبت کی وجہ سے آپ کو نہ دیکھ سکے.مگر یہ کس چیز نے تبدیلی پیدا کی.محض اللہ تعالیٰ کے فضل نے نہ کہ انسانی

Page 473

خطبات محمود ۴۲۸ سال ۳۲ تدبیروں نے.اور تو اور اگر رسول کریم میں یہ بھی محض تدبیروں سے کام لیتے اور اپنے تجویز کئے ہوئے ذریعوں سے لوگوں کی اصلاح کرنا چاہتے تو یقیناً ایک شخص کی بھی آپ اصلاح نہ کر سکتے.لیکن رسول کریم میں اللہ نے اپنی تدبیروں سے لوگوں کی اصلاح نہیں کی.بلکہ اپنے تمام خیالات افکار اور جذبات کو اللہ تعالٰی کی قربانگاہ پر لا کر ڈال دیا.اور جس طرح نیل گر کی بھٹی میں انسان اپنا کپڑا ڈال کر اسے رنگین کر لیتا ہے.یہاں تک کہ اس کپڑے کا اپنا کوئی رنگ باقی نہیں رہتا.اسی طرح انہوں نے صبغة اللہ سے اپنے آپ کو رنگ لیا.یہاں تک کہ کوئی بھی ذرہ رسول کریم کی بشریت کا باقی نہ رہا.اور آپ کے تقویٰ کا لباس اسی رنگ میں رنگین ہو گیا جو خد اتعالیٰ کا رنگ تھا.تب آپ ایسا نمونہ اور ایسی مثال دنیا میں قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ انسان باوجود اپنی گندگی اور خباثت کے جس نے اپنی فطرت کو مسخ کر لیا تھا مجبور ہو کر آپ کی طرف آیا اور قریب کر اس نے بھی وہ رنگ لے لیا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو عطا ہو ا تھا.پس یاد رکھو تم دنیا کی اصلاح اپنی کوششوں سے نہیں کر سکتے.مجھے افسوس ہوتا ہے مجھے حیرت ہوتی ہے.مجھے تعجب ہوتا ہے اور رنج بھی ہوتا ہے.جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ وہ جماعت جسے اللہ تعالیٰ نے دنیا کی اصلاح کے لئے کھڑا کیا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس لئے قائم کیا ہے تا وہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کا جلال ظاہر کرے.اس کے بعض افراد کی اولاد نہایت ہی گندہ اور شرمناک نمونہ اخلاق کا دکھا رہی ہے اور وہ اپنے خبث باطن کی وجہ سے دنیا کے خبیث ترین وجودوں سے مشابہت رکھتی ہے.پھر مجھے حیرت آتی ہے ان والدین پر جو آنکھیں بند کر کے اس خباثت کو بڑھانے میں دن رات کوشاں ہیں.اور انہیں کبھی خیال نہیں آتا کہ وہ اس کا علاج کریں اور پھر مجھے تعجب آتا ہے ان لوگوں پر جو خدائی کا دعوی کر کے اصلاح کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ اپنی تدبیروں کے ذریعہ انہیں درست کر لیں.یہ تینوں احمق ہیں.اور تینوں کا خدا اور اس کے رسول اور اس کے خلیفہ سے کوئی تعلق نہیں.دنیا میں کبھی تقویٰ اور بے وقوفی جمع نہیں ہو سکتے.اور نہ تقویٰ اور نا بینائی جمع ہو سکتے ہیں.تم کبھی بھی ایک وقت میں خدا اور شیطان کا کہنا نہیں مان سکتے.جس وقت تم خدا کی بات مانو گے اس وقت شیطان کو چھوڑنا پڑے گا.اور جب شیطان کے پیچھے چلو گے تو خدا کو چھوڑنا پڑے گا.مجھے حیرت آتی ہے کہ وہ قرآن میں روز پڑھتے ہیں کہ یہ اولاد اور بیویاں تمہارے لئے فتنہ ہیں مگر پھر وہ اس فتنہ سے بچتے نہیں.نہ معلوم ان کا نور بصارت کس وقت اور کس گناہ کی وجہ سے مارا گیا.اور نہ معلوم وہ کیوں ظاہری نور میں لیٹے ہونے کے باوجود

Page 474

خطبات محمود ۴۶۹ سال ۱۹۳۲ء اندھے ہو جاتے ہیں.کیا چیز ہے تمہاری اولاد- وہ تو ایک لعنت ہے اگر وہ تمہارے لئے بد ذکر کو پیچھے چھوڑتی ہے اور کون ہے جو لعنت کا طوق اپنے لئے پسند کرتا ہے.پھر کون ہے جو ایسی گندی اور خبیث اولاد کو رکھنے کے لئے تیار ہو سکے.اگر تم اللہ تعالیٰ کی لعنت کو لعنت سمجھتے.اگر تم گندی چیزوں کو گندی سمجھتے.اگر ناپاکی کو ناپاکی سمجھتے تو بجائے ایسی اولاد کی تائید میں کھڑے ہونے کے تم اسے پھینک کر الگ ہو جاتے.اگر تم کہتے ہو کہ تم سے یہ نہیں ہو سکتا تو تم مؤمن نہیں.ایمان تو وہ ہوتا ہے جو حضرت ابو بکر نے دکھایا.آپ کے ایک بیٹے شروع میں اسلام کے سخت مخالف تھے.ایک لڑائی میں وہ مسلمانوں کے مقابل پر لڑے.جب لڑائی ہو چکی اور کچھ عرصہ گزر گیا تو وہ مسلمان ہو گئے.ایک دن وہ ہنس کر حضرت ابو بکر سے کہنے لگے ابا جان فلاں لڑائی کے موقع پر آپ بالکل غافل جا رہے تھے.اور میں ایک پتھر کے پیچھے چھپا ہوا اس تاک میں بیٹھا تھا کہ کوئی مسلمان گزرے تو اسے ماروں.اس موقع پر میں نے دیکھا کہ آپ گزر رہے ہیں.میں نے ہاتھ روک لیا اور دل میں کہا آپ تو میرے باپ ہیں.آپ پر حملہ نہیں کرنا چاہیئے.حضرت ابو بکر سن کر کہنے لگے خدا کی قسم ! اگر اس وقت میں تجھے دیکھ لیتا تو وہیں ڈھیر کر دیتا.پھر کیا تم سمجھتے ہو کہ تمہاری اولادیں تمہیں خدا سے ملادیں گی.یا کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ اولادیں تمہارے لئے سہارا ہیں یا وہ تمہارے بڑھاپے کا سہارا ہوں گی.وہ تو تمہاری جوانی کے لئے بھی لعنت کا باعث بن سکتی ہیں.کجا یہ کہ تمہارے بڑھاپے میں کسی کام آسکیں.پھر مجھے حیرت ہوتی ہے کہ تم میں سے بعض اپنی بیویوں کے ڈر کے مارے اپنی اولادوں کو خراب ہونے دیتے ہیں.اور ان کا کوئی علاج نہیں کرتے.بلکہ نہایت بے حیائی سے کام لیتے ہوئے مجھے لکھتے ہیں کہ ہماری بیویاں سخت ہیں ہم کیا کریں.اگر ایسی ہی بات ہے تو پھر لعنت ہے تمہارے مرد ہونے پر کو تم بیویوں سے ڈر کر گمراہی کے پھیلانے کا باعث بنتے ہو.اگر واقعی تمہاری بیوی ایسی ہی ہے.جو تمہارے دین کو برباد کرتی ہے تو پھر کیوں تم نے ایسی خبیث عورت کو اسی وقت علیحدہ نہ کر دیا جب وہ تمہارے گلے ڈالی گئی تھی.اور کیوں تم نے اللہ تعالیٰ کے قانون طلاق سے کام لیتے ہوئے اس گندے عضو کو کاٹ کر نہ پھینک دیا.اگر تم نے اس وقت ایسا نہیں کیا تو ہر دن جو تمہاری زندگی میں سے گزرا اس دن تم نے اپنے گھر میں لعنت کا بیج بویا اور لعنت کے درخت کو پانی دیا.اور تم اپنے لئے بھی اور اپنی اولادوں اور ان کی اولادوں کے لئے بھی لعنت کا باعث بنے.کیا تم قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم لے

Page 475

خطبات محمود سال ۱۹۳۲ء کر کھڑے ہو گئے یا وہ لعنتیں لے کر کھڑے ہو گے جو تم نے دنیا میں اس طرح کمائیں کہ تم نے ایک عورت کے لئے ایک ذلیل چیتھڑے کے لئے خدا کے دین کو برباد کیا.پھر کیا تم سمجھتے ہو کہ تمہاری یہ اولاد میں تمہارے لئے سکھ اور آرام کا موجب ہوں گی.اگر وہ گند لے کر کھڑے رہیں گے تو ان کے برے اعمال کی وجہ سے لوگ یہی کہیں گے کہ لعنت ہو ان پر اور انکے باپ پر.اور جانتے ہو مؤمن کی لعنت کتنی سخت چیز ہوتی ہے.مؤمن کی لعنت نہایت ہی خوفناک چیز ہے.ایک دفعہ رسول کریم میں بیٹھے ہوئے تھے اور صحابہ بھی پاس تھے کہ قریب سے ایک جنازہ گزرا.لوگوں نے مرنے والے کی تعریف کی اور کہا کہ یہ بہت اچھا شخص تھا.آپ نے فرمایا وَ جَبَتْ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ اس کے لئے کیا واجب ہو گیا.آپ نے فرمایا اس کے لئے جنت واجب ہو گئی.پھر ایک اور جنازہ گزرا اور لوگوں نے اس کی مذمت کی.آپ نے فرما جبت عرض کیا گیا یا رسول اللہ کیا واجب ہو گیا.آپ نے فرمایا اس مرنے والے کے لئے اللہ تعالیٰ کا عذاب واجب ہو گیا ہے.پھر آپ نے فرمایا جب خدا کسی کو نیک بناتا ہے تو نیک لوگوں کی زبانوں پر اس کی تعریف جاری کر دیتا ہے.اور جب کسی پر لعنت کرنا چاہتا ہے تو نیکوں کی زبان پر اس کے لئے لعنت جاری کر دی جاتی ہے.پھر مجھے ان لوگوں پر بھی تعجب آتا ہے جو اس فتنہ اور فساد کو دیکھتے ہیں اور اصلاح کے مدعی بن کر لڑکوں کو درست کرنے اور ان کی اصلاح کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں.ان کی اصلاح تو کیا ہونی ہے وہ آگے سے بھی زیادہ فتنہ و فساد پیدا کر دیتے ہیں.وہ احمق سمجھتے ہیں کہ بد معاشی کا بد معاشی سے علاج کیا جا سکتا ہے.اور لٹھ لے کر اٹھ کھڑے ہو جاتے ہیں.گویا وہ خدائی فوجدار ہیں کہ انہی کے سپرد خدا نے لوگوں کی اصلاح کی ہے.حالانکہ رسول کریم سے ایک دفعہ ایک شخص نے پوچھا یا رسول اللہ ! اگر میں اپنی آنکھ سے اپنی بیوی کو بد کاری کرتے دیکھوں تو کیا اسے ماردوں.آپ نے فرمایا نہیں بلکہ اگر تم اسے مارو گے تو تم قاتل اور خونی سمجھے جاؤ گے.حالانکہ اس وقت جب سوال کرنے والے نے یہ سوال کیا ایسے مجرم کے لئے سنگساری کی سزا مقرر تھی.اور شریعت نے بھی اسے مارتا ہی تھا لیکن آپ نے فرمایا هه قانون تمہارے ہاتھ میں نہیں.تم اگر کسی پر ہاتھ اٹھاتے ہو تو تم ظالم اور مجرم بنتے ہو.حضرت مسیح ناصری سے ایک دفعہ لوگوں نے پوچھا تھا کہ رومی حکومت کے درو نے ہم سے ٹیکس مانگتے ہیں.ہم انہیں ٹیکس دیں یا نہیں.آپ نے فرمایا سکہ نکال کر دکھاؤ اس پر کس کی تصویر ہے.سکہ پر روم کے بادشاہ کی تصویر تھی.آپ نے اسے دیکھ کر فرمایا جو رومیوں کا حق ہے.وہ

Page 476

خطبات محمود ۴۷۱ سال ۱۹۳۲ء انہیں دو.اور جو خدا کا حق ہے وہ خدا کو دوں.اب غور کرو حضرت مسیح علیہ السلام تو اللہ تعالٰی کے ایک نبی ہو کر رومی بادشاہ کا حق اسے دلواتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو رومیوں کا حق ہے وہ رومیوں کو دو.مگر تم جو نہایت ہی ادنیٰ مقام رکھتے ہو خدا کا حق چھیننے کے لئے تیار ہو جاتے ہو.کیا اللہ تعالیٰ کی تمہاری نظر میں اتنی بھی عظمت نہیں جتنی روم کے بادشاہ کی حضرت مسیح کے حواریوں کے دل میں تھی.پھر تمہاری کیا ہستی ہے کہ تم قانون کو ہاتھ میں لیتے ہو.اور وہ حق جو اللہ تعالیٰ نے اپنا مقرر کیا ہے ، اسے اس سے چھینتے ہو.پھر تم کہتے ہو کہ تمہاری اولادیں خراب ہیں اور ان کی اصلاح نہیں ہوتی.تم پہلے اپنی اصلاح کرو.اگر تم اپنی اصلاح نہیں کرتے تو دوسرے کی اصلاح کے لئے کس طرح مدعی بنتے ہو.اگر وہ قرآن جسے تم الہامی کتاب تسلیم کرتے ہو دنیا کی اصلاح کے لئے آیا ہے تو تمہیں دیکھنا چاہئے کہ قرآن نے اصلاح کے کیا ذرائع مقرر کئے ہیں.مگر یتم قرآن تو پڑھتے نہیں لیکن جس وقت تمہیں مشکلات پیش آتی ہیں ، اس وقت قرآن ہند کر کے علیحدہ رکھ دیتے ہو.اور اپنی دماغی تدبیروں سے اصلاح کے مدعی بنتے ہو اور پھر کہتے ہو کہ ہم مصلح ہیں.اگر تم مصلح ہو تو پھر مفسد کسی شخص کا نام ہے.تم تو اس وقت انہی لوگوں میں شامل ہوتے ہو جن کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.اَلَّا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلِكِنْ لا يَشْعُرُونَ لي وہ لوگ ہیں جو حقیقی مفسد اور فتنہ پرداز ہیں مگر یہ سمجھتے نہیں اور خیال کرتے ہیں کہ ہم مصلح ہیں.اسی طرح تم ہو کہ تم انسانی تدبیروں سے اصلاح کے مدعی بنتے ہو.اور اس امر کو بھول جاتے ہو کہ پہلے اپنے نفس پر موت وارد کرو پھر دوسروں کی اصلاح کر سکو گے.غصہ اور بغض سے کبھی دوسرے کی اصلاح نہیں ہو سکتی.بلکہ دوسرے کے غم میں گداز ہو جانا اور دوسرے کے رنج میں اپنے آپ پر موت وارد کر لینا یہ چیزیں ہیں جن سے دوسروں کی اصلاح کی جاتی ہے.اگر تمہارے دل میں لوگوں کا درد نہیں ، اگر تمہارے قلوب میں لوگوں کی ہمدردی نہیں اور اس حالت میں تم اصلاح کے لئے کھڑے ہوتے ہو تو کسی کے دل میں تمہارے لئے کیوں جذبہ محبت پیدا ہو گا.اور کسی کے دل میں تمہارے لئے کیوں درد پیدا ہو گا.عیب ایک بری چیز ہے اس سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا.اور عیب اس قابل ہے کہ جس قدر جلد ہو سکے دنیا سے مٹادیا جائے.اور ہر مؤمن کا فرض ہے کہ وہ عیوب کو مٹائے مگر اسی ذریعہ سے جو اس کے منانے کا خد اتعالیٰ نے مقرر کیا ہے نہ کہ وہ جو تمہارے نفس نے تمہارے سامنے پیش کیا ہو.پہلی چیز جس کے ذریعہ غیب دور ہوا کرتے ہیں وہ حسنہ ہے.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

Page 477

خطبات محمود سال ۱۹۳۲ء کہ مومن بدی کو نیکی کے ذریعہ مٹاتے ہیں.مگر تم وہ ہو کہ بدی کو بدی کے ذریعہ مٹانا چاہتے ہو.اگر قرآن دنیا میں بدی مٹانے کے لئے بدی کا محتاج ہے تو پھر ایسے قرآن کی دنیا کو ضرورت نہیں.میں دیکھتا ہوں جب تم کسی کو بدی کرتے دیکھتے ہو تو تم میں سے جو لوگ غیرت رکھتے ہیں ان کی آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں.کچھ بے وقوف ہیں جو لٹھ سے درست کرنا حقیقی علاج سمجھتے ہیں.اور کچھ ایسے احمق ہیں کہ وہ قتل کرنے کی دھمکی پر اتر آتے ہیں.یہ سب بے وقوف ہیں.اور یہ سب جاہل اور اصلاح کے طریقوں سے قطعی طور پر نا واقف.اگر ان لوگوں میں ذرہ بھی عقل ہوتی تو وہ قرآن کو نذیر سے پڑھتے اور دیکھتے کہ قرآن نے بدی کے مٹانے کا کیا طریق تجویز کیا ہے.لیکن قرآن پر تو غور نہیں کریں گے اور غصے اور دیوانگی کی حالت میں دوسرے کو سزا دینے کے لئے تیار ہو جائیں گے.یہ کبھی خیال نہیں کریں گے کہ اپنے دل میں دوسروں کے لئے درد اور سوز پیدا کریں اور اپنے بچوں کے غم میں گداز ہو جائیں.مگر مارنے کے لئے فور اکھڑے ہو جائیں گے اور پھر شکوہ کریں گے کہ لڑکوں کی اصلاح نہیں ہوتی.شکایت کریں گے کہ ہماری باتوں کا کوئی اثر نہیں ہو تا.کیا تم نے کبھی شیشہ میں اپنا مونہہ بھی دیکھا ہے.کیا تمہارے چہروں پر وہ رقت وہ نور وہ نرمی اور وہ محبت بھی پائی جاتی ہے جو دلوں میں اصلاح کر سکے.تم بھیڑیوں کے سے چہرے لے کر فرشتوں کا سا کام کرنا چاہتے ہو.اور پھر شکایت کرتے ہو کہ ہمارے لڑکے درست نہیں ہوتے.کیوں جب تم اپنے میں سے کسی کو بدی میں مبتلاء دیکھتے ہو تو اس کے لئے رحم اور غم کے جذبات سے پر نہیں ہو جاتے.کیوں تمہیں ایک ہی خیال آتا ہے کہ اُف بڑا گند ہو گیا.سوٹالاؤ ہم اس کو دور کریں.اور تمہیں کبھی خیال نہیں آتا کہ تم خود بھی میں دفعہ دن میں خطا کرتے ہو - غلاظت سے لتھڑے ہوئے ہاتھ سے کون کسی کا کپڑا صاف کر سکتا ہے.ایک نابینا کب کسی دوسرے کو راستہ بتا سکتا ہے.ایک ناپاک اور گندا انسان کب دوسرے کو پاک اور مطہر بنا سکتا ہے.پس پہلے اپنے دل صاف کرو.پہلے اپنے آپ کو اصلاح کے قابل بناؤ پھر تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اصلاح کے لئے قابلیت بھی مل جائے گی.پہلے اپنی نابینائی دور کرو پھر اللہ تعالیٰ کا وہ نور بھی تمہیں ملے گا جس سے تم اصلاح کر سکو گے.لیکن جب تک تم خود اپنی اصلاح نہیں کرتے تم نے دوسروں کی کیا اصلاح کرنی ہے.خوب یاد رکھو خدا کا تقویٰ اللہ تعالی کی خشیت اور اس کی محبت کسی ایسے شخص کو نہیں ملتی جس کا دل سخت ہو.جس میں دوسروں کے لئے رقت اور سوز پیدا نہ ہو بلکہ خدا تعالیٰ اپنا نورانی

Page 478

خطبات محمود سال ۱۹۳۲ء لوگوں کو عطا کرتا ہے جن کے دلوں میں شفقت ہوتی ہے.رافت ہوتی ہے اور لوگوں کے لئے محبت ہوتی ہے.اگر کسی بدی کو دیکھ کر بجائے اس کے کہ تمہاری آنکھیں سرخ ہوں ان سے آنسو بہہ نکلیں تو میں یقینا کہہ سکتا ہوں کہ فورا اس کا اثر شروع ہو جائے.مگر تم بجائے دوسرے کی بدی پر آنسو بہانے کے لٹھ لے کر اس کے پیچھے دوڑتے ہو.اور پھر شکوہ کرتے ہو کہ اصلاح نہیں ہوتی.کبھی لٹھ مارنے سے بھی دوسرے کی اصلاح ہو سکتی ہے.تم اس طریق پر عمل کرو جو قرآن کریم نے مقرر کیا ہے اور پھر دیکھو کہ تمہاری باتوں کا اثر ہوتا ہے یا نہیں.قرآن مجید نے تمہیں بتایا ہے کہ جب تم کسی بچہ کو بدی کرتے دیکھو تو بجائے لٹھے مارنے کے اس کے لئے روڈ اور چیخو اور چلاؤ کہ ہائے ہمارے اس بچے کو کیا ہو گیا.اگر اس کا باپ نیک آدمی تھا یا نیک آدمی ہے تو تم اس بچے کو علیحدگی میں لے جاؤ اور سمجھاؤ کہ تمہارا باپ نیک آدمی ہے بڑی عزت رکھتا ہے.مگر تم میں یہ غلطی پائی جاتی ہے اس کی اصلاح کر لو.اگر تم اس طریق پر عمل کرو تو دیکھو کہ فورا اس کے چہرے پر نرمی کے آثار نظر آنے لگیں گے.اور وہ رو کر اقرار کرے گا کہ آئندہ اس بدی کے قریب بھی نہیں جائے گا.مگر تم اس وقت اصلاح کے طریق نکالتے نکالتے قرآن مجید کو اس طرح چھوڑ رہے ہو.جس طرح نَعُوذُ باللہ ایک پرانی جوتی کو اتار کر پھینک دیا جاتا ہے یا جس طرح میلا کپڑا اپنے جسم سے اتار پھینکتے ہو.تم نہ احمدی کہلا سکتے ہو اور نہ مسلمان.تمہاری حالت تو نہایت ہی ابتر ہے اور تم تو کہیں کے بھی نہیں رہے.تم نے اپنی تدبیروں کا چولہ پہن لیا ہے.مگر قرآن مجید کی بتائی ہوئی تدبیروں کا چولہ اتار پھینکا ہے اور جب قرآن مجید تم نے علیحدہ کر دیا ہے تو تمہاری باتوں میں کیا اثر ہو سکتا ہے.پس یاد رکھو سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پہلے اپنی اصلاح کرو اور پھر دوسروں کی اصلاح کے لئے کھڑے ہو.اسی طرح وہ لوگ جن کے گھروں میں اللہ تعالیٰ نے ایسے ظالم بچے دیئے ہیں ان کا فرض ہے کہ یا تو وہ ان کی اصلاح کریں یا قوم کے حوالے کر دیں کہ ان کی اصلاح کرو.اسی طرح وہ بیوی جو اپنے آوارہ گرد بچوں کا ساتھ دیتی ہے اور سمجھانے پر بھی باز نہیں آتی تمہارا فرض ہے کہ تم اسے طلاق دے کر علیحدہ کردو.غرض والدین کا کام تو یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں پر سختی کریں اور دوسروں کا کام یہ ہے کہ ان کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کریں.جس وقت ایک باپ اسلام اور دین کی غیرت سے اپنے بچے کو گھر سے نکال دیتا ہے تو اس وقت تمہارا فرض یہ ہے کہ تم اپنے دروازے اس کے لئے کھول دو.اور اسے سمجھاؤ کہ تمہارے باپ نے تمہیں نکال دیا ہے.مگر ہم تمہیں پناہ دیتے ہیں تم نے جو کچھ کیا خراب کیا.اب اپنی اصلاح کرو.

Page 479

خطبات محمود سال ۱۹۳۲ء اس طرح کے دو طرفہ سلوک کا اس پر یہ اثر ہو گا کہ وہ اپنی اصلاح کی طرف توجہ کرے گا.مگر تم بالکل الٹا کام کر رہے ہو.جن کا کام تھا کہ وہ ایسے بچوں کو جنگی اصلاح سے وہ عاجز آچکے ہوں گھر سے نکال دیں وہ تو اپنے گھر سے نہیں نکالتے اور جن کا کام یہ ہے کہ وہ انہیں پناہ دیں وہ انہیں گھروں میں نہیں آنے دیتے.تم جوتی سر پر رکھ کر اور ٹوپی پاؤں میں رکھ کر کبھی دنیا میں عزت کی زندگی بسر نہیں کر سکتے.جس کا حق یہ ہے کہ دے اسے دینا چاہئے.اور جس کا حق ہے کہ لے اسے لینا چاہئے.لیکن اگر جس کے ذمہ خدا نے یہ مقرر کیا ہے کہ وہ دو سرے کو دے وہ بجائے دینے کے دو سرے کا حق بھی چھینے تو کس طرح امن قائم ہو سکتا ہے.ہر ایک چیز کا خدا نے الگ الگ فرض مقرر کیا ہے اور چیزیں بے جوڑ ہو کر کبھی نیک نتیجہ پیدا نہیں کر سکتیں.پس گند کو دور کرو اور یقینا دور کرو.اور اگر دور نہیں کرو گے تو آئندہ آنے والی نسلیں تمہیں بد دعائیں دیں گی.لیکن اس ذریعہ سے دور کرو جو خدا نے مقرر کیا ہے اپنے اندر رفت پیدا کرو.نرمی اور محبت پیدا کرو.اور غم سے گداز ہو کر ان آوارہ گرد لڑکوں کے لئے روؤ جو خراب ہو رہے ہیں ان کے لئے خون کے آنسو بہاؤ.بجائے خونی آنکھیں دکھانے کے اور بجائے لٹھ مارنے کے ان کے آگے کچھ جاؤ تا ان کے دل میں نرمی پیدا ہو.اور وہ بھی اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں.مگر تم قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہو.اور مجھے تعجب آتا ہے کہ اچھے پڑھے لکھے مولوی بھی قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں.کیا یہ عجیب بات نہیں کہ خود تو وہ قانون توڑتے ہیں لیکن دوسروں سے کہتے ہیں کہ قانون نہ توڑیں.جب تم خدا کے بنائے ہوئے قانون کو تو ڑ کر خود قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کے لئے تیار ہو جاتے ہو تو تمہارا کیا حق ہے کہ تم دوسروں سے یہ کہو کہ وہ تمہارے بنائے ہوئے قوانین کی پابندی کریں.کیا وہ آگے سے یہ جواب نہ دیں گے کہ کہ جب تم نے خود قانون تو ڑ دیا تو ہمیں کیوں حق نہیں کہ ہم بھی قانون توڑیں.تم خود تو قانون تو ڑ کر یہ خیال کرتے ہو کہ تم نے کوئی مجرم نہیں کیا.لیکن اگر کوئی اور قانون توڑ دے تو اسے مجرم قرار دیتے ہو.پھر کیا قوم میں جو خرابیاں پیدا ہوں خدا کے حضور ان کے لئے تم جوابدہ ہو.تمہیں خدا نے قوم کا مصلح نہیں بنایا.پھر تم کون ہو جو قانون کو توڑ کر اصلاح کرنے کی کوشش کرتے ہو.یہ سلسلہ خدا کا ہے تمہارا نہیں.اگر تم خدا کے لئے دکھ اٹھاؤ اور مصیبت میں رہتے ہوئے قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لو تو وہ خود بخود لوگوں کی اصلاح کی صورت پیدا کر دے گا.کیا تم سمجھتے ہو خدا کو اپنے بندوں کے متعلق تمہارے جتنی غیرت بھی نہیں ہے.لیکن اگر تم خود ہی قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لو گے تو چاہے تم لڑکوں

Page 480

3 MI خطبات محمود ۴۷۵ سال ۱۹۳۲ء کے سر پھوڑ دو تو بھی ان کی اصلاح نہیں ہو سکے گی.و پس یاد رکھو اللہ تعالی کا حکم ہے قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا اپنے آپ کو اور اپنی اولادوں کو آگ سے بچاؤ.اگر تم اندھے ہو کر اپنی اولاد کی اصلاح کا خیال نہیں کرتے تو تم نہ صرف خود جہنم میں جاتے ہو اور اپنی اولادوں کو جنم میں لے جاتے ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کے سلسلہ کو بھی جہنم میں ڈالنا چاہتے ہو.پس وہ لوگ جن کے بچے آوارہ ہیں اور وہ لوگ جن کی عورتیں ایسے بچوں کی حمایت کرتی ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں اور عورتوں کو اگر وہ حدیث العمد ہیں تو نصیحت کریں.اور انکی اصلاح کے لئے کوشش کریں.اور اگر ان کی متواتر نصیحتوں کا ان کے بچوں پر کوئی اثر نہ ہو تو وہ انہیں محلے والوں کے سپرد کر دیں کہ ان کی اصلاح کریں.ایسے موقع پر محلہ والوں کا کام یہ ہے کہ وہ نرمی اور محبت سے انہیں سمجھا ئیں.گویا والدین کا تو یہ کام ہے کہ وہ اپنے بچوں پر سختی کریں.اور محلے والوں کا یہ کام ہے کہ وہ ان کے بچوں کے ساتھ نرمی کریں اور ان کی اصلاح سے قبل سب سے پہلے اپنے نفس پر موت وارد کریں.جس دن انہوں نے اپنے نفسوں پر موت وارد کر کے اور لڑکوں کی آوارگی کے غم میں گداز ہو کر ان کی اصلاح کے لئے قدم اٹھایا ، وہی دن ہو گا جب ان کی آواز میں اثر ہو گا.اور وہی دن ہو گا جب انکی باتوں میں روحانی قوت دکھائی دے گی.ورنہ دنیا میں لٹھ کے ساتھ کبھی اصلاح نہیں ہو سکتی.اگر اصلاح کے لئے جبر کی ضرورت ہوتی تو اس وقت خدا تعالیٰ تمہیں تلوار ضرور دیتا مگر خدا کا تلوار نہ دینا بلکہ پہلی تلوار کا بھی چھین لیتا بتاتا ہے کہ اصلاح کے لئے تلوار اور لاٹھی کام نہیں دے سکتی.ورنہ یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ اصلاح تو تلوار سے ہو سکتی.مگر خدا تلوار تمہارے ہاتھوں سے چھین لیتا اور پھر کہتا کہ اب اصلاح کرو.یہ تو بیوقوفی کی بات ہوگی.اگر ہم ایسا تسلیم کریں.کسی شاعر نے کہا ہے.درمیان قعر دریا بندم کروہ باز سے کوئی کہ داس تر ممکن ہشیار باش دریا میں ڈال کر یہ کہنا کہ تمہارے کپڑے گیلے نہ ہوں اس پر کس طرح عمل کیا جا سکتا ہے.سو یہ کس طرح ممکن ہے کہ دنیا کی اصلاح تو تلوار کے ساتھ مقدر تھی مگر خدا تعالیٰ نے تمہارے ہاتھوں سے تلوار چھین لی.اور اگر اصلاح ہو سکتی تو تلوار سے ہی ہو سکتی تھی.ڈنڈے سے کیا ہونی ہے لیکن تلوار کا چھینا جانا ظاہر کرتا ہے کہ دنیا کی اصلاح کبھی تلوار اور ڈنڈے کے زور سے نہیں ہوئی.پس وہ چیز جس کو خدا تعالیٰ نے تمہارے ہاتھوں سے چھین لیا اس پر بھروسہ مت کرو.

Page 481

محمود سال ۱۹۳۲ء بھروسہ اس پر کرو جو خدا تعالیٰ نے تمہارے ہاتھ میں دیا ہے.حضرت سیخ موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تمہارے ہاتھ میں کون سی چیز دی ہے ؟ تلوار یا قرآن؟ اگر حضرت مسیح موعود علیه الصلوۃ و السلام نے تمہارے ہاتھ میں تلوار دی تھی تو پھر تلوار سے ہی اصلاح ہو سکتی ہے اور اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تلوار نہیں دی بلکہ قرآن دیا ہے تو یا د رکھو اب اصلاح بھی قرآن سے ہی ہو سکے گی تمہارے ڈنڈوں سے نہیں ہو سکتی پھر اپنے جو شوں میں تو تم ڈنڈا اٹھا لیتے ہو لیکن جب میں کہتا ہوں کہ تم اپنے ہاتھوں میں سونٹار کھا کرو تو تم میری بات نہیں مانتے گویا میرے حکم پر تو تم ڈنڈا نہیں اٹھاتے.لیکن جب تمہیں شیطان اکساتا ہے تو پھر فور اڈنڈا سنبھال لیتے ہو اور پھر جماعت کے والی وارث بننے کا دعویٰ کرتے ہو.جسے خدا نے جماعت کا والی بنایا ہے وہ تمہیں کہتا ہے کہ اپنے ہاتھوں میں سونٹار کھو تو تم نہیں مانتے لیکن جب تمہیں تمہارا نفس شیطانی تحریک کے تحت کہتا ہے کہ ڈنڈا اٹھاؤ تو اس وقت فورا اٹھا کر دوسرے کو مارنے کے درپے ہو جاتے ہو.گویا اس کے حکم پر جس کے ہاتھ پر تم نے بیعت کی اپنے نفسانی جو شوں کو ترجیح دیتے ہو اور خدا کے حکم کو شیطان کے حکم پر قربان کر دیتے ہو اور پھر لوگوں کے مصلح بنتے ہو.اگر تم اصلاح کرنا چاہتے ہو تو اللہ تعالیٰ کے ہو جاؤ اس کے حضور جھکو اور گریہ و زاری سے کام لو لڑکوں کے لئے عاجزی اور تفریع سے دعائیں کرو پھر دیکھو کس طرح خود بخود ان کی اصلاح ہونی شروع ہو جاتی ہے اگر اس پہلو سے غور کرو گے تو تمہیں نظر آجائے گا کہ تمہارے لڑکوں کی خرابی تمہارے اپنے گند کی وجہ سے ہے.باجماعت نماز ہوتی ہے مگر لوگ کم آتے ہیں درس ہوتا ہے مگر لوگ نہیں آتے خربوزے کو خربوزہ دیکھ کر رنگ بدلتا ہے.تم خود گندے ہو گئے اس لئے تمہیں دیکھ کر تمہاری اولادیں بھی گندی ہو گئیں.اور اگر آئندہ بھی تم نے اپنی اصلاح نہ کی تو خد اتعالیٰ تمہاری اولادوں کو اور زیادہ گند میں بڑھا دے گا اور چاہے تم ان کے سر پھوڑو ان کا گند دور نہیں ہو گا.میں ان لوگوں سے جو آج کل محلوں میں آوارہ گرد لڑکوں کے لئے لٹھ لئے پھرتے ہیں پوچھتا ہوں کہ کتنے ہیں ان میں سے جو درسوں میں شامل ہوتے ہیں کتنے ہیں ان میں سے جو نمازوں میں آتے ہیں کتنے ہیں ان میں سے جو خدا کے حکم کے ماتحت مسکینی اور انکسار اختیار کرتے ہیں پھر کتنے ہیں جو یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ گناہوں سے محفوظ ہیں تم بڑے بڑے گناہوں کو نظر انداز کر دیتے ہو اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑتے ہو.اسے اگر ہم نا بینائی نہ کہیں تو اور کیا کہیں کئی لوگ ہوتے ہیں

Page 482

خطبات کی د محمود ۶۱۹۳۲ جنہیں اپنی آنکھ کی کمزوری کی وجہ سے زرد رنگ نظر نہیں آتا بعضوں کو سرخ رنگ نظر نہیں آتا.بعضوں کو سبز رنگ نظر نہیں آتا لیکن اور تمام چیزوں کو بخوبی دیکھ لیتے ہیں.ہم اسے بینائی کا نقص تصور کرتے ہیں اور یہ نہیں کہتے کہ اس شخص کی آنکھیں ہر قسم کی بیماری سے محفوظ ہیں اسی طرح اگر تمہیں اپنے عیب دکھائی نہیں دیتے.اگر تمہیں بڑے عیب تو نظر نہیں آتے لیکن چھوٹے چھوٹے گناہوں پر لٹھ اٹھا لیتے ہو.تو یہ تمہاری نابینائی نہیں تو اور کیا ہے ہاں اگر اصلاح کے لئے صلح اور محبت کے ذرائع اختیار کرو تو پھر ساری جماعت تمہارے ساتھ ہوگی.کون چاہتا ہے کہ ایک پیپ سے بھرا ہوا پھوڑا اس کے بدن پر رہے.ہم آوارہ گردوں کے طرفدار نہیں ہے لیکن ان لوگوں کے بھی طرفدار نہیں جو آوارہ گردوں کی اصلاح کے لئے غلط قدم اٹھاتے ہیں.آواره گردی آوارہ گردی سے دور نہیں ہو سکتی اصلاح ہمیشہ محبت اور پیار سے ہوتی ہے یہ مت خیال کرو کہ ایک چور کو چور کہہ کر تم اس کی اصلاح پر قادر ہو سکتے ہو یا ایک آوارہ گرد کو آوارہ گرد کہہ کر اسے درست کر سکتے ہو.چاہے کوئی چور ہو یا آوارہ گرد- اگر تم اسے ایسا کہو گے تو وہ اور زیادہ جوش میں آجائے گا اور بجائے اصلاح کے تم اسے نقصان پہنچانے کے ذمہ دار ہو گے ہاں محبت اور پیار سے اصلاح ہو سکتی ہے جب کسی ایسے لڑکے کو دیکھو تو اسے نہایت نرمی سے سمجھاؤ اور کہو کہ تم تو بڑے اچھے لڑکے ہو مگر فلاں بات تم میں بری ہے اسے ترک کردو.اس طریق سے اسے غصہ بھی نہیں آئے گا اور تمہاری بات ماننے کے لئے تیار بھی ہو جائے گا میں یہ نہیں کہتا کہ کوئی وقت سزا کا نہیں ہو تا مگر سزا اس کی طرف سے ملنی چاہئے جس کے ہاتھ میں خدا نے جماعت کا نظام رکھا ہے اور سزا بھی ثبوت مہیا ہونے کے بعد دینی چاہئے.میں نے تین سال تک مستریوں کی شرارتوں کو دیکھا.بیسیوں آدمی مجھے کہتے کہ ان کا کوئی علاج کریں ورنہ یہ جماعت کو خراب کر دیں گے.مگر میں ہمیشہ انہیں نہیں کہتا کہ میرے ہاتھ قرآن مجید نے باندھ رکھے ہیں جس دن قرآن مجید کے بتائے اصول شہادت کے ماتحت ان کا قصور ثابت کر دو گے میں انہیں سزا دے دوں گا لیکن جب تک تم یہ ثابت نہیں کر سکتے خواہ وہ سالہا سال تک شرارتیں کرتے چلے جائیں میں ان کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھاؤں گا میں ہمیشہ ایسے دوستوں کو یہی جواب دیتا تھا حالانکہ میں سمجھتا تھا کہ ان کی باتیں درست ہیں لیکن چونکہ عدالتی رنگ میں میرے پاس ثبوت مہیا نہ تھا اس لئے میں تین سال تک خاموش رہا اسی طرح میرے ساتھ ابتدائے خلافت سے یہ سلوک ہوتا چلا آیا ہے مگر میں ہمیشہ اس امر کر دیکھتا ہوں کہ جہاں قرآن نے میرے ہاتھ بند کر

Page 483

خطبات محمود ۴۷۸ سال ۱۹۳۲ء رکھے ہیں میں وہاں اپنا ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا آخر ہم سے بہت زیادہ اللہ تعں کو اس سلسلہ کی فکر ہے اگر ہم کسی جگہ خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے قانون کے ماتحت ہاتھ نہیں اٹھا ئیں گے.اور فتنہ ترقی کر جائے گا تو ہم خدا کے حضور عرض کر سکیں گے کہ ہم تو تیرے قانون کے ماتحت خاموش رہے مگر فتنہ ترقی کر رہا ہے اس لئے تو آپ ہی اس کا ازالہ فرما.اور خدا خود اس کو دور کر دے گا.پس تم بھی اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرو اور سب سے پہلے اپنے نفوس کی اصلاح کر د یقینا بچوں کا خراب ہو جانا بہت بڑا عیب ہے اور ہر احمدی کا جس کے دل میں احمدیت کا درد ہو فرض ہے کہ وہ اس دھبہ کو مٹانے کی کوشش کرے مگر خدا کے منشاء کے ماتحت نہ کہ اپنی دماغی تدبیروں کے ذریعہ.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمارے دلوں کی اصلاح کرے اور ہماری کمزوریوں کو دور فرمائے ہمارے ذمہ جو اس نے اصلاح کا کام رکھا ہے ہم اس میں لغزش نہ کھا جا ئیں اور ایسا نہ ہو کہ ہم اصلاح کرتے ہوئے اور زیادہ خرابیوں کا ذریعہ بن جائیں.اللہ تعالیٰ بڑے رحم اور فضل کا مالک ہے وہ ہمارا آقا اور مہربان خدا ہے ہم اس کی نہایت ہی ذلیل ، حقیر اور نا چیز مخلوق ہیں ہم اس کے حضور دعا کرتے ہیں کہ وہ اپنا ر تم ہم پر نازل کرے اور اپنے خاص فضل سے ہمیں اپنی اور اپنے بچوں کی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے کہ بغیر اس کے فضل کے دنیا میں کوئی کام نہیں ہو سکتا.(الفضل ۲ جون ۱۹۳۲) ل الزلزال ) اسد الغابة في معرفة الصحابة جلد ۴ صفحه ۱۱۸۱۱۷ مطبوعہ بیروت ۵۱۳۷۷ السيرة الحلبية جلد ۲ صفحہ ۱۷۹ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء بخاری کتاب الجنائز باب ثناء الناس على الميت ه بخارى كتاب التفسير سورة النور باب قوله والذين يرمون...الخ متی باب ۲۲ آیت ۱۹ تا ۲۲ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء ك البقرة : ١٣ الرعد : ٢٣ التحريم:

Page 484

خطبات محمود 57 تعلیم الاسلام ہائی سکول کے قیام کا مقصد (فرموده ۳- جون ۱۹۳۲ء) سال ۱۹۳۲ء تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- پچھلے ایام میں میں نے ایک خطبہ پڑھا تھا جس میں تعلیم الاسلام ہائی سکول کے طلباء کے نتائج کے متعلق کچھ بیان کیا تھا.اس مضمون کے متعلق میرے پاس شکایت کی گئی ہے کہ الفضل میں خطبہ کے صحیح الفاظ شائع نہیں ہوئے اور اعبارت ایسی درج کی گئی ہے جس کا مفہوم میرے مفہوم کے خلاف نظر آتا ہے.میں نے وہ نشان کردہ عبارت پڑھی ہے اور گو میں اس امر سے متفق ہوں کہ میرے محدود مضمون کو بعض الفاظ کے ترک کر دینے کی وجہ سے وسیع کر دیا گیا ہے اور گو اس میں شبہ نہیں کہ ایک مختصری تمہید بھی تھی جسے لکھنے والے نے چھوڑا ہے اور اس وجہ سے مضمون میرے الفاظ کی نسبت کسی قدر زیادہ سخت ہو گیا ہے اس حد تک تو شکایت بجا نظر آتی ہے.لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں منشائے مضمون نہیں بدل.امضمون زیادہ سخت ہو گیا ہے اور شاید زیادہ تکلیف دہ بن گیا ہے لیکن میرا جو مقصود تھا وہ وہی ہے گو شدت پیدا ہو گئی ہے.بجائے اس بات کے کہ بعض طالب علموں میں یہ نقص ہے یوں معلوم ہوتا ہے کہ سب میں ہے تمہید کی غرض یہ ہوتی ہے کہ بات کی اونچائی نیچائی کو دور کر کے لیول کردے اور چونکہ تمہید کو چھوڑ دیا گیا ہے اس واسطے لیول میں بھی کچھ فرق ہے تاہم مضمون کے منشاء میں کوئی فرق نہیں آیا بسا اوقات اتنی جلدی لکھ نہیں سکتا جتنی جلدی تقریر کرنے والا بولتا ہے.اور بسا اوقات وہ خود بھی ایک بات کو اچھی طرح سمجھ نہیں سکتا اور بعض ضروری حصوں کو غیر ضروری سمجھ کر چھوڑ دیتا ہے پھر بعض دفعہ وہ اپنے نوٹ کو بھی نہیں سمجھ سکتا اس لئے چھوڑ دیتا ہے.ایسی غلطیاں ہو سکتی ہیں.اور چونکہ

Page 485

خطبات محمود سال ۱۹۳۲ء اصل مفہوم نہیں بدلا اس لئے چنداں قابل اعتراض بات نہیں.مگر اس لئے کہ بعض لوگوں میں یہ احساس پیدا ہوا ہے.میں نے مناسب سمجھا کہ اس مضمون کے متعلق دوبارہ کچھ بیان کر دوں کیونکہ وہ ایک نہایت اہم معاملہ ہے اور اس کے متعلق میں اپنے خیالات صفائی سے پیش کر دیتا چاہتا ہوں تا اگر آج اصلاح نہ ہو سکے تو آئندہ نسلیں ہی شاید اصلاح کر سکیں.اور ان کے سامنے یہ خیالات موجود رہیں.اور جو نقص اس وقت ہیں آئیندہ نسلیں ہی انہیں دور کر سکیں.میں سمجھتا ہوں اور اپنی اس رائے پر پختگی سے قائم ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا منشاء تعلیم الاسلام ہائی سکول کے قیام سے محض یونیورسٹی کے امتحان پاس کرانا نہیں بلکہ آپ کا منشاء یہ تھا کہ اس جگہ ایسے طالب علم پیدا کئے جائیں جو یورپ سے آنے والی وباؤں کا مقابلہ کر سکیں اور اسلام کا مقصد ایسے طریق پر سمجھیں کہ اس کے متعلق جو غلط فہمیاں پیدا کی جاتی ہیں انہیں دور کر کے اسلام کی محبت لوگوں کے دلوں میں قائم کر سکیں.دنیا میں اسلام کا عملی نمونہ پیش کریں اور دنیا پر ثابت کر دیں کہ اسلام سے ہی اعلیٰ روحانی مدارج حاصل ہو سکتے ہیں.یہ منشاء تھا اس سکول کے قیام کا.اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ سکول اس وقت اس منشاء کو پورا کر رہا ہے میں عام بات کہنے کا عادی نہیں ہوں.میرا عقیدہ یہ ہے کہ کوئی شخص کلی طور پر برا نہیں ہو تا خواہ وہ فرعون ہی ہو.ممکن ہے بعض لوگ اسے میری بینائی کا نقص سمجھیں مگر میں کیا کروں کہ مجھے خدا تعالٰی نے ایسی ہی بینائی عطا کی ہے اور میری فطرت ہی ایسی ہے کہ مجھے شیطان میں بھی کئی خوبیاں نظر آتی ہیں اس لئے میں یہ تو نہیں کہہ سکتا اور نہ ہی یہ سن سکتا ہوں کہ ہمارے اس سکول میں کوئی خوبی نہیں.لیکن یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ ان ایام میں یہ سکول اس مقصد کو پورا کر رہا ہے جس کے لئے اسے قائم کیا گیا تھا.اس سکول پر ایک زمانہ ایسا آیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کے ایام میں بعض لوگوں نے کوشش کی کہ اس سکول کو توڑ کر صرف عربی کا ایک مدرسہ قائم رکھا جائے کیونکہ جماعت دو سکولوں کے بوجھ برداشت نہیں کر سکتی اور اس پر اتفاق جماعت اتنا ز بر دست تھا کہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں شاید ڈیڑھ آدمی سکول کی تائید میں رہ گیا تھا ایک تو حضرت خلیفہ المسیح الاول تھے اور آدھا میں اپنے آپ کو کہتا ہوں.کیونکہ اس وقت میں بچہ تھا.لیکن میں سمجھتا ہوں جو جوش مجھے اس وقت سکول کے متعلق تھاوہ دیوانگی کی حد تک پہنچا ہوا تھا.اور حضرت خلیفہ المسیح الاول چونکہ ادب کیوجہ سے حضرت مسیح موعود الصلوۃ والسلام کے سامنے بات نہ کر سکتے تھے اس لئے آپ نے مجھے اپنا ذریعہ

Page 486

خطبات محمود سال ۱۹۳۲ء اور ہتھیار بنایا ہوا تھا وہ مجھے بات بتا دیتے اور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پہنچا دیتا.آخر اللہ تعالیٰ نے ہمیں کامیابی عطا کی.اور باوجود یکہ بعض جلد باز دوستوں نے قریباً ہم پر کفر کا فتویٰ لگا دیا اور کہا کہ یہ دنیا دار لوگ ہیں کیونکہ انگریزی تعلیم کی تائید کرتے ہیں.پھر بھی فیصلہ ہمارے حق میں ہوا.پھر ایک وقت ایسا آیا کہ جو لوگ اس سکول کو توڑنا چاہتے تھے انہوں نے مدرسہ احمدیہ کو توڑنے کا فیصلہ کیا اس وقت بھی خدا نے مجھے ہی توفیق دی اور شاید میں ہی اکیلا شخص تھا جس نے پوری سختی کے ساتھ اس فیصلہ کی مخالفت کی.اُس وقت میری عمر بیس سال کے قریب تھی.اور جس قدر لوگ موجود تھے انہوں نے متفقہ طور پر اس فیصلہ کا اظہار کر دیا تھا کہ مدرسہ احمدیہ کو توڑ دیا جائے اور اس کے بجائے لڑکوں کو وظائف دے کر اعلیٰ درجہ کی انگریزی تعلیم حاصل کرائی جائے اور بی.اے ایم.اے پاس کرنے کے بعد ایک دو سال دینی تعلیم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب یہاں پڑھا کر ان سے تبلیغ کا کام لیا جائے.میں نے اس فیصلہ کی شدت سے مخالفت کی.اور اللہ تعالی نے میری زبان میں ایسی تاثیر بخشی کہ جو لوگ ایک منٹ پہلے اسے مخالفت کی.اور تھے میری تقریر سن کر کہہ اٹھے کہ اسے نہیں تو ڑنا چاہئے.خود خواجہ صاحب ! توڑنے کے حق جن کی کوشش تھی کہ اسے توڑا جائے کھڑے ہو کر کہنے لگے کہ کچھ غلط فہمی ہو گئی ہے دراصل ہمار انشاء بھی یہ نہیں کہ اسے تو ڑ دیا جائے چونکہ وہ شکست سے بچنا چاہتے تھے اس لئے کہنے لگے کہ اچھا اس مسئلہ پر دوبارہ غور کیا جائے گا کیونکہ اگر اس وقت رائے لی جاتی تو یقینا نوے فیصدی میرے حق میں رائے دیتے.پس انہوں نے مناسب سمجھا کہ شکست کھانے کے بجائے اس سوال کو ہی چھوڑ دیا جائے.چنانچہ انہوں نے کہہ دیا کہ اس پر دوبارہ غور کیا جائے گا جو آج تک کبھی نہیں ہوا اور مدرسہ احمدیہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے قائم ہے تو اس طرح ان دونوں سکولوں کے قیام میں میرا حصہ ہے اور مجھے ان سے ذاتی اُنس اور لگاؤ ہے.علاوہ اس کے کہ جو مجھے اپنے منصب کے لحاظ سے ہونا چاہئے میں ابھی جماعت کی کمزوری پر زیادہ کلام نہیں کرتا کیونکہ میں سمجھتا ہوں ابھی جماعت میں وہ بلو صفت نہیں آئی جبکہ عقل پختہ ہوتی ہے.ابھی یہ حالت ہے کہ اگر کوئی عیب بیان کیا جائے تو قطع نظر اس سے کہ وہ کہاں تک ہے اور کس حد تک ہے لوگ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ جس میں یہ عیب پایا جاتا ہے اس سے زیادہ ذلیل چیز اور کوئی نہیں اور اسے جس قدر جلد ممکن ہو مٹا دینا چاہئے اور اگر کوئی خوبی بیان کی جائے تو بجائے اس کے کہ غور کریں کہ وہ خوبی کتنی اہمیت رکھتی ہے کہنے لگ جائیں گے کہ اس سے زیادہ مفید اور اچھی چیز کوئی نہیں.اس

Page 487

خطبات محمود سال ۱۹۳۲ء وقت ہماری جماعت کے دوستوں کی مثال اس جھولے کی سی ہے جو میلوں پر لگایا جاتا ہے.جب اسکا ایک سرا نیچے جاتا ہے تو دوسرا اوپر کو اٹھ جاتا ہے.ہماری جماعت کے لوگ کبھی وسطی مقام قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے.اور بسا اوقات میں کسی چیز کے متعلق اپنی رائے اس لئے بیان نہیں کر تا کہ جماعت کی حالت ابھی بچوں کی سی ہے.اگر کوئی نقصان بیان کیا جائے تو کہہ اٹھیں گے یونسی مال برباد ہو رہا ہے.اور اگر کوئی خوبی بیان کر دوں تو کہیں گے بھلا کوئی عیب ہو سکتا ہے کوئی کالا داغ تک نہیں اور اس لئے کہ بعض کے لئے اس رنگ میں ٹھوکر کا موجب نہ ہو جاؤں.بسا اوقات میں اپنی رائے کو مخفی رکھتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں ہر عظمند خلیفہ جس نے ربانی ہونے کا مقام حاصل کیا ہو ایسی ہی احتیاط کرے گا جب تک کہ جماعت میں بلوغت نہ آجائے اپنے ایسے خیالات کو اپنے تک ہی محدود رکھے گا.اس جذبہ کے ماتحت بہت دفعہ میں اپنی رائے کو چھپائے رکھتا ہوں.وگر نہ اس سکول کے متعلق آج سے بہت پہلے زیادہ وضاحت سے مجھے بیان کر دینا چاہئے تھا اور ایک دفعہ میں نے کچھ بیان بھی کیا تھا.لیکن مجھے معلوم ہوا کئی لوگ جو اپنے بچوں کو یہاں داخل کرانے کے لئے لائے تھے وہ میری تقریر سن کر واپس لے گئے حالانکہ میرا یہ مطلب ہر گز نہ تھا.میں تو اس بات کا قائل ہوں کہ اگر ہمیں سلسلہ کی خاطر اپنی اولادیں قربان کرنی پڑیں تو بھی اس سے دریغ نہ ہونا چاہئے اور اگر انہیں ایسے سکول میں داخل کرانا پڑے جس میں نیل ہو جانے کا امکان زیادہ ہے تو یہ تو کوئی بات ہی نہیں.ہم آج ابراہیم علیہ السلام کی قربانی پر سر دھنتے ہیں لیکن خود اولاد کی قربانی کے لئے تیار نہیں ہوتے.آج چھری سے ذبح کرنے کا امتحان تو پیش نہیں آسکتا اس کے مقابلہ میں بہت معمولی امتحان تو پیش ہیں.جب مجھے معلوم ہوا کہ بعض لوگ اپنے لڑکوں کو واپس لے گئے ہیں تو میں نے سمجھا میں نے غلطی کی.جن لوگوں کو مخاطب کیا وہ دراصل اس کے اہل نہ تھے.ممکن ہے اب بھی بعض کو دھوکا لگ جائے اس لئے میں نے یہ تمہید بیان کر دی ہے.ہر عیب اور خوبی کو اس کی حد کے اندر رکھنا چاہئے اگر ہم ایسا نہ کریں تو نتیجہ یہ ہو گا کہ ضرور وہ حالت ہو جائے گی جسے انگریزی میں Colour blind کہتے ہیں یعنی کبھی کوئی نیکی یا بدی نظر نہ آئے گی.رنگ کا نظر نہ آنا بھی ایک بیماری ہے.میں نے بتایا ہے کہ اس سکول کے قیام کی غرض یہی ہے کہ اسلام اور اس کی حفاظت و اشاعت کے متعلق زبر دست جماعت قائم کی جائے.اور یہ مقصد کم از کم اس وقت پورا نہیں ہو رہا.اس کی وجہ جو کچھ بھی ہے میں اسے صفائی سے بیان کر دیتا

Page 488

خطبات محمود سال ۱۹۳۲ء ہوں.ممکن ہے اس میں غلطی ہو بدظنی کرنا میری عادت نہیں.ممکن ہے بد ظنی ہو.بہر حال میری رائے یہی ہے اور جب تک اس میں تبدیلی نہ ہو میں اس پر قائم رہوں گا.میرے نزدیک خود مدرس اصل مقصد کو نہیں سمجھتے یا شاید سمجھنے کی قابلیت نہیں رکھتے.یہ بات متواتر میرے کان میں پڑی ہے کہ اساتذہ کی طرف سے طالب علموں کو کہا جاتا ہے کہ اگر دینی مضامین کی طرف زیادہ توجہ کرو گے تو پڑھائی میں حرج ہو گا.میں نے وہ ریکارڈ پڑھے ہیں جن میں مجلس مشاورت کے نمائندوں اور مدرسوں میں بحث ہوئی ہے کہ دینیات میں لازمی طور پر پاس ہونے کی شرط رکھنا تعلیم کے لئے نقصان دہ ہے.اور جب استادوں کا یہ خیال ہو بلکہ وہ طالب علموں کو ہم خیال بنانے کی کوشش کرتے ہوں اور کہتے ہوں کہ خواہ قاعدہ کچھ ہو تم دوسرے مضامین میں پاس ہونے کی کوشش کرو - دینیات میں اگر فیل بھی ہو جاؤ گے تو دیکھا جائے گا تو طالب علم اگر دینیات سے غافل ہوں تو اس میں ان کا کیا قصور ہے.اگر پرانے ریکارڈ دیکھے جائیں تو معلوم ہو گا کہ کوشش یہ رہی ہے کہ دینی کتب میں کمی کر دی جائے.نتیجہ یہ ہوا کہ آہستہ آہستہ سوائے ان فوائد کے جو قادیان میں رہنے کے ساتھ وابستہ ہیں.جس مقام پر اللہ تعالیٰ کا نور نازل ہو رہا ہو وہاں بغیر انسانوں کے توسط کے بھی بعض فضل نازل ہوتے ہیں.اس زمانہ میں یہاں اللہ تعالیٰ کا نور نازل ہوا ہے.اس لئے جو یہاں رہتا ہے خواہ اسے تعلیم ہو یا نہ ہو اس سے فائدہ اٹھائے گا.بشرطیکہ نفاق اس کے اندر نہ ہو.مکه و مدینہ میں رہنے والوں کی روحانی حالت اس وقت گری ہوئی ہے لیکن اگر وہاں رہنے والے انسانوں سے آنکھیں بند کر لی جائیں تو انسان ان مقامات سے بے شمار روحانی فوائد حاصل کر سکتا ہے.جو لوگ وہاں جاکر انسانوں پر نگاہ رکھتے ہیں وہ ایمان کی بجائے بے ایمانی لے کر آتے ہیں.بہت سے لوگ حج کے بعد نمازوں کی لذت سے محروم ہو جاتے ہیں.میں جب حج پر گیا تو میں نے دیکھا کہ خانہ کعبہ سے تو ایک نور نکل رہا ہے لیکن وہاں کے لوگوں سے خطر ناک قسم کی تاریکی نکلتی ہے.ایک دوست میرے پاس آئے اور کہنے لگے حج کے متعلق ایک مخفی بات کہتا ہوں.میں سمجھ گیا میں نے پوچھا کہ کیا تمہاری روحانیت میں تو کمی نہیں آرہی.انہوں نے کہا یہی بات ہے.میں نے سمجھایا کہ یہاں کے انسانوں پر نگاہ نہ رکھو.انہوں نے میری نصائح سے فائدہ اٹھایا اور ان کی قبض دور ہو گئی.اسی طرح جو لوگ یہاں منافقت لے کر آتے ہیں ان کا ذکر نہیں.مگروہ جو خدا کی طرف دیکھتا ہے وہ جب بھی یہاں آئے گا بغیر کسی کے توسط کے بھی وہ خدا تعالیٰ کے فضل کو

Page 489

خطبات محمود سال ۱۹۳۲ء جذب کرے گا اور طالب علم ایسے فضل اور نور کو بہت زیادہ جذب کرتے ہیں کیونکہ ان کے دل کی تختی صاف ہوتی ہے اور دوسرے لوگوں کی طرف سے انکی آنکھ بند ہوتی ہے.ایسے فضل اور نور کو چھوڑ کر اس سکول میں تعلیم حاصل کرنے والوں کو کوئی معتد بہ دینی فائدہ حاصل نہیں ہوتا جو باہر نہ ہو سکتا.بعض لوگوں نے شکایت کی ہے کہ ان کے بچے جتنا قرآن شریف یا ترجمہ پڑھ کر آئے تھے اس سے زیادہ انہوں نے یہاں نہیں سیکھا.اور ان کی یہ شکایت بجا ہے مجھ پر بھی یہی اثر ہے کیونکہ عملہ دینیات کی اہمیت کو گرانے اور کم کرنے میں منہمک ہے.وہ خیال کرتے ہیں کہ اس طرح وہ دنیوی تعلیم کو اعلیٰ درجہ کی بنا سکیں گے.مگر ہو تا کیا ہے وہی مثال جو کسی شاعر نے بیان کی ہے کہ ادھر کے ہی نہ وصال صنم رہے رہے نہ ادھر کے نہ ہی وہ دنیوی تعلیم میں کوئی بڑا درجہ حاصل کر سکتے ہیں اور دینی تعلیم کے لئے تو کوشش ہی نہیں کی جاتی.اس کے بجائے اگر دین کو لے لیا جاتا اور اس پہلو کو ایسا نمایاں کیا جاتا کہ ہر دیکھنے والا تسلیم کر تا کہ اس سکول کے طالب علم دینی معلومات میں عالم کی حیثیت رکھتے ہیں تو کوئی چیز تو ہمارے پاس ہوتی.اس صورت میں اگر لڑکے لیل بھی ہو جائیں تو غم کی بات نہیں.کم از کم میرے بچے اگر دین میں ترقی کر جائیں تو ان کی دنیوی ناکامی پر مجھے کوئی غم نہ ہو گا.لیکن جب دین و دنیا دونوں نہ ملیں تو خوشی کس بات کی ہو سکتی ہے.میں جانتا ہوں کہ بعض لوگ پھر بھی اعتراض کریں گے.مگر میں اس کی کوئی حقیقت نہ سمجھوں گا.لیکن میرے پاس تو یہاں تک شکایت آئی ہے کہ ایک طالب علم سے اس کے استاد نے قرآن کریم چھین لیا اور کہا کہ امتحان نزدیک ہے ہمیں بد نام کرنا چاہتے ہو.مجھے انفرادی شکایات کی تحقیقات کی ضرورت نہیں مگر مجموعہ بتاتا ہے کہ نقص موجود ہے.اس کی طرف میں نے اشارہ کیا تھا کہ طالب علم اسلام کی تعلیم اور نظام کے متعلق اہم ابتدائی باتوں پر اعتراضوں کے جواب بھی نہیں دے سکتے.معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس حقیقت کو نہیں سمجھتے.ایک طالب علم کو اگر یہ باتیں سکھائی جائیں ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب پڑھائی جائیں، حدیث کا کچھ حصہ پڑھایا جائے اور پھر اگر وہ فیل بھی ہو جائے تو اسے خود بھی افسوس نہ ہو گا اور دیندار ماں باپ کو بھی افسوس نہ ہو گا.اور یہ میں بطور تنزل کہتا ہوں وگرنہ حقیقت یہ ہے کہ تعلیم کا اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا شغف کا ایک طالب علم ۱۲ گھنٹہ پڑھتا رہتا ہے لیکن

Page 490

خطبات محمود ۴۸۵ سال ۱۹۳۲ء عین ممکن ہے وہ کچھ نہ سیکھ سکے.اور دسرا ایک گھنٹہ پڑھ کر بہت کچھ یاد کرلے.میں اس بات کا قائل ہی نہیں کہ اگر دینی تعلیم کی طرف توجہ کی جائے تو دنیوی تعلیم میں حرج ہوتا ہے.ضرورت تو اس امر کی ہوتی ہے کہ طالب علم کے دل میں علم حاصل کرنے کی تڑپ پیدا کی جائے.اور اگر اسے اس شغف سے پڑھایا جائے تو وہ دو تین گھنٹہ میں ہی بہت کافی پڑھ سکتا ہے.میں نے دیکھا ہے کہ اگر کوئی پرانی بات بھی میرے مطلب کی ہو تو مجھے ہمیشہ یاد رہتی ہے.اگر چہ یوں میرا حافظہ قدرتی طور پر سمجھو یا صحت کی خرابی کی وجہ سے یا افکار کی زیادتی اور کاموں کی کثرت کی وجہ سے چیزوں کو زیادہ یاد نہیں رکھ سکتا.مگر کام کی چیز مجھے بیس سال کے بعد بھی یا د رہتی ہے.جس کی وجہ یہ ہے کہ اسے پڑھتے یا سنتے وقت میں نے اس طرف دماغ کو متوجہ کیا تھا.دفتر ڈاک میں کام کرنے والے جانتے ہیں کہ بعض دوستوں کے خطوط کے جواب جب میں دو دو تین ماہ بعد لکھواتا ہوں تو میں افسر ڈاک کو بتا دیتا ہوں کہ اس نے یہ نہیں لکھا بلکہ یہ لکھا ہے اور آپ غلطی کر رہے ہیں.وہ مجھے نہیں بھولتی.پس میں اپنے تجربہ کی بناء پر بھی اور اس علم کی بناء پر بھی جو خدا تعالیٰ نے انسانی فطرت اور دماغ کے متعلق مجھے دیا ہے.اور بغیر اس کے متعلق کوئی کتابیں پڑھنے کے مجھے ایسا بار یک علم عطا کیا ہے کہ بسا اوقات وہ الہام کے مقام تک پہنچ جاتا ہے.انسان کی شکل دیکھتے ہیں اس کے تاثرات ، جذبات، احساسات ایسے باریک طور پر میرے دل پر منکشف ہو جاتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ الہام خفی ہوتا ہے.اگر چہ جلی الہام نہیں کیونکہ یہ علوم میں نے نہیں پڑھے.پس اس علم کی بناء پر میں کہہ سکتا ہوں کہ اگر علم صحیح طور پر حاصل کریں یا کرائیں تو ہم وہ کچھ حاصل کر سکتے ہیں جو دو سرے نہیں کر سکتے.اگر سکول کا عملہ اس بات کو مد نظر رکھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کو واضح کرنا اس سکول کا مقصد ہے تو دین کو حاصل کرتے ہوئے بھی وہ دنیا کو حاصل کر سکتے ہیں.مگر چونکہ بنیاد درست نہیں ، اس لئے عمارت بھی کمزور تیار ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے طاعون کا ٹیکہ ممنوع قرار دیا ہے.اور یہ ایسی بات ہے جسے معمولی احمدی بھی جانتا ہے.اگر چہ حضور نے اجازت دی ہے کہ کمزور ایمان کا احمدی یا جسے حکام حکم دیں ٹیکہ کر سکتا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ کوئی احمدی اسے گوارا نہیں کر سکتا.بلکہ میں سمجھتا ہوں اگر کسی کو عملا طاعون ہو بھی جائے اور اسے ٹیکہ کرانے سے آرام ہو تا ہو تو بھی ایک مخلص احمدی اسکی جرات نہیں کرے گا.لیکن تعجب کی بات ہے کہ وہ سکول جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی تعلیم کو قائم کرنے کے لئے قائم کیا گیا تھا اس میں استادوں نے سامنے

Page 491

۴۸۶ سال ۱۹۳۲ء محمود خطبات بیٹھ کر لڑکوں کو ٹیکے لگوائے.بلکہ بعض استادوں نے خود بھی لگوائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی صداقت کا نشان قرار دیا ہے کہ خدا تعالٰی نے وعدہ کیا ہے وہ ٹیکہ کے بغیر ہماری جماعت کی حفاظت کرے گا اور آپ کے زمانہ میں شاید سو میں سے اس احمدی اسی نشان کے ذریعہ احمدی ہوئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مزاحیہ طور پر فرمایا کرتے تھے کہ ہماری جماعت کا اکثر حصہ طاعونی ہے.تو وہ عظیم الشان نشان جس کا ذکر آپ کی قریباً ہر مجلس میں ہو تا تھا اور جسے آپ نے قریباً تین کتب میں نہایت وضاحت سے بیان فرمایا ہے صریح طور پر اس کی خلاف ورزی کی گئی ہے.بلکہ زور دے کر اس نشان کو مشتبہ کیا گیا ہے.اس قسم کی کھلی نا فرمانی بتاتی ہے کہ خود اساتذہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب نہیں پڑھتے.اور مزید حیرانی یہ ہے کہ جب انجمن کے افسر نے اس کے متعلق پوچھا کہ کیوں ایسا کیا گیا تو اسے ایسا جواب دیا گیا جو اخلاق بھی معیر رہا ہے اور صداقت سے بھی دور ہے.اخلاقا اس لئے کہ افسر کو ایسا جواب نہیں دینا چاہئے.کہا گیا کہ آپ کا اعتراض فضول ہے ہم نے ایک ایسے آدمی سے پوچھ لیا تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کو آپ سے دس گنا زیادہ جانتا ہے.یہ جو اب بہت ہی گری ہوئی اخلاقی حالت کو ظاہر کرتا ہے اور پھر صحیح بھی نہیں.اگر کسی عالم نے یہ کہا ہے تو وہ دس گنا زیادہ کیا ہزار گنا کم بھی نہیں جانتا.ایسے کھلے نشان کا منکر احمدی مولوی کیسے ہو سکتا ہے.میں سمجھ گیا تھا کہ یہ کون سا مولوی ہے.اور میں نے خود اس سے دریافت کیا تو اس نے کہا کہ میں نے یہ کہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اجازت دی ہے کہ جو کمزور ایمان والے ہوں یا جن کو حاکم کا حکم ہو ، وہ ٹیکہ لگوالیں اور یہ جواب صحیح ہے.پس جب تک یہ روح نہ بدلے گی اس وقت تک قطعی طور پر دہ نتیجہ نہیں پیدا ہو گا جس کے لئے یہ سکول قائم کیا گیا ہے.ممکن ہے اساتذہ ہمیں بے وقوف اور جاہل سمجھیں.مگر دنیا میں ان سے بہت زیادہ عالم اور تعلیم یافتہ ہمیں جاہل سمجھتے ہیں.مگر ہم خدا کے فضل سے انہیں روزانہ شکست دے رہے ہیں.ان سے بڑھ کر ان کا قلعہ مضبوط نہیں ہو سکتا.اگر انکے اندر تبدیلی نہ ہوئی تو جماعت کے نوجوانوں میں ایسی روح پیدا ہو جائے گی کہ وہ اس قلعہ کو پاش پاش کر دیں گے.ہم وائیت اور شیدائیت چاہتے ہیں.ہمیں ان طالب علموں کی ضرورت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے فدائی ہوں ، اسلام کے شیدائی ہوں رسول کریم ل ا ل ل وی کے نام پر جان دینے والے ہوں ، قرآن مجید کے عاشق اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا مطالعہ جاری رکھنے والے ہوں خواہ دنیوی لحاظ سے وہ کامیاب ہوں

Page 492

خطبات محمود ۴۸۷ سال ۱۹۳۲ء یا فیل.اگر یہ چیزیں نہیں اور وہ کامیاب ہوتے ہیں تو یہ کامیابی کچھ بھی نہیں.اور اس سے وہ ناکامی ہزار درجہ بہتر ہے جس میں یہ چیزیں ہوں.میں سمجھتا ہوں کہ اگر صحیح طور پر کام کیا جائے تو یہ باتیں پیدا کرنے کے ساتھ نتیجہ بھی اچھا نکل سکتا ہے.ضرورت ہے کہ دل میں جوش پیدا کیا جائے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے كُمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةَ كَثِيرَ ا یہ کس طرح ہوتا ہے اسی طرح کہ ان تھوڑوں کو کام کرنے کا ڈھنگ اور سلیقہ آتا ہے.اگر ہم یہ بات طالب علموں کے اندر پیدا دیں تو وہ غَلَبَت کا نظارہ دکھلا دیں گے.وہ بچے ہوئے وقت میں ایسے زور کے ساتھ کام کریں گے کہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم حاصل کر سکیں گے.ہاں بعض اوقات خدا تعالیٰ کی مشیت بعض لوگوں کو ظاہری علوم میں کامیاب نہیں ہونے دیتی.اس صورت میں دینی علم تو بہر حال اس کے کام آسکے گا.خدا تعالی بعض اوقات یہ بتانا چاہتا ہے کہ ہم جاہلوں سے بھی کام لے لیتے ہیں.میں نے کبھی کوئی امتحان پاس نہیں کیا.لیکن سلسلہ میں جب بعض ایم.اے بی.اے اور مولوی فاضل خیال کرنے لگے کہ ہماری وجہ سے کام ہو رہا ہے تو خدا تعالیٰ نے ان کے خیال کو غلط ثابت کرنے کے لئے ایک ایسے شخص کو منتخب کیا جسے دنیا کبھی کوئی وقعت نہ دیتی.میں انگریزی تعلیم سے محروم ہوں بلکہ جن معنوں میں آج کل سمجھا جاتا ہے عربی سے بھی.لیکن خدا تعالیٰ نے مجھے کھڑا کر کے میرے ذریعہ دونوں انگریزی اور عربی دانوں کو شکست دے دی.میں ابھی میدان سے نہیں ہٹا اور دشمن بھی ابھی نہیں ہے.اور میں نہیں جانتا کہ میری باقی عمر ایک منٹ ہے یا پچاس سال لیکن خدا تعالیٰ میرے ذریعہ میرے مخالفوں کو ایسی شکست دے گا جو تاریخی ہوگی.اگر وہ کہیں کہ پہلے میں پتہ نہ تھا کہ تم چیلنج کرتے ہو تو اب سن لیں مجھے اللہ تعالیٰ نے دنیوی علوم سے اس لئے محروم رکھا تا وہ خود میرا معلم بنے.اور گو میں انسانی علوم میں فیل ہوں مگر الہی علوم میں پاس ہوں.باوجودیکہ انسانی نظروں میں جاہل ہوں، جاہل تھا اور جاہل رہوں گا.مگر اللہ تعالیٰ کی نظر میں عالم ہوں، عالم تھا اور عالم رہوں گا.پس اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت کوئی بظا ہر علوم سے محروم رکھا جائے تو خدا تعالٰی اس کا دستگیر ہوتا ہے جیسے وہ میرا ہوا.اور میں تو ایسے شخص کو کبھی جاہل نہیں کہوں گا جسے خدا تعالیٰ کامیاب کرے اور بڑے بڑے عالموں پر غلبہ عطا کر دے.پس جب تک اس چیز کے حصول کے لئے اساتذہ اور دیگر افسر کوشش نہیں کریں گے ، حالت اچھی نہیں ہو سکتی.میں نے دیکھا ہے بعض والدین یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ مذہبی تعلیم زیادہ نہیں ہونی چاہئے اور اساتذہ بھی.اب تو شاید طالب علم بھی درس سننے آتے ہی نہیں.جب میں درس میرے و

Page 493

خطبات محمود ۴۸۸ سال ۶۱۹۳۲ دیا کرتا تھا تو قریباً ہر پانچ چھ ماہ بعد یہ کہنے کا دورہ سا ہو تا تھا کہ لڑکوں کو کھیل کے لئے وقت نہیں ملتا.اور مجھے حیرت ہوتی تھی کہ یہ بھی انسان ہیں جو جماعت احمدیہ سے وابستہ ہیں.انہوں نے مامور کے ہاتھ پر بیعت کی ہے مگر نہیں جانتے کہ کس چیز پر بیعت کی ہے.حقیقت یہ ہے کہ مذہبی معلومات سے طالب علم بالکل کو رے ہیں.اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مدرس مذہبی تعلیم کی وہ قدر نہیں کرتے جو کرنی چاہئے.اس لئے انہیں قرآن کریم کا شوق نہیں احادیث کا شوق نہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا شوق نہیں.اور چونکہ خود نا واقف ہیں اس لئے وہ دوسروں کے اندر یہ شوق پیدا نہیں کر سکتے.اگر وہ اصلاح کرلیں اور خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرلیں تو یاد رکھیں خدا تعالٰی سے تعلق پیدا کر کے کوئی انسان ضائع نہیں ہو سکتا.یہ مت خیال کرو کہ خدا سے تعلق پیدا کرنے سے دنیوی سامان ہاتھ سے جاتے رہیں گے.میرا تجربہ ہے اور ہر شخص جو اسے آزمائے گا دیکھے گا کہ اسکی مدد وہاں سے ہوتی ہے جہاں کا انسان اندازہ بھی نہیں کر سکتا.جب وہ یہ خیال کرتا ہے کہ سب ذرائع منقطع ہو چکے ہیں تو خد اتعالیٰ کی مدد ایسے طریق پر آتی ہے جو و ہم سے بالا ہوتا ہے.میں ان تفصیلات میں پڑنے کا وقت نہیں دیکھتا.صرف یہی کہتا ہوں کہ ہمارے سلسلہ کے کاموں پر نگاہ ڈالی جائے تو سب میں خدا تعالیٰ کا ہاتھ کام کرتا ہوا دکھائی دے گا.پس اگر اپنی روحانی آنکھیں کھولو تو تمہیں سب کچھ نظر آئے گا.اس وقت تو تمہاری مثال ایسی ہے جیسے اندھیرے کا کیڑا اگر روشنی میں آجائے تو اس کی بینائی ماری جاتی ہے.یا جس طرح چھچھوندر کی بصارت روشنی میں زائل ہو جاتی ہے.اور ایک بچہ بھی اسے پکڑ سکتا ہے.لیکن اس کے سوراخ میں سے شیر بھی نہیں پکڑ سکتا کیونکہ وہ اس کا ماحول ہوتا ہے اور ہر چیز اپنے ماحول میں ہی صحیح طور پر کام کر سکتی ہے.تم نے اگر دین قبول کیا ہے تو دینی ماحول میں ہی ترقی کر سکتے ہو.اگر دنیوی خیالات کے پیچھے چلو گے تو وہ چونکہ تمہارا ماحول نہیں اس لئے وہی حال ہو گا جو روشنی میں چھچھوندر کا ہوتا ہے.باہر جا کر تم وہاں کے ماحول میں کامیاب ہو سکتے ہو مگر قادیان میں چونکہ وہ ماحول نہیں اس لئے نہیں ہو سکتے.اور یہاں وہی مثال ہو گی جیسے ایک شخص کے دو دوست اسے اپنی اپنی طرف کھینچ رہے ہوں اور وہ کسی طرف بھی نہ جاسکے کل ہی ایک دوست نے عربی کے ایک محاورہ کا ذکر کیا.جو اگرچہ میں نے پہلے بھی پڑھا ہو گا مگر اس وقت کے لحاظ سے اس نے بہت مزا دیا لا ظَهْرَا تَرَكَ لا ذِرَاعًا قَطَعَ یعنی کوئی سواری ایسی نہیں جو چھوڑی ہو مگر سفر کا کوئی گز نہیں جو طے کیا ہو.تو بعض

Page 494

خطبات محمود ۴۸۹ سال انسان جد و جہد کے باوجود وہیں کے وہیں رہتے ہیں تم اگر دین و دنیا دونوں ماحول کی کشمکش میں پڑ جاؤ گے تو تمہاری بھی یہی حالت ہوگی.پس اپنے ماحول کا خیال رکھو اور روحانی آنکھیں پیدا کرو.یہاں یہ بات نفع نہیں دے سکتی کہ طلباء کے سامنے فلسفہ پر تقریریں کرتے رہو اور قرآن اور حدیث کے متعلق کہو دیکھا جائے گا قادیان میں رہ کر یہ چیز کامیابی کا موجب نہیں بن سکتی اور یہ بات کہہ کر تم ان کو ہشیار نہیں کرتے اور فائدہ نہیں پہنچاتے بلکہ سخت نقصان پہنچاتے ہو کیونکہ تم ان کے بچے عزم کو توڑتے ہو.جس بچے کے کان میں دو مختلف باتیں ڈالی جائیں اس کا کیا عزم باقی رہ سکتا ہے تم خیال کرتے ہو کہ یہ اسکی خیر خواہی ہے.حالانکہ اس چیز کو کاٹ رہے ہوتے ہو جس سے اس نے ترقی کرنی ہوتی ہے.دنیا میں انسان یا تو عزم سے ترقی کر سکتا ہے یا خدا کے فضل سے نماز روزہ سے ترقی نہیں ہوتی بلکہ خدا کے فضل سے ہوتی ہے اسی طرح انگریزی اور حساب کی لیم سے نہیں ہوتی بلکہ عزم سے ہوتی ہے تم نے دیکھا ہو گا بعض بڑے بڑے عالم بھوکوں مرتے ہیں اور بعض جاہل ترقی کر جاتے ہیں بعض لمبی لمبی نمازیں پڑھنے والے ذلیل ہو جاتے ہیں.اور اس سے ہلکی نمازیں پڑھنے والے خدا تعالیٰ کے فضل کے جاذب ہو جاتے ہیں.پس تم طالب علم کے عزم کو نہ تو ڑو.جس طالب علم کے کان میں متواتر یہ بات ڈالی جاتی ہے کہ دین کے بغیر ترقی نہیں ہو سکتی.اس کے دوسرے کان میں اگر تم یہ کہتے ہو کہ ان چیزوں پر وقت خرچ کرنے سے تم امتحان میں فیل ہو جاؤ گے تو تم اسے حیران و پریشان کر دیتے ہو.اور اس کے عزم کو توڑ کر دین و دنیا دونوں کی کامیابی سے دور پھینک دیتے ہو.تیمور اور نپولین نے دنیا میں عزم سے ہی ترقی کی دنیوی علوم سے نہیں عزم سے ہی وہ اس قدر بلند ہو گئے مگر جس رستہ پر تم طالب علموں کو ڈالنے کی کوشش کرتے ہو وہ عزم کی جڑ کو کاٹنے والا ہے.اس سے تو یہ بہتر تھا کہ انہیں پاگل بنا دیتے مگر عزم کو نہ توڑتے اس صورت میں بھی وہ دنیا کو فتح کر لیتے.مگر ایسا عالم جو تم پیدا کرنا چاہتے ہو.شیش محل کا کتا ہے.جو ہر طرف حیران و پریشان ہو کر بھاگا بھاگا پھرتا ہے.جس کے کان میں دو مختلف آواز میں ڈالی گئیں.اس کے دل سے عزیمت استقلال اور ارادہ تم نے نکال دیا.اور اس طرح جب تم سمجھ رہے ہو کہ اسے اچھی غذا کھلاتے ہو دراصل زہر کا پیالہ پلا رہے ہو وہ پاگل جس کے اندر عزم ہے بہت بہتر ہے اس عالم سے جس کے اندر عزم نہیں.قرآن کریم نے بتایا ہے کہ بعض عالموں کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسے گدھے پر کتابیں لاد دی جائیں اور تم ایسے ہی عالم پیدا کرو گے اگر ان کے عزم کو تو ڑ دو گے.بڑائی عزم سے ہوتی ہے اگر اسے تم

Page 495

1 د محمود ۴۹۰ سال ۱۹۳۲ ء نے مٹادیا تو خواہ کتنا ہی پڑھاؤ وہ مفید نہیں ہو سکتا ان میں تیمور اور نپولین کا دماغ پیدا نہیں ہو گا اور ان کی زندگی سے بھی وہ کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے بلکہ صرف ایک قصہ کی حیثیت سے دیکھنے والے ہونگے.نپولین کے متعلق لکھا ہے کہ وہ ہو مراو ر ایلیٹ کی کتابیں سرہانے رکھا کرتا تھا اب عام لوگوں کے نزدیک وہ قصے ہیں لیکن وہ ان سے تاریخ کا کام لیتا تھا.مگر باقی لوگ کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے.الف لیلہ میں بھی ایک قصہ ہے کہ کوئی شخص ایک مدترس کا بہت گرویدہ تھا ان لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ پڑھتے زیادہ اور نتیجہ بہت کم نکالتے ہیں.ایک دن وہ اس سے ملنے گیا تو موجود نہ پایا.لڑکوں نے بتایا کہ ان کے گھر شاید کوئی وفات ہو گئی ہے اور وہ بہت بری حالت میں ہیں.یہ خبر لینے گیا اور پوچھا کیا ہوا کیا کوئی عزیز فوت ہو گیا اس نے کہا دنیا میں لوگوں کے عزیز مرتے ہی ہیں اگر میرا مرجاتا تو کیا تھا اس نے پوچھا پھر ہوا کیا اس نے کہا میری جان اور روح سے پیاری محبوبہ کا انتقال ہو گیا اس نے پوچھا کہ وہ کون تھی جس نے آپ جیسے عالم کی محبت کو کھینچ لیا اس نے کہا کہ افسوس ہے اس بات کا پتہ مجھے خود بھی نہیں میں مدرسہ میں پڑھایا کرتا تھا تو ایک شخص ادھر سے گزرا کرتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ ام عمر بہت حسین ہے اور اس کے کہنے سے میں دیکھے بغیر ہی اس پر عاشق ہو گیا اور میرا عشق دن بدن ترقی کرتا گیا پر سوں میں بیٹھا تھا کہ ایک شخص نے شعر پڑھا جس کا مطلب یہ تھا کہ نہ ام عمر لوئی اور نہ اس کا گدھا جس کے معنی سوائے اس کے اور کیا ہو سکتے ہیں کہ وہ مرگئی ہوگی تو جو لوگ پڑھتے زیادہ اور نتیجہ کم نکالتے ہیں انکی حالت ایسی ہی ہوتی ہے خالی کتابوں سے کچھ نہیں بنتا بلکہ جو کچھ بنتا ہے وہ عزم اور ہمت سے بنتا ہے کیا وجہ ہے کہ عیسائی دو سرے مسلمانوں کے سامنے تو فخرآتے ہیں مگر ہم سے بھاگتے ہیں بات یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے اندر ایک عزم پیدا کر دیا ہے آپ نے بتایا ہے کہ خدا نے مجھے کہا دنیا میں ایک نذیر آیا دنیا نے اسے قبول نہ کیا لیکن خدا سے قبول کریگا اور زور آور حملوں سے اس کی سچائی دنیا پر ظاہر کر دے گا آپ نے بتایا کہ خدا نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ تم جیت جاؤ گے اور دشمن ہار جائیں گے احمدیت دنیا میں پھیل جائے گی ہم اس پر ایمان لائے اور یہ خیال ہمارے دل میں جم گیا اور ہم نے سمجھ لیا کہ ہم ضرور جیت جائیں گے اور اس لئے جیتنے لگے حضرت مسیح موعود کا سب سے بڑا معجزہ یہی ہے کہ آپ نے اپنے مانے والوں کے اندر عزم پیدا کر دیا ایک طرف خدا تعالی کا فضل ہے اور دوسری طرف قیمتی چیز ہمارا عزم ہے جو کامیابی کا ضامن ہے لیکن جو شخص طالب علموں کے دل میں دو متضاد خیال پیدا کرنے کا موجب ہوتا ہے وہ ان کے عزم کو توڑتا ہے

Page 496

لم 3 خطبات محمود ۴۹۱ سال ۱۹۳۲ء اور ان کا بدترین دشمن ہے ہر طالب علم کے دل میں یہ خیال راح مرد کہ تو دنیا کا آئندہ فاتح ہے.اور نپولین، تیمور بابر کوئی تیرا مقابلہ نہیں کر سکتا کیونکہ تو صحیح راستہ پر ہے اور خدا تیرے ساتھ ہے اور یہ بات تمام علوم سے بڑھ کر ہے لیکن اگر یہ نہیں تو وہ تمام علوم جو تم سکھاتے ہو جہالت کے ایک نقطہ پر قربان کر دینے کے قابل ہیں.اگر اس چیز کو سمجھو تو دنیا میں کام کر سکتے ہو اور اگر اس کو بھی نہیں سمجھ سکتے تو پھر خدا ہی سمجھا سکتا ہے.لیکن اسکی سنت ہے کہ وہ نہیں سمجھایا کرتا.میں ان باتوں کو اس طرح جانتا ہوں جس طرح کوئی اپنے بچے کو جانتا ہے مگر مجھے خدا تعالیٰ نے یہ طاقت نہیں دی کہ گھول کر تمہارے اندر داخل کر سکوں.اگر تم سیکھ لو تو تمہارا ابھلا ہے وگرنہ میں خدا تعالیٰ کے سامنے بری الذمہ ہوں میں نے ہر موقع پر کھول کر سمجھا دیا ہے اور اس میں کبھی کسی کا لحاظ نہیں کیا کبھی دوست یا دشمن سے نہیں ڈرا اس لئے مجھ پر کوئی الزام نہیں آسکتا کیونکہ میں نے خدا کے فضل سے اپنا فرض ادا کر دیا اگر چہ تم عمر میں مجھ سے بڑے ہو لیکن میں ایسے محسوس کرتا ہوں جیسے چھوٹے بچوں میں باتیں کر رہا ہوں لیکن اس کے باوجود میں مایوس نہیں باوجودیکہ ہر رستہ پر مجھے مشکلات پیش آتی ہیں لیکن میں مایوس نہیں ہوں مجھے یقین ہے کہ خدا تعالی کے وعدے پورے ہو کر رہیں گے.خدا تعالی کے کلام پر میرا ایمان ہے.اور اگر میں ہر احمدی کو مرتد ہوتا دیکھوں اور ہر دشمن کو اس کے مٹانے میں کامیاب ہو تادیکھوں تو بھی یہ خیال میرے دل سے نہیں مٹ سکتا کہ احمدیت دنیا پر غالب ہو کر رہے گی تمہاری غلطیاں میرے دل میں غصہ کے بجائے رحم پیدا کرتی ہیں خدا تعالیٰ نے میری آنکھیں کھول دی ہیں میں کسی بات سے بھی پریشان نہیں ہو تا جس طرح ایک بلی آنکھیں بند کر کے چوہے سے کھیلتی ہے اسی طرح میں بھی مطمئن ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ آخر یہ شکار میرا ہے کئی لوگ اسے میری کمزوری بیوقوفی یا غفلت پر محمول کرتے ہوں گے.ہر ایک نے میری نسبت کوئی رائے قائم کر رکھی ہو گی.مگر تم اس حقیقت سے آگاہ نہیں.خدا کی طرف سے وہ نور ابھی تمہیں نہیں دیا گیا کہ ان باتوں کو دیکھ سکو ابھی تم اندھیرے میں نولتے ہو لیکن مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے نو ر دیا گیا ہے اس لئے میں مایوس نہیں ہوں.مجھے یقین ہے کہ خدا تعالیٰ یا استادوں کی اصلاح کر دے گا اور یا طالبعلموں کی.تم نے اگر میری بیعت کی ہے تو مجھے استاد کی طرح سمجھو بعض لوگ سنتے ہیں اور مزا لیتے ہیں اور پھر جا کر جرح قدع شروع کر دیتے ہیں.یہ غلط کہا وہ غلط کہا فلاں بات یوں کہنی چاہئے تھی اور یہ نہیں سوچتے کہ خدا نے ان کو کیوں نہ خلیفہ بنادیا کیوں وہ ان

Page 497

خطبات محمود ۴۹۲ سال ۱۹۳۲ء کی اس طرح نصرت نہیں کرتا جس طرح میری کرتا ہے اور کیوں اس نے نہیں مجھ سے علم میں کم رکھا ہے.یاد رکھو میری روح بلکہ جسم کے ہر ذرہ سے خدا تعالیٰ کی آواز بلند ہوتی ہے اس نے میری آنکھیں کھوئی ہیں اور میں سب کچھ دیکھتا ہوں.اور اگر پھر بھی کوئی مجھے ذلیل سمجھتا ہے تو اس کی پرواہ نہیں.میرے لئے بس ہے کہ اس کی رحمت اور فضل مجھے ڈھانپ لے.(الفضل ۹ جون ۱۹۳۲ء) البقرة : ۲۵۰ یل تذکره صفحه ۱۰۴- ایڈیشن چهارم (مضموناً)

Page 498

خطبات محمود 58 ہر احمدی قیام امن کے لئے جدوجہد کرے (فرموده یکم جولائی ۱۹۳۲ء) سال ۱۹۳۲ء تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.چونکہ مجھے جمعہ کی نماز کے معابعد اپنی آنکھوں کا معائنہ کرانے کے لئے راولپنڈی جانا ہے اس لئے میں جمعہ اور عصر کی نماز آج جمع کراؤں گا.امارت کا سلسلہ جس طرح پہلے ڈلہوزی کے سفر میں تھا اسی طرح رہے گا.یعنی مولوی سرور شاہ صاحب مقامی جماعت کے امیر ہوں گے.میں امید کرتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالٰی پھر اگلے جمعہ سے پہلے لاہور سے ہوتے ہوئے جہاں کشمیر کمیٹی کا جلسہ ہے قادیان پہنچ جاؤں گا اور اگلا جمعہ میں انشاء اللہ خود پڑھاؤں گا.میری صحت تو اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ میں پہاڑ سے جو ٹھنڈی جگہ تھی گرمی میں آکر کوئی طویل خطبہ پڑھوں اور بیماری کے اثرات جو اب تک باقی ہیں اس ارادہ میں حائل ہیں.رات کے وقت تھوڑی ہی دیر سونے کے بعد میں جس کروٹ بھی لیتا درد سے بے تاب ہو جاتا.چناچہ رات کا اکثر حصہ میں نے جاگتے اور کروٹیں بدلتے کاٹا.لیکن میں سمجھتا ہوں جس مضمون کے متعلق آج میں کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں اس کے لئے زیادہ دیر مضر ہوگی اور بنی نوع انسان کے حقوق کی حفاظت جو میرے ذمہ ہے اس کے لحاظ سے میرا فرض ہے کہ میں اپنے خیالات جلد ظاہر کر دوں.میں نے متواتر اپنی جماعت کے دوستوں کو اس بات سے آگاہ کیا ہے کہ دنیا میں تمام چیزیں مذہبی یا غیر مذہبی نہیں ہوتیں اور تمام چیزیں دینی یا دنیوی نہیں ہوتیں بلکہ ان کے درمیان بھی مدارج ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.ان مدارج پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ بعض دینی باتیں ایسی ہیں کہ وہ ایک رنگ میں دنیاوی ہو جاتی ہیں اور بعض دنیاوی باتیں ایسی ہیں جو

Page 499

خطبات محمود ۴۹۴ سال ۱۹۳۲ء اپنے اندر دین کا ایک رنگ رکھتی ہیں.اسلام نے اس مدارج کے نوع کو اس مدارج کے اختلاف کو اس مدارج کے وسیع دائرہ کو اس قدر کھول کھول کر بیان کیا ہے کہ اگر ہم صرف اسلام کی اس خوبی کو ہی لے کر کھڑے ہو جائیں تو کوئی غیر مذ ہب والا اس خوبی کے لحاظ سے ہمارا مقابلہ نہیں کر سکے گا.اور در حقیقت کسی چیز سے واقف آدمی جس عمدگی سے اس خوبی سے آگاہ ہوتا ہے دوسرا نہیں ہو سکتا.ہمارے ملک میں ایک مثل مشہور ہے کہ کوئی شخص بھوکا تھا.اسے معلوم ہوا کہ برہمنوں کی کسی جگہ دعوت ہے.وہ تھا تو مسلمان لیکن اس نے برہمنوں کی ذاتوں کے کچھ نام سنے ہوئے تھے.بھوک کی شدت کی وجہ سے کفر اس کے ایمان پر غالب آگیا اور اس نے خیال کیا چلو برہمن بن کر ہی اس وقت کھانا کھالیں.وہ یہ سوچ کر کھانا کھانے چلا گیا.لوگوں نے جب اس سے پوچھا کہ تم کون ہوتے ہو تو چونکہ اسے معلوم تھا کہ یہاں کن لوگوں کی دعوت ہے کہنے لگا بر ہمن.انہوں نے پوچھا کون برہمن کہنے لگا گوڑ برہمن.یہ بھی اس نے کہیں سے سنا ہوا تھا.انہوں نے پھر پوچھا کہ کون سی گوت میں سے ہو.کہنے لگا کہیں گوت در گوت بھی ہوتا ہے.وہ فورا سمجھ گئے کہ یہ بناوٹی برہمن ہے.انہوں نے اسے مار پیٹ کر باہر نکال دیا.تو نا واقف ایک چیز کو بالکل سرسری نظر سے دیکھتا ہے لیکن واقف آدمی اس کی باریکیوں سے آگاہ ہوتا ہے.ایک انگریز کے نزدیک ایک آم صرف ایک پھل ہے جو کھانے کے کام آتا ہے.اس سے بڑھ کر اس کے نزدیک اس کی حقیقت نہیں.لیکن اس سے زیادہ واقفیت رکھنے والا جانتا ہے کہ فلاں مقام میں کس قسم کا آم ہوتا ہے اور فلاں مقام میں کیسا.وہ لمبی اور چھوٹی گٹھلیوں والے آموں کی اقسام بتائے گا.لیکن اگر ایک باغبان سے پوچھو تو وہ آم کی بیسیوں اقسام گنا تا چلا جائے گا.اور ایک فن زراعت کا ماہر اس سے بھی باریک باتیں بیان کر سکے گا.غرض کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز لے لو اس میں بھی باریکیاں نکلتی آئیں گی.اور اس کی بھی اقسام در اقسام ہوتی چلی جائیں گی.اور یہ بات علم کی ترقی سے وابستہ ہے.جوں جوں علم بڑھتا جائے ، اسی نسبت سے کسی چیز کی اقسام بھی معلوم ہوتی چلی جاتی ہیں.ایک چاولوں کا تاجر جتنی چاولوں کی اقسام بیان کرے گا گھر وں میں کھانے اور پکانے والے بیان نہیں کر سکیں گے.اسی طرح گیسوں کی جس قدر اقسام ہیں اگر انہیں ہی بیان کرنا شروع کر دیا جائے تو کھانے والے سن کر حیران ہو جائیں گے.غرض چھوٹی سے چھوٹی چیز سے لے کر بڑی سے بڑی چیز تک کی یہی حالت ہے.چیونٹی کو دیکھو تو اس کی بہت سی اقسام ہوں گی.مٹی کا ذرہ لے لو تو اس کے بھی بہت سے اجزاء ہوں گے.حالانکہ عام لوگوں کے نزدیک وہ ایک ذرہ ہی

Page 500

خطبات محمود ۴۹۵ سال ۱۹۳۲ء ہو گا.اور اس سے بڑھ کر اس کی کوئی حقیقت نہ ہوگی.انسانی جسم کی بناوٹ کو ہی دیکھ لو.علم الابدان کے واقف اس کی کتنی باریکیاں بیان کرتے ہیں.ہڈیوں کی اقسام، مختلف جوڑوں کا تناسب خون میں امتیاز یہ سب باتیں وہ بیان کرتے ہیں.اور اب تو یہاں تک اس علم نے ترقی کی ہے کہ ماہرین فن جسم سے خون لے کر بتا دیتے ہیں کہ فلاں شخص کا فلاں بیٹا ہے یا نہیں.کیونکہ خون کی اقسام ہیں جن سے جسم کے اعضاء بنتے ہیں.اور ماہرین ان کو دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں کہ اس شخص میں اس قسم کا خون موجود ہے یا نہیں.چنانچہ جو منی میں پچھلے ایام میں ایک ریاست کا فیصلہ اسی علم کی رو سے ہوا.باپ کہتا کہ فلاں میرا بیٹا نہیں.آخر جب بیٹا بنے والے کا خون دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ اس کے اندر خون کی ایک ایسی قسم تھی جو اس نسل کے خون میں پیدا ہی نہیں ہو سکتی تھی جس میں سے وہ شخص تھا جسے باپ کہا جاتا تھا.گورنمنٹ نے اس فیصلہ کو قائم رکھا اور قرار دیا کہ یہ اس کا بیٹا نہیں ہے.غرض اللہ تعالٰی نے دنیا کی چیزوں میں عظیم الشان تنویع پیدا کی ہے.اور قرآن مجید میں اس کا بار بار ذکر آیا ہے.اور بتایا گیا ہے کہ ہر چیز کی مختلف اقسام ہوتی ہیں.مگر ان اقسام کے متعلق دیگر مذاہب بالکل خاموش ہیں.اور اگر ہم اسلام کی ان تشریحات کو بیان کرنا شروع کر دیں تو اسی کے ماتحت اسلام کی عظیم الشان فضیلت ظاہر ہو سکتی ہے.مگر عام لوگ اس حقیقت سے آنکھ بند کرتے ہوئے صرف دین اور دنیا کے دو لفظ اپنے سامنے رکھتے ہیں.وہ ہر چیز کو یا تو دینی کہہ دیں گے یا دنیوی.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ باوجود دینی ہونے کے ایک چیز دنیوی ہو سکتی ہے.اور ایک چیز دنیوی دائرہ کے اندر ہوتے ہوئے دینی بن جاتی ہے.مگر ایک ماہر فن اور روحانی عارف ہی ان باتوں کو سمجھ سکتا ہے.ناواقف آدمی ایسے مقامات پر دھوکا کھا جاتا ہے.بسا اوقات حد سے زیادہ ایک دینی حکم کے قشر کی طرف چلے جانا اسے دنیاوی کام بنا دیتا ہے.اور بسا اوقات اگر ایک دنیا دی کام کو دینی نظر سے دیکھیں تو وہ دین کا کام نظر آتا ہے.حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ ایک مسلمان رئیس کسی طبی مشورہ کے لئے میرے پاس آئے.میرا ایک عزیز بھی پاس بیٹھا تھا.اس رئیس کا پاجامہ ذرا نیچے ڈھل کا ہوا تھا.یا نسبتا ذر المبا تھا.بہر حال اس پاجامے سے ٹخنے چھپے ہوئے تھے.چونکہ احادیث میں آتا ہے کہ پاجامہ اس طرح نہیں ہونا چاہئے جو ٹخنوں سے نیچے ہوا جس کا مطلب صرف یہ ہے کہ عرب میں رؤساء اپنی امارت جتانے کے لئے ایسا کیا کرتے تھے.اس زمانہ میں کپڑا کم ہو تا تھا اس لئے غرباء پر اپنی بڑائی جتانے کے لئے امیر لوگ کپڑا لٹکا کر چلا کرتے تھے.اور

Page 501

خطبات محمود ۴۹۶ سال ۱۹۳۲ء چونکہ یہ کبر اور خیلاء کی علامت تھی اس لئے رسول کریم میں نے اس سے روک دیا.حضرت خلیفہ اول فرماتے میرے اس عزیز نے مسواک کی اور اس رئیس کے ٹخنوں پر مار کر کہا یہ حصہ تمہارا دوزخ میں جائے گا.اس شخص کے دل میں نہ اسلام تھا نہ اسلام کی محبت باقی تھی.صرف ایک نام اسے حاصل تھا اور امید کی جاسکتی تھی کہ کسی وقت اس نام کی وجہ سے ہی اسلام کے متعلق ورثہ کی محبت اس پر غالب آجائے اور وہ حقیقی مسلمان بن سکے.مگر جب ایک بھری مجلس میں اس کے ساتھ ایسا سلوک ہوا تو اس نے کہہ دیا کس بے وقوف نے تمہیں بتایا ہے کہ میں مسلمان ہوں.یہ نتیجہ تھا اس تقشر کا اس ظاہری چیز کی طرف مائل ہو جانے کا جسے مسواک مارنے والے نے اسلام سمجھ رکھا تھا.بظاہر اس کا یہ دینی فعل تھا مگر یہ دین کا نہ رہا بلکہ دنیا کا بن گیا.کیونکہ قشر دنیا سے تعلق رکھتا ہے دین سے تعلق رکھنے والی چیز مغز ہے.اسی طرح اگر کوئی انسان نماز میں ظاہری حرکات کی حد سے زیادہ پابندی کرتا ہے اور خلوص اور محبت الہی کو نظر انداز کر کے ہر وقت اسی فکر میں رہتا ہے کہ اس کی کمر اتنی جھکنی چاہئے.اس کے ہاتھ اور پاؤں کی انگلیاں ذرا بھی ادھر اُدھر نہ ہوں اور وہ اسی ادھیڑ بن میں اپنا وقت گزار دیتا ہے تو اس کی نماز دینی کام نہ رہا بلکہ دنیا کا کام بن گیا.ایسا شخص جب نماز پڑھ رہا ہو تو بظاہر دینی فعل کر رہا ہو گا مگر دراصل وہ اپنا تمام وقت دنیا کے کام میں صرف کر رہا ہو گا.اس کے مقابلہ میں ایک اور شخص جو بظاہر دنیا کا کام کر رہا ہو لیکن اس کے یہ نظر خدا تعالی کی رضاء ہو اس کا کام دین میں شمار ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بارہا فرمایا کرتے تھے کہ صوفیاء کا مشہور مقولہ ہے مومن کی یہ حالت ہونی چاہئے کہ "دست در کار و دل بایار - ایسا انسان بظاہر تجارت کر رہا ہوتا ہے یا صنعت و حرفت کا کام کر رہا ہوتا ہے مگر اس کا سودا کرنا بھی خدا کی محبت کو ابھارنے والا ہوتا ہے.اور اس کا تجارت کرنا بھی اللہ تعالیٰ کی رضاء کو کھینچتا ہے.سید عبد القادر صاحب جیلانی کے متعلق لکھا ہے وہ ہمیشہ نہایت فاخرہ لباس پہنا کرتے اور اچھے سے اچھا کھانا کھایا کرتے.ان پر کسی نے اعتراض کیا تو آپ نے فرمایا میں تو اس وقت تک کپڑا نہیں پنتا جب تک خدا مجھے نہیں کہتا اے عبد القادرا تجھے میری ہی ذات کی قسم فلاں قسم کا کپڑا پہن.اور میں نہیں کھاتا جب تک خدا تعالیٰ مجھے نہیں کہتا اے عبد القادرا تجھے میری ہی ذات کی قسم فلاں قسم کا کھانا کھا.اب وہی لباس اور وہی کھانا جو ایک دوسرے انسان کے لئے دنیا ہے سید عبد القادر صاحب جیلانی کے لئے دین بن گیا.کیونکہ جب خدا تعالیٰ کسی کام کے لئے کہے کہ ایسا

Page 502

خطبات محمود ۴۹۷ سال ۱۹۳۲ء کر تو وہ دین نہیں تو اور کیا ہے.اگر ایک شخص نماز اس لئے پڑھتا ہے کہ اس کے دوست کہتے ہیں کہ تو نماز پڑھا کریا یہ کہ اگر اس نے نماز نہ پڑھی تو لوگ اعتراض کریں گے کہ تو بے نماز ہے وہ تو نماز پڑھ کر دنیا کماتا ہے اور دین حاصل نہیں کرتا.اسی طرح میں نے دیکھا ہے لوگ حج کو جاتے ہیں مگر اکثر اس لئے جاتے ہیں کہ حاجی کہلائیں اور لوگ ان سے خوش ہو جائیں.ایسے لوگ بھی دین کا کام کر کے دنیا کماتے اور دین سے دور ہو جاتے ہیں.میں جب حج کو گیا تو میں نے ایک شخص دیکھا کہ وہ مٹی کو جاتے ہوئے جب خصوصیت سے اس بات کا حکم ہے کہ تسبیح و تحمید کی جائے اللہ تعالی کا ذکر ہو اور عام باتیں نہ کی جائیں نہایت ہی گندے عشقیہ اشعار پڑھتا جارہا تھا.اتفاق سے آتے وقت ہم جہاز میں اکٹھے ہو گئے.میں نے اس وقت دریافت کیا تو وہ کہنے لگا میں حج کے لئے نہیں آتا تھا.مجھے تو میرے باپ نے مجبور کر کے یہاں بھیج دیا.وجہ یہ کہ ہمارے ارد گرد جس قدر دکان دار ہیں وہ سب حاجی بن گئے ہیں اور لوگ ان سے زیادہ خرید و فروخت کرتے ہیں.میرے باپ نے مجھے بھیجا کہ میں بھی حاجی بن جاؤں تالوگ ہمارے ہاں سے مال خریدیں.اس شخص کی اخلاقی حالت یہاں تک گرمی ہوئی تھی کہ ایک نابینا شخص نے چالیس روپے اس کے پاس امانت رکھے مگر وہ کھا گیا.حالانکہ وہ مالدار تھا اور جو حالات اس نے بیان کئے ان سے معلوم ہو تا تھا کہ وہ لکھ پتی ہے.مگر باوجود اس کے وہ ایک اندھے کے چالیس روپے امانت کے کھا گیا اور اسے کچھ بھی حیا نہ آئی بلکہ اپنے آپ کو ایسا دیندار سمجھتا تھا کہ جب اسے پتہ لگا کہ میں کون ہوں اور کہاں کا رہنے والا ہوں تو ایک دن جبکہ میں تختہ جہاز پر ٹہل رہا تھا وہ مجھے دیکھ کر اونچی آواز سے کہنے لگا میں حیران ہوں ایسا شخص اس جہاز پر مل رہا ہے اور پھر بھی یہ جہاز غرق نہیں ہوتا.مجھے اس میں میں نے دل میں کہا کہ آخر یہ اس بات پر ہنسی آئی خود بھی تو اسی جہاز پر مل رہا ہے.غرض ایسا مج اگر چہ بظا ہر دین کا کام دکھائی دیتا ہے مگر یہ دین کا کام نہیں بلکہ دنیا کا ہوتا ہے.اسی طرح بعض دنیاوی کام ہوتے ہیں کہ وہ ایک وقت میں دینی ہو جاتے ہیں.مجھے یاد ہے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیمار ہوئے.آپ کو بخار اور سخت کھانسی کی تکلیف تھی.اس قدر کھانسی کہ ڈاکٹر عبدالحکیم نے یہ سن کر اعلان کر دیا کہ ان کو رسل ہو گئی ہے.اور یہ اسی مرض سے فوت ہوں گے.عبدا حکیم کا چونکہ شیطان سے تعلق تھا اور شیطان کا کام ہی ہے کہ وہ جھوٹی خبریں دیا کرتا ہے اور وہ بھی واقعہ کے بعد اس لئے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیمار ہوئے شدید کھانسی اور بخار کی تکلیف ہوئی یہ خبر سن کر عبدالحکیم نے

Page 503

خطبات محمود سال ۱۹۳۲ء اعلان کر دیا کہ ان کو سیل ہو گئی ہے.غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سخت کھانسی تھی اور چونکہ دوائی میں پلایا کرتا تھا اس لئے مجھے آپ کی حالت معلوم ہوتی رہتی تھی.ایک دن کوئی دوست آئے اور کچھ پھل بطور تحفہ لائے.حضرت مسیح موعود اس وقت لیٹے ہوئے تھے.آپ نے پوچھا کیا پھل ہے.میں نے عرض کیا کیلا ہے اور سنگترہ یا کوئی اور چیز جو اس وقت مجھے یاد نہیں رہی.لیکن وہ نزلہ پیدا کرنے والی ترش چیز تھی.آپ نے فرمایا کہ لاؤ مجھے کھانے کے لئے دو - میں چونکہ دوائی پلایا کرتا تھا اس لئے میں اپنے آپ کو ڈاکٹری کا ماہر خیال کرتا تھا.میں نے کہا آپ کو سخت کھانسی ہے اور یہ چیزیں کھانسی میں معتر ہوتی ہیں ، اس لئے آپ نہ کھائیں.مگر آپ مسکرائے اور فرمایا نہیں میں کھانا چاہتا ہوں.اگر کوئی اور موقع ہو تا تو میں نہ مانتا مگر چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد تھا اس لئے میں نے پھل پیش کر دیا اور آپ کھانے لگے.میں دل میں کڑھتا کہ اب آپ کو کھانسی کی زیادہ تکلیف ہو جائے گی.مگر آپ کھاتے جاتے اور مسکراتے جاتے.جب کھا چکے تو فرمایا مجھے ابھی کھانسی کے دور ہونے کے متعلق الہام ہوا تھا.چونکہ الہام یہ تا تا تھا کہ اب کھانسی جاتی رہی ہے اس لئے اس وقت میرا پر ہیز کرنا اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف ہو تا.اب دیکھو وہی پھل جو عام انسان کے لئے کھانا دنیا ہے اور وہی پھل جس کا نزلہ اور کھانسی کے مریض کے لئے کھانا منع ہے ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے ثواب کا موجب بن گیا اور ہمارے لئے ایمان کی ترقی کا باعث ہوا.غرض یہ ایک عام جہالت ہے جو اکثر لوگوں میں پائی جاتی ہے کہ وہ دین اور دنیا کے کاموں کی حقیقت کو نہیں سمجھتے.اور مجھے افسوس ہے کہ ہماری جماعت کے بعض لوگ بھی اس غلط فہمی میں مبتلاء ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ یہ محض الفاظ ہوتے ہیں کہ یہ کام دین کا ہے اور یہ دنیا کا.اور وہ اس امر کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ ساری دینی چیزیں ایک وقت میں دنیاوی بن جاتی ہیں اور ساری دنیادی چیزیں ایک وقت میں دینی ہو سکتی ہیں.حالات کے مطابق ان باتوں میں تغیر ہو تا رہتا ہے.اور پھر ان کی بھی آگے اقسام ہیں اور ان اقسام کی آگے اقسام ہیں.اور انہیں کے صحیح طور پر جاننے کا نام عرفان ہے.یہی چیزیں جن کو عام لوگ نہیں سمجھتے جب ایک انسان ان پر غور کرتا اور سمجھ لیتا ہے تو وہ عارف بن جاتا ہے.ابھی جب ہم ڈلہوزی سے آرہے تھے مفتی صاحب میرے ساتھ تھے.کوئی بات انہوں نے نجات کے متعلق کہی.میں نے کہا میں تو سمجھتا ہوں کہ عرفان کے ساتھ ہی نجات کا مفہوم بھی بدلتا جاتا ہے.اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر الہی صفات کے مطابق ہم حقیقی نجات کی تفصیلات کو بیان کرنا شروع کریں تو کئی اپنے آدمی بھی

Page 504

خطبات محمود ۴۹۹ سال ۱۹۳۲ء ہمیں ملحد اور کافر کہنے لگ جائیں.لیکن حقیقت یہی ہے کہ صفات الہیہ کے ماتحت ہم جو نجات کا مفہوم دیکھتے ہیں وہ بالکل مختلف ہے اس سے جو عام لوگ سمجھ رہے ہیں.عام آدمی صرف اتنا ہی دیکھتے ہیں کہ میں فلاں پارٹی میں ہوں اور دوسرا شخص فلاں پارٹی میں.پس میرا جنت حاصل کرنے کا حق ہے لیکن دوسرا دوزخ میں جائے گا.حالانکہ اگر ہم اس امر کو صفات الہیہ کے ماتحت دیکھیں تو بسا اوقات جسے کوئی دوزخ کا اہل قرار دے رہا ہو گا جنت کا وارث ہو جائے گا.اور جنت کا اپنے آپ کو حقدار سمجھنے والا دوزخ میں گر جائے گا.اور ایسا ہوتا بھی ہے.لیکن کئی نادان ایسے ہوں گے کہ اگر میں اس کی مزید تشریح کروں تو وہ کہیں گے اس میں کچھ الحاد کا رنگ پایا جاتا ہے.حالانکہ در حقیقت ان کا ایسا کہنا اس بات کا نتیجہ ہو گا کہ انہیں خدا تعالیٰ کی صفات پر نگاہ دوڑانے کا موقع نہیں ملا اور مجھے خدا تعالٰی کی مختلف صفات دیکھنے کا موقع مل گیا.پس وہ ایماندار تو کہلائیں گے لیکن ان میں اور مجھے میں وہی فرق ہو گا جو بینا اور نابینا میں ہوتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیکیوں اور بدیوں کی اتنی اقسام ہیں اور حالات کے مطابق جو ان میں تغیر ہوتا ہے وہ اتنا وسیع ہے که با اوقات جس کو ہم نیکی سمجھ رہے ہوتے ہیں بدی ہوتی ہے.اور بسا اوقات جس کو ہم بدی سمجھ رہے ہوتے ہیں نیکی ہوتی ہے.کئی بے وقوف ایسے ہیں جو اب بھی کہہ دیتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ بات کہ آپ اچھے کپڑے پہن لیتے اور اچھا کھانا کھا لیا کرتے تھے ہماری سمجھ میں نہیں آتی اور اس اعتراض کا حل بڑا مشکل ہے حالانکہ یہ محض جہالت کی بات ہے.بسا اوقات ایسا ہو تا ہے کہ ایک کے لئے جو چیز بدی ہوتی ہے دوسرے کے لئے نیکی ہو جاتی ہے.رسول کریم میم نے ایک دفعہ فرمایا فلاں کے ہاتھ میں میں کسری کے کنگن دیکھتا ہوں اور جس کے متعلق آپ نے فرمایادہ عورت نہیں بلکہ مرد تھا.اور مردوں کے لئے کنگن پہننا نا جائز ہے.مگر رسول کریم میں او لیول نے فرمایا میں نے ایسے دیکھا ہے.اس کے مقابلہ میں ایک دفعہ حضرت عمر کو رسول کریم میں نے ریشمی مجبتہ دیا.آپ اسے پہن کر مجلس میں آئے.جب رسول کریم م نے دیکھا تو آپ کا چہرہ مبارک غصہ سے سُرخ ہو گیا.اور آپ نے فرمایا یہ کیا کیا.حضرت عمر نے فرمایا یا رسول اللہ ! آپ نے ہی تو مجھے یہ ریشمی جبہ دیا تھا.آپ نے فرمایا دینے کے یہ معنے تو نہیں تھے کہ خود پہن لو.اب دیکھو وہی رسول کریم میں جو یا تو ریشم کا جبتہ پہننے پر ناراض ہوتے ہیں یہ فرماتے ہیں کہ فلاں شخص کے ہاتھ میں میں کسری کے کنگن دیکھتا ہوں.آخر ایک زمانہ آیا کہ کسری کی حکومت کو مسلمانوں کے مقابلہ میں شکست ہوئی اور کسری کے کنگن مال

Page 505

خطبات محمود سال ۱۹۳۲ء غنیمت میں آئے.اس وقت وہی عمر جو ریشم کا جبہ پہنے پر زجر کھا چکے تھے اس شخص کو بلاتے ہیں اور کہتے ہیں یہ کنگن پہن لو.وہ صحابی پروٹسٹ کرتا اور کہتا مردوں کے لئے کنگن پہنانا جائز ہے.مگر آپ کہتے میں جائز نا جائز نہیں جانتا.انہیں پہنو ورنہ میں کوڑے ماروں گا.میں نے رسول کریم سے تمہارے متعلق سنا ہے کہ آپ نے تمہارے ہاتھوں میں کسری کے کنگن دیکھے آخر کنگن پہنائے گئے.غرض وہی کنگن جو میرے اور تمہارے ہاتھ میں گناہ بن جاتے ہیں اس صحابی کے ہاتھ میں ثواب کا موجب ہو گئے.پس عارف انسان وہی ہوتا ہے جو ہر چیز کی حقیقت سمجھ کر اس کے مطابق سوچتا اور عمل کرتا ہے.اور انسان اور جانور میں یہی فرق ہے کہ انسان موقع اور محل دیکھ کر کام کرتا ہے.مگر جانور کے لئے ایک راستہ مقرر ہے جس پر وہ بلا سوچے سمجھے چلا جاتا ہے.ه.میں نے پچھلے دنوں جب کشمیر کا کام شروع کیا تو کئی اپنی جماعت کے لوگ مجھے کہتے کہ یہ دنیا کا کام ہے اس میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے.حالانکہ ان لوگوں کی بینائی ہوتی تو وہ سمجھتے کہ یہ دنیا کا کام نہیں بلک دین کا کام ہے.اسی طرح کئی اور ایسے کام ہیں جو دنیا کے نظر آتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ وہ دین کے ہیں اور جب میں ان میں دخل دوں تو بعضوں کو ٹھوکر لگ جاتی ہے.مگر میں ایسے موقعوں پر ان کی ٹھوکر کی پرواہ نہیں کیا کرتا کیونکہ ہم کسی کے اعتراض کرنے سے سچائی کو نہیں چھوڑ سکتے.اگر چہ اس وقت میرے ذہن میں کئی ضروری باتیں ہیں مگر میں دوستوں کو ایک خاص بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی بہت توجہ دلائی ہے.مگر کئی دوست ایسے ہیں کہ وہ اسے بھی دنیا کا کام خیال کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس امر پر بہت ہی زور دیا ہے اور اتنازو ر دیا ہے کہ اس پر عمل کرنا دین کی باتوں پر عمل کرنے کے مترادف ہو گیا ہے کہ ملک سے فتنہ وفساد کی روح کو مٹانا اور امن شکن تحریکات کا مقابلہ کرنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فخریہ لکھا ہے کہ میری کوئی کتاب ایسی نہیں جس میں میں نے گورنمنٹ کی تائید نہ کی ہو.مگر مجھے افسوس ہے کہ میں نے غیروں سے نہیں بلکہ احمدیوں کو یہ کہتے سنا ہے میں انہیں احمدی ہی کہوں گا کیونکہ نابینا بھی آخر انسان ہی کہلاتا ہے کہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایسی تحریر میں پڑھ کر شرم آجاتی ہے.انہیں شرم کیوں آتی ہے اس لئے کہ ان کی اندر کی آنکھ نہیں کھلی.اگر ان کی اندرونی آنکھ کھلی ہوتی تو وہ سوچتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس تائید کے

Page 506

خطبات محمود ۵۰۱ سال ۱۹۳۲ء بدلہ میں انگریزوں سے کیا حاصل کیا.دنیا میں جو شخص کوئی تعلیم دیتا یا کسی کی تائید کرتا ہے تو وہ عموماً کسی فائدے کے لئے ہی کرتا ہے یا کوئی بات اس لئے بری یا شرم والی کہلا سکتی ہے کہ اس میں ہمارا ذاتی فائدہ ہو.مگر کیا کوئی ثابت کر سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کبھی اس کے بدلہ میں گورنمنٹ سے کوئی ذاتی فائدہ حاصل کیا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بجائے کوئی فائدہ اٹھانے کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی تمام زندگی میں گورنمنٹ سے تکلیفیں اٹھاتے رہے.کبھی مقدمات آپ پر دائر ر ہے ، کبھی مکانات کی تلاشیاں ہو ئیں ، کبھی پولیس والے آموجود ہوتے ، کبھی کوئی شاخسانہ کھڑا کر دیا جاتا اور کبھی کوئی اور اس طرح ساری عمر حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام انگریزی حکومت سے تکلیف اٹھاتے رہے.مگر باوجود اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کبھی کوئی فائدہ نہ پہنچا اور باوجود اس کے کہ ہمیشہ آپ کو تکلیفیں دی جاتی رہیں، آپ ہمیشہ ملک میں فساد کو روکنے اور امن شکن تحریکات کو کچلنے کی تعلیم دیتے رہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے قریب جاکر انگریزوں میں ایک شخص پیدا ہوا اور وہ پہلا شخص تھا جس نے انگریزوں میں سے محسوس کیا کہ احمد یہ جماعت پر اس کی عظیم الشان خدمات کے باوجود بے انتہاء ظلم کیا گیا.لیکن اللہ تعالی کی حکمت ہے کہ اسے بھی زیادہ دیر زندہ رہنا نصیب نہ ہوا.وہ سابق گورنر پنجاب سرڈ ینزل ایبٹسن تھے.ان سے پہلے ہر احمدی کو باغی سمجھا جاتا رہا اور خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ لوگ حکومت کا باغی سمجھتے رہے.گو ظاہر میں ایسا نہیں کہتے تھے مگر حقیقت یہ ہے کہ انگریز پہلے یہی خیال کرتے تھے کہ احمدیہ جماعت باغیوں کا گر وہ ہے اور یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ظاہر میں گورنمنٹ برطانیہ سے وفاداری کا اظہار کرتے ہیں مگر در پر وہ حکومت کے خلاف ہیں.سرڈ ینزل ایبٹسن جب گور نہ ہوئے تو انہوں نے کہا افسوس ہے کہ وہ جماعت جو سب سے زیادہ گورنمنٹ کی وفادار تھی اس پر سب سے زیادہ ظلم کیا گیا.اور چونکہ وہ بیماری میں ہی گور نہ ہوئے تھے اس لئے کہنے لگے اگر خدا نے مجھے زندگی دی تو میں اس ظلم کے ازالہ کی کوشش کروں گا.لیکن وہ اس بیماری سے جان بر نہ ہو سکے اور جلد ہی فوت ہو گئے.اس لحاظ سے کہ انہوں نے ان مظالم کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ہوئے محسوس کیا ہمارے دل میں ان کی عزت بہت سے گورنروں وائسراؤں بلکہ کئی بادشاہوں سے بھی زیادہ ہے اور ہم ان کا بہت زیادہ ادب اور احترام کرتے ہیں.پس اگر چہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو گورنمنٹ سے ذرہ بھر بھی فائدہ نہ ہوا پھر

Page 507

خطبات ۵۰۲ سال ۲ بھی آپ نے گورنمنٹ کی تائید کی اور اپنی ہر کتاب میں اس کا ذکر کیا.اس میں شبہ نہیں حالات کے بدلنے سے بعض تبدیلیاں بھی ہو جاتی ہیں اور میں اس امر کا قائل ہوں.مگر دنیا میں کبھی اصول نہیں بدلا کرتے.جب ملک میں فتنہ و فساد برپا ہو جب لوٹ مار اور قتل کے واقعات ہو رہے ہوں اور جب بے گناہوں پر بلاوجہ گولیاں چلائی جاتی اور دہشت انگیزی کے حادثات رونما ہوتے ہوں ، اس وقت ہر مومن کا کام ہے کہ وہ اس فتنہ کی سرکوبی کے لئے کھڑا ہو اور وہ اس وقت تک چین نہ لے جب تک ایسی امن شکن تحریکات کا کلی طور پر سد باب نہ ہو جائے.گزشتہ سالوں میں جب کانگرس زوروں پر تھی اس وقت میں نے اپنی جماعت کے دوستوں سے کہا تھا کہ وہ اس تحریک کا مقابلہ کریں اور یہ میں نے اسی لئے کہا تھا کہ میرے نزدیک ملک کا امن نہایت ضروری چیز ہے اور فتنہ و فساد کو مٹانا مومنوں کا فرض ہے.اسی طرح جب میں نے بعض سیاسی معاملات میں دخل دینا شروع کیا تو اس لئے نہیں کہ وہ سیاسی تھے بلکہ اس لئے کہ میں انہیں دین کا جزو سمجھتا تھا.میں نے دیکھا جب میں نے سیاسیات میں حصہ لینا شروع کیا تو جماعت کے کئی دوست بھی اس پر معترض ہوئے اور بعض دوسرے لوگ خیال کرتے تھے کہ مجھے سیاسیات سے واقفیت ہی کیا ہو سکتی ہے.مجھے یاد ہے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے ایک دوست کے متعلق سنایا.وہ اب تو احمدی ہو چکے ہیں لیکن اس وقت غیر احمدی تھے.انہوں نے جب دیکھا کہ میں نے بھی سیاسیات میں حصہ لینا شروع کر دیا ہے تو کہنے لگے میں نہیں سمجھ سکتا ریل سے بارہ میل کے فاصلے پر رہنے والا ایک شخص سیاسیات سے واقف ہی کس طرح ہو سکتا ہے (اس وقت قادیان میں ریل نہ آئی تھی.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے آہستہ آہستہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ اپنے تو علیحدہ رہے غیر بھی اس امر کو محسوس کر رہے ہیں کہ میں سیاست سمجھتا ہوں.اور یہ اس لئے کہ میں سیاست کو دینی نقطہ نگاہ سے دیکھتا ہوں.چونکہ اسلام کے اصول نہایت پکے ہیں اس لئے جب میں اسلام کے اصول کے ماتحت کسی علم کو دیکھتا ہوں تو اس کا سمجھنا میرے لئے نہایت آسان ہو جاتا ہے.کوئی علم ہو خواہ وہ فلسفہ ہو یا علم النفس ہو یا سیاست ہو میں اس پر جب بھی غور کروں گا ہمیشہ صحیح نتیجہ پر پہنچوں گا.یہی وجہ ہے کہ دنیا کا کوئی علم ایسا نہیں جس کے اصول کو میں نہ سمجھتا ہوں.بغیر اس کے کہ میں نے ان علوم کی کتابیں پڑھی ہوں مجھے خدا تعالٰی نے ان کے متعلق علم دیا ہے اور چونکہ میں قرآن کے ما تحت ان علوم کو دیکھتا ہوں اس لئے ہمیشہ صحیح نتیجہ پر پہنچتا ہوں اور کبھی ایک دفعہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے اپنی رائے کو تبدیل

Page 508

خطبات محمود ۵۰۳ سال ۱۹۳۲ء نہیں کرنا پڑا.بسا اوقات ایسا ہوا ہے کہ ان علوم کو جانے والوں سے میری گفتگو ہوئی اور گفتگو کے بعد انہوں نے کہا کہ آپ کا مطالعہ اس علم میں نہایت وسیع معلوم ہوتا ہے.حالانکہ میں نے اس علم کے متعلق ایک کتاب بھی نہیں پڑھی تھی.غرض میں نے قرآن مجید کے ماتحت ہر علم کو دیکھا اور اس کی وجہ سے اب مجھے قرآن مجید سے باہر کسی چیز کی ضرورت نہیں.سوائے ان تفاسیر کے جو آنحضرت مالم یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیں.اور وہ بھی قرآن کا ایک حصہ ہی ہیں اس سے باہر نہیں.اگر چہ پھر بھی کئی باتیں ایسی ہیں جو ابھی تک میری سمجھ میں نہیں آئیں جن کا مجھ سے زیادہ عرفان تھا انہیں ان کا علم تھا.مجھے یاد ہے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا طب کے تمام اصول قرآن مجید میں بیان کئے گئے ہیں اور دنیا کی تمام امراض کا علاج قرآن مجید میں موجود ہے.ہو سکتا ہے مجھے اس طرح قرآن مجید پر غور کرنے کا موقع ہی نہ ملا ہو اور ممکن ہے میرا عرفان ابھی تک اس حد تک نہ پہنچا ہو.مگر بہر حال اپنا عرفان اور اپنے بڑوں کا تجربہ ملا کر میں کہہ سکتا ہوں کہ قرآن مجید سے باہر ہمیں کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے.غرض میں نے سیاسی امور میں جب بھی دخل دیا ہے قرآن مجید کے ماتحت دیا ہے.اس لئے مجھے کبھی بھی اپنی رائے بدلنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی.بسا اوقات ایسا تاریک وقت آیا کہ لوگوں نے کہا اب نہایت نازک گھڑی ہے اور بسا اوقات مجھے دوستوں نے کہا کہ اب آپ کو اپنی رائے بدل لینی چاہئے مگر معاخد اتعالیٰ ایسے سامان پیدا کر تا رہا کہ مجھے اپنی رائے میں تبدیلی کی ضرورت محسوس نہ ہوئی.ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے میں نے خطبہ جمعہ میں ذکر کیا تھا کہ مجھے کشمیر کے معاملات میں اللہ تعالیٰ کا ہاتھ کام کرتا دکھائی دے رہا ہے.جب میں نے یہ خطبہ پڑھا تو اس کے تیسرے ہی دن کشمیر میں خطرناک فساد برپا ہو گیا.اور یوں معلوم ہو تا تھا گویا ہماری تمام تدبیروں کا خاتمہ ہو رہا ہے.اور جتنا کام اب تک کیا گیا ہے وہ سب خراب ہو جائے گا.لیکن میں سمجھتا تھا اس میں بھی اللہ تعالیٰ کا ہاتھ کام کر رہا ہے.چنانچہ ایک مہینہ تک سخت تاریک حالات رہنے کے بعد معاً حالات بدل گئے اور یوں حالت ہو گئی کہ گویا فساد ہوا ہی نہیں تھا.کشمیر میں جس وقت حالات خراب ہوئے میں نے اسی وقت دوستوں سے کہہ دیا تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہے ، میرے لئے بھی اور دوستوں کے لئے بھی.میرے لئے ان معنوں میں کہ آیا میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں یا نہیں کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو رہا ہے اور دوستوں کے لئے اس لحاظ سے کہ ان کی ایمانی کیفیت کا اظہار ہو جائے.

Page 509

خطبات محمود ۵۰۴ سال ۱۹۳۲ء غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی ساری عمرا من شکن تحریکات کے سدباب کی کوشش فرماتے رہے اور ہمیشہ ملکی امن کو ضروری قرار دیتے رہے.میں نے بھی دوستوں کو ہمیشہ کانگرس کی تحریکات کے متعلق یا جو بھی فساد کی تحریکیں ہوں یہ نصیحت کی ہے کہ ان سے بچیں اور نہ صرف ہمارے دوستوں کو ان تحریکات میں مبتلاء ہونے سے بچنا چاہئے بلکہ ان کا پورے استقلال کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہئے.میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت کے دوستوں میں یہ نقص ہے کہ وہ بات کو جلدی سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے.ابھی مجھے یہ مضمون سمجھانے کے لئے اتنی لمبی تمہید بیان کرنی پڑی ہے.جو میرے اصل مضمون سے بھی زیادہ ہوگی اور میں دیکھتا ہوں کہ ابھی ہمارے دوستوں کو اس امر سے واقفیت نہیں کہ دین و دنیا کا میدان مخلوط ہے.ایک ہی وقت میں ایک چیز جو ساری کی ساری دنیا ہوتی ہے دوسرے وقت میں ساری کی ساری دین ہو جاتی ہے.مگر پھر بھی کئی دوست ایسے ہیں جو اس لئے ان امور میں دلچسپی نہیں لیتے کہ وہ خیال کرتے ہیں یہ دنیوی کام ہیں ان کا دین سے کوئی تعلق نہیں.وہ اپنے آپ کو اور لوگوں سے کچھ کچھ بالا سمجھتے ہیں.ان کی مثال بالکل اُن نمبرداروں کی سی ہوتی ہے جن کا ذکر حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے.مجھے کا یہ لطیفہ ہمیشہ یاد آتا ہے.آپ جب کبھی زیادہ بیمار ہوتے تو فرماتے دوست تشریف لے جائیں.اس پر ایک تہائی لوگ چلے جاتے اور باقی بیٹھے رہتے.تھوڑی دیر کے بعد آپ پھر فرماتے دوست تشریف لے جائیں اس پر ایک تہائی اور چلے جاتے.جب آپ دیکھتے اب بھی بعض لوگ بیٹھے ہیں تو پھر آپ فرماتے اب نمبردار بھی چلے جائیں.مطلب یہ کہ ایسے لوگ جو سمجھتے ہیں کہ ہم مخاطب نہیں وہ گویا اپنے آپ کو نمبردار قرار دیتے ہیں.مجھے اس نظارہ کے دیکھنے کا اس طرح موقع مل جاتا کہ جب آپ فرماتے دوست اٹھ کر چلے جائیں اور میں بھی اٹھتا تو آپ فرماتے آپ بیٹھے رہیں میرا مطلب آپ سے نہیں.اس لئے مجھے کئی دفعہ آپ سے یہ فقرہ سننے کا موقع مل گیا.تو بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ ہر خطبہ ہر لیکچر اور ہر وعظ کے متعلق خیال کرتے ہیں کہ ہم نمبرداروں کے لئے نہیں.حالانکہ خطبہ سب کے لئے ہوتا ہے.پس ہر ایک کو یہ سمجھنا چاہئے کہ میں ہی اس کا اصل مخاطب ہوں.میں دیکھتا ہوں ہمارے ملک کا امن ایک لمبے عرصہ سے اس طرح برباد ہو رہا ہے کہ میں جب بھی اس پر غور کرتا ہوں مجھے اپنے ملک کا نہایت ہی تاریک مستقبل نظر آتا ہے.ایک طرف میں کانگرس کو دیکھتا ہوں کہ اس کے اصول اتنے خطرناک اور فساد پیدا کرنے والے ہیں کہ اگر ہم انہیں مان لیں تو بجائے دنیا میں امن قائم ہونے کے فتنہ و فساد پھیل جائے.

Page 510

خطبات محمود ۵۰۵ سال ۱۹۳۲ء دوسری طرف میں ان لوگوں کو دیکھتا ہوں جو گورنمنٹ کے خیر خواہ کہلاتے ہیں کہ وہ حد درجہ کے لالچی دنیا دار خود غرض اور قوم فروش ہیں.اِلَّا مَا شَاءَ اللہ میں کسی قوم کے تمام افراد کو ایسا نہیں سمجھتا.اس کے مقابلہ میں میں کانگرس کے ایک طبقہ کو دیکھتا ہوں کہ اس میں ایثار ، قربانی اور سچا اخلاص پایا جاتا ہے.بے شک کانگرسیوں کے اصول سے مجھے اختلاف ہے لیکن اگر میرے سامنے ذاتی دوستی کا سوال ہو تو میں ایک کانگرسی کو گورنمنٹ کے خوشامدی پر ترجیح دوں گا.کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ یہ گورنمنٹ کے خیر خواہ کہلانے والے حد درجہ کے خود غرض لالچی اور نفس پرست واقع ہوئے ہیں.اس کے مقابلہ میں مجھے جن کا نگر سیوں سے ملنے کا موقع ملا ہے میں نے دیکھا ہے کہ ہندوؤں میں زیادہ اور مسلمانوں میں بہت کم ایسے لوگ ہیں جو یقینا خیر خواہی اور بچے دل سے اپنے ملک کے لئے خدمات سر انجام دے رہے ہیں.اور گودہ غلط اصول پر قائم ہیں مگر ان کے دل میں ملکی ہمدردی موجزن ہے.مگر صحیح اصول پر چلنے والے اتنے نفس پرست واقع ہوئے ہیں کہ اگر انہیں ذاتی فوائد کے لئے اپنے ہاتھوں سے ملک کو بھی دینا پڑے تو یہ ملک کو بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کریں گے.بڑا معیار ترقی کا ان کے نزدیک یہ ہے کہ خان بہادر بن جائیں یا خان صاحب کا خطاب حاصل ہو جائے اور اگر اس میں انہیں کامیابی حاصل ہو جائے تو یوں ان کی توند پھولنا شروع ہو جائے گی کہ گویا ساری چربی ان کے پیٹ میں آگئی ہے.محض دعاء محض جھوٹ ، محض فریب اور محض خود غرضی سے گورنمنٹ میں جھوٹی رپورٹیں لکھواتے ہیں اور اسی طرح اپنی قوم اور اپنے ملک کو فروخت کرنے کے مجرم بنتے ہیں.میں سمجھتا ہوں اگر کانگریس کی اب تک اصلاح نہیں ہوئی تو اس میں بہت کچھ دخل ان خود پرست لوگوں کا بھی ہے جو محض اپنی ذاتی عزت کے حصول کے لئے قوم اور ملک کو برباد کرنے کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں.اور عزت بھی کیسی صرف نام کی بھلا کسی کو سر کا خطاب مل جانے سے کون سی بڑائی حاصل ہو جاتی ہے.حقیقتاً کچھ بھی نہیں ملتا.مگر نہ ملنے کے باوجود وہ ایسے خطابات کے حصول کے لئے ملک بیچنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.پچھلی ہی دفعہ جب میں شملہ گیا تو مجھے ایک سرکے متعلق بتایا گیا کہ اسے سر کا خطاب کس طرح ما - ایک مسودہ قانون تھا جس کے متعلق گورنمنٹ چاہتی تھی کہ پاس ہو جائے مگر ممبروں میں سے اکثر اس کے مخالف تھے.گورنمنٹ نے اپنے ساتھ ممبر ملانے کی بہت کوشش کی مگر دو ممبر پھر بھی زیادہ رہے.ایک شخص نے گورنمنٹ سے کہا کہ میں اس میں مدد دیتا ہوں.ایک تو اس کا اپنا ہی

Page 511

خطبات محمود 0.4 سال ۱۹۳۲ء عزیز تھا اس پر زور دیا اور اس نے ووٹ گورنمنٹ کو دے دیا.صرف ایک ممبر رہ گیا.جس دن یہ مسودہ پیش ہونا تھا اس دن چالاکی سے اس نے اس ممبر سے کہا کہ آپ ہماری موٹر پر ہی وہاں تشریف لے جائیں.وہ سوار ہو گئے.اس نے اپنے موٹر ڈرائیور کو سکھلا دیا تھا کہ نئی اور پرانی دہلی کے درمیان موٹر کو اس طرح خراب کر دینا کہ موٹر بالکل چل نہ سکے.چنانچہ موٹر ڈرائیور نے ایسا ہی کیا.موٹر کا ایک پرزہ تو ڑ دیا.اور پھر وہاں گھنٹہ بھر درست کرنے کے بہانے سے ٹھرا رہا.وہ ممبر بہتیرا شور مچاتا اور برا بھلا کہتا رہا مگر اس نے اس طرح اسے روکے رکھا یہاں تک کہ وقت گزر گیا.نتیجہ یہ ہوا کہ اس ممبر کی غیر حاضری کی وجہ سے حکومت جیت گئی.اب حکومت کو کیا پتہ ہے کہ کس طرح کوشش کی گئی.اسے اس صلہ میں کہ مسودہ پاس کرانے میں اس شخص نے گورنمنٹ کی مدد کی تھی اسے سر کا خطاب دیدیا.ایسی باتوں کو سن کر کون شخص برداشت کر سکتا ہے کہ وہ ایسے نفس پرست لوگوں میں شامل ہو.پس میں سمجھتا ہوں کہ گورنمنٹ کے طرفداروں میں ایسے لوگ ہیں جو حد درجہ کے لالچی اور خود غرض ہیں اور پھر وہ سکتے ہیں.ان کا کام سوائے اس کے کچھ نہیں کہ گھر بیٹھ کر ریزولیوشنر پاس کر دیں.اس کے مقابلہ میں کانگرسی نہایت نمایاں کام کر رہے ہیں.اور کانگرسیوں پر ہی منحصر نہیں ایک وقت میں خلافتیوں نے بھی اپنے رنگ میں بڑے ایشیار سے کام کیا ہے.پس کانگرسی اگر چہ ایثار سے کام لے رہے ہیں اور ملک کی محبت کی وجہ سے کام کر رہے ہیں لیکن ان کے اصول نہایت خطرناک ہیں اور اگر ان اصولوں کو دنیا میں رائج کیا جائے تو کبھی امن قائم نہ ہو سکے.غرض یہ دو جہنم ہیں جن میں ہمارا ملک پھنسا ہوا ہے.ایک طرف تو وہ خود پسند خود غرض اور نفس پرست لوگ ہیں کہ اگر انہیں ذاتی اقتدار حاصل ہو جائے تو یہی ان کی زندگی کا منتہی ہوتا ہے.پھر چاہے ملک جہنم میں جائے اس کی انہیں پرواہ نہیں رہتی.اور دوسری طرف کانگرس کی تحریک ہے.گو کانگرسی ایثار سے کام لے رہے ہیں مگر ان کے اصول ایسے ہیں کہ اگر ان کو مان لیا جائے تو بھی ملک جہنم کا نمونہ بن جائے.پس یہ دو جہنمیں ہیں جن میں اس وقت ہمارا ملک مبتلاء ہے.ہمارا فرض ہے کہ ہم ان دونوں کا مقابلہ کریں.ایک طرف ہمارے اندر ایسا ایثار قربانی اور ملکی محبت کا مادہ ہونا چاہئے جو کانگر سیوں سے بھی بڑھ کر ہو.اور دوسری طرف ہمارے اصول وفاداری ایسے پختہ بنیادوں پر قائم ہوں کہ وہ ہر قسم کے خوشامدی لوگوں کے اصول سے بلند تر ہوں.ہمیں گورنمنٹ کے ان خوشامدیوں سے شدید نفرت ہونی چاہئے.اور ہمیں کانگرس کے اصول سے بھی شدید نفرت ہونی چاہئے.ہمارا معیار اس قدر بلند 1

Page 512

3 خطبات محمود ۵۰۷ سال ۱۹۳۲ تو ہونا چاہئے کہ ہم کسی خدمت کے بدلہ میں کسی معاوضہ کے طلب گار نہ ہوں.اور اپنے ملک کو بد امنی سے بچانے کے لئے کانگرسیوں سے بڑھ کر ایثار اور قربانی سے کام کریں.مجھے تعجب آتا ہے ابھی تک ہماری جماعت میں یہ بلندی پیدا نہیں ہوئی.کئی لوگ ہیں جو لکھ دیتے ہیں فلاں موقع پر میں نے گورنمنٹ کا فلاں کام کیا تھا.اب مجھے ضرورت ہے ، میرا فلاں کام کرا دیا جائے.مجھے اس وقت یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس نے گویا میرے مونہہ پر چپیڑ ماردی.میں حیران ہو تا ہوں کہ سوائے کسی ذاتی فائدہ کی تمنا کے ہم کیوں کام نہیں کر سکتے.کشمیر کی تحریک میں ہی پندرہ ہیں غیر احمدیوں کی طرف سے خط آچکے ہیں کہ اب کشمیر کا کام ہو چکا ہے ہمارے لئے ملازمت کے حصول کی کوشش کریں.یہ نہایت ہی افسوسناک بات ہے اور یہی ہندوستانیوں میں نقص ہے کہ اول تو وہ کام نہیں کرتے اور جب کرتے ہیں تو معا خیال آجاتا ہے کہ ہمیں کچھ اس کے بدلہ میں ملنا چاہئے.حالانکہ میرے نزدیک اگر ہم کوئی کام اس لئے کرتے ہیں کہ ہمیں اس کے بدلے میں کچھ ملے گا تو اس کام کے کرنے سے ڈوب مرنا بہتر ہے.پس ہمارا مقصد بلند ہونا چاہئے اور ہمارا کام یہ ہونا چاہئے کہ ایک طرف تو کانگرس کے امن شکن اصولوں کا مقابلہ کریں اور دوسری طرف گورنمنٹ کے خوشامدیوں سے شدید نفرت رکھیں.آج کل بم بازی اور قتل و غارت کے اکثر واقعات ہو رہے ہیں اور بلا وجہ لوگوں کا خون بہایا جاتا ہے.حالانکہ یہ اتنی عجیب بات ہے کہ میں بعض دفعہ حیران ہو جاتا ہوں اور سوچا کرتا ہوں کہ ایک انسان دوسرے انسان کو کس طرح قتل کر سکتا ہے.بسا اوقات کئی کئی منٹ میں نے اس امر پر غور کیا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو کس طرح قتل کر سکتا ہے.اور اگر دنیا میں انسانوں کے قتل کے واقعات نہ ہوتے تو یقینا میں ان لوگوں میں سے ہوتا جو یہ کہتے کہ ایک انسان کا دو سربے انسان کو قتل کرنا نا ممکنات میں سے ہے.جس طرح ایک اور ایک کا پچیس مانا نا ممکن ہو تا ہے اسی طرح میں اس امر کو باور نہ کر سکتا.کیونکہ از مانی جان کوئی معمولی چیز نہیں.اگر ان الفاظ کو دیکھا جائے جو قرآن مجید نے استعمال فرمائے ہیں تو ان کے ماتحت انسان اللہ تعالیٰ کے ظہور کے لئے بنایا گیا ہے.پس اس صورت میں ایک انسان کو مارنے کے کیا معنی ہوئے.یہی کہ خدائی صفات کے ظہور کو مٹادیا جائے.تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ جس شخص کو تم نے مارا وہ ڈاکو یا بد معاش تھا.کیونکہ ہم ہزاروں ڈاکوؤں اور بد معاشوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ بعد میں نیک ہو جاتے ہیں.پس ایک انسان دوسرے انسان کو قتل کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتا.ہاں اگر عالم الغیب ہستی کا حکم ہو تو وہ دوسری

Page 513

محمود ۵۰۸ سال ۱۹۳۲ء بات ہے.کیونکہ وہ کسی شخص کی زندگی اور موت کے فوائد بہت زیادہ ہو نا ہے.پس میں نے تو اس امر پر بارہا غور کیا ہے مگر میری سمجھ میں کبھی نہیں آیا کہ ایک انسان دوسرے انسان کو کس طرح مار سکتا ہے.اور اگر فی الواقعہ دنیا میں قتل کے واقعات نہ ہوتے تو میں یہی سمجھتا کہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ایک انسان دوسرے انسان کو قتل کر سکتا ہے.لیکن اس فعل کی برائی اور بھی زیادہ گھناؤنی ہو جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص ہزاروں میل سے آیا ہو وہ ایک ملک کی خدمت کے لئے اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں سے جدا ہو کر آیا ہو اور پھر اسے اچانک ہلاک کر دیا جائے.حکام کو قتل کرنے والوں کی طرف سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انگریز انصاف نہیں کرتے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ انصاف کرنے کی کوشش کرتے غریبوں کی خبر گیری کرتے اور قحط کے ایام میں ہر طرح کی آسائش بہم پہنچانے کا انتظام کرتے ہیں.مگر باوجود اس کے ایک عورت یا مرد اٹھتا ہے اور وہ گولی سے حاکم کو مار دیتا ہے.اس قسم کا قتل میری سمجھ میں کبھی آیا ہی نہیں اور اگر میری قلبی کیفیات کا اندازہ لگایا جائے تو میرے نزدیک تو ایسا فعل شیطان سے سرزد ہونا بھی مشکل ہے.مگر نہ معلوم وہ لوگ شیطان سے بھی بڑے ہو گئے یا ان کو کیا ہو گیا کہ انہیں اس قسم کے افعال پر دلیری ہوتی چلی جارہی ہے.پھر ان جرائم کیوجہ سے نتیجہ بھی خراب ہی نکلتا ہے.تم کسی کو ایک جرم کی اجازت دے دو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اس کے جرلم بڑھتے ہی چلے جائیں گے.ایک شاعر نے کیا ہی اچھا کہا ہے کہ گوشت کی لذت گوشت کھا کر تم نہیں بھول سکتے بلکہ گوشت ترک کر کے بھول سکتے ہو.میں یہ نہیں کہتا کہ سارے کانگرس والے ایسا کرتے ہیں مگر میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ کانگرس والوں اور ان لوگوں میں واسطہ ضرور ہے جو اس قسم کے افعال کرتے ہیں.اور جہاں میں نے یہ کہا ہے کہ میں جن کا نگر سیوں سے ملا انہیں ملک کے لئے قربانی کرنے والا دیکھا وہاں میں اس قدر ایزاد کرنا چاہتا ہوں کہ گورنمنٹ کے معاملہ میں میں نے ان کو نہایت سنگدل پایا.اور میں نے دیکھا کہ انگریزوں کے مارے جانے سے وہ نہایت ہی خوش ہوتے ہیں اور خصوصا دشمن کے مرنے پر.اور اس کے لئے وہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ لڑائی میں دشمن کو مارنا کونسا جرم ہے حالانکہ لڑائی میں تو ہم دشمن کو بھی موقع دیتے ہیں کہ وہ ہمیں مارے.مگر یہاں تو تاریکی اور بے خبری کے عالم میں دوسرے پر حملہ کیا جاتا ہے.پس یہ نہایت ہی افسوسناک طرز عمل ہے.پھر میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ بد قسمتی سے گورنمنٹ کو یہ خیال لاحق ہو گیا ہے کہ اس نے کانگرس کی تحریک کو دبادیا ہے.مجھے تعجب آتا ہے کہ ایسی منظم اور دانا گورنمنٹ کو یہ خیال

Page 514

خطبات محمود ۵۰۹ سال ۱۹۳۲ء کیونکر ہو گیا.جبکہ حقیقت ہے کہ نہ صرف کانگرس کی تحریک کمزور نہیں ہوئی بلکہ وہ پہلے سے مضبوط ہو گئی ہے.کسی جماعت کی مضبوطی اس کی تنظیم پر منحصر ہوتی ہے اور کانگرس کی تنظیم اب پہلے سے بہت زیادہ ہے.پہلے اگر صرف شہری لوگ منتظم تھے تو اب اندر ہی اندر دیہاتیوں کو بھی منظم کر رہے ہیں اور اگر آج نہیں تو کل گورنمنٹ کو محسوس ہو گا کہ کانگرس دبی نہیں بلکہ اور زیادہ قوت پکڑ گئی ہے.پس یہ تیسرا خطرہ اور فتنہ ہے جو اس وقت ہمارے سامنے ہے.ایک تو کانگرسیوں کا گر وہ ہے جو ایثار اور قربانی کا مادہ رکھنے کے باوجو د غلط راستے پر گامزن ہے.دوسری خوشامدیوں کی جماعت ہے جو صحیح راستہ پر ہونے کے باوجود ملک سے غداری کر رہی ہے.اور ایک خطرہ اس گورنمنٹ کی طرف سے ہے جسے خدا نے امن کا ذمہ دار قرار دیا ہے کہ وہ خیال کرتی ہے مانے اپنے آرڈی ننسوں کے زور سے اس تحریک کو کچل دیا اور اس بڑھتے ہوئے فتنے کو دبا دیا ہے.حالانکہ چور کے لئے اگر ایک کھڑکی بند کر دی گئی تھی تو اب وہ دوسری کھڑکی کی راہ سے اندر داخل ہو گیا ہے.حکومت نے کانگرس کے لئے ایک دروازے کو بند کر دیا اور خیال کر لیا کہ اب کانگریس اندر داخل نہیں ہو سکتی حالانکہ دوسرے دروازے کھلے ہیں اور وہ ان کے ذریعہ اندر داخل ہو رہی ہے.میں نے دیکھا ہے ہر سال گورنمنٹ کے کچھ افسر کانگرسی ہو جاتے ہیں.چنانچہ آج کل افسروں کا اکثر حصہ ایسا ہے جو کا نگری ہے.اور وہ اپنے عہدوں اور رسوخ کے زور سے کانگرس کی مدد کر رہے ہیں.مجسٹریٹ ، پولیس والے دفاتر کے کارکن غرض ہر محکمہ میں کانگرس کے حامی موجود ہیں.اور اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ گورنمنٹ کا کوئی راز ایسا نہیں ہو تا جو گانگرسیوں کو معلوم نہ ہو.وارنٹ گرفتاری نکلتے ہیں تو ان کی تعمیل ہونے سے قبل ہی اطلاع ہو جاتی ہے کہ فلاں شخص کی گرفتاری کے لئے حکم نکل رہا ہے.مجھے ایک شخص نے سنایا کہ جب پولیس والے اپنے زعم میں بے خبری کے عالم میں وارنٹ لے کر آرہے ہوتے ہیں تو ہم پہلے ہی ہار پہنا کر اس شخص کو بٹھا رکھتے ہیں جس کی گرفتاری کا وارنٹ ہوتا ہے تاکہ بتادیں کہ میں پہلے سے گرفتاری کا علم تھا.ان حالات میں ہماری جماعت کی ذمہ داریاں بہت ہی بڑھ جاتی ہیں.میں نصیحت کرتا ہوں کہ جس جس صوبہ میں اس قسم کے واقعات ہوں ان کا مقابلہ کیا جائے یعنی اس فتنہ انگیزی کی روح کا مقابلہ کیا جائے.ورنہ ہمیں کسی کی ذات سے کوئی رنجش نہیں ہونی چاہئے.میں نے کہا ہے کا نگری ملک کے لئے خدمات سرانجام

Page 515

خطبات ۵۱۰ سال ۱۹۳۲ دے رہے ہیں اور ان میں بہت سے مخلص کارکن نہیں.جب میں شملہ گر تو مجھے کانگرس کے ایک پریذیڈنٹ سے جن کا نام مجھے یاد نہیں رہا ملنے کا موقع ملا.میں نے دیکھا کہ وہ نہایت خاموش طبیعت کے اور بچے آدمی ہیں.ان سے لوگ ہنسی مذاق بھی کرتے مگر انہیں پتہ ہی نہ ہو تاکہ لوگ کیا کہتے ہیں.ایسے انسان سے مل کر کام کرنا یا اس سے ذاتی دوستی پیدا کرنا نہایت ہی پر لطف بات ہے.پس میں اگر کانگرسیوں کے مقابلہ کے لئے کہتا ہوں تو کانگرسی اصول کے لحاظ سے ورنہ دوستی کے لحاظ سے میں انہیں بہت بہتر سمجھتا ہوں.اور ان کی ذات سے دشمنی رکھنا غلط سمجھتا ہوں.نہ انگریز ہمارے سگے بھائی ہیں نہ کانگرسی سوتیلے بھائی بلکہ دونوں ہمارے بھائی ہیں.انسانی لحاظ سے ایک ہندو ایک انگریز میں فرق ہی کیا ہے.سوائے اس کے کہ ایک انگریز ہے اور ایک ہندو.پس دونوں ہمارے بھائی ہیں اور میرے دل میں ہر قوم کے اچھے لوگوں کے لئے عزت ہے چاہے وہ مسلمان ہوں یا ہند و یا انگریز.ہاں جو لوگ غلط طریق اختیار کریں ہم ایسے لوگوں کے اس طریق کو بُرا کہیں گے.پس ہمارا کام یہ ہونا چاہئے کہ ہم پیار محبت اور استقلال کے ساتھ ان خلاف آئین تحریکوں کا مقابلہ کریں.میں اپنی جماعت کے تمام افراد کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ جہاں کہیں ہوں انارکسٹوں کی تحریک کی نگرانی رکھیں اور یہ کبھی خیال نہ کریں کہ اس کے بدلہ میں گورنمنٹ سے انہیں کیا ملے گا.میں تو جب کسی مونہہ سے ایسی بات سنتا ہوں مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ میری کمر نوٹ گئی.دراصل یہ ہمارا اپنا کام ہے.گورنمنٹ نے ملک سے فتنہ و فساد کو روکنے کی ذمہ داری خود اپنے اوپر لی ہے اور ہم پر فتنہ و فساد کے روکنے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے ڈالی ہے.گورنمنٹ نے تو اس فرض کو اپنے سریوں لے لیا جیسے پنجابی زبان میں کہتے ہیں " آپے میں رچی بچی آپے میرے بچے جیون - " مگر ہم نے تو خود بخود اس فرض کو نہیں اٹھایا بلکہ ہمارے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک نبی مبعوث کیا اور اس نے کہا کہ تمہارے یہ یہ فرائض ہیں.پس جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ کام ہمارے سپرد ہوا ہے تو ہمیں کسی انعام کا طالب ہو کر اسے سرانجام دینے کا خیال بھی نہیں کرنا چاہئے.اور ابھی تو ہندوستان میں ہی ہمیں اس فتنہ کے مقابلہ کے لئے تیاری کرنی ہے پھر نہ معلوم کسی وقت انگلستان، امریکہ چین اور جاپان میں فسادات ہوں اور ہمیں وہاں بھی ان کے مٹانے کی سعی کرنی پڑے.مگر پہلے گھر والوں کا حق ہو تاہے.پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ توفیق دیتا جائے ، ہمار ا دائرہ عمل بھی وسیع ہوتا چلا جائے گا.پس میں جماعت کو پورے زور سے نصیحت کرتا ہوں کہ وہ خلاف امن تحریکات کی خبر گیری کریں اور وقتاً فوقتاً مجھے اطلاعات بھیجتے رہیں.

Page 516

خطبات محمود سال ۱۹۳۲ء گورنمنٹ کو تو یہ غلطی لگی ہوئی ہے کہ وہ خیال کرتی ہے اس نے اس فتنہ کو دیا دیا ہے.حالانکہ پہلے یہ ظاہر میں فتنہ تھا اب پوشیدگی میں لوگوں کے اخلاق اور ملک کے امن کو برباد کر رہا ہے اور پوشیده فتنه زیاده خطرناک ہوتا ہے.ختنہ کی مثال پھوڑے کی سی ہوتی ہے اور اندر کا پھوڑا بہت زیادہ مہلک ہوتا ہے.کیونکہ پتہ نہیں ہو تاکہ اس کا زہر دل کی طرف چلا جائے یا جگر کی طرف.پس ہمارا فرض ہے کہ ہم ان خطرات کا مقابلہ کریں لیکن ہمارا مقابلہ امن کے ساتھ ہونا چاہئے جیسے کشمیر کی تحریک میں ہوا.میں نے آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے مقابلہ کی تحریک کی.اور اس میں اللہ تعالٰی نے میری مدد کی.ورنہ میں یہاں بیٹھا ہوا کیا کر سکتا تھا.اگر لیڈروں کے دل خونریزی کی طرف مائل ہو جاتے تو میں کچھ بھی نہ کر سکتا.مگر اللہ تعالٰی نے ان کے دلوں میں بھی وہی تحریک پیدا کردی جو میرے دل میں اٹھی.پس نیک نیتی کے ساتھ امن کی حدود کے اندر رہتے ہوئے اس تحریک کا مقابلہ کرو.اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ گورنمنٹ سے ہماری رشتہ داری ہے.ہم وقت پر اس کی غلطیوں سے بھی اسے آگاہ کرتے ہیں.لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ انگریز نہیں کوئی بھی حکومت ہو اگر کانگریس کا طریق عمل اختیار کیا جائے تو ہر حکومت کے لئے سخت مشکلات پیش آئیں گی.اور اس کے علاوہ ہمارے لئے تبلیغ کرنا مشکل ہو جائے گا.میں اپنی.جماعت کے تمام دوستوں کو خواہ وہ یو پی کے ہوں یا بنگال کے پنجاب کے ہوں یا مدراس کے بہار کے ہوں یا بمبئی وغیرہ کے نصیحت کرتا ہوں کہ ان کا فرض ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام کے مشن کے مطابق دنیا میں امن قائم کرنے کی کوشش کریں.محض لیکچروں میں زبانی اس امر کے کتنے کا کیا فائدہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام دنیا میں امن کا پیغام لے کر آئے تھے.اثر محض باتوں سے نہیں ہو تا بلکہ کام سے ہوتا ہے.اگر تم اپنی جانوں کو اپنے مالوں کو اور اپنی عزیز سے عزیز متاع کو امن کے قیام کے لئے قربان کر دو تو لوگ کہیں گے یہ جو کچھ کہتے ہیں دکھاوے کے لئے نہیں کہتے بلکہ اس پر عمل کر کے بھی دکھا دیتے ہیں.میں امید کرتا ہوں کہ اس خطبہ کی اشاعت پر تمام جماعت اس فتنہ و فساد کی روک تھام کے لئے منظم کوشش عمل میں لائے گی.میں نے ایک سکیم بھی تجویز کی ہے جس کے ماتحت پچیس سال تک کے تمام نوجوانوں کو منظم کیا جائے گا.اور اس پر پہلے قادیان میں عمل شروع ہو گا اور بیرونی جماعتوں میں بعد میں.لیکن علاوہ اس تنظیم کے ہماری جماعت کے ہر فرد کو حکومت کی اس معاملہ میں مدد کرنی چاہئے کیونکہ امن کا قیام ہمیشہ ہی ضروری ہوتا ہے خواہ اپنی حکومت ہو خواہ

Page 517

خطبات محمود ۵۱۲ کسی غیر کی حکومت اور اس معاملہ میں ہمیں ہر حکومت کی مدد کے لئے تیار رہنا چاہئے.ل بخاری کتاب اللباس باب ما أسفل من الكعبين ففي النار لسفينة الاولیاء مصنفه داراشکوه صفحه ۷۳ سال ۱۹۳۲ء (الفضل ہے.جولائی ۱۹۳۲ء) اسد الغابة في معرفة الصحابة جلد ۲ صفحہ ۲۶۷۴۲۷۵ مطبوعہ بیروت ۱۳۷۷ھ اسد الغابة ذکر سراقة بن مالك ه اسد الغابة في معرفة الصحابة جلد ۲ صفحہ ۲۷۶ مطبوعہ بیروت ۱۳۷۷ھ

Page 518

خطبات محمود ۵۱۳ 59 سال ۱۹۳۲ء نوجوان اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں (فرموده ۸ - جولائی ۱۹۳۲ء) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں نے متواتر جماعت کے دوستوں کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ سلسلوں کی ترقی آئندہ نسلوں کی ترقی کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے.اگر ہماری آئندہ نسلیں اس معیار کو قائم نہ رکھیں جس کا قائم رکھنا ہماری ترقی کے لئے ضروری اور لازمی ہے تو یقینا یہ امر ہماری ترقی کے رستہ میں اہم اور بہت بڑی روک ثابت ہو گا.کئی دفعہ میں نے بتایا ہے کہ اولاد کی محبت اس بات میں مرکوز نہیں ہے کہ ماں باپ ان کی تمام خواہشات کو پورا کریں بلکہ اس میں اچھے اخلاق قربانی و ایثار کی روح پیدا کرنا سچی محبت ہے.اس کے بغیر عارضی خوشیاں دراصل ان کے لئے ماتم کا سامان ہوتی ہیں اور ان پر خوش ہونے والے والدین در اصل ان کے دوست نہیں بلکہ دشمن ہوتے ہیں.میں یہ بات سمجھتا ہوں اور سمجھ سکتا ہوں کہ باوجود پوری خواہش اور ممکن تدابیر اختیار کرنے کے بھی ہو سکتا ہے کہ اولاد والدین کی مرضی کے مطابق نہ چلے اور ان کے احکام کی خلاف ورزی کرے.لیکن اس کا سبب یا تو یہ ہو گا کہ اولاد کے دماغ میں کوئی نقص ہوگا یا پھر یہ کہ ماں باپ کے اثر سے زیادہ مضبوط اثر اس پر پڑ رہا ہو گا اور یہ اثر اگر لڑکا شادی شدہ ہو گا تو بیوی کا ہو گا یا دوستوں اور استادوں کا ہو گا اور اگر وہ شادی شدہ نہ ہو گا تو دوستوں اور استادوں کا.پس میں تسلیم کرتا ہوں کہ بالکل ممکن ہے بعض ماں باپ پورا زور لگا ئیں اور پھر بھی تمام اولاد یا ان میں سے بعض پر برا اثر ہو.اور وہ اسے روک نہ سکیں لیکن اس صورت میں وہ بری الذمہ ہوں گے.ان کی ذمہ داری کوشش اور سعی تک تھی اگر یہ ثابت ہو جائے کہ انہوں نے وہ تمام تدابیر جو اصلاح اولاد کے لئے کرنی چاہئیں ، اختیار کیں مگر پھر بھی اچھا نتیجہ نہیں نکلا اور وہ کامیاب نہیں ہو سکے تو اس صورت میں وہ خدا تعالٰی کے مواخذہ کے نیچے نہیں ہوں گے.اگر نصیحت تنبیہ زجر و توبیخ سے تعلق رکھنے والی تمام تدابیر انہوں نے اختیار کیں اور پیار سے تعلق رکھنے والے

Page 519

محمود ۵۱۴ سال ۱۹۳۲ء.تمام ذرائع بھی استعمال کئے پھر بھی اصلاح نہیں ہو سکی تو وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے بری الذمہ ٹھریں گے.لیکن عام طور پر ایسے حالات میں اصلاح ہو جاتی ہے.سوائے اس کے کہ خدا تعالیٰ کی کوئی خاص تقدیر کسی کے بارے میں جاری ہو.لیکن ایسے انسان بہت کم ہوتے ہیں جن کے متعلق خاص نقد یہ جاری ہو.عام انسانوں کی حالت ایسی ہی ہوتی ہے جیسا کہ نباتات کے متعلق خدا تعالیٰ کا عام قانون جاری ہوتا ہے.اس کے ماتحت وہ کھاتے پیتے اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے اور جیتے مرتے ہیں.خاص قوانین جاری کرنے کے لئے انسان کو یا تو شرارت میں ابو جہل اور فرعون جیسا بننا پڑتا ہے یا نیکی میں حضرت مسیح، حضرت موسیٰ اور حضرت رسول کریم م جیسا بنا پڑتا ہے.بڑے رنگ میں خاص قوانین جاری کرانے کے لئے انسان کو ابو جہل اور فرعون کا مثیل بننا پڑتا ہے.اور نیک رنگ میں خاص قانون جاری کرنے کے لئے حضرت موسیٰ اور محمد میر کا مثیل.مگر دنیا میں نہ تو تمام شریر فرعون اور ابو جہل جیسے ہوتے ہیں اور نہ سارے نیک حضرت موسیٰ اور محمد میر جیسے اس لئے وہ عام قانون کے ماتحت ہی زندگی بسر کرتے ہیں.پس یہ کہنا کہ فلاں کی اولاد کے متعلق خدا تعالی کا کوئی خاص قانون جاری ہوا ہو گا عام لوگوں کے متعلق بعید از قیاس بات ہے.بے شک ایسا بھی ہوتا ہے جیسے حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق خدا تعالی کا یہ قانون کہ ان کا بیٹا سزا پائے گا.یا ابراہیم علیہ السلام کے متعلق یہ کہ ان کی اولاد میں نبوت قائم کی جائے گی.یہ خود دونوں اعلیٰ درجہ کے انسان تھے مگر ایک کی اولاد کے لئے اللہ تعالیٰ نے پرے رنگ میں خاص قانون جاری کیا اور دوسرے کے لئے اچھے رنگ میں.میں اس وقت یہ حکمت بیان کرنے کے لئے کھڑا نہیں ہوا کہ کیوں حضرت نوح علیہ السلام کے لڑکے کے متعلق برے رنگ میں خداتعالی کا خاص قانون جاری ہوا اور کیوں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد کے متعلق اچھے رنگ میں.اگر چہ خدا تعالی کی کوئی بات حکمت سے خالی نہیں ہوتی مگر اس وقت اسے بیان کرنا میرا مقصد نہیں.میں اس وقت صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ خاص قانون خاص بندوں کے لئے ہی جاری ہوتے ہیں.حضرت محم میں یا ای میل کے لئے خدا تعالی کا یہ خاص قانون جاری ہوا کہ سارے عرب میں مخالفت کی آگ بھڑک اٹھی.خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں بھی یہ بیان فرمایا ہے کہ جب ہم کسی عظیم الشان نبی کو مبعوث کرتے ہیں تو امرنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا یعنی ہم سب سے بڑے آدمیوں کے دلوں میں مخالفت کی آگ بھڑکا دیتے ہیں اور جتنے زیادہ ہم احکام دیتے ہیں وہ اتنے ہی زیادہ مخالف ہوتے جاتے ہیں لیکن یہ ہر ایک انسان کے

Page 520

خطبات محمود ۵۱۵ سال ۱۹۳۲ء لئے نہیں ہو سکتا کہ اس طرح اس کی مخالفت کی جائے.رسول کریم اچھی بات کہتے تھے لیکن لوگ آپ سے لڑتے تھے.مگر کئی لوگ بری باتیں کہتے ہیں اور پھر بھی لوگ ان سے پیار کرتے ہیں.تو یہ مخالفت بھی یونہی نصیب نہیں ہو جاتی.اس زمانہ کے کئی مدعیان محض اس وجہ سے مجھے گالیوں سے بھرے ہوئے خطوط لکھتے رہتے ہیں کہ کیوں "الفضل میں ہماری مخالفت نہیں کرائی جاتی مگر میں ان کو یہی جواب دیتا ہوں کہ مخالفت بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوتی ہے.کب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے لوگوں کو خطوط لکھے کہ میری مخالفت کرو.خدا تعالٰی نے خود ہی ان کے دلوں میں آگ لگادی.اس طرح گندوں کے گند بڑھا دیئے اور پھر نیکوں کی نیکی میں ترقی دی.بڑے بڑے لوگ خود ہی مخالفت پر کمربستہ ہو گئے.اس پر عوام نے سمجھا کہ ضرور کوئی بات ہوگی اس لئے انہوں نے غور شروع کیا اور خدا تعالیٰ نے ان میں سے کئی ایک کو ہدایت دیدی - تو عام آدمیوں کے لئے خاص قانون جاری نہیں ہو تا اس لئے ہم یہ سمجھنے پر مجبور ہیں کہ در حقیقت اولاد کی تربیت کے متعلق عام قانون کی نگہداشت کے مطابق برے یا بھلے نتائج نکلتے ہیں.بری صحبت عدم توجہی یا دماغی نقص سے برا نتیجہ نکلتا ہے اور اچھی صحبت کو شش اور تھی نیز دماغی قابلیت کیوجہ سے اچھا نتیجہ برآمدہ ہوتا ہے.پس ان باتوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.جہاں خاص حالات ہوتے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ کا خاص قانون بھی جاری ہوتا ہے.پھر یہ بات بھی صحیح نہیں کہ خدا تعالی کسی سے کہتا ہے بد ہو جا اور وہ بد ہو جاتا ہے.دراصل وہ انسان خود بدی کا مستحق ہوتا ہے اور پھر یدی میں بڑھ جاتا ہے.یہی اصل نیکیوں کے متعلق ہے.مگر میں دیکھتا ہوں بہت سے لوگ اس قانون سے غافل ہیں.اور باوجود یکہ موقع ہوتا ہے کہ وہ اولاد کی اصلاح کریں مگر نہیں کرتے.میں سمجھتا ہوں احمدیت کے متعلق ذمہ داریاں جس طرح ماں باپ پر عائد ہوتی ہے اسی طرح اولاد پر بھی ہیں اس لئے کیوں نہ میں اولاد کو مخاطب کروں اور انہیں کہوں کہ خدا سے تمہارا تعلق والدین سے وابستہ نہیں.ابو جہل کس طرح رسول کریم میمن کی مخالفت پر کمر بستہ تھا مگر عکرمہ نے کس طرح اسلام کی خاطر قربانیاں کیں.اگر ماں باپ ہی زمہ دار ہوتے تو عکرمہ کو یہ سعادت کبھی نصیب نہ ہوتی.اسلام کے ابتدائی ایام میں اس کے لئے جانیں قربان کرنے والے بڑے بڑے مخالفین کی اولاد میں سے ہی تھے یا بڑے لوگوں کے بھیجے بھانجے وغیرہ.اس کی طرف اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں اشارہ فرمایا ہے کہ اَوَلَمْ يَرَوْا نَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ

Page 521

خطبات محمود ۵۱۶ سال ۱۹۳۲ء اطرافها یعنی ہم انکی دنیا کو تنگ کر رہے ہیں.یہ دیکھتے نہیں کہ کس طرح روز بروز کم ہوتے جارہے ہیں.پس اگر ماں باپ کے اثر کے نتیجہ میں ہی اولاد کی اصلاح ہوتی تو یہ نوجوان جنہوں نے ایسے وقت میں رسول کریم ان کے ہاتھ پر بیعت کی جب ساری دنیا مخالف تھی اور جب راستوں پر چلنا مسلمانوں کے لئے دشوار تھا.یہ اٹھارہ اٹھارہ اور ہیں ہیں سال کے نوجوان جن کے عیش و آرام کے دن تھے خود بخود اپنے لئے ایسی زندگی کو پسند نہ کرتے جو قید سے بھی زیادہ تکلیف دہ تھی.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نوجوانوں کا دماغ ایسا ہوتا ہے کہ وہ اپنے بڑے اور بھلے میں تمیز کر سکے.اگر ان نوجوانوں نے باوجود والدین کی مخالفت کے نیکی کی راہ اختیار کی تو ہمارے نوجوان ماں باپ کی تائید کے باوجود کیوں نہیں کر سکتے.اس لئے اپنے نوجوانوں کے والدین ان کے بڑوں ، رشتہ داروں استادوں اور بزرگوں کو نظر انداز کرتے ہوئے گویا وہ اس وقت میرے مخاطب نہیں ہیں میں براہ راست نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں کیونکہ ایک دن وہی کام جو اس وقت ان کے والدین کا ہے ان کے کندھوں پر پڑے گا.خدا تعالیٰ نے احمدیت کے پودے کو ان لوگوں کے خون سے سنچوایا ہے جو نیکی میں اس قدر ترقی یافتہ تھے کہ ان قدموں کی خاک عام لوگوں کے سروں کے لئے برکت کا موجب ہے.انہوں نے اپنی زندگی کی تمام گھڑیاں سلسلہ کی عظمت قائم کرنے کے لئے خرچ کیں.وہ بے شک تلوار سے نہیں کاٹے گئے.اگر چہ کئی ایک جان سے بھی مارے گئے.مگر زیادہ تر آہستہ آہستہ دق اور رسل سے فوت ہوئے.ظاہری دق اور سیل نہیں بلکہ قومی درد کی دق اور رسل جو ظاہری سے کہیں زیادہ سخت ہوتی ہے.ان کی عمریں جتنی سلسلہ کے لئے بسر ہوئیں، اس کے دوران میں دنیا کی اصلاح کے لئے وہ گویا جنم میں گرے اور اس لئے گرے کہ تا تم جنت کو پاسکو.پس میں نوجوانوں سے پوچھتا ہوں کیا سلسلہ کے ان جاں نثاروں کی قربانیاں ایسی نہیں کہ وہ ان کو اپنے لئے مثال بنائیں.اور بجائے اپنے وقت کو آوارگی میں بسر کرنے کے دنیا کے لئے مفید بنا ئیں.دنیا میں قربانی اور ایثار کی کئی چھوٹی چھوٹی مثالیں ہیں جنہیں قائم رکھا جا رہا ہے.حضرت مسیح علیہ السلام کو صرف چھ گھنٹے کے لئے صلیب پر لٹکایا گیا اور ان کے ہاتھ اور پاؤں میں کیل گاڑے گئے مگر اس کے مقابلہ میں تمہارے سامنے کیسی شاندار مثالیں ہیں.سید عبد الطیف صاحب شہید نے کس طرح جان دی.ہزاروں آدمیوں نے پتھر مار مار کر انہیں شہید کیا.مگر وہ اس وقت بھی انہیں دعائیں ہی دیتے رہے.حضرت مسیح علیہ السلام تو صلیب کے صدمہ سے بے ہوش ہو گئے

Page 522

خطبات محمود ۵۱۷ سال ۱۹۳۲ء تھے لیکن سید عبد الطیف پر آدھ یا پون گھنٹہ تک مسلسل پتھروں کی بارش ہوتی رہی لیکن وہ آخر تک پوری طرح ہوش و حواس میں رہے اور پتھر مارنے والوں کو دعائیں دیتے رہے.یہی حال بعد کے شہداء کا ہے انہیں طرح طرح کے دکھ دیئے گئے مگر انہوں نے ذرہ پرواہ نہ کی.اپنی طرف سے نہایت ذلت کے ساتھ انہیں بازاروں میں پھرایا گیا، رستوں میں ان پر تھوکا گیا، گالیاں دی گئیں اور مجبور کیا گیا کہ کہہ دو مرزا صاحب کا دعویٰ جھوٹا ہے.مگر وہ یہی کہتے رہے ہم تو خدا تعالیٰ سے یہی دعا کرتے ہیں کہ تمہیں ہدایت دے اور تم بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کرلو.ایک شخص جو اب احمدی ہو گیا ہے ایک زمانہ میں وہ سخت مخالف تھا.اس نے مجھے کئی خط لکھے.اس نے لکھا میرا دل رنج والم سے بھر جاتا ہے جب میں یہ یاد کرتا ہوں کہ میں بھی ان لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے سب سے پہلے پتھر مارنے کا اقدام کیا تھا.اور میں حیران ہوں کہ وہ کس طرح پتھروں کی بارش کے باوجود دعائیں دیتے رہے.تعجب ہے کہ کروڑوں انسان اس چھ گھنٹہ کی صلیب کی یاد کو تازہ رکھنے کے لئے مختلف طریق سے کام لیتے ہیں.ان میں سے بہت سے اپنی گردن میں صلیب لٹکائے رکھتے ہیں مگر اس سے زیادہ شاندار قربانیوں کی زیادہ مثالیں تمہارے اندر موجود ہیں اور تمہیں انہیں زندہ رکھنے کا خیال نہیں آتا.میں نہیں سمجھتا ہمارے نوجوانوں کے دل پتھروں سے بھی زیادہ سخت ہو گئے ہیں کہ وہ اپنے بزرگوں کے کارناموں اور ان کی دین کے لئے قربانیوں کی یاد تازہ رکھنا نہیں چاہتے.دوسری اقوام کی مثالوں پر تو عرصہ گزرگیا لیکن.ہماری جماعت کے لوگوں کی مثالیں ابھی تازہ ہیں.بیت الدعا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دعا فرمایا کرتے تھے مولوی عبد الکریم صاحب نے خواہش کر کے اس کے اوپر ایک کمرہ بنوایا تھا.چونکہ چھت چھوٹی تھی نیچے کی آواز او پر سنائی دے سکتی تھی.مولوی صاحب سنایا کرتے کہ ایک دن ایسی آواز نیچے سے آرہی تھی جیسے کوئی عورت درد زہ سے بیتاب ہو.وہ طاعون کے ایام تھے اور سخت طاعون پھیلی ہوئی تھی.اور علاقوں کے علاقے صاف کر رہی تھی.میں نے اس کرب و تکلیف کی آواز کو جو سنا تو معلوم ہوا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام دعا کر رہے ہیں جس کا مطلب یہ تھا کہ الہی اگر طاعون اسی طرح تباہی پھیلاتی رہی تو تجھ پر ایمان کون لائے گا.ہمارے لوگوں کو پروپیگنڈا کا صحیح طریق نہیں آتا و گر نہ جتنی قربانیاں اور جس شان کی قربانیاں ہمارے لوگوں نے کی ہیں ان کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں.اور قربانی کے صحیح طریق کو اگر دیکھا جائے تو ہمار ا سلسلہ پہلے سلسلوں سے

Page 523

خطبات محمود سینکڑوں گنا زیادہ قربانیاں پیش کر سکتا ہے مگر ہم میں یاد گار قائم رکھنے کی عادت نہیں یا پھر شاید اس لئے کہ بہت سی مثالیں ہیں اس لئے ان کی طرف توجہ نہیں.جس شخص کے پاس ایک روپیہ ہو وہ اسے سنبھال سنبھال کر رکھتا ہے لیکن جس کے پاس ہزاروں ہوں وہ زیادہ پرواہ نہیں کرتا.دوسروں کی قربانیاں معمولی اور تھوڑی ہیں اس لئے وہ یاد رکھتے ہیں اور ہماری چونکہ ہزاروں ہیں اس لئے ہم قدر نہیں کرتے.کئی لوگ دوسروں کی قربانیوں کو یاد کر کے خیال کرتے ہیں کہ وہ کیسے اچھے لوگ تھے ، کاش ہم بھی دیے ہوتے.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ویسے ہی نہیں بلکہ ان سے زیادہ ہم میں موجود ہیں.مگر انہیں قدردانی کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا.روحانی بینائی سے انہیں نہیں جانچا گیا بلکہ دنیاداری کی آنکھ سے دیکھا گیا ہے.وہ نور جو روحانی مدارج کو دیکھنے کے لئے درکار ہے اس سے نہیں دیکھا گیا، اس لئے وہ نظروں سے اوجھل ہیں.افسوس ہے آج میں جلد نہ آسکا وگرنہ میرا ارادہ تھا کہ نوجوانوں کے سامنے ایک پروگرام رکھتا جس سے وہ اپنی ذمہ داری کو محسوس کر سکتے اور اپنے کام کی طرف متوجہ ہو سکتے.میں پہلے بڑوں کو مخاطب کرتا رہا ہوں لیکن اس کا خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا.میں نے انصار اللہ کی تحریک جاری کی تھی لیکن میں نے دیکھا ہے کہ کام کرنے والے ہفتہ کے دوران میں کچھ کام نہیں کرتے تھے.اور زیادہ سے زیادہ وہ اس جلسہ میں شامل ہو جاتے تھے جس میں میں نے تقریر کرنی ہوتی تھی.جب میں نے دیکھا کہ ایسی توجہ اس کی طرف نہیں جس سے خاص فائدہ ہو سکے تو اسے بند کر دیا.لیکن میں یہ ضرور سمجھتا ہوں کہ کوئی وجہ نہیں اگر ہمارے بچوں اور نوجوانوں کو صحیح طریق پر مخاطب کیا جائے اور ان کی خفیہ قوتوں کو بیدار کیا جائے تو مفید نتائج پیدا نہ ہوں.میرا منشاء ہے کہ نئی سکیم جو ۲۵ سال تک کی عمر کے نوجوانوں کو بطور والنٹینر بھرتی کرنے کے متعلق ہے اسے اس رنگ میں منظم کیا جائے کہ نوجوانوں کے دلوں میں روحانیت کے ساتھ ساتھ سلسلہ کی عظمت اور وقار بھی قائم ہو سکے.اور مجھے امید ہے کہ ہمارے یہاں کے بھی اور باہر کے بھی نوجوان ہر وقت ترقی کرنے کے لئے تیار ہیں اور ان کے سینوں میں جوش اور ولولہ کی آگ بھڑک رہی ہے اگر چہ سستی اور غفلت کے باعث اس سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا.(الفضل ۱۴ جولائی ۱۹۳۲ء) بنی اسرائیل : ۱۷ الرعد: ۴۲

Page 524

خطبات محمود ۵۱۹ 60 سال ۱۹۳۲ء حقیقی بہادر بننے کی کوشش کریں فرموده ۲۹ - جولائی ۱۹۳۲ء بمقام ڈلہوزی) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- رسول کریم میں اللہ نے فرمایا ہے کہ جنت میں داخل ہونے سے پہلے مومن ایک ایسے پل پر سے گزریں گے جو اپنی بار یکی اور تیزی میں تلوار کی دھار سے بھی زیادہ باریک اور تیز ہو گا.بظاہر یہ ایک عجیب بات معلوم ہوتی ہے اور انسان تعجب کرتا ہے کہ اس قسم کے تماشہ کی کیا ضرورت تھی لیکن اگر ہم حقیقت پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ تلوار کی طرح تیز ہونا ان مشکلات کی طرف اشارہ ہے جن میں سے ہر ایک مؤمن کو گزرنا پڑتا ہے.دیکھو ہر ایک شئے میں افراط تفریط اور وسط کا مقام ہوتا ہے.اس میں وسط کا مقام سب سے چھوٹا ہو تا ہے.عام حالات تکی میں دیکھ لو ہم ایک سڑک پر سے گزرتے ہیں جو زیادہ سے زیادہ ایک سو پچاس فٹ چوڑی ہوگی لیکن زمین کا محیط تقریبا پچیس ہزار میل ہے اور ہم اس راستہ سے قریباً ساڑھے بارہ ہزار میل دائیں اور ساڑھے بارہ ہزار میل بائیں پھر سکتے ہیں.لیکن وہ سڑک جو منزل مقصود تک پہنچانے والی ہوتی ہے وہ اس کے مقابلہ میں بہت ہی چھوٹی ہے.یہ تو ظاہری سڑکوں کا حال ہے جو چوڑی بنائی جایا کرتی ہیں مگر روحانی سڑک تو بہت زیادہ باریک ہوتی ہے.میں اس وقت اس پل صراط میں سے ایک چیز کو لیتا ہوں جو ان دنوں میرے قلب پر خاص طور پر اثر کر رہی ہے اور وہ جرأت اور بہادری ہے.جرات اور بہادری کا معاملہ بھی نہایت نازک ہے اگر کوئی کسی سے یہ کہتا ہے کہ میں تجھ سے سمجھ لوں گا تیرے ساتھ یوں کروں گاؤوں کروں گا تو یہ فقرہ اسلام میں جائز نہیں ہے.اک ادنیٰ سے ادنیٰ حیثیت کا انسان مثلا چوہڑا بھی اگر ایک مسلمان بادشاہ سے کہے کہ میں تمہارے ساتھ یوں کروں گاؤوں کروں گا تو وہ مسلمان بادشاہ اس

Page 525

طبات محمود ۵۲۰ سال ۱۹۳۲ء کی کچھ پرواہ نہیں کرے گا کیونکہ وہ مسلمان ہے اور اس کا خدا پر ایمان ہے.اور اگر کوئی مسلمان بادشاہ ہو کر ایک چوہڑے سے بھی کہے کہ میں تجھ سے سمجھ لوں گا تو ایسا کہنے پر وہ اسلام سے دور جا پڑے گا.پس اسلام سے دور ہو کر ایک چوہڑا بھی کہہ سکتا ہے کہ میں یوں کروں گا لیکن اسلام کے اندر رہ کر ایک بادشاہ بھی ایسی دھمکی نہیں دے سکتا.اور اگر وہ ایسا کرے گا تو اپنی ایمانی کمزوری کو ظاہر کرنے والا ہو گا.آج کل قو میں ایک دوسرے کو دھمکا رہی ہیں.یہ دھمکی بعض اوقات تو حقیقی ہوتی ہے جیسے ایک آدمی کسی بچے سے کسے کہ میں تم کو تھپڑ ماروں گا اور وہ ایسا کر بھی سکتا ہے اور بعض اوقات بے حقیقت اور جھوٹی ہوتی ہے جیسے ایک بچہ کسی بڑے آدمی سے کہے کہ میں تم کو ماروں گا.یہ جھوٹ ہو گا کیونکہ وہ ایسا نہیں کر سکتا.یا جیسے ایک طاقت رکھنے والا آدمی کسی برابر طاقت والے آدمی کو مارنے کی دھمکی دے لیکن اس کا مقصد ہاتھ اٹھانا نہ ہو تو یہ فریب ہو گا.ان تینوں صورتوں میں سے مسلمان اگر ایک بھی اختیار کرتا ہے تو وہ اپنے ایمان کو چھوڑتا اور ضائع کرتا ہے کیونکہ اسلام نے ہمیں یہ سکھلایا ہے کہ ہم اپنی طاقت سے کچھ بھی نہیں کر سکتے.سب کچھ خدا ہی کرتا ہے.پس اگر کوئی مسلمان اپنی طاقت کے گھمنڈ میں ایسا کرتا ہے تو غلطی کرتا ہے کیونکہ اس طرح وہ خدا کے احسان کی ناقدری کرتا ہے.اور اسی بات کو بھول جاتا ہے کہ یہ اسی کی عطا کر دہ چیز ہے جس کو وہ اپنی طرف منسوب کر رہا ہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کوئی آقا اپنے نوکر کو کسی کی مدد کے لئے کچھ دے تو غلام جا کر کے کہ یہ میں اپنی طرف سے دے رہا ہوں.اب ظاہر ہے کہ اگر وہ ایسا کرے تو یہ اس کی غلطی ہو گی اور وہ جھوٹ بول رہا ہو گا.بہر حال ایسا دعوئی دو صورتوں سے خالی نہیں ہو سکتا.اگر ایسا دعوی کرنے والے میں طاقت نہیں اور باوجود اسکے وہ دعوی کرتا ہے تو وہ جھوٹا ہو گا.اور اگر اسے خدا تعالیٰ نے اسکی طاقت دی ہے اور وہ اسے اپنی طرف منسوب کر کے یہ دعویٰ کرتا ہے تو خدا تعالیٰ کا نا شکرا ہے.اور ان صورتوں کے مقابل پر ایک صورت یہ ہے کہ انسان دوسرے سے دب کر بالکل بیٹھ جائے لیکن یہ بزدلی ہے جس کو اسلام جائز نہیں قرار دیتا.بزدل انسان ترقی نہیں کر سکتا.یہ وہ چیز ہے کہ اگر کوئی بادشاہ ہو کر بھی اسے اپنے اند ر پیدا کرے تو اس کی بادشاہت جاتی رہے گی.اور بزدلی تو کل کے بھی خلاف ہے.مومن کے لئے قوموں کے مقابلہ پر پل صراط پر سے گزرتا ہے جس سے ادھر ادھر ہوتا برباد کرنے والا ہو گا.آج بعض لوگ ہمیں بھی دھمکی دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تم کو کچل ڈالیں گے.اگر ہم بھی اس کے جواب میں 1.

Page 526

خطبات محمود ۵۲۱ سال ۱۹۳۲ء یہی کہیں تو یہ ایک جھوٹ اور فریب ہو گا.اور خدا کے فضلوں سے انکار.اور اگر ہم ڈر جائیں اور کچھ بھی نہ کہیں تو یہ بُزدلی ہوگی.ابھی تھوڑے دنوں کا واقعہ ہے کہ احرار کے لیڈروں میں سے ایک لیڈر نے جو اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتے تھے ایک مجلس میں جو صلح کے لئے منعقد ہوئی تھی کہہ دیا کہ ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم احمدیوں کو کچل ڈالیں گے.اب انسانی لحاظ سے ہم ان سے کہہ سکتے تھے کہ ہم تم کو کچل ڈالیں گے اور اگر زیادہ نرمی اختیار کرتے تو کہہ دیتے کہ کچل کر تو دیکھو.تیسری حالت ڈر جانا تھی کہ نہ معلوم کیا ہو گا.خدا جانے وہ کیا کر دیں گے.وہ اتنی بڑی تعداد میں ہیں اور ہم قلیل ہیں.لیکن سی بات وہی ہے جو میں نے کہہ دی ہے.میں نے ان سے کہا کہ اگر یہ بندوں کی تحریک ہے تو ضرور کچلی جائے گی.اور اگر خدا کی تحریک ہے تو ہم کو کیا ڈر ہے ؟ وہ خود اس کی حفاظت کرے گا.آنحضرت مل مل کے دادا عبد المطلب کا واقعہ بھی اسی قسم کا ہے.جب ابرہہ بادشاہ نے مکہ پر حملہ کیا اور چاہا کہ خانہ کعبہ کو مسمار کر دے تو اس نے ان پر احسان رکھنے کے لئے چاہا کہ پہلے ان کو گفتگو کرنے کا موقع دے.اس پر اس نے مکہ والوں کو کہا کہ اپنا کوئی بڑا آدمی میرے پاس بھیجو.تب مکہ والوں نے آنحضرت لیل علم کے دادا عبد المطلب کو اس کے پاس بھیجا.انہوں نے اس سے گفتگو کی جس کا اس پر بہت اثر ہوا.اور اس نے اپنے دل میں خیال کیا کہ یہ بڑے سمجھدار معلوم ہوتے ہیں ان سے اچھا سلوک کرنا چاہئے.اس ارادہ سے اس نے ان سے پوچھا آپ کیا چاہتے ہیں.انہوں نے کہا آپ کے آدمیوں نے میرے تو اونٹ پکڑ لئے ہیں، وہ واپس دلا دیجئے.یہ سن کر اس کی طبیعت پر بہت برا اثر ہوا اور وہ تمام اچھا اثر جو پہلے گفتگو کرنے سے اس پر ہوا تھا زائل ہو گیا.اس نے کہا کہ میں آپ کو عظمند سمجھتا تھا اور امید کرتا تھا کہ آپ کوئی بڑی چیز طلب کریں گے.اور میں چاہتا تھا کہ میں آپ کو وہ دے بھی دوں.لیکن آپ نے کیا مانگانہ مکہ کی حفاظت نہ خانہ کعبہ کا بچاؤ - بلکہ صرف اپنے اونٹ مانگے ہیں.آنحضرت کے دادا نے کہا میں نے سوچ میم سمجھ کر جواب دیا ہے.یہ میرے اونٹ ہیں جن کی میرے نزدیک تو کیا قیمت ہوگی ایک معمولی حیثیت کا عرب بھی کتنے ہی اونٹ ایک موقع پر ذبح کر دیتا ہے.جب مجھ کو اپنی ایسی معمولی چیز کی حفاظت کا خیال ہے تو کیا خد اتعالیٰ اپنے گھر کی جو اس کی بہت ہی پیاری چیز ہے خود حفاظت نہ کرے آج کل دنیا ایک دوسرے کو کچلنا چاہتی ہے لیکن ایسا کرتے وقت یا تو وہ تکبر کی حالت میں سے

Page 527

خطبات محمود ۵۲۲ سال ۱۹۳۲ء ۱۲ گزر رہی ہوتی ہے یا بزدلی کی حالت میں سے.دیکھو سکھ جو پنجاب میں گیارہ بارہ لاکھ سے زیادہ نہیں ، اس وقت کہہ رہے ہیں کہ اگر مسلمانوں کو ان کے حقوق دیئے گئے تو ہم ملک کو برباد کر دیں گے.اس پر ایک طرف بعض مسلمان تو تھرا رہے ہیں کہ خبر نہیں کیا ہو جائے گا اور سکھ کیا کر دیں گے اور دوسری طرف بعض اور ہیں جو بالمقابل اسی قسم کی دھمکیاں دے رہے ہیں.دیکھو جو خدا کی طاقت کو نظر انداز کر دیتا ہے وہ غلطی کرتا ہے اور ایسا شخص جلد تباہ ہو گا.اور اپنی تباہی کا آپ ہی موجب ہو گا.اس کی تباہی انسان کے ہاتھ سے نہیں بلکہ خدا کے ہاتھ سے ہو گی.اگر چہ ہندوؤں اور سکھوں کی دھمکیاں بھی جائے تعجب ہیں تاہم وہ انہیں عمل میں لانے کے لئے بھی کوشش کر رہے ہیں.لیکن مسلمان خالی دھمکیاں دیتے ہیں اور کرتے کچھ بھی نہیں.کشمیر کی تحریک ہی کو دیکھ لو شروع شروع میں کس زور و شور سے اٹھی تھی.تمام ملک میں ایک آگ سی لگ گئی تھی لیکن اب جب کہ مسلمانان کشمیر کو حقوق ملنے کا وقت آیا ہے سب خاموش ہو کر بیٹھ گئے ہیں.جو پہلے شور مچارہے تھے اور دھمکیاں دیتے تھے کہ ہم ہندوستان سے انگریزوں کو بھی نکال دیں گے وہ اب اعتدال پسند لیڈروں سے درخواستیں کر رہے ہیں کہ وہ آگے کیوں نہیں آتے اور کیوں احرار کے لیڈروں کو جیلوں سے باہر نہیں نکلواتے.ماڈریٹ تو ان کے نزدیک بزدل تھے.بُزدل بھلا انہیں کیسے باہر نکال سکتے ہیں.اگر مؤمنانہ شیوہ اختیار کرتے اور خدا تعالیٰ پر تو کل کرتے.تو خدا تعالیٰ خود ہی ان کی طرف سے ان کے بدخواہوں کو دھمکی دیتا اور خود ہی اسے پورا کر کے دکھاتا.مومن کا کام صرف کوشش کرنا ہے، دھمکی دینا خدا کا کام ہے.اگر یہ بات مسلمانوں میں پیدا ہو جاتی تو دوسری قوموں کو ہرگز جرات نہ ہوتی کہ وہ مسلمانوں کو دھمکی دیں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ یعنی اگر خدا تعالیٰ کی نصرت شامل حال ہو تو چھوٹی جماعت بڑی جماعت پر غالب آجاتی ہے.ایک دفعہ آنحضرت میاں یا لیلی نے حکم دیا کہ مردم شماری کی جائے جب کرائی گئی تو مسلمان سات سو نکلے.اس پر صحابہ نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اب جب کہ ہم سات سو ہو گئے ہیں کیا اب بھی ہم کو کوئی تباہ کر سکتا ہے.یا تو وہ وقت تھا اور یا اب یہ وقت ہے کہ مسلمان نو کروڑ ہیں اور ڈر رہے ہیں.یہ نتیجہ ہے اس بات کا کہ مسلمانوں میں خالی دھمکیاں ہی رہ گئی ہیں.اور ان خالی دھمکیوں اور نرے دعووں نے مسلمانوں کے اندر بزدلی پیدا کر دی ہے.مثل مشہور ہے "جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں." بد قسمتی سے مسلمانوں کے اندر بھی یہ مرض پیدا ہو گیا ہے کہ وہ

Page 528

خطبات محمود ۵۲۳ سال ۱۹۳۲ گرجتے بہت ہیں لیکن برستے کم ہیں.وہ جھاگ کی طرح اٹھتے ہیں اور بھاگ کی طرح ہی بیٹھ جاتے ہیں.مؤمن کو چاہئے کہ خدا تعالیٰ پر توکل رکھے مٹانے والا بھی خدا ہے اور بڑھانے والا بھی خدا ہے جس کو وہ چاہتا ہے مٹاتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بڑھاتا ہے.دنیا میں اس بات کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ ایک قوم دوسری قوم کو مٹانا چاہتی ہے لیکن جب تک خدا تعالی کی مدد شامل حال نہ ہو کوئی قوم کسی قوم کو ہرگز مٹا نہیں سکتی.ترکوں کو مٹانے کی تمام مغربی طاقتوں نے کوشش کی مگر وہ انہیں مثانہ سکیں کیونکہ الہی منشاء انہیں باقی رکھنے کا تھا.یورپ کی طاقتوں نے ترکوں کے علاقے کو بانٹ لیا مگر پھر بھی ترک قائم رہے.مسٹر ولسن نے ترکوں کو اپنے چودہ نقاط میں نہ رکھا مگر پھر بھی وہ جیت گئے.ناتواں ترکوں کو لوگوں نے مٹانا چاہا مگر خدا نے نہ چاہا کہ وہ مٹیں.غرض مادی دنیا میں ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں اور دین میں تو ایسی سینکڑوں نہیں ہزاروں بلکہ لاکھوں مثالیں موجود ہیں.دنیا نے ہر ایک مامور اور ہر ایک رسول کو مٹانا چاہا لیکن خدا تعالیٰ انہیں رکھنا چاہتا تھا لہذاوہ رہے.اور دنیا کے لوگ اپنی کوششوں میں کامیاب نہ ہو سکے.پس میں اپنے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ حقیقی بہادر بننے کی کوشش کریں اور دنیا کی دھمکیوں سے نہ ڈریں کیونکہ اسلام یہی حکم دیتا ہے.بعض لوگ دھمکیاں دینے والوں سے بہت ڈرتے ہیں.ایسے لوگوں پر مجھے نفسی آیا کرتی ہے.ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں میں نے ایک مضمون لکھا جس پر ظفر علی خاں ایڈیٹر زمیندار ناراض ہو گئے اور کہنے لگے کہ میں ایک ہی جنبش قلم سے تو تو میل تک کے احمدیوں کو مٹاڈالوں گا.یہ پہلا موقع تھا مسٹر ظفر علی خاں میری مخالفت پر اتر آئے.ہمارے ایک دوست انکی اس بات سے ایسے گھبرائے کہ لاہو ر سے بھاگے بھاگے آئے اور آکر مجھے کہنے لگے یہ آپ نے کیا غضب کر دیا.میں نے کہا کہ کیا ہوا کہنے لگے آپ نے ایک ایسا مضمون لکھ دیا ہے جس پر مسٹر ظفر علی خاں سخت ناراض ہو گئے ہیں.اور وہ کہتے ہیں کہ میں ایک جنبش قلم سے تو تو میل تک کے احمدیوں کو مٹاڈالوں گا.میں نے ہنس کر کہا کہ ظفر علی خاں کیا چیز ہے کہ احمدیت کو مٹائے.اس کی اپنی گردن خدا کے ہاتھ میں ہے.چنانچہ تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ ان سے ضمانت لی گئی پھر وہ ضبط ہو گئی.اسکے بعد پریس رک گیا اور جلدی ہی اخبار بند ہو گیا.غرض کئی لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں اور مخالفوں کی جھوٹی دھمکیوں سے ڈر جاتے ہیں.لیکن مومن کو ساری دنیا کی دھمکیوں سے بھی نہیں ڈرنا چاہئے.اور اس کے دل میں کبھی یہ خیال بھی پیدا نہ ہونا چاہئے کہ کوئی قوم مجھ کو مٹا سکتی ہے.ہاں اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی زبان تکبر اور

Page 529

خطبات محمود ۵۲۴ سال ۱۹۳۲ء خود پسندی کے وعدوں سے ملبوس نہ ہو.اپنی زبان سے مت کہے کہ میں کسی کو مٹاڈالوں گا.مٹانا خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے.چھوٹے چھوٹے ذلیل آدمی اٹھتے ہیں اور بڑے بڑے بادشاہوں کو تباہ کر دیتے ہیں.ہمایوں جب پٹھانوں کو شکست دے کر اپنے لشکر کے ساتھ واپس آرہا تھا تو وہ اپنی فتح پر بہت نازاں تھا.اور بعض تو کہتے ہیں کہ اس وقت اس نے یہ بھی کہا تھا کہ اب خدا کو بھی اس لشکر کے مٹانے میں کچھ دیر ہی لگے گی.لیکن ابھی وہ اپنے مقام سے ہلا بھی نہ تھا کہ پٹھانوں نے ایسا حملہ کیا کہ جان بچانی مشکل ہو گئی.اور اس واقعہ کو تو بچے بھی جانتے ہیں کہ کس طرح ایک مقہ نے اس کی جان بچائی.یا تو تھوڑی دیر پہلے ہندوستان کا فاتح تھا یا اب یہ حالت ہو گئی کہ جان بچا کر ہندوستان سے اس کو بھاگنا پڑا.غرض محض بڑائی اور تکبر کوئی چیز نہیں.ہم نے بڑے بڑے خود پسندوں کو دیکھا ہے جن کی آخری حالت کے تصور سے رونا آتا ہے.نپولین نے معمولی حیثیت سے ترقی کی.وہ ایک ایسے جزیرہ کا رہنے والا تھا جو اسی طرح فرانسیسیوں کے ماتحت تھا جس طرح ہندوستان آج کل انگریزوں کے ماتحت ہے.جن دنوں وہ سکول میں پڑھا کرتا تھا لڑکے اس پر ہنسا کرتے تھے.اور اس کو SmallCorsican (چھوٹا کار میکن) کر کے پکارا کرتے تھے.کیونکہ اس کا قد چھوٹا تھا اور صحت بھی معمولی ہی تھی.مگر وہی بچہ جوانی کی عمر میں بغیر کسی سابقہ تجربہ کے بہت جلد اور بہت بڑی آسانی کے ساتھ بادشاہ ہو گیا.اس کے بعد وہ جلد ہی غلام ہو کر مرا.اس کی ترقی بھی غیر معمولی ہی تھی اور اس کا تنزل بھی غیر معمولی تھا.اگر ابتدائی عمر میں اس کو کوئی کہتا کہ تو بادشاہ بن جائے گا تو وہ کس طرح یقین کر سکتا تھا.یا وہ جب بادشاہ تھا اس وقت کوئی کہتا کہ تو غلام بن جائے گا تو اس کو کیسے اعتبار آسکتا تھا.پس مومن کو چاہئے کہ ایک طرف تو ایسے مضبوط ایمان والا ہو کہ کسی سے نہ ڈرے اور نہ یہ سمجھے کہ میں اکیلا ہوں.اور دوسری طرف طاقت حاصل ہونے پر اسے غرور بھی نہ ہو.اگر دشمن کے مقابلہ میں ہم محض اپنے غصہ ہی کو نکالیں اور منہ سے دھمکی دے کر رہ جائیں تو اس سے کیا فائدہ - ہماری دھمکی سے دشمن تو نہ مٹے گا مگر ہم بے جا فخر کی وجہ سے ضرور مٹ جائیں گے.کیونکہ اس طرح ہم خدا کو چھوڑنے والے ہوں گے.غرض ایک طرف جھوٹے دعووں اور عائل باتوں سے مؤمن کو بیچنا چاہئے اور دوسری طرف بُزدلی کو بھی پاس نہ آنے دینا چاہئے.کیونکہ بزدل انسان کامیابی کی جنت کو نہیں پاسکتا.بچی بہادری ہی اپنے پیچھے فتح و نصرت کی جنت لاتی ہے.اور یہی پل صراط ہے جس پر سے ہر ایک کو گزرنا پڑے گا.پس دشمن کے ساتھ مقابلہ

Page 530

خطبات محمود ۵۲۵ سال ۱۹۳۲ء کرتے وقت نہ تو اپنی طرف سے دعوے کرنے چاہئیں کہ ہم یوں کر دیں گے ووں کر دیں گے اور نہ ہی بزدلی دکھانی چاہئے.ورنہ اسکے نتیجہ میں تکلیف اٹھانی پڑے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک ہندو مجسٹریٹ دوران مقدمہ بہت دکھ دیا کرتا تھا.اور بعض آریوں نے اسے پڑھایا تھا کہ وہ آپ کو ضرور سزا دے.ایک شریف ہندو نے ہمارے ایک دوست کو بتایا کہ ہماری قوم میں ایک ایسا سمجھوتا ہوا ہے.اس کی اطلاع مرزا صاحب کو کر دی جائے.میں نے خود تو نہیں دیکھا لیکن جس دوست نے دیکھا وہ بیان کرتے ہیں کہ جب خواجہ کمال الدین صاحب یا کسی اور صاحب نے اس بات کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کیا اور بڑی گھبراہٹ کا اظہار کیا تو اس وقت آپ لیٹے ہوئے تھے.حضور اس بات کو سنتے ہی فورا اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمانے لگے آپ گھبراتے کیوں ہیں کیا خدا کے شیر پر کوئی ہاتھ ڈال سکتا ہے.اس واقعہ کے جلد ہی بعد ایک مجسٹریٹ تو سزا پا کر بدلا گیا اور دوسرا اس کی جگہ آیا.اس نے بھی شرارت کرنی چاہی تب اس کے نوجوان بچے مر گئے.اس کے بعد جب کبھی یہ مجسٹریٹ احمدیوں میں سے کسی سے ملتا تو کہتا کہ مجھ پر تو یونہی شبہ کیا گیا تھا میرا ارادہ تو مرزا صاحب کو تکلیف دینے کا نہ تھا.ان میں سے ایک مجسٹریٹ حضرت صاحب کو اس قدر تنگ کیا کرتا تھا کہ دوران شہادت میں آپ کو پانی تک پینے کی اجازت نہ دیتا تھا.غرض وہ دونوں تباہ ہو گئے.پس چاہئے کہ مؤمن نہ بُزدل بنے اور نہ متکبر.ان دونوں چیزوں کے درمیان ہی پل صراط ہے جس پر سے ہر ایک مؤمن کو گزرنا پڑتا ہے.اور جس کے بغیر وہ کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکتا ہاں دو سروں کو شاید حاصل ہو جائے.چاہیئے کہ مؤمن میں انکسار ہو تو اتنا کہ اس سے بڑھ کر کوئی منکسرنہ ہو اور جرات ہو تو اس قدر کہ یوں معلوم ہو کہ اس سے زیادہ کوئی دلیر نہیں.تبھی ایمان بھی کامل ہوتا ہے اور اسی صورت میں بچی کامیابی حاصل ہوتی ہے.الفضل ۹ - اگست ۱۹۳۲ء) ل بخارى كتاب التوحيد باب قول الله تعالى وجوه يومئذ ناضرة الى ربها ناظرة سیرت ابن ہشام عربی جلد ۱ صفحه ۱۵۱ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء البقرة : ۲۵۰ مسلم کتاب الایمان باب جواز الاسترار بالايمان للخائف

Page 531

خطبات محمود ۵۲۶ 61 سال ۱۹۳۲ء حقیقی پکار خدا تعالیٰ کے لئے ہی ہے فرموده ۵- اگست ۱۹۳۲ء بمقام ڈلہوزی) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- سورہ فاتحہ کی آیت إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعین ملکہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں ایک بھولی اور بھلائی ہوئی آیت ہے کہ قرآن مجید کے ماننے والوں اور مانے والوں میں سے یقین کرنے والوں اور پھر یقین کرنے والوں میں سے کوشش کر کے اس پر عمل کرنے والوں میں سے بھی بہت کم لوگ ہیں جو اس کی اہمیت کو سمجھتے ہیں.دعا کا مسئلہ ایک ایسا نازک مسئلہ ہے کہ اس کے اندر جس قدر حکمتیں مخفی ہیں اور جس قدر باریکیوں کے ساتھ اس مسئلہ پر خدا تعالیٰ کی تقدیر عمل کرتی اور کراتی ہے، وہ اکثر لوگوں کی نظر سے مخفی رہتی ہیں.ہم دیکھتے ہیں کہ کئی لوگوں کے مونہہ پر دعا کا لفظ صرف اس وجہ سے چڑھا ہوا ہوتا ہے کہ ان کے ماں باپ اس لفظ کو استعمال کرتے تھے.حتی کہ بعض اوقات ان کے کلی طور پر دہر یہ ہونے اور اس خیال پر قائم ہونے کے باوجود کہ دنیا میں کوئی سچا دین نہیں ہے، ان کے مونہہ سے نکل جایا کرتا ہے کہ دعا کرو لیکن وہ عادت اور رسم کے ماتحت ہوتا ہے اور بالکل ایسا ہی ہوتا ہے جیسے ہمارے ما یک دوست جن کی اس بات پر مجھے کو ہمیشہ جنسی آجایا کرتی ہے کہ جب سلسلہ کے کاموں کے متعلق بعض انگریز حکام سے مل کر آتے ہیں تو ان کے مونہہ میں انشاء اللہ داخل کر دیا کرتے ہیں.مثلاً کہا کرتے ہیں کہ فلاں انگریز افسر کہتا تھا انشاء اللہ ایسا ہو جائے گا.جب ان سے پوچھا جائے کیا انگریز نے انشاء اللہ کہا تھا تو کہہ دیتے ہیں کہ نہیں اس نے تو نہیں کہا تھا.عاد تا میرے مونہہ سے نکل جاتا ہے.

Page 532

خطبات محمود ۵۲۷ سال ۲ اسی طرح لوگ اپنے مونہہ میں رسمی طور پر دعا کرو ، دعا کرو کے الفاظ داخل کر لیتے ہیں.چنانچہ جب ۱۹۰۵ء کا شدید زلزلہ آیا تو لاہور میڈیکل کالج کا ایک طالب علم جو دہریہ تھا اور اس وقت ایک مکان کی دیوار کے نیچے کھڑا تھا رام رام کہتا ہوا وہاں سے بھاگ گیا.لوگوں نے پوچھا کیا تو خدا کو مانتا ہے.اس نے کہا یونہی منہ سے نکل گیا تھا.ورنہ میں خدا کا قائل نہیں.بالکل ممکن ہے کہ اس وقت کی حالت کے مطابق اس کے دل میں خشیت الہی پیدا ہو گئی ہو یا ماں باپ سے سنا ہوار سمی طور پر لفظ اس کے مونہہ سے نکل گیا ہو.تو دعا کے متعلق بھی بہت سے لوگ ایسے ہی ہیں جن کو یقین یا خیال تو بالکل نہیں ہو تا کہ دعا بھی کوئی اثر رکھتی ہے مگر صرف عاد تا اسے دہرا دیتے ہیں.مصیبت ، تکلیف ، ضرورت لاچاری اور بیماری کے اوقات میں وہ دعائیں کرتے اور کراتے ہیں لیکن یہ سب کچھ رسم کے طور پر ہوتا ہے.ایک اور بڑی مشکل دعا کے مسئلہ میں یہ ہے کہ دعا ہم سے بظاہر ایک ایسی چیز کی مخالفت کراتی ہے جس کو ہم ہر روز بصراحت دیکھتے ہیں.اس لئے دعا کا قلب پر عام طور پر وہ اثر نہیں ہوتا جو ہونا چاہئے.اور وہ عالم اسباب ہے.مثلاً بظا ہر پانی پینے سے پیاس بجھ جاتی ہے.روٹی کھانے سے ہم سیر ہو جاتے ہیں.محنت کرنے سے اس کا پھل پاتے ہیں.اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر دعا کی کیا ضرورت ہے.بیمار اگر اپنی بیماری کے مناسب حال دوائی استعمال کرے گا تو اچھا ہو جائے گا اور اگر علاج نہیں کراتا تو دعا کے پورا ہونے کا یقین رکھنے والے بھی مانتے ہیں کہ وہ غلطی کرتا ہے.غرض عالم اسباب تو ہم کو یہ کہتا ہے کہ بغیر اسباب کے نتیجہ پیدا نہیں ہو سکتا.اور اسباب کے نتائج میں بظاہر کسی غیبی طاقت کا اثر معلوم نہیں ہو تا.مثلا پیاس لگتی ہے اور پانی سے بجھ جاتی ہے.تھے کو ہم ہر روز دیکھتے ہیں کہ پانی لاتا ہے.خدا کے فرشتے نہیں لاتے.کنواں ایک مجسم چیز ہمارے سامنے ہے جس کو دیکھ کر ہم سمجھتے ہیں کہ ایک ذخیرہ ہے جس میں سے پانی آتا ہے.پھر اس ذخیرہ کو کھو دا بھی ہمارے آدمیوں نے ہے.پھر پانی کے متعلق ہم دیکھتے ہیں، وہ بھی ایک قانون کے ماتحت ہے.اگر بارش ہو تو پانی کنووں میں آجاتا ہے.اور بارش نہ ہو تو کم ہو جاتا ہے.اور بارش کا پانی بھی خود قانون کے ماتحت ہے.یہ وہی پانی ہوتا ہے جسے سورج کی گرمی اُڑا کر لے جاتی ہے اور پھر پانی واپس آجاتا ہے.اگر پانی بھی نہ ہو تا بلکہ آسمانوں سے آتا تو اور بات تھی.غرض جتنی دور ہم چلتے جائیں ہم کو اسباب ہی اسباب نظر آتے ہیں.کوئی کام ایسا نہیں نظر آتا جو اسباب کے بغیر ہو مثلاً کھانے پینے ، رہنے سہنے اور دوستوں کے ساتھ معاملات کرنے میں غرض ہر چیز میں ہم دیکھتے ہیں کہ اسباب کا سلسلہ جاری ہے ایک منٹ کے لئے

Page 533

خطبات ۵۲۸ سال ۱۹۳۲ء بھی ہم اسباب سے غافل نہیں ہوتے.اور ان لوگوں پر جو اسباب سے غافل ہوتے ہیں ہم ہنستے ہیں.ایک دفعہ میں ریل میں سوار تھا.پیر جماعت علی شاہ صاحب بھی اسی گاڑی میں تھے.ان کو مجھے سے کوئی غرض تھی اس لئے وہ مجھ سے محبت کی باتیں کرنے لگ گئے.انہوں نے خشک پھل میرے سامنے رکھا اور خواہش کی کہ میں کھاؤں مگر بوجہ نزلہ کی تکلیف کے میں کھا نہیں سکتا تھا اور ویسے بھی طبیعت مائل نہ تھی کیونکہ ان کے فتوی کی وجہ سے جو انہوں نے احمدی جماعت کے متعلق دیا تھا کہ جو ان سے ملے گا یا بات کرے گا اس کی بیوی کو طلاق ہو جائے گی اور ان کی سلسلہ احمدیہ کے ساتھ مخالفت کی وجہ سے بھی میرا دل نہیں چاہتا تھا کہ ان کی چیز کھاؤں.بہر حال میں نے معذوری کا اظہار کیا کہ مجھے نزلہ ہے.اس پر انہوں نے عام پیروں کی طرح کہا بیماری اور صحت تو خدا کی طرف سے آتی ہے.بظا ہر یہ تقدیر اور دعا پر بڑے یقین کا اظہار تھا.میں نے کہا پیر صاحب آپ نے بڑی غلطی کی.آپ نے اپنا روپیہ بھی ضائع کیا اور میرا بھی.آپ نے لاہور سے امر تسر آنا تھا اور مجھے قادیان.ہم لاہور ہی میں بیٹھے رہتے.اگر خدا کو منظور ہو تا تو وہ آپ کو امر تسر اور مجھے کو قادیان پہنچادیتا.ہمیں ٹکٹ خریدنے کی کیا ضرورت تھی.اس پر انہوں نے کہا اسباب بھی تو ہوتے ہیں.میں نے کہا اس بناء پر میں نے اپنا عذر پیش کیا ہے.حقیقت یہ ہے کہ ہم نہ صرف اسباب سے کام لیتے ہیں بلکہ جو لوگ ان سے کام نہیں لیتے ان پر بنتے ہیں.اور اس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ دعا بھی ضروری ہے.غرض یہ ایک ایسی مشکل ہے جسے دیکھتے ہوئے اکثر لوگ پھسل جاتے ہیں اور خدا کی قدرت کا انکار کر دیتے ہیں.لیکن یاد رکھو ایسے لوگوں کا سطحی ایمان ہوتا ہے.اس پر غور و فکر کرنے کے بغیر وہ دعا دعا کرتے رہتے ہیں اور انہوں نے کبھی ان مشکلات پر غور نہیں کیا ہو تا جو دعا کے راستے میں حائل ہیں.گویا دنیا کے لوگوں کی حالت اس موقع پر وہی ہوتی ہے کہ درمیان قصر دریا تخمیره بندم کرده بازی گوئی کہ دامن تر مکن ہشیار باش یعنی پہلے تو مجھے سمندر میں لاکر پھینک دیا پھر کہتے ہو دیکھنا کہیں کپڑے نہ گیلے ہو جا ئیں.لیکن حقیقت یہ ہے کہ جہاں ہم ان اسباب پر غور کرتے ہیں جن سے روزانہ فائدہ اٹھاتے ہیں وہاں ایک چیز کو نظر انداز کر دیتے ہیں.ہماری زندگی میں کئی مواقع ایسے پیش آتے ہیں کہ ہمارے پاس

Page 534

خطبات محمود ۵۲۹ سال ۱۹۳۲ء | سامان رہتا ہی نہیں.لیکن ان موقعوں پر اپنی ضرورتوں کا پورا کرنا اشد ضروری ہوتا ہے.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لَه دَعوة الحق یعنی اگر تم سوچو تو بے شک اسباب بھی ہیں.لیکن دعوة الحق تو اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے.یعنی وہ پکار جس کا جواب دیا جاتا ہے خدا ہی کی پکار ہے.اسباب اور خدا تعالیٰ کی پکار میں فرق یہ ہے کہ اسباب کو بھی انسان پکارتا ہے لیکن وہ پکارنا در حقیقت اسباب کے پاس خود جانتا ہو تا ہے.اگر کوئی شخص کنویں پر جا کر کے آجاپانی میرے مونہہ میں آجا تو پانی اس کے مونہہ میں نہیں آئے گا.خواہ وہ کتنا ہی چلاتا رہے.در حقیقت جب تم یہ کہتے ہو کہ پانی نے ہمیں میر کیا تو اس وقت پانی نے میر نہیں کیا ہو تا بلکہ تم نے خود اپنے آپ کو پانی کے واسطے سے میر کیا ہوتا ہے.جب کوئی پانی کو پکارتا ہے تو پانی اسکے پاس نہیں آتا بلکہ وہ پانی کے پاس جاتا ہے.اسباب تک تو انسان کو جانا پڑتا ہے لیکن دعا اس وقت کام آتی ہے جب اسباب ختم ہو جاتے ہیں.اور ہمارے اختیار سے باہر ہو جاتے ہیں.وقت اور اسباب کا مہیا ہونا اللہ تعالیٰ کے خاص فضل پر موقوف ہوتا ہے.اور اسی کو پکارنا اس وقت کام آتا ہے نہ کہ اسباب کو پکارنا.اور نہ ہی کوئی انہیں پکارتا ہے.جیسا کہ فرمایا کہ دَعْوَةُ الْحَقِّ یعنی حقیقی پکار اللہ کے لئے ہی ہوتی ہے.ہم اسباب کو استعمال کرتے ہیں لیکن کبھی یہ نہیں ہو تاکہ روٹی یا پانی یہ کہیں کہ چلو آج فلاں کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی ہے ہم اسکے پاس چلے جائیں.مگر خدا یہ کرتا ہے کہ جب انسان کے پاس سامان نہیں رہتے تو وہ خود سامان مہیا کر دیتا ہے.یا بغیر سامان کے ہی کام کر دیتا ہے.غرض دعا کا ایک ایسا مقام ہے جو اسباب میں اور دعا میں فرق کرتا ہے اور کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ نظارہ کسی نے بھی نہیں دیکھا.بات یہ ہے کہ اعلیٰ درجہ کی چیز اعلیٰ درجہ کے لوگوں کو ملتی ہے.اگر کوئی نہیں دیکھتا تو اس لئے کہ وہ اس قابل نہیں جن لوگوں نے کامل محبت کے نمونے دکھائے ، ان کو ایسے کرشمے دیکھنے کا موقع ملا.آخر محبت ہی ہے جو دوسری محبت یعنی محبت الہی کو کھینچتی ہے.عمرو بن عاص بیان کرتے ہیں کہ اسلام لانے سے پہلے مجھے آنحضرت میں سے اس قدر دشمنی تھی کہ میں آپ کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا پسند نہیں کرتا تھا.اور یہ کہ میرا اور آپ کا ایک چھت کے نیچے جمع ہونا نا ممکن تھا.لیکن آخر محبت نے یہ حالت پیدا کر دی کہ جب وہ مسلمان ہوئے تو انہیں آپ کے قرب سے زیادہ اور کوئی چیز پیاری نظر نہ آتی تھی.اور حیاء کی وجہ سے وہ آنکھ اٹھا کر آپ کی طرف نہ دیکھ سکتے تھے.اسی طرح حضرت عمرؓ کو دیکھو یا تو وہ وقت تھا کہ رسول کریم مل مل کے قتل کے لئے اپنے گھر سے تلوار لے کر نکلے یا پھر وہ وقت آیا کہ تلوار لے

Page 535

خطبات محمود ۵۳۰ سال ۱۹۳۲ء کر کھڑے ہو گئے کہ میں اس شخص کا سر اُڑا دوں گا جو یہ کہے گا کہ آنحضرت میں یم فوت ہو گئے ہیں.کتنا عظیم الشان فرق معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص ایک وقت تلوار لے کر مارنے کے لئے جاتا ہے اور دوسرے وقت وہی تلوار لے کر کھڑا ہو جاتا ہے کہ جو آنحضرت میر کو فوت شدہ کے گا میں اس کی گردن اڑا دوں گا.یا تو وہ آپ کی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لئے جاتا ہے یا یہ بھی برداشت نہیں کر سکتا کہ کوئی مونہہ سے بھی کہے کہ آپ فوت ہو چکے ہیں.یہ نتیجہ تھا اس محبت اور اخلاص کا جو آنحضرت تم کو دشمنوں تک کے ساتھ تھا.قرآن کریم میں رسول کریم کے متعلق آتا ہے عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُم کہ تمہاری تکلیف اس سے دیکھی نہیں جاتی.یہ وہ محبت تھی جس نے ارد گرد کے لوگوں کے دلوں میں آپ کی ایسی محبت کا بیج بو دیا کہ صحابہ ہر طرح کی قربانی کے لئے تیار ہو گئے اور دشمنی چھوڑ کر آپ کے جانی دوست بن گئے.یہ صحیح ہے کہ ہر انسان ایسے نشان نہیں دیکھتا لیکن نشان دیکھنے کے لئے خدا کی محبت کا ہونا لازمی ہے.اگر بندہ کے دل میں خدا کی محبت نہیں تو خدا کی محبت اسکے مقابل پر نازل نہیں ہوتی اور اگر ایک شخص خطا کار بھی ہو لیکن اللہ تعالیٰ کی محبت اس کے دل میں ہو تو خدا کی محبت اس پر ضرور نازل ہوگی.جیسے ماں باپ اپنے خطا کار بچے سے بھی محبت رکھتے ہیں کیونکہ بچے کے دل میں بھی ماں باپ کی محبت مرکوز ہوتی ہے.پس اگر ہم غور سے دیکھیں تو ایسے بہت سے انسان نظر آجاتے ہیں جن کے کام بغیر ظاہری اسباب کے بن جاتے ہیں.بلکہ میں تو یقین رکھتا ہوں کہ اگر انسان خود اپنے حالات پر ہی غور کرے تو اسے اپنی زندگی میں ہی کئی موقعے ایسے نظر آئیں گے جن کا نام وہ اتفاق رکھ لیتا ہے حالانکہ وہ خدا کی طرف سے محبت کا اظہار ہوتا ہے.اب اس کا تو کوئی علاج نہیں کہ جب اللہ تعالی کسی سے محبت کا سلوک کرے تو وہ کہہ دے کہ یہ فلاں سبب کا نتیجہ اور ایک اتفاقی بات ہے لیکن حق یہ ہے کہ ایسے مواقع پر اس کو مانا چاہئے کہ اس کے پیچھے کوئی مخفی طاقت تھی جو کام کر رہی تھی اور وہ خدا تعالی کی محبت تھی.ابو جہل کی زندگی میں بھی کئی ایسے واقعات ہوئے ہوں گے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ اور دعا کی ہوگی اور وہ پوری ہو گئی ہوگی.اور مؤمنوں کی زندگی میں تو ایسے بہت واقعات ہوتے ہیں کہ خدا نے بظاہر بغیر اسباب کے انکے کام کر دیئے.یہی ہے کہ عوةُ الْحَقِّ یعنی حقیقی پکار جس کی طرف قرآن کریم اشارہ فرماتا ہے.باقی تمام چیزوں کی پکار برائے نام ہوتی ہے.ان کو

Page 536

خطبات محمود ۵۳۱ سال ۱۹۳۲ء انسان پکار تا تو ہے لیکن جاتا خود انکے پاس ہے.پس ان کو پکارنا مصنوعی اور بناوٹی ہوتا ہے.لیکن خدا کی پکار حقیقی پکار ہے کیونکہ خدا بندے کے پاس آتا ہے بندہ خدا کے پاس نہیں جاتا.حقیقی پکار خدا کے لئے مخصوص ہے.اسباب کے پاس ہم کو جانا پڑتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت ہر وقت ہمارے شامل حال رہتی ہے.اگر انسان اپنی پیدائش سے پہلے کی حالت پر غور کرے پھر پیدا ہونے کے بعد کی حالت کو دیکھے تو اس کو نظر آجائے کہ کئی سامان ہیں جو اللہ تعالیٰ اس کے لئے کرتا ہے.اور اس کے پاس لے جاتا ہے.پس استعانت اور استمداد در حقیقت اللہ تعالیٰ سے ہی ہو سکتی ہے اور وہ صرف خدا ہی ہے جو کسی کی مدد کرتا ہے اس لئے خدا کے علاوہ یقینی استعانت اور کسی سے ہوتی ہی نہیں.اور جس طرح اگر کوئی شخص پانی سے کہے کہ میں تجھ پر احسان کرتا ہوں کہ جب بھی مجھے پیاس لگتی ہے تجھے پیتا ہوں آگ نہیں کھاتا تو اس کا یہ کہنا پانی پر احسان نہیں ہو گا.اسی طرح اگر کوئی خدا سے استعانت مانگتا ہے تو خدا پر کوئی احسان نہیں کرتا بلکہ حقیقت کا اظہار ہے.اور خدا کے تعلقات کی سچائی کا اظہار ہے.اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ظاہر بین اور اسباب پر تکیہ رکھنے والوں کے نزدیک غلط معلوم ہوتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی سچائی نہیں.حقیقی دعا تو ہے ہی خدا کے لئے باقی چیزوں سے استمداد میں ہم اپنی مدد آپ کرتے ہیں ، وہ چیزیں ہماری مدد نہیں کرتیں.سوائے ذات الہی کے کہ ہم اس کی مدد نہیں کرتے بلکہ وہ ہماری مدد کرتا ہے.یہی ایک چیز ہے جو انسان کے کام آسکتی ہے اور اس چیز کو بھول جانا گو یا ترقی کے راستوں کو اپنے اوپر خود بند کرنا ہے.دنیا کے بارے میں تو لوگ اسباب کی تدریج کے قائل ہیں.کوئی ایسا نہیں جو یہ کہے کہ کوئی کام آپ ہی آپ ہو جائے یا فور اہو جائے مگر دین کے معاملہ میں ہر بات پر اعتراض کیا جاتا ہے.حالانکہ دین میں بھی تدریج ہے اور Classes ہیں.اگر کوئی لڑکا پرائمری میں داخل ہو اور انٹرنس کی کتابیں اٹھا کر کے کہ اوہ میں نے تو کچھ بھی حاصل نہیں کیا اور سب کچھ چھوڑ کر چل دے تو یہ درست نہ ہو گا.کیونکہ اس کی ترقی تدریجی ہوتی ہے مگر ان چیزوں کو انسان دین میں مد نظر نہیں رکھتا.دین میں بھی مشکلات لا چاریاں، دقتیں اور تاریکیاں پیش آتی ہیں جو آہستہ آہستہ ہی دور ہوتی ہیں لیکن اس کی طرف توجہ نہیں کی جاتی.پنجابی میں ایک مثل ہے " من حرامی تے محتاں ڈھیر " کہ نیت خراب ہو تو بہانے بھی نکل آتے ہیں.اسی طرح لوگ دین کے لئے محنت نہیں کرنا چاہتے اور چاہتے ہیں کہ فورا ان کو کچھ حاصل ہو جائے.اصل بات نہیبت کی ہوتی ہے.اگر مومن کہ عوةُ الْحَقِّ پر یقین کرتے ہوئے اس پر قائم ہو جائے تو وہ اتنے عرصہ

Page 537

خطبات محمود سال ۶۱۹۳۲ کے اندر جس میں وہ دنیا کی ترقیات حاصل کرتا ہے دین کی ترقیات بھی حاصل کرلے جو کبھی ختم نہ ہوں گی.ایسا کرنے کے لئے پہلے تحقیقات کرے.پھر خدا تعالٰی کے متعلق یقین پیدا کرے پھر نتائج مل جائیں گے.پس اگر کوئی شخص فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے تو اتیاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ پر غور کرے.اس سے وہ سب کچھ حاصل ہو جائے گا جس کو وہ حاصل کرنا چاہتا ہے.الفضل ۲۸ اگست ۱۹۳۲ء) ا الفاتحة : الرعد : ۱۵ مسلم کتاب الايمان باب كون الاسلام يهدم ما قبله وكذا الحج والهجرة ، اسد الغابة في معرفة الصحابة جلد ۴ صفحه ۱۱۵ تا ۱۱۸ مطبوعہ بیروت ۱۳۷۷ ء ذکر عمرو بن عام ه التوبة : ١٢٨

Page 538

62 سال ۱۹۳۲ء اذان کی حکمتیں اور نماز باجماعت کی تاکید ا فرموده ۱۲- اگست ۱۹۳۲ء بمقام ڈلہوزی) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.رسول کریم و از ان کو اتنا محبوب رکھتے تھے کہ تاکید فرمایا کرتے تھے.اگر سفر میں چند آدمی بھی ہوں تو بھی اذان اور اقامت کہہ کر نماز پڑھیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اصل غرض از ان سے نماز کے لئے لوگوں کا جمع کرنا ہے اور وہ غرض مسجد کے ساتھ ہی پوری ہو سکتی ہے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اذان میں ایک ایسی بڑی بھاری تبلیغ بھی ہے.اگر کوئی امر مانع نہ ہو تو نماز کے لئے اذان کہنا ضروری ہے.کوئی اذان سن کر نماز میں شامل ہو یا نہ ہو لیکن اس سے یہ تو معلوم ہو جاتا ہے کہ مسلمانوں کا مذہب کیا ہے.دوسرے اذان مسلمانوں کو اس طرف توجہ دلاتی ہے کہ ان کو تبلیغ کا فرض ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے اور چاہئے کہ کبھی اس سے غافل نہ ہوں.تیرے یہ کہ خود انسان کے اپنے قلب پر اس کا نہایت گہرا اور اعلیٰ اثر ہوتا ہے اور نماز کی طرف رغبت اور اس کے اغراض اس سے معلوم ہوتے ہیں.کیونکہ اذان باوجود مختصر الفاظ رکھنے کے اسلامی تعلیم کا خلاصہ اپنے اندر رکھتی ہے اور اگر اذان کے الفاظ سے کوئی شخص اسلام کی تشریح شروع کرے تو وہ کئی جلدوں کی کتاب تیار کر سکتا ہے.توحید اور اسلامی توحید رسالت اور اسلامی رسالت رسالت کے ماننے اور اس کی ضرورت ان سب امور کو اذان میں بیان کیا گیا ہے.پھر اذان میں انسان کو اس طرف بھی متوجہ کیا گیا ہے کہ اس کے لئے کون سے فرائض مقرر کئے گئے ہیں اور ان کی ادائیگی کیونکر ہو سکتی ہے.شریعت کے احکام کی کیا غرض اور کیا علمتیں ہیں.انسان کا خدا کے ساتھ کیا تعلق ہے اور خدا کا انسان سے کیا واسطہ ہے.پھر آخر میں وہ نتیجہ بیان کیا گیا ہے

Page 539

خطبات محمود ۵۳۴ سال ۱۹۳۲ء جس کے ذریعہ انسان شریعت کے احکام پر چل کر فلاح حاصل کر لیتا ہے.غرض انسانی زندگی کی ابتداء سے لے کر اس کی انتہاء تک پیدائش عالم کی غرض اور اس کے انجام پر اذان میں زور دیا گیا ہے اور اگر انسان کی توجہ اذان کی طرف ہو تو وہ اسلام کے تمام اصول کی فلاسفی سے آگاہ ہو سکتا ہے.ایک فقرہ جو اذان میں آتا ہے کتنا مختصر فقرہ ہے.لیکن کتنے اہم مضامین اس میں بیان کئے گئے ہیں.اذان میں کہا جاتا ہے کی عَلَی الْفَلَاحِ یعنی فلاح اور کامیابی کی طرف دوڑو.فلاح کے معنی اسلام میں ہیں اپنے مقصد میں کامیاب ہو جانا.اس میں انسان کو اول تو اس طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ اس کا کوئی نہ کوئی مقصد ہونا چاہئے.اگر انسانی حالتوں کا مطالعہ کیا جائے تو 99 فیصدی ایسے لوگ ملیں گے جن کا کوئی مقصد نہیں ہو گا.اور اگر وہ بظاہر کوئی مقصد رکھتے بھی ہوں گے تو وہ محض دھوکا ہو گا.مثلاً اگر کوئی شخص اپنے بچے کو پڑھا رہا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ میرا تعمد ا سے تعلیم دلانا ہی ہے یا کوئی کتاب تصنیف کر رہا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ اسے تصنیف کرنا ہی میرا مدعا ہے لیکن یہ چیزیں انسانی زندگی کا مقصد نہیں قرار دی جاسکتیں کیونکہ وہ انسانی زندگی کے ختم ہونے کے ساتھ ہی ختم ہو جاتی ہیں لیکن انسانی زندگی کا مقصد وہ ہونا چاہئے جس کی ابتداء انسانی زندگی کی انتہاء سے شروع ہو - حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ میں میں یہ بتلایا گیا ہے کہ تمہارا کوئی مقصود ہے جس کی طرف تمہیں سعی کرنی چاہئے اور یہ صاف بات ہے کہ جب بھی ہم اپنی زندگی کا کوئی ایسا مقصد بنا ئیں گے جو اس زندگی کے بعد بھی حاصل رہے تو وہ اللہ تعالی کی ذات کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو گا.کیونکہ دنیا کی چیزیں اسی دنیا میں ختم ہو جاتی ہیں لیکن خدا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا.پس اگر کوئی یہ مانے کہ اس کی زندگی کا کوئی مقصد اور مدعا ہو نا چاہئے تو اس کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ وہ ذات باری کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا.جب حقیقت یہ ہے کہ وہ چیز جو نہ ختم ہونے والی ہے اور جس کے ساتھ ہمارا تعلق ہمیشہ کے لئے ہو سکتا ہے ، وہ خدا ہے تو ہم کو مانا پڑتا ہے کہ ہماری اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستگی ضروری ہے.پھر دوسری چیز ہمیں حَتى عَلَى الْفَلَاحِ میں یہ نظر آتی ہے کہ جلدی آؤ اس میں ایک طرف تو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ دنیا بالکل بے ثبات ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ تا انسان کی غفلت دور ہو اور وہ ہر وقت نیک کاموں کے لئے مستعد اور تیار رہے.دیکھو ! موت کا کوئی وقت مقرر نہیں.اگر انسان کو پتہ ہو تاکہ میری اتنی عمر ہوگی تو وہ نیک کاموں سے غافل رہتا.اس خیال سے کہ ابھی اتنی زندگی باقی ہے جب تھوڑی سی رہ جائے گی نیک کام کرلوں گا.لیکن خدا تعالیٰ نے انسان کو اس کی موت کا وقت نہیں بتایا.ہم

Page 540

محمود ۵۳۵ سال ۱۹۳۲ء دیکھتے ہیں قوی سے قوی انسان مر جاتا ہے اور اس کے پاس رہنے والا بوڑھا زندہ رہتا ہے.ابھی گزشتہ ایام میں ایک واقعہ ہوا تھا کہ سر محمد شفیع جو مسلمانوں کے ایک لیڈر تھے وائسرائے کی کونسل کے ممبر بنے.مگر وائسرائے سے یہ کہہ کر کہ میری والدہ بیمار ہیں، لاہو ر ان کو دیکھنے کے لئے آئے.لیکن وہاں کیا ہوتا ہے.آپ فوت ہو گئے اور ان کی ماں زندہ رہی.اور ان کی وفات کے کئی ماہ بعد فوت ہوئی.غرض عمر کا کوئی معیار اور اندازہ نہیں.اگر عمر مقرر ہوتی تو لوگ اپنے کاموں کے لئے عمر کے حصے مقرر کر لیتے اور اس جدو جہد سے محروم رہ جاتے جو انسانی ترقی کے لئے ضروری ہے.غرض حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ کا فقرہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ دنیا بے ثبات ہے.تم جو ان ہو یا بوڑھے ہو یا بچے ہو کسی حالت میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم کس وقت تک زندہ رہو گے.اور جب موت کا پتہ نہیں کہ کس وقت آجائے تو اللہ تعالیٰ کی رضاء حاصل کرنے کے لئے جلدی کرو.تیسری بات جو حَ عَلَى الفَلَاحِ میں ہے وہ اس طرف اشارہ ہے کہ انسان اس چیز کی طرف جلدی رجوع کرتا ہے جو بہت اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہے.اور اللہ تعالیٰ سب سے بڑھ کر اعلیٰ ہستی ہے.اس لئے انسان کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہی اس کا مقصود ہو.بے شک انسان کھائے پئے نوکری کرے ، تجارت کرے اس سے خدا منع نہیں کرتا مگر مقصود اعلیٰ صرف خدا ہی ہونا چاہئے.یہی فرق ہے اسلام اور دوسرے مذاہب میں کہ وہ کہتے ہیں دنیا کی تمام چیزیں نعمتیں ہیں.لیکن ساتھ یہ بھی سکتے ہیں کہ ان کو استعمال نہ کرو.حالانکہ اگر وہ نعمتیں ہیں تو انکا استعمال اچھا ہو گا نہ کہ بُرا.لیکن اسلام دنیا کی استعمال کی چیزوں سے نہیں روکتا.ہاں یہ ضرور کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے بھی وقت دو.کیونکہ یہ معاملہ سب سے اہم ہے.پس اس کی طرف متوجہ ہونے میں دیر نہیں لگانی چاہئے.پھر اسی فقرہ میں یہ بھی اشارہ ہے کہ نماز چھٹی نہیں جیسا کہ عیسائیوں نے کہا ہے کہ شریعت ایک لعنت ہے اور سزا کے طور پر نازل ہوئی ہے.غرض نماز کوئی مصیبت نہیں کہ اس کے لئے صبح کو اٹھو ، ظہر کو اٹھو ، عصر کو اٹھو ، مغرب اور عشاء کو اٹھو - حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ بتلاتا ہے کہ نماز میں خدا تعالیٰ کا فائدہ نہیں بلکہ خود بندہ کا ہی فائدہ ہے.اگر اس میں خدا کا فائدہ ہو تو پھر خدا ہی کیا رہا وہ تو محتاج ہو گیا.پس نماز میں بندہ کا ہی فائدہ ہے.روزہ میں بھی بندہ کا فائدہ ہے اور اگر کوئی حج کرتا ہے تو اس میں بھی اسی کا فائدہ ہے.غرض تمام احکام شریعت میں بندہ کا ہی سرا سر فائدہ ہے نہ کہ خدا تعالی کا.

Page 541

خطبات محمود ۵۳۶ سال ۱۹۳۲ء غرض بتایا جاتا ہے کہ اپنی کامیابی کی طرف آؤ.اور خدا کے احکام بجالانے سے انسان کا اپنا ہی فائدہ ہے.پس یہ نہیں خیا کی نا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر اگر ہم عمل کرتے ہیں تو ہمارا اس پر کوئی احسان ہے ، نہیں بلکہ الہی احکام پر عمل کرنے سے خدا تعالی کا بندہ پر احسان ہے کیونکہ اس ذریعہ سے انسان کامیاب ہو جاتا ہے.پس اس چھوٹے سے فقرے میں شریعت کے احکام کی جڑھ بھی بتلائی گئی ہے کہ شریعت کے احکام چٹی نہیں ہوتے بلکہ انسان کے اپنے فائدے کے لئے ان کو جاری کیا گیا ہے.یہ صرف چند حکمتیں ہیں جو میں نے بیان کی ہیں.مگر اس فقرے سے اور بھی بہت سے استدلال ہو سکتے ہیں.اگر کسی کام کے لئے پہلے توجہ دلائی جائے تو اس سے کام کرنے میں زیادہ بشاشت پیدا نجاتی ہے.دیکھو بغیر از ان کے بھی نماز ہو جائے گی.لیکن اذان اور اقامت کے بغیر نماز کی طرف رغبت دلانے والی تحریکات سے ہم محروم ہو جائیں گے.مثلاً کھانا ہا تھوں میں رکھ کر بھی کھایا جا سکتا ہے.لیکن صاف برتنوں اور صاف مقام پر کھانے سے اس کی طرف زیادہ رغبت پیدا ہوتی ہے اور زیادہ اشتہاء سے کھایا جائے گا.غرض کئی چیزیں اپنی ذات میں مقصود نہیں ہوتیں لیکن مقصود کے قریب کرنے والی ہوتی ہیں.اسی طرح اذان ہے.اصل مقصود تو عبادت ہے لیکن اذان اسے قریب کرنے والی چیز ہے اور اس میں مومن کو یہ بتلایا گیا ہے کہ نماز پڑھنا تمہارے لئے کس قدر مفید ہے.یہی وجہ ہے کہ جہاں اذان نہیں دی جاتی ، وہاں نماز پڑھنے میں ستی ہوتی ہے.اگر نماز پڑھی بھی جائے گی تو بے وقت یا جمع کر کے یا بد مزا طور پر.ہم دیکھتے ہیں رمضان کے درس کے خاتمہ کے وقت جو دعا ہوتی ہے، اس میں جب کسی کی رقت میں آواز اونچی ہو جاتی ہے تو ایک دم سب پر رقت طاری ہو جاتی ہے اور ساری مسجد میں شور پڑ جاتا ہے.اس طرح باجماعت نماز میں اگر ایک شخص کے دل میں رفت پیدا ہو جائے گی تو باقیوں کے دلوں پر بھی اس کا اثر ہو گا.اور ان کے دل بھی نرم ہو جائیں گے.وہ بھی خاص فائدہ اٹھا لیں گے.اس کے علاوہ قلبی اثرات بھی ہوتے ہیں جن کو موجودہ علوم نے اب آکر ظاہر کیا ہے لیکن جنہیں آنحضرت نے کتنا عرصہ پہلے بتا دیا تھا.آپ مجلس میں کثرت سے استغفار پڑھا کرتے تھے.حالانکہ آپ کے لئے استغفار کی ضرورت نہ تھی.مگر آپ نے بعد میں آنے والوں کے لئے نمونہ قائم کیا کہ تم مجلس میں بیٹھ کر استغفار پڑھا کرد تا تم پر بُرے خیالات کے اثرات نہ.استغفار کے معنے صرف بدی کے روکنے کے ہی نہیں بلکہ نیکی کی توفیق پانے کے بھی ہیں.دیکھو جب مالی درختوں کے ارد گرد سے چھوٹے چھوٹے پودے اور گھاس اکھیڑ تا ہے.تو اس کا پڑیں.-

Page 542

سال ۱۹۳۲ء محمود مقصد : ۵۳۷ نہیں ہو تا کہ گھاس نہ اُگے.بلکہ یہ ہوتا ہے کہ درخت کو نقصان نہ پہنچے.اور گھاس وغیرہ کی موجودگی اس کے نشوونما میں روک نہ ہو.پس استغفار کی غرض صرف لفی نہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ مثبت کی حالت پیدا کی جائے یعنی استغفار بر خیالات کو ہی نہیں روکتا بلکہ نیک خیالات بھی پیدا کرتا ہے.اس طرح استغفار روحانیت میں بڑھانے کا بھی طریق ہے صرف گھٹانے سے بچانے کا ذریعہ ہی نہیں جس طرح اصل مقصد مالی کا گھاس کی گوڑی نہیں ہو تا کیونکہ گھاس تو اپنی تر و تازگی اور سرسبزی کی وجہ سے ایک دل خوشکن چیز ہے ، بلکہ اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ زمین کی غذا گھاس وغیرہ کو پہنچنے کی بجائے اصل درخت کو پہنچے.اسی طرح استغفار کی یہ غرض نہیں کہ انسان گناہوں سے بچ جائے بلکہ یہ ہے کہ نیکی میں ترقی کرے.پس آنحضرت لی نے مجلس میں استغفار پڑھنے کا حکم دینے سے ہم کو نہ صرف آس پاس کے بد خیالات کے اثرات سے محفوظ رہنے کے طریق سے آگاہ کیا ہے بلکہ نیک خیالات کے پیدا کرنے کا ذریعہ بھی بتلایا ہے.اصل بات یہ ہے کہ اگر برے خیالات کو دبایا جائے تو ضرور ہے کہ نیک خیالات پیدا ہوں.کیونکہ انسان کے ذہن میں خیالات تو ضرور پیدا ہوں گے.دماغ حقیقی طور پر کبھی خالی نہیں ہو سکتا.ماہرین علم النفس نے اس بات پر بحث کی ہے کہ آیا دماغ کبھی حقیقی طور پر خالی رہ سکتا ہے یا نہیں.آخر مجبور ہو کر وہ تمام اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ دماغ حقیقی طور پر کبھی خالی نہیں ہو سکتا.یا کم از کم میرے علم میں کسی علم النفس کے ماہر کا اس کے خلاف کوئی قول نہیں آیا.جب وہ کہتے ہیں کہ اپنے دماغ کو خالی کر لو تو اس کے یہی معنی ہوتے ہیں کہ سوائے اس چیز کے جس کی طرف توجہ درکار ہوتی ہے باقی چیزوں سے ذہن خالی ہو جائے.غرض استغفار صرف بدیوں کو روکتا ہی نہیں بلکہ نیکیوں کو پیدا بھی کرتا ہے.اذان بھی ایک رنگ میں استغفار کا کام دیتی ہے.وہ بھی جہاں ایک دروازہ یعنی بدی کا دروازہ بند کرتی ہے، وہاں دو سرا دروازہ یعنی نیکی کا دروازہ کھول دیتی ہے.جہاں وہ ایک طرف لوگوں کو نماز کی اطلاع دے کر بے نماز ہونے سے بچاتی ہے ، وہاں دوسری طرف قلب میں نماز کے لئے بشاشت بھی پیدا کرتی ہے.جو لوگ اذان کی طرف یعنی با جماعت نماز کی طرف توجہ نہیں کرتے ان کی نمازیں خود بخود گرنی شروع ہو جاتی ہیں.شروع شروع میں اکیلے گھر میں نمازیں پڑھنے لگ جاتے ہیں.پھر آہستہ آہستہ نمازیں جمع کرنے لگ جاتے ہیں.اور جلد ہی پھر بے قاعدہ ہو کر نماز کے تارک ہو جاتے ہیں.قرآن مجید نے جہاں بھی نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے وہاں آقِیمُوا الصلوة کہا ہے صرف صلوا نہیں کہا.اور بغیر جماعت کے نمازاً قِیمُوا الصَّلوة کی ذیل

Page 543

خطبات محمود ۵۳۸ سال ۱۹۳۲ء میں نہیں آتی.بلکہ وہ صرف صلوۃ ہے.اصل نماز اقامت والی ہی ہے.پس مؤمن کو ہمیشہ اذان کی تحریک سے فائدہ اٹھانا چاہئے.میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں بوجہ بعض جگہ مسجدوں کی کمی کے یا احمدیوں کی تعداد کی قلت کے دوستوں کو علیحدہ علیحدہ گھروں میں نماز پڑھنی پڑتی ہے.لیکن اس طریق کے نتیجہ میں نوجوانوں میں سے ایک طبقہ علیحدہ نماز پڑھنے کا عادی ہو گیا ہے.ہمارے سلسلہ کے بعض کارکن بھی جب باہر سفر میں جاتے ہیں تو کبھی نماز با جماعت نہیں پڑھتے.جس کا دوسروں پر بہت برا اثر پڑتا ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ جب مرکز کے لوگ نماز با جماعت کی کوئی پرواہ نہیں کرتے تو ہمارا کیا ہے.غرض ان کو اس وجہ سے ٹھو کر لگ جانے کا موقع ہو تا ہے.حالانکہ آنحضرت میمی نے فرمایا ہے کہ اگر دو مسلمان بھی کہیں ہوں تو اذان دے کر باجماعت نماز پڑھیں وہ کیونکہ اگر ہم باجماعت نماز نہ پڑھیں گے تو گویا ہم اپنے دلوں میں خود تفرقہ ڈال رہے ہیں.اور جب اپنے متعلق ہمارا اپنا یہ طریق ہو گا تو خدا تعالیٰ کیوں ہمارے دلوں کو ملائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو نماز اتنی پیاری تھی کہ جب کبھی بیماری وغیرہ کی وجہ سے آپ باہر تشریف نہ لا سکتے اور گھر میں ہی نماز ادا کرنی پڑتی تھی تو والدہ صاحبہ یا گھر کے بچوں کو ساتھ ملا کر نماز با جماعت پڑھا کرتے.خیر یہ تو ایک اعلیٰ نمونہ ہے.اگر ہم اتنا نہ کر سکیں تو کم از کم تندرستی کی حالت میں تو نماز با جماعت کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہئے.نماز کی ادائیگی ایک ایسی چیز ہے جو نظر آجاتی ہے.دل کا حال تو خدا ہی جانتا ہے لیکن نظر آنے والے افعال میں کو تاہی لوگوں کے لئے ٹھوکر کا موجب بن جاتی ہے.اس لئے نماز باجماعت ادا کرنے میں ہمیشہ التزام چاہئے.بے شک بعض اوقات نماز ہمیں بھی جمع کرنی پڑتی ہے.اگر چہ نماز کے جمع کرنے میں ہمارا اور غیروں کا اختلاف ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ نماز صرف اول وقت میں ہی جمع ہو سکتی ہے.لیکن ہمارے نزدیک دوسرے وقت میں بھی جمع کرنا جائز ہے.لیکن اختلاف کو چھوڑ کر جب کبھی نماز جمع کرنی پڑے تو با جماعت ہی ادا کرنی چاہئے.لوگ کہتے ہیں اذان کا کیا فائدہ ہے.حالانکہ اگر اس کی کوئی حقیقت نہ ہوتی تو حَى عَلَى الْفَلَاح کیوں کہا جاتا.پھر تو یہی کہنا چاہئے تھا کہ گھر میں ہی فلاح ہے اٹھو اور حاصل کر لو.لیکن کہا یہ گیا ہے کہ فلاح جماعت میں ہے.یعنی اگر باجماعت نماز پڑھو تو کامیابی ہوگی.بغیر اس کے کامیابی حاصل نہ ہوگی.غرض نماز کو انتظام کے ماتحت یعنی باجماعت ادا کرنا چاہئے.

Page 544

3.خطبات محمود ۵۳۹ سال ۱۹۳۲ء حضرت خلیفۃ المسیح الاول فرمایا کرتے تھے کہ ایک شخص تھا جس کی تنخواہ اگر چہ کچھ زیادہ نہ تھی مگر اس نے ایک ملازم صرف اس لئے رکھا ہوا تھا تا اس کے ساتھ مل کر نماز باجماعت پڑھ لیا کرے.ویسے اس کے نوکر کو اور کوئی اتنا کام نہ تھا.بلکہ تمام کام مالک خود کر لیا کرتا تھا.نوکر کو اس نے محض اس غرض سے رکھا ہو ا تھا.تا نماز با جماعت کے ثواب سے محروم نہ رہے.غرض حقیقت یہی ہے کہ نماز با جماعت ہی اپنے اندر فلاح رکھتی ہے.اس کے بغیر کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی.انسان کے اندر کئی قسم کی کمزوریاں ہوتی ہیں خواہ جہالت کی وجہ سے اور خواہ علم کی کمی کی وجہ ہے.اور یہ کمزوریاں نیک لوگوں کی صحبت سے ہی دور ہو سکتی ہیں کیونکہ جب انسان دوسرے لوگوں سے ملتا ہے تو اس کا علم تازہ ہو جاتا ہے.اور لوگوں سے ملنے کا بہترین موقع نماز ہی ہے.غرض اذان پانچ وقت مومن کو یاد دلاتی ہے کہ بغیر اشتراک اور اتحاد کے کوئی کامیابی نصیب نہیں ہو سکتی.الفضل ۱۵- ستمبر ۱۹۳۲ء) ل بخاری کتاب الاذان باب من قال ليؤذن في السفر موزن واحد ا بود و دکتاب الصلوة باب كيف الأذان ابن ماجه کتاب الاداب باب الاستغفار البقرة : ۴۴ و بخارى كتاب الأذان باب اثنان فما فوقها جماعة

Page 545

خطبات محمود ۵۴۰ 63 سال ۱۹۳۲ء قرآن کریم کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرو (فرموده ۱۹- اگست ۱۹۳۲ء) تشهد و تعوذ سورة فاتحہ اور آیات کریمہ الم ذَلِكَ الْكِتُبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ على تلاوت کے بعد فرمایا :- اللہ تعالیٰ نے دنیا کی راہنمائی اور بہتری کے لئے قرآن کریم نازل فرمایا ہے.کروڑوں آدمی ہر زمانہ میں اس پر ایمان لاتے رہے ہیں اور مجموعی تعداد مسلمانوں کی آج تک پندرہ ہیں ارب بلکہ اس سے بھی زیادہ گزری ہے.گویا بنی نوع انسان کی ایک دفعہ کی آبادی کئی دفعہ مسلمان ہو کر مرچکی ہے.لیکن چونکہ عام طور پر لوگ ایمان اور اسلام کی حقیقت سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اس لئے جو لوگ ماننے والوں میں ہوتے ہیں ان کا بھی ایک حصہ جزئی یا کلی طور پر نہ ماننے والوں میں شامل ہوتا ہے.ان کے مونہوں پر ایمان ہوتا ہے ان کی زبانوں پر ایمان ہوتا ہے بسا اوقات انکے چہروں پر بھی ایمان ہوتا ہے.اور کئی دفعہ ان کے دل میں بھی ایمان ہوتا ہے لیکن باوجود اس کے وہ حقیقت ایمان سے معرا ہوتے ہیں.وہ ایمان نجات تو شاید حاصل کر لیتے ہیں لیکن ایمان تقرب سے محروم رہتے ہیں.دنیا میں کئی انسان ایسے ہوتے ہیں جو جاہل کہلانے کے مستحق نہیں ہوتے لیکن باوجود اس کے انہیں کوئی عالم بھی نہیں کہتا.جس طرح کئی انسان بیمار کہلانے کے مستحق نہیں ہوتے لیکن وہ رستم و اسفندیار کے ساتھی بھی نہیں کہلا سکتے.اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ قلیل پر قانع ہو جاتے ہیں.پس وہ نجات تو پا جاتے ہیں لیکن قرب الہی کی نعمت سے محروم رہتے ہیں.رسول کریم میں ایک دفعہ ایک مجلس میں تشریف رکھتے تھے.ایک اعرابی آیا اور اس نے

Page 546

خطبات محمود ۵۴۱ سال ۱۹۳۲ء کہا یا رسول اللہ میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا خدا نے آپ کو کہا ہے کہ پانچ وقت کی نماز پڑھنی چاہئے.آپ نے فرمایا ہاں اس نے پھر کہا میں آپ کو خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ کو خدا نے کہا ہے کہ ہر سطح پر عمر بھر میں ایک دفعہ حج فرض ہے.آپ نے فرمایا ہاں اسی طرح اس نے روزوں کے متعلق پوچھا.زکوۃ کے متعلق دریافت کیا.پھر اٹھا اور کہنے لگا میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں میں ان احکام پر ضرور عمل کروں گا.مگر ان سے زیادہ نہیں کروں گا.رسول کریم نے یہ سن کر فرمایا اگر اس نے سچ بولا ہے تو یہ نجات پا گیا ہے.یعنی جو کچھ اس نے کہا ہے اگر اس پر عمل کیا تو نجات حاصل کرلے گا.پس اس میں شبہ نہیں کہ فرائض کی ادائیگی انسان کو نجات دلا سکتی ہے.اور اس میں بھی شبہ نہیں کہ مجمل ایمان بھی ایک حد تک نجات دلا سکتا ہے.جب سچے دل سے ایک انسان یہ سمجھتا ہو کہ وہ قرآن کریم کو مانتا ہے اور پھر بچے دل سے اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہو تو گو اس سے معمولی غلطیاں بھی سرزد ہوں اللہ تعالیٰ کا فضل اسے ڈھانپ لیتا اور اسے نجات کا وارث بنا دیتا ہے لیکن نجات انسان کا اصل مقصود نہیں.نجات کے معنی ہیں عذابوں ، تکلیفوں اور دکھوں سے محفوظ ہو جاتا.میں اس وقت نجات سے مراد عام اصطلاح لے رہا ہوں.میر انشاء اس نجات سے نہیں جو قرآن کریم نے بیان کی ہے.وہ بالکل اور نجات ہے اور یہ بالکل اور قسم کی.تو نجات کے عام معنے لغت کے لحاظ سے یا عام محاورہ کے لحاظ سے عذابوں اور دکھوں سے بچ جانے کے ہیں.اب کون شخص اس امر کو تسلیم کر سکتا ہے کہ اللہ تعالی نے مخلوق کو اس لئے پیدا کیا ہے تا وہ عذابوں سے بچ جائے.یہ تو اس صورت میں بھی مقصد حاصل تھا جب وہ کسی کو پیدا ہی نہ کرتا.اس صورت میں سارے انسان عذابوں سے محفوظ تھے.انسان کو پیدا کر کے یہ کہنا کہ یہ اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ تا عذابوں سے محفوظ ہو جائے بالکل بے معنی بات ہے.پس نجات انسان کا مقصود نہیں.اگر انسان نہ بھی پیدا ہو تا تو بھی وہ جہنم سے بچا ہوا ہو تا.لیکن اللہ تعالی کا دنیا کو پیدا کرنا بتاتا ہے کہ اس سے مراد کوئی ایسا مقصد ہے جو پیدا کرنے کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا تھا.پس نجات انسان کا مقصد نہیں بلکہ انسانی پیدائش کا مقصد قرب الہی ہے.اگر انسان نے قرب الہی حاصل کر لیا تو اس نے اپنے منتہائے زندگی کو حاصل کر لیا.کیونکہ مقصد ہمیشہ وہ ہوا کرتا ہے جو پہلے انسان کو حاصل نہ ہو.اگر انسانی پیدائش کا مقصد صرف نجات ہے تو دکھوں اور عذابوں سے بچ جانا کونسی نئی بات ہے جو بغیر پیدا ہوئے حاصل نہیں ہو سکتی تھی.اگر انسان پیدا نہ ہو تاتو بھی وہ مال کے نقصان سے بچا ہوا ہو تا تجارت کے نقصان سے محفوظ

Page 547

خطبات محمود ۵۴۲ ہو تا ، جھوٹے مقدمات کی معرات سے محفوظ ہوتا کوئی ڈاکو اس پر حملہ کرتا کوئی دشمن اسکی آبرو ریزی نہ کرتا اسکے حقوق تلف نہ ہوئے بادشاہ ظلم نہ کرتا ، ہمسائے کی تکلیف سے بچا رہتا لوگ اس پر بہتان نہ باندھتے اسکے بیوی بچے نہ ہوتے نہ مرتے.پس اگر پیدا ہو کر بھی انہیں نقصانات سے نجات ملی تو کونسی زائد چیز مل گئی.حقیقت وہ ہوتی ہے جو حقیقت مثبتہ ہو اور اس میں کوئی زائد چیز انسان کو حاصل ہو اور میں نے بتایا ہے کہ وہ زائد چیز قرب الہی ہے.اس میں شبہ نہیں کہ اگر انسان پیدا نہ ہوا ہو تا تو وہ اسی طرح نجات پایا ہوا ہوتا جس طرح پیدا ہو کر وہ نجات حاصل کرتا.لیکن جو پیدا ہوا اور اس نے قرب الہی حاصل کیا اس نے ایک نئی چیز حاصل کی اور ایسی نعمت پائی جو بغیر پیدا ہوئے وہ نہیں پا سکتا تھا.پس محض نجات مومن کا مقصود نہیں.البتہ کافر کا یہ مقصد قرار دیا جا سکتا ہے.کوئی تندرست اپنا یہ مقصود قرار نہیں دیتا کہ وہ بخار سے بچ جائے.ہاں بیمار کا یہ مقصد ہو گا.اسی طرح جو جہنم میں پڑا ہوا ہے وہ تو کہہ سکتا ہے کہ میں جنم سے بچ جاؤں لیکن جو جہنم میں نہیں وہ نہیں کہ سکتا کیونکہ وہ پہلے ہی باہر ہے.پس محض نجات کا فر کا مقصد ہو سکتی ہے لیکن مومن کا مقصد نہیں ہو سکتی.یہی وجہ ہے کہ سوائے اسلام کے تمام مذاہب والے نجات پر ہی بحث کرتے ہیں.کیونکہ انکے دل محسوس کرتے ہیں کہ وہ جہنم میں پڑے ہوئے ہیں.یہودی عیسائی، ہندو، سکھ غرض سب مذاہب والے نجات کا ذکر کریں گے.اور اسی پر بحثیں کریں گے مگر قرآن کریم نجات کا بہت ہی کم لفظ استعمال کرتا ہے یا نجات کے ہم معنی الفاظ شاذ کے طور پر استعمال کرتا ہے.قرآن کریم جس بات پر زور دیتا ہے وہ قرب الہی ہے.بار بار فرماتا ہے وَ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ کے کہ یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں.اس قسم کے الفاظ معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی نقطہ نگاہ سے اللہ تعالی کی رضاء اور اسکی محبت کا حاصل ہو جانا بلند ترین مدارج رو حانیہ کا حاصل ہونا اعلیٰ روحانی طاقتوں کا حاصل ہونا اور دنیا میں ہی ایک نئی زندگی حاصل ہو جانا یہ چیزیں ہیں جن کی ضرورت ہے اور یہ چیزیں ہیں جن پر اسلام زور دیتا ہے.اور اسی لئے مومن جب تمنا کرے گا تقرب الہی کی کرے گا جس کے حصول کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ انسان قرآن کریم سمجھے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے.میں یہ امید نہیں کر سکتا کہ کسی انسان سے کوئی غلطی سرزد نہ ہو کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ کلی طور پر انسانی غلطیوں سے پاک ہونا انسانی طاقتوں سے بالا ہے.اور کلی طور پر شرعی غلطیوں سے پاک ہونا اللہ تعالیٰ کے خاص خاص بندوں کا حصہ ہوتا باقی سے قصور ہے.

Page 548

خطبات محمود ۵۴۳ سال ۱۹۳۲ء سرزد ہوتے ہیں مگر وہ لم کے طور پر ہوتے ہیں.ان کا دل پر اثر نہیں ہو تا.وہ ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے ایک نظافت پسند اور صاف کپڑے پہننے والا شخص جب بازار میں ہے گزرتا ہے تو غلاظت کے چھینٹے اس کے کپڑوں پر پڑ جاتے ہیں.لیکن عام طور پر ایسے شخص کی حالت اچھی ہوتی ہے اور کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ غلیظ ہے.کیونکہ اسے گندگی کے ساتھ شغف پیدا نہیں ہو تا.ایک بازار سے گزرنے والا انسان جس پر غلاظت کے چھینٹے پڑ جاتے ہیں اور اس دھوتی پوش لالہ میں کیا فرق ہے جو نہایت گندی دھوتی پہنے ہوتا ہے.اور دکان سے اتر کر نیچے نالی میں پیشاب کرتا اور دھوتی سے ہی پیشاب پونچھ کر حلوا پوری بنانے لگ جاتا ہے.بظاہر پہلے شخص کے کپڑوں پر بھی غلاظت پڑی اور لالہ کے کپڑوں کو بھی غلاظت لگی.مگر کیا کوئی عقل تسلیم کر سکتی ہے کہ یہ دونوں ایک ہی جیسے ہیں.ہر سمجھدار شخص کے گا کہ وہ لالہ جس نے نالی میں پیشاب کیا اور پھر کپڑے سے پونچھ کر دکان پر آبیٹھا، وہ غلاظت کو پسند کرتا ہے.مگر وہ نظیف الطبع انسان جس پر چلتے چلتے گندگی کے چھینٹے آپڑے وہ غلاظت کو نا پسند کرتا ہے.اس اللہ کے دل میں غلاظت ہے مگر اس شخص کے ظاہر پر غلاظت ہے.پس جو کامل مومن ہوتا ہے بسا اوقات اس سے بھی غلطیاں ہو جاتی ہیں.کئی دفعہ مجبوریاں ایسی پیش آجاتی ہیں جن کی وجہ سے غلطی ہو جاتی ہے.اور بعض دفعہ غفلت بھی گناہ کا موجب بن جاتی ہے.غفلت کی مثال میں رسول کریم میں یہ فرماتے ہیں کہ جب سوتے سے آدمی اٹھے تو چاہئے کہ ہاتھ دھو کر برتن میں ڈالے کیونکہ کیا معلوم اس کا ہاتھ ہوتے وقت کہاں پڑ گیا.جس طرح جسم پر سونے کی حالت میں غفلت طاری ہوتی ہے اسی طرح روح پر بھی بعض اوقات غفلت غالب آجاتی ہے.اور وہ غفلت ایسی ہی ہوتی ہے جیسے صاف کپڑوں والے انسان پر غلاظت کے چھینٹے پڑیں.لیکن ایسی غفلت نہ صرف یہ کہ درجہ کو گھٹاتی نہیں بلکہ بسا اوقات درجہ کو بلند کر دیتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت معاویہ کے متعلق سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ فجر کی نماز کے وقت ان کی آنکھ نہ کھلی جب اٹھے تو نماز فوت ہو چکی تھی.اس پر انہیں اس قدر صدمہ ہوا کہ سارا دن روتے رہے.اور انہوں نے اس غم کی وجہ سے زندگی میں موت دیکھ لی.دوسرے دن وہ سو رہے تھے کہ کشفاً ان کو کسی نے آکر جگایا اور کہا کہ اٹھو جلدی کرو نماز میں دیر ہو رہی ہے.انہوں نے پوچھا تو کون ہے.وہ کہنے لگا میں شیطان ہوں.حضرت معاویہ نے کہا تیرا کام تو نماز سے روکنا ہے تو نماز کے لئے جگاتا کیوں ہے.وہ کہنے لگا میں نے تمہیں نماز سے روک کر دیکھ لیا ہے.

Page 549

خطبات محمود ۵۴۴ سال ۱۹۳۳ء اس طرح مجھے گھاٹا رہا.کل جب میں نے تجھے سلائے رکھا تو اس نماز کے رہ جانے کی وجہ سے تجھے اس قدر صدمہ ہوا کہ تو سہارا دن روتا رہا.اس پر اللہ تعالٰی نے کہا کہ میرے بندے کو بہت ہی دکھ ہوا ہے اسے ایک کی بجائے سو با جماعت نمازوں کا ثواب دے دیا جائے.مجھے افسوس ہوا کہ میں تو ایک کے ثواب سے بھی محروم رکھنا چاہتا تھا مگر اسے تو سو باجماعت نمازوں کا ثواب مل گیا.آج میں جگانے آیا ہوں کہ کہیں پھر تجھے سو نمازوں کا ثواب نہ مل جائے.پس اگر انسان سچا اور کامل مومن بنے تو اس کی غلطیاں بھی نیکی بن جاتی ہیں.اور اس کے قصور بھی ترقی کا موجب ہو جاتے ہیں اس کے گرانے کا موجب نہیں بنتے.مگر شرط یہی ہے کہ اس کے دل میں جو اللہ تعالیٰ کی محبت اور توکل ہو اسے صدمہ نہ پہنچے.گویا اس کی حالت اس گلی میں سے گزرنے والے انسان کی طرح ہو جس کے کپڑے مصفی ہوں اور جو خود بھی نظیف الطبع ہو.مگر باہر سے اس پر چند چھینٹے غلاظت کے آپڑیں اور وہ اپنے ماحول سے متاثر ہو جائے.اس لالہ کی طرح نہ ہو جو دکان سے اتر کر نالی میں پیشاب کرتا اور پھر پیشاب کے چھینٹوں کو دھوتی سے پونچھ لیتا اور انہی گندے ہاتھوں سے حلوا پوری بنانے لگ جاتا ہے.مگر یہ کامل ایمان کی حالت قرآن کریم سے نصیب ہوتی ہے جب انسان قرآن کریم کو سمجھتا اور اس پر عمل کرتا ہے تب اسے تفصیلی ایمان نصیب ہو تا ہے.مگر بہت لوگ اجمالی ایمان کے حصول پر ہی یہ خیال کر لیتے ہیں کہ انہیں تفصیلی ایمان حاصل ہو گیا.ایسے لوگ حقیقی تو نہیں لیکن نجاتی مومن کہلا سکتے ہیں.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ہماری جماعت کا ایک حصہ طاعونی احمد ی ہے.یعنی ہزاروں ایسے لوگ ہماری جماعت میں شامل ہیں جو اگرچہ احمدیت قبول نہ کرنے کی حالت میں بھی احمدیت کو سچا سمجھتے تھے لیکن اگر طاعون نہ آتی تو وہ کہتے کہ میں ظاہر اجماعت میں شامل ہونے کی کیا ضرورت ہے اتناہی کافی ہے کہ ہم نے دل میں احمدیت کو سچا مان لیا.مگر جب طاعون آئی اور اس نے احمدی اور غیر احمدی میں ممتاز فرق پیدا کرنا شروع کیا اور انہوں نے دیکھا کہ طاعون غیر احمدیوں کو کھائے چلی جارہی ہے تو وہ کھلے طور پر احمدی کہلانے لگ گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بنتے ہوئے اس حصہ جماعت کو طاعونی احمدی کہا کرتے تھے.اسی طرح وہ شخص جس کا مقصد صرف یہ ہو کہ وہ دوزخ سے بچ جائے ، اللہ تعالیٰ کے عذابوں سے محفوظ رہے وہ طاعونی احمدی کی طرح نجاتی مومن تو کہلا سکتا ہے مگر حقیقی نہیں.حقیقی وہی ہے جسے تقرب الہی کی خواہش ہو اور پھر وہ اس کے حصول کے لئے کوشش بھی کرے.مگر یہ چیز تفصیلی ایمان کے بغیر نصیب نہیں ہوتی.

Page 550

خطبات محمود ۵۴۵ سال ۱۹۳۲ء میں دیکھتا ہوں کہ بہت لوگ ایسے ہیں اور مجھے افسوس ہے کہ ہماری جماعت میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو قرآن مجید سے تفصیلی ایمان حاصل کرنے کی خواہش نہیں رکھتے.یوں دنیا میں ہر شخص اپنے نفس کو خوش کرنے کے لئے بہانے بنالیتا ہے.حتی کہ چور بھی بہانے بنا لیتے ہیں اور فاحشہ عورتیں بھی.پس اگر ایسے لوگ بھی کسی بہانہ کی آڑ لے لیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں.حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے ایک چور سے میں نے پوچھا کہ تم راتوں کو جاگتے اور اپنے آپ کو مشکلات میں ڈال کر چوری کرتے اور دوسروں کا مال لوٹتے ہو تمہیں شرم نہیں آتی کہ حرام کی روزی کھاتے ہو.وہ کہنے لگا واہ مولوی صاحب کوئی شخص ہماری جیسی بھی حلال روزی کماتا ہے.راتیں ہم جاگ کر کاٹتے ہیں، قید و بند کی مصیبتوں میں ہم اپنے آپ کو ڈالتے ہیں، جان کا ہمیں خطرہ ہوتا ہے، اس کے بعد ہزاروں مشکلات پیش آتی ہیں ان پر غالب آکر ہم پیسہ نکالتے ہیں ہم سے زیادہ حلال کی کمائی اور کس کی ہو سکتی ہے ؟ تو چور نے بھی اپنے نفس کو خوش کرنے کے لئے بہانہ بنا لیا.اسی طرح فرماتے تھے ایک کنچنی ایک دفعہ کہنے لگی.ہم سے زیادہ کون حلال روزی کماتا ہے.دنیا میں ہر شخص سودے میں دو سرے کو لوٹتا ہے اور اس کی تمام کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ لے زیادہ اور دے کم مگر ہم وہ چیز دیتی ہیں جس کی کوئی قیمت ہی نہیں دے سکتا.غرض ہر شخص اپنے لئے کوئی نہ کوئی گذر اور بہانہ تلاش کر لیتا ہے.اس قسم کے بہانوں کو نظر انداز کر کے اگر ہم اصل حقیقت کو دیکھیں تو درحقیقت قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے انسان کے لئے ایسے احکام بیان کر دیئے ہیں کہ استثنائی صورتوں کو چھوڑ کر باقی تمام حالتوں کے لئے وہ کافی ہیں اور انسان ان پر عمل کر سکتا ہے.استثنائی صورتیں ہرامر میں پیدا ہو جاتی ہیں مگر انہیں علیحدہ کر کے عام حالات کے لئے عام قاعدے جاری ہوا کرتے ہیں.مگر یہ بہانہ ساز شخص استثنائی صورتوں کو اپنے لئے قاعدہ اور قاعدہ کو استثنائی صورت قرار دیدیتا ہے اور نہیں سمجھتا کہ وہ اپنے نفس کو خوش کرنے کے لئے قاعدے کو استثناء اور استثناء کو قاعدہ بنا رہا ہے.اگر وہ اس بہانہ کو ترک کر دے تو اسے نظر آجائے کہ قرآن مجید میں ہمارے لئے ہر قسم کے احکام موجود ہیں.ان لوگوں کے لئے بھی احکام موجود ہیں جو جھوٹ بولتے ہیں.اور ان لوگوں کے لئے بھی جو سچ بولتے ہیں، ان لوگوں کے لئے بھی احکام ہیں جو دیانتدار ہیں اور ان لوگوں کے لئے بھی جو غیر دیانتدار ہیں اسی طرح ان لوگوں کے لئے بھی احکام ہیں جو نیکو کار ہیں اور ان کے لئے بھی جو بد کار ہیں ، امینوں کے لئے بھی احکام ہیں اور خانوں کے لئے بھی انکے لئے بھی احکام ہیں جو اپنے بھائیوں کے اموال کی حفاظت

Page 551

خطبات محمود ۵۴۶ سال ۱۹۳۲ء کرتے ہیں اور ان کے لئے بھی جو دوسروں کا مال چراتے ہیں ، ان کے لئے بھی جو دل کے صاف ہیں اور ان کے لئے بھی دل کے کھوئے ہیں ان کے لئے بھی احکام ہیں جو عبادات بجالاتے ہیں اور انکے لئے بھی جو نمازوں میں ست ہیں ، افسروں کے لئے بھی احکام ہیں اور ماتحتوں کے لئے بھی خاوندوں کے لئے بھی اور بیویوں کے لئے بھی والدین کے لئے بھی اور بچوں کے لئے بھی دوستوں کے لئے بھی اور دشمنوں کے لئے بھی ہم قوم اشخاص کے لئے بھی اور ان کے لئے بھی جو غیر قوموں سے تعلق رکھتے ہیں ، پھر اپنے مذہب والوں کے لئے بھی احکام ہیں اور غیر مذاہب والوں کے لئے بھی ملکیوں کے لئے بھی اور غیر ملکیوں کے لئے بھی، غرض دنیا کا کوئی کام اور کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کے لئے اللہ تعالٰی کے احکام موجود نہ ہوں مگر ہم میں سے جو کمزور ایمان والے ہیں اگر ان کے سامنے کوئی عمل کے لئے بات رکھی جائے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ استثنائی صورت ہے.اور یہ کہ اگر اس پر عمل کیا جائے تو امن قائم نہیں رہ سکتا.یہ نہیں کہ جب وہ ایسا کہہ رہے ہوتے ہیں تو قرآن کو جھوٹا سمجھتے ہیں وہ قرآن کو سچا سمجھتے ہیں بلکہ جب وہ یہ کہہ رہے ہوتے ہیں تب بھی قرآن کو سچا سمجھ رہے ہوتے ہیں.لیکن نقص یہ ہے کہ وہ اپنے نفس کو یہ کہہ کر تسلی دے لیتے ہیں کہ ہر چیز میں استثناء ہوتا ہے.اور وہ اس امر کو بھول جاتے ہیں کہ استثناء کے لئے بھی قاعدے مقرر ہیں.وہ یہ تو جائیں گے کہ اگر دونوں ہاتھ کٹ جائیں تو وضو کرنا نا ممکن ہو گا یا اگر لاتیں کٹ جائیں تو پاؤں دھونے سے منتقلی ہو جائیں گے لیکن وہ یہ نہیں سوچیں گے کہ آیا ان کے پاؤں نہ دھونے یا وضو نہ کر سکنے کی یہی وجہ ہے یا کچھ اور.وہ استثنائی صورتوں کو دیکھ کر اپنے آپ کو ان کے ماتحت لانے کی کوشش کریں گے.اور اس طرح باو جودا جمالی ایمان حاصل ہونے کے تفصیلی ایمان حاصل کرنے سے محروم ہو جائیں گئے.میں نے کئی لوگوں سے یہ بات سنی ہے جب انہیں کہا جائے کہ شریعت نے فلاں مسئلہ بتایا ہے تو وہ کہہ دیں گے ٹھیک ہے لیکن آج کل اس پر عمل کرنے سے بدامنی پھیلتی ہے.گویا قرآن مجید نعوذ با الله بد امنی پھیلانے کے لئے آیا ہے.اگر ایسے لوگ اپنے اس قول کی آپ ہی تشریح کریں تو انہیں معلوم ہو کہ وہ قرآن مجید پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ گویا اس کی تعلیمات بدامنی پھیلانے کا موجب ہیں.حالانکہ اس کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں جو انسان کو تباہی کی طرف لے جائے.چنانچہ دیکھ لو قرآن مجید کی ابتداء ہی اس سوال سے ہوتی ہے.اللہ تعالی فرماتا ہے الم ذَلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ عَلى بات جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بتائی ہے یہ ہے کہ لا رَيْبَ فِيهِ یعنی قرآن کریم میں کوئی ایسا

Page 552

خطبات محمود ۵۴۷ سال ۱۹۳۲ء حکم نہیں جو نقصان زمان ہو.ریب کے معنی کاٹنے اور قطع کرنے کے ہوتے ہیں.تو لا ريب فيه کے یہ معنی ہوئے کہ اس میں کوئی ایسی تعلیم نہیں جو کاٹنے والی ہو یعنی نقصان اور ضرر پہنچانے والی ہو.اب اگر یہ تسلیم کرلیں کہ قرآن مجید پر عمل کر کے دنیا میں فساد واقع ہو جاتا ہے تو لا ریب فیہ جس کا ابتدائے قرآن میں ہی ذکر آیا ہے باطل ہو جاتا ہے.اور اس صورت میں دو باتوں میں سے ایک ضرور تسلیم کرنی پڑے گی.یا تو یہ کہ جو کچھ قرآن نے کہا سچ ہے.اس صورت میں ہمارا قرآن کی تعلیم کو نقصان رساں سمجھنا ہماری عقل کی کوتاہی ہوگی اور اگر قرآن کی پہلی آیت ہی جھوٹی نکلی تو اگلی آیتوں کا کیا اعتبار رہا.کسی نے کہا ہے خشت اول چون نهد تا ثریا معمار روز دیوار سج اگر پہلی اینٹ ہی معمار ٹیڑھی رکھے گا تو باقی عمارت کہاں درست ہو گی.اسی طرح اگر وہ پہلی آیت جو بسم الله الرحمنِ الرَّحِيمِ اورسورہ فاتحہ کے بعد جو قرآن عظیم ہے غلط نکلی تو پھرباقی قرآن بھی غلط ہو گا اور اگر قرآن مجید صحیح ہے تو پھر یہ پہلی آیت بھی صحیح ہے کہ ذلِكَ الْكِتُبُ لَا ریب فیہ یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی ضرر والی بات نہیں.اگر کوئی شخص کہے کہ میرا تجربہ ہے رَيْبَ فِيهِ کہ میں نے قرآن مجید سے فلاں امرمین فیصلہ چاہا مگر اس کا نتیجہ خراب نکلا.تو اس کا بھی جواب دے دیا کہ هُدًى لِلْمُتَّن قرآن ضرر سے تو پاک ہے مگر ساتھ ہی یہ شرط ہے کہ انسان کا تقویٰ کامل ہو.اگر تقویٰ کامل نہ ہو تو بہت دفعہ بجائے فائدہ حاصل کرنے کے انسان کو نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے.پس اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ مجھے قرآن کے کسی حکم پر عمل کرنے سے نقصان ہوا تو میں اسے کہوں گا کہ اگر ایسی ہی بات ہے تو پھر تم متقی نہیں.کیونکہ اگر تم متقی ہوتے تو قرآن تمہیں.نقصان نہ پہنچا تا بلکہ فائدہ پہنچاتا.دوسری جگہ اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے یہ قرآن منافقوں اور ان کی ذریت کو نقصان پہنچاتا ہے.مگر مومنوں کے متعلق آتا ہے کہ یہ انہیں کامیابی کی منزل کے قریب لے جاتا ہے.پس اگر کسی کو قرآن مجید پر عمل کرنے سے نقصان پہنچا ہو تو یقینا اپنے تقویٰ کے نقص کی وجہ سے پہنچا.اور اگر وہ غور کرے گا تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ قرآن مجید کی غلطی نہیں بلکہ اس کی اپنی ہے.دنیا میں بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ مشین کی طرح کام کرتی ہیں ان کا اپنا ارادہ اس میں داخل نہیں ہو تا.مثلا مشین کی سوئی ہے یہ جب چھے گی تو انسان کو زخمی کرے گی.اس میں یہ قدرت نہیں کہ جسے چاہے زخمی کرے اور جسے چاہے نہ کرے یا ایک کو لہو

Page 553

خطبات محمود ۵۴۸ سال ۱۹۳۲ء کے اندر اگر کوئی ہاتھ دے گا تو وہ یقینا پس جائے گا.ایک رس نکالنے والے بلینے کے اندر ہاتھ رکھ دے گا تو بھی ہاتھ سلامت نہیں رہے گا.آگ کے اندر ہاتھ ڈالو گے تو بھی جل جائے گا.مگر قرآن مجید ایسی کتاب نہیں جو مشین کی طرح بے اختیارانہ کام کرتی ہو بلکہ وہ زندہ کتاب ہے اور زندہ کتاب زندہ انسانوں کی طرح ہوتی ہے.ایک بادشاہ اپنے پہریدار کو ایک جگہ کھڑا کرتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ کسی کو اندرمت آنے دو.اگر کوئی زبر دستی اندر آئے تو اس کو گولی مار دو.اب کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ جب چور بھی اسی جگہ جاتا ہے جہاں پہریدار کھڑا ہے تو کیا وجہ ہے کہ پہریدار کو تو بادشاہ کچھ نہیں کہتا اور دوسرے کو گولی مارنے کا حکم دیتا ہے.وجہ یہ ہے کہ بادشاہ مشین کے طور پر نہیں مار تا بلکہ اس کی گولی دشمن کو مارتی اور دوست کو بچاتی ہے.یہی حال قرآن کریم کا ہے وہ اپنے دوستوں کو آگ کی طرح نقصان نہیں پہنچا تا بلکہ اس کی آیات پھول کی مانہ شگفتہ ہیں جن سے وہ روحانی ترو تازگی محسوس کرتے ہیں.لیکن یہی قرآن کریم آگ بن کر دشمن کی کھیتی پر گرتا اور اسے بھسم کر دیتا ہے.یہی قرآن مجید کی خوبی ہے.وہ کتاب جو یہ دعوئی کرتی ہو کہ وہ مومن و کافر سے یکساں سلوک کرتی ہے یا الفاظ دیگر وہ یہ دعوی کرتی ہے کہ وہ مشین ہے جس سے اچھے اور برے سب کو یکساں حصہ ملتا ہے.لیکن قرآن مجید مشین نہیں بلکہ وہ زندہ کتاب ہے.نادان کہتے ہیں کہ قرآن میں آتا ہے هُدًى لِلْمُتَّقِينَ میں متقیوں کے لئے ہدایت نامہ ہوں.اور ان کے نزدیک یہ قابل اعتراض بات ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہنا یہ چاہئے تھا میں فاسقوں اور فاجروں کے لئے ہدایت نامہ ہوں.مگر وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ قرآن مجید کی عظیم الشان خوبی بیان کی گئی ہے.اگر قرآن مشین کی طرح ہو تا تو وہ سب سے یکساں سلوک کرتا.ایک یہودی ایک عیسائی ایک ہندو ایک سکھ سب اس کے نزدیک برابر ہوتے.لیکن چونکہ وہ زندہ کتاب ہے اس لئے مومن و کافر میں امتیاز کرتا ہے.سوائے ان عام قواعد کے جو کافر و مومن کے لئے برابر رکھے گئے ہیں ان کو چھوڑ کر باقی تمام جگہوں میں قرآن کریم اپنوں اور غیروں ، متقیوں اور غیر متقیوں میں فرق کرے گا.اور یہی معنی ہیں اس آیت کے کہ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ جو ایمان تقویٰ سے آتا ہے وہ فائدہ پہنچاتا ہے مگر جو ایمان تقویٰ سے حاصل نہیں ہو تا وہ نقصان پہنچاتا ہے جیسے کوئی شخص بادشاہ کے محل میں جائے اور وہ گولی سے زخمی ہو جائے تو کہے کہ بادشاہ اچھا منصف ہے جو اس کے پاس جاتا ہے اسے گولی مار دیتا ہے.ہر شخص کہے گا کہ یہ غلط ہے اصل بات یہ ہے کہ چونکہ تم نے داخلہ کی اجازت حاصل نہ کی تاکہ تم دوست سمجھے جاتے.بلکہ چوروں کی

Page 554

خطبات محمود ۵۴۹ سال ۱۹۳۲ء طرح داخل ہوئے اس لئے تم سے چوروں کا سا سلوک ہوا.اگر دوستوں کی طرح داخل ہوتے اور پہلے اجازت لے لیتے تو پھر تم سے دوستوں کا سا سلوک کرتا.پس میں اپنے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ قرآن مجید سے تفصیلی ایمان حاصل کرنے کی کوشش کریں.آج کل یہاں ایک لوکل انجمن بنی ہوئی ہے.مجھے افسوس ہے کہ اس میں قطعاً قرآن مجید کی تفاصیل کو مد نظر نہیں رکھا جاتا.کئی قاضی ایسے مقرر کئے گئے ہیں جنہیں شاید قرآن مجید کی ایک آیت کا صحیح ترجمہ بھی نہ آتا ہو.پھر وہ کئی ایسے فیصلے کرتے ہیں جنہیں جب میں پڑھتا ہوں تو حیران ہو تا ہوں کہ یہ کس شریعت کے ماتحت کئے گئے ہیں.محض اپنے دماغ پر زور دے کر فیصلے کئے جاتے ہیں.اور دماغ بھی وہ جو غیر تربیت یافتہ اور اپنے صحیح مقام سے ہٹا ہوا ہے.اگر تم نے فیصلے ہی کرنے ہیں تو کیوں قرآن کے ماتحت نہیں کرتے اور کیوں محض اپنی عقلی تجاویز پر زور دیتے ہو.اللہ تعالٰی فرماتا ہے ذلِكَ الْكِتُبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ اس میں کوئی ایسی بات نہیں جو بنی نوع انسان اور خصوصانی کی جماعت میں داخل ہونے والوں کو نقصان پہنچا سکے.اور اگر تمہیں نقصان پہنچتا ہے اور تم دیکھتے ہو کہ تمہارے امور میں خلل واقع ہو رہا ہے تو اس کی ایک ہی وجہ ہو سکتی ہے اور وہ یہ کہ تم قرآن مجید سے فیصلہ نہیں کرتے.کوئی شخص قرآن کو چھوڑ کر فائدہ نہیں اٹھا سکتا.اگر وہ قرآن کی باتوں کو نظر انداز کر کے دنیا میں امن قائم کرنا چاہتا ہے تو بھی وہ نقصان اٹھائے گا اور اگر جانتے ہوئے ادھر توجہ نہیں کرتا تو بھی نقصان اٹھائے گا.یہی ایسی کتاب ہے جو تمہارے لئے خضر راہ ہے اور یہی ایسی کتاب ہے جو قیامت تک تمہارے لئے خضر راہ رہے گی.کوئی بھی شخص ہو خواہ وہ احمدی ہو یا غیر احمدی ، عیسائی ہو یا ہندو کوئی شخص فائدہ حاصل نہیں کر سکے گا جب تک وہ صحیح طور پر قرآن مجید کے بتائے ہوئے امور کو مد نظر نہ رکھے گا.پس یا د ر کھو قرآن جو آیا ہے وہ ہمارے لئے عمل کے لئے آیا ہے.ہم سے پہلے وہ لوگ تھے جو غلافوں میں لپیٹ کر قرآن رکھ دیتے تھے اور کبھی اسے پڑھنے یا سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے تھے.پھر تم آئے اور تم نے پچھلوں سے ترقی کی تم نے قرآن مجید کو پڑھا اور اس کے معافی سمجھنے کی بھی کوشش کی اور خدا کے فضل سے ایک کثیر حصہ جماعت نے اس میں ترقی کی لیکن اگر کچھ حصہ بھی عمل کے وقت قرآن کو نظر انداز کر دیتا اور اپنے نفس کے پیچھے چلتا ہے تو وہ یقینا اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے محروم رہتا ہے.پس تم اللہ تعالیٰ کا قرب ڈھونڈنے کی کوشش کرو اور خالی نجات کی فکر نہ کرو جو اگر انسان نہ پیدا ہو تا تب بھی اسے حاصل ہوتی.ایسی نجات کا فر کو مطلوب ہوتی ہے

Page 555

خطبات محمود سال ۱۹۳۲ء مومن کو نہیں.قرآن مجید میں آتا ہے کہ کافر کے گا لیکیتنِي كُنْتُ تُرَاجا کاش میں مٹی ہو تا یعنی عذاب سے بچ جاتا.تو یہ نجات کا فر کا مقصد ہوتی ہے.مومن کا مقصد ہمیشہ قرب الہی ہوتا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اجمالی ایمان بھی نجات کا باعث ہو جاتا ہے.اس لئے ہم ان کا جو احمدی کہلاتے ہیں جنازہ پڑھتے اور ان کے پیچھے نماز پڑھ لیتے ہیں.لیکن تقرب کے لئے ضروری ہے کہ جو فیصلہ کرو قرآن مجید کے ماتحت کرو اور یقین رکھو کہ قرآن کا حکم ہی صحیح ہے.جو تمہاری عقل کہتی ہے وہ اس کی کوتاہی اور ناتجربہ کاری ہے.ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک بات تمہاری سمجھ میں نہ آئے اس وقت تمہارا فرض ہے کہ تم اپنے میں سے زیادہ سمجھدار لوگوں سے دریافت کرد.وہ تمہیں بتا سکتے ہیں کہ قرآن کا حکم کس طرح صحیح اور درست ہے.پس اپنے اعمال کو قرآن کے مطابق کرو اور یاد رکھو کہ قرآن کی بنیاد لاریب فیہ پر ہے.اگر تمہارے دل میں قرآن مجید کی عظمت ہے اور محض لغوں کے طور پر تمہارے مونہوں سے یہ نہیں نکلتا کہ ہم قرآن پر ایمان لاتے ہیں اور محض لغو کے طور پر تم یہ نہیں کہتے کہ تم قرآن کے ماتحت فیصلہ کرنا چاہتے ہو تو پھر اگر تم بعض اوقات اپنی کو تاہی عقل سے کسی حکم کو نظر انداز کر جاتے ہو تو قابل معافی ہو سکتے ہو لیکن اگر تم نے اس ایمان کے صرف یہ معنی سمجھ رکھے ہیں کہ صرف زبان سے کہہ دیا کہ ہم ایمان لے آئے اور عمل نہ کیا.اور جس شخص کے دل میں یہ خواہش نہیں کہ وہ قرآن مجید کے ماتحت فیصلہ کرے ، چاہے وہ اپنے مونہہ پر بلکہ اپنے سارے جسم اور عضو عضو پر گود لے کہ میں احمدی ہوں میں احمد کی ہوں تب بھی وہ خدا کے حضور اسی لسٹ میں درج ہو گا جو غیر مومنوں اور غیر احمدیوں کی ہے.پس یاد رکھو قرآن مجید کا ایک شوشہ بھی ایسا نہیں جو نا قابل عمل ہو ، ایک شوشہ بھی ایسا نہیں جو حکمت سے خالی ہو ایک شوشہ بھی ایسا نہیں جو اعلیٰ سے اعلیٰ ترقیات روحانیہ کا وارث نہ بنا سکتا ہو اور ہر وہ عقل جو اس کے خلاف کہتی ہے.ہر وہ عقل جو اسے غلط سمجھتی ہے ہر وہ عقل جو اپنے خود تراشیدہ فیصلوں کو صحیح سمجھتی ہے وہ بے بہرہ ہے، اندھی ہے ، دوزخی ہے ، جہنمی ہے.وہ نہ اپنے آپ کو فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نہ دوسرے کو.ایسی عقل بیش کی ڈلی سے مشابہت رکھے گی.جسے ناواقف آدمی تربی خیال کر کے اٹھالیتا اور کھا کر ہلاک ہو جاتا ہے.بسا اوقات نربسی کی بُری شکل دیکھ کر اور بیش کی خوشنمائی دیکھ کر انسان سمجھتا ہے کہ تریاق یہ ہے.حالانکہ جسے وہ زہر سمجھ رہا ہوتا ہے وہ تریاق ہوتا ہے اور جسے تریاق خیال کرتا ہے زہر ہوتی ہے.اسی طرح ہو سکتا ہے کہ کسی کی عقل کسی بات کو اچھا قرار دے اور کہے کہ موزوں فیصلہ وہی ہے لیکن وہ زہر کا پیالہ ہو گا.

Page 556

خطبات محمود ۵۵۱ جسے اگر وہ خود اپنے گا تو مرے گا اور دوسروں کو چلائے گا تو انہیں مارے گا.البقرة : ٣٢ ل بخارى كتاب الصوم باب وجوب صوم رمضان البقرة : سال ۱۹۳۲ء الفضل ۲۵- اگست ۱۹۳۲ء) د نسائی کتاب الغسل والتيمم باب الامر با الوضوء من النوم ل ملفوظات جلد ۴ صفحه ۶۴۵ النباء :

Page 557

خطبات محمود ۵۵۲ 64 سال ۱۹۳۲ء جماعت کے مخلصین سے قربانیوں کا مطالبہ (فرموده ۲۶- اگست ۱۹۳۲ء) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.تمام انسانی ترقیات اس تعلق اور فرمانبرداری کے ساتھ وابستہ ہیں جو انسان خدا تعالیٰ کے ساتھ پیدا کر تایا اس کے احکام کی بجا آوری میں جس کا نمونہ دکھاتا ہے.مونہہ کے خالی الفاظ کبھی انسان کے کام نہیں آتے.اور صرف ظاہری اخلاص انسان کو کچھ بھی نفع نہیں دے سکتا.قرآن گریم ہے معلوم ہو تا ہے کہ رسول کریم مسلم کی تعریف میں منافق لوگ وہ کچھ کہا کرتے تھے جو مؤمن بھی نہیں کہتے تھے.اور بسا اوقات وہ اپنے اخلاص کو ایسے الفاظ میں ظاہر کرتے تھے کہ ایک ناواقف سکنے والا انسان دھوکا کھا جاتا تھا اور خیال کرتا تھا کہ شاید ان سے بڑھ کر او رکوئی مومن ہیں لیکن جب کام کا وقت آتا جب قربانی کا مطالبہ کیا جاتا جب مال اور جان خطرے میں پڑ جاتا اس وقت وہ لوگ بالکل علیحدہ ہو جاتے اور اس طرح آنکھ پھیر لیتے کہ گویا ان کا رسول کریم مین سے کبھی تعلق ہی نہ تھا.اللہ تعالی کے فضل سے رسول کریم میں اللہ کو جو رعب حاصل تھا اور جسکے متعلق آپ خود کو فرماتے تھے کہ نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ مجھے ایسا رعب دیا گیا ہے کہ ایک مہینہ کی مسافت سے ہی اس کا اثر محسوس ہونے لگتا ہے.اس کی بناء پر منافق یہ تو نہیں کہہ سکتے تھے کہ فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَا مُهُنَا قَاعِدُونَ کے کہ جانو اور تیرا رب دشمنوں سے لڑائی.کرو ہم یہیں بیٹھ ہیں.لیکن عملاً انہوں نے نہ ایک دفعہ بلکہ بارہا ایسا کر کے دکھایا.وہ مونہہ سے تو فرمانبرداری کاری اظہار کرتے تھے لیکن انہی میں سے وہ لوگ تھے جو احد کی جنگ کے موقع پر شہر

Page 558

خطبات محمود ۵۵۳ سال ۱۹۳۲ سے باہر نکلنے کے بعد واپس لوٹ آئے تھے انہیں میں سے وہ لوگ تھے جو کہا کرتے تھے کہ ہمارے پاس ہتھیار نہیں اس لئے ہم لڑائی کے لئے نہیں نکل سکتے ، انہیں میں سے وہ لوگ تھے جو بہانے بناتے تھے کہ ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں اور انہی میں سے وہ لوگ تھے جو کہا کرتے تھے کہ ہماری فصلیں کاٹنے کے دن ہیں اس لئے ہم جنگ پر جانے سے معذور ہیں.وہ اجازتیں طلب کرتے اور درخواستیں کر کر کے رخصتیں حاصل کرتے تھے.یہ نہیں کہتے تھے کہ ہم نہیں جاتے لیکن بہر حال نتیجہ وہی ہو تا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کے جواب کا تھا.ہاں حضرت موسیٰ کے ساتھیوں کی اکثریت نے کہہ دیا تھا کہ ہم لڑائی پر نہیں جاسکتے لیکن رسول کریم کے ساتھیوں کی اقلیت نے کہا کہ ہم جنگ پر جانے سے معذور ہیں کیونکہ منافق اس وقت اقلیت میں تھے اکثریت میں نہ تھے اور گو انہوں نے مونہہ سے ایسا کبھی نہیں کہا لیکن عملاً وہی کچھ کیا جو حضرت موسیٰ کے ساتھیوں نے کیا.فرق صرف اتنا ہے کہ موسیٰ کے وقت اکثر نے کہہ دیا تھا کہ ہم تیرے ساتھ جنگ پر نہیں جائیں گے اور یہاں اکثر ایسے تھے جنہوں نے رسول کریم میں کے ارشاد پر اپنی جان و مال کو قربان کر دیا.یہاں تک کہ بدر کے موقع پر جبکہ کفار مکہ کا رعب اکثر کے دلوں پر چھایا ہوا تھا اور جبکہ رسول کریم میں کے ساتھی ابھی تازہ تازہ مکہ کے مصائب سے نکلے تھے اور جبکہ بہتوں کے پاس ہتھیار تک نہ تھے اور بہت سے ایسے تھے جو ہتھیار چلانا بھی نہیں جانتے تھے اس وقت رسول کریم میں ہی ہم نے صحابہ سے پوچھا کہ دشمن اس وقت تم سے تعداد میں زیادہ ہے، تیاری میں زیادہ ہے اور ہتھیار بھی زیادہ رکھتا ہے.اب تم لوگوں کا کیا منشاء ہے.مہاجرین نے جواب دیا یا رسول اللہ اہمار انشاء یہی ہے کہ ان سے جنگ کی جائے.مگر رسول کریم کے دل میں ایک اور بات کھٹک رہی تھی اور وہ یہ کہ جب آپ مدینہ تشریف لائے تو آپ نے ایک معاہدہ کیا تھا جس کی رو سے انصار کا فرض قرار دیا گیا تھا کہ جب تک آپ مدینہ میں رہیں گے وہ آپ کی حفاظت کریں گے.چونکہ اب آپ مدینہ سے باہر جنگ کے لئے جارہے تھے اس لئے آپ کو یہ خیال گزرا کہ شاید انصار پر یہ گراں گزرے کہ کیوں انہیں مدینہ سے باہر جنگ کے لئے لے جایا جا رہا ہے جبکہ ان کی ذمہ داری صرف مدینہ کے اندرون حصہ تک محدود ہے اس لئے آپ نے مہاجرین کا جواب سن کر فرمایا کوئی اور بولے.اس پر ایک اور صحابی اٹھے اور انہوں نے بھی جنگ کرنے کی تائید میں تقریر کی.آپ نے فرمایا کوئی اور بولے.انصار اس وقت تک اس لئے خاموش تھے کہ وہ سمجھتے تھے مہاجرین اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ وہ گفتگو کریں کیونکہ

Page 559

خطبات محمود ۵۵۴ سال ۱۹۳۲ء ان پر ہی کفار مکہ کی طرف سے مظالم ہوئے ہیں.مگر جب رسول کریم میں نے بار بار اپنی بات کو دہرایا تو انصار سمجھ گئے کہ آپ کا روئے سخن ہماری طرف ہے.03.ان لوگوں کا اخلاص اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ باوجود اس بات کے کہ ان کا معاہدہ یہی تھا کہ و مدینہ کے اندر رسول کریم میم کی حفاظت کریں گے اور باوجود اس بات کے کہ خدا کے رسول معاہدہ کو توڑا نہیں کرتے.اگر انصار اپنے اس معاہدہ پر اصرار کرتے تو ہرگز خدا اور اس کے رسول کا ان پر کوئی گناہ نہ ہو تا لیکن باوجود اس کے کہ بظاہر شرعی ذمہ داری ان پر عائد نہ ہوتی تھی ایک شخص ان میں سے کھڑا ہوا اور اس نے کہا یا رسول اللہ اشاید آپ کی مراد ہم انصار سے ہے.آپ نے فرمایا ہاں میرا یہی منشاء ہے.اس صحابی نے کہا یا رسول اللہ ! جب انسان ایمان لے آئے تو پھر یہ سوال ہی کہاں باقی رہ سکتا ہے کہ میرا معاہدہ کیا ہے اور مجھے کس جگہ لڑنا چاہئے.خدا کی قسم ! اگر آپ سمندر میں ہمیں گھوڑے ڈالنے کے لئے فرما ئیں تو ہم وہاں بھی گھوڑے ڈال دیں اور دنیا کی کسی جگہ پر آپ جائیں کوئی دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکے گا.آپ کے آگے بھی اور پیچھے بھی دائیں بھی اور بائیں بھی ہم اپنی جانیں لڑا دیں گے اور کوئی شخص آپ تک نہیں پہنچ سکے گا جب تک ہماری لاشوں کو روند تا ہوا نہ گزرے.اگر لڑائی ہی کرنی ہے تو بسم اللہ کیجئے.ہم آپ کے ساتھ ہیں.یہ وہ چیز تھی جس کا رسول کریم میں اللہ کے ساتھیوں کی اکثریت نے نمونہ دکھایا.اور ایسی ایک ہی نہیں سینکڑوں بلکہ ہزاروں مثالیں ہمیں تاریخ اسلام سے ملتی ہیں جو قربانی کے ایسے اعلیٰ نمونہ پر مشتمل ہیں کہ دنیا کے پردے پر ان کی نظیر تلاش کرنا محال ہے.اور یہ صرف صحابہ کی جماعت سے ہی مخصوص نہیں کسی قوم اور کسی جماعت میں ایسی قربانی نظر آئے خواہ وہ دشمن کی جماعت ہی کیوں نہ ہو دل اس کی عظمت سے لبریز ہو جاتا ہے.غرض یہ وہ نمونے تھے جو ان لوگوں نے دکھائے جو رسول کریم میں ایم کے ساتھی تھے اور پھر رسول اکثریت نے یہ نمونے دکھائے لیکن باوجود اس کے ایک اقلیت ایسی تھی اور ضرور تھی جو اپنے نمونہ میں بالکل حضرت موسیٰ کے ساتھیوں کی طرح تھی.جس طرح رسول کریم حضرت موسیٰ کے مثل تھے اسی طرح آپ کی جماعت کی ایک اقلیت حضرت موسیٰ کے ساتھیوں کی مثیل تھی.اور گوانہوں نے زبان سے ایسا کبھی نہیں کہا کہ فَاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هُهُنَا قاعِدُونَ لیکن اس میں شبہ نہیں کہ عملاً انہوں نے ایسا کئی دفعہ کر کے دکھایا اور جب قربانی کا موقع آیا دہ گریز کر گئے.ان کے ظاہری بیانات اور ظاہری اخلاص و محبت کی خدا کے حضور کوئی

Page 560

خطبات محمود ۵۵۵ سال ۱۹۳۲ و قدر و قیمت نہ تھی.ان کے ظاہری اخلاص کا قرآن مجید نے بھی نقشہ کھینچا ہے.چنانچہ فرماتا ہے کہ جب منافق رسول کریم میں کے پاس آتے تو قسمیں کھا کھا کر کہتے کہ تو اللہ کا رسول ہے اور ہمارا اس پر ایمان ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہے تو یہ بیچ مگر یہ جھوٹ بول رہے ہیں.ان کو تجھ پر کچھ ایمان نہیں.پس ان کی تمام تعریفیں اور تمام تائید میں جن کا وہ زبانی طور پر اظہار کرتے تجھے خدا کے حضور ایک ذرہ بھر بھی قیمت نہیں رکھتی تھیں.باوجو د اظہار اخلاص کے ایسے لوگ منافق تھے اور منافقوں میں ہی خدا کے حضور شمار کئے جاتے تھے.ایسے منافق لوگ در حقیقت ہر زمانے میں ہوتے ہیں خواہ وہ حضرت موسیٰ کا زمانہ ہو خواہ رسول کریم میت کا اور خواہ موجودہ زمانہ.پھر ہر زمانہ میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو حقیقی اخلاص رکھتے ہیں.پس ترقی حاصل کرنے والی قوموں کو ابھارنے اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کا انسان کو وارث بنا دینے والی وہی قربانی ہوتی ہے جو حقیقی ہو اور جس کا انسانی قلب کے ساتھ تعلق ہو.ورنہ مونہہ کے خالی الفاظ کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتے.ہماری جماعت میں بھی اس وقت دونوں قسم کے لوگ موجود ہیں.وہ بھی جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے رسول کریم میل علم کے زمانہ میں ہی فرما دیا تھا کہ مِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ ينتظر یعنی کچھ تو ایسے لوگ ہیں کہ جو کچھ انہوں نے کہا تھا اسے پورا کر دکھایا اور کچھ ایسے ہیں جو ابھی اس انتظار میں ہیں کہ انہیں کب قربانی کا موقع میسر آئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکیں.پھر وہ بھی ہیں جو اپنی زبان کی تائید اور نصرت سے ایسے نمایاں اور بڑھے ہوئے نظر آتے ہیں کہ گویا اگلے پچھلے تمام مومنوں کا اخلاص جمع کر کے انہیں دے دیا گیا ہے.لیکن جب قربانی کا وقت آتا ہے ، جب خدمت دین کا موقع آتا ہے تو وہ اس طرح پھسل جاتے ہیں جس طرح مچھلی ہاتھ سے نکل جاتی ہے.وہ ہر مجلس میں آگے بڑھ کر باتیں بنائیں گے مونہہ پر ان کے قربانی ہوتی ہے، لیکن دل میں نفاق ہوتا ہے.وہ ایک مانگے کی نورانی چادر اوڑھنا چاہتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ جب ان کے دل سیاہ میں تو یہ مانگی ہوئی چادر ا نہیں کیو نکر سفید کر سکے گی.اور نہیں سمجھتے کہ دوسرے سے مانگی ہوئی سفیدی انسان کو روشن نہیں کیا کرتی بلکہ اندر کی سفیدی انسان کو روشن کیا کرتی ہے.جب ایک شخص کے دل میں نور نہ ہو تو اس کے چہرے پر بھی نور نہیں آتا.اسی لئے منافقوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کی باتوں کی طرف نہ دیکھو بلکہ ان کے چہروں کی طرف دیکھو تمہیں نظر آجائے گا کہ ان پر نور نہیں.ان کے چہرے دلالت کرتے ہیں کہ

Page 561

خطبات محمود ۵۵۶ سال ۱۹۳۲ء تقویٰ اخلاص ، محبت اور قربانی کی ان لوگوں میں کمی ہے.جب کبھی قربانی کا مضمون بیان ہو رہا ہو تو تم دیکھو گے کہ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِوَاذَان وہ ایچ بیچ کر کے اس سے نکل جاتے ہیں.ہاں جب اپنے فائدہ کی بات ہو تو پھر سب سے بڑے مدعی وہی بن جائیں گے اور کہیں گے کہ ہم ایسے اور ہم ایسے.یہ دونوں قسم کے لوگ ہمارے اندر بھی ہیں.ہمارا فرض ہے کہ جہاں ہم مخلصین کو بڑھانے کی کوشش کریں ، وہاں دوسروں کو گھٹانے کی کوشش کریں.نفاق قوم کے لئے ناسور ہوتا ہے.جس طرح ناسور جس جسم میں پیدا ہو جائے اسے گھلاتا چلا جاتا ہے اسی طرح نفاق بھی جس شخص یا جس قوم میں ہو اسے ہلاکت کے قریب کرتا چلا جاتا ہے.تم نے ناسور کا مریض دیکھا ہو گا.بظاہر اس کا سارا جسم اچھا ہو تا ہے اور کسی ایک مقام پر باریک سا سوراخ ہوتا ہے.کبھی ہاتھ پر اور کبھی اور کسی حصہ جسم پر.لیکن وہ ذرا ساز خم اندرہی اندر انسان کو گھلاتا چلا جاتا ہے.اگر ایک جگہ سے اچھا ہو جائے تو دوسری جگہ سے نکل آتا ہے اور اگر وہاں سے بھی اچھا ہو جائے تو تیسری جگہ سے پھوٹ پڑتا ہے.یہی کیفیت نفاق کی ہوتی ہے.بظاہر ایسا شخص بالکل تندرست معلوم ہوتا ہے اور خیال ہوتا ہے کہ یہ معمولی بیماری ہے لیکن وہ ایسی خطرناک ہوتی ہے کہ جس طرح ناسور کی بیماری روح اور جان کو گھلائے چلی جاتی ہے.تندرستوں کے زمرہ سے نکال دیتی اور موت کے قریب کر دیتی ہے.اسی طرح نفاق کا بیمار بھی روحانی موت کے قریب ہو تا چلا جاتا ہے اور روحانی زندگی سے لطف اٹھانے کا موقع اسے میسر نہیں آتا.بظاہر اس کے تمام حالات درست ہوتے ہیں.لیکن وہ چھوٹا سا نظر آنے والا آزار روزانہ اس کی حالت کو بد سے بد تر بناتا چلا جاتا ہے.یاد رکھو نفاق اور ایمان میں لمبا فاصلہ نہیں ہوتا.بہت لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید منافقوں کے سرسینگ ہوتے ہیں.وہ خود نفاق کی مرض میں مبتلاء ہوتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں کہ نفاق کیا ہوتا ہے.دراصل نفاق بھی جنون کی طرح ہوتا ہے جس طرح پاگل آدمی کبھی یہ نہیں مانتا کہ وہ پاگل ہے بلکہ وہ ہمیشہ یہ سمجھتا ہے کہ میں نہیں دوسرے پاگل ہیں.اور جب اسے علاج کے لئے کہو تو وہ کہے گا میں بالکل اچھا ہوں اس طرح منافق سمجھتا ہے کہ میں منافق نہیں.اور خیال کرتا ہے کہ میں مصلح ہوں، حالانکہ وہ مفسد ہوتا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں بھی آتا ہے کہ جب منافقوں سے کہا جاتا ہے کہ تم زمین میں فساد نہ کرو تو وہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو مصلح ہیں مفسد نہیں.غرض نفاق اور ایمان میں بہت چھوٹی سی دیوار ہے.اتنی چھوٹی کہ وہ ذرا سی ٹھوکر سے ٹوٹ

Page 562

خطبات محمود ۵۵۷ سال ۱۹۳۲ء جاتی اور انسان کو مومنوں کے زمرہ سے نکال کر منافقوں میں شامل کر دیتی ہے.منافقوں کی علامات بیان کرتے ہوئے رسول کریم می مالی و مالی فرماتے ہیں کہ ایسا شخص جب روایت کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، تبادلہ کلام ہو تو گالیوں پر اتر آتا ہے، وعدہ کرے تو اسکی خلاف ورزی کرتا ہے ہے.یہ تین منافقوں کی بڑی علامتیں ہیں.منافق ہمیشہ گالیاں دینے والا جھوٹ بولنے والا اور وعدہ خلافی کرنے والا ہو گا.سب سے بڑی وعدہ خلافی تو یہ ہے کہ خدا سے عہد کرتا اور پھر مکر جاتا ہے اور بائیں ہمہ وہ نادان خیال کرتا ہے کہ اللہ تعالٰی کے سارے انعامات اسے حاصل ہو جائیں گے اور وہ جنت میں داخل ہو سکے گا.حالانکہ وہ یہ نہیں سمجھتا کہ وہ اپنے لئے جہنم تیار کر رہا ہے اور روز بروز اللہ تعالیٰ کے انعامات سے محروم ہو رہا ہے.میں اپنی جماعت کے دوستوں کو کہتا ہوں کہ وہ وعدہ جو انہوں نے اللہ تعالٰی اور اس کے رسول سے کیا ہوا ہے دیکھیں کہ انہیں اس میں کس قدر پختگی حاصل ہے.تم اپنے نفسوں پر غور کرو اور سوچو کہ تم نے جو اللہ تعالی سے عہد کیا تھا اسے کس قدر پورا کیا.مومن اور منافق میں یہی فرق ہے کہ مومن ہمیشہ یہ خواہش کرتا ہے کہ اسے اور قربانی کا موقع ملے اور منافق ہر قربانی پر روتا ہے اور کہتا ہے مصیبت آگئی.چندہ دینا پڑے ، تبلیغ کے لئے نکلنا پڑے خدمت دین کے لئے کوئی تحریک کی جائے ہر موقع پر وہ روئے گا اور کے گابڑی مصیبت ہے ، ہر وقت چندہ ہی چندہ مانگا جاتا ہے.جس کام کو انسان دل سے نہیں کرتا بلکہ روتے ہوئے کرتا ہے ، اس کے کرنے پر اسے ثواب کس طرح مل سکتا ہے.اللہ تعالیٰ کو ہمارے کاموں کی احتیاج نہیں.وہ تو ایک محسن کہنے سے قوموں کو بڑھا دیتا اور ایک کُن کہنے سے انہیں گرا دیتا ہے.مسلمان کبھی ساری دنیا کے حکمران تھے اور یورپین مادر زاد ننگے پھرا کرتے تھے.لیکن مسلمان کیوں گر گئے اور کس لئے یورپین ترقی کر گئے.یہاں تک کہ آج یورپین کہتے ہیں کہ مسلمان بد تہذیب اور علوم سے نابلد ہیں.کس چیز نے مسلمانوں کو ذلیل اور پست کر دیا اور کس چیز نے یورپین لوگوں کو بڑھا دیا.یہ اللہ تعالیٰ کے حسن کا کرشمہ ہے.خدا نے یورپین قوموں سے کہا کہ بڑھو - وہ بڑھنے لگ گئیں.اور مسلمانوں کو سزا کے طور پر کہا کہ گر جاؤ.یہ گرنے لگ گئے.پس ہماری قربانیاں کیا چیز ہیں.آج جو قربانیاں مسلمان کر رہے ہیں مجموعی طور پر ان تمام صحابہ کی قربانیوں سے بڑھ کر ہیں جو اپنا سارا مال خدمت دین کے لئے رسول کریم مسلم پیش کر دیا کرتے تھے.بلکہ آج لاہور کے منافق اس سے زیادہ روپیہ دے سکتے ہیں جتنا مدینہ کے کے سامنے

Page 563

خطبات محمود الله الله ۵۵۸ سال ۱۹۳۲ء تمام مومن مل کر دیتے تھے.مگر آج کل کے مسلمانوں کا کروڑوں روپیہ و نتیجہ پیدا نہیں کرتا جو رسول کریم کے زمانہ کے چند صحابہ تھوڑے سے روپے سے پیدا کرتے تھے.آج کل بمبئی اور کلکتہ میں چلے جاؤ.مسلمانوں کی بڑی بڑی عمارتیں نظر آئیں گی.کالج ہوں گے ، سرا ئیں ہوں گی ، مسجد میں ہوں گی ، ہیں میں لاکھ روپیہ کی عمارتیں بنی ہوئی ہوں گی مگر آج مسلمانوں کی مجموعی قربانیاں وہ رنگ نہیں لاتیں جو مدینہ کے چند مسلمانوں کی قربانیاں رنگ لائیں.وہ تھوڑے تھے اور تھوڑا سرمایہ رکھتے تھے مگر باو جود اس کے جب وہ قدم اٹھاتے تھے تو حکومتیں ان کے سامنے گر جاتی تھیں جس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ وہ اخلاص والا دل جس سے قربانی کی جائے ، ترقی دیتا ہے.ورنہ اگر صرف مالی قربانی ہی ترقی دے سکتی تو آج مسلمان بہت زیادہ ترقی کر جاتے.اگر کوئی شخص روتا ہوا اپنا آدھا مال بھی اللہ تعالیٰ کے راستہ میں خرچ کرتا ہے تو اسے فائدہ نہیں پہنچا سکتا.فائندہ ہمیشہ انہی قربانیوں کا ہوتا ہے جو خوشی ، اخلاص اور بشاشت سے کی جائیں.وہ قربانیاں جو بشاشت سے نہیں کی جاتیں ان کا ذرہ بھر بھی فائدہ نہیں ہو سکتا.یوں قربانی کرنے کو منافق بھی کرتا ہے.کبھی لوگوں کو دکھانے کے لئے کبھی دوسروں کے ضرر سے بچنے کے لئے اور کبھی خود فائدہ حاصل کرنے کے لئے.لیکن چونکہ اس کے دل میں اخلاص ، محبت اور بشاشت نہیں ہوتی، اس لئے اس کی قربانی خواہ وہ کتنی ہی اہم کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ کے حضور کوئی قیمت نہیں رکھتی.پس ضروری ہے کہ ہم جماعت میں اخلاص اور تقویٰ پیدا کریں کیونکہ اخلاص اور تقویٰ پر مبنی قربانیاں ہی سلسلہ کو مضبوط کرتی ہیں.اس میں شبہ نہیں جماعت کے مخلصین نہایت شاندار قربانیاں کرتے ہیں مگر منافقوں کی تعداد باقیوں کا کام بھی خراب کر دیتی ہے.اور خلوص سے جماعت کا ایک نہ جو کام کر رہا ہوتا ہے اس میں رخنہ واقع ہو جاتا ہے.مجھے افسوس ہے کہ مالی حالت کو مضبوط کرنے کے لئے جو میں نے تحریکیں کی تھیں ان میں بیرونی جماعتوں نے تو حصہ لیا مگر قادیان کی جماعت ان میں حصہ لینے سے بہت پیچھے ہے.مثلاً پچھلے دنوں میں نے کشمیر کے مظلومین کے لئے چندہ کی تحریک کی تھی.میں نے دیکھا کہ بیسیوں جماعتوں نے اس پر عمل کیا اور وہ عمل کرتی چلی جارہی ہیں.مگر قادیان کی جماعت نے اس چندہ میں بہت ہی کم حصہ لیا ہے.بلکہ کئی کئی مہینے ایسے گزرے ہیں جن میں قادیان کا چندہ صفر کے برابر رہا ہے.حالانکہ جب میں نے کہا تھا کہ یہ چندہ نفلی ہے فرض نہیں تو دوستوں کو زیادہ ہوشیار ہو جانا چاہئے تھا.اور زیادہ مستعدی سے اسے پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تھی.

Page 564

خطبات ۵۵۹ کیونکہ رسول کریم می فرماتے ہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کا قرب نفلوں سے ہی حاصل کرتا ہے.وہ چیز جس کا حکم ہو اس سے ترقی مدارج نہیں ہوتی.حکم ہمیشہ ان چیزوں کا دیا جاتا ہے جن سے نجات ہو اور ہدایت ان امور کی طرف کی جاتی ہے جو ترقی مدارج کا باعث ہوں.پس مجھے افسوس آتا ہے یہ دیکھ کر کہ وہ جماعت جسے دوسروں کے لئے نمونہ بننا چاہئے تھا اس نے قریبا قریبا اس معاملہ میں نہایت ہی غفلت اور ستی کا ثبوت دیا ہے.اِلَّا مَا شَاءَ اللہ ایسے مخلص بھی موجود ہیں جنہوں نے اپنے اخلاص کا ثبوت دیا.میں اس وقت انہیں نظر انداز کرتا ہوں.عام طور پر قادیان کی جماعت نے سخت غفلت کا اظہار کیا ہے.پھر چندے ہیں ان کے متعلق بھی میں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں سستی پائی جاتی ہے جو فرض چندے ہیں ان کے متعلق بھی ہزا ر ہا آدمی ہماری جماعت میں ایسے موجود ہیں جو سالہا سال تک ادا نہیں کرتے اور ہزارہا ایسے آدمی ہیں جو کہتے رہتے ہیں کہ چندے زیادہ ہیں ہم دے نہیں سکتے.حالانکہ اگر ان کی جو چندہ دیتے ہیں ایک فہرست بنائی جائے اور چندہ نہ دینے والوں کی بھی فہرست تیار کی جائے تو چندہ نہ دینے والے ایسے ہوں گے جو دینے والوں سے زیادہ آسودہ اور امیر ہوں گے.فرق صرف یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے نفس پر روپیہ خرچ کرنے کی عادت ڈال لیتے ہیں اور دوسرے خدا کے لئے روپیہ خرچ کرنے کی عادت ڈال لیتے ہیں.پھر ہزار ہا آدمی ہماری جماعت میں ایسے بھی پائے جاتے ہیں جو بسا اوقات چندے کے لئے فاقہ برداشت کرتے ہیں اور بسا اوقات اپنی بیوی بچوں کا پیٹ کاٹ کر مرکز میں روپیہ بھیجتے ہیں اور اس تنگی کے باوجود وہ اپنے دل میں بشاشت پاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ خدا کا قرض اسی لئے ہے کہ اسے ادا کر دیا جائے.در حقیقت وہ لوگ ہیں جن کی وجہ سے خدا نے جماعت احمدیہ کی تعریف کی ہے ورنہ وہ منافق جو سالہا سال چندوں کی ادائیگی کی طرف توجہ نہیں کرتے ان کی وجہ سے کسی جماعت کی کیا تعریف ہو سکتی ہے.ان کے لئے تو لہو لگا کر شہیدوں میں داخل ہونے والی بات ہے بلکہ دراصل وہ جماعت کے لئے ننگ و عار کا باعث ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ شاید جماعت کے ساتھ جو الہی وعدے ہیں ان میں وہ بھی شامل ہو جائیں گے حالانکہ خداتو دل کو جانتا ہے اور وہ قلبی کیفیات کے مطابق ان سے سلوک کرے گا.وہ سمجھتے ہیں کہ قیامت کے دن خدا صرف اتنا ہی پوچھے گا کہ کون کون احمدی کہلاتا ہے اور جو اپنے آپ کو احمدی کہے گا اسے جنت میں داخل کر دے گا.یہ احمق اتنا نہیں سمجھتے کہ اللہ تعالیٰ تو منافقوں کے متعلق فرماتا ہے اِنَّ المُنفِقِينَ فِي الدَّرْيِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ منافق دوزخ کے سب سے نچلے طبقہ میں ہوں

Page 565

خطبات محمود ۵۶۰ سال ۱۹۳۲ء گے مگر یہ خیال کرتے ہیں کہ شاید انہیں جنت میں سب سے اعلیٰ مقام میسر آئے گا.اللہ تعالیٰ کی دلوں پر نگاہ ہے اور قلوب اس کے سامنے اسی طرح کھلے ہیں جس طرح آئینہ میں ہر چیز نظر آجاتی ہے.پس میں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جہاں انہیں نفلوں کی طرف توجہ کرنی چاہئے وہاں فرائض کی طرف سے بھی غافل نہیں ہونا چاہئے.میں دیکھتا ہوں کہ اس قسم کے ستوں اور غافلوں کی وجہ سے جو ترقی پہلے حاصل ہوا سے بھی صدمہ پہنچ جاتا ہے.پچھلے سال جماعت کے مخلصین نے انجمن سے قرض کا بوجھ دور کر دیا تھا اور میں نے اس کا اعلان بھی کر دیا تھا مگر مجھ سے غلطی ہوئی جب بعد میں میں نے تحقیق کی تو بعض بل ابھی قابل ادا تھے.انہیں ملا کر ایک لاکھ میں سے دس ہزار کے قریب قرض رہ گیا تھا.اس سال پھر یہ قرض بڑھنا شروع ہو گیا ہے اور اب تیس ہزار کے قریب قرض ہو گیا ہے حالانکہ ابھی ہمارے مالی سال میں سے صرف چار مہینے ہی گزرے ہیں اور اگر یہ سلسلہ اسی طرح ترقی کرتا چلا گیا تو تعجب نہیں کہ اس سال کے آخر تک پھر ایک لاکھ روپیہ تک قرض پہنچ جائے.حالانکہ ہماری جماعت کی تعداد اتنی بڑھ چکی ہے کہ اس سے دگنا روپیہ بھی نہایت آسانی کے ساتھ وصول کیا جا سکتا ہے مگر وہ جو کمزور ہیں اور صرف رسمی ایمان رکھتے ہیں وہ اپنا سارا بوجھ ان غریبوں پر ڈال دیتے ہیں جو پہلے ہی اخلاص سے باقاعدہ چندے ادا کر رہے ہوتے ہیں.مجھے حیرت ہوتی ہے کہ جب کبھی کوئی تحریک کی جائے وہ مخلص جو پہلے ہی بوجھ کے نیچے دبے ہوتے ہیں اور زیادہ حصہ لینا شروع کر دیتے ہیں.اور منافق سمجھ لیتا ہے کہ میں اس تحریک سے مستثنی ہوں.وہ اپنے آپ کو اسی طرح مستقلی خیال کرتے ہیں جیسا کہ میں نے اکثر دیکھا کہ حضرت خلیفہ اول جب زیادہ بیمار ہوتے تو فرمایا کرتے.لوگ اٹھ جائیں میں ہمیشہ دیکھتا کہ آپ کے اس کہنے پر کبھی سارے لوگ نہ اٹھتے بلکہ بعض اٹھ جاتے اور بعض بیٹھے رہتے.جب آپ دیکھتے کہ اب بھی کچھ باقی ہیں تو آپ فرمایا کرتے کہ اب نمبردار بھی چلے جائیں.ایک دفعہ ہنس کر مجھے فرمانے لگے نمبردار ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو علاقہ کا نمبردار خیال کرکے سمجھتے ہیں کہ ہمیں حکم نہیں ملا دو سروں کو دیا گیا ہے.اسی طرح یہ منافق بھی اپنے آپ کو نمبردار خیال کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم مستثنیٰ ہیں.لیکن ا جماعت کا وہ حصہ جو قربانی کرتا ہے میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس کے اخلاص اور قربانیوں کو ضائع نہیں کرے گا اور یقینا وہ اس ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل کو کھینچ رہے ہیں.لیکن ان کی قربانیاں منافقوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے غضب کو بھی بھڑ کا رہی ہیں.

Page 566

خطبات محمود ۵۶۱ سال ۱۹۳۲ء جب ایک بوجھ کے نیچے دبا ہوا انسان اور زیادہ قربانی کرتا چلا جاتا ہے تو جہاں اس کی طرف اللہ تعالیٰ کی رحمت بڑھتی ہے ، وہاں غافلوں کی طرف اس کا غضب بھی حرکت کرتا اور ان کے نفاق کو بالکل برہنہ کر دیتا ہے.پس میں ان کو جوست ہیں اور ان کو بھی جو اپنے آپ کو نمبردار سمجھتے ہیں کہتا ہوں کہ ایک دن وہ بھی مرکز اللہ تعالٰی کے پاس جانے والے ہیں.یہ دنیا ہمیشہ رہنے کی جگہ نہیں.اس میں نہ پہلے لوگ ہمیشہ زندہ رہے اور نہ وہ ہمیشہ رہیں گے.مونہہ سے کہہ دینا کہ ہم تنگدست ہیں یہ قابل قبول نہیں ہو سکتا.ہم نے کروڑ پتی بھی ایسے نہیں دیکھے جو اپنی حالت پر خوش ہوں.ہم نے لاکھ پتی ایسے دیکھے ہیں جو اپنی تنگدستی کا رونا روتے ہیں.انہیں یہ شکوہ ہوتا ہے کہ وہ کروڑ پتی کیوں نہیں ہو جاتے.جب ایک کروڑ حاصل ہو جائے تو پھر یہ حسرت ہوتی ہے کہ دو سرا کروڑکیوں حاصل نہیں ہوتا.اور جب دو کروڑ ہو جائے تو تیسرے کروڑ کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے.غرض یہ رونا تو دل سے تعلق رکھتا ہے ، روپوں سے نہیں.اس کے مقابلہ میں بعض اخلاص والے ایسے ہوتے ہیں کہ وہ کچھ بھی نہیں رکھتے مگر وہ ایسے خوش ہوتے ہیں گویا انہیں سارے جہان کی بادشاہت میتر ہے.ایک دفعہ یہاں کے ایک غریب شخص نے مجھ سے اصرار شروع کیا کہ میں اس کی دعوت منظور کروں.مجھے اس کی دعوت منظور کرنے سے حجاب آتا کیونکہ میں سمجھتا کہ اسے خود تو کئی کئی دن کے فاقے آتے ہیں اگر میری دعوت کرے گا تو ان فاقوں میں اور اضافہ ہو جائے گا.کیونکہ آخر کہیں سے لے کر ہی خرچ کرے گا اس لئے میں دعوت منظور نہ کرتا.مگر کچھ مدت کے بعد جب اس کا اصرار حد سے بڑھ گیا تو میں نے دیکھا کہ اب میرا انکار اس کی دل شکنی کا موجب ہو گا.چنانچہ میں نے اس کی دعوت منظور کرلی.اتفاقا اس دن ہمارے ایک دوست آئے اور دعوت میں شریک ہوئے.ان کی یہ خصوصیت ہے کہ جو ان کے دل میں آتا ہے فوراً کہہ دیتے ہیں.پنجابی زبان میں ایسے لوگوں کو مونہہ پھٹ کہتے ہیں.جب دعوت کھا کر باہر آئے تو وہ مجھ سے کہنے لگے.کیا آپ ایسے لوگوں کی دعوت بھی قبول کر لیتے ہیں.میں نے کہا آپ اس شخص کے دل کی حالت کیا جائیں.سالہا سال سے یہ اصرار کرتا چلا آرہا تھا کہ میں اس کی دعوت قبول کروں.اور میں جانتا تھا کہ اس کے ہاں دعوت کھانا اس پر ظلم کرنا ہے.مگر اس کے اصرار کو دیکھ کر میں سمجھا کہ اب دعوت کو رد کرنا اس سے بھی زیادہ ظلم ہے.پس کئی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو تنگی کی حالت میں بھی دل میں بشاشت پاتے ہیں اور غریب ہو کر بادشاہوں سے بھی زیادہ وسیع

Page 567

طبات محمود ۵۶۲ سال ۹۳۲ الحوصلہ ہوتے ہیں.یہی لوگ ہیں جن کے لئے اللہ تعالی کی تائید نازل ہوتی ہے کیونکہ مومن کی تعریف اللہ تعالی میں بیان فرماتا ہے الم نشرح لك مدرک کی دوسری جگہ فرماتا ہے کہ ہم جن کی بھلائی چاہتے ہیں ان کے سینے کھول دیتے ہیں.تو ایمان کی علامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے شخص کا سینہ کھل جاتا ہے.جب قربانی کے بعد دل میں تنگی محسوس ہو اس وقت سمجھ بینا چاہئے کہ ابھی کامل ایمان حاصل نہیں ہوا.ایمان کی حالت میں انسان بشاشت محسوس کرتا ہے اور ایسی حالت میں اگر ادنیٰ سے ادنی چیز بھی خدا کی راہ میں دی جائے تو وہ مقبول ہو جاتی ہے.رسول کریم علیم کے زمانہ میں ایک صحابی نے سارا دن مزدوری کی اسے تھوڑے سے دانے اجرت میں ملے اس نے ایک مٹھی دانے رسول کریم میں اہلیہ کی خدمت میں حاضر کئے.منافقوں نے یہ دیکھا تو خوب قہقہے لگائے اور کہنے لگے کیا ان دانوں سے ملک فتح ہوں گے.حالانکہ انہوں نے یہ نہ سمجھا کہ اسے صرف دو مٹھی دانے ملے جن میں سے ایک مٹھی اس نے خدا کی راہ میں دے دیئے.پس اس کا اخلاص ان لوگوں سے ہزاروں درجے بڑھ کر تھا جو بہت سارو پہیہ اپنے گھر میں رکھتے اور خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے.تیرا فرض جس کی طرف میں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلا تا ہوں وہ وصیت کا مسئلہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ وصیت ایمان کی آزمائش کا ذریعہ ہے.اور وہ اس کے ذریعہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کون سچا مومن ہے اور کون نہیں گا.ہماری جماعت اس وقت لاکھوں کی تعداد میں ہے.مگر وصیت کرنے والے صرف دو - تین ہزار ہیں.حالانکہ وصیت ایسی چیز ہے جو یقینی طور پر خدا کا مقرب ہونا ظاہر کرتی ہے.اس میں شبہ نہیں کہ مومن ہی وصیت کرتا ہے.لیکن اس میں بھی شبہ نہیں کہ اگر کسی شخص میں کچھ کمزوریاں بھی پائی جاتی ہوں تو جب وہ وصیت کرے تو اللہ تعالٰی اپنے اس وعدہ کے مطابق کہ بہشتی مقبرہ میں صرف جنتی ہی مدفون ہوں گے ، اس کے اعمال کو درست کر دیتا ہے.پس وصیت اصلاح نفس کا زبر دست ذریعہ ہے کیونکہ جو بھی وصیت کرے گا اگر وہ ایک وقت میں جنتی نہیں تو بھی وہ جنتی بنا دیا جائے گا اور اگر اعمال اس کے زیادہ خراب ہیں تو خدا اس کے نفاق کو ظاہر کر کے اسے وصیت سے الگ کر دے گا.غرض وصیت کرنے والے کو یا تو اللہ تعالٰی اصلاح نفس کی توفیق دے کر جنتی بنا دے گا یا اسے وصیت سے الگ کر کے اس کے نفاق کو ظاہر کر دے گا.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ ادنیٰ سے ادنیٰ قربانی کا درجہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے

Page 568

خطبات محمود ۵۶۳ سال ۱۹۳۲ء رکھا ہے یعنی دسواں حصہ جماعت کا معتدبہ حصہ اس میں بھی حصہ نہیں لیتا حالا نکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعت وصیت کی طرف توجہ کرے تو ایک کثیر حصہ بخوبی وصیت کر سکتا ہے.مگر افسوس یہ ہے کہ لوگ توجہ نہیں کرتے.اب ہمارا اسلسلہ خدا کے فضل سے اس مقام تک پہنچا ہوا ہے کہ بہت سی روکیں ہمارے راستہ سے دور ہو گئی ہیں اور کروڑوں آدمی ایسے ہیں جو مانتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بچے تھے.مگر ضرورت یہ ہے کہ ہم ان کے پاس پہنچیں اور انہیں سلسلہ میں داخل کریں.مگر ابھی سامان ہمارے پاس ایسے نہیں.جاہلوں کو جانے دو تم سمجھدار لوگوں سے بات کرد، فورا تمہیں محسوس ہو گا کہ ان کے دل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کے قائل ہیں.ضرورت ہے کہ ان کے پاس پہنچا جائے مگر اس کے لئے تبلیغی وسعت کی ضرورت ہوگی اور یہ وسعت پھر سرمایہ چاہتی ہے.اسی طرح سینکڑوں ممالک کے لوگ ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی ہمارا مبلغ جائے مگر ہم نہیں بھیج سکتے.گویا ایک زمانہ تو ایسا تھا کہ جب ہم لوگوں کو اپنی باتیں سنانا چاہتے تھے اور وہ سنتے نہیں تھے.یا اب یہ حالت ہے کہ لوگ ہماری باتیں سننا چاہتے ہیں اور ہم سا نہیں سکتے.اس روک کو دور کرنا ہمارا فرض ہے.میں سمجھتا ہوں اگر دوست وصیت کی طرف توجہ کریں تو یہ روک اللہ تعالٰی کے فضل سے بہت جلد دور ہو سکتی ہے.پس یہ تین باتیں ہیں جن کی طرف میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں.اول کشمیر کا چندہ ہے جو دوست غافل ہیں وہ توجہ کریں اور باقاعدہ اس میں حصہ لیں دوسرے واجبی چندوں کی ادائیگی کا مسئلہ ہے.جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جو شخص متواتر تین مہینے تک چندہ نہیں دیتا وہ جماعت میں سے نہیں.دوستوں کو چاہئے کہ وہ کمزوروں کو اٹھا ئیں انہیں چندوں کی ادائیگی کا فرض یاد دلائیں.اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میں مجبور ہوں اور مشکلات میں گھرا ہوا ہوں تو بھی اسے سمجھنا چاہئے کہ کامیابی بغیر مشکلات برداشت کئے حاصل نہیں ہوا کرتی.اور اللہ تعالٰی کی نصرت بھی تکلیفوں کے بعد آتی ہے.پس ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ چندوں کی ادائیگی کی طرف متوجہ ہو.تیسرے وصیت کا مسئلہ ہے.یہ خدا نے ہمارے لئے ایک نہایت ہی اہم چیز رکھی ہے اور اس ذریعہ سے جنت کو ہمارے قریب کر دیا ہے.پس وہ لوگ جن کے دل میں ایمان اور اخلاص تو ہے مگر وہ وصیت کے بارہ میں سستی دکھلا رہے ہیں، میں انہیں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ وصیت کی طرف جلدی بڑھیں.انہی مستیوں کی وجہ سے دیکھا جاتا ہے کہ

Page 569

خطبات محمود ۵۶۴ سال ۱۹۳۲ء بڑے بڑے مخلص فوت ہو جاتے ہیں.ان کے آج کل کرتے کرتے موت آجاتی ہے پھر دل کڑھتا ہے اور حسرت پیدا ہوتی ہے کہ کاش یہ بھی مخلصین کے ساتھ دفن کئے جاتے مگر دفن نہیں کئے جاسکتے.سب کے دل ان کی موت پر محسوس کر رہے ہوتے ہیں کہ وہ مخلص تھے اور اس قابل تھے کہ دوسرے مخلصین کے ساتھ دفن کئے جاتے مگر ان کی ذرا سی غفلت اور ذراسی ستی اس امر میں حائل ہو جاتی ہے.پھر بیسیوں ہماری جماعت میں ایسے لوگ موجود ہیں جو دسویں حصہ سے زیادہ چندہ دیتے ہیں مگر وہ وصیت نہیں کرتے.ایسے دوستوں کو بھی چاہئے کہ وصیت کر دیں بلکہ ایسے دوستوں کے لئے تو کوئی مشکل ہے ہی نہیں.پھر کئی ایسے ہیں جو پانچ پیسے یا چھ پیسے فی روپیہ چندہ دے رہے ہوتے ہیں اور صرف دمڑی یا دھیلا انہیں وصیت سے محروم کر رہا ہوتا ہے.غرض تھوڑے تھوڑے پیسوں کے فرق کی وجہ سے ہماری جماعت کے ہزارہا آدمی وصیت سے محروم ہیں اور جنت کے قریب ہوتے ہوئے اس میں داخل نہیں ہوتے.پھر بعض لوگ مرض الموت میں وصیت کر دیتے ہیں حالانکہ یہ وصیت منظور نہیں ہوتی.رسول کریم میں نے اسے ناپسند فرمایا ہے.وصیت وہی ہے جو حیات اور زندگی میں کی جائے اور غیر مشتبہ ہو.پس دوستوں کو چاہئے کہ جو وصیت کے برابر چندہ دیتے ہیں اور ایسے سینکڑوں آدمی ہیں وہ حساب لگا کر وصیت کر دیں.بعض اگر غور کریں گے تو انہیں معلوم ہوگا کو صرف ایک پیسہ زیادہ چندہ دینے سے ان کے لئے جنت کا وعدہ ہو جاتا ہے.پس جس قدر ہو سکے دوستوں کو چاہئے کہ وہ وصیت کریں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ وصیت کرنے سے ایمانی ترقی ضرور ہوتی ہے.جب اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اس زمین میں متقی کو دفن کرے گا تو جو شخص وصیت کرتا ہے اسے متقی بنا بھی دیتا ہے.پس یہ میری تین نصیحتیں ہیں.خصوصیت سے کمزوروں کو نصیحت ہے کہ وہ دوسروں کے لئے ٹھو کر کا موجب نہ بنیں.وہ جنت کے دروازے پر کھڑے ہو کر جنت سے محروم نہ ہوں اور ایسا نہ ہو کہ ان کے لئے وہی الفاظ کہنے پڑیں جو اللہ تعالٰی نے کہے.اِنَّ الْمُنْفِقِينَ فِي الدَّرْيِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ که منافق دوزخ کے سب سے نچلے حصہ میں جائے گا.پس منافقوں کو چاہئے کہ وہ اپنی منافقت کو چھوڑ کر اخلاص کے مقام پر آجائیں.عیش کے سامانوں سے کبھی جنت حاصل نہیں ہوتی اور نہ ظاہری تکلیفوں کی وجہ سے جنت ضائع ہو سکتی ہے.جنت ہر انسان کا دل اپنے لئے بنا سکتا ہے.جس کا دل مطمئن ہے وہ جنت میں ہے اور جس کا دل مطمئن نہیں خواہ وہ روپوں کے ڈھیر رکھتا ہے تب بھی وہ دوزخ میں ہے.:

Page 570

خطبات محمود ۵۶۵ سال ۱۹۳۲ء حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ ایک غریب بیوہ عورت سے میں نے پوچھا تمہیں کوئی ضرورت ہو تو بیان کرو.اس کا ایک لڑکا بھی تھا اور بے حد غریب تھی.میں نے پوچھا کہ کسی مدد کی ضرورت ہو تو بتاؤ.وہ کہنے لگی اللہ نے بہت کچھ دیا ہوا ہے اس کا بڑا فضل ہے.آپ فرماتے میں نے اس کا گھر دیکھا تو اس میں صرف ایک چھوٹا سالحاف اور معمولی سی چار پائی تھی.میں نے پوچھا مائی تمہیں لحاف چاہئے.کہنے لگی مولوی صاحب میرا الخاف بڑا عمدہ ہے.خوب گرم ہو جاتی ہوں.آپ نے فرمایا سردی زیادہ ہے اور لحاف چھوٹا ہے گرم کس طرح ہوتی ہو.کہنے لگی ہم ماں بیٹا ایک ہی جگہ سو جاتے ہیں جب سردی لگتی ہے تو پہلے ایک پہلو کو گرم کر لیتے ہیں ، پھر دو سرے کو.آپ اصرار کرنے لگے کہ کوئی ضرورت بیان کرو.مگر وہ یہی کہتی رہی کہ اللہ کا بڑا فضل ہے.آخر نے زیادہ زور دیا تو اس نے کہا کہ اگر کچھ دیتا ہی ہے تو موٹے حرفوں والا قرآن لے دیں.میری نظر کمزور ہو گئی ہے اور بار یک حرفوں والے قرآن سے حروف نظر نہیں آتے.اب دیکھو یہ جنت کہاں سے پیدا ہوئی.اس کے دل میں جنت تھی، اس لئے باوجودیکہ حضرت خلیفہ اول نے اسکے دل میں کسی چیز کی خواہش پیدا کرنی چاہی پھر بھی پیدا نہ ہوئی.پس خدا نے اسے دنیا میں ہی جنت دے رکھی تھی.دراصل خواہشات کی زیادتی دوزخ ہے.جنت یہی ہے کہ دل میں اطمینان ہو.یہ جنت ہر شخص کے قبضہ میں ہے اور جو چاہے اسے لے سکتا ہے.امیر بھی لے سکتا ہے اور غریب بھی.رسول کریم میں تعلیم کے زمانہ میں بعض امیر صحابی تھے جو قربانیاں کیا کرتے تھے.جس طرح آج کل بھی بہت سے امیر ہیں جو اخلاص سے قربانیوں میں حصہ لیتے ہیں اور ان کے دل غریبوں سے کم مطمئن نہیں.اس وقت بھی ایسے لوگوں کو دیکھ کر غریبوں نے شکایت کی کہ یا رسول اللہ ظاہری تکلیفیں تو ہیں ہی لیکن ہم سمجھتے تھے کہ جو دل کا اطمینان ہمیں نصیب ہے وہ ان کو نہیں اس لئے ہم خوش ہیں لیکن اب ہم دیکھتے ہیں کہ ان کا دل بھی اسی طرح مطمئن ہے جس طرح ہمارا.اس طرح یہ دنیا میں بھی آرام میں رہے اور آخرت میں بھی.رسول کریم م م ا ا ا ا م ا نے ان کے اخلاص کو دیکھ کر فرمایا آؤ میں تمہیں چند کلمات سکھاؤں.اگر ان کا ورد کرو گے تو پانچ سو سال پہلے جنت میں جاؤ گے.اس پر وہ خوش خوش چلے گئے.کچھ دنوں کے بعد انہوں نے پھر شکایت کی کہ یا رسول اللہ وہ کلمات تو امیر بھی کہنے لگ گئے ہیں.دراصل ان امیر لوگوں کے دلوں میں بھی اخلاص تھا.جب انہوں نے رسول کریم میں یہ اللہ کے یہ سکھائے ہوئے کلمات سنے تو وہ بھی پڑھنے لگ گئے.جب آپ کے پاس شکایت کی گئی تو آپ نے فرمایا اگر کسی پر اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو رہا

Page 571

۵۶۶ ہو تو میں اسے کس طرح روک سکتا ہوں ۱۵ پس جنت صرف غریبوں کے لئے ہی نہیں بلکہ امیروں کے لئے بھی ہے.جب قربانی اور اخلاص سے انسان جنت کا وارث ہو سکتا ہے تو یہ قربانی اور اخلاص جو بھی دکھائے گا جنت کا دارت ہو جائے گا خواہ امیر ہو یا غریب اور قرآن مجید میں تو یہ مسیح موعود کے زمانہ کی علامت بیان کی گئی ہے کہ وَإِذَ الْجَنَّهُ از لفت 10 یعنی اس زمانہ میں جنت قریب کی جائے گی.میں سمجھتا ہوں کہ اس کا صحیح ترجمہ وصیت ہی ہے.یعنی مسیح موعود کے زمانہ میں جنت اس طرح قریب کر دی جائے گی کہ لوگوں کو یقین ہو جائے گا کہ فلاں کو جنت مل گئی.پس دوستوں کو چاہئے کہ وہ قربانیوں سے اخلاص سے اور نیک نمونہ سے لوگوں پر اثر ڈالیں.اپنے ہاتھوں اور زبان کو قابو میں رکھیں.لڑائی بھڑائی چھوڑ دیں.نفس کو قابو میں رکھیں اور لوگوں کو یہ نمونہ دکھا ئیں کہ جب کوئی شخص احمدیت میں داخل ہوتا ہے تو وہ اپنے ہاتھ اور زبان کو اپنے قابو میں رکھ کر نہ صرف اپنے لئے بلکہ اپنے ہمسائیوں کے لئے بھی جنت پیدا کر دیتا ہے.کیسا بد قسمت وہ انسان ہے جس کے پاس جنت ہو مگر وہ خود بھی جہنم میں پڑا ہوا ہو اور دوسروں کو بھی تکلیف میں مبتلا ءر رکھتا ہو.پس اکڑ باز ہونا کچھ باز ہونا اور لوگوں پر اپنی حکومت جتانا یہ کوئی عزت کی بات نہیں ہوتی.ایسے لٹھ باز کے سامنے گو کمزور لوگ کچھ نہ کہہ سکیں اور جب ایسا شخص سامنے آئے تو السّلامُ عَلَيْكُم بھی کہہ دیں لیکن پیٹھ پیچھے کہیں گے اس پر خدا کی لعنت ہو یہ بہت ہی بُرا آدمی ہے.پس لٹھ باز ہونے میں بڑائی نہیں بلکہ خدا کے لئے قربانی کرنے اور لوگوں پر شفقت اور احسان کرنے میں بڑائی ہے.ملنے والوں سے بد کلامی نہ کرو.میٹھی گفتگو کرو کیونکہ یہ ایسی چیزیں ہیں کہ ان سے اپنا دل بھی صاف رہتا ہے اور دوسروں کا بھی.اور جوں جوں دلوں کی صفائی ہوتی ہے اللہ تعالٰی کی رحمتیں بھی زیادہ نازل ہوتی ہیں.(الفضل یکم ستمبر ۱۹۳۲ء) ا مسنداحمد بن حنبل جلد ۵ صفحه ۱۶۲ المائدة : ۲۵ بخاري كتاب المغازی باب غزوة بدر + سیرت ابن ہشام جلد ۲ صفحه ۲۶۶ ۲۶۷ مطبوعه بیروت ۱۹۳۶ء

Page 572

خطبات محمود المتفقون: ٢ ف الاحزاب : ۲۴ ک النور : ۶۴ ۵۶۷ سال ۱۹۳۲ء مسلم کتاب الايمان باب بيان خصال المنافق و ترمذی ابواب الایمان باب ما جاء فى علامة المنافق النساء : ١٤٦.الانشراح : ٢.ال الانعام: ١٢٦ ۱۲ الوصیت صفحه ۳۰ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۲۸ بخارى كتاب الصلوة باب الذكر بعد الصلوة ها التكوير : ١٤

Page 573

خطبات محمود ۵۶۸ 65 ہماری ہمدردی کا دائرہ وسیع ہونا چاہئے فرموده ۲ ستمبر ۱۹۳۲ء بمقام ڈلہوزی) سال ۶۱۹۳۲ تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.گلے میں خراش ہونے کی وجہ سے میں زیادہ تو نہیں بول سکتا لیکن نہایت اختصار کے ساتھ ایک ضروری امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں.سورۃ فاتحہ جو قرآن مجید کی تمام سورتوں میں سب سے پہلی سورۃ ہے اس کی سب سے پہلی آیت جو بسم اللہ کے بعد آتی ہے.اس میں بظاہر تو اللہ تعالٰی کی ایک صفت ہی بیان کی گئی ہے لیکن در حقیقت اس میں ایک نصیحت بھی کی گئی ہے.فرمایا الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ کہ اللہ تعالیٰ سب جہانوں کا رب ہے.اسے کسی خاص قوم اور خاص جماعت کی رعایت ، نظر نہیں بلکہ بلا کسی لحاظ کے سب کی ربوبیت فرماتا ہے.یہ وہ چیز ہے جس کی طرف بہت کم لوگوں کو توجہ ہے.دیکھو اللہ تعالیٰ کسی کو دوستوں عزیزوں کے ساتھ محبت رکھنے سے منع نہیں کرتا.اخوت اور برادری کے تعلقات رکھنے سے نہیں روکتا.بلکہ ایسا کرنے سے تو انسان اس کے حضور ثواب کا مستحق ٹھرتا ہے.لیکن اخوت رشتہ داری یا دوستی کے سبب کسی کے ساتھ ناجائز رعایت یا طرفداری کو بھی پسند نہیں کرتا.جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ نہیں دیکھتے کہ آخر ہر بندہ کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کی صفات کے ذریعہ سے ہی ہے.اب وہ لوگ اس کی صفات پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ اس کی صفات میں سے صفت ربوبیت سب پر حاوی ہے اور سب سے یکساں سلوک ہوتا ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمدردی کے لئے انسان دوستیاں قائم کرتا ہے اور اسی طرح دوستیوں کے نتیجہ میں باہمی سلوک اور ہمدردی ہوتی ہے.لیکن یہ دوستیاں اور تعلقات انصاف

Page 574

خطبات محمود ۵۶۹ سال ۱۹۳۲ء کے معاملہ میں دخل انداز نہ ہونے چاہئیں.پس جب انصاف کا معاملہ در پیش ہو تو انسان کو چاہئے کہ صفت ربوبیت کو سامنے رکھ کر عمل پیرا ہو.اور اسی کے مطابق اپنے لئے راہ عمل تجویز کرے.جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے کئی لوگ روگرداں ، برگشتہ اور غافل ہوتے ہیں.بلکہ کئی اس کی ہستی کا انکار کرنے والے بھی دنیا میں موجود ہوتے ہیں لیکن باوجود اس کے سب کی ربوبیت ہو رہی ہے.سب کو کھانا ملتا ہے.کھانے سے سب کا پیٹ بھرتا ہے.اور ایسے لوگوں کے لئے بھی خدا تعالی کی رحمت بند نہیں ہوتی.تو یہی حال مؤمن کا بھی ہونا چاہئے کہ اس کا انصاف وسیع ہو.اور اس کی ہمدردی کسی قسم کے تعصب کے دائرہ میں محدود نہ ہونے پائے.اگر دنیا میں لوگ اس پر عمل پیرا ہو جائیں تو بہت جلد دنیا سے فتنہ و فساد دور ہو کر حقیقی امن و سکون قائم ہو جائے.ان دنوں ہمارے ملک میں جو آفت آئی ہوئی ہے کہ لوگ آپس میں دست و گریباں ہو رہے ہیں.ان میں لڑائیاں شروع ہیں یہ بھی صفت ربوبیت کے بھلا دینے کا نتیجہ ہیں.دیکھو! ایک ہندو ذہنیت کی اسی وسعت کو چھوڑتے ہوئے تمام سیاسی اور تمدنی امور میں مسلمانوں کا حق غصب کر کے بھی ہنود کو ہی ترجیح دیتا ہے اور پسند کرتا ہے کہ اس کی تمام امداد ایک ہندو کو ہی پہنچے.اسے اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ کسی دوسرے کا حق پامال نہ ہو.جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں بھی ہندوؤں کی دیکھا دیکھی یہ تعصب پیدا ہو رہا ہے.حالانکہ دنیا میں کسی ملک کی ترقی بغیر اتحاد اور بغیر ایک دوسرے سے موافقت اور یگانگت کے نہیں ہو سکتی.ہندو فرقہ واری کے خلاف زبان سے تو شور مچاتے ہیں اور بڑے زور سے کہتے ہیں کہ ملک میں فرقہ وارانہ خیالات نہیں ہونے چاہئیں لیکن ان کے صرف یہ اقوال ملک میں امن نہیں قائم کر سکتے جبکہ ان کا اپنا عمل ان کے خلاف ہے.اور اکثر دیکھا جاتا ہے کہ حکومت کے دفاتر میں مسلمان ملازمین کو ان کی طرف سے ہر قسم کی تکلیف دی جاتی ہے.ان کے خلاف بلا وجہ اور جھوٹے کیس بنائے جاتے ہیں.یہ تکلیف زدہ لوگ جب اپنے مسلمان بھائیوں اور دوسرے دوستوں کو ایسے واقعات بتاتے ہیں تو ضرور ہے کہ باقی مسلمانوں کا دل اپنے تکلیف زدہ بھائیوں کی تکلیف پر غم زدہ ہو اسی طرح اگر مسلمان ایسا کریں اور ہندوؤں کو بلاوجہ تکلیف دیں تو دوسرے ہندوؤں کا جوش اور غصہ مسلمانوں کے خلاف بڑھتا ہے.پس جب حالات یہ ہوں تو ملک کس طرح آرام کا سانس لے سکتا ہے.جبکہ ہر قوم اس کوشش میں ہے کہ دوسروں کے حقوق تلف کر کے خود ترقی حاصل کی جائے تو ملک میں

Page 575

خطبات محمود کس طرح امن قائم ہو سکتا ہے.ہماری جماعت کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے قائم کیا ہے کہ اس کو کا مقابلہ کرتی ہوئی حق اور انصاف کی مثال دنیا میں قائم کرنے، ہمیں یہ نہیں خیال کرنا چاہ بہنے کہ ہم قلیل اور کمزور ہیں.اور نہ یہ سمجھنا چاہئے کہ ایک قطرہ Essence (انس) کا یا ایک اونس مٹھاس کا سمندر میں ڈالا جائے تو اس کا کیا اثر ہو سکتا ہے.بے شک عام حالات میں اس کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا.لیکن اسی امنس کے قطرہ یا مٹھاس کے اداش میں جب ایسی طاقت ہو کہ ہر طحہ گزرنے کے بعد اس کی طاقت بڑھتی جائے.تو یقینا آج نہیں تو کل کل نہیں تو پرسوں ذخار سمند ر بھی اس قطرہ کی خوشبو کو قبول کر لے گا.اور ایک اونس مٹھائی کی قلیل مقدار اس پر غلبہ حاصل کرلے گی.پس ہماری جماعت کو پوری قوت کے ساتھ اس نقصان رساں اور مسلک رو کا مقابلہ کرنا چاہئے.اور چاہئے کہ اپنے نمونہ سے اس بات کا ثبوت مہیا کرے کہ غیروں کے ساتھ بھی اس کا معاملہ صفت ربوبیت کے ماتحت ہوتا ہے.مثلاً ہم میں سے اگر کوئی حج ہے تو اس کے تمام فیصلے انصاف کی کسوٹی پر پورے اترنے چاہئیں اور فیصلہ کرتے وقت انصاف سے علیحدہ ہو کر کسی کی رعایت مد نظر نہ ہونی چاہئے.اسی طرح سرکاری دفاتر میں دوسروں کے حقوق کا سوال ہے.ان کے حقوق کو پامال ہونے سے حتی الوسع بچانے کی کوشش کرنی چاہئے.غرض یہ ہماری جماعت کا فرض ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ انصاف اور عدل کو وہ کبھی اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دے گی.اور اس نوعیت کی ہر برائی سے مجتنب رہے گی.یاد رکھنا چاہئے جو مثالیں ایک دفعہ قائم ہو جاتی ہیں.پھر دنیا میں ہمیشہ ان کا تتبع ہو تا رہتا ہے.شروع شروع میں تو بے شک لوگ ہمیں برابھلا کہیں گے کہ انہیں غیروں سے اپنوں کی نسبت زیادہ انس ہے.لیکن آہستہ آہستہ لوگوں کو سمجھ آجائے گی کہ درست طریق یہی ہے کشمیر کے معاملہ میں ہمیں اس کا بہت تجربہ ہوا ہے.جب ہمارے آدمیوں نے بعض ان مقدمات میں جو کشمیری مسلمانوں پر ریاست میں چل رہے تھے ، انصاف کو مد نظر رکھ کر کچی گواہیاں دیں.جن میں سے بعض نتیجہ بعض مسلمان مأخوذین کے خلاف پڑتی تھیں تو یہ طریق اختیار کرنے پر دوسرے مسلمانوں نے کہا کہ یہ مسلمان ہو کر ہمارے خلاف گواہیاں دیتے ہیں.اس طرح انہوں نے اپنے ہو کر میں غیر سمجھا.دوسری طرف حکومت پہلے خلاف تھی اس نے بھی ہماری جماعت کے لوگوں کو تکلیفیں دیں اور اس طرح ہمارے آدمی اپنے ایمان اور انصاف کی حفاظت میں دونوں طرف سے تکلیف اٹھاتے رہے.لیکن مومن کو تکلیف

Page 576

37 خطبات محمود 841 سال ۱۹۳۲ء کی کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہئے.صرف مسلمان کہلانے سے تو کوئی مومن نہیں بن سکتا.جب تک حقیقی طور پر مومنوں والے اعمال نہ بجا لائے.غرض ہماری ہمدردی کا دائرہ الہی صفت ربوبیت کے ماتحت وسیع ہونا چاہئے اور دوسروں کے حقوق کی حفاظت بھی اپنا فرض سمجھنا چاہئے.لیکن میرا یہ مطلب نہیں کہ اپنوں کے حقوق کا خیال نہ رکھا جائے اور ظلم ہو گا اگر میں یہ کہوں کہ اپنی قوم کو فائدہ پہنچانے کا موقع میسر آنے پر بھی فائدہ نہیں پہنچانا چاہئے.ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اگر کسی جگہ بغیر کسی کی حق تلفی کے غیر کے مقابلہ میں اپنے مسلمان بھائی کو یا غیر ملکی کے مقابلہ میں اپنے ملکی کو یا غیر ممالک کے باشندوں کے مقابلہ میں برٹش ایمپائر کی رعایا کو فائدہ پہنچا سکے اور اس کو جائز موقع میسر ہو تو ضرور فائدہ پہنچائے.اس کا اس طرح فائدہ پہنچانا نہ صرف یہ کہ اس کے لئے گناہ کا موجب نہیں، بلکہ باعث ثواب ہے.غرض اپنوں اور غیروں کے ساتھ معاملہ کرتے وئے صفت رب العلمین کو مد نظر رکھا جائے تو دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے اور فتنہ و فساد کا طوفان بند ہو سکتا ہے.و افضل ۱۳ ستمبر ۱۹۳۲)ء الفاتحة : ٢

Page 577

خطبات محمود ۵۷۲ 66 سال ۱۹۳۲ء ہر کام میں استقلال سے کام لینا چاہئے فرموده ۹- ستمبر ۱۹۳۲ء بمقام ڈلہوزی) تشهد و تعوز اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : - اللہ تعالیٰ کی صفات بندوں کے لئے ایک نمونہ ہیں اور حسن کامل در حقیقت ذات الہی میں ہی پایا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ ہی کی وہ ذات ہے جس کو نظر انداز کر کے ہم نیکی کی کوئی تعریف کر ہی نہیں سکتے.خدا تعالیٰ کو چھوڑتے ہوئے دنیا نے نیکی کی تعریف کرنا چاہی لیکن قطعا کامیاب نہ ہو سکی اور یہ راہ اختیار کرنے والوں نے مونہہ کی کھائی.بعض نے کہا نیکی وہ ہے جو انسان کی فطرت کے مطابق ہو، حالانکہ کسی کام کا فطرت انسانی کے مطابق ہونا ایسی اصطلاح ہے جس کی کوئی بھی تعیین نہیں ہو سکتی مثلا ایک ہندو سے پوچھو گوشت کھانا کیسا ہے تو وہ رام رام کہتا ہوا اسے پاپ قرار دے گا.ایک جینی سے دریافت کرو کہ گوشت کھانا کیسا ہے تو اس کا جواب یہ ہو گا کہ گوشت بھی کوئی کھانے کی چیز ہے لیکن گوشت ہی کے متعلق کسی مسلمان سے پوچھ کر دیکھو تو معلوم ہو گا کہ گوشت کے بغیر اسے کھانے میں مزاری نہیں آتا.غرض نیکی اور بدی کے متعلق محض انسان کی فطرت کے فیصلہ کو پیش کرنا درست نہیں ہو سکتا کیونکہ بسا اوقات وہ بہت جلد مسخ کر دی جاتی ہے.اور کوئی یقینی اور قطعی معیار ہمارے سامنے نہیں رکھ سکتی.بعض لوگ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ نیکی وہ فعل ہے جس سے سب سے زیادہ فائدہ حاصل ہو.لیکن اسے بھی ہم کیونکر درست کہہ سکتے ہیں جبکہ کئی دفعہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض کام فائدہ مند معلوم ہوتے ہیں لیکن حقیقتاً نہ صرف یہ کہ انہیں نیکی نہیں کہا جاسکتا بلکہ وہ بدیوں میں شمار ہوتے ہیں.مثلا کوئی شخص کسی کا مال اٹھا کر لے جائے.پھر اس شخص کو بھی جس کا مال اٹھایا گیا موقع مل جائے کہ اٹھانے والے کا سامان چوری

Page 578

خطبات محمود ۵۷۳ سال ۱۹۳۲ء کرے.اب بظاہر اس شخص کا جس کا مال پہلے چرایا گیا، اس میں فائدہ ہے کہ دوسرے کا مال اٹھالے اور پولیس میں رپورٹ وغیرہ دینے کی زحمت میں نہ پڑے کیونکہ اگر رپورٹ کرے گا تو پھر اسے عدالت میں بھی جانا پڑے گا.وکیل کرنا ہو گا.اخراجات برداشت کرنے پڑیں گے.لیکن چوری کے طریق سے مال حاصل کر کے وہ زیادہ فائدہ میں رہ سکتا ہے.لیکن پھر بھی اس طریق کو ہم بدی سکہتے ہیں اور جس میں صعوبت اور تکلیف برداشت کرنا پڑتی ہے وہ صحیح طریق عمل ہے.پھر کچھ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ نیکی وہ ہے جس میں سب سے زیادہ فائدہ سب سے زیادہ لوگوں کو ہو.لیکن یہ بھی غلط ہے مثلا دیکھو جب حضرت مسیح علیہ السلام مبعوث ہوئے تو وہ اکیلے تھے ،کثرت یہود کی تھی.اور اس کثرت کا فائدہ اس میں تھا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو قتل کر دے.بے شک کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ نسلوں کا فائدہ اسی میں تھا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو زندہ رکھا جاتا لیکن سوال یہ نہیں کہ آئندہ نسلوں کا فائدہ کس میں ہے بلکہ کوئی کام اس اصل کے ما تحت تو کسی شخص کے لئے نیکی تب بنے گا جب وہ خود اس کے لئے سود مند ہو.غرض دنیا خد اتعالیٰ سے علیحدہ ہو کر نیکی کی تعریف تک نہیں کر سکی.لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی ہے جس نے ایسے تمام جھگڑوں کا فیصلہ کر دیا ہے.اور کچی اور اصل بات یہی ہے کہ جب انسان اللہ تعالیٰ کی ذات سے علیحدہ ہو جاتا ہے تو نیکی و بدی کا کوئی معیار اس کے لئے رہتا ہی نہیں.اور یہ بھی ہستی باری تعالیٰ پر ایک بڑی اور زبردست دلیل ہے.آج دنیا میں وہ لوگ بھی بہتے ہیں جنہیں دنیا و ہم ہی و ہم نظر آتی ہے.سب سے یقینی چیز انسان کا اپنا وجود ہے.لیکن موفسطائیوں نے اسے بھی و ہم ہی قرار دیا ہے.کہتے ہیں کہ سوفسطائیوں کے گروہ کا ایک شخص کسی بادشاہ کے دربار میں گیا اور وہاں جاکر کہنے لگا کہ اس دنیا کا کوئی حقیقی وجود سمجھنا محض ایک وہم ہے.در حقیقت جو کچھ نظر آتا ہے ہمارے اپنے خیال کا نتیجہ ہے ورنہ ایسی حقیقت کچھ بھی نہیں.بادشاہ کو جو سو جبھی تو اس نے ایک مست ہاتھی کو ایک بڑے کمرہ میں بند کر دیا اور اس شخص سے کہا کہ اس کمرہ کے اندر جاؤ.جب وہ شخص اندر گیا تو مست ہاتھی کو دیکھ کر بھاگا.بادشاہ نے کہا میاں بھاگتے کیوں ہو یہ ہاتھی تو محض ! ہم ہی وہم ہے ، حقیقت میں کچھ نہیں.اس وقت بادشاہ کو خیال تھا کہ میں نے اب اسے خوب قابو کیا ہے اور اس کا سوفعہ دھرا کا دھرا رہ جائے گا.لیکن وہ بھی کچھ ایسا کیا نہیں تھا.اس نے جواب دیا بادشاہ سلامت بھاگتا کون ہے میرا بھا گنا جو آپ کو نظر آ رہا ہے ، یہ وہم ہی وہم ہے.اس طرح پھر بات وہیں کی وہیں آرہی.خیر سوفسطائیوں کا خیال تو بے وقوفی اور حماقت ہے لیکن اس میں بھی

Page 579

ن محمود ۵۷۴ سال ۱۹۳۲ء کچھ شک نہیں کہ اگر ذات الہی کو بیچ میں سے نکال دیا جائے تو پھر ایک پر بھی دنیا میں ایسی نہیں رہتی جس کے متعلق قطعیت کا دعویٰ کیا جاسکے اور کہا جا سکے کہ یقینی ہے.ہاں جب یہ یقین کر لیا جائے کہ کوئی علیم گل ہستی ہے جو صفات کا ملہ رکھتی ہے، جو ازلی ابدی ہے تو پھر ہماری ہر چیز یقینی بن جاتی ہے.اور وہ اس طرح کہ جب حقیقت اشیاء کے تعلق میں اس ذات کامل کی طرف مرافعہ لے جائیں جو تمام اشیاء کی خالق ہے اور وہ ہمیں بتلائے کہ اس میں حقیقت ہے تو وہ چیز متحقق ہو جائے گی.کیونکہ اس کی حقانیت کا علم ایک کامل علیم و خبیر ہستی نے ہمیں دیا.الہام الہی کے بعد تحقیق اشیاء کا ایک ذریعہ عقل بھی ہے لیکن عقل ہمیشہ صحیح نتیجہ اخذ نہیں کر سکتی.علماء اور محققین نے عقل کے نتائج کو غیر یقینی قرار دیا ہے.اس صورت میں جب اشیاء کی تحقیقاتوں کی تمام بنیاد عقل پر رکھی جائے اور عقل غلطی کر سکتی ہے تو اس طرح تمام علوم ظنی اور شکی ہو جائیں گے اور شک سے آگے ان کی حیثیت نہیں بڑھ سکے گی.لیکن اگر حقیقت اشیاء کے لئے صفات اللہ کو اصل منبع بنایا جائے تو خدا تعالیٰ کی صفات ہمارے لئے یقینی طور پر دلیل راہ بن سکتی ہیں.اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت رب العلمین کی بھی ہے.رَبُّ الْعَلَمِینَ کے یہ معنی ہیں کہ وہ ہستی جس کے کاموں میں وقفہ نہ پڑے کیونکہ ربوبیت کے کاموں میں اگر ایک منٹ کے لئے بھی وقفہ پڑ جائے یا ایک منٹ کے لاکھویں حصہ کا بھی التواء ہو جائے تو ربوبیت ربوبیت نہیں رہتی اور شدید نقص پیدا ہو جائے.غرض صفات اللہ میں سے ایک صفت استقلال کامل کی کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے لئے نہیں بولا جا سکتا.جب بھی ذات باری کے لئے اس کا ہو گا سمجھانے کے لئے اسے استعمال کرتا ہوں.غرض ایسا استقلال جس میں کوئی نقص نہ ہو جس میں سیکنڈ کے ان گنت حصہ کے لئے بھی التواء نہ ہو.یہ اللہ تعالیٰ ہی کی صفت ہے.یہی صفت جب تک انسان اختیار نہ کرے وہ کامیاب نہیں ہو سکتا.غیر مستقل آدمی کی مثال قرآن مجید میں ایسی عورت سے دی گئی ہے الَّتِى نَقَضَتْ غَزَ لَهَا ! جو اپنا سوت آپ ضائع کر دے.ایسے لوگ بے 11 شک نیکی کے کام کریں گے لیکن بہت جلد ان سے کنارہ کش ہو جائیں گے.نمازیں پڑھیں گے لیکن پھر سستی شروع کر دیں گے.اخلاق فاضلہ دکھائیں گے لیکن پھر تساہل کی طرف میلان شروع ہو جائے گا.قومی خدمت میں مصروف ہوں گے پھر غفلت ہو جائے گی.چندے دیں گے لیکن بھی ہے.میں نے استقلال کا لفظ بولا ہے جو اپنے عالم کے ساتھ ہی ہو گا.لیکن

Page 580

جلدی ہی با قاعدہ ادائیگی فراموش ہو جائے گی.سال ۱۹۳۲ء غرض کسی کام کو بھی مسلسل جاری نہیں رکھ سکیں گے.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بہت سی قربانیاں کر کے بھی ان فوائد سے محروم رہ جاتے ہیں جو ان قربانیوں کے نتیجہ میں انہیں ملنے چاہئیں.وہ نمازیں پڑھتے ہیں، قومی خدمات میں اپنے اوقات خرچ کرتے ہیں ، چندے دیتے ہیں لیکن انعام ملنے سے پہلے ہی غافل ہو کر انعام سے محروم رہ جاتے ہیں.غرض ان کی مثال الیقی نَقَضَتْ غز لھا کی سی ہوتی ہے.وہ اپنے تحمل کو اس وقت چھوڑ دیتے ہیں جب نتیجہ نکلنے والا ہوتا ہے.اگر وہ کچھ اور صبر کرتے یہاں تک کہ انہیں انعام مل جاتا تو پھر انہیں استقلال قائم رکھنے کے لئے زیادہ جد و جہد نہ کرنا پڑتی کیونکہ پھر استقلال بہت حد تک خود بخود پیدا ہو جاتا ہے.دنیا میں ہی دیکھ لو جس شخص کو ماہ بماہ تنخواہ مل جاتی ہو اور ہر طرح آرام میں ہو کیا وہ نوکری چھوڑ دیا کرتا ہے.ہاں اگر باوصف کام کرنے کے تنخواہ نہ ملے تو پھر نوکری چھوڑنے پر وہ مجبور ہو گا.ہمیشہ ہے استقلابی اسی وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ کوئی آدمی انعام حاصل کرنے سے پہلے ہی اپنے انعام کو چھوڑ دے.لیکن اگر کسی کو اس کے کام کا انعام مل جائے تو پھر وہ اسے نہیں چھوڑے گا سوائے ایسی صورت کے کہ وہ بالکل ہی کم ہمت اور نکما ہو.الی انعام کے متعلق ایک اور اصل بھی ہے اور وہ یہ کہ دنیا میں اگر کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد آئندہ کام کرنا بند کر دیا جائے تو کئے ہوئے کام کی تو مزدوری مل جائے گی کہاں آئندہ کوئی انعام نہیں ملے گا.لیکن الی انعامات کا یہ طریق نہیں بلکہ اس میں جتنا کام کرو گے اس سے بڑھ کر انعامات ملیں گے اور جب چھوڑ دو گے تو یہی نہیں کہ صرف آئندہ کے لئے انعامات بند ہو جائیں گے بلکہ پہلے انعام بھی چھن جائیں گے.اللہ تعالی کے تمام انعامات کی یہی کیفیت ہے.علم ہی کو لے لو.یہ الہی انعام ایسا ہے کہ جب تک اسے حاصل کرتے رہو اس میں کوشاں رہو یہ بڑھتا رہتا ہے لیکن جب اسے چھوڑ دو یہ نہیں کہ آئندہ کی ترقی رک جائے گی بلکہ پہلا حاصل شدہ بھی ضائع ہو جائے گا.غرض الی انعام اس کیفیت کے حامل ہوتے ہیں کہ انہیں جتنا چاہو بڑھاتے چلے جاؤ وہ کبھی ختم نہیں ہوں گے.لیکن جہاں کھڑے ہو جاؤ ان کا آئندہ حصول بند کردو ، پہلے بھی چھن جائیں گے.اس لئے مومن کو ہمیشہ اپنے کام کرت NDULUKANGAن کی صفت کے ماتحت کرنے چاہئیں.یعنی کاموں کو شروع کرنے کے بعد استقلال کو کبھی ہاتھ سے نہیں دینا چاہئے.اگر کوئی انسان کسی وقت یہ خیال کرتا ہے کہ میں آئندہ اپنی کوشش بند کردوں اور کوئی کام نہ کروں تو اس کا یہی

Page 581

خطبات محمود ۵۷۶ سال ۱۹۳۲ء مطلب ہو گا کہ وہ چاہتا ہے میں بیمار ہو جاؤں ، میرے جذبات پر مردہ ہو جائیں اور میرے دل میں کام کی خواہش نہ رہے کیونکہ کام سے جی چرانے کے معنی ہی طبیعت کی خرابی اور بیماری کے ہوتے ہیں اور کام نہ کرنے کا خیال ہی مرض کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے.غرض کام سے بے دلی اور تنفر بیماری اور مرض کی علامت ہے.اس کے مقابلہ میں سچا اور اصل انعام یہی ہوا کہ انسان کے اندر کام کی خواہش باقی رہے اور جب تک کام کی خواہش رہتی ہے دل میں اُمنگیں ولولے اور جذبات بھی اٹھتے رہتے ہیں.اور جب کام کی خواہش نہیں رہتی دل بھی پڑ مُردہ ہو جاتا ہے.بعض لوگ مرنے کے بعد زندگی کے متعلق خیال کرتے ہیں کہ وہاں کوئی کام نہیں ہو گا لیکن اس زندگی کے متعلق یہ سمجھنا کہ اس میں کوئی کام نہیں کرنا پڑے گا انتہاء درجہ کی بے وقوفی اور سخت درجہ کی حماقت ہے.وہاں تو یہاں سے بھی زیادہ کام ہو گا لیکن نہ ایسا کام جو تکلیف کا موجب ہو اور مصیبت معلوم دے بلکہ اس کام کے کرنے سے بشاشت پیدا ہوگی اور بڑھتے ہوئے جذبات کے ساتھ وہاں کام ہو گا کیونکہ وہاں کوئی بیماری کوئی مرض کوئی پژمردگی نہیں ہوگی.غرض عدم استقلال بیماری کی علامت ہے.دنیا میں بھی اس کے بدنتائج نکلتے ہیں لیکن جیسا کہ میں نے بتلایا دین میں تو اس کی خرابی بہت ہی زیادہ ہے.پس میں اپنے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ استقلال کی صفت اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے ساتھ یہی سلوک ہے کہ جتنا جتنا اس کا بندہ رب العلمین کی صفت اختیار کرتا چلا جائے گا اتنا ہی خدا اس کے لئے رب العلمین بنے گا.جتنا کوئی رحیم بنے گا اتنا ہی وہ اس کے لئے رحیم بنے گا جتنا کوئی رحمن بنے گا اتنا ہی اس کے لئے اس کی صفت رحمانیت بڑھتی چلی جائے گی.اور بندہ جتنی مالکیت کی صفت اپنے اندر پیدا کرے گا اتنا ہی خدا تعالیٰ کی مالکیت کا سلوک ترقی کرتا چلا جائے گا.پس عبادات، معاملات اور سلسلہ کے لئے قربانیوں کے کرنے میں ترقی کرتے جاؤ.لیکن اگر ترقی نہیں کر سکتے تو کم سے کم جو کام شروع کر دیا شروع کر چکے ہو، اس میں استقلال کے ساتھ قائم رہو.مومن کا کم سے کم درجہ یہ ہے کہ وہ تنزل نہ کرے اور اگر بڑھ نہیں سکتا تو ایک جگہ ٹھرا تو رہے.اور اگر وہ ایسا کرے گا اور صبر سے کام لے گا تو یقینا وہ انعام بھی حاصل کرے گا اور جب انعام حاصل ہونے شروع ہو جائیں گے تو پھر اسے استقلال اور صبر کی تلقین کی بھی ضرورت نہیں رہے گی، بلکہ وہ دوسروں کو نصیحت اور وعظ کرے گا کہ نیکی کے کام کرو ان پر مداومت اختیار کرو.اس طرح کرنے سے تمہیں بھی انعام ملیں گے جس طرح مجھے ملے.

Page 582

خطبات محمود ۵۷۷ سال ۲ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اپنی صفات کا کامل مظہر بننے کی توفیق عطاء فرمائے اور ان راہوں پر چلائے جس پر چلنا اس کی خوشنودی کا باعث ہو اور ایسے مقام پر ہمیں کھڑا کرے جہاں اس کے انعامات ہمارے لئے بڑھتے ہی جائیں.ا النحل : ۹۳ الفضل ۲۹ ستمبر ۱۹۳۲ء)

Page 583

خطبات محمود 67 سال ۱۹۳۲ء امراء اور حکام کو دعوت الی اللہ کی جائے (فرموده۱۶- ستمبر ۱۹۳۲ء بمقام ڈلہوزی) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.ہر کام کے لئے اللہ تعالٰی نے کچھ دروازے بنائے ہوئے ہیں جب تک ان دروازوں سے گزر کر وہ کام نہ کیا جائے، ترقی اور کامیابی نہیں ہو سکتی.اللہ تعالٰی فرماتا ہے وَآتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ابوا بهالا کہ دروازوں کے ذریعہ گھروں میں داخل ہوا کرو.جس قسم کا بھی کوئی گھر ہو ، اسی قسم کے دروازہ سے اس میں داخل ہونا چاہئے.اگر اینٹ چونے یا گارے کا بنا ہو امکان تو اسی قسم کے دروازہ میں سے گزرنا چاہئے جو ایسے مکان کا ہوا کرتا ہے جو شخص اس طریق کو چھوڑتے ہوئے گھر میں داخل ہونے کی کوشش کرے گا تمام لوگ اس کو بے وقوف کہیں گے.کوئی شریف عقلمند اور باوقار انسان پسند نہیں کرے گا کہ دروازے کو چھوڑ کر دیوار میں پھاند کر گھر میں داخل ہویا رہتے ڈال کر مکان پر چڑھنے کی کوشش کرے.سوائے اس حالت کے کہ دروازہ اندر سے بند ہو گیا ہو اور مکان میں داخل ہونے کا کوئی اور ذریعہ نہ رہے.اسی طرح جو اینٹ مٹی یا چونے کے گھر نہیں بلکہ علمی یا تمدنی گھر ہیں جن کے لئے ہم عام طور پر دائرہ کا لفظ استعمال کرتے ہیں، ایسے علمی یا تمدنی گھر کے لئے اسی طرح کے دروازہ کی ضرورت ہے.ہماری جمات کو بھی اللہ تعالیٰ نے گھر سے تشبیہ دی ہے اور فرمایا تمہاری جماعت بھی ایک گھر ہے جو اس میں آجائے گاوہ امن میں آجائے گا.کشتی بھی اسی طرح کا گھر ہی ہے.دوسرے گھر خشکی پر ہوتے ہیں یہ پانی پر ہوتا ہے.اس گھر میں بھی انسان دروازہ ہی سے داخل ہو سبھی کامیابی ہو سکتی ہے.میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کامیابی کے لئے کوشش کرتی

Page 584

خطبات محمود ۵۷۹ سال ۱۹۳۲ء ہے، چندے دیتی ہے ، قربانیاں بھی کرتی ہے لیکن بہت سے دروازے ایسے ہیں جن کو ہم نے چھوڑا ہوا ہے اور جن میں سے گزرنے کے بغیر کامیابی بھی نہیں ہو سکتی.چند دن سے میں غور کر رہا ہوں کہ روحانی اور ملی امور کی تکمیل کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہے ابھی ہم نے ان کا بالاستیعاب مطالعہ نہیں کیا.اور ان تمام دروازوں سے گزر کر ہم ان تمام راستوں پر نہیں چلے جن میں سے گزر کر ہمارا چلنا کامیابی کے لئے ضروری اور لازمی ہے.میں دیکھتا ہوں ہماری جماعت میں عام طور پر دو قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں.ایک تو عام طبقہ میں سے معمولی ملازمین کی ایک جماعت ہے جن کی تنخواہیں میں پچیس سے شروع ہو کر ایک نئوتک پہنچتی ہیں ، بعض زیادہ تنخواہوں والے بھی ہیں لیکن بہت کم.دوسرے زمیندار لیکن وہ بھی اتنی بڑی حیثیت کے نہیں.لیکن کوئی قوم صرف ان دو جماعتوں کے لوگوں کے ذریعہ ترقی کے تمام مدارج نہیں طے کر سکتی.پھر یہ بھی دونوں گروہ اپنی مکمل حیثیت میں ہمارے پاس نہیں ہیں.نہ تو تمام قسم کے ملازمین ہماری جماعت میں ہیں، نہ تمام درجوں کے زمیندار احمدی ہیں بلکہ ابھی ان کے بہت سے طبقے ہم سے علیحدہ ہیں.لیکن پھر بھی یہی دو طبقے ہیں جن میں ہماری جماعت ترقی کر رہی ہے.اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ شروع شروع میں انہیں دونوں طبقوں کے لوگ جماعت میں داخل ہوئے.اور جہاں یہ بات ہمارے لئے خوشی کا موجب ہے کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو ترقی دے رہا ہے وہاں ہمیں یہ بھی مد نظر رکھنا چاہئے کہ اس خوشی کے حصول کی کئی کوششوں سے ابھی ہم خالی ہیں مثلا کئی رنگ کی تبلیغیں ایسی ہیں جو صرف تاجروں کے ذریعہ اور صرف تجارتی کاروباری ہی ہو سکتی ہیں.تاجروں کے ذریعہ ہم بغیر کسی خرچ کے غیر ممالک میں تبلیغ کر سکتے ہیں افریقہ میں اسلام تاجروں کے ذریعہ ہی شروع شروع میں پہنچا تھا.لیکن ہماری جماعت میں تاجروں کی بہت کمی ہے اور جو ہیں ان میں ایک بھی ایسا نہیں جس کو بہت بڑا تاجر کہا جا سکتا ہو.ادھر یہ بات عقل میں نہیں آسکتی کہ تمام بڑے بڑے تاجر متعصب ہوں یا اللہ تعالیٰ نے انہیں ہدایت سے محروم رکھنے کا فیصلہ کر دیا ہو.آنحضرت تعلیم کے زمانہ میں بہت سے تاجروں میں اسلام پھیلا تھا اور بہت سے بڑے بڑے تاجر مسلمان تھے.پس اگر ہماری جماعت میں تجار کی کمی ہے تو اس میں کسی غیر کا قصور نہیں بلکہ خود ہماری غفلت اور سستی ہی اس کا موجب ہے.اسی طرح میں دیکھتا ہوں کہ آزاد پیشہ ور بھی ہماری جماعت میں بہت کم ہیں.کامیاب پریکٹس کرنے والے ڈاکٹروں، وکیلوں اور صنعت و حرفت کا کام کرنے والوں ، ٹھیکیداروں وغیرہ کی

Page 585

خطبات محمود ۵۸۰ سال ۱۹۳۲ء - تعداد ہم میں بہت کم ہے.حالانکہ کارخانہ دار صنعت و حرفت کے کام کرنے والے ٹھیکیدار اور آزاد پیشہ ور ہی وہ لوگ ہیں کہ حکومتوں میں جیسا ان کی آواز کا اثر ہوتا ہے کسی اور کا نہیں ہوتا ملازمین کا طبعی طور پر اثر نہیں ہوتا.زمینداروں کا بھی بہت کم ہوتا ہے.کیونکہ وہ اپنے کام کی وجہ سے شہر سے باہر رہنے پر مجبور ہوتے ہیں.لیکن آزاد پیشہ ور شہروں میں رہنے پر مجبور ہوتے ہیں.مثلا ڈاکٹر شہر کو چھوڑ کر کسی جنگل میں کٹیا بنا کر بیٹھ جائے یا وکیل آبادی کو چھوڑ کر کسی بن میں پریکٹس کرانے کے خیال سے بیٹھ جائے تو نتیجہ یہی ہو گا کہ جلدی ہی فاقوں مرنے لگے گا.اگر چہ آواز کی تکمیل شہروں اور دیہاتوں سے مل کر ہوتی ہے.لیکن پھر بھی زیادہ غلبہ شہری لوگوں کی آواز کا ہی ہوتا ہے.دیہاتی آواز کو سننے والا ایک کانسٹیبل یا ہیڈ کانسٹیبل ہو تا ہے جس کی نگاہ میں حکومت کی طاقت اور قوت تو ہوتی ہے لیکن اس کی کمزوریاں اس کے سامنے نہیں ہوتیں.اس لئے خواہ کتنا ہی بڑا مظاہرہ اور زور دار آواز ہو ، وہ یہی سمجھتا ہے کہ اسکی کوئی حیثیت نہیں.حکومت جب چاہے گی اسے کچل ڈالے گی یا پھر دیہاتی آوازوں کو سننے والا تھانیدار ہو گا بے شک وہ اسے سمجھے گا تو خفیف لیکن نہ اتنا خفیف جتنا کانسٹیبل سمجھتا ہے کیونکہ وہ اس سے کچھ زیادہ حکومت کے حالات سے واقف ہوتا ہے.پھر سپرنٹنڈنٹ کا اندازہ تھانیدار سے زیادہ ہوتا ہے کیونکہ تمام ضلع کی رپورٹیں اسکے پاس آتی ہیں اور وہ جانتا ہے کہ یہ آواز مقامی نہیں بلکہ دوسرے علاقوں میں بھی اس کا اثر ہے.لیکن شہروں کی آواز سننے والے بڑے افسر ہوتے ہیں اس لئے جہاں ایک طرف پبلک کی آواز ان کے کانوں میں پڑتی ہے اور اسی کے مظاہرے ان کی آنکھوں کے سامنے آتے ہیں وہاں دوسری طرف وہ حکومت کی کمزوریوں سے بھی واقف ہوتے ہیں.اس لئے ان کے تاثرات بھی چھوٹے افسروں سے زیادہ ہوتے ہیں.وہی مظاہرے جو ایک معمولی عہدیدار کی نظر میں معمولی ہوتے ہیں ، ایک بڑے افسر کے نزدیک ان کی حیثیت ایسی ہوتی ہے کہ وہ ان کی طرف متوجہ ہونا اور ان کے لئے کوئی انتظام کرنا ضروری سمجھتا ہے.اگر ملک کے فسادات کے متعلق پولیس کی رپورٹیں پڑھی جائیں تو معلوم ہو گا کہ ایک ہی واقعہ کے متعلق ایک ہیڈ کانسٹیبل کی رپورٹ کا نسٹیبل کی رپورٹ سے مختلف ہوگی.تھانیدار اس سے فرق کرے گا.انسپکٹر کچھ اور فرق کے ساتھ اور سپرنٹنڈنٹ کچھ اور فرق ڈال کر اپنی رپورٹ او پر بھیجے گا.یہ اس لئے نہیں ہو تاکہ ایک کی نگاہ میں اور واقعات ہوتے ہیں اور دوسرے کی نگاہ میں اور بلکہ وہ سب ایک ہی واقعہ دیکھ رہے ہوتے ہیں.ہاں اس کے تاثرات چونکہ ہر ایک اپنی حیثیت کے

Page 586

خطبات محمود ۵۸۱ سال ۱۹۳۲ء مطابق لیتا ہے اس لئے بڑے آدمی پر بڑے تاثرات ہوتے ہیں.اور معمولی حیثیت والے پر معمولی.اس وجہ سے ان کی رپورٹوں میں فرق پڑ جاتا ہے.یوں بھی شہروں کی آواز مجموعی حیثیت سے بلند ہوتی ہے.اور دیہات میں انفرادی طور پر اسے اٹھایا جاتا ہے.ان وجوہات کی پیش نظر شہروں کی آواز ا ا اپنے اثر کے لحاظ سے بہت اہم ہوتی ہے.لیکن کوئی شہری اپنے آپ کو آزاد نہیں کر سکتا.اس کے کام ایسے ہوتے ہیں کہ وہ جلدی تھک جاتا ہے.لیکن گاؤں والا چونکہ مشقت کی زندگی گزارنے کا عادی ہوتا ہے اس لئے وہ قربانیاں بھی زیادہ کر سکتا ہے.یہی وجہ ہے ہنگامی کاموں کے وقت مصیبت کی گھڑیوں میں گاؤں کے لوگ ہی کام آتے ہیں.میری ان باتوں کا یہ مطلب نہیں کہ ملازمین کا طبقہ بالکل ہی بے کار ہے ، نہیں بلکہ ملازمین میں بھی ایک عصر بہت مفید ہے اور بعض اوقات جو کچھ وہ فائدہ پہنچا سکتا ہے کوئی دوسرا نہیں پہنچا سکتا.لیکن اس سلسلہ میں بھی ہماری جماعت کمزو رہی ہے.تمام بڑے بڑے زمیندار آزاد پیشہ ور کارخانہ دار حکومت کے ملازم ہماری تبلیغ سے محروم ہیں.اور دیدہ دانستہ جان بوجھ کر ایسے لوگوں کو تبلیغ نہیں کی گئی.ہاں اتفاقی یا ضمنی طور پر اگر ایسے لوگوں کو احمدیت کی تعلیم پہنچ گئی ہو تو وہ اور بات ہے.ورنہ قصداً اور اراد تا ایسے لوگوں کو تبلیغ نہیں کی گئی.حج ای.اے.سہی ، پولیس کے عہدیدار فوج کے بڑے بڑے افسر یہ وہ لوگ ہیں جن تک ہماری آواز نہیں پہنچی.اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ جماعت اس دائرہ میں ترقی نہیں کر رہی اور یہ دائرہ بند ہے.حالانکہ جماعت کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ تبلیغ ہر طبقہ میں ہو.اسی طرح ایک علمی طبقہ ہے.کالج کے پروفیسروں کا جو اپنی تعلیم تو بے شک کالج کی چار دیواری میں ہی دیتے ہیں لیکن فی الحقیقت وہ ایک عالمگیر اثر رکھتی ہے کیونکہ اس تعلیم کو اخذ کرنے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جن سے آئندہ قوم بنتی ہے.اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ آئندہ بننے والی قوم کے خیالات انہیں پروفیسروں کے خیالات اور رحجانات کا چربہ یا عکس ہوتے ہیں.اور ان کی ذہنیت کو جس سانچے میں چاہیں ڈھال سکتے ہیں.لیکن چونکہ اکثر ان میں سے روحانیت سے دور اور اسلامی تعلیم سے بے بہرہ ہوتے ہیں اس لئے لڑکوں کو اپنے من گھڑت خیالات ہی بتلاتے رہتے ہیں اور زہریلے مادے طالب علموں کے قلوب میں ڈالتے رہتے ہیں.استاد کی بتلائی ہوئی بات کا شاگر د پر گہرا اور دیر پا اثر ہوتا ہے اس لئے نوجوان وہی روش اختیار کر لیتا ہے جو اس کے استاد کی ہوتی ہے.اور جوش رکھنے والا طالب علم خود بھی وہی خیالات اپنی طرف سے پھیلانے شروع کر دیتا ہے اور اس سے جو سنتا ہے وہ اپنے

Page 587

خطبات محمود ۵۸۲ سال ۱۹۳۲ء خیالات سمجھتے ہوئے آگے پھیلاتا ہے اور قطعا خیال نہیں کرتا کہ ایک چھوٹے آدمی کو بڑا آدمی سمجھ کر وہ اس کے برے خیالات کو قبول کر چکا ہے.اس طرح ہوتے ہوتے ان غلط خیالات کا دائرہ وسیع ہوتا جاتا ہے اور ہزار ہا طالبعلم وہ خیالات پھیلاتے ہیں جو ان کے پروفیسروں کے ہوتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ تعلیم کی ترقی سے بجائے اس کے کہ ہمارے لئے آسانیاں پیدا ہوں ، ہمارے لئے پہلے سے بھی زیادہ مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں.ایک دفعہ میں نے اسی خیال کو مد نظر رکھتے ہوئے جس کا اظہار کیا ہے ایک دوست سے مجلس مشاورت میں تحریک کرائی تھی کہ حکومت کے بڑے بڑے عہدہ داروں ، زمینداروں اور کارخانہ داروں کو تبلیغ کے لئے ہمیں خاص طور پر توجہ دینی چاہئے.اور فی الحال اس غرض کے لئے چند مبلغ مقرر کر دینے چاہئیں جو اپنا تمام وقت ایسے لوگوں کو تبلیغ کرنے میں صرف کریں.جیسا کہ بری عادت ہے اس امر کو مجلس میں پیش کرنے سے پہلے میں نے خاص رہنمائی ضروری نہ سمجھی لیکن جب وہاں معاملہ پیش ہوا تو اس کی شدید مخالفت کی گئی.ایسے مبلغ کو جو امراء کو تبلیغ کرے امیر مبلغ کا نام دیا گیا اور بڑے زور سے کہا گیا کہ کیا ہماری جماعت میں بھی بڑے چھوٹے کا سوال پیدا ہو نے لگ گیا حالانکہ یہ فرق غیر کا قائم کیا ہوا ہے ، ہم نے قائم نہیں کیا.اور چونکہ ہمارا فرض ہے کہ ہم امراء کے طبقے میں بھی جائیں اس لئے ہمیں اس کا انتظام کرنا پڑے گا.غرض اس وقت عام رو اسی طرف چل گئی کہ ہم نے تو سب کو برابر تبلیغ کرنی ہے جو سنتا ہے سے جو نہیں سنتا نہ سنے.اس وقت بھی میں نے جیسا کہ میری عادت ہے کثرت رائے کا احترام کرتے ہوئے اس کے مطابق فیصلہ دے دیا حالانکہ میں اس کثرت رائے کے فیصلہ کو توڑ سکتا تھا اور ہر خلیفہ کا حق ہے کہ آخری فیصلہ جیسا چاہے صادر کرے.اپنے اس حق کو جہاں چاہتا ہوں ہر تنا بھی ہوں لیکن اس موقع پر میں نے مناسب نہ سمجھا کہ دخل دوں.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ ملک کے بارسوخ اور بڑے طبقہ میں ہماری تبلیغ بالکل نہیں ہو رہی.اور یہ لوگ الہی ہدایت سے بالکل محروم ہیں.ہماری جماعت نے ابھی تک اس طرف بالکل توجہ نہیں کی ، حتی کہ ہمارے مبلغ بھی اس طرف کبھی متوجہ نہیں ہوئے.سوائے ایک دو آدمیوں کے جن کی تبلیغ سے چند ایک بڑے بڑے گھرانوں میں احمدیت پہنچی ہے بلکہ میں کہہ سکتا ہوں کہ سوائے ایک شخص یعنی چودھری ظفر اللہ خان صاحب کے کوئی اس طرف متوجہ ہی نہیں.لیکن ان کی اُفتاد طبع کچھ اس قسم کی ہے کہ وہ آہستگی اور سہولت سے چلتے ہیں.اس تبلیغ کو وہ اگر جوش و خروش سے شروع کر دیں تو شاندار نتائج نکل

Page 588

ن محمود ۵۸۳ سال ۶۱۹۳۲ سکتے ہیں.لیکن ہر شخص کی طبیعت ایک جیسی نہیں ہوتی كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَى شَاكِلَتِهِ " غرض سوائے چودھری صاحب کے دوسرے لوگ اس طرف متوجہ نہیں حالانکہ ہمارا فرض ہے کہ ہم تمام قسم کے لوگوں کو اپنے اندر شامل کریں تا ہماری روحانی اور تمدنی ترقی ہو.دین اور ہدایت جس طرح صرف امیروں کے لئے نہیں اسی طرح اس کے مالک صرف غریب ہی نہیں.میں نے بتلایا ہے اور لوگ تو الگ رہے ہمارے مبلغوں کی بھی اس طرف توجہ نہیں.ان سے یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ جس علاقہ میں جائیں وہاں کے بڑے لوگوں اور افسروں سے مل ہی آئیں اور واقفیت پیدا کر کے انہیں تبلیغ کریں.یہ میں صرف دیسی اعلیٰ افسروں کے متعلق ہی نہیں کہتا بلکہ کوئی وجہ نہیں جب ہم ولایت میں تبلیغ کرتے ہیں تو ہندوستان میں رہنے والے انگریز افسروں کو تبلیغ نہ کریں.آج کل انگریز فوجی افسروں میں یہ رو چلی ہوئی ہے کہ وہ اسلام کی طرف مائل ہو رہے ہیں.جنگ عظیم میں جب یہ اسلامی ممالک میں گئے تو وہاں ان کو اسلام کی طرف توجہ پیدا ہو گئی.ہمیں اس کرو سے فائدہ اٹھانا چاہئے.ایک موقع پر ایک ذمہ دار اور بار سوخ جرنیل نے خود بیان کیا کہ مجھے اسلام سے بے حد دلچسپی ہے اور فوج کے اور بہت سے عہدیداروں میں یہ خیال پیدا ہو رہا ہے.ایک اور فوجی افسر نے اسلام کی طرف اپنا رحجان ظاہر کیا.وہ اسلام کے اصول سے تفصیلی طور پر تو واقف نہیں تھا.اس کو چند باتیں بتلائی گئیں اور کچھ لڑیچر بھی دیا گیا.اس نے اسے پڑھنے کا وعدہ بھی کیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اپنے فرائض کی نوعیت کے باعث ہمیں پڑھنے کے لئے زیادہ فرصت نہیں ملتی.جو باتیں گفتگو میں سن لیں سن لیں.دوسری کتابوں میں سے بھی صرف محکمہ کی کتابیں مجبور ا پڑھنی پڑتی ہیں.آخر میں اس نے پھر اعتراف کیا کہ اسلام کے اصول کا اس کے قلب پر بہت اثر ہے.اس کے بعض اور فوجی دوست بھی اس طرف مائل ہیں.خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب امام مسجد لنڈن کی رپورٹوں سے بھی پایا جاتا ہے کہ فوج کے افسر اسلام کی طرف بهت میلان ظاہر کر رہے ہیں.دوسرے بہت سے مختلف علاقوں سے ایسی رپورٹیں آرہی ہیں.جب یہ حالت ہے تو کیوں نہ ہم اس سے فائدہ اٹھائیں.پس ہمارے مبلغوں کو چاہئے کہ جہاں جہاں وہ جائیں وہاں کے افسروں سے ملتے رہیں.اور پھر آہستہ آہستہ واقفیت کے بعد تبلیغ کریں.جہاں بار بار ملنے کا کم موقع ہو ایسے لوگوں کو پہلی دفعہ ہی تبلیغ کر دیں.مثلاً کہا جا سکتا ہے کہ میں فلاں غرض سے یہاں آیا تھا آپ کی موجودگی کا علم پا کر میں نے چاہا کہ پیغام حق آپ کو بھی پہنچا دوں.اس طرح سلسلہ کا نام اس کے گوش گزار کیا جا سکتا ہے.بسا اوقات چھوٹی چھوٹی باتیں

Page 589

خطبات محمود ۵۸۴ سال ۱۹۳۲ء بڑے بڑے نتائج پیدا کر دیتی ہیں.جہاں ہم مسلمانوں کے حقوق کے لئے دوسروں کے مقابلہ میں سینہ سپر ہیں ، وہاں ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ دنیا کی تمام قوموں میں رابطہ و اتحاد قائم کریں.سیاسی حالات میں ہم ہندوؤں کو بھی بھائی سمجھتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ ہر جگہ احمدیوں کے متعلق سمجھا جاتا ہے کہ وہ تعصب کی پنی آنکھوں پر سے ہٹا کر ہر قوم کے حقوق کی حفاظت اپنا فرض سمجھتے ہیں.احمدی ہر جگہ مساوات کا سلوک کرتے نظر آئیں گے.احمدی افسر جہاں جاتے ہیں اسی لئے کامیاب رہتے ہیں کہ وہ ہر ایک سے مساوی سلوک کرتے ہیں.اور ہر ایک سمجھتا ہے کہ فلاں افسر انصاف سے کام کرتا ہے.باہر جب کسی کا خواہ وہ ہندو اور عیسائی کیوں نہ ہو کسی احمدی سے جھگڑا ہوتا ہے تو وہ عیسائی یا ہندو کوشش کرتا ہے کہ عدالت میں جانے کی بجائے مقدمہ ہمارے پاس لے آئے.چنانچہ آئے دن ایسے مقدمات قادیان میں آتے رہتے ہیں.یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ ہم پر ہر قوم کے لوگ اعتماد رکھتے ہیں.اس اعتماد کو بڑھانا ہمارا فرض ہے.ہندوؤں سے آج کل بعض معاملات میں ہمارا اختلاف رائے ہے.اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ اگر ہم ہندو افسروں کو تبلیغ کریں گے تو وہ سنیں گے نہیں غلط ہے.کیونکہ جب ہم انہیں یقین دلائیں گے کہ مسلمان آج کل مظلوم ہیں اور ہم جو ان کے حقوق کی حفاظت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو صرف مظلوم کی حمایت میں درنہ کسی سے میں دشمنی نہیں تو کون عظمند اور شریف انسان ہماری بات سننے سے انکار کرے گا.دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو شہزادہ ء امن بنا کر بھیجا گیا ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہر مذہب وملت کے آدمی سے ہماری راہ و رسم ہو.ان سے ملاقاتیں کی جائیں اور پھر انہیں وہ آسمانی پیغام پہنچایا جائے جس کو ہم سن چکے ہیں.اس طرح ایک طرف ہم جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو شہزادہ امن بنانے کی جو غرض ہے اس کو پورا کرنے والے ہوں گے وہاں دوسری طرف فرض تبلیغ بھی ادا ہو تا رہے گا.پھر صرف غیر مذاہب کے بڑے بڑے آدمیوں سے ہی ملاقاتیں نہ کی جائیں بلکہ مسلمان افسروں سے بھی ملیں اس طرح ان لوگوں میں جنہیں قومی احساس نہیں اور جو اپنے فوائد کو قومی ضروریات پر مقدم رکھتے ہیں اور جن کے قلب میں جرات اور دلیری نہیں ہم قومی احساس پیدا کر سکیں گے اور انہیں بہادر اور دلیر بنا سکیں گے.آج بہتیرے مسلمانوں میں ایسے ہیں جو بسا اوقات انتہائی بزدلی کا اظہار کرتے ہیں.ایک موقع پر ایک انگریز افسر سے کہا گیا کہ تمہاری عام روش مسلمانوں کے خلاف کیوں ہے.تو اس نے کہا ہندو مسلمانوں کا جب کوئی ہنگامہ ہوتا ہے تو ہندو یہ شور ڈال دیتے ہیں کہ ہماری قوم تباہ کر دی گئی، ہم لٹ گئے ہم

Page 590

خطبات محمود ۵۸۵ سال ۱۹۳۲ء.برباد ہو گئے.لیکن مسلمانوں کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی.اگر ان کی کوئی مجلس ریزولیوشن پاس بھی کرتی ہے اور اسے ہمارے پاس لایا بھی جاتا ہے تو جب ہم سے گفتگو ہوتی ہے اپنے ذاتی معاملات نے بیٹھتے ہیں.اور ذکر تک نہیں کرتے کہ ہمارے پاس آنے کی اصل غرض کیا ہے.بسا اوقات ہم جانتے ہیں کہ یہ اس غرض کو لے کر آئے تھے لیکن ان کی گفتگو میں اس کا اشارہ تک نہیں ہوتا.جب ان کے دل میں اپنی قوم کا درد ہی نہیں تو ہمارے دل میں کیونکر ان کی حمایت کا جذبہ پیدا ہو سکتا ہے.غرض میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہماری جماعت کے تمام لوگ کیا مبلغ کیا دوسرے افراد ملک کے اس اہم اور بڑے طبقہ میں تبلیغ شروع کر دیں تو ایک طرف تو ہم غافل مسلمانوں میں قومی در دادور قومی خدمت کا احساس پیدا کر اسکیں گے اور دوسری طرف ہماری کوششیں ملک میں کرا امن و امان قائم کرنے کا بھی موجب ہوں گی اس کے لئے میں مرکز کو ہدایات بھی بیچ رہا ہوں انہیں میں یہاں نہیں بیان کرتا لیکن یاد رکھو مرکز کی کوشش تو ایک دھکا ہوتی ہے جیسے بچے اینٹوں کو ایک دوسری کے پیچھے کھڑا کر کے پہلی اینٹ کو دھکا دیتے ہیں تو تمام اینٹیں گرتی چلی جاتی ہیں لیکن اگر باقی اینٹیں دھکا قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوں تو پہلی اینٹ کو دھکا دینے کا کیا فائدہ.پس جہاں اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی نہ کوئی محرک طاقت ہو وہاں یہ بھی ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی اس محرک کو قبول کرنے کی بھی صلاحیت رکھے.پس اپنے اندر وہ صلاحیت پیدا کرو اور ایک متحدہ قوت کے ساتھ میدان عمل میں نکل کھڑے ہو.تب تمہاری کامیابی یقینی ہے.میں کہتا ہوں اگر تم سب کو پورا احمدی نہ بنا سکے تو بھی سلسلہ کے متعلق ان کے تعصب کو تو ضرور کم کر سکو گے اور ان کی دشمنی کو نرم کرنے میں کامیاب ہو جاؤ گے.لیکن ابھی تک جماعت میں سستی کا مرض ہے اور اس وجہ سے لوگ تبلیغ کے لئے نہیں نکلتے.یاد رکھو سب طبقوں کے لوگوں کو تبلیغ کرنا ہمارا فرض ہے.یہ غلط غذر ہے کہ وہ ہماری باتیں نہیں سنتے.وہ تو شکار ہیں اور تم شکاری.ان کی کوشش ہے کہ تم سے بھاگیں لیکن تمہارا فرض ہے کہ ان کو تلاش کر کے حقانیت سے شکار کرو - شکار کب آسانی سے شکاری کے قبضہ میں آجاتا ہے.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ تمام جماعتیں اپنے حلقہ ہائے تبلیغ کو وسیع کریں.یہ مت خیال کرو کہ چھوٹے بڑے کو کیونکر تبلیغ کر سکتے ہیں.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر ایک چپڑاسی بھی جا کر کسی بڑے آدمی کو تبلیغ کرے گا تو اس شخص پر بہت بڑا اثر ہو گا اور اسی شخص کے ہم پلہ شخص کی تبلیغ سے بھی بڑھ کر اس چپڑاسی کی تبلیغ موثر ثابت ہوگی.ایک چھوٹا آدمی اس شخص کو جسے

Page 591

خطبات محمود ۵۸۶ سال ۱۹۳۲ء دنیاوی و جاہت حاصل ہو اس طرح بھی تبلیغ کر سکتا ہے کہ ہر روز اس کے گھر جا کر اس کا کوئی کام کر آیا کرے.بازار سے سودا و غیرہ ہی خرید کر لا دے.اور چھوٹے موٹے کام کر دے.اور ساتھ ساتھ تبلیغ بھی کرتا رہے.لیکن کسی دنیاوی فائدہ کی توقع نہ رکھے اور اپنے کام کے بدلہ میں کوئی چیز قبول نہ کرے.حتی کہ اگر پیاس لگے تو پانی بھی اس کے گھر سے نہ پیئے.اس وقت جب وہ امیر آدمی دیکھے گا کہ یہ بلا معاوضہ صرف دینی جذبہ کے ماتحت میرا کام کر رہا ہے تو ضرور اس پر اثر ہو گا.وہ کون ہے جس کا کوئی کام ہر روز مفت کر جائے ، معاوضہ کی توقع نہ رکھے اور پھر اسے کام سے ہٹا دے.اس طرح مسلسل طور پر بااثر تبلیغ کی جاسکتی ہے.اور بھی بہت سے ذرائع ہیں جن سے ایک غریب آدمی امیر کو تبلیغ کر سکتا ہے.غریبی اور چھوٹے ہونے کا سوال ہی کیا ہے.اسلامی و قار خود ایسا ہے کہ اس کے مقابلہ میں کوئی چیز ٹھہر نہیں سکتی.صحابہ کرام کو دیکھو کس جوش و خروش آزادی اور دلیری سے بادشاہوں کے درباروں میں جاکر تبلیغ کرتے تھے ، حالانکہ اس وقت ان کی کوئی ایسی دنیاوی وجاہت نہ تھی.غرض ہماری جماعت کو چاہئے کہ اس طبقہ میں بھی دینی تبلیغ شروع کر دے.البتہ جن جگہوں پر ہماری جماعت نہیں ہے یا افراد نہیں پہنچ سکتے وہاں تبلیغ پہنچانے کا انتظام مرکز کرے گا.بہر حال خدا تعالیٰ نے میں نور دیا ہے اور دنیا میں ضلالت اور تاریکی ہے.ہمارا فرض ہے کہ ہم اس نور کو پھیلا ئیں.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں توفیق عطا فرمائے اور میں اتنی قوت دے کہ اس نور سے جو اپنے فضل سے اس نے دیا ہے اس ظلمت تاریکی اور گمراہی کو دور کر سکیں جو شیطان نے اس وقت سے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش ہوئی دنیا میں پھیلا رکھی ہے.الفضل ۲ اکتوبر ۱۹۳۲ء) البقرة : ١٩٠ بنی اسرآئیل : ۸۵

Page 592

سال ۲ ۱۹۳۲ء ۵۸۷ 68 خطبات محمود اسی دنیا میں جنت حاصل کرنے کی کوشش کرو فرموده ۲۳- ستمبر ۱۹۳۲ء بمقام ڈلہوزی) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.انسان کے لئے اللہ تعالٰی نے جو حقیقی مقام تجویز کیا ہے وہ جنت کا مقام ہے.لیکن عام طور پر اکثر لوگ جنت کی حقیقت سے ناواقف اور جاہل ہوتے ہیں.بلکہ اس وقت تو اسلام کے سوا دنیا کے تمام مذاہب اس بات پر متفق ہو گئے ہیں کہ جنت مرنے کے بعد حاصل ہونے والی کوئی چیز ہے.گو اسلام نے اس کی پر زور تردید کی ہے تاہم مسلمانوں میں سے بھی بعض اس عقیدہ کے ہو گئے ہیں کہ جنت مرنے کے بعد ہی حاصل ہو سکتی ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان پر ماحول کا اثر ہوتا ہے اور مسلمانوں کے چاروں طرف چونکہ اس خیال کے لوگ تھے اس لئے ان میں بھی ایسے لوگ پیدا ہو گئے جن کا خیال ہے کہ جنت کا اس دنیا کی زندگی سے کوئی تعلق نہیں مرنے کے بعد ہی حاصل ہو سکتی ہے حالانکہ قرآن مجید کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے لئے جو جنت اور دوزخ تجویز کی گئی ہے وہ اسے اسی دنیا میں ملنی شروع ہو جاتی ہے اور دوسرے جہان میں جنت وہی حاصل کر سکیں گے جو اسے یہاں لے چکے ہوں گے.اسی طرح جنہیں اس دنیا میں دوزخ نصیب ہوتی ہے وہ اگلے جہاں میں بھی دوزخ ہی میں جائیں گے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے منْ كَانَ فِي هُدَةٍ أَعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أعلى جنت اور دوزخ کے متعلق اس دنیا اور اگلے جہان کے تعلق نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت سے لوگ اکثر فوائد سے محروم رہ جاتے ہیں اور کئی رنگ میں نقصان اٹھا لیتے ہیں.جنت یا دوزخ ان کے بالکل قریب ہوتی ہے لیکن وہ اسے دیکھ نہیں رہے ہوتے.ان کی مثال بالکل اس اندھے کی سی ہوتی ہے جس کے سامنے روپیہ پڑا ہو لیکن وہ اسے نہ 38

Page 593

خطبات محمود ۵۸۸ سال ۱۹۳۲ء دیکھتے ہوئے چھوڑ کر ایک پیسہ مانگنے کے لئے آگے چلا جائے.یا اس کے راستہ میں نقصان دہ یا مضرت رساں کوئی چیز ہو لیکن وہ اس سے بچنے کی کوشش نہ کرے.اسی طرح کئی انسان ایسے ہوتے ہیں کہ جنت یا دوزخ ان کے پاس ہی ہوتی ہے لیکن اپنی ناواقفیت کے سبب وہ اسے مرنے کے بعد ملنے والی چیز سمجھتے ہیں حالانکہ اگلے جہان کی جنت اس جہان کی جنت سے مختلف نہیں.وہاں اور یہاں کی جنت ایک ہی ہے ، صرف شکل اور صورت میں فرق ہو گا.اس دنیا میں انسان کی جنت اس کے دل میں ہے لیکن وہاں یہی دل کی جنت متمثل ہو کر ہا ہر آجائے گی.ادنیٰ سے ادنی مومن کے لئے یہ انعام ہے کہ اس کو ایسی جنت دی جائے گی جو زمین و آسمان کے برابر ہو بلکہ اس سے بھی بڑھ کر.لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ایک شخص کو اتنی جنت مل جائے گی تو باقی لوگ کہاں جائیں گے.آنحضرت میں ہم نے بھی فرمایا ہے کہ ادنیٰ سے ادنی مؤمن کی یہ جزاء ہے کہ اسے زمین و آسمان سے بھی زیادہ وسعت رکھنے والی جنت ملے گی.قرآن مجید میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَوتُ وَالْأَرْضُ غرض ایسی جنت جس کی چوڑائی زمین و آسمان کے برابر ہو.پھر اس کے ساتھ ایسی تقسیم ہو جو ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ ملے وہ یقیناً ایک قابل اعتراض چیز ہے.لیکن جنت کے متعلق حقیقت یہ ہے کہ ہر شخص کو اس کے احساسات کے مطابق بدلہ مل جائے گا.جنت ایک ہی ہو گی سب اسی میں ہوں گے لیکن ہر شخص یہی سمجھ رہا ہو گا کہ یہ میری ہی ہے اور میں ہی اکیلا اس کا مالک ہوں کیونکہ جنت میں اگر روئی کی صورت ہو تو پھر خواہش باقی رہتی ہے اور ہر شخص یہ خیال کر کے کہ دوسرے کی جنت ممکن ہے میری جنت سے اعلیٰ ہو ، یہ آرزو اور تمنا کرنے لگ جائے کہ یہ مجھے مل جائے اور اگر یہ خواہش پیدا ہو جائے تو پھر تقسیم کیو نکر ہوگی.غرض جنت ایک ایسا مقام ہے جس کے متعلق ہر شخص یہ سمجھ رہا ہو گا کہ یہ میرا ہی ہے.وہ مقام زید کا بھی ہو گا اور زید سمجھ رہا ہو گا کہ یہ صرف میرا ہی ہے.وہ عمرد کا بھی ہو گا اور عمرد سمجھ رہا ہو گا اس کا صرف میں ہی مالک ہوں.وہی مقام خالد کا بھی ہو گا اور وہ خیال کرے گا کہ اس پر صرف میرا ہی قبضہ ہے.مگر حقیقت یہ ہوگی کہ سب کے سب ایک ہی جنت کے متعلق کہہ رہے ہوں گے.ہاں ہر شخص اپنی قابلیت اور استعداد کے مطابق نفع حاصل کرتا رہے گا.میں بتلا چکا ہوں کہ جنت اس دنیا میں بھی ہے اور دوسری دنیا میں بھی.لیکن اگلی دنیا میں صرف انہی لوگوں کو ملے گی جو اسے اس دنیا میں حاصل کر چکے ہوں گے.مگر کئی انسان ہیں جو اسے مرنے

Page 594

خطبات محمود ۵۸۹ سال ۱۹۳۲ء کے بعد حاصل ہونے والی چیز سمجھ کر مرنے کے بعد اسے تلاش کر لینے کی امید رکھتے ہیں ، اس وجہ سے محروم رہ جاتے ہیں.ایسے لوگوں کی مثال بالکل اس شخص کی سی ہے جو سمندر میں ڈوب رہا ہو.اس کے بالکل پاس ہی ایسی رہتی ہو جسے پکڑ کر وہ بیچ سکتا ہے لیکن وہ اس پاس کی رسی کو تو نہ دیکھے اور دس پندرہ گز کے فاصلہ پر پہنچ کر رتی کی تلاش کرنا چاہے.ایسا شخص یقینا بچ نہیں سکے گا اور انجام کار ڈوب جائے گا مگر اس کا ڈوبنا اس وجہ سے نہیں ہو گا کہ نجات کا سامان اور ذریعہ اس کے پاس نہیں تھا بلکہ اس کی وجہ یہ ہوگی کہ باوجود سامان ہونے کے اس نے اس کو اس کی اصل اور حقیقی جگہ میں تلاش نہ کیا.بالکل اسی طرح اس شخص کی حالت ہوتی ہے کہ جنت تو بالکل اس کے قریب ہوتی ہے لیکن وہ اسے دور سمجھ کر وہاں تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس طرح بسا اوقات اس سے محروم رہ جاتا ہے.جنت کے باوجود قریب ہونے کے اسے دور سمجھ لینے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ایسے لوگ اعمال حسنہ کو اور چیز سمجھتے ہیں اور ان کے بدلہ کو دوسری چیز.لیکن قرآن مجید سے پتہ چلتا ہے کہ اعمال اور ان کی جزاء ایک ہی چیز ہے.اگر یہ دو علیحدہ علیحدہ چیزیں ہوں تو بالکل ممکن ہے کہ بعض اوقات اعمال تو ہوں لیکن جزاء نہ ملے.یا جزاء تو مل جائے اور اعمال موجود نہ ہوں.لیکن اگر اعمال اور ان کی جزاء ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہو تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ ایک کی موجودگی ضرور دوسرے کے وجود کا باعث ہوتی ہے اور دوسرا اپنے وجود کے لئے ضرور پہلے کی موجودگی چاہتا ہے.پس ہمیشہ اس بات کو مد نظر رکھو کہ انسان کے قلب کی نیکی ہی اس کی جنت ہے اور انسان کے قلب کی بدی ہی اس کے لئے دو زخ.اور اگلے جہان میں یہی قلبی کیفیتیں متمثل ہو جائیں گی.جوں جوں انسان اپنے قلب کو لڑائیوں جھگڑوں بدیوں اور خرابیوں سے پاک کرتا چلا جاتا ہے، اس کی جنت اس کے قریب آتی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہو جاتا ہے.اور جتنا جتنا اس کا دل نیکیوں خوبیوں بھلائیوں اور اخلاق فاضلہ سے دور ہوتا جاتا ہے، دوزخ کو اپنے قریب لاتا جاتا ہے حتی کہ خود دوزخ میں گر جاتا ہے.دور جانے کی ضرورت نہیں ایک گاؤں کو ہی لے لو جس میں دس میں گھر ہوں.یا چار پانچ ہی ہوں بلکہ میں تو کہتا ہوں دو تین گھروں کا گاؤں ہو.میدانی علاقہ میں تو کوئی ایسا گاؤں ہوتا نہیں شاید پہاڑوں میں مل جائے.اس میں رہنے والے کوئی سے دو آدمی لے لو جو ایک جیسے گھر، ایک جیسی آب و ہوا، ایک ہی ماحول ایک ہی قسم کی خوراک ایک ہی طرح کے لباس میں زندگی بسر کرنے والے ہوں.ان سے پوچھو تمہاری کیا

Page 595

خطبات محمود ۵۹۰ سال ۲ ۱۹۳۲ء حالت ہے.ایک کے گا اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل اور احسان ہے ، بالکل آرام سے ہوں کوئی تکلیف نہیں ، بڑے سکھ اور چین سے دن گزر رہے ہیں اللہ کا دیا سب کچھ ہے.لیکن دوسرے کا جواب اس سے بالکل مختلف ہو گا.وہ کہے گا حال کیا پوچھ رہے ہو.مر رہا ہوں ، کوئی سکھ نہیں ، مصیبت ہی بت ہے کوئی دن چھین سے نہیں کرتا، دوزخ میں پڑا ہوں، ایک دن بھی تو آرام کا نہیں ملتا.بتلاؤ یہ فرق کہاں سے آیا؟ کپڑوں سے چھت سے مکان کی دیواروں سے آب و ہوا سے خوراک سے زمین و آسمان سے سورج یا چاند سے روپیہ پیسہ سے نہیں ان چیزوں سے فرق نہیں پڑ سکتا کیونکہ دونوں کو یہ سب ایک جیسی حاصل ہیں.جس قسم کا مکان میں پہلا رہتا ہے ایسا ہی دو سرے کا مکان ہے جس ہوا میں پہلا سانس لیتا ہے اس میں دوسرا بھی اپنے دن گزار رہا ہے.جو پہلا خوراک کھاتا ہے وہی دوسرے کی بھی ہے.جس زمین پر پہلا چلتا پھرتا ہے اسی پر دو سرے کے قدم پڑتے ہیں.جو سورج چاند پہلے کے لئے ہے وہی دوسرے کو ملا ہوا ہے.جو پہلے کی آمد ہے وہی دو سرے کی ہے.غرض جو جو آسائشیں پہلے کو میسر ہیں دوسرا بھی انہی سے متمتع ہو رہا ہے.ان چیزوں کی وجہ سے تو دونوں کے جوابات میں فرق نہیں ہو سکتا.آخر یہ فرق کہاں سے پیدا ہوا.اس کے متعلق یاد رکھو یہ احساسات کا فرق دل سے پیدا ہوتا ہے.ایک نوعیت کے حالات میں رہ کر ایک کا دل آرام و راحت محسوس کر رہا ہوتا ہے لیکن اسی قسم کے حالات میں دوسرا مصیبت و تکلیف کا احساس کر رہا ہوتا ہے.بالکل اسی طرح جس طرح ایک بیمار اور تندرست میں فرق ہے.ایک بیمار خواہ کتنی ہی مزیدار چیز چکھے اسے خراب ، پھیکی ، بد مزہ کسیلی اور بد ذائقہ ہی قرار دے گا.وہی چیز ایک دوسرے کے نزدیک نہایت اعلیٰ اور مزیدار ہوگی.اس وقت حقیقت معلوم کرنے کے لئے یہی کریں گے کہ اس چیز کو کئی شخصوں کے سامنے رکھیں گے.اگر ان میں سے سب یا اکثر یہ کہہ دیں یہ اچھی اور ذائقہ دار ہے تو اسے اچھا سمجھا جائے گا.اور بد ذائقہ کہنے والے کو ہم بیمار کہیں گے.غرض یہ ظاہری مزے کا فرق بھی انسان کے اندر ہی سے پیدا ہو تا ہے.دنیا میں جو لوگ تکلیف محسوس کرتے ہیں اس کا بسا اوقات یہ سبب ہوتا ہے کہ وہ پیش آنے والے واقعات کے متعلق اپنے دل میں ایک معیار قائم کر لیتے ہیں.لیکن جب اس معیار کے مطابق اپنے وقت پر معاملہ وقوع پذیر نہیں ہو تا تو وہ تکلیف محسوس کرتے ہیں.مثلاً کسی مو کے متعلق یہ خیال کرلینا کہ اسے میرے ساتھ ایسا سلوک کرنا چاہئے لیکن جب ان کی منشاء کے مطابق سلوک نہیں ہو گا تو ناراضگی پیدا ہوگی اور تکلیف اٹھانی پڑے گی.اس طرح لوگ اپنے لئے

Page 596

خطبات محمود ۵۹۱ سال ۱۹۳۲ آپ تکلیف کا سامان تیار کر لیتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں مدرسہ کی انجمن کی طرف سے حضرت خلیفہ اول غالبا صد ر تھے.کوئی کام ایک دوست کے سپرد کیا گیا.غالبا کوئی حساب کا ہی معاملہ تھا.بعد میں جب ان سے حساب طلب کیا گیا اور کہا گیا کہ آمدو خرچ کا حساب دیجئے تو وہ سخت ناراض ہوئے اور کہنے لگے میں مسلمان ہوں ، اتنی بدظنی مجھ پر کیوں کی جاتی ہے.آخر میں کچھ کھا تو نہیں گیا کہ مجھ سے حساب طلب کیا جاتا ہے.حالانکہ حساب میں کوئی خلاف قاعدہ اور خلاف قانون بات نہیں بلکہ ایسی چیز ہے جس کے بغیر دنیا کا کام نہیں چل سکتا.حتی کہ قرآن مجید میں تو آتا ہے کہ انبیاء سے بھی حساب لیا جائے گا.لیکن انہوں نے اپنے ذہن میں خیال کر لیا کہ حساب طلب کرنا بہت بُری بات ہے اور جو مجھ سے حساب طلب کیا گیا ہے ، ضرور اس کی وجہ یہی ہے کہ مجھ پر بد ظنی کی گئی ہے اس خیال کی وجہ سے انہیں تکلیف پہنچی حالا نکہ یہ کوئی تکلیف دہ بات نہ تھی لیکن ایک ایسا شخص جو یہ سمجھتا ہے کہ حساب لینا کوئی بُری بات نہیں بلکہ ضروری چیز ہے اس سے جب حساب طلب کیا جائے گا اسے کوئی تکلیف نہیں ہوگی.اور نہایت خوشی سے وہ حساب دیدے گا بلکہ اگر اس سے حساب نہیں لیا جائے گا تو اسے تکلیف ہو گی.غرض دیکھ لو ایک ہی بات ہے مگر ایک شخص کے لئے حساب کا دینا دوزخ ہے ، دوسرے کے لئے حساب کا نہ دینا دو زخ.اسے دوزخ ہی کہا جائے گا کہ دکھ اٹھا رہے ہیں، تکلیف محسوس کر رہے ہیں، دل ہی دل میں پیچ و تاب کھا رہے ہیں.پھر یہی چیز ہم آئے دن دوستوں کی مجالس میں دیکھ سکتے ہیں.بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ دو دوست ایک بات سنتے ہیں.ان میں سے ایک جب دوسرے موقع پر اسے بیان کرتا ہے تو کسی مقام پر دوسرا یہ کہہ دیتا ہے کہ میرا تو یہ خیال نہیں ، میں نے تو یہ نہیں سمجھا.اس پر اگر دو سرا یہ خیال کرے کہ اس نے مجھے جھٹلایا ہے اور مجھے کذاب سمجھا ہے اور ناراض ہو.یا دل ہی دل میں گڑھے تو یہ اس کی حماقت ہوگی کیونکہ بالکل ممکن ہے کہ دوسرے کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہو.یا واقعی اس نے گفتگو کا وہ حصہ بنا ہی نہ ہو.بیسیوں تو جیہیں ہو سکتی ہیں لیکن اگر کوئی سمجھے کہ مجھے جھوٹا قرار دیا گیا ہے تو گویا وہ خود اپنے لئے دوزخ تیار کرتا ہے.غرض انسان کے لئے جنت و دوزخ پیدا کر نا خود اس کے اختیار میں ہوتا ہے.چاہے تو وہ اپنے لئے دوزخ پیدا کرے اور چاہے تو جنت جنت کے حاصل کرنے کے لئے قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے.اور یہ قربانیاں کرنے والے کئی قسم کے ہوتے ہیں.بہتیرے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو قربانیاں تو کرتے نہیں البتہ

Page 597

خطبات محمود ۵۹۲ سال ۱۹۳۳ء قربانیاں بنا لیا کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک واقعہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ایک آدمی نے کسی شخص کی دعوت کی.اور اپنی طاقت کے مطابق اس کی تواضع میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی.جب مہمان جانے لگا تو اس سے معذرت کرنے لگا کہ میری بیوی بیمار تھی.کچھ اور بھی مجبوریاں بتلائیں اس لئے آپ کی پوری طرح خدمت نہیں کر سکا امید ہے آپ در گزر فرما ئیں گے.یہ سن کر مہمان کہنے لگا میں جانتا ہوں تم کس غرض سے کہہ رہے ہو تمہار انشاء یہ ہے کہ میں تمہاری تعریف کروں اور تمہارا احسان مانوں لیکن تم مجھ سے یہ امید نہ رکھو بلکہ تمہیں میرا احسان ماننا چاہئے.میزبان نے کہا نہیں میرا ہر گز یہ منشاء نہیں میں واقعی شرمسار ہوں کہ پوری طرح آپ کی خدمت نہیں کر سکا.اگر آپ کا مجھ پر کوئی احسان ہے تو وہ بھی فرما دیجئے.میں اس کا بھی شکریہ ادا کردوں.اس پر مہمان نے کہا تم خواہ کچھ کہو میں تمہارے دل کی منشاء کو خوب جانتا ہوں لیکن یاد رکھو تم نے تو مجھے کھانا ہی کھلایا ہے.میرا تم پر بہت بڑا احسان ہے.تم ذرا اپنے کمرہ کو دیکھو کئی ہزار کا سامان اس میں پڑا ہے.جب تم میرے لئے کھانا لینے اندر گئے تھے میں چاہتا تو دیا سلائی دکھا کر یہ سب کچھ جلا دیتا.تم ہی بتلاؤ ایک پیسہ کا بھی سامان باقی رہ جاتا.مگر میں نے ایسا نہیں کیا کیا میرا یہ احسان کم ہے.یہ سن کر میزبان نے کہا واقعی آپ نے بہت بڑا احسان کیا میں اس کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں.دیکھ لو ایک انسان ایسا بھی ہوتا ہے کہ بجائے محسن کا احسان پہچانے اور اس کا شکریہ ادا کرنے کے یہ سمجھتا ہے کہ میں احسان کر رہا ہوں.خیر یہ تو ایک قصہ ہے مگر اس قسم کی مثال اسلامی تاریخ سے بھی ملتی ہے.مکہ والوں کی انتہائی اذیتیں برداشت کرنے کے بعد جب آنحضرت ا مدینہ تشریف لے آئے اور مدینہ والوں نے آپ کو جگہ دی تو اس وجہ سے بعض منافق آنحضرت مال پر اپنا احسان جتاتے اور کہتے کہ دیکھو جب تمہارے وطن والوں نے تم کو نکال دیا تو ہم نے اپنے پاس جگہ دی.حتی کہ ایک موقع پر ناراض ہو کر رئیس المنافقین نے یہاں تک کہ دیا لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِ جَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَ سے اگر ہم مدینہ واپس پہنچے تو وہاں کا سب سے معزز آدمی (عبد اللہ بن ابی بن سلول ) وہاں کے سب سے ذلیل فرد ( آنحضرت میر کی طرف اشارہ تھا) کو وہاں سے نکال دے گا.حالانکہ جگہ دینے والے یہ منافق نہیں تھے بلکہ اور لوگ تھے اور وہ ایسی باتوں سے بہت بالا تھے بلکہ جب مکہ فتح ہو گیا اور دشمن تباہ و برباد ہو گئے تو بعض لوگوں کو طبعاً یہ خیال پیدا ہوا کہ نکہ اب اپنے قبضہ میں آچکا ہے، کہیں آنحضرت میں ہم اپنے اصل وطن واپس نہ تشریف لے جائیں.اس خیال سے ہی انکی کمریں

Page 598

خطبات محمود ۵۹۳ سال ۱۹۳۲ء ٹوٹ گئیں.اور وہ سخت پریشان ہو گئے.اگر وہ لوگ اپنا احسان جتانے والے ہوتے تو خود جا کر کہتے کہ حضرت ہم نے آپ کو اس وقت جگہ دی جبکہ آپ کے لئے کہیں جگہ نہ تھی ، آپ کے لئے ہم نے اب تک تکلیفیں اٹھا ئیں ، اب آپ کا گھر آپ کے قبضہ میں آچکا ہے آپ وہاں تشریف لے جائیے.لیکن ایسی گفتگو کرنے کی بجائے وہ اس خیال سے ہی پریشان ہو جاتے ہیں کہ رسول کریم مدینہ کو چھوڑ کر مکہ چلے جانے کا ارادہ نہ فرمالیں اور اضطراب کی حالت میں پوچھتے ہیں حضور مکہ میں ہی تشریف تو نہیں رکھیں گے.اس پر جب آنحضرت امی نے فرمایا نہیں میرا گھر مدینہ میں ہے ، میں مدینہ میں ہی جاؤں گا.یہاں نہیں رہوں گا.تب انہیں اطمینان آتا ہے غرض جو قربانی کرنے والے تھے انہیں تو یہ خیال تھا کہ ہم پر یہ احسان ہوا ہے کہ رسول اللہ ہمارے پاس ٹھہرے اور واقعی یہ بہت بڑا احسان الہی تھا کہ اتنے عظیم الشان نبی کی مہمانی کا انہیں شرف بخشا گیا.ورنہ اللہ تعالیٰ چاہتا تو اپنے رسول کے قیام کے لئے سینکڑوں اسباب پیدا کر دیتا.لیکن جنہوں نے کوئی قربانی نہیں کی تھی، وہ احسان جتا رہے تھے.گویا گھر کو آگ لگانے والے کی مثال عبد الله بن ابی بن سلول کی مثال تھی.پھر کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تھوڑی سی قربانی کر کے اسے بہت بڑھا لینا چاہتے ہیں.چندے بھیجتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے بہت بڑا کام کیا.حالا نکہ وہ نہیں دیکھتے کہ اتنے بڑے بڑے کام کیا ان کے ہی چندے سے ہو رہے ہیں.ایسے لوگ بجائے اس کے کہ ممنون احسان ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں خدمت دین کا موقع عطا فرمایا الٹا اپنا احسان جتلانے کی کوشش کرتے ہیں.پھر کئی ایسے ہیں جو بڑی قربانیاں کرتے ہیں لیکن پھر من وازی کے ذریعہ انہیں ضائع کر دیتے ہیں ایسے لوگ بھی جنت میں نہیں ہوتے بلکہ دوزخ میں پڑے رہتے ہیں.کیونکہ کام کرنے کے باوجود اس کے بدلہ سے محروم رہتے ہیں.دیکھو بعض لوگ تھے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و اسلام کی زندگی میں بڑی بڑی قربانیاں کیں لیکن پھر ایک وقت ایسا آیا کہ اپنی قربانیوں پر انہیں ناز شروع ہو گیا.ان کے بدلہ و عرض میں قوم کی سرداری اور لیڈری کے خواہشمند ہوئے اور اس طرح خدا کے غضب کے نیچے آگئے.ان کی مثال بالکل اس شخص کی سی ہے جس نے ایک باغ لگایا اس کو سینچا اس کی خبر گیری کی مگر جب وہ باغ پھل دینے کے قابل ہوا تو بجائے اس کا پھل کھانے کے انہوں نے اس کی لکڑیوں کو جمع کر کے انہیں باغ کے گرد پھیلا کر آگ لگادی.اس طرح نہ صرف یہ کہ اس کے پھل سے محروم رہے بلکہ اس باغ کو بھی جلانے کی کوشش کی جس کی ایک وقت بڑی محنت اور جانفشانی سے انہوں نے

Page 599

خطبات محمود ۵۹۴ سال ۱۹۳۲ء آبیاری کی تھی.بعض اور لوگ نہیں جنہیں ہر قسم کی قربانیاں کرنے کی توفیق ملتی ہے.باوجود اس کے وہ اور خواہش کرتے ہیں کہ انہیں قربانی کا موقع ملے.یہی لوگ حقیقی جنت میں ہوتے ہیں کیونکہ ان کا دل ہمیشہ خدا تعالیٰ کی رضاء سے خوش ہو تا رہتا ہے.اور کوئی تکلیف انہیں غمگین نہیں کر سکتی.ایک اور بات بھی یادرکھنی چاہئے اور وہ یہ کہ اچھے اعمال کے نتیجہ میں جنت ملتی ہے اور قلبی راحت کا نام ہی جنت ہے.پس اگر کسی کو اپنے اعمال کے نتیجہ میں سرور نہیں حاصل ہو تا خوشی نہیں ملتی ، آرام محسوس نہیں ہو تا تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کی قربانی ضائع گئی.رسول کریم میں کے زمانہ میں اور آپ کے بعد صحابہ کی بہت سی مثالیں ایسی ملتی ہیں جن پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انکے نزدیک قربانی کا مفہوم ہی اور تھا.اس کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے لیکن اشار تا ایسی احادیث وسیر کی کتابوں کے مطالعہ سے اس کی وضاحت ہو جاتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنتَظِرُ صحابہ میں سے بعض تو اپنا فرض ادا کر چکے ہیں اور بعض اس کے انتظار میں ہیں.جب جنگ بدر ہوئی تو بہت سے صحابہ اس میں شامل نہیں ہوئے تھے جس کی وجہ یہ تھی کہ رسول کریم میم نے اس جنگ کا اظہار نہیں کیا تھا حالانکہ آپ کو الہام ہو چکا تھا.بعض روایتوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ روانگی سے پہلے آپ کو علم نہیں تھا.بلکہ راستہ میں الہام کے ذریعہ علم دیا گیا.پہلے آپ کا صرف یہی خیال تھا کہ یہ صرف دھمکی ہے اور باقاعدہ جنگ کا ارادہ نہیں تھا.غرض اس جنگ میں سب صحابہ شریک نہ ہو سکے.لیکن جنگ کے بعد جب آنحضرت میں واپس تشریف لائے تو جو صحابہ نہیں گئے تھے انہیں اپنے محروم رہ جانے کا افسوس ہوا.ان میں سے ایک صحابی کے متعلق حدیثوں میں آتا ہے کہ وہ ایک مجلس میں بیٹھے تھے.جس میں جنگ بدر کے متعلق گفتگو ہو رہی تھی اور شاملین جنگ کے کارنامے بیان ہو رہے تھے.کچھ دیر تو وہ صحابی خاموش رہے آخر کہنے لگے تم نے کچھ بھی نہیں کیا میں ہو تا تو دشمن کے دانت کھٹے کر دیتا.بظاہر یہ تکبر کا فقرہ تھا اور اس قسم کا دعوئی سے بسا اوقات کہنے والے کے دل کو زنگ لگ جاتا ہے لیکن اس وقت انہوں نے پورے اخلاص سے یہ کہا اور معلوم ہوتا ہے کہ عقیدت و اخلاص سے ان کا دل اس قدر لبریز اور بھرا ہوا تھا کہ ان کے لئے ایسا کرنا جائز ہو گیا تھا.آخر انہی صحابی کو جب جنگ احد میں شامل ہونے کا موقع ملا تو اس جنگ کی اس گھبراہٹ والی گھڑی میں جب کہ بہت سے جری اور بہادر دل تو ڑ رہے تھے.وہ صحابی حضرت عمرؓ کے پاس

Page 600

خطبات محمود ۵۹۵ سال ۱۹۳۲ء سے گزرے جو اس وقت اپنے سر کو دونوں ہاتھوں میں لئے بیٹھے تھے.انہوں نے پوچھا عمر کیا ہوا حضرت عمر نے کہا اور کیا ہوتا ہے رسول اللہ میں شہید ہو گئے.یہ سن کر ان صحابی نے جو اس وقت ہاتھ میں لئے کھجوریں کھا رہے تھے کہا پھر یہ رونے کا کون سا موقع ہے جہاں رسول اللہ گئے ہیں وہیں ہمیں بھی جانا چاہئے اور کہا میرے اور رسول اللہ ان کے درمیان یہی رسول کھجور میں حائل ہیں نا.اسی وقت باقی کھجور میں پھینک دیں اور تلوار لے کر دشمن کی صفوں میں گھس گئے.اور نہایت شجاعت و مردانگی سے تلوار چلاتے رہے حتی کہ ان کا ایک ہاتھ بے کار ہو گیا تو دوسرے میں تلوار پکڑلی.اور برابر دشمن پر وار کرتے رہے آخر وہ شہید ہو گئے.جنگ کے بعد جب ان کی لاش کو دیکھا گیا تو اس پر ستر زخم پائے گئے.یہ قربانی ایسی ہے کہ جس سے پتہ لگتا ہے کہ اس کے کرنے والے کو یہ احساس ہی نہیں تھا کہ میں کوئی قربانی کر رہا ہوں.اس وقت اس صحابی کو یہ خیال نہ آیا کہ یہ قربانی کا موقع ہے.اپنی جان کی قربانی دے دوں بلکہ یہ خیال پیدا ہوا کہ آنحضرت سمیت ہم میں نہیں ہیں اس دنیا سے چلے گئے ہیں.ہمیں بھی آپ کے پاس پہنچ جانا چاہئے.اسی طرح ایک دوسرے صحابی کے متعلق آتا ہے وہ مدینہ کے رئیس تھے وہ ایک جنگ میں شریک ہوئے.ایک دوسرے صحابی بیان کرتے ہیں کہ اثنائے جنگ میں میں ان کے پاس سے گزرا تو دیکھا کہ ان کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ چکی تھیں.زخموں سے نڈھال ہو رہے تھے اور یہی معلوم ہو تا تھا کہ چند منٹ کے مہمان ہیں.وہ صحابی بیان کرتے ہیں میں نے ان سے دریافت کیا آپ کا کیا حال ہے وہ کہنے لگے مجھے یہ بتاؤ رسول اللہم ان کا کیا حال ہے.میں نے کہا بخیریت ہیں.وہ صحابی کہتے ہیں پھر میں نے ان سے کہا اس وقت میں آپ کی اور تو کوئی خدمت نہیں کر سکتا ہاں اگر بیوی بچوں یا دوسرے رشتہ داروں کو کوئی پیغام دینا ہو تو بتا دیں میں پہنچادوں گا.وہ کہنے لگے کہ میرے رشتہ داروں کو میری طرف سے کہہ دینا کہ مجھے تو رسول کریم مسلم کی خدمت کا موقع نہیں ملا.لیکن یاد رکھو کہ رسول الله ما ا ا ا ا ا م ایک امانت ہیں اور میں یہ امانت اب تم سپرد کرتا ہوں اپنی جانوں سے بڑھ کر ان کی حفاظت کرنا یہ کہہ کر انہوں نے جان دیدی.غرض یہ لوگ اس قسم کا نمونہ دنیا میں چھوڑ گئے ہیں جس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ انسان کس طرح اسی دنیا میں جنت حاصل کر سکتا ہے.ایسے آدمی بیمار بھی ہوتے ہیں ، انہیں دکھ درد بھی پہنچتا ہے، دنیاوی نقصان بھی ہوتے ہیں، لیکن ان بے حقیقت اور معمولی باتوں سے وہ اندوہ گیں نہیں ہوتے بلکہ وہی باتیں جو دوسروں کے لئے مصیبتیں ہوتی ہیں ان کے لئے سکھ کا باعث ہو جاتی ہیں.تمہارے

Page 601

خطبات محمود ۵۹۶ سال ۱۹۳۲ء احد کی جنگ کے ذکر ہی میں ایک اور صحابی کے متعلق آتا ہے کہ تیروں کی بوچھاڑ دیکھ کر انہوں نے آنحضرت ملی ایم کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ پھیلا دیئے تاکہ آپ کو کوئی تیر نہ لگ جائے.تیروں کے سامنے اپنے ہاتھ رکھنے کی وجہ سے آپ کا ہاتھ شل ہو گیا.لیکن انہوں نے آنحضرت کے سامنے سے اپنا ہاتھ بٹا لینا گوارا نہ کیا.ایک دوسرے صحابی کے متعلق مذکور ہے کہ وہ اپنی کمر تیروں کی طرف کئے رہے اور اف تک نہ کی.حالانکہ تیر پر تیر پڑ رہے تھے.جنگ کے بعد کسی نے ان سے دریافت کیا.دریافت کرنے والے غالبا ان کے بیٹے تھے کہ کیا آپ کو اس وقت تکلیف نہیں ہوتی تھی.انہوں نے کہا تکلیف تو ہوتی تھی لیکن میں اس خیال سے بھی نہیں کر سکتا تھا کہ مبادا اس طرح میری کمر مل جائے اور آنحضرت میر تک کوئی تیر پہنچ جائے اس قسم کی مثالیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ میں بھی پائی جاتی ہیں.اور پائی جاتی رہی ہیں.مثلاً افغانستان کے شہیدوں کو ہی لے لو.ان میں سے قریباً ہر ایک کو موقع دیا گیا کہ وہ احمدیت چھوڑ کر اپنے آپ کو اس مصیبت سے بچالے.لیکن ان میں سے ہر ایک نے انکار کر دیا اور صاف کہہ دیا میں اپنے دین سے نہیں پھر سکتا.صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب کے متعلق ایک غیر مذ ہب اور غیر ملک کا یعنی ایک اٹیلین لکھتا ہے کہ وہ اس وقت بھی جبکہ ان پر پتھر پڑ رہے تھے بڑے الحاح و زاری سے دعائیں مانگ رہے تھے کہ اے اللہ تعالٰی ان لوگوں کو معاف کر دے کہ یہ ناواقفیت کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں.ایک اور شخص نے نعمت اللہ خان صاحب کے متعلق بیان کیا کہ انہوں نے زندگی کے آخری لمحے دعا کرتے ہوئے گزارے.دنیا داروں کی نگاہ میں انہیں پتھر پڑا رہے تھے لیکن ان کا دل یہ محسوس کر رہا تھا کہ گویا پھول گر رہے ہیں.غرض جس وقت انسان کے دل کے اندر حقیقی ایمان پیدا ہو جاتا ہے تو اس کے لئے دنیاوی تکلیفیں ہی نہیں رہتیں اور جب انسان تکلیف میں نہ رہے تو یہی جنت ہے.دنیا میں ہر انسان نے ایک نہ ایک دن مرنا ہے.آج نہیں تو کل کل نہیں تو پرسوں، ضرور اسے جان دینی ہے.آج تک دنیا میں کوئی ہمیشہ نہیں رہا اور نہ آئندہ رہے گا.لیکن کیا ہی مبارک ہے وہ وجود جو دین کے لئے اپنی جان دیتا ہے کہ ہمیشہ کے لئے اس دنیا میں بھی اس کا نام باقی رہتا ہے اور کہا جاتا ہے فلاں وہ ہے جس نے کسی خاص ذاتی غرض کے لئے نہیں بلکہ اپنے ایمان کی حفاظت میں اپنی جان دیدی.اور اللہ تعالی کے حضور جو اس کے لئے انعامات ہیں ان کی تو کوئی

Page 602

خطبات محمود 096 سال ۱۹۳۲ء انتہاء ہی نہیں.کہا جا سکتا ہے کہ بے شک مرنا تو ہر ایک کو ہے لیکن جنگ میں یعنی جہاد کے لئے نکلے تو انسان نوجوانی میں ہی مرجاتا ہے.میں کہتا ہوں مرجاتا ہے تو پھر کیا ہوا.در حقیقت اس کے لئے مرنا ہی زندگی ہے.لیکن یہ بھی غلط ہے کہ نوجوانی کی موت کا سبب صرف جنگ ہی ہے بلکہ اگر بیماری کی وجہ سے مرنے والوں کے اعداد و شمار پر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ نوے فیصدی مرنے والے وہ ہوتے ہیں جو جوانی کی موت مرتے اور اس دنیا سے گزر جاتے ہیں.غرض جب موت سے کوئی بھی نہیں بچ سکتا اور کسی نہ کسی بہانہ سے اس دنیا سے کوچ کر جاتا ہے تو کیوں نہ انسان عزت کی موت کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہو.اسی طرح مال و دولت کا حال ہے.اس میں نقصان ہو تا رہتا ہے، چور لے جاتے ہیں.گھر میں کوئی بیمار ہو جائے تو ڈاکٹروں اور دوائیوں پر بہت سا روپیہ اٹھ جاتا ہے.لیکن اگر اس مال کو دین کی راہ میں خرچ کیا جائے تو برضاء و رغبت دین کے لئے مالی قربانیاں کی جائیں تو نتیجتا انسان بہت زیادہ نفع میں رہتا ہے.پرسوں ہی ایک دوست کا خط آیا.میں نے دیکھا کہ خط بہت ہی اخلاص سے لکھا ہوا تھا.اس میں وہ لکھتے ہیں آپ کہتے ہیں بشاشت سے چندے دو.میں وہ روحانی بشاشت کہاں سے حاصل ہو سکتی ہے.جب کہ ہمیں پہلے کھانے کے لئے مل جاتا ہے پھر چندے دیتے ہیں.چندہ تو ان کا ہے جن کے پاس کھانے کو بھی نہیں ہو تا لیکن وہ چندے بھیجتے ہیں.اصل بشاشت بھی انہی کو حاصل ہے.مجھے ہمیشہ ایک واقعہ یا د رہتا ہے.منشی اروڑہ صاحب جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد مستقل طور پر قادیان میں رہائش اختیار کرلی تھی.ایک دفعہ انہوں نے مجھے دو یا تین پاؤنڈ دیئے اور کہا کہ اماں جان کو دے دینا اس کے ساتھ ہی رو پڑے.یہ واقعہ حضرت صاحب کی وفات کے بعد کا ہے.میں نے خیال کیا کہ شاید حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام کی وفات کی یاد سے رو رہے ہیں.آخر جب دیر تک روتے رہے اور ان کی ہچکی بندھ گئی تو میں نے روکنے کے لئے کہا.آپ روتے کیوں ہیں؟ کہنے لگے جب میں نے بیعت کی میں چھ یا سات روپیہ کا نو کر تھا.اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے چندہ کی تحریک کی.اس وقت اپنی اسی تنخواہ میں سے بچا کر جب قادیان آتا تو وہ تھوڑی سی رقم ساتھ لے آتا تاوہ دین کی راہ میں خرچ ہو.لیکن میری خواہش ہمیشہ یہ ہوتی کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی خدمت میں سونے کی مہریں پیش کروں.اسی مقصد کے لئے میں اپنی تنخواہ میں سے بچاتا رہتا.لیکن قبل اس کے کہ وہ مہریں بننے کی مقدار کا ہو بہت دیر ہو جاتی اور میں وہی روپے لے کر قادیان میں

Page 603

خطبات محمود ۵۹۸ سال ۱۹۳۲ء آجاتا.اس طرح مجھے اپنی خواہش پوری کرنے کا کبھی موقع میسر نہ آیا.اب میں اس قابل ہوا کہ مہریں پیش کروں اس وقت ان کی تنخواہ اسی پچاسی کے قریب تھی ، تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فوت ہو گئے ہیں.غرض ایک وہ لوگ ہوتے ہیں جو قربانی کرتے ہی نہیں یا معمولی قربانی کر کے شکوہ سنج ہوتے ہیں.اور ایک ایسے لوگ ہوتے ہیں کہ اعلیٰ قربانیاں کر کے بھی یہ شکوہ ہوتا ہے کہ قربانی کا موقع نہیں ملا.یا جو ملا ہے وہ بہت کم ہے.غرض یہ لوگ قربانیاں کرتے اور اسی میں راحت محسوس کرتے ہیں.اسی میں ان کو سرور اور لطف حاصل ہوتا ہے.اور میرے نزدیک یہی چیز ہے جس کا نام جنت ہے.بتلاؤ وہ شخص بھی کبھی تکلیف میں ہو سکتا ہے جس کا کوئی مالی نقصان ہو ، جسے کوئی بدنی تکلیف پہنچے ، جس کے رشتہ داروں میں سے کوئی فوت ہو جائے لیکن وہ ان سب مواقع پر صبر کرے.اور دلی یقین سے یہ سمجھے کہ خدا کی چیز تھی اسی نے لے لی.ایسے شخص کو رنج دلانے والی کون سی چیز ہو سکتی ہے.عبد اللہ بن مظعون سے آنحضرت میر کو بہت پیار تھا.جب آپ کا بچہ ابراہیم فوت ہوا تو اس وقت آپ نے فرمایا جاؤ عبد اللہ بن مظعون کے پاس.ان کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ جب انہیں اسلام کی وجہ سے کفار کی طرف سے بہت تکلیفیں دی گئیں تو وہ ہجرت کر گئے.راستہ میں انہیں ابن یعلیل ملے.اور جب یہ معلوم ہوا کہ عبداللہ کفار کی مصیبتوں کی وجہ سے مکہ چھوڑ رہے ہیں.تو چونکہ پرانے تعلقات تھے انہوں نے کہا تم ہجرت نہ کرو.میں تمہیں اپنی حفاظت میں لیتا ہوں.پھر تمھیں کوئی تنگ نہیں کر سکے گا.چنانچہ اس وعدہ پر وہ انہیں واپس لے آئے.جب عبد اللہ بن مطعون واپس مکہ پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ دوسرے مسلمان بھائی کفار کی طرف سے سخت تکالیف میں ہیں.لیکن انہیں ابن یعلیل کی حفاظت میں ہونے کی وجہ سے کوئی کچھ نہ کہتا تھا.یہ حالت دیکھ کر وہ برداشت نہ کر سکے اور ابن یعلیل سے جا کر کہہ دیا یہ مجھ سے نہیں دیکھا جاتا کہ میرے دوسرے مسلمان بھائیوں کو تو مصیبتیں آئیں اور میں مزے سے پھرتا رہوں.یہ کہہ کر اس کی ضمان واپس کر دی.تواریخ میں آتا ہے اس کے بعد وہ ایک مجلس میں پہنچے جہاں ایک مشہور شاعر اپنا کلام سنا رہا تھا یہ شاعر بعد میں مسلمان ہو گیا تھا.شاعر نے پڑھا الا كل من مَا خَلَا اللَّهَ بَاطِل اس کی آنحضرت امام نے بھی تعریف فرمائی ہے.جب عبد اللہ بن مطعون نے یہ سنا تو کہنے لگے ٹھیک کہا ٹھیک کہا.شاعر بہت بڑے پائے کا تھا.اس کو ایک بچہ کی تعریف بھی ناگوار گزری اور

Page 604

خطبات محمود ۵۹۹ سال ۱۹۳۲ء اس نے مجلس کو مخاطب کر کے کہا تمہارے شہر کے لونڈوں کو کوئی تمیز نہیں کہ وہ سر مجلس بڑوں کی ہتک کرتے ہیں.اس پر لوگوں نے عبد اللہ بن مظعون کو برا بھلا کہہ کر چپ کرا دیا اور شاعر سے معذرت کی.پھر اس نے پڑھا وَكُلُّ نَعِيمٍ لَا مَعَالَةَ ذَائِلَ یعنی ہر نعمت بهر حال محو اور زائل ہو جائے گی.عبد اللہ بن مظعون نے کہا یہ درست نہیں.جنت کی نعمتیں ضائع نہیں ہوں گی.پہلے تو ایک نو عمر کے منہ سے شاعر کو اپنی تعریف بھی گراں گزری تھی.مذمت سن کر تو وہ برداشت نہ کر سکا اور کہہ اٹھا ایسے بد تمیزوں کی مجلس میں میں اب اپنا کلام نہیں سناؤں گا.شاعر کی ناراضگی نے مجلس میں بھی جوش و غصہ کی لہر پیدا کر دی اور کسی شخص نے مکا مار کر عبد اللہ کی ایک آنکھ نکال دی.اس وقت ابن یعلیل نے کہا دیکھا ! میں نہ کہتا تھا میری حفاظت سے باہر نہ نکلو میری پناہ چھوڑی تو یہ حال ہوا کہ اپنی آنکھ نکلوالی- عبد اللہ نے کہا تمہاری پناہ کیسی میری تو دوسرے آنکھ بھی دین کی راہ میں اسی بات کا انتظار کر رہی ہے.اب نام دیکھو آنکھ کا نکلنا ایک دنیا دار کی نگاہ میں مصیبت اور تکلیف کا موجب ہے لیکن ایک دیندار کے نزدیک اس میں راحت ہے.پھر انسان اولاد کو باعث راحت سمجھتا ہے لیکن اسے کیا معلوم کہ وہی اولاد اس کے لئے کل دکھ اور وبال کا موجب ہو جائے گی.ابو جہل کے ماں باپ نے اس کی پیدائش پر کتنی خوشیاں منائی ہوں گی لیکن اس کے اعمال کو معلوم کر کے اس کے باپ کو جو شاید جنت میں ہی ہو کیونکہ آنحضرت میام کی بعثت سے پہلے فوت ہو چکا تھا کتنی تکلیف ہوئی ہوگی.اور اس کی ماں کی کتنی زبر دست خواہش ہوگی کہ کاش میں ایسا بچہ نہ جنتی یا پیدائش کے بعد اسے زندہ درگور کر دیتی.دنیا کی دوسری چیزوں کا بھی یہی حال ہے.اور کوئی چیز ایسی نہیں جس کے متعلق یقینی طور پر انسان کہہ سکے کہ یہ میرے لئے سکھ کا موجب ہے.ہاں حقیقی قربانی ایک ایسی چیز ہے جو حقیقی مسرت دلا سکتی ہے اور حقیقی جنت یہی ہے کہ انسان اس بات کو سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں قربانی کرنے سے ہی آرام اور سرور حاصل ہو سکتا ہے.اور پھر یہ سمجھنے کے بعد اس پر عمل پیرا بھی ہو جائے.اس کے خلاف کا نام دوزخ ہے.اور یہ جنت اور دوزخ بنانا انسان کے اپنے اختیار میں ہے.جو شخص اپنے لئے جنت پیدا نہیں کرتاوہ خود اپنا نقصان کرتا ہے.اور جتنا کوئی دنیا سے محبت کرے گا اور ورلی زندگی کی زیبائشوں کو اپنے لئے وجہ مسرت بنائے گا اتنا ہی وہ اپنے لئے دوزخ تیار کرے گا.کیونکہ جب کوئی رشتہ دار فوت ہو گا اس کے لئے دوزخ بیوی بچوں کو

Page 605

محمود سال ۱۹۳۳ء بیماری یا تکلیف ہوگی اس کے لئے دوزخ مال کا نقصان ہو گا تو اس کے لئے دوزخ غرض ہر دنیاوی نقصان در زخ کا سامان ہو گا.لیکن جو شخص خدا کے لئے آپ ان چیزوں کی قربانی کے لئے تیار ہو گا اس کے لئے کوئی تکلیف نہیں.اس کا مال ضائع ہو گا تو وہ یہی کہے گا خدا نے دیا تھا اسی نے لے لیا.ورنہ میں تو خود اسے دینے کے لئے تیار تھا.لڑکی یا لڑ کا فوت ہو گا کسی رشتہ دار کو تکلیف ہوگی.غرض ہر دنیاوی نقصان پر اس کے منہ سے یہی نکلے گا.اور وہ ہر آن جنت میں ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کو مبارک احمد سے بہت محبت تھی.جب مبارک احمد بیمار ہوا تو دوائی وغیرہ میں ہی پلایا کرتا تھا.میں نے دیکھا کہ آخری وقت میں حضرت مولوی صاحب جو بڑے حوصلہ اور قومی دل کے انسان تھے اور سخت سے سخت گھبراہٹ کے موقعوں پر بھی گھبرایا نہیں کرتے تھے وہ بھی گھبرا گئے.انہوں نے نبض پر ہاتھ رکھا تو چھوٹ چکی تھی.انہوں نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا حضور کستوری لائیے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام چابی لے کر قفل کھول ہی رہے تھے کہ مبارک فوت ہو گیا یہ دیکھ کر حضرت مولوی صاحب یکدم گر گئے.میں نے دیکھا وہ سخت گھبراہٹ میں تھے.انہیں زیادہ خیال یہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبارک احمد سے بہت محبت تھی.اس کی وفات کی وجہ سے انہیں شدید صدمہ ہو گا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب یہ سنا کہ مبارک فوت ہو گیا ہے تو آپ کاغذ قلم دوات لے کر بیٹھ گئے اور چند خط لکھ کر دیئے کہ ڈاک میں ڈال دو.ان خطوں میں مضمون یہ تھا کہ مبارک احمد فوت ہو گیا.اللہ تعالی کی دین تھی اس نے لے لی.رنج و فکر کی کوئی بات نہیں.اللہ کی رضاء پر راضی رہنا چاہئے.غرض دو سروں کو صبر کی تلقین کے خطوط اس وقت روانہ کئے اور یہاں کے لوگوں کو فرمایا بے شک مبارک احمد سے ہمیں بہت محبت تھی لیکن اس لئے ہمیں محبت تھی کہ ہمیں خیال تھا بعض الہامات اس کی ذات سے پورے ہونے والے ہیں.غرض ایسے لوگوں کو کوئی تکلیف جسے دنیا تکلیف کہتی ہے کبھی ہوتی ہی نہیں.پس دنیاوی نقصانات پر غمگین ہونا دنیا کی تکالیف پر دلگیر اور اندوہ گئیں ہو نا دنیا کی دوزخ ہے.لیکن خدا کی رضا پر راضی رہنا دنیا کی تکالیف پر صبر کرنا خدا کی راہ میں جان و مال غرض کہ ہر چیز کی برضاء و رغبت قربانی کرنا دنیا کی جنت ہے.یہ ایسی جنت ہے جو ہر شخص کے قبضہ میں ہے جو چاہے لے لے اور جو چاہے اسے رد کر کے اس دنیا اور اگلے جہان کی جنت سے محروم ہو جائے.کیونکہ وہاں کی جنت کی ابتداء یہیں سے ہوتی ہے اور وہ جنت یہیں سے شروع ہو جاتی ہے.اگلے جہان میں اسے وہی شخص حاصل کر سکے گا جو اسی دنیا میں

Page 606

۲۰۱ سال ۱۹۳۲ء لے چکا ہے.جو لوگ مرنے کے بعد جنت کو تلاش کرنے کا خیال کرتے ہیں ان پر تو یہی مثل صادق آتی ہے کہ لڑ کا بغل میں اور ڈھنڈورا شہر کہیں " انسان کے اپنے ہی دل میں جنت و دوزخ ہوتی ہے لیکن وہ اسے کہیں دوسری جگہ خیال کرتا ہے اور محروم رہ جاتا ہے.حالانکہ اگر وہ اسے اپنے دل میں تلاش کرے تو کامیاب ہو جائے.اللہ تعالی ہماری جماعت کو قرآن مجید کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے صرف لفاظی کوئی چیز نہیں.قرآن کے مغز کو سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرنی چاہئے.الفضل ۱۸ اکتوبر ۱۹۳۲ء) ل بنی اسرائیل : ۷۳ ال عمران: ۱۳۴ المنفقون: کے سیرت ابن ہشام ذکر فتح مکه ه الاحزاب: ۲۴ لبخارى كتاب الجهاد باب قول الله عز وجل من المؤمنين رجال........ك اسد الغابة في معرفة الصحابة جلد ۳ صفحه ۲۷ مطبوعة بیروت ۱۳۷۷هـ اسد الغابة في معرفة الصحابة جلد صفحه ۲ مطبوعة بيروت ١٣٤٧هـ و اسد الغابة في معرفة الصحابة ذكر حضرت طلحه ا سیرت ابن ہشام القسم الاول ذكر قصة عثمان بن مظعون في رد جوار الوليد

Page 607

خطبات محمود ۶۰۲ 69 سال ۱۹۳۲ء الله ہر گھڑی میں صراط مستقیم طلب کرو (فرمودہ ۷ - اکتوبر ۱۹۳۲ء بمقام ڈلہوزی) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.مذہب کی اصل غرض جیسا کہ تمام ان لوگوں کا اس پر اتفاق ہے جو خدارسیدہ ہوئے ہیں تعلق بالله اور شفَقَتْ عَلَى خَلْقِ الله ہے.یعنی ایک طرف انسان کا تعلق خدا تعالیٰ کے ساتھ قائم ہو اور دوسری طرف اس کا سلوک خدا تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ اس قسم کا ہو کہ رحم ، عفو درگزر اور شفقت کا پہلو غالب رہے.یہ دونوں چیزیں بظاہر دو مختصر فقروں میں آگئی ہیں لیکن حقیقتاً یہ اتنی مختصر نہیں بلکہ تمام انسانی اعمال انہیں کی تفسیر ہیں.خواہ وہ اعمال بُرے رنگ کے ہوں یا اچھے رنگ کے.دیکھو انسان جو کچھ بھی سوچتا ہے وہ یا مخلوق سے تعلق رکھتا ہو گا یا خالق سے.اب اگر اس کا خیال غلط راستہ پر ہو گا تو بھی انہی دو فقروں کی توضیح اور تفسیر ہو گی کو مخالفانہ رنگ میں اور اگر اس کا خیال غلط طریق پر نہیں بلکہ اچھے امور کی طرف ہے تو بھی انہی کی توضیح و تفسیر ہوگی لیکن موافقانہ اور اچھے رنگ میں.یہی حال انسانی اعمال کا ہے کہ یا تو وہ خالق سے تعلق رکھتے ہوں گے یا مخلوق سے.اور پھر یا نیک اور اچھے ہوں گے یا خراب اور بڑے.پھر انسان کے اعمال میں اتنی وسعت پائی جاتی ہے کہ دنیا کے تمام علوم اور اس کی تمام کتابیں ان پر حاوی نہیں ہو سکتیں لیکن اپنے اعمال افعال اور خیالات کی اتنی وسعت کے باوجود انسان ایک بات بھی ایسی نہیں نکال سکا جسے یقینی کہا جاسکے.دوسری چیزوں کو تو رہنے دو وہ خود اپنی ذات کے متعلق بھی کسی یقینی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکا سوائے ان باتوں کے جن کے متعلق خدا تعالیٰ نے بتلایا کہ یہ حقیقی اور یقینی ہیں.لیکن وہ امور بھی بچے اور یقینی صرف مؤمن کے لئے ہی ہیں کافراور خدا کے منکر کے لئے وہ بھی نہیں.

Page 608

خطبات محمود ٢٠٣ سال ۱۹۳۲ء لوگ کس وثوق اور یقین سے کہا کرتے ہیں کہ یہ جو سورج چڑھ کر آیا ہے کون بے وقوف اسکا انکار کر سکتا ہے لیکن سائنس کی موجودہ تحقیقات نے ثابت کر دیا ہے کہ روشنیاں بھی فاصلہ طے کرنے میں وقت لیتی ہیں.سو اس نظریہ کے مطابق نتیجہ یہ نکلا کہ جب سورج میں پڑھ رہا نظر آتا ہے وہ چڑھ نہیں رہا ہو تا بلکہ چڑھ چکا ہوتا ہے اور جس وقت غروب ہو رہا دکھائی دیتا ہے وہ غروب نہیں ہو رہا ہو تا بلکہ غروب ہو چکا ہوتا ہے.اسی طرح اب نئی تحقیقاتوں سے معلوم ہوا ہے کہ روشنیاں ٹیڑھی چلتی ہیں.پہلے تو صرف یہی معلوم ہوا تھا کہ ہم وقت کا صحیح اور درست اندازہ نہیں لگا سکتے لیکن روشنیوں کے ٹیڑھے چلنے کی وجہ سے ہم یقینی طور پر یہ بھی معلوم نہیں کر سکتے کہ اس کا مقام کہاں ہے.غرض ان اصول کے پیش نظر ہم سورج کے چڑھنے کا نہ تو وقت مقرر کر سکتے ہیں نہ اس کا مقام و جگہ.اور جب سورج ایسی بدیہی چیز کے متعلق ہم درست اور صحیح فیصلہ نہیں کر سکتے تو اور کون سی چیز ہے جس کو ہم یقینی اور قطعی کہہ سکیں.پھر نہ صرف یہ بلکہ اور بھی تمام شبہات جو سائنس کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں وہ ہمیں اسی طرف لے جارہے ہیں کہ یقینی بات سوائے خدا کی بتائی ہوئی کے اور کوئی نہیں ہو سکتی.جب بھی سائنس نے ترقی کی ہے دنیا میں سفسطه پیدا ہوا ہے.لوگوں کے قلوب سے اعتماد و یقین کم ہو نا گیا ہے.اور یہ بات زیادہ وضاحت سے ثابت ہوتی چلی گئی ہے کہ حقیقی اور تحقیقی چیز کوئی ہے ہی نہیں.اور یہ اس حقیقت کے باوجو د ہے کہ انسان کی جستجو اتنی وسیع ہوتی چلی جاتی ہے جس کا احاطہ کرنا نا ممکن ہے.انسان کیا ہے، کس طرح پیدا ہوا اس کے فرائض و وظائف کیا ہیں وہ آزاد ہے یا نہیں غرض ہزاروں سوالات ہیں جو ابھی تک حل شدہ نہیں.ایک بکری کے متعلق ہم ہر روز یہ دیکھتے ہیں کہ وہ بندھی ہوئی ہے یا نہیں.ایک بیل کے متعلق ہم روزانہ فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ بندھا ہوا ہے یا آزاد ہے.ایک بھینس کے متعلق دیکھتے ہیں کہ اس وقت بندھی ہوئی ہے یا کھلی.لیکن اپنی ذات کے متعلق انسان فیصلہ نہیں کر سکا کہ وہ مختار ہے یا مجبور.ایسے وقت میں اگر اس دنیا سے باہر کی کوئی ہستی آکر لوگوں کو اس بحث میں مشغول پائے کہ آیا انسان خود مختار ہے یا مجبور تو وہ یہی کہے گی کہ یہ لوگ کتنے بے وقوف ہیں اپنے متعلق اتنا بھی نہیں جانتے کہ آزاد ہیں یا نہیں ؟ غرض انسانی اعمال کی وسعت اس قدر ہے کہ کوئی ایک شخص کے اعمال کا بھی احاطہ کر سکتا.اور یہ اتنا بھاری کام ہے کہ اس کی عظمت کا اندازہ لگانا بھی نا ممکن ہے.پھر بھی ہم ان سب اعمال کو ان دو فقروں میں ادا کرتے ہیں تعلق بِاللهِ اور شَفَقَتْ عَلَى خَلْقِ اللهِ تعلق باللہ تو نہیں 39

Page 609

خطبات محمود ۶۰۴ سال ۱۹۳۲ء بڑی بات ہے شَفَقَتْ عَلَى النَّاسِ کو ہی لے لو.اور اسی کی تشریح نے بیٹھ جاؤ تو کبھی ختم نہ ہو گی.اول تو شفقت کی کوئی قطعی تعریف ہی بڑی مشکل ہے.مثال کے طور پر ہم کہہ سکتے ہیں دیکھو افریقہ کے باشندے اپنے بچوں کے چہروں کو گودتے ہیں اور اس طرح انہیں خوبصورت بناتے ہیں.اس وقت ایشیاء یا یورپ کا کوئی آدمی دیکھے تو سمجھتا ہے کہ یہ ماں باپ کس قدر ظالم اور غیر شفیق ہیں.انہیں اپنے بچہ پر کوئی رحم نہیں آتا اور نہ صرف یہ کہ اسے تکلیف میں ڈال رہے ہیں بلکہ اسے بد شکل اور کریمہ منظر بھی بنا رہے ہیں.اب یہ ایک ہی کام ہے لیکن ایک کے نزدیک شفقت ہے اور دوسرے کے نزدیک مظلم.یا اسی طرح مسلمان اپنے بچوں کو گوشت کھلاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے بڑا اچھا کام کیا کہ انہیں اعلیٰ اور عمدہ غذادی.لیکن یہ شفقت اور یہ مہربانی ایک ہندو کے نزدیک شفقت اور مہربانی نہیں بلکہ پاپ گناہ اور ظلم ہے.غرض شفقت کی کوئی قطعی تعریف ہی نہیں.ممکن ہے بعض باتوں میں دنیا کا اتفاق ہو بھی جائے.مثلا کسی کو مار ڈالنے یا قتل کر دینے کو سب ظلم اور شفقت کے منافی قرار دیں گے لیکن پھر اس کے مواقع پر اختلاف ہو جائے گا.پچھلے زمانہ میں ٹھگوں کا ایک گروہ ہو تا تھا.ہمارے زمانہ میں تو ٹھنگ کا اور مفہوم ہے لیکن پہلے یہ ایک مذہبی فرقہ ہو تا تھا جس کا عقیدہ یہ تھا کہ جو انسان بھی ملے اسے قتل کر دینا چاہئے اور وہ اپنے پاس رہتی یا کوئی اور ایسی چیز رکھتے تھے جس سے انسانی جان لی جا سکے اور اپنی تائید میں وہ یہ دلیل پیش کیا کرتے تھے کہ دنیا تکلیفوں، دکھوں اور مصیبتوں کی جگہ ہے اور دنیا میں کوئی بھی سکھی نہیں.جب یہ دنیا دار المحن ہے تو کسی کو اس سے نجات دینا یقینا ثواب کا کام ہوا.وہ کہتے تھے چونکہ عام طور پر انسان بزدل ہے اس لئے وہ خود کشی کر کے دنیا سے نجات پانے سے ڈرتا ہے اس لئے ہم اسے قتل کر کے دنیا کی مصیبتوں سے آرام میں پہنچادیتے ہیں اور اس طرح ہمارا یہ کام ثواب کا کام ہے.جب لوگ ان سے پوچھتے کہ تم دوسروں کو تو مارتے ہو خود کیوں نہیں خود کشی کر لیتے تو کہتے اگر ہم بھی خود کشی کرلیں تو لوگوں کو دکھوں سے نکالنے والا کون رہے.غرض قتل نفس پر اتفاق ہوا تھا لیکن پھر حق اور غیر حق کی بحث ہو گئی اور اس بات کا فیصلہ کہ فلاں قتل حق ہے یا نا حق خود بڑی تفصیلات کو چاہتا ہے.یہ تو شفقت عَلَى خَلْقِ اللہ کی تفصیل کی کیفیت تھی.باقی رہا تعلق باللہ تو دنیا کے تمام مذاہب جن میں سے ہر ایک کا دعوئی ہے کہ میں تعلق باللہ کراتا ہوں.ان کی فہرست ہی پڑھنے لگو تو شاید ختم نہ ہو.غرض انسانی اعمال اور ان کے متعلقات غیر محدود وسعت

Page 610

خطبات محمود سال ۱۹۳۲ء رکھتے ہیں لیکن اس غیر محدود وسعت کے باوجود کسی ایک چیز کے متعلق بھی انسان کو یقینی اور قطعی نتیجہ پر نہیں پہنچا سکے.اور کچی بات تو یہ ہے کہ حقیقی راہنمائی صرف اللہ تعالی کی طرف سے ہی آسکتی ہے اور اس نے یہ راہنمائی اپنے کلام قرآن مجید کے ذریعہ دنیا میں بھیج دی ہے لیکن محض سیدھا راستہ انسان کو منزل مقصود پر نہیں پہنچا سکتا بلکہ اس کے لئے ایک اور طاقت اور محرک کی ضرورت ہے جو انسان کو اس راہ پر چلائے اور ہدایت کی تکمیل اسی وقت ہوتی ہے جب خارجی محرک اندرونی محترک سے مل جائے.اس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ ہم بعض کپڑوں کو سفید کہتے ہیں لیکن در حقیقت کپڑا سفید نہیں ہو تا بلکہ کپڑے کی ایک حالت دماغ کی ایک حالت سے مل کر سفیدی پیدا کرتی ہے.اسی طرح کوئی چیز سرخ نہیں بلکہ کسی چیز کی ایک خاص حالت دماغ کی ایک خاص حالت سے مل کر سرخی پیدا کرتی ہے.اسی طرح زردی سبزی غرض ہر رنگ کی یہی حالت ہے.یہی کلام الہی کا حال ہے.وہ راہ ہدایت تو ہوتا ہے لیکن اکیلا را ہنما نہیں ہو تا بلکہ انسانی فطرت کے ساتھ مل کر راہنمائی کا کام کرتا ہے.گویا حقیقی راہنمائی خدا تعالیٰ کے کلام اور فطرت انسانی کے ملنے سے ہوتی ہے.سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالٰی نے راہ ہدایت کے حصول کے لئے دعا سکھلائی ہے.نادان اعتراض کرتے ہیں کہ مسلمان صدیوں سے یہ دعا کر رہے ہیں ابھی تک انہیں صراط مستقیم نہیں ملا حالا نکہ وہ یہ نہیں جانتے کہ انسان ہر لحہ اور اپنی زندگی کے ہر شعبہ کے لئے صراط مستقیم کا محتاج ہے.اور ایک سیکنڈ چھوڑ سیکنڈ کے لاکھویں کروڑویں بلکہ ان گنت حصہ کے لئے بھی اس سے بے نیاز نہیں ہو سکتا.یہی اصل مقام ہے جس پر مومن کو قائم ہونا چاہئے.اگر وہ اس مقام پر کھڑا ہو جائے اور ہر وقت اللہ تعالی سے صراط مستقیم مانگتا رہے تعلق باللہ کے لئے اور شَفَقَتْ عَلَى النَّاسِ کی توفیق پانے کے واسطے اور پھر خدا اس کا ہاتھ پکڑلے تو خواہ وہ آگے کی راہ سے ناواقف ہی کیوں نہ ہو کامیاب ہو جائے گا.کیونکہ راہ کے مالک نے اسکا ہاتھ تھام لیا ہے.اس دنیا میں بھی دیکھ لو اگر کسی نابینا کا کوئی بیٹا اور واقف آدمی ہاتھ پکڑلے تو وہ منزل مقصود تک پہنچ سکتا ہے حالانکہ ہو سکتا ہے کہ ایک بینا راستہ سے ناواقف منزل مقصود کو نہ پاسکے اور راستہ ہی میں بھٹکتا پھرے.پس اصل مقام یہی ہے کہ انسان ہر وقت ہر لمحہ اور ہر گھڑی صِراطِ مستقیم کا طالب رہے.کتنے نادان ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ اب میں ہدایت کی ضرورت نہیں.ایک دفعہ جو مل چکی ہے وہی کافی ہے.حالانکہ انسان الہی ہدایت سے ایک لمحہ کے لئے بھی مستغنی نہیں ہو سکتا.ہاں الہی ہدایت

Page 611

خطبات محمود 4.4 سال ۱۹۳۲ء و قسم کی ہوتی ہے.ایک وہ جسے فرشتہ نبی لے کر آتا ہے اور ایک وہ جو ا مان نبی کے واسطہ سے آتی ہے.فرشتہ نبی کی ہدایت بہت مخفی ہوتی ہے.اور وہ لوگ جن کی عقلیں موٹی ہوتی ہیں باریک اور نازک احساسات نہیں رکھتے ، وہ اسے نہیں سمجھ سکتے.وہ صرف روحانی لوگوں کی جماعت ہی کو سمجھ آسکتی ہے اس لئے کچھ کچھ وقفہ کے بعد اللہ تعالیٰ انسان نبی کو ہدایت دے کر بھیجتا ہے.اس کے آنے سے نوع انسان میں ایک ہیجان اور تلاطم برپا ہو جاتا ہے اور ہر شخص اسے سمجھ سکتا ہے.اپس نبوت کا سلسلہ انسانوں کے ہر طبقہ کی ہدایت کے لئے ضروری ہے اور جب تک یہ سلسلہ قائم ہے انسان تعلق باللہ اور شفقت على خلق الله کے وسیع فرائض کو سمجھ کر ان پر عمل پیرا بھی ہو سکتا ہے.لیکن اگر یہ نہیں تو انسان عاجز ہے، وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا.اپنے وسیع اعمال کو سیدھے راہ پر چلانا اس کے بس کی بات نہیں اور اس کے بغیر تمام صداقتیں باطل، تمام علوم جہالتیں تمام روشنیاں ظلمات اور تمام ہدایتیں ضلالتیں ہیں.الفضل ۸- نومبر ۱۹۳۲ء).

Page 612

خطبات محمود 70 سال ۱۹۳۲ء جرأت اور موقع شناسی سے کام لینا چاہئے اور فرموده ۱۴- اکتوبر ۱۹۳۲ء بمقام ڈلہوزی) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- چونکہ کام کی زیادتی کی وجہ سے دیر ہو گئی ہے اس لئے میں اختصار کے ساتھ صرف چند باتیں بیان کروں گا.پچھلے دنوں ہماری جماعت نے یوم التبلیغ منایا ہے.میں اس دن کی کارروائی اور اس کے اثرات کے متعلق تو بعد میں کسی وقت اپنے خیالات کا اظہار کروں گا لیکن اس وقت اس مناسبت سے ایک نہایت مختصر بات جماعت کی راہنمائی کے لئے بیان کر دیتا ہوں.یہ زمانہ اپنے ساتھ کئی طرح کی ترقیات کئی قسم کی خرابیاں اور نقائص رکھتا ہے.جہاں اس زمانہ میں علمی ترقی ہوئی ہے وہاں اس زمانہ کے لوگ اخلاق کے پہلو بلکہ اس کی بعض حدود کو توڑ کر ایک جہت کی طرف راغب ہو رہے ہیں اور اپنے تمدن کو بلند کرنے کی طرف بڑی سرعت سے گامزن ہیں.اور جس تمدن کو وہ ترقی دینا چاہتے ہیں اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ انسان کو بہت زیادہ مہذب ہونا چاہئے.اس میں شبہ نہیں کہ یہ ایک نہایت ہی اعلیٰ چیز ہے اور اسلام نے اس پر بہت زور دیا ہے لیکن آج کل کا تمدن تہذیب کے ایسے ایسے معنے کرتا ہے جس کے ماتحت تہذیب تہذیب ہی نہیں رہتی.مثلاً آج کل کی تہذیب کے نکات میں سے ایک تعلیم یہ بھی ہے کہ انسان کسی دوسرے کو ایسی بات نہ کیے جو اس کی تکلیف اور دل شکنی کا موجب ہو اور اسے وہ ناگوار گذرے خواہ وہ بات فی نفیسہ کتنی بچی ، ضروری اور اہم کیوں نہ ہو.مثلاً سچائی اور صداقت ہی کو لو اس کا بیان کرنا بھی بعض لوگوں کو سخت ناگوار ہوتا ہے اور وہ پسند نہیں کرتے کہ ان کے عقائد اور خیالات کے خلاف کوئی بات کی جائے بلکہ میں نے دیکھا ہے حکومت کے بعض آفیسرز

Page 613

خطبات محمود ۶۰۸ سال ۱۹۳۲ء بھی اپیل کر دیتے ہیں کہ اگر آپ اپنے مذہبی خیالات کا اظہار نہ کیا کریں تو بہت اچھا ہے.حالانکہ صداقت کے حامل اور سچائی سے بھرے ہوئے مذہبی خیالات کا اظہار تو ایک دوائی ہے اور دوائی بھی شاید کڑوی اور لوگ آسانی اور دلی رغبت سے اسے لینے کے لئے تیار نہیں ہوتے.لیکن کیا محض اس لئے کہ بیمار دوائی کو دلی خوشی اور رغبت سے نہیں پیتا، ڈاکٹر جو اس مریض کی زندگی اس میں دیکھتا ہے وہ دوائی دینا بند کر دے گا.کون عظمند اس کو پسند کرے گا کہ بچے کو رونے سے بچانے کے لئے اسے آگ کے ساتھ کھیلنے دیا جائے.کیا ایسے وقت میں جبکہ بچہ آگ کی طرف جانے کے لئے ضد کرے ایک شفیق باپ اس امر کو مد نظر ر کھے گا کہ بچے کا دل میلا نہیں کرنا چاہئے اور اس کی خواہش کے مطابق اسے آگ میں پڑنے دیا جائے یا وہ بچے کے چیخنے چلانے کے باوجود اس کو آگ کی طرف جانے سے روک دے گا.غرض کچے مذہبی خیالات بھی دنیا کی روحانی بیماریوں کا علاج ہیں.پس دنیاوی ظلمتوں میں گھرے ہوئے اور روحانی اور اخلاقی بیماریوں کے مریضوں کی ناپسندیدگی کے باوجود میں اپنی جماعت کے لوگوں کو کہتا ہوں کہ ان کا فرض ہے کہ وہ یہ مجرب نسخہ ایسے لوگوں کو دیں اور نہ یہ کہ ایک دفعہ دے کر بند کر دیں بلکہ اس عظمند ڈاکٹر کی طرح جو اپنے مریض کو اس وقت تک دوائی دینا بند نہیں کرتا جب تک اسے صحت نہیں ہو جاتی اسی طرح آپ بھی ایسے لوگوں کے کانوں میں اپنے خیالات ڈالتے رہیں یہاں تک کہ ان کو دنیاوی آلائشوں سے پاک وصاف کر دیں.بے شک یہ کام آسان نہیں بلکہ اپنی تحمیل کے لئے ایک قسم کے جنون کو چاہتا ہے.جب تک دیوانہ وار انسان اس کام نہ لگ جائے اور پاگلوں کی طرح اپنے ان خیالات کو جو بچے ہیں پھیلانے میں مشغول نہ ہو جائے اس وقت تک کامیابی نہیں ہو سکتی.دیکھو انبیاء کو ہمیشہ مجنون کہا گیا ہے.اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا واقعی وہ مجنونوں والی باتیں کرتے تھے نہیں بلکہ وہ اپنے مقصد کی کامیابی کے لئے دیوانہ وار لگ جاتے تھے.اور ایسے نڈر ہو کر اور فوق العادت ہمت و استقلال سے تبلیغ کرتے تھے کہ لوگوں کو اچنبہ ہو تا تھا لیکن چونکہ اس حقیقت کی انہیں خبر نہ ہوتی تھی کہ خدا کی مدد سے یہ ایسا کر رہے ہیں اس لئے اس کی کوئی اور توجیہہ نہ پاکر یہ کہہ دیتے تھے کہ مجنون ہے.اگر انبیاء اس جنون سے کام نہ لیتے تو دنیا ہدایت سے محروم رہ جاتی.پس بچے مذہبی خیالات کو پھیلانے کے لئے ایک قسم کے جنون کی ضرورت ہے لیکن ایسی دیوانگی نہیں جو کام کو ہی خراب کر دے بلکہ ایسا جنون جس کے متعلق کہا جائے دیوانہ بکار خویش ہوشیار.ایسے موقع پر مجھے حضرت خلیفہ اول کی زندگی کا ایک واقعہ یاد آجایا کرتا ہے.ایک شخص

Page 614

خطبات محمود سال ۱۹۳۲ء آپ کی مجلس میں آیا.وہ کچھ دنیا وی وجاہت رکھتا تھا.اس وقت اس نے جو شلوار پہنی ہوئی تھی اس کے پہنچے ٹخنوں سے نیچے لٹک رہے تھے.ایک اور شخص جو اس وقت وہاں بیٹھا تھا اور جو مذ ہبی جنون تو رکھتا تھا لیکن ایسا جنون نہیں جو " بکار خویش ہو شیار " ہوتا ہے.اس نے هَذَا فِي النَّارِ کہتے ہوئے اپنی مسواک اس شخص کے ٹخنوں پر ماری اور کیا مسلمان ہو کر اپنے پاجامے کو ٹخنوں سے نیچے لٹکاتے ہو.تمہیں نہیں پتہ ہمارے رسول کریم میں نے اس کی ممانعت کی ہے.وہ شخص مذہب سے بالکل لا پرواہ تھا اور صرف نام کا ہی مسلمان تھا بلکہ اپنے مسلمان کہلانے کو اسلام پر احسان سمجھتا تھا.یہ دیکھ کر وہ اس احسان سے بھی دست بردار ہو گیا اور غصہ سے کہنے لگا کس بے وقوف نے تمہیں بتلایا ہے کہ میں مسلمان ہوں.غرض تبلیغ کے لئے بعض وقت جنون کی بھی ضرورت ہوا کرتی ہے لیکن جیسا میں نے بتلایا وہاں ویسا جنون ہی مفید ہو تا ہے جو مطلب کے وقت کمال ہوشیاری اور عظمندی کو ظاہر کرنے والا ہو.آنحضرت کو لوگ مجنون تو کہتے تھے لیکن یہ دیکھ کر کہ آپ نہایت فرزانگی اور عظمندی کے طریقوں سے تبلیغ کرتے اور اسلام کی طرف بلاتے ہیں کہتے تھے دیوانہ تو ہے لیکن موقع شناس خوب ہے.چنانچہ آپ کی موقع شناسی کا ایک یہ واقعہ بھی احادیث میں آیا ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب آپ کو اطلاع ملی کہ کفار کی طرف سے ایک سردار آرہا ہے تو آپ نے حکم دیا کہ قربانی کے تمام جانور ایک جگہ جمع کرو اور فرمایا اس شخص کو میں جانتا ہوں.مکہ کی عظمت اور عزت ہمیشہ اس کے پیش نظر رہتی ہے.ضرور ہے کہ قربانیوں کی یہ کثرت اس پر اثر انداز ہو.چنانچہ یہی ہوا جب وہ شخص آپ کے ڈیرے پر پہنچاتو اونٹوں کا ایک لمبا سلسلہ دیکھ کر پوچھنے لگا یہ جانور کیسے ہیں.جب اسے بتلایا گیا کہ یہ قربانی کے جانور ہیں تو اس پر بے حد اثر ہوا اور واپس جا کر اپنے ساتھیوں کو کہنے لگا میرا مشورہ یہ ہے کہ ان لوگوں کا تم مقابلہ نہ کرو یہ کعبہ کی بہت عزت کرتے ہیں اور اس کے لئے بہت سی قربانیاں لائے ہیں.اگر تم ان کی مخالفت کرو گے تو میں دیکھتا ہوں کہ خدا کے عذاب میں مبتلاء ہو جاؤ گے.اب دیکھو بظاہر کتنی چھوٹی سی بات تھی لیکن معمولی سی موقع شناسی نے کتنا اہم نتیجہ پیدا کر دیا اور اس میں جھوٹ بھی کوئی نہیں تھا واقعی وہ تمام قربانی کے جانور تھے.صرف ان کو اکٹھا کر دیا گیا تھا.غرض تبلیغ کے لئے عقلمندی میں ڈوبے ہوئے جنون کی ضرورت ہے.اور جہاں عقائد کی اشاعت کا سوال ہو وہاں اس مغربی تہذیب کے زیر اثر کہ شاید ہمارے اظہار حق سے اس شخص کا دل میلا ہو، اس کی اشاعت سے رُک نہیں جانا چاہئے.کیونکہ اگر ایسے موقعوں پر ہم اپنے عقائد کو

Page 615

خطبات محمود 41.سال ۱۹۳۲ ء پھیلانے سے رک گئے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ جو امانت خداتعالی نے ہمیں دی ہے وہ تمہارے ساتھ ہی چلی جائے گی.اور اس طرح اس شخص کے ساتھ ہم بھلائی کرنے کی بجائے دشمنی کرنے والے ٹھہریں گے.پس اپنے بچے خیالات کی اشاعت کے لئے ایک طرف جنون ہونا چاہیئے اور دوسری اس چیز کی بھی ضرورت ہے کہ مزاج دیکھ لیا جائے.یعنی یہ نہیں خیال کرنا چاہئے کہ تبلیغ تو کرنے لگا ہوں کہیں اس شخص کا دل میلا نہ ہو جائے.بلکہ یہ سوچنا چاہئے کہ آیا میری اس وقت اور اس طرح کی تبلیغ کہیں اس کو ہدایت سے بالکل ہی تو محروم نہیں کر دے گی جس طرح بے موقع اور نا مناسب طور پر مسواک مارنے پر وہ شخص ظاہری طور پر مسلمان کہلانے سے بھی انکار کر بیٹھا تھا.پس میں دیوانگی اور فرزانگی ہر دو چیزوں کی پہلو بہ پہلو ضرورت ہے.نہ تو عقلمندی کے ماتحت مصلحت ہی مصلحت ہمارے پیش نظر ہو اور نہ ہی مخفی جنون کے پیچھے چل کر یہ ہونا چاہئے کہ دو کرنے کا فائدے کی بجائے نقصان ہو جائے.الفضل ۲۹ نومبر ۱۹۳۲ء)

Page 616

سال ۱۹۳۲ء ۶۱۱ (71 دعوت الی اللہ (فرموده ۲۱- اکتوبر ۱۹۳۲ء) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.آٹھ اکتوبر کو مجلس شوری کے فیصلہ کے مطابق تمام جماعت نے تبلیغ کے لئے ہر فرد جماعت سے کام لیا یا یوں کہو کہ جماعت نے جہاں تک اس سے ممکن ہو سکا اپنے افراد سے کام لیا کیونکہ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ ساری کی ساری جماعت یا تمام افراد نے کام کیا لیکن جو رپورٹیں ابھی تک مجھے پہنچ سکی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ معتد بہ حصہ نے کم سے کم پنجاب کی جماعتوں کے معتد بہ حصہ نے کام کیا ہے کیونکہ بیرون جات کی رپورٹیں ابھی مجھے نہیں مل سکیں اور میں نہیں کہہ سکتا کہ انہوں نے کس رنگ اور کس اسلوب پر کام کیا.مگر پنجاب میں اپنے افراد سے کام لینے کی کوشش جماعتوں نے ضرور کی ہے.تبلیغ کا جو مادی نتیجہ نکل سکتا ہے وہ لوگوں کی بیعت ہے.مگر ایک دن کی تبلیغ در حقیقت بہت سوں کی بیعت کا موجب نہیں ہو سکتی.ہاں وہ لوگوں کے دلوں میں سلسلہ احمدیہ کی باتیں سنے کا احساس پیدا کرنے کا موجب ہو سکتا ہے.اس امر کا اندازہ لگانے میں مدد دے سکتی ہے کہ عام لوگوں میں ہمارے متعلق کس قسم کے خیالات پائے جاتے ہیں اس بات کا اندازہ لگانے میں محمد ہو سکتی ہے کہ وہ لوگ جو ابھی تک داخل سلسلہ نہیں ان میں ہمارے لئے کس حد تک زمین تیار ہو چکی ہے پھر اس امر کا اندازہ کرنے میں مدد دے سکتی ہے کہ ہمارے اپنے افراد نے کس حد تک سلسلہ کی معلومات حاصل کی ہیں اور انہیں کس رنگ میں استعمال کرنے کی قابلیت وہ اپنے اندر پیدا کر چکے ہیں.پھر اس سے ہم یہ بھی اندازہ کر سکتے ہیں کہ جماعت کے لوگ سلسلہ کے لئے کس حد تک قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں پھر یہ ہمیں اس بات کا اندازہ لگانے میں

Page 617

خطبات محمود ۶۱۲ سال ۱۹۳۲ء بھی مدد دے سکتی ہے کہ ہم اپنے اخلاق کو سلسلہ کی تعلیم کے مطابق کہاں تک اپنے قبضہ تصرف میں لے آئے ہیں کیونکہ تبلیغ کی سعی کے وقت بہت سی گالیاں بھی سننا پڑتی ہیں اور بہت دفعہ حقارت کا سلوک بھی دیکھنا پڑتا ہے.پس یہ تبلیغ کادن در حقیقت اس قدر مادی اور ظاہری نتائج کو مد نظر رکھ کر مقرر نہیں کیا گیا تھا جسقدر کہ علمی اور اخلاقی نتائج کی اس سے امید کی جاسکتی ہے.اب مخالفوں کے دل یہ بات جان چکے ہیں کہ احمدیت ایک تناور درخت ہے جسکی شاخیں اگر ایک طرف آسمان تک پہنچ چکی ہیں تو دو سری طرف زمین کے دور دراز خطوں کو اپنے سایہ میں لینے کے لئے دائیں بائیں اور آگے پیچھے بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہیں.مخالفوں کے دل سمجھ چکے ہیں کہ احمدیت ایک ایسا درخت ہے جسے انسانی ہاتھوں نے نہیں بویا بلکہ خود اللہ تعالی کا ہاتھ اس کا بونے والا ہے.تا اس کے بندے جو شدید دھوپ سے تکلیف اٹھا رہے تھے اس کے فضل کے سایہ سے محروم نہ رہیں.اور اس سایہ میں آکر اپنے رب کی نعمتوں سے لذت حاصل کر سکیں.لیکن جس طرح پہلے آدم کے زمانہ میں باوجود یہ جاننے کے کہ خدا تعالٰی نے اسے ایک بڑے مقصد کے لئے پیدا کیا ہے اس مقصد کے حصول کے لئے اسے بہت سے علوم بخشے ہیں اور اللہ تعالٰی کا منشاء ہے کہ اس عالم با عمل کی اطاعت کی جائے ابلیس نے اسکی فرمانبرداری اور اس کے ساتھ تعاون سے انکار کیا اسی طرح ہمارے مخالفوں نے بھی باوجود یہ جاننے کہ وہ خدا کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور یہ سمجھتے ہوئے کہ اسلام کی ترقی اسی سلسلہ کی ترقی سے وابستہ ہے فیصلہ کیا کہ اس مبارک سعی کے رستہ میں روکیں ڈالیں اور جہاں تک ان کا بس چلا انہوں نے ہمارے رستے میں مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن جس غرض کو پورا کرنے کے لئے یہ دن مقرر کیا گیا تھا اس وقت تک جس حد تک نتائج میرے سامنے آئے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بہت حد تک پوری ہو چکی ہیں اور مخالفوں کی مخالفت ہمارے رستہ میں روک بننے کی بجائے کھاد کا موجب ہوئی ہے.بعض دوستوں نے لکھا اور بعض نے بیان کیا ہے کہ جن لوگوں کے پاس جا کر ہم نے دس پندرہ منٹ صرف اپنی آمد کی غرض بتانے میں صرف کرنے تھے انہوں نے دیکھتے ہی کہہ دیا اچھا آپ آج ہمیں تبلیغ کرنے کے لئے آئے ہیں ہم تو پہلے ہی سمجھتے تھے کہ آپ نے ہمیں چھوڑنا نہیں اچھا آئیے سنائیے.گویا اس مخالفت سے وہ ہزاروں لاکھوں آدمی جن تک ہماری آواز پہنچنا مشکل تھی یا جن کے گھروں پر جا کر دس پندرہ منٹ اپنی آمد کی غرض سمجھانے میں ہمیں صرف کرنے پڑتے انہیں مخالفوں کی آواز نے پہلے ہی

Page 618

خطبات محمود ۶۱۳ سال ۱۹۳۲ء EL تیار کر دیا."زمیندار " حریت " اور مولوی ثناء اللہ صاحب وغیرہ معاندین نے انہیں بتادیا کہ فلاں تاریخ کو احمدی تمہارے پاس آئیں گے ان کے پاس وقت چونکہ تھوڑا ہے، اس لئے اسے ضائع نہ کرنا.ان کی آمد کی غرض ہم تمہیں بتائے دیتے ہیں اور اس طرح وہ ہزار ہا گھنٹے جو احمد یوں کے اپنے آنے کی تمہید میں ضائع ہونے تھے بچ گئے.پھر کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں کیونکہ خدا تعالی نے مختلف طبائع پیدا کی ہے کہ انہیں جس کام سے روکا جائے وہ کہتے ہیں اسے ضرور کریں گے.اور مسلمانوں میں بھی ایسی طبائع کے لاکھوں آدمی ہوں گے اس لئے مخالفوں کے طرف سے بار بار یہ تاکید ہونے پر کہ احمدیوں کی بات نہ سنتا انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ ضرور سنیں گے.پھر کئی ایسے ہوتے ہیں کہ مخالفت کا جتنا شور بلند ہو اتنی ہی زیادہ بیداری ان کے اندر پیدا ہوتی ہے.ایسے لوگ اپنے علماء کی مخالفت تو نہیں کرتے مگر تماشہ دیکھنے کے شائق ضرور ہوتے ہیں.وہ اسے ایک تماشہ سمجھتے ہیں اور کو قریب نہیں آتے مگر دور سے جھانکتے رہتے ہیں.ایسے لوگ بھی بالآخر قابو آجایا کرتے ہیں کیونکہ اگر تماشہ دلچسپ ہو تو دور سے جھانکنے والے آہستہ آہستہ قریب آجاتے ہیں اور کسی چیز کے خوشگوار نتائج دیکھ کر کسی نہ کسی بہانہ سے اس کے پاس پہنچ جاتے ہیں.میں نے ۱۱- ۱۲ سال کی عمر میں اس عمر کے مطابق ایک رڈیا دیکھا تھا جو یہ ہے کہ اس بازار میں جو اب احمد یہ بازار کہلاتا ہے کبڈی ہو رہی ہے.ایک طرف احمدی اور دوسری طرف غیر احمدی ہیں جن کے لیڈر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ہیں.کبڈی وہ ہے جسے پنجابی میں جھل کہتے ہیں.ان کی طرف سے جو آدمی کبڈی دینے آتا ہے ، احمدی اسے پکڑ لیتے ہیں.اس کا دم ٹوٹ جاتا اور وہ بیٹھ جاتا ہے.یہاں تک ان کی طرف صرف مولوی محمد حسین صاحب رہ گئے.اور باقی سب احمدیوں نے پکڑ کر بٹھالئے.کبڈی کا میدان وہ تھا جہاں ایک طرف مدرسہ احمدیہ کی دیوار اور دو سری طرف دکانیں ہیں.آخر مولوی محمد حسین صاحب اکیلے رہ گئے.تو جس طرح بچے آنکھ مچولی کھیلتے وقت دیوار کے ساتھ مونہہ رکھ کر دائیں بائیں ہاتھ رکھ دیتے ہیں اسی طرح مولوی صاحب نے رکھ بھی دیئے.اور پہلو پر چلنا شروع کر دیا حتی کہ جب حد فاصل پر پہنچ گئے تو کہنے لگے اچھا سارے آگئے ہیں تو ہم بھی آجاتے ہیں.مولوی محمد حسین صاحب مخالفوں کے سردار اور رئیس تھے اور خواب میں سردار اور رئیس سے مراد بسا اوقات ان کے نائب ہوتے ہیں.یوں تو مولوی محمد حسین صاحب کے دل میں بھی آخر وقت میں صداقت بیٹھ گئی تھی وہ ملتے بھی رہتے تھے اور پیغام وغیرہ بھی بھیجتے رہتے تھے.لیکن اگر اس کی عام تاویل کرائی جائے تب ان سے مراد ان

Page 619

خطبات محمود سال ۱۹۳۲ء کے قائم مقام اور نائب ہوں گے.اور مولوی محمد حسین صاحب کو ایمان نصیب ہونے کے یہ معنی ہوں گے کہ ان لوگوں کو بھی ہدایت مل جائے گی جو دوسروں کو راہ صداقت سے روکتے ہیں.بہر حال مخالفوں کی مخالفت نے بھی میں فائدہ ہی پہنچایا ہے.اور میں سمجھتا ہوں اگر یہ نہ ہوتی تو شاید ہماری تبلیغ اس سے آدھی بھی نہ ہو سکتی جتنی کہ اب ہوئی ہے.اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ بعض احمد یوں نے جو شاید عام حالات میں ستی دکھاتے جب سنا کہ مخالف کہہ رہے ہیں کہ وہ ہماری باتوں کو نہیں سننے دیں گے.تو ان کے دل میں بھی جوش پیدا ہوا کہ ہم بھی تبلیغ کریں گے.جماعت میں بیداری اور دوسروں میں دلچسپی پیدا ہوئی اس کے نتیجہ میں بیعتیں بھی ہو ئیں اور بہت سے لوگوں نے بیعت کی.مگر میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت بیعت اپنی ذات میں مقصود نہ تھی بلکہ اس کے اصل نتائج دو چار ماہ تک انشاء اللہ تعالٰی نکلیں گے.اس سے ایک طرف تو جماعت میں بہاری ہوگی اور زیادہ تبلیغ کا شوق بڑھے گا.اگر کسی کو مخالفوں کے سامنے ندامت اٹھانی پڑی ہے تو وہ آئندہ کے لئے مطالعہ کر کے اپنی قابلیت بڑھائے گا اور جنہیں کامیابی ہوئی ان کے حوصلے بڑھ گئے ہیں وہ اور زیادہ جوش سے کام کریں گے.غرضیکہ بہت سے فوائد حاصل ہوں گے اور کچھ تازہ تازہ پھل بھی مل گئے ہیں.اس سے جماعت میں ایک عام احساس پیدا ہو گیا ہے کہ ہم سے پہلے سستی ہوئی ہے اور آئندہ زیادہ توجہ سے وہ کام کریں گے.بعض نے وعدہ کیا ہے کہ وہ با قاعدہ ٹریکٹ شائع کیا کریں گے.غیر احمدیوں کی طرف سے ہمارے مبلغوں کو جو جواب ملے وہ بھی بعض صورتوں میں حوصلہ افزا ہیں.کئی لوگوں نے انہیں آتے دیکھ کر کہا کہ ہم پہلے ہی انتظار میں تھے اور دروازے کھول کر آپ کی آمد کے منتظر بیٹھے تھے.بعض جگہ لطائف بھی ہوئے.ایک جگہ ایک مولوی صاحب نے لوگوں سے کہا کہ اپنے دروازے بند رکھو تا کوئی احمدی تمہارے ہاں نہ آسکے.لوگوں نے تو کیا بند کرتے تھے البتہ وہ خود دروازہ بند کر کے بیٹھا رہا اور جو بھی آکر اس کا دروازہ کھٹکھٹاتا وہ یہ سمجھ کر کہ کوئی احمدی آیا ہے اندر سے گالیاں دینے لگ جاتا.آخر ایک احمدی جو وہاں مدرس ہیں اس کے مکان پر گئے اور آواز دی اس نے آواز پہچان کر کہا معاف کرنا آج تو تمام دن آپ کے احمدیوں نے ستامارا ہے.میں سمجھتا ہوں ایک چوک ہوئی.ہماری لاہور کی جماعت کے دوستوں کو چاہئے تھا کہ سب سے پہلے تبلیغی وفد زمیندار اور حریت کے دفتر بھیجتے.دوست جو صبح ہی صبح ان کے ہاں پہنچ جاتے اور کہتے ہم اس لئے آئے ہیں کہ آپ نے آج ہمارے خلاف جلسہ کر کے تقریریں کرنی ہیں.پہلے

Page 620

خطبات محمود ۶۱۵ سال ۱۹۳۲ء آپ ہمارے خیالات سن لیں اور ان میں جو بات آپ کو قابل اعتراض نظر آئے اس پر بے شک اعتراض کریں.لاہور کے دوستوں کو چاہئے تھا کہ پہلے تبلیغ ان ہی لوگوں سے شروع کرتے.جیسا کہ میں نے ڈلہوزی کے ایک خطبہ میں بیان کیا تھا تبلیغ کے لئے تھوڑی سی دیوانگی بھی ضروری ہے.کوئی نبی دنیا میں ایسا نہیں آیا جسے دیوانہ نہ کیا گیا ہو اور جب ہم نے ان کا ورثہ پایا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمیں دیوانہ نہ کہا جائے.دیوانگی ہی دراصل حقیقی فرزانگی عطا کرتی ہے اور جنون ہی اللہ تعالیٰ کی محبت کو کھینچتا ہے.یہ ایک قسم کی دیوانگی ہی ہے کہ ایسے شدید دشمنوں کے پاس انسان تبلیغ کے لئے جائے جو ممکن ہے ماریں یا کوئی جھوٹا مقدمہ ہی بنا دیں.مگر بہر حال یہ دیوانگی ایسی ہوتی ہے کہ دوسروں کے دلوں میں بھی بیداری پیدا کرتی ہے.بعض جگہ دوسرے لوگوں سے دیوانگی ہوئی جو ہمارے لئے فائدہ کا موجب بن گئی.ایک جگہ ہمارے آدمی گئے تو ان میں سے ایک نے اس مکان میں جہاں وہ جا کر بیٹھے باہر سے کنڈی لگادی تا دوسرے لوگ آکر ان کی باتوں کو نہ من سکیں.لیکن اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ان کے اپنے پانچ سات آدمی جو وہاں پہلے موجود تھے ، ان کو خوب تبلیغ کی گئی.کنڈی باہر سے لگی رہی اور وہ مجبور انبیٹھے سنتے رہے.میں سمجھتا ہوں اس وقت کی تبلیغ بھی زیادہ موثر ہوئی ہوگی.اگر ہمارے آدمی کی طرف سے کنڈی لگائی جاتی تو ان پر اور قسم کا اثر ہو تا.وہ اسے شرارت پر محمول کرتے اور بھڑک جاتے.لیکن جب ان کے اپنے آدمی کی طرف سے ایسا ہوا تو ہمارے مبلغین پر غصہ نہیں ہو سکتے تھے بلکہ ان سے گونہ ہمدردی پیدا ہوئی ہوگی.تو کچھ دیوانگی ہم سے بھی ہونی چاہئے تھی اور وہ یہ کہ شدید مخالفوں کے گھروں میں جاتے.مثلا مولوی ظفر علی ، مولوی ثناء اللہ مولوی اشرف علی تھانوی وغیرہ اور ایسے مخالفوں کے مکانوں پر پہنچ کر انہیں تبلیغ کرتے.لیکن بہر حال اس سے جو نتائج نکلے ہیں وہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ بہت ہی مفید چیز ہے.فی الحال یہ مشورہ تو قابل قبول نہیں کہ ماہوار یا سہ ماہی ایسا انتظام کیا جائے لیکن ششماہی ضرور ہونا چاہئے.ہمیں اللہ تعالٰی نے دو عیدیں دی ہیں اور ان دونوں کے مقابلہ میں شکریہ کے طور پر دو تبلیغی دن ہونے چاہئیں.خدا تعالیٰ جب ہمیں عید دیتا ہے تو میں بھی چاہئے کہ اس کے بدلہ میں اس کے بھولے بھٹکے بندوں کو راہ راست دکھا ئیں.اور اپنے عمل سے ظاہر کریں کہ تو نے ہم پر رحم فرمایا اور خوشی بخشی ہے اس کے بدلہ میں ہم تیرے گمراہ بندوں کو تیرے دربار میں حاضر کرنے کی کوشش کرتے ہیں.پس میرا منشاء ہے کہ ایک دن مارچ اپریل یا مئی میں مشورہ کے بعد مقرر کیا جائے جبکہ زمینداروں کو وقت نہ ہو.پہلے بھی اگر چہ مشورہ کیا گیا تھا اور

Page 621

1 خطبات محمود ۶۱۶ سال ۱۹۳۲ء مشاورت کے وقت زمینداروں کے نمائندے بھی موجود تھے لیکن پھر بھی انہیں شکایت ہے کہ یہ ان کے بے حد مصروفیت کے دن تھے.اس لئے آئندہ کے لئے مشورہ سے ایسا دن مقرر کیا جائے گا جب زمیندار بھی فارغ ہوں کیونکہ ہمارے زمیندار تو پھر بھی قربانی کرلیں گے لیکن سننے والے نہیں کر سکتے.پس فی الحال میں اس دن کی کامیابی پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ سال میں دو دن تبلیغ کے لئے مقرر کئے جائیں.اس سے جماعت میں سے بھی سستی دور ہو جائے گی اور جلسہ پر جس طرح سینکڑوں لوگ بیعت کرتے ہیں اور اگر ان کے بیوی بچوں کو شامل کر لیا جائے تو یہ تعداد ہزاروں تک پہنچ جاتی ہے.اسی طرح کچھ عرصہ کے بعد ان دنوں کے نتائج بھی ایسے نکلنے لگ جائیں گے کہ یہ بھی ایام بیعت کہلانے لگیں گے.اور ان میں جماعت میں کافی ترقی ہونے لگ جائے گی حتی کہ خدا کے فضل سے ہم ایسے مقام پر پہنچ جائیں گے کہ ہماری ہر ترقی ہماری طاقت میں نمایاں اضافہ کرنے والی ہوگی.جیسے بچہ یوں تو ترقی کرتا ہی ہے لیکن اڑھائی تین سال کی عمر میں پہنچ کر اس میں نمایاں ترقی ہونے لگتی ہے اسی طرح ۱۱- ۱۲ سال کی عمر پر پہنچ کر اور ۱۹ ۲۰ سال کی عمر میں اور زیادہ نمایاں ترقی ہو جاتی ہے.ہمارے لئے بھی نمایاں ترقی کے دن قریب آئے ہوئے ہیں اور میرے نزدیک ہمیں چاہئے کہ اس وقت کو ضائع نہ کریں بلکہ کوشش کر کے اللہ تعالٰی کے فریضہ یعنی تبلیغ کو ادا کر کے اس کے فضلوں کے وارث بنیں.تا ان نعمتوں سے جو اس نے اپنے بندوں کے لئے مخصوص کر رکھی ہیں ہم محروم نہ رہ جائیں.الفضل ۲۷- اکتوبر ۱۹۳۲ء)

Page 622

خطبات محمود 416 72 سال ۱۹۳۲ء اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کی سعادت حاصل کرو حضرت مولوی عبد الستار صاحب افغان کا ذکر خیر (فرموده ۲۸- اکتوبر ۱۹۳۲ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.سورہ فاتحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کے انعامات اور اس کی ہدایت ہمیشہ اس قوم کے ساتھ وابستہ رہتی ہے جو شرک سے مجتنب اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہے اور جس کا تو کل کلی طور پر خدا تعالی کی ذات پر ہو.اس کی طرف سورہ فاتحہ میں اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نستعين کہہ کر اشارہ کیا گیا ہے.اس آیت میں ایاک نَعْبُدُ پہلے رکھا گیا ہے اور بتایا کہ کامل عبادت اللہ تعالی ہی کی بجالانی چاہئے اور پھر ايَّاكَ نَسْتَعِينُ سے یہ بتایا کہ کامل تو کل بھی اسی کی ذات پر ہونا چاہئے.ان دونوں باتوں یعنی کامل عبادت اور کامل توکل کے نتیجہ کے طور پر فرمایا مومن کہتا ہے اِهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ یعنی جب مه میں اس طرح تیری عبادت کرتا ہوں جو توحید پر قائم ہونے کا مفہوم اپنے اندر رکھتی ہے اور جب میں تجھ ہی سے مدد طلب کرتا ہوں جو تو کل کا مقام ہے تو اب میرا حق ہے کہ میں تجھ سے درخواست کروں کہ مجھے وہ راستہ دکھا جو انعام والوں کا ہے اور جس پر چل کر تیرے حضور پہلے لوگ انعام حاصل کر چکے.ان آیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک کسی جماعت میں اِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِین کا مادہ باقی رہے، اس کا حق ہوتا ہے کہ وہ خدا سے یہ بھی کہتی رہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ اور پھر اس دعا کے نتیجہ

Page 623

خطبات محمود YIA سال ۱۹۳۲ء میں خداتعالی اس میں ایسے لوگ بھی پیدا کرتا رہتا ہے جو ان انعامات کے جاذب ہوتے ہیں.یہ انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ والے لوگ کون ہیں.اللہ تعالی نے اس مسئلہ کو اس زمانہ میں ایسا کھولا ہے کہ ہماری جماعت کا بچہ بچہ اس سے واقف ہے.سورہ نساء میں بتایا گیا ہے کہ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ سے مراد امت محمدیہ کے ایسے افراد ہیں جو رسول کریم می علم کی کامل متابعت اور فرمانبرداری کی وجہ سے نبوت صدیقیت ، شہیدیت اور صالحیت کے مقام پر پہنچیں یا جیسا کہ قرآن مجید کی بعض اور آیات سے ثابت ہے اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالی کا کلام نصیب ہو اور جو وحی اور کشوف کی نعمت سے متمتع ہوں.غرض جب تک کسی قوم میں وحی الہام اور کشوف کا سلسلہ جاری رہتا ہے یہ دلیل ہوتی ہے اس بات کی کہ وہ قوم اتناكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ پر عمل کر رہی ہے.اور جب کسی قوم سے سلسلہ وحی و الہامات اور کشوف بند ہو جائے تو یہ دلیل ہوتی ہے اس بات کی کہ اس قوم سے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کہنے اور اس پر عمل کرنے والے مٹ گئے.پس جب کوئی قوم یہ کہتی ہے کہ ہم میں سے کسی کو الہام نہیں ہو سکتا یا ہوا کرتا تھا مگر اب نہیں ہو سکتا تو اس کی ایک ہی وجہ ہوگی اور وہ یہ کہ اس کے دلوں سے توحید مٹ چکی عبادت مٹ چکی اور تو کل بھی جاتا رہا کیونکہ توحید کے ساتھ اگر عبادت اور استعانت ہو تو اس کا لازمی نتیجہ الہام ہوتا ہے اور جب کوئی شخص کامل توحید پر قائم ہو گا اور کامل عیادت بھی بجالائے گا تو یقینا وہ وحی اور الہام کا بھی مورد ہو جائے گا.اس زمانہ میں یہ نعمت بہت کچھ مٹ گئی تھی اور قریب قریباً اس کا نام و نشان تک جاتا رہا تھا یہاں تک کہ مسلمانوں میں عام طور پر یہ خیال پایا جاتا تھا کہ وحی اور الہام کا دروازہ بند ہو چکا اور اگر بعض ان میں سے کھلا مانتے بھی تھے تو اس طرح کہ اس کا مانانہ ماننا برابر تھا.جیسے نیچریوں کا عقیدہ ہے کہ دل کے خیال کا نام ہی الہام ہے.خواب چونکہ بچے کے علاوہ جھوٹے بھی اکثر لوگوں کو آتے ہیں اس لئے خوابوں پر لوگوں کا یقین قائم ہے.مگر الہامات کاوہ اس لئے انکار کر چکے کہ جھوٹا الہام ذرا کم ہوتا ہے کیونکہ جس دماغی کیفیت کے ماتحت جھوٹا الہام ہوتا ہے وہ لوگوں میں کم پائی جاتی ہے اور جب تک دماغ زیادہ خراب نہ ہو جھوٹے الہام نہیں ہو سکتے.مگر خوا ہیں تو ایسی چیز ہیں کہ ذرا زیادہ پیٹ بھر کر کوئی کھائے تو خواب آنے شروع ہو جاتے ہیں.ہمارے ملک میں بھی عام مشہور ضرب المثل ہے کہ "ہلی کو چھیچھڑوں کے خواب ".یہ نہیں کہتے کہ بلی کو چھچھڑوں کے الهام - میرا یہ مطلب نہیں کہ لوگوں کو جھوٹے الہام نہیں ہوتے.ایسے الہام بھی لوگوں کو ہوتے بهار

Page 624

خطبات محمود 419 سال ۱۹۳۲ء ہیں مگر جب تک کوئی شخص پاگل نہ ہو جائے یا دماغ میں زیادہ خرابی پیدا نہ ہو اس کیفیت سے وہ ناواقف رہتا ہے.لیکن خوابیں ایسی عام چیز ہیں کہ ذرا کھانا زیادہ کھالیا تو مختلف نظارے دکھائی دینے شروع ہو گئے.تیز بخار ہو جائے تو اس میں بھی بعض نظارے نظر آجاتے ہیں.اور ہمار املک چونکہ گرم ہے اس میں سڑاند زیادہ پھیل جاتی ہے اور ملیریا وغیرہ بخاروں کے کیس زیادہ ہوتے رہتے ہیں اس لئے ان بخاروں کی وجہ سے بھی لوگوں کو اکثر خوابیں آتی رہتی ہیں.اس کے مطابق جب انہیں خوابیں آتی ہیں تو وہ خیال کرتے ہیں کہ اسی طرح نبیوں کو بھی خواہیں آجایا کرتی ہوں گی.مگر وہ یہ نہیں سوچتے کہ ان کو تو ویسے ہی خواب آتے ہیں جیسے بلی کو چھیچھڑوں کے.لیکن انبیاء کی خواہیں ایک اور چیز ہوتی ہیں.مگر بہر حال اتنا وہ ماننے کے لئے تیار ہوتے ہیں کہ انبیاء کو خواہیں آسکتی ہیں.لیکن چونکہ ان کے کان آوازوں سے آشنا نہیں ہوتے اور ملائکہ کی آواز تو انہوں نے کیا سنی ہے کبھی ان کے کان بھی نہیں بجتے کیونکہ اتنے مجنون وہ ہوتے نہیں کہ انہیں اس قسم کی آواز میں سنائی دینی شروع ہو جائیں.اس لئے وہ کہتے ہیں کہ الہام ہر گز نہیں ہو سکتا.ورنہ اگر انہیں بھی کوئی الهامی آواز سنائی دیتی یا جیسے بد خوابی یا بیماری کی وجہ سے اکثر خواب آتے ہیں اسی طرح اگر ایسا ہو تاکہ ذرا نزلہ ہوا اور وہ آوازیں آنی شروع ہو گئیں.تو وہ اپنی حالت پر قیاس کر کے کہتے کہ ہاں نبیوں کو بھی الہام ہو تا ہو گا.غرض خوابوں کی کثرت اور الہامات کی قلت کی وجہ سے لوگوں کا خوابوں پر تو ایمان رہا مگر الہام کے نزول پر سے ان کا اعتقاد جاتا رہا.نتیجہ یہ ہوا کہ جب مسلمانوں میں روحانی بعد پیدا ہوا اور ان پر ظلمت اور تاریکی چھا گئی تو وہ کہنے لگ گئے کہ اب الہام ہو ہی نہیں سکتا.اور اگر کہیں اپنے بزرگوں کی کتابوں میں لکھا ہوا دیکھتے کہ الہام ہو سکتے ہیں تو وہ اس کی تاویل کر دیتے لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا عظیم الشان فضل ہے کہ اس نے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرما کر نہ صرف الہام کا علم ہمیں عطا فرمایا بلکہ الہام سے حصہ بھی دیا حصہ دینا تو بہت بڑا فضل ہے.میں کہتا ہوں صرف دلوں میں الہام کی امید پیدا کر دینا بھی بڑی چیز ہے.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل دنیا کو یہی نعمت مل جاتی کہ لوگ یقین کر لیتے کہ الہام الہی ہو سکتا ہے اور کہ یہ دروازہ روحانی ترقی کرنے والوں کے لئے ہمیشہ کھلا ہے تو یہی بڑی بات تھی.لوگ کہتے کہ دنیا امید پر قائم ہے آج اگر ہم یہ نعمت حاصل نہیں کر سکے تو کیا ہوا کل حاصل کرلیں گے.ہم نہیں تو اور لوگ حاصل کرلیں گے اور اگر اس زمانہ کے لوگوں کو الہام الہی سے حصہ نہ بھی ملتا تب بھی لوگ کہتے کہ خدا نے دروازہ تو کھلا رکھا 4.

Page 625

سال ۱۹۳۲ء خطبات محمود ۶۳۰ ہوا ہے.ہم نہیں تو اگلی نسلیں کوشش کر کے اس میں داخل ہو سکیں گی.ان اللہ تعالی نے اپنے فضلوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ہم پر مکمل کیا.اور نہ صرف ہمیں اس یقین اور امید پر قائم کر دیا کہ الہام ہو سکتے ہیں بلکہ اس نے ہماری جماعت میں سے سینکڑوں آدمیوں کے دلوں پر وحی اور الہام نازل کر کے مشاہدہ بھی کرا دیا کہ یہ دروازہ کھلا ہے جن لوگوں کو اس دروازہ سے گزرنے کا موقع ملا اور جنہوں نے اس شیرینی کو چکھا وہ جانتے ہیں کہ ایسے لوگوں کی کیفیت اس قسم کی ہو جاتی ہے کہ لوگ انہیں وہی کہتے ہیں.وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ایک طالب علم جو رات دن اپنے استاد کے پاس بیٹھا رہتا ہے اور وہ جو باہر پھرتا رہتا ہے ان دونوں میں فرق ہوتا ہے.پاس بیٹھنے والے طالب علم سے جب کوئی بات پوچھو تو وہ فورا کہے گا کہ میں اپنے استاد سے پہلے پوچھ لوں لیکن اگر دوسرے طالب علم سے سوال کرو تو وہ خود بخود اپنی عقل سے جواب دیتا چلا جائے گا.کیونکہ اس کے پاس منبع علم موجود نہیں یہی حال ان لوگوں کا ہوتا ہے یہ و ہی اس لئے کہلاتے ہیں کہ ان کے پاس منبع علم موجود ہوتا ہے.اور جب ان سے کوئی بات پوچھی جائے تو کہیں گے اچھا ہم دعا کر لیں استخارہ کرلیں پھر کچھ بتائیں گے.اسی لئے انبیاء کو بھی لوگ ہمیشہ وہی اور پاگل کہتے آئے.اب بظاہر کتنا فرق نظر آتا ہے کہ ایک عام شخص سے جب کوئی بات پوچھی جائے تو وہ کہہ دے کہ یقینا یہ فائدہ مند بات ہے اور یقینا اس کے کرنے سے یہ نتیجہ نکلے گا اور وہ نہایت وثوق اور یقین کے ساتھ کہے کہ میری یہی رائے ہے.لیکن خدا تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے سے جب پوچھا جائے گا تو وہ کہے گا کہ میری رائے کیا ہو سکتی ہے میں دعا اور شخص استخارہ کروں گا.پھر جو اللہ تعالیٰ بتلائے گا کہہ دوں گا.بظاہر ان دونوں کے پاس جانے والا کہے گا میں پہلے کے پاس گیا تو اس نے صاف صاف مجھے اپنی یقینی رائے جلا دی.لیکن جب میں دوسرے کے پاس گیا تو وہ کہنے لگا میں کسی اور سے پوچھ لوں پھر بتاؤں گا.وہ خیال کرے گا کہ شاید دوسرے کے پاس قوت فیصلہ کم ہے.حالانکہ وہ نہیں سمجھتا کہ حقیقی قوت فیصلہ کی کنجی اسی کے پاس ہے.اور یہ جب چاہتا ہے اسے لگا کر معلوم کے خزانے کھول لیتا ہے.لیکن پہلے کے پاس سوائے اٹکل پچو باتوں کے اور کچھ نہیں اسی لئے وہ اپنی عقل سے کام لیتا ہے.پس جسے ایک دفعہ یہ لذت حاصل ہو جاتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کی راہ نمائی کی جاتی ہے وہ ہر موقع پر اس خیال کے ماتحت کہ نہ معلوم اللہ تعالیٰ کی رضامندی کسی امر میں ہے دعا اور استخارہ سے کام لیتا ہے.اور ایسا آدمی دعاؤں کی طرف بہت راغب ہوتا ہے.کیونکہ وہ جس نے ایک دفعہ دروازہ

Page 626

خطبات محمود سال ۶۱۹۳۲ کھٹکھٹایا اور اس کے لئے دروازہ کھولا گیا وہ تو ہر دفعہ دروزاہ کھٹکھٹائے گا.لیکن وہ جس نے دروازہ تو کھٹکھٹایا لیکن اس کے لئے دروازہ کھولا نہ گیا وہ دوبارہ کھٹکھٹانے کا خیال بھی دل میں نہیں لائے گا.پس اس کی امید نے چونکہ مشاہدے کی صورت اختیار کرلی ہے اس لئے یہ ہر وقت امید سے بھرا رہتا ہے اور اسے اللہ تعالیٰ پر غیر معمولی ایمان پیدا ہو جاتا ہے.پس الہام اور وحی ایسی چیزیں ہیں جو انسانی قلب میں وثوق اور یقین پیدا کرتی ہیں.اور جب یہ لذت کسی انسان کو حاصل ہو جاتی ہے تو وہ کسی اور لذت کی پرواہ نہیں کرتا.اور جیسا یقین اپنے اوپر نازل ہونے والی وحی اور الہام پر رکھتا ہے اور کسی پر نہیں رکھتا.خواہ وہ اس کے دوستوں کی عقل بلکہ ان کا مشاہدہ ہی کیوں نہ ہو.ہماری جماعت کو وحی اور الہام کی نعمت اور یہ مشاہدہ کی برکت ایسی ملی ہے جس کی جتنی بھی ہم لوگ قدر کریں کم ہے.مگر مجھے افسوس ہے کہ ہماری جماعت کا ایک طبقہ ایسا ہے جو اب اس نعمت کے حصول سے بالکل غافل ہو رہا ہے ہزار ہا آدمی ہماری جماعت میں ایسے ہیں جو اس امر کو کافی سمجھتے ہیں کہ وہ نمازیں پڑھتے ہیں وہ کافی سمجھتے ہیں کہ روزے رکھتے ہیں وہ کافی سمجھتے ہیں کہ چندے دیتے ہیں لیکن اس امر کی ضرورت نہیں سمجھتے کہ خدا تعالی ان کی ہر معاملہ میں راہنمائی کرنے اور ان سے ہمکلام ہو حالانکہ اللہ تعالی کے فضل سے یہ نمونے ہماری جماعت میں اب بھی موجود ہیں.گو اپنی غلطی کی وجہ سے بعض لوگ اس نمونہ سے بھی گمراہ ہو جاتے ہیں.دراصل ہر کمت کے ساتھ کچھ نہ کچھ گمراہی بھی لگی ہوتی ہے.قرآن مجید کے متعلق بھی آتا ہے کہ يُضل به كَثِيرًا یہ بہتوں کو گمراہ کرتا ہے.جب رسول کریم کے آخری شرعی کلام کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا تو زید اور بکر کے الہامات کیا چیز ہیں کہ ان سے گمراہی کا خطرہ نہ ہو.بے شک ان سے بھی گمراہی ہو سکتی ہے.لیکن جب وہ گمراہی خود اپنے نفس کے لئے ٹھوکر کا موجب ہو جائے تو یہ بہت زیادہ افسوسناک بات ہوتی ہے.دوسروں کے لئے تو اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ ہروجی دوسروں میں سے کسی کے لئے ٹھوکر کا موجب بنتی ہے لیکن اگر کسی کے اپنے نفس کو ہی اس سے ٹھوکر لگ جائے اور اس میں کبر پیدا ہو جائے تو اس کی مثال اس شخص کی سی ہو گی جسے اچھے سے اچھا کھانا دیا گیا مگر جگر یا معدہ کی خرابی کی وجہ سے وہ اور زیادہ بیمار ہو گیا.جب تک ایسے لوگ ہماری جماعت میں نہ ہوں جن کی دعا ئیں خاص طور پر اللہ تعالی کے حضور قبول ہوتی ہوں اور جن پر کشف اور الہام کا دروازہ کھلا ہوا ہو اس وقت تک ہماری جماعت

Page 627

خطبات محمود سال ۱۹۳۲ء محفوظ نہیں ہو سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں : اتعالیٰ کے فضل سے ہزاروں ہماری جماعت میں ایسے اشخاص تھے جنہیں کشوف اور الہامات ہوتے اور جو خدا تعالیٰ کی وحی کے مورد تھے.اب بھی ہمارے لئے اس سلسلہ کا جاری رکھنا ضروری ہے بلکہ جاری رکھنا نہیں کہنا چاہئے کیونکہ یہ رہی ہے کیسی نہیں اس لئے یہ کہنا چاہئے کہ اس سلسلہ کا جاری رہنا ہمارے لئے ضروری ہے الہام اور کشف کسب سے حاصل نہیں ہو سکتے جس طرح خدا تعالیٰ کا کوئی فضل کسب سے حاصل نہیں ہو تا.مگر جس طرح اللہ تعالٰی کے فضل کو بعض نیکیاں جذب کرنے والی ہوتی ہیں اسی طرح الہام الہی کو بھی بعض نیکیاں جذب کرنے والی ہیں.اعمال صالحہ اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرتے ہیں اور اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعین کرنا الہام الہی کو جذب کرتا ہے.خالص عبودیت جس میں شرک نہ ہو اور خالص تو کل یہ چیزیں ہیں جو الہام سے آشنا کر دیتی ہیں اس درجہ کے وہ لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت سے فائدہ اٹھایا میں دیکھتا ہوں کہ وہ ایک ایک کر کے فوت ہو رہے ہیں لیکن مجھے انکے قائم مقام نظر نہیں تے.ہو سکتا ہے ایسے لوگوں کے قائم مقام پیدا ہو رہے ہوں اور مجھے ان کا علم نہ ہو لیکن جہاں تک میرا علم ہے اور میرا علم سلسلہ کے تمام طبقات تک وسیع ہے میں کہہ سکتا ہوں کہ اب ایسے لوگ ہماری جماعت میں پیدا نہیں ہو رہے.کچی وحی کی علامت یہ ہے کہ وہ انسانی نفس کو بالکل مار دیتی ہے اور ایسا شخص کبر اور خیلاء سے بالکل بچ جاتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میں نہیں بولتا بلکہ خدا بول رہا ہے.پھر ایسا شخص خدا تعالیٰ کا کامل عاشق ہوتا ہے.اس کا نفس اللہ تعالیٰ کی محبت میں اس قدر گداز ہوتا ہے کہ اس کی انانیت بالکل جاتی رہتی ہے.بالکل ممکن ہے ایسے لوگ ہماری جماعت میں اب بھی پیدا ہو رہے ہوں لیکن چونکہ میرا تعلق تمام جماعت سے ہے اور میں جانتا ہوں کہ جماعت کس رنگ میں ترقی کر رہی ہے اس لئے میں کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے نوجوانوں کو اس طرف بہت ہی کم توجہ ہے حتی کہ ہمارے علماء کے دل میں بھی تڑپ موجود نہیں.وہ بحث مباحثہ کرنے لڑنے جھگڑنے ، باتیں کرنے اور جوابات دینے میں بہت مشتاق ہوں گے مگر تضرع انکساری تبتل، عاجزی خشیت اور محبت الہی ان میں نظر نہیں آتی اور یہ بہت بڑی کمی ہے جس کو پورا کرنے کی طرف انہیں توجہ کرنی چاہئے.رسول کریم می فرماتے ہیں.ایمان کی ادنی علامت یہ ہے کہ اگر مومن بندے کو آگ T

Page 628

خطبات محمود سال ۱۹۳۲ء میں بھی ڈال دو تب بھی وہ ایمان ترک کرنا گوارا نہ کرے.جب ادنیٰ سے ادنی بشاشت ایمان دل میں پیدا ہو جانے پر انسان کی یہ حالت ہو جاتی ہے اور اس قدر اس کے اندر عزم اور استقلال راسخ ہو جاتا ہے تو اعلیٰ ایمان پر جو کچھ انسانی قلب کی کیفیت ہو سکتی ہے وہ ظاہر ہے اسی قسم کے لوگوں میں سے جو اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی کا شرف رکھتے تھے اور جن کی وجہ سے مجھے اس خطبہ کی تحریک ہوئی.مولوی عبدالستار صاحب افغان تھے جو ابھی پچھلے ہی ہفتہ فوت ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک غیر ملک سے لاکر اس نعمت سے متمتع کیا.وہ سید عبد اللطیف صاحب شہید کے شاگرد تھے اور ان کے ساتھ ہی سلسلہ میں داخل ہوئے تھے.اللہ تعالیٰ نے ان کو کچھ اس قسم کا ایمان اور اخلاص عطا کیا تھا جو بہت ہی کم لوگوں کو میسر آتا ہے.مجھے بچپن سے ہی جب سے وہ قادیان آئے ان سے انس رہا ہے اور میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی خاص موقعوں پر انہیں دعا کے لئے کہہ دیتے تھے جیسا کہ رسول کریم میں یہ بھی بعض دفعہ دوسروں کو دعا کے لئے کہہ دیتے اور جیسا کہ ہر مومن دوسرے مومن کو اپنے لئے دعا کی تحریک کرتا ہے.چونکہ اللہ تعالی کے مامورین میں کبر نہیں ہوتا اور وہ خدا کے استغنائے ذاتی سے واقف ہوتے ہیں اس لئے دعا کے موقع پر وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ہم مامور ہیں اور دوسرا غیر مامور بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ سارے ہی اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں اور نہ معلوم اس وقت اللہ تعالیٰ کس مونہہ کی دعا قبول کرلے.مولوی عبد الستار صاحب کے متعلق میرا ایک تجربہ ہے جس کا میرے قلب پر آج تک اثر ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے انہیں ایسا مقام عطا فرمایا تھا کہ وہ صحیح الہام پاتے تھے.حضرت خلیفہ المسیح الاول کے زمانہ میں جب میں نے دیکھا کہ جماعت میں تبلیغ کا پہلو نہایت کمزور ہو رہا ہے تو اس وقت میں نے تجویز کی کہ ہم ایک ایسی جماعت بنا ئیں جس کا فرض ہو کہ وہ دنیا میں تبلیغ کرے.میں نے اس تجویز کا علم اس وقت تک کسی کو نہ دیا یہاں تک کہ اپنے گہرے دوستوں سے بھی اس کا ذکر نہ کیا تھا.جہاں تک میرا خیال ہے صرف میں نے حضرت خلیفہ المسیح الاول سے اس کا ذکر کر دیا تھا.لیکن بالکل ممکن ہے میں نے ان سے بھی ذکر نہ کیا ہو کیونکہ مجھ پر یہی اثر ہے کہ میں نے ابھی اس تجویز کا کسی سے ذکر نہیں کیا تھا.پھر میں نے بعضوں کو استخارہ کے لئے اور بعضوں کو دعا کے لئے کہا.جنہیں مجملا بتا دیا کہ کوئی دینی بات ہے اس کے لئے دعا کریں اس سے زیادہ میں نے کسی کے سامنے وضاحت نہ کی.مولوی عبد الستار صاحب افغان کو بھی میں نے لکھا کہ میرے دل میں ایک مقصد ہے آپ اس کے لئے دعا کریں اور اگر آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف

Page 629

خطبات محمود وم ۹۲ مبال ۱۹۳۲ء سے کچھ معلوم ہو تو اس سے مجھے مطلع کریں.دو تین دن کے بعد انہوں نے مجھے جواب دیا اگر چہ میں نے انہیں کچھ نہیں بتایا تھا کہ میرے دل میں کیا مقصد ہے آیادہ میرا ذاتی کام ہے یا دینی اور اگر دینی ہے تو کیا ہے؟ لیکن جواب میں اول تو انہوں نے مختلف الہامات لکھے جو سارے کے سارے تبلیغ کے متعلق تھے اور پھر ایک رویا لکھی کہ ایک میدان میں تمام لوگ کھڑے ہیں اور میں انہیں کہتا ہوں کہ دنیا میں تبلیغ کرد - مفتی محمد صادق صاحب بھی وہیں ہیں.پھر لکھا آپ نے یہ کہنے کے بعد مفتی صاحب کو کسی پہاڑی سرد علاقہ میں تبلیغ کے لئے بھیج دیا.گویا جو تبلیغ کا نقشہ میرے ذہن میں تھا وہ خدا تعالیٰ نے ان کو سارے کا سارا بتا دیا.پھر جزئیات بھی بتا دیں جو اب تک پوری ہو رہی ہیں.چنانچہ مفتی محمد صادق صاحب کو عرصہ تک یا ہر تبلیغ کے لئے میں نے بھیج دیا اور اب بھی پہاڑوں پر انہیں مختلف کاموں کے لئے بھیجنا پڑتا ہے.بعض اور امور میں بھی میرا ان کے متعلق تجربہ ہے مگر اس واقعہ کا میرے دل پر خاص اثر ہے.اس زمانہ میں مجھے تبلیغ کی کمی کا اس قدر احساس تھا اور میرے دل پر اس قدیر اثر تھا کہ وہ دیوانگی کی حد کو پہنچا ہوا تھا.یہ رویا میرے لئے بہت امید افزا ثابت ہوئی.اور پھر خدا تعالیٰ نے تبلیغ کے لئے راستے کھول دیئے.اس سے معلوم سے دو اڑھائی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور مولوی صاحب کا بہت بڑا درجہ تھا.ان کی گھبرائے مہینے پہلے کی بات ہے میں نے ڈلہوزی میں ایک رؤیا دیکھا کہ کوئی شخص ہوئے الفاظ میں کہتا ہے دو ڈو دو ڑو قادیان میں ایک ایسا شخص فوت ہوا ہے جس کے فوت ہونے سے آسمان اور زمین ہل گئے ہیں.جب میری نظر اٹھی تو میں نے دیکھا واقعی آسمان ہل رہا ہے اور مکان بھی ہل رہے ہیں.گویا ایک زلزلہ آیا ہے.میرے قلب پر اس کا بڑا اثر ہوا.میں گھبرا کر پوچھتا ہوں کہ کون فوت ہوا ہے تو کوئی شخص تسلی دینے کے لئے کہتا ہے.ہندوؤں میں سے کوئی فوت ہوا ہو گا.میں نے کہا ہندوؤں میں سے کسی کے فوت ہونے کے ساتھ آسمان اور زمین کے ملنے کا کیا تعلق.وہ کہنے لگا ہندوؤں کا زمین و آسمان بل گیا ہو گا.اس وقت جیسے کوئی شخص تسلی حاصل کرنے کے لئے ایسے الفاظ پر مطمئن ہونا چاہتا ہے میں بھی مطمئن ہونا چاہتا ہوں.مگر پھر گھبراہٹ میں کہتا.ہوں چلو دیکھیں تو سہی.اسی گھبراہٹ میں تھا کہ آنکھ کھل گئی.اس رڈیا کے سات آٹھ دن کے بعد تار پہنچا کہ حضرت اماں جان سخت بیمار ہیں.اس وقت تار کے پہنچنے پر میں نے بعض دوستوں کو جن میں ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب اور غالبا مولوی شیر علی صاحب بھی تھے بتایا کہ میں نے اس طرح رویا دیکھا ہے جس کی وجہ سے مجھے گھبراہٹ ہے شاید اس سے مراد حضرت اماں جان ہی ہوں.میں

Page 630

خطبات محمود ۶۲۵ سال ۱۹۳۲ء فور آروانہ ہو گیا.لیکن میرے آنے تک بہت حد تک انہیں صحت ہو گئی تھی.پھر جلدی ہی اللہ تعالٰی کے فضل سے انہیں کامل صحت ہو گئی.اس کے چند ہی دنوں بعد مولوی عبد الستار صاحب بیمار ہو گئے اور مجھے ان کی بیماری کی اطلاع پہنچی.گو میں اس عرصہ میں ان کی صحت کے لئے دعائیں ضرور کرتا تھا مگر دل میں خدشہ تھا کہ اس خواب سے مراد انہیں کی وفات نہ ہو اور اب جبکہ وہ فوت ہو چکے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ یہ رڈیا انہیں کے متعلق تھی جو پور کی ہو گئی.جب کوئی شخص ایسا فوت ہوتا ہے جو مقبول الہی ہو تو اس کی وفات کا زمین و آسمان پر اثر ضرور پڑتا ہے.حدیثوں میں بھی اس قسم کا مضمون آتا ہے کہ جب مومن بندے کی جان نکلنے کا وقت آتا ہے اس وقت اللہ تعالیٰ کو بہت تردد ہوتا ہے.تردد اور پھر اللہ تعالی کا تردد یقینا زمین و آسمان کو ہلا دینے والا ہوتا ہے.میں نے ذکر کیا تھا کہ بعضوں کے لئے الہام ٹھو کر کا موجب ہو جاتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں سے کئی لوگ ایسے ہیں جو الہام کو اپنی شہرت کا ذریعہ بنانا چاہتے ہیں اور اس طرح انہیں ٹھوکر لگ جاتی ہے.مگر مولوی عبد الستار صاحب کو کثرت سے الہامات ہوتے تھے.باوجود اس کے کہ انہوں نے کبھی الہامات کو اپنی بڑائی کا ذریعہ نہ بنایا.خلافت کی اطاعت اور سلسلہ کے نظام کا احترام ان کے اندر پورے طور پر پایا جاتا تھا اور وہ ہمیشہ اپنے آپ کو سلسلہ کا جزو سمجھتے تھے.میں نے انہیں دیکھا کہ اگر چہ وہ عبادات کی کثرت اور صحت کی کمزوری کی وجہ سے منحنی اور کمزور رہتے تھے مگر جب کبھی کوئی ایسا واقعہ ہو ا جس میں غیروں سے مقابلہ کی ضرورت پیش آئی وہ باوجود کمزوری کے جوانوں کی طرح وہاں پہنچ جاتے.ابھی پچھلے دنوں میری موجودگی میں سکھوں سے جب فساد ہوا تو ایک نوجوان پٹھان نے بتلایا کہ میں کمرے سے کوئی چیز تلاش کر رہا تھا.مولوی صاحب کہنے لگے کیا کام ہے.میں نے کہا کہ سکھوں سے احمدیوں کی لڑائی ہو گئی ہے.آپ اس وقت بیمار اور سخت کمزور تھے یہ سنتے ہی گھبرا کر چار پائی پر ملنے لگ گئے اور کہنے لگے پھر تم یہاں کیا دیکھ رہے ہو جلدی کیوں نہیں جاتے.تو وہ اپنے آپ کو نظام سے بالا نہیں سمجھتے تھے.جیسا کہ میں نے حضرت خلیفہ اول کی ایک مثال کا ذکر کر کے بار ہا بتایا ہے کہ بعض لوگ اپنے آپ کو نمبردار سمجھ لیتے ہیں.میں نے ان میں ہمیشہ یہ خوبی دیکھی کہ وہ اطاعت اور سلسلہ کے نظام کا احترام پوری طرح ملحوظ رکھتے.پٹھانوں کے لئے تو ان کا وجود ایک نعمت غیر مترقبہ تھا.وہ انہیں پڑھایا کرتے اور وہی لڑائی جھگڑے کے موقع پر انہیں نصیحت کرتے اور سمجھاتے.غرض بغیر اس کے کہ افغانستان سے آنے والے احمدیوں کی خبر گیری کے لئے ہمیں ہے؟

Page 631

خطبات محمود سال ۱۹۳۲ء کچھ کرنا پڑتا وہ خود ہی ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام کر دیتے.پھر خدا نے ان کو تو کل کا مقام عطا فرمایا تھا.وہ نہایت ہی سیر چشم واقع ہوئے تھے.کبھی اتنے عرصے میں کہ وہ قادیان میں رہے مجھے یاد نہیں کہ انہوں نے ایک دفعہ بھی اپنی ذاتی ضروریات کے لئے مجھے کسی قسم کی تحریک کی ہو.اور میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ ان کے لئے ایسے سامان پیدا فرما دیا کرتا تھا کہ خود بخود ان کی ضروریات پوری ہو جاتیں.کیونکہ وہ شخص جو خدا پر توکل کرتا ہے اللہ تعالٰی اس کے لئے لوگوں کے دلوں میں خود الہام کرتا ہے کہ وہ اس کی مدد کریں.غرض اللہ تعالٰی الہام کے ذریعہ ان کی امداد بھی کرا دیتا تھا.میں نے الہام کے بارے میں جس قدر اپنی جماعت کے اشخاص دیکھتے ہیں ان میں سے میں نے انہیں زیادہ ثابت قدم غیر متزلزل اور مضبوط دیکھا.میں نہیں کہہ سکتا کہ اور بھی ایسے لوگ جماعت میں موجود ہوں مگر جتنوں کو میں نے دیکھا ہے ان میں سے سب سے زیادہ ثابت قدم میں نے انہیں کو دیکھتا ہے.الہام ہماری جماعت میں سے اور بھی بہت سے لوگوں کو ہوتے ہیں مگر بعض ان میں سے ایسے ہیں جو ایک وقت آکر ٹھو کر کھا جاتے ہیں.اور پھر کئی تو ایسے بھی ملم ہیں جو مجھے بھی دھمکیاں دینے لگ جاتے ہیں.وہ خیال کرتے ہیں کہ چونکہ میں نے کبھی اپنے الہامات یا کشوف بیان نہیں کئے اس لئے مجھے الہامات ہوتے ہی نہیں اور اس طرح وہ اپنے کشوف اور الهامات سنا سنا کر مجھے ڈرانا چاہتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے قرآن شریف کا جو علم دیا ہے اس کے ماتحت انسانوں کی دھمکیاں مجھ پر اثر ہی نہیں کرتیں.چاہے دھمکی دینے والا معلم کے لباس میں آئے چاہے مامور کے لباس میں، چاہے بادشاہ کے لباس میں اور چاہے فقیر کے لباس میں.میں جانتا ہوں کہ کلام اور کلام پانے والوں کے کیا درجے اور مراتب ہوتے ہیں اور میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان درجوں کو خوب سمجھتا ہوں.اس لئے مجھ پر ہمیشہ وہی چیز اثر کرتی اور اتنا ہی اثر کرتی ہے جو اثر والی ہو اور جتنی اس میں تاثیر پائی جاتی ہو.اس سے اوپر اور نیچے مجھے پر کوئی چیز اثر نہیں ڈال سکتی.مولوی عبد الستار صاحب افغان کو میں نے دیکھا کہ انہیں کثرت سے الہامات ہوتے تھے.مگر باوجود اس کے وہ خلافت کا انتہائی ادب کرتے اور سوائے ایک دفعہ کے میرے اور ان کے درمیان کبھی غلط فہمی پیدا ہونے کا موقع نہیں آیا.وہ بھی اس طرح کہ ایک شخص نے میرے پاس بیان کیا کہ مولوی صاحب ایسی ایسی باتیں بیان کرتے ہیں.میں نے کہا کہ مولوی صاحب ایسا نہیں کہتے ہوں گے تمھیں غلطی لگی ہوگی.چنانچہ اس کے فور ابعد جب مولوی صاحب کو پتہ لگا تو انہوں نے میرے پاس تردید کی اور کہا کہ میں نے کوئی ایسی بات نہیں کی.پس

Page 632

خطبات محمود ۶۲۷ سال ۱۹۳۲ء میں تاریخ میں جماعت کے ایک نیک اور اچھے شخص کے نمونہ کو قائم کرنے کے لئے یہ خطبہ کہہ رہا ہوں.حضرت خلیفہ اول کو بھی آپ کا اتنا خیال تھا کہ جن چند لوگوں کو آپ نے امام الصلوۃ کے طور پر مقرر کیا ہوا تھا، ان میں سے ایک آپ بھی تھے.غرض جہاں میں چاہتا ہوں کہ تاریخ میں ان مخلص اور خدارسیدہ لوگوں کے نام رہ جائیں وہاں میں نوجوان احمدیوں اور نئے احمدی بننے والوں کو بھی توجہ دلا تا ہوں کہ وہ اسی قسم کا اخلاص اور ایمان پیدا کریں اور انہیں اللہ تعالیٰ پر ایسا یقین معرفت اور تو کل حاصل ہو کہ اللہ تعالیٰ ان سے براہ راست ہم کام ہو.اور وہ اس مقام پر کھڑے ہوں کہ ان کی وفات آسمان اور زمین کو ہلا دینے کو موجب ہو جا...وہ بھی کیا انسان ہے جو دنیا میں آیا اور چند سال رہ کر یوں مر گیا جیسے لکھی مرجاتی ہے.ہمارے سات یہ مقصد ہونا چاہئے کہ جب ہماری موت کا وقت آئے تو اس وقت ہماری وفات پر خدا کو تر رد ہو اور سکرات موت میں خدا کے کہ اگرچہ یہ میرا فعل سنت اور حکمت کے ماتحت ہے لیکن میرے بندے کی یہ وقتی تکلیف میری تکلیف اور گھبراہٹ کا موجب ہے یہ مقام جو شخص حاصل کر لیتا ہے وہ اپنی زندگی کے مقصد کو پالیتا ہے اور یاد رکھو کہ یقین کے مقام پر وہی شخص ہوتا ہے جو کامل تعشق کامل عبودیت اور کامل تو کل پیدا کرتا اور یہاں تک اللہ تعالیٰ کی محبت اور عشق میں گداز ہو جاتا ہے کہ خدا کہتا ہے اگر میں نے اپنے اس بندے سے کلام نہ کیا تو یہ اسی غم اور رنج و فکر میں ہلاک ہو جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بھی لکھا ہے کہ الہام کو انسان الہام کی خواہش کے ماتحت طلب نہ کرے مگر چونکہ اب وقت نہیں اس لئے میں اس کی تفصیل بیان نہیں کر سکتا.ا الفضل ۳ نومبر ۱۹۳۲ء) الفاتحة: الفاتحة : البقرة : ۲۷ بخاری کتاب الایمان باب من كره ان يعود في الكفر كما يكره ان يلقى في النار من الايمان

Page 633

مطبات محمود 73 جلسہ سالانہ بہت بڑی نعمت ہے ( فرموده ۲۵- نومبر ۱۹۳۲ء) سال ۱۹۳۲ء تشر تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.گلے مہینہ میں انشاء اللہ تعالٰی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مقرر کردہ جلسہ سالانہ بلکہ آپ کا بھی نہیں اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت مقرر شدہ جلسہ سالانہ ہونے والا ہے.اس جلسہ کی غرض محض اس قدر نہیں کہ لوگ آئیں اور تقریریں سن ہیں.کیونکہ تقریر میں مختلف اوقات میں ہوتی ہی رہتی ہیں اور مختلف شہروں میں جلسے بھی ہوتے رہتے ہیں.در حقیقت یہ جلسہ اپنے اندر ایک اقرار رکھتا ہے کہ الہی آواز پر مومن ہر کام چھوڑ کر جانے کے لئے تیار رہے گا.خدا نے مختلف اوقات میں مختلف اقرار رکھے ہیں.ایک اقرار روزانہ پانچ وقت کا ہے.ہر بالغ اور تندرست کا فرض ہے کہ جب اذان ہو تمام کام کاج چھوڑ کر مسجد میں پہنچے اور محلے کے لوگوں کے ساتھ مل کر عبادت الہی بجالائے.پھر ایک اور اقرار جمعہ کے دن کا ہے جس میں سارے شہر کے لوگ ایک جگہ جمع ہوتے اور اپنے عمل سے اس بات کا ثبوت دیتے ہیں کہ وہ الہی آواز کو سننے کے لئے ہر وقت تیار ہیں.پھر عیدین آتی ہیں ان میں نہ صرف ایک شہر کے لوگ بلکہ مختلف علاقوں کے لوگ اور آس پاس کے دیہات کے لوگ جمع ہوتے ہیں اور اس طرح زیادہ وسیع حلقہ کے لوگ اقرار کرتے ہیں کہ وہ الہی آواز پر لبیک کہنے کو تیار ہیں.اسی طرح سال میں ایک حج کا موقع ہوتا ہے جس میں ساری دنیا کے لوگ جن کو اللہ تعالٰی توفیق دے ایک جگہ جمع ہوتے اور اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اسلامی توحید نے مسلمانوں کے دلوں کو ایسا متحد کر دیا ہے کہ باوجود اختلاف زبان اختلاف عقائد اختلاف رنگ و نسل ، اختلاف خیالات اور اختلاف آب و ہوا کے وہ اللہ

Page 634

سال ۱۹۳۲ء خطبات محمود تعالی کی آواز پر لبیک کہہ کر ایک جگہ جمع ہونے کو تیار ہیں.لیکن حج ان آیام میں بہت سے لوگوں کے لئے مشکل ہو گیا تھا.کیا بلحاظ اس کے کہ اس علاقہ میں امن و امان کا وہ انتظام نہ تھا جو حج کے لئے ضروری ہے.اور کیا بوجہ اس کے کہ اس مقام میں ایسا نظام نہیں جس سے ان فوائد کو حاصل کیا جاسگے جو حج کا اصل مقصود ہے.اور کیا بوجہ اس کے کہ خدا تعالٰی ہندوستان کے لوگوں سے یہ نسبت دوسرے ممالک کے لوگوں کے زیادہ کام لینا چاہتا تھا.چونکہ حج پر وہی لوگ جاسکتے ہیں جو مقدرت رکھتے اور امیر ہوں.حالانکہ اللی تحریکات پہلے غرباء میں ہی پھیلتی اور پنپتی ہیں اور غرباء کو حج سے شریعت نے معذور رکھا ہے.اس لئے اللہ تعالٰی نے ایک اور ظلی حج مقرر کیا.وہ قوم جس سے وہ اسلام کی ترقی کا کام لینا چاہتا ہے اور تاوہ غریب یعنی ہندوستان کے مسلمان اس میں شامل ہو سکیں اسلام کے ابتدائی دور میں زیادہ ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے والے عرب تھے.اور وہ آسانی سے مکہ میں پہنچ سکتے تھے اس لئے اس تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے حج کے موقع پر بہتر سے بہتر ذرائع حاصل تھے.لیکن اب نہ وہ تحریک وہاں باقی ہے اور نہ دنیا کے تمام لوگ وہاں پہنچ سکتے ہیں اس لئے حج کی عبادت کا حصہ تو بے شک باقی ہے اور وہ رہتی دنیا تک باقی رہے گا جس طرح نماز کا فریضہ ہے اسی طرح یہ بھی فرض ہے کہ ہر صاحب استطاعت مسلمان مقرر کردہ دنوں میں وہاں اللہ تعالی کی عبادت کرے لیکن مکہ مکرمہ میں اب چونکہ نہ کوئی ایسی جماعت تھی جو اشاعت اسلام کی ذمہ وار قرار دی گئی ہو اور نہ ہی اب عربوں کی ایسی حالت اور نظام تھا کہ وہ تبلیغ اسلام کر سکیں.ایسا نظام اب ہندوستان میں ہی ہے اور اشاعت اسلام کا درد رکھنے والی قوم بھی اب نہیں ہے اس لئے اللہ تعالٰی نے ایک ظلی حج مقرر کیا اور اس کا مرکز قادیان میں رکھا.جب تک وہ نظام جو تبلیغ کے لئے مقرر ہے یہاں رہیگا اور جب تک قادیان اس کا مرکز ہے اور جب تک ہندوستان کے لوگ اپنی اس ذمہ داری کو سمجھیں گے کہ خدا تعالیٰ نے انہیں رُشد و ہدایت پھیلانے کا ذمہ دار بنایا ہے اس وقت تک علاوہ ان علمی فوائد کے جو جلسہ کے موقع پر تقریریں سننے سے حاصل ہوتے ہیں یہاں آنے والے ہر شخص کو ثواب حاصل ہو گا اور اگر خدانخواستہ ہندوستان کے مسلمانوں نے اس نعمت کو بھلا دیا اس کی قدر نہ کی اور خدا تعالیٰ نے اس کام کا مرکز کسی اور مقام کو قرار دے دیا تو پھر چو نکہ اس میں عبادت کا ا نہیں وہ صرف مکہ مکرمہ سے ہی مخصوص ہے اس لئے یہ صرف ایک رسم رہ جائے گی اور حصہ ثواب کا حصہ جاتا رہے گا.

Page 635

أطبات محمود سال ۱۹۳۲ء اپس اللہ تعالی کی نعمت کی قدر کرتے ہوئے اور اس ثواب کی عظمت کو پہچانتے ہوئے ہر احمدی کا فرض ہے کہ اس جلسہ کو کامیاب بنانے کے لئے زیادہ سے زیادہ خدمت بجالائے.خواہ وہ مالی ہو یا جانی یا مکانی یا عام خدمت کے رنگ میں.پس گذشتہ طریق کے مطابق اس دفعہ بھی میں قادیان کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ مکانات دینے میں اخراجات برداشت کرنے میں اور مہمانوں کی خدمت کرنے میں جہاں تک ہو سکے مدد کریں اور سلسلہ کے کاموں کو ذاتی کاموں پر ترجیح دیتے ہوئے خدمات کریں میں نے قادیان کے لوگوں کو اس کے متعلق ہمیشہ توجہ دلائی ہے مگر افسوس ہے ابھی یہاں کے لوگوں میں وہ بیداری نہیں پیدا ہوئی جو ہونی چاہئے.میں نے بار ہا بتایا ہے کہ جو شخص قادیان میں اس لئے آتا ہے کہ باہر کے حملوں اور گالیوں سے بچ جائے وہ ہرگز کسی ثواب کا مستحق نہیں کیونکہ وہ میدان جنگ کا بھگوڑا ہے اور بھگوڑے کے متعلق قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ وہ دوزخ کا مستحق ہے.لیکن جو شخص یہاں اس لئے آتا ہے کہ باہر خدمت کے کم مواقع ہیں اور مرکز میں اسے زیادہ موقع ملے گاوہ مہاجر ہے پس یہاں کے لوگ اپنے عمل سے ثابت کریں کہ وہ مہاجر ہیں اگر کوئی شخص باہر کی تکالیف سے ڈر کر یہاں آتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ اسی لئے آیا ہے اور لوگوں پر بھی یہی ظاہر کرتا ہے وہ گھلا مجرم ہے اور جو لوگوں پر تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ خدمت دین کے لئے آیا ہے لیکن دراصل اپنے دل میں سمجھتا ہے کہ تکالیف سے بچنے کے لئے آیا ہے وہ منافق مجرم ہے.لیکن جس کے دل میں بھی یہی ہے اور ظاہر بھی یہی کرتا ہے تو اس کا نتیجہ ظاہر ہونا چاہئے.یہ ممکن نہیں کہ آگ ہو اور دھواں نہ اٹھے انگارے موجود ہوں لیکن گرمی محسوس نہ ہو اور سورج کے نیچے کھڑا ہو کر کوئی شخص دھوپ اور روشنی سے محروم رہ سکے.اگر واقعی دل میں یہ خواہش ہے کہ مرکز میں زیادہ قربانیوں کا موقع ملے تو یہ ہجرت ہے لیکن اس کا ثبوت عمل سے دو - قادیان میں آنے والوں کی ذمہ داریاں زیادہ ہیں.سوائے ان بھگوڑوں کے جو آرام کے لئے یہاں آتے ہیں ان کا حق ہے کہ وہ آرام کریں.باہر لوگ انہیں مارتے تھے؟ گالیاں دیتے تھے، بائیکاٹ سے ان کے کاروبار کو نقصان پہنچاتے تھے ، رشتہ دار تنگ کرتے تھے اور ان مصائب سے بچنے کے لئے یہاں آنے والوں سے قربانی کی توقع رکھنا بے وقوفی ہے.جب تک کہ اللہ تعالی ان کے نفاق کے مرض کو دور نہ کر دے.لیکن جو شخص خدمت کے زیادہ مواقع ملنے کے خیال سے آیا ہے وہ اپنے عملی نمونہ سے اپنی صداقت ثابت کرے.اگر باہر کے لوگ ایک آنہ روپیہ چندہ دیتے ہیں تو اسے پانچ پیسے دینے چاہئیں اور موصی ہونا چاہئے.وگرنہ یہ کیسے

Page 636

خطبات محمود سال ۱۹۳۲ء ثابت ہو گا کہ وہ خدمت کرتا ہے.ہم اس کے متعلق یہی سمجھیں گے کہ وہ کمانے کے لئے آیا ہے.اور رسول کریم یا اللہ فرماتے ہیں جس شخص کی ہجرت عورت کے لئے یا کسی دنیوی فائدہ کے لئے ہو وہ خدا تعالیٰ کا مہاجر نہیں بلکہ اس چیز کا ہے جس کے لئے وہ ہجرت کرتا ہے.اس لئے جو یہاں آکر باہر سے زیادہ قربانیاں نہیں کرتا وہ آرام طلب ہے.اور خدا تعالیٰ کی راہ میں جو جنگ یورپ امریکہ افغانستان ، ایران ، عرب، مصر، سماٹرا، جاوا، فلسطین اور شام وغیرہ ممالک میں لڑی جارہی ہے اور ان مقامات پر بھی جہاں کا ہمیں علم نہیں ، اس سے تنگ آکر اور آرام لینے کی خاطر وہ یہاں آگیا ہے پس وہ یقینا اللہ تعالیٰ کا مجرم ہے اس لئے میں پھر ایک دفعہ احباب جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ قادیان کے لوگوں کو دوسروں سے بڑھ کر نمونہ دکھانا چاہئے.ابھی ان سے یہ مطالبہ تو نہیں کیا جاتا کہ وہ جائدادیں اور گھر بار لٹادیں اور سب کام کاج چھوڑ دیں مگر دو سروں کی نسبت ان سے زیادہ قربانیوں کی توقع کی جاتی ہے.ہاں جب اللہ تعالیٰ کی یہ مشیت ہو کہ سب کچھ اللہ تعالی کی راہ میں گنادیا جائے ، اس وقت بھی میں امید رکھوں گا کہ قادیان کے لوگ باہر والوں سے زیادہ اعلیٰ نمونہ دکھا ئیں مگر اس وقت تک ان سے صرف نسبتی قربانی کا مطالبہ ہے اس لئے جلسہ کے لئے جو لوگ مکان دے سکتے ہیں وہ مکان دیں.یا اپنے مکانوں کے حصے دیدیں.جو خدمت کر سکتے ہیں وہ خدمت کریں اور جو مالی امداد دے سکتے ہیں وہ مالی امداد دیں.اور جنہیں خدا تعالی ہر طرح سے قربانی کی توفیق دے وہ مکان بھی دیں چندے بھی دیں اور خدمت بھی کریں.پچھلی دفعہ بھی میرے پاس شکایت ہوئی تھی کہ بعض لوگ چندہ نہیں دیتے اور بعض جلسہ کے موقع پر معمولی بہانوں سے مکان دینے سے گریز کرتے ہیں اور کئی یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے اپنے مہمان آنے والے ہیں وہ کیوں یہ نہیں کہتے کہ یہ مکان ہے اتنے ہمارے اپنے مہمان بھی ہوں گے.اس لئے اگر ہو سکے تو انہیں کو یہ دیدیں.وہ مکان کا مطالبہ پر تو جواب دے دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے مہامان آئیں گے لیکن کھانے کے وقت کہتے ہیں تمہارے مہمان ہیں، ان کو کھانا دیا جائے.ایسے بہانہ خور لوگ کھانے کے وقت سب سے آگے ہوتے ہیں.اور لڑتے ہیں کہ مہمانوں کی اچھی طرح خدمت نہیں کی جاتی.ان کی شتر مرغ کی مثال ہوتی ہے.جب اسے کہا گیا کہ بوجھ اٹھاؤ تو اس نے کہا میں تو مرغ ہوں.مرغ پر بھی کبھی بوجھ لادا جاتا ہے اور جب کہا اُڑ تو کہہ دیا کہ کبھی اونٹ بھی اُڑا کرتا ہے.اسی طرح یہ لوگ مکان کے مطالبہ پر تو کہتے ہیں ہمارے مہمان.لیکن کھانے کے وقت کہتے ہیں تمہارے مہمان یا تو انہیں چاہئے کہ کان سلسلہ کے سپرد

Page 637

خطبات محمود ۶۳۲ کر دیں اور اگر ان کے اپنے رشتہ دار یا متعلقین آنے والے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں انہیں گھر میں زیادہ آرام پہنچا سکیں گے کیونکہ گھر میں عورتیں بھی ان کی خدمت کر سکتی ہیں تو منتظمین سے کہہ دیں کہ اتنے ہمارے ہوں گے اور وہ انہیں بھی جگہ دے دیں.جس طرح زکوۃ کے متعلق حکم دیا ہوا ہے کہ ادا کر دی جائے اور دینے والا کہہ دے کہ میرا فلاں رشتہ دار بھی مستحق ہے اسی طرح وہ مکان پیش کر دیں اور اپنے مہمانوں کی تعداد بھی بتا دیں.اور منتظم اگر چاہیں تو اس میں سے ان کے مہمانوں کو بھی اتنی جگہ دیدیں جتنی عام مہمانوں کے حصہ میں آتی ہے.مجھے افسوس ہے کہ چندہ جلسہ سالانہ کی طرف پوری توجہ نہیں کی گئی.اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک بھی ایک ماہ لیٹ ہوئی ہے.دفتر والوں نے تو مجھے کہہ دیا تھا لیکن میں نے سمجھا کہ تحریک اگلے مہینہ میں ہونی چاہئے اس لئے دیر ہو گئی.اس میں بھی دفتر والوں کی یہ غلطی ہے کہ انہوں نے دوبارہ یاد دہانی نہیں کرائی.ممکن ہے اس کا بھی دخل ہو لیکن میرے خیال میں جتنا اس کا اثر ہونا چاہئے تھا اس سے زیادہ پڑ رہا ہے.تحریک بے شک پہلے ہونی چاہئے تالوگ چندہ دینے کی وجہ سے جلسہ میں شامل ہونے سے محروم نہ رہ جائیں لیکن باوجود اس کے جلسہ سالانہ خدا تعالیٰ کی نعمت ہے.اور یہ اللہ تعالی کا فضل ہے کہ اس نے ہندوستان کے لوگوں کے لئے ایک ثواب کا ذریعہ پیدا کر دیا.پس جو شخص امکان کے باوجود اس میں شمولیت سے پہلو تہی کرتا ہے وہ اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا دشمن ہے کیونکہ جلسہ سالانہ پر قادیان آنے سے انسان کا دل زنگ آلود ہونے سے بچ جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو فرمایا کرتے تھے کہ بار بار آنا چاہئے لیکن جو بار بار نہیں آسکتا وہ سال میں ایک بار تو آجائے.بے شک معذوریاں بھی ہوتی ہیں لیکن جو معذوریاں بناتا ہے وہ مجرم ہے اور اپنا آپ دشمن ہے.جو لوگ خود نہیں آتے یا بیوی بچوں کو نہیں لاتے ان کے فوت ہوتے ہی ان کے گھر سے احمدیت مٹ جائے گی.پھر بعض لوگ اپنے غیر احمدی دوستوں اور رشتہ داروں کو لاتے ہیں اور ان میں سے خدا کے فضل سے ایک کثیر حصہ بیعت کر لیتا ہے.انہیں بھی ضرور ساتھ لانا چاہئے.اس سال ایک دقت یہ ہے کہ جلسہ کے معابعد رمضان شروع ہوتا ہے.عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اگر باہر ہوئے تو روزہ نہیں رکھا جا سکے گا.حالانکہ اگر ضرورت حقہ کے لئے باہر جانا پڑے تو روزہ کو دوسرے وقت پر ملتوی کر دیا بھی ثواب کا موجب ہے.شریعت نے رمضان میں سفر کو جائز رکھا ہے ، مگر سفر کے روزہ کو نا جائز.اس سال چونکہ رمضان قریب ہے اس لئے ممکن ہے ایک دو یا تین روزے نہ رکھے جاسکیں.لیکن

Page 638

خطبات محمود 4HP سال ۱۹۳۲ اگر دل میں اس کا احساس ہو تو بعد میں رکھنا پہلے سے بھی زیادہ ثواب کا موجب ہو گا.ایک بزرگ کا ذکر ہے کہ ان کی فجر کی نماز فوت ہو گئی تو وہ تمام دن روتے رہے.خدا تعالیٰ نے کہا میرے اس بندے کو نماز قضا ہونے کا اس قدر قلق ہوا ہے، اس لئے اسے تو نماز کا ثواب دیدیا جائے.اگلے روز کوئی انہیں صبح ہی صبح جگا رہا تھا.انہوں نے پوچھا کہ تو کون ہے.اس نے جواب دیا شیطان - آپ نے پوچھا شیطان کا نماز سے کیا تعلق ہے.اس نے کہا کل میں نے آپ کو سلائے رکھا اور آپ اس قدر روئے کہ خدا تعالیٰ نے کہا میرے اس بندے کو اس قدر قلق ہوا ہے اس لئے اسے کو نماز کا ثواب دیدیا جائے.میں نے سمجھا اگر آج بھی ایسا ہی ہوا تو آپ پھر اسی طرح زیادہ ثواب لے جائیں گے.اس لئے بہتر ہے کہ ایک نماز کا ثواب ہی آپ لے لیں.تو جو شخص دینی خدمت کے لئے کوئی عبادت ملتوی کر دیتا ہے جس کی شریعت نے اجازت دے دی ہے.اور پھر اس کا احساس رکھتا ہے کہ اسے بہتر سے بہتر رنگ میں ادا کرے گا تو وہ بہت زیادہ ثواب کا مستحق ہوتا ہے.ہماری جماعت کے دوست تو اس بات کو سمجھتے ہیں لیکن ممکن ہے دوسرے اعتراض کریں.اس لئے میں نے بتا دیا ہے کہ انہیں سمجھایا جائے.تاوہ آٹھ نو سو بلکہ ہزار کے قریب لوگ جو آتے ہیں اور جن میں سے زیادہ تربیعت کر جاتے ہیں، ان میں کمی نہ ہو پھر مرکز کی طرف سے بھی معززین کو چٹھیاں لکھی جائیں.اور اس کے لئے اخبار میں اعلان کر کے موزوں لوگوں کے پتے معلوم کئے جائیں.کیونکہ ممکن ہے وہ ایسے لوگوں کو لکھیں جن پر کوئی اثر نہ ہو.لیکن بیرونی لوگ اپنے علاقہ کے ایسے افراد سے واقف ہوتے ہیں جن کو ایسی دعوت مفید ہو سکتی ہے.ہزار بلکہ دو تین ہزار ایسی چٹھیاں لکھی جائیں اور اگر ان میں سے پچاس ساٹھ بھی آجائیں تو بہت مفید ہو سکتا ہے کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ اگر ذرا بھی رغبت ہو تو ستر اسی فیصدی بیعت کر لیتے ہیں.بلکہ اس سے بھی زیادہ.پس میں ایک طرف تو کارکنوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ کام صحیح طریق پر اور عمدگی کے ساتھ کریں.اور مرکزی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ مالی قربانی اور جانی خدمات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے اور باہر کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ بھی اخراجات کے لئے چندہ دیں.خود شامل ہوں اور ایسے لوگوں کو جنہیں سلسلہ کے ساتھ رغبت ہو یا اگر تو تب بھی ہو تو اس وجہ سے کہ وہ ناواقف ہیں، اپنے ساتھ لائیں.شاید کہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی ہمارے ساتھ شامل ہو جانے کی توفیق بخش دے.

Page 639

خطبات محمود سال میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں تمام فرائض کے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس ذمہ داری کے لحاظ سے جو ہم پر عائد ہوتی ہے زیادہ سے زیادہ قربانی کی توفیق دے.اور میں یہ شناخت عطا کرے کہ خدمت دین کر کے فخر و تعلی کے بجائے اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کریں.اور جماعت کو توفیق دے کہ وہ تقویٰ میں ترقی کر کے اس کے فضلوں کی وارث ہو.(الفضل تیم دسمبر ۱۹۳۲ء) ا.بخارى كتاب الوحى باب كيف كان بدء الوحى الى رسول الله صلى الله عليه وسلم

Page 640

۶۳۵ 74 خاکساری مذہب کا ایک ضروری جزو ہے (فریم ۴۲۵۱ نمبر ۶۱۹۳۲ خطبات محمود تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اراده تو آج میرا زیادہ تفصیل سے کچھ بیان کرنے کا تھا لیکن چلتے وقت مجھے معلوم ہوا کہ میری گھڑی بہت غلط اور پیچھے تھی جس کی وجہ سے وقت کی شناخت مجھے نہیں ہو سکی.اس لئے اختصار کے ساتھ میں دوستوں کو ایک ایسی ضرورت کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو مذہبی جماعتوں کے لئے نہایت ضروری اور اہم ہوتی ہے.میں دیکھتا ہوں کہ اخلاق کی درستی کے لئے جرات اور انکسار دونوں چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے.مگر جرأت کا مفہوم لوگ بہت غلط لے لیتے ہیں اور اس کی وجہ سے خاکساری اور انکسار جو مذہب کا ایک ضروری جزو ہے ، نظر انداز ہو جاتا ہے.بہت سے لوگ ہیں جو جرأت کا مفہوم یہ ہیں کہ دشمن کا مقابلہ کیا جائے اور اپنے مد مقابل کو زیر کر لیا جائے.اس میں شبہ نہیں کہ جرات کے یہ بھی معنی ہیں لیکن اگر جرات کے یہی معنی ہوں تو اس کا مفہوم یہ ہو گا کہ لاکھوں آدمی دنیا سے ایسے گزر جاتے ہیں جنہیں جرات دکھانے کا کبھی موقع نہیں ملتا.کیونکہ لاکھوں آدمی ایسے ہوں گے جن پر ان کا دشمن کبھی حملہ آور نہیں ہوا.پس جرات کے یہ معنی کر کے ہم ایک نیک صفت کو محدود کر دیتے ہیں اور ایک خطرناک نقصان اس قسم کا مفہوم سمجھ لینے سے یہ پہنچتا ہے کہ ہزاروں مواقع جہاں ہمیں جرات دکھانی چاہئے ہم نظر انداز کر جاتے ہیں اور اس موقع پر اپنی ایک نیک صفت کے اظہار سے محروم رہتے ہیں.جرات کے ہر گز یہ معنی نہیں کہ اگر دشمن ہم پر حملہ کرے تو ہم اس کا مقابلہ کریں اور نہ ہی جرات کے یہ معنی ہیں کہ ہم خود دشمن پر 41

Page 641

خطبات محمود سال ۱۹۳۲ء حملہ کریں کیونکہ یہ اسلام میں جائز نہیں.جرات کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ انسان اپنے آپ کو خطرات میں ڈال کر ایسی جگہ جہاں اسے یقینی نفع نظر نہیں آتا لیکن کام نیک معلوم ہوتا ہے جائے اور اس کام کو اختیار کرلے.جیسے انسان ایک دشمن کے مقابلہ میں کھڑا ہو جاتا ہے باوجود یہ جاننے کے کہ ہتھیار اس کے پاس ہے اور وہ مجھے ہلاک کرنا چاہتا ہے اور باوجود یہ جاننے کے کہ میری کامیابی یقینی نہیں وہ اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر جب کھڑا ہو جاتا ہے تو لوگ کہتے ہیں یہ بڑا جری اور بہادر ہے.یہی چیز جب دوسرے مواقع پر پیش آتی ہے تو اس وقت بھی جرات ہی کہلاتی ہے.مثلاً ایک ایسا موقع آتا ہے کہ انسان سمجھتا ہے کہ میری اپنی ضروریات اتنی ہیں کہ اگر میں انہیں پورا کروں تو دین کی خدمت کا موقع نہیں مل سکتا اور اگر دین کی خدمت کروں تو اپنی ضروریات پوری نہیں ہو تیں.اب اگر کوئی شخص حقیقی معنوں میں جری ہے تو وہ یہی کہے گا کہ ہرچہ بادا باد میں پہلے دین کی خدمت کروں گا اپنی ضروریات بعد میں دیکھ لوں گا.ایسا شخص جری کہلائے گا کیونکہ اسے ایک خطرہ تھا مگر اس نے اس خطرہ کی پرواہ نہیں کی.یا ایک ایسا شخص ہے کہ اس پر کوئی دشمن حملہ کرتا اور اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے.پھر وہ دشمن اس کے قابو میں آجاتا ہے.اب اس کے اختیار میں ہوتا ہے کہ چاہے تو معاف کرے اور چاہے تو سزا دے لیکن اسے معاف کرتے وقت ایک خیال آتا ہے اور وہ یہ کہ اگر آج میں نے اسے چھوڑ دیا تو ممکن ہے کل یہ مجھے پھر نقصان پہنچائے.اس لئے ایک خیال اسے یہ بھی آتا ہے کہ چلو اسے سزا دے لیں لیکن اگر وہ ایسی حالت میں کہ اس کی طرف سے اسے نقصان پہنچانے کا خطرہ ہے دشمن کو معاف کر دیتا ہے تو وہ جری کہلائے گا حالانکہ وہ لڑتا نہیں، دشمن پر حملہ نہیں کرتا لیکن کہلائے گادلیر- کیونکہ دشمن اس کے قابو میں تھا اور اسے اختیار حاصل تھا کہ اسے سزا دے.پس سزا دینے میں تو کوئی خطرہ نہ تھا لیکن عفو میں خطرہ تھا.اور خیال ہو سکتا تھا کہ اگر آج اسے چھوڑ دیا گیا تو ممکن ہے اسے کل کوئی اور موقع مل جائے اور نقصان پہنچا دے.پس ایسے موقع پر معاف کرنے والا بھی جری کہلائے گا حالانکہ وہ لڑنے والا نہیں ہو گا یا اسی طرح اگر کوئی شخص سرکاری ملازم ہے اور وہ دیکھتا ہے کہ ظلم ہو رہا ہے لیکن افسر اس ظلم کی تائید میں ہے تو اگر وہ شخص ان لوگوں کے پاس جن سے ان کا واسطہ ہے صحیح طور پر حالات بیان کر دیتا اور اپنی بات پر قائم رہتا ہے تو ہم کہیں گے یہ جری ہے حالانکہ اس نے لڑائی نہیں کی اور نہ کسی سے مقابلہ کیا.غرض ہر وہ موقع جس میں نیکی اختیار کرنے میں خطرات ہوں اگر انسان اس حالت میں نیکی کو اختیار کرتا اور خطرے کی پرواہ نہیں کرتا

Page 642

خطبات محمود سال ۱۹۳۲ء تو وہ جری کہلائے گا.جرات یہ نہیں کہ لٹھ لے کر دشمن کو مارنے کے لئے چل پڑیں.کیونکہ اگر ہم یہ معنی کریں تو میں تسلیم کرنا پڑے گا کہ لاکھوں کو یہ نیک صفت دکھانے کا موقع نہیں ملا.دیکھ لو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیشہ عفو کی تعلیم دیتے تھے.اور آپ نے کبھی لڑائی نہیں کی بلکہ بسا اوقات آپ پر دشمنوں کی طرف سے حملے ہوئے.لاہور میں سے ہی ایک دفعہ آپ رہے تھے کہ ایک اور مدعی مہدویت بھی آنکلا اور اس نے اس زور سے آپ کو مکا مارا کہ آپ گر گئے.باقی دوستوں نے چاہا کہ اسے ماریں مگر آپ نے فرمایا چھوڑ دو اس نے تو نیک نیتی سے ہی کیا ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے نہ صرف لڑائی میں ابتداء نہیں کی بلکہ دشمن کے مقابلہ میں بھی عفو سے کام لیا.مگر خد ا کیا نام رکھتا ہے جَرِيُّ اللَّهِ فِي حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ اللہ کا جری جو سارے نبیوں کے حلوں میں آیا ہے حالانکہ آپ نے کبھی لڑائی نہیں کی بلکہ لڑائی تو دور کی بات ہے ایسی نیت بھی آپ نے کبھی نہیں کی.مگر باوجود اس کے کہ ساری عمر لڑے نہیں بلکہ لڑائی کی نیت بھی نہیں کی خدا کہتا ہے کہ آپ جری ہیں اور ایسا جری جو ہمار اسپہ سالار ہے.اس سے پتہ چلتا ہے کہ جرات صرف لڑائی کا نام نہیں بلکہ موقع پر عفو کرنا اور درگزر سے کام لینا اور اپنے جذبات کی قربانی کرنا بھی جرات اور دلیری ہے.یہ جرات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میں بدرجہ اتم پائی جاتی تھی اور ہمیشہ آپ نے سچائی اور راستی کی تائید کی اور کبھی اس راہ میں جانی یا مالی نقصان سے خوف نہیں کھایا.پس خدا کے حضور آپ جری اللہ کہلائے.اسی طرح اگر کوئی بھی بجائے دشمن کے مقابلہ میں لٹھ اٹھا لینے کے اپنی عزت مال جان اور آبرو کی قربانی کرنے کے لئے تیار رہتا ہے اور نیکی کے مواقع پر خطرات کو قبول کرتے ہوئے راستی کو ترک کرنا گوارا نہیں کرتا تو وہ جری کہلائے گا.اور اگر وہ اور زیادہ ترقی کرے گا تو جری اللہ بن جائے گا.پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ جری کے معنی صرف لٹھ باز کے ہی نہیں بلکہ موقع پر عفو اور درگزر سے کام لینے والا، تکلیفوں کو برداشت کرنے والا اور ظاہری نقصانات کو قبول کرنے والا بھی جری ہے.ہاں اگر کوئی ڈر کے مارے ایسا کرتا ہے تو وہ بزدل ہے جیسے اگر کوئی شخص نماز تو پڑھتا ہے لیکن اس لئے نہیں کہ خدا کا یہ حکم ہے بلکہ اس لئے کہ محلہ کے لوگ کیا کہیں گے.یا اس لئے چندہ نہیں دیتا کہ یہ قربانی ہے بلکہ اس لئے دیتا ہے کہ دوسرے لوگ اسے مطعون نہ کریں تو ایسا شخص جری نہیں خواہ وہ ساری عمر ایسے کاموں میں گزار ردے بلکہ وہ

Page 643

خطبات محمود ۶۳۸ سال ۱۹۳۲ تو بزدل ہے.کیونکہ اس کا ہر کام بزدلی اور لوگوں کے خوف کی وجہ سے ہے.خا کی محبت کی وجہ سے نہیں.غرض جو شخص نیکی کو نیکی کے لئے اختیار نہیں کرتا بلکہ لوگوں کے لئے اختیار کرتا ہے وہ بزدلی کا ارتکاب کرتا ہے اور ظاہری کام کے لحاظ سے خواہ وہ بہادروں میں ہی شمار ہو اللہ تعالیٰ کے حضور جری نہیں کہلا سکتا.جیسے دنیا میں ہزاروں انسان ایسے ہیں کہ وہ نیکی کے کام تو کرتے ہیں مگر نیک نہیں ہوتے.حدیثوں میں آتا ہے ایک جنگ کے موقع پر مسلمانوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ بہت بڑھ چڑھ کر جنگ میں حصہ لے رہا ہے اور مسلمانوں کی طرف سے اتنے جوش سے از رہا ہے کہ مسلمانوں میں سے کوئی اس وقت ایسا نہیں لڑ رہا تھار سول کریم میں نے اسے دیکھا اور فرمایا اگر کسی نے دنیا میں دوزخی دیکھنا ہو تو وہ اس شخص کو دیکھ لے.اس پر سب لوگ حیران ہو گئے اور صحابہ نے دل میں کہا کہ یہ شخص دوزخی کس طرح ہو سکتا ہے جبکہ ہم سب سے زیادہ جوش سے یہی لڑ رہا ہے.ایک صحابی کا بیان ہے کہ مجھے شبہ ہوا شاید بعضوں کے ایمان میں اس وجہ سے کمزوری پیدا نہ ہو جائے.وہ کہتے ہیں میں نے قسم کھالی کہ اس شخص کا پیچھا نہ چھوڑوں گا.یہاں تک کہ رسول کریم میہ کے قول کی سچائی مشاہدہ کرلوں وہ کہتے ہیں کہ لڑتے لڑتے وہ شخص زخمی ہوا اور کرب اور درد کی وجہ سے کراہ رہا تھا تو میں دیکھتا تھا کہ لوگ آ آکر اسے کہتے ابشر بِالْجَنَّةِ تجھے جنت کی خوشخبری ہو مگر وہ جواب دیتا کہ مجھے جنت کی نہیں دوزخ کی خبر سناؤ کیونکہ میں خدا کے لئے ان کافروں سے نہیں لڑا بلکہ ان سے مجھے کوئی ذاتی بغض تھا جس کا آج میں نے بدلہ لیا.آخر اسی کرب کی وجہ سے تھوڑی دیر بعد اس نے خود کشی کرلی.وہ صحابی کہتے ہیں میں یہ دیکھ کر رسول کریم کی خدمت میں حاضر ہوا.آپ مجلس میں تشریف رکھتے تھے.جب میں پہنچا تو میں نے زور سے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ سوائے خدا کے اور کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ مجھ اللہ کے رسول ہیں.رسول کریم میں نے پوچھا کیوں کیا ہوا؟ اس صحابی نے تب بتلایا کہ آپ نے اس طرح کہا تھا.میں نے بھی عزم کر لیا کہ اسے نہیں چھوڑوں گا جب تک اس کا انجام نہ دیکھ لوں.اب میں یہ انجام دیکھ کر آیا ہوں.تب آپ نے بھی بلند آواز سے کہا أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَ اشْهَدُ أَنَّ رَسُولُ اللہ میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا رسول ہوں.اب دیکھو ! بظاہر وہ نیک کام تھا لیکن چونکہ وہ اللہ تعالٰی کے لئے نہیں لڑ رہا تھا اس لئے وہ بزدل تھا.کیونکہ وہ نہ صرف جذبات بلکہ کمینہ جذبات سے دیا ہو ا تھا.پس دوستوں کو چاہئے کہ جری بنیں اور اپنے تمام افعال

Page 644

۶۳۹ سال ۱۹۳۲ء میں دلیری اور بہادری دکھائیں لیکن جرأت کا مفہوم لٹھ باز بنا نہیں کیونکہ اگر جرأت کا یہی مفہوم لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کے لاکھوں نیک بندے اس نیک صفت کے دکھانے سے محروم رہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کے بندے ان صفات سے محروم نہیں رہتے.پس جب بھی نیکی کا موقع ملے ، عواقب اور خطرات سے بے پرواہ ہو کر اسے اختیار کرلینا اور انجام سے نڈر ہو کر اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی راہوں پر چلنا حقیقی جرات اور بہادری ہے.اسی وجہ سے اللہ تعالی کے انبیاء کا نام جری ہوتا ہے کیونکہ وہ اس قسم کی نیکیوں میں سب سے بڑھ کر ہوتے ہیں.الفضل ۸- دسمبر ۱۹۳۲ء) لے تذکرہ صفحہ ۷۹ - ایڈیشن چهارم بخاری کتاب القدر باب العمل بالخواتيم

Page 645

د محمود Mr 75 حقیقی نیکی کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ہے (فرموده ۹- دسمبر ۱۹۳۲ء) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.حقیقی نیکی دنیا میں وہی ہوتی ہے جو قائم رہے اور جس کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے.چنانچہ رسول السلام فرماتے ہیں زیادہ بہتر نیکی وہ ہے جو زیادہ دیر تک قائم رہے.اور حقیقت بھی یہی ہے کہ جو نیکی زیادہ دیر تک قائم رہے گی اس کا ثواب بھی متواتر ملتا رہے گا اور جو ختم ہو جائے گی اس کا ثواب بھی اس کے ساتھ ہی ختم ہو جائے گا.پس حقیقی نیکی وہی ہے جس کے دنیا میں قائم رہنے کے سامان ہوں.انسان نماز پڑھتا ہے جو دل کے اندر نور پیدا ہونے والی چیز ہے اور اسے پڑھنے والا اللہ تعالی سے وابستگی اور تعلق محسوس کرتا ہے بشرطیکہ اس کے دل کی آنکھیں کھلی ہوں.لیکن ایک نماز کا اثر دوسری نماز کے وقت تک رہتا ہے.اگر وہ دوسری نماز پڑھے تو وہ نور جاری رہتا ہے، وگر نہ بند ہو جاتا ہے.پھر دوسری نماز سے جو نور حاصل ہوتا ہے وہ تیسری تک رہتا ہے اور تیسری کا چوتھی تک.اسی طرح جمعہ کی عبادت ہے اس سے جو نور حاصل ہوتا ہے وہ اگلے جمعہ تک جاری رہتا ہے اگر انسان دو سرا جمعہ پڑھے تو وہ نور جاری رہتا ہے.اور اگر نہ پڑھے تو وہ نور ختم ہو جاتا ہے.عید سے بھی انسان کو ایک نور حاصل ہوتا ہے جو انگلی عید تک رہتا ہے.اسی طرح زکوۃ ہے.جن لوگوں پر زکوۃ فرض ہے اگر وہ اسے ادا کریں تو ان کو ایک نور ملتا ہے اور تزکیہ نفس ہوتا ہے لیکن جب دوسری بار اس کی فرضیت کا وقت آتا ہے اور ادا نہ کی گئی تو وہ سلسلہ ختم ہو جاتا ہے.اور پھر یہ ساری چیزیں انسان کی زندگی کے ساتھ ختم ہو جاتی ہیں.نماز روزه، حج ، زکوۃ غرضیکہ تمام نیکیاں جو عبادات سے تعلق رکھتی ہیں موت کے ساتھ ختم ہو جاتی

Page 646

خطبات محمود سال ۱۹۳۲ء ہیں.اور جب حقیقی نیکی ہی ہو سکتی ہے جس کا فائدہ مستقل اور دائم رہے تو وہ ہمیں کسی اور جگہ تلاش کرنی پڑے گی.اس میں شبہ نہیں کہ ان کے نتائج اگلے جہان میں ملتے ہیں لیکن وہی بیج ترقی کرتا ہے نئی کوئی چیز اس میں داخل نہیں ہوتی.کیونکہ نئی چیز نئے کام سے پیدا ہوتی ہے اور نئی چیزیں جب ختم ہو جائیں تو ثواب کے نئے ذرائع بھی بند ہو جاتے ہیں.جس طرح ہم ایک درخت ہوتے ہیں وہ پھل دیتا ہے پھر دوسرا درخت ہوتے ہیں وہ بھی پھل دیتا ہے غرضیکہ جتنے درخت بوئیں گے اتنے ہی پھل دیں گے لیکن یہ نہیں کہ وہ زیادہ ہو جائیں.مثلاً ہم نے تین درخت ہوئے ہیں وہ تینوں پھل دیں گے لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی چوتھا بھی ہو جائے.وہ تین کے تین ہی رہیں گے.یہی مثال اعمال کی ہے.نماز ایک درخت ہے.جب اس کا بیج بویا گیا تو وہ یقیناً پھل دے گا.اسی طرح روزہ ایک درخت ہے جو پھل دے گا حج ، زکوۃ بندوں کے ساتھ حسن سلوک وغیرہ علیحدہ علیحده درخت ہیں جو پھل دیں گے.لیکن جس دن موت آگئی اسی دن ان درختوں کا لگتا بھی بند ہو جائے گا.جتنے درخت لگ چکے ہیں وہ ضرور پھل دیں گے.لیکن وہ آگے بڑھ نہیں سکیں گے.پس رسول کریم یا اور جو یہ فرماتے ہیں کہ بہتر نیکی وہی ہے جو دائم رہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ جس کا پھل دائمی ہے کیونکہ پھل تو ہر ایک نیکی کا دائمی ہوتا ہے.نماز کے بدلہ میں جو جنت ملتی ہے ، وہ ہمیشہ کے لئے ہی ہوتی ہے.یہ نہیں کہ کچھ عرصہ کے بعد واپس لے لی جائے.اسی طرح زکوۃ، حج اور روزہ وغیرہ عبادات کے بدلہ میں ہمیشہ کے لئے ہی انسان جنت میں داخل ہوتا ہے.اور جب رسول کریم میں اللہ کا یہ ارشاد موجود ہے تو اس کے لئے ہمیں کوئی اور میدان تلاش کرنا پڑے گا ورنہ ان معنوں میں تو ہر ایک نیکی دائم رہنے والی ہے.دراصل رسول کریم کی مراد اس نیکی سے ہے جو موت کے بعد بھی نیک عمل جاری رکھنے کا باعث ہو اور کبھی بند نہ ہو.یا د رکھنا چاہئے کہ ایسی نیکیاں تین ہیں جو موت کے بعد بھی جاری رہتی ہیں اور جن کے متعلق یقینی ثبوت موجود ہیں.ان میں سے ایک تبلیغ ہے.جب انسان دوسرے کے لئے کچی ہدایت کا باعث ہوتا ہے تو جب تک وہ ہدایت باقی رہتی ہے اس کو اجر ملتا رہتا ہے.مثلاً اس نے ایک شخص کو سیدھا راستہ دکھایا.وہ آگے کسی اور کی ہدایت کا موجب ہوا.پھر اس نے آگے کسی اور کو تبلیغ کی اور اسے راہ راست پر لایا.تو یہ سلسلہ جب تک جاری رہے گا سب کی نیکیوں میں سے اسے بھی حصہ ملتا رہے گا.دیکھ لو رسول کریم میں ولیم کی نمازیں، روزے اور حج وغیرہ نیکیاں اگر چہ ختم ہو گئیں لیکن آپ کی تبلیغ کی نیکی آج بھی جاری ہے.اور قیامت تک جاری رہے گی.

Page 647

خطبات محمود ۶۴۲ سال ۱۹۳۲ء دوسری نیکی تعلیم ہے.تبلیغ اسے کہتے ہیں کہ غیر مذاہب کے لوگوں کو مذہب حقہ کی طرف ہدایت دینا.اور تعلیم کے معنے ہیں اس میں داخل ہونے والوں کو مذہب کا صحیح مفہوم بتانا قرآن کریم اور اس کا ترجمہ پڑھانا ، احادیث پڑھانا اور کسی دنیوی لالچ کے لئے نہیں بلکہ محض اللہ تعالٰی کی رضا جوئی کے لئے دین سے دوسروں کو آگاہ کرنا یہ بھی دائمی نیکی ہے.جن اشخاص کو تعلیم دی جائے وہ یا ان میں بعض اگر اور لوگوں کو تعلیم دیں اور پھر ان سے سیکھنے والے آگے اس سلسلہ کو چلا ئیں تو ان سب کا ثواب اسے ملتا رہے گا.اور بالکل ممکن ہے کہ یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے.اور قیامت تک ہی اس کے باغ میں نئے درخت ہوئے جاتے رہیں.تیسری چیز تربیت ہے.یہ بھی مستقل نیکی ہے.جو شخص اپنی اولاد کی تربیت صحیح رنگ میں کرتا ہے اور اس کی اولاد آگے اپنی اولاد کی تو اس طرح جہاں تک یہ سلسلہ جاری رہے ا سے ثواب ملتا رہے گا.اور ممکن ہے اس خاندان میں قیامت تک کوئی نہ کوئی نیک پیدا ہو تا رہے اور اس طرح اس کے باغ میں نئے درخت لگتے ہیں.غرض رسول کریم ملی کا اس ارشاد سے کہ بہتر نیکی وہی ہے جو ہمیشہ جاری رہے یہی مفہوم تھا.بے شک نماز میں سستی کرنے والا مستقل نجات نہیں پاسکتا.یعنی براه راست بغیر دوزخ میں داخل ہونے کے جنت میں نہیں جاسکتا.یوں تو ایک وقت کے بعد سب جنت میں چلے جائیں گے لیکن نماز کے تارک کا یا اس میں سستی کرنے والے کا سید ھا قدم جنت میں نہیں جا سکتا.یہی حال زکوۃ اور حج وغیرہ دوسری عبادات کا ہے کہ ان کے بغیر انسان سیدھا جنت میں نہیں جاسکتا.گویا وہ نہایت ضروری ہیں اور انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.یہ اصل چیزیں ہیں اور وہ نیکیاں زینت ہیں.ایک مکان چھت دیواروں کے ساتھ تو مکمل ہو جاتا ہے لیکن بعض زینت کی چیزیں ہوتی ہیں جو اسے خوبصورت بنادیتی ہیں.ایک ہی حیثیت رکھنے والی یکساں جگہ میں بظاہر ایک ہی جیسے دو مکانوں میں سے ایک پانچ ہزار کی مالیت کا ہو گا اور دو سرا ایک لاکھ کی مالیت کا.گویا تزئین اور آراستگی سے قیمت بڑھ جاتی ہے.تو نماز ، روزہ، حج، زکوۃ وغیرہ ایسی نیکیاں ہیں جن کے بغیر نجات ہی نہیں مگر جو دائمی نیکیاں میں نے بیان کی ہیں وہ اعمال کی عمارت کو خوبصورت بنا دیتی ہیں اور یہی وہ امور ہیں جن کے لئے رسول کریم میام کو مبعوث کیا گیا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ ايته وَ هِم وَيُعْلَمُهُم A GRAND الحكمة اس میں انہی تین امور کو بیان کیا ہے یعنی پہلے تبلیغ ہے.پھر تعلیم اور پھر تربیت اور یہی وہ چیزیں ہیں جن کی وجہ سے رسول کریم میں ساری

Page 648

محمود سال ۱۹۳۲ء دنیا سے افضل ہیں اور سب انبیاء پر آپ کو فضیلت تامہ حاصل ہے.باقی انبیاء کی یہ نیکیاں ختم ہو گئیں مگر آپ کی قیامت تک جاری رہیں گی اس لئے آپ ان سب سے بلند تر مقام پر فائز ہیں.اس وقت میں ان میں سے صرف ایک نیکی یعنی تربیت کو لیتا ہوں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُوا أَنْفُسَكُمْ وَاهْلِيكُمْ نَارا سے یعنی اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچاؤ.دنیا میں کون آدمی شریف کہلا سکتا ہے جو مقدرت کے باوجود اپنی اولاد کو تعلیم نہ دلائے.ان کی صحت کی حفاظت کے سامان نہ کرے.پھر وہ انسان کس طرح شریف کہلا سکتا ہے جس کی اولاد کو دین سے مس نہ ہو.یاد رکھنا چاہئے کہ عبادات میں اعلیٰ نیکی نماز ہے.یہ ایک فرقان و امتیاز ہے مومن و کافر میں، چنانچہ رسول کریم میں ہم نے منافق کی علامت یہ بتائی ہے کہ وہ عشاء اور فجر کی نماز میں نہیں آتا ہے.لیکن مومن سوائے جائز معذوری کے ضرور آتا ہے.اور خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق نماز ادا کرتا ہے تو تربیت میں سب سے پہلی چیز نماز ہے اور دوسری ان کو دین سے واقف کرنا.تعلیم کے بعض حصے استادوں سے متعلق نہیں ہوتے بلکہ اولاد کو ان سے آگاہ کرنا والدین کا فرض ہوتا ہے.مثلاً انہیں بتانا کہ تمہارا پیدا کرنے والا کون ہے.رسول کون ہے امام کون ہے.پھر نظام سلسلہ سے انہیں آگاہ کرتے رہنا.اگر یہ باتیں آہستہ آہستہ بچوں کے کان میں ڈالی جائیں تو بہت فائدہ ہوتا ہے.ایسی اولاد اگر بگڑ بھی جائے تو نظام سلسلہ سے ڈرتی رہتی ہے.ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ان کی شکایت خلیفہ وقت یا کارکنوں کو نہ پہنچ جائے.وہ بے شک دوڑیں گے ، کو دیں گے مگر ان کا گلا سلسلہ کے رسہ سے بندھا ہوا ہو گا.اور ان کی آوارگی ایک محدود دائرہ کے اندر ہوگی.لیکن جن بچوں کو والدین سلسلہ کے نظام سے واقف نہیں کرتے وہ برملا کہہ دیتے ہیں کہ ہم تمہاری بات نہیں مانتے.ہوں گے تو دونوں آوارہ لیکن ایک کے گلے میں ایک لمبارسہ ہو گا اور وہ اس کی حد کے اندر ضرور رہے گا لیکن دوسرا بالکل آزاد ہو گا.پہلے کو کلیتاً بگاڑ نا نا ممکن ہو گا.بُری صحبت اس کے اندر آورگی پیدا کرے گی مگر سلسلہ کے ساتھ وابستگی ضرور رہے گی.حتی کہ کسی وقت اس کے دل میں خشیت پیدا ہو جائے گی اور وہ واپس آجائے گا.اس لئے تربیت کے لئے بچوں کو ایسی باتیں بتاتے رہنا نہایت ضروری ہے.اسی طرح نماز بھی تربیت کے لئے بہت ضروری چیز ہے.اس کے بغیر انسان کو کوئی نور نہیں مل سکتا.اور جس دن کوئی نماز ناغہ ہو جائے ، اس دن انسان کی روحانی لحاظ سے موت واقع ہو جاتی ہے.اور یہ سب کو معلوم ہے کہ لولے لنگڑے کو صحت ہو جاتی ہے بیمار اچھے ہو سکتے ہیں لیکن مردہ کو زندہ کرنا ممکن

Page 649

خطبات محمود سال ۱۹۳۲ء نہیں.اسی طرح نماز کے تارک کو ابھارنا بہت مشکل ہوتا ہے.اس لئے ہر شخص جو چاہتا ہے کہ دائگی نیکی کرے اسے چاہئے کہ اس بات کو اپنے فرائض میں داخل کرلے کہ اولاد کو نماز کی تعلیم دینی ہے ، بلکہ بچوں کو نماز میں ساتھ لائے اور اگر معذور ہے تو بھیجے.بلکہ جو معذور ہے اسے چاہئے کہ زیادہ زور اور تاکید کے ساتھ کہتا رہے تا اس کے بچے یہ نہ خیال کرلیں کہ وہ نمازوں میں ست ہے.اسے چاہئے کہ انہیں بار بار سمجھاتا رہے کہ میں معذور ہوں اس لئے شامل نہیں ہو سکتا.تم جاؤ اور نماز پڑھ کر آؤ.اور پھر اس بات کی نگرانی کرے کہ وہ جاتے ہیں یا نہیں.مگر بہت سے لوگ ہیں جو اس کی پرواہ نہیں کرتے.اور میں نے نہایت افسوس کے ساتھ دیکھا ہے کہ یہاں قادیان میں بھی نمازوں کے وقت بعض لوگ شور مچاتے رہتے ہیں مگر انہیں کوئی نہیں سمجھا تا کہ نماز ہو رہی ہے شور نہ ڈالیں.پر بسوں کا ہی واقعہ ہے کہ میں نماز پڑھا رہا تھا کہ ایک چھوٹی بچی کی آواز نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا.کوئی دیہاتی عورت کچھ بیچ رہی تھی.اس لڑکی نے کہا.تینوں شرم نہیں آؤندی.حضرت صاحب نماز پڑھا رہے نے تے توں شور کرنی آں.یعنی تمہیں شرم نہیں آتی حضرت صاحب تو نماز پڑھا رہے ہیں اور تم شور کرتی پھرتی ہو.معلوم ہوتا ہے اس کے والدین نے اس کے کان میں یہ بات ڈالی ہوئی تھی کہ نماز کے وقت شور کرنا نہیں چاہئے.وہ خود نماز میں شامل نہ تھی اور کھیلتی پھرتی تھی لیکن اتنا احساس اسے ضرور تھا.مجھے اس بات سے اس قدر لطف آیا کہ چاہا نماز ختم کر کے اس کا پتہ کروں کہ وہ کون تھی.تو بچوں کے دل میں جو بات ڈالی جائے وہ بڑا اثر کرتی ہے.اور اگر انہیں مسجدوں میں جانے کا عادی بنا دیا جائے تو وہ ایسے آوارہ کبھی نہیں ہو سکتے کہ اصلاح نہ ہو سکے.پس میں قادیان کے دوستوں کو خصوصیت سے توجہ دلاتا ہوں کہ وہ بچوں کو نماز کی عادت ڈالیں.نماز کے لئے انہیں ساتھ لے جائیں اور اگر خود معذور ہوں تو انہیں ضرور بھیج دیں.اور پھر نگرانی کریں کہ وہ جاتے ہیں یا نہیں.پھر بچہ جب ذرا بڑا ہو جائے تو اسے تہجد کی عادت ڈالیں.کیونکہ میرے نزدیک تہجد کی عادت اسی عمر میں پڑ سکتی ہے.بعد میں بہت مشکل ہوتا ہے.اس لئے انہیں تجد کی عادت ڈالیں اور ذکر کرنا سکھائیں.اس سے طبیعت کا لا ابالی پن دور ہو کر رقت قلب پیدا ہوگی.دوسری چیز جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ بہت احتیاط کی ضرورت ہے وہ جھوٹ ہے.میں نے بہت افسوس کے ساتھ دیکھا ہے کہ جب بھی کبھی مجھے کسی مقدمہ کی تحقیقات کا موقع ملا میں نے محسوس کیا کہ بڑے لوگوں میں سے بعض تو صریح جھوٹ بولتے ہیں اور بعض جھوٹ بولنے

Page 650

خطبات محمود ۶۴۵ سال ۱۹۳۲ء کے لئے کوئی بہانہ اپنے نفس سے بنا لیتے ہیں.مگر یہ طریق بھی درست نہیں.اس سے انسان کے اندر بزدلی پیدا ہوتی ہے.اگر غلطی ہو جائے تو اس کا اقرار ہی مناسب ہے.اور اگر اس طرح دنیوی طور پر نقصان بھی ہو جائے تو اخروی نقصان کے مقابلہ میں جو جھوٹ سے ہوتا ہے، اس کی کچھ حقیقت نہیں.جھوٹ بولنے والوں کے بچے بھی جھوٹے ہوتے ہیں.یہ مت خیال کرو کہ بچہ سمجھ نہیں سکتا کہ اس کے سامنے جھوٹ بولا جارہا ہے.بچہ کی نظر بہت تیز ہوتی ہے.میں نے ایک تماشہ کرنے والے کی کتاب پڑھی ہے وہ لکھتا ہے کہ سب سے زیادہ مشکل وہ کھیل ہوتا ہے جو بچوں کے سامنے کرنا پڑے.ایک پروفیسر کو آسانی کے ساتھ دھوکا دیا جاسکتا ہے مگر بچہ کو دھوکا دینا بہت مشکل ہے.پس اس کے متعلق بہت نگرانی کرنی چاہئے کہ بچہ جھوٹ نہ بولے.اسے دلیر بنانا چاہئے.اور اسے اچھی طرح سمجھا دینا چاہئے کہ اگر وہ صحیح صحیح اپنے قصور کا اعتراف کرلے گا تو اسے کوئی سزا نہیں دی جائے گی.جب بچہ کو سچ بولنے کی عادت ہو جائے تو اس کا کیریکٹر ایسا مضبوط ہو جاتا ہے کہ وہ دنیا میں کبھی ذلیل نہیں ہو سکتا.اس کے مقابلہ میں جھوٹا آدمی کبھی حقیقی عزت حاصل نہیں کر سکتا.اور اگر کوئی اس کے سامنے تعریف بھی کرے تو وہ محض ظاہر داری ہوگی.وگرنہ اس کے متعلق لوگوں کے دلوں میں نفرت ہی ہوگی.پس کوشش کرو کہ بچے بڑوں کے ساتھ بھی تعلقات میں جھوٹ سے پر ہیز کریں.اور خدا تعالیٰ سے تعلق کے سلسلہ میں نماز کے عادی ہو جائیں.اگر ان دونوں امور کی نگرانی کی جائے تو بہت حد تک اصلاح ہو سکتی ہے.پس میں قادیان کے دوستوں کو بالخصوص اور بیرونی دوستوں کو بالعموم توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ان امور کا خیال رکھیں.اگر ہر شخص کو تبلیغ کا موقع نہ بھی مل سکے تو بچوں کی تربیت سے کسی صورت میں بھی غافل نہ ہوں.انہیں چھوٹے چھوٹے مسائل یاد کراؤ اور بتاؤ کہ خدا سے ان کا تعلق کیا ہے ، بندوں سے کیا ہے ، سلسلہ کے متعلق موٹی موٹی باتیں بتادو - پھر خلفاء کے حالات سے آگاہ کرو.اور نشانات الیہ یاد کراؤ.ان باتوں سے انہیں سلسلہ کے ساتھ وابستگی پیدا ہو جائے گی.پھر نماز کا پابند بناؤ.بالخصوص نماز با جماعت کی عادت ڈالو اور جھوٹ سے پر ہیز کراؤ.اگر یہ باتیں پیدا ہو جائیں تو روز بروز کے جھگڑے خود بخود مٹ جائیں گے.میں نے دیکھا ہے قادیان میں جوں جوں جماعت بڑھتی جارہی ہے یہ نقص پیدا ہوتے جارہے ہیں.بچوں کو مسائل سے آگاہ نہیں کیا جاتا.نماز کی پابندی نہیں کرائی جاتی.اور جھوٹ سے پر ہیز نہیں کرایا جاتا.ماں باپ کا فرض ہے کہ وہ انہیں ان باتوں کا عادی بنائیں.اور اس طرح دائمی نیکی کرنے والوں میں شامل ہوں.اس

Page 651

خطبات محمود سال ۱۹۳۲ء طرح ان کے باغ میں قیامت تک نئے نئے درخت پیدا ہوتے رہیں گے.کیونکہ ان کی تربیت سے ان کی اولاد کی اصلاح ہوگی اور ان کے ذریعہ ان کی اولاد کی.اور اس طرح یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا.بلکہ یہ تو ایسا کام ہے کہ جن کے ہاں اولاد نہ ہو انہیں چاہئے کہ یتامی کو پال کر یہ ثواب حاصل کریں لیکن جن کو اللہ تعالی نے اولاد دی ہے وہ اگر اس سے محروم رہتے ہیں تو ان کی مثال ایسی ہے جیسے کسی کے گھر میں گنگا بہہ رہی ہو لیکن وہ گندے ہاتھ لے کر بیٹھا رہے.رسول کریم میں اللہ نے فرمایا ہے کہ جس کے ہاں دو لڑکیاں ہوں اور وہ ان کی صحیح تربیت کرے تو میں اس کے ساتھ جنت کا وعدہ کرتا ہوں.جس سے معلوم ہوا کہ اولاد کی صحیح تربیت انسان کو جنت کا وارث بنادیتی ہے.پس اگر تبلیغ اور تعلیم کے کام مشکل ہیں تو کم از کم اپنی اولاد کی تربیت تو کسی کے لئے مشکل نہیں کی جاسکتی.جو کچھ تمہیں آتا ہے وہ انہیں سکھاؤ.اور پھر بچے جو نیکی بجالائیں گے اس کے ثواب میں اسے ایک حصہ تمہیں بھی ملے گا.اور جو شخص اتنے آسان ذریعہ کو بھی اختیار نہیں کرتا کہنا پڑے گا کہ نہ اسے جنت کی قدر ہے اور نہ اللہ تعالٰی کی خوشنودی کی پر واہ.اس کے ایمان میں نقص ہے.لیکن جس کے دل میں کچھ بھی قدر ہے وہ اتنا آسان طریق سن کر خوشی سے اچھل پڑے گا.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ میں نیک اعمال بجالانے کی توفیق دے اور پھر یہ بھی توفیق دے کہ نیکی کو اپنے تک ہی محدود نہ رکھیں بلکہ اپنی اولادوں کے اندر بھی اسے پیدا کریں تا یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے.اور یہ کام کچھ بھی مشکل نہیں ، صرف ارادہ اور نیت کی دیر ہے اور جب انسان کس کام کی نیت کرے تو خواہ وہ مشکل ہو پھر بھی آسان ہو جاتا ہے.ا بخاری کتاب الایمان باب احب الدين الى الله عز و جل ادومه الجمعة : ٣ التحريم: ا بود ودكتاب الصلوة باب فى فضل صلوة الجماعة د ترمذی ابواب البر والصلة باب ما جاء فى النفقة على البنات (الفضل ۱۵- دسمبر ۱۹۳۲ء)

Page 652

خطبات محمود ۶۴۷ 76 السَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہنے کی تاکید (فرموده ۱۶- دسمبر ۱۹۳۲ء) سال ۱۹۳۲ء تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- بعض لوگوں نے میرے پاس شکایت کی ہے کہ قادیان کے لوگوں میں السّلامُ عَلَيْكُمْ کہنے کا رواج کم ہے.اور یہ کہ بہت سا حصہ ایسے لوگوں کا ہے جو سلام کا جواب نہیں دیتے.بالخصوص جو لوگ بڑے سمجھے جاتے ہیں وہ خصوصیت کے ساتھ سلام کا جواب دینے میں سستی کرتے ہیں.یہ الزام ایساد سیع ہے اور ایسا غیر معین اور مہم ہے کہ اس قسم کی باتوں یا ایسی شکایتوں کی طرف توجہ کرنا بالکل بے معنی ہے.ایسی ملاقاتوں کو چھوڑ کر جو عیدین اور جمعہ کے روز ہوتی ہیں اور جو ایسی نہیں ہوتیں کہ ان میں شناخت یا گفتگو ہو سکے ، وہ اختصار کے ساتھ اظہار محبت ہوتا ہے اور ایسا موقع صرف مجھے ہی ملتا ہے باقی لوگوں کو شاید ہی اس رنگ میں قادیان کے دس فیصدی لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوتا ہو.ہر شخص کو سلام کا جواب ضرور دینا چاہئے.لیکن اس طرز میں شکایت کرنا کہ سارے ہی یا پچاس فیصدی یا پچیس فیصدی ایسے ہیں جو سلام کا جواب نہیں دیتے ، علامت ہے اس بات کی کہ ایسا شخص بہت جلدی غصے میں آجاتا ہے.اگر قادیان کے تمام لوگوں کی ایک پریڈ کرائی جائے اور اس سے دریافت کیا جائے کہ اس سال ان میں سے کتنے لوگوں کے ساتھ تمہاری ملاقات ہوئی ہے تو معلوم ہو گا کہ دس فیصدی سے بھی کم سے ملنے کا اسے موقع ملا ہے.ایسی حالت میں اس کا سب پر یا پچاس ساٹھ فیصدی پر فتویٰ لگا دینا سخت مضحکہ خیز ہے.جس صورت میں کہ وہ ملا دس سے بھی نہیں تو اس کی شکایت کس طرح صحیح ہو سکتی ہے.ایسا شخص منطق کے صحیح اصول سے ناواقف ہے.دس میں سے اسے جو واقعہ

Page 653

طبات محمود ۶۴۸ سال ۱۹۳۲ء پیش آیا ، اس سے اس نے اندازہ کر لیا کہ اتنے فی صدی لوگ ایسے ہیں.حالانکہ ممکن ہے اسکے ملنے والے ہی ایسے ہوں.اور بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایسے شخص کے اندر چونکہ خود نقائص ہوتے ہیں اس لئے اس کے ارد گرد بھی ویسے ہی لوگ جمع ہو جاتے ہیں.پھر نیسا اوقات اس کا چالیس یا پچاس فیصدی کا اندازہ اس کے اپنے دل کا آئینہ ہو تا ہے اور وہ دراصل اس کی اپنی تصویر ہوتی ہے جو اللہ تعالٰی دوسروں کی شکل میں اسے دکھاتا ہے.لیکن اگر یہ بھی نہ ہو تو ایسا کرنے والے کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ ایک شخص جو اپنے آپ کو بڑا عقلمند خیال کرتا تھا کسی دریا پر پہنچا.دریا کے کناروں پر پانی تھوڑا ہی ہوتا ہے.اس نے جو دیکھا کہ کنارے پر پانی تھوڑا ہے.مثلاً دس انچ کے فاصلہ پر اتنا ہے تو جھٹ اربعہ لگا لیا کہ آگے کتنا ہو گا اور یہ قیاس کر کے فیصلہ کر لیا کہ پانی تھوڑا ہی ہے اور اپنے بال بچوں کو لے کر اسے عبور کرنے لگا.اب دریا کا تو پتہ ہی نہیں لگ سکتا.ایک جگہ پایاب ہے تو دوسرے ہی قدم پر اس قدر گہرا ہو جاتا ہے کہ آدمی فوراً غرق ہو جائے.جب بیچ میں گئے تو سب غرق ہو گئے.وہ خود چونکہ تیرنا جانتا تھا اس لئے پار جا پہنچا.اب کنارے پر پہنچ کر پھر اس نے اربعہ لگانا شروع کیا اور اپنے حساب کو ٹھیک پایا.اس پر وہ بہت حیرانی کے ساتھ پنجابی زبان میں کہنے لگا.اربعہ لگا جیوں تیوں- کنبہ ڈوبا کیوں.یعنی اربعہ تو بالکل ٹھیک لگایا تھا پھر میرا خاندان کیونکر غرق ہو گیا.تو ایسے شکایت کرنے والوں کی مثال بھی ایسی ہوتی ہے.دس سے ملاقات ہوئی ان میں سے پانچ ایسے مل گئے جو سلام کرنے میں ست تھے.بس اس سے اربعہ لگالیا کہ قادیان میں پچاس فیصدی لوگ سلام نہیں کرتے.یا کوئی ایسا شخص ہو سکتا ہے جسے ساری عمر کسی کو قرض دینے کا اتفاق نہیں ہوا.بد قسمتی سے کسی کو دو چار روپے قرض دیا اور وہی ایسا نکلا جو واپس کرنے والا نہ تھا.پس اس سے قیاس کر لیا کہ یہاں کے سو فیصدی لوگ بد معاملہ ہیں اور قرض لے کر واپس نہیں کرتے.غرض ایسی شکایت کو اپنی ذات میں کوئی حیثیت حاصل نہیں ہو سکتی.لیکن چونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ایک دو بھی ایسے ہوں تو ان کو سمجھانا میرا فرض ہے اس لئے جہاں میں اس بات کو صحیح نہیں سمجھتا وہاں یہ بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر چند ایک میں یہ نقص ہے تو اس کا ازالہ ہو جائے.غرض میں اس قسم کا اعتراض کرنے والوں کے خلاف اظهار ناپسندیدگی کرتا ہوں کیونکہ یہ طریق فتنہ کا موجب ہے.اور خواہ مخواہ کی بے چینی پیدا کرنے کا باعث ہو سکتا ہے.ہاں خلیفہ وقت کے پاس صحیح انفار میشن پہنچانا فرض ہے.اگر ایک شخص آئے اور کسے میں نے مولوی شیر علی صاحب کو سلام کیا مگر انہوں نے جواب نہیں دیا.میاں

Page 654

۶۱۹۳۲ ۶۴۹ خطبات محمود بشیر احمد صاحب کو سلام کیا مگر انہوں نے جواب نہیں دیا.مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب چودہری فتح محمد صاحب یا شیخ عبدالرحمن صاحب مصری نے میرے سلام کا جواب نہیں دیا.اس طرح کی اگر وہ پانصد یا ہزار آدمیوں کی فہرست بھی دے دے تو یہ جائز ہے.لیکن اگر اس نے پانصد کو سلام کیا اور انہوں نے جواب نہیں دیا اور وہ کہہ دیتا ہے کہ سارے ہی سلام کا جواب نہیں دیتے تو یہ نا جائز ہے.اس کا کیا حق ہے کہ جن لوگوں سے وہ واقف بھی نہیں اور جنہوں نے اس کی شکل بھی نہیں دیکھی وہ ان پر الزام لگائے.حتی کہ اگر واقعہ میں بھی پچاس فیصدی ایسے ہیں جو جواب نہیں دیتے تو بھی اس کا تمام کے متعلق ایسا کہنا نا جائز ہے.اور اس پر اس سے خدا تعالیٰ.ضرور باز پرس کرے گا.کیونکہ وہ ناکردہ گناہوں پر یا ایسے لوگوں پر جن پر جرم ثابت نہیں بلاوجہ الزام لگا سکتا ہے.یہ طریق سخت نا جائز ہے اور یہی وجہ ہے کہ میں ایسی شکایات کا جواب نہیں دیتا.اور پھر ایسے لوگ اپنے واقفوں بلکہ نوواردوں کے سامنے کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے شکایت کی تھی مگر اس کا کوئی جواب ہی نہیں دیا گیا.حالانکہ اگر میں اس شکایت پر نوٹس لوں تو وہ سزا کے مستوجب ٹھہریں کیونکہ تحقیق کا تو یہی طریق ہو سکتا ہے کہ میں انہیں کہوں لاؤ ثابت کرو کہ اتنے فیصدی لوگ سلام کا جواب نہیں دیتے.اور جب وہ ثابت نہ کر سکیں تو انہیں سزا دوں.پس شریعت کے رو سے یہ میری بے توجہی نہیں بلکہ رحم ہوتا ہے کیونکہ میں سمجھتا ہوں انہوں نے جہالت سے ایسا کیا ہے.مجھے در گزر سے کام لینا چاہئے.پس بجائے اس کے کہ وہ میرے ممنون ہوں وہ الٹا واویلا کرتے ہیں.ایسے شخص کی شکایت اگر صحیح ہے اور اس کے علم میں بہت سے ایسے آدمی ہیں تو وہ کیوں ان میں سے چار پانچ یا ایک دو کے ہی نام نہیں لے دیتا.اور اگر وہ سمجھتا ہے کہ بے گناہوں کو بھی ساتھ شامل کر لینے سے شکایت کی عظمت بڑھ جائے گی تو یہ غلط خیال ہے.اس طرح سے عظمت بڑھے گی نہیں بلکہ کم ہو جائے گی.غرض اس طریق شکایت کو میں سخت نا پسند کرتا ہوں اور ایسا کرنے والا میرے خیال میں اپنی روحانیت پر تبر رکھتا ہے.میں تو اس سے در گزر کر دیتا ہوں.مگر ممکن ہے میرا معاف کرنا غلط ہو اور وہ شخص رحم کافی الواقع مستحق نہ ہو.اور یہ ضروری نہیں کہ جسے میں معاف کر دوں اسے اللہ تعالٰی بھی معاف کر دے.ایسی صورت میں وہ ایسے لوگوں کو کہے گا کہ ثبوت لاؤ وگر نہ تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے.سو یہ طریق غلط ہے.میں نے تو اکثر بتایا ہے کہ ایسا نہیں کرنا چاہئے.یہ کیوں کہتے ہو کہ لوگ ایسا نہیں کرتے جو نہیں کرتے ان کا نام کیوں نہیں لیتے.اگر ایسا کرنے سے ڈرتے ہو تو ان پر

Page 655

خطبات محمود ۶۵۰ سال ۱۹۳۲ء تو تم یہ الزام لگاتے ہو کہ وہ سلام نہیں کرتے مگر اپنے آپ کو منافق ثابت کر رہے ہو.پس یہ طریق غلط ہے.اگر تم دیکھو کہ نقص ہے اور ایک شخص کا بھی نام لے لو جس میں وہ پایا جاتا ہے تو میرے دل میں اس کے متعلق گھبراہٹ ہو گی.یہ علیحدہ بات ہے کہ بسا اوقات میں اس خیال سے کہ چھوٹی بات ہے اسے جانے دوں.خاموش رہوں یا یہ جواب دیدوں کہ ہم اصلاح کی کوشش کر رہے ہیں مگر میرے دل میں اسے سن کر حرکت ضرور پیدا ہوگی.لیکن اگر یوں کہو کہ پانچ ہزار میں یہ نقص ہے اور نام کسی کا نہ لو تو مجھ پر اس کا کوئی اثر نہ ہو گا بلکہ مجھے یقین ہو جائے گا کہ یہ شکایت جھوٹی ہے.شکایت کا صحیح طریق یہ ہے کہ کہا جائے فلاں نے ایسا کیا ہے.اور اگر یہ نہیں کرنا چاہے تو پھر خاموش رہو.اگر اصلاح چاہتے ہو اور تمہارے خیال میں وہ چپ رہنے سے ہو سکتی ہے تو پھر اسے میرے تک پہنچا نا غلط ہے.اور اگر پہنچانا ضروری سمجھتے ہو تو پھر صحیح بات پہنچاؤ ایسی شکایت کرنے والوں کو میں قضاء کے طور پر جھوٹا کہتا ہوں.لیکن ممکن ہے بعض ایسے لوگ واقعہ میں بھی موجود ہوں جو سلام نہ کہتے اور سلام کا جواب نہ دیتے ہوں.ایسے لوگوں سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ طریق عزت کا موجب نہیں ہو سکتا.عزت دو طرح کی ہوتی ہے بندوں کے نزدیک اور خدا کے نزدیک کیا تم سمجھتے ہو کہ جو شخص تمہیں سلام کرے اور تم اس کا جواب نہ دو تو وہ تمہیں بڑا سمجھے گا اور گھر جا کر کے گا کتنا بڑالا ئق اور معزز آدمی ہے میں نے السّلامُ عَلَيْكُم کیا مگر اس نے جواب تک نہیں دیا نہیں بلکہ کہے گا.کیسا نا معقول اور پاجی ہے میں کوئی اس کا ماتحت نہ تھا.کوئی خوشامدی نہ تھا.میں نے سلام کیا اور اس کا جواب تک نہ دے سکا.پھر اللہ تعالیٰ کا رسول اسے ضروری قرار دیتا ہے.اور تم نا فرمانی کرتے ہو.تو کیا جب خدا کے سامنے جاؤ گے تو وہ یہ کہے گا کہ میرا کیسا معزز بندہ آتا ہے لوگ اسے سلام کرتے اور یہ جواب تک نہیں دیا کرتا تھا ہرگز نہیں.گویا اس طرح بندوں کے نزدیک بھی ذلیل رہو گے اور خدا کے نزدیک بھی پس اگر یہاں کوئی ایسا آدمی ہے جو سلام نہیں کرتا یا سلام کا جواب نہیں دیتا تو میں اسے بتاتا ہوں کہ یہ طریق غلط ہے.رسول کریم اللہ کو سلام اس قدر پیارا تھا کہ آپ نہ صرف خود کرتے.بلکہ دوسروں کو بھی تاکید کرتے اور فرماتے کہ جو سلام کرتا ہے اسے دس نیکیاں ملتی ہیں اور آدمی کا دماغ ہاتھ کان مشغول ہوں تب بھی وہ مونہہ سے سلام کہہ کر دس نیکیاں حاصل کر سکتا ہے گویا دوسرے کام میں مشغول ہوتے ہوئے بھی وہ دس نیکیاں حاصل کر سکتا ہے.فرض کرو تم دس گناہ کرتے

Page 656

خطبات محمود ۶۵۱ سال ۱۹۳۲ء ہو.اگر ایک سلام محبت سے کر دو تو وہ سب زائل ہو جائینگے بشرطیکہ گناہ بھی ایسا ہو جیسا سلام کرنے کی نیکی ہے رسول کریم میہ کی مجلس میں ایک شخص آیا اس نے کہا السّلامُ عَلَيْكُمْ آپ نے فرمایا دو سرا آیا اور کہا السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ الله آپ نے فرمایا عِشْرُونَ تیرا آیا اور کہا سلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ آپ نے فرمایا تلقون صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اسکا کیا مطلب ہے.آپ نے فرمایا جس نے السّلامُ عَلَيْكُم کیا اس کے نام دس نیکیاں جس نے السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ کہا اس کے ہیں نیکیاں اور جس نے السّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةٌ الله وبرکاتہ کہا اس کے نام تیس نیکیاں لکھی گئیں.اور جب ایک لفظ سے دس نیکیاں وَبَرَكَاتُهُ ملتی ہوں تو وہ کون بے وقوف ہے جو نہ لے سلام کا جواب بھی اونچی آواز سے دینا چاہئے.ہاں ایک اور صورت ہے مثلاً میں اب پانچ منٹ میں یہاں تک پہنچ سکا ہوں اس اثناء میں قریباً اڑھائی سو لوگوں نے مصافحے کئے ہوں گے اور پھر کئی ایسے ہاتھ تھے جن کے ہاتھ دو سروں سے ملے ہوئے تھے.رسول کریم میں اللہ کا طریق تھا کہ ایسے موقع پر آپ تین دفعہ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ کر دیتے.کیونکہ سب کو علیحدہ علیحدہ جواب دینا ایسے موقع پر مشکل ہوتا ہے اس لئے اکٹھا ہی جواب دیا جا سکتا ہے اور اگر ایسا نہ کیا جائے تو کھڑے ہو کر ہر ایک جواب دینا تکلیف مالایطاق بلکہ مضحکہ خیز بھی ہے.مگر یہ موقع ہر بار مجھے بھی پیش نہیں آتا اور دوسروں کو تو بالکل ہی نہیں آتا ہو گا اور ایسی صورت کے ہو اسلام کا جواب ضرور دینا چاہئے.بلکہ رسول کریم تو اس قدر احتیاط کرتے تھے کہ اکثر آپ خود ابتداء کرتے تھے.چونکہ آپ معلم تھے اس لئے اگر بچوں کے پاس سے گزرتے تو ان کو بھی السّلامُ عَلَيْكُمْ کہتے اور اس طرح انہیں سلام کہنا سکھاتے.لیکن اگر ایک ہیڈ ماسٹر گزرتا ہے بچے اسے سلام کہتے ہیں اور وہ جواب نہیں دیتا تو وہ یہی سمجھیں گے کہ جواب نہیں دینا چاہئے.کیونکہ بچے وہی کرتے ہیں جو بڑوں کو کرتا دیکھیں.ہمارے گھر میں چونکہ عام طور وہ دیکھتے ہیں اس لئے ایسی عادت ہو گئی ہے کہ جب میں جاتا ہوں اس کثرت کے ساتھ السّلامُ عَلَيْكُمْ کہنے لگ جاتے ہیں کہ مجھے بعض اوقات انہیں ڈانٹنا پڑتا ہے.باری باری بچے ابا جان السّلامُ عَلَيْكُم ابا جان السّلامُ عَلَيْكُمْ کرنا شروع کر دیتے ہیں.اور جب ایک دور ختم ہو جائے تو دوبارہ شروع کر دیتے ہیں.لیکن اگر ماں باپ یا ہیڈ ماسٹر کو وہ دیکھیں کہ سلام نہیں کرتے تو وہ بھی اس کے عادی نہیں ہو سکتے.

Page 657

خطبات محمود ۶۵۲ سال ۱۹۳۲ء پس ناظر ، ہیڈ ماسٹر، استاد اور دوسرے افسروں کو چاہئے کہ پہلے خود سلام کیا کریں تا دو سروں کو رغبت ہو.حضرت انس رسول کریم میم کے خادم تھے.وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم نے فرمایا جب گھر میں آؤ تو السّلامُ عَلَيْكُمُ کو.اس سے گھر والوں کو تمہیں اور تمہارے اہل بیت کو برکت ملے گی سے.اور محبت بڑھانے کا ذریعہ ہے.بظاہر یہ ایک چھوٹا سا جملہ ہے جس میں اس خاص سلامتی کا ذکر ہے جس کے متعلق قرآن میں آتا ہے کہ جب قیامت کے دن جنتی جنت میں داخل ہوں گے تو اللہ تعالیٰ کے گا سَلَامُ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ یعنی جو سلامتی تمہارے لئے مقدر تھی وہ یہی ہے.گویا جب ہم السّلامُ عَلَيْكُمْ کہتے ہیں تو اس سلامتی کے ملنے کی دعا کرتے ہیں جس کا وعدہ قرآن کریم میں کیا گیا ہے.غرض یہ ایک دعا ہے جس کے معنی ہیں کہ تمہاری نیکیاں زیادہ ہوں، خدا تعالیٰ تمہاری بدیوں کو مٹائے ، تمہیں جنت میں داخل کرے اور اس کے فرشتے تمہیں سلام پہنچا ئیں.چکڑالوی اَلسّلامُ عَلَيْكُمْ کے بجائے سلامُ عَلَيْكُمْ کہتے ہیں.اور اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ السّلامُ عَلَيْكُم قرآن میں نہیں آیا.لیکن مجھ سے اگر کوئی پوچھے تو میں کہوں گا کہ اگر کوئی شخص ساری عمر بلکہ اس کی اولاد بھی مجھے سَلامُ عَلَيْكُمْ کہتی رہے تو میں ایک بار کے السّلامُ عَلَيْكُم کی قیمت بھی اس سے بہت زیادہ سمجھوں گا.کیونکہ سَلامُ عَلَيْكُم میں اپنا سلام ہے اور السّلامُ عَلَيْكُمْ میں اللہ تعالیٰ کا سلام ملنے کی دعا ہے.پس یہ معمولی چیز نہیں.سلام کہنا اور جواب دینا قوم میں اتحاد و اتفاق اور برکت کا موجب ہے اور نہ صرف اپنے لئے بلکہ اپنی اولاد کے لئے بھی ہے.اور جو برکت ذراسی زبان ہلا دینے سے ملتی ہو اسے نہ لینا بڑی حماقت ہے.اگر چہ ایسی شکایت میں اتنا مبالغہ ہے کہ جو جھوٹ کی حد تک پہنچ جاتا ہے.لیکن پھر بھی شکایت کرنے والے پاگل نہیں ہیں اور بعض ایسے لوگوں کی طرف سے بھی شکایت پہنچی ہے جن کی راستبازی میں شبہ کی گنجائش نہیں.اس لئے میں سمجھتا ہوں دو چار ایسے لوگ ضرور ہیں جن میں یہ نقص ہے.اور جن میں یہ نقص ہو میں انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اسے دور کریں.اور مفت نیکی حاصل کرنے سے محروم نہ رہیں.صحابہ تو نیکی کا اتنا خیال رکھتے تھے کہ ایک دفعہ ایک صحابی نے بیان کیا کہ رسول کریم می فرماتے تھے اگر کوئی شخص کسی مومن کا جنازہ پڑھے اور میت کے ساتھ قبرستان تک جائے تو اسے بہت بڑا ثواب ملتا ہے.اس پر صحابہ نے کہا کہ تم نے ہمیں یہ پہلے کیوں نہ بتادیا.گویا نیکی کے لئے ان کے اندر ایسا جوش پایا جاتا تھا کہ وہ ناراض ہوئے کہ ہمیں پہلے کیوں نہ یہ بتا دیا، تاہم نیکی کے اتنے مواقع سے محروم نہ رہتے.ان صحابہ نے

Page 658

خطبات محمود ۶۵۳ سال ۱۹۳۲ء بہت محنت کی ، مشقتیں اٹھا ئیں اور رسول کریم میں دل کے اعمال اور کلمات جو حصولِ ثواب کا ذریعہ ہیں جمع کر کے ہمارے لئے آسانی پیدا کر دی.اور اب یہ حالت ہے کہ گویا کھانا تیار ہو چکا ہے اور ہم نے اسے اٹھا کر منہ میں ڈال لیتا ہے.اگر ہم اتنا بھی نہیں کر سکتے تو بہت قابل افسوس امر ہے.یادرکھو یہی نوافل قرب الہی کا ذریعہ ہوتے ہیں.نماز روزہ وغیرہ عبادات تو عذاب سے بچنے کا ذریعہ ہیں مگر یہ چھوٹی چھوٹی باتیں مل کر انسان کو خدا تعالی کا زیادہ قرب حاصل کرنے کا موجب بن جاتی ہیں.(الفضل ۲۲ دسمبر ۱۹۳۲ء) ل ترمذی ابواب الاستئذان والادب باب ما ذكر في فضل السلام و ابو داود كتاب الادب باب كيف السلام ترمذى ابواب الاستئذان والادب باب ما جاء في التسليم اذا دخل بيته ترمذی ابواب الجنائز باب ما جاء في فضل الصلوة على جنازة

Page 659

خطبات محمود ۶۵۴ 77 سال ۱۹۳۲ء اسلام ہی زندہ خدا پیش کرتا ہے (فرموده ۲۳- دسمبر ۱۹۳۲ء) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اسلام نے جس خدا کا یا صحیح لفظوں میں یوں کہنا چاہئے کہ جو خدا تعالیٰ کا نقشہ ہمارے سامنے پیش کیا ہے یا اس کی صفات بیان فرمائی ہیں وہ ایسی ہیں کہ ان کو مد نظر رکھتے ہوئے دنیا میں کسی قسم کا تعصب اور کسی قسم کا فساد باقی رہ ہی نہیں سکتا.یورپ کے بعض مصنفین نے ہستی باری تعالٰی کے متعلق بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے بندے کو پیدا نہیں کیا بلکہ بندے نے خدا کو پیدا کیا ہے.جس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی ایسا خدا موجود نہیں جس نے روح اور مادہ کو پیدا کیا ہو بلکہ انسانی دماغ نے بعض حالات سے متاثر ہو کر یعنی کبھی خوف کے جذبہ کے ماتحت کبھی امید کے جذبہ کے ماتحت ، کبھی اس خیال سے کہ میری مشکلات کو کون دور کرے گا اور کبھی اس خیال سے کہ میری قربانیوں کا بدلہ دینے والی کوئی ذات ہونی چاہئے خود بخود ایک ذہنی وجود گھڑ لیا اور اس کا نام خدا رکھ دیا.پھر خود بخود ہی مطمئن ہو گیا اور خیال کرنے لگا کہ یہ ہستی مجھے خطرات سے بچائے گی، میری قربانیوں کا بدلہ دے گی اور پیش آمدہ مصائب میں میری حفاظت کرے گی.جن مشکلات سے مجبور ہو کر دہریت کی طرف مائل انسانوں نے یہ خیال کیا کہ خدا نے انسان کو پیدا نہیں کیا بلکہ انسان نے خدا کو پیدا کیا ہے ، وہ اتنی زبر دست مشکلات ہیں اور ایسا موثر فلسفہ ہے کہ بعض خدا پرستوں کے اگر دل میں یہ بات نہیں کہ خدا نے انسان کو پیدا نہیں کیا بلکہ انسان نے خدا کو پیدا کیا ہے تو کم از کم اس کے مشابہ ایک اور چیز ان کے ذہنوں میں ہوتی ہے جس میں خدا کے وجود کو تو تسلیم کر لیا جاتا ہے مگر اس خیال کو

Page 660

خطبات محمود ۶۵۵ سال ۱۹۳۲ء بھی کلیتارد نہیں کیا جا سکتا.یورپ کے وہ لوگ جو دہریت سے تعلق نہیں رکھتے انہوں نے کہا ہے کہ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ خدا نے انسان کو پیدا نہیں کیا اور نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسان نے خدا کو پیدا کیا ہے مگر ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ خدا نے انسان کو پیدا کیا اور انسان نے اس احسان کا بدلہ اتارنے کے لئے خدا کو ایک نئی صورت دے دی.گویا جب خدا نے انسان کو انسان بنایا تو انسان نے اس کا احسان نہیں رکھا بلکہ اس نے بھی خدا کو ایک نئی صورت دے دی.وہ امر جس کی وجہ سے یورپین لوگوں کو یہ غلطی لگی یہ ہے کہ مختلف ملکوں اور مختلف قوموں کے لوگوں نے اللہ تعالٰی کی ہستی کے متعلق ایسے خیالات رکھے جن میں صراحتاً اختلاف موجود ہے.ہندوؤں نے جو خدا کی شکل پیش کی ہے وہ اس سے مختلف ہے جو جینیوں نے پیش کی.اور جو جینیوں نے خدا تعالیٰ کی ایک ذہنی تصویر اتاری ہے، وہ اس سے مختلف ہے جو بدھوں نے اتاری ہے.اور جو بدھوں نے اللہ تعالی کی شکل بنائی وہ زرتشتیوں کے خدا کی صورت سے مختلف ہے.اسی طرح زرتشتیوں نے اللہ تعالٰی کی جو صورت بنائی وہ اس سے مختلف ہے جو یہود نے بنائی.اور یہود کی بنائی ہوئی صورت عیسائیوں کی تیار کردہ صورت سے مختلف ہے.اور عیسائیوں کی تجویز کردہ صورت سے وہ صورت بالکل مختلف ہے جو اسلام نے اللہ تعالیٰ کے متعلق پیش کی.اب ایک مذہب سے ناواقف آدمی جب اللہ تعالی کی ہستی کے متعلق اس قدر اختلاف دیکھتا ہے تو حیران ہو جاتا ہے.اور وہ اس امر کو نہیں سمجھ سکتا کہ کیوں یہ کہا جاتا ہے کہ باقی سب مذاہب کو خدا نے ترک کر دیا اور صرف ایک مذہب سے اپنے تعلق کو مخصوص کر لیا.اور یہ کہ صرف ایک مذہب کی بچی راہنمائی ہی اللہ تعالی نے کی ہے اور باقیوں کے لئے سیدھے راستہ کے دروازے بند کر دیئے.کیونکہ یہ بھی تو ظلم ہے کہ پیدا تو اس نے سب کو کیا ترقی کی قوتیں بھی سب کو دیں ، امیدیں بھی سب کے دل میں پیدا کردین مگر روحانی ترقی کرنے کے دروازے سوائے ایک مذہب کے سب کے لئے بند کر دیئے.یورپین لوگ کہتے ہیں کہ دراصل اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں نے اپنی عقل سے خدا کی تصویر کھینچی اور اپنے اپنے ماحول کی وجہ سے اس میں تبدیلی کرتے چلے گئے.یہودیوں نے خدا کو اپنے قومی کیریکٹر کے ماتحت دیکھا زرتشتیوں نے اسے اپنے کیریکٹر کے ماتحت دیکھا، عیسائیوں نے اسے اپنے حالات کے مطابق دیکھا جینیوں نے اسے اپنی ذہنیت کے ماتحت دیکھا غرض ہر قوم نے اپنے اپنے حالات کے ماتحت اللہ تعالیٰ کی ہستی کو دیکھا اور اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کی نسبت مختلف مذاہب کی آراء میں اختلاف پیدا ہو گیا.میں کہتا ہوں اچھا ہم فرض کر لیتے ہیں جو کچھ تم نے

Page 661

خطبات محمود ۶۵۷ سال ۱۹۳۲ء کہا درست ہے دنیا میں اسی طرح ہوتا چلا آیا ہے اور ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ خدا تعالی کی نسبت مختلف مذاہب نے مختلف خیالات اپنے اپنے حالات کے ماتحت بیان کئے تو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ محمد مالی کا خدا سب سے اعلیٰ و بر تر خدا ہے اس لئے کہ اگر اسلام نے خدا تعالٰی کے متعلق جو خیالات پیش کئے ہیں ، وہ محمد میر کی ذہنیت کا ہی عکس ہیں تو بھی اعتراف کرنا پڑے گا کہ محمد ک کیریکٹر سب سے اعلیٰ تھا.کیونکہ آپ کا کیریکٹر کیا تھا یہ کہ TAKANGANAKAGE NOT OWN LANGUAGE ہندوؤں نے اپنے کیریکٹر کے مطابق اللہ تعالی کا جو نقشہ کھینچا عیسائیوں نے اپنے کیریکٹر کے مطابق اللہ تعالی کی جو تصویر کھینچی ، یہودیوں نے اپنے خیالات کے ماتحت اللہ تعالٰی کے متعلق جو کچھ بیان کیا میں کہتا ہوں ان تمام باتوں کو لے آؤ اور پھر مجھ میں اور ہم نے اللہ تعالی کے متعلق جو کچھ بیان فرمایا اس سے مقابلہ کر کے دیکھو تمہیں معلوم ہو گا کہ اگر ہم فرض محال کے طور پر یہ امر تسلیم بھی کرلیں کہ محمد من اللہ نے اپنے خیالات کے ماتحت اللہ تعالیٰ کا نقشہ کھینچا تب بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ باقی تمام مذاہب نے اللہ تعالی کو ایک قومی خدا کی صورت میں پیش کیا اگر مجھ میں مریم نے فرمایا محمد کہ میں تو اسی ہستی کو اپنا خد ابناؤں گا جو ساری دنیا کا خدا ہو اور جو کسی خاص قوم سے تعلق نہ رکھتا ہو ، یعنی رب العلمین ہو.غرض اس راہ سے اگر فلسفہ بھی حملہ کرے تو باقی تمام مذاہب اس کا مقابلہ نہ کر سکیں گے.صرف اسلام ہی ہے جو قائم رہے گا اور جسے کوئی اعتراض جنبش میں نہیں لا سکے گا اس لئے کہ دنیا اگر ترقی کر سکتی ہے تو صرف اس خدا پر ایمان لا کر جسے محمد میر نے پیش کیا ہے.پس خواہ مخالف ان خیالات کو محمد میں اللہ کے ذاتی خیالات ہی قرار دیں تب بھی اس امر سے انکار نہیں ہو سکے گا کہ محمد میر باقی تمام ہادیوں سے افضل ہیں کیونکہ آپ نے خدا تعالٰی کے متعلق جو خیال پیش کیا وہ باقی تمام خیالات پر فوقیت رکھتا ہے مگر یہ بحث ہی لغو اور بے ہودہ ہے.اصل بات یہ ہے کہ اختلافات پیدا ہی اس لئے ہوئے ہیں کہ لوگوں نے رب العلمین خدا کو نہیں سمجھا.خدا تعالیٰ نے بے شک اپنے آپ کو رب العلمین کی صورت میں پیش کیا مگر جب لوگ خدا تعالیٰ سے دور ہوتے گئے اور اللہ تعالی کی بتلائی ہوئی راستی کو نظر انداز کر گئے تب انہوں نے اپنے دماغ سے کام لینا شروع کر دیا اور دماغی تخیلات کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی نئی صورت قائم کرلی.اور چونکہ یہ مصنوعی خدا تھا اس لئے اس میں زندگی کی علامات بھی نظر نہ آسکیں.کیونکہ یہ لازمی بات ہے کہ اصلی خدا اور انسانوں کے بنائے ہوئے خدا میں زمین و آسمان کا فرق ہو گا.پس ان کا مردہ خدا تھا مگر مجھ میں ہم نے جو خدا پیش کیا وہ زندہ اور قادر خدا ہے.اور یہ واضح بات محمد

Page 662

خطبات محمود 404 سال ۱۹۳۲ء ہے کہ مردے پر زندے تو تصرف کر لیتے ہیں مگر زندے پر مُردے تصرف نہیں کر سکتے.مردہ پہلوان کو گد ھیں کھا سکتی ہیں اور مُردہ شکاری کو چیلیں نوچ سکتیں ہیں مگر زندہ انسان سے یہ تمام چیزیں بھاگتی ہیں اور دور سے بندوق کی نالی دیکھ کر ہی خائف ہو جاتی ہیں.پس دوسرے مذاہب والوں نے جو خدا پیش کیا وہ مردہ خدا ہے اور اسی لئے چیلوں اور گدھوں نے ان کے مردہ خدا کے گوشت کو کھانا شروع کر دیا.مگر اسلام نے جس خدا کو پیش کیا ہے وہ زندہ خدا ہے اور زندہ خدا پر حملہ کرنے میں کوئی کامیاب نہیں ہو سکتا.پس چونکہ اسلام زندہ مذہب ہے اور اسلام کا خدا زندہ خدا ہے اس لئے وہ لوگوں کے حملوں اور ان کی دست برد سے محفوظ رہا اور آج تک اس کی اصلی صورت نظر آرہی ہے.مُردہ چیز کی اصلی ہیئت بدل جاتی ہے.مگر زندہ چیز اپنی اصلی صورت پر قائم رہتی ہے.کیا تم گیہوں کو نہیں دیکھتے جب تک اس میں اس کی زندگی قائم رہتی ہے وہ کیسی شکل میں ہوتی ہے اور جب انسان کے پیٹ میں اس پر موت وارد ہو جاتی ہے تو کچھ حصہ خون اور کچھ فضلہ بن جاتا ہے.پس چونکہ ایک ہی خدا اور زندہ خدا ہے اس لئے اس زندہ خدا کو اسلام نصر میں نے پیش کیا اور کہا کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ فِي وہ خدا ہے جس کے متعلق ہر انسان یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ جب تک زنده خدا پر انسان کو ایمان حاصل نہ ہو.اس وقت تک وہ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نستعين کبھی کہہ ہی نہیں سکتا.اس میں اللہ تعالٰی نے یہ بھی بتایا ہے کہ حقیقی عبادت اور حقیقی استعانت خدا تعالی سے ہی طلب کی جاسکتی ہے.یوں تو مختلف لوگ عبادتیں کرتے اور دیوی دیوتاؤں سے اپنی مرادیں مانگتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس وقت بھی وہ لوگ عبادتیں کرتے ہیں جب بالکل مایوس ہو جائیں اور چاروں طرف انہیں ناکامی کے آثار دکھائی دیں.اور کیا اس وقت بھی وہ دعا پر یقین رکھتے ہیں جب ان کے لئے سارے دروازے بند ہو جاتے ہیں.اگر ہم غور کریں گے تو معلوم ہو گا کہ ایسے اوقات میں صرف وہی شخص دعا مانگتا ہے جو زندہ خدا پر ایمان رکھتا ہو.چنانچہ اس وقت میں دو مصیبت کے واقعات کا ذکر کرتا ہوں جن سے معلوم ہو سکتا ہے کہ ایسی حالت میں جبکہ ہر طرف مایوسی ہی مایوسی نظر آئے اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنا اور اس پر تو کل کرنا انہی لوگوں کا شیوہ ہوتا ہے جو خدا کی ہستی اور اس کی عظیم الشان قدرتوں پر یقین رکھتے ہیں.بدر کی جنگ کے موقع پر صرف تین سو مسلمان سپاہی تھے اور ان میں سے بھی بہت سے ناتجربہ

Page 663

خطبات محمود ۲۵۸ کار اور جنگی فنون کے لحاظ سے حقیر سمجھے جاتے تھے.ان میں مہاجرین کی تعداد کم تھی اور انصار زیادہ تھے اس طرح مسلمان سپاہیوں کا اچھا خاصہ حصہ ایسا تھا جو جنگی فنون سے ناواقف تھا.یہ مدینہ کے وہ لوگ تھے جن کا کام زیادہ تر کھیتی باڑی تھا.عرب کے لوگ ایسے لوگوں کو حقیر سمجھا کرتے تھے کیونکہ عرب میں عزت تلوار کی وجہ سے حاصل ہوا کرتی تھی.چونکہ وہ تلوار کے دھنی نہ تھے اس لئے حقیر اور ذلیل سمجھے جاتے.جب بدر کی جنگ کے موقع پر عرب کے بعض جرنیل مقابل میں نکلے تو اس وقت کے طریق کے مطابق جو یہ تھا کہ پہلے اکیلے اکیلے نبرد آزمائی کرتے اور پھر فوج فوج پر حملہ کر دیتی.عتبہ شیبہ اور ولید تین جرنیل مکہ والوں کی طرف سے میدان میں آئے اور انہوں نے کہا هَل مِنْ مُبَارِ زِ کیا تم میں سے کوئی ہے جو ہمارا مقابلہ کرے.انصار اس وقت یہ خیال کرتے تھے کہ رسول کریم میں ترمیم کی حفاظت ہمارے ذمہ ہے کیونکہ ہم آپ کو اپنے ہاں لائے ہیں.اس لئے پیشتر اس کے کہ مہاجرین میں سے کوئی نکلتا تین انصاری مسلمانوں میں سے نکل آئے.جن میں سے دو پندرہ پندرہ برس کے نوجوان تھے.کفار کے جرنیلوں نے پوچھا تم کون ہو ؟ اس وقت قاعدہ یہ ہو تا تھا اور اب بھی ہے کہ ڈاڑھی والے ڈھاٹا باندھ لیتے تھے.انہوں نے اسی طرح کیا ہوا تھا جس کی وجہ سے ان کی شکلیں پہچانی نہ جاتی تھیں.تاریخوں والے غلطی سے لکھتے ہیں کہ وہ نقابیں اوڑھ کر جنگ کیا کرتے تھے حالانکہ کبھی نقاب ڈال کر بھی لڑائی کی جاسکتی ہے؟ چونکہ ان کی ڈاڑھیاں ہوتی تھیں اس لئے وہ ڈھائے باندھ لیتے.جس کی وجہ سے ان کے چہرے پوشیدہ ہو جاتے جب یہ انصاری نوجوان نکلے اور مقابلہ کرنے والوں نے پوچھا تم کون ہو؟ کیونکہ وہ پہچانتے نہ تھے تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم انصار میں سے ہیں.اس پر وہ بول اٹھے کہ تعجب ہے مکہ سے نکل کر ہماری قوم کے لوگ ایسے بد تہذیب ہو گئے ہیں کہ ہمارے مقابلہ میں بجائے سپاہیوں کے زمینداروں کو بھیجتے ہیں.انہوں نے کہا کہ ہم لڑنے کے لئے تیار نہیں ہم مکہ کے سردار ہیں ہمارے ساتھ سردار ہی آکر لڑیں.وہ لوگ رسول کریم میں کی خدمت میں واپس آگئے.اور کہا یا رسول اللہ ! وہ تو اس بناء پر لڑائی سے انکار کر رہے ہیں.فرمایا اچھا تمہاری بجائے اور آدمیوں کو بھیجا جاتا ہے تب رسول کریم میں ہم نے تین سپاہی بھیجے.جن میں سے ایک حضرت علی اور ایک حضرت حمزہ تھے.جب یہ گئے تو کفار نے پھر پوچھا کہ تم کون ہو ؟ کیونکہ ڈھائے باندھے ہوئے تھے اور شکلیں نظر نہیں آتی تھیں.انہوں نے بتایا کہ ہم علی اور حمزہ ہیں تیسرے کا نام مجھے یاد نہیں رہا.اس پر انہوں نے کہا ہاں اب تم ہمارے مد مقابل ہو ہم تم سے

Page 664

خطبات محمود ۲۵۹ سال ۱۹۳۲ء لڑیں گے.یہ واقعہ اس لئے بتایا ہے کہ جنگ بدر کے موقع پر خود دشمن محسوس کرتا تھا کہ مسلمانوں میں سے ایک بڑی تعداد فنون جنگ سے ناواقف ہے.اور ایسی ناواقف کہ مکہ والے آپ ہی ان سے لڑائی کرنا اپنی ہتک خیال کرتے.یہ حالات تھے جو مسلمانوں کے متعلق پائے جاتے تھے اور ظاہری سامانوں کے لحاظ سے کلی طور پر مایوسی نظر آ رہی تھی.ادھر مکہ کے لوگوں کو اپنی طاقت و قوت پر اتنا گھمنڈ تھا کہ بعض ان میں سے اپنے ساتھیوں سے اپیل کرتے کہ آخر یہ مسلمان ہمارے رشتہ دار ہی ہیں، ان سے نہیں لڑنا چاہئے.گویا مکہ والے اسے لڑائی نہیں سمجھتے تھے.بلکہ وہ خیال کرتے تھے کہ ہم چند منٹوں میں ہی ان سب کو قتل کر دیں گے اس لئے کہتے اپنے کمزور بھائیوں کو میدان میں مار ڈالنا اچھی بات نہیں.غرض جنگی لحاظ سے مسلمانوں کی یہ حالت تھی مگر رسول کریم ما کی بجائے اس کے کہ میدان جنگ کے متعلق فکر کرتے ایک گوشہ میں بیٹھے ہوئے اللہ تعالٰی سے دعائیں مانگ رہے تھے اور بار بار آپ پر رقت کا عالم طاری ہو جاتا.اور آپ فرماتے اے خدا یہ شیطان سے تیری فوج کی آخری جنگ ہے.اگر اس میں تیرے مومن بندوں نے شکست کھائی اور یہ مارے گئے تو پھر تیرے نام لیوا دنیا سے مٹ جائیں گے.پس اے خدا! میں تیری توحید اور تفرید کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ تو ان کو کامیاب کر.غرض لوگ جس وقت نیزے کی انی تیز کر رہے ہوتے ہیں جب وہ تلواروں کے جھنکارنے میں مشغول ہوتے ہیں جب وہ دیگر آلات حرب کو درست کر رہے ہوتے ہیں اس وقت محمد میر کی نظر میں اگر کوئی تلوار اگر کوئی نیزہ اور اگر کوئی تیر کام کرنے والا تھا تو وہ اللہ اور اس کے حضور عاجزانہ دعا تھی.یہ وہ حقیقی عبادت ہے جس کی اسلام بہت تاکید کرتا ہے.عبادت وہ نہیں کہ انسان کبھی مندر میں گیا یا کبھی مسجد میں اور پھر ذراسی ٹھوکر لگنے پر اپنے ایمان کی ساری پونجی فروخت کر ڈالی.اور کہہ دیا کہ جاؤ ہم ایسے اسلام کو قبول نہیں کر سکتے.بلکہ عبادت وہ ہے کہ جس وقت انسان کے چاروں طرف عبادت سے روکنے والے اسباب اکٹھے ہوں اس وقت سب سے زیادہ عبادت پر زور دے.اور سمجھے کہ اگر کوئی ذریعہ نجات دینے والا ہے تو وہ عبادت ہی ہے.یہ تو قومی خطرہ کی مثال تھی اب میں ایک نفسی خطرہ کی مثال بھی سنا دیتا ہوں.رسول کریم میں یہ ایک جنگ سے واپس آرہے تھے کہ دشمنوں میں سے ایک شخص نے قسم کھائی کہ میں محمد میر کو ضرور قتل کروں گا.آپ راستہ میں ایک جگہ قیلولہ کے لئے ٹھرے اور ایک درخت کے نیچے لیٹ گئے.باقی تمام صحابی بھی مختلف جگہوں میں آرام کرنے کے لئے پھیل گئے.انہیں اس امر کا خیال نہیں تھا کہ کوئی دشمن

Page 665

خطبات محمود ۶۶۰ سال ۱۹۳۲ء ہمارے تعاقب میں آرہا ہے.رسول کریم و درخت کے نیچے سور ہے یا اونگھ رہے تھے کہ دشمن نے تلوار کھینچ کر آواز دی مگر نہ معلوم اسے کیا خیال آیا کہ اس نے جگا کر پوچھا بتاؤ اب تمہیں کون میرے حملہ سے بچا سکتا ہے.آپ نے فرمایا اللہ.جس یقین کے ساتھ ، جس وثوق کے ساتھ جس عبادت اور استعانت کے خیال کے ساتھ آپ کی زبان سے یہ فقرہ نکلا اس کا یہ اثر ہوا کہ باوجود اس کے کہ وہ منزلیں مارتا ہوا اپنی قسم پوری کرنے کے لئے آیا تھا اور باوجود اس کے کہ وہ جانتا تھا کہ اپنی زندگی میں سے یہ پہلا موقع حاصل ہوا ہے اس کا ہاتھ لرز گیا اور تلوار ہاتھ سے گر گئی.اس پر رسول کریم میں یہ کہ ہم نے وہی تلوار ہاتھ میں اٹھائی اور فرمایا.بتا اب تجھے میرے حملہ سے کون بچا سکتا ہے.اس شخص کو رسول کریم میں اللہ سے سن کر بھی سمجھ نہ آئی اور کہنے لگا آپ ہی رحم فرما ئیں.رسول کریم میں اللہ نے فرمایا جاؤ چلے جاؤ تمہارا خون اس قابل نہیں کہ محمد سے بہائے.اور آپ سمجھ گئے جس شخص کے دل میں خدا نہیں اس کی زبان پر بھی وہ نہیں آسکتا.یہ اس زندہ خدا کی عبادت کا کرشمہ تھا جسے اسلام نے پیش کیا ہے.اس کے مقابلہ میں مصنوعی عبادات کا نتیجہ بھی دیکھ لو.فتح مکہ کے موقع پر تمام کفار سمجھتے ہیں کہ اب ان کے لئے کامیابی کا کوئی راستہ نہیں اور یہ کہ تمام دروازے ان کے لئے بند ہو چکے.ایسے موقع پر میں ایک ایسے فرد کی مثال پیش کرنا چاہتا ہوں جو کفر میں بہت بڑھا ہوا تھا.رسول کریم می فتح مکہ کے وقت عورتوں سے بیعت لے رہے تھے.اور آپ کے ارد گرد ہجوم تھا آپ نے اعلان کر دیا تھا کہ بعض شریروں کو مکہ بھی پناہ نہیں دے سکتا وہ جہاں بھی کہیں مل جائیں انہیں قتل کر دیا جائے.ان میں سے ایک ہندہ بھی تھی.بیعت لیتے وقت آپ نے کہا کہو ہم شرک نہیں کریں گی عورتوں نے کہا ہم شرک نہیں کریں گی.اس پر ہندہ جو بڑی دلیر اور بہادر عورت تھی اور جس نے بعد میں اپنی جرات اور بہادری کا ثبوت بھی پیش کر دیا اور جو چوری چھپے بیعت کے لئے آئی ہوئی تھی.جب رسول کریم میں یا نہ ہی ہم نے یہ اقرار لینا چاہا کہ ہم شرک نہیں کریں گی تو وہ بول اٹھی کہ کیا اب بھی کوئی شرک کر سکتا ہے جبکہ ہم نے سارا زور لگایا مگر تو اکیلا ہو کر جیت گیا اور ہمارے معبود ہمارے کسی کام نہ آئے.کیا اتنے بڑے نشان کے بعد بھی کوئی شرک پر قائم رہ سکتا ہے.رسول کریم میں نے فرمایا کون ہے؟ ہندہ ہے ؟ ہندہ نے عرض کیا ہاں ہندہ - جانتی تھی کہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد اس پر کوئی تلوار نہیں اٹھ سکتی.پس اس نے اپنے اسلام کا اظہار کر دیا.یہ ہندہ وہ عورت تھی جو جنگ پر جاتی اور قبیلے والوں کو لڑائی کے لئے برانگیختہ کیا کرتی حتی کہ احد کی

Page 666

خطبات محمود 441 سال ۱۹۳۲ء جنگ میں اس نے سب عورتوں کو سکھا دیا کہ کہہ دو آج مردوں میں سے جو شکست کھا کر واپس آئے گا عورتیں اسے طلاق دے دیں گی.وہ ہندہ بھی سمجھ گئی کہ زندہ خدا کس مذہب کے ساتھ ہے.پس کچی عبادت اور کچی استعانت محض بچے مذہب سے حاصل ہو سکتی ہے.بچے مذہب کے بغیر انسان کبھی اللہ تعالیٰ پر وہ یقین اور وثوق پیدا ہی نہیں کر سکتا جو پیدا ہونا چاہئے.ہمیشہ مصائب انسان کے دل میں مایوسی پیدا کر دیا کرتے ہیں مگر جس کے دل میں سچا ایمان داخل ہو اس کی مثال وہی ہوتی ہے جو احزاب کے موقع پر مسلمانوں کی ہوئی کہ چاروں طرف سے دشمنوں نے آگھیرا.زمین و آسمان مسلمانوں کے واسطے تنگ ہو گئے.منافقوں جیسے بزدل بھی کہنے لگ گئے کہ مسلمانوں کو باہر پاخانہ پھرنے تک کی تو اجازت نہیں مگر دنیا فتح کرنے کے ارادے ہیں.سات سات وقت کا فاقہ تھا اور اکثروں نے پیٹ پر پتھر باندھے ہوئے تھے.اس وقت جب زمین ان پر باوجود اپنی فراخی کے تنگ ہو رہی تھی.جب اپنے اور پرائے سب ڈرا رہے تھے اور دشمن چاروں طرف سے حملہ آور تھا.ان کی ایمانی حالت کے متعلق خود خد اتعالیٰ گواہی دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ جب لوگوں نے انہیں کہا کہ اے مسلمانو! اب تمہارا کہیں ٹھکانہ نہیں یا هُلَ يَثْرِبُ لَا مُقَامَ لحم کہ تو انہوں نے کہا کہ یہ تو اللہ تعالٰی میں پہلے بتا چکا ہے.اور یہی مصیبتیں ہیں جن کے بعد ہمارے لئے فتح اور خوشی مقدر ہے.پس وہ اپنے ایمان میں اور زیادہ بڑھ گئے.غرض خدا تعالیٰ کی عبادت اور استعانت بچے دین سے ہی حاصل ہوتی ہے.اور ایسا انسان مصائب اور مشکلات کے اوقات میں اپنے رب کو پہچان لیتا ہے اور اس پر اس کا ایمان تازہ ہو جاتا ہے.قرآن مجید میں استعارہ کے رنگ میں آتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ارواح کو پیدا کیا تو ان سے پوچھا اگشت بر تكُم کیا میں تمہارا رب نہیں انہوں نے کہا.بللی معموں نہیں.اس کے معنے ہی ہیں کہ ہر انسان کی فطرت میں ایک نقشہ موجود ہے.جس کی وجہ سے وہ اپنے رب کو پہچان لیتا ہے.غرض کچی عبادت اور کچی استعانت محض اسلام میں ہی نصیب ہو سکتی ہے.مگر کیا ہی بد بخت ہے وہ انسان جس کو کچی عبادت اور کچی استعانت حاصل کرنے کا موقع ملا مگر پھر بھی وہ اس کے حاصل کرنے سے محروم رہا.اور پھر بھی اس کی عبادتیں اسی رنگ کی رہیں جس طرح کوئی مندروں یا گر جاؤں میں جاکر عبادت کرتا ہے.واقعہ میں ایسا انسان اگر پیدا نہ ہو تا تو اس کے لئے اچھا تھا اور واقعہ میں یہ اپنی قوم کے لئے تنگ و عار ہے.رَبُّ KNOUANTUNG خدا ہی ہے جو اسے ان بندھنوں اور شیطانی قوتوں سے نجات دے جن میں وہ پھنسا ہوا ہے کیونکہ وہ رَبُّ الْعَلَمِيْنَ ہے تو مُلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ

Page 667

خطبات محمود ۶۶۲ سال ۱۹۳۲ء بھی ہے.چاہے تو اگلے جہان میں بھی اسے معاف کر سکتا ہے مگر ایسے شخص کی حالت قابل افسوس ضرور ہے کیونکہ اسے ایک نور ملا اور وہ اسے دیکھنے سے محروم رہا.اللہ ہی ہے جو اس پر رحم فرمائے مگر وہ لوگ جنہوں نے اس نور کو دیکھاؤ ہری رحمتوں کے مستحق ہیں کیونکہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی خلعت کو واپس نہیں کیا بلکہ اسے قبول کیا اور اس پر فخر کیا.پس مبارک ہیں وہ اس جہان میں بھی اور اگلے جہان میں بھی.اور مبارک ہو تم کو کہ تم میں سے ہر ایک جو یہاں آیا اس کے سامنے اللہ تعالی کی ایک خلعت پیش ہوئی اس نے اسے پہننے پر فخر کیا.پس اللہ تعالی تم پر اپنی رحمتوں کے دروازے کھولے اور اپنی عظیم الشان برکات کا نزول فرمائے اور ان پر بھی رحم کرے جن کے لئے یہ دروازے کھولے تو گئے مگر وہ اپنی غفلت سے ابھی تک اس میں داخل نہیں ہو سکے کیونکہ وہ رب العلمین ہے.الفاتحة : ٢ الفاتحة: ٣م الفاتحة: الفضل ۲۷- دسمبر ۱۹۳۲ء) سیرت ابن ہشام عربی جلد ۲ صفحہ ۲۷۷ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ه بخاری کتاب المغازی باب قول الله تعالى ان تستغيثون...ل بخارى كتاب الجهاد والسير باب من علق سيفه با الشجر فى السفر عند القائلة الاحزاب: ۱۴ الاعراف: ۱۷۳

Page 668

خطبات محمود ۶۶۳ 78 تم خدا اور اس کے رسول کے مناد ہو (فرموده ۳۰ دسمبر ۱۹۳۲ء) سال ۹۳۲ تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- نماز جمعہ کے بعد اکثر دوست چلے جائیں گے اور باقی بھی جو ہیں وہ بھی ایک دو ون میں چلے جائیں گے.میں ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ جلسہ سے یہ آخری پیغام لے کر جائیں کہ اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کے لئے آپ لوگوں کو مناد مقرر کیا گیا ہے اور اگر ڈھنڈورچی اچھی طرح ڈھنڈورہ نہ دے تو وہ کسی اجرت کا مستحق نہیں ہو سکتا اس لئے آپ اسی طرح کام کریں جس طرح ایک ڈھنڈور چی کرتا ہے.اپنے اہل کو اپنے رشتہ داروں کو اپنے محلہ والوں کو گاؤں والوں کو شہر والوں اور علاقہ والوں کو خدا تعالی کی آواز پہنچائیں اور پہنچاتے چلے جائیں کیونکہ نہیں معلوم خدا تعالی کی رحمت کے دروازے کس کے لئے کس وقت کھلیں.ہو سکتا ہے کہ جب وہ وقت آئے تمہاری زبان خاموش ہو اور وہ ہدایت سے محروم رہ جائے.یہ خیال مت کرو کہ تمہاری زبان میں اثر نہیں.ہر چیز کے لئے ایک وقت ہوتا ہے جب اثر ظاہر ہوتا ہے لیکن اگر واقعی زبان میں اثر نہیں ہے تو پھر پید ا کر و.اللہ تعالیٰ نے ہمیں وہ کچھ دیا ہے جو ہمارے زمانہ سے پہلوں کو نہیں ملا.رسول کریم ملی والی کے بعد سے دنیا آج تک اس دن کی منتظر رہی ہے.خدا تعالیٰ کا وہ نور جس کی نوح سے لے کر محمد میل تک ہر نبی خبر دیتا آیا ہے وہ اب ظاہر ہوا ہے.آسمان سے خداتعالی کا ایک مقدس نازل ہوا.دنیا نے اگر چہ اسے نازل ہوتے نہیں دیکھا لیکن خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ وہ اسی کی طرف سے آیا.خدا تعالی کی تائید کا ہاتھ اس کے ساتھ ہے دنیا نے اگر چہ وہ ہاتھ نہیں دیکھا لیکن خدا نے خود اس کی گواہی دی ہے.خدا تعالیٰ کے

Page 669

۶۶۴ سال ۱۹۳۲ء خطبات محمود فضل ہاتھ پر ہم نے بیعت کی.دنیا نے اگر چہ اسے نہیں دیکھا مگر خدا کہتا ہے کہ وہ میرا ہاتھ ہے.لاکھوں کروڑوں بلکہ خبر نہیں کتنے سالوں کے بعد وہ مقدس پیدا ہوا ہے اس نعمت کی دنیا کو خبردو.اور گلی کوچوں میں اس کی منادی کرو اور دیوانہ وار کرو.وہ جو آج خدا تعالیٰ کے نام کی منادی کرتا ہے قیامت کے روز اس کے نام کی منادی کر دی جائے گی.جو آج خدا کے نام کو بلند کرتا ہے ، قیامت کے دن اس کا نام بلند کیا جائے گا.وہ جو آج لوگوں کو جنت کے لئے بلاتا ہے ، قیامت کے روز جنت اسے بخشی جائے گی.وہ جو آج لوگوں کو تو بہ کے لئے آواز دیتا ہے ، قیامت کے دن خدا تعالیٰ اس کے گناہوں کی پردہ پوشی کرے گا.تمہارے لئے بخشش ہی بخشش ، رحمت ہی رحمت ، فضل ہی ہے برکت ہی برکت خدا نے خود آسمان کو تمہاری تائید کے لئے تیار کیا اور زمین کو تمہاری تائید کا حکم دیا.پس جاؤ اور دنیا میں منادی کرو یہاں تک کہ تمہارے گلے بیٹھ جائیں اور دنیا کے کان تھک جائیں.یا تو سب لوگ مان لیں یا پھر اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر کر دے.اگر وہ جنت کے لائق ہیں تو اس میں داخل ہو جائیں.اور اگر دوزخ کا ایندھن ہیں تو اس کے اہل بن جائیں.مگریہ و گدا کی حالت یہ درمیانی حالت ٹھیک نہیں.کب تک زمین پر خدا تعالی کے مقدس دکھ دیئے جائیں گے.کب تک ان کو گالیاں دی جائیں گی.کب تک خدا تعالیٰ کی ہستی کو فریب قرار دیا جائے گا.یہ دن ختم ہونے چاہئیں.اور ختم کرنے کے لئے ہی اللہ تعالی نے آپ لوگوں کو کھڑا کیا ہے.آج ہی انصار اللہ کے جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے میں نے کہا ہے کہ بغیر سوز کے یہ کام نہیں ہو گا.محض دلیل سے کام نہیں چل سکتا اس لئے جاؤ اور عشق اور محبت کے ساتھ جاؤ.خدا تعالیٰ کے بندوں کا پیار تمہارے دلوں میں ہو.تم اس نبی کی امت ہو جسے کونے کا پتھر قرار دیا گیا اس لئے تم خدا اور بندہ کے درمیان واسطہ ہو.ایک طرف الوہیت اور دوسری طرف انسانیت کی دیواریں ہیں جو شق ہو رہی ہیں.انسانیت کی دیوار الوہیت کی دیوار کے ساتھ مل کرہی زندہ رہ سکتی ہے.تم کونے کا پتھر ہو اور اگر دونوں کے درمیان جو انشقاق ہے اس میں لگ جاؤ تو پھر یہ دونوں آپس میں مل سکتی ہیں.ہر نعمت اور برکت جو رسول کریم میر کو دی گئی ہے اس میں تم بھی شامل ہو.نبی کی ہر نعمت میں اس کی امت اس کی وارث ہوتی ہے.شریک اور حصہ دار ہوتی ہے.وہ چشمہ ہوتا ہے اور چشمہ سے ہر پیا سا پانی پیتا ہے.بے شک پانی چشمہ کا ہے مگر پینے والے کا بھی ہے.بے شک رسول کریم وہ کھیت ہیں جس میں اللہ تعالی کانورا گا.نور اس لحاظ سے بے شک اس کھیت کا ہے مگر اس کا بھی ہے جو اس سے فیضان حاصل کرتا ہے.

Page 670

خطبات محمود ۶۶۵ سال ۱۹۳۲ء پس وہ نعمتیں موجود ہیں اور تم ان میں سے اپنا حصہ حاصل کر سکتے ہو.خدا تعالیٰ کا دیا ہو ا حصہ پھینکا نہیں جاتا وہ محفوظ ہے جو چاہے لے لے.باپ کی وفات پا جانے کے بعد اس کی جائیداد بانٹی جاتی ہے.ہاں جو بیٹا کہتا ہے میں اپنا حصہ نہیں لیتا وہ خود محروم رہ جاتا ہے.ہمارے روحانی باپ کی دولت ہمارے لئے موجود ہے.اور ہر ایک کا حصہ خدا تعالیٰ نے تقسیم کر دیا ہے.ہاں جو خود نہ لینا چاہے اس کی مرضی.رسول کریم میں اللہ نے فرمایا ہے کہ ہر کا فرو مومن کا ایک گھر جنت میں ہوتا ہے اور ایک دوزخ میں.اس کا مطلب یہی ہے کہ ہر شخص کے اندر ایک طاقت ایمان کی اور کفر کی رکھی گئی ہے.اور اسے اعمال میں مختار کیا گیا ہے چاہے اسے اختیار کرے اور چاہے اسے رد کرے اور اسی قدرت کا نام جنت کا گھر اور دوزخ کا گھر ہے.پس تم جنت کے گھر کو قبول کرو تا دوزخ کا گھر تمہارے لئے مٹادیا جائے.پھر دوسروں کو جنت کے گھر میں داخل کرنے کی کوشش کرد - بخل مت کرو کیونکہ جنت بہت وسیع ہے.یہ خیال مت کرو کہ اگر دو سرے کو جنت میں سے حصہ دیا گیا تو تمہارے حصہ میں کمی آجائے گی.کیونکہ جنت ایسی ہے کہ اسے جتنا استعمال کیا جائے وہ پھیلتی ہے.جس طرح تم نے ربڑ کے متعلق دیکھا ہو گا کہ اسے جتنا کھینچا جائے اتنا ہی پھیلتا ہے یہی حال جنت کا ہے.تم جتنوں کو اس میں داخل کرو گے اتنا ہی وہ تمہارے لئے وسیع ہوگی.پس تم اخلاص اور سوز کے ساتھ جاؤ اور تبلیغ کرد خدا اور اس کے رسول کی منادی کرو سوتوں کو جگاؤ اور غافلوں کو ہشیار کرو.اور انہیں بتا دو کہ خدا تعالیٰ کا نور ظاہر ہو چکا ہے جس کا دل چاہے وہ اسے سمجھ لے ، دیکھ لے اور سن لے.ورنہ ممکن ہے وہ دن آتا ہو جب دل ، آنکھ کان سب پر مہر لگ ، جائے.کیونکہ ایک جو حق کو قبول نہیں کرتا وہ اس سے محروم کر دیا جاتا ہے.جو خدا کے نور کو نہیں دیکھتا وہ اندھا کر دیا جاتا ہے.پس پیشتر اس کے کہ تمہارے عزیز رشتہ دار دوست احباب ہم قوم اور ہم وطن گونگے بہرے اور اندھے بنا دیے جائیں جاؤ اور ان کو ہدایت دو.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.آمین.ا بخارى كتاب الادب باب الرجل ينكث الشئ بيده في الارص (الفضل ۵- جنوری ۱۹۳۳ء)

Page 671

۱۴ ۱۶ = انڈیکس - آیات قرآنیہ -۲- احادیث -٣ الهامات حضرت مسیح موعود ۴ اسماء ۵ مقامات کتابیات -4

Page 672

Page 673

آیات قرآنیہ الفاتحة الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العَلَمِينَ (۲) ۲۶۵۲۵۷ عَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ ۳۹۶٬۳۹۴٬۳۸۶۷۲۳۸۴۴۳۱۲۴۲۶۶ كُلَّهَا (۳۲) فِيهِ ظُلمت (۲۰) يُضِلُّ بِهِ كَثِيراً (۲۷) ۳۹۹ التَّهْلُكَةِ (۱۹۶) ١٩ ۶۲ كُمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ (۲۵۰) ۵۲۲٬۴۸۷٬۳۸۹ ۲۲۰ لا يُكَلِّفُ الله KHÍ TOYO CHO CÓ GIA أقِيمُوا الصَّلوة (۴۴) ۵۳۷ نَفْسًا (۲۸۷) ۶۵۷ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ (۳) ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ (۴) ۳۱۷ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَاهُمْ أل عمران إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (۵) ۶۶۶۵۷ يَحْزَنُونَ (۳۹) ۵۲۶ ۶۵۷۶۲۲۶۱۷ ۲۴۳ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاء نَا وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْر...إِلَيْهِ وابناء كم (۱۳) رَاجِعُونَ (۴۷۴۶) ۲۸۹ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِة ۲۳۲۲۱۴ ۲۹۴٬۲۹۰ إِخْوَاناً (۱۰۴) اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ لا تَقُولُوارَاعِنَا (۱۰۵) ٥٤٠ أَكْثَرُهُمُ الفُسِقُونَ (1) (۶) ۶۱۷۳۹۲٬۳۱۱۲۳۴ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (۷) غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ (۷) البقرة ۶۱۷۲۳۴ Far'ril وَلِكُلِّ وَجْهَةٌ (١٤٩) ۲۷۰ جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَوتُ مِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ (۱۵۰) ۱۳۶ وَالْاَرْضُ (۱۳۴) يَتَبَيَّنَ لَكُمْ (۱۸۸) هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ (۱۸۸) وَآتُوا الْبُيُوتَ مِنْ الم ذلِكَ الْكِتَبُ (۳۲) ۵۳۰ أَبْوَابِهَا (۱۹۰) ۵۴۹۲۵۴۶ الْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ أولَفكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (۵۳۶۶ | الْقَتل (۱۹۲) الَّا إِنَّهُمْ هُمُ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ الْمُفْسِدُونَ (۱۳) ۴۷۱ مَا اعْتَدی (۱۹۵) ٣١ ۵۷۸٬۳۵۴ ۱۲۳۱۲ ۹ النساء فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ)) فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ (2) خُذُوا حِذْرَكُمْ (۲) تَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ مَالَا يَرْجُونَ (۱۰۵) المائدة ۳۲۶ ۵۸۸ ۲۳۴ أَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ لَا تُلْقُوْابِأَيْدِيكُمْ إِلَى فَاذْهَبْ أَنْتَ وَ رَبُّكَ

Page 674

فَقَاتِلا (۲۵) ۵۵۴٬۵۵۲ | النَّحل يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَسْتَلُوا (۱۰۲) الاعراف رَحْمَتِي وَسِعَتْ الَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَها بني اسراءيل (۹۳) Al 3° يُحَسْرَةٌ عَلَى الْعِبَادِ ۵۷۵٬۵۷۴ | مَا يَأْتِيهِمْ (۳۱) الزُّمُرِ اَمَرْنَا مُتْرَفِيْهَا فَفَسَقُوا إِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ كُلَّ شَيْ (۱۵۷) ۳۸۶٬۲۳۲ فِيْهَا (۱۷) أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا كلا تُمِد هؤلاء (۲) بانی (۱۷۳) الانفال ۶۶/ ۵۱۴٬۴۲۳ جَمِيعًا (۵۴) ۴۲۰ حم السجدة لا تَقْفُ مَالَيسَ لَكَ (۳۷) ۲۳۰ إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ مَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ وَمَا كَانَ اللهُ لِيُعَذِّبَهُم اعمى (۷۳)...يَسْتَغْفِرُونَ (۳۴) التوبة لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كله (۳۳) ۲۱۱۹۱۸ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَى ስለረ شَاكِلَتِه (۸۵) ٥٨٣ | الْأَحْقَاف ۲۳۳ طه ۲۴۴ ۴۱۳ ثُمَّ اسْتَقَامُوا (۳۱) ٥٨٧ الشورى ليْسَ كَمِثْلِهِ شَيْ (۱۳) ۴۰۳ بَلَغَ أَشُدَّهُ (۱۷) 120121 الْفَتْحِ إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ ( ٢٤ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ قُلْ رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا (۱۵) ۸۳ هُوَ أُذُنٌ (1) ١٥٥١٣٦ الأنبياء عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُمْ (۱۳۸) ٥٣٠ وَجَعَلْنَا مِنَ المَاءِ (۳) ۳۹۸ الذريت يوسف لا تَيْتَسُوا مِنْ رُوحِ الله (۸۸) الرعد الثور يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِوَاذًا وَالْإِنْسَ (۵۷) (۶۴) ۴۱۳ ٣٨٦ الشعراء لَهُ دَعْوَةُ الْحَقِّ (۱۵) ۵۲۹ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ ۵۵۶ ٥٥٧ الرَّحمن الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ (۲تا۵) الْأَقْرَبِينَ (۲۱۵) ٩٣٩٠ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي إبْرَاهِيم ضَرَبَ اللهُ مَثَلاً كَلِمَةٌ الاحزاب طيبة (۲۵) ۸۷ فَمِنهُمْ مَّنْ قَضَى ለረ شَأْنٍ (۳۰) الجمعة تُؤْتِي أكُلَهَا كُلَّ حِينٍ (۳۷)۸۷ | نَحْبَهُ (۲۳) ۵۹۴٬۵۵۵ | هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي ۲۴۰

Page 675

الأمين ) المُنفِقُون لَئِنْ رَّجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ (9) التحريم ۶۴۲ التَّزِعَتِ والترعتِ غَرْقًا (۳۲) التَّكْوِير ٥٩٢ وَإِذَا الْجَنَّةُ اخْلِفَتْ (۱۳) ۵۲۶ ۵۹۲ الْفَجْرِ قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ فَادْخُلِي فِي عِبْدِى صَدْرَكَ (٢) الْعَلَقِ ۵۶۲ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (٥) ۲۴۰ الْقَارِعَة فَهُوَ فِي عِيْشَةٍ رَّاضِيَةٍ (۸) ۴ وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ ۶۴۳۴۴۷۵ وَادْخُلِي جَنَّتِی (۳۱۴۳۰) مَوَازِينُ هَاوِيَةٌ (١٩) اَلَمْ نَشْرَحْ ۲۴۱ نارا(۷) النبأ النَّصْر يُلَيْتَنِي كُنْتُ تُربّا (۳۱) ۵۵۰ اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ(۳) ۹۷

Page 676

។ احادیث 1 أَكْرِمُواسَيدَ قَوْمٍ الْاِمَامُ جُنَّةٌ انَا عِنْدَظَنَّ عَبْدِي بِي انَا النَّبِيُّ لَا كَذِبُ ۱۴۲ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ کہہ کر نماز پڑھیں إلا الله ۴۵۴ تا ۷ ۴۶۲۴۴۶۴۴۵ آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہ ۲۸۹ مَنْ قَالَ هَلَكَ الْقَوْمُ ۴۱۰ کو فرمایا اگر کھیل دیکھنا چاہتی ہو تو ۴۲۰ ۱۳۲ مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ ۳۷۰ میرے پیچھے کھڑی ہو کر کندھوں کے ن إِنِّي أَخِرُ الْأَنْبِيَاءِ ۱۴۷ نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ ۳۹۱ احادیث بالمعنى تَخَلَّقُوا أَخْلاقِ اللهِ ۴۰۳ تا ۴۰۷ ایک صحابی کے ارکان اسلام پر عمل حَيَّ عَلَى الصَّلوة کے عہد پر فرمایا: اگر اس نے سچ بولا ہے تو نجات پا گیا حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ ۵۳۵٬۵۳۴ آخری زمانہ کے فتنہ کے متعلق نوح ۲۹۶ سے لے کر آخر تک انبیاء خبریں دیتے آئے ہیں افطار میں دیر کرنا قومی تباہی کے آثار ک كَلِمَتَانِ خَفِيْفَتَانِ ل ہیں لَا عَيْنُ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاء م ۳۸۶ اگر تم آگ میں کود پڑتے تو خود کشی کرتے اگر دو مسلمان بھی کہیں ہوں تو اذان یا مَالَا عَيْن رَأَتْ وَ لَا أُذُنٌ ۲۷۱ دے کر باجماعت نماز پڑھیں مَالَمْ يُغَرُ غَرْ مَنْ أَطَاعَ أَمِيْرِى ٢١٣ 19 امام وہ ہونا چاہئے جو اتقی ہو اگر سفر میں ہوں تو بھی اذان اور اقامت ۵۵۲ ۵۴۱ ۲۹ ۳۲ 190 ۵۳۸ 1• اوپر سے دیکھ لو آنحضرت می دیم مجلس میں کثرت سے استغفار پڑھا کرتے تھے انسان کو جب جنت میں داخل کیا جاوے گا تو اسے ایک میل پر سے گذرنا ہو گا جس کا نام جسر الصراط ہے اگر جوش آئے تو بیٹھ جاؤ یا پانی ۵۳۳ ۱۳۸ ۵۳۶ ۵۱۹۴۳۴ پی لو یا وہاں سے ہٹ جاؤ اگر کوئی شخص ثواب کی نیت سے اپنی بیوی کے مونہہ میں ایک لقمہ بھی ڈالتا ہے تو اس کے لئے ثواب اور نجات کا موجب ہو جاتا ہے اگر کوئی شخص کسی مومن کا جنازہ پڑھے اور میت کے ساتھ قبرستان تک جائے تو اسے بڑا ثواب ملتا ہے بڑا ملتا آنحضرت سلیم نے اپنے بعض غریب صحابہ سے فرمایا :.آؤ میں تمہیں چند ۴۴۹ ۶۵۲

Page 677

کلمات سکھاؤں اگر ان کا ورد کرو گے اُسے پہن کر مسجد میں آئے تو اُسے جھٹکا لگتا ہے اور وہ جنت تو ۵۰۰ سال پہلے جنت میں جاؤ گے ۵۷۵ آپ اس کا چہرہ مبارک غصہ ۴۹۹ کے قریب ہو جاتا ہے..یمن کے گورنر کے کارندے جب آپ ﷺ کو گرفتار کرنے آئے تو دعا کے بعد فرمایا : جاؤ ، جا کر اپنے گورنر جمعہ کے دن سے متعلق فرمایا: اس سے سرخ ہو گیا اور فرمایا: دینے کے میں ایک خاص وقت قبولیت دعا کا یہ معنی تو نہ تھے کہ خود پہن لو ایسا آتا ہے جس میں خدا تعالی کی ایک جنگ کے موقع پر مسلمانوں برکات نازل ہوتی ہیں ۵۴ نے ایک شخص کو دیکھا کہ بڑھ بڑھ سے کہہ دو کہ آج رات میرے خدا ایک دفعہ ایک شخص نے عرض کیا کہ کر جنگ میں حصہ لے رہا ہے فرمایا: نے تمہارے خداوند کو مار دیا ہے اگر میں اپنی بیوی کو بد کاری کرتے جب تم مسجد میں آؤ تو پیاز اور لہسن اگر کسی نے دنیا میں دوزخی دیکھنا ہو ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھوں تو کیا تو وہ اس شخص کو دیکھ لے ۶۳۸ کھا کر نہ آیا کرد ایمان کی ادنی علامت یہ ہے کہ اگر جب سوتے سے آدمی اُٹھے تو چاہئے ۳۷۸ ۴۳۸ اُسے مار دوں.فرمایا: نہیں اگر تم اسے مارو گے تو قابل اور خونی سمجھے جاؤ گے ایک دفعہ رات کو معمولی سا شور ہوا مومن بندے کو آگ میں بھی ڈال دیا کہ ہاتھ دھو کر برتن میں ڈالے ۴۷۰ جائے تب بھی وہ ایمان ترک کرنا گوارہ نہ کرے سارے صحابہ ہتھیار بند ہو کر باہر نکل بہترین نیکی وہ ہے جو زیادہ دیر تک آئے اور بعض مسجد میں جمع ہو گئے قائم رہے فرمایا : وہی لوگ زیادہ ہوشیار تھے جو مسجد بہترین عبادت وہی ہے جس پر میں جمع ہوئے کیونکہ مسجد مسلمانوں کے مداومت اختیار کی جائے جمع ہونے کی جگہ ہے جس کے ہاں دو لڑکیاں ہوں اور وہ ۶۲۳۶۲۲ انکی صحیح تربیت کرے تو میں اس کے ساتھ جنت کا وعدہ کرتا ہوں ۶۴۰۴۴۳۲ جس نے السَّلَامُ عَلَيْكُمْ کیا اس کے نام دس نیکیاں...اور جس ۳۵۲ نے السَّلَامُ عَلَيْكُمْ ۳۸۸ پاجامہ اس طرح نہیں ہونا چاہیے کہ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ کیا ۴۹۵ اس کے نام تھیں نیکیاں لکھی گئیں ایک دفعہ رسول کریم اے بیٹھے ہوئے مخنوں سے نیچے ہو تھے صحابہ بھی پاس جمع تھے کہ قریب تجد خُدا تعالیٰ کو اس قدر پسند ہے سے ایک جنازہ گزارا صحابہ نے مرنے کہ مجھے خطرہ ہے کہ اسے فرض جس نے شادی نہیں کی اور اسی حالت میں مرگیا اس کی عمر ضائع ہو گئی ۳۲۲ جو سلام کہتا ہے اُسے دس نیکیاں ملتی والی کی تعریف کی تو آپ نے فرمایا جنت اس کے لئے واجب ہو گئی نہ بنا لیا جائے ۴۷۰ ایک شخص تمام عمر ایسے افعال کرتا ہیں ایک دفعہ رسول کریم ﷺ نے رہتا ہے کہ دوزخ کے قریب جا حضرت عمر کو ریشمی جبہ دیا آپ پہنچتا ہے مگر عین دروازہ پر جا کر جو شخص یہ کہتا ہے کہ ستاروں کی ۵۴۳ ۶۴۶ ۶۵۱ ٢٣١ ۶۵۰ گردش سے بارش ہو گی وہ کافر ہے ۳۹۵ رش ہوگی وہ کافر ہے

Page 678

جو شخص پہلے اپنے بھائی سے معافی حقیقی توبہ کرنے پر اللہ تعالٰی کی منافق جب روایت کرتا ہے تو جھوٹ مانگتا ہے وہ پانچ سو سال پہلے جنت میں رحمت سے جنت میں چلا گیا ۴ تا ۴۱۳ بولتا ہے.....داخل ہوتا ہے ۳۲۷ صبر تو پہلے موقع پر ہوتا ہے ۱۰۵ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: میرا گھر مدینہ جو شخص خدا کے لئے نیچے جھکتا ہے خدا ایک موقع پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا: میں ہے میں مدینہ ہی میں جاؤں گا اُس کو ساتویں آسمان پر لے جاتا ہے ۳۴۴ فلاں کے ہاتھ میں میں کسری کے بندہ نوافل کے ذریعہ خدا کے اتنا جو شخص مسجد میں باجماعت نماز کے لئے کنگن دیکھتا ہوں ۵۹۳ ۴۹۹ قریب ہو جاتا ہے کہ خدا فرماتا ہے کہ انتظار کرتا ہے وہ دراصل نماز ہی میں قرآن کے سات بطن ہیں ۲۹۰ میں اس کے ہاتھ ہو جاتا ہوں ہوتا ہے ۳۱۳ کنواری عورت کا سکوت ہی اسکی نمازوں میں اپنی صفوں کو درست کرو ۳۲۴ ورنہ تمہارے دل ٹیڑھے ہو جاویں گے ۴۴۱ کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی شخص کا ہر شخص اپنے اعمال کا آپ زمہ دار ہو گا ۴۶۳ خطبہ کا وقت اُسوقت تک ہے جب تک رضامندی ہے امام مصلی کی طرف نہ جائے...نہ جائے اگر کوئی حکم توڑے تو اشارہ سے سمجھایا دل سارے کا سارا سیاہ ہو جاتا ہے ۳۹۳۴۳۹ ہر کافر و مومن کا ایک گھر جنت میں جا سکتا ہے ۲۰۷ حضرت محمد سلیم نے اپنی اولاد کے آنحضرت رمضان میں نابینا لئے صدقہ حرام فرمایا ہے کو مؤذن مقرر فرمایا کرتے تھے ۳۱ ہوتا ہے اور ایک دوزخ میں ۳۰ ایک صحابی نے عرض کی یارسول الله ! دعا کیجئے میں بھی آپ کے ساتھ ہوں منافق کی علامت یہ ہے کہ وہ عشاء ۶۴۳۳ فرمایا ہاں ایسا ہی ہو گا رسول کریم می میر نے پسند فرمایا ہے اور فجر کی نماز میں نہیں آتا منافق کی یہ بھی علامت ہے کہ وہ کہ روزہ جلد افطار کرنا چاہئے ایک آدمی نے سو (۱۰۰) قتل کئے...دھوکا دیتا ہے یتیم کو ڈکھ نہ دو اسکی دعا عرش الہی کو ۱۵۷ ہلا دیتی ہے ۷۷۵ ۲۹۶ ۳۳۸

Page 679

الهامات حضرت مسیح موعود عربي الهامات اردو الهامات فارسی الهام جَرِيُّ اللَّهِ فِي حُلَلِ آگ سے ہمیں مت ڈراؤ آگ ہماری دیر آمده زراه دور آمده ۲۰۰ الانبياء دَوْحَةً إِسْمَعِيلَ ۷۳۷ غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُسے قبول مبارك و مبارك وَ كُل نہ کیا.اسکی سچائی ظاہر کر دے گا اَمْرٍ مُبَارَكٌ يُجْعَلُ فِيهِ ۳۲۹ وَلَا تُبقى لَكَ مِنَ الْمُخْزِيَاتِ ذِكرًا ۲۱۰۲۰۹ يُرِيدُونَ أَنْ تَرُوا طَمَتَكَ ١٧٢ غلام احمد کی گئے (Ar ۴۹۰۲۷۴۱۸۰ ۲۰۰

Page 680

۱۰ ا.آ افلاطون ایرانیم دھرنے ۲۹٬۲۸ امان اللہ خان أبرهه ابلیس ۵۱۴۴۳۸۲۳۰ ۵۲۱ ۱۴۵۶۶ انصار انصار الله اسماء انعام اللہ شاہ سیہ ابن جریر انگریز ان عباس" ۱۸۳٬۸۱ اہلحدیث (جماعت) امن تعلیل ۵۹۹٬۵۹۸ | ایبٹسن سر ڈینزل ابو بکر حضرت" ایلیٹ ۲۹۴۵۸ ابو جهل ۲۵۷ ۳۶۹ تیمور ۵۵۴٬۵۵۲ | شاء الله مولوی ΔΙΑ ۳۵۴ ۵۹۶۵ ۴۹۰ ج جلسہ سالانہ جماعت علی شاہ امیر جماعت غزنویہ جنت ۳۸۹۳۹۱ ۳۰۰۲۹۸٬۲۹۷ ۵۲۸ ۲۱۴ ۴۷۰۴۳۴۴۳۲۷ ۶۶۵٬۶۳۶٬۵۸۹٬۵۸۷٬۵۶۵ ابو حنیفہ امام ابو سفیان آتھم احرار آدم حضرت اروڑا خان منشی ارون لارڈ أريد ۵۳۰٬۵۱۵٬۵۱۴٬۳۸۷ بابر اسمعیل حضرت اسمعیل شهید سید اشرف علی تھانوی ۴۴۱ ۲۹۴۱۳۰ ۵۲۱ QAYTA ۵۹۷ ۴۹۱ جواہر لال نہرو بشیر احمد میاں ۱۳۹۴۲۱۳ | جینی بنی اسرائیل ۳۷۴۳۷۰۳۵۲ ۲۶۸ حاتم طائی ۱۷۳ پھٹ بھگت سنگھ پٹیل سردار پیغمبر اسنگھ تاقی تورات 196 ۶۱۵ IA て 11 ۶۵۵ حشمت اللہ خان ڈاکٹر ۷۲۴٬۲۱۲ حلف الفضول خ خنساء حضرت درو عبد الرحیم 14A

Page 681

دوزخ ڈارون راج گورو رازی امام رحمت الله شیخ رستم ۱۳۰٬۵۹۰٬۵۸۹٬۵۸۷ | سید محمود ڈاکٹر ۲۵۷۲۳۵ s ILA ۴۲۰ سیواجی ش شادی خان شبلى شردھانند سوامی شطرنج 14A عبدالجبار شاه سید ۱۳ (حاشیه) ۱۷ ۱۸ عبدالحکیم ڈاکٹر عبد الرحمن بن عوف ۹۸ 119 حضرت عبدالرحمین مصری ۶۴۹ عبد الستار افغان مولوی ۶۳۶٬۶۲۵٬۶۲۳ ۴۳۳۴۴۳۲ عبد القادر جیلانی سید عبدالکریم حضرت مولوی رمضان ۳۳۴۳۳۳٬۳۳۰٬۳۲۸ شیر علی حضرت مولوی ۷۳۸٬۶۲۴۲۷۲ عبد اللطیف شہید حضرت ١١٣ ۹۸ ۳۴۵۲۷۶ ۳۶۵ ۳۸۷ صاجزاده سید ۴۹۶۴۴۵۸ ۵۱۷ ۶۳۳٬۵۹۶۴۵۱۷٬۵۱۶ ۱۳۳٬۵۸۷۵۰۸۴۴۹۶۴۴۷۶۴۶۸۴ عبد الله الله دین سینه ۵۹۹ ۵۹۳ ۵۹۹٬۵۹۸ YOA ۲۲۶ ۲۹۵۱۸۹۱۰۶ رنگا سوامی آئر روشن علی حضرت حافظ شیطان ز ص زرتشت حضرت صوبہ سرحد زینت محل ض س ضرار حضرت سرخ پوش b ٣٦ ۳۵۸ عبد الله عبد اللہ بن ابی بن سلول عبد الله بن مطعون عبد المطلب عثمان حضرت سرور شاه حضرت مولوی ۱۳۴۹٬۴۹۳ طاعون ۲۱ ۳۹۰۷۴٬۲۲ عرش ه حضرت شكهديو ۱۴۱ HA طبری ظ سُلطان احمد مرزا ۲۱۱۲۱۰۴۲۰۹ تا ۲۱۳ ظفر اللہ خان چوہدری ۱۴۵ ۵۸۲٬۳۵۰ عکرمه علی حضر حضرت عمر حضرت ۵۹۵٬۵۲۹٬۴۹۹٬۳۶۹ ظفر علی مولوی ع ۵۲۳۲۷۷ عائشہ حضرت ۳۳۳۳۹۳۸۶۳۳ عمرو بن العاص عیسی حضرت ۲۵۶ ۲۵۵٬۲۱۹۴۲۱۷۱۹۹۷ عباس حضرت ۶۴ ۲۹۸ سناتنی سُندر سنگه سندھی سید احمد سربندی سید محمد شریف

Page 682

۱۲ ۲۷۱۲۶۰ ۳۶۵٬۲۹۴۲۷۷٬۲۷۴ کانگرس ۵۷۳٬۵۱۷٬۵۱۴۴۴۷۱۴۷۴۷۴۱ ror'199˚190'109 ۵۱۴۵۰۹٬۵۰۷٬۵۰۵٬۵۰۴٬۳۵۷ | محمد اسحاق شاه عیسائی ۷۵۵٬۴۰۸٬۴۰۷٬۳۵۷٬۳۱۱ کرشن حضرت غ کسری غلام احمد قادیانی حضرت مرزا کمال الدین خواجہ کنفیوشس حضرت یح موعود ۱۷۱۱۷۰۱۵۳٬۱۵۲۱۳۴ ۱۳۳ ۱۳۶۳ کو لیں.۱۷۳۱۷۴۴ ۱۷۵ ۱۷۶ ۱۷۷ ۱۹۹۴۱۸۰ گاندھی مسٹر ۲۰۴٬۲۰۰ ۲۰۹٬۲۰۵ تا ۲۱۲ ۲۱۵ تا ۴۲۲ ۲۲۷ تا ۲۸۸٬۲۸۷٬۲۸۵٬۲۶۰٬۲۳۰ ۴۰ محمد اسمعیل ڈاکٹر ۷۷۳۶۵۹۶۵۶ ۴۳۳ ۵۰ ٥٠٠٢٩٩ محمد حسین مولوی بیانوی ۴۱۸۲۴۱۶ ۵۲۵۱۷۸ ۴۰۸ محمد الدین مولوی ۴۲۸ محمد محمد شریف سید محمد شفیع ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۹۵ محمد صادق مفتی ۲۷۸٬۲۰۲ ۲۰۰۱۹۹۲ ۱۹۶ ل ۲۹۷۲۹۴ ۳۵۸٬۳۵۰٬۳۴٬۲۹۹٬۲۹۸ - لقمان حضرت ۲۰۰٬۳۹۹٬۳۸۹۴۳۷۱۳۷۷٬۳۶۵ لو تھر ۱۶ تا ۴۴۶۹٬۴۵۸٬۴۳۰٬۴۱۹ | ۴۴۹۶۴۴۹۰٬۴۸۶٬۴۸۵٬۴۸۴٬۴۸۰ لیکھرام پذت ۲۶۷ ۸۳ محمد علی محمد علی قاضی محمد یوسف پر محمود غزنوی ۲۱۴ ۵۳۵ ۶۲۴۴۹۸ ۱۷۹۱۶۵ ۱۶۴ محی الدین ابن عربی حضرت مستشرقی MA ۱۴۳ ۳۷ مسیلمہ کذاب ୮ مالوی جات مائی برنجی مایان مبارک احمد مرزا متصوفين ۱۳۹ ۶۰۰ ۲۶۳ محمد حضرت مای ۷ تا ۷۷۷۳ مظفر بیگ معاویه حضرت نشی رام موسى حضرت اله لا !19 ۵۵۵٬۵۵۴٬۵۱۳۴۳۷۰٬۳۶۵۳۵۲ ۲۸۴۲۸۲ ۳۵۱٬۳۳۹٬۳۳۸ الم مہاراجہ کشمیر ۹۷ ۱۲۴۴٬۲۲۱٬۲۰۰٬۲۰۱۸۹۸ میکنس جرمن جنرل ۲۹۸٬۲۹۷٬۲۹۳٬۲۸۹۴۲۶۲۶۰ ۴۶۳۸٬۵۱۴۴۴۱۵ ،۴۱۴۴۳۶۶۴۳۶۷۵ جر میگنیشیا { ۱۸۶ ۵۱۱٬۵۰۴٬۵۰۱٬۵۰۰٬۴۹۸٬۴۹۷ ۴۵۹۷٬۵۹۲٬۵۹۱٬۵۳۴٬۵۳۸٬۵۱۷ ۶۲۸٬۶۲۷٬۶۲۳٬۶۰۰٬۵۹۸٬۵۹۷ ۶۳۷۶۳۴ ۶۴۹ Direkt TAL غلام محمد رئیس ف فتح محمد چوہدری فرعون فيج اعوج

Page 683

۲۶۳ (HERMITS) ( ۵۸۴ ۴۹۰ ۶۶ ۵۲۳۴۲۸ 100 ہر ہندو هنده ہوم ی یار محمد مولوی یورپ یهودی ۶۲۵۶۲۳٬۵۳۹٬۵۰۴۴۴۹۶۴۴۹۵٬۴۸۰ ۲۸۳ ۳۱۰ ۴۴۰ ۲۵۷ ۴۳۳ نوشیروان نولدک نولڈ اس نیلسن نیوٹن و ولی اللہ شاہ ۳۵ ۴۹۱۲۸۳ ۴۱۸ ۵۹۶ ۶۶۳۵۱۴ ۲۱۰ ن ناصر نواب حضرت میر نپولین نظام الدین مرزا نعمت اللہ خان نوح حضرت نورالدین حضرت خليفة المسيح الاول ۳۷٬۳۴٬۲۰ وليد ۴۳۳۴۱۸۴۳۵۱٬۳۲۴ ۲۹۴ ۲۱۰ ۱۰۹

Page 684

orfrar i ۱۴۹ ۶۶۵۶۳۲٬۵۹۰ ۵۹۹٬۵۸۷ ۱۴۳ ۱۹۲۵۰ ۱۳۹ ۱۴ مقامات عینی پشاور خانہ کعب ۲۹۲٬۱۸٬۹۷٬۵۱ دارجلنگ ۷۳ ۲۱۰۴۳۰ ۶۱۴۵۲۲۴۵۱۴ روزخ و هرم ساله دھرم کوٹ وہلی ڈلہوزی ۵۲۶٬۴۹۳۴۹٬۴۷ ۶۲۴۶۰۷۶۰۲۵۸۷٬۵۷۲۵۶۸ ۱۹۲ ۱۹۲ تلونڈی جھنگلاں ٹھیکری وال ۱۹۲ ۲۴۵ ۲۳۵۶۹ ۱۵ 'rar'ı ۵۲۸٬۲۱۳۳۸٬۳۰ اٹھوال أحد آسٹریا آسٹریلیا افریقہ افغانستان اگرہ امرتسر امریکہ انگلستان ایران بٹالہ بحیرہ عرب بدر بغداد بلوچستان ہمیت بنارس بنگال (خلیج) بہار ۳۱۳ ۶۳۶۳۷۸٬۳۷۷۱۴۰ ۶۵۷٬۵۵۳٬۲۲۵ ۵۱۱۱۵۸٬۳۰ ج جاپان جاوا جرمنی جموں جنت جہلم چین چ ڈھاکہ ۲۹۵۴۴۶ رام پور ٣٣٦ راولپنڈی ۷۶۵٬۶۳۲۴۵۸۹۴۵۸۷ رنگون ۳۵۸ روم ۵۰۲۳۷۸ سماٹرا ۶۰۹ 7 rapiron ۶۳۱ سیالکوٹ ۳۵۸٬۲۹۳۰۵۴۹۴۴۷ سیکھوان ۱۹۲

Page 685

ش ۱۵ ,00 أولد له ولد اله و إنانا الله اول ۷۶ ۹۲ ۱۹۲ ۲۸۴ شام شاه پور شکار ما چھیاں شملہ شیخوپورہ ۵۱۰٬۵۰۵٬۲۳۰ ۲۲۸ ۱۳۹ خودم تمین صوبہ سرحد ع عرش فلسطين قادیان ق 7 ۲۴ 604,bh43174,474,474,174, ۶۶۰٬۶۲۹۴۶۰۹۵۹۳٬۵۹۲ ۵۱۱٬۵۰۷٬۵۰۳٬۵۰۰٬۴۹۳۴۳۶۴۳۷۹ ملتان کلکتہ کھارا گ گجرات گوجرانوالہ ۵۷۰٬۵۶۳٬۵۵۸٬۵۲۲ ملکانا ۵۵۸٬۳۴۴۸۴۶ مندر الدفا لد ولد.له گورداسپور ۴۷ تا ۱۷۷۱۰۹۱۷۷۴۵ ۶۵۸٬۶۳۴۵۲۱۴۵۱۴۴۴۹۵ لاہور ۶۳۱ فاه و حاله و فه , hh ولدها وله الله ۱۶۸٬۱۱۵۱۰۸٬۵۱٬۴۸٬۴۷ ولد والله وله فال وله الدوله وله اله واحد و لدھیانہ لکھنو ۶۳۷۶۱۴٬۵۵۷٬۵۳۵٬۵۲۸ ۱۹۴۴۱۵۴ ۲۱۴ ۲۲۸۴۲۳۷ ۲۵۰٬۲۴۹٬۲۳۱ | مدراس ۱۳۹۹۴۲۹۴۲۹۳٬۲۸۵ ۳۰۱ ۳۰۴٬۳۰۳ مدرسه احمدیه ولد لا اله الا الله الله والله واللها الله له لا والله 7 ۵۵۸٬۵۲۸٬۵۱٬۵۰۳٬۵۰۳٬۴۹۳۴۵۹ کانپور کراچی أوا العدة أو الدلة و المالية و www منصوری میرزاپور نامجه ننگل نواں پنڈ و نجواں ن ۲۱۲ ہندوستان الله و له ۷ +3,110 مدینه منوره ۳۷۸٬۲۹۳٬۲۰۱۴۱۴۷۱۳۶ ۴۸ لد له ولد 7 الله الله 110 الله والدها ۱۹۲ ۱۹۲ ۶۶۵۰۴۹٬۴۴۱۷ 07‚V7,0,1,h||,741,171,004,khd, ۲۸۰٬۲۷۹۲۷۸ تا۳۳۶٬۳۰۴٬۲۹۲٬۲۸۲ الله الله ما الدله والده الله ولد اله ولله الله ہوشیار پور ۱۵۸٬۵۹۳٬۵۹۴٬۵۵۷٬۵۵۳٬۴۸۳ یرموک مسجد حرام ۱۹۷۷۴۱۵ ۲۷۷ مسجد لنڈن ۴۸ مصر ۲۸۲٬۲۸۰۶۲۷۸٬۱۳۹ مکه مکرمه الدها Trey الها الله 001,100 یمن یورپ یو-پی bati 774,474 وله بالم والدقة لا والله.۶۵۵۶۵۴۶۳۱ 1156

Page 686

14 کتابیات 1 ابن جریر طبری ۱۴۵ بخاری ۴۰۷۱۳۲۴۷ ۱۳ | سيرة ابن هشام ۲۰۱۵۰۲۱۳۳ قرآن کریم ٥٣٩٠٣٩٣٠٣۵ | تاریخ الامم والملوك ابن ماجه الداود ۷۴۷٬۵۳۹ لابن جریر الطبری (۱۴۵٬۶۶ الفضل ۱۰۳٬۹۳۶۶۵۳٬۳۴٬۲۶۱۵۵ تذکره الصحابة ۵۳۲:۵۱۴۴۴۷۸۱ تذكرة الاولياء أسدالغابة في معرفة '•}},Vd}‚ddl,ihi,+7¡¸ded,hld,ddd, | ۲۳۳ ۲۳۷ ۲۵۶٬۲۴۴ ۲۷۶۲۶۳ | ترندی 471,771,701,064,d+d‚V+d, ۱۳۸۹۴۳۷۹٬۳۷۱۳۲۷۱۳۲۸۴۳۱۸ عید الاذبان ,010, الدوله والله ولد 7 ولد الله والده ولا له اوله الله بها وله الله او له له او له هما ولدها ۵۶۶٬۵۵۱٬۵۳۹٬۵۳۲٬۵۲۵٬۵۱۸ ddh,hdh,dOh,dhh,Ohh 170,hV0,Joh‚hoh‚olh,hih,7dh, ٹ ٹیچنگ آف اسلام 2 b7d,elh ٣٠٣ ولله وله او له او الاوا •V]dV;•b,+d!¸Vh1,171,7 ۳۱۸٬۳۱۰۲۹۰۲۷۰۲۶۷۲۵۷٬۲۵۵ الها وله الله الله والله له و له وله وله لا له ولد و و ولد له ولد و اولد ماه ولد الدالله الله فاوله ماله ولله الداء ولد لده ولد له وله الاوله الله ولد 70 له له 00 وله الاول والاله والله ول لله ولله الله الله الله الله له له hd ر - ز حریت (اخبار) ۵۱۵٬۵۰۳٬۵۰۲٬۴۹۵٬۴۸۹٬۴۸۸ ۵۴۶۵۴۳٬۵۴۰٬۵۳۰٬۵۲۹٬۵۳۲ ۵۶۶٬۵۶۵٬۵۵۶٬۵۵۲٬۵۵۰۵۴۷ ۲۱۹ ۲۴ ۶۱۳ VL0,470,VV0¸lch¸4wh¸ wh م مجمع بحار الانوار مثنوی رومی ۲۵۶ ۱۳۸ ولاد له امله والده اليه والامارات الوصیت (رساله) انجیل انوار الاسلام بائیبل 60,Vid,hhd, 77* لا اله الله الله 777 ۱۳۸ ۳۱۸۲۵۸ رياض السنه زمیندار اختبار سفينة الاولياء مین (اخبار) س ۶۱۳ ۱۵ الله والله مسند احمد بن حنبل مشكوة المصابيح نسائی ن ۵۶۶۴۲۱۷۴۲۰۳۱۷۰ ۱۳۹۵

Page 686