Language: UR
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خطبات علوم و معارف کا ایک انمول خزانہ ہیں اور پیش گوئی کے الہامی الفاظ ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیاجائے گا‘‘ پر شاہدناطق ہیں۔ آپؓ کا دور خلافت نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے جو ایک تاریخ ساز دور تھا۔ اس نہایت کامیاب اور طویل دور میں آپؓ نے اپنے خطبات جمعہ کے ذریعہ جماعت کی تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ سیاسی، سماجی اور مذہبی افقوں پر نمودار ہونےوالے ہر معاملے پر بروقت اور درست رہنمائی عطافرمائی۔ الغرض یہ خطبات جمعہ جماعت احمدیہ کا ایک بہت ہی قیمتی خزانہ اور سرمایہ ہیں۔ جسے فاؤنڈیشن نے یکجا کرکے کتابی شکل دی ہے۔
خطبات مود خطبات جمعہ) ۶۱۹۲۸-۱۹۲۷ فرموده سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمد احمد أصلح الموعود خليفة اصبح الثانی جلد زیر اهتمام
KHUTUBĀT-I-MAHMŪD by HADRAT MIRZA BASHIR-UD-DIN MAHMUD AHMAD KHALIFATUL MASIH II Published by: Islam International publications Ltd.Islamabad, Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU 10 2 AQ U.K.Printed by: Raqeem Prees, Islamabad, Tilford, Surrey.
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ پیش لفظ اللہ تعالٰی کے فضل و احسان سے فضل عمر فاؤنڈیشن کو حضرت مصلح موعود کے خطبات جمعہ کی گیارہویں جلد احباب جماعت کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت نصیب ہو رہی ہے.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ - اس جلد میں ۱۹۲۷ء ۱۹۲۸ء کے اے خطبات جمعہ شامل ہیں.حضرت فضل عمر سلطان البیان کے خطبات علوم و معارف کا انمول خزانہ ہیں اور پیشگوئی کے الہامی الفاظ ” وہ علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا" پر شاہد ناطق ہیں.حضرت مصلح موعود کا دور خلافت جو کم و بیش ۵۲ سال پر محیط ہے.ایک تاریخ ساز دور تھا.اس نہایت کامیاب طویل دور میں حضور کے خطبات نے جماعت کی علمی و روحانی ترقی اور تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا.ہمارا یہ روحانی و علمی ورثہ سلسلہ کے لٹریچر میں بکھرا پڑا تھا.اور جماعت کے دوستوں کو اس سے استفادہ کرنا مشکل تھا.فضل عمر فاؤنڈیشن، اس جماعتی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ان خطبات کو کتابی شکل میں شائع کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں ان خطبات سے پورے طور پر استفادہ کرنے اور جماعتی ذمہ واریوں کو احسن رنگ میں ا: ا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.
صفحہ 19 ۲۲ ۲۵ ۳۲ ۵۱ ۵۶ فهرست مضامین خطبات محمود خطبه نمبر | تاریخ بیان فرموده 1 خطبات جمعہ 1927ء‘1928ء (جلد (11) موضوع خطبه ے جنوری ۱۹۲۷ء نئے سال کیلئے نئی قربانیوں کی ضرورت ۲۱ جنوری مجرم سے ہمدردی کرنے سے اخلاقی بدیاں پھیلتی ہیں ۲۸ جنوری رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک سنت پر عمل کرنے کی تاکید ۴ فروری ایمان لانے والوں پر ابتلاء فروری انسانی زندگی کا مقصد عظیم نمازوں کے ذریعہ کیوں کامیابی حاصل نہیں ہوتی ؟ ۲ ۱۸ فروری ، مارچ مارچ ۱۸مارچ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا برکات رمضان سے فائدہ اٹھائیں قرب الہی حاصل کریں جرأت اور بچی بہادری دکھائیں ۱۰ ۱۵- اپریل ۲۲ اپریل ہندوستان میں اسلام پر نازک وقت اور مسلمانوں کا فرض آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا مقام محمود ۱۲ ۲۹ اپریل ۶۳ ۲۸ 69 ΑΛ ۹۹ ۱۱۵ 116 I لا 9 : { ۱۳۹ ۱۵۱ 109 ۱۳ اومتی لاہور کا خونی ہنگامہ ۱۴ ۳ امتی اتفاق و اتحاد کی برکات ۱۵۰ ۲۰ متی جان لینے کیلئے نہیں بلکہ جان دینے کیلئے قربانی کرو ۱۶ ۲۷ مئی اخبار ہندو ہیئر لڈ" کے ایک مضمون کا جواب 16 ۱۸ 19 ۲۰ جون اجون اجون توحید - اتحاد کیلئے ایک بنیادی اصول رصلی اللہ علیہ و سلم کی بلند شان مشکلات کو حل کرنے کے لئے دماغ سے کام لو ۲۴ جون موجودہ مشکلات میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
خطبه نمبر | تاریخ بیان فرموده ۲۱ موضوع خطبه یکم جولائی ۱۹۲۷ء کتاب ”رنگیلار سول کا جواب ۲۲ ۲۹ جولائی تو کل علی اللہ کا صحیح مفہوم ۲۳ ۵- اگست بین الا قوامی تعلقات کی بہتری ۲۴ ۲۶- اگست سورۃ فاتحہ میں ایک مطالبہ ۲۵ و ستمبر ہماری ترقی کا راز ہماری روحانی طاقت میں ہے ۲۶ ۷ اکتوبر استقلال سے کام کی ضرورت ۲۷ ۱۴- اکتوبر خدائی سلسلوں کی مخالفت ۲۸ ۲۱ اکتوبر خدا کے مسلسل نشانوں سے فائدہ اٹھائیں ۲۹ ۲۸ اکتوبر بے جاجوش اور تشد دہماری تعلیم کے خلاف ہے بے جا محبت اور غضب سے بچو i ۳۰ ۴ نومبر ۱ ۱۸ نومبر سالانہ جلسہ کی تقریب اور جماعت احمدیہ کے فرائض ۳۲ ۱۲ کمبر حضرت تائی صاحبہ کا انتقال ۳۳ ۹ر کمبر توحید الہی ۳۴ ۱۲۳ نمبر ۳۵ ۳۰ دسمبر عظیم الشان اجتماع کیلئے تیاری اَعُوذُ اور بسم اللہ پڑھنے میں نکتہ ۳۶ ۶ جنوری ۱۹۲۸ء سال حال کے پروگرام کی بعض اہم باتیں اور درود کی حکمت ۱۳۳۷ جنوری امراء اور پریذیڈنٹوں کے فرائض ۳۸ ۲۰ جنوری مسنون خطبه جمعه ۳۹ ۲۷ جنوری ۲۰ جون کے جلسہ کیلئے تیاری ۴۰ ۱۰ فروری کامیابی کیلئے صحیح طریق پر عمل کرنا ضروری ہے ۱ ۱۷ فروری مذہب کی غرض حصول تقویٰ ہے ۴۲ ۲۴ فروری رمضان المبارک کے فیوض ۲۴۳ مارچ رمضان المبارک کی برکات سے فائدہ اٹھاؤ روزہ رکھنے کی بلوغت ۴۴ ۹ مارچ ۴۵ ۱۶ مارچ رمضان کا آخری ہفتہ ۴۶ ۲۳ مارچ شہزادہ عبد المجید خان صاحب کی شہادت صفحہ ۱۶۸ 169 IAA ۱۹۸ ۲۰۰ ۲۰۴ ۲۱۰ ۲۱۷ ۲۲۷ ۲۳۷ ۲۴۳ ۲۵۰ ۲۵۵ ۲۵۸ ۲۶۳ ۲۷۱ ۲۸۱ ۲۸۷ ۲۹۵ ۳۰۱ ۳۰۷ ۳۱۵ ۳۲۴ ۳۳۲ ۳۳۹
خطبه نمبر | تاریخ بیان فرموده موضوع خطبه صفح ۴۷ ۶ - اپریل ۱۹۲۸ء جماعت احمدیہ کا حال اور مستقبل خدا کی رحمت کے مظہر بنو ۴۸ ۲۰- اپریل سیرۃ النبی کے جلسے سے اجون کو ہوں گے ۴۹ ۲۷ اپریل وصیت کر نادین کو دنیا پر مقدم کرنے کے عہد کو پورا کرتا ہے ۵۰ امتی ۵۱ امتی جیسا کروگے ویسا بھرو گے ۵۲ ۲۵ مئی اسلام کی خاطر متحد ہو جاؤ ۳۴۷ ۳۵۴ ۳۶۱ ۳۸۰ ۳۸۸ ۵۳ ۶ جولائی مسلمانوں کی ترقی کار از قرآن کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں ہے ۴۰۰ ۱۳۵۴ جولائی کامل عبد بن کر ہی مسلمان ترقی کر سکتے ہیں ۵۵ ۲۰ جولائی قومی اتحاد اور تمدنی ترقی کا بہت بڑا گر ۵۶ ۲۷ جولائی مسلمانوں کی ترقی کے دوگر ۵۷ ۱۰- اگست مولوی محمد علی صاحب کا چیلنج منظور ۵۸ ۲۴- اگست روحانی اور جسمانی پانی درس القرآن سننے والے اس سے فائدہ بھی اٹھائیں ۵۹ ۳۱- اگست ۲۰ ۱۴ ستمبر استقلال سے تبلیغ کرد ۱ ۲۱ ستمبر ۶۳ ۲ ۲۸ ستمبر خدا کی دی ہوئی عزت کوئی چھین نہیں سکتا عورتوں کی عزت کی حفاظت کرو خواہ وہ دشمنوں کی ہوں ۵۶۳ - اکتوبر نہرورپورٹ کے خلاف جلسے کئے جائیں ۱۲۶۴ اکتوبر وَإِنْ جَنَحُو اللسّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا ۶۵ ۲ نومبر ۲۶ ۹ نومبر ۲۸ ۶۹ أشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ کے مصداق بنو مخالفت سے گھبرانا نہیں بلکہ فائدہ اٹھانا چاہئے ۶۷ ۶ نومبر ۲۳ نومبر مسلمان حکومتوں کی دین سے بے اعتنائی جلسہ سالانہ کے چندہ کی تحریک زور سے کی جائے چندہ جلسہ سالانہ کیلئے دوبارہ تحریک ۳۰ نومبر انتظام جلسہ سالانہ کے متعلق ہدایات ے دسمبر ۲۶ دسمبر ۱۹۱۹ء (ضمیمه) خطبه جمعه ง ۴۱۰ ۴۱۷ ۴۲۹ ۴۴۱ ۴۵۴ ۴۵۸ ۴۶۳ ۴۶۸ ۴۸۴ ۴۹۱ ۵۰۲ ۵۰۹ ۵۱۶ ۵۲۳ ۵۲۹ ۵۳۴ ۵۴۲
خطبات محمود O سال 1927ء نئے سال کے لئے نئی قربانیوں کی ضرورت (فرموده ۷ / جنوری ۱۹۲۷ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : ہر نیا سال انسان کو نئے دور کی طرف توجہ دلاتا ہے اور نئی قربانیوں کے لئے متوجہ کرتا ہے.در حقیقت اگر غور کریں تو سالوں اور دنوں کی تعیین صرف ہماری یاد کے قائم رکھنے کے لئے ہے.سالوں اور دنوں کی تعیین سے ہماری یاد ایک دائرہ کے اندر محدود ہو سکتی ہے.ورنہ سال میں کوئی نئی تبدیلی نہیں واقع ہوئی.سال تو وقت کا ایک حصہ ہے اور وقت تقسیم ہونے کے قابل نہیں.وہ اپنی ذات میں تقسیم نہیں ہو تا بلکہ وہ مسلسل چلا جاتا ہے.پس جب ہم یہ کہتے ہیں کہ نیا سال شروع ہو گیا ہے تو اس سے یہ مطلب نہیں ہو تاکہ وقت میں کوئی تغیر ہو گیا ہے.بلکہ یہ مطلب ہوتا ہے کہ ہم اپنی یاد کو تازہ کرنے کے لئے ایک مقام پر یہ کہتے ہیں کہ آؤ ہم نئے سرے سے کام شروع کریں اور اس رنگ میں ہم کام کے نئے دور کا اظہار کرتے ہیں تاکہ ہمیں وقت کا احساس ہو اور وقت ضائع نہ ہونے دیں.اگر ہم یہ نہ کہیں کہ نیا سال شروع ہو گیا ہے تو وقت کا احساس نہ ہوتا.اور اس کے ضائع ہونے کا خطرہ ہو تا.پس جب ہم سال کی یہ کہہ کر تقسیم کرتے ہیں کہ نیا سال شروع ہو گیا ہے تو اس کی صرف یہ غرض ہوتی ہے کہ وقت گذر رہا ہے اور وہ ہمارے اختیار میں نہیں.اس لئے ہمیں پہلے سے زیادہ جد و جہد کرنی چاہئے.اس سے ہمارا یہ مقصد نہیں ہو تاکہ وقت میں کسی قسم کی تبدیلی ہو گئی ہے.بلکہ یہ مقصد ہوتا ہے کہ ہم بدل رہے ہیں.وقت میں کسی قسم کا تغیر نہیں آجاتا.وہ تو آدم کے وقت بھی وہی تھا جو آج ہے.پس جو تغیر ہم بتانا چاہتے ہیں.اس سے وہ تغیر مراد ہوتا ہے جو ہمارے اندر شروع ہے.اور جب ہم یہ کہتے ہیں کہ نیا سال شروع ہو گیا ہے تو اس بات کی طرف توجہ دلانا مقصود ہوتا ہے کہ جس وقت
خطبات محمود سال 1927ء سے ہم نے فائدہ اٹھانا تھا وہ تو ہم کھو بیٹھے ہیں.اب باقی حصہ سے ہی ہم فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں.اس ہفتہ کے دوران میں نیا سال شروع ہو گیا ہے.اس لئے اب غور کرنے کا مقام ہے کہ پچھلے وقت سے ہم نے کیا فائدہ اٹھایا ہے.اور آئندہ وقت سے ہمیں کیا فائدہ اٹھانا چاہئے.میں اس وقت ایک تاریخی واقعہ کی طرف توجہ دلا کر فرائض کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں.آج سے ۱۳۰۰ سال پہلے ایک جماعت قائم کی گئی تھی جو آخری جماعت تھی اور ایسے نبی کے ذریعے قائم ہوئی جو آخری نبی تھا.یعنی تمام شرائع اس پر ختم ہو گئی تھیں وہ کمالات نبوت کا خاتمہ اور کمالات انسانی کا آخری نقطہ تھا.نہ تو نبوت اپنے مقام میں اس سے آگے نکل سکتی ہے اور نہ کوئی انسان کسی کمال میں اس سے آگے بڑھ سکتا ہے.وہ تمام کمالات میں سب سے آگے نکل جانے کی وجہ سے آخری نبی کہلایا.اور نہ صرف وہ اس وقت آخری نبی تھا بلکہ اس کے لئے اللہ تعالٰی نے ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ وہ ہمیشہ کے لئے آخری نبی ہو گا.اور چونکہ وہ ہر آن ترقی کر رہا ہے اس لئے وہ کسی کے لئے روک نہیں بنا.نادانوں نے ناواقفی کی وجہ سے خیال کر لیا کہ وہ آئندہ کی ترقیات کے لئے روک بنا ہے.حالانکہ جب وہ کسی جگہ پر کھڑا ہی نہیں ہوا تو روک کیونکر بنا.روک تو وہ شخص ہوا کرتا ہے جو ایک جگہ پر کھڑا رہے.کیا تیز رفتار شخص بھی روک بنا کرتا ہے؟ پس اس نبی کو تو اللہ تعالٰی نے ایسا رتبہ عطا کیا کہ وہ ہمیشہ ہر آن آگے ہی آگے چلا جارہا ہے اور اس قدر تیزی سے بڑھ رہا ہے کہ کوئی انسان اس سے آگے نہیں نکل سکتا.ایسے نبی کے ذریعہ سے ایک جماعت دنیا میں قائم ہوئی.اس جماعت میں تفرقہ پیدا ہوا اور فساد شروع ہوا.گو اس فساد کے بانی مبانی بعد میں آنے والے لوگ تھے.لیکن اس میں صحابہ کا بھی دخل تھا اور وہ دخل کسی فساد کی بناء پر نہیں تھا.کسی عناد کی نیت پر مبنی نہیں تھا.بلکہ اسلام کی خدمت اور حفاظت کے لئے تھا.اس تفرقہ میں ایک طرف حضرت علی تھے اور دوسری طرف حضرت طلحہ اور زبیر اور حضرت عائشہ تھے.ان میں سے ہر ایک یہ چاہتا تھا کہ ہم فساد اور تفرقہ کو مٹادیں اور اسلام کی حفاظت کریں.چنانچہ ایک دفعہ ایک جگہ یہ دونوں لشکر ملے تو حضرت علی نے حضرت طلحہ و زبیر کو یا د ولایا کہ رسول اللہ اللہ نے آپ لوگوں کو فرمایا تھا کہ تمہار ا فلاں موقع پر کھڑا ہونا بہت برا ہو گا.جب حضرت طلحہ اور زبیر" کو بھی رسول کریم کا یہ فرمان یاد آیا تو اسی وقت وہ میدان سے ہٹ گئے اور جنگ کا ارادہ چھوڑ دیا یہ اب دیکھو ایک زبر دست لشکر کی کمان کرتے ہوئے رسول اللہ کے ایک فرمان یاد
خطبات محمود سال 1927ء دلانے پر میدان کو چھوڑ کر چلے جانا اتنے بڑے ایمان پر دلالت کرتا ہے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی.دوسری طرف جب بعض شریروں نے جو بانی فساد تھے دیکھا کہ صلح ہونے لگی ہے.اور ہمارا مقصد ٹوٹنے لگا ہے تو سوچنے لگے کہ اب کیا کیا جائے.آخر انہوں نے شرارت سے یہ منصوبہ کیا کہ حضرت عائشہ پر تیراندازی کریں جس سے پھر جنگ چھڑ جائے گی کیونکہ لوگ حضرت عائشہ پر تیر اندازی کو برداشت نہیں کریں گے.اور واقعہ میں بھی مسلمان یہ کبھی برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ دہ عائشہ کہ جس کی رانوں پر رسول اللہ سر رکھ کر سوئے ہوں اور جس کی گود میں رسول اللہ نے وفات پائی ہو.اسے وہ تیروں کا تختہ مشق بنتی ہوئی دیکھیں.چنانچہ اس وجہ سے جب حضرت عائشہ پر تیراندازی شروع ہوئی تو مسلمان دو ڑ کر حضرت عائشہ کے ہو رج کے قریب ان کی حفاظت کے لئے پہنچ گئے.جب جنگ شروع ہو جاتی ہے تو ہوش کہاں قائم رہ سکتے ہیں اور اصل بات معلوم کرنے کی کہاں ہوش رہتی ہے.جس وقت حضرت عائشہ پر حملے ہو رہے تھے.ایک قبیلہ عرب جو کئی سو کی تعداد میں میدان جنگ میں موجود تھا.وہ سارے کا سارا حضرت عائشہ کے گرد جمع ہو گیا.ان میں سے ایک ایک آگے بڑھتا اور حضرت عائشہ کے اونٹ کی نکیل پکڑتا اور یہ شعر پڑھتا کہ جب ہم نے اپنی جسمانی ماؤں کو میدان میں کبھی اکیلے نہیں چھوڑا تو آج ہم اپنی روحانی ماں کو میدان میں کیونکر اکیلی چھوڑ سکتے ہیں اور کیونکر میدان سے بھاگ سکتے ہیں.اس وقت مالک سے جو میرے نزدیک فتنہ میں بہت بڑا حصہ دار تھا حضرت عائشہ پر حملہ کر رہا تھا.اور وہ عام لوگوں میں نیک خیال کیا جاتا تھا.یہاں تک کہ حضرت علی کا بھی اس کے متعلق اچھا خیال تھا.ممکن ہے کہ وہ طبیعت کا متفنی ہی ہو.لیکن بعض ظاہری نیک اعمال کی وجہ سے اچھا خیال کیا گیا ہو.مگر تاریخ بتاتی ہے کہ بانیان فساد میں سے ایک یہ بھی تھا.تاریخ میں اس کے بہت سے جھوٹ ثابت ہیں.حضرت عثمان کے خلاف بھڑکانا بھی ثابت ہے.کم از کم میری عقل اس بات کو دیکھ کر کہ وہ شخص رسول اللہ کی حرمت پر حملہ کر رہا ہے اسے بزرگ ماننے کے لئے تیار نہیں.مجھے تو یہاں تک معلوم ہے کہ حضرت مسیح موعود حضرت علی کے متعلق یہ رائے رکھتے تھے کہ وہ حضرت عائشہ کی اور بھی خدمت کرتے (یعنی حضرت علی نے کافی حفاظت و خدمتگذاری نہیں کی تو وہ شخص جو ان پر حملہ کر رہا ہو وہ کیسے بزرگ تسلیم کیا جا سکتا ہے.اور میرے اس خیال کی تصدیق حضرت عبد اللہ بن زبیر بھی کرتے ہیں جو اسلام میں پہلے مجدد ہیں.مالک جب حضرت عائشہ پر حملہ کرنا چاہتا تھا تو حضرت عبد اللہ بھی میدان جنگ میں پہنچ گئے
سال 1927ء جو حضرت عائشہ کے پھوپھی زاد بھائی بھی تھے.ان کو اللہ تعالٰی نے مضبوط دل دیا ہوا تھا.وہ خاندان نبوت میں سے تھے جو سب کے سب بہادر تھے.اور یہ نوجوان بھی تھے.ان کے مقابل مالک بھی تجربہ کار اور قوی تھا اس لئے پہلے تو دونوں کا خوب مقابلہ ہو تا رہا.مگر جب تلواریں ٹوٹ گئیں تو کشتی شروع ہو گئی.حضرت عبداللہ کو بہادر تھے لیکن جسم کے ہلکے تھے اور مالک طاقت میں زیادہ تھا اس لئے حضرت عبد اللہ جب طاقت میں اس کا مقابلہ نہ کر سکے تو ان کو مالک نے نیچے گرا لیا اب دونوں طرف کے لشکر خاموش کھڑے تھے.اور دونوں نے اپنے ہتھیار روکے ہوئے تھے.اس خیال سے کہ ان کے آدمی کو نقصان نہ پہنچے.اس وقت حضرت عبد اللہ کشتی لڑتے لڑتے شعر پڑھ رہے تھے.اور اپنے ساتھیوں کو مخاطب کر رہے تھے.کہ ارے دوستو.دیکھ کیا رہے ہو.تم میری پرواہ نہ کرو مالک کو میرے ساتھ ہی قتل کر دو.یہ پرواہ نہ کرو کہ میں بھی مارا جاؤں ، مگر اس مالک کو تو قتل کر دو.اس کا خاتمہ کر دو تاکہ اس کے خاتمہ سے فتنہ کا خاتمہ ہو جائے.اور اسلام سے فتنہ دور ہو جائے یہ اس واقعہ سے ایک تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ مالک صحابہ کے درمیان فتنہ و فساد کا بانی مبانی تھا.دوسری بات اس واقعہ سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ ترقی کے لئے اور فتنوں کو دور کرنے کے لئے کبھی ایک شخص کا مارنا بھی بہتر ہوتا ہے.تفرقہ کے مٹانے کے لئے مفسد انسان کا مٹانا بھی ضروری ہوتا ہے.خواہ اس شخص کے مٹانے میں خود بھی مٹنا پڑے.دیکھو آج فتنہ دجال کا زمانہ ہے.اور اس فتنہ کی وجہ سے اسلام پر ایک بہت بڑی مصیبت وارد ہے.جو اس کو کھائے چلی جاتی ہے.اس لئے اس وقت ضرورت ہے کہ ایسی قوم اٹھے کہ جو حضرت عبد اللہ کی طرح پکارے کہ اگر کفر کو مٹاتے ہوئے ہم آپ بھی مٹ جائیں تو کوئی پرواہ نہیں.وہ قوم کہ جس کا یہ فرض ہے کہ وہ حضرت عبد اللہ بن زبیر کی طرح پکارے وہ احمد کی جماعت ہے.اللہ تعالٰی نے حضرت مسیح موعود کو ابراہیم بھی کہا ہے.یعنی آپ کو حضرت ابراہیم سے مشابہت دی ہے.یہ مشابہت اسی طرح پوری ہو سکتی ہے کہ آپ کے روحانی فرزند بھی اسی طرح قربان ہونے کے لئے تیار ہوں جس طرح حضرت ابراہیم کے فرزند حضرت اسماعیل تیار تھے.اب تلوار کا زمانہ نہیں رہا.دین کے لئے تو پوں اور بندوقوں کا زمانہ نہیں.اب ایک اور قسم کی قربانی مسلمانوں کے لئے ہے.وہ یہ کہ لوگ بھوکے اور پیاسے رہ کر اسلام کو بلند کریں اور اس کو مضبوط کریں.
خطبات محمود 4 سال 1927ء بیماریاں دو قسم کی ہیں.ایک وہ بیماریاں ہیں جو فورا انسان کو ہلاک کر دیتی ہیں اور ایک وہ بیماریاں ہیں جو مزمنہ ہوتی ہیں جیسے تپ دق اور سل وغیرہ.ان امراض سے انسان کڑھ کڑھ کر مرتا ہے.اسی طرح ابتلاء بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک فوری کام کرنے والی امراض کی طرح اور ایک مزمنہ امراض کی طرح ہوتے ہیں.کبھی تو اللہ تعالی تلوار کے ذریعے امتحان لیتا ہے.ادھر تلوار گردن پر پڑی اور ادھر وہ مارا گیا.اور کبھی وہ مزمنہ امتحان لیتا ہے.جو لمبی موت کا امتحان ہوتا ہے.اس میں وہ چاہتا ہے کہ ہر روز تم پر موت وارد ہو.یہ امتحان اللہ تعالی نے ہمارے لئے رکھا ہے اور یہی موت حضرت مسیح موعود کو قبول کرنی پڑی.اسی واسطے آپ فرماتے ہیں.صد حسین است در گریبانم یعنی حسین تو ایک دفعہ تلوار کے نیچے آکر قتل ہوئے مگر میں ہر وقت خدا کے دین کے لئے قربان ہو تا ہوں.یہی قربانی اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کے لئے مقرر کی ہے.اسلام کے مصائب و مشکلات یونہی نہیں دور ہو جائیں گے.وہ ایک قربانی چاہتے ہیں اور ہزاروں لاکھوں کی قربانی چاہتے ہیں.جب تک تمام افراد اس قربانی کے لئے تیار نہ ہوں گے اس وقت تک کبھی ہماری جماعت کو کسی قسم کی ترقی اور کامیابی نہیں مل سکتی.اسلام کی زندگی ہماری موت کو چاہتی ہے اور جو شخص اپنی زندگی چاہتا ہے وہ دوسرے لفظوں میں اسلام کی موت چاہتا ہے.اسلام آرام چاہتا ہے.لیکن جو شخص اپنے لئے آرام چاہتا ہے اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ اسلام کے لئے رکھ اور مصیبت چاہتا ہے.کیسا بد قسمت وہ شخص ہو گا جو اپنی زندگی اور آرام کو اسلام کی زندگی اور آرام پر مقدم کرے.بے شک نبی قوم کو زندہ کرنے آتے ہیں.مگر اس میں بھی شک نہیں کہ زندگی صرف یہی زندگی نہیں بلکہ ایک اور زندگی دینے کے لئے آتے ہیں جو موت قبول کرنے کے بعد حاصل ہوتی ہے.نبی دنیا میں روحانی زندگی دینے کے لئے آتا ہے اور اس کے آنے سے روحانی سلطنت ملتی.اس موقع پر میں ایک شبہ کا بھی ازالہ کرنا چاہتا ہوں جو پچھلے دنوں یہ شخص کی طرف سے مجھے پہنچا.وہ یہ ہے کہ قادیان میں قربانی کرنے کا اعلان تو کیا جاتا ہے لیکن خود قادیان کے لوگ قربانی نہیں کرتے.اگر تو اس سے یہ مطلب ہے کہ نسبتی قربانی نہیں کی جاتی تو یہ بالکل جھوٹ ہے.قربانیوں میں بھی تدریجی ترقی ہوتی ہے.اور اس تدریجی ترقی کے ماتحت ہی ہماری جماعت سے روز مرہ زیادہ سے زیادہ قربانیوں کا مطالبہ کیا جاتا ہے.مثلاً پہلے دھیلانی روپیہ چندہ تھا.پھر پیسہ فی
خطبات محمود سال 1927ء روپیہ پھر آنہ فی روپیہ اور اب ڈیڑھ آنہ فی روپیہ تک چندہ پہنچا ہے.یہ تدریجی ترقی اس بات کا ثبوت ہوتی ہے کہ جب سب کچھ قربان کرنے کا وقت آجائے اس وقت سب کچھ ہی قربان کیا جائے.اب سوال یہ ہے کہ جس قربانی کا بیرونی جماعتوں سے مطالبہ کیا جاتا ہے کیا اس میں قادیان والے بھی شریک ہیں اگر اس میں مرکز کی جماعت شریک ہے تو پھر یہ شبہ غلط ہے.بلکہ اس سے بڑھ کر یہی نظر آتا ہے کہ قادیان کی جماعت کا کثیر حصہ بیرونی جماعتوں سے قربانیوں میں بہت بڑھا ہوا ہے.یہاں کی جماعت میں چند لوگ ایسے بھی ہیں جو کمزور ہیں.مگر چند لوگوں کی کمزوری سے جماعت پر تو الزام نہیں آسکتا اکثر و فعہ بلحاظ جماعت کے یہاں کے دوست باہر کے دوستوں سے چندوں میں بڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور زیادہ قربانی کرتے ہیں لیکن اگر یہ مراد ہے کہ قادیان کے لوگ سب کچھ کیوں نہیں دے دیتے تو یہ شبہ بھی تب صحیح ہو سکتا تھا کہ ہم نے ان سے سب کچھ قربان کرنے کا مطالبہ کیا تھا.تو انہوں نے وہ مطالبہ پورا نہیں کیا.اگر وہ یہ چاہتے ہیں کہ یہاں کے لوگ ننگے پاؤں پھریں اور بالکل بھوکے پیاسے رہیں تو اس کا تو ہم نے ابھی تک نہ باہر کی جماعتوں سے نہ یہاں کی جماعتوں سے مطالبہ کیا ہے.جب یہ مطالبہ نہیں کیا گیا.تو کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ قربانی نہیں کرتے.مطالبہ تو ابھی یہاں تک ہی کیا جاتا ہے کہ تم اپنے دلوں میں قربانیوں کے لئے تیار رہو.اگر کوئی ایسا وقت آجائے کہ سب کچھ قربان کرنے کی ضرورت پڑے تو ہر ایک چیز قربان کر دیں گے.صحابہ نے بھی تو آخر ایک ہی دن میں سب کچھ قربان نہیں کر دیا تھا.ہاں ان معنوں میں سب کچھ قربان کر دیا تھا کہ وہ اپنے دلوں میں پوری قربانی کے لئے تیار رہتے تھے.اور تیاری کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ اس وقت وہ کر بھی دیں.بلکہ یہ مطلب ہوتا ہے کہ ہر وقت دل میں تیار رہیں کہ جس وقت بھی اللہ تعالی کی طرف سے آواز آئے فورا اس آواز پر لبیک کہہ سکیں.باقی میں نہیں جانتا کہ خدا کی طرف سے کسی قسم کی قربانی کے لئے آواز آئے.ہاں اتنا جانتا ہوں کہ بغیر عظیم الشان قربانیوں کے ہم عظیم الشان ترقی پر نہیں پہنچ سکتے.اور ان قربانیوں کے لئے لبیک کہنے کے لئے ہر وقت تیار رہیں.دیکھو قربانی کے لئے کس قدر اعلیٰ مقام پر انسان کو پہنچنا پڑتا ہے.کہ حضرت عبد اللہ بن زبیر جیسا جرنیل اپنے بھائیوں کو ہی کہتا ہے کہ مجھے اپنے ہاتھ سے قربان کر دو.وہ دوست اور عزیز جو ہر وقت ارد گردان پر اپنی جانیں لڑا دینے کے لئے جمع رہتے تھے.ان سے وہ درخواست کرتے ہیں کہ مجھے اسلام کی خاطر قربان کر دو.جب تک یہ جذبہ نہ ہو.تب تک ہم کبھی ترقی نہیں کر سکتے.پس دنیا پر حقیقت اور سچائی قائم کرنے کے لئے ہر چیز کو قربان کر دو.
خطبات محمود سال 1927ء میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس بات کی توفیق دے کہ ہم اس عظیم الشان کام کو اٹھانے کے لئے کشادہ دلی اور وسیع حو صلہ کے ساتھ ہر وقت تیار رہیں.اور ہم ہر وقت آمادہ رہیں گو ہم پر موت بھی آجائے.(الفضل ۷ / جنوری ۱۹۲۷ء) (1) طبری جلد ۶ صفحه ۳۱۸۲ تا ۳۱۸۸ (۲) یعنی اشتر تھی (مرتب) i (۳) الامامہ و السیاسته تألیف ابو محمد عبد اللہ بن مسلم بن قتیبہ ص ۷۸
خطبات محمود مجرم سے ہمدردی کرنے سے اخلاقی بدیاں پھیلتی ہیں فرموده ۲۱/ جنوری ۱۹۲۷ء) سال 1927ء تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : آج میں ایک ایسے امر کے متعلق بیان کرنا چاہتا ہوں.جو اپنی اہمیت کے لحاظ سے اس بات کا مقتضی تھا کہ بجائے اس کے زبانی بیان کرنے کے اسے تحریر میں لاتا.لیکن دس بارہ دن سے مجھے روزانہ حرارت ہوتی ہے.اور سینہ میں بھی درد رہتا ہے.اس لئے لکھنے کا کام حتی الوسع کم کرتا ہوں.آج مناسب سمجھتا ہوں کہ خطبہ جمعہ جو خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق بہر حال مجھے کرنا پڑتا ہے.بجائے اس مضمون کو پیچھے ڈالنے کے آج کے خطبہ میں ہی اسے بیان کر دوں تاکہ وقت پر وہ لوگوں تک پہنچ جائے.وہ مضمون ان امور کے متعلق ہے.جو شردھانند صاحب کے قتل کے متعلق پیدا ہوئے ہیں.جلسہ کے موقع پر میں نے بیان کیا تھا کہ ان کا قتل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق ہے.اور اب تک میری طبیعت کا رجحان اس طرف ہے کہ یہ قتل پیشگوئی کے مطابق ہوا ہے.پیشگوئی کے الفاظ اس امر پر دلالت کر رہے ہیں کہ یہ پیشگوئی آریوں میں سے ہی اس شخص کے متعلق ہے جو مسلمانوں اور آریوں کے باہمی تعلقات کو کشیدہ کرنے میں لیکھرام صاحب کی طرح ہی ثابت ہو گا.اور شردھانند صاحب کا قتل بہت سی باتوں میں لیکھرام صاحب کے قتل سے مشابہ ہے.اور نتائج کے لحاظ سے بھی شردھانند صاحب کی زندگی لیکھرام صاحب کی زندگی سے ملتی ہے.اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ لیکھرام صاحب کے متعلق پیشگوئی کے جو دو حصے تھے وہ دوسرا حصہ بھی اس واقعہ سے پورا ہو گیا ہے.لیکن مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس اعتقاد پر کچھ اعتراضات
ت محمود 11 سال 1927ء بعض اپنوں کی طرف سے اور بعض غیروں کی طرف سے ہیں.اور بعض ایسے امور پیش آرہے ہیں کہ جو ہندوستان کی سیاست اور تمدن پر اثر ڈال رہے ہیں.اس لئے میں ان امور کے متعلق وضاحت کے ساتھ بیان کرنا چاہتا ہوں تاکہ اپنوں کے لئے ہدایت اور دوسروں کے لئے علم کا موجب ہو.کہا جاتا ہے کہ ایک ہی پیشگوئی جس میں دو شخصوں کے قتل کی خبر دی گئی ہے.ان میں سے ایک کے قاتل کو برا نہیں کہا جاتا اور دوسرے کے قاتل کو برا کہا جاتا ہے ان دونوں میں کیا فرق ہے.اگر ایک کا قتل جائز اور درست تھا تو دوسرے کا بھی جائز اور درست ماننا چاہئے.اگر ایک کا قاتل قابل ملامت نہیں تو دوسرے کا بھی قابل ملامت نہیں.اگر یہ فعل جائز ہے تو دونوں کے لئے جائز ہے.اگر ناجائز ہے تو دونوں کے لئے ناجائز ہے.اور اگر قاتل قابل ملامت ہو سکتے ہیں تو دونوں ہی قابل ملامت ہوں گے.اگر نہیں تو دونوں ہی سلامت کے قابل نہیں.یه شبه در حقیقت ناواقفیت سے پیدا ہوا ہے.حقیقت یہ ہے کہ لیکھرام صاحب کا قاتل پکڑا نہیں گیا.اور شردھانند صاحب کے قتل کا ملزم پکڑا گیا ہے.اس اختلاف کی وجہ سے ہمارا فیصلہ بھی مختلف ہو جائے گا.یہ قدرتی بات ہے کہ جب تک کسی پر الزام ثابت نہ ہو تب تک وہ مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا اور بغیر حالات دیکھے ہم یونہی کسی کو مجرم نہیں کہہ سکتے اور نہ اسے قابل مواخذہ ٹھہرا سکتے ہیں.ایک ہی شخص ایک فعل کے کرنے پر قابل مواخذہ ہو تا ہے.اور دوسرا اس فعل کے کرنے پر مجرم نہیں ہوتا.یہی قتل کا فعل ہے بعض دفعہ یہ فعل بجائے ملامت اور سزا کے تعریف اور انعام کا مستحق بنا دیتا ہے.مثلاً ایک سپاہی میدان میں دشمن کا جتنا زیادہ نقصان کرے گا اور جتنی زیادہ خونریزی کرے گا.اتنا ہی زیادہ اس کو انعام ملے گا.اور اس کی تعریف کی جائے گی.لیکن اسی فعل پر دوسرا شخص مجرم ٹھرایا جاکر سزا کے نیچے آئے گا.جس نے بغیر استحقاق کے عمد اوہ فعل کیا.دنیا میں کوئی فعل اپنی ذات میں معیوب نہیں ہو تا بلکہ حالات کے ماتحت برا ہوتا ہے.اگر وہ فعل ایسے حالات میں کیا جائے کہ جس میں وہ فعل جائز اور پسندیدہ ہو تو اس فعل کا کرنے والا قابل تعریف ہو گا.اگر کوئی شخص ایسے حالات میں وہ فعل کرے کہ وہ اس فعل کے کرنے میں اخلاقایا قانونا مجبور ہے.تب بھی وہ قابل ملامت نہیں ہو گا.اگر ان میں کوئی بات نہ ہو تو وہ مجرم ہو گا.مثالی قاتل نے شریعت کے ماتحت اپنے ملک اور قوم کی حفاظت کے لئے میدان جنگ میں دشمن کے بہت
خطبات محمود ir سال 1927ء سے آدمی قتل کئے ہیں تو اس کا نعل نہ صرف جائز بلکہ قابل تعریف ہو گا.اور وہ قاتل تعریف کا مستحق ہو گا.یا ایسی طرز پر کسی کو قتل کیا ہے کہ وہ اس قتل پر مجبور ہے.مثلاً جلاد ہے وہ حکومت کی طرف سے اس شخص کے قتل پر مجبور ہے جس کے قتل کا حکم حکومت کی طرف سے جاری ہو چکا ہے.اور یہ شخص اس کے قتل پر مقرر ہے تو اس کا فعل بھی جائز سمجھا جائے گا.یا اگر پاگل جنون کی حالت میں کسی کو مار دے.تو وہ بھی قابل الزام نہیں ہو گا.یا کسی کے ہاتھ سے کوئی چیز کسی پر اتفاقی طور پر گر پڑے جس سے دوسرا شخص مرجائے.تو وہ بھی زیر الزام نہیں آئے گا.لیکن اگر یہ معلوم ہو کہ وہ شخص ہوش و حواس میں تھا.اتفاقی طور پر وہ فعل اس سے سرزد نہیں ہوا اور اس نے عمداً یہ فعل کیا ہے.تو وہ مجرم قرار دیا جائے گا.لیکن ان تمام باتوں کا یقینی فیصلہ تبھی ہو سکتا ہے.جب ملزم پکڑا جائے اور اس کے تمام حالات معلوم ہوں.پھر ہمیں معلوم ہو کہ کن حالات کے ماتحت وہ اس فعل کا مرتکب ہوا.اب لیکھرام صاحب کا قاتل تو پکڑا نہیں گیا تھا.اور وہ ہمارے سامنے نہیں آیا اور اس کے حالات ہمارے سامنے نہیں آئے.اس لئے ہم اسے کیسے قابل ملامت کہہ سکتے ہیں اور مجرم قرار دے سکتے ہیں.گوند ہی طور پر تو ہمارا یہی اعتقاد ہے کہ لیکھرام صاحب کے قتل میں انسان کا دخل ہی نہیں.اس قتل میں ملائکہ کا دخل تھا.اس صورت میں وہ اعلیٰ درجہ کا فعل تھا کیونکہ فرشتہ نے خدا کے حکم کے مطابق وہ کام کیا اور قدرتی فعل تھا.قدرتی فعل کو ہم برا نہیں کہہ سکتے مثلاً سنکھیا زہر قاتل ہے اس کا ہلاک کرنا قدرتی امر ہے.لیکن پھر بھی ہم کہتے ہیں کہ چونکہ ہمیں معلوم نہیں کہ آیا لیکھرام صاحب کو فرشتہ نے قتل کیا یا ایسے شخص نے جو ہمارے علم و عقل سے بالا ہے.کیونکہ وہ پکڑا نہیں گیا.اس لئے ہم اس کے متعلق کوئی رائے نہیں قائم کر سکتے.ہو سکتا ہے کہ لیکھرام صاحب کا قاتل ان کی قوم کا ہی کوئی شخص ہو.کیونکہ واقعہ لیکھرام صاحب کے بعد خود آریہ قوم کے ایسے بیانات شائع ہوئے ہیں.جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ باہمی جھگڑوں کے سبب مارے گئے.حتی کہ بعض نے لکھا کہ وہ اپنے ہمسایوں کے کسی جھگڑے میں قتل ہوئے اب جب ہمیں نہ یہ معلوم ہے کہ وہ فرشتہ کے ہاتھ سے قتل ہوئے.اور نہ یہ معلوم ہے کہ وہ کسی معذور کے ہاتھ سے مارے گئے.تو ہم کیسے ان کے قاتل کے متعلق فیصلہ کریں.ہاں ہم یہ ضرور کہنے کو تیار ہیں کہ اگر انسانوں میں سے کسی شخص نے انہیں عمد اقتل کیا اس کے ہوش و حواس درست تھے.اس کی عقل ٹھکانے تھی اور نہ اتفاقی طور پر اس سے وہ فعل ہوا نہ کسی فوری جوش کی حالت میں اس
خطبات محمود ۱۳ سال 1927ء نے یہ فعل کیا تو وہ مجرم تھا.لیکن چونکہ ہم کو معلوم نہیں کہ وہ قاتل کون تھا اور اس کے کیا حالات تھے کن حالات میں اس نے اس فعل کا ارتکاب کیا.اس لئے ہم اس قتل کے متعلق اور قاتل کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتے.خصوصا جب کہ ہمیں آریہ قوم کے بیانات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کے قتل کے اسباب میں سے بعض اندرونی تنازعات بھی تھے تو پھر ہم غیر جانبدار ہونے کی صورت میں قاتل کو مجرم کیسے قرار دے سکتے ہیں.باقی چونکه شردھانند صاحب کے قاتل کے حالات ایک حد تک ہمارے سامنے بیان کئے گئے ہیں.اس لئے ہم نے ان خیالات و حالات کے متعلق کہا ہے کہ ان معتقدات و حالات کا رکھنے والا جو کوئی بھی ہو اس نے نہایت بھیانک فعل کا ارتکاب کیا اور دو قوموں کے امن کو برباد کرنا چاہا ہے.لیکن پنڈت لیکھرام صاحب کے قاتل کے متعلق ہم کوئی رائے نہیں قائم کر سکتے.کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس قاتل نے ایسے حالات میں قتل کیا ہو کہ جن کے ماتحت وہ اس فعل پر قابل تعریف ہو اور ہو سکتا ہے کہ اس کا یہ فعل جائز ہو ایسے حالات میں اس نے یہ فعل کیا جن کے ماتحت یہ فعل قانوناً اور عقلاً جائز ہو اور ہو سکتا ہے کہ وہ قاتل معذور ہو.مثلا وہ دیوانہ ہو یا اتفاقی طور پر اس کے ہاتھ سے کوئی چیز ایسے طور سے گری ہو جس سے وہ قتل ہو گئے ہوں.اور ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے ہی کسی آدمی کے ہاتھ سے باہمی تنازعات کی بناء پر مارے گئے ہوں جیسا کہ ہندو قوم کے اپنے بعض بیانات سے معلوم ہوتا ہے.دوسری بات یہ کسی جاتی ہے کہ اگر قاتل نے یہ فعل خدا تعالٰی کے تصرف کے ماتحت کیا ہے.کیونکہ در حقیقت یہ فعل فرشتہ کا نغل تھا جو انسانی ہاتھوں سے خدا تعالٰی کے تصرف نے کرایا.تو پھر قاتل کو قابل ملامت کیوں سمجھا جاتا ہے اور کیوں اس پر الزام آتا ہے.اس کا ایک ضمنی جواب تو پہلی بات میں ہی آگیا ہے جو یہ ہے کہ فرشتہ کے فعل کے ہر گز یہ معنی نہیں کہ اس فعل کے ماتحت ہر انسان کا فعل ضرور قابل تعریف ہوتا ہے.مثلاً ہر ایک کی جو جان نکالی جاتی ہے وہ فرشتہ کے ذریعہ ہی نکالی جاتی ہے.لیکن باوجود اس کے ہر قاتل معذور نہیں سمجھا جائے گایا قابل تعریف نہیں ہو گا اگر یہ بات ہو کہ فرشتہ کا جو نعل انسان کے ذریعہ ہو اس میں انسان معذور سمجھا جائے تو دنیا میں ہر قاتل معذور سمجھا جائے گا.اصل بات یہ ہے کہ حضرت نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں إِنَّ اللَّهَ يُوَيَدُ هَذَا الدِّيْنَ بِرَجُلٍ فاجر اللہ تعالی فاسق و فاجر آدمی سے بھی دین کی تائید کا کام لے لیتا ہے.ایک شخص دین کی 2
خطبات محمود ۱۴ سال 1927ء خدمت کر رہا ہوتا ہے.مگر باوجود اس کے یہ فعل خود اس کے لئے فسق کا موجب ہوتا ہے.چنانچہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں ہمیں اس کی ایک مثال نظر آتی ہے.حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص میدان جنگ میں کفار سے بڑی عمدگی سے لڑ رہا تھا جہاں مسلمانوں پر حملہ ہو تا تھا وہاں وہ پہنچتا.یہاں تک کہ اکثر مسلمان کہنے لگے کہ یہ کیسا ہی اچھا شخص ہے کس جوش اور عمدگی کے ساتھ دین کی خدمت کر رہا ہے.لیکن نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر دنیا کے تختہ پر کوئی جہنمی دیکھنا ہو تو اس شخص کو دیکھ لو.اب یہ مسلمانوں کے لئے ابتلا کا موقع تھا کہ ادھر یہ شخص بڑھ بڑھ کر قربانیاں کر رہا تھا ادھر رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ یہ شخص جہنمی ہے.اس پر ایک شخص اس کے پیچھے پیچھے ہو لیا تا اس کا انجام دیکھے.اس نے کہا کہ رسول کریم ا تو ضرور بچے ہیں.مگر چونکہ بعض کمزور مسلمانوں کے شبہ میں پڑنے کا خطرہ ہے.اس لئے میں اس کا ضرور انجام دیکھوں گا.چنانچہ اس خیال سے اس کے پیچھے لگ گیا.لڑنے کے بعد اسے دیکھا کہ وہ زخموں کی وجہ سے کراہ رہا تھا.صحابی نے کہا.تم نے آج بڑا کام کیا ہے.اس نے کہا کہ میں نے اسلام کی خاطر جنگ نہیں کی.بلکہ مجھے ان قبائل سے دشمنی تھی اور آخر اس نے زخموں سے تنگ آکر ایک بھالے پر اپنے آپ کو ڈال کر خود کشی کرلی.جو یقیناً اسلام کے نزدیک جہنم میں لے جانے والا فعل ہے.تب وہ صحابی فوراً رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا.جبکہ آپ صحابہ میں بیٹھے ہوئے تھے.اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں.اور اس شخص کا انجام بتایا.جس کے متعلق نبی کریم نے خبردی تھی...اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کبھی ایک شخص ایسا کام بھی کرتا ہے جو ہو تا تو دین کا ہے.لیکن اس کے لئے وہ فعل موجب فسق ہوتا ہے.جس طرح یہ شخص کام تو دین کا کر تا تھا لیکن چونکہ وہ دین کی خاطر نہیں لڑ رہا تھا.بلکہ وہ اپنے غصہ کے لئے لڑ رہا تھا.اور محض اپنے غصہ اور کینہ کی بناء پر لڑنا اسلام میں حرام ہے.اس لئے یہی فعل اس کے فسق کا موجب ہو گیا تو بسا اوقات انسان ایسا کام کرتا ہے جو دین کے لئے مفید ہوتا ہے اور اس شخص کے لئے جہنم کا موجب ہوتا ہے.پھر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اگر فرشتوں نے تصرف کر کے یہ کام کرایا تو بھی قاتل مجرم نہیں.اس کا جواب یہ ہے کہ تصرف دو قسم کے ہیں.ایک تصرف اعمال کے نتیجہ میں ہوتا ہے.اور ایک تصرف براہ راست ہوتا ہے.براہ راست تصرف کے ماتحت کام کرنے والا مجرم نہیں ہو تا لیکن وہ کام جو اس تصرف کے ماتحت ہو.جو پہلے اعمال کا نتیجہ ہو تا ہے.اس کا کرنے والا مجرم ہو گا.یہ
خطبات محمود ۱۵ سال 1927ء تصرف گناہوں کے نتیجہ میں ہوتا ہے.انسان بہت سے گناہ کرتا ہے جس کے نتیجہ میں اور گناہ سرزد ہوتے ہیں.مثلاً شرابی کو پہلی بار شراب کے نتیجہ میں اور بھی شراب پینی پڑے گی.اسی طرح چور کو چوری کی عادت بار بار مجبور کرے گی.جھوٹ بولنے والے کو جھوٹ بولنا پڑے گا.آج جس سے شراب خوری کا گناہ سرزد ہوتا ہے.اگر پہلی بار شراب نہ پیتا تو آج بھی وہ شراب پینے پر مجبور نہ ہوتا.چور اگر پہلی دفعہ ہی چوری سے بچ جاتا تو آج اسے چوری کا خیال نہ آتا.تو کئی گناہ ہیں جو پہلے گناہ کے نتیجہ میں ہوتے ہیں.ہاں یہ عادتیں فرشتوں کے تصرف کے ماتحت ہوتی ہیں.پس شردھانند صاحب کے قاتل سے جو قتل کا فعل ہوا ہے وہ ان معتقدات و حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے جو بیان کئے گئے ہیں اس کے پہلے گناہوں اور اندرونی کمزوریوں کا نتیجہ ہے.اور وہ ویسا ہی زیر الزام ہے جیسے دنیا میں اور مجرم ہیں جن سے پہلے گناہوں کے نتیجہ میں بعض گناہ سرزد ہوتے ہیں.پھر پیشگوئیاں دو قسم کی ہوتی ہیں ایک وہ پیش گوئی ہوتی ہے جس میں خدا تعالی خبر دیتا ہے کہ میں یہ کروں گا.میں حکم دیگر یوں کرواؤں گا.اور ایک وہ پیشگوئی ہوتی ہے جس میں یہ خبر دیتا ہے کہ تم یوں کرو گے یعنی جو کام ہم نے آئندہ زمانہ میں کرنا تھا اس کے متعلق ہمیں پہلے سے خبر دے دیتا ہے.مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ایسا کرنے پر مجبور ہیں.بلکہ اپنے اختیار سے ایسا کریں گے اب شردھانند صاحب کے قتل کے متعلق جو پیشگوئی ہے.ہو سکتا ہے کہ اس میں خدا نے اس لئے خبر دی ہو کہ وہ شخص اپنے اس فعل سے دو قوموں کے اندر دشمنی ڈلوادیگا.اور ان کو آپس میں لڑا دیگا اس لئے اس خصوصیت کی وجہ سے اس کے بارے میں خبر دیدی اخلاقی طور پر یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ کبھی خدا جبرا کوئی ایسا فعل نہیں کراتا جو اس کی شریعت کے خلاف ہو.اگر یہ عقیدہ رکھا جائے تو دنیا سے امن اٹھ جائے گا اب تو انگریزی گورنمنٹ ہے.اگر اسلامی گورنمنٹ ہو اور ہمارا یہ عقیدہ ہو کہ جو جرائم دنیا میں ہوتے ہیں وہ جبرا اللہ تعالٰی کراتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ ہم کسی مجرم کو سزا نہ دیں.اور اگر ہم سزا دیں تو پھر ہم گنگار ٹھہریں گے کہ جو کام اللہ تعالٰی نے کرایا ہے ہم اس کی ہتک کرتے ہیں.اس کے نتیجہ میں دنیا سے امن بالکل اٹھ جائے گا.پس حقیقت یہی ہے کہ یہ قتل ہمارے نزدیک اور خدا کے نزدیک بھی جرم ہے.اور ہر وہ شخص جو جرم کی اہمیت میں کمی کرنا چاہتا ہے میرے نزدیک وہ اخلاق پر تب رکھتا ہے.مذہب کی پہلی غرض اخلاق کی اصلاح ہے.اگر کوئی مذہب بد اخلاقی کی تعلیم دیتا ہے تو وہ اپنی تعلیم پر کلہاڑا مار تا ہے.ہم اگر کہیں کہ یہ قتل آریوں کی اسلام کے خلاف اشتعال انگیز تقریروں اور تحریروں کا نتیجہ
خطبات محمود 14 سال 1927ء ہے.اور ایسا ہی ہونا چاہئے تھا اور مجرم سے ہمدردی کا اظہار کریں تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ اخلاقی بدیاں پھیلیں گی.اور ایسے فعل پر اور بھی لوگوں کو جرات ہو گی حالانکہ اس موقع پر سب سے زیادہ اس بات پر زور دینا چاہئے کہ قاتل نے بہت برا فعل کیا ہے اور اسلام کی تعلیم کے خلاف کیا ہے.اگر قاتل کو (جو کوئی بھی ہو) معمولی ہمدردی کا بھی علم ہوا تو اس کا یہ نتیجہ ہو گا کہ ہمارے اخلاق خراب ہوں گے.ہماری قوم میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جن کے نزدیک انسان کی جان کی کوئی قدر و قیمت نہ رہے گی.پس اپنی قوم سے ہمدردی اور احسان کرنے کے لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم اس فعل کو بر قرار دیں تاکہ آئندہ اور کسی کو ہم میں سے ایسے فعل پر جرات نہ ہو.اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس فعل کے بعد آریوں کا جو رویہ ہے اس میں وہ غلطی کر رہے ہیں.باوجود اس کے کہ تمام عالم اسلام نے اس فعل پر نفرت کا اظہار کیا ہے اور ہر ایک مسلمان لیڈر نے اس کے خلاف آواز اٹھائی ہے پھر بھی آریہ لوگ اسلام پر حملے کر رہے ہیں اور ملک کے امن کو برباد کرنا چاہتے ہیں.جب ہم بار بار کہتے ہیں کہ اسلام کی ہر گز یہ تعلیم نہیں تاکہ مسلمانوں کے دلوں سے بھی پرانے خیالات دور ہو جائیں.اور ادھر آریہ شور ڈال رہے ہیں کہ نہیں اسلام کی یہی تعلیم ہے.کہ کافر کو ضرور قتل کیا جائے.تو گویا آریہ خود قتل پر مسلمانوں کو اکساتے ہیں.اور ان کو بتاتے ہیں کہ تمہارے مذہب کی یہی تعلیم ہے.جب عوام کو یہ معلوم ہو گا کہ ہمارے مذہب کی یہی تعلیم ہے.تو وہ اس پر ضرور عمل کریں گے.نتیجہ یہ ہو گا کہ امن برباد ہو گا.اس لئے اب اگر آئندہ اور اس قسم کے واقعات ہوئے تو اس کے ذمہ دار مسلمان نہیں ہوں گے اور نہ اسلام ذمہ دار ہو گا.بلکہ وہ آریہ اور عیسائی ہی ذمہ دار ہوں گے جو اسلام کی طرف ایسی تعلیم کو منسوب کرتے ہیں اور مسلمانوں کو اپنی منسوب کردہ تعلیم پر عمل کرنے کے لئے تحریک کرتے ہیں.اسلام تو یہ کہتا ہے کہ اگر تمہارے سامنے مجرم آبھی جائے تب بھی تم خود اسے سزا نہیں دے سکتے وہ کسی شخص کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتا.بلکہ قانون کو ہاتھ میں لینے والے کو ویسا ہی مجرم قرار دیتا ہے جیسا اور مجرم ہوتا ہے.پھر بھی اگر آریہ یہی کہتے چلے جائیں گے کہ اسلام ایسے افعال کی تعلیم دیتا ہے تو کیا اس کا یہ نتیجہ نہ ہو گا کہ جاہل مسلمان کہیں گے کہ واقعی اسلام کی یہی تعلیم ہے جو آریہ بتا رہے ہیں کہ کافروں کو مارو.یہ علماء تو ڈر کے مارے اس کے خلاف کہتے ہیں.باوجود کھلے مضامین کے کہ اسلام کی یہ تعلیم نہیں.یہی زور دینا کہ اسلام کی تعلیم
خطبات محمود 14 سال 1927ء کا فر کو مارنا ہی ہے.خود اپنے امن کو اپنے ہاتھوں برباد کرنا ہے.اور اس کی ذمہ داری آریوں پر ہی لوٹے گی جو مسلمانوں کے دلوں میں یہ ڈال رہے ہیں کہ تمہارے مذہب کے مطابق یہی ضروری ہے کہ تم ہمیں ضرور قتل کرو.اس فعل کے وقوع پر جہاں دوسرے مسلمانوں نے اظہار نفرت کیا ہے خواہ بعض نے بد دیانتی سے اظہار نفرت کیا کیونکہ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ آنے والا مسیح کفار کو تلوار سے مارے گا.ان کا یہ عقیدہ بتاتا ہے کہ کافروں کا قتل ضروری ہے لیکن بہر حال تمام مسلمان لیڈروں نے اظہار نفرت پر آواز اٹھائی ہے.مگر باوجود اس کے آریہ اسلام پر خطر ناک حملے کر رہے ہیں.میں انہیں بتاتا ہوں جب کہ وہ ہماری امن پسند تعلیم سے واقف ہیں.جیسا کہ وہ خود بھی اقرار کر چکے ہیں.کہ ہمارا یہ اعلان نفرت کسی ڈر کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے بھائیوں کی ہمدردی کی وجہ سے ہے.پس اب باوجود ان کے واقف ہو جانے کے پھر اگر کوئی مذہبی مقابلہ انہوں نے شروع کیا جیسا کہ پہلے علاقہ ارتداد میں ہوا تھا.تو اس کا شکوہ ہم پر نہیں ہو گا.بلکہ اس کی ذمہ داری ان پر ہوگی.وہ اس بات کو یاد رکھیں کہ اگر اب انہوں نے اسلام پر اعتراضات شروع کئے اور اس کے مقابل کھڑے ہوئے تو سب سے پہلی قوم جو ان کے مقابل ہو گی وہ ہماری جماعت ہوگی.اگر وہ اسلام کے خلاف ایک انگلی اٹھا ئیں گے تو ہم ان کے مقابل کئی انگلیاں اٹھا ئیں گے.اگر وہ اسلام پر ایک حملہ کریں گے تو ہم ان کے مقابل دو حملے کریں گے.میرے نزدیک اس سے بڑھ کر کمینہ فعل کونسا ہو سکتا ہے کہ ان کے ایک آدمی کے مارے جانے پر ہم تو ہمدردی کا اظہار کر رہے ہیں.اور وہ ہمارے مذہب کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں.دراصل اللہ تعالٰی نے اس واقعہ کے ساتھ اسلام کی عظمت اور رنگ میں ظاہر کی ہے اور وہ اس طرح ظاہر ہوتی ہے کہ ہندو قوم کے افراد نے کنار پور میں سینکڑوں مسلمان مردوں کو ہی نہیں عورتوں اور بچوں کو آگ میں جلا جلا کر مارا.یہ کس قدر ظالمانہ فعل تھا جس کے مرتکب ہندو قوم کے افراد تھے.لیکن ایک سرے سے دوسرے سرے تک دیکھ جاؤ ایک ہندو نے بھی اس فعل پر اظہار نفرت نہ کیا اور ہمدردی کی آواز نہ اٹھائی.اس کے خلاف ان کے ایک آدمی کے مارے جانے پر ہندوستان کے ایک سرے سے دوسرے تک تمام مسلمان اظہار نفرت اور ہمدردی کی آواز اٹھاتے ہیں.اس لئے گویہ فعل ایک جاہل مسلمان کے ہاتھ سے ہی ہوا.مگر اس میں بھی ہماری فتح ہے.اور اس ظلم میں بھی ہم ہی مظلوم ہیں.دیکھو کٹار پور میں مسلمانوں کی عورتوں اور
خطبات محمود A سال 1927ء بچوں کو جو سینکڑوں کی تعداد میں تھے.زندہ آگ میں جلا جلا کر مارا گیا اور کسی ہندو کو اس بھیانک ظلم کے خلاف ہمدردی اور نفرت کا احساس نہیں ہوا.مگر جب مسلمانوں سے غلطی ہوتی ہے تو وہ تمام یک زبان ہو کر اپنی غلطی پر نفرت اور ہندو قوم سے ہمدردی کی آواز اٹھاتے ہیں.یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام میں امن پسندی کی تعلیم ہے باوجود اس کے کہ اس وقت مسلمان اسلام سے بہت دور جاپڑے ہوئے ہیں.پھر بھی اسلام کی امن پسند تعلیم کا اسقدر گہرا اثر ان کے دلوں میں ہے کہ وہ اس کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتے.اگر بہار اور کنار پور کے ظالمانہ واقعات میں ہندو اپنے جرم کا اقرار کرتے تو یہی مظالم دو قوموں میں صلح کا موجب ہوتے.لیکن ان کا اپنے جرم کا اقرار نہ کرنا بلکہ مذہب پر حملے کرنا اور اس موقع پر مسلمانوں کی ہمدردی کا قبول نہ کرنا بتاتا ہے کہ ہندو صلح کے لئے تیار نہیں.اس کے خلاف مسلمانوں کا اپنے جرم کا اقرار کرنا بتاتا ہے کہ مسلمان صلح کے لئے تیار ہیں.اور یہ اسلام کی تعلیم کا نتیجہ ہے.میں پھر ایک دفعہ اپنی جماعت کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ ہمیشہ اخلاق کو مقدم رکھنا چاہئے اور اس جرم کو کم کرنے کی کوئی وجہ نہیں بلکہ اس کو جتنا بھی بھیانک کر کے دکھلایا جائے اتنا ہی ہمارے اندر اخلاق کا خیال پیدا کرے گا.(الفضل یکم فروری ۱۹۲۷ء) تذکره ص ۲۳۴.شردھانند جو آریوں کے بلند پایہ لیڈر لیکھرام کے قائم مقام تھے.ان کا اصل نام منشی رام تھا.یہ دسمبر ۱۹۲۶ء میں عبدالرشید دہلوی کا تب کے ہاتھ سے مارے گئے (مرتب) سے بخاری کتاب الجھاد باب إِنَّ اللَّهَ يُوتِدُ الدِّينَ بِالرَّجُلِ الْفَاجِرِ -
خطبات محمود ۱۹ سال 1927ء رسول کریم ﷺ کی ایک سنت پر عمل کرنے کی تاکید فرموده ۲۸/ جنوری ۱۹۲۷ء) تشهد تعوذ اور سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: چونکہ آج ایک کام کی وجہ سے دیر ہو گئی ہے.اس لئے میں نہایت اختصار کے ساتھ خطبہ پڑھنا چاہتا ہوں.دنیا میں ایک عقیدہ اور خیال ہوتا ہے.اور ایک عمل اور طریق.عقائد اندرونی قوتوں پر قبضہ کر کے اور عمل ذاتی جدوجہد کے ساتھ انسان کے اندر ایسی قوتیں جمع کر دیتا ہے جن کے ساتھ وہ خوبیوں کے پیدا کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے.لیکن ان عقائد اور اعمال کے درمیان ایک اور چیز بھی ہے جس کو عبادات اور اذکار کہتے ہیں.از کار نصف عمل اور نصف عقیدہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.اگر انسانی اعمال کی حقیقت پر غور کیا جائے تو عبادات و از کار عملی نظر نہیں آتے بلکہ عقیدہ معلوم ہوتے ہیں.ہاں اگر یہ لحاظ رکھا جائے کہ عبادات میں بعض حرکات بھی کرنی پڑتی ہیں.تو اس لحاظ سے وہ اعمال نظر آتے ہیں.اور اسی وجہ سے بہت سے لوگ عبادات و ذکر کی اصل حقیقت سے ناواقفیت کی وجہ سے نماز پر یہ اعتراض کرتے ہیں.کہ اس میں حرکات سے کیا فائدہ اور نتیجہ ہے.اگر دل میں خدا سے محبت ہے تو اسے ان حرکات کے ساتھ ظاہر کرنے کی کیا ضرورت ہے.کیوں نہ اس کی بجائے کوئی ایسی بات کی جائے جس سے انسان کو فائدہ پہنچے.ایسے لوگوں نے یہ سمجھا نہیں کہ عبادات ایک درمیانی ذریعہ ہے.جن کے بغیر نہ عقائد درست رہ سکتے ہیں نہ اعمال.اعمال اور عقائد دونوں کو ملانے کیلئے ایک ایسی چیز کی ضرورت تھی.جو آدمی روحانی ہو اور آدمی جسمانی.اور وہ ذکر اور عبادت ہے.ان اذکار میں سے ایک وہ ذکر ہے جو سوتے وقت کیا جاتا ہے.نبی کریم ا ہمیشہ سوتے
خطبات محمود سال 1927ء وقت آیت الکرسی، سورہ اخلاص ، سورہ فلق اور سورہ ناس جو قرآن کریم کی آخری سورتیں ہیں.تین دفعہ پڑھ کر ہاتھوں پر پھونکتے اور پھر ہاتھ اپنے جسم پر پھیرا کرتے تھے.آپ ہاتھوں پر پھونک کر ہاتھوں کو جسم پر اس طرح پھیرتے کہ سر سے شروع کرتے.اور جہاں تک ہاتھ پہنچ سکتے وہاں تک پھیرتے.یہ آنحضرت ا کی سنت ہے جس کام کو آپ نے دینی کام سمجھ کر باقاعدہ اور ہمیشہ جاری رکھا.اسے سنت کہتے ہیں.چونکہ یہ ذکر بھی آپ ہمیشہ کیا کرتے تھے.اس لئے اس سنت کی پابندی ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے.بعض نادان صرف اس نیکی کو ضروری سمجھتے ہیں جس کے بغیر انسان سیدھا جنم میں چلا جائے.حالانکہ انسان کی طرف تو کسی عیب کا منسوب ہونا بھی بڑی بات ہوتی ہے.ایک دفعہ ایک بڑ.آدمی نے حضرت خلیفہ اول کے سامنے کہا اگر ہم جنم میں بھی گئے تو آخر جنت میں ہی چلے جائیں گے.پھر کیوں نہ دنیا میں عیش و عشرت کریں ہم یہاں بھی عیش و عشرت کرتے ہیں اور وہاں بھی کریں گے.کیونکہ آخر کار جنت میں چلے جائیں گے اور دونوں جہان میں مزے اڑائیں گے.حضرت خلیفہ اول اسے فرمانے لگے.میں ایک عرض کرنا چاہتا ہوں آپ ناراض تو نہ ہوں گے.اس نے کہا ناراضی کی کیا بات ہے.آپ فرما ئیں.آپ نے کہا یہ دس روپے آپ لے لیں یہ بازار ہے میں یہاں آپ کو دو جوتیاں لگانا چاہتا ہوں.یہ سن کر اس کا چہرہ غضب سے سرخ ہو گیا اور کہنے لگا.میں آگے ہی جانتا ہوں.مولوی بڑے بد تہذیب ہوتے ہیں.آپ نے فرمایا آپ یہاں چند آدمیوں کے سامنے تو روپیہ لے کر جوتے کا نام بھی نہیں سن سکتے.پھر وہاں جہاں ہزاروں لاکھوں اگلے پچھلے لوگ جمع ہوں گے آپ اپنی ذلت کیسے برداشت کرلیں گے غرض یہ بڑی گندی فطرت کی علامت ہے کہ انسان صرف اسی عمل سے بچے جو سیدھا اسے جہنم میں لے جائے.اور اس کام کو ضروری سمجھے جس کے بغیر وہ جنت میں نہیں جائے گا.اس کے سوا کوئی نیکی کا کام نہ کرے.پس ذکر کو بھی یہ خیال کر کے نہیں چھوڑنا چاہئے کہ یہ ایسا ضروری نہیں جس کے نہ کرنے سے جہنم میں چلے جائیں گے اور نہ یہ خیال کرنا چاہئے کہ صرف یہی ذکر جنت میں جانے کے لئے کافی ہے.اور اس کے ساتھ اور اعمال کی ضرورت نہیں جب نبی کریم ا جیسا انسان اپنی ترقیات کے لئے ان از کار کا محتاج تھا تو تم کیونکر کہہ سکتے ہو کہ ہمیں ایسے از کار کی ضرورت نہیں.آنحضرت کی یہ سنت تھی.کہ آپ ہمیشہ سوتے وقت آیت الکرسی اور تینوں قل تین دفعہ پڑھتے اور
خطبات محمود IH سال 1927ء پھر ہاتھوں پر پھونک کر جسم پر ہاتھ پھیرتے.یہ ذکر اپنے اندر بہت بڑے فوائد رکھتا ہے.اور جو لوگ اس کے کرنے والے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان آیات اور سورتوں کے اندر ایسے مضامین اور دعائیں ہیں جو اور کسی مذہب میں نہیں.ان کو مسنون طریق پر پڑھنے والا و سادس اور بیماریوں اور مصیبتوں سے محفوظ ہو جاتا ہے.میں جماعت کو روحانی حالت کی طرف متوجہ کرنے کیلئے اس نکتہ کی طرف توجہ دلاتا ہوں.پہلے بھی کئی دفعہ اس طرف توجہ دلا چکا ہوں.میں نے خود اس کا تجربہ کیا ہے.جب میری بیوی فوت ہو گئی.تو میرا بچہ خلیل احمد نہایت کمزور تھا.ہر روز ایسا معلوم ہو تا تھا کہ یہ اس کا آخری دن ہے.اس وقت میں روزانہ یہ سورتیں پڑھ کر اس پر پھونکتا.اور اگر کسی دن کسی وجہ سے نہ پھونکتا تو بیمار ہو جاتا.اب وہ اپنی نانی کے پاس رہتا ہے جب ناغہ ہوتا ہے وہ بیمار ہو جاتا ہے تو اس کی نانی میرے پاس لے آتی ہے کہ میں یہ دعائیں پڑھ کر اس پر دم کروں.غرض اس ذکر میں بہت سے فوائد ہیں.ان سورتوں کو پڑھتے وقت خدا سے التجا کرو کہ وہ برکتیں جو ان میں رکھی گئی ہیں تم پر نازل کرے یہ سورتیں جادو یا ٹونہ نہیں ہیں.قرآن کریم میں جادو ٹونے نہیں.یہ دعائیں ہیں.اور رسول کریم ﷺ کی مسنون دعائیں ہیں.اس لئے ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اس سنت کو اختیار کرے.یعنی روزانہ سوتے وقت یہ دعائیں پڑھ کر سوئے ایک تو اس سے ذکر الہی کی عادت پڑ جائے گی.دوسرے خیالات کے اندر نیکی کی رو پیدا ہو جاتی ہے.اس طرح نیند میں بھی انسان کی نیکیاں شمار ہوں گی.سیده استہ الحی بن حضرت خلیفتہ المسح الاول مولانا نور الدین صاحب الفضل ۸/ فروری ۱۹۲۷ء)
۲۲ سال 1927ء ایمان لانے والوں پر ابتلاء (فرموده ۴ فروری ۱۹۲۷ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : اللہ تعالیٰ کی ہر ایک چیز ہمارے لئے بہت سے فوائد اپنے اندر رکھتی ہے.اور اس کا قانون قدرت بھی ہمارے لئے بہت سے سبق رکھتا ہے.مثلاً بارش ہی ہے جو اللہ تعالی کے عام قوانین میں سے ایک قانون ہے.اس سے بھی ہم بہت سے سبق حاصل کر سکتے ہیں.قرآن کریم میں انبیاء کی مثال بارش سے دی گئی ہے.اور بار بار توجہ دلائی گئی ہے کہ دیکھو اگر پانی آسمان سے نازل نہ ہو تو کس قدر تمہیں تکلیف ہوتی ہے.کنویں موجود ہوتے ہیں.مگر باوجود اس کے کام نہیں چلتے.دریا موجود ہوتے ہیں.نہریں موجود ہوتی ہیں.مگر پھر بھی تکلیف ہی ہوتی ہے.اور جب تک خدا کی طرف سے آسمانی پانی نازل نہ ہو.تب تک ہماری ضرورت کما حقہ پوری نہیں ہو سکتی.اسی طرح دنیا میں صداقتیں تو موجود ہوتی ہیں.عقل بھی ہوتی ہے جو خدا کی پیدا کی ہوئی باتوں سے اچھی باتیں نکال سکتی ہے.مگر پھر بھی یہ چیزیں اس رنگ میں مفید نہیں ہو سکتیں.جس رنگ میں انبیاء کے آنے پر مفید ہوتی ہیں.اب دیکھنا چاہئے.جب باوجود دریاؤں کی موجودگی کے اور باوجود نہروں اور کنووں کے ہمیں جسمانی بارش کی ضرورت ہوتی ہے.اور جب تک یہ بارش نہ ہو.دنیا کو آرام و چین حاصل نہیں ہو سکتا.اور اس کے بغیر ہماری ضرورت پوری نہیں ہو سکتی تو روحانی بارش کے بغیر کس طرح ہماری روحانی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں.مگر بہت سے نادان روحانی بارش کا انکار کرتے ہوئے یہ تو کہہ دیتے ہیں کہ نبی کی کیا ضرورت ہے.مگر وہ یہ کبھی نہیں کہتے کہ کنویں موجود ہیں.دریا موجود ہیں پھر بارش کی کیا ضرورت ہے.پھر بارش سے نہیں اور کئی سبق مل سکتے ہیں.مثلاً ایک یہ سبق ملتا ہے کہ جب اللہ تعالٰی کے
خطبات محمود ۲۳ سال 1927ء فضل نازل ہو نے والے ہوتے ہیں تو ابتلاء بھی ضرور آتے ہیں.اور جب تک انسان ابتلاؤں کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہ ہو.تب تک وہ خدا کے فضلوں کا بھی امیدوار نہیں ہو سکتا.دیکھو بارش جب آتی ہے تو اس کے ساتھ کئی تکالیف بھی ہوتی ہیں.مثلاً بجلی چمکتی ہے.کڑک کی وجہ سے بعض اوقات عورتوں کے حمل گر جاتے ہیں.بارش کی وجہ سے گھروں میں بند رہنا پڑتا ہے.کئی کام رک جاتے ہیں.بعینہ اسی طرح جن لوگوں پر خدا تعالیٰ کے فضل کی بارش ہوتی ہے.ان کو بھی کئی قسم کی مشکلات اور ابتلاء پیش آتے ہیں.انبیاء کے ماننے والوں کی حرکات محدود ہو جاتی ہیں.کئی پیشے ترک کرنے پڑتے ہیں.کئی کام لوگوں کی مخالفت کی وجہ سے بند ہو جاتے ہیں.وطن چھوڑنا پڑتا ہے.بعض وقت گھروں میں محصور ہونا پڑتا ہے.بعض دفعہ قید ہو جاتے ہیں.مگر بعض لوگ اس حکمت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے گھبرا جاتے ہیں.اور کہتے ہیں ہم نے ایک نبی کو مانا پھر ہم پر کیوں ابتلاء آتے ہیں.حالانکہ سوال یہ ہونا چاہئے تھا کہ ہم نے نبی کو مانا ہے ہم پر ابتلاء کیوں نہیں آئے.کیا کوئی یہ بھی کہا کرتا ہے کہ میں بارش کے نیچے کھڑا ہوں پھر کیوں بھیگتا ہوں.یا سورج کی روشنی میں کھڑا ہوں کیوں اندھیرے میں نہیں.سوال اگر ہو تو یہ ہو سکتا ہے کہ میں بارش کے نیچے ہوتے ہوئے بھیگتا کیوں نہیں.پس انبیاء کے آنے کے ساتھ ابتلاء ضرور آتے ہیں.اور ابتلاء بھی معمولی ابتلاء نہیں.زلزلہ پیدا کرنے والے ابتلاء آتے ہیں.انبیاء کے ماننے والوں کو ہر قسم کے ابتلاؤں میں ڈالا جاتا ہے.جو ان میں سے کامیابی کے ساتھ گزرتے ہیں وہی خدا کے فضلوں کے وارث ہوتے ہیں.نبی آتے ہی اس لئے ہیں کہ لوگوں کو پاک اور صاف کریں.اور اس کے لئے نبی کے ماننے والوں کو مختلف حالتوں میں سے گزرنا پڑتا ہے.مگر اس بات سے ناواقف کئی لوگ مجھے لکھتے ہیں کہ جب سے ہم احمدی ہوئے ہیں تب سے ہم پر مصائب آرہے ہیں.اس کی کیا وجہ ہے.اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ ابتلاؤں کے ذریعہ انہیں پاک و صاف کرنا چاہتا ہے.پس سوال تو یہ ہونا چاہئے تھا کہ مجھ پر ابتلاء کیوں نہیں آئے.جس شخص پر ابتلاء نہ آئے اسے ڈرنا چاہئے کہ کہیں میرے ایمان میں تو نقص نہیں کہ میرا امتحان نہیں لیا گیا.دیکھو اگر ایک شخص کچھ پڑھے گا ہی نہیں تو اس کا امتحان کیا لیا جائے گا.اسی کا امتحان لیا جائے گا جس نے کچھ اسباق پڑھے ہوں.اسی طرح جن کے دلوں میں ایمان ہوتا ہے.ان پر ابتلاء بھی آتے ہیں اور ابتلاؤں کا آنا اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ اس نے کوئی ایمانی سبق حاصل کیا ہے.ہاں ابتلاؤں میں استغفار بھی ضرور کرنا چاہئے.کیونکہ بعض دفعہ انسان ابتلاؤں میں ٹھوکر کھا جاتا ہے.ابتلاء آنے کی خواہش
خطبات محمود ۲۴ سال 1927ء نہیں کرنی چاہئے.لیکن اگر ابتلاء آجائے تو پھر دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالٰی اس کے بد نتائج سے محفوظ رکھے.اور درجات میں ترقی دے.(الفضل ۱۱ / فروری ۱۹۲۷ء)
محمود ۲۵ سال 1927ء انسانی زندگی کا مقصد اعظم (فرموده ۱۱ فروری ۱۹۲۷ء) تشهد تعوز اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : انسان کو اللہ تعالیٰ نے بہت بڑا مقصد اور اتنا بڑا مقصد کہ جس کا سمجھنا انسانی عقل کیلئے بہت دشوار ہے دے کر دنیا میں بھیجا ہے تاریخ میں ایک واقعہ لکھا ہے جب حضرت ابو بکر مسند خلافت پر بیٹھے تو اس وقت ان کے والد مدینہ سے باہر تھے.کسی نے ان کو اطلاع دی کہ ابو بکر خلیفہ ہو گئے ہیں.یہ بات ان کیلئے ایسی عجیب تھی کہ جسے وہ سمجھ نہیں سکتے تھے.یہ خبر کہ ان کے خاندان کے ایک فرد کو تمام عرب نے اپنا حاکم تسلیم کر لیا ہے اتنی عجیب خبر تھی کہ اس کا ان کی سمجھ میں آنا بہت مشکل تھا.ان کا ذہن اس طرف جاہی نہیں سکتا تھا.کہ بنو ہاشم اور دوسرے عرب کے زبر دست قبائل نے ان کے بیٹے ابو بکر کی خلافت کو تسلیم کر لیا.اور اس کی ماتحتی کا جوا اپنی گردنوں پر رکھ لیا ہے.یہی وجہ تھی کہ انہوں نے سمجھا کہ شائد کوئی اور ابو بکر ہو گا.اور دریافت کیا کونسا ابو بکر ؟ یہ سوال ہی بتاتا ہے کہ ان کو اس خبر کے سننے سے کس قدر تعجب ہوا ہو گا.وہ یہ ماننے کیلئے تیار نہیں تھے کہ ان کا بیٹا ابو بکر اس مقام پر پہنچ سکتا ہے کہ اس کے آگے زبر دست قبائل عرب اور معزز خاندان اپنی گردنیں جھکا دیں.ان کے سوال پر خبر دینے والے نے جواب دیا کہ وہی ابو بکر جو ابو قحافہ کا بیٹا ہے اور کونسا ابو بکر.لیکن ان کے نزدیک یہ بات اس قدر عجیب تھی کہ پھر بھی ان کو یقین نہ آیا کہ ان کا بیٹا خلیفہ ہو گیا ہے انہوں نے خیال کیا کوئی اور ابو قحافہ ہو گا.اس لئے پھر پوچھا کون ابو قحافہ ؟ خبر بتانے والے نے کہا تم ہی ابو قحافہ ہو اور کون.اس وقت بے اختیار ان کے منہ سے نکلا.اَشْهَدُ ان لا اله الا الله و اشهد ان محمدا رسول الله - کہ میں شہادت دیتا ہوں واقعہ میں محمد اللہ کا رسول ہے.یہ اسی کی اطاعت اور قوت قدمی کا نتیجہ ہے کہ اس نے ابو بکر کو اتنے بڑے مقام پر پہنچا
خطبات محمود MY سال 1927ء دیا کہ تمام عرب کی گردنیں اس کے سامنے جھک گئیں.یہ محمد ﷺ ہی کا عظیم الشان معجزہ ہے کہ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ واقعی وہ خدا کا رسول ہے یہ رسول کا ہی کام ہے کہ ایک معمولی انسان کو اپنی قوت قدسی سے اس درجہ پر پہنچا دے کہ عرب جیسے ملک کے معزز قبائل اس کے سامنے اپنی گردنیں جھکا دیں اور اس کی حکومت کو تسلیم کرلیں اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض ایسی باتیں ہوتی ہیں جن کا سمجھ میں آنا بہت مشکل ہوتا ہے.انسانی عقل بعض باتوں کو اس قدر عجیب سمجھتی ہے کہ انہیں جھٹ پٹ باور کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتی.ان ہی باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ انسان کے دنیا میں آنے کی غرض کیا ہے.انسانی زندگی کا بھی اتنا بڑا مقصد ہے جسے انسان بہت عجیب خیال کرتا ہے.اور اس کی عقل اس کو مشکل سے ہی سمجھتی ہے.انسان کے دنیا میں آنے کا مقصد قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ صرف یہی بیان فرماتا ہے.وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات : ۵۷)- کہ میں نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے چنا اور اپنی عبادت اور غلامی کے لئے اسے پیدا کیا ہے اس کی پیدائش کا سوائے اس کے اور کوئی مقصد نہیں کہ وہ میری عبادت اور میری غلامی بجا لاتے ہوئے اس مقام پر پہنچ جائے کہ میرے بندوں اور میرے عباد میں شامل ہو جائے.یہاں تک کہ میں اسے کہہ دوں فَادْخُلِي فِي عِبَادِی وَادْخُلِي جَنَّتِى الفجر : ۳۱) کہ میرے بندوں میں داخل ہو جا اور میری جنت میں داخل ہو جا.اب یہ مقصد اتنا عظیم الشان مقصد ہے کہ لاکھوں کروڑوں سال انسان پر گزر چکے ہیں.مگر پھر بھی کثیر حصہ انسانوں کا اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ وہ خدا کے بندوں اور غلاموں میں شامل ہو سکتا ہے.وہ خیال کرتا ہے کہ کہاں وہ اس مقام پر پہنچ سکتا ہے.باوجو د بتانے کے وہ یہ باورہی نہیں کرتا کہ وہ اتنے بڑے مقام کو بھی حاصل کر سکتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ جیسی ہستی کے غلاموں اور خدام میں داخل ہو جائے.حقیقت یہ ہے کہ اگر عام خیالات کا جائزہ لیا جائے تو میری کثیر حصہ سے مراد اکثر وہ لوگ ہیں جو اس مقصد کے بتانے پر تعجب کریں گے کہ کیا ہم اتنے بڑے درجہ پر بھی پہنچ سکتے ہیں.حضرت نبی کریم ﷺ کے ماننے میں یہی بہت بڑی روک ہے لوگوں کا یہی خیال تھا کہ بھلا کوئی بندہ بھی اتنا بڑا ہو سکتا ہے کہ خدا کا رسول ہو جائے.اور خدا اس سے کلام کرنے لگے.ان کے نزدیک یہ درجہ اس قدر تعجب انگیز تھا کہ وہ یہ تسلیم ہی کرنے کے لئے تیار نہیں تھے کہ کوئی انسان اتنا بڑا بھی ہو سکتا ہے.کہ خدا کا اتنا مقرب ہو جائے کہ خدا اسے رسالت کے لئے منتخب کرلے.غرض انسان کی پیدائش کا یہی مقصد ہے.ہاں اس عظیم الشان مقصد کے حصول کے لئے جو ذمہ
خطبات محمود ۲۷ سال 1927ء داریاں عائد ہوتی اور جو بوجھ اس پر لا دے جاتے ہیں.وہ بھی معمولی ذمہ داریاں اور معمولی بوجھ نہیں.اگر حضرت ابو بکر اپنی خلافت کے زمانہ میں اپنے بوجھوں اور ذمہ داریوں کو دیکھتے ہوئے پرندے کی حالت کو دیکھ کر رشک کرتے ہیں کہ کاش وہ پرندہ ہوتے تا ان پر یہ ذمہ داریاں نہ ہوتیں.اور اگر حضرت عمر خلافت کے زمانہ میں یہاں تک کہتے ہیں کہ میں اگر صرف اللہ تعالٰی کی گرفت کے نیچے نہ آؤں تو یہی بڑی بات ہے.میں اپنی ذمہ داریوں کو دیکھ کر صرف اتنی ہی خواہش رکھتا ہوں کہ اللہ تعالی کی گرفت کے نیچے نہ آؤں.کوئی اجر نہیں چاہتا.تو معلوم ہو سکتا ہے کہ وہ بوجھ کتنا بڑا ہے جو خدا تعالیٰ کی خلافت اور نیابت کا بوجھ ہے.لیکن کیا یہ عجیب بات نہیں کہ حکومتوں میں ملازمتوں کے حصول کے لئے کتنی بڑی کوششیں کی جاتی ہیں.کتنے باپ ہیں جو بیٹے کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کی زندگی کا یہ مقصد ٹھرا لیتے ہیں کہ اس کو ڈپٹی بنانا ہے اور پیدائش کے دن سے ہی بڑا ہونے تک اس کی اس رنگ میں تربیت کی جاتی ہے کہ وہ اس مقام تک پہنچے.اس کی نشو و نما اور پرورش کرتے وقت یہ ایک ہی خیال رکھا جاتا ہے کہ کل کو یہ سرکار کا غلام ہو.اس کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ایک ہی خیال اور مقصد چلا جاتا ہے کہ یہ جوان ہو کر گورنمنٹ کا خادم ہو.کسی اعلیٰ خدمت پر متعین ہو.اس کے والدین کے تمام اموال اور تمام افکار اس ایک ہی مقصد کیلئے خرچ ہوتے ہیں کہ کل کو ان کا بیٹا گورنمنٹ کا اعلیٰ درجہ کا خادم ہو.اس مقصد کے لئے عجیب عجیب باتیں ان سے سرزد ہوتی ہیں.ہماری جماعت کے ایک ہوشیار اور لائق دوست ہیں.وہ جب تعلیم سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اپنی سعادت مندی کے باعث اپنی والدہ سے جاکر پوچھا کہ آپ بتائیں میں اب کیا کام کروں.جس کام میں آپ کی خوشی ہو.وہی میں کرنا چاہتا ہوں.اس نے کہا بیٹا اگر مجھے خوش کرنا چاہتے ہو تو میری خوشی اسی میں ہے کہ تم تھانیدار ہو جاؤ.انہوں نے والدہ سے بہتیرا کہا کہ مجھے اس سے بڑا عہدہ مل سکتا ہے.یہ عہدہ اونی ہے.لیکن وہ یہی کہیں کہ اگر مجھے خوش کرتا ہے.تو تھانیدار بنو.ان کے نزدیک یہی عہدہ سب سے بڑا تھا.اور انہوں نے شروع دن سے اپنے بیٹے کے لئے یہی بڑا مقصد ٹھرایا ہوا تھا کہ میرا بیٹا تھانیدار ہو گا.وہ دوست چونکہ سعادت مند تھے انہوں نے اپنی والدہ کی خوشی کے لئے تھانیداری کا عمدہ ہی لے لیا.اور جلدی ہی اس سعادت مندی کے باعث وہ تھانیداری سے ترقی کر گئے.اور تھوڑے ہی زمانہ بعد انسپکٹر ہو گئے.غرض لوگ معمولی معمولی باتوں کے لئے کتنی کوششیں کرتے ہیں.کیا کچھ صرف کرتے ہیں کہ
خطبات محمود ۲۸ سال 1927ء کسی طرح ان کو گورنمنٹ کی غلامی حاصل ہو جائے.اور گورنمنٹ ان سے کوئی خدمت لے.لیکن کس قدر عجیب بات ہے کہ اس خدمت اور عزت کے لئے کوشش نہیں کی جاتی جو انسان کی زندگی کا حقیقی اور واحد مقصد ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تمہیں پیدا ہی اس لئے کیا ہے کہ تم ہمارے مقرب بندے ہو جاؤ.اور پورے غلام بن جاؤ.کتنا بڑا اور کتنا اعلیٰ مقصد ہے.مگر با وجود است کے اکثر حصہ دنیا کا اس طرف توجہ نہیں کرتا.انسانی گورنمنٹ کی خدمت کے لئے کیا کچھ کیا جاتا ہے.اور اس کی غلامی حاصل کرنے کیلئے کتنی کوشش کی جاتی ہے.حالانکہ اس گورنمنٹ کی غلامی کیا اور عزت کیا ہے.یہ گورنمنٹ تو خود اپنی عزت کے لئے دوسروں کی محتاج ہے.اپنے قیام کے لئے دوسروں کی محتاج ہے.اگر اس گورنمنٹ کی غلامی کے لئے اور اس کی خدمت کے لئے انسان اپنی ساری قوتوں کو بھی خرچ کر دیتا ہے تو بھی کیا حاصل کر سکتا ہے اور اس کا خدا تعالی کی غلامی سے کیا مقابلہ ہے.مگر اس غلامی کے حصول کے لئے کوشش بھی زیادہ کرنی پڑتی ہے.پھر انسانی گورنمنٹ کی خدمت اور غلامی حاصل کرنے کیلئے تو سفارشوں کی ضرورت ہے.طرح طرح کے فریب کئے جاتے ہیں.لیکن یہ غلامی تو اس ہستی کے لئے ہے جس کے لئے کسی سفارش اور کسی دعا و فریب کی ضرورت نہیں.کسی سے ملنے کی ضرور ھے نہیں.بلکہ بندہ براہ راست اس کے حضور جاسکتا ہے.وہاں تو درخواستیں دینی پڑتی اور سفارشیں کرانی پڑتی ہیں.لیکن یہاں اللہ تعالی خود غلاموں کو بلاتا ہے.کہ آؤ میرے بندو ہم تمہیں نوکری دیتے ہیں.ہم تمہیں غلامی کا درجہ دیتے ہیں.تم ہمارے دروازے کو کھٹکھٹاؤ.تمہارے لئے کھولا جائے گا.تم پکارو تمہیں جواب دیا جائے گا.ہاں شرط یہ ہے کہ جس طریق سے بلانا چاہئے.اس طریق سے بلاؤ اور وہ طریق یہی ہے کہ تم اللہ تعالٰی کے سامنے صرف یہ اقرار کر لو کہ تم اس کے لئے موت قبول کرنے پر تیار ہو.جب تم یہ اقرار کرو گے تو یہ نہیں ہو گا کہ تم پر موت وارد ہو گی.بلکہ جس دن سے تم یہ اقرار کرو گے اسی دن سے تم کو نئی زندگی دی جائے گی.دنیوی گورنمنٹ کی خدمت کے لئے تو لوگ اس کے دروازہ پر جاتے ہیں.اور منتیں و خوشامد میں کرتے ہیں لیکن یہاں اس کے بالکل الٹ معاملہ ہے.یہاں تو اللہ تعالٰی اپنے نبیوں کو بھیجتا ہے کہ جاؤ میرے بندوں کو میری طرف بلاؤ.جس طرح جنگ کے زمانہ میں گورنمنٹ کی طرف سے حکام دیہات میں جا جا کر لوگوں کو خدمات کے لئے بلاتے تھے.اسی طرح خدا تعالٰی انبیاء کو بندوں کی طرف بھیجا ہے کہ آؤ ہماری فوج میں داخل ہو جاؤ گورنمنٹ تو خطرہ کے وقت حکام کے ذریعہ لوگوں کو بلاتی ہے.لیکن اللہ تعالیٰ ہمیشہ انبیاء بھیجتا ہے.پھر گورنمنٹ تو ادنی آدمی
....خطبات ۲۹ سال 1927ء بھیجتی ہے.مگر اللہ تعالیٰ انبیاء کو بھیجتا ہے.جو سب سے زیادہ معزز ہوتے ہیں.ان انبیاء کے ذریعہ اپنے بندوں کو اپنی طرف بلاتا ہے.خود ان کے لئے دروازے کھولتا ہے.نبیوں کو بھیجتا ہے کہ جاؤ میرے بندوں کو میری فوج میں بھرتی کرو.اس خدمت اور اس بھرتی کے لئے جس شخص کو اللہ تعالیٰ بھیجتا ہے.اسے پورا پورا اعزاز بخشتا ہے.معمولی انسان کو نہیں بھیجتا.اس زمانہ میں بھی خدا تعالیٰ کی منشا اور مرضی کے مطابق اس کے ایک نبی نے ایک جماعت قائم کی.خدا کے بندوں کو اس کی طرف بلایا اور جمع کیا تا وہ اللہ تعالیٰ کے خدمت گزار بندے بن جائیں.ہم لوگ بھی اس کی جماعت میں اس لئے داخل ہوئے ہیں کہ ہم خدا کے خدمت گزار بندوں میں شامل ہوں لیکن اس خدمت گزاری کے لئے کچھ شرائط ہیں.اگر وہ شرائط پوری نہ کی جائیں اور ان پر نہ چلا جائے تو پھر صرف خدمت گزار کہلانے سے تو کچھ فائدہ نہیں حاصل ہو گا.جب تک ان شرائط کو پورا نہ کیا جائے.تب تک ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا دیکھو سکول میں داخل ہونے سے ایک شخص طالب علم تو کہلا سکے گا.لیکن اگر وہ داخل ہونے کی غرض کو مد نظر نہ رکھے گا اور علم کے حصول کے لئے کوشش نہ کرے گا تو اسے صرف طالب علم کہلانے سے اور سکول میں داخل ہو جانے سے علم نہیں حاصل ہو جائے گا اور نہ وہ عالم کہلائے گا.بہت سے لڑکے ہوتے ہیں جو کہلاتے تو طالب علم ہیں لیکن سارا وقت بجائے علم کے حصول کے جہالت کے حصول میں خرچ کر دیتے ہیں.کیا وہ صرف طالب علم کہلانے یا سکول میں داخل ہونے سے عالم کہلانے کے امیدوار ہو سکتے ہیں.اسی طرح ہم بھی ایک مدرسہ میں داخل ہوئے ہیں.جس میں داخل ہونے کی غرض محض یہی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے خدمت گزار غلام بن جائیں اور اس کا قرب حاصل ہو.مگر صرف اس مدرسہ میں ہمارا داخل ہونا ہمیں کچھ فائدہ نہیں دے سکتا.جب تک ہماری کوششیں اس غرض کے حصول کے لئے انتہائی نقطہ پر نہ پہنچ جائیں.اور جب تک ہم پورے طور پر جدوجہد نہ کریں تب تک ہم سچے طور پر خدا کے غلام کہلانے کے مستحق نہیں ہو سکتے.پس ضروری ہے کہ اس شرط کو قبول کریں اور پورے طور پر بجالائیں.وہ ایک ہی شرط ہے.کہ موت قبول کرنے کے لئے تیار ہو جائیں.یعنی ہمارا کوئی کام خدا تعالیٰ کی منشا کے خلاف نہ ہو.لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ ہم ایک دن میں ہی تمام بدیوں سے پاک ہو جا ئیں.بہت لوگ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ بس پہلے دن ہی انسان تمام بدیوں سے پاک ہو جائے : یک لخت اس کے اندر پوری تبدیلی پیدا ہو جائے.اگر یہ شرط ہوتی تو سوائے اللہ تعالیٰ کے ان بندوں کے جو ازلی طور پر پاک
خطبات محمود سال 1927ء ہوتے ہیں.باقی کوئی بھی اس کا بندہ نہ بنتا.مگر یہ تو اللہ تعالیٰ کے رحم کے خلاف ہے.اللہ تعالیٰ رحم کرنے والی ہستی ہے وہ منبع فیوض ہے.یہ ممکن نہیں کہ ایک طرف وہ رحمت کا دروازہ کھول دے اور دوسری طرف وہ دروازہ بند کر دے.وہ جب آواز دیتا ہے کہ آؤ میرے بندو میری طرف سے تمہارے لئے دستر خوان بچھا ہے.تو واقعی دستر خوان بچھا ہوتا ہے.پس خدا تعالیٰ ہم سے یہ چاہتا ہے کہ ہم اس کے حضور یہ اقرار کریں کہ وہ باتیں جن کا کرنا ہمارے لئے ضروری ہے اور وہ ہمارے اختیار میں ہیں ان کو عمل میں لائیں گے.اور جن باتوں سے بچنا ضروری ہے ان سے بچیں گے.اختیار کے معنے یہ ہیں کہ ان باتوں سے جن سے موجودہ صورت میں ہم بچ سکتے ہیں بچیں اور جو کام کر سکتے ہوں وہ کریں.پس خدا تعالیٰ کا عہد بننے کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان اپنے نفس کو مار دے.اس کے دل سے اللہ تعالیٰ کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھے.وہ اپنے نفس کو درمیان سے اڑا دے تب اس کی کمزوریوں اور مجبوریوں کو خدا بھی کمزوری اور مجبوری قرار دے گا.کوئی مردہ چیز اپنے آپ کو خود زندہ نہیں کر سکتی.جب خدا تعالیٰ ہم سے موت چاہتا ہے اور ہم اپنے اوپر موت وارد کر لیتے ہیں.تو پھر ہم مُردہ ہو کر خود کیسے زندہ ہو سکتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ ہمارے موت قبول کر لینے کے بعد ہمیں دوبارہ ایک نئی زندگی عطا کرتا ہے.ہم خود تمام عیبوں سے یک لخت پاک نہیں ہو سکتے.بلکہ ہمارے اپنے آپ کو اس کے سامنے مردہ کی طرح ڈال دینے کے بعد وہ آپ ہمیں پاک کرتا ہے یہی ایک نکتہ ہے جو تصوف کی جان اور روحانیت کا مرکز ہے.پس تم یہ مت خیال کرد کہ ہم میں کمزوریاں ہیں.پھر ہم کیسے پاک ہو سکتے ہیں اور کس طرح خدا کے بندے بن سکتے ہیں.تم باوجود کمزوریوں اور عیبوں کے حقیقی معنوں میں اپنی طرف سے موت قبول کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ.اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء نہیں کہ تم پہلے پاک ہو جاؤ.اور پھر ہماری طرف آؤ.بلکہ وہ یہ چاہتا ہے کہ تم اس کے سامنے اپنے آپ کو گرادو - اس کے خلاف تمہاری زبان بولنے سے بند ہو جائے.تمہارے ہاتھ اس کے نشاء کے خلاف کام کرنے سے ہٹ جائیں.تمہارے پاؤں اس کے خلاف چلنے سے رک جائیں.فرض تمہاری تمام حسیں مر جائیں.اور خدا تعالی کی آواز کے خلاف کوئی آواز تمہاری طرف سے نہ اٹھے اور بالکل خدا کے سامنے اپنے آپ کو ڈال دو.تب اللہ تعالٰی تمہارے اندر نئی طاقتیں پیدا کرے گا.اور تم مُردہ ہونے کے بعد ایک نئی زندگی پاؤ گے.وہ بندہ جو خدا تعالیٰ کے لئے اپنے آپ کو مار دیتا ہے.خدا اسے آپ زندہ کرتا اور اسے خود زینت دیتا اور
خطبات محمود 1927ء سنوارتا ہے.یہ چیز ہے جس کے لئے ہمیں کوشش کرنے کی ضرورت ہے.ورنہ صرف اپنے آپ کو شاگرد کھنا کچھ فائدہ نہیں دے سکتا.جب تک ہم اپنے اندر تبدیلی نہ پیدا کریں.اور ایسی تبدیلی نہ کریں کہ گویا ہم پر موت وارد ہو جائے مگر بہت ہیں جو اپنی آواز کو خدا تعالیٰ کی منشاء کے خلاف بلند کرنا چاہتے ہیں.لیکن خدا تعالیٰ کی جناب میں صرف وہی لوگ قبول کئے جائیں گے.جن کے نفس مرجاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں کی آواز کو بلند کرتا ہے.جو اس کے لئے اپنے آپ کو مار دیتے ہیں.پس اس شخص کی آواز بلند ہوگی.جو اپنی آواز کو خدا کی آواز میں ملا دے گا.اور وہ ہمیشہ کے لئے مضبوط چٹان پر قائم کیا جائے گا.اور خدا ایسی روشنائی کے ساتھ اس کا نام لکھے گا کہ اس کے بعد ا قیامت تک اس کے نام کو کوئی نہیں مٹا سکے گا.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالٰی ہمیں اپنی راہ میں موت قبول کرنے اور اس کی حقیقت سمجھنے کی توفیق دے.ہم ایسی موت کے لئے تیار ہو جائیں.جس کے بعد ابدی حیات ہمیں ملے اور ہمارے اندرایسی تبدیلی پیدا ہو جس کے بعد ہم پر کوئی تباہی نہ آئے.خدا تعالٰی وہ قرب عطاء کرے جس کے بعد ہم اس سے کبھی دور نہ ہوں اور وہ وصال عطا کرے جس کے بعد ہمارے اور اس کے درمیان کبھی جدائی نہ پڑے.آمین لمة البداية والنهاية جلد ۷ صفحه ۵ مطبوعه بيروت الفضل ۲۲ فروری ۱۹۲۷ء)
خطبات محمود ۳۲ سال 1927ء نمازوں کے ذریعہ کیوں کامیابی حاصل نہیں ہوتی ؟ (فرموده ۱۸ / فروری ۱۹۲۷ء ) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ایک شقی انسان اور ایک نیک انسان کے درمیان یہی فرق ہوتا ہے کہ شقی اپنی شقاوت کی وجہ سے بعض نظارے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتا ہے.مگر باوجود اس کے وہ ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتا.وہ اپنے کانوں کے پاس کئی ایک آوازیں سنتا ہے.اور ان آوازوں میں سے بعض ایسی آوازیں بھی ہوتی ہیں جو ہر روز اس کے کانوں میں پڑتی ہیں.مگر پھر بھی وہ ان کی طرف توجہ نہیں دیتا اور ان کی حکمت جاننے کے واسطے کوئی کوشش نہیں کرتا.پھر اس کے باقی حواس میں بعض بیرونی نقصانات کے اثرات بھی ہو جاتے ہیں.اور ان اثرات سے وہ بالکل ہی ان نظاروں سے جو وہ ہر روز دیکھتا ہے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتا.اور ان آوازوں کی طرف جو ہر روز اس کے کانوں میں پڑتی ہیں توجہ نہیں کرتا.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کا نام صم بکم عمی رکھا ہے.کہ وہ بہرے ہیں.گونگے ہیں.اندھے ہیں کہ باوجود کان رکھنے کے نہیں سنتے.باوجود آنکھیں رکھنے کے نہیں دیکھتے اور باوجود زبانیں رکھنے کے نہیں بولتے.پس وہ اسی امر کے مستحق ہیں کہ وہ بھرے کہلائیں.اندھے کہلائیں.گونگے کہلائیں.ان کی آنکھیں بینا کہلانے کا حق نہیں رکھتیں.ان کے شنوا" کہلانے کے مستحق نہیں.ان کی زبانیں گویا " کہلانے کی حق دار نہیں.وہ اپنے عمل سے اپنے اس حق کو کھو بیٹھتے ہیں.ان کی نظروں کے سامنے دنیا میں کئی قسم کے تغیرات گزرتے ہیں.لیکن ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا.جس طرح ایک چکنے گھڑے پر پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں ٹھہرتا بلکہ سب یہ جاتا ہے.اسی طرح ان پر بھی ان تغیرات سے کوئی اثر نہیں ہو تا.اور جو کچھ وہ ان تغیرات سے دیکھتے ہیں وہ ایک معمولی سی بات کی طرح گزر جاتا ہے.مگر ان کے مقابل پر ایک مومن کے لئے
خطبات محمود سال 1927ء ہر ایک تغیر میں جو دنیا میں گزرتا ہے ایک نشان ہوتا ہے.جس طرح دنیا کے تمام دوسرے امور میں خدا تعالیٰ کی قدرت کا مشاہدہ کرتا ہے.اسی طرح زمانے کے تغیرات میں بھی اس کی قدرت کے نشان پاتا ہے.اور یقین کرتا ہے کہ جو کچھ بھی دنیا میں ہو رہا ہے.اس میں کسی نہ کسی قدرت کا اظہار موجود ہے.اور کوئی نہ کوئی حکمت ان کے اندر ہے.اس کا حساس دل ان سب باتوں کو فور امحسوس کرلیتا ہے اور یہی لوگ ہوتے ہیں کہ انہیں دیکھنے والے اور سننے والے کہا جائے.آنحضرت ا کے متعلق لکھا ہے کہ جس وقت تیز ہوا چلتی یا بادل اٹھتا یا بارش ہوتی یا آندھی آتی یا طوفان آتا تو آپ گھبرا جاتے اور بسا اوقات اس گھبراہٹ سے کئی کئی بار آپ گھر کے اندر باہر آتے جاتے اور فرماتے.معلوم نہیں خدا تعالیٰ کی اس ہوا یا اس بارش یا اس آندھی سے کیا منشاء ہے سے آپ کی اس گھبراہٹ کو دیکھ کر بعض لوگ یہ سمجھتے کہ یہ کوئی بڑا ہی تھڑ والا اور کمزور انسان ہے کہ ان روز مرہ کی باتوں سے بھی گھبرا جاتا ہے.مگر آپ فرماتے.پہلی قوموں پر عذاب آئے ہیں.اب معلوم نہیں کہ یہ طوفان یا یہ بارش یا یہ ہو ا عذاب کے رنگ میں ہے یا رحمت کے رنگ میں.تو مومن ہر تغیر میں خدا تعالیٰ کی قدرت کا نشان دیکھتا ہے.اور شقی کی ان کی طرف آنکھ ہی نہیں اٹھتی.تیز چلنے والی ہواؤں امڈ کر آنے والے بادلوں اور کھل کر برسنے والی بارشوں میں بظاہر خوشی ہوتی ہے اور وہ امید کا موجب ہوتی ہیں.لوگ ان کو دیکھ کر تسلی پاتے ہیں لیکن خدا کے رسول خدا تعالیٰ کے پوشیدہ ہاتھ کو دیکھتے ہیں.اور بسا اوقات ان سے خدا کی ناراضی محسوس کرتے ہیں.اور یہ حال صرف حضرت رسول کریم اللہ کا ہی نہ تھا کہ آپ ان تغیرات سے کہ جن سے لوگ خوشی محسوس کرتے گھبرا جاتے بلکہ تمام دوسرے ماموروں کا بھی کہ جن کا کچھ نہ کچھ حال تاریخ سے ہمیں معلوم ہو سکا ہے یہی حال تھا.ان انبیاء کو جن کا ذکر قرآن کریم نے کیا ہے چھوڑ کر ان انبیاء کو بھی اگر دیکھا جائے جن کا ذکر قرآن کریم نے نہیں کیا.اور دوسری قوموں کے انبیاء کو بھی اگر دیکھا جائے.تو ان سب کی زندگیاں ایسی ہی نظر آتی ہیں کہ وہ بھی ان تغیرات سے گھبرا جاتے ہیں.حتی کہ چینیوں کے نبی کنفیوشس کا یہی حال تھا.باوجود بہادر اور دلیر ہونے کے آندھی اور بارش سے گھبرا جاتا تھا.اور کہتا تھا شائد اس کے اندر کوئی عذاب ہے.اسی طرح تمام قوموں کے انبیاء کا حال تھا کہ جب کبھی اس قسم کے تغیرات دنیا میں پیدا ہوتے وہ ڈر جاتے کہ کہیں یہ تغیر عذاب کے رنگ میں ہی نہ ہوں حالانکہ دوسرے لوگ ان کو روز مرہ کی ایک معمولی سی بات سمجھ کر ان کی طرف متوجہ بھی
خطبات محمود نہ ہوتے.لمهم سال 1927ء پس اس سے پتہ لگتا ہے کہ یہ جو ہر جو تغیرات زمانہ سے ڈرنے اور گھبرانے کا تھا.اور یہ کیفیت جو اس گھبراہٹ سے پیدا ہوتی تھی ایک ہی تھی اور بالکل ملتی جلتی تھی.گویا یہ ایک نور تھا جو ان میں رکھا گیا تھا اور جو ان سے ظاہر ہوتا تھا.خواہ وہ نور کنفیوشس سے ظاہر ہو خواہ موسیٰ کے اندر سے اور خواہ حضرت نبی کریم ﷺ کے وجود سے کوئی ہو.بہر حال وہ نور ایک ہی تھا.کیا ہوا کہ وہ کبھی ! کسی سے ظاہر ہوا اور کبھی کسی سے بر رنگے کہ خواری جامہ ہے پوش من انداز ترت را می شناسم کنفیوش ہو یا عیسی.موئی ہو یا نبی کریم ﷺ وہ نور تھا جس کے ظاہر ہونے کے لئے قوم اور نسل کی کوئی قید نہیں.وہ کسی سے ظاہر ہو مگر تھا وہ ایک ہی نور پس خدا تعالٰی کی عظمت اور وقار اور جلال ان کی ہر حرکت سے نمایاں تھا.اور اس سے یہی ثابت ہو تا تھا کہ کسی ایسے علم کی بنیاد پر یہ یقین قائم کیا گیا ہے جو بالکل درست اور مضبوط ہے.اور جسے وہی سمجھ سکتا ہے جو مومن ہے.غرض مومن اور شقی اور سعید اور شقی میں یہی فرق ہوتا ہے کہ جو خدا کے ماننے والے ہوتے ہیں.وہ تغیرات میں نشان دیکھتے ہیں اور ان سے سبق سکھتے ہیں اور اپنی درستی کرتے ہیں اور اصلاح پاتے ہیں.لیکن جو شقی ہوتے ہیں وہ بجائے اس کے کہ ان سے کچھ فائدہ حاصل کریں.آنکھیں بند کر لیتے ہیں.پس جبکہ مومن اور کافر.سعید اور شقی میں یہ فرق ہے.تو کیا یہ تعجب نہ ہو گا کہ ایک آواز جو بار بار آتی ہو.اور دن میں کئی کئی دفعہ کان میں پڑتی ہو یعنی اذان اس کی طرف غور نہ کیا جائے اور باوجود مومن ہونے کا دعویٰ کرنے کے نہ کیا جائے.ایک مسلمان کے لئے اذان کی آواز کوئی عجیب چیز نہیں کہ کبھی کبھی اس کے کان میں پڑتی ہو.بلکہ یہ وہ آواز ہے جسے ہر روز وہ پانچ وقت سنتا ہے.یہ معمولی آواز نہیں بلکہ ان آوازوں میں سے ہے جن کا وہ انتظار کرتا ہے.اور جسے وہ جانتا ہے کہ برکت اور رحمت کی طرف بلانے والی ہے.بعض اوقات وہ جانتا ہے کہ یہ آواز مجھ سے چھوٹے وجود سے نکل کر ہی ہے.اور بے شک یہ آواز انسان کے حلق سے نکل رہی ہوتی ہے.لیکن در حقیقت خدا ہی اسے نکالنے والا ہے.کیونکہ یہ اسی کی بلند کی ہوئی آواز ہے جو برکت اور رحمت اور کامیابی کی طرف بلاتی ہے.لیکن باوجود اس کے سننے والا اس کے مطالب پر غور نہیں کرتا.حالانکہ مدعا اگر صرف نماز کے وقت کی اطلاع دینا ہوتا
خطبات ۳۵ سال 1927ء اور اس کا کوئی مطلب اور حقیقت نہ ہوتی تو اس کیلئے ڈھول اور نر سنگا و غیرہ کافی تھے.ڈھول اور نرسنگا وغیرہ کی آواز بھی اونچی ہوتی ہے اور وہ عجیب شے بھی تھے.مگر ان کو جو استعمال نہیں کیا گیا.اور ان کی جگہ اذان کو قائم کیا گیا.تو اس کا یہی مطلب ہے کہ اس میں کچھ حکمت ہے.مگر باوجود اس کے کہ ایک انسان اس بات کو جانتا ہے.اور ہر روز پانچ وقت اسے سنتا ہے.اس پر غور نہیں کرتا کہ اس میں کیا حکمت ہے.اس میں جو حکمت ہے وہ یہی ہے کہ اذان دینے والا خدا کی آواز کو دہراتا ہے اور بتاتا ہے کہ اس کے اندر یہ حکمت ہے کہ یہ تمہیں رحمت اور کامیابی کی طرف بلاتی ہے.اور یہ حکمت جو برکت اور رحمت اور کامیابی کی طرف بلاتی ہے.ڈھول اور نرینگے اور نفیری وغیرہ کی آواز میں نہیں ہو سکتی.لیکن کتنے ہیں وہ مسلمان کہلانے والے جو اس کی حقیقت پر غور کرتے ہیں.دیکھو یہ جو آواز اٹھتی ہے یہ کہتی ہے آؤ آؤ نماز کی طرف آؤ.آؤ آؤ کامیابی کی طرف آؤ.آؤ آؤ برکت اور رحمت کی طرف آؤ.پس مسلمانوں کا یہ کام ہے کہ وہ اس پر غور کریں کہ صلوٰۃ جس کا نام رحمت اور برکت ہے کیونکر اس کے وہ نتائج پیدا ہو سکتے ہیں.جو اس کے ایک جگہ بلانے کے بتائے جاتے ہیں.کیوں اس جگہ کہ جہاں بلایا جاتا ہے جانے سے وہ نتائج پیدا ہو جاتے ہیں اور اگر کوئی نہ جائے تو اس کے وہ نتائج پیدا نہیں ہوتے.ہم گھر پر بھی نماز پڑھ سکتے ہیں.کیوں نہیں کہا گیا کہ یہ رحمتیں اور برکتیں گھر پر بھی مل سکتی ہیں.اور گھر پر نماز پڑھنے سے بھی کامیابی حاصل ہو سکتی ہے.مسجد میں آنے کے لئے کیوں بلایا جاتا ہے.اس بات پر اگر مسلمان غور کرتے اور اس بات کو مضبوطی سے پکڑ لیتے.تو یہ تباہی جس میں وہ آج پڑے ہوئے ہیں ان پر نہ آتی اور وہ برباد اور ذلیل نہ ہوتے.از ان کیا ہے ؟ اذان خدا تعالی کی آواز ہے جو کامیابی کی طرف بلاتی ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے نماز رحمت ہے اور اس میں برکت ہے آؤ اس میں شامل ہو جاؤ.گھروں پر نہیں مسجدوں میں.لیکن دیکھو اس وقت نمازیں بھی وہی ہیں جو رسول کریم اپنا یا ان کے وقت تھیں.الفاظ بھی وہی ہیں جو رسول کریم ان کے وقت پڑھے جاتے تھے.حرکتیں بھی وہی ہیں جو رسول کریم اے کے زمانے میں تھیں.لیکن باوجود اس کے نہ وہ برکتیں ہیں.نہ وہ رحمتیں ہیں اور نہ وہ نتیجے پیدا ہوتے ہیں جو آنحضرت ا کے وقت پیدا ہوتے تھے.کیوں نماز کے نتیجہ میں اب وہ کامیابی حاصل نہیں ہوتی جو بتائی جاتی ہے اور جو آنحضرت ﷺ کے وقت حاصل ہوتی تھی؟ یہ ایک سوال ہے جو مسلمان لفظوں سے تو نہیں لیکن اپنی حالت سے پیدا کر رہے ہیں.اور اب تو یہاں تک کہہ رہے
خطبات محمود ۳۶ سال 1927ء ہیں کہ نماز سے کچھ حاصل ہی نہیں ہو سکتا.یہ بات گومنہ سے نہ کہیں لیکن اپنے عمل سے کہہ رہے ہیں.ہاں بے تکلف دوستوں کی مجلس میں کہہ بھی دیتے ہیں.ایک شخص جو اچھے عہدہ پر فائز ہے.اور مسلمانوں کے متعلق درد بھی رکھتا ہے.میں نے اسے یہ کہتے ہوئے سنا کہ مسلمانوں کی ترقی کا ر از نمازیں چھوڑنے میں پنہاں ہے.جب تک مسلمان نماز نہ چھوڑیں گے کامیابی حاصل نہیں کر سکتے.مسلمانوں کے دل کے یہ خیال ہیں.جنہیں عام مجالس میں نہ کہہ سکیں تو نہ کہہ سکیں.لیکن اس میں کچھ شک نہیں کہ ان کے دلوں میں یہ خیال ضرور ہے کہ جب تک نمازیں ترک نہیں کی جاتیں تب تک کوئی کامیابی مل نہیں سکتی.لفظوں میں تو شاید بہت ہی کم یہ کہتے ہوں لیکن عملاً مسلمانوں کا بیشتر حصہ یہ سوال اٹھا رہا ہے کہ کامیابیوں کے لئے نماز میں ترک کر دینی چاہئیں.یہ بھی ممکن ہے کہ بعض لوگوں کا یہ خیال نہ ہو.اور اس شبہ کو پیدا ہی نہ ہونے دیتے ہوں لیکن عمل ان کے بھی یہی بتاتے ہیں کہ نماز کو کامیابی کاگر نہیں سمجھتے.اگر ایسا نہ ہوتا.اور ان کو یہ یقین ہو تا کہ نماز ہی سب کامیابیوں کی کنجی ہے تو ان کے اعمال وہ نہ ہوتے جو آج ہیں.اور نہ آج مسجدمیں اس طرح ویران نظر آئیں کہ اول تو نماز پڑھنے والے ہی شازو نادر - اور جو پڑھتے ہیں وہ یقین سے خالی در نہ بھلا یہ بھی ممکن ہے کہ یہ یقین بھی ہو کہ نمازیں کامیابی کا گر ہیں.اور نمازوں کے ذریعے ہی برکت اور رحمت حاصل ہو سکتی ہے.اور پھر نمازیں پڑھنے کے باوجود کامیابی حاصل نہ ہو اور برکت اور رحمت نہ ملے.پس مسلمانوں کی تباہی کا بڑا بھاری سبب ایک تو اذان کے الفاظ کی حکمت نہ جاننے اور پھر نمازوں کے لئے مسجدوں میں نہ آنے اور نمازوں کو کامیابی کا گر نہ سمجھنے میں ہے.دیکھو لوگ دنیاوی ترقیوں کے لئے کیا کچھ نہیں کرتے.بعض وقت تو ان کو اس کے لئے سخت ذلت اور تکلیف بھی برداشت کرنی پڑتی ہے.مگر باوجود اس کے وہ اس کے لئے کوشش کرتے چلے جاتے ہیں.مسلمان بھی ان میں شامل ہیں.اور اسی قسم کی کوششیں کرتے ہیں.یہ جو پانچ پانچ روپوں کی ترقی کے لئے افسروں اور حاکموں کی منتیں اور خوشامد میں کرتے ہوئے مسلمان نظر آتے ہیں اور ان کے دروازوں پر گرے رہتے ہیں.اور اس قسم کی چھوٹی چھوٹی ترقیوں کے لئے بعض وقت بڑی بڑی رقمیں بھی خرچ کر دیتے ہیں.انہیں اگر یقین ہو تاکہ مسجدوں میں نمازوں کے لئے جانے سے حقیقی ترقی اور کامیابی حاصل ہو سکتی ہے اور نماز کے ذریعے ہم کو اس سے بڑھ کر ترقیاں مل سکتی ہیں.اور نمازوں کے معاوضہ میں جو کچھ مل سکتا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہے جو لوگوں کے دروازوں پر گرنے سے ملتا ہے.تو یہ خطابوں کے حاصل کرنے والے یہ عہدوں کی تلاش کرنے
خطبات محمود ۳۷ سال 1927ء والے یہ ترقیوں کی جستجو کرنے والے، یہ کامیابیوں کی خواہش رکھنے والے مسجدوں میں ہی پڑے رہتے.اگر وہ جانتے کہ ہمیں مسجدوں میں وہ سب کچھ بلکہ اس سے بھی زیادہ مل سکتا ہے.جو لوگوں کے دروازوں سے ملتا ہے.اگر وہ جانتے کہ نماز کے ذریعے اس سے بہت زیادہ برکت اور عزت مل سکتی ہے جو دوسروں کی منت خوشامد کرنے سے میسر آسکتی ہے تو بجائے اس کے کہ نماز کے وقت لوگوں کو تلاش کیا جاتا.شاید نماز کے وقت جگہ حاصل کرنے کے لئے ڈنڈے چل جاتے.لوگ آتے اور کہتے ہمیں بھی تھوڑی سی جگہ دو.ہمیں بھی خدا تعالٰی سے کچھ لے لینے دو.پھر کیا مسجد میں دیران نظر آتیں.اور مسلمانوں پر یہ تباہی اور بربادی آتی جو آج آرہی ہے.ہرگز نہیں.مگر ہم دیکھتے ہیں اگر کوئی ترقی اور کامیابی چاہتا ہے تو لوگوں کے دروازوں پر جاتا ہے.ان کی منت و خوشامد کرتا ہے.اور اگر نہیں آتا تو خدا تعالیٰ کے دروازہ پر نہیں آتا جو سب کامیابیوں اور ترقیوں کا دینے والا ہے وہ مدرسہ کی طرف تو جاتا ہے لیکن اگر نہیں جاتا تو مسجد کی طرف نہیں جاتا.جس میں جانا تمام ترقیوں کو حاصل کرتا ہے.وہ بڑے صبر سے لوگوں کے دروازوں پر جاتا ہے.اور ایک کتے کی طرح صابر ہو کر بیٹھا رہتا ہے.بڑی تیزی سے اس کا قدم ان لوگوں کے گھروں کی طرف اٹھتا ہے جن کے متعلق سمجھتا ہے.کہ وہ کچھ دے سکتے ہیں.لیکن نہیں اگر اس کا قدم اٹھتا تو مسجد کی طرف نہیں اٹھتا.وہ اذان کو دھوکا اور نماز کو قریب سمجھتا ہے.وہ منہ سے تو کہتا ہے کہ رسول کریم ایک رحمت تھے.لیکن عمل سے وہ بتاتا ہے کہ رحمت نہیں تھے.اور (نعوذ باللہ ) دھوکا دینے والے انسان تھے.پس یہ سوال اکثر مسلمانوں کے عمل سے پیدا ہو رہا ہے.اور بڑے زور سے پیدا ہو رہا ہے کہ اگر نماز کی یہی کیفیت ہے جو مسلمانوں نے آج سمجھ رکھی ہے.اور جس کے مطابق انہوں نے اپنے عملوں کو بنایا ہوا ہے تو پھر اس کا کیا فائدہ ہے.اور اس کے ساتھ ہی پھر یہ بات بھی پیدا ہوگی کہ کیا نماز میں کوئی رحمت ہے.کوئی برکت ہے جو اس کے ذریعے میسر آتی ہے.کوئی ایسی حکمتیں اس میں ہیں جن کے جاننے سے ترقیاں ملتی ہیں اور ناواقفی سے ان کے پانے سے محروم رہ جاتے ہیں تا اگر نماز فی الواقع رحمت ہے.اگر فی الواقع اس میں کوئی برکت ہے.اگر فی الواقع اس میں کوئی ایسی حکمتیں ہیں کہ جن کو جاننے سے ہم ترقیاں حاصل کر سکتے ہیں اور ہم ان سے واقف نہیں.یا ہم غفلت کے سبب ان کے حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے تو ہمیں پھر اپنی اصلاح کرنی چاہئے.تاہم ان کو جان سکیں اور پھر عمل کر کے نتائج حاصل کر سکیں.غرض یہ ایک سوال ہے جو مسلمانوں کے عمل سے پیدا ہو رہا ہے اور اس وقت ضرورت ہے کہ اس کی طرف توجہ کی جائے.
خطبات محمود سال 1927ء اور اس پر غور کیا جانے کہ کیا یہ بات جھوٹی ہے کہ نماز سب ترقیوں اور برکتوں کی منبع ہے یا پھر ہمارا عمل جھوٹا ہے.اگر عمل جھوٹا ہے اور نماز میں برکت اور فائدہ ہے تو ہمیں اس فائدہ کو لینا چاہئے.اور اگر نمازوں میں کوئی فائدہ نہیں اور ان کے ذریعے کوئی برکت اور کوئی نام پانی حاصل نہیں ہو سکتی تو پھر اس کو چھوڑ دینا چاہئے.میں سمجھتا ہوں اگر کوئی شخص سنجیدگی کے ساتھ اس پر غور کرے گا اور اچھی طرح اس پر خیال کرے گا تو وہ سمجھ لے گا کہ اس کی حکمت کو ہی نہیں سمجھا گیا.ورنہ اس میں بہت بڑے فائدے ہیں.ہر بات کی حکمت کا سمجھنا نہایت ضروری ہے.اور جب تک کسی بات یا کسی کام کی حکمت نہ سمجھی جائے وہ فائدہ نہیں دیتا.اگر کوئی شخص نوکری کرتا ہے اور اس نوکری کی حکمت نہیں جانتا.تو وہ نوکری اسے کوئی فائدہ نہیں دے سکتی.اسی طرح علاج ہے.علاج بھی بغیر حکمت جانے نہیں ہو سکتا.اگر ایک شخص کھیتی باڑی کرتا ہے اور بغیر ان کی حکمت جانے کے کرتا ہے.تو وہ کھیتی باڑی اسے کوئی فائدہ نہیں دے سکتی.اسی طرح ہر کام کے متعلق ہے کہ جب تک اس کی حکمت کو نہ سمجھا جائے وہ فائدہ نہیں دیتا.نماز کی بھی چونکہ حکمت نہیں سمجھی گئی اس لئے نماز بھی آج کوئی فائدہ نہیں دیتی.ایسا ہی اذان اور مسجد میں آکر نماز پڑھنے کا حال ہے.اگر ان سب کی حکمت سمجھی جاتی.تو آج یہ حالت ہی نہ پیدا ہوتی کہ لوگ اس کے بغیر کامیابیوں اور ترقیوں کا پانا ممکن سمجھ لیتے.غرض لوگ نماز کو محض اس کی حکمت کے نہ سمجھنے سے کامیابیوں کے راستے میں روک بتا رہے ہیں.اور اس میں کوئی خیرو برکت نہیں پاتے.لیکن میں آج اس سوال کو پیش کرتا ہوں.مسلمانوں کو چاہئے کہ اس پر غور کریں اور سوچیں کہ کیانی الواقع اس میں کوئی برکت اور رحمت نہیں.اور اس کے ذریعے کوئی کامیابی نہیں مل سکتی یا یہ کہ یہ توفی الواقع برکت اور رحمت اپنے اندر رکھتی ہے.اور اس کے ذریعے کامیابی میسر آسکتی ہے.لیکن ہم ہی نہیں سمجھ سکے کہ اس میں کیا حکمتیں ہیں.یہ سوال غیروں کے لئے ہی نہیں جماعت احمدیہ کے افراد کے لئے بھی ہے.خواہ ان کو نمازوں میں لذت اور سرور آتا ہو اور خواہ وہ ان برکات اور رحمتوں کو پاہی رہے ہوں جو اس کے ذریعے امل سکتی ہیں.وہ بھی غور کریں کہ نماز جو کامیابیوں کی جڑ ہے اور جس سے تمام بلا ئیں اور مشکلیں دور ہو جاتی ہیں اور تمام فتنے اور فساد رک جاتے ہیں.آج کیوں موثر نہیں ہو رہی اور کیوں آج اس کے وہ نتائج نہیں پیدا ہو رہے جو رسول کریم ان کے وقت پیدا ہوتے تھے اور ان نتائج کے پیدا ہونے کے راستہ میں کیا روکیں ہیں اور وہ روکیں کیونکر دور ہو سکتی ہیں.پس یہ سوال
خطبات محمود ۳۹ سال 1927ء - جماعت احمدیہ کے لئے بھی ہے وہ بھی اس پر غور کرے.میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الاول سے پڑھا کرتا تھا تو پڑھتے ہوئے کئی مقام ایسے آجاتے کہ میں کچھ دریافت کرنا چاہتا.مگر آپ فرماتے کہ ”میاں چلو آگے چلو آپ ہی سمجھ لینا" آپ کی اس بات کا یہ مطلب ہو تا کہ انسان اپنے آپ غور کرنے سے جو بات حاصل کر سکتا ہے وہ دوسرے کے بتانے سے حاصل نہیں کر سکتا.میں نے اس طریق سے بہت فائدہ اٹھایا ہے.اس وقت میں بھی حضرت خلیفہ بیع الاول کے طریق کے مطابق کہتا ہوں کہ آپ ہی اس پر غور کرو اور سوچو.خود سوچنے اور غور کرنے سے تمہیں بہت سی باتیں حاصل ہوں گی جو صحیح نتائج پر پہنچانے والی ہونگی.اور اس بات کی حقیقت کو کھول دیں گی کہ کیوں نماز سے فائدے حاصل نہیں ہوتے جو اس کے بتائے گئے ہیں اور جو آنحضرت اللہ کے وقت میں ظاہر ہوتے تھے.میں بھی انشاء اللہ تعالیٰ اگلے جمعہ اپنے خیالات اس کے متعلق ظاہر کرونگا.لیکن اسی قدر جس قدر کہ خطبہ میں بیان کیا جا سکتا ہے.خطبہ بہت لمبا نہیں کیا جا سکتا.اس کی ایک وجہ وقت کی قلت بھی ہے.اور کچھ جمعے میں شامل ہونے والے لوگوں کا لحاظ بھی.پس وقت کے لحاظ سے جس قدر کہا جا سکے گا.انشاء اللہ تعالٰی اگلے جمعے کے دن کہوں گا.خطبہ میں انسان پوری باتیں بیان نہیں کر سکتا.اس لئے میں بعض ضروری باتیں اس کے متعلق بیان کروں گا.یعنی آپ کو بھی چاہئے کہ اپنے طور پر اس پر ضرور غور کریں.اور سوچیں کہ نماز کے فوائد حاصل نہ ہونے کی وجہ کیا ہے.میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالٰی ہمیں اپنا کلام سمجھنے کی توفیق دے اور فہم عطا فرمائے تاہم اس کی باتوں اور اس کی منشاء کو سمجھنے والے ہوں.پھر ہمیں یہ توفیق بھی دے کہ ہم اس کے کلام کے مطابق اپنے عملوں کو بنا سکیں تا ہمیں وہ فوائد مل سکیں جو اس کے کلام کو صحیح طور پر سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے سے مل سکتے ہیں.آمین.له البقرة: 19 کے بخاری کتاب التفسير - تغییر سوره الاحقاف الفضل یکم مارچ ۱۹۲۷ء)
خطبات محمود وم سال 1927ء اخد تا البقراط المستقيم کی دعا فرموده ۱۴ مارچ ۱۹۲۷ بمقام مسجد احمدیہ - لاہور) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: مجھے افسوس ہے کہ چونکہ مجھے یہاں سے ایک پاس کے شہر میں جانا پڑا اس لئے جمعہ میں دیر ہو گئی.اس قلیل وقت میں جس قدر میں بیان کرنا پسند کروں.اس قدر شائد میرے لئے ممکن نہیں ہو گا.لیکن بہر حال جمعہ کے موقع پر ان لوگوں کے لئے جو جمعہ کی آواز پر لبیک کہتے ہیں جمعے کے لئے جمع ہوتے ہیں آنحضرت ﷺ کی سنت اور طریق کے مطابق کچھ نہ کچھ کہنا ضروری ہوتا ہے خواہ وہ کہنا کثیر ہو یا قلیل.بات خواہ تھوڑی ہو یا بہت.مگر بہت سے ایسے لوگ ہوتے ہیں جو سمجھنے کے عادی ہوتے ہیں.ان کے لئے تھوڑی بات بھی بہت ہوا کرتی ہے.اور بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو نہیں سمجھتے.ان کے واسطے بہت باتیں بھی تھوڑی ہوا کرتی ہیں.ایسے لوگ جو متواتر اور مسلسل طور پر باتیں سنتے ہیں.لیکن پھر بھی ان سے آشنا نہیں ہوتے.اللہ تعالیٰ ان کے متعلق فرماتا ہے.ان کے دلوں پر مہر لگی ہوئی ہے.ان کی آنکھیں ہیں مگروہ دیکھتے نہیں.ان کے کان ہیں مگر وہ سنتے نہیں.لیکن ان کے مقابل کچھ اور لوگ ہیں جو تھوڑی سی بات سے فائدہ حاصل کر لیتے ہیں.ایک معمولی سی بات بھی ان کے قلب پر اثر پیدا کر دیتی ہے.جس سے وہ خود ہی مست نہیں ہوتے بلکہ قریب والے بھی متوالے ہو جاتے ہیں.اور دنیا کو انسان کی اس صفت سے جس قدر نفع پہنچا اتنا کسی اور بات سے نہیں ہوا.حضرت عمر کے متعلق آتا ہے.کہ ان کے اندر رسول الله ال AT A GRANAT کی مخالفت تھی تو اتنی کہ ہر
سال 1927ء خطبات محمود وقت تلوار لئے پھرتے.کہ جہاں پائیں محمد رسول اللہ اس کو قتل کر دیں.پھر جب موافقت پیدا ہوئی تو اتنی کہ محمد رسول اللہ اللہ کے دشمنوں کے مقابل میں تلوار لیکر کھڑے رہتے.اور یہ حالت اس طرح پیدا ہوئی کہ ایک دن انہوں نے قرآن کی بعض آیتیں اپنی ہمشیرہ کے منہ سے سنیں.ان چند آیتوں کا یہ اثر ہوا کہ قتل کرنے نکلے تھے.مقتول ہو کر گر پڑے.اور وہ تلوار جو رسول اللہ ﷺ کی گردن پر چلنے کے لئے ہر وقت میان سے باہر نکلی رہتی تھی ہمیشہ کے لئے خدا کے دین کے اعلاء کے لئے ننگی رہی.یہ بالکل مختصر بات تھی جو حضرت عمر نے سنی.لیکن اس کا نتیجہ نہ صرف ان کے لئے بلکہ ساری دنیا کے لئے کس قدر عظیم الشان نکلا پس چاہئے کہ خدا تعالی کا کلام سنتے وقت دل کو اسے قبول کرنے کے لئے ہر طرح تیار کیا جائے.سورہ فاتحہ جو سارے قرآن کا خلاصہ ہے اور جس میں ساری خوبیاں جمع ہیں اپنے اندر بہت سے فائدے رکھتی ہے.اس میں بعض باریکیاں ہیں.اور ہر ایک کی سمجھ ایسی نہیں ہوتی کہ ان باریکیوں کو سمجھ سکے.اس لئے ایک نکتہ بیان کرتا ہوں جس سے معلوم ہو گا کہ سورہ فاتحہ ایک ایسی سورۃ ہے کہ علاوہ اس اہمیت کے کہ یہ جامع ہے.اور اس کے اندر انسان کو دعائیں سکھائی گئی ہیں.یہ اہمیت بھی رکھتی ہے کہ قرآن کی دوسری سورتوں کے بالمقابل یہ ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے.اگر غور کیا جائے تو کم از کم ایک انسان چالیس دفعہ ضرور ہر روز اسے پڑھتا ہے.پھر نماز کے علاوہ بھی اسے پڑھتے ہیں.اور میں خیال کرتا ہوں کہ ایک سو بار سے زیادہ دفعہ یہ دعا روزانہ پڑھی جاتی ہے.اس میں دعا سکھائی گئی ہے.جس کے متعلق ہمیں سوچنا چاہیے.کہ جو دعا اس کثرت سے پڑھی جاتی ہے اس کا کوئی اثر بھی ہے یا نہیں اور اس کے مطابق ہماری حالت ہے یا نہیں.اس میں اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضالین کی دعا سکھائی گئی ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ اے خدا ہمیں سیدھا راستہ دکھا - وہ سیدھا راستہ کہ دکھایا تو نے اپنے ان لوگوں کو جن پر تیری نعمتیں نازل ہو ئیں.وہ سیدھا راستہ بتا.جو بتایا تو نے ان لوگوں کو جو منعم علیہ تھے.اور وارث تھے تیرے فضلوں کے.پھر یہی نہیں کہ سیدھا راستہ دکھا اور بتا.بلکہ یہ بھی کہ نہیں اس سیدھے رستہ پر چلا بھی.تاہم اس پر چل کر تیری نعمتوں کو پا سکیں.یہ دعا ہے جو اس سورۃ میں سکھائی گئی ہے.اس پر غور کرنا چاہئے کہ کیا ہماری حالتیں اس کے
خطبات محمود سال 1927ء مطابق ہیں ؟ دن رات یہ دعا پڑھی جاتی ہے.اور نہیں تو کم از کم پانچ نمازوں میں تو ضرور پڑھی جاتی.ہے.پس آپ لوگ اپنے نفسوں پر غور کریں اور دیکھیں کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا جو ہم روز کرتے ہیں.کیا وہ قبول ہو رہی ہے یا نہیں.کیا جو شئے ہم اس میں طلب کرتے ہیں.وہ ہمیں مل رہی ہے ؟ اور کیا ہماری حالت اس دعا کے مفہوم کے مطابق ہو گئی ہے ؟ اهدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں ہم طلب کرتے ہیں.سیدھا رستہ دکھا.وہ رستہ جو دکھایا تو نے اپنے نیک اور مومن بندوں کو جو تیرا انعام پانے والے ہوئے.بہر حال ہر مسلمان یہ دعا کئی بار دن میں پڑھتا ہے اور جو اسے پڑھتا ہے وہ اس پر ایمان بھی رکھتا ہو گا.وہ آخر خدا پر ایمان رکھتا ہو گا.تو حید پر ایمان رکھتا ہو گا.ملائکہ پر ایمان رکھتا ہو گا.قرآن پر ایمان رکھتا ہو گا.رسالت پر ایمان رکھتا ہو گا.حشر و نشر اور قضاء و قدر کو مانتا ہوگا.پس جب وہ اهدِنَا الصِّرَاطَ المُستقِيمَ صِرَاطَ اللَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِم کہتا ہے.تو کیا اس کے یہ معنی ہوتے ہیں.کہ اے خدا میرا یہ ایمان ہو جائے کہ تو خدا ہے.اور تیری توحید ہے ملائکہ تیری مخلوق ہیں.قرآن تیرا کلام ہے.حشر و نشر اور قضاء و قدر تیرے حکم اور اختیار سے ہے.یہ تو وہ پہلے ہی مانتا ہے.اور ان سب پر اس کا پہلے ہی ایمان ہے.پھر اس کا کیا مطلب ہوا کہ وه KONKONG DOWNLOAD NEW AT A کہتا ہے.اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اے میرے خدا جس مقام پر میں ہوں تو مجھے اس سے آگے لے جا.کیونکہ اگر صرف یہ ہو کہ مجھے یہ باتیں حاصل ہوں.تو یہ تو اسے پہلے حاصل ہیں.اور کون ہے جو پہلی حاصل شدہ چیزوں کو مانگے.پس اس کا یہی مطلب ہے کہ دعا مانگنے والا یہ مانگ رہا ہے کہ جس مقام پر ہوں اس سے آگے ترقی دے.جو عقائد ہیں انہیں زیادہ مضبوط کر دے.ایمان اور یقین کو زیادہ کر دے.قرآن پر جو ایمان ہے.رسول پر جو ایمان ہے.ملائکہ پر جو ایمان ہے.اس میں ترقی ہو جو علم حاصل ہے وہ اس سے زیادہ ہو جائے.قرآن اور حدیث کے مطالب پہلے سے زیادہ مجھ پر کھل جائیں.غرض جس وقت یہ دعا مانگی جاتی ہے.تو اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ دعا مانگنے والا موجودہ حالت سے آگے ترقی چاہتا ہے.اور یہ خواہش کرتا ہے کہ جو کچھ مل چکا ہے.وہ اور بھی زیادہ ہو.مثلاً کوئی شخص اعمال کے متعلق دعا کرے.جیسے نماز - روزه - ج - زکوة - اور عام اخلاق تو اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ وہ اِهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں یہ دعا کر رہا ہے.وہ مسلمان ہے.اور مسلمان کو یہ سب چیزیں پہلے ہی مل چکی ہیں تو اس کا یہی مطلب ہے کہ یہ پہلے سے اچھے طریق پر ادا ہوں.اور اچھی طرح مجھے حاصل ہوں.اگر یہ مفہوم نہیں تو پھر یہ فضول اور لغو بات ہے.کیونکہ وہ ایک ایسی چیز مانگتا ہے.
خطبات سال 1927ء جو اسے پہلے ہی مل چکی ہے.پس پانچ وقت جو یہ دعا مانگی جاتی ہے.اس کے متعلق دیکھنا بھی چاہئے.کہ قبول ہو رہی ہے یا نہیں.اور کیا اس سے کوئی تبدیلی پیدا ہو رہی ہے یا نہیں.ایک نماز میں جب یہ دعا کی گئی ہے تو کیا یہ فرض نہیں کہ دوسری نماز میں دیکھا جائے کہ اس کا کیا نتیجہ نکلا.اور کہاں تک ترقی ہوئی.مثلاً اگر صبح کی نماز میں ایک شخص KANGOUT AL AAN LANA کہتا ہے اور مفہوم میں یہ بات داخل رکھتا ہے.کہ جو کچھ مجھے مل چکا ہے.اس میں ترقی ہو.تو کیا یہ فرض نہیں کہ وہ بعد کی نماز میں غور کرے کہ کہاں تک ترقی ہوئی.وہ اپنے اعمال میں دیکھے.اپنے معاملات میں دیکھے.اپنے حالات میں دیکھے.کہ کسی قدر بہتری پہلے کی نسبت ان میں پیدا ہوئی.اور یہ کہ کیا ان میں کوئی تبدیلی ہوئی یا نہیں.ان میں کچھ فرق ہوا یا نہیں.اگر نہیں تو اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ صرف مقررہ الفاظ دہرا رہا ہے.وہ ٹو نہ کر رہا ہے.وہ جادو کر رہا ہے.وہ بالکل ویسے ہی طور پر کام کر رہا ہے جیسے بعض بوڑھی عورتیں چند دھاگوں پر عمل کرتی ہیں.پس جب تک اس دعا کا مفہوم یہ نہ ہو نا کہ جو کچھ مل چکا ہے اس میں ترقی ہو تو اس دعا کا پڑھنا ایک فضول اور لغو بات ہو گی.اس لئے ہر ایک شخص کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ وہ ہر نماز میں سوچ لے کہ میری پہلی دعا کا کیا نتیجہ نکلا.پھر اس کے ساتھ اسے یقین ہونا چاہئے کہ میری دعا قبول ہو گئی.کیونکہ اگر یہ یقین نہ کیا جائے اور یہ مانا جائے کہ جو کچھ ہونا ہوتا ہے وہ تو خدا کی طرف سے ہو تا رہتا ہے.انسان کے کہنے سے اس میں تغیر نہیں ہوا کرتا.تو اس کے یہ معنی ہونگے کہ ہزار ہا دعا ئیں جو پاک لوگوں نے کیں وہ پھینک دی گئیں.ہزار ہا دعا ئیں جو راستباز انسانوں نے مانگیں اجابت کے مقام پر نہ پہنچیں.اس میں کچھ شک نہیں کہ جو کچھ کرتا ہے خدا تعالیٰ ہی کرتا ہے.لیکن اس میں بھی کچھ شبہ نہیں کہ انسان جو کچھ کہے اسے بھی سنتا ہے اور اسکے مطابق اسے اجر دیتا ہے.یہ الگ بات ہے کہ کسی کی دعا میں کوئی نقص ہو.اور وہ پھینکی گئی ہو.اور اجابت کے مقام پر نہ پہنچی ہو.لیکن یہ بات بالکل درست ہے کہ خدا تعالیٰ انسان کی دعائیں سنتا ہے.اور پھر جو دعا وہ خود سکھائے وہ تو ضرور اس قابل ہوتی ہے کہ سنی جائے.لیکن ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ انسان اس کے مانگنے میں اپنی نادانی اور غلطی سے کوئی نقص نہ پیدا کر دے لیکن باوجود اس بات کے کہ یہ دعا خود خدا تعالٰی نے سکھائی.اگر یہ دعا اپنا اثر ظاہر نہ کرے اور مانگنے والے کے اندر پہلے کی نسبت کوئی فرق پیدا نہ ہو.اور اسے ان چیزوں میں جو اسے مل چکی ہیں.ترقی محسوس نہ ہو تو اسے فکر کرنی
خطبات محمود.هم بم سال 1927ء چاہئے کہ جس بات نے اس کو یہاں فائدہ نہ دیا جس سے اس کو اس جگہ کوئی ترقی نہ ہوئی.اس سے اس کو کیا امید ہو سکتی ہے کہ مرنے کے بعد قیامت کے دن کچھ ترقی ہوگی.کیونکہ مرنے کے بعد کی ترقی اس کے انہی اعمال اور عقائد اور ایمان پر ہے.جو اس جہان میں ہوں گے.اور اگر ان میں اس جگہ کوئی ترقی نہیں تو قیامت کے دن اسے کہاں ترقی مل سکتی ہے.پس ایسے شخص کو یہیں سے اپنی آئندہ کی حالت پر قیاس کرنا چاہئے.اور اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ جو پہلی منزل طے نہیں کر سکا.وہ دوسری منزل کیسے طے کر سکتا ہے.ایک مومن اور سچا مومن ایک دن کی دعا کا اثر دوسرے دن دیکھنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ اسی دن کی دوسری نماز میں دیکھتا ہے.پھر ایک نماز کی دعا کا اثر دوسری نماز میں دیکھنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ ایک رکعت کی دعا کا اثر دوسری رکعت میں دیکھنے کی کوشش کرتا ہے اور دیکھتا ہے کہ کیا وہ قبول ہوئی یا نہیں.اور اس نے کیا اثر پیدا کیا.پہلی حالت اور اس حالت میں کس قدر فرق پیدا ہوا.کہاں تک ترقی ہوئی لوگ گورنمنٹ کے حکام کے پاس عرضیاں لے کر جاتے ہیں اور وہاں گھنٹوں بلکہ پہروں انتظار کرتے ہیں لیکن خدا کے گھر کوئی انتظار کرنا نہیں پڑتا.ہاں جن امور کے اس نے اوقات مقرر کر رکھے ہیں ان میں انتظار کرنا پڑتا ہے.اور وہ اپنی مدت معینہ پر ہوتے ہیں.مثلاً کوئی شخص بچہ کیلئے دعامانگتا ہے.اب اگر اس کی دعا قبول ہو جائے تو یہ نہیں ہو گا کہ اس وقت بچہ پیدا بھی ہو جائے.اس کے لئے اگر زیادہ نہیں تو کم از کم نو سوانو مہینہ کا عرصہ لگے گا.کیونکہ بچہ کی پیدائش کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ اتنا عرصہ لیکر دنیا میں آئے.پس صرف ان امور میں جن میں خدا نے وقت مقرر کر رکھا ہے.مقررہ وقت تک انتظار کرنا پڑتا ہے.اور باقی سب میں کوئی انتظار نہیں.اور وہ اکثر دعا کے ساتھ ہی مل جاتے ہیں.چنانچہ علم اور عقائد وغیرہ ہیں.یہ الہاما ملتے ہیں اور اسی وقت نازل ہوتے جاتے ہیں جس وقت ان کے لئے دعا کی جاتی ہے.متواتر تجربہ کیا گیا کہ ابھی دو رکعت ختم نہیں ہوتی.جس میں ایسی دعا کی جاتی ہے کہ بہت سے حقائق و معارف کا انکشاف ہو جاتا ہے.اور کئی دفعہ تو ایسا بھی ہوا ہے کہ اگر دعا ٹھیک طور پر کی جائے تو پیشتر اس کے کہ سجدہ سے سر اٹھایا جائے.سورۃ کی سورة کے مطالب ظاہر ہو گئے ہیں.اگر کسی انسان کی دعا مضبوط نہ ہو اور جلدی اثر نہ کرے.تو کم از کم یہ تو چاہئے کہ دوسری نماز تک ہی فرق پڑ جائے.اگر یہ بھی نہیں تو کم از کم دوسرے دن تک ہی فرق پیدا ہو جائے.اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ اس سے بھی زیادہ اس کی دعا کمزور تھی تو کم زکم ایک ہفتہ کی دعاؤں کے نتیجہ میں
خطبات محمود ۴۵ سال 1927ء کوئی تبدیلی پیدا ہو جانی چاہئے.یہ بھی اگر نہیں تو کم از کم ایک ماہ کے بعد ہی کوئی اثر پیدا ہونا چاہئے.اور اگر اس عرصہ میں بھی کوئی اثر پیدا نہیں ہوا.اور دعا کرنے والے کی حالت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی تو کم از کم وہ سال جن کے ساتھ اس کی زندگی گئی جاتی ہے اس قسم کے ہونے چاہئیں جن میں تبدیلی ہو.اور ہر سال اپنے پہلے سال سے بڑھ کر ترقی پر ہو.لیکن اگر اس حد تک پہنچ کر بھی کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوتی.اور باوجود سال بھر دعا کرنے کے کوئی فرق پیدا نہیں ہوتا.اس کے علم میں کوئی ترقی نہیں ہوئی.اس کے عمل میں کوئی مضبوطی نہیں ہوئی.اس کے اخلاق میں کوئی زیادتی نہیں ہوئی.تو سمجھ لینا چاہئے.کہ اس کی دعا میں فرق تھا.اور اس وقت پھر حالت بدلنے کی کوشش کرنی چاہئے یا تو دعا کرنے والے کے اخلاص میں فرق ہوتا ہے کہ وہ اخلاص سے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ المستقيم نہیں کہتا بلکہ رسمی طور پر کہتا ہے اس لئے اس کا اثر نہیں ہو تا.یا اس کے ساتھ کچھ اور نقص پیدا کر لیتا ہے جس سے کوئی اثر اور تبدیلی پیدا نہیں ہوتی.ورنہ دعا ایسی چیز نہیں کہ اسے بے اثر کہا جائے.پس ایسا آدمی اگر اِهْدِنَا القِرَاطَ الْمُقِيمَ کے معنے یہ نہیں خیال کرتا کہ موجودہ مقام سے ترقی ہے.اور اگر صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ میں محمد رسول الله الله حضرت موسی ، حضرت عیسی وغیرہ تمام خدا کے نبی مد نظر نہیں ہوتے.بلکہ صرف یہ جملہ ہی سامنے ہوتا ہے تو ایسا شخص منزل مقصود پر نہیں پہنچ سکتا اور اس کے اندر کوئی تبدیلی نہیں ہوتی اور اسے کوئی ترقی نہیں ملتی.کیونکہ وہ دعا نہیں کرتا بلکہ ایک جملہ رہتا ہے.بعض دفعہ دعا مانگنے والا اس کے آئیڈیل (Ideal) کی طرف توجہ نہیں کرتا.تو اس وجہ سے دعا قبول نہیں ہوتی.اور کبھی دعا کے ساتھ کچی تڑپ نہیں ہوتی.اور نہ ہی دعا کرنے والا اصلی کوشش کرتا ہے.اس لئے دعا قبولیت کے مقام تک نہیں پہنچتی.پھر دعا کے واسطے توجہ اور یقین کی ضرورت ہے.ایک شخص کو دعا کرتے وقت اس بات کا یقین ہونا چاہئے کہ جو کچھ میں مانگ رہا ہوں وہ دیا جائے گا.گو یہ ضروری ہے کہ دعا کے ساتھ توجہ ہو.گو یہ ضروری ہے کہ دعا کے ساتھ یقین ہو.گو یہ ضروری ہے کہ دعا کے ساتھ کچی تڑپ اور اصلی کوشش ہو.لیکن اس کے ساتھ تدبیر کا ہونا بھی بہت ضروری ہے.جو انسان دعا بھی کرتا ہے اور تدبیر بھی کرتا ہے.وہ کامیابی کا منہ بہت جلد دیکھ لیتا ہے.ایک دفعہ ایک بزرگ کے پاس ایک سپاہی آیا کہ حضور دعا کریں کہ میرے گھر اولاد ہو.جواب میں انہوں نے کہا بہت اچھا ہم دعا کریں گے وہ شخص اٹھا اور گھر جانے کی بجائے کہیں اور جانے لگا.
خطبات محمود ۴۶ سال 1927ء بزرگ نے کہا تمہارا گھر کدھر ہے.اس نے کہا کہ میں فوج میں ملازم ہوں اس لئے ادھر جا رہا ہوں.اس نے کہا پھر میری دعا کیا فائدہ کرے گی.تم بچے کی درخواست کرتے ہو اور خود گھر سے باہر جارہے ہو بچہ کے لئے دعا کرانی ہے تو بیوی کے پاس رہو.غرض دعا کے ساتھ تدبیر کی بھی ضرورت ہوتی ہے.طاقت اور امکان کے مطابق کوشش بھی کرنی چاہئے.کیونکہ جو شخص دعا کے ساتھ کوشش نہیں کرتا وہ یہ چاہتا ہے کہ یونہی مجھے سب کچھ مل جائے.غرض دعا کے ساتھ تدبیر اور کوشش ہوا کرتی ہے.صرف کوشش سے بسا اوقات ناکام رہ جاتے ہیں.لیکن اگر دعا اور کوشش دونوں ہوں.تو کامیابی ہوتی ہے.جب انسان ایک قدم اٹھائے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے دو قدم اٹھتے ہیں.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے عقائد اور اعمال کی اصلاح کی جائے.اور دعا کے ساتھ کوشش اور تدبیر کو اختیار کیا جائے.قرآن شریف کی طرف توجہ نہ کرنے سے ہی یہ ساری خرابی پیدا ہوئی کہ لوگ لفظوں پر گر گئے.اور مطلب کی طرف سے غفلت اختیار کرلی.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس پر اعتراض ہونے شروع ہو گئے.اب دیکھ لو یہی قرآن جو پہلے تھا اب بھی ہے.مگر پہلے اس پر ساری دنیا اعتراض کرتی تھی.اس لئے کہ خود مسلمان اس پر توجہ نہیں کرتے تھے اور اس کے مطالب سمجھنے کے لئے دعا نہیں کرتے تھے.لیکن اس قرآن کو لیکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اٹھے تو لوگوں کی گردنیں جھکا دیں کیونکہ وہ اِهْدِنَا ا KANGANATOLOGNE DOWNLOAD کتنے کے موقع پر اپنی دعا میں یقینا یہ مفہوم رکھتے تھے کہ الہی قرآن کے علوم کو مجھ پر کھولا جائے.چنانچہ ان پر کھولے گئے.غور کرو یہی قرآن ہے.جس کے متعلق کہا جاتا کہ اس میں کوئی دلیل نہیں.یہ جو بات کہتا ہے بلادلیل اور بلا ثبوت کہتا ہے.اس کی عبارت بھی بے ترتیب ہے.لوگوں کے نزدیک یہ بالکل ظنی تھا.غیر یقینی تھا.حقائق سے خالی تھا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسی کو لیکر اٹھے اور جہان پر ثابت کر دیا کہ اس کی ہر بات بادلیل ہے اور اس کا ہر دعوی با ثبوت ہے.یہ بالکل یقینی ہے.اور ایسا صحیفہ ہے.جس کی مثل کوئی کتاب نہیں.پھر اس وقت تو یہ حالت تھی کہ اس کے ماننے والے بھی یہاں تک کہتے تھے کہ گیارہ سو سے لے کر پانچ تک اس کی آیتیں منسوخ ہیں.مگر حضرت مرزا صاحب اٹھے اور کہا اس میں سے ایک لفظ بھی منسوخ نہیں اور بتا دیا کہ یہ بالکل وہی قرآن ہے جو آنحضرت ﷺ پر نازل ہوا اور جو آپ کے صحابہ کے ہاتھ میں تھا.آخری زمانہ میں شاہ ولی اللہ شاہ صاحب بڑے بزرگ گزرے ہیں.مگر وہ بھی کہتے تھے کہ قرآن کریم کی پانچ آیتیں منسوخ ہیں کہ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے
خطبات محمود سال 1927ء اس کے وہ معارف کھولکر بتائے کہ لوگ حیران رہ گئے.اور فرمایا کہ پانچ آیتیں چھوڑ پانچ شوشے بھی قرآن کریم سے منسوخ نہیں.کجا ولی اللہ شاہ صاحب کہ پانچ آیتیں منسوخ سمجھتے تھے اور کجا ایک احمدی کہ وہ اب ایک آیت کو بھی منسوخ نہیں سمجھتا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بھی ثابت کر دکھایا ہے.کہ اس کی ترتیب عبارت بھی بہت اعلیٰ ہے.اور اس لحاظ سے بھی یہ ایک بے مثل کتاب ہے چنانچہ ہم میں سے علوم کا مطالعہ کرنے والے آج کہتے ہیں کہ اس کی عبارت بے جوڑ نہیں بلکہ نہایت اعلیٰ اور مکمل ترتیب کے ساتھ ہے.اور اس میں اتارشتہ ہے کہ دنیا کی کسی کتاب میں اتنا رشتہ نہیں پایا جاتا.لوگ سمجھا کرتے تھے کہ یہ تعزیرات ہند کی طرح ایک کتاب ہے اور بس.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتایا یہ بالکل فطرت انسانی کے مطابق کتاب ہے.ہر ایک حکم جو اس میں ہے اور ہر ایک عقیدہ جو اس کے ذریعے پیدا کیا گیا ہے اس کے لئے دلائل عقلی اور نقلی دونوں اس میں موجود ہیں.اور بتادیا کہ اگر کوئی کتاب ایسی ہے کہ دنیا اس پر عمل کر سکتی ہے.اور وہ دنیا کے لئے مفید ہو سکتی ہے تو وہ قرآن کریم ہے.پھر ہزاروں روپیہ انعام مقرر کیا کہ کوئی ایسی کتاب پیش کرو.بلکہ چندان مضامین کے مقابلہ کے لئے بھی لوگوں کو بلایا جو آپ نے قرآن کریم کے حقائق کے متعلق لکھے اور جن کے متعلق آپ نے بڑے زور کے ساتھ دعوئی کیا کہ اگر زیادہ نہیں تو ان کے برابر ہی معارف دکھا دو اور انعام لے لو.مگر لوگ نہ کر سکے.پس یہ فرق ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور دوسرے لوگوں کے درمیان ہے.لیکن یہ فرق کیوں ہے؟ اس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب اهْدِنَا الصِّرَاطَ المُستقیم کہتے تو وہ یقینا یہ دعا مانگ رہے ہوتے تھے.کہ مجھ پر قرآنی علم پہلے سے زیادہ کھولے جائیں.اگر محمد ایل پر حقائق کھولے گئے اور علوم عطا کئے گئے.اگر موسیٰ پر حقائق کھولے گئے اور علوم عطا کئے گئے.اگر عیسی ابراہیم اور نوح علیہم السلام پر حقائق کا انکشاف کیا گیا اور ان کو علوم عطا کئے گئے تو ہم پر بھی ان حقائق کو واضح فرما دیا جائے اور ہم پر بھی ان علوم کو کھولا جائے.سے وعدہ حضرت خلیفہ المسیح الاوّل کا بھی یہی طریق تھا.آپ فرمایا کرتے.کوئی اعتراض قرآن پر کرے.میں جواب دینے کے لئے تیار ہوں.اگر مجھے جو اب معلوم نہ بھی ہو گا تو بھی خدا تعالیٰ کا مجھے.ہے کہ میں سمجھا دوں گا.اس کی وجہ یہی تھی کہ آپ بھی جب اِهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کے تھے تو اسی مفہوم کو مد نظر رکھ کر کہتے تھے کہ قرآن کے علوم مجھ پر کھولے جائیں.اور انہیں یہ یقین
خطبات محمود ۴۸ سال 1927ء تھا کہ خدا تعالٰی ضرور اس دعا کو سنتا ہے اور قرآنی علوم ان پر منکشف کرتا ہے.میں نے اپنی ذات میں بھی دیکھا ہے کہ میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل قرآن شریف اور بخاری پڑھا کرتا تھا تو آپ نے آدھا آدھا سیپارہ روز پڑھا کر دوماہ میں سب ختم کرا دیا.میں جب کچھ پوچھنا چاہتا تو فرماتے.میاں گھر جا کر سوچ لینا.دوسرے پڑھنے والوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے اگر میں کوئی سوال کرتا تو فرماتے.میاں اٹھو ادھر آکر بیٹھو.غرض اس طرح پڑھانے کے بعد فرمایا جو علم نور دین کو آتا تھا وہ پڑھا دیا.اس کے اندر ایک نکتہ تھا اور وہ یہ کہ ایک مسلمان کے لئے صرف اتنا ضروری ہے کہ وہ ترجمہ پڑھ لے اور اس کو اچھی طرح سمجھ لے.باقی جو علوم ہیں وہ تو خدا کے سکھائے آتے ہیں.ان کے متعلق اسے اپنے طور پر کوشش کرنی چاہئے اور خدا تعالیٰ سے حاصل کرنے چاہئیں میں اگر حضرت خلیفہ المسیح الاوّل کی بتائی ہوئی باتوں کو ہی لکھ رکھتا تو آج ان اعتراضوں کے جواب کہاں سے لاتا.جو اسلام پر ہو رہے ہیں.کیا انہوں نے ہمیشہ زندہ رہنا تھا ؟ نہیں.اس لئے انہوں نے وہ گر مجھے بتا دیا جو ان کے بعد میرے کام آنے والا تھا.اور اب میں وہ گر تمہیں بتاتا ہوں کہ اِهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا کے وقت اس کے مطالب مد نظر رکھنے بہت زیادہ مفید ہیں.اس طرح خدا تعالیٰ ہر ایک بات خود بتاتا اور سمجھاتا ہے.اور تمام علوم کا انکشاف کر دیتا ہے.حضرت خلیفة المسیح الاوّل کے بتائے ہوئے گر سے میں نے بہت بڑے بڑے فائدے حاصل کئے ہیں.میں اکثر دعائیں کرتا رہتا ہوں کہ مجھے اور زیادہ علوم عطا ہوں اور زیادہ انعام ملیں.اور زیادہ نعمتیں اور برکتیں حاصل ہوں.چنانچہ مجھے خدا تعالیٰ کے فضل کے ماتحت دی بھی گئیں ایک دفعہ رویا ء میں مجھے بتایا گیا.میں نے دیکھا ایک آواز سن رہا ہوں.جیسے ٹن کی آواز ہوتی ہے تانبے یا پیتل کے برتن سے جو آواز نکلتی ہے.ویسی ہی وہ آواز تھی وہ آواز ہوتے ہوتے اس قدر وسیع ہوئی کہ وسیع ہو کر ایک لمبا چوڑا میدان بن گئی.تب فرشتہ نے میرے پاس آکر کہا.کیا تم چاہتے ہو کہ تمہیں سورہ فاتحہ کا ترجمہ سکھایا جائے.میں نے کہا.ہاں.تب اس نے مجھے سکھایا.اور جب ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ پر پہنچا.تو کہنے لگا.کہ تفسیروں والے تو یہیں تک لکھتے ہیں.اور لوگ یہیں تک بیان کرتے ہیں.لیکن میں تمہیں اگلی تفسیر سکھاتا ہوں.اور مجھے اس نے اس کی تفسیر سکھائی.پھر میری آنکھ کھل گئی.میں نے یہ رویا حضرت خلیفہ المسیح الاوّل کو منائی.اور کہا.تفسیر جو فرشتہ نے سکھائی تھی.وہ بھول گئی ہے.آپ نے فرمایا.یہ آپ کو علم سکھایا گیا ہے اور
خطبات محمود ۴۹ سال 1927ء فرشتے نے جو یہ کہا تھا.تفسیروں والے اور دوسرے لوگ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ تک ہی بتاتے ہیں.اس کا یہ مفہوم تھا.کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ بندے کا کام ہے یہ تو بندے کے لئے ہے.اور وہی کرتا ہے.اس کے آگے خدا کرتا ہے.اور جو بات خدا کرتا ہے بندہ کر نہیں سکتا.غرض اب سورہ فاتحہ کو لیکر اگر میں کھڑا ہو جاؤں.کوئی مضمون ہو.مجھے ایسا نکتہ سمجھا دیا جاتا ہے جو مجھے معلوم نہیں ہوتا.حتی کہ لیکچروں کے وقت بھی ہر دفعہ مجھے وہی فرشتہ نئے نئے نکات سمجھا دیتا ہے.بندوں کے دلوں کی تو حد بندی ہے.لیکن خدا کے احسانوں کی حد بندی نہیں.وہ جتنا چاہے جب چاہے بندے پر احسان کر سکتا ہے.در اصل علوم خدا ہی کی طرف سے دیئے جاتے ہیں جو الہاما نازل ہوتے ہیں.اگر چہ استاد بھی پڑھاتے ہیں.مگر وہ خود بھی اس بات کے محتاج ہیں کہ انہیں کسی اور جگہ سے بتایا جائے.اور پھر ان کے پڑھائے ہوئے علوم ان کے برابر کب ہو سکتے ہیں.جو الہام کے ذریعہ پڑھائے جاتے ہیں.ایک استاد تھا.اس نے چند خطوط جمع کر کے طاقعے پر رکھ چھوڑے تھے اور اپنے شاگردوں کو طالعے پر پڑے ہوئے خط رٹا دیتا تھا.ایک دفعہ ایک لڑکے کے باپ کے پاس کہیں سے خط آیا.اس نے بیٹے کو پڑھنے کے واسطے دیا.بیٹے نے انہیں خطوں کا مضمون پڑھنا شروع کر دیا.جو استاد نے رٹائے ہوئے تھے باپ نے کہا کیا کر رہے ہو.بیٹے نے جواب دیا خط پڑھ رہا ہوں.باپ نے حیران ہو کر کہا اس میں تو یہ نہیں لکھا اور اسے استاد کے پاس لے آیا وہاں آکر اس نے وہ خط جو استاد نے اسے رٹایا ہوا تھا پڑھ دیا اور کہا یہی خط پڑھنا آتا ہے جو استاد جی کے طاقچہ پر ہے تو استادوں کا پڑھایا ہوا طاقعے پر رکھے ہوئے خطوں کی مانند ہوتا ہے.اصل علم خدا ہی سے انسان حاصل کرتا ہے.لیکن اس کے لئے کوشش کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ کوشش یہی ہے کہ خدا سے ہی کہے کہ مجھے علم سکھائیے.اور اس میں زیادتی کیجئے جس شخص کے کاموں کی بنیاد محض عقل و فہم پر ہوتی ہے.اسے کیا خبر کہ دشمن نے کہاں سے آتا ہے اور کیا اعتراض کرتا ہے اس لئے وہ اکثر تکلیف میں پڑتا ہے اور کئی اعتراضوں کا جواب نہیں دے سکتا.اور نہ ہی اپنی ذات کے لئے کوئی مفید بات پیدا کر سکتا ہے.لیکن جس کی بنیاد اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنعَمتَ عَلَيْهِمُ پر ہوتی ہے وہ ہر موقع پر خدا تعالیٰ سے مدد پاتا ہے.اور ان علوم کی وجہ سے جو خداتعالی کی طرف سے عطا کئے جاتے ہیں.ہر موقع پر اسے غلبہ دیا جاتا ہے.اور ایاگ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيم پر اپنی بنیاد رکھنے والے میں خدا بول رہا
خطبات محمود سال : 192ء ہوتا ہے وہ اس کی زبان ہوتا ہے.اس کا دماغ ہوتا ہے.غرض وہ ہر موقع پر اس کی مدد کرتا ہے اور جیسی ضرورت ہو ویسا ہی علم سکھا دیتا ہے ایسے انسان کی زبان اور دماغ ٹائپ کی مشین کی طرح ہوتے ہیں.جس کے اوپر خدا کا ہاتھ ہوتا ہے اور وہ ہاتھ الہام ہے کہ ٹائپ کی مشین جیسے صرف چھاپتی جاتی ہے ویسے ہی اس کے دماغ میں باتیں اتارتا جاتا ہے پس اس آیت کو مضبوطی سے پکڑ لو اور دعاؤں میں لگ جاؤ.اپنے اوقات کو خدا کے لئے خرچ کرو.اس کی رحمت حاصل کرنے کی کوشش کرو.خدا کے ساتھ تعلق پیدا کرو لیکن جو تعلق پیدا کرد وہ مضبوط پیدا کرو.اس سے مانگو کہ وہ تمہیں علم دے اور تمہاری حالت کو بہتر سے بہتر بنائے.اللہ تعالی آپ پر رحم فرمائے اور مجھے پر بھی اور ہم سب کو سچا تقومی عطا کرے تاہم اس تقویٰ کے ذریعہ لوگوں کو دین میں داخل کر سکیں خدا ہم میں اور ہمارے کاموں میں برکت دے.الفضل یکم اپریل ۱۹۲۷ء) سیرت ابن ہشام حالات اسلام سید نا عمر بن الخطاب جلد ا صفحه ۳۶۷ تا ۳۰۰ مطبوعہ مصراء - الفاتحه : الفوز الکبیر فی اصول التفسیر صفحہ ۱۸ مطبوعہ لاہور 4-91
خطبات محمود ۵۱ سال 1927ء برکات رمضان سے فائدہ اٹھائیں (فرموده ۱۱/ مارچ ۱۹۲۷ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: رمضان جو اللہ تعالیٰ کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے اور اس کی آیتوں میں سے ایک آیت.وہ پھر ہمیں اس سال میسر ہوا ہے.اور خدا کی رحمتوں اور فضلوں کے دروازے ان کے لئے جو اس کی رحمت اور اس کا فضل تلاش کرنے والے ہیں کھولے گئے ہیں.ہر ایک کے ساتھ اس کی حیثیت کے لحاظ سے معاملہ کیا جاتا ہے.یعنی ہر شخص کے ساتھ الگ الگ معاملہ کیا جاتا ہے.جیسا وہ ہوتا ہے ویسا ہی اس کے ساتھ معاملہ کیا جاتا ہے.جتنا کوئی خدا تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی رحمتوں کو تلاش کرتا ہے اتنی ہی اسے دی جاتی ہے.ہر بر تن اپنی شکل اور وسعت کے برابر ان چیزوں کو اپنے اندر بھر سکتا ہے جو اس میں بھری جاتی ہے.پس اس مہینہ سے وہی فائدہ اٹھائے گا جس نے اس کا ارادہ کیا اور جس نے خدا کے فضلوں کے پانے کی کوشش کی.اور وہ محروم کے محروم ہی رہ جائیں گے جنہوں نے غفلت کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے فضل پانے کی کوئی کوشش نہ کی اور جن کے قلوب پر غضب کی مہر لگ چکی ہے.مہینے بے شک بابرکت ہوتے ہیں.دن بے شک بابرکت ہوتے ہیں.انسان بے شک بابرکت ہوتے ہیں.خدا کے کلام بے شک بابرکت ہوتے ہیں.علوم اور معارف بے شک بابرکت ہوتے لیکن یہ برکت وہی حاصل کرتا ہے جو اپنے آپ کو اس کے پانے کے قابل بناتا ہے.دوسروں کیلئے یہ مہینے یہ دن یہ خدا کے کلام یہ علوم و معارف غضب اور لعنت کا موجب ہو جاتے ہیں.خدا کے نبی جو دنیا میں آتے ہیں وہ رحمت ہوتے ہیں.کبھی وہ صرف رحمت قوم ہوتے ہیں اور کبھی "رحمت للعالمین" ہوتے ہیں.یعنی کبھی ان کی رحمتیں محدود ہوتی ہیں اور محدود عرصہ کے
خطبات محمود ۵۲ سال 1927ء واسطے ہوتی ہیں.اور کبھی غیر محدود اور ہمیشہ کیلئے ہوتی ہیں.لیکن باوجود اس کے وہ بعض کے لئے خدا کے عذاب کی آواز ہوتے ہیں.وہ خدا تعالٰی کا ایسا حکم ہوتے ہیں جو اٹل ہوتا ہے.وہ خدا تعالیٰ کا ایسا فیصلہ ہوتے ہیں کہ جس کے خلاف اپیل نہیں ہوتی.جو اس رحمت کو قبول کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کرتے ہیں وہ اسے پاتے ہیں اور فائز ہوتے ہیں.لیکن جو اپنے آپ کو تیار نہیں کرتے اور غفلت میں پڑے رہتے ہیں وہ نقصان اٹھاتے ہیں.تکلیفوں میں پڑتے ہیں.اور خداتعالی کے غضب کے نیچے آجاتے ہیں.جہاں خدا کا نبی آئے وہاں برکتیں بھی خاص طور پر نازل ہوتی ہیں.عرب میں اگر رسول کریم تشریف لائے.تو آپ کے ساتھ برکتیں بھی آئیں.آپ رحمت للعالمین تھے آپ کے ساتھ آنے والی برکتیں بھی جہانوں کے لئے تھیں.آپ کے آنے سے وہ ملک بابرکت ہو گیا.وہ شہر بابرکت ہو گیا.وہ مکان بابرکت ہو گیا.بیت اللہ اللہ کا گھر بن گیا.مگر صرف ان کے لئے جنہوں نے اس برکت کے لینے کے واسطے اپنے آپ کو تیار کیا.اور اپنے آپ کو اس کے قابل بنایا.اس زمانہ میں قادیان میں حضرت مسیح موعود آئے.آپ نبی ہیں.برکت اور رحمت آپ کے ساتھ آئی.مگر صرف ان کے لئے جو اپنے تئیں اس کے پانے کے قابل بنائیں گے بے شک آپ کے آنے سے یہ ملک بابرکت ہو گیا.مگر صرف ان کے لئے جو اس برکت سے فائدہ اٹھانے کے واسطے اپنے آپ کو تیار کریں گے.بیشک یہ شہر با برکت ہو گیا اور خدا کی رحمت کی نزول گاہ بن گیا.مگر اس کا فائدہ انہیں کو ہے جو اپنے آپ کو اس فائدہ کے حاصل کرنے کے لئے تیار کریں گے.یہ مکان یہ بازار یہ دوسرے مقامات یہ مسجد یہ منبر اور اس کے خطیب سب بابرکت ہیں.ان میں بڑی بڑی برکتیں ہیں.ان کے ذریعہ اللہ تعالٰی کی رحمتیں حاصل ہو سکتی ہیں.مگر کن کو اور کون ہیں جو ان رحمتوں اور برکتوں کو پاسکتے ہیں.وہ وہی ہیں جو ان کیلئے اپنے آپ کو تیار کرتے ہیں.جو اپنے برتن کو ان کے بھرنے کے واسطے کھلا کرتے ہیں.لیکن جو ایسا نہیں کرتا اور غافل رہتا ہے.وہ نہ برکتیں پاتا ہے نہ رحمتیں.بلکہ دکھ اٹھاتا ہے اور عذاب محسوس کرتا ہے.غرض خصوصیت ان مقامات کی ہے.اس کا سے وہی فائدہ اٹھائے گا.جو فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا.اور جو کوشش نہیں کرے گا کوئی فائدہ اسے نہ دیا جائے گا.یہ مسجد بڑی بابرکت ہے لیکن جو تذلل نہیں کرتا خواہ اس مسجد کے ستونوں کو پکڑ کر ابد آلا باد تک بیٹھا رہے کوئی فائدہ نہیں پائے گا.قادیان کی رہائش کوئی تماشہ نہیں کہ اس کی قدر نہ کرو.اگر
خطبات محمود ۵۳ سال 1927ء برکات حاصل کرنا چاہتے ہو تو غفلتیں چھوڑ دو اور ستیاں ترک کر دو.کیونکہ جو غفلتیں نہیں چھوڑے گا اور ستیاں نہیں ترک کرے گا.وہ لکڑی اور پتھر کی طرح جہنم کا ایندھن بنایا جائے گا.پس یہاں کی رہائش کی قدر کرو.اور اس بابرکت مسجد سے فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرو.اس و کی ہر ایک چیز میں برکت ہے.منبر میں برکت ہے.چھت میں برکت ہے.ستونوں میں برکت ہے غرض اس میں برکت ہی برکت ہے.مگر اس کے لئے جو اپنے آپ کو اس کے واسطے تیار کرے.میں ان لوگوں کو جو برکات حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے اس آنے والے دن سے ہو شیار کرتا ہوں.جس دن کہ ان کو افسوس ہو گا.اور اس انجام سے خبردار کرتا ہوں.جس سے پچھتانا پڑے گا.کیونکہ اگر قلوب کی اصلاح نہ ہو گی.اگر اپنے اندر ایک پاک تبدیلی پیدا نہ کی جائے گی تو کبھی برکتیں نہیں ملیں گی.بلکہ یہی برکتیں ان کے لئے لعنتیں بن جائیں گی.پس جن لوگوں نے اس شہر کی قدر نہیں کی.اس مکان کی قدر نہیں کی.اس زمانہ کی قدر نہیں کی.خدا کے پیغام کی قدر نہیں کی.خدا کی رحمتوں کی قدر نہیں کی.ان کے مونہوں کے اقرار انہیں خدا کے غضب سے نہیں بچا سکیں گے.خدا کے غضب سے صرف دل کا خشوع بچا سکتا ہے.انکسار بچا سکتا ہے.تذلل بچا سکتا ہے.نفس کا مار ڈالنا بچا سکتا ہے.اس کیلئے کوشش کرو.اللہ تعالیٰ کے نشان تمہارے سامنے آئے اور اس قدر آئے کہ اور لوگوں کے سامنے اتنے نہیں آئے.خدا تمہارے لئے بالکل ظاہر ہو گیا.اس کا جلال تمام شوکت کے ساتھ تمہارے لئے نمایاں ہو گیا.اس کے کلام اور صفات کا ایک نشان نہیں کئی نشان صاف طور پر تمہارے سامنے آئے.پر افسوس ! کئی ہیں جن کے دلوں پر مہریں لگی ہوئی ہیں کئی ہیں کہ ان کے قلوب پر زنگ لگا ہوا ہے.انہوں نے ان سب باتوں کی قدرنہ کی پس میں انہیں ہوشیار کرتا ہوں کہ وہ الہی نشانوں کی قدر کریں اور زندگی کو غنیمت سمجھیں.غفلتوں کو چھوڑ دو اور مستیوں کو ترک کردو.اور خدا کے آگے گر جاؤ.وہ رحیم ہے بخش دے گا.اسے پکا ر و وہ پکار سنے گا.تمہاری تکالیف دور کر دے گا.تمہیں ترقی دے گا.سلسلہ اس کی طرف سے ہے.اس لئے وہ ایسے سامان کرے گا کہ ترقی حاصل ہوگی.لیکن اگر اس کے آگے نہ جھکو گے تو جو کچے دھاگے کی طرح ہوں گے تو ڑ کر پھینک دیئے جائیں گے.پس تم مضبوط دھاگے کی طرح ہو جاؤ تاٹوٹ کر الگ نہ جاپڑو.اور پیشتر اس کے کہ تم دنیا کی نظروں میں گرادیئے جاؤ اور ذلیل بنائے جاؤ.تم خدا کے تعلق کو مضبوط بنالو.تا اس کی مغفرت تمہیں اپنے اندر چھپالے اور اس کی طرف
خطبات محمود ۵۴ سال 1927ء سے پھٹکارے جانے کی بجائے اس کی رحمت کے وارث ہو جاؤ.پس اپنے زنگوں کو دھوڈالو اور عیبوں کو دور کر دو کہ تم پر وہ رحم کرے.دنیا کی ملامت کی پرواہ نہ کرو.دنیا اگر تمہیں برا کہے اور تم اچھے ہو تو تم برے نہیں ہو جاؤ گے اور دنیا اگر اچھا کے اور تم خدا کی نظر میں برے ہو تو اچھے نہیں ہو سکتے.دنیا کی نظروں میں ذلیل اور معیوب ہونا کوئی خطرناک بات نہیں.خطرناک بات یہ ہے کہ خدا کی نظروں میں تم ذلیل اور معیوب ہو جاؤ.جن کے دلوں میں خدا کی محبت ہوتی ہے.وہ خدا کی رضاء طلب کرنے والے ہوتے ہیں.اور صرف اس کی خوشنودی ان کے مد نظر ہوتی ہے.وہ دنیا کی باتوں کی پرواہ نہیں کرتے.دنیا کے طعنے ان پر اثر نہیں کرتے.وہ ان طعنوں کے درمیان خدا کی طرف بڑھتے چلے جاتے ہیں.لیکن جن کے دل خدا سے دور ہوتے ہیں.وہ طعنوں سے ڈرتے ہیں.اور دنیا کے لوگوں کی باتیں انہیں فکر مند کر دیتی ہیں.وہ لوگوں کی نظروں میں تو اچھے ہوتے ہیں.لیکن خداتعالی کی نظروں میں اچھے نہیں ہوتے ہیں.پس تم کوشش کرو کہ خدا تعالی کی نظروں میں اچھے ہو جاؤ.وہ تمہیں پسند کر لے اور اس بات کی پرواہ نہ کرو کہ دنیا کے لوگ تمہیں پسند نہیں کرتے اور اچھا نہیں کہتے کیونکہ وہ خدا کے مقابلہ میں تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکتے.کوشش کرد که خدا تعالیٰ کے نزدیک ہو جاؤ.کیونکہ بادشاہ اپنے نزدیک کے لوگوں پر زیادہ نظر ڈالتا ہے.تم اس کے حضور عزت حاصل کرو اور اسے خوش کر لو.اگر اسے خوش کر لو گے تو تمہیں کسی کی پروا نہ رہے گی.اگر اس کو چھوڑ کر تم لوگوں کو خوش کرنے کے پیچھے لگ جاؤ گے تو یاد رکھو لوگوں کا خوش کرنا کام نہیں آئے گا.تمہیں خدا کا طعن نقصان پہنچا سکتا ہے.دنیا اگر ساری مل کر بھی تم پر طعن کرے اور لعنت ڈالے تو بھی تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی.پس تم اس بات سے بچو کہ خدا کا طعن تم پر پڑے.اپنے آپ کو نفاق کی زندگی سے پاک کرو.اخلاص پیدا کرد - اگر اخلاص پیدا نہ کرو گے.اور نفاق سے اپنے آپ کو پاک نہ بناؤ گے.تو تم خدا کو نہیں پاسکتے.تزکیہ پیدا کرو.اس کی محبت اور اس کی خشیت پیدا کرد.ورنہ تم سے بدتر اور کوئی قوم نہ ہوگی کہ خدا تعالیٰ کے اس نبی کو پایا جو اس زمانے میں آیا اور پھر بھی چکنے گھڑے کی طرح رہے.کہ ادھر پانی پڑا ادھر پھسل گیا.تم چکنے گھڑے کی طرح نہ بنو.تم نے خدا تعالیٰ کے نبی کو پایا ہے.تم ہر نعمت کی قدر کرد - سستی ترک کرد و غفلت چھوڑ دو- نفاق سے اپنے آپ کو پاک کر لو.محبت اور اخلاص پیدا کرو کہ تم خدا کے پیاروں میں لکھے جاؤ.
خطبات محمود ۵۵ سال 1927ء میں دیکھتا ہوں.کہ وہ قلوب جو خدا تعالیٰ کی مہر کے نیچے ہوتے ہیں وعظ ان پر اثر نہیں کرتے.ان کے سامنے خدا کا نور چمکتا ہے.مگر ان کی آنکھیں نہیں کھلتیں خدا کی آواز ان کے کانوں میں پڑتی ہے مگر وہ بیدار نہیں ہوتے.اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے تم اپنے آپ کو بچاؤ تا تم ایسے نہ ہو جاؤ.یہ رمضان کے مبارک دن ہیں.ان میں اپنے زنگوں اور میلوں کو دھوڈالو.میں دعا کرتا ہوں کہ مردہ دلوں کو زندگی ملے.اور خدا کے مقدس کلام کو سمجھنے کی توفیق پائیں.ان میں نفاق نہ ہو اخلاص ہو.ان لوگوں سے جو یہاں آئے بعض نے عبادتیں بھی کیں.اخلاص بھی دکھایا.خدمتیں بھی کیں.مگر زنگ باقی رہ گیا.اور پورے طور پر نہ اتر سکا.خدا ان کا زنگ دور کر دے.تاوہ عضو معطل نہ ہو جائیں.گل سڑ نہ جائیں.اور اس عضو کی طرح جو سڑ گیا ہو.کاٹے جاکر الگ نہ پھینک دیئے جائیں.وہ گندے عضو کی طرح ایک کٹا ہوا حصہ نہ ہوں.اور کون ہے جو عضو کٹوا دینے سے خوش ہو ہم بھی خوش نہیں کہ کوئی ہم میں سے اس طرح کا نا جائے مگر اس کا ایک ہی طریق ہے کہ وہ اپنے آپ کو گلنے سڑنے اور معطل ہونے سے بچائے.پس میں دعا کرتا ہوں کہ خدا ان کو جن پر موت وارد ہو چکی ہے.پھر زندہ کر دے کہ وہ اس بات پر قادر ہے کہ مردہ کو زندہ کر دے.آمین.خطبہ ثانیہ میں فرمایا.میں جمعہ کی نماز کے بعد دو جنازے پڑھاؤں گا.پہلا جنازہ زوجہ مولوی ثناء اللہ صاحب نظامی سکرٹری جماعت اکھنور جموں کا ہے.وہاں تھوڑے احمدی تھے جو ان کا جنازہ پڑھ سکے دوسرا جنازہ میاں رحیم بخش صاحب کو عہ جموں کی بیوی کا ہے جو اپنے شہر میں فوت ہو گئی ہیں وہاں بھی احمدی نہیں تھے.ان کا جنازہ نہیں پڑھا گیا یہ دو جنازے آج جمعہ کی نماز کے بعد پڑھاؤں گا.(الفضل ۲۵ مارچ ۱۹۲۷ء)
خطبات محمود ۵۶ سال 1927ء قرب الہی حاصل کریں فرموده ۱۸ مارچ ۱۹۲۷ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : رمضان کے مہینے میں مسلمان جو زائد عبادتیں کرتے ہیں.ان کی غرض و غایت کیا ہوتی ہے.وہ کیوں اس مہینے میں زیادہ عبادت کرتے ہیں؟ یہ سوال ہے جو ہر سمجھدار اور عقل مند کے دل میں اٹھتا ہے.آخر ایک انسان جسے اللہ تعالیٰ نے صحت دی.طاقت دی ہے.ہضم کرنے والا معدہ دیا ہے.بھوک پیدا کی ہے.یکدم اسے کیا ہو جاتا ہے کہ وہ کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے.اور اپنی دوسری حاجتوں کو ترک کر کے ایک لمبے عرصہ تک اپنے نفس پر اس قسم کا جبر کرتا ہے جس کا وہ پہلے عادی نہیں ہو تا.اگر عقل مند وہ ہوتا ہے جس کی چھوٹی سے چھوٹی حرکت اور چھوٹے سے چھوٹا عمل بغیر حکمت کے نہ ہو اور ہر بات کرنے سے پہلے سوچتا ہے کہ میں کیوں اسے کرنے لگا ہوں اور اس کے کیا فوائد ہیں.اگر وہ قدم اٹھاتا ہے تو پہلے سوچتا ہے ہمیں کیوں قدم اٹھانے لگا ہوں.اگر وہ ہاتھ اٹھاتا ہے تو سوچ لیتا ہے.ہاتھ اٹھانے کی کیا غرض و غایت ہے.تو ضروری ہے کہ جو روزہ رکھے وہ بھی اس کی غرض و غایت سے واقف ہو.اگر واقف نہیں تو پھر یہ اس کی بچپن کی سی بات ہو گی.بے شک وہ بڑا تو ہو گیا.مگر کام بچوں کے سے ہی کرتا ہے.جس طرح بچے بغیر سوچے سمجھے اور بغیر حکمت جانے کام کرتے ہیں.اسی طرح سے وہ کرتا ہے.رمضان میں دس سے چودہ گھنٹے تک بلکہ ہمارے ملک میں بارہ سے سولہ گھنٹہ تک انسان بھوکا رہتا ہے.نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے.لیکن یہ نہیں جانتا کہ میں کیوں بھوکا پیاسا رہتا ہوں.تو اس کی بھی وہی حالت ہے.جو ان بچوں کی ہوتی ہے جو بڑوں کو دیکھ کر اصرار کرتے ہیں ہم بھی روزہ رکھیں گے وہ یہ نہیں جانتے کہ روزہ کے فائدے کیا ہیں.وہ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ اس کی حکمت
+1927 خطبات محمود ۵۷ کیا ہے.لیکن چونکہ یہ ایک ایسا پر اثر نظارہ اور پرکیف بات ہوتی ہے.کہ دوسروں کے قلوب بھی متاثر ہو جاتے ہیں.اس لئے بچے بھی اصرار کرنے لگ جاتے ہیں.کہ ہم بھی روزہ رکھیں گے.اور وہ بچے جو ایک منٹ کھانا دیر سے پہنچنے پر زمین آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں جو کھانا بر تانے میں اگر لحظہ بھر دیر ہو جائے تو ناک میں دم کر دیتے ہیں.وہ اجازت مانگتے ہیں کہ ہم بھی بارہ سے سولہ گھنٹہ تک کا فاقہ کرنا چاہتے ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ضرور روزہ کے اندر کوئی ایسی کشش ہے جس کی وجہ سے بچے بھی بھوکا رہنا چاہتے ہیں.اور وہ بھی اپنے آپ کو ان تکالیف میں ڈالنا پسند کرتے ہیں جن میں وہ اپنے بڑوں کو دیکھتے ہیں.پھر کیا ہمارے روزے انہی بچوں کی طرح ہوتے ہیں.جو صرف یہ جانتے ہیں کہ چونکہ ماں باپ روزہ رکھتے ہیں.اس لئے ہم بھی رکھتے ہیں.اس سے زیادہ نہ ان کو کچھ معلوم ہوتا ہے.اور نہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں.کیا ہمارا بھی یہی حال ہے کہ ہم اپنے ماں باپ کو جس لائن پر چلتا دیکھ چکے اس پر چل رہے ہیں.اور اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتے.اگر اتنی سی بات ہے تو یقیناً ہمارے روزے بچوں کے روزوں کی طرح ہی ہیں اور اس سے زیادہ نہیں.نہ بچے سوچتے ہیں کہ روزوں کی حکمت کیا ہے نہ ہم.نہ وہ ان کے فوائد معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں نہ ہم وہ ماں باپ کو روزہ رکھتے دیکھتے ہیں اور چاہتے ہیں خود بھی رکھیں.اسی طرح ہم نے بھی ماں باپ کو روزہ رکھتے دیکھا اور روزہ رکھنا شروع کر دیا.پس ہماری عمر خواہ کتنی ہی ہو.ہم اب بھی بچے ہی ہیں.کیونکہ ہم جو کام کرتے ہیں.اسکے متعلق نہیں جانتے کہ کیوں کرتے ہیں.ایک ساٹھ سال کا بڑھا باوجود ضعف اور کمزوری کے اور باوجود مخفی بیماریوں میں مبتلا ہونے کے روزہ رکھتا ہے اگر وہ روزے کی حکمت سے واقف نہیں.تو وہ بوڑھا ہو کر بھی عقل مند کہلانے کا مستحق نہیں.اس کا یہ فعل بچوں کا ساہی ہے.اس کی عمر اس کی ڈاڑھی کی سفیدی اور اس کا زیادہ عرصہ دنیا میں گزارنا اس میں اور بچے میں کوئی فرق نہیں پیدا کرے گا.وہ آج بھی باوجود اتنی عمر کے بچہ ہی ہے.کیونکہ وہ بچوں کی طرح ہی بھوکا رہتا ہے.دہ بڑھا جو روزے تو رکھتا ہے لیکن ان کی حکمت نہیں جانتا نہ جانے کی کوشش کرتا ہے عقل ند کہلانے کا مستحق نہیں.وہ ایک نادان بچہ کی طرح ہے.بلکہ میرے نزدیک بچہ سے بھی زیادہ نادان ہے کیونکہ بچے کی خواہش کی بنیاد ظاہری دلکشی پر تو ہوتی ہے.وہ دوسروں کو بھوکا رہتا دیکھتا ہے.اس میں وہ ایک دلکشی پاتا ہے جو لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا.اور عمل سے اس کا مزہ اٹھانا چاہتا ہے لیکن بڑھا عادت کے طور پر ایسا کرتا ہے.اس نے اپنے آباؤ اجداد کو ایسا کرتے دیکھا.اس مند
سال 1927ء خطبات محمود ۵۸ لئے خود کرنے لگ گیا.اس کے ماں باپ گزر گئے.لیکن جو بات ان کو کرتے دیکھی تھی وہ بدستور کر رہا ہے.کیونکہ اس کی اسے عادت ہو گئی ہے.اور اس کی کوئی دلکشی یا کوئی فوائد اس کے علم میں نہیں.مگر عقلمند وہ ہوتا ہے جو ہر کام کرنے نے پہلے سوچ لے کہ اس کی حکمت کیا ہے.میں اسے کیوں کرنے لگا ہوں.اس کے کرنے میں کیا خاندہ اور نہ کرنے میں کیا نقصان ہے.پھر وہ اتنے بڑے کام کو تو کرتا ہے کہ پورا مہینہ فاقہ کشی کرتا ہے.لیکن سوچتا نہیں کہ کیوں کرتا ہے تو کیا وہ عظمند کہلا سکتا ہے ؟ یقینا اسے کوئی عقل مند نہیں کہے گا کہ سارا دن تو بھوکا رہتا ہے.پیاسا رہتا ہے.خواہشات کو دبائے رکھتا ہے.لیکن اس کی حکمت سے واقف نہیں.اور نہ کوشش کرتا ہے کہ واقف ہو.قرآن کریم میں روزہ رکھنے کی یہ حکمت بتائی گئی ہے کہ روزہ رکھنے والا خدا کے قریب ہو جاتا ہے.میں تم میں سے ہر ایک سے سوال کرتا ہوں.کیا سچ سچ آج کل تم خدا کے قریب ہو گئے ہو اور خدا تمہارے قریب آگیا ہے.کیا تمہاری پہلی اور آج کل کی دعاؤں میں کوئی فرق ہے.کیا تمہاری پہلی اور آج کل کی حالتوں میں کوئی فرق ہے.کیا تمہاری پہلی اور آج کل کی عبادتوں میں کوئی فرق ہے.کیا تمہارے پہلے اور آج کل کے عرفان میں کوئی فرق ہے.کیا تمہارے پہلے اور آج کل کے علم میں کوئی فرق ہے.کیا تمہاری پہلی اور آجکل کی معرفت میں کوئی فرق ہے.اگر نہیں.تو بتاؤ روزے نے تمہیں کیا نفع دیا ؟ اگر یہ سچ ہے کہ روزہ قرب الہی کا ذریعہ ہے.اگر یہ سچ ہے کہ روزہ سے خدا تعالیٰ قریب ہو جاتا ہے.تو بتاؤ تم کو کونسا قرب الہی حاصل ہوا کس قدر خدا تمہارے قریب ہوا.جو قرب تم کو حاصل ہوا اس کی علامتیں دکھاؤ اور اس کی نشانیاں ظاہر کرو.اگر اب بھی دل اسی طرح زنگوں کے نیچے دبے ہوئے ہیں.جس طرح پہلے تھے.اگر قلب میں اب بھی رہی ہیجان ہے.جو خدا سے دور لے جا رہا ہے.اگر عبادات میں کوئی لذت و سرور نہیں ملتا.اگر دعاؤں میں قبولیت کا اثر پیدا نہیں.اگر اللہ تعالیٰ کی محبت کا ہاتھ بالکل اسی طرح جس طرح ماں کا ہاتھ بچے کی طرف بڑھتا ہے تمہاری طرف نہیں بڑھایا جاتا.تو سوچو اور بتاؤ کہ روزہ نے تمہیں کیا نفع دیا اور بتاؤ جو چیز آج فائدہ نہیں دیتی وہ قیامت کو کیا فائدہ دے گی.جو شے استعمال کے وقت کوئی فائدہ نہیں دیتی وہ سینکڑوں سال کے بعد کیا فائدہ دے سکتی ہے.تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ بعض چیزیں چونکہ دیر کے بعد نفع دیا کرتی ہیں.روزہ بھی دیر کے بعد نفع دیگا.دیر کا بھی مناسب مفہوم ہو ا کرتا ہے اور روزہ وہ چیز نہیں جو دیر کے بعد نفع دے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے جس وقت میرے بندے روزہ
خطبات محمود ۵۹ سال 1927ء رکھتے ہیں تو میں کہتا ہوں ان قریب ہے میرے بندے میں قریب آگیا ہوں.میں تمہارے پاس آگیا ہوں.پس اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ کوئی ایسی چیز ہو سکتی ہے.جس کا فائدہ اس دنیا میں نہیں قیامت کو ملے گا.تو بھی روزہ ان عبادتوں میں نہیں جن کا نفع دیر کے بعد ملتا ہے.روزہ کا نفع عاجل اور آجل طریق پر مانا چاہئے.اگر یہ نہیں تو یقینا تمہیں ایک انچ کا ہزارواں لا کھواں حصہ بھی خدا کے قرب کا حاصل نہیں ہوا.میں دیکھتا ہوں تم میں سے بہت ہیں جن کے خیالات دوسری باتوں کی طرف لگے ہوئے ہیں.جن کے ارادے دوسرے کاموں کی طرف منتقل ہیں.جن کی طاقتیں دوسرے امور میں مصروف ہیں.اور وہ اس طرف سے غافل ہیں.جس طرف انہیں ہوشیار ہو کر متوجہ ہونا چاہئے.اور جس غرض کے لئے خدا تعالیٰ نے انہیں کھڑا کیا.ان کا وقت بعض عادی امور کے لئے خرچ ہوتا ہے.ان کی توجہ کھانے پینے کی طرف متوجہ ہوتی ہے.ان کا خیال سکتے کاموں کی طرف لگا ہوا ہے.بکواسوں اور ادھر ادھر کی بیہودہ باتوں میں وقت گنواتے ہیں.اور نہیں وقت صرف کرتے نہیں مال و دولت خرچ کرتے، نہیں توجہ کرتے ، نہیں کوشش کرتے تو خدا کا علم حاصل کرنے کے لئے نہیں کرتے.اس کی معرفت اور اس کا عرفان حاصل کرنے کے لئے نہیں کرتے.جبکہ ان کا قدم دوسری طرف اٹھ رہا ہے.جبکہ ان میں تذلل اور انکسار ہی نہیں پیدا ہو تا تو اس صورت میں نفع کیا مل سکتا ہے اور فائدہ کیا حاصل ہو سکتا ہے.کیا وہ جو غیر کی طرف جا رہا ہے یار کی طرف جانے والا کہلا سکتا ہے.آگ میں کودنے والے کو پانی کی ٹھنڈک کس طرح محسوس ہو سکتی ہے.تاریکی میں رہنے والا نور کالطف نہیں اٹھا سکتا.یہ جو زہر تمہیں چڑھا ہوا ہے اتر نہیں سکتا جب تک تم اس تریاق کا گلاس منہ سے نہ لگاؤ گے جو خدا نے تمہارے لئے تجویز کیا ہے.جب تک تم اس تریاق کے گھونٹ نہ پیئو تمہاری عبادتیں کوئی فائدہ نہ دیں گی.نمازیں پڑھتے رہو اور مدتوں پڑھتے رہو.روزے رکھتے چلے جاؤ اور سالہا سال تک رکھتے چلے جاؤ.حج کرو اور کئی سال کرتے رہو.جب تک اس تریاق کا گلاس منہ سے نہ لگاؤ گے.نہ نماز نفع دے گی نہ روزہ فائدہ دے گانہ حج سے کچھ حاصل ہو گا نہ دوسری عبادتوں سے کچھ ملے گا.کیا یہ صحیح نہیں کہ لاکھوں کروڑوں مسلمان کہلانے والے نماز چھوڑ بیٹھے ہیں کیونکہ وہ کہتے ہیں یہ صرف ایک مشق ہے اور ایک کھیل ہے جو ہر روز یونہی کھیلا جاتا ہے.اور جس کا کوئی فائدہ نہیں.وہ کہتے ہیں جو فعل خدا کے قریب نہ کرے.اس کے کرنے کا کیا فائدہ؟ نماز کے متعلق کہا جاتا
خطبات محمود سال 1927ء ہے.خدا کے قریب کرتی ہے.مگر اس نے ہمیں قریب نہیں کیا.اس لئے یہ اس سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی.کہ چند مقررہ وقتوں پر چند حرکات کر دی جاتی ہیں.اس لئے ہم ان بے فائدہ حرکات کو چھوڑتے ہیں.یہ کیوں ہوا.دلوں کو ٹولو.کیا یہ اس لئے نہیں ہوا کہ نماز کو نماز سمجھ کر ادا نہیں کیا جاتا.کیا اس لئے نہیں ہوا کہ خیالات اور ارادے اور طرف ہیں.کیا یہ اس لئے نہیں ہوا کہ اس سے نفع حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی.اسی طرح روزہ کا حال ہے بہتوں نے روزہ بھی چھوڑ دیا کہ وہ بھی خدا کے قریب نہیں کرتا.اور اس کا کوئی فائدہ نہیں.حالانکہ خود انہوں نے اس سے فائدہ اور نفع حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی.انہوں نے سمجھا ہی نہیں کہ اس کے کیا فائدے ہیں.نماز اور روزہ اور دوسری عبادتوں میں تو کوئی نقص نہیں.وہ واقعی خدا کے قریب کرنے والی ہیں نقص اگر ہے تو انسان کا ہے.جو صحیح طریق استعمال نہیں کرتا.نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان پر یقین نہیں رہتا.اور جب یقین نہ رہے تو عمل کیسے رہ سکتا ہے.اس طرح لوگ نماز روزہ کو چھوڑ بیٹھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے.کیمیا گر جب ناکام رہتا ہے تو کہتا ہے کہ ایک آنچ کی کسر رہ گئی ہے.گویا وہ کیمیا بننے سے نا امید نہیں ہوتا.بلکہ اپنی کوشش کا نقص قرار دیتا ہے.حالانکہ کیمیا گری میں امید کی گنجائش ہی نہیں.اور خدا کے ساتھ تعلق بڑھنے اور اس کے قریب ہونے کی تو پوری امید ہے.مگر کیمیا گر جس کی ساری عمر ہی ایک آنچ کی کسر میں گزر جاتی ہے.وہ تو باوجود ہر دفعہ کی ناکامی کے ناامید نہیں ہو تا.لیکن وہ شخص جو خدا تعالیٰ کے قریب ہونا چاہیے کامیاب نہیں ہو تا تو اپنے طریق عمل کا نقص قرار نہیں دیتا.بلکہ خدا تعالیٰ سے ناامید ہو کر فورا نا امید ہو جاتا ہے اور اپنی تمام کوششیں چھوڑ بیٹھتا ہے.پس کیمیاگر تو غلطی کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے اور سونا بننے کے خیال کو یقینی سمجھتا ہے.لیکن خدا کو پانے کی کوشش کرنے والا اپنی غلطی کو خدا کی طرف منسوب کرتا ہے اور اسے چھوڑ دیتا ہے.ایسے لوگ عبادتیں ہی غلط طریق سے کرتے ہیں.اور پھر کہتے ہیں خدا نہیں ملتا.اگر وہ غلطی اپنی طرف منسوب کرتے.اس کی اصلاح کی کوشش کرتے تو ضرور کامیاب ہو جاتے.لیکن وہ ایسا کرتے ہی نہیں.کیا یہ ممکن ہے کہ ایک شخص سیدھے راستہ پر بھی چلے اور منزل مقصود بھی نہ پائے.دیکھو ایک شخص یہاں سے بٹالہ کے لئے روانہ ہو.مگر گھنٹوں پر گھنٹے.دنوں پر دن.ہفتوں پر ہفتے مہینوں پر مہینے سالوں پر سال گزرتے جائیں اور وہ بٹالہ نہ پہنچے تو کیا وہ سمجھ لے گا کہ صحیح راستہ پر چل رہا ہے.دنوں ہفتوں اور مہینوں اور سالوں کا گزرنا تو بڑی بات ہے.جو شخص تین چار گھنٹے تک چلتا ر ہے اور
+1927 41 خطبات محمود اسے بٹالہ نظر نہ آئے.وہ سمجھ لے گا کہ میں کسی غلط راستہ پر پڑ گیا ہوں.ورنہ ضرور تھا.کہ اس وقت تک میں بٹالہ پہنچ گیا ہو تا.اسی طرح جو شخص عبادتیں کرنے کے باوجود قرب الہی نہیں پاتا.اسے بھی سمجھنا چاہئے کہ اس کے عبادت کرنے میں نقص ہے اور اسے یہ حق حاصل نہیں کہ غلط طریق پر عبادتیں کرتا رہے اور پھر یہ شکایت کرے کہ خدا کیوں نہیں ملتا.جس طرح بغیر سید ھے راستہ پر چلنے کے منزل مقصود نہیں آتی.اسی طرح بغیر درست عبادتیں کرنے کے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں ہو سکتا.پس وہ خدا جو کہتا ہے.اِنّى قَریب وہ ضرور انسان کے قریب ہوتا ہے بشر طیکہ درست طریق سے عبادتیں کی جائیں جو شخص اس بات کو نہیں سمجھتا.اس کے متعلق سمجھ لو کہ اس کی فطرت مرگئی ہے اور اس کی اصلاح کی طرف توجہ کرنی چاہئے.وہ اندھا ہے کہ چلتا ہے لیکن راستہ اسے نظر نہیں آتا.وہ کولہو کے بیل کی طرح چلا جا رہا ہے.مگر کسی جگہ پہنچ نہیں سکتا.اسے چاہئے اپنی اصلاح کرے.پس اپنے باطن کو خود مولو.اپنے نفسوں کو دیکھو.اور خود اندازہ لگاؤ کہ تمہاری عبادتیں کس قسم کی ہیں.اعمال کی درستی کرو.عقل و حواس کی درستی کرو.کیونکہ جو کہتا ہے میں قریب ہوں اور قریب ہو جاتا ہے.پھر وہ تمہارے قریب نہیں ہو تا تو تمہارے اندر نقص ہے.اسے دور کرو.پھر دیکھو وہ اپنے وعدہ کے مطابق قریب ہوتا ہے یا نہیں.اگر ایک شخص کو بخار چڑھا ہو.سخت سردی لگ رہی ہو.اس کے پاس آگ رکھی ہو.مگر وہ کہے اور آگ لاؤ تا میری سردی کم ہو.تو ایسے وقت تم کیا کرو گے طبیب کو بلاؤ گے یا آگ پر آگ اس کے آگے رکھتے چلے جاؤ گے ؟ اس وقت تم طبیب کو تلاش کرو گے ،اگر می محسوس کرنے والی جو حس اس کے اندر سے مرگئی ہے.اسے پھر زندہ کرے.ملیریا بخار اور بعض دوسرے بخاروں میں عام طور پر سردی محسوس ہوتی ہے.اور بیمار کہتا ہے اور لحاف ڈالو.اگر اس کے کہنے کے مطابق سینکڑوں کو لحاف اس پر ڈال دیں تو بھی اس کی سردی کم نہ ہوگی.کیونکہ اس کے اندر سے گرمی محسوس کرنے کی طاقت مفقود ہو گئی ہے.اسی طرح وہ ہستی جو کہتی ہے میں قریب ہوں.مگر وہ قریب نہ ہو تو اس کے یہی معنے ہیں کہ تم میں وہ طاقت ہی نہیں رہی جس سے تم اسے اپنے قریب محسوس کر سکو.اگر واقعہ میں اس کی حس نہیں رہی.تو اس کا یہ مطلب ہے کہ تمہارے اخلاق بیمار ہیں.تمہارا افکار بیمار ہے تمہارے اعمال بیمار ہیں.تمہارا علم بیمار ہے.تمہارا عرفان بیمار ہے اور تمہیں روحانی طبیب کی ضرورت ہے.پس تم اپنے نفسوں کو ٹولو- باطن میں غور کرو.اور پیشتر اس کے کہ وہ دن آجائے.جس دن اور
خطبات محمود سال 1927ء کوئی موقع نفس کی درستی کا جہنم کی آگ سے گزرنے کے سوا نہ رہے.تم اپنی اصلاح کر لو.تم اپنے آپ کو اس قابل بنا لو کہ تم خدا کے قریب ہو جاؤ.پس اس دن سے پہلے پہلے علاج کر لو اور اپنے نقصوں کو دور کر دورنہ پچھتانا پڑے گا.خدا تعالیٰ سب کو اس بات کی توفیق دے.آمین خطبہ ثانیہ میں فرمایا.اس جمعہ کی نماز کے بعد ایک احمد فی عورت کا جنازہ پڑھا جائے گا.جو محمد حسین صاحب چک نمبر ۸۶ سرگودھا کی بیوی تھیں اور فوت ہو گئی ہیں.ان کا جنازہ پڑھنے والے الفضل ۲۹ / مارچ ۱۹۲۷ء) بہت کم لوگ تھے.البقرة : ۱۸۷
خطبات محمود سال 1927ء جرات اور بچی بہادری دکھائیں (فرموده ۱۵/ اپریل ۱۹۲۷ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: دنیا میں مختلف رنگوں کے انسان ہوتے ہیں اور مختلف صفات کے انسان ہوتے ہیں.کبھی تو ایک انسان ترقی کرتے کرتے اس درجہ پر پہنچ جاتا ہے جس درجہ کو محمدی درجہ کہتے ہیں.اور کبھی تنزل کرتے کرتے اس درجہ پر پہنچ جاتا ہے جس کو ابلیس اور ابو جہل کا درجہ کہتے ہیں.مختلف صفات انسان کے اندر ہوتی ہیں جن کے برے یا اچھے استعمال کے ساتھ اور جن کو احتیاط یا بے احتیاطی کے ساتھ کام میں لانے کے نتیجے میں وہ اچھا یا برا بن جاتا ہے.ایک ہی قسم کی قوتیں لیکر انسان دنیا میں آتا ہے.لیکن آگے ان کے نتیجے مختلف نکلتے ہیں.ایک انسان تو ایسا ہوتا ہے جو اپنی عقل استعمال کر کے دنیا کی آسائش حاصل کرتا اور آرام کے سامان بہم پہنچا لیتا ہے اور بسا اوقات ایسا انسان نہ صرف خدا کی رضا حاصل کرتا ہے بلکہ بندوں پر بھی غیر فانی اثر چھوڑ جاتا ہے.اور ہمیشہ کے لئے اس کا نشان قائم کر دیا جاتا ہے جسے کوئی مٹا نہیں سکتا.لیکن ایک شخص اسی عقل کو لیکر چوری کے طریقے نکالتا ہے.اس عقل سے فتنہ و فساد اور جھگڑا پیدا کرتا ہے.اور بسا اوقات وہ صرف یہی نہیں کرتا کہ خدا کی ناراضگی حاصل کر لیتا ہے بلکہ بندوں میں بھی رسوا ہوتا ہے.اور اپنے لئے ہمیشہ کی ذلت اور بد نامی پیدا کرلیتا ہے.مثلاً فرعون ہے ہزاروں سال فرعون پر گذر گئے.لیکن باوجود اس کے کہ یہ اسم علم نہیں یہ ذاتی نام نہیں.بلکہ مصر کے بادشاہوں کا لقب تھا.لیکن حضرت موسیٰ کے دشمن ایک فرعون کی وجہ سے یہ نام ہی گالی بن گیا.حالانکہ کوئی تعجب نہیں کہ ان بادشاہوں میں سے جو فرعون کہلاتے تھے نیک اور متقی بھی ہوں.بلکہ قرین قیاس یہی ہے کہ سینکڑوں سال جن کو حکومت دی گئی.وہ حضرت موسیٰ کے فرعون جیسے نہیں تھے خدا ایسوں
خطبات محمود سال 1927ء کو اتنا عرصہ حکومت نہیں دیا کرتا.اور ایسے لوگوں کو دیر تک بر سر حکومت نہیں رہنے دیتا.ان فرعونوں کے نیک نام تاریخوں میں محفوظ ہیں.لیکن ان کے رتبہ کی بلندی اور ان کے نیک نام کی بڑائی اس شان کی نہ تھی جو حضرت موسیٰ کے فرعون کی بدی کو مٹادیتی.اس لئے حضرت موسیٰ کے ایک فرعون کی بدی اور قوتوں کے بد استعمال سے وہ برا ہو گیا.اور نہ صرف خود برا ہو گیا بلکہ یہ نام ہی جو کہ پشتہا پشت سے ان لوگوں کی عزت کا معیار سمجھا جاتا تھا گالی بن گیا.یہ کتنی بڑی برائی ہے کہ ایک شخص کے اپنی قوتوں کو بے احتیاطی سے استعمال کرنے کے سبب ایک عزت کا نام گالی ہو جائے.حضرت موسیٰ سے مقابلہ کرنے والے فرعون کا اصل نام منفتاح کہا جاتا ہے.منفتاح کی برائی کتنی بڑی تھی.کہ اس سے وہ فرعون کا لفظ جو اس سے پہلے فرعونوں کے لئے عزت کا نشان تھا.اس کی بدی سے گالی بن گیا.برائی تو تھی منفتاح کی.لیکن اس ایک کی برائی سے فرعون کا لفظ ہی برا ہو گیا.اور جب ہم کہتے ہیں فرعون برا تھا.تو ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ منفتاح برا تھا.اور منفتاح کی برائی کے اظہار کیلئے ہمیں فرعون کا لفظ بولنا پڑتا ہے لیکن باوجود اس کے اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ یہ برائی ہمیشہ کے لئے اس نام کے ساتھ لگ گئی اور فرعون لفظ ہی گالی بن گیا.اس کے بالمقابل ایک وہ شخص ہے جو اپنی عقل اور قوت کو صحیح طریق پر استعمال کرتا ہے.ایسا شخص ترقی کرتا ہوا اس درجہ پر پہنچ جاتا ہے کہ وہ پچھلے لوگوں کے لئے یاد گار بن جائے.اور وہ جس قوم کی طرف منسوب ہو وہ معزز سمجھی جائے.جس نسل کی طرف منسوب ہو وہ معزز ہو جائے.جس عالم کی طرف منسوب ہو وہ معزز ہو جائے جیسے آنحضرت ا کہ آپ جس قوم کی طرف منسوب ہوئے وہ قوم معزز ہو گئی.جس نسل کی طرف منسوب ہوئے وہ نسل معزز ہو گئی.جس عالم کی طرف منسوب ہوئے وہ عالم معزز ہو گیا.آدم کی پیدائش کے وقت جب فرشتوں نے اعتراض کیا کہ یہ پیدا ہو کر برے کام کرے گا تو خدا تعالیٰ نے فرمایا تم کو کیا معلوم ہے کہ اس کی نسل سے کیسے کیسے اچھے انسان پیدا ہوں گے.کون سے اچھے آدمی پیدا ہونے تھے.وہ وہی تھے جنہوں نے محمد نی رنگ پایا.فرشتوں نے انسانوں کی برائیاں پیش کیں.لیکن اللہ تعالیٰ نے ڈانٹ کر کہا انسانوں میں چور اور بد بھی ہونگے.لیکن باوجود اس کے پھر بھی وہ اعلیٰ ہیں کیونکہ محمد ہے ان میں سے پیدا ہونے والے ہیں تو اس انسان کا عالم آپ کے ذریعہ معزز ہو گیا.غرض اللہ تعالیٰ نے آنحضرت اللہ کے نقش قدم پر چلنے والوں کو پیش کیا کہ وہ لوگ بھی تو ان میں پیدا ہونگے.جو محمدی درجہ پائیں گے پس خداداد طاقتوں کو جب
40 سال 1927ء انسان نیک طور پر استعمال کرتا ہے تو معزز ہو جاتا ہے.اور اگر وہ بد طور پر استعمال کرتا ہے تو ذلیل ہو ر جاتا ہے.میرے نزدیک طاقت اور قوت کا درست اور بر محل استعمال اور جرات و بہادری بھی نہایت عمدہ صفت ہے.وہ جرات اور بہادری جسے سچائی کا یقین رکھتے ہوئے ظاہر کیا جائے وہ قابل تعریف ہوتی ہے.میں دوسروں کی نسبت تو نہیں کہہ سکتا.مگر اپنی فطرت کے مطالعہ سے کہتا ہوں کہ مجھے تو ایک دشمن کی بہادری بھی پسندیدہ نظر آتی ہے.کوئی میری جان کا بھی دشمن ہو.وہ اگر کوئی کام بہادری سے کرتا ہے تو میری فطرت اسے بھی پسند کرتی ہے.لیکن بزدلی کبھی دنیا میں پسند نہیں کی جاتی نہ نیکوں میں نہ بدوں میں.یہاں تک کہ ایک بزدل چور بھی چوروں میں برا سمجھا جاتا ہے.ایک شخص نے ابھی چند دن ہوئے ایک قتل کیا.ایک نیپالی لڑکی کو ایک دولت مند ہندو نے خرید لیا.اور بغیر نکاح کے اپنے گھر میں رکھا.ایک شخص نے جو ڈاکٹری کا طالب علم تھا اس شخص کو مار دیا.اور خود پولیس میں جاکر اقبال جرم کر لیا.اس نے کہا چونکہ ہندو ہماری قوم کی لڑکیوں کو اس طرح قبضہ میں لے کر ان کی عصمت بگاڑتے ہیں.جو ہماری قوم پر بد نما دھبہ ہے اس لئے میری غیرت نے گوارا نہ کیا کہ میں اسے برداشت کروں اور میں نے اسے مار دیا.مقدمہ شروع ہوا.اور جج نے پھانسی نہیں دی بلکہ آٹھ سال قید کی سزا دی ہے لیکن اس پر بھی ملک میں شور پڑا ہوا ہے کہ اسے چھوڑ دینا چاہئے.اس نے اچھا کام کیا ہے.مگر یہ بات غلط ہے.کیونکہ کسی مجرم کو خود سزا دینا بالکل غلط طریق ہے اگر یہ طریق جاری ہو جائے تو تمدن اور تہذیب ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے.لیکن باوجود اس بات کے اس کے فعل کو کچی بہادری کہا جاتا ہے.کیونکہ اس نے اپنی قوم کی عزت کی خاطر یہ کام کیا.گو غلط طریق سے کیا.کیا ہندو اور کیا مسلمان حتی کہ انگریزوں کی ایک سوسائٹی نے بھی اس کی رہائی کی درخواست کی ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ دلیرانہ فعل تھا جو اس نے کیا.اور اس دلیری سے اس کام کی برائی چھپ گئی.بچپن میں ایک طالب علم ہم کو ڈاکوؤں کے قصے سنایا کرتے تھے اور ان قصوں کو سناتے ہوئے وہ ایسے مزے لیا کرتے تھے.جیسے کسی نبی کا قصہ سنا رہے ہیں.اس وقت سندر سنگھ اور جبرو کے واقعات مشہور تھے جو بڑی تعریف کے ساتھ سناتے.سندر سنگھ اور جبرو کی کیوں تعریف ہوتی تھی.حالا نکہ وہ ڈاکو تھے اور ڈاکے مارتے تھے جو برا کام ہے.مگر اس برے کام کی بھی لوگ تعریف کرتے تھے.اس کی صرف یہی وجہ تھی کہ وہ دلیری سے ڈاکے مارتے تھے.بے شک ڈاکہ زنی برا کام ہے.
خطبات محمود سال 1927ء مگر چونکہ وہ دلیری سے اس برے کام کو کرتے تھے.اس لئے ان کا یہ برا نعل بھی خوبصورت ہو جاتا تھا.جب ایک برا کام بھی بہادری اور جرات کے سبب خوبصورت بن جاتا ہے.تو جو کام خدا کے لئے بہادری سے کیا جائے گا.وہ کیوں خوبصورت نہ ہو گا.وہ افعال جن کو فطرت حقارت سے دیکھتی ہے.اگر وہ بھی بہادری جرات اور دلیری کے ساتھ کئے جائیں.تو بعض لوگوں کو خوشنما نظر آنے لگتے ہیں پھر اگر خدا تعالیٰ کے لئے کوئی شخص ایسا کرتا ہے.اور اچھے کاموں کے لئے بہادری دکھاتا ہے.تو وہ کیوں دنیا میں خوبصورت نظر نہ آئے گا.اس کے لئے کسی فکر اور سوچ اور کسی قوت واہمہ سے کام لینے کی ضرورت نہیں.کیونکہ ایسے لوگ ہمیشہ عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں.دور کے ایک زمانہ کی بابت قرآن کریم فرماتا ہے.دو بھائی تھے.ایک نے ایک کو مارنا چاہا.اس لئے کہ اس کی قربانی قبول ہوئی.اور دوسرے کی نہ ہوئی.جس نے مارنا چاہا اس نے بہادری سے کام نہ لیا.کیونکہ اس نے اس لئے مارنا چاہا کہ اس کی قربانی قبول نہیں ہوئی.لیکن دوسرے نے جس کی قربانی قبول ہو گئی تھی.بہادری سے کام لیا.وہ بہادری نہیں جو لوگ وقتی طور پر دکھاتے ہیں.وہ بہادری بھی نہیں جو کتے اور سور کی طرح بعض انسان دکھاتے ہیں.بلکہ وہ بہادری جو بچے بہادروں کی ہوتی ہے.وہ اس سے ظاہر ہوئی.وہ اپنے دوسرے بھائی کو جو اسے قتل کرنا چاہتا.کہتا ہے.تم بے شک مجھے مارد - تم نے اپنا خیال اور اپنی منشاء مجھ پر ظاہر کر دی ہے مگر باوجود اس علم کے میں یہ نہیں کرونگا.کہ تم کو مار دوں.دنیا میں یہ طریق ہے کہ اگر کسی شخص کے متعلق معلوم ہو جائے کہ وہ قتل آمادہ ہے.تو جسے قتل کرنا چاہے وہ اس کے حملہ سے پہلے ہی اسے قتل کرنے کی کوشش کرتا ہے.لیکن یہ شخص اپنے بھائی سے کہتا ہے.تمہارا ارادہ گو مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ مجھے قتل کرنا چاہتے ہو.لیکن میں تمہیں نہیں مارونگا.کیونکہ یہ فعل مذموم ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.یہ بہادری ایسی پسند آئی کہ ہم نے فیصلہ کر دیا کہ اگر کوئی کسی نیک شخص کو بلا وجہ مارتا ہے تو وہ ایک شخص کا قاتل نہیں سارے جہان کا قاتل ہے.کیونکہ اس نے نیکی کو ضائع کرنا اور بدی کو پیدا کرنا چاہا ہے تو بہادری بھی نیکی ہے.وہ دوسرا شخص جو قتل کرنے پر آمادہ ہوا.بجائے اس کے کہ خدا کا مقبول بننے کی کوشش کر تا قتل کرنے پر آمادہ ہو گیا اور یہ بزدلی ہے.لیکن دوسرے نے بہادری دکھائی وہ خدا کا اور زیادہ مقبول ہو گیا.اللہ تعالیٰ نے اس کی بہادری کو پسند کیا.اور فیصلہ کیا کہ آئندہ جو بھی اس طرح قتل ہو گا.اس کا قتل دنیا کے قتل کے برابر سمجھا جائے گا.کیونکہ قاتل صرف اس نیکی کرنے والے کو
خطبات محمود 44 سال 1927ء نہیں مٹا تا بلکہ نیکی کو مٹاتا ہے (المائدہ:۵) تو بہادری ایسا فعل ہے جو خدا کے نزدیک بھی اور اس کے بندوں میں بھی مقبول چلا آتا ہے اور جو لوگ اپنے یقین کے مطابق اسے کرتے ہیں وہ عزت پا جاتے ہیں.دشمنوں کی بھی ایسی باتیں پسند آتی ہیں.در حقیقت ایسا شخص جو ایک بات کو سچا سمجھ کر پھر اس پر عمل نہیں کرتا اور اسے قبول نہیں کرتا وہ بزدل ہے.آج اس جگہ پر ہمارے دوست دور دراز مقامات سے تشریف لائے ہیں.اور جمعہ کی نماز کے بعد انشاء اللہ تعالیٰ مجلس شورٹی ہوگی اس لئے میں نے یہ خطبہ پڑھا.اگر وہ اپنے ادنی ادنی کاموں میں بھی خوبصورتی پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ہر کام میں جرآت دلیری اور بہادری دکھا ئیں.ان کے سب کام چونکہ خدا تعالیٰ کے لئے ہوتے ہیں اس لئے وہ سب خوبصورت بن جائیں گے.اگر ہم یہ نہ کر سکتے تو ہمارے لئے پھر کوئی خوبصورتی نہیں.ہم اگر آسمان پر بھی چڑھ جائیں.اور کہیں کہ مسیح موعود آگئے.تو کوئی قبول نہ کرے گا.دنیا میں ہماری قربانی اور جرات سے ہی تبدیلی پیدا ہو گی.پس ہمیں ہر قربانی کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنا چاہئے.جب ہماری یہ حالت ہوگی تو دنیا خود ہماری خوشبو سونگھے گی.دنیا خود ہمارے پاس آئے گی.دنیا خود ہم کو قبول کرے گی.پس میں اس موقع پر تشریف لانے والے دوستوں سے کہتا ہوں.وہ مجلس میں جب جائیں تو اپنی آراء اپنے ارادوں اور اپنے خیالات اور اپنی خواہشات کو خدا تعالیٰ کی رضاء کے ماتحت کریں.اور کچی جرات کے ساتھ ان کا اظہار کریں.تاوہ احمدیت کے پھیلانے کے لئے ایسے کام کر سکیں جو کچی بہادری کے ہیں.اور وہ اپنی بہادری اور جرات سے آنے والوں کے لئے ایسا رستہ کھول سکیں جو ان کو اصل منزل تک پہنچا سکے.پس کچی بہادری پیدا کرنے کی کوشش کریں.اور اپنی آراء کو جرات کے ساتھ ظاہر کریں.تا جو اصل مطلب ہے.وہ حاصل ہو سکے.اور احمدیت پورے زور کے ساتھ دنیا میں پھیل سکے.میں دعا کرتا ہوں کہ ہم میں نفاق نہ ہو بزدلی نہ ہو ہم سچائی پر قائم رہیں.خدا کے سوا کسی اور کا ڈر نہ رہے.اور اللہ کے سوا کسی اور کی آرزو اور خواہش نہ ہو.اور خدا تعالیٰ ہمیں سچائی کے پھیلانے والا بنائے اور سچائی کے پھیلانے کے لئے آپ ہمیں راستے بتائے اور ان راستوں پر چلائے.آمین.الفضل ۲۶ / اپریل ۱۹۲۷ء)
خطبات محمود ЧА سال 1927ء ہندوستان میں اسلام پر نازک وقت اور مسلمانوں کا فرض فرموده ۲۲/ اپریل ۱۹۲۷ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں آج قادیان کے احمدیوں کو اور ان کے ذریعہ اور اس سلسلے کے اخبارات کے ذریعہ دوسری جماعتوں اور باہر کے احباب کو یہ خبر دینا چاہتا ہوں کہ پچھلے دنوں مجلس شوری میں ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اسلام کی ترقی اور اسلام کی عظمت کے لئے ہر ممکن تدبیر اختیار کر کے موجودہ زمانہ کی مشکلات اور اسلام کی ترقی کے راستہ میں جو روکیں ہیں.ان کو دور کرنے کے لئے حتی الوسع کوشش کی جائے.جماعت کے تمام نمائندے جو ہندوستان کے مختلف صوبوں اور مختلف گوشوں سے اس موقع پر آئے تھے.انہوں نے اس مجلس شوری میں خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اور اللہ تعالی کو گواہ قرار دیتے ہوئے وعدہ کیا ہے کہ نہ صرف وہ اپنی ذات ہی کو مد نظر رکھتے ہوئے اسلام کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں گے بلکہ یہ بھی کہ واپس جا کر اپنی اپنی جماعتوں کو ان کے ان فرائض کی طرف توجہ دلائیں گے.جو ان کے ذمہ عائد ہوتے ہیں.اور ہر بھائی کو اسلام کی خدمت کے لئے کہیں گے.اور انہیں اس نازک وقت کے لحاظ سے جو اسلام پر اس وقت ہے.اس بات پر آمادہ وتیار کرنے کی کوشش کریں گے کہ وہ اس کے لئے ہر رنگ میں کمر بستہ ہو جائیں پس میں تمام نمائندگان کے اس وعدہ کو جو ہمارے تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہال میں وہ کر کے گئے ہیں.ساری جماعت کے سامنے پیش کرتا ہوں.اور اس خطبہ کے ذریعہ ان کو بھی اور تمام جماعت کو آگاہ کرتا ہوں کہ جن لوگوں کو انہوں نے نمائندہ منتخب کر کے یہاں بھیجا تھا وہ کیا وعدہ کر کے گئے ہیں.اور ان کے ان وعدوں کی بناء پر جو خدا کو حاضر ناظر جانتے ہوئے اور اسے گواہ قرار دیتے ہوئے انہوں نے کئے خودان پر اور آپ لوگوں پر کیا فرض عائد ہوتا ہے.جلد ہی ان تمام نمائندوں کے ناموں کی
خطبات محمود 49 سال 1927ء فہرست شائع کر دی جائے گی.تاوہ لوگ بھی کہ جنہوں نے اپنے وعدوں پر خدا کو گواہ قرار دیا اس بات کو سمجھ سکیں کہ وہ کسی ذمہ داری اور فرض کو اس وعدے کے کرنے سے اپنے اوپر عائد کر کے گئے ہیں.اور تا جماعت کے لوگ بھی ان کے ان وعدوں پر گواہ ہو جائیں.اور ہر فرد معلوم کر سکے کہ اس کی ذمہ داریاں نمائندوں کے اقرار کے ساتھ بہت بڑھ گئی ہیں.آنحضرت ا کے زمانہ میں ہر شخص جو بیعت کرتا تھا وہ یہی اقرار کرتا تھا کہ اسلام پر اپنے آپ کو اپنی جان و مال کو غرضیکہ اپنی ہر شئے کو قربان کر دے گا.لیکن خاص موقعوں پر بھی رسول کریم الخاص خاص بیعتیں لیا کرتے تھے.ایسی بیعت در حقیقت اس ذمہ داری کا جو بیعت کے ذریعے عائد ہونی چاہیئے تازہ احساس ہوتا ہے.اور تازہ احساس تکرار نہیں ہوتا.ماں کو بیچے سے محبت ہوتی ہے اور ہر وقت ہی ہوتی ہے.لیکن ایک وقت وہ اس کا منہ سر چومتی ہے.اور اس کو طرح اپنی محبت ظاہر کرتی ہے.پھر ایک وقت اس کی محبت کا احساس اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ اس کی خاطر ہر قربانی کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار پاتی ہے.ایسی محبت تکرار نہیں ہوتی بلکہ محبت کا تازہ احساس ہوتا ہے.اسی طرح گو ہر ایک مبائع ہر چیز کو پہلے ہی قربان کر چکا ہوتا ہے.اور اس کی بیعت اس بات کی شاہد ہوتی ہے کہ اب اس کے بعد اسکا اپنا کچھ نہیں رہ گیا.بلکہ وہ سب کچھ قربان کر چکا ہے لیکن پھر بھی تازہ وعدہ اس بات کا تازہ احساس اس میں پیدا کر دیتا ہے.اور نئی ذمہ داریاں اس پر رکھ دیتا ہے.پس میں باقی جماعت سے بھی کہتا ہوں کہ وہ بھی ان لوگوں کے نقش پر چلے جو نمائندوں نے قائم کیا ہے.اور وعدہ کرے کہ اسلام کی حفاظت اور اسلام کی ترقی اور عظمت کے واسطے اگر وطن چھوڑنے کی ضرورت ہو تو وہ وطن کو چھوڑ دے گی.اگر جان قربان کرنے کی ضرورت ہو تو وہ جان قربان کر دے گی.اگر مال لٹانے کی ضرورت ہو تو وہ مال لٹا دے گی.اگر وقت خرچ کرنے کی ضرورت ہو تو وہ وقت خرچ کرے گی.غرض اسلام کی ترقی کے راستہ میں جو روکیں ہیں.ان کو دور کرنے کے لئے اسے خواہ کسی قسم کی قربانی کرنی پڑے اس سے دریغ نہیں کرے گی.دیکھو ہندوستان میں آج کل اسلام پر خطر ناک وقت آیا ہوا ہے.دشمن چاہتا ہے کہ اسلام کو مٹادے.اور توحید کو مٹاکر شرک کی بنیاد رکھ دے.اور اسلام کی جگہ ہندو مذہب قائم کر دے وہ بت پرست اقوام جن کی گھٹی میں شرک ملا ہوا ہے.آج وہ خدائے واحد کی توحید کے مٹانے کے درپے ہیں.وہ مشرک قو میں جن کے باپ دادوں کے ماتھے بتوں کے آگے جھکتے جھکتے رگڑے گئے وہ آج توحید کے مذہب اسلام کو نابود کر دینے کی کوشش میں ہیں وہ تاریکیوں میں رہنے والے لوگ جنہوں
خطبات محمود 4.سال 1927ء نے سینکڑوں سال تک خدا کے نور کو نہیں دیکھا.وہ اس ارادے کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں کہ خدا کی شمع کو بجھا دیں.وہ نور سے بے بہرہ لوگ جو طلوع سورج کے وقت اپنے دروازوں کو بند رکھنے کے سبب نور ہدایت سے محروم رہے.آج یہ ارادہ کر چکے ہیں کہ دنیا سے نور کے سب دروازے بند کر دیئے جائیں.اور اس نور سے جو اسلام کے نام سے دنیا میں آیا لوگوں کو بے نصیب بنادیں پس میں آج ہر اس شخص سے جس کے دل میں اسلام کا درد ہے ہر اس شخص سے جو اسلام کی ترقی اور عظمت کا خواہاں ہے ہر اس شخص سے جس نے اقرار کیا ہے کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھے گا.یہ بات بڑے درد کے ساتھ کہتا ہوں کہ اس کا فرض ہے کہ اس نازک وقت میں بیدار ہو جائے.اگر اس وقت مسلمانوں میں اور خاص کر ہماری جماعت میں یہ احساس نہ پیدا ہوا کہ اسلام پر خطر ناک وقت آیا ہوا ہے اور ہمیں کچھ کرنا چاہئے.اگر وہ بیداری جو اس وقت کے مناسب حال ہو ان میں پیدا نہ ہوئی.اور اگر انہوں نے نہ سمجھا کہ اسلام نازک حالت میں ہے اور ہمیں بیدار ہو جانا چاہئے تو یاد رکھو اس غفلت کے نتیجے ایسے خطرناک نکلیں گے جن کا بعد میں کوئی علاج ہی نہیں ہو سکے گا.دنیا ہمیشہ کثرت کی طرف جاتی ہے.اور یہ مادہ دنیا میں پیدا ہے کہ جدھر کثرت ہو ادھر ہی جائے.اور لوگ تو الگ رہے خود انبیاء کی مشکلات کی یہی وجہ ہوتی ہے کہ لوگ کثرت ان کے خلاف دیکھ کر ان کے ماننے سے گریز کرتے ہیں.ہزاروں لاکھوں انسان ان کو سچا یقین کرتے ہیں.لیکن اسی لئے ان کو قبول کرنے اور ظاہر طور پر ماننے کی جرات نہیں کرتے کہ انبیاء کی جماعتیں شروع میں قلیل ہوتی ہیں اور ان کے مخالفوں کی جماعتیں اپنے اندر کثرت رکھتی ہیں.ایسے لوگ کثرت کے خیال سے قلت کی طرف نہیں آتے.اس ملک میں پہلے ہی ہندوؤں کی کثرت ہے.ایک ایک مسلمان کے مقابلہ میں چار چار ہندو ہیں.اور جب پہلے ہی ان کو اس قدر کثرت اس ملک میں حاصل ہے.تو اگر وہ اپنے اس ارادہ میں کامیاب ہو گئے.جو انہوں نے مسلمانوں کے متعلق کر رکھا ہے.اور جسے وہ عمل میں لا رہے ہیں.تو تھوڑے ہی عرصہ میں مسلمانوں کی تعداد اور بھی کم ہو جائے گی.لیکن اگر مسلمان غفلت کو چھوڑ کر بیدار ہو جائیں.تو یہ خطرہ جو پیدا ہوا ہے دور ہو سکتا ہے.اور اس ذلت سے جو اس غفلت سے ملنے والی ہے بچ سکتے ہیں.عام مسلمان دین سے بے بہرہ ہیں.ایمان ان میں نہیں رہا.آنحضرت ا کی محبت ان میں نہیں.قرآن کا علم ان میں سے اٹھ گیا ہے.ایسی حالت میں جب کہ وہ دینی و دنیاوی تمدنی اور سیاسی مشکلات میں بھی مبتلا ہیں.ان کو اگر کوئی چیز قائم رکھ سکتی ہے تو ایمان ہے اور وہ ان میں ہے نہیں.
خطبات محمود 4 سال 1927ء قرآن کا علم ہے اور وہ ان سے اٹھ گیا ہے.دین ہے اور وہ ان کے ہاتھ سے جاتا رہا ہے.جب یہ چیزیں ان میں نہیں تو ان کے زندہ رہنے کا کیا ذریعہ ہو سکتا ہے.لاکھوں نہیں کروڑوں انسان ایسے ہیں کہ اگر ان کو یہ معلوم ہو جائے کہ ہندو قوم سے ہمیں بڑے بڑے فوائد مل سکتے ہیں.ان کی ہمدردی ہمیں حاصل ہو سکتی ہے.سیاسی اور تجارتی مدد مل سکتی ہے.بنکوں کے ذریعے ہمیں ان سے مدد ملنی شروع ہو جائے گی.ہندو قوم اور ہندو قوم کی تمام آرگنائزیشن (Organization) ہماری پشت و پناہ بن جائے گی تو وہ فورا اسلام سے نکل کر ہندوؤں میں جا شامل ہوں گے.ایک تو ہندوؤں کی کثرت اور دوسرے یہ اسباب جو ان کے پاس جمع ہیں مسلمانوں کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے کافی ہیں.لیکن بڑی بھاری مددجو ان کو مل رہی ہے وہ مسلمانوں کے اسلام اور دین سے ناواقف ہونے سے مل رہی ہے.اگر مسلمان اپنے دین سے واقف ہوں تو بہت حد تک وہ ہندوؤں کا شکار ہونے سے بچ سکتے ہیں.پس اے عزیزو! سوچو کہ غدر کے بعد باوجود اس کے کہ گورنمنٹ نے اعلان کر دیا کہ ہم کسی کے مذہب میں دخل نہیں دیتے اور نہ ہم کسی خاص مذہب کی مدد کرتے ہیں.گو بعض افسر خفیہ طور پر عیسائی مذہب کی مدد کرتے رہے ہیں) لیکن حکومت بار بار یہ کہتی تھی کہ ہم مذہب میں دخل نہیں دیتے اور ہم کسی مذہب کی مدد نہیں کرتے.پھر بھی لاکھوں ہندو اور مسلمان عیسائی ہو گئے تا حکومت کے ہم مذہب ہو کر فائدہ اٹھا ئیں.اسی طرح جب ہندو قوم مسلمانوں کی امداد کے لئے آمادہ ہوگی تو کیوں نہ لاکھوں بلکہ کروڑوں انسان اس میں داخل ہو جائیں گے انگریزوں کی غدر کے بعد اس ملک میں نازک حالت تھی.ان کا رعب بہت حد تک لوگوں کے دلوں سے اٹھ گیا تھا.لیکن پھر بھی بے شمار لوگ اس وقت عیسائی مذہب میں داخل ہو گئے.اور ہندوؤں کا رعب تو انگریزوں سے بھی بڑھا ہوا ہے.اگر یہ لوگ اپنے ان ارادوں کو جنہیں وہ مضبوط کر چکے ہیں.اسلام کے برخلاف پورا کرنے میں کامیاب ہو سکے تو لاکھوں مسلمان.اسلام سے متنفر ہو کر نہیں اور نہ ہندو مذہب کی صداقت کو دیکھ کر.بلکہ ہندوؤں کی کثرت اور ان کی مدددیکھ کر ہندو ہو جائیں گے.ہندوستان میں پین کی طرح کا مشکل وقت اسلام کے لئے آیا ہوا ہے.سپین مسلمانوں کا ملک تھا اس میں سینکڑوں سال تک مسلمانوں نے اسلام کا جھنڈا بلند رکھا.سپین وہ ملک تھا جو ان ملکوں کے لئے جو آج متمدن اور مہذب ملک کہلاتے ہیں مسلمانوں کی وجہ سے بڑی بھاری درس گاہ تھا.ان کے لئے یونیورسٹی کا کام دیتا تھا.اور یہ وہ ملک تھا جس کے باشندے یورپ کے ملکوں کے
ات محمود ۷۲ سال 1927ء باشندوں کو ان کی غیر مہذب حالت کی وجہ سے وحشی جاہل اور غیر متمدن کہتے تھے.اور یورپ کے لوگ اس جگہ کے مسلمانوں سے سبق لیتے تھے.اور ان سے علم پڑھتے تہذیب سیکھتے.اور تمدن کے اصول حاصل کرتے تھے.لیکن آج اس پین میں ایک بھی مسلمان نہیں.یہ نہیں ہوا کہ وہاں کے مسلمانوں کی نسل قطع ہو گئی ہو.یہ بھی نہیں ہوا کہ وہاں کے مسلمان اس ملک کو چھوڑ کر کسی اور ملک میں جاہیئے.بلکہ یہ ہوا کہ سب نے عیسائی مذہب قبول کر لیا.وہ چینی قوم جس کے باپ دادوں نے خون میں غوطے کھا کھا کر اسلام کو اس ملک میں قائم کیا تھا.وہ مسلمان جو توحید کے نام پر اپنا ذرہ ذرہ قربان کرنے پر آمادہ تھے.وہ مسلمان جو آنحضرت ﷺ کی محبت میں جان و مال نثار کر دینے پر تیار تھے.آج ان کی اولاد توحید کی بجائے تثلیث پرست ہے آج ان مسلمانوں کی اولاد کے دل محمد رسول اللہ اللہ کی محبت سے خالی ہیں.اور صرف خالی ہی نہیں بلکہ گالیاں دیتے ہیں.ان میں لاکھوں آدمی ایسے ہیں جنہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ ہماری رگوں میں مسلمانوں کا خون دوڑ رہا ہے کیا مسلمان چاہتے ہیں کہ ہندوستان میں بھی ان کی یہی حالت ہو ؟ وہ قوم جو تعداد میں مسلمانوں سے بڑھ کر ہے.وہ قوم جو مال میں مسلمانوں سے بڑھ کر ہے.وہ قوم جو انتظام میں مسلمانوں سے بڑھ کر ہے.وہ قوم جو استقلال میں مسلمانوں سے بڑھ کر ہے.وہ قوم جو ذرائع میں مسلمانوں سے بڑھ کر ہے.وہ قوم جو اسباب میں مسلمانوں سے بڑھ کر ہے.وہ قوم جو طاقت اور علم میں مسلمانوں سے بڑھ کر ہے.وہ ارادہ کر چکی ہے کہ جس طرح ہو لالچ سے پیار سے دھمکی دے کر مار کر سختی سے نرمی سے ، غرض کسی طرح بھی ہو ہندوستان کے مسلمانوں کو ہندو بنائے.اور اگر وہ ہندو نہ بنیں تو ان کو جس طرح ہو ہندوستان سے نکال دے.یہ وہ ارادہ ہے جو ہندو قوم نے جو توحید سے بالکل خالی ہے.مسلمانوں کے متعلق کیا ہے.اگر کوئی جماعت اس کے بر خلاف آواز اٹھا سکتی ہے.اگر کوئی جماعت سینہ سپر ہو کر اس کے مقابلہ کے لئے میدان میں آسکتی ہے تو وہ خدا تعالٰی کے مامور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قائم کردہ جماعت ہے.پس یہ جو ہندوؤں کی طرف سے چیلنج دیا گیا ہے اگر احمدی جماعت اس کے جواب کے لئے میدان میں نکل کھڑی ہو تو یقیناً اسلام کی فتح ہے.اور یہ آخری جنگ ہوگی.جس کے ذریعہ شرک ہمیشہ کے لئے مٹا دیا جائے گا اور توحید ہمیشہ کے لئے قائم کر دی جائے گی.لیکن اگر احمدی جماعت نے اس زور کے ساتھ شرک کا مقابلہ نہ کیا.اور اس جوش کے ساتھ توحید کی اشاعت کے لئے اٹھ نہ کھڑی ہوئی.جو نبیوں کی جماعت کا نامہ ہے تو ہمیشہ کے لئے تو حید مٹ جائے گی.اور دنیا سے خدا کا نام محو ہو جائے
خطبات محمود ۷۳ سال 1927ء گا.پس میں احمدی دوستوں سے کہتا ہوں.خواہ وہ قادیان کے رہنے والے ہوں.خواہ باہر کے اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے اور اسلام کے لئے اس مقابلہ کے میدان میں نہیں اتر سکتے تو فیصلہ کر دیں کہ ہم اس جنگ کے لئے تیار نہیں.لیکن اگر وہ اس جنگ کے لئے تیار ہیں.تو میں انہیں کہتا ہوں کہ وہ ایک جان ہو کر مضبوط عزم کے ساتھ کھڑے ہو جائیں.اور ایسی بلند آواز اٹھا ئیں کہ ہر ہندو کے کان میں وہ پہنچے.اور کوئی شخص اس آواز کو دبانہ سکے.اپنی جماعت کو مخاطب کرنے کے بعد میں مسلمانوں کو بھی اس طرف متوجہ کرتا ہوں.اگر اور کچھ نہیں تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے ایک خوبی تو ان میں بھی ہے یعنی کا خر کنند دعوی حب پیمبرم کہ وہ آنحضرت ﷺ کی محبت کا دعوئی رکھتے ہیں.اگر اور کچھ نہیں تو کم از کم ان کے ہونٹوں سے تو یہ بات نکلتی ہے کہ نبی کریم اللہ کی محبت ان کے اندر ہے.اور پھر ان میں سے بعض تو اسلام کا درد بھی رکھتے ہیں.پس جب یہ بات ان میں پائی جاتی ہے تو میں ان الفاظ کا ہی واسطہ دے کر انہیں کہتا ہوں کہ وہ جو آنحضرت ا کی محبت کے الفاظ بولتے ہیں.ان کا لحاظ کر کے ہی وہ اس نازک وقت میں اسلام کی مدد کے لئے کھڑے ہو جائیں.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس وقت یقینا وہی براہین اور دلائل کارگر ہو سکتے ہیں.جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتائے ہیں.مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ گھر کی لڑائی چھوڑ کر دشمن کا مقابلہ کیا جائے.میں یہ نہیں کہتا کہ غیر احمدی ہمارا مقابلہ نہ کریں.بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ اسلام کے دشمنوں کے مقابلہ میں ہمارا مقابلہ نہ کریں.جس جگہ احمدیت کی تبلیغ ہو.بے شک اس جگہ وہ اپنا سارا زور لگائیں.ہاں اتنی بات میں پھر بھی کہوں گا کہ دیانت کے ساتھ زور لگائیں.کیونکہ بہت سی ہماری مخالفت ذاتی عداوت پر مبنی ہوتی ہے.اور لوگ کسی مسئلے یا عقیدے کی بناء پر ہماری مخالفت نہیں کرتے.بلکہ بسا اوقات بعض ذاتی دشمنیوں کے لحاظ سے کرتے ہیں.اس لئے میں جہاں یہ کہوں گا.کہ دشمن کے مقابلہ میں ہمارا مقابلہ نہ کریں اور جہاں احمدیت کی تبلیغ ہو وہاں پورا زور لگائیں.وہاں میں یہ بھی کہوں گا کہ وہ دیانت کے ساتھ زور لگا ئیں اور ایمان کو مد نظر رکھتے ہوئے اور خدا کا خوف دلوں میں رکھتے ہوئے زور لگا ئیں.تا ایسا نہ ہو کہ ذاتی مخالفت کی وجہ سے وہ اپنے موجودہ ایمان کو بھی کھو بیٹھیں.وہ احمدیت کے برخلاف زور لگا ئیں.لیکن جہاں آریہ اور عیسائیوں سے مقابلہ ہو وہاں یہ ثابت کر دیں کہ رسول کریم ﷺ کو گالیاں دینے والوں سے رسول کریم
خطبات محمود ۷۴ سال 1927ء کو ماننے والے اور ان کی عزت کرنے والے اچھے ہیں.یہ کوئی بڑا مطالبہ نہیں.وہ بے شک ہمیں دکھ دیں.بے شک ہمیں نقصان پہنچا ئیں.میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ وہ آریوں اور عیسائیوں کے مقابلہ کے وقت یہ بتادیں کہ اسلام سے محبت کرنے والوں کو بہر حال ہم اسلام کے دشمنوں سے اچھا سمجھتے ہیں.اور ہم ان کی پیٹھ میں خنجر مارنے کے لئے تیار نہیں.اور یہ کوئی ایسا بڑا مطالبہ نہیں کہ جس کا پورا کرنا ایسے نازک وقت میں ان کے لئے مشکل ہو.اس موجودہ مشکل کا علاج یہی ہے کہ وہ ان لوگوں کے مقابلہ کے وقت ہم سے متحد ہو جائیں.اور اگر اس ذمہ داری کو سمجھ لیں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ نازک وقت قائم نہیں رہ سکتا.اگر کوئی اس سے بڑھ کر قربانی کرنے کے لئے تیار ہے تو اس کا فرض ہے کہ جہاں یہ لوگ کچھ کر رہے ہوں.اس جگہ کے متعلق ہمیں اطلاع دے تاہم ان کا مقابلہ کر سکیں.بغیر علم کے کچھ نہیں ہو سکتا.پس جو مسلمان پہلے مطالبہ سے زیادہ قربانی کرنے پر آمادہ ہوں.ان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ہمیں ہر اس موقع اور ہر اس مقام سے آگاہ رکھیں.جہاں آریہ اپنا جال پھیلا رہے ہوں کیونکہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ایک جگہ پر وہ لوگ اسلام کے برخلاف کوشش کر رہے ہوں اور ہمارے پاس آدمی بھی موجود ہوں.لیکن ہمیں وہاں کی خبر ہی نہ ہو اور اس طرح نقصان پہنچ جائے.پس یہ ضروری ہے کہ ہمیں ہر موقع اور ہر مقام سے آگاہ رکھا جائے.تاہم ان کا مقابلہ کر سکیں.اگر کوئی شخص خود کچھ نہیں کر سکتا یا کام اس کی طاقت سے بڑھ کر ہے.تو وہ ہمیں خبر کر دے.تاجو کچھ ہم سے ہو سکے ہم کر سکیں.اور میں یہ مطالبہ صرف اس لئے مسلمانوں سے کرتا ہوں کہ وہ رسول کریم ﷺ کی محبت کا دعوی کرتے ہیں.جہاں جہاں بھی دشمن کوشش کر رہا ہے ہمیں اس کا مقابلہ کرنا چاہئے.پس جس جگہ دشمن اپنا زہر پھیلا رہا ہو وہاں فوراً جلسوں کا انتظام کرنا چاہئے.اور واعظوں کے لئے ہمیں اطلاع کر دینی چاہئیے.ہم انشاء اللہ فوراً وہاں ایسا واعظ بھیج دیں گے جو ان کے زہر کو دور کر دے.مقامی آدمی جس خوبی سے کام کر سکتے ہیں باہر کے نہیں کر سکتے.اس لئے جلسہ کے انعقاد کی ذمہ داری مقامی لوگوں پر ہی ہو سکتی ہے اور انہی کو جلسوں کا انتظام کرنا چاہئے.اگر وہ جلسہ کا انتظام کرلیں گے تو پھر ہم اپنے واعظ بھیج دیں گے جو دشمنوں کا مقابلہ کریں گے.اور ان کے زہر کے اثر کو انشاء اللہ دور کر دیں گے.یہ تین مطالبے کوئی بڑے مطالبے نہیں.اگر مسلمان یہ تین کام کرنے لگ جائیں.تو دشمن کو
خطبات محمود ۷۵ سال 1927ء بہت جلدی معلوم ہو جائے کہ جو کچھ اس نے سوچاہے وہ کارگر نہیں ہو سکتا.مسلمان ہندوؤں کے برابر نہیں.ان میں علم دولت مال، استقلال تعداد ان سے بہت کم ہے.اور اگر اس کمی کے باوجود بھی وہ ان کے مقابلہ کے لئے متحد نہ ہو سکیں تو سخت افسوس کا مقام ہو گا.ہندوؤں کو دیکھو کہ وہ ہر ایک طرح مسلمانوں سے بڑھے ہوئے ہیں.علم ان میں زیادہ تعداد ان کی زیادہ ہے مال ان کے پاس زیادہ ہے.مگر باوجود اس کے وہ اپنے تمام اختلافات کو چھوڑ کر مسلمانوں کے برخلاف اسی ایک مقصد کے لئے متحد ہو گئے ہیں کہ یا تو مسلمانوں کو ہندو بنالو یا ملک سے نکال دو.پس اگر خود دل میں درد نہیں پیدا ہوا تو ہندوؤں کے اس عزم کو دیکھ کرہی مسلمان اپنے اختلافات کو چھوڑ کر ان کے مقابلے کے لئے متحد ہو جائیں.تو جو خطرہ اس وقت پیدا ہو رہا ہے وہ نہ رہے.میں پھر اس بات کو ظاہر کرتا ہوں کہ یہ تین مطالبے کوئی بڑے مطالبے نہیں کہ انہیں پورا کرنا مشکل ہو.دشمن کے فریب سے یا اپنے نادان ہم مذہبوں کی بات سے کبھی دھوکا نہیں کھانا چاہئے اس سے بہت سخت نقصان ہوتا ہے.پچھلے دنوں میں مسیحیوں نے افریقہ میں ایک خاص چال چلی تھی.وہی حال ہندوستان میں نہیں ہونا چاہئے.انہوں نے زور دے کر تمام رؤساء کو مسیحی بنالیا تھا.حتی کہ ایک رئیس مسلمان ہو گیا تو قسم قسم کے الزام لگا کر اسے ہٹا دیا گیا.اور اس کی جگہ اس کا ایک رشتہ دار جو مسیحی تھار کیس بنا دیا گیا.لیکن چونکہ انہیں خوف تھا کہ مسلمانوں کو اگر علم ہو گیا کہ اس کی طرح مسیحیت کی تبلیغ ہو رہی ہے تو وہ شور مچادیں گے.انہوں نے ایک چال چلی اور وہ یہ کہ تمام دنیا میں شور مچادیا کہ افریقہ مسلمان ہو رہا ہے.اس کی مسیحیوں کو فکر کرنی چاہئے.حالانکہ یوگنڈا اور کینیا کے پادری اس شور کے موجب تھے.اور ان علاقوں کے باشندے ہرگز مسلمان نہیں ہو رہے تھے.الا ما شاء اللہ.اس شور کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک تو مسیحی ممالک سے پادریوں کو مدد مل گئی.اور دوسرے مسلمان جن کا حق تھا کہ اس وقت توجہ کرتے اس خوشی میں کہ افریقہ مسلمان ہو رہا ہے مطمئن ہو کر گئے اور جو کام کا وقت تھا اس وقت کچھ نہ کیا.اور آخر سب ملک مسیحی ہو گیا.انہوں نے مسلمانوں کو دھوکا دیا اور دھوکا سے خوش کر کے اپنا کام کر لیا.اسی طرح ہندوستان میں خوف ہے یہ سن کر کہ فلاں مسلمان ہوا اور اس اس طرح ہندوؤں کا مقابلہ کیا گیا یا اتنے ہندو مسلمان ہو گئے لوگ مطمئن نہ ہو جائیں اور کام نہ چھوڑ دیں یا کام کرنے کا خیال ہی نہ کریں.پس اگر ہو شیاری سے کام نہ لیا گیا.تو لاکھوں نہیں کروڑوں مسلمان ہندو ہو جائیں گے اور ایسی خاموشی کے ساتھ ہندو ہو جائیں گے کہ شاید ہم کو ان کے ہندو ہونے کی خبر بھی نہ ہو سکے.علاوہ اس کے ہمیں ہندوؤں کی اور
خطبات محمود 44 سال 1927ء تدبیروں سے بھی ہوشیار رہنا چاہئے.اور بعض عارضی خوشیوں پر خوش نہیں ہو جانا چاہئے.بلکہ کام کر کے خوش ہونا چاہئے.ہمیشہ دشمن کی طاقت کا صحیح اندازہ کرنا چاہئے کیونکہ دشمن کی طاقت کا کم اور زیادہ اندازہ ہمیشہ خطر ناک ہوتا ہے.زیادہ اندازہ بعض وقت خطرناک نہیں ہوتا لیکن کم اندازہ تو ہر وقت ہی خطرناک ہوتا ہے کیونکہ جب اندازہ کم لگایا جاتا ہے.تو اس وقت غفلت آجاتی ہے اور ایک شخص یہ سمجھ لیتا ہے کہ اگر اس کا مقابلہ نہ بھی کیا جائے گا تو کوئی نقصان نہیں ہو گا.ہاں بعض مومن ہوتے ہیں جنہوں نے فیصلہ کیا ہوتا ہے کہ اگر ایک دشمن ہو تو کیا اور اگر ہزار دشمن ہو تو کیا ہم نے کام کرنا ہے.ایسے مومنوں کے لئے چاہے دشمن ایک ہو چاہے لاکھ ہوں ایک ہی بات ہوتی ہے کیونکہ انہوں نے فیصلہ کیا ہوتا ہے کہ ہمارا یہ کام ہے کہ دین کے لئے جان تک دے دیں گے لیکن ہر ایک آدمی ایسا نہیں ہوا کرتا.بعض آدمی تب تک ہو شیار نہیں ہوتے جب تک ان کو دشمن کی طاقت کا صحیح اندازہ نہ ہو جائے.پس اس مقابلہ کے لئے ہی نہیں بلکہ ہر وقت دشمن کی طاقت کا صحیح اندازہ رکھنا چاہئے.پھر زیادہ اندازہ بھی مضر ہوتا ہے کیونکہ ایک آدمی دشمن کی طاقت اپنی طاقت سے زیادہ دیکھ کر کام چھوڑ دیتا ہے.اور کام کرنے کا حوصلہ ہار بیٹھتا ہے لیکن کم اندازہ اس سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے کیونکہ اس سے انسان غافل ہو جاتا ہے.اور بچی کوشش نہیں کرتا.پس میں تمام مسلمانوں سے اسلام کا درد رکھنے والے تمام شخصوں سے اور ہر فرقہ اسلام کے لوگوں سے کہتا ہوں کہ دشمن کی طاقت اور اپنی کمزوری کا صحیح اندازہ لگاتے ہوئے کم از کم تین باتوں کا ضرور خیال رکھیں جو میں نے کہی ہیں تاکہ ہم دشمن کا مقابلہ کر سکیں اور اس کے حملوں کو روک سکیں.ہندو اپنے مذہب کے لحاظ سے شدھی کی کوشش نہیں کر رہے بلکہ سیاسی طور پر یہ سب کچھ کر رہے ہیں.اور اس سیاسی کوشش کو انہوں نے مذہبی رنگ دے دیا ہے.کیونکہ وہ سمجھتے ہیں جب تک مذہبی رنگ نہ دیا جائے گا.تب تک یہ سیاسی کوشش کارگر نہ ہو گی.اس کو شش کی اصل غرض یہ ہے کہ ان کی تعداد بڑھے.اور تمام ملک میں ایک مذہب ہو جائے.کیونکہ اگر تمام ملک میں ایک مذہب ہو جائے تو پھر جو کچھ ہوں گے ہندو ہی ہوں گے.یہ دراصل ہندوؤں کی سیاسی کوشش ہے.اور چونکہ ان کی اس کوشش کا اثر سب مسلمانوں پر پڑتا ہے.خواہ وہ مسلمان اسلام کے کسی فرقے سے ہی تعلق رکھتے ہوں.اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ بھی اس موقع پر اکٹھے ہو کر کام
خطبات ا سال 1927ء ان حالات کے ماتحت جو اس وقت پیدا ہو رہے ہیں.مسلمانوں کو ان تین باتوں کے کرنے کا فیصلہ کرنا چاہئے.اور یہ کوئی مشکل باتیں نہیں.جنہیں وہ نہ کر سکیں.اسلام کی عظمت قائم کرنے کے لئے یہ بہت معمولی باتیں ہیں.جو میں چاہتا ہوں کہ مسلمان اس موقع پر کریں:.سب سے پہلی بات تو یہی ہے کہ آپس کے جھگڑے آپس تک ہی رہیں.ہم اگر ایک دو سرے سے جھگڑتے ہیں اور اختلاف رکھتے ہیں تو اس کا اثر ہم تک ہی محدود رہنا چاہئے نہ یہ کہ اسلام کے دشمنوں سے مقابلہ کرتے وقت ایک دوسرے کے برخلاف اثر ڈال کر اپنی طاقت کو کمزور کیا جائے.ہندوؤں کی سیاسی کوشش کا اثر اسلام کے تمام فرقوں پر پڑ رہا ہے اور پڑے گا.وہ اپنی مخالفت کے وقت کسی کو مستثنیٰ نہیں کرتے.اور ہم بھی جب تک متحد نہ ہوں گے.ان کے حملوں کا جواب نہ دے سکیں گے اس لئے یہ ضروری بات ہے کہ ہم اگر اختلاف رکھتے ہیں تو ان اختلافات کو اپنے اندر ہی محدود رکھا جائے.اور جب دشمن سے مقابلہ کا وقت ہو تو ان جھگڑوں کو چھوڑ کر اس کے مقابلہ اور اس کے حملہ کی روک کے واسطے ہم یک جان ہو جائیں.پس پہلی بات جس کا اس وقت مسلمانوں کو فیصلہ کرنا چاہئے وہ یہی ہے کہ آپس کے جھگڑے آپس تک ہی رہیں.اور دشمن کے مقابلہ کے وقت آپس میں متحد ہو جائیں اور ایک دوسرے کے مددگار بن جائیں.دوسری بات جس کا کرنا اس وقت بہت ضروری ہے یہ ہے کہ مسلمان ہر مقام سے باخبر رہیں کہ وہاں کیا ہو رہا ہے اور دشمن کس رنگ میں حملہ کر رہا ہے.تا اس کی روک کا انتظام کیا جاتا سکے اور یہ کام ہر جگہ کے مقامی لوگ ہی اچھی طرح کر سکتے ہیں.ہماری جماعت کے لوگ تو ایسا کرتے ہی ہیں.لیکن ہو سکتا ہے کہ کوئی واقعہ ہو دشمن کوئی کارروائی کر رہا ہو لیکن انہیں خبر نہ ہو سکے.اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بعض جگہ ہماری جماعت کے لوگ نہ بھی ہوں.اس لئے یہ ضروری ہے کہ جہاں جہاں مسلمان ہوں وہاں وہ ان حالات سے باخبر رہیں.اور ان کے حملوں کے جواب دیں.لیکن جو لوگ سمجھتے ہوں کہ وہ جواب نہیں دے سکتے اور اسلام کے دشمنوں کے حملوں کا دفاع کرنے کی ان میں طاقت نہیں وہ ہمیں خبر کریں ہم اپنے آدمی بھیج دیں گے.تیرے جہاں ضرورت ہو گی ہمارے واعظ انشاء اللہ تعالیٰ پہنچیں گے اور اسلام کے دشمنوں کے حملوں کے جواب اور ان کے زہر کے اثر کو زائل کرنے کے لئے جہاں سے بلائے جائیں گے وہاں بھیجے جائیں گے.مگر اس کے لئے سب سے پہلا کام یہ ہے کہ اس جگہ کے مقامی لوگ جہاں آریوں اور عیسائیوں نے شور ڈالا ہو جلسے قائم کر کے ہمارے واعظوں کو بلوا ئیں.اور
خطبات محمود سال 1927ء ہم انشاء اللہ تعالیٰ ایسے واعظ وہاں بھیج دیں گے جو ان کے دانت کھٹے کر دیں گے.پس تیسری بات جو مسلمانوں کو کرنی چاہئے وہ یہ ہے کہ وہ ہر ایسی جگہ پر جلسوں کا انتظام کریں اور صورت اجتماع پیدا کریں.ہم بھی جہاں جہاں اسلام کے دشمنوں نے اسلام کے بر خلاف زہر پھیلایا ہو اپنے واعظ بھیج دیں گے.تاکہ وہ اسلام کی عظمت اور اسلام کی شوکت کو لوگوں پر ظاہر کریں اور جو کچھ دشمنوں نے اسلام کے برخلاف کہا ہو اس کے متعلق ثابت کریں کہ وہ بالکل جھوٹ ہے.اور صحیح اسلام لوگوں کو بتائیں اور اسلام کی بچی تعلیم سے ان کو آگاہ کریں.پس مسلمان اگر ان تین باتوں کو سردست اختیار کریں.تو بہت حد تک کامیابی ہو سکتی ہے.اور بہت حد تک دشمن نیچا دیکھ سکتا ہے.اس میں کچھ شبہ نہیں کہ ہماری کمزوری کو دیکھتے ہوئے ان کے حوصلے بڑھ گئے ہیں.اور ہمارے آپس کے اختلافات کی وجہ سے وہ اس یقین پر قائم ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے دشمن ہیں لیکن اس میں بھی کچھ شبہ نہیں کہ اگر ہم اسلام کی سچی تعلیم پر عمل کرنا شروع کر دیں.اور ان حملوں کے دفاع کے لئے متحد و یک جان ہو جائیں تو اسلام کی عزت اور عظمت کو قائم کر سکتے ہیں.دراصل اسلام کی عزت اور عظمت اور شوکت کا قائم کرنا اللہ تعالی ہی کا کام ہے.لیکن اگر ہم باوجود اپنی کمزوریوں کے اس کے لئے کوشش کریں تو کامیابی کا سہرا مفت میں ہمارے سر بندھتا ہے اور خدا تعالٰی کے سامنے بھی سرخروئی ہوتی ہے.پس میں پھر ایک بار اس بات کو دہراتا ہوں کہ اس نازک وقت میں دشمن کے مقابلہ اور اس کے حملوں کے دفاع کے واسطے ہمیں متحدہ طاقت سے کام کرنا چاہئے اور دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمارے کاموں میں برکت ڈالے.اور اسلام کے دشمنوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ہماری زبان میں وہ اثر بخشے کہ سننے والے آپ ہی گرویدہ ہو جائیں.ہمارے دلوں میں وہ نور بخشے کہ لوگوں کو آپ ہی آپ راہ ہدایت نظر آجائے.اور ہمارے کاموں میں وہ برکت دے کہ آپ ہی آپ اسلام کا نام دنیا میں پھیلتا چلا جائے.اور اعمال میں وہ برکت پیدا کرے کہ اس کی نعمتیں خود بخود حاصل ہوتی چلی جائیں.میں یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنے اس وعدہ کو بھی پورا فرمائے جس طرح کہ وہ ہمیشہ سے وعدوں کو پورا کرنے والا چلا آیا ہے.کہ محمد رسول اللہ اللہ اور خاتم النبیین کے آخری ظہور کے وقت کہ جس کا نام مسیح موعود ہے اسلام کی اشاعت ہوگی اور ساری دنیا پر اسلام کو غالب کر دیا جائے گا.آمین الفضل ۶ / مئی ۱۹۲۷ء)
خطبات محمود 49 ۱۲ سال 1927ء آنحضرت الله کا مقام محمود (فرموده ۲۹/ اپریل ۱۹۲۷ء ) تشهد تعوز اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : مسلمان اذان کے بعد ہر روز ایک دعا پڑھتے ہیں.مگر تعجب کی بات ہے کہ اس دعا پر انہوں نے کبھی اس طرح غور نہیں کیا جس طرح انہیں کرنا چاہئے اگر انہوں نے غور کیا ہو تا تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ اس میں یہ سکھایا گیا ہے کہ اے خدا جس نے اس کامل دین کو دنیا میں قائم کیا ہے.جس میں کوئی نقص نہیں.اور وہ آواز بلند کی جس میں تمام روحانی بیماریوں کا علاج موجود ہے.ایسے طریقوں سے دنیا کو اپنی طرف بلایا ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی کامل آواز ہو نہیں سکتی.پھر دنیا میں ایسی عبادت قائم کی ہے جو ہمیشہ راسخ رہے گی.اور اس کا نفع اور فوائد ایسے وسیع ہوں گے کہ ان میں کبھی کمی نہیں ہوگی.حقیقی فوائد جو عبادت کے ہیں وہ نماز سے ہی پہنچیں گے.اور وہ بچی راہنمائی جو انسانوں کے لئے مقصود ہے صرف اسی آواز سے ہوتی رہے گی جو رسول کریم ﷺ نے بلند کی.پس اے خدا جس نے یہ دونوں چیزیں قائم کی ہیں.یعنی ایک وہ دعوت جس کی وجہ سے لوگ ہمیشہ اسلام میں جمع ہوتے رہیں گے اور ایک وہ روحانی روشنی کا مینار.نماز.جس سے لوگ تیری طرف رہنمائی حاصل کرتے رہیں گے.ہم ان دو کا واسطہ دے کر کہتے ہیں.جب یہ دونوں چیزیں تو نے محمد رسول الله الے کے ذریعہ قائم کیں تاکہ انسان کی کامل اصلاح ہو جائے.اور وہ تیرا قرب پا سکے تو اے خدا جس طرح تیرے اس رسول نے ہمارے لئے تیرا قرب پانے کا رستہ کھول دیا ہے تو بھی اس کو اور زیادہ قرب عطا فرما.اور جس طرح اس نے مسلمانوں کو برتری کے مقام کی طرف بلایا تو بھی اس کو اور برتری بخش یعنی ایک تو اس کو اپنا ذاتی قرب عطا کر.اس لئے کہ اس نے ہمارے لئے تیرے قرب کی راہیں کھولیں اور دوسرے اس کا مرتبہ بلند کر.کیونکہ ہمارے لئے اس
خطبات محمود A+ سال 1927ء نے بلند مرتبہ پانے کا راستہ قائم کیا.پس تو اس کو وہ مقام دے جس پر آج تک اور کوئی نہ پہنچا ہو.اور وہ مقام مقام محمود ہی ہے.یہ اس دعا کا مطلب ہے.جو ہر مسلمان اذان کے بعد پڑھا کرتا ہے.ادھر مسلمانوں کے شاعر فخریہ کہا کرتے ہیں ہم اس رسول کے ماننے والے ہیں جسے خدا نے مقام محمود عطا کیا مسلمانوں کے خطیب ممبروں پر کھڑے ہو کر کہا کرتے ہیں.رسول کریم ان کو وہ مقام ملا جو دو سرے انبیاء کو نہیں ملا.لیکن عجیب بات ہے باوجود اس کے کہ روزانہ کئی کئی مرتبہ اس دعا کو پڑھتے ہیں.جس میں رسول کریم ﷺ کے مقام محمود پانے کا ذکر ہے.لیکن انہوں نے کبھی نہیں سوچا کہ مقام محمود ہے کیا.بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ احمدی اذان کے بعد دعا نہیں مانگتے حالانکہ یہ غلط ہے.احمدی دعا مانگتے ہیں اور احمدیوں سے بڑھ کر کوئی اور دعائیں مانگنے والا نہیں.ہاں وہ بناوٹ کے طور پر دعا ئیں نہیں کیا کرتے کہ الفاظ تو رئیں اور مطلب نہ سمجھیں.وہ دعا کرتے ہیں اور مطلب و مفہوم سمجھ کر کرتے ہیں.مگر وہ لوگ جو اعتراض کرتے ہیں کہ احمدی اذان کے بعد دعا نہیں پڑھتے ان کی اپنی یہ حالت ہے کہ وہ اس دعا کے مفہوم پر غور نہیں کرتے اور صرف رسم کے طور پر لفظوں کو طوطے کی طرح رہتے ہیں.اتنا تو سوچنا چاہئے.آخر وجہ کیا ہے کہ اسلام اور نماز کا واسطہ دے کر یہ دعا مانگی جاتی ہے.اگر اس کا نماز کے ساتھ کوئی جوڑ نہیں.تو ایسے موقع کے لئے اسے کیوں رکھا گیا.جبکہ نماز کے لئے لوگوں کو پکارا جاتا ہے.پھر اگر وہ مقام محمود جنت کا کوئی مقام ہے جو اللهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلوةِ القَائِمَةِ اتِ مُحَمَّدًا الوسيلة والفضيلة وابعثه مقاما محموداد الَّذِي وَعَدتَهُ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ المِيعَادَ (مشكوة كتاب الصلوة باب الاذان) میں مانگا جاتا ہے تو یہ کہنا غلط ہے کہ اے خدا تو وہ مقام آنحضرت ﷺ کو عطا کر.کیونکہ اس کے لئے ہماری دعاؤں کی ضرورت نہیں وہ تو آپ کو پہلے ہی مل چکا ہے.پھر اب اس کے متعلق انسانی کوشش کا دخل ہی کیا رہ گیا.دنیا کے وعدے تو ٹل سکتے ہیں.کیونکہ ایسا ہو سکتا ہے کہ انسان کی غفلت اور کو تاہی کی وجہ سے وہ ٹلا دیے جائیں.لیکن جو بات پوری ہو چکی ہو وہ نہیں مل سکتی.پس جنت کا مقام محمود تو رسول کریم ﷺ کو مل چکا.پھر اس کے متعلق یہ کہنا کہ اے خدا تو آپ کو وہ مقام عطا کر بے فائدہ بات ہے.دیکھو ہم یہ کبھی نہیں دعا کرتے کہ اے خدا تو رسول کریم ﷺ کو کوثر عطا کر.اسی
خطبات محمود Al سال 1927ء طرح ہم یہ کبھی دعا نہیں کرتے کہ تو دوسرے اعلیٰ اعلیٰ مقام آپ کو دے لیکن ہم مقام محمود کے لئے ہر روز دعا کرتے ہیں کہ اے خدا تو آنحضرت ﷺ کو مقام محمود عطا کر.جب رسول کریم فوت ہو گئے تو اب کون سا خطرہ ہے کہ شاید مقام محمود آپ کو نہ ملے.آنحضرت ا کو الله العالية جو مقام محمود جنت میں ملنے والا تھا مل گیا.جس طرح اور اعلیٰ اعلیٰ مقامات آپ کو مل گئے.اسی طرح مقام محمود بھی آپ کو مل گیا.پس اگر وہ مقام محمود جو اس دعا میں مانگا جاتا ہے.جنت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے تو اس کا تو تیرہ سو سال پہلے فیصلہ ہو چکا.اور وہ رسول کریم اے کو مل چکا ہے.پھر اب اس کے متعلق درخواست کرنے کا کیا مطلب؟ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اس دعا میں آنحضرت ا کے لئے جو مقام محمود مانگتے ہیں.وہ مقام جنت کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا.بلکہ اس دنیا کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.اور ایسے رنگ میں تعلق رکھتا ہے کہ ہمارے اعمال کا بھی اس میں دخل ہے.ورنہ اگر دخل نہ ہو تا تو ہمارے دعامانگنے کی کیا ضرورت تھی.پس یہ جو خطرہ ہے کہ شاید رسول کریم اے کو مقام محمود نہ مل سکے.وہ یہ ہے کہ ایک مقام محمود وہ بھی ہے جو امت محمدیہ کے اعمال کے ذریعہ رسول کریم ﷺ کو مانا ہے.اور چونکہ یہ خطرہ اس کے متعلق ہے کہ شاید ہماری کمزوریوں کی وجہ سے رسول کریم اے اس سے محروم رہ جائیں.اس لئے مسلمان اس مقام محمود کے لئے دعا مانگتے ہیں نہ اس کے لئے جو جنت سے تعلق رکھتا ہے.کیونکہ وہ تو آپ کو پہلے ہی مل چکا ہے.یہ ہے اس دُعا کی حکمت جسے مسلمانوں نے اس وقت تک نہیں سمجھا.ہم مانتے ہیں کہ قیامت میں بھی آنحضرت ﷺ کے لئے ایک مقام محمود مقرر ہے.لیکن اس کے لئے ہماری دعاؤں کی ضرورت نہیں.وہ تو آپکو مل چکا.ہاں جس کے لیئے ہم دعا کرتے ہیں وہ ہمارے اعمال کے بدلے میں آپ کو ملنا ہے.جو مقام محمود جنت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور جو آپ کو مل چکا ہے.اس کے لئے نہ کسی دعا کی ضرورت ہے اور نہ کسی کی بد دعا سے وہ اب آپ سے واپس لیا جا سکتا ہے.جس طرح کو ثر آپ کو ملا.جس طرح دوسرے مقامات آپ کو ملے.اسی طرح وہ بھی آپ کو مل گیا.مگر وہ مقام محمود جس کے لئے دعا مانگی جاتی ہے وہ اس دنیا کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.پس ہمیں غور کرنا چاہئے کہ وہ کون سے ذرائع ہیں.جن سے آنحضرت ا کو یہ مقام محمود مل سکتا ہے.اگر مسلمان خدا تعالٰی کی باتوں پر سے اندھے ہو کر نہ گذر جاتے.اگر مسلمان خدا کے رسول نے جو دعا سکھائی ہے اس کی حقیقت کو سمجھتے تو جان لیتے کہ کسی شخص کے لئے دو طرح کے ذرائع
خطبات محمود ۸۲ سال 1927ء ال مقام محمود پر پہنچنے کے لئے ہوا کرتے ہیں.پہلا یہ کہ دشمن اس کے نیست و نابود ہو جائیں.اور یوں اس کی مذمت کرنے والے ہی نہ رہیں.اور جب مذمت کرنے والے ہی نہ ہوں گے تو صرف تعریف کرنے والے رہ جائیں گے.اس طرح اسے مقام محمود حاصل ہو جائے گا.دوسرا طریق یہ ہے کہ دشمن کے لئے گرفت کا کوئی موقع نہ رہے یعنی اس کی زندگی اس قسم کی ہو کہ دشمن اس پر کوئی اعتراض نہ کر سکے.یہ صورت اگر ہو تو پھر بھی اس کی تعریف ہی ہوتی ہے.یہ دو طریق ہیں جن سے مقام محمود پر کوئی شخص کھڑا ہو سکتا ہے.ان دو کے سوا تیسرا اور کوئی طریق نہیں.جس سے کوئی شخص مقام محمود پر کھڑا ہو سکے اگر کسی کے دشمن نیست و نابود نہیں ہو گئے.اگر اس کے مخالف است کے ہم خیال نہیں ہو گئے تب بھی اس کی تعریف نہ ہوگی.اور وہ مقام محمود پر نہ ہو گا.اور اگر اس کا کام نا مکمل ہے تب بھی اس پر اعتراض ہوتے رہیں گے.اور لوگ گرفت کرتے رہیں گے.پس یہ دو باتیں ہیں جن سے کسی شخص کی حمد میں فرق آتا ہے کہ یا تو اس کے کام میں نقص ہو اور وہ غیر مکمل ہو یا اس کے دشمن قائم رہیں.اب ان دونوں باتوں کو مد نظر رکھ کر دیکھو کہ کیا رسول کریم دنیا کے لحاظ سے مقام محمود پر پہنچ گئے.اور دعوت نامہ اور صلوٰۃ قائمہ جو اس مقام محمود کے پانے کے دو ذریعے ہیں.کیا مسلمانوں نے ان دونوں پر پورا پورا عمل کیا.اگر نہیں تو صاف ظاہر ہے کہ رسول کریم کو وہ مقام محمود حاصل ہونے میں جو ہمارے اعمال سے وابستہ ہے.مسلمانوں کی مستیاں اور کوتاہیاں روک بنی ہوئی ہیں.ایک شخص جب یہ دعا پڑھتا ہے تو یہ کہتا ہے اے خدا تو نے ایسی زندا کی ہے جو تامہ ہے.جو لوگوں کو تیری طرف بلاتی ہے یہ تبلیغ ہے.دوسری بات صلوۃ قائمہ ہے جس سے اصلاح نفس مراد ہے.قائم اسے کہتے ہیں جس کا نفع قائم رہے.اور اس کی ضرورت مندی نہ ہو.کہتے ہیں بازار قائم ہے.اس کا مطلب یہ ہوتا ہے خوب سودا بکتا ہے.اسی طرح صلوٰۃ قائم ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیشہ اس کے فائدے قائم رہتے ہیں.ان دونوں باتوں کو دیکھ کر ہم دعا کرتے ہیں.اے خدا جس کے وجود کے ذریعہ ہمیں یہ فائدے نصیب ہوئے اسے زیادہ قرب عطا کر.اور اس کو وہ مقام محمود دے جو ہمارے اعمال کے ذریعہ ملنا ہے.غرض اس دعا میں ایک طرف تو تبلیغ کی طرف توجہ دلائی ہے اور دوسری طرف اندرونی اصلاح کی طرف متوجہ کیا ہے اگر مسلمان اس کو سمجھ لیں.اور تبلیغ کے کام میں لگ جائیں تو دنیا مسلمان ہو سکتی ہے.اس طرح جب رسول کریم ان کے حکم کو برا کہنے والا کوئی نہ رہے گا تو آپ اس مقام محمود پر کھڑے ہو جائیں گے جس کے لئے مسلمانوں کو یہ دعا سکھلائی گئی ہے یعنی
خطبات محمود Ar سال 1927ء آپ کو مقام محمود حاصل ہو جائے گا.خدا مسلمانوں کو توفیق دے کہ رسول کریم ﷺ ان کے ذریعے اس مقام محمود پر کھڑے ہو جائیں یہ وہ کام ہے جس میں اگر مسلمان غفلت کریں تو رسول کریم کو مقام محمود حاصل نہیں ہو سکتا باقی جو قیامت کے دن کا مقام محمود ہے وہ خدا تعالٰی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور وہ تو آپ کو مل چکا ہے.جو آپ کو ملنے والا ہے اور جو آذان اور نماز کے ساتھ تعلق رکھتا ہے وہ ساری دنیا کو تبلیغ کر کے آپ کے ثنا خوانوں میں داخل کرنا اور اپنی اصلاح کرنا ہے.اذان تبلیغ کی قائم مقام ہے اور نماز اصلاح کی قائم مقام پس مسلمانوں کا یہ فرض ہے کہ ایک طرف تبلیغ کریں اور دوسری طرف اصلاح نفس.پھر آنحضرت ا اس مقام محمود پر پہنچ سکتے ہیں جو ہمارے اعمال سے تعلق رکھتا ہے.تبلیغ ہو اور اس حد تک ہو کہ دنیا کے سب آپ کی تعریف کرنے والے ہو جائیں اور کوئی بھی برائی اور مذمت کرنے والا باقی نہ رہے.پھر اصلاح نفس ہو.اور اس درجہ تک ہو کہ دشمن اور سخت سے سخت مخالف بھی اگر ایک مسلمان کو دیکھیں.تو اس کی تہذیب اس کی شائستگی اس کے تقویٰ اس کی طہارت اور اس کے تزکیہ کو دیکھ کر کہہ اٹھیں واہ واہ کیا ہی اچھا اور اعلیٰ نمونہ ہے.اور مبارک ہے وہ استاد جس نے ان کو ایسا بنایا.لیکن اگر تبلیغ نہ کی جائے تو آنحضرت اللہ کی تعریف کرنے والوں کا دائرہ بہت محدود ہو جائے گا.اور مذمت کرنے والوں کا دائرہ بہت بڑھ جائے گا.اور جو تعریف کرنے والے ہونگے.ان میں سے بھی بہت مذمت کرنے والوں کی طاقت سے ڈر کر تعریف نہ کریں گے.اس طرح آپ کی مذمت کرنے والے تو بڑھتے رہیں گے.اور تعریف کرنے والے کم ہوتے جائیں گے.اور جب تعریف کرنے والوں کی کمی ہو اور مذمت کرنے والوں کی کثرت تو کس طرح رسول کریم ہے کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کے لحاظ سے آپ کو مقام محمود حاصل ہو گیا.آنحضرت ا کو مقام محمود تک پہنچانے کے دو ہی ذریعے ہیں.اور وہ یہ کہ دوسروں میں تبلیغ اور اپنی اصلاح نفس.جو شخص تبلیغ کو کمال درجے تک پہنچاتا ہے.اور نفس کی اصلاح رات دن کرتا رہتا ہے.وہ تو حقدار ہے کہ کے اے خدا تو رسول کریم اے کو مقام محمود پر کھڑا کر.لیکن جو شخص نہ تبلیغ کرتا ہے.اور نہ اپنے نفس کی اصلاح اس کا حق نہیں کہ کے وَابْعَثْهُ مُقَامًا محمودا کیا اس کی دعا اس کے منہ پر نہ ماری جائے گی کہ کیا سری گلی چیز لایا ہے.دنیا میں ایسے بے شمار لوگ ہیں جو رسول کریم ﷺ کو گالیاں دیتے ہیں تو ان میں تبلیغ نہیں کرتا ان کو اسلام میں نہیں لاتا.اور نہ اپنے نفس کی اصلاح کرتا ہے اور منہ سے کہتا ہے.محمد رسول اللہ ا کو مقام
خطبات محمود ۸۴ سال 1927ء محمود عطا کر.یہ تو تمہارا کام ہے کہ تم رسول کو اس مقام پر کھڑا کرو.پس یہ ایک ایسی اعلیٰ درجہ کی دعا تھی.جس میں مسلمانوں کو انکی زندگی کا سارا کام بتا دیا گیا تھا.مگر افسوس کہ مسلمان دن میں کئی بار پڑھنے کے باوجود اس کی حقیقت سے غافل ہیں.اسلام کے ابتدائی ایام میں اس کی طرف توجہ ہوئی لیکن بعد میں سینکڑوں سال سے غفلت ہو رہی ہے.اب احمدی جماعت نے پھر اس زمانہ میں اس کی طرف توجہ کی ہے.مگر یہ سارے مسلمانوں کا فرض ہے کہ اس وقت وہ اس دعوت نامہ میں لگ جائیں.مسلمان کہتے ہیں اسلام وہ تلوار ہے جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا پھر کیا مسلمانوں کا یہ کام نہیں کہ وہ اس تلوار کو لے کر گھروں.روں سے نکلیں لیکن مسلمان اس طرف سے غافل ہیں.کیا ایک شخص جو جانتا ہے کہ میرے ہتھیار تیز ہیں اور میری تلوار کا کانا بچتا نہیں.وہ دشمن کے حملہ کرنے کے موقع پر گھر میں بیٹھا رہتا ہے.اگر واقعہ میں مسلمانوں کو یقین ہو تا کہ یہ وہ تلوار ہے جس کا کاٹا بچتا نہیں تو وہ ضرور اسے استعمال کرتے.وہ مونہوں سے ہزار دفعہ اتِ مُحَمَّدَانِ الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ کہیں.وہ کہتے رہیں کہ اے خدا تو آنحضرت ا کو وسیلہ اور فضیلت دے.مگر اس کا کیا فائدہ جب تک وہ ایسے کام نہیں کرتے جن سے رسول کریم ﷺ کو یہ مقام محمود مل سکتا ہے.سوچو آنحضرت ﷺ کو وہ مقام کیونکر ملے جس کا تعلق ہم سے ہے.جب کہ ہماری طرف سے اس کے لئے کوشش نہیں ہوتی.ایک جرنیل ایسے وقت میں جب لڑائی ہو رہی ہو اپنے گھر کے دروازے بند کرے.زیرہ اتار دے.ہتھیار الگ کر دے.چارپائی پر لیٹ جائے.لحاف اوڑھ لے.اور منہ سے کہے.ہمارے بادشاہ کا ملک وسیع ہو جائے.اسے فتح حاصل ہو.تو کون اسے عقلمند اور بادشاہ کا خیر خواہ کے گا.جب کو جنگ شروع ہے تو اس کا فرض ہے کہ ہتھیار لگا کر باہر آئے اور لڑے.پھر یہ کہے تو بادشاہ کا خیر خواہ کہلائے گا.ورنہ اگر گھر میں بیٹھا رہتا ہے.تو وہ انعام کا مستحق نہیں سزا کا مستحق ہے.اور اس لائق ہے کہ سر بازار اس کے جوتے لگائے جائیں.کیونکہ وہ جنگ کے وقت لحاف اوڑھ لیتا اور صرف منہ سے کہتا ہے ہمارے بادشاہ کا ملک وسیع ہو.صرف منہ سے کہنے سے بادشاہ کا ملک وسیع نہیں ہو گا بلکہ جنگ کرنے سے ہو گا.اگر وہ سچا ہے تو اسے چاہئے تھا کہ تلوار لے کر باہر آتا اور دشمن سے لڑتا.لیکن بغیر لڑنے کے جو ایسا کہتا ہے.جھوٹ کہتا اور سزا کے لائق ہے.وسیلہ اور فضیلت یہ ہے کہ تبلیغ اور اصلاح کے ذریعہ رسول کریم ان کو وہ مقام محمود حاصل ہو.جو پہلے نبیوں کو نہیں ملا.اور یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ مثلاً اگر حضرت موسیٰ دس
خطبات محمود ۸۵ سال 1927ء آدمیوں کے متعلق کہیں کہ ان کو میرے ذریعہ ہدایت ہوئی.تو محمد رسول اللہ کئی ہزار کو پیش کر دیں کہ ان کو میرے ذریعے ہدایت ہوئی ہے.حضرت موسیٰ اگر ایک کروڑ کو لا ئیں تو آنحضرت ا دس کروڑ کو لا کھڑا کریں کہ ان کو میرے ذریعے ہدایت ہوئی ہے.اور میرے ذریعے انہوں نے اصلاح پائی ہے.کیا یہ فضیلت ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھے رہنے سے حاصل ہو سکتی ہے ہرگز نہیں یہ تبلیغ اور نفس کی اصلاح سے ہی حاصل ہوگی.دیکھو ایک شخص زمین میں دانہ ڈالتا نہیں اور غلہ کے لئے دعا کرتا ہے تو صرف دعا سے اس کا غلہ کیسے بڑھے گا.مسلمان بھی جب تک کام نہ کریں اور جب تک تبلیغ نہ کریں کیسے بڑھ سکتے ہیں.مسلمانوں نے اگر پہلے نہیں سمجھا تو اب اچھی طرح سمجھ لیں کہ یہ ان کا فرض ہے کہ وہ اٹھ کھڑے ہوں.اور دنیا کا کوئی کونہ نہ رہ جائے جس میں پہنچ کر وہ تبلیغ اسلام نہ کر رہے ہوں.اگر آنحضرت ا ساری دنیا کی اصلاح کی تعلیم لائے تھے.اور یقینا لائے تھے تو مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اس رنگ میں اپنی اصلاح کریں کہ دنیا کے لوگ پکار اٹھیں.محمد رسول ﷺ کیسے انسان تھے.جنہوں نے اس قسم کے لوگ پیدا کر دیئے.مگر افسوس ہے کہ مسلمان اپنی اصلاح کرتے ہیں اور نہ تبلیغ.یہ زمانہ اسلام پر بہت نازک زمانہ ہے اس میں خصوصیت سے آنحضرت ﷺ پر حملے ہو رہے ہیں.جس طرح بھی ممکن ہو دشمن آپ کی ہر بات پر اعتراض کر کے اسے بڑی مشکل میں پیش کر رہے ہیں.رنگیلا رسول کے مصنف کو اگر ۱۸ ماہ کی قید ہو گئی تو کیا.اور اگر دس سال کی قید ہو جائے تو کیا.کیا اس سے رسول کریم ا یہ مقام محمود پر کھڑے ہو جائیں گے.یہ تو ایک سرکاری جج نے فیصلہ کیا ہے کہ رنگیلا رسول کے مصنف کو سزاد یکر ظاہر کیا کہ محمد رسول اللہ ا ان باتوں کے مستحق نہیں جو آپ کے متعلق کسی گئیں.مگر یاد رکھو رسول کریم انگریزوں کی یا کسی اور کی دی ہوئی تعریف کے ذریعہ مقام محمود نہیں پاسکتے.سینکڑوں ہزاروں گالیاں دینے اور مذمت کرنے والوں میں سے اگر ایک شخص کو سزا مل گئی تو کیا ہوا.اس طرح نہ وہ گالیاں دینی چھوڑے گا اور نہ ہی ایسے لوگ پیدا ہونے میں کمی ہوگی.اس کا تو ایک ہی ذریعہ ہے کہ اگر مسلمان اپنے طریق سے یہ بات ثابت کر دیتے.اپنے چال چلن سے یہ بات ثابت کر دیتے ہیں.اپنے تقوی اور دینداری سے یہ بات ثابت کر دیتے کہ وہ متقی اور پرہیز گار ہیں.وہ دیانتدار ہیں.محنتی ہیں.کوشش کرنے والے ہیں اور علوم و فنون میں ترقی کرنے والے ہیں.تو لوگ خود ہی تعریف کرتے اور خود ہی آنحضرت ا لے کی خوبیاں بیان کرتے.پھر اگر ہزار رنگیلا بھی نکلتے تو ان کا کوئی اثر نہ
خطبات محمود سال 1927ء ہوتا.یا اگر مسلمان تبلیغ کے لئے کھڑے ہو جاتے.اور ان لوگوں میں سے جو اعتراض کرتے ہیں لاکھوں کو مسلمان بنا لیتے.تو مذمت کرنے والے کم اور مدح کرنے والے زیادہ ہو جاتے اور آنحضرت اللہ کی حمد بڑھنی شروع ہو جاتی.میں اس موقع پر خصوصیت سے اپنی جماعت کے لوگوں سے کہتا ہوں کہ وہ کھڑے ہو جائیں.ایک مکمل ندا اور ایک کامل عبادت ان کو دی گئی ہے جس کے نتائج یقینی ہیں.ان سے فائدہ اٹھانا چاہئے.کیونکہ ان سے اگر فائدہ اٹھایا جائے گا تو آنحضرت اللہ کی مذمت کرنے والوں کی تعداد کم ہو جائیگی اور مدح کرنے والوں کی تعداد بڑھ جائے گی.یہی وہ طریق ہے جس سے تم رسول کریم کو مقام محمود پر کھڑا کر سکتے ہو.اور یہ تمہارے اختیار میں ہے.چاہو تو آپ کو اس منبر پر کھڑا کر دو جس پر آپ کی تعریف ہو.اور چاہو تو اس جگہ پر آپ کو لے آؤ جہاں آپ کی مذمت ہو.لیکن اس صورت میں تمہارا یہ دعا مانگنا کہ اے خدا آنحضرت ﷺ کو مقام محمود پر کھڑا کر تمسخر ہو گا ہتک ہو گی اور بے عزتی ہوگی.میں اپنی جماعت کے سوا باقی مسلمانوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ اگر وہ پہلے نہیں سمجھے تو آج میرے ذریعے اس دعا کو سمجھ لیں.اور اس شخص کے ذریعے اس دعا کو سمجھ لیں جسے خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس کا مطلب سمجھایا اور جس کے دل میں اسلام کا درد ہے.اس میں ان کی کوئی بتک نہیں.اگر وہ میرے ذریعہ اس دعا کو سمجھ لیں گے.تو پھر بھی وہ معزز کے معزز ہی رہیں گے.لیکن دشمنوں کی یہ بد سلو کی دیکھ کر بھی وہ اگر اب اس طرف توجہ نہ کریں تو دوہرے مجرم ہو نگے ایک پہلے کام نہ کرنے کے اور دوسرے اس وقت غفلت کرنے کے اور اس دعا کو نہ سمجھنے کے.پس میں پھر ان سے کہتا ہوں کہ اگر اسلام کا دردان کے اندر ہے تو وہ اس دعا کے مطلب کو مجھ سے سمجھ لیں اور پھر اس پر عمل کریں.میں خداتعالی سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں اس بات کی توفیق دے کہ ہم اس کے دین کے لئے کوشش کرنے والے ہوں تقویٰ حاصل کرنے والے ہوں.اور ان برکتوں کو جو اسلام لایا دنیا میں پھیلا دیں.اور آنحضرت ا کی لائی ہوئی تعلیم کو دنیا کے کونہ کو نہ میں پہنچادیں.(کیونکہ اس طرح آپ کی مذمت کرنے والے کم ہو جائیں گے.اور دین کو پھیلانے والے اور آنحضرت کی مدح کرنے والے زیادہ ہوں گے ) - اللهُمَّ مِيْنَ يَا رَبَّ الْعَالِمِينَ.خطبہ ثانیہ میں فرمایا :
۸۷ سال 1927ء میں دوستوں کو اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ آج جمعہ کی نماز کے بعد انشاء اللہ میں ایک مخلص نوجوان کا جنازہ پڑھاؤں گا چودھری ظہور حسین صاحب بی.اے جو شملہ میں ملازم تھے.اور یہاں سے قریب اس ضلع کے ایک گاؤں چودھری والہ کے رہنے والے تھے.پچھلے دنوں اپنے گاؤں میں فوت ہو گئے ہیں.ان کا جنازہ پڑھنے والے ان کے بھائی اور ایک آدھ اور احمدی تھے.علاوہ ازیں وہ اپنی عمر کے لحاظ سے اعلیٰ درجہ کے مخلص اور ایک امید افزا وجود تھے.نوجوانوں میں بعض خصوصیتیں ہوتی ہیں.اور ہماری جماعت کے نوجوان دوسرے نوجوانوں سے اچھے ہوتے ہیں.ان میں سے جو کمزور اور کمتر درجے کے نوجوان ہیں.وہ بھی دوسرے نوجوانوں سے اچھے ہوتے ہیں.لیکن چودھری ظهور حسین صاحب ہماری جماعت کے اچھوں میں بھی فضیلت رکھتے تھے.گورنمنٹ آف انڈیا میں اچھے عہدہ پر ملازم تھے.اور ایک ایسے مقام پر رہتے ہوئے جہاں ہر قسم کے آرام اور دنیاوی عزت کے سامان تھے.وہ اس طرح کی زندگی بسر کرنے سے بیزار تھے.متواتر دو تین سال سے وہ مجھے خط لکھ رہے تھے کہ اگر اجازت دیں.تو میں ملازمت چھوڑ کر اپنے رشتہ داروں کو تبلیغ کرنے میں مصروف ہو جاؤں.مگر میں نے ان کو اجازت نہ دی کہ شاید وہاں ان کے ذریعے زیادہ فائدہ ہو.اس طرح گویا ان کی نوکری بھی میرے ہی حکم سے تھی.کیونکہ میرے حکم سے وہاں ٹھہرے ہوئے تھے.علاوہ ازیں ان میں سلسلے کے لئے غیرت تھی.اور ایسے لوگ جن کے متعلق کہا جا سکتا ہے.خواہ کچھ ہو جائے ان کے ایمان میں تزلزل نہیں آسکتا وہ ان میں سے تھے.اللہ تعالٰی کی کوئی حکمت ہوگی کہ ان کو اٹھالیا.میں ان کا آج جنازہ پڑھاؤں گا ان کے والد جماعت میں داخل نہیں.جن کے احمدی ہونے کے متعلق ان کے دل میں بڑی تڑپ تھی.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالٰی ان کو سلسلہ میں داخل کرے.ان کا ایک بچہ اور شاید دو لڑکیاں ہیں.ان کے لئے بھی دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ان کا حافظ و ناصر ہو.(الفضل ۱۰/ مئی ۱۹۲۷ء)
سال 1927ء لاہور کا خونی ہنگامہ (فرموده ۶/ مئی ۱۹۲۷ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج میں فطرت انسانی کے اس تاریک ترین پہلو کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں جس پر نگاہ ڈالتے ہوئے وہ انسان جس کی نسبت بائبل میں آتا ہے کہ خدا نے اسے اپنی شکل پر پیدا کیا اور جس کی نسبت اسلام کہتا ہے کہ اشرف المخلوقات ہے.وہ نہایت ہی بدصورت اور ہیبت ناک جانوروں کی شکل میں نظر آتا ہے.اگر انسان کے اخلاق حیوانوں سے بہتر نہیں تو وہ ان سے بھی بد تر صورت میں اپنے آپ کو پیش کرتا ہے ابھی تازہ واقعہ ہے.اور یہ واقعہ اکیلا نہیں.بلکہ ایک لمبے سلسلہ واقعات کی کڑی ہے.اور نہیں کہہ سکتے کہ یہ آخری کڑی ہوگی یا اور بہت سی کڑیاں یکے بعد دیگرے اس سے جڑتی جائیں گی.وہ واقعہ یہ ہے کہ لاہور میں اترسوں منگل کے دن عشاء کی نماز پڑھ کر کچھ مسلمان ایک مسجد سے نکل رہے تھے کہ ان پر کچھ سکھ اور ہندو یہ کہتے ہوئے حملہ آور ہوئے کہ مار ڈالو.کسی کو نہ چھوڑو.مسلمانوں کی احکام دین سے بے توجہی کے باعث نماز پڑھنے والے عموماً غریب طبقہ کے لوگ ہوتے ہیں.اور آج کل کی مذہبی حالت کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ بڑھے جو سمجھتے ہیں کہ اب ہم مرنے والے ہیں خدا کو یاد کر لیں ورنہ کیا جواب دیں گے.وہی عام طور پر نمازی ہوتے ہیں.ورنہ امراء اور نوجوان طبقہ کے لوگ تو نماز کے قریب جانا پسند ہی نہیں کرتے.اور وہ اسے چھوڑ چکے ہیں.پس وہ لوگ جو نمازیں پڑھتے ہیں.ان میں عموماً وہی لوگ ہوتے ہیں.جو نہ آج کل کے ہندو مسلم جھگڑوں سے وابستہ ہوتے ہیں نہ ان میں ان کا دخل ہوتا ہے.اور نہ انہیں کوئی پوچھتا ہے.وہ اپنے دن مصیبت سے گزار رہے ہوتے ہیں اور قبر میں پاؤں لٹکائے موت کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں ایسے لوگوں پر اس وقت جبکہ وہ بے خبر ہوں.اور ایسی
خطبات محمود ۸۹ سال 1927ء حالت میں جبکہ وہ بالکل نہتے ہوں.کچھ مضبوط اور قوی آدمیوں کا ہتھیار لے کر جاپڑنا بہتوں کو زخمی کر دینا اور کئی کو مار دینا انسانی فطرت کا ایسا تاریک پہلو پیش کرتا ہے جو نہایت ہی بھیانک ہے.خبر ہے کہ اس وقت تک تین مسلمانوں کو سکھوں اور ہندوؤں نے قتل کر دیا.ایک ہندو کو زخمی کر دیا.مگر اس لئے کہ وہ شلوار اور مسلمانوں کی سی ٹوپی پہنے ہوئے تھا.جب اس نے بتایا کہ میں ہندو ہوں تو پھر اسے چھوڑ دیا گیا.اس کے علاوہ اور بہت سے مسلمان زخمی ہوئے.اس کے بعد برابر ہند و مسلمانوں میں فساد کی رو چل رہی ہے.اس وقت تک سات آٹھ آدمی اور مارے جاچکے ہیں.اور ایک سو کے قریب زخمی ہسپتال میں پڑے ہیں.حالانکہ جوش دکھانے والے بے خبر مسلمانوں کو قتل اور زخمی کرنے والے.مسلمانوں کے خلاف تدبیریں کرنے والے اور ان کا نام و نشان مٹانے کی تیاریاں کرنے والے اور ہیں.اور مارے اور جا رہے ہیں.اسی طرح مسلمانوں میں سے اکثر اس وجہ سے ہندوؤں کے ظلم وستم کا شکار ہو رہے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں.ورنہ فساد سے انہیں کوئی تعلق نہیں.کوئی گھر سے سودا لینے بازار گیا.اگر مسلمان تھا تو ہندوؤں نے اکیلا دیکھ کر مار ڈالا.اور اگر ہندو تھا تو مسلمانوں نے مار دیا.کوئی بیمار کے لئے دوائی لینے گیا.اسے بار ڈالا.اکثر واقعات جو اس وقت تک ہوئے ہیں.ایسے ہی ہیں کہ وہ مظلوم جن پر ستم توڑا گیا.بالکل بے قصور اور بے گناہ ہوتے ہیں.ان کا فساد سے کوئی تعلق نہیں ہوتا.محض اس لئے قتل کر دیے جاتے ہیں.یا زخمی کر دیے جاتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں یا ہندو.یہ دراصل نتیجہ ہے اس رو کا جو دیر سے چل رہی ہے.اور یہ نتیجہ ہے ہندو لیکچراروں کے ان لیکچروں کا جن میں انہوں نے ہندوؤں کو یہ تلقین کی ہے کہ یا تو مسلمانوں کو ہندوستان سے بالکل خارج کر دیا جائے.اور باقی ہندو ہی ہندو رہ جائیں.یا پھر ہندو مسلمان ہو کر رہیں.اس کے سوا ان کے لئے اور کوئی چارہ نہیں ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہندو لیکچراروں کی قوم میں مسلمانوں سے عداوت اور دشمنی بڑھ رہی ہے.اور وہ کہتے ہیں.ہندو لیڈر تو جب یہ کام شروع کریں گے دیکھا جائے گا.ہم سے جس قدر ہو سکے ہم اسے شروع کر دیں.ہم احمد کی بظاہر ان حالات سے متاثر نہیں ہوتے کیونکہ ان کا اثر براہ راست ہم پر نہیں پڑتا.لیکن اگر تھوڑی دیر کے لئے اس وحشت کو اپنی آنکھوں کے سامنے لائیں جس سے کام لیا جا رہا ہے.اور یہ نقشہ کھینچیں کہ ایک شخص بھلا چنگا گھر سے نماز کے لئے جاتا ہے یا اپنے کسی عزیز بیمار کے لئے دوالانے کے لئے گھر سے نکلتا ہے.یا بائیسکل پر سوار ہو کر کہیں جا رہا ہے اور مارا جاتا ہے.جب اس کے گھر والوں کو یہ خبر پہنچے گی کہ ان کا آدمی نماز پڑھ کر واپس آنے کی بجائے خون میں لتھڑا ہوا
خطبات محمود 9.سال 1927ء دم تو ڑ رہا ہے یا مر گیا ہے.یا بیمار جس کی جان لبوں پر تھی وہ تو ابھی زندہ ہے.لیکن اس کے لئے جو چنگا بھلا دوائی لینے گیا تھا وہ قتل ہو گیا ہے.یا جس کی بیوی منتظر ہو گی کہ اس کا خاوند یا جس کی ماں منتظر ہوگی کہ اس کا بچہ یا جس کی بہن منتظر ہوگی کہ اس کا بھائی یا جس کے بچے منتظر ہوں گے کہ ان کا باپ ابھی ابھی بائیسکل پر سوار گھر آنے والا ہے وہ جب یہ سنیں گے کہ ان کے باپ کی لاش بازار میں پڑی ہے.یا جب ماں بنے گی کہ اس کے بچے کی لاش ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی ہے یا جب بہن سنے گی کہ اس کا بھائی خون سے نہا کر دم تو ڑ رہا ہے یا جب بیوی سے گی کہ اس کا خاوند اس بے دردی اور بے رحمی سے ہلاک کر دیا گیا ہے تو ان کی کیا حالت ہوگی.ایسی بیواؤں ایسے قیموں ، ایسے والدین ایسے بہن بھائیوں کی حالت کا نقشہ آنکھوں کے سامنے کھینچو.اور پھر بتاؤ.ان کی کیا حالت ہو گی.ہر شخص کی ماں، بہن، بیوی، بچے عزیز دوست کوئی نہ کوئی ہوتا ہے.اور کوئی ایسا شخص نہیں جو آسمان سے گرا ہو جس کے ماں باپ نہ ہوں یا بیوی بچے نہ ہوں یا بہن بھائی نہ ہوں یا اور رشتہ دار نہ ہوں ضرور کوئی نہ کوئی ہر ایک کا رشتہ دار ہوتا ہے مگر افسوس ہے.بہت کم لوگ ہیں جو دوسروں کی مصیبت اور حالت کا پورا اندازہ کرتے ہیں.ہاں جب خود ان پر اس قسم کی مصیبت آتی ہے.تب انہیں معلوم ہوتا ہے کہ کتنی تکلیف کنارنج اور کتنا صدمہ ہوتا ہے.انہی بے قصوروں کو مارنے والوں کے گھروں میں اگر دو دن کا بچھڑا بھی مر تاتو آسمان سر پر اٹھا لیتے.مگر ان کو اتنا خیال نہ آیا کہ جنہیں وہ مار رہے ہیں ان کے بھی بہن بھائی ہوں گے.ان کے بھی بیوی بچے ہوں گے.ان کے بھی رشتہ دار ہوں گے ان کی کیا حالت ہوگی.ان کے مارنے سے مسلمان مٹ نہیں گئے.اور نہ مٹ سکتے ہیں.اب بھی موجود ہیں.اور انشاء اللہ ہمیشہ موجود رہیں گے مگر وہ گھر برباد ہو گئے.وہ خاندان تباہ ہو گئے.وہ مکان ویران ہو گئے.وہ بسنے والے اجڑ گئے.جن پر آفت آئی اور ظالموں اور سفاکوں کے ہاتھوں بلا وجہ اور بغیر قصور آئی.پس یہ نہایت ہی تاریک فعل ہے.اور ایسا شرمناک فعل ہے.جس پر ہر وہ انسان جو شرافت اور انسانیت کی صفات سے خالی نہیں ہو گیا ملامت کرے گا.اور اظہار نفرت کرنا اپنا فرض سمجھے گا.شردھانند صاحب کے قتل پر اس لئے کہ جس وقت قتل کیا گیا اس وقت کوئی خاص وجہ پیدا نہ ہوئی تھی تمام مسلمانوں نے اس فعل سے اظہار نفرت کیا.اور کسی قسم کی ہمدردی اس سے ظاہر نہ کی.مگر وہاں تو ایک شردھانند قتل ہوا تھا.یہاں تین ان میں ایک کا اور اضافہ ہو چکا ہے.جو زخموں کی وجہ سے بعد میں فوت ہو گیا) مارے گئے ہیں.اور بلاوجہ بلا قصور مارے گئے ہیں.اب ہم دیکھیں گے کہ ہندو کس طرح ان کے قاتلوں سے اظہار نفرت کرتے اور کیونکران
خطبات محمود 91 سال 1927ء کے فعل کو ناجائز قرار دیتے ہیں.اگر انہوں نے اسی جوش اور اسی طریق سے اظہار نفرت کیا.جس طرح مسلمانوں نے شردھانند کے قتل پر کیا تھا.تو ہم سمجھیں گے کہ ہندوؤں میں بھی تبدیلی آگئی ہے.اور شرافت اور انسانیت کے جذبات ان میں پیدا ہو گئے ہیں.لیکن اگر انہوں نے قاتلوں کے فعل پر پردے ڈالنے کی کوشش کی اور ان کے مددگار بن گئے.تو اس کے یہ معنی ہوں گے.کہ یہ قوم انسانیت کے دائرہ سے نکل کر حیوانیت کے دائرہ میں داخل ہو چکی ہے.بلکہ اس سے بھی بد تر حالت کو پہنچ چکی ہے.اور اس سے صلح کر کے مسلمان اس ملک میں امن سے نہیں رہ سکتے.آج تک کا پچھلا تجربہ بتاتا ہے کہ جہاں کہیں بھی ہندوؤں پر ظلم ہوا.مسلمانوں نے ان سے ہمدردی کی.اور اس فعل کے کرنے والوں سے اظہار نفرت کیا.لیکن جہاں جہاں مسلمانوں پر ہندوؤں نے مظالم کئے.وہاں ہندوؤں نے نہ تو مسلمانوں سے ہمدردی کا اظہار کیا اور نہ اپنی قوم کے ظالم اور بے رحم لوگوں کے افعال سے اظہار نفرت کیا.یہی وجہ ہے کہ ان میں مسلمانوں کے خلاف جوش اور جرأت بڑھتی جارہی ہے.آج بھی اگر ہندو لیڈر مسلمانوں پر رحم کر کے نہیں بلکہ اپنی قوم پر رحم کر کے کیونکہ بالاخر نقصان انہی کو اٹھانا پڑتا ہے جو ظالم ہوں.ظالم قوم جو قبر دو سرے کے لئے کھودتی ہے دراصل اس میں خود گرتی ہے.یہی وجہ ہے کہ ظالم کبھی جیت نہیں بلکہ ہمیشہ مغلوب ہوتا ہے.پس یہ ظلم ان کو فائدہ نہیں دے سکتا.اس لئے اگر وہ اپنی قوم کے ایسے افعال سے اظہار نفرت کریں گے تو اس سے ان کی قوم کے اخلاق بچ جائیں گے.مجھے یہ بات معلوم کر کے نہایت افسوس ہوا ہے کہ ہندوؤں اور سکھوں کے ظلم کے بعد مسلمانوں نے بھی بعض ہندوؤں اور سکھوں کو مارا پیٹا ہے.میں ان کے اس فعل پر بھی اسی طرح اظہار نفرت کرتا ہوں.جس طرح ہندوؤں کے فعل پر کیا ہے.مسلمانوں نے جن ہندوؤں یا سکھوں کو مارا ہے.ان کا کوئی جرم نہ تھا.وہ مسلمانوں کے قاتل نہ تھے.اور اس وقت قتل میں شریک نہ تھے ان کو قتل کرنا یا مارنا سخت ناروا اور نا واجب تھا.پس میں مسلمانوں کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ ان کو اپنے افعال اپنے قابو میں رکھنے چاہئیں.وہی انسان وقت پر کام کر سکتا ہے.جو اپنے جوش کو دبا سکتا ہے.اور جو ایسا نہیں کرتا بلکہ فورا نکل جانے دیتا ہے وہ کچھ کام نہیں کر سکتا.انسانی دماغ انجن کی طرح ہوتا ہے.جب انجن میں سٹیم بھر جائے تو چلنے لگ جاتا ہے لیکن جب سٹیم نکل جائے.تو کھڑا ہو جاتا ہے.واقعات اور حوادثات انسان کے دماغ میں سٹیم بھرنے والے ہوتے ہیں.ان کے ذریعہ جو جوش پیدا ہو اسے اگر نکلنے دیں تو وقت پر کچھ کام نہیں دے سکتا.ہاں
خطبات محمود ٩٢٠ سال 1927ء اگر بند رکھیں تو جس طرح انجن چلتا ہے اور سینکڑوں من بوجھ کھینچ کر لے جاتا ہے.اس طرح مسلمان بھی کوئی قابل ذکر کام کر سکیں.اگر ان مصائب پر جو انہیں پیش آرہے ہیں.مسلمان جوش نہ دکھا ئیں صبر سے کام لیں.فور ابد لالینے کی طرف نہ جھک جائیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ اصلی کام کرنے کی طرف ان کو توجہ پیدا ہوگی اور ان کے دماغوں میں جو سٹیم ہوگی وہ انہیں کام دے گی.مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جب بھی ایسے واقعات ہوئے ہیں مسلمان اپنے دماغی انجن کے Valve کو کھول دیتے ہیں اور سٹیم نکل جاتی ہے.مثلاً اب ہی جو فساد ہوا ہے.اس میں مسلمان اگر ہندو اور سکھوں کے ظلم کا جواب دے لیں.تو پھر گھروں میں خاموشی کے ساتھ بیٹھ رہیں گے.اور کہیں گے ہم نے بھی بدلا لے لیا.اس طرح ان کے دل ٹھنڈے ہو جائیں گے.لیکن اگر مسلمان بدلا نہیں لیں گے بلکہ یہ کوشش کریں گے کہ ہم ایک بھی ہندو کو ہند دیا ایک بھی سکھ کو سکھ نہ رہنے دیں گے.اور انہیں مسلمان بنالیں گے.تو یہ ان کے اندر ایک سٹیم ہوگی.جو ترقی کی طرف انہیں لے جائے گی اس طرح غصے فرد نہیں ہوں گے.بلکہ بڑھتے رہیں گے.پس ایسے موقعوں پر جوش کو دبانا مضر نہیں بلکہ مفید ہوتا ہے.وہ لوگ جو اپنے جو شوں کو دبا لیتے ہیں.اور نا جائز کارروائی سے پر ہیز کرتے ہیں وہ کامیاب ہوتے ہیں.کیونکہ ان کے اندر ایسی آگ لگی رہتی ہے جو کبھی نہیں بجھتی.اور ایسی جلن ان کے دلوں میں رہتی ہے کہ وہ ایک لمحہ غافل نہیں ہو سکتے.لیکن جن کے جوش نکل جاتے ہیں.ان کے ارادے بھی بے نتیجہ رہ جاتے ہیں.جن کے سینوں میں آگ دبی ہوئی ہو.ہمیشہ وہی ہو شیار اور خوش رہتے ہیں.اس وقت مسلمانوں کو چاہئے.ان مظالم کا جواب بجائے ہاتھ سے دینے کے زبان سے دیں ، دلائل سے دیں ، فعل سے دیں اور وہ اس بات کی کوشش کریں کہ ان لوگوں کو تبلیغ کی جائے.اور انہیں مسلمان بنایا جائے.رسول کریم اے کے خلاف جس قدر مظالم بڑھتے گئے آپ تبلیغ پر زیادہ زور دیتے گئے.اسی طرح اب مسلمانوں کو بھی اس پر زور دینا چاہئے.دیکھو خود رسول کریم اے کو دشمنوں نے کس قدر تکالیف دیں.آپ کے آدمی مارے گئے.کیسے کیسے عالی شان صحابہ اور مخلص صحابیات قتل کی گئیں مگر رسول کریم ﷺ نے اینٹ کا جواب پتھر سے نہیں دیا.جب صحابہ اور صحابیات کو مارا گیا.رسول کریم ان بھی یہی کر سکتے تھے جواب مسلمان کر رہے ہیں.مگر آپ نے یہ نہیں کیا بلکہ تبلیغ پر اور زیادہ زور دیا.اور اتنا زور دیا کہ وہ جو آپ کو پتھر مارنے والے تھے.وہ آپ کے دست راست بن گئے.اور تبلیغ کے کام میں ہاتھ بٹانے والے ہو گئے اس وقت بھی مسلمانوں کے لئے ایک ہی راستہ کھلا ہے.اور وہ یہ کہ تبلیغ پر زور ہو.
خطبات محمود ۹۳ سال 1927ء دیں.اور سکھوں اور ہندوؤں کو مسلمان بنا ئیں.اگر مسلمان ایسا کریں گے تو یہی خون جو ان کا بہایا گیا ہے ان کے لئے کھاد کا کام دے گا.لیکن اگر انہوں نے خون کے بدلے خون بہا لیا.تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ان کے جوش دب جائیں گے اور ہندوؤں کے مظالم سے بچنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے.دوسری چیز جس کی طرف مسلمانوں کو اور خصوصاً اپنی جماعت کو توجہ دلاتا ہوں.وہ یہ ہے کہ ہم سے پہلے بھی غلطی ہوئی ہے اور اب بھی اسی کا ارتکاب دوبارہ کیا جارہا ہے.اور وہ یہ کہ سکھوں مسلمانوں کے تعلقات اعلیٰ درجہ کے تھے.سکھ مسلمان بزرگوں کا بڑا ادب اور تعظیم کرتے تھے.اپنے عبادت خانوں کی بنیاد ان سے رکھواتے.مسلمانوں کے مقدس مقامات پر جا کر چلہ کشی کرتے.اور ہر طرح مسلمانوں اور اسلام سے اخلاص رکھتے.مگر افسوس کہ مسلمانوں نے بعض سیاسی امور میں غلطی کر کے سکھوں کو اپنا دشمن بنا لیا.اور ہندوؤں نے ان کو جذب کرنا شروع کر دیا.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سکھ جو اسلام کے دروازہ پر تھے ہم سے دور ہو کر دشمن کا ہتھیار بن گئے.یہ ایک بہت بڑی غلطی تھی جو مسلمانوں سے ہوئی.اور جس کا سینکڑوں سال سے ہم خمیازہ اٹھا رہے ہیں.اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی اصلاح فرمائی اور جہاں ایک طرف مسلمانوں کو توجہ دلائی کہ سکھوں کے سب سے بڑے گورو مسلمان تھے.مسلمان بزرگوں سے تعلق رکھتے تھے.مسلمان بزرگوں سے برکت حاصل کرتے تھے.دوسری طرف سکھوں کو توجہ دلائی کہ ان کے بزرگوں کے تعلقات ہندوؤں کی نسبت مسلمانوں سے زیادہ تھے.مسلمانوں کو وہ اپنا ہمدرد اور خیر خواہ سمجھتے تھے.ان کے فیوض سے بہرہ اندوز ہوتے تھے.اس لئے تمہارے تعلقات بھی ہندوؤں کی نسبت مسلمانوں سے زیادہ ہونے چاہئیں.یہ ایک نہایت صحیح رستہ تھا.جسے اگر مسلمان پکڑ لیتے اور سیاسی غلطیاں نہ کرتے.تو اس وقت سکھ مسلمانوں کے ساتھ ملے ہوئے ہوتے.مگر مسلمانوں نے اس مسئلہ کی نزاکت کو نہ سمجھا.اور اس کے متعلق سوائے جماعت احمدیہ کے پوری بے توجہی اور لا پرواہی سے کام لیا.اگر مسلمانوں نے اس مسئلہ کی مذہبی اہمیت نہ سمجھی تھی.تو سیاسی اہمیت ہی سمجھتے.اور خیال کرتے.پنجاب میں مسلمانوں کے ساتھ اگر سکھ بھی مل جائیں تو مسلمانوں کی طاقت کس قدر زبردست ہو سکتی ہے.اسی طرح سکھوں کو مسلمانوں کے ساتھ ملنے سے کس قدر قوت مل جاتی ہے.دونوں کو اتنی طاقت حاصل ہو سکتی ہے.جو سیاسی طور پر پنجاب کی حکومت کو درست رکھنے کے لئے کافی بلکہ کافی سے بھی زیادہ ہے.لیکن اگر سکھ ہندوؤں سے ملیں.تو انہیں
خطبات محمود ۹۴ سال 1927ء کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا.کیونکہ ہندو اور سکھ مل کر بھی مسلمانوں سے کم رہتے ہیں.اور اس طرح سکھ حکمران نہیں بن سکتے.ہاں اگر مسلمانوں کے ساتھ مل جائیں تو حاکم ہو سکتے ہیں.پنجاب میں مسلمانوں کی آبادی ۵۵ فیصدی ہے.اور سکھوں کی ۱۳فی صد.اگر دونوں مل جائیں تو ان کی ۶۸ فی صدی ہو سکتی ہے.اس طرح دونوں مل کر پنجاب پر آزادی سے حکومت کر سکتے ہیں.لیکن اگر سو فی صدی سکھ.۲۹ فی صدی ہندوؤں سے ملیں تو ۴۲ فی صدی بنتے ہیں.اور ۴۲ فی صدی ۵۵ فی صدی مسلمانوں پر غالب نہیں آسکتے کجا یہ کہ مسلمانوں اور سکھوں کی مجموعی تعداد ۶۸ فیصدی پر غالب آ سکیں.پس سیاسی طور پر سکھوں کا فائدہ اسی میں ہے کہ مسلمانوں سے مل جائیں.اور مسلمانوں کا بھی اسی میں فائدہ ہے کہ سکھ ان کے ساتھ مل جائیں.اب گورنمنٹ سکھوں اور ہندوؤں کو مسلمانوں کے مقابلہ میں قریباً نصف حقوق نمائندگی دیتی ہے.لیکن اگر سکھ مسلمانوں کے ساتھ مل جائیں تو بہت زیادہ دینے پر مجبور ہوگی.پس سیاسی طور پر بھی مسلمانوں اور سکھوں کا اس میں فائدہ تھا.کہ آپس میں مل جاتے.لیکن جن لوگوں کے نزدیک مذہب بھی کچھ حقیقت رکھتا ہے.وہ اس بات پر غور کر سکتے ہیں کہ سکھ تو حید کو ماننے والے ہیں اور ہندو مشرک ہیں.آریہ کہتے ہیں کہ وہ بت پرست نہیں ہیں مگر مادہ کو وہ بھی ازلی ابدی قرار دے کر خدا کے برابر کر دیتے ہیں.اس طرح وہ بھی مشرک ہی ہیں.لیکن سکھ سب چیزوں کا خالق خدا کو مانتے ہیں.اور وہ موحد ہیں.پس مذہبی طور پر جتنا اتحاد سکھوں سے ہو سکتا ہے اتنا ہندوؤں سے نہیں ہو سکتا.اور مجھے تو جب کوئی سکھ ملا ہے.اور میں نے اس طرف اسے توجہ دلائی ہے تو وہ مان گیا ہے کہ فی الواقع مسلمانوں کے ساتھ سکھوں کے تعلقات بہت استوار ہو سکتے ہیں.اگر مسلمان ذرا بھی حکمت سے کام لیتے تو سکھ ہندوؤں سے نہیں مل سکتے تھے.اور مسلمانوں سے ان کا اتحاد ہو سکتا تھا.اگر انہیں یہ بتایا جاتا کہ تمہارے بزرگوں سے مسلمانوں نے کیسے کیسے اچھے سلوک کئے.اور تمہارے بزرگ انہیں کیسا اچھا سمجھتے تھے.تو درمیانی واقعات کو وہ یقیناً بھلا دیتے.اگر کوئی سکھوں کو یہ سمجھاتا اور ان کے ذہن نشین کرا دیتا کہ سکھ دھرم کے بانی سے مسلمانوں نے کیا سلوک کئے.اور انہیں بھی مسلمانوں سے اس قدر تعلق تھا کہ مسلمان بزرگوں کے مقامات پر چلہ کشی کرتے.پھر بعد میں بھی سکھ بزرگوں کو مسلمان بزرگوں سے عقیدت رہی.چنانچہ امرت سر کے مشہور دربار صاحب کی بنیاد ایک مسلمان بزرگ میاں میر صاحب کے ہاتھوں رکھوائی گئی.تو بزرگوں کی محبت اور عقیدت کی وجہ سے وہ واقعات بھول جاتے جو سکھوں اور مسلمانوں میں شکریکی
خطبات محمود १० سال 1927ء کا باعث ہوئے.اب بھی مسلمانوں کو چاہئے کہ سکھوں سے دوستانہ تعلقات قائم کریں اور بتائیں کہ مسلمانوں کے ان کے ساتھ جو تعلقات رہے ہیں وہ اوروں کے نہیں رہے.لوگ سکھوں کو بے جا جو شیلے اور کم سمجھ کہتے ہیں.لیکن مجھ سے جو ملے ہیں.میں نے ان میں سعادت پائی ہے خصوصیت کے ساتھ ان پر بڑی اثر کرنے والی بات یہ ہے کہ مسلمان مواحد ہیں.اور سکھوں میں توحید پر بڑا یقین پایا جاتا ہے.چونکہ خدا کی محبت اس قوم کو اسلام کی طرف لانے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے.اس لئے ان سے صلح اور دوستی رکھنا کوئی مشکل بات نہیں ہے.پس جہاں تک ہو سکے.مسلمانوں کو سکھوں سے محبت رکھنی چاہئے.اور انہیں اپنے خلاف ہندوؤں کا ہتھیار نہیں بنے دینا چاہئے.بیشک اس میں مشکلات بھی ہیں مگر ان کا علاج کرنا چاہئے.ایک سب سے بڑی مشکل تو یہ ہے کہ جہاں سکھ مرد توحید کے قائل ہیں.وہاں سکھوں کی عورتیں ویسی ہی مشرک ہیں جیسے اور ہندو عورتیں.اور ان کے گھروں میں ہندوانہ رسوم موجود ہیں.اس کا بہت بڑا اثر مردوں پر بھی پڑتا ہے اور وہ کچھ نہیں کر سکتے.ایک دفعہ مجھے اس بات کا خاص طور پر تجربہ ہوا.میری عمر بارہ تیرہ سال کی ہوگی کہ ہم چند بچے ہوائی بندوق لے کر شکار کے لئے نکلے.یہاں سے قریب ہی ایک سکھوں کا گاؤں ہے.جس کا نام ناس پورا ہے.جب ہم وہاں گئے تو گاؤں کے اٹھارہ اٹھارہ انیس انیس سال کے نوجوان اور کچھ ان سے بھی بڑی عمر کے ہمارے ساتھ مل گئے.اور شکار بتانے لگے.کہ یہ مارو.وہ مارو.اتنے میں ایک عورت نکلی.جس نے ہمیں تو کہا کیوں جیو ہتیا کرتے ہو.اور سکھ لڑکوں سے کہا.تمہیں شرم نہیں آتی.تمہارے سامنے جیو ہتیا ہو رہی ہے.اس پر ان لڑکوں کی حالت یک لخت بدل گئی.وہ کہنے لگے تم کیوں شکار کرتے ہو.یہاں سے چلے جاؤ.اس وقت مجھے حیرت ہوئی کہ ابھی تو یہ خود ہمیں لائے تھے.اور ہمارے ساتھ ساتھ شکار بتاتے پھر رہے تھے.اور ابھی خلاف ہو گئے ہیں.اس وقت تو مجھے اس کی وجہ سمجھ میں نہ آئی تھی.لیکن اب معلوم ہے کہ یہ ان کی ماؤں کا اثر تھا جو ان پر ہوا.غرض اس وقت تک سکھ عورتوں میں توحید کا نام و نشان بھی نہیں.اور ہندوؤں سے پرانے میل جول کی وجہ سے ابھی تک ان میں شرک پایا جاتا ہے.اس لئے ضرورت ہے کہ مسلمان عورتیں سکھ عورتوں سے تعلقات بڑھا ئیں.اور ان کو توحید سے آگاہ کریں.سکھ خود بھی ان کی اصلاح کر رہے ہیں.اور میں سمجھتا ہوں کہ سکھ عورتیں بھی موقد ہو جائیں گی.لیکن اگر سکھ عورتوں سے مسلمان عورتیں تعلقات بڑھا ئیں.تو چند سالوں میں ان کی حالت بدل سکتی ہے.اور
خطبات محمود ۹۶ سال 1927ء پھر سکھ قوم اس حقیقت پر باسانی قائم ہو سکتی ہے.جس پر اس کے گوروؤں نے اس کو قائم کرنا چاہا تھا مسلمانوں کو ان واقعات سے متاثر نہیں ہونا چاہئے.جو سکھ ہندوؤں کی انگیخت سے کرتے ہیں.بلکہ سکھوں کو ہندوؤں کے قبضہ سے نکالنے کی کوشش کرنی چاہئے.پس میں ایک طرف تو مسلمانوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ ایسے مواقع پر بجائے وقتی جوش دکھانے کے ہمیشہ کے لئے یہ فیصلہ کریں کہ اسلام کے لئے زندہ رہیں گے.اور اسلام کے لئے ہی مریں گے.دوسرے حُسن تدبیر سے سکھوں کو ہندوؤں کے پنجہ سے چھڑائیں.اس کے لئے ہر مسلمان کا فرض ہونا چاہئے.کہ سکھوں کو آگاہ کر دے کہ ان کا مسلمانوں سے ہی تعلق ان کے لئے ہر رنگ میں مفید ہو سکتا ہے.اسی طرح ہر خاندان کی عورتیں جن کو موقع ملے.سکھ عورتوں کو سمجھائیں کہ شرک نہیں کرنا چاہئے.اگر ان دو تدبیروں پر عمل کیا جائے تو یقینا وہ مشکلات دور ہو سکتی ہیں.جن سے اس وقت مسلمان گھبرا رہے ہیں.اور تھوڑے عرصہ میں وہ تباہی جو بار بار مسلمانوں پر آتی ہے دور ہو سکتی ہے.اس کے علاوہ اور عملی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں.مگریہ دو تدابیر مجموعی طور پر ضرور اختیار کرنی چاہئیں.کہ ایک تو وقتی جوش نہ دکھایا جائے.بلکہ مستقل کام کرنے کی کوشش کی جائے چند سکھوں یا آریوں کے مارنے سے اسلام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا.ہاں اگر مستقل طور پر کام کیا جائے گا تو فائدہ ہو گا.پس میری سب سے بڑی نصیحت مسلمانوں کو یہ ہے کہ وہ اس آگ کو جو خدا تعالیٰ کی مصلحت کے ماتحت ان کے دلوں میں بھڑکائی گئی ہے.دشمن کے خون کا چھینٹا دے کر نہ بجھا ئیں.بلکہ اسے جلائیں جلا میں جلائیں حتی کہ دشمنی اور عداوت کے سب سامان بھسم ہو جائیں.پس اپنے ہاتھ سے مقتولوں کے خون کا بدلہ نہ لو تاکہ تمہارے دل ٹھنڈے نہ ہو جائیں.اور وہ طریق اختیار کرد کہ اس کفر و ضلالت کو جس نے بے قصور مسلمان قتل کرائے مٹادو.یہ مرنے والوں کے لئے حقیقی زندگی ہوگی.دوسری نصیحت یہ ہے کہ سکھوں سے دوستانہ تعلقات بڑھائے جائیں نہ کہ گھٹائے جائیں.ذرا حسن تدبیر سے کام لیا جائے تو ان کی مسلمانوں سے سچی دوستی ہو سکتی ہے.تیسری نصیحت یہ ہے کہ مسلمان اور تدابیر بھی اختیار کریں عجیب بات ہے مسلمان بار بار مار کھاتے ہیں مگر پھر بھی سنتے ہی رہتے ہیں.اگر سکھ کر پائیں رکھتے ہیں.اور گورنمنٹ مسلمانوں کو تلواریں رکھنے کی اجازت نہیں دیتی تو ہاتھ میں لاٹھی رکھنا کون سا مشکل ہے.اگر مسلمان اپنا فرض سمجھ لیں کہ ہاتھ میں سونٹار کھنا ہے.تو وہ بہت حد تک اپنی جانیں بچا سکتے ہیں.قرآن کریم میں کہا گیا
خطبات محمود ۹۷ سال 1927ء ہے.خُذُوا حِذْرَكُمُ اپنی حفاظت کا سامان ضرور رکھنا چاہئے.جب دشمن حملہ کر رہا ہے.اور متواتر کر رہا ہے تو مسلمانوں کے لئے مشکل کیا ہے کہ چند پیسوں کا بھی نہیں بلکہ کلہا ڑا لے کر خود درخت سے شاخ کاٹ کر ڈنڈا بنالیں.جسے ہر وقت اپنے پاس رکھیں حتی کہ نمازوں کے لئے جائیں تو بھی ان کے پاس ہو.جب نماز کے وقت تلواریں اور بندوقیں لے جانی جائز ہیں تو ڈنڈا کیوں منع ہو گا.پس ہر مسلمان کے پاس ڈنڈا ہونا چاہئے.تاکہ اگر دشمن حملہ کرے تو وہ اپنی حفاظت کر سکے.اپنی عورتوں کی حفاظت کر سکے.اپنے اموال کی حفاظت کر سکے.لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ مسلمان کو ظالم نہیں بننا چاہئے کسی نفتے کو مارنا.یا راستہ چلتے کو اس لئے مارنا کہ وہ دشمن کی قوم کا ہے سخت ہے.جس سے ہر مسلمان کو بچنا چاہئے اور ہمیشہ انصاف پر قائم رہنا چاہئے.خواہ دشمن کتنے ہی ظلم اور تعدی پر اتر آئے.یہی اسلام کی تعلیم ہے.اور اسی پر قائم رہ کے مسلمان غالب ہو سکتے ہیں.اور یہی غلبہ ان کو فائدہ دے سکتا ہے.ورنہ اگر اسلام چھوٹ گیا تو پھر غلبہ اور فتح کس کام کی.ظالم جب ظلم کرتا ہے.تو اس کا ہاتھ روکو اور ہمت کے ساتھ اس کا مقابلہ کرو.میرے نزدیک تو ان مسلمانوں نے غلطی کی جو ہندوؤں اور سکھوں کے حملہ کے وقت بھاگ گئے.خواہ وہ سنتے ہی تھے.مگر بھاگے کیوں ؟ وہ ایسی حالت میں بھی دشمن کا مقابلہ کر کے اسے بتا دیتے کہ مسلمان بھاگنے کے لئے نہیں پیدا کئے گئے.اس طرح وہ ظالموں کو بانسانی پکڑو ابھی سکتے تھے.مگر ایسی حالت کے بعد کسی ہندو یا سکھ کو مارنا ظلم ہے.جو خواہ کوئی مسلمان کرے یا احمدی کرے یا کوئی قریبی رشتہ دار کرے یا بھائی کرے.میرے نزدیک ظلم ہی ہے.جس سے مسلمانوں کو اپنے ہاتھ پاک رکھنے چاہئیں.کسی بے گناہ اور بے قصور پر حملہ کرنا بہت بڑا ظلم ہے.اور اتنا بڑا ظلم ہے جس سے آسمان کانپ جاتا ہے انسانی جان کو خدا تعالیٰ نے اس قدر عزت دی ہے کہ اس پر عرش کا قیام رکھا ہے.اور جو شخص کسی بے گناہ کی جان لیتا ہے.خواہ اس بے گناہ کی قوم کتنی ہی ظالم ہو.خدا تعالی کا عرش کانپ جاتا ہے.جب تک انسانی زندگی کی قدر قائم نہ ہو.اس وقت تک نہ امن قائم ہو سکتا ہے اور نہ کوئی تہذیب قائم ہو سکتی ہے.پس مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ خون اور قتل کے تمام دروازے بند کر دیں.ہاں اس قتل کو کام میں لائیں جو نفس کا قتل ہے باطل عقائد کا قتل ہے.جھوٹ شرارت ، فتنہ و فساد کا قتل ہے.اگر دشمن حملہ کرتا ہے تو تم اپنے پاس ہتھیار رکھو.تا اس کا مقابلہ کر سکو مگر اپنے جوش کو بے فائدہ ضائع مت کرو.اسے دباؤ تاکہ دوسرے مواقع پر تمہارے کام آسکے.میں اس وقت اپنی جماعت کے لوگوں سے کہتا ہوں.ان کا فرض ہے کہ مسلمانوں کو بچانے اور
خطبات محمود ۹۸ سال 1927ء انہیں مضبوط بنانے کے لئے ہر قسم کی مدد نہیں دیں.ان کو نصیحت کریں.ضروری ہدایات دیں ان تعلیمات کو جو میں یہاں دیتا ہوں.مسلمانوں میں پھیلا ئیں.وقت آگیا ہے کہ اب وہی آواز اونچی ہو.جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بلند کی.اب اسی آواز سے دین و دنیا کی ہدایت مسلمانوں کو میسر ہو گی.پس احمدیوں کا فرض ہے کہ اس آواز کو مسلمانوں تک پہنچا ئیں.تاکہ مسلمان اس ابتری اور پراگندگی کے زمانہ میں دشمنوں کے حملوں سے بچ سکیں.اور اسلام کی حالت جو پہلے ہی ابتر ہو چکی ہے اور نہ ہو.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے لوگوں کو توفیق دے کہ وہ خود بھی ان باتوں پر عمل کریں.اور دوسروں کو بھی توجہ دلا سکیں.اس کے بعد حضور نے ایک مخلص نوجوان غلام علی صاحب کا مولوی عبدالحق صاحب ایبٹ آباد کے والد عمر بن خطاب صاحب کا اور رقیہ بی بی زوجہ شیر محمد صاحب کا.جن کا جنازہ پڑھنے والے دو دو تین تین آدمی تھے.جنازہ پڑھنے کا اعلان فرمایا.اور نماز کے بعد جنازہ پڑھا.ل النساء : ۷۲ الفضل ۱۳/ مئی ۱۹۲۷ء)
خطبات 99 ۱۴ سال 1927ء اتفاق و اتحاد کی برکات فرموده ۱۳/ مئی ۱۹۲۷ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں آج ضرورت زمانہ کے لحاظ سے ایک اہم مضمون کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.لیکن بوجہ اس کے کہ میرے گلے میں کچھ تکلیف ہے.جس کی وجہ سے نہ تو میری آواز پوری طرح نکل سکتی ہے اور نہ مجھے طبی لحاظ سے زیادہ زور سے بولنا جائز ہے.اس لئے میں نہایت اختصار سے کام لینے کی کوشش کروں گا.اور امید رکھوں گا کہ ہر وہ شخص جس کے دل میں اسلام سے کچھ بھی محبت پائی جاتی ہے.ہر وہ شخص جس کے دل میں مسلمانوں کی کچھ بھی الفت باقی ہے.ہر وہ شخص جس کے دل میں قرآن کریم کے متعلق کوئی ادب و احترام باقی ہے.اور ہر وہ شخص جس کے دل میں ملتِ رسول کریم ان کے متعلق کوئی در دباتی ہے.وہ میرے ان کلمات کی طرف غور کے ساتھ اور تدبر الله سے توجہ کرے گا.اور ان کے مطابق اپنے اندر اصلاح پیدا کرنے کی کوشش کرے گا.دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ اختلاف ہر جگہ پایا جاتا ہے.کوئی دو وجود دنیا میں ایک جیسے نظر نہیں آتے.بعض دفعہ انسانی آنکھ اور انسانی نظر اس اختلاف کو نہیں دیکھ سکتی.جو دو ایک جیسی چیزوں میں ہوتا ہے لیکن خوردبین کے ذریعہ اگر ان کو دیکھا جائے تو ان کی شکلوں میں بھی سینکڑوں قسم کے اختلاف نظر آجائیں.اسی طرح طبائع میں اختلاف ہوتا ہے.میلانوں میں اختلاف ہوتا ہے.طاقتوں میں اختلاف ہوتا ہے.خواہ وہ طاقتیں جسمانی ہوں.یا دماغی - عمروں ، شکلوں، قدوں میں اختلاف ہوتا ہے.غرض کوئی چیز ایسی نظر نہیں آتی.جس میں اختلاف نہ ہو.لیکن باوجود اس اختلاف کے ہم آپس میں لڑتے بھڑتے نہیں.کوئی شخص کسی دوسرے شخص سے نہیں لڑتا اس وجہ سے کہ تیرا قد مجھ سے لمبا ہے یا چھوٹا ہے اسی طرح کوئی کسی سے نہیں لڑتا اس لئے کہ تیری شکل مجھے
خطبات محمود سال 1927ء سے اچھی ہے یا تو مجھ سے بدصورت ہے.اسی طرح کوئی کسی سے اس بات پر نہیں لڑتا کہ تو مجھ سے زیادہ علم رکھتا ہے یا مجھ سے کم علم رکھتا ہے.اور پہلے تو اس پر بھی لڑائی نہیں ہوا کرتی تھی.کہ تیرا رنگ کالا ہے اور میرا گورا ہے.گو آج کل یہ سوال پیدا ہو رہا ہے.اور گوری قومیں کالی قوموں پر حکمرانی کرنا اور انہیں اپنے ماتحت رکھنا اپنا حق سمجھتی ہیں.مگر حقیقت یہ ہے کہ اب بھی گوری اور کالی قوم کی رنگت کی وجہ سے لڑائی نہیں بلکہ گورے اور کالے تمدن کی لڑائی ہے.گوری قوم کالی سے اور کالی گوری سے اس لئے ڈرتی ہے کہ ایک کا تمین دوسری کے تمدین کو تباہ نہ کر دے.غرض اختلاف ہر چیز میں پایا جاتا ہے.مگر اس کی وجہ سے ہر ایک دوسرے سے لڑتا جھگڑتا نہیں اس کی کیا وجہ ہے.یہ کہ ہر شخص سمجھتا ہے کہ یہ اختلاف میرے کام اور میرے مقصد میں روک نہیں ہے.مثلاً ایک زمیندار ہے وہ جانتا ہے اگر دوسرے کسی زمیندار کا قد مجھ سے لمبا ہے تو میرے کام میں حارج نہیں.اور اگر چھوٹا ہے تو میرے مقصد میں روک نہیں.اگر ایک زمیندار کا رنگ گورا ہے.تو اس وجہ سے اس کا دوسرے کالے رنگ کے زمیندار کی کھیتی سے کم غلہ نہیں پیدا ہو گا اور اگر کالا ہے تو گورے رنگ کے زمیندار کی کھیتی سے کم غلہ نہیں نکلے گا.پس اس اختلاف کا ان میں سے کسی پر کوئی اثر نہیں پڑتا.اس لئے اس کی کوئی پرواہ نہیں کرتا.اس عام حالت سے ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دنیا میں اسی اختلاف پر لوگ لڑتے ہیں.جو کسی کے کام اور مقصد میں حارج ہوتا ہے.لیکن وہ جو حارج نہ ہو.اس پر نہیں لڑتے.مثلا قد کا اختلاف ہے.یہ فوج میں بھرتی ہونے کے معاملہ میں حارج ہو جاتا ہے.جب بھرتی ہوگی.اور اس کے لئے خاص ناپ کے قد کی شرط ہو گی.تو بھرتی کرنے والا افسر اس شخص کو بھرتی نہیں کرے گا.جس کا قد اتنا لمبا نہ ہو گا.مگر یہ ہو سکتا ہے کہ وہیں سے نکل کر کسی مجلس میں جانا ہو.تو افسر او ر وہ شخص جسے اس نے بھرتی نہ کیا تھا.دونوں شامل ہوں.کیونکہ اس مجلس میں شامل ہونے میں قد کا اختلاف حارج نہ ہو گا.اور اس میں اتنے قد کی شرط نہیں جو فوج کے لئے ضروری تھا.تو ایک آفیسر فوج کے لئے بھرتی کرتے وقت ایک چھوٹے قد کے آدمی کو نکال دے گا.مگر چائے خانہ میں دونوں ایک جگہ بیٹھ جائیں گے.وہاں قد کا چھوٹا ہونا حارج نہ ہو گا.پھر اس سے بھی بڑھ کر یہ ممکن ہے کہ ایک امیر آدمی جب فوج میں بھرتی ہونے کے لئے جائے تو آفیسر اس کا قد چھوٹا ہونے کی وجہ سے اسے منظور نہ کرنے اور انکار کر دے.لیکن جب اس کی لڑکی سے شادی کی درخواست کرے تو وہ قبول کرلے.اپنے جسم کا ٹکڑا تو اسے دینے کے لئے تیار ہو جائے گا مگر فوج میں بھرتی نہ کرے گا.اس کی وجہ یہی
خطبات محمود سال 1927ء ہوگی کہ فوج میں قد کے چھوٹے ہونے سے حرج واقعہ ہو تا تھا.مگر شادی کر دینے میں کوئی حرج نہیں ہو گا.پس اصل بات انسان یہی دیکھتا ہے.کہ جو کام وہ کرنے لگا ہے اس میں کسی کا اختلاف کہاں تک حارج ہوتا ہے.اب ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ مسلمانوں میں جو اختلاف ہے.اس کا ہمارے تعلقات پر کس قدر اثر پڑتا ہے.مثلاً شیعہ سنی کا اختلاف ہے.ان کا عقیدہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکتے.کیونکہ امام مقتدیوں کی طرف سے خدا تعالیٰ کے حضور درخواست پیش کرتا ہے کہ ان کی دعائیں قبول کی جائیں.اب اگر شیعہ کے نزدیک سنی غلط عقائد رکھتا ہے یا سنی کے نزد یک شیعہ غلط عقائد رکھتا ہے.تو وہ کس طرح پسند کرے گا کہ اپنی دعا کی درخواست ایسے شخص کے سپرد کرے جس کے عقائد ہی اس کے نزدیک غلط ہیں.وہ تو یہی کہے گا کہ میں اپنی درخواست اس کے ذریعہ پیش کروں گا جس کے عقائد میرے نزدیک درست ہیں.تاکہ وہ منظور ہو سکے.اور اس کا یہ کہنا بالکل جائز ہو گا.کیونکہ اگر کسی کا مقصد بالکل صحیح ہو گا.تو اس کی اقتداء میں نماز پڑھنے سے زیادہ قبول ہوگی.اگر اس کے عقائد میں تھوڑا نقص ہے تو کم قبول ہو گی.اور اگر بالکل غلط عقائد رکھتا ہے تو بالکل قبول نہ ہو گی.چونکہ اس اختلاف کا اثر انسان کے فوائد اور اس کی آخرت کی زندگی پر پڑتا ہے.اس لئے اگر کوئی شیعہ سنی کے پیچھے اور سنی شیعہ کے پیچھے نماز نہ پڑھے.تو کسی کو حق نہیں کہ ان کو برابھلا کہے.اگر ایک کے نزدیک دوسرے کے عقائد غلط ہیں.تو ان کا حق ہے کہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہ پڑھیں.ای طرح رشته ناطہ کا معاملہ ہے.ایک شخص کہتا ہے کہ ہم میں عقائد کا اختلاف ہے.اور لڑکی خاوند کے تابع ہوتی اور اس کا اثر قبول کرتی ہے.اس لئے میں ایسے شخص کو نہیں دوں گا جس کے عقائد کو میں صحیح نہیں سمجھتا.تو یہ بالکل جائز ہو گا کیونکہ اس اختلاف کا اثر رشتہ کے معاملہ میں ضرور پڑتا ہے.اس وجہ سے لڑکی والے کا حق ہے کہ کہہ دے کہ فلاں کو لڑکی نہ دوں گا.کیونکہ اس کے عقائد کو میں درست نہیں سمجھتا اور اس کے مذہب سے مجھے اختلاف ہے.پس جس حد تک مذہب کے اختلاف کا اثر معاملات پر پڑتا ہے اس حد تک اس کا قائم رکھنا ضروری ہے کیونکہ مذہب کی قربانی کا مطالبہ نہیں کیا جا سکتا.مذہب کی قربانی کا مطالبہ کرنے کا یہ مطلب ہے کہ خدا کی محبت کو دل سے نکال دیا جائے.اگر کوئی شخص مذہب کی قربانی کرتا ہے تو یقیناً خدا تعالیٰ کی محبت اس کے دل سے نکل جاتی ہے.کیونکہ جب کوئی شخص خیال کرے کہ فلاں بات
خطبات محمود سال 1927ء خدا تعالیٰ کی طرف سے اس طرح ہے.مگر دوسرے کی خاطر اسے قربان کرنے اور چھوڑنے کے لئے تیار ہو جائے تو لازماً اس کے دل سے خدا تعالیٰ کی محبت نکل جائے گی.پس اس قسم کا مطالبہ کرنا کسی کے لئے جائز نہیں ہو سکتا.یہ خشیت اللہ کو دلوں سے مٹاتا ہے حالانکہ خشیت اللہ ہی مذہب کی جان ہے.دیکھو اسلام صرف مسلم کو فائدہ دیتا ہے.مگر خشیت اللہ ہندو عیسائی اور یہودی کو بھی فائدہ پہنچاتی ہے.اگر یہ نہ ہو تو کوئی ہندو مسلمان نہ ہو.کوئی عیسائی مسلمان نہ ہو.کوئی یہودی مسلمان نہ ہو.خشیت اللہ کسی مذہب سے تعلق نہیں رکھتی.یہ فطرت سے تعلق رکھتی ہے اور مذہب کو جلا دینا اس کا کام ہے.اس کا بیج سب انسانوں میں پایا جاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ بچے مذہب میں لوگ داخل ہوتے رہتے ہیں.اور یہی باعث ہوتا ہے کہ بسا اوقات جب کسی ہندو کے سامنے خدا کا نام لیا جاتا ہے تو اس کی آنکھیں نیچی ہو جاتی ہیں.نرمی اس کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے اور چہرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ محبت کے جذبات اس میں پیدا ہو گئے ہیں.ایسا ہی عیسائیوں ، یہودیوں اور سکھوں میں بھی ہوتا ہے.اور اسی کا نام خشیت اللہ ہے.یہی لوگوں کو ہدایت کی طرف راہنمائی کرتی ہے.اور ہر ایک کے لئے ضروری ہے کہ خشیت اللہ کو قائم رکھنے کی کوشش کرے اور کسی مذہب کے لوگ اس کی قربانی نہ کرا ئیں.مگر دنیا میں ایسے مواقع بھی بکثرت آتے ہیں جہاں مذہب کے اختلاف کا اثر اصل کام پر نہیں پڑتا.مثلا مل کر تجارت کرنا ہے.اس میں احمدی اور غیر احمدی کا کوئی سوال نہیں پیدا ہو سکتا.تجارت تو ہندو اور سکھ سے بھی مل کر ہو سکتی ہے یا مثلاً شفا خانہ بنانا ہے.اس کے بنانے کے لئے ہندو سکھ اور مسلمان مل جاتے ہیں تو اس سے کسی کے مذہب پر کوئی حملہ نہیں ہوتا.اور ملنے سے کسی قسم کی ضمیر کی قربانی نہیں کرنی پڑتی.لیکن کسی ایسی جگہ جہاں سب اقوام کے لوگوں کے ملنے سے مثلا شفاخانہ کھل سکتا تھا اور وہ نہ ملیں تو سب کے سب مجرم ہوں گے کہ انہوں نے خلق خدا کو ایک فائدہ سے اس لئے محروم رکھا کہ ان میں مذاہب کا اختلاف تھا.حالانکہ مذہب کے اختلاف کا اس کام پر کچھ اثر نہ پڑتا تھا.جیسا کہ میں نے ابھی مثال دی ہے کہ ایک افسر فوج کے لئے بھرتی کرتے ہوئے ایک چھوٹے قد کے آدمی کو رد کر دے گا.لیکن ایک چائے گھر میں اس کے ساتھ داخل ہونے سے انکار نہ کرے گا.اسی طرح ہسپتال میں جہاں سے ہر ایک مذہب کا آدمی فائدہ اٹھاتا ہے کام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہو تا.اور ایسا شخص مجرم ہو گا جو اختلاف مذہب کی وجہ سے اس میں شریک نہ ہو گا.اس لئے
خطبات محمود ۱۰۳ سال 1927ء ایسی جگہ اختلاف کا استعمال کرنا جائز نہ ہو گا.تم رسول کریم الله کا عمل دیکھ سکتے ہو اس سے یہی بات ثابت ہے.آپ جب مدینہ تشریف لے گئے.تو اس وقت یہ خطرہ پیدا ہوا کہ مدینہ پر کفار حملہ کریں گے اور جس شہر پر حملہ ہوتا ہے اس میں رہنے والے ہر شخص پر اس کا اثر پڑتا ہے.رسول کریم ﷺ نے وہاں کے لوگوں کو جمع کیا اور انہیں بتایا کہ ہم اب یہاں آگئے ہیں.ہماری وجہ سے لوگوں میں جوش پیدا ہو گا اور وہ حملہ کریں گے جس کا اثر سب پر پڑے گا.پھر جس طرح ہم پر حملہ کرنے والے ہیں.اسی طرح تمہارے بھی دشمن ہیں وہ تم پر حملہ کریں گے.پس گو تم یہودی اور مشرک ہو اور ہم مسلمان ہیں مگر دشمن سے حفاظت کرنے میں مذہب کا تعلق نہیں ہے.آؤ ہم سب مل کر معاہدہ کر لیں.جس کی ایک شرط یہ ہو کہ جو کوئی مدینہ پر آکر حملہ کرے خواہ وہ حملہ کسی قوم پر ہو سارے کے سارے مل کر اس کا جواب دیں.چنانچہ سب نے مل کر معاہدہ کیا.اور شرطوں میں حد بندیاں کرلی گئیں.گو یہود نے اس معاہدہ کی پابندی نہ کی.اور مشرک رہے ہی نہ.سارے کے سارے مسلمان ہو گئے.لیکن یہ تو ثابت ہو گیا کہ جہاں بظاہر اتحاد کا سوال تھا وہاں سب کو اکٹھا کر لیا گیا.اب اس وقت یہ سوال در پیش ہے کہ اسلام کی جو حالت ہے وہ مسلمانوں کو آپس کے اتحاد کی طرف توجہ دلاتی ہے یا نہیں.ایک طرف عیسائیوں کا نہایت خطرناک حملہ مسلمانوں پر ہو رہا ہے.عیسائی انجمنوں کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے.کہ اگر ہمیں ۵ ہزار مبلغ اور لاکھوں پونڈ دیئے جائیں تو تھوڑے ہی عرصہ میں تمام اسلامی حکومتوں کے مسلمانوں اور دوسرے مسلمانوں کو عیسائی بنالیں گے.جنگ کے بعد مسلمانوں کی حالت خراب ہو گئی ہے.اور اب اگر ہم پوری کوشش سے کام لیں گے تو بہت جلد کامیاب ہو جائیں گے.چنانچہ انہیں بکثرت آدمی مل رہے ہیں.اور اسلامی ملکوں میں نئے مشن کھولے جارہے ہیں.پانچ ہزار آدمی اگر سال بھر میں سو سو لوگوں کو بھی دھوکا میں لے آئے تو پانچ لاکھ سالانہ مسلمانوں سے نکل کر عیسائیوں میں جا ملیں گے.اور میں سال میں موجودہ مسلمانوں میں سے ۵ فیصدی مسلمان عیسائی ہو جائیں گے.پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ آج جو قوم ایک سو آدمی اپنے اندر داخل کر سکتی ہے.وہ آج سے پانچ سال کے بعد ہزار آدمیوں کو داخل کرنے کی طاقت رکھے گی.اور اس طرح ۵۰٬۴۰ سال میں سارے اسلامی عالم کی حالت سخت خطر ناک ہو جائے گی.دوسری طرف ہندو ہیں.جو اپنے سارے اختلافات کو چھوڑ کر یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ مسلمانوں کو یا تو ہندوستان سے نکال دیں گے یا ہندو بنا لیں گے.اس فیصلہ کی ابتداء آریوں کی طرف سے ہو
خطبات محمود ۱۰۴ سال 1927ء چکی ہے.مگر اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں.جنہیں سینکڑوں سال سے کبھی خیال بھی نہ آیا تھا کہ کسی غیر مذہب کے آدمی کو بھی ہندو دھرم میں داخل کر سکتے ہیں.بلکہ اس بات کو ہندو دھرم کے خلاف سمجھا جاتا تھا.اور کسی غیر مذہب کے آدمی کو داخل کرنا اپنی قوم کو بھرشٹ کرنا قرار دیا جاتا تھا.مگر وہ قوم جو سینکڑوں اور ہزاروں سال سے یہ کہہ رہی تھی کہ کسی کو اپنے دھرم میں داخل کرنا اپنی قوم کو بھرشٹ کرتا ہے.وہ بھی آریوں کی اس بات میں شامل ہو گئی ہے کہ یا تو مسلمانوں کو شُدھ کر لیا جائے یا ہندوستان سے نکال دیا جائے.اور عجیب بات ہے کہ ان کے ساتھ جینی بھی مل گئے ہیں جو ویدوں کو مانتے ہی نہیں.وہ بھی اس بات کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں کہ وید کا جھنڈا ہندوستان میں کھڑا کریں گے.حالانکہ وہ ہم سے بھی زیادہ ویدوں کے مخالف ہیں.ہم احمدی مسلمان تو یہ کہتے ہیں کہ وید کسی زمانہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے تھے.مگر جینی ان کو نا پاک کتاب سمجھتے ہیں.باوجود اس کے عجیب بات ہے کہ مسلمانوں کے خلاف جینی بھی ہندوؤں سے مل گئے ہیں.پھر سکھ بھی ان کے ساتھ ہو گئے ہیں.حالانکہ انہیں ہندو مذہب سے کوئی موانست نہیں ہے اور نہ ہو سکتی ہے.ان کے گوروؤں نے ویدوں کی سخت مذمت کی ہے اور اسلامی احکام کی تعریف کی ہے.مگر ہندوؤں کی چالا کی اور ہوشیاری سے ان کے ساتھ شامل ہو گئے ہیں.ہمیں اس پر گلہ نہیں کیونکہ ہر قوم اپنے لئے جو پالیسی مناسب سمجھتی ہے اس پر عمل کرتی ہے مگر اپنے آپ پر غصہ ضرور آتا ہے.کہ ہندوؤں نے تو سکھوں کو ملالیا جن سے سکھوں کا کوئی تعلق نہ تھا.اور ہم نے اس کے لئے کچھ کوشش نہ کی جن سے سکھوں کو مذہبی لحاظ سے بہت قریب کا تعلق تھا.غرض ان مختلف لوگوں نے مسلمانوں کے خلاف اتحاد کر لیا ہے جن کے لئے اتحاد ممکن نہ تھا.اور انہوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ یا تو مسلمانوں کو ہندو بنالیں گے یا اس ملک سے نکال دیں گے.پالک میں اس کے لئے تقریریں کی جاتی ہیں.اخباروں میں مضامین شائع کئے جا رہے ہیں.پھر یہی نہیں کہا جاتا کہ ہندوستان سے مسلمانوں کو نکال دیں گے.بلکہ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ مکہ اور مدینہ پر ادم کا جھنڈا گاڑیں گے.یہ ادم کا جھنڈا تو محض بہانہ ہے اور مسلمان اس کا مطلب نہیں سمجھے.مطلب ان کا یہ ہے کہ مسلمانوں کو ہندوستان سے نکال کر یا ہندو بنا کر پہلے ہندوستان میں اپنی حکومت قائم کریں گے اور پھر اپنی فوج لے کر مکہ اور مدینہ کو فتح کر کے دنیا کو بتا ئیں گے کہ دیکھو جس جگہ کے متعلق مسلمانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ خدا کی حفاظت میں ہے اسے ہم نے فتح کیا یا نہیں.اگر ہندوستان سے مسلمان نکال دیئے جائیں اور یہاں ہندوؤں کی حکومت قائم ہو جائے.تو یہ اتنی بڑی طاقت ہوگی کہ
*1927 ۱۰۵ خطبات محمود کوئی اسلامی ملک اس کا مقابلہ نہ کر سکے گا.ایران اور افغانستان کی آبادی مل کر چند کرو ڑ بنتی ہے اور وہ ۳۳ کروڑ آبادی کا کہاں مقابلہ کر سکتی ہے.غرض ہندوؤں کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان میں اپنی حکومت قائم کر کے مسلمانوں سے پرانا بدلہ لیں کہ اگر مسلمانوں نے ہندوستان میں آکر حکومت کی تھی تو ہم نے بھی بزور تلوار مکہ اور مدینہ کو فتح کر لیا.اب غور کرو اول تو یہی بات ہر ایک مسلمان کے بدن پر رعشہ پیدا کر دینے والی ہے کہ لے کروڑ مسلمانوں کو ہندوستان سے نکال دیا جائے یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے.ایک قیامت ہے جو مسلمانوں کے لئے برپا ہو گی.لیکن اگر یہی ہو تا تو بھی بڑے فکر اور اندیشہ کی بات تھی.مگر اس پر بس نہیں بلکہ ہندوؤں کا یہ منشاء ہے کہ مسلمانوں کو ہندوستان سے نکالنے کے بعد عرب پر حملہ کیا جائے.اور مکہ کو جو توحید کا مرکز ہے بتوں کا مندر بنا دیا جائے.پس اس وقت ہندوستان میں مسلمانوں کی حفاظت کا ہی سوال نہیں بلکہ اسلام کی حفاظت کا سوال ہے.اگر واقع میں اس قسم کی حکومت ہندوستان میں قائم ہو جائے کہ ہر طرف ہندو ہی ہندو.ہوں اور کوئی مسلمان ہندوستان میں نہ رہے.تو پھر کسی مسلمان حکومت کے لئے بھی کوئی ٹھکانا نہیں.لیکن اگر ہندوستان میں مسلمانوں کا عصر مضبوط ہو جو ہندوؤں کو من مانی کار روائیاں نہ کرنے دے تو ہندوؤں کو بھی یہ خطرہ ہو سکتا ہے کہ اگر ہم نے کسی اسلامی ملک پر حملہ کیا تو ہم بھی امن سے نہیں رہ سکیں گے.اس وجہ سے ہندو کسی بیرونی اسلامی ملک پر حملہ کرنے کا خیال بھی نہیں کر سکتے.یہ مسئلہ ہے جس پر اس وقت مسلمانوں کو غور کرنا ہے.دیکھو اگر ایک زمیندار کی بٹ کا سوال ہو.تو اس کے لئے کس قدر فریقین جوش دکھاتے ہیں.مگر آج تو یہ سوال در پیش ہے کہ ہندو مسلمانوں سے کہہ رہے ہیں.اب تم نہیں یا ہم نہیں ، پھر اگر ایک کنال زمین کا جھگڑا ہو.تو زمیندار اپنے بچوں کو لے کر لٹھ لئے جا کھڑا ہوتا ہے.اور کہتا ہے آج ہم مر جائیں گے یا اپنے دشمنوں کو مار دیں گے.مگر جو سوال ہمارے سامنے ہے وہ کسی کھیت کا سوال نہیں.کسی گاؤں کا سوال نہیں کسی کا سوال نہیں.کسی صوبہ کا سوال نہیں.کسی ملک کا سوال نہیں.بلکہ ساری دنیا کا بھی سوال نہیں.دنیا کی اس زندگی اور اگلی زندگی کا سوال ہے اور وہ یہ کہ اسلام قائم رہے گا یا نہیں.ایک بہت بڑی قوم اسلام پر حملہ آور ہے.جو روز بروز اپنے خطرناک ارادوں کو ظاہر کر رہی ہے.اور ہر روز اس کے ارادے خطرناک ہو رہے ہیں.وہ اس ارادہ کو لے کر کھڑی ہوئی ہے کہ ملک کی پہلی حالت کو بدل کر ایسی حکومت قائم کرے جو اسلامی حکومتوں کو مٹادے.اور کوئی مسلمان دنیا میں باقی نہ چھوڑے.کیونکہ کون خیال کر سکتا ہے کہ ادم کا جھنڈا مکہ پر گاڑا جائے.در آں حالیکہ کوئی اسلامی
1+4 سال 1927ء حکومت دنیا میں باقی ہو یا کوئی مسلمان ہی زندہ ہو.پس جب کوئی قوم یہ کہتی ہے کہ وہ مکہ پر اپنا ند ہی جھنڈا گاڑے گی.تو دوسرے لفظوں میں اس کا یہ مطلب ہے کہ ایک مسلمان کو بھی دنیا میں زندہ نہ چھوڑے گی.اور ایک بھی اسلامی حکومت نہ باقی رہنے دے گی.کیونکہ جب تک کوئی اسلامی حکومت باقی ہو یا ایک ہی سچا مسلمان زندہ ہو.اپنی جان دے دے گا مگر زندہ رہ کر کبھی گوارا نہ کرے گا کہ مکہ پر ادم کا جھنڈا کسی کو گاڑنے دے پس جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے کہ یہ کوئی مذہبی سوال نہیں.اگر یہ مذہبی سوال ہو تا تو مختلف مذاہب والے جن میں ایک دو سرے سے زمین و آسمان کا فرق ہے وہ مسلمانوں کے خلاف کیوں مل جاتے.دراصل یہ سیاسی سوال ہے.ورنہ جینیوں اور سکھوں کا ہندوؤں سے کیا تعلق یہ لوگ اسلام کی نسبت ہندو مذہب کے زیادہ دشمن ہیں.ان کے اتحاد سے یقیناً معلوم ہوتا ہے کہ یہ مذہبی سوال نہیں بلکہ سیاسی ہے.پس اوم کے جھنڈے سے مراد ادم کا جھنڈا نہیں.بلکہ ہندوؤں کی حکومت اور بنیوں کی حکومت کا جھنڈا ہے جسے مکہ پر گا ڑنا چاہتے ہیں.اب میں پوچھتا ہوں ایسی حالت میں کسی اسلامی فرقہ کو جو دو سرے فرقہ کو کافرہی سمجھتا ہو ا تحاد کرنے میں کیا عذر ہو سکتا ہے.ہندوؤں کے ان ارادوں کا کہ مکہ پر اپنی حکومت کا جھنڈا گاڑنا ہے احمدی یا غیر احمدی شیعہ یاسنی کے سوال سے کیا تعلق.فرض کر لو شیعیت ہی کچی ہے.لیکن جب مکہ پر ہندوؤں کا جھنڈا جا گڑے گا تو کیا شیعیت باقی رہ جائے گی یا احمدیت کچی ہے ہمارے عقیدہ کی رو سے.کیا وہ باقی رہ جائے گی یا اگر حنفیت بچی ہے تو وہ باقی رہ جائے گی یاد رکھو کوئی اسلامی فرقہ بھی باقی نہیں رہ جائے گا سب مٹیں گے.یہ کہہ دینا کہ مکہ کی حفاظت خدا کا کام ہے ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں سخت نادانی ہے.کیا خدا کا کام محمد اللہ کی حفاظت کرنا نہ تھا.اور کیا مکہ کی حفاظت کی طرح ہی قرآن کریم میں آپ کے متعلق نہیں آتا کہ واللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ پھر کیا صحابہ آپ کا پہرہ نہیں دیتے تھے.حدیثوں سے پتہ لگتا ہے کہ ایک قبیلہ کے لوگ آتے اور آکر آپ کا پہرہ دیتے.حالانکہ اس وقت مدینہ پر اسلامی حکومت تھی.اور ایسے جان نثار موجود تھے کہ جب جنگ بدر کے موقع پر رسول کریم ﷺ نے مسلمانوں سے پوچھا.تمہاری کیا منشاء ہے تو اس وقت ایک صحابی نے کھڑے ہو کر کہا.یا رسول اللہ جو آپ کی مرضی وہی ہماری مرضی ہے.ایک اور مہاجر نے بھی یہی کہا.اس وقت تک انصار کم اور مہاجر زیادہ تھے.اور رسول کریم ان انصار کی رائے معلوم کرنا چاہتے تھے.آپ نے فرمایا نہیں رائے دو.میں رائے پوچھتا ہوں.اس وقت
خطبات محمود سال 1927ء انصار نے سمجھا کہ ہم سے پوچھتے ہیں.ابتداء میں ان سے ایک معاہدہ ہو ا تھا.جس میں یہ شرط تھی کہ اگر دشمن مدینہ پر حملہ کرے گا تو ہم لڑیں گے.لیکن مدینہ سے باہر جاکر نہیں لڑیں گے.اب باہر جا کر لڑنا تھا اس لئے ان سے پوچھا گیا تھا.ایک انصاری نے کھڑے ہو کر کہا یا رسول اللہ وہ زمانہ اور تھا جب ہم نے آپ سے معاہدہ کیا تھا جب ہم نے آپ کو خدا کا سچار سول مان لیا تو پھر معاہدہ کیسا.آپ تو یہاں فرماتے ہیں اگر آپ کہیں تو ہم سمندر میں گھوڑے ڈال دیں گے.آپ کے دائیں اور بائیں لڑیں گے.اور آپ تک کوئی دشمن اس وقت تک نہ پہنچ سکے گا.جب تک ہماری لاشوں کو ردند تا ہوا نہ آئے گا ہے پھر حدیثوں سے ثابت ہے سب سے بہادر صحابی وہ سمجھا جاتا تھا جو دوران جنگ میں رسول کریم کے پاس کھڑا ہو کر لڑتا تھا.کیونکہ حملہ کا سارا زور اس جگہ ہو تا تھا میں پوچھتا ہوں.جب خدا تعالیٰ نے آپ کے متعلق يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (المائدة :۶۸) فرمایا ہے.تو پھر حفاظت کی کیا ضرورت تھی.چاہئے تھا صحابہ آپ کو آگے کر دیتے اور خود پیچھے بھاگ جایا کرتے.مگر ایسا نہیں کیا جا تا تھا.بلکہ حفاظت کی پوری پوری کوشش کی جاتی تھی.پس یہ کہنا کہ مکہ کی حفاظت کی ہمیں ضرورت نہیں.سخت نارانی کی بات ہے.مکہ اور مدینہ خواہ کتنی ہی محترم جگہ ہوں.محمد ﷺ سے بڑھ کر نہیں ہو سکتیں.مدینہ کی برکت کیوں ہے محمد کی برکت کی وجہ سے.اسی طرح مکہ کی برکت کیوں ہے! حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وجہ سے.پس جن کی وجہ سے ان مقامات کو برکت حاصل ہوئی.وہ زیادہ مبارک ہیں یا یہ جگہیں.مکہ حقیقتاً کیا ہے.اینٹ پتھروں کی عمارتوں کا مجموعہ ہے.مگر محمد ا تو خدا تعالیٰ کا زندہ نور تھے.ان کے مٹنے سے ایمان اور نور متا تھا.مگر مکہ کے مٹنے سے کیا مٹ جاتا.پس اگر کسی کی حفاظت کی ضرورت تھی تو وہ رسول کریم کا وجود تھا.بے شک مکہ اور مدینہ کی حفاظت کا وعدہ خدا تعالیٰ نے کیا ہے مگر رسول کریم ان کی حفاظت کے وعدہ سے زیادہ نہیں.اور اگر محمد ا کی حفاظت کے لئے ظاہری تدبیریں ضروری تھیں تو مکہ کی حفاظت کے لئے کیوں نہیں.پس اس حملہ کے مقابلہ کے لئے جو اسلام کو مٹانے کے لئے کیا جا رہا ہے.مسلمانوں کو فیصلہ کرنا چاہئے کہ اسلام کو مٹ جانے دیا جائے یا بچانے کی کوشش کی جائے.کوئی بھی مسلمان کہلانے والا کبھی یہ پسند نہ کرے گا کہ اسلام مٹ جائے.اس لئے ضروری ہے کہ سب جماعتیں خواہ وہ سنی ہوں یا شیعہ - چکڑالوی ہوں.یا حنفی.احمدی ہوں یا غیر احمدی.مل جائیں اور ایسی تدبیر اختیار کریں
خطبات محمود (A سال 1927 کہ ہندوستان کا کوئی میدان اور کوئی کو نہ ایسا نہ رہ جائے.جس میں ہندوؤں کے اس حملہ کا جواب دینے والا کوئی نہ کوئی موجود نہ ہو.جب تک اس ارادہ اور اس عزم کے ساتھ مسلمان کھڑے نہ ہوں گے.اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکیں گے.اس وقت مسلمانوں کے پاس حکومت نہیں تجارت نہیں ، بنک نہیں ، رعب نہیں ، مگر ہندوؤں کے پاس یہ سب باتیں ہیں جن سے وہ کمزور مسلمانوں پر دباؤ ڈال سکتے اور گمراہ کر سکتے ہیں.ہندوؤں کو صرف اپنا منشا اور مدعا پیش کرنے کی دیر ہے.ہزاروں لوگ ایسے موجود ہیں جو ان کے لالچ میں آکر ہندو ہو جائیں گے.پس مسلمانوں کے لئے ضروری ہے.کہ ہر وہ طریق جو جائز ہو.اور جو فتنہ و فساد سے الگ ہوا سے اختیار کریں.اور ایسا انتظام کیا جائے کہ اتحاد سے اس حملہ کا مقابلہ کیا جائے.یقیناً اسلام میں اس وقت بھی وہ قوت اور طاقت موجود ہے کہ اسے غلبہ حاصل ہو سکتا ہے.اور اس وقت بھی ایسے دلائل اور براہین حاصل ہیں کہ ہندو کیا کوئی قوم بھی اسلام کا مقابلہ نہیں کر سکتی.مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کو دنیا تک پہنچایا جائے.خدا تعالٰی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ چہکتی ہوئی تلوار مسلمانوں کو دی ہے.اب ضرورت ہے کہ اس تلوار کے چلانے والے ہر جگہ ہوں.میں اپنی جماعت کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ چھوٹے چھوٹے اختلاف مٹاکر سب سے ملنے کے لئے تیار ہو جائیں.اگر کوئی اہلحدیث ممبر پر کھڑا ہو کر گالیاں بھی دیتا ہو تب بھی اس کی مدد کرنے کے لئے تیار رہو.اور اسے کہو اس وقت ہم اسلام کو بچانے کے لئے کوشش کر رہے ہیں.آپ کا جواب دینے کی ہمیں فرصت نہیں ہے.اسی طرح خواہ کوئی تمہارا کتنا ہی دشمن ہو.اس کی دشمنی کو نظر انداز کر دو.اگر کوئی گالی دے تو تم اسے دعا دو.اگر کوئی تمہیں تھپڑ مارے تو اس کا بوجھ اٹھالو - تا ئم میں یہ تبدیلی دیکھ کر اس میں بھی تبدیلی پیدا ہو.اور وہ بھی اسلام کی خدمت کے لئے تیار ہو جائے.پس ضرورت ہے کہ تم لوگ نمونہ دکھاؤ اگر تم نمونہ دکھاؤ گے.تو دوسروں میں بھی ضرور تبدیلی پیدا ہو جائے گی.اور مسلمانوں میں وہ روح نظر آنے لگے گی جو زندگی کی علامت ہوتی ہے.جسے دیکھ کر دشمن مایوس ہو جائے گا.اور اپنی ناکامی اور نامرادی اپنی ذلت اور شکست اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ لے گا.اور بجائے اس کے کہ اوم کا جھنڈا مکہ میں گڑے اسلام کا جھنڈا ساری دنیا میں گاڑا جائے گا.پس خوب اچھی طرح سمجھ لو یہ وقت بہت نازک ہے.دیر اور ستی کا قطعاً موقع نہیں.میں اپنے سب دوستوں سے چاہتا ہوں کہ آج سے ہی وہ اپنے اندر خاص تبدیلی پیدا کریں.اور دوسروں کو اس وقت کی نزاکت سمجھائیں.پس آج سے اپنے چھوٹے چھوٹے اختلاف مٹادو.اور
1.خطبات محمود 1-9 متفقہ اور متحدہ دشمن کا مقابلہ کرو.اللہ تعالیٰ ہم لوگوں کی مدد کرے.آمین سال 1927ء الفضل ۲۰/ مئی ۱۹۲۷) ن المائدة : ۶۸ له بخاری کتاب المغازی باب قول الله اذ تستغيثون ريكم..الخ
خطبات محمود ۱۵ سال 1927ء جان لینے کے لئے نہیں بلکہ جان دینے کے لئے قربانی کرو فرموده ۲۰/مئی ۱۹۲۷ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: جس طرح دنیا میں باقی تمام چیزیں ایک جہت سے اچھی اور ایک جہت سے بری ہوتی ہیں اسی طرح قربانی بھی ایک جہت سے اچھی اور ایک جہت سے بری ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا کی کوئی ترقی، دنیا کی کوئی کامیابی دنیا کا کوئی آرام دنیا کا کوئی سکھ قربانی کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا.حضرت خلیفہ اول اپنے ایک استاد کا ذکر فرمایا کرتے تھے کہ ان کا قول تھا لوگ خدا کو بیٹھے بٹھائے حاصل کرنا چاہتے ہیں حالانکہ ایک نانبائی کو نہیں دیکھتے جسے ایک روٹی کے لئے تین دفعہ جہنم میں جانا پڑتا ہے.پہلے روٹی لگانے کے لئے.پھر اسے الٹانے کے لئے.پھر نکالنے کے لئے.اس طرح تین دفعہ جنم میں ایک روٹی کے لئے اسے جانا پڑتا ہے.مگر خدا کے لئے کچھ بھی تکلیف اٹھانا پسند نہیں کرتے اور چاہتے ہیں یونسی خدا مل جائے.مگر وہ کون سی چیز ہے جو بغیر قربانی کے ملتی ہے.نسل انسانی کے قیام کے لئے خدا تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ بچے پیدا ہوں.اور اس وجہ سے خدا نے بچے ماں باپ کے لئے محبوب بنادیے ہیں.لیکن ذرا غور کرو بچے کے پیدا کرنے کے لئے کتنی قربانی کرنی پڑتی ہے.اس کے لئے باپ کو بھی قربانی کرنی پڑتی ہے.لیکن اس وقت میں اس کی تشریحات میں نہیں جانا چاہتا.ماں کی قربانی ظاہر ہی ہے.ماں کے لئے بچہ جنا موت کے مسادی ہے.ہر عورت جس نے کوئی بچہ جنا.جب اس کے بچہ جننے کے دن قریب آتے ہیں.تو وہ عورت کہتی ہے معلوم نہیں بچتی ہوں یا نہیں.اور فی الواقع وہ حالت ایسی خطرناک ہوتی ہے.اور تکلیف اتنی زیادہ ہوتی ہے.اور اس کی ہمیت اس طرح قلب پر طاری ہوتی ہے کہ کسی عورت کی زندگی کا یقین تو الگ رہا.خیال بھی نہیں کیا جا سکتا کہ زندہ رہے گی.واقعہ میں اس وقت موت کے دروازہ تک پہنچ کر عورت واپس آتی ہے.
خطبات محمود E سال 1927ء اور بہت سی نہیں بھی آتیں.بچہ پیدا ہو کر اس جہاں میں آتا ہے اور وہ اگلے جہان میں پہنچ جاتی ہیں.دنیا میں مسکین رہ جانے والے بچے جن کی مائیں بچپن میں فوت ہو جاتی ہیں ان کے متعلق اگر دریافت کرد تو ان کا اکثر حصہ ایسا ہو گا کہ پیدائش کے وقت ما ئیں اس تکلیف کو برداشت نہ کر کے مرگئیں.یا اس تکلیف کے اثرات ان کی صحت پر ایسے پڑے کہ بعد میں مر گئیں.غرض عورت اپنے اوپر موت قبول کر کے بچہ دنیا میں لاتی ہے.اور یہ اس کی بہت بڑی قربانی ہوتی ہے.پھر دیکھو علم کے حصول کے لئے بچے کتنی موتیں قبول کرتے ہیں.ایک بچہ اپنی ان نازک طاقتوں کے ساتھ جو ذرا سے جھونکے سے کملا جاتی ہیں.راتوں کو بیٹھا محنت کرتا ہے تاکہ علم حاصل کرے.ماں باپ کی بھی بہت قربانیاں ہوتی ہیں مگر جو بچہ محنت کر رہا ہوتا ہے اس کی قربانی بہت بڑا درجہ رکھتی ہے.وجہ یہ کہ ماں باپ تو سمجھ کر اور فوائد کو مد نظر رکھ کر قربانی کرتے ہیں.مگر وہ آٹھ دس سال کا بچہ جو دوسرے بچوں کو کھیلتا کودتا دیکھتا ہے مگر وہ محنت کر رہا ہوتا ہے.بچپن کے لحاظ سے بیسیوں امنگیں اس کے دل میں پیدا ہوتی ہیں جن کو وہ دباتا ہے.اسی طرح وہ بھی بہت بڑی قربانی کر رہا ہوتا ہے بلکہ اپنے لئے موت قبول کر رہا ہوتا ہے.گو اس کا نتیجہ اور پھل وہی کھاتا ہے مگر اس وجہ سے اس کی قربانی کم شاندار نہیں ہو جاتی کیونکہ جب وہ قربانی کر رہا ہوتا ہے.اس وقت وہ اپنے لئے نہیں کرتا.بلکہ ماں باپ کے لئے کر رہا ہوتا ہے.ایک آٹھ نو سال کے بچہ کو یہ بات مد نظر نہیں ہو سکتی کہ اگر علم پڑھوں گا تو بڑا ہو کر اس سے فائدہ اٹھاؤں گا.بلکہ اس کے مد نظر صرف یہی بات ہوتی ہے.کہ اس وقت میری ماں یہ چاہتی ہے کہ میں علم پڑھوں.اور میرا باپ یہ چاہتا ہے کہ میں تعلیم حاصل کروں.اس نیت اور اس ارادہ سے اس کی قربانی ایسی ہی شاندار ہو جاتی ہے جیسی وہ قربانی جو کسی دوسرے کے لئے کی جاتی ہے.بہر حال علم حاصل کرنے کے لئے قربانی کرنی پڑتی ہے.اور ہر چیز کے حاصل کرنے کے لئے قربانی ضروری ہے میں نے کئی دفعہ مثال دی ہے کہ بچے جھاڑیوں سے بیر کھاتے ہیں جنہیں کوئی روکتا نہیں.مگر جھاڑیوں کے ساتھ جو کانٹے لگے ہوتے ہیں ان کی تکلیف بیر کھانے والوں کو اٹھانی پڑتی ہے.غرض چھوٹے سے چھوٹے کام کے لئے بھی قربانی کی ضرورت ہے.اور جب ہر ایک چھوٹے سے چھوٹے کام کے لئے قربانی ضروری ہے.تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ کوئی بڑا انعام بغیر قربانی کے حاصل ہو جائے.بے شک قربانیوں سے بڑے بڑے نتائج نکلتے ہیں.مگر قربانی ہمیشہ اچھی نہیں ہوتی بلکہ قربانی
خطبات محمود ١١٢ سال 1927ء اچھی بھی ہوتی ہے اور بری بھی.محض جان کو خطرہ اور ہلاکت میں ڈالنا کافی نہیں ہوتا ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنی جان کو خطرہ میں ڈالتے ہیں مگر بد ترین انسان سمجھے جاتے ہیں.کیا ایک چور اپنی جان کو خطرہ میں نہیں ڈالتا یقیناً ڈالتا ہے.اسی طرح ایک قاتل بھی اپنے آپ کو خطرہ میں ڈالتا ہے.وہ جانتا ہے کہ جس کو میں قتل کرنے چلا ہوں.اس کے رشتہ داروں نے اگر دیکھ لیا تو مار دیں گے.یا اگر گورنمنٹ نے پکڑ لیا تو پھانسی دے دے گی.یہ اسے خطرہ ہوتا ہے.مگر باوجود اس کے ایسے لوگوں کے افعال کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے.حالانکہ کئی چور اس نقطہ نگاہ کو اپنے سامنے رکھتے ہیں کہ ہم قربانی کرتے ہیں.اور وہ سمجھتے ہیں کہ اچھا کام کرتے ہیں.حضرت خلیفہ اول فرماتے تھے میں نے ایک چور کو نصیحت کی کہ یہ بہت برا کام ہے اسے چھوڑ دو.کہنے لگا آپ بھی محنت کرتے ہیں ہم بھی محنت کرتے ہیں.آپ کو کوئی خطرہ نہیں ہو تا.مگر ہم اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال | دیتے ہیں.جب ہماری محنت کے ساتھ خطرہ بھی لگا ہوا ہے.تو پھر آپ کی کمائی تو حلال ہو گئی.ہماری کمائی کیوں حلال نہیں.تو چور اپنے آپ کو خطرہ میں ڈالنے کی وجہ سے اپنی کمائی کو حلال قرار دیتے ہیں.اور شاید قاتل ان سے بھی بڑھ کر اپنے فعل کو اچھا سمجھتے ہوں.مگر کوئی سمجھدار ان کے افعال کو اچھا نہیں کہتا.ہر شخص اور ہر مذہب برا کہتا ہے.لیکن ان کے مقابلہ میں ایک ڈاکٹر بھی اپنی جان کو خطرہ میں ڈالتا ہے.طاعون کا مریض ہوتا ہے.ڈاکٹر اس کے پاس جاتا ہے.حالانکہ مریض کے عزیز اور رشتہ دار پاس نہیں آتے.ڈاکٹر جا کر گلٹی کو منولتا ہے.اس کا اپریشن کرتا ہے.اس پر دوائی لگاتا ہے.اسی طرح ہیضہ کے مریض کی قے دیکھتا ہے.اس کے قریب اپنا منہ اور ہاتھ لے جاتا ہے.رسل والے کے بلغم کے رنگ اور قوام کو اچھی طرح دیکھتا ہے.اس کا سینہ دیکھتا ہے.اپنے منہ کو اس کے منہ کے پاس لے جاتا ہے جب اس کے حلق اور دانتوں کو دیکھتا ہے.اور اس طرح اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالتا ہے.مگر اسے کوئی برا نہیں کہتا بلکہ سب اس کی تعریف کرتے ہیں.اب دیکھو ایک قاتل نے بھی اپنے آپ کو خطرہ میں ڈالا اور ڈاکٹر نے بھی.پھر کیا وجہ ہے کہ ایک کو معزز سمجھا جاتا ہے اور ایک کو ذلیل.دنیا میں جتنی قربانی کی مثالیں مل سکتی ہیں.ان کو اگر دیکھا جائے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اچھی اور بری قربانیوں میں ایک ہی فرق ہے.اور وہ یہ کہ بری قربانیاں وہ ہیں جن میں انسان اپنی جان کو اس لئے خطرہ میں ڈالتا ہے.کہ دوسرے کی جان لے.لیکن اچھی قربانیاں وہ ہیں.جن میں انسان اپنی جان کو اس لئے خطرہ میں ڈالتا ہے.کہ دوسروں کی جان زندہ رکھے.یعنی جو قربانی جان لینے کے لئے ہوتی ہے وہ بری ہوتی ہے.اور جو جان بچانے کے
خطبات محمود ١١٣ سال 1927ء لئے ہوتی ہے وہ اچھی ہوتی ہے.دیکھو ماں کی قربانی کو خدا تعالیٰ نے ایسا شاندار قرار دیا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا.جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے.کیوں اس لئے کہ ہر ماں اتنی بڑی قربانی کرتی ہے کہ ایک یا زیادہ جانیں پیدا کرتی ہے.اسی طرح ڈاکٹر کی عزت کیوں کی جاتی ہے.اس لئے کہ وہ دوسروں کی جان بچاتا ہے غرض ہر ایک جو قربانی کرتا ہے.اس کے متعلق اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ جان لینے والی قربانی معزز نہیں سمجھی جاتی لیکن جان بچانے والی قربانی معزز سمجھی جاتی ہے.اس گھر کو مد نظر رکھ کر موجودہ فتنہ کو دیکھو.اور سوچو کہ اس وقت تمہارا کیا فرض ہے.جب کوئی قوم اپنی حالت کو گرا ہوا سمجھتی ہے.مصیبت میں مبتلا ہوتی ہے.ابتلاء میں گھری ہوتی ہے تو اس وقت اس کے افراد کے دل میں جوش پیدا ہوتا ہے.اور غم و غصہ کی کیفیت پیدا ہو کر انسان کچھ کرنا چاہتا ہے.مگر سوال یہ ہے کہ اسے کیا کرنا چاہئے.دنیا میں ہزاروں قومیں ایسی گذری ہیں جو کچھ کرنے سے ہلاک ہو گئی ہیں.رسول کریم کے ذریعہ جب عرب میں تغیر پیدا ہوا اور تبدیلی رونما ہوئی.تو اس وقت مکہ کے لوگوں نے سمجھا ہمارے پرانے عقائد میں خلل پڑنے لگا ہے ہمیں کچھ کرنا چاہئے.اس پر وہ کچھ کرنے کے لئے کھڑے ہو گئے.اور یہی ان کی ہلاکت کا باعث بن گیا.اگر اس وقت وہ لوگ کچھ کرنے کے لئے نہ کھڑے ہوتے تو ابو جہل ابو جہل نہ بنتا.عتبہ عقبہ نہ بنتا.شیبه شیبہ نہ بنتا.پس کسی قوم کو یہی مد نظر نہیں ہونا چاہئے کہ اسے کچھ کرنا چاہئے.بلکہ یہ بھی مد نظر ہونا چاہئے کہ کیا کرنا چاہئے اور کیا کر کے دکھانا چاہئے.ایسے جوش کے وقت میں اگر کوئی قوم اس لئے کھڑی ہوتی ہے کہ دوسروں کی جان لے تو وہ یقینا اپنے آپ کو بد نام کر لیتی اور اپنے مدعا میں ناکام رہ جاتی ہے.کیونکہ جان لینے والا کبھی معزز نہیں سمجھا جاتا.سوائے اس کے جو اس لئے جان لیتا ہے کہ دوسری جانیں بچائے.مثلاً ایک سپاہی ہے وہ دشمن کے سپاہیوں کی اس لئے جان لیتا ہے کہ اپنے اہل ملک کی جان بچائے.اگر وہ دشمن کو نہ مارے گا تو دشمن اس کے ہم وطنوں کو قتل کر دے گا.اسی طرح ایک مجسٹریٹ کسی مجرم کو پھانسی کی سزا دیتا ہے تو وہ بھی قابل عزت ہوتا ہے.کیونکہ وہ اس لئے ایک جان کو مارتا ہے کہ اور لوگوں کی جانیں بچائے.ان حالات میں جان لینے والا در اصل جان لینے والا نہیں ہو تا بلکہ دوسری جانوں کو بچانے والا ہوتا ہے.جب کوئی قوم خطرات کے وقت کچھ کرنے کے لئے کھڑی ہو.اس کے متعلق یہ دیکھنا چاہئے کہ وہ دوسروں کی جائیں لیتی ہے یا ان کی جانیں بچاتی ہے.اگر وہ دوسروں کی جانیں لے گی تو قطعا دنیا
خطبات محمود ۱۱۴ سال 1927ء میں رہنے کے قابل نہ ہوگی.تمام دنیا مجموعی طاقت سے اس کا مقابلہ کرے گی.اور اگر آج نہیں تو کل وہ قوم ضرور مٹ جائے گی.لیکن جو قوم اس لئے کھڑی ہوتی ہے کہ دوسروں کے لئے اپنی جان قربان کرے.اور دوسروں کی بچائے وہ ہمیشہ زندہ رہتی ہے.اور اس کی عزت کی جاتی ہے.اس وقت میں اپنی جماعت کو خصوصاً اور دوسرے مسلمانوں کو عموماً یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ وہ دوسروں میں زندگی قائم رکھنے کا ذریعہ نہیں.اور یاد رکھیں خدا تعالیٰ نے یہ قانون رکھا ہے کہ جو دوسروں کی جان لینے کے لئے کھڑا ہوتا ہے وہ مٹا دیا جاتا ہے.اور دیر تک نہیں رہ سکتا.لیکن جو دوسروں کو نفع پہنچاتا ہے.اس کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے اَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الأرض (الرعد : ۱۸) وہ چیز جو نفع پہنچاتی ہے اسے دنیا میں ہم قائم رکھتے ہیں.اور جو نہیں پہنچاتی اسے نہیں رکھتے.پس دنیا میں دوسروں کو نفع پہنچانے والی قومیں ہی قائم رکھی جاتی ہیں.اس لئے اس جھگڑے و فساد کے زمانہ میں ہمارا فرض ہے کہ ایسے کام کریں جن سے زندگی کی رو پیدا ہو.مثلاً لوگ روحانی طور پر مردہ ہیں.اس کے لئے مسلمانوں میں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ان میں قرآن کریم کی رسول کریم ای کی اور خدا تعالیٰ کی محبت پیدا ہو.جب ان کے قلوب میں یہ محبت پیدا ہو جائے گی تو ان کے دلوں کو ایسی تقویت حاصل ہو جائے گی کہ کوئی مشکل ان کے سامنے نہ ٹھر سکے گی اور روحانیت حاصل کرنے کا رستہ بھی کھل جائے گا اور وہ ہدایت سے محروم نہ رہیں گے کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت : ٧٠) جو لوگ سچے دل سے مجھے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کو میں اپنے تک پہنچنے کا صحیح رستہ دکھا دیتا ہوں.پس ضرورت یہی ہے کہ خدا تعالیٰ سے سچی محبت رسول کریم ﷺ سے سچی محبت اور قرآن کریم سے کچی محبت پیدا ہو جائے.جس کی علامت یہ ہے کہ اسلام کی تعلیم کے مطابق عمل کریں.اگر مسلمان کہلانے والے نمازیں نہیں پڑھتے ، زکوۃ نہیں دیتے اخلاق اعلیٰ نہیں دکھاتے مخلوق خدا سے ہمدردی نہیں کرتے ، بنی نوع انسان کی بھلائی اور بہتری کے لئے زندگی بسر نہیں کرتے تو وہ مسلمان کیوں کر کہلا سکتے ہیں.ان کے لئے ضروری ہے کہ اپنے نفوس میں بھی خدا تعالیٰ کی رسول کریم ان ہے اور قرآن کریم کی محبت پیدا کریں.اور جو ان سے تعلق رکھتے ہیں ان کے دلوں میں محبت کے نقش جمائیں.تب نئی زندگی حاصل ہو گی.صحابہ کی زندگی دیکھو کیسی خوبصورت تھی.ایک بہت چھوٹی سی جماعت تھی.لیکن ان میں سے اگر ایک بھی کہیں چلا جاتا تو لوگ پکار اٹھتے ان لوگوں کی اصلی زندگی ہے.اگر مسلمان اب بھی ایسی
خطبات محمود 110.سال 1927ء زندگی حاصل کرلیں تو کوئی ان کو تباہ نہیں کر سکتا.صحابہ نے جب شام کو فتح کیا تو عیسائیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی.وہ کئی لاکھ تھے اور مسلمان صرف ۲۰ - ۲۵ ہزار تھے.اس وقت مصلحت یہی سمجھی گئی کہ کچھ علاقہ خالی کر دیا جائے.اس وقت عیسائی وفد بن کر مسلمانوں کے پاس آئے اور آکر کہا اگر اخراجات کی وجہ سے آپ لوگ اس علاقہ کو خالی کرنا چاہتے ہیں تو اخراجات ہم برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں.آپ لوگ یہاں سے نہ جائیں گویا وہ اپنے ہم مذہب حکمرانوں کے خلاف مسلمانوں سے درخواست کرتے تھے کہ ہم پر تم ہی حکمرانی کرد - کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کے ماتحت رہ کر ہمیں جس قدر آرام و آسائش حاصل ہو سکتی ہے.وہ اپنے ہم مذہب حکمرانوں کے ماتحت رہنے میں نہیں مل سکتی.اگر اس وقت بھی مسلمان قرآن کریم کے ماتحت اپنی زندگی بسر کریں تو دنیا ان کی زندگی کو نہایت قیمتی زندگی سمجھے گی.اور ان کی زندگی کو اپنے لئے باعث نجات قرار دے گی.پھر اگر مسلمان اللہ تعالٰی کے منشاء اور حکم کے ماتحت غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دیں تو یقینا خدا تعالیٰ ان کی زندگی کی حفاظت کرے گا.کیونکہ جو لوگ دنیا کے لئے نجات کا باعث ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ ان کو تباہ نہیں کیا کرتا.جب محدود عقل اور اخلاق کے لوگ نیک انسانوں کا تباہ ہونا گوارا نہیں کرتے.تو خدا ایسے لوگوں کی تباہی کیوں پسند کرے گا.اگر واقعہ میں مسلمان ادھر اپنے نفس کی اصلاح کرلیں اور ادھر دنیا کی اصلاح کے لئے اٹھ کھڑے ہوں تو یقینا خد اتعالیٰ انہیں ہر قسم کی تباہی سے بچالے گا.پس اس جوش سے جو اس وقت مسلمانوں میں پیدا ہو رہا ہے اس طرح فائدہ اٹھانا چاہئے کہ مسلمان اپنے اندر تقویٰ پیدا کریں اپنی اخلاقی اور روحانی اصلاح کریں.لیکن اگر ان کی یہ حالت ہو کہ وہ نمازیں نہ پڑھتے ہوں.زکوۃ نہ دیتے ہوں.روزے نہ رکھتے ہوں.بد اخلاقیاں ان میں پائی جائیں.مسلمانوں سے سود الیناوہ پسند نہ کریں.بلکہ دوسروں سے لیں.آپس میں ہمدردی اور محبت نہ ہو تو پھر اپنے ہی انہیں پسند نہ کریں گے.دوسرے کب پسند کریں گے کہ دنیا میں باقی رہیں.پس اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو.اپنے اخلاق و عادات میں تبدیلی پیدا کرد تا اپنوں میں بھی معزز سمجھے جاؤ اور دوسروں میں بھی معزز قرار پاؤ.اپنے بھی تم سے پیار کریں.اور دوسرے بھی تم سے محبت کریں.اس وقت میں خصوصیت سے دوستوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے اخلاق عادات اپنی زندگی اپنے معاملات اسلام کے مطابق بنا ئیں.پھر دیکھیں دشمن بھی ان پر کس طرح گردیدہ ہوتا ہے.دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ساری عمر مخالفت کی گئی لیکن جب آپ فوت ہوئے تو
خطبات 14 سال 1927ء وہی لوگ جو زندگی میں مخالف تھے.تعریف کرنے کے لئے مجبور ہو گئے.ذاتی اغراض کی وجہ سے زندگی میں تو مخالفت کرتے رہے.لیکن جب آپ فوت ہوئے تو بے اختیار ان کے مونہوں سے نکل گیا کہ آپ اسلام کے لئے ایک قلعہ تھے جو اسلام کی حفاظت کر رہے تھے.اب لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے زیادہ ہم سے دشمنی نہیں ہو سکتی.کیونکہ آپ ہی کی وجہ سے ہم سے دشمنی کرتے ہیں.اگر حضرت مسیح موعود کے اخلاق ، آپ کے کام اور آپ کی قربانی کی وجہ سے آپ کے متعلق ان لوگوں کے دل جن کی زبانیں بد زبانی سے پر تھیں.شکر گزاری اور احسان مندی سے پُر ہو گئے.اور آپ کی وفات پر انہیں یہ اعتراف کرنا پڑا کہ اسلام کا ایک بہت بڑا جرنیل فوت ہو گیا تو پھر کیا وجہ ہے اگر ہم بھی ان کے لئے حقیقی قربانی کریں.تو وہ ہم سے محبت کرنے نہ لگ جائیں.پس اپنے اخلاق میں ایسی تبدیلی پیدا کرو کہ دنیا کے محبوب بن جاؤ.اپنے آپ کو اس طرح فنا کردو کہ دنیا تمہارے ذریعہ زندہ ہو جائے.اگر تم اپنے لئے اس طرح موت قبول کر لو کہ دنیا زندہ ہو جائے تو دشمنوں کی نظروں میں بھی محبوب ہو جاؤ گے اور اپنوں اور خدا تعالیٰ کی نظر میں تو بہت ہی محبوب بن جاؤ گے.لیکن جب تک اپنے اندر خاص اصلاح اور تبدیلی نہ پیدا کرو.اور ایسی قربانی اختیار نہ کرو جس سے لوگوں کو زندگی حاصل ہو.اس وقت تک نہ اپنوں میں معزز سمجھے جاؤ گے نہ بیگانوں میں.پس اے دوستو ان واقعات سے جو ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف ہو رہے ہیں.اگر تم میں جوش پیدا ہو تا ہے تو اس سے اپنے معاملات ، عادات اخلاق اور نفوس کی اصلاح کا کام لو.اللہ تعالیٰ اس کے رسول اور اس کے دین کی محبت اپنے دلوں میں پیدا کر و.اس کے شعائر سے ایسا عشق دکھاؤ کہ اس عشق کی آگ ان سب اشیاء کو جلا کر راکھ کر دے جو خدا تعالیٰ تک پہنچنے میں حائل ہوں.اگر تم دنیا کی بہتری اور بھلائی کے لئے اس قدر کوشش کرو گے.تو لوگ اتنے اندھے نہیں ہیں کہ تمہاری قربانیاں دیکھ سکیں اور تمہاری قدر نہ کرنے لگ جائیں.خدا تعالیٰ تمہیں تو فیق دے کہ تم پہلی مستیوں اور کوتاہیوں کو ترک کر کے اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا کرو کہ خدا تعالیٰ جلد اسلام اور احمدیت کو فتح دے.کنز العمال جلد ۱۶ صفحه ۴۶ حدیث نمبر ۴۵۴۳۹ مطبوعه حلب الفضل ۲۷ / مئی ۱۹۲۷ء)
خطبات محمود 114 14 سال 1927ء اخبار ”ہندو ہیرلڈ کے ایک مضمون کا جواب فرموده ۲۷/ مئی ۱۹۲۷ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں نے پچھلے دنوں میں جو خطبات موجودہ زمانہ کے فتنہ کے متعلق دیئے ہیں یا جو اشتہارات وغیرہ شائع کئے ہیں.ان کے متعلق اہل ہنود میں سے بعض کو یا تو غلط فہمی ہوئی ہے یا انہوں نے دوسروں کو غلط فہمی میں ڈالنا چاہا ہے.بہر حال کچھ بھی ہو مجھے ”ہندو ہیرلڈ" کی جو لاہور کا ایک انگریزی پرچہ ہے ایک کاپی خاص طور پر یا تو اخبار والوں نے خود بھیجی ہے یا کسی اور نے اس کا مضمون پڑھ کر بھیجوائی ہے.اس میں ایک مضمون میرے ان امور کے متعلق لکھا گیا ہے جن کا ذکر میرے خطبات یا اشتہارات میں آیا ہے.اور ان کے خلاف اعتراض کئے گئے ہیں.آج میں خطبہ کے ذریعہ ان اعتراضات پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں.مضمون نگار لکھتا ہے آج کل تمام لیڈر امن امن اور صلح صلح پکار رہے ہیں.لیکن ان میں سے کوئی بھی عملی طور پر امن قائم کرنے کے لئے قدم نہیں اٹھاتا.اور سوائے باتوں کے کوئی کام نہیں کرتا.اس کے بعد میرے متعلق مضمون نگار نے لکھا ہے.مجھے خیال تھا کہ ان کو کسی قدر عقل سلیم سے حصہ ملا ہے اور وہ کسی حد تک معقول بات کر سکتے ہیں.لیکن ان کے تازہ مضامین پڑھنے کے بعد میری امید اور حسن ظنی مایوسی اور بد ظنی سے بدل گئی ہے.اس بات کے ثبوت میں مضمون نگار نے میری تحریروں اور تقریروں سے تین باتیں خصوصیت سے چھنی ہیں.جن میں سے ایک یہ ہے کہ میں نے مسلمانوں کو نصیحت کی ہے کہ اپنے ہاتھ میں سونٹار کھیں.دوسری یہ کہ میں نے مسلمانوں کو تلقین کی ہے کہ تمام ہندوؤں میں اسلام کی تبلیغ جبر سے کریں اور سب کو مسلمان بنانے کی کوشش کریں.اور تیسری یہ کہ مسلمان ہندوؤں کا پوری
خطبات محمود HA سال 1927ء طرح بائیکاٹ کریں اور ان سے کسی قسم کا لین دین نہ کریں.میرے مضامین میں مضمون نگار صاحب کو یہ تین باتیں قابل اعتراض نظر آئی ہیں.اور ان کا خیال ہے کہ آج کل کے زمانہ میں جو عام شورش کی رو چل رہی ہے میں بھی اس میں بہہ گیا ہوں.وہ مجھے نصیحت کرتے ہیں کہ مجھے اپنی جماعت کے لوگوں کو یہ سمجھانا چاہئے کہ امن سے رہیں اور ہندوؤں کے ساتھ امن سے زندگی بسر کرنی چاہئے.چونکہ مضمون نگار صاحب نے اپنے خیالات سے پبلک طور پر آگاہ نہیں کیا.اور مجھے کبھی ان کے سننے کا اتفاق نہیں ہوا.اس وجہ سے میں ان سے واقف نہیں ہوں.اس لئے نہیں کہہ سکتا کہ اس کے ذاتی خیالات موجودہ حالات اور واقعات کے متعلق کیا ہیں.لیکن عام حالات اور خیالات جو پھیل رہے ہیں.اور جو لوگوں پر غالب آ رہے ہیں ان کو مد نظر رکھتے ہوئے یہی خیال کیا جا سکتا ہے کہ مضمون نگار کے خیالات بھی عام ہندوؤں کے خیالات کے مطابق ہی ہوں گے.اس لئے انہی کو مد نظر رکھتے ہوئے میں جواب دیتا ہوں.پہلی چیز جو میرے مضامین میں مضمون نگار صاحب کو قابل اعتراض نظر آئی ہے.وہ یہ ہے کہ میں نے مسلمانوں سے کہا ہے اپنے ہاتھ میں سونٹار کھیں.مضمون نگار لکھتا ہے یہ کہہ کر میں نے امن میں خلل ڈالنے کی کوشش کی ہے.لیکن مضمون نگار نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ ہتھیار رکھنے سے امن میں خلل نہیں پڑا کر تا بلکہ ہتھیار کے ناجائز استعمال سے خلل پڑتا ہے.اگر صرف ہتھیار رکھنے سے امن میں خلل پڑتا ہے اور بدامنی پیدا ہوتی ہو تو دنیا کی گورنمٹیں سب سے زیادہ دنیا میں بدامنی اور بربادی پیدا کرنے والی ہونی چاہئیں.کیونکہ ہر گورنمنٹ تو ہیں ، بندوقیں، تلواریں، مشین گنیں ، ہم ، ہوائی جہاز جنگی جہاز اور دوسرے لڑائی کے سامان اپنے ہاں رکھتی ہے.اگر ان چیزوں کے رکھنے سے خلل امن واقعہ ہوتا ہے تو دنیا کی کوئی ایک بھی گورنمنٹ ایسی نہیں ہو سکتی جو امن کے برباد کرنے والی نہ ہو.اور صرف وہی گورنمنٹ امن قائم رکھنے والی قرار پائے گی جو اپنی فوجیں موقوف کر دے.تلواریں اور بندوقیں تو ڑ دے.تو ہیں اور جنگی جہاز پگھلا دے اور بالکل نہتی ہو کر بیٹھ جائے.لیکن ایسی کوئی حکومت چند دن سے زیادہ نہ چلے گی.آج تک تو کبھی کوئی حکومت ایسی ہوئی نہیں.اور اگر اب ہوئی تو ہمسایہ حکومت اسے ایک دن کے لئے بھی زندہ نہ رہنے دے گی.پس اگر تمام دنیا کی گور نمنٹیں حتی کہ ویدک زمانہ کی حکومتیں بھی جن کی تعریف میں ہندو زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے نہیں تھکتے ہتھیار رکھتی تھیں.اور اگر ویدوں میں اس
خطبات محمود ۱۱۹ سال 1927ء قسم کی دعا ئیں سکھائی گئی ہیں کہ اے پر میشور ہمارے ہتھیاروں کو طاقت بخش.ان کی ضر میں کاری ہوں تو پھر اور کونسا زمانہ آ سکتا ہے جب ہتھیار رکھنے کی ضرورت نہ رہے اور ہتھیار رکھنے کو برا سمجھا جائے.اگر ہتھیار رکھنے سے امن میں خلل پیدا ہوتا ہے اور اگر ہتھیار پکڑنے سے فساد رونما ہوتا ہے تو پھر اس طرح امن میں خلل پیدا کرنے اور فساد پھیلانے میں دنیا کے تمام مذاہب اور ساری حکومتیں شریک ہیں.مسلمانوں کے متعلق تو کہا ہی جاتا ہے کہ وہ تلوار چلاتے رہے ہیں.لیکن کیا ہندو دھرم کے بزرگوں رام چندر جی اور کرشن جی نے تلوار نہیں چلائی.پھر کیا ہندو تسلیم کریں گے کہ ان کا تلوار چلانا بھی امن کے خلاف تھا.اور دیدوں میں ہتھیاروں سے کام لینے کا جو ذکر ہے وہ بھی امن کی تعلیم کے خلاف تعلیم دی گئی ہے.اگر نہیں تو کیوں ؟ پس اگر ہتھیار کا پاس رکھنا فساد پیدا نہیں کرتا اور ہتھیار کا ہاتھ میں ہونا بد امنی نہیں پیدا کرتا بلکہ ہتھیار کا ناجائز استعمال بدامنی پیدا کرتا ہے.تو پھر مجھ پر اس وقت اعتراض ہونا چاہئے جب میں مسلمانوں سے یہ کہوں کہ اپنے ہاتھوں میں سونے لو اور جو ہندو تمہیں ملے اس کا سر تو ڑ دو.اور جسے اپنے مذہب کے خلاف پاؤ اس کا سر پھوڑ دو.اگر میری تقریروں اور تحریروں میں سے کوئی اشار تا یا کنایا اس قسم کی ہدایت دکھا دے تو میں اپنی غلطی کا اقرار کرنے کے لئے تیار ہوں.لیکن جہاں میں نے سونٹار کھنے کے لئے کہا ہے.وہاں یہ بھی ہدایت کی ہے کہ سوائے ایسے وقت کے جہاں اپنی جان جانے کا خطرہ ہو اور سوائے خود حفاظتی کے اس کا استعمال نہ کیا جائے.پھر مجھے امن شکن کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے.میں نے جو سونٹار کھنے کے متعلق ہدایات لکھی ہیں یا بیان کی ہیں.ان کو اس تعلیم کے سامنے رکھ کر جو ویدوں میں ہتھیاروں کے استعمال کرنے کے متعلق دی گئی ہیں دیکھ لیا جائے.اگر میرے الفاظ اس تعلیم سے زیادہ محفوظ نہ ہوں اور اس تعلیم سے زیادہ ان میں صلح جوئی اور امن پسندی نہ پائی جائے.تو پھر مجھ پر جو بھی الزام لگایا جائے اسے میں قبول کرنے کے لئے تیار ہوں.میں نے جو کچھ کہا ہے وہ یہ ہے کہ خود حفاظتی کے لئے اپنے پاس کم از کم سونٹار کھو.کیونکہ جب انسان نہتا ہوتا ہے.اور مقابل میں دوسری قوم کے پاس ہتھیار ہوں تو اس میں بزدلی پیدا ہو جاتی ہے.اور ہر وقت کے اس خوف اور ڈر کی وجہ سے کہ ہتھیار سے حملہ کر کے نقصان نہ پہنچا دے.دلیری اور بہادری مٹ جاتی ہے.اور ایسے لوگ ذلیل ہو جاتے ہیں.ان کی حالت وہی ہوتی ہے جو خواجہ سراؤں کی ہوتی ہے.جس طرح ان میں مردانہ جرات اور بہادری نہیں ہوتی ویسی ہی اس قوم کی حالت ہوتی ہے.جو دوسروں کے مقابلہ میں نہتی ہو.ایسے لوگ سمجھتے ہیں دوسرے نے ہتھیار استعمال کیا تو کیا کریں
خطبات محمود ۱۲۰ سال 1927ء گے.اس وجہ سے ہر وقت انہیں اپنی جان بچانے کا ڈر رہتا ہے.پس میں نے مسلمانوں سے جو کچھ کہا ہے وہ قومی اخلاق کی درستی کے لئے کہا ہے نہ کہ فتنہ و فساد پھیلانے کے لئے تعلیم دی ہے.اب اگر کسی کا اپنی قوم کے اخلاق کی درستی کا خیال رکھنا اور ایسی تعلیم دینا جس سے اس میں جرات اور بہادری پیدا ہوتی ہو اور وہ ذلت اور بزدلی سے بچ سکتی ہو جرم ہے تو اسے میں قبول کرتا ہوں.مگر اس کی کیا وجہ ہے کہ اس مضمون میں مضمون نگار نے ان سکھ گروؤں کو امن میں خلل ڈالنے والا قرار نہیں دیا جنہوں نے سکھوں کو کرپان رکھنے کا حکم دیا تھا.اگر وہ سکھ گرو کر پان رکھنے کا حکم دیتے ہوئے امن قائم کرنے والے تھے تو اسی قسم کی تعلیم دینے سے میں کس طرح مجرم بن گیا.جس طرح انہوں نے اپنے پیروؤں کو کرپان رکھنے کے لئے کہا اسی طرح میں نے بھی مسلمانوں کو ڈنڈا رکھنے کے لئے کہا: ہاں ایک فرق ضرور ہے.اور وہ یہ کہ انہوں نے کہا ہر وقت کرپان اپنے پاس رکھو.لیکن میں نے یہ کہا ہے کہ جب تک دشمن کے پاس ہتھیار ہو یا جب تک ہتھیار رکھنے والی قوم کو مسلمانوں کے خلاف بھڑ کانے والے لوگ موجود ہوں.اس وقت تک اپنی حفاظت کے لئے سونا رکھو.گویا میرا حکم پھر بھی کم چیز کا ہے.کیونکہ سکھ گر و صاحب کا تو یہ حکم ہے کہ خواہ خطرہ ہو یا نہ ہو.کسی اور کے پاس ہتھیار ہو یا نہ ہو سکھ کر پان ضرور رکھیں.لیکن میں نے یہ کہا ہے کہ جب دوسروں کے پاس ہتھیار ہوں.جب اپنی جان ومال کا خطرہ ہو.اس وقت سونا اپنے پاس رکھو.اگر یہ فساد کی تعلیم ہے اور مضمون نگار نے دیانت داری کے ساتھ اس پر اعتراض کیا ہے.تو اسے چاہئے تھا سکھوں کے گرد صاحب پر بھی اعتراض کرتا.لیکن اگر وہ کر پان رکھنے کا حکم دینے والے پر اعتراض نہیں کرتا.تو سونٹا ر کھنے کا حکم دینے والے پر اس کے لئے اعتراض کرنے کی کیا گنجائش ہے.سوائے اس کے کہ سمجھا جائے.مضمون نگار کو مسلمانوں سے تعصب ہے.اس وجہ سے وہ سب کو ایک آنکھ نہیں دیکھتا.کیونکہ اگر سکھوں کا گر و کرپان رکھنے کا حکم دیتا ہے.تو کہتا ہے کیسا امن قائم کرنے والا انسان تھا.لیکن اگر مسلمانوں کا امام سونٹار کھنے کا حکم دیتا ہے.تو کہتا ہے یہ فساد پھیلاتا ہے.لیکن حق یہ ہے کہ سکھوں کے گرو صاحب نے کرپان رکھنے کا جو حکم دیا وہ ٹھیک دیا تھا.اس وقت سکھوں کو خطرات تھے.اور دوسرے لوگ ہتھیار رکھتے تھے.سکھ گرد صاحب نے سکھوں کے اخلاق کی درستی کے لئے کرپان رکھنے کا حکم دیا تھا.اور نہایت اچھا حکم دیا تھا.میں اس حکم کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں.گرو صاحب نے اپنی قوم پر بہت بڑا احسان کیا.کیونکہ اس کے اخلاق کی نگرانی کی اور اسی طرح میں نے بھی کیا اور حق کیا.نہ وہ گرو صاحب کسی اعتراض کے نیچے آتے
خطبات محمود سال 1927ء ہیں.اور نہ میں.لیکن اگر کسی نے اعتراض کرتا ہے تو دونوں پر کرے.میں تو دیکھتا ہوں حضرت مسیح جنہوں نے اتنی نرمی کی تعلیم دی ہے کہ اگر کوئی تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دیا.ان کے متعلق بھی آتا ہے کہ انہوں نے اپنے حواریوں سے کہا کپڑے بیچ کر تلوار خرید لو.اب ایک طرف تو حضرت مسیح یہ تعلیم دیتے ہیں کہ اگر کوئی تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو دو سرا بھی اس کی طرف پھیر دو.یہ ایسی تعلیم ہے کہ جس کے نتیجہ میں سوسائٹی تباہ ہو جاتی ہے.بد معاش اور غنڈے بڑا زور پکڑ سکتے ہیں.اور کمزوروں کا رہنا محال ہو جاتا ہے.لیکن یہ نتیجہ ہو گا امن کے متعلق حد سے زیادہ زور دینے اور نرمی کے حد سے زیادہ کرنے کا.نہ کہ یہ جبر کی تعلیم کا نتیجہ ہو گا.یہ بظاہر امن ہی کی تعلیم ہے.لیکن باوجو د امن کی اتنی انتہائی تعلیم دینے کے جو ناقابل عمل ہے.اور جس پر عیسائی کبھی عمل نہ کر سکے.اس کے مقابلہ میں حضرت مسیح نے یہ بھی کہا کہ اپنے کپڑے بیچ کر تلواریں خرید لو اس سے معلوم ہوا کہ جہاں حضرت مسیح نے تلوار خریدنے کا حکم دیا ہے.وہاں قومی اخلاق کی درستی کو مد نظر رکھا ہے.اور جہاں ایک گال پر تھپڑ کھا کر دو سرا آگے کرنے کو کہا ہے.وہاں محبت اور نرمی کی تعلیم دی ہے.بعینہ حضرت مسیح کی طرح میں نے بھی تعلیم دی ہے.میں نے کہا ہے اگر دو سرے تم پر ظلم بھی کریں تو اسے برداشت کرو اور جوش میں نہ آؤ.لیکن جب تمہاری جان پر حملہ ہو اور جان جانے کا خوف ہو تو اس وقت دفاع کرد.اور اس میں بھی یہ بات مد نظر ر کھو کہ کسی کی جان مت لو.ہاں جس طرح حضرت مسیح نے کہا ہے کہ کپڑے بیچ کر تلوار خرید لو.اتنا زور میں نے نہیں دیا بلکہ یہ کہا ہے کہ معمولی ڈنڈا قیمت لے لو یا جنگل سے کاٹ لو.پھر گر و صاحب نے تو سکھوں کو کرپان رکھنے کے لئے کہا ہے.لیکن میں نے سونٹار کھنے کے لئے کہا ہے.انہوں نے ہر وقت کرپان رکھنے کے لئے کہا ہے لیکن میں نے کہا ہے جہاں خطرہ ہو وہاں رکھو.اسی طرح حضرت مسیح نے کہا تھا کہ تلوار خرید و کپڑے بیچ کر لیکن میں نے کہا ہے معمولی سونٹا لے لو عجیب بات ہے حضرت مسیح تلوار خریدنے کا حکم دینے پر امن میں خلل پیدا کرنے والے نہیں بنتے.سکھ گرد کرپان رکھنے کا حکم دینے پر فساد ڈلوانے والے نہیں قرار دیئے جاتے.لیکن مسلمانوں کو یہ تعلیم دینا کہ اپنی حفاظت کے لئے سونٹار کھو.یہ فساد ڈلوانے کی تعلیم بن جاتی ہے.ہندو یا تو یہ اعلان کریں کہ دیدک تعلیم ، حضرت مسیح کی تعلیم ، سکھ گرو صاحب کی تعلیم بھی فساد ڈلوانے والی ہے.یا پھر یہ اقرار کریں کہ میں نے جو کچھ کہا ہے اس سے بھی کوئی فساد نہیں پیدا ہو تا.کیونکہ میری بھی ایسی ہی تعلیم ہے جیسی ان کی ہے.ہاں اگر یہ ثابت کر دیا جائے.کہ میں نے مسلمانوں سے کہا ہے
خطبات محمود ۱۲۲ سال 1927ء اپنے ہاتھ میں سونٹا لو.اور جو تمہیں ملے اس کے سر پر دے مارو.تو پھر مجھ پر اعتراض ہو سکتا ہے.لیکن چونکہ اس قسم کی کوئی بات میری کسی تقریر و تحریر سے ہر گز ثابت نہیں کی جاسکتی.اس لئے مجھے پر اعتراض کرنا کسی صورت میں بھی صحیح نہیں ہو سکتا.یہ پہلے اعتراض کا جواب ہے.دوسرا اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ میں نے مسلمانوں کو کہا ہے ہندوؤں کو جبرا مسلمان بناؤ.مگر یہ صحیح نہیں.پہلی بات تو درست تھی مگر اس پر اعتراض غلط تھا.لیکن یہ بات ہی غلط ہے.میں جب سے پیدا ہوا ہوں.ایک لمحہ کے لئے بھی کبھی اس بات کا قائل نہیں ہوا کہ مذہب میں جبر کو بھی کوئی دخل ہو سکتا ہے.بلکہ میں نے ہمیشہ اعلان کیا کہ مسلمان ایسے اخلاق بنا ئیں جن میں جبر کا شائبہ بھی نہ پایا جائے.اور جن کی اسلام تعلیم دیتا ہے.میرے نزدیک ماں باپ یا استاد کو ان بچوں پر جو ان کی نگرانی میں ہوتے ہیں.جبر کرنے کا حق ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے آپ کو ان کے سپرد کر دیتے ہیں.لیکن ان کے علاوہ کسی اور کو قطعا کسی پر جبر کا حق نہیں ہے.ہر شخص اپنی رائے میں آزاد ہے.اعمال میں بعض اوقات جبر ہوتا ہے.مثلاً حکومت جبر کرتی ہے.یا امام وقت اپنے پیروؤں پر اعمال کے متعلق جبر کرنے کا حق رکھتا ہے.لیکن یہ حق اپنی پارٹی اور اپنی جماعت پر ہوتا ہے.یہ نہیں کہ دوسروں پر جبر کیا جائے.چونکہ امام اپنے لوگوں کے برے کاموں سے بد نام ہوتا ہے.اور ان کے نیک کاموں سے اس کی بھی نیک نامی ہوتی ہے.اس لئے اسے اختیار ہوتا ہے کہ اپنے لوگوں کے اعمال کی نگرانی کرے.احمدی ان لوگوں سے جو احمدی کہلاتے ہیں کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ساتھ مل کر کام کرو.اور ہمارے اعمال کی طرح اپنے اعمال بناؤ.لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ غیر مبایعین وہی کچھ کریں جو مبایع کرتے ہیں.یا شیعہ سنی وہابی وہی کریں جو ہم کرتے ہیں.پس میں نے ہمیشہ جبر کی تعلیم کے خلاف تعلیم دی ہے.اور کوئی میری کتابوں ، میرے اشتہاروں، میرے خطبوں ، میری گفتگو سے ایک سطر بھی ایسی نہیں دکھا سکتا جس میں میں نے جبر کرنے کے لئے کہا ہو.یہ بالکل غلط ہے کہ میں نے مسلمانوں سے کہا ہے وہ جبرا ہندوؤں کو مسلمان بنا ئیں.لیکن یہ بے شک میں نے کہا ہے کہ تبلیغ کے ذریعہ سارے ہندوستان کو مسلمان بنانے کی کوشش کرو.اگر یہ کہنے سے فتنہ پڑتا ہے.تو شردھانند کو بھی فتنہ باز کہنا چاہئے.مگر عجیب بات ہے.ایک طرف تو ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ شہید ہیں کیونکہ شدھی کا جو حق تھا اس کے لئے مارے گئے ہیں.لیکن دوسری طرف میرے متعلق جو تبلیغ کو اپنا سب سے بڑا فرض سمجھتا ہوں.کہا جاتا ہے کہ میں نے جو ہندوؤں کو مسلمان بنانے کی تعلیم دی ہے یہ فساد کی تعلیم ہے.دیکھو ہندو سینکڑوں نہیں ہزاروں
خطبات محمود ۱۲۳ سال 1927ء سالوں سے اپنے مذہب کی تبلیغ ترک کر کے بیٹھے ہوئے تھے.وہ اگر سارے ہندوستان میں کہتے پھریں کہ اپنے مذہب کی تبلیغ کرو اور سب کو ہندو بنالو.تو یہ ان کا حق ہو.اور ایسا حق ہو جس کی وجہ سے مارے جانے والے کو شہید کا خطاب دیں.لیکن اگر وہی بات احمدی جماعت کا امام کہتا ہے تو اسے فتنہ و فساد کہا جاتا ہے.میں کہتا ہوں اگر میرے یہ کہنے سے کہ سارے ہندوستان کو مسلمان بنالو.فساد پیدا ہوتا ہے.تو پھر سارے مصلح فسادی تھے.جب بھی کوئی مصلح کھڑا ہوتا ہے.اس نیت اور اس ارادہ سے کھڑا ہوتا ہے کہ ساری قوم یا ساری دنیا کو اپنی تعلیم منوانی ہے.اگر وہ دس آدمیوں کو منوالیتا ہے.اور پندرہ کو چھوڑ دیتا ہے.اور ان کو منوانے کے لئے کوشش نہیں کرتا تو وہ مصلح نہیں کہلائے گا.اگر وہ پندرہ آدمیوں کے لئے کھڑا ہوا ہے.تو اس کا فرض ہے کہ پندرہ کو ہی منوانے کی کوشش کرے.دیکھو جس طرح کوئی ڈاکٹر یہ نہ کہے گا کہ اس کے پاس جو دس مریض آتے ہیں.ان میں سے تو تو بچ جائیں اور ایک مرجائے.اس کی یہی کوشش ہو گی کہ سب بچ جائیں.اسی طرح ایک امام ایک مصلح ایک مبلغ کی بھی یہی نیت اور یہی ارادہ ہونا چاہئے کہ سب کو ہدایت نصیب ہو ورنہ اس سے بڑھ کر بے وقوفی اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایک شخص ہدایت دینے کے لئے کھڑا ہو اور وہ کے سب کے منوانے سے فساد پیدا ہوتا ہے.اس لئے میں سب کو نہیں منواؤں گا صرف چند آدمیوں کو منواؤں گا اور باقیوں کو چھوڑ دوں گا.ہر سچا مصلح اور ہر وہ انسان جس کی فطرت صحیح و سالم ہوگی یہی کہے گا کہ جس قدر لوگ میرے ذریعہ گمراہی سے بچ سکیں اتنے ہی لوگوں کو بچانے کی مجھے کوشش کرنا چاہئے.اگر سارے بچ سکتے ہیں تو سارے ہی بچاؤں گا.یہی میں نے بھی کہا ہے.اور سارا ہندوستان کیا ہم کو تو بانی سلسلہ اور بانی اسلام نے یہ تعلیم دی ہے کہ ساری دنیا کو اسلام کے جھنڈے کے نیچے لاؤ.یہ اور بات ہے کہ ساری دنیا اس جھنڈے کے نیچے نہ آئے لیکن ہماری خواہش اور کوشش یہی ہے کہ ساری دنیا مسلمان ہو جائے.پس یہ کہنا کہ میں نے کہا ہے سارے ہندوستان کو مسلمان بنالو یہ غلط ہے.میں نے تو یہ کہا ہے.ساری دنیا کو مسلمان بنالو.مگر اس سے نہ کوئی فتنہ پیدا ہوتا ہے اور نہ فساد- کیونکہ میں نے یہ نہیں کہا کہ لوگوں کو جبر سے مسلمان بناؤ.بلکہ یہ کہا ہے کہ اسلام کی تعلیم کے ذریعہ مسلمان بناؤ.اس میں فتنہ و فساد کی کون سی بات ہے.یہ مسلمانوں کے لئے کوئی نئی بات نہیں.مسلمان تو جب سے پیدا ہوئے ہیں.اسی وقت سے ان کا یہ فرض قرار دیا گیا ہے.البتہ یہ نئی بات ہے کہ ہزاروں سالوں کی خاموشی کے بعد لالہ لاجپت رائے سوامی شردھانند اور ڈاکٹر
خطبات محمود ۱۲۴ سال 1927ء مونجے یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو ہندو بنالو.ذرا غور تو کرو جب آریہ کہتے ہیں عرب میں دیدک دھرم کا جھنڈا گاڑیں گے.تو اس سے فتنہ نہیں پیدا ہوتا.لیکن جب امام جماعت احمد یہ کہتا ہے کہ ہندوؤں کو مسلمان بنالو تو کہا جاتا ہے اس سے فتنہ پیدا ہوتا ہے.اگر میں نے یہ کہا ہو تا کہ لوگوں کو جبراً مسلمان بناؤ.ان سے لڑو انہیں مارو تو اس سے فتنہ پیدا ہو سکتا ہے.لیکن جب یہ کہا جاتا ہے کہ ہندوؤں پر اسلام کی سچائی ظاہر کر کے اسلام میں داخل کرو.تو اس میں فتنہ کی کون سی بات ہے.اگر اس سے فتنہ پیدا ہو سکتا ہے تو پھر شدھی کے متعلق ہندوؤں کے اقوال سے کیوں فتنہ نہیں پیدا ہو تا.پھر جتنے مصلح آئے وہ چند لوگوں کو منوانے کے لئے آئے تھے.یا ان سب کو جن کی طرف وہ بھیجے گئے جب بابا نانک آئے تو ان کی غرض چند ایک لوگوں کو ہدایت دیتا تھی یا سب کو.اسی طرح جب کرشن آئے تو ان کا نشا سارے ہندوستان کو اپنی تعلیم پر کار بند کرنا تھا یا ہندوستان کے ایک حصہ کو.اسی طرح جب رام چندر آئے تو ان کا مقصد سارے ہندوستان میں اپنی تعلیم پھیلانا تھا یا تھوڑے حصہ میں.یا جب ویدوں کے رشی آئے تو وہ سارے ہندوستان کے لئے تعلیم لائے تھے یا چند لوگوں کے لئے.ہاں منو کو یہ شبہ ضرور ہوا ہے کہ ویدوں کی تعلیم سب ہندوستانیوں کے لئے نہیں تھی.کیونکہ انہوں نے کہا ہے اگر شود ردید کا کوئی منترین پائے تو اس کے مکان میں سیسہ پگھلا کر ڈالنا چاہئے.باقی سب لوگوں کا یہی خیال رہا ہے کہ سچائی سب کو سننی چاہئے.رام چندر کرشن گرونانک کا یہی عقیدہ تھا.اسی طرح میرا بھی یہی عقیدہ ہے.اب کوئی اس میں فساد دیکھتا ہے تو یہ اس کی آنکھ کا قصور ہے میرا قصور نہیں ہے.ہندو ہیرلڈ کا نامہ نگار سب کو مسلمان بنانے کا ذکر کرتا ہوا لکھتا ہے.بھلا جس کام کو اورنگ زیب جیسا بادشاہ نہ کر سکا اسے تم کس طرح کر لو گے.بندہ خدا اور نگ زیب کی ہستی ہی کیا تھی میرے سامنے.اور نگ زیب بادشاہ تھا اور دنیا کا بادشاہ تھا وہ دنیا کی بہتری کے لئے جو کچھ کر سکتا تھا وہ اس نے کیا میں ایک مصلح کا خلیفہ ہوں.اگر آج اورنگ زیب زندہ ہو یا اور خدا تعالیٰ حق کی شناخت کے لئے اس کی آنکھیں کھول دیتا تو وہ بھی میرے ماتحتوں میں اسی طرح کام کرتا جس طرح اور کر رہے ہیں.میرے مقابلہ میں اور نگ زیب کا ذکر کرنے کا یہ مطلب ہے کہ وہ جبر سے لوگوں کو مسلمان بنایا کرتا تھا.جب اسے بادشاہ ہو کر جبر میں کامیابی نہ ہوئی.تو تمہیں کیا ہو سکتی ہے.مگر یہ غلط ہے کہ اورنگ زیب لوگوں کو جبرا مسلمان بنایا کرتا تھا.یہ صرف وہی لوگ کہتے ہیں جو آریہ ہیں یا آریوں کے پیچھے چلتے ہیں ورنہ تاریخوں سے ثابت ہے کہ وہ نہایت منصف اور عادل بادشاہ تھا.
۱۲۵ سال 1927ء کسی پر جبر نہ کرتا تھا.اسے محض اس لئے ہند و بد نام کر رہے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں انگریزوں کے خلاف بولنا آسان نہیں.اس لئے اپنی قوم کو ابھارنے اور مسلمانوں کے خلاف اشتعال دلانے کے لئے انہوں نے اورنگ زیب کو پکڑ لیا ہے.کیونکہ وہ فوت ہو چکا ہے.ورنہ اگر ان ہندوؤں کے باپ دارے قبروں سے اٹھ کر بیٹھ جائیں.تو وہ اقرار کریں کہ اورنگ زیب کے زمانہ میں انہوں نے نهایت امن سے زندگی بسر کی.افسوس ہے کہ وہ بادشاہ جس نے ہندوؤں کی عزت و آبرو کی حفاظت کی.اس پر آج ہند و الزام لگا رہے ہیں.اور جس نے ان پر بڑے احسان کئے اس کی ناشکری کر رہے ہیں.حالانکہ جو کچھ اس کے متعلق کہا جا رہا ہے وہ بالکل غلط ہے.باقی رہی یہ بات کہ اورنگ زیب سارے ہندوؤں کو مسلمان نہ بنا سکا تو تم کس طرح بناؤ گے اس کے لئے یاد رکھنا چاہئے اور نگ زیب بادشاہ تھا تبلیغ اسلام سے اسے کیا تعلق تھا.تبلیغ کا کام ہمارا ہے اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ اور نگ زیب نے ہندوستان میں تبلیغ کی.تو یہ کون کہہ سکتا ہے کہ اس نے ہندوستان سے باہر بھی تبلیغ کے متعلق کچھ کیا.مگر میں نے ہندوستان سے باہر بھی بہت سے ممالک میں تبلیغ اسلام کی ہے.مثلاً اس وقت مغربی افریقہ میں ہزار ہا ایسے لوگ مسلمان ہیں.جو میرے بھیجے ہوئے مبلغوں کے ذریعہ مسلمان ہوئے.اسی طرح یورپ میں کلمہ پڑھنے والے انسان موجود ہیں.امریکہ میں موجود ہیں.کیا اور نگ زیب نے بھی اپنے زمانہ میں ان ممالک کے لوگوں کو مسلمان کیا.اس کا کام ملکی معاملات کی اصلاح اور درستی تھا.اور تبلیغ کا کام میرا ہے.اس لئے اور نگ زیب نے اپنی فوجوں کے ذریعہ ملکوں کو فتح کیا اور اپنے دشمنوں کو مغلوب کیا جس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا.لیکن روحانی فتح کا جھنڈا بلند کرنے والا میں ہوں.اس لئے وہ میرا مقابلہ نہیں کر سکتا.یہی وجہ ہے کہ جہاں تک میرے ذریعہ اسلام کی تبلیغ کی گئی ہے اور نگ زیب کے ذریعہ نہ کی گئی.پھر کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ تم وہ کام نہ کر سکو گے.جو اورنگ زیب نہ کر سکا.کم از کم ہندو اس بات کا تو اقرار کریں گے کہ اور نگ زیب نے ہندوستان سے باہر تبلیغ اسلام کے متعلق کچھ نہیں کیا.اور میں تو کہتا ہوں.ہندوستان میں بھی اس نے کچھ نہیں کیا.ہندوؤں نے اس زمانہ میں فساد کئے.ان فسادوں کو اس نے دور کیا.باقی ان پر کوئی جبر نہیں کیا.بلکہ ان کی حفاظت کی.دیکھو کس طرح بار بار سیواجی نے شرارتیں کیں اور کس طرح اور نگ زیب نے اس ڈاکو اور لٹیرے کو بار بار معاف کیا.جس کی اخلاقی حالت اس درجہ گری ہوئی تھی کہ صلح کرنے کے لئے جاتا ہے اور بغل میں نسنجر چھپا کر لے جاتا ہے.جسے بغل گیر ہوتے وقت افضل خان کے پیٹ میں گھیر دیتا ہے.غرض اور نگ زیب
خطبات محمود ۱۲۶ سال 1927ء دنیاوی بادشاہوں کے لحاظ سے نہایت اچھا تھا.مگر اس نے ہندوستان میں بھی اسلام کی اشاعت نہ کی.اور میں نے ایسے ممالک تک اسلام پہنچا دیا.جہاں سینکڑوں سالوں سے کلمہ پڑھنے والا کوئی نہ تھا.یہ تو اس وقت تک میں نے کر کے دکھایا ہے.آئندہ خدا چاہے تو اس سے بھی بڑھ کر ہو گا.تیسرا اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ میں نے مسلمانوں کو ہندوؤں کا بائیکاٹ کرنے کی تعلیم دی ہے.مگر مجھ پر سراسر ا تمام ہے.میں بائیکاٹ کے سخت خلاف ہوں.میں نے جو کچھ کہا ہے وہ یہ ہے کہ ہندو کھانے پینے کی چیزیں مسلمانوں سے نہیں خریدتے.مسلمان بھی ہندوؤں سے وہ چیزیں نہ لیں جو ہندو مسلمانوں سے نہیں لیتے.ہندوؤں سے ایسی چیزیں خریدنے کی وجہ سے مسلمانوں کا کروڑوں روپیہ ہندوؤں کے ہاں جاتا ہے.جس کے واپس آنے کی کوئی صورت نہیں ہے.اور اس وجہ سے مسلمان غریب سے غریب تر ہوتے چلے جا رہے ہیں.اگر قلیل سے قلیل اندازہ بھی لگایا جائے تو دو تین کروڑ روپیہ مسلمانوں کا سالانہ ایسا ہندوؤں کے ہاں جاتا ہے جو کسی صورت میں واپس نہیں آتا.اس کے علاوہ بارہ تیرہ کروڑ روپیہ سود میں مسلمانوں کو دینا پڑتا ہے.سر کار آٹھ کروڑ سالانہ ٹیکس ہندوؤں سکھوں اور مسلمانوں سے لیتی ہے.گویا اگر سر کار ایک روپیہ فی کس کے حساب سے ہندوؤں ، سکھوں اور مسلمانوں سے لیتی ہے.تو ہندو صرف مسلمانوں سے ڈیڑھ دو روپیہ فی کس کے حساب سے وصول کرتے ہیں.ایسی قوم نے زندہ کیا رہنا ہے.اب اگر اس قوم کی بے بسی اور بے چارگی کو دیکھ کر میں نے یہ کہا کہ وہ کھانے پینے کی چیزیں ہندوؤں سے نہ خریدیں جس طرح ہندو ان سے نہیں خریدتے تو گناہ کیا کیا؟ رہا یہ امر کہ ہندوؤں سے بائیکاٹ کیا جائے یعنی ان سے کسی قسم کا تعلق نہ رکھا جائے.یہ میری تعلیم کے خلاف ہے.ہندو تو پھر بھی خدا کی ہستی کے قائل ہیں میرا تو یہ حکم ہے کہ دہریوں سے بھی تعلق رکھو.اگر کوئی خدا تعالیٰ کو گالیاں دینے والا ہے تو اس سے بھی تعلق رکھو.کیونکہ تبلیغ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ تعلق ہو.پس میری ہرگز تعلیم نہیں کہ ہندوؤں کا بائیکاٹ کر دو.میں نے جو نصیحت کی ہے وہ یہ ہے کہ کھانے پینے کی چیزیں جو ہندو مسلمانوں سے نہیں لیتے وہ مسلمانوں کو بھی ہندوؤں سے نہیں لینی چاہئیں.اس طرح مسلمانوں کو کم از کم دو تین کروڑ روپیہ کی سالانہ بچت ہو سکتی ہے اور اگر دوسری ضروریات کی چیزیں بھی خود مسلمان مسلمانوں کے لئے مہیا کریں تو آٹھ دس کروڑ روپیہ کی بچت ہو سکتی ہے.اور اس طرح مسلمان ہندوؤں کے سودی قرضہ سے بچ سکتے ہیں.میری یہ تعلیم بھی کوئی نرالی تعلیم نہیں.ہند و صاحبان خود ہزاروں سالوں سے دوسرے لوگوں
خطبات محمود ۱۲۷ سال 1927ء سے اور سات سو سال سے مسلمانوں سے یہی سلوک کرتے چلے آرہے ہیں.اگر اس عرصہ میں اس وجہ سے فساد اور جھگڑا نہیں ہوا.بلکہ اس کی بجائے یہ ہوا کہ کروڑوں روپیہ ہندوؤں کے گھر مسلمانوں کے ہاں سے پہنچتا رہا.تو اب اگر ان مسلمانوں کو جن کا خون چوس چوس کر ہندوؤں نے کنگال کر دیا ہے.جن کی زمینیں خود خرید لی ہیں اور جو قرض کے نیچے دبے ہوئے ہیں.ایسی گرمی ہوئی حالت میں نیہ بتایا جائے کہ اس طرح کرو تو یہ فساد کا موجب کس طرح ہو سکتا ہے.کیا ایک غریب اور مرنے کے کنارے پہنچی ہوئی قوم کے لئے اپنے آپ کو زندہ رکھنے کی خاطر اپنے اموال کو بچانا نا جائز ہے.لیکن ایک مالدار قوم کے لئے اپنے خزانے بھرنے کے لئے یہی بات جائز ہو جاتی ہے.کوئی عقل سے کام لے کر بتائے.مسلمانوں کو کھانے پینے کی چیزیں ہندوؤں سے نہ خریدنے کے لئے کہنے سے فساد کس طرح پیدا ہو سکتا ہے.کروڑوں روپیہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل کر ہندوؤں کے گھروں میں چلا جائے.اور وہ مسلمانوں کے ہاتھ کی پکی ہوئی چیزیں نہ خریدیں تو وہ فسادی نہیں بنتے.لیکن جب مسلمانوں کو ان کی گری ہوئی حالت کی وجہ سے بتایا جاتا ہے کہ تم بھی ایسا ہی کرو تو کہا جاتا ہے فتنہ و فساد پھیلایا جاتا ہے.اگر یہ فتنہ و فساد ہے تو ہند و پہلے اسے اپنے گھر سے کیوں دور نہیں کرتے.سب سے زیادہ حق انسان پر اس کی بھلائی کا ہوتا ہے پھر کیوں مضمون نگار صاحب ہندوؤں میں تحریک نہیں کرتے کہ وہ مسلمانوں سے کھانے پینے کی چیزیں خرید کریں اگر وہ اپنی قوم کو تو یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں سے چھوت اور زیادہ سختی کے ساتھ کرو.تو پھر مسلمان ہندوؤں سے چھوت کرنے لگیں تو ان کو اعتراض کرنے کا کیا حق ہو سکتا ہے.علاقہ ملکانہ میں آریوں نے چماروں اور دوسری ادنیٰ اقوام سے کہا.ہم تمہیں ہندو بنالیں گے تم صرف مسلمانوں سے چھوت چھات شروع کر دو.ان کے ہاتھ کی کوئی چیز نہ کھاؤ.اگر ہندو بھنگیوں اور چماروں کو یہ تعلیم دیں تو اس سے فتنہ پیدا نہیں ہوتا.لیکن اگر مسلمانوں سے یہ کہا جائے کہ ہندوؤں کے ہاتھ کی چیزیں نہ خرید و تو اس سے فتنہ پیدا ہو جاتا ہے.آخر کچھ تو انصاف سے کام لینا چاہئے خواہ کوئی کتنا ہی تعصب میں مبتلا ہو.اتنی موٹی بات تو ضرور سمجھ سکتا ہے کہ ہندو جو ۲۴ کروڑ سمجھے جاتے ہیں.وہ تو مسلمانوں سے جو صرف سات کروڑ ہیں.چھوت چھات کریں تو کوئی فتنہ نہ ہو اور چوہڑوں چماروں سے کہیں مسلمانوں کے ہاتھ کا نہ کھاؤ تو فساد نہ ہو.سینکڑوں سالوں سے مسلمانوں کے ہاتھ کی چیز کو ناپاک قرار دیں تو کوئی بد امنی نہ ہو.لیکن اگر مسلمانوں کو ان کی مظلومی اور بے کسی کی حالت میں کہا جائے کہ تم بھی ہندوؤں کے ہاتھ کی چیزیں نہ کھاؤ تو اس سے فتنہ پیدا ہو.اگر اس وجہ سے فتنہ پیدا ہوتا
خطبات محمود ۱۲۸ سال 1927ء ہے تو ہندو کیوں مسلمانوں سے چھوت چھات نہیں ترک کر دیتے.اگر وہ ایسا کریں تو میں ابھی اعلان کرنے کے لئے تیار ہوں.دوسرے مسلمان میری بات مانیں یا نہ مانیں احمدی ضرور مانیں گے کہ ہندوؤں سے کھانے پینے کی چیزیں خریدنے سے پرہیز نہ کریں.پس اگر ہندو مسلمانوں سے ایسی چیزیں خریدنے لگ جائیں.تو میں اسی دن اپنی جماعت کو ان کی چیزیں خریدنے کی اجازت دے دوں گا.دیکھو آسان بات ہے ہم اپنے گھر کچھ ہندوؤں کی دعوت کرتے ہیں وہ کھا جائیں.ہم اسی وقت ان کے ہاں کا کھانا کھانے کے لئے تیار ہوں گے.اسی طرح مسلمان دوکانداروں سے ہندو کھانے پینے کی چیزیں خریدیں.ہم اسی وقت ان سے خرید نا شروع کر دیں گے.لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتے اور پھر فساد ہو گا تو ان کی طرف سے ہی ہو گا.مگر میں کہتا ہوں اسے فساد کی تعلیم قرار دینا غلطی ہے.سات سو سال کا تجربہ بتاتا ہے کہ ہندوؤں نے مسلمانوں سے چھوت چھات جاری رکھی.ان سے کھانے پینے کی چیزیں نہیں خریدیں.مگر مسلمان ان سے نہیں لڑے.اب اگر مسلمان بھی ہندوؤں سے ایسی چیزیں نہ لیں تو پھر ہندو کیوں فساد کریں گے.غور تو کرو اگر مسلمان ہندوؤں سے چیزیں خریدنا چھوڑ دیں گے تو فساد کون کرے گا.یہ فساد ہندوؤں ہی کی طرف سے ہو سکتا ہے.مسلمان جب ان کی دوکانوں پر جائیں گے ہی نہیں تو فساد کیا کریں گے.پس میں ہندوؤں سے کہوں گا.بھائی ! سات سو سال سے تم نے ہم سے چھوت چھات کی اور ہماری چیزوں کو ناپاک سمجھا مگر ہم نے فساد نہ کیا.اب اگر ہم بھی تم سے نہ خرید میں تو تم کیوں فساد کرتے ہو.اور ابھی تو مسلمانوں نے اس پر عمل شروع ہی نہیں کیا.ہماری جماعت میں بھی اس کے متعلق ستی پائی جاتی ہے.اور دوسروں میں تو بہت ہی سستی ہے.مگر یہ بات ہی غلط ہے کہ اس وجہ سے فساد پیدا ہو سکتا ہے.۲۴ کروڑ جو ہندو کہلاتے یا سمجھے جاتے ہیں انہوں نے مسلمانوں سے سینکڑوں سال سے نہ خریدا تو فساد نہ ہوا.اب مسلمانوں کے نہ خریدنے سے کس طرح فساد ہو سکتا ہے.جن کے متعلق ہندو افسروں کی رپورٹوں اور سرکاری رپورٹوں سے ثابت ہے کہ صرف پنجاب میں ایک ارب کے قریب ان پر قرضہ ہے.ایسی حالت میں کیا مسلمانوں کو اپنی زندگی کی کوئی تدبیر نہیں کرنی چاہئے.اور ہمیشہ کے لئے ہندوؤں کا ظلم برداشت کرتے رہنا چاہئے.تب امن قائم ہو سکے گا.میں بڑے زور اور دعوئی کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس تجویز سے کوئی فساد نہیں پیدا ہو سکتا.اور جو مسلمان اس پر عمل نہیں کرتا وہ اپنی قوم پر بہت بڑا ظلم کرتا ہے.ہاں جو ہندو ہمارے ہاتھ کی چیزیں کھالے ہم اس کے ہاتھ سے کھا سکتے ہیں.یہ اعلان کئے ہوئے دو تین سال ہو گئے ہیں.لیکن جو ہماری اشیاء کھالیتے
خطبات محمود ۱۲۹ سال 1927ء ہیں ہم ان کی کھالیتے ہیں.اور اگر یہ نہیں تو ہم بھی نہیں کھا سکتے.یہاں ایک ہندو نے مجھے کہا.میں آپ کی دعوت کرتا ہوں.میں نے کہا پہلے تم ہماری دعوت کھاؤ پھر میں تمہاری کھاؤں گا.دیکھو چوہڑوں چماروں سے چھوت چھات نہیں کی جاتی.انہیں کہا جاتا ہے.تم مسلمانوں سے چھوت چھات کرو تو ہم تمہارے ہاتھ کا کھا لیں گے.کیا وہ مسلمانوں سے زیادہ صاف وستھرے ہوتے ہیں.نہیں صفائی کا کوئی سوال ہی نہیں.سوال تمدنی اور قومی ہے.کہ اپنا گھر بھرنا ہے.پس اگر ہند و سیانے ہیں تو ہم بھی عقل کی بات کریں تو فساد کیوں پیدا ہو سکتا ہے.جو اس بات کو فساد کا موجب قرار دیتا ہے وہ خود فساد پھیلاتا ہے.غرض مضمون نگار کے تینوں اعتراض بالکل غلط ہیں.یہ غلط ہے کہ لاٹھی رکھنے سے فساد پیدا ہوتا ہے.فسادنہ لاٹھی رکھنے سے پیدا ہوتا ہے نہ تلوار اور بندوق رکھنے سے.بلکہ ان کے ناجائز استعمال سے پیدا ہوتا ہے.ہتھیار رکھنے کی تعلیم سارے بزرگوں نے دی ہے.قرآن کریم میں بھی اس کا ذکر ہے.حضرت عیسی نے بھی اپنے پیروؤں سے کہا ہے.سکھوں کے گورو صاحب نے بھی اس کے متعلق تعلیم دی ہے.اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ حضرت مسیح نے یا سکھوں کے گورو نے فساد کی تعلیم دی ہے.یہ سب نیک لوگ تھے اور بزرگ تھے.انہوں نے اپنی قوم کی اخلاقی حالت کی درستی اور اصلاح کے لئے یہ تعلیم دی.اب کہا جاتا ہے کہ گورنمنٹ اسلحہ کے متعلق لائسنس کی شرط اڑا دے اور ہر ایک کو رکھنے کی اجازت دے دے.اس طرح اگر امن میں خلل نہیں پڑتا.تو پھر سونٹار کھنے سے کس طرح پڑ سکتا ہے.اسی طرح لوگوں کو تبلیغ کرنے کی تعلیم ہے.تمام بزرگ مسلمانوں کے انبیاء ہندوؤں کے رشی اور سکھوں کے گرو اسی مشن کو لے کر دنیا میں آئے.اور اس پر عمل کرتے رہے.اگر وہ فساد پھیلانے والے نہ تھے.تو میں ایسی تسلیم دینے سے کس طرح فساد پھیلانے والا ہو گیا.اسی طرح یہ کہنا غلط ہے کہ میں نے مسلمانوں کو ہندوؤں سے بائیکاٹ کرنے کے لئے کہا ہے.پس جو اعتراض کئے گئے ہیں.وہ درست نہیں ہیں.اگر کوئی دلیل سے ثابت کر دے کہ یہ باتیں فساد پیدا کرنے والی ہیں تو آج ہی انہیں واپس لینے کے لئے تیار ہوں.میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں.اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک میرا یہ تعلیم دینا ظلم ہے تو انہیں اسی وقت چھوڑنے کے لئے تیار ہوں.مگر میں یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں کہ وہی باتیں جب ہندو کریں تو فسادنہ پیدا ہو.لیکن جب ہم کریں تو فساد پیدا ہو.آخر میں میں اپنی جماعت اور دوسرے مسلمانوں سے پھر کہتا ہوں کہ وہ ان تینوں باتوں پر نہایت پابندی اور پختگی کے ساتھ عمل کریں.جہاں قانوناً منع نہ ہو وہاں لوگ اپنے ہاتھ میں سونٹار کھیں.
سال 1927ء اسلام کی تبلیغ ہر جگہ کریں.مگر جو ہندو ہم سے چھوت چھات کرتے ہیں ان سے چھوت چھات کریں.ان سے کھانے پینے کی چیزیں نہ خریدیں.ان کے ہاتھ کی بنی ہوئی چیزیں نہ کھائیں.ہاں جو ہندو ایسے ہوں.جو مسلمانوں سے اس قسم کی چیزیں خرید لیں ان سے پر ہیز نہیں کرنا چاہئے.یہ نہایت ضروری باتیں ہیں.ان کی طرف ہر مسلمان کو توجہ کرنی چاہئے.له منتی باب ۵ آیت ۳۹ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۷۰ الفضل ۳/ جون ۱۹۲۷ء)
خطبات محمود +1927 توحید - اتحاد کے لئے ایک بنیادی اصول فرموده ۳/ جون ۶۱۹۲۷ ) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں نے مسلمانوں کی اس مصیبت کو دیکھ کر کہ وہ آپس کے شقاق اور تفرقہ میں پڑے ہوئے ہیں.اور دشمنان اسلام کی طرف سے برابر اسلام اور مسلمانوں کے حقوق پر حملے کئے جاتے ہیں.اور اسلام کی حفاظت کے لئے کسی کو فکر نہیں.اور مسلمان چھوٹے چھوٹے اختلافوں میں پڑے ہوئے ہیں.بلکہ چھوٹے اختلاف کو بڑے اختلاف پر ترجیح دے کر بڑے اختلاف سے بچنے کی فکر نہیں کرتے.اور بر خلاف اس کے چھوٹے اختلاف کے لئے اپنے اموال اور اپنی عقل اور اپنی کوشش صرف کر رہے ہیں.پچھلے چند سالوں کے عرصہ میں یہ تجویز مسلمانوں کے سامنے رکھی تھی کہ اس زمانہ میں اسلام کی دو تعریفیں ہیں.اسلام کی ایک تعریف مذہبی ہے.اور اس کا ہر ایک شخص اپنی ذات میں فیصلہ کر سکتا ہے.کیونکہ اس کا تعلق دل ، عقائد اور ایمان کے ساتھ ہے اور انسان عقائد میں آزاد ہوتا ہے.ایک شخص جس چیز کو سچا سمجھتا ہے یہ ناممکن ہے کہ اسے محض کسی کے کہہ دینے سے جھوٹا سمجھنے لگ جائے.یہ تعریف تو ایسی ہے کہ اس کا تعلق افراد سے ہے.اور اس تعریف کے لحاظ سے جو شخص جس چیز پر قائم ہو گیا.اس سے اس کو ہٹانا یا اس چیز کو بد لو انا انسانی طاقت اور قدرت سے باہر ہے.اللہ تعالیٰ نے مختلف طبائع پیدا کی ہیں.اور انسان اس اختلاف طبائع کے سبب مختلف نتائج پر پہنچتا ہے.اور جس بات کو وہ پکڑ لیتا ہے اس کو وہ مشکل سے چھوڑتا ہے.اس تعریف کی رو سے خواہ کسی کو کتنا ہی غلطی خوردہ کہیں اور اس کے لحاظ سے خواہ وہ کتنا ہی کسی کو برا کہے.حتی کہ ولیوں بلکہ ماموروں اور نبیوں کو بھی کافر کے تو جب تک وہ انہیں کافر کہتا ہے ہم اسے یہ نہیں کہہ سکتے کہ
خطبات محمود سال 1927ء انہیں مت کافر کہو.ہمارا یہ کام ہے کہ ہم یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں کہ جسے تم کافر کہتے ہو وہ کافر نہیں.اور جب تک وہ ایسا کہتا اور ایسا سمجھتا ہے.ہم اسے یہ نہیں کہہ سکتے.کہ جو کچھ تم نے سمجھا.اس کے مطابق نتائج اخذ نہ کرو.اور جسے تم کافر کہتے ہو.اس کے متعلق یہ کہہ دو کہ مسلمان ہے.اگر ایسا کریں تو یہ مشکل ہے.لیکن اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ اپنی ضمیر کو قربان کرتا ہے.جب کہ ہم یہ ثابت نہ کریں کہ جسے وہ کافر کہتا ہے وہ کافر نہیں.تب تک ہم اسے یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ جسے تم کافر سمجھتے ہو اسے کافر کہنا چھوڑ دو.ایک آدمی سے ایسا نہیں منوا سکتے.اور تمام افراد سے یہ منوالینا تو اور بھی مشکل ہے.اور اگر یہ ہو بھی تو اس کے لئے ایک لمبا عرصہ چاہئے.کسی کو کسی کے کافر کہنے کی وجہ یہ ہے کہ بعض لوگ بعض مسائل کو بعض مسائل پر ترجیح دیتے ہیں.اور بعض ان میں سے اصولی عقائد ہوتے ہیں.جن کو وہ بڑے اہم قرار دیتے ہیں.تو جن مسائل کو وہ اہم قرار دیتے ہیں.ان کو وہ آسانی کے ساتھ نہیں چھوڑ سکتے.ان کو تو بہر حال وہ کریں گے.اور ان کے لئے ان کا چھوڑنا مشکل ہو گا.پس اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ یہ ان کو چھوڑ دیں تو یہ ایک اہم بات ہے.تو میں نے اس کو دیکھ کر پچھلے دنوں یہ تجویز کی تھی کہ اسے مسلمانوں کے فرقوں میں صلح کی بنیاد نہ بنا ئیں.یہ اختلاف میرے نزدیک منانا ممکن ہے.اور جن کے نزدیک اس کا مٹنا ممکن ہے.ان کے نزدیک بھی یہ کام سینکڑوں سال کے بعد ہو گا.سینکڑوں بلکہ ہزاروں سالوں کے جو اختلاف چلے آتے ہیں.وہ چند دنوں میں انہیں دور نہیں کر سکتے.اور جب ایسے تمام اختلاف چند دنوں میں نہیں مٹ سکتے.بلکہ ان کے لئے سینکڑوں اور ہزاروں سال کا عرصہ چاہئے.تو اس کے یہ معنی ہیں کہ ہمیں اسی سیاسی مقابلہ کے لئے جو اس وقت دوسری قوموں سے ہے ایک لمبے عرصہ تک خاموش رہنا چاہئے.حتی کہ یہ اختلاف مٹ جائیں اور مسلمانوں کے تمام فرقے ایک ہو جا ئیں.اس بات سے جو نقصان پہنچ سکتا ہے وہ ظاہر ہے.مسلمان جب تک اس کی انتظار کریں گے کہ مسلمانوں کے تمام فرقے ایک ہو جائیں.تب تک دشمن ان کو برباد کر دے گا.لیکن دوسری قوموں کے ساتھ جو مسلمانوں کا سیاسی مقابلہ ہے.اس کا تو فیصلہ چند سال میں ہونا چاہئے.اب اگر ایسے فیصلہ کے لئے جو چند سال میں ہونا چاہئے.ہم ایسا کام کرتے ہیں جس سے صدیوں کے بعد یہ فیصلہ ہو.اور کون کہہ سکتا ہے کہ صدیوں کے بعد بھی یہ فیصلہ ہو.کیونکہ یہ بھی یقینی امر نہیں کہ صدیوں کے بعد ضرور ہی اسلام کے تمام فرقے اکٹھے ہو جائیں گے.تو باوجود اس کے ہمارا ایسا کرنا خود اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑا مارنا ہے.جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ضرور پہلے اختلافات کو مثالینا چاہئے.اس سے انہیں
خطبات محمود سال 1927ء رو کتا کون ہے وہ اس کوشش کو بھی جاری رکھیں.لیکن سوال یہ ہے کہ اس وقت چند سال تک ایک فیصلہ ہونے والا ہے.اور اسی فیصلے پر مسلمانوں کی ترقی کا انحصار ہے.اور جو بات چند سال میں حاصل ہو سکتی ہے.کیا اس کے لئے سینکڑوں اور ہزاروں سال انتظار کرنا درست ہے.مسلمانوں کو آج ضرورت ہے کہ وہ آج اس سیاسی جھگڑے کا فیصلہ کریں.تو کیا جس فیصلے کی انہیں آج ضرورت ہے اس کے لئے کسی دور کے زمانہ کا منہ دیکھا جائے.اور پھر یہ بھی یقینی امر نہیں کہ ضرور ہی اتنے عرصہ کے بعد یہ بات حاصل ہو جائے گی.کیونکہ کوئی بھی ایسا نہیں جو کے سات آٹھ سو سال یا ہزار دو ہزار سال میں مسلمانوں سے یہ منوالیا جا سکتا ہے کہ جن کو تم مانتے ہو.انہیں چھوڑ دو.یا جن مسئلوں کو تم ترجیح دیتے چلے آرہے ہو.انہیں ترجیح نہ دو.یا جن باتوں کی تم عزت کرتے چلے آرہے ہو ان کو حقیر سمجھو.یا جن کو تم سینکڑوں سالوں سے کافر کہتے ہو ان کو کافر نہ کہو.اس میں کچھ شک نہیں کہ آج کل دنیاوی امور کی محبت بڑھ رہی ہے.لیکن اس کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.جو لوگ یورپ کے اثر کے نیچے بت پرستوں اور مشرکوں اور ہندوؤں اور عیسائیوں کو بھی کافر نہیں کہنا چاہتے.وہ صرف دنیاوی طور پر ایسا کرنا نہیں چاہتے.یہ مذہبی وسعت نظری نہیں.بلکہ اس سے تو مذہب کی قدر کم ہوتی ہے.گو بعض لوگوں کے نزدیک اس سے فائدہ ہوتا ہے.مگر یہ فائدہ دنیاوی امور کے لحاظ سے ہے کیونکہ یہ مذہبی وسعت خیال کی وجہ سے نہیں ہے.لیکن اگر اس رو کو بھی جاری رکھیں.تو بھی کوئی نہیں کہہ سکتا کہ سات آٹھ سو سال میں ہم تمام لوگوں کو ہم خیال بنائیں گے.پس میں نے ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک تعریف اسلام کی یہ کی تھی جو نہ ہی تعریف تھی.اور کہا تھا کہ اس بات کو مسلمانوں کے فرقوں کی صلح کی بنیاد نہ بنائیں کہ پہلے اختلاف مٹانے چاہئیں.یہ اختلاف جلدی نہیں مٹ سکتے.اور مسلمانوں کو ضرورت ہے کہ وہ جلدی متحد ہوں اور اس مقابلے کا جلد فیصلہ ہو.دو سری تعریف اسلام کی میں نے یہ کی تھی اور یہ سیاسی تعریف ہے کہ جبکہ شیعہ سنیوں کو اور سنی شیعوں کو حنفی اہل حدیث کو اور اہلحدیث حنفیوں کو اور چکڑالوی وہابیوں کو اور وہابی چکڑالویوں کو کافر کہتے ہیں.تو اس کے مقابلہ میں ہندو اور عیسائی لوگ ان باتوں سے متاثر نہیں ہوتے.یہ سن کر کہ حنفی شیعوں کو کافر کہتے ہیں.یہ نہیں کہتے کہ چونکہ شیعوں کو یہ لوگ کافر کہتے ہیں اس لئے شیعوں کے ساتھ اور معاملہ کرنا چاہئے.اور ایسا ہی ایک حنفی کے متعلق کا فر کا لفظ سن کر ہندو یہ نہیں کہتے کہ آؤ حنفیوں کے ساتھ وہ سلوک نہ کریں.جو ہم مسلمانوں سے کرنا چاہتے ہیں.بلکہ وہ تمام
خطبات ۱۳۴ سال 1927ء مسلمانوں کے ساتھ ایک ہی قسم کا سلوک کریں گے.خواہ مسلمان ایک دوسرے کو کافر ہی کہتے ہوں.دفاتر میں اس کی مثال موجود ہے.ہندوؤں کی کوشش یہ ہوتی ہے.کہ جہاں تک ہو سکے دفاتر میں ہندوؤں کو بھرا جائے.اس کے لئے وہ یہ نہیں کرتے کہ چونکہ شیعوں کو کافر کہا جاتا ہے یا حنفیوں کو کافر کہا جاتا ہے اس لئے ان کے ساتھ یہ سلوک نہیں کرنا چاہئے.بلکہ وہ سب کے ساتھ ایک ہی قسم کا سلوک کرتے ہیں اور ہندوؤں کو دفتروں میں بھرنے کے لئے وہ یہ نہیں دیکھتے کہ فلاں فلاں کو کافر کہا جاتا ہے اس لئے اسے ایسا سلوک کرنے سے چھوڑ دینا چاہئے.اور اس کے لئے وہ بہانہ یہ کیا کرتے ہیں کہ مسلمان نالائق ہوتے ہیں.اب ہندوؤں کے نزدیک ہندوؤں نے ہی لائق ہونا ہے.اگر لیاقت کا معیار ڈگری کو قرار دیا جائے.تو سینکڑوں بی.اے مسلمان یو نہی پھرتے ہوئے ملیں گے.اور ایم.اے اور انٹرنس پاس ہوں گے.لیکن باوجود اس کے ہندو ایسا نہیں کرتے.اور ان کو بھرتی نہیں ہونے دیتے.ان کی جگہ کسی ہندو کو لے آتے ہیں.جس کے پاس کوئی ڈگری نہیں ہوتی.تو لیاقت کا معیار ہندو اور خیال کرتے ہیں.ان کے نزدیک مسلمان لائق ہی نہیں ہوتا.اس لئے وہ ہندوؤں کو دفتروں میں بھرنے کی کوشش کرتے ہیں.تو یہ جو اتلاف حقوق کیا جاتا ہے اس کے لئے ایک ہندو اس بات کا فرق نہیں کرتا کہ جن کو کافر کہا جاتا ہے ان کو اپنے اس سلوک سے چھوڑ دے.بلکہ وہ یہ دیکھتا ہے کہ یہ مسلمان ہے.چاہے وہ اپنے نام کے ساتھ احمدی کے یا حنفی کے یا وہابی کہے یا شیعہ کے یا چکڑالوی کے یہی حال عیسائیوں کا ہے وہ بھی یہی سلوک کرتے ہیں.پس ایک تعریف میں نے یہ کی تھی کہ ہندو اور عیسائی کسی فرقہ کو نہیں چھوڑتے بلکہ ان کے نزدیک سب فرقے ایک ہی طرح کے ہیں.ان کے نزدیک جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے وہ مسلمان ہے خواہ وہ کسی فرقہ کا ہی ہو.اس لئے اس کے حقوق تلف کرنے چاہئیں.پس میں نے تجویز کی کہ ایک تو وہ تعریف اسلام کی ہے جو ہم سمجھتے ہیں.اور جو شادی بیاہ ، موت نوت امانت عبادت اور دوسرے دینی معاملوں میں کام کرتی ہے.لیکن جس سے غیروں کے ساتھ معاملہ پڑتا ہے وہ اور ہے.اس لئے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم خواہ اس تعریف کے ماتحت جو عبادات اور دینی امور کے متعلق سمجھی جاتی ہے کتنا ہی ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہوں.لیکن جس سے غیروں سے معاملہ پڑتا ہے اس میں ایک ہیں.اور اسی وجہ سے وہ ہم سے ایک ہی جیسا سلوک کرتے ہیں.تو دوسری تعریف کا یہ مطلب ہے کہ ہر فریق جو بھی اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے.اس میں وہ سب اکٹھے ہو جا ئیں اور ایک ہو جائیں.اب یہ ایک ایسی تعریف ہے کہ اس کے ذریعے بہت جلد اتفاق ہو سکتا ہے.اور اگر
+1927 ۱۳۵ خطبات محمود بڑے بڑے آدمی کوشش کرنی شروع کر دیں.تو انہیں کسی مذہبی اصل کی قربانی بھی نہیں کرنی پڑتی.اور یہ اتحاد بھی ہو جاتا ہے.یہ تجویز پہلے پہل مسلم لیگ کے جلسہ میں جولاہور میں آل انڈیا مسلم پارٹیز کے جلسہ سے ایک سال پیشتر ہوا.پیش کی گئی تھی اور پھر آل انڈیا مسلم پارٹیز کے جلسہ منعقدہ امرتسر میں دہرائی گئی تھی.عام طور پر تعلیم یافتہ طبقہ کے لوگوں نے علی الاعلان اور پرائیویٹ دونوں طور پر بڑے زور سے کہا کہ مسلمانوں کے فرقوں میں اس سے صلح ممکن ہو سکتی ہے.پچھلے دنوں جب میں لاہور گیا ہوا تھا تو وہاں ایک مجلس میں جس میں صوبہ کے بڑے بڑے لیڈر تھے اور ایک تو ان میں سے ہندوستان کا لیڈر کہلا سکتا ہے.انہوں نے یہ کہا کہ مسلمانوں کی صلح ہونے کا یہ بہترین ذریعہ ہے.اور در حقیقت یہ بات ہے بھی درست.کیونکہ اس سے مسلمانوں کے فرقے بغیر اپنے کسی اصل کے چھوڑنے کے متحد ہو سکتے ہیں.مثلا شیعہ لوگ اسی پر یقین رکھتے ہیں کہ ان کے آئمہ ویسے ہی معصوم ہیں جیسے انبیاء.اور یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ ان کے حقوق بھی ویسے ہی ہیں جیسے انبیاء کے ہیں.ان کے نزدیک امام بھی معصوم ہوتا ہے.اس وجہ سے لازماً ان کو ماننا پڑتا ہے کہ ان کا درجہ ایک ہے.اور اس اتحاد کے لئے اگر کسی پر یہ زور دیا جائے کہ پہلے اپنی تعلیم کا انکار کیا جائے.تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ ہم صداقتوں کا انکار کرواتے ہیں.اسی طرح شیعہ سنی کا حال ہے.جو ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں اور جو اس کا انکار نہیں کر سکتے.شیعہ سنی کا فرق تو دوسری تیسری صدی میں ہوا.خوارج پر تو کفر کا فتویٰ پہلی صدی میں ہی لگ گیا تھا اور ان کو خارج از اسلام سمجھا گیا اور برابر تیرہ سو سال سے ہی یہ اختلاف چلا آتا ہے.اور اس کی بناء پر خوارج کو کافر کہا جاتا ہے.اور وہ بھی دوسروں کو کافر کہتے ہیں.بلکہ وہ تو کہتے ہیں کبیرہ گناہ کرنے والے کا فر ہیں.حتی کہ وہ حضرت علی کو بھی کافر سمجھتے ہیں کیونکہ وہ کہتے ہیں معاویہ کی طرف سے جو فیصلہ پیش کیا گیا اسے جو انہوں نے تسلیم کر لیا اس لئے وہ کافر ہیں.خوارج کے نزدیک کبیرہ گناہ کی تعریف بھی کچھ اور ہے.دوسرے مسلمانوں کے نزدیک جو چھوٹے چھوٹے گناہ ہوتے ہیں خوارج ان کا نام کبیرہ رکھتے ہیں.حضرت عباس نے کہا بھی کہ تم نے بھی ایسا ہی کیا تو انہوں نے کہا ہم نے توبہ کرلی.ہم مسلمان ہو گئے.علی بھی اگر تو بہ کریں تو مسلمان ہو سکتے ہیں.تو خوارج کی طرف سے علی پر فتوی لگا.تو وہ ان کو اور علی کے ماننے والے ان کو کافر سمجھتے ہیں اور یہ کفر کا مسئلہ پرانا ہے.اب اگر علی کے ماننے والے کو کہیں کہ میاں تم ان کو کافر کہنا چھوڑ دو.تو یہ آسان نہیں.
خطبات محمود سال 1927ء خوارج کو کہیں کہ جنہیں تم تیرہ سو سال سے کافر کہتے آئے ہو انہیں کافر نہ کہو تو وہ ہرگز اس کو نہ مانیں گے.نجدی جب مکہ میں داخل ہوئے تو یہ کہہ کر کہ یہ کافر ہیں مشرک ہیں سینکڑوں کو مار ڈالا.میں جب حج کرنے کے لئے گیا تھا تو ان کو ملا.یہ سمجھدار لوگ ہیں مہذب بھی ہیں.لیکن پرانے خیالات کے ہیں.اب بھلا اس کے سوا صلح کا کوئی اور طریق ان سے ہو سکتا ہے.جاوا یا چین یا سماٹرا یا ترکی یا ایران یا افغانستان کے لوگوں کو کہنا کہ تم جن باتوں کو کئی سو سالوں سے مانتے چلے آئے ہو ان کو چھوڑ دو.اور ان باتوں کو نظر انداز کردو.جو صدیوں سے تم کرتے آئے ہو.تو یہ ناممکن ہے ایک خارجی کو کہنا کہ بڑے گناہ کے ارتکاب کو کفر قرار نہ دو.تو خارجی کبھی ایسا نہیں کرے گا.کبھی نہیں کہے گا کہ کبیرہ گناہ کا ارتکاب کفر نہیں ہوتا.اور اگر ہم اسے کہیں کہ تم اس کو کفر نہ کہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم انہیں کہتے ہیں.تم اپنے آپ کو خوارج کہنا چھوڑ دو.جو ناممکن ہے.میرے نزدیک مسلمانوں کی اس پر صلح نہیں ہو سکتی.لیکن اگر فرض کر لیا جائے.کہ ہو سکتی ہے تو سینکڑوں سال کے بعد.لیکن جو میں نے بات بتائی ہے وہ ایسی ہے کہ اس سے صلح فورا ہو سکتی ہے.اور ہمیں جلد اس صلح کی ضرورت بھی ہے.کیونکہ ایک ایسا بھی دشمن ہے جو ہم کو مارنا چاہتا ہے.اس کا مقابلہ اکٹھے ہو کر کرنا چاہئے.شیعہ ہوں یا سنی.احمدی ہوں یا وہابی - چکڑالوی ہوں یا کوئی اور سب کو اس کے مقابلے کے لئے اکٹھے ہو جانا چاہئے.واقعات ثابت کر رہے ہیں کہ دو تین سال کے عرصہ کے اندر ہی اس تعریف کو اس قدر قبولیت ہوئی کہ مسلمانوں کے فرقے اس پر جمع ہو رہے ہیں.ہو سکتا ہے کہ بعض اسکا انکار کر دیں.لیکن ان کی تعداد اس قدر قلیل ہو گی کہ جو اس کے ماننے والے ہوں گے ان کی تعداد کثیر ہوگی.اور ان کی کثرت کا مقابلہ ان کی (Minority) قلت نہیں کر سکتی.تو یہ تعریف عام طور پر مقبول ہوئی.بعض اشخاص نے اعتراض کیا ہے کہ مذہبی لوگوں کا کیا کام ہے کہ اسلام کی مذہب کے سوا سیاسی تعریف بھی کریں.جنہوں نے اعتراض کیا ہے میں نام لے کر ان کا جواب دے سکتا ہوں.لیکن میں نے ان سے صلح کا معاہدہ کیا ہوا ہے.گو دوسرے فریق نے اس معاہدہ کو تو ڑ دیا ہے.لیکن میں اس حصہ جواب سے پہلو تہی کرتا ہوں.جو میری ذات کے متعلق ہے.مگر میں اس اعتراض کے متعلق بتانا چاہتا ہوں کہ اسلام کے فرقوں میں سیاسی صلح بھی ہو سکتی ہے.قرآن نے مشرکوں کے
خطبات محمود ۱۳۷ سال 1927ء مقابلہ پر اہل کتاب کو جمع ہونے کے لئے کہا ہے.قُل يَا هُلَ الْكِتَابِ تَعَالُوا إِلى كَلِمَةٍ سَوَاء بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الَّا نَعْبُدَ إِلا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللهِ ( ال عمران : ۱۵) آؤ اے اہل کتاب ایک امر مشترک پر جمع ہو جائیں اور وہ توحید ہے.آؤ شرک کا مقابلہ کرنے کے لئے اکٹھے ہو جائیں.اہل کتاب مسلمانوں کو کافر کہتے تھے اور مسلمان اہل کتاب کو.ان میں اختلاف تھا.مگر باوجود اس اختلاف کے ان کو ایک امر مشترک پر جمع ہونے کے لئے بلایا گیا.تو جب قرآن شریف اس امر کو پیش کرتا ہے.اور کہتا ہے کہ اختلاف تو ہے لیکن ایک بات مشترک ہے اس لئے اس امر مشترک پر اکٹھے ہو جاؤ تاکہ شرک کا مقابلہ کیا جائے.ہم تمہیں کافر کہتے ہیں تم ہمیں کہتے ہو ہم تم پر اعتراض کرتے رہیں تم ہم پر اعتراض کرتے رہو.مگر جو بات ہم میں اور تم میں مشترک ہے.اس کے لئے ہمیں اکٹھے ہو جانا چاہئے.اگر یہ کہتا کہ آؤ ہم تمہارے مذہب کے متعلق کچھ نہیں کہیں گے تو یہ قرآن کی تعلیم کے برخلاف ہے.پس منشاء یہی ہے کہ توحید کے لئے ہم جمع ہو جائیں.یہی تعریف میں نے پیش کی ہے کہ جن امور میں اختلاف ہے ان کو قائم رکھ کر بھی مسلمانوں کے ہر ایک فرقہ میں اتحاد ہو سکتا ہے.اور یہ تعریف خدا نے آنحضرت نے اور قرآن نے بتائی ہے جو خدا کی کتاب ہے.ممکن ہے بعض باتیں اہم ہوں.لیکن جب وہ لوگ جو رسول کریم ﷺ کو اور قرآن شریف کو جھوٹا سمجھتے ہوں.وہ اکٹھے ہو سکتے ہیں.تو ہم کیوں نہیں ہو سکتے جو رسول کریم اے اور قرآن شریف کو سچا سمجھتے ہیں.خدا بھی ایسا کہتا ہے اور رسول کریم سے بھی یہی کہتے ہیں کہ جو اختلاف میری نبوت کے متعلق ہے وہ رکھو.لیکن بہر حال توحید میں تو ہم اکٹھے ہو جائیں.تو قرآن نے بھی یہی طریق صلح کا پیش کیا ہے.یہ نہیں کہا کہ پہلے کافر کہنا چھوڑ دو.اور پھر اکٹھے ہو جاؤ.بلکہ رسول کریم نے یہی فرمایا کہ بے شک وہ مجھے کافر کہیں میں ان کو کہوں.لیکن باوجود اس کے جس امر میں اشتراک ہے ہم اس میں اکٹھے ہو جائیں تاکہ شرک مٹ جائے.اور مشرک کوئی نہ رہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک مسلمان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ سب مسلمان ہو جائیں.لیکن ساتھ ہی یہ بھی خواہش ہوتی ہے کہ مشرک کوئی نہ ہو.اس کا نام سیاسی تعریف رکھ لو.مذہبی تعریف رکھ لو.بہر حال یہ طریق ہے جو اسلام نے اور آنحضرت ﷺ نے پیش کیا.جو اس کی مخالفت کرتا ہے.وہ اس کی تردید کرتا ہے.اگر آج مسلمان اس کو مان لیں گے.تو وہ اختلاف کو مٹانے کے بغیر ہی اس کامیابی کو حاصل کرلیں گے لیکن اگر وہ اختلاف مٹانے کے لئے کوشش کریں گے.تو نہ وہ کامیابی حاصل ہوگی اور نہ اختلاف ہی مٹ
خطبات محمود سال 1927ء سکیں گے.زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ اک عارضی جوش ان میں پیدا ہو جائے.لیکن وہ بات اس سے حاصل نہ ہوگی جس کی آج ضرورت ہے.پس یہ خیال کر لینا کہ اتحاد سے پہلے سارے آدمی ایک خیال پر جمع ہو جائیں.درست نہیں.کیونکہ ایک فریق جو ایک بات کو عرصہ سے سچا سمجھتا چلا آ رہا ہے یا ایک کو کافر کہتا ہے.کس طرح وہ کافر کہنا چھوڑ دے جب تک کہ اس کے متعلق یہ یقین پیدانہ ہو جائے کہ جسے میں کافر سمجھتا ہوں وہ کافر نہیں یا اس کی غلطی کی اصلاح نہ کی جائے.پس اسلام اور مسلمانوں کی حالت پر رحم کر کے اس بات کے پیچھے نہیں پڑنا چاہئے جس کا نتیجہ جلدی نہ نکل سکے بلکہ اس کی طرف توجہ کرنی چاہئے جس کا نتیجہ جلد نکل سکے پس مسلمانوں کا فرض ہے کہ اس تعریف پر غور کریں جو میری پیش کی ہوئی نہیں بلکہ در حقیقت قرآن شریف کی پیش کی ہوئی ہے.پس جب آنحضرت ا کے نہ ماننے والے آنحضرت ا کے ماننے والوں کے ساتھ اس امر مشترک میں اکٹھے ہو سکتے ہیں کہ شرک کا مقابلہ کیا جائے.تو کیوں ہم جو رسول کریم ﷺ کو ماننے والے ہیں رسول کریم کی رسالت کے لئے اکٹھے نہیں ہو سکتے جو ہم سب میں امر مشترک ہے.ہم کو خود غرضی اور نفسانیت کو چھوڑ دینا چاہیئے.جب یہ ہوگی ہم کچھ نہ کر سکیں گے اور جب یہ نہ ہوگی تو پھر یہ بات آسانی سے ہو سکے گی کہ اسلام کی مصیبت کے دن دور ہوں.میں دعا کرتا ہوں کہ ہر فرقہ جو ایک دوسرے کو کافر سمجھتا ہے وہ متفق ہو جائے اور سمجھ لے کہ آج اس اتفاق اور صلح کی اسلام اور آنحضرت کی حرمت کے لئے بڑی ضرورت ہے.اور اس کو سمجھتے ہوئے وہ یہ عہد کرے کہ میں اس روز تک دم نہیں لوں گا جب تک کہ سب میں اتفاق نہ ہو جائے تاکہ اس اتحاد سے آنحضرت کی عزت کو قائم کیا جاسکے اور میں امید کرتا ہوں جب یہ اتحاد پیدا ہو جائے گا تو پھر اس اتحاد سے دنیا میں اسلام پھیل جائے گا.الفضل ۱۷ جون ۱۹۲۷ء)
خطبات محمود ۱۳۹ A سال 1927ء حضور الله کی بلندشان (فرموده ۱۰ جون ۱۹۲۷ء ) تشهد تعوذ اور سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: پچھلے دنوں میں نے درس کے موقع پر قادیان میں ایک رسالہ کا ذکر کیا تھا.جس میں رسول کریم ﷺ کی ذات بابرکات کے متعلق اس قدر گندے الفاظ استعمال کئے گئے تھے جو کسی شریف الطبع انسان کی زبان اور قلم سے نہیں نکل سکتے.ایسے الفاظ کا استعمال خود استعمال کرنے والے کی گندی فطرت پر تو دلالت کرتا ہے لیکن ان کا اثر اس شخص پر کچھ نہیں پڑ سکتا جس کو برا کہا گیا.مگر باوجود اس کے ہر اس شخص کا جو اس ذات سے تعلق محبت رکھتا ہو جسے برے الفاظ سے یاد کیا گیا ہو فرض ہے کہ وہ اپنے محبوب اور محسن کی ہتک کے بر خلاف آواز اٹھائے.گو جیسا کہ میں نے بتایا اس کی گالیوں کا اثر آنحضرت ﷺ پر نہیں پڑ سکتا.چاند پر تھوکنے والا چاند پر تھوک نہیں ڈال سکتا.وہ تھوک اس کے ہی منہ پر پڑتی ہے.آنحضرت ﷺ کی شان تو وہ ہے جس کے سامنے چاند اور سورج بھی گر د ہیں.ایک غیر متلو الہام کے ذریعہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.کولاک لما خَلَقْتُ الافلاک (موضوعات کبیر صفحه ۵۹ و مجمع الانوار جلد ۳-۴۷ ( ۵۱۲) اگر تیرے جیسے عظیم الشان انسان کی پیدائش مد نظر نہ ہوتی تو میں زمین اور آسمان کو بھی پیدا نہ کرتا.پس زمین اور آسمان کی پیدائش جس وجود کی وجہ سے ہوئی.اسے گالیاں دینا اور برا بھلا کہنا اس کی ہتک نہیں.بلکہ اس شخص کی اپنی ہتک ہے جو گالیاں دیتا اور برا بھلا کہتا ہے.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس فطری تقاضا کی وجہ سے میں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی.اور خدا کا فضل ہے کہ وہ رسالہ ضبط ہو گیا.اور اس مضمون کا لکھنے والا اور اس رسالہ کا ایڈیٹر دونوں
خطبات محمود ۱۴۰ سال 1927ء گرفتار ہو گئے.اور بعد میں ہمارا اشتہار بھی ضبط ہو گیا.لیکن ہمارے سامنے یہ بات نہیں کہ زید یا بکر قید ہو جائے.اس سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا.ہمیں فائدہ اگر ہے تو اس میں کہ کوئی ایسی ناپاک آواز سننے والا نہ رہے جیسی اس رسالہ میں بلند کی گئی ہے.کیونکہ قاعدہ ہے کہ دنیا میں کوئی آواز نہیں اٹھتی جب تک اس کے اٹھانے والے کو یہ معلوم نہ ہو کہ اس آواز کو سننے والے موجود ہیں.پس ہمارا فائدہ اس میں نہیں کہ کوئی قید ہو جائے.بلکہ اس میں ہے کہ کوئی اس آواز کو سننے والا نہ رہے.جس شخص کے پیچھے خدا تعالیٰ کی آواز محرک کے طور پر نہیں ہوتی وہ کوئی ایسی آواز نہیں اٹھاتا جسے قبول کرنے والے لوگ موجود نہ ہوں سوائے اس کے کہ وہ پاگل ہو.پس در تمان کے ایڈیٹر اور اس کے نامہ نگار جیسے لوگ جب گندے اور ہتک آمیز فقرے استعمال کرتے ہیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ پبلک میں سے ایک حصہ ضرور ان کے فعل کو بنظر استحسان دیکھے گا اور اسے کار ثواب سمجھے گا.پس جنہوں نے مضمون لکھا اور شائع کیا.اور جنہوں نے نظر استحسان دیکھا.ان میں فرق یہ ہے کہ پہلوں نے اپنے خیالات کو ظاہر کر دیا.اور دوسروں نے انہیں دماغ پر کندہ کیا ہوا تھا.یہ دونوں ہمارے لئے برابر ہیں.کسی وفات یافتہ شخص کے متعلق ایک جماعت کا یہ سمجھتے رہنا کہ وہ چور ہے.اور ایک جماعت کا اسے ظاہر کر دینا اس کی حقیقی عزت کو مد نظر رکھتے ہوئے برابر ہے.اصل چیز دل ہے.اگر دلوں میں کسی کے حسن کی قدر نہیں اور اس کا اعتراف نہیں تو سمجھ لینا چاہتے کہ وہ حسن جلوہ گر نہیں ہوا.پس جب تک کہ قلوب کی اصلاح نہ کی جائے اور ان میں یہ یقین نہ پیدا کیا جائے کہ آنحضرت ﷺ کی زندگی ایسی پاک ہے کہ اس کا نمونہ دنیا میں ملنا نا ممکن ہے.اس وقت تک ہمیں خوش نہیں ہونا چاہئے.اگر ایسے اشخاص کو جو آپ اللہ کے متعلق برے الفاظ استعمال کرتے ہیں اور ہتک آمیز فقرے لکھتے ہیں.جیسے کہ ”ور تمان " اور اس کے نامہ نگار نے لکھے.دو نہیں ، دس نہیں ، سو نہیں ، پچاس ہزار سال کے لئے بھی گورنمنٹ قید کر سکتی ہو اور ایسا کر دے.تو اس سے ایک مسلمان کو کوئی خوشی نہیں ہو سکتی کیونکہ جس شخص نے رسول کریم ال کے متعلق اپنے برے خیالات کو ظاہر کیا ہے اس نے رسول کریم اللہ کے متعلق کوئی نیا پہلو اختیار نہیں کیا.بلکہ صرف ہمارے احساسات کو صدمہ پہنچایا ہے.اس لئے اس کے قید ہونے سے رسول کریم ﷺ کی عزت نہیں بڑھتی.بلکہ جو صدمہ ہمارے احساسات کو پہنچایا گیا تھا اس کا
خطبات محمود ۱۴۱ سال 1927ء ازالہ ہوتا ہے.چنانچہ گورنمنٹ کا قانون بھی اسی پر دلالت کرتا ہے.گورنمنٹ کا قانون یہ نہیں کہ ایک معزز شخص کو برا کہنے پر ایسا آدمی سزا پاتا ہے بلکہ یہ ہے کہ چونکہ وہ اس بزرگ کے ماننے والوں کے دلوں کو تکلیف دیتا ہے اس لئے اسے سزادی جاتی ہے.پس سزار سول کریم ﷺ کی عزت کی حفاظت کے لئے نہیں ہے بلکہ ہمارے احساسات کی حفاظت کے لئے ہے، اور جو شخص رسول کریم ﷺ کی بدگوئی کرنے والے کی سزا پر خوش ہو جاتا ہے وہ رسول کریم ﷺ کی عزت پر اپنے احساسات کو مقدم کرتا ہے.ہمیں کسی کے قید ہونے پر نہیں بلکہ اس امر پر خوشی ہونی چاہئے کہ رسول کریم ﷺ کی پاکیزہ زندگی کے متعلق جو لوگوں کو بد خنیاں پیدا ہو رہی ہیں وہ دور ہو جائیں، اور اپنی تمام تر کوششیں ہمیں اس امر کے لئے صرف کر دینی چاہئیں.پس میں اپنی جماعت کے دوستوں کو بھی اور دوسرے مسلمانوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ ہمارے لئے یہ کوئی خوشی نہیں کہ در تمان کا ایڈیٹریا اس کا نامہ نگار قید ہو جائیں.اور پھر یہ بھی تو ابھی معلوم نہیں کہ وہ ضرور ہی قید ہوں.ہو سکتا ہے کہ وہ قید نہ ہوں.کیونکہ صوبہ کی عدالت عالیہ کا ابھی ایک فیصلہ ہو چکا ہے جس میں ایک ایسا ہی شخص بری کر دیا گیا ہے اور اگر ماتحت عدالتیں انہیں قید بھی کر دیں.تو ممکن ہے کہ ان کے فیصلہ کے خلاف اپیل ہو اور وہ کسی ایسے حج کے سامنے پیش ہو جو اس مضمون کے متعلق یہی سمجھتا ہو کہ اس سے منافرت پیدا نہیں ہوتی تو ایسا حج پھر یہی فیصلہ کر دے گا جو صوبہ کے اعلیٰ حاکم نے حال میں کیا اس لئے ہمارے لئے اس وقتی خوشی میں فائدہ نہیں.اگر ہم رسول کریم ﷺ سے محبت رکھتے ہیں تو ہماری خوشی اس میں ہونی چاہئے.کہ ہم دنیا سے رسول کریم ﷺ کی نسبت شکوک و شبہات کو دور کرنے میں کامیاب ہوں.سچی محبت قربانی کا مطالبہ کرتی ہے.کسی شخص کے قید ہو جانے میں ہم کون سی قربانی کرتے ہیں.قید گورنمنٹ کراتی ہے.پس اس فعل میں اگر کوئی خوبی ہے تو اس کی مستحق گو ر نمنٹ ہے نہ کہ مسلمان.مسلمان تب ہی سرخرو ہو سکتے ہیں جب کہ وہ رسول کریم ﷺ کی محبت کا عملی ثبوت دیں.اور آپ ا کی عزت کے قیام کے لئے اپنے اوقات اور اپنے اموال خرچ کر کے دکھائیں جو شخص صرف کسی کے قید ہونے پر تسلی پا جاتا ہے.اور رسول کریم کی عزت کے قیام کے لئے خود کوئی کوشش نہیں کرتا وہ اپنے محبت کے دعوی میں جھوٹا ہے.اور اس کی محبت کی خدا تعالیٰ کے نزدیک اور اہل دل کی نگاہ میں ایک ذرہ بھر قدر نہیں.پس میں عام مسلمانوں کو عموماً اور اپنی جماعت کے لوگوں سے خصوصاً
خطبات محمود سال 1927ء کہتا ہوں کہ ہمیں یہ مقصد سامنے رکھنا چاہئے کہ اسلام پھیلے اور آنحضرت اللہ کی براءت ہو.قطع نظر اس بات کے کہ وہ اشخاص قید ہوتے ہیں یا نہیں.ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ انہوں نے گالیاں تو دے لیں اور یہ گالیاں اب واپس نہیں ہو سکتیں.اس لئے بجائے اس کے کہ ہم یہ دیکھیں کہ وہ قید ہوتے ہیں یا نہیں.ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ لوگوں کے خیالات کو تبدیل کریں.اور میں کئی بار اعلان کر چکا ہوں کہ وہ کوشش تین طریق سے ہو سکتی ہے.اول تبلیغ کے ذریعے دوم اپنے نفس کی اصلاح سے سوم اقتصادی اور تمدنی حالت کی درستی ہے.یہ تین باتیں ہیں.جن سے لوگوں کے خیالات تبدیل ہو سکتے ہیں.ان لوگوں کو دولت اور روپیہ کا گھمنڈ ہے.اور وہ اس زور اور گھمنڈ کی بناء پر مسلمانوں کو بالکل ذلیل خیال کرتے ہیں.اور سمجھتے ہیں کہ مسلمان ہمارے غلام بلکہ غلاموں کے بھی غلام ہیں.اس لئے ایسی گندی تحریریں شائع کرنے والے مسلمانوں کو تکلیف دینے یا صدمہ پہنچانے میں کوئی خوف نہیں محسوس کرتے.کیونکہ جانتے ہیں کہ ان کی قوم لاکھوں روپے مقدمات پر خرچ کرنے کے لئے تیار ہے.میں نے چوہروں کے بھی تمام افراد کو گندہ نہیں دیکھا وہ بھی سارے کے سارے گندے نہیں.تو کیا ہندو قوم جو بہت بڑی قوم ہے ساری کی ساری گندی ہو سکتی ہے.اس قوم میں بھی شریف آدمی ہیں.لیکن وہ شریر آدمیوں سے دبے ہوئے ہیں.اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں ان کی تعداد گالیاں دینے والوں سے بہت زیادہ ہے.اور اگر ان پر تمدنی زور ڈالا جائے.تو وہ ان لوگوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے جو ان میں سے شریر ہیں.اور اس کا اثر یہ ہو گا کہ خود بخود گالیاں دینے والے بیٹھ جائیں گے.مسلمان تو ان گالیاں دینے والوں کو جو کچھ برا بھلا کہیں گے سو کہیں گے.ان تدابیر کے نتیجہ میں خود ان کی اپنی قوم ہی ان کو برا سمجھے گی اور انہیں ملامت کرے گی.پس بجائے اس کے کہ ہم بے اثر طریقے اختیار کریں.ہمیں چاہئے کہ ہم ہندو قوم کے اس شریف طبقہ پر تمانی زور دیں.اور جب وہ طبقہ اس بات کو سمجھ لے گا کہ دوسری اقوام کا دل دکھانا آسان نہیں ہے.اور اس سے قومی نقصان پہنچتا ہے.تو وہ خود اپنی قوم کے بد اخلاق لوگوں کو ان کے افعال سے روکے گا.اور وہ لوگ اپنے گندے افعال سے باز آجا ئیں گے.اس کے بعد میں ایک اور اہم سوال کی طرف توجہ کرتا ہوں.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ گورنمنٹ کے ایک ذمہ دار افسر نے ہماری جماعت کے چند دوستوں سے ملاقات کے وقت ایک سوال کیا ہے جو میرے نزدیک بہت نا مناسب تھا.ان صاحب نے جن کی میں ذاتی طور پر بہت عزت
خطبات محمود ۱۴۳ سال 1927ء کرتا ہوں.ہماری جماعت کے چند آدمیوں سے عند الملاقات کہا.جب ملک کی ہوا خراب ہو رہی تھی تو آپ لوگوں نے ورتمان کے متعلق اشتہار کیوں شائع کیا.کیوں نہ مجھے در تمان لا کر دیا کہ میں خود کار روائی کرتا.( مجھے ان صاحب کے اس قول سے اختلاف ہے کہ گورنمنٹ ایسی تحریرات پر نوٹس لیتی ہے.بسا اوقات گورنمنٹ باوجو د توجہ دلانے کے کوئی نوٹس نہیں لیتی.اور یہ بات ملک کے امن کو برباد کرنے کا موجب ہو جاتی ہے) جب ان دوستوں کی طرف سے یہ کہا گیا کہ ہمیں قادیان سے ہمارے امام کی طرف سے ہدایت آئی تھی کہ یہ اشتہار شائع کر دیا جائے اس پر ان صاحب نے کہا تو کیا پھر یہ دلچسپ بات گورنمنٹ کے نوٹس میں لاؤں کہ آپ لوگ اپنے امام کی ہدایت کے ماتحت قانون کی خلاف ورزی کرنے کو تیار ہو سکتے ہیں.ہماری جماعت کے آدمیوں نے جواب دیا کہ اگر تو یہ دھمکی ہے تو آپ بے شک ایسا کریں.لیکن اس بات سے کہ مرکز سے ایک پوسٹر آیا اور اس کی اشاعت کر دی گئی.یہ بات نہیں لازم آتی کہ امام جماعت خود یا ان کی ہدایت کے ماتحت جماعت احمدیہ قانون شکنی پر آمادہ ہے.یہ قول در حقیقت اپنے اندر ایک سوال رکھتا ہے.اور وہ سوال یہ ہے کہ کیا جب امام جماعت احمدیہ اور گورنمنٹ کے احکام آپس میں ٹکرا جائیں تو تم پھر بھی امام جماعت احمدیہ کی بات مانو گے؟ میرے نزدیک اس مخفی سوال کا جواب جو کچھ دینا چاہئے تھا وہ ہمارے دوستوں نے نہیں دیا.اگر اسی رنگ میں حضرت خلیفہ اول کے وقت میں مجھ سے کوئی افسر سوال کرتا تو میں اسے کہتا کہ احمدی تعلیم کے ماتحت یہ ممکن ہی نہیں کہ سلسلہ احمدیہ کے امام اور گورنمنٹ کے احکام میں اختلاف ہو جائے.لیکن اگر آپ فرض کے طور پر پوچھتے ہی ہیں.تو پھر میں یقیناً اس کے مقابلہ میں جو دنیوی سلطنت کا قائم مقام ہے اس کی بات مانوں گا جو آسمانی بادشاہت کا قائم مقام ہے.اگر کوئی افسر مجھے اس سوال کا جواب دینے پر مجبور کر تا تو بے شک میں یہی جواب دیتا.لیکن حق یہ ہے کہ یہ سوال ہی بالکل غلط ہے.میری حیثیت جماعت احمدیہ میں امام اور خلیفہ کی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ میں دینی امور میں حکم دینے والا ہوں.اور خلیفہ وہ ہوتا ہے جو نبی کے ماتحت ہے اور نبی کے بعد اس کی جماعت کی دینی طور پر تنظیم ، ترقی اور تعلیم و تربیت کلی طور پر اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے.پس اگر کوئی شخص ایک ایسے شخص سے جو اس امام اور خلیفہ کا ماننے والا ہے یہ سوال کرتا ہے کہ تم خدا کے قائم مقام کی بات مانو گے یا ہماری تو وہ غلطی کرتا ہے.کیونکہ سائل کو خود ہی سمجھ لینا چاہئے.کہ جو شخص خدا تعالیٰ کو مانتا ہو.وہ ایسے موقع پر یہی کہے گا کہ میں دینی امور
۱۴۴ سال 1927ء میں امام کی یا خلیفہ کی بات مانوں گا.کیونکہ وہ بالواسطہ خدا تعالی کا قائم مقام ہے.لیکن یہ خیال پیدا ہی کیوں کیا جائے کیا ایک سکھ سے حکام وقت یہ پوچھتے ہیں کہ تم اپنے گورو کی بات مانو گے یا ہماری.وہ ایسا سوال نہیں کرتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جب ایک سکھ کے دماغ میں یہ خیال پیدا کر دیا گیا کہ گورو اور حکومت وقت میں ٹکراؤ ہو سکتا ہے تو وہ یہی جواب دے گا کہ میں آپ کی نہیں مانوں گا اپنے گورو کی مانوں گا.پس ایسا افسر جو اس قسم کے سوال کرے.در حقیقت خیالات کی ایک ایسی رو چلاتا ہے جو ملک کے امن کو برباد کرنے والی ہے.وہ ان خیالات کی طرف لوگوں کے افکار کو پھیرتا ہے جن کی طرف پہلے انہیں کوئی توجہ نہ تھی اور لوگوں کو مجبور کرتا ہے کہ وہ ایسی بات کہیں جو حکومت کے رعب کے خلاف ہو.ایک دوست اگر اپنے دوست سے یہ سوال کرے کہ اختلاف کی صورت میں تم میری بات مانو گے یا اپنے باپ کی تو اسے ایک ایسا جواب سننے کے لئے تیار رہنا چاہئے جو اس کے دل کو تکلیف دے گا کیونکہ اس کا سوال ہی ایسا ہے جس کے دو جواب نہیں ہو سکتے.اور جو جواب اس کا دیا جا سکتا ہے وہ ضرور اس کے دل کو تکلیف دینے والا ہو گا.کیونکہ کوئی دوست یہ امید نہیں رکھ سکتا کہ اس کا دوست اسے اپنے والد پر ترجیح دے گا.غرض سوال نہایت بے موقع اور نادرست تھا.لیکن جو جواب اس کا دیا گیا ہے وہ بھی درست نہیں جواب یہ دینا چاہئے تھا کہ گورنمنٹ کی وفاداری ہم کو کس نے سکھائی ہے آخر ہماری وفاداری جسے آپ لوگ بھی تسلیم کرتے ہیں وہ ہمیں حضرت مسیح موعود اور ان کے خلفاء ہی نے سکھائی ہے.ورنہ ہم بھی انہیں لوگوں میں سے ہیں جو گورنمنٹ کی ایسی وفاداری کے قائل نہیں جس کے ہم ہیں.اور تعلیم نے ہمارے افکار میں بھی رہی تغیر پیدا کیا ہے.جو کہ دوسروں کے افکار میں پیدا ہو رہا ہے.پس اگر آپ یہ امید کر سکتے ہیں کہ ہمارا امام با وجود وفاداری کا معلم ہونے کے گورنمنٹ کے خلاف حکم دے گا.تو پھر ہم سے جو شاگرد ہیں کیا امید رکھ سکتے ہو.اگر سر چشمہ بگڑ سکتا ہے تو پھر ہم بھی بگڑ سکتے ہیں.گورنمنٹ کو یاد رکھنا چاہیئے کہ ہماری یہ تعلیم نہیں ہے کہ حکومت وقت کا مقابلہ کرنا چاہئے بلکہ ہمارا مذہب یہ سکھاتا ہے کہ جس گورنمنٹ کے ماتحت ہم رہیں اس کی وفاداری کریں.اور یہ تعلیم ایسی ہے کہ ہم گورنمنٹ کے ماتحت امن سے رہنے پر مجبور ہیں.گورنمنٹ برطانیہ کے ساتھ ہمارا کوئی جھگڑا نہیں.بلکہ جو قربانیاں ہم نے گورنمنٹ برطانیہ کے لئے کی ہیں وہ بہت بڑی ہیں.جس قدر ہم نے قربانیاں کی ہیں وہ گورنمنٹ کے کسی بڑے سے
خطبات محمود ۱۴۵ سال 1927ء بڑے افسر نے بھی نہیں کیں.ہم نے نہتے اور اکیلے گورنمنٹ کے دشمنوں میں رہ کر دکھ اٹھائے.ان کو سمجھایا کہ گورنمنٹ کے ساتھ وفاداری سے رہو.ہماری اس وفاداری کے مقابل پر ایک بڑے سے بڑا سرکاری افسر بھی نہیں کہہ سکتا کہ اس نے اس سے بڑھ کر وفاداری کی.جب کبھی گورنمنٹ کے برخلاف شورش ہوئی.آفیسر بنگلوں میں بیٹھ کر کام کرتے رہے مگر ہم گورنمنٹ کے دشمنوں میں رہ کر شورش مٹاتے رہے.ہم پر عدم وفاداری کا الزام تو وہ لگائے جو فوجیں چھوڑ کر باڈی گارڈ چھوڑ کر اور دوسری حفاظتیں چھوڑ کر ہماری طرح اکیلے اور نہتے ان لوگوں میں رہ کر جو گورنمنٹ کے برخلاف شورش ڈالتے ہیں کام کرے.اور جس طرح ہم گاؤں گاؤں پھر کر یہ کام کرتے رہے ہیں وہ بھی یہ کام کرے.اس صورت میں کام کر کے جو افسر ہم سے زیادہ قربانی دکھائے وہ بے شک ہم پر الزام لگائے دو سرے کا حق نہیں.غرض میرے نزدیک کسی افسر کا بھی حق نہیں کہ ہماری وفاداری پر شبہ کرے.ہم نے اکیلے رہ کر جو کام کیا ہے اسے کئی افسر باڈی گارڈوں کی حفاظت میں بھی نہیں کر سکتے.مذہبی طور پر ہمارا یہ فرض ہے کہ جس گورنمنٹ کے ماتحت ہم رہیں اس سے وفاداری کریں.اور اس وجہ سے میں کہہ سکتا ہوں کہ حکومت کا جو نظام چل رہا ہے اگر اس میں کسی وجہ سے تفرقہ پڑ جائے.اور رعایا اور آفیسر بادشاہ کے خلاف ہو جائیں.تو ہماری جماعت یقیناً اس وقت بھی بادشاہ معظم کی وفادار ثابت ہوگی.اور یہ ہمارا تعلق گورنمنٹ انگریزی کے ساتھ ہی مخصوص نہیں ہر حکومت کے ساتھ ہمارا ایسا ہی تعلق ہے.جہاں جہاں احمدی ہیں اور جس جس حکومت کے ماتحت یدہ رہتے ہیں ان کے لئے یہی حکم ہے.کابل کے ساتھ جو ہمارا تعلق ہے وہ ظاہر ہے.باوجود اس کے کہ وہاں ہمارے آدمیوں کو صرف احمدی ہونے کی وجہ سے قتل کیا گیا.ہمارا ان کے ساتھ یہ تعلق ہے کہ اگر کوئی حکومت اس پر حملہ کرے تو حضرت مسیح موعود کا ان احمدیوں کے لئے جو اس ملک میں بستے ہیں یہی حکم ہوگا کہ وہ حکومت کابل کی طرف سے لڑیں.نہ ان کی طرف سے جنہوں نے افغانستان پر حملہ کیا.اسی طرح ان لوگوں کے لئے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہی حکم ہے.جو ترکوں کے ماتحت ہیں.یا اور دوسری حکومتوں کے ماتحت رہتے ہیں.غرض احمدی تو کسی طرح بھی کسی حکومت کے خلاف نہیں ہو سکتے.کیونکہ بانی سلسلہ حضرت مسیح موعود کا ہر ایک احمدی کے لئے یہی حکم ہے کہ جس حکومت کے ماتحت رہو اس کے ساتھ وفاداری کا برتاؤ کرو.اور اسی حکم کے مطابق ہم نے خطرناک مقاموں پر گورنمنٹ کی وفاداری کی اور صرف دین کی خاطر اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے
خطبات محمود حکم کے ماتحت کی.۱۴۶ سال 1927ء مسٹر گاندھی نے گورنمنٹ کے خلاف زور لگایا.گورنمنٹ نے اس کا کیا کرلیا.پھر ہم جو گورنمنٹ کے برخلاف کچھ نہیں کرتے.اگر چپ ہو رہتے اور ان لوگوں کو سمجھانے کی کوشش نہ کرتے.جو گورنمنٹ کے خلاف شور ڈال رہے تھے تو ہم کو کیا خوف ہو سکتا تھا.کلکتہ اور دوسرے مقامات پر ڈاکٹر مونجے اور پنڈت مالوی کے خلاف گورنمنٹ نے حکم دیا کہ لیکچر نہ دو گروہ کھلے طور پر ان حکموں کی خلاف ورزی کرتے رہے.گورنمنٹ ان کا کچھ نہ کر سکی.پونا میں ڈاکٹر مونجے کو حکم دیا گیا کہ وہ وہاں لیکچر نہ دیں.مگر وہ لیکچر دے گئے اور گورنمنٹ ان کا کچھ نہ کر سکی.پس جب ہم دیکھتے ہیں کہ جو قانون توڑتے ہیں گورنمنٹ ان کا کچھ نہیں کر سکتی تو ہم جو گورنمنٹ کے کسی قانون کو نہیں توڑتے ہم کو کیا خطرہ ہو سکتا تھا اگر ہم گھروں میں بیٹھے رہتے اور اس طرح وفاداری نہ کرتے تو کیا گورنمنٹ ہم کو قید خانوں میں ڈال دیتی ؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یا حضرت خلیفہ اول نے یا میں نے کبھی ان خدمات کے صلہ میں جو بحیثیت قوم ہم نے گورنمنٹ کی کی ہیں ایک پیسہ کی درخواست بھی گورنمنٹ سے کی ہے؟ کبھی کسی انعام کی خواہش کی ہے؟ کبھی کسی خطاب یا زمین یا جائیداد کی آرزو کی ہے ؟ کیا اس چالیس سالہ خدمت اور وفاداری کے بدلے ہم نے کسی انعام کے لئے گورنمنٹ سے کہا ہے.کیا کوئی گورنمنٹ کا افسر ہماری ایسی درخواست پیش کر سکتا ہے.میں گورنمنٹ کے تمام افسروں کو اس بات کا چیلنج دیتا ہوں کہ وہ بتائیں کیا کبھی کوئی ایسی درخواست ہماری طرف سے پیش ہوئی ہے.میں تمام افسروں سے کہتا ہوں کہ کیا بانی سلسلہ یا خلفائے سلسلہ میں سے کسی نے اس خدمت اور اس وفاداری کے عوض کسی انعام یا کسی جاگیر یا کسی خطاب یا روپے یا زمین کے لئے ان کے پاس درخواست کی.یا اشارہ یا کنا یہ کبھی ان سے کہا ہے.قومی وفاداری کے بدلہ میں قوم کا بہ حیثیت قوم نیک سلوک کا مطالبہ ناجائز بھی نہیں ہو تا لیکن ہم سے تو گورنمنٹ نے بہ حیثیت قوم بھی کبھی کوئی سلوک نہیں کیا.دوسری اقوام کے احساسات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے.مگر ہمارے بزرگوں کو گالیاں دینا گورنمنٹ کے نزدیک کوئی حرج ہی نہیں ہے.پس اگر ہم سوالی بن کے ان کے دروازوں کے پاس نہیں گئے.تو کیا حق ہے ان لوگوں کا کہ وہ ہماری وفاداری کے متعلق کوئی شبہ کریں.اگر ہم نے گورنمنٹ کی وفاداری کی ہے.اگر ہم نے گورنمنٹ کی خدمت کی ہے.تو قرآن اور حضرت مسیح موعود کے حکم سے کی ہے.پس یہ احسان ہے گو ر نمنٹ پر آنحضرت ایتی
خطبات محمود ۱۴۷ سال 1927ء احسان ہے گورنمنٹ پر قرآن شریف کا.یہ احسان ہے گورنمنٹ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کہ انہوں نے گورنمنٹ کے لئے ایسے وفادار اور ایسے خدمت گذار پیدا کر دیئے.جو بالکل بے لوث وفاداری کرتے ہیں.اور جو خدمت کر کے کسی قسم کا لالچ نہیں کرتے.اور اس کے مقابل گورنمنٹ کا ہم پر اس سے بڑھ کر کوئی احسان نہیں.جتنا اس کا احسان مسٹر گاندھی اور مسٹرد اس پر ہے.پس نہ ہم ڈر سے اور نہ لالچ سے گورنمنٹ کی وفاداری کرتے ہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حکم سے اور قرآن اور آنحضرت اللہ کے حکم سے کرتے ہیں.اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم میں کسی جگہ بھی میں یہ دیکھتا کہ گورنمنٹ کی مخالفت بھی کسی موقع پر ضروری ہے.تو میں ایسا ہی کرتا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم میں یہ بات ہے ہی نہیں.بلکہ جابجا ہر اس گورنمنٹ سے وفاداری کا حکم ہے جس کے ماتحت احمدی رہتے ہوں.پس ہم ڈر کریا لالچ سے وفاداری نہیں کرتے.بلکہ مذہبی فرض سمجھ کر کرتے ہیں.اور اگر کوئی افسر سمجھتا ہے کہ ہماری وفاداری دکھاوے کی ہے تو یہ اس کی غلطی ہے.اگر غور کیا جائے تو ہمیں ڈر ہو بھی کیسے سکتا ہے.ہم امن سے زندگی بسر کرنے والے لوگ ہیں.اور خدا کے فضل سے مجرم نہیں ہیں.لیکن اس ملک میں تو گورنمنٹ کی غلطیوں سے اور ناواجب خوف سے مجرم اور گورنمنٹ کے قانون توڑنے والے لوگ بھی مزے سے زندگی بسر کر رہے ہیں.گورنمنٹ ثابت تو کرے کہ حضرت مسیح موعود یا آپ کی جماعت سے گورنمنٹ نے جو کچھ سلوک کیا وہ احسان تھا.کیا گورنمنٹ کا کوئی افسر یا کوئی اور آدمی ثابت کر سکتا ہے کہ جو کچھ گورنمنٹ نے حضرت مسیح موعود اور ہمارے ساتھ سلوک کیادہ فرائض سے بالا تھا.(سوائے ایک رو ایسے معاملات کے جو اخلاقی مدد کہلا سکتے ہیں.جیسے کہ مبلغین روس کے لئے کوشش وغیرہ) گورنمنٹ نے جو کچھ کیا اپنا فرض ادا کیا.اور فرض ادا کرنا حقیقی احسان نہیں ہو تا.اگر یہ کہیں کہ ہم نے حفاظت کی.تو میں یہ کہوں گا کہ یہ حفاظت تو مسٹر گاندھی کی بھی کی.اگر مسٹر گاندھی پر چند لوگ حملہ کر دیں.اور اگر مسٹر گاندھی کی جان خطرہ میں ہو تو کیا حکام وہاں بھی چند سپاہی پولیس کے نہ بھیجیں گے.پس یہ فرائض ہیں.اور اگر گورنمنٹ ان فرائض کو ادا کرتی ہے تو وہ کسی پر کوئی احسان نہیں کرتی.ان فرائض سے بالا کسی ایک فائدہ کا ہی گورنمنٹ پستہ دے.جو اس نے ہمیں پہنچایا ہو.اور جس کے متعلق وہ یہ کہہ سکے کہ ہم نے قومی خدمت کے عوض میں ایسا کیا ہے.گورنمنٹ کوئی ایسا فائدہ بتا سکے یا نہ بتا سکے.ہماری جماعت بہر حال گورنمنٹ کی وفادار ہی
خطبات محمود ۱۴۸ سال 1927ء رہے گی.اور یہی حضرت مسیح موعود کی تعلیم ہے اور ہم اسی تعلیم پر چلتے ہیں.حضرت مسیح موعود ہم میں موجود نہیں.وہ فوت ہو چکے اور اب آپ کی تعلیم کو بدلنے والا کوئی نہیں.کتنا ہی نازک اور برا موقع آجائے اگر کوئی گورنمنٹ کے رعب اور وقار کو قائم رکھ سکتا ہے تو وہ احمد کی جماعت ہے.لالچ کی تو کوئی وجہ نہیں اور ڈرا سے پیدا نہیں ہو سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کی وجہ سے وہ وفاداری کرتی ہے.اور وفاداری کرنے کی وجہ سے لوگوں کی طرف سے جو جو سختیاں اس پر ہو ئیں.وہ کسی اور پر نہیں ہوئیں.ان سختیوں کے باوجود وہ گورنمنٹ کی وفادار ہے.آج کل گورنمنٹ کی مخالفت آسان ہے.اور اس سے وفاداری کرنا مشکل.مسٹر گاندھی کو کبھی پھر نہیں پڑے.نہ کبھی مالوی جی کو پتھر پڑے.لیکن ہمیں گورنمنٹ کی وجہ سے پتھر پڑے.ہمارے لئے کنوؤں سے پانی لینا بند کیا گیا.مقدمات میں گھسیٹا گیا.ہم سے مقاطعہ کیا گیا.مگر پھر بھی ہم نے اپنے اصل کو نہیں چھوڑا.ہاں یہ یقینی بات ہے کہ ہر شخص جو کسی کو امام مانتا ہے وہ اسے گورنمنٹ پر ترجیح دیتا ہے.اور اس وجہ سے ہر اک سچا احمدی خلیفتہ المسیح کو سب دنیوی حکام پر ترجیح دے گا.مگر جب کہ احمدیت کی مذہبی تعلیم یہ ہے کہ ہر اک گورنمنٹ سے وفاداری کرو.تو یہ خیال بھی نہیں کیا جا سکتا کہ کسی وقت کوئی خلیفہ کسی گورنمنٹ کے خلاف فساد کرنے کا حکم دے گا.یا اس کے احکام کے توڑنے کی تعلیم دے گا.اگر کہو ممکن تو ہے کہ کسی وقت گورنمنٹ کے احکام اور خلیفہ کے احکام میں اختلاف ہو جائے تو اس کا جواب یہ ہے کہ بالکل ممکن ہے.لیکن باوجود اس کے فساد نہیں ہو سکتا.کیونکہ اسلامی تعلیم نے ان سب امور کا علاج پہلے سے تجویز کیا ہوا ہے.ہم فرض کر لیتے ہیں کہ امام جماعت احمدیہ کسی وقت کوئی ایسا حکم دے جو کسی گورنمنٹ کے حکم کے خلاف ہو.مگر باوجود اس احتمال کے فساد کا کوئی خطرہ نہیں.کیونکہ اس صورت میں جماعت کے لوگوں کا فرض ہو گا.کہ وہ خلیفہ وقت کو توجہ ولا ئیں کہ ان کا حکم گورنمنٹ کے خلاف ہے.آگے دو صورتیں ہوں گی.یا ان لوگوں کا خیال غلط ہو گا.تب تو یہ جھگڑا آپ ہی طے ہو جائے گا.یا پھر ان کا خیال درست ہو گا اس صورت میں خلیفہ وقت کا فرض ہو گا کہ وہ دو صورتوں میں سے ایک صورت اختیار کرے.اگر وہ مناسب سمجھے تو اپنے حکم کو بدل دے.اور اگر یہ مناسب نہ سمجھے تو گور نمنٹ کو توجہ دلائے کہ اس کا حکم احمدی جماعت کے مفاد کے خلاف ہے.یا ان کی مذہبی تعلیم کے خلاف ہے.اس لئے وہ اس حکم کو بدل دے.اگر
خطبات ۱۴۹ سال 1927ء گورنمنٹ نے اس کی بات کو تسلیم کر لیا تو فبہا اور اگر نہ تسلیم کیا تو خلیفہ وقت غور کرے گا کہ کیا اس کا حکم کسی ایسے امر کے متعلق ہے.جسے حکومت کی خاطر ترک کیا جا سکتا ہے.یا کسی ایسے امر کے متعلق ہے.جسے کسی صورت میں ترک نہیں کیا جاسکتا.اگر وہ ایسا معاملہ ہوا کہ جسے ترک کیا جا سکتا ہے.تو وہ اس مقام پر پہنچ کر اپنے حکم کو بدل دے گا اور اگر اس کے نزدیک وہ معاملہ اہم ہوا.جسے شرعا چھوڑا نہیں جاسکتا.تو حسب حکم شریعت وہ اپنی جماعت کو حکم دے گا کہ امن کے ساتھ وہ اس گورنمنٹ کے علاقہ سے نکل جائے.ہر اک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اس تعلیم کے ماتحت کوئی فساد ہو ہی نہیں سکتا.زیر بحث سوال کے متعلق حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کا بھی ایک فیصلہ موجود ہے.گورنمنٹ اس فیصلہ پر ہی غور کر کے ہدایت پا سکتی تھی.انجیل میں لکھا ہے کہ ان کے پاس کچھ لوگ آئے.انہوں نے قیصر کو جزیہ دینے کے متعلق دریافت کیا.ان کا مطلب یہ تھا.کہ کسی طرح حضرت سیح علیہ السلام کو پھنسا ئیں.مگر حضرت مسیح علیہ السلام نے ان کو کیا ہی لطیف جواب دیا کہ جو " قیصر کا ہے قیصر کو اور جو خدا کا ہے خدا کو ادا کرو " (متی ۱۲ : ۲۱) جس کا مطلب یہی ہے کہ میں قیصر کا مخالف نہیں ہوں.کیوں نہ اس افسر نے یہی جواب ہماری طرف سے سمجھ لیا.یہی منشاء حضرت مسیح علیہ السلام کا اس جواب سے تھا کہ میرے اور قیصر کے احکام کے درمیان کبھی ٹکراؤ نہ ہو گا.وہ جانتے تھے کہ میری تعلیم قیصر کے مخالف نہیں.اسی لئے تو انہوں نے ان کو ایسا کہا کہ جو قیصر کا ہے قیصر کو رو اور جو خدا کا ہے خدا کو ادا کرد.یعنی ملک میں بدامنی اور شورش پیدا نہ ہونے دو.حضرت مسیح نے ان کو بتا دیا کہ قیصر کی حکومت ہے.اور جس کی حکومت ہو اگر وہ مانگے تو اس کو جزیہ دینا چاہئے.تم اسے بھی دو کہ امن قائم رہے.اور خدا کا حق بھی ادا کرو کہ وہ بھی خوش رہے.حضرت مسیح نے جو کچھ ان کو کہاوہ اسی تعلیم کے مطابق تھا جو تمام نبی دیتے چلے آئے.لیکن باوجود اس حکم کے کون کہہ سکتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام اپنا درجہ قیصر سے کم سمجھتے تھے.ہاں وہ خود شریعت کے حکم کے مطابق اس کے فرمانبردار تھے.اور مسیح کے مانے والے دونوں کے فرمانبردار اور حضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیم قیصر کے احکام کے برخلاف نہ تھی.اس لئے مسیح اور قیصر کے احکام کا کبھی ٹکراؤ نہیں ہو سکتا تھا.لیکن اگر ہو جاتا تو وہ بھی یہی حکم دیتے جو دوسرے نبی دیتے آئے.اور جو رسول کریم نے دیا.گورنمنٹ کا حکم دنیاوی امور میں ہے لیکن مذہب میں نہیں.اور اگر گور نمنٹ مذہب میں
10.سال 1927ء دست اندازی نہ کرے گی تو کوئی ٹکراؤ نہیں ہو سکتا.ہاں اگر باوجود اس بات کے کہ دنیاوی امور میں امام بھی گورنمنٹ کے احکام کے ماتحت ہے.اور کوئی وجہ نہیں کہ اس کے اور گورنمنٹ کے حکم میں کوئی ٹکراؤ ہو.گورنمنٹ مذہبی امور میں دست اندازی کرے.اور باوجود اس بات کی کوشش کے کہ وہ اس دست اندازی کو چھوڑ دے.گورنمنٹ دست اندازی نہ چھوڑے تو اس صورت میں بھی یہی ہو گا.کہ امام یہ کہے گا کہ چونکہ ہمارے مذہب میں دخل دیا گیا ہے.اور کوئی صورت سلجھاؤ کی نظر نہیں آتی.اس لئے ہم اس ملک سے نقل مکانی کر کے کہیں اور چلے جاتے ہیں.لیکن ہم ملک میں فساد نہیں کر سکتے بلکہ اس ملک کو چھوڑ سکتے ہیں.بهر حال آسمانی حکومت کا نائب ہونے کے لحاظ سے امام جمات احمدیہ کو درجہ میں گورنمنٹ پر فضیلت حاصل ہے.لیکن ساتھ ہی وہ شریعت کے حکم کے مطابق جس گورنمنٹ کے ماتحت رہے اس کے احکام کی اتباع کا پابند بھی ہے.پس چونکہ گورنمنٹ مذہب میں دست اندازی نہیں کرتی.اس لئے یہ صاف ہے کہ اسے امام جماعت احمدیہ سے اختلاف نہیں ہو سکتا.لیکن اگر گورنمنٹ مذہبی امور میں دخل دے گی.اور ان میں دست اندازی کرے گی.تو پھر کوئی احمدی گورنمنٹ کی بات نہیں مانے گا.اور اس صورت میں امام جماعت احمدیہ کا فرض ہو گا.کہ گورنمنٹ پر حجت تمام کر کے اس کے ملک سے نکل جانے کا اپنی جماعت کو حکم دے.لیکن اگر گور نمنٹ نہ تو اپنے حکم کو بدلے اور نہ ملک سے نکلنے کی اجازت دے.تب بے شک احمدی آزاد ہوں گے کہ انسانیت کے ابدی حقوق کی حفاظت کے لئے جو کچھ چاہیں کریں.پس احمدیت کی تعلیم نہایت امن پسند ہے.اور اس کے مطابق فساد کا کوئی خطرہ نہیں.اور گورنمنٹ برطانیہ کو فخر کرنا چاہئے کہ اسکے ملک میں ایسی با امن لیکن اپنے اصول کی پکی جماعت پائی جاتی ہے.میں آخر میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ گورنمنٹ کی آنکھیں کھولے.تاوہ اس حقیقت کو سمجھے کہ جو مذہب اپنی تعلیم کے لحاظ سے پر امن ہے وہ فساد نہیں کر سکتا.اور اس کا کسی حکومت سے ٹکراؤ نہیں ہو سکتا.خدا ان کو یہ بھی توفیق دے کہ وہ سوچیں کہ اگر دنیا میں ان کی حکومت قائم ہے تو ان کے اوپر بھی ایک حکومت ہے.اور وہ خدا تعالیٰ کی حکومت ہے کسی کے دین اور مذہب میں دست اندازی اچھی نہیں ہوتی.اس لئے میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ وہ کسی کے دین اور مذہب میں دست اندازی نہ کریں.کیونکہ یہ عقل سے بعید ہے.اور عقلمند انسان اپنے دائرہ سے باہر نہیں جایا کرتا.بلکہ اس دائرے کے اندر رہ کر سب کام کیا کرتا ہے.(الفضل ۸ / جولائی ۱۹۲۷ء)
خطبات محمود ۱۵۱ ۱۹ سال 1927ء مشکلات کو حل کرنے کے لئے دماغ سے کام لو فرموده: ۱۷ جون ۱۹۲۷ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں پیدا کر کے ایک مقصد مقرر فرمایا ہے.اور اس مقصد کے حصول کے لئے انسان کو بہت سی طاقتیں عطا فرمائی ہیں.ان میں سے کچھ طاقتیں تو ایسی ہیں جن کو انسان کبھی کبھار استعمال کرتا ہے.اور کچھ ایسی ہیں جن کو انسان پہلی طاقتوں کی نسبت زیادہ استعمال کرتا ہے.اور کچھ طاقتیں ایسی ہیں جنہیں انسان اکثر اوقات استعمال کرتا ہے.اور کچھ طاقتیں ایسی ہیں جن کو انسان ہر وقت استعمال کرتا ہے.جس طریق پر ان طاقتوں کا استعمال ہے.وہی طریق ان کے مدارج کو ظاہر کرتا ہے.وہ طاقتیں جو انسان کے اصل مقصد کے حصول کے لئے چنداں ضروری نہیں ان کا استعمال انسان بہت کم کرتا ہے.اور جو ان کی نسبت زیادہ ضروری ہیں ان کا استعمال بھی ان کی نسبت زیادہ کرتا ہے.اور جو ان سے بھی ضروری ہیں ان کا استعمال ان سے بھی جلدی کرتا ہے.اور جو بہت ہی ضروری ہیں ان کا استعمال ہر وقت کرتا ہے.مثلاً ہم دیکھتے ہیں کھانا پینا انسان کے لئے ضروری ہے.اور اس کی خواہش انسان میں پیدا ہوتی ہیں.جس کے لئے انسان معدہ کو استعمال کرتا ہے.لیکن ہر وقت معدہ کو استعمال نہیں کیا جا سکتا دن رات میں دو تین چار دفعہ استعمال کیا جا سکتا ہے.اگر کوئی اس سے زیادہ کرے گا.تو معدہ خراب ہو جائے گا.پھر آنکھیں ہیں ان کا استعمال معدہ کی نسبت زیادہ ہوتا ہے.جتنی دیر انسان جاگتا ہے ان کو استعمال کرتا رہتا ہے آنکھیں جھپکی جاتی ہیں لیکن اس قدر آنا فانا اور اتنی جلدی کہ دیکھنے میں کچھ فرق نہیں پڑتا.ہم آنکھوں سے دیکھتے ہوئے آنکھیں جھپکتے جاتے ہیں.اور معلوم یہی ہوتا ہے کہ دیکھ رہے ہیں.کیونکہ نہایت قلیل عرصہ میں آنکھ جھپک جاتی ہے.مگر سونے کے وقت آنکھ بھی اپنا کام چھوڑ دیتی ہے.اس سے
خطبات محمود ۱۵۲ سال 1927ء بڑھ کر کان استعمال کئے جاتے ہیں.کیونکہ آنکھیں جھپکی جاتی ہیں مگر کان نہیں جھپکے جاتے.اور جس وقت تک انسان بیدار رہتا ہے کان اپنا کام مسلسل کرتے رہتے ہیں.بلکہ سونے کے وقت بھی کرتے ہیں.اس وقت آنکھیں بند ہو جاتی ہیں.لیکن کان ان کی نسبت زیادہ کھلے رہتے ہیں.بلکہ آنکھوں کے بند ہو جانے کی وجہ سے کانوں کی جس اور زیادہ تیز ہو جاتی ہے.جب کوئی آواز دے تو کانوں کی جس ہی انسان کو بیدار کرتی ہے اور انسان اٹھتا ہے.یا لمس کی طاقت کے ذریعہ جاگتا ہے یہ طاقت بھی ہر وقت کام کرتی رہتی ہے.مگر پھر بھی اس میں کچھ نہ کچھ وقفہ پڑتا ہے.ان سے بھی بڑھ کر کام کرنے والی ایک اور طاقت ہے.اور وہ ایسی طاقت ہے.کہ جب انسان جاگتا ہے.تو وہ کام دیتی ہے اور جب سوتا ہے.تو جاگنے کی حالت سے بھی زیادہ کام کرتی ہے اور وہ انسان کا دماغ ہے.رویا اور کشوف نیند کی حالت میں ہی ہوتے ہیں اور تمام آسمانی علوم اس حالت میں انسان پر اترتے ہیں.انسان سوتا ہوتا ہے.مگر دماغ زیادہ کام کر رہا ہوتا ہے.یوں ہر ایک انسان نیند میں ظاہری طاقتوں کے کمزور ہو جانے کی وجہ سے ان باتوں کو پورے طور پر یاد نہیں رکھ سکتا.جو سونے کے وقت اس پر گذرتی ہیں.مگر دماغ ہر وقت اپنا کام کر رہا ہوتا ہے.اور جن کو تقویٰ و طہارت حاصل ہوتی ہے.اور مخلوق کی اصلاح کے لئے کھڑے کئے جاتے ہیں.ان کو ساری باتیں جو مخلوق کی اصلاح سے تعلق رکھتی ہیں یا د رہتی ہیں.اس سے معلوم ہوا کہ انسانی طاقتوں میں سے سب سے زیادہ اور ہر وقت کام کرنے والی طاقت دماغ کی طاقت ہے اور چونکہ اس کے ذریعہ انسان ترقی کے زینے پر چڑھ سکتا ہے.اس لئے اسی طاقت کو خدا تعالیٰ نے ہر وقت بیدار رکھا ہے.اگر انسان محض کھانے پینے کے لئے پیدا ہوا ہو تا تو معدہ کو ایسی طاقت دی جاتی کہ وہ ہر وقت خوراک اپنے اندر لے سکتا اور اسے ہضم کرتا رہتا لیکن ایسا نہیں ہوتا.اس کے کام میں وقفہ پڑ جاتا ہے.اس طرح اگر انسان صرف نظارے دیکھنے کے لئے یا راگ سننے کے لئے پیدا کیا جاتا تو آنکھوں اور کانوں کو ایسی طاقت دی جاتی کہ وہ ہر وقت اپنا کام جاری رکھتے.مگر ان پر بھی وقفہ آجاتا ہے.ہاں جس انسانی طاقت پر وقفہ نہیں آتا وہ انسان کا دماغ ہے جو ہر وقت کام کرتا ہے.اور بسا اوقات سوتے وقت زیادہ عمدگی سے اور اعلیٰ درجہ کا کام کر جاتا ہے.ہر شخص اس کا تجربہ کر سکتا ہے کہ اگر کوئی مشکل مسئلہ سمجھ میں نہ آئے.اس کے حل پر بہت غور کیا جائے مگر حل نہ سوجھے تو انسان اس پر سوچتے سوچتے سو جائے بسا اوقات ایسا ہو گا کہ صبح کو یا رات کو ہی کسی وقت جب آنکھ کھلے گی تو معلوم ہو گا کہ وہ مسئلہ حل ہو گیا.یہ سوتے سوتے دماغ نے
خطبات محمود ۱۵۳ سال 1927ء کام کیا.انسان خود تو غافل پڑا تھا مگر اس کا دماغ کام کر رہا تھا.ہر وہ شخص جسے مشکل مسائل پر غور کی عادت ہو.اس بات کا تجربہ کر سکتا ہے.اور آزمانے سے معلوم ہو جائے گا کہ یہ ایک عجیب نکتہ ہے.مشکل مسئلہ پر انسان غور کرتے کرتے سو جائے.سونے کے بعد جب اٹھے گا تو بسا اوقات وہ مسئلہ حل شدہ اس کے سامنے ہو گا.تمام طاقتوں کی یہ کیفیت جو میں نے اس وقت بیان کی ہے بتاتی ہے کہ ان سب سے مقدم دماغ کا کام ہے.اور خدا تعالی چاہتا ہے کہ انسان سب طاقتوں سے زیادہ دماغ سے کام لیں.لیکن افسوس بہت لوگ ہیں جو ہا تھوں پاؤں زبان - آنکھوں اور کانوں سے تو کام لینا چاہتے ہیں.لیکن اگر نہیں لیتے تو دماغ سے کام نہیں لیتے.ایک آدمی کسی سے ذرا بات پر ناراض ہو کر لڑنے جھگڑنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں.ٹھیک کر رہا ہوں.حالانکہ اسے چاہئے تھا کہ پہلے دماغ سے کام لیتا اور سوچتا کہ اس موقع پر مجھے کیا کرنا چاہئے.اگر وہ دماغ سے کام لیتا.اور اس بات پر غور کرتا.تو بسا اوقات ایسا ہو تا کہ دماغ اسے بتاتا.اس موقع پر لڑنے اور جھگڑنے سے فائدہ نہ ہو گا.اسی طرح بسا اوقات انسان اگر ہاتھ سے نہیں تو زبان سے کام لینا شروع کر دیتا ہے.یعنی گالیاں دینے لگتا ہے.وہ بھی اگر دماغ سے کام لیتا.تو دماغ اسے میں بتانا کہ گالیوں سے کوئی فائدہ نہ ہو گا.ان سے اپنی زبان کو گندہ نہ کرو.پھر بہت سے لوگ ہوتے ہیں.جو ہاتھوں اور زبان سے کام نہیں لے سکتے.تو آنکھوں سے کام لیتے ہیں یعنی چہرہ سے غصہ کے آثار ظاہر کرتے ہیں.کسی کو مارنے کی طاقت نہیں رکھتے.اور نہ گالیاں دینے کی.تو چہرہ سے غصہ کا اظہار کرتے ہیں.ایسے آدمی بھی اگر دماغ سے کام لیں تو انہیں صحیح راستہ معلوم ہو جائے.ایسے لوگ ہاتھوں سے زبان سے اور کانوں سے زیادہ کام لینا چاہتے ہیں.یعنی لڑنے ، گالیاں دینے یا غصہ ہونے لگ جاتے ہیں.مگر دماغ سے کام نہیں لیتے.حالانکہ لڑنے ، گالیاں دینے اور غصہ ہونے سے بہت کم کام نکلتے ہیں.ہمیشہ وہی انسان کامیاب ہوتا ہے جو تدبیر سے کام لیتا ہے.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں دشمنوں نے طرح طرح سے آپ کو دکھ دیئے.آپ پر اتمام لگائے ، آپ کے ماننے والوں کو تنگ کیا ان پر ظلم کئے لیکن رسول کریم ﷺ نے صحابہ کو اس بات سے روک دیا کہ وہ ان کے مقابلہ میں اپنے ہاتھ اپنی زبان یا کان استعمال کریں.اس وجہ سے صحابہ نے دشمنوں کے مقابلہ میں اپنے ہاتھ نہ استعمال کئے ان کو گالیاں نہ دیں ان سے غصہ کے چہرے نہ بنائے اور اگر چہرہ بنایا گیا.تو اسلام نے اسے ناپسند کیا.اور یہی کہا کہ دشمنوں کے مظالم
خطبات محمود ۱۵۴ سال 1927ء کے مقابلہ میں تمہارے چہروں پر مسرت اور زبانوں پر خوشی کے کلمات ہوں.اور تمہارے ہاتھ ان کی بہتری کے لئے کام کریں.چنانچہ صحابہ نے جو کام کیا وہ یہ تھا کہ انہوں نے تبلیغ اسلام پر زور دیا.ان کے لئے خدا تعالیٰ کی نصرت آئی.لیکن اس کے لئے انہیں تدبیریں کرنی پڑیں.حدیثوں میں آتا ہے جب تک مسلمانوں کو غلبہ حاصل نہیں ہوا.اس وقت تک انہوں نے کفار کے ہاتھوں کا کھانا نہ کھایا.اور سالہا سال تک ان کا کھانا منع رہا.اس کی وجہ یہ تھی کہ گو کفار کی تعداد ان سے زیادہ تھی.اور کفار بہت طاقت ور بھی تھے تو بھی انہوں نے یہی فیصلہ کیا کہ جو کچھ لینا ہو گا مسلمانوں سے ہی لیں گے.اگر اس تدبیر پر عمل نہ کیا جاتا اور مسلمان کفار سے خرید و فروخت کرنے سے نہ رکتے.تو مسلمان بالکل کنگال اور بے حال ہو جاتے.پس اس وقت رسول کریم اے نے ان سے یہ نہیں فرمایا تھا کہ دشمنوں سے لڑو.ان کو گالیاں دو.ان پر غصہ کا اظہار کرد - بلکہ یہ کہا کہ جو تدبیر تمہاری تباہی کی یہ کر رہے ہیں کہ تمہیں بائیکاٹ کر رکھا ہے.یہی تم بھی ان کے متعلق کرو.اس کا نتیجہ کم از کم یہ تو ہو گا کہ مسلمانوں کی دولت مسلمانوں کے ہی گھروں میں رہے گی.چنانچہ اس طرح مسلمانوں کے اموال محفوظ رہے.اسی طرح اور جس قدر معاملات رسول کریم اے کے زمانہ میں ہوئے ان میں آپ نے اسی احتیاط سے کام لیا.الهلال صلح حدیبیہ کے وقت جب معاہدہ لکھا جانے لگا تو حضرت علی نے رسول کریم ﷺ کی طرف سے لکھا کہ محمد رسول اللہ یوں کہتا ہے.کفار نے اس پر اعتراض کیا کہ ہم تو انہیں رسول نہیں سمجھتے.اگر رسول سمجھتے تو لڑتے کیوں.اس لئے رسول اللہ کے الفاظ نہ ہوں.اس پر رسول کریم ایتالی نے فرمایا یہ کاٹ دو.حضرت علی نے کہا مجھ سے تو یہ نہیں ہو سکتا.آپ نے فرمایا لاؤ میرے پاس اور آپ نے انگوٹھے سے وہ الفاظ مٹا دیئے کہ اور کفار کی بات مان لی.اس طرح ان کو اس تدبیر میں لے آئے جو بالاخر ان کی تباہی کا موجب ہو گئی.اور وہ یہ تھی کہ کفار نے چاہا تھا کہ ملکہ سے جو لوگ اسلام قبول کریں.وہ رسول کریم ان کے پاس مدینہ نہ جائیں.اور اگر جائیں تو آپ ان کو واپس بھیج دیں.بظاہر یہ ایک ہلاکت کی بات نظر آتی ہے.مگر رسول کریم این نے اسے منظور کر لیا.اس سے صحابہ میں جوش پیدا ہوا کہ اس شرط کا قبول کرنا مسلمانوں کی ہتک ہے کیوں کہ معاہدہ یہ قرار پایا تھا کہ اگر کوئی مرتد ہو جائے تو اسے مکہ واپس آجانے کی اجازت ہو.لیکن اگر کوئی مسلمان ہو جائے تو وہ مسلمانوں کے پاس مدینہ نہ جائے اور اگر جائے تو اسے واپس بھیج دیا جائے.صحابہ کو اس پر بہت جوش آیا.مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو کافر ہو جائے.اسے ہمیں کیا کرنا ہے.جہاں
خطبات محمود ۱۵۵ سال 1927ء چاہے چلا جائے.اور جو مسلمان ہو گا وہ جہاں ہو گا وہیں تبلیغ کرے گا اس لئے جو مسلمان مکہ میں رہیں گے وہ اوروں کو مسلمان بنا ئیں گے.اب دیکھو اس معاملہ میں کیا نتیجہ نکلا کفار کی تباہی کا موجب یہی معاہدہ بن گیا.اور وہ اس طرح کہ مکہ کے بعض لوگ مسلمان ہو گئے.اور مسلمان ہو کر کفار کی تکلیفوں سے بچنے کے لئے مدینہ آگئے.ان کو واپس لے جانے کے لئے کفار کے آدمی رسول کریم اے کے پاس آئے.اور واپس بھیجنے کا مطالبہ کیا.رسول کریم ﷺ نے ان کو واپس کر دیا.مگر وہ رستہ سے چھوٹ کر پھر بھاگ آئے.جب پھر ان کو لینے کے لئے آئے.تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ آپ نے تو معاہدہ کی رو سے ہمیں بھیج دیا تھا.اب ہم ان سے چھوٹ کر آگئے ہیں.آپ نے فرمایا نہیں تم چلے جاؤ.وہ چلے تو گئے لیکن مکہ جانے کی بجائے مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ ٹھہر گئے.اور جب اور لوگوں کو بھی پتہ لگا کہ وہاں ٹھرے ہوئے ہیں تو وہ بھی آنے لگ گئے.اور ان کی ایک جماعت بنی شروع ہو گئی.چونکہ وہ کفار کے ستائے ہوئے تھے.اس لئے شام کی طرف جو قافلے جاتے.ان سے چھیڑ چھاڑ شروع ہو گئی.آخر مکہ والوں نے مجبور ہو کر رسول کریم اے سے درخواست کی کہ ان لوگوں کو اپنے پاس بلا لو.چنانچہ رسول کریم اے نے ان کو بلالیا.لے یہ بھی ایک تدبیر تھی جس سے فتح مکہ کی بنیاد رکھی گئی.اگر اس وقت صحابہ لڑ پڑتے اور اس تدبیر کو قبول نہ کرتے تو فتح نہ ہوتی.پس فتح ہمیشہ دماغ کے ذریعہ ہوتی ہے.اور چونکہ دماغ کو خدا تعالیٰ نے اس لئے پیدا کیا ہے کہ انسان کے سارے جسم پر حکومت کرے.اس لئے جس طرح بے سر کی کوئی فوج کامیاب نہیں ہو سکتی.اسی طرح بے سر کا کوئی انسان بھی کامیاب نہیں ہو سکتا.اس وقت چونکہ دشمن اسلام پر حملہ آور ہو رہے ہیں.اور اسلام پر نہایت نازک گھڑی آئی ہوتی ہے.اس لئے میں اپنی جماعت کے لوگوں کو اور ان لوگوں کو جن پر میری باتوں کا اثر ہو سکتا ہے؟ کہتا ہوں کہ یہ زمانہ سب سے زیادہ دماغ کے استعمال کرنے کا زمانہ ہے.اس وقت ہاتھوں کو استعمال کر کے غلبہ حاصل نہیں کیا جا سکتا.اگر اس وقت کوئی ایسی لڑائی شروع کرتا ہے.جس سے اسلام کو نقصان پہنچتا ہے.تو بتاؤ - خدا کے سامنے وہ کیا جواب دے گا.کیا خدا تعالیٰ اس پر اس لئے خوش ہو گا کہ اس نے اسلام کے دشمنوں سے لڑائی کر کے اسلام کو نقصان پہنچایا.ہرگز نہیں خدا تعالیٰ تو اسے کہے گا.تو نے اسلام کے لئے نہیں بلکہ اپنے نفس کے لئے لڑائی لڑی.اس لئے میرے عتاب کا مورد بن.اسی طرح اگر کوئی خدا تعالٰی سے یہ کہے کہ میں نے خوب زبان چلائی لیکن اس
خطبات محمود ۱۵۶ سال 1927ء زبان چلانے سے بجائے طاقت کے اسلام کو ضعف پہنچا.تو خدا تعالٰی یہ نہ کہے گا کہ تم بڑے باغیرت ہو.تم نے اسلام کی خوب خدمت کی.بلکہ یہ کہے گا کہ تم بہت بڑے مجرم ہو.تم نے اسلام کو نقصان پہنچایا.اسی طرح اگر کوئی خدا تعالٰی سے یہ کہے کہ میں نے اسلام کے دشمنوں کو دیکھ کر بہت غصہ کا منہ بنایا.بڑی تیوری چڑھائی.مگر اس سے اسلام کو نقصان پہنچا.تو خدا تعالٰی اس کی اس حرکت کو پسند نہ کرے گا.بلکہ سخت ناراض ہو گا.پس اس زمانہ میں اسلام کی مدد کے لئے لڑائی جھگڑے کی ضرورت نہیں.گالیوں کے مقابلہ میں گالیاں دینے اور برابھلا کہنے کی نہیں.منہ بنانے اور غصہ ہونے کی نہیں.بلکہ سب سے بڑی ضرورت سر سے کام لینے کی ہے.جسے خدا نے عرش کی جگہ قائم کیا ہے.ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اس سے کام لے.اور اپنے ہاتھوں اپنے کانوں ، اپنی زبان اور اپنے جذبات کو قابو میں رکھے.یعنی مسلمان اپنے دماغ سے کام لے کر وہ تدابیر نکالیں جو دشمن کو کمزور اور مسلمانوں کو طاقت در کرنے والی ہوں.ورنہ مسلمانوں کے لڑنے ، گالیاں دینے اور غصہ ہونے سے کیا بن سکتا ہے.مسلمان آج پورے طور پر ہندوؤں کے غلام بن رہے ہیں.اور ان کو قطعا جرأت نہیں رہی کہ ہندوؤں کے سامنے کھڑے بھی ہو سکیں.یہاں ہم نے جب یہ طریق جاری کیا کہ ہندوؤں سے خرید و فروخت نہ کی جائے.اور آس پاس کے مسلمانوں سے کہا کہ تم بھی اس پر عمل کرو.تو وہ کہنے لگے ہم کسی طرح کر سکتے ہیں.ہم تو ان ہندوؤں کے سود کے نیچے دبے ہوئے ہیں.اسی طرح ہر جگہ کے مسلمانوں کی گردنیں بنیوں اور لالوں کے قبضہ میں آئی ہوئی ہیں.یوں جب مسلمان زمیندار بیٹھتے ہیں تو حقارت سے ہندوؤں کو کراڑ اور کھتری کہتے ہیں.مگر انہی کراڑوں کے ہاتھ ان کی گردنوں پر ہوتے ہیں.اور جب عدالت میں جاتے ہیں تو شکست کھا کر آتے ہیں.لالہ ایک ہزار دے کر دو ہزار وصول کر چکا ہوتا ہے لیکن پھر بھی اسی کا قرضہ نکلتا ہے.اس لئے مجسٹریٹ اس کے حق میں فیصلہ دیتا ہے.پس یوں تو اکڑنے والے مسلمان سمجھتے ہیں.ہمارے جیسا بہادر کوئی نہیں ہمارا کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے لیکن دراصل وہ ہندوؤں کے غلام ہیں کیونکہ وہ سود کے نیچے دبے ہوئے ہیں اور اس وجہ سے وہ کوئی ایسا کام نہیں کر سکتے جس سے اسلام کو فائدہ پہنچے.پچھلے دنوں ایک دوست نے سنایا ایک ڈسٹرکٹ بورڈ کا انتخاب تھا.اس کی ایک نشست کے لئے ایک سکھ اور ایک مسلمان امیدوار تھے.مسلمانوں نے بڑے جوش سے فیصلہ کیا کہ تمام مسلمان مسلمان کو ووٹ دیں.لیکن سکھ کی تائید میں ایک بنیا تھا جو لوگوں کو سود پر روپیہ دیتا تھا.جب لوگ ووٹ دینے کے لئے گئے تو وہاں دیکھا کہ وہ بنیا بیوں کا ڈھیر لگائے بیٹھا ہے.جب اسکے پاس سے کوئی مسلمان ووٹر
خطبات محمود ۱۵۷ سال 1927ء گذرے تو وہ نفس کر صرف اتنا کہے.چودھری صاحب ووٹ دینے جا رہے ہو.یہ سن کر جو مسلمان بھی روٹ دینے گیا.اس نے سکھ کے حق میں ہی ووٹ دیا.کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ اگر سکھ کو ووٹ نہ دیا تو کل ہی نالش ہو جائے گی.اب دیکھو اس بنیا کو کسی لٹھ کی ضرورت نہ تھی.کسی ظاہری جبر کی ضرورت نہ تھی.وہ ہنس کر چودھری صاحب کو اپنی طرف متوجہ کرتا.اور اس ہننے سے ہی چودھری صاحب پر بجلی گر پڑتی.اور اسلام کا سارا جوش کافور ہو جاتا ہے.کیونکہ وہ سمجھتا تھا یہ بجلی سے بھی زیادہ خطرناک ہے جو مجھے ہی نہیں بلکہ میرے گھر بار کو بھی جلا کر راکھ کر دے گی.ایسی حالت میں مسلمانوں کے لئے کہاں آزادی ہے.اور وہ کسی بات پر اکٹڑ رہے ہیں.اس وقت مسلمانوں کی تمدنی حالت اس درجہ گری ہوئی ہے کہ انصاف پسند قوم مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر قوم ہو.تو وہ بھی ان کی حالت میں اتنے مرثیے کہے کہ زمین و نان رو پڑیں.مگر جب کسی قوم پر مصیبت آتی ہے تو دوسروں کے دلوں سے اس کے متعلق رحم بھی مٹ جاتا ہے.اور جب خدا تعالٰی کی طرف سے گرفت ہوتی ہے تو دوسروں کے دل سخت ہو جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی حالت پر کسی کے دل میں درد نہیں پیدا ہو تا.اور کسی کو رحم نہیں آتا.اس وقت مسلمانوں کے لئے ایک ہی علاج ہے اور وہ یہ کہ اپنے نفسوں میں تبدیلی پیدا کریں.اس وقت تک انہوں نے کئی رنگوں میں خدا تعالی کا مقابلہ کیا.سود لیتے رہے ، اسلام کی ہتک ہوتے دیکھی مگر کچھ نہ کیا، انہوں نے ہندوؤں سے اور ان ہندوؤں سے چیزیں خریدیں جو انہیں کتے کی طرح دھت کارتے ہیں.وہ کتے کی طرح مار کھا کر ان کے آگے گرتے رہے ہیں.اگر مسلمان بھی ہندوؤں کی چیزیں نہ خریدتے.جس طرح ہندو مسلمانوں کی نہ خریدتے ہیں اور غیرت دکھاتے تو کم از کم دنیا یہ تو کہتی کہ مسلمانوں میں بھی غیرت ہے.اپنی قومیت کا احساس ہے.مگر جب دنیا نے دیکھا کہ مسلمان اپنی عزت آپ برباد کر رہے ہیں.پھر اور کون ان کی عزت کر سکتا تھا یہ چھوت چھات کی ذلت کا نتیجہ ہے کہ مسلمان تمدنی طور پر بالکل تباہ و برباد ہوتے ہیں.اور ان میں تقویٰ و طہارت بھی نہیں رہی.اگر یہ ہوتی تو اسلام کے لئے غیرت بھی ہوتی.اب اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کئے ہیں کہ جن سے مسلمانوں کی آنکھیں کھل جائیں.اب بھی اگر مسلمان اپنے دماغ سے کام لیں تو خدا تعالیٰ کی مدد ان کے شامل حال ہو گی.اور ان کی مصیبتیں دور ہو جائیں گی.خدا تعالیٰ اپنے بندوں سے کبھی ایسا ناراض نہیں ہو تاکہ ان سے عذاب نہ ٹلائے بشرطیکہ وہ اپنی اصلاح کرلیں.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے.خدا تعالیٰ اس
خطبات محمود ۱۵۸ سال 1927ء وقت تک انسان کی توبہ قبول کرتا ہے.جب تک اس کی غر غرانے کی حالت نہ ہو جائے.پس اب بھی اگر مسلمان تو بہ کریں.تو خدا تعالیٰ انہیں معاف کر دے گا.اس وقت مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس بات کے لئے پورا زور لگا ئیں کہ سود کی لعنت سے چھٹ جائیں.کھانے پینے کی چیزیں ہندوؤں سے خریدنے سے کلی پر ہیز کریں.چونکہ ہندو جہاں تک ہو سکے ہندوؤں سے خرید و فروخت کرتے ہیں.اسی طرح مسلمان بھی اگر مسلمانوں کو ہی ترجیح دیں تو یہ ان کے لئے ضروری ہے.اگر ان باتوں پر مسلمان عمل کرنا شروع کر دیں تو قومی غیرت اور آزادی خود بخودان میں ابھرنے لگے گی.اور ان کے لئے خدا کے فضل کے دروازے کھل جائیں گے.اور جب خدا تعالٰی کی خشیت ان کے دلوں میں پیدا ہو جائے گی.تو پھر ان رستوں کو پالیں گے.جن سے خدا تعالی کی بچی ہدایت حاصل ہو سکتی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمان قرآن کو بھول گئے ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ ان میں قرآن کی محبت نہیں رہی.جب محبت پیدا ہو جائے گی تو خداتعالی خود سمجھ دے گا اور آپ ہی ان کا قدم صداقت کی طرف بڑھنے لگے گا.اس وقت مسلمانوں کی تمدنی اور ظاہری مدد کرنا ہر مسلمان اور ہر احمدی کا فرض ہے.اس وقت اسلام کی عزت پر حملہ کیا جا رہا ہے.اس کے دور کرنے کے لئے پوری پوری کوشش کرنی چاہئے.اور اپنے عمل اور قول سے یہ بات ثابت کر دینی چاہئے کہ اسلام ترقی کے لئے کسی لڑائی جھگڑے کا محتاج نہیں ہے.اسلام دنیا میں امن سکھانے کے لئے آیا ہے اور با امن طریقوں سے اسلام کی ترقی ہو سکتی ہے.بخاری کتاب الصلح باب كيف يكتب هذا ما صالح خلان کے سیرت ابن ہشام عربی جلد ۳، ۴ صفحه ۳۲۴۰۲۲۳ مطبوعہ بیروت سے ترمذی کتاب الدعوات باب فضل التوبة الفضل ۲۴ / جون ۱۹۲۷ء)
خطبات محمود 109 سال 1927ء موجودہ مشکلات میں ہمیں کیا کرنا چاہئے (فرموده ۲۴.جون ۱۹۲۷ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَ إِخْوَانُكُمْ وَ أَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْرَتُكُمْ وَاَمْوَالُ واقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسْكِنُ تَرْضَوْنَهَا أحَبَّ إِلَيْكُمْ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيْلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللهُ بِاَمْرِهِط وَاللّهُ لا يَهْدِى الْقَوْمَ الْفُسِقِينَ (توبه : ۲۳) اس آیت کو اس خطبہ جمعہ میں جو میں نے ڈلہوزی کے مقام پر پڑھا تھا تلاوت کرتے ہوئے مجھے معلوم نہ تھا کہ ہماری جماعت کے ایک فرد کو بھی اسی قسم کا ایک موقع پیش آنے والا ہے جس نے اسی آیت کے حکم کے ماتحت اپنے آرام و آسائش کو رسول کریم اے کی عزت کے لئے قربان کر دیا.اللہ تعالی کے ابتلاؤں اور آزمائشوں کی خواہش کرنا اسلام کے بالکل خلاف ہے.لیکن جب کسی کی خدا تعالی کی طرف سے آزمائش ہو.اور وہ اس میں پورا اترے تو ایسا انسان اس بات کا مستحق ہوتا ہے کہ اسے مبارک دی جائے کہ اس نے حق ادا کیا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ مِنْهُم مَنْ نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ ينتظر (۱) حزاب: ۲۴) اور فرماتا ہے.خدا کی راہ میں مرنے والوں کو مردہ مت کہو.وہ زندہ ہیں.جو خدا کی راہ میں جان دیتا ہے اسے کیوں مردہ کہہ کر دو سروں کے دلوں میں ڈر اور خوف پیدا کرتے ہو.اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اور اس کے دین کی عظمت کے لئے تکلیف اٹھا نا خوشی اور مسرت کا موجب ہے.ایسا انسان اتنا ہمدردی کا مستحق نہیں جتنا مبارکباد کا مستحق ہے.میں سمجھتا ہوں ہماری جماعت کے بہت سے لوگوں کے دلوں میں جوش پیدا ہوتا ہو گا کہ اس وقت جب کہ رسول کریم ﷺ کی عزت پر نا پاک سے ناپاک حملے کئے جارہے ہیں.اور آپ کی عزت کی حفاظت کے لئے موجودہ قانون میں کوئی طاقت نہیں ہے وہ کیا کریں.کون سی قربانیاں کریں.قَضَى
خطبات محمود سال 1927ء جن سے رسول کریم ﷺ کی عزت دشمنوں کے حملوں سے محفوظ ہو جائے.میں سمجھتا ہوں.ہم میں سے ہر وہ شخص جس نے بچے طور پر احمدیت کو قبول کیا ہے رشک کرتا ہو گا ان لوگوں پر جن کو خدا تعالیٰ کے رستہ میں تکلیف اٹھانے کا موقع ملا.اور وہ اس بات کی تڑپ رکھتا ہو گا کہ اسے بھی خدا تعالیٰ ایسے کام کرنے کی توفیق دے جن سے اس کا ایمان کھرا ثابت ہو.اور خود اس پر بھی اور دو سروں پر بھی ظاہر ہو جائے کہ خدا تعالیٰ کی ذات اس کی صفات اس کی قدرت اس کی طاقت پر اسے ایسا یقین ہے کہ کوئی خطرہ اور کوئی خدشہ اسے اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتا.لیکن ایسے سب لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے قوانین اور اس کی حکمتوں کے ماتحت صبر سے کام لینا پڑتا ہے.اس زمانہ میں جس طرح متواتر رسول کریم اپ کی ہتک کثرت سے کی جارہی اور کثرت سے پھیلائی جارہی ہے.اس کی نظیر پہلے کسی زمانہ میں نہیں ملتی.آپ کے خلاف گندی کتا بیں پہلے بھی لکھی گئیں.مگروہ دل آزاری میں اتنی بڑھی ہوئی نہ تھیں جتنی اب ہیں.اس کی دو وجہیں ہیں ایک تو یہ کہ ان کی اشاعت اتنی نہ ہوئی جتنی اس وقت کی جاتی ہے.دوسرے اس وقت لکھنے والے محض گالیوں پر اکتفا کرتے تھے.مگر اب ایسے سائنٹفک طریق استعمال کئے جاتے ہیں کہ ان کی بد زبانیوں کی قلب پر چوٹ پڑتی ہے.پس کیا بلحاظ تواتر کے.اور کیا بلحاظ مضامین کے اور کیا بلحاظ اشاعت کے اور کیا بلحاظ اس کے کہ قوم کی قوم ایسے لوگوں کے پیچھے کھڑی ہے.پہلے زمانہ کے حملوں سے بہت بڑھے ہوئے ہیں.حالانکہ موجودہ حالت ان باتوں کی متقاضی نہ تھی جو اسلام کے خلاف دشمن کر رہے ہیں.پہلے جب رسول کریم ﷺ کے خلاف کتابیں لکھی جاتی تھیں اس وقت تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ تعلیم کہ تمام دنیا میں نبی آئے ، قائم نہ ہوئی تھی.بلکہ اس وجہ سے آپ پر کفر کے فتوے دیئے جاتے تھے.مگر پھر آپ کی اس تعلیم نے گھر کرنا شروع کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج وہ لوگ جو اس وجہ سے آپ پر کفر کے فتوے لگاتے تھے.اسے اسلام کی طرف سے پیش کر رہے ہیں.اور مسلمانوں کا بیشتر حصہ اس بات پر قائم ہو گیا ہے.کہ ہندوؤں کے بزرگ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے تھے.اور ان کی ہتک نہ کرنی چاہیے.لیکن کس قدر افسوس کی بات ہے.کہ اس وقت جب کہ مسلمان ہندوؤں کے بزرگوں کی تعریف کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں.ایسی کتابیں آریوں کی طرف سے شائع ہو رہی ہیں جن میں مسلمانوں کی دل آزاری کی جارہی ہے.ان حالات میں اگر مسلمانوں کے دلوں میں ہندوؤں کے متعلق نفرت اور غصہ کی لہر را ہو تو کوئی حیرت کی بات نہیں لیکن میں مسلمانوں سے کہوں گا کہ ہر غصہ کے وقت جو لہر دل میں
خطبات محمود 141 سال 1927ء پیدا ہو اس کے متعلق سوچنا چاہئے کہ کس بات کے لئے غصہ اور جوش پیدا ہوا ہے.اگر جوش اور غصہ اپنے نفس کے لئے پیدا ہوا ہے تو پھر جو نفس کے اسے مان لینا چاہیے.اگر ہمارا غیظ و غضب اپنی ذات کے لئے ہے تو پھر جو نفس کہتا ہے کرنا چاہیے اور اگر نفس کہتا ہے گالیاں دو.تو گالیاں دینی چاہیں.اگر نفس غصہ ہونے کے لئے کہتا ہے.تو غصہ ہونا چاہیے لیکن ہمارا غصہ ہمار ا غضب ہماری غیرت اور ہمارا جوش اپنے نفس اور اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ اس لئے ہے کہ جس کی ہتک کی جاتی ہے.وہ ایسی اعلیٰ تعلیم لے کر آیا کہ یہ گالیاں دینے والے اس تعلیم کے کناروں تک تو کیا اس کی ادنی حد تک بھی نہیں پہنچے.اور اگر ہمارا جوش اس لئے ہے کہ وہ انسان جسے دشمن بد نمونہ کے طور پر پیش کرتے ہیں.اس کے بغیر کوئی انسانیت ہی نہیں.اور کوئی روحانی رتبہ ہی نہیں.پھر اگر ہمارا جوش اور غصہ اس لئے ہے کہ جس انسان پر حملے کئے جاتے ہیں.وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا اعلیٰ سے اعلیٰ اور بہترین نمونہ ہے.جس سے بڑھ کر انسان میں طاقت ہی نہیں.اگر صحیح ہے.تو پھر غصہ اور جوش کے وقت ہمارے مد نظر یہ بات رہنی چاہیے کہ اس غصہ پر بھی اسی انسان کی حکومت قائم ہو جس کی حکومت ہمارے سکون اور اطمینان پر ہے.اسی طرح اگر ہمار ا غصہ اور جوش اسلام کے لئے ہے.تو وہ اسلامی احکام کے ماتحت ہونا چاہیے.اور اسلام جہاں یہ کہتا ہے کہ خدا اور اس کے رسول کے لئے غیرت دکھاؤ.اسلام جہاں یہ حکم دیتا ہے کہ جس دل میں خدا اور رسول کی محبت کسی اور چیز سے کم ہے اس میں ایمان ہی نہیں.وہ خدا کے غضب کے نیچے ہے.جس کا اسے انتظار کرنا چاہیے کہ وہ آئے اور اسے تباہ کر ڈالے.وہاں اسلام یہ بھی کہتا ہے کہ اعلیٰ اخلاق کو کسی حالت میں بھی نہ چھوڑو.خواہ غصہ میں ہو یا آرام میں پس میں اپنی جماعت کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ ان خطرناک دنوں میں اپنے جوشوں کو قابو میں رکھیں اور بجائے کسی اور طرح نکالنے کی کوشش کرنے کے اس طرح نکالیں جس سے اسلام کو فائدہ پہنچے دیکھو راجباہوں کے ذریعہ بھی پانی کھیتوں میں پہنچتا ہے.مگر بند توڑ کر آنے والا پانی کھیتی کو تباہ اور برباد کر دیتا ہے.اور راجباہ کا پانی کھیت کو سیراب کرتا ہے.اسی طرح غصہ کی حالت کی کاروائی ایسی ہوتی ہے.جیسے نہر کا کنارہ ٹوٹ جانے سے پانی کا نکلنا یا دریا کا اچھل پڑنا.کوئی انسان اس بات پر خوش نہیں ہو سکتا کہ دریا میں طغیانی آئی.کیونکہ طغیانی بربادی اور تباہی کا موجب ہوتی ہے.اسی طرح غصے کی کاروائی بھی تباہی لاتی ہے جوش اور غیرت قابل قدر جذبات ہیں.مگر اسی حد تک کہ عقل پر پردہ نہ ڈالیں اگر پردہ ڈالیں تو انسان صحیح طور پر کام نہیں کر سکتا.اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اصل کام کرنے سے محروم رہ جاتا ہے.
خطبات محمود ۱۶۲ سال 1927ء جو لوگ جلدی جوش میں آجاتے ہیں.وہ جلدی ٹھنڈے بھی ہو جاتے ہیں.اور جو جوش میں کم آتے ہیں وہی کام کرتے ہیں.اس خطرناک وقت میں جس سے زیادہ خطرناک وقت رسول کریم ﷺ سے محبت رکھنے والی قوم کے لئے سمجھنا مشکل ہے.جب ایک قوم کی قوم دیدہ دانستہ مسلمانوں کو بھڑکانے کے لئے ان کی محبوب ترین ہستی کو گالیاں دیتی ہے.اس وقت مسلمانوں کے حال کو وہی سمجھ سکتا ہے.جو انسانی فطرت سے واقف ہو.کتنی مشکل بات ہے.اگر مسلمان گالیوں کا جواب گالیوں سے دیتے ہیں تو اس کی اسلام اجازت نہیں دیتا.اور اگر چپ رہتے ہیں تو ان کی آئندہ نسل میں بے غیرتی پیدا ہوئی لازمی ہے.کیونکہ جو قوم اپنے بزرگوں کے متعلق گالیاں سن کر چپ رہتی ہے.اس میں بے غیرتی پیدا ہو جاتی ہے.غرض آج اگر مسلمان آریوں کی گالیوں کے مقابلہ میں چپ رہتے ہیں تو آئندہ نسلیں بے حیا اور بے غیرت ہو سکتی ہیں.اور اگر جوش اور غصہ کا اظہار کرتے ہیں تو اس کے لئے صحیح اظہار کا موقع نہیں ملتا.مسلمانوں اور ہندؤوں کی اپنی حکومتیں نہیں کہ ایک دوسرے پر فوج لے کر چڑھ دوڑیں دونوں غیر قوموں کے ماتحت ہیں اور جب کہ ہمارے نزدیک محمد اے کو گالیاں دینا بد ترین فعل ہے.اس حکومت کے نزدیک معمولی بات ہے.بلکہ ممکن ہے حکومت کے بعض عمال کے نزدیک اچھی بات ہو.بعض شریف الطبع انگریز رسول کریم اے کے خلاف بد زبانی سن کر غصہ میں آجاتے ہیں.اور رسول کریم انا یا اس لیے کی عزت کا خیال رکھنا ضروری سمجھتے ہیں.گو اس طرح نہیں جیسے مسلمان.مگر پھر بھی کئی ایسے ہو سکتے ہیں جو حیران ہوتے ہوں کہ محمد کو گالیاں دینا کونسی ایسی بات ہے جس پر مسلمان اس قدر غم و غصہ کا اظہار کرتے ہیں.ایسی حالت میں مسلمانوں کے لئے کس قدر مشکلات ہیں.قانون ہمارے اختیار میں نہیں کہ اس کے ذریعہ جوش نکال سکیں.اور خاموش اس لئے نہیں رہ سکتے کہ آئندہ نسلیں تباہ نہ ہو جائیں اوران میں بے غیرتی نہ پیدا ہو جائے.قانون ایک ایسی قوم کے ہاتھ میں ہے جس کے احساسات شریفانہ طور پر خواہ ہمارے ساتھ کتنے ہی ملتے ہوں مگر ہمارے جیسے نہیں ہو سکتے.اس وجہ سے بسا اوقات کسی امر کے متعلق گورنمنٹ کو توجہ دلانا بے فائدہ ہوتا ہے.اور بسا اوقات حکام سمجھتے ہیں یہ ذرہ ذرہ سی بات پر چڑنے والے لوگ ہیں ورنہ یہ بھی کوئی بات ہے جس کی شکایت کر رہے ہیں.اس حالت میں ہمارے لئے نہایت ضروری ہے کہ ہم اپنے جذبات و احساسات کو اپنے قبضہ میں رکھیں.پس میں اپنی جماعت کے لوگوں کو اور ان دوسرے مسلمانوں کو جو میری باتیں توجہ سے
147 سال 1927ء سنتے اور ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں کہتا ہوں کہ اس وقت جوش میں لانے اور بھڑ کانے والی باتیں مفید نہیں.ضرورت اس بات کی ہے کہ اس جوش کو قابو میں رکھ کر مستقل قربانی کی جائے جو لوگ اسلام کے لئے مستقل قربانی نہیں کر سکتے.ان کا جوش حقیقی جوش نہیں ہے.بلکہ دھوکا اور فریب ہے.ابھی ہمارا ایک بھائی اور اس کا ایک رشتہ دار قید خانہ میں گئے ہیں محض اس لئے کہ انہوں نے ہائیکورٹ کے جوں کے نزدیک ایک جج کی ہتک کی ہے.میں ہر گز ان ججوں سے اتفاق نہیں کرتا اور میرے نزدیک مسلم آوٹ لک (Muslim Out Look) نے ہرگز ہتک نہیں کی میں تو یہ کہتا ہوں بجائے اس کے مسلم اوٹ لک کو اس مضمون کی وجہ سے سزادی جاتی.ججوں کو چاہیے تھا.کہ اس کی آواز کی قدر کرتے.جو رسول کریم ﷺ کی عزت کو محفوظ رکھنے کے لئے اٹھائی گئی تھی.مگر جوں کا ادھر ذہن منتقل نہ ہوا.بلکہ اس طرف گیا کہ مسلم اوٹ لک نے حج کی ہتک کی ہے.اس وجہ سے مسلم آوٹ لک کے ایڈیٹرو پر نٹر کو سزا دے دی.حالانکہ جو شخص اس مضمون کو ٹھنڈے دل سے پڑھے گا.یا ان جذبات کو مد نظر رکھ کر پڑھے گا.جو ایک مسلمان کے ہوں.وہ ہر گز نہیں سمجھ سکتا کہ اس میں حج کی بنک کس طرح ہوتی ہے.میرے نزدیک مسلم آوٹ لک کا یہ جرم نہیں تھا بلکہ اس نے قابل تعریف بات کی تھی کہ رسول کریم ﷺ کے متعلق غیرت دکھائی تھی.ہر مذہب کے آدمی کو اس کی قدر کرنی چاہیے تھی کہ آوٹ لک کا ایڈیٹر اپنے رسول کے متعلق وفادار انسان ہے.اور وفاداری پر کوئی ناراض نہیں ہوا کرتا.مگر جوں کے نزدیک یہی بات ثابت ہوئی کہ اسے سزا دینی چاہیے.اس وجہ سے مسلمانوں میں اور جوش پیدا ہو گیا.اور اب ان کے سامنے یہ معاملہ آگیا کہ ایک ہائی کورٹ کے جج کی بنک کے الزام میں تو ہائی کورٹ نے ایک ہفتہ کے اندر اندر سزا دے دی.لیکن رسول کریم ﷺ کی ہتک کرنے والا دو اڑ ہائی سال مقدمہ بھگت کر بالکل بری ہو گیا.جو ایک ایسا امر ہے کہ جس کی وجہ سے مسلمانوں کی طبائع میں جوش پیدا ہو نالازمی بات ہے.وہ حیران ہیں.اس قانون اور اس انتظام پر کہ ایک حج کی ہتک کا اثر تو ہائی کورٹ پر اتنا پڑا کہ ہفتہ کے اندر اندر ایڈیٹر اور پرنٹر مسلم آوٹ لک کو جیل خانہ میں بھیج دیا.مگر محمد کی ہتک کرنے والا مہینوں آزاد پھر تارہا.اور آخر بالکل آزاد ہو گیا پھر یہاں کہنے والا تو صرف یہ کہتا ہے.کہ حج کو مستعفی ہو جانا چاہئے.اور اس کی تحقیقات ہونی چاہئے کہ کن حالات کے ماتحت یہ فیصلہ ہوا.مگر وہاں گندی سے گندی گالیاں دی گئی ہیں.پھر جس انسان کو گالیاں دی گئی ہیں وہ ہستی ہے کہ جس کے لئے
خطبات محمود ۱۶۴ سال 1927ء کروڑوں انسان قربان ہونے کے لئے تیار ہیں.اور جس کے تقدس پر کروڑوں انسان یقین رکھتے ہیں.لیکن جس کی ہتک کا مجرم ایڈیٹر مسلم اوٹ لک قرار دیا گیا ہے.اس سے ایک آدمی بھی اس قسم کا اخلاص نہیں رکھتا.پھر ایک طرف گندی گالیاں ہیں.اور دوسری طرف یہ کہ جن حالات میں فیصلہ کیا گیا ہے.ان کی تحقیقات کی جائے.بے شک اس کے سخت معنی بھی ہو سکتے ہیں جو ججوں نے لئے ہیں.مگر اچھے بھی ہو سکتے ہیں.میں کوئی قانون دان نہیں.مگر جہاں تک مجھے معلوم ہے.عدالتیں شک کا فائدہ ملزم کو ہی دیتی ہیں.مگر مسلم آوٹ لک" کے مقدمہ میں ایسا نہیں ہوا.اور مسلمانوں کی طبائع میں ہیجان پیدا ہو نا قدرتی بات ہے.لیکن پھر بھی اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اگر اسلام اور شریعت کی عزت کو قائم رکھنا ہے تو اسلام جب یہ کہتا ہے کہ حکومت کے قانون کی پابندی کرو تو ضرور کرنی چاہئے.اگر ہمارے جوش اللہ تعالٰی کے لئے ہیں.تو اس کے قانون کی پابندی کرنا بھی ہمارا فرض ہے.رسول کریم ال سے ہمارے دو قسم کے تعلقات ہو سکتے ہیں.ایک حقیقی جو آپ کی تعلیم کو مد نظر رکھتے ہوئے ہوں.اور دوسرے وہ جو ورثہ میں ملے ہوں.یعنی ماں باپ کی طرف سے رسول کریم اللہ کی محبت ملی ہو.اب اگر ہم جوش اور غصے کی حالت میں رسول کریم کی تعلیم کو بھول جاتے ہیں تو آپ سے ہمارا تعلق حقیقی نہیں ہو گا بلکہ ورثہ کا ہو گا.لیکن اگر پر.جوش کے وقت ہم آپ کی تعلیم کو مد نظر رکھتے ہیں تو پھر ہمارا آپ سے حقیقی تعلق ہو گا.اور یہی فخر اور خوشی کی بات ہے.وہ محبت کوئی محبت نہیں جو ماں باپ سے ورثہ میں ملی ہو.محبت وہی ہے جو اپنے دماغ اور عقل سے ملی ہو.اس وقت میں اپنی جماعت کو اور دوسرے انسانوں کو جن میں سے میں دیکھ رہا ہوں کہ ہزاروں میری بات کو توجہ سے سن رہے اور قبول کر رہے ہیں.نصیحت کرتا ہوں کہ اس وقت اسلام پر سب سے زیادہ نازک زمانہ آیا ہوا ہے.اس وقت تمہیں یہ ثابت کر دینا چاہئے کہ ہم محمد ان کی تعلیم پر چلتے ہوئے کسی قسم کے فساد کے لئے تیار نہیں.اللہ تعالیٰ نے ہمیں مکمل شریعت دی ہے.اور مکمل دماغ دیا ہے.اس کے ہوتے ہوئے یہ کہنا کہ مسلمان عقل سے کام نہیں لے سکتے دیوانہ پن ہے.کیا خدا تعالیٰ نے ہمیں کوئی ایسے سامان نہیں دیئے کہ ہم محمد کی تعلیم پر چلتے ہوئے آپ کی عزت کو بچا سکیں ؟ اگر فی الواقعہ نہیں دیئے.تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ خدا تعالیٰ نے نعوذ باللہ محمد اللہ کو چھوڑ دیا ہے.ورنہ کیا وجہ ہے کہ آپ کی عزت کے بچانے کے لئے کوئی سامان نہ دئیے ہوں.پس مسلمان کو چاہئے کہ رسول کریم ﷺ کی عزت کو بچانے کے لئے غیرت دکھا ئیں.مگر ساتھ ہی یہ بھی دکھا دیں کہ ہر ایک مسلمان اپنے نفس کو
خطبات محمود ۱۶۵ سال 1927ء قابو میں رکھتا ہے.اس سے مغلوب نہیں ہوتا.جب مسلمان یہ دکھا دیں گے تو دنیا ان کے مقابلہ سے خود بخود بھاگ جائے گی کیونکہ دنیا دار اس کے مقابلہ میں کھڑے ہوتے ہیں جس کی نسبت جانتے ہیں کہ اس کا نفس اس کے قابو میں نہیں.چھوٹے بچوں سے فطرت صحیح کا خوب پتہ لگتا ہے.بچے اسی کو چڑاتے ہیں جو ان کی باتوں سے پڑے.بچے پڑنے والے کے پیچھے پڑ جاتے ہیں.لیکن اگر کوئی نہ چڑے تو پیچھے نہیں پڑتے.مجھے یاد ہے پچپن میں لڑکے مجھے میاں صاحب میاں صاحب کہتے تھے.اور میاں چونکہ ملا کو کہتے ہیں.اور اس کے متعلق شعر بنائے ہوئے ہیں.وہ مجھے سنا سنا کر پڑھتے.تین چار دن پڑھتے رہے.لیکن جب میں نے ان کی طرف توجہ نہ کی تو پھر وہ مایوس ہو کر خود بخود ہی ہٹ گئے.اگر اس وقت میں غصہ کا اظہار کرتا تو مدتوں بچوں کے لئے کھیل بنا رہتا.اب اگر مسلمان بچے طور پر اسلام کی خدمت کے لئے کھڑے ہو جا ئیں.اور اس طرح غیرت دکھا ئیں اور اقرار کریں کہ ہم ان لوگوں سے کسی قسم کا تعلق نہیں رکھیں گے جو رسول کریم کو گالیاں دیتے ہیں.یا جو ان کے ساتھی ہیں.اور ایسے لوگوں سے سودا خرید نا قطعا بند کر دیں گے ہاں مصیبت کے وقت ان کی ہمدردی کرنے کے لئے تیار رہیں گے.لیکن سودا ایک پیسے کا نہ خریدیں گے.اگر مسلمان اس پر پورے طور پر عمل کریں تو تھوڑے ہی دنوں میں ہندوؤں کی آنکھیں کھول سکتے ہیں.لیکن اگر وہ اس کی بجائے لڑنا شروع کر دیں اور گورنمنٹ کو دھمکیاں دینے لگیں.تو نہ ادھر کے رہیں گے نہ ادھر کے.میرے نزدیک گورنمنٹ کا اس بارے میں اتنا قصور نہیں جتنا سمجھا جاتا ہے.یہ ہائی کورٹ کا فیصلہ ہے.اور گورنمنٹ مجبور ہے کہ اس کا احترام کرے.ورنہ گور نر خود اعلان کر چکا ہے کہ یہ فیصلہ گورنمنٹ کے لئے حیرت کا موجب ہے.اس زمانہ میں سکھا شاہی نہیں.بلکہ قانون کے مطابق خواہ غلط ہو یا صحیح کام چلتا ہے.پس گورنمنٹ کا اس میں قصور نہیں.ہائی کورٹ کے لئے جو قانون بنایا گیا ہے.گورنمنٹ اس کا احترام کرنے کے لئے مجبور ہے.اور آج جو بات ہائی کورٹ میں ہمارے خلاف ہوئی ہے.کل وہی دوسروں کے خلاف ہو سکتی ہے.وہی ہائی کورٹ فیصلہ کرے گی کہ ہندوؤں کے بزرگوں کے خلاف اگر کوئی لکھے تو وہ بھی قابل سزا نہ ہو گا.اس میں شبہ نہیں کہ ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ غلط ہے اور ہمیں یہ بات بری لگتی ہے.ہم اس عقل کو کوڑی کے برابر بھی نہیں سمجھتے جس کے نزدیک جسٹس دلیپ سنگھ کی ہتک کے لئے تو قانون موجود ہے لیکن رسول کریم ﷺ کی بنک کے لئے کوئی قانون نہیں.مگر قانون کا احترام امن کے قیام کے لئے ضروری ہے.اور بعض باتوں کو برداشت کرنے کی ضرورت ہے.
خطبات محمود 144 سال 1927ء.اس وقت جو کچھ ہوا اس میں میرے نزدیک گورنمنٹ نہیں بلکہ ہائی کورٹ کی غلطی ہے.مگریہ ہندوؤں کا فریب ہے کہ مسلمانوں کو گورنمنٹ کے خلاف جوش دلا رہے ہیں.تاکہ مسلمان گورنمنٹ سے لڑ کر تباہ ہو جائیں اور پھر حکومت ہندوؤں کے ہاتھ میں آجائے.یہ ہندوؤں کا فریب ایسا ہی ہے.جیسا ایک زمیندار نے سید مولوی اور ایک عام آدمی ان تینوں کے ساتھ کیا تھا.ہندو چاہتے ہیں کہ پہلے مسلمانوں کو گورنمنٹ سے لڑوائیں.اور اس طرح تمام مسلمانوں کو تباہ کر دیں.پھر اکیلے رہ کر گورنمنٹ کا مقابلہ کریں.اب گورنمنٹ بھی بے وقوف ہوگی اگر وہ اس دھوکے میں آجائے.اور مسلمان بھی بیوقوف ہوں گے اگر وہ یہ دھوکا کھا جائیں.مسلمانوں میں سے جو لوگ عقلمند ہیں انہیں فکر ہونی چاہیئے کہ ہندوؤں کے اس جال کو توڑ دیں.اسی طرح انگریزوں میں سے جو عقلمند ہیں انہیں چاہیئے کہ ہندو نوازی کو ترک کریں.گورنمنٹ محفوظ نہیں ہو سکتی جب تک مسلمانوں سے صلح نہ رکھے.اور مسلمان محفوظ نہیں ہو سکتے جب تک گورنمنٹ سے صلح نہ رکھیں.ہندوستان کے وہ افسر جو مینڈک کی طرح وسیع نظر نہیں رکھتے انگریزی قوم کے دشمن ہیں.اور وہ مسلمان جو اپنے عارضی فوائد کی خاطر مسلمانوں کے مستقل فوائد کو قربان کر رہے ہیں مسلمانوں کے اصل قائم مقام نہیں ہیں.اس وقت میں مسلمانوں کو سب سے بڑی نصیحت یہی کروں گا کہ حکومت کا مقابلہ نہ کریں.اس کا نتیجہ اچھا نہ ہو گا پہلے ہندو مسلمان دونوں مل کر گورنمنٹ کا مقابلہ کر چکے.اور اس کا نتیجہ دیکھ چکے ہیں.پھر اکیلی مسلمان قوم گورنمنٹ اور ہندوؤں کے مقابلے میں کیا کر سکتی ہے.چونکہ اب نہایت نازک وقت ہے اس لئے مسلمانوں کو عقل سے کام لینا اور اپنے نفس کو قابو میں رکھنا چاہئے.ورنہ بجائے اسلام کی طاقت کا موجب بنے کے اس کی کمزوری کا باعث بن جائیں گے.اور بجائے خدا تعالیٰ کی رحمت حاصل کرنے کے اس کی ناراضگی کے مورد ہو جائیں گے.اس وقت میں اپنی جماعت کو جو یہاں رہتی ہے.اس خطبہ کے ذریعے اور جو باہر رہتی ہے اسے خطبہ کے چھپنے پر آگاہ کرتا ہوں.میں اللہ تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے ہماری جماعت کو بڑا جوش عطا کیا ہے مگر بات جب ہے کہ مستقل کام کا ارادہ کر لیا جائے.یہ خوشی کی بات ہے کہ ایسے جوش کی حالت میں بھی ہماری جماعت آپے سے باہر نہیں ہوئی.اور یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ احمدی قوم نے وہ تعلیم جذب کرلی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دی ہے.اس میں شبہ نہیں کہ ہندو گورنمنٹ کو ہم سے بدظن کریں گے اور بد ظن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.اور ممکن ہے کہ
خطبات محمود 144 سال 1927ء بعض افسر ناراض بھی ہو جائیں.مگر ہمیں اس کی پرواہ نہیں اگر اسلام کی خدمت کرتے ہوئے گورنمنٹ ہندوؤں کے کہنے سے قید نہیں بلکہ پھانسی پر چڑھا دے تو ہم پر واہ نہ کریں گے لیکن ہم قانون کی پابندی کریں گے.اور امن قائم رکھنے کی کوشش کریں گے.اور مسلمانوں سے بھی کہیں گے کہ فوری طور پر جوش میں نہ آؤ.بلکہ اسلام کی خدمت کے لئے مستقل طور پر کوشش کرو.صرف ریزولیوشن پاس کر دینے سے کچھ نہیں بنتا.میرا یہ مطلب نہیں کہ ریزولیوشن پاس کرنا اچھا نہیں.یہ بھی مفید ہو سکتے ہیں مگر یہ کہ صرف ریزولیوشن پاس کیا جائے مفید نہیں.مسلمانوں کو چاہئے کہ کام کر کے دکھائیں.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اس وقت وہ صحیح رستے پر چلنے کی ہمیں توفیق دے اور رسول کریم ﷺ کی تعلیم پر عمل کرنے کے ایسے ذرائع بتائے کہ ہم اسلام کی عظمت دنیا میں قائم کر سکیں.اور مسلمانوں کی گری ہوئی حالت کو اٹھا سکیں.(الفضل ۵/ جولائی ۱۹۲۷ء)
خطبات محمود ۱۶۸ سال 1927ء کتاب ”رنگیلا رسول " کا جواب (فرموده یکم جولائی ۱۹۲۷ء ) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : پچھلے دنوں رسول کریم ای کے متعلق جو کسی گندہ دہن انسان نے ایک کتاب ”رنگیلا رسول" کے نام سے لکھی.اس پر جب مسلمانوں کی طرف سے یہ اعتراض اٹھایا گیا کہ ایسی دل آزار تحریروں کو قانونا بند کرنا چاہئے.کیونکہ وہ مختلف اقوام ہند کے درمیان منافرت اور تباغض پیدا کرتی ہیں.تو اس پر بعض ہندو اخبارات نے اور خصوصاً "ملاپ " اور " پر تاپ " نے یہ لکھا ہے کہ مسلمانوں کو ایسی تحریروں کے متعلق گورنمنٹ کو توجہ دلانے کی کیا ضرورت ہے اور مسلمان اس بات پر کیوں ناراض ہوتے ہیں کہ قانون میں اس قسم کی تحریروں کے لکھنے والوں کے لئے کوئی دفعہ نہیں ہے جس کے ذریعہ ان کو سزا دی جاسکے.کیونکہ قانون میں اگر نقص ہے تو اس کا اثر ہندوؤں.سکھوں.عیسائیوں.یہودیوں سناتیوں سب پر پڑے گا.چونکہ کسی ایسی دفعہ کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے جس کے ذریعہ ایسی تحریروں کو روکا جاسکے.مختلف مذاہب کے بانیوں پر حملے کئے جاسکتے ہیں.اور ان کے اعزاز اور احترام کے خلاف جائز و نا جائز نکتہ چینی کی جا سکتی ہے.اس لئے مسلمانوں ہی کے لئے خطرہ نہیں کہ ان کے بزرگوں کے خلاف سخت تحریر میں شائع ہوتی ہیں بلکہ ایسا ہی خطرہ ہندوؤں کے لئے بھی ہے.ایسا ہی خطرہ سکھوں کے لئے بھی ہے.ایسا ہی خطرہ عیسائیوں کے لئے بھی ہے.ایسا ہی خطرہ یہودیوں کے لئے بھی ہے.اگر یہ لوگ اس قسم کی دفعہ کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے شور نہیں بچار ہے.کوئی شکوہ نہیں کر رہے.تو مسلمانوں کے شور مچانے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے.اگر کنور دلیپ سنگھ صاحب کے فیصلہ کے اثر سے سنائیوں.آریوں سکھوں.عیسائیوں.اور یہودیوں وغیرہ کے لئے اعتراض کا کوئی موقعہ نہیں تو پھر مسلمانوں کے
خطبات محمود 149 سال 1927ء لئے کہاں موقع ہے جس طرح مسلمانوں کے بزرگوں کے خلاف دل آزار تحریر میں شائع کرنے کا رستہ کھلا ہے اسی طرح دوسرے مذاہب کے بزرگوں کے خلاف بھی تو رستہ کھلا ہے.پھر خود ہی اس کی توجیہہ کی ہے اور وہ یہ کہ مسلمانوں کا اس کے متعلق شور مچانا اور گورنمنٹ کو قانون کے اس نقص کی طرف توجہ دلانا بتاتا ہے کہ جب دوسرے مذاہب والوں کو اپنے بزرگوں کے خلاف کسی قسم کی نکتہ چینی کا خوف نہیں تو مسلمانوں کے نبی کی زندگی میں ایسی باتیں موجود ہیں.جن پر نکتہ چینی ہونے سے مسلمان ڈرتے ہیں.گویا ان کے نزدیک چونکہ مسلمان سب سے زیادہ راجپال کے فیصلہ کے خلاف شور مچارہے ہیں.اور اس قسم کی تحریروں کو روکنے کے لئے قانون بنانے کے متعلق سب سے زیادہ زور دے رہے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ ان کے دلوں میں یقین ہے کہ ان کے نبی کی زندگی ایسی خراب ہے کہ لوگ اس پر اعتراض کر سکتے ہیں اور کریں گے مگر وہ قانون میں کوئی ایسی دفعہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کا منہ بند نہ کر سکیں گے.اس وجہ سے مسلمان شور مچارہے ہیں تاکہ قانون کے ذریعہ ایسے لوگوں کی زبان بند کرا دیں.میں ایسے لوگوں سے اس حد تک تو متفق ہوں کہ ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کے خلاف مسلمانوں نے زیادہ زور سے آواز اٹھائی ہے.مگر جو نتیجہ اس سے نکالا گیا ہے وہ سرتا سر غلط ہے.اگر مسلمانوں نے اس فیصلہ کے خلاف جوش کا اظہار کیا اور غم و غصہ دکھایا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ متعدد ہندو مصنف ایسے پائے گئے جو شرافت اور انسانیت کے مطالبات سے قطع نظر کر کے رسول کریم ﷺ پر ایسے گندے اور کمینے حملے کر رہے ہیں جن کو کوئی شریف انسان برداشت نہیں کر سکتا.اور یہ قدرتی بات ہے کہ جس مذہب کے بانی کے خلاف ایسے گندے اعتراض کئے جائینگے اس کے پیروؤں میں جوش اور غصہ پیدا ہو گا.ورنہ جن کے مذہب کے بانیوں کو گالیاں نہیں دی جاتیں ان میں جوش اور غصہ کیوں پیدا ہو.پس یہ کہنا کہ مسلمانوں میں کیوں جوش پیدا ہوا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ رنگیلا رسول در تمان.اور وچتر جیون کتابیں مسلمانوں ہی کے خلاف لکھی گئی ہیں.ہندوؤں یا عیسائیوں یا آریوں کے خلاف نہیں لکھی گئیں اگر اسی قسم کی کتابیں ہندوؤں اور آریوں کے خلاف لکھی جاتیں اور اسی طرح پے در پے لکھی جاتیں تو ان میں ایسا جوش پیدا ہو تا جس کا مٹانا مشکل ہو جاتا.مگر اب زخم مسلمانوں کو لگا ہے سینے مسلمانوں کے فگار ہیں.ہندوؤں کو کیا ہوا ہے کہ وہ شور مچائیں.پس اس وقت مسلمان جو شور مچارہے ہیں اس کی وجہ یہ نہیں کہ مسلمان اس بات سے ڈرتے
خطبات محمود 14.سال 1927ء میں ہیں کہ رسول کریم اے پر اعتراض ہو سکتے ہیں.بلکہ یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کو ہندوؤں کی طرف سے گالیاں دی گئیں اور آپ کی ہتک کرنے کی کوشش کی گئی ہے.لیکن ہندوؤں کے بزرگوں کے خلاف مسلمانوں نے کچھ نہیں لکھا اور نہ گالیاں دی ہیں.ایسی حالت میں ہندوؤں کا مسلمانوں کے متعلق یہ کہنا کہ وہ شور کیوں مچاتے ہیں.ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص کسی کو گالیاں دے اور جب وہ اسے کسے کیوں گالیاں دیتے ہو یہ شرافت کا فعل نہیں تو گالیاں دینے والا کے دیکھو تمہیں گالیاں دینے سے منع نہیں کرتا پھر تم کیوں منع کرتے ہو.ہندوؤں کے اس وقت خاموش رہنے کا یہ مطلب نہیں کہ یہ بڑے وسیع الحوصلہ ہیں بلکہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندو مسلمانوں کے خلاف نہایت کمینے اور گندے نعل جاری رکھنے پر اصرار کر رہے ہیں.اور ان میں شرافت اور انسانیت نہیں رہی.یہ اصرار ان کا ایسا ہی ہے جیسے کوئی کسی کی بدکاری پر ناراض ہو تو بدکاری کرنے والا کے تم ناراض کیوں ہوتے ہو تم بھی کر لو.کیا ایسے شخص کو وسیع الحوصلہ کہا جائے گا.اس وقت مسلمانوں میں اس لئے جوش ہے کہ ان کے نبی کو برا کہا جاتا ہے.اور دوسرے خاموش ہیں تو اس لئے کہ ان کے بزرگوں کو برا نہیں کہا گیا.مسلمان اگر شور مچا رہے ہیں تو اس کی لئے کہ ان کے سینوں پر زخم لگے ہوئے ہیں.اور دوسرے اگر خاموش ہیں تو اس لئے کہ انہیں کوئی زخم نہیں لگا.پس یہ ان کے وسیع الحوصلہ ہونے پر دلالت نہیں کرتا بلکہ ان کی خود غرضی کا ثبوت ہے.وہ دیکھ رہے ہیں کہ اس وقت حملہ مسلمانوں پر ہو رہا ہے.ورنہ اگر یہی حملہ ان کے مذاہب کے بانیوں اور ان کے بزرگوں پر ہو تا تو میں پوچھتا ہوں وہ شور مچاتے یا نہیں؟ موجودہ حالت میں اس طرح وسعت حوصلہ ثابت کرنا یا یہ کہنا کہ ان کے بزرگوں پر حملہ نہیں کیا جا سکتا.غلط ہے.اس وقت مسلمانوں کے شور مچانے کی دو وجہیں ہیں.اول تو یہ کہ ان پر حملہ کیا گیا ہے اور جس پر حملہ کیا جاتا ہے وہ شور مچاتا ہے.دیکھو میں نے نہایت تہذیب اور متانت کے ساتھ مسلمانوں کو اس طرف توجہ دلائی کہ ہندو چھ سو سال سے اور اس وقت سے جب کہ وہ ہمارے غلام تھے ہمارے درباروں میں ہمارے آگے سجدے کیا کرتے تھے.ہم سے چھوت چھات کر رہے ہیں.ہمارے ہاتھ کی چیز کھانا گناہ سمجھتے ہیں.تو آج جب کہ مسلمان ہندوؤں کی اس چھوت چھات کی وجہ سے تباہی کے کنارے پہنچ چکے ہیں.ان کو بھی چاہیے کہ کھانے پینے کی چیزیں مسلمانوں سے خریدیں ہندوؤں سے نہ خریدیں اور جس طرح ہندو ان کے ہاتھ کی چیزیں نہیں کھاتے وہ بھی ہندوؤں کے ہاتھ کی نہ کھائیں.اس پر ہندو ایسے سیخ پا ہو رہے ہیں کہ جس ہندو اخبار
خطبات محمود 141 سال 1927ء کو اٹھاؤ اس میں یہی رونا ر دیا گیا ہے کہ قادیانی لوگ ہندوؤں سے چھوت چھات کرنے کی تلقین کر کے فتنہ پھیلا رہے ہیں.اور امام جماعت احمدیہ اس طرح شرارت کر رہا ہے.میں کہتا ہوں کہ اگر یہ شرارت ہے تو کیا تمہارے رشیوں منیوں اور تمہارے باپ دادوں نے مسلمانوں سے چھوت چھات کرنے کا حکم دیکر یہی شرارت نہیں کی.پھر اب تم کیوں ناراض ہوتے ہو.اگر مسلمانوں کا بدلے کے طور پر ہندوؤں کے ہاتھ کی چیزیں نہ کھانا شرارت ہے.تو پھر تمہارا کیا حال ہے جو چھ سو سال سے مسلمانوں کے ہاتھ کی چیزیں کھانے سے پر ہیز کر رہے ہو.میں نے اس بات کا اس لئے ذکر کیا ہے تا یہ بتاؤں کہ ایک ایسی بات جو تمدنی لحاظ سے مسلمانوں کے لئے نہایت ضروری ہے.اس کے متعلق تحریک کرنے سے ہندو اس قدر ناراض ہو رہے ہیں جس کی کوئی حد نہیں.میں پوچھتا ہوں اس پر تم کیوں ناراض ہوتے ہو.کیا اسی لئے نہیں کہ اس کا اثر تمہاری ذات پر پڑتا ہے.تمہاری پوری کچوری پر پڑتا ہے.اگر تمہیں اپنی پوری کچوری کے نہ بکنے کی وجہ سے اس قدر غصہ آ سکتا ہے تو خود ہی سوچ لو جب محمد اللہ کی ذات پر حملہ کیا جائیگا اس وقت مسلمانوں کو کس قدر غصہ اور جوش آئے گا.وہ قوم جو اپنے دہی بڑوں اپنے پکوڑوں اور اپنی جلیبیوں پر اس قدر غصہ اور جوش کا اظہار کر سکتی ہے اس کا کیا حق ہے کہ مسلمانوں کے پیارے آقا اور محسن کو گالیاں دے اور پھر کے مسلمان کیوں شور مچاتے ہیں.اس کے حوصلہ اور وسعت قلب کا اسی سے پتہ لگ گیا ہے کہ وہ بات جو جواب کے طور پر مسلمانوں کو شروع کرنے کے لئے کی گئی ہے اسی کے متعلق کہا جارہا ہے کہ یہ مرزا قادیانی کی شرارت ہے.لیکن یہی لوگ رسول کریم ا کی ہتک کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں مسلمان کیوں شور مچاتے اور کیوں گورنمنٹ سے کہتے ہیں کہ دل آزار تحریروں کو روکنے کے لئے قانون بنائے.اور پھر خود ہی نتیجہ نکالتے ہیں کہ مسلمان سمجھتے ہیں ان کے رسول کی ذات میں نقص پائے جاتے ہیں.میں کہتا ہوں مسلمانوں کے لئے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں وہ اگر شور مچاتے ہیں تو اس لئے کہ ہندو نا پاک حملے کرتے ہیں اور ان کو برا لگتا ہے.باقی رہا یہ کہنا کہ دوسرے مذاہب کے لوگ کوئی غصہ نہیں دکھاتے اس لئے معلوم ہوا ان میں وسعت حوصلہ بہت زیادہ ہے اور وہ اپنے مذہب پر حملوں کو فراخ دلی سے برداشت کر سکتے ہیں.درست نہیں.بلکہ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی انسانیت مرچکی ہے اور ان میں احساس ہی نہیں رہا کہ شرافت کیا ہوتی ہے دیکھو یہ عام بات ہے کہ اگر کسی شریف آدمی کے سامنے دوسرے کے باپ کو گالیاں دی جائیں تو وہ گالیاں دینے والے کو منع کرے گا کہ ایسا نہ کرو.یہ
خطبات محمود ۱۷۲ سال 1927ء شرافت سے بعید ہے.اگر وہ لوگ جو بانی اسلام علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف آریوں کی گالیوں پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں ان میں بھی انسانیت ہوتی اور ملک میں امن قائم رکھنا ضروری سمجھتے تو جب آریوں نے رسول کریم اے کو گالیاں دی تھیں سکھ یہودی عیسائی اور دیگر مذاہب والے اٹھ کھڑے ہوتے اور ان سے کہتے تمہاری یہ خلاف انسانیت حرکت ہم برداشت نہیں کر سکتے یہ کونسی شرافت ہے کہ تم مسلمانوں کے رسول کو گالیاں دے رہے ہو.اب اگر دوسرے مذاہب والوں نے یہ نہیں کیا تو یہ ان کی بے غیرتی اور بے ہودگی کا ثبوت ہے نہ کہ وسعت حوصلہ اور فراخ دلی کا.لیکن میں کہتا ہوں یہ بھی غلط ہے کہ دیگر مذاہب کے لوگ نہیں بولے.میں جانتا ہوں خود ہندوؤں میں ایسے لوگ ہیں جو آریوں کی بد زبانیوں کو سخت نا پسند کرتے ہیں.اسی طرح عیسائیوں میں ایسے لوگ ہیں جو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.تھوڑے ہی دن ہوئے ایک عیسائی اخبار نے ایک مضمون بھی اس بارے میں لکھا تھا سکھوں میں بھی ایسے لوگ ہیں جو آریوں کی بد زبانیوں کو نا پسند کرتے ہیں.چنانچہ ابھی چند دن ہوئے سیالکوٹ میں مسلمانوں نے ایک جلسہ کیا.اس میں جب ہمارے ایک مبلغ نے " در تمان " کا مضمون پڑھ کر سنایا تو معلوم ہوا کئی سکھوں کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے.بات اصل یہ ہے جس قوم میں شرافت ہو وہ ایسے افعال پر اظہار نفرت کرنے پر مجبور ہو گی ایسے تمام ہندوؤں.سکھوں عیسائیوں.پارسیوں کے ہم ممنون ہیں جو انسانیت کے قدردان اور غیر شریفانہ افعال پر اظہار نفرت کرنے والے ہیں.اور دوسرے خواہ وہ کسی قوم کے ہوں جنہوں نے اظہار نفرت نہیں کیا.ان کے متعلق کہتے ہیں انہوں نے سمجھا نہیں کہ انسانیت کا فرض ادا کرنے میں انہوں نے کس قدر کو تا ہی کی ہے اور انہوں نے خیال نہیں کیا کہ آج اگر مسلمانوں پر حملے کئے جارہے ہیں تو کل ایسا ہی وقت ان پر بھی آسکتا ہے.یہ بات نہ سمجھتے ہوئے وہ انسانیت کے فرض کی ادائیگی سے قاصر رہے ہیں.پھر ایک اور وجہ ہے جس سے مسلمان شور مچارہے ہیں اور وہ یہ کہ مسلمانوں کو منع کیا گیا ہے دوسرے مذاہب کے بزرگوں کو برا کہنے سے.ان کو بتایا گیا ہے کہ رسول کریم اے کے آنے سے پہلے تمام قوموں میں انبیاء آتے رہے ہیں.اس وجہ سے ایک مسلمان جہاں رسول کریم کی عزت کرتا ہے وہاں حضرت کی.حضرت موسیٰ حضرت ابراہیم ".حضرت نوح.حضرت حزقیل.حضرت دانیال کا بھی ادب کرتا ہے.اسی طرح اور مذاہب کے بزرگوں کے نام اگر چہ قرآن میں نہیں آئے.مگر قرآن کہتا ہے سب قوموں میں نبی بھیجے گئے.اس لئے ایک
خطبات محمود 14F سال 1927ء مسلمان زرتشت.کرشن.رام چندر اور تمام ان بزرگوں کو جن کا دوسری اقوام ادب کرتی ہیں ان کی عزت کرتا ہے.کیونکہ وہ جانتا ہے ان میں سے سارے یا بعض ایسے ہیں جو اپنی اپنی قوم کی ہدایت کے لئے خدا تعالی کی طرف سے مبعوث ہوئے تھے.اس وجہ سے اور قوموں کے لوگ سمجھتے ہیں کہ مسلمان ان کی بد زبانیوں کا جواب نہیں دے سکتے ورنہ مسلمان ایسا جواب دے سکتے ہیں کہ ان معترضین کو اپنے گھروں سے باہر نکلنا مشکل ہو جائے.ویدوں میں دیوتاؤں اور رشیوں کے جو حالات لکھے ہیں اور گیتا میں کرشن کے متعلق جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ ہم سے پوشیدہ نہیں.کیا ہندوؤں کی کتابوں میں یہ نہیں لکھا کہ ایک رشی ایک عورت پر عاشق ہو گیا اور اس کی ایسی حالت ہو گئی جو مرد عورت کے ملنے سے ہوتی ہے.اس پر اس نے دھوتی اتار کر رکھی تو اس دھوتی سے بچہ پیدا ہو گیا.پھر انہی کتابوں میں رکمنی کا جو واقعہ لکھا ہے وہ کس سے پوشیدہ ہے کہ کرشن جی اسے لیکر بھاگ جاتے ہیں.اسی طرح ان کتابوں میں اور جو سینکڑوں نہایت شرمناک واقعات درج ہیں وہ ہماری نظروں سے پوشیدہ نہیں.مگر ہم جانتے ہیں ان بزرگوں کی طرف جو گندے واقعات منسوب کئے گئے ہیں وہ سب جھوٹے ہیں.انہوں نے اپنے اپنے زمانہ میں دنیا میں صداقت قائم کی تھی اور وہ لوگوں کی اصلاح کے لئے آئے تھے.کیونکہ ہمیں قرآن بتاتا ہے کہ ہر قوم میں خدا نے نبی بھیجے اس وجہ سے ہم سب قوموں کے بزرگوں کو پار سا سمجھتے ہیں اور ان کے خلاف زبان درازی نہیں کرنا چاہتے.ورنہ ہم ہندوؤں کی اپنی کتابوں سے ہی وہ وہ واقعات لکھ سکتے ہیں کہ ہندوؤں کے لئے مجلسوں میں بیٹھنا مشکل ہو جائے.پس ہمارا مذہب ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم دوسرے مذاہب کے بزرگوں کے خلاف بد زبانی کریں لیکن اگر ہندوؤں کی طرف سے متواتر اسی طرح حملے جاری رہے تو ہمیں حملے کے طور پر نہیں بلکہ یہ بتانے کے لئے کہ ایسی باتوں سے کس قدر دکھ اور تکلیف پہنچتی ہے بتانا پڑے گا کہ ہندوؤں کی کتابوں میں کیا لکھا ہے ہمارے پاس اتنا ذخیرہ ہے کہ اگر ہندو باز نہ آئے اور گورنمنٹ نے ان کو نہ روکا تو ہمیں بھی وہ پیش کرنا پڑے گا اور ہمارے پاس اس کے لئے اتنا سامان ہے جو سارے ہندوستان کو جلا دینے کے لئے کافی ہے.ہندوستان کے کسی گوشہ کا کوئی رشی منی جسے ہندو پوجتے ہیں ایسا نہیں جس کے متعلق ہندوؤں ہی کی کتابوں میں ایسے واقعات موجود نہ ہوں جن کی کسی جگہ ہر گز مثال نہیں مل سکتی.اگر ہندوؤں نے اس گندی اور ناپاک جنگ کو بند نہ کیا.اور بلا وجہ ناپاک حملوں سے باز نہ آئے.اور ہندو قوم نے ایسے گندے لوگوں سے اظہار نفرت نہ کیا.
خطبات کے ۱۷۴ سال 1927ء اور گورنمنٹ نے بھی ان فتنہ انگیز لوگوں کو نہ روکا.تو یہ بتانے کے لئے کہ کس طرح مسلمانوں کے دل رکھتے ہیں.نہ کہ ہندوؤں کے بزرگوں کی ہتک کرنے کے لئے (کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ باتیں ان بزرگوں میں نہ ہونگی) ہم بھی کتابیں لکھیں گے اور ہر زبان میں انہیں شائع کریں گے.اس کے بعد میں اس کتاب کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جس نے سارے ہندوستان میں آگ لگا رکھی ہے.ہندو تو کہتے ہیں کہ مسلمان رنگیلا رسول.و چتر جیون اور ورتمان کا جواب نہیں دے سکتے اور ڈرتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے.مگر میں کہتا ہوں کہ ان گندی گالیوں اور بد زبانیوں کا جواب ہی کیا ہو سکتا ہے جو ان ناپاک کتابوں میں دی گئی ہیں.کیا ان میں کوئی علمی مضمون ہے جس کا جواب دیا جائے.اور کیا اس قسم کے اعتراض ہر انسان پر نہیں ہو سکتے.جس قسم کے ان کتابوں میں کئے گئے ہیں.آریہ خدا کے تو قائل ہیں.پھر روس کے ملک میں جو خدا پر اعتراض کئے جاتے ہیں.ان کے پاس ان کے کیا جواب ہیں.روسی جو د ہر یہ ہیں.تھیٹروں میں خدا کو مجرم کے طور پر دکھاتے اور لیفن کو حج بنا کر اسکے سامنے پیش کرتے ہیں.اور دنیا میں جو حادثات ہوتے ہیں.ان کو جرم کے طور پر پیش کر کے یہ الزام لگاتے ہیں کہ نعوذ باللہ اتنا بڑا مجرم ہے.اور پھر سزا دیتے ہوئے کہتے ہیں خدا کا خاتمہ ہو گیا.اور اب لینن کی پر انصاف حکومت قائم ہو گئی ہے.تو ایسے رنگ میں بد زبانی کرنے والے تو خدا کے متعلق بد زبانی سے بھی نہیں رکھتے.اور گالیوں کے لئے دلائل کی ضرورت ہی کونسی ہوتی ہے.اسی طرح کتاب را جپال اور ورتمان میں کونسی دلیل ہے جس کا ہم جواب دیں.اس کا جواب سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ ایسے بد زبانوں کی یا ان کی قوم کے لوگوں کی شرافت ابھرے اور وہ اس بد زبانی سے باز آجائیں یا پھر گورنمنٹ روکے درنہ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ ملک میں فساد ہونگے.رسول کریم ان کی عزت کے متعلق مسلمانوں میں اس وقت بے انتہا جوش ہے باوجود اس کے کہ میں متواتر توجہ دلا رہا ہوں کہ مسلمان امن سے رہیں اور فتنہ پرداز لوگوں کی شرارتوں سے مشتعل نہ ہوں.اور باوجود اس کے کہ مسلمان میری باتوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں.پھر بھی اس قسم کے خطوط آتے ہیں.کہ آپ کیوں مسلمانوں کے جوش کو ٹھنڈا کرتے ہیں.آپ ہمیں وہ کچھہ کر لینے دیں جو ہمارا دل چاہتا ہے.یہ بات بتاتی ہے کہ اس وقت کس طرح مسلمانوں کے دلوں میں رسول کریم ﷺ کی محبت موجزن ہے.ایسی حالت میں آریوں کا یہ کہنا کہ مسلمان اس لئے شور مچارہے ہیں.کہ وہ جانتے ہیں.ان کے رسول کی زندگی میں رنگیلا پن پایا جاتا ہے." آگ پر تیل ڈالنا نہیں تو اور کیا ہے.اس
خطبات محمود 140 سال 1927ء جملہ میں رسول کریم ای کی اور زیادہ ہتک ہے.کیونکہ کتاب "رنگیلا رسول " شائع کرنے والے نے جو کچھ لکھا اپنی طرف سے لکھا.اور جو ناپاک کلمات کے اپنی طرف سے کے.لیکن " پر تاپ" یہ کہتا ہے کہ مسلمانوں کے اپنے دل بھی مانتے ہیں کہ ان کے رسول کی زندگی میں ایسے نقص پائے جاتے ہیں.جن کی وجہ سے جائز طور پر نکتہ چینی کی جا سکتی ہے.گویا کتاب "رنگیلا رسول" شائع کرنے والا تو یہ لکھتا ہے کہ اس کے اپنے نزدیک یہ یہ نقص آپ میں پائے جاتے ہیں.مگر " پر تاپ یہ کہتا ہے کہ مسلمان خود بھی مانتے ہیں.کہ ان کے رسول میں نقص پائے جاتے ہیں.اب میں اس کتاب کو لیتا ہوں اس کتاب کا لکھنے والا رسول کریم ﷺ کا نام رنگیلا رکھتا ہے.اور رنگیلا ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو عواقب زمانہ کا خیال نہ رکھتا ہو.اپنی زندگی عیش و عشرت میں گزارتا ہو.انجام اور عاقبت کو کچھ وقعت نہ دیتا ہو.چنانچہ ہندوستان کے ایک بادشاہ محمد شاہ کا نام رنگیلار کھا گیا تھا.جس کی وجہ یہ ہے کہ جب اس پر غنیم چڑھ کر آیا اور اس کی خبر اس تک بذریعہ تحریر پہنچائی گی تو اس نے اس کاغذ کو شراب کے پیالہ میں ڈال دیا.آخر اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا.اس وجہ سے اس کا نام رنگیلا ہو گیا.کیونکہ اس نے عواقب پر نظر نہ کی بلکہ شراب و کباب اور عورتوں کی صحبتوں میں مصروف رہا.رسول کریم ﷺ کو نعوذ باللہ رنگیلا کہہ کر یہی الزام اس کتاب والا آپ پر لگاتا ہے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا رسول کریم ﷺ پر کوئی عقلمند ایسے الزام لگا سکتا ہے.ہر شخص جو آپ کی زندگی کے حالات سے واقف ہو جانتا ہے کہ سوائے اس شخص کے جو خود شراب کی ترنگ میں ایسی کتاب لکھے.اور کوئی یہ الزام آپ پر نہیں لگا سکتا.اور یہ دیکھا گیا ہے کہ شرابی جب شراب پی کر مخمور ہو جاتے ہیں تو دوسروں سے کہتے ہیں ہم تو ہوش میں ہیں تم نشہ میں ہو.یہی اس شخص کا حال ہے جس نے یہ کتاب لکھی.واقعی اس نے شراب کے نشہ میں یا فطرت کی گندگی کی وجہ سے اپنے نفس کے عیب اس مصفی آئینہ میں دیکھے جس سے بڑھ کر نہ کوئی مصفی آئینہ پیدا ہوا اور نہ ہو گا.جس طرح ایک بد شکل اور سیاہ رو جب شیشہ میں اپنی شکل دیکھے تو سمجھے کہ یہ شیشہ کا قصور ہے.اسی طرح اس کی حالت ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کتاب کا مصنف خود رنگیلا ہے جسے نہ خدا کا خوف ہے نہ دنیا کا ڈر.ورنہ رسول کریم ﷺ کی زندگی کو جب دیکھا جائے تو اس کا کوئی حصہ ایسا نہیں نظر آتا جس میں رنگیلا پن کا شائبہ بھی پایا جائے اور اس بات کو دشمن بھی مانتے ہیں.میں نے بتایا ہے رنگیلا اسے کہا جاتا ہے جو شراب میں بد مست رہے.اور اس طرح زندگی بسر
ن محمود 164 سال 1927ء کرے کہ بد مستی یا لا ابالی میں کسی وجہ سے دنیا کے غموں کو اپنے پاس نہ آنے دے.پس پہلی چیز رنگیلے شخص کے لئے بدمستی ہے.لیکن ہر شخص جسے عقل سے ذرا بھی مس ہو وہ جانتا ہے کہ دنیا سے شراب کا مٹانے والا ایک ہی شخص ہے یعنی محمد ہے.اگر نعوذ باللہ آپ میں رنگیلا پن ہو تا تو اس وقت جب کہ اس کتاب کے لکھنے والے کے باپ دادا مٹکوں کے مٹکے شراب کے اڑاتے تھے.بلکہ دیوی دیوتاؤں کو بھی پلاتے تھے.اس وقت محمد اللہ شراب کی ممانعت کا حکم نہ دیتے.مگر اس زمانہ میں کہ آپ کی قوم دن رات شراب میں مست رہتی تھی آپ نے شراب کی ممانعت کا حکم دیا.آپ کے اس حکم کا اثر اور تصرف دیکھو.کچھ لوگ ایک جگہ بیٹھے شراب پی رہے تھے اور نشہ کی حالت میں تھے کہ باہر سے آواز آئی.شراب حرام کر دی گئی.اس وقت ایک شخص نے جو اس مجلس میں شامل تھا کہا اٹھ کر پوچھو تو سہی کہ اس بات کی تفصیل کیا ہے.مگر اس نشہ کی حالت میں ایک دوسرا شخص سونا اٹھا کر شراب کے مسئلے پر مارتا ہے اور کہتا ہے کہ جب ایک شخص کہہ رہا ہے کہ شراب حرام ہو گئی ہے تو اب میں پہلے منکا تو ڑ دونگا پھر پوچھوں گا کہ کیا کہتا ہے.آواز یہ آئی ہے کہ محمد ﷺ نے شراب حرام کر دی.اگر یہ بات غلط بھی ہے تو بھی میں پہلے منکا توڑوں گا پھر اس کی تصدیق کرونگا.چنانچہ وہ مٹکا تو ڑ دیتا ہے.اور پھر پوچھتا ہے کیا رسول کریم اس نے شراب حرام کر دی؟ جب بتایا جاتا ہے کہ ہاں آپ نے شراب حرام کر دی تو سب پکار اٹھتے ہیں اچھا ہم نے شراب چھوڑ دی.میں پوچھتا ہوں کیا وہ انسان جس نے شراب کو ایک ملک کے ملک سے ایک حکم کے ساتھ ایسے طور پر مٹا دیا کہ پھر کسی نے اس کا نام نہ لیا.اور اس قوم سے شراب چھڑائی کہ جو کم سے کم دن رات آٹھ دفعہ شراب پیتے تھے اور اس پر فخر کرتے تھے.اس کی طرف رنگیلا پن منسوب کیا جا سکتا ہے ؟ اگر وہ رنگیلا کہلا سکتا ہے تو ہندوؤں کے بزرگ جو شراب سے منع نہیں کرتے تھے بلکہ خود شرابیں پیتے تھے.کیا کہلائیں گے ؟ رنگیلا پن کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ ایسا انسان انجام کی کوئی فکر نہ رکھے.لیکن محمد کی تعلیم کو پڑھو اور پھر بتاؤ کیا اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے.اس کتاب میں جو آپ کو خدا تعالی کی طرف سے ملی.دیکھو کس طرح انسان کو بار بار موت یاد دلائی گئی ہے.اور کس طرح آپ اپنے ماننے والوں کو تلقین فرماتے ہیں کہ اٹھتے بیٹھتے.سوتے جاگتے.چلتے پھرتے موت کو یاد کرو.کیا دنیا کی کوئی کتاب ایسی ہے جو عاقبت سے اتنا ڈراتی ہو جتنا قرآن کریم ڈراتا ہے.قرآن کریم کا حجم
خطبات محمود 146 سال 1927ء دیدوں سے بائبل سے.اور ژند اوستا سے بہت کم ہے.اور میرے نزدیک تمام ان کتابوں سے کم ہے جنہیں خدا کی سمجھا جاتا ہے.مگر میں چیلنج دیتا ہوں کہ جس قدر قرآن میں انجام اور عاقبت کے متعلق ڈرایا گیا ہے.اس کا چوتھا حصہ بھی کسی اور کتاب سے نکال کر دکھا دیا جائے.تو میں اپنی شکست تسلیم کرلوں گا.اگر کوئی نہیں دکھا سکتا تو میں پوچھتا ہوں.کیا جس انسان میں رنگیلا پن پایا جائے اور جو انجام سے لا پرواہ ہو.اس کے حرکات و سکنات میں.اس کی گفتگو میں اس کی تعلیم میں کیا اس قدر انجام کا خیال رکھنے کی تعلیم ہو سکتی ہے ؟ پھر رنگیلا پن میں عورتوں سے تعلق بھی شامل ہے.لیکن ذرا بتایا تو جائے کہ دنیا میں کونسی کتاب اور کونسا مذ ہب اور کونسا انسان ایسا ہے.جس نے پردہ کا حکم دیا ہو.اور اس وقت دیا ہو جب کہ عورت و مرد آپس میں خلا ملا رکھتے ہوں.عورتوں کی صحبتوں سے لذت اٹھاتے ہوں.بغیر کسی جھجک اور حجاب کے کھلے طور پر ایک دوسرے سے ملتے ہوں.کیا ان سب باتوں سے روک کر پردہ کا حکم جاری کرنا.اور یہ کہنا کہ مرد و عورت اس طرح ایک دوسرے سے نہ ملا کریں کسی رنگیلے کی تعلیم ہو سکتی ہے اگر نعوذ باللہ رسول کریم میں رنگیلا پن ہوتا تو چاہئے تھا کہ آپ کہتے عورتوں مردوں کو خوب محفلیں گرم کرنی چاہئیں اور ایک دوسرے کے ساتھ ملنے سے کوئی پر ہیز نہیں کرنا چاہئے.آپس میں خوب نفسی تمسخر کرنا چاہئے.مگر آپ نے یہ فرمایا کہ مرد و عورت علیحدہ علیحدہ رہیں اور نامحرم کی شکل تک نہ دیکھیں.کیا اس کو رنگیلا پن کہا جا سکتا ہے.پھر رنگیلا پن کی یہ خاصیت ہے کہ جس میں پایا جائے وہ کسی قسم کی ہیبت اور خوف کو اپنے اوپر مستولی نہیں ہونے دیتا.مگر رسول کریم ﷺ کی ذات کو دیکھو.صبح شام رات دن خدا تعالٰی کا ذکر کرتے ہیں اور اس کثرت سے کرتے ہیں کہ فرانس کا ایک مشہور مصنف لکھتا ہے.محمد اے کے متعلق خواہ کچھ کہو مگر اس کی ایک بات کا مجھ پر اتنا اثر ہے کہ میں اسے جھوٹا نہیں کہ سکتا.اور وہ یہ کہ رات دن اٹھتے بیٹھتے سوائے خدا کے نام کے اس کی زبان سے کچھ نہیں نکلتا.اور ہر لحہ اور ہر گھڑی وہ خدا کی عظمت اور اس کی محبت کو پیش کرتا ہے.وہ لکھتا ہے میں کس طرح مان لوں کہ یہ شخص جو سب سے زیادہ خدا تعالیٰ کو پیش کرنے والا ہے خدا پر افتراء باندھتا ہے.اب یہ ایک دشمن کی گواہی ہے.جس نے رسول کریم اے کی زندگی کو تنقید کے طور پر مطالعہ کیا.پس جب کہ رسول کریم ہر وقت اس طرف توجہ دلاتے رہے کہ ایک بالا ہستی ہے.اس کی شان اور عظمت بیان کرتے رہے.اس کے جلال اور
" خطبات محمود سال 1927ء جبروت سے ڈراتے رہے.تو کیونکر تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ آپ میں (نعوذ باللہ ) رنگیلا پن پایا جاتا تھا.پھر میں کہتا ہوں رنگیلا پن کا موقع کھانے پینے یا مرد عورت کے تعلقات کا ہے.مگر اس وقت بھی رسول کریم ا یہ تعلیم دیتے ہیں کہ جب کھانے بیٹھو تو خدا کا نام لو.جب کوئی چیز پینے لگو تو خدا کا نام لو کہ یہ سب چیزیں اسی نے تم کو عطا کی ہیں.اسی طرح جب مرد و عورت کے تعلقات ہوتے ہیں.اور جب عیش و عشرت کرنے والے چاہتے ہیں کہ کسی قسم کا فکر ان کے پاس نہ آئے.اور اسی غرض کے لئے شراب پیتے ہیں.اس وقت کے متعلق بھی آپ فرماتے ہیں.یہ وقت بھی خدا تعالٰی کو بھولنے کا نہیں.اس وقت تم دعا کرو کہ تمہارے ملنے کا نتیجہ برانہ پیدا ہو بلکہ اچھا پیدا ہو.پس جو انسان میاں بیوی کے جائز تعلقات کے وقت بھی کہتا ہے رنگیلا پن مت اختیار کرو.بلکہ اس موقع پر بھی خدا کو یاد رکھو.جو پردہ کا حکم دیکر عورتوں کو بالکل مردوں سے علیحدہ رہنے کا حکم دیتا ہے.جو شراب کا پینا قطعاً چھڑا دیتا ہے.کیا اسے ان مذاہب کے پیروؤں کا جن میں شراب پینا جائز ہے جن میں مرد اور عورتیں آزادی سے خلا ملا رکھتے ہیں.جن میں رنگیلا پن کی ساری باتیں پائی جاتی ہیں.حق ہے کہ ایسے انسان پر اعتراض کریں.کیا ان اقوام کا فرد رسول کریم ای کو رنگیلا کہہ کر اپنے سیاہ چہرہ کو آپ کے مصفی آئینہ میں نہیں دیکھتا؟ یقینا وہ اپنا ہی گند دیکھتا ہے.یا پھر وہ پاگل خانہ میں بھیجے جانے کے قابل ہے.وہ شخص جو اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ رسول کریم نے شراب پینے سے بالکل روک دیا.پردہ کا حکم جاری کر دیا.کھانے پینے اور مرد و عورت کے جائز تعلق کے وقت خدا کو یاد رکھنے کی تلقین کی.موت کو ہر وقت سامنے رکھنے کی ہدایت کی.ہر وقت خدا کے جلال سے ڈرنے اور اس کی رحمت کی امید رکھنے کا سبق پڑھایا.اور باوجو د بادشاہ ہونے کے بغیر چھنے اور پتھروں سے کوٹ کر بنے ہوئے آئے پر گزارہ کیا.آپ کی طرف رنگیلا پن منسوب کرتا ہے.وہ اگر اول درجہ کا خبیث اور جھوٹا نہیں تو اول درجہ کا پاگل ضرور ہے اور پاگل خانہ میں بھیجنے کے قابل ہے.ان حالات کے ماتحت جو قوم رسول کریم ﷺ پر اعتراض کرتی اور الزام لگاتی ہے.اس کے دماغ میں نقص اور عقل میں فتور ہے.یا وہ ملک میں فتنہ پیدا کرنا چاہتی ہے میں دعا کرتا ہوں کہ اگر ایسی قوم پاگل ہو گئی ہے.تو خداتعالی اس کے جنون کو دور کرے.اور اگر شرارت کر رہی ہے تو اس کے فتنے کو مٹائے.ورنہ اگر یہی حالت رہی تو اتنے فتنے رونما ہوں گے جن کا مٹانا نہ گورنمنٹ کی طاقت میں ہو گا اور نہ پالک کی طاقت میں.الفضل ۲۳ / اگست ۱۹۲۷ء )
خطبات محمود 169 ۲۲ سال 1927ء توکل علی اللہ کا صحیح مفہوم (فرموده ۲۹/ جولائی ۱۹۲۷ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ایک مومن اور غیر مومن میں سب سے بڑا فرق یہی ہوا کرتا ہے کہ مومن اپنے کاموں کی بنیاد اپنے سے ایک بالا ہستی کے احکام پر رکھتا ہے.اور غیر مومن اپنے ایمان کی کمزوری یا فقدان کی وجہ سے علی حسب مراتب اپنے کاموں کی بنیاد اپنے سے بالا ہستی پر کمزور طور پر یا بالکل ہی نہیں رکھتا.پس در حقیقت جب کوئی اپنے آپ کو مومن کہتا ہے.تو اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ اس کے کام دنیا میں محض اس کی عقل اس کی تدبیر اور اس کی کوشش سے وابستہ نہیں.ان کا دخل اور واسطہ ایک اور ہستی سے ہے جو سب مخلوق کو پیدا کرنے والی ہے اور ان کے سب کاموں کی نگران ہے.لیکن اگر باوجود اس دعوئی کے مومن کے اعمال سے یہ بات ثابت نہ ہو تو اس کا مومن ہونے کا دعوئی محض ایک دھوکا اور قریب ہو گا.اگر ایک مومن اور غیر مومن کے کاموں میں فرق نہ ہو.جس طرح ایک دہریہ کے اعمال اس کی اپنی خواہشات اپنی عقل اور اپنی تدبیر پر مبنی ہوتے ہیں.اسی طرح اگر ایک مومن کہلانے والے کی خواہشات اور اس کے جذبات اس کے کام اس کی اپنی عقل اپنی تدبیر اور اپنی کوشش پر مبنی ہوں تو دونوں میں کوئی فرق نظر نہیں آئے گا.اور یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس شخص کے ایمان نے دوسرے کے کفر کی نسبت اس میں کوئی تبدیلی پیدا کی ہے.اور جس ایمان نے کوئی تبدیلی نہیں پیدا کی.اسے کسی نے کرنا کیا ہے.وہ بالکل بے حقیقت اور بے قیمت چیز ہے.وہ نہ اس کو نفع دے سکتا ہے نہ دوسروں کو.جب ایک شخص ایمان لاتا اور مومن کہلاتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ اپنے اندر ان لوگوں کے مقابلہ میں تغیر پیدا کرے جو مومن نہیں کہلاتے کیونکہ جب تک اس کا ایمان اس میں تغیر نہیں پیدا کر تا ایمان نہیں کہلا سکتا اور کچھ قدر و قیمت
خطبات محمود 1A • سال 1927ء نہیں رکھتا.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے مسلمانوں کے لئے ایک گر بتایا ہے.اور ان کو کامیابیوں کے لئے ایک راز سے آگاہ کیا ہے.اور ہر مسلمان کو توجہ دلائی ہے کہ اس گر پر عمل کرے.وہ گر کیا ہے ؟ وہ تو کل علی اللہ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہر وہ بندہ جو مجھے پر ایمان لاتا ہے اس کا فرض ہے کہ مجھ پر توکل کرے اس کی تمام دینی اور دنیوی کامیابیوں کار از اسی میں ہے.تو کل کے معنی عربی میں کسی کام کو پورے طور پر لے لینے اور کسی کام کو پورے طور پر کسی کے سپرد کر دینے کے ہیں.ان معنوں کی وجہ سے مسلمانوں میں بعض لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہو گیا ہے کہ توکل کے معنی یہ ہیں کہ انسان خود کام چھوڑ کر بیٹھ جائے.کچھ محنت اور کوشش نہ کرے.اور یہ سمجھ لے کہ خدا خود بخود سب کچھ کر دے گا.چنانچہ مسلمان سمجھتے ہیں خدا پر توکل کرنے والا وہی ہوتا ہے جو ہر قسم کی محنت سعی اور کوشش سے آزاد ہو جائے.اگر کوئی محنت اور کوشش کرتا ہے تو وہ خدا پر توکل نہیں کرتا.اس خیال کی وجہ سے مسلمانوں میں عام طور پر ستی اور لاپرواہی پیدا ہو گئی ہے اور وہ اس حد تک غفلت برتنے لگ گئے ہیں کہ ان کے تمام کاموں میں غفلت اور سستی کے آثار پائے جاتے ہیں.ان کا زمیندارہ لوتب- تجارت لوتب- پیشوں کو لوتب ان سب میں دوسری قوموں کے مقابلہ میں بے حدست نظر آتے ہیں.اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ سارے کے سارے مسلمان تھک کر چور ہو چکے اور زندگی سے بیزار بیٹھے ہیں.اگر تو کل کا یہی نقشہ نظر آئے.اور وہ تو کل جس کا حکم خدا تعالٰی نے اپنے بندوں کو دیا ہے اس کا یہی نتیجہ ہو کہ دنیا میں غافلوں.مستوں اور نکموں کی ایک جماعت پیدا ہو جائے.جس کے چہروں سے ظاہر ہو کہ زندگی سے تنگ آئے ہوئے ہیں اور مرنا چاہتے ہیں.وہ لوگ اگر انھیں تو ایسا معلوم ہو کہ ساری دنیا کا بوجھ ان کے اوپر رکھ دیا گیا ہے.اور اگر بیٹھیں تو یوں معلوم ہو کہ آسمان سے دھکے دے کر انھیں گرایا گیا ہے.وہ اگر کام کریں تو یوں معلوم ہو کہ ان کے ہاتھ کئی کئی من کے بو جھل ہیں.وہ اگر بات کریں تو یوں معلوم ہو کہ رو رہے ہیں.وہ اگر آنکھ کھولیں تو یوں نظر آئے کہ نیند کے غلبہ سے مدہوش ہیں.اگر یہی تو کل کا نتیجہ ہے تو ہم کہیں گے کہ خدا تعالیٰ نے قیامت کو جلد لانے کے لئے تو کل کا حکم دیا ہے تاکہ اس طرح لوگ جلدی تباہ و برباد ہو جائیں.لیکن کیا کوئی عظمند یہ خیال کر سکتا ہے کہ اللہ تعالی کسی قوم کی ترقی کے لئے وہ حکم دے جو اس کی تباہی کا باعث ہو.کیا خدا تعالی کو اپنا منشاء پورا کرنے کے لئے (نعوذ باللہ ) و ھوکوں اور فریبوں کی ضرورت ہے.یوں تو وہ دنیا پر قیامت نہیں لا سکتا تھا.اس نے کہا چلو تو کل کا حکم دو.جب لوگ اس پر عمل کریں گے تو تباہ و برباد
خطبات محمود JAI سال 1927ء ہو جائیں گے مگر مسلمانوں کی یہ حالت تو کل کا نتیجہ نہیں بلکہ امید کے فقدان کا نتیجہ ہے جب کسی قوم کے دل سے امید مٹ جاتی ہے تو وہ ہر کام اور ہر فعل میں ست اور غافل ہو جاتی ہے.ورنہ تو کل کے ذریعہ تو امید پیدا ہوتی ہے کیونکہ اس کے معنی ہیں ایک ایسی ہستی جو ہمارے تمام کام کر سکتی ہے اس کے سپرد ہم نے اپنے کام کر دیئے ہیں.اب بتاؤ جس کا کام کسی بڑے بااثر اور بارسوخ انسان کے سپرد ہو جائے وہ خوش ہوا کرتا ہے یا رونا شروع کر دیتا ہے.مثلاً کسی پر مقدمہ ہو اور وہ اپنے مقدمہ میں سب سے بڑا اور مشہور وکیل کرلینے میں کامیاب ہو جائے تو اس کے چہرہ پر خوشی اور بشاشت کے آثار نمایاں ہونگے یا مُردنی چھا جائے گی.گو ضروری نہیں کہ اعلیٰ درجہ کا وکیل کر لینے کی وجہ سے اسے مقدمہ میں ضرور کامیابی حاصل ہو جائے.کیونکہ اعلیٰ سے اعلیٰ وکیل بھی مقدمے ہار جاتے ہیں.مگر کسی قابل وکیل کی خدمات کا حاصل ہو جاناہی بڑی خوشی اور اطمینان کا موجب ہو جاتا ہے.اور ایسا شخص خوش اور بشاش نظر آتا ہے.یا مثلا کسی کے گھر ایسا مریض پڑا ہو.جس پر نا امیدی اور مایوسی چھائی ہوئی ہو وہاں ملک کا بہترین ڈاکٹر آجائے اور مریض کے لواحقین اس کی خدمات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں.تو اس مریض کو خوشی ہوگی یا وہ غم میں ڈوب جائے گا.یقیناً اس کے چہرہ سے خوشی کے آثار ظاہر ہونگے.یہ پتہ نہیں کہ مریض اس کے علاج سے اچھا ہو یا نہ ہو.مگر یہ خیال کہ کامیاب ڈاکٹر اس کا علاج کرے گا.اسی سے اس کے چہرہ پر بشاشت آجائے گی.ہم نے تو دیکھا ہے اگر مرتے ہوئے مریض کے پاس بھی اعلیٰ درجہ کا طبیب آجائے تو اس کے چہرہ پر رونق آجاتی ہے.اور اس کے لواحقین بڑے تپاک سے ایسے ڈاکٹر کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں.پس ایک مرتے ہوئے مریض کو لائق ڈاکٹر کے سپرد کرنے پر اور ایک شکست کھا جانے والے مقدمہ کے لئے اعلیٰ درجہ کے وکیل کی خدمات حاصل ہو جانے پر انسان خوش ہوا کرتا ہے.یا اس کے چہرہ پر مایوسی دوڑ جاتی ہے.اگر خوش ہوا کرتا ہے تو پھر کیا یہ ممکن ہے.کہ ایک خدا جس میں سب طاقتیں پائی جاتی ہیں جو انسان کی ہر تکلیف کو دور کر سکتا ہے.جو ہر مصیبت کے وقت کام آسکتا ہے.اس کے سپرد ہم اپنے کام کریں.مگر اس کا نتیجہ یہ ہو کہ ہمارے چہروں پر مردنی چھا جائے.اور ہم نا امید اور مایوس ہو کر بیٹھ جائیں.یہ بالکل ناممکن ہے اگر واقعہ میں تو کل کے معنی اپنے ہر ایک کام کو خدا تعالیٰ کے سپرد کرنا ہے.اور واقعہ میں ہمارا اعتقاد ہے کہ خدا ہے اور اس کے سپرد ہم نے کام کر دیا ہے.تو یقینا ہمیں خوش ہو نا چاہئے.اور ہمارے چہروں پر بشاشت جھلکنی چاہئے.اگر اچھا ڈاکٹر مل جانے پر اور اعلی وکیل کی خدمات حاصل ہو جانے پر لوگ
۱۸۲ سال 1927ء خوش ہوتے ہیں.حالانکہ کوئی بڑے سے بڑا وکیل بھی یہ یقین نہیں دلا سکتا.کہ اس کے ذریعہ ضرور مقدمہ میں کامیابی حاصل ہوگی.اور کوئی مشہور سے مشہور ڈاکٹر یہ دعوئی نہیں کر سکتا کہ مریض کو ضرور اچھا کر دے گا.لیکن جب اپنا معاملہ خدا تعالٰی کے سپرد کیا جائے تو بجائے خوشی کے آثار کے اور چستی کی نمود کے چہروں سے اداسی اور مُردنی ٹپک رہی ہو.ہم ست اور غافل ہو جائیں.تو کون کہہ سکتا ہے کہ ہم نے تو کل پر عمل کیا.پس وہ تو کل نہیں ہو تا جس کے نتیجہ میں مردنی اور مایوسی پیدا ہوتی ہے.تو کل امید پیدا کرتا ہے.کیونکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ ہم نے اپنا کام سب سے اعلیٰ اور سب سے طاقت ور ہستی کے سپرد کر دیا ہے مگر مسلمانوں کی موجودہ حالت دیکھو اور پھر اندازہ لگاؤ.کہ کیا واقعہ میں انہوں نے خدا تعالیٰ پر توکل کیا ہوا ہے.میں تو کل کے معنی آگے بیان کروں گا.یہاں میں یہ کہتا ہوں کہ جسے تو کل کہا اور سمجھا جاتا ہے.اس کا نتیجہ دیکھو.اس کے نتیجہ میں تو اُمنگ.چستی اور بشاشت پیدا ہونی چاہئے.نہ کہ نا امیدی سستی اور مردنی.دیکھو ایسے وقت جب کہ ایک فوج ہار رہی ہو.ایک بڑا کامیاب جرنیل وہاں پہنچ جائے.جس کے سپرد فوج کی کمان کر کے کہا جائے لیجئے اب آپ مقابلہ کریں.تو اس وقت وہ فوج ست ہو جائے گی یا چست یا مثلاً ایک جگہ مباحثہ ہو رہا ہو اور ایک فریق کا مناظر ہار رہا ہو کہ اس کی امداد کے لئے ایک زبر دست مناظر وہاں پہنچ جائے اور خود مناظرہ کرنا شروع کر دے تو کیا اس وقت وہ لوگ کی ست پڑ جائیں گے یا ان میں چستی آجائے گی.اگر واقعہ میں مسلمان خداتعالی پر توکل کر رہے ہوتے تو ان کے ہر کام ہر فعل اور ہر پیشہ میں چستی چالا کی پائی جاتی.مگر اس کی بجائے ہر پیشہ میں ستی نظر آتی ہے.اور ان کے چاروں طرف ناکامی کے آثار نمایاں ہوتے ہیں.میں نے پچھلے دنوں مسلمانوں کی ہمدردی اور ان کی بہتری کے لئے ایک اعلان شائع کیا تھا.ہماری جماعت جتنی غریب اور جیسی قلیل ہے اسے اکثر لوگ جانتے ہیں.گو بعض نہیں بھی جانتے اور وہ سمجھتے ہیں بڑی مالدار جماعت ہے.میں نے اعلان کیا تھا کہ مسلمانوں کو ملازمتوں اور دوسرے کاروبار میں جو دقتیں ہوں ان سے اطلاع دیں.تاجہاں تک ہم سے ہو سکے ہم ان کی مدد کریں.یا جو دوسرے مسلمان دور کر سکیں ان سے دور کرائیں.اس پر ان دو مہینوں میں قریب قریباً دو لاکھ روپیہ کی درخواستیں میرے پاس آچکی ہیں.جو لوگوں نے بھیجی ہیں اور وہ لکھتے ہیں کہ ہمارے لئے اتنے روپیہ کا انتظام کر دیں.اگر چہ میں نے اعلان میں صاف طور پر لکھ دیا تھا کہ ہم کس قسم کی مدد کریں گے مگر باوجود اس کے مسلمانوں کے افلاس کی حالت اس درجہ درد ناک ہے
خطبات محمود ۱۸۳ سال 1927ء کہ دو لاکھ روپیہ کا مطالبہ کیا جا رہا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان کس حد تک گر چکے ہیں.اور اس سے پتہ لگتا ہے کہ تو کل ان میں نہیں ہے بیسیوں جگہ سے درخواستیں آرہی ہیں کہ مسلمان دکامیراروں کی ضرورت ہے.ایک علاقہ میں پانچ سو دکانوں کی ضرورت ہے.مگر وہاں کے لئے مسلمان دکاندار ملتے نہیں.اپنی جماعت کے لوگ نہیں شیعہ سنی وہابی.چکڑالوی غرض کوئی مسلمان کہلانے والا ہو اس کی ہم مدد کرنے کے لئے تیار ہیں.مگر مسلمانوں کو اتنی ہمت نہیں پڑتی کہ وہاں جا کر دکان کریں.بھوکے مر رہے ہیں.فاقے جھیل رہے ہیں.ان کے مکان اور زمینیں بک چکی ہیں.بے حد مقروض ہو چکے ہیں.مگر یہ نہیں کہ دوسرے علاقہ میں جاکر کچھ کاروبار کریں.کوئی تجارت کریں.میں اس وقت کی تحریک کے مطابق خیال کرتا ہوں کہ چار پانچ ہزار مسلمان دکانیں کھول سکتے ہیں.اور ایک سو روپیہ تک کی پونجی لگا کر پچیس تیس چالیس روپیہ ماہوار کما سکتے ہیں.مگر مسلمانوں میں یہی خیال بیٹھا ہوا ہے کہ خدا نے رزق دینا ہو گا تو اپنے گھر میں ہی دے دے گا کسی دوسری جگہ جانے کی کیا ضرورت ہے.اور اسے وہ تو کل کہتے ہیں.حالانکہ یہ محض ستی اور کم ہمتی کی وجہ سے ہے.تو کل میں سستی نہیں ہو سکتی.دیکھو ایک مایوس مریض کو کسی قابل ڈاکٹر کا پتہ لگ جائے تو اس کے لواحقین اس کے آگے پیچھے دوڑتے پھرتے ہیں.اور جو کچھ وہ بتاتا ہے بڑی چستی اور ہوشیاری سے کرتے ہیں.اسی طرح اگر کسی کو ایک اعلیٰ درجہ کا وکیل مل جائے تو وہ جو کچھ کہے اس کی نہایت سرعت اور ہوشیاری سے تعمیل کی جاتی ہے.مگر خدا کے سپرد کام کرنے کا یہ مطلب سمجھا جاتا ہے کہ انسان کو خود کچھ نہیں کرنا چاہئے.مگر یہ تو کل نہیں بلکہ عدم تو کل ہے.اصل بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے توکل کے معنی سمجھے نہیں.جب یہ لفظ بولا جاتا ہے تو تین پہلو یہ اپنے اندر رکھتا ہے.اول یہ کہ اپنے کاموں کو پورے طور پر کسی کے سپرد کر دیتا.دوم یہ کہ اس کی بتائی ہوئی تدابیر پر کامل طور پر عمل کرنا.اسے اپنا سہارا بنا لینا.اور جو وہ کہے اسے اختیار کرنا.سوم یہ کہ یقین رکھنا کہ ان تدابیر پر عمل کر کے ضرور کامیاب ہو جائیں گے.یہ تین حصے تو کل کے ہیں اور یہ تین شرطیں اس میں پائی جاتی ہیں.ان تینوں معنوں کے لحاظ سے دیکھ لو.ان میں ستی غفلت یا کام کو چھوڑ دینا کہاں پایا جاتا ہے ؟ تو کل میں پہلی بات یہ ہے کہ پورے طور پر کام سپرد کر دیتا.اب وہ لوگ جو کہتے ہیں چونکہ ہم نے خدا پر تو کل کیا ہے اس لئے خود کچھ کرنے کی ضرورت نہیں.وہ کھانا کیوں کھاتے ہیں.کپڑے کیوں پہنتے ہیں.اپنی دوسری ضروریات کیوں خود پورا کرتے ہیں.انہوں نے باقی کو نسا کام چھوڑ دیا ہے کہ قومی ترقی اور قومی بہتری کے متعلق وہ
خطبات محمود ۱۸۴ سال 1927ء کہتے ہیں.کہ انہیں خود کچھ کرنے کی ضرورت نہیں.کیونکہ انہوں نے خدا پر توکل کیا ہوا ہے جن کاموں میں ان کو لذت محسوس ہوتی ہے وہ تو کبھی نہیں چھوڑتے.کھانے پینے کی چیزیں میاں بیوی کے تعلقات آرام و آسائش کے سامان کبھی نہیں چھوڑتے.اور ان کے متعلق کبھی تو کل نہیں کرتے.اگر تو کل کے وہی معنی ہیں جو وہ بتاتے ہیں تو کیوں جائدادیں نہیں چھوڑ دیتے.مال و دولت کیوں باہر نہیں پھینک دیتے.ان سب باتوں میں تو کل اختیار نہیں کرتے.لیکن جہاں محنت کرنی پڑتی ہے وہاں تو کل لے بیٹھتے ہیں تھے پر جب منہ مارتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو کل انہوں نے کبھی سنا ہی نہیں کہ خدا آپ ہی آپ کام کر دیگا.جب پانی پیتے ہیں.یا کپڑا پہنتے ہیں.یا عیش و آسائش کے سامان سے فائدہ اٹھاتے ہیں تو انہیں یہ تو کل بھول جاتا ہے.روپیہ جب کسی سے لینے کا سوال آجائے تو اس کے پیچھے پڑ جائیں گے.لیکن جہاں لوگوں کے فوائد کا تعلق ان سے آپڑے تو کہیں گے.جہاں سے اچھی چیز ملے وہاں سے لے لینی چاہئے.اسی طرح جہاں خریدنے کا سوال آئے گا تو کہیں گے کہ ہم نے خدا پر توکل کر کے مال خریدا ہے.لیکن جب بیچنے کا وقت آئے گا تو کہیں گے سب لوگ ہم سے ہی خریدیں.یہ تو کل نہیں بلکہ سستی اور غفلت ہے اور اس طرح اپنی بدنامی کی بجائے خدا کو بد نام کیا جاتا ہے جہاں کام خراب ہو وہاں کہہ دیا جاتا ہے ہم نے یہ کام خدا کے سپرد کر دیا تھا.اور جہاں کام اچھا ہو وہ اپنی طرف منسوب کر لیتے ہیں.پس معلوم ہوا ایسے لوگ اپنے کاموں کو خدا تعالٰی کے سپرد نہیں کرتے.ورنہ اگر خداتعالی کے سپرد کرنے کا یہ مطلب ہے کہ اس کام کے متعلق خود کچھ نہ کیا جائے تو وہ اپنے کاموں میں خود کیوں کوشش اور سعی کرتے ہیں.رسول کریم ﷺ کی مجلس میں ایک دفعہ ایک وفد آیا.آپ نے ان میں سے ایک شخص سے دریافت کیا.(چونکہ آپ کھلی جگہ بیٹھے ہوئے تھے شاید آپ نے دیکھ لیا ہو.اس لئے پوچھا) تم نے اونٹ کا کیا انتظام کیا ہے ؟ اس نے کہا خدا پر توکل کر کے یوں ہی چھوڑ آیا ہوں.آپ نے فرمایا جاؤ پہلے اس کا گھٹنا باند ھو پھر خد اتعالیٰ پر توکل کرو( ترمذی ابواب القیامہ ہے پہلے اپنی طرف سے پوری تدبیر کرد اور پھر کہو خدا پر توکل کیا ہے.پس رسول کریم ﷺ نے خود تو کل کے معنے بتا دیے کہ پوری تدبیر کے بعد خدا پر بھروسہ کرنے کا نام تو کل ہے.اب سوال یہ ہے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم نے خدا کے سپرد کام کر دیا.اور اس کے یہ معنے نہیں کہ خود کام کرنا چھوڑ دیں.تو پھر اس کے کیا معنے ہوئے.اس کے لئے یاد رکھنا چاہئے کہ خدا تعالی کے سپرو جو کچھ کیا جاتا ہے وہ کام کا انجام اور
خطبات محمود ۱۸۵ سال 1927ء نگرانی ہے.یہ غلط ہے کہ کام ہی خدا کے سپرد کر دیا جاتا ہے.جو کچھ کیا جاتا ہے وہ نگرانی ہوتی ہے.اور کوشش کرنا انسان کا کام ہوتا ہے.دیکھو جب کسی جرنیل کے سپرد فوج کی جاتی ہے تو اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ سپاہی اپنے گھروں کو چلے جائیں اور صرف جرنیل اپنے دشمنوں کا مقابلہ کرے.یا اگر مریض کسی ڈاکٹر کے سپرد کیا جاتا ہے تو ڈاکٹر کا یہ کام نہیں ہو تا کہ خود اس کے لئے دوائی تلاش کرتا پھرے اور مریض کے لواحقین بے فکر ہو کر بیٹھ رہیں.اسی طرح جب کسی وکیل کے سپرد مقدمہ کیا جاتا ہے تو مقدمہ والا بے فکر ہو کر گھر میں اس لئے نہیں بیٹھ رہتا کہ سب کام وکیل خود ہی کر لے گا.غرض دنیا میں تمام کام جب کسی کے سپرد کرتے ہیں تو یہ مطلب ہوتا ہے کہ وہ نگرانی کرے گا.اسی طرح جب خدا تعالیٰ پر توکل کرتے ہیں تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ نگرانی خدا تعالیٰ کے سپرد کرتے ہیں.اور جب تو کل کے یہ معنی ہوئے.تو لا ز ما دو سرا قدم یہ ہوتا ہے کہ جس کی نگرانی میں کوئی کام دیا جائے اس کی ہدایات بھی مانی جائیں.مثلاً جب ڈاکٹر کے سپرد مریض کیا جائے تو جو کچھ ڈاکٹر کے وہ مانا جاتا ہے اسی طرح جب وکیل کے سپرد مقدمہ کیا جائے تو جو کچھ اس کے متعلق وہ کے وہ ماننا ضروری ہوتا ہے.اسی طرح جب خدا تعالیٰ کے سپرد کام کیا جاتا ہے تو اس کے یہ معنے ہوئے کہ جو باتیں خدا تعالیٰ کے گاوہ مانیں گے.اور جو اسباب مہیا کرنے کا حکم دیگا وہ مہیا کریں گے یہ دوسرا حصہ تو کل کا ہوتا ہے.تیسری چیز یہ ہے کہ جس کے سپرد کوئی کام کرتے ہیں اس پر اعتماد رکھتے ہیں اور بغیر اعتماد کے توکل کامیاب نہیں ہو سکتا.مثلاً ڈاکٹر کے سپرد مریض کریں.لیکن ڈاکٹر کا نسخہ اس خیال سے استعمال نہ کریں کہ ممکن ہے اس کا خراب اثر ہو.یا کسی وکیل کے سپرد مقدمہ کریں.اور وہ کے فلاں document لاؤ تو اس وجہ سے نہ لائیں کہ ممکن ہے وکیل اسے ضائع کر دے.تو نہ مریض کو فائدہ ہو سکتا ہے اور نہ مقدمہ کرنے والے کو.پس تیسری بات تو کل کے لئے یہ ضروری ہے کہ کامیابی کی امید ہو.مایوسی نہ ہو.یہ تینوں حصے تو کل کے اگر مسلمانوں میں پیدا ہو جائیں تو یقینا ان کے لئے کامیابی ہے.یعنی خدا تعالیٰ کے سپرد اپنے کام کر دیں.خدا تعالیٰ سے ہدائتیں چاہیں.شیطان اور طاغوت سے مشورہ طلب نہ کریں.پھر خدا تعالٰی کی دی ہوئی عقل سے کام لیں.شریعت نے جو گر بتائے ہیں ان پر عمل کریں.پھر امید نہ چھوڑیں.یہ باتیں پیدا کر لیں تو پھر دیکھیں کس طرح آنا فانا ان میں تغیر پیدا ہوتا ہے.اس وقت مسلمانوں کی جو مسکینی کی حالت ہے وہ نہایت ہی قابل رحم حالت ہے.جن لوگوں
خطبات محمود 1A4 سال 1927ء نے امداد کے لئے میرے پاس درخواستیں بھیجی ہیں.ان میں سے اکثر کے مصائب میرے نزدیک ایسے ہیں کہ اگر میرے پاس روپیہ ہو تا تو میں ضرور انہیں دے دیتا مگر اتنا روپیہ آئے کہاں سے.اس سے پتہ لگتا ہے کہ اس وقت مسلمان اربوں روپے کے زیر بار ہیں.مگر باوجود اس کے کبھی بحیثیت قوم انہوں نے اس کی فکر نہیں کی.اگر مسلمان آج سے پچیس سال پہلے ہی فکر کرتے تو اس قدر مقروض نہ ہوتے اور اگر کچھ لوگ مقروض ہو جاتے تو قوم ہی ان کا قرض ادا کر دیتی.ہماری جماعت میں اس بات کا بہت خیال رکھا جاتا ہے.اور سالانہ پچاس ساٹھ ہزار روپیہ بیواؤں.یتیموں اور غرباء پر خرچ ہوتا ہے.لیکن پھر بھی سینکڑوں ایسے رہ جاتے ہیں جن کی حالت امداد کا تقاضا کرتی ہے لیکن ہم مدد نہیں کر سکتے کیونکہ ہمارے پاس ہو تا کچھ نہیں.اگر تمام مسلمانوں میں اسی طرح قومی زندگی پیدا ہو جائے جیسے ہماری جماعت میں ہے تو پھر ضرورت مند مسلمانوں کی مدد کرنا کچھ مشکل نہیں.مگر دو تسبھی کی جاسکتی ہے کہ پاس کچھ ہو.جب سامان ہی نہ ہو تو کیا امداد کی جاسکتی ہے.دیکھو حضرت ہاجرہ کو اسماعیل جو خاوند کی بڑھاپے کی عمر کا بچہ تھا کتنا پیارا ہو گا مگر جب اسے پیاس لگی تو سوائے تڑپنے اور بھاگنے دوڑنے کے کیا کر سکتی تھیں.اسی طرح جب قومی سرمایہ ہی نہ ہو تو مسلمانوں کی تکلیف کا ازالہ کسی طرح کیا جا سکتا ہے ہاں سرمایہ مہیا کر دو اور پھر دیکھو کس طرح آناً فاناً حالت درست کی جاسکتی ہے.افسوس یہ ہے کہ مسلمانوں کی نہ دنیوی حالت درست ہے نہ دینی.ہمارا کام تو دینی حالت کی اصلاح ہے.جس کے لئے کتابوں کی اشاعت کرنے کی ضرورت ہے.ہم بہتر سے بہتر کتابیں شائع کر سکتے ہیں.مگر سرمایہ نہیں.اور جو کتاب چھپوائی جاتی ہے وہ اتنی قلیل نکلتی ہے کہ اس سے خرچ بھی پورا نہیں ہو سکتا.جس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں میں کتابوں سے فائدہ اٹھانے کا احساس ہی نہیں.یہ احساس بھی پیدا کیا جا سکتا ہے مگر یہ بھی خرچ چاہتا ہے.بات یہ ہے جب تک کامل طور پر تو کل پر عمل نہ کیا جائے مسلمانوں کی حالت درست نہیں ہو سکتی.اور جب تک حالت درست نہ ہو.بھائی بھائی کی مدد نہیں کر سکتا.میرے خیال میں اگر مسلمانوں کی مردم شماری کر کے دیکھا جائے تو سو میں سے ۸۵ مقروض نکلیں گے.اور یہ ایسے لوگ ہونگے جو کمانے والے ہونگے.اور کوئی تعجب نہیں.اس سے بھی زیادہ ہوں.یہ اندازہ میں نے بہت احتیاط سے لگایا ہے ورنہ شاید ہی کوئی مسلمان ہو.جو مقروض نہ ہو.یہ نتیجہ ہے تو کل جیسی بہترین ہدایت پر عمل نہ کرنے کا.اور خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی تدابیر سے منہ موڑنے کا.اکثر لوگ دینی امور میں بھی شکایت کرتے ہیں کہ روحانی فوائد حاصل نہیں ہوتے.مگر وہ بھی صحیح طور پر توکل
خطبات محمود سال 1927ء پر عمل نہیں کرتے.میں اپنی جماعت کو خصوصیت سے اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ تو کل کے صحیح معنے سمجھیں.ان پر عمل کریں اور یقین رکھیں کہ جب انہوں نے اپنے کام خدا تعالٰی کے سپرد کر دیئے تو تمام دنیا سے کبھی نہیں ہار سکتے.کبھی نہیں ہار سکتے.کبھی نہیں ہار سکتے.اگر وہ خدا تعالیٰ پر توکل رکھیں تو ضرور کامیاب ہونگے.اور خدا تعالی مسلمانوں کو بیدار کرنے کا کام ان سے کرا دے گا.بیشک ہم کمزور ہیں.ہماری مالی حالت کمزور ہے ہم جو کچھ کماتے ہیں خالص ضروریات زندگی پر خرچ کر کے باقی جو کچھ بچتا ہے دین کے لئے لگا دیتے ہیں.اس طرح ہمارے مال کا آخری پیسہ تک دین کے لئے خرچ ہو رہا ہے.مگر جس خدا پر ہمارا تو کل ہے.ہر بات کر سکتا ہے.دیکھو ہمارے دلوں میں یہ خواہش تو مدت سے تھی اور اس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں میں بھی پایا جاتا ہے کہ مسلمانوں کو بیدار کیا جائے مگر کون کہہ سکتا تھا کہ بیدار کرنے کے ایسے سامان اتنی جلدی پیدا ہو جائیں گے.جیسے پچھلے چند دنوں میں پیدا ہو گئے ہیں.یوں معلوم ہوتا ہے کہ سوئے ہوئے مسلمان یک لخت جاگ اٹھے ہیں یا یہ کہ قبریں پھٹ گئی ہیں.اور ان میں سے لوگ نکل کر بھاگنے لگ گئے ہیں.یہ حالات بتاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ جب چاہے اور جو چاہے کر سکتا ہے.پس اصل چیز اس پر تو کل اور بھروسہ ہے.اس کے احکام کے مطابق کام کرو تو ضرور کامیاب ہو جاؤ گے.خدا تعالی کے فضل سے اسلام تمہارے ذریعہ ترقی کرے گا.اور جو قومیں اس وقت ست اور غافل ہیں وہ چالاک اور ہوشیار ہو جائیں گی.اور جو سو رہی ہیں وہ بیدار ہو جائیں گی.اور جو مری ہوئی ہیں وہ زندہ ہو جائیں گی.الفضل ۹/ اگست ۱۹۲۷ء) ل ترمذى ابواب صفة القيمة باب ماجاء في صفة اواني الحوض
خطبات محمود ۲۳ سال 1927ء بین الاقوامی تعلقات کی بہتری (فرموده ۵ / اگست ۱۹۲۷ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ہندو مسلمانوں کے درمیان پچھلے دنوں جو اختلاف پیدا ہوا ہے اس کے جائز و نا جائز ہونے کو نظر انداز کر کے اس بات کے متعلق کوئی بھی شبہ نہیں کیا جاسکتا کہ ملک کی بہبودی اور دنیا کے امن کے قیام کو مد نظر رکھتے ہوئے اس قسم کے فساد اور فتنے ضرور مضر ہوتے ہیں.لیکن جس طرح لڑائی کو ہر شخص نا پسند کرتا ہے اور جس طرح جنگ ہمیشہ سے بری سمجھی گئی.اسی طرح دنیا کے اعلیٰ سے اعلیٰ اخلاق کے لوگ جن کے اخلاق کے سامنے دنیا نے سر جھکا دیئے.جنگ کی ضرورت کے قائل بھی رہے ہیں.اور نہ صرف قائل رہے ہیں خود جنگوں میں حصہ لیتے رہے ہیں بلکہ انہوں نے جنگیں برپا کی ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ضرورت کے مطابق بعض چیزیں اچھی اور بعض بری ہوتی ہیں.میرا اپنا خیال تو یہی ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ ہر چیز ہی موقع کے لحاظ سے اچھی اور بری ہو سکتی ہے لیکن اگر ہر چیز کے لئے یہ خیال نہ بھی کیا جائے تو بہت سی چیزوں کے متعلق تو یہ کہنا ضرور ٹھیک ہے.پس تلوار کی لڑائی بھی اور بندوقوں کی جنگ بھی اور توپوں کی بوچھاڑ بھی بعض موقعوں پر اچھی اور بعض پر بری ہوتی ہے لیکن بعض جگہ انصاف کے قیام کے لئے تلوار کا اٹھانا ضروری ہوتا ہے.بعض جگہ امن کے قیام کے لئے اک فتنہ پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور بظا ہر جو چیز اس وقت فتنہ معلوم ہوتی ہے در حقیقت دنیا کی بہتری اور بھلائی کا باعث ہوتی ہے.اسی طرح موجودہ فتنہ جو ہندو مسلمانوں کے جھگڑوں کا پیدا ہوا ہے.گو اس کے بواعث کیسے ہی خطر ناک اور اخلاق و دیانت سے کتنے ہی گرے ہوئے کیوں نہ ہوں آئندہ امن کے قیام میں بہت مدد دے سکتا ہے.ہاں اس فتنہ کا لمبا ہوتے جانا بعض لحاظ سے ضرور ضرر رساں ہے پس جلد یا بدیر
خطبات محمود سال 1927ء دنیا کو یا کم از کم ہندوستان کے لوگوں کو سوچنا پڑیگا کہ اس فتنہ کے دور کرنے کے ذرائع کیا ہیں.یہ قدرتی بات ہے کہ جب ایک قوم کو دوسری قوم سے اپنے افعال کی وجہ سے نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے تو خواہ دیانتداری سے یا بد دیانتی سے سچائی پر اپنی آواز کو مینی کر کے یا قریب سے مدد لیتے ہوئے وہ قوم ایک رنگ میں ندامت کا اظہار کرتی ہے.بسا اوقات اس ندامت کے اظہار میں منصوبہ اور مکر پوشیدہ ہو تا ہے.اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جو صلح کے لئے ہاتھ بڑھاتا ہے اس لئے نہیں بڑھا تا کہ صلح کرنا چاہتا ہے بلکہ یہ سمجھتا ہے کہ میں نے مناسب موقع نہ دیکھا تھا جس وقت کہ جنگ کی بنیاد رکھی.اب مجھے دوسرے وقت کا انتظار کرنا چاہئے.اور اس وقت صلح کر کے اپنا پیچھا چھڑانا چاہئے.ایسے وقت میں صلح کے لئے جو کچھ وہ کہتا ہے وہ صرف الفاظ ہوتے ہیں.جو حقیقت سے خالی ہوتے ہیں.اور خالی الفاظ کی صلح پر قوم کی زندگی کی بنیاد قائم نہیں کی جاسکتی.پس صلح کے متعلق جب سوال اٹھایا جائے تو اس پر بہت احتیاط سے غور کرنے کی ضرورت ہے اس وقت جب کہ ہندوؤں میں یہ احساس پیدا ہو.کہ انہوں نے بانی اسلام اللہ کی شان میں گستاخی کرنے میں غلطی کی ہے اور وہ ظاہر کریں کہ صلح پر آمادہ ہیں تو اسلام کی تعلیم تقاضا کرے گی کہ مسلمان اس آمادگی پر نفرت کا اظہار نہ کریں بلکہ خود بھی آمادگی کا اظہار کریں.چونکہ جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے کہ جلد یا بدیر وہ وقت آنے والا ہے جب صلح کا سوال پیدا ہو گا.اس لئے ہمیں پہلے سے سوچنا چاہئے کہ ایسے موقع پر کن شرائط سے ہمیں صلح کرنی چاہئے.اور کیسی صلح سے اجتناب کرنا چاہئے.بہت سے کمزور طبع انسان جو محض جھگڑے کو دیکھ کر دشمن کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں.جب دیکھتے ہیں دشمن صلح کے لئے کہتا ہے تو کہہ دیتے ہیں اب جھگڑے کی کیا بات ہے.صلح کر کے جھگڑا ختم کرنا چاہئے.لیکن یہ امر ان لوگوں کی بزدلی پر دلالت کرتا ہے نہ کہ جرات پر.یہ اس امر پر دلالت نہیں کر تاکہ ان کے اخلاق اعلیٰ ہیں بلکہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں ہمت کی کمی ہے جو لوگ دین کی باتوں کو محض الفاظ کی صلح پر قربان کر کے صلح کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں وہ بیوقوف ہوتے ہیں.دیکھو بنو نضیر نے جب رسول کریم ای کے حملے کے وقت محسوس کیا کہ آپ کا مقابلہ نہیں کر سکتے.اور ان کی یہ امیدیں پاش پاش ہو گئیں کہ منافق مدد کریں گے تو انہوں نے فور کہلا بھیجا کہ ہم اپنے کئے پر نادم ہیں اور اپنی غلطی کا اقرار کرتے ہیں ہم سے صلح کرلی جائے.اس وقت رسول کریم ﷺ نے یہ نہ فرمایا کہ اچھا تم نے اپنی غلطی تسلیم کرلی ہم تم سے صلح کرتے
خطبات محمود سال 1927ء ہیں.کیونکہ جو کچھ انہوں نے کیا تھا وہ ایسے افعال تھے جن کے لئے لفظی ندامت کافی نہ تھی.ان کی صرف ایک غلطی نہ تھی بلکہ بیسیوں غلطیاں رسول کریم ﷺ کی نظر میں تھیں.اور وہ ایسی نہ تھیں جنہیں اجتہاد کی کمزوری کی غلطی کہا جاسکے.بلکہ وہ غلطیاں ایسی تھیں جن میں کمینہ پن غداری و خفیہ سازش کی آمیزش تھی.اتنے لمبے تجربے اور اتنی غلطیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اور ایسی غلطیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے جو وقتی جوش کے ماتحت نہیں آسکتی تھیں بلکہ غداری اور سازش کے نتیجہ میں تھیں.ان کی وجہ سے رسول کریم ﷺ ان لوگوں کے لفظوں پر اعتبار نہ کر سکتے تھے اور نہ آپ نے اعتبار کیا.جب انہوں نے کہا ہم صلح کرتے ہیں تو ان امور پر نظر ڈالتے ہوئے اور ان کے اطوار و اعمال کا تجربہ سامنے رکھتے ہوئے آپ نے کہا ہم بھی صلح کے لئے تیار ہیں.مگر ہم اس صلح پر کسی نیک نتیجہ کا مدار نہیں رکھ سکتے.جو صرف اتنی ہو کہ لڑائی بند ہو جائے.اگر تمہارا یہ مطلب ہے کہ پہلے کی طرح ہماری بغل میں بیٹھے رہو.اور جب موقع ملے چھری چلاتے ر ہو تو اس کے لئے ہم تیار نہیں.اب صلح اسی پر ہو سکتی ہے کہ دس دن کے اندراندر تمام قلعے خالی کردو.یہ وہ احتیاط تھی جو دنیا میں صلح کی سب سے بڑی خواہش رکھنے والے انسان نے کی.دنیا میں اگر کوئی سب سے زیادہ امن قائم کرنے والا اور صلح رکھنے والا انسان ہو سکتا ہے تو وہ محمد اے تھے.مگر آپ نے بھی یہ نہیں کیا کہ جب دشمن نے کہا صلح کر لو تو آپ نے کہا کر لو.بلکہ آپ نے دیکھا ان لوگوں نے کسی وقتی جوش کے ماتحت نہیں بلکہ سالہا سال کی شرارتوں اور فتنہ انگیزیوں کے نتیجہ میں جنگ کی.انہوں نے مسلمانوں کے خلاف سازشیں کیں.باہر کے لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف اکسایا.ہر قسم کے منصوبے کئے جب اتنے لمبے عرصہ میں انہوں نے خدا کا کوئی خوف نہ کیا.اور کسی شرافت کا ثبوت نہ دیا تو آئندہ ان سے کیا توقع ہو سکتی ہے.ان حالات میں آپ نے صلح تو کی مگر ایسی شرائط پر کی کہ آئندہ کے لئے خطرہ نہ رہے.اس وقت جو جھگڑا ہندوؤں اور مسلمانوں میں ہے اس کے متعلق بھی ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ آیا یہ وقتی جوش کے ماتحت پیدا ہوا.کسی ایک آدمی نے اٹھایا یا سالہا سال کی کوششوں.تدبیروں اور منصوبہ بازیوں کا نتیجہ ہے.اور قوم کی قوم اس کے پیچھے ہے.اگر ایک لمحہ کے لئے بھی حالات پر نظر ڈالیں تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کے اندر بہت بڑے بڑے اور بہت سے لوگوں کا دخل ہے.اور یہ منصوبہ بیسیوں سال سے چلا آ رہا ہے.رسول کریم اللہ اور اسلام کی ہتک آج
خطبات محمود 191 سال 1927ء نہیں کی گئی.بلکہ آج سے بہت عرصہ پہلے سے یہ ناپاک فعل عمل میں لایا جا رہا ہے.کہا جاتا ہے.میر قاسم علی صاحب نے انیسویں صدی کا مرثی کے نام سے جو کتاب شائع کی اس کی وجہ سے رنگیلا رسول لکھا گیا جو انیسویں صدی کے مرثی کا جواب ہے.اس طرح یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ فتنہ کی ابتدا مسلمانوں نے کی اور مسلمانوں نے ہندوؤں کو بھڑکایا.لیکن یہ قطعاً غلط ہے.اسلام کے خلاف نیا سلسلہ کتابوں کا شدھی کی تحریک کے ساتھ شروع ہوا.ان دنوں میر صاحب کی کتاب سے پہلے کئی گندی کتابیں اور رسالے.اسلام.اسلام کے خدا اور رسول کے متعلق آریوں کی طرف سے شائع کئے گئے.پس ”رنگیلا رسول ” انیسویں صدی کے مرشی " کے جواب میں نہیں لکھی گئی بلکہ انیسویں صدی کا مرشی " ان کتابوں رسالوں اور ٹریکٹوں کے جواب میں شائع کی گئی جو آریوں نے اسلام کے خلاف شائع کئے اور جن میں نہایت ناپاک اور گندی گالیاں دیں.پھر وہ ان گندے الزامات کے جواب میں ہے جو شدھی کے میدان میں اسلام پر لگائے گئے.جس گندے پیرائے میں اور جس خطرناک رنگ میں ملکانہ کے علاقہ میں اسلام کو پیش کیا جاتا تھا.اور بانی اسلام پر جس طرح گندے الزامات لگائے جاتے تھے وہ چاہتا تھا کہ آریوں کو جواب دئیے جائیں.پس اگر ایک ایسے شخص نے جس کے مذہب پر اور جس کے ہادی پر ایسے گندے اعتراضات کئے گئے.پتھر کے مقابلہ میں پتھر سے جواب دیا.تو ہر گز کسی آریہ کا حق نہیں کہ یہ کیے.”رنگیلا رسول" انیسویں صدی کے مرثی کے جواب میں لکھی گئی.بلکہ ہمارا حق ہے کہ ہم کہیں " انیسویں صدی کا مهری ان کتابوں اور ان رسالوں کے جواب میں لکھی گئی جو ملکانوں میں آریوں نے شائع کئے.اور ان تقریروں کے جواب میں لکھی گئی جو اسلام کے خلاف ہر جگہ آریوں کی طرف سے کی جاتی ہیں.اور ان حملوں کا جواب ہے جو اسلام کی مقدس ہستیوں پر کئے جاتے ہیں.پس یہ بالکل غلط اور جھوٹ ہے کہ ابتدا مسلمانوں کی طرف سے ہوئی.موجودہ فتنہ میں بھی ابتدا آریوں کی طرف سے ہی ہوئی.اور کوئی شخص اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ اس جھگڑے سے پہلے ایک رنگ میں مذہبی امن قائم ہو گیا تھا جب کہ ہندو مسلمان مشترکہ طور پر سیاسی میدان میں کود پڑے تھے.ہندو مسلمان ایک دوسرے کو بھائی بھائی کہنے لگ گئے تھے.اس وجہ سے اک دوسرے کے خلاف مذہبی گالیاں بند ہو گئی تھیں.اور وہ پہلی جنگ جو رولٹ ایکٹ سے پہلے جاری تھی ختم ہو چکی تھی.پھرنئی جنگ شروع ہوئی جس کی ابتدا آریوں کی طرف سے مالکانوں کے علاقہ میں کی گئی.ان کے اعتراضوں کے جواب بعض مسلمانوں نے دیئے لیکن پھر بھی اگر دیکھا جائے تو آریوں کی دو کتابوں کے مقابلہ میں
خطبات محمود ۱۹۲۰ سال 1927ء مسلمانوں کی ایک کتاب نکلے گی.مسلمانوں کا اگر چہ دفاعی پہلو تھا.اور دفاع کرنے والے کو اعتراضوں کے جواب میں زیادہ لکھنا پڑتا ہے مگر پھر بھی آریوں کی طرف سے بہت زیادہ کتابیں لکھی گئیں.اور اگر اس سے پہلے زمانہ کی طرف جائیں تو وہاں بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ پہل آریوں کی طرف سے ہوئی سب سے پہلی کتاب جو آریوں کے متعلق لکھی گئی.وہ حضرت مسیح مود عو علیہ السلام کی کتاب براہین احمدیہ ہے.آریہ کہتے ہیں براہین احمدیہ سے اس جنگ کی ابتدا ہوئی.مگر یہ بالکل غلط ہے.وہ کتاب موجود ہے اس میں نہ صرف یہ کہ گالیاں نہیں بلکہ اس میں یہ اصل پیش کیا گیا ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف گالیاں نہیں دینی چاہئیں.کسی مذہب کے خلاف گندے اور ناپاک اعتراض نہیں کرنے چاہئیں.بلکہ اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرنی چاہئیں.اس اصل کے ماتحت حضرت مرزا صاحب نے آریوں کو فرمایا میں تین سو دلائل اسلام کی صداقت کے پیش کرونگا تم ان کو توڑ کر دکھاؤ.جو انہیں تو ڑ دیگا اسے دس ہزار ۱۰۰۰۰ روپیہ انعام دونگا.پس براہین احمدیہ ہی وہ پہلی کتاب ہے جس نے یہ اصل پیش کیا ہے کہ دوسرے مذاہب پر اعتراض نہیں کرنے چاہئیں بلکہ اپنے مذہب کی خوبیاں پیش کرنی چاہئیں.جس کتاب نے اعتراضوں کا دروازہ بند کر دیا اس کے متعلق یہ کہنا کہ اس سے لڑائی کی ابتدا ہوئی کس طرح درست ہو سکتا ہے.اس کے علاوہ ایک اور بات بھی ہے اور وہ یہ کہ جب ہم براہین احمدیہ کے متعلق دیکھتے ہیں کہ کیوں لکھی گئی تو اس میں لکھا ہوا پاتے ہیں کہ اس کی وجہ وہ گندی گالیاں ہیں جو آریوں کی طرف سے دی جاتی ہیں.پس کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اس کتاب سے گالیوں کی ابتدا ہوئی.یہ تو آریوں کی گالیاں روکنے کے لئے اور انہیں تہذیب و شرافت سکھانے کے لئے لکھی گئی.اگر کوئی کہے کہ آریوں کی وہ گالیاں کہاں ہیں جو براہین احمدیہ سے پہلے دی گئیں.تو اسے اندرمن کی کتابیں پڑھ لینی چاہئیں.پس یہ کہنا کہ براہین احمدیہ سے گالیوں کی ابتدا ہوئی.جھوٹ ہے.عیسائیوں کی گالیاں تو دو سو سال پہلے سے چلی آرہی ہیں.مگر اندرمن وغیرہ کی گالیاں براہین احمدیہ کی اشاعت سے پہلے کی ہیں.سب سے پہلی کتاب جو آریوں کے دفاع میں لکھی گئی براہین احمدیہ ہے اور وہ لئے لکھی گئی کہ آریہ گالیاں دیتے تھے اور اس میں کہا گیا کہ دو سروں پر گندے اعتراض نہ کرو اپنے مذاہب کی خوبیاں پیش کرو.پس ابتدا بھی آریوں کی طرف سے ہوئی اور اب بھی فتنہ آریوں نے اٹھایا.بعض دفعہ آریہ کہہ دیا کرتے ہیں.تحفتہ الہند و غیرہ کتابیں مسلمانوں کی طرف
+1927 ١٩٣ خطبات محمود سے شائع کی گئیں جن میں ہندوؤں کے مذہب پر حملے کئے گئے.مگر یہ بھی غلط ہے ان میں ہندوؤں پر حملے نہیں کئے گئے.بلکہ ہندوؤں کی اپنی روایتیں نقل کی گئی ہیں.اور آریوں کا کوئی حق نہیں کہ ان کو اعتراض کے طور پر پیش کریں.کیونکہ جن مسائل پر ان کتابوں میں اعتراض کئے گئے ہیں ان پر بہت سخت الفاظ میں پنڈت دیانند صاحب نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے.پھر وہ کتابیں اسلام پر ناپاک حملے کرنے کی وجہ کس طرح ہو سکتی ہیں.ان مسائل پر خود پنڈت دیا نند نے بہت سخت الفاظ میں اعتراض کئے ہیں.جوش اس بات پر آتا ہے جسے انسان سچا سمجھتا ہو اور دوسرا اس پر گندے اعتراض کرے.مگر وہ بات جسے کوئی شخص سچا ہی نہ سمجھے بلکہ اس کا رشی اس پر سخت اعتراض کرے.اس پر اگر کسی مسلمان نے اعتراض کیا تو اسے اسلام پر حملہ کرنے کی وجہ کس طرح قرار دیا یہ جا سکتا ہے.غرض ناپاک اعتراضوں اور گندی گالیوں کی ابتدا آریوں کی طرف سے ہوئی جو مسلسل جاری رہی.یہاں تک کہ ۱۹۰۷ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لاہور کی آریہ پر تھی ندہی سمجھانے مرزا یعقوب بیگ صاحب سے خط لکھایا کہ آپ بھی اس سبھا کے جلسے میں پڑھے جانے کے لئے مضمون لکھیں.اس پر آپ نے لکھوایا کہ ایسا نہ ہو آریہ اس جلسے میں اسلام اور بانی اسلام کو گالیاں دیں اس کے متعلق تسلی ہو جانی چاہئے.اس پر ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب نے لکھا کہ آریوں نے اطمینان دلایا ہے کہ جلسے میں قطعاً کسی پر حملہ نہ کیا جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور اپنا مضمون لکھ کر بھیج دیا جس میں کوئی حملہ نہ تھا بلکہ اس میں لکھا تھا کہ ہم ہندو بزرگوں کی عزت کرتے ہیں.مگر باوجو د وعدہ کرنے کے جسے کوئی شریف انسان تو ڑا نہیں کرتا اور دو بار خود زبان دینے کے جسے کوئی شریف انسان واپس نہیں لیا کرتا آریوں نے سینکڑوں آدمیوں کے سامنے رسول کریم ﷺ کے متعلق (نعوذ باللہ) ڈاکو اور فاسق کے ناپاک الفاظ استعمال کئے.یہ وہ شرافت تھی جو آریوں نے اس مضمون کے مقابلے میں اختیار کی جو حضرت صاحب نے ان کے جلسے میں پڑھنے کے لئے بھیجا تھا اور جس میں ان کے بزرگوں کی تعظیم و تکریم کا ذکر تھا غرض ہم شروع سے دیکھتے چلے آرہے ہیں کہ اس قوم کی بد زبانی کی عادت چلی آتی ہے اور اس پر وہ اپنی نجات کا انحصار سمجھتی ہے.پس جس قوم کی ساری ہسٹری گالیوں سے بھری ہوئی ہو جس نے سب مذاہب کے بزرگوں کو گالیاں دی ہوں جس نے اپنی قوم کے بزرگوں کو بھی گالیاں دینے سے نہ چھوڑا ہو.اس کے صرف منہ سے کہہ دینے سے کہ وہ صلح کرتی ہے ہم کس
خطبات محمود ۱۹۴ سال 1927ء طرح صلح کے لئے تیار ہو سکتے ہیں.پس میرے نزدیک صلح تو ضرور ہونی چاہئے مگر اس سے پہلے کچھ شرائط بھی ضروری ہیں.کم از کم ہماری جماعت ان شرائط کی پابندی کر الینا ضروری سمجھتی ہے.اور میں امید کرتا ہوں دوسرے مسلمان بھی اس بات کو نظر انداز نہیں کریں گے کہ آریوں کا صرف منہ سے کہہ دینا کافی نہیں اس کے لئے کچھ شرائط کا ہونا ضروری ہے.میرے نزدیک سب سے پہلی شرط جو ضروری ہے وہ یہ ہے کہ دونوں قوموں کی طرف سے اس بات کا اقرار ہونا چاہئے کہ کوئی کتاب ایسی نہ لکھی جائے گی جس میں دوسرے مذاہب کے بزرگوں کے متعلق دریدہ دہنی سے کام لیا جائے یا ایسے اعتراض کئے جائیں جن میں ان کی تخفیف و تذلیل ہو نہ کہ کسی مسئلہ کا حل.اگر کوئی شخص ایسی کتاب لکھے گا تو اس کی قوم ذمہ دار ہوگی کہ اس کتاب کو جلا دے اور لکھنے والے کا بائیکاٹ کر دے.اور لوگ اس سے تعلق نہ رکھیں نہ بیاہ شادیوں میں بلا ئیں.نہ موت فوت میں شامل کریں.نہ رشتہ لیں نہ دیں.میں اپنی جماعت کی طرف سے اس قسم کا معاہدہ کرنے کے لئے تیار ہوں کہ اگر کوئی احمدی ایسی کتاب لکھے تو ہم اس کا بالکل بائیکاٹ کر دیں گے اور میں امید رکھتا ہوں کہ رسول کریم اور دوسرے بزرگوں کی عزت کی حفاظت کے لئے مسلمانوں کا کوئی فرقہ بھی ایسا نہ ہو گا جو اس معاہدہ کے لئے تیار نہ ہو.اور جب قوم کی قوم ایسا معاہدہ کرنے پھر کوئی جرات نہیں کر سکتا کہ ایسی کتاب لکھے.پس صرف اس قسم کے الفاظ کہ مادر ہند کو اتحاد کی ضرورت ہے.ہمیں آپس میں رواداری سے رہنا چاہئے.ایک دوسرے سے اچھا سلوک کرنا چاہئے.ہمارے لئے کافی نہیں بلکہ ہمارے پاس کوئی ایسی بات ہوئی چاہئے کہ جو فتنہ اٹھائے اسے مناسب سزادی جاسکے.اگر ہندو اس بات کا اقرار کریں کہ ایسے شخص کا بائیکاٹ کر دیا جائے گا.اور جو اس سے کسی قسم کا تعلق رکھے گا یا ہمدردی کرے گا.اس کا بھی بائیکاٹ کر دیا جائیگا.تو اس صورت میں بیشک صلح کی ایک شرط پوری ہو جاتی ہے.مگر اس کے علاوہ اور بھی شرطیں ہیں.مثلا یہ کہ ہندوؤں نے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لئے چھوت چھات سے بہت فائدہ اٹھایا ہے.وہ جاہل لوگوں سے کہتے ہیں دیکھو ہم مسلمانوں سے چھوت چھات کرتے ہیں کیونکہ ہم ان سے معزز ہیں.اور مسلمان ہماری چیزوں سے پر ہیز نہیں کرتے اس لئے کہ وہ اونی ہیں.سات سو سال سے ہندو مسلمانوں سے یہ سلوک کرتے آئے ہیں جس کی مسلمانوں نے پرواہ نہ کی.مگر اب چونکہ اس بات کو مذہبی رنگ میں استعمال کیا گیا ہے اس لئے اب ہم اس سلوک پر
خطبات محمود ۱۹۵ سال 1927ء راضی نہیں ہو سکتے.ہو سکتا ہے کہ ہندو ہمیں علیحدہ طور پر کہہ دیں کہ ہم تم سے چھوت چھات نہیں کریں گے.مگر ہم اس پر راضی نہ ہوں گے.اور نہ اس پر راضی ہوں گے کہ کوئی ہندو کسی مسلمان کے ساتھ بیٹھ کر کھا پی لے.بلکہ ہند و علی الاعلان مسلمانوں کے ساتھ کھائیں اور آئندہ کے لئے اقرار کریں کہ مسلمانوں سے چھوت چھات نہیں کریں گے.لیکن اگر یہ نہیں کر سکتے تو پھر اس مسئلہ کو صلح کی شرائط میں ہی نہ رکھیں.جس طرح ہندو ہم سے چھوت چھات کرتے ہیں.اور ہم کوئی اعتراض نہیں کرتے.اسی طرح ہمارے چھوت چھات کرنے پر وہ کوئی اعتراض نہ کریں.صلح کی تیسری شرط ایک اور ہے.چونکہ ہماری قوم چھوت چھات کی وجہ سے گرتی جارہی ہے اور ذلت برداشت کر رہی ہے.اس لئے ہمیں ضرورت ہے کہ اس ذلت کو دور کرنے کے لئے کوئی طریق اختیار کریں.یہ جو چوڑھے چمار یا اور اچھوت اقوام کے لوگ نظر آتے ہیں.گاؤں کے پاس علیحدہ جھونپڑیوں میں رہتے اور خود بھی اپنے آپ کو ادنی اور ذلیل سمجھتے ہیں.ایک وقت تھا ہندوستان کی بادشاہت ان کے قبضہ میں تھی.یہاں کے حکمران تھے.مال دولت ان کی ملکیت تھی.لیکن جب آریہ ہندوستان میں آئے اور یہاں کے لوگوں کو شکست دے کر ان پر غالب آگئے.تو ان سے چھوت چھات شروع کر دی.یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ چند ہزار سال کے بعد ان لوگوں کی حالت ایسی ذلیل ہو گئی جو نظر آرہی ہے.یہ لوگ کیوں شہروں سے باہر پنڈوروں میں رہتے ہیں.اس لئے کہ چھوت چھات انہیں باہر رہنے پر مجبور کرتی ہے اگر مسلمانوں کے متعلق بھی ہندوؤں کا یہ رویہ اسی طرح جاری رہا تو ایک دن مسلمان بھی اس حالت پر پہنچ جائیں گے جو چوڑھے چماروں کی ہے.اب چوڑہوں سے کہہ کر دیکھ لو کہ آؤ ہماری مجلس میں بیٹھو تو وہ کہیں گے نہیں جی ہم دور ہی اچھے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ ہزاروں سال کے سلوک سے ان کے نفس بالکل مرگئے ہیں.ابھی چند دن ہوئے.ایک دوست نے سنایا.جب شود رانند صاحب یہاں آئے اور انہوں نے تقریر کی.تو چونکہ چوہڑوں کے متعلق تھی اس لئے ایک چوڑھے کے آنے پر اس کو کہا گیا.آگے آکر بیٹھو.مگر جوں جوں اسے آگے آنے کے لئے کہا جائے وہ اور پیچھے ہٹتا جائے.اس وقت جب کہ دوسری قومیں اپنے حقوق کا پر زور مطالبہ کر رہی ہیں.چوہڑے چماروں کو اگر اپنے پاس بیٹھنے کے لئے بھی کہا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں ہم دور ہی اچھے ہیں یہ ہزاروں سال کے بائیکاٹ اور چھوت چھات کی وجہ سے ہے کہ یہ لوگ عزت نفس سے بھی محروم ہو گئے ہیں.اگر آج اس بات کا فیصلہ نہ کیا گیا تو مسلمانوں کو بھی اسی ذلت اور رسوائی کے گڑھے میں گرنا پڑیگا جس میں
ت محمود 197 سال 1927ء ہو چوہڑے اور سانسی گرے ہوئے ہیں.اگر مسلمان آنکھیں کھول کر دیکھیں تو اب بھی انہیں معلوم د سکتا ہے کہ وہ کس حالت کو پہنچ چکے ہیں.آج سے ایک سو سال پہلے وہ ہندوستان کے بادشاہ تھے.اور بادشاہوں کے پاس مال و دولت محکوم کی نسبت بہت زیادہ ہوتا ہے.مگر آج ہر جگہ مسلمان ہندوؤں کے دست نگر ہیں جس کی وجہ سوائے چھوت چھات کے اور کچھ نہیں.پس اگر سو سال کے اندر اندر بادشاہ قوم کی یہ حالت ہو سکتی ہے کہ وہ قریباً غلاموں کی طرح زندگی بسر کر رہی ہے.تو سو سال کے بعد اس کی حالت چوہڑوں اور چماروں سے بھی بد تر ہو جائے گی.چوہڑوں نے تو ہندوؤں کی کچھ باتیں اختیار کرلی ہیں اس لئے ہندو ان پر رحم کرتے ہیں مگر مسلمانوں پر قطعا رحم نہ کریں گے.پس ہماری صلح کی شرائط میں سے ایک اہم شرط یہ بھی ہے کہ ہمارے حقوق جو گورنمنٹ نے دئے یا آئندہ دے وہ ہماری آبادی اور اہمیت کے لحاظ سے دئے جائیں.اور ہندو ان میں روک نہ بنیں.اگر مسلمانوں کو وہ حقوق نہ ملے تو نتیجہ یہ ہو گا کہ مسلمان روز بروز گرتے جائیں گے.صلح کے یہ معنی نہیں کہ مسلمان ذلت اور نکبت کے گڑھے میں گر جائیں اور اپنے حقوق چھوڑ دیں.بلکہ یہ ہیں کہ مسلمان بھی زندہ رہیں اور معزز طور پر زندہ رہیں.پس ہماری یہ تین شرطیں ہوں گی جن پر ہم صلح کر سکتے ہیں (۱) ہر قوم پر ذمہ داری ہوگی کہ اگر کوئی شخص پہلی شرط کی خلاف ورزی کرے گا تو قوم اس کا بائیکاٹ کرے گی.اور جو نہ کریں گے ان کا بھی بائیکاٹ کیا جائے گا.اگر یہ نہ کیا جائے.تو اس قوم کے لیڈر ذمہ دار ہوں گے.کہ وہ ایک مقررہ رقم بطور تاوان کے دیں.کوئی کہے نبیوں اور بزرگوں کی ہتک کا ازالہ تاوان سے کس طرح ہو سکتا ہے خواہ کوئی لاکھ روپیہ دیدے.یہ صحیح ہے مگر ہم ایسے روپیہ سے رسول کریم اے کی زندگی کے صحیح حالات شائع کریں گے.اور اس طرح ان اعتراضات کا ازالہ کریں گے.دوسری شرط یہ ہے کہ ہندو مسلمانوں سے چھوت چھات چھوڑ دیں یا اسے صلح میں نہ سمجھیں.تیسری شرط یہ ہے کہ مسلمانوں کو ان کے حقوق آبادی کے لحاظ سے حاصل ہوں اور ہندو ان میں روک نہ بنیں بلکہ مدد گار ہوں.اگر یہ تین شرطیں ہندوؤں کو منظور ہوں تو ہم سب سے پہلے صلح کے لئے تیار ہیں.مگر صلح وہی کریں گے جس کے نتیجے میں قوم ذلیل نہ ہو.مسلمان چوہڑے چمار نہ بنیں.ہم نے فیصلہ کیا ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہم پر یہ ذمہ داری ہے کہ ہم جو ہندوستان میں پیدا ہوئے یا باہر سے یہاں آئے اسلام کے جھنڈے کو کھڑا کریں.اور اس کے
خطبات محمود 196 سال 1927ء لئے قوم کو زندہ رکھنا ہمارا فرض ہے.ورنہ اگر مسلمان چوڑ ہے چماروں کی طرح ہو جائیں تو پھر اسلام کا جھنڈا کون کھڑا کرے گا.پس آج یا کل یہ سوال اٹھے گا کہ ہندو مسلمانوں میں صلح ہو.اس لئے پہلے ہی یہ باتیں میں پیش کرتا ہوں.اگر ہندو صاحبان انہیں مان لیں تو آج صلح ہو سکتی ہے.میں امید کرتا ہوں کہ ہندو لیڈر بجائے مسلمانوں کو گالیاں دینے کے اور ہتک آمیز الفاظ استعمال کرنے کے اور مسلمانوں کے خلاف اشتعال دلانے کے ان تجویزوں پر غور کریں گے جو خاص ہمدردی اور محبت سے پیش کی گئی ہیں.اور اس کے لئے جسے مادر ہند کہتے ہیں اور جس کی ترقی کے لئے جان و مال قربان کر دینے کا دعوئی رکھتے ہیں.اگر واقع میں ہندوستان کا درد ان کے دل میں ہے.اور وہ بچے دل سے ہندوستان کی ترقی چاہتے ہیں.تو آئیں ان باتوں پر غور کریں اور ان کے مطابق صلح کریں.(الفضل ۳۰ / اگست ۱۹۲۷ء)
خطبات محمود ۱۹۸ سال 1927ء سورۃ فاتحہ میں ایک مطالبہ فرموده ۲۶/ اگست ۱۹۲۷ء بمقام شمله) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : میں نے خیال کیا تھا کہ یہ جگہ پہلی جگہ کی نسبت ہماری کوٹھی سے زیادہ قریب ہو گی لیکن یہ دور نکلی.اور دفتروں میں کام کرنے والوں کے لئے زیادہ دیر ہو گئی.اس لئے میں سورۃ فاتحہ کے اس کی طرف توجہ دلاتا ہوں جس میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے ایک مطالبہ کرتا ہے.اگر وہ اس مطالبہ کو مد نظر رکھتے ہوئے عمل کریں تو دنیا میں ہر قسم کی ذلت سے بچ جائیں اور ہر طرح کی کامیابی حاصل کرلیں.وہ مطالبہ KOOOOON KA WAKKAAT LGA میں ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے.کہ دنیا میں دوڑ جاری ہے.مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ایسے راستہ پر اور ایسے طریق پر دوڑیں کہ جلد سے جلد اللہ کے قرب میں پہنچ جائیں.دنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں.ایک وہ جو سیدھے راستہ پر چلتے اور ادھر ادھر نہیں بھٹکتے.وہ وقت پر پہنچ جاتے ہیں.دوسرے وہ ہوتے ہیں جو یا تو سیدھے راستہ پر نہیں چلتے یا ادھر ادھر وقت ضائع کر دیتے ہیں.ایسے لوگ منزل مقصود پر وقت پر نہیں پہنچ سکتے یا بالکل نہیں پہنچ سکتے.مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ سیدھے دوڑیں.ادھر ادھر نہ جائیں.تاکہ اس مقام پر پہنچ جائیں جس کے لئے ان کو پیدا کیا گیا ہے.سورۃ فاتحہ میں بتایا گیا ہے کہ دو ڑ کس طرح دوڑنی چاہئے.اگر مسلمان یہ خیال رکھیں کہ قریب ترین راستہ پر چل کر منزل مقصود پر پہنچنا ہے تو ان سے کوئی قوم کسی کام میں آگے نہیں بڑھ سکتی.صوفیا میں ہم دیکھتے ہیں وہ کس طرح التزام رکھتے تھے.حضرت اسمعیل بریلوی سے بیان کیا گیا کہ ایک سکھ اس قدر تیرتا ہے کہ اس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا.اس
خطبات محمود ۱۹۹ سال 1927ء پر آپ نے تیرنے کی مشق شروع کر دی.اور اس قدر مشق حاصل کر لی کہ سکھ کو مقابلہ کر کے ہرا دیا.یہ روح ہوتی ہے جس سے کوئی قوم آگے بڑھ جاتی ہے.پس مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہر شعبہ زندگی میں آگے بڑھنے کی کوشش کریں.مسلمان کو ست نہیں ہونا چاہئے.وہ کسی بھی ثانوی شغل میں حصہ لے اس کو اسی طرح پورا کرنا چاہئے جس طرح اول شغل کو پورا کرنا فرض سمجھتا ہے.جو لوگ چھوٹے چھوٹے کاموں کو اچھی طرح نہیں کر سکتے وہ بڑے بڑے کاموں کو کب انجام دے سکتے ہیں.مثال کے طور پر دفتروں کے کام ہیں تجارت کا کام ہے اور پیشے ہیں.ان کا تعلق اس زمانہ میں دین سے ایسا ہی ہے جیسا کہ آنحضرت ا کے زمانہ میں لڑائی کا تھا.لڑائی کوئی مذہبی فرض نہیں ہے.لیکن ضرورت کے وقت وہی بڑا فرض ہو گئی تھی.صحابہ نے لڑائی میں کمال حاصل کر لیا.ڈپلومیسی میں خوب ماہر تھے.سفارت کے کام میں کمال حاصل تھا ان کے پاس ایک شخص صلح کے لئے آیا.اس کے متعلق انہوں نے معلوم کر لیا کہ قربانی کو پسند کرتا ہے.سو انہوں نے قربانی کے جانور مہیا کر کے اس کے سامنے سے گزارے.غرض مومن کی چاروں طرف نظر ہونی چاہئے.خدا تعالی کی نظر چاروں طرف جاتی ہے.اس لئے خدا کی صفات کو اپنے اندر لیکر بندے کی نظر بھی چاروں طرف جانی چاہئے.پس یہ گر ہے جو اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں سکھایا ہے جس کو ہماری جماعت کے لوگوں کو مد نظر رکھنا چاہئے.جو لوگ دین کے اولین فرائض میں پورا حصہ لیتے ہیں.اور انہیں کما حقہ ادا کرتے ہیں.وہ شغل ثانوی میں بھی پوری مستعدی سے کام کرتے ہیں.بعض ان کاموں کی طرف پوری توجہ نہیں دیتے یہ سمجھ کر کہ یہ دین کا حصہ نہیں ہیں.اگر یہ دین کا حصہ نہیں تو لغو کام ہیں.پھر ادھورے طور پر بھی کیوں کرتے ہیں.ان کو بالکل ترک کر دیں.حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کام بھی دین کا حصہ ہیں.ان کو بھی پوری مستعدی سے انجام دینا چاہئے.اور ان تمام شرائط کے ساتھ انجام دینا چاہئے جن کے ساتھ کامیابی حاصل ہوتی ہے.اللہ تعالی ہماری جماعت کو سمجھ عطا فرمائے اور اعمال کی توفیق دے.آمین.له الفاتحة : 4 (الفضل ۶/ ستمبر۱۹۲۷ء)
خطبات محمود ۲۵ سال 1927ء ہماری ترقی کار از ہماری روحانی طاقت میں ہے فرموده ۹ ستمبر۱۹۲۷ء بمقام شمله) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : ہر ایک بیماری کا علاج جب تک صحیح طریق پر نہ کیا جائے کبھی بھی پورے طور پر شفاء نہیں ہو سکتی.یہی اصل انفرادی اور قومی بیماریوں کے علاج کے لئے ہے.اس وقت جو مسلمانوں کے لئے تکلیف اور مصیبت کے دن ہیں.ان تکالیف اور مصائب سے نجات ممکن نہیں جب تک صحیح طور پر علاج نہ کیا جائے.اور وہ صحیح علاج جو ان کو ہر قسم کے دکھوں سے شفاء دے خدا تعالیٰ کے بتائے بغیر نہیں ہو سکتا.اور جب تک خدا تعالی کے بتائے ہوئے علاج اور طریقہ پر کار بند نہ ہوں گے ان قومی امراض سے شفاء نہیں ہوگی.عام طور پر لوگوں کو یہ بھی ٹھو کر لگتی ہے کہ وہ قومی اور مذہبی ترقی میں امتیاز و فرق نہیں کرتے.اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ صحیح اصول کو چھوڑ دیتے ہیں اور کامیاب نہیں ہوتے.قومی اور مذہبی ترقی کے اصول جدا جدا ہیں.اسلام کسی قوم کا نہیں بلکہ وہ ایک مذہب ہے اور اس کے اندر بہت سی قومیں ہیں.اگر محض قومی اصول کو مد نظر رکھا جائے تو بھی مسلمان ترقی نہیں کر سکتے.اس لئے کہ مختلف قوموں کی ترقی کے جدا جدا لاسباب ہوتے ہیں.ہر ایک قوم کی ترقی کے لئے اس کے حالات اس کی ضروریات اس کی روایات و عادات اور اس کے ماحول پر غور کرنا ضروری ہوتا ہے.اگر ان امور کو نظر انداز کر دیا جائے تو بجائے اس قوم کی ترقی کے تنزل ہوتا ہے.لیکن جب ان امور پر غور کر لیا جاتا ہے تو ایک نتیجہ نکل آتا ہے اور ترقی کی راہوں کے لئے ایک طریق مستقیم پیش ہو جاتا ہے.ہم دیکھیں گے کہ اس قوم میں فلاں باتیں خصوصاً پائی جاتی ہیں جو خصوصیات قومی ہوں گی.فلاں قومی کمزوریاں ہیں جن کو دور کرنا ضروری ہے کہ بغیر اس کے ترقی نہیں ہو سکتی.اور فلاں خوبیاں ہیں جن کی تربیت سے ان میں اور
خطبات محمود سال 1927ء بھی خوبی پیدا ہو کر ترقی کا موجب ہو سکتی ہیں.اسی طرح اس کے ماحول کو دیکھ کر ہم ان اسباب پر نظر کر سکتے ہیں جو اس کی ترقی کے مئوید ہو سکتے ہیں.مثلاً کشمیری اور افغان دو تو میں ہیں.ان کے عادات ان کی ضروریات اور قومی خصائص جدا جدا ہیں.جس اصول پر کشمیری ترقی کر سکتے ہیں.پٹھان اس اصول پر ترقی نہیں کر سکتے.اس لئے کہ دونوں قوموں کے ماحول نے ان پر جداجدا اثر ڈالا ہے.پٹھانوں کی ترقی کا سوال جب آئے گا.تو ان کی تربیت و اصلاح کے لئے ضروری ہو گا کہ ان کی خشونت اور جلد بازی میں کمی کریں.اور جب کشمیریوں کی ترقی کا سوال ہو تو ضروری ہو گا کہ ان میں جرات.خودداری.بہادری اور صداقت کے بیان کرنے میں دلیری کی قوت پیدا ہو.اگر دونوں قوموں کا علاج ایک ہی طریق پر کریں تو دونوں ہی تباہ ہو جائیں گی.افغانوں کے لئے الگ نسخہ کی ضرورت ہے اور کشمیریوں کے لئے جد ا علاج درکار ہے.پس جب تک یہ اصول مد نظر نہ رکھا جائے گا ہم ترقی نہیں کر سکتے جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے اسلام مذہب ہے کوئی قوم نہیں.بلکہ وہ مختلف اقوام کو اپنے حلقہ میں رکھتا ہے.اسلام مشتمل ہے کشمیریوں پر افغانوں پر عربوں مصریوں، ترکوں، چینیوں پر اور مختلف ممالک کے باشندے اس میں داخل ہیں.اب ہر قوم اور ملک کے مسلمانوں کے حالات ان کی ضرورتیں ان کے عادات و ماحول جُدا جُدا ہیں اس لئے یہ حیثیت قوم کے ہر قوم کی ترقی کے جدا اسباب ہونگے پس جب کہ کوئی دو قومیں بھی ایسی نہیں ہو سکتیں جو ایک مقرر قانون کے ماتحت ترقی کر سکیں تو ہزاروں کیونکر ترقی کر سکتی ہیں اس لئے یہ ضروری ہے کہ مذہبی ترقی مذہب کے اصول پر ہو.قومی ترقی ممکن ہے کہ مذہب کے بغیر بھی ہو سکے ایک بنگالی.مدراسی ، سندھی ، ترک ، عرب اپنے حالات اور عادات روایات اور ماحول میں ترقی کر سکتا ہے.مگر سب کی سب قومیں ایک ہی اصول پر ترقی کرنا چاہیں تو اس کی ایک ہی راہ ہے کہ وہ مذہبی اصول پر ترقی کریں.جب وہ مذہبی اصول کو پابندی کے ساتھ مضبوط پکڑلیں تو وہ سب کی سب ترقی کر سکیں گی.اس لئے کہ مذہب نے ان کو ایک ہی رنگ میں رنگ دیا ہے.قومی اصول پر ایک قوم ترقی کر سکتی ہے.یہ ہیئت مجموعی تمام مسلمان نہیں.یہ جدا امر ہے کہ بعض امور ان میں ترقی کے لئے مشترک بھی ہوں.چونکہ ہم چاہتے ہیں کہ تمام مسلمان ترقی کریں.اس لئے اس کے لئے ہم کو اس اصول پر کار بند ہونا چاہئے جو مذہبی ترقی کا ہے.مذہبی ترقی کے لئے ایک چیز کی ضرورت ہوتی ہے جس کو دنیا کے مخصوص حالات اپنے اندر احاطہ نہیں کر سکتے اور وہ یقین اور ایمان ہوتا ہے.اقوام کی ترقی کے لئے ان اقوام کی مخصوص شکایات اور کمزوریوں کو دور کرنا ہوتا
خطبات محمود ۲۰۲ سال 1927ء ہے اور مذہب کی ترقی کے لئے ایمان اور یقین کی ترقی کی ضرورت ہوتی ہے.یہ ایک ایسی قوت ہے جو ہر چیز کو بدل سکتی ہے.یاد رکھو کہ ایمان در اصل اکسیر اعظم ہے.یہ حقیقی اکسیر کا نام ہے.لوگ خیالی اکسیر کی تلاش میں رہتے ہیں جو قلب ماہیت کر دیتی ہے اور وہ ہر مرض کے لئے مفید ہے.لیکن میں تمہیں یقینی اکسیر کا پتہ دیتا ہوں.اور اسی کی طرف بلاتا ہوں.یہ اکسیر اکسیر ایمان ہے.اکسیر ایمان وہ قوت اور تاثیر ہے کہ ایک کشمیری کو جو اپنے ماحول اور دوسرے اسباب کے ماتحت دلیری اور جرات کا محتاج ہو گیا ہے دلیر بنادے گی.اور ایک افغان کی خشونت کو رحم اور ہمدردی سے بدل دے گی.یہ ایمانی اکسیر ان تمام کمزوریوں کو دور کر دیتی ہے جو کسی قوم میں پیدا ہو کر اس کی ذلت اور موت کا موجب ہو جاتی ہیں.بلکہ اس میں ایسا اثر ہے کہ وہ قوموں کو زندہ کر دیتی ہے.یہ یقین کہ ہم ایک ایسی بالا ہستی کو ملنے والے ہیں جو اپنی قوتوں میں بے نظیر اور تمام خوبیوں کو اپنے اندر رکھتی ہے.اور وہ ہماری تمام حاجتوں کو پورا کرنے والی ہے تو اس ایمان سے محبت اور اس محبت میں خلوص اور پھر خلوص سے کچی تڑپ پیدا ہوتی ہے.اور انسان کے اندر یہ جوش کام کرنے لگتا ہے کہ میں اس کی صفات کے موافق اپنا کیر کٹر بنالوں.جب ایمان اس درجہ تک پہنچ جاتا ہے اور عملی قوتیں نشو و نما پانے لگتی ہیں.تو ایسی قوت پیدا ہو جاتی ہے کہ اسی ایک نسخہ سے سب کمزوریاں دور ہو جاتی ہیں.بجل سخاوت سے بزدلی جرات سے سختی نرمی سے ظلم عدل و انصاف سے بے رحمی ہمدردی اور باہمی اعانت سے تبدیل ہو جاتی ہے.اور تمام رزائل دور ہو کر اخلاق فاضلہ پیدا ہو جاتے ہیں.اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تمام اقوام ایک ہی وقت میں ترقی کر سکتی ہیں.پس مسلمانوں کی ترقی کے لئے جو اصول ضروری ہے وہ ان کی مذہبی ترقی ہے.جس قدر ان میں ایمان اور یقین کی قوت ترقی کرے گی.اسی قدر وہ ترقی کی طرف جائیں گے.اور اس ایک اکسیر سے روئے زمین کے مسلمانوں کی خواہ وہ کسی قوم کے ہوں ترقی ہوگی.یہ نسخہ سب کے لئے ہے.وہ کشمیری ہوں یا افغان.ترک ہوں یا عرب.مصری ہوں یا چینی.ہندی ہوں یا کوئی اور.ایمان ہی ایک اکسیر ہے جو ہر تبدیلی کر سکتی ہے.ایمان ہی وہ قوت عطاء کرتا ہے جس کی نظیر نہیں.مسلمانوں میں اس وقت ایک قسم کی بیداری ہے اور وہ قومی ترقی کے لئے فکر مند ہیں.قومی ترقی ہو بھی رہی ہے.مگر مذہبی حیثیت سے وہ گر رہے ہیں.ترک ترقی کر رہے ہیں لیکن مذہبی حیثیت سے ہر قدم پیچھے جارہا ہے اور وہ مصریوں اور ہندوستانیوں سے جدا کرتا جاتا ہے.اسی طرح پر مصری اور ایرانی اپنے اپنے حلقہ میں ترقی کر رہے ہیں.لیکن اسلامی حیثیت سے وہ ایک دو سرے سے دور
خطبات محمود ۲۰۳ سال 1927ء ہو رہے ہیں.حقیقت یہی ہے کہ جب تک اسلام کی ترقی نہ ہو اور یقین اور ایمان نہ بڑھے ترقی کا قدم دور لے جا رہا ہے.پس قومی ترقی کی تدابیر جدا ہیں اور مذہبی ترقی کی جدا - اسلام کی ترقی کے لئے ضروری ہے ایمان اور یہ کہ ہمارے اعمال کی بنیاد اسلام پر ہو.اگر اس راہ کو ہم نے اختیار نہ کیا تو مسلمانوں کی ترقی نہ ہوگی.یہ ممکن ہے ایرانیوں.ترکوں.یا مصریوں کی ترقی ہو.مگر وہ اسلام کی ترقی نہ ہوگی جب تک مذہب کی ترقی نہ ہو.اور وہ مذہب اسلام کی عملی روح ہے.عیسائیوں کی قومی ترقی نے مذہبی ترقی کو روک دیا ہے.جو لوگ تاریخ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ مڈل ایجز (middle agen) میں گو ان کی دنیوی ترقی ایسی نہ تھی جو آج نظر آتی ہے اگر وہ ایک لائن پر چل رہے تھے.اس میں شک نہیں کہ وہ عیسائیت کے روحانی تنزل کا زمانہ بھی تھا.لیکن اسلام کی ابتدائی ترقی نے روحانی اور دنیوی ترقی کا فائدہ پہنچایا.اس سے ظاہر اور ثابت ہے کہ اسلام ایک ایسی قوت ہے جو ایک ہی وقت ہر قسم کی ترقیاں عطا کرتا ہے.پس مسلمانوں کی ترقی کار از اسلام کی ترقی میں ہے.وہ خالص اسلام جس کو رسول اللہ الی لائے.اور وہ اسلام جس کو قرآن کریم پیش کرتا ہے.وہ اسلام جو ان تمام روایات کے خارج کرنے کے بعد رہتا ہے جو یہود و نصاری اسلام میں آتے وقت اپنے ساتھ لے آئے تھے.میں اپنی جماعت کے دوستوں کو اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ایسی جماعت میں داخل ہیں جس نے بیڑا اٹھایا ہے کہ وہ نہ صرف اسلام کو اصل حالت میں لائیں گے اور ترقی دیں گے بلکہ اسے بڑھائیں گے.وہ لوگوں کو توجہ دلائیں اور مسلمانوں کے ذہن نشین کرائیں کہ ان کی ترقی ایسی حالت میں ہوگی کہ اسلامی ترقی کی روح پیدا ہو.مذہب کے جھوٹے نام سے کامیابی نہیں ہوگی.اور اگر کوئی شخص قومی اور مذہبی ترقی کو ملائے گا.تو اس سے نقصان ہو گا.یاد رکھو اور خوب یاد رکھو کہ مسلمانوں کی ترقی کا ایک اور ایک ہی طریق ہے کہ اس کی بنیاد اسلام پر ہو.پس اس بات کو مد نظر رکھ کر تبلیغ کریں گے تو باتوں میں اثر ، کلام میں روحانیت اور قلب میں صفائی پیدا ہوگی.میں خدا تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ ہم قومی ترقی کو اختیار کرتے ہوئے مذہب کی ترقی میں روک نہ ہوں.بلکہ ہماری قومی ترقی کی بنیاد اسلام کی ترقی پر ہو.آمین.الفضل ۲۰ ستمبر ۱۹۲۷ء)
خطبات محمود ۲۰۴ استقلال سے کام کرنے کی ضرورت فرموده ۷/اکتوبر۱۹۲۷ء) سال 1927ء تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: گوڈیڑھ مہینہ کی قادیان سے غیر حاضری کے بعد بہت سے ایسے مسائل تھے جن کے متعلق تفصیل سے آج کے خطبہ میں بیان کرنے کا ارادہ تھا.لیکن غالبا موسم کی تبدیلی کی وجہ سے کیونکہ شملہ میں نہایت ٹھنڈا موسم تھا مگر یہاں اچھا خاصا گرم.چونکہ میری طبیعت کمزور ہے اور بعض اوقات بخار بھی ہو جاتا ہے.اس لئے بجائے جمعہ کے خطبہ میں ان امور کو بیان کرنے کے ان امور پر تحریرا اپنے خیالات ظاہر کروں گا.سردست مختصر الفاظ میں جماعت کے دوستوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے.عبادات میں سے بہتر عبادت وہ ہے جو کہ دوام کے ساتھ اختیار کی جائے.رسول کریم نے بعض لوگوں کو دیکھا کہ وہ عبادت میں غلو کرتے ہیں روزے اتنے رکھتے ہیں جو کہ انسانی طاقت سے باہر ہیں.راتوں کو عبادت کے لئے اتنا جاگتے ہیں جو کہ انسانی طاقت سے باہر ہے.عبادت اتنی کرتے ہیں جو کہ عام انسانی طاقت کے لحاظ سے بہت زیادہ ہے.اس پر آپ نے فرمایا.خدا تعالی کو یہ طریق پسند نہیں.اللہ تعالی کو وہی طریق پسند ہے جو ہمیشہ نبھایا جا سکے.دراصل استقلال سے جو کام کیا جاتا ہے وہی نفع بخش ہوتا ہے.دنیا میں ہی دیکھ لو ایک طالب علم اگر ۲۴ گھنٹے بیٹھا پڑھتا رہے.اور پھر ایک ہفتہ ناغہ کرے تو کبھی کامیاب نہیں ہو گا.لیکن ایسا طالب علم جو روزانہ چھ سات گھنٹے پڑھتا ہے.اور باقی وقت میں سیرو تفریح کرتا ہے.آرام کرتا ہے، ہوتا ہے.وہ کامیاب ہو جائے گا.پس ہر کام جو ایک حد تک استقلال سے کیا جائے.اس میں کامیابی حاصل
خطبات محمود ۲۰۵ سال 1927ء ہوتی ہے.لیکن جن باتوں کو انسان جوش میں آکر کرتا ہے اور پھر چھوڑ دیتا ہے ان کے اثرات مٹ جاتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ انسانی قلب اور دماغ ایک وقت میں ایک حد تک ہی کسی چیز کو جذب کر سکتا ہے انسانی قلب و دماغ کی مثال کھیت کی سی ہے کسان کبھی یہ نہیں کر سکتے کہ کھیت کو ایک ہی دفعہ چھ سات دفعہ کا پانی دے لیں.مثلاً گنا بویا ہے تو کبھی یہ نہیں کیا جائے گا کہ چھ سات دفعہ پانی دینے کی بجائے ایک ہی دفعہ اکٹھا پانی دے لیا جائے.اور سمجھ لیا جائے کہ اتنے انچ پانی دینا ہے.ایک ہی دفعہ کیوں نہ سارا دے لیا جائے.یا کوئی کے ہفتہ بھر کا کھانا ایک ہی دفعہ کھالوں.تو یہ بھی نہیں کر سکتا.ایک دفعہ کا کھایا ہوا کھانا خواہ کتنا ہی زیادہ ہو تین دن تک بھی کافی نہیں ہو سکتا.دو دن تک بھی نہیں ہو سکتا.زیادہ سے زیادہ تیسرے وقت بھوک لگ جائے گی.وجہ یہ ہے کہ معدہ جتنا کھانا جذب کرنے کی طاقت رکھتا ہو گا اتنا جذب کرلے گا اور باقی کو فضلہ کے طور پر خارج کر دیگا.یہی حال انسانی دماغ کا ہے.ایک ہی وقت میں علم و عرفان و روحانیت کی ساری باتیں کبھی اس میں داخل نہیں ہو سکتیں.ایک وقت میں دماغ اتنی ہی باتیں جذب کرے گا جتنی اس کی طاقت ہوگی.اور باقی کو اصلی شکل میں یا فضلہ کے طور پر نکال دیگا.اور اس طرح وہ باتیں ضائع جائیں گی پس تمام کام استقلال اور آہستگی سے ہی ہوتے ہیں.اور جو اس طریق کو اختیار کرتے ہیں وہی کامیاب ہوتے ہیں.میں نے مسلمانوں کی افسوسناک حالت کو دیکھتے ہوئے چند تجاویز اپنی جماعت کے دوستوں اور دوسرے مسلمانوں کے سامنے پیش کی تھیں.یہ اللہ تعالٰی کا فضل ہے کہ سب لوگوں کو ان کی طرف توجہ پیدا ہوئی.شیعہ.سنی.وہابی اور دوسرے اسلامی فرقوں کے لوگوں نے ان کی طرف توجہ کی.اور بعض علاقوں میں ستر اسی نوے فیصدی لوگوں نے توجہ کی.دور دور کے ایسے علاقے جہاں اردو زبان نہیں سمجھی جاتی.اور جہاں کے لوگوں کو اپنی باتوں سے آگاہ کرنے کے ذرائع مسدود ہیں.ان میں بیشک کم توجہ ہوئی.لیکن یہ مجبوری کی وجہ سے تھی ورنہ جہاں جہاں آواز پہنچی.وہاں کے لوگوں نے اچھی طرح توجہ کی.لیکن صرف ایک وقت کسی بات کی طرف توجہ کرنا مفید نہیں ہو سکتا.خواہ وہ بات کس قدر فائدہ بخش کیوں نہ ہو.ہمیشہ استقلال سے کسی بات پر عمل کرنا ہی مفید ہو سکتا ہے.اور جب تک استقلال سے عمل نہ کیا جائے کوئی اچھا نتیجہ نہیں نکل سکتا.مثلاً میں نے ایک تحریک یہ کی تھی کہ ہماری جماعت کے لوگ اپنے ہاتھ میں سوئیا رکھیں.میری ہی تحریک نہ تھی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بھی تھی.ایک دفعہ حضرت صاحب نے مجھے بلا کر کہا تھا جب باہر جاؤ سوٹا ہاتھ میں رکھو.یہی وجہ ہے کہ میں ہمیشہ ہاتھ
خطبات محمود ۲۰۶ سال 1927ء میں چھڑی رکھتا ہوں.آپ نے فرمایا جب گھر سے باہر نکلو کوٹ پہن کر نکلو صرف کرتا پہن کر نہ نکلو اور سونٹا ہاتھ میں رکھو.پھر جب بھی حضرت صاحب خود باہر جاتے ہمیشہ سونٹا ہاتھ میں رکھتے.حضرت صاحب سے زیادہ لڑائی جھگڑے سے بچنے والا اور کون ہو سکتا ہے.آپ کا تو نام ہی امن کا شہزادہ تھا.اور آپ کے زمانہ کے متعلق رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ لڑائی منائی جائے گی.آپ چھڑی رکھتے تھے.مگر بعض نادان کہتے ہیں سونٹا ر کھنے کی تحریک کرنا لڑائی کی تعلیم دینا ہے.اور وہ سونا پکڑتے ہوئے شرماتے ہیں.حالانکہ جس کے وہ مرید کہلاتے ہیں.اور جس کی پیروی میں نجات سمجھتے ہیں.اور جسے ہدایت کا سرچشمہ قرار دیتے ہیں.اس کے متعلق کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ کبھی بغیر سونٹا لئے گھر سے نکلا ہو.پھر آپ کا سوٹا زینت کا سونٹا نہ ہو تا تھا کہ پتلی سی چھڑی ہو.بلکہ کار آمد سونا ہو تا تھا اپنے ہاتھ چھڑی دکھا کر) میں نہیں سمجھتا کبھی اس سے کم کسی نے آپ کے ہاتھ میں سونا دیکھا ہو.اتنا یا اس سے موٹا ہو تا تھا.میں نے آپ کے کہنے پر چھڑی رکھنی شروع کی اور اب اگر کسی وجہ سے بغیر چھڑی کے نکلوں تو گھبراہٹ اور بے چینی سی محسوس ہوتی ہے.مگر میں نے اس تحریک کے متعلق دیکھا ہے کہ بعض دوستوں نے تو توجہ کی مگر بہتوں نے نہیں کی.انہوں نے سمجھا یہ کرپان کے جواب میں کہا گیا ہے مگر ہمیں کر پان کا جواب دینے کی کیا ضرورت ہے.جب تک سکھ کر پان نیام میں رکھتے ہیں.ہمیں کیا ضرورت ہے کہ اس کا جواب دیں.میں نے تو محض اس لئے تحریک کی تھی کہ اس طرح قدرتی طور پر جرات اور دلیری پیدا ہوتی ہے.مگر میں نے دیکھا ہے شروع شروع میں قادیان میں ساٹھ فی صدی لوگوں نے سونٹار کھنا شروع کر دیا تھا.اور اب آکر دیکھا.تو تین چار فی صدی رہ گیا ہے.اب بھلا سونے چھوڑ تلوار میں اور بندوقیں بھی لئے پھر و تو مہینہ ڈیڑھ مہینہ میں کیا تغیر پیدا ہو سکتا ہے.میں تو کہتا ہوں اگر کسی سے توپ اٹھائی جا سکے تو وہ توپ بھی اٹھا لے.اور سارے جنگ کے سامان اپنے اوپر لاد لے تو بھی اس طریق سے کوئی تغییر نہیں پیدا ہو سکتا.اس کے مقابلہ میں اگر معمولی چھڑی بھی پانچ چھ سال رکھو تو آہستہ آہستہ جرات اور دلیری کے جذبات پیدا ہونے شروع ہو جائیں گے.اسی طرح تمدنی اصلاح کے متعلق جو تحریک کی گئی ہے ہر جگہ اس پر جوش دکھایا گیا ہے.مگر اب بعض جگہ سے رپورٹیں آرہی ہیں کہ لوگ ست ہو رہے ہیں.میں نے جہاں تک غور کیا ہے مسلمانوں کی تباہی کا باعث ہی یہ ہے کہ ان میں استقلال نہیں رہا.اور انہوں نے رسول کریم اے کی اس بات کو بھلا دیا ہے کہ بہتر عبادت رہی ہے جس پر دوام اختیار کیا جا سکے.کسی عبادت پر جتنا زیادہ دوام اختیار کیا جاسکے اتنی ہی وہ بہتر
خطبات ۲۰۷ سال 1927ء ہوگی.چند دن کوئی کام کرنے سے بھی نفع نہیں ہو سکتا.مثلاً کچھ دن ساری ساری رات نوافل پڑھتے رہو.لیکن پھر چھ ماہ تک نوافل کے ساتھ ہی فرائض بھی چھوڑ دو تو قلب ایسا ہی زنگ آلود ہو جائے گا جیسا ایک کافر کا ہو گا.چھ ماہ تو بہت بڑا عرصہ ہے ایک دن فرائض ترک کرنے سے بھی ایمان سکڑ کر اتنا رہ جائیگا کہ جتنا کسی ادنے درجہ کے مومن کا بھی نہیں ہو گا.پھر ایک دن بھی زیادہ ہے.میں تو کہتا ہوں اگر کوئی پورا ایک سال ساری ساری رات کھڑا رہ کر عبادت کرتا رہے.اور پھر ایک وقت کی نماز جان بوجھ کر سو جانے یا بھول جانے یا کسی آفت کے آجانے کی وجہ سے نہیں اراد تا چھوڑ دے تو اس کا دل سیاہ ہو جائے گا.بات یہ ہے کہ استقلال ہی اصل چیز ہے جو نیکی پیدا کرتا ہے اور فاتح بناتا ہے.میں تو یہ پسند نہیں کرتا کہ کوئی بھی مسلمان دین کی خدمت سے پیچھے رہے.مگر کم از کم اپنی جماعت کے لئے تو یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ وہ کوئی قومی.تمدنی اور دینی کام شروع کرے اور پھر چند دن کے بعد چھوڑ کے بیٹھ رہے.پس میں اپنی جماعت کو خاص طور پر توجہ دلاتا ہوں کہ وہ استقلال سے کام کرے.اسی طرح میں یہ بھی کہتا ہوں کہ جس طرح استقلال کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے.اس طرح کامیابی کے لئے روپیہ خرچ کرنے کی بھی ضرورت ہے.میں نے ریزرو فنڈ کی طرف توجہ دلائی تھی.مگر بہت کم لوگوں نے ادھر توجہ کی ہے.چند کو چھوڑ کر بہت ایسے ہیں جنہوں نے زبانی وعدے کئے مگر عملاً وہ ایسے ہی نکلے جیسے کہ انہوں نے وعدے نہ کئے تھے.یہ نہایت افسوس کی بات ہے.اور ایک زندہ قوم میں ایسی مثال ماتم کی بات ہے.میں امید کرتا ہوں کہ جماعت کے دوست ستی کو چھوڑ کر اپنے کام کی اہمیت کو سمجھیں گے.اور اس طرح کام کریں گے کہ تبلیغ دنیا کے کناروں تک پہنچا سکیں.موجودہ زمانہ میں تو حالات ہی اس قسم کے ہیں کہ کامیابی حاصل کرنے کے لئے وقت کا خیال رکھنے کی بہت سخت ضرورت ہے.کیونکہ مقابلہ ان اقوام سے ہے جن کے پاس آمدو رفت کے ذرائع بہت وسیع ہیں.اور وہ تھوڑے سے تھوڑے وقت میں حالات پر قابو پا سکتی ہیں.پہلے زمانہ میں تو یہ حال تھا کہ ایک شخص پیدل گھر سے نکل کھڑا ہوتا بھوکا پیاسا جنگل کی بوٹیاں کھا کر گزارہ کرتا اور تکیہ کرتا جاتا تھا.مگر آج کون بے وقوف ہے جو اس طرح کرے.جتنی دیر میں اس طرح چل کر وہ کہیں پہنچے گا اتنے عرصہ میں وہاں کے لوگوں کو دوسرے پوری طرح گمراہ کر چکے ہونگے.مثلاً یہاں سے کوئی بنگال میں تبلیغ کرنے کے لئے پیدل روانہ ہو تو کم سے کم چھ ماہ میں وہاں پہنچے گا.اور پھر مجاہد نہ کہلائے گا کیونکہ وہ ریل کے ذریعہ وہاں جلدی پہنچ کر بہت کچھ کام کر سکتا تھا.پس وہ ذرائع جو اس وقت پیدا ہو چکے ہیں.
خطبات محمود ۲۰۸ سال 1927ء ان کو چھوڑنا بے وقوفی ہے.اور جب دشمن ان کو استعمال کر رہا ہو تو ان کا چھوڑنا خود کشی ہے.جب تلواروں سے جنگ ہوتی تھی.اس وقت تلواروں سے جنگ کرنا موزوں تھا.مگر آج تو ہوں کے مقابلہ میں تلواروں سے مقابلہ کیا جائے تو یہ خود کشی ہوگی.بخارا کے امیر کا واقعہ لکھا ہے کہ جب روس نے اس پر حملہ کرنا چاہا تو اس نے علماء کو بلا کر مشورہ کیا کہ صلح کرلینی چاہئے.علماء نے کہا کافروں سے صلح کیسی.جنگ کرنی چاہئے.ہم آیتیں پڑھیں گے اور ان کو مغلوب کرلیں گے.اس پر مقابلہ کی تیاری ہوئی.اور علماء بکریوں کے لئے پتے جھاڑنے والی لکڑیاں اور رسے لیکر نکل کھڑے ہوئے.اور وہ آیتیں جو ان کے نزدیک سحر کو دور کرنے والی تھیں.پڑھنی شروع کیں.لیکن جب روسیوں کی طرف سے گولہ باری ہوئی تو سحر ہیں.لیکن جہ سحر کرتے سارے بھاگ گئے.ہر زمانہ کے حالات کے مطابق مقابلہ کرنا ضروری ہوتا ہے.ایک زمانہ ایسا تھا جب پیدل چلنے والا تبلیغ کر سکتا تھا.جہاں تک اس کا بس چلتا.وہ کام کرتا.آگے دوسرے اس کام کو چلاتے.مگر اب دنوں مہینوں اور سالوں میں بڑے بڑے تغیرات ہو جاتے ہیں ریل.تار ہوائی جہاز.وائرلیس.ریڈیو نے انسانوں کو ایک دوسرے کے ایسا قریب کر دیا ہے کہ ہو شیار انسان ایک جگہ بیٹھا سب دنیا کو اپنی باتیں سنا سکتا ہے.جب ہم ولایت گئے.تو چاروں طرف سے شور پیدا ہو گیا اور جتنے عرصہ میں ہم ولایت سے واپس بھی آگئے.پرانے زمانہ میں اس سے چار گنا عرصہ میں کوئی ولایت کی زمین کو ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا تھا.اس وقت جہاں جہاں چار ماہ کے عرصہ میں اطلاع پہنچی.اور تیرہ آدمیوں نے جتنے عرصہ میں کام کیا.اگر تیرہ آدمی ساری عمر بھی خرچ کر دیتے تو اس کے ہزارویں حصہ تک بھی خبر نہ پہنچا سکتے.پس اس زمانہ میں جب کہ خدا تعالٰی نے ایسے سامان پیدا کر دئیے ہیں.جن کے ذریعہ جلد سے جلد کام کیا جا سکتا ہے.تو یہ خیال کرنا کہ بغیر روپیہ کے کام ہو سکتا ہے.بے وقوفی ہے.یہ زمانہ ایسا ہے کہ مال سے ہی کام چل سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ماننے والوں سے یہ عہد لیا ہے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم کریں گے.کیا یہ عجیب بات نہیں کہ عملی باتوں میں سے جس کا وعدہ لیا گیا ہے.وہ یہ ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم کریں گے.جس کے معنے یہ ہیں کہ یہ زمانہ ایسا ہے کہ ذاتی قربانی کوئی ہستی نہیں رکھتی جب تک اسے پھیلانے کے سامان نہ ہوں.اور وہ سامان روپیہ ہے.ایک آدمی خواہ کتنا ہی کام کرے دو سرا جو آجکل کے پیدا شدہ ذرائع سے کام
خطبات محمود ۲۰۹ سال 1927ء کر سکتا ہے.اتنا نہیں کر سکتا.پس ضروری ہے کہ ان ذرائع سے کام لینے کے لئے ایسا مستقل فنڈ قائم کیا جائے کہ تبلیغ کا کام جاری رہے.اور اس میں کسی وقت کمی نہ آئے.خدا کی قدرت ہے.جو بات ہمارے منہ سے نکلتی ہے.دوسرے بھی وہی اختیار کر لیتے ہیں میں نے اعلان کیا تھا کہ پچیس لاکھ ریزرو فنڈ قائم کیا جائے.اب سر عبدالرحیم نے بدایوں میں تقریر کرتے ہوئے کہا ہے تبلیغ کے کام کے لئے میں سے تیس لاکھ تک کی رقم مستقل فنڈ کی چاہئے.گویا وہ آواز جو ہم نے بلند کی تھی دوسرے بھی اس کی طرف توجہ کر رہے ہیں.پھر اگر اپنی جماعت کے لوگ بے توجہی برتیں تو کتنے افسوس کی بات ہے پس میں اپنی جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ تحریکیں جو چلائی گئی ہیں.استقلال سے ان پر عمل کریں اور ریز رو ننڈ کو مضبوط کریں.کیونکہ جب تک مالی حالت کو مضبوط نہ کریں گے کام استقلال سے نہ کر سکیں گے.الفضل ۱۴ اکتوبر ۱۹۲۷ء)
۲۱۰ خدائی سلسلوں کی مخالفت (فرموده ۱/۱۴ اکتوبر ۱۹۲۷ء) سال 1927ء تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: یہ اللہ تعالٰی کی سنت ہے کہ جب بھی کوئی الہی سلسلہ اور روحانی جماعت قائم ہوتی ہے تو اس کے راستہ میں قسم قسم کی مشکلات اور مصائب ایک لحاظ سے تو اللہ تعالی کے قانون کے ماتحت ہوا کرتی ہیں.اللہ تعالی دنیا کو یہ دکھانا چاہتا ہے کہ اس سلسلہ کی بنیاد کسی انسانی خیال اور تجویز پر نہیں.بلکہ اس کی بنیاد اللہ تعالی کے فضل پر ہے.لیکن اصل میں یہ مشکلات جیسا کہ قرآن کریم سے ثابت ہے شیطان کی طرف سے آتی ہیں.اللہ تعالی فرماتا ہے.وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولِ وَلَا نَبِتِ إِلَّا إِذَا تَمَتَّى الْقَى الشَّيْطَنُ فِى أُمَنَيَتِهِ فَيَنْسَعُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَنُ ثُمَّ يُحكم الله التِهِ وَ اللهُ عَلِيمٌ حَكِيمُ (الج : ۵۳) کہ ہر نبی اور رسول خدا بھیجتا ہے.وہ جن خواہشوں.جن مقاصد اور جن امور کو لیکر آتا ہے.ان کے پورا ہونے میں شیطان روک ڈالتا ہے.کوئی بھی نبی اور رسول ایسا نہیں آیا جس کے ہر مقصد ہر دعا ہر مطلب اور ہر تڑپ کے آگے شیطان نے روکیں نہ ڈالی ہوں.کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر نبی کامیاب ہو گیا تو پھر میرا ٹھکانا کہیں نہیں.جس طرح مرتا ہوا آدمی پورا زور لگاتا ہے.اسی طرح شیطان اور اس کی ذریت انبیاء اور ان کی جماعت کے خلاف پورا زور لگاتی ہے جنہوں نے مرنے والوں کو دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ اس بے ہوشی میں جس میں دنیا و مافیہا کی کوئی خبر نہیں ہوتی.جب کہ ساری طاقت زائل ہو چکی ہوتی ہے اور تمام قوت خرچ ہو چکی ہوتی ہے مگر مرنے سے چند ساعت پہلے مرنے والا اس طرح زور لگاتا ہے کہ گویا وہ اس دنیا میں واپس آنا چاہتا ہے.
خطبات محمود سال 1927ء اس کا سارا جسم ہل جاتا ہے.گردن اٹھ جاتی ہے.اور وہ اپنی طاقت کا آخری ذرہ تک اس لئے خرچ کر دیتا ہے کہ بچ جاؤں.یہ اس انسان کی حالت ہوتی ہے جو بیہوشی میں ہوتا ہے.جس کی طاقت خرچ ہو چکی ہوتی ہے.جو سوکھ کر کانٹا ہو چکا ہوتا ہے.پھر اس کی کیا حالت ہوگی جو بے ہوش نہ ہو.اور جس کی طاقت خرچ نہ ہوئی ہو.ایک چھوٹے بچہ کو ہی کنوئیں میں ڈراوے کے طور پر و تکمیل کر دیکھو کس طرح وہ چمٹ جاتا ہے.عام طاقت سے آٹھ دس گنے زیادہ طاقت اس میں ہو جائیگی.ایک ایسا آدمی جسے کشتی میں پہلوان ایک منٹ میں گرا سکتا ہے.اس کے متعلق پہلوان سے کہو.کنوئیں میں گرا کر تو دیکھیے.ایک منٹ چھوڑ ایک گھنٹہ میں بھی نہیں گرا سکے گا.کیوں؟ اس لئے کہ کشتی میں تو وہ سمجھتا ہے کہ مقابلہ ہے اگر گر بھی گیا تو کیا ہوا مگر جب وہ یہ سمجھے کہ موت آنے لگی ہے تو اس طرح ساری طاقت خرچ کرے گا اور اتنا زور لگائے گا کہ اول تو زبر دست کے برابر ہو جائے گا.ورنہ اس کے قریب قریب رہے گا.جب خدا تعالٰی کی طرف سے دنیا میں کوئی سلسلہ قائم کیا جاتا ہے تو اس وقت زیادہ جوش اور طاقت کے ساتھ ایسی ارواح خبیثہ جو شیطان سے تعلق رکھتی ہیں.یا بعض گناہوں کی وجہ - شیطان نے ان پر تصرف پایا ہوتا ہے جوش میں آجاتی ہیں اور سارا زور اس بات کے لئے لگاتی ہیں کہ کسی طرح سچائی دنیا میں نہ پھیلے.ایسے لوگ دیدہ دانستہ جانتے بوجھتے شیطان کے قبضہ میں آجاتے ہیں.لیکن کچھ اور ہوتے ہیں جو اپنے نفس کی شیطنت سے خود بھی واقف نہیں ہوتے.وہ شیطان کے ہتھیار ہوتے ہیں لیکن سمجھتے ہیں شیطان سے ان کا کوئی تعلق نہیں ان کی آنکھوں پر پردے پڑے ہوتے ہیں.اور ان کے دل غلافوں میں ہوتے ہیں.وہ آنکھیں رکھتے ہیں مگر دیکھتے نہیں.وہ دل رکھتے ہیں مگر سمجھتے نہیں.اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ مجرم نہیں.ان کی آنکھوں کا پردہ میں اور دل کا غلاف میں ہونا بھی ان کے جرم کے نتیجہ میں ہے.ابو جہل کیا یہ سمجھتا تھا کہ رسول کریم ﷺ کی مخالفت کرتے ہوئے اس پر خدا کا غضب نازل ہو گا.اگر وہ یہ سمجھتا تو بدر کے میدان میں یہ کیوں کہتا کہ اے خدا اگر محمد سچا ہے تو ہم پر پتھر برسا- (الانفال : ۳۳) لیکن ابو جهل جس جہالت میں مبتلا تھا وہ چونکہ اس کے گناہوں کا نتیجہ تھا اس لئے سزا سے نہیں بچ سکا.اسی جہالت کی سزا سے کوئی بچ سکتا ہے جو گناہوں کے نتیجہ میں نہیں ہوتی.ایک پاگل دماغ میں نقص آجانے پر اگر کوئی حرکت کرتا ہے تو وہ سزا سے محفوظ رہ سکتا ہے.مگر وہ جو رسول کی مخالفت کی وجہ سے پاگل ہوتا ہے وہ سزا سے محفوظ نہیں رہ سکتا.اسی طرح وہ آدمی جسے ایسے سامان میسر ہوں کہ دین حاصل
خطبات محمود ۲۱۲ سال 1927ء کر سکتا ہو.خدا کے بچے دین کو سمجھ سکتا ہو.وہ اگر جہالت سے اٹھی سلسلہ میں روک بنتا ہے تو اللہ تعالٰی یا تو اسے سمجھنے کی توفیق دے دیتا ہے یا مقابلہ کی توفیق نہیں دیتا.مگر جو گناہوں کے زنگ اور شرارت کی وجہ سے خدا کی طرف سے سزا دیا جاتا ہے کہ الہی سلسلہ کی مخالفت کرے اس کی جہالت کا عذر نہیں سنا جا سکتا.کیونکہ اگر اس کا عذر بھی سنا جا سکتا ہے تو پھر کسی کو بھی سزا نہیں دی جاسکتی.وجہ یہ کہ ہر بدی جہالت کی وجہ سے ہوتی ہے.قرآن کریم میں اس کا ذکر آتا ہے پھر کیا کسی کو بھی سزا نہ ملنی چاہئے.مگر حق یہ ہے کہ جہالتیں دو قسم کی ہیں.ایک عدم علم کی وجہ سے.دوسری زنگ قلب کی وجہ سے.جو عدم علم کی وجہ سے ہوتی ہے اس کی کوئی سزا نہیں ہوتی اور جو زنگ قلب کی وجہ سے ہوتی ہے وہ چونکہ خود سزا ہوتی ہے.اس لئے وہ سزا میں روک نہیں بن سکتی.اس حالت میں اسے بنایا ہی اس لئے جاتا ہے کہ وہ سزا کا مستحق ہو.اگر اس کی وجہ سے سزا سے نکل گیا تو یہ سزا نہ رہی بلکہ رحمت ہو گئی.غرض اللہ تعالی کی طرف سے ہمیشہ الٹی سلسلہ کے مقابلہ میں ایسے لوگ کھڑے ہوتے ہیں جو روک بنتے ہیں.یہ لوگ کبھی تو ایسے ہوتے ہیں جو ان سلسلوں میں نام کے لحاظ سے شامل ہوتے ہیں جیسے عبداللہ بن ابی بن سلول.اور بعض ایسے ہوتے ہیں جو نام کی طرف تو منسوب ہوتے ہیں لیکن نظام کی طرف منسوب نہیں ہوتے.جیسے حضرت علی کے زمانہ میں خوارج تھے.اور کبھی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو نہ نام کی طرف منسوب ہوتے ہیں.نہ نظام کے لحاظ سے کوئی تعلق رکھتے ہیں جیسے مکہ کے کفار.یہود اور نصاری.اسی قسم کے لوگ ہماری جماعت کے مقابلہ میں بھی کھڑے ہوتے ہیں.کچھ تو منافق ہیں.جو احمدی کہلاتے ہیں مگر ایسی باتیں پھیلانے میں لگے رہتے ہیں جن سے جماعت میں تفرقہ پیدا ہو.جماعت کی قدر و وقعت دوسروں کی نظروں سے گر جائے.دوسرے وہ لوگ ہیں جو نام میں تو شریک ہیں مگر نظام میں شریک نہیں.ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ نظام جماعت کو توڑ دیں پھر کچھ وہ ہیں جو نہ نام میں شریک ہیں نہ نظام میں.ان کی یہ کوشش ہے کہ جماعت ہی ٹوٹ جائے.لیکن تینوں قسم کے لوگ خدا کے ہاتھ کو نہیں دیکھتے.خدا تعالی کا منشاء ہے کہ جماعت احمدیہ کو قائم کرے.اس کے نظام کو مضبوط کرے.اس کی قدرد عظمت کو بڑھائے.پس جو اس کے مقابلہ میں کھڑا ہو گاذلیل و رسوا ہو گا.خواہ وہ احمدی کہلانے والا منافق ہو اور اتنا ہو شیار منافق ہو کہ خود اپنی طرف سے کوئی بات نہ کے بلکہ اس طرح تفرقہ اندازی کرے کہ لوگ یوں کہتے ہیں.منافق دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جو یہ کہتے ہیں کہ فلاں میں یہ یہ عیب پائے جاتے ہیں اور
خطبات محمود ۲۱۳ سال 1927ء دوسرے ان سے بھی بد تر ہوتے ہیں.وہ یوں کہتے ہیں کہ ہم تو نہیں کہتے مگر لوگ یہ کہتے ہیں.مگر سوال یہ ہے کہ اگر تم نہیں کہتے تو پھر تمہیں دوسروں کی باتیں دہرانے کی کیا ضرورت ہے.یہ دراصل ان کی چال ہوتی ہے.تاکہ اگر تحقیقات شروع ہو اور مقدمہ چلے تو وہ کہہ دیں کہ ہم نے تو کچھ نہیں کہا لوگ یوں کہتے تھے.خدا تعالٰی نے ایسے لوگوں کو بھی منافق قرار دیا ہے اور فرماتا ہے.انہیں جب کوئی خوف یا امن کی بات معلوم ہوتی ہے.تو اسے پھیلا دیتے ہیں دیکھو خوف کی بات تو الگ رہی فرماتا ہے جو امن کی بات کو بھی خود سرانہ طور پر پھیلاتا ہے وہ کمزوری ایمان کا ثبوت پیش کرتا ہے.اس کا کام یہ تھا کہ نبی یا اس کے خلیفہ کے پاس جاتا اور اس کے سامنے وہ بات پیش کرتا.پھر اگر وہ اجازت دیتا تب پھیلا تا.غور کرو جب امن کی بات خود بخود پھیلانے سے انسان منافق کہلاتا ہے.تو کیا حال ہو گا اس کا جو فتنہ کی باتیں پھیلاتا ہے.مگر دوسری قسم کا منافق اس سے بھی بد تر ہوتا ہے.کیونکہ پہلی قسم کے منافق میں اتنی تو جرأت یا یوں کہو اتنی بے حیائی پیدا ہو چکی ہوتی ہے کہ وہ لوگوں میں کہہ دیتا ہے کہ یہ خرابی پیدا ہو گئی ہے.مگر ایک دوسرا منافق ہوتا ہے جس میں یہ بات بھی نہیں ہوتی.بلکہ اس کا یہ طریق ہوتا ہے کہ جن لوگوں کو ایمانی لحاظ سے کمزور سمجھے یا جن کو کمزور بنا دینے کی اپنے اندر طاقت سمجھے ان کے سامنے ایسی باتیں کرتا ہے اور پھر وہ باتیں دوسروں کی طرف منسوب کرتا ہے.اس میں اسے پر نظر چو ہے کی طرح دوسرا سوراخ ہوتا ہے تاکہ اگر کوئی پکڑنے لگے تو دوسرے رستہ سے بھاگ جائے.یہ سب سے زیادہ منافق ہوتا ہے.اس سے جرأت قطعاً مفقود ہو چکی ہوتی ہے.دوسرا طبقہ منافقوں کا وہ ہوتا ہے جو نام کی طرف تو منسوب ہوتا ہے مگر نظام میں شریک نہیں ہو تا.جیسے غیر مبائعین ہیں انہوں نے ہم سے صلح کے وعدے کئے.مخالفت نہ کرنے کے اقرار کئے.مگر باوجود اس کے کہ ہم وعدہ پر قائم ہیں.وہ متواتر ایسے مسائل اٹھاتے رہتے ہیں جن کے ذریعہ دوسرے لوگوں اور ہم میں لڑائی کرائیں.اور وہ اندرونی منافق جن کو اب جماعت سے نکال دیا گیا یا جو پہلے نکلے ان سے مل کر ہمارے خلاف کوششیں کرتے رہتے ہیں.تیسرے طبقہ میں وہ لوگ ہیں جو ہماری جماعت کی طرف منسوب نہیں.ان کے دل بغض اور عداوت سے پر ہیں.خواہ وہ مسلمان کہلانے والوں میں سے ہوں.یا عیسائیوں.یہودیوں میں سے یا ہندوؤں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں میں سے ان سب میں سے ایک طبقہ ایسا ہے جو ہماری مخالفت میں دن رات لگا رہتا ہے.مسلمانوں میں سے ایسے لوگ بھی ہیں جو فراخ دلی سے ہماری
خطبات محمود ۲۱۴ سال 1927ء دینی خدمات کی قدر کرتے ہیں.اور دوسروں کو قدر کرنے کی ترغیب دیتے ہیں اور کہتے ہیں تم بھی احمدیوں کی طرح کام کرو.میں سمجھتا ہوں ایسے لوگ اپنے اندر یکی رکھتے ہیں اور قابل قدر ہیں میں ان کی نسبت اس وقت نہیں کہہ رہا بلکہ ایسے لوگوں کے متعلق کہہ رہا ہوں جو ہمیشہ ہماری ہر نیکی کو بدی قرار دیتے ہیں.انہیں جب کبھی کوئی ایسا موقع ملے کہ وہ ہم پر اعتراض کر سکیں تو یہ ان کے لئے عید کا دن ہوتا ہے.مگر مومن کے لئے ایسی باتوں سے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں.جب ہم نے ایک صداقت اور حق کو تسلیم کرلیا ہے اور سمجھ سوچ کر تعلیم کیا ہے تو پھر اعتراض کیا چیز ہوتے ہیں.دیکھو اگر کوئی بیان کرے کہ مجھے ایک دوست ملنے آئیں گے جن کا اس قسم کا کوٹ ہو گا.ایسا پاجامہ.لیکن جب وہ آئے اور اس قسم کے کپڑے نہ پہنے ہوئے ہو تو کیا اس کے دوست ہونے سے ہی انکار کر دیا جائے گا.یہ چیزیں جو بیان کی گئی تھیں ایسی ہیں جو بدلنے والی ہیں اور جو بدلی جاسکتی ہیں.پھر بعض دفعہ نظر کی غلطی بھی ہو جاتی ہے ایسی باتوں سے دوست کا انکار نہیں کیا جائے گا کہ اس کا ایسا کوٹ نہیں یا دیا پا جامہ نہیں جیسا میں نے دیکھایا سمجھا تھا.جب آنکھیں اس کے دوست ہونے کی گواہی دے رہی ہیں.تو اس کے کپڑوں کی تبدیلی سے اس کا انکار کس طرح کیا جا سکتا ہے.ایسے موقعہ پر یہی کہا جائے گا کہ آنکھوں کو غلطی لگ گئی.یا بعد میں تبدیلی ہو گئی.اسی طرح سلسلہ یا نظام سلسلہ کے متعلق اعتراض سن کر کوئی ایسا شخص جس نے سمجھ کر مانا ہے کس طرح اسے چھوڑ دے گا.ایک مسلمان کو رسول اور نبی کی صداقت پر کم از کم اتنا ایمان تو ضرور ہونا چاہئے جتنا سورج کے موجود ہونے پر ہوتا ہے.اب اگر کوئی دن کو کہے کہ سورج نہیں چڑھا ہوا تو کیا اس کا کہنا درست مان لیا جائے گا.اسی طرح اگر کوئی رسول پر اعتراض کرتا ہے.یا نظام سلسلہ پر اعتراض کرتا ہے تو کیونکر اس کے اعتراض کو درست تسلیم کر لیا جائے گا.ایسی حالت میں دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں ایک تو یہ کہ پہچاننے میں غلطی لگی.نظر نے غلطی کھائی یا یہ کہ ایسی باتیں ہوا ہی کرتی ہیں ان سے نبی کی شان میں کوئی حرف نہیں آتا مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر لوگ اعتراض کرتے تھے کہ آپ اچھا کھانا کھاتے ہیں.بیوی کو زیور بنا کر دیتے ہیں.بادام روغن استعمال کرتے ہیں.آپ کی صداقت پر ایمان رکھنے والا کہے گا آپ دماغی کام کرتے تھے اس لئے اچھا کھانے میں کیا حرج ہے.اور آپ کو اعصابی کمزوری تھی اس لئے بادام روغن استعمال کرتے تھے.بیوی کو زیور یا کپڑے بنوا کر دینا کہاں منع ہے.تو بعض دفعہ بات صحیح ہوتی ہے اور قابل اعتراض نہیں ہوتی.اس لئے یہی کہا جائے گا کہ کہنے والا جھوٹ بولتا ہے یا جھوٹ نہیں بولتا غاط فہمی میں مبتلا ہے.
خطبات محمود ۲۱۵ سال 1927ء یا غلطی میں مبتلا نہیں جسے اعتراض سمجھتا ہے وہ اعتراض نہیں ہے.اسی طرح نظام سلسلہ ہے یا جماعت اور خلیفہ کے تعلقات ہیں.اس کے لئے جماعت کی روحانی حالت اور اس کے ایمان کو دیکھنا چاہئے.اور ان دلائل سے پر کھنا چاہئے جو قرآن میں بیان ہوئے ہیں.اگر کوئی اس طرح کرتا ہے اور ان دلائل کو دیکھنے کے بعد ایمان لاتا ہے تو پھر کسی اعتراض کی وجہ سے اسے شبہ کسی طرح پیدا ہو سکتا ہے.اور اگر اسے شبہ پیدا ہوتا ہے تو معلوم ہوا اس نے دلائل کی رو سے نہیں مانا تھا اور اس کا یہ کہنا کہ وہ دلائل کے رو سے ایمان لایا تھا.جھوٹ ہے.ایک نابینا اگر کسی سے سن کر یہ کہہ دے کہ سورج چڑھا ہوا ہے مگر دوسرا شخص اسے کہہ دے نہیں چڑھا ہوا تو وہ کہہ دے گا نہیں چڑھا ہوا کیونکہ اس نے سن کر مانا تھا کہ سورج چڑھا ہوا ہے خود نہیں دیکھا تھا.اس لئے جب اسے یہ کہہ دیا گیا کہ نہیں چڑھا ہوا تو اس نے بھی یہی کہہ دیا.لیکن جس نے اپنی آنکھوں سے سورج چڑھا ہوا دیکھا ہو وہ کسی کے کہنے سے ہر گز انکار نہیں کرے گا.اس طرح جو شواہد اور دلائل کو دیکھ اور پر کھ کر ایمان لاتا ہے اس کے سامنے اگر ساری دنیا بھی اعتراض کرے تو اس پر کیا اثر ہو سکتا ہے.اس کے سامنے اعتراضوں کی ہستی ہی کیا ہو سکتی ہے.پس اعتراضات اس عظمند انسان کے سامنے کوئی ہستی نہیں رکھتے جس نے مشاہدہ اور دلائل سے صداقت کو مانا ہو.ہاں جو لوگ نا بینا ہوتے ہیں اور ازلی نابینادہ سنی سنائی باتیں مانتے ہیں.انہیں نہ رسول پر ایمان ہوتا ہے نہ خلفا ء پر اور نہ نظام سلسلہ کی صداقت پر.وہ اندھوں کی طرح سن کر ایک راستہ پر چل پڑے تھے.جب کسی نے کہہ دیا یہ راستہ صحیح نہیں تو وہ اس سے بدل گئے.پس جو اعتراض سن کر بدلتا ہے وہ ضرور نابینا ہے کیونکہ اگر ایک بات کو اس نے دلائل اور معیاروں سے مانا تھا تو جب تک وہ معیار باطل نہ قرار دے لے اسے چھوڑ نہیں سکتا.مثلاً نبی کی صداقت کا معیار ہے کہ خدا تعالی کی طرف منسوب ہونے والے جھوٹے انسان کو خدا کبھی کبھی مہلت نہیں دیتا.اس کی لائی ہوئی تعلیم دنیا میں جاری نہیں ہوتی.اور اگر جاری ہو تو چند سال کے لئے ہوتی ہے.پھر یہ معیار ہے کہ کثرت سے غیب کی خبریں جھوٹے کو نہیں دی جاتیں.یہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے.اسی طرح یہ معیار ہے کہ خدا کی نصرت اور تائید غیر معمولی مشکلات کے وقت غیر معمولی طور پر جھوٹے کو حاصل نہیں ہوتی.ان معیاروں کے رو سے جب ایک انسان ایمان لاتا ہے مگر دو سرا آکر کہتا ہے اس نے لوگوں کا روپیہ کھالیا.فلاں موقعہ پر جھوٹ بولا.فلاں اخلاقی کمزوری دکھائی تو کیا یہ باتیں ان معیاروں کو باطل قرار دے دیں گی ؟ ہر گز نہیں.ایسی حالت میں تو یہ دیکھیں گے کہ وہ معیار اس پر چسپاں ہوتے ہیں
خطبات محمود سال 1927ء یا نہیں.اگر چسپاں ہونگے تو ایک اعتراض چھوڑ اگر دس ارب اعتراض بھی کئے جائیں تو ان کی کوئی پرواہ نہ ہوگی.پس یہ نادانی ہے ان لوگوں کی جو ایسے امور میں مبتلا ہو کر سلسلہ کو نقصان پہنچانے کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں مگر وہ یاد رکھیں سلسلہ کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے.خود ہلاکت اور عذاب میں جتلا ہو جائیں گے.ایسے لوگ خواہ اندرونی منافقوں میں سے ہوں یا بیرونی مخالفوں میں سے.خواہ ان میں سے ہوں جو علی الاعلان مخالفت کرنے میں اتنے بڑھے ہوئے ہیں کہ اسلام کی امداد اور تائید کے لئے بھی مل بیٹھنا پسند نہیں کرتے غرض کسی گروہ سے ہوں سلسلہ کا کچھ نقصان نہیں کر سکتے.یہ سلسلہ مقدر لیکر آیا ہے اور مقسوم لے کر آیا ہے کہ روز بر روز ترقی کرے اور آگے ہی آگے بڑھے.اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا.یہ باتیں میں نے اشار تا اور تمہید ابیان کی ہیں.اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو آئندہ تفصیل سے بیان کروں گا.مگر یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہئے کہ ایسی باتوں میں حصہ لیتا اور دلچسپی ظاہر کرنا ثبوت ہے اس بات کا کہ ایسے لوگ نا بینا ہیں.انہوں نے دلائل سے مانا ہی نہیں.اگر دلائل سے مانا ہو تا تو ایسا نہ کرتے.احمدیت ورثہ کے طور پر نہیں چلی آرہی کہ کسی کو اس کے متعلق دلائل معلوم کرنے کا موقعہ نہیں ملا بلکہ احمدیت ہر ایک کے سامنے پیش کی جاتی ہے.یہ دنیا کی منڈی میں رکھی ہوئی جنس ہے.ہر قوم اور ہر رنگ کے لوگ آتے اور اعتراض کرتے ہیں.اس وجہ سے اس کی کوئی بات چھپی ہوئی نہیں ہے.یہ ایک کھلا ہوا تھان ہے.جو سب لوگوں کی نظروں کے سامنے ہے.اس لئے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اسے دھوکا دیا گیا.یہ مال ایسی منڈی میں رکھا ہوا ہے جس کے ارد گرد دشمن ہی دشمن ہیں.خدا تعالٰی نے دین کا نام بیچ رکھا ہے اب اگر کوئی اسے خرید تا ہے اور پھر کہتا ہے مجھے غلطی لگ گئی تو معلوم ہوا کہ یقینا وہ نابینا ہے.کیونکہ سامنے رکھی ہوئی چیز سے ایک بیٹا کو کس طرح غلطی لگ سکتی ہے.اور وہ کس طرح دھوکا کھا سکتا ہے.کسی کا یہ کہنا دلالت کرتا ہے کہ وہ نابینا ہے اور ایسا نا بینا ہے جو کسی نصرت کا مستحق نہیں اسے یاد رکھنا چاہیئے کہ جو اس دنیا میں اندھا رہے گا.یقیناوہ اگلے جہان میں بھی اندھا اٹھایا جائے گا.الفضل ۲۱ / اکتوبر ۱۹۲۷ء)
خطبات محمود ۲۱۷ سال 1927ء خدا کے مسلسل نشانوں سے فائدہ اٹھائیں فرموده ۲۱/اکتوبر۱۹۲۷ء) 1 تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں نے پچھلے جمعہ کے خطبہ میں بیان کیا تھا کہ ہمیشہ ہی سچائی اور حق کی اشاعت کے وقت اللہ تعالٰی بعض لوگوں کو ان کی کسی مخفی شرارت کی وجہ سے یا ظاہری گناہوں کے سبب اس بات کے لئے چن لیتا ہے کہ اس کے سلسلہ کی اشاعت کے راستہ میں روک ڈالیں.اور اس کی جماعت کی ترقی میں رخنہ اندازی کریں.کبھی ایسے لوگ خود جماعت میں سے ہی کھڑے ہو جاتے ہیں.کبھی جماعت سے تعلق نہیں رکھتے لیکن نام سے تعلق رکھتے ہیں.کبھی نہ جماعت سے تعلق رکھتے ہیں نہ نام سے بلکہ الگ ہوتے ہیں یہ لوگ خفیہ ریشہ دوانیوں کی وجہ سے یا ظاہری فتنہ پردازیوں کی وجہ سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہمیں وہ طاقت اور قوت حاصل ہو گئی ہے جو خدا کے منشاء کو پورا ہونے سے روک دے گی.اور اس کے قائم کئے ہوئے نظام کو توڑ دے گی.کئی باتوں میں رکاوٹ پیدا بھی ہو جایا کرتی ہے لیکن اللہ تعالی کا جو منشاء ہوتا ہے اور جس بات کا وہ فیصلہ کر چکا ہے اس میں ایسے لوگ روک نہیں بن سکتے ان کی تمام کوششیں ان کی تمام تدبیریں اور تمام جد و جہد بعض اوقات بظاہر ایک غبار آلود مطلع پیدا کر دیتی ہیں.لیکن ان کی حیثیت غبار سے زیادہ نہیں ہوتی خس و خاشاک کی طرح اڑ جاتے ہیں اور کوئی نشان باقی نہیں رہتا.کبھی کبھی کچھ نشانات باقی بھی رہ جاتے ہیں مگر اس لئے کہ آنے والے منافقوں اور دشمنوں کے کام آئیں.جیسے رسول کریم ﷺ کے وقت کے منافقوں کی باتیں آج تک قائم ہیں اور ان سے ہندو عیسائی وغیرہ فائدہ اٹھا رہے ہیں.یہ خیال کرنا کہ رسول کریم ﷺ کی وفات کے دو تین سو سال بعد آپ کے خلاف یہ الزام گھڑا گیا کہ آپ اپنی پھوپی زاد بہن کو نگا دیکھ کر اس پر عاشق ہو گئے تھے یا یہ کہ اپنی بیوی کی لونڈی سے آپ کا تعلق
خطبات محمود PIA سال 1927ء تھا یہ غلط ہے.دو تین سو سال بعد کے لوگ خواہ کتنے ہی دشمن ہوں اس قسم کے الزام نہیں گھر سکتے.رسول کریم اے کی وفات کے بعد میں سمجھتا ہوں پچاس ساٹھ سال بھی نہ گزرے ہوں گے کہ جن لوگوں کو آپ سے ذاتی بغض و عداوت تھی وہ مرگئے ہوں گے اور ان کے بعد آنے والوں کے سامنے رسول کریم اے کی ایسی ہی صورت تھی جس سے خدا تعالی کی محبت اور اس کی مخلوق سے شفقت ظاہر ہوتی تھی کیونکہ اس وقت کے لوگوں کو آپ سے کوئی گلہ شکوہ نہیں ہو سکتا تھا.گلہ شکوہ کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ کوئی معاملہ پڑا ہو.کوئی مقدمہ پیش آیا ہو.کچھ فوائد وغیرہ مد نظر ہوں مگر تین چار سو سال بعد آنے والوں کو کیا شکوہ ہو سکتا ہے.ان میں سے کسی کے ر نظریہ بات نہیں ہوتی کہ مجھے یہ فائدہ ملنا چاہئے تھا.جو نہیں ملا.مجھ پر یہ سختی کی گئی ہے یا میرے فلاں معاملہ میں انصاف سے کام نہیں لیا گیا.پس وہ لوگ جو رسول کریم ان کے زمانہ کے تھے جب فوت ہو گئے تو بعد والوں کو آپ سے کوئی ذاتی گلہ شکوہ نہ تھا.چونکہ ان کے ماں باپ نے انہیں یہ بتایا تھا کہ محمد ( ) بڑے آدمی تھے.اس لئے وہ محبت سے ہی آپ کا نام لیتے تھے.اور اس وجہ سے ان کے تعلقات رسول کریم ﷺ سے محبت کے ہی ہو سکتے تھے کینہ اور بغض کے نہیں ہو سکتے تھے.کینہ کے تعلقات انہی کے ہوتے ہیں جن کے دل میں کسی قسم کی حرص و آز ہو اور وہ پوری نہ ہوئی ہو.مثلاً رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ مال تقسیم کیا.ایک شخص کو مال حاصل کرنے کی حرص تھی مگر اسے نہ ملا.اس پر اس نے کہا آپ نے ایسی تقسیم کی ہے کہ خدا کی نہ رضا کو مد نظر نہیں رکھا لیکن آپ کی وفات کے سو سال بعد کوئی یہ نہ کہہ سکتا تھا.پس چونکہ آپ کی وفات کے بعد شکوہ و شکایت کا سبب نہ پیدا ہو سکتا تھا.اس لئے کوئی آپ کی ذات پر الزام ہی نہیں لگا سکتا تھا.ہاں کفر والی دشمنی ہو سکتی تھی.اور وہ اسی طرح کہ واقعات کو بگاڑ کر کفار پیش کریں.نئے واقعات وہ نہیں بنا سکتے.پس جس قدر ایسے واقعات مشہور ہیں.جن میں رسول کریم کے کیر کٹر پر حملہ ہوتا ہے.ان کے متعلق یہ خیال کرنا کہ وہ آپ کی وفات کے دو تین سو سال بعد بنے غلط ہے.انہیں رسول کریم ان کے زمانہ میں ہی منافقوں نے آہستہ آہستہ پھیلایا.جس سے ان کی غرض یہ تھی کہ رسول کریم ﷺ کی طاقت کو کمزور کریں.اس کے بعد بعض لوگوں نے روایتیں بنائیں.ایسے راوی بے وقوف ضرور تھے.مگر انہوں نے یہ باتیں خود نہیں گھڑیں جنہوں نے گھڑیں وہ رسول کریم اے کے زمانہ کے ہی لوگ تھے.جنہیں کوئی نہ کوئی آپ سے شکوہ تھا.پس ہمیشہ ہر کام میں روک پیدا کرنے والے پیدا ہوتے رہے ہیں.اور میں دیکھتا ہوں جس
خطبات محمود ۲۱۹ سال 1927ء طرح خدا تعالٰی کا سلسلہ چلتا ہے ان فتنہ پردازوں کی ذریت بھی چلتی ہے.ایسے لوگ رسول کریم کے زمانہ میں بھی تھے.حضرت ابو بکڑ کے زمانہ میں بھی تھے.حضرت عمر کے زمانہ میں بھی تھے.انہیں بھی کسی نے کہہ دیا تھا.آپ نے مال تقسیم کرتے ہوئے اپنے لئے زیادہ کپڑا رکھ لیا.اور اس سے کرتا بنوالیا ہے اسی طرح ایک دفعہ حضرت عمر عبد الرحمن بن عوف سے صید حرم کے متعلق فیصلہ پوچھ بیٹھے.کیونکہ قرآن کریم کا یہ حکم ہے کہ اگر کوئی احرام میں جانور کو مار دے تو اس کے متعلق دو آدمی فیصلہ کریں.اگر رسول کریم اے کے سامنے بھی ایسا واقعہ آتا تو آپ بھی کسی اور کو شامل کر لیتے.مگر جب حضرت عمر نے عبد الرحمن بن عوف سے کہا کہ اس بارے میں تمہاری کیا رائے ہے.اور انہوں نے رائے بتائی حضرت عمر نے کہا میری بھی یہی ہے تو اسی بے وقوف سائل نے کہہ دیا.اچھا خلیفہ بنا پھرتا ہے جسے دین کا بھی پتہ نہیں اور دوسروں سے پوچھتا ہے.اس پر حضرت عمر نے کوڑا اٹھا کر اسے مارا کہ تم نے عدالت کی جو ہتک کی ہے اس کی سزادی جاتی ہے.پھر ایسے لوگ حضرت عثمان کے زمانہ میں بھی تھے.جنہوں نے بارہ نشیں ایسی تیار کی تھیں جن میں اپنے خیال میں حضرت عثمان ﷺ کی خیانت کے کام درج کئے تھے.پھر حضرت علی کے خلاف بھی ایسے ہی لوگ تھے.غرض جب تک خلافت صادقہ قائم رہی ایسے لوگ بھی موجود رہے.اب تیرہ سو سال کے بعد خدا تعالٰی نے سلسلہ احمدیہ قائم کیا.اس وقت جس طرح مومنوں کی جماعت اس کے گرد جمع ہو گئی.منافقوں کی ٹولی بھی پیدا ہو گئی.جنہوں نے گندے سے گندے اتمام حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر لگائے.جو دیانت اور تقویٰ کے خلاف تھے.جو پاکیزگی اور بزرگی کے خلاف تھے.ایسے لوگ بظاہر جماعت میں سے کہلاتے تھے مگر گندے اور الزام لگاتے تھے.پھر حضرت خلیفہ اول جب خلیفہ ہوئے تو ان کے متعلق بھی یہ کہنے والے موجود تھے کہ روپیہ کھا جاتے ہیں اپنی حکومت جمانا چاہتے ہیں حتی کہ فسق و فجور تک کے اتمام لگائے گئے.پھر میرا زمانہ آیا.اب بھی اور جب تک بھی خلافت رہے گی ایسے لوگ ساتھ ہی رہیں گے کیونکہ جہاں مومنوں کا ہونا ضروری ہے وہاں منافقوں کا ہونا لازمی ہے.میں نے خلافت کے شروع ایام میں ایک تقریر کی تھی اور بتایا تھا کہ اس اس رنگ میں فساد اور فتنہ کھڑا ہو گا.اس تقریر کو سامنے رکھ کر اگر کوئی اس زمانہ کو دیکھے جب وہ تقریر کی گئی تو وہ حلف اٹھا کر کہہ سکتا ہے کہ ان واقعات میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جو اس وقت پایا جاتا.پھر آج کے حالات دیکھے تو اسے معلوم ہو جائے کہ وہ ایک زبر دست پیشگوئی تھی.جو خدا تعالیٰ کے تصرف سے کی گئی تھی.میری مراد ۱۹۱۵ء
خطبات محمود ۲۲۰ سال 1927ء کے سالانہ جلسہ کی تقریر سے ہے جس میں حضرت عثمان کے زمانہ کے واقعات بیان کئے گئے ہیں.اور بتایا گیا ہے کہ اب بھی ایسے واقعات رونما ہو سکتے ہیں.اس وقت سننے والوں نے سمجھا ہو گا.عام نصیحت کی جارہی ہے.مگر وہ واقعات تھے جو میری زبان پر جاری کئے گئے.پھر آج سے نو سال قبل اسی نمبر پر اسی مسجد میں اسی دن اور اسی وقت خطبہ میں میں نے اپنی ایک رویا بیان کی تھی کہ مجھے منافق بتائے گئے ہیں جن کا اس قسم کا نقشہ ہے.میرا خیال ہے یہ سترہ یا اٹھار عیسوی کا خطبہ ہے اس خواب میں موجودہ فتنہ کا صحیح نقشہ بیان کر دیا گیا تھا.اور اس کی بنیاد بھی بنادی گئی تھی مگر میں دیکھتا ہوں.ہماری جماعت نے نفاق کی حقیقت کو نہیں سمجھا اور بہت لوگ اس لئے دھوکا کھا جاتے ہیں کہ انہوں نے منافقوں کے کام کو نہیں سمجھا.حالانکہ منافقوں کا ذکر اتنی تفصیل.قرآن کریم میں کیا گیا ہے کہ بغیر کسی نوٹ کے اگر اسے ایک جگہ لکھا جائے تو آج کل کے منافق جو حالات بیان کرتے ہیں یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تعریف کی گئی ہے وہی طریق وہی دلیل او روہی اعتراض آج ہوں گے جن کا ذکر کیا گیا اور جب گرفت ہو گی تو وہی جواب لفظا لفظ ان کا ہو گا جو پہلے دیا کرتے تھے.وہی عذر ہوں گے.وہی بہانے ہوں گے.اتنی مشابہت کو دیکھ کر کہنا کہ ابھی تک ہمیں منافقوں کے متعلق علم نہیں دیا گیا کیسی نادانی ہے.دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ ایسے اشخاص کے پاس جا کر بیٹھتے ہیں.ان کی گھنٹوں صحبت رہتی ہے اور ان کو معلوم ہے کہ وہ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں لیکن جب پوچھا جاتا ہے کہ فلاں شخص تمہارے پاس آکر اس قدر کیوں بیٹھتا ہے تو کہہ دیتے ہیں یونہی بیٹھتا ہے.کوئی منافقت اور فتنہ کی بات تو نہیں کرتا.مگر کون عقل مند خیال کر سکتا ہے کہ وہ شخص اس کی منافقت میں شامل نہیں.جب وہ ادھر ادھر ایسے لوگوں کو تلاش کرتا رہتا ہے.تاکہ ان سے فتنہ انگیزی کی باتیں کرے تو کس طرح ممکن ہے کہ تمہارے پاس پانچ پانچ چھ چھ گھنٹے بیٹھا باتیں کرتا رہے مگر کوئی منافقت کی بات نہیں کرتا.یہ ایساد عوئی ہے جس کے تسلیم کرنے کے لئے بہت بڑی بے وقوفی کی ضرورت ہے.بھلا ایک ایسا شخص جس کی طبیعت میں نیش زنی ہے وہ اپنی دوستی کے لئے کسی مخلص کو کیونکر چن سکتا ہے.ہر شخص دوستی کے لئے اپنی طبیعت کے مطابق انسان چتا ہے یہ خدا تعالٰی کے قانون اور فطرت کا تقاضا ایسا ہے جو دنیا کے ہر گوشہ میں جاری ہے حتی کہ جانوروں میں بھی پایا جاتا ہے حضرت محی الدین ابن عربی لکھتے ہیں میں کہیں جارہا تھا میں نے دیکھا ایک کوا اور ایک کبوتر اکٹھے بیٹھے ہیں انہیں دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی اور میں ان کے اکٹھے بیٹھنے کی وجہ معلوم کرنے کے لئے ٹھر گیا.تھوڑی دیر کے بعد جب وہ چلے تو معلوم ہوا کہ دونوں
خطبات محمود ۲۲۱ سال 1927ء لنگڑے تھے اور یہ مشابہت اور اشتراک تھا جس کی وجہ سے وہ اکٹھے بیٹھے تھے.پس کس طرح ممکن ہے کہ ایک شخص منافقت کے زور میں ہر وقت فتنہ پردازی کرے مگر وہ اسی قسم کے منافقوں کو چھوڑ کر اپنی دوستی کے لئے ایک مخلص کو چنے اور سارا وقت اس کے پاس صرف کرے.عقل سلیم اس بات کو قطعا تسلیم نہیں کر سکتی.خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ فطرت اسے رد کرتی ہے اور اس کا بنایا ہوا قانون اسے ٹھکراتا ہے ان کا آپس کا اتفاق اور گہرا اتصال بتاتا ہے کہ ان کی آپس میں کوئی بات ایسی ہے جو مشترک ہے اور کسی نہ کسی جگہ رگوں میں شرارت ضرور پائی جاتی ہے.پس میں پیشتر اس کے کہ اس مضمون کے دوسرے حصہ کی طرف متوجہ ہوں.ان لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ اگر ان کے عذر مقبول ہو سکتے ہیں.تو اسی طرح جس طرح رسول کریم ان منافقوں کے عذر منظور فرما لیا کرتے تھے ایک صحابی کہتے ہیں میں نے بھی ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کے حضور عذر پیش کیا.مجھے آپ نے فرمایا ٹھہرو اور انتظار کرو.لیکن میں نے دیکھا منافق آتے اور عذر پیش کرتے.ان کے عذر آپ قبول کرتے چلے گئے.(بخاری کتاب المغازی حدیث کعب بن مالک) پس ایسے لوگ جن کے عذر قبول کئے جاتے ہیں وہ وہی ہوتے ہیں جن کے متعلق سمجھ لیا جاتا ہے کہ جب وہ بے حیا ہو گئے ہیں تو انہیں کیا کہیں.اس طرح تو عذر منظور ہو سکتے ہیں.ورنہ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو منافق نہیں سمجھا جا تایا دوسرے مخلص ان کو منافقوں میں سے نہیں سمجھتے تو یہ غلط ہے.ہم ان کے عذرات سن کر ان کے افعال سے اس لئے چشم پوشی نہیں کرتے کہ وہ منافق نہیں.بلکہ اس لئے کرتے ہیں کہ وہ حد سے گزر گئے ہیں.انہیں نصیحت کرنا فضول ہو گا یا اس لئے کہ ان کو اصلاح کا موقع دیتے ہیں.تاکہ آئندہ کے لئے وہ اصلاح کرلیں.اس کے بعد میں کہتا ہوں کہ دنیا میں ہر قسم کی غلطیاں ہوتی ہیں.بعض غلطیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن سے خدا تعالیٰ کے انبیاء بھی پاک نہیں ہوتے.اور بعض غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جن سے انبیاء تو پاک ہوتے ہیں لیکن خلفاء پاک نہیں ہوتے.پھر بعض غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جن سے خلفاء تو پاک ہوتے ہیں مگر اولیاء پاک نہیں ہوتے.پھر بعض غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جن سے اولیاء تو پاک ہوتے ہیں لیکن عام مومن پاک نہیں ہوتے.پھر بعض غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جن سے عام مومن بھی پاک ہوتے ہیں لیکن ادنی درجہ کے انسان پاک نہیں ہوتے.اور بعض غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جن سے وہ بھی پاک ہوتے ہیں لیکن ان کے بعد میں آنے والے ان میں مبتلا ہو جاتے ہیں.دیکھنے والی چیز جو ہے وہ صلاحیت اور قابلیت ہوتی ہے اور یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ کسی حد تک کسی کو وہ کمال حاصل ہے جو خداتعالی کے
خطبات محمود ۲۲۲ سال 1927ء فضل اور تائید کا وارث کر دیتا ہے.اس کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہر درجہ کے انسان کے لئے دلائل مقرر ہیں مثلاً نبوت کے لئے دلائل ہیں.ان سے معلوم ہو سکتا ہے کہ رسول کریم سچے نبی تھے.اور جب ان دلائل کے رو سے آپ کی نبوت ثابت ہو جائے تو پھر آپ کے نی ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا.مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ کہیں رسول کریم اجتہادی غلطی بھی نہیں کر سکتے تھے.اجتہادی غلطی آپ سے بھی ہو جاتی تھی.جو چیز ثابت ہونی چاہئے وہ یہ ہے کہ نبوت کے مقام پر خدا تعالٰی نے آپ کو قائم کیا یا نہیں.ورنہ نادان جو آپ کی کوئی اجتہادی غلطی یا کسی فیصلہ کی غلطی یا قضا کی غلطی پکڑ کر یہ سمجھ لے کہ اس کا آپ سے اختلاف رکھنا اور آپ سے دشمنی اور عداوت کرنا معاف ہو جائے گا یہ سخت غلطی ہے.جب تک کوئی انسان آپ کا پوری طرح مطیع اور فرمانبردار نہ ہو گا.آپ کا حامی اور ناصر نہ ہو گا.آپ کی تحمید اور تعریف کرنے والا نہ ہو گا.خدا تعالیٰ کے حضور مغضوب اور ذلیل رہے گا.بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو چھوٹے چھوٹے جھگڑوں اور فسادوں کی وجہ سے نبی یا اس کے خلیفہ سے بغض و عداوت پیدا کر لیتے ہیں.کوئی مقدمہ ہوا جس کا فیصلہ ان کی منشاء کے ماتحت نہ ہوا.یا کوئی بات انہوں نے پیش کی جس کی طرف اس لئے توجہ نہ کی گئی کہ دبا دینے سے وہ بات رک جائے گی.تو وہ بات کو بڑھاتے اور فتنہ پیدا کرتے ہیں.چنانچہ پچھلے دنوں ایک شخص کسی کے سامنے منافقت کی باتیں کر رہا تھا.وہ قادیان کی برائی بیان کر رہا تھا کہ ایک شخص نے سننے والے سے کہا تم بھی ان باتوں میں شامل ہو.کیوں ایسی باتیں سنتے ہو.اس نے کہا میرا فیصلہ بھی دو سال سے چلا آ رہا ہے جو نہیں کیا جاتا.اس امر کو اس نے ان باتوں میں شمولیت کی وجہ قرار دے لیا.فیصلہ کرنا یا نہ کرنا میرا اور خدا تعالیٰ کا تعلق ہے.مگر میں نہیں سمجھ سکتا جو شخص ایک طرف تو بیعت کا مدعی ہو اور دوسری طرف خلیفہ پر اعتراض سے.اور اعتراض کرنے والے کو اپنے عمل سے مدد دے.وہ کس طرح خدا تعالی کی ناراضگی سے بچ سکتا ہے.میرا تمہار ا عام انسانوں کا سا تعلق نہیں بلکہ خلیفہ اور مرید کا تعلق ہے.اب دیکھنا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے میری تائید میں کوئی نشان دکھائے ہیں یا نہیں.اس کا ایسا ثبوت ملتا ہے کہ جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا اگر عقل اور سمجھ سے کام لیکر دیکھا جائے تو خدا تعالیٰ کے نبیوں سے اتر کر خواہ کوئی کتنا بڑا ولی ہو.خدا تعالیٰ نے اس کے متعلق اتنے نشان نہیں دکھلائے جتنے میرے لئے دکھائے ہیں بھلا بتاؤ تو سہی وہ کو نسا انسان گزرا ہے جس کے لئے خدا تعالٰی نے نبیوں سے پیشگوئیاں کرا ئیں.لیکن میرے متعلق میرے خدا نے نبیوں سے پیشگوئیاں کرائیں.بنی اسرائیل کی کتابوں میں
خطبات محمود ۲۲۳ سال 1927ء میرے متعلق پیشگوئیاں موجود ہیں کہ جب مسیح نازل ہو گا تو اس کا بیٹا اس کا خلیفہ ہو گا.پھر محمد کی پیشگوئی میرے متعلق موجود ہے.آپ نے مسیح موعود کے متعلق فرمایا ہے " بتزوج و يولد له حضرت مسیح موعود نے اس کی تشریح فرمائی ہے کہ مسیح موعود کی اولاد بھی موعود ہوگی.اس کی بیوی خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کو پورا کرنے والی ہوگی.اور اس کی اولاد پیشگوئی کی مصداق ہوگی.پھر دوسری پیشگوئی رسول کریم ﷺ نے رجال من اهل فارس (بخاری کتاب التفسير تفسیر سورة الجمعہ فرمائی ہے کہ اہل فارس میں سے کچھ رجال ہوں گے جو دین کو آخری زمانہ میں مستحکم کریں گے.مسیح موعود ر جل تھے.پس رسول کریم ال نے رجال کہہ کر آپ کی اولاد کو بھی اس پیشگوئی میں شامل کیا ہے.اس سے اتر کر دیکھو تو نعمت اللہ صاحب ولی کی پیشگوئی موجود ہے.اور حضرت مسیح موعود نے اس کا ذکر کیا ہے جس میں لکھا ہے پسرش یاد گارے بینم صرف خلافت کا اس میں ذکر نہیں ہے حضرت مسیح موعود اور میرے درمیان خلافت تو ایک اور بھی ہوئی ہے.جو بہت بڑی خلافت تھی مگر نعمت اللہ صاحب ولی نے اس کا ذکر نہیں کیا.اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ وہ زمانہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کو پھیلایا جائے گاوہ میرا زمانہ ہے.اور میرے زمانہ میں خدا تعالی کی خاص برکات نازل ہونگی.اس لئے اس کی نسبت پیشگوئی کی گئی ہے.پھر حضرت مسیح موعود کے الہامات دیکھو.ایک نہیں دو نہیں بہت سے ہیں.اور پھر آپ کی تحریروں سے بھی اس خلافت کا پتہ ملتا ہے.پھر میرے متعلق حضرت خلیفہ اول کی شہادت موجود ہے.پھر ایک دو نہیں.دس ہیں نہیں.کم از کم ہزار کے قریب ایسے لوگ ہیں.جن میں احمدی اور غیر احمدی ہندو عیسائی شامل ہیں.کہ ان کو رڈیا کے ذریعہ یا تو پہلے یا میری خلافت کے دوران میں اس خلافت کا پتہ معلوم ہوا.ان میں سے ابھی تک بعض ایسے ہیں جو جماعت میں شامل نہیں ہوئے.ان سے شہادت لی جاسکتی ہے.جیسے ماسٹر فقیر اللہ صاحب غیر مبایع ہیں.انہوں نے دیکھا کہ میں خلیفہ ہو گیا ہوں.انہوں نے خود بیعت نہ کی.اور جب پوچھا گیا کہ آپ بیعت کیوں نہیں کرتے تو انہوں نے کہا میری خواب درست ہو گئی ہے باقی مجھے یہ نہیں کہا گیا تھا کہ میں بیعت بھی کروں.اسی طرح اکبر شاه خان صاحب نجیب آبادی تھے.ان کے متعلق اب سنا ہے نہ معلوم کہاں تک سچ ہے کہ ان کا سلسلہ سے کوئی تعلق نہیں رہا.انہوں نے میری مخالفت کے دوران میں رویا دیکھی.اور پھر انہوں نے بیعت بھی کرلی.گو اس پر قائم نہ رہے.اسی طرح ڈاکٹر عبد اللہ صاحب جو میرے ایک فیصلہ پر ناراض ہو کر نظام الگ ہو گئے ہیں انہوں نے غالباً ۱۹۲۳ء
خطبات محمود ۲۲۴ سال 1927ء میں جب کہ میں لاہور گیا تھا.سنایا کہ باوجود اس کے کہ مجھے خرچ کی تنگی تھی.میں اس لئے ساتھ چلا ہوں.کہ مجھے خواب میں بتایا گیا ہے کہ گویا تمام نبوتوں کی برکات آپ کے ساتھ جمع ہیں.(مفہوم اس کے قریب قریب تھا، میں نے خلافت کے پہلے تین ماہ میں اس قسم کی خوا ہیں جمع کرائی تھیں.جو پانچ سو سے زیادہ تھیں.اور پھر ہر سال ایسے لوگوں میں اضافہ ہو تا رہتا ہے.اب بھی ایک صاحب نے جو پکے غیر مبالغ تھے اچھے تعلیم یافتہ اور معزز شخص ہیں.رویا کی بنا پر بیعت کی.تھوڑا عرصہ ہوا وہ مجھ سے سخت بحث کرتے رہے اور کچھ ناروا الفاظ بھی انہوں نے استعمال کئے.گو ان کے دل میں سعادت تھی.اور انہوں نے بعد میں معافی مانگ لی تھی.خدا تعالٰی نے ان کی راہنمائی کی اور انہوں نے بیعت کرلی.اسی طرح اور کئی لوگ بیعت کرتے رہتے ہیں جنہیں رویا اور کشوف ہوئے مگر یہ تمام نشان ایک ایسے انسان کے لئے ہیں جس کی ضد اور عداوت سے عقل نہ ماری گئی ہو.وہ دیکھ سکتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مقرر کیا گیا ہوں.اب جو میرا مقابلہ کرے گا وہ خدا کا مقابلہ کرے گا.افسوس ان لوگوں پر جو ان نشانات سے فائدہ نہ اٹھائیں.ورنہ میرے ذریعہ خدا تعالٰی نے ایسے ایسے نشان دکھائے ہیں جو عقل کے دروازے کھولنے کے لئے کافی ہیں.لیکن جو انسان آنکھیں بند کرلے وہ کچھ نہیں دیکھ سکتا نبی نشان پر نشان دکھاتا ہے مگر منکر یہی کہتے رہتے ہیں کہ کچھ نہیں دکھایا حضرت مسیح موعود نے نشان پر نشان دکھائے بعض لوگ آئے جنہوں نے آکر کہا.ان کی تو پگڑی ٹیڑھی ہے.یہ مسیح موعود کس طرح ہو سکتے ہیں.آپ نے معجزہ پر معجزہ دکھایا.مگر بعض ایسے لوگ آئے جنہوں نے کہا یہ تو قاف صحیح طور پر نہیں بول سکتے یہ کہاں مسیح موعود ہو سکتے ہیں.آپ نے آیت پر آیت دکھائی.مگر ایسے لوگ آئے جنہوں نے کہا انہوں نے بیوی کے لئے زیور بنوائے ہیں.یہ بادام روغن استعمال کرتے ہیں انہیں ہم کس طرح مان سکتے ہیں.اسی طرح اور بہت سے اعتراض آپ پر کئے گئے.جن کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں.درراه کیونکہ خدا تعالیٰ آپ کی نسبت فرماتا ہے.وَلَا تُبقِی لَكَ مِنَ الْمُخْزِيَاتِ ذِكرَا اتذكره صفحه ۵۳۸) کہ جو گندے اور بد نام کرنے والے الزام تجھ پر لگائے جاتے ہیں ہم ان کا ذکر بھی باقی نہیں چھوڑیں گے.پس جو اعتراض کئے جاتے رہے ہیں ان کے تفصیل سے بیان کرنے کی ضرورت نہیں.نشانات سے مخالفین نے آنکھیں بند کرلیں اور ان نشانات کو بھی نہ دیکھا جو پہلے نبیوں نے آپ کے زمانہ کے متعلق بیان کئے تھے اور سمجھا کہ آپ کی تکذیب کرنے کے لئے انہیں بڑی پکی دلیل مل گئی ہے
خطبات محمود ۴۲۵ سال 1927ء اب وہ جو چاہیں کہیں خدا کی گرفت میں نہ آئیں گے.حالانکہ خدا تعالٰی جب کسی کو چتا ہے تو اس پر نکتہ چینی کرنے والا کبھی معاف نہیں کیا جاتا.دیکھو رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے قضاء کے معاملہ میں میں بھی غلطی کر سکتا ہوں مثلاً ہو سکتا ہے کہ میں ایک کا حق سمجھوں.مگر اس کا نہ ہو.(بخاری کتاب الاحکام باب موغلة الامام الصوم اگو رسول کریم ﷺ نے یہ فرمایا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں.اگر کوئی اپنا یہی شغل بنا لے کہ کہتا پھرے.محمد ال نے فلاں غلط فیصلہ کیا تو چاہے وہ فیصلہ غلط ہی ہو تو بھی ایسا شخص خدا تعالیٰ کے غضب کے نیچے آئے گا.کیونکہ اس کی غرض یہ ہوگی کہ رسول کریم کی تذلیل کرے.اس وجہ سے خدا تعالٰی اسے پکڑے گا.خدا تعالٰی فرماتا ہے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ رسول کے فیصلہ کو دل سے نہ مانے اور اسے عملاً تسلیم نہ کرے (النساء:۶۶) لیکن باوجود اس کے کہ رسول کریم نے کہہ دیا ہے کہ اس قسم کی غلطی ہو جانا منافی نبوت نہیں.لیکن چونکہ اس کے بیان کرنے کی غرض سوائے اس کے نہیں ہو سکتی کہ آپ کی تذلیل کی جائے اس لئے ایسا شخص بھی خدا کے غضب سے بچ نہیں سکے گا.پس ایسے امور جن سے سلسلہ کی ہتک اور تذلیل ہوتی ہو.میں کہتا ہوں جب ایسی باتیں جن کا تعلق بشریت سے یا غلطی سے ہو.ان کا بھی بیان کرنا اور ان کے خلاف باتیں مشہور کرنا جن کو خدا تعالٰی نے کسی کام کے لئے کھڑا کیا ہو خدا کے غضب کا مستحق بنا دتیا ہے.کیونکہ اس کے نتیجہ میں خدا کے فعل کو نقصان پہنچتا ہے.تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ وہ لوگ جو اعتراض میں شرافت کی حد سے بھی نکل جائیں.وہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب نہ ہوں جب خدا کا رسول غلطی کر سکتا ہے اور ہزار فیصلوں میں سے ایک فیصلہ اس کا نا درست ہو سکتا ہے.تو میرے لئے ہزار میں سو کا غلط ہونا ممکن ہے لیکن باوجود اس کے اگر کوئی یہ کہتا پھرے کہ اس نے فلاں فیصلہ غلط کیا.فلاں غلطی کی.چاہے وہ غلطی ہو پھر بھی اسے خدا تعالی پکڑے گا.کیونکہ ایسا آدمی نظام کو توڑتا ہے پس میں کہتا ہوں خدا کے نشانوں سے آنکھیں بند نہ کرو اگر جان بوجھ کر بند کرو گے تو خدا تعالیٰ فی الواقع دل کا نابینا بنادے گا.کئی لوگ حضرت صاحب کے پاس آکر کہتے کوئی نشان دکھاؤ تو آپ فرماتے کیا پہلے نشانات سے تم نے کوئی فائدہ اٹھایا کہ اور چاہتے ہو.جب پہلے ہزاروں نشانات سے تم نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا تو کسی اور سے کس طرح اٹھاؤ گے.ایسے لوگ ہمیشہ محروم ہی رہے اسی طرح یہود نے کہا تھا لَن تُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللهَ جَهْرَةً (البقره: ۵۶) کہ ہم نہیں مانیں گے جبتک خدا کو کھلا کھلانہ دیکھ لیں خدا تعالٰی نے کہا.جاؤ تم پر پھٹکار اور لعنت ڈالی جاتی ہے یہود کا یہ مطلب نہ تھا کہ خدا
خطبات محمود ۲۲۶ سال 1927ء مجسم ہے وہ ہمارے سامنے آئے جسے ہم دیکھیں.اور نہ اس پر خدا تعالیٰ ان سے ناراض ہوا.جس بات پر ناراضگی ہوئی وہ یہ تھی کہ انہوں نے کہا ہم پہلے نشانات نہیں مانتے.ہمیں اب نشان دکھایا جائے.خدا نے کہا تم نے ہمارے پہلے نشانوں کی بے قدری کی اس لئے ہمیں بھی تمہاری کوئی پرواہ نہیں.جاؤ ذلیل اور خوار ہوتے پھرو.اسی طرح خدا تعالیٰ نے میرے متعلق جو نشانات دکھائے.اگر کوئی ان کی پرواہ نہیں کرتا تو وہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی کو ضرور حاصل کریگا.خدا تعالیٰ کے کام نیارے ہوتے ہیں.حضرت صاحب کے کئی مخالف ابھی تک زندہ ہیں.لیکن ان کی حالت سے ظاہر ہو رہا ہے کہ کس طرح زندہ ہیں.مگر جیسا کہ خدا تعالٰی نے مجھ پر اس وقت ظاہر کیا جب میں ابھی بچہ تھا کہ اِنَّ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ - تیرے ماننے والوں کو تیرے منکروں پر غالب رکھوں گا وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ اپنی شرارتوں سے سلسلہ کو نقصان پہنچائیں گے ان کی ہستی ہی کیا ہے.بڑی سے بڑی طاقت بھی اگر مقابلہ کے لئے کھڑی ہوگی تو خدا تعالٰی کے فضل اور رحم کے ماتحت اس پر وہ لوگ جو میرے ماننے والے ہوں گے انشاء اللہ غالب رہیں گے.یہ خدا تعالی کی بتائی ہوئی بات ہے.کوئی اسے روک نہیں سکتا.ان کا دعوئی اخلاص اور دین کی خدمت سب فضول جائیں گے.جس طرح حضرت موسیٰ کا مقابلہ کرنے کی وجہ سے بلغم کا ایمان نکل گیا تھا.اسی طرح خواہ کوئی معلم بھی ہو.اگر وہ اس مقام کا مقابلہ کرے گا جس پر خدا تعالٰی نے مجھے کھڑا کیا ہے تو اس کا بھی وہی حال ہو گا جو بلعم کا ہوا تھا یا اس سے بھی بد تر - یہ زمانہ اسلام کی آخری ترقی کا زمانہ ہے.میں نبوت یا ماموریت کا دعویدار نہیں ہوں.یہ صرف خدا کا فضل ہے کہ اس نے مجھے خلافت کے لئے چنا.میں نے کبھی خلافت کے لئے دعا نہیں کی اور نہ کبھی اس کے لئے خواہش کی.اس کے لئے کوئی ظاہری یا خفیہ کوشش بھی نہیں کی بلکہ میں تو اس سے خائف رہا.مگر خدا تعالیٰ نے جبرا پکڑ کر مجھے اس مقام پر کھڑا کر دیا.اور خدا تعالٰی اپنے کئے ہوئے پر پچھتائے گا نہیں.کیونکہ اسلام کا خداجو کام کرتا ہے.وہ اس سے پچھتایا نہیں کرتا.ه تذکره صفحه ۵۳۸ - ایڈیشن چهارم الفضل ۱۴ نومبر۱۹۲۷ء)
خطبات محمود ۲۲۷ ۲۹ سال 1927ء بے جاجوش اور تشدد ہماری تعلیم کے خلاف ہے (فرموده ۲۸/اکتوبر۱۹۲۷ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : پچھلے دنوں ہندوؤں کی بعض کارروائیوں کی وجہ سے جو اشتعال مسلمانوں میں پیدا ہوا اس کے متعلق میں نے متعدد اشتہار شائع کئے.اور اپنی طرف سے وہ صحیح طریق بیان کیا جس پر عمل کر کے مسلمان کامیاب ہو سکتے ہیں.اور میں نے مسلمانوں کو متواتر نصیحت کی تھی کہ وہ ہر قسم کے فتنے اور فساد سے بچیں اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش نہ کریں.مجھے ان اشتہارات پر کئی گالیوں کے خطوط آئے.کئی لوگوں نے مجھے لکھا کہ تم بزدل ہو.رسول کریم ﷺ کو گالیاں دینے والے کی سزا سوائے قتل کے اور کوئی نہیں.آپ ایک طرف تو مسلمانوں کو رسول کریم کی عزت کی حفاظت کے لئے بلاتے ہیں اور دوسری طرف اس علاج سے روکتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دینے والوں کا ہو سکتا ہے.میں نے ان لوگوں کو خطوط کے ذریعہ بھی اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ وہ اپنے خیال میں غلطی پر ہیں.رسول کریم ﷺ کی عزت کی حفاظت ظالمانہ افعال کے ذریعہ نہیں ہو سکتی.بلکہ آپ کی عزت کی حفاظت ایک مستقل.غیر متزلزل با امن پر جوش اور پر اخلاص جدو جہد سے ہو سکتی ہے جس میں کوئی وقفہ نہ ہو.کوئی سستی نہ ہو.کوئی کمزوری نہ ہو.اور میں سمجھتا ہوں میرے ان خطوط کا اثر ان لوگوں پر ہوا.گو وہ ہماری جماعت سے تعلق نہیں رکھتے تھے.مگر میری بات نے ان کے دل پر اثر کیا.کیونکہ ان لوگوں میں سے کسی کے متعلق ایسی خبر معلوم نہیں ہوئی کہ اس نے کوئی ایسی حرکت کی ہو جو خلاف قانون ہو.اس سے معلوم ہوا کہ اگر ان لوگوں نے میرے اشتہارات سے فائدہ نہیں اٹھایا تھا.تو میرے خطوط
خطبات محمود ۲۲۸ سال 1927ء کے ذریعہ نفع ضرور حاصل کیا.لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسلمانوں میں سے بعض نے اس سبق کو جو میں نے انہیں دیا تھا بھلا دیا.انہوں نے میری نصیحت کی قدر نہ کی اور میری حکمت کی علت غائی کو نہ سمجھا.اور اس طرح رسول کریم ﷺ کی عزت کی حفاظت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے جس طرح نادان دوست اپنے دوست کی امداد کے لئے اٹھتا ہے.ان کی مدد بالکل اسی طرح تھی.جس طرح کہتے ہیں کسی نے ریچھ سے دوستانہ ڈالا ہوا تھا.اور ان کے بہت گہرے تعلقات تھے.ریچھ اس شخص کی بہت خدمت کیا کرتا تھا.ایک دن وہ کہیں با ہر کام کو گیا اس کی ماں جو بیمار تھی اس کے پاس ریچھ کو بٹھا گیا اور اشارے سے بتا گیا کہ مکھیاں اڑا تار ہے.انسان کے ہاتھ میں جس قسم کی لچک مختلف قسم کے کام کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے.دیسی ریچھ کے پنجہ میں کہاں ہو سکتی ہے.ریچھ کھیاں اڑا تا مگر وہ پوری طرح نہ اڑتیں.اس پر اس کے دل میں جوش پیدا ہوتا کہ میرا آقا اور محسن مجھے کہہ گیا تھا کہ مکھیاں اڑاتا رہوں مگر یہ اڑتی نہیں.ایک مکھی جو آنکھ پر بیٹھی تھی اسے اس نے بار بار اڑایا مگر ادھر اڑے ادھر پھر آبیٹھے.ریچھ نے سمجھا اس طرح تو یہ باز نہ آئے گی.پاس ایک بڑا پتھر پڑا تھا اسے اٹھا لایا اور عورت کے منہ پر دے مارا تا کہ مکھی مرجائے.لکھی تو شائد اڑ گئی ہو مگر اس شخص کی ماں پتھر سے مرگئی.ریچھ نے اپنے خیال میں مکھی اڑائی تھی.اور اپنے آقا اور محسن سے اخلاص اور محبت کا اظہار کیا تھا.لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے اس غرض اور مقصد کو ضائع کر دیا جس کے لئے اسے لکھیاں اڑانے کے لئے مقرر کیا گیا تھا.پس بعض مسلمانوں نے ایسی تدابیر اختیار کیں جو نیک نامی کا موجب نہیں ہو ئیں.بلکہ اعتراض کا باعث بن گئی ہیں.اسلام دفاع اور خود حفاظتی سے نہیں روکتا.لیکن اسے جائز قرار نہیں دیتا کہ بغیر دفاع کی حالت کے اور بغیر خود حفاظتی کی ضرورت کے یونسی کسی پر حملہ کر دیا جائے.مگر پچھلے دنوں دو واقعات ایسے ہوئے جن میں بیان کیا گیا ہے کہ بعض مسلمانوں نے بعض ہندوؤں پر حملہ کیا.وہ مسلمان اپنے گھروں اور اپنے محلوں سے چلے اور ہندوؤں کے محلوں اور ان کی درگاہوں پر جاکر انہوں نے حملہ کیا.اور اس طرح ان کو زخمی کیا.اور ایک کے متعلق تو کہا جاتا ہے اسے مار ڈالا.شائد وہ اپنے نزدیک (اگر انہوں نے یہ فعل کیا ہے) خیال کرتے ہوں گے کہ انہوں نے اسلام کی خدمت کی ہے مگر میں دیکھتا ہوں کہ وہ لوگ بھی جو اسلام کی طرف سے تلوار چلانے کو نا پسندیدگی کی نظر سے نہ دیکھتے تھے.وہ بھی اب کھلے الفاظ میں ایسے لوگوں کے افعال سے حقارت اور نفرت کا اظہار کر رہے ہیں.اور بعض مسلمانوں نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ ہم شرم
خطبات محمود ۲۲۹ سال 1927ء کے مارے گردنیں اونچی نہیں کر سکتے.میں کہتا ہوں انہوں نے صحیح لکھا ہے.اور اگر واقعہ میں ان میں یہی احساس پیدا ہوا ہے کہ وہ شرم کے مارے گرد میں اونچی نہیں کر سکتے تو میں یہ نہیں کہوں گا کہ انہوں نے بر انعل کیا.بلکہ میرے لئے یہ اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ جو شخص اسلام کی عزت کی حفاظت کی خاطر ایسا جوش رکھتا ہے اور ہر وہ بات جو اسلام کی بدنامی کا موجب ہو.اس پر شرم محسوس کرتا ہے تو یہ اس کی اسلام سے محبت کی علامت ہے.میں نے جب یہ واقعہ پڑھا کہ اس طرح ایک ہندو پر حملہ ہوا ہے تو اس وقت میں شملہ میں تھا.اس وقت میں نے ہر مجلس میں اس فعل پر اظہار نفرت کیا.ہندوؤں کے سامنے کم.صرف ایسے ہندوؤں کے سامنے جنہوں نے اس کے متعلق سوال کیا اور مسلمانوں کے سامنے زیادہ کیونکہ میرے نزدیک اس امر کی تعلیم کی ضرورت مسلمانوں کو تھی کہ ان کے دلوں میں اسلام کی حمیت حمیت جاہلیہ کے طور پر پائی جاتی ہے اس سے زیادہ نہیں.میرا خیال ہے اس قسم کا دوسرا حملہ میرے قادیان میں آجانے کے بعد ہوا.اسے بھی میں نے سخت ناپسند کیا.در حقیقت ہمارا یہ حق تو نہیں کہ یہ کہہ سکیں کہ جن کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے حملہ کیا وہ مجرم تھے یا نہیں.لیکن ایک بات ہے جو کھٹکتی ہے.اور وہ ان کے اپنے بیانات ہیں جو انہیں مجرم بناتے ہیں.کہا جاتا ہے کہ ہندو مسلمانوں کی دشمنی کی وجہ سے جھوٹے گواہ بنالئے جاتے ہیں.لیکن اس بات کے تسلیم کرنے میں یہ وقت ہے کہ ان لوگوں کے اپنے بیانات ایسے ہیں جو ان پر الزام لگاتے ہیں.پس اس حالت میں کہ وہ اپنی زبان سے ایک رنگ میں اقرار جرم کرتے ہیں.ہمارے لئے مشکل ہے کہ ہم مجسٹریٹوں کے فیصلوں پر اعتراض کریں یا انہیں غلط قرار دیں.پس جہاں تک ہماری عقل جاتی ہے ہم مجسٹریوں کے فیصلہ کی تصدیق کرنے پر مجبور ہیں.اور یہ کہنے سے نہیں رک سکتے کہ اگر فی الواقعہ ملزموں نے یہ فعل کیا ہے تو نہایت نا پسندیدہ اور قابل اعتراض فعل کیا ہے.ہاں اگر یہ ثابت ہو جائے کہ پچھلی تحریروں کی دشمنی کی وجہ سے نہیں بلکہ ہندوؤں کے اشتعال دلانے سے ایسا ہوا ہے.جیسا کہ ایک ملزم نے اپنے بیان میں کہا بھی ہے کہ میں دکان کے پاس سے گزر رہا تھا کہ ہندوؤں نے رسول کریم اے کی پتنگ کی اور اس پر لڑائی ہو گئی تو پھر ان کا جرم جرم نہیں رہتا بلکہ خود حفاظتی ہو جاتی ہے.اگر کچھ لوگ کسی پر حملہ کر دیں تو اس کے ہاتھوں کسی کا زخمی ہو جانا خود حفاظتی ہو گی.لیکن اس بات کو ان کے اپنے بیان ہی رد کرتے ہیں.اور جب تک ان کے وہ بیان موجود ہیں جو انہوں نے عدالت میں دیئے.ہم مجبور ہیں کہ تسلیم کریں کہ ان کی خود حفاظتی کی حالت نہ تھی.بلکہ جیسا کہ مجسٹریٹ نے فیصلہ کیا
خطبات محمود ۲۳۰ سال 1927ء ہے.انہوں نے غلط خیال اور غلط عقیدہ کے ماتحت ایک نادان کی دوستی کے رنگ میں حملہ کیا.اور اسلام ایسے حملہ کو حقارت اور نفرت کی نظر سے دیکھتا ہے.اور میرے نزدیک ان کے اس فعل نے اسلام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا.بلکہ نقصان پہنچایا ہے کیونکہ دشمنوں کو یہ کہنے کا موقع مل گیا ہے کہ اسلام ایسا مذ ہب ہے جو جوش اور تشدد کی تعلیم دیتا ہے.مسلمان واقف ہیں کہ ان کے دشمنوں کی قلمیں بہت تیز اور ان کی زبانیں لمبی ہیں.وہ سینکڑوں انسانوں کے خون بہا کر اور ہزاروں گھروں کو جلا کر بہت سے بچوں کو یتیم اور عورتوں کو بیوائیں بنا کر اپنے قلموں کی تیزی اور اپنی زبانوں کی لمبائی کی وجہ سے دنیا میں مجرم قرار نہیں پائے.مسلمانوں کے پاس نہ قلمیں ہیں نہ زبانیں نہ روپیہ.نہ رسوخ.اس لئے خواہ کوئی مجرم ہو ان کی قوم اور مذہب کا جرم سمجھا جاتا ہے.اور اعتراض ساری قوم اور مذہب پر کیا جاتا ہے.کمزور قو میں ہمیشہ اس مصیبت میں مبتلا رہتی ہیں کہ ہر قسم کے عیوب ان کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں.اور ان کے افراد کے عیوب بھی ان کے مذہب اور قوم پر چسپاں کئے جاتے ہیں.یہی حال آج کل مسلمانوں کا ہے.کوئی فعل کوئی مسلمان کرے اس کا الزام تمام مسلمانوں اور اسلام پر لگایا جاتا ہے وہی فعل جو ہزاروں ہندو.ہزاروں سکھ اور ہزاروں عیسائی کر رہے ہیں ان کی قوم اور مذہب پر اس کا الزام عائد نہیں کیا جاتا.جب کوئی ہندو ایسا فعل کرتا ہے تو کہا جاتا ہے ایک شریر نے ایسا کیا.جب ایک عیسائی وہ فعل کرتا ہے تو کہا جاتا ہے ایک شخص نے ایسا کیا.جب ایک سکھ ایسا فعل کرتا ہے تو کہا جاتا ہے ایک سکھ نے ایسا کیا.لیکن جب مسلمان کہلانے والوں میں سے کسی سے ایسا فعل سرزد ہو.تو اس کے متعلق یہ عنوان رکھے جاتے ہیں.اسلامی گنڈے کا فعل.قرآن کی تعلیم کا نتیجہ - محمد ( ا ) کی تعلیم کا اثر.عیسائیوں کے جرم انجیل و توریت کی طرف منسوب نہیں کئے جاتے ان کے برے افعال کو حضرت مسیح علیہ السلام سے نسبت نہیں دی جاتی.ہندوؤں کے جرائم ویدوں کی تعلیم کا نتیجہ نہیں بتایا جاتا.حضرت رام اور کرشن کی طرف منسوب نہیں کئے جاتے.سکھوں میں سے اگر کوئی جرم کرے تو گر تھے صاحب کی طرف منسوب نہیں کیا جاتا.نہ سکھ گروؤں کی تعلیم کا اثر قرار دیا جاتا ہے.مگر مسلمان کہلانے والوں کے جزم قرآن کریم کی طرف اور رسول کریم ﷺ کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں.کیوں؟ اس لئے کہ مسلمان کمزور ہیں اور کوئی ان کی بات پوچھنے والا نہیں.مگر مسلمانوں کو تو چاہئے کہ اپنی بے بسی اور بے کسی کو سمجھتے ہوئے ایسے افعال سے بچیں جن سے اسلام اور رسول کریم ﷺ کی ذات اقدس پر نا واجب اور ناجائز حملہ کا دروازہ کھلتا ہو.وہ انسان جو ایک فرد کے
خطبات ت محمود ۲۳۱ سال 1927ء جرم کو ساری قوم کی طرف منسوب کرتا ہے.وہ ایک قاتل اور حملہ آور سے بھی زیادہ ظالم ہے کیونکہ حملہ آور ایک انسان پر حملہ کرتا ہے مگر اس نے ساری قوم پر حملہ کیا.اور ساری قوم پر حملہ کرنے کا جرم ایک انسان پر حملہ کرنے کے جرم سے بہت زیادہ وزن رکھتا ہے.میں وہ الفاظ نہیں پاتا.اپنی زبان میں اتنی قدرت نہیں رکھتا اور اپنی گویائی میں یہ طاقت نہیں دیکھا کہ جن الفاظ جس قدرت اور جس طاقت کے ساتھ ان لوگوں کے فعل پر حقارت اور نفرت کا اظہار کروں.جنہوں نے بعض لوگوں پر اس لئے حملہ کیا کہ ان کا اس قوم سے تعلق تھا جس کے افراد نے اسلام یا رسول کریم کی ہتک کی.یا جو ایسے لوگوں کے دوست اور مددگار تھے.لیکن اسی طرح بلکہ اس سے بڑھ کر میں اپنے آپ کو اس بات کے ناقابل پاتا ہوں کہ ان لوگوں کے فعل کی تحقیر اور تذلیل کر سکوں جنہوں نے افراد کے فعل کو اسلام کی طرف.رسول کریم ﷺ کی طرف منسوب کیا.انہوں نے فرد پر حملہ کرنے والوں کو برا کہا مگر قوم پر حملہ کرنے والوں کو برا نہ سمجھا.اگر حملہ کرنے والوں کے متعلق ان کا جوش حقیقی اور مخلصانہ ہوتا تو وہ ویسا ہی جوش ان کے خلاف بھی دکھاتے جنہوں نے افراد کے الزام کو ساری قوم پر لگایا.ان کی غیرت اور جوش بتاتا ہے کہ وہ حمیت جاہلیت کا جوش تھا.خدا کے لئے اور حق کے لئے نہ تھا.اگر ہندوؤں پر بعض افراد نے بلا وجہ حملہ کیا.تو یہ ان کی غلطی تھی.اسلام اور بانی اسلام کی طرف اس کا منسوب کرنا کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہو سکتا.اس غلطی کا وہی ذمہ دار ہے جو ارتکاب کرتا ہے.اسے اگر اس دنیا میں شرم دامن گیر نہیں ہوتی.یادہ سزا نہیں پاتا.تو مرنے کے بعد کی زندگی میں جس کے ہندو بھی قائل ہیں.گو وہ یہ کہتے ہیں کہ مختلف جونوں میں جانا پڑتا ہے) اسے بدترین مجون میں ڈالا جائے گا اور اگر حشر نشر کا عقیدہ صحیح ہے.اور میرے نزدیک یہی صحیح ہے جو اسلام نے پیش کیا ہے.اس لئے اگر کوئی اس دنیا کی گورنمنٹ کی سزا سے بچ جائے.تو وہاں محفوظ نہ رہ سکے گا اگر چہ ہندوؤں کی یہ روش نہایت ہی افسوس ناک ہے.لیکن ہمیں ان کا معاملہ خدا کے سپرد کرنا چاہئے.ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم اپنے لئے قتل کو حقارت کی نظر سے دیکھیں اور اگر کوئی اس کا مرتکب ہو تو اس سے ہمدردی نہیں ہونی چاہئے.مگر اس کے یہ معنی بھی نہیں کہ اگر کسی کو خواہ مخواہ مجرم بنایا جائے تو مسلمان ہندوؤں سے اس لئے ہمدردی کا اظہار کریں کہ اپنے اخلاق کی وسعت دکھا ئیں.بعض لوگ منافق ہوتے ہیں جو اپنی قوم پر جرم لگاتے ہیں اور دعوئی یہ کرتے ہیں کہ ہم اخلاق کی اصلاح چاہتے ہیں مگر واقعات خود بخود بولتے اور ایسے لوگوں کے چہرے آپ ہی ان کی حالت بتا دیتے ہیں.مثلاً وہی شخص جسے
خطبات محمود ۲۳۲ سال 1927ء راجپال پر حملہ کرنے والا کہا جاتا ہے اپنے گھر بیٹھا ہوتا اور راجپال اس پر حملہ کرتا اس وقت خود حفاظتی میں خود زخمی ہو جاتا.یا اسے زخمی کر دیتا اور مسلمان کہتے اس نے بہت برا کیا.تو میں کہتا ایسے مسلمان منافق ہیں جو ہندوؤں کو خوش کرنے کے لئے مسلمانوں پر الزام لگا رہے ہیں.اور اپنے نفاق کو اپنے بھائی کی دشمنی کے پردہ میں چھپا رہے ہیں.اور جسے وہ روشنی سمجھ رہے ہیں.وہ روشنی نہیں.بلکہ روغن قاز ہے یا تارکول ہے.جس سے اپنا چہرہ سیاہ کر رہے ہیں.لیکن جہاں بات بالکل عیاں نہ ہو.بلکہ کچھ اخفا ہو.وہاں قوم کا فرض ہے کہ جو افراد پھنس گئے ہوں ان کی مدد کرے.مثلاً جس طرح ایک شخص کا بیان ہے کہ میں پاس سے گزر رہا تھا کہ میں نے رسول کریم کی ہتک ہوتی سنی اس پر میری ان سے لڑائی ہو گئی.یہ ایسابیان ہے جو امکان رکھتا ہے کہ درست ہو.گو اس کے بعد کا بیان اسے مجرم بنانے کے لئے کافی ہے.مگر جہاں بیان کے درست ہونے کا امکان ہو.ایسی حالت میں مسلمانوں کا فرض ہے کہ مدد کریں اور جب تک جرم ثابت نہ ہو امداد سے پہلو تہی نہ کریں.لیکن ایک جرم بالبداہت ظاہر ہوتا ہے.جیسے راجپال نے کتاب شائع کی اور ہندوؤں نے اس کی مدد کی.یہ ظالمانہ فعل کیا.اسی طرح اس قسم کا کیس جس طرح کا سوامی شردھانند کا تھا.اس میں مدد کرنا میں نا مناسب سمجھتا ہوں.اس مقدمہ میں ایک احمدی بیرسٹر بلائے گئے.جس پر میں نے ناراضگی کا اظہار کیا.کیونکہ کم از کم میرے نزدیک ملزم کا جرم ثابت تھا.ایک مرا ہوا آدمی پایا گیا.عین اس موقع پر ملزم کو پکڑا گیا جس کے ہاتھ میں پستول تھا.اور اسی پستول کی گولیاں مقتول کے جسم سے نکلیں.ایسی حالت میں کون امید کر سکتا ہے کہ سوامی شردھانند کے رشتہ داروں نے انہیں خود مار کر ایک شخص کو پکڑ لیا.یہ عقل کے خلاف ہے.ملزم کا وہاں ہونا.عین موقع پر پکڑا جاتا.اس کے ہاتھ میں پستول ہونا.پستول کی گولیوں کا مقتول کے جسم سے نکلنا یہ ایسے واقعات نہیں ہیں کہ جرم ثابت نہ ہو.ایسی مثال میں مجرم کی مدد کرنا میرے نزدیک جائز نہیں.ہاں عدالت کا فرض ہے کہ اس کے لئے وکیل مقرر کرے.تاکہ کیس ان ڈیفنڈڈ (UNDEFENDED) نہ رہے.لیکن جہاں ایسا کھلا کیس نہ ہو.جیسا کہ راجپال اور عبد الرشید کا تھا.وہاں مسلمانوں کا حق ہے کہ ملزم کی مدد کریں.پس میرے نزدیک یہ غلطی ہوئی.پیشتر اس کے کہ لاہور کے مقدمات میں مجرم ثابت ہوں.ملزموں کو اپنی حفاظت کا موقع نہیں دیا گیا.اور ان کی طرف سے وکیل مقرر نہیں کیا گیا.صرف ایسے واقعات کا جمع ہو جانا جن سے جرم کا اشتباہ ہو مجرم قرار دینے کے لئے کافی نہیں ہوا کرتا.اور اس کے ساتھ ملزم کے دفاع کے حقوق
خطبات محمود ۲۳۳ سال 1927ء نہیں جاتے رہتے.لیکن ارتکاب جرم کے یقین تک پہنچنے کے بعد مجرم کی مدد کرنا جائز نہیں ہے.اور لاہور کے جو دونوں ملزم تھے.ان کے متعلق یقین کا موقع نہ تھا.یقین اسی وقت ہوا جب مجسٹریٹ نے تحقیقات کی.میرے نزدیک مسلمان وکلاء سے غلطی ہوئی کہ وہ ان ملزموں کی مدد کے لئے کھڑے نہ ہوئے اور پھر دوسری غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے کھڑے نہ ہونے پر فخر کیا.انہیں مقدمہ کے شروع ہونے کے وقت ضرور امداد دینی چاہئے تھی.ہاں جب جرم ثابت ہو جاتا.تو مقدمہ چھوڑ سکتے تھے.جن واقعات کا اس وقت ذکر ہے.ان میں الزام ثابت نہ ہوا تھا کہ قانونی امداد نہ دی گئی.جس کا یہ مطلب ہے کہ بیسیوں ایسے لوگ پکڑے جائیں گے جنہوں نے کوئی جرم نہ کیا ہو گا مگر مسلمان ان کی امداد کرنا چھوڑ دیں گے اور وہ مصائب اور آلام میں گرفتار ہو جائیں گے.میرے نزدیک یہ بہت بڑی غداری ہوگی.جب کسی کے اپنے بیان سے جرم ثابت ہوتا ہے تو اس کی امداد کرنا ظالمانہ فعل ہے.لیکن جب تک جرم ثابت نہ ہو بغیر مدد کے چھوڑ دینا قومی غداری ہے.باقی یہ کہنا کہ ان مقدمات میں سزا سخت دی گئی ہے.اگر جرم ثابت ہے تو پھر سزا سخت نہیں.میرے خیال میں اس سے بھی سخت ہونی چاہئے تھی.کوئی وجہ نہیں کہ بغیر اشتعال اور بغیر خود حفاظتی کے کسی کو قتل کیا جائے.یہ بہت بڑا ظالمانہ فعل ہے.کسی نے مجھ سے کہا.ان مجرموں کو بہت سخت سزادی گئی ہے.میں نے کہا ذرا اپنے اوپر قیاس کر لو.اگر تمہارے کسی آدمی پر حملہ ہو.تو تم حملہ آور کے لئے کیسی سزا چاہو گے.غرض جب تک جرم ثابت نہ ہو.ملزموں کی مدد کر نا قومی فرائض میں سے ہے نہ کہ قومی رعایت.ہاں جب جرم ثابت ہو جائے تو مدد کرنا شریعت کے خلاف ہے.ہمارا نقطہ خیال یہ ہے کہ ان لوگوں کا جرم شروع میں ثابت نہ تھا.اس وقت ان کو مسلمانوں کی طرف سے قانونی مدد ملنی چاہئے تھی.اگر انہوں نے خود کسی کو وکیل کھڑا نہیں کیا.تو یہ ان کا کام تھا لیکن اگر انہوں نے وکیل کھڑا کرنے کی کوشش کی.مگر کسی نے ان کا مقدمہ لینا منظور نہ کیا تو انکار کرنے والوں نے قومی غداری کی.اور سزا کے متعلق ہماری یہ رائے ہے کہ جہاں ایسے جرم ثابت ہو جائیں وہاں ضرور سخت سزا دینی چاہئے تاکہ دوسروں کے لئے عبرت کا موجب ہو.اور نادان لوگ قوم کو بدنام نہ کریں.اس میں اسلام اور مسلمانوں ہی کا فائدہ ہے کہ دوسرے سخت سزاؤں سے ڈر کر اس قسم کے افعال کے مرتکب نہ ہوں گے اور مسلمانوں کے لئے بدنامی کے سامان نہ پیدا کریں گے.ہمیں جو کچھ کہنا چاہئے وہ یہ ہے کہ وہ مجرم تھے یا نہیں.ہمیں اس کے لئے اپیل یا دوسرے طریقوں سے کوشش کرنی چاہئے.لیکن جب جرم ثابت ہو جائے.خواہ شریعت کے
خطبات محمود سال 1927ء قانون کی رو سے یا گورنمنٹ کے قانون کے ماتحت تو اس صورت میں سزا کو سخت نہیں کہیں گے.ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ جرم ثابت نہیں پھر سزا کیوں دی گئی لیکن جب جرم ثابت ہو جیسا کہ میرے نزدیک یہاں ثابت ہے (میں یہ نہیں کہتا کسی اور کے نزدیک بھی ثابت ہے یا نہیں تو پھر ضروری ہے کہ سزا سخت ہو.بلکہ ایسے لوگوں نے چونکہ اسلام کو بد نام کیا ہے اس لئے ہماری خواہش ہے کہ اور بھی سخت ہو.ان لوگوں نے نہ صرف اسلام کو بد نام کیا ہے بلکہ ان کے افعال کا ایک اور نہایت خطرناک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بہت سے مسلمان ڈر گئے ہیں اور انہوں نے وہ جد و جہد چھوڑ دی ہے جو اپنی اصلاح اور ترقی کے لئے شروع کی تھی.اور جس کی بنیاد میرے ذریعہ پڑی تھی.مسلمان اسے چھوڑ بیٹھے ہیں.ان واقعات کو دیکھ کر کہ مسلمان پکڑے گئے اور ان کو سزائیں ملیں.کمزور طبائع یونی ڈر گئی ہیں کہ ہم بھی کہیں پکڑے نہ جائیں.اور کسی مصیبت میں پھنس نہ جائیں.ورنہ جو امن کے ساتھ رہتا اور خود حفاظتی کرتا ہے اسے کون پکڑ سکتا ہے.اور کون سزا دے سکتا ہے.اور اسے ڈرنے کی کیا وجہ ہے.اس میں شبہ نہیں کہ دشمنی اور عداوت کی وجہ سے بے گناہ بھی پکڑے جاتے ہیں اور مسلمانوں کو اس طرح پکڑنے کی وہ لوگ کوشش کریں گے جن کو مسلمانوں کی جائز جدوجہد سے نقصان پہنچے گا اور جن کے وہ فوائد بند ہو جائیں گے جو مسلمانوں سے حاصل کرتے تھے.میں نے دیکھا ہے.اگر کوئی زمیندار کسی کی زمین پر پانچ چھ سال قابض رہے اور جب زمین والا اس سے زمین مانگے تو غصہ اور ناراضگی کا اظہار کرتا ہے.مگر ہندوؤں نے تو سینکڑوں سال سے مسلمانوں کے حقوق اور اموال پر قبضہ کیا ہوا تھا.وہ اب کیوں ناراض نہ ہوں گے.مگر اس سے مسلمانوں کو ڈرنا نہیں چاہئے لیکن جیسا کہ مجھے اطلاعیں پہنچ رہی ہیں مسلمان اب ڈر گئے ہیں اور خیال کرنے لگ گئے ہیں کہ یونہی گورنمنٹ پکڑ کر انہیں جیلوں میں ڈال دے گی.گورنمنٹ بھی انسانوں پر مشتمل ہے اور وہ بھی غلطی کر سکتی ہے.مگر یہ بھی تو ہے کہ گورنمنٹ میں سب راجپال نہیں بیٹھے ہوئے.بہر حال قانون موجود ہے ایک غیر قوم حکمران ہے جو عقلمند ہے.معاملات کی تہ تک پہنچ سکتی ہے.بے شک گورنمنٹ کے محکموں میں ہندوؤں کا رسوخ ہے.ان کی کثرت ہے.مگر ہر معاملہ کی تحقیقات ہو گی ثبوت پیش کئے جائیں گے.ان حالات میں مسلمانوں کے لئے ڈرنے کی کوئی وجہ نہ تھی.مگر کمزور طبائع بھی ہوتی ہیں.وہ ڈر گئی ہیں.اس طرح ان مجرموں نے اس کام میں روک ڈال دی ہے.اور اس کے مقابلہ میں اپنے افعال سے اسلام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا.بلکہ ہندوؤں کو فائدہ پہنچایا ہے کیونکہ کسی قوم کے بڑھنے اور ترقی کرنے کے لئے اس کی
خطبات محمود ۲۳۵ سال 1927ء مظلومیت کے واقعات بڑے موثر ہوتے ہیں.عیسائیوں کو دیکھو حضرت مسیح کی مظلومیت انیس سو سال سے ان کو قوت اور طاقت دے رہی ہے.اسی طرح شیعوں کو دیکھو.حضرت امام حسین کی شہادت نے ان کو کس قدر تقویت دی ہے.اگر یہ واقعہ نہ ہو تا تو ان کو یہ ترقی حاصل نہ ہو سکتی.تو مظلومیت کی حکائت کمزور قوم کو بھی طاقت ور اور زبر دست بنادیتی ہے پس یہ واقعات جو ہوئے اسلام کے لئے مضر اور ہندوؤں کے لئے مفید ہیں.کسی نے کہا ہے خدا مجھے نادان دوستوں سے بچائے.میں مسلمانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ ایسے واقعات کو حقارت اور نفرت کی نظر سے دیکھیں تاکہ آئندہ کسی اور کو جرات نہ ہو.ہاں جب تک جرم ثابت نہ ہو اس وقت تک چھوڑ دینا غداری ہے.کیونکہ ممکن ہے ملزم بے گناہ ہو اس نے جرم نہ کیا ہو اس وقت ہمدردی اور امداد سے انکار کرنا قومی غداری ہے اگر انہوں نے خود مدد نہیں مانگی تو پھر مدد دینے والوں کا قصور نہیں.لیکن مدد مانگنے پر مدد نہ دینے والے ضرور قصور وار ہیں.اور اگر انہوں نے مدد مانگی نہیں تو پھر یہ فخر کرنا کہ ہم نے ان کو مدد نہیں دی یہ نادرست ہے.لیکن جب جرم ثابت ہو گیا اس وقت یہ کہنا کہ سزا سخت ہے ناجائز ہے.میرے نزدیک سزا اور سخت دینی چاہئے تھی.تاکہ آئندہ لوگ ایسے جرائم نہ کریں.یہ بات اسلام کے لئے مفید اور ہندوؤں کے لئے مضر ہے.جتنی سزا ہو گی اتنی ہی ہندوؤں کے لئے مضر ہو گی.کیونکہ اس طرح ان کا غصہ کم ہو جائے گا کہ انتقام لے لیا گیا.مگر ہمارے لئے مفید ہوگی.میں ہر طرح اخلاقی طبعی.سیاسی اور تمدنی طور پر غور کرنے سے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ بزدلوں سے ایسے افعال ہوتے ہیں کوئی بہادر اور دلیر انسان ایسا نہیں کرتا.اس لئے ایسے لوگ سختی سے ڈر بھی جلدی جاتے ہیں اور ان کے ڈرنے سے یہ فائدہ ہو گا کہ ایسے واقعات نہ ہوں گے پس اسلامی نقطہ نگاہ سے تو ہم یہی کہیں گے کہ اور بھی زیادہ سزا ہو.باقی قانون جو سزا دے سکتا ہے حکام اتنی ہی دیں.میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالی مسلمانوں کو توفیق دے کہ وہ اسلام کی خدمت ایسے مستقل طریق سے کریں.جس میں تزلزل نہ واقعہ ہو.ان کا استقلال اور ثبات نہ جائے.وہ ایسے کاموں میں دخل نہ دیں جو شریعت کے خلاف ہوں.انہیں اتنا تو سوچنا چاہئے.کیا شریعت ہمیں بے بس چھوڑ دے گی اور اسلام بغیر ہتھیار چھوڑ دے گا.ہر جرم کو روکنے کے لئے اسلام میں شرافت اور امن کے ساتھ استعمال کرنے والے ذرائع موجود ہیں.مثلاً تمدنی ترقی کا ذریعہ ایسا ہے کہ اس سے ہم اس قوم کی آنکھیں کھول سکتے ہیں جو ہمارے مذہب پر ناپاک حملے کرتی ہے.اپنے ذرائع کو چھوڑ
محمود ۲۳۶ سال 1927ء کر فساد پھیلانے والے طریق اختیار کرنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے.میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ مسلمانوں کو صحیح ذرائع سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دے.جو اسلام کی ترقی کے لئے مفید ہیں.اور ایسے لوگوں کو ہدایت دے جو اپنے نفسانی جوش کے ماتحت اسلام کی بدنامی کا موجب ہو جاتے ہیں.الفضل ۸/ نومبر۱۹۲۷ء)
۲۳۷ سال 1927ء بے جا محبت اور غضب سے بچو فرموده ۴/ نومبر۱۹۲۷ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: سورۃ فاتحہ جہاں ہمیں اور بہت سے سبق سکھاتی ہے وہاں ہمیں اس سے یہ نکتہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ صداقت اور راستی کے چھوڑنے کے دنیا میں روہی باعث ہوا کرتے ہیں.اور وہ دو باعث کینہ اور محبت ہیں.یا تو انسان کینہ کی وجہ سے راستی اور صداقت کو چھوڑتا ہے یا محبت کی وجہ سے.انسان کو سامنے نظر آنے والے یہی دو سبب ہوتے ہیں.ان کے پیچھے اور اخلاقی بواعث ہوتے ہیں جو حقیقت میں کینہ اور محبت کے موجبات ہوا کرتے ہیں.مگر سامنے آنے والے اور نمایاں طور پر سامنے آنے والے یہی باعث ہوتے ہیں کہ یا تو انسان کسی سے کسی سبب سے ناراض ہو جاتا ہے اور ناراضگی کی وجہ بڑھاتے بڑھاتے اس حد تک لے جاتا ہے کہ اس کی عقل بالکل ماری جاتی ہے.اس کے لئے ایک جگہ ٹھرنا مشکل ہو جاتا ہے.سیدھے راستہ پر چلنا اس کے لئے ناممکن ہو جاتا ہے.وقار اس کے ہاتھ سے جاتا رہتا ہے.سنجید گی چھوٹ جاتی ہے اور وہ دیوانے کہتے کی طرح جسے اپنی دیوانگی کی حالت میں دنیا کے تمام مقاصد میں سے بہترین مقصد کاٹنا نظر آتا ہے.اسی طرح اس کے سامنے بھی ایک ہی مقصد رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ کائے.گویا اس کے نزدیک بہترین کام دوسروں کو قتل کرنا مارنا اور نقصان پہنچانا ہوتا ہے.یہ حالت کبھی ترقی کرتے کرتے جنون کی حد تک پہنچ جاتی ہے کبھی جنون تو نہیں آتا مگر یہ حالت پیدا ہو جاتی ہے.ابھی امریکہ میں ایک بہت بڑا آدمی پکڑا گیا ہے اس کے متعلق لکھا ہے کہ اسے اس بات کا جنون تھا کہ لوگوں کو قتل کرے خصوصاً عورتوں کو.اس نے کئی عورتوں اور لڑکیوں کو قتل کیا.قتل کرنے کی کوئی وجہ اور باعث نہ تھا.معلوم ہوتا ہے کسی بات پر کسی وقت اس کا غضب بھڑکا.کسی عورت سے معلوم ہوتا
خطبات محمود ٢٣٨ سال 1927ء ہے اسے صدمہ پہنچا جو بڑھتے بڑھتے اس عورت تک ہی محدود نہ رہا بلکہ اوروں تک بھی پہنچا.اور وہ ایک لمبے عرصہ تک بڑی ہوشیاری سے قتل کرتا رہا.تو غضب ترقی کرتے کرتے اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ انسان یہ نہیں سمجھ سکتا کہ اس کا نقصان مجھے کیا پہنچے گا اور دوسروں کو کیا.ابو جہل کے متعلق آتا ہے اس کی مجلس میں رسول کریم ﷺ کے متعلق یہ ذکر آتا کہ ان کی باتیں ایسی ہیں جو سوچنے کے قابل ہیں.اس قسم کی گفتگو پر اس نے جھنجھلا کر کہا بات تو ٹھیک ہے مگر یہ تو بتاؤ میرے باپ دادا نے کب اس کے باپ دادوں کی غلامی کی کہ آج ہم کرنے لگ جائیں.رسول کریم کا دعوئی بڑا شاعر ہونے کا یا بڑا عالم ہونے کا نہ تھا کہ آپ کے فن کا انکار معمولی بات ہوتی.خدا کی طرف سے آنے کا آپ کو دعوئی تھا.اس کا انکار معمولی بات نہ تھی مگر باوجود اس کے کہ اس انکار میں اسے جہنم نظر آتا تھا.اور آپ کا انکار خدا کا انکار تھا مگر اس نے کر دیا.وجہ یہ کہ اسے رسول کریم اس سے کینہ اور بغض تھا.وہ کہتا تھا محمد ( ا ) کیوں بڑھ گیا.اس کی خلوت کی گھڑیوں میں اور اس کے علیحدہ بیٹھے ہونے پر جب رسول کریم ان کا ذکر آتا تو اس کا دل محسوس کرتا تھا کہ محمد ﷺ کے مقابلہ میں میں حق بجانب نہیں ہوں.مگر پھر اس پر کینہ اور دشمنی غالب آجاتی اور وہ مخالفت کرنے لگ جاتا تھا اور جھوٹا قرار دیتا.جہاں اس کا دل کسی کسی وقت کہہ اٹھتا تھا کہ محمد ﷺ کی صداقت کے ایسے نشان ہیں جن کا انکار نہیں کیا جا سکتا ہاں اس کا غصہ اور کینہ عقل پر اتنا غالب آچکا تھا کہ اس نے بدر میں مباہلہ کیا اور کہا اے خدا اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھے پر پتھر برسا.خدا نے اس کی آواز سن لی اور اس پر پتھر ہی بر سے - (الانفال : (۳۳) مگر یہ ابو جہل وہی تھا جس نے اپنی خاص مجلس میں کہا تھا.محمد ( ﷺ ) باتیں تو سچی کہتا ہے مگر ہمارے باپ دادا نے کب اس کے باپ دادا کی غلامی کی ہے کہ ہم اس کی باتیں مان لیں.کیا یہ عجیب بات نہیں کہ یہی انسان سب کچھ بھلا کر اور تمام ان کیفیات کو چھوڑ کر جو اس کے دل میں رسول کریم ﷺ کی سچائی کے متعلق پیدا ہوئی تھیں.مقابلہ کے لئے کھڑا ہو گیا اور مقابلہ بھی معمولی نہیں.انسانوں کے سامنے نہیں بلکہ خدا کے سامنے کہنے لگا کہ اگر یہ سچا ہے تو ہم پر پتھر برسا.کیا یہ بظاہر جنون کی حالت نہیں ہے.روہی صورتیں ہو سکتی ہیں یا یہ کہ کہیں یہ روایت کہ کبھی کبھی ابو جہل کے دل میں رسول کریم کی صداقت کا خیال آجاتا تھا جھوٹی ہے یا پھر یہ ہے کہ رسول کریم اے سے مباہلہ کرنے کا جو ذکر آتا ہے وہ غلط ہے.قرآن کریم میں اشار تأیہ ذکر ہے نام نہیں لیا گیا اس لئے کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس نے مباہلہ نہیں کیا ہو گا لیکن قرآن کریم سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ کفار میں
۲۳۹ سال 1927ء سے ایسے لوگ تھے جو رسول کریم ﷺ کی صداقت کی تصدیق کرتے تھے.اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مباہلہ کیا گیا اور کہا گیا اگر یہ سچا رسول ہے تو ہم پر پتھر بر سا.اگر یہ رسول سچا ہے تو ہم پر وبال آئے.یہ دونوں حالتیں بتاتی ہیں کہ ایسے لوگ تھے جن میں یہ دونوں کیفیتیں پائی جاتی تھیں.اس صورت میں ابو جہل کی حالت کا انکار نہیں کیا جاسکتا.کیونکہ روایت سے دونوں باتیں ابو جہل پر چسپاں ہوتی ہیں.پھر کیا عجیب بات ہے کہ ابو جہل اپنی خاص مجلس میں تو رسول کریم کی صداقت کا اقرار کرتا ہے مگر لڑائی اور جنگ کے میدان میں خدا کے سامنے کہتا ہے اگر یہ رسول سچا ہے تو مجھ پر وبال نازل ہو.ایک شخص میں ان دونوں کیفیتوں کے جمع ہونے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اس کی غضب کی حالت بڑھتے بڑھتے اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ وہ نہیں دیکھتا تھا کہ اس کا کیا انجام ہو گا.اور وہ خدا کے سامنے کھڑا ہو گیا.حالانکہ اسے رسول کریم کے متعلق وہ عرفان حاصل تھا جو ایک کافر کو ہو سکتا ہے.پھر قرآن سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان محبت میں بھی ایسا ہی کرتا ہے.وہ دوسرے کی محبت میں ایسا پھل جاتا ہے کہ تحت الثریٰ میں جاگرتا ہے.اس مرض میں کمزور ایمان والے یا منافق اور دشمن ہی مبتلا نہیں ہوتے بلکہ بعض اخلاص رکھنے والوں کو بھی ٹھوکر لگ جاتی ہے.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں عبد اللہ بن ابی سلول اور بعض دوسرے منافقوں نے حضرت عائشہ پر الزام لگایا جس کی خدا تعالیٰ نے بریت کی.مگر وہ بعد میں ہوئی.درمیان میں ایسا وقت آیا جب اعتراض پھیلنے لگے.آخر رسول کریم ﷺ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس میں منافقوں کی ایذاء رسانی کا ذکر تھا.اس وقت کچھ لوگ کھڑے ہو گئے.جو عبد اللہ بن ابی کی قوم کے نہ تھے.انہوں نے کہا یا رسول اللہ ایسا شخص ہماری قوم سے ہے تو آپ ہمیں بتا ئیں تاکہ ہم اسے سزا دیں اور اگر کسی دوسری قوم سے ہے تو بھی بتا ئیں اسے بھی ہم سزا دیں گے.اس وقت مجلس میں منافق نہیں بلکہ مومن بیٹھے تھے.مگر ان میں عبد اللہ بن ابی بن سلوں کی قوم کے لوگ تھے.جن کو اس سے محبت تھی.اس وقت انہیں یہ خیال نہ آیا کہ رسول کریم کی تکلیف کا سوال ہے اور حضرت عائشہ کی عزت کا سوال ہے.اس وقت انھیں یہی بات یاد رہ گئی کہ ہمارے سردار کے خلاف کیوں کچھ کہا گیا ہے.اس وجہ سے تلواریں کھینچ کر کھڑے ہو گئے.اور کہنے لگے.کون ہے جو ہماری قوم کے آدمی کو سزا دے اس پر نقشہ ہی بالکل بدل گیا آخر رسول کریم ﷺ نے ان کو ٹھنڈا کیا اس سے معلوم ہوتا ہے.چونکہ اس وقت عبد اللہ بن ابی بن سلول کا ذکر تھا.اور وہ لوگ اس سے تعلق رکھتے تھے.اس لئے اس کی محبت کا
خطبات محمود ۲۴۰ سال 1927ء سوال پیدا ہو گیا.اس وقت اگر رسول کریم و در میان میں نہ پڑ جاتے تو کئی مسلمان مرتد ہو جاتے.اور کئی ایک جو ایمان کی موت مرے نفاق کی موت مرتے.ایسا کیوں ہوتا؟ اس لئے کہ ان لوگوں نے محبت کی خاطر یہ نہ دیکھا کہ حق کیا ہے اور ہمیں کیا کرنا چاہئے.پس دنیا میں دو ہی چیزیں راستی سے پھیرنے کا موجب ہوتی ہیں.یا تو انتہائی بغض یا پھر انتہائی محبت.انتہائی بغض بسا اوقات معمولی واقعہ سے پیدا ہو جاتا ہے.حضرت عمرؓ کے وقت دیکھو کتنے معمولی واقعہ سے بغض بڑھا.جس نے عالم اسلامی کو کتنا بڑا نقصان پہنچایا.میں سمجھتا ہوں اس واقعہ کا اثر اب تک چلتا جا رہا ہے.حضرت عمر کے وقت ایک مقدمہ آپ کے پاس آیا.کسی شخص کا غلام کما تا بہت تھا لیکن مالک کو دیتا کم تھا.حضرت عمرؓ نے اس غلام کو بلایا اور اسے کہا مالک کو زیادہ دیا کرے.اس وقت چونکہ پیشہ ور کم ہوتے تھے.اس لئے لوہاروں اور نجاروں کی بڑی قدر ہوتی تھی.وہ غلام آٹا پیسنے کی چکی بنایا کرتا تھا.اور اس طرح کافی کماتا تھا.حضرت عمر نے ساڑھے تین آنے اس کے ذمہ لگا دیئے کہ مالک کو ادا کیا کرے یہ کتنی قلیل رقم ہے.مگر اس کا خیال تھا کہ حضرت عمر نے غلط فیصلہ کیا ہے.اس پر اس کے دل میں بغض بڑھنا شروع ہوا.ایک دفعہ حضرت عمر نے اسے کہا ہمیں بھی چکی بنادو.اس پر کہنے لگا ایسی چکی بنادوں گا جو خوب چلے گی.یہ سن کر کسی نے حضرت عمر سے کہا آپ کو دھمکی دے رہا ہے.آپ نے کہا.الفاظ سے تو یہ بات ظاہر نہیں ہوتی.اس نے کہا.لہجہ دھمکی آمیز تھا.آخر ایک دن حضرت عمر نماز پڑھ رہے تھے کہ اس غلام نے آپ کو خنجر مار کر قتل کر دیا.کہ وہ عمر جو کروڑوں انسانوں کا بادشاہ تھا.جو بہت وسیع مملکت کا حکمران تھا.جو مسلمانوں کا بہترین راہنما تھا.ساڑھے تین آنے پر مار دیا گیا.مگر بات یہ ہے جن کی طبیعت میں بغض اور کینہ ہوتا ہے.وہ ساڑھے تین آنے یا دو آنے نہیں دیکھتے.وہ اپنی پیاس بجھانا چاہتے ہیں.ان کی طبیعت بغض کے لئے وقف ہوتی ہے.ایسی حالت میں وہ نہیں دیکھتے کہ ہمارے لئے اور دوسروں کے لئے کیا نتیجہ ہو گا.حضرت عمرؓ کے قاتل سے جب دریافت کیا گیا کہ تو نے یہ سفاکانہ فعل کیوں کیا تو اس نے کہا انہوں نے میرے خلاف فیصلہ کیا تھا.میں نے اس کا بدلہ لیا ہے.میں نے اس دردناک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے.اس کا اسلام پر آج تک اثر ہے.اور وہ اس طرح کہ گو موت ہر وقت لگی ہوتی ہے.مگر ایسے وقت میں موت کے آنے کا خیال نہیں کیا جاتا.جب قومی مضبوط ہوں.لیکن جب قومی کمزور ہوں.اور صحت انحطاط کی طرف ہو.تو لوگوں کے ذہن خود بخود آئندہ انتظام کے متعلق سوچنا شروع کر دیتے ہیں.وہ ایک دوسرے سے اس بارے میں باتیں نہیں
خطبات محمود ۲۴۱ سال 1927ء کرتے.مگر خود بخود کو ایسی پیدا ہو جاتی ہے جو آئندہ انتظام کے متعلق غور کرنے کی تحریک کرتی ہے.اس وجہ سے جب امام فوت ہو تو لوگ چوکس ہوتے ہیں.چونکہ حضرت عمر کے قومی مضبوط تھے.گو ان کی عمر ۶۳ سال کی ہو چکی تھی.لیکن صحابہ کے ذہن میں یہ نہ تھا کہ حضرت عمران سے جلدی جدا ہو جائیں گے.اس وجہ سے وہ آئندہ انتظام کے متعلق بالکل بے خبر تھے کہ یک دم حضرت عمر کی وفات کی مصیبت آپڑی.اس وقت جماعت کسی دوسرے امام کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھی.اس عدم تیاری کا نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت عثمان سے لوگوں کو وہ لگاؤ نہ پیدا ہوا جو ہونا چاہئے تھا.اس وجہ سے اسلام کی حالت بہت نازک ہو گئی.اور حضرت علی کے وقت اور زیادہ نازک ہو گئی.تو محبت اور غضب ایسے جذبات ہیں جو انسان کو ایسا اکھیٹر پھینکتے ہیں کہ وہ کہیں کا کہیں جا پڑتا ہے.محبت کی مثال یہاں قادیان میں موجود ہے کہ ایک شخص کو محبت کے ذریعہ ابتلا آیا.گو خدا تعالی نے اسے نجات دی.وہ مخلص احمدی ہے اور اس کی اولاد بھی مخلص ہے.میں اس واقعہ کی تفصیل نہیں بیان کرنا چاہتا.صرف اتنا ذ کر کرنا چاہتا ہوں کہ اس کے بچے کو جو کہ خود بھی مخلص ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی بات پر تھپڑ مارا.اس پر اس کے منہ سے یہ بات نکل گئی اچھے مسیح موعود ہیں اس وجہ سے اسے قادیان سے نکلنا پڑا.مگر خدا تعالٰی نے اس ابتلا سے اسے نجات دی.اور وہ پھر قادیان میں آگئے.اگر اس وقت پوچھا جاتا تو یہی کہتے اور آج بھی یہی کہتے ہیں کہ تھپڑ کیا ہم تو مسیح موعود کے لئے جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہیں.مگر ایک وقت ایسا آیا جب کہ سب کچھ بھول گیا.اور صرف یہ یاد رہ گیا کہ میرا بیٹا ہے خدا تعالٰی نے اس ابتلا سے ان کو بچا لیا.مگر ہر شخص کی یہ کیفیت نہیں ہوتی بعض جن کے اندر اخلاص ہوتا ہے وہ ایسی غلطی کر کے بیچ جاتے ہیں.مگر عام طور پر نوے فیصدی ایسے غلطی کر کے نہیں بچ سکتے.اس کی مثال پھٹے ہوئے کپڑے کی ہوتی ہے جو پورے طور پر جُڑ نہیں سکتا.کچھ رفو ہو سکتا ہے ٹکڑے مل سکتے ہیں مگر داغ ضرور باقی رہتا ہے اور اس وقت تک باقی رہتا ہے جب تک ایسا انسان اپنے اوپر نئی موت وارد نہ کرے.ایسے لوگوں میں سے دس فیصدی ایسے رفو ہو جاتے ہیں جن کا پتہ نہ لگے.اور بعض تو اپنے اخلاص اور محبت میں پہلے سے بھی بڑھ جاتے ہیں.مگر خطرہ یہی ہوتا ہے کہ ٹھوکر لگنے پر کم لوگ بچتے ہیں.ہاں جن میں اخلاص ہو.جن پر شیطان نے عارضی طور پر غلبہ پالیا ہو.جنہیں اس بات کا احساس ہو کہ اپنی غلطی کو مٹانا آسان نہیں ہے وہ اپنی غلطی مٹاسکتے ہیں.کیونکہ ایسے لوگوں کی اللہ تعالی مدد کرتا ہے.انسان کے لئے رفو کرنا مشکل ہے لیکن اللہ تعالی کے لئے مشکل نہیں
خطبات محمود ۲۴۲ سال 1927ء ہے.خدا تعالیٰ ایسار فوکر دیتا ہے کہ کوئی پہچان ہی نہ سکے.چونکہ عام طور پر لوگ اتنی کوشش اور اتنی جدوجہد نہیں کرتے اس لئے ان کے زخم نہیں ملتے.تھوڑے لوگ کرتے ہیں اس لئے تھوڑوں کے ملتے ہیں.مگر خدا تعالی کا دروازہ ہر ایک کے لئے کھلا ہے.انسان کے لئے ضروری ہے کہ غضب اور محبت کے جذبات کو قبضہ میں رکھے.رسول کریم اللہ نے فرمایا ہے.کسی سے اتنی محبت نہ کر کہ اگر تفرقہ ہو تو شرمندہ ہونا پڑے اور کسی سے اتنا بغض نہ کر کہ صلح ہو تب شرمندہ ہونا پڑے.پس خواہ محبت کے تعلقات ہوں یا بغض کے ان میں خطرہ ہوتا ہے.کیونکہ بعض اوقات انسان اپنے آپ کو ایسے مقام پر پاتا ہے جہاں سے لوٹنا اس کے لئے مشکل ہوتا ہے.بخاری کتاب المغازی حدیث الافک الفضل ۱۸/ نومبر ۱۹۲۷ء) تاریخ الخلفاء لیلی شهادت حضرت عمر صفحه ۱۳۳ ۱۳۴۰ مطبوعہ نورمحمد کارخانه تجارت آرام با غ کراچی
خطبات محمود ۲۴۳ ۳۱ سالانہ جلسہ کی تقریب اور جماعت احمدیہ کے فرائض فرموده ۱۸/ نومبر ۱۹۲۷ بعد) سال 1927ء تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان سے ۱۹۲۷ ء اپنے اختتام کو پہنچنے والا ہے.اور اس کے ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا قائم کردہ جلسہ بھی قریب ہی زمانہ میں آنے والا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس جلسہ کو جو برکات عطا فرمائی ہیں اور جس طرح اپنی رحمتیں اس موقع پر نازل کرتا چلا آیا ہے.اور جس شفقت اور ذرہ نوازی سے جماعت کے کاموں کو نوازتا آیا ہے.اور اپنی رحمتیں اور ا برکتیں اس موقع پر نازل کرتا ہے.ان کو دیکھتے ہوئے ہمیں یقین رکھنا چاہئے کہ اگر ہم شکر گزاری سے کام لیتے ہوئے جلسہ کے لئے تیاری کریں گے تو ضرور اللہ تعالٰی اپنے فضل سے پہلے سالوں سے بھی زیادہ برکتیں نازل کرے گا.خداتعالی کے خزانے نہ صرف کبھی نہ ختم ہونے والے ہیں بلکہ وہ ہمیشہ اپنے خزانوں کے منہ پہلے سے زیادہ کھولتا ہے.کیونکہ اس کے فضل بڑھنے والے اور اس کی رحمتیں ترقی کرنے والی ہوتی ہیں.وہ اسے بھی اپنی ہتک سمجھتا ہے کہ پہلے جو دیا ہو وہی دوبارہ دے.بلکہ ہمیشہ پہلے سے زیادہ دینا چاہتا ہے.لیکن انسان کی اپنی حالت اور وہ قبولیت کا مادہ جو اس کے اندر پایا جاتا ہے وہ خدا کے فضل کے وسیع یا محدود ہونے کا ذمہ دار ہوتا ہے.پس ہماری جماعت کو اللہ کے اس فضل سے خصوصیت کے ساتھ حصہ لینے کے لئے تیاری کرنی چاہئے.اس سال کو خداتعالی نے ایک خاص خصوصیت دی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالٰی کے فضل کے ماتحت سلسلہ کی طرف جو کئی ایک اعتراض منسوب کئے جاتے تھے وہ بہت سے لوگوں کے دلوں سے دور ہو گئے ہیں.مثلاً ہماری جماعت کے متعلق جو یہ کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کی ہمدردی سے عاری ہے.
خطبات محمود ۲۴۴ سال 1927ء مسلمانوں کے فوائد کی طرف اسے کوئی توجہ نہیں.یہ عام مسلمانوں کی دشمن اور بد خواہ ہے.اللہ تعالٰی نے ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ تعلیم یافتہ لوگوں اور بہت سے عوام کے دلوں سے یہ خیال دور ہو رہا ہے.اور بہت سے لوگ سمجھ گئے ہیں کہ ہمیں جماعت احمدیہ کے متعلق دھوکا دیا جا رہا تھا اور فریب سے اس جماعت سے علیحدہ رکھا جارہا تھا.ورنہ اسلام کی خدمت کرنے اور مسلمانوں کی خیر خواہی کرنے میں جیسی یہ جماعت سرگرمی دکھاتی ہے اور کوئی نہیں دکھاتی.مذہبی اختلاف اور عقائد میں فرق علیحدہ بات ہے.لیکن اس میں کیا شبہ ہے کہ ہماری جماعت دنیا کے فائدہ کے لئے پیدا کی گئی ہے اور جس طرح یہ جماعت دنیا کے فائدہ کے لئے پیدا کی گئی ہے اسی طرح جو لوگ اس کے سب سے زیادہ قریب اور نزدیک ہوں گے ان کو وہ زیادہ فائدہ پہنچائے گی.ورنہ اگر ایسی جماعت قریبی لوگوں کی خیر خواہ نہ ہو بلکہ ان کی دشمن ہو تو وہ اپنے عمل سے اپنے اس دعوئی کو باطل قرار دے گی جو دنیا کے سامنے پیش کرتی ہے.اللہ تعالی کی طرف سے جو جماعتیں کھڑی کی جاتی ہیں وہ أخْرِجَتْ لِلنَّاس یعنی لوگوں کی ترقی اور فائدہ کے لئے پیدا کی جاتی ہیں.اور فائدہ سب سے پہلے قریب والوں کو پہنچتا ہے.پس وہ لوگ جو رسول کریم اس کی صداقت پر ایمان لائے.قرآن کریم کے خدا کی طرف سے نازل ہونے پر ایمان لائے خدا تعالٰی کی ان صفات پر جو قرآن میں بیان ہوئی ہیں ایمان رکھنے میں ہمارے ساتھ شریک ہیں یا ان کے بیشتر حصہ پر ایمان لانے میں شریک ہیں.جو جزا و سزا جنت و دوزخ پر ایمان لاتے ہیں جو لوگ اتنے مسائل میں ہمارے ساتھ متفق ہیں اگر ہمارا دعوئی یہ ہے کہ ہماری جماعت ایک مامور کی کھڑی کی ہوئی جماعت ہے.تو دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری جماعت دنیا کی ترقی اور بہتری کے لئے کھڑی کی گئی ہے.اس دعوئی کے بعد ہم پر سب سے پہلا حق ان لوگوں کا ہے جن کا مذہبی مسائل میں ہم سے سب سے زیادہ اتحاد ہے.پس اگر یہ صحیح ہے کہ مسلمانوں کے دکھ کو ہم اپنا دکھ نہیں سمجھتے بلکہ خوشی ہوتی ہے.ان کی تکلیف میں ہم شریک نہیں ہوتے تو یقینا ہم اپنے دعوئی میں جھوٹے ہیں.مگر یہ ممکن ہی نہیں کہ باوجود نہ ہی مسائل میں شدید اختلاف رکھنے کے ہم مسلمانوں کے دشمن ہوں.یہ تو مذہبی پہلو ہوا.باقی رہا سیاسی پہلو اس کے لحاظ سے بھی ہم ان کے دشمن نہیں ہو سکتے کیونکہ ہم بھی مسلمان کہلاتے ہیں.اس لئے جو قانون مسلمانوں کے خلاف پاس ہو گا اس میں ہم بھی ان کے ساتھ شریک ہوں گے اور اس کا اثر ہم پر بھی پڑے گا.پھر کس طرح ہم کوئی ایسی بات کہہ سکتے ہیں جو مسلمانوں کے لئے مضر ہو.کیونکہ جو بات ان کے لئے مضر ہو گی وہ ہمارے لئے بھی یقیناً مضر ہے.اسی
خطبات محمود ۲۴۵ سال 1927ء طرح دوسرے مذاہب کے لوگ جو سلوک مسلمانوں سے کرتے ہیں وہی احمدیوں سے بھی کرتے ہیں.بلکہ دوسروں سے وہ نرمی سے پیش آتے ہیں.مگر ہم سے بہت سختی کرتے ہیں کیونکہ قلیل التعداد سمجھتے ہیں.پھر کس طرح ممکن ہے کہ ہم مسلمانوں کو نقصان پہنچانے والی کوئی بات کریں.اس کے معنے تو یہ ہوئے کہ ہم اپنے آپ کو آپ نقصان پہنچا ئیں اور اپنے آپ کو کمزور کریں.پس مذہبی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ بات ہمارے فرائض میں داخل ہے کہ مسلمانوں کی بہتری کو سب سے مقدم رکھیں اور سب سے زیادہ توجہ انہی کی طرف کریں.کیونکہ وہی سب سے زیادہ ہمارے قریب ہیں.اور اگر سیاسی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو ہم مسلمانوں کے ساتھ ایسے متحد ہیں کہ ان میں اور ہم میں کوئی فرق نہیں.جو ان کا حال ہو گا وہی ہمارا ہو گا.بلکہ جو تکلیف انہیں پہنچے ہمیں ان سے بڑھ کر پہنچتی ہے.پس سیاسی ضروریات بھی ہمیں مجبور کرتی ہیں کہ مسلمانوں کے حقوق اور مفاد کے متعلق زیادہ کوشش اور سعی کریں تاکہ مسلمانوں کو فائدہ پہنچے.ہاں کسی امر کے متعلق رائے میں اختلاف ہو سکتا ہے.ہم مسلمانوں کی ترقی کا ذریعہ کوئی اور سمجھیں اور وہ کوئی اور مثلاً ہم مسلمانوں کی ترقی گورنمنٹ سے تعاون کرنے میں سمجھتے ہیں.اور وہ عدم تعاون کے قائل ہوں.جو عدم تعاون کے قائل ہیں انہیں ہم کہیں گے کہ غلطی کر رہے ہیں مگر وہ اپنے خیال میں یہ طریق اسلام کے فائدہ اور مسلمانوں کی ترقی کے لئے اختیار کر رہے ہوں گے.اسی طرح اگر کوئی ہمارے متعلق یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اسلام کو نقصان پہنچانے کے لئے گورنمنٹ سے تعاون کرتے ہیں تو یہ اس کی بے وقوفی ہے.ہمارا مذہبی عقیدہ ہے کہ کسی حکومت سے بہترین طریق فائدہ اٹھانے کا یہ ہے کہ اس سے تعاون کیا جائے یا پھر اس کا ملک چھوڑ دیا جائے.اور سیاسی عقیدہ بھی یہی ہے کہ مسلمانوں کو گورنمنٹ کے ساتھ تعاون سے ہی فائدہ ہو گا.کوئی کہہ سکتا ہے کہ گورنمنٹ ہماری خیر خواہ نہیں.ہماری ضروریات کو پورا نہیں کرتی.لیکن جب گورنمنٹ غیر مسلم ہے مسلمان نہیں تو وہ مسلمانوں کے فوائد کا اس طرح خیال کیونکم رکھ سکتی ہے جس طرح مسلمانوں کو اپنے فوائد کے متعلق ہو سکتا ہے.مگر دیکھنا یہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے کون زیادہ مفید ہے ہندو یا گورنمنٹ.وہ لوگ جو گورنمنٹ سے عدم تعاون کرتے اور ہندوؤں اور سکھوں سے تعاون کرتے ہیں ان کو اتنا تو سوچنا چاہیے کہ ہندوؤں کو کون سے ہمارے فوائد مد نظر ہیں.انہیں بھی اپنے ہی فوائد کا خیال ہے.اسی طرح سکھوں کو کون سے ہمارے فوائد کا خیال ہے.وہ بھی اپنے فوائد ہی چاہتے ہیں.ان
خطبات محمود ۲۴۶ سال 1927ء حالات میں دیکھنا یہ چاہئے کہ مختلف لوگوں میں سے کون سے لوگ ہمارے لئے مفید ہیں.اگر کوئی یہ ثابت کر دے کہ ہندوؤں کو اپنے فوائد مد نظر نہیں بلکہ وہ مسلمانوں کے فوائد کے لئے کوشش کر رہے ہیں اور انگریزوں کو محض اپنے فوائد مد نظر ہیں تو میں گورنمنٹ سے عدم تعاون کرنے والوں کی رائے درست مان لوں گا.مگر بات یہ ہے کہ ہر ایک کو اپنے اپنے فوائد مد نظر ہیں.ایسی صورت میں دیکھنا یہ چاہئے کہ کون سی قوم انصاف کے زیادہ قریب ہے اور کس سے ایسا سمجھوتا ہو سکتا ہے جس میں مسلمانوں کے فوائد زیادہ محفوظ ہو سکتے ہیں.میرے تجربہ کے لحاظ سے انگریزوں سے ہی ایسا سمجھوتہ ہو سکتا ہے.پس جب اسلامی فوائد اور مسلمانوں کے حقوق کا سوال ہو تو ہم گورنمنٹ سے سختی کے ساتھ مطالبہ کرتے ہیں مگر باوجود اس کے گورنمنٹ سے تعاون کرنا ضروری سمجھتے ہیں کیونکہ مسلمانوں کا اسی میں فائدہ ہے.غرض مسلمانوں میں یہ اختلاف تو ہو سکتا ہے کہ کون سا طریق اسلام کے فائدہ کے لئے اختیار کیا جائے مگر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ مسلمان کہلانے والوں کی کوئی جماعت اسلام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گی.یہ تو میں مان سکتا ہوں کہ اس کے اختیار کردہ طریق سے نقصان پہنچ جائے.اور میں یہ تو کہہ سکتا ہوں کہ عدم تعاون سے مسلمانوں کو نقصان پہنچا.مگر میں یہ نہیں مان سکتا کہ عدم تعاونیوں نے اسلام کو نقصان پہنچانے اور مسلمانوں کے حقوق تباہ کرنے کے لئے یہ طریق اختیار کیا تھا.غرض یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے مسلمانوں کے دلوں میں احساس پیدا کر دیا ہے کہ جماعت احمد یہ اسلام کی دشمن نہیں بلکہ خادم ہے.اس احساس کی وجہ سے وہ لوگ جو پہلے ملنا تک نہیں چاہتے تھے.جو بات کرنا پسند نہ کرتے تھے ان کا تعصب اور ضد دور ہو رہی ہے.انہوں نے ملنا جلنا شروع کر دیا ہے.بلکہ بعض تو اپنے معاملات میں احمدیوں سے مشورہ لینا ضروری سمجھ رہے ہیں.اس تغیر کو مد نظر رکھتے ہوئے جلسہ پر آنے کی تحریک کی جائے.اور جو لوگ آنے کے لئے تیار ہوں انہیں پوری ہمدردی سے لانا چاہئے.اس موقع پر سیاسی امور کے متعلق بھی مشورے ہو سکتے ہیں اور بتایا جا سکتا ہے کہ ہندوؤں سے کس طرح سمجھوتہ ہو سکتا ہے.اور کیونکر مسلمانوں کے مفاد محفوظ رہ سکتے ہیں.اور مذہبی طور پر بھی ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ تحقیقات کرے.ہمیں یقین کامل ہے کہ احمدیت کچی ہے.مگر باوجود اس کے ہر مذہب کی کتابیں میں پڑھتا ہوں.دوسرے مذاہب کے لوگوں سے تبادلہ خیالات کرتا ہوں اور مجھے خوشی ہوتی ہے جب کسی مذہب کا کوئی ماہر مل جائے.اس قسم کی واقفیت علم کو وسیع کرتی ہے.پس مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ تحقیقات ضرور کریں.اگر اللہ تعالیٰ ان کا سینہ کھول
خطبات محمود ۲۴۷ سال 1927ء دے تو مان لیں.ورنہ کم از کم کئی غلط باتوں کی تردید اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے.ہماری جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ ابھی سے اس تحریک کو شروع کردیں.جو لوگ آئیں گے وہ دنیوی معاملات میں بھی مشورے کر سکتے ہیں.ہماری جماعت کے حالات بھی دیکھ سکتے ہیں.ہمارے کام کو بھی ملاحظہ کر سکتے ہیں.اور جو لوگ مذہبی دلچسپی رکھتے ہیں.اور ہمارے نزدیک سب سے زیادہ قابل قدر یہی چیز ہے.وہ دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارے اعمال اور عقائد کیا ہیں ؟ ہمارے خلاف یہاں تک کہا جاتا ہے کہ احمدی نمازیں نہیں پڑھتے.اگر کوئی پڑھتا ہے تو دکھاوے کی نماز پڑھتا ہے.پھر کہا جاتا ہے احمدیوں کا قرآن کوئی اور ہے.جو لوگ یہاں آئیں گے وہ دیکھ سکیں گے کہ یہ سب باتیں غلط ہیں.اور جب ان کی بد خنیاں دور ہو جائیں گی تو ان میں تعاون کا مادہ پیدا ہو گا.پس دوستوں کو چاہئے کہ ابھی سے یہ تحریک شروع کر دیں.اخباروں کو بھی چاہئے کہ یہ تحریک کرتے رہیں.اس میں شبہ نہیں کہ جہاں خدا تعالٰی نے اس سال خصوصیت سے بہت لوگوں کے دلوں سے بدظنی کو دور کیا ہے وہاں جن کے دلوں میں حسد ہے وہ اپنی عداوت اور دشمنی میں اور زیادہ بڑھ گئے ہیں.اور وہ ایسی تدابیر کر رہے ہیں کہ جن سے لوگوں کو قادیان آنے سے روکیں.اور ان کے دلوں میں ہمارے متعلق دشمنی پیدا کر دیں.چنانچہ کل اور پرسوں سے متواتر اس قسم کے خطوط آرہے ہیں کہ جماعت احمدیہ کا وہ حصہ جو نام میں تو ہمارے ساتھ شریک ہے.لیکن دشمنی میں بعض اوقات آریوں اور عیسائیوں سے بھی بڑھ جاتا ہے اس فتنہ کو جو پچھلے دنوں اٹھا اندر ہی اندر پھیلا رہا ہے ان لوگوں کی غرض یہ ہے کہ منافرت پیدا کر کے ان لوگوں کو جنہیں اسلام کی خدمت کا کوئی احساس ہے ہم سے نفرت دلا دیں.یہ بھی دراصل شیطان کا ایک حملہ ہے.اس کو دیکھتے ہوئے اور بھی ضروری ہے کہ لوگوں کو جلسہ پر آنے کی تحریک کی جائے.شیطان اپنا سارا زور لگا رہا ہے.چاہے وہ مسلمان کہلانے والوں کی صورت میں لگائے.چاہے غیر مسلم کہلانے والوں کی شکل میں.چاہے رعایا کی شکل میں.چاہے حکومت کی شکل میں.کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اس دھوکا میں آسکتے ہیں اور اس طرح روحانی زندگی سے محروم ہو سکتے ہیں.ہمارا فرض ہے کہ ہم انہیں زندہ رکھنے کی کوشش کریں.اور ایسی لہر چلا دیں جس کا آخری نتیجہ اتحاد ہو.جب لوگوں کے دلوں سے بغض اور عداوت دور ہو جائے گی تو پھر صداقت پھیل جائے گی.ہمیں یقین ہے کہ احمدیت سچائی اور صداقت ہے.دوسرے لوگ جو اپنے اپنے مذہب کو سچا سمجھتے ہیں.ان کو تسلی رکھنی چاہئے کہ جو سچائی ہوگی.وہی غالب رہے گی.اہل حدیث فرقہ کے
خطبات محمود ۲۴۸ سال 1927ء لوگوں کو سمجھنا چاہئے کہ اگر ان کا مذہب سچا ہے تو وہ غالب ہو جائے گا اسی طرح حنفی کہلانے والوں کو اگر یقین ہے کہ ان کا مذہب سچا ہے تو ان کو بھی یہ یقین رکھنا چاہئے کہ اگر اتحاد ہوا تو سب حنفی ہو جائیں گے.اس لئے لوگوں کے دلوں سے بغض اور کینہ نکالنا سچائی کے لئے مفید ہی ہے مضر نہیں ہو سکتا.ہاں جو لوگ اپنے عقائد کو جھوٹا سمجھتے ہیں ان کو اپنے مذہب کے نابود ہو جانے کی فکر ہونی چاہئے.مگر میں انہیں نصیحت کروں گا کہ انہیں سچائی نظر آئے تو اسے قبول کر لیں.اور جان بوجھ کر غلط عقائد پر نہ اڑے رہیں.پس میں ایک طرف تو جماعت کے دوستوں اور سلسلہ کے اخباروں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ لوگوں کو جلسہ پر آنے کی تحریک کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ آئیں.اور اپنے عمل سے خدا کے فضل کے وارث نہیں.تاخد اتعالی دکھا دے کہ دشمنی اور کینہ رکھنے والے لوگ سلسلہ کو نقصان نہیں پہنچا سکتے دوسری بات ساتھ ہی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جتنے زیادہ آدمی جلسہ پر آئیں گے اتنا ہی خرچ زیادہ ہو گا.اس لئے قادیان کے لوگوں کو بھی اور باہر کے لوگوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ جو لوگ جلسہ پر آئیں ان کے اخراجات کا انتظام کریں.خدا تعالی کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ ہے کہ یأْتِكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ وَيَأْتُونَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ تذکره صلحیم کہ دور دور سے تیرے پاس تخالف آئیں گے.اور دور دور سے لوگ تیرے پاس آئیں گے.آنے والوں کو خدا تعالٰی نے پیچھے رکھا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کے متعلق فرماتے تھے کہ یہ اس لئے رکھا ہے کہ مہمان کے لئے سامان پہلے مہیا ہونا ضروری ہوتا ہے.ہماری جماعت کے لوگوں کو کوشش کرنی چاہئے.کہ خدا تعالیٰ انہیں يَأْتِيكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقِ کا مصداق بنائے اور وہ سامان مہیا کرنے والے ہوں اور پھر یا تُونَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ کا نظارہ دیکھیں.جن لوگوں کا دل وسیع ہوتا ہے خدا تعالٰی ان کو وسعت عطا کرتا ہے.ورنہ یوں تو جن کے پاس لاکھوں روپیہ ہو ان کو بھی خدا کی راہ میں خرچ کرنے پر تنگی محسوس ہوتی ہے.ان کا مال جتنا بڑھتا جاتا ہے اتنا ہی وہ جمع کرنے کی فکر میں رہتے ہیں.رسول کریم ﷺ کے وقت ایک شخص آپ کے پاس آیا اور آپ سے عرض کی دعا کریں خدا تعالی مجھے اتنا مال دے کہ میں زکوۃ دیا کروں.پھر اللہ تعالی نے اسے مال دیا.اور کئی لوگوں سے مال میں بڑھ گیا لیکن جب لوگ اس کے پاس زکوۃ لینے کے لئے گئے تو کہنے لگا ہماری تو اپنی ضروریات ہی پوری نہیں ہوتیں زکوۃ کہاں سے دیں.رسول کریم ﷺ نے اس سے زکوۃ لینے سے روک دیا.پھر بعد میں جب وہ زکوۃ دیتا تو خلفاء لینے سے انکار کر دیتے کہ رسول کریم ﷺ نے تم سے زکوٰۃ لینے سے منع کر دیا ہوا ہے.
خطبات محمود ۲۴۹ سال 1927ء مال جمع کرنا منع نہیں لیکن جو خدا کے لئے جمع کرتا ہے وہ اس کے راستہ میں خرچ کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا.بلکہ وہ خرچ کر کے خوشی اور بشاشت پاتا ہے.لیکن جو اپنے نفس کے لئے جمع کرتا ہے اس کے لئے خدا کی راہ میں کچھ دینا بہت دو بھر ہوتا ہے کھیتوں یا جنگلوں میں دیکھو ایک زمیندار یا گڈریا مرلی لئے گا رہا ہوتا ہے.اور اتنا خوش اور بشاش نظر آتا ہے کہ گویا کسی ملک کا مالک ہے.مگر حالت یہ ہوتی ہے کہ سوائے ان کپڑوں کے جو اس کے بدن پر ہوتے ہیں اس کے گھر میں کچھ نہیں ہوتا.اور اسے یہ بھی پتہ نہیں ہو تا کہ رات کو کیا کھاؤں گا.مگر اس کا دل خوش ہوتا ہے.تو اطمینان اور خوشی دل کی حالت پر منحصر ہے.اگر ایمان حاصل ہو تو پھر خدا کے لئے مالی قربانی سے کوئی دریغ نہیں کیا کرتا.لیکن اگر خدا کے لئے خرچ کرنے پر کسی کے دل میں ہچکچاہٹ پیدا ہوتی ہے تو یہ اس کے ایمان کی کمزوری پر دلالت کرتی ہے.بعض ایسے لوگ ہوتے ہیں خصوصاً عورتیں جو کسی چھوٹے چندہ کی تحریک پر اپنا سب کچھ دے دیتی ہیں اور جب بڑے چندہ کا سوال آئے تو پھر کچھ نہیں دے سکتیں.جس قسم کا چندہ ہو اس کے مطابق اپنی حالت کے لحاظ سے حصہ لینا چاہئے مثلاً ہیں ہزار کے لئے اگر تحریک ہو تو اور نسبت سے پچاس ہزار کے لئے ہو تو اور نسبت سے اور اگر میں لاکھ کے لئے ہو تو اور نسبت سے دینا چاہئے.یعنی ہر تحریک کے مطابق اس میں حصہ لینا چاہئے.اگر پچاس آدمی ایسے مل جائیں اور میں جانتا ہوں کہ وقت آنے پر ایسے آدمی ضرور تیار ہو جائیں گے.جو پچاس پچاس ہزار کی جائدادیں دین کے لئے وقف کر دیں اور یہ کوئی بڑی بات نہیں.اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا اور موقع آیا کوئی اور سامان نہ ہوئے تو میں سمجھتا ہوں ہماری جماعت میں ایسے لوگ ہیں جو ایسی تحریک پر خوشی سے آگے بڑھیں گے.اس وقت میں جلسہ سالانہ کے لئے تحریک کر رہا ہوں.جو یہ کہ اول تو احمدیوں کو خود آنے اور دو سروں کو لانے کی کوشش کرنی چاہئے.دوسرے جلد سے جلد جلسہ کے اخراجات مہیا کرنے ضروری ہیں.جو زیادہ سے زیادہ ۱۰ / دسمبر تک مہیا ہو جانے چاہئیں.قادیان کے لوگوں کو خصوصیت سے اس میں حصہ لینا چاہئے.کیونکہ وہ دوہرے میزبان ہیں ایک احمد می ہونے کے لحاظ سے دو سرے قادیان میں رہنے کے لحاظ سے.کیا عجب ہے کہ اگر وہ اس نیکی کے کام میں حصہ لیں.تو خداتعالی بعض کے دلوں کو جو زنگ لگا ہوا ہے اسے دور کر دے.اور جو نفاق کا رنگ چڑھا ہوا ہے (الفضل ۲۵/ نومبر۱۹۲۷ء) اسے اڑارے.ال عمران : ۱ : له تذکرہ صفحه ۳۵۶ - ایڈیشن چهارم
خطبات محمود ۲۵۰ ۳۲ سال 1927ء حضرت تائی صاحبہ کا انتقال فرموده ۲ دسمبر۱۹۲۷ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: بعض واقعات بظاہر بہت چھوٹے اور معمولی ہوتے ہیں لیکن اگر حقیقت پر غور کیا جائے تو سمجھدار انسان کے لئے ان کے اندر بہت بڑا نشان ہوتا ہے.وہ واقعہ کے لحاظ سے تو معمولی ہوتے ہیں مگر صداقت کے ثبوت کے لحاظ سے وہ نشان بن جاتے ہیں.بسا اوقات ایک فتنہ کھڑا ہوتا ہے مگر وہی ایک بہت بڑا نیک نتیجہ پیدا کرتا ہے.مارٹن کلارک کا مقدمہ جب چلا تو ایک غیر احمدی مولوی جو حضرت مسیح موعود کا سخت دشمن تھا بطور گواہ پیش ہوا حضرت صاحب کی طرف سے ایک غیر احمدی وکیل تھے جو اب تک بھی جماعت میں شامل نہیں ہیں.بلکہ مذہبی لحاظ سے کچھ تعصب رکھتے ہیں.انہوں نے چاہا کہ اس دشمن سلسلہ مولوی صاحب پر ایک سوال کریں جس سے اس کی اخلاقی گراوٹ اور خاندانی پستی کا اظہار ہو.مگر جب حضرت مسیح موعود کو اس کا علم ہوا تو آپ نے ایسا کرنے سے روک دیا.اور کہا اس سوال کو مقدمہ کے ساتھ کیا تعلق ہے ؟ اگر مقدمہ سے اس کا تعلق ہو تا یا کسی اور پہلو سے ممد ہو تا تو اور بات تھی مگر خواہ مخواہ کسی کو شرمندہ کرنے سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ وکیل صاحب نے اصرار بھی کیا کہ بعض اوقات دشمن کی حیثیت گرا دینے سے بھی فائدہ ہوتا ہے.مگر آپ نے اس کو پسند نہ فرمایا اور ایسا سوال کرنے سے روک دیا.وہ وکیل صاحب ابھی تک غیر احمد ی ہیں.مگر مسیح موعود کی ذات کے متعلق بہت اعلیٰ خیالات رکھتے ہیں اور ☆ اصل نام حرمت بی بی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چچا مرزا غلام محی الدین مرحوم کی پلوٹھی بیٹی اور حضور کے برادر اکبر مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کی اہلیہ گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چچازاد بہن اور بھاوج تھیں.۳۰ نومبر اور یکم دسمبر۱۹۲۷ء کی درمیانی شب سو سال سے زائد عمر میں طبعی موت سے فوت ہو ئیں.(مرتب)
خطبات محمود ۲۵۱ سال 1927ء کہا کرتے ہیں آپ بے نظیر انسان تھے.کوئی اور شخص ہر گز ایسا نہیں کر سکتا تھا.مجھے بھی ملے ہیں کہتے ہیں کوئی شخص ایسا نہیں کر سکتا کہ ذلیل کرنے والے مخالف کی ذلت کو بھی گوارا نہ کرے.کہنے کو تو یہ ایک فقرہ ہے مگر کریکٹر پر لکھنے والوں کے لئے ایک نمونہ ہے.وہ وکیل صاحب تمہیں سال گزرنے کے بعد آج بھی اس سے متاثر ہیں.سو یہ اگر چہ ایک چھوٹی سی بات تھی مگر اثر کے لحاظ سے اس نے عظیم الشان نتائج پیدا کئے.اسی طرح بعض پیش گوئیاں اور نشانات بظا ہر کو چھوٹے ہوتے ہیں لیکن ان کی کیفیت پر غور کرنے والوں کے لئے ان میں کئی باتیں ایسی ہوتی ہیں جن سے ایمان میں بہت اضافہ ہوتا ہے.مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے جس کا علم مجھے کل ہی ہوا ہے.گو وہ فرد اور اس کی حالت کے متعلق ہے مگر اس میں کئی پیشگوئیاں ہیں.کئی ایک دوستوں نے بتایا کہ ان کو پہلے ہی معلوم تھا.مگر مجھے کل ہی معلوم ہوا ہے.کل تائی صاحبہ کی وفات کے وقت شیخ یعقوب علی صاحب نے بتایا کہ حضرت مسیح موعود کا ایک پرانا الہام ہے."تائی آئی اس کے متعلق پرانے احمدی بتاتے ہیں کہ اس وقت اس کے معنی سمجھ میں نہیں آتے تھے.کوئی کچھ کہتا تھا اور کوئی کچھ.لیکن ایک ہی سیدھے سادھے معنی اس فقرہ کے یہ ہو سکتے ہیں کہ کوئی ایسی عورت جس کا رشتہ تائی کا ہو وہ آجائے.آنے کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں پاس آنا یا جماعت میں آنا.خالی آجانا کوئی پیشگوئی نہیں ہو سکتی.کیونکہ رشتہ دار آیا ہی کرتے ہیں.ہمارے ہاں تمام کے تمام بڑے لوگ بھی حضرت صاحب کی بھا وجہ کو تائی کے لقب سے پکارتے تھے گویا ان کا نام ہی تائی تھا.سلسلہ کی کتابیں پڑھنے والے جانتے ہیں کہ محمدی بیگم کی پیشگوئی کے زمانہ میں وہ اشد ترین مخالف تھیں.چونکہ وہ خاندان میں سب سے بڑی تھیں.اور پیشگوئی بھی ان کی بہن کی بیٹی کے متعلق تھی.اس لئے خاندان کی لیڈر کے لحاظ سے اس وقت وہ اس رشتہ میں روک ڈالنا جس کو وہ خاندانی رسوائی کے مترادف سمجھتی تھیں اپنا فرض سمجھتی تھیں.اور ان کے نزدیک ان کا اہم فرض تھا کہ وہ مقابلہ کریں.عورتوں کی فطرت کے لحاظ سے بڑی عورت کے لئے عزت اور خاندانی و قار تمام دینی امور بلکہ تمام سیاسیات اور دیگر حالات سے زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے.اس وقت حضرت مسیح موعود کا مسیح ہونے کا دعوئی ان کے نزدیک اس قدر اہم نہیں تھا جس قدر خاندانی عزت تھی.اور یوں بھی چونکہ بڑوں کے لئے چھوٹوں کی اطاعت مشکل ہوتی ہے.اور مسیح موعود تائی صاحبہ سے چھوٹے تھے اور انہوں نے جائدادو غیرہ میں حصہ بھی نہیں لیا تھا.اس لئے آپ کا کھانا وغیرہ ان کے ہی گھر سے جاتا تھا.اس لحاظ سے بھی وہ اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود کی محسنہ سمجھتی تھیں عورتوں میں
خطبات محمود ۲۵۲ سال 1927ء یہ احساس قدرتی طور پر ہوتا ہے.اس لئے وہ حضرت مسیح موعود کو اپنا دست نگر تصور کرتی تھیں.حضرت مسیح موعود اپنے ایک عربی شعر میں فرماتے ہیں.لفَاظَاتُ الْمَوَائِدِ كَانَ كان اكلي.وَصِرتُ اليَوْمَ مِطْعَامَ الأَمَالِي اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک زمانہ تھا جب میں دوسروں کے ٹکڑوں پر بسر اوقات کرتا تھا مگر اب خدا نے مجھے ایسی شان عطا کی ہے کہ ہزاروں ہیں جو میرے دستر خوان سے سیر ہوتے ہیں.اس شعر میں اس واقعہ کی طرف بھی اشارہ ہے کہ حضرت اقدس کی جائداد علیحدہ نہیں تھی.بھائی کے ہی سپرد تھی.اور آپ میں اس کے سنبھالنے کا احساس بھی نہیں تھا چنانچہ آپ کے والد بھی کہا کرتے تھے کہ یہ جاندار نہیں سنبھال سکے گا.پس اندریں حالات تائی صاحبہ کا ایمان لانا بڑا مشکل امر تھا.دلیل اور مذہبی پہلو سے نہیں بلکہ خاندانی لحاظ سے.کیونکہ ان کے نزدیک دونوں کی حیثیت مالک و نوکر کی تھی.وہ آپ کو ایک غریب آدمی سمجھتی تھیں جو کام وغیرہ کچھ نہیں کرتا تھا اور ان کے ٹکڑوں پر پلا تھا.ان حالات میں وہ کبھی گوارا نہ کر سکتی تھیں کہ آپ ان کی بہن کی لڑکی کے ساتھ نکاح کرنے میں کامیاب ہو جائیں وہ چونکہ سب سے بڑی تھیں اس لئے خصوصیت کے ساتھ مخالف تھیں.اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود کی مخالفت بہت زیادہ تھی.رشتہ داروں نے آپ سے ملنا ترک کر دیا تھا اور آپ بھی ان سے نہیں ملتے تھے.بلکہ خاندان والوں کی مخالفت کا یہ عالم تھا کہ والدہ صاحبہ سناتی ہیں.حضرت صاحب کے ننھیال میں ایک بڑی عمر کی عورت تھیں.وہ تو بین ڈالا کرتی تھیں کہ چراغ بی بی کے لڑکے کو کوئی دیکھنے بھی نہیں دیتا.حضرت مسیح موعود کو چور اور ڈاکووں کی طرح علیحدہ رکھا جاتا تھا.کیونکہ ان کو خاندانی عزت کو بٹہ لگانے والا سمجھا جاتا تھا.ان حالات میں یہ قیاس کرنا کہ تائی احمدی ہو جائے گی بظا ہر ایک غیر معمولی بات تھی.انسان کا دل بدل سکتا ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ حالات کیا کہتے ہیں ؟ ایسے وقت میں آپ کو الہام ہو ا " تائی آئی " تائی صاحبہ حضرت صاحب کی بھاوج تھیں.اس لئے ان الفاظ سے یہ مراد تھی کہ آپ اس وقت بیعت کریں گی جس وقت بیعت لینے والے سے ان کا تعلق " تائی" کا ہو گا.اگر انہوں نے حضرت مسیح موعود کی بیعت کرنی ہوتی.الہام کے یہ الفاظ ہوتے "بھاوج آئی اور اگر حضرت خلیفہ اول کے عمد میں بیعت ہوتی تو یہ ہونا چاہئے تھا کہ مسیح موعود کے خاندان کی ایک عورت آئی مگر تائی کا لفظ ظاہر کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کا لڑکا جب آپ کا خلیفہ ہو گا تو اس کے ہاتھ پر بیعت
کے خطبات محمود ۲۵۳ سال 1927ء کریں گی.کیونکہ اگر آپ کی اولاد سے کسی نے خلیفہ نہیں ہو نا تھا تو تائی کالفظ فضول تھا.اس الہام میں دراصل تین پیشگوئیاں ہیں.اول یہ کہ حضرت مسیح موعود کی اولاد میں سے خلیفہ ہو گا.دوم یہ کہ اس وقت تائی صاحبہ جماعت میں شامل ہوں گی.تیرے تائی صاحبہ کی عمر کے متعلق پیشگوئی تھی.اور وہ اس طرح کہ حضرت مسیح موعود جن کی اپنی عمر اس وقت ۷۰ سال کے قریب تھی ایک ایسی عورت کے متعلق پیشگوئی کرتے ہیں جو اس وقت بھی عمر میں ان سے بڑی تھی کہ وہ زندہ رہے گی اور آپ کی اولاد سے ایک خلیفہ ہو گا جس کی بیعت میں شامل ہو گی.اتنی لمبی عمر کا ملنا بہت بڑی بات ہے.انسانی دماغ کسی جو ان کے متعلق بھی نہیں کہہ سکتا کہ وہ فلاں وقت تک زندہ رہے گا.چہ جائیکہ بوڑھے کے متعلق کہا جائے.پس یہ ایک بہت بڑا نشان ہے.گویا ان کا بیعت کرنا اور میرے زمانہ میں کرنا پھر حضرت مسیح موعود کے بیٹوں میں سے خلیفہ ہو نا کئی ایک پیشگوئیاں ہیں جو دو لفظوں میں بیان ہوئی ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ جس قسم کی روایات اور احساسات پرانے خاندانوں میں پائے جاتے ہیں ان کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ عظیم الشان تغیر ہے کہ تائی صاحبہ نے بیعت میں شامل ہونے کے بعد وصیت بھی کر دی تھی.پہلے تو وہ اس کی بھی مخالف تھیں کہ حضرت مسیح موعود کو آبائی قبرستان کی بجائے دوسری جگہ دفن کیا جائے.چنانچہ انہوں نے اس وقت کہلا بھی بھیجا کہ آپ کو جدی قبرستان کی بجائے دوسری جگہ دفن نہ کیا جائے کیونکہ یہ ایک بنک ہے.اور بعد میں بھی کئی سال تک اس پر معترض رہیں.مگر پھر ان کی یہ حالت ہو گئی کہ خود وصیت کی اور مقبرہ بہشتی میں دفن ہوئیں.ایک سمجھدار انسان کے لئے یہ بہت بڑا نشان ہے.ظاہر میں تو یہ معمولی بات ہے جو ایک شخص کے متعلق ہے مگر اس میں صداقت کے ثبوت کے کئی ایک پہلو ہیں.اور جیسا کہ حضرت صاحب نے فرمایا.کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے اکثر لوگ نشانات سے آنکھیں بند کر کے گزر جاتے ہیں.یہاں تک کہ خد اتعالیٰ کی طرف سے ان کی ہدایت کا وقت آجائے.غرض کہ سوچنے والے کے لئے اس میں بہت بڑا ثبوت ہے.وہ لوگ جو مانتے نہیں ان کا غور نہ کرنا تو عجیب بات نہیں.مگر مان کر غور نہ کرنے والوں کی حالت زیادہ افسوس ناک ہے.اگر ماننے والے ان نشانات میں غور کریں.تو ان کے اندر ایک عظیم الشان تبدیلی پیدا ہو جائے.خدا تعالیٰ کی تائیدیں اور نصرتیں ان کو حاصل ہوں.اور وہ اپنی موجودہ قربانیوں پر غور کر کے شرمندہ ہوں کہ ان کو بہت آگے بڑھنا چاہئے تھا.اور وہ مقام جہاں کھڑے
خطبات محمود ۲۵۴ سال 1927ء ہیں بہت ادنی ہے.میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہم کو غور کرنے کی توفیق دے الفضل ۹ / دسمبر ۱۹۲۷ء) ا تذکرہ صدا ایڈیشن چهارم
خطبات محمود ۲۵۵ ۳۳ سال 1927ء توحید الہی (فرموده ۱۹ دسمبر۱۹۲۷ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج چونکہ میری طبیعت خراب ہے اس لئے زیادہ لمبا خطبہ نہیں بیان کر سکتا.لیکن توحید الہی کے متعلق ایک نکتہ جو ابھی ابھی میرے دل میں ڈالا گیا ہے بیان کرتا ہوں.یہ ایک عجیب بات ہے کہ ایک ہی چیز ہے جسے دنیا نے شرک کی دلیل قرار دیا.لیکن اسی چیز کو اللہ تعالی نے شرک کے خلاف توحید کی دلیل کے طور پر استعمال کیا ہے.وہ چیز کیا ہے.وہ عالم موجودات ہے.دنیا میں اس قدر ا اشیاء موجود ہیں کہ جن کا شمار نہیں کیا جاسکتا.ان میں بعض طاقتیں قوتیں اور خاصیتیں موجود ہیں.اسی طرح بعض کمزوریاں بھی ہیں.اور دنیا میں ہر چیز دوسری کی مدد کی محتاج ہے.اور تحمیل کے لئے اس کو ہر وقت دوسری کی مدد کی ضرورت ہے.انسان بھوک میں پیاس میں آرام کے لئے مادیات کی طرف جھکتا ہے.کبھی اس کو کھانے کی ضرورت ہوتی ہے کبھی لباس کی.پھر ہر سیکنڈ وہ سانس لے رہا ہے.کبھی باہر نکالتا ہے کبھی اندر کھینچتا ہے.ہر لمحہ دنیا کے نظارے اس کی آنکھوں کے سامنے ہوتے ہیں.کوئی چیز اس کو اچھی لگتی ہے اور کوئی بری معلوم دیتی ہے یہاں تک کہ خدا کی یاد کے وقت بھی اس کے کان دنیا کی آوازیں سنتے ہیں.اس کا معدہ ہضم کرنے کا کام کر رہا ہوتا ہے.ناک سانس لینے میں مشغول ہوتی ہے.غرض کہ کوئی ایسالحہ اور وقت نہیں جب وہ دنیا سے علیحدہ ہو سکے.ان حالات کو دیکھ کر یہ خیال ہوتا ہے کہ خدا کے لئے کون ساخانہ خالی ہے.دنیا میں ہر وقت سوتے جاگتے انسان کے حواس خمسہ دنیا کے اثرات سے متاثر ہو رہے ہوتے ہیں.اور ایک سیکنڈ کے لئے بھی ان تاثرات سے جدا نہیں ہو سکتے.بعض لوگوں نے انہی حالات سے متاثر ہو کر کہہ دیا کہ سب چیزیں خدا کے وجود ہیں اور یہ جملہ اشیاء قابل پرستش ہیں.انہوں نے چاند.
خطبات محمود ۲۵۶ سال 1927ء سورج چرند پرند انسان و حیوان سب میں خدا کا ظہور اور جلوہ دیکھا اور کہہ دیا یہی خدا ہیں.ہم انہی کی عبادت کریں گے.کسی چیز کی خدا سے علیحدگی کا خیال ہی شرک ہے.ہر چیز ہی خدا ہے.شرک اصل غیریت کا خیال ہے.انہوں نے اپنے وجود اور خدا میں تمیز کرنے کو شرک سمجھ لیا.مگر اسلام نے توحید کو ایک اور نقطہ نگاہ سے بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ کچھ لوگ مادہ میں اس قدر گھس گئے ہیں کہ زیادہ قرب کی وجہ سے نہ دیکھ سکے.اور کچھ لوگ اس قدر دور ہو گئے کہ وہ بوجہ دوری کے دیکھنے سے قاصر رہے.جو مادہ تو حید کے خلاف ہے غور سے دیکھا جائے تو وہی توحید کا ثبوت ہے اور یہی راز اسلام نے اذان میں مخفی رکھا ہے.موذن کہتا ہے.اللہ اکبر اللہ اکبر یعنی خدا سب سے بڑا ہے.اس کے معنے ہیں کہ دنیا میں اور بھی وجود ہیں.مگر ان سب سے بلند شان اور بزرگی و عظمت اللہ کے لئے ہے.اذان کی ابتداء میں ان الفاظ کا موجود ہونا ایک اتفاقیہ امر سمجھا جا سکتا تھا.مگر اس جملہ کو آخر میں دہرا کر تا دیا ہے کہ توحید کا تعلق اکبریت سے ہے.اصل میں توحید اس وقت تک ثابت ہی نہیں کی جاسکتی جب تک دنیا میں دوسری چیزیں نہ موجود ہوں.اگر دنیا میں میٹھا ہی میٹھا ہو تا تو اس کو کوئی بھی میٹھا نہ کہتا.کڑواہٹ اور ترشی کا وجود ہی مٹھاس کا ثبوت ہو سکتا ہے.اگر دنیا میں لال ہی لال یا سبز ہی سبز رنگ ہوتا.تو دنیا میں رنگوں کے نام نہ ہوتے.دنیا میں جس قدر بھی اشیاء موجود ہیں ان کی خوبی کا علم تقابل سے ہی ہو سکتا ہے.مادی اشیاء کی فنا اور بقا جو رات دن ہمارے مشاہدہ میں آتی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح وہ فنا ہو کر بھی اپنی ذات میں باقی رہتی ہیں.ان کا فنا ہو نا بتاتا ہے کہ وہ اپنی ذات میں کوئی چیز نہیں ہیں.مگر ان کا دوبارہ پیدا ہونا ظاہر کرتا ہے کہ ضرور کوئی ایسی قادر ہستی ہے جو فنا کے بعد ان کو دوبارہ زندگی بخشتی ہے.ہم پانی کو پاکیزگی کی حالت میں پیتے ہیں.اور پیشاب کے ذریعہ خارج کرتے ہیں.پھر دوبارہ اس کا پاک ہو کر بادلوں سے اترنا کسی بالا تر ہستی کا ثبوت ہے.غرض خدا تعالی کی اکبریت ہی اس کی ہستی کا ثبوت ہے.اگر مقابلہ میں دوسری چیزیں نہ ہو تیں تو اس کی توحید کا کوئی ثبوت نہ ہو تا گو اس صورت میں بھی خدا واحد ہی ہو تا پس دوسری چیزوں کا وجود خدا کی توحید کا ثبوت ہے.اور ان فانی چیزوں میں اسی کا ظہور ہے.یہی سبق اذان میں سکھایا گیا ہے.جو عظمند اسلام کے نقطہ نگاہ سے ان چیزوں پر غور کرے گا جو دو سروں کو خدا سے غافل کرنے والی ہیں.اس کو سب چیزوں میں خدا کا جلال نظر آئے گا چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا ہے.ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خمدار کا
خطبات محمود ۲۵۷ سال 1927ء یعنی دنیا کا حسن اور اس کی فنا بتاتی ہے کہ خدا ہے جو شخص بھی اسلام کی تعلیم کے مطابق چلے گا وہ دنیا میں منہمک ہونے کے باوجود خدا کو نہیں بھولے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر فرمایا کرتے تھے.کہ دست به کار دل بہ یار.جو لوگ دنیاوی کاموں کو چھوڑ کر مصلوں پر ہی بیٹھے رہتے ہیں وہ حقیقی عابد نہیں ہیں.کیونکہ وہ خدا کی اکبریت کو چھوڑتے ہیں.اور اکبریت کے بغیر خدا کی حقیقی عبادت نہیں ہو سکتی.پس عابد بننے کے لئے دنیا کی طرف ضرور نظر کرنی پڑے گی.اور جو اس کو چھوڑ دے گاوہ خدا کو کبھی نہیں پاسکے گا.جو شخص دنیا کو چھوڑتا ہے وہ تقویٰ سے نہیں بلکہ جہالت سے ایسا کرتا ہے.خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو حقیقی توحید کے سمجھنے کی توفیق عطا کرے.اور ہمیں ایسی بصیرت بخشے کہ ہمیں ہر بات میں اس کا جلال نظر آئے.الفضل ۲۰ دسمبر۱۹۲۷ء)
خطبات محمود ۲۵۸ ۳۴ سال 1927ء عظیم الشان اجتماع کے لیے تیاری فرموده ۲۳ دسمبر۱۹۲۷ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: مومن انسان ہر ایک بات سے سبق حاصل کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی صفات اور قدرتوں کو ہر ایک چیز میں دیکھتا ہے.اور اس بات کو خوب سمجھتا ہے کہ دنیا میں کوئی چیز لغو نہیں ہے.اللہ تعالٰی قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ دنیا میں ہر جگہ انسانوں کے لئے نشانات مقرر کئے گئے ہیں.جدھر بھی انسان جاتا ہے وہاں ہدایت اور بصیرت کے لئے ایسے نشانات موجود ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر فائدہ اور عبرت حاصل کر سکتا ہے.لیکن بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ان نشانات کو دیکھتے ہیں مگر ان سے کچھ عبرت حاصل نہیں کرتے.ایک چیز ان کے سامنے موجود ہوتی ہے لیکن اس کی طرف توجہ نہیں کرتے رسول کریم اے کا طریق تھا کہ آپ ہر جگہ اور ہر موقعہ سے اس کے مطابق عبرت حاصل کرتے اور صحابہ کو اس طرف توجہ دلاتے.ایک دفعہ جنگ کے لئے جارہے تھے کہ رستہ میں ایک ایسی قوم کے کھنڈر پڑے جس پر خدا تعالٰی کا عذاب نازل ہوا تھا.رسول کریم نے دیکھا لوگ اس جگہ آرام سے بیٹھے اور کھانے پکانے کی تیاریاں کر رہے ہیں.ان کھنڈرات کو دیکھ کر آپ پر گہرا اثر ہوا.اور آپ نے صحابہ سے فرمایا یہاں خدا تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا ہے یہاں سے خشیت پیدا ہونی چاہئے.اور فرمایا یہاں سے جلدی سامان اٹھا لو اور نکل چلو.اس وقت جو لوگ آئے میں پانی ڈال چکے تھے انہیں فرمایا آٹا پھینک دو غرض اس جگہ سے آپ نے جلدی چلنے کا حکم دیا ہے اور فرمایا جہاں خدا کا عذاب نازل ہوا ہو وہاں نہیں ٹھرنا چاہئے.خدا کا عذاب صرف اسی خاص جگہ نازل نہیں ہو ا تھا.ہر جگہ اور ہر بستی میں ایسے مقام نظر آسکتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے غضب کے مورد ہو چکے ہیں.کئی گھر ایک جگہ ایسے آباد نظر آتے ہیں کہ سارا گاؤں یا
خطبات محمود ۲۵۹ سال 1927ء سارا شہر ان کی آبادی پر حیرت ظاہر کرتا ہے.مگر ان پر ایسی تباہی آتی ہے کہ کوئی انسان ان میں باقی نہیں رہتا.اس خاندان کا نام و نشان مٹ جاتا ہے.اس کے آثار بالکل ناپید ہو جاتے ہیں.ایسے گھروں سے بھی انسان عبرت حاصل کر سکتا ہے.مگر ہمیں گھروں کو بھی دیکھنے کی ضرورت نہیں اگر اپنی حالت پر ہی نظر ڈالیں.اگر ہم صرف یہی دیکھیں کہ ہم کیا چیز تھے اور اب کیا ہیں.تو صاف نظر آجاتا ہے کہ ہر مسلمان ایک مٹا ہو انشان ہے.آج ہی میں نے ان عورتوں کو جو جلسہ کی کارکن ہیں اور جنہوں نے عورتوں کے متعلق جلسہ میں انتظام کرنا ہے.نصیحت کرتے وقت کہا تھا کہ ہمارے لئے کیسی عبرت کی جگہ ہے کہ ہندوستان وہ ملک ہے.جہاں چھ سو سال تک ایک مسلمان چپڑاسی کی بھی کوئی ہتک کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا.لیکن اب یہی ملک ہے جہاں ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری شنوائی کے حلقہ کے اندر محمد رسول اللہ اللہ لینے کو بھی گالیاں دی جاتیں اور ہمیں بھی برابھلا کہا جاتا ہے مگر ہم کچھ نہیں کر سکتے.پھر کیا ہندوستان کی چپہ چپہ زمین ہمارے لئے عبرت کی جگہ نہیں ہے؟ پس ہمارے اپنے وجود ہی ہمارے لئے عبرت کی جگہ ہیں.ہم کن باپ دادوں کی اولاد ہیں.ان کی کہ جو اٹھے تو کوئی طاقت ان کے مقابلہ میں نہ ٹھہر سکی.اور جب انہوں نے اپنی گردنیں اونچی کیں تو دنیا کی گردنیں ان کے آگے جھک گئیں.مگر اب ہر شعبہ زندگی میں مسلمان ذلیل اور خوار ہو رہے ہیں.اگر مسلمان زمینداری کرتے ہیں تو اس میں گرے ہوئے ہیں.اگر تجارت کرتے ہیں تو اس میں گرے ہوئے ہیں.اگر ملازمت کرتے ہیں تو اس میں گرے ہوئے ہیں.کوئی بھی پہلو ایسا نہیں جس میں وہ ترقی کر رہے ہوں.میں پچھلے دنوں شملہ گیاتو دیکھا کہ ایک بازار جہاں سب مسلمانوں کی دکانیں تھیں.وہاں اب صرف دو دکانیں مسلمانوں کی رہ گئی تھیں باقی ہندوؤں اور سکھوں کے قبضہ میں جاچکی تھیں.اور یہ وہ لوگ تھے جو مسلمانوں کی دکانوں پر ان کے ملازم تھے.اب مسلمان کرائے کی دکانوں میں رہتے ہیں اور دکانیں ان کے ملازموں نے خرید لی ہیں.یہ تبدیلی اور تغیر ایسا عام تغیر ہے جو مسلمانوں کے ہر فرد پر حاوی اور ہر جگہ پایا جاتا ہے.اس کے لئے کسی خاص تباہ شدہ مکان یا زمین کے دیکھنے کی ضرورت نہیں.ہر مسلمان کا اپنا نفس عبرت کی جگہ ہے.آج ہندوستان میں وہ لوگ نہایت ذلت کی حالت میں پائے جاتے ہیں.جن کے باپ دادوں کے سامنے بڑے بڑے لوگوں کی روحیں کانپتی تھیں.اس وقت اکبر اور جہانگیر کی اولاد موجود ہے.جن کے سامنے بڑے بڑے راجے مہاراجے جو اس وقت بھی اپنے آپ کو بہت بڑے سمجھتے تھے اور اب بھی سمجھتے ہیں.اور جو اس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں جس میں دوسروں
خطبات محمود ۲۶۰ سال 1927ء سے چھوت چھات کی تعلیم پائی جاتی ہے اور جو دوسروں کے چھونے سے اپنے آپ کو بھرشٹ اور ناپاک قرار دیتے ہیں.اس مذہب کے ماننے والوں نے مسلمانوں کے ساتھ کھانا پینا ہی قابل نخرنہ سمجھا بلکہ اپنی بیٹیاں پیش کیں.آج ان کی اولاد کو کوئی پوچھتا تک نہیں.اور نہایت ذلیل اور حقیر سمجھا جاتا ہے پس اس وقت ہر مسلمان عبرت کا مقام ہے اگر وہ اپنے آپ سے عبرت حاصل کرنا چاہے تو حاصل کر سکتا ہے.لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمان اب بھی عبرت حاصل نہیں کرتے.وہ اب بھی ایک خیالی بہشت میں بستے ہیں.اور ایک وہمی بہشت میں دن رات گزارتے ہیں جس کا کوئی وجود دنیا میں نہیں پایا جاتا.وہ باو جود تمام قسم کی کمزوریوں میں مبتلا ہونے کے اپنی طاقتوں کے خواب دیکھتے ہیں اور تمام ذلتوں میں مبتلا ہونے کے باوجود اپنے آپ کو سب سے زیادہ معزز سمجھتے ہیں.اس خیالی بہشت کے ساتھ ان میں عمل کی طاقت بھی پائی جاتی اور وہ کوشش بھی کرتے تو میں ان کے خیال کو بابرکت سمجھتا.مگر اس کے ساتھ ان میں حد درجہ کی سستی اور کاہلی پائی جاتی ہے جو ایک عذاب ہے.مسلمانوں میں سے جن لوگوں کے دلوں میں یہ یقین ہے کہ وہ معزز ہیں اور ان میں سب طاقتیں پائی جاتی ہیں.وہ لکھتے اور سستی اور کاہلی کے مجتمے ہیں.اور جو کام کرنے والے ہیں وہ اس حد تک مایوس ہو چکے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں اب مسلمان کسی صورت بھی تباہی سے نہیں بچ سکتے گویا ایک قسم کے لوگ اگر ایک جہنم میں مبتلا ہیں تو دوسری قسم کے لوگ دوسرے جہنم میں.اس ابتلا اور مصیبت کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالٰی نے اس لئے مبعوث فرمایا کہ مسلمانوں کو اس جنم سے نکالیں.چنانچہ آپ فرماتے ہیں.پہلا آدم آیا تو اس کے وقت بنی نوع کو جنت سے نکلنا پڑا.مگر مجھے خدا نے آدم بنا کر اس لئے بھیجا ہے کہ دوبارہ بنی نوع کو جنت میں داخل کروں.اسی طرح آپ نے فرمایا ہے جب پہلا مسیح آیا تو ا سے صلیب پر چڑھایا گیا مگر دوسرا مسیح اس لئے آیا ہے کہ صلیب کو توڑے.پس اس وقت اسلام کی زندگی اور اسلام کے جاہ و جلال کا مدار اگر کسی چیز پر ہے تو اس پورے پر جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ہاتھ سے گاڑا.اب ہمارے سامنے دو تین دن کے بعد ایک اجتماع کی صورت پیدا ہونے والی ہے.یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قائم کردہ نظام کے ماتحت جلسہ ہونے والا ہے اس کے لئے تیاریاں ہو رہی ہیں.لیکن یہ جلسہ بھی ہمارے لئے بہت کچھ عبرت کا سامان اپنے ساتھ رکھتا ہے.اور وہ اس طرح کہ اگر چند ہزار لوگوں کے جمع ہونے کے لئے اتنی تیاری کی ضرورت ہوتی ہے کہ
خطبات محمود سال 1927ء مہینہ ڈیڑھ مہینہ پہلے سینکڑوں لوگ اس میں لگ جاتے ہیں تو پھر سوچ لو وہ عظیم الشان اجتماع جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر ہوتا ہے.اور جس میں مشرق و مغرب کے لوگوں نے جمع ہوتا ہے اس اجتماع کی تربیت اور اس کے نظام کے قیام کے لئے کتنا انتظام کرنا چاہئے.مگر جب جماعت حال کے اجتماع کا پورے طور پر انتظام نہیں کر سکتی تو مستقبل جو بہت بڑا ہے اس کے انتظام کے وقت کیا کرے گی.دس بارہ پندرہ ہزار کا اجتماع کوئی غیر معمولی اجتماع نہیں.مگر اس کے لئے بھی اگر تیاری نہ کریں تو ناکامی ہو.پھر کیا لاکھوں کروڑوں کے لئے نہیں بلکہ اربوں کے اجتماع کے لئے جو خدا تعالیٰ کی پیشگوئیوں کے ماتحت جماعت میں داخل ہونے والے ہیں کتنی بڑی تیاری کتنی بڑی مشق اور کتنے بڑے سامان کی ضرورت ہے.مگر حالت یہ ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ ابھی حال کی الجھنوں سے ہی نہیں نکلتے تو اس وقت کی ضرورتوں سے کس طرح عہدہ بر آہوں گے.اس وقت بھی پوری اور مکمل تیاری نہیں کر سکتے کجا آئندہ کی تیاری.میں اپنے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے سبق حاصل کریں.اور اپنے وجودوں سے عبرت حاصل کریں.اللہ تعالٰی بہت کچھ کرنے والا ہے.مگر ہمارے لئے ضروری ہے کہ اپنے ایمان سے کام لیں اور ایمان تازہ کر کے پیشتر اس آنے والے نظارہ کو دیکھ لیں تا ایسا نہ ہو کہ غفلت میں پڑے رہیں.حضرت مسیح نے فرمایا ہے دولھا آنے والا ہے.مگروہ اچانک آئے گا تا دیکھے کون سوتے ہیں اور کون جاگتے ہیں.خدا تعالی کی طرف سے فتوحات اچانک آجاتی ہیں.اور جب لوگ نا امید ہو جاتے ہیں اس وقت فتوحات کے دروازے کھولے جاتے ہیں.ایسی حالت میں بہت لوگ غفلت کی وجہ سے مارے جاتے ہیں.اور وہی وقت جو فتح اور کامرانی کا ہوتا ہے.بتوں کے لئے بے ایمانی کا ہوتا ہے.دیکھو ایک شہر کے لوگ اگر بادشاہ کے آنے پر اس کا استقبال نہیں کرتے تو کس طرح اس کے غضب کے مورد ہوتے ہیں.پس اگر دنیا کے بادشاہ کا استقبال نہ کرنے والے غضب کے مورد بنتے ہیں.تو وہ نشان جن کو خدا تعالٰی نے اپنا آنا قرار دیا ہے.ان سے غفلت کرنے والے کس قدر غضب کے مستحق ہوں گے.خدا تعالیٰ نے نشان کے آنے کو اپنا و دوورو آنا قرار دیا ہے.چنانچہ فرمایا ہے.فسوف يَأْتِي اللَّهُ بِقَومٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ، دوسری جگہ آتا ہے.فاتى الله بنیانہم کیس جس طرح خدا کے آنے پر تیاری نہ کرنے والا غضب کا مستحق ہوتا ہے.اسی طرح اس کے بشارتی نشان کے آنے پر تیار نہ ہونے والا غضب کا مستحق ہوتا ہے.کیونکہ خدا تعالٰی نشان کے ذریعہ ہی آتا ہے.خواہ وہ نشان ترقی کا ہو یا تباہی کا کیونکہ وہ غیر مادی ہے.پس
خطبات محمود ۲۶۲ سال 1927ء اس کے استقبال کے لئے پہلے سے تیاری کرنی چاہئے.جو پہلے تیاری نہیں کرتے وہ وقت پر غفلت میں پڑے رہتے ہیں.اور خدا کے غضب کے نیچے آجاتے ہیں.تم لوگ اللہ کے نشانوں کی قدر کرو اور ان کے لئے تیاری کرو.اللہ تعالٰی آپ لوگوں کو توفیق دے.بخاری کتاب المغازی باب غزوة تبوک له المائدة : ٥٥ التحمل : ۲۷ الفضل ۳/ جنوری ۱۹۲۸ء)
خطبات محمود ۲۶۳ ۳۵ اَعُوذُ اور بسم اللہ پڑھنے میں نکتہ فرموده ۳۰/دسمبر۱۹۲۷ء) سال 1927ء تشهد تعوز اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : رسول کریم ﷺ کی سنت تھی کہ خطبہ پڑھنے سے پہلے آپ استعاذہ اللہ کیا کرتے تھے یعنی اعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ پڑھا کرتے.اس کے بعد بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ کی تلاوت فرماتے.ایک مسلم کے لئے رسول کریم ﷺ کا یہ طریق اپنے اندر حکمت رکھنے سے خالی نہیں ہو سکتا اور جب ہم اس پر غور کرتے ہیں تو اس میں اسلامی زندگی کا نمونہ اور فلسفہ پاتے ہیں.در حقیقت اگر غور کیا جائے تو یہ رسول کریم اے کا اپنا بتایا ہوا طریق نہیں بلکہ خدا تعالی کا ارشاد فرمودہ ہے کیونکہ اللہ تعالٰی قرآن کریم میں فرماتا ہے.جب قرآن پڑھنے لگو تو اعوذ پڑھ لیا کرو.اور قرآن بِسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ سے شروع ہوتا ہے.اس طرح یہ قانون قرآن کریم سے ہی نکل آیا کہ پہلے اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ پڑھنا چاہئے.اور پھر بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ جب کوئی مسلمان چھوٹی سے چھوٹی سورہ بھی پڑھے گا.تو اس حکم کے ماتحت پہلے اعوذ پڑھے گا اور پھر بِسمِ الله الرحمن الرحیم.پس قرآن کریم سے یہ قانون معلوم ہو گیا کہ وہ تمام کام جو انسان کی زندگی پر اثر ڈالتے ہیں.ان کے کرنے سے پہلے اعوذ اور پھر بسم اللہ پڑھنی چاہئے.الفاظ کے لحاظ سے اس سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ انسان شیطان سے پناہ مانگے اور اللہ تعالٰی سے مدد چا ہے.لیکن مؤمن صرف الفاظ پر ہی نہیں رہا کرتا بلکہ ہربات کے فلسفہ کو دیکھتا ہے.اور اس کی حقیقت پر نگاہ رکھتا ہے.اگر ہم اس طریق کی ترتیب اور اس کے فلسفہ کو دیکھیں.تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ایک ایسی بات بتائی گئی ہے جو دنیا کا عام
خطبات محمود ۲۶۴ سال 1927ء فلسفہ ہے.اور اس طرح کامیابی کا گر سکھایا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ میں آزادی چاہی گئی ہے اور حریت کا مطالبہ کیا گیا ہے.کسی کی پناہ ڈھونڈھنے کا یہی مطلب ہوتا ہے کہ فلاں نے گرفت کی ہوئی ہے اس سے چھٹنا چاہتا ہوں پس اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيمِ میں یہ گر بتایا گیا ہے کہ کسی کام کے کرنے کے وقت اس کام کے دائرہ میں حریت اور آزادی حاصل کرنا ضروری چیز ہے.دیکھو ایک زمیندار کھیت ہونے کا کام کرنے سے پہلے کھیت کے لحاظ سے ضروری حریت اور آزادی چاہتا ہے.کبھی کسی زمیندار کو نہ دیکھو گے کہ وہ کھیت میں سے پہلے فصل کی جڑیں.روڑے اور ڈھیلے صاف کئے بغیر اس میں بیج بو دے.وہ پہلے ان روکوں کو دور کرے گا جو کھیتی کے اگنے کے رستہ میں حائل ہیں اگر اس میں گزشتہ فصل کی جڑیں اور تنے ہوں گے تو ان کو نکالے گا.پتھر اور اینٹیں کھیت میں دبی ہوں گی تو ان کو دور کرے گا گھاس اگی ہو گی تو اسے اکھیڑے گا.غرض پہلے وہ کھیت کے متعلق حریت اور آزادی چاہے گا اور پھر بیچ ڈالے گا.اسی طرح جب ایک طالب علم خوش خطی کی مشق کرنا چاہتا ہے.تو پہلے سختی کو دھوتا اور صاف کرتا ہے وہ پہلے نشانوں کو مٹاتا ہے اور پھر اس پر لکھتا ہے.اسی طرح ایک بیمار آدمی کو جو بہت کمزور ہو گیا ہو.جب ڈاکٹر کے سامنے پیش کیا جائے گاتو وہ دیکھتے ہی اسے طاقت کی دوائیاں نہیں دے گا بلکہ وہ یہ معلوم کرے گا کہ کمزوری کی وجہ کیا ہے.وہ اس کا سینہ دیکھے گا.جگر دیکھے گا اور معلوم کرے گا کہ بیماری پیدا کرنے والی کیا چیز ہے.اور جب اسے پتہ لگ جائے گا تو اس کو دور کرنے کی کوشش کرے گا پھر جب وہ دور ہو جائے گی تو کمزوری کو دور کرنے کی دوائیاں دے گا.بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک انسان چارپائی پر پڑا ہوتا ہے.اٹھ کر ایک قدم بھی نہیں چل سکتا بلکہ چار پائی پر اٹھ کر بیٹھ بھی نہیں سکتا.اگر بیٹھتا ہے تو دوسروں کے سہارے بیٹھتا ہے مگر اس کے متعلق ڈاکٹر یہ تجویز کرتا ہے کہ اسے جلاب دینا چاہئے اس وقت ایک ناواقف تو کہے گا.جب اسے پہلے ہی اس قدر ضعف ہے تو پھر جلاب کیسایا اگر ڈاکٹر کہے کہ اس کا خون نکالنا چاہئے تو کوئی نادان کے گا جب یہ پہلے ہی مر رہا ہے تو خون نکالنے کا کیا مطلب.مگر ڈاکٹر جانتا ہے کہ پہلے جب تک وہ بیماری دور نہ ہوگی جس کی وجہ سے اس قدر کمزوری لاحق ہو گئی ہے اس وقت تک کمزوری دور کرنے کی کوئی دوا مفید نہ ثابت ہوگی جب وہ روک دور ہو جائے گی تب طاقت کی دوا دی جائے گی.پس تمام کاموں کو کرنے کے وقت جس چیز کی سب سے پہلے ضرورت ہوتی ہے وہ اس کام کے لحاظ سے حریت اور آزادی ہوتی ہے.ان روکوں کو جو اس کام کے رستہ میں حائل ہوں ان کا دور کرنا ضروری ہے.
خطبات محمود ۲۶۵ سال 1927ء یہی حال قوموں کا ہے جو قومیں دنیوی ترقی حاصل کرنا چاہتی ہیں.وہ جب تک دوسری قوموں کے ماتحت رہتی ہیں.کامل ترقی حاصل نہیں کر سکتیں.جتنی جتنی انہیں حریت ملتی ہے.اتنا اتنا آگے قدم بڑھاتی ہیں.اور کسی قوم کو اپنی سیاست کو مضبوط کرنے کی جو ضرورت ہے یہ اس وقت تک پوری نہیں ہو سکتی جب تک کامل طور پر سیاسی آزادی حاصل نہ ہو.پہلی گورنمنٹ کو نکالنا پڑے گا پھر اپنا قانون جاری کیا جا سکے گا.اسی طرح اگر تمدنی ترقی کی طرف قدم اٹھانا ہے تو پہلے ان رسوم اور رواج کو تو ڑنا ہو گا جنہوں نے تمدنی ترقی میں رکاوٹ پیدا کر رکھی ہے.غرض ہر کام کے لئے پہلے روکوں کو دور کرنا ضروری ہوتا ہے.اور پھر ترقی کے سامان سے کام لینے پر کامیابی حاصل ہوتی ہے.اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ میں یہ گر بتایا گیا ہے کہ ہر کام کرنے سے پہلے دیکھو اس میں کون سی روکیں حائل ہیں ہر کام کے متعلق علیحدہ علیحدہ روکیں ہوتی ہیں سیاست کی روکیں علیحدہ ہیں.تمدن کی علیحدہ مذہب کی علیحدہ اور جب تک ان روکوں کو دور نہ کیا جائے جو کسی کام کے رستہ میں حائل ہوتی ہیں اس پہلو سے ترقی حاصل نہیں ہو سکتی.کوئی قوم حکومت والی ترقی اس وقت تک نہیں کر سکتی جب تک غیر حکومت کی ماتحتی سے آزاد نہ ہو جائے.مگر تجارت میں ترقی کر سکتی ہے تجارت کے رستہ میں اور روکیں ہیں اگر ان کو دور کیا جائے تو ترقی ہو سکتی ہے.اسی طرح دین کے معاملہ میں ترقی کرنے کے راستہ میں جو روکیں ہیں.ان کو دور کر لیا جائے تو باوجود تمدنی سیاسی اور اقتصادی روکوں کے مذہبی لحاظ سے ترقی ہو سکتی ہے.غرض جب تک کسی کام میں پیش آنے والی روکوں کو دور نہ کیا جائے.اس وقت تک اس میں ترقی نہیں ہو سکتی.پس مؤمن کو اپنی روحانی اصلاح اور ترقی کے متعلق پہلے یہ دیکھنا چاہئے کہ اس کے رستہ میں کیا کیا روکیں ہیں ہمیں چونکہ روحانیات کا زیادہ خیال ہے سیاسیات کا اتنا نہیں.گو اگر کوئی موقع ہو اور ضرورت ہو تو ہم اس بارے میں بھی مشورہ دے دیتے ہیں.اس لئے روحانیات کے متعلق ہی ذکر کیا جاتا ہے.دیکھنا یہ چاہئے کہ روحانی ترقی کے رستہ میں کیا رو کیں حائل ہیں.بیسیوں ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کی فطرت پاک ہوتی ہے.وہ روحانی اصلاح کی خواہش بھی رکھتے ہیں.اگر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف ترقی کرنے کے گر پاسکیں تو ترقی کر سکتے ہیں.مگر جہالت میں گھرے ہونے کی وجہ سے محروم رہتے ہیں.ایسے لوگوں کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ شریعت کا علم حاصل کر ہیں.بعض ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کی فطرت اچھی ہوتی ہے علم بھی رکھتے ہیں.ترقی کے لئے جو باتیں ضروری ہوتی ہیں وہ بھی جانتے ہیں.مگر بعض گندی عادات ان کو پڑی ہوتی ہیں ان سے
خطبات محمود سال 1927ء نہیں بچ سکتے.ایسے لوگوں کو چاہئے کہ ان عادات کی اصلاح کریں.پھر ایسے لوگ ہوں گے جنہیں خالق کی نسبت مخلوق کے خوف کی کڑی نے باندھ رکھا ہو گا.وہ لوگوں کے ڈر کی وجہ سے روحانیت میں قدم نہ اٹھا سکتے ہوں گے.ایسے لوگوں کو دیکھنا چاہئے کہ ان کے رستہ میں کیا روک ہے.اگر لوگوں کا ڈر اور خوف روک ہو تو اسے دل سے نکال دینا چاہئے.پھر بعض ایسے لوگ ہوتے ہیں جن سے کوئی گستاخی اور بے ادبی دین کے معاملہ میں ہوئی ہوتی ہے.اس وجہ سے ان پر شیطان کا تسلط ہو جاتا ہے.ایسے انسان کو توبہ استغفار کثرت سے کرنا چاہئے.اور خدا تعالٰی سے دعا مانگنی چاہئے کہ وہ غلطی اور گستاخی معاف کر دے.پھر بعض لوگوں کے اندر یہ کمزوری ہوتی ہے کہ انہیں کوئی بیماری لاحق ہوتی ہے.اس وجہ سے وہ خاص ریاضت اور محنت نہیں کر سکتے اور اس طرح روحانی ترقیات سے محروم رہتے ہیں کئی بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جن کی وجہ سے انسان سوچ نہیں سکتا.فکر نہیں کر سکتا.ایسا شخص اگر قرآن کریم کی تلاوت کرے گا تو اسے کیا لذت آسکتی ہے.یا عبادت میں اسے کیا لطف آسکتا ہے.اسے چاہئے کہ ڈاکٹر سے علاج کرائے.اور دماغی حالت کے درست کرانے کی کوشش کرے تاکہ وہ غور و فکر سے کام لے سکے.اسی طرح مختلف قسم کی روکیں ہوتی ہیں.اور بیسیوں قسم کی بیماریاں ہوتی ہیں اس لئے جب تک انسان أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِیمِ کی حکمت پر نظر ڈال کر ان کو دور کرنے کی کوشش نہ کرے.اس وقت تک اس کا قدم اٹھانا کوئی نتیجہ نہیں پیدا کرتا.ایسی حالت میں اس کا کوشش کرنا اسی طرح اندھا دھند ہوتا ہے جس طرح دو موٹریں اندھا دھند دوڑ پڑیں.اگر ان کو درست طور پر نہ چلایا جائے گا تو وہ ٹکرائیں گی.پس روحانی ترقی کے لئے پہلے ان روکوں کو دور کرنا چاہئے جو رستہ میں حائل ہوں.اس کے بعد بِسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرّحِیمِ کا کام شروع ہو گا یعنی اس طرح انسان رو کیں دور ہو جانے کے بعد بیچ ڈالتا ہے.اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ کے بعد دوسری چیز بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرحیم رکھی گئی جس سے یہ بتایا کہ یہ ترقی کا بیج ہے.جب انسان روکوں کو دور کرنے کے بعد پیچ ڈالے گا تب رحمانیت اور رحمیت کے آثار ظاہر ہوں گے.پس ہر کام کرنے سے پہلے اعوذ ہونی چاہئے جو سزا.سختی توڑنے اور صاف کرنے کے معنی رکھتا ہے.شیر سے بچانے کے کیا معنی ہیں.یہی کہ شیر کو مار دیا جائے.گھاس سے زمین کو بچانے کے کیا معنی ہیں.یہی کہ گھاس اکھیڑ کر باہر پھینک دی جائے.پس اعوز احراق قطع اور جلانے پر دلالت کرتا ہے.کاٹے جانے، ٹکڑے کرنے پر دلالت کرتا ہے.اور اس کے بعد دوسری پیدائش ہو سکتی ہے.انسان کی روحانی پیدائش کے لئے
خطبات محمود ۲۹۷ سال 1927ء بھی ضروری ہے کہ پہلے قطع.احراق - سوز - جلا دینا.صیقل کرنا ہو.پھر نیکی کا بیج بڑھے اور ترقی کرے.اس کے لئے ضروری ہے کہ جیسی کوئی بیماری ہو ویسا ہی علاج کیا جائے.اور روکوں کو قطع کیا جائے.اگر رسوم کی روک حائل ہو تو اس کو دور کیا جائے.اگر عادت کی روک ہو تو اسے ہٹایا جائے.اگر لوگوں کے ڈر اور خوف کی روک ہو.تو اسے صاف کیا جائے.اگر اپنی غلطی اور کو تاہی کی روک ہو تو استعفار پڑھا جائے.تب جا کر فائدہ ہوگا.ورنہ اگر روکوں کو دور نہ کیا جائے اور یوں کوئی عبادت کرے تو ممکن ہے اسے کچھ فائدہ حاصل ہو جائے مگر یہ استثنا کی صورت ہوگی طبعی فائدہ نہ ہو گا.پس جس قسم کی کوئی مرض ہو پہلے اسے دور کرنا چاہئے پھر فائدہ کی امید رکھنی چاہئے.دیکھو جسمانی بیماریوں میں اگر بخار ہو تو اور دوائی دی جاتی ہے.کھانسی ہو تو اور.غرض ہر بیماری کی علیحدہ علیحدہ دوا ہوتی ہے.مگر روحانی معاملات میں لوگ ایک ہی علاج کرتے چلے جاتے ہیں.جسمانی سلسلے روحانی سلسلوں کے مماثل ہوتے ہیں.جس طرح تمام جسمانی بیماریاں ایک ہی دوا سے دور نہیں ہو سکتیں.اسی طرح روحانی بیماریوں کا ایک ہی علاج فائدہ نہیں دے سکتا.یہ نادانی ہے کہ ہر بیماری کا علاج ایک ہی کیا جائے.ضروری ہے کہ انسان اپنے نفس پر غور کرے اور پھر جو بیماری ہو اس کا وہ علاج کرے جس سے وہ دور ہو سکتی ہے.جسمانی بیماریوں کی طرح روحانی بیماریوں کا بھی علاج علیحدہ علیحدہ ہوتا ہے.ہاں ایک فرق ہے.اور وہ یہ کہ جسمانی بیماری دوسرے کو بتائی جاتی اور اس سے علاج کرایا جاتا ہے.مگر روحانی بیماری دوسرے کو بتانی ضروری نہیں.بلکہ بعض حالتوں میں تو اس کا بتانا منع ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس کئی لوگ آتے اور آکر اپنی کمزوریاں بیان کرنے لگتے.تو آپ منع فرما دیتے.یہی طریق ہمارا ہے اگر کوئی بیان کرے تو اسے روک دیا جاتا ہے.اور عام طور پر علاج بتایا جاتا ہے.ہاں اگر کوئی خاص علاقہ پیدا کر لے.اور اپنی اصلاح کے لئے کمزوری بتا کر اس کے دور کرنے کا طریق پوچھنا چاہے تو یہ اور بات ہے.غرض پہلے اعوذ پڑھنی چاہئے اور پھر بسم اللہ.کیونکہ جب بیماری دور ہو جائے گی تب ترقی ہوگی.پہلے کھیت کو صاف کیا جائے گا تب جو بیج ڈالا جائے گاوہ پیدا ہو گا.جس دل میں بدی کا درخت اگا ہو گا اس میں روحانیت ترقی نہیں کر سکتی.اور اگر روحانیت کا بیج اُگے گا تو جلد مرجھا جائے گا.اب دیکھو اعوذ اور بسم اللہ کی ترتیب میں کتنا اعلیٰ فلسفہ ہے.کہ پہلے صفائی کی جائے تب ترقی ہوگی.اگر مسلمان اس بات کو سمجھ لیں تو سینکڑوں جنہیں روحانی ترقی سے محروم رہنا پڑتا ہے کامیاب ہو سکتے ہیں.(الفضل ۷ / جنوری ۱۹۲۸ء)
خطبات محمود ۲۷۱ Wy سال ۱۹۲۸ء سال حال کے پروگرام کی بعض اہم باتیں اور درود کی حکمت فرموده ۶ / جنوری ۱۹۲۸ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں پہلے اس خطبہ کے ذریعہ تمام دوستوں کو ان امور کی طرف توجہ دلاتا ہوں جن کو میں نے اس سال کے پروگرام میں شامل کیا ہے.پروگرام میں تو اور بھی باتیں ہیں لیکن خصوصیت سے تین باتیں ایسی ہیں جن کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے.پہلی بات جس کا اس سال کے پروگرام میں ذکر تھا یہ تھی کہ اس سال ۲۰/ جون کو تمام ہندوستان میں رسول کریم اے کی عزت کی حفاظت کے لئے جلے کئے جائیں.یعنی رسول کریم ﷺ کی زندگی کے تین اہم مسائل پر تمام ہندوستان میں ہر جگہ اس تاریخ کو یا اس تاریخ سے شروع کر کے چند دنوں میں خاص طور پر روشنی ڈالی جائے وہ تین اہم پہلو یہ ہیں.رسول کریم کی بنی نوع انسان کے لئے قربانیاں رسول کریم ﷺ کی پاکیزہ زندگی رسول کریم ان کے دنیا پر احسانات چونکہ لوگوں کو آپ پر حملہ کرنے کی جرات اس لئے ہوتی ہے کہ وہ آپ کی زندگی کے صحیح حالات سے ناواقف ہیں.یا اس لئے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ دوسرے لوگ ناواقف ہیں.اور اس کا ایک ہی علاج ہے جو یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کی سوانح پر اس کثرت سے اور اس قدر زور کے ساتھ لیکچر دیئے جائیں کہ ہندوستان کا بچہ بچہ آپ کے حالات زندگی اور آپ کی پاکیزگی سے آگاہ ہو جائے اور کسی کو آپ کے متعلق زبان درازی کرنے کی جرأت نہ رہے..
خطبات محمود ۲۷۲ سال ۱۹۲۸ء جب کوئی حملہ کرتا ہے تو یہی سمجھ کر کہ دفاع کرنے والا کوئی نہ ہو گا.واقف کے سامنے اس لئے کوئی حملہ نہیں کرتا کہ وہ دفاع کر دے گا.پس سارے ہندوستان کے مسلمانوں اور غیر مسلموں کو رسول کریم ﷺ کی پاکیزہ زندگی سے واقف کرنا ہمارا فرض ہے.اور اس کے لئے بہترین طریقہ یہی ہے کہ رسول کریم ﷺ کی زندگی کے اہم شعبوں کو لے لیا جائے اور ہر سال خاص انتظام کے ماتحت سارے ہندوستان میں ایک ہی دن ان پر روشنی ڈالی جائے تاکہ سارے ملک میں شور پیچ جائے اور غافل لوگ بیدار ہو جائیں.اس غرض کے لئے میں نے جماعت کے دوستوں کو توجہ دلائی تھی کہ کم از کم ایک ہزار آدمی ایسا ہونا چاہئے جو ان مضامین پر لیکچر دینے کے لئے تیاری کر سکے تاکہ ۲۰/ جون کو جلسہ کر کے لیکچر دئیے جائیں اور میں نے خواہش کی تھی کہ دوست جنوری کے اندر اندر اس بات کی اطلاع دیں تاکہ ابھی سے ان کو مضامین کی تیاری کے لئے ہدایات دی جاسکیں اور لیکچروں کے لئے تیار کیا جاسکے.ان لیکچروں سے جو نتیجہ نکلے گا اسے اگر الگ رہنے دیا جائے تو ایک ہزار آدمی کو اس بات کے لئے تیار کر لینا کہ وہ رسول کریم ﷺ کی سیرت کے اہم پہلوؤں پر عمدگی سے لیکچر دے سکیں یہی بہت بڑا اور غیر معمولی کام ہے اور اگر ہم صرف یہی کر سکیں کہ ایک ہزار آدمی ایسا تیار کرلیں تو یہی بہت بڑی دین کی خدمت ہوگی.اور اس طرح ہم اگلے سال دو ہزار پھر تین ہزار پھر چار ہزار ایسے لوگ تیار کرنے کے قابل ہو جائیں گے جو رسول کریم ﷺ کی زندگی پر نہایت قابلیت سے لیکچر دے سکیں گے.ایک ہزار آدمی جو ایسے تیار ہوں گے ان میں سے ہر ایک کا لیکچر سننے والے ایک ایک ہزار آدمی بھی سمجھے جائیں گو کئی مقامات پر دس بارہ ہزار تک بھی جمع ہو سکتے ہیں تو دس لاکھ آدمیوں کو سنا سکتے ہیں.اور وہ آگے اگر دس دس آدمیوں سے لیکچر کی باتیں کریں تو ایک کروڑ تک وہ باتیں پہنچ سکتی ہیں.اور چند سال کے اندر ہندوستان میں کوئی بشر ایسا نہیں رہ سکتا جس کے کانوں تک رسول کریم ﷺ کی پاک زندگی کے صحیح حالات نہ پہنچ چکے ہوں.یہ ایسا شاندار اور عظیم الشان کام ہے جس کا خیال ہی کر کے طبیعت میں جوش اور روح میں لذت پیدا ہوتی ہے.پس جو دوست یہ کام کرنا چاہیں وہ جنوری کے اندر اندر اپنے ارادہ سے مجھے اطلاع دیں تاکہ ضروری ہدایات ان کو دی جاسکیں.چونکہ ممکن ہے جلسہ کے شور و شعب کی وجہ سے احباب اس بات کو بھول گئے ہوں اس لئے خطبہ کے ذریعہ پھر اس کی طرف توجہ دلاتا ہوں.
خطبات محمود ۲۷۳ سال ۱۹۲۸ء اس کے لئے ضروری نہیں کہ ہماری جماعت کے ہی لوگ ہوں جو شخص بھی رسول کریم سے محبت رکھنا آپ کی عزت کی حفاظت کرنا اپنا فرض سمجھتا اور اس کام کو کار ثواب سمجھتا ہے اس سے میں خواہش کروں گا کہ اگر وہ اس کام کے لئے اپنا وقت قربان کر سکتا ہے اگر اس کام کو مفید سمجھتا اور اسے خدمت اسلام قرار دیتا ہے تو اپنا نام پیش کرے.ہم اسے لیکچروں کی تیاری میں ہر طرح سے مدد دینے کے ئے تیار بلکہ اس کے ممنون بھی ہوں گے.مگر میں کہتا ہوں ایسے آدمیوں کے لئے مسلمان کہلانے والوں کی بھی خصوصیت نہیں.رسول کریم ﷺ کے احسانات سب دنیا پر ہیں اس لئے مسلمانوں کے علاوہ وہ لوگ جن کو ابھی تک یہ توفیق تو نہیں ملی کہ وہ رسول کریم ﷺ کے اس تعلق کو محسوس کر سکیں جو آپ کو خدا تعالی کے ساتھ تھا مگر وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ آپ نے اپنی قربانیوں سے بنی نوع انسان پر بہت احسان کئے ہیں وہ بھی اپنے آپ کو پیش کر سکتے ہیں.ان کی زبانی رسول کریم کے احسانات کا ذکر زیادہ دلچسپ اور زیادہ پیارا معلوم ہوگا.پس اگر غیر مسلموں میں سے بھی کوئی اپنے آپ کو اس کام کے لئے پیش کریں گے تو انہیں شکریہ کے ساتھ قبول کیا جائیگا اور ان کی اس خدمت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا.چونکہ رسول کریم ﷺ کے حالات زندگی لوگوں نے ایسے طریق پر لکھے ہیں جو صحیح لائف لکھنے کا طریق نہ تھا.وہ آپ کا طیہ اور معجزات لکھتے رہے جو زمانہ گزر جانے کے بعد قصے رہ گئے اور اب صحیح حالات بیان کرنے کے لئے تیاری اور محنت کی ضرورت ہے اس لئے جس قدر جلد ہو سکے نام پیش کر دیئے جائیں تاکہ تیاری شروع کرا دی جائے.دوسری بات یہ ہے کہ میں نے اعلان کیا تھا اس سال دس پاروں کا درس گیارہویں پارہ سے لیکر بیسویں تک جولائی کے مہینہ میں دوں گا.پہلے دیں پاروں کا درس ۱۹۲۲ ء میں ہو چکا ہے.اس کے متعلق میں نے یہ اعلان کیا تھا کہ اگر پچاس آدمی باہر سے درس میں شامل ہونے کے لئے اپنے نام پیش کریں تو میں درس دینے کے متعلق اعلان کر دوں گا.چار پانچ کی طرف سے تو درخواستیں آبھی چکی ہیں لیکن کم از کم پچاس کی ضرورت ہے جو باہر کے ہوں.اگر اتنے آدمی ہو گئے تو خدا کے فضل سے توفیق ملنے ، صحت کے اچھے ہونے اور موافق حالات کے پیدا ہونے پر درس دینے کا اعلان کر دوں گا اس کے لئے بھی دوستوں کی جلد درخواستیں آجانی
خطبات محمود چاہئیں.۲۷۴ سال ۶۱۹۲۸ تیسری بات ریز روننڈ ہے اس سال جو پروگرام رکھا گیا ہے اس پر بہت کچھ خرچ ہو گا.تمام ہندوستان میں جلسہ کرنے کے لئے لوگوں کو تیار کرنے کی خاطر کم از کم سات آٹھ پوسٹروں کی ضرورت ہوگی.اور چونکہ اس کام کے لئے ہر فرقہ اور علاقہ کے مسلمانوں کو تیار کرنا ہے اس لئے بنگالی میں بھی پوسٹر شائع کرنے کی ضرورت ہے، تامل میں بھی ، ہندی میں بھی ، مرہٹی میں بھی اور دوسرے علاقوں کی زبانوں میں بھی.اس قسم کا پہلا پوسٹر جو تمام مسلمانوں میں اس کام کی تحریک کرنے کے لئے ضروری ہے جنوری یا زیادہ سے زیادہ فروری میں شائع ہو جانا چاہئے اور کم از کم ساٹھ ستر ہزار کی تعداد میں شائع ہونا چاہئے جس کے لئے بہت بڑے اخراجات کی ضرورت ہے.اس کے بعد خط و کتابت اور دوسری ہدایات بھیجنے کے لئے اور سارے ہندوستان میں بھیجنے کے لئے بڑے خرچ کی ضرورت ہے.پس جب تک بہت جلد بلکہ جنوری میں بنی ایک بڑی رقم نہ آجائے اس کام میں ہاتھ ڈالنا نہایت خطرناک ہوگا.وہ دوست جنہوں نے سالانہ جلسہ پر ریز رو فنڈ جمع کرنے کا وعدہ کیا ہے وہ کچھ نہ کچھ جنوری میں پھر فروری میں اور مارچ میں جمع کر کے بھیج دیں تاکہ سہولت کے ساتھ اس کام میں ہاتھ ڈالا جا سکے.اس کے بعد ایک سوال کے متعلق جو پچھلے ہفتہ میرے سامنے پیش ہوا میں اس وقت روشنی ڈالنا چاہتا ہوں.ایک دوست نے لکھا کہ ۱۹۲۵ء کے خطبہ میں میں نے درود کے متعلق وشنی ڈالی تھی جس سے بہت لوگوں نے فائدہ اٹھایا تھا.مگر وہ کہتے ہیں ایک سوال ہے جس پر روشنی نہ ڈالی گئی تھی جو کہ ضروری ہے وہ سوال یہ ہے کہ درود میں یہ دعا سکھائی گئی ہے.اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى إِلى إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.اسی طرح یہ دعا ہے اللهُم بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا - بارَكتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى إِلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.حالا نکہ رسول کریم ﷺ کا درجہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بڑا ہے.ایک بڑے درجہ والے کے لئے یہ دعا کرنا کہ اسے وہ کچھ ملے جو اس سے چھوٹے درجہ والے کو ملا اور نہ صرف ایک دفعہ بلکہ یہ دعا کرتے ہی چلے جانا اور قیامت تک کرتے چلے جانا یہ ایک معمہ اور چیستان ہے جس کا حل ضروری ہے.واقعہ میں اگر اس بات کی حقیقت پر غور نہ کریں تو یہ بات ایسی ہی معلوم ہوتی ہے جیسے کہتے ہیں کوئی فقیر تھا ایسے لوگ چونکہ ادھر ادھر پھرتے رہتے اور کوئی مستقل ٹھکانا نہیں رکھتے اس رو
خطبات محمود ۲۷۵ سال ۱۹۲۸ لئے علی العموم پولیس کی دست برد میں آتے رہتے ہیں اور تھانیدار کو سب سے زیادہ اختیارات کا مالک سمجھتے ہیں کہتے ہیں اس نے ایک ای.اے.سی سے کچھ مانگا مگر اس نے مانگنے سے زیادہ اسے دے دیا.اس فقیر کا دل دعا کی طرف مائل ہوا.اور اس نے اس کے لئے یہ دعا کی کہ خدا تمہیں تھانیدار بنادے چونکہ اس کے نزدیک یہی درجہ سب سے بڑا تھا کیونکہ جہاں وہ جاتا تھا سپاہی اس کے پیچھے پڑ جاتے اور تھانیدار کے سامنے پیش کر دیتے.پس رسول کریم ﷺ کے لئے یہ دعا کرنا کہ آپ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام والا درجہ دیا جائے ایسی ہی دعا ہے جیسے ای.اے - ہی کے لئے یہ کہا گیا تھا کہ خدا تمہیں تھانیدار بنا دے اور حقیقت یہ ہے کہ اس طرح یہ دعا نہیں بلکہ بد دعا معلوم ہوتی ہے.میرا خیال ہے میں نے کئی دفعہ اس کے متعلق بیان کیا ہے مگر سوال کرنے والے ایسے دوست ہیں جو اخباروں سے تعلق رکھتے ہیں اور تحریریں پڑھنے والے ہیں.ممکن ہے ان کے حافظہ کی غلطی ہو اور ان کو میری بیان کردہ باتیں یاد نہ رہی ہوں یا ممکن ہے میں نے ایسی وضاحت نہ کی ہو جس کی ضرورت ہو اس لئے پھر بیان کرتا ہوں.بات یہ کہ اعتراض دو جگہ پڑا کرتے ہیں.ایک تو وہاں جو محل اعتراض ہو اور دوسرے ایسی جگہ جو محل اعتراض نہ ہو.جو محل اعتراض جگہ ہوتی ہے وہاں بھی دو صورتیں ہوتی ہیں.اول یہ کہ اعتراض غلط ہو اور دوسری یہ کہ اعتراض صحیح ہو مگر وہ بات نادرست ہو جس پر اعتراض پڑتا ہے.مگر درود تو رسول کریم ﷺ نے سکھایا ہے اور آپ نے ہی نہیں سکھایا بلکہ خدا تعالٰی نے قرآن کریم میں اس کا ذکر کیا ہے.اب ہم یہ تو کہہ نہیں سکتے کہ درود میں غلطی ہے اس وجہ سے دوسرا پہلو ہی اختیار کرنا پڑے گا کہ ایسی جگہ پر اعتراض کیا جاتا ہے جو محل اعتراض نہیں ہے.اس کے بھی دو پہلو ہیں ایک یہ کہ جن معنوں کے لحاظ سے اعتراض کیا جاتا ہے وہ غلط ہیں یا یہ کہ وہ معنی تو صحیح ہیں مگر جو اعتراض کیا جاتا ہے وہ غلط ہے.مگر ہم جتنا بھی غور کرتے ہیں یہ اعتراض غلط معلوم نہیں ہوتا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رسول کریم حضرت ابراہیم علیہ السلام سے افضل ہیں اور اللہ تعالی نے کھلے لفظوں میں سب انبیاء سے افضل آپ کو بتایا ہے کیونکہ اکمل اور اتم دین آپ کو ہی دیا گیا.اور ممکن نہیں کہ بڑا کام چھوٹے کے سپرد کیا جائے اور چھوٹا کام بڑے آدمی کے.بڑا کام بڑے کو ہی دیا جاتا ہے اور چھوٹا چھوٹے کو.کبھی کوئی عظمند یہ نہ کرے گا کہ گھسیارے کا کام تو ایک تعلیم یافتہ آدمی کے سپرد کر
سال ۶۱۹۲۸ دے اور دفتر کا کام گھسیارے کے سپرد- کوئی بادشاہ یہ نہیں کرے گا کہ وزیر کا کام ایک معمولی آدمی کے سپرد کر دے اور وزیر کو کسی ادنی سے کام پر لگا رے حتی کہ وہ یہ بھی نہ کرے گا کہ وزیر اعظم بننے کے لائق انسان کو وزیر بنا لے اور وزیر کو وزیر اعظم بنا دے جب کوئی انسان اس طرح نہیں کر سکتا تو اللہ تعالٰی سے کس طرح ممکن ہے کہ جو نبی خاتم النبیین ہونے کی قابلیت رکھتا تھا اسے نبی بنادے اور جو نبی ہونے کی قابلیت رکھتا تھا اسے خاتم النبین کا درجہ دے دے.اگر یہ مانا جاتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کا کام سب انبیاء سے بڑا تھا، آپ کو کامل شریعت دی گئی، آپ کو وہ مقام شفاعت عطا ہوا جو کسی اور نبی کو نہیں دیا گیا تو پھر یہ سمجھنا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام یا کسی اور نبی کو آپ پر فضیلت حاصل تھی یہ رسول کریم ﷺ پر ہی اعتراض نہیں بلکہ خدا تعالٰی پر اعتراض ہے کہ اس نے رسول کریم ﷺ کو کام تو سب انبیاء سے بڑھ کر سپرد کیا مگر سب سے بڑا درجہ نہ دیا.پس میں یہ مانتا ہوں کہ اعتراض غلط نہیں ہے.مگر اس صورت میں ہمارے لئے یہی پہلو رہ جاتا ہے کہ جو معنی سمجھے جاتے ہیں وہ غلط ہیں اور اصل معنی و مفہوم کچھ اور ہے اس کے لئے ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ اعتراض کسی لحاظ سے پڑتا ہے.اعتراض پڑنے کی وجہ یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ اور حضرت ابراہیم کی ذاتی فضیلت کا مقابلہ کیا جاتا ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کی ذات چونکہ اعلیٰ ہے اس لئے درود میں یہ دعا کرنے سے کہ آپ کی ذات کو وہ کچھ دیا جائے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیا گیا اس سے آپ کی ہنگ ہے.مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ذاتی فضیلت کے علاوہ اور بھی کئی باتیں ہوا کرتی ہیں جو درجہ کی بلندی کا ثبوت ہوتی ہیں اور جب کہ ذاتی فضیلت کے لحاظ سے اعتراض پڑتا ہے اور ادھر قرآن کریم میں درود پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے اور رسول کریم ﷺ نے درود پڑھنے کا طریق بھی بتایا ہے تو پھر دیکھنا یہ چاہئے کہ کس طرح اور کسی لحاظ سے رسول کریم ﷺ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے اور درود پر اعتراض نہیں پڑتا.قرآن کریم کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق و قسم کی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں.ایک تو ذاتی ہیں مثلا یہ کہ ابراہیم علیم ہے ، اواب ہے صدیق ہے، خدا کا مقرب ہے ان فضیلتوں کے لحاظ سے لاز مامانا پڑے گا کہ رسول کریم رو
خطبات محمود ۲۷۷ سال ۱۹۲۸ء حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بڑھ کر تھے ورنہ آپ خاتم النبین اور سید ولد آدم نہیں ہو سکتے.مگر ایک چیز حضرت ابراہیم میں ایسی پائی جاتی ہے جو ان کی ذاتی خوبی نہیں بلکہ ان کی قوم کی فضیلت ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَةُا کہ ہم نے ابراہیم کو ہی نبوت نہیں دی تھی بلکہ اس کی ذریت کو بھی بڑا درجہ دیا تھا اس میں نبوت رکھ دی تھی.یہ وہ فضیلت ہے جو حضرت ابراہیم کی نسل کو خاص طور پر حاصل ہوئی کہ اس میں نبوت رکھی گئی اس کے ساتھ ہی ہم ایک اور بات دیکھتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا تعالٰی سے دعا مانگی ہے کہ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةٌ مُسْلِمَةٌ لَكَ (البقره : ۱۲۹) کہ میرے اور اسمعیل کی اولاد سے امت مسلمہ پیدا کر دے.اب دیکھو حضرت ابراہیم تو یہ دعا مانگتے ہیں کہ ان کو امت مسلمہ ملے مگر خدا تعالٰی اس دعا کو اس رنگ میں قبول کرتا ہے کہ ہم نبیوں کی جماعت پیدا کریں گے.گویا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا تعالٰی سے جو مانگا اس سے بڑھ کر خدا تعالٰی نے دیا.اس سے کیا معلوم ہوتا ہے یہ کہ خدا تعالی کا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے یہ سلوک تھا کہ آپ نے جو مانگا خدا تعالٰی نے اس سے بڑھ کر دیا.سوائے اس کے جو اس کی سنت اور قضاء کے مقابلہ میں آکر ٹکرانے والا تھا ایسے موقع پر بے شک انکار کر دیا.ورنہ ان سے یہ معاملہ ہوا کہ انہوں نے مانگے مسلم اور خدا تعالٰی نے دیتے نہیں.اب یہی بات رسول کریم ﷺ کے متعلق سمجھو اور درود کے یہ معنی کرد کہ خدایا جو معاملہ تو نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کیا وہی محمد ﷺ سے کرنا.یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو مانگا اس سے بڑھ کر ان کو دیا اسی طرح محمد رسول اللہ ﷺ نے جو مانگا اس سے بڑھ کر دیتا.اب درجہ کے لحاظ سے فرق یہ ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے عرفان کے مطابق اللہ تعالی سے دعائیں کیں اور رسول کریم ﷺ نے اپنے عرفان کے مطابق کیونکہ جتنی جتنی معرفت ہوتی ہے اس کے مطابق مطالبہ کیا جاتا ہے.ایک چھوٹا بچہ " چیجی " مانگتا ہے لیکن جب ذرا بڑا ہوتا ہے تو مٹھائی مانگنے لگتا ہے.جب جوان ہونے پر آتا ہے تو اچھے کپڑے طلب کرتا ہے جوان ہو کر یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ماں باپ اس کی کسی اچھی جگہ شادی کریں.پھر یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اسے جائداد کا حصہ دے دیا جائے.غرض جوں جوں عرفان پڑھتا ہے مطالبہ بھی بڑھتا جاتا ہے.اسی طرح جتنا کسی کا خدا تعالیٰ کے متعلق عرفان ہوتا ہے اس کے مطابق وہ دعا کرتا ہے.جب رسول کریم ﷺ عرفان میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بڑھے ہوئے تھے تو یقینی بات
خطبات محمود سال ۱۹۲۸ء ہے کہ آپ کی دعا ئیں بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاؤں سے بڑھی ہوئی ہونگی اور درود میں جو دعا مانگی جاتی ہے اس کا صحیح مطلب یہ ہوا.الہی حضرت ابراہیم نے آپ سے جو مانگا انہیں آپ نے اس سے بڑھ کر دیا اب محمد ﷺ نے جو مانگا انہیں بھی مانگنے سے بڑھ کر عطا کیجئے.دوسرے لفظوں میں اس کے یہ معنی ہوئے کہ جو کچھ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ملا محمد اے کو اس سے بڑھ کر دیا جائے.اور وہ چیز جس کے لئے حضرت ابراہیم سے بڑھ کر رسول کریم کو دینے کی دعا کی گئی ہے یہی ہے کہ حضرت ابراہیم نے امت مسلمہ مانگی ان کی نسل میں نبوت قائم کر دی گئی.رسول کریم ﷺ نے اپنی امت کے لئے ان سے بڑھ کر دعا کی اس لئے آپ کی امت کو ان کی امت سے بڑھ کر نعمت دی جائے.اس نکتہ کو مد نظر رکھتے ہوئے درود کو دیکھو تو معلوم ہو سکتا ہے کہ کتنے عظیم الشان مدارج کے حصول کے لئے اس میں دعا سکھائی گئی ہے.اور جب ہم درود پڑھتے ہیں تو رسول کریم پر احسان نہیں کر رہے ہوتے بلکہ اپنے لئے دعا کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ اس میں رسول کریم ﷺ کی امت کی ترقی کی دعا ہے.اور اتنی جامع دعا ہے کہ اس سے بڑھ کر خیال میں بھی نہیں آسکتی.اس میں یہ سکھایا گیا کہ وہ رحمتیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ نازل ہو ئیں ان سے بڑھ کر رسول کریم ﷺ کے ذریعہ نازل کی جائیں.یعنی جس طرح ان کو مانگنے سے بڑھ کر دیا گیا.اسی طرح رسول کریم ﷺ نے جو کچھ مانگا اس سے بڑھ کر دیا جائے.چونکہ وسعت فیض کے لحاظ سے رسول کریم ﷺ کی دعا ئیں بڑھی ہوئی تھیں اس لئے ان سے بڑھ کر دینے کا یہ مطلب ہوا کہ آپ کی شان سب سے بڑھی ہوئی تھی.دیکھو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواہش کی کہ ایک بچہ ملے جو نسل چلائے مگر خدا تعالٰی نے اس کے مقابلہ میں فرمایا میں تیری نسل کو اتنا بڑھاؤں گا کہ جس طرح آسمان کے ستارے گنے نہیں جاتے اسی طرح وہ بھی گئی نہ جائے گی.چنانچہ ایسا ہی ہوا رسول کریم ﷺ نے ایک بچہ نہ مانگا یہ فرمایا اِنّى مُكَاثِرُ بِكُمُ الاُمَم کہ میں اپنی امت کی کثرت پر فخر کرونگا اس وجہ سے خدا تعالٰی نے آپ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بھی زیادہ است دی- پس درود کی دعا کا یہ مطلب ہے کہ جس طرح حضرت ابراہیم کی دعائیں ان کی امت کے متعلق اس سے بڑھ کر قبول ہو ئیں جس قدر کہ کی گئی تھیں اسی طرح امت محمدیہ کو کیفیت اور کمیت کے لحاظ سے ان دعاؤں سے بڑھ کر دیا جائے جو رسول کریم ﷺ نے کی ہیں.
خطبات محمود ۲۷۹ سال ۱۹۲۸ء اب یہ سوال ہو سکتا ہے کہ اس کے لئے درود کیوں رکھا مسلمان یہ دعائیں کر سکتے تھے کہ جو کچھ پہلی امتوں کو ملا اس سے بڑھ کر انہیں دیا جائے.میرے نزدیک درود کے ذریعہ دعا سکھانے میں بہت بڑی حکمت ہے اور وہ یہ کہ مسلمانوں کو یہ دھوکا لگنے والا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی امت کو جو کچھ ملا وہ محمد ﷺ کی ذریت کو نہیں مل سکتا.حضرت ابراہیم کے متعلق تو خدا تعالٰی نے فرمایا تھا کہ ہم تمہاری ذریت میں نبوت رکھتے ہیں مگر مسلمانوں نے یہ دھوکا کھانا تھا کہ امت محمدیہ اس نعمت سے محروم کر دی گئی ہے اور اس طرح رسول کریم کی ہتک ہوتی تھی اس لئے یہ دعا سکھائی گئی کہ جو کچھ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی امت کو ملا اس سے بڑھ کر رسول کریم ﷺ کی امت کو ملے اور اس میں نبوت بھی آگئی ہیں جب کوئی مسلمان درود کی دعا پڑھتا ہے تو گویا یہ کہتا ہے کہ وَ جَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النَّبوة كا جو وعده حضرت ابراہیم علیہ السلام سے تھا وہ محمد ﷺ کی امت میں بھی پورا ہو.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی چونکہ جسمانی ذریت بھی تھی اور رسول کریم ﷺ کا کوئی جسمانی بیٹا نہ تھا اس لئے خیال کیا جا سکتا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے جو وعدہ کیا گیا وہ یہاں پورا نہ ہو گا اس خیال کو دور کرنے کے لئے درود کے ذریعہ یہ بتایا گیا کہ اے مسلمانو ! تم ہی محمد ﷺ کی ذریت ہو تمہیں یہ انعام دیا جا سکتا ہے.پس درود میں یہ دعا کی جاتی ہے کہ جو کچھ حضرت ابراہیم کی امت کو دیا گیا اس سے بڑھ کر ہمیں دے.اور یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کی امت میں جو نبی آئے وہ ابراہیمی سلسلہ کے نبیوں سے بڑھ کر ہو.ہاں ان میں یہ بھی فرق ہو گا کہ رسول کریم ﷺ کی روحانی ذریت میں نبوت رکھی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جسمانی ذریت میں.اس میں بھی رسول کریم ﷺ کا کمال ظاہر ہوتا ہے کیونکہ خدا تعالٰی نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ اگر مؤمن سے کسی کو جسمانی رشتہ ہو تو اس کا بھی لحاظ رکھا جاتا ہے اس وجہ سے حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی نسل کو جو نبوت ملی اس میں جسمانی رشتہ کا بھی لحاظ رکھا گیا تھا مگر رسول کریم کی امت پر جو فیض ہوا وہ صرف روحانی تعلق کی وجہ سے اور روحانیت میں کمال حاصل کرنے کے باعث ہوا.پس درود مسلمانوں کو یہ بتانے کے لئے ہے کہ تمہارے اندران فیوض سے بڑھ کر جو حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی امت پر جاری ہوئے جاری رہیں گے.اور یہ دعا مسلمانوں
خطبات محمود ۲۸۰ سال ۱۹۲۸ء کی حوصلہ افزائی کے لئے تھی کہ تمہیں وہ کچھ ملنا ہے جو مانگنے سے بڑھ کر ہو گا کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق ایسا ہی ہوا.رسول کریم ﷺ سے بڑھ کر عرفان کس کو ہو سکتا ہے.اور آپ نے اپنی امت کے لئے کیا کیا دعا ئیں نہ کی ہوں گی.مگر باوجود اس کے خدا تعالٰی آپ کی امت سے یہ دعا کراتا ہے کہ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کو ان کے مانگنے سے بڑھ کر دیا اسی طرح رسول کریم ﷺ نے جو دعائیں کیں ان سے بڑھ کر دیا جائے.یہ کیسی جامع دعا ہے.اس سے بڑھ کر کوئی کیا مانگ سکتا ہے.یہی وجہ ہے کہ صوفیا کہتے چلے آئے ہیں کہ روحانی ترقی کا گر درود ہے.یہ سن کر نادان کہتے ہیں کہ محمد ﷺ کے لئے رحمت اور برکت درود میں مانگی جاتی ہے اپنے لئے اس میں کیا ہے کہ اس کے ذریعہ روحانی ترقی ہو سکتی ہے.مگر د رود در اصل اپنے ہی لئے دعا ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے نسبت دے کر اس دعا کی وسعت اور جامعیت کو اور زیادہ بڑھا دیا گیا ہے.پس درود بہترین دعا ہے اور اس پر جتنا زور دیا جائے اتنا ہی تھوڑا ہے.میں سمجھتا ہوں اس نکتہ کو یاد رکھ کر اگر کوئی درود پڑھے گا تو اسے دعاؤں میں خاص لطف اور مزا آئے گا کیونکہ اب پڑھنے والے کے لئے اس کے الفاظ کوئی چیستاں اور معمہ نہیں بلکہ خدا تعالٰی تک پہنچانے کے لئے کھلا ہوا راستہ ہے.غورو فکر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ خدا اور رسول کی طرف سے جتنی باتیں سکھائی گئی ہیں ان میں بڑی حکمتیں ہیں.انسان اپنی نادانی سے انہیں قابل اعتراض سمجھتا ہے مگر وہ بڑی بڑی برکتیں اپنے اندر رکھتی ہیں.له العنكبوت : ۲۸ له مسند احمد بن مقبل " جلد ۳ ۳۵۲۵ الفضل ۱۰-۱۳ / جنوری ۱۹۲۸ء)
خطبات محمود ۲۸۱ ۳۷ سال ۱۹۲۸ء امراء و پریذیڈنٹوں کے فرائض فرموده ۱۳ جنوری ۱۹۲۸ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں نے اس جلسہ سالانہ کی تقریروں میں جماعتوں کے امراء پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ وہ جماعت کی ہر پہلو سے نگہداشت کرنے پر زیادہ توجہ دیا کریں اور جماعت کی حالت کی اصلاح کریں اور در حقیقت ایک مقامی امیر کی ضرورت اور حقیقی ضرورت یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنی مقامی جماعت کی تربیت کا خیال رکھے.علاوہ اس کے ہماری جماعت کے قیام کی غرض چونکہ تعلق باللہ اور شفقت علی خلق اللہ کا زریں اصل جس مذہب نے قائم کیا ہے اسے دنیا میں پھیلانا ہے اس لئے بھی ہماری جماعت کے افراد کی دوسروں کی نسبت تربیت زیادہ ضروری ہے.اور ہمیں اس کی طرف خاص توجہ دینے کی دو وجہ سے ضرورت ہے.اول تو اس لئے کہ یہ ہمارا فرض ہے اور ہمیں اس کو پورا کرنا چاہئے دوسرے اس لئے بھی کہ ہمارے لئے اس کے راستہ میں زیادہ مشکلات ہیں.دوسری اقوام کو تربیت کے لئے جتھے اور اپنی تعداد کا جو فائدہ حاصل ہے وہ ہماری جماعت کو نہیں.وہ لوگ سینکڑوں ہزاروں سال سے ایک رسلک میں منسلک چلے آرہے ہیں اور ان کے ہم قوم ان کی آواز کو حقارت سے نہیں دیکھ سکتے.ایک ہندو کے لئے یہ نہایت ہی مشکل ہے کہ وہ ہندو رہ کر ہندو تمدن اور ہندو رسوم کا مقابلہ کرے.یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ تبدیل مذہب کرلے لیکن ہندو رہ کر اگر وہ ہندو تمدن کی مخالفت کرے تو وہ ہندوؤں میں نہیں رہ سکتا.اسی طرح ایک مسلمان کے لئے بہت مشکل ہے کہ وہ مسلمان بھی رہے اور اپنی قوم کی آواز پر کان نہ دھرے.گو مسلمانوں میں بد قسمتی سے قومیت کا مادہ بہت کم ہے جس کی وجہ سے قومی آواز کو ٹھکرانے والے زیادہ
خطبات محمود ۳۸۲ سال ۱۹۲۸ء پائے جاتے ہیں.میں اس وقت وہ وجوہ بیان کرنے کے لئے کھڑا نہیں ہوا جن کی وجہ سے مسلمانوں کی یہ حالت ہے مگر اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں میں ایسے لوگ بہت زیادہ ہیں.پھر ایک عیسائی کے لئے عیسائی برادری کے خلاف چلنا آسان نہیں.غرض ان قوموں میں رشتہ داریوں اور تعلقات کا جال اس طرح پھیلا ہوا ہے کہ کسی کے لئے اس سے نکلنا نہایت ہی مشکل ہوتا ہے.مگر ہمارے معاملہ میں یہ حالت نہیں.ہماری جماعت بالکل نئی جماعت ہے.تعداد ابھی تھوڑی ہے اور پھر یہ کوئی نیا مذ ہب بھی نہیں اسلام کو ہی از سرنو قائم کرنے کا نام احمدیت ہے.اس وجہ سے اس کی ظاہری عبادات میں اور دوسرے فرقوں کی ظاہری عبادات میں کوئی فرق نہیں نظر آتا.دوسروں کی طرح ہی احمدی نماز پڑھتا ہے، روزہ رکھتا ہے، حج کرتا ہے ، زکوۃ دیتا ہے.اور اگر کوئی فرق ہے تو ایسا ہی ہے جیسا کہ مسلمانوں میں عام طور پر پایا جاتا ہے اس لئے احمدی کے لئے دوسروں کے ساتھ میل جول میں کوئی دقت نہیں پیش آتی.اول تو کسی بڑے شہر میں ۳۰ یا ۴۰ آدمیوں کی ایک جماعت کی ہستی ہی کیا ہے.لیکن اگر کوئی قومی معاملات میں بغاوت کرے.اور کسے میں تمہارے ساتھ تعلق نہیں رکھتا تو اس کو ڈر کیا ہے.اگر کوئی احمدی کسی سے بد معاملگی کرتا ہے جماعت اس کو روکتی ہے اور کہتی ہے وہ ایسا نہ کرے تو وہ انکار کر دیتا ہے اور کہتا ہے میں تم سے تعلق نہیں رکھتا تو جماعت اس کا کیا بگاڑ سکتی ہے.اس کے لین دین کے تعلقات، رشتہ داریاں دوسروں سے ہوتی ہیں اس لئے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچتا.پس ہمارے لئے بہت سی مشکلات ہیں کیونکہ جو کام دوسرے لوگ محض قومی دباؤ سے لے لیتے ہیں.اس کے لئے ہمیں قومی دباؤ کے علاوہ تدبر نرمی اور کئی دوسرے ذرائع سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے اور کئی راہیں اختیار کرنی پڑتی ہیں.پس ہمارے امیروں وغیرہ کو یہ خیال بھی ہونا چاہئے کہ ہمارا کام دوسروں کی نسبت بہت مشکل ہے اس لئے ہمیں بیداری کی بھی زیادہ ضرورت ہے مگر دیکھا یہ جاتا ہے کہ ہماری جماعتوں کے امراء اور پریذیڈنٹ ابھی تک اس کی طرف متوجہ نہیں ہوئے.وہ صرف اتنا فرض سمجھتے ہیں کہ کسی میٹنگ میں آکر رائے دے دی.جماعت کی اصلاح ، لڑائی جھگڑا فتنہ فساد کا انسداد ، جماعت کے اخلاق کی نگرانی ، جماعت کے بچوں کی تربیت کا خیال رکھنا اپنا فرض نہیں سمجھتے.اس کے لئے کہتے ہیں قادیان سے واعظ آنے چاہئیں.مگر وہ یہ نہیں سمجھتے کہ واعظ کا کام تو حق بتانا ہوتا ہے آگے کوئی حق ادا کرتا ہے یا نہیں یہ دیکھنا امیر کا کام ہے.واعظ کی حیثیت ایسی ہوتی ہے جیسے قانون بیان کرنے والے کی.ایک
خطبات محمود ۲۸۳ سال ۶۱۹۲۸ وکیل قانون بتاتا ہے مگر اس پر عمل کرانا پولیس کا کام ہے.واعظ کا کام تو اتنا بتانا ہے کہ اسلام نے حقوق رکھے ہیں آگے سیکرٹریوں، پریذیڈنٹوں اور امیروں کا کام ہے کہ وہ دیکھیں ان حقوق اور فرائض کے مطابق لوگ زندگی بسر کرتے ہیں یا نہیں.پس اصل نقص یہی ہے کہ امیروں پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں نے ابھی تک اپنی ذمہ داریوں کو سمجھا نہیں.حالانکہ سب سے پہلا فرض ان کا یہ ہے کہ دیکھتے رہیں لوگ حقوق العباد ادا کرتے ہیں یا نہیں.جس طرح وہ مالی حالت کے متعلق دیکھتے ہیں کہ لوگ چندے باقاعدہ ادا کرتے ہیں یا نہیں اسی طرح انہیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ دوسرے مذہبی فرائض بھی ادا کرتے ہیں یا نہیں.جس طرح وہ یہ دیکھتے ہیں کہ لوگ سلسلہ کی محبت میں ترقی کر رہے ہیں یا نہیں اسی طرح انہیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ لوگ اولاد کی نگہداشت کرتے ہیں یا نہیں ، نماز باجماعت ادا کرتے ہیں یا نہیں، معاملات میں صفائی رکھتے ہیں یا نہیں، وعدہ خلافی اور بد معاملگی تو نہیں کرتے.کسی کا روپیہ تو نہیں کھا جاتے کیونکہ ، تک تمام پہلوؤں کے لحاظ سے جماعت ممتاز نہ ہو جائے اور ہر رنگ میں جماعت تکمیل کو نہ پہنچ جائے اس وقت تک ایک قومی کیریکٹر اور ایسا کیریکٹر قائم نہیں ہو سکتا جس کو دیکھ کر لوگ محسوس کریں کہ یہ فلاں قوم ہے.اور جب تک ایسا ممتاز کیریکٹر نہ قائم ہو جائے اس وقت تک عمل سے لوگوں کو ہم اپنی طرف نہیں کھینچ سکتے.صرف زبان سے کھینچ سکتے ہیں مگر زبان کا کھینچا ہوا کبھی مفید نہیں ہو سکتا کیونکہ دلیل سے عقل کو تسلی دی جاسکتی ہے نفس کو تسلی نہیں دی جا سکتی نفس مشاہدہ چاہتا ہے.کسی کو دلیل سے یہ تو بتا سکتے ہیں کہ جھوٹ برا ہے مگر اس سے وہ جھوٹ کو چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہو جائیگا.بہت سے لوگ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ جھوٹ برا ہے مگر باوجود اس کے جھوٹ بولتے ہیں.اسی طرح چوری ہے اس کے متعلق دلائل سے یہ تو منوا سکتے ہیں کہ چوری برا فعل ہے مگر اس طرح چوری کرنا چھڑا نہیں سکتے.کئی لوگ چوری کو برا سمجھتے ہیں مگر اس کے ارتکاب سے باز نہیں رہتے.اس قسم کی باتیں جس طرح چھڑائی جاسکتی ہیں وہ عملی پہلو ہے اگر ہم عملی طور پر ایسے لوگوں کی مدد کریں اور انہیں بتائیں کہ کس طرح ایسی باتوں کو چھوڑا جا سکتا ہے تب وہ چھوڑیں گے.اس کا بہترین طریق یہی ہے کہ امراء اور پریزیڈنٹ اپنی اپنی جماعتوں میں قرآن کریم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں کا درس دیں.یہ محض وعظ نہیں ہو گا کیونکہ یہ اپنے اندر مشاہدہ رکھتا ہے.قرآن کریم وعظ نہیں بلکہ وہ مشاہدات پر حاوی ہے اسی طرح
خطبات محمود ۲۸۴ سال ۶۱۹۲۸ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب مشاہدات پر مبنی اور مشاہدات پر حاوی ہیں.ایک عام واعظ تو یہ کہتا ہے کہ قرآن کریم میں اور حادیث میں یہ لکھا ہے مگر خدا تعالٰی کے انبیاء یہ نہیں کہتے کہ فلاں جگہ یہ لکھا ہے بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے دل پر یہ لکھا ہے.ہماری زبان پر یہ لکھا ہے.ان کا وعظ ان کی سوانح عمری ہوتا ہے اس لئے ان کی کتب پڑھنے سے واعظ والا اثر انسان پر نہیں پڑتا بلکہ مشاہدہ والا اثر پڑتا ہے.جس طرح دعا نماز کا مغز ہے اسی طرح انبیاء کی کتب میں نصیحت کا مغز ہوتا ہے جو خدا تعالی اور اس کے انبیاء کے کلام میں پایا جاتا ہے.جلسہ کے موقع پر میں نے بیرونی جماعتوں کے امراء اور پریذیڈنٹوں سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ جنوری کے اندر اندر قرآن کریم کا درس اپنے ہاں دینے کا انتظام کر کے مجھے اطلاع دیں مگر اس وقت تک صرف تین چار جگہ سے اطلاع آئی ہے حالانکہ انجمنوں کی تعداد تین چار سو کے درمیان ہے.اور جہاں ابھی تک باقاعدہ انجمنیں نہیں وہاں بھی جماعت کی تربیت اور اس کی اصلاح کے لئے انجمنیں بنانی چاہئیں.اس وقت کئی انجمنیں مالی لحاظ سے بنائی گئی ہیں جن میں دس ہیں گاؤں شامل ہوتے ہیں.بے شک مالی لحاظ سے یہ انجمن رہے لیکن جماعت کی تربیت کے لحاظ سے ہر گاؤں کی الگ انجمن ہونی چاہئے کیونکہ درس کے لئے کئی گاؤں کے لوگ روزانہ ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے اور نہ دوسرے اصلاحی امور کے متعلق حکمرانی ہو سکتی ہے.پس ہر گاؤں میں جہاں احمدی ہوں انجمن ہونی چاہیئے میرے خیال میں سو (۱۰۰) کے قریب ایسی انجمنیں ہیں جو کئی کئی گاؤں پر مشتمل ہیں ان کو تربیت کے لحاظ سے اپنا نیا انتظام قائم کرنا چاہئے اور ہر جگہ اپنی انجمن بنائی جائے.اس انجمن کو مالی معاملات سے تعلق نہ ہو.مالی صورت پہلے کی طرح ہی رہے مگر درس وتدریس اور جماعت کی تربیت کے لئے ہر جگہ کا اپنا علیحدہ انتظام ہو کیونکہ یہ کام کئی گاؤں کا اکٹھا نہیں ہو سکتا.جہاں دو آدمی بھی احمدی ہوں وہاں تربیت کے متعلق انتظام کی ضرورت ہے.اگر جمعہ دو آدمیوں کا ہو سکتا ہے اور ہمارا یہی مذہب ہے کہ ہو سکتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ قرآن کریم کا درس اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا درس نہ ہو سکے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے جہاں دو یا دو سے زیادہ مسلمان ہوں وہ جماعت ہیں.اور جہاں دو مسلمان ہوں وہاں جمعہ کی نماز ہو سکتی ہے.پس جہاں دو احمدی ہوں وہاں ان کی انجمن بھی ضرور ہونی چاہئے جو اصلاحی کام کرے روزانہ نماز اور جمعہ کی نماز میں یہی فرق ہے کہ جو لوگ فاصلہ پر رہنے کی وجہ سے روزانہ نمازوں میں شامل نہ ہو سکیں وہ جمعہ کے
خطبات محمود ۲۸۵ سال ۱۹۲۸ء دن مل کر نماز پڑھ سکتے ہیں اور ہفتہ میں کم از کم ایک دفعہ اکٹھے ہو کر اور آپس میں مل کر پاکیزگی حاصل کر سکتے ہیں.یہی حال درس کا ہے اگر روزانہ اس کے لئے لوگ جمع نہ ہو سکیں تو ہفتہ میں ایک بار ہی جمع ہو جایا کریں اور ایک بار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کے درس کے لئے اکٹھے ہو جایا کریں اس طرح ہفتہ میں دو بار جمع ہو سکیں گے.پس میں ہر جگہ کے سیکرٹریوں، امیروں اور پریذیڈنٹوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جنوری میں ہی مجھے اطلاع دیں کہ انہوں نے قرآن کریم کے درس اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے درس کے لئے کیا انتظام کیا ہے.چاہئیے کہ جہاں جہاں امیر مقرر ہوں وہ خود درس دیں اور اگر کوئی نہ دے سکے تو مجھ سے اجازت لے کر کسی اور کو مقرر کیا جائے تا ایسا نہ ہو کہ امراء سستی اور غفلت سے کام لے کر اپنا کام دوسروں پر ڈال دیں.ہر شخص کو اپنا فرض آپ ادا کرنا چاہئے.مجبوری کی حالت جدا ہوتی ہے مگر خود مجبوری بنالینا درست نہیں ہے.پس امراء اور پریذیڈ نٹوں کو چاہئے کہ وہ جلد سے جلد اس بارے میں مجھے اطلاع دیں کہ انہوں نے کام شروع کر دیا ہے یا نہیں اور اگر خود یہ کام نہیں کر سکتے تو لکھیں کہ ان وجوہات سے وہ یہ کام نہیں کر سکتے.اس کے بعد اگر میں مناسب سمجھوں گا تو کوئی دوسرا آدمی درس دینے کے لئے مقرر کر دوں گا.یہاں قادیان میں درس اور خطبہ جمعہ تو ہوتا ہے مگر میرے خیال میں ایک نقص ہے اور وہ یہ کہ یہاں محلہ وار کمیٹیاں نہیں ہیں.یہاں لوکل انجمن قائم ہے مگروہ نام کی ہی انجمن ہے کبھی کبھی ہوتی ہے.حالانکہ یہاں ایسی انجمن کی بہت زیادہ ضرورت ہے کیونکہ دوسری جگہوں کی نسبت یہاں زیادہ لوگ جمع ہیں.پھر باہر کی نسبت یہاں بہت امن ہے اور امن میں شرارت اور فتنہ پیدا ہوتا ہے.یہاں ہر محلہ میں انجمن بنی چاہئے جس کا فرض ہو کہ اپنے محلہ کے لوگوں کی تربیت کرے.جو لوگ معاملات میں خرابی پیدا کریں ان کی اصلاح کرے.جو نمازوں اور دوسرے دینی کاموں میں سستی کریں ان کی نگرانی کرے.اب یہاں با قاعدہ محلے بن گئے ہیں.کمیٹی کے لحاظ سے جو میونسپل ایریا مقرر کیا گیا ہے اس کو محلہ سمجھ کر اس میں علیحدہ انجمن بنائی جائے جس کا ایک امیر ہو اور دو تین اس کے ساتھ سیکرٹری ہوں جو مختلف معاملات کی نگرانی کریں.اگر یہاں درس سننے اور جمعہ پڑھنے کا موقع مل جاتا ہے تو اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے.کئی اور لوگ بھی درس دیتے ہیں.حافظ روشن علی صاحب قرآن اور حدیث پڑھاتے ہیں ان سے
خطبات محمود سال ۱۹۲۸ء فائدہ اٹھانا چاہئے.پس ہر محلہ میں امیر مقرر ہونے چاہئیں.ان محلوں کے لوگ مشورہ کر کے مجھ سے اجازت لیں اور امیر کے ساتھ دو چار اور آدمی مقرر کریں جو محلہ کے معاملات اولاد کی تربیت اور دوسرے کاموں کی نگرانی کریں.یہاں چونکہ احمدی جماعت کے طور پر رہتے ہیں اس لئے آپس میں تمدنی اور معاشرتی دباؤ بھی رکھتے ہیں اس لئے معاملات کی اصلاح کرنے میں ایک حد تک آسانی بھی ہے.میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ بہت سی جماعتیں ابھی ایسی ہیں جنہوں نے تعلیم و تربیت اور تبلیغ کے سیکرٹری مقرر نہیں گئے.چونکہ اس سے بہت نقصان پہنچ رہا ہے اس لئے میں اعلان کرتا ہوں کہ تین ماہ کے اندر اندر اگر تمام جماعتیں اپنے تبلیغ اور تعلیم و تربیت کے سیکرٹری مقرر کر کے متعلقہ دفتر میں اطلاع نہ بھیجیں گی تو پھر ان کے عہدیدار یہاں سے مقرر کئے جائیں گے اور ان کا حق انتخاب چھین لیا جائے گا.آج کل ہندو مسلمان گو ر نمنٹ سے لڑتے ہیں کہ وہ انہیں انتخاب کا حق نہیں دیتی مگر ہم اپنی جماعت کے لوگوں کو انتخاب کا حق دیتے ہیں اور وہ اسے استعمال نہیں کرتے.پس جو انجمن اب بھی توجہ نہ کرے گی اس کے لئے یہاں سے آدمی مقرر کئے جائیں گے اور انتخاب کا حق چھین لیا جائے گا.کسی کام پر کسی آدمی کو مقرر کرنے سے بہت فائدہ ہوتا ہے.اسے مقرر ہونے پر شرم ہی آجاتی ہے اس لئے وہ کہتا ہے کچھ تو کام دکھاؤ، اور اگر سارا سال وہ کوئی کام نہ کرے تو مجلس شوری سے ایک مہینہ قبل تو ضرور کام کرتا ہے تاکہ مجلس میں کچھ کام پیش کر سکے.اب دیکھو بارہ مہینے بالکل کام نہ کرنا اچھا ہے یا ایک مہینہ کام کرنا اور گیارہ مہینے نہ کرنا اچھا ہے پھر مجلس شورٹی سے واپس جانے کے بعد ایک مہینہ تک کام کیا جاتا ہے کیونکہ تازہ تازہ جوش ہوتا ہے.اسی طرح جلسہ سالانہ سے ایک مہینہ قبل اور ایک مہینہ بعد بھی وہ لوگ کام کرتے ہیں جو عام طور پر ستی دکھاتے ہیں.اگر ایسے لوگوں کی تربیت ہوتی رہے تو وہ زیادہ کام کرنے لگ جائیں گے.پس ہر جماعت میں کام کرنے کے ذمہ دار لوگ ہونے چاہئیں.اس کے لئے میں اعلان کرتا ہوں کہ تین ماہ کے اندر اندر ہر ایک جماعت اپنا تبلیغ اور تعلیم و تربیت کا سیکرٹری مقرر کر کے اطلاع دے ورنہ یہاں سے مقرر کئے جائیں گے اور ان کا انتخاب کا حق چھین لیا جائے گا جس پر شکوہ و شکایت کا انہیں کوئی حق نہ ہو گا.الفضل ۲۰/ جنوری ۱۹۲۸ء)
خطبات محمود PAZ PA سال ۱۹۲۸ء مسنون خطبه جمعه فرموده ۲۰/ جنوری ۱۹۲۸ء) ليْهِ وَنُعُوذُ بِاللهِ تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے درج ذیل مسنون خطبہ جمعہ پڑھا.الْحَمدُ لِلهِ نَحْمَدُ، وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَتُؤْمِنْ بِهِ وَنَ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ عِبَادَ اللهِ رَحِمَكُمُ اللهُ إِنَّ اللهَ يَا NGLAND GOل وَالاِحْسَانِ وَابْتَاء ذى الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ.أَذْكَرُوا الله يَذْكُرُكُمْ وَادْعُوهُ يَسْتَجِبْ لَكُمْ وَلَذِكْرُ الله اكبر اس کے بعد فرمایا جمعہ کی نماز کا وہ خطبہ جو کہ دوسرے حصہ میں پڑھا جاتا ہے وہ بھی در حقیقت ایک حصہ ہی ہے خطبہ جمعہ کا لیکن اب وہ محض رسم کے طور پر استعمال ہوتا ہے.چونکہ وہ عربی میں ہے اور مسلمان عام طور پر عربی سے ناواقف ہو گئے ہیں اس لئے اس کے متعلق یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ٹونے اور جادو کی رسوم میں سے ایک رسم ہے.حالانکہ وہ رسم نہیں ہے بلکہ اپنے اندر بہت بڑی حقیقت رکھتا ہے اور اس کو سنت کے طور پر رسول کریم کا متواتر پڑھنا بتاتا ہے کہ وہ جمعہ کے ساتھ خاص خصوصیت رکھتا ہے ورنہ ہر جمعہ میں اس کو دہرانے کی کیا ضرورت تھی.ایک حصہ خطبہ جمعہ کا تو ایسا ہے جو بدلتا رہتا ہے مگر ایک وہ ہے جو رسول کریم ﷺ کی سنت اور طریق ہے کہ اسے آپ بار بار دہراتے تھے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ضرور اس حصہ خطبہ کا جمعہ کے ساتھ خاص تعلق ہے.اور آج میں اس کی طرف توجہ دلاتا ہوں کیونکہ بوجہ عربی میں اس خطبہ کے ہونے کے شاید بہت سے لوگ اس کے مضامین اور
خطبات محمود ٢٨٨ سال ۱۹۲۸ء مطالب سے غافل ہوں.اس حصہ خطبہ کا خلاصہ مضمون یہ ہے کہ ہم اقرار کرتے ہیں کہ ہم اللہ تعالی کی حمد کرتے ہیں، اس سے مدد مانگتے ہیں، اس سے اپنی غلطیوں پر چشم پوشی کی استدعا کرتے ہیں، اس کے وعدہ اس کی نصرت اس کی مدد اس کی استعانت اور اس کی بخشش پر یقین رکھتے ہیں.اور پھر وہ یقین اتنا ترقی کر جاتا ہے کہ ہم اپنے کاموں کی حقیقت سے بالکل نا واقف ہو جاتے ہیں.یا یہ کہو کہ حقیقی طور پر واقف ہو جاتے ہیں اور پورے طور پر سمجھ لیتے ہیں کہ ہمارے کاموں کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہے.ہماری تمام تدابیر ایک مردہ چیز سے زیادہ نہیں بلکہ مردہ بھی نہ کہو وہ ہماری آزمائش کے لئے ہیں اور بالکل اسی طرح ہوتی ہیں جس طرح بعض سوار خصوصاً کشمیریوں کو میں نے دیکھا ہے کہ گھوڑے کو دوڑاتے ہوئے لاتیں مارتے جاتے ہیں.وہ اس کا نام گھوڑے کے لئے کوڑا قرار دیتے ہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ ان کو عادت ہو گئی ہے.ہمارے ملک میں تو گھوڑے پر پڑھنے والے کسی کسی وقت جب گھوڑاست ہو لاتیں مارتے ہیں مگر کشمیر میں عادت ہو گئی ہے.بچہ باپ کو دیکھتا چلا آ رہا ہے اور اس طرح یہ عادت کی پڑ گئی ہے کہ وہ گھوڑے پر سوار ہو کر بلا ضرورت لاتیں ہلاتے رہتے ہیں.اب اگر کوئی یہ خیال کرے کہ گھوڑا نہیں دوڑتا بلکہ سوار اپنی ٹانگوں کے ذریعے دو ڈا رہا ہے تو یہ اس کی غلطی ہوگی.اسی طرح مؤمن کا ایمان اتنی ترقی کر جاتا ہے کہ وہ سمجھ لیتا ہے میری کوششیں تو ایسی ہیں جیسے ایک کشمیری سوار لاتیں مارتا ہے میرے کاموں میں میری تدابیر کو کوئی دخل نہیں ہے یہ حقیقی تو کل ہے.اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مؤمن کام چھوڑ دیتا ہے بلکہ یہ ہے کہ وہ اپنی طرف سے تو پوری کوشش کرتا ہے مگر اپنی کوششوں کو کامیابی کا ذریعہ نہیں سمجھتا.وہ یقین کرتا ہے کہ مجھے جو تدبیر کے لئے کہا گیا ہے یہ میرا امتحان ہے اور آزمائش ہے تاکہ دیکھا جائے کہ میں تدبیر کے ساتھ حقیقت کو تو نہیں بھول جاتا جیسے بچہ حقیقت کو بھول جاتا ہے.بچہ کو ماں باپ یا کوئی اور رشتہ دار جب گردن پر اٹھا کر کہتے ہیں کہ تو اونچا ہو گیا تو بچہ چونکہ نادان ہوتا ہے اس لئے سمجھنے لگ جاتا ہے کہ فی الواقعہ وہ اونچا ہو گیا ہے.اس کی شکل اس کی بات چیت اور اس کی مسرت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اونچا یقین کر رہا ہے.بعینہ اسی طرح انسان کے اعمال کی حقیقت ہوتی ہے مگر وہ اعمال نہیں جو گرانے والے ہوتے ہیں.دیکھو بچہ کو ماں باپ اونچا تو کرتے ہیں لیکن یہ نہیں کہ اس کا
خطبات محمود ۲۸۹ سال ۱۹۲۸ء قد چھوٹا بھی کر دیں.پس اس مثال سے کوئی یہ نہ سمجھے برے افعال بھی اسی طرح ہوتے ہیں.اعمال بد کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ٹھوکریں کھانا اور ٹھوکریں کھانے کے لئے مدد کی ضرورت نہیں ہوا کرتی ضرورت بلند ہونے کے لئے ہوتی ہے.پس تو کل کا یہ مقام ہے کہ تدابیر کچھ نہیں کر سکتیں جو کچھ کرتا ہے خدا ہی کرتا ہے.اب یہ دیکھنا چاہئے کہ یہ باتیں جو اس خطبہ میں بیان کی گئی ہیں یہ اتحاد جماعت کے ساتھ کس طرح تعلق رکھتی ہیں.جس قدر اعتراض اور جھگڑے کی صورتیں پیدا ہوتی ہیں وہ ایک دوسرے کے ساتھ ملنے اور ایک جگہ جمع ہونے سے پیدا ہوتی ہیں.اگر ایک آدمی الگ کو ٹھڑی میں بیٹھا رہے تو اس نے کس سے لڑتا ہے.ایک دوسرے سے ملنے پر عیب چینی کی جاتی ہے لڑائی جھگڑے پیدا ہوتے ہیں اور جس طرح عیب گیری اور ظلم و فساد ایک دوسرے کے ساتھ ملنے سے پیدا ہوتے ہیں اسی طرح شرک بھی ملنے سے پیدا ہوتا ہے.دو سروں پر اتکال انسان اسی وقت کر سکتا ہے جبکہ دوسرے اس کے سامنے موجود ہوں اگر کوئی پاس ہی نہ ہو تو اتکال کہاں سے پیدا ہو گا.تو ہمیشہ ملاقات کے نتیجہ میں انسان میں شرک بھی پیدا ہوتا ہے اور نَستَعِینہ میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.پھر عیب جوئی کے بعد انسان خود گناہوں میں مبتلاء ہو جاتا ہے اور گناہ بھی اشتراک اور اجتماع میں ہی ہوتا ہے.گناہ کیا ہے؟ یہی کہ کسی کا حق لینا اور کسی کا حق نہ دینا اور یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب دوسرے لوگوں کے ساتھ انسان ملے ان کے اجتماع میں رہے.پھر گناہ کے نتیجہ میں انسان کا تعلق خدا تعالٰی سے ٹوٹتا ہے.جتنا کوئی گناہوں میں مبتلاء ہوتا جاتا ہے اتنا ہی خدا سے دور ہوتا جاتا ہے ایک وقت تو انسان بندوں کی عیب چینی کرتا ہے مگر بعض دفعہ بندوں کو ہی خدا سمجھ کر ان سے ہی مدد مانگنے لگتا ہے اس کا سہارا خدا تعالیٰ پر نہیں رہتا.ان تمام باتوں سے بچنے کے لئے وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ مِیں اشارہ ہے.پھر انسان کے نفس کے اندر ایسا مادہ پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ گناہوں کا ارتکاب کرنے لگ جاتا ہے.پہلے جو کچھ بیان کیا یہ تو افعال ہیں ان کے بعد بدی کی طرف میلان پیدا ہو جاتا ہے.گناہ آپ ہی آپ سرزد ہوتے چلے جاتے ہیں یہ شرور نفس کہلاتا ہے.اللہ تعالٰی نے انسان کے نفس کو پاک بنایا ہے.قرآن کریم میں خدا تعالٰی نے متعدد بار بیان فرمایا ہے کہ ہم نے انسان کے نفس کو پاک بنایا.پس چونکہ انسان کا نفس بالکل پاک ہوتا ہے اس لئے شروع میں بدی اس میں باہر
خطبات محمود ۲۹۰ سال ۱۹۲۸ء ، آتی ہے پھر آہستہ آہستہ بدی کی عادت پڑ جاتی ہے اس کے بعد بدی نفس سے پیدا ہونے لگ جاتی ہے.ان تمام باتوں کا علاج اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے ہی ہو سکتا ہے.اللہ تعالٰی سے جو لوگ تعلق پیدا کر لیتے ہیں انہیں یہ ساری باتیں نظر آنے لگ جاتی ہیں.وہ سمجھتے ہیں الحمد للہ بے عیب ذات خدا تعالی ہی کی ہے جس طرح کسی اور میں عیب ہیں اسی طرح ہم میں بھی ہیں پھر کسی کی عیب چینی کیوں کریں.حضرت مسیح نے کیا سچ فرمایا ہے دوسرے کی آنکھ کا تنکا نظر آجاتا ہے مگر اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا.یہی حال عیب چین کا ہوتا ہے اسے اپنا کوئی عیب نظر نہیں آتا مگر دوسروں کے عیب نظر آتے ہیں.اور نہ صرف عیب نظر آتے بلکہ خواہ مخواہ دوسروں کی طرف عیب منسوب کرنے لگ جاتا ہے اور ہر بات میں عیب نکالتا ہے.کسی کو کچھ کھاتے دیکھا تو کہہ دیا اس نے چوری کی ہوگی.اگر کسی نے غلطی سے کوئی بات کہہ دی تو کہہ دیا اس نے جھوٹ بولا ہے غرض اس میں عیب چینی کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے.اس کے متعلق ہدایت یہ ہے کہ انسان سمجھے بے عیب خدا ہی ہے انسانوں میں کمزوریاں ہوتی ہیں مجھ میں بھی ہیں اس لئے مجھے کسی اور کی عیب چینی نہیں کرنی چاہئے.پھر شرک اس طرح پیدا ہوتا ہے کہ انسان دوسروں پر بھروسہ رکھتا ہے اور ان سے مدد کا طالب ہوتا ہے.اس کے متعلق ہدایت یہ ہے کہ وہ سمجھے خدا ہی مدد دے سکتا ہے اس کے سوا اور کوئی مدد نہیں دے سکتا.نَسْتَعِینہ اس سے ہی مدد مانگتے ہیں.اسی طرح خدا تعالی ہی کی ہدایت سے انسان بخشش پا سکتا ہے ورنہ ایسے ایسے مخفی گڑھے ہوتے ہیں کہ انسان ان میں گر جائے تو کبھی نکل نہ سکے اس لئے فرمایا نَستَغْفِرُۂ خداہی سے بخشش مانگتے ہیں.پھر اللہ ہی کے فضل سے ایمان نصیب ہو سکتا ہے.اگر خدا کی طرف سے وحی نہ آئے تو کیا انسان ہدایت پا سکتا ہے.اس کے متعلق فرمایا.نُؤْمِنُ بِہ ہم خدا پر ایمان لاتے ہیں.پھر تو کل بھی خدا ہی کی طرف حاصل ہوتا ہے.بندہ تو اتنا کمزور ہے کہ وہ اپنا سہارا آپ نہیں لے سکتا.خدا ہی اسے سہارا دیتا ہے تب وہ قائم رہ سکتا ہے اس لئے فرمایا وَنَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ - ہم خدا تعالٰی پر ہی بھروسہ رکھتے ہیں.جن لوگوں کو اتنی باتیں حاصل ہو جاتی ہیں پھر انہیں کوئی گمراہ نہیں کر سکتا.اس کا یہ مطلب میں کہ خدا تعالی انہیں زبردستی ہدایت دیتا ہے بلکہ یہ ہے کہ جن کو یہ پانچوں باتیں یعنی جمد
خطبات محمود سال ۱۹۲۸ء } استعانت استغفار ایمان اور توکل حاصل ہو جاتا ہے ان کو کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جن کو یہ باتیں نصیب نہ ہوں وہ ہدایت نہیں پاسکتے.یہی مطلب ہے.مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْهُ فَلَا هَادِی لَے کا.بات یہ ہے کہ جن کو یہ معلوم نہیں کہ تمام عیبوں سے پاک خدا تعالی ہی کی ذات ہے وہ دوسروں کی عیب چینی سے کس طرح باز رہ سکتے ہیں.یا جن کو یہ معلوم نہ ہو کہ حقیقی مدد خدا تعالی ہی کی طرف سے مل سکتی ہے وہ شرک سے کس طرح بچ سکتے ہیں.یا جن کو اپنے گناہوں کا پتہ نہ ہو وہ استغفار کس طرح کر سکتے ہیں.یا جن کو یہ پتہ نہ ہو کہ ایمان خدا تعالی کی وحی کے ذریعہ لایا جا سکتا ہے وہ کس طرح وحی کی حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں.یا جن کو یہ معلوم نہ ہو کہ تو کل خدا ہی کی ذات پر کیا جا سکتا ہے وہ کس طرح حقیقی تو کل کو سمجھ سکتے ہیں.یہ امور بیان کرنے کے بعد وہ ہدایت جو رسول کریم ﷺ نے اپنے الفاظ میں بیان کی تھی ایک آیت کے ذریعہ اسے بیان کیا ہے.پہلے تو یہ بتایا تھا کہ جب لوگ جمع ہوتے ہیں تو جھگڑے پیدا ہوتے ہیں.پھر بتایا جب یہ پانچ باتیں کسی میں پیدا ہو جا ئیں تو اجتماع میں وہ جھگڑے فساد سے بچ جاتا ہے.اب عملی حالت کے متعلق بتایا ہے کہ انسان کو چاہیے عدل و احسان اور اِیتَانِی ذِی الْغُرُبی کی عادت ڈالے.اور اس کے ساتھ فحشاء منکر اور بغی سے رکے.یعنی ایسی باتیں جو اپنی ذات میں عیب ہوں یا ایسی باتیں جو لوگوں کو بھی عیب نظر آئیں یا ایسی باتیں جن میں لوگوں کے حقوق تلف ہوتے ہوں ان سے رکے.غرض جس انسان کے اندر یہ پانچ ایمانی اور چھے عملی حالتیں پیدا ہو جائیں اس سے پھر کسی قسم کا فساد سرزد نہیں ہو سکتا وہ جہاں جائے گا امن ہی قائم کرے گا.دیکھو.رسول کریم ﷺ میں یہ باتیں بدرجہ اتم پائی جاتی تھیں یہی وجہ ہے کہ آپ جہاں بھی جاتے امن قائم کر دیتے.اس وقت جب کہ ابھی آپ پر وحی ہونی شروع نہیں ہوئی تھی اہل مکہ خانہ کعبہ تعمیر کرنے لگے اور یہ سوال پیدا ہو گیا کہ فجر اسود اٹھا کر کون قبیلہ رکھے.چونکہ لڑا کے لوگ تھے اس وجہ سے لڑنے کے لئے تیار ہو گئے.آخر یہ فیصلہ ہوا کہ جو شخص سب سے پہلے سامنے نظر آئے اس سے فیصلہ کرایا جائے اور رسول کریم ال نظر آئے.آپ کو دیکھ کر سب امین امین پکار اٹھے کیونکہ اس نام سے آپ کو بعثت سے قبل پکارا جاتا تھا.آپ کے سامنے جب اس معاملہ کو رکھا گیا تو آپ نے فرمایا یہ معمولی بات ہے.آپ نے چادر منگائی اور پتھر کو اس پر رکھ دیا اور
خطبات محمود ۲۹۲ سال ۱۹۲۸ء پھر فرمایا سب قوموں کے لوگ چادر کے کنارے پکڑلیں.تو وہ آدمی جو اپنے اندر یہ پانچ ایمانی اور چھ عملی حالتیں پیدا کر لیتا ہے وہ جہاں جاتا ہے لڑائی جھگڑے مٹاتا ہے.لڑائی وہی لوگ کرتے ہیں جن میں یہ حالتیں پیدا نہیں ہوتیں.وجہ یہ کہ لڑنے اور فساد کرنے والا اخلاق یا ایمان میں کمزور ہوتا ہے تبھی اس سے ایسی باتیں سرزد ہوتی ہیں.یہ وہ خطبہ ہے جو ہر جمعہ میں پڑھا جاتا ہے.اور اس کے ذریعہ مسلمانوں کو توجہ دلائی جاتی ہے کہ جتنا اجتماع زیادہ ہو اسی قدر لڑائی جھگڑے کے سامان زیادہ جمع ہو جاتے ہیں اس لئے ان فسادات سے بچنے کے جو ذرائع ہیں وہ بھی استعمال کرنے چاہئیں.دیکھو جس آدمی کے گھر ایک شخص کھانا کھانے والا ہوتا ہے وہ ایک کے کھانے کا انتظام کرتا ہے.جس کے گھر دس آدمی ہوں وہ دس کے کھانے کی فکر رکھتا ہے.اسی طرح جب تھوڑا اجتماع ہو تو اتنی احتیاط کی ضرورت نہیں ہوتی جتنی زیادہ اجتماع کے وقت ہوتی ہے.خدا تعالٰی فرماتا ہے جب تم اجتماع میں جاؤ تو سے پہلے اپنے نفس کو دیکھو کہ اس میں تو کوئی نقص نہیں.تم اپنے اندر حمد ، استعانت استغفار ایمان اور توکل پیدا کرنے کی کوشش کرو.پھر عدل احسان اور اِيُنَائِي ذِي الْقُرُبی پر عمل کرو.اور فحشاء منکر اور بعی سے بچو.جب ایسا کرو گے تو کبھی فساد پیدا نہیں ہو گا کیونکہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی جب لوگ ان باتوں پر عمل کریں گے تو دین میں مضبوط ہوں گے اور لڑائی جھگڑا نہیں کریں گے.لڑائی فساد کے معنی یہی ہوتے ہیں کہ ایمان میں کمزوری ہوتی ہے جس کا اظہار لڑائی جھگڑے کی صورت میں ہوتا ہے.ایک عارضی اور وقتی جھگڑا ہوتا ہے وہ اس میں شامل نہیں ہے.وہ تو خدا تعالیٰ کے نبیوں میں بھی ہو جاتا ہے.چنانچہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون میں ہو گیا تھا یہاں وہ لڑائی جھگڑا مراد ہے جس سے دلوں میں بغض اور کینہ پیدا ہو جائے.اختلاف طبائع اور بات ہوتی ہے یہ تو میاں بیوی ، باپ بیٹے میں بھی پیدا ہو جاتا ہے مگر ایک سیکنڈ بھی نہیں گذر تاکہ آپس میں محبت کی باتیں شروع ہو جاتی ہیں.پس اسے لڑائی جھگڑا نہیں کہا جا سکتا ایسا جھگڑا تو بندہ اور خدا تعالی میں بھی ہو جاتا ہے.اصل لڑائی جھگڑا یہ ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کے متعلق بغض و کینہ پیدا ہو جائے اور ایک دوسرے کی شکل دیکھنا پسند نہ ہو.ایک دوسرے سے ملنا نہ چاہے.ایسی حالت میں ایک دوسرے کی نیکیاں بھی برائیاں معلوم ہونے لگتی ہیں.اگر ایک شخص چندہ دیتا ہے تو دوسرا سمجھتا ہے ریا کاری سے دے رہا ہے.اگر
خطبات محمود ۲۹۳ سال ۱۹۲۸ء نمازیں پڑھتا ہے تو کہتا ہے محض دکھاوے کی نمازیں پڑھتا ہے غرض ہر بات میں عیب گیری کرنا اور دل میں بغض و کینہ رکھنا یہ لڑائی ہے جو مومن نہیں کرتا کیونکہ مومن کا دل بغض اور کینہ کا حامل کبھی نہیں ہو سکتا.جب کسی کے دل میں کسی سے بغض پیدا ہو تو وہ خیال کرے کہ ضرور اس کے ایمان میں نقص آگیا ہے کیونکہ ناممکن ہے کہ بغض اور ایمان ایک جگہ جمع ہوں.یہ خطبہ ہے جس میں مسلمانوں کو بتایا گیا ہے کہ جمعہ کے دن چونکہ لوگ جمع ہوتے ہیں اور اس بات کا مظاہرہ ہوتا ہے کہ ہم اکٹھے ہیں اور ایک ہیں.خدا تعالٰی فرماتا ہے ایک ہونے کے لئے یہ باتیں پائی جانی چاہئیں اگر یہ نہیں پائی جاتیں تو تم اکٹھے نہیں اور نہ ایک ہو تمہارا اکٹھا ہونا منافقت ہے.وہ لوگ جو اپنے دلوں میں ایک دوسرے کے متعلق بغض رکھتے اور ساری جماعت پر اتمام لگاتے ہیں وہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ یہ جماعت خدا تعالی کی طرف سے ہے میں یہ برداشت کرہی نہیں سکتا کہ کوئی جماعت پر الزام لگائے.میری عادت نہیں کہ مجلس میں کسی فرد کو مخاطب کر کے غصہ کا اظہار کروں مگر جب کوئی جماعت پر الزام لگاتا ہے تو پھر میں برداشت نہیں کر سکتا کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ ایک الہی سلسلہ ہو اور اس کے اکثر افراد گندے ہوں.اگر اکثر افراد گندے ہیں تو وہ سلسلہ جھوٹا ہے اور اس طرح خدا تعالی پر اعتراض پڑتا ہے کہ اس نے ایک گندے شخص کو اپنے سلسلہ کی باگ سپرد کر دی اور یہ الحمد للہ کے بالکل خلاف بات ہے.پس جمعہ کے خطبہ میں یہی بتایا گیا ہے کہ تم خود یہ مظاہرہ کرتے ہو کہ ہم ایک ہیں مگر کیا تمہارے دل بھی یہ گواہی دیتے ہیں کہ تم ایک ہو.اگر تم ایک دوسرے کی عیب چینی کرتے ہو.اگر جماعت کے لوگوں کو گندا سمجھتے ہو تو پھر تم اکٹھے بیٹھنے سے ایک نہیں ہو سکتے.کیا اگر میں اور مولوی ثناء اللہ صاحب ایک جگہ اکٹھے بیٹھے ہوں تو ایک ہو جائیں گے.ایک ہونے کے لئے دلوں کا اتحاد ضروری ہے.پس رسول کریم ﷺ نے یہ خطبہ بتایا ہے جس میں ایک آیت بھی لی ہے اور بتایا ہے کہ ظاہری اجتماع کے ساتھ دل بھی اکٹھے ہونے چائیں.دوسروں کی عیب چینی چھوڑ دینی چاہئے.دو سروں پر اتکال چھوڑ دینا چاہئے.اس طرح بھی جھگڑے پیدا ہوتے ہیں جب کوئی شخص سمجھتا ہے کہ فلاں نے میرا کام کرتا تھا اور جب وہ نہیں کرتا تو ناراض ہو جاتا ہے.اگر وہ یہ سمجھتا کہ خدا تعالی نے ہی میرا کام کرنا ہے تو کسی کے متعلق اسے ناراضگی نہ پیدا ہوتی.عام طور پر لڑائی دو طرح سے ہی ہوتی ہے.ایک تو یہ کہ فلاں میں یہ عیب ہے دوسرے اس طرح کہ فلاں نے
خطبات محمود ۲۹۴ سال ۱۹۲۸ء میری مدد نہیں کی.اس خطبہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر تم یہ سمجھو کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں اور وہی عیبوں سے پاک ہے اور وہی انسان کو امداد دے سکتا ہے تو پھر لڑائی جھگڑے نہ ہوں.غرض یہ خطبہ جو نہایت وسیع مطالب اپنے اندر رکھتا ہے ان کو مد نظر رکھنا چاہئے.میں اللہ تعالٰی سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہماری جماعت کے لوگوں کو توفیق عطا کرے کہ ان کے دل ایک ہوں.ان کا ظاہری اجتماع کا مظاہرہ نفاق کی حرکت نہ ہو بلکہ حقیقت میں وہ ایسی رستی میں بندھے ہوئے ہوں جسے کاٹنے کی کسی بڑے سے بڑے اور شریر سے شریر دشمن کو بھی طاقت نہ ہو.الفضل ۲۷/ جنوری ۱۹۲۸ء) ل لوقا باب ۶ آیت ۱ بائیل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعه ۱۹۹۳ شد سیرت ابن ہشام جلد اصفحه ۲۰۴ تا ۲۰۰ مطبوعہ مصر ۱۱۹۳۶
خطبات محمود ۲۹۵ ٣٩ سال ۱۹۲۸ء ۲۰/ جون کے جلسہ کے لئے تیاری فرموده ۲۷/ جنوری ۱۹۲۸ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں نے یہ تحریک کی ہے کہ ۲۰ / جون ۱۹۲۸ء کو تمام ہندوستان میں جلسے کئے جائیں جن میں رسول کریم ﷺ کی زندگی کے تین عظیم الشان پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے.اور یہ جلسے تمام ہندوستان کے علاقوں میں اور ہر زبان بولنے والے لوگوں میں کئے جائیں.میں نے ایک ہزار آدمی کا اندازہ لگایا ہے جو بڑے بڑے شہروں اور قصبوں میں لیکچر دے سکیں.آدمیوں کے لحاظ سے تو میں سمجھتا ہوں جس رفتار سے لوگ اپنے آپ کو پیش کر رہے ہیں اور جس طرح اپنوں اور دوسروں میں تحریک ہو رہی ہے وہ امید افزا ہے.اس وقت تک اپنی جماعت کے علاوہ دوسرے مسلمانوں کی طرف سے بھی درخواستیں آئی ہیں اور کل کی ڈاک میں ایک ہندو کی طرف سے پہلی درخواست پہنچی ہے اور بعض دوستوں کی طرف سے اطلاعیں آئی ہیں کہ کئی ہندو، سکھ اور عیسائی تیاری کر رہے ہیں.اس سے خیال ہے کہ اگر زیادہ نہیں تو ۵۰-۶۰ یا ممکن ہے سو(۱۰۰ تک ایسے غیر مسلم اصحاب بھی اپنے آپ کو پیش کر سکیں جو رسول کریم ﷺ کی زندگی کے پاکیزہ پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کے لئے تیار ہوں.لیکن اس کام کی اہمیت کے لحاظ سے میں سمجھتا ہوں ابھی تک اس کے لئے پورے طور پر کوشش نہیں کی گئی.پنجاب میں ہماری جماعت خدا کے فضل سے اس طرح پھیلی ہوئی ہے کہ ہر شہر اور بڑے قصبہ میں نہایت آسانی کے ساتھ لیکچر کا انتظام کیا جا سکتا ہے.یو پی اور بہار میں بھی یہ انتظام کرنا کوئی زیادہ مشکل نہیں ہے.بہار میں یو.پی سے بھی زیادہ آسان ہے.کیونکہ بہار میں زیادہ جماعت ہے.اور اس میں
خطبات محمود ۲۹۶ سال ۱۹۲۸ء قابل آدمی اور ایسے آدمی جو دینی کام کرنے کے لئے وقت دے سکتے ہیں موجود ہیں.یو پی میں دو چار جگہوں کے علاوہ ایسے آدمی موجود نہیں ہیں جو اس طرح کام کر سکیں مگر اس صوبہ کی زبان چونکہ اردو ہے وہاں بھی آسانی سے کام کیا جا سکتا ہے.صوبہ سرحد میں خدا کے فضل سے ہماری نہایت زبردست جماعت ہے.گو اس علاقہ کے باشندوں کی نسبت سے کم ہے مگر پنجابی جو اس علاقہ میں رہتے ہیں ان کو ملا کر اچھی تعداد ہے.وہاں کے باشندے ایسے ہیں جو خاص خوبی رکھتے ہیں.اور ایک بات میں نے ان میں ایسی دیکھی ہے جو اور جگہوں میں بہت کم نظر آئی ہے.کئی جگہ دیکھا گیا ہے کہ اگر وہاں آپس میں اختلاف ہو جائے تو ایک حصہ جماعت کا کام چھوڑ بیٹھتا ہے لیکن اگر سرحدی صوبہ میں کسی جگہ ایسا اختلاف پیدا ہو تو کوئی حصہ کام نہیں چھوڑتا بلکہ پہلے سے بھی زیادہ جوش سے دونوں کام کرتے اور ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرنا شروع کر دیتے ہیں.میرے نقطہ نگاہ سے اور میرا نقطہ نگاہ اس بارے میں زیادہ محفوظ ہے کیونکہ میں ایک جماعت کا امام ہونے کے لحاظ سے ان باتوں کو خوب سمجھ سکتا ہوں جو جماعت کی ترقی کے لئے ضروری ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ صوبہ سرحد کی جماعتوں میں یہ بہت بڑی خوبی ہے.پس کو صوبہ سرحد میں جماعت کم ہے مگر ایسے قابل اور سرگرم کارکن موجود ہیں جن کے لئے جلسوں کا انتظام کرنا کوئی مشکل نہیں ہے.اسی طرح صوبہ بنگال ہے.تعداد کے لحاظ سے پنجاب کے بعد بنگال کی جماعت ہی ہے اور کام کرنے کے لحاظ سے بھی وہاں احمدی بہت جوش رکھتے ہیں انہوں نے اپنے علاقہ میں آرگنائیزیشن خوب کی ہوئی ہے.علاقہ سندھ میں بھی انتظام کیا جا سکتا ہے.گو اس علاقہ کی زبان مختلف ہے مگر وہاں چونکہ کئی سال سے ہماری طرف سے تبلیغ ہو رہی ہے اس وجہ سے وہاں انتظام کرنا بھی آسان ہے.مگران علاقوں کو چھوڑ کر سارا علاقہ ہمیئی ، مدراس، برار، میسور بڑودہ وغیرہ ریاستیں ان علاقوں میں ہماری جماعتیں نہایت قلیل تعداد میں ہیں اور جہاں جماعتیں قلیل تعداد میں ہیں.وہاں ایک اور مشکل یہ بھی ہے کہ وہاں کی زبانیں ہماری زبان سے مختلف ہیں یو - پی اور بہار میں جماعتیں کم ہونے کے باوجود انتظام آسان ہے کیونکہ ان علاقوں میں اردو زبان بولی جاتی ہے.مگر جہاں تامل، تلنگو ، مرہٹی، مالا باری زبانیں بولی جاتی ہیں وہاں انتظام کرنا زیادہ مشکل ہے.مگر جلے تبھی مفید ہو سکتے ہیں جب ہزار کی تعداد میں نہیں بلکہ کم از کم ہزار بڑے بڑے شہروں اور قصبوں
سال ۱۹۲۸ء ۲۹۷ میں ہوں.اگر صرف ہزار کی تعداد میں جلسے کرنے ہوں تو صرف دو ضلعوں گورداسپور اور سیالکوٹ میں کئے جاسکتے ہیں.مگر فائدہ اور اثر تبھی ہو سکتا ہے جب ہزار بڑے بڑے شہروں اور قصبوں میں جلسے ہوں اور ہر زبان میں ہوں.اسی طرح برہما میں بھی انتظام مشکل ہے.کیونکہ وہاں کی زبان اور ہے اور جماعت کم ہے.پس نہایت ضروری ہے کہ ہر علاقہ کی احمدی جماعتیں اس کے متعلق خاص کوشش کریں اور اپنے اپنے علاقہ میں مرکزی جماعتیں قائم کریں.یہ کام جس کی تحریک کی گئی ہے کوئی معمولی کام نہیں بلکہ بہت بڑا ہے اور اس کے لئے بہت وقت اور بہت بڑی قربانی کی ضرورت ہے.کسی جگہ صرف جلسہ کر دینا کافی نہیں ہو گا.ہر جگہ میلاد کے جلسے ہوتے ہیں مگر ان کا لوگوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور ان میں نئی زندگی نہیں پیدا ہوتی.اس کی وجہ یہ ہے کہ میلاد کی نوعیت اور ہے.میلاد میں مسلمان محض ثواب کے لئے جمع ہو جاتے ہیں دوسرے مذاہب کے لوگ نہیں آتے.مگر یہ جلسہ جس کی تحریک کی گئی ہے اس لئے ہے کہ دوسروں کو اس میں شامل کرنے کی کوشش کی جائے.پھر میلاد کی یہ غرض نہیں ہوتی کہ رسول کریم ﷺ کے وجود کو اس دنیا کے لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے بلکہ یہ ہوتی ہے کہ بعض مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق مسلمانوں کو رسول کریم کے سامنے پیش کیا جاتا ہے.مگر ہمارے ان جلسوں کی غرض یہ ہوگی کہ رسول کریم ﷺ کی ذات کو غیر مذاہب کے سامنے پیش کیا جائے اور ان کو بتایا جائے کہ ہمارے رسول کریم اعتراض کرنا فضول ہے.یہ کونے کا پتھر ہے جو اس پر گرے وہ بھی چور چور ہو جاتا ہے اور جس پر یہ گرے وہ بھی چور چور ہو جاتا ہے.ایک زمانہ وہ تھا جب کہ رسول کریم و زندہ تھے اس وقت آپ جس پر کرتے وہ چور چور ہو جاتا.اب یہ زمانہ آیا کہ لوگ آپ پر گرتے ہیں اب ان کو یہ بتانا ہے کہ آپ چونکہ کونے کا پتھر ہیں اس لئے جو آپ پر گرے وہ بھی چور چور ہو جاتا ہے.یہی نہیں کہ رسول کریم ﷺ اپنی زندگی میں جس پر حملہ کرتے اس پر فتح پاتے بلکہ آپ کی وفات کے بعد بھی آپ پر جو حملہ کرے گا وہ بھی مغلوب ہی ہو گا.اس کے لئے ہماری جماعت کو ایسی بار تند سخت بگولہ اور پر زور طوفان بنتا ہوگا جو ایک سرے سے دوسرے سرے تک لوگوں کو ہلا دے.پس ان جلسوں اور میلاد کے جلسوں میں بہت بڑا فرق ہے.ایک سو سال کے میلاد بلکہ پانچ سو سال کے میلاد بلکہ ہزار سال کے میلاد بھی وہ کام نہیں کر سکتے جو یہ جلسے جو میرے مد نظر ہیں کر سکتے ہیں.میلاد آقا اور غلام کے تعلقات ر ان کا
خطبات محمود ۲۹۸ سال ۶۱۹۲۸ کا اقرار ہے اور وہ بھی علیحدگی میں مگر یہ جلسے اس اقرار کے لئے ہوں گے کہ ہمارا آقا ایسی چیز نہیں ہے کہ ہم اسے چھپا کر رکھیں.ہم اسے دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں آؤ اسے دیکھ لو اور اس کی خوبیوں کو پرکھ لو.پس میلاد تو ایسی محبت کا اظہار ہے جو گھر میں بچہ سے کی جائے مگر یہ جلسے ایسا کھلا چیلنج ہے جیسے سپاہی میدان جنگ میں کھڑا ہو کر دیتا ہے اور کہتا ہے آؤ میں مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوں.مگر یہ چیلنج ایک مذہب کا دوسرے مذہب کو نہیں نہ اسلام کا دوسرے مذاہب کو ہے بلکہ یہ ایک مقدس ہستی کا دوسرے بنی نوع انسان کو ہے اس لئے ہم یہ چیلنج دینے والوں میں غیر مذاہب کے لوگوں کو بھی شامل کر سکتے ہیں بلکہ ہم انہیں خوش آمدید کہتے ہیں کیونکہ اس طرح ہم دنیا کو یہ بتائیں گے کہ آپ کو خدا تعالیٰ کا رسول ماننے والے ہی چیلنج نہیں دیتے بلکہ جو اس حد تک آپ کو نہیں مانتے جو ماننے کا حق ہے وہ بھی چیلنج دے رہے ہیں.ایک تو ان جلسوں کا یہ مقصد ہے جو کسی اور جلسہ سے پورا نہیں ہو سکتا.دوسرا مقصد ایک اور ہے جس میں مسلمانوں کا چیلنج دنیا کو ہے.پہلی صورت میں رسول کریم کا چیلنج دنیا کی ہستیوں کو ہے اس میں اور لوگ بھی شامل ہو سکتے ہیں.میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو یہ کہتے ہیں کہ دنیا کے لوگوں کا اکثر حصہ شریر ہوتا ہے میرے نزدیک اکثر لوگ شریف ہیں اسی طرح میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو یہ کہتے ہیں ہندوؤں میں نے اکثر لوگ شریر ہیں بلکہ میں ان میں سے ہوں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہندوؤں میں سے اکثر شریف ہیں.اسی طرح میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو یہ کہتے ہیں عیسائیوں میں سے اکثر حصہ شریر ہے بلکہ ان میں سے ہوں جو یہ کہتے ہیں کہ عیسائیوں کا اکثر حصہ شریف ہے.مگر بات یہ ہے کہ شریفوں کا طبقہ دوسروں سے دیا ہوا ہے.ہمارا فرض ہے کہ ان کی دبی ہوئی آواز کو بلند کریں.ان جلسوں کے ذریعہ ہندوؤں کی وہ کثرت جو اپنے اندر شرافت رکھتی ہے اور صلح کے لئے تیار ہے اس کو جرأت ولا ئیں گئے اور اس کے حوصلے بڑھائیں گے تاکہ ایسے لوگوں کے سامنے آنے سے مذہب اور ملک پر اثر پڑے.فتنہ انگیز لوگ دب جائیں اور ملک میں امن قائم ہو سکے.اسی طرح عیسائیوں اور یہودیوں کی کثیر تعداد جو شریف اور امن پسند ہے مگر دوسروں سے دبی ہوئی ہے اس کو بلند کریں گے تاکہ شریروں کی آواز دب جائے اور شریفوں کی کثیر تعداد کھڑی ہو جائے.پس ان جلسوں کے ذریعہ ہمارا ان لوگوں کو جو فتنہ انگیز ہیں چیلنج ہو گا.ہم انہیں بتا ئیں گے
خطبات محمود ۲۹۹ سال ۱۹۲۸ء ہم اس لئے کھڑے ہوئے ہیں کہ شریروں کو دبا دیں اور شریفوں کی جو ہر قوم و مذہب میں کثرت سے پائے جاتے ہیں مدد کریں تاکہ ملک میں امن قائم ہو.پھر ہمارا چیلنج ان لوگوں کو ہو گا جو رسول کریم ﷺ کی ذات پر حملہ کرتے ہیں.ہم انہیں کہیں گے تمہاری غرض اگر یہ ہے کہ مسلمان محمد رسول اللہ ﷺ سے جدا ہو جائیں تو یہ غلط ہے ہم اور زیادہ آپ کے قریب ہوں گے اور کوئی انسانی ہاتھ محمد ﷺ سے ہمیں الگ نہیں کر سکتا.یہ مقاصد خاموش جلسوں سے پورے نہیں ہو سکتے ان کے لئے آگ کی ضرورت ہے مگر وہ آگ نہیں جو جلا دیتی ہے بلکہ وہ آگ جو پکانے والی ہے.پس ہم آگ پیدا کریں گے مگر فساد اور لڑائی کی آگ نہیں بلکہ وہ آگ جس سے عمدہ غذا ئیں پکتی ہیں تاکہ امن قائم ہو.اس کے لئے بڑی بھاری آرگنائیزیشن کی ضرورت ہے.اور تمام قوموں سے تعاون کی ضرورت ہے زیادہ تر ان صوبوں میں جن کی زبانیں ہم سے مختلف ہیں.یو.پی، بہار، پنجاب اور سرحد میں بھی ضرورت ہے مگر زیادہ تر ہیئیں ، مدراس ' سی پی برہما مالا بار کے متعلق ہے.ان علاقوں کی احمدی جماعتوں کو اپنی مرکزی انجمنیں بنانی چاہئیں.یوں بھی ایسی مرکزی انجمن کی ضرورت ہے صوبہ بنگال کے احمدیوں نے.ایسی انجمن بنائی ہوئی ہے.اسی طرح دوسرے تمام صوبوں میں بھی ہونی چاہئیں.پھر دوسری انجمنوں کو خواہ وہ ہندوؤں کی ہوں یا سکھوں کی عیسائیوں کی ہوں یا پارسیوں کی تعاون کے لئے کہنا چاہئے پھر اپنے اپنے صوبوں کے بڑے بڑے شہروں اور قصبوں کی لسٹ بنا کر دیکھنا چاہئے کہ ان میں سے ہر ایک میں ۲۰ / جون ۱۹۲۸ء کو جلسے کرنے کا انتظام ہو گیا ہے یا نہیں.اور کالجوں کے طلباء کو تیار کرنا چاہئے.اس تحریک کے مذہبی اخلاقی اور تمدنی فوائد کے علاوہ سیاسی فوائد بھی ہیں.پس ضرورت ہے ایک نظام کی.یہاں مرکز میں بھی اس کام کے لئے بہت سے آدمیوں کی ضرورت ہے کیونکہ خط و کتابت کثرت سے کی جائے گی.مختلف زبانوں میں اشتہار شائع کئے جائیں گے.بہت سی زبانیں جاننے والے یہاں موجود ہیں وہ اگر اپنے آپ کو اس لئے پیش کریں کہ روزانہ کچھ گھنٹے وہ اس کام کے لئے دیا کریں گے تو بغیر زائد عملہ کے بہت سا کام ہو سکتا ہے مگر جو اپنے نام پیش کریں وہ ایسے ہوں جو کام کرنے والے ہوں.بعض ایسے لوگ ہیں جنہوں نے ٹیپ کے مصرعہ کی طرح یہ طریق اختیار کیا ہوا ہے کہ جب میری طرف سے کوئی تحریک ہو وہ اپنا نام پیش کر دیں مگر کبھی کام نہیں کرتے.اس طرح نام پیش کرنا فضول ہے.وہ لوگ اپنے نام لکھا ئیں جو کام کریں.ہر زبان کے لوگ اگر اپنے آپ کو پیش
خطبات محمود سال ۶۱۹۲۸ کریں تو مفید ہو سکتا ہے کیونکہ اس طرح خط و کتابت کے ذریعہ تمام ملک میں جوش کی لر پیدا کی جا سکتی ہے.ای ایرانی اگر ان جلسوں کا یہی نتیجہ نکل آئے کہ ایک ہزار مسلمان رسول کریم کی لائف پڑھ لیں تو کتنا فائدہ ہو گا.اس کے لئے وہ سیاسی آدمی بھی تیار ہو جائیں گے جو عام مذہبی جلسوں میں نہیں جاتے اور جب وہ اس مضمون پر لیکچر دینے کے لئے تیاری کریں گے تو رسول کریم کی محبت ان میں پیدا ہو جائے گی.پس میں یہاں کی جماعت اور باہر کی جماعتوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ ابھی سے اس بات کا انتظام کریں کہ ہر جگہ اور ہر طبقہ کے لوگ لیکچر دے سکیں.یوں تو ایک ہزار آدمی یہاں سے اور ارد گرد کے گاؤں سے مہیا ہو سکتے ہیں.اور کوئی تعجب نہیں.قادیان سے ہی ایک ہزار آدمی ایسے مل جائیں لیکن اس کا فائدہ نہیں ہو گا.یہاں سے لوگ کلکتہ، مدراس، ڈھاکہ اور رنگمون نہیں جاسکتے.اور اگر ان علاقوں میں یہاں سے آدمی بھیجیں تو چار پانچ سال کی آمدنی ان کے آمد و رفت کے خرچ پر ہی صرف ہو جائے.پس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر علاقہ میں مرکزی جماعتیں پیدا ہوں اور وہ اپنے علاقوں کے لئے خود آدمی کھڑے کریں.ہمارا کام یہ ہے کہ ہم ٹریکٹ اور ہدایات شائع کریں مگر ان کو پھیلانا دوسری جماعتوں کا کام ہے.الفضل ۳ / فروری ۱۹۲۸ء)
خطبات محمود سال ۶۱۹۲۸ کامیابی کے لئے صحیح طریق پر عمل کرنا ضروری ہے فرموده ۱۰ فروری ۱۹۲۸ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: دنیا میں ہر ایک چیز اور ہر ایک کام کے لئے ایک رستہ ایک طریق اور ایک راہ مقرر ہے بغیر اس راہ کے اختیار کرنے کے اور بغیر اس طریق پر چلنے کے انسان کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا.اچھے سے اچھے مقصد کو مد نظر رکھ کر کوئی کام کرے اور اعلیٰ سے اعلیٰ نیت سے کام کرے لیکن اگر وہ اس طریق کو چھوڑے گا جو خدا تعالٰی نے اس کام کے لئے مقرر کیا ہے تو کبھی کامیاب نہ ہو گا.دنیا میں خالی نیت کبھی فائدہ نہیں دیتی.بہت لوگ اس دھوکا میں رہتے ہیں کہ ہماری نیت نیک ہے اور چونکہ نیت نیک ہے اس لئے نتیجہ بھی اچھا نکلنا چاہئے.مگر کوئی خواہ کتنی ہی اعلیٰ نیت رکھے لیکن بجائے منہ میں لقمہ ڈالنے کے ناک میں ڈالے تو اس سے اس کا پیٹ نہیں بھرے گا بلکہ بیمار ہو جائے گا اور اس کی نیک نیت اسے کوئی نفع اور فائدہ نہ دے گی.اسی طرح اگر کوئی شخص نیک نیتی سے بجائے اس کے کہ کھیت میں ہل چلائے اور بیچ ڈالے اینٹیں پاتھتا رہے اور اینٹوں کے انبار لگا دے تو گو اس کی محنت ایک زمیندار کی محنت سے بہت زیادہ ہوگی مگر یہ نہیں ہو گا کہ اس کا کھیت سرسبز اور ہرا بھرا براتا ہو وہ کھیت کے لحاظ سے ناکام اور نا مراد ہی رہے گا.پس لوگوں کو یہ خطرناک غلطی لگی ہوئی ہے.وہ سمجھتے ہیں چونکہ ہماری نیت نیک ہے اس لئے اگر ہم غلطی پر ہیں تو بھی ہمیں خدا کچھ نہیں کہے گا اور ہم خدائے تعالی تک پہنچ جائیں گے حالانکہ جب تک کوئی اس طریق کو اختیار نہ کریگا جو خدا تعالیٰ نے مقرر کیا ہے خواہ اس کی نیت کتنی ہی نیک ہو اسے کوئی فائدہ نہ پہنچے گا.دیکھو لا کھوں ہندو ایسے نظر آتے ہیں جو خدا کی
خطبات محمود سال ۱۹۲۸ء عبادت میں اس طرح لگے ہوتے ہیں کہ مسلمان انہیں دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں.میں نے اپنی آنکھوں سے ایسے ہندو دیکھے ہیں جو ۱۲- ۱۲ سال سے چھت سے ٹانگیں باندھ کر الٹے لٹکے ہوئے تھے اور اس طرح اپنے خیال میں عبادت کر رہے تھے.میں نے ایک شخص کو اسی حالت میں تھیلی سے آٹا نکالتے اور پھر گوندھتے دیکھا.یہ میں نے تو نہیں دیکھا مگر تایا گیا کہ اُلٹے لٹکے ہوئے ہی یہ پکاتا اور کھاتا ہے.اب دیکھو اس کی نیت تو یہی ہے کہ خدا مل جائے اور بظاہر دیکھنے والا سمجھے گا کہ رسول کریم سے بھی زیادہ ریاضت اور محنت ایسا شخص کرتا ہو گا کیونکہ آپ تو اپنے بیوی بچوں میں رہتے آرام فرماتے اور کھانا کھاتے تھے مگر ایسے شخص کو اتنا بھی اجیر حاصل نہیں ہو سکے گا جتنا ایک معمولی مسلمان کو جو نماز پڑھتا ہو ملے گا.وجہ یہ کہ اس شخص نے وہ رستہ اختیار نہ کیا جو اختیار کرنا چاہئے تھا اور خواہ مخواہ اپنے آپ کو مثلت میں ڈالا.دیکھو اگر کوئی شخص ایک گاؤں سے سو میل بھی دوسری طرف چلا جائے گا تو اس گاؤں میں نہ پہنچے گا اور یہ نہیں ہو گا کہ گاؤں اس کے پاس آجائے بلکہ وہ اور دور ہو جائے گا لیکن دوسرا شخص اگر سو میل کے فاصلہ پر ہو گا اور چند میل بھی اس گاؤں کی طرف آئے گا تو وہ پہلے کی نسبت اس کے قریب ہو گا کیونکہ اس نے وہ رستہ اختیار کیا جو گاؤں تک پہنچنے کے لئے ضروری تھا اور پہلے نے وہ رستہ اختیار کیا جو گاؤں سے دور لے جانے والا تھا.اسی طرح اگر انسان وہ طریق اختیار کرے جو خدا تعالیٰ نے کسی کام کے لئے مقرر کیا ہو تو تھوڑی محنت سے بھی وہ نتائج حاصل کر سکتا ہے کہ دنیا حیران رہ جاتی ہے.پرانے دیسی کل جو استعمال کئے جاتے ہیں یہ بھی کچھ عرصہ سے استعمال کئے جاتے ہیں.پرانے زمانہ کے حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ایسے کل بھی نہ ہوتے تھے اور لوگ پتھروں وغیرہ سے معمولی طور پر زمین کھود کر بیج ڈال دیتے تھے اور اسی طرح کھیتی اگ پڑتی اور رانے پیدا ہو جاتے تھے.لیکن اگر کوئی سارا دن ٹوکری ڈھوتا رہے اور کل نہ چلائے تو اس کے کھیت میں کچھ نہ پیدا ہو گا.پس صحیح طریق پر تھوڑی محنت کرنے سے مفید نتائج نکل سکتے ہیں لیکن غیر صحیح طور پر بہت محنت اور مشقت کرنے سے بھی کچھ نتیجہ نہیں نکلتا.اس وقت جو مسلمانوں کی حالت ہے اس پر اگر غور کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ صحیح طریق پر عمل نہیں کر رہے.میں مانتا ہوں کہ دوسری قوموں سے مسلمان ست ہیں اور ان میں کام کرنے کا وہ شوق اور جوش نہیں پایا جاتا جو دوسروں میں نظر آتا ہے لیکن پھر بھی بہت
خطبات محمود سال ۱۹۲۸ء سے مسلمان ہیں جو مسجدیں بناتے لوگوں کے آرام کے لئے سرا ئیں تعمیر کرتے کھیتوں سے غریبوں اور محتاجوں کا حق نکالتے ہیں مگر باوجود ان قربانیوں کے ان کی کوششوں کے اعلیٰ نتائج نہیں نکلتے.بجائے اس کے کہ اسلام کو ترقی حاصل ہو وہ کمزور سے کمزور ہوتا جا رہا ہے.پھر مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو دن رات ذکر اذکار میں لگے رہتے ہیں.ہمارے حافظ روشن علی صاحب سناتے تھے ان کے والد صاحب جوانی کی عمر میں ہی ایک غار میں جا بیٹھے تھے اور انہوں نے چھ ماہ کے روزے رکھنے شروع کر دیئے تھے.وہ ۲۴ گھنٹے میں جو کے چند دانے اور ہاتھ کی ہتھیلی پر ڈال کر پانی پی لیتے.اور پھر روزہ رکھ لیتے اس وجہ سے ان کو رسل کی بیماری ہو گئی اور وہ تھوڑے ہی عرصہ میں فوت ہو گئے.تو مسلمانوں میں اس قسم کی ریاضتیں کرنے والے پائے جاتے ہیں مگر ان کی ریاضتوں کا وہ نتیجہ نہیں نکلتا جو ان صحابہ کی معمولی عبادتوں کا لکھتا تھا جو تجارت کرتے اونٹ چراتے اور زمینداری کرتے تھے.اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ صحابہ چونکہ اصل راستہ پر چلتے تھے اس لئے اگر دو قدم بھی اٹھاتے تھے تو بھی اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتے جاتے تھے لیکن اب لوگ اصل راستہ پر نہیں چلتے اس لئے جو قدم بھی اٹھاتے ہیں خدا سے دور ہوتے جاتے ہیں.پس مسلمانوں کی حالت بتا رہی ہے کہ انہوں نے اس طریق کو چھوڑ دیا ہے جس پر چلنے سے خدا تعالی مل سکتا ہے.اس کے مقابلہ میں جب ہم اپنی جماعت کو دیکھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل کی عجیب باتیں نظر آتی ہیں.ایک معمولی اور ان پڑھ آدمی ہوتا ہے لیکن وہ ایسی باتیں کرتا ہے کہ بڑے بڑے مولوی حیران ہو جاتے ہیں.ابھی چند دن ہوئے ایک صاحب مجھے ملے انہوں نے بیعت تو بہت دیر کی کی ہوئی تھی مگر مجھے اب ملے.انہوں نے مولویوں سے مباحثوں کے قصے سنائے.وہ ان کی پڑھ ہیں اور میں نے ان کی باتیں اس خیال کو دل میں رکھ کر سنیں کہ کوئی غلط بات تو انہوں نے نہیں کی مگر ہر مباحثہ میں جو جواب انہوں نے دیئے.ان میں کوئی بات بے علمی کی یا غلط نہ تھی.ان کی سب باتیں صحیح اور درست تھیں.وہ سناتے تھے جب لوگ باتیں سنتے تو کہتے تم یہ غلط کہتے ہو کہ تم پڑھے ہوئے نہیں اگر تم پڑھے ہوئے نہیں تو یہ آیتیں اور حدیثیں تمہیں کہاں سے معلوم ہو گئیں.وہ کہتے یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کی علامت ہے کہ آپ کو ماننے کی برکت سے مجھے باوجود ان پڑھ ہونے کے یہ باتیں آگئیں.
خطبات محمود مسم سال ۶۱۹۲۸ پس یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ ہماری جماعت سے تعلق رکھنے والوں پر دینی اور دنیوی علوم کی راہیں کھل جاتی ہیں اور ایسی باتیں ذہن میں آنے لگتی ہیں جو بڑے بڑے عالموں کو نہیں سوجھتیں.ہمارے ہاں ایک ملازم ہوتا تھا پہاڑ کا رہنے والا تھا اسے گنٹھیا کی بیماری ہو گئی تھی اور اس کے رشتہ داروں نے اسے گھر سے نکال دیا تھا کہ تو کماتا کچھ نہیں اس لئے ہم تیرا بوجھ نہیں اٹھا سکتے.وہ اپنا علاج کرانے کے لئے چلا آیا.کسی نے اسے بتایا قادیان کے مرزا صاحب بھی علاج کرتے ہیں وہاں جاؤ یہ سن کر وہ قادیان میں آگیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا علاج کیا اور وہ اچھا ہو گیا پھر وہ آپ کے پاس ہی رہ پڑا.اس کے رشتہ دار اسے لینے کے لئے بھی آئے مگر اس نے جانے سے انکار کر دیا.وہ اپنی دماغی کیفیت کی وجہ سے دین سے اس قدر نا واقف تھا کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول نے اس سے پوچھا تمہارا کیا مذہب ہے.تو اس نے کہا مجھے تو پتہ نہیں ہمارے پہنچوں کو معلوم ہو گا ان کو آپ لکھیں وہ بتا دیں گے.حضرت خلیفہ اول نے اسے نماز پڑھنے کے لئے کہا اور چونکہ بہت معمولی سمجھ کا آدمی تھا نماز کا شوق ولانے کے لئے اسے کہا اگر تم پانچ وقت کی نمازیں پڑھ لو تو دو روپے دونگا.اس نے کہا میں نماز میں کیا پڑھوں.آپ نے بتایا تم سبحان اللہ سبحان اللہ کہتے رہنا.وہ مغرب کی نماز کے لئے کھڑا ہوا.تو اندر سے کسی خادمہ نے اسے آواز دی کہ کھانا لے جاؤ.ایک دو آوازوں پر تو چپ رہا.پھر کہنے لگا ذرا ٹھہر جاؤ نماز پڑھ لوں تو آتا ہوں.یہ تو اس کی حالت تھی.اس زمانہ میں احمدیت کی مخالفت ہوتی تھی اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سٹیشن پر جا کر لوگوں کو قادیان جانے سے رو کا کرتے تھے.کبھی کبھی حضرت صاحب کی تارلے کر یا کسی اور کام کے لئے وہ نوکر بھی جس کا نام پیرا تھا سٹیشن پر جایا کرتا تھا.ایک دفعہ مولوی محمد حسین صاحب نے اسے کہا تو کیوں وہاں بیٹھا ہے یہاں چلا آ.جب مولوی صاحب نے اسے بہت تنگ کیا تو اس نے کہا میں اور تو کچھ جانتا نہیں مگر اتنا پتہ ہے کہ مرزا صاحب یہاں سے گیارہ میل دور بیٹھے ہیں ان کے پاس تو لوگ جاتے ہیں اور تمہارے روکنے کے باوجود جاتے ہیں مگر تم یہاں روز کیلے ہی آتے ہو اور اکیلے ہی چلے جاتے ہو کوئی تو بات ہے کہ مرزا صاحب کے پاس لوگ آتے ہیں.اب دیکھو وہ نصرت اور تائید الہی کے الفاظ نہ جانتا تھا.مگر یہ جانتا تھا کہ حضرت مرزا صاحب کے پاس جو لوگ آتے ہیں اور مولوی محمد حسین صاحب کے پاس نہیں جاتے تو اس میں کوئی خاص بات ہے.بات یہ ہے کہ جب اللہ تعالٰی کی طرف کوئی مائل ہو جاتا ہے.یا صحیح
خطبات محمود ۳۰۵ سال ۱۹۲۸م رستہ پر چلنے والوں کے پاس ہی بیٹھتا ہے تو وہ بھی کچھ نہ کچھ حاصل کر لیتا ہے.پس یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ صحیح راستہ اختیار کئے بغیر کبھی کامیابی نہیں حاصل ہو سکتی.اور کوئی قوم کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ رستہ اختیار نہ کرے جو خدا نے مقرر کیا ہے.مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ صحیح رستہ پر چلنے کی کوشش کریں تاکہ ان کی محنتوں اور عبادتوں کا اچھا نتیجہ نکلے اور ان پر جو ادبار آرہا ہے وہ رو رہو.اسی طرح ہماری جماعت کے لوگوں کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جب تک اس طریق پر عمل نہ کریں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتایا ہے اس وقت تک کامیاب نہ ہو سکیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آنے سے پہلے قرآن اور حدیث موجود تھے مگر لوگ گمراہ ہو رہے تھے.آپ نے آکر لوگوں کو اس طرف توجہ دلائی اور وہ طریق بتایا جو صحیح ہے اس طریق پر جنہوں نے عمل کیا انہوں نے فائدہ اٹھایا اور جو محروم رہے وہ فائدہ بھی نہ اٹھا احمدی کہلانے سے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا جب تک اس تعلیم پر عمل نہ کیا جائے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دی ہے کیا کوئی کونین کی گولی جیب میں رکھ لے اور کہے بخار اتر جائے تو اس کا بخار اتر جائے گا.خدا تعالٰی نے کونین کے کھانے پر بخار کا دور ہو نا رکھا ہے اگر وہ کو نین کھائے گا تب بخار اترے گا ورنہ ایک گولی چھوڑ اگر ایک پونڈ کو نین بھی جیب میں ڈال لے گا تو کوئی فائدہ نہ ہو گا.تو احمدیوں کو یہ سبق حاصل کرنا چاہئے کہ وہ اپنے اعمال احمدیت کے مطابق بنا ئیں اور اس طرح زندگی بسر کریں جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام چاہتے تھے.اللہ تعالی نے انسان کو کسی مقصد کیلئے پیدا کیا ہے.کوئی عقل مند انسان کبھی بے وجہ کوئی کام نہیں کرتا پھر کیا خدا نے انسان کو بلا وجہ پیدا کیا ہے.نہیں.انسان کے پیدا کرنے کی وجہ ہے خدا تعالی کہتا ہے ہر چیز انسان کے فائدہ کیلئے پیدا کی گئی ہے اور ہم سب چیزوں سے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں.کس بے دردی سے جانور کو ذبح کر کے کھا جاتے ہیں کیوں؟ اس لئے کہ خدا تعالٰی نے اسے ہمارے لئے پیدا کیا ہے.خدا نے کیسی کیسی خوبصورت چیزیں بنائی ہیں مگر ہم ان کو توڑ پھوڑ کر کس طرح اپنے استعمال میں لے آتے ہیں.یہ سبزیاں ہی دیکھو کیسی خوبصورت معلوم ہوتی ہیں لیکن ہم ان کو کاٹ کر چارہ بنا لیتے اور خود پکا کر کھا جاتے ہیں.اسی طرح ہم جنگلوں کے درندوں کو اور آسمان کے پرندوں کو مارتے ہیں.اسی طرح ہم زمین کھود کر نہریں نکال لیتے
خطبات محمود ۳۰۶ سال ۶۱۹۲۸ ہیں.گڑھے کھود کر مکان بنا لیتے ہیں.گویا ہم زمین کا سینہ شق کرتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے لئے پیدا کی گئی ہے.مگر سوال یہ ہے کہ ہم کس کیلئے پیدا کئے گئے ہیں بے شک خدا تعالٰی نے سب کچھ ہمارے لئے پیدا کیا پھر کیا ہم صرف کھانے پینے کیلئے پیدا کئے گئے.اگر ہماری پیدائش کا یہی مقصد ہے تو یہ تو بیل اور گھوڑے میں بھی پایا جاتا ہے.اگر کہو انسان دنیا میں کام کاج کرتا ہے تو گھوڑا اور بیل اس سے زیادہ کام کرتے ہیں اور بغیر مزدوری کے کرتے ہیں اس طرح وہ انسان سے اچھے رہتے ہیں کیونکہ انسان تو اپنے لئے کام کرتا ہے مگر گھوڑا اور بیل انسان کیلئے کرتے ہیں.ان کو کہاں تنخواہ دی جاتی ہے.اگر کہو ان کو چارہ کھلاتے ہیں تو یہ کوئی ان پر احسان نہیں انہیں کھلا چھوڑ دو تو وہ جنگل میں گھروں کی نسبت زیادہ اچھا چارہ کھالیں گے.پس انسان جس مقصد کے لئے پیدا کیا گیا ہے جب تک اسے حاصل کر کے دوسری چیزوں پر فضیلت نہ ثابت کرے اس وقت تک اسے کہنے کا حق نہیں ہے کہ سب چیزیں میرے لئے پیدا کی گئی ہیں.جو شخص یہ کہتا ہے کہ سب چیزیں میرے لئے پیدا کی گئی ہیں وہ یہ بھی تسلیم کرتا ہے.کہ مجھے بھی کسی غرض کے لئے پیدا کیا گیا ہے.ہمیں ہر وقت یہ بات مد نظر رکھنی چاہئے اور اس کا کے پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.خواہ کوئی انسان زمینداری کرے یا تجارت کرے یا اور کام کاج کرے وہ اپنی پیدائش کی غرض کو پورا کرنے کی کوشش کر سکتا ہے.جتنے انبیاء ہوئے ہیں وہ اپنے وقت کے بڑے بڑے عالموں میں سے نہ تھے.اگر دین صرف پڑھے لکھے لوگوں کے لئے ہو تا تو بڑے بڑے فلاسفروں کے ذریعہ نازل ہو تا اور فلاسفر ہی مانا کرتے مگر ابتداء میں ایسے لوگوں نے کبھی نہیں مانا.رسول کریم اللہ کے وقت حضرت ابو بکر ، حضرت عمرہ ، حضرت عثمان اور حضرت علی ان گوں کے مقابلہ میں جو بعد میں آئے اور جنہوں نے کئی کئی جلدوں میں تفسیریں لکھیں معمولی علم رکھتے تھے مگر جو نور اور معرفت ان لوگوں کو حاصل ہوئی وہ بعد میں آنے والوں کو نہ حاصل ہوئی تھی.پس کسی کو یہ نہ خیال کرنا چاہئے کہ میں پڑھا ہوا نہیں اس لئے دین کی باتوں پر عمل نہیں کر سکتا.زبانی سن کر اور پوچھ کر بھی عمل کیا جا سکتا ہے اور اس طرح انسان وہ کچھ حاصل کر سکتا ہے جو سالہا سال کتابیں پڑھنے سے حاصل نہیں کر سکتا.ہماری جماعت کو اپنے بنائے جانے کے مقصد کو مد نظر رکھنا چاہئے تاکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر ان کے بیعت کرنے کا نتیجہ نکلے اور زندگی یونسی برباد نہ چلی جائے.(الفضل ۱۷ / فروری ۱۹۲۸ء)
خطبات محمود ۳۰۷ ۴۱ سال ۱۹۲۸ء مذہب کی غرض حصول تقویٰ ہے فرموده ۱۷ / فروری ۱۹۲۸ء بمقام پھیرو پیچی) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج میری طبیعت ایسی نہ تھی کہ میں یہاں آسکتا لیکن یہاں کی جماعت کے اخلاص اور محبت نے مجھے مجبور کیا کہ اپنے وعدہ کے مطابق یہاں آؤں اور گو مختصر طور پر ہی کچھ بیان کر سکوں لیکن کچھ نہ کچھ آپ لوگوں کے سامنے بیان کروں.اسلام کی تعلیم اور اس کا مغز جہاں تک ہم دیکھتے ہیں تقویٰ اللہ ہے.اللہ تعالٰی کا تقویٰ ہی ایسی چیز ہے جو انسان کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے اور اس میں خصوصیت پیدا کرتی ہے.دنیا میں مذہب بہت سے ہیں.ہزاروں کی تعداد میں ہیں لیکن ان سب میں سے صرف ایک ہی سچا ہو سکتا ہے اور وہی مذہب سچا ہے جو تقوی اللہ کی طرف لے جاتا ہے.پس جس غرض اور حقیقت کے لئے انسان ایک مذہب قبول کرتا ہے اس کے متعلق دیکھنا چاہئے کہ وہ اسے حاصل ہو رہی ہے یا نہیں.ہر سمجھدار اور عقل مند انسان جب کسی غرض اور مقصد کے لئے گھر سے نکلتا ہے تو اسے پورا کر کے واپس آتا ہے.ایک زمیندار جو چارہ کاٹنے کی نیت سے گھر سے نکلتا ہے وہ چارہ کاٹ کر لاتا ہے.کوئی عقل مند ایسا نہیں جو گھر سے چارہ کاٹنے کے لئے نکلے لیکن باہر جا کر کسی درخت کے نیچے سو رہے اور خالی ہاتھ واپس آجائے یا کبھی ایسا نہیں ہو تا کہ کوئی سمجھدار زمیندار گھر سے کل چلانے کے لئے جائے اور یونسی پھر پھرا کر واپس آجائے.اسی طرح جب انسان کوئی مذہب قبول کرتا ہے اور خصوصاً ایسا مذ ہب جس کے لئے اسے اپنے عزیزوں اپنے دوستوں کو چھوڑنا پڑے اسے خوب اچھی طرح دیکھنا چاہئے کہ جو مذہب کی غرض ہے وہ اسے حاصل ہو رہی ہے یا نہیں.ایک تو ایسا انسان ہوتا ہے کہ جس
خطبات ۳۰۸ سال ۶۱۹۲۸ مذہب میں پیدا ہوتا ہے وہی اپنا مذہب سمجھ لیتا ہے.مثلاً ہندوؤں کے گھر پیدا ہوتا ہے تو ہندو کہلاتا ہے، مسلمانوں کے گھر پیدا ہوتا ہے تو مسلمان کہلاتا ہے ، عیسائیوں کے گھر پیدا ہوتا ہے تو عیسائی کہلاتا ہے لیکن ایک ایسا انسان ہوتا ہے جو ایک مذہب کو چھوڑ کر دوسرا قبول کرتا ہے.اس کے ماں باپ عیسائی ہوتے ہیں مگر وہ مسلمان کہلانے لگ جاتا ہے یا وہ ہندوؤں کے گھر پیدا ہوتا ہے مگر مسلمان ہو جاتا ہے یا حفیوں کے گھر پیدا ہوتا ہے مگر احمدی ہو جاتا ہے یا اہلحدیثوں کے گھر پیدا ہوتا ہے اور احمدی بن جاتا ہے یا اور مسلمانوں کے جو فرقے ہیں ان میں سے کسی میں پیدا ہوتا ہے اور احمدی ہو جاتا ہے.اس تبدیلی مذہب یا تبدیلی فرقہ سے اسے بڑی بڑی تکلیفیں اور خطرے پیش آتے ہیں.بعض دفعہ اسے دوستوں، رشتہ داروں، ماں باپ، بیوی بچوں، بہن اور بھائیوں سے جدا ہونا پڑتا ہے، بعض اوقات اسے وطن سے نکلنا پڑتا ہے ، بعض اوقات جائداد سے محروم ہونا پڑتا ہے اور بعض دفعہ یہ سب تکلیفیں اٹھانی پڑتی ہیں اور اسے سب کچھ چھوڑنا پڑتا ہے.یہ کس لئے چھوڑتا ہے؟ مثلاً ایک شخص جو احمدی ہوتا ہے حنفیوں یا شیعوں یا اہل حدیثوں کو چھوڑ کر احمدی کہلاتا ہے.تو کیا یہ پانچ حرف ا ج- م- و- ی.اپنے اندر ایسی خصوصیت رکھتے ہیں کہ ماں باپ، عزیزوں، رشتہ داروں ، خویش واقارب کو چھوڑ دیا جائے.اگر بچے مذہب کے ماننے والوں کا نام خدا تعالٰی عیسائی یا ہندو رکھ دیتا تو یہ کوئی بڑی بات نہ تھی.صرف نام سے کچھ نہیں بنتا.ایک شخص کا نام عبدالرحمن ہوتا ہے مگر کام وہ شیطان کے کرتا ہے.ایک اور شخص کا نام بہت معمولی ہوتا ہے مگر اس کے کام نہایت اعلیٰ درجہ کے ہوتے ہیں.رسول کریم اے کے ایک صحابی کا نام جریر یعنی گھسیٹا تھا مگر وہ رسول کریم ﷺ کا بہت مقرب تھا پھر مسلمانوں میں جس تفسیر کا بہت رواج ہے اور جو بہت بڑی بھی ہے یعنی ۳۰ جلدوں میں ہے وہ ابن جریر کی لکھی ہوئی ہے.یعنی گھنٹے کے بیٹے کی لکھی ہوئی.دیکھو ان کا نام کتنا معمولی تھا مگر خدا تعالیٰ نے انہیں یہ رتبہ دیا کہ دنیا کا معلم بنا دیا اور کروڑوں آدمی ان کی لکھی ہوئی تفسیر پڑھتے ہیں.تو صرف نام کے لئے کوئی احمدی نہیں ہو تا بلکہ کسی بات کے لئے اپنا مذہب تبدیل کرتا ہے اور وہ بات یہ ہے کہ اس طرح خدا تعالیٰ کا قرب اور خشیت اور تقویٰ زیادہ حاصل ہوتا ہے.اس غرض کے لئے وہ اپنا سب کچھ چھوڑتا ہے اور ہر طرح کی تکلیفیں اٹھاتا ہے.لیکن اگر احمدی کہلا کر اس نے یہ بات حاصل نہ کی یا اس کے لئے کوشش نہیں کرتا تو دو باتوں میں سے
۳۰۹ سال ۶۱۹۲۸ ایک ضرور ہے اول یہ ہے کہ وہ مذہب جسے قبول کرنے کی وجہ سے تقویٰ اور خشیت اللہ حاصل نہیں ہوتی وہ سچا نہیں یا یہ کہ مذہب تو سچا ہے مگر اس نے کوشش نہیں کی.اگر مذہب سچا نہیں تو اسے اپنے آپ کی فکر کرنی چاہئے کہ ادھر تو اس نے سب کچھ چھوڑا اور ادھر دین بھی نہ ملا.ایک شاعر کا مقولہ ہے.خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے اور خدا کو جن کے لئے چھوڑا تھا وہ بھی نہ ملے.پس ایسا آدمی جو جھوٹے مذہب کو قبول کرتا ہے.ادھر تو اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں سے جدا ہو جاتا ہے، طرح طرح کی تکلیفیں اٹھاتا ہے اور ادھر خدا سے بھی دور رہتا ہے گویا وہ کسی جگہ کا نہ رہا.ایسے شخص کو چاہئے اگر اسے سچا نہ ہب نہیں ملتا تو ماں باپ کے مذہب میں ہی چلا جائے.خواہ مخواہ کیوں تکالیف اٹھاتا اور اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں سے جدا رہتا ہے.لیکن اگر وہ مذہب سچا ہے جو اس نے قبول کیا ہے تو دو صورتوں سے خالی نہیں یا تو اسے تقویٰ اللہ نصیب ہونا چاہئے یا اگر تقویٰ نصیب نہیں ہوتا تو معلوم ہوا وہ کوشش نہیں کرتا.دیکھو اگر ایک کمرہ میں کوئی چیز رکھی ہو اور کسی سے کہیں وہ اٹھالاؤ مگر وہ کسے ملتی نہیں تو اسے کہیں گے تم نے اچھی طرح ڈھونڈا ہی نہیں کیونکہ چیز تو وہاں پڑی ہے ہم نے خود رکھی ہے.اسی طرح جو مذہب سچا ہوتا ہے اسے قبول کرنے سے کبھی انسان خدا تعالی کا قرب حاصل کرنے میں ناکام نہیں ہو سکتا اور اگر ناکام رہتا ہے تو معلوم ہوا کہ اچھی طرح تلاش نہیں کی.پس جب کوئی سچاند ہب قبول کرتا ہے تو ضروری ہے اسے وہ چیز مل جائے جس کے لئے مذہب نازل کیا جاتا ہے.جس طرح یہ ممکن نہیں کہ کوئی شخص موسم پر کل چلائے عمدہ بیج ڈالے اچھی طرح کھیتی کی غورو پرداخت کرے پھر غلہ نہ پیدا ہو.اگر غلہ نہ پیدا ہو تو اس کی کوئی وجہ ہو سکتی ہے.ضرور ہے کہ کوئی خرابی پیدا ہو گئی ہو اور مناسب تدابیر نہ کی گئی ہوں.مولانا روم فرماتے ہیں :- گندم از گندم بردید جوز جو گندم ڈالو تو گندم اُگے گی اور اگر جو ڈالو تو جو اگیں گے.اس لئے کہتے ہیں :- از مکافات عمل غافل مشو اپنے کام کے نتائج سے غافل نہ ہو.جو کچھ تم کر رہے ہو اس کا ایسا ہی نتیجہ نکلے گا جیسا کام
خطبات محمود ہو گا.٣١٠ سال ۱۹۲۸ء پس جب صحیح تدبیر کی جائے تو ممکن نہیں کہ درست نتیجہ نہ نکلے.اور جب نتیجہ نہ نکلے تو ماننا پڑے گا کہ صحیح تدبیر نہیں کی گئی اور اگر تدبیر بھی صحیح ہو تو معلوم ہوا کوشش پوری نہیں کی گئی.اسی طرح جب کوئی مذہب قبول کرے تو اسے دیکھنا چاہئے کہ اسے کیا حاصل ہوا ہے.اگر کچھ نہ ملے تو وہ غور کرے کیوں نہیں ملا ؟ مذہب کی غرض تقویٰ اللہ ہے.انسان دیکھے یہ اس میں پیدا ہوا ہے یا نہیں.لوگوں سے لین دین میں بیاہ شادی میں ملنے جلنے میں ، معاملات کرنے میں اسے اپنا ہی فائدہ مد نظر رہتا ہے یا خدا کا خوف بھی اس کے دل میں پیدا ہوتا ہے.اگر اس کی کے دل میں ایسے موقعوں پر خدا کا خوف پیدا نہیں ہوتا اور وہ اپنے فائدہ کے لئے جائز و نا جائز کی کوئی پروا نہیں کرتا تو معلوم ہوا اس میں تقویٰ اللہ نہیں پیدا ہوا.کیونکہ اگر تقویٰ اللہ پیدا ہو جائے تو اپنے حقوق قربان کر کے بھی دوسروں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرے گا یا کم از کم دوسروں کے حقوق تو نہ مارے گا.ہماری جماعت کے لوگوں کو خاص طور پر دیکھنا چاہئے کہ ان میں تقویٰ اللہ پیدا ہوا ہے یا نہیں.پنجابی مثل ہے اور بڑی کچی مثل ہے کہ یا راہ پیا جانے یا واہ پیا.یعنی کسی کا یوں پتہ نہیں لگتا جب واسطہ پڑے تب اس کی حقیقت معلوم ہوتی ہے.بسا اوقات انسان اپنے متعلق بھی صحیح اندازہ نہیں لگا سکتا.ایک انسان سمجھتا ہے میں بڑا نیک اور متقی ہوں مگر جب کوئی وقت آتا ہے تو لالچ اور ظلم سے نہیں بچ سکتا تب اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اپنے متعلق جو سمجھا تھا وہ درست نہ تھا.مشہور ہے ایک عورت تھی جس کی لڑکی بیمار ہو گئی اور ایسی بیمار ہوئی کہ بچنے کی امید نہ رہی اس عورت کا خیال تھا کہ اسے اپنی لڑکی سے بہت محبت ہے.مہستی اس کا نام تھا.اس نے اپنا نام لے لے کر دعا مانگی شروع کی کہ ہستی مرجائے اور یہ لڑکی بچ جائے.ایک دن اتفاق ایسا ہوارہ تہجد کے وقت دعا مانگ رہی تھی کہ گھڑے یا کسی اور برتن میں کوئی کھانے کی چیز تھی جس میں گائے نے منہ ڈال دیا مگر نکالنا مشکل ہو گیا.وہ اسی طرح صحن میں ادھر ادھر پھرنے لگی.اندھیرے میں اس عورت نے سمجھا میری دعا قبول ہو گئی ہے اور عزرائیل میری جان نکالنے کے لئے آیا ہے.اس وقت اسے معلوم ہوا مجھے اپنی لڑکی سے اتنی محبت نہیں تھی جتنی سمجھتی تھی.جب اس نے سمجھا جان نکالنے کے لئے فرشتہ آیا ہے تو کہنے لگی ملک الموت من نہ
خطبات محمود سال ۱۹۲۸ء مهستی ام - من پیر زال محنتی ام یعنی میں وہ نہیں ہوں جس کی جان نکالنے کے لئے تم آئے ہو.اس کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگی وہ ہے اس کی جان نکال لو.غرض یا تو وہ دعائیں مانگتی تھی کہ اس کی بیٹی بچ جائے اور اس کی بجائے وہ خود مر جائے.مگر جب اسے خیال آیا کہ ملک الموت آگیا ہے تو ساری محبت بھول گئی اور اسے معلوم ہو گیا کہ لڑکی سے اسے ایسی محبت نہیں ہے جیسی وہ خیال کرتی تھی.تو انسان بسا اوقات خیال کرتا ہے کہ اسے خدا کا قرب حاصل ہے مگر دراصل حاصل نہیں ہوتا.ہندوؤں میں کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو سمجھتے ہیں انہیں خدامل گیا ہے مگر یہ صرف ان کا وہم ہوتا ہے تھوڑے دن ہوئے کچھ ہندو فقیر میرے پاس آئے.میں نے ان سے پوچھا تم کو کچھ حاصل بھی ہوا ہے یا نہیں.کہنے لگے پالیا ہے.میں نے کہا کیا پالیا کہنے لگے جی بس پالیا ہے اور جب پالیا تو پھر کیا کا سوال ہی نہ رہا.اس قسم کی باتیں کرتے رہے.مگر یہ نہ بتا سکے کہ انھوں نے کیا پالیا ہے.پس ایسے لوگ ہوتے ہیں جو خیال کرتے ہیں کہ انہیں خدا مل گیا ہے.مگر خدا تعالیٰ کے ملنے کے کوئی آثار ان سے ظاہر نہیں ہوتے.اسی طرح کئی آدمی خیال کرتے ہیں کہ انہیں تقویٰ حاصل ہو گیا ہے مگر جب معاملہ کا وقت آتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کو تقویٰ حاصل ہوا ہے یا نہیں.حضرت عیسی علیہ السلام کا تاریخی واقعہ موجود ہے.انجیل میں آتا ہے ان کا ایک شاگرد تھا جو اتنا مقرب تھا کہ ان کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا.حضرت عیسی کو خدا تعالیٰ نے اس وقت بتایا اور انہوں نے اس کا اظہار کر دیا کہ مجھے پکڑوانے والا تم میں سے ہی ایک ہو گا.اس وقت اس شاگرد نے جو حضرت عیسی کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا اور ایک ہی برتن میں ایک دفعہ اس کا ہاتھ پڑتا تھا اور ایک دفعہ حضرت عیسی علیہ السلام کا.اس نے کہا کیا کوئی ایسا کم بخت ہو سکتا ہے جو آپ کو پکڑوائے حضرت عیسی نے کہا ہاں ہو سکتا ہے مگر وہ بار بار یہی کہتا رہا کہ یہ نہیں ہو سکتا یہ ممکن نہیں.مگر جب وہ وہاں سے کھانا کھانے کے بعد اٹھا اور یہ پیشگوئی سن کر اٹھا تو باہر جاکر تھیں (۳۰) روپے پر اس نے حضرت عیسی کو پکڑوا دیا.کہ جب وہ کھانا کھا رہا تھا اس وقت اس نے جو کچھ کہا وہ جھوٹ نہیں کہہ رہا تھا وہ بچ بچ خیال کرتا تھا کہ کوئی شاگرد ایسا نہیں ہو سکتا مگر تمھیں روپے جب اس کے سامنے آئے تو انہیں دیکھ کر پھسل گیا اور اس نے اپنے آقا کو پکڑوا دیا.حضرت خلیفہ اول ایک مولوی کا قصہ سناتے جس نے ایک شادی شدہ لڑکی کا نکاح دوسری جگہ پڑھا دیا.آپ نے اسے ملامت کی کہ تم نے یہ کیا کیا وہ کہنے لگا مولوی صاحب آپ ملامت
خطبات محمود سال ۶۱۹۲۸ کرنے میں جلد بازی نہ کریں پہلے میری بات تو سن لیں.حضرت مولوی صاحب فرماتے مجھے اس پر رحم آگیا اور میں سمجھا زمینداروں کا گاؤں تھا ان لوگوں نے جبر کر کے اسے نکاح پڑھنے کے لئے مجبور کیا ہو گا مجھے اس کی بات سن لینی چاہئے.میں نے پوچھا بتاؤ کیا ہوا کہنے لگا آپ خیال کریں جب چڑی کے برابر روپیہ نکال کر انہوں نے میرے سامنے رکھ دیا تو پھر میں کیا کرتا.گویا ایک روپیہ سامنے آجانے کی وجہ سے اسے شریعت کے حکم کا کوئی خیال نہ رہا.پس تجربہ کے وقت معلوم ہوتا ہے کہ کس میں کتنا ایمان ہے.کسی کا روپیہ دینا ہو تو اس کی ادائیگی کے وقت انسان دیکھے کہ ایمانداری سے کام لے رہا ہوں یا نہیں.کسی کے حقوق کا اس سے تعلق ہو تو دیکھے کہ حقوق ادا کر رہا ہوں یا نہیں.یا وراثت کا سوال ہے اس وقت دیکھے کسی کا حق تو نہیں دبایا ہوا.شادی بیاہ کا معاملہ ہے اگر ان سب باتوں کے وقت خدا کی محبت اس کے دل میں غالب رہے اور وہ کوئی ناجائز بات نہ کرے تب سمجھے کہ اسے تقویٰ حاصل ہو گیا ہے ورنہ یوں خیالی تقویٰ سے کچھ فائدہ نہیں ہو سکتا بلکہ ایسے آدمی کی حالت بہت زیادہ خطرناک ہوتی ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے اسے تقویٰ حاصل ہے حالانکہ حاصل نہیں ہوتا اور وہ مرجاتا ہے پھر کوئی چارہ کار نہیں رہتا لیکن اگر زندگی میں اسے اپنی صحیح حالت کا پتہ لگ جاتا تو وہ اصلاح کرلیتا.پس ہر انسان کو ہر ایک معاملہ میں ، لین دین میں لڑکی لینے یا دینے میں، تقسیم وراثت میں عزیزوں رشتہ داروں سے تعلقات میں خدا تعالیٰ کی مخلوق سے سلوک کرنے میں یہ سوچنا چاہئے کہ وہ کسی کا حق تو نہیں مار رہا.کوئی ناجائز بات تو نہیں کر رہا.گند تو نہیں بول رہا.ادھر کے گاؤں میں میں نے دیکھا ہے اس قدر گالیاں دی جاتی ہیں جن کی کوئی حد نہیں.گالیاں دینے والے احمدی نہیں بلکہ دوسرے لوگ ہیں لیکن قادیان کے ارد گرد کے دوسرے لوگ بھی پہلے کی نسبت اب بہت کم گالیاں دیتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے اثر سے اپنی اصلاح کر رہے ہیں لیکن ادھر جس گاؤں میں ہم گئے وہاں یہ نہیں کہ لڑائی جھگڑے اور غصہ کے وقت گالیاں دیتے ہوں بلکہ آپس میں محبت کی گفتگو کرتے ہوئے بھی گالیاں استعمال کرتے ہیں.شریعت تو غصہ کی حالت میں بھی گند بولنے سے منع کرتی ہے لیکن جو شخص یونسی گند بولتا ہے معلوم ہوتا ہے اس کی اخلاقی حالت بہت ہی گر گئی ہے اسے گند کا احساس ہی نہیں رہا.ایک شخص جو پھسل کر غلاظت میں جا پڑتا ہے وہ ایک حد تک معذور سمجھا جا سکتا ہے لیکن جو خود غلاظت کے ڈھیر پر جا بیٹھے اس کے متعلق یہی کہا جائے گا کہ اسے گندگی کا احساس ہی نہیں رہا.
خطبات محمود ۳۱۳ سال ۱۹۲۸ء پس جو شخص یو نمی گند بولتا ہے معلوم ہوا اس کی فطرت ماری گئی ہے.ایک مؤمن کو ہر بات میں تقویٰ اور اخلاق فاضلہ مد نظر رکھنے چاہئیں تاکہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہو سکے اور خدا تعالی مل جائے.اور جسے خدا تعالٰی مل جائے اسے اور کس چیز کی حاجت باقی رہ جاتی ہے خدا تعالی کا لمنا ایسا ہے جیسے کبھی نہ ختم ہونے والا خزانہ کا ملنا.دیکھو اگر یہاں گاؤں والوں کو معلوم ہو کہ یہاں سے دس کوس کے فاصلہ پر ایک ایسا کنواں ہے جس میں کروڑوں روپیہ ہے تو پھیرو پیچی کے سارے لوگ اس کی طرف دوڑ پڑیں گے مگر ایک ایسا خزانہ جو کبھی نہ ختم ہونے والا ہے اس کی طرف بہت کم لوگ توجہ کرتے ہیں اور وہ خدا تعالٰی کے تعلق اور محبت کا خزانہ ہے.دنیوی خزانوں کی طرف لوگ دوڑتے ہیں اور غلط طور پر کسی نفع کی امید ہو تو بھی دوڑ پڑتے ہیں مگر آخرت کے خزانہ کے لئے جو یقینی طور پر مل سکتا ہے کم لوگ کوشش کرتے ہیں.عرب میں مشہور ہے کہ ایک نیم پاگل شخص تھا لڑ کے اسے ستاتے جب وہ بہت تنگ آجا تا تو کہتا آج فلاں امیر کے ہاں دعوت ہے وہاں جاؤ.لڑکے یہ سن کر دوڑ پڑتے جب لڑکے چلے جاتے تو وہ خیال کرنا ممکن ہے وہاں دعوت ہو لڑکے کھالیں اور میں محروم رہ جاؤں یہ خیال کر کے وہ خود بھی ادھر دوڑ پڑتا.آگے سے لڑکے مایوس ہو کر آرہے ہوتے وہ اسے پکڑ لیتے اور خوب مارتے.پھر وہ کہتا پہلے میں نے یونہی کہا تھا مگر فلاں امیر کے ہاں ضرور دعوت ہے وہاں جاؤ.جب لڑکے ادھر جاتے تو وہ بھی ان کے پیچھے چل پڑتا اور پھر مار کھاتا.تو ایسے آدمی بھی ہوتے ہیں جو غلط خبر کے پیچھے دوڑ پڑتے ہیں.پھر ایسا عظیم الشان خزانہ جو کبھی ختم نہ ہو اور جس کا ملنا یقینی ہو اس کے لئے چھوٹی چھوٹی باتوں میں پڑ کر کوشش نہ کرنا کتنی بڑی نادانی ہے.دیکھو رسول کریم ای سے لوگوں نے سب کچھ چھین لیا اسی طرح صحابہ سے بھی چھین لیا مگر خدا تعالٰی کے مقابلہ میں انہوں نے کسی بات کی پروانہ کی آخر خدا تعالٰی نے ان کو سب کچھ دیا اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے بھی خدا تعالیٰ کے لئے سب کچھ چھوڑا اور باوجود اس کے کہ اپنے خاندان میں نصف حصہ کے مالک تھے آپ کی بھاوج جنہیں خدا تعالیٰ نے بعد میں احمدی ہونے کی توفیق دی سمجھتی تھیں کہ آپ مفت خورے ہیں.مگر خدا تعالٰی نے آپ کو سب کچھ دیا.اس حالت کا نقشہ آپ نے اس طرح کھینچا ہے.لفاظات الْمَوَائِدِ كَانَ اكلي وَصِرتُ اليومَ مِطْعَامَ الأَهَالِيُّ
خطبات محمود ۳۱۴ سال ۱۹۲۸ هو کہ ایک زمانہ تھا جب میں دوسروں کے ٹکڑوں پر بسر اوقات کرتا تھا مگر اب خدا نے مجھے توفیق دی ہے کہ ہزاروں لوگ میرے دستر خوان پر کھانا کھاتے ہیں.جو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرتا ہے اور اس کے لئے سب کچھ چھوڑتا ہے اسے وہ ضائع نہیں کرتا.پس کسی نقصان یا خوف کی وجہ سے تقویٰ کو ہاتھ سے نہیں دینا چاہئے.روپے لینے یا دینے میں زمین لینے یا دینے میں.اسی طرح اور دوسرے معاملات میں تقویٰ مد نظر رکھنا چاہئے.دیکھو یہ بنے جن کے پاس کچھ نہ ہو تا تھا انہوں نے خدا تعالٰی کے بتائے ہوئے طریق پر عمل کیا تو اپنے گھر بھر لئے.مسلمانوں نے ستی کی اور وہ کنگال ہو گئے.اگر چہ اسلام نے سود لینا یا دینا جائز نہیں رکھا لیکن اور ہزاروں تدبیریں رکھی ہیں جن پر عمل کر کے انسان رزق پیدا کر سکتا ہے.خود بھی آرام حاصل کر سکتا ہے اور خدا کے بندوں کی بھی خدمت کر سکتا ہے لیکن اگر حرام مال حاصل کیا جائے تو وہ پہلے مال کو بھی تباہ کر دیتا ہے.پس ہر حالت میں تقویٰ حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے یہی احمدیت کی غرض ہے.اگر کسی کو تقویٰ حاصل نہ ہو تو اسے سمجھنا چاہیئے ابھی اور کوشش کی ضرورت ہے.الفضل ۲۴ فروری ۱۹۲۸ء) (مفهوم نے منی باب ۲۷ آیت ۱۳ تا ۲۵ نارتھ انڈیا بائیل موسائی مرزا اور معبود شاه رمضونگا
خطبات محمود ۳۱۵ ۴۲ سال ۱۹۲۸ء رمضان المبارک کے فیوض فرموده ۲۴ فروری ۱۹۲۸ء) تشهد تعوز اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالٰی کے فضل سے ہم میں سے بہت سے جو پچھلے سال رمضان کی برکات سے حصہ لینے والے تھے انہیں پھر ایک بار موقع دیا گیا ہے کہ وہ رمضان کے فیوض سے فائدہ حاصل کریں.اسلام اس بات کا قائل نہیں کہ شریعت لعنت ہے اگر شریعت لعنت ہو تو اس سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے.اسلام اس امر کا قائل ہے کہ شریعت ہدایت اور رحمت ہے اور کوئی عقل مند شخص رحمت سے بچنے کی کوشش نہیں کیا کرتا.ہاں اگر لعنت ہو تو بے شک ہر عظمند کا فرض ہونا چاہئے کہ اس سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرے.مسلمانوں میں غفلت کے باعث جہاں عیسائیوں اور یہودیوں کی کئی غلط باتیں ان میں داخل ہو گئی ہیں وہاں یہ خیال بھی پیدا ہو گیا کہ شریعت لعنت ہے.اور بڑے بڑے علماء اس کوشش میں تھے کہ شریعت کے ہر حکم سے بچنے کے لئے کوئی حیلہ تلاش کریں چنانچہ انہوں نے کتاب الحیل تصنیف بھی کی جس میں بتایا کہ فلاں حیلہ سے فلاں حکم ٹالا جا سکتا ہے اور فلاں سے فلاں.شریعت خدا تعالیٰ سے ملاقات کرنے کا ایک ذریعہ ہے اور کوئی عقل مند دنیا میں ایسا نہیں جو کسے کہ مجھے کوئی ایسا حیلہ بتاؤ جس سے میں اپنی ماں یا اپنی بیوی یا اپنی بہن سے نہ مل سکوں.پھر ایسے انسان کی فطرت کس قدر گندی ہوگی جو خدا تعالٰی سے ملاقات کے راستہ سے بچنے کے لئے خیلے ڈھونڈتا پھرے یعنی اس بات کی کوشش کرے کہ وہ کسی طرح خدا کے قریب نہ پہنچ جائے.پس شریعت لعنت نہیں بلکہ رحمت ہے.اور مبارک ہے وہ انسان جسے احکام شریعت پر عمل کرنے کا موقع ملتا ہے.مگر جہاں شریعت کے احکام کی تعمیل ضروری ہے وہاں اس کی حد
خطبات محمود سال ۶۱۹۲۸ بندیوں کا خیال بھی رکھنا چاہئے.جس بات سے شریعت روکتی ہے اس کو کرنے والا خدا تعالٰی سے دور ہو جاتا ہے.مثلاً شریعت بیمار کو روزہ رکھنے سے روکتی ہے اب اگر کوئی مریض روزہ رکھے تو وہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی بجائے اس سے دور ہو گا.اسی طرح عید کے دن روزہ رکھنے والے کو رسول کریم ﷺ نے شیطان قرار دیا ہے.جس طرح جو شخص قادیان آنے کے لئے اس سڑک پر جو قادیان کو آتی ہے نہیں چلتا وہ قادیان نہیں پہنچ سکتا اسی طرح وہ شخص بھی جو قادیان آنے والی سڑک پر تو چلے مگر کہیں کھڑا نہ ہو بلکہ چلتا ہی جائے وہ بھی قادیان نہیں پہنچ سکے گا.پس وہ شخص جو شریعت کو بالکل چھوڑ دیتا ہے اور وہ جو اس کے بتائے ہوئے راستہ پر تو چلتا ہے مگر اس کے بتائے ہوئے مقام پر ٹھہرتا نہیں دونوں خدا تعالٰی کو نہیں پاسکتے.شریعت کے احکام کو مد نظر رکھتے ہوئے خصوصیت سے میں ایک نصیحت رمضان کے لئے کرتا ہوں.آج کل رسول کریم ﷺ پر حملے ہو رہے ہیں.ابھی دو تین دن ہوئے میں نے اخبارات میں پڑھا ہے کہ راجپال کی کتاب پھر ہندی میں شائع کی گئی ہے.جب شریر اپنی بدی اور شرارت میں بڑھ رہے ہیں تو مؤمن کے لئے ہر گز مناسب نہیں کہ وہ نیکی اور وفاداری میں پیچھے رہے بلکہ اس کو بھی چاہئے کہ محبت میں ترقی کرے.محبت اور دشمنی دو طاقتیں ہیں جن میں سے محبت زبردست ہے.دنیا میں کوئی برے سے برا آدمی ایسا نہیں جو ہر وقت دشمنی ہی میں مشغول رہے مگر کروڑوں مائیں ایسی ہیں جو ہر وقت محبت سے بھری رہتی ہیں.اگر دشمن دشمنی جاری رکھ سکتا ہے تو محبت والے اپنی محبت کیوں جاری نہیں رکھ سکتے جبکہ محبت کا جاری رکھنا بہ نسبت دشمنی کے زیادہ آسان ہے.اگر ہم کو رسول کریم ﷺ سے محبت ہے تو یہ دشمن کی دشمنی پر غالب ہونی چاہئے.چونکہ یہ خدا تعالٰی کی برکات کے نزول کے ایام ہیں اس لئے ان ایام میں خصوصیت سے اس زمانہ کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے رسول کریم ﷺ پر درود بھیجے جائیں.یہ ہماری دعاؤں کی قبولیت کا بھی ذریعہ ہو گا کیونکہ کسی کے عزیز سے پیار اور محبت رکھنے والا بھی اس کو عزیز ہو جاتا ہے.پس کثرت کے ساتھ درود پڑھیں تاکہ رسول کریم ﷺ کے فیوض زیادہ سے زیادہ دنیا پر نازل ہوں اور اسلام کی ترقی ہو.چونکہ آج دیر ہو گئی ہے اس لئے خطبہ کو ختم کرتا ہوں گو بظاہر یہ مختصر ہے مگر عمل کے لحاظ سے یہ مختصر نہیں بلکہ نہایت اہم ہے.(الفضل ۶ / مارچ ۱۹۲۸ء)
خطبات محمود ۴۳ سال ۱۹۲۸ء رمضان المبارک کی برکات سے فائدہ اٹھاؤ (فرموده ۲ مارچ ۱۹۲۸ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالی کے متعلق مختلف لوگوں نے اپنے اپنے افکار کے اظہار میں بہت سی غلطیاں کی ہیں.بعض لوگ اپنی محبت کی رو میں بہہ کر اور علم دین سے ناواقفیت کی وجہ سے اس کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں جو بالکل انسانی تقاضوں اور انسانی اعمال سے مشابہ ہوتی ہیں.مولانا روم نے اپنی مثنوی میں تو ایک قصہ کے طور پر ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک بزرگ نے ایک چرواہے کو دیکھا کہ وہ جنگل میں بیٹھا ہوا باتیں کر رہا تھا اور خدا تعالیٰ کو مخاطب کر کے کہہ رہا تھا کہ اے خدا اگر تو میرے پاس آئے تو میں تجھے نہایت عمدہ اور لذیذ دودھ پلاؤں ، تیری جو میں نکالوں اور تیرے بال درست کروں.غرض جو اس چرواہے کے نزدیک عمدہ بکری یا پیارے بچے سے سلوک کیا جاتا ہے وہ خدا سے کرنا چاہتا تھا.مولانا روم نے لکھا ہے اس بزرگ نے جب یہ باتیں سنیں تو اس کو ڈانٹا اور کہا یہ کیا کہہ رہے ہو ؟ اس پر انہیں الہام ہوا کہ اسے ڈانٹنا نہیں چاہئے اس کی یہی باتیں مجھے پیاری لگتی ہیں.بات یہ ہے کہ جب تک ایسی باتیں مذہب کا حصہ اور عقائد کی بنیاد نہیں بن جاتیں ایک عاشقانہ جذبہ کی لے ہوتی ہیں اس لئے پیاری لگتی ہیں لیکن جب یہ مذہب میں داخل ہو جائیں اور عقائد کی بنیاد بن جائیں تو یہی باتیں شرک اور کفر بن جاتی اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہو جاتی ہیں.جیسے حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص ایک موقع پر بے اختیار ہو گیا.اس کو خدا تعالی کا احسان یاد آیا.اس جوش محبت میں اس کے منہ سے نکل گیا کہ اے خدا تو میرا بندہ اور میں تیرا خدا ہوں.گویا جوش محبت میں الٹ بات اس کے منہ سے نکل گئی.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں خدا تعالی کو اس کی یہ بات -
خطبات محمود PA سال ۶۱۹۲۸ بھی پسند آگئی.لیکن اگر کوئی جان بوجھ کر ایسی بات کے یا اسے اپنا عقیدہ بنا لے تو یہ کفر ہو گا.تو جوش محبت میں ایک جاہل یا جوش محبت کے وقت کی جہالت میں ایک عالم بھی جاہلانہ فقرہ کہہ دیتا ہے مگر اپنی نیت اور وقت اور موقع کے لحاظ سے خدا تعالی کا پیارا بن جاتا ہے.ہاں عقیدہ کے لحاظ سے ایسی بات جائز نہیں ہوتی اور خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہو جاتی ہے.وہی نقشہ جو مولانا روم نے کھینچا ہے ہندوؤں کا عقیدہ ہے.ان کی کتابوں میں لکھا ہے کہ جب پر میشور سوتا ہے تو لکشمی اس کے پاؤں دباتی ہے ایسا ہی جیسے چرواہے نے عشق میں کہا تھا.کسی نے اپنے عشق میں یہ بات کہی جو بعد میں عقیدہ بن گئی یا کسی نے رویا دیکھی اور رویا کی تعبیر ہوتی ہے مگر لوگوں نے اسے ظاہر پر محمول کر لیا.پس ایک تو لوگ ایسے ہیں جو خدا تعالٰی کے متعلق ایسے خیال اور ایسے عقائد رکھتے ہیں جو اس کو بالکل انسان ثابت کرتے ہیں.یعنی ان کے عقیدہ کی رو سے وہ کھاتا پیتا اور پہنتا ہے، گھوڑوں اور رتھوں پر سوار ہوتا ہے ، شراب کے تھے اسے پیش کئے جاتے ہیں ، وہ روٹھتا ہے ناراض ہوتا ہے ، بگڑتا ہے ، ایک دوسرے کو لڑاتا ہے ان باتوں کو عقائد کا جزو بنا لیا گیا ہے.اب یہ باتیں عاشقانہ ترنگ اور والہانہ لے نہیں رہیں جو عقل کے ماتحت تو گناہ ہوتی ہیں مگر عشق کی ہر کے جنون میں محبت کا باعث ہو جاتی ہیں.ایسی بات کو غلطی کہا جا سکتا ہے مگر نہایت پیاری غلطی.اسے ٹھو کر کہا جاسکتا ہے مگر نہایت ہی محبت آمیز ٹھو کر لیکن ان کو جزو مذہب سمجھ لیا گیا ہے اور ان پر عقائد کی بنیاد رکھی جاتی ہے اس لئے کفر بن گئی ہیں.اور کچھ لوگوں نے اس کے خلاف اللہ تعالیٰ کے متعلق ایسے عقائد بنالئے ہیں کہ ان کے ماتحت اللہ تعالی کی ہستی بالکل ایک فلسفیانہ خیال رہ جاتا ہے اور وہ تمام صفات سے عاری ہو جاتا ہے.مثلا یہی کہ وہ دعا کے متعلق کہتے ہیں اگر خدا تعالیٰ عالم الغیب ہے اور پھر رحیم بھی ہے وہ بندے کی حالت کو خود دیکھ رہا ہے تو خود ہی رحم کرے گا اس کی کیا ضرورت ہے کہ ہم اس سے دعائیں کریں اور التجائیں کریں.ایک شخص مر رہا ہے تو کیا اس کو محض اس لئے مرنے دے گا کہ وہ اس سے دعا نہیں کرتا.کیا دعا کے بغیر وہ اپنے بندے کی خبر گیری نہیں کرے گا.اگر کرے گا تو اس کے سامنے عجز و انکسار کے اظہار کی اور دعا کرنے کی کیا ضرورت ہے.بے شک اگر خدا کو فلسفیانہ خیال کے مطابق سمجھا جائے تو پھر میں ان لوگوں کے خیال کی تردید نہیں کروں گا مگر دیکھنا یہ ہے کہ خدا تعالٰی معاملہ کس سے کرتا ہے.ہمارے ملک میں ایک مثل ہے.اسے میں خدا تعالیٰ کی ذات پر چسپاں تو نہیں
خطبات محمود ۳۱۹ سال ۶۱۹۲۸ کر سکتا مگر اس سے ایک لطیف سبق حاصل کیا جا سکتا ہے.اور ایسا سبق حاصل کیا جا سکتا ہے جو خدا تعالیٰ کی صفات کے متعلق بصیرت بخشتا ہے اور اس سے بہت بڑا فائدہ حاصل ہوتا ہے.مثل یہ ہے کہ عقلمند سے عقلمند بھی تین جگہ پاگل ہو جاتا ہے.(۱) بیوی سے محبت کرتے وقت.(۲) بچے سے سے پیار کرتے وقت اور (۳) شیشے کے سامنے.وہی عقل مند جو نہایت باریک اور علمی غلطیاں لوگوں کی نکالتا ہے.علم ادب کی ادنیٰ سے ادنی غلطیوں پر ناراض ہو جاتا ہے.کسی شاعر ادیب یا خطیب کے کلام اور شعر کو یا کسی مصنف کی تصنیف کو دیکھ کر برداشت نہیں کر سکتا.اگر کتاب میں کوئی غلطی ہو تو اسے بند کر کے رکھ دیتا ہے کہ اسے پڑھ نہیں سکتا.اگر شعر غلط ہو تو اسے سن نہیں سکتا.اگر خطبہ فصیح نہ ہو اسے سنتے ہوئے اکتا جاتا ہے.لیکن بچے سے گفتگو کرتے وقت وہ کہتا ہے یہ چیز " تیلی ہے " یہ میلی ہے".یعنی وہ بچہ کی تیلی اور میلی کی نقل کرتا ہے یہاں اس کی حالت بدل جاتی ہے.کیونکہ وہ سمجھتا ہے اس وقت وہ ادباء کی مجلس میں نہیں بیٹھا ہوا بلکہ بچہ سے باتیں کر رہا ہے.اس لئے ضروری ہے کہ بچہ کا دل رکھنے کے لئے اس کی سی باتیں کروں.اس وقت وہ یہ نہیں کرتا کہ اسی فلسفیانہ کرسی پر بیٹھا رہے جس پر وہ دن بھر بیٹھا رہتا ہے بلکہ اس سے نیچے اتر آتا ہے کیونکہ اگر وہ نیچے اتر کر اسی سطح پر نہ آجائے جس پر بچہ ہے تو بچہ اس کے پاس کبھی نہ آئے گا اور اس سے کبھی مانوس نہیں ہو سکتا.وہ بچہ کے لئے نیچے کی طرف لوٹ آتا ہے تاکہ اس کو اپنی طرف کھینچ سکے.اسی طرح خدا تعالٰی بھی اپنی شان کے مطابق اور انسانی جذبات کے مطابق جس سے اس کی صفات پر حرف نہیں آتا اپنے مقام سے نزول کرتا ہے.کیونکہ وہ سب کا خدا ہے.وہ صرف عقل مندوں اور فلسفیوں کا ہی خدا نہیں بلکہ جاہلوں اور کم عقلوں کا بھی خدا ہے اس لئے وہ سب کی حالت کو مد نظر رکھتا ہے.اور انسانی فطرت کبھی ناز چاہتی ہے اور کبھی نیاز اس لئے خدا تعالی بھی کبھی ناز کی چادر اوڑھ لیتا ہے ناکہ بندہ اسے سمجھ سکے.وہی خدا جو علیم و خبیر ہے اور انسان کی حاجات کو خوب جانتا ہے.وہ جس نے رحمن ورحیم ہو کر پیدا ہونے سے بھی پہلے انسانوں کے لئے ضروریات رکھ دیں.وہ چاہتا ہے کہ بندہ اس سے التجاء کرے اور وہ اس کی التجاء قبول کرے تاکہ اس کے اندر وہ جلن اور خلش پیدا ہو جس کے بغیر عشق مکمل نہیں ہو سکتا.جو شخص یہ کہتا ہے کہ خدا جب دیکھتا ہے تو خود میری ضروریات پوری کرے گا.اس سے ناز تو ظاہر ہے مگر اس طرح محبت کے جذبات نہیں پیدا ہوتے.یہ اسی طرح پیدا ہوتے ہیں کہ
خطبات محمود ۳۲۰ سال ۶۱۹۲۸ جب مانگوں تو دے گا پکاروں تو بولے گا.پس وہ لگاؤ اور وہ جلن جو عشق پیدا کرتا ہے یا جو عشق سے پیدا ہوتی ہے وہ فلسفیانہ جذبات اور خیالات سے نہیں پیدا ہوتی.اس لئے خدا تعالٰی نے اپنے فضلوں کے ایک دروازے کو آہ وزاری اور عجز و انکساری کے ساتھ مخصوص کر دیا ہے.خدا تعالیٰ پر دور نہیں آتے نہ اس کو مہینوں یا دنوں سے کوئی تعلق ہے کیونکہ یہ تو سورج سے پیدا ہوتے ہیں جو ایک ادنیٰ چیز ہے اور وہ سورج کا خالق ہے اس کی پیدائش سے جو مہینے پیدا ہوں ان سے خدا کو کیا تعلق ہو سکتا ہے.جس طرح پانی کنویں سے نکلتا ہے اور ایک زمیندار کھیت کو سیراب کرنے کے لئے ہاتھ میں کھرہا جسے رمبا کہتے ہیں لئے اس کو صحیح طور پر چلاتا ہے.اب کنویں کو رہبے سے کیا تعلق ہے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کنواں رہبے کا محتاج ہے.تو خدا تعالی کا دنوں یا مہینوں یا سالوں سے کوئی تعلق نہیں.اور اس کے افضال کسی دن یا مہینہ سے وابستہ نہیں.مگر وہ انسان جس سے خدا تعالیٰ سلوک کرنا چاہتا ہے وہ مہینوں سے وابستہ ہے.خدا تعالی تو رات دن جاگتا اور ہمیشہ بیدار رہتا ہے لیکن بندہ تو سوتا ہے اس لئے باوجود اس کے کہ خدا کے لئے دن اور رات کی ساری گھڑیاں ایک ہی جیسی ہیں مگر انسان کے لئے نہیں اس لئے فرمایا کہ بندہ کی دعائیں سننے کے لئے میں رات کی آخری گھڑیوں میں نیچے اترتا ہوں.یعنی اس وقت دعا ئیں خاص طور پر قبول کرتا ہوں.یہ گھڑیاں گھری اور میٹھی نیند کی گھڑیاں ہوتی ہیں جو انسان خدا تعالیٰ کے لئے انہیں قربان کرتا ہے.اس کی دعا خدا تعالی سنتا ہے اس لئے نہیں کہ خدا کو رات کی آخری گھڑیوں سے تعلق ہے بلکہ اس لئے کہ بندہ کو ان گھڑیوں سے تعلق ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ کے لئے سب مہینے برابر ہیں مگر بندے پر سستی اور کسل کی حالت آتی ہے اس لئے اس کی خاطر ایک مہینہ مخصوص کر دیا.اس لئے کہ بندہ ۱۲ مہینے خدا تعالی کی طرف ایک سا متوجہ نہیں ہو سکتا.پس خدا تعالیٰ نے اس مہینہ کو اس لئے نہیں چنا کہ اسے رمضان کا مہینہ پیارا ہے بلکہ اس لئے چنا ہے کہ بندہ ایک مہینے کو مخصوص کئے بغیر خاص طور پر خدا کی طرف متوجہ نہ ہو سکتا تھا.پس خدا تعالیٰ نے رمضان کو اس لئے نہیں چنا کہ یہ مہینہ بابرکت تھا.بلکہ خدا نے انسانوں کو کمال تک پہچانے کے لئے اسے بابرکت بنایا.قرآن کو بھی رمضان کے ساتھ خاص تعلق ہے مگر اس لئے نہیں کہ مہینہ مبارک تھا بلکہ جب رسول کریم ﷺ کی روحانیت اس کمال تک پہنچ گئی کہ قرآن شریف نازل ہو تو وہ رمضان کا مہینہ تھا اس لئے اسے خدا تعالیٰ نے مبارک بنا دیا تاکہ بندوں کو یاد دلائے کہ اس مہینہ میں عجز و انکسار اور خدا تعالیٰ
خطبات محمود ۳۲۱ سال ۱۹۲۸ء کے آگے اپنے آپ کو ڈال دینے سے جب محمد رسول اللہ خاتم النبین بن گئے تو تم بھی کوشش کرد- اگر محمد رسول اللہ نہ بن سکو گے تو کم از کم اس کے خادم تو بن جاؤ گے.پس یہ مہینہ ہمارے لئے نشان ہے.یہ بندوں کو موقع دیتا ہے کہ خدا کی طرف خاص طور پر متوجہ ہوں اور جو کام ہمیشہ نہیں کر سکتے کم از کم اس مہینہ میں کرلیں.ان حالات پر نظر ڈالتے ہوئے اور یہ کہ بندوں کے لحاظ سے تعلق رکھتے ہوئے یہ مہینہ بابرکت ہے ورنہ خدا تعالٰی کے لئے سب وقت یکساں ہیں.چونکہ بغیر وقت کی تعیین کے انسان ست ہو جاتا ہے اور یہ کہتے کہتے کہ پھر کرلیں گے وقت گزار دیتا ہے اس لئے خدا تعالٰی نے اس مہینہ کو چنا نا کہ ست سے ست اور غافل سے غافل لوگوں کو بھی ہو شیار کرے.چونکہ یہ مہینہ جاہل اور گم گشتہ راہ ہدایت مخلوق کو خدا کی طرف کھینچ لاتا ہے اس لئے بابرکت ہے.پس ان برکات سے جو اس مہینہ کے ساتھ وابستہ ہیں اور اس حکمت کے ماتحت جو میں نے بیان کی ہے ہمیں اس سے بہتر سے بہتر فائدہ اٹھانا چاہئے.جو طبائع پہلے خدا تعالی کی طرف متوجہ نہ تھیں ان کو اس طرح متوجہ ہونا چاہئے کہ یہ رمضان کا مہینہ چلا جائے مگر ان کے لئے نہ جائے.رمضان کی یہی خوبی ہے کہ انسان اس ماہ میں خدا کے لئے رات کو اٹھتا ہے اور دعائیں کرتا ہے.لیکن جو شخص ہمیشہ رات کو اٹھے اور خدا تعالٰی کے حکم کے ماتحت اپنی طاقت اور قوت کے ماتحت عبادت کرے اس کے لئے رمضان کے گذر جانے کے بعد بھی رمضان ہی ہے.پس یہ ناممکن نہیں ہے کہ اس رمضان کی وجہ سے ایسی توفیق مل جائے کہ باقی گیارہ مہینے بھی رمضان ہی رہے.ہمارے دوستوں کو اس ماہ کی برکات سے فیض یاب ہونے کے لئے خصوصیت سے کوشش کرنی چاہئے اور خصوصیت سے دعا ئیں کرنی چاہئیں.خدا تعالٰی تو ہر وقت سنتا ہے مگر انسان کی ہمت بندھانے کے لئے خدا تعالیٰ اسے خاص موقع دیتا ہے.میں نے دیکھا ہے معمولی کھیلوں اور کاموں میں بھی اگر یہ طریق نہ رکھا جائے تو وہ نہ ہو سکیں.مثلاً ایم.اے کا امتحان شاید ہی کوئی پاس کرتا اگر صرف یہی آخری امتحان رکھا جاتا.پس امتحانات کے درجے اس لئے رکھے گئے ہیں تاکہ انسان کو جرات پیدا ہو اور وہ سمجھے اب میں نے یہ امتحان پاس کر لیا ہے اب یہ اور اس طرح ترقی کرتا جائے.اسی طرح چھوٹے بچہ کا استاد دیکھتا ہے کہ ست ہو رہا ہے تو کہتا ہے بس ایک دفعہ سبق دہرالو تو یاد ہو جائے گا.اسی طرح رسہ کھینچنے کے وقت جب لڑکے ست ہونے
خطبات محمود ۳۲۲ سال ۱۹۲۸ء لگتے ہیں تو کہا جاتا ہے ذرا زور لگا لو تو جیت جاؤ گے اس سے ان کے دل مضبوط ہو جاتے ہیں.بات یہ ہے کہ جب انسان کو معلوم ہو جائے کہ اس کا مقصود اسے ملنے والا ہے تو وہ اپنی انتہائی قوت اور طاقت خرچ کر دیتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے انسان کی ہمت کی کمزوری کو دیکھ کر کھا لو آج میں تمہاری دعائیں سننے کے لئے تیار ہو گیا ہوں تاکہ جو اپنی کم ہمتی کی وجہ سے اپنی دعا ئیں اسے سنانے نہیں جاتے وہ بھی جائیں.تو یہ بندوں کے لحاظ سے باتیں ہیں.چونکہ جس ہستی نے انسان پیدا کیا وہی جانتی ہے کہ انسان کسی طرح ہدایت پاسکتا ہے اس لئے اس نے یہ طریق رکھا ہے ورنہ خدا تعالی کامل ہے ہمیشہ سے کامل ہے اور ہمیشہ کامل رہے گا.وہ بابرکت ہے ہمیشہ سے بابرکت ہے اور ہمیشہ بابرکت رہے گا مگر کوئی وجہ سمی ، ہماری کمزوری ، ہماری ستی ، ہماری کو تاہی ہی سمی بہر حال جب ہماری کمزرویوں نے اس کی برکات حاصل کرنے کا خاص موقع بہم پہنچایا ہے تو ہم کیوں اس سے فائدہ نہ اٹھا ئیں.پس ان ایام میں خصوصیت سے دعا ئیں کرو پھر صرف اپنے نفس کو ہی مد نظر نہیں رکھنا چاہیے بلکہ اسلام اور سلسلہ کی ترقی، اسلام اور سلسلہ کی کامیابی کے لئے بھی دعائیں کرنی چاہئیں.ہم اس وقت ایک جنگ میں ہیں اور جنگ کے موقع پر شخصی ضرورتوں کو قومی ضرورتوں پر قربان کر دیا جاتا ہے جس طرح جنگ کے موقع پر یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کسی کا اکلوتا بیٹا ہے یا دس پانچ بلکہ قوم کی خاطر قربانی کا سوال ہوتا ہے.اسی طرح آج اسلام کی عظمت کا سوال ہے اور خصوصیت سے اسلام کی خدمت کی ضرورت ہے.پھر ایک طریق دعا کرنے کا یہ بھی ہے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے دعا کرتے وقت اپنے بھائیوں کو یاد رکھا کرو.یہ منع ہے کہ کوئی شخص اپنے لئے دعا نہ مانگے اور صرف دو سروں کے لئے مانگے.اپنے لئے بھی مانگنی چاہئے مگر جب دوسروں کے لئے مانگتا ہے تو فرشتے اس کے لئے دعا مانگتے ہیں.جو شخص یہ کہے کہ میں دوسروں کے لئے ہی دعا مانگتا ہوں وہ غلطی کرتا ہے اور اس میں کبر پایا جاتا ہے گویا وہ اپنے آپ کو خدا کا محتاج نہیں سمجھتا.تو اپنے لئے بھی دعا ئیں مانگو اور دوسروں کے لئے بھی اس سے اصلاح نفس اور قربانی کا مادہ بھی پیدا ہوتا ہے.کیونکہ جب ہم خدا تعالٰی سے کہتے ہیں کہ ہمارے فلاں بھائی کو یہ دے وہ دے تو کیا جب موقع ہوگا ہم خود حتی الامکان اس کی مدد نہ کریں گے ؟ ضرور کریں گے.ورنہ ہماری دعا جھوٹی ہو گی.اس طرح دعا کرنے سے قومی نظام مضبوط ہوتا ہے.
خطبات محمود سال ۱۹۲۸ء پس جماعت کے سب بھائیوں کے لئے مصیبت زدوں کے لئے اور ان کے لئے بھی جو ابتلاء میں ہوں خواہ وہ ابتلاء روحانی ہوں یا جسمانی - واقفوں کے نام لے کر اور جو واقف نہ ہوں ان کے لئے مجموعی طور پر ان کی دینی دنیوی ترقیات کے لئے دعا ئیں کرنی چاہئیں تا ملائکہ ہمارے لئے دعا کریں.خطبہ ثانیہ کے بعد فرمایا: ہر بات میں اللہ تعالیٰ کی حکمت ہوتی ہے.آج میری طبیعت ایسی خراب تھی کہ نبض چھٹی جاتی تھی اور غشی کی حالت ہو جاتی تھی.میں نے سمجھا جمعہ میں نہیں جا سکوں گا.مگر پھر خیال آیا جا کر نماز پڑھوں خطبہ نہیں پڑھوں گا مگر یہاں آکر خطبہ پڑھنے کی تحریک ہوئی اور خدا تعالیٰ نے اس کے لئے توفیق ہیں.جس قدر میں نے خطبہ بیان کیا ہے وہ عام خطبوں سے کم نہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کے خاص تصرف کے ماتحت ہے اس لئے بھی جماعت کو اس طرف خاص توجہ دینی چاہئے.الفضل ؟ / مارچ ۱۹۲۸ء) مثنوی معنوی مولانا جلال الدین رومی دفتر دوم نمد ۲ ناشر انتشارات طلوع تاریخ انتشار اسفند 9 نوبت چاپ ششم تا مسلم کتاب التوبة باب الحض على التوية والفرح بها ܀
خطبات محمود ۳۲۴ ام بم سال ۱۹۲۸م روزہ رکھنے کی بلوغت (فرموده ۹ مارچ ۱۹۲۸ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: روزوں کے متعلق ایک سوال مجھے لکھ کر دیا گیا ہے.میں اس کے متعلق آج کے خطبہ جمعہ میں بیان کرنا چاہتا ہوں.میں اس سوال کے متعلق پہلے بھی دو خطبے پڑھ چکا ہوں.ایک دفعہ تو روزوں کے متعلق جو میرا خیال ہے وہ بیان کیا تھا.پھر اس خیال کے متعلق یہی سوال جواب کیا گیا ہے پوچھا گیا تو اس کا میں نے جواب دیا تھا لیکن جن صاحب کی طرف سے اب سوال کیا گیا ہے وہ اس وقت یہاں نہ تھے بعد میں آئے ہیں اور یوں بھی بڑھنے والی جماعت میں چونکہ نئے نئے آدمی داخل ہوتے رہتے ہیں اس لئے متواتر بعض باتوں کو دہرانے کی ضرورت ہوتی ہے.اور میں سمجھتا ہوں بعض باتیں ایسی ضروری ہیں جنہیں کچھ کچھ عرصہ کے بعد دہراتے رہنا چاہئے.لیکن چونکہ ہم ان کا دہرانا بھول جاتے ہیں اس لئے نقص پیدا ہونے لگ جاتا ہے.پس جو خطبہ میں بیان کرنے لگا ہوں وہ دوبارہ سننے والوں کے لئے بھی مفید ہو گا اور نئے آنے والوں کو کے لئے بھی اس لئے بیان کرتا ہوں.وہ مسئلہ جو میں نے بیان کیا تھا یہ تھا کہ روزوں کے بارہ میں ہمارے ملک میں بہت سختی اور تشدد سے کام لیا جاتا ہے جو شریعت کا نشاء نہیں معلوم ہوتا.ایسی ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں کہ چھوٹے بچوں سے روزے رکھوائے گئے اور انہیں ایسی حالت میں ڈال دیا گیا کہ بعض دفعہ تو بچہ کی جان ہی گئی.میں نے بعض دوستوں سے سنا ہے اور میرا خیال ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح الاول سے سنا ہے مگر ممکن ہے ان سے نہ سنا ہو کسی اور سے سنا ہو کہ کسی گھر والوں نے اپنے چھوٹی عمر کے بچہ سے روزہ رکھوایا.اور جیسا کہ اس ملک کا دستور ہے کہ ایسے موقع پر لوگوں کو
خطبات محمود ۳۲۵ سال ۱۹۲۸ء جمع کر لیتے ہیں.انہوں نے بھی اپنے رشتہ داروں اور دوسروں کو جمع کیا، کھانے تیار کئے گئے اور ضیافت کی خوب تیاریاں کی گئیں.بچہ میں چونکہ روزہ رکھنے کی طاقت نہ تھی ایک تو اس کی عمر چھوٹی تھی دوسرے صحت بھی اچھی نہ تھی نتیجہ یہ ہوا کہ دن ڈھلتے تک بچہ بھوک اور پیاس بے تاب ہو گیا کچھ دیر تو گھر والے اسے دلا سا دیتے رہے مگر جب وہ تکلیف سے مجبور ہو گیا.تو پاگلوں کی طرح دوڑ کر پانی کے گھڑے کی طرف جانے کی کوشش کرنے لگا.مگر ماں باپ ہر بار اسے روک دیتے اس لئے کہ اگر اس نے روزہ توڑ دیا تو رشتہ دار وغیرہ انکاری کی خوشی منانے کے لئے جمع ہیں ان کی خوشی میں فرق آئے گا اور پھر اس لئے بھی کہ جہلاء کا خیال ہے کہ روزہ رکھ کر توڑنا منع ہے خواہ جان ہی چلی جائے.غرض بچہ کو پانی پینے سے وہ روکتے رہے.آخر گرتا پڑتا ایک دفعہ گھڑے کے پاس پہنچ ہی گیا مگر اس وقت اس کی جان نکل چکی تھی.اس طرح وہی رشتہ دار اور مہمان جو خوشی منانے کے لئے جمع ہوئے تھے اس کے ماتم میں شریک ہوئے.بے شک ایسے واقعات شاذو نادر ہوتے ہیں مگر یہ انتہائی نتیجہ ہے اور ضروری نہیں کہ ہر بار انتہائی نتیجہ ہی نکلے.اب یہاں تک ثابت ہو چکا ہے کہ ساٹھ ساٹھ دن تک فاقہ کیا گیا ہے.جیل خانوں وغیرہ میں بعض مجرم اس لئے کھانا پینا چھوڑ دیتے ہیں کہ ان سے اچھا سلوک نہیں کیا جاتا.اس طرح فاقہ کرنے والے ساٹھ ساٹھ دن تک زندہ رہے ہیں.بے شک ایسے لوگوں کو آخری ایام میں مالش وغیرہ کی جاتی رہی ہے تاکہ اس طرح ان کے جسم میں غذا پہنچے مگر اس طرح اور معدہ میں خوراک پہنچانے میں بڑا فرق ہے.پھر ذیا بیطس کے بیماروں کو چالیس چالیس دن کا فاقہ کرایا جاتا ہے.صرف جو کے پانی کا گھونٹ دیا جاتا ہے.اس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ چھ سات دن تک تو فاقہ کرنے سے انسان مر نہیں سکتا مگر کوئی پسند نہ کرے گا کہ اس طرح فاقہ کر کے اپنی صحت خراب کرلے.کام وہی اچھا ہوتا ہے جس کا نتیجہ اچھا ہو میں نے بتایا تھا کہ مسلمانوں میں ایک غلطی پیدا ہو گئی تھی اور اس قسم کی غلطیاں اسی وقت پیدا ہوتی ہیں جب کسی قوم میں تنزل شروع ہو - غلطی یہ پیدا ہو گئی تھی کہ بلوغت کے معنے غلط سمجھے گئے تھے.میں نے اپنے خطبہ میں اس بات پر زور دیا تھا کہ ہر بات کے لئے علیحدہ بلوغت ہوتی ہے.لوگوں نے بلوغت یہ سمجھ رکھی ہے کہ وہ مادہ جس سے ولادت ہوتی ہے جب پیدا ہو جائے تو بچہ بالغ ہو جاتا ہے.یہ مادہ ہمارے ملک کے لحاظ سے بارہ تیرہ چودہ سال کی عمر میں پیدا ہو جاتا ہے.بعض اور ممالک ہیں جہاں دس گیارہ سال
خطبات محمود Fry سال ۴۱۹۲۸ کی عمر میں بھی پیدا ہو جاتا ہے.چاہے وہ کیڑا پیدا نہ ہو جو اس مادہ میں ولادت کا ذریعہ بنتا ہے مگر مادہ گیارہ بارہ سال کی عمر میں بھی پیدا ہو جاتا ہے اور عام حالت یہ ہے کہ بارہ تیرہ چودہ سال میں مادہ پیدا ہوتا ہے سوائے اس کے کہ کوئی شخص بیمار ہو اور اس کی صحت اچھی نہ ہو.اس مادہ کے پیدا ہونے کی عمر کو بلوغت کی عمر کہا گیا ہے.اس میں شبہ نہیں کہ جب یہ مادہ پیدا ہوتا ہے تو عقل انسانی ایک حد کمال تک پہنچتی ہے.اس وقت بچہ کے حالات اور شکل سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں مردانگی کی باتیں پیدا ہو گئی ہیں اور اس سے عقل میں تکمیل ہوتی ہے.وجہ یہ کہ خدا تعالٰی نے عقل کی پرورش کا ایک ذریعہ اس مادہ کو بھی بنایا ہے.اس سے کچھ رطوبتیں جذب ہو کر دماغ اور عقل تک پہنچتی ہیں اور اس کی پرورش ہوتی ہے.یہی وجہ ہے کہ بہت سے احکام شریعت اس حد سے وابستہ ہیں بلکہ جن باتوں میں عقل اور سمجھ کی ضرورت ہے وہ ساری کی ساری اسی سے وابستہ ہیں.مثلاً نماز ہے اس میں زور اور طاقت کا دخل نہیں بلکہ عقل سے تعلق رکھتی ہے اس لئے ایسے بالغ پر فرض کی جاتی ہے.اسی طرح بڑوں کا ادب یا اور باتیں جو عقل سے تعلق رکھتی ہیں محنت اور زور کی ان میں ضرورت نہیں ہوتی وہ اس بلوغت پر فرض ہو جاتی ہیں.یعنی جب کوئی بارہ تیرہ چودہ سال کا ہو جائے گا.اور مردمی کی بلوغت پر پہنچ جائے گا تو اس وقت وہ احکام اس پر عائد ہو جائیں گے جو عقل سے تعلق رکھتے ہیں.یوں تو پہلے بھی اس میں سمجھ اور عقل تھی مگر چونکہ اس کی عقل کامل نہ تھی اس لئے شریعت کے ان احکام پر نہ چلنا اس کے لئے گناہ نہ تھا مگر اس بلوغت کے بعد گناہ ہو گا.کچھ نہ کچھ زنگ تو پہلے بھی لگے گا مگر شرعی طور پر گناہ لازم نہیں آئے گا.لیکن بعض ایسے احکام ہیں جن سے عقل کا تعلق نہیں بلکہ عادت کا تعلق ہے وہ اس بلوغت سے پہلے ہی ضروری ہو جاتے ہیں.مثلاً دائیں ہاتھ سے کھانا ہے.اس کے لئے کوئی ماں باپ انتظار نہ کرے گا کہ بچہ بالغ ہو لے تو اسے دائیں ہاتھ سے کھانے کے لئے کہا جائے.دائیں ہاتھ سے کھانا بھی شریعت کا حکم ہے اور یہ عام حکم ہے کہ شریعت کے احکام بلوغت کے بعد عائد ہوتے ہیں لیکن اس حکم پر بچپن میں ہی عمل کرایا جاتا ہے.چنانچہ رسول کریم ﷺ نے محل بِيَمِينِكَ وَكُل مقا بلیک ، اپنے نواسے کو اس وقت فرمایا جب کہ اس کی عمر دو اڑ ہائی سال کی تھی کہ بچے اپنے داہنے ہاتھ سے کھاؤ.چونکہ یہ کوئی ایسا حکم نہیں ہے جس کے لئے عقل کی پختگی کی ضرورت ہو یہ عادت سے تعلق رکھتا ہے اس لئے اس پر عمل کرنا رسول کریم
خطبات محمود.۳۲۷ سال ۱۹۲۸ء نے بچپن سے سکھایا.پھر بعض احکام ایسے ہیں جو اس سے بھی پہلے سکھانے ضروری ہوتے ہیں.مثلاً گندگی سے بچنا ہے.اس کے لئے جب بچہ پیدا ہو اسی وقت سے ایسے طریق پر رکھنا ضروری ہوتا ہے کہ وہ گندگی سے بچے.چنانچہ جو عورتیں ہوشیار ہوتی ہیں وہ بچوں کو ایسی عادت ڈال دیتی ہیں کہ مقررہ وقت پر پاخانہ کرتے ہیں اور پاخانہ کے برتن میں کرتے ہیں فرش وغیرہ پر بیٹھے نہیں کرتے.یہ بات ہفتوں اور مہینوں کا بچہ سیکھ سکتا ہے.اب اگر کوئی پوچھے صفائی کے احکام کب سکھانے چاہئیں تو ہم کہیں گے دو تین ہفتہ کی عمر میں یا زیادہ چالیس دن میں بچہ اس کے لئے بالغ ہو جاتا ہے.اور کوئی کہے زبانی تربیت کے احکام سکھانے کے لئے بلوغت کیا ہے تو ہم کہیں گے دواڑ ہائی سال.اسی طرح سچ بولنا عادت سے تعلق رکھتا ہے.اس کی فلسفیانہ خوبیاں تو پندرہ سولہ سال کی عمر کا بچہ نہیں سمجھ سکتا.اب اگر کوئی پوچھے سچ بولنا کب سکھانا چاہئے تو ہم کہیں گے اڑہائی تین سال کی عمر سے سکھانا چاہئے.اسی طرح ننگا رہنا ہے.کیا کوئی کہ سکتا ہے کہ جب بچہ تیرہ چودہ سال کا ہو گا تب اسے کہیں گے کہ لنگوٹی باندھے یا پاجامہ پہنے.دواڑ ہائی سال سے ہی اسے بتایا جاتا ہے کہ ننگا نہیں رہنا چاہئے.پس بلوغتیں کئی ہیں بعض بچپن میں ہوتی ہیں.بعض چلہ میں ہی اور بعض بارہ تیرہ سال میں.بعض اس سے زیادہ عمر میں.دیکھو شریعت میں یہ تو آیا ہے کہ جب بچہ بارہ سال کا ہو جائے تو سختی سے بھی اسے نماز پڑھاؤ مگر جہاد اس عمر میں فرض نہیں کیا گیا حتی کہ ایک دفعہ ایک پندرہ سالہ لڑکے نے خود جہاد میں شریک ہونے کی درخواست کی لیکن رسول کریم ﷺ نے انکار کر دیا کیونکہ اس کے لئے اور بلوغت کی ضرورت تھی.ای طرح روزہ ایسا حکم ہے جس کے لئے جسمانی قربانی کرنی پڑتی ہے.انسان کی چربی پگھلتی ہے اس لئے جب تک وہ زمانہ نہ آجائے جو جسمانی نشوو نما کے لئے ضروری ہے روزہ فرض نہیں ہو تا.اور اگر بچے اس بلوغت پر پہنچنے سے پہلے روزہ رکھیں تو اس طرح قومی طور پر نقصان پہنچتا ہے کیونکہ بچپن میں چربی پگھل جانے سے صحت خراب ہو جاتی ہے اور پھر ایسا انسان کوئی کام نہیں کر سکتا.ہمارے ہاں سترہ اٹھارہ سال کی عمر تک بچے عام طور پر نشو و نما پاتے ہیں کوئی شاذ ہی ہوتا ہے جو اس سے پہلے جسمانی نشو و نما پالے.جو علاقے زیادہ گرم ہیں یا جو بدوی علاقے ہیں شہری نہیں وہاں پندرہ سولہ سال میں بلکہ چودہ سال میں بھی نشود نما پوری ہو جاتی ہے.پس مختلف ملکوں کی مختلف بلوغتیں ہیں.جب اس بلوغت کو کوئی بچہ پہنچ جائے تب اس کے لئے
خطبات محمود ނ ۳۲۸ سال ۶۱۹۲۸ روزہ فرض ہو گا مگر اس سے پہلے بھی کبھی کبھار روزے رکھوانے چاہئیں.جیسے نماز بارہ سال کی عمر تک عادت کے طور پر پڑھائی جاتی ہے فرض کے طور پر نہیں.اسی طرح روزہ کی بلوغت تک سے قبل تھوڑے تھوڑے روزے رکھوانے چاہئیں تاکہ مشق ہو لیکن اگر سارے روزے رکھوائے جائیں گے تو صحت خراب ہو جائے گی.جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ بڑی عمر میں جب وہ روزے رکھنے کے قابل ہو گا روزے نہیں رکھ سکے گا اور روزے رکھنے کی عمر تک پہنچنے سے قبل ہی ناکارہ ہو جائے گا.دراصل بچہ کے لئے سترہ اٹھارہ سال تک کی عمر نشو و نما کا زمانہ ہوتا ہے.اگر کوئی یہ خیال کرے کہ اتنی عمر کا لڑکا روزے رکھ کر روحانیت میں ترقی کرے گا تو یہ صحیح نہیں ہے.عام حالات کو مد نظر رکھ کر میں اکیس سال کی عمر میں ایسا زمانہ آتا ہے ہاں استثناء کی صورتوں میں اس سے پہلے بھی یہ بات حاصل ہو جاتی ہے.مجھے اپنے متعلق یاد ہے کہ میری گیارہ سال کی عمر تھی اس وقت میں نماز کبھی کبھی نہ پڑھنا تھا اور شرعا مجھ پر فرض نہ تھی.مگر مجھے یاد ہے ایک دفعہ میں نے حضرت صاحب کا جبہ تبرک کے طور پر پہن کر دعا کی کہ اب میں کبھی نماز نہ چھوڑوں گا مجھے یہ توفیق حاصل ہو.چنانچہ پھر کبھی نہ چھوڑی مگر یہ خاص حالات کی وجہ سے تھا.ہر وقت دین کی باتیں کان میں پڑتی رہتی تھیں گھر اور باہر دین کا ہی چرچا تھا مگر عام طور پر ہیں ، اکیس سال میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے.جائداد کے متعلق بلوغت جو رکھی گئی ہے وہ بھی اٹھارہ سال کے بعد کی ہے بارہ تیرہ سال کے لڑکے کے سپرد جائداد نہیں کر دی جاتی اور کہا جاتا ہے جائداد کے متعلق بلوغت اور ہے.اسی طرح روزہ کی بلوغت بھی اور ہے اس کی اوسط اٹھارہ سال ہے جو سولہ سال سے شروع ہوتی ہے اور اٹھارہ سال تک مکمل ہو جاتی ہے.انیس سال کا لڑکا پورے روزے رکھ سکتا ہے.اس وقت ساٹھ فیصدی یہ خطرہ نہیں ہو گا کہ صحت کو نقصان پہنچے باقی چالیس فیصدی رہ جاتے ہیں.انہیں چاہئے اپنی صحت کے متعلق خود فیصلہ کریں اور ان کے ماں باپ فیصلہ کریں اور پھر روزے رکھیں.رقعہ لکھنے والے صاحب نے لکھا ہے میں نے دیکھا ہے ہے کئے اور مضبوط نوجوان روزے نہیں رکھتے مگر بچپن کی عمر کا ہٹا کٹا ہونا کافی نہیں ہوتا اس سے نشوو نما کے پورے ہونے کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا.دیکھا گیا ہے کہ سترہ اٹھارہ سال کے مضبوط جوان مقابلہ میں اکیس بائیس سال کے جوانوں سے جو جسمانی لحاظ سے ان سے آدھے تھے جیت گئے.پہلے پہل تو انہوں نے دوسروں کو خوب بہ بیٹا مگر پھر کمزور ہونے لگ گئے اور آخر ہار گئے.وجہ یہ ہے کہ ان
خطبات محمود ۳۲۹ سال ۴۱۹۲۸ کی طاقتیں ابھی نشود نما پا رہی تھیں اور ان سے بڑی عمر والوں کی طاقتیں ایک حد تک مکمل ہو چکی تھیں.یہ تجربہ باکسنگ میں کیا گیا ہے.دراصل یہ زمانہ چربی پیدا ہونے کا زمانہ ہوتا ہے اور قدرت انسانی جسم میں ہر ایک چیز اپنے اپنے ٹھکانے لگا رہی ہوتی ہے اور اس طرح ذخیرہ جمع کر رہی ہوتی ہے.اس وقت اگر نقصان پہنچ جائے تو اس کا اثر ساری عمر پر پڑتا ہے.پس چودہ پندرہ سال کی عمر سے بلکہ بارہ سال کی عمر سے کچھ کچھ روزے رکھوانے شروع کر دینے چاہئیں.اس طرح روزہ رکھنے کا احساس پیدا ہو تا رہے گا اور پھر ہر سال اس تعداد کو بڑھاتے جانا چاہئے.یہاں تک کہ قوتیں پوری نشو و نما پالیں پھر پورے روزے رکھوائے جائیں.یہ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص مضبوط اور ہٹا کٹا نظر آئے مگر اس کی صحت اچھی نہ ہو اور اسے ایسا عارضہ لاحق ہو جسے وہ خود ہی سمجھ سکتا ہے.مثلاً اس کا دل کمزور ہو تو خواہ اس کا جسم دوسرے سے ڈیوڑھا ہو اور قد چھ فٹ ہو تو بھی صحت کے لحاظ سے اس سے کمزور ہو گا.مگر اس کی کیفیت وہ خود جان سکتا ہے یا ڈاکٹر جان سکتا ہے.اسی طرح اور کئی مرضیں ہوتی ہیں جن میں روزہ رکھنا سخت مضر ہے مگر وہ دیکھنے والوں کو نظر نہیں آسکتیں.پس ان حالات میں وعظ و نصیحت کی جا سکتی ہے.ہمارے ہاں ایک مثل مشہور ہے کہ "من حرامی مجتاں ڈھیر " یعنی اگر کسی کام کو جی نہ چاہے تو بیسیوں حجتیں نکال لی جاتی ہیں مگر ایسا بھی ہوتا ہے کہ عذر موجود ہو مگر دیکھنے والے کو نظر نہ آئے.دیکھا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام عصر کے وقت میر کو تو چلے جاتے تھے مگر مسجد میں نہ آسکتے تھے.وجہ یہ کہ دل کی کمزوری کی وجہ سے دل کا دورہ ہو جاتا تھا.اس بیماری والا آدمی چل پھر تو سکتا ہے مگر مجمع میں بیٹھ نہیں سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ دل کی کمزوری کثرت کار کی وجہ سے تھی.اب بظاہر دیکھنے والا کہے گا کہ بیماری کا محض بہانہ ہے لیکن اگر اس قسم کی بہاری اسے ہو تو خود بیٹھ کر بھی نہیں بلکہ لیٹ کر نماز پڑھے گا پس ایسی حالتیں ہوتی ہیں.لیکن اگر کوئی بہانہ بناتا ہے تو یہ چالیس سال کی عمر کا بھی بنا سکتا ہے تو جوانی کی شرط نہیں ہے.ان باتوں کی اصلاح کا طریق یہی ہے کہ مسئلہ بیان کر دیا جائے.خدا تعالیٰ کی خشیت یاد دلائی جائے اور بتایا جائے کہ اسلام کے احکام بیگار اور چٹی کے طور نہیں بلکہ انسان ہی کے فائدے کے لئے ہیں اس لئے ان پر عمل کرنا چاہئے.ان باتوں کے باوجود اگر کوئی بہانہ بناتا ہے تو پھر وہ ہمارے بس کا نہیں.مگر بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک انسان سچا عذر رکھتا ہے مگر ہمیں وہ عذر نظر نہیں آتا اس لئے بد ظنی نہیں کرنی چاہئے.میں نے
خطبات محمود ۳۳۰ سال ۶۱۹۲۸ خود معمولی بیماری سمجھ کر ایک دفعہ روزے رکھے تو قریباً سارا سال بخار ہوتا رہا اور یہ سمجھا گیا کہ گردوں میں نقص پیدا ہو گیا ہے.حضرت خلیفہ اول اس وقت مذاق کے طور پر فرماتے اور روزے رکھو.خود اپنا واقعہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول سناتے کہ ایک دفعہ آپ کو دست آنے کی تکلیف ہو گئی مگر پھر دست بند ہو گئے اس پر آپ نے روزے رکھنے شروع کر دیئے.کوئی تین چار دن ہی رکھے ہوں گے کہ معلوم ہوا مردمی کی قوت نہیں رہی اس کے لئے کئی قسم کی دوائیاں استعمال کی گئیں مگر کوئی فائدہ نہ ہوا.آخر آپ نے دوائیاں چھوڑ دیں اور استغفار کیا تب جا کر فائدہ ہوا.تو اصل طریق یہی ہے کہ وعظ و نصیحت سے لوگوں کو سمجھایا جائے پھر اگر کوئی شرارت کرتا ہے تو خدا تعالیٰ سے سزا پائے گا.لیکن اگر کوئی شرارت نہیں کرتا بلکہ جائز عذر رکھتا ہے تو ہمیں اس کے متعلق بدظنی کرنے کا گناہ ہو گا اور ہمیں اس بارے میں پوچھا جائے گا.پس ہمارے لئے بہترین صورت یہی ہے کہ اگر کوئی عذر پیش کرتا ہے تو سمجھیں کہ واقعی معذور ہے.یہ شریعت کا مسئلہ ہے جو میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا اگر کوئی جان بوجھ کر روزہ نہیں رکھتا حالانکہ روزہ اس کے لئے فرض ہے تو خدا کے سامنے وہ جواب دہ ہو گا.ہم نے مسئلہ بیان کر دیا اور حقیقت کھول دی ہے.اب ہر ایک کا معاملہ خدا تعالیٰ سے ہے.اگر کوئی گناہ کرے گا تو سزا پائے گا اور اگر عمل کرے گا تو اجر پائے گا.پس میں جہاں ان لوگوں کو جن پر روزہ رکھنا فرض ہے اور جنہیں کوئی شرعی عذر پیش نہ ہو یہ نصیحت کروں گا کہ وہ ضرور روزہ رکھیں.وہاں یہ بھی کہوں گا کہ اگر کوئی اپنے آپ کو معذور ظاہر کرتا ہے تو اس کے متعلق بدظنی نہیں کرنی چاہئے بلکہ یہ دعا کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ اس کے عذر کو دور کرے اور اسے روزہ رکھنے کی توفیق دے.میں اپنا ہی اس سال کا تجربہ بتاتا ہوں.جب روزے شروع ہوئے تو چونکہ مجھے کئی بیماریاں لگی ہوئی ہیں.میں نے اپنے جسم کے متعلق اندازہ کر کے دیکھا کہ کچھ روزے رکھ سکتا ہوں سارے نہیں.اور چونکہ مجھے طب کا بھی مطالعہ ہے اس لئے میں نے یہ اندازہ لگایا کہ دو روزے رکھ کر ایک چھوڑ دوں.کچھ دن میں نے اس پر عمل کیا اور میرا یہ اندازہ صحیح نکلا.اس کے بعد خیال آیا کہ تین دن روزہ رکھوں اور ایک دن نہ رکھوں.اس کے مطابق جب میں نے روزے رکھے تو تیسرے دن سر درد کا ایسا شدید دورہ ہوا کہ ایک کی بجائے تین روزے
خطبات محمود ۳۳۱ سال ۶۱۹۲۸ چھوڑنے پڑے.اس وقت میں نے سمجھا پہلا ہی اندازہ درست تھا.لیکن بعض بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جو جاری رہتی ہیں اور طبیعت کا جزو بن جاتی ہیں اس لئے وہ ایسی بیماریاں نہیں رہتیں کہ ان کی وجہ سے روزہ نہ رکھا جائے.ایسی ہی بیماریاں مجھے بھی ہیں اس لئے میں نے پہلے جو اندازہ لگایا وہ بالکل صحیح تھا اور جب میں نے اسے تو ڑا تو بجائے اس کے کہ زیادہ روزے رکھ سکتا اور کم ہو گئے.تو اپنی طبیعت کا انسان اندازہ لگا سکتا ہے.مگر جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ روزہ رکھنے سے کمزوری ہو جاتی ہے اس لئے روزہ نہیں رکھ سکتے یہ لغو بات ہے.روزہ تو ہے ہی اس لئے کہ نفس کو توڑا جائے.اور ایسا کون شخص ہو سکتا ہے جو روزے رکھ کر پہلوان بن جائے.روزہ سے ہر ایک کو کمزوری ہوتی ہے.پس کمزوری خواہ کتنی ہو یہ مرض نہیں ہاں اگر کوئی مرض ہو یا کسی مرض کے پیدا ہو جانے کا ڈر ہو تو روزہ چھوڑا جا سکتا ہے کمزوری کی وجہ سے چھوڑنا جائز نہیں.مگر کئی لوگ بیماری اور کمزوری میں فرق نہیں کرتے.وہ کہتے ہیں روزہ رکھنے سے بڑا ضعف ہو جاتا ہے اس لئے نہیں رکھتے.اگر دل کا ضعف مراد ہے تو یہ بیماری ہے لیکن اگر جسم کی کمزوری مراد ہے تو یہ بیماری نہیں.روزہ رکھنے سے ایسا ہونا ضروری ہے.ہاں بڑھاپے کی حالت ہو تو اس وقت کی کمزوری خود بیماری ہوتی ہے.مگر جو ان کی ایسی کمزوری عذر نہیں کیونکہ روزہ اس لئے نہیں رکھا جاتا کہ شربت کے گھونٹ انسان کے اندر جائیں اور وہ طاقتور بنے بلکہ اس لئے کہ اسے بھوک اور پیاس لگے اور اس کا لازمی نتیجہ کمزوری ہے.الفضل ۱۶ مارچ ۱۹۲۸ء) بخاری کتاب الاطعمة باب التسمية على الطعام والاكل بالي
خطبات محمود ۴۵ سال ۶۱۹۲۸ رمضان کا آخری ہفتہ فرموده ۱۶ مارچ ۱۹۲۸ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: یہ ہفتہ جو شروع ہونے والا ہے یعنی کل سے شروع ہو گا یہ رمضان کا آخری ہفتہ ہے اور اس کے بعد دن کو پھر وہی کھانا پینا ہو گا اور انسان ہو گا، وہی تن آسانیاں ہونگی اور انسان ہو گا وہی غفلتیں ہوں گی اور انسان ہو گا سوائے اس کے جن کے اندر رمضان کوئی تبدیلی پیدا کر گیا اور خدا کے قرب کا احساس ان کے دلوں میں چھوڑ گیا.لیکن یاد رکھنا چاہئے یہ احساس بھی دعا کے ساتھ ہی پیدا ہو سکتا ہے.دعائیں ہی ایک ایسی چیز ہیں جو انسان کو کامیابی کی طرف لے جانے والی ہوتی ہیں.جس کثرت کے ساتھ اس ماہ میں دعاؤں کا موقع ملتا ہے دوسرے مہینوں میں نہیں ملتا.پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ خصوصیت کے ساتھ اس ماہ میں دعائیں کریں اور قرآن کریم کی تلاوت بھی ضرور کریں تا رمضان کی برکات سے پورا حصہ لے سکیں.قرآن کریم کا نزول رمضان میں شروع ہوا اور سال بھر میں جتنا قرآن رسول کریم ﷺ پر نازل ہوتا تھا وہ رمضان میں دوبارہ نازل کیا جاتا تھا حتی کہ آپ نے اپنی وفات کا اندازہ بھی اسی امر سے لگایا کہ ہر رمضان میں قرآن ایک دفعہ نازل ہو تا تھا اور اب کے دو دفعہ نازل ہوا ہے یہ تو رمضان کے مہینے میں رسول کریم کے ذہن میں قرآن کو تازہ کرنے کے لئے جبرائیل دوبارہ نازل ہوتا تھا.اس سے یہ سنت بھی معلوم ہوتی ہے کہ قرآن کی حقیقی تلاوت یہی ہے کہ ایک ماہ میں ایک دور کیا جائے.یہ گویا قرآن کریم کی طبعی تلاوت ہے اسی لئے اس کے تیں پارہ ہیں.اس کے یہ معنی تو نہیں کہ اس سے کم و بیش قرآن نہیں پڑھنا چاہئے.بسا اوقات ایک انسان کو ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اس
خطبات محمود سلم تسلم تسلم سال ۱۹۲۸ء سے زیادہ پڑھے اور بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ کئی گھنٹوں میں ایک پارہ ختم کر سکتے ہیں.ایسے لوگوں کے لئے ان کے دنیاوی کاموں کو مد نظر رکھتے ہوئے سخت مشکل ہوتا ہے کہ وہ روزانہ پارہ پارہ ختم کر سکیں.بعض آدمیوں کو میں نے دیکھا ہے آدھ گھنٹہ تک پڑھنے کے بعد اگر ان سے پوچھا جائے کہ کتنا پڑھا ہے تو صرف دو تین رکوع بتائیں گے.وہ اگر سیپارہ ختم کریں تو ان کے دوسرے کام کاج میں حرج ہو گا.میری اپنی یہ حالت ہے کہ اگر تیزی کے ساتھ پڑھوں تو بارہ منٹ میں ایک سیپارہ ختم کر دیتا ہوں اور عام رفتار کے ساتھ بھی ہیں ، بائیں منٹ میں ختم کر سکتا ہوں.غرض مختلف حالتیں ہوتی ہیں.بعض لوگ بار بار قرآن کریم کو پڑھنے کی وجہ سے جلدی جلدی پڑھ سکتے ہیں.یا جن کو عربی زبان میں مہارت ہوتی ہے یا حافظ ہوتے ہیں وہ آسانی اور تیزی کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں.ایسے لوگ اگر زیادہ پڑھیں تو اچھی بات ہے مگر جبرائیل کا آنا اسی حکمت سے تھا کہ امت کے لئے تلاوت کا یہی اندازہ ہے کہ ایک سیپارہ روز قرآن کریم کی تلاوت کی جائے.دعائیں بھی خصوصیت سے ان دنوں کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں.پھر سنت سے صدقہ خیرات بھی ان دنوں میں کثرت سے کرنا ثابت ہے.صحابہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ال ویسے تو ہمیشہ ہی سخاوت کرتے تھے مگر رمضان کے دنوں میں کثرت اور خصوصیت سے کرتے تھے.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ کم از کم اتنی سخاوت ضرور چاہئے کہ ایک آدمی کے کھانے کا ماہوار خرچ ہو جائے.اور جسے اس کی توفیق نہ ہو اس کے لئے تسبیح ، تحمید اور تکبیر کے سوا کوئی چارہ نہیں.ذکر الہی کو بھی رسول کریم ﷺ نے صدقات کا قائم مقام ٹھرایا ہے.ایک مرتبہ غرباء رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا.یا رسول اللہ ا یہ بے انصافی ہے کہ امراء صدقہ کر کے ہم سے بڑھ جاتے ہیں.نماز وہ بھی پڑھتے ہیں ہم بھی پڑھتے ہیں، روزے وہ بھی رکھتے ہیں ہم بھی رکھتے ہیں ، جہاد ہم بھی کرتے ہیں وہ بھی کرتے ہیں مگریہ زکوۃ ادا کرتے ہیں اور اس طرح زیادہ ثواب حاصل کر لیتے ہیں.ہمارے پاس روپیہ نہیں کہ ہم اس پہلو سے بھی ان کی برابری کر سکیں دیکھو صحابہ نے کیسا اخلاص کا عجیب نمونہ پیش کیا ہے.آج کل لوگ کہتے ہیں فلاں مالدار ہے اس لئے اس کی زیادہ خاطر کی جاتی ہے اور غریبوں کی طرف کم توجہ کی جاتی ہے مگر یہ نہیں سوچتے کہ آخر جو خود لوگوں سے اچھا سلوک کرے گا اس کے ساتھ بھی اچھا سلوک ہونا ضروری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
خطبات محمود سال ۶۱۹۲۸ کے زمانہ میں بھی یہ اعتراض ہوتے تھے کہ کوئی امیر آتا ہے تو اسے اچھے کھانے دیئے جاتے ہیں اور غریب کو دال روٹی ہی ملتی ہے اور اس طرح آپ کے دربار میں بھی امتیاز رکھا جاتا ہے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس اعتراض کو سن کر فرمایا کہ یہ فرق تو خدا کے گھر سے ہی قائم کیا گیا ہے ایک شخص جس کو اپنے گھر میں خدا تعالٰی پلاؤ کھانے کے لئے دیتا ہے اسے اگر ہم دال کھانے کو دیں تو یہ خدا تعالٰی کی سخت گستاخی ہو گی.یہ غلط باتیں ہیں.ہر ایک انسان کو آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.خدا تعالٰی کے فرق مٹائے نہیں جاسکتے.اس طرح اعتراض ہونے لگیں تو پھر اگر کپڑا تقسیم ہو تو یہ اعتراض بھی ہو گا کہ فلاں شخص کا قد چھ فٹ ہے اس کو زیادہ کپڑا چلا گیا.اور فلاں صرف چارفٹ کا ہے اسے کم ملا مگر یہ قدرتی فرق ہیں ان کو کوئی نہیں مٹا سکتا.ایک ذہین طالب علم سبق جلد یاد کر لیتا ہے مگر غیبی الذہن دیر میں یاد کرتا ہے.ایک قوی اور توانا شخص فوج میں جلد ترقی کر کے عہدیدار بن جاتا ہے مگر ایک کمزور آدمی ساری عمر سپاہی ہی رہتا ہے.تو یہ فرق خدا تعالی کی طرف سے ہوتے ہیں اور دنیا میں ہمیشہ رہیں گے ہاں دینی امور میں کوئی امتیاز اور فرق نہیں.اگر کوئی امیر دیر سے مسجد میں آئے تو وہ ضرور پیچھے ہی بیٹھے گا.اگر وہ کسی غریب کو پیچھے کر کے خود آگے بیٹھے تو ہم ضرور اسے پکڑیں گے.یہ علیحدہ بات ہے کہ کوئی دوست یا عزیز اس کے لئے اپنی جگہ چھوڑ دے یہ ناجائز نہیں.مگر وہ زبر دستی جگہ آگے حاصل نہیں کر سکتا اسی طرح اور بھی بیسیوں باتیں ہیں جن میں کوئی فرق نہیں کیا جا سکتا.مثلاً قانونی اور شرعی حقوق میں کوئی امتیاز نہیں ہو سکتا.غرض اس بات سے معلوم ہو سکتا ہے کہ صحابہ کے دلوں میں کیسا اخلاص تھا.انہوں نے یہ نہیں کہا کہ یہ کیوں دولتمند ہیں روپیہ یہ کیوں جمع کرتے ہیں بلکہ یہ شکوہ کیا کہ یہ دین میں ہم سے کیوں آگے بڑھ جاتے ہیں.رسول کریم ﷺ نے ان سے فرمایا تم ہر نماز کے بعد گیارہ گیارہ مرتبہ تسبیح اور تحمید اور بارہ مرتبہ تکبیر پڑھا کرو.بعض حدیثوں میں ۳۳ ۳۳ دفعہ تسبیح و تحمید اور ۳۴ دفعہ تکبیر بھی آیا ہے اس طرح تم بھی ان لوگوں کے ساتھ شامل ہو جاؤ گے ہیں آج کل کے کمزور ایمان والے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ بہتر سلوک کیوں نہیں کیا جاتا.ہمیں مال کیوں نہیں دیا جاتا مگر صحابہ یہ کہتے تھے امیر روپیہ دے کر ہم سے آگے بڑھ جاتے ہیں.ہمیں کوئی ایسا طریق بتایا جائے کہ ہم ثواب حاصل کرنے میں ان سے پیچھے نہ
خطبات محمود ۳۳۵ سال ۶۱۹۲۸ رہیں.جب امیروں کو اس بات کا علم ہوا کہ رسول کریم ﷺ نے تحمید اور تسبیح کرنے کا ارشاد فرمایا ہے تو انہوں نے بھی تسبیح، تحمید شروع کر دی.اس پر غرباء نے پھر رسول اللہ کی خدمت میں عرض کی کہ امیر بھی آپ کے ارشاد پر عمل کرنے لگ گئے ہیں اب ہم کیا کریں.رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں خدا کی نیکی سے کیونکر کسی کو روک سکتا ہوں اگر ان کے مال ان کی دینی ترقی کا موجب ہو رہے ہیں تو میں ان کو کیسے اس سے منع کر دوں.اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ذکر الہی کو صدقہ کا قائم مقام ٹھرایا گیا ہے.پس جو غریب لوگ صدقہ نہیں دے سکتے وہ تسبیح و تحمید و تکبیر سے ثواب حاصل کر سکتے ہیں.اور اگر کوئی امیر باوجود مالی خیرات کے یہ بھی کرے تو رسول کریم ﷺ نے اس سے روکا نہیں یہ اس کے لئے مزید ترقی کا موجب ہو گا.مگر آج کل کے امیروں میں ایسے لوگ بہت کم ہیں.پس اپنے اندر چستی پیدا کرنے کا یہ بھی ایک ذریعہ ہے کہ امراء صدقہ کریں اور جن کو صدقہ کرنے کی توفیق نہیں وہ تسبیح و تحمید کریں.اس کے لئے ضروری نہیں کہ رسم کے طور پر ایک خاص شکل بنائے ہوئے مسجد میں انسان بیٹھا رہے بلکہ وہ خواہ کہیں ہو تسبیح کر سکتا ہے.مجلس میں بیٹھا ہوا بھی تسبیح و تحمید و تکبیر کر سکتا ہے.اور اس طرح ہر انسان کے لئے اس حکم کے پورا کرنے میں سہولت ہے اور کوئی شخص خواہ کتنا ہی غریب کیوں نہ ہو اس طرح صدقہ دے سکتا ہے.اور جو شخص سارا سال ایسا کرے وہ گویا سارا سال صدقہ دیتا رہتا ہے.موجودہ زمانہ میں دعا پر جس قدر ظلم ہو رہا ہے میں سمجھتا ہوں اور کسی زمانہ میں نہیں ہوا ہو گا.اس زمانہ میں دعا کی حیثیت ایک بے جان لاشہ کی سی ہو گئی ہے.کچھ لوگ تو ایسے ہیں جنہوں نے اسے بدترین اور لغو شئے سمجھ رکھا ہے.وہ کہتے ہیں خدا تعالی کوئی بچہ نہیں کہ ہم اس سے مانگیں گے تو وہ ہمیں دے دے گا اگر محنت کرو گے تب ملے گا.دوسرے وہ لوگ ہیں جو دعا کو چھو منتر سمجھے ہوئے ہیں.ان کی مثال ایسی ہے جیسے ہمارے ملک میں بچے آنکھ مچولی کھیلتے ہیں.ایک بچہ آنکھیں بند کر لیتا ہے اور باقی بھاگ جاتے ہیں.پھر وہ ان کو پکڑنے کی کوشش کرتا ہے اس دوران میں اگر کوئی بچہ مقررہ مقام پر اگر تھو" کر دے تو وہ بچ جاتا ہے اور پھر اس کو پکڑ کر اس کی آنکھیں نہیں بند کی جاسکتیں.تو بعض لوگوں نے دعا کو ایک ایسی ہی کھیل سمجھ رکھا ہے کہ جب تھو کیا سب کچھ حاصل ہو جائے گا.پھر اگر ان کی مراد پوری نہ ہو.مثلاً اگر وہ بیٹے کے لئے دعا کر رہے ہوں اور وہ نہ ملے.یا مقدمہ میں ان کی فتح نہ ہو تو خدا سے ناراض ہو جاتے
خطبات محمود سال ۱۹۲۸ء ہیں کیونکہ انہوں نے سمجھ رکھا ہے کہ ہمارے منہ سے ایک دفعہ کسی بات کے کہہ دینے سے خدا پر اس کا اسی طرح کر دینا فرض ہو گیا ہے جس طرح ہم چاہتے ہیں اور اگر اس طرح نہیں ہو سکتا تو پھر ایسے خدا کی عبادت کرنے سے کیا فائدہ.اس خیال کی وجہ سے کئی لوگ دہر یہ ہو گئے ہیں.پہلے خیال کے لوگ بھی اسی خیال کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں.اور اسی بات کا اثر ہے کہ عام طور پر لوگ بد دعا سے بہت ڈرتے ہیں اور سمجھتے ہیں جب کسی نے بد دعا دی تو وہ فورا قبول ہو جائے گی اور ہم برباد ہو جائیں گے.عورتوں میں تو یہ خیال بہت ہی ترقی پر ہے.وہ سمجھتی ہیں جب کسی نے کہا تیرا بچہ مرے تو بس وہ ضرور ہی مرجائے گا.وہ اتنا نہیں سوچتیں کہ خدا " اندھیر نگری چوپٹ راجہ " نہیں بلکہ وہ بصیر ہستی ہے وہ خود ہر بات کو دیکھتا ہے.اس سے بڑھ کر کیا ظلم ہو سکتا ہے کہ کوئی منہ سے کہہ دے کہ یا الہی فلاں کے بچے مر جائیں تو خدا مارنا شروع کر دے.تو عورتوں نے خصوصاً بد دعا کو ایک کھیل اور تماشہ سمجھ رکھا ہے اور ان کا اعتبار دعا کی قبولیت کی نسبت بد دعا پر بہت زیادہ ہے گویا وہ سمجھتی ہیں کہ خدا کچھ دینے کو اس طرح تیار نہیں ہوتا جیسا لینے کے لئے ہوتا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دلوں میں مخفی طور پر یہ احساس ہے کہ خدا تعالٰی نعوذ باللہ ظالم اور سخت گیر ہے وہ دعا کو اتنا نہیں سنتا جتنا بد دعا کو سنتا ہے.حالانکہ قرآن کریم سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ دعا ئیں سنتا ہے اور بد دعا کو نہیں سنتا.چنانچہ فرمایا رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْىءٍ (الاعراف ۱۵۷) کہ میری جملہ صفات پر میری رحمت غالب ہے.اور جب رحمت غالب ہے تو رحمت تو دعا کو قبول کرنے والی چیز ہے.یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ رحمت دبی رہے اور قہر غالب آجائے.یہ دعا کا غلط مفہوم ہے.یہ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص سازی عمر دعائیں کرتا رہے.وہ نیک و متقی بھی ہو.احکام شریعت پر چلنے والا بھی ہو.مگر وہ مر جائے اور اس کی دعا قبول نہ ہو.اور ایک دوسرے شخص کے دل میں چلتے چلتے ایک خواہش پیدا ہو اور وہ پورے طور پر اس کو الفاظ میں ادا بھی نہ کرنے پائے اور وہ پوری ہو جائے.مگر ساری عمر دعا کرنے کے باوجود دعا کے قبول نہ ہونے کے یہ معنے ہر گز نہیں ہو سکتے کہ دعا رد کر دی جاتی ہے.جیسے ایک مریض سینکڑوں طبیبوں کے علاج کے باوجود مرجاتا ہے تو اس سے یہ ثابت نہیں ہو سکتا کہ علم طب ہی کوئی چیز نہیں.ایک دوسرے مریض کو کسی حکیم یا طبیب کا علاج یا مشورہ میسر نہیں ہو تا بلکہ ایک بڑھیا صرف اتنا کہتی ہے کہ ہمارے ہاں بھی ایک شخص اس مرض میں مبتلاء ہوا تھا تو ہم نے اسے فلاں
محمود ۳۳۷ سال ۱۹۲۸ء چیز دی تھی اور وہ اچھا ہو گیا.اس بڑھیا کو اس مریض اور اپنے مریض کی طبائع کے اختلاف کا کچھ علم نہیں ، بیماریوں کی علامتوں کا کچھ پتہ نہیں، دونوں میں بیماری پیدا ہونے کی وجوہات کی کچھ خبر نہیں صرف اتنا کہہ دیتی ہے کہ ہم نے اپنے مریض کو یہ چیز دی تھی.اب اتفاق ایسا ہو جاتا ہے کہ دونوں کی حالت ایک ہی سی ہوتی ہے اور وہ بھی اسی چیز سے شفایاب ہو جاتا ہے.مگر بادشاہ مرجاتے ہیں اور اس سے علم طب کا غیر صحیح ہونا ثابت نہیں ہو سکتا.پس بعض دعاؤں کا قبول نہ ہوتا بتاتا ہے کہ کوئی اور بھی قانون اور صفات نہیں جو دنیا میں کام کر رہی ہیں.جو آیت اس امر کے ثبوت میں پیش کی جاتی ہے کہ ہر دعا قبول ہونی چاہئے اسی سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر دعا قبول نہیں ہو سکتی.خدا تعالیٰ فرماتا ہے أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ (البقره (۱۸۷).لوگ کہتے ہیں اس کے یہ معنی ہیں کہ جب کوئی بندہ خدا تعالیٰ کو پکارتا ہے تو وہ اس کی دعا قبول کرتا ہے.مگر اسی پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے یہ معنی ہیں کہ ہر دعا قبول نہیں ہوتی.ایک شخص دعا کرتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اس کی دعا قبول ہو جائے مگر دعا کرتے وقت اس کے ذہن میں وہ خدا نہیں ہو تا جو کئی صفات کا مالک ہے.بلکہ اس کے سامنے ایک دوسرا خدا ہوتا ہے جو اس کا ذہنی خدا ہوتا ہے.وہ سمجھتا ہے خدا ایک وجود ہے اور اس کا یہی کام ہے کہ میری مراد پوری کر دے.وہ اس کو مختلف صفات کا خدا نہیں سمجھتا بلکہ ایک خاص ذہنیت اس کے متعلق رکھتا ہے.مگر خدا تعالی کی بعض صفات ہی چاہتی ہیں کہ اس کی دعا رد کر دی جائے.خدا تعالیٰ کی صفات غنی ، جبار، قہار ، رحمن سب ہی ہیں.کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اگر وہ ایک شخص کی دعا کو قبول کرے تو یہ اس کی دوسری صفات کے خلاف ہوتی ہے.ایک بڑھیا عورت ہے اس کا اکلوتا لڑ کا قید ہو جاتا ہے وہ اس کی آزادی کے لئے دعا کرتی ہے.اب خدا بے شک آزاد کرنے والا ہے مگر وہ اس بڑھیا کا ہی تو خدا نہیں وہ سب کا خدا ہے اور وہ جانتا ہے کہ اس کو آزاد کرنے سے سینکڑوں انسان قید ہوں گے اس لئے وہ اس کی دعا کو رد کر دیتا ہے.تو خدا نے فرمایا میں جو اصلی خدا ہوں اور تمام صفات کا مالک ہوں تمہارا ذہنی خدا نہیں ہوں اگر تمہاری دعا میری صفات کے مطابق ہو گی تو وہ ضرور قبول ہوگی اور جب کوئی انسان قرآن کے پیش کردہ خدا کو پکارتا ہے تو اس کی پکار ضرور سنی جاتی ہے.خدا رحمان، رحیم ، قہار شدید العقاب سب صفات اپنے اندر رکھتا ہے اور دعا جب ان صفات والے خدا سے مانگی جائے تو وہ ضرور قبول ہوتی ہے.لفظ عنی میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ سب صفات والا خدا
خطبات محمود سال ۶۱۹۲۸ ہے.اگر وہ ایک شخص کو چھوڑتا ہے تو دوسرے کہتے ہیں ہم مارے جائیں گے.اس صورت میں اس کی صفت قہار ہی غالب آئے گی اس لئے وہ اس کو نہیں چھوڑتا.تو خدا نے یہ کہیں نہیں کہا کہ میری ایک ہی صنعت سے مانگو.اگر وہ کہتا کہ اُدعُ الرحمن تو شاید بہت ہی کم دعائیں رد کی جاتیں مگر اس آیت میں کوئی استثناء نہیں.لفظ عَنِّی ہے.جس میں اس کی تمام صفات کا ذکر ہے.پس جو دعا قبول نہیں ہوتی سمجھ لو کہ وہ خدا کی صفات کے مطابق نہیں خدا کی صفات کی مثال جیوری کی ہے اور جیوری کے ایک ممبر کی رائے پر کبھی فیصلہ نہیں ہوا کرتا بلکہ تمام ممبروں کی رائے کا خیال رکھا جاتا ہے.پس جو دعا جمیع صفات والے خدا کے سامنے پیش ہو وہ کبھی رد نہیں کی جاتی.یعنی جو دعا اس کی تمام صفات کے مطابق ہو گی اور ان کو آپس میں ٹکرانہ دے گی وہ ضرور قبول کی جائے گی.پس وہ لوگ پاگل ہیں اور نادان ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ دعا قبول نہیں ہوتی.دعا ضرور قبول ہوتی ہے مگر دعا ایسی ہونی چاہئے جو خدا کے شایان شان اور اس کی صفات کے مطابق ہو.بعض عورتیں میرے پاس آتی ہیں کہ فلاں نے میری بچے کو بد دعا دی ہے اب کیا ہو گا.میں کہتا ہوں یہ بد دعا کس کے سامنے پیش ہو گی شیطان کے پیش تو نہیں ہو گی.خدا تعالی کے ہی پیش ہو گی اور وہ یقیناً اس کو رد کر دے گا.پس ان ایام میں دعاؤں پر خاص زور دینا چاہئے اور ان دنوں سے خاص فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کو بھی دعاؤں سے خاص تعلق ہے.رسول کریم ﷺ نے جو یہ فرمایا ہے کہ میں نے اس کے بالوں سے اس طرح پانی ٹپکتا دیکھا ہے جیسے کوئی حمام سے غسل کر کے نکلے اس میں اسی کی طرف اشارہ ہے کہ وہ دعاؤں میں سخت مجاہدہ کرنے والا ہو گا.بخاری کتاب فضائل القرآن - باب كان جبريل - عرض القرآن على النبي - مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلوۃ باب استحباب الذكر بعد الصلوة وبيان صفته - کر کے " الفضل ۲۳ / مارچ ۱۹۲۸ء) رہو ریز " " 4 رر موسم ، بخاری کتاب الانبیاء باب قوله واذكر في الكتب مريم اذا تبذت...
خطبات محمود ۳۳۹ ۴۶ شہزادہ عبدالمجید خان صاحب کی شہادت فرموده ۲۳ / مارچ ۱۹۲۸ء) سال ۱۹۲۸ء تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: دنیا میں کوئی ترقی یا کامیابی بغیر قربانی کے نہیں ہو سکتی اور جو قومیں قربانی کرنے کے لئے تیار نہیں ہو تیں وہ کبھی کامیابی کا منہ نہیں دیکھا کرتیں.مسلمانوں کو میں دیکھتا ہوں ان میں جوش بھی ہوتا ہے کام کرنے والے آدمی بھی ہوتے ہیں اور ان کے ارادے بھی نیک ہوتے ہیں مگر چونکہ ان میں قربانی کی عادت نہیں اس لئے ہر میدان میں دوسری قوموں سے پیچھے ہیں.اسی ملک کے رہنے والے ہندو ہیں ان میں یہ وصف موجود ہے کہ وہ ذاتی فوائد کو قومی فوائد پر قربان کر دیتے ہیں اس لئے باوجود یکہ وہ بھی اس ملک کے باشندے ہیں عزت کی زندگی بسر کر رہے ہیں.مگر مسلمان ایسا نہیں کرتے وہ اپنے ذاتی فوائد کو قوم کی خاطر قربان کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہوتے حتی کہ ان میں جو بڑے درد رکھنے والے مسلمان ہوں گے وہ بھی کوئی کام کرنے سے پہلے یہ دیکھ لیں گے کہ اس میں ہمارا تو کوئی نقصان نہیں ہوتا اگر انہیں اپنا کوئی نقصان نظر نہ آئے گا تو وہ کام کر دیں گے.اور کئی تو ایسے ہیں کہ ان کا اپنا کوئی نقصان نہیں ہوتا ان کے فوائد کو کوئی خطرہ نہیں ہو تا مگر پھر بھی دوسرے کی مدد نہیں کرتے وہ کہتے ہیں کہ ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ کسی کی مدد کریں.یاد رکھنا چاہئے ہمیشہ بڑے کاموں کے لئے بڑی قربانی کی ضرورت ہوتی ہے.قوموں کا بنانا اور ترقی کرنا تو بڑی چیز ہے معمولی عمارت کا بنانا بھی بڑا کام ہوتا ہے.ایک ایک عمارت پر کئی کئی کروڑ روپے خرچ آجاتے ہیں.نئی دہلی کے لئے 11 کروڑ روپیہ خرچ کا اندازہ کیا گیا تھا مگر اب خیال کیا جاتا ہے کہ خرچ بڑھ جائے گا.گیارہ کروڑ کے
خطبات محمود ۳۴۰ سال ۱۹۲۸ء قریب خرچ ہو چکا ہے مگر ابھی وہ نا مکمل ہے اور اندازہ ہے کہ تین چار کروڑ کم از کم اور اس پر خرچ آئے گا.یہ صرف سرکاری دفاتر اور سڑکوں وغیرہ کا خرچ ہے لوگ اپنے مکان خود بنوائیں گے.تو یہ ایک شہر کے بسانے کا خرچ ہے اور وہ بھی آدمیوں کا نہیں بلکہ اینٹوں اور چونے کا اندازہ ہے کہ چودہ پندرہ کروڑ روپیہ خرچ ہو گا.پھر قو میں جو یہ کہیں کہ ہم نے شہر نہیں بسانا زندہ قوم نہیں پیدا کرنی ، زندہ ملک نہیں آباد کرنا بلکہ زندہ دنیا پیدا کرنی ہے ان کے لئے کیسی قربانی کی ضرورت ہے.تاریخوں میں لکھتے ہیں کہ شاہ جہاں بادشاہ کی بیوی تاج محل جس کا روضہ مشہور ہے اس نے خواب میں دیکھا کہ میں مری ہوں اور میرا اس قسم کا مقبرہ بنا ہے.ملکہ نے اپنا یہ خواب بادشاہ کے سامنے بیان کیا بادشاہ نے بڑے بڑے انجینئر بلائے اور ان کو خواب سنایا اور حکم دیا کہ ایسا نقشہ تیار کریں.اس پر کئی ایک انجینیروں نے نقشے پیش کئے مگر کوئی بھی خواب کے مطابق نہ تھا آخر ایک ایسے انجینئر نے جو اس وقت کے لحاظ سے بڑے انجینئروں میں سے نہ تھا اور بادشاہ کے مقربین میں سے نہ تھا بادشاہ سے کہا کہ میں ایسا نقشہ پیش کر سکتا ہوں مگر شرط یہ ہے کہ آپ ایک کشتی میں بیٹھ کر میرے ساتھ دریا کے ایک کنارے سے دوسرے تک چلیں اور ساتھ لاکھ دو لاکھ روپوں کے توڑے رکھ لیں دریا کے دوسرے کنارے پر جاکر میں نقشہ بناؤں گا.بادشاہ نے اس کو منظور کر لیا اور اس کے ساتھ کشتی میں بیٹھ کر دریا کے دوسرے کنارے کی طرف چلا.انجینئر نے راستہ میں روپوں کے توڑے اٹھا اٹھا کر دریا میں پھینکنے شروع کر دیئے.جب وہ تو ڑا پھینکتا تو ساتھ کہتا بادشاہ سلامت اس طرح روپیہ خرچ ہو گا تب مقبرہ بنے گا.اس طرح اس نے لاکھ دو لاکھ روپیہ دریا میں پھینک دیا اور دوسرے کنارے تک پہنچ گئے.وہاں جا کر انجینئر نے کہا بادشاہ سلامت نقشہ تو ہر ایک تیار کر سکتا ہے لیکن چونکہ اس پر اس طرح روپیہ خرچ ہو گا جس طرح میں نے بتایا ہے اس لئے کسی کو جرات نہ ہوتی تھی کہ اس قدر خرچ پیش کرے آپ اگر اس طرح خرچ کریں تو میں نقشہ پیش کروں.بادشاہ نے کہا ہاں میں خرچ کروں گا اس پر اس نے نقشہ پیش کیا اور بادشاہ نے اسے منظور کر لیا.اور آج دنیا کی بهترین عمارتوں میں سے ایک وہی تاج محل ہے جس پر کئی کروڑ روپے خرچ ہوئے.پس اگر معمولی عمارتیں بڑی قربانیاں چاہتی ہیں تو قوموں کے تیار کرنے کے لئے کیوں بڑی قربانیاں کرنے کی ضرورت نہیں.
خطبات محمود اسم سو سال ۶۱۹۲۸ ہماری جماعت بھی ایک کام کے لئے کھڑی ہوئی ہے.اسی کی طرف میں نے ابھی اشارہ کیا ہے کہ بعض قومیں اس لئے کھڑی ہوتی ہیں کہ دنیا کو بسائیں کوئی تو اس لئے کھڑا ہوتا ہے کہ عظیم الشان عمارت بنائے.کوئی اس سے اوپر ترقی کرتا ہے اور اس لئے کھڑا ہوتا ہے کہ گاؤں بائے.کوئی اس سے اوپر ترقی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ شہر بسائے.کوئی اس سے بھی آگے بڑھتا ہے تو کہتا ہے ملک بسائے مگر ہماری جماعت اس لئے کھڑی ہوئی ہے کہ دنیا بسائے بے شک دنیا بسی ہوتی ہے.دنیا میں لوگ آباد ہیں مگر قرآن کہتا ہے جن لوگوں کو خدا کی شناخت و معرفت نہیں وہ مردہ ہیں اور مردہ ایسے کہ قبروں میں پڑے ہوئے ہیں پس ان لوگوں کو جو دنیا میں بس رہے ہیں زندہ کہنا قرآن کی تردید کرنا ہے کیونکہ قرآن ان کو زندہ نہیں بلکہ مردہ قرار دیتا ہے جو قبروں میں پڑے ہوتے ہیں.پس ہم یہی کہیں گے کہ دنیا ویران ہے وہ دنیا جس کے لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں ڈیڑھ ارب لوگ بستے ہیں قرآن کی اصطلاح کے لحاظ سے ویران پڑی ہے سوائے چند نفوس کے.خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا تا کہ آپ نفخ صور کریں اور جس طرح کہا جاتا ہے کہ قیامت کے دن اسرائیل نفخ صور کرے گا اور تمام مُردے قبروں سے نکل کر باہر آجائیں گے اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اٹھیں اور مردے قبروں سے اٹھ کر زندہ ہو جائیں.گویا ہماری مثال اس آدم کی ہے جو آیا تو اس نے دنیا کو ویران پایا اور پھر اپنی نسلوں سے اس کو بھر دیا.اب ہمارا بھی یہی کام ہے کہ ہم ویران دنیا کو بھر دیں اور اپنی نسلوں سے آباد کر دیں مگر وہ نسلیں نہیں جو بیٹوں سے پیدا ہوتی ہیں بلکہ وہ جو تبلیغ سے پیدا ہوتی ہیں جو کسی کے ذریعہ ہدایت پاتا ہے وہ منزلہ اس کے بیٹے کے ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ انبیاء کو اب قرار دیا گیا ہے کیونکہ ان کے ذریعہ لوگ ہدایت پاتے ہیں.انبیاء سارے مسلمانوں کے باپ ہوتے ہیں.آگے ہر مسلمان کچھ کچھ لوگوں کا باپ ہوتا ہے.جس کے ذریعہ دس نے ہدایت پائی وہ دس کا باپ ہو گا.جس کے ذریعہ ہزار نے ہدایت پائی وہ ہزار کا باپ ہو گا یہ ہدایت پانے والے خواہ عمر میں اس سے بڑے ہی ہوں مگر اس کے روحانی بیٹے ہوتے ہیں.پس ہم نے دنیا کو اپنی روحانی نسل سے بھرنا ہے.آدم نے چونکہ جسمانی نسل سے بھرنا تھا اس لئے اسے لمبے عرصہ کا کوئی خطرہ نہ تھا.اس نے لاکھوں یا کروڑوں سالوں میں دنیا کو بھرا اس کی کوئی بحث نہیں.مگر ہم روحانی اصلاح کے لئے کھڑے ہوئے ہیں اس لئے ہمیں جلدی دنیا کو روحانی نسل سے بھر دینا چاہئے کیونکہ جسمانی مُردے زندوں کو مُردے نہیں بنا سکتے
خطبات محمود ۳۴۲ سال ۶۱۹۲۸ مگر روحانی موت ایک متعدی مرض ہے اور اس کا لمبے عرصہ تک موجود رہنا زندوں کو بھی مردہ بنا دیتا ہے.اس لئے ضروری ہے جلدی اس کا خاتمہ کر دیں اور ظاہر ہے کہ اس کے لئے بڑی بڑی قربانیوں کی ضرورت ہوگی.ای غرض کو لے کر وہ لوگ جن کو خدا تعالیٰ نے توفیق دی دین کی اشاعت کے لئے مختلف ممالک میں جاتے ہیں اور ان میں سے ہر شخص جو اشاعت دین کے رستہ میں مرتا ہے یا مارا جاتا ہے خدا تعالی کے حضور اعلیٰ درجہ پاتا اور شہیدوں میں ہوتا ہے.ان لوگوں میں سے جن کو خدا تعالٰی نے خاص قربانیوں کی توفیق محض اپنے فضل سے عطا فرمائی ایک ہمارے شہزادہ عبدالمجید صاحب تھے.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی صحابیوں میں سے تھے اور غالبا بیعت کرنے والوں میں ان کا نواں نمبر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ان کو بہت پرانا تعلق تھا.شہزادہ صاحب پہلے صوفی احمد جان صاحب مرحوم کے جو کہ حضرت خلیفہ اول کے خسر تھے مرید تھے.صوفی صاحب وہ بزرگ تھے جن کو خدا تعالٰی نے حضرت مسیح موعود کی شناخت کی توفیق آپ کے دعوئی سے بھی پہلے دے دی تھی.گودہ حضرت مسیح موعود کے دعوئی کرنے سے پہلے فوت ہو گئے تھے مگر انہوں نے اپنی زندگی میں آپ کو لکھا:- ہم مریضوں کی ہے تمہیں تم مسیحا بنو خدا نظر کے لئے پھر انہوں نے اپنی اولاد کو نصیحت کی تھی کہ میں تو مرتا ہوں میرے بعد یہ شخص عظیم الشان دعوی کرے گا تم انکار نہ کرنا.گویا صوفی صاحب ان بزرگوں میں سے تھے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق پیشگوئیاں کی ہیں.آپ اگر چہ حضرت مسیح موعود کے دعوئی سے پہلے فوت ہو گئے مگر انہوں نے اپنے خط میں حضرت مسیح موعود کے دعوئی کے متعلق اس طرح اشارہ کر دیا ہم مریضوں کی ہے تمہیں یہ نظر تم مسیحا بنو خدا کے لئے غرض آپ بہت بڑے بزرگ تھے اور اپنے زمانہ کے نیک لوگوں میں سے تھے.ایک دفعہ مہاراجہ جموں نے ان کو دعوت دی کہ آپ جموں آکر میرے لئے دعا کریں مگر آپ نے انکار کر
خطبات محمود ۳۴۳ سال ۶۱۹۲۸ دیا اور کہہ دیا اگر آپ دعا کرانا چاہتے ہیں تو یہاں آکر کرا ئیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام ایک دفعہ لدھیانہ گئے اور صوفی صاحب سے دوران ملاقات میں پوچھا آپ جو بارہ سال تک رنرز چھنڑ والوں کے مرید رہے اور ان کی خدمت کرتے رہے ہیں ان سے آپ نے کیا حاصل کیا.صوفی صاحب کو توجہ کا علم آتا تھا اور اس میں بڑے ماہر تھے.انہوں نے کہا میری توجہ کی طاقت ایسی بڑھ گئی ہے کہ یہ آدمی جو پیچھے آرہا ہے اگر اس پر توجہ کروں تو یہ ابھی بے ہوش ہو کر گر جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نہایت سادگی سے فرمایا.پیر صاحب اس سے آپ کو کیا فائدہ ہو گا اور اس کو کیا؟ پیر صاحب چونکہ ولی اللہ تھے اس بات نے آپ پر ایسا اثر کیا کہ آپ کی آنکھیں کھل گئیں اور کہا آج سے میں اسے چھوڑتا ہوں.اللہ تعالٰی نے ان کی برکت اور فیض سے ان کے سارے خاندان کو اور ان کے بہت سے مریدوں کو حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام کی بیعت کی توفیق دی.شہزادہ عبد المجید صاحب بھی ان کے مریدوں میں سے تھے جو افغانستان کے شاہی خاندان سے تھے اور شاہ شجاع کی نسل سے تھے.آپ نہایت ہی نیک نفس اور متوکل آدمی تھے.میں نے جب تبلیغ کے لئے اعلان کیا کہ ایسے مجاہدوں کی ضرورت ہے جو تبلیغ دین کے لئے زندگی وقف کریں تو انہوں نے بھی اپنے آپ کو پیش کیا.اس وقت ان کے پاس کچھ روپیہ تھا انہوں نے اپنا مکان فروخت کیا تھا.رشتہ داروں اور اپنے متعلقین کا حصہ دے کر خود ان کے حصہ میں جتنا آیا وہ ان کے پاس تھا اس لئے مجھے لکھا کہ میں اپنے خرچ پر جاؤں گا.اس وقت میں ان کو نہ بھیج سکا اور کچھ عرصہ بعد جب ان کو بھیجنے کی تجویز ہوئی تو اس وقت وہ روپیہ خرچ کر چکے تھے مگر انہوں نے ذرا نہ بتایا کہ ان کے پاس روپیہ نہیں ہے.وہ ایک غیر ملک میں جا رہے تھے ہندوستان سے باہر کبھی نہ نکلے تھے.اس ملک میں کسی سے واقفیت نہ تھی مگر انہوں نے اخراجات کے نہ ہونے کا قطعا اظہار نہ کیا اور وہاں ایک عرصہ تک اسی حالت میں رہے.انہوں نے وہاں سے بھی اپنی حالت نہ بتائی نامعلوم کس طرح گزارہ کرتے رہے.پھر مجھے اتفاقاً پتہ لگا.ایک دفعہ دیر تک ان کا خط نہ آیا اور پھر جب آیا تو لکھا تھا چونکہ میرے پاس ٹکٹ کے لئے پیسے نہیں تھے اس لئے خط نہ لکھ سکا.اس وقت مجھے سخت افسوس ہوا کہ چاہئے تھا جب ان کو بھیجا گیا اس وقت پوچھ لیا جاتا کہ آپ کے پاس خرچ ہے یا نہیں ؟ پھر میں نے ایک قلیل رقم ان کے گزارہ کے لئے مقرر کر دی.وہاں کے لوگوں پر ان کی روحانیت کا جو اثر تھا اس کا پتہ ان چٹھیوں سے لگتا تھا جو آتی رہی ہیں.
خطبات محمود ۳۴۴ سال ۶۱۹۲۸ ابھی پرسوں ترسوں اطلاع ملی کہ آپ یکم رمضان کو فوت ہو گئے دس دن بیمار رہے ہیں پہلے ہلکا ہلکا بخار رہا آخری تین دن بہت تیز بخار ہو گیا.جب ڈاکٹر کو بلایا تو اس نے کہا ہسپتال لے چلو.دوسرے دن وہاں لے جانا تھا کہ فوت ہو گئے.ان کی تیمارداری کرنے والے رات بھر جاگتے رہے.سحری کے وقت آپ نے ایک دو دفعہ پانی مانگا.تیمار دار صبح کی نماز کے بعد سو گئے اور بارہ بجے کے قریب ان کی آنکھ کھلی تو آپ فوت ہو چکے تھے.جس طرح قسطنطنیہ کی خوش قسمتی تھی کہ وہاں حضرت ایوبے انصاری دفن ہوئے اس وقت قسطنطنیہ عیسائیوں کے ماتحت تھا پھر خداتعالی نے اس زمین کو دفن ہونے والے کی برکت سے ہدایت دی اور صدیوں تک وہ مسلمانوں کا بہت مضبوط قلعہ رہا ہے اور اب بھی وہاں مسلمانوں کی حکومت ہے.گو ان میں بہت تغیر ہو چکا ہے ان میں اسلامی غیرت نہیں رہی اور اسلام کی حفاظت کے لئے وہ کچھ نہیں کرتے مگر وہ مسلمان کہلاتے ہیں.میں سمجھتا ہوں اسی طرح یہ ایران کے لئے مبارک بات ہے کہ وہاں خدا تعالٰی نے ایسے شخص کو وفات دی جسے زندگی میں دیکھنے والے ولی اللہ کہتے تھے اور جسے مرنے پر شہادت نصیب ہوئی.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ سے ان کا بڑا تعلق تھا.عام طور پر بزرگوں کی ولایت ان کی زندگی کے بعد تعلیم کی جاتی ہے مگر آپ ان لوگوں میں سے تھے جن کو دیکھنے والے ان کی زندگی میں ہی ولی اللہ سمجھتے ہیں.آپ نہایت ہی متوکل اور نیک انسان تھے.آپ اس قدر سید ھے اور نرم مزاج تھے کہ گویا سخت کلامی آتی ہی نہیں تھی مگر باوجود اس کے دین کے معاملہ میں بہت غیرت رکھتے تھے.اور متوکل ایسے تھے کہ انہوں نے کہا تھا میں اپنے خرچ پر تبلیغ کے لئے جاؤں گا مگر اس وقت ان کو بھیجا نہ گیا اور جب بھیجا گیا تو ان کے پاس کچھ نہ تھا مگر انہوں نے نہ مجھے بتایا نہ کسی اور کو کہ میرے پاس کچھ نہیں.میں جمعہ کی نماز کے بعد ان کا جنازہ پڑھاؤں گا اور سب دوستوں سے امید رکھتا ہوں کہ خصوصیت سے ان کے لئے دعا کریں گے کہ اللہ تعالی ان کی روح کو اعلیٰ مقام پر پہنچائے اور ان کی وفات جو کہ ایک بہت بڑی قربانی ہے وہ ضائع نہ جائے.ایک نا سمجھ اور نادان انسان کے گا کہ وہ تمہارا کیا لگتا تھا مگر یا تو وہ جن کو روحانی رشتے اور روحانی قرب حاصل ہوتا ہے وہ جانتے ہیں کہ جسمانی تعلقات سے یہ بہت مضبوط ہوتا ہے اور روحانی رشتے جسمانی رشتوں سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں.زندہ قومیں جانتی ہیں کہ قوم کی خاطر مرنے والوں کی کیا قدر کرنی
سال ۱۹۲۸ء خطبات محمود ۳۲۵ ١٠ چاہئے.یہ بالکل کچی حقیقت ہے کہ مردوں کی قدر کرنا زندوں کو اور طاقتور بنا دیتا ہے.پس ہمارا قومی فرض ہے کہ ان کا اعزاز اور احترام کریں جو دین کی خدمت کرتے ہوئے فوت ہوں.اور ایسا اعزاز کریں کہ ہماری نسلیں محسوس کریں کہ دین کی خدمت کرتے ہوئے مرنا بہت بڑی عزت ہے.جب تک یہ احساس پیدا نہ ہو کہ جو دین کی خدمت کرتے ہوئے مرتے ہیں وہ بہت بڑے محسن ہیں کوئی دین اور کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی.پس قوم میں ترقی اور بیداری پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ دین کی خاطر جو مریں ان کے نام زندہ رکھے جائیں.دیکھو قرآن کریم نے کتنے چھوٹے سے فقرہ میں یہ بات بیان کر دی ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يَقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللهِ اَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاء وَالكِنْ لَا تَشْعُرُونَ (البقره ۱۵۵) کہ جو اللہ کے رستے میں مرتے ہیں ان کو مُردہ مت کہو وہ زندہ ہیں.گویا ایسے انسانوں کو مردہ کہنے سے بھی روک دیا حالانکہ اس میں کیا شبہ ہے کہ وہ مُردہ ہیں.کون کہہ سکتا ہے کہ حضرت حمزہ اسی طرح کے مُردہ نہیں تھے جیسے وہ صحابہ جو بیمار ہو کر فوت ہوئے.اسی طرح اور جتنے شہید تھے وہ بھی ایسے ہی مُردہ تھے جیسے دوسرے مگر قرآن کہتا ہے ان کو مُردہ نہ کہو یہ ان کی ہتک ہے وہ نہیں مرسکتے کیونکہ وہ قوم میں زندگی کی روح پھونک گئے.پس زندہ قوموں کے لئے ضروری ہے کہ ان میں اس قسم کی قربانیاں کرنے والے لوگ نہوں اور ایسی باتوں سے گھبرانا نہیں چاہئے.جب مولوی عبید اللہ صاحب ماریشس میں فوت ہوئے تو کئی لوگوں نے کہا اپنے آدمی باہر بھیجے جاتے ہیں جو وہاں فوت ہو جاتے ہیں.مگر جو زندہ قومیں ہوتی ہیں وہ ایسی باتوں سے ڈرتی نہیں بلکہ اگر ایک مرتا ہے تو ہزار آگے آجاتے ہیں.اسی طرح مولوی نعمت اللہ صاحب کے وقت میں بھی کہا گیا کہ ایسے ملکوں میں کیوں بھیجا جاتا ہے جہاں امان نہیں مگر یاد رکھو کوئی قوم جب تک قربانی نہ کرے ترقی نہیں کر سکتی.ہمیں اگر چہ ان مرنے والوں کا افسوس بھی ہے مگر ہم خوش بھی ہیں.افسوس تو اس لئے کہ ایک اور کام کرنے والا شخص ہمارے ہاتھ سے جاتا رہا اور خوش اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے ان کو وہ مرتبہ دیا جو دنیا کی زندگی سے بہت بڑھ کر ہے.اور وہ عزت عطا کی جس پر ہم میں سے ہر ایک رشک کرتا ہے.پس بجائے اس کے کہ ہم گھبرائیں ہم میں یہ خواہش ہونی چاہئے کہ ایک کے بعد دوسرا جائے اور دوسرے کے بعد تیرا خدا کے فضل سے ہم دنیا کو زندہ کرنے والے ہیں اور جو شخص اس بات کو محسوس کرے گا وہ کسی قسم کی قربانی سے ڈرے گا نہیں بلکہ ایک کے بعد دوسرا
خطبات محمود سال ۱۹۲۸ء آگے آئے گا.پس یہ قربانیاں ترقی کے لئے ضروری ہیں.ایسے موقع پر صدمہ ہونا قدرتی بات ہے کیونکہ عزیزوں کی جدائی سے صدمہ ہوتا ہے مگر یہ قربانیاں ہماری ہمتوں کو توڑ نہیں سکتیں بلکہ ہمت بڑھانے کا موجب ہوتی ہیں.اگر ایک فوت ہوتا ہے تو اس کی جگہ جانے کے لئے ہزار تیار ہوں گے.مگر ہمارا ایک فرض مرنے والے کے متعلق ہے اسے ادا کرنا چاہئے.وہ قلیل ترین فرض ہے جس سے اقل اور نہیں ہو سکتا کہ مرنے والے کے لئے دعا کریں.اور دوسرا فرض یہ ہے کہ اس کے کام کو جاری رکھنے کی کوشش کریں تاکہ اس کی موت ایسے بیج کی طرح نہ ہو جو پتھر پر پھینکا گیا بلکہ اس پیج کی طرح ہو جو ایسی اعلیٰ درجہ کی زرخیز زمین میں ڈالا گیا جو بغیر پانی کے ہی کھیتی پیدا کرنے والی ہو.ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ تعالٰی ہمارے شہیدوں کی موت ضائع نہ کرے گا اور ان ممالک میں جہاں وہ فوت ہوئے ایسا سایہ دار درخت پیدا کرے گا جو سارے ملک کو اپنے سایہ میں پناہ دے گا اور لاکھوں انسان اس کے نیچے آرام کریں گے.اور خدا کے ماموروں کا نام اس ملک میں بلند کرنے کا موجب ہو گا اور خدا کے نام کے اعلاء کا ذریعہ ہو گا.الفضل ۲۷-۳۰ / مارچ ۱۹۲۸ء)
خطبات محمود ۳۴۷ ۴۷ R سال ۱۹۲۸ء جماعت احمدیہ کا حال اور مستقبل (فرموده ۶/ اپریل ۱۹۲۸ء) ۱ تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اس وقت جب کہ میں خطبہ کے واسطے کھڑا ہوا ہوں جیسا کہ میرا طریق ہے میں بغیر کسی مضمون کے سوچنے کے یہاں آیا تھا.میری طبیعت قدرتی طور پر مضامین کو سوچ کر بیان کرنے سے متنفر ہے سوائے ان مضامین کے جن میں نوٹوں اور حوالوں کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ مجبوری ہوتی ہے جیسے سالانہ جلسہ کی تقریریں ہیں.باقی عام طور پر میں بغیر نوٹوں کے بولتا ہوں اور اس لئے بولتا ہوں کہ ہمیں کیا معلوم ہے کہ اللہ تعالٰی کیا کہلوانا چاہتا ہے.میں آج بھی اسی طرح آیا تھا بلکہ سورۃ فاتحہ کی تلاوت کرنے تک مجھے معلوم نہیں تھا کہ میں کیا بیان کروں گا اور کوئی مضمون میرے ذہن میں نہ تھا مگر اس کے بعد اس حالت کو دیکھ کر جو ہمارے بیٹھنے کی اس وقت ہے مضمون ذہن میں پیدا ہو گیا.یہ میں نے ذکر اس لئے کیا ہے کہ میرا آج کا خطبہ اسی نظارہ کے متعلق ہے جو اس وقت ہمارے سامنے ہے.میں نے بڑی قوموں کی بڑی حالتیں بھی دیکھی ہیں جیسے انگلستان کی پارلیمینٹ - سفر ولایت کے موقع پر میں نے ہاؤس آف لارڈز ( رؤسا کی مجلس) اور ہاؤس آف کامنز(نمائندوں کی مجلس) کو بھی دیکھا ہے ان کی شان و شوکت اور عظمت کو دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے اور سمجھتا ہے واقعی یہ لوگ دنیا پر حکومت کرنے کے اہل ہیں.کس قدر عظیم الشان عمارات کتنا قیمتی سامان اور کیسا زبردست پروں کا انتظام ہے.پارلیمنٹ کی لائبریری کو ہی دیکھ کر انسان حیران رہ
سال ۱۹۲۸ء خطبات محمود " جاتا ہے کہتے ہیں اگر اس کے کمروں کو آگے پیچھے لمبا کیا جائے تو کئی میل تک لمبی ہو جائے.عظیم الشان عمارت کے چاروں طرف دیواروں کے ساتھ ساتھ الماریاں رکھتے گئے ہیں.پھر جو قومیں ان تے کمزور ہیں ان کی حالت کو بھی دیکھا ہے.میں ایک دفعہ بمبئی گیا تو خوجوں کا شادی خانہ دیکھا.وہاں چونکہ رہائشی مکان اتنے بڑے نہیں ہوتے کہ بیاہ شادیوں میں جو مہمان آئیں وہ ٹھر سکیں اس لئے ایسے موقعوں کے لئے علیحدہ طور پر انہوں نے مکان بنایا ہوا ہے تاکہ جس کے ہاں شادی ہو وہ اپنے مہمانوں کو وہاں ٹھہرا سکے.وہ مکان اس قدر سامان سے آراستہ تھا کہ دیکھ کر حیرت ہوتی تھی.ایک بجلی کی روشنی کا ہی ایسا انتظام تھا کہ انسان رات کو دن سمجھتا تھا.اس میں ہر قسم کی آرائش اور زیب و زینت کا سامان موجود تھا لیکن ان سب باتوں کے باوجود ان قوموں کے حوصلے ان کی امنگیں اور ان کے ارادے کوئی ایسے بلند نہیں ہیں.خوجہ قوم بے شک بہت مالدار قوم ہے مگر یہ امنگ کبھی ان کے دل میں پیدا نہیں ہو سکتی کہ ساری دنیا پر چھا جائیں.بے شک میمن اور بو ہرے بہت مالدار ہیں مگر ان کے دماغ کے کسی گوشے میں بھی کبھی یہ بات نہیں آسکتی کہ ہم دنیا کے بادشاہ ہو جائیں گے اور نظام عالم میں تبدیلی پیدا کر دیں گے.ان کی دولتیں اتنی زیادہ ہیں کہ ان میں سے کئی ایسے ہیں جو اس زمانہ میں بھی جبکہ مال و دولت کی کثرت ہے اس قدر مالدار ہیں کہ انفرادی طور پر مدینہ کو خریدنے کی طاقت رکھتے ہیں مگر ان کے دماغ کے کسی گوشے میں بھی کبھی نہ یہ خیال آیا اور نہ آسکتا ہے کہ ہم نے دنیا کو فتح کرنا ہے اور دنیا کے موجودہ نظام کو درہم برہم کر کے ایک نیا نظام جاری کرنا ہے.مگر اس کے مقابلہ میں ایک اور قوم ہے جو اپنے مال، اپنی دولت، اپنی عزت اپنی تعداد اور اپنے اثر و رسوخ کے لحاظ سے دنیا کی شائد تمام منتظم جماعتوں سے کمزور اور تھوڑی ہے مگر باوجود اس کے اس کے دل میں یہ امنگ ہے اور اس کے ارادے اس قدر پختہ اور بلند ہیں کہ اس کا دعوئی ہے وہ تمام کمزرویوں کے باوجود اور سامان کی کمی کے باوجود ساری دنیا میں تہلکہ مچادے گی اور موجودہ نظام کو توڑ کر اور موجودہ دستور کو تہ و بالا کر کے نیا نظام اور نیا کام جاری کرے گی اور وہ احمد یہ جماعت ہے مگر اس کی حالت کیا ہے ؟ یہ کہ مجلس شورٹی کے جماعتوں کے لئے نمائندے جمع ہوئے ہیں مگر ان کے لئے اتنی بھی جگہ نہیں ہے کہ سائے میں نماز ہی ادا کر سکیں.وہ ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہیں کیونکہ کوئی چھت ان کے سروں کو چھپانے والی نہیں ہے اور وہ آج وہی کہہ سکتے ہیں جو حضرت مسیح نے کہا تھا کہ لومڑیوں کے لئے بھٹ ہوتے ہیں.اور ہوا کے
۳۴۹ سال ۶۱۹۳۸ ce پرندوں کے گھونسلے.مگر ابن آدم کے لئے سردھرنے کی بھی جگہ نہیں.رہائش کے لئے گھر تو حضرت مسیح کو بھی نصیب تھا اور وہ جھوٹا آدمی نہ تھا بلکہ خدا تعالی کا نبی تھا.جب اس نے یہ کہا کہ ابن آدم کے لئے سر چھپانے کی جگہ نہیں تو اس کے یہ معنی نہیں تھے کہ اس کا یا اس کے حواریوں کا گھر نہیں تھا بلکہ اس کے معنی یہ تھے کہ وعظ اور لیکچر کے لئے انہیں کوئی مناسب جگہ نہیں ملتی تھی وہی حال آج ہمارا ہے.میں نے ایک فرانسیسی مصنف کی کتاب پڑھی ہے جس نے لکھا ہے میں اسلام کا سخت مخالف تھا اور میرے دل میں سخت تعصب تھا اسی بناء پر میں نے تاریخ اسلام کا مطالعہ شروع کیا.مگر جب میں تاریخ اسلام پڑھتے پڑھتے بانی اسلام کے زمانہ میں پہنچا تو ایک نظارہ میرے سامنے آیا جس نے میرے تعصب کو پاش پاش کر دیا اور میرے نقطہ نگاہ کو بدل دیا.اور وہ یہ تھا کہ میں اپنی قوت واہمہ کے ذریعہ ۱۳۰۰ سو سال پیچھے گیا اور میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ میلے کچیلے کپڑے پہنے ایک کچی عمارت میں بیٹھے ہیں.ویسے ہی لباس والا ایک آدمی ان کے درمیان بیٹھا ہے.ان کے پاس کوئی سازو سامان نہیں بلکہ ایک ایسے مکان میں بیٹھے ہیں جس پر کھجور کی شاخوں کی چھت ہے.میں اپنی قوت واہمہ کے ذریعہ ان کے پاس پہنچا اور سنا کہ کیا باتیں کر رہے ہیں تو مجھے معلوم ہوا وہ کہہ رہے ہیں کس طرح دنیا کو فتح کریں اور کس طرح ساری دنیا پر خدا کا دین پھیلا دیں.میں نے ان کی باتوں کو سنا اور پھر تاریخ کے دوسرے صفحات میں دیکھا کہ واقعہ میں چند سال کے بعد انہوں نے دنیا کو فتح کر لیا اور جس دین کو وہ خدا کی طرف سے سمجھتے تھے اسے پھیلا دیا.اس وقت میرا دل ڈرا کہ ایسے لوگوں کو کس طرح کوئی جھوٹا کہہ سکتا ہے.کیا ہی لطیف نقشہ ہے جو اس مصنف نے کھینچا ہے.رسول کریم ﷺ کے یہی واقعات نہیں جو اس نے بیان کئے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ حیران کن ہیں.دنیا کو فتح کرنے کی صاف پیشگوئی اس احزاب کی جنگ کے وقت کی گئی جب کہ بوجہ محاصرہ رسول کریم ﷺ اور صحابہ کو کئی دن سے فاقہ تھا.کئی صحابہ نے بتایا کہ انہیں سات سات دن سے فاقہ تھا اور انہوں نے اپنے پیٹوں پر پتھر باندھے ہوئے تھے رسول کریم ﷺ نے بھی فاقہ کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھ رکھا تھا.یہ حالت تھی جب صحابہ خندق کھود رہے تھے.دشمن پورے زور سے ان پر حملہ آور ہو رہا تھا اور دعوئی کر رہا تھا کہ مسلمانوں کی عورتوں اور بچوں کو غلام اور لونڈیاں بنا کر لے جائے گا
خطبات محمود ۳۵۰ سال ۴۱۹۲۸ اور ان کو تباہ و برباد کر دے گا.جس وقت دشمن یہ دعوی کر رہا تھا خندق کھودتے ہوئے ایک ایسا پتھر نکلا جسے صحابہ نے تو ڑنا چاہا مگر بار جود سخت کوشش کے وہ نہ ٹوٹا.آخر رسول کریم ﷺ کی خدمت میں عرض کی کہ ایک پتھر بہت سخت نکلا ہے جو ہم سے ٹوٹتا نہیں.رسول کریم نے فرمایا چلو ہم توڑتے ہیں آپ ا نے کدال لے کر پتھر پر ماری.پتھر سخت تھا اور جیسا کہ قاعدہ ہے کہ چوٹ پڑنے پر پتھر سے آگ نکلتی ہے آگ کا شعلہ نکلا.رسول کریم ﷺ نے اسے دیکھ کر کہا اللہ اکبر.صحابہ کو کچھ نہ سمجھے کہ کیا مراد ہے مگر چونکہ ہمیشہ رسول اللہ کا ادب ملحوظ رکھتے تھے بغیر دریافت کرنے کے انہوں نے بھی کہا اللہ اکبر.رسول کریم ﷺ نے دوبارہ کدال ماری اور پھر اسی طرح آگ نکلی.جسے دیکھ کر آپ نے دوبارہ اللہ اکبر کہا اور صحابہ نے بھی آپ " کی اتباع میں ایسا ہی کہا.رسول کریم ﷺ نے سہ بارہ کدال ماری جس سے آگ نکلی.آپ نے اللہ اکبر کہا صحابہ نے بھی یہ نعرہ لگایا.اس ضرب سے پتھر ٹوٹ گیا.ل کریم ﷺ نے صحابہ سے دریافت فرمایا تم نے کیوں اللہ اکبر کہا تھا.انہوں نے عرض کیا آپ نے جو کہا تھا اس لئے ہم نے بھی کہا.آپ نے کیوں کہا تھا آپ نے فرمایا جب پہلا شعلہ نکلا تو مجھے دکھایا گیا کہ قیصر کی حکومت پر تباہی آئی ہے اور مسلمانوں کو اس پر فتح حاصل ہوئی ہے.دوسری دفعہ جب شعلہ نکلا تو اس میں مجھے کسری کی حکومت کی تباہی کا منظر دکھائی دیا اور تیسری مرتبہ غالبا غسان یا کسی اور قوم کے متعلق فرمایا.س اس وقت مسلمانوں کی کیسی نازک حالت تھی.چنانچہ منافقوں نے اس وقت کہا بھی کہ کھانے کو تو روٹی نہیں ملتی اور پاخانہ پھرنے کے لئے جگہ نہیں مگر خواب قیصر و کسرٹی کی حکومتوں کو فتح کرنے کے دیکھے جا رہے ہیں.بعینہ یہی کیفیت اس وقت ہماری ہے.ہماری جماعت ظاہری حالت کے لحاظ سے کمزور ترین نہیں بلکہ ایک ہی کمزور جماعت ہے.دنیا میں کوئی ایک بھی منظم جماعت جو کام کر رہی ہو ہم سے کمزور نہیں ہے.مگر باوجود اس کے کسی کے ارادے ایسے بلند اور ایسے وسیع نہیں ہیں اور ان میں سے کوئی بھی یہ امید نہیں رکھتی کہ وہ دنیا کے موجودہ نظام کو توڑ کر ایک نیا نظام جاری کرے گی سوائے ہماری جماعت کے عیسائی جو ساری دنیا پر حاوی ہیں محسوس کر رہے ہیں کہ ان کی طاقت ٹوٹ رہی ہے.ان کے عقل مند اس بات کو محسوس کر رہے ہیں کہ ان کی طاقت کو کیڑا لگ چکا ہے جو گھن کی طرح اندر ہی اندر اس کو کھائے جا رہا ہے.دوسری طاقت مسلمانوں کی ہے وہ بھی اس امر کو محسوس کر رہے ہیں کہ وہ بہت کمزور ہو چکے ہیں.عیسائی تو یہ محسوس کر
خطبات محمود ۳۵۱ سال ۱۹۲۸ء رہے ہیں کہ وہ ٹوٹ رہے ہیں مگر مسلمان سمجھتے ہیں وہ ٹوٹ چکے ہیں.اسلامی سلطنتیں اسلام سے بیزاری کا اظہار کر رہی اور تمام حکومتیں مذہب سے علیحدہ ہو رہی ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اسلام سے منسوب ہونے کی وجہ سے ہی وہ مغلوب ہیں.آج ہی میں نے اخبار میں یہ خبر دیکھی ہے کہ لڑکی کی پارلیمینٹ کے ۱۰۹ ممبروں نے جن میں عصمت پاشا اور دیگر تمام وزراء بھی شامل ہیں ایک تحریک پر دستخط کر دیئے ہیں جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ آئین ترکی کی جن دفعات میں اسلام کو سلطنت ترکیہ کامذہب تسلیم کیا گیا ہے ان کو منسوخ کر دیا جائے.تو مسلمان نہ صرف خود کمزور ہو چکے ہیں بلکہ یہی سمجھ رہے ہیں کہ ان کی کمزوری کا باعث اسلام ہی ہے.ہندو ہیں وہ منبروں پر شور مچاتے ہیں کہ یہ سوراج کا زمانہ ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ وہ خوب جانتے ہیں کہ وہ حکومت کرنے کے قابل نہیں ہیں.سٹیجوں پر کھڑے ہو کر یہ کہہ لینا آسان ہے کہ ہم مکہ پر ادم کا جھنڈا گاڑیں گے مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس کے لئے وہ کر کیا رہے ہیں.ہندؤوں کی تعداد ان کے مال و دولت اور ان کی عظمت کو اگر یہ نظر رکھ کر دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ ان کے دعوے محض دعوئی ہیں ورنہ حقیقت میں وہ کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں ہیں.تو سب مذاہب والے اس وقت کمزور ہو رہے ہیں.کسی مذہب کے پیروؤں کے دل میں اپنے مذہب کی کوئی محبت نہیں.بدھ مذہب ہے اس سے بھی لوگ بیزار ہو رہے اور اسے چھوڑ رہے ہیں.اس وقت ایک ہی جماعت ایسی ہے جو کمزوری کے لحاظ سے دنیا میں سب سے گری ہوئی ہے مگر ارادہ کے لحاظ سے سب سے بڑھی ہوئی ہے.پھر وہ منہ سے دعوئی ہی نہیں کرتی اس کی بنیاد ہی اس پر ہے کہ دنیا کو کھا جاتا ہے کیونکہ اسکی بنیاد یہ ہے کہ ہم کو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق فرمایا ہے :- دنیا میں ایک نذیر آیا.پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا.لیکن خدا اسے قبول کرے گا.اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا " سے یہ ہماری بنیاد ہے.جس کے معنی یہ ہیں کہ ہماری ابتداء ایک شخص ہے دنیا نے اس کا انکار کیا.مگر کیا وہ ایک ایسا بیج ہے جو زمین میں بویا گیا اور وہ مٹی میں دب کر مٹ جائے گا اور وہ روئیدگی نہ پیدا کرے گا.نہیں بلکہ خدا نے اسے قبول کیا اور پھر ایک قوم پر نہیں دو قوموں پر نہیں ایک ملک پر نہیں دو ملکوں پر نہیں بلکہ ساری دنیا پر اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.جس کا یہ
خطبات محمود ۳۵۲ سال ۱۹۳۸ء مطلب ہے کہ اس کو وہ قبولیت بخشی جائے گی اور اس کثرت سے اس کا دین پھیل جائے گا کہ دوسرے مذاہب ایسے کمزور ہو جائیں گے کہ استثناء کے طور پر ان کا نام لینے کی بھی ضرورت نہ رہے گی کیونکہ یہ قاعدہ ہے کہ جب قلت بہت ہی قلیل ہو تو پھر استثناء کی بھی ضرورت نہیں رہتی.مثلاً کوئی کہے کہ سارا ہندوستان فلاں بات پر متفق ہے تو اگر کوئی قلیل جماعت یا ہماری جماعت ہی اس بات کے خلاف ہو اور باقی ہندو مسلمان سکھ وغیرہ متفق ہوں تو یہی کہا جائے گا ہندوستان متفق ہے اور ہماری پرواہ نہیں کریں گے.لیکن اگر مسلمان خلاف ہوں تو گو باقی لوگوں کے مقابلہ میں وہ قلیل ہیں مگر بہت قلیل نہیں اس لئے کوئی یہ نہ کہے گا کہ سارا ہندوستان متفق ہے.پس حضرت مسیح موعود کے اس الہام کا یہی مطلب ہے کہ دنیا پر آپ کی صداقت اس قدر ظاہر ہو جائے گی کہ جو منکر ہوں گے ان کا نام استثناء کے طور پر بھی لینے کی ضرورت نہ ہوگی.یہ ایک دعوئی ہے جو ضرور پورا ہو گا مگر ہماری موجودہ حالت وہی ہے جو آج سے تیرہ سو سال قبل مسلمانوں کی حالت اس فرانسیسی مصنف کو یا اس جیسے لوگوں کو نظر آتی تھی جس نے دیکھا تھا کہ پھٹے پرانے کپڑے پہنے چند لوگ ایک کچے مکان میں بیٹھے دنیا کے فتح کرنے کی سر گوشیاں کر رہے تھے.آج بھی وہی سرگوشیاں ہو رہی ہیں مگر آج ہمیں کچا مکان بھی نصیب نہیں بلکہ ہم بڑ کے درخت کے نیچے یہ مشورے کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں کہ دنیا کو کس طرح فتح کیا جائے.مگر جس طرح ان سرگوشیوں کا خدا تعالٰی نے عظیم الشان نتیجہ ظاہر کیا اسی طرح اب بھی کرے گا اور جس طرح اس وقت لوگ اس نتیجہ کا انکار کرتے تھے اسی طرح اب بھی کرتے ہیں مگر یاد رکھیں آج جو سرگوشیاں ہو رہی ہیں ان کا ایسا نتیجہ نکلے گا کہ ساری دنیا پر احمدیت کا جھنڈا لہرائے گا.لیکن آج کے منظر کی تصویر اگر لے لی جائے اور اسے کوئی آج سے چھ سات سو سال بعد شائع کرے تو اس وقت کے لوگ انکار کریں گے کہ یہ ہمارے بڑوں کی حالت کی تصویر ہے.وہ کہیں گے ہم نہیں مان سکتے کہ وہ ایسے کمزور تھے.اس پر یقین کرنے کے لئے ایک تیز قوت داہمہ کی ضرورت ہوگی.مگر میں جماعت سے کہتا ہوں ان وعدوں کا مستحق بنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس کے لئے دعاؤں پر بہت زور دینا چاہئے ، معاملات میں صفائی چاہئے، ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا چاہئے ، اپنے نفسوں کو قابو میں رکھنا چاہئے آپس میں محبت اور اتحاد کا سلوک کرنا چاہئے مگر میں دیکھتا ہوں ابھی بہت ہیں جن کے نفس
خطبات محمود ۳۵۳ سال ۱۹۲۸ء مرے نہیں.یاد رکھو کہ فتح پانے والی قوم بہت سے امور پر عفو سے کام لیتی ہے.انتظامی معاملہ میں سزائیں بھی مجبور ا دینی پڑتی ہیں مگر وہ بھی بھلائی کی خاطر ہوتی ہیں نہ کہ کسی غصہ یا جذبہ کے انتقام کے لئے.حدیث میں آتا ہے کہ بعض صحابہ سے خدا تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کو قطع تعلق کرنے کا حکم دیا مگر وہ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم رسول کریم ﷺ کی مجلس میں جاتے تو آپ سنکھیوں سے ہماری طرف دیکھتے شے گویا دل سے محبت بھی کرتے تھے.پس ہمیں اپنی زندگیاں اس وعدہ کے مطابق بسر کرنی چاہئیں جو ہم نے حضرت مسیح موعود کے ہاتھ پر کیا ہے.اور دعا کرنی چاہئے کہ جس غرض کے لئے ہم یہاں جمع ہوئے ہیں اور جس غرض کے لئے ہم خدا تعالٰی کے نبی کے ہاتھ پر اکٹھے ہوئے ہیں خدا تعالی اس کو پورا کر دے.ہماری کمزوریاں اس پر ظاہر ہیں اور کل طاقتیں اور قوتیں بھی اس پر ظاہر ہیں.-1 الفضل ۱۷ / اپریل (۱۹۲۸ء) یہ خطبہ جمعہ حضور نے مسجد نور کے متصل جو بڑ کا درخت ہے اس کے نیچے فرمایا.جس کا سایہ ناکافی ہونے کی وجہ سے بہت سے احباب کو دھوپ میں بیٹھنا پڑا تھا.متنی باب ۲۰ آیت ۸ بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعه ۱۹۹۳ شه فتح الباری جلدے صفحہ ۳۹۷ مطبوعہ دار النشر كتب الاسلامیہ لاہور 19 تذکره ها ایڈیشن چهارم بخاری کتاب المغازی باب غزوہ تبوک حدیث کعب بن مالک
خطبات محمود ۳۵۴ ۴۸ سال ۱۹۲۸ء خدا کی رحمت کے مظہر بنو (فرموده ۲۰/ اپریل ۱۹۲۸ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: جس قدر تعلیمیں خدا تعالی کی طرف سے انسان کی ہدایت کے لئے دنیا میں نازل ہوتی ہیں ان سے فائدہ اٹھانے کا گر صرف یہی ہے کہ انسان ان پر عمل کرے خالی زبان پر ان تعلیموں کا آجانا کافی نہیں ہو سکتا.ہم کوئی چیز دنیا میں ایسی نہیں دیکھتے جس کے صرف زبان سے رہنے سے کوئی فائدہ ہو.اگر کوئی منہ سے روٹی روٹی کرے تو اس کا پیٹ نہیں بھر جائے گا.یا پانی پانی کہنے سے پیاس نہیں بجھ جائے گی.اسی طرح خدا تعالی کی تعلیمیں ہیں اگر ان کو انسان پڑھتا رہے اور بار بار دہراتا رہے مگر ان پر عمل نہ کرے تو اس کا روحانی پیٹ نہیں بھرے گا.میں دیکھتا ہوں ابھی ہماری جماعت میں بہت لوگ ایسے پائے جاتے ہیں جو اپنے نفس کی اصلاح کی طرف بہت کم توجہ کرتے ہیں.اس وقت میں خصوصیت سے اس بات کو لیتا ہوں جو آج کل مسلمانوں میں بہت عام ہے اور جس کے اثر کے نیچے کئی لوگ دبے ہوئے ہیں اور جو ایسی ہے کہ جن میں وہ پیدا ہوئی انہوں نے خدا کو بھلا دیا اور وہ خدا سے دور ہو گئے.دوسرے لوگوں میں اگر یہ بات پائی جاتی ہے تو اس کا ہمیں چنداں فکر نہیں مگر ہماری جماعت جسے خدا تعالی نے لوگوں کی اصلاح اور ان میں نیکی پیدا کرنے کے لئے قائم کیا ہے اس میں اگر کوئی نقص ہو خواہ اس کے تھوڑے افراد میں ہو یا زیادہ میں یہ بہت افسوس کی بات ہے.میں افسوس سے دیکھتا ہوں کہ یہاں قادیان سے بھی اور باہر کی مختلف جگہوں سے بھی متعدد بار ایسی شکائتیں آتی رہتی ہیں کہ آپس میں ذرا ذرا سی بات پر ناراضگی پیدا ہو جاتی ہے اور دوست آپس میں لڑنے جھگڑنے لگ جاتے ہیں.حالانکہ قرآن شریف میں خدا تعالی فرماتا ہے.
۳۵۵ سال ۶۱۹۲۸ رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَئ (الاعراف ۱۵۷) کہ میری رحمت ہر چیز پر وسعت رکھتی ہے اور ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے.یعنی غضب ، غصہ ناراضگی خدا تعالیٰ کی صفات کا اصل مظہر نہیں ہیں.حقیقی مظہر اس کی رحمت اس کا رحم اور اس کا فضل ہے.اس آیت میں خدا تعالٰی نے یہی فرمایا ہے کہ رحمت میری طرف سے ہوتی ہے اور غضب کی تحریک خود ان کی طرف سے ہوتی ہے جن پر نازل ہو تا ہے.اللہ تعالیٰ کی رحمت کے لئے ضروری نہیں کہ ہماری طرف سے تحریک ہو.یہ نہیں کہ ہماری طرف سے ایسے سامان مہیا کئے جائیں جو اس کی رحمت کے نزول کا باعث ہوں بلکہ یہ خود بخود ہماری کوشش اور کسی خواہش کے بغیر بھی ہر وقت نازل ہوتی رہتی ہے.ہم جب ماں کے پیٹ میں تھے اور پیدا بھی نہیں ہوئے تھے اس وقت اس نے آنکھیں دی تھیں اس وقت ہم نے کونسی نیکی کی تھی.پھر جب خداتعالی نے کان دیئے تھے تو وہ کسی نیکی کے بدلے میں دیئے تھے.اس وقت تو ہم نیکی بدی کا نام بھی نہ جانتے تھے یہ خدا تعالی کی رحمت ہی تھی کہ ہمیں بغیر نیکی کے یہ سب کچھ عطا کیا.اسی طرح اس نے علم دیا، حافظہ دیا اور بہت سی طاقتیں دیں اور یہ ظاہر ہے کہ ہماری طرف سے ان سب باتوں کے لئے کوئی ابتداء نہیں ہوئی.اسی طرح خدا تعالیٰ نے غلہ پیدا کیا، میوے پیدا کئے اور چیزیں پیدا کیں.اسی طرح اس نے پنجاب کے پانچ دریا پیدا کئے جن کے ذریعہ کروڑوں انسان پل رہے ہیں یہ کس نیکی کے بدلے میں ہیں.یہ محض خدا تعالیٰ کی رحمت ہے جو کسی کام کے بدلے میں نہیں.ای طرح خوبصورت نظارے جو ہمیں نظر آتے ہیں.سمندر جو دنیا کی ترقی کا ذریعہ ہیں اور جن کے راستے تجارت کا مال آسانی اور سہولت سے کہیں سے کہیں جا پہنچتا ہے اور ریل کی بہ نسبت زیادہ آسانی سے پہنچتا ہے یہ کس انسان کی نیکی کا نتیجہ ہیں.یہ خدا کی رحمت ہی تھی جو انسانوں کے کسی فعل کے بغیر نازل ہوئی.اگر ان نعمتوں کو گنا جائے جو خدا تعالٰی نے ہمارے افعال کے بغیر نازل کی ہیں تو ان کی تعداد ہمارے افعال کے نتیجہ میں نازل ہونے والی نعمتوں سے بہت زیادہ ہو گی.چونکہ ہماری نیکی محدود ہے اس لئے اس کے بدلہ میں جو فضل نازل ہو وہ بھی محدود ہی ہو گا.مگر خدا کی رحمت لا محدود ہے اس لئے جو فضل اس کی طرف سے نازل ہو وہ بھی غیر محدود ہوتا ہے.لیکن جہاں خدا تعالٰی کے فضل غیر محدود ہیں اور کوئی ان کا اندازہ نہیں لگا سکتا وہاں ایک شخص بھی ایسا نہیں جو یہ بتا سکے کہ کوئی ایک بھی غضب بندہ کے فعل کے بغیر نازل ہوا ہو.تو رَحمَتِی وَسِعَتْ كُلَّ شَئ اصل چیز خدا کی طرف سے نازل ہونے والی رحمت
خطبات محمود ۳۵۶ سال ۱۹۲۸ء ہے.لیکن غضب اس وقت نازل ہوتا ہے جب اس کے لئے پہلے بندہ کی طرف سے تحریک ہوتی ہے.غرض رحمتیں تو بغیر ہمارے کام کے بھی نازل ہوتی ہیں اور بہت زیادہ نازل ہوتی ہیں مگر غضب ہمارے کسی جرم کی سزا کے طور پر ہوتا ہے اور ہمارے جرم کے مطابق ہوتا ہے زیادہ نہیں ہوتا.پس جب کہ اللہ تعالٰی کی رحمت وسیع ہے تو مومن کا کام ہے کہ خدا کی دوسری صفات کی طرح یہ صفت بھی اپنے اندر پیدا کرے.مؤمن کیا ہے مومن خدا تعالی کی صفات کا آئینہ ہوتا ہے.جس طرح آئینہ اس لئے بنایا جاتا ہے کہ اس میں مالک کی شکل نظر آئے اسی طرح خدا تعالیٰ نے انسان کو اس لئے بنایا ہے کہ خدا کی صفات اس کے ذریعہ ظاہر ہوں.یاد رہے کہ شیشہ جب خراب ہو جاتا ہے تو انسان کی شکل اس میں عمدگی سے دکھائی نہیں دیتی است وقت وہ توڑ دیا جاتا ہے.میں چھوٹا تھا جب میں نے ایک رؤیا دیکھی.میں نے دیکھا کچھ لوگ ہیں جن کے سامنے میں تقویٰ پر وعظ کر رہا ہوں میرے ہاتھ میں ایک آئینہ ہے جو میں انہیں دکھا کر کہتا ہوں.دیکھو جس طرح مالک شیشہ میں شکل دیکھتا ہے اسی طرح خدا انسان میں اپنی شکل دیکھتا ہے.پھر میں کہتا ہوں جب شیشہ خراب ہو جاتا ہے اور اس میں شکل نظر نہیں آتی تو اسے یوں پھینک کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جاتا ہے.اسی طرح جو دل گندا ہو جائے اور جس میں خدا کی شکل نہ نظر آئے اسے خدا بھی چور چور کر دیتا ہے.تو مومن کا کام ہی یہ ہے کہ خدا کی صفات ظاہر کرے اور خدا تعالیٰ کی سب سے بڑی صفت رحمت ہے اور اصل یہی ہے.ہاں جب اصلاح کی اور کوئی صورت نہ رہے تو اس وقت سزا دیتا ہے.مگر بہت لوگوں کو دیکھا ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر آپس میں لڑنے جھگڑنے لگ جاتے اور گالیوں پر اتر آتے ہیں حتی کہ مار پیٹ کی نوبت آجاتی ہے.حالانکہ جب بات معلوم کی جائے تو اسے سن کر شرم آجاتی ہے کہ انسان کے بچوں کو ایسی معمولی بات پر لڑنے کی جرات کیسے ہوئی.مثلا کئی لڑائیاں تو لین دین کے مطالبہ پر ہو جاتی ہیں.کسی نے کسی کے روپے دینے ہوتے ہیں.فرض کرو تاجر ہے ادھار سودا دیتا ہے مگر جب ایک دو ماہ کے بعد قیمت مانگتا ہے تو بجائے اس کے کہ مقروض ادا نہ کر سکنے پر شرمندگی کا اظہار کرتا اور اگر اس وقت بھی ادا نہیں کر سکتا تو معذرت کرتے ہوئے کہتا کہ مجھے خود خیال ہے اتنے عرصہ کی اور مہلت دیجئے میں جلد ادا کرنے کی کوشش کروں گا الٹا لڑنے لگ جاتا ہے اور کہتا ہے قرضہ کیا لیا تھا آفت آگئی کسی وقت پیچھا ہی نہیں چھوڑتا.پھر گالی گلوچ اور لڑائی کی نوبت آجاتی ہے.اس کے مقابلہ میں رسول کریم
خطبات محمود ۳۵۷ سال ۶۱۹۲۸ کو دیکھتے ہیں ایک دفعہ آپ نے ایک یہودی سے قرض لیا یا ضرور نا کوئی چیز ادھار منگائی اور کچھ دنوں تک روپیہ ادا نہ کر سکے.ایک دن وہ یہودی مسجد نبوی میں ہی آگیا جہاں رسول کریم کے پاس اور مسلمان بھی بیٹھے ہوئے تھے.مدینہ میں رسول کریم ﷺ کی حکومت تھی مگر چونکہ وہ جانتا تھا کہ آپ کے اخلاق بہت بلند ہیں اس لئے اس نے مسجد میں آکر سختی سے مطالبہ شروع کیا حتی کہ گالیوں پر اتر آیا.اس پر بعض صحابہ کو جوش آگیا انہوں نے اٹھ کر مارنا چاہا مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ نہیں اسے کچھ نہ کہو اسے حق حاصل تھا کہ مطالبہ کرتا کیونکہ اس کا مجھ پر قرض تھا.اس وقت بھی آپ کے پاس روپیہ نہ تھا مگر آپ نے فرمایا کہ فلاں شخص سے قرض لے آؤ تاکہ اس کا روپیہ ادا کیا جا سکے.چنانچہ روپیہ ادا کر دیا گیا اس بات کا ایسا اثر ہوا کہ وہ یہودی مسلمان ہو گیا ! اور کہنے لگا کہ میں صرف یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ جس انسان کو رسالت کا دعوئی ہے اس کے اخلاق کیسے ہیں.تو جس کا کچھ دینا ہو اس کے مقابلہ میں آواز اٹھانا بڑی بے شرمی ہے.چاہئے کہ انسان نرمی سے جواب دے معذرت کرے اور جلد ادا کرنے کی فکر کرے.ممکن ہے جب قرض لیا ہو تو اس وقت یہ سمجھ کر لیا ہو کہ میرا روپیہ آجائے گا اور میں ادا کر دوں گا مگر کچھ ایسے سامان ہو گئے ہوں کہ روپیہ نہ آسکا اور وہ نہ دے سکا.قرض لینا کوئی اخلاقی جرم نہیں اور نہ یہ جرم ہے کہ کسی مجبوری کی وجہ سے مقررہ وقت تک ادا نہ کر سکے مگر یہ جرم ہے کہ قرض خواہ مطالبہ کرے تو اس سے لڑ پڑے اور بجائے اس کے کہ یہ کے جہاں اتنا احسان کیا ہے وہاں کچھ اور کرو اور مہلت دو اس سے بات بھی نہ کرنی چاہے.پھر بسا اوقات بچوں کی لڑائی پر بڑے لڑ پڑتے ہیں بجائے اس کے کہ بڑے بچوں کو نصیحت کرتے بچے انہیں پاگل بنا دیتے ہیں.بچے تو معذور ہوتے ہیں مگر وہ بڑوں کو بھی معذور بنا دیتے ہیں.بعض اوقات جائز طور پر ایک بچہ کی ماں کو دوسرے بچہ کو تنبیہ کرنی پڑتی ہے مگر اس بچہ کی ماں آجاتی ہے جو یہ کہنا شروع کر دیتی ہے کہ تم کون ہو میرے بچے کو تنبیہ کرنے والی.حالانکہ بجائے اس کے کہ وہ ناراض ہوتی اسے احسان ماننا چاہئے تھا کہ اس نے میرے بچے کے ساتھ ہمدردی کی مگر وہ لڑنے لگ جاتی ہے.پھر بچوں کے باپ بھی اس لڑائی میں شامل ہو جاتے ہیں پھر محلے والے بھی گویا یہ لڑائی ایک جہاد ہے جس میں شامل ہونا موجب ثواب ہے.حالانکہ ایسی لڑائی گناہ ہے ، عیب ہے ، گند ہے ، جس سے مؤمن کے لئے بچنا ضروری ہے.
خطبات محمود ۳۵۸ سال ۶۱۹۲۸ رسول کریم ال نے کیا ہی اچھا کر بتایا تھا اگر مسلمان اس کی طرف توجہ کرتے تو بہت سے فتنوں اور لڑائیوں سے بچ جاتے.آپ نے فرمایا جب کسی کو غصہ آئے اس وقت اگر وہ کھڑا ہو تو بیٹھ جائے اور اگر بیٹا ہو تو لیٹ جائے اور اس وقت تک بات نہ کرے جب تک پانی پی لے ، دراصل غصہ دیوانگی ہوتی ہے اور عارضی دیوانگی ایک یا دو منٹ کے لئے ہوتی ہے وہ جب گذر جائیں تو حالت بدل جاتی ہے.کتنی قتل ایسے ہوتے ہیں کہ اگر قاتل کا اس وقت جب کہ وہ غصہ میں تھا ایک منٹ کے لئے ہاتھ پکڑ لیا جاتا تو وہ قتل نہ کرتا بلکہ بہت ممکن ہے کہ دوسرے ہی منٹ میں اس سے چمٹ کر محبت کرنے لگتا جسے قتل کرنے لگا تھا اور معافی مانگتا کہ میں سخت غلطی کرنے لگا تھا.تو غصہ آئی جذبہ ہے اور خدا تعالٰی نے اس کو محض ازالہ شر کے لئے رکھا ہے تا شرارت کو اس سے روکا جا سکے ورنہ اصل چیز خدا تعالی : محبت پیدا کی ہے.اگر غصہ کے وقت انسان ایسی جگہ سے ہٹ جائے اور کہے میں اس بات کا فیصلہ پھر کسی وقت کرلوں گایا جیسے رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے اگر کھڑا ہو تو بیٹھ جائے بیٹھا ہو تو لیٹ جائے اور پھر پانی پئے تو اس طرح سینکڑوں ہزاروں لڑائیاں دور ہو سکتی ہیں.مگر میں کہتا ہوں یہ بھی ادنی بات ہے جس مؤمن کو غصہ روکنے کے لئے بیٹھنے یا لیٹنے کی ضرورت پڑے وہ سمجھ لے کہ وہ ابھی کامل مؤمن نہیں ہے.مومن کو محسوس کرنا چاہئے کہ مجھے خدا تعالٰی نے محبت اور صلح کے لئے پیدا کیا ہے نہ لڑنے جھگڑنے کے لئے.اور جب خدا تعالٰی نے انسان کو محبت کے لئے پیدا کیا ہے تو وہ اس سے محبت کرے گا جو دوسروں سے محبت کرنے والا ہو گا اور جو لڑتا ہے وہ اس کا محبوب نہیں بن سکتا.اس وقت تک جتنے نبی، ولی اور نیک لوگ دنیا میں گذرے ہیں ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو لوگوں سے لڑنے کے لئے آیا ہو.وہ لوگوں سے تکلیفیں اٹھاتے ہیں مگر صبر کرتے ہیں اور اگر کسی کو سزا بھی دیتے ہیں تو اس لئے دیتے ہیں کہ اس کے سوا اصلاح کی کوئی صورت نہیں ہوتی.اور جب وہ سزا دے رہے ہوتے ہیں تو اس وقت اپنے دل میں درد محسوس کر رہے ہوتے ہیں.اور اگر ان کے پاس سیاست اور حکومت ہوتی ہے اور اس کے رو سے انہیں کسی کو قتل کرنا یا کرانا پڑتا ہے تو وہ خود دل میں قتل ہو رہے ہوتے ہیں.وہ سزا محض اصلاح کی خاطر دیتے ہیں نہ کہ اپنا دل ٹھنڈا کرنے کے لئے اور یہی مؤمن اور غیر مؤمن میں فرق ہے.مؤمن جب کسی کو سزا دے گا تو دل میں افسوس کر رہا ہو گا کہ کاش میں سزا نہ دیتا.مگر غیر مؤمن کو اس میں لذت آتی ہے اور وہ کہتا ہے ممکن ہو تا تو اس سے بھی بڑھ کر کرتا.اب ہر
۶۱۹۲۸ خطبات محمود ۳۵۹ شخص سے جو جماعت احمدیہ کا فرد کہلاتا ہے میں پوچھتا ہوں کیا غصہ کی حالت میں اسے رحم آتا ہے ؟ اور وہ اس نیت سے سزا دیتا ہے کہ اصلاح کرے یا اسے سزا دینے پر لطف آرہا ہوتا ہے.اور اس بات پر غصہ آرہا ہوتا ہے کہ میں کیوں اتنا کمزور ہوں کہ اس سے زیادہ سزا نہیں دے سکتا اگر غصہ کی حالت میں اور سزادی کے وقت اس کے دل میں رحم اور ہمدردی پیدا ہوتی ہے وہ تکلیف محسوس کرتا ہے کہ کیوں کسی کو سزا دے رہا ہے تو وہ مؤمن ہے.لیکن اگر غصہ کی حالت میں سزا دینے پر اسے مزا آتا ہے اور حسرت پیدا ہوتی ہے کہ اس سے زیادہ کیوں نہیں دے سکتا تو وہ سمجھ لے اس میں ایمان نہیں ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی محبت اور غصہ ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے.لڑائی جھگڑے سے بچنا کیا ہی معمولی بات ہے پھر رسول کریم ﷺ نے اس کا طریق بھی بتا دیا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.رَحمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَى باوجود اس کے اگر ایک انسان محبت کے جذبات اپنے دل میں پیدا نہیں کر سکتا تو اسے کیا حق ہے کہ اپنے آپ کو ایمان کی طرف منسوب کرے.شخص پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اپنے ہاتھوں اور اپنی زبان کو قابو میں رکھنا کوئی بڑی بات نہیں ہے.معمولی سی کوشش سے مسلمان کامیاب ہو سکتا ہے.دوستوں کو چاہیئے ایک دو کمرے سے سلوک اور معاملہ میں احتیاط اور نرمی سے کام لیں یونہی نہ لڑیں نہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑھا ئیں.آپس میں لڑنا ایمان کی علامت نہیں ہے اور اگر لڑتے ہو تو یہ بھی یاد رکھو کہ شریعت نے زیادتی کرنے والے کے لئے سزا بھی رکھی ہے.شریعت کا حکم ہے کہ جس طرح کوئی کسی سے سلوک کرے ویسا ہی سلوک اس کے ساتھ بھی کیا جائے اس کے لئے بھی تیار رہو.یہ نہ سمجھو کہ انگریزی گورنمنٹ ایسی باتوں میں کچھ نہیں کرتی.اس کے علاوہ خدا کی حکومت بھی ہے جو انگریزی گورنمنٹ سے بہت بلند ہے وہ پکڑ سکتی ہے اور وہ کہتی ہے جو کسی پر ہاتھ اٹھائے اس پر ہاتھ اٹھایا جائے یہ نہیں کہ جرمانہ کر دیا جائے اس صورت میں اس کے لئے تیار رہو.انگریزی حکومت کی وجہ سے کوئی شخص خدا تعالٰی کے مواخذہ سے بچ نہیں سکتا.اگر کوئی کسی پر ہاتھ اٹھائے تو اس سے اسی طرح معاملہ کیا جائے.شریعت کا یہی حکم ہے تاکہ اسے پتہ لگے کہ جب میں نے کسی کو مارا تھا تو اس وقت اس کے دل کی کیفیت کیا ہوئی تھی.وہی کیفیت اور جذبات اس کے دل میں پیدا ہوں اور وہ محسوس کرے کہ جب میں نے دوسرے کو مارا تھا تو اس کے دل کی بھی یہی حالت تھی تاکہ پھر وہ ایسا فعل نہ کرے.ہماری جماعت کے
خطبات محمود سال ۱۹۲۸ء لوگوں کو جو اس بات کے دعویدار ہیں کہ وہ دنیا کی اصلاح کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اپنے اعمال کو درست کرنا چاہئے.اور یاد رکھنا چاہیئے ان کے اعمال کا اثر ان تک ہی نہیں رہتا بلکہ حضرت مسیح موعود کی طرف منسوب کیا جائے گا اور ان کے کسی برے فعل سے صرف ان کی ہی نہیں بلکہ سلسلہ کی بدنامی ہوگی.پھر یہ بھی سمجھیں کہ ان کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے دنیا کی اصلاح چاہی ہے.اور اصلاح بغیر محبت کے ہو نہیں سکتی مگر جو اپنے دلوں میں اپنے اس بھائی اور روحانی باپ کی اولاد سے جو اسی کی طرح ایک ہاتھ پر جمع ہوا ہے محبت نہیں رکھتا اور نیک سلوک نہیں کرتا وہ دوسروں سے کیا محبت کرے گا.حضرت مسیح موعود نے ہمیں ساری دنیا سے محبت کرنے کی تاکید کی ہے.اگر ہم اپنے روحانی بھائی سے محبت نہیں کرتے تو غیروں سے کیا کریں گے.اور ی جب تک غیروں سے محبت نہ کریں گے اس وقت تک کامیاب بھی نہ ہوں گے.پس میں اپنے دوستوں کو خصوصاً قادیان کے رہنے والوں کو کہ یہ دوسروں کے لئے نمونہ ہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے نفسوں کی اصلاح کریں.میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالی ہماری جماعت کے لوگوں کو توفیق دے وہ اپنے نفس کے شرور پر غالب آسکیں اور محبت کے جذبات کو غضب کے جذبات پر غالب کر سکیں.الفضل ۲۷/ اپریل (۱۹۲۸ء) یہ یہودی زید بن سعنہ تھا.اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابہ جلد ۲ صفحه ۲۳۱ نے مسند احمد بن حنبل جلد ۵ صفحه ۱۵۲
خطبات محمود ۴۹ سال ۱۹۲۸ء سيرة النبی کے جلسے ۱۷ جون کو ہوں گے (فرموده ۲۷/ اپریل ۱۹۲۸ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں نے گذشتہ سال کے سالانہ جلسہ کی تقریر میں یہ اعلان کیا تھا کہ ہمارے آئندہ سال کے پروگرام میں علاوہ اور باتوں کے یہ بات بھی شامل ہوگی کہ جماعت کے تمام افراد خواہ وہ ہندوستان میں کسی جگہ کے رہنے والے ہوں اپنی اپنی جگہ ۲۰/ جون کو ایسے جلسے کرانے کی کوشش کریں جن میں رسول کریم ﷺ کی زندگی کے ان تین پہلوؤوں پر روشنی ڈالی جائے.اول آپ کی پاکیزہ زندگی.دوسرے آپ کے دنیا پر احسانات اور تیرے آپ کی دنیا کے لئے قربانیاں.جیسا کہ میں پہلے بھی کئی دفعہ بتا چکا ہوں اس تجویز میں یہ حکمت مد نظر ہے کہ سینکڑوں آدمی رسول کریم ﷺ کی ذات مبارک کے متعلق لیکچر دینے کی خاطر اس بات کے لئے مجبور ہوں گے کہ آپ کے حالات زندگی کا مطالعہ کریں اور اس طرح ایک ہزار مبلغ ایسا پیدا ہو جائے گا جو بانی اسلام علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات پر مخالفین اسلام کی طرف سے جو اعتراضات کئے جاتے ہیں ان کا دفاع علی وجہ البصیرت کر سکے اور بتا سکے کہ رسول کریم کی زندگی ایسی ہے جو اپنی صداقت کی آپ دلیل ہے کیونکہ آنحضرت ا ان وجودوں میں سے ہیں جن کے متعلق کسی شاعر نے کہا ہے آفتاب آمد دلیل آفتاب سورج کے چڑھنے کی دلیل کیا ہے ؟ یہ کہ سورج چڑھا ہوا ہے.کوئی پوچھے اس بات کی کیا دلیل ہے کہ سورج چڑھا ہوا ہے ؟ تو اسے کہا جائے گا دیکھ لو سورج چڑھا ہوا ہے.تو کئی ایسے وجود ہوتے ہیں کہ ان کی ذات ہی ان کا ثبوت ہوتی ہے اور رسول کریم ﷺ کی ذات ستودہ
خطبات محمود سال ۱۹۲۸ء صفات انہی وجودوں میں ہے بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ اس وقت تک جو انسان پیدا ہوئے یا آئندہ پیدا ہوں گے وہ سب کے سب رسول کریم ﷺ سے نیچے ہیں اور آپ سب پر فوقیت رکھتے ہیں.ایسے انسان کی زندگی پر اگر کوئی اعتراض کرتا ہے تو اس کی زندگی کے حالات کو بگاڑ کر ہی کر سکتا ہے اور بگاڑے ہوئے حالات سے وہی متاثر ہو سکتا ہے جسے صحیح حالات کا علم نہ ہو.مثلاً ہمیں معلوم ہو کہ زید یہاں بیٹھا ہے اب اگر بکر قسمیں کھا کھا کر کہے کہ وہ لاہور چلا گیا ہے تو ہم اس کی بات ہر گز نہ مانیں گے کیونکہ ہمیں علم ہے کہ زید لاہور نہیں گیا بلکہ اس مجلس میں بیٹھا ہے.تو بگاڑے ہوئے حالات سے دھوکا دہی کھا سکتا ہے جسے صحیح علم نہ ہو رسول کریم کی ذات پر اسی طرح حملے کئے جاتے ہیں.ایسے حملوں کے دفاع کا بہترین طریق یہ نہیں ہے کہ ان کا جواب دیا جائے بلکہ یہ ہے کہ ہم لوگوں کو توجہ دلائیں کہ وہ رسول کریم ﷺ کے حالات خود پڑھیں اور ان سے صحیح طور پر واقفیت حاصل کریں.جب وہ آپ کے حالات پڑھیں گے تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ آپ کی ذات نور ہی نور ہے.اور اس ذات پر اعتراض کرنے والا خود اندھا ہے.دیکھو اگر کوئی اس وقت جب کہ سورج چڑھا ہوا ہے یہ کہے کہ مجھے سورج نظر نہیں آتا.تو اسے یہ نہ کہیں گے کہ ممکن ہے سورج نہ چڑھا ہوا ہو اور ہمیں سورج کے چڑھنے میں شک نہیں پیدا ہو جائے گا بلکہ یہ کہیں گے کہ تو اندھا ہے اس لئے تمہیں سورج نظر نہیں آتا.اگر کوئی یہاں بیٹھے ہوئے یہ کہے کہ مجھے تو اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتا ہے تو کوئی آنکھوں والا اس شبہ میں نہیں پڑ جائے گا کہ سورج نہیں چڑھا ہوا.بلکہ یہی سمجھا جائے گا کہ اس کی آنکھوں کو یک لخت ایسا صدمہ پہنچا ہے کہ وہ اندھا ہو گیا ہے.اسی طرح جو شخص رسول کریم کے متعلق یہ کہتا ہے کہ مجھے آپ کی زندگی کے حالات تاریک ہی تاریک نظر آتے ہیں تو اس کے متعلق یہی کہا جائے گا کہ اس کی آنکھیں نہیں رہیں.جسمانی آنکھیں نہیں بلکہ روحانی آنکھیں.یہ نہیں کہ اس کے کہنے پر آنکھوں والوں کو بھی شبہ پڑ جائے ؟ کہ ممکن ہے رسول کریم ﷺ کی ذات میں وہ نقص پائے جاتے ہوں جو آپ کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں.پس جس طرح اس وقت جب کہ صاف دن چڑھا ہوا ہے کوئی بادل وغیرہ نہیں اگر کوئی کہے کہ سورج نہیں چڑھا ہوا تو اسے کہا جائے گا آؤ دیکھو سورج چڑھا ہوا ہے.اسی طرح رسول کریم ﷺ کی ذات والا صفات پر اعتراض کرنے والوں کو جواب دینے کا بہترین طریق یہ ہے کہ لوگوں کو آپ کے حالات پڑھنے اور ان سے صحیح طور پر واقف ہونے کی طرف مائل کیا
خطبات محمود سال ۶۱۹۲۸ جائے.اس بات کو مد نظر رکھ کر یہ تجویز کی گئی ہے کہ اس سال کم از کم ایک ہزار آدمی ایسا تیار کیا جائے جو ان دشمنان اسلام کو جو اسلام اور بانی اسلام علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات پر اعتراض کرتے ہیں جو اب دے سکے.اور چونکہ ارادہ ہے کہ یہ تحریک جاری رکھی جائے اور امید ہے کہ اس میں ہر سال پہلے سال کی نسبت زیادہ لوگ شامل ہوتے رہیں گے اس لئے تھوڑے ہی عرصہ میں لاکھوں انسان مسلمانوں ، ہندوؤں، سکھوں اور عیسائیوں وغیرہ میں سے ایسے پیدا ہو سکتے ہیں جو رسول کریم ﷺ کی زندگی کے صحیح حالات سے کما حقہ واقفیت حاصل کریں اور بجائے اس کے کہ اعتراض کرنے والوں کو ہم جواب دیں وہ خود اپنی اپنی قوم کے لوگوں کو جواب دینے لگ جائیں گے.ایک تو یہ فائدہ اس تحریک سے مد نظر ہے.دوسرے یہ فائدہ مد نظر ہے کہ جلسہ میں اگر اوسطاً پانچ سو آدمی بھی شریک ہوں اور ہم اس سال ایک ہزار جگہوں پر جلسے کرا سکیں تو ایک دن میں کم از کم پانچ لاکھ انسان رسول کریم ﷺ کی زندگی کے صحیح حالات سے واقف ہو سکتے ہیں.اور اگر یہ تحریک جاری رہے تو پانچ دس سال کے اندر اندر مسلمانوں میں سے تو بہت بڑی تعداد میں مگر ہندوؤں ، عیسائیوں، سکھوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں میں سے بھی اس قدر لوگ واقف ہو جائیں گے کہ پھر حالات کو بگاڑ کر اعتراض کرنے کی کسی کو بہت کم جرات ہو سکے گی اور اگر کوئی اعتراض کرے گا بھی تو اس کے ہم مذہب ہی اس کی تردید کر دیں گے.اس بات کو مد نظر رکھ کر ۲۰/ جون کی تاریخ ایسے جلسوں کے لئے مقرر کی گئی تھی.اس کے متعلق بعض کو یہ خیال پیدا ہوا ہے کہ ۲۰/ جون کو محرم کی پہلی تاریخ ہو گی اور اس وجہ سے شیعہ اصحاب پورے طور پر اس تحریک میں حصہ نہ لے سکیں گے.تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ سوال سنیوں کے دل میں پیدا ہوا ہے شیعوں میں پیدا نہیں ہوا.حالانکہ اس دن لیکچر دینے والوں میں کئی ایسے اصحاب نے اپنے نام لکھائے ہیں جو شیعہ ہیں اور کئی شیعہ اصحاب ایسے ہیں جنہوں نے نہ صرف لیکچر دینے کی ذمہ داری لی ہے بلکہ یہ بھی لکھا ہے کہ وہ جلسہ کو کامیاب بنانے کی پوری پوری کوشش کریں گے.تو بظا ہر حالات معلوم نہیں ہوتے کہ شیعہ اصحاب کو اس تاریخ سے اختلاف ہو اور خصوصا جس فرقہ کی بنیاد محبت رسول اور محبت آل رسول پر ہو اس کے متعلق سمجھ میں نہیں آتا اسے رسول کریم ﷺ کی شان کے اظہار سے اس لئے پہنچے کہ اس دن محرم شروع ہو گا.شیعہ اصحاب محرم میں جس بات سے صدمہ محسوس
خطبات محمود Fur سال ۱۹۲۸م کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ لوگ ان دنوں میں خوشیاں منائیں.مگر یہ جلسے نہ تو رسول کریم کی پیدائش پر خوشی منانے کے لئے ہوں گے نہ اور کسی قسم کی خوشی کے اظہار کے لئے بلکہ یہ تو جلسے ہوں گے اور ان میں رسول کریم ﷺ کی حقیقی شان دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی.آپ کی زندگی کے صحیح حالات سنائے جائیں گے اور ان دنوں میں شیعہ اصحاب کی طرف سے بھی یہ کوشش کی جاتی ہے کہ حضرت امام حسین اور دوسرے شہیدان کربلا کے حالات سے لوگوں کو واقف کریں.گویا ان ایام میں وہ بھی اہل بیت کے تاریخی حالات کو تازہ کرتے اور لوگوں کو سناتے ہیں.پھر جن کے ذریعہ اہل بیت کو ساری عزت اور توقیر حاصل ہوئی ان کا ذکر ہو تو اس پر شیعوں کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے.لیکن ایک اور مشکل ضرور ہے اور وہ یہ کہ چونکہ محرم کے ایام میں بعض جگہ فساد ہو جاتا ہے اس لئے محرم کی ان تاریخوں میں گورنمنٹ کی طرف سے بعض جگہ جلسے وغیرہ کرنے کی ممانعت ہو جاتی ہے.اس دقت کو دیکھتے ہوئے کہیں مناسب سمجھا گیا ہے کہ جس جلسہ کی تجویز ہے وہ محرم سے پہلے کر لیا جائے اور اس کے لئے 12 جون کا دن مقرر کیا جاتا ہے جب کہ اتوار ہو گا اور چھٹی ہونے کی وجہ سے اس دن کسی کے لئے جلسہ میں شامل ہونے میں رکاوٹ نہ ہو گی.اور اگر محرم میں جلسہ ہونے کی وجہ سے کسی کے جذبات کو صدمہ پہنچ سکتا تھا تو اب اسے بھی صدمہ نہیں پہنچے گا اور وہ شامل ہو سکے گا.چونکہ اس جلسہ کی غرض یہ ہے کہ سارے مسلمان مل کر ان لوگوں کو جو رسول کریم کی ذات پر بے ہودہ اعتراض کرتے ہیں یہ بتا دیں کہ ہم ایسے اعتراضوں سے بدظن نہیں ہوتے بلکہ پہلے سے بھی زیادہ آپ کے والا و شیدا ہیں اس لئے تمام مسلمانوں کو ان جلسوں میں پوری کوشش سے شریک ہونا چاہئے اور انہیں کامیاب بنانے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کرنا چاہئے.پس آج ایک اعلان تو میں یہ کرتا ہوں کہ مجوزہ جلسے ۲۰/ جون کو نہیں بلکہ ۱۷ / جون کو ہوں گے.اس بات کی اطلاع سب دوستوں کو دے دی جائے اور ہر جگہ یہ اعلان کر دیا جائے.میں نے دفتر ڈاک میں بھی کہہ دیا ہے کہ ہر خط جو لکھا جائے اس میں یہ بھی لکھ دیا جائے کہ جلسہ ۲۰ جون کی بجائے ۱۷ جون کو ہو گا اور دوست بھی جہاں جہاں خط لکھیں یہ اطلاع دے دیں.دو سرا سوال یہ کیا گیا ہے کہ ایسے جلسہ کے لئے کیوں نہیں رسول کریم ﷺ کی پیدائش کا دن کیا گیا جب کہ اس دن پہلے سے مجالس میلاد منعقد کی جاتی ہیں.میں اس سوال کا جواب
خطبات محمود ۳۶۵ سال ۱۹۲۸ء پہلے بھی دے چکا ہوں مگر اب چونکہ یہ پھر اٹھایا گیا اس لئے پھر دے دیتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ یہ جلسہ کوئی ہماری مذہبی تقریب نہیں ہے اگر یہ ہماری مذہبی تقریب ہوتی تو اس کے لئے ہم سب فرقوں کے مسلمانوں کو دعوت نہ دیتے.مثلاً جن لوگوں کے نزدیک نذریں نیازیں دینا ند ہی تقریب ہے وہ خود تو نیازیں دیں گے اور ان کی خوبیاں بیان کر کے دوسروں کو بھی ان کا قائل کرنے کی کوشش کریں گے مگریہ نہیں ہو گا کہ کسی اہل حدیث مولوی صاحب کو دعوت دیں کہ آؤ ہماری نیاز میں شامل ہو جاؤ.اسی طرح ہم مسلمان ہندوؤں یا دوسرے غیر مذاہب کے لوگوں کو اسلام کی خوبیاں بتائیں گے اور اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں گے مگر کسی ہندو سے یہ نہ کہیں گے کہ آؤ ہمارے ساتھ نماز میں شامل ہو جاؤ کیونکہ جب تک عقیدہ نہ بدل جائے مذہبی تقریبوں میں شامل ہونے کے لئے نہیں کہا جا سکتا.اسی طرح یہ ہماری کوئی مذہبی تقریب نہیں ہے بلکہ علمی تقریب ہے.رسول کریم ﷺ کی شان اور رتبہ سے واقف کرنے کے لئے جلسے کئے جائیں گے اس لئے ضروری ہے کہ ایسا دن تجویز کیا جائے جس میں کسی کو اختلاف نہ ہو.رسول کریم ﷺ کی پیدائش کے دن جو جلسے کئے جاتے ہیں بعض لوگوں کی روزی کا ان پر مدار ہے وہ اس موقع پر تقریریں کرتے ہیں اور لوگ انہیں کچھ دے دیتے ہیں.اب اگر اس موقع پر اور لیکچرار تقریریں کریں گے تو ان لوگوں کی آمدنی میں فرق آجائے گا.ممکن ہے کہ ان میں ایسے مخلص ہوں جو رسول کریم ﷺ کی شان کے اظہار کے مقابلہ میں اپنی آمدنی کی پروا نہ کریں.اور جو لوگ آپ کی شان کے متعلق تقریریں کرنا چاہیں ان کی تقریریں کرائیں مگر سارے کے سارے ایسے نہیں ہو سکتے اور اپنی آمدنی کے خیال سے مخالفت کریں گے اس وجہ سے وہ موقع مناسب نہیں سمجھا گیا.پھر ان مجالس میں خاص خاص باتیں بیان کی جاتی ہیں.اور ایسے معجزے بیان کئے جاتے ہیں جنہیں کئی محقق تسلیم نہیں کرتے اور ان باتوں سے ہندوؤں وغیرہ کو کوئی فائدہ بھی نہ ہو گا بلکہ الٹا نقصان ہو گا.مثلاً اگر ان مجالس میں ایسی باتوں پر زور ہو کہ گوہ نے آکر رسول کریم ای سے باتیں کیں ، درختوں اور پتھروں نے آپ کو سجدہ کیا تو ان سے غیر مسلم لوگ کچھ فائدہ نہ اٹھائیں گے کیونکہ ان سے بڑھ کر باتیں ان کے ہاں موجود ہیں.ان پر جن باتوں کا اثر ہو سکتا ہے وہ یہ ہیں کہ آپ کی ذات کیسی اعلیٰ درجہ کی پاک تھی اور آپ نے کس طرح لوگوں کو پاک کیا.آپ پر لوگوں نے کیا کیا زیادتیاں کیں اور آپ نے ان کے مقابلہ میں کیا کیا طریق 2
سال ۶۱۹۲۸ اختیار کئے اور کس طرح تقویٰ پر قائم رہے.آپ نے دنیا کو فائدہ پہنچانے کے لئے خود کیا کیا تکالیف برداشت کیں.اس قسم کی باتیں بیان کرنے سے ہندو اور دوسرے غیر مسلم لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں.لیکن مجالس میلاد میں جس قسم کے وعظ کئے جاتے ہیں ان کا چھڑانا مشکل ہے.اور اگر ان مجالس میں صرف مسلمان ہی ہوں تو غیر مذاہب والے فائدہ نہ اٹھا سکیں گے اس وجہ سے اس موقع کو ایسے لیکچروں کے لئے منتخب نہیں کیا گیا.پھر ایک اور بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں ایسے فرقے ہیں جو میلاد کو عبادت سمجھتے ہیں اور اس میں ایسے مواقع آتے ہیں جب کہ ان کے نزدیک کھڑا ہونا ضروری ہوتا ہے اور اگر کوئی کھڑا نہ ہو تو اسے اپنے مذہب کی ہتک سمجھتے ہیں.مگر کئی فرقے ایسے ہیں جو کھڑا ہونا ضروری نہیں سمجھتے جیسے اہلحدیث اور ہم احمدی.اگر ایسا جلسہ ہو اور اس میں اہلحدیث یا احمدی کھڑے نہ ہوں تو دوسرے لوگ برا منائیں گے اور اگر کھڑے ہو جائیں تو اپنے اصل کے خلاف کریں گے اور اس طرح تفرقہ پیدا ہو کر ممکن ہے لڑائی جھگڑے تک نوبت پہنچ جائے.ان وجوہات کے ماتحت میں نے ضروری سمجھا کہ اس قسم کا جلسہ میلاد کے دن نہ ہو بلکہ کسی دوسرے موقع پر ہو تاکہ سارے مسلمان مل کر اس میں حصہ لے سکیں اور ان مولویوں کے لئے بھی مخالفت کی کوئی وجہ نہ ہو جو میلاد کے دن وعظ کرنا اپنا خاص حق سمجھتے ہیں.اس تشریح کے بعد کہ کیوں میلاد کے دن کو اس جلسہ کے لئے منتخب نہیں کیا گیا اور یہ بتا دینے کے بعد کہ تاریخ بدل دی گئی ہے دوستوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ صرف لیکچروں کی تیاری کے لئے نام دے دینا کافی نہیں ہے.یہ زمانہ اشاعت کا زمانہ ہے اور جب تک کسی بات کے متعلق پروپیگنڈا نہ ہو اس میں کامیابی نہیں ہو سکتی.اس وقت تک ایسے دوست تو بہت سے ہیں جنہوں نے لیکچروں کی تیاری کے لئے اپنے نام دیئے ہیں مگر اس بات کی ذمہ داری بہت کم لوگوں نے اٹھائی ہے کہ وہ اپنے ہاں اور ارد گرد کے دیہاتوں میں جلسے کرنے کے لئے لوگوں کو تیار کریں گے.چونکہ یہ بھی نہایت ضروری بات ہے اس لئے اس کی طرف دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں.اس وقت ضرورت ہے ایسے احباب کی جو اس بات کا ذمہ لیں کہ وہ ایک ایک یا دو دو یا تین تین گاؤں میں جلسے کرائیں گے.اور ان کو اس کے لئے بعض ترکیبوں سے کام لینا چاہئے.مثلاً انہیں ایسے اصحاب کو جلسہ کے لئے صدر تجویز کر لینا چاہئے جن کے صدر ہونے میں لوگوں کو دلچسپی ہو.اور لوگوں کو کسی کے متعلق دلچپسی مختلف چیزوں کی وجہ سے ہوتی ہے.
خطبات محمود ۳۶۷ سال ۱۹۲۸ء رسول کریم ﷺ کی شان کے اظہار کے لئے جو جلسے ہوں ان میں مسلمانوں کو بغیر اس خیال کے کہ کون پریذیڈنٹ ہوتا ہے یا کون نہیں ہو تا شریک ہونا چاہئے مگر افسوس ہے تعلیم کی کمی کی وجہ سے ابھی مسلمانوں میں یہ بات نہیں پائی جاتی اور سارے لوگ ایسے نہیں ہوں گے جو ان جلسوں میں پوری پوری دلچسپی لے کر اور شوق کا اظہار کر کے دنیا کو بتا دیں کہ ہم رسول کریم کے ایسی خدائی ہیں کہ دنیا ہمیں کسی طرح بھی آپ سے جدا نہیں کر سکتی اس لئے ضرورت ہے کہ لوگوں کو ان جلسوں کی اہمیت بتانے کی کوشش کی جائے.کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ کثرت سے کسی بات کے متعلق اشتہار دیئے جائیں تو اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں بار بار جو اس کے لئے بلایا جاتا ہے تو ضرور اس میں کوئی بات ہو گی.ایسے لوگ محض اعلان ڈھنڈورہ اور اشتہارات سے متاثر ہو کر آجاتے ہیں.پھر کئی اس طرح متاثر ہوتے ہیں کہ اس چیز کی خوبی انہیں بتائی جائے اس کے لئے ضروری ہے کہ ۱۷ جون کے جلسہ سے قبل مختلف محلوں اور مختلف موقعوں پر جلسے کر کے لوگوں کو بتایا جائے کہ کتنے عظیم الشان فوائد اس جلسہ سے مرتب ہو سکتے ہیں.اس کے لئے وہ خطبے سنائے جائیں جو میں نے اس بارے میں پڑھے ہیں.پھر عام لوگوں کو بڑے آدمیوں سے تعلق ہوتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس جلسہ کی صدارت کے لئے ایسے آدمی تجویز کئے جائیں جنہیں لوگوں میں رسوخ اور اثر حاصل ہو.لوگوں کو ان سے محبت ہو اور وہ لوگوں کے کام آنے والے ان کو فوائد پہنچانے والے اور ان سے وابستگی رکھنے والے ہوں.مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ جسے صدارت کے لئے چنا جائے اس میں اتنی قابلیت ہو کہ جلسہ کا انتظام کر سکے.لوگوں کی توجہ لیکچروں کی طرف قائم رکھ سکے اور تقریروں پر مفید طور پر تنقید کر سکے اس وجہ سے ابھی.ایسے لوگوں کا انتخاب شروع کر دینا چاہئے.اسی طرح جلسہ کی جگہ کے لئے بھی ابھی سے انتظام کرنا چاہئے.کئی دفعہ خیال کر لیا جاتا ہے کہ فلاں جگہ مل جائے گی اور وہاں جلسہ کر لیں گے.مگر دریافت کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس دن کسی اور وجہ سے رکی ہوئی ہوگی.اس طرح عین موقع پر بہت مشکل پیش آتی ہے.پس اگر کسی جگہ کسی ہال میں جلسہ کرنے کی تجویز ہو تو ابھی سے اس تاریخ کے لئے ہال کا انتظام کر لینا چاہئے.اور اگر کسی کھلی جگہ جلسہ کرنا ہو تو اس کے لئے بھی ابھی سے اجازت وغیرہ حاصل کر لینی چاہئے.ورنہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ وقت پر جگہ کا انتظام نہیں ہو سکتا اور پھر کہا جاتا ہے چلو مسجد وغیرہ میں جلسہ کر لیں اور اس طرح جلسہ
خطبات محمود سال ۱۹۲۸ء کی اصل غرض حاصل نہیں ہو سکتی.اسی طرح اشتہار اعلان اور ڈھنڈورہ کے متعلق بھی ابھی سے تیاری کرنی چاہئے.پھر یہ بھی ایک دوست کی تحریک ہے جس کی میں نے تصدیق کی ہے کہ جن کے مضامین اعلیٰ رہیں گے ان کو انعام میں سند اور تمغہ دیا جائے گا.اس کے لئے غیر مسلم لوگوں میں تحریک کرنی چاہئے اور ان کو مضمون تیار کرنے کے لئے کہنا چاہئے.اس وقت تک اس طرف بہت کم توجہ کی گئی ہے.اس کے متعلق درجن ڈیڑھ درجن کے قریب نام آئے ہیں جنہوں نے مضمون لکھنے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے مگر یہ بہت تھوڑی تعداد ہے.برہمو سماج والے جب اپنے لیڈر کی پیدائش کا دن مناتے ہیں تو دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بھی لیکچر دینے کے لئے بلا لیتے اور ان سے لیکچر دلاتے ہیں.اگر مسلمان کوشش کریں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ رسول کریم ال جیسے انسان کے متعلق لیکچر دینے کے لئے دوسرے مذاہب کے لوگ تیار نہ ہو جائیں.اس کام کے لئے اچھے سے اچھے لیکچرار تیار ہو سکتے ہیں.بات یہ ہے کہ ہر قوم میں شریف ہوتے ہیں جو اپنی شرافت کے اظہار کے لئے موقع ڈھونڈتے ہیں.اسی طرح ہندوؤں اور عیسائیوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو چاہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ پر اعتراض کرنے والوں کے خلاف آواز اٹھائیں مگر انہیں اس کے لئے کوئی موقع نہیں ملتا.اب یہ جلسے ان کے لئے موقع ہو گا اور وہ رسول کریم ای کے حالات زندگی بیان کر کے آپ کی خوبیاں ظاہر کر سکیں گے اور جتنا لطف غیر مذاہب کے لوگوں کی طرف سے رسول کریم ﷺ کی خوبیوں کے اظہار پر آئے گا اتنا اپنوں کی طرف سے اظہار پر نہ آئے گا ان کے لئے انعام بھی مقرر کیا گیا ہے.احباب ان کو تیار کرنے کی کوشش کریں یہ بہت مفید کوشش ہوگی.اور پھر جب ان مضامین کی کتاب چھپ جائے گی جس میں ہندوؤں، سکھوں ، عیسائیوں ، یہودیوں اور پارسیوں وغیرہ کے مضامین رسول کریم ﷺ کی شان میں ہوں گے تو وہ کتاب غیر مسلموں پر اثر ڈالنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہوگی.مگر اس طرف ابھی تک بہت کم توجہ کی گئی ہے حالانکہ دن بہت تھوڑے رہ گئے ہیں مدراس ، بمبئی ، برار کے لوگوں نے بہت ہی کم توجہ کی ہے بلکہ یوپی اور بہار میں بھی توجہ میں بہت کمی ہے.بنگال کا نام میں اس لئے نہیں لیتا کہ وہاں کے دوستوں نے اپنے ذمہ لیا ہے کہ وہ اس علاقہ میں جلسے کرائیں گے.بنگال کے احباب پنجاب اور صوبہ سرحد کے بعد عمدگی اور ہوشیاری سے کام کرنے کے لحاظ سے اپنا درجہ رکھتے ہیں اس لئے گو انہیں خود توجہ ہے مگر میں پھر کہوں گا وہ اپنی طرف سے پوری کوشش جاری رکھیں.پنجاب اور
خطبات محمود ۳۶۹ سال ۱۹۴۸ء صوبہ سرحد کے احباب اگر چہ بہت جوش اور سرگرمی سے کام لے رہے ہیں لیکن چونکہ سب سے بڑی ذمہ داری انہی پر ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پنجاب میں پیدا ہوئے اور جس وقت آپ کی پیدائش ہوئی اس وقت صوبہ سرحد پنجاب سے جدا نہ تھا بلکہ پنجاب کے ساتھ ہی تھا.اس علاقہ کو اب بھی ہم پنجاب سے جدا نہیں سمجھتے اس لئے پنجاب کے ساتھ ہی صوبہ سرحد کے دوستوں کی بھی بہت بڑی ذمہ داری ہے.چونکہ وقت بہت کم رہ گیا ہے اس لئے دوست اس بات کا انتظار نہ کریں کہ اس بارے میں اور اعلان کئے جائیں گے اور ان کو پڑھ کر وہ کوشش کریں گے.وہ خود بخود کوشش کریں اور دور دور تک اس جلسہ کی تحریک کو پھیلا دیں یہاں تک کہ ہندوستان کا کوئی گوشہ ایسا نہ رہے جہاں یہ تحریک نہ پہنچے اور کوئی آدمی ایسا نہ رہے جس تک یہ بات نہ پہنچ جائے.اللہ تعالٰی ہمیں اس کی توفیق دے.آمین الفضل ۴ / مئی ۱۹۲۸ء) (
خطبات محمود ۳۷۰ سال ۱۹۲۸ء وصیت کرنا دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے عہد کو پورا کرنا ہے (فرموده ۴/ مئی ۱۹۲۸ء) تشهد تعوز اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ایک سال کے قریب ہوا میں نے اپنی جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ وصیت کا معاملہ نہایت اہم معالمہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے ایسی خصوصیت بخشی ہے اور اللہ تعالٰی کے خاص الہامات کے ماتحت اسے قائم کیا ہے کہ کوئی مؤمن اس کی اہمیت اور عظمت کا انکار نہیں کر سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا قائم کردہ سارا نظام ہی آسمانی اور خدائی اور الہامی نظام ہے مگر وصیت کا نظام ایسا نظام ہے جو خدا تعالیٰ کے خاص الہام کے ماتحت قائم کیا گیا.باقی امور ایسے ہیں جو عام الہام کے ماتحت قائم کئے گئے ہیں مگر وصیت کا مسئلہ ایسا ہے جو خاص الہام کے ماتحت قائم کیا گیا ہے.اور وصیت کا مسئلہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا ایک عملی ثبوت ہے.دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد ایک اقرار تھا.اس کے متعلق مؤمن کیا کرتا.کئی لوگ تو اس اقرار کو پورا کرنے کے لئے بڑی بڑی قربانیاں کرتے اور کئی یہ اقرار کر کے خاموش ہو جاتے.پھر کئی ایسے ہوتے جو چاہتے کہ دین کو دنیا پر مقدم کریں مگر اس کے لئے راہ نہ پاتے اور انہیں معلوم نہ ہو تا کہ کیا کریں ؟ پھر بیسیوں تھے جنہوں نے اس اقرار کو پورا کیا اور بیسیوں ایسے تھے جو حیران تھے کہ کیا کریں؟ پھر جو اقرار کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے تھے وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کا اقرار پورا ہوتا ہے یا نہیں.ان کی مثال حضرت عائشہ صدیقہ ا کی سی تھی جو کہ اپنے ایک بھانجے پر جب ناراض ہو میں تو انہوں نے قسم کھائی اور کہا میں اس سے نہ ملوں گی اور اگر ملوں تو کچھ صدقہ دوں گی اس صدقہ کی انہوں نے تعین نہ کی تھی.آخر صحابہ کے دخل دینے اور بھانجے کی معافی مانگ لینے پر
خطبات محمود سال ۱۹۲۸ء انہوں نے اسے معاف کر دیا اور اپنے ہاں آنے کی اجازت دے دی اور اس کے لئے خاص طور پر صدقہ کرتیں مگر بار جود اس کے حسرت کے ساتھ کہتیں معلوم نہیں میں نے جو اقرار کیا تھا وہ پورا ہوا ہے یا نہیں.میں نے صدقہ کی تعیین کیوں نہ کردی.تو بہت سے لوگ حیران تھے کہ انہوں نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا جو اقرار کیا ہے وہ پورا ہوا ہے یا نہیں تب خدا تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئی اور اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ بتایا کہ جو لوگ یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ ان کا اقرار پورا ہوا یا نہیں ان کے لئے یہ وصیت کا طریق ہے اس پر عمل کرنے سے وہ اپنے اقرار کو پورا کر سکتے ہیں کیونکہ وصیت میں شرط ہے کہ خدا تعالٰی کا ارادہ ہے کہ ایسے کامل الایمان ایک ہی جگہ دفن ہوں تا آئندہ نسلیں ایک ہی جگہ ان کو دیکھ کر اپنا ایمان تازہ کریں".پس یہ کسی طرح ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بیان فرمودہ طریق پر وصیت کرے اور اس پر قائم رہے مگر کامل الایمان نہ ہو.تو وہ لوگ جن کے دل میں عدم اطمینان تھا اور وہ اس وجہ سے بے چین تھے کہ خبر نہیں ان کا اقرار پورا ہوا ہے یا نہیں ان کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالیٰ کے الہام کے ماتحت یہ رکھ دیا کہ وہ وصیت کریں.چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:- میں دعا کرتا ہوں کہ خدا اس میں برکت دے اور اس کو بہشتی مقبرہ بنا دے.اور یہ اس جماعت کے پاک دل لوگوں کی خواب گاہ ہو جنہوں نے در حقیقت دین کو دنیا پر مقدم کر لیا.اور دنیا کی محبت چھوڑ دی.اور خدا کے لئے ہو گئے.اور پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کر لی.اور رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کی طرح وفاداری اور صدق کا نمونہ دکھلا یا “ سے ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ وصیت کرنا اور اس پر قائم رہ کر مقبرہ بہشتی میں دفن ہو نا دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے اقرار کو پورا کرنا ہے.اس وصیت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے حد بندی کر دی ہے.اور وہ یہ کہ زیادہ سے زیادہ ۱/۳ حصہ کی وصیت کی جائے اور کم از کم 1/10 حصہ کی.یہ تو مرنے کے بعد کے متعلق ہے اور زندگی میں یہ ہے کہ خدا تعالٰی کی راہ میں انسان اس حد تک خرچ کر سکتا ہے کہ وہ رشتہ دار جو اس کے ذریعہ پل رہے ہوں
خطبات محمود ۳۷۲ سال ۶۱۹۲۸ انہیں دوسروں کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے.اس شرط کے ماتحت خواہ وہ اپنا نصف مال دے دے یا تین چوتھائی دے دے مگر اتنا دے کہ جن لوگوں کی پرورش اس کے ذمہ ہے وہ دوسروں کے محتاج نہ ہو جا ئیں.غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ ایک ذریعہ رکھا ہے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے عہد کو پورا کرنے کا.جس وقت آپ نے یہ طریق بیان کیا اسی وقت یہ بھی لکھ دیا تھا و ممکن ہے کہ بعض آدمی جن پر بد گمانی کا مادہ غالب ہو وہ اس کارروائی میں نہیں اعتراضوں کا نشانہ بنا دیں.اور اس انتظام کو اغراض نفسانیہ پر مبنی سمجھیں یا اس کو بدعت قرار دیں.لیکن یاد رہے کہ خدا تعالیٰ کے کام میں وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ہے چنانچہ مخالفین نے اس پر ہنسی اور تمسخر کیا اور کہا پاک ٹین کے بہشتی دروازہ کی طرح یہ بہشتی مقبرہ بنایا گیا ہے حالانکہ اس دروازہ اور بہشتی مقبرہ میں بہت فرق ہے.اپنے مال کی وصیت کرنا علامت ہے نیکی اور تقویٰ کی.دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا اقرار چاہتا تھا کہ اس کا کوئی ظاہری ثبوت ہو اس کی علامت وصیت رکھی گئی اور یہ دائی قربانی ہے.یعنی جب تک انسان زندہ رہتا ہے اسے یہ قربانی کرنی پڑتی ہے مگر دروازہ سے گذر جانا تو معمولی بات ہے اس کے لئے کوئی قربانی نہیں کرنی پڑتی.تو وصیت معیار ہے مؤمنوں کے ایمان کو پرکھنے کا مگر باوجود اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زور دینے کے بہت سے لوگ ہیں جو ابھی تک اس کی عظمت سے واقف نہیں ہیں.اور جس طرح قاعدہ ہے کہ جب کوئی نیا نظام قائم ہوتا ہے اور نیا مسئلہ جاری ہوتا ہے تو اکثر لوگ اس کے سمجھنے میں کو تاہی کرتے ہیں اسی طرح بہت سے لوگوں نے وصیت کے معاملہ کی حقیقت کو بھی نہ سمجھا بلکہ انہوں نے بھی نہ سمجھا جن کے سپرد اس کا نظام کیا گیا تھا.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایسی ایسی وصیتیں کی گئیں کہ ایک شخص کی ماہوار آمدنی تو کئی سو کی تھی مگر اس کا مکان بہت معمولی حیثیت کا تھا اس نے مکان کی وصیت کر دی اور لکھ دیا کہ اس کا ۱/۱۰ حصہ وصیت میں دیتا ہوں.حالانکہ اگر اندازہ لگایا جاتا تو مکان کا جو حصہ وصیت میں دیا گیا وہ اتنی مالیت کا بھی نہیں تھا کہ ماہوار آمدنی کا نبیسواں (۳۲) حصہ ہی بن سکتا.میں نے اس کی اصلاح کی میں نے کہا مقبرہ بہشتی کی غرض یہ ہے کہ اس میں ایسے لوگوں کو جمع کیا جائے جو دین کو دنیا پر
خطبات محمود ۳۷۳ سال ۶۱۹۲۸ مقدم کرنے والے ہوں مگر کون خیال کر سکتا ہے کہ ایک شخص جو دو تین چار سو روپیہ ماہوار کماتا ہے مگر باپ دادا سے ورثہ میں آئے ہوئے معمولی مکان کے دسویں حصہ کی وصیت کر دیتا ہے تو یہ اس کے لئے بہت بڑی قربانی ہے اور وہ ایسے مخلصوں میں شامل ہو جاتا ہے جو دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں گے اور جن کے متعلق آئندہ نسلوں کا فرض ہو گا کہ خاص طور پر دعا کریں.اگر ایسے آدمی کو کوئی مخلص اور دین کو دنیا پر مقدم کرنے والا سمجھتا ہے تو وہ جھوٹا نہیں تو میں اسے بے وقوف ضرور کہوں گا اور سمجھا جائے گا کہ اس کے دماغ میں نقص پیدا ہو گیا ہے.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو وصیت کا نظام اس لئے قائم کیا ہے کہ مخلصوں کی جماعت کو ایک جگہ اکٹھا کیا جائے مگر ان مخلصوں میں ایسے شخص کو شامل کیا جاتا ہے جو ہر مہینہ اپنے لباس یا کھانے یا اپنی بیوی بچوں کے لباس یا کھانے پر جتنا صرف کرتا ہے اتنا یا اس سے بھی کم چندہ دے دیتا ہے یہ کامل الایمان ہونے کی علامت نہیں ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کی ایسی وصیتیں نکلی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ماہوار آمدنی کو چھوڑ کر معمولی مکان کی وصیت کرنے کا طریق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی منشاء کے مطابق نہ تھا.مثلاً ایک شخص وصیت کرتا ہے جس کا معمولی مکان تھا اس نے اپنی وصیت میں لکھا.کہ اس وقت میری کوئی جائداد نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کا ملازم ہوں میری تنخواہ چار روپے ہے اس کا دسواں حصہ صدر انجمن احمدیہ کی خدمت میں ادا کرتا رہوں گا.یا اگر آئندہ میری کوئی اور جائداد یا تنخواہ بڑھ جائے تو اس کے متعلق بھی میری یہی وصیت ہے.اور میرا ایک مکان ریاست مالیر کوٹلہ میں ہے وہ خاص میری ملکیت ہے.اس میں اور کسی کا کوئی حصہ اور نہ حق ہے اس کے آٹھواں حصہ کی بھی انجمن احمدیہ مالک ہے".چونکہ مکان آمد پیدا کرنے والا نہ تھا اس لئے اسے وصیت کے لحاظ سے جائداد نہ قرار دیا گیا.تو وصیت کے لئے دسواں حصہ سے مراد اسی آمد کا دسواں حصہ ہے جس پر گزارہ ہو.ایک زمیندار ہے اگر وہ اپنی زمین کا دسواں حصہ وصیت میں دے دیتا ہے تو وہ وصیت کا حق ادا کر دیتا ہے کیونکہ اس کے گزارہ کا ذریعہ زمین ہی ہے.مگر ایک ملازم جو تین چار سو ماہوار تنخواہ پاتا ہے یا ایک تاجر جسے تجارت کی آمدنی ہے وہ اگر وصیت میں جدی مکان کا کچھ حصہ دیگر پچاس یا ساتھ یا سو روپیہ دے دیتا ہے تو وہ وصیت کے منشاء کو پورا نہیں کرتا.وصیت کے لحاظ سے وہ
خطبات محمود سلام کے سم سال ۶۱۹۲۸ جانداد والا نہ تھا اس کی آمد تھی اسے آمد سے وصیت کا حصہ دینا چاہئے تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو ترکہ کا لفظ رکھا ہے یعنی وصیت کرنے والے کے تمام ترکہ " سے مقررہ حصہ وصیت میں لیا جائے.پھر کیا اگر کوئی شخص صرف دھوتی اور کرتا چھوڑ مرے تو اس کو اس کا ترکہ قرار دیا جائے گا اور پھر اس کا دسواں حصہ لے کر سمجھ لیا جائے گا کہ اس نے وصیت کا حق ادا کر دیا.پس جب کپڑوں کا ایک جوڑا بھی ترکہ کہلا سکتا ہے تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو یہ فرمایا ہے.کہ " ہر ایک صالح جو اسکی کوئی بھی جاندار نہیں اور کوئی مالی خدمت نہیں کر سکتا.اگر یہ ثابت ہو کہ وہ دین کے لئے اپنی زندگی وقف رکھتا تھا اور صالح تھا.تو وہ اس قبرستان میں دفن ہو سکتا ہے.کے اس کا کیا مطلب ہوا؟ کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا منشاء جائداد نہ ہونے سے یہ تھا کہ ایسا شخص جو ننگا پھر تا ہو اسے بغیر وصیت کے دفن کیا جائے.دنیا کے ایک کنارہ سے دوسرے کنارہ تک چلے جاؤ کوئی ایسا انسان نظر نہ آئے گا جو اپنے پاس کچھ بھی نہ رکھتا ہو.اپنے ارد گرد رسی ہی لیٹے ہوئے ہو گا یا کیلے کے پتے ہی باندھے ہوئے ہو گا وہی اسکا ترکہ اور جائیداد ہوگی.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ کہنا کہ جس کی جائداد نہ ہو اس کا تقویٰ اور خدمت دین دیکھی جائے گی بے معنی کلام ہو جاتا ہے کیونکہ یہ کبھی خیال میں بھی نہیں آسکتا کہ ایک شخص دین کی بڑی خدمت کرنے والا بڑا متقی ہو مگر مادر زاد ننگا رہتا ہو.اگر اس کے پاس لنگوئی ہوگی تو وہی اس کا ترکہ ہو گا کیونکہ جو چیز انسان مرنے کے بعد قبر میں نہیں لے جاتا اور پیچھے چھوڑ جاتا ہے وہ اس کا ترکہ ہے.پس اس طرح کوئی انسان ایسا نظر نہیں آتا جس کی کوئی جائداد نہ ہو.کوئی اگر لنگوٹی باندھے رہتا ہو گا تو اسے بھی مرنے کے بعد کفن پہنا دیا جائے گا اور اس کی لنگوئی قبر سے باہر رہ جائے گی یا اگر اس کی پھٹی پرانی جوتی ہو گی اور وہ قبر سے باہر رہے گی تو وہی ترکہ ہو گا.پس یہ ناممکن ہے کہ کوئی ایسا انسان ملے جس کی ترکہ کے لحاظ سے کوئی جائداد نہ ہو.اور جب حضرت مسیح موعود نے یہ لکھا ہے کہ جس کی جائداد نہ ہو اس کے مقبرہ بہشتی میں دفن ہونے کا اور طریق ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ جائداد نہ ہونے سے مراد آمدنی کا نہ ہوتا ہے.یعنی جس کے گزارہ کی کوئی معین صورت نہ ہو وہ بغیر جائداد کے وصیت کر
خطبات محمود ۳۷۵ سال ۶۱۹۲۸ تھوڑے دن ہوئے مجھے رپورٹ پہنچی تھی کہ کسی شخص نے لکھا ہے وصیت کی اس تشریح کے ماتحت بہت لوگوں کو ابتلاء آرہا ہے.مگر میرے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ جتنی وصیتیں اس تشریح کے بعد کی گئی ہیں اتنی کبھی پہلے نہیں کی گئیں.اگر ابتلاء کا یہی ثبوت ہے تو میں کہوں گا کہ ایسا ابتلاء روز روز آئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں بعد از خدا بعشق محمد مخمرم گر کفر این بود بخدا سخت کافرم - کہ خدا تعالی کے بعد اگر محمد ﷺ کی محبت کفر ہے تو خدا کی قسم میں بڑا کافر ہوں.پس اگر جماعت کے ابتلاء کا یہی ثبوت ہے کہ بہت لوگ صحیح طریق پر وصیتیں کرنے لگ گئے ہیں اور جنہوں نے پہلے 1/10 حصہ کی وصیت کی ہوئی تھی ان میں سے ۱/۴ اور ۱/۳ تک کی وصیتیں کر رہے ہیں تو ایسا ابتلاء روز روز آئے.ہاں ایسا شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ اسے ابتلاء آیا ہے.مگر ابتلاء تو تب کہا جائے جب اس بارے میں کسی قسم کا جبر کیا جائے لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ وصیت کے کرانے کے لئے جبر کیا جاتا ہے.یہ ایک نیکی ہے جو کر سکتے ہیں کریں.اگر کوئی کہے میں ظہر یا عصر کی چار رکعت فرض نہیں پڑھ سکتا دو پڑھوں گا تو ہم اسے کہیں گے نماز پڑھنا چاہتے ہو تو چار ہی پڑھو اس میں فائدہ ہے.یہ نہیں کہا جا سکتا کہ چلو تم دو یا ایک ہی رکعت پڑھ لو کیونکہ یہ کسی کو نمازی بنانے کے لئے کافی نہیں.نمازی کے لئے ضروری ہے کہ چار ہی پڑھے اسے کوئی ابتلاء نہیں کہہ سکتا.اسی طرح وصیت کے بارے میں احمدی کے لئے ابتلاء کی دوہی صورتیں ہو سکتی ہیں تیسری کوئی نہیں.یا تو یہ کہ ہر ایک احمدی کو مجبور کیا جائے کہ وہ ضرور وصیت کرے تب کمزور لوگ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری آمدنی اتنی نہیں کہ ہم وصیت کر سکیں.مگر وصیت کرنا تو اپنی مرضی پر ہے اور یہ اخلاص کے پر کھنے کا معیار ہے ایمان کا معیار نہیں ہے.ایمان کے لئے یہ کافی ہے کہ کوئی کہے میں خدا کو وحدہ لا شریک مانتا ہوں محمد ﷺ پر ایمان لاتا ہوں کہ وہ خدا کے بچے نبی ہیں اور اپنے زمانہ کے مامور اور مرسل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانتا ہوں.جو شخص یہ اقرار کرتا ہے اسے کوئی اسلام اور احمدیت سے نہیں نکال سکتا.اس کے اگر اعمال خراب ہوں تو اسے خدا تعالی پکڑے گا مگر کسی کے اختیار میں یہ نہیں ہے کہ اسے اسلام سے نکال دے.ہاں اگر وہ ان امور کا جن پر اسلام کی بنیاد ہے انکار کرے گا تو خود اسلام سے نکل جائے گا.البتہ مقررہ نظام سے آدمی کو نکالا جاتا ہے اگر وہ ایسا کام کرے جس سے تفرقہ پیدا
خطبات محمود ۳۷۶ سال ۱۹۲۸ء ہوتا ہو.کوئی فتنہ برپا ہوتا ہو تو اسے جماعت سے علیحدہ کیا جاتا ہے مگر احمدیت سے نہیں نکالا جاتا.اور جماعت سے نکالنے اور احمدیت سے علیحدہ کرنے میں فرق ہے.اس کی مثال ایسی ہی کی ہے کہ جب کسی کا بیٹا نا فرمان ہو جائے تو اسے عاق کر دیا جاتا ہے مگر یہ نہیں کہا جاتا کہ وہ بیٹا ہی نہیں رہا.وہ نطفہ تو اسی کا ہوتا ہے ہاں مل کر کام نہ کرنے کی وجہ سے اسے علیحدہ کر دیا جاتا ہے.اسی طرح جسے جماعت سے نکالا جاتا ہے اسے احمدیت سے نہیں نکالا جاتا جب تک کہ وہ اپنے آپ کو احمدی کہتا ہے.تو وصیت کے متعلق اگر مجبور کیا جاتا ہو تب کوئی کہ سکتا ہے کہ یہ ٹھوکر کا باعث ہے یا جو روپیہ وصیت کا آتا ہو وہ کسی ایک شخص کی جائداد بن رہا ہو.میرے لئے یا میرے بیوی بچوں پر خرچ ہوتا ہو تو کوئی کہہ سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو اس روپیہ کو دین کی اشاعت کے لئے خرچ کرنے کو کہا ہے مگر ایسا نہیں ہوتا.پس اگر یہ روپیہ دین کے لئے لیا جاتا ہے اور دین پر خرچ کیا جاتا ہے تو پھر یہ کہنے سے کہ وصیت خاص لوگوں کے لئے ہے اور ان لوگوں کے لئے ہے جو خاص قربانی کر کے خاص درجہ حاصل کریں تو اس میں ابتلاء کی کونسی بات ہے.یہ ایسی ہی بات ہے کہ گورنمنٹ ایف اے میں اس طالب علم کو داخل کرتی ہے جو انٹرنس پاس ہو.اب کوئی انٹرنس تو پاس نہ کرے اور کے گورنمنٹ مجھے ایف اے میں داخل نہیں ہونے دیتی اور مجھ پر بڑا ظلم کرتی ہے تو یہ ظلم کس طرح ہوا.جب تک ایف.اے میں داخل ہونے کی شرط نہ پوری کی جائے اس وقت تک داخلہ کی اجازت کس طرح مل جائے؟ پس ابتلاء کی کوئی بات نہیں جس شخص نے یہ بات لکھی ہے اسے ابتلاء آیا ہو تو خبر نہیں لیکن اوروں کو نہیں آیا بلکہ وصایا میں بہت زیادہ ترقی ہوئی ہے.اس وقت میں پھر دوستوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اگر ان میں سے کوئی یہ چاہتا ہے کہ وہ کون سا کام کرے اسے پتہ لگ جائے کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم کر رہا ہے تو وہ علاوہ اور اصلاح کے اپنے مال کے کم از کم ۱/۱۰ حصہ کی اور زیادہ سے زیادہ ۱/۳ حصہ کی وصیت کرے.اگر اس کا گزارہ تنخواہ پر ہو تو تنخواہ کے حصہ کی کرے اور اگر جائداد کی آمدنی پر ہے تو اس کی کرے.اس کے بعد وہ خدا تعالی کے حضور انہی لوگوں میں رکھا جائے گا جو ایفاء عہد کرتے ہیں.
خطبات محمود دین کے لئے زندگی وقف کرنے کی تحریک سال ۱۹۲۸ء اس کے بعد میں ایک خاص اعلان کرنا چاہتا ہوں.کچھ عرصہ ہوا میں نے تحریک کی تھی کہ نوجوان خدمت دین کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں.اس پر بہت سے نوجوانوں نے کیں جن میں کئی ایک عربی کی تعلیم حاصل کئے ہوئے تھے اور کئی انگریزی کی.اس وقت جتنے آدمیوں کی ضرورت تھی وہ پوری ہو گئی لیکن اب پھر بعض کاموں کے لئے ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے.مقامی حالات کے لحاظ سے یہ قدرتی بات ہے کہ محدود جماعت کے کارکنوں کو جو گزارے دیئے جائیں وہ محدود ہوں اس لئے یہاں کے کارکنوں کے گزارے محدود ہوتے ہیں.لیکن باوجود اس کے زندگی وقف کنندوں اور دوسروں میں جو فرق ہے وہ کم از کم وصیت کرنے والوں اور وصیت نہ کرنے والوں کے برابر رہنا چاہئے اس وجہ سے میں نے یہ قرار دیا ہے کہ وقف کننده کو اس عہدہ والے سے ۲۵ فیصدی کم گزارہ دیا جائے مگر اس سے چندہ نہ لیا جائے.اس طرح در اصل فرق ۲۵ فیصدی نہیں رہتا بلکہ ۱۹ یا ۱۸ فیصدی پر بات آجاتی ہے.یہ دوسروں کی نسبت زیادہ قربانی کی صورت ہے اور جس حد تک وقف کنندگان کے گزارہ کی کوشش کی جاسکتی تھی کی گئی ہے اور خدا جانتا ہے اور کیا کچھ کیا جا سکے گا.جو قوم عزت اور شوکت حاصل کر لیتی ہے وہ اپنے کارکنوں کو بھی ترقی دینا ضروری سمجھتی ہے اور جو قوم خود ذلیل ہو جاتی ہے اس کے کارکن بھی ذلیل سمجھے جاتے ہیں.دیکھو مولویوں کو آج کوئی پوچھتا نہیں لیکن پادریوں کی ہر جگہ عزت کی جاتی ہے.وجہ یہ کہ پادریوں کی قوم کو عزت حاصل ہے اور مولویوں کی قوم ذلیل سمجھی جاتی ہے.تو ہو سکتا ہے آج ہمارے جن کارکنوں کو کوئی پوچھتا نہیں وہی جماعت کی ترقی کے ساتھ اس درجہ کو پہنچ جائیں کہ ہر جگہ ان کی عزت کی جائے.پہلے میں نے مدرسہ احمدیہ میں اس بات کا ذکر کیا ہے اور بعض نوجوانوں نے مجھے درخواستیں پہنچائی ہیں اور بعض نے دفتر میں دی ہیں.اب میں باقی جماعت کو اس خطبہ کے ذریعہ مطلع کرتا ہوں خصوصاً کالجوں کے طلباء کو اور ان طلباء کو جو اپنی تعلیم ختم کر چکے یا کرنے والے ہیں.اس وقت غیر مذاہب میں تبلیغ کے لئے مبلغ بھیجنے کی ضرورت ہے اس لئے ایسے نوجوان ہوں جو دین کے متعلق واقفیت رکھتے ہوں یا واقفیت پیدا کرنے کی خواہش رکھتے ہوں.اس وقت چند آدمیوں کی ضرورت ہے جن کو لے کر کام پر لگا دیا جائے گا یا تیاری کرائی جائے
خطبات محمود ۳۷۸ سال ۴۱۹۲۸ گی.باقی جو رہیں گے ان کے اخلاص کی قدر کی جائے گی اور ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہہ دیا جائے گا وہ جو کام کرنا چاہیں کریں.پھر بعض ایسے ہوں گے جن کی گو اس وقت ضرورت نہ ہو گی مگر ان کو آئندہ ضرورت کے لئے ریزرو رکھ لیا جائے گا اور جب ضرورت ہو گی ان کو بلا ئیں گے.پس ان نوجوانوں کو جو کالجوں میں پڑھتے ہیں یا تعلیم سے فارغ ہو چکے ہیں اس اعلان کے ذریعہ مطلع کیا جاتا ہے کہ ہمیں ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے.امید ہے کہ ہمارے انگریزی خواں نوجوان جو کسی موقع پر کسی سے کم نہیں رہے وہ اس وقت بھی دین کی خدمت کے لئے آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے.وہ لوگ جو عمر رسیدہ ہیں یا اور کام کر رہے ہیں ان کو پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک شخص جو ایک کام کر رہا ہو اسے دوسرے کام پر لگا دیا جائے.ایسے لوگ اپنے آپ کو اس طرح وقف کر سکتے ہیں کہ پنشن کے بعد دین کی خدمت کرنے کا ارادہ کر لیں.مگر افسوس ہے کہ ابھی تک ہماری جماعت کے لوگوں کو اس طرف توجہ نہیں ہے.بہت لوگ کہتے ہیں فلاں کو بڑھاپے میں اللہ اللہ کرنے کی سوجھی اور اس طرح اسکی ہنسی اڑاتے ہیں حالا نکہ یہ نفسی کی بات نہیں بلکہ بہت اچھی بات ہے مگر ہماری جماعت کے لوگوں کو بڑھاپے میں بھی یہ بات حاصل نہیں ہوتی الا ماشاء اللہ ایسے لوگ جو پنشنیں لے چکے ہیں یا لینے والے ہیں.وہ اگر اپنے آپ کو اس طرح وقف کریں تو ان کو ہم لے سکتے ہیں کیونکہ ان کا کوئی بوجھ سلسلہ پر نہ ہو گا.ایسے لوگوں کو کچھ قربانی کیلئے تیار رہنا چاہیئے.اگر انہیں تبلیغ کیلئے بھیجا جائے تو چلے جائیں یا کم از کم وہ یہی اقرار کریں کہ سال میں تین چار ماہ وہ تبلیغ کیلئے خرچ کریں گے تو اس طرح وہ بھی بہت مفید ثابت ہو سکتے ہیں مگر اس وقت میرے زیادہ تر مخاطب نوجوان ہیں.ان میں سے جو کھرے نکلیں گے وہ ایسے قیمتی جواہر ہوں گے کہ ان کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکے گا اور جو کمزور ثابت ہوں گے ان کے متعلق سمجھ لیا جائے گا کہ ہر بہتر سے بہتر چیز میں ایسا ہوتا ہے.میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالٰی ہماری جماعت کے نوجوانوں کو توفیق دے کہ ہر ضرورت جو پیش آئے اسے پورا کر کے خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن جائیں.ان پر خدا تعالی کی رحمت چھا جائے.ان پر خدا تعالیٰ کی محبت اس طرح مستولی ہو جائے کہ اس کے دین کی اشاعت کے سوا باقی تمام خیال بھول جائیں.الفضل ۱۵ مئی ۱۹۲۸ء)
خطبات محمود ۳۷۹ ه الوصیت صفحه ۲۳ - روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۲۱ الوصیت صفحه ۱۸ - روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۱۶ الوصیت صفحه ۲۹ - روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۲۷ الوصیت صفحه ۲۲ - روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۲۰ سال ۱۹۲۸ء
خطبات محمود ۵۱ سال ۱۹۲۸ء جیسا کروگے ویسا بھرو گے (فرموده ۱۱/ مئی ۱۹۲۸ء) تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: عربی کی ایک مثل ہے.كَمَا نَدِینُ تُداَن کہ جس طرح تم کسی سے معاملہ کرو گے تمہارے ساتھ بھی اسی طرح کیا جائے گا.یہ مثل در حقیقت بہت سی روحانی باتوں پر مشتمل ہے اور ایسے منہ سے نکلی ہوئی ہے جس کے پیچھے ایک سوچنے والا دماغ اور ایک غور کرنے والی طبیعت تھی.تمام قانون قدرت میں ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کے اعمال عجیب پیرا یہ میں اس کے گرد چکر لگاتے پھرتے ہیں.وہ بظاہر اس کے ساتھ وابستہ بھی نہیں ہوتے مگر اس سے جدا بھی نہیں ہوتے.ان کی مثال پرندہ کی اور سدھے ہوئے پرندہ کی طرح ہوتی ہے.جس طرح سیدھا ہوا پرندہ انسان سے جدا ہوتا ہے اور بظا ہر جدا نظر آتا ہے لیکن آقا کی آواز پر پھر اس کے پاس آجاتا ہے اسی طرح انسان کے اعمال کی حالت ہوتی ہے.لوگ باز اور شکرے پالتے ہیں اور ان کو کو شکار کے پیچھے چھوڑتے ہیں پھر انہیں آواز دیتے ہیں تو وہ ان کے پاس آجاتے ہیں.کبوتروں کو لوگ پالتے ہیں کبوتر اڑ کر دور نکل جاتے ہیں پھر جب آقا آواز دیتا ہے تو اس کے پاس آجاتے ہیں.پس جس طرح پرندہ ایک قسم کی وحشت بھی رکھتا ہے اور باوجود اس کے انسان کے ساتھ ایک قسم کا اتحاد بھی رکھتا ہے بعینہ اسی طرح انسان کے اعمال کی حالت ہے.حیوانوں کو بھی لوگ پالتے ہیں بلی کہتے اور دوسرے چوپاؤں میں یہ مادہ ہے کہ ان کی وحشت بڑی حد تک دور ہو جاتی ہے.ایک شخص کتا پالتا ہے کتا بھی اس سے جدا ہوتا ہے مگر وہ جدا ہونا ایسا ہی ہوتا ہے جیسے بیٹا باپ سے جدا ہوتا ہے لیکن پرندوں میں وحشت باقی رہتی ہے وہ کبھی چوپاؤں کی طرح ہل نہیں سکتے.یہی وجہ ہے کہ عربی زبان میں اور قرآن میں اس محاورہ کو استعمال کیا گیا.
خطبات محمود ٣٨١ سال ۱۹۲۸ء ہے اور انسان کے اعمال کو طائر کہا گیا ہے.بعض نے اس کی یہ وجہ سمجھی کہ جو عمل انسان کرتا ہے وہ اڑ جاتا ہے اس لئے انسانی اعمال کو طائر کہا گیا ہے مگر میرے نزدیک یہ غلط ہے.اگر انسان جو عمل کرے وہ اڑ جائے تو اس میں اس کا کیا حرج ہے.اس طرح تو وہ فائدہ میں رہے گا کہ کسی بات کے متعلق اس سے باز پرس نہ ہو گی.میرے نزدیک اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کے اعمال میں بھی ایک قسم کی وحشت پائی جاتی ہے.عمل اڑتا ہے مگر آواز پر پھر آجاتا ہے.ایک انسان جب اپنے گذشتہ اعمال سے تو بہ کرتا ہے اپنی بداعمالیوں پر اظہار ندامت کرتا ہے آئندہ کے لئے ان سے بچنے کا عہد کرتا ہے تو وہ اعمال اس سے جدا ہو جاتے ہیں.لیکن دو چار دس بیس سال تک تو بہ پر وہ قائم رہتا ہے اور پھر اس پر ابتلاء آجاتا ہے وہ خدا تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے.یہ نافرمانی آواز ہوتی ہے جس پر اس کے وہ پہلے اعمال پھر اس کے پاس آجاتے اور اس کے نامہ اعمال میں لکھے جاتے ہیں.یہی نہیں کہ تو بہ توڑنے کے بعد جو اعمال کرے گاوہ اس کے نام لکھے جائیں گے بلکہ توبہ کرتے وقت جو اعمال اس نے کئے تھے وہ بھی لکھے جائیں گے.مثلاً ایک شخص ہیں سال کی عمر میں مسلمان ہوتا ہے اور پچاس سال کی عمر تک مسلمان رہتا ہے اس کے بعد کافر ہو جاتا ہے تو اس کے نام وہ اعمال بھی لکھے جائیں گے جو اس نے مسلمان ہونے ے پہلے کئے تھے کیونکہ جب اس نے اپنے کفر سے اعمال کو بلایا تو وہ فورا اس کے پاس جمع ہو جاتے ہیں یہی حال اعمال کا ہوتا ہے.ایک شخص چالیس پچاس سال مئومن رہتا ہے پھر اسے ٹھوکر لگتی ہے اور کافر ہو جاتا ہے تو یہی نہیں کہ اس کے مومن ہونے کی حالت کے اعمال ضائع ہو جائیں گے.اگر وہ اپنی زندگی کے آخری سال کا فر ہو جاتا ہے تو وہ کافر ہی سمجھا جائے گا اسی طرح اگر کوئی ساری عمر کا فر رہتا ہے.لیکن زندگی کے آخری سال میں مسلمان ہو جاتا ہے تو وہ مومن سمجھا جائے گا.غرض اعمال خواہ بر ہوں یا نیک ان کی مثال سدھے ہوئے پرندہ کی سی ہوتی ہے جو اڑ کر دور چلا جاتا ہے مگر پھر آواز دینے پر پاس آجاتا ہے اسی طرح اعمال خواہ بد ہوں یا نیک انسان کے تغیر کے ساتھ اڑ جاتے ہیں اور تغیر کے ساتھ جمع ہو جاتے ہیں.اگر کفر کے پرندے ہوں تو جب کوئی شخص کفر کی آواز اٹھاتا ہے وہ اس کے پاس جمع ہو جاتے ہیں اور اگر ایمان کے پرندے ہوں تو جب ایمان کی آواز اٹھاتا ہے اس کے پاس آجاتے ہیں.پس اعمال انسانی انسان کے گرد چکر لگاتے رہتے ہیں اور عجیب عجیب اثرات ظاہر کرتے ہیں.ان کی مثال جنات کی سمجھو (پرندہ)
خطبات ۳۸۲ سال ۱۹۲۸ء بھی جنات میں سے ہے.کیونکہ چھوٹا ہوتا ہے اور اڑتے ہوئے جب دور چلا جائے تو نظر نہیں آتا) جن کے اثرات غیر معلوم طور پر ظاہر ہوتے رہتے ہیں.ماں باپ جھوٹ بولتے ہیں آگے ان کی اولاد جھوٹ بولنے لگ جاتی ہے.لوگ اپنی اولاد کو جھوٹ سکھاتے نہیں بلکہ جھوٹ بولنے سے روکتے ہیں مگر باوجود اس کے بچے جھوٹ بولنا سیکھ لیتے ہیں کیونکہ انسانوں کو ان کے اعمال چاروں طرف سے گھیرے ہوتے ہیں اور ان کے اثرات ان کے بچوں پر بھی پڑتے ہیں.جو ماں باپ چوری کرتے ہیں ان کے بچوں میں بھی چوری کرنے کی عادت پائی جاتی ہے وہ ماں باپ جو گالی گلوچ کرتے ہیں ان کے بچے بھی گالیاں دینے کے عادی ہو جاتے ہیں.ایک گندی گالیاں دینے والا کہتا ہے میں نے فلاں کی خوب خبر لی حالا نکہ جسے گالیاں دیتا ہے اسے پتہ بھی نہیں ہو تا کہ کیا کہا گیا اور اگر سامنے ہوتا ہے تو بھی اس کا کیا بگڑ جاتا ہے.مگر گالیاں دینے والا اپنے آپ کو ذبح کر لیتا ہے کیونکہ اس کی اولاد میں بد زبانی کی عادت پیدا ہو جاتی ہے.اسی طرح وہ شخص جو کسی کی غیبت کر رہا ہوتا ہے سمجھتا ہے اسے نقصان پہنچا رہا ہے مگر اسے نقصان نہیں پہنچا تا بلکہ اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے.اس کے رشتہ دار جو اس کے پاس بیٹھے غیبت سنتے ہیں وہ اس کی غیبت کرنے لگ جاتے ہیں.بچے جب دیکھتے ہیں کہ ان کے باپ دادا یا بھائی نے کسی کی غیبت کی تو وہ سمجھتے ہیں یہ اچھی بات ہی ہو گی تبھی کی گئی ہے اور پھر وہ اسی کی غیبت شروع کر دیتے ہیں.پس انسان کے اعمال مرنے کے بعد جو بدلہ دیں گے وہ تو دیں گے ہی اس دنیا میں بھی دے رہے ہیں.اور ان کی بعض چوٹیں ایسی سخت پڑتی ہیں کہ خود انسان ان کو برداشت نہیں کر سکتا.پھر اس کے بچوں، رشتہ داروں اور بیوی پر ان کے اثرات پڑتے ہیں.ادھر تو یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی جھوٹ بولتا ہے تو اس کی اولاد جھوٹ بولنے لگ جاتی ہے.اگر کوئی گالیاں دیتا ہے تو اس کی اولاد گالیاں دینے کی عادی ہو جاتی ہے.اگر کوئی فتنہ پردازی کرتا ہے تو اس کی اولاد فتنہ انگیز ہو جاتی ہے اور دوسری طرف خدا تعالیٰ کا اس سے ایسا ہی معاملہ ہوتا ہے.اگر کوئی شخص لوگوں پر غضب کرتا ہے تو اللہ تعالٰی بھی اس سے ایسا ہی معاملہ کرتا ہے.انجیل میں حضرت مسیح ناصری کا قول آتا ہے حدیثوں میں بھی اس کا ذکر ہے.مگر میں انجیل کا قول اس لئے نقل کرتا ہوں کہ ایک تو وہ پہلے کی ہے اور دوسرے یہ کہ وہ ایک ایسی قوم سے تعلق رکھتی ہے جو مسلمان نہیں ہے اور میرا یہ وعظ مسلمانوں کے لئے ہی نہیں بلکہ دوسروں کے لئے بھی ہے.عیسائی کوئی اسلامی کلام نہ مانیں گے مگر انجیل کا قول ان پر بھی
خطبات محمود PAP سال ۶۱۹۲۸ حجت ہو گا.تو انجیل میں آتا ہے حضرت مسیح کہتے ہیں خدا تعالی کے گا:- اے ملعونوا میرے سامنے سے اس ہمیشہ کی آگ میں چلے جاؤ جو ابلیس اور اس کے فرشتوں کے لئے تیار کی گئی ہے.کیونکہ میں بھوکا تھا.تم نے مجھے کھانا نہ کھلایا.پیاسا تھا.تم نے مجھے پانی نہ پلایا.پر دیسی تھا.تم نے مجھے گھر میں نہ اتارا - نگا تھا.تم نے مجھے کپڑا نہ پہنایا.بیمار اور قید میں تھا.تم نے میری خبر نہ لی.تب وہ بھی جواب میں کہیں گے.اے خداوند ہم نے کب تجھے بھو کا یا پیا سایا پردیسی یا ننگا یا بیمار یا قید میں دیکھ کر تیری خدمت نہ کی.اس وقت وہ ان سے جواب میں کہے گا میں تم سے سچ کہتا ہوں.چونکہ تم نے ان سب چھوٹوں میں سے کسی ایک کے ساتھ یہ نہ کیا اس لئے میرے ساتھ نہ کیا.گویا جو سلوک دنیا میں لوگوں سے انہوں نے کیا ہوگا ویسا ہی خدا ان سے کرے گا اور قیامت کے دن پر کیا موقوف ہے اس دنیا میں ہی کرتا ہے.پس انسان کے اعمال کا ادھر تو یہ اثر ہوتا ہے کہ جو لوگ اس کے زیر اثر ہوتے ہیں وہ وہی باتیں سیکھ لیتے ہیں حالانکہ کوئی یہ نہیں چاہتا کہ جو برے اعمال وہ کرتا ہو وہ اس کی اولاد سیکھ لے.چور خود چوری کرتے ہیں مگر ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ان کی اولاد چوری نہ کرے.ڈاکو خود ڈاکے ڈالتے ہیں مگر کبھی نہیں سنا کہ وہ اپنے بیٹوں کو اس کام میں شامل کریں.وہ اوروں کو اپنے ساتھی بناتے اور اس فعل پر مائل کرتے ہیں مگر اپنی اولاد کے متعلق یہی چاہتے ہیں کہ وہ ایسا نہ کرے گو یہ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے اعمال کی خرابی کی وجہ سے خود ایسے کاموں میں شامل ہو جائیں.تو بچے خود بخود ماں باپ کی باتوں کی نقل کرنے لگ جاتے ہیں.یہ تو انسانی اعمال کا اثر نچلے لوگوں پر ہوتا ہے اور جو اوپر والی ہستی ہے اس پر یہ اثر ہوتا ہے کہ جیسا کوئی لوگوں سے معاملہ کرتا ہے ویسا ہی خدا اس سے معاملہ کرتا ہے.یہ مت خیال کرو کہ بعض جو اخلاقی جرم ہیں ان کے معاملہ میں خدا کیا سلوک کرتا ہے مثلا چور چوری کرتا ہے اس کے متعلق خدا کیا کرے گا؟ یہ ٹھیک ہے کہ خدا ایسے افعال کا مرتکب نہیں ہو تا مگر ہر اخلاقی جرم کے مقابلہ میں اخلاقی سزا ہوتی ہے.خدا تعالیٰ چور سے معاملہ کرتے ہوئے چوری تو نہ کرے گا لیکن اسے یہ سزا دے گا کہ اس کا مال و اسباب غیر معلوم طور پر ضائع ہو تا چلا جائے گا اور اس میں برکت نہیں ہو گی.حضرت خلیفہ اول اپنے وطن کی ایک عورت کا ذکر کرتے کہ اس کا خاوند باہر ملازمت پر تھا اور اس کے پاس کافی زیور تھا.ایک ہزار
خطبات محمود ۳۸۴ سال ۱۹۲۸ء کی مالیت کے کڑے ہی تھے ایک چور نے وہ اتار لئے.عورت نے اگر چہ کوشش کی کہ چور کا مقابلہ کرے مگر کڑے نہ بچا سکی البتہ اس نے چور کی شکل پہچان لی.اس وقت رواج تھا کہ عورتیں خواہ امیر ہوں یا غریب اپنے مکان کے پاس گلی میں بیٹھ کر چرخہ کاتی تھیں اور اس طرح اپنے استعمال کے لئے کپڑا تیار کرتی تھیں.اب یہ رواج عموماً متروک ہو گیا ہے کیونکہ اس سے زیادہ مفید کام نکل آئے ہیں.وہ عورت گلی میں بیٹھی چرخہ کات رہی تھی کہ چور ادھر سے گذرا.عورت نے اسے پہچان لیا.چور اسے دیکھ کر بھاگنے لگا تو اس نے کہا کہ میں تمہیں پکڑنے والی نہیں بلکہ ایک بات کہنا چاہتی ہوں تم میری بات سن لو.جب وہ قریب آیا تو اس نے کہا تو میرے ہزار کے کڑے لے گیا تھا اور مجھے کنگال کر گیا تھا مگر تیرے پاس اب بھی وہی لنگوئی ہے جو پہلے تھی اور میرے پاس پھر ویسے ہی کڑے موجود ہیں.غرض چوروں اور ڈاکوؤں کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کبھی وہ خوشحال نہیں ہوتے.در اصل جو دو سروں کا مال لیتا ہے اور جسے اپنی جان کا خطرہ ہوتا ہے وہ جان بچانے کے لئے اسے خرچ کرتا ہے اور یوں بھی ضائع کر دیتا ہے.اگر وہ محنت کر کے کماتا تو اپنی جان کے آرام کے لئے خرچ کرتا لیکن جب چوری کرتا ہے تو جان بچانے کے لئے اسے خرچ کرنا پڑتا ہے.پس بے شک اللہ تعالیٰ چور کو سزا دینے کے لئے چوری نہیں کرتا مگر چور پر ایسے اسباب مسلط کر دیتا ہے کہ اس کا مال اسی طرح اس کے ہاتھ سے چلا جاتا ہے جس طرح دوسروں کا مال چوری کے ذریعہ وہ لے جاتا ہے.سورۃ فاتحہ میں خدا تعالیٰ نے جو وَلَا الضَّالِّينَ فرمایا ہے یہ ایسے ہی نتائج کے لئے فرمایا ہے.یہود میں غصہ زیادہ تھا کیونکہ ان کو تعلیم دی گئی تھی کہ " تیری آنکھ مروت نہ کرے.کہ جان کا بدلہ جان.آنکھ کا بدلہ آنکھ.دانت کا بدلہ دانت ہاتھ کا بدلہ ہاتھ اور پاؤں کا بدلہ پاؤں ہو گا".اور کہا گیا تھا.عضو توڑنے کے بدلے عضو توڑنا.آنکھ کے بدلے آنکھ.دانت کے بدلے دانت جیسا کوئی کسی کا نقصان کرے اس سے ویسا ہی کیا جائے".اس میں چونکہ یہود بہت بڑھ گئے تھے اس لئے خدا تعالیٰ نے ان کا نام مغضوب رکھا.مطلب یہ کہ جس طرح تم دوسروں پر غضب کرتے ہو اسی طرح تم پر بھی غضب ہی غضب
خطبات محمود ۳۸۵ سال ۱۹۲۸ء نازل ہو گا.ان کے مقابلہ میں عیسائیوں نے محبت کی غلط تعلیم دی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ صال ہو گئے.انہوں نے محبت اور ہمدردی میں غلو کیا.جس طرح یہود نے غضب میں غلو کیا تھا اسی طرح عیسائیوں نے محبت میں غلو کیا.اور کہا :- شریر کا مقابلہ نہ کرنا.بلکہ جو کوئی تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے.اور اگر کوئی تجھ پر نالش کر کے تیرا کر تا لینا چاہے تو چونہ بھی اسے لے لینے دے اور جو کوئی تجھے ایک کوس بیگار میں لے جائے.اس کے ساتھ دو کوس چلا جا" (متی باب ۵ آیت ۳۹ تا ۴۱) پس چونکہ عیسائیوں نے محبت میں غلو کیا اس لئے اللہ تعالٰی نے فرمایا تمہارے ساتھ یہ سلوک کیا جائے گا کہ ایسے سامان پیدا کر دیئے جائیں گے کہ محبت کا غلو ہی تمہیں تباہ کر دے گا.تمہاری قوم ایسی عیاشیوں اور بدکاریوں میں مبتلاء ہو جائے گی جو محبت میں غلو کرنے کے نتائج میں حاصل ہوتی ہیں اور پھر وہی باتیں تباہی کا باعث ہو جائیں گی.جس طرح یہود اپنے اندر غضب پیدا کر کے بیرونی حکومتوں کے غضب کے نیچے آگئے اور اس طرح تباہ ہو گئے اسی طرح تم اپنے اندر محبت میں غلو کر کے خود اپنی تباہی کا موجب ہو گئے.یہود نے غضب اختیار کیا تو بیرونی قوموں نے انہیں تباہ کر دیا.عیسائیوں نے محبت میں غلو کیا تو وہ ضلالت میں جا پڑے اور ان کے اندر سے ہی تباہی کے سامان خدا تعالیٰ نے پیدا کر دیئے.وہی نظام جس کا نام ترقی کے سامان رکھا جاتا ہے وہی ان کی تباہی کا موجب ہو گیا اور عمارت اپنے اندر کے نقص سے ہی ٹوٹ گئی.تو غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِينَ : میں پیشگوئی کی گئی تھی.کوئی کے یہود تو اس سورۃ کے نازل ہونے سے قبل تباہ ہو چکے تھے ان کے متعلق یہ کس طرح پیشگوئی ہوئی.اس کے متعلق میں کہوں گا کہ بے شک وہ یہود تباہ ہو چکے تھے لیکن چونکہ مثیل یہود پیدا ہونے والے تھے ان کے لئے پیش گوئی ہے.جو لوگ غضب کا رستہ اختیار کرنے والے تھے اور یہ کہنے والے تھے کہ جو قابو میں آجائے اسے ہیں ڈالو ان پر خدا تعالیٰ جابر اور ظالم بادشاہوں کو مقرر کر دے گا اور اس طرح وہ تباہ ہو جائیں گے اور جنہوں نے ناجائز محبت اختیار کی اور اس میں غلو کیا ان پر محبت ہی الٹ پڑے گی اور اپنی قوم ہی انہیں تباہ کر دے گی.پس سورۃ فاتحہ میں ایک بہت بڑی پیشگوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ایک طرف تو مسلمانوں پر غیروں کو مسلط کر دیا جائے گا اور اس طرح ان کی تباہی
خطبات محمود سال ۱۹۲۸ء کے سامان پیدا ہو جائیں گے.اور دوسری طرف عیسائیوں کے لئے یہ سامان کیا جائے گا کہ وہ آپس میں ہی لڑ کر تباہ ہوں گے.ملکی فسادوں اور رعایا کی شورشوں سے ان کا تنزل ہو گا.چنانچہ اس کے اثرات ظاہر ہو رہے ہیں.وہی سٹرائیکس (Stricks) جن کے متعلق کہتے تھے کہ ان کے کرنے کا لوگوں کو حق ہے وہی ان کی تباہی کا باعث بن رہی ہیں.وہ کہتے تھے عورتوں پر کیوں کسی قسم کی پابندی عائد کی جائے ان کو ہر طرح آزادی دینی چاہئے اب وہی حد سے بڑھی ہوئی آزادی تباہی کا باعث بن رہی ہے.غرض انہوں نے تقویٰ کو چھوڑ کر محبت کو بہت وسیع کر دیا اور وہی ان کی تباہی کا موجب بن گئی.پس غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ میں یہ بتایا گیا کہ ایک قوم ہوگی جو غیروں کے حملوں سے تباہ ہو گی چنانچہ ایسا ہی ہوا.اور دوسری قوم جو مال ہوگی اس کے اندر سے اس کی تباہی کے سامان پیدا ہوں گے یہ بھی پیدا ہو چکے ہیں.یہ ایک بہت بڑی پیش گوئی ہے.اور اس کا فائدہ یہ ہے جو قرآن نے ہی بیان کر دیا ہے کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِیم جو کامیاب ہونا چاہتے ہیں وہ اس طریق پر چلیں کہ نہ تو وہ دو سروں پر غضب کریں اور انہیں پینے اور کچلنے لگ جائیں اور نہ ہی ان میں یہ مادہ پیدا ہو کہ خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسروں کی ناجائز محبت میں پڑ جائیں.ہر ناجائز محبت میں دوسروں کا حق تلف ہوتا ہے.ایک کے ساتھ اگر کوئی ناجائز رعایت کی جائے تو اس میں کسی اور کی ضرور حق تلفی ہوتی ہے کیونکہ انسان میں یہ تو قدرت نہیں ہے کہ کوئی نئی چیز پیدا کر کے کسی کو دے سکے.یہ خدا تعالی ہی کی صفت ہے اور خدا تعالٰی نے جو کچھ پیدا کیا ہوتا ہے اس پر کسی نہ کسی کا حق ہوتا ہے پس اس آیت میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ نہ تو تم غضب سے کام لو ورنہ تم پر بھی غضب کیا جائے گا اور نہ کسی کی ناجائز رعایت کرد ورنہ وہی رعایت الٹ کر تم پر پڑے گی اور تمہاری تباہی کا موجب ہو جائے گی.بلکہ درمیانی رستہ اختیار کرو.وہ درمیانی رستہ وہی ہے جو سورۃ فاتحہ میں بتایا گیا ہے اور جسے مؤمن ہر روز کئی بار پڑھتا ہے.مگر افسوس ہے کہ بہت کم لوگ ہیں جو اس پر عمل کرتے ہیں.میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالی ہماری جماعت کے لوگوں کو توفیق دے کہ ان کی طبائع قرآن کریم کے ماتحت ہوں.وہ محبت میں بھی حد سے نہ بڑھیں اور غضب میں بھی حد سے نہ بڑھیں بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے درمیانی رستہ پر چلنے والے ہوں.الفضل ۱۸/ مئی ۱۹۲۸)
خطبات محمود ۳۸۷ ے منتی باب ۲۵ آیت اس تابم نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء الفاتح : استثناء باب ۲۹ آیت ۲۱ نارتھ انڈیا بائیل سو سائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء اخبار باب ۲۴ آیت ۲۱۲۰ کو گر مریم " کوکو " " و مفهوماً شه متی باب ۵ آیت ۳۹ تا اسم ه الفاتحه : که الفاتحه : ۶ مریم " 11 1 )
خطبات محمود ۵ سال ۶۱۹۲۸ اسلام کی خاطر متحد ہو جاؤ (فرموده ۲۵/مئی ۱۹۲۸ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اس وقت مسلمانوں کی جو حالت دنیا میں ہو رہی ہے اور خصوصاً ہندوستان میں ان کے حقوق کو جس طرح پامال کیا جارہا ہے وہ ہر ایک عظمند کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے.لیکن یہ دیکھا گیا ہے کہ جب قوموں پر تباہی اور ادبار کا زمانہ آتا ہے تو اس حالت میں ان کی آنکھوں پر چربی چھا جاتی ہے.وہ باتیں جو معمولی آدمیوں کو بھی نظر آجاتی ہیں ان کو نظر نہیں آتیں.وہ گر رہے ہوتے ہیں مگر نہیں سمجھتے کہ گر رہے ہیں.وہ مٹ رہے ہوتے ہیں مگر نہیں سمجھتے کہ مٹ رہے ہیں.وہ مر رہے ہوتے ہیں مگر نہیں سمجھتے کہ مر رہے ہیں.غرضیکہ اس وقت تک ان کی آنکھوں پر پٹی بندھی رہتی ہے جب تک کہ علاج بے سود اور تدبیر بے کار نہیں ہو جاتی.دیکھنے والے دیکھتے ہیں کہ ان کی حالت خراب ہو رہی ہے.پہچاننے والے پہچانتے ہیں کہ ان پر مصیبتوں پر مصیبتیں پڑ رہی ہیں حتی کہ رہ گذر بھی محسوس کرتے ہیں کہ اس قوم پر خدا کا عذاب نازل ہو رہا ہے.لیکن نہیں دیکھتی اور نہیں محسوس کرتی تو ایک وہ قوم جو مصیبت ادبار اور تکلیف میں مبتلاء ہوتی ہے وہ دکھوں کو عارضی اور مصیبتوں کو غیر حقیقی اور ان عذابوں کو جو اس پر نازل ہو رہے ہوتے ہیں صرف سطحی آثار خیال کر لیتی ہے اور کبھی اپنی اصلاح و درستی کی طرف توجہ نہیں کرتی.مسلمانوں کی اس وقت یہی حالت ہو رہی ہے وہ کسی ایک کلمہ پر نہ جمع ہوتے ہیں اور نہ جمع ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور حالات ایسے ہو رہے ہیں کہ بظاہر معلوم ہوتا ہے وہ جمع ہو بھی نہیں سکتے.جو ان کے سب سے زیادہ خیر خواہ نظر آتے ہیں وہی ان میں سب سے زیادہ لڑنے
خطبات محمود ۳۸۹ سال ۶۱۹۲۸ اور لڑانے والے ہیں.جو ان کی رہنمائی کا دعوی کرنے والے ہیں وہی سب سے زیادہ ایک دوسرے کا گلا پکڑنے والے ہیں.اور ان کی حالت وہی ہے کہ مژده باد اے مرگ عینی آپ ہی بیمار ہے بجائے اس کے کہ وہ قومی لیڈر اور راہ نما جن کا کام تھا کہ اس بھنور میں پھنسی ہوئی قوم کی کشتی کو نکالتے اور اس راہ سے بھولے ہوئے کارواں کو راہ راست پر ڈالتے ان کے اوقات لڑائی جھگڑے اور دنگہ و فساد میں خرچ ہو رہے ہیں.حالت تو مسلمانوں کی ایسی ابتر ہو چکی ہے کہ اگر اس وقت کروڑوں آدمی بھی ان کو بچانے کی کوشش کرتے تو بھی تھوڑے تھے مگر جو تھوڑے سے بچانے کا دم بھرتے ہیں ان میں سے بھی ہر ایک کی کوشش یہ ہے کہ دوسرے کا گلا گھونٹوں.ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے دس میں آدمی ڈوب رہے ہوں تو ان کو بچانے کے لئے بھی دس بیس کی ضرورت ہوگی مگر میتر صرف تین چار ہوں اور وہ بھی ایک دوسرے کا گلا پکڑ کر اس بات پر لڑ رہے ہوں کہ میں کو دوں یا تم کو دو.نتیجہ یہ ہو گا نہ یہ کو دے گا نہ وہ اور ڈوبنے والے ڈوب جائیں گے.اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے مسلمانوں کو توجہ دلائی تھی کہ آخر وہ چیز جس کے لئے انسان ایک دوسرے سے اختلاف رکھتا ہے وہ صداقت اور حقیقت ہوتی ہے.پھر صداقت کے لئے ہم ذاتی بغض اور عداوت ایک دوسرے سے کیوں رکھیں.اسلام کی ترقی کا انحصار اس نہیں کہ زید بکر کو گالیاں دے اور بکر عمر پر حملے کرے بلکہ اصول پر ہے اور تم ان اصول کی تعلیم دو تبلیغ کرو لیکن ذاتیات میں مت پڑو ایک دوسرے کو گالیاں مت دو - ہر شخص جسے بچا ہے بچائے اور آپس میں دست وگریبان نہ ہو.آخر ہمارے وقت محدود ہیں ہمارے قلموں کا اور ہماری زبانوں کا حلقہ اثر محدود ہے.ہر شخص اپنے حلقہ اثر میں ان امور کی تعلیم دے جو مشترکہ و متحدہ ہیں.مسلمانوں کو ابھارے اور انہیں کے کہ مشترکہ فوائد کے لئے متحد ہو جاؤ.پھر وہ اصول جن کے متعلق کوئی سمجھے کہ وہ مشترکہ نہیں مگر اس کے نزدیک ان پر چلنا ضروری ہے ان کے متعلق دلائل دے ان کی تبلیغ کرے اور ہر شخص ان کو شوق سے سنے.مثلاً احمدی اس بات کے لئے تیار ہیں کہ گو ہمارا ایمان ہے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی ترقی کا کوئی ذریعہ نہیں سوائے اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لائیں اور آر کے قائم کردہ نظام میں داخل ہوں کیونکہ یہ نظام خدا تعالٰی نے قائم کیا ہے لیکن ہم اس بات کے -
خطبات محمود سال ۱۹۲۸ء لئے تیار ہیں کہ ایک حنفی آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف دلائل دے ہم سننے کے لئے تیار ہیں.اسی طرح وہابی آئے اور اپنے دلائل سنائے ہمارا اس میں کیا حرج ہے ہم سنیں گے.اسی طرح شیعہ آئے اور اپنی باتیں سنائے اور ہم تو پہلے ہی سنتے ہیں ہمیں اس پر کبھی اعتراض نہیں ہوا.ہم تو خود کہتے ہیں کہ ہماری باتیں سنو اور اپنی سناؤ جب تم دیانتداری سے سمجھتے ہو کہ تمہیں اسلام کی ترقی کے متعلق وہ باتیں معلوم ہیں جو دو سروں کو نہیں معلوم تو تمہارا فرض ہے کہ دوسروں کو سناؤ لیکن ایک دوسرے سے لڑنے جھگڑنے کا کیا فائدہ اور اس کا اسلام کی ترقی سے کیا تعلق.وہی وقت جو ایک دوسرے کو گالیاں دینے اور لڑنے جھگڑنے میں خرچ کرتے ہو وہی قوم کو ترقی کی طرف لے جانے اور اسلام کی ترقی کے لئے خرچ کرو تو فائدہ ہو گا یا نقصان؟ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ اگر واعظوں کے وعظ کی تصنیفات اور اخبار نویسوں کی تحریریں جمع کر کے دیکھا جائے کہ ان کا ذاتی جھگڑوں میں کتنا وقت لگتا ہے اور قومی ترقی کی تدبیریں بتانے میں کتنا تو ذاتی جھگڑوں اور اعتراضوں کے لئے بہت زیادہ وقت نکلے گا اور جو تھوڑا بہت وقت قومی تدابیر پر صرف ہوا ہو گا اس میں ایسی تدابیر ہوں گی جو فضول ہوں گی.اور ان میں بہت کم ایسی ہوں گی جو ٹھوس اور مسلمانوں کی ترقی سے تعلق رکھتی ہوں حالت یہاں تک پہنچی ہوئی ہے کہ ہماری تمام پالیسی ہی تباہ کن ہوتی ہے.ہر قلم جو چلتا ہے اعتراض کے لئے چلتا ہے، ہر زبان جب کھلتی ہے عیب چینی کے لئے کھلتی ہے، ہر دماغ جب سوچتا ہے تو یہی سوچتا ہے کہ فلاں میں نقص کیا ہے، آنکھیں جب دیکھتی ہیں دوسرے میں کپڑے ہی دیکھتی ہیں غرضیکہ دوسروں میں کوئی خوبی ہمیں نظر نہیں آتی.عیب ہمیشہ ہماری آنکھوں کے سامنے رہتے ہیں.اچھی چیز سمجھنے کے لئے ہمارے دماغ تیار نہیں عمدہ اور اچھی باتیں لکھنے سے ہمارے قلم کانپتے بلکہ ٹوٹ جاتے ہیں.زبانوں کو لکنت ہو جاتی ہے بلکہ بند ہو جاتی ہیں.اس کا نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ ہر شخص کو مسلمانوں کے عیب ہی عیب نظر آتے ہیں.اور بات بھی صاف ہے جب ہمیں اپنے آپ میں عیب ہی عیب نظر آتے ہیں تو دوسروں کو خوبیاں کس طرح نظر آسکتی ہیں.میں نے اتحاد کی تحریک کے ماتحت اپنی جماعت کے اخبار نویسوں اور مصنفوں کو کہہ دیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف کچھ نہ لکھیں بلکہ یہاں تک تاکید کر دی ہے کہ اپنے بچاؤ اور خود حفاظتی کے لئے بھی ایسی باتوں میں نہ پڑیں.اور پچھلے سال کا اس تحریک کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ
خطبات محمود ۳۹۱ سال ۶۱۹۲۸ سے مسلمانوں میں خواہ وہ کسی فرقہ کے ہوں احساس پیدا ہو گیا ہے کہ اتحاد ہونا چاہئے اور ایسی رو پیدا ہو گئی کہ خیال ہو تا تھا شاید مسلمانوں کی ترقی کے دن آگئے ہیں اور ان کی حالت کی اصلاح ہو جائے گی مگر پرانی عادتیں آہستہ آہستہ ہی مٹتی ہیں.چلتی گاڑی کو روکنا مشکل ہوتا ہے اگر انجن لگا ہو تو اور بھی مشکل ہوتا ہے.پھر جب کہ اس کی بریکیں بھی ایسے شخص کے قبضہ میں ہوں جس کے پیش نظر یہی ہو کہ چلتی ہی جائے خواہ آگے کچھ آجائے.مسلمانوں کے لڑائی جھگڑے کی گاڑی چل رہی تھی اس کے آگے انجن لگا ہوا تھا بریک بھی ہمارے قبضہ میں نہ تھا اس کو چلانے والے کچھ دیر ہمارا شور سن کر ٹھرے کہ کیا بات ہے اسے سنیں مگر سن کر کہنے لگے یہ تو وہی پرانا اتحاد کا راگ ہے انہوں نے اور کو کلے ڈالے سٹیم نئی پیدا کی اور انجن چلا دیا.نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ اسلامی حقوق پامال ہو رہے ہیں.اسلامی فوائد تباہ ہو رہے ہیں اور ان کو پس پشت ڈالا جا رہا ہے.اسلام کی تبلیغ مٹ رہی ہے.غیر مسلم مسلمانوں کے حقوق میں دست اندازی کر رہے ہیں کوئی ان کو روکنے والا نہیں.شدھی کا طوفان بپا ہو رہا ہے کبھی یہاں اور کبھی وہاں.اس کی وبا کبھی پنجاب میں اور کبھی بنگال میں کبھی یو پی میں اور کبھی بہار میں جب پھوٹتی ہے تو اس وقت مسلمان صرف یہ کہتے ہیں کوئی ہے مرتد ہونے والوں کو بچانے والا.اور ہر ایک سمجھتا ہے یہ دوسروں کا فرض ہے کہ جن لوگوں کو مرتد کیا جا رہا ہے انہیں بچائے میرا فرض نہیں ہے.مسلمانوں کی مثال ایسی ہے جیسے کہتے ہیں دو شخص کسی درخت کے نیچے لیٹے ہوئے تھے.پاس سے ایک سپاہی گذرا جو اپنے کام پر جا رہا تھا کہ اسے آواز آئی ادھر آنا.اس آواز کے عجز اور لجاجت سے متاثر ہو کر سپاہی ان کے پاس گیا.ان میں سے ایک شخص نے بڑیلی حسرت سے اسے کہا اچھا ہوا آپ آگئے میں بڑی دیر سے اس انتظار میں تھا کہ میری چھاتی پر بیر پڑا ہے اسے کوئی اٹھا کر میرے منہ میں ڈال دے.سپاہی نے پہلے سمجھا اپاہج ہو گا مگر جب اس نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ پاؤں ہیں تو اسے برا لگا.اس نے بہت ملامت کی کہ ایسے فضول کام کے لئے تو نے راستہ چھڑا کر مجھے بلایا میں اس قدر ضروری کام پر جا رہا تھا یہ تو نے کیا کیا.یہ سن کر دوسرے نے کہا کہ بھائی اس کی سستی کی کیا پوچھتے ہو یہ بہت ہی کابل اور ست آدمی ہے.ساری رات کتنا میرا منہ چاہتا رہا یہ پاس ہی تھا مگر ہشت تک نہ کر سکا.یہ سن کر سپاہی نے سمجھا کہ ان کو نصیحت کرنا فضول ہے اور وہ چلا گیا.جہاں میں دیکھتا ہوں شدھی کا جال بچھایا جاتا ہے وہاں کے مسلمان شور مچا دیتے ہیں
خطبات محمود ۳۹۲ سال ۱۹۲۸ء مسلمانوں میں غیرت نہیں رہی کوئی ہماری خبر نہیں لیتا.میں کہتا ہوں خدا کے بندو تم خود کیوں اپنی چھاتی پر سے بیر نہیں اٹھا لیتے کہاں سے مسلمان آئیں جو تمہاری خبر لیں؟ کہاں کے مسلمانوں میں تم سے زیادہ اتحاد پایا جاتا ہے ؟ کہاں کے مسلمانوں میں تم سے زیادہ مال و دولت ہے؟ تم خود اپنی خبر کیوں نہیں لیتے؟ اور کیوں اپنی حفاظت نہیں کرتے ؟ مگر ہر جگہ سے یہی آواز آتی ہے کہ کوئی ہے جو ہماری خبر لے.بنگال میں اگر شدھی کا فتنہ اٹھتا ہے تو وہاں شور مچ جاتا ہے کہ کیا پنجابی مسلمان سو گئے اور علماء مرگئے کیوں ہماری خبر کو کوئی نہیں آتا.اسی طرح پنجابی مسلمان اپنی جگہ شور مچاتے ہیں.کوئی ان سے پوچھے تم کس مرض کی دوا ہو.اسی طرح یو.پی میں فتنہ پیدا ہو تو بہار والوں کو کو سا جاتا ہے اور بہار والے بنگالیوں کو برا بھلا کہتے ہیں یہ نہیں کہ خود اپنی حفاظت کا انتظام کریں.پھر میں کہتا ہوں خبر لینے والے بھی ہوتے ہیں مگر ان سے جو سلوک کیا جاتا ہے وہ بھی ظاہر ہے.ملکانوں میں جب شدھی شروع ہوئی تو پہلے ہمیں آوازیں دی گئیں اور کہا گیا کہ احمدی کہاں ہیں وہ سب سے زیادہ حفاظت و اشاعت اسلام کا دعوی کیا کرتے ہیں اب کیوں آکر انہیں نہیں بچاتے.مگر جب ہم وہاں پہنچے تو ایک ایک احمدی کے پیچھے دو دو مولوی لگ گئے اور کہنے لگے پہلے ہم احمدیوں کی خبر لیں گے اور پھر آریوں کی طرف متوجہ ہوں گے.احمد کی ہونے سے آریہ ہو جانا اچھا ہے.پس جنہیں کہا جاتا ہے کہ ہمیں بچاؤ اور وہ بھی کہتے ہیں کہ ہم بچانے کے لئے تیار ہیں مگر ان سے بھی کوئی اچھا سلوک نہیں کیا جاتا.ہم دوسروں کی طرح کسی سے یہ نہیں کہتے کہ آؤ ہمیں بچاؤ بلکہ یہ کہتے ہیں کہ آؤ ہم تمہیں بچاتے ہیں مگر کہا جاتا ہے کہ تم اندر کے دشمن ہو اور دوسرے باہر کے دشمن ہیں اور اندر کا دشمن ہمیشہ باہر کے دشمن سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے اس لئے دوسروں کی بجائے پہلے تمہاری مخالفت کریں گے.ہماری طرف سے جو تحریک ہوتی ہے اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس میں ان کی کوئی اپنی غرض ہو گی اس کی مخالفت کرنی چاہئے.میں نے رسول کریم ﷺ کی عزت کے قیام کے لئے اور آپ کے صحیح حالات دنیا کے سامنے پیش کرنے کی غرض سے تحریک کی تھی کہ ۱۷ جون کو ہر جگہ جلسے کئے جائیں مگر ہزاروں ہیں جو کہتے ہیں کہ اس میں بھی ان کی کوئی ذاتی غرض اور اپنا مقصد ہو گا.لیکن عجیب بات ہے کہ چالیس سال سے ہماری جماعت خدمات اسلام کر رہی ہے، اسلام کے لئے اپنے مال قربان کر رہی ہے ، اپنی جانیں قربان کر رہی ہے ، اپنے اوقات قربان کر رہی ہے ، اپنی عزت قربان کر رہی
خطبات محمود ۳۹۳ سال ۶۱۹۲۸ ہے، اپنی آبرو قربان کر رہی ہے لیکن وہ مقصد جس کے لئے یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے وہ ظاہر نہیں ہوتا.آخر وہ کیا چیز ہے جو ہمیں اپنے پاس سے مال خرچ کرنے پر آمادہ کر رہی ہے اپنے آدمی اپنا وقت اور اپنی طاقت خرچ کرنے پر مجبور کر رہی ہے حتی کہ وہ معاملات جو عام ہیں ہماری جماعت سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ دوسروں کا تعلق ان سے زیادہ ہوتا ہے ان کے لئے مسلمانوں کو کہا گیا کہ چندہ میں شریک ہو جائیں وہاں بھی احمدیوں نے دوسروں سے بہت زیادہ چندے دیے ہیں جو اپنی تعداد کے لحاظ سے تھوڑے ہیں حالانکہ ان باتوں کا زیادہ اثر دوسرے لوگوں پر پڑتا ہوتا ہے اور فائدہ بھی زیادہ انہی کو پہنچتا ہے نہ کہ احمدیوں کو.ملکا نے احمدی نہ تھے کہ ان کے مرتد ہونے سے ہم پر اعتراض پڑتا.اگر ہم چاہتے تو ان کے ارتداد پر خوشی منا سکتے تھے اور کہہ سکتے تھے کہ دیکھو غیر احمدیوں کے کیسے کمزور عقائد ہیں کہ ان میں ہزاروں آدمی مرند ہو رہے ہیں مگر ہم نے یہ نہ کہا بلکہ یہ کہا کہ دوسرے مسلمانوں کی ہتک بھی ہماری ہی ہتک ہے اور ہمیں انہیں بچانا چاہئے چنانچہ ہم اس کے لئے کھڑے ہو گئے اور ہم نے شدھی کا پورا پورا مقابلہ کیا.وہاں ہمارا ایک لاکھ روپیہ خرچ ہوا اور سو مبلغ ہمارے وہاں ایک وقت میں کام کرتے رہے.اس رقم میں شاید پانچ چھ سو روپیہ دوسرے مسلمانوں کا ہو گا اس سے زیادہ نہیں باقی ۹۹۴۰۰ روپیہ ہماری جیبوں سے خرچ ہوا اور ابھی تک ہو رہا ہے.اب بھی ہمارے آدمی وہاں کام کر رہے ہیں.کیا یہ ہم نے اپنی کسی ذاتی غرض کے لئے کیا؟ ہماری اس سے ایک غرض اور ایک ہی مقصد تھا اور وہ یہ کہ ملکانوں کے مسلمانوں میں سے نکل جانے سے اسلام کو نقصان پہنچتا تھا اور اسلام کی مدد کرنا ہمارا فرض ہے.مگر ہمارے مخالفوں کی یہ حالت ہے کہ خواہ کسی وجہ سے کوئی ایک شخص بھی ہماری جماعت سے مرتد ہو جائے تو اس پر اتنی خوشی منائی جاتی ہے کہ جس کی حد نہیں.تمام حنفی اور وہابی ناچنے لگ جاتے ہیں اور کہتے ہیں لو وہ جماعت ٹوٹ گئی لوگ احمدیت سے بیزار ہو گئے.میں پوچھتا ہوں کیا ہم یہی ملکانوں کے ارتداد کے وقت نیز بنگال اور دوسرے علاقوں میں طوفان شدھی کے وقت نہیں کہہ سکتے تھے مگر کیا ہم نے یہی کہا ؟ ہم نے یہ نہیں کہا کہ دیکھو حنفی مرتد ہو رہے ہیں یا وہابی ارتداد اختیار کر رہے ہیں بلکہ ہم نے کہا کہ یہ ہمارے ہی آدمی ہیں جن کو آریہ ورغلا رہے ہیں.ہم ان کے پاس جائیں گے اور ان کی حفاظت کریں گے.ہم نے دوسروں سے بھی زیادہ ان کے آدمیوں کے مرتد ہونے پر دکھ محسوس کیا اور ایسے ہی بیقرار ہو گئے جیسے کوئی شخص اپنی اولاد کے ضائع ہونے پر بے چین ہوتا ہے.یہ تھا
خطبات محمود ۳۹۴ سال ۱۹۲۸ء ہمارا سلوک جو ہم نے ان سے کیا اور وہ ہے ان کا سلوک جو آج وہ ہم سے کر رہے ہیں لیکن ہمیں پھر بھی کوئی گلہ نہیں کوئی شکوہ نہیں.ہم یہی سمجھتے ہیں کہ ہمیں اسلام کی خاطر نمونہ دکھلانا چاہئے شاید مسلمان آج نہیں تو کل کل نہیں تو پرسوں یہ بات سمجھ جائیں کہ آپس میں ایسا تفرقہ نہیں کرنا چاہئے جس سے اسلام کو نقصان پہنچے اور جس سے دشمنان اسلام کو مدد حاصل ہو.جیسا کہ میں نے بتایا کسی کا مرتد ہو جانا جیسا کہ ہو جاتے ہیں اور رسول کریم کے وقت بھی ہو گئے تھے آپ کا کاتب وحی مرتد ہو گیا اس نے کہا تھا میرا فقرہ قرآن میں داخل کر لیا گیا ہے.ہم میں سے کسی کو اگر ابتلاء آجاتا ہے تو اس پر بڑی خوشی منائی جاتی ہے.میں کہتا ہوں یہ خوشی کا کون سا موقع ہے احمدیت سے نکل کر کسی دوسرے مذہب میں چلے جانے سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچتا ہے یا نقصان.اگر نقصان تو پھر خوشی کس بات کی اگر اس لئے خوشی منائی جاتی ہے کہ ہم میں سے کوئی آدمی کم ہو گیا تو کیا جب دوسرے مسلمانوں سے ہزاروں آدمی مرند ہو کر نکل جائیں اس وقت ہمیں خوش ہونے کا حق ہے یا نہیں.اسی طرح اگر کوئی شخص ہم سے ناراض ہو کر میری ذات پر اعتراض کرتا ہے تو یہ کوئی عجیب بات نہیں.اس وجہ سے احمدیت پر کیوں حملہ کیا جاتا ہے.کیا مسلمانوں میں سے ایسے لوگ نہیں نکلے.جنہوں نے رسول کریم پر گندے سے گندے اعتراض کئے مسلمان مرتدین کے مضامین اور کتابیں پڑھو اور دیکھو کیا محمد اللہ پر ناپاک سے ناپاک الزام انہوں نے نہیں لگائے.پھر کیا ہم بھی یہ کہیں کہ حنفیت یا وہابیت ایسی ہے ویسی ہے.اگر ہم سب انہی باتوں میں پڑ جائیں تو بتاؤ اسلام کی حفاظت کا ذریعہ کیا ہو گا.دنیا میں اختلاف ہوتے ہیں مگر ان کو محدود دائرہ میں رکھنا چاہئے ورنہ اگر ایک نہیں اڑاتا ہے تو دوسرے کا بھی حق ہے کہ انہیں اڑائے.اور جب سارے ایک دوسرے کی ہنسی اڑانے لگ جائیں گے تو اسلام کی حفاظت کرنے والا کوئی نہ رہے گا سب ہنسی میں لگ جائیں گے.میں پھر مسلمانوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ مشترکہ امور میں اتحاد کریں.میں یہ نہیں کہتا کہ وہ ہمارے خلاف نہ لکھیں.میں یہ بھی نہیں کہتا کہ میری ذات کے خلاف نہ لکھیں.ہمارے خلاف جو چاہیں لکھیں.میری ذات پر جس قدر چاہیں اعتراض کریں.میں صرف یہ کہتا ہوں کہ جو تحریکیں اسلام کے لئے کی جائیں ان کے خلاف نہ لکھیں بلکہ ان میں متحد ہو جائیں.میرے خلاف خواہ کچھ لکھیں میں کبھی گلہ نہیں کروں گا.میں ان کو اجازت دیتا ہوں کہ مجھے جتنی گالیاں چاہیں دے
خطبات محمود ۳۹۵ سال ۱۹۲۸ لیں کیونکہ میں اس بات کا قائل ہوں کہ گالی وہ ہوتی ہے جو آسمان سے آتی ہے زمین سے جو بات کوئی کہتا ہو وہ دعا ہو کر لگتی ہے.حدیث میں آتا ہے کہ کوئی شخص حضرت ابو بکر کو برا بھلا کہہ رہا تھا اور آپ خاموش تھے.آخر جب وہ بھی جواب میں بولنے لگے تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا تم خاموش تھے تو تمہاری جگہ فرشتے جواب دے رہے تھے اور اب جو تم بولے تو فرشتے خاموش ہو گئے کہ اب اس نے اپنا کام خود شروع کر دیا ہے ہمیں ضرورت نہیں.لے تو میں اپنی ذات پر اعتراضات کرنے سے کسی کو نہیں روکتا کہ کوئی سمجھے اپنے لئے کہہ رہا ہے.میری تو وہی حالت ہے جو اس عورت کی تھی جس کا زیور چور لے گیا تھا اور اس نے اسے کہا تھا تمہارے پاس تو اب بھی رہی لنگوئی کی لنگوئی ہے اور میرے پاس پھر یہ سونے کے کڑے ہیں.خدا کے فضل سے مجھے ان باتوں سے کوئی نقصان نہیں پہنچا.ان چند ماہ میں الزامات کی وجہ سے ایک بھی آدمی جماعت سے علیحدہ نہیں ہوا.اس کے مقابلہ میں کئی ہزار آدمی میری بیعت میں داخل ہوئے ہیں اور کئی ایک غیر احمدی معززین نے پیغامات بھیجے ہیں اور لکھا ہے کہ گو ہمارا مذہبی لحاظ سے آپ سے کوئی تعلق نہیں ہے مگر ہم اس شرمناک رویہ کو نہایت نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اسے شرافت کے خلاف قرار دیتے ہیں.تو اس سے میں کسی کو نہیں روکتا بے شک میری ذات پر وہ دل کھول کر حملے کریں گو شریعت کی رو سے جائز ہے کہ میں روکوں مگر اس لئے کہ اسے میری نفسانیت نہ سمجھا جائے میں نہیں روکتا.وہ میری ذات کے خلاف لکھیں اور جس قدر چاہیں لکھیں.میں صرف یہ کہتا ہوں کہ اسلام کی ترقی کے لئے جو تجاویز پیش کی جائیں ان کے خلاف نہ لکھیں اور متحد ہو کر کام کریں.میں نے تو کسی کی ذات کے خلاف نہ پہلے لکھا اور نہ اب لکھوں گا مگر ان کو اجازت ہے کہ لکھتے جائیں.اگر ان باتوں سے مجھے کوئی نقصان پہنچ جائے تو سمجھ لیں کہ میں جھوٹا ہوں اور اگر نقصان کی بجائے فائدہ ہو تو پھر مجھے ان کی ایسی باتوں پر چڑنے کی کیا ضرورت ہے.وہ تو میری ترقیات کے لئے کھاو کا کام دے رہے ہیں.پس میں پھر یہ واضح کر دیتا ہوں کہ میں اپنے اوپر ذاتی حملوں سے روکتا نہیں.ذاتی حملے کرنے کے لئے ان کو کھلی اجازت ہے.میں صرف اس سے چاہتا ہوں کہ رک جائیں جہاں اسلامی فوائد کا سوال ہو اور ایسا رویہ اختیار نہ کریں جس سے دشمن کو یہ خیال ہو کہ مسلمان آپس میں اس قدر پھٹے ہوئے ہیں کہ وہ خدا اور رسول کی خاطر بھی کسی بات پر اکٹھے نہیں ہو سکتے انہیں جس طرح چاہو مار لو یہ خطرناک رویہ
خطبات محمود ۳۹۶ سال ۱۹۲۸ء ہو گا.ساتھ ہی میں ایک اور قوم کا بھی ذکر کر دینا چاہتا ہوں جو ہماری طرف منسوب بھی ہوتی ہے اور ہم سے علیحدہ بھی ہے اور وہ غیر مبالعین ہیں.کچھ عرصہ ہوا ان سے معاہدہ ہوا تھا کہ ایک دوسرے پر ذاتی حملے نہیں کریں گے مگر افسوس ہے کہ سوائے دو تین ماہ کے انہوں نے اس پر عمل نہ کیا.طریق یہ ہے کہ اگر کوئی معاہدہ مدت معینہ کے لئے ہو اور اسے قائم نہ رکھنا ہو تو اعلان کر دیا جائے کہ معاہدہ قائم نہیں ہے.مگر نہ انہوں نے اعلان کیا اور نہ معاہدہ کا احترام کیا اور خفیہ اور اعلانیہ اس کی خلاف ورزی کرتے رہے حالانکہ ہم نے ان کے ساتھ ہمیشہ ایسا معاملہ کیا ہے کہ اسے دیکھ کر انہیں اپنی روش پر ندامت ہونی چاہئے.ان مستریوں کے معاملہ میں ان کا کار کن جو تحریر کا کام کرتا ہے اور پراپیگنڈا کرتا رہتا ہے اس کے متعلق عراق سے خط آیا کہ مستریوں کے شائع کردہ اشتہارات وہاں اس کے ذریعہ پہنچائے گئے ان کو وہاں بھیجنے والا وہ شخص تھا.یہ وہ شخص ہے اس کا نام تو میں اب بھی نہیں لیتا اس کا لڑکا گھر سے روپیہ لے کر نکل گیا اور ہماری جماعت کے ایک آدمی کے پاس پہنچا اور ان سے کہا کہ میں ان لوگوں سے بیزار ہوں مجھے قادیان بھیج دو.مگر انہوں نے اسے سمجھایا اور کہا یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے ادھر مجھے لکھا تو میں نے بھی انہیں یہی کہا کہ اسے سمجھا ئیں.وہ ماں باپ کے پاس ہی رہے میں نے یہ بھی کہا کہ اس کے باپ کو اطلاع دی جائے.معلوم نہیں ہماری نصیحت کارگر ہوئی یا نہیں اور وہ ماں باپ کے پاس گیا یا نہیں مگر ہمارا یہ رویہ ہے.اس کے مقابلہ میں جو رویہ ان کی طرف سے اختیار کیا گیا وہ ظاہر ہے ہماری جماعت کے بہت سے دوستوں نے چاہا کہ ان کو جواب میں لکھنے کی اجازت دی جائے اور ان کا جواب کا کوئی مشکل نہیں ہے.میں سمجھتا ہوں کہ دو ہفتہ کے اندر اندر ان کی زبانیں بند کی جا سکتی ہیں لیکن وہ طریق اختیار کرنا جسے غیر شریفانہ کہا جائے ہم پسند نہیں کرتے.مگر وہ یہ نہیں سوچتے کہ شیشہ کے مکان میں بیٹھ کر دوسروں پر پتھر پھینکنے اچھے نہیں ہوتے کیونکہ پتھر کے مکان کو تو پتھر سے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا مگر شیشے کے مکان پر پتھر پڑ گیا تو وہ چور ہو جائے گا.ورنہ اگر اس طریق کو میں جائز سمجھتا تو کئی ایک دوستوں نے واقعات پیش کئے اور کہا اجازت دی جائے کہ ان سے ان کے متعلق پوچھیں مگر میں نے اجازت نہ دی.تو ان کے جواب ہو سکتے تھے اور ایسے ہو سکتے تھے کہ کچھ حصہ تو اپنی عزت کے بچانے کے لئے اور کچھ حصہ ان کے تعلقات کی وجہ سے خاموش کیا جا سکتا تھا مگر ہم خدا کی شریعت کے پابند ہیں اور اس کے احکام کے دو معنی نہیں لکھنا
خطبات محمود 492 سال ۱۹۲۸ء لیتے ایک اپنے لئے اور ایک دوسروں کے لئے.مگر انہوں نے ایسا رویہ اختیار کر رکھا ہے اور وہ کام کر رہے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں ان کے اپنے دل بھی ندامت محسوس کرتے ہوں گے اور وہ خود بھی ناجائز سمجھتے ہوں گے لیکن چونکہ وہ بھی بغض معاویہ کے مطابق مجھے سے بغض رکھتے ہیں اس لئے اختیار کئے ہوئے ہیں چونکہ انہوں نے معاہدہ کی پابندی نہیں کی اس لئے میں اعلان کرتا ہوں کہ اب ان کے ساتھ ہمارا کوئی معاہدہ نہیں اب معاہدہ ہمارے درمیان نہیں.لیکن ساتھ ہی میں اپنے اخبار نویسوں کو یہ کہہ دیتا ہوں کہ انہیں اب بھی ان کی ذاتیات کے خلاف لکھنے کی اجازت نہ ہوگی ہاں اصولی باتوں کے متعلق لکھ سکتے ہیں.اگر کوئی اخبار نویس ذاتیات کے خلاف لکھے گا تو میں اسے اسی طرح پکڑوں گا جس طرح معاہدہ کے وقت پکڑتا.ہماری تحریرات اخلاق فاضلہ پر مشتمل ہونی چاہئیں ہمیں اعلیٰ اخلاق کا نمونہ بنا چاہئے اور لوگوں کو بتانا چاہئے کہ کسی کو برا کہنے سے کوئی برا نہیں بن جاتا.اگر کسی کے برا کہنے سے کوئی برا بن جاتا تو سب سے برے (نعوذ باللہ) خدا کے نبی اور رسول ہوتے کیونکہ سب سے زیادہ گالیاں انہیں دی جاتی ہیں.دیکھو رسول کریم ﷺ پر کس قدر خطر ناک الزامات لگائے گئے.میں سمجھتا ہوں جس قدر مجھے گالیاں دی جاتی ہیں وہ ان کا کروڑواں حصہ بھی نہیں.مگر کیا رسول کریم ﷺ کی شان میں کوئی فرق آگیا.ہر گز نہیں بلکہ وہ تو بڑھتی چلی جاتی ہے.پس جب یہ خدا تعالی کی سنت ہے کہ حق کی مخالفت کی جاتی ہے اور حق پر ہونے والوں کو گالیاں دی جاتی ہیں تو میرے لئے گھبرانے کی کیا وجہ ہے.اگر مجھے گالیاں دے کر ان کا دل خوش ہو سکتا ہے اور وہ متحدہ کاموں میں اتحاد کر سکتے ہیں تو میں سمجھوں گا کہ میری زندگی کا مقصد پورا ہو گیا.وہ سب مل کر مجھ کو گالیاں دے لیں مگر مشترکہ اسلامی مفاد میں اکٹھے ہو جائیں تو میں سمجھ لوں گا کہ میری تمام تحریروں اور تقریروں کا جو مقصد تھا وہ پورا ہو گیا.اس وقت جس چیز کی ضرورت ہے وہ اتحاد ہے.مگر میں نے نہایت افسوس سے دیکھا ہے کہ بعض اخبار جو ثقہ کہلاتے ہیں وہ بھی لکھ دیتے ہیں کہ احمدیوں کا کیا حق ہے کہ فلاں کام میں حصہ لیں یہ طریق کامیابی کا نہیں.اگر ہر فرقہ دوسرے کے متعلق کہے کہ اسے فلاں کام میں دخل دینے کا کیا حق ہے اسے علیحدہ کر دو تو اس طرح سارے نکل جائیں گے پھر باقی کون رہے گا.مشہور ہے کسی شخص کو بہادر بننے کا شوق تھا وہ ایک گودنے والے کے پاس گیا اور کہا میرے بازو پر شیر کی تصویر بنا دو.جب اس نے سوئی
خطبات محمود ۳۹۸ سال ۶۱۹۲۸ چھوٹی اور درد ہوا تو اس نے کہا یہ کیا کرتے ہو.اس نے کہادم بنا تا ہوں.کہنے لگا کہ دم کے بغیر بھی شیر بن سکتا ہے یا نہیں.اس نے کہا ہاں شیر تو بن سکتا ہے کہنے لگا اچھا پھر دم کو چھوڑ دو.اسی طرح اس نے کان منہ وغیرہ کے متعلق پوچھا کہ ان کے بغیر بھی شیر ہو سکتا ہے آخر اس نے کہا اہے اگر ایک چیز نہ گودی جائے تب تو شیر ہو سکتا ہے لیکن اگر کچھ بھی نہ بنے تو شیر کیسے ہوگا.پس یہ بات تو ہر فرقہ دوسرے کے متعلق کہہ سکتا ہے سارے مسلمان ایک فرقہ کے تو ہیں نہیں.ان میں حنفی وہابی شیعہ ہیں.پھر ان کے آگے کئی فرقے ہیں.اگر ایک فریق کے متعلق کہا جائے کہ اپنے مسلمانوں کی نمائندگی کا کیا حق حاصل ہے تو اسی طرح سب کے متعلق کہا جا سکتا ہے پھر نمائندگی کرنا کس کا حق رہ جائے گا.مسلمانوں میں بہت سے فرقے ہیں.مذہبی لحاظ سے تو تھے ہی اب تو سیاسی بھی بن گئے ہیں تعارفی اور عدم تعاونی وغیرہ اگر ہر ایک دوسرے کو یہی کہے گا کہ اس کا کیا حق ہے کہ مسلمانوں کی نمائندگی کرے تو پھر کون نمائندگی کرے گا اس کا نتیجہ بہت خطرناک ہو گا اگر اسے روکا نہ گیا کہ قلیل التعداد لوگوں کو کہا جائے تم کون ہوتے ہو.اگر اس طرح انہیں کہا جائے گا تو وہ الگ ہو جائیں گے.غور کرو کون ہوتے کون ہوتے سے ہی مل کر مسلمان سے کروڈ بنتے ہیں.اگر وہ لوگ نکل جائیں گے جنہیں کون کہا جائے گا تو باقی تعداد اتنی نہ رہے گی.اگر کوئی سمجھے کہ دس لاکھ احمدی نکل جائیں تو ہمارا کیا حرج ہے تو وہ غلطی پر ہو گا.پھر یہی کہا جائے گا کہ ایک کروڑ شیعہ نکل جائیں گے تو کوئی بات نہیں اس صورت میں مسلمان جو تیس فیصدی حقوق لے رہے ہیں یہ بھی نہ لے سکیں گے.تو مشترکہ مفاد میں کون کون کی تفریق اٹھا دینی چاہئے.تھوڑے دن ہوئے میں نے سر ذو الفقار علی خاں صاحب سے مالیر کوٹلہ میں گفتگو کی.میں نے کہا آپ مسلمانوں کی سیاسی اور تمدنی ترقی کے لئے متحدہ پروگرام کیوں تجویز نہیں کرتے.اگر مسلمان ایسا کریں تو میں اپنی جماعت کے سیاسی و تمدنی معاملات ان کے سپرد کرنے کے لئے تیار ہوں.اگر چہ ہم قلیل التعداد ہیں اور قلیل التعداد ہمیشہ اپنے حقوق کی حفاظت پر زیادہ زور دیا کرتے ہیں کیونکہ ان کو خطرہ ہوتا ہے کہ ان سے ناروا سلوک نہ کیا جائے.مگر میں باوجود اقلیت کے اس پر رضامند ہوں کہ اپنی جماعت کے تمدنی اور سیاسی معاملات مسلمانوں کے سپرد کر دوں مسلمانوں کی جو بڑی جماعتیں ہیں ان کو تو اشتراک کے لئے زیادہ کوشش کرنی چاہئے.میں خدا تعالٰی سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مسلمانوں کے دل کھول دے اور وہ سمجھ لیں کہ
خطبات محمود ۳۹۹ سال ۱۹۲۸ء معمولی اور چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے اسلام کو نقصان نہیں پہنچانا چاہئے.خدا تعالی ان کو اپنے نفسوں پر قابو پانے کی توفیق دے کیونکہ جب تک اپنے نفس پر قابو نہیں پائیں گے دنیا پر بھی قابو نہ پاسکیں گے.مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ۴۳۶.الفضل ۵ / جون ۱۹۲۸ء)
سال ۱۹۲۸ء ۴۰۰ ۵۳ مسلمانوں کی ترقی کا راز قرآن کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں ہے (فرموده ۶ / جولائی ۱۹۲۸ء بمقام ڈلہوزی) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے حسب ذیل آیت پڑھی.يا يُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمْ بُرْهَانَ مِنْ رَتِكُمْ وَاَنْزَلْنَا إِلَيْكُمُ نُورً ا مُّبِينًا ، (نساء) (۱۷۵ اللہ تعالیٰ نے اس مختصری آیت میں جو میں نے سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد پڑھی ہے ایک ایسا قانون اور ایسا گر مسلمانوں کو بتایا ہے جس کے ذریعہ سے وہ دنیا کی ساری قوموں سے افضل ہو سکتے ہیں اور ان پر غالب آسکتے ہیں.یہ آیت قرآن شریف کے متعلق ہے کہ اے لوگو تمہارے پاس برہان آگیا ہے.برہان کے معنی دلیل اور حجت کے ہوتے ہیں.دلیل اور حجت ایک ایسی چیز ہے جس کے ساتھ کسی چیز کی صداقت کا پتہ لگتا ہے.کوئی بات بھی دنیا میں ایسی نہیں جو بغیر دلیل یا حجت کے مانی جائے.انسان کی فطرت میں یہ بات رکھی گئی ہے کہ وہ ہر بات کے لئے دلیل تلاش کرتا ہے خواہ وہ دلیل عقلی ہو یا مشاہدہ کی.یعنی یا تو یہ چاہتا ہے کہ اس کو عقل سے ثابت کر دیا جائے اور یا پھر اس کو دکھا دیا جائے.پھر وہ کسی اور چیز کی ضرورت نہیں سمجھتا مثلاً کسی کے لئے دن ثابت کرنے کے دو ہی طریقے ہیں (۱) کہ اس کو دکھا دیا جائے کہ سورج پڑھا ہوا ہے (۲) اگر ہم اس کو سورج چڑھا ہوا نہیں دکھا سکتے تو دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس کو روشنی دکھا ئیں.تو دلیلیں دو ہی طرح کی ہوتی ہیں یا تو وہ چیز دکھا دی جائے یا پھر علامتیں بتا دی جائیں."
خطبات محمود ۴۰۱ سال ۶۱۹۲۸ پس اسی طرح خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے لوگو تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس واضح دلیل آگئی ہے.برہان تبرین سے نکلا ہے جو چیز روشن ہو اور شبہ سے خالی ہو پس قرآن کریم کے متعلق فرمایا کہ وہ ایسی دلیل ہے ایسا کھلا ہوا نشان ہے کہ دشمن کے آگے جب اس کو پیش کیا جائے تو وہ انکار نہیں کر سکتا.پس خدا تعالٰی نے قرآن شریف کو ایسی واضح ذلیل قرار دیا.کہ اس کے مقابلہ میں کوئی بھی نہیں ٹھر سکتا اور ایسی روشن چیز ہے کہ اس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا.اگر قرآن واقعی ایسا ہے تو غور کرو کہ مسلمانوں کے ہاتھ میں کس قدر عظیم الشان ہتھیار آگیا کہ جس کا مقابلہ دوسری قومیں نہیں کر سکتیں جب دوسری قومیں اس کا مقابلہ نہ کر سکیں تو پھر مسلمانوں کے غلبہ اور افضل ہونے میں کیا شبہ رہ گیا.مگر افسوس کہ مسلمان جن کی کتاب نے دعوی کیا تھا کہ میں واضح دلیل اور روشن برہان ہو کر آئی ہوں وہ مسلمان کہتے ہیں کہ کسی بات کیلئے دلیل اور حجت مانگنا کفر ہے.جب قرآن ایک بات کہتا ہے تو پھر دلیل اور حجت کیسی؟ میرے ایک عزیز وائسرائے کے لائبریرین ہیں.وہ ایک دفعہ قادیان آئے تو میں نے ان سے مذہبی باتیں شروع کیں.میری باتوں کے جواب میں جو کچھ انہوں نے کہا اس سے میں سمجھا کہ وہ اپنے دلائل سے ناواقف تھے کیونکہ میں نے ان کو دیکھا کہ میری تمام باتوں کی تصدیق کرتے جاتے تھے اور ہاں کرتے جاتے تھے.گو وہ باتیں معقولیت کے لحاظ سے بھی قابل تعلیم تھیں مگر دراصل وہ جس خیال کے تھے ان کے ہم خیال مسلمان ان کو تعلیم نہ کرتے تھے.میں نے ان سے کہا آپ ان باتوں کو صحیح سمجھتے ہیں انہوں نے کہا کہ باتیں سب صحیح ہیں.میں نے ان کو کہا کہ باقی مسلمان ان باتوں کو صحیح نہیں سمجھتے اس پر انہوں نے کہا کہ میں نے معقول ہونے کی وجہ سے ان کی تصدیق کی تھی.باقی اصل بات یہ ہے کہ جب میں مدرسہ میں پڑھتا تھا تو میرا ایک استاد آریہ تھا جو اسلام پر اعتراض کیا کرتا تھا.ہمارے محلہ کی مسجد کے امام صاحب تھے میں نے ایک دن ان کے سامنے آریہ کے اعتراضات پیش کئے اور کہا کہ آپ بتائے کہ میں ان اعتراضات کے کیا جواب دوں؟ ان کے سامنے میرا دہ باتیں پیش کرنا تھا کہ انہوں نے مجھے بے اختیار گالیاں دینی شروع کر دیں اور کہا تم بے دین کا فر ہو گئے ہو.تم آریہ خیالات کے ہو گئے ہو.میں تمہارے والد کو کہہ کر مدرسہ میں پڑھنے سے رکوا دوں گا.اس وقت گو میں ابھی بچہ تھا مگر اتنی سمجھ تھی کہ اگر پڑھائی بند ہو گئی تو عمر برباد ہو جائے گی اس لئے میں نے عہد کیا کہ کبھی کوئی مذہب کے متعلق بات کسی مولوی صاحب سے نہیں
۴۰۲ سال ۱۹۲۸ء پوچھوں گا.اس وجہ سے مجھے مذہب کے متعلق کوئی واقفیت نہیں ہے.یہی حالت اور مسلمانوں کی بھی ہے وہ صرف اتنا جانتے ہیں کہ رسول کریم ال اسلام کے بانی تھے اور قرآن الهامی کتاب ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتے اور نہ انہیں رسول کریم ﷺ کی صداقت اور قرآن کریم کے الہامی ہونے کے دلائل معلوم ہیں.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان اور خصوصاً تعلیم یافتہ مسلمان مذہب سے بے زار ہو رہے ہیں.وہ کہتے ہیں جس مذہب کی باتیں زور سے منوائی جاتی ہیں نہ کہ دلائل سے وہ جھوٹا ہی ہو گا.اگر اس کی باتیں کچی ہوں تو ان کی صداقت کی دلیل کیوں نہ دی جائے.ہم دیکھتے ہیں کہ ایک تاجر جس کے پاس اچھا مال ہوتا ہے وہ اپنے مال کو نکال کر سامنے رکھ دیتا ہے اور کہتا ہے اسے دیکھ کر پسند کر لو لیکن جس تاجر کے پاس خراب چیز ہو اس کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ خریدار بغیر دیکھے بھالے خرید لے.وہ اس قسم کی باتوں سے خریدار کو مطمئن کرنا چاہتا ہے کہ میں جو کہتا ہوں یہ بہت عمدہ چیز ہے اس میں کوئی نقص نہیں ہے.اس وقت اسلام کو اسی صورت میں پیش کرنے کے یہ معنی ہیں کہ اسلام کو اپنی نظر میں بھی اور دوسروں کی نظر میں بھی حقیر بنایا جائے حالانکہ صرف قرآن ہی ایسی کتاب ہے جو کہتی ہے کہ ہر بات دلیل کے ساتھ بیان کی گئی ہے.قرآن کے سوا نہ یہ دعوئی انجیل کرتی ہے.نہ وید نہ کوئی اور ایسی کتاب جسے الہامی اور مذہبی کہا جاتا ہے.صرف قرآن ہی ہے جو کہتا ہے ايُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَ كُمُ بُرْهَانَ مِنْ رَتِكُمْ وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكُمُ نُورًا مُّبِينًا (النساء : ۱۷۵ کہ قرآن ایسی کتاب ہے جو دلائل رکھتی ہے.یہ کہنا کہ جب قرآن خدا کا کلام ہے تو پھر جو کچھ وہ کہے اسے مان لینا چاہئے اس کیلئے دلائل کی کیا ضرورت ہے یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ دنیا میں ایسے لوگ بھی تو ہیں کہ جو قرآن کو خد کا کلام نہیں مانتے ان کو منوانے کیلئے دلائل کی ضرورت ہے اور دلائل بھی عقلی.اس آیت میں عقلی دلائل کا ہی ذکر ہے.اور اسی آیت سے یہ ثابت ہے کہ دلیل کے معنی عقلی دلیل کے ہیں نہ یہ کہ چونکہ خدا تعالی کہتا ہے اس لئے مان لینا چاہئے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے بايُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَ كُمُ بُرهَانُ.اے لوگو! تمہارے لئے دلیل آگئی ہے.یہاں یہ نہیں فرمایا کہ اے مومنو! بلکہ اے لوگو فرمایا ہے.یعنی صرف ان لوگوں کو مخاطب نہیں کیا جو ایمان لے آئے اور جو قرآن کو خدا کا کلام سمجھتے ہیں بلکہ عیسائیوں ، یہودیوں، ہندوؤں ، سکھوں، بدھوں غرض کہ دنیا کے تمام انسانوں کو مخاطب کیا ہے.کوئی کہہ سکتا ہے؟ قرآن کی وحی ایک مسلمان کیلئے حجت ہو سکتی ہے مگر ہندو کیلئے یا عیسائی کیلئے یا یہودی کیلئے یہ کافی -
خطبات محمود سال ۱۹۲۸ء نہیں کہ کہہ دیا جائے قرآن خدا کا کلام ہے اس لئے جو کچھ اس میں لکھا ہے اسے مان لینا چاہئے بلکہ اس کیلئے عقلی دلائل کی ضرورت ہے.خدا تعالیٰ نے اس آیت میں آیا يُّهَا النَّاسُ کہہ کر بتایا ہے کہ اس کے مخاطب عیسائی، یہودی، ہندو سب لوگ ہیں جو قرآن کی وحی کو تسلیم نہیں کرتے ان لوگوں کو مخاطب کر کے جب دلیل کا ذکر کیا گیا ہے تو صاف ظاہر ہے کہ اس کا مطلب عقلی دلیل ہے.پس فرمایا اے لوگو خدا کی طرف سے تمہارے پاس دلیل آئی ہے یعنی قرآن جو باتیں پیش کرتا ہے ان کی صداقت میں عقلی دلائل بھی دیتا ہے.یہ کسی اور کتاب کا نہ دعوی ہے اور نہ وہ اپنے اندر عقلی دلائل رکھتی ہے.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے مسلمان ہی دلائل سے غافل ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ چونکہ قرآن میں یہ بات لکھی ہے اس لئے اس کی دلیل کی ضرورت نہیں ہم ایسا ہی مانتے ہیں.اس کے معنی سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ ان کے ماں باپ چونکہ اسلام میں داخل تھے اس لئے وہ بھی مسلمان کہلاتے ہیں ورنہ خود انہیں پتہ نہیں کہ اسلام کیا ہے.لیکن اگر ایک مسلمان قرآن پر اس لئے ایمان رکھتا ہے کہ اس کے ماں باپ کا اس پر ایمان تھا اور اس طرح وہ اپنے آپ کو اس بات کا مستحق سمجھتا ہے کہ خدا کا قرب حاصل کرے تو ایک ہندو بھی تو اسی طرح ہندو مذہب کا قائل ہوتا ہے.اس کے ماں باپ چونکہ ہندو تھے اس لئے وہ بھی ہندو کہلاتا ہے پھر وہ کیوں نجات کا مستحق نہیں.اسی طرح عیسائی بھی جن عقائد کا پابند ہے وہ اسے ماں باپ سے ورثہ میں حاصل ہوئے وہ بھی نجات کا مستحق ہونا چاہئے.کیا وجہ ہے کہ مسلمان چونکہ قرآن کو اس لئے مانتے ہیں کہ ان کے ماں باپ قرآن کو مانتے تھے وہ تو جنت میں چلے جائیں لیکن ہندو جو انہی کی طرح اپنے ماں باپ کے عقائد کے پابند ہوں وہ نہ جائیں.اگر مسلمان صرف اس لئے نجات پاسکتے ہیں کہ وہ قرآن کو اس وجہ سے مانتے ہیں کہ ان کے ماں باپ مانتے تھے تو ہندو بھی اس بات کے مستحق ہوں گے کہ نجات پائیں کیونکہ ان کے ماں باپ کا جو مذہب تھا وہی ان کا ہے.جس طرح ایسے مسلمان کا مذہب ورثہ کا مذہب ہے اسی طرح ہندو کا بھی ہے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو فطرت پر پیدا ہوتا ہے آگے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی بنا دیتے ہیں.آج کل کے مسلمانوں کو مد نظر رکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ انہیں بھی ماں باپ مسلمان بناتے ہیں ورنہ حقیقت میں انہیں کوئی پتہ نہیں ہو تا کہ اسلام کیا ہے.اصلی مسلمان بننے کیلئے ضروری ہے کہ جو کچھ وہ مانتا ہو دلیل کے ساتھ مانے.یعنی اس کی صداقت کے دلائل سے آگاہ ہو.چنانچہ خدا تعالٰی فرماتا ہے.اَفَمَنْ
خطبات محمود سال ۶۱۹۲۸ - كَانَ عَلَى بَيْنَةٍ مِنْ رَبِّهِ كَمَنْ ذُيّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِم ( محمد ۱۵) یعنی کیا وہ جسے خدا کی طرف سے دلیلیں ملیں وہ اور جو ماں باپ کی مانی ہوئی باتوں کو بغیر دلیل مان رہا ہو برابر ہو سکتے ہیں ہرگز نہیں.یہ مومن کی شان بیان فرمائی کہ وہ جو کچھ مانتا ہے اس کے دلائل جانتا ہے.پس کوئی شخص خواه اسلام کے متعلق کتنا جوش ظاہر کرے اپنے آپ کو کتنا اسلام کا شیدائی بنائے اگر وہ اسلام کی صداقت کے دلائل نہیں جانتا تو اس کے ایمان کی کچھ حقیقت نہیں ہے.اس سے پوچھا جائے گا کہ تم کس وجہ سے ایمان لائے تھے تمہارے پاس اسلام کے بچے ہونے کا کیا ثبوت تھا.اگر کچھ نہ ہو گا تو خدا تعالیٰ کی خدائی پر ایمان لانا اور رسول کریم ﷺ کی رسالت کا قائل ہونا کافی نہ ہو گا.تو قرآن کریم جو کچھ بیان کرتا ہے اس کے دلائل بھی رکھتا ہے اور ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اس کا مطالعہ کرنے.میں نے کئی آدمیوں کو دیکھا ہے جب ان سے پوچھا گیا کہ رسول کریم کی صداقت کے تمہارے پاس کیا دلائل ہیں.تو وہ کہتے ہیں دلیل تو ہمارے پاس کوئی نہیں لیکن اگر رسول کریم ﷺ کے خلاف کوئی بات کے تو اس سے لڑنے جھگڑنے کے لئے تیار ہو جائیں گے.مجھے یاد ہے جب میں حج کے لئے گیا تو مظفر نگر کے رہنے والے ایک بوڑھے آدمی عبد الوہاب بھی حج کے لئے جا رہے تھے شاید وہ وہاں ہی فوت ہو گئے.میرے نانا صاحب مرحوم بھی ساتھ تھے.جب انہوں نے دیکھا کہ دوسرے لوگ اس شخص سے ہنسی اور تمسخر کرتے ہیں تو ان کو اپنے ساتھ رکھ لیا.کچھ دن پاس رہنے کے بعد میں نے دیکھا کہ انہیں مذہب کا کچھ پتہ نہیں.ان دنوں مدینہ میں وبا پھیلی ہوئی تھی وہ مدینہ جانا چاہتے تھے.میں نے انہیں کہا کہ ایسے موقع پر آپ نہ جائیں کہنے لگے میں ضرور جاؤں گا خواہ کچھ ہو.میں نے کہا آپ کے جانے کی کیا غرض ہے اگر ثواب کی نیت سے جاتے ہو تو شریعت کا حکم ہے کہ جہاں وبا پھیلی ہو وہاں نہ جاؤ اس پر آپ کو عمل کرنا چاہئے.کہنے لگے بات یہ ہے میرے بیٹوں نے مجھے کہا تھا وہاں ضرور جانا اس لئے جانا چاہتا ہوں.میں نے کہا آپ کو پتہ ہے وہاں کیا ہے کہنے لگے مجھے یہ تو پتہ نہیں اس پر مجھے خیال آیا جب یہ اس سے خود نا واقف ہیں تو ان کی مذہبی حالت کا پتہ لگاؤں.میں نے پوچھا آپ کا مذہب کیا ہے اس سے میری مراد یہ تھی کہ آپ کسی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں.کہنے لگے مجھے پتہ نہیں گھر جا کر ملاں سے پوچھ کر آپ کو بتا دوں گا.میں نے کہا آپ حج کے لئے جارہے ہیں مگر اتنا بھی نہیں جانتے کہ آپ کا مذہب کیا ہے.کہنے لگے اچھا پھر مجھے سوچ لینے
خطبات محمود ۴۰۵ سال ۲۱۹۲۸ دیجئے.آخر سوچ سوچ کر کہنے لگے میرا مذ ہب ہے علیہ.میں نے کہا میاں عبد الوہاب صاحب علیہ کیا چیز ہوتی ہے.سوچ سوچ کر کہنے لگے میرا مذ ہب ہے اعظم علیہ اس سے ان کی مراد امام اعظم علیہ الرحمہ تھی.یہ ان کی مذہبی واقفیت تھی جو حج کے لئے گئے تھے.بات یہ ہے کہ جب کوئی قوم دلائل کو چھوڑ دیتی ہے اور مذہب کو ورثہ کا مذہب بنا لیتی ہے تو پھر وہ تنزل اور تباہی کی طرف چلی جاتی ہے کیونکہ جب لوگ دلیل پر غور نہیں کرتے تو ان کے ذہن کند ہو جاتے ہیں پھر ان کی اولاد کے ذہن ان سے زیادہ کند ہوتے ہیں آگے ان کی اولاد کے ان سے زیادہ کند حتی کہ حیوانوں اور ان میں کوئی فرق نہیں رہتا لیکن جو لوگ دلائل پر غور کرتے ہیں ان کے ذہن ترقی کرتے جاتے ہیں.صحابہ کرام کو ہم دیکھتے ہیں بالکل ان پڑھ تھے لیکن جب کسی سے گفتگو کرتے تو ایسے دلائل دیتے کہ کوئی ان کا مقابلہ نہ کر سکتا.وہ جو اُمی اور ان پڑھ تھے وہ چونکہ دلائل سے واقف تھے اس لئے اسلام کی حقیقی تعلیم کے پابند تھے مگر آج جب کہ تعلیم موجود ہے اور لوگ بہت زیادہ تعلیم یافتہ ہیں اسلام سے کچھ واقفیت نہیں.آج کل لوگ اپنی قوم کی جہالت کا ذکر منبروں پر کھڑے ہو کر کریں گے اور اس بات کا رونا روئیں گے کہ مسلمان تعلیم کی طرف توجہ نہیں کرتے مگر علم دین میں وہ بھی ایسے ہی جاہل ہوں گے جیسے دو سرے نہ کبھی انہوں نے قرآن کو ہاتھ لگایا نہ دوسروں نے.اور جب قرآن کو کبھی انہوں نے دیکھا ہی نہیں تو دینی علم سے وہ کس طرح واقف ہو سکتے ہیں.بے شک قرآن میں بڑے زبر دست دلائل ہیں لیکن جب تک کوئی اسے دیکھے نہ اس پر غور کرے اسے کیا فائدہ ہو سکتا ہے.اگر کسی کے پاس بہتر سے بہتر دوائی ہو مگر وہ اسے استعمال نہ کرے تو کیا فائدہ حاصل کر سکتا ہے.ملیریا کے لئے کو نین بہت حد تک مفید ہوتی ہے لیکن اگر کوئی کو تین کھائے ہی نہ تو ا سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے.اس طرح کسی کے پاس پانی کی بوتل موجود ہو مگر وہ اسے استعمال نہ کرے تو ضرور جنگل میں پیاسا مر جائے گا.اسی طرح قرآن موجود ہے اس میں دلائل اور براہین موجود ہیں مگر جہ مسلمان اس پر غور ہی نہیں کرتے تو انہیں کیا فائدہ ہو سکتا ہے وہ تو دوسروں کی نسبت زیادہ مجرم ہیں.اگر ایک ایسا شخص نگا پھرتا ہے جسکے پاس کوئی کپڑا نہیں تو وہ بھی مجرم ہے اسے چاہئے ایسی حالت میں لوگوں کے سامنے نہ پھرے جب تک کپڑا حاصل کر کے نہ پہن لے لیکن اگر ایک شخص کندھے پر کپڑا ڈال کر نگا پھرے تو اس کا جرم بہت بڑا ہو گا.اسی طرح ایک ایسا شخص جس کے پاس کھانا موجود ہو اور پھر وہ نہ کھائے اس پر رحم نہیں کیا جائے گا.پس وہ لوگ جن کے
خطبات محمود سال ۱۹۲۸ء پاس ایسی کتاب نہیں جو دلیل اور برہان اور حجت رکھتی ہو وہ اگر تباہ و برباد ہوں تو ان پر بھی افسوس ہو گا مگر ان پر اتنا الزام عائد نہیں ہو گا جتنا ان پر جن کے پاس دلائل اور براہین رکھنے والی کتاب تھی مگر انہوں نے اسے کھول کر نہ دیکھا اور وہ روحانی لحاظ سے ننگے پیا سے اور بھوکے رہے.خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے اے لوگو تمہارے پاس خدا کی طرف سے کھلی دلیل آگئی ہے اس کتاب کو کھول کر دیکھ لو ہر ضروری چیز اس کے اندر ہو گی.کوئی روحانی اخلاقی اور تمدنی مسئلہ لے لو وہ قرآن میں موجود ہو گا اور اس کے دلائل دیئے گئے ہوں گے.پھر باریک در بار یک تفصیلات بیان کی گئی ہیں.اس زمانہ کی ترقیات کی پیش گوئیاں اس میں موجود ہیں اور اگر کوئی قرآن کریم پر غور کرے تو اس کا ایمان بہت ترقی کر سکتا ہے.مگر افسوس یہ ہے کہ مسلمان اس پر غور نہیں کرتے.ایک مصری عالم نے لکھا ہے اس زمانہ میں قرآن کا مصرف صرف یہ رہ گیا ہے کہ جھوٹی قسمیں کھائی جائیں، مردوں پر پڑھا جائے یا غلاف پہنا کر طاق میں رکھ دیا جائے.گویا قرآن کریم زندوں کے لئے نہیں مردوں کے لئے ہے یا قسمیں کھانے کے لئے ہے ایسی حالت میں اگر مسلمان قرآن سے ناواقف نہ رہیں تو اور کیا ہو.دوسری بات خدا تعالٰی اس آیت میں یہ فرماتا ہے کہ اَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُّبِينًا - قرآن میں دلیل ہی بیان نہیں کی گئی بلکہ اسے نور مبین بتایا ہے.یعنی ایسا نور بنایا ہے جو رستہ دکھاتا ہے.یہ نور کیا ہے وہی ہے جیسے سرچ لائٹ ہوتی ہے.سمندر میں چٹانوں پر روشنی کی جاتی ہے تاکہ آنے جانے والے جہازوں کو راستہ کا پتہ لگتا رہے.پس نور مبین کے یہ معنی ہیں کہ وہ نور جو صحیح رستہ بتاتا ہے.مطلب یہ کہ قرآن عقلی تسلی ہی نہیں دیتا دلائل کی ساتھ یہی نہیں بتانا کہ خدا ہے ، نبی آتے ہیں، فرشتے موجود ہیں، مرنے کے بعد زندگی ہے بلکہ ایسے رستے بھی بتاتا ہے جن پر چل کر خدا تعالٰی سے تعلق ہو جاتا اور انسان تباہی سے بچ جاتا ہے.قرآن روحانی لحاظ سے سرچ لائٹ ہے.وہ بتاتا ہے کہ ادھر چٹان ہے.اگر ٹکراؤ گے تو تباہ ہو جاؤ گے.ادھر سیدھا راستہ ہے اگر اس پر چلو گے تو منزل مقصود پر پہنچ جاؤ گے پس قرآن عمل کے لئے سیدھا طریق پیش کرتا ہے اور اسلام کو حقیقی طور پر ماننے والا دو سرے مذاہب کے مقابلہ میں ہی خوش نہیں ہو تا بلکہ اپنے ضمیر کے سامنے بھی خوش ہوتا ہے.ایک ایسا شخص جو کسی ہند و یا دیگر مذاہب کے آدمی کے پاس جائے اور قرآن نے جو دلائل دیئے ہیں ان سے کام لے کر کامیاب ہو جائے تو وہ خوش ہو گا.اور یہ خوشی دوسروں کے مقابلہ میں اسے حاصل ہوگی مگر وہ اپنے آپ میں اسی
خطبات محمود سال ۶۱۹۲۸ وقت خوش ہو سکتا ہے جب خدا تعالیٰ تک پہنچنے کا اسے رستہ معلوم ہو جائے.پس قرآن نہ صرف غیروں کے سامنے خوش ہونے کے سامان اپنے ماننے والوں کے لئے مہیا کرتا ہے بلکہ وہ رستہ بھی بتاتا ہے جس پر چل کر انسان خدا تعالٰی تک پہنچ سکتا ہے.لیکن جو قرآن کو نہ دیکھے نہ پڑھے وہ نہ برہان سے واقف ہو سکتا ہے اور نہ نور مبین سے فائدہ اٹھا سکتا ہے.میں نے کئی لوگوں کو دیکھا ہے کہ تعلیم یافتہ تھے مگر کہتے تھے قرآن کا سمجھنا مشکل ہے اس لئے نہیں پڑھتے.مگر معلوم ہونا چاہئے خدا تعالیٰ نے قرآن کو نہایت آسان بنایا ہے.قرآن دراصل کئی جلوے رکھتا ہے ایک وہ جلوہ ہے جو عام لوگوں کے لئے ہے اس سے بڑھ کر ان کے لئے جو عالم ہوں پھر ان کے لئے جو عارف ہوں پھر ان کے لئے جو سالک ہوں اسی طرح ترقی ہوتی جاتی ہے.ہے شک قرآن کے بڑے بڑے مطالب اور نکات تقویٰ اور معرفت سے وابستہ ہیں.مگر قرآن کا ایسا جلوہ بھی ہے جو ہر انسان کے لئے ہے اور جوں جوں انسان غور کرتا ہے اس کے لئے زیادہ سے زیادہ جلوہ نمائی ہوتی جاتی ہے.پس یہ صحیح نہیں ہے کہ قرآن سمجھ میں نہیں آتا اگر.لوگوں کے سمجھنے کے لئے قرآن نہ ہوتا تو اس میں یا يُّهَا النَّاسُ نہ آتا.بلكہ يَاتِهَا الْعُلَماء يا آيَاتِهَا الْفُقَهَاءِ آتا.یہی آیت دیکھ لو.اس میں آتا ہے بيَاتِهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَ كُمُ بُرُهَانُ مِنْ رَبِّكُمْ وَأَنزَلْنَا اِلَيْكُمُ نُورًا مُّبِينًا اس سے ظاہر ہے کہ خدا تعالٰی نے اس میں غیر مسلموں کو بھی مخاطب کیا ہے.اب اگر قرآن کو نہ ماننے والے بھی اس کی باتوں کو سمجھ سکتے ہیں تو پھر ماننے والے کیوں نہیں سمجھ سکتے.مسلمانوں کی ساری تباہی کی وجہ یہی ہے کہ وہ کہتے ہیں ہم قرآن نہیں سمجھ سکتے حالانکہ عرب کے لوگوں نے جس وقت قرآن کو سمجھا اس وقت کی نسبت اب مسلمانوں میں تعلیم بہت زیادہ ہے.اور تعلیم کی ترقی کر جانے کی وجہ سے آج کل کے جاہل بھی اس زمانہ کے جاہلوں کی نسبت زیادہ واقفیت رکھتے ہیں کیونکہ وہ دوسروں سے سن سنا کر بہت سی باتیں جو اب نکلی ہیں معلوم کر لیتے ہیں.جیسے طاعون کا کیڑا ہے.لاکھوں انسان ایسے ہیں جو ایک لفظ بھی نہیں پڑھے ہوئے مگر انہیں معلوم ہے کہ طاعون کا کیڑا ہوتا ہے.اسی طرح زمین کا گول ہونا انہیں معلوم ہے.پرانے زمانے میں یہ باتیں بڑے بڑے عالموں کو بھی معلوم نہ تھیں.پس اگر عرب کے جاہل قرآن کو سمجھ سکتے تھے تو آج کل کے لوگ کیوں نہیں سمجھ سکتے.ہر مسلمان کو چاہئے کہ قرآن کریم کو پڑھے.اگر عربی نہ جانتا ہو تو اردو ترجمہ اور تفسیر ساتھ پڑھے.عربی جاننے والوں پر قرآن کے بڑے بڑے مطالب کھلتے ہیں.مگر یہ مشہور بات ہے
خطبات محمود ۴۰۸ سال ۶۱۹۲۸ کہ جو ساری چیز نہ حاصل کر سکے اسے تھوڑی نہیں چھوڑ دینی چاہئے.کیا ایک شخص جو جنگل میں بھوکا پڑا ہو اسے ایک روٹی ملے تو اسے اس لئے چھوڑ دینی چاہے کہ اس سے اس کی ساری بھوک دور نہ ہو گی.پس جتنا کوئی پڑھ سکتا ہو پڑھ لے اور اگر خود نہ پڑھ سکتا ہو تو محلہ میں جو قرآن جانتا ہو اس سے پڑھ لینا چاہئے.جب ایک مخص بار بار قرآن پڑھے گا اور اس پر غور کرے گا تو اس میں قرآن کریم کے سمجھنے کا ملکہ پیدا ہو جائے گا.پس مسلمانوں کی ترقی کا راز قرآن کریم کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں ہے.جب تک مسلمان اس کے سمجھنے کی کوشش نہ کریں گے کامیاب نہیں ہوں گے.کہا جاتا ہے کہ دوسری قومیں جو قرآن کو نہیں مانتیں وہ ترقی کر رہی ہیں پھر مسلمان کیوں ترقی نہیں کر سکتے.بے شک عیسائی اور ہندو اور دوسری قومیں ترقی کر سکتی ہیں لیکن مسلمان قرآن کو چھوڑ کر ہر گز نہیں کر سکتے.اگر کوئی اس بات پر ذرا بھی غور کرے تو اسے اس کی وجہ معلوم ہو سکتی ہے.اگر یہ صحیح ہے کہ قرآن کریم خدا تعالٰی کی کتاب ہے اور اگر یہ صحیح ہے کہ ہمیشہ دنیا کو ہدایت دینے کے لئے قائم رہے گی تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اگر قرآن کو خدا کی کتاب ماننے والے بھی اس کو چھوڑ کر ترقی کر سکیں تو پھر کوئی قرآن کو نہ مانے گا.پس قرآن کی طرف مسلمانوں کو متوجہ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کی ترقی کا انحصار قرآن کریم پر ہو.اگر عیسائی دنیا کے لئے کوشش کرتے ہیں تو انہیں ترقی حاصل ہو سکتی ہے.کیونکہ خدا تعالی کا قانون ہے جو کوئی کوشش کرتا ہے اسے ہم دیتے ہیں.مگر مسلمان اگر قرآن کو چھوڑ کر کوشش کریں تو ان پر ہلاکت اور تباہی نازل کی جاتی ہے تاکہ ان کو محسوس ہو کہ یہ قرآن کو چھوڑنے کی سزا ہے اور انہیں توجہ پیدا ہو کہ قرآن کو چھوڑ کر کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی.دیکھو انسان اپنے بچے سے اور رنگ میں سلوک کرتا ہے اور غیر کے بچے سے اور طریق سے.اگر کوئی اپنا آدمی بد تہذیبی سے کلام کرے گا تو ہم فورا اسے ڈانٹیں گے.لیکن اگر کوئی عیسائی یا ہندو یہ کہے گا کہ میں قرآن کو خدا کا کلام نہیں مانتا تو اس پر ناراض نہیں ہوں گے کیونکہ اس کا عقیدہ یہی ہے.پس مسلمان جب تک قرآن پر عمل نہ کریں ترقی نہیں کر سکتے.آج اگر مسلمان کہلانے والے قرآن کا انکار کر دیں تو وہ دنیاوی طور پر کوشش کرنے سے اس طرح ترقی کر سکتے ہیں جس طرح غیر مسلم اقوام کر رہی ہیں.لیکن جب تک وہ قرآن سے وابستہ ہیں اور قرآن کو خدا کا کلام مانے کے دعویدار ہیں اسے چھوڑ کر ترقی نہیں کر سکتے، اگر مسلمان قرآن کو چھوڑ دیں گے تو خدا تعالٰی کوئی اور قوم کھڑی کر دے گا
خطبات محمود ۴۰۹ سال ۶۱۹۲۸ جو قرآن کو مان کر ترقی کرے گی.مگر مسلمان کہلا کر قرآن کریم کو خدا تعالی کا کلام مان کر پھر جب تک اس پر عمل نہ کیا جائے گا ترقی حاصل نہ ہو گی.مسلمانوں کو چاہئے کہ قرآن کریم کے پڑھنے اس کے مطالب سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں.میں اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ اس نے مسلمانوں کو جہاں ایسی کتاب دی جس کے متعلق منکر بھی خواہش رکھتے تھے کہ کاش ایسی کتاب ہماری ہوتی وہاں مسلمانوں کو اس پر عمل کرنے کی توفیق بھی عطا فرمائے اور انہیں سمجھ دے کہ یہ ایسی بے نظیر کتاب ہے کہ ذرا بھی انسان اس کی طرف توجہ کرے تو اس میں اس طرح محو ہو جاتا ہے جس طرح کوئی مست ہو جاتا (الفضل (۱۳) جولائی (۱۹۲۸ء) ہے.مسلم كتاب القد رباب كل مولود يولد على الفطرة.
خطبات محمود ۳۱۰ ۵۴ سال ۱۹۲۸ء کامل عبد بن کر ہی مسلمان ترقی کر سکتے ہیں فرموده ۱۳ / جولائی ۱۹۲۸ء بمقام ڈلہوزی) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: سورۃ فاتحہ کی نسبت قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے مضامین کی اصل اور جڑ ہے اور وہ تمام مطالب اصولی طور پر سورۃ فاتحہ میں بیان ہوئے ہیں جو تفصیلی طور پر بقیہ سورتوں میں بیان کئے گئے ہیں.جن لوگوں نے قرآن کریم پر غور کرنے اور اسے سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کی ہے وہ اس بات کے گواہ ہیں اور ان کا تجربہ شاہد ہے میرا اپنا ذاتی تجربہ بھی یہی ہے کہ تمام مذاہب کا رو اسلام کی صداقت کے دلائل اور اسلامی مسائل کے اصول اس میں موجود ہیں.متواتر میں نے اس بات کا تجربہ کیا ہے کہ کسی مضمون کے متعلق بھی اسلام کی تعلیم معلوم کرنے کی ضرورت ہو اس وقت اس قدر فرصت نہ ہو یا سامان موجود نہ ہوں کہ سارے قرآن پر غور کیا جا سکے تو سورۃ فاتحہ پر ہی غور کرنے سے معلوم ہو سکتی ہے.مجھے اس کے متعلق ایک واقعہ جو طالب علمی کے زمانہ کا ہے ہمیشہ یاد رہتا ہے.میں سکول میں باقاعدہ تو تعلیم نہ پاتا تھا پرائیویٹ تیاری کرتا تھا.امر تسر ٹورنامنٹ پر سکول کے لڑکے گئے تو میں بھی ان کے ساتھ کھیل دیکھنے چلا گیا.میری عمر اس وقت غالباً سولہ سترہ سال کی تھی اور میرے لئے اس سے پہلے کسی دو سرے مقام پر تقریر کرنے کا کبھی اتفاق نہ ہوا تھا.ہماری ٹیم کا مقابلہ خالصہ سکول کی ٹیم سے ہوا.خالصہ سکول کی ٹیم عام طور پر ہمیشہ مسلمانوں کو شکست دیا کرتی تھی اس سال ہماری ٹیم نے اسے شکست دی اور جیسا کہ قاعدہ ہے مسلمانوں میں خواہ کتنے اختلاف ہوں کھیلوں کے موقع پر اکٹھے ہو جاتے ہیں ایسا ہی امرتسر میں ہوا.مسلمانوں نے ہماری ٹیم کی بہت تعریف کی اور اس کی کامیابی پر بڑی خوشی کا اظہار کیا.اس تقریب میں ایک صاحب نے دعوت کی اور اس موقع پر
خطبات محمود il سال ۱۹۲۸ء مجھے تقریر کرنے کے لئے کہا گیا.اس سے قبل مجھے باہر جا کر کبھی تقریر کرنے کا موقع نہ ملا تھا اور شاید قادیان میں بھی کبھی ملا تھا یا نہیں یہ مجھے یاد نہیں.اس وقت اچانک مجھے تقریر کرنے کے لئے کہا گیا اس لئے بھی کوئی مضمون میرے ذہن میں نہ تھا.میں نے سورۃ فاتحہ پڑھی اور اتفاق ایسا ہوا کہ انہی دنوں میں نے ایک خواب دیکھا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ سورۃ فاتحہ میں سے نئے سے نئے مضامین نکلتے رہتے ہیں.اس کا ذکر میں نے دوستوں سے کیا ہوا تھا.اس وقت مجھے خیال آیا کہ میں نے یہ کہا ہوا ہے اور سورۃ فاتحہ پڑھی ہے اگر اس وقت میرے ذہن میں سورۃ فاتحہ کا کوئی نیا مضمون نہ آیا تو دوست کہیں گے خواب تو پورا نہ ہوا.حالانکہ یہ ضروری نہ تھا کہ جب بھی سورۃ فاتحہ پڑھی جائے جب ہی کوئی نیا مضمون سوجھے کیونکہ کسی چیز کا موجود ہونا اور بات ہے اور اس کامل جانا اور بات ہے.مگر اس وقت مجھے تردد ضرور پیدا ہوا.اور میں نے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیا اور خدا تعالیٰ نے ایسا مضمون سمجھایا کہ اب بھی عمر کے لحاظ سے حیران ہوتا ہوں.اور ایسا نکتہ تھا جو کسی مفسر نے اس سے قبل نہیں لکھا تھا اور ایسا سچا تھا کہ میں حیران تھا کیوں پہلے مفسرین کے ذہن میں نہ آیا.وہ یہ بات تھی کہ سورۃ فاتحہ کے آخر میں یہ دعا سکھائی گئی ہے غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ.کہ الہی ہم مغضوب علیم اور ضالین نہ بن جائیں.رسول کریم ﷺ نے بھی فرمایا ہے اور قرآن سے بھی پتہ لگتا ہے کہ عیسائیوں کو ضال کہا گیا ہے اور یہودیوں کو مغضوب کئی حدیثیں جو تواتر کا درجہ رکھتی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ ضال عیسائی ہیں اور مغضوب یہودی.ایک طرف تو یہ بات ہے اور دوسری طرف یہ ہے کہ مکہ میں جہاں سورۃ فاتحہ اتری نہ عیسائی تھے نہ یہودی عیسائی تو شاذ و نادر غلاموں کی صورت میں یا ایک دو اور پائے جاتے تھے جیسے ورقہ بن نوقل حضرت نے بچی کے رشتہ دار تھے مگر ان کی سیاسی حیثیت نہ تھی.اور یہودی تو بالکل نہ تھے.مگر دعا یہ سکھائی جاتی ہے کہ الہی ہم ضال اور مغضوب نہ بن جائیں حالانکہ اس وقت جو لوگ اسلام کی مخالفت کر رہے تھے اور مسلمانوں کو گھروں سے بھی نہ نکلنے دیتے تھے وہ مشرک تھے.اس وقت مکہ میں مسلمانوں کے یہودی یا عیسائی ہونے کا کوئی خطرہ نہ تھا.اگر خطرہ تھا تو یہ تھا کہ مسلمان مشرک نہ ہو جائیں جیسا کہ بعض کمزور لوگ ہو گئے.رسول کریم ﷺ کا کاتب وحی مرتد ہو گیا تھا.پس ایسی مثالیں تو ملتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ کو ماننے والے بوجہ کمزوری ایمان اور تکالیف برداشت نہ کر سکنے کے مشرک ہو گئے گو بہت قلیل تعداد میں
خطبات محمود ۴۱۲ سال ۲۱۹۲۸ ہوئے مگر ہوئے.اور یہودی یا عیسائی ہونے کی کوئی وجہ نہ تھی کیونکہ یہودی اور عیسائی وہاں تھے ہی نہیں.اور کوئی ایک آدھ تھا تو اسے کوئی سیاسی اہمیت حاصل نہ تھی اور نہ اس کی طرف سے مسلمان ہونے والوں کو کوئی تکلیف پہنچتی تھی مگر اس وقت خدا تعالٰی نے دعا یہ سکھائی کہ مسلمان کہیں ہم یہودی اور عیسائی نہ بن جائیں.اس کی کیا وجہ تھی؟ اس کے متعلق خدا تعالی نے میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ عرب کے مشرک چونکہ بالکل مٹ جانے والے تھے اور ان کا نام و نشان بھی باقی نہ رہنا تھا مگر یہودیوں اور عیسائیوں نے باقی رہنا تھا اس لئے یہ دعا سکھائی گئی.گویا مکہ میں ہی اس وقت جب مسلمان سخت تکالیف اور مشکلات میں تھے یہودیوں اور عیسائیوں کے قائم رہنے اور عرب کے بت پرستوں کے مٹ جانے کی پیش گوئی کی گئی تھی جو نہایت صفائی کے ساتھ پوری ہوئی.غرض رسول کریم نے ان ابتدائی ایام میں جب کہ صرف چند لوگ ایمان لائے تھے تمہیں چالیس سے زیادہ نہ تھے.عرب کے مشرکوں کی سارے ملک میں حکومت تھی.مسلمانوں پر انہیں ہر طرح غلبہ حاصل تھا.مسلمان ان کے ظلم و ستم کی وجہ سے گھروں سے باہر نکل کر عبادت بھی نہ کر سکتے تھے.اس وقت آپ نے بتایا کہ یہ قوم بالکل مٹ جائے گی اور اس کی طرف سے مسلمانوں کو کوئی خطرہ نہ رہے گا.اس لئے انہیں اس دعا سے خارج کر دیا گیا.تو سورۃ فاتحہ میں ایسے مطالب بیان کئے گئے ہیں کہ اگر انسان اس پر غور کرے تو نہایت عجیب نکات معلوم ہوتے ہیں.اس وقت میں سورۃ فاتحہ کے جس مضمون کے طرف توجہ دلانا دو سے چاہتا ہوں وہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ میں بیان کیا گیا ہے.آج کل مسلمانوں میں یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ کس طرح ترقی کریں اور کس طرح ذلت اور ادبار سے بچیں.اس کے لئے مختلف تدابیر اختیار کی جارہی ہیں.میرے نزدیک ترقی کرنے کا طریق إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ میں بتایا گیا ہے.اس کے معنی عام طور پر یہ کئے جاتے ہیں کہ ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور عبادت کا مفہوم یہ سمجھا جاتا ہے کہ نمازیں پڑھی جائیں، روزے رکھے جائیں ، حج کیا جائے، زکوۃ دی جائے اور اس کا معاوضہ یہ مانگتے ہیں کہ ہم دنیا میں ترقی کریں.اس میں شبہ نہیں کہ عہد اور عبودیت ایک ہی مادہ سے بنتے ہیں اور بندہ اور خدا میں فرق کرنے کے لئے یہ رکھے گئے ہیں لیکن اصل عبد کے معنی ایسا بن جانے کے ہیں کہ دوسرے کے نقش اپنے اوپر لگ جائیں.مثلاً اگر کوئی شخص چٹائی پر لیٹا ہو اور اس کے نقش اس کے جسم پر لگ جائیں.یا
خطبات محمود ۱۳ سال ۱۹۲۸ء زمین پر جالی دار چیز پر لیٹا ہو اور اس کے نقش جسم پر پڑ جائیں تو یہ عبودیت کے مفہوم میں آجائے گا.پس عبودیت کے معنی دوسرے کے نقش اپنے اوپر لے لینا یعنی اس کی مرضی کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لینا ہیں.غلام کا بھی یہی مفہوم ہوتا ہے اس کی اپنی مرضی جاتی رہتی ہے اور وہ اپنے آقا کی مرضی اختیار کر لیتا ہے.پس خدا تعالیٰ کا عبد بننے کے لئے یہی ضروری نہیں کہ نماز پڑھے، روزے رکھے.حج کرے ، زکوۃ دے یہ سب باتیں ہماری اپنی ذات سے تعلق رکھتی ہیں.ان میں سے ایک بھی کام ایسا نہیں جو الوہیت سے تعلق رکھے.زکوٰۃ ایک رنگ میں تعلق رکھتی ہے مگر ز کوۃ کا مفہوم بندوں کے متعلق یہ ہے کہ اپنے مال کو پاک کرنے کے لئے دی جاتی ہے مگر خدا تعالیٰ کسی کو جو کچھ دیتا ہے وہ تو اس غرض سے نہیں دیتا پس یہ سب باتیں انسان کی اپنی ذات سے تعلق رکھتی ہیں.اصل عبادت یہ ہے کہ خدا تعالی کی صفات کو انسان اپنے اعمال پر حاوی کر لے.خدا تعالیٰ انسانوں پر رحم کرتا ہے انسان بھی رحم کرے اسی طرح خدا تعالی کی صفات کے ایسے نمونے پیش کرے کہ دنیا کے لئے لیڈر بن سکے.پس عبد کامل وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی الوہیت والی صفات کو اخذ کرے.جس طرح خدا تعالیٰ رب رحمن رحیم ہے.اسی طرح انسان بھی بنے بلکہ انسان کو چاہئے رب العالمین کی صفت اختیار کرے.یہی نہیں کہ اپنے رشتہ داروں اور تعلق رکھنے والوں سے سلوک کرے بلکہ سب مخلوق سے نیک سلوک کرے.ایک دہر یہ ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کی خدائی کا انکار کرتا ہے بلکہ گالیاں دیتا ہے مگر باوجود اس کے خدا تعالیٰ کی ہر چیز سے فائدہ اٹھاتا ہے.خدا تعالیٰ اپنی رحمت اور شفقت اس سے نہیں ہٹا لیتا.پس جس طرح خدا تعالیٰ کا سلوک عام ہے اسی طرح انسان بھی عام سلوک کرے.اسی طرح خدا تعالی منان ہے متن اور احسان کرتا ہے اسی طرح انسان بھی کرے.خدا تعالی غفار ہے لوگوں کے گناہوں اور عیبوں سے چشم پوشی کرتا ہے انسان بھی کرے.پس اِيَّاكَ نَعْبُدُ میں جس عبودیت کی طرف اشارہ ہے وہ نماز سے یا روزہ سے ظاہر نہیں ہوتی.اس سے میرا یہ مطلب نہیں کہ میں نماز، روزہ، حج، زکوۃ اور دوسرے شرعی اعمال کو عبادت سے خارج کرتا ہوں بلکہ یہ ہے کہ صرف یہی اعمال عبادت نہیں بلکہ ان کے علاوہ اور بھی اعمال نہیں جو انسان کے اخلاق، اس کے حسن سلوک، اس کے رحم اور اس کی چشم پوشی سے تعلق رکھتے ہیں.یہی مطلب ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ کا.خدا تعالیٰ اس میں مسلمانوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ خدائی صفات کو اپنے اندر جذب کرو تب تم کامل طور پر ايَّاكَ نَعْبُدُ کہنے کے مستحق ٹھرو گے.
خطبات محمود ۴۱۴ سال ۱۹۲۸ء اب دیکھو یہ سوال کس عمدگی سے حل ہو جاتا ہے.لوگ کہتے ہیں مسلمان نمازیں پڑھتے ہیں پھر کیوں تنزل میں ہیں اور کیوں ترقی نہیں کرتے.اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کی صفات کو جذب نہیں کرتے.ایک وہ زمانہ تھا کہ مسلمان ہر فن میں بڑھے ہوئے تھے اور کوئی ان کا مقابلہ نہ کر سکتا تھا.اس لئے ترقی کرتے رہے.وہ اس لئے ہر بات میں کمال نہ حاصل کرتے تھے کہ دنیا حاصل کریں.جن لوگوں کے مد نظر صرف دنیا ہوتی ہے وہ جلدی گر جاتے ہیں.تو ایک زمانہ ایسا تھا کہ مسلمان ہر قسم کے کاموں میں حصہ لیتے اور اس سے ان کی غرض اسلام کی عزت بڑھانا ہوتی تھی.ان میں ایسی غیرت پائی جاتی تھی کہ سید احمد صاحب بریلوی کے مرید سید اسمعیل شہید کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے سنا ایک سکھ اتنا اچھا تیرتا ہے کہ کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.انہوں نے کہا کیا کوئی مسلمان بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.گویا ان کے نزدیک مسلمان کسی بات میں پیچھے نہ رہ سکتے تھے.جب انہیں معلوم ہوا کہ کوئی مسلمان بھی اس کا مقابلہ تیرنے میں نہیں کر سکتا تو انہوں نے کہا یہ بہت شرم کی بات ہے اور وہیں تیرنے کی مشق کرنی شروع کر دی اور اتنا کمال پیدا کیا کہ کہہ دیا لاؤ میرے ساتھ وہ تیرلے.یہ کتنی معمولی بات تھی مگر انہوں نے اتنا بھی برداشت نہ کیا کہ تیرنے میں بھی کوئی مسلمانوں سے بڑھ جائے اور باتیں تو الگ رہیں.اس کا نتیجہ یہ تھا کہ مسلمان بہتر سے بہتر آدمی پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے اور ان میں بہتر آدمی پیدا ہوتے تھے.اب بھی مسلمانوں کی ترقی کا راز اسی میں ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے کامل عبد بن کر دکھا ئیں.دنیا کے لئے ہر رنگ اور ہر پہلو میں مفید ہوں.میں جب یہ پڑھتا ہوں تو شرم کے مارے سر نچا ہو جاتا ہے (گو ایک رنگ میں خوشی بھی ہوتی ہے کہ ایک ہندوستانی کا کمال ظاہر ہو رہا ہے) کہ ڈاکٹر بوس نے یہ کیا وہ کیا میں کہتا ہوں.ڈاکٹر بوس اگر ترقی کر کے شہرت حاصل کر سکتے ہیں تو مسلمانوں میں سے کیوں ایسے آدمی پیدا نہیں ہوتے اور کیوں ان میں سے ایسے انسان نہیں نکلتے جو دنیا کے لئے اس طرح مفید ہوں.تو مسلمانوں کے لئے کامل عبد بننے کے واسطے ضروری ہے کہ وہ دنیا کو فائدہ پہنچانے والے کاموں میں ترقی کرنے لگ جائیں.جب تک یہ نہ ہو گا دنیا میں ان کو ترقی حاصل نہ ہوگی.اگر کوئی ایک آدمی بڑا ہوتا ہے تو وہ اپنی زندگی گزار کر چلا جاتا ہے اس سے قوم ترقی نہیں کر سکتی.قومی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ ساری قوم کمال پیدا کرے.پس جب تک مسلمان دنیا کے فائدہ کے لئے اپنے اندر صفات نہ پیدا کریں گے جب تک ان کی زندگیاں ان کے لئے نہیں بلکہ ساری قوم کے لئے
خطبات محمود ۴۱۵ سال ۶۱۹۲۸ نہ ہوں گی تب تک وہ ترقی نہ کر سکیں گے.خدا تعالٰی نے بتایا ہے جب تم اپنے آپ کو اپنی قوم کے لئے اپنے ملک کے لئے بلکہ ساری دنیا کے لئے مفید بناؤ گے تب جو مانگو گے وہ دوں گا.کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ایک طرف تو خدا تعالٰی فرماتا ہے.اجیبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ.جب تم مجھے پکارتے ہو تو میں تمہاری پکار کو سنتا ہوں اور دوسری طرف مسلمان مسجدوں میں کھڑے ہو کر اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کہتے ہیں مگر خداتعالی ان کی مدد نہیں کرتا اور انہیں ذلت اور نکبت سے نہیں نکالتا.اگر خدا تعالی پر ایمان ہو تو یہی کہنا پڑے گا کہ خدا تعالی کا وعدہ تو سچا ہے کہ جب مسلمان یہ کہتے ہیں کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِین تو کچی عبادت نہیں کر رہے ہوتے.اچھا ملازم وہ ہوتا ہے جو سارا دن آقا کے کام میں لگا رہے..مسلمان دیکھیں کیا وہ خدا تعالی کے کام میں لگے رہتے ہیں یا نہیں.اگر نہیں تو خدا کے عبد نہیں کہلا سکتے.مسلمانوں کو چاہئے کہ دنیا کی بھلائی کے کاموں میں ترقی کریں مگر عام طور پر مسلمان ایسا نہیں کرتے.ایسے کام شاذو نادر ہی کسی کے ملیں گے.بعض لوگ انفرادی ترقی کرتے ہیں مگر اس سے قوم ترقی نہیں کر سکتی جیسے مسٹر بوس ترقی کر رہے ہیں مگر یہ ان کی اپنی ترقی ہے ان کی قوم کی ترقی نہیں.باقی ہندو قوم بھی مسلمانوں کے مقابلہ میں ترقی کر رہی ہے لیکن یورپ کی قوموں کے مقابلہ میں ان کی ترقی بھی کچھ نہیں.یورپ کے لوگوں کے مد نظر قومی ترقی ہوتی ہے.مسلمانوں میں سے بھی جب تک اکثر افراد ایسے نہ نکلیں گے جو اپنے لئے زندگی بسر نہ کریں بلکہ دوسروں کے لئے کریں اس وقت تک قومی ترقی کے لئے خدا تعالیٰ کی نصرت حاصل نہ ہو گی.اور جب تک یہ نصرت حاصل نہ ہوگی مسلمانوں کی قوم بھی ترقی نہ کر سکے گی.ہمیں اس مقصد کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے جس کے لئے خدا تعالیٰ نے دنیا میں ہمیں بھیجا.غلام کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ بہتر سے بہتر کام کرے.اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اس کو انعام بھی نہیں ملتا.ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ساری قوم کی ترقی کا سوال کبھی ہماری آنکھوں سے اوجھل نہ ہو.اور اپنے وقت میں اپنی قوم اور اپنے ملک کی جو حالت پائیں اس سے بہتر حالت میں اسے چھوڑیں.پھر یہی نہیں کہ اپنی قوم اور اپنے ملک کو فائدہ پہنچانا ہے بلکہ ساری دنیا کے لئے بہتر اور مفید بنتا ہے.جب ہمارا یہ مقصد ہو تو پھر دیکھو ہمارے حوصلے اور ہماری ہمتیں کس قدر بلند ہوتی ہیں.جس قدر مقصد اور مدعا بلند و بالا ہو اسی قدر زیادہ ہمت اور طاقت پیدا ہوتی ہے.انسان کو خدا تعالٰی نے اندازہ کرنے کی ایک خاص حس دی ہے.ایک ہاتھ جو سوئی اٹھا سکتا ہے وہ چار پانچ میر کا بوجھ بھی اسی آسانی سے اٹھا لے گا کیونکہ
خطبات محمود سال ۱۹۴۸ء جتنی ضرورت ہو وہ حس اتنی ہی طاقت مہیا کر دیتی ہے.پس جب اعلیٰ مقصد ہو گا تو مسلمانوں کو اس کے مطابق طاقت اور ہمت بھی حاصل ہو جائے گی.جب تک ادنی مقصد سامنے رہے گا کہ خود کھانا پینا اور بیوی بچوں کو کھلانا اور بس اس وقت تک قومی ترقی حاصل نہیں ہو سکتی.ہمارے لئے ضروری ہے کہ اپنی زندگی کا اعلیٰ مقصد قرار دیں اور وہ اللہ تعالیٰ کا حقیقی بندہ بنتا ہے.یعنی جس طرح خدا تعالیٰ کی صفات سب کے لئے جاری ہوتی ہیں اسی طرح ہم بھی کریں اور ساری دنیا کو فائدہ پہنچائیں.اور ساری دنیا کے لئے مفید ثابت ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس کی صفات کو جذب کر سکیں اور پھر دنیا کو فائدہ پہنچا سکیں تا ہماری زندگی ایسی نہ ہو جیسی جانوروں کی ہوتی ہے کہ ہمارا دنیا میں آنا نہ آنا برابر ہو بلکہ ہم ایسے مفید نقش چھوڑنے والے ہوں کہ لوگوں کی نیک خواہشیں اور امیدیں ہمارے متعلق ہوں.الفاتحہ : الفضل ۲۴ / جولائی ۱۹۲۸ء) سے ترندی الواب التفسير باب ما جاء فى الذى نفيسر القرآن برأيه...الا سے الفاتحه : ۵ که البقرة : ۱۸۷
خطبات محمود ۴۱۷ ۵۵ سال ۱۹۴۸ء قومی اتحاد اور تمدنی ترقی کا بہت بڑا گر فرموده ۲۰ / جولائی ۱۹۲۸ء بمقام ڈلہوزی) تشهد تعوز اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے تمدن کا ایک بہت بڑا گر بیان فرمایا ہے جس کو مد نظر رکھ کر قومی اتحاد اور تمدنی ترقی کے بہت سے سامان پیدا ہو جاتے ہیں.بہت سی دنیا میں ایسی باتیں ہوتی ہیں جو بظا ہر چھوٹی ہوتی ہیں لیکن ان کے نتائج بہت بڑے نکلتے ہیں.دیکھنے والا ان کو اس نقطہ نگاہ سے دیکھتا ہے کہ وہ اپنی ذات میں کیا ہیں اور اپنی ذات میں ان کو چھوٹا سمجھ کر ان کی طرف سے بے توجہی کرتا ہے.مگر بسا اوقات نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قوم کی قوم یا ملک کا ملک یہ کہہ سکتے ہیں کہ دنیا برباد ہو جاتی ہے.تاریخوں میں ایک واقعہ آتا ہے میں نہیں جانتا کہاں تک سچا ہے لیکن لکھا ہے بغداد کی خلافت کی تباہی کا موجب وہی واقعہ ہوا.کہتے ہیں دو بد معاش تھے انہوں نے کسی جگہ کباب بکتے دیکھ کر مشورہ کیا آؤ آج کباب کھائیں اور مفت کھا ئیں.ان دنوں شیعہ سنی جھگڑوں کا زور تھا انہوں نے منصوبہ یہ بنایا کہ چلتے چلتے آپس میں لڑ پڑیں.ایک دوسرے کو گالیاں دینے لگ جائیں.ایک اس طرح کلام کرے کہ وہ سنی ہے اور دوسرا اس طرح کہ شیعہ ہے.جب شور و شر پڑ جائے گا اور لوگ لڑنے لگ جائیں گے تو ہم کباب اٹھا کر بھاگ جائیں گے.انہوں نے کباب فروش کی دکان کے پاس پہنچ کر اسی طرح کیا.اس بازار میں شیعہ بھی تھے اور سنی بھی کچھ ایک کی امداد کے لئے آگئے کچھ دوسرے کی امداد کے لئے پہلے ایک دوسرے کو گالیاں دینے لگے پھر مار کٹائی شروع ہو گئی وہ کباب لے کر چلتے بنے مگر اس واقعہ کے بعد جگہ جگہ لڑائیاں اور خونریزیاں شروع ہو گئیں.اس پر لوگوں نے ترکوں کو لکھا کہ یہاں بہت بد امنی پیدا ہو گئی ہے تم آجاؤ.ترک جو اس وقت تک اسلام نہ لائے تھے حملہ آور
خطبات محمود MIA سال ۱۹۲۸ء ہوئے اور ان کے حملہ سے بغداد کی خلافت تباہ ہو گئی 1 گویا دو آدمیوں کی لڑائی اور وہ بھی کباب کھانے کے لئے لڑائی کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ عظیم الشان نظام جو خواہ کتنا ہی استبدادی رہا ہو پھر بھی مسلمانوں کے لئے عمود کے طور پر تھا اور دوسری مسلمان حکومتیں خواہ وہ کتنی بڑی تھیں اس کے آگے اس طرح جھکتی تھیں جس طرح جانور کیلئے کی طرف جھکتا ہے وہ تباہ ہو گیا.اور ایسا تباہ ہوا کہ اس کے بعد پھر کوئی نظام مسلمانوں کو متحد نہ کر سکا.پس بسا اوقات ایک چھوٹی سی بات کے نتائج بہت برے نکلتے ہیں.اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بظا ہر جو باتیں صحیح معلوم ہوتی ہیں ان کو بھی بعض بڑی باتوں کے لئے چھوڑ دینا پڑتا ہے.وہ گر جس کی طرف میں نے ابتداء میں اشارہ کیا ہے سورۃ حجرات میں بیان کیا گیا ہے.خدا تعالی فرماتا ہے : لَيَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا جتَنِبُوا كَثِيراً مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِ اثْمُ (الحجرات) (۱۳) اے مومنو! اِجتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ کیونکہ اِنَّ بَعْضَ انَ ثُمَّ بعض ظن ایسے ہوتے ہیں جو گناہ ہوتے ہیں.یہ کتنا چھوٹا سا فقرہ ہے لیکن اس میں ایک بہت بڑا تمدنی، سیاسی اور اخلاقی اصل بیان کیا گیا ہے.بیشتر اس کے کہ میں اس اصل کو بیان کروں یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ عربی میں ظن کے معنی تین ہیں.اور عجیب بات یہ ہے کہ تینوں معنی ایک دوسرے کے متضاد ہیں.ایک معنی ظن کے یقین کے ہوتے ہیں.جب کسی بات کے متعلق یقین کرلیں کہ اس طرح ہے تو کہتے ہیں فلاں نے فلاں بات کے متعلق ظن کیا.دوسرے معنی ظن کے گمان غالب کے ہیں.جب کثرت دلائل کسی بات کے متعلق دلالت کرتے ہوں کہ وہ یوں ہے تو اس کے لئے بھی ظن کا لفظ استعمال کرتے ہیں.قرآن کریم میں ان معنوں میں ظن کا لفظ استعمال ہوا ہے.چنانچہ مؤمنوں کے متعلق آیا ہے.مومن خدا کی ملاقات پر ظن رکھتے ہیں (البقره (۲۵۰) مؤمنوں کے متعلق یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ انہیں خدا تعالیٰ کی ملاقات پر یقین نہیں ہو تا انہیں یقین ہوتا ہے.ان کے متعلق ظن کا لفظ یقین کے معنوں میں استعمال کیا گیا.گمان غالب کے معنوں میں حضرت یوسف کے متعلق آتا ہے.ان کے سامنے جب دو قیدیوں نے اپنے خواب بیان کئے.ان میں سے ایک نے کہا میں نے دیکھا ہے کہ شراب نچوڑ رہا ہوں اور دوسرے نے کہا میں نے دیکھا ہے کہ میرے سر پر روٹیاں ہیں جنہیں پرند کھا رہے ہیں.تو حضرت یوسف علیہ السلام نے شراب نچوڑنے والے کو تو یہ تعبیر بتائی کہ تمہیں قید سے نجات مل جائے گی اور دوسرے کو یہ کہا کہ تمہیں پھانسی دی جائے گی.اب خواب یقینی تو ہوتی
خطبات محمود ۴۱۹ سال ۱۹۲۸ء ہے لیکن انبیاء کی.ان کی خوابوں کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ خدا کی طرف سے ہیں باقیوں کے لئے یہ نہیں کہہ سکتے کہ یقینی طور پر ان کے خواب خدا کی طرف سے ہیں.باقی لوگوں کی خوابوں کی علامات اور دوسری باتوں کو دیکھ کر راج یقین کر سکتے ہیں کہ وہ خدا کی طرف سے ہوں مگران پر قسم نہیں کھا سکتے کہ ضرور خدا تعالی کی طرف سے ہیں اس لئے حضرت یوسف کے متعلق آتا ہے وَقَالَ لِلَّذِى ظَنَّ أَنَّهُ نَاجِ مِنْهُمَا (يوسف) (۴۳) جس کے متعلق انہیں غالب گمان تھا کہ بیچ جائے گا اسے کہا.وہ خواب کی علامات سے سمجھتے تھے کہ بچ جائے گا لیکن چونکہ وہ نبی کی خواب نہ تھی اس لئے پورا یقین نہ تھا کہ ضرور بچی ہوگی.دو اسی طرح ظن کا لفظ قرآن کریم میں شبہ کے معنوں میں بھی آتا ہے.کفار کے متعلق آتا ہے وہ رسول کے لئے فنون کرتے ہیں.اس کے یہ معنی نہیں کہ ان کے پاس رسول کے خلاف دلائل ہیں اس لئے وہ مخالفانہ باتیں کرتے ہیں بلکہ یہ ہیں کہ ان کے دلوں میں شکوک ہیں اور وہ شکوک پیش کرتے ہیں.یہ آیت جو میں نے پڑھی ہے اس میں ظن کے معنے یقین نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ ظن جس کے معنی یقینی امر کے ہوں اس کے لئے یہ نہیں کہہ سکتے کہ خدا تعالٰی نے کہا ہے اس سے بچو اور اسے چھوڑ دو.ایسے ظن کو تو حاصل کرنا چاہئے.اسی طرح جس امر کے متعلق دلائل کثرت سے ہوں اس کے لئے بھی نہیں کہا جا سکتا کہ اسے چھوڑ دو.بے شک بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک بات کے متعلق بظاہر دلائل کا غلبہ ہوتا ہے مگر وہ حقیقت میں غلط ہوتی ہے.مگر ایسے امور تھوڑے ہی ہوتے ہیں.زیادہ ایسے ہوتے ہیں کہ دلائل کے غلبہ سے وہ بچے ہوتے ہیں.پس یہ بھی یہاں مراد نہیں ہے.اب یہ بات باقی رہ گئی کہ وہ ظن جو شک کے معنوں میں آتا ہے وہ یہاں مراد ہے.ہماری زبان میں نطن کا لفظ غلط طور پر استعمال ہوتا ہے جب کسی بات کے متعلق غلطی کا احتمال کم ہو اور صحت کا زیادہ تو اس کے لئے ظن کا لفظ استعمال کرتے ہیں لیکن عربی میں ایسے موقع پر استعمال کرتے ہیں جہاں غلطی کا احتمال زیادہ ہو اور صحت کا کم توايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ کے یہ معنی ہوں گے کہ اے مومنو بہت سے شکوک سے بچا کرو.کئی باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کے میں پہلو نیکی کے ہوتے ہیں اور ایک پہلو برائی کا.اس برے پہلو کو چھوڑ دو.کیوں ؟ اس لئے کہ نَ بَعْضَ الظَّنِّ اِثُمَّ بعض فنون ایسے ہوتے ہیں جو غلط ہوتے ہیں.
خطبات محمود ہوں.۴۲۰ سال ۱۹۲۸ء اس میں کئی نکات بیان کئے گئے ہیں.ایک یہ کہ ہو سکتا ہے فنون میں سے بعض بچے بھی ں.لیکن چونکہ شکی ہیں اور ان میں غلطی کا احتمال ہو سکتا ہے اس لئے ان سے بچو.کئی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو اکسپیریمنٹل Experimental نہیں ہو تیں دلائل سے معلوم ہوتی ہیں اور ان میں غلطی کا شبہ ہوتا ہے اور کئی ان میں سے غلط ہو جاتی ہے.بیسیوں مسئلے ایسے ہیں جنہیں دلائل سے ثابت کیا جاتا تھا مگر اب لوگ ان کو غلط قرار دے کر چھوڑ رہے ہیں.تو فرمایا اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اسم شک و شبہ والی باتیں بعض دفعہ بچی بھی ہوتی ہیں لیکن غلط بھی اس لئے ان کو چھوڑ دینا چاہئے.دو سرا نکتہ یہ بیان کیا جس سے شرعی مسائل کا حل ہوتا ہے کہ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمُ الله تعالٰی نے یہ نہیں کہا کہ سارے ظن غلط ہوتے ہیں بلکہ یہ فرمایا کہ بعض ظن غلط ہوتے ہیں مگر فرماتا ہے.اجتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ بہت سے فنون سے بچو.کیوں پاس لئے کہ ان میں سے بعض ایسے ہوتے ہیں جو غلط ہوتے ہیں.یہ نہیں کہا کہ ظن سے بچو کیونکہ ظن تو یقین والا بھی ہوتا ہے اور گمان غالب والا بھی.اس لئے فرمایا شک والے ظن سے بچو ان میں صحیح ظن بھی ہو سکتا ہے مگر اکثر چونکہ غلط ہوتے ہیں اس لئے ان سے بچو.ہو سکتا ہے کہ ہم ایک چور کو چور سمجھ لیں مگر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ایک بے گناہ کو چور سمجھ لیں.پس وہ ظن جس کے معنے شک کے ہیں اس کے متعلق قاعدہ یہی ہے کہ ایسے ظن خراب زیادہ ہوتے ہیں.اس سے یہی نکتہ معلوم ہوا کہ جس چیز سے منع کیا جائے ضروری نہیں کہ اس کی وجہ سے ہر فرد میں خرابی پیدا ہو بلکہ عام کو دیکھا جاتا ہے.اس کی موٹی مثال شراب کی ہے اس پر بعض لوگ قبضہ پالیتے ہیں.وہ اس میں اس قدر نہیں بڑھتے کہ ان کی صحت یا ان کے جذبات اور احساسات کو اس سے نقصان پہنچے لیکن ایسے بھی ہوتے ہیں اور کثرت سے ایسے ہی ہوتے ہیں جو اس سے نقصان اٹھاتے ہیں اس لئے ان کی کثرت کو دیکھ کر اسلام نے شراب کو قطعی طور پر حرام کر دیا.پس کئی مسائل ایسے ہیں کہ بعض لوگ نکل سکتے ہیں جو ان پر عمل کر کے گناہ میں مبتلاء نہ ہوں لیکن اکثر گناہ میں مبتلاء ہو جائیں گے اس لئے ان کی کثرت کو مد نظر رکھ کر قلیل کو نظر انداز کر دیا گیا اور سب کے لئے ایک قانون بنا دیا.اب یہ جو اعتراض کیا جاتا ہے کہ اسلام نے شراب کو حرام قرار دے دیا ہے مگر فلاں شخص شراب پیتا ہے اس پر اس کا کوئی مضر اثر نہیں ہوتا اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کا جواب یہی ہے کہ ضروری نہیں شراب ہر ایک کے لئے مضر ہو دیکھنا یہ ہے کہ اکثر پر اس
خطبات محمود ۴۲۱ سال ۱۹۲۸ء - کا کیا اثر پڑتا ہے.اگر اکثر کے لئے مضر ثابت ہوتی ہے تو اس کی ممانعت کی بنیاد کثرت پر رکھیں گے اور کثیر کو بچانے کے لئے بعض کو کہیں گے کہ تم بھی اپنی آزادی قربان کر دو تاکہ ساری قوم تباہ نہ ہو.تیسرا نکتہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ تمدن کا قیام اسی مسئلہ پر ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ أثم.بعض ظن ایسے ہوتے ہیں جو تعلقات کو خراب کر دیتے ہیں فتنہ و فساد مچا دیتے ہیں ان سے بچنا چاہئے.یہ تمدن کے قیام کا بہت بڑا گر ہے جو مسلمانوں میں مفقود ہو گیا ہے.وہ یقین کے مقابلہ میں شک کو ترجیح دیتے ہیں حالانکہ اسلام کا حکم یہ ہے کہ شکوک کے پیچھے نہ پڑو.اگر تم کسی ایک کے لئے شکوک کا دروازہ کھولو گے تو پھر سب کے لئے کھل جائے گا اور اس طرح تمدن تباہ ہو جائے گا.کوئی وجہ نہیں کہ میں زید پر بدظنی کروں اور وہ مجھ پر نہ کرے.اور پھر کوئی وجہ نہیں کہ زید کے معاملہ میں بدظنی کروں مگر دوسروں کے متعلق نہ کروں.سورۃ نور میں خدا تعالیٰ نے اس برائی سے بچنے کے لئے اور رنگ میں ارشاد فرمایا ہے.فرماتا ہے.لولا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالمُومِنتُ بِأَنْفُسِهِمْ خَيْرًا وَ قَالُوا هذا افك مبين ) ( النور : ۱۳) جب تم نے فلاں بات سنی تھی تو مومن مرد اور عورتوں نے اپنے متعلق کیوں نیک گمان نہ کیا حالانکہ جنہوں نے وہ بات سنی تھی اپنے متعلق نہ سنی تھی بلکہ حضرت عائشہ کے متعلق سنی تھی مگر خدا تعالیٰ کہتا ہے اپنے متعلق انہوں نے کیوں نہ نیک ظن کیا.اس پر وہ کہہ سکتے تھے کہ ہم نے اپنے متعلق تو کوئی براظن نہیں کیا ہم نے تو عائشہ کے متعلق کیا.مگر اس طرح ان کو یہ بتایا گیا ہے کہ کیا حضرت عائشہ کے متعلق تم ایسا ظن کرو اور تمہارے متعلق نہ کیا جائے.جب تم اپنے میں سے ایک پر بد ظنی کرتے ہو تو سب کے لئے رستہ کھولتے ہو اور یہ رستہ کھل جائے تو پھر اتحاد کیوں کر ہو سکتا ہے.پس یہ خیال کرنا کہ فلاں کے متعلق یہ بات ہے ہمارا اس سے کیا نقصان ہے غلط ہے.جب ایک کے لئے یہ راستہ کھول دیا گیا تو پھر سب کے لئے کھلے گا اور جب سب کے لئے کھلے گا تو اس طرح قوم تباہ ہو جائے گی.وجہ یہ کہ انسان میں نقالی کی عادت پائی جاتی ہے اور بڑے بڑے ماہر کہتے ہیں ہر ڈانٹکٹ (Heard Instinct) انسان میں سب سے زیادہ پائی جاتی ہے.یہ اصطلاح بھیٹر کی عادت سے ہی نکلی ہے.جہاں سے بھیڑیں گذر رہی ہوں وہاں اگر ان کے راستہ میں رسی باندھ دی جائے اور ایک بھیڑ اس پر سے کود کر گذرے تو باقی سب بھیڑیں کود کر
خطبات محمود ۴۴۲ سال ۱۹۲۸م گذریں گی اور اگر رسی ہٹائی جائے تو بھی اس جگہ سے گذرنے والی بھیڑیں وہاں آکر کو دیں گی اس وجہ سے ہر ڈانٹکٹ کہا جاتا ہے.یہ بات انسانوں میں سب سے زیادہ پائی جاتی ہے.ایک کرو جو چلتی ہے اس میں سب بہتے چلے جاتے ہیں کیونکہ انسان میں سب سے قومی جذبہ یہی ہے کہ وہ جو کچھ دیکھتا ہے اس کے پیچھے چل پڑتا ہے.اس جذبہ کے ماتحت جب لوگ دیکھیں گے کہ اس قسم کے اعتراض بھی کئے جاتے ہیں تو اور لوگ بھی کریں گے.پھر دوسرے پر تیسرے پر اعتراض کئے جائیں گے.اور اس طرح اعتماد اور بھروسہ مٹ جائے گا.دنیا کے تمام کاموں کی بنیاد اعتماد پر ہی ہے.میں نے بڑے بڑے تاجروں کی کتابیں پڑھی ہیں وہ لکھتے ہیں تجارت کی کامیابی کا سارا انحصار اعتماد پر ہوتا ہے ایک بہت بڑا تاجر لکھتا ہے جس دن میں سمجھوں گا نوکر دیانتداری سے کام نہیں کرتے اسی دن تجارت بند کر دوں گا کیونکہ تجارت اعتماد کے بغیر نہیں چل سکتی.اگر نوکروں پر میں اعتماد نہیں کروں گا تو وہ بھی مجھ پر اعتماد نہ کریں گے.اور اس طرح تجارتی کاروبار تباہ ہونا شروع ہو جائے گا اس لئے جب میں دیکھوں گا کہ باہمی اعتماد نہیں رہا تو تجارت بند کر دوں گا تاکہ جو کچھ پاس ہے وہ تو تباہ ہونے سے بچ جائے.غرض تمام کام اعتماد پر چلتے ہیں.لوگ اپنے مقدمات میں وکیل کرتے ہیں.اگر وکیل پر اعتماد نہ ہو بلکہ شک ہو کہ وہ دوسرے فریق سے مل جائے گا تو پھر کون وکیلوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے.ای طرح ڈاکٹر پر اعتماد کیا جاتا ہے یہ ضروری نہیں کہ ڈاکٹر کا ہر ایک نسخہ صحیح ہو مگر اس پر اعتماد کیا جاتا ہے اور اس کے سپرد جان کر دی جاتی ہے.نائی حجامت کرتے ہیں ان پر اعتماد کر کے ان کے سامنے سر رکھ دیا جاتا ہے.پھر دنیا میں خطر ناک سے خطرناک واقعات ہوتے رہتے ہیں لیکن پھر بھی ایک دوسرے پر اعتماد کیا جاتا ہے.آج ہی میں نے اخبار میں پڑھا ہے کہ میکسیکو کا پریذیڈنٹ ایک دعوت میں گیا وہاں ایک شخص کھیل کے طور مختلف شکلیں بنا رہا تھا.اس نے کہا اگر اجازت ہو تو پریذیڈنٹ صاحب کی شکل بناؤں.اسے اجازت دی گئی.اس نے کہا میں قریب سے شکل دیکھنا چاہتا ہوں.اس طرح اس نے پاس آکر پے در پے پانچ گولیاں چلا دیں.تو بے شک ایسی باتیں ہوتی رہتی ہیں لوگ دھوکا فریب کرتے ہیں.اور باوجود اس کے کہ مسلمان اس زمانہ کو فصیح اعوج کہتے ہیں ہندو بھی اس کا نام کلجگ رکھتے ہیں عیسائی بھی کہتے ہیں اس زمانہ میں برائی بڑھی ہوئی ہے مگر پھر بھی اعتماد زیادہ کیا جاتا ہے اور شک تھوڑا.اگر شک کرنے کا دروازہ کھول دیا جائے اور ہر بات میں شک وشبہ کیا جائے تو چند دن میں تباہی آجائے.اور ایسا
خطبات محمود ۴۲۳ سال ۴۱۹۲۸ زمانہ کبھی نہیں آسکتا کہ شک ہی شک رہ جائے.مگر باوجود اس کے مسلمانوں میں بہت زیادہ لوگ ایسے ہیں جو بلاوجہ اور بلا ثبوت دوسروں کے متعلق شکوک پیدا کرتے رہتے اور الزام لگاتے رہتے ہیں.اصل بات کو نہیں دیکھا جاتا حقیقت معلوم نہیں کی جاتی اور یو نہی الزام لگانے شروع کر دیے جاتے ہیں.میں نے ۱۷ / جون کو رسول کریم ﷺ کی سیرت کے متعلق تمام ہندوستان میں لیکچر دینے کے تحریک کی.ابھی جلے ہوئے نہیں تھے کہ یونہی کہہ دیا گیا کہ ان پر الزام لگائے گئے ہیں ان کو دور کرنے کے لئے یہ تحریک کی گئی ہے.گویا میں ان لوگوں کے نزدیک پہلے دن مذہبی دنیا میں آیا تھا.جب میں نے یہ تحریک کی.اس سے قبل میں نے نہ تو کوئی اسلام کی خدمت کی تھی اور نہ دینی معاملات میں حصہ لیا تھا اس لئے یہ کہنے والوں نے سمجھ لیا کہ میں نے یہ تحریک الزام دور کرنے کے لئے کی ہے یا پھر کیا گیا ان جلسوں کی غرض چندہ جمع کرتا ہے.چندہ کسی نے مانگا نہیں چندہ کے لئے کسی نے تحریک کی نہیں مگر الزام لگایا جاتا ہے کہ چندہ جمع کرنے کے لئے ۱۷ / جون کے جلسوں کی تحریک کی گئی ہے.ایک یہ بھی الزام لگایا گیا کہ سائمن کمیشن کو کامیاب بنانے کے لئے یہ جلسے کرائے جائیں گے.کوئی پوچھے سائمن کمیشن اور رسول کریم ﷺ کی سیرت کے متعلق جلسے کرانے میں جو ڑ کیا ہے؟ میں نے مختلی بالطبع ہو کر سوچا مجھے تو کوئی جوڑ نظر نہیں آیا.مگر میں کہتا ہوں اگر کوئی جوڑ ہو بھی اور سائمن کمیشن سے تعاون کر کے دنیا سے رسول کریم اللہ کی تعریف کرائی جا سکے تو میں تو ہزار تعاون کرنے کے لئے تیار ہوں.میں تو عدم تعادلی نہیں ہوں لیکن اگر عدم تعاونی بھی ہوتا اور یہ دیکھتا کہ رسول کریم ﷺ کی شان اور آپ کی تقدیس تعاون کرنے سے ہو سکتی ہے تو میں عدم تعاون پر ہزار لعنت بھیجتا اور بڑی خوشی سے تعاون کرتا.یہ محض ظن سے کام لیا گیا اور نہایت مبارک تحریک کے متعلق شکوک پیدا کئے گئے.میں کہتا ہوں ہم ہندوستانی انگریزوں سے اپنے حقوق مانگتے ہیں اس پر بعض انگریز خیال کر لیتے ہیں کہ ہندوستانی بغاوت کرنا چاہتے ہیں مگر ہم اس کا انکار کرتے اور کہتے ہیں یہ جھوٹا الزام ہے.ہم تو یہ کہتے ہیں کہ ہمارے حقوق ہمیں دیئے جائیں.لیکن اگر دو سروں پر شک و شبہ کیا جا سکتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ انگریز بھی یہ نہ سمجھیں کہ ہندوستانی بغاوت کرنا چاہتے ہیں.بات یہ ہے کہ دنیا کے سب کام اعتماد پر چلتے ہیں.جب کسی کی بات کی بنیاد شک پر ہوگی تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ دوسروں سے کے تم مجھ پر کوئی شک نہ کرو.مگر شک وشبہ سے بچنے اور خواہ مخواہ بد تلفنی
به۴۲۴ سال ۶۱۹۲۸ نہ کرنے کی بہت کم پرواہ کی جاتی ہے.یہاں کا ایک واقعہ دیکھ لیا جائے چند دن ہوئے میں ایک دعوت میں گیا.وہ جرنیل صاحب جن کے اعزاز میں دعوت دی گئی تھی وہ چونکہ پہلے مجھ سے مل چکے تھے اس لئے خیال نہ تھا کہ وہ اپنی لیڈی کو تعارف کرانے کے لئے لائیں گے مگر وہ لے آئے.جب انہوں نے انٹرو ڈیوس (Introduce) کرایا تو لیڈی صاحبہ نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا.چونکہ میں شرعی طور پر اس بات کا قائل ہوں کہ مردوں کو غیر محرم عورتوں سے مصافحہ نہ کرنا چاہئے اس لئے میں نے مصافحہ نہ کیا.مگر یہ سن کر مجھے تعجب ہوا کہ بعض لوگوں نے تو یہ کہا کہ اس لیڈی کی بنک کی گئی ہے اور بعض نے کہا یہ محض لوگوں کو دکھانے کے لئے کیا گیا ہے ورنہ مصافحہ کر لیا کرتے ہیں.تعجب یہ ہے کہ اس میں دکھانے والی کون سی بات تھی.یہ تو ہو سکتا ہے کہ بڑے آدمی سے اپنا تعلق ظاہر کرنے کے لئے مصافحہ کیا جائے مگر مصافحہ نہ کرنے میں تو کوئی بات ایسی نہیں جو دکھائی جائے.اس طرح تو نا واقف کے لئے ناراضگی کا موقع پیدا ہو جاتا ہے.جب میں ولایت گیا تو ایک مشہور انگریز آرنلڈ ہماری پرائیویٹ مجالس میں اپنی بیوی کو نہ لاتے تھے اور دوسری مجالس میں بھی جن میں میں ہوتا یا تو ساتھ نہ لاتے یا ہمارے قریب نہ لاتے کیونکہ وہ سمجھتے تھے مصافحہ نہ کرنے کی وجہ سے ان کی بیوی کی ہتک ہوگی.تو دکھانے کے لئے مصافحہ کرنا چاہئے تھا نہ یہ کہ نہ کیا جاتا.مگر اس بات کو بہت شہرت دی گئی.ملتان کے کمشنر صاحب یہاں آئے ہوئے ہیں ان سے ایک دوست ملنے گئے تو انہوں نے بھی بتایا کہ یہ کہا جاتا ہے.اس کے متعلق یہ تو کوئی کہہ سکتا ہے کہ غیر محرم عورتوں سے مصافحہ نہ کرنے کا خیال غلط ہے اور ہم اس بات کو سننے کے لئے تیار ہیں.اگر کوئی مجھے یہ ثابت کر دے کہ قرآن اور حدیث کی رو سے مصافحہ کرنا جائز ہے تو مجھے بڑی خوشی ہوگی کیونکہ ولایت میں ہمارے مبلغوں کو مصافحہ نہ کرنے کی وجہ سے بہت مشکلات پیش آتی ہیں.ابھی ایلین بی ہمارے لندن مشن میں آئے انہوں نے یہ نہ لکھا تھا کہ ان کے ساتھ ان کی بیوی بھی ہوگی.اگر یہ معلوم ہو تا تو انہیں مصافحہ نہ کرنے کے متعلق اطلاع دے دی جاتی.وہ اپنے عہدہ کے لحاظ سے بہت بڑا درجہ رکھتے ہیں.مذہبی لحاظ سے بھی ان کی بڑی عزت کی جاتی ہے کیونکہ انہوں نے شام کو فتح کیا تھا جسے عیسائی مقدس ملک سمجھتے ہیں اور فوجی لحاظ سے وہ فیلڈ مارشل ہیں.اتنے بڑے آدمی کی بیوی کے ساتھ ہمارے مبلغ نے مصافحہ نہ کیا کیونکہ ہمارا مذہب اس بات کی اجازت نہیں دیتا یا کم از کم ہمارے نزدیک نہیں دیتا.اور جب ہم اس مذہب کو مانتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ سچائی اور دیانت
خطبات محمود ۴۲۵ سال ۱۹۲۸ء داری سے مانیں.چونکہ مبلغ کو میری طرف سے ہدایت تھی کہ مصافحہ نہ کیا جائے اس لئے اس نے نہ کیا.اور وہ تھوڑی دیر مجلس میں بیٹھ کر چلے گئے.ممکن ہے بڑے آدمی تھے زیادہ دیر نہ بیٹھ سکنے کی وجہ سے چلے گئے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے برا منایا ہو.تو بظاہر اس میں ہمارا کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہے مگر ہم اس پر عمل کرتے ہیں.اس کو بھی برے رنگ میں پیش کیا گیا.بات یہ ہے جب کوئی انسان یہ خیال کرے کہ فلاں شخص کی ہر بات میں نقص نکالتا ہے اور اسے برے رنگ میں پیش کرنا ہے تو اچھی سے اچھی بات بھی اس کی نگاہ میں بری ہوتی ہے.لیکن اگر ہر بات میں بدظنی سے کام لیا جائے تو خیال کرو دنیا کی کیا حالت ہو جائے.حضرت خلیفہ اول سناتے ہیں کہ بدظنی کا مسئلہ میرے لئے عجیب رنگ میں حل ہوا.ایک دفعہ میں ایک جنگل میں قضائے حاجت کے لئے گیا.ایک جگہ گڑھے تھے ایک گڑھے میں میں نے قضائے حاجت کی.جب میں کھڑا ہوا.تو پاس ہی کے دوسرے گڑھے سے ایک عورت قضاء حاجت کر کے اٹھی.درمیان میں ایک دیوار تھی جس کی وجہ سے پہلے میں اسے دیکھ نہ سکا لیکن وہ دیوار چھوٹی سی تھی اور دور سے دیکھنے والے کو نظر نہ آسکتی تھی.اس وقت میں نے خیال کیا اگر کوئی دور سے ہم دونوں کو دیکھے کہ ازار بند باندھ رہے ہیں تو وہ کیا خیال کرے گا.تو ایسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں کہ ایک بات کے متعلق غالب خیال پیدا ہو جائے مگر دراصل وہ غلط ہو.اسلام نے کیا ہی عمدہ گر بتایا ہے اگر اس پر عمل کیا جائے تو مسلمانوں کو بہت بڑی کامیابی حاصل ہو سکتی ہے.اب یہ حالت ہے کہ ایک شخص کوئی تحریک کرتا ہے تو سمجھ لیا جاتا ہے کہ اس میں اس کی کوئی ذاتی غرض ہے اور پھر مخالفت شروع کر دی جاتی ہے.میں کہتا ہوں اگر احمدی کوئی تحریک کریں اور شیعہ سمجھ لیں اس میں احمدیوں کی ذاتی غرض ہے.اور شیعہ تحریک کریں تو حنفی سمجھ لیں شیعہ کوئی ذاتی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں.حنفی تحریک کریں تو اہلحدیث سمجھ لیں حنفی کوئی ذاتی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس طرح مخالفت شروع کر دیں تو کونسی تحریک کامیاب ہو سکتی ہے.اگر احمدیوں کی کسی تحریک کے متعلق شک و شبہ کا اظہار کیا جا سکتا ہے تو کیا وجہ ہے حنفیوں کی تحریک پر نہ کیا جائے.اور اگر حنفیوں کی تحریک کے متعلق شکوک پیدا کئے جاسکتے ہیں تو کیا وجہ ہے شیعوں کی تحریک پر نہ کئے جائیں.اگر شیعوں کی تحریک کو شبہات کا شکار بنایا جاسکتا ہے تو کیا وجہ ہے اہلحدیثوں کی تحریک کے متعلق ایسا نہ کیا جائے.اگر ایک جماعت کے لئے شکوک و
خطبات محمود سال ۱۹۲۸ء مجھتے شبہات کا دروازہ کھولا جائے گا تو سب کے لئے کھل جائے گا اور پھر قیامت تک مسلمان اکٹھے نہ ہو سکیں گے.اگر مسلمان اس سے باز نہیں رہ سکتے تو انھیں کبھی کامیابی حاصل نہ ہو گی.دیکھو ویسے ہی ہندوؤں میں اختلاف پائے جاتے ہیں جیسے مسلمانوں میں ہیں.سناتنی آریوں کو ہندو دہرم سے خارج سمجھتے ہیں اور آریہ سناتیوں کو.پھر جینی ویدوں کے ہی قائل نہیں.کفر کا لفظ ہندوؤں میں نہیں کیونکہ ان کی زبان اور ہے.لیکن بتاؤ اگر کوئی قرآن کا ہی منکر ہو تو وہ مسلمان کہلا سکتا ہے ؟ مگر جینی ویدوں کا انکار کرتے ہیں باوجود اس کے ہندو ان کو ہندو کہتے ہیں.اسی طرح وہ بدھ جنہوں نے ہندوؤں کے مندروں کو برباد کر دیا اور وہ جن کی بنیاد ہی ظالمانہ افعال پر سمجھی جاتی ہے آج وہ قاتل اور مقتول جمع ہو گئے ہیں تاکہ مسلمانوں کو مٹا دیں.حالانکہ ان میں سے ایک ایک فرقہ اس قدر دولتمند اور مالدار ہے کہ وہ اکیلا ہی مسلمانوں کو نکال سکتا ہے مگر باوجود اس کے وہ تمام فرقے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اپنی طاقت بڑھانا ضروری سمجھے ہیں.مگر مسلمان باوجود اس کے کہ ان کے مقابلہ میں بہت کمزور ہیں اور تعداد میں بھی بہت تھوڑے ہیں اتحاد کی ضرورت نہیں سمجھتے اور اگر اتحاد کی کوئی تجویز پیش کی جاتی ہے تو کہتے ہیں اس میں پیش کرنے والوں کی کوئی ذاتی غرض ہوگی.ان کی قومی بربادی کی ایسی مثال ہے جیسا کہ مشہور ہے ایک اندھا اور ایک سو جا کھا اکٹھے کھانا کھانے بیٹھے.اندھے نے خیال کیا مجھے تو نظر نہیں آتا سو جا کھا بہت جلدی جلدی کھا رہا ہو گا یہ خیال کر کے وہ جلدی جلدی کھانے لگ گیا.پھر اس نے سمجھا جلدی کھانا تو اس نے دیکھ لیا ہو گا.اب اس نے کوئی اور صورت اختیار کی ہوگی اس پر اس نے ایک ہاتھ سے کھانا اور دوسرے ہاتھ سے جھولی میں ڈالنا شروع کر دیا.اس پر اسے خیال آیا یہ بھی اس نے دیکھ لیا ہو گا اور اس نے کوئی اور ترکیب اختیار کی ہو گی.تب اسے کوئی اور ترکیب تو نہ سو جبھی تھالی اٹھا کر کہنے لگا اب یہ میرا حصہ ہے تم نے بہت کھا لیا سوجا کھا اس کی حرکات دیکھ دیکھ کر ہنس رہا تھا کہ اسے ہو کیا گیا ہے.بعینہ یہی مثال مسلمانوں کی ہے وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ان کی حالت کیا ہے.وہ دوسرے کے متعلق سمجھتے ہیں اسے گرانے کی کوشش کرنی چاہئے ورنہ وہ سب کچھ کھا جائے گا.میں کہتا ہوں تم اپنی اپنی خصوصیات قائم رکھو مگر جو مشترکہ مسائل ہیں ان میں تو مل کر کام کرو.جاؤ ہندوؤں سے جا کر پوچھو کیا وہ اس لئے اسلام پر حملہ کرتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا.اگر اس لئے نہیں بلکہ اس لئے حملے کرتے ہیں کہ مسلمان مسلمان کیوں ہیں تو پھر اسلام کو بچانے کے لئے -
خطبات محمود ۴۲۷ سال ۱۹۲۸ء ایک نقطہ پر جمع ہونے میں سنیوں اور دوسرے مسلمانوں کو کیا عذر ہو سکتا ہے.پھر کیا ہندو اس لئے اسلام پر حملہ کرتے ہیں کہ مسلمان حضرت عیسی علیہ السلام کو زندہ کیوں مانتے ہیں.اگر ان کا حملہ اس وجہ سے ہوتا تو ہر ایک احمدی کہہ سکتا تھا کہ جاؤ تم ان سے لڑو ہمیں لڑنے کی کیا ضرورت ہے ہم تو حضرت عیسی کو فوت شدہ مانتے ہیں.مگر یاد رکھو کوئی ہندو اور کوئی عیسائی ان اختلافات کی وجہ سے حملہ نہیں کرتا جو احمدیوں اور اہلحدیثوں میں یا سنیوں اور شیعوں میں پائے جاتے ہیں بلکہ ان مسائل کی وجہ سے حملہ کرتا ہے جو احمدی ، غیر احمدی ، شیعہ ، سنی ، اہلحدیث رافضی خارجی غرض کہ اسلام کے تمام فرقوں میں مشترک ہیں اور وہ یہ ہیں کہ محمد خدا تعالٰی کے راست باز انسان تھے اور آپ جو تعلیم لائے وہ ساری دنیا کے لئے ہے.اور کون ہے جو مسلمان کہلاتا ہو مگر رسول کریم ﷺ کو راست باز نہ مانتا ہو اور آپ کی لائی ہوئی شریعت کو ساری دنیا کے لئے نہ سمجھتا ہو.پھر مخالفین اسلام اس لئے حملہ کرتے ہیں کہ مسلمان خدا کی توحید کے قائل ہیں اور کوئی مسلمان ہے جو توحید کا قائل نہ ہو.پھر وہ اس لئے حملہ کرتے ہیں کہ مسلمان قرآن کو خدا کا کلام سمجھتے ہیں کیا کوئی مسلمان ہے جو اس کا انکار کرتا ہو ؟ پھر سب مسلمان مل کر کیوں مخالفین اسلام کا مقابلہ نہ کریں.اسلام کے مٹنے سے احمدیوں کا ہی نقصان نہیں بلکہ سب مسلمان کہلانے والوں کا نقصان ہے.ہم تیس سال سے زیادہ عرصہ سے اپنی قوم کے ظلم سہتے چلے آرہے ہیں.ہماری ہمدردی کے جواب میں ہم پر ظلم کئے گئے اور ہماری خیر خواہی کے مقابلہ میں ہم پر الزام لگائے گئے مگر جب ہم نے دیکھا کہ ملکانوں پر آریوں نے حملہ کیا ہے اور ان کو مرتد بنا رہے ہیں اور اس وقت اسلام کی حفاظت کا سوال ہے تو ہم نے نہ کسی نقصان کی پرواہ کی اور نہ ظلم و ستم کی جو ہماری قوم نے ہم پر کئے تھے اور اسلام کی حفاظت کے لئے کھڑے ہو گئے.ملکانے ہم میں سے نہ تھے.جس طرح آج دو تین اشخاص کے مرتد ہو جانے پر ہمارے خلاف شور مچایا جارہا اور خوشیاں منائی جارہی ہیں اس طرح کیا ملکانوں کے مرتد ہونے پر ہم مسلمانوں کے مقابلہ میں نہ کر سکتے تھے مگر ہم نے نہ کیا بلکہ سب سے بڑھ کر ملکانوں کو بچانے کی کوشش کی.دوسرے مسلمانوں نے کئی کروڑ ہونے کے باوجود تھیں چالیس آدمیوں کو بھیجا مگر ہم نے چند لاکھ ہوتے ہوئے نواں کے قریب مبلغ ایک وقت میں ملکانوں کے علاقہ میں پھیلا دیئے.کیونکہ ہم نے آریوں کا حملہ اسلام پر سمجھا اور اسلام کی حفاظت کے لئے کھڑا ہونا ہمارا سب سے پہلا فرض ہے.
خطبات محمود ۴۲۸ سال ۶۱۹۲۸ بات یہ ہے بچے طور پر جو اسلام سے محبت رکھے گاوہ مخالفین اسلام کے ہر حملہ کو اپنے اوپر سمجھے گا.ذرا غور تو کرو اگر کوئی شخص کسی کے باپ سے لڑ پڑے تو کیا وہ دوسرے بھائیوں کو کہے گا کہ یہ تمہارے باپ سے لڑ رہا ہے تم اس کا مقابلہ کر دیا ہر بیٹا یہ سمجھے گا کہ لڑنے والا مجھ پر حملہ کر رہا ہے.جو بیٹا یہ سمجھے گا کہ سب سے زیادہ مجھ پر حملہ کیا گیا ہے وہی سب سے زیادہ باپ سے محبت کرنے والا ہو گا اور جو اس حملہ کو دوسرے کی طرف منتقل کرنے کی کوشش کرے گا اس کا باپ سے کم تعلق سمجھا جائے گا.اسی طرح ایسے وقت میں جب کہ رسول کریم ﷺ پر حملے ہو رہے ہیں جو آگے آتا ہے وہی رسول کریم ﷺ سے زیادہ محبت کرنے والا سمجھا جائے گا.ہم حملے کرنے والوں کے مقابلہ میں سب سے آگے نکل کر کھڑے ہو گئے ہیں کیونکہ ہمارا حق ہے کہ ہم سب سے زیادہ وہ گولیاں کھا ئیں جو آپ پر چلائی جائیں.دوسرے مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ آگے بڑھیں اور اس مبارک کام میں حصہ لیں اگر مسلمانوں نے توجہ نہ کی تو ان کی تباہی و بربادی میں کوئی شک نہیں رہ جائے گا.میں اللہ تعالٰی سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مسلمانوں کو تباہی سے بچائے.اس وقت ہماری حالت اس سے بدتر ہے جو سپین میں مسلمانوں کی تھی.خدا تعالٰی ہماری کمزوریاں دور کر دے ، ہماری بدیاں مٹا دے اور ہمیں عمل سے نہ کہ صرف زبان سے اس محبت کا ثبوت دینے کی توفیق عطا فرمائے جو ہمیں رسول کریم سے ہے.تاریخ اسلام مصنفہ شاہ معین الدین ندوی حالات خلافت عباسیہ الفضل ۳۱ / جولائی ۱۹۲۸ء)
خطبات محمود ۴۲۹ ۵۶ سال ۱۹۲۸ء مسلمانوں کی ترقی کے دوگر فرموده ۲۷/ جولائی ۱۹۲۸ء بمقام ڈلہوزی) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: قُلْ هُذِهِ سَبِيلِ ادْعُوا إِلَى اللَّهِ وَ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي ، وَسُبحان الله وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ (یوسف: ۱۰۹) اس کے بعد فرمایا رسول کریم ﷺ کو اللہ تعالٰی اس آیت میں دو امور کا اعلان کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہے.گویا رسول کریم ﷺ کا دعوئی دو نہایت چھوٹے سے جملوں میں بیان فرماتا ہے اور دنیا کو اس کی طرف توجہ دلاتا ہے.پہلی بات تو یہ ہے کہ خدا تعالی پہلی آیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے قُل هذه سبیلی کہہ دے یہ جو کچھ پہلے بیان ہوا ہے یہ میرا طریق اور راستہ ہے.چونکہ ہر انسان لمبے مضمون سے نتیجہ نکالنے کے قابل نہیں ہوتا اور جہاں بات کو وضاحت کے ساتھ بیان کرنے کے لئے تفصیل کی ضرورت ہوتی ہے وہاں تھوڑی عقل اور محدود سمجھ والوں کے لئے اجمال کی بھی ضرورت ہوتی ہے اس لئے پہلی آیات کے بعد فرمایا ھذہ سبیلی - وہ رستہ جس کی طرف پہلے اشارہ کیا گیا ہے یہ ہے کہ اُدْعُوا اِلَی اللہ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں.تو رسول کریم ﷺ سے فرمایا کہہ دے میرا یہ راستہ ہے جو پہلے بیان ہوا ہے.وہ یہ ہے کہ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں.سبیلی کہہ کر پہلی بات یہ بیان کی کہ میں اس رستہ پر عامل ہوں صرف یہ نہیں کہ لوگوں کو اس کی طرف بلاتا ہوں بلکہ خود بھی اس پر عمل کرتا ہوں.پہلی چیز ایک مدعی کے لئے یہ ہوتی ہے کہ جس بات پر عمل کرنے کے لئے دوسروں سے کہتا ہو پہلے خود اس پر عامل ہو.اگر ایک شخص لوگوں کو ایک بات کی طرف بلاتا ہے مگر خود اس پر عمل نہیں کرتا تو اس کی بات کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا.ہر انسان جو اس کی بات سنے گا یہی سمجھے گا کہ اگر اس بات میں خوبی ہوتی تو یہ خود بھی
خطبات محمود ۴۳۰ سال ۱۹۲۸ء اس پر عمل کرتا.پس اگر کوئی شخص اعلیٰ اخلاق سکھائے اچھے معاملات کی تلقین کرے اور فلسفیانہ باتیں بتائے لیکن خود ان کو رد کرتا جائے تو وہ کبھی نیکی پھیلانے میں کامیاب نہیں ہو سکے گا.اگر ہم لوگوں سے کہتے ہیں کہ خدا کی طرف آؤ خدا کے دین کے لئے قربانیاں کرو اپنی قوم کے لئے قربانی اور ایثار دکھاؤ تو ضروری ہے کہ اپنے عمل سے بھی ان باتوں کا ثبوت دیں.زبان با اثر اس وقت ہو سکتی ہے جب کہ انسان وہ کام خود بھی کرے جس کے کرنے کے لئے دوسروں سے کیے.اگر دوسروں سے تو کسے کہ قوم یا مذہب یا جماعت کی خاطر اولاد کو قربان کرو مگر خود اولاد کو ایسے رستہ پر لگائے جس سے دنیا کا فائدہ حاصل ہوتا ہے تو اس کی بات کا کیا اثر ہو گا.اسی طرح جو شخص دوسروں سے کہے کہ خدا سے محبت کرو مگر آپ خدا کی محبت میں نہیں بلکہ دنیا کی محبت میں چور ہو تو ایسے انسان کی بات کا کیا اثر ہو گا.تو فرمایا هذه سبيلنی اس میں صرف یہ نہیں بتایا کہ میں کس طرف بلاتا ہوں بلکہ یہ بھی بتایا ہے کہ جس طرف میں بلاتا ہوں اس طرف خود بھی جا رہا ہوں.پس اس جملہ میں اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کا نہ صرف دعوئی پیش کیا ہے بلکہ آپ کا عمل بھی پیش کر دیا ہے.اور وہ رستہ یہ ہے اَدعُوا اِلَی اللہ اللہ کی طرف بلاتا ہوں.یہ ایک امتیازی نشان ہے رسول کریم اے کی فضیلت کا کہ آپ اللہ تعالی کی طرف بلاتے ہیں.میں یہ نہیں کہتا کہ باقی انبیا ء خدا کی طرف نہ بلاتے تھے بلاتے ہوں گے مگران کی تعلیمیں چونکہ منسوخ ہو گئی ہیں ان سے یہ معلوم نہیں ہو تا کہ وہ ادْعُوا الی اللہ کرتے تھے.توریت پڑھنے سے انسان اس بات سے تو متاثر ہوتا ہے کہ اس میں ایک حد تک خدا کی طرف بلایا گیا ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قومیت اور حقہ بندی کی طرف زیادہ توجہ دلائی گئی ہے اور یہ سکھایا گیا ہے کہ تم ساری دنیا سے معزز قوم ہو سب سے ممتاز ہو ساری خوبیاں تم میں جمع ہیں.گویا یہودیوں کی جبقہ بندی پر سارا زور صرف کیا گیا ہے.میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ یقیناً حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ تعلیم نہ ہوگی لیکن بہر حال ان کی طرف جو منسوب کی جاتی ہے وہ ایسی ہے اور اس کے سوا کوئی اور ایسی تعلیم نہیں ہے جو ان کی بتائی جاتی ہو.پھر انجیل کو دیکھتے ہیں تو اس میں بھی اَدعُوا الی اللہ کی سپرٹ نظر نہیں آتی.اس میں سارا زور اپنی قوم کو ابھارنے ان کی امیدیں قائم کرنے یا پھر اپنی ذات کی طرف توجہ دلانے پر ہے.میں نہیں سمجھتا حضرت مسیح علیہ الصلوۃ والسلام نے یہی تعلیم دی ہو مگر بہر حال ہمارے
خطبات محمود ۴۳۱ سال ۱۹۲۸ء سامنے جو کچھ ہے وہ یہی ہے.اللہ تعالیٰ کی ذات پر زور دینے والی کتاب زبور ہے اسی لئے زیادہ تر عیسائی اپنے وعظوں میں زبور کو پیش کرتے اور اس پر زور دیتے ہیں.جتنے مشہور عیسائی واعظ ہیں وہ زبور کی آیات پڑھ کر ان پر اپنے وعظ کی بنیاد رکھتے ہیں.وجہ یہ کہ اس میں خدا تعالٰی کی طرف متوجہ کرنے پر بہت زور دیا گیا ہے مگر وہاں بھی ادعُوا إِلَى اللهِ والی بات نظر نہیں آتی.حضرت داؤد یہ نہیں بیان کر رہے کہ اللہ کی طرف آؤ بلکہ یہ کہتے ہیں کہ میں اللہ کی طرف جا رہا ہوں اور ان دونوں باتوں میں بڑا فرق ہے.ایک کا تو یہ مطلب ہے کہ اپنی ذات کا فائدہ اٹھاؤ اور دوسری کا یہ ہے کہ اپنی ذات کا ہی فائدہ نہ اٹھاؤ بلکہ ساری دنیا کو فائدہ پہنچاؤ.تو زبور میں بے شک محبت الہی کا ذکر ہے مگر وہ صرف حضرت داؤد سے مخصوص ہے اَدُعُوا اِلَى اللهِ نہیں ہے.مگر قرآن کی جس سورۃ جس رکوع اور جس آیت کو دیکھو اس میں یہی نظر آئے گا کہ خدا تعالی کو پیش کیا گیا اور ساری دنیا کے لئے پیش کیا گیا ہے.یعنی سب کو اس کی طرف جانے اور اس سے فیض حاصل کرنے کی دعوت دی گئی ہے.یہ قرآن کریم کی اتنی بڑی خوبی ہے جو مخالفین کو بھی متاثر کئے بغیر نہیں رہ سکتی.چنانچہ ایک فرانسیسی مصنف لکھتا ہے میں نے پادریوں کی کتابوں میں پڑھا تھا کہ قرآن ایک جھوٹی کتاب ہے اس وجہ سے مجھے اس کے پڑھنے کا خیال پیدا ہوا.لیکن جب میں نے قرآن پڑھا تو ایک بات نے مجھے مجبور کر دیا کہ اسے جھوٹا نہ کہوں اور وہ یہ ہے کہ جو شخص کوئی جھوٹ بولتا ہے اس کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے.وہ یا تو روپیہ حاصل کرنا چاہتا ہے یا قوم کو فائدہ پہنچانا چاہتا ہے یا ذاتی طور پر کوئی فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے.غرض کوئی نہ کوئی اس کی غرض ہوتی ہے.میں نے قرآن کو شروع سے لے کر آخر تک پڑھا ہے مگر کوئی مقصد ایسا نہ نظر آیا.اگر اس میں ایسی تعلیم دی جاتی جس سے محمد ) کے پاس دولت جمع ہو جاتی یا ان کو حکومت حاصل ہو جاتی یا ان کی قوم کو دوسروں پر برتری دی جاتی یا کوئی اور ذاتی یا قومی فائدہ حاصل کرتا تو میں سمجھتا اس شخص نے فلاں غرض کے لئے جھوٹ بولا ہے مگر قرآن میں ایسی باتوں میں سے کوئی بھی نظر نہیں آتی بلکہ شروع سے آخر تک یہی ذکر ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرو اس کی رضا حاصل کرو، اس کے حکم کے خلاف کوئی بات نہ کرو اس کا قرب حاصل کرو اور جب ہم اس انسان کی ذات کی طرف دیکھتے ہیں جس نے یہ باتیں بیان کیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جو کام بھی وہ شروع کرتا ہے خدا کا نام لے کر شروع کرتا ہے اسے ہم جھوٹا تو نہیں کہہ سکتے.اگر اس کا نام جنون رکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اسے خدا
محمود سال ۶۱۹۲۸ کی محبت کا جنون تھا.یہ ایک غیر کی گواہی ہے اور اس شخص کی گواہی ہے جس نے قرآن کریم کو اس نظر سے دیکھا کہ اس کی قوم کے لوگ قرآن کو جھوٹا کہتے تھے.کیا یہ عجیب بات نہیں کہ قرآن بھی کہتا ہے.اُدْعُوا إِلى الله اور ایک غیر شخص جس میں تعصب نہ تھا وہ بھی یہی کہتا ہے کہ اگر بانی اسلام کو کوئی جنون تھا تو وہ خدا کی محبت کے سوا اور کچھ نہیں تھا.تو فرمایا یہ رستہ ہے جس کی طرف میں بلاتا ہوں اور وہ خدا کی طرف جانے کا رستہ ہے.اب قرآن کریم کے اس مضمون اور دوسری مذہبی کتب کے مضمون کو دیکھو کتنا بڑا فرق نظر آتا ہے.رسول کریم ﷺ قرآن کریم شروع کرتے ہیں تو بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ سے اور ختم کرتے ہیں.تو قُل اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِكِ النَّاسِ الهِ النَّاسِ مِنْ شَرِ الوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ یعنی خدا تعالی کا نام لے کر شروع کرتے ہیں خدا ہی کے سپرد کر کے ختم کرتے ہیں.مگر انجیل کو دیکھو کس طرح شروع ہوتی ہے.فلاں سے فلاں پیدا ہوا اور فلاں سے فلاں.اس کا خدا تعالیٰ سے ملنے اور اس کا قرب حاصل کرنے سے کیا تعلق ؟ اور پھر ختم ہوتی ہے تو اس طرح کہ حضرت مسیح نهایت مایوسی اور بے قراری کی حالت میں صلیب پر لٹکائے جاتے اور بالفاظ انجیل مار ڈالے جاتے ہیں.ظاہر ہے کہ انجیل نے اپنے اول اور آخر جو کچھ پیش کیا ہے وہ قرآن کریم کے مقابلہ میں بہت ادنی ہے.قرآن کریم اللہ تعالٰی کے نام سے شروع ہوتا ہے اور اللہ ہی کے نام پر ختم ہوتا ہے.گویا اللہ ہی کے نام سے برکت حاصل کر کے شروع کیا جاتا ہے اور اللہ ہی کے سپرد کر کے ختم کیا جاتا ہے.قُل اَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ کی سورتوں کا خلاصہ کیا ہے صرف یہ کہ سپردم بتو مایه خویش را تو دانی حساب کم و بیش را میں نے تیرا نام لے کر کام شروع کیا تھا اور نیت یہی تھی کہ تجھے ہر بات میں مقدم رکھوں اور تیرے لئے اپنے آپ کو مٹا دوں اس نیت کے ساتھ میرا کام ختم ہوتا ہے.مگر میں یہ مانتا ہوں کہ مجھ سے غلطیاں ہو ئیں کو تاہیاں ہو ئیں اس لئے اپنی جان تیرے سپرد کرتا ہوں.اب جو تو چاہے وہ کر.
خطبات محمود سال ۱۹۲۸ء کیسی محبت کی اور کتنی درد کی تعلیم ہے.محبت ہے تو ایسی کہ بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ کہنے کے بغیر کوئی کام ہی نہیں کیا جاتا.یہ کمال محبت ہے کہ کسی چیز کو چھونا بھی نہیں چاہتا جب تک خدا کا نام نہ لے لے جیسے ماں ہر چیز کھانے کے وقت بچہ کو یاد کر لیتی ہے اسی طرح مؤمن ہر کام کرنے کے وقت خدا کو یاد کرتا ہے.پھر اس محبت سے وہ سوز اور گداز پیدا ہوتا ہے جس کی وجہ سے بالکل بے جان کی طرح خدا تعالیٰ کے سامنے ڈال کر کہتا ہے جو کچھ کرنا ہے تو نے ہی کرنا ہے.- یہ وہ تعلیم ہے جو رسول کریم ﷺ نے پیش کی اسے کون غلط کہہ سکتا ہے.مذہب کی غرض خدا تعالٰی سے ملنا ہے اور جو خدا تعالی کی طرف چل پڑے وہ غلط رستہ پر کہاں جا سکتا ہے.تو ادعوا الى اللہ میں یہ بتایا کہ مذہب کا خلاصہ اللہ تعالیٰ کی محبت ہے انسان کو چاہئے کہ اس میں زندگی بسر کرے.یہ بہت اعلیٰ طریق ہے مگر اس میں ایک کمی رہ جاتی ہے اس کی طرف آیت کے اگلے حصہ میں توجہ دلائی گئی ہے.محبت بے شک اچھی چیز ہے مگر یہ ایسی چیز ہے کہ اس میں ٹھو کر بھی لگ سکتی ہے.بہت لوگ محبت کی وجہ سے حقیقت کو بھول جاتے ہیں.پس خالی محبت مفید نہیں ہو سکتی محبت اور حقیقت مل کر کام آتی ہے.مثلاً اگر کسی کا بچہ پہاڑ پر سے گر پڑے تو بجائے اس کے کہ سوچ کر نیچے اترے.اگر وہ محض محبت کے جوش میں پہاڑ سے کود پڑے گا تو ہو سکتا ہے کہ بچہ تو صحیح سلامت نیچے کھڑا ہو اور وہ مرجائے تو فرمایا: ادْعُوا الی اللہ میں خدا سے محبت کرتا ہوں اور اس کی طرف بلاتا ہوں مگر میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو کہتے ہیں بات سمجھ میں آئے یا نہ آئے اسے مان لو بلکہ میں یہ کہتا ہوں عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِي میں اور میرے پیچھے چلنے والے ایسے ہیں کہ انتہاء درجہ کی محبت میں بھی ان کی عقلیں نہیں ماری جاتیں بلکہ قائم رہتی ہیں کیونکہ میری تعلیم کی بنیاد عقل اور دلیل پر قائم ہے.نیک نیست بے شک قابل قدر چیز ہے لیکن جب عقل کے خلاف ہو تو نقصان پہنچاتی ہے.اگر ایک شخص زہر کو تریاق سمجھ کر کھالے تو وہ اپنی نیت کے اچھے ہونے کی وجہ سے بچ نہیں سکے گا یا لوگ کہتے تیار کرتے ہیں اگر کوئی زہر کا کشتہ کسی کے لئے بڑی محبت اور اخلاص سے تیار کرے مگر وہ زہر کا اثر زائل کرنا نہ جانتا ہو تو اس کی محبت اور نیک نیتی کی وجہ سے وہ کشتہ کے زہر سے بچ نہیں سکے گا کیونکہ وہ عقل کے ماتحت تیار نہ ہوا ہو گا.تو ادعوا إلی اللہ میں بتایا کہ اسلام کی بنیاد محبت پر ہے مگر ساتھ ہی اسلام عقل کو بھی
خطبات محمود ۴۳۴ سال ۱۹۳۸ء نہیں چھوڑتا اس لئے میں بھی عقل پر قائم ہوں اور میرے متبع بھی.پھر فرمایا - وسُبُحْنَ اللهِ وَمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ.یہ پہلی دونوں باتوں کی دلیلیں دیں.قرآن کریم کا قاعدہ ہے کہ بات کے آخر میں ایک یا دو لفظوں میں خلاصہ بیان کر دیتا ہے.یہاں دو دعوے پیش کئے گئے تھے اور خاتمہ پر دو لفظوں میں ان کا ثبوت بیان کر دیا - هذه سبيلی ادْعُوا الی اللہ کے متعلق سُبحن الله فرمایا کہ اللہ ہر قسم کے عیوب سے پاک ہے اور کامل زات ہے.ادعوا الی اللہ میں بتایا تھا کہ میں خدا کی طرف بلاتا ہوں.اس پر سوال ہو سکتا تھا کہ کیوں خدا کی طرف جائیں اس میں کیا فائدہ ہے.اس کے متعلق فرمایا.سُبحن الله وه ذات کامل اور پاک ذات ہے اگر تم کامل بننا چاہتے ہو تو کامل ذات کی طرف آؤ.یہ فطرتی تقاضا ہے کہ جو کام کیا جائے اس کا کوئی مقصد ہونا چاہئے اور خدا کی طرف جانے کا مقصد یہی ہے کہ کمال حاصل ہو اور یہ خدا ہی سے حاصل ہو سکتا ہے کیونکہ اس کے سوا کوئی کامل نہیں ہے.اس لئے بتایا.سُبحن الله الله تمام عیوب سے پاک اور تمام خوبیوں کا جامع ہے اور وہی کامل ہے اس لئے اس کی طرف جانے سے کمال حاصل ہو سکتا ہے.دوسری بات جو یہ کبھی تھی کہ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِ اس کے متعلق فرمایا- وَمَا انَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ دلائل پر قائم ہونے کا ایک نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان ادھر ادھر نہیں مارا مارا پھرتا اس کے سامنے ایک گول اور مقصد ہوتا ہے تمہاری بھی یہی حالت ہو جائے گی.مشرک کون ہوتا ہے وہ کہ جو چیز دیکھتا ہے اسے اپنا معبود بنا لیتا ہے.اگر پہاڑ دیکھا تو اس کے آگے جھک گیا، دریا دیکھا تو اسے پوجنے لگ گیا کوئی درندہ ملا تو اسے معبود بنا لیا گویا وہ ایک آوارہ گرد کی طرح ہوتا ہے یہ نہیں جانتا کہ خدا کس طرف جانے سے مل سکتا ہے.مگر مؤمن اس طرح نہیں کرتا اس کے سامنے ایک کامل اور واحد ذات ہوتی ہے اور وہ اس کے پانے کے لئے کوشش کرتا ہے.پس مومن اور مشرک میں فرق یہ ہے کہ مومن کی مثال اس معالج کی طرح ہوتی ہے جو سائنٹیفک طریق پر علاج کرتا ہے جو مرض دیکھتا ہے اور اس کے مطابق دوا دیتا ہے.مگر مشرک پرانے زمانہ کی اس بڑھیا کی طرح ہوتا ہے جسے جو شخص کوئی علاج بتائے وہی کرنے لگی جاتی ہے.غرض مشرک ہمیشہ بصیرت کے خلاف چلتا ہے وہ اپنے اعمال کی بنیاد عقل پر نہیں رکھتا اس لئے کبھی کسی طرف اور کبھی کسی طرف نکل جاتا ہے.دیکھو وہ لوگ جو ڈلہوزی پہنچنے کا رستہ جانتے ہوں وہ تو چلتے چلتے ڈلہوزی پہنچ جائیں گے مگر جو رستہ نہیں جانتے ان میں سے کوئی کہیں
خطبات محمود ۳۵ سال ۱۹۲۸ء نکل جائے گا اور کوئی کہیں.پس عقل کے ماتحت جو کام کرتے ہیں وہ ایک ہی نتیجہ پر پہنچتے ہیں.اور جو یونہی چلتے ہیں ان میں سے بھی کوئی پہنچ سکتا ہے مگر زیادہ ضائع ہی ہو جاتے ہیں.رسول کریم ﷺ نے اس آیت میں دو دعوے کئے.ایک یہ کہ ادْعُوا إِلَى اللهِ اور دوسرا یہ کہ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِى اس سے بہتر دعوے نہیں ہو سکتے اور نہ کسی نے آپ کے سوائے ہیں.دعوے یہ ہیں کہ میں خدا کی طرف بلاتا ہوں، خدا کی محبت لوگوں میں پیدا کرتا ہوں ، پھر عقل سے منواتا ہوں کسی قسم کا جبر نہیں کرتا.یہ وہ بہترین چیز ہے جو قرآن کریم نے دنیا کے سامنے پیش کی ہے.مگر ہمارے لئے سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم اس سے نفع اٹھاتے ہیں.خواہ ایک چیز کتنی عمدہ ہو لیکن اگر ہم اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے تو ہمارے لئے اس کا اچھا ہونا یا نہ ہونا برابر ہے.کسی کو بخار چڑھا ہو اور اس کی جیب میں کونین بھی ہو مگر وہ خود نہ کھائے اور دوسروں کو بتائے کہ بخار دور کرنے کے لئے بہت مفید چیز ہے تو اس سے اسے کیا فائدہ ہو گا.اسی طرح ایک شخص کنویں کے پاس پیاسا بیٹھا ہو مگر پانی نہ پئے تو اس کی پیاس کس طرح بجھ سکی گی.پس جب تک ہم قرآن کریم پر عمل نہ کریں وہ باتیں جو اس میں بیان کی گئی ہیں ان سے کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں.اس آیت میں قرآن نے دو باتیں بیان کی ہیں.ایک یہ کہ اللہ کی طرف بلاتا ہوں.اب ہمیں دیکھنا یہ چاہئے کہ کیا ہماری زندگیاں ایسی ہیں کہ ہم لوگوں کو خدا تعالی کی طرف بلاتے ہیں یا یہ کہ دوسروں کو بلاتا تو الگ رہا خود ہی خدا کی طرف جاتے ہیں.اگر غور کریں تو مسلمانوں میں سے بہت کم ہوں گے جو اس طرف توجہ کرتے ہوں.ان کے مقابلہ میں عیسائی اور دوسرے مذاہب والوں میں اپنے اپنے مذہب سے بہت زیادہ تعلق پایا جاتا ہے اور وہ دوسروں کو بھی اپنے مذاہب کی طرف لانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں.اس وقت انگلستان میں دہریت کا بہت زور ہے اور اس میں شبہ نہیں کہ دہریت نے عیسائیت کو بہت بگاڑ دیا ہے مگر باوجود اس کے ان لوگوں کو حضرت عیسی سے جو وابستگی ہے اس میں فرق نہیں آیا.وہ لوگ اس بات کو مذہب سمجھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ سے محبت اور اخلاص رکھیں اور اسے چھوڑنے کے لئے وہ کسی صورت میں بھی تیار نہیں خواہ وہ عیسائی رہیں یا نہ رہیں دہریہ بن جائیں یا کچھ اور حضرت عیسی سے انھیں جو تعلق ہے اس میں کمی آنے نہیں دیتے.اس میں وہ ایسے پختہ ہیں کہ عیسائیت کی تبلیغ کے مرکز آکسفورڈ اور کیمبرج سمجھے جاتے ہیں جہاں یونیورسٹیاں ہیں اور جہاں نوجوان تعلیم
خطبات محمود ۳۶ سال ۱۹۲۸ء پاتے ہیں ہمارے بعض دوست وہاں گئے تو انھیں اس قسم کا لڑ پچر ملا جو عیسائیت کی تبلیغ کے لئے شائع کیا گیا تھا.وہاں انجمنیں بنی ہوئی ہیں جو سوالات بنا کر شائع کرتی ہیں اور لوگوں سے جواب حاصل کرتی ہیں وہ سوالات اس قسم کے ہوتے ہیں کہ جواب دینے والے مجبور ہوتے ہیں کہ عیسائیت سے محبت کا اظہار کریں.اس کے مقابلہ میں ہمارے کالجوں کے طلباء کو دیکھو وہ کیا کرتے ہیں.یہی نہیں کہ دوسروں کو اسلام کی طرف متوجہ نہیں کرتے بلکہ خود ان کے دلوں میں شکوک اور شبہات پیدا ہوتے ہیں.بے شک اس کی ذمہ داری علماء پر پڑتی ہے کہ کیوں انھوں نے اسلام کو ایسے رنگ میں پیش کیا جس سے اعتراض دارد ہوتے ہیں مگر اعتراض کرتے تو نوجوان ہی ہیں.پھر ان کی توجہ اسلامی احکام کی تعمیل کی طرف نہیں.ہزار میں سے پانچ سات نماز پڑھتے ہوں تو پڑھتے ہوں باقی نہیں.ادھر عیسائیوں کو دیکھو ان کا مذہبی جوش دیکھ کر لطف آجاتا ہے جہاں مسلمانوں کی مذہبی حالت دیکھ کر رقت پیدا ہوتی ہے.جب یورپ میں جنگ عظیم جاری تھی تو ایک موقع پر فریقین نے انتہائی زور صرف کر دیا کیونکہ ہر ایک چاہتا تھا کہ اس سال لڑائی کا خاتمہ ہو جائے اس کے لئے بڑا سامان جمع کیا گیا اور ہر فرد جو بھی مل سکتا تھا اسے میدان جنگ میں لایا گیا.نہایت زبر دست جنگ شروع ہوئی.اس وقت انگلستان کی جنگی کمیٹی کو تار پہنچا کہ اس وقت ہماری یہ حالت ہے کہ ہم دیوار سے پیٹھ لگا کر لڑ رہے ہیں اگر اس وقت ہم ذرا بھی ہل گئے تو کہیں ہمارا ٹھکانا نہ رہے گا.اس وقت کیبنٹ میٹنگ ہو رہی تھی اور مشورہ کیا جا رہا تھا کہ لڑائی کے لئے کیا کیا سامان جمع کیا جائے اور کہاں کہاں بھیجا جائے کہ یہ تار پہنچا.لائڈ جارج اس وقت وزیر اعظم تھے وہ تار لے کر کھڑے ہو گئے اور سب کو مخاطب کر کے کہنے لگے یہ تار آیا ہے اب باتوں کا وقت نہیں رہا اور اب وہ ایک ہی طریق اختیار کریں جو باقی رہ گیا ہے اور جس کے بغیر اور کوئی طریق نہیں ہے اور وہ یہ کہ خدا کے آگے جھک جائیں اور اس سے دعا کریں کہ ہم کامیاب ہوں.یہ کہہ کر سب کے سب جھک کر دعا کرنے لگ گئے.یہ اس قوم کی حالت ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے خدا کو چھوڑ دیا جو مذہب ترک کر چکی ہے اور جو حقیقت مذہب سے ایسی ہی ناواقف ہے جیسے جانور فلسفہ سے ناواقف ہوتا ہے.یہ سب کچھ صحیح مگر باوجود اس کے اس میں ایک چیز قائم ہے اور وہ مذہب کا ادب ہے.باوجود اس کے کہ ان کا مذہب ان کی تسلی نہیں کر سکتا اور باوجود اس کے کہ ان کی دعاؤں میں
خطبات محمود سال ۶۱۹۲۸ قبولیت کا رنگ نہیں ہوتا وہ خدا کی بتلائی ہوئی دعا ئیں نہیں کرتے بلکہ اپنی عقل سے بنائی ہوئی کرتے ہیں.مگر پھر بھی ان میں اپنے مذہب کا ادب اور احترام پایا جاتا ہے.اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ مذہبی باتوں پر ٹھٹھا کرتے ہیں اور ان پر عمل کرنے والوں کو حقیر سمجھتے ہیں.یہودی مذہب کی حقیقت سے کس قدر دور ہو چکے ہیں لیکن باوجود اس کے میں نے ان کو دیکھا ہے دعائیں کرتے وقت عملاً ان کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے.آج تک جب کبھی مجھے وہ نظارہ یاد آجاتا ہے تو میرا دل بے چین ہو جاتا ہے.میں نے یہودیوں کی اپنی مذہب سے جو تڑپ دیکھی وہ بہت ہی درد انگیز تھی.یروشلم میں ایک مسجد ہے.وہ مقام یہودیوں کے لئے ایسا ہی متبرک ہے جیسا ہمارے لئے خانہ کعبہ.مسلمانوں کے زمانہ میں جب پیر و معلم فتح ہوا تو عیسائیوں نے چاہا کہ حضرت عمر اے اس مقام کے اندر آکر نماز پڑھیں مگر آپ نے فرمایا میں ڈرتا ہوں کہ اگر میں نے اندر نماز پڑھی تو مسلمان اس جگہ کو اپنی عبادت گاہ بنالیں گے اور آپ نے با ہر نماز پڑھی.۳.وہ مقام یہودیوں سے رومیوں نے چھین لیا تھا اور پھر ان سے عیسائیوں کے قبضہ میں آیا تھا اب اس مقام کو یہودیوں کے ہاتھ سے نکلے اٹھارہ سو سال کے قریب ہو چکے ہیں لیکن آج تک ہر جمعہ کے دن وہ لوگ اس مسجد کے پاس جاتے اور اس کی دیوار کو پکڑ کر چیچنیں مار مار کر روتے ہیں اور دعائیں کرتے ہیں کہ خدایا یہ مسجد ہمارے حصہ میں آجائے.میں سمجھتا ہوں یہ میری خوش قسمتی تھی کہ ان دنوں میں جن میں وہاں میں گھبرا جمعہ کا بھٹی دن تھا اور مجھے وہ نظارہ دیکھنے کا موقع ملا.میں نے جا کر دیکھا کہ بچے بوڑھے عورتیں اور مرد بلک بلک کر رو رہے تھے اور دعائیں کر رہے تھے.میں اس کیفیت کو نہیں بھول سکتا کہ ایک اٹھارہ سالہ لڑکی دونوں ہاتھوں سے دیوار کے ساتھ چمٹ کر اور زبان اس کے ساتھ لگا لگا کر اس بے تابی اور اضطراب کے ساتھ رو رہی تھی کہ خیال ہو تا تھا اسے ہسٹیریا کا دورہ پڑا ہوا ہے اور اس وجہ سے اسے سر پیر کی ہوش نہیں ہے.اسی طرح میں نے ایک بڑھے کو دیکھا جس کی عمر نوے سال کے قریب ہوگی اس کی کمر ٹیڑھی ہو چکی تھی وہ کمزوری کی وجہ سے کھڑا نہ ہو سکتا تھا اس کی داڑھی ناف تک لمبی تھی وہ بے اختیار ہو ہو کر اس طرح گرا پڑتا تھا کہ گویا ابھی اس کا اکلوتا بیٹا مرا ہے اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے اس کے ہاتھ لٹکے ہوئے تھے اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے اس کا تمام
خطبات محمود ۴۳۸ سال ۶۱۹۲۸ جسم جذبات کی زندہ تصویر بنا ہوا تھا اور وہ بلبلا کر دعا مانگ رہا تھا.یہ کیفیت ہے ان قوموں کی جن میں خدا کا نام ہی نام رہ گیا ہے اور حقیقت مٹ گئی ہے.ان کے مقابلہ میں مسلمان ہیں جن کا زندہ خدا ہے اور جو زندہ رسول کے ماننے والے ہیں اور جو آج بھی خدا کے فضلوں کے اسی طرح وارث ہو سکتے ہیں جس طرح پہلے ہوئے مگر نہ انہیں خدا کی طرف توجہ ہے نہ اس کے رسول کی طرف اور نہ اس قرآن کی طرف اَدْعُوا الی الله پر عمل کرنا تو الگ رہا یعنی یہ کہ وہ تبلیغ کریں ان کی اپنی حالت ایسی ہے کہ اسلام سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا.معلوم یہ ہوتا ہے کہ خدا تعالٰی نے مسلمانوں کی بعض خطاؤں اور غلط کاریوں کی وجہ سے یہ وبال ان پر ڈال رکھا ہے.ورنہ سمجھ میں نہیں آتا جھوٹے مذاہب والوں میں تو اپنے اپنے مذہب کے لئے ایسی قربانیاں اور ایسے ایثار دکھانے والے پیدا ہوں مگر مسلمانوں میں نہ ہوں جنہیں خدا تعالیٰ نے قرآن ایسی کتاب دی جس کا مقصد اور مدعا ہی اَدْعُوا إِلَى اللهِ ہے.دوسری بات اس آیت میں رسول کریم ﷺ کی طرف سے یہ بیان کی گئی ہے کہ میں اور میرے متبع عقل اور دلیل پر چلتے ہیں مگر اب نظریہ آتا ہے کہ مسلمان ہی عقل اور دلیل کو سب سے زیادہ چھوڑنے والے ہیں.اس وقت مسلمانوں کے علماء کے پاس اگر کوئی چیز باقی رہ گئی ہے تو صرف روایت.رسول کریم ﷺ تو فرماتے ہیں.عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي مگر یہ کہتے ہیں فلاں نے یہ بات لکھی ہے خواہ وہ سمجھ میں آئے یا نہ آئے ہم اس کو مانیں گے.خدا اور خدا کا رسول تو ایمان کی بنیاد عقل اور دلیل پر رکھتا ہے اور رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں میں ہی عقل اور دلیل پر قائم نہیں ہوں بلکہ جو بھی میرا سچا متبع ہو گا وہ اپنے ایمان کو عقل اور دلیل پر قائم کرے گا وہ کبھی یہ نہ کہے گا کہ فلاں نے یوں کہا ہے اس لئے میں فلاں بات مانتا ہوں بلکہ وہ یہی کہے گا عقل اور دلیل سے مجھے یہ بات معلوم ہو گئی ہے اس لئے مانتا ہوں.پس مؤمن یہ حریت اور آزادی دکھاتا ہے.وہ سارے واسطے مٹا دیتا اور براہ راست خدا تعالی تک پہنچتا ہے.یہی ایک سچے مومن کی شان ہے ہم مانتے ہیں کہ اللہ تعالی اور ہمارے درمیان کوئی واسطہ نہیں حتی کہ رسول جو سب سے بڑی چیز ہے اسے بھی ہم واسطہ نہیں سمجھتے کیونکہ ہم مشرک نہیں.رسول کریم ﷺ ہمارے ہادی اور راہ نما ہیں مگر ہمارے اور خدا تعالٰی کے در میان بند دروازہ نہیں ہیں بلکہ کھلا دروازہ ہیں تاکہ ہم اس دروازہ میں سے گذر کر خدا تعالٰی تک پہنچ جائیں.
خطبات محمود وم سال ۱۹۲۸ء اس بات کو بیان کرنے کے لئے زیادہ تفصیل کی ضرورت ہے لیکن اس خطبہ سے دور چلا جاؤں گا اگر میں اس تفصیل کو بیان کروں.ہاں اتنا بتا دیتا ہوں کہ ہم میں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں میں یہ فرق ہے کہ انہوں نے خدا تعالٰی تک پہنچنے کے رستہ میں دربان مقرر کئے ہوئے ہیں.وہ کہتے ہیں ان سے ٹکٹ حاصل کرو تو آگے جا سکتے ہو مگر اسلام یہ کہتا ہے کہ خدا تعالی تک پہنچنے کا ہر ایک کے لئے دروازہ کھلا ہے اور رسول ﷺ کا کام یہ ہے کہ بھولے بھٹکوں کو پکڑ پکڑ کر اس دروازہ کی طرف لائے.یہ ہے نبوت کے متعلق اسلامی تعلیم اور یہ ہے اسلام اور دوسرے مذاہب میں فرق.تو باوجود اس کے کہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں میں اور میری جماعت بصیرت پر قائم ہیں اس زمانہ کے علماء مسلمانوں کو پرانے لوگوں کے افکار و حوادث کا ان کے خیالات کا اور ان کی روایات کا غلام بنائے رکھنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں.پھر مسلمانوں کی روایات کا ہی نہیں یہودیوں اور عیسائیوں کی روایات کا بھی غلام بنا رکھا ہے.خدا کے نبیوں اور فرشتوں کے متعلق یہودیوں اور عیسائیوں کی روایات کی بناء پر ایسی ایسی باتیں تفسیروں میں لکھی ہیں جن کو کوئی شریف انسان پڑھ بھی نہیں سکتا مگر ان کے متعلق کہتے ہیں مسلمانوں کو ماننی چاہئیں کیونکہ تفسیروں میں لکھی ہیں.فرشتے جن کے متعلق خدا تعالٰی فرماتا ہے.يَفْعَلُونَ مَا يُو مَرُونَ (النحل : ۵۱) جو کچھ انہیں کہا جائے وہی کرتے ہیں اس کے سوا کچھ نہیں کرتے.ان کی نسبت لکھا ہے کہ آسمان سے آدمی بن کر اترے تھے اور ایک کنچنی پر عاشق ہو گئے تھے اب بابل میں لٹکے ہوئے ہیں.یہودیوں کی کئی کتابوں میں لکھا ہے کہ فرشتے بھی گناہ کر سکتے ہیں مسلمانوں میں تو یہ جائز نہیں.اسی طرح عیسائی کہتے ہیں کہ حضرت عیسی کے سوا کوئی انسان پاک نہیں اس وجہ سے انہوں نے ایسی روایتیں گھڑ لیں جن میں سب انبیاء کو گناہ گار ٹھہرایا گیا ان کو مسلمانوں نے لے کر کہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر الزام لگا دیا کہیں اور انبیاء پر حتی کہ رسول کریم کی ذات پاک پر الزام لگانے سے بھی باز نہ آئے.خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ دوسرا گر بتایا تھا مگر اس کی طرف بھی انہوں نے توجہ نہ کی.بہت کم مسلمان ہوں گے جو قرآن کریم پر غور اور تدبر کرتے ہوں گے.اگر مسلمان قرآن کریم پر تدبر کریں تو انہیں ایسی باتیں معلوم ہو جائیں کہ جن کے ذریعہ وہ ترقی کر سکتے ہیں بشرطیکہ پرانی اور غلط اور بے ہودہ روایات کے ماتحت غور نہ کریں.جس طرح عمدہ کھانے میں تھوڑی
خطبات محمود ۴۴۰ سال ۱۹۲۸ء سی خراب چیز مل جانے سے سارا کھانا خراب ہو جاتا ہے.جس طرح بہت سے دودھ کو پیشاب کا ایک قطرہ خراب کر دیتا ہے اسی طرح خدا تعالٰی کے کلام کے ساتھ بے ہودہ انسانی کلام ملانے سے حقیقت چھپ جاتی ہے.ان دو باتوں کی طرف جو اس آیت میں بیان کی گئی ہیں اگر مسلمان توجہ کریں تو ترقی کر سکتے ہیں.ہم اپنے رستہ میں دیکھتے ہیں قرآن کبھی روک نہیں بنا جو چیز روک بنتی ہے وہ یہی ہے کہ فلاں نے یہ لکھا ہے اور فلاں نے یہ - ہمارا خیال ہے اور خیال ہی نہیں اپنا تجربہ ہے کہ اگر مسلمان قرآن کریم پر غور کریں تو یقینا اس نقطہ پر آسکتے ہیں جہاں خدا مل جاتا ہے.خدا تعالٰی ہمیں قرآن کریم سمجھنے کی توفیق دے اور اَدْعُوا الی اللہ میں جو مقصد بتایا گیا ہے اور جو خدا تعالی سے محبت کرنا اور اس کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے اسے پورا کریں.ہم قرآن کو اندھا دھند نہ مانیں تاکہ ہمارے افعال بھی اسی طرح ورثہ کے نہ ہوں جیسے عیسائیوں اور یہودیوں کے ہیں.ا الناس : ۲ تا ۷ ۲ - الفلق : ۲ الفضل ۱۱ / اگست ۱۹۲۸ء) عمر فاروق اعظم مصنفہ محمد حسین ہیکل مترجم حبیب اشعر صفحه ۳۰۱-۳۰۲، مطبوعہ مکتبہ جدید (میکلوڈ روڈ) لاہور.
خطبات محمود امم سال ۱۹۲۸ء ۵ مولوی محمد علی صاحب کا چیلنج منظور (فرموده ۱۰/ اگست ۱۹۲۸ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: دو سال کے قریب ہوئے کہ میں ڈلہوزی گیا تھا.وہاں مولوی غلام حسن خان پشاوری اور خان دلاور خان صاحب اسٹنٹ کمشنر کہ وہ بھی سرحد کے ایک گاؤں کے رہنے والے ہیں ایک مبائع دوست کے ساتھ جن کا نام قاضی محمد شفیق صاحب ہے اور جو چار سدہ میں وکالت کرتے ہیں تشریف لائے.ان دونوں صاحبان نے اپنی آمد کا مقصد یہ بیان کیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے دونوں فریق میں جو کشمکش جاری ہے جس حد تک بھی ہو سکے بند کر دی جائے.گو اس وقت یہ دونوں صاحب تشریف لائے لیکن ایک اور تیرے صاحب جن کا نام سید عبد الجبار شاہ صاحب ہے اور سابق بادشاہ سوات ہیں وہ بھی دو تین بار اس بارے میں قادیان آکر مجھ سے ملے تھے اور پوچھا تھا کہ کیا کوئی ایسی صورت ہو سکتی ہے کہ آپس میں اتفاق قائم ہو جائے.یہ صاحب اس تحریک میں سب سے پہلے حصہ لینے والے ہیں یعنی ان تینوں میں سے پہلے ہیں.ممکن ہے کوئی اور صاحب بھی یہ تحریک کرتے رہے ہوں لیکن ان تینوں میں سے پہلے سید عبد الجبار شاہ صاحب نے تحریک کی.اور میں خیال کرتا ہوں کہ سات آٹھ سال سے وہ یہ تحریک کرتے رہے.دو دفعہ تو وہ اس غرض کے لئے قادیان آئے اور ایک دفعہ باہر ملے اور گفتگو کی ممکن ہے اس سے زیادہ دفعہ بھی باتیں ہوئی ہوں.میں نے سید عبد الجبار شاہ صاحب سے اس بارے میں کہا تھا کہ صلح کے دو طریق ہو سکتے ہیں.ایک یہ کہ سارے معاملات میں متحد ہو جانا یہ اتحاد عقائد کے کلی فیصلہ کے بعد ہی ہو سکتا ہے.جب دینی امور میں اختلاف ہو تو بغیر اس کے کہ عقائد میں اتحاد ہو جائے اتحاد کلی نہیں ہو
خطبات محمود ۴۴۲ سال ۱۹۲۸ء سکتا.اس بات کو انہوں نے بھی تسلیم کیا تھا.دوسری صورت میں نے یہ بتائی کہ ایک اتحاد جزوی ہوتا ہے.اس میں ساری طاقت اور قوت کو ایک جگہ نہیں صرف کیا جاتا.فریقین الگ الگ بھی رہتے ہیں اور مشترک مقاصد میں متحد بھی ہو جاتے ہیں.مخصوص عقائد کے لئے علیحدہ انتظام ہوتا ہے لیکن جن امور میں اتحاد ہوتا ہے ان میں مل جاتے ہیں اس کے متعلق میں نے کہا تھا کہ پہلا کام یہ ہونا چاہئے کہ سخت کلامی کو چھوڑ دیا جائے اور جب یہ چھٹ جائے اور باہم ملنا جلنا شروع ہو جائے تو پھر متحدہ امور میں ملنے کے لئے طبائع راغب ہو سکتی ہیں.گو سید عبد الجبار شاہ صاحب کا جوش طبیعت اس سے زیادہ چاہتا تھا لیکن مجھ سے گفتگو کرنے کے بعد وہ آمادہ ہو گئے کہ اس بات کو دوسرے فریق کے سامنے پیش کریں.جہاں تک میں سمجھتا ہوں دوسری دفعہ کی ملاقات کے نتیجہ میں یہ بات ہوئی.شاید ۱۹۲۴ء تھا جب اس غرض کے لئے وہ تشریف لائے.یہاں سے جانے کے بعد انہوں نے مجھے خط لکھا کہ میں نے لاہور یہ تحریک کی تھی.مولوی محمد علی صاحب تو اس پر راضی نظر آتے تھے لیکن کچھ اور آدمی (جن کے انہوں نے نام لکھے تھے مگر ان کے نام لینے کی میں اس وقت ضرورت نہیں سمجھتا.) انہوں نے روک ڈال دی اور بات بیچ ہی میں رہ گئی میں پھر کوشش کروں گا.اس کے بعد ۱۹۲۶ء میں مولوی غلام حسن خان صاحب پشاوری اور خان صاحب دلاور خان صاحب اسٹنٹ کمشنر نوشہرہ دونوں صاحب ڈلہوزی تشریف لائے اور انہوں نے یہ سوال اٹھایا.میں نے یہی امور جو پہلے بیان کر چکا ہوں ان کے سامنے بیان کئے.انہوں نے بغیر کسی قسم کے اختلاف کے ان سے اتفاق ظاہر کیا اور مولوی غلام حسن خاں صاحب نے کہا میں سمجھتا ہوں اب صلح ہو جائے گی غالبا انہوں نے ہی یہ بھی کہا کہ میں مولوی محمد علی صاحب کے پاس جاتا ہوں اور ان سے بات کر کے آتا ہوں.چنانچہ وہ گئے اور مولوی محمد علی صاحب سے جو ان دنوں ڈلہوزی میں ہی تھے ملے.اور پھر آکر کہا میں نے مولوی صاحب سے گفتگو کی ہے انہوں نے اس بات کو پسند کیا ہے.اس پر میں نے ایک اعلان لکھ دیا جس میں لکھا چونکہ کسی فریق کے حد سے بڑھ جانے پر بعض دفعہ الزامی جواب کی ضرورت بھی پیش آتی ہے اس لئے میں سر دست اس اعلان کو تین ماہ کی مدت سے مشروط کرتا ہوں اس تین ماہ کے عرصہ میں تو خواہ کوئی حالات بھی پیش آئیں اور الزامی جواب نہ دینے سے نقصان بھی ہو تب بھی اس اعلان کو قائم رکھا جائے گا
خطبات محمود سال ۶۱۹۲۸ لیکن تین ماہ کے بعد یہ دیکھا جائے گا کہ آیا دوسرے فریق نے کوئی اصلاح کی ہے یا نہیں.اگر اس کا رویہ درست ہوا یا ایسا اشتعال انگیز نہ ہوا کہ جس کی وجہ سے الزامی جوابات کی ضرورت پیش آئے تو پھر اس اعلان کی مدت کو لمبا کر دیا جائے گا ورنہ دوبارہ اعلان کر کے مجبوری کی وجہ سے اس اعلان کو منسوخ کر دیا جائے گا.جس اعلان میں یہ لکھا گیا وہ میں نے مولوی غلام حسن خاں صاحب کو دیا جو اسے مولوی محمد علی صاحب کے پاس لے گئے اور پھر انہوں نے مجھے بتایا کہ اس اعلان کو مولوی صاحب نے پسند کیا ہے اور انھوں نے بھی ایک اعلان لکھا ہے جو پیغام صلح میں شائع کرا دیں گے.میں نے اپنا اعلان اور مولوی صاحب کا اعلان بھی "الفضل " میں شائع کرا دیے.اس کے بعد ہماری طرف سے قطعی طور پر اخبارات میں کوئی تحریر نہ شائع کی گئی.میرا دعوی ہے کہ اس سے پہلے بھی ہمارے اخبارات کی تحریرات میں بہت حد تک یہ سلسلہ بند ہو چکا تھا.شروع شروع میں جب زور تھا اور میں تو یہی کہوں گا کہ اس وقت بھی غیر مبائعین کی طرف سے زیادتی کی جاتی تھی اس وقت ادھر سے بھی اسی رنگ میں لکھا گیا لیکن پھر ہمارے اخبارات نے بہت حد تک لکھنا چھوڑ دیا اور اس تحریک کے بعد تو قطعا چھوڑ دیا.اور غالبا دو تین ماہ تک پیغام صلح" میں بھی کچھ نہ لکھا گیا.میرا خیال ہے.دسمبر ۱۹۲۶ء تک کچھ نہ لکھا گیا.لیکن اس کے بعد ۱۹۲۷ء کے شروع میں اس قسم کے مضامین پہلی سہ ماہی میں نکلے جن میں معاہدہ کی پابندی نہ کی گئی تھی.دوسری سہ ماہی میں اس سے زیادہ نکلے اور پھر تیسری سہ ماہی میں اس سے بھی زیادہ اور چوتھی میں غالبا اس سے بھی زیادہ مگر میرے حکم کے ماتحت ہماری جماعت میں خاموشی رہی.یہاں تک کہ ۱۹۲۷ء کے آخر میں کھلم کھلا بعض ایسے امور کی اشاعت ان کے بہت سے افراد کی طرف سے ہوتی رہی جو درست تعلقات کے لئے بہت ناقص اور قابل اعتراض تھے.میرا جہاں تک خیال ہے مولوی محمد علی صاحب ابتداء میں ان میں شامل نہ تھے.اور میں دوسروں کی نسبت بھی یہ نہیں کہتا اور نہ میں نے کہا کہ وہ فتنہ کے بانی تھے.مگر اس میں شبہ نہیں کہ جب فتنہ ان کے ہاتھ آیا تو نہایت شوق کے ساتھ انہوں نے اس میں حصہ لیا.ہم اس کا ثبوت دے سکتے ہیں.گو زبانی امور کے ثبوت ایک حد تک بہت مشکل ہوتے ہیں لیکن ہم مہیا کر سکتے ہیں.بعض اخبار والوں نے بتایا کہ یہ لوگ ہمارے پاس آئے اور خواہش کی کہ ان امور کو اخبار میں شائع کریں.بعض غیر احمدی معززین کی چٹھیاں آئیں.وہ لوگ احمد یہ انجمن
خطبات محمود مهم مهم لهم سال ۴۱۹۲۸ اشاعت اسلام کے جلسہ پر لاہور آئے ہوئے تھے.ان میں سے ایک آنریری مجسٹریٹ صاحب نے جن کا مولوی محمد علی صاحب سے بھی تعلق ہے لکھا کہ ایک مجلس میں ایک شخص قرآن ہاتھ میں لے کر اور قسمیں کھا کھا کر ان باتوں کی اشاعت کر رہا تھا.غرض لاہور کے بعض اخبار نویسوں اور بعض معززین کی تحریروں اور زبانی پیغاموں سے ہمیں معلوم ہوا کہ یہ لوگ اس فتنہ میں دخل دے رہے ہیں لیکن باوجود اس کے میں یہ نہیں کہتا کہ یہ اس فتنہ کے بانی تھے.ہاں میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ ان کے دلوں میں چونکہ مجھ سے نفرت اور بغض تھا اس لئے اس معاہدہ کو بھلا کر انہوں نے ایسی باتیں پھیلانی چاہیں.گو ان باتوں کی بنیاد رکھنے والے اور ہی تھے لیکن یہ لوگ ذاتی عناد اور دشمنی کی وجہ سے ان میں شامل ہو گئے.بہر حال ان باتوں کے پھیلانے میں مولوی محمد علی صاحب کے گروہ نے حصہ لیا.میں مانتا ہوں مولوی صاحب نے خود ابتداء میں حصہ نہیں لیا یا کم از کم میرے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں اور میں اس بات کا عادی نہیں کہ جس بات کا ثبوت کوئی نہ ہو وہ کہوں.بعض دوستوں نے مجھے کہا ہے کہ ہم یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ اشتہار بازی کرنے والے ان کے پاس جاتے رہے ان سے مشورہ کرتے رہے اور بعض نے یہ بھی چشم دید شہادت دی کہ ان میں سے ایک کو ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب کے ساتھ ٹانگہ میں بیٹھا ہوا دیکھا لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ سمجھ لیا جائے مولوی صاحب نے ان کی باتوں کی تصدیق کی.جہاں تک میرا خیال ہے مولوی صاحب کا ان لوگوں کی باتوں میں حصہ لینا ثابت نہیں.مگر بعض دوسروں کا حصہ لینا ثابت ہے خواجہ کمال الدین صاحب وغیرہ نے حصہ لیا.ان کی طرف سے باہر چٹھیاں بھیجی گئیں.چنانچہ ایک نے خال دلاور خاں صاحب کو بھی چٹھی لکھی.غرض تحریری اور تقریری طور پر ان کی طرف سے ہمارے خلاف باتیں جاری رہیں.ہم ان کا جواب دے سکتے تھے.دے سکتے ہیں اور اگر ادھر سے اصرار جاری رہا تو شاید دینا پڑے لیکن چونکہ ایسے امور میں دخل دینا انسان کی فطرتی شرافت پر گراں گزرتا ہے.اور باوجود ان حالات کے ایک شریف آدمی دخل دینے سے خواہ جو ابا ہی ہو حتی الوسع پر ہیز کرتا ہے.گو اپنی حفاظت اور بچاؤ کے لئے جواب دینا بھی پڑتا ہے اور جواب دینا جائز بھی ہے لیکن چونکہ طبیعت پر ایک قسم کا بوجھ پڑتا ہے اس لئے پر ہیز کیا جاتا ہے.لڑائی دفاعاً جائز ہے مگر رسول کریم اے نے ایک لمبے عرصہ تک اس سے پر ہیز کیا.جب آپ نے لڑائی شروع کی تو عقلاً اور اخلاقاً اس
خطبات محمود ۴۴۵ سال ۱۹۲۸ء سے بہت پہلے آپ کو حق تھا کہ مقابلہ کرتے.اگر آپ مکہ سے نکلنے کے معابعد مکہ پر حملہ کر دیتے تو یہ آپ کے لئے جائز تھا کیونکہ کفار کے مظالم بہت بڑھ گئے تھے مگر آپ نے لڑائی شروع نہ کی اور اس وقت تک نہ کی جب تک خدا تعالٰی کی طرف سے حکم نہ آگیا کہ لڑائی کا جواب لڑائی سے دو.غرض بعض امور جائز ہوتے ہیں مگر فطرت ان سے کراہت کرتی ہے.قرآن کریم میں آتا ہے مسلمان لڑائی سے کراہت کرتے ہیں حالانکہ دشمن سے لڑنا جائز ہے.تو ہم جواب دے سکتے تھے اور دے سکتے ہیں اور اگر مجبور کیا گیا تو انشاء اللہ دیں گے لیکن جہاں تک ہو سکے گازاتی واقعات کو بیچ میں لانے سے پر ہیز ہی کریں گے.بہر حال انہوں نے ان باتوں کو لیا اور لوگوں میں پھیلایا اور مجھے اور جماعت کو بد نام کرنے کی کوشش کی.میں نے بتایا ہے ہمارے پاس اس کے متعلق غیر احمدی معززین کی تحریریں ہیں اور ممکن ہے کوشش کی جائے تو غیر مبائین کے بعض اپنے خطوط بھی مل جائیں جن کے ذریعہ سے ان باتوں کی اشاعت کی گئی ہو.خیر انہوں نے یہ طریق جاری رکھا مگر میں نے پھر بھی اپنے اخبارات کو روکے رکھا یہاں تک کہ ۱۷ جون کو جلسوں کے لئے جو تحریک کی گئی تھی اس کی انہوں نے مخالفت شروع کر دی اور اس رنگ میں مخالفت شروع کر دی کہ گویا ہم احمدی خاتم النبین کے منکر ہیں حالانکہ دنیا جانتی ہے ہم منکر نہیں اور ہم رسول کریم ﷺ کو خاتم النبین سمجھتے ہیں اور جب تک ہم رسول کریم ﷺ کو خاتم النبین سمجھتے ہیں کسی کا حق نہیں ہے کہ وہ کسے ہم خاتم ال ان کے منکر ہیں.کوئی انسان یہ تو کہہ سکتا ہے کہ میں خاتم النبیین کے جو معنی کرتا ہوں وہ صحیح ہیں اور جو تم معنی کرتے ہو غلط ہیں.وہ یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ جو معنی تم کرتے ہو ان کے رو سے خاتم النبین کا انکار ہو جاتا ہے مگر وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ تم خاتم النبین کے منکر ہو.جب ہم کہتے ہیں کہ ہم اس کے قائل ہیں تو پھر اس کا منکر کیونکر کہا جا سکتا ہے.مگر انہوں نے ہم پر یہ حملہ کیا اور نہ صرف اس تحریک پر برا منایا بلکہ جب جلسے ہو چکے اور نہایت کامیاب جلسے ہوئے تو ان جلسوں کو ناکام بنانے کی کوشش کی گئی حالانکہ غیر احمدیوں اور ہندوؤں تک نے اقرار کیا کہ جلسے بہت کامیاب ہوئے ہیں.لاہور کے جلسہ کو ہی ان لوگوں نے ناکام بتایا لیکن اسی جلسہ کے متعلق ایک ہندو وکیل لالہ امر ناتھ صاحب چوپڑہ نے اخبار انقلاب (۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء) میں ایک مضمون شائع کرایا جس میں اس جلسہ کی کامیابی کا اعتراف کیا اور لکھا جو تقریریں بانی اسلام کے
خطبات محمود ۴۴۶ سال ۲۱۹۲۸ متعلق کی گئیں ان کا بہت اچھا اثر سامعین پر ہوا.گویا لاہور کا جلسہ ایک ہندو کو تو کامیاب نظر آیا مگر ان لوگوں کو کامیابی نہ دکھائی دی جو اپنے آپ کو رسول کریم ﷺ کا اصل درجہ سمجھنے والے قرار دیتے ہیں.پھر بنگال کے ایک مشہور اخبار "سلطان" (۲۱ / جولائی ۱۹۲۸ء) نے جو پہلے ہمارے خلاف لکھتا رہا لکھا جماعت احمدیہ نے ۱۷ / جون کو رسول کریم ﷺ کی سیرت بیان کرنے کے لئے ہندوستان بھر میں جلسے منعقد کئے ہمیں اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ تقریباً سب جگہ کامیاب جلسے ہوئے اور یہ تو ایک حقیقت ہے کہ اس نواح میں احمدیوں کو ایسی عظیم الشان کامیابی ہوئی ہے کہ اس سے قبل کبھی نہیں ہوئی اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت احمدیہ روز بروز طاقتور ہو رہی ہے اور لوگوں کے دلوں میں جگہ حاصل کر رہی ہے ہم خود بھی ان کی طاقت کا اعتراف کرتے ہیں.یہ ان لوگوں کی رائیں ہیں جنہوں نے ۱۷ / جون کے جلسے دیکھے اور جنہیں ہماری جماعت سے کوئی تعلق نہ تھا لیکن ان کے مقابلہ میں غیر مبالعین نے بار بار لکھا کہ جلسے ناکام ہوئے ان کی امیدین پوری نہیں ہو ئیں.اگر مذہبی طور پر اختلاف ہوتا اور اس وجہ سے لکھتے تو کہتے خاتم النبین کے قائل نہیں مگر انہوں نے تو جلسوں کے بعد ان جلسوں کو ناکام دکھانے کی کوشش کی جس سے ثابت ہے کہ یہ محض ان کا عناد اور دشمنی تھی.اس بات کے اور بھی ثبوت ہیں مگر اس وقت میں اس بحث کے لئے کھڑا نہیں ہوا اس لئے اسے چھوڑتا ہوں.انہی دنوں ایک شخص نے جو مبائعین میں سے ہیں جن کی طبیعت جو شیلی ہے اور جب وہ جوش میں آتے ہیں تو بعض دفعہ انہیں خیال نہیں رہتا کہ میرے الفاظ کے لوگ کیا معنے لیں گے.ان کے اخلاص میں شبہ نہیں وہ کام کرنے والے آدمی ہیں اور اپنے علاقہ میں تعلیم کے لئے کوشش کرتے رہتے ہیں.احمدیت بھی ان کے دل میں اس قدر جاگزیں ہے کہ وہ اپنے ہر خط میں مجھے لکھتے ہیں دعا کریں میرے بچے پکے اور مخلص احمدی ہوں.مگر انہوں نے جوش میں ایک خط لکھ دیا جس میں لکھا کہ ۱۷ جون کے جلسوں میں لیکچر دینے والوں کے لئے کتابوں کی جو فہرست شائع کی گئی اس میں فلاں فلاں کتاب کا نام نہیں لکھا گیا یہ تنگ دلی پر مبنی ہے حالانکہ ہو سکتا ہے کہ فہرست لکھنے والے کے ذہن میں وہ کتابیں نہ ہوں.مگر انہوں نے یہ خیال نہ کیا کہ انسان سے غلطی بھی ہو جاتی ہے.پھر ہو سکتا ہے تنگ دلی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لئے کہ دوسرا فریق ناجائز فائدہ نہ اٹھا لے ذکر نہ کیا گیا ہو.ہماری طرف سے اس وقت تک کئی کتابیں
خطبات محمود مام ام سال ۱۹۲۸ء شائع ہو چکی ہیں جن میں عام اسلامی مسائل درج ہوتے ہیں مگر اس فریق نے کبھی ان کے پڑھنے کی تحریک نہیں کی یہ سب باتیں ان سے نظر انداز ہو گئیں اور انہوں نے لکھا کہ کتابوں کا نام تنگ دلی کی وجہ سے نہیں لکھا گیا.اس کے ساتھ ہی ان لوگوں کے متعلق لکھا کہ نبی کریم کے متعلق پاکیزہ تحریک کے بارے میں بے ہودہ نیش زنی کر کے لاہوری جماعت نے اپنی نہایت افسوسناک تنگ دلی و تعصب کا ثبوت دیا اور ”پیغام صلح" نے سرورق پر آیت تعالوا إلى كَلِمَةٍ سَوَاء بَيْنَنَا (ال عمران (۶۵) لکھ کر غیر مسلموں تک کے ساتھ اشتراکی امور میں مل کر کام کرنے کی جو دعوت لاہوری جماعت نے دے رکھی ہے.اس کے برخلاف یہ طریق عمل دکھایا ہے.اس کا جواب دیتے ہوئے ”پیغام صلح" نے ہمارے متعلق لکھا ان کا اختیار ہے کہ وہ جو چاہیں کریں صلح کریں یا جنگ کریں ہم دونوں حالتوں میں ان کے عقائد کے خلاف جو اسلام میں خطر ناک تفرقہ پیدا کرنے والے ہیں تو پھر اس بحث میں حال میں جنگ کریں گے.میں پڑنے کی ضرورت نہیں سمجھتا کہ ہمارے عقائد اسلام میں تفرقہ پیدا کرنے والے ہیں یا انہوں نے اس رنگ میں ان کو پیش کیا ہے.بہر حال انہوں نے لکھا کہ ہم صلح کریں یا جنگ وہ ہمارے خلاف جنگ کرتے رہیں گے.اب سوال یہ ہے کہ وہ کونسا عقیدہ تھا جس کے خلاف انہوں نے یہ جنگ کا اعلان کیا.وہ میں تھا کہ سارے ہندوستان میں جلسے ہوں اور ان میں رسول کریم ﷺ کی پاکیزہ سیرت بیان کی جائے کیونکہ جس مضمون پر سیوال جنگ کیا گیا اس میں مضمون نویس نے ایک طرف تو یہ لکھا تھا کہ خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب کی کتابوں کے نام کیوں نہ شائع کئے گئے اور دوسری طرف یہ لکھا تھا کہ جو جلسے رسول کریم ﷺ کی عظمت کے اظہار کے لئے منعقد ہونے والے تھے ان کی غیر مبالعین نے کیوں مخالفت کی.اس پر پیغام صلح نے لکھا ان کے عقائد جو تفرقہ پیدا کرنے والے ہیں ان کے خلاف ہر حال میں جنگ کی جائے گی.پس تفرقہ ڈلوانے والے عقائد میں سے ایک عقیدہ ۱۷ جون کے جلسوں کی تحریک تھی.میں نے اس کے متعلق لکھا ہماری جماعت کے لوگ اس جنگ کے دفاع کے لئے تیار ہو جائیں اور ان صداقتوں کے پھیلانے کے لئے مستعد ہو جائیں جو خدا تعالٰی نے ان کو دی ہیں اور اس بغض و کینہ کو انصاف اور عدل کے ساتھ مٹانے کی کوشش کریں جس کی بنیاد ان لوگوں
خطبات محمود ۸م بام سال ۶۱۹۲۸ نے رکھی ہے اور اس فتنہ اور لڑائی کا سدباب کریں جس کا دروازہ انھوں نے کھولا ہے اور کوشش کریں کہ مسلمانوں کے اندر اس صحیح اتحاد کی بنیاد پڑ جائے جس کے بغیر آج مسلمانوں کا بچاؤ مشکل ہے اور جسے صرف اپنی ذاتی اغراض کے قیام کے لئے یہ لوگ روکنا چاہتے ہیں اور کوشش کریں کہ ان میں سے انصاف پسند رو میں اپنی غلطی کو محسوس کر کے آپ لوگوں میں آ شامل ہوں تاکہ جس قدر بھی ہو سکے اس اختلاف کی شدت کو کم کیا جا سکے.اس میں میں نے یہ بھی ظاہر کیا تھا کہ وہ معاہدہ جو ڈلہوزی میں ہوا تھا اسے توڑنے کی ابتداء ان لوگوں نے کی.اس کے جواب میں مولوی محمد علی صاحب نے ایک مضمون شائع کیا ہے جس میں بہت زیادتی کی ہے اور بہت سختی سے کام لیا ہے.مجھے گالیاں دی گئی ہیں اور میرے خوابوں پر تمسخر اڑایا گیا ہے.میں ان سب باتوں کو قطعی طور پر نظر انداز کر دیتا ہوں کیونکہ میں محسوس کرتا ہوں مسلمانوں میں یہی حد سے بڑھا ہوا جوش ہے جو دوسروں کے سامنے انہیں ذلیل کر رہا ہے.مسلمان آپس میں مل کر کام کرنے کے لئے تو تیار نہیں ہیں مگر ہندوؤں سے مل کر کام کر سکتے ہیں اسی جوش میں مولوی محمد علی صاحب آگئے ہیں اور انہوں نے سختی کی ہے.کچھ تعجب نہیں کہ کچھ دن کے بعد وہ خود اس پر ندامت محسوس کریں اور کوئی تعجب نہیں ان کی جماعت کے شریف | الطبع لوگ ندامت محسوس کریں کہ مولوی صاحب نے بیجا تختی کی ہے.وہ ایسا کریں یا نہ کریں یہ ان کا خدا سے معاملہ ہے مگر ان باتوں کا جواب دینے کے لئے میں تیار نہیں ہوں.جس بات کے متعلق اس وقت میں کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں نے اس مضمون میں ایک فقرہ لکھا تھا جو یہ تھا.اگر دوسرے فرقوں بلکہ غیر مذاہب کے غیر جانب دار لوگوں سے بھی پوچھا جائے گا تو وہ بلا ترد گواہی دیں گے کہ پیغام صلح جو کچھ ہمارے خلاف لکھتا ہے اور جس طرز سے لکھتا ہے اس سے بیسواں حصہ بھی ہم نہیں لکھتے".اس پر مولوی محمد علی صاحب لکھتے ہیں." ہمیں یہ چیلنج منظور ہے معاہدہ کے بعد کی دونوں فریق کی تحریروں کو لے لیا جائے اور جماعت احمدیہ سے باہر کوئی تین مسلمان منصف بتراضی فریقین مقرر کرلئے جائیں.بیسویں اور دسویں کے فیصلہ کی ضرورت نہیں وہ جس فریق کی طرف سے معاہدہ کے بعد صریح زیادتی کی ابتداء قرار دیں وہ دوسرے فریق سے معافی مانگے".
خطبات محمود ۴۴۹ سال ۱۹۲۸ء جب مولوی صاحب نے فیصلہ کا ایک طریق منظور کر لیا ہے تو مجھے بھی ان کی گالیوں کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے.میں نہیں چاہتا کہ ایسا رنگ پیدا ہو جو مسلمانوں میں تفرقہ کا موجب ہو.اگر چہ مولوی صاحب کے ایک دوست نے حال ہی میں لکھا ہے کہ وہ ہمیں مسلمانوں کا ایک فرقہ نہیں سمجھتے بلکہ اسلام سے علیحدہ مذہب قائم کرنے والے قرار دیتے ہیں.گویا ان کے نزدیک شیعہ اہلحدیث، حفی وغیرہ تو سارے کے سارے اسلامی فرقے ہیں لیکن ہم مبالکین اسلامی فرقہ نہیں.خود مولوی صاحب بھی ہمیں اسلامی فرقہ مانتے ہیں یا نہیں اس کا جواب یہ ہے کہ شاہ پور کے ڈسٹرکٹ بورڈ کے الیکشن میں مولوی محمد علی صاحب کا ایک ہم خیال پچھلے دنوں جب کھڑا ہوا.تو وہاں کی ہماری جماعت کے لوگوں نے کہا وہ دوسرے شخص کو رائے دیں گے.اس پر مولوی محمد علی صاحب کی طرف سے میرے پاس چٹھی آئی جس میں لکھا تھا کہ آپ کے مبائع ایک غیر احمدی کو ووٹ دینا چاہتے ہیں.ایک غیر مبائع کے مقابلہ میں یہ کیسے افسوس کی بات ہے.یہ فقرہ بتاتا ہے کہ ضرورت کے وقت دوسرے مسلمانوں کی نسبت مبائع ان کو پکے مسلمان نظر آتے ہیں.اور ان کے نزدیک مبائعین کو اپنے روٹ ایک غیر احمدی کے مقابلہ میں غیر مبائع کو دینے چاہئیں.تو ووٹوں کے وقت ہم کو دوسروں کی نسبت زیادہ پکا مسلمان سمجھتے ہیں مگر دو سرے معاملات میں اسلام سے خارج قرار دیتے ہیں.یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ یہ لوگ ہم سے دو رنگ میں سلوک کرتے ہیں.جب ووٹ لینے کا وقت آتا ہے اس وقت تو ہم دوسرے مسلمانوں کی نسبت پکے مسلمان بن جاتے ہیں اور جب ۱۷ جون کے جلسوں کی تحریک ہوتی ہے تو ہم سے بلاتر کوئی نہیں رہتا.بهر حال مولوی صاحب نے فیصلہ کا جو طریق پیش کیا ہے اسے میں منظور کرتا ہوں اور اس کے لئے تین آدمیوں کو لے لیتا ہوں جو معاہدہ کے بانی تھے.یعنی سید عبد الجبار صاحب خاں صاحب مولوی غلام حسن صاحب خان دلاور خان صاحب ان میں سے دو تو غیر مبائع ہیں اور ایک نے اس معاہدہ کے بعد بیعت کی ہے.پہلے وہ بھی غیر مبائع تھے وہ بیعت میں حدیث الحمد ہیں.ایک سال کے قریب انھیں بیعت میں داخل ہوئے ہوا ہو گا اور عقید تا وہ اب بھی بعض امور میں مجھ سے اختلاف رکھتے ہیں.چونکہ ان تینوں میں سے صرف ایک مبائع ہیں اس لئے میں ایک ممبر اور اپنی طرف سے پیش کرتا ہوں اور وہ میاں بشیر احمد صاحب ہیں.اس طرح دو مولوی صاحب کی طرف سے اور دو میری طرف سے ہوئے.ان کے سامنے لٹریچر رکھ دیا جائے
خطبات محمود ۴۵۰ سال ۲۱۹۲۸ جسے دیکھ کر وہ فیصلہ کریں کہ اصولی بحث کرنے سے کیا مطلب تھا اور کس نے اس کے مطابق کام کیا اور کس نے ذاتیات پر حملے کئے.یہ اصحاب دو طریق پر تحقیقات کریں ایک یہ کہ میری اور مولوی محمد علی صاحب کی تحریروں اور تقریروں کو دیکھیں اور دوسرے جماعت کے دوسرے لوگوں کی تحریروں کو دیکھیں اور فیصلہ کریں کس نے ابتداء کی اور کس کی طرف سے معاہدہ کی خلاف ورزی ہوئی.اگر یہ کمیٹی میرے متعلق فیصلہ کر دے کہ میری طرف سے زیادتی ہوئی نہ کہ مولوی صاحب کی طرف سے تو آپ لوگ گواہ رہیں اور اگر میں اس بات پر قائم نہ رہوں تو جھوٹا سمجھا جاؤں کہ میں علی الاعلان معافی مانگوں گا.اور اگر یہ فیصلہ کرے کہ مولوی محمد علی صاحب کی طرف سے زیادتی ہوئی تو وہ اقرار کریں کہ معافی مانگیں گے.اسی طرح جماعتوں کے متعلق ہوگا.اگر یہ فیصلہ ہو کہ ہماری جماعت کے لوگوں نے معاہدہ تو ڑا تو جن اخبارات نے تو ڑا ہوگا وہ معافی مانگیں گے.یعنی اگر ثابت ہو جائے کہ الفضل نے اس معاہدہ کو توڑا تو الفضل معافی کا اعلان کرے گا اور اگر یہ ثابت ہو کہ پیغام صلح نے توڑا تو پیغام صلح معافی مانگے گا.اور اگر کسی فرد کی طرف سے معاہدہ کا تو ڑنا ثابت ہوا تو اس سے معافی کا اعلان کرایا جائے گا.پس ان چار آدمیوں کی کمیٹی بیٹھ جائے ان کے سامنے سارا معاملہ رکھ دیا جائے لیکن اگر مولوی محمد علی صاحب کو یہ چار آدمی منظور نہ ہوں تو ان کے سوا اور چار اصحاب لے لئے جائیں جن میں ایک ان کا ہم خیال ہو اور ایک میری جماعت کا اور دو غیر احمد ہی ہوں.میری طرف سے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب ہوں گے اور غیر احمدی اصحاب میں سے سر محمد اقبال صاحب اور سر عبد القادر صاحب کو میں تجویز کرتا ہوں.ان کا مجھ سے بھی تعلق ہے مگر لاہور میں رہنے کی وجہ سے مولوی صاحب سے زیادہ تعلق ہے.چوتھا آدمی مولوی صاحب تجویز کر مولوی صاحب نے لکھا ہے پہلے زبانی اور خط و کتابت کے ذریعہ ان پر حملے کئے گئے.اگر ایسا کیا گیا ہے تو مولوی صاحب وہ خطوط پیش کر دیں بات صاف ہو جائے گی.باقی ان کا قاضی محمد سف صاحب پر الزام لگانا درست نہیں.اگر یہ بیچ انھوں نے منظور کر لیا اور تحقیقات کے لئے بیٹھا تو ہم ثابت کریں گے کہ قاضی صاحب کی کتاب کے شائع ہونے سے قبل پیغام ہمارے خلاف حصہ لے رہا تھا.اس بینچ کا یہ بھی کام ہو گا کہ وہ فیصلہ کرے مسائل پر بحث کس رنگ میں
۴۵۱ سال ۱۹۲۸ء ہوئی جائز تھی.یوں تو پہلے بھی مسائل پر ہی بحث ہوتی تھی سوال یہ تھا کہ دوسرے کو ذلیل کرنے اور لوگوں کو اس کے خلاف بھڑکانے کی کوشش نہ کی جائے.اب یہ دیکھا جائے گا کہ اسی طرح کیا گیا یا نہیں ؟ مسائل کی بحث میں شرعی دلائل سے کام لیا گیا یا لوگوں کو اشتعال دلایا گیا.اب دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے حضرت مسیح نے مردے زندہ نہیں گئے.اس پر مولوی کہا کرتے تھے مرزا صاحب منجزات کے منکر ہیں.کیا یہ بحث ان کی جائز تھی یا صرف لوگوں کے بھڑکانے کے لئے تھی.یہ محض بھڑ کانے کے لئے تھی.پس دیکھتا یہ ہے کہ جو بحث کی گئی وہ بھڑ کانے کا پہلو رکھتی ہے یا نہیں.اس اصل کے ماتحت مسائل کی بحث دیکھی جائے گی.پہلے بھی یہی بحث کا رنگ تھا جس کی وجہ سے معاہدہ کیا گیا تھا اور نہ صرف ذات پر حملے پہلے بھی نہیں کئے جاتے تھے.باقی زبانی باتوں کے متعلق میرے پاس کوئی اطلاع نہیں پہنچی لیکن اس کے مقابلہ میں مولوی صدر الدین صاحب اور میر مدثر شاہ صاحب کے متعلق پشاور کی جماعت نے لکھا کہ وہ کہتے ہیں برلن کی مسجد کا روپیہ آپ کھا گئے ہیں اور یہ جو کہا گیا ہے کہ حکومت نے شرط لگائی تھی کہ اگر اس قسم کی عمارت نہ بناؤ گے تو عمارت گرادی جائے گی یہ جھوٹ بولا ہے لیکن خدا کی قدرت ان لوگوں کو خود بخود جواب مل گیا.انھوں نے جو برلن میں مسجد بنائی اس کے متعلق اسی قسم کا نوٹس ان کو ملا اس کی وجہ سے انھوں نے دنیا کے بادشاہوں کو چٹھیاں لکھیں کہ مدد کی جائے ورنہ مسجد گرا دی جائے گی.جب ان کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا تو انھوں نے عربی ترکی اور فارسی میں اعلان چھوا کر بھیجے کہ چندہ بھیجو ورنہ مسجد گرا دی جائے گی.یہ اعلان میرے پاس موجود ہے.گویا خدا نے ان لوگوں کو ان کے اعتراضوں کا جواب دے دیا.میں نے اس اعلان کو بھی شائع نہ ہونے دیا جو میرے پاس جرمنی سے پہنچ چکا تھا اور اب تک ہے.ای طرح مولوی صدر الدین صاحب نے بیان کیا کہ مسجد لنڈن کی جو شہرت کر رہے ہیں کہ ایسی ایسی بن گئی ہے یہ بھی جھوٹ ہے.اسی طرح میر مدثر شاہ صاحب نے روپیہ کھا جانے کے الزام لگائے.اس پر جماعت پشاور نے مباہلہ کی اجازت مانگی یہ واقعات ہیں جن سے شاید مولوی صاحب نتیجہ نکالتے ہیں.ان کی طرف سے تو خاموشی رہی مگر ہماری طرف سے ان کے خلاف پرو پیگنڈا ہو تا رہا.قاضی محمد یوسف صاحب کے متعلق میں یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اس وقت تک کہ دوبارہ
خطبات محمود ۴۵۲ سال ۱۹۳۸ فساد رونما ہوا قاضی صاحب خان عجب خاں صاحب غیر مبائع کے ساتھ مل کر جو غیر مبالعین کی امداد میں بہت حصہ لیتے رہے ہیں یہ کوشش کر رہے تھے کہ دونوں فریق اور زیادہ قریب ہو جائیں.اس کے لئے انھوں نے ایک معاہدہ تجویز کیا اس کی شرائط بھی لکھیں.اس کے متعلق میں خان عجب خان صاحب سے کہوں گا کہ وہ شہادت دیں کہ ایسا ہوا یا نہیں.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ قاضی صاحب اتحاد کے خلاف کوشش کرتے رہے ہیں یا اور اتحاد قائم کرنے کی.اب میں مولوی صاحب کے چیلنج کو قبول کرتا ہوا اعلان کرتا ہوں کہ وہ ان دونوں بورڈوں میں سے کوئی سامنظور کرلیں اور پھر جو فیصلہ ہو اس کی پابندی کی جائے.اگر میری طرف سے زیادتی ثابت ہو تو میں معافی مانگ لوں گا اور اگر میری طرف سے کسی اور کی زیادتی ثابت ہو تو دہ معافی مانگے گا.اسی طرح مولوی صاحب اپنے اور اپنے ساتھیوں کے متعلق اعلان کریں ان کے نقطہ نگاہ سے میرے لئے معافی مانگنا تو بہت مشکل بات ہے کیونکہ میں ان کے نزدیک پیر پرستی قائم کرنے والا ہوں اور وہ چونکہ پیر پرستی کو دور کرنے والے ہیں اس لئے ان کے لئے معافی مانگنا آسان ہے.پھر اس تجویز کو قبول کرنے میں انھیں کیا عذر ہو سکتا ہے.مولوی صاحب نے اپنے مضمون میں میری خوابوں کی تضحیک کی اور تمسخر کیا ہے مگر ان کو قرآن کریم کا وہ قول یاد کر لینا چاہئے جس میں بتایا گیا ہے کہ اگر یہ جھوٹا ہے تو جھوٹ اس پر آپڑے گا اور اگر سچا ہے تو تمہیں فکر کرنی چاہئے کہ تم پر وبال نہ آ پڑے.اگر میں نے خوا ہیں خود بنا کر بیان کیں ہیں تو مولوی صاحب کو خوش ہونا چاہئے کہ ان کا راستہ صاف ہونے لگا ہے اور اگر خواہیں بچی ہیں تو ان کی تضحیک کرنے سے ان کو ڈرنا چاہئے.بچے خواب کی تضحیک گو وہ نبی کا نہ ہو کچھ نہ کچھ خدا کی ناراضگی کا باعث ضرور ہوتی ہے.باقی یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ مجھے بیسیوں خواب آتے ہیں جو پورے ہو جاتے ہیں.آج ہی ایک خواب پورا ہوا ہے.بے شک مولوی صاحب اس پر بھی ہنسی اڑالیں.میرے لڑکے ناصر احمد نے اس سال مولوی فاضل کا امتحان دیا تھا.دو پرچے وہ دے چکا تھا اور تیسرا ابھی نہ دیا تھا کہ میں نے دیکھا وہ قادیان آگیا ہے اور کہتا ہے پرچہ خراب ہوا ہے.میں نے کہا تمہارے رانے کے سبب سے ایسا ہوا تمہیں امتحان پورا دینا چاہئے.اس خواب میں بتایا گیا تھا کہ خدا کے نزدیک وہ دوسرے پرچہ پر ہی واپس آچکا ہے.آج اطلاع پہنچی ہے کہ وہ دوسرے پرچہ میں ہی فیل ہوا ہے.اور یہ وہ پرچہ تھا جس کے متعلق اسے اطمینان تھا کہ اچھی طرح ہو گیا ہے.
خطبات محمود ۴۵۳ سال ۶۱۹۲۸ اسی طرح تھوڑا ہی عرصہ ہوا کہ میں نے دیکھا.ایک معزز غیر احمدی کا تار چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کے نام کسی کام کے متعلق آیا ہے میں نے بعض دوستوں کو یہ خواب بتایا.اس کے بعد چودھری صاحب کی چٹھی آئی جس میں اسی طرح کا تار آنے کا ذکر کرتے ہوئے ایک اہم کام جانے کا ذکر کیا تھا تو خدا کے فضل سے متواتر خوابیں آتی رہتی ہیں جو پوری ہوتی ہیں اسی طرح اور لوگوں کو بھی میری تائید میں آتی ہیں.ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا کہ خان دلاور خان صاحب نے لکھا کہ انھوں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک غیر مذہب کے مقابلہ میں مجھے عظیم الشان کامیابی ہوئی ہے.یہ خدا تعالٰی کی سنت ہے کہ کبھی مومن کو بچے خواب دکھاتا اور کبھی اس کے لئے دوسروں کو دکھاتا ہے.اس پر اگر مولوی محمد علی صاحب نہیں اور تمسخر کرتے ہیں تو کریں ان کی مرضی.میں خدا کے فضل سے ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو اللہ پر افتراء کرتے ہیں.میں تو بہت سی ایسی خواہیں جو پوری ہو جاتی ہیں وہ بھی بیان نہیں کرتا.مولوی صاحب نے اس بارے میں جو کچھ لکھا ہے.میں اس میں ان کو معذور سمجھتا ہوں.وہ اس امت کے انعامات پر بحث کرتے کرتے ایک طرف تو اس کے لئے خوابوں کا دروازہ کھولنے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسری طرف جسے کچی خواب آتے اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں.گویا عملاً وہ پر بھی برداشت نہیں کر سکتے کہ کسی کو خواب آئے.مگر میں تو یہی دعا کرتا ہوں کہ انھیں خدا تعالٰی بچے خواب دکھائے اور اس طرح انہیں بتا دے کہ وہ غلطی پر ہیں تا جھگڑے کا فیصلہ ہو جائے خدا تعالٰی لَهُمُ البشری کی بشارت ان کے حق میں بھی پوری کرے تاکہ جھگڑ اسٹ جائے.وہ مجھے مفتری کہتے ہیں لیکن میں ان کے لئے یہی کہتا ہوں خدا تعالیٰ ان کے لئے رستہ کھول دے تاکہ وہ ایسی راہ اختیار کریں کہ جھگڑ ا فساد مٹ جائے.بالآخر میں پھر کہتا ہوں میں اس جھگڑے کا فیصلہ کرنے کے لئے ان کا چیلنج قبول کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ جس سپرٹ میں میں نے اس بات کو بیان کیا ہے اسی سپرٹ میں وہ اسے قبول کرلیں گے.الفضل ۱۸ ستمبر ۱۹۲۸ء)
سال ۲۱۹۲۸ ۴۵۴ ۵۸ روحانی اور جسمانی پانی (فرموده ۲۴/ اگست ۱۹۳۸ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: مؤمن انسان کا قاعدہ ہوتا ہے کہ وہ ہر چیز سے نصیحت حاصل کرتا ہے.چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی اس کے لئے حکمت کا موجب ہوتی ہے اور بڑی سے بڑی چیز بھی اسے سبق سکھاتی ہے.جہاں کفار اور منکرین دین الہی یا وہ لوگ جن کے دلوں پر زنگ لگے ہوتے ہیں بڑے سے بڑے نشانات دیکھتے اور کہتے ہیں ہمیں کوئی نشان نظر ہی نہیں آتا وہاں اللہ تعالی کی ذات پر یقین رکھنے والے اور اس کی معرفت کے کسی نہ کسی مقام پر پہنچنے والے چھوٹی سے چھوٹی چیز میں بھی خدا تعالی کی شان اور اس کا جلال دیکھتے ہیں.حدیث میں آتا ہے رسول کریم ﷺ ایک جنگ کے بعد بیٹھے ہوئے تھے کچھ صحابہ بھی آپ کے پاس تھے دیکھا گیا کہ ایک عورت میدان جنگ میں آئی ہے.اس نے ایک بچہ کو اٹھایا چھاتی سے لگا کر چھوڑ دیا اور آگے چل دی.پھر دو سرا بچہ جو اسے نظر آیا اسے اٹھا لیا اور چھاتی سے لگا کر چھوڑ دیا اور آگے چلی گئی.کئی دفعہ اس نے اسی طرح کیا حتی کہ ایک بچہ اسے نظر آیا اسے اس نے اٹھا کر چھاتی سے لگا لیا اور پھر آرام سے ایک جگہ بیٹھ گئی.دراصل اس کا بچہ کھویا گیا تھا وہ اپنے بچہ کی محبت کی وجہ سے جو بچہ دیکھتی اسے اٹھا لیتی اور پیار کرتی.چونکہ وہ اس کا اپنا بچہ نہ ہوتا اس لئے چھوڑ دیتی اور اپنے بچہ کی تلاش شروع کر دیتی یہاں تک کہ اسے اپنا بچہ مل گیا اور وہ اسے لے کر آرام سے بیٹھ گئی.رسول کریم ﷺ نے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا.تم نے اس عورت کو دیکھا کس بے تابی سے اپنے بچہ کو تلاش کر رہی تھی.اب جس طرح اس کا دل اپنے بچہ کو پا کر مطمئن ہو گیا ہے بعینہ اسی طرح اللہ تعالٰی اس وقت خوش ہوتا ہے جب اس کا کوئی گمراہ بندہ اس کی طرف
خطبات محمود آجاتا ہے بے سال ۶۱۹۲۸ اس وقت وہاں کئی لوگ بیٹھے تھے.کئی نے تو اس عورت کی طرف دیکھا بھی نہ ہو گا.کئی ایک نے یہ خیال کیا ہو گا کہ کوئی پاگل عورت ہے جو ایک بچہ کو اٹھاتی اور پھر چھوڑ دیتی ہے اور آگے چل پڑتی ہے پھر دوسرے بچہ کو اٹھا لیتی ہے.کئی ایک نے زیادہ سے زیادہ یہ سمجھا ہو گا کہ اس کا بچہ کھویا گیا تھا اس کی تلاش کر رہی تھی اور جب وہ مل گیا تو اسے لے کر آرام سے بیٹھ گئی مگر رسول کریم کی نظریت اونچی گئی.آپ نے اس واقعہ سے خدا تعالٰی کی محبت کا ثبوت دیا اور بتایا کہ مومن کو چاہیئے ہر بات سے فائدہ اٹھائے اور غور کر کے نصیحت حاصل کرے.ابھی پچھلے دونوں ہمارے ملک میں بارش کی کمی کی وجہ سے کتنی گھبراہٹ تھی اور ابھی ہے.کیونکہ تاحال اس حد تک بارش نہیں ہوئی جتنی ہونی چاہئے.جیسے دیکھو آسمان کی طرف دیکھ رہا.تھا اور زبان حال سے بارش کے لئے التجا کر رہا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالٰی کی طرف سے پانی نہ اتارا جائے تو موت نہایت بھیانک صورت میں لوگوں کے سامنے آجاتی ہے.مختلف علاقوں سے خبریں آرہی ہیں کہ لوگ بارش کے لئے دعائیں کر رہے ہیں اور کثرت سے خطوط آرہے ہیں کہ بارش برسنے کے لئے دعا کی جائے.یہ سب کچھ کیوں کیا جا رہا ہے.صرف اس لئے کہ ایک روٹی گیہوں یا جوار یا باجرہ کی یا چاولوں کی تھالی سے انسان محروم نہ ہو جائیں.مگر کیا کام ہے جو انسان اس دنیا میں کر رہا ہے.وہ کچھ عرصہ کھاتا پیتا پہنتا اور دنیا سے چلا جاتا ہے.پھر وہ کیا چیز ہے جس کے سنبھالنے کے لئے اتنی کوشش کی جارہی ہے.اگر قحط پڑ جائے تو کیا ہو یہی کہ لوگ بھوکے مریں گے مگر وہ کام کیا کر رہے ہیں جس کے نہ کرنے سے دنیا کو نقصان پہنچ جائے گا.مگر باوجود اس کے کہ ان کی جانیں کچھ حقیقت نہیں رکھتیں.باوجود اس کے کہ وہ کچھ نشان چھوڑنے والے نہیں مگر محض اس لئے کہ ان کی جانیں ہیں اور وہ عارضی زندگی بسر کر رہے ہیں.ان کے عزیز اور رشتہ دار ان سے جدا تو ہوں گے مگر اس لئے کہ کچھ دن پہلے جدا نہ ہوں وہ اس قدر بے تابی اور بے قراری کا اظہار کر رہے ہیں لیکن کیا یہ عجیب بات نہیں کہ جسمانی پانی اگر چند دن یا چند ہفتے یا چند مہینے دیر سے آئے تو سب لوگ گھبرا جاتے ہیں مگر روحانی پانی نہیں آتا تو اس کی پروا بھی نہیں کرتے.پھر کیا یہ عجیب بات نہیں کہ جسمانی پانی کم عرصہ کے لئے رک جائے تو لوگ ہر جگہ اکٹھے ہو
خطبات محمود م سال ۱۹۲۸ء ہو کر اس کے لئے دعائیں کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اپنا فضل کرے اور پانی اتارے.دعاؤں کے لئے خطوط لکھتے ہیں لیکن جب خدا تعالی روحانی پانی اتارتا ہے تو لوگ اسے قبول نہیں کرتے اور اس کا انکار کر دیتے ہیں.کیا حقیقت ہے جسمانی پانی کی اس روحانی پانی کے مقابلہ میں جو خدا تعالٰی کے طرف سے آتا ہے.خدا کے کلام سے بارش کے چھینٹوں کو نسبت ہی کیا ہے.لیکن جب بارش کا چھینٹا نہیں پڑتا تو دعائیں کرتے ہیں کہ اللی بارش اتار لیکن جب خدا تعالی کا کلام آجاتا ہے تو کہتے ہیں ہم اسے نہیں مانتے.ایک ہفتہ نہیں ، دو ہفتہ نہیں ، سال نہیں ، دو سال نہیں، تین صدیاں گذر جاتی ہیں جسے فیح اعوج یعنی روحانی قحط کا زمانہ کہا جاتا ہے اس کے بعد وہ بادل آتا ہے جس سے روحانی دنیا کی سرسبزی اور شادابی وابستہ ہے لیکن بجائے اس کے کہ دنیا اس پر خوش ہوتی اور خدا تعالیٰ کا شکر کرتی اس بارش کے ہونے پر الٹی ناراض ہو کر اپنے کھیتوں سے اس کے پانی کو باہر نکالتی ہے.کیا یہ اس بات کی علامت نہیں کہ ان کے دل مر چکے ہیں اور خدا کی محبت ان میں سے نکل چکی ہے کیونکہ وہ کلام الہی کے آنے پر بھی اس کی طرف توجہ نہیں کرتے.اس کے لئے دعائیں مانگنا تو الگ رہا اسے رو کرنے کی کوشش کرتے اور اس کے متعلق نہیں اور تمسخر کرتے ہیں.انہیں اپنی کثرت اور زیادتی پر گھمنڈ ہے اور یہ نہیں جانتے کہ کثرت پر گھمنڈ کرنے والے قلیل بن جایا کرتے ہیں.خدا تعالٰی تھوڑوں کو بہت اور بہتوں کو تھوڑے بنا دیتا ہے.وہ نہیں جانتے کہ خدا کے فضل کا انکار کتنا بڑا عذاب بن جاتا ہے.اگر ایک ملک میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے غلہ نہ پیدا ہو تو دوسرے ملک سے آجاتا ہے لیکن روحانی بارش کے لئے تو اور کوئی جگہ نہیں.ایک دفعہ ہندوستان میں قحط پڑا تو امریکہ سے غلہ لے آئے مگر روحانی قحط کے وقت کہاں سے کوئی روحانیت لا سکتا ہے.روحانی غذا آسمان پر ہی پیدا ہوتی اور وہاں سے ہی نازل ہوتی ہے.اگر وہاں سے نہ اترے تو کسی جگہ سے نہیں مل سکتی.پس یہ رونے کا مقام ہے کہ لوگوں کے دلوں پر اتنا زنگ لگ گیا ہے کہ وہ اپنے فائدہ کی چیز سے بھاگتے اور ناراض ہوتے ہیں.اس کا ایک ہی علاج ہے اور وہ یہ کہ ہماری جماعت کے لوگ جنہوں نے خدا تعالٰی کے روحانی پانی سے فائدہ اٹھایا ہے وہ دعائیں کریں کہ خدا تعالٰی ہمارے دوسرے بھائیوں کے دل بھی کھول دے اور وہ اس ابر کرم کے نیچے آجا ئیں جو خدا تعالٰی نے روحانیت کو زندہ کرنے کے لئے نازل کیا ہے.اس کے ساتھ ہی ہماری جماعت کے لوگوں کا یہ بھی کام ہے کہ تبلیغ بھی
خطبات محمود ۴۵۷ سال ۴۱۹۲۸ کریں.فَذَكِّرُ انُ نَفَعَتِ الذِّكرى الا علی(۱۰) نصیحت کرد - نصیحت کرو کیونکہ ہمیشہ نصیحت کرنے میں فائدہ ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسمعیل علیہ السلام کے لئے یہ بھی دعا کی تھی.فَاجْعَلُ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوَى إِلَيْهِمُ (ابراہیم ۳۸) کیونکہ دلوں کا کھولنا کسی انسان کے اختیار میں نہیں ہے.دلوں کو خدا ہی کھول سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک عرب آیا یہ لوگ چونکہ عام طور پر سوالی ہوتے ہیں وہ جب کچھ دنوں کے بعد یہاں سے جانے لگا تو حضرت مسیح موعود نے کرایہ کے طور پر اسے کچھ دیا مگر اس نے لینے سے انکار کر دیا اور کہا میں نے سنا تھا آپ نے مامور ہونے کا دعویٰ کیا ہے اس لئے آیا تھا کچھ لینے کے لئے نہ آیا تھا.چونکہ یہ ایک نئی بات تھی کیونکہ اس علاقہ کا شاید اب تک بھی کوئی ایسا شخص نہیں آیا جو سوالی نہ ہو.اس بات کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود نے فرمایا آپ کچھ دن اور ٹھہر جا ئیں وہ ٹھہر گیا اور بعض لوگوں کو آپ نے مقرر کیا کہ اسے تبلیغ کریں.کئی دن تک اس سے گفتگو ہوتی رہی مگر اسے کوئی اثر نہ ہوا.آخر تبلیغ کرنے والے دوستوں نے حضرت مسیح موعود سے عرض کیا یہ بڑا جو شیلا ہے سوالی لوگوں کی طرح نہیں اسے صداقت کی تڑپ معلوم ہوتی ہے اس کے لئے دعا کی جائے.آپ نے دعا کی اور آپ کو بتایا گیا اسے ہدایت نصیب ہو جائے گی.خدا کی قدرت اسی رات اسے کسی بات سے ایسا اثر ہوا کہ صبح اس نے بیعت کرلی اور پھر چلا گیا.حج کے موقع پر مجھے بتایا گیا کہ کئی قافلوں کو اس نے تبلیغ کی ایک قافلہ والے اسے مار مار کر بے ہوش کر دیتے تو ہوش آنے پر اٹھ کر دوسرے قافلہ کے پاس چلا جاتا اور تبلیغ کرتا.تو بات یہ ہے کہ اللہ تعالی ہی جب سینے کھولے تو کھلتے ہیں.ہماری ترقی کام کے مقابلہ میں بہت محدود ہے اور اس وقت تک محدود ہی رہے گی جب تک ہم میں سے ہر ایک کو تبلیغ کے لئے وہ جنون نہیں پیدا ہوتا جس سے دنیا کا فتح ہونا وابستہ ہے.ایک آگ لگی ہونی چاہئے اور لوگوں کے ہدایت پا جانے کے متعلق تڑپ ہونی چاہئے جس سے وہ محسوس کریں کہ ہمارے دلوں میں ان کے لئے درد ہے.اللہ تعالی ہمیں اس بات کی توفیق عطا فرمائے.ہماری باتوں میں اثر ڈالے اور ہمارے گم شدہ بھائیوں کو ہم سے ملائے.الفضل ۳۱ / اگست ۱۹۲۸ء) بخاری کتاب الادب باب رحمته الولد و تقبیلہ و معانقه
خطبات محمود ۴۵۸ ۵۹ سال ۶۱۹۲۸ درس القرآن سننے والے اس سے فائدہ بھی اٹھائیں (فرموده ۳۱/ اگست ۱۹۲۸ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالٰی اگر چاہے گا تو آئندہ ہفتہ میں قرآن کریم کا درس جو اس ماہ میں شروع ہوا تھا ختم ہو جائے گا.ہماری جماعت کے سینکڑوں دوست مختلف اوقات میں اور مختلف مقامات سے اس میں شمولیت کی غرض سے قادیان آئے.ایک جماعت تو ایسی ہے جو مستقل طور پر یہاں رہی ہے ماکہ پورا درس سنے اور فائدہ اٹھائے اور کچھ دوست ایسے تھے جو پوری فرصت تو نہیں نکال سکے اور چند دن بعد اگر شامل ہوئے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو شامل تو شروع میں ہو گئے تھے مگر انہیں دوران درس میں ہی جانا پڑا.بہر حال سینکڑوں کی تعداد میں دوست اس غرض سے باہر سے آئے اور یہ اللہ تعالٰی کا فضل ہے کہ اس نے قرآن سننے اور سمجھنے کی محبت ہماری جماعت میں پیدا کر دی ہے.ان گرمی کے دنوں میں جب کہ ایک دوسرے کے پاس بیٹھنا بھی سخت تکلیف دہ ہوتا ہے ایسی حالت میں آپ لوگ باوجود اس کے کہ آرام اور سہولت کے بہت کم سامان میسر تھے پیٹھ سے پیٹھ ملا کر اور پہلو سے پہلوں گا کر ہر روز ظہر سے شام تک بیٹھتے رہے.صرف نماز کے لئے درمیان میں وقفہ ہوتا.دنیا میں بہت سے جلسے ہوتے ہیں اور ایسے جلسوں میں تو جن میں دین کی باتیں بیان ہوتی ہیں لوگوں کے لئے جانا بھی دوبھر ہوتا ہے اور جا کر وہاں بیٹھنا تو اور بھی دو بھر ہوتا ہے.پچھلے سال میں شملہ میں تھا اور میں نے ان قومی لیڈروں کو دیکھا جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ رات دن قوم کے غم میں گھلے جا رہے ہیں.شملہ جیسے سرد مقام میں اور اسمبلی ہال میں جہاں ہر قسم کی سہولتیں اور ناشتہ وغیرہ کے انتظام کے ہوتے ہوئے اکثر غیر حاضر رہتے پھر جو
لطبات محمود ۴۵۹ سال ۶۱۹۲۸ آتے وہ بار بار اٹھ کر باہر چلے جاتے وہاں اس وقت ایک شخص کا سوال نہ تھا بلکہ قوم کا سوال تھا.اور قومی شیرازہ کے بکھرنے کے متعلق گفتگو تھی.اور اسے متحد کرنے کی تجویزیں تھیں لیکن باوجودیکہ لیڈر اپنے گھروں کو چھوڑ کر وہاں پہنچ چکے تھے مگر پھر بھی وہ لیڈر جو قوم کے غم میں گر از قرار دیئے جاتے تھے چند گھنٹہ وہاں نہیں بیٹھ سکتے تھے.گویا وہ تکلیف ان کے لئے مالا یطاق تھی.بعض اوقات ایسے معاملات پیش ہوتے جن کا حل نہایت ضروری ہو تا مگر وہ یہ کہنا شروع کر دیتے کہ ہماری جائے قیام بہت دور ہیں دیر ہو گئی ہے اس لئے اسے کسی اور وقت پر ملتوی کر دیا جائے.بعض اوقات پانچ پانچ چھ چھ آدمیوں کی کمیٹیاں بنائی جاتیں.مگر ان میں بھی دو دو گھنٹے انتظار کرنا پڑتا کہ بعض ممبرا بھی نہیں آئے.لیکن ہماری جماعت کے لوگ کسی دنیوی غرض کے لئے نہیں، ملک کی قسمت کے فیصلہ کے لئے نہیں جس سے عزت کی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں، حکومت کے حصول کے لئے نہیں جس کا خیال ہی ہر انسان کے دل میں کئی قسم کے سبز باغ دکھاتا ہے بلکہ اس کتاب کے پڑھنے کے لئے جو خود بیان کرتی ہے کہ رسول کریم قیامت کے دن خدا سے کہیں گے.یرَتِ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (الفرقان (۳۱) اے میرے رب میری قوم نے اس لطیف اور اعلیٰ درجہ کی کتاب کو بالکل چھوڑ دیا ہاں اس چھوڑی ہوئی کتاب کے سمجھنے کے لئے ہماری جماعت کے لوگ شدید گرمی میں روزانہ کئی کئی گھنٹے بیٹھے اور نوٹ لکھتے رہے.ذلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ یہ تکلیف جو آپ لوگوں نے ان دنوں میں اٹھائی میں اس میں اس حد تک تو شامل نہیں ہو سکا جس حد تک آپ لوگوں کو پہنچی کیونکہ میرے گرد اس قدر ہجوم نہ ہوتا تھا جیسا آپ لوگوں کے پاس ہو تا تھا لیکن خدا تعالٰی نے مجھے اس ثواب میں شامل کرنے کا ایک اور ذریعہ پیدا کر دیا.اور وہ یہ کہ میں پچھلے دنوں بہت بیمار رہا بخار اور اسہال کی شکایت تھی اور میں سمجھتا ہوں اس طرح اللہ تعالٰی نے وہ کمی جو ہجوم میں بیٹھنے کی تکلیف سے رہ گئی تھی شاید میرے حق میں بیماری سے پوری کر دی ہو.بہر حال ہم سب نے نیک نیت اور نیک ارادہ سے قرآن کریم پڑھا اور پڑھایا.مگر اب سوال یہ ہے کہ اس تکلیف کا نتیجہ کیا ہوا.اس میں تو شک ہی نہیں کہ اس قسم کی تکلیف کی نظیر دنیا کی اور کسی قوم میں نہیں ملتی.ان لوگوں کو میں مستثنیٰ کرتا ہوں جنہوں نے خدا تعالی کے قرب کا ذریعہ ہی یہ سمجھ رکھا ہے کہ الٹے لٹکے رہیں یا الاؤ میں بیٹھے رہیں انہوں نے اپنی زندگی کو ایک خاص وضع میں ڈھال رکھا ہوتا ہے اور وہ چونکہ اس کے عادی ہو جاتے
خطبات محمود م سال ۱۹۲۸ء ہیں اس لئے تکلیف محسوس نہیں کرتے.قرآن کریم میں آتا ہے کہ دوزخ میں بھی دوزخیوں کے چڑے بدلے جائیں گے تاکہ انہیں عذاب کا احساس ہو تو ان لوگوں کا الاؤ میں بیٹھے رہنا ایسا ہی ہے جیسے کہ خس کی ٹٹیوں کے اندر بیٹھنا.لیکن یہاں جو لوگ آئے ہیں وہ دوسری قسم کی زندگی کے عادی ہیں پس ان کے اس قدر تکلیف اٹھانے کے بعد اگر کچھ نتیجہ برآمد نہ ہو تو ہم سے زیادہ بد قسمت کون ہو گا کہ تکلیف بھی اٹھائی اور فائدہ بھی کچھ نہ ہوا.پس میں جماعت کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ درس جب انہوں نے تکلیف اٹھا کر بنا ہے تو اس سے فائدہ بھی اٹھائیں اور وہ اس طرح کہ قرآن کریم کو دنیا تک پہنچائیں.قرآن دنیا میں غلافوں میں رکھنے یا جھوٹی قسمیں کھانے کے لئے نہیں آیا بلکہ اس لئے آیا ہے کہ منبروں پر سنایا جائے ، مناروں پر اس کی منادی کی جائے اور بازاروں میں اس کا وعظ کیا جائے.وہ اس لئے آیا ہے کہ پڑھا جائے اور سنایا جائے ، پھر پڑھا جائے اور سنایا جائے ، پھر پڑھا جائے اور سنایا جائے.خدا تعالیٰ نے اس کا نام پانی رکھا ہے اور پانی جب پہاڑوں پر گرتا ہے تو ان میں بھی غاریں پیدا کر دیتا ہے.وہ نرم چیز ہے مگر کرتے کرتے سخت سے سخت پتھروں پر بھی نشان بنا دیتا ہے.اور اگر جسمانی پانی اس قدر اثر رکھتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کا نازل کیا ہوا روحانی پانی دلوں پر اثر نہ کرے.مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے بار بار سنایا جائے اور اپنے عمل سے نیک نمونہ پیش کیا جائے.پس ہماری جماعت کے لوگوں کو چاہئے کہ دیوانہ وار نکلیں اور دنیا کو قرآن سے بہرہ ور کرنے کی پوری پوری کوشش کریں.بے شک آج دنیا خدا سے دور ہو رہی ہے، دین سے غافل ہے، قسم قسم کی بدیوں میں مبتلاء ہے، آج کل کا تمدن اور تہذیب قرآن کے خلاف ہیں موجودہ طرز حکومت قرآن کے بتائے ہوئے طرز حکومت کے خلاف ہے، اس وقت لوگوں کے مشاغل اور عادات و اطوار قرآن کے خلاف ہیں ان حالات میں قرآن کو مان لینا بہت مشکل ہے.مگر اس میں بھی کیا شبہ ہے کہ سوائے قرآن کے ان تمام مفاسد کا علاج بھی کوئی نہیں.اگر قرآن موجودہ زمانہ کے مفاسد کے علاج کے لئے کافی نہ ہوتا تو اللہ تعالٰی ضرور کوئی دوسری کتاب بھیج دیتا.اللہ تعالٰی کسی کا دشمن نہیں جب اس نے مکہ کے رہنے والوں کے لئے کرو علم کے یہودیوں اور فریبیوں کے لئے اور فرعون کے لئے ہدایت کا سامان کیا تو اس زمانہ کے لوگوں کو وہ کبھی بھلا نہیں سکتا تھا.وہ باوفا ہے اور ایسا باوفا ہے کہ جب لوگ اس سے بے وفائی کرتے ہیں تو رحم کرتا ہے، جب لوگ اس سے منہ پھیرتے ہیں تو وہ اس وقت یاد کرتا ہے، جب دنیا
خطبات محمود سال ۱۹۲۸ء اسے بھلاتی ہے تو وہ اسے بلاتا ہے اگر واقعہ میں قرآن کریم موجودہ مفاسد کا تسلی بخش علاج نہ ہوتا تو خدا تعالٰی ضرور کوئی دوسرا ہدایت نامہ بھیج دیتا.تمام دنیا کی نظریں ایک مامور کی آمد پر لگی ہوئی تھیں.وہ آیا اور چلا بھی گیا.اس کا فیصلہ آخری فیصلہ ہے اور وہ یہ کہ قرآن کا ایک شوشہ بھی قیامت تک بدل نہیں سکتا.اس کی آمد سے قبل یہ خیال ہو سکتا تھا کہ شاید وہ کوئی اور " ہدایت نامہ لے آئے لیکن اس کے بعد یہ خیال نہیں ہو سکتا.پس قرآن کریم ہی سب ہدایات کا مجموعہ ہے اور جملہ بیماریوں کا علاج ہے.اب اور کسی کتاب کا خیال مجنونانہ خیال ہے.یہی کتاب ہے جس سے دنیا کے مفاسد کا علاج کیا جا سکتا ہے.یہ خدا تعالی کا فیصلہ ہے اور یہی سچا فیصلہ ہے.رسول کریم کے متعلق ایک روایت ہے معلوم نہیں کہاں تک سچ ہے مگر اس سے ہمیں ایک سبق ضرور ملتا ہے.لکھا ہے ایک صحابی آپ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ میرے بھائی کے پیٹ میں سخت درد ہے.آپ نے فرمایا جا اسے شہد پلا.وہ گیا اور پھر آکر یہی عرض کیا یا رسول اللہ پلایا تھا مگر آرام نہیں ہوا.آپ نے فرمایا جا پھر شہد پلا.وہ پھر گیا اور پھر آکر یہی عرض کیا کہ آرام نہیں ہوا.آپ نے فرمایا اور شہد پلا خد ا یقینا سچا ہے اور تیرے بھائی کا پیسٹ جھوٹا ہے ؟ خدا تعالیٰ شہد کے متعلق فرماتا ہے.فِيْهِ شِفَاءُ لِلنَّاسِ (النحل (۷۰) اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ خدا کے فیصلہ کے مقابل میں ہمارا فیصلہ کچھ حقیقت نہیں رکھتا.اور یہ خدا کا فیصلہ ہے کہ قرآن ہی تمام مفاسد کا صحیح علاج ہے.اگر کوئی ناامید ہوتا ہے کہ فلاں قوم نہیں مانتی تو وہ غلطی پر ہے.اگر کوئی کسی کے متعلق شقاوت کا فیصلہ کرتا ہے تو وہ بھی غلطی پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی جماعت پھیلے گی اور بادشاہ بھی اس میں داخل ہوں گے حتی کہ تمام دنیا اس میں شامل ہو جائے گی اور صرف اکاد کا لوگ چوہڑے چماروں کی طرح الگ رہ جائیں گے.اس تحریر کے بعد کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ لوگوں پر اثر نہیں ہوتا.دراصل ہماری طرف سے ہی تبلیغ اور سنانے میں ستی ہے.پس جن دوستوں نے درس سننے کے لئے تکلیف اٹھائی ہے وہ فائدہ بھی اٹھا ئیں اور عہد کریں کہ پوری تندہی سے تبلیغ میں مصروف ہو جائیں گے.میں ان سے پوچھتا ہوں اگر کسی شخص سے کہا جائے کہ جرمنی کے لوگوں نے فیصلہ کیا ہے کہ تمہیں اپنا تخت پیش کریں تو اسے کس قدر خوشی ہوگی.یا اگر کوئی کے امریکہ والوں نے تمہیں اپنا بادشاہ بنانے کی تجویز کی ہے تو
خطبات محمود سال ۶۱۹۲۸ وہ کس قدر خوش ہو گا.لیکن قرآن اس سے بڑھ کر تخت پیش کرتا ہے اور فرماتا ہے عَلی سُور متقبلينَ (الصفت : (۴۵) وہ ایسے بادشاہ نہیں بناتا جن پر ہر وقت یہ خوف طاری رہتا ہے کہ کب کوئی حریف حملہ کر دے بلکہ ایسے بادشاہ بناتا ہے جو بھائی بھائی کی طرح آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے.پھر قرآن کے متعلق آتا ہے کہ جو اسے یاد کرے گا یا کرائے گا اسے قیامت کے دن تاج ملے گا یعنی اسے بادشاہ بنایا جائے گا.اگر دنیا کی چھوٹی چھوٹی بادشاہتوں کے لئے اس قدر خواہش کی جاتی ہے تو اس بادشاہت کے لئے جو خدا کی طرف سے عطا ہو گی اور جو لازوال ہو گی جس میں کوئی خطرہ نہیں اس کے لئے کتنی کوشش کرنی چاہئے.مجھے افسوس ہے کہ جماعت میں تبلیغ کا جوش ایسا نہیں جیسا ہونا چاہئے.بعض دوست تو ایسے ہیں جو دوسرے لوگوں سے ملتے ہی نہیں اور فرصت کے اوقات گھر میں بیٹھ کر بسر کر دیتے ہیں.اور بعض ایسے ہیں کہ جو ملتے تو ہیں مگر ادھر ادھر کی باتوں میں وقت ضائع کر دیتے ہیں.اور بعض اگر تبلیغ کرتے بھی ہیں تو اس جنون سے نہیں جس کی تبلیغ کے لئے ضرورت ہے.پس ایسا جنون پیدا کرد کہ ہر وقت تمہارے سامنے تبلیغ کا مقصد رہے.جب تک کسی قوم کے لوگوں کو مجنون کا خطاب نہ ملے وہ کامیاب نہیں ہو سکتی.یہ وہ خطاب ہے جو سب نبیوں کو دیا گیا اور انبیاء کے بچے پیروؤں کو بھی تبلیغ میں وہی سرگرمی دکھانی چاہئے کہ لوگ انہیں مجنون کہنے لگ جائیں.پس ہماری جماعت کو بھی اس جنون سے تبلیغ کرنی چاہئے کہ اسلام کی فتح کا وہ زمانہ جس کے لئے ہم بیتاب ہیں اور جس کے لئے ہمارے آباء واجداد بھی ترستے گئے ہیں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں.ه ترمذی ابواب الطب باب ما جاء في العسل الفضل ۷ / ستمبر ۱۹۲۸ء)
خطبات محمود ۶۳ سوم سال ۱۹۲۸ء 4.استقلال سے تبلیغ کرو فرموده ۱۴ ستمبر ۱۹۲۸ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم سے ہمیں وہ چیز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے ملی ہے جس کا نام صراط مستقیم ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صراط مستقیم ہر اس طریق اور راستہ کو کہتے ہیں جس سے انسان ایک منزل مقصود پر پہنچے جس کے ذریعہ انسان خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکے اور جس کے ذریعہ وہ ہلاکت اور تباہی سے بچ سکے لیکن حقیقی اور کامل صراط مستقیم وہی ہے جو انسان کو خدا تعالٰی تک پہنچائے باقی جتنی چیزیں ہیں وہ اسباب اور ذرائع ہیں.اگر کسی کو اعلیٰ اخلاق کی توفیق ملے تو اس کے لئے خدا تعالی تک پہنچنے کے لئے ایک دروازہ کھل گیا.اسی طرح عبادت بھی ایک ذریعہ ہے اور اگر کسی کو اس کی توفیق ملے تو اسے خدا تعالی تک پہنچنے کا ایک ذریعہ حاصل ہو گیا.یہ چیزیں اپنی ذات میں مقصود نہیں ہیں.اسی طرح شفقت على الناس بھی اپنی ذات میں مقصود نہیں جس طرح کہ انسان کی اس دنیا کی زندگی اپنی ذات میں مقصود نہیں.اور جب انسان کی زندگی مقصود بالذات نہیں تو اس کی زندگی کے سامان کس طرح مقصود بالذات ہو سکتے ہیں.پس شفقت علی الناس بھی مقصود نہیں بلکہ خدا تعالی کی تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے.اسی طرح سب قسم کی کامیابیاں، علم کا حصول، عقل، تجربہ اور اموال کا حصول، عزت و مراتب یہ سب چیزیں اپنی ذات میں مقصود نہیں.یہ یا تو اعمال کے نتائج ہیں یا پھر اصل مقصود کے ذرائع ہیں مقصود بالذات نہیں.اصل مقصود صرف اللہ کی ہستی ہی ہے اور اس کا قرب اور اس کی رضا حاصل کرنا انسان کی اصل غرض ہے.پس مومن جب اهْدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِيمَ کہتا ہے تو یہی دعا کرتا ہے کہ خدا کے قرب کے ذرائع اسے معلوم
لم سالم سال ۴۱۹۲۸ ہو جائیں.گو عارضی اور درمیانی ضرورتیں بھی اس میں آجائیں گی لیکن اس کا حقیقی مقصود اللہ کا قرب ہی ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اس مقصد کا راستہ ہمارے لئے کھولا گیا ہے اور آپ نے اس مقصود کو ہم سے بہت قریب کر دیا ہے.اگر ایک انسان کی کوشش، محنت اور تقویٰ دوسرے کے کام آسکتا تو ہم کہہ سکتے تھے کہ اصل مقصود ہمیں مل گیا لیکن یہ خدا کی سنت نہیں کہ کسی کی محنت دوسرے کے لئے کافی ہو سکے.پس گو ہمارے واسطے یہ دروازہ کھول دیا گیا ہے اور راستہ بہت چھوٹا کر دیا گیا ہے مگر پھر بھی خود کو شش کرنے کے بغیر کامیابی ناممکن ہے.اس کی طرف حضرت مسیح ناصری علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ہے:- اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہے تو اپنی خودی سے انکار کرے اور اپنی صلیب اٹھائے اور میرے پیچھے ہو لے.کیونکہ جو کوئی اپنی جان بچانا چاہے اسے کھوئے گا یے (متی باب ۱۶ آیت (۲۴) پس جب تک انسان خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنے آپ کو طرح طرح کی مشکلات میں نہ ڈالے خدا تعالی کو نہیں پاسکتا.گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالی تک پہنچنے کا دروازہ کھول دیا ہے پھر بھی مصائب اٹھانے اور تکالیف سے گذرنے کے بغیر کامیابی ناممکن ہے.اور یہی وہ چیز ہے جسے حضرت مسیح اول نے اپنی صلیب آپ اٹھانے سے تعبیر کیا اور جس کا نام قرآن کریم میں مجاہدہ یا ابتلاء رکھا گیا ہے.پس جب تک انسان ان دروازوں سے نہ گذرے منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتا.ہم سے پہلے لوگ اس راستہ اور اس دروازہ کو ڈھونڈتے تھے اور اس کی تلاش میں سرگرداں تھے ، وہ اس کے لئے وظائف کرتے اور راتوں جاگتے تھے، وہ چھ چھ ماہ اور سال سال بھر بلکہ دو دو تین تین سال تک متواتر روزے رکھتے تھے اور بعض تو چھ چھ ماہ کا ایک روزہ رکھتے تھے صرف چلو بھر پانی اور چند دانے جو پر گزارہ کرتے تھے لیکن پھر بھی وہ خدا کو نہیں پاسکتے تھے بلکہ بسا اوقات یا تو پاگل ہو جاتے تھے یا مسلول ہو کر مرجاتے تھے.ان روزوں کے بعد وہ نہ تو دین کے کام کے رہتے تھے نہ دنیا کے لیکن باوجود اتنے سخت مجاہدہ اور اپنی جان کو ضائع کر دینے کے وہ خدا کا قرب حاصل نہیں کر سکتے تھے.اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ آیا اور اب آپ کے طفیل یہ حالت ہے کہ لوگ کھاتے پیتے اور آرام سے گھروں میں رہتے ہیں اور بغیر کسی مالا طاق تکلیف اٹھانے کے صرف تھوڑی سی توجہ اور ریاضت سے خدا کو پالیتے ہیں.گویا اب یہ مثال ہو گئی ہے
خطبات محمود ۴۶۵ سال ۱۹۲۸ء کہ کھٹکھٹاؤ تمہارے لئے کھولا جائے گا صرف دستک دینے کی ضرورت ہے خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے دروازے انسان پر کھل جاتے ہیں اور بغیر مجاہدات کے کھل جاتے ہیں.اس کی یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس بند دروازہ کو کھول دیا اور ہمیں خدا کا قرب حاصل کرنے کا صحیح راستہ بتا دیا.پہلے لوگ چونکہ اس دروازہ سے ناواقف تھے اس لئے وہ سرگرداں پھرتے تھے.ہم چونکہ اصلی دروازہ کو کھٹکٹاتے ہیں اس لئے وہ ہمارے لئے جلد کھل جاتا ہے.لیکن غور طلب امر یہ ہے کہ ہماری جماعت نے اس نعمت کو جو خدا کے فضل اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے عطا ہوئی دنیا تک پہنچانے کے لئے کیا کوشش کی ہے.میں نے جماعت کو متواتر توجہ دلائی ہے لیکن افسوس اب تک دوستوں میں وہ بیداری پیدا نہیں ہوئی جس کی اس کام کے لئے ضرورت ہے.قرآن کریم میں خداتعالی فرماتا ہے جب قیامت کے دن مؤمن کو اس کی کتاب دی جائے گی تو کہے گا.مَاؤُمُ اقْرَهُ وا كتبية لوگو روڈو دیکھو میری کتاب میں کیا لکھا ہے آؤ اور میری نجات کی خوشخبری کی خوشی میں تم بھی میرے ساتھ شریک ہو جاؤ.جب ایک مومن جسے اس کی اپنی نجات کی خبر دی جائے گی وہ شور مچائے گا اور سب لوگوں کو اس خوشی میں شریک کرنے کی کوشش کرے گا تو ہمیں ساری دنیا کی نجات کی خبر دی جائے اور ہم خاموش بیٹھے رہیں تو یہ کس قدر افسوس کی بات ہے.بے شک ایک انسان کا نجات پا جانا بھی بڑی بات ہے اور خوشی کا موجب ہے لیکن ساری دنیا کے مقابلہ میں اس کی کیا حقیقت ہے.دیکھو انبیاء علیہم السلام دنیا کو آرام پہنچانے کے لئے اپنا آرام ترک کر دیتے ہیں اس لئے کہ لوگ مصیبت سے بچ جائیں.وہ طرح طرح کی مشقتیں برداشت کرتے ہیں اور لوگوں کو تباہی سے بچانے کے لئے دن رات ایک کر دیتے ہیں.پھر جب وہ زندگی جو سب سے زیادہ قیمتی ہوتی ہے لوگوں کے لئے قربان کر دی جاتی ہے تو دوسرے لوگوں کی زندگیوں کی ان کے مقابلہ میں حقیقت ہی کیا ہے.لیکن اگر ایک ایسا انسان جس کی زندگی کچھ حقیقت ہی نہیں رکھتی خوشخبری سن کر شور مچا دیتا ہے تو جس سلسلہ کو دنیا کی نجات کا راستہ بتایا گیا ہو اس کے لئے کس قدر کوشش اور شور مچانے کی ضرورت ہے.یقینا انبیاء کے زمانہ میں لوگ مایوس ہو چکے ہوتے ہیں.خدا تعالی فرماتا ہے کہ جب دنیا مایوس ہو چکی ہوتی ہے تو ہم بارش نازل کرتے ہیں اسی طرح انبیاء بھی دنیا میں اسی وقت آتے ہیں جب دنیا پر یاس اور نا امیدی چھائی ہوتی ہے اور ان
خطبات م سال ۱۹۲۸ء کے آنے سے لوگوں کے دل پھر امیدوں اور امنگوں سے بھر جاتے ہیں اور سرسبز ہو جاتے ہیں.پس ان مایوس لوگوں کو ہوشیار کرنے کے لئے سخت جدوجہد اور کوشش کی ضرورت ہے.لوگ خود کشی بھی مایوسی کی وجہ سے ہی کرتے ہیں اور موجودہ زمانہ میں مذہب سے بعد اور دوری بھی دراصل خود کشی ہے.پس دنیا خود کشی کر رہی ہے لیکن ہمارے دوست سوئے پڑے ہیں.بے شک یہ خدا تعالی کی سنت ہے کہ گمراہ لوگ فورا نہیں مان جایا کرتے لیکن جب دنیا کی ترقی اسی پیغام سے وابستہ ہے تو آج نہیں کل کل نہیں پرسوں، آخر دنیا اس طرف آئے گی.میں دیکھتا ہوں کہ تبلیغ کی بھی ایک رکو ہماری جماعت میں چلتی ہے.بعض دنوں میں تو چاروں طرف سے خبریں آتی ہیں کہ فلاں جگہ اس طرح تبلیغ کی گئی اور اتنے لوگ سلسلہ میں داخل ہوئے.لیکن کبھی بالکل خاموشی چھا جاتی ہے حالانکہ جو کام استقلال اور مداومت سے کیا جائے اس کے نتائج بہ مقابل اس کے جو وقفہ کے بعد کیا جائے بہت اعلیٰ اور شاندار ہوتے ہیں.پس متواتر تبلیغ کرنی چاہئے.کسی ڈاکٹر سے پوچھو اگر استقلال سے علاج نہ کیا جائے تو بیمار کوئی فائدہ اٹھا سکتا ہے ؟ بسا اوقات مہینہ ڈیڑھ مہینہ کا علاج دوائی کے ایک ناغہ سے بے سود ہو جاتا ہے اور تمام محنت رائگاں چلی جاتی ہے.پس استقلال سے کام کرنا چاہئے.شہروں میں قصبوں میں محلوں میں ہر ایک گلی کوچہ میں اور ہر ایک گھر میں تبلیغ حق پہنچانے کا انتظام کرنا چاہئے.اب تو خدا تعالیٰ کا فضل ہے ہمیں بہت سی سہولتیں میسر ہیں جو پہلے نہیں تھیں.پہلے کہا جاتا تھا مرزا صاحب نے آکر کیا کیا مگر اب لوگ اعتراف کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بہت بڑا کام کیا.اور آپ کا یہی کام بہت بڑا ہے کہ آپ نے ایک ایسی جماعت پیدا کر دی ہے جو صحیح معنوں میں مسلمانوں کی خدمت کرنے والی ہے یہ ایک ایسی بات ہے جو پہلے ہمیں حاصل نہ تھی.اب لاکھوں انسان ایسے ہیں جو یہ تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب نے بہت کام کیا.پھر پہلے یہ بھی مشکل تھی کہ بعض دفعہ ساری قوم بلکہ سارے علاقہ سے ایک ہی احمدی ہوتا تھا اور وہ زور سے تبلیغ نہیں کر سکتا تھا مگر اب یہ حالت ہے کہ بعض علاقوں میں اکثریت احمدیوں کی ہے.اس وقت اگر ذرا سا بھی زور لگا دیا جائے تو کامیابی بہت آسان ہے.پس ایسے وقت میں جب اللہ تعالٰی نے ہمارے لئے کامیابی کے راستے کھول دیئے ہیں غفلت کرنا بہت خطرناک ہے.میں دیکھتا ہوں قادیان والوں کو بھی دورہ ہوتا ہے بعض اوقات تو سنتے ہیں کہ فلاں آدمی
خطبات محمود سال ۶۱۹۳۸ ٹھیکریوالہ گیا ہوا ہے اور فلاں پھیرو چھیچی تبلیغ کر رہا ہے لیکن کبھی یہ حالت ہوتی ہے کہ آنکھ ہی نہیں کھلتی.پس میں قادیان والوں کو بھی اور باہر کے دوستوں کو بھی تحریری کام کرنے والوں کو بھی اور تقریری کام کرنے والوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ تبلیغ کا یہی زمانہ ہے اب جو لوگ جماعت میں داخل ہوں گے ان کی صحیح تربیت ہو سکے گی.کیونکہ اس وقت ایسے لوگ موجود ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے فیض یافتہ ہیں.ان لوگوں کی وفات کے بعد کثرت سے لوگ جماعت میں داخل ہوئے تو خطرہ رہے گا کہ ان کی صحیح تربیت نہ ہو سکے یا ایسی صحیح نہ ہو سکے کہ وہ آئندہ نسلوں کی اصلاح کر سکیں.پس یہ نازک موقع ہے اس وقت جتنے بھی زیادہ لوگ جماعت میں داخل ہوں گے ان کی تربیت صحیح طور پر ہو سکے گی اور وہ آئندہ نسلوں کی اصلاح کے قابل ہو سکیں گے.پس میں اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہماری جماعت کے لوگوں کو اس کی توفیق دے اور اس کا کلام جو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر نازل فرمایا کہ میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا ہمارے ہاتھوں سے پورا ہو اور ہم اس کے شاندار نتائج اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں.آمین الفاتحة : سے منتی باب ۱۶ آیت ۲۴ بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ 199 سے الحاقة :۲۰ کے تذکرہ ملا ایڈیشن چهارم الفضل ۲۱ ستمبر (۱۹۲۸ء)
خطبات محمود ۶۱ سال ۲۱۹۳۸ خدا کی دی ہوئی عزت کوئی چھین نہیں سکتا (فرموده ۲۱/ ستمبر ۱۹۲۸ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: دنیا میں انسان جن چیزوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور جن کے حصول کے لئے یا جن کے قائم رکھنے کے لئے باقی چیزوں کو قربان کر دیتا ہے ان میں سے ایک اور در حقیقت سب سے بڑی انسان کی عزت ہے.عزت بھی آگے دو قسم کی ہوتی ہے ایک حقیقی جو ذاتی عزت کہلاتی ہے اور دوسری علی جو نسبتی عزت کہلاتی ہے.ذاتی عزت تو وہ خوبیاں اور کمالات ہیں جو انسان کے اندر پائے جاتے ہیں.وہ کسی کو نظر آئیں یا نہ آئیں کوئی ان کا اعتراف کرے یا نہ کرے لوگوں پر وہ ظاہر ہوں یا نہ ہوں بہر حال اس انسان کی بڑائی میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا.یہ عزت اللہ تعالٰی کی صفات ذاتیہ کا ظل ہوتی ہے.جس طرح اللہ تعالٰی کی وہ صفات جو کہ اس کی ذات سے تعلق رکھتی ہیں وہ کسی کے جانے یا نہ جاننے کی محتاج نہیں مخلوق ہو یا نہ ہو کوئی شخص عبادت کرے یا نہ کرے خدا خدا ہی ہے اس کی طاقتیں اپنی ذات میں کسی کی حمد کی محتاج نہیں.اسی طرح انسان کی عزت بھی کسی کی توصیف و ثناء کی محتاج نہیں.وہ انسان جسے ذاتی عزت حاصل ہے اپنی ذات میں بڑا ہے خواہ لوگ اس کا اقرار کریں یا نہ کریں مگر ایک عزت نسبتی ہوتی ہے وہ حقیقی عزت کا ظل ہوتی ہے.جس طرح سورج اپنے ساتھ شعائیں بھی رکھتا ہے.وہ اپنی ذات میں روشن ہے اور روشنی کے باعث وہ اپنی شعائیں دور دور پھینکتا ہے.وہ شعائیں سورج نہیں لیکن اس کے نور کا ظل ہیں.اربوں ارب میل پر سورج ہے مگر اس کا ظل دنیا پر بھی پڑتا ہے اور اس کی شعاعیں زمین کو بھی منور کر رہی ہیں.یہ دھوپ جو ہمیں دن کو اور یہ چاندنی جو رات کو نظر آتی ہیں.کیا چیز ہے؟ یہ وہی شعائیں ہیں جو کبھی براہ راست اور کبھی بالواسطہ ہم تک
خطبات محمود ۴۶۹ سال ۱۹۲۸ء پہنچتی ہیں.اسی طرح جب انسان کے اندر عزت پیدا ہوتی ہے وہ حقیقی عزت جو کہ خدا تعالی کی طرف سے عطا ہوتی ہے خواہ دنیوی یا دینی کمالات کے لحاظ سے ہو تو اس وقت انسانیت سے بھی کچھ شعائیں نکلتی ہیں جو دوسروں کے قلوب پر پڑتی ہیں.وہ ان کی آنکھوں سے اس کے جلال کا اظہار کراتی ہیں.وہ ان کی زبان سے اس کی شاہ کراتی ہیں.لوگ ایسے شخص کی عزت کرتے ہیں.زبانیں اس کی تعریف کرتی ہیں.حقیقت شناس اس کا ادب اور احترام کرتے ہیں لیکن یہ عزت حقیقی عزت نہیں عزت وہی ہوتی ہے جو اس کے اندر ہوتی ہے اور یہ اس کی شعائیں ہوتی ہیں جو دوسروں کو نظر آتی ہیں.سورج کی طرح عزت و بڑائی بھی محدود نہیں کی جاسکتی.وہ پھیلتی ہے اور لوگوں کے قلوب کو مسخر کرتی ہے.اس کے بعد ان کی زبانوں ، کانوں بلکہ جسموں کو مسخر کرتی ہے.اور اس سے بڑھ کر ان کے خیالات و افکار کو مسخر کر لیتی ہے.زبانیں اس کی تعریف کرتی ہیں ، آنکھیں اس کے سامنے جھک جاتی ہیں، ہاتھ اس کے خلاف اٹھنے سے پر ہیز کرتے ہیں، خیالات اس کی تائید میں جوش میں آتے ہیں.لوگ کہتے ہیں یہ عزت ہے لیکن یہ عزت نہیں یہ دراصل عزت کا حل ہے.عزت وہی تھی جو اس کے دل میں تھی جو اس کی ذات میں تھی.جو کچھ لوگوں کی زبانوں، کانوں اور جسموں سے ظاہر ہو رہا ہے یہ اس کا پر تو ہے اس کی دھوپ ہے اور یہ اس عزت کے سورج کی شعائیں ہیں.وہ عزت جو انسان کی ذات سے تعلق رکھتی ہے خدا تعالٰی کے فضل سے ہی آتی ہے اور خدا ہی کے پیدا کرنے سے پیدا ہوتی ہے.انسانوں کے بنانے سے نہیں بنتی.انسان کسی کو بڑا نہیں بنا سکتے بلکہ خدا بناتا ہے.یہ نور خدا ہی پیدا کرتا ہے خواہ دنیوی لحاظ سے ہو یا دینی لحاظ سے.ایک استاد طالب علم کو پڑھاتا ہے لیکن در حقیقت وہ اسے علم نہیں سکھا سکتا.اگر ایک کند اور نبی الذہن لڑکے کو کسی بہتر سے بہتر استاد کے سامنے بٹھا دیا جائے تو استاد اسے کیا سکھا سکے گا.متاع بڑی اچھی چیزیں بناتے ہیں لیکن اپنے پاس سے نہیں.ایک کاریگر کو عمدہ لکڑی دودہ اسے گرید کر اور چھیل کر نہایت اعلیٰ صورت میں تبدیل کر دے گا لیکن وہ لکڑی کو پیدا نہیں کر سکتا.لکڑی کو خدا ہی پیدا کرتا ہے.اسی طرح ہیرا اپنی روشنی خدا تعالٰی سے ہی لے کر آتا ہے جو ہری صرف اس کو کاتا ہے اور اس سے زنگ دور کر دیتا ہے وہ ہیرا پیدا نہیں کر سکتا.سنار سونے سے نہایت خوبصورت زیور بناتا ہے مگر وہ سونا نہیں بنا سکتا.یہ عالی شان عمارتیں اور محلات جو پرانے زمانہ کی یادگاریں ہیں جو ہزاروں ہزار سال سے حوادث زمانہ کا مقابلہ کر رہی ہیں جن
خطبات محمود سال ۱۹۲۸ء کے بنانے والے اور بنانے والوں کی نسلیں بلکہ بنانے والوں کی نسلوں کے نام بھی مٹ گئے ہیں لیکن وہ سر بفلک کھڑی ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کو چیلنج کرتی ہیں کہ اس صناعی کے تم کیا مقابلہ کرو گے مگر ان کا حقیقی کمال در اصل اس مادہ میں ہے جو خدا نے پیدا کیا.انسان نے صرف اس کو ترتیب سے سجا دیا لیکن امتداد زمانہ کا مقابلہ کرنے والے مادہ کا پیدا کنندہ دراصل خدا تعالی ہی ہے.پس حقیقی بڑائی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی آتی ہے اور حقیقی ذلت بھی خدا کی طرف سے ہی آتی ہے.جیسا کہ خدا تعالٰی فرماتا ہے.تُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ (ال عمران (۲۷) یعنی خدا ہی عزت وذلت پیدا کرتا ہے.لیکن دنیا میں بعض ایسے نادان انسان بھی ہیں جو خیال کرتے ہیں کہ عزت ان کے ہاتھ میں ہے اسی لئے وہ کہہ دیتے ہیں ہم نے ہی فلاں کو عزت دی ہم ہی اس کی عزت چھین لیں گے.وہ یہ نہیں جانتے کہ عزت کا بنانا یا اس کا چھینا ان کے اختیار کی بات نہیں.جس چیز کو کسی انسان نے بنایا ہی نہیں وہ اسے چھین کیسے سکتا ہے.تم سورج کی روشنی سے فائدہ اٹھا سکتے ہو اور اگر فائدہ نہ اٹھانا چاہو تو کمرے کے کواڑ بند کر کے اپنے لئے تاریکی پیدا کر سکتے ہو لیکن سورج سے اس کی روشنی چھین نہیں سکتے.تم زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتے ہو کہ اپنی آنکھوں پر پردے ڈال لو اور اپنے آپ کو اس روشنی سے محروم کر لو سورج کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے.اسی طرح وہ خوبصورت اور دل کی آوازیں جنہیں اللہ تعالٰی نے تسخیر قلوب کے لئے بنایا ہے اگر چاہو تو تم ان سے فائدہ اٹھا لو یا چاہو تو اپنے کانوں میں روئی نس کر انہیں نہ سنو.لیکن خوبصورت آواز کو دنیا سے نابود کر دینا تمہارے اختیار کی بات نہیں.اسی طرح تم اچھی مزیدار چیزوں سے لطف حاصل کر سکتے ہو یا ان چیزوں کے کھانے سے انکار کر سکتے ہو اور اپنے آپ کو ان کی لذت سے محروم رکھ سکتے ہو لیکن لذیذ چیز کو اس کی لذت سے محروم نہیں کر سکتے.اسی طرح تم میٹھے کو مٹھاس سے علیحدہ نہیں کر سکتے ہاں اس کے استعمال سے انکار کر سکتے ہو.اسی طرح وہ لذتیں جو چھونے سے حاصل ہوتی ہیں اگر چاہو تو تم ان سے لذت حاصل کر لو اور اگر نہ چاہو تو نہ کرو لیکن ان چیزوں کو ان کی ملائمت سے علیحدہ نہیں کر سکتے کیونکہ ان چیزوں میں یہ خوبیاں کسی انسان نے پیدا نہیں کیں بلکہ خدا نے پیدا کی ہیں اور خدا کی پیدا کی ہوئی خوبی کو کوئی انسان نہیں چھین سکتا.اسی طرح انسان میں بھی عزت بڑائی اور خوبی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی آتی ہے اور کوئی انسان اسے چھین نہیں سکتا.کچھ عرصہ ہوا اور
خطبات محمود سال ۱۹۲۸ء ہم میں سے بہتوں کی زندگیوں میں ایسا ہوا.وہ اس وقت ہوش میں تھے اور ابھی تک زندہ ہیں جب خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک نور پیدا کیا گیا.ایک شخص کو خدا تعالٰی نے عزت دی اور جیسا کہ اس کا قاعدہ ہے ابتداء میں عزت اس پیج کی طرح ہوتی ہے جو آہستہ آہستہ بڑھتا ہے.وہ ایک چنگاری کی طرح ہوتی ہے جو آہستہ آہستہ دوسروں کو بھی اپنے رنگ میں رنگین کر لیتی ہے.پس خدا تعالٰی نے اس نور کو پیدا کیا اور وہ بڑھنے لگا اور ایسی حالت میں پہنچ گیا کہ وہ جو الوؤں اور چندوں کی آنکھوں والے ہوتے تھے ان کی آنکھیں اسے برداشت نہ کر سکیں وہ چند بیانے لگیں.اور جس طرح بیمار کی آنکھوں کو روشنی اچھی نہیں لگتی اور جہاں اور لوگ روشنی کے لئے بے تاب ہوتے ہیں وہ اندھیرا چاہتا ہے اسی طرح ان کی آنکھوں کو بھی وہ نور اچھا نہ لگا اور انہوں نے اپنی نادانی سے یہ خیال کر لیا کہ یہ چنگاری ہماری لگائی ہوئی تھی اور یہ شعاع ہم نے پیدا کی تھی ہم ہی اسے مٹادیں گے.چنانچہ ان میں سے ایک شخص نے کہا میں نے ہی اسے بڑھایا تھا اور میں ہی اسے ذلیل کروں گا.وہ نادان یہ نہ سمجھا کہ عزت اندر سے پیدا ہوتی ہے حقیقی عزت باہر سے نہیں آتی.غیر حقیقی عزت باہر سے آتی ہے اور حقیقی و غیر حقیقی عزت میں بآسانی امتیاز بھی ہو سکتا ہے.دیکھو دنیا کے بادشاہ ایک شخص کو خان بہادر بنا دیتے ہیں لیکن ان کے بنانے سے وہ نہ خان بنتا ہے اور نہ بہادر - اسی طرح وہ کسی کو رائے بہادر بنا دیتے ہیں مگر وہ نہ رائے بنتا ہے نہ بہادر - محلہ میں اگر ذرا سا بھی کھٹکا ہو تو اسے خش آنے لگتا ہے.ذرا آواز آئی کہ ہندو مسلم فساد ہو گیا تو رائے بہادر صاحب فورا دھوتی سنبھالتے ہوئے ڈپٹی کمشنر کے پاس بھاگے جاتے ہیں کہ میری حفاظت کیجئے کہاں گئی وہ بہادری؟ دراصل اسے بہادر چونکہ ان لوگوں نے بنایا تھا جن کے اختیار میں بہادر بنانا نہ تھا اس لئے وہ حقیقی بہادر نہ بنا بلکہ رائے بہادری کے بعد اور بھی بزدل ہو گیا کیونکہ پہلے تو وہ سمجھتا تھا اگر مجھے کسی نے کچھ کہہ دیا تو کوئی بات نہیں لیکن رائے بہادری کے بعد اس نے خیال کر لیا کسی کے کچھ کہنے سے میری ذلت ہوگی اس وجہ سے وہ اور بھی بزدل ہو گیا.تو دنیا وی خطاب جتنے اونچے ہوں گے اتنے ہی زیادہ خطاب یافتہ بزدل ہوں گے لیکن جو خدا کے بنائے ہوئے بہادر ہوتے ہیں ان کی شان بالکل علیحدہ ہوتی ہے.ان کی بڑائی چونکہ اندر سے آتی ہے اس لئے وہ کسی بڑی سے بڑی مصیبت سے بھی ہراساں نہیں ہوتے اور کسی کی شرارت سے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچتا.جس طرح ایک لالٹین جل رہی ہو تو شیشے کے اوپر ہاتھ پھیرنے سے وہ بجھ نہیں سکتی وہ جب ہی
خطبات محمود ۴۷۲ سال ۶۱۹۲۸ مجھے گی جب اندر سے بجھائی جائے گی.اسی طرح بیرونی کو ششیں بھی ان بہادروں کو نقصان نہیں پہنچا سکتیں.جن کے اندر خدا تعالیٰ عزت پیدا کرتا ہے خدا تعالٰی فرماتا ہے.يُرِيدُونَ GALANGAL انورَ اللهِ بِأَفْوَاهِهِمُ (الصنف (9) لوگ اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں.واللهُ مُتِمُّ نُودِ، لیکن جس نے یہ نور پیدا کیا ہے وہی اسے مٹائے تو مٹ سکتا ہے اور کسی میں اس کے مٹانے کی طاقت نہیں.اگر ساری دنیا مل کر تمام سمندروں کا پانی سورج پر ڈالے تو کیا سورج مٹ سکتا ہے؟ ہرگز نہیں.اسی طرح خدا کے پیدا کردہ نور کو بجھانے کے لئے اگر ساری دنیا بھی کھڑی ہو جائے تو نہیں بجھا سکتی.تو اس شخص کی نادانی تھی جس نے کہا میں اسے مٹا دوں گا.اور یہ نادانی اس لئے پیدا ہوئی کہ اس نے سمجھا عزت انسان بناتا ہے.وہ جو اپنے آپ کو دین کا بڑا عالم سمجھتا تھا اس نے خیال کیا ہیرے جو ہری بناتے ہیں حالانکہ ہیرے پیدا کرنا خدا تعالی کا کام ہے.ہاں کچھ ہیرے انسان تو ڑ سکتا ہے لیکن کچھ ہیرے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کا توڑنا بھی خدا تعالیٰ نے اپنے ہی ہاتھ میں رکھا ہوتا ہے.جب اس نے یہ کہا تو عزت دینے والے نے بھی فرمایا.إِنِّي مُهِينٌ مَنْ اَرَادَاهَا نَتَكَ یہ اس دعوئی کا جواب تھا جو اس نے ذلیل کرنے کے متعلق کیا تھا.اس کے معنی یہی ہیں کہ لوگ تیری اہانت کر نہیں سکتے ہاں وہ اس کا ارادہ کر سکتے ہیں لیکن جو ارادہ بھی کرے گا.میں اسے ذلیل کر دوں گا چنانچہ ایسا ہی ہوا.ساری دنیا کے لوگ پھونکیں مارتے رہے لیکن وہ روشنی نہ بجھی.ہاں انہوں نے اپنے آپ کو بیوقوف ثابت کر دیا.اور وہ ان بندروں سے بھی زیادہ وہ ناران ثابت ہوئے جنہوں نے جگنو کو آگ سمجھ کر پکڑ لیا تھا کہ اس سے آگ جلائیں گے.اس پر لکڑیاں رکھ کر ساری رات پھونکیں مارتے رہے مگر وہ جگنو تھا اس لئے آگ نہ جل سکی حتی کہ صبح ہو گئی.ان بندروں نے بھی بیوقوفی کی لیکن اپنے فائدے کے لئے کی لیکن ان نادانوں نے نور بجھانے کی سعی کی اس لئے یہ ان بندروں سے بھی بدتر ہوئے.بندروں نے کسب نفع کے لئے مگر انہوں نے اپنی جانوں کو ہلاک کرنے کے لئے کی.چونکہ عزت کا پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے اس لئے وہ کہاں مٹ سکتی تھی وہ نامراد ہوئے اور اللہ نے دنیا کو یہ بھولا ہوا سبق جسے مسلمانوں نے کئی سو سال سے بھلا رکھا تھا یاد دلا دیا کہ تُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ (ال) عمران (۲۷) خدا تعالی نے یہ سبق پھر دوبارہ تازہ کیا اور ثابت کر دیا کہ عزت دینا یا ذلیل کرنا خدا
خطبات ۴۷۳ سال ۶۱۹۲۸ تعالی کے ہی اختیار میں ہے.مگر افسوس کئی نادان جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی تعلیم کو سنا آپ کے ہاتھ پر بیعت کی، آپ کی مجالس کی برکات مشاہدہ کیں ، آپ کو آنکھوں سے دیکھا، آپ کے جسم کو چھوا ان کے کانوں میں یہ آواز پڑی یا اس کی گونج پڑی کہ میں نے ہی اسے عزت دی ہے اور میں ہی اسے ذلیل کروں گا.وہ آواز جس زور سے اٹھی تھی اور جو بھیانک صورت اس نے اختیار کی تھی اور جو تاریکی اس آواز کے ساتھ پھیلی تھی وہ ایسی نہ تھی کہ اتنی جلدی بھول جائے.پھر جہاں انہوں نے یہ آواز سنی تھی ان کی آنکھوں نے یہ نظارا بھی دیکھا کہ کس طرح اللہ تعالٰی نے باطل کی اس ہیبت کو توڑ دیا.اور وہ بلند و بالا دیو جن کے سر آسمان پر اور پیر زمین پر نظر آتے تھے انہیں کس طرح باریک کیڑوں کی شکل میں دکھایا مگر وہ اس بات کو بھول گئے کہ عزت وذلت خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے.انہوں نے نفسانیت خود غرضی ، غضوں اور کینوں سے متاثر ہو کر پھر یہ چاہا کہ خدا تعالی کا اختیار چھین لیں.انہوں نے اپنے نفوس کو یہ مرتبہ دے دیا کہ جسے چاہیں عزت دے دیں اور جسے چاہیں ذلیل کر دیں لیکن اللہ تعالی کو سب سے زیادہ پیاری اپنی توحید ہے.وہ سب گناہ معاف کر دیتا ہے لیکن شرک معاف نہیں کرتا.اس کی غیرت کب برداشت کر سکتی تھی کہ وہ برائی جسے اس نے مٹایا تھا پھر اسے اتنی جلدی قائم ہونے دے.لوگوں نے چاہا کہ عزت دینا اپنے ہاتھ میں لے لیں لیکن خدا نے نہ چاہا کہ وہ ایسا کر سکیں.اس نے خود جسے چاہا عزت دی.اس پر وہ ابلیس جو ہمیشہ سے انسان کو ورغلاتا آیا ہے اس نے ان کے قلوب پر قبضہ کیا اور کہا تم ناری وجود ہو یعنی روشن اور چمکتے ہوئے ہو تم ایک تاریک وجود کی اطاعت کیسے کر سکتے ہو.انہوں نے اس کی بات تسلیم کرلی اور افسوس شیطان کی آواز میں اپنی تباہی کو نہ دیکھا اور نہ سوچا کہ یہ آواز ناری ہے جو اپنے وجود کو بھی جلا دیتی ہے.وہ تمام کمالات جو خدا سے نہیں ہوتے وہ ناری ہوتے ہیں اس لئے انسان کو تباہ کر دیتے ہیں.نوری وہی ہیں جو خدا سے آئیں.انہوں نے یہ نہ سمجھا کہ ان کے کمالات ناری اور کسی ہیں.اللہ تعالیٰ جن سے کام لینا چاہتا ہے انہیں نوری کمالات عطا فرماتا ہے.وہ آسمان سے فیض یافتہ ہوتے ہیں اور خدا سے روشنی حاصل کرتے ہیں اور دنیا کو روشن کرتے ہیں.اور آسمان سے آنے والی چیز بندہ کے اختیار میں نہیں ہوتی مگر انہوں نے اس حقیقت کو نہ سمجھا اور لمبے عرصہ تک یہی کوشش کرتے رہے کہ جس چیز کو خدا تعالٰی نے قائم کیا ہے اسے مٹا دیں.اس کے لئے انہوں نے ہر انسانی تدبیر اختیار کی.وہ جسے مٹا سکتے تھے وہ انسانی وجود تھا وہ
خطبات محمود سال ۱۹۲۸ء اگر مٹ بھی جاتا تو اور وجود کھڑا ہو سکتا تھا اس طرح خدا تعالٰی کے نور کو وہ نہیں مٹا سکتے تھے ان کی مثال اس بچے کی تھی کہ جو تاریک کمرہ میں آنے والی سورج کی شعاع کو پکڑنا چاہتا ہے اور اس پر ہاتھ رکھ کر سمجھ لیتا ہے کہ میں نے اسے پکڑ لیا لیکن جب ہاتھ اٹھاتا ہے تو شعاع وہیں ہوتی ہے.یہی مثال ان کی تھی.وہ اس جگہ کو ہی پکڑ سکتے تھے.لیکن کیا جہاں دھوپ پڑ رہی ہو وہاں سے مٹی اکھاڑ دینے پر وہاں شعاع پڑنی بند ہو جائے گی.اس مٹی کو ہٹانے سے شعاع نیچے پڑے گی اور وہ ہٹا دینے سے اور نیچے پڑنے لگ جائے گی.پہلے بھی کئی نادانوں نے ایسی غلطیاں کیں.انہوں نے سمجھا عمر کا وجود ہی نور ہے حالانکہ عمرہ اس مقام کی طرح تھا جس پر سورج کی شعاع پڑ رہی تھی.انہوں نے اسے مٹا دیا اور سمجھا شعاع مٹادی لیکن وہی شعاع پھر عثمان پر پڑنے لگ گئی.انہوں نے اسے مٹا دیا تو وہی شعاع پھر علی پر پڑنے لگی.اور جب اسے بھی مٹا دیا تو پھر وہ شعاع روحانی طور پر دنیا میں پھیل گئی اور دنیا کے ہر گوشہ میں ابو بکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم اجمعین کے ظل پیدا ہو گئے.دنیا کے جس خطہ میں بھی تم چلے جاؤ تمہیں وہاں کسی نہ کسی بزرگ کی قبر ضرور ملے گی.یہ بزرگ کون تھے انہیں لوگوں کے گل تھے.نادانوں نے اس نور کو ایک جگہ سے مٹایا خدا نے اسے ہزاروں جگہ قائم کر دیا اور اس وقت تک وہ نور قائم رہا جب تک لوگوں نے اپنے آپ کو اس کا مستحق ثابت کیا اللہ تعالٰی فرماتا ہے اِنَّ اللهَ لَا يُفَتِرُ مَا بِقَوْمِ حَتَّى يُغَيِّرُ وا مَا بِا نُفُسِهِمُ (الرعد (۱۲) خدا تعالی کسی قوم سے کوئی نعمت نہیں چھینتا جب تک وہ خود اپنی حالت میں تغیر نہ کر لے.جب مسلمانوں نے اس نور کے استحقاق کو کھودیا خدا نے بھی اس نعمت کو ان سے چھین لیا.پھر ہزاروں گدیاں قائم ہو گئیں اور لوگوں نے نور پیدا کرنے کی کوشش بھی کی لیکن چونکہ خدا تعالی اس نعمت کو چھین چکا تھا اس لئے لوگوں کے پیدا کرنے سے پیدا نہ ہو سکا.حتی کہ پھر خدا نے ایک انسان کو بھیجا جسے حقیقی عزت عطا کی.پس کوئی انسان کسی کو عزت نہیں دے سکتا.عزت کمالات سے پیدا ہوتی ہے اور وہ خدا ہی پیدا کرتا ہے.گورنمنٹ رائے بہادر تو بنا سکتی ہے لیکن بہادر نہیں بنا سکتی.بہادری خدا ہی کے پیدا کرنے سے پیدا ہوتی ہے.اسی طرح چوب تک خدا تعالیٰ کسی کو اپنی کتاب کا نم نہ دے اپنے علم سے اسے حصہ نہ دے ، رحم و شفقت اسے عطا نہ کرے اسے کون بڑا بنا سکتا ہے.اور جب خدا تعالیٰ کسی کو بڑا بنا دے تو اس سے بڑائی کون چھین سکتا ہے.لوگ اگر اسے گالیاں بھی دیں تو بھی کیا ہوتا ہے.کہتے ہیں کبوتر جب بلی کو دیکھتا
خطبات محمود ۴۷۵ سال ۱۹۲۸ء ہے تو اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے.لیکن کیا اس کے آنکھیں بند کر لینے سے بلی کی طاقت سلب ہو جاتی ہے.لوگوں کا گالیاں دینا کبوتر کے آنکھیں بند کر لینے جیسا ہی ہے.اگر کوئی شخص دھو- میں آنکھیں بند کر کے بیٹھے اور سمجھے کہ سورج نہیں ہے تو اس کی نادانی ہے.دنیا میں نور قائم ہے اگر اس زمانہ کے لوگ اپنی بیوقوفی سے اسے رد کرتے ہیں تو آنے والی نسلیں ان کو اندھا کہیں گی کہ دھوپ میں بیٹھ کر کہتے رہے نور نہیں ہے.وہ ان کی عزت ہر گز نہیں کریں گی بلکہ یہ کہیں گی کہ چونکہ وہ ناپاک لوگ تھے اس لئے پاکیزگی کو قبول نہ کر سکے.پس یاد رکھو عزت خدا کی طرف سے آتی ہے اور کوئی اسے چھین نہیں سکتا.خدا تعالی جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کرتا ہے.وہ انسان جو ان باتوں کو اپنے قبضہ میں سمجھتے ہیں وہ نادان ہیں اور پچھتائیں گے یا ان کی نسلیں پچھتائیں گی لیکن اس وقت ان کا پچھتانا ان کے لئے فائدہ مند نہیں ہو گا.الفضل ۲۸/ ستمبر ۱۹۲۸ء) ے تذکرہ ص ۳.ایڈیشن چهارم
محمود ۶۲ سال ۱۹۲۸ء عورتوں کی عزت کی حفاظت کرو خواہ وہ دشمنوں کی ہوں (فرموده ۲۸/ ستمبر ۱۹۲۸ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں نے اسی مقام پر چند ہفتے ہوئے ایک خطبہ پڑھا تھا جس میں اس جھگڑے کے متعلق ایک طریق فیصلہ پیش کیا تھا جو ہمارے اور ان احمدیوں کے درمیان ہے جن کا مرکز لاہور ہے.مجھے اس کے متعلق ان لوگوں کے فیصلہ کا انتظار ہے.اور میں سمجھتا ہوں اگر وہ لوگ اس طریق فیصلہ ہ آمادہ ہو گئے اور کوئی ایسے منصف مل گئے جو خدا کی خشیت اور انصاف و عدل کا مادہ رکھنے والے ہوں تو یقینا یہ طریق فیصلہ ہمارے لئے بہت مفید ہو گا.لیکن میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اگر ان لوگوں نے اس طریق فیصلہ کو قبول کرنے سے پہلے اپنے لٹریچر پر نگاہ ڈالی اور ساتھ ہی ہمارے لٹریچر پر اس وقت سے لے کر جب کہ معاہدہ ہوا تھا اس زمانہ تک کہ اسے ان کی طرف سے توڑا گیا اور ان کی طرف سے اس معاہدہ کی انتہائی بے حرمتی کو دیکھ کر میری طرف سے اس کی منسوخی کا اعلان ہوا.تو یقینا وہ اس طریق کو اپنے لئے مفید نہیں پائیں گے.اس دوران میں کچھ اور واقعات بھی پیش آئے ہیں اور وہ جھگڑا جس کی ابتداء غیر مبائعین نے کی تھی اب زیادہ شدت پکڑ گیا ہے ان لوگوں کی طرف سے جو کارروائیاں عمل میں آئیں اور جس طرز میں انھوں نے ہمیں دوسروں کی نظر میں حقیر دکھانے کی کوشش کی اور لوگوں کے جذبات کو ہمارے خلاف بھڑکایا اور جس رنگ میں ہم پر نکتہ چینی کی جاتی ہے اور جس نکتہ چینی میں نہ صرف عوام بلکہ اسی جوش کے ساتھ ان کا امیر بھی شامل ہے میں اسے نظر انداز کرتا ہوں.اور اس وقت میں اپنی جماعت کے دوستوں کو بعض نصیحتیں کرنا چاہتا ہوں.میں نے پچھلے
خطبات محمود ۴۷۷ سال ۱۹۲۸ء ہی جمعہ میں اس بات پر تقریر کی تھی کہ ذلت اور عزت خدا تعالی کی طرف سے آتی ہے.اور میں روزانہ بیسیوں دفعہ یہ الفاظ دہراتا ہوا.کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں کہ پبلک او پینین (public opinion) یعنی رائے عامہ کوئی ایسی عظیم الشان چیز ہے جس کے بغیر ہمارا گزارا ہی نہیں ہو سکتا.بے شک یہ ایک زبر دست چیز ہے جسے قوموں کی ترقی اور تنزل میں بڑا دخل ہے اور جس وقت یہ انسانوں کی تدبیروں کے بغیر قائم ہو تو یہ خدا تعالیٰ کی مرضی کا اظہار کرنے والی ہوتی ہے یہ اس حالت کے لئے بطور ٹمپریچر کے ہوتی ہے جو آسمان سے زمین پر پیدا کی جاتی ہے.اسی لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا.يُوضَعُ لَهُ القَبُولُ فِي الاَرضِ 1 یعنی جب خدا تعالیٰ کسی کو عزت دینا چاہتا ہے تو آسمان پر اس کا فیصلہ کرتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ فرشتوں کے ذریعہ اس کی قبولیت زمین پر اتارتا ہے.پس رائے عامہ جب کہ مخالف حالات میں پیدا ہوتی ہے خدا کی مرضی کا اظہار کرنے والی ہوتی ہے اور وہ حقارت کے قابل نہیں ہوتی مگر بایں ہمہ وہ اس قدر عظیم الشان نہیں کہ اس کے مقابلہ میں سب کچھ نظر انداز کیا جا سکے.جس چیز پر ہم کلی طور پر انحصار کر سکتے ہیں اور جس پر ہمیں پورا پورا اعتماد اور تو کل ہو سکتا ہے وہ صرف اور صرف استعانت الہی ہے وہ ہمارا یہ فعل ہے کہ ہم خدا تعالٰی سے مدد مانگیں اور خدا تعالٰی کا یہ فعل ہے کہ ہماری دعائیں قبول فرمائے.پس اس میں کچھ شبہ نہیں کہ ان شبہات اور الزامات بلکہ میں کہتا ہوں کہ ان جھوٹوں اور افتراؤں کو دور کرنا جو مخالف پارٹی ہم پر لگا رہی ہے ہمارا مذہبی فرض ہے اور جو اس کے پہچاننے میں کو تاہی کرتا ہے وہ خدا کا مجرم ہے.پھر جو اس کی اہمیت کو گراتا ہے یا جو اس فرض کو پہچاننے والوں کی ناقدری کرتا ہے وہ بھی خدا کا مجرم ہے.لیکن ساتھ ہی اس فرض کو انتہاء سے آگے لے جانا بھی غلطی ہے.جس مقصد اور جس کام کے لئے ہم دنیا میں کھڑے کئے گئے ہیں وہ روحانیت اور اخلاق کا قائم کرنا ہے.اور اگر ہم انھیں قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو پھر دنیا کی رائے عامہ کے ہم محتاج نہیں.اس لئے نہیں کہ وہ کوئی حقیقت نہیں رکھتی بلکہ اس لئے کہ اس صورت میں وہ ہمارے تابع ہو جائے گی کیونکہ جو شخص خدا کا ہو جاتا ہے دنیا اس کے پیچھے چلتی ہے.دنیا میں کب ایسا ہوا کہ کوئی شخص خدا تعالی کی طرف سے اس کے احکام کی اتباع کے لئے کھڑا ہوا ہو اور دنیا اسے تباہ کرنے میں کامیاب ہو گئی ہو.میں نے پچھلے جمعہ کے خطبہ میں بتایا تھا کہ دنیا نور کو نہیں مٹا سکتی.وہ شخص مٹ سکتا ہے جس کے ذریعہ نور پھیلایا جا رہا ہو
خطبات محمود ۴۵۸ سال ۱۹۲۸ء لیکن اس کا کام نہیں مٹ سکتا.اور جو لوگ نیکیوں کو پھیلانے کے لئے کھڑے ہوتے ہیں انھیں اپنی ذات کی پروا نہیں ہوتی.اگر مقصور ذاتیں ہوتیں تو اسلام میں جہاد کا حکم نہ ہوتا.خدا تعالٰی رسول کریم اے کو یہ حکم کبھی نہ دیتا کہ دشمن کا تلوار سے مقابلہ کرو بلکہ یہ کہتا کہ بلند ترین پہاڑوں کی چوٹیوں پر بھاگ کر چڑھ جاؤ یا ان کی وادیوں میں چھپ جاؤ یا جنگلوں میں بھاگ کر اپنی جانیں بچاؤ کیونکہ تمہاری جانیں بہت قیمتی ہیں.پھر حضرت ابو بکر، عمر اور عثمان رضوان اللہ سیم کو یہی حکم ہو تا کہ دنیا کے غیر معروف ترین گوشوں میں چھپ جاؤ کیونکہ تمہاری جانیں بہت قیمتی ہیں.مگر خدا کہتا ہے کہ جاؤ تم نبی ہو یا اس کے پیرو صداقت کو پھیلانے کے لئے کام کرو اور اپنی جانوں کی پروا نہ کرو.پس یہ تو ہو سکتا ہے کہ انسان مٹ جائیں مگر جس چیز کے لئے وہ خدا کی طرف سے کھڑے کئے جاتے ہیں وہ نہیں مٹ سکتی.میں نے ایک وقت تک کلی طور پر اپنی جماعت کو غیر مبائعین کے مقابلہ سے روکے رکھا لیکن پھر میں نے محسوس کیا کہ یہ طریق بھی غلط ہے جس طرح اسلام میں نا واجب حملہ ناجائز ہے اسی طرح بے غیرتی بھی ناجائز ہے.اس روکنے سے بعض لوگوں میں بے غیرتی پیدا ہو گئی.غیر مبائعین کی طرف سے اگر خطرناک سے خطرناک حملہ بھی ہم پر کیا گیا تو کئی ایک نے اسے پڑھا اور ہنس کر ٹال دیا اور کسی نے اگر جواب دینے کی کوشش کی تو اسے کہہ دیا تم کیسے تنگ ظرف ہو ایسی باتوں میں کیوں پڑتے ہو یہ دراصل بے غیرتی تھی.ان کا ایمان آہستہ آہستہ ان کے دلوں سے نکل گیا.پس میں نے دیکھا کہ یہ طریق غلط ہے اور یہ بے غیرتی ہے جس کے نتیجہ میں بے ایمانی پیدا ہوتی ہے کیونکہ بے غیرتی اور ایمان ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے.خدا تعالی کی پیدا کی ہوئی فطرت کے مطابق یہ بھی ضروری ہے کہ جن لوگوں کے احساسات کو صدمہ پہنچے ان کے لئے بھی جواب کا موقع رکھا جائے.ان کے احساسات کو مارتے ہی چلے جانا نا مناسب امر ہے.میں دوستوں کی حالت کا اندازہ اس کیفیت سے کر سکتا ہوں جو انہی حالات میں خود مجھ پر طاری ہوتی ہے.جس طرح ان کو مجھ سے عقیدت ہے اور انہوں نے میری بیعت کی ہوئی ہے اسی طرح میں نے بھی ان کے ساتھ بالا ہستیوں کے ہاتھ پر بیعت کی ہوئی ہے اور میں جانتا ہوں ان پر اگر کوئی حملہ کرے تو میرے دل کی کیا کیفیت ہوتی ہے.مجھے یاد ہے یہ خیال نہیں کہ میں خود اس مجلس میں موجود تھا یا نہیں لیکن سنا ہے ایک دوست تھے جن کی طبیعت بہت تیز تھی انھوں نے لاہور میں دوکان کی.وہاں کسی شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ
خطبات محمود ۴۷۹ سال ۱۹۲۸ء والسلام کی شان میں سخت کلمہ کہا وہ اس سے لڑ پڑے.کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ان کی شکایت کی.آپ نے نصیحت کی اور فرمایا ایسے موقع پر صبر سے کام لینا چاہئے اگر کوئی گالی بھی دے تو خاموش رہنا چاہئے.اس پر بجائے اس کے کہ وہ اس نصیحت سے فائدہ اٹھاتے طیش میں آکر کہنے لگے مجھے تو آپ خاموش رہنے کی نصیحت کرتے ہیں لیکن جب آپ کے پیر ( مراد رسول اللہ ﷺ سے تھی) کے خلاف کوئی کچھ کہے تو آپ کتابیں لکھ لکھ کر شائع کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہنس پڑے.گو یہ جواب غلط تھا لیکن انسانی فطرت کی بڑھی ہوئی کیفیت کا ایک نظارہ تھا.انسانی فطرت ایسے وقت میں جوش میں آجاتی ہے اور خدا کی پیدا کی ہوئی طاقتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے بعض حالتوں میں جوش کا اظہار جائز ہوتا ہے.ورنہ جب جوش کو انتہاء سے زیادہ دبایا جائے تو یا فساد پیدا ہوتا ہے یا بے غیرتی.پس میں نے اعلان کیا ہے اور اس پر قائم ہوں کہ ایسے لوگوں کو جوابات دیے جائیں اور نہ صرف ان کو جوابات دیئے جائیں بلکہ ہمارے سلسلہ کے علماء کو چاہئے کہ اور بھی مختلف اعتراضات کے جوابات دیا کریں جو آریوں اور عیسائیوں کی طرف سے اسلام پر کئے جاتے ہیں اور اسلام کی تائید میں مضامین لکھیں لیکن ساتھ ہی میں یہ بھی کہتا ہوں کہ ہمارے اخلاق دو سروں سے بہت بلند و بالا ہونے چاہئیں.بے شک ہمارے مضامین پر زور ہوں اور ایسے بھی ہوں کہ دشمن محسوس کرے کہ بلاوجہ حملہ کرنے سے دوسرے کو کیا تکلیف پہنچتی ہے لیکن ناجائز اور اخلاق سے گرے ہوئے نہ ہوں بلکہ ناجائز کی حد تک بھی نہ پہنچتے ہوں.یہ جواب کہ دشمن ہم پر ایسے حملے کرتا ہے درست نہیں.اس نے اپنے اخلاق کا اظہار کرنا ہے اور ہم نے اپنے اخلاق کا.وہ اگر اپنے اندرونہ کا اظہار کرتا ہے تو ہمیں اس کی نقل نہیں کرنی چاہئے.اس کی کیا ضرورت ہے کہ اپنے نفس پر جبر کر کے ہم بھی ویسا ہی گند نکالیں.میں مانتا ہوں بعض دفعہ اسی طرز اور ای زبان میں جواب دینا بھی مفید ہوتا ہے جس زبان میں دشمن اعتراض کرتا ہے.بعض عیسائیوں نے رسول کریم ﷺ پر جب ناپاک حملے کئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انجیل سے ہی ان کے مزعومہ یسوع کی حالت کا نقشہ کھینچ کر بتایا کہ تم تو بعض مخالفین کے اقوال کی بناء پر رسول کریم ال پر اعتراض کرتے ہو لیکن تمہارے یسوع کی یہ حالت تمہاری بائیبل میں لکھی ہے.نادانوں نے سمجھا کہ یہ حضرت مسیح علیہ السلام پر حملے ہیں حالانکہ یہ بالکل غلط ہے.تو بعض دفعہ دشمن کی اصلاح کے لئے سختی بھی اختیار کرنی پڑتی ہے لیکن یہ مثال ان
خطبات محمود سال ۶۱۹۲۸ لوگوں پر چسپاں نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ لوگ زندہ ہیں اور وہ وفات یافتہ - حضرت مسیح علیہ السلام یا حضرت مریم پر اگر کوئی حملہ کرتا ہے تو وہ چونکہ وفات یافتہ ہیں اس لئے انہیں کسی قسم کا نقصان پہنچنے کا احتمال نہیں لیکن ان لوگوں میں سے اگر کسی ناکردہ گناہ کو گھسیٹا جائے تو وہ چونکہ زندہ ہے اسے نقصان پہنچنے کا ڈر ہے.پس یقینا غیر مبالعین ہمارے اخلاق ہماری دیانت اور ہمارے کیر کٹر پر حملہ کرتے ہیں مگر انہیں کرنے دو تم جواب ضرور دو مگر ایسا مت کرد که جس چیز کو شریعت نے ناجائز قرار دیا ہے اسے اختیار کرلو - شریعت نے کسی کے اخلاق پر الزام کے لئے شرائط مقرر کی ہیں اور وہ شرائط ساری دنیا کے لئے ہیں.قرآن نے انھیں اس لئے مقرر کیا ہے که تاکسی ناکردہ گناہ انسان پر الزام نہ آئے خواہ وہ کوئی ہو کیونکہ بندے سب خدا کے ہیں.اور خدا کو ذلیل سے ذلیل انسان کی عزت بھی پیاری ہے کیونکہ وہ بھی اس کا بندہ ہے اس لئے جواب دینے میں اس بات کی خاص احتیاط رکھنی چاہئے.ابھی ایک شکایت مجھے پہنچی ہے.پیغامیوں کی طرف سے ایک شخص نے ایک مضمون کے متعلق لکھا ہے کہ وہ بہت نامنار نیز اس شخص نے یہ بھی لکھا ہے کہ میں نے مولوی محمد علی صاحب کی بیعت بذریعہ خواب کی تھی.کاش اسے معلوم ہوتا کہ مولوی صاحب نے اس قسم کے خوابوں کی دھجیاں کس طرح اڑائی ہیں.مولوی صاحب کے نزدیک ماموروں کے خوابوں کے سوا اور وہ بھی ان ماموروں کے جنہیں مولوی صاحب مان لیں کسی کا خواب حجت نہیں ہوتا.ان کے لئے اگر ایک شخص کو خواب آیا ہے تو میں اس ایک کے مقابل میں سو سے بھی زیادہ اس سے تقویٰ میں بڑھے ہوئے اور بے تعلق لوگوں کو پیش کر سکتا ہوں جنہیں میرے متعلق خواب آئے.سو اگر یہی معیار فیصلہ قرار پا جائے تو آج ہی فیصلہ ہو سکتا ہے.اور اگر یہ منظور نہیں تو اس ایک خواب کا کیا ٹھکانا ہے وہ تو اسی طرح پراگندہ پھرے گی جس طرح ریوڑ سے علیحدہ ہو کر ایک جانور پھرتا ہے.خدا کے فضل سے ریوڑ میری طرف ہے اور ان کی طرف ایک پراگندہ بھیٹر کے سوا جو بھیڑئے کا شکار بنتی ہے کوئی نہیں.اس شخص نے ایک مضمون کی طرف اشارہ کیا ہے.میں چونکہ پچھلے دنوں بہت ضروری کاموں میں مشغول تھا اس لئے اس کو مکمل طور پر تو نہیں پڑھ سکا تھا کہیں کہیں سے دیکھا تھا اس لئے اس کا سارا مفہوم میرے دل پر نقش نہ تھا.اس نے اس مضمون سے بعض فقرات نقل کئے ہیں اور لکھا ہے یہ سورۃ نور کی تعلیم کے خلاف ہیں.اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر وہی مطلب ان الفاظ کا لیا جائے جو اس نے لیا ہے اور اگر لکھنے والے کے
خطبات محمود ۴۸۱ سال ۶۱۹۲۸ نزدیک بھی وہی مطلب تھا تو کہا جا سکتا ہے کہ اس نے احتیاط سے کام نہیں لیا.لیکن میں اس مضمون کی شکایت کرنے والے سے کہوں گا کہ اس سے زیادہ خطرناک حملے مولوی محمد علی صاحب نے مجھ پر کئے ہیں.گو یہ ان کی ہوشیاری ہے کہ لائیبل (LIBEL) کے خوف سے انہوں نے نام نہیں لیا مگر یہ بھی ان کی نادانی ہے کہ انہوں نے خیال کیا شاید میں لائیل ان پر کروں گا.میری عزت گورنمنٹ کے ہاتھ میں نہیں بلکہ خدا کے ہاتھ میں ہے وہ اپنی عزت گورنمنٹ کے ہاتھ میں سمجھتے ہیں مگر میں خدا کے ہاتھ میں سمجھتا ہوں.وہ آئیں اور جس قدر ان کا دل چاہے مجھے گالیاں دے لیں.میں تو جب لائیکیل کروں گا خدا کے ہاں ہی کروں گا لیکن اس کے لئے بھی میں ابھی ضرورت نہیں سمجھتا کیونکہ اس وقت تک کوئی ایسی خطرناک بات نہیں ہوئی جو سلسلہ کے لئے نقصان دہ ہو سکے.خدا تعالیٰ کو خود سلسلہ کی حفاظت منظور ہے.وہ جب دیکھے گا کہ سلسلے کو نقصان یا ضعف پہنچ رہا ہے تو وہ خود دخل دے گا.لیکن میں لائییل نہیں کرتا اور نہ میں کہہ سکتا ہوں کہ کبھی کروں گا کیونکہ یہ میری فطرت کے ہی خلاف ہے.تو یہ ان کی غلطی تھی کہ انہوں نے خواہ مخواہ اپنی طبیعت پر میری طبیعت کا قیاس کر لیا اور اس لئے نام چھپانے کی کوشش کی.حالانکہ جس عقلمند کے بھی سامنے وہ مضمون رکھ دیا جائے وہ فورا کہہ دے گا کہ یہ اشارہ کس کی طرف ہے.پہلے میرے مضمون کا حوالہ دیا گیا ہے پھر پر دہ پر بحث کی ہے پھر لکھا ہے کہ وہ مفتی اور پیر جو ایسے فتوی دیتے ہیں ان کے گھروں میں ایسا ہوتا ہے.اس مضمون کو پڑھ کر ہر عقل مند سمجھ سکتا ہے کہ اس میں صرف مجھ پر ہی حملہ نہیں بلکہ جماعت کی سینکڑوں معصوم عورتوں پر بھی حملہ ہے.میں ان لوگوں میں سے ہوں جو یہ سمجھتے ہیں کہ جس کو گالی دی جائے اس کی ہتک نہیں ہوتی بلکہ ہتک خود گالی دینے والے کی ہوتی ہے.اس مضمون میں مولوی صاحب نے اپنے اخلاق کے دلی ہونے کا ثبوت دیا ہے.اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے نزدیک عفت کی کوئی قیمت ہی نہیں.اور وہ جوش میں انسانیت کے ادنی درجہ سے بھی گر جاتے ہیں.بہرحال ان کی تحریر موجود ہے.اگر یہ خط لکھنے والے کے نزدیک ان کا طریق عمل درست ہے تو اسے تو چاہئے تھا مجھے لکھتا کہ چونکہ خواب میں مجھے مولوی محمد علی صاحب کی صداقت کا یقین دلایا گیا ہے اس لئے آپ کو بھی چاہئے کہ انہیں کے طریق عمل پر چلیں لیکن وہ مجھے شکایت لکھتا ہے.بہر حال میں اس کے خواب کا تابع نہیں ہوں بلکہ قرآن کریم کا تابع ہوں.ڈاکٹر بشارت احمد صاحب اگر ہم پر ایسے حملے کریں تو کریں.مولوی محمد علی صاحب کریں تو بے
خطبات محمود ۴۸۴ سال ۶۱۹۲۸ شک کریں لیکن ہمیں نہیں چاہئے کہ با عفت عورتوں پر کوئی حملہ کریں.ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کی بیٹی یا مولوی محمد علی صاحب کی سالی ہونے کی وجہ سے کسی ایسی عورت پر جسے خدا تعالی با عصمت کہتا ہے کوئی حملہ نہیں جاسکتا.اور اگر مضمون نویس کا منشاء یہی تھا تو میں اسے نصیحت کروں گا کہ توبہ کرو ہمیں ہرگز کوئی حق نہیں کہ جس نے ہم پر کوئی حملہ نہیں کیا اس پر حملہ کریں.ہاں سوال کے طور پر یہ لکھا جا سکتا ہے کہ مولوی محمد علی صاحب کا یہ فتویٰ ہے اور ڈاکٹر بشارت احمد صاحب یہ کہتے ہیں اس صورت میں ان پر کیا فتویٰ چسپاں ہوتا ہے لیکن واقعہ کی صورت میں اسے تبدیل کر دینا ٹھیک نہیں.یہ کہنا کہ فلاں چونکہ یہ فتویٰ دیتا ہے اس لئے نفس پرستی کرتا ہے ناجائز ہے.کیونکہ اس میں بعض ایسی عورتوں پر حملہ ہے جن کا کوئی گناہ ہم پر ثابت نہیں.اگر وہ لوگ بغض میں انتہائی درجہ پر بھی پہنچ جائیں پھر بھی ہم ان کی مستورات کو عقیقہ ہی سمجھیں گے کیونکہ خدا تعالیٰ ان کو عقیقہ کہتا ہے.پس میں کہوں گا کہ عورت کی عزت کی حفاظت خواہ وہ دشمن کی ہو انسانیت کا ادنی فرض ہے اور بہادر آدمی کا کام ہے کہ کسی ادنی درجہ کی عورت کی عزت کی حفاظت کے لئے خواہ وہ کسی مذہب سے تعلق رکھتی ہو اگر اسے جان بھی دینی پڑے تو قطعا دریغ نہ کرے.پس تم بہادر بنو اور عورت کی عزت کی حفاظت کرو.عورت کی عزت کو خدا نے قائم کیا ہے اور وہ شعائر اللہ میں سے ہے اس لئے اس کی عزت تم پر فرض ہے.میں ان مجبوریوں سے بخوبی آگاہ ہوں جن سے آپ لوگوں کو گذرنا پڑتا ہے اور ان لوگوں کو ایمان سے خالی سمجھتا ہوں جو بے غیرتی دکھاتے ہیں اور دشمن کے اعتراضات اور الزامات سن کر باوجود جواب دینے کی طاقت اور قابلیت رکھنے کے خاموش ہو جاتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں جانے دو ان باتوں کے جواب نہیں دینے چاہئیں.وہ ہم میں سے نہیں اور وہ خدا کی رضاء کبھی حاصل نہیں کر سکتے.لیکن پھر بھی میں ہر اس شخص کو جو مقابلہ کے لئے زبان یا قلم اٹھاتا ہے نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ایسے رنگ میں لکھے جو بے شک تیز ہو موثر ہو لیکن اس میں کسی ناکردہ گناہ پر کوئی حملہ نہ ہو.ہم تقویٰ کے قیام کے لئے کھڑے کئے گئے ہیں.پس کوشش کرو کہ ہم جب دنیا کو چھوڑ کر جائیں تو دشمن بھی محسوس کرے کہ ہم دنیا میں اصلاح کر گئے ہیں.میں ایک طرف جہاں ان غافل لوگوں کو جن کی غفلت بے غیرتی کی حد تک پہنچی ہوئی ہے توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس میدان میں پیٹھ پھیر کر کھڑے نہ رہیں اپنی ہمت اور کوشش کے مطابق
خطبات محمود ۴۸۳ سال ۱۹۲۸م حصہ لیں.وہاں مجاہد دوستوں کو جو کام کر رہے ہیں توجہ دلاتا ہوں کہ جس کی عزت خدا نے قائم کی ہے اس کا خاص خیال رکھیں.رسول کریم ﷺ نے ایک جنگ میں ایک عورت کی لاش دیکھی صحابہ کا بیان ہے آپ ایسے سخت غضبناک ہوئے کہ اس سے قبل کبھی نہ ہوئے تھے اور فرمایا کبھی کسی عورت پر حملہ نہ کرو.پس تم بھی کسی عورت پر کبھی حملہ نہ کرو.دشمن کو اپنا اندرونہ ظاہر کرنے دو اور تم اپنا کرو.وہ جب اپنے گھر کو لوٹے گا تو خدا کا غضب اس پر نازل ہو رہا ہو گا اور تم اس کے فضل کے وارث بنو گے.کون کہتا ہے کہ ایسا کرنے سے وہ جیت جائے گا اور تم ہار جاؤ گے یقینا تم ہی جیتو گے اور وہ ہارے گا.بخاری کتاب الادب باب المقته من الله عز و جل (الفضل ۱۳/ اکتوبر ۱۹۲۸ء)
خطبات محمود ۴۸۳ ۶۳ } نہرو رپورٹ کے خلاف جلسے کئے جائیں فرموده ۵/اکتوبر ۱۹۲۸ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: گو ہمارا سلسلہ ایک مذہبی سلسلہ ہے اور زیادہ تر ہمارے معاملات مذہب سے وابستہ ہیں اور مذہب کی اشاعت اور ترقی ہمارے سلسلہ کی بنیاد اور قیام کی اصل وجہ ہے لیکن بعض معاملات ایسے ہوتے ہیں کہ گو وہ دنیوی ہوتے ہیں لیکن ان کا اثر دین پر بھی پڑتا ہے اور ان کے درست طور پر وقوع پذیر ہونے کا نتیجہ دین کے لئے مفید اور غلط طور پر ہونے کا نتیجہ دین کے لئے مضر ہوتا ہے.پس باوجود اس کے کہ کوئی قوم جو خالص طور پر دین کے لئے وقف ہو اسے اپنے کام کے ضمن میں اور اس کی رعایت کے لئے بعض دنیوی امور کی طرف بھی متوجہ ہونا پڑتا ہے.اسلام دنیا میں رہتے ہوئے دنیا سے کلی طور پر انقطاع کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ دنیا کو بھی مذہب کی سیڑھی قرار دیتا ہے.دنیا میں تین قسم کے مذہب پائے جاتے ہیں.بعض تو ایسے ہیں جو کہتے ہیں یہ دنیا ہی دین ہے.بعض دنیا کو دین سے بالکل ایک علیحدہ چیز قرار دیتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ اگر کوئی شخص دنیا کی طرف متوجہ ہو تو اسے دین سے محروم رہنا پڑے گا.مگر اسلام ان دونوں کا مخالف ہے وہ نہ تو دنیا کو دین قرار دیتا ہے اور نہ دنیا کو دین کے مخالف سمجھتا ہے بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ دنیوی زندگی دینی زندگی کے لئے بطور زینہ ہے.دنیوی بهتری و درستی کا تعلق دین سے نہایت ہی گہرا ہے.گو وہ دین نہیں جس طرح زینہ چھت نہیں مگر اس کے بغیر چھت پر پہنچنا بھی ناممکن ہے اسی طرح دنیوی زندگی دینی زندگی کے لئے بطور ایک زینہ کے ہے.انسان کی اخلاقی حالت اس سے درست ہوتی ہے.جس طرح روح کی نشود نما اور ترقی کے لئے جسم کی ضرورت ہوتی سال ۶۱۹۲۸
خطبات محمود ۴۸۵ سال ۱۹۲۸ء ہے اسی طرح مذہب بھی دنیا سے نشو و نما پاتا ہے.پس ایک حد تک دنیوی امور کی طرف متوجہ ہونا بھی ضروری ہوتا ہے.جس طرح وہ شخص نادان ہے جو زینہ پر ہی بیٹھا رہے اور چھت پر نہ چڑھے اسی طرح وہ بھی نادان ہے جو زینہ چھوڑ دے اور دیوار پھاند کر چھت پر جانے کی کوشش کرے.بعض حالتوں میں زینہ سے کام لینا ضروری ہوتا ہے اگر اسے بالکل چھوڑ دیا جائے تو انسان کامیابی سے محروم رہ جاتا ہے اسی طرح اگر کوئی اس کا ہو رہے تب بھی وہ اصل مقصد ہے محروم رہتا ہے.یہی حال دنیا کا ہے اگر کوئی اسے بالکل چھوڑ دے تو وہ بھی دین کے پانے سے محروم رہے گا اور اگر کوئی بالکل ہی دنیا کا ہو رہے تو وہ بھی محروم رہے گا.اسلام نے روح اور جسم دونوں کے لئے عبادت مقرر کی ہے.نماز روح اور جسم دونوں کیلئے عبادت ہے.انسانی جسم کیا ہے ؟ یہ دنیا کا نمونہ ہے اسے عالم صغیر کہتے ہیں کیونکہ اس کی بناوٹ ان ساری قوتوں پر حاوی ہے جن سے عالم بنا ہے.اس لئے اللہ تعالٰی نے عبادت میں جسم کو بھی شامل کیا ہے.اگر نماز بغیر جسم کے نہیں ہو سکتی تو مذہب بغیر دنیوی معاملات کے کیسے قائم ہو سکتا ہے.اگر دنیا کے بغیر مذہب قائم کیا جا سکے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ دل میں ہی اللہ اللہ کر لینا فرض نماز سے سبکدوش کر دیتا ہے اور ظاہر انماز کی کوئی ضرورت نہیں مگر یہ صحیح نہیں ہے.پس دنیا کا ایک حد تک خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ اس کا اثر دین پر بھی پڑتا ہے کیونکہ جسم اور روح کی طرح دونوں کا آپس میں نہایت گہرا تعلق ہے.اگر انسان کے سر میں شدید درد ہو تو نماز میں بھی پوری توجہ نہیں ہو سکتی اور شدید تکلیف کے وقت رقت بھی پیدا نہیں ہوتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ نماز میں دعا کرتے وقت جسم پر رونے کی حالت طاری کر لو روح پر خود رقت طاری ہو جائے گی.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے.یہی حالت دنیا کی ہے اگر دنیا کا امن برباد ہو جائے، دنیا میں طوفان برپا ہوں، لوگوں میں بے چینی اور پریشانی پھیلی ہوئی ہو تو دین کی اشاعت کے رستے بھی ساتھ ہی بند ہو جائیں گے.گویا دنیا کی اچھی حالت دین کی اچھی حالت کے لئے پیش خیمہ ہے اس لئے مومن کا اہم کام دنیا کی اصلاح ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.لا تُفْسِدُوا فِي الأَرْضِ بَعْدَ اِ مُلَاحِهَا.(الاعراف (۵۷) انبیاء کا نام مصلح ہوتا ہے کیونکہ وہ دنیا سے فساد و شر کو دور کرتے ہیں.انبیاء کی بعثت اسی وقت ہوتی ہے جب دنیا میں فساد یا تو ظاہر ہو چکا ہو یا ہونے والا ہو اور وہ اصلاح کے لئے ہیں مبعوث کئے جاتے ہیں.غرض دنیاوی معاملات سے کلی انقطاع نا ممکن ہے جب کہ بنیاد اسلام کے
خطبات محمود سال ۱۹۲۸ء احکام پر ہو اسی وجہ سے بعض دنیاوی معاملات میں ہمیں دخل دینا پڑتا ہے.کئی نادان یہ خیال کرتے ہیں کہ ہمیں دنیا سے کیا تعلق ہے ہم تو ایک مذہبی جماعت ہیں لیکن وہ نہیں سمجھتے کہ بے شک ہماری تمام توجہ دین کی اشاعت کی طرف ہی ہے لیکن دین کی اشاعت دنیا کے امن سے وابستہ ہے پس دنیا میں امن کے قیام کے لئے دنیاوی اصلاح کے لئے کچھ وقت ہمیں ضرور صرف کرنا چاہئے.اسلام نے دنیوی حکومتوں کے قوانین بیان کئے ہیں.اگر یہی قاعدہ ہو تاکہ دین اور دنیا کو آپس میں کوئی تعلق نہیں تو حکومت کے متعلق قرآن پاک میں کوئی احکام نہ ہوتے.لیکن حالت یہ ہے کہ اس میں ایسے ایسے لطیف امور دنیادی حکومتوں کے متعلق بیان ہیں کہ دنیا کے بہترین اور عقلمند ان کی برتری کا اعتراف کرتے ہیں.اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ دین اور دنیا کا آپس میں گہرا تعلق ہے.میں پچھلے سال شملہ گیا تو وہاں سابق گورنر صاحب پنجاب نے مجھے بلوایا اور یہ سوال کیا کہ میں ایک مذہبی آدمی ہوں مجھے دنیاوی امور میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے.ان کا مطلب یہ تھا کہ میں نے تمدنی تحریکات کیوں کیں.میں نے انھیں بتایا یہ بھی میرا ہی کام ہے کہ میں فیصلہ کروں کونسا کام دنیوی ہے اور کونسا دینی.گورنر صاحب کا یہ کام نہیں کہ مجھے بتائیں تمہاری فلاں تحریک دینی ہے اور فلاں دنیا دی.وہ خود اپنے متعلق فیصلہ کر سکتے ہیں جگر میں اپنے متعلق خود ہی فیصلہ کروں گا.میں جس چیز کے متعلق سمجھوں گا کہ اس کا اثر مذہب پر پڑے گا تو اس میں ضرور دخل دوں گا.غرض دین کے فائدہ کے لئے بعض دنیوی امور میں دخل دینا ضروری ہوتا ہے.پچھلے سال میں نے بعض تحریکات میں حصہ لیا تھا اور ان کے متعلق تفصیلا ان کے اختیار کرنے کی وجوہات بھی بیان کی تھیں.معلوم ہوتا ہے گورنر صاحب کو ان سے واقفیت نہ تھی ورنہ وہ ایسا سوال نہ کرتے.اب پھر ایک موقع پیدا ہو گیا ہے جس کا اسلام کی ترقی کے ساتھ گہرا تعلق ہے.اور وہ آئندہ حکومت ہند کا سوال ہے.سائمن کمیشن پھر ہندوستان آرہا ہے اور اس نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہندوستان کی آئندہ حکومت کی کیا شکل ہوگی.اس موقع پر کانگریسی کمیٹی نے اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والے بعض دوسرے لوگوں نے ایک کمیٹی بنائی جس کے صدر اور شاید سیکرٹری بھی پنڈت موتی لال صاحب نہرو تھے اور انہی کے نام کی نسبت سے اس کمیٹی کا نام نہرو کمیٹی ہوا.اس کمیٹی نے ایک رپورٹ تیار کی ہے اور اس میں ایسی تجاویز پیش کی ہیں جن پر آئندہ حکومت کی بنیاد رکھنے کی صلاح دی ہے.اس میں مسلمانوں کی طرف سے سر
۴۸۷ سال ۶۱۹۲۸ علی امام اور مسٹر شعیب قریشی شامل تھے.سر علی امام تو بوجہ بیماری صرف ایک ہی مجلس میں شریک ہو سکے اور شعیب قریشی صاحب کا بیان ہے کہ ان کی باتوں کی کوئی پروا ہی نہیں کی جاتی تھی.اس میں ایسی تجاویز کی گئی ہیں کہ اگر مسلمان انھیں منظور کر لیں تو ان کی ہلاکت یقینی ہے.جو حالت ان کی پین میں ہوئی تھی وہی یہاں بھی ہو سکتی ہے اور اگر انہوں نے ان تجاویز کو مان لیا تو ہو کر رہے گی.چونکہ کوئی مذہبی سلسلہ اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک وہ ایسے گر دو پیش میں نہ ہو جس میں ترقی کا امکان ہو اور چونکہ ان تجاویز پر عمل کرنے سے مسلمانوں کی ترقی کے جملہ راستے مسدود ہو جاتے ہیں اور اس کا ہماری جماعت پر بھی برا اثر پڑتا ہے اس لئے جماعت احمدیہ کا فرض ہے کہ مسلمانوں کو اس کے متعلق سمجھائے اور آنے والے خطرات سے آگاہ کرے.گورنمنٹ بھی اونچی آواز سے ہی زیادہ ڈرتی ہے.ان کے ہاں چونکہ طرز حکومت ہی پارلیمنٹری ہے جس کے معنی ہی ملک کی آواز کے ہیں اور چونکہ ان کے ہاں طریق ہی یہ ہے کہ کثرت کی بات کو مان لینا اور قدرتی بات ہے کہ جتنا زیادہ شور مچایا جائے لوگ سمجھتے ہیں کہ اکثریت اس طرف ہے.پس اگر ہماری جماعت نے دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر اس کے متعلق کوشش نہ کی تو گورنمنٹ حامیان رپورٹ کو کثرت خیال کر کے اس کی بہت سی باتوں کو تسلیم کرلے گی اور یہ اسلام کی ترقی کے راستہ میں ایک خطرناک روک ہوگی.میں نے اس رپورٹ کو بغور پڑھا ہے.اس میں صاف ایسی باتیں موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بنانے والوں کی نیت نیک نہیں اور ابھی ان کے ذہن میں ایسی باتیں اور تجاویز ہیں جن سے اسلام کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے.گو ان میں سے بعض دیانت دار ہیں لیکن دیانت بھی تعصب کے پردہ میں چھپ جاتی ہے.میں ان کی دیانت پر حملہ نہیں کرتا لیکن باوجود اس کے میں کہتا ہوں کہ ان کے دل و دماغ پر تعصب کا پردہ پڑا ہوا ہے اس لئے وہ ان مضرت رساں باتوں کو جو ملک کے اتحاد کے لئے خطرناک ہیں کر گذرنے پر تیار ہیں.پس میں اس خطبہ کے ذریعہ جماعت کے دوستوں کو سوائے ان دوستوں کے جو گورنمنٹ کے ملازم ہیں کیونکہ ملازمین سرکار کا سیاسی معاملات میں حصہ لینا نا جائز ہے توجہ دلاتا ہوں کہ جس طرح راجپال کے مقدمہ کے وقت انہوں نے دوسرے لوگوں سے مل کر کمیٹیاں بنائی تھیں اسی طرح اب بھی ہر شہر اور ہر قصبہ بلکہ ہر گاؤں میں دوسرے لوگوں سے ملکر جلد سے جلد ایسی کمیٹیاں بنائیں جو نہرو کمیٹی کے خلاف جلسے کر کے لوگوں کو اس کی پیش کردہ تجاویز کے
خطبات محمود ۴۸۸ سال ۱۹۲۸ء بد اثرات سے آگاہ کریں اور اپنے مخالفین کو بھی دلائل سے قائل کر کے اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کریں.وہ جلسے کریں ریزولیوشن پاس کریں اور ان کی نقلیں گورنمنٹ اور مسلم انجمنوں کو بھیجیں.مسلم لیگ بے شک ایک اہم سیاسی مجلس ہے اس کا احترام ہونا چاہئے لیکن اسے یہ حق کہاں سے حاصل ہو گیا کہ برادران یوسف کی طرح اپنے بھائیوں کو جس طرح چاہے فروخت کرتی پھرے.وہ یہ دعوی کسی صورت میں بھی نہیں کر سکتے کہ آٹھ کروڑ مسلمان اس کے غلام ہیں اور انھیں جہاں چاہے اور جس طرح چاہے دوسروں کے ہاتھ بیچ دے.میں جماعت کے دوستوں کو تاکید کرتا ہوں کہ وہ اس رپورٹ کے خلاف جلسے کریں اور ریزولیوشن پاس کر کے ان کی نقول لاہور اور کلکتہ کی مسلم لیگز ، مقامی گورنمنٹ ، گورنمنٹ ہند سائمن کمیشن ، تمام سیاسی انجمنوں اور پریس کو بھیجیں اور گورنمنٹ کو آگاہ کر دیا جائے کہ اگر ان تجاویز پر عمل کرایا گیا تو مسلمان یہی سمجھیں گے کہ ان کے حقوق کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے.اور یہ تحریک اس وقت تک جاری رہنی چاہئے جب تک ان باتوں کا فیصلہ نہ ہو جائے.میں نے اس کے متعلق ایک مضمون بھی لکھنا شروع کیا ہے جس کی ایک قسط "الفضل" میں شائع ہو چکی ہے اور دوسری بھی ایک دو دن تک شائع ہو جائے گی.چونکہ یہ رپورٹ انگریزی میں ہے اور ہر کوئی اسے پڑھ کر سمجھ نہیں سکتا اس لئے میں نے اس مضمون میں اس کا خلاصہ اور وہ حصہ جو اسلام سے تعلق رکھتا ہے نکال کر بتایا ہے کہ مسلم مطالبات کیا ہیں ؟ کس وجہ سے ہیں؟ اور وہ جائز کس طرح ہیں؟ میرا منشاء ہے کہ بعد میں اسے کتابی صورت میں بھی شائع کر دیا جائے.اسے مطالعہ کرنے سے ہر مسلمان بغیر اس رپورٹ کو پڑھے موجودہ سیاسی حالات سے واقفیت حاصل کر کے اپنی رائے درست کر سکتا ہے بلکہ دوسروں کی رائے کو بھی درست کرنے کی اہلیت اس میں پیدا ہو سکتی ہے اس لئے دوستوں کو اس کی اشاعت میں بھی سرگرمی سے حصہ لینا چاہئے.اس مضمون کو خود پڑھنا اور یاد کرنا اور دوسروں کو پڑھانا اور یاد کرانا چاہئے.میں امید کرتا ہوں کہ جس طرح ہماری جماعت راجپال کیس کے وقت تمام مخالفتوں کو اپنے آگے بہاتی ہوئی نکل گئی تھی اسی طرح اگر اس وقت بھی کوشش کر کے وہ کامیاب ہو گئی تو یہ بھی یقینا خدا تعالیٰ کا ایک فضل ہوگا.اگر آج کچھ لوگ ہماری خالفت کریں گے تو یقینا وہ کل اقرار کریں گے کہ ہم نے ان کو ایسا
خطبات محمود ۴۸۹ سال ۱۹۲۸ء قدم اٹھانے سے بچا لیا جس کے بعد ہندو مسلمانوں میں کبھی اتحاد نہ ہو سکتا اور مسلمانوں کو تباہی اور بربادی سے بچالیا اور دونوں اقوام کے عقلمند لوگ ہماری تعریف کریں گے.اس رپورٹ کی مخالفت کے لئے مسلمانوں میں اور بھی تحریکیں زور و شور سے ہو رہی ہیں.لاہور میں ایک انجمن تحفظ حقوق المسلمين قائم ہے.بہت سے لیڈر بھی مقابلہ کر رہے ہیں لیکن چونکہ ان میں کوئی نظام نہیں اس لئے ان کی کوششیں اسی جگہ تک محدود رہتی ہیں جہاں وہ خود ہوتے ہیں دوسری جگہ کے لوگوں پر ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا.لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارا نظام ہے اس لئے ایک جگہ سے جو آواز اٹھتی ہے وہی پشاور سے لے کر آسام تک اور منصوری سے لے کر راس کماری تک ہر جگہ سے بلند ہوتی ہے اور سارے ملک میں شور بپا ہو جاتا ہے.ایسا نظام اگر انسان خود پیدا کرنے کی کوشش کریں تو سینکڑوں سالوں میں بھی نہیں کر سکتے لیکن اللہ تعالٰی نے مامور بھیج کر ہم پر احسان کیا کہ ایسا زبر دست نظام منٹوں میں پیدا کر دیا.اور جو کام کروڑوں مسلمان سالہا سال میں نہیں کر سکتے تھے وہ خدا کے فضل سے ہم نے کئے ہیں.ہمارا نہ ہی کام ساری دنیا میں پھیلا ہوا ہے اور خدا نے ہمیں وہ کام کرنے کی توفیق دی ہے جس کا ۱/۱۰۰ حصہ بھی باقی تمام مسلمان نہیں کر سکے.قلیل التعداد سے اتنا کام لینا یہ خدا تعالیٰ کا ایک خاص فضل ہے اسی طرح ہم خدا کے فضل سے دنیاوی معاملات میں بھی بہت بڑا کام کر سکتے ہیں.پس میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ اس نظام کو کام میں لا کر تحریک کریں تاکہ اس رپورٹ کے بداثرات سے مسلمانوں اور گورنمنٹ کو متنبہ کیا جا سکے.گورنمنٹ نے چونکہ وعدہ کیا ہوا ہے کہ مسلمانوں کے حقوق کو ان کی مرضی کے خلاف ضائع نہیں ہونے دے گی اور اس رپورٹ سے چونکہ مسلمانوں کا سراسر نقصان ہے اس لئے وہ ضرور توجہ کرے گی.میں امید کرتا ہوں کہ دوست جلد سے جلد اس کام کو شروع کر دیں گے اور دوسرے لوگوں سے مل کر کمیٹیاں بنائیں گے اور جلسے کر کے ایسے والنٹیر تیار کریں گے جو ان دلائل کو جو اس کی مخالفت اور مسلمانوں کے مطالبات کی تائید میں ہیں سمجھ کر ہر جگہ اور ہر مقام بلکہ ہر مجلس میں اٹھتے بیٹھتے انھیں پیش کریں گے حتی کہ ہر مسلمان ان سے آگاہ ہو جائے اور ان پر عمل کرے.پس اشتہاروں جلسوں الفضل کے مضامین اور پھر کتاب شائع ہو جانے کے بعد اس کے ذریعہ ایسے وانٹیر تیار کر کے کمیٹیاں بنا کر جلسے کر کے اور ریزولیوشنوں کے ذریعہ سے.
خطبات محمود سال ۱۹۲۸ء مسلمانوں کو اس کے بداثرات سے متنبہ کر دیا جائے.اور تھوڑے عرصہ میں ہی ایسا مطلع پیدا کر دیا جائے جو اس غبار سے جو اس وقت اٹھ رہا ہے پاک وصاف ہو.میں اللہ تعالٰی سے دعا کرتا ہوں کہ چونکہ دنیاوی معاملات ہمارا اصل کام نہیں اور اس وجہ سے ان میں دخل دیتے ہوئے ڈر ہی لگتا ہے اس لئے ہمیں ایسے راستہ پر چلائے تاکہ ہمارا دین بھی محفوظ رہ سکے اور ہم دنیا کو بھی فائدہ پہنچا سکیں.اور جس طرح دین کے محسن قرار پائیں اسی طرح دنیا پر بھی احسان کرنے والے ہو سکیں.الفضل ۱۶ / اکتوبر ۱۹۲۸ء)
خطبات محمود ۴۹۱ سال ۱۹۲۸ مو وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا فرموده ۱۲/اکتوبر ۱۹۲۸ء) تشهد تعوز اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس میں ہر مسئلہ زندگی کے لئے کچھ قوانین مقرر فرمائے گئے ہیں اور اپنے پیروؤں کے لئے رہنمائی کا سامان کیا گیا ہے.پس ہر ایک مسلمان کو ہر موقع پر ٹھر کر یہ دیکھ لینا چاہئے کہ جس معاملہ کو وہ شروع کرنے والا ہے اس کے متعلق اسلام کی کیا ہدایت ہے.وہ آزاد نہیں کہ جس طرح چاہے کوئی کام کرے.اس کا دوستانہ بھی بعض احکام کے ماتحت ہے اور اس کی دشمنی بھی بعض احکام کے ماتحت ہے.اس کا دفاع بھی بعض احکام کے ماتحت ہے اور اس کا حملہ بھی بعض احکام کے ماتحت ہے.اس کی تعریف بھی بعض احکام کے ماتحت ہے اور اس کی مذمت بھی بعض احکام کے ماتحت ہے.اس کی محبت بھی بعض احکام کے ماتحت ہے اور اس کی نفرت بھی بعض احکام کے ماتحت ہے.غرض اس کی ہر چیز بعض احکام کے ماتحت ہے اور ان احکام سے آزاد ہو کر وہ کوئی کام نہیں کر سکتا.جب تک وہ مسلمان کہلاتا ہے جب تک وہ اپنے آپ کو اسلام سے وابستہ کرتا ہے اس وقت تک ان احکام کی اطاعت اور فرماں برداری کرنا اس کے لئے ضروری ہو گا.مختلف شعبہ ہائے زندگی کے متعلق اسلام نے جو احکام بیان فرمائے ہیں ان میں سے ایک حکم لڑائی کے متعلق بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ جس وقت دشمن لڑائی چھوڑ دے تو تم بھی لڑائی چھوڑ دو.بظاہر یہ حکم بڑا سخت معلوم ہوتا ہے ہو سکتا ہے کہ ایک دشمن دیر تک حملہ کرتا رہے اور جب بہت کچھ نقصان پہنچا دے تو پھر ہتھیار ڈال دے یا ہو سکتا ہے کہ ایک دشمن دیکھے وہ ظاہر میں مقابلہ نہیں کر سکتا اس لئے مقابلہ مخفی کر دے اور ظاہر میں ہتھیار ڈال دے.اسی طرح یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دشمن اس خیال سے کہ اسے نئے سرے سے
خطبات محمود ۴۹۲ سال ۱۹۲۸ء تیاری کرنے کے لئے وقفہ کی ضرورت ہے ہتھیار ڈال دے اور پھر طاقت حاصل کر کے لڑائی شروع کر دے غرض کئی وجوہ ہو سکتی ہیں.اور جب کوئی دشمن ہتھیار ڈال دے اس پر ہمارا مطمئن ہو جانا آئندہ بہت سی مشکلات کا باعث ہو سکتا ہے لیکن جہاں بعض ظاہری تکلیفیں پیدا ہو سکتی ہیں وہاں اس کے ساتھ بعض اخلاقی فتوحات بھی لگی ہوئی ہیں.وہ انسان جو اللہ تعالٰی کے لئے اپنے جوشوں کو دباتا ہے اگر کسی بات میں دنیا کی نظروں میں حقیر بھی ہو جائے تو اللہ تعالٰی اس کی عزت اور بڑھا دیتا ہے.پس گو بظاہر اس حکم کے ساتھ شکست لگی ہوئی ہے مگر ایک بہت بڑی فتح بھی ہے اور وہ اخلاقی اور مذہبی فتح ہے.پچھلے دنوں سے ہماری بھی ایک جنگ جاری تھی اور غیر مبائعین کے ساتھ تھی.انھوں نے معاہدہ کر کے تو ڑا اور متواتر " پیغام میں ایسے مضامین نکلے جن کی غرض کسی مسئلہ کو ثابت کرنا تھی بلکہ لوگوں کی نظروں میں ہمیں گرانا اور ہمارے خلاف جذ بہ نفرت بھڑکانا تھا.ان کی مثال ایسی ہی تھی جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مولویوں کے متعلق فرماتے کہ یہ لوگ مسائل کے متعلق بحث نہیں کرتے ان کی غرض یہ نہیں ہوتی کہ لوگوں کے سامنے حق ظاہر ہو بلکہ یہ ہمارے خلاف لوگوں کو بھڑکانے کے لئے مباحثات کرتے ہیں.اور فرماتے ایک عورت تھی جو باہر کام کاج کرتی تھی ایک شخص جب اس کے پاس سے گذر تا تو اسے سلام کرتا اور وہ اسے گالیاں دینا شروع کر دیتی.ایک دن کسی نے کہا یہ کیا ہے ؟ وہ تو تمہیں سلام کہتا ہے اور تم اسے گالیاں دیتی ہو.اس نے کہا یہ مجھے سلام کی خاطر سلام نہیں کرتا بلکہ چڑانے کے لئے سلام کہتا ہے کیونکہ یہ کہتا ہے ”بھابی کانی سلام" اس کی غرض سلام کرنا نہیں ہوتی بلکہ یہ ہوتی ہے کہ سلام کے پردے میں مجھے کانی کے.اس کے متعلق تو واقعہ موجود تھا وہ عورت کافی تھی.مگر ایسا بھی ہوتا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے متعلق فرماتے کہ لوگوں کو بھڑ کانے اور اشتعال دلانے کے لئے آپ کے خلاف اعتراضات کئے جاتے یہی حال غیر مبائعین کا تھا.مثلاً جب پچھلے سال اتحاد کی تحریک کی گئی تو پیغام صلح میں بار بار اس قسم کے مضامین لکھے گئے کہ میاں صاحب نے کفر کا مسئلہ چھوڑ دیا ہے.اس سے ان کی غرض یہ تھی کہ میں پھر اعلان کروں کہ کفر و اسلام کا مسئلہ قائم ہے اور وہ مسلمانوں کو بھڑکا ئیں کہ ان کے ساتھ تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے حالانکہ غیر مبائعین کا ہندوؤں اور عیسائیوں سے تعلق ہو سکتا ہے حتی کہ دیو بندیوں سے مل کر وہ کام کر سکتے ہیں مگر ہمارے ساتھ مسلمانوں کا مل کر کوئی کام کرنا انہیں
سال ۱۹۲۸ء خطبات محمود ۴۹۳ گوارا نہیں ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی غرض یہ نہیں کہ کفر کے فتوے کو مٹایا جائے بلکہ یہ ہے کہ ہمیں مٹایا جائے کیوں ان کا سارا زور ہمارے خلاف لگتا ہے.بے شک کبھی کبھی وہ بھی لکھ دیتے ہیں کہ مسلمانوں میں ایسے فرقے ہیں جو ایک دوسرے پر کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں ان کی مخالفت کرنی چاہئے.مگر کبھی نام لے کر انھوں نے اس طرح دیو بندیوں کو مخاطب نہیں کیا اور نہ ان کے خلاف اتنا زور صرف کیا ہے جتنا ہمارے خلاف کرتے ہیں.نام لے کر ہمارے ہی پیچھے پڑے رہتے ہیں.کیوں؟ اس لئے کہ وہ ہمیں کمزور سمجھتے ہیں اور مشہور ہے نزلہ بر عضو ضعیف می ریزد پس ہمارے خلاف اس قسم کے مضامین اخباروں میں شائع کرنے سے ان کی غرض محض لوگوں کو ہمارے خلاف بھڑکانا ہے نہ کہ مسئلہ کفر و اسلام کی تحقیق کرنا یا ہمیں اشتعال دلانے کے لئے اس طرح کرتے ہیں تاکہ ہم مشتعل ہو کر اس بحث میں پڑ جائیں اور اتحاد کی تحریک کو جو متفقہ اور متحدہ مقاصد کے لئے ہے چھوڑ دیں حالانکہ میں اس تحریک کے ساتھ ہی یہ بیان کرتا رہا ہوں کہ کفر و اسلام کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے.یہ ان امور کے متعلق ہے جو سب مسلمانوں میں مشترک ہیں اور جن کا اثر سب فرقوں کے مسلمانوں کو پہنچتا ہے.لیکن کہا جاتا ہے "دشمن بات کے ان ہوئی.یہی ان کی حالت ہے ان کی غرض پبلک کو ہمارے خلاف اشتعال دلانا اور بھڑکانا تھی.وہ یہ نہیں دیکھتے تھے کہ خواہ ہماری جماعت کتنی چھوٹی ہے مگر اس نے اسلام کی اتنی خدمت کی ہے جتنی سارے مسلمان مل کر بھی نہیں کر سکتے.اگر ان لوگوں کو اسلام سے محبت ہوتی تو خواہ ہمیں بد ترین کا فرہی سمجھتے یہ خیال کر لیتے کہ خدا تعالٰی ہم سے اسلام کی خدمت لے رہا ہے اور وہ فاسق وفاجر سے بھی اپنے دین کی خدمت لے لیتا ہے.چنانچہ ایک دفعہ جنگ میں لڑتے ہوئے ایک شخص کے متعلق رسول کریم ﷺ نے فرمایا یہ جہنمی ہے مگر خدا تعالی رجل فاسق وفاجر سے بھی دین کی خدمت لے لیتا ہے.کہ دیکھو جب وہ مسلمانوں کی طرف سے ہو کر لڑ رہا تھا اس وقت اس کے متعلق یہ تو کہا گیا کہ یہ جہنمی ہے مگر یہ نہیں کیا کہ اسے الگ کر دیا ہو ا سے لڑنے دیا.لیکن اس وقت جب کہ اسلام سے ساری دنیا کی لڑائی شروع ہے اور ہم اسلام کی حفاظت کے لئے مخالفین اسلام کا مقابلہ کرنے کے لئے کھڑے ہوئے یہ لوگ ہمارے پیچھے پڑ گئے اور لوگوں سے کہنے لگے یہ اسلام کے دشمن ہیں انہیں اسلام کی حفاظت کا کام کرنے سے روک دو.انہیں دیکھنا یہ چاہئے تھا کہ جو تحریک ہم نے مخص
خطبات محمود ۴۹۴ سال ۱۹۲۸ء کی ہے وہ اسلام سے دشمنی ہے یا اسلام کی خدمت اگر اسلام کی خدمت تھی تو کتنے تعجب کی بات ہے کہ محمد ال جیسے باغیرت انسان نے تو اس شخص کو مسلمانوں کے ساتھ مل کر کفار سے لڑنے دیا جو جہنمی تھا مگر انہوں نے یہ گوارا نہ کیا کہ ہم اسلام کی کوئی خدمت کر سکیں.کیا یہ رسول کریم ان سے بھی زیادہ اسلام کے لئے باغیرت تھے.بات یہ ہے کہ سوائے فساد ڈلوانے اور فتنہ پیدا کرنے کے ان کی کوئی غرض نہ تھی.تھے.پھر انہوں نے اسی پر بس نہ کی جب کچھ لوگوں نے ہم پر ذاتی الزام لگانے شروع کئے تو ان لوگوں کے بڑے حصہ نے ان بہتانوں کو پھیلانا شروع کیا.اس کا یقینی ثبوت ہمارے پاس موجود ہے.میں معزز غیر احمدیوں کے ثبوت پیش کر سکتا ہوں جنہوں نے ان کی مجالس کے حالات لکھے اور بتایا کہ کس حقارت آمیز طریق سے ان بہتانوں کا ذکر کیا جاتا تھا.بے شک بعض یہ بھی کہتے کہ ہمیں یقین نہیں آتا یہ باتیں درست ہوں مگر ساتھ ہی یہ بھی کہتے جب قادیان میں رہنے والے بیان کرتے ہیں تو کچھ نہ کچھ ہو گا ہی اور بعض تو قسمیں کھا کھا کر کہتے کہ یہ الزام درست ہیں.میں نے اس پر بھی صبر کیا اور خاموش رہا.آخر ان لوگوں نے اخبارات میں اس قسم کی باتیں لکھنی اور لکھائی شروع کر دیں جن سے انتہائی درجہ کا بغض اور عناد ظاہر ہو تا تھا.یہاں تک کہ ۱۷ جون کے جلسہ کے متعلق جو کچھ انہوں نے کیا وہ نہایت ہی قابل شرم تھا.اس پر آج اگر یہ لوگ شرم محسوس نہیں کریں گے تو ان کی نسلیں محسوس کریں گی.تب مجھے اعلان کرنا پڑا کہ ان لوگوں نے چونکہ معاہدہ توڑ دیا ہے اس لئے قرآن کریم کے حکم کے مطابق ہم بھی اعلان کرتے ہیں کہ ہم اس معاہدہ کے پابند نہیں ہیں.ہمارے اخبارات ابھی خاموش ہی تھے کہ ان کے اخبار نے شور مچانا شروع کر دیا کہ شروع سے ہی انہوں نے معاہدہ کی پابندی نہیں کی.اور ایسے ایسے فقرے جو کوئی شریف انسان چوہڑے چمار کے لئے بھی استعمال نہیں کرتا انہوں نے ہمارے متعلق استعمال کئے.جب انہوں نے ایسی باتیں لکھنی شروع کیں تو ہمارے اخبارات نے بھی جواب کی طرف توجہ کی.اس پر معاً انہیں معلوم ہو گیا کہ حملہ کرنا خواہ کتنا ہی شیریں اور خوش کن ہو لیکن حملہ برداشت کرنا آسان نہیں ہے.حملہ برداشت کرنے کے لئے بڑی ہمت کی ضرورت ہوتی اور بڑی اولوالعزمی کا کام ہوتا ہے.میں ہر ایک سزا بھگتنے کے لئے تیار ہوں اگر کوئی پبلک کمیشن فیصلہ کر دے کہ میں نے
خطبات محمود ۴۹۵ سال ۱۹۲۸ء غیر مبائعین کے حملوں کو ان کی نسبت کم برداشت کیا اور مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء نے مجھے پر جو حملے کئے ان سے زیادہ میری طرف سے ان پر کئے گئے.ایسا کمیشن کوئی بیٹھے یا نہ بیٹھے بہر حال انہیں معلوم ہو گیا کہ حملہ کرنا بہت آسان ہے لیکن حملہ کر کے اس کا خمیازہ بھگتنا آسان نہیں.انہیں پتہ لگ گیا کہ جن پر حملہ کیا جائے وہ بھی جواب دے سکتے ہیں اور ان کے ہاتھ میں بھی قلم ہے اور بہت مضبوط قلم ہے.اس پر معادہ فریق جس کے نزدیک معاہدہ کی پابندی کوئی حقیقت نہ رکھتی تھی، جس نے خدمت اسلام کا کوئی خیال نہ کیا تھا، جس نے رسول کریم ﷺ کی شان کے اظہار کے لئے جلسوں کو روکنے میں پورا زور لگایا تھا اور پھر جس نے نہایت کامیاب جلسوں کو حقارت کی نظر سے دیکھا تھا ایک اور رنگ اختیار کرنے پر مجبور ہو گیا.کیا یہ عجیب بات نہیں کہ وہی پیغام جو کہتا تھا کہ ۱۷ جون کے جلسوں میں مسلمانوں کو شریک نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس کی تحریک کرنے والے رسول کریم ﷺ کو خاتم النبین نہیں مانتے اپنے خاتم النبیین نمبر میں ایک عیسائی کا مضمون شائع کرتا ہے جس میں لکھا ہے.آپ کا اسلام اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ وہ آبائی ملت اور یہودیت کے مقابل مسیحیت کی تائید و تصدیق ہی تھا اس وجہ سے ہم مسیحی حضرت محمد مکی و مدنی کو مسیحیت کا مصدق یقین کرتے ہیں.مطلب یہ کہ رسول کریم ﷺ نے جو تعلیم دی وہ مسیحیت سے چڑائی ہوئی تھی.ان الفاظ میں دیکھو کس طرح رسول کریم ﷺ پر نعوذ باللہ عیسائی ہونے اور عیسائیت کی تعلیم چرانے کا الزام لگایا گیا ہے.مگر کیا کوئی ذلیل سے ذلیل دشمن بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ ہم رسول کریم کی جو تعریف کرتے وہ اس سے بھی ادنی اور گری ہوئی ہوتی.مگر اس عیسائی نے رسول کریم ﷺ کی ذات بابرکات پر جو حملہ کیا وہ تو اس قابل تھا کہ اسے "پیغام صلح" شائع کرنے اور ایک لفظ بھی اس کے خلاف نہ لکھے لیکن ہم نے تمام ہندوستان میں سے جون کے جلسے جو رسول کریم ﷺ کی تعریف و توصیف میں کئے وہ اس قابل نہ تھے کہ کوئی مسلمان ان میں شامل ہوتا.پس یہ سب باتیں انہوں نے ہمارے خلاف کیں اور ان کے کرنے میں قطعا نہ ہچکچائے.مگر جب ان کو جواب دیا جانے لگا تو معا یاد آگیا کہ انسان کو اچھے اخلاق رکھنے چاہئیں اور تہذیب اور متانت کے دائرہ کے اندر رہ کر دوسروں کے متعلق لکھنا چاہئے.یہ ان کی ایسی ہی مثال ہے
خطبات محمود سال ۱۹۲۸ء کہ جب ترکی اور بلغاریہ کی جنگ ہوئی اور جب تک ترک ہارتے رہے یورپین سلطنتیں کہتی رہیں ہم ان میں دخل نہیں دیتیں لیکن جب ترکی فوجیں بڑھنے لگیں اور بلغاریہ شکست کھانے لگا تو معا ان سلطنتوں کی فوجیں آگئیں اور انہوں نے کہہ دیا ہم لڑنے کی اجازت نہیں دیتے.اب لڑائی بہت وسعت اختیار کرتی جاتی ہے.اسی طرح جب یونان اور ترکی کی جنگ ہوئی تب بھی یہی کہا گیا.جب تک خیال رہا کہ یونان ترکی کے مقابلہ میں خوب جنگ کر سکتا ہے تو کہا گیا ترکوں کو کم از کم چھ ماہ یونان کے پہلے قلعہ کے فتح کرنے میں لگیں گے لیکن جب چند دن کے اندر اندر ترکی فوجیں یونان میں گھنے لگیں تو معا یہ کہہ کر دخل دے دیا کہ ہم لڑائی بڑھانے کی اجازت نہیں دے سکتے.اسی طرح غیر مبالکین نے کیا ہے.ان کی یہ صلح صلح نہ تھی اور یہ اخلاق اخلاق نہ تھے یہ محض اس ڈر کے مارے تھا کہ اب حملہ ان پر ہوا ہے.لیکن بہر حال کسی نیست سے ہو.ہم یہ اس لئے کہتے ہیں کہ ان کے اعلان کے بعد کئی جگہوں سے خطوط آئے ہیں کہ ان لوگوں نے زبانی حملے بڑے زور سے شروع کر رکھے ہیں جو مجالس میں کرتے ہیں اس سے میں سمجھتا ہوں ان کا یہ اعلان بناوٹی ہے.مگر باوجود اس کے میں اعلان کرنے والے پر بناوٹ کا الزام نہیں لگا تا کیونکہ رسول کریم ﷺ نے ایسے موقع کے متعلق فرمایا ہے کیا تم نے دل پھاڑ کر دیکھ لیا ہے.۲.میں نے چونکہ دل پھاڑ کر نہیں دیکھا اس لئے اس کے متعلق کچھ نہیں کہتا.اگر یہ اعلان ایک فرد کی طرف سے ہے تو میں اسے قبول کرتا ہوں لیکن اگر یہ اس گروہ کی طرف سے ہے تو کہوں گا کہ وہ لوگ اس پر نہیں چل رہے.بہر حال چونکہ یہ اعلان ایک ذمہ دار شخصیت کی طرف سے ہوا ہے اس لئے میں اپنے اخبارات سے کہتا ہوں کہ وہ بھی ذاتیات کے متعلق لکھنا چھوڑ دیں.کیونکہ خدا تعالی فرماتا ہے.وَإِنْ جَنْحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (الانفال (۶۲) جب تک وہ پھر یہ طریق اختیار نہ کریں ہمیں بھی اس پہلو کو چھوڑ دینا چاہیے.ہاں جس طرح افراد میں زبانی طور پر وہ ابھی تک الزام لگاتے اور ایسی باتیں پھیلاتے ہیں ہماری جماعت کے لوگوں کو بھی اجازت ہے کہ وہ بھی زبانی باتیں بیان کریں.اسی طرح مذہبی مسائل میں غیر احمدیوں کو ہمارے خلاف اکسانے اور اشتعال دلانے کا جو طریق انہوں نے اختیار کر رکھا ہے اور اب اپنا سارا زور اسی پر صرف کر رہے ہیں ہمیں بھی اس پہلو سے ان کا مقابلہ کرنا چاہئے.میں اس سے نہیں روکتا بلکہ اسے جاری رکھنے کے لئے کہتا ہوں تاکہ ان لوگوں کو یہ بھی معلوم ہو جائے کہ مذہب کی غرض
خطبات محمود ۴۹۷ سال ۴۱۹۲۸ کے خلاف لوگوں کو اکسانا اور مشتعل کرنا نہیں اور نہ اس طرح کسی کے عقائد کی صداقت ثابت ہو سکتی ہے مگر ذاتیات کے متعلق کچھ نہیں لکھنا چاہئے.اس میں شک نہیں کہ یہ پابندی بہت بھاری معلوم ہوگی اور کہا جائے گا کہ وہ لوگ ایک عرصہ تک بہتان سازی اور افتراء پردازی کرتے رہے ہیں لیکن جب ہم نے جواب دینا شروع کیا ہے تو روک دیا گیا ہے.مگر یہ پابندی خواہ کتنی ہی تلخ ہو بہر حال اس کا ماننا ضروری ہے کیونکہ یہ اس شیریں ہستی کی طرف سے ہے جس سے شیریں اور کوئی چیز نہیں ہے.چونکہ ہمارا مولا کہتا ہے کہ ایسے موقع پر تم یوں کرو اس لئے ہمیں اسی طرح کرنا چاہئے اور خوشی سے کرنا چاہئے.پس تم اس تلخ گھونٹ کو پی لو کیونکہ یہ سب سے پیارے کی طرف سے پلایا جا رہا ہے.اگر اس کا کوئی نقصان ہو گا تو یاد رکھو ہمارا آقا غدار اور دھوکا باز نہیں.وہ بے وفائیوں کو نظر انداز کر کے بھی وفا کرتا ہے.اگر اس کے لئے ہم تکلیف اٹھا ئیں گے تو کیوں نہ ہمارے نقصان کو دور کرنے کا انتظام کرے گا.میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے اخبار نویس اس بات کو مد نظر رکھیں گے کہ اخبار میں کوئی ایسی بات نہ ہو جو ذاتیات پر حملہ ہو.باقی رہا لوگوں میں زبانی باتیں کرنا اگر غیر مبائعین اس میں بھی ہتھیار ڈال دیں گے اور فتنہ انگیزی کے اس طریق سے باز آجائیں گے تو ہم بھی ان کے متعلق زبانی باتیں بیان کرنا بند کریں گے.اس سے پہلے معاہدہ کا جو تلخ تجربہ ہوا ہے اس کی وجہ سے کہنا پڑتا ہے کہ آئندہ اگر کوئی معاہدہ ہوا تو ایک کمیٹی بنانا پڑے گی جو یہ دیکھتی رہے کہ کون اس معاہدہ کی خلاف ورزی کرتا ہے اور خلاف ورزی کرنے والے کے متعلق ضروری کارروائی کرے.مگر میرے اس خطبہ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ غیر مبائعین نے مقدمہ بازی کے جو نوٹس دیتے ہیں وہ چھوڑ دیں.انہوں نے جو نوٹس دیئے ہیں ان کے متعلق میں کہتا ہوں بے شک چلا ئیں اور ضرور چلا ئیں.مؤمن کبھی ڈر کر ہتھیار نہیں پھینکا کرتا.ہم نے پہلے بھی ان پر حملے نہ کئے تھے مجبوراً دوستوں کو ان کے بار بار کے حملوں کے جواب میں قلم اٹھانا پڑا تھا.تاہم ابھی دو ہی جمعے گذرے ہیں کہ میں نے خطبہ جمعہ میں ایک مضمون کے متعلق جتنی سختی سے کوئی کچھ کہہ سکتا تھا نوٹس لیا لیکن میں ہر ایک کو اس بات کے لئے مجبور نہیں کر سکتا کہ وہ اتنا ہی حوصلہ دکھائے جتنا میں خود دکھاتا ہوں.میرے لئے اور مقام ہے اور دوسروں کے لئے اور.پس میں نے ذاتیات کے متعلق لکھنے سے جو روکا ہے یہ اس لئے نہیں کہ غیر مبالکین مقدمات چھوڑ دیں جب وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی ہتک ہوئی ہے اور اس ہتک کا علاج سوائے مقدمہ بازی کے اور کوئی
خطبات محمود ۴۹۸ سال ۱۹۲۸ء نہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ جب تک پانچ ہزار اور پچاس ہزار کی رقوم ان کی جیبوں میں نہ جا پڑیں ان کی عزت قائم نہیں ہو سکتی تو وہ اس کے لئے پورا زور لگا ئیں.ہم کب چاہتے ہیں کہ کسی کی ذلت ہو اور وہ ذلت کو دور کرنے کی کوشش نہ کرے.وہ مقدمہ کرنا چاہتے ہیں تو کریں.آگے اللہ تعالی کی مشیت فیصلہ کرے گی کہ انہیں پچپن ہزار ملتا ہے یا نہیں ملتا.اس معاملہ سے میں تعلق نہیں رکھتا اس کا تعلق ایڈیٹر سے ہے جنہوں نے مضمون شائع کیا وہ اس کے ذمہ دار ہیں.مگر ذاتیات کے متعلق نہ لکھنے کا فیصلہ میری طرف سے ہے ان کی طرف سے نہیں.اور وہ ہتھیار ڈالنے کے لئے تیار نہیں جیسا کہ اخبار سے پتہ لگتا ہے وہ کسی نہ کسی طرح اس معاملہ کا ذکر لے آتے ہیں.لیکن میں کہتا ہوں جب دشمن نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں تو تم بھی اسے چھوڑ دو کیونکہ قرآن کریم کہتا ہے.وَإِنْ جَنَحُوا السّلْمِ فَا جَنَحَ لَهَا.اس کے بعد ایک اور بات میں کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ انگلستان کے تبلیغی مشن کا کام بہت ترقی کر گیا ہے.اگر چہ مشن میں کام کرنے والوں نے کام کی زیادتی کو پیش نہیں کیا سوائے خان صاحب منشی فرزند علی صاحب کے جو اب وہاں گئے ہیں.انہوں نے لکھا ہے مبلغین کے علاوہ دو سرے دوست جو ولایت گئے وہ لکھتے اور واپنی پر کہتے رہے ہیں کہ اب کام دو آدمیوں کی طاقت سے بہت بڑھ گیا ہے.ماہوار رسالہ کا تیار کرنا طلباء کا خیال رکھنا، مسجد کی نگرانی اور آبادی کا کام کرنا ، رپورٹیں لکھنا، مشن کا حساب کتاب رکھنا اس قسم کے بہت سے کام ہیں.یہاں سے جب انگریزی ریویو شائع ہوتا تھا تو اس کے لئے دو ایڈیٹر مقرر تھے ان کے علاوہ اور عملہ بھی تھا مگر وہاں صرف دو آدمی ہیں جنہیں رسالہ کا سارا کام کرنے کے علاوہ اور بھی بہت سے کام کرنے ہوتے ہیں.لوگوں میں اسلام کی تبلیغ کرنا نو مسلموں کی تعلیم و تربیت کرنا مختلف سوسائٹیوں میں لیکچر دینا.غرض کام بہت وسیع ہو چکا ہے اور دو آدمیوں کی ہمت سے زیادہ ہے اس لئے میں نے تجویز کی ہے کہ وہاں ایک اور مشنری رکھا جائے.مگر بجٹ میں اس کے اخراجات کے لئے گنجائش نہیں ہے اس لئے یہ تجویز کی گئی ہے کہ اس کے اخراجات ہماری جماعت کی عورتیں مہیا کریں.اس مبلغ کا سالانہ خرچ چار ہزار روپے کے قریب ہو گا.اور خیال یہ ہے کہ ایک انگریز نو مسلم کی تربیت کر کے اس سے یہ کام لیا جائے.وہاں کے لوگ اس کی باتیں زیادہ توجہ سے سن سکیں گے.اور وہ بھی ان کے مزاج اچھی طرح سمجھتا ہو گا اس کے لئے عورتوں میں تحریک کی گئی ہے.اس موقع پر پچاس ساٹھ کے قریب عورتیں ہوں گی ان سے
خطبات محمود ۴۹۹ سال ۱۹۲۸ء تین سو کی رقم وصول ہو گئی ہے اور پانچ سو کا وعدہ ہوا ہے.کل (بروز ہفتہ) پھر ارادہ ہے کہ عورتوں میں یہ تحریک کی جائے امید ہے ہزار بارہ سو روپیہ یہاں کی مستورات کے چندہ سے ہو جائے گا.باہر کی عورتوں سے بھی امید ہے کہ وہ اس تحریک میں بخوشی حصہ لیں گی.چونکہ لنڈن مشن کا بجٹ بہت تھوڑا ہوتا تھا اس لئے اس کے ذمہ اخراجات کا بقایا ہو تا رہا ہے جو ۵ ہزار کے قریب ہے.لندن کی مسجد چونکہ احمدی عورتوں کے چندہ سے بنی ہے اس لئے انہی کی ہے.مردوں کا روپیہ مکان خرید نے اور تجارت پر لگایا گیا اور کچھ روپیہ یہاں جماعت کے لئے جائداد خریدنے پر صرف کیا گیا تھا.اس طرح چونکہ مردوں کا روپیہ خرچ ہوا تھا اس لئے لندن کی مسجد عورتوں کے اس روپیہ سے بنی ہے جو مسجد کے لئے جمع کیا گیا تھا.چونکہ وہ مسجد عورتوں ہی کی ہے اس لئے اس مشن کا سارا خرچ عورتوں کو ہی برداشت کرنا چاہئے.اس سال نو ہزار کی تحریک عورتوں میں کی جاتی ہے.یہ تحریک اخبار میں بھی چھپ جائے گی.اس طرح باہر کی ہے اس لئے اس مشن کا سارا خروج خواتین اس میں حصہ لے سکیں گی.یہاں کے دوست بھی اپنے اپنے گھروں میں اسے پہنچا دیں.اگر اب کے تحریک سے رقم بڑھ جائے گی جیسا کہ خدا کے فضل سے ہماری تحریکات کے متعلق ہوتا ہے تو اگلی دفعہ اس رقم کو منہا کر کے بقیہ کے لئے تحریک کی جائے گی مثلاً اگر اس سال تحریک سے ایک ہزار زائد رقم جمع ہو گئی تو اگلے سال چار ہزار کی بجائے ۳ ہزار کے لئے تحریک کی جائے گی.میں سمجھتا ہوں تمام دنیا میں پھیلی ہوئی جماعت کی عورتوں کے لئے ؟ ہزار کی رقم نہایت قلیل ہے اور وہ بہت جلدی اسے پورا کر دیں گی.اس کے متعلق میں یہ بھی ہدایت کرتا ہوں کہ مرد اس تحریک میں حصہ نہ لیں.کئی مرد یہ سمجھ کر کہ عورت کے پاس کچھ نہیں اپنے پاس سے روپیہ دے دیتے ہیں مگر اس طرح عورتوں میں وہ روح نہیں پیدا ہو سکتی جو خدا کے لئے اپنا مال دینے سے پیدا ہوتی ہے.اس لئے مردوں کو چاہئے کہ عورتوں کو اپنے پاس سے دینے دیں خواہ پیسہ دو پیسہ ہی دیں.اگر کسی عورت کے پاس اک پیسہ بھی نہیں تو وہ اپنے خرچ سے بچا کر دے.مگر اپنے پاس سے دے مرد سے لے کر نہ دے.زمیندار عورتیں عموماً شکایت کیا کرتی ہیں کہ مرد انہیں کچھ نہیں دیتے وہ کس طرح چندہ دیں.میں کہتا ہوں اپنے پاس سے دو مرد کی جیب سے لے کر نہ دو.چنکی چنکی آئے ہی سے بچا کر جو کچھ جمع ہو وہ دو مگر اپنے پاس سے دو.اور اگر کسی کے پاس کچھ بھی نہیں مگر وہ خدا کی راہ میں دینے کی خواہش رکھتی ہے تو وہ بھی ثواب کی مستحق ہوگی کیونکہ اللہ تعالٰی اخلاص دیکھتا
۵۰۰ سال ۱۹۲۸ء ہے یہ نہیں دیکھتا کہ کوئی اس کی راہ میں زیادہ دیتا ہے یا تھوڑا دیتا ہے.اگر اللہ تعالی کا دین روپوؤں کا ہی محتاج ہوتا تو آسمان سے تھیلیاں اتارتا.پس عورتوں کو چاہئے کہ اپنے پاس سے دیں خواہ وہ کتنا ہی قلیل ہو.ہاں اس طرح کیا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی بچہ شوق سے دینا چاہے اور اس کے پاس کچھ نہ ہو تو اسے ماں باپ دے دیں اس میں کوئی حرج نہیں.عورتوں کے پچھلے ہی درس میں میں نے دیکھا ایک بچہ نے اپنی ماں سے ایک پیسہ مانگ کر چندہ میں دیا.اس سے چندہ میں تو کوئی اضافہ نہ ہوا مگر اس میں اخلاص کی روح پیدا ہو گئی.مخالف تو اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ احمدی چندے دیتے دیتے اکتا گئے ہیں اور اب چندوں سے بچنا چاہتے ہیں.لیکن خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت کو جو اخلاص عطا کیا ہے وہ ایسا ہے؟ کہ اس کی نظیر کہیں نہیں مل سکتی.میں نے ایک خاص امر کے متعلق چندہ کی تحریک کی تھی اور ابھی اسے شائع نہیں کیا تھا کہ بعد میں شائع ہو جائے گی.پندرہ ہزار کے لئے میں نے چند دوستوں کو یہ تحریک کی تھی اور پچاس، سو دو سو تین سو کی رقمیں مقرر کی تھیں.میں نے دیکھا ہے کہ اس تحریک کو اتنا مخفی رکھنے کے باوجود چار دوست تو ایسے ہیں جو رقوم بھیجنے کا وعدہ کر چکے ہیں اور بعض نے رقوم بھیج بھی دی ہیں اور ساتھ شکایت بھی کی ہے کہ آپ نے ہمیں کیوں اس تحریک کی خبر نہ دی.ان آدمیوں میں جنھوں نے روپیہ بھیجنے کا بطور خود وعدہ کیا ہے دو ایک ہی جگہ کے ہیں اور ایسے ہیں جن کے رشتہ داروں کو یہ تحریک بھیجی گئی تھی.انھوں نے ان سے سن لی اور اس طرح شرکت اختیار کرلی.لیکن ہو سکتا ہے کہ اور بھی ایسے مخلص ہوں جنھیں اس تحریک کا علم نہ ہونے کا گلہ ہو.اگر چہ میں نے اخلاص کے لحاظ سے نہیں بلکہ اس لئے کہ ان سب کے نام اور ان کے حالات سے کہاں مجھے واقفیت ہو سکتی ہے جو نام مجھے یاد آئے اور جن کے حالات کا مجھے علم تھا انھیں لکھا تھا.تاہم چونکہ اس بارے میں شکوہ پیدا ہوا ہے اس لئے میں اعلان کرتا ہوں کہ جو دوست اس تحریک میں حصہ لینا چاہیں وہ مجھے لکھ دیں ان کو بھی شمولیت کا موقع دیا جائے گا.مجھے ان احباب کے اخلاص کو دیکھ کر خوشی بھی ہوئی اور ساتھ رشک بھی پیدا ہوا کہ ایک مخفی تحریک کی جاتی ہے اس پر وہ اس لئے خوش نہیں ہوتے کہ انھیں تحریک میں شمولیت کے لئے نہیں کہا گیا بلکہ وہ خود بخود اس میں حصہ لیتے ہیں اور نہ صرف حصہ لیتے ہیں بلکہ شکوہ کے خطوط لکھتے ہیں کہ ہمیں اس قابل کیوں نہیں سمجھا گیا کہ ہمیں بھی اس میں شمولیت کا موقع دیا جاتا.ایک خط پڑھ کر تو بہت ہی لطف آیا جو ایک طالب علم نے لکھا.وہ لکھتا ہے غیر
خطبات محمود ۵۰۱ سال ۶۱۹۲۸ مبائین نے ہمارے راستہ میں جو روکیں ڈالی ہیں ان کا مجھ پر یہ اثر پڑا ہے کہ میں ایک سو رو پید اپنے پاس سے دینے کے لئے تیار ہوں.ایک ہزار احمدی اپنے ہوں جو ایک ایک سو روپیہ دیں اور اس طرح ایک لاکھ روپیہ جمع کر کے پیغامی فتنہ کو دور کرنے پر صرف کیا جائے.اس خط کو پڑھ کر مجھے جنگ بدر کا وہ نظارہ یاد آگیا جس کے متعلق عبد الرحمن بن عوف نے بیان کیا کہ اس موقع پر میں اپنے دائیں بائیں پندرہ پندرہ سالہ چھو کرے دیکھ کر افسوس کر رہا تھا کہ آج میں کیا لڑوں گا جب کہ میرے بازو اس قدر کمزور ہیں.میں اسی خیال میں تھا کہ ایک طرف سے ایک لڑکے نے مجھے کہنی مار کر پوچھا.چچا وہ ابو جہل کون ہے جو رسول کریم کو دکھ دیا کرتا تھا میرا جی چاہتا ہے میں اسے قتل کروں.میں اسے جواب نہ دینے پایا تھا دوسرے نے کہنی مار کر کہا مجھے ابو جہل تو دکھائیے میں اس پر حملہ کرنا چاہتا ہوں.عبد الرحمن بن عوف کہتے ہیں میں ان کے سوال سن کر سخت شرمندہ ہوا.کیونکہ میرے دل میں بھی اس وقت یہ نہ آیا تھا کہ ابو جہل کو جو لشکر کفار کا کمانڈر انچیف تھا میں قتل کر سکوں گامگران بچوں کا یہ حوصلہ تھا کہ ابو جہل سے نچلے درجہ والے کو قتل کرنے کے لئے تیار نہ تھے.سے طالب علم نے جو خط لکھا ہے یہ بھی بہت بڑے اخلاص کی علامت ہے.ایک طالب علم کی کیا بساط ہے کہ سو روپیہ چندہ میں دے.وہ اپنے آپ کو سخت تنگی میں ڈال لے اپنے کھانے اور کپڑے اور دوسری ضروریات کو بالکل کم کر دے تب ایک عرصہ میں سو روپیہ جمع کر سکتا ہے.پھر وہ کسی امیر کا لڑکا نہیں کہ اسے بہت کافی اخراجات ملتے ہیں میں جانتا ہوں معمولی گھرانہ کا لڑکا ہے.مگر اس کا خط بتاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت کے بچوں تک کو کیسا اخلاص بخشا ہے.میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالٰی ہماری سب جماعت کو ایسا ہی اخلاص بخشے اور اس اخلاص کے ساتھ اعمال کی بھی توفیق دے.آمین بخاری کتاب الجھاد باب ان اللہ لیؤید الدین بالرجل الفاجر - مسلم کتاب الایمان باب تحریم قتل الکافر بعد ان قال لا الہ الا اللہ بخاری کتاب المغازی باب فضل من شهد بدرا الفضل ۲۳ / اکتوبر ۱۹۲۸ء)
۵۰۲ سال ۱۹۲۸ء أشِدَّاء عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاء بَيْنَهُم کے مصداق بنو فرموده ۲/ نومبر ۱۹۲۸ء) تشهد، تعوز اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: قرآن کریم میں اللہ تعالٰی نے مومنوں کی ایک صفت بیان فرمائی ہے.اس صفت پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عمل کیا اور ایسا عمل کیا کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.لیکن تعجب آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے صحابہ کے بعد مسلمانوں سے وہ صفت بالکل اُڑ گئی اور میں سمجھتا ہوں کہ ابھی تک وہ ہماری جماعت میں بھی پوری طرح قائم نہیں ہوئی.بعض صفات ایسی ہوتی ہیں جو قدر تا ہر نیک آدمی میں پائی جاتی ہیں اور ان میں کسی خاص قوم یا مذ ہب سے تعلق رکھنے والوں کی خصوصیت نہیں ہوتی.وہ بھی بے شک اپنی ذات میں اچھی ہوتی ہیں اور ان کے حصول کے لئے بھی کوشش کرنا ضروری ہوتا ہے.لیکن یہ صفت جس کا میں ذکر کر رہا ہوں اس متعلق تقریباً تمام الہامی کتب میں پیشگوئیاں موجود ہیں اور قرآن کریم نے بھی اس کو بطور پیشگوئی کے ہی ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے ماننے والے اس قسم کی خصوصیات اپنے اندر رکھتے ہوں گے.اور وہ صفت یہ ہے کہ آپ کے ماننے والے اشداء عَلَى الكُفَّارِ رُحَمَاء بَيْنَهُمُ (الفتح ۳۰) پر عمل کرنے والے ہوں گے.یعنی وہ لوگ رسول کریم ال کو نہ ماننے والوں کے مقابلہ میں تو بہت سخت ہوں گے لیکن جو مانے والے ہوں گے ان کے ساتھ ان کا معاملہ بہت ہی رحم کا ہو گا.یعنی ایک طرف تو وہ غیرت میں اس قدر بڑھے ہوئے ہوں گے کہ دین کے خلاف سننا برداشت ہی نہیں کر سکیں گے اور دوسری طرف محبت میں اتنا بڑھے ہوئے ہوں گے کہ اپنے بھائیوں کا کوئی قصور انہیں نظر ہی نہیں آئے گا.
خطبات محمود ۵۰۳ سال ۱۹۲۸ء اس کے یہ معنی نہیں کہ آپس میں ان کی کبھی شکر رنجی ہوگی ہی نہیں یہ ناممکن ہے اور یہ بات علم غیب سے تعلق رکھتی ہے.اور علم غیب نہ سب لوگوں کو حاصل ہو سکتا ہے اور نہ سب لوگ شکر رنجی سے آزاد ہو سکتے ہیں.جو بات بری ہے وہ اس حالت کی شدت ہے.یعنی معمولی شکر رنجی کی بات کو اس طرح چلانا کہ گویا زمین و آسمان کے قیام کا مدار اسی ایک بات پر ہے.شکر رنجی تو بڑے بڑے لوگوں میں بھی ہو جاتی ہے خود رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بھی حضرت ابو بکر اور حضرت عمر میں شکر رنجی ہو گئی اور حضرت عمر کی طبیعت چونکہ تیز تھی.اس لئے ضروری تھا کہ قدرتاً ان سے زیادہ تیزی ظاہر ہوتی لیکن اس جھگڑے کے بعد حضرت ابو بکر اس بات کو بالکل دل سے نکال کر رسول کریم ﷺ کی مجلس میں حاضر ہو گئے اور حضرت عمر کو جب محسوس ہوا کہ آپ غلطی پر ہیں تو وہ بھی حضور کی مجلس میں دوڑے ہوئے آئے اور چاہا کہ رسول کریم کے سامنے اپنی براءت کریں.رسول مقبول ا نے آپ کے فعل کو ناپسند فرمایا لیکن حضرت ابو بکر نے آپ کی سفارش کی.گویا جب رسول کریم ﷺ حضرت عمرہ پر ناراض ہونے لگے تو اس بات کا سب سے زیادہ دکھ حضرت ابو بکر کو ہی ہوا اور یہ رُحَمَاء بَيْنَهُمْ کی مثال ہے.گویا جس طرح ایک ماں اپنے بچے کے متعلق اس کے استاد کو کہتی ہے کہ یہ بہت شریر ہے اسے خوب مارو لیکن جب وہ مارتا ہے تو سب سے زیادہ دکھ بھی ماں کو ہی ہوتا ہے.یہی مثال صحابہ کی تھی اور ا شِدَاء عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاء بَيْنَهُمْ کی صفت ان میں کمال درجہ پر تھی.وہ لوگ جو برسوں دشمنوں کے مقابل میں اپنی جانیں قربان کرتے رہے.جن کے دل بہادری سے پُر تھے اور جن میں قوت برداشت اس قدر زیادہ تھی کہ شدید ترین زخموں کی حالت میں بھی اپنے نفس سے بے خبر ہوتے تھے.ایک صحابی کی جنگ احد میں دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئیں بلکہ ان کا تمام دھڑ تلوار سے چرا ہوا تھا.ان کا ایک رشتہ داران کو بہت تلاش کرنے کے بعد ان تک پہنچا اب ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں انسان کو کس قدر مدد کی ضرورت ہوتی ہے.لیکن ان میں برداشت کی طاقت اس حالت میں بھی اس قدر تھی کہ جب وہ رشتہ دار تیمار داری کی فکر کرنے لگا تو انہوں نے کہا کہ ان باتوں کو چھوڑ دو اور میرے پاس ہو کر میری بات سنو.جس وقت وہ پاس بیٹھے تو پہلے ان کا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ اب میں رسول مقبول ا سے نہیں مل سکتا اس لئے میں تمہارے ذریعہ سے رسول کریم ﷺ سے مصافحہ کرتا ہوں.اور دوسری نصیحت میں یہ کرتا ہوں کہ میرے اعزاء کو کہہ دینا کہ میں مر رہا ہوں اور تمہیں یہ
خطبات محمود ۵۰۴ سال ۴۱۹۲۸ وصیت کرتا ہوں کہ میں دنیا کی سب سے زیادہ قیمتی چیز یعنی محمد رسول اللہ پیچھے چھوڑے جاتا ہوں ان کی حفاظت میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرنا یہ کہا اور جان دے دی.کے ان کو اپنی موت نظر آرہی تھی ، بدن زخموں سے چور تھا، ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں لیکن برداشت کا یہ حال تھا کہ کسی تکلیف کی طرف دھیان نہ تھا.دوسری طرف رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ کی ایک مثال ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح ان کا ہر شخص دوسرے کے لئے قربانی کرتا تھا.عبد اللہ بن ابی بن سلول رسول کریم ﷺ کے اشد ترین دشمنوں میں سے تھا.ایک دفعہ اس نے آپ کی شان میں گستاخی کی.آپ کو جب اس کا علم ہوا تو اس کا بیٹا آپ کے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ اگر آپ میرے باپ کو مارنا چاہیں اور اس کی سزا اس سے کم ہو بھی کیا ہے کیونکہ اس نے آپ کی شان میں گستاخی کی ہے تو مجھے حکم فرما ئیں تا میں خود اس کی گردن اڑا دوں اس لئے کہ اگر آپ نے کسی اور کو حکم دیا تو ممکن ہے کہ اسے دیکھ کر کبھی مجھے جوش آجائے اور میں اپنے باپ کا قاتل سمجھ کر اسے کوئی نقصان پہنچا دوں.کلمہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کنار تم تھا.وہ اس لئے اپنے باپ کو اپنے ہاتھ سے مارنا چاہتا ہے کہ مبادا اس کے ہاتھ سے کسی مسلمان بھائی کو نقصان پہنچے اور دل میں کسی اور بھائی کی برائی کا خیال پیدا ہو.ہر شخص کا باپ ہوتا ہے اور ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اپنے باپ کو اپنے ہاتھ سے مارنا کس قدر مشکل کام ہے.لیکن وہ اس لئے اپنے باپ کو مارنے پر آمادگی ظاہر کرتا ہے کہ تاکسی بھائی کی برائی کا خیال اس کے دل میں پیدا نہ ہو.لیکن افسوس ہے کہ اب مسلمانوں سے رُحَمَاء بَيْنَهُمْ کی صفت اُڑ چکی ہے.میں اپنے دوستوں کو بھی دیکھتا ہوں کہ وہ بھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑ پڑتے ہیں اور ایک دوسرے سے بولنا چھوڑ دیتے ہیں مل کر کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں بلکہ خود بھی کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں.چھوٹا سا معاملہ ہوتا ہے لیکن کہتے ہیں جب تک فلاں آدمی کو پیس نہ ڈالا جائے ہم چین نہیں لیں گے اور فلاں کو یوں سزا کیوں نہیں دی گئی.اتنا نہیں سوچتے کہ میرے ساتھ بھی ایسے واقعات ہوتے ہیں.کیا جو لوگ میرے خلاف باتیں کرتے ہیں میں ان کو پیس ڈالتا ہوں لیکن ان لوگوں کی تمام توجہ اسی بات کی طرف ہوتی ہے کہ ان کے مخالفوں کو پیس ڈالا جائے.حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرماتے تھے کہ میں نے ایک دفعہ لڑکوں سے پوچھا کہ جو لڑ کے قصور کرتے ہیں ان کا علاج کیا ہے.اس پر ایک لڑکے نے جواب دیا کہ بس اٹھتے بیٹھتے جو تی.آپ اس پر بہت ہنسا کرتے تھے اور فرماتے کہ اس نے یہ نہ سوچا کہ
خطبات محمود ۵۰۵ سال ۱۹۲۸ء کبھی مجھ سے بھی قصور ہو سکتا ہے.دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں جس سے قصور یا غلطی نہ ہوتی ہو.اور غلطی یا قصور انسان کو سزا کا مستحق نہیں بناتا.جو چیز سزا کی مستحق بناتی ہے وہ تو اتر قصور ہے.یا ایسا قصور جس سے بنی نوع انسان کا ایسا نقصان ہوا ہو جس کا ازالہ ضروری ہو یا جس کے لئے شریعت نے حدود قائم کی ہوں.یا جس سے کسی کی ذات کو نہیں بلکہ خود سلسلہ کو نقصان پہنچتا ہو.گو ان میں بھی کسی حد تک عفو سے کام لیا جاتا ہے.باقی ذاتی جھگڑے ایسے نہیں ہوتے کہ انہیں اتنی اہمیت دی جائے.رسول کریم ﷺ سے کسی نے پوچھا.یا رسول اللہ کتنے قصور بھائی کے معاف کرنے چاہئیں.آپ نے فرمایا دن میں ستر بار کہ اب ایسا کون انسان ہے جس کے اس کا بھائی دن میں ستر بار قصور کرے.کئی دن ایسے گزر جاتے ہیں کہ کوئی ہمارا ایک بھی قصور نہیں کرتا اور شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جس میں کوئی بھائی ایک یا دو تصور کرے.مگر رسول مقبول ﷺ کا ارشاد ہے کہ دن میں ستر دفعہ معاف کرو.اس کا یہ منشاء تو یقیناً نہیں ہے کہ کوئی بات خواہ کیسی خطرناک ہی کیوں نہ ہو اس کا کوئی نوٹس ہی نہ لو لیکن یہ ضرور ہے کہ ایسے وقت دخل دو جب کوئی اور چارہ نہ رہے اور پھر بھی عفو اور نرمی سے کام لو.میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے جھگڑوں کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ارد گرد کے لوگ بھی کسی نہ کسی پارٹی میں شریک ہو جاتے ہیں یہ بہت خطرناک نقص ہے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ سب مؤمن بھائی بھائی ہیں.۵.اس لئے کسی کو کسی پارٹی میں شامل نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اگر ایسا و کسی جھگڑے کا فیصلہ نہیں ہو سکے گا.فیصلہ کے لئے غیر جانبدار رہنا نہایت ضروری ہے.تو ایسے جھگڑوں میں بہت سا قصور ان لوگوں کو ہوتا ہے جو خواہ مخواہ حصہ لینے لگ جاتے ہیں.دوستوں کو چاہئے کہ جہاں کہیں بھی جھگڑا ہو مل کر جائیں اور فورا تصفیہ کرا دیں اور یہی ذریعہ ہے جس سے جھگڑے طے ہو سکتے ہیں.اگر پارٹیاں بنائی جائیں تو پھر تصفیہ بہت مشکل ہو جاتا ہے.افسوس ہے کہ وہ صفت جو مسلمانوں کی حضرت موسی نے توریت میں بیان کی اگر وہ بھی مسلمان میں نہ پائی جائے.اس پیشگوئی کے تو یہ معنے ہیں کہ یہ صفت نمایاں ہونی چاہئے.پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اَشدَاء عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاء بَيْنَهُمْ کی صفت اپنے اندر را کریں.دشمن سے سختی اور دوستوں سے نرمی کا برتاؤ کریں تاکہ ہماری طاقت دشمنوں کے مقابلہ میں خرچ ہو آپس میں نہ ہو.آپس میں نرمی محبت اور پیار پیدا کرو - غیرت اور سختی دشمن کے مقابلہ میں خرچ کرو.میں تو سمجھتا ہوں کہ ہم میں لڑنے کی جو طاقت ہے وہ اگر ساری بھی جمع
خطبات محمود 0-4 سال ۶۱۹۲۸ کر لی جائے تو ہمارے دشمن اس قدر زیادہ ہیں کہ پھر بھی وہ ان کے لئے کافی نہیں ہو سکتی.اور اگر اس کا کچھ حصہ اپنوں کے مقابل میں بھی ضائع کر دیا جائے تو پھر تو اور بھی نقصان ہو گا.کوئی فوج ایسی نہیں جو گولہ بارود اپنے ساتھیوں کے لئے ہی خرچ کرتی رہے اور پھر دشمن پر فتح یاب ہونے کی بھی امید رکھے.انسان کو خدا تعالیٰ نے محدود پیدا کیا ہے اس کی طاقتیں بھی محدود ہیں.جذبات وہ ذخیرے ہیں وہ سارے ہیں جن پر کھڑا ہو کر انسان کام کر سکتا ہے اگر انہیں ضائع کر دیا جائے تو قوت بھی ضائع ہو جاتی ہے.تعجب ہے کہ اس علمی زمانہ میں بھی لوگوں نے جذبات کی قوت کو نہیں سمجھا.محبت ، غیرت ، رحم، لڑائی کی طاقت ، جذبہ انتقام یہ سارے اصل میں سہارے ہیں انجن ہیں جن سے جسم کی گاڑی چلتی ہے.ان کو ضائع کر کے مت سمجھو کہ ہم نے اپنا کیا نقصان کیا ہے.جس طرح انجمن سے دھواں نکالنے سے سٹیم ضائع ہو جاتی ہے اسی طرح خواہ مخواہ غصہ ہونے سے بھی انسان کی قوت عملیہ کا ایک حصہ ضائع ہو جاتا ہے.بعض دفعہ ان معمولی باتوں کا بھی مستقبل پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے.اگر ایک انسان کی زندگی کا انجن چالیس میل کی رفتار سے چلنا تھا تو ان نا واجب غموں سے ہیں میل ہی چلے گا.پس نادان ہے وہ شخص جو کہتا ہے کہ غصہ تو میں دوسرے شخص پر ہوا ہوں میرا اس سے کیا نقصان ہوا وہ نہیں جانتا کہ وہ اپنی سٹیم ضائع کر رہا ہے.لڑائی سے دیگر نقصانات کے علاوہ اپنی قوت عملیہ کو بھی سخت نقصان پہنچتا ہے پس دوستوں کو چاہئے کہ وہ رُحَمَاء بَيْنَهُمْ کی پیشگوئی کو پورا کرنے کی کوشش کریں.پیشگوئیوں کا پورا کرنا بھی فرض ہوتا ہے اور انسان کو خدا تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنا دیتا ہے.یہ جو مینارہ ہے جس پر قریباً اٹھارہ ہزار روپیہ خرچ آیا ہے یہ کس کام کے لئے ہے.یاد رکھو اس کا مقصد بھی محض ایک پیشگوئی کو پورا کرنا ہے.لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ روپیہ ضائع کر دیا گیا.ان نادانوں سے پوچھو کہ تمہارا کیا گیا.جن لوگوں کا روپیہ خرچ ہوا انہیں اگر حکم دیا جاتا کہ اس میں اپنے بدن کی ہڈیاں لگا دو تو وہ اس سے بھی دریغ نہ کرتے.اپنے کام کی ضرورت کو ہم سمجھتے ہیں یا تم - اپنے اموال میں اسراف سے بچنا ہمارا کام ہے نہ کہ تمہارا جو ماں سے زیادہ چاہے وہ کٹنی ہوتی ہے.پس تمہیں ہمارے اموال کی کیا فکر ہے.جس طرح میرے ولایت جانے کے موقع پر ہماری نوے فی صدی جماعتوں نے تو مشورہ دیا کہ ضرور جانا چاہئے اور زیادہ لوگوں کو ساتھ لے جانا چاہئے.لیکن مولوی محمد علی صاحب شور مچا رہے تھے کہ یہ ظلم ہے میں درخواست کرتا ہوں کہ
خطبات محمود ہو سال ۶۱۹۲۸ میاں صاحب کو اس سے روکا جائے.کوئی پوچھے بھلا تمہارا اس میں کیا حرج ہے قوم خود اپنی ضرورتوں کو بہت سمجھ سکتی ہے.تمہیں کیوں گھبراہٹ ہو رہی ہے اور جن کا روپیہ تھا انہیں کا مشورہ تھا کہ ضرور جانا چاہئے میں تو خود جانا بھی پسند نہ کرتا تھا.تو وہ دراصل نصیحت نہیں تھی بلکہ چڑانیوالی بات تھی.اسی طرح اس مینارہ پر اعتراض کرتے ہیں.اس پر جو روپیہ خرچ ہوا اس کا مقصد ایک عظیم الشان پیشگوئی کو پورا کرنا تھا.مجھے تو افسوس آتا ہے کہ اسے ہم اور زیادہ بلند نہ کر سکے اسے تو اتنا بلند ہونا چاہئے تھا کہ دنیا میں اس کی نظیر نہ ہوتی.یہ سوفٹ ہے فرانس میں ایک مینارہ سات سوفٹ کا ہے اور خواہش تھی کہ یہ ہزار فٹ کا ہوتا اور کیا تعجب ہے کہ آئندہ نسلیں اس کی بنیاد کو قائم رکھتے ہوئے اسے ایک ہزار فٹ ہی بلند کر دیں.تو یہ رسول کریم اے کی پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے بنایا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بڑے مزے لے لے کر کہا کرتے تھے کہ کیا ہی لطف آئے گا جب سٹیشن سے ہی روشنی دیکھ کر ہر کوئی کہہ اٹھے گا کہ وہ مینارہ ہے.تو اس روپے کی ہستی کیا ہے ہمارے تو اگر اختیار میں تا تو ہم محمد رسول اللہ ا کی پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے اسے اتنا بلند بناتے کہ جالندھر اور لاہور سے یہ دکھائی دیتا.تو پیشگوئی کو پورا کرنا بہت بڑی بات ہے اور یہ اٹھارہ ہزار روپیہ صرف پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے ہی صرف کیا گیا ہے.اور مسیح موعود علیہ السلام نے اسے اتنی اہمیت دی ہے کہ اس میں صرف وہی لوگ حصہ لیں جو سو روپیہ چندہ دے سکیں اور اس پر ان کے نام لکھے جائیں تا ہمیشہ ان کی یاد گار رہے.اور اب انجمن نے فیصلہ کر دیا ہے اور ایسے لوگوں کے نام لکھے جائیں گے.اگر کوئی اسے اسراف سمجھتا ہے تو اسے سوچنا چاہئے کہ کیا اسراف کرنے والوں کے نام اس طرح ہمیشہ کے لئے زندہ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے.اسراف کرنے والا تو چھپاتا ہے.مگر مسیح موعود علیہ السلام نے ان کو اتنا قیمتی قرار دیا کہ فرمایا ان کے نام لکھے جائیں تا وہ ہمیشہ زندہ رہیں.تو پیشگوئی کو پورا کرنا بہت بڑا کام ہے اس لئے اگر اور نہیں تو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور قرآن کریم کی پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے ہی اشداء عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاء بَيْنَهُمُ پر عمل کرو.اپنی طبائع میں اصلاح کرو میں کسی خاص واقعہ سے قادیان والوں کو ہی نہیں بلکہ ہر جگہ کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ ہمیں اتنی فرصت ہی نہیں کہ آپس میں لڑتے رہیں.چھوٹا اور معمولی اختلاف بھی خطرناک ہے کیونکہ وہ بیج ہے اس لئے اسے بھی فورا طے کرانا چاہئے.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالٰی ہمیں اپنے منشاء کے مطابق چلنے کی
خطبات ۵۰۸ سال ۱۹۲۸ء توفیق دے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم محمد رسول اللہ ا قرآن کریم اور پہلے انبیاء کی پیشگوئیوں کو پورا کر کے اس کے فضلوں کے وارث ہو سکیں.آمین.(الفضل ۹ / نومبر ۱۹۲۸ء) -p بخاری کتاب المناقب باب قول النبي لو كنت متخذا خليلا.اسد الغابة في معرفة الصحابة جلد ۲ صفحہ ۲۷۷ مطبوعہ بیروت ۱۳۷۷ھ ابن جریر تفسیر سورة المنافقون زیر آيت يقولون لمن رجعنا الى المدينة مسند احمد بن فیصل جلد ۲ ص -۵ بخاری کتاب العظالم با لا يظلم المسل لا يعلمه
سال ۱۹۲۸ء ۵۰۹...مخالفت سے گھبرانا نہیں بلکہ فائدہ اٹھانا چاہئے فرموده ۹/ نومبر ۱۹۲۸ء) تشهد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ہر سلسلہ جو اللہ تعالی کی طرف نے قائم ہوتا ہے اور ہر آواز جو آسمان سے بلند ہوتی ہے اس کے ساتھ کچھ مخالفتیں بھی لگی ہوتی ہیں.اللہ تعالٰی قرآن شریف میں اپنے نبیوں کے متعلق فرماتا ہے.وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولِ وَلَا نَبِي إِلَّا إِذَا تَمَتَّى الْقَى الشَّيْطَنُ فِي أمنيته (الج ۵۳) کہ جب کسی کام کو نبی شروع کرتے ہیں اور کسی بات کا ارادہ کرتے ہیں تو ان کے ارادہ کے پورے ہونے کے راستہ میں شیطان روکیں ڈالتا ہے.خدا تعالی فرماتا ہے یہ قانون ہے اور اٹل قانون ہے کبھی ایسا نہ ہو گا کہ خدا تعالٰی کے دین کی اشاعت کے لئے اور اس کے کلمہ کے اعلاء کے لئے کوئی نبی کھڑا ہو اور اس کے رستہ میں روکیں نہ ڈالی جائیں.ہم جب قانون قدرت کو دیکھتے ہیں یہی نظارہ وہاں بھی نظر آتا ہے.ہر ایک اچھی چیز جو ہے اس کے ساتھ کچھ برائی بھی لگی ہوئی ہے.ہر حسن کے ساتھ کچھ بد صورتی بھی ہوتی ہے.جس جگہ خدا تعالی کی طرف سے اعلیٰ سے اعلیٰ خوبصورت نظارے پیدا کئے جاتے ہیں ان کیساتھ ہی کچھ ہلاکت کے گڑھے بھی ہوتے ہیں.پہاڑوں کی چوٹیاں اگر ایک طرف حسن اور خوبصورتی کا منظر پیش کر رہی ہوتی ہیں تو ساتھ ہی ان کی غاریں ایک بے پناہ ہلاکت کی طرف بلا رہی ہوتی ہیں.دریا اور سمندر اگر اپنے اندر ہزاروں قسم کی خوراک اور زینت و زیبائش کے سامان رکھتے ہیں تو ساتھ ہی ہلاکت اور تباہی کے سامان بھی رکھتے ہیں.غرض دنیا میں ہر ایک جگہ اچھے کے ساتھ برا بھی نظر آتا ہے.پس جس طرح قانون قدرت یہ نظارہ پیش کرتا ہے اسی طرح قانون شریعت میں نیکی کے ساتھ بدی اور بھلائی کے ساتھ برائی لگادی گئی ہے.یہی وجہ ہے کہ انسان کی پیدائش 11.
خطبات محمود ۵۱۰ سال ۱۹۲۸ء کے ساتھ ہی شیطان کی پیدائش کا ذکر موجود ہے.لوگ حیران ہوتے ہیں کہ انسان کے ساتھ ہی شیطان کہاں سے آگیا.حالانکہ شیطان خدا تعالی کے قانون قدرت کا حصہ ہے اور بغیر شیطان کے ملائکہ کی بھی خوبصورتی نظر نہیں آسکتی اور بغیر برے نظاروں کے خوبصورت نظاروں کی حقیقت بھی دکھائی نہیں دے سکتی.بظاہر ہر ایک برائی تکلیف دہ اور رنج پیدا کرنے والی ہوتی ہے.لیکن در حقیقت انسان کو خوبصورتی کی طرف مائل کرتی ہے.اسی طرح اگر دنیا میں خدا کی آواز کے ساتھ شیطان کی آواز نہ ہوتی تو نبیوں کی جماعتوں کی ترقی کی کوئی صورت نہ ہوتی.وہ کونسی چیز ہے جو نبی کی آواز کو دنیا کے کناروں تک پہنچاتی ہے.کیا اس کے اپنے اشتہار اور اس کی اپنی کتابیں دنیا کے کناروں تک پہنچتی ہیں.اس کی اپنی آواز محدود ہوتی ہے اور اس کے ماننے والے ابتداء میں تین چار یا دس میں ہوتے ہیں.وہ دنیا کے کناروں تک نہبی کی آواز کیونکر پہنچا سکتے ہیں.وہ وائرلیس کا آلہ جو نبی کی آواز کو ساری دنیا میں پہنچاتا ہے اور وہ بجلی کی تاریں جو اس کی آواز کو دنیا کے کناروں تک پہنچاتی ہیں وہ شیطان اور اس کی ذریت ہوتی ہے.جس وقت نبی آواز بلند کرتا ہے تو شیطان اور اس کی ذریت اس آواز کو ساری دنیا میں پہنچا دیتی ہے.وہ تمام دنیا کو اس طرح خبر کر دیتی ہے کہ کہتی پھرتی ہے فلاں انسان بہت برا ہے اس کی طرف توجہ نہ کرنا لوگ اس انسان کے برے ہونے کا فیصلہ تو بعد میں کرتے ہیں پہلے انہیں یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ فلاں شخص دنیا میں کھڑا ہوا ہے اور اس کا یہ دعوئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب دعویٰ کیا تو اس وقت آپ کو جو سامان میسر تھے ان کے ذریعہ کہاں دنیا کو اپنے دعوئی سے مطلع کر سکتے تھے.ایک ایسا آدمی جس پر چالیس پچاس آدمی ایمان لائے نہ گورنمنٹ کو اس کی طرف توجہ ہو سکتی تھی اور نہ کسی اور کو.اس وقت شیطان آگے آیا اور اس نے آکر کہا اس شخص نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے اس سے بچنا اور اس کی باتوں کی طرف توجہ نہ کرنا.وہ امیروں کے پاس گیا اور ان کے کانوں میں جا کر یہ ڈالا کہ یہ شخص تمہاری امارتوں کو تباہ کرنا چاہتا ہے.وہ مولویوں کے پاس گیا اور انہیں جا کر پڑھایا کہ یہ تمہاری مولویت کو برباد کرنا چاہتا ہے.وہ فقیروں کے پاس گیا اور انہیں جا کر بتایا کہ یہ تمہارے فقر پر پانی پھیرنا چاہتا ہے.وہ صوفیوں کے پاس گیا اور انہیں جا کر سکھایا کہ یہ تمہاری روحانیت کا پردہ چاک کرنا چاہتا ہے.وہ عوام کے پاس گیا اور جا کر کہا یہ تمہاری طاقت کو تہ و بالا کرنا چاہتا ہے.اس وقت جب امراء نے سمجھا کہ ہماری حکومت تباہ کرنے کے لئے کھڑا ہوا ہے تو چونکہ ان کی کرتا دھرتا
خطبات محمود ۵۱۱ سال ۱۹۲۸ء گورنمنٹ ہی ہوتی ہے اس لئے وہ گورنمنٹ کے پاس گئے اور جاکر کہا یہ خطرناک آدمی پیدا ہو گیا ہے اس کا انتظام کرنا چاہئے اس طرح گورنمنٹ ہوشیار ہوئی.ادھر عوام نے آپس میں کہنا شروع کیا یہ ایسا انسان پیدا ہوا ہے جو ہمارے نظام میں تغیر کرنا چاہتا ہے اس کا مقابلہ کرنا چاہئے اس طرح ان میں آپ کے کھڑے ہونے کی خبر پہنچی.اسی طرح صوفیوں نے اپنی مجلسوں میں اور مولویوں نے اپنے وعظوں میں آپ کا ذکر کرنا شروع کیا.نتیجہ یہ ہوا کہ ہر جگہ آواز پہنچ گئی.انگریزوں کے ذریعہ دوسرے ممالک کے انگریزوں تک مولویوں کے ذریعہ دوسرے ممالک کے مولویوں تک صوفیوں کے ذریعہ دوسرے ممالک کے صوفیوں تک آپ کا ذکر پہنچ گیا.اور وہ کام جسے ہم ہزاروں سال میں بھی نہ کر سکتے تھے شیطان نے چند ماہ میں کر دیا.اور وہی چیز جسے انسانی نسلوں کو تباہ کرنے والی سمجھا جاتا ہے وہی دنیا پر حجت پوری کرنے والی بن گئی.کہا جاتا ہے کیونکر ساری دنیا پر حجت تمام ہو گئی کہ وہ عذاب کے نیچے آجائے گی یا کم از کم سوال کے نیچے آگئی.ہم تو اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ کامل حجت کے بغیر عذاب آجائے لیکن بہر حال سوال تو ہر اس شخص سے ہو سکتا ہے جس کے کان میں آواز پڑے.اس بات کا مستحق ساری دنیا کے لوگوں کو کس نے بنایا ؟ ہم اس کا نہایت آسانی اور صداقت سے یہ جواب دے سکتے ہیں کہ خود شیطان نے لوگوں کو یہ سوال کئے جانے کے قابل بنا دیا کیونکہ اس نے ساری دنیا کو اطلاع دے دی کہ مسیح موعود آگئے.غرض وہی وجود جو دنیا کو برباد اور گمراہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے وہ جماعت احمدیہ کی ترقی کا موجب بن گیا.ان حالات اور واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے مخالفتوں اور تکلیفوں سے کبھی نہیں گھبرانا چاہئے.خواہ وہ کس حد تک پہنچ جائیں مخالفت لوگوں کو بیدار کرتی ہے اور ان کی مستیوں کو دور کرتی ہے اور بسا اوقات ضروری ہوتی ہے.مجھے خوب یاد ہے میں اس وقت چھوٹا سا تھا مگر بات اچھی طرح یاد ہے کہ کئی لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عرض کرتے کہ ان کے علاقہ میں جماعت کی ترقی نہیں ہوتی.اس پر آپ فرماتے جا کر آگ لگا دو تب لوگ توجہ کریں گے.اگر یوں کسی کے گھر جا کر دستک دی جائے تو ہو سکتا ہے جو اب بھی نہ دے لیکن اگر ی اسے یہ کہا جائے کہ تمہارے مکان کو آگ لگی ہوئی ہے تو بے تحاشا اٹھ کھڑا ہو گا.پس اگر تم ترقی چاہتے ہو تو آگ لگا دو اس کے بعد ترقی ہو گی.یہ بالکل صحیح اور درست بات ہے مخالفت اور وہ مخالفت جو خدا تعالٰی خود پیدا کر دیتا ہے
خطبات محمود ۵۱۲ سال ۱۹۲۸ء بڑی قیمتی چیز ہے.ابتلاء خود مانگنا پسندیدہ بات نہیں ہے لیکن اگر کوئی ابتلاء آئے تو اس سے بہتر سے بہتر فائدہ اٹھانا مومن کی شان ہے.دیکھو جب طوفان آتے ہیں تو علاقوں کے علاقے برباد کر جاتے ہیں یہ عذاب ہوتا ہے.مگر یہی پانی ہوتا ہے جب اس سے گورنمنٹ بجلی نکالتی ہے تو کتنا مفید ثابت ہوتا ہے.اسی طرح شیطان کے حملہ کو قابو میں لا کر فائدہ اٹھانا مومن کی شان ہے نہ کہ اس سے گھبرا جاتا.میں دیکھتا ہوں جہاں سلسلہ کی مخالفت بند ہو جاتی ہے وہاں سلسلہ کی ترقی بھی بند ہو جاتی ہے اور جہاں مخالفت ہوتی ہے وہاں جماعت ترقی کرتی جاتی ہے پس ہماری جماعت کے لوگوں کو مخالفتوں سے ڈرنا نہیں چاہئے.مگر میں دیکھتا ہوں جہاں جہاں جماعت بڑھتی جاتی ہے یہ احساس پیدا ہوتا جاتا ہے کہ مخالفت نہ ہو اور کوئی خلاف آواز نہ اٹھائے.اگرچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کے واقعات آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں مگر وہ زیادہ دور کے زمانہ کے واقعات نہیں ہیں.یہی قادیان جہاں اب خدا کے فضل سے احمدیوں کی کثرت ہے اور دوسرے لوگ بہت کم رہ گئے ہیں یہاں بھی ایک وقت وہ تھا کہ مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے آنے والوں کو آرام حاصل نہ تھا.بعض لوگ رستہ میں کیلے گاڑ دیتے تھے اور کہتے تھے ہم یہاں اپنے جانور باندھیں گے مگر ان کی غرض یہ ہوتی تھی کہ اندھیرے منہ صبح شام گذرنے والے ٹھوکریں کھا کر گریں.اگر کوئی ان کیلوں کو اکھیڑ تا تو اس سے لڑائی کی جاتی اور جب بعض جو شیلے احمد کی ان سے مقابلہ کے لئے کھڑے ہوتے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام انہیں روکتے اور فرماتے صبر کرو پھر مسجد کے آگے دیوار بنادی گئی.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اجازت دے دیتے تو اس کی ایک ایک اینٹ دس پندرہ منٹ میں غائب کر دی جاتی مگر آپ نے اس کی اجازت نہ دی.اور دو سال تک مقدمہ چلتا رہا تب جا کر وہ دیوار گرائی گئی.بعض دفعہ گھر کے اندر سے گزار کر نمازیوں کو مسجد میں لایا جاتا تھا مگر با وجود اس کے صبر سے کام لیا گیا.غرض ان ایام میں اللہ تعالٰی کی طرف سے جو ابتلاء آئے وہ ہمیں بھولے نہیں.بعد میں آنے والے سمجھتے ہوں گے کہ جماعت کے لوگوں کو کبھی کوئی تکلیف نہ ہوئی ہوگی اور شروع سے یہی حالت ہوگی جو اب ہے مگر یہ درست نہیں.یہاں بڑے بڑے ابتلاء آئے.ان میں سے بعض باتیں ایسی بھی ہیں جو میری ہوش سے بھی پہلے کی ہیں.میں نے سنا ہے کہ ایک وقت چوہڑوں کو کہہ دیا گیا تھا کہ وہ صفائی نہ کریں اور کہاروں سے کہہ دیا گیا تھا کہ برتن نہ دیں.یہ میری ہوش سے پہلے کی باتیں ہیں مگر یہ باتیں میری ہوش کی ہیں کہ معمولی
۵۱۳ سال ۱۹۲۸ء مٹی اٹھانے پر لڑائی جھگڑے ہوئے.مدرسہ احمدیہ کے کمرے اس طرح بنے کہ کوئی کمرہ راتوں رات بنا لیا گیا اور کوئی اس وقت بنایا گیا جب مخالفت کرنے والوں کو موجود نہ پایا گیا.سید احمد نور صاحب مولوی قطب الدین صاحب میاں نجم الدین صاحب وغیرہ کے جہاں مکانات ہیں وہاں لڑائیاں ہوئیں اور مٹی ڈالنے سے روکا گیا.اب وہ زمانہ بدل گیا خدا تعالٰی نے یہاں جماعت زیادہ کر دی مگر سچی بات یہ ہے کہ مخالفت کے زمانہ میں جو لطف تھا وہ بعد میں نہ رہا.مخالفت کے ایام میں خدا تعالی کی طرف زیادہ توجہ ہوتی اور مخالفین کے مقابلہ کے لئے.لوگ مستعد ہوتے ہیں لیکن امن میں آپس میں لڑنے جھگڑنے لگ جاتے ہیں.معلوم ہوتا ہے لڑائی کا مادہ بھی فطرت انسانی میں رکھا گیا ہے.چنانچہ ملائکہ نے بھی انسانی پیدائش کے موقع پر کہا.کیا ایسا وجود بنایا جائے گا جو سفک دم کرے گا؟ معلوم ہوتا ہے مفک دم اور فساد فی الارض انسان کے ساتھ لگے ہوئے ہیں.آگے یہ باتیں کوئی نیکی کی خاطر کرتا ہے اور کوئی بدی کے لئے.بات یہ ہے مارنا اور لڑنا انسان سے وابستہ ہے خواہ وہ نیکی کے لئے ہو خواہ بدی کے لئے.اگر کوئی دشمن سے جا کر نہ لڑے تو ڈاکٹر کی صورت میں نشتر سے دوسروں کے جسموں کو چیرتا پھاڑتا ہے.غرض انسان کے لئے مقابلہ کرنا اور لڑنا لازمی بات ہے.جب اس کے لئے یہ رستہ بند ہو جاتا یا انسان خود بند کر لیتا ہے کہ غیروں سے لڑے تو پھر اپنوں سے لڑنا شروع کر دیتا ہے.جب وہ غیروں سے لڑتا ہے تو اسے مظلومیت کی قدر معلوم ہوتی ہے.اس وجہ سے وہ ظالم بنتا پسند نہیں کرتا.بلکہ مظلوم بننا پسند کرتا ہے لیکن جب امن ہو جاتا ہے اور غیروں سے مقابلہ نہیں رہتا تو آپس میں لڑائی جھگڑا شروع کر دیتا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مخالفت کا ہونا بھی ضروری چیز ہے.اور ہماری جماعت کے لوگوں کو مخالفتوں سے ڈرنا نہیں چاہئے اور کچی بات تو یہ ہے کہ جب تک اخلاق کی پوری پوری تربیت نہ ہو جائے اس وقت تک مخالفت کا ہونا ضروری ہوتا ہے.بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو ایمان لانے کے ساتھ ہی اعلیٰ اخلاق حاصل کر لیتے ہیں.جو لوگ ایمان لانے کے ساتھ ہی اخلاق میں پورا تغیر پیدا کر لیتے ہیں وہی صدیق ہوتے ہیں اور بہت کم ہوتے ہیں.صدیق اسے کہتے ہیں جو منہ سے بات کہنے کے ساتھ ہی اعمال میں اسے جاری کر لیتا ہے.اس میں تغیر انقلاب کے رنگ میں فوری پیدا ہوتا ہے.مگر عام قاعدہ یہی ہے کہ تغیر ارتقاء کے ذریعہ یعنی تدریجی ہوتا ہے عام قانون ہے جب کسی انسان کو ایمان نصیب ہو تا ہے تو اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اس کا منہ
خطبات محمود ۵۱۴ سال ۶۱۹۴۸ خدا تعالی کی طرف ہو جاتا ہے.اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ وہ خدا تعالٰی تک پہنچ بھی گیا ہے.اگر وہ قدم اٹھاتا جائے گا اور کوشش کرے گا تب خدا تعالی تک پہنچے گا.یہ عام مومن کی حالت ہوتی ہے.یعنی وہ ارتقاء کے اصل کے ماتحت ترقی کرتا ہے لیکن صدیق کی حالت یہ ہوتی ہے کہ اس میں فوری تغیر ہوتا ہے.پس یہ خیال کر لینا کہ جب کوئی جماعت ایمان لاتی ہے تو وہ ساری کی ساری یک لخت ارتقاء میں بڑھ جاتی ہے غلط ہے.جماعت ارتقاء میں آہستہ آہستہ ترقی کیا کرتی ہے.اور وہ جماعت جس کی مخالفت اگر اس زمانہ سے پہلے دور ہو جائے جب اس کے اخلاق کی تربیت ہو چکی ہو تو اس کے اخلاق خراب ہو جاتے ہیں اور اخلاقی طور پر پوری ترقی نہیں کر سکتی.پس ضروری ہے کہ وہ لوگ جو ارتقاء کے قانون کے ماتحت اخلاقی ترقی کرنے والے ہیں جس قدر عرصہ ان کے لئے ضروری ہے اس میں ان کی مخالفت قائم رہے.اور کہا جا سکتا ہے کہ بعض اوقات مخالفت کا ہونا عظیم الشان نعمتوں میں سے ایک نعمت ہوتی ہے اور اس کا منا اخلاق اور تربیت کو برباد کر دیتا ہے.پس بجائے اس کے کہ ہماری جماعت مخالفتوں سے گھبرائے اسے خوش ہونا چاہئے کہ خدا تعالٰی نے اس کی ترقی کے سامان مہیا کئے ہیں.اور ایسے ذرائع مخالفتوں کو مٹانے کے لئے اختیار نہیں کرنے چاہئیں جو سختی کا پہلو رکھتے ہوں.اخلاق کی درستی کے لئے مبر جیسی عظیم الشان درس گاہ اور کوئی نہیں.خدا تعالی کی خاص قدرت کا تو اور حال ہے مگر انسانی تدابیر میں سے صبر بہت مفید چیز ہے.جو ہر قسم کے اخلاق میں اصلاح پیدا کرتا ہے اور اس کے ذریعہ دشمن سے دشمن کا دل موہ لیا جا سکتا ہے.پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ ہر تکلیف اور مخالفت کے وقت صبر سے کام لینا سیکھیں.جلدی جوش میں نہ آجایا کریں.کیا کوئی خلاف منشاء بات دیکھ کر اس لئے انہیں جوش آجاتا ہے کہ وہ زیادہ ہو گئے ہیں اور قوت کیساتھ مخالفت کو مٹا سکتے ہیں.جس غرض کے لئے وہ کھڑے ہوئے ہیں اس کے لحاظ سے تو ان کی تعداد کچھ بھی نہیں ہے.ہم دنیا فتح کرنے کے لئے کھڑے ہوئے ہیں کیا اس کے لئے ہماری کثرت کافی ہو گئی ہے.یاد رکھو جب تک ہم دنیا میں کم از کم سو میں دس احمدی نہیں ہو جاتے اس مقصد کو حاصل نہیں کر سکتے.جس کے لئے کھڑے ہوئے ہیں.اگر کسی کو مخالفت کے مقابلہ میں جوش آتا ہے تو معلوم ہوا وہ سمجھتا ہے اس نے کام کر لیا اور اسے اطمینان حاصل ہو گیا.حالانکہ ہم تو ابھی منزل مقصود کے ابتدائی حصوں تک بھی نہیں پہنچے کجا یہ کہ انتہائی درجے حاصل کر چکے ہوں.میں دعا کرتا ہوں اللہ تعالٰی ہمیں توفیق دے کہ صبر اور استقلال کے ساتھ
خطبات محمود ۵۱۵ سال ۱۹۲۸ء اس مقصد کو پورا کریں جس کے لئے کھڑے ہوئے ہیں اور وہ راہ اختیار نہ کریں جو دین اور اخلاق کے لئے مضر ہو.آمین الفضل ۱۶/ نومبر ۱۹۲۸ء)
خطبات محمود 014 42.سال ۶۱۹۲۸ مسلمان حکومتوں کی دین سے بے اعتنائی فرموده ۱۶/ نومبر ۱۹۲۸ء) تشهد تعوز اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: انسان کے راستہ میں مختلف قسم کی مشکلات پیش آتی رہتی ہیں اور ان کے دور کرنے کے لئے وہ مختلف قسم کی تدابیر اختیار کرتا ہے لیکن بعض دفعہ ان تدابیر کے اختیار کرنے میں وہ افراط و تفریط سے کام لیتا ہے اور بعض دفعہ صحیح رستہ پر چلتا ہے.جب وہ صحیح رستہ پر گامزن ہو تو اس کی کامیابی یقینی ہوتی ہے.مگر جتنا جتنا وہ صحیح رستہ سے دور اور افراط و تفریط کے قریب ہوتا جائے گا اس کی کامیابی بھی مشکوک ہوتی چلی جائے گی.اس زمانہ میں مسلمانوں کے لئے بہت سی مشکلات پیش آرہی ہیں بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ دنیا میں جو بھی سیلاب آفات کا اٹھا ہے اس نے چاروں طرف گھوم کر انہی کے گھر ڈیرے ڈال دیئے ہیں.گویا یہ ایک مقناطیس ہیں جو ہر مصیبت کے لوہے کو اپنی طرف کھینچتے ہیں.یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ان کے ہاتھوں سے حکومتیں جاتی رہی میں پہلے تو ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ملک ان کے ہاتھوں سے نکل گئے ان کی طاقت کمزور ہو گئی اور پھر ان کی بعض مملکتیں غیروں کے ماتحت اور بعض ان کے اثر و نفوذ کے نیچے آگئیں.پھر حکومتوں کے زوال کے ساتھ ان کے اخلاق میں نقص آنے لگا وہ تعاون اور رواداری جو مل کر کام کرنے کے لئے ضروری ہوتی ہے ان سے نکل گئی اور تہذیب کا وہ نقطہ جس پر وہ قائم تھے اس سے نیچے گر گئے.نہ ہمسایوں سے نیک سلوک کرنے کی طاقت ان میں رہی نہ اپنے خلاف خیالات سننے کی ہمت باقی رہی اور نہ ہی اجتماع کے موقع پر دوسروں کے احساسات کا احترام ان میں باقی رہا.غرض کہ تہذیب کے سب ستون گر گئے اور اس میدان میں بھی مسلمان دوسری اقوام سے پیچھے رہ گئے.اسی طرح تعلیم کے میدان میں بھی وہ گر گئے.وہ علوم جن کو ان کے
خطبات محمود ۵۱۷ سال ۶۱۹۲۸ آباء و اجداد نے بام ترقی تک پہنچایا تھا ان کے ہاتھ سے نکل کر غیر قوموں کے پاس چلے گئے.گویا ان کے آبائی بلکہ یوں کہو کہ ان کے فطری ورثہ کی نگرانی بھی غیروں کے ہاتھ میں چلی گئی.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے.كَلِمَةُ الحِكْمَةِ مَالَةُ الْمُؤْمِنِ أَخَذَهَا حَيْثُ وَجَدَهَا ا اچھی بات مؤمن کی اپنی چیز ہے جہاں مل جائے اسے لے لینی چاہئے.پس علوم دراصل مسلمان کا فطری ورثہ ہیں جیسے کہ آبائی ورثہ کیونکہ وہ مومن تھا اور علم مؤمن کی اپنی چیز ہے.مگر مسلمانوں کے اس آبائی بلکہ فطری ورثہ کے بھی دوسرے لوگ مالک ہو گئے.پھر اقتصادی طور پر وہ دوسروں کے غلام ہو گئے.صنعت و حرفت اور تجارت ان کے ہاتھ سے جاتی رہی بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ آہستہ آہستہ ان کے ہاتھوں سے محنت بھی جاتی رہی.زراعت جس میں ایک زمانہ میں مسلمانوں نے بہت ترقی کی تھی اور اسلامی ممالک میں کثرت سے نہریں کھودی گئی تھیں اور اس کی ترقی کے دوسرے سامان بھی مہیا کئے گئے تھے وہ بھی انہوں نے کھو دی.اور یہ تو ظاہر ہے کہ جو قوم اپنی پہلی شان و شوکت بھی کھو بیٹھتی ہے وہ آئندہ ترقی نہیں کر سکتی اس لئے آئندہ کسی قسم کی ترقی تو در کنار وہ ہر بات میں دوسروں کا شکار ہونے لگ گئے.عملی طور پر وہ دوسروں کے نقال ہو گئے گویا انھوں نے بندروں کی صورت اختیار کرلی.سیاست میں اوروں کے غلام ہو گئے غرض کہ ہر میدان میں وہ پیچھے رہ گئے بلکہ ذلیل ہو گئے.مسلمانوں کا دعوی ہے کہ یہ قوم اللہ کی مقبول اور پیاری ہے اگر یہ صحیح ہے تو ماننا پڑے گا کہ ان کی اس رسوائی میں دنیاوی نقائص کے علاوہ دینی کمزوری کا بھی دخل ہے.جس قوم کو خدا تعالٰی نے اپنے دین کا جھنڈا سپرد کیا ہو اسے وہ کبھی گرنے نہیں دیتا جب تک کہ وہ خود اپنے آپ کو غیر مستحق نہ ثابت کر دے پس اس میں دینی کمزوری کا بھی دخل ہے.یہ کہنا کہ یورپ نے انہی حالات میں ترقی کی ہے غلط ہے.ان کے ہاتھ میں توحید کی کنجی نہیں دی گئی تھی اس لئے یورپ یا جاپان یا چین تو دین سے تغافل برت کر ترقی کر سکتے ہیں مگر مسلمانوں کو جن کے سپرد توحید کی امانت کی گئی تھی دین سے غفلت پر شکست ملنی ضروری ہے تا وہ پھر خدا کی طرف لوٹیں.جیسے کوئی شخص اپنے بیٹے کی تو معمولی بات پر بھی ناراض ہوتا ہے اور اسے تنبیہ کرتا ہے اور اس کا نام تربیت رکھتا ہے.مگر کسی غیر شخص کی سخت کلامی کو برداشت کر لیتا ہے اور اس پر خاموشی اختیار کر کے اس کا نام اخلاق رکھتا ہے.اسی طرح جو قوم خدا تعالٰی کے لئے بطور انصار کے تھی اس کی دینی کمزوری کے ساتھ اسے دنیوی سزا کا ملنا ضروری تھا.ایک صوفی نے لکھا ہے
خطبات محمود ۵۱۸ سال ۱۹۲۸ء.میں اپنی نا فرمانی کو اپنے گھوڑے کی نافرمانی میں دیکھ لیتا ہوں.یعنی جب میرا گھوڑا چلتے چلتے رکھتا ہے اور میری اطاعت نہیں کرتا تو میں سمجھ لیتا ہوں کہ مجھ سے بھی خدا تعالی کی کوئی نا فرمانی ہو ہے.بات یہ ہے جتنا خدا تعالٰی سے تعلق زیادہ ہوتا ہے اتنا ہی اس کے نتائج معمولی باتوں میں نظر آتے ہیں.نادان ہے وہ شخص جو کہتا ہے کہ کافروں کے گھوڑے تو گھوڑ دوڑوں میں دوڑتے ہیں مگر ایک صوفی کا گھوڑا کیوں انکتا ہے.صوفی کو خدا تعالیٰ ہر بات میں سبق دیتا ہے کیونکہ وہ اس کی طرف آرہا ہے اور اس کا محبوب بن رہا ہے مگر کافر چونکہ خدا تعالی کو چھوڑ کر الگ ہو گیا ہے اس لئے اس کے ہر فعل میں وہ جلوہ گر نہیں ہوتا.پس مسلمانوں کی اس ذلت میں یقینا دینی کمزوری کا بھی دخل ہے.لیکن افسوس مسلمانوں نے اسے سمجھا نہیں اور جب بھی قدم اٹھایا غلط ہی اٹھایا.پہلے تو وہ افراد کے رنگ میں اٹھاتے تھے اب حکومت کے رنگ میں اٹھانے لگے ہیں اور وہ بھی غلط ہی اٹھا رہے ہیں.ترک یورپین اثر سے آزاد ہوئے.ہر مسلمان کو اس پر خوشی تھی مگر تھوڑے دنوں میں ہی انھوں نے بتا دیا کہ ان کی آزادی اسلامی احکام سے بھی آزادی تھی.آہستہ آہستہ انھوں نے مذہب اور حکومت کے تعلق کو توڑنا شروع کیا پھر لباس میں تغیر شروع کیا، پھر عربی حروف چھوڑ کر ترکی الفاظ کو انگریزی میں لکھنا شروع کیا حالانکہ لاطینی زبان سے ان کے ملک کی ترقی کا کیا تعلق ہو سکتا ہے.اس کا صرف یہی نتیجہ ہو گا کہ قوم اپنے آباء کے آثار سے غافل ہو جائے گی اور جس آسانی سے وہ پہلے قرآن پڑھ سکتے تھے اب نہیں پڑھ سکیں گے جیسے اردو جاننے والے کے لئے قرآن شریف پڑھنا ہندی جاننے والے کی نسبت آسان ہوتا ہے کیونکہ اردو کے حروف عربی حروف سے ہندی کی نسبت بہت زیادہ ملتے ہیں ان میں تھوڑا ہی فرق ہوتا ہے.عربی حروف کسی قدر ٹیڑھے کر کے لکھے جاتے ہیں پہلے تو ساری ترکی قوم قرآن پڑھ سکتی تھی مگر اب وہی پڑھ سکیں گے جو دوسری زبان سیکھیں گے اور دوسری زبان کا ساری قوم کے لئے سیکھنا مشکل ہوتا ہے.ہندوستان ، ایران ، افغانستان مصر، عرب وغیرہ میں قرآن پڑھنے والے بہت ملیں گے مگر چین میں بہت کم ہوں گے کیونکہ چینی اور عربی حروف میں بہت فرق ہے اس لئے صرف عالم ہی سیکھ سکتے ہیں.تو انھوں نے عربی حروف کو مٹانے سے کوئی علم تو حاصل نہیں کیا مگر اسلام سے اپنا تعلق کم کر لیا ہے.اس میں شبہ نہیں کہ حروف اسلام میں داخل نہیں لیکن جتنا عربی حروف کو مٹایا جائے گا قرآن کریم پڑھنے میں اتنی ہی رقتیں پیدا ہوتی جائیں گی اس کے خلاف فائدہ کوئی نہ ہو گا.ترک لاکھ کہیں کہ
خطبات محمود ۵۱۹ سال ۱۹۲۸م انھوں نے اس کے لئے کمیشن بٹھایا جس نے یہ فیصلہ کیا مگر ان کے دماغ کوئی خاص نہیں ہیں کہ جن ولا ئل کو وہ جانتے ہیں.انھیں اور کوئی سمجھ نہیں سکتا.ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ان کی یہ حرکت محض نقل سے زیادہ کچھ نہیں.اور اس کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کہ گنجے اپنے سر پر دوسرے بال لگا لیتے ہیں.یا جج Wig پہن لیتے ہیں اور اسے وقار کی علامت سمجھتے ہیں کیونکہ پرانے زمانہ میں لوگ لمبے بال رکھتے تھے یہ نقل ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں.اب یہ مرض دوسرے ممالک میں بھی پھیلنا شروع ہو گیا ہے آہستہ آہستہ افغانستان میں بھی جس کے متعلق خیال کیا جاتا تھا کہ وہ سب سے آخر اس کا شکار ہو گا پھیلنا شروع ہو گیا ہے.وہاں بھی ہیٹ اور انگریزی لباس پہنے اور داڑھی منڈانے کا حکم دیا گیا ہے.اور اب ایران میں بھی حکومت اس قسم کے قواعد بنا رہی ہے جس سے افسروں کے لئے انگریزی لباس پہننا ضروری ہو گا اور جو نہ پہنے وہ سزا کا مستحق ہو گا.اسی طرح یہ سکیم بھی زیر غور ہے کہ قدیم ایرانی حروف اختیار کر لئے جائیں نہ معلوم عربی نے کیا قصور کیا ہے حالانکہ ان کے آباء کا سارا ٹریچر اسی زبان میں ہے.قوموں کی ترقی ان کے آباء کی روایتوں پر منحصر ہوتی ہے.ان کی کتابیں عربی حروف میں لکھی ہوئی ہیں اب اگر عربی حروف کو مٹا دیا گیا تو آئندہ نسلیں ان کتابوں کو نہیں پڑھ سکیں گی اور اس طرح قرآن کریم سے وابستگی بھی کم ہو جائے گی.اور تعجب نہیں کہ تھوڑے عرصہ تک افغانستان میں بھی یہی سوال پیدا ہو جائے کہ عربی حروف کو مٹا دیا جائے.یہ کہنا کہ قرآن کریم بھی تو ان زبانوں میں لکھا جا سکتا ہے غلط ہے کیونکہ عربی میں بعض الفاظ ایسے ہیں جو دوسری زبانوں میں صحیح طور پر ادا نہیں ہو سکتے.مثلا ہے یہ اور کسی زبان میں نہیں اگر قرآن کریم دو سری زبان میں لکھا جائے تو اس میں ضرور غلطی ہو گی.ز ف ظ ع ض کا فرق ان میں ادا نہیں کیا جاسکے گا.اور پھر اور ایک نقص یہ ہے کہ اس طرح وہ عالمگیر اتحاد جو عربی کے ذریعہ تمام دنیا کے مسلمانوں میں پایا جاتا تھا جاتا رہے گا.اول تو قرآن کریم کسی اور زبان میں لکھا ہی نہیں جا سکتا اور اگر لکھا جائے تو وہ غلط ہو گا.مثلاً انگریزی میں وَلَا الضَّالِّينَ نہیں لکھا جا سکتا.وہاں یا توض کی جگہ دلکھا جائے گا.یاڈ- اور ض میں جو چکر آتا ہے.وہ کسی طرح بھی ادا نہیں کیا جاسکے گا.عربی حروف کے مخارج کا فرق ہوتا ہے.ہر حرف کے الگ معنے ہوتے ہیں.ز ذ ظ ع ض سب کے الگ الگ معنی ہیں لیکن اگر سب کو 2 ( زیڈ) سے لکھ دیا جائے تو کوئی فرق میں رہے گا اور کوئی نہیں سمجھ سکے گا کہ یہاں کون سے معنی لگتے ہیں.اور ممکن ہے کہ کوئی
خطبات محمود ۵۲۰ سال ۶۱۹۲۸ کچھ کے کچھ معنی کر دے.پس عربی حروف مٹانے سے فائدہ تو کوئی نہیں ہو گا مگر اس سے قدیم اتحاد اسلام مٹ جائے گا.علوم کسی خاص زبان کو اختیار کرنے سے نہیں بلکہ سیکھنے اور محنت کرنے سے بڑھتے ہیں.جاپانیوں نے اپنی زبان کے حروف نہیں بدلے مگر پھر بھی انہوں نے اتنی ترقی کی ہے کہ ترک اور ایرانی ان کی برابری کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے.ان کے ممالک تو ابھی ریاستوں کی حیثیت رکھتے ہیں مگر جاپان ایک طاقت ہے.اگر جاپان نے اپنے حروف میں ترقی کر لی تو سمجھ میں نہیں آتا یہ لوگ عربی حروف کو قائم رکھ کر کیوں ترقی نہیں کر سکتے.پس ان کا یہ قدم غلط ہے اور فلسفہ اخلاق یا نفسیات کے لحاظ سے بھی غلط ہے.قو میں اس وقت ترقی کرتی ہیں جب ان پر قومیت کا رنگ ہو.دوسری قومیں تو قومیت کی خاطر قدیم باتوں کی طرف واپس جا رہی ہیں آئرلینڈ نے اپنی پرانی زبان کو رائج کر دیا ہے اور انگریزی کو مٹایا جارہا ہے.گویا اس نے تو جن کا رعب اور دبدبہ تھا ان کی زبان کو مٹاکر قدیم زبان جاری کرنے کی کوشش کی مگر مسلمانوں نے ان کی زبان کو جاری کر دیا حالانکہ چاہئے تو یہ تھا کہ یہ قانون بناتے کہ آئندہ ہم خالص عربی حروف میں لکھیں گے تا لوگوں میں قومیت کا رنگ پیدا ہو.مگر بجائے اس کے ان کے اندر نقالی پیدا کی جارہی ہے کہ جو یورپ والے کرتے ہیں وہی ٹھیک ہے اپنا سب کچھ چھوڑ دو اور یورپ کی تقلید شروع کر دو.مگر یاد رکھنا چاہئے کہ وہ نسل جو نقل سے پیدا ہو گی وہ بندروں والی خاصیتیں تو بے شک رکھتی ہوگی مگر انسانوں جیسی نہیں رکھے گی.اور اس کا ملک ملک نہیں ہو گا بلکہ ایک تھیٹر ہو گا اس کی اپنی دماغی قابلیت کچھ نہیں ہوگی اور وہ کبھی ترقی نہیں کر سکے گی.محمد رسول اللہ ا خدا تعالی سے حکم پا کر کھڑے ہوئے تھے.آپ نے مسلمانوں میں امتیاز پیدا کرنے کے لئے فرمایا ایرانی اور شامی داڑھیاں منڈاتے ہیں مسلمان رکھا کریں کیونکہ جس قوم کی نقل کی جائے اس کا نقل کرنے والی قوم پر ہمیشہ رعب رہتا ہے اس لئے جہاں تک جائز ہو ان کی مخالفت کرد تا یہ روح پیدا ہو کہ ہم ان سے کسی طرح کم نہیں.پس دیکھو اس روح نے ان لوگوں کو کہاں سے کہاں تک پہنچا دیا.وہ لوگ جو خود کہتے ہیں کہ ہم ڈاکے ڈالا کرتے تھے ان کے متعلق آج اکثر مخالف تسلیم کرتے ہیں کہ وہ سیاست اور علم میں بہت بڑھے ہوئے تھے اور ان کی یہ ترقی اسی روح کا نتیجہ تھی جو رسول کریم ﷺ نے ان میں پیدا کی بے شک یہ باتیں مذہب کا جزو نہیں لیکن قوم میں امنگ پیدا کرنے کے لئے بہت ضروری ہیں.اگر بادشاہ کسی خیال سے ہیٹ پہنے تو اور بات ہے لیکن یہ قانون پاس کرنا کہ سب لوگ
خطبات محمود ۵۲۱ سال ۲۱۹۴۸ ہیٹ ہی پہنیں اور داڑھیاں منڈا ئیں نہایت مضحکہ خیز ہے.رسول کریم ﷺ نے مسلمان کو داڑھی رکھنے کا حکم دیا ہے عیسائی یا پارسی کو نہیں.پس اگر کسی کا عقیدہ ہے کہ پگڑی پہنی ضروری ہے تو اگر چہ عقیدہ غلط ہی ہو اسے ہیٹ پہنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا.بتوں کی پرستش سے بڑھ کر احمقانہ عقیدہ اور کیا ہو گا مگر وہ بھی کسی سے زبر دستی چھڑانے کا مسلمان کو اختیار نہیں دیا گیا.پس اگر کسی مسلمان کا عقیدہ ہے کہ پگڑی باندھنا سنت ہے تو کسی کا حق نہیں کہ اس کو ہیٹ پہنے پر مجبور کرے.ہندوؤں نے علوم میں جو ترقی کی ہے وہ ایران اور افغانستان نے نہیں کی ان کے ڈاکٹر بوس سائنس میں اس قدر دسترس رکھتے ہیں کہ یورپ والے بھی ان کے آگے سر جھکاتے ہیں.پھر ہندوستان کے ہندو ترکوں سے دولت میں بھی زیادہ ہیں.ترکوں کی اپنی کوئی شپنگ ایجنسی نہیں مگر ہندوؤں کی ہے.ترکی کا کوئی بڑا بنک نہیں مگر ہندوؤں کے بڑے بڑے بنگ ہیں.ان کے صنعت و حرفت کے کوئی کارخانے نہیں مگر ہندوؤں کے ہیں.ٹاٹا کمپنی یورپ کی کمپنیوں کا مقابلہ کرتی ہے.غرض کہ ترک ہندوؤں سے کسی طرح بھی مقابلہ نہیں کر سکتے مگر ہندوؤں کے لیڈر اس قدر سادہ لباس میں ہوتے ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.پنڈت مالویہ کا لباس نہایت سادہ ہوتا ہے سر پر معمولی دو پلی ٹوپی ہوتی ہے.یہی حال لالہ لاجپت رائے مسٹر کیلکر اور ڈاکٹر مونجے کا ہے.ڈاکٹر مونجے کو دیکھ کر تو کوئی خیال بھی نہیں کر سکتا کہ یہ کوئی بڑا لیڈر ہے.معمولی پیٹی کا کوٹ اور دھوتی پہنتے ہیں.مگر یہ لوگ یورپ کا مقابلہ کر رہے ہیں اور یورپ ان کی طاقت کو آج تسلیم کرتا ہے.وہی گاندھی جو کسی زمانہ میں بہت اعلیٰ سوٹ پہنا کرتے تھے آج سوائے ایک دھجی کے ان کے بدن پر کوئی لباس نہیں مگر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ان کے دماغ میں نقص ہے یا وہ فلسفہ نہیں سمجھ سکتے.جس قدر ولولہ ان کی دھوتی نے ہندوؤں میں پیدا کیا وہ کوٹ پتلون نہیں پیدا کر سکتے تھے.تو گو مثالیں موجود ہیں مگر افسوس مسلمانوں نے سبق حاصل نہیں کیا.میں نے پہلے ان امور کو دیکھا تو خیال کیا کہ یہ ترکوں پر مخالفین کے حملے ہیں.مگر جب تصدیق ہوئی تو پھر میں نے سمجھا کہ شاید یہ وبا ترکوں تک ہی محدود رہے مگر اب دوسروں تک اس کے اثر کو دیکھ کر میں نے مناسب سمجھا کہ اپنی رائے اس کے متعلق بیان کردوں.اور جہاں جہاں تک ہماری آواز سنی جائے ہم بتا دیں کہ یہ رستے ترقی کے نہیں.ترقی کے لئے اسلام کی طرف توجہ کی ضرورت ہے اور اسلام میں جو ظاہری اتحاد ہے اسے مٹانا کسی مسلمان حکومت
۵۲۲ سال ۶۱۹۲۸ کے لئے مفید نہیں ہو سکتا.اس وقت اسلامی حکومتوں میں سے سوائے نجد کے کمیں اسلام نظر نہیں آتا میں نجدیوں کے مقابر کو گرانے یا دوسرے مظالم کو کٹر حنفیوں کی طرح ہی حقارت کی نظر سے دیکھتا ہوں مگر بہر حال نسبت اسلام کو قائم اور بر قرار رکھنے کے لئے ان کی کوشش ضرور قابل قدر ہے.مخالفین ہنس رہے ہیں کہ مسلمانوں نے قرآن کے معنوں پر عمل تو پہلے ہی چھوڑ رکھا تھا اب اسکے الفاظ کو بھی چھوڑ رہے ہیں.اللہ تعالی انہیں توفیق دے کہ وہ اپنی غلطیوں کو سمجھ سکیں اور ان کے بد نتائج سے محفوظ رہ سکیں.الفضل ۲۳ / نومبر ۱۹۲۸ء) تریدی.ابواب العلم باب ما جاء فی فضل الفقہ علی العبادة- میں حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں."الكلمة الحكمة ضالة المؤمن حيث وجدها فهوا حق بها"
خطبات محمود ۵۲۳ ыл سال ۶۱۹۲۸ جلسہ سالانہ کے چندہ کی تحریک زور سے کی جائے فرموده: ۲۳ / نومبر ۱۹۲۸ء) تشهد تعوز اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : آج میرا منشاء تھا کہ دو تین امور کے متعلق تفصیل سے بیان کروں لیکن صبح سے سر میں درد محسوس کرتا ہوں جو اس وقت زیادہ ہو گیا ہے اس لئے تفصیل سے بیان نہیں کر سکتا لیکن اس قدر کہنا چاہتا ہوں کہ جلسہ سالانہ خدا تعالٰی کے فضل سے قریب آرہا ہے.مجھے افسوس ہے کہ منتظمین نے اس کی طرف ابھی تک زیادہ توجہ نہیں کی اور مقامی جماعت نے بھی ابھی تک چندے میں حصہ نہیں لیا حالانکہ اخلاقی طور پر مہمانداری کی ذمہ داریاں زیادہ تر مقامی جماعت پر ہی عائد ہوتی ہیں.اس کے علاوہ قادیان کو مذہبی لحاظ سے جو اہمیت حاصل ہے اسے مد نظر رکھتے ہوئے بھی زیادہ قربانیاں کرنا یہاں کے رہنے والوں کا فرض اولین ہے.اس وقت تک بیت المال کے منتظمین نے اس طرف توجہ نہیں کی.اس قسم کی غفلت سے ایک تو یہ نقصان ہوتا ہے کہ انتظام کرنے والے صحیح طور پر انتظام نہیں کر سکتے کیونکہ ان کو وقت پر روپیہ نہیں مل سکتا.وہ اچھی چیزیں نہیں خرید سکتے دوسرا نقص اس سے یہ ہوتا ہے کہ ان تحریکوں کو اگر پیچھے ڈال دیا جائے تو عام چندوں سے روپیہ خرچ کرنا پڑتا ہے اور اس طرح ان لوگوں کو جو نہایت معمولی گذارہ پر یہاں کام کرتے ہیں تنخواہیں نہیں مل سکتیں جس سے انہیں تکلیف پہنچتی ہے.اسی طرح دوکانداروں کو بھی جن کی آمد دوسری جگہوں کی نسبت بہت ہوتی ہے روپیہ مہیا نہیں ہو سکتا.خصوصاً اس موسم میں چونکہ سردی کا آغاز ہوتا ہے اس لئے ہر شخص کو کچھ نہ کچھ کپڑوں کی ضرورت ہوتی ہے.کسی نے لحاف بنوانا ہوتا ہے کسی کو کسی اور گرم کپڑے کی ضرورت ہوتی ہے اور اس سے علاوہ نقصان کے طبائع پر برا اثر پڑتا ہے.
خطبات محمود ۵۲۴ سال ۶۱۹۲۸ مجھے سے وہ اعلان مخفی نہیں جو اخباروں میں شائع ہوئے ہیں اور جنہیں شاید کار کن پیش کریں مگر جس رنگ میں یہ تحریک کی جانی چاہئے تھی اس رنگ میں نہیں پیش کی جاتی.اس تحریک کو تو نومبر کے شروع میں جاری کر دینا چاہئے تھا تا بعد میں تکالیف نہ ہوں.میں ان کارکنوں کو بھی اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو خاص جلسہ کے متعلق کام کرتے ہیں کہ اب ہمارا جلسہ خدا کے فضل سے اس حد تک ترقی کر چکا ہے کہ اس کے اخراجات کے لئے ایک بڑی رقم کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے اخراجات آہستہ آہستہ ترقی کر کے اٹھارہ ہزار پر پہنچ گئے ہیں.اور اب جب کہ ریل آگئی ہے تعجب نہیں کہ وہ یکدم بہت زیادہ ہو جائیں اس لئے ایسے کارکنوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس احتیاط سے کام کریں کہ خرچ کم سے کم ہو کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ یا تو دوسرے کام بند کرنے پڑیں گے اور یا پھر جلسہ میں آنے والوں کے لئے روکیں ڈالنی پڑیں گی.کیونکہ ہم کسی تحریک کو اسی وقت تک چلا سکتے ہیں جب تک اس کے اخراجات کے برداشت کرنے کی طاقت ہم میں موجود ہو اور جب اخراجات برداشت کی طاقت سے بڑھ جائیں تو اس کام میں روکیں ڈالنی پڑتی ہیں.اور ہمیشہ جب کسی کام میں روکیں پیدا کی جائیں تو اس کی طرف سے لوگوں میں غفلت پیدا ہو جاتی ہے.مدرسہ احمدیہ میں پہلے بہت زیادہ طالب علم آنے لگے تھے.میں نے منتظمین سے کہا کہ اس میں کچھ روک ڈالا دو تا اس کثرت سے نہ آئیں اور روک ڈالنے کا اب یہ نتیجہ ہوا ہے کہ طلباء کی تعداد میں بہت زیادہ کمی ہو گئی ہے.جب روک ڈالی جائے تو طبائع میں جوش کم ہو جاتا ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جتنی کمی کی ضرورت ہوتی ہے اس سے بہت زیادہ کمی ہو جاتی ہے.لیکن یہ جلسہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالٰی کے حکم سے ایسے رنگ میں قائم کیا ہے کہ جماعت کے لئے خدا تعالی کی بہت سی برکات اس سے وابستہ ہیں اس لئے شرعاً اس میں روک پیدا کرنا بھی درست نہیں.دوسری صورت یہ ہے کہ دوسرے کام بند کرنے پڑیں گے لیکن یہاں کوئی بھی کام معمولی نہیں جسے بند کیا جا سکے.لنگر خانہ ، تبلیغ، تعلیم و تربیت و غیرہ سب کام ضروری ہیں.پس بہترین ذریعہ یہی ہے کہ اخراجات ایسے رنگ میں کئے جائیں کہ خرچ کم ہو اور آدمی زیادہ آئیں.سوائے اقتصاد اور کفایت شعاری کے اور کوئی ذریعہ نہیں.کارکنوں کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے.جب آدمی کوشش کرے تو کوئی نہ کوئی رستہ ضرور نکال لیتا ہے.مثلاً میں نے انگلستان میں دیکھا ہے وہاں یہ قاعدہ ہے کہ جب کوئی
ساا خطبات محمود ۵۲۵ سال ۱۹۲۸ء آدمی کسی ہوٹل یا ریسٹورنٹ یا کسی اور ایسی جگہ جائے جہاں خادم ہوں تو اسے ان خادموں کو کچھ نہ کچھ دینا پڑتا ہے اور یہ رواج وہاں اتنا اہم ہو گیا ہے کہ بعض ہوٹلوں نے اسے اپنے قوانین میں داخل کر لیا ہے اور بل کے ساتھ نوکر کے لئے بھی کچھ نہ کچھ وصول کر لیتے ہیں.مثلاً بل دیتے وقت اگر دس آنہ کا کھانا ہو گا تو ایک آنہ ساتھ نوکر کا جمع کر کے گیارہ آنہ وصول کریں گے.اور اس کا یہاں تک اثر ہے کہ بعض ہوٹل اپنے نوکروں کو تنخواہ نہیں دیتے بلکہ الٹا ان سے کچھ وصول کرتے ہیں.تو یہ رواج ہے اور اس کے لئے وہاں لوگ لازما نوکروں کو تنخواہیں کم دیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں ان کو دوسری آمدنی ہو جائے گی.جس طرح گورنمنٹ ڈاکٹروں کو تنخواہیں کم دیتی ہے کہ ان کو فیس سے بھی آمدنی ہو جاتی ہے.اسی طرح ولایت کے ہوٹلوں کے نوکروں کو بھی تنخواہیں کم ملتی ہیں.لیکن وہاں ایک کمپنی ہے جس کے A.B.C نام سے تقریباً ہر جگہ ہوٹل موجود ہیں.لندن کے شہر میں تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر ان کے ریسٹورنٹ پائے جاتے ہیں.ان کا یہ قانون ہے کہ کسی نوکر کو کچھ نہ دیا جائے اور ظاہر ہے کہ اس وجہ سے انہیں لازماً نوکروں کو بہت زیادہ تنخواہیں دینی پڑتی ہوں گی.مگر وہ صرف ۶ آنے میں پوری چائے مہیا کرتے ہیں.یعنی پیسٹری وغیرہ سمیت اور یہ ایسا کم نرخ ہے کہ یہاں ہندوستان میں بھی اتنی سستی چائے نہیں مل سکتی.میں اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب ایک دفعہ جان رہے تھے میں نے کہا آؤ تجربہ کریں ہم چلے گئے اور اچھی طرح دونوں نے چائے پی مگر بل انہوں نے صرف ۱۲ آنے کا دیا حالانکہ میرا اندازہ اس سے بہت زیادہ کا تھا اور دوسری جگہوں پر بھی اس سے بہت زیادہ چارج کیا جاتا ہے.دکان آدمی ہمیشہ فائدہ کے لئے کرتا ہے مگر جس چائے کے لئے دوسرے ڈیڑھ دو روپیہ لیتے ہیں وہ صرف ۶ آنے میں دے دیتے ہیں.اور یہ ضروری ہے کہ انہیں ۶ آنے میں بھی فائدہ ہوتا ہو گا ورنہ ان کو کیا پڑی ہے کہ نقصان کے لئے اتنی دکانیں جاری کریں.ضروری ہے کہ غور کر کے انہوں نے کوئی ایسی تدبیر نکالی ہو جس سے نوکروں کو بھی زیادہ تنخواہیں دے کر ا آنے میں بھی نفع حاصل کر سکیں یہ ہمارے کارکنوں کے لئے سبق ہے.انسان جب غور کرے تو وہ ضرور کوئی نہ کوئی رستہ نکال لیتا ہے.کارکن کہہ دیتے ہیں اب کے دو ہزار آدمی زیادہ آئے تھے اس لئے خرچ دو ہزار زیادہ ہو گیا حالانکہ ان کے کام کی خوبی یہ ہے کہ آدمی دو ہزار زیادہ آئیں مگروہ خرچ دو ہزار کم کر کے دکھائیں.انہیں دیکھنا چاہئے کہ ہماری جماعت غریب جماعت ہے اس لئے خرچ کو جس قدر بھی ہو سکے محدود کرنا
۵۲۶ سال ۱۹۲۸ء خطبات محمود چاہئے اور تھوڑے روپیہ میں زیادہ کام کرنا چاہئے.جماعت کے دوستوں کو بھی میں نصیحت کرتا ہوں کہ گو کام کرنے والوں نے ان سے مدد نہیں مانگی مگر پھر بھی ان کے ذہن میں اگر کوئی مفید تجویز ہو جس سے اخراجات میں تخفیف ہو سکے تو اسے پیش کریں.میں نے اس کے لئے پچھلے سال ایک کمیٹی بنائی تھی مگر باوجود اس کے اخراجات میں کمی نہیں ہوئی اس لئے اگر کوئی ایسے دوست ہوں جو کوئی ایسی تجویز بتا سکیں جس سے اخراجات میں کمی ہو سکے تو انہیں خود چاہئے کہ اپنی باتوں کو زور سے پیش کریں.اگر ان کی تجویز درست ہوئی تو انہیں ثواب بھی ہوگا اور سلسلہ کو فائدہ بھی پہنچے گا.اور اگر ان کی تجویز نہ مانی گئی تو ان کو ثواب ضرور ہو جائے گا اور اگر وہ درست ہے اور پھر کوئی اسے نیک نیتی سے رد کرتا ہے تو بھی دونوں کو ثواب ہو گا اور اگر کوئی جان بوجھ کر اسے رد کرے گا تو اس صورت میں بھی ان کو ثواب پہنچے گا اور جان بوجھ کر رد کرنے والے کو گناہ ہو گا.پس دوستوں کو چاہئے کہ ایسے کاموں میں شرمایا نہ کریں.لوگ کہتے ہیں کہ ہماری مانی نہیں جاتی حالانکہ مشورہ دینے سے اس کا کوئی تعلق نہیں.کئی ایسے ظالم باپ ہوتے ہیں کہ بچوں کی تربیت و تعلیم کے متعلق ماں کی رائے کبھی نہیں سنتے مگر باوجود اس کے ماں اپنی رائے کا اظہار کرنے سے کبھی باز نہیں رہتی.تو ماننے یا نہ ماننے کے سوال کا اخلاص میں کوئی دخل نہیں ہوتا بلکہ سوچنا چاہئے کہ ہمارا اپنا کام ہے ہم ضرور دخل دیں گے.پس دوستوں کو چاہئے کہ کسی کے ذہن میں اگر کوئی مفید تجویز آئے تو ضرور پیش کریں اس کے علاوہ بعض کام جو مقامی جماعت نے ہی کرنے ہیں ان کی طرف بھی خاص خیال رکھنا چاہئے.مثلاً مکانات مہیا کرنا یا مہمانوں کی خدمت کرنا یا چندہ کی تحریک جب بھی ہو اس میں خصوصیت سے لینا چاہئے کیونکہ وہ میزبان ہیں.مہمان نوازی کے اخراجات چونکہ یہاں کے لوگ برداشت نہیں کر سکتے اس لئے باہر سے امداد لی جاتی ہے ورنہ اخلاقی طور پر مہمان نوازی ان کا حصہ ہی فرض ہے.باہر سے چند ایک خطوط اس قسم کے بھی موصول ہوئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ بغیر تحریک کے چندہ میں حصہ لے رہے ہیں اور انہیں اس بات کا احساس ہے کہ اس سال ریل کی وجہ سے زیادہ لوگ آئیں گے اور ایک جماعت نے تو اس سال پچاس فیصدی زیادہ چندہ دیا ہے.پس میں یہاں کی جماعت کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ چندہ میں دوسری جماعتوں سے زیادہ حصہ لے اور میں امید کرتا ہوں کہ ناظر اور کارکن اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کی طرف
خطبات محمود ۵۲۷ سال ۱۹۲۸ء توجہ کریں گے.یہ بھی غلطی ہوئی ہے کہ ان دنوں میں ٹورنامنٹ شروع کر دیا گیا ہے یہ دن ٹورنامنٹ کے لئے موزوں نہیں.ان ایام میں ساری توجہ جلسہ کی طرف ہونی چاہئے تھی.اور یہ طریق بھی غلط ہے کہ ہر کام میں سارا حصہ ناظر ہی لیں.اس سے دوسرے لوگوں میں کام کرنے کی عادت جاتی رہتی ہے.وہ سمجھتے ہیں جو کام کریں گے ناظر ہی کریں گے.دوسرے لوگوں کو بھی کاموں میں حصہ لینے کا موقع دینا چاہئے.سوائے اہم اور ضروری کاموں کے ناظروں کو حصہ لینا ہی نہیں چاہئے.میں اس کے متعلق پہلے بھی بیان کر چکا ہوں اگر ان کو کھیلنا ہو تو جاکر کھیلیں اور اس طرح ثابت کریں کہ وہ ماتحتی بھی کر سکتے ہیں صرف افسری کرنا ہی نہیں جانتے.یہ سخت بے اصولا پن ہے ناظر بیت المال کو ٹورنامنٹ کا سیکرٹری بنا دیا گیا وہ کچھ دن ٹورنامنٹ سے قبل اور کچھ دن بعد رپورٹ وغیرہ مرتب کرنے کے لئے کسی اور کام کی طرف توجہ نہیں دے سکے گا اور یہی وجہ ہے کہ جلسہ کی تحریک پوری طرح نہیں ہو سکی حالا نکہ کوئی مدرس یا اور آدمی ٹورنامنٹ کا سیکرٹری بنایا جا سکتا تھا.ناظروں کو اگر ضرورت ہوتی تو کھیل وغیرہ میں شامل ہو جاتے یا دیکھ لیتے.غرض مقامی کام مقامی لوگوں کے سپرد ہونے چاہئیں تا دو سرے کام کرنے والوں کا وقت ضائع نہ ہو.امید ہے کہ آئندہ ناظر صاحبان مقامی کاموں میں دخل نہیں دیں گے.وہ بے شک کھیلیوں میں شریک ہوں تا صحت نہ خراب ہو.رسول کریم ﷺ صحت کا خاص خیال رکھتے تھے.ایک دفعہ آپ نے مسجد میں جیشیوں کا کھیل دیکھا.ا گویا اس کو اتنا اہم کام سمجھا کہ مسجد میں کرا لیا.اگر ہم اس قسم کا کوئی کام کرا ئیں تو شور مچ جائے اور شاید احمدی بھی شور مچا دیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں ایسا نہیں ہوتا تھا.حضرت خلیفہ اول کے وقت میں نہیں ہوتا تھا یہ بھی بدعت شروع ہو گئی.مگر رسول کریم نے ایسا کرنے کی اجازت دی.مسلمانوں نے آخر دنیا میں کام کرنے تھے اگر صحت کا خیال نہ رکھتے تو کام کس طرح کرتے.ایک مرتبہ تیر اندازی کا مقابلہ ہو رہا تھا رسول کریم بھی جاکر ایک پارٹی میں شامل ہو گئے لیکن دوسرے فریق نے اس لئے تیر پھینکنے سے انکار کر دیا کہ ہم رسول کریم ﷺ کے مقابلہ میں کس طرح تیر چلا ئیں اس پر آپ علیحدہ ہو گئے.تو کھیلوں میں حصہ لینا ناجائز نہیں صرف انتظامی امور میں ناظروں کو دخل نہیں دینا چاہئے.کھیل کے لحاظ سے اس کی اہمیت میں نہیں گراتا.میں نے خود ٹورنامنٹ جاری کرایا تھا.قوم میں ولولہ اور امنگ اور آثار زندگی پیدا کرنے کے لئے میرے خیال میں یہ نہایت ضروری
خطبات محمود ۵۲۸ سال ۶۱۹۲۸ |- اور مفید ہے.اور جرات و بہادری پیدا کرنے کا ذریعہ ہے.مثلاً کل جو لڑکے چھت سے کودتے تھے وہ نہایت جرات اور بہادری کا کام ہے میں سمجھتا تھا میں تو نہیں کو د سکتا لیکن چھ چھ سات سات برس کے لڑکے نہایت بے باکی سے کود رہے تھے.اس قسم کی باتوں سے فوجی سپرٹ پیدا ہوتی ہے اس لئے ناظر بے شک ان میں حصہ لیں مگر انتظامی امور میں حصہ نہ لیں.پھر اس قسم کی کھیلیوں کے کام جلسہ کے قریب نہیں ہونے چاہئیں تا توجہ زائل نہ ہو.کارکنوں کو عقل اور دماغ پر زور دے کر ایسی تجاویز نکالنی چاہئیں کہ جلسہ کا خرچ بھی کم ہو اور انتظام بھی بہتر ہو سکے.باقی آدمی اور روپیہ کا لانا اللہ تعالیٰ کا کام ہے.کسی نے کہا ہے خود کو زہ و خود کوزہ گرو خود گل کو زہ.اگر چہ یہ ہمہ اوست کا خیال ہے اور ان معنوں میں غلط ہے مگر اس میں شک نہیں کہ یہ اسی کا کام ہے.وہی روپیہ لانے والا ہے اور وہی لوگوں کو لانے والا ہے اور اسی سے دعا کرنے چاہئے کہ سب سامان درست ہو جائیں.خطبہ ثانیہ میں فرمایا :- اگر چہ خطبہ میں بولنا منع ہے مگر کسی نے سوال کیا ہے کہ عورتیں بھی ٹورنامنٹ دیکھنے جاتی ہیں.میرے خیال میں یہ کوئی اعتراض کی بات نہیں.عورتیں کیوں نہ دیکھیں جب کہ انہوں نے بچے پیدا کرنے ہیں.رسول کریم ﷺ نے خود حضرت عائشہ کو جیشیوں کے کرتب دکھائے.پھر آپ ایک مرتبہ لڑائی سے واپس آرہے تھے تو لشکر کے سامنے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ دوڑ کی.اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بڑھ گئیں.پھر ایک دفعہ آپ بڑھ گئے اور فرمایا عائشہ تلكَ بِتِلْكَ یعنی یہ بدلا ہو گیا.ہے اگر عورتیں برقعہ پہن کر چل پھر سکتی ہیں تو وہاں جا کر بیٹھ جانے میں کیا حرج ہے.بخاری کتاب الصلوۃ باب اصحاب الحرب في المسجد الفضل ۳۰ / نومبر ۱۹۲۸ء) ابوداؤ د کتاب الجھا باب في السبق على الرجل میں هَذِهِ بتِلكَ السَّبَقَةِ کے الفاظ ہیں.
خطبات محمود ۵۲۹ ۶۹ سال ۱۹۲۸ء چندہ سالانہ جلسہ کے لئے دوبارہ تحریک فرموده ۳۰/ نومبر ۱۹۲۸ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: کو پچھلے جمعہ کے خطبہ میں جلسہ کے متعلق میں بعض باتیں بیان کر چکا ہوں لیکن آج جب کہ میں نماز جمعہ کے لئے آنے کی تیاری کر رہا تھا ایک دوست نے کہا کہ میں پھر چندہ کے متعلق تحریک کروں.گو میں اس عقیدہ کا آدمی ہوں کہ اسی کام میں برکت ہوتی ہے جس کی تحریک انسان کے اپنے نفس سے پیدا ہوتی ہے اور ایک مؤمن کے لئے اس کا قلب ہی اس کے فرائض یاد دلانے کے لئے کافی ہوتا ہے.دوسرے کی طرف سے اشارہ ہی ہوتا ہے اسے بار بار کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور جو لوگ اپنی ذمہ داری کو خود نہ سوچیں اور محسوس نہ کریں ان کو بار بار کہنا چنداں مفید نہیں ہوتا پھر اس طرح کہنے کا جو نتیجہ نکلے وہ بھی ایسا با برکت نہیں ہوتا.بار بار کہنے کی ضرورت کمزوروں کے لئے ہوتی ہے یا اس خیال سے ہو سکتی ہے کہ شاید بعض لوگوں تک ابھی آواز نہ پہنچ سکی ہو.چونکہ ہماری جماعت وسیع ہو رہی ہے اور پہلے کی نسبت بہت وسیع ہو چکی ہے اس لئے ایک تحریک کا ایک ہی دفعہ سب تک پہنچ جانا نا ممکن ہو تا ہے اس وجہ سے ضرورت پیش آتی ہے کہ متواتر کی جائے تا بار بار لوگوں کی نظروں سے گذرے اور ان کے ذریعہ سے دوسروں تک پہنچے.گو جماعت کی وسعت اس حد تک ہو چکی ہے کہ اس طرح بھی ہم سب کو نہیں پہنچا سکتے.کئی ایسے ملک ہیں کہ وہاں احمدی موجود ہیں مگر ہم ان کی زبانیں بھی نہیں جانتے سلسلہ کا لڑیچر کسی خدا کے بندہ کے ذریعہ ان تک پہنچا اور انہوں نے قبول کر لیا.مگر ہمارے پاس اپنے حالات ان تک پہنچانے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے.بهر حال اگر آواز بار بار اٹھائی جائے تو جن لوگوں تک اس کا پہنچنا ممکن ہو سکتا ہے ان تک پہنچ
خطبات محمود سال ۱۹۲۸ء سکتی ہے اور یہی وجہ ہے جسے مد نظر رکھتے ہوئے دوبارہ تحریک کی جا سکتی ہے اور اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے آج میں دوبارہ تحریک کرتا ہوں.میرے نزدیک جلسہ کے اخراجات کی برداشت قادیان کے رہنے والوں یا زیادہ سے زیادہ ضلع گورداسپور کے احمدیوں کو کرنی چاہئے کیونکہ مہمان نوازی مقامی لوگوں کا ہی حق ہوتا ہے اور مقامی مہمان نوازی انہی لوگوں کے ذمہ ہوتی ہے جہاں وہ کام کیا جاتا ہے.اسلام نے مہمان نوازی پر جس قدر زور دیا ہے اسے مد نظر رکھتے ہوئے یہ کوئی بڑی بات نہیں.دنیا میں لوگ اس کو سے بہت بڑے بڑے کام کرتے ہیں لیکن نقص یہ ہے کہ بہت سے لوگ اس کی اہمیت کو نہیں سمجھتے اور بہت سے لوگوں کے دلوں میں وہ تو شکل نہیں جس کی ایسے کاموں کے لئے ضرورت ہوتی ہے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ چند چیزیں ایسی ہیں جن کا کرنے والا قیامت کے دن خدا تعالیٰ کے عرش کے سایہ کے نیچے ہو گا.اور ان میں ایک وہ دوستی ہے جو انسان خدا تعالیٰ کے لئے کسی سے رکھے.ا یعنی محض اللہ تعالیٰ کی خاطر کسی کی خدمت کرے.اور اس میں کیا شبہ ہے کہ ہمارے جلسہ کی مہمان نوازی اسی قسم کی دوستی پر مبنی ہے.جو لوگ مہمان ہوتے ہیں ان میں کئی ایک کی شکلوں سے بھی ہم لوگ واقف نہیں ہوتے اور ان سے کوئی تعارف نہیں ہوتا اس لئے یہ مہمان نوازی محض اللہ تعالی کے لئے ہی ہو سکتی ہے.پھر حضرت خدیجہ سے روایت کہ وحی نبوت کے نزول کے وقت جب آنحضرت ا پر خوف طاری ہوا تو انہوں نے آپ سے کہا خدا تعالٰی آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا کیونکہ آپ مہمان نواز ہیں.تا گویا مہمان نوازی ان چیزوں میں سے ہے جن سے انسان ضائع ہونے سے بچ جاتا ہے.بات یہ ہے جو مال صحیح مہمان نوازی پر صرف ہو وہ انسان کی تباہی کا موجب نہیں بلکہ انسان کی ترقی کا موجب تا ہے.مجھے یاد ہے حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں ایک دفعہ اسی طرح قحط کے آثار تھے.انجمن نے فیصلہ کیا کہ جلسہ تین دن کے بجائے صرف دو دن کیا جائے.میں گو اس کی تائید میں نہ تھا مگر مخالف بھی نہ تھا اور اس وقت میرے ذہن میں یہ آیا ہی نہیں کہ اس کا کیا نتیجہ ہو گا اور اتفاق کی بات ہے ان دنوں میں ہی مہمان خانہ کا منتظم تھا.حضرت خلیفہ اول نے مجھے مخاطب کر کے لکھا کہ لَا تَخْشَ عَنْ ذِي الْعَرْشِ اقْلَالاً
خطبات محمود ۵۳۱ سال ۱۹۴۸ء یعنی عرش کے مالک سے یہ امید نہ رکھو کہ وہ رزق میں کمی کر دے گا جلسہ کے دو دن رکھنا خدا تعالی پر بدظنی ہے.جب میں نے یہ پڑھا تو مجھے اس بات میں بہت لطف آیا اور میں سمجھا کہ حقیقی تو کل یہی ہے کہ جب انسان یہ سمجھے یہ کام خدا کی طرف سے ہے اور اسے کرنے کا حکم اس نے دیا ہے تو پھر یہ خیال کرنا کہ اس کی سر انجام دہی کے لئے ایثار اور قربانیاں کرنے سے ہم ضائع ہو جائیں گے بیوقوفی کی بات ہے.اگر کسی رستہ پر چلنے سے انسان برباد ہو جائے تو یہ بات یقیناً اس رستہ کے غلط ہونے کی علامت ہے.افراد کا مالی لحاظ سے کمزور ہو جانا معمولی بات ہے.یہ بات ہر قوم میں پائی جاتی ہے لیکن مِنْ حَيْثُ القَومِ قربانیوں سے تباہ ہو جانا اس رستہ کے جھوٹے ہونے کی نشانی ہے.اس میں شبہ نہیں کہ یہ دن اس قسم کے ہیں کہ ہر طرف مالی تنگی کے آثار نظر آرہے ہیں اور زمینداروں کی حالت تو بہت ہی تکلیف دہ ہے.ان کی دو فصلیں تباہ ہو گئی ہیں.گورنمنٹ اگر چہ نقادی وغیرہ تو پہلے بھی تقسیم کیا کرتی تھی مگر مجھے یاد نہیں کہ آج تک کبھی ایسا ہوا کہ گورنمنٹ نے تمام لگان اراضی معاف کر دیا ہو.کسی ایک گاؤں وغیرہ میں معاف کر دینا علیحدہ بات ہے لیکن بہت بڑے علاقہ میں کبھی معاف نہیں کیا تھا لیکن اس سال گورنمنٹ نے چالیس لاکھ روپیہ معاف کر دیا ہے اور نقادی وغیرہ کے اخراجات ملا کر پچھتر لاکھ روپیہ زمینداروں پر صرف کیا ہے اور صوبجات آگرہ واودھ کی حکومت نے ایک کروڑ دس لاکھ اس مد میں خرچ کیا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سال زمینداروں کی تباہی غیر معمولی تباہی ہے اور ضروری ہے کہ اس تباہی کا اثر دوسرے لوگوں پر بھی پڑے.وکیل ، ڈاکٹر کلرک ہر ایک اس سے متاثر ہو گا کیونکہ کھانا سب کے لئے ضروری ہے.زمینداروں کی فصل تباہ ہونے سے غلہ نہیں ہوا اور لازماً جس کا گزارہ پہلے دس روپیہ میں ہو جاتا تھا اب اس کا گزارہ بارہ تیرہ روپیہ میں ہو گا مگر باوجود اس کے وہی بات ہے کہ جو کام کرتا ہے وہ کرتا ہی ہے.جب انسان خدا تعالی کے رستہ میں تکلیف اٹھائے تو خدا تعالیٰ اس کی تکالیف دور کرنے کے سامان خود پیدا کر دیتا ہے.یہی دلیل تھی جو حضرت خلیفہ اول نے مجھے لکھی.فرمایا میری طرف سے اعلان کر دو کہ صدقہ خدا تعالی کے غضب کو دور کر دیتا ہے اس تکلیف کا تو علاج ہی صدقہ تھا مگر تم نے اس کا الٹ کیا کہ جلسے کے لئے دو دن کر دیئے.یاد رکھنا چاہئے کہ تباہی کے اسباب میں سے ایک پہلو خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا بھی ہوتا ہے.
خطبات محمود ۵۳۲ سال ۱۹۲۸ء اس کے علاوہ قوانین قدرت کا بھی دخل ہوتا ہے.مگر خدا تعالیٰ کی ناراضگی کے پہلو سے بچنے کا یہی طریقہ ہوتا ہے کہ انسان اور بھی زیادہ قربانیاں کرے اور ثابت کرے کہ وہ خود ہی خدا کے راستہ میں مٹ رہا ہے.اس پر خدا تعالی کو غیرت آتی ہے کہ جو پہلے ہی میرے لئے مر رہا ہے اسے کیا ماروں اس لئے وہ اسے مٹاتا نہیں بلکہ زندہ کرتا ہے.مجھے بچپن کا ایک واقعہ یاد ہے.میں نے ایک کشتی رکھی ہوئی تھی بعض دفعہ تو وہ زنجیر سے باندھ دی جاتی تھی لیکن بعض دنوں میں جب پانی تھوڑا ہو تا تھا کھلی رہتی تھی اور بعض لڑکے اسے لے جاتے تھے اور ایسی بری طرح استعمال کرتے تھے کہ توڑ پھوڑ دیتے تھے.ایک دفعہ اسے بہت ہی نقصان پہنچا اس پر میں نے بورڈنگ کے لڑکوں سے کہا کہ خیال رکھا کریں جب کوئی اسے لے جائے تو مجھے بتائیں.ایک دن مجھے اطلاع دی گئی کہ گاؤں کے لڑکے کشتی لے گئے ہیں میں گیا اور انہیں آواز دی وہ کشتی لے آئے.مجھے بہت غصہ تھا اس لئے میں نے ایک لڑکے کو مارنا چاہا اور میں سمجھتا ہوں اگر وہ مقابلہ کرتا تو غصہ اور بھی بڑھ جاتا لیکن اس نے نہایت انکسار سے کہا لوجی مار لو.اس کے یہ الفاظ سن کر میرا ہاتھ جو مارنے کے لئے اٹھا تھا گویا شل ہو گیا او مجھ پر ایسا اثر ہوا کہ میں نے اسے چھوڑ دیا.میں نے سوچا جو خود کہتا ہے مار لو اسے کیا ماروں.تو یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص کے الہی قحط پڑا ہوا ہے اور ہر طرف تباہی کے آثار نمایاں ہیں مگر ہمارے پاس جو کچھ ہے ہم تیرے لئے خرچ کر رہے ہیں تو خدا تعالٰی اسے تباہ ہونے دے وہ تو کہے گا کہ تمہیں ماروں گا نہیں بلکہ زندہ کروں گا.اس وقت تنگی کے آثار ظاہر ہیں.پس جو بھی قربانی کرے گا وہ اپنے اوپر ایک موت وارد کرے گا مگر جو بھی خدا کے لئے اپنے اوپر موت وارد کرتا ہے خدا اسے مرنے نہیں دے گا.اس وقت بارش ہو رہی ہے ممکن ہے خدا اسے ہی لوگوں کی تکلیف کم کرنے کا ذریعہ بنا دے.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ بارش تباہی کا موجب بھی ہوتی ہے اور ترقی کا بھی اس لئے ہم کہہ تو نہیں سکتے کہ یہ کیسی ہے مگر چونکہ انہی دنوں میں چندہ کی تحریک کی گئی ہے ہو سکتا ہے خدا تعالی نے بعض لوگوں کی قربانیاں قبول کر کے رحمت کی بارش نازل کی ہو.پچھلے سال غلہ نہیں ہوا.لیکن ہو سکتا ہے خدا تعالیٰ اگلے سال اڑھائی تین گنا زیادہ غلہ کر دے اور سب کسر نکل جائے اور یہ سب کچھ خدا کے اختیار میں ہے.پس گو مجھے دوبارہ کہنے کی ضرورت تو نہیں مگر کمزوروں کے لئے یا اس خیال سے شاید بعض
خطبات محمود ۵۳۳ سال ۱۹۲۸ء لوگوں تک یہ آواز ابھی نہ پہنچی ہو دوبارہ تحریک کرتا ہوں ورنہ مؤمن کے لئے نہ میرے کہنے کی ضرورت ہے نہ کسی اور کے کہنے کی.اس کے بعد میں کام کرنے والوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ بہت سوچ سمجھ کر خرچ کریں.کوئی وجہ نہیں کہ دنیا میں دوسرے لوگ اخراجات کی کمی کی صورت تو نکال سکیں مگر ہماری عقل ایسی دیوالیہ ہو کہ ہم کوئی صورت نہ نکال سکیں اس لئے جہاں میں دوستوں اور خصوصاً قادیان اور ضلع گورداسپور کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اگر وہ باقی چیزیں نہیں تو کم از کم آئے کا خرچ ہی برداشت کریں.وہاں کارکنوں کو بھی مزید توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اخراجات میں کمی کرنے کی کوشش کریں.آٹے کا خرچ برداشت کرنا ادنی ترین مہمان نوازی ہے کیونکہ روٹی کھانے کے بغیر تو کوئی شخص زندہ نہیں رہ سکتا اس کے ساتھ اگر وال یا سالن کو زائد سمجھ لیا جائے تو کم سے کم جو مہمان نوازی آٹے کی ہے یہ تو ہمیشہ ہی قادیان اور ضلع گورداسپور کے دوستوں کو پیش کرنی چاہئے.اگر اس ضلع میں دس ہزار احمدی بھی ہوں تو دس ہزار کے لئے بیس ہزار کے آٹے کا انتظام کیا مشکل ہے.مگر سارے آدمیوں سے کام لینا مشکل ہوتا ہے.اگر ان تمام لوگوں سے با قاعدہ وصولی کا انتظام کیا جائے تو بہت زیادہ خرچ ہو جائے گا اس لئے یہ نہیں ہو سکتا جب تک دوست خود توجہ نہ کریں.یہ کام اپنے طور پر کرنے سے ہی ہو سکتا ہے.اگر دوست ہمت کریں تو کوئی بڑی بات نہیں.دوسرے اخراجات باقی جماعتیں مہیا کر دیں گی.باقی سب کاموں کو چلانے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے.اس سے دعا کرنی چاہئے کہ قحط بھی تیری طرف سے ہیں اور کام بھی تیرے ہی ہیں اس لئے تو ہی اپنے فضل سے ہمارے لئے راستے کھول دے.آمین.مشكوة كتاب الطب والرقی باب الحب في الله و من الله بخاری باب کیف كان بدء الوحی الی رسول الله الله الفضل ۷ / دسمبر ۱۹۲۸ء)
خطبات محمود ۵۳۴ سال ۱۹۲۸ء انتظام جلسہ سالانہ کے متعلق ہدایات (فرموده ۷ / دسمبر ۱۹۲۸ء) تشهد تعوز اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں نے غالباً پچھلے سے پچھلے خطبہ میں دوستوں کو تحریک کی تھی کہ وہ جلسہ سالانہ کے اخراجات میں کمی کرنے کے لئے مشورے دیں.ان مشوروں کو کارکن خواہ منظور کریں یا نہ کریں ان کو اس کا ثواب ضرور مل جائے گا.میرے اس خطبہ کے جواب میں بہت سے دوستوں نے باہر سے بھی اور قادیان سے بھی ایسی تجاویز بھیجی ہیں اور ممکن ہے بعض نے براہ راست کارکنان جلسہ کی انجمن کے سامنے بھی ایسی تجاویز پیش کی ہوں مجھے ان تجاویز کو پڑھ کر خوشی ہوئی.اس لحاظ سے بھی کہ دوستوں کو سلسلہ کے معاملات میں کافی دلچسپی معلوم ہوتی ہے اور اس لحاظ سے بھی کہ جس قدر تجاویز آئی ہیں ان کا بیشتر حصہ معقول اور ایسا ہے جو آپس میں ملتا جلتا ہے.گو یہ مختلف شہروں سے آئی ہیں مگر آپس میں ان کا اتحاد ہے.نقصان کے ذرائع اور ان کے علاج میں تقریباً سب متفق ہیں.گو اس معاملہ کا تعلق اس کار کن انجمن سے ہے جو جلسہ کا انتظام کرتی ہے لیکن چونکہ عام اعلان میری طرف سے کیا گیا تھا نیز اس خیال سے کہ شاید ان میں سے بعض تجاویز پر عمل کرنا بعض دوستوں کے لئے تکلیف دہ ہو یا بعض کے راستہ میں قانونی مشکلات ہوں.قانون سے میری مراد گورنمنٹ کا قانون نہیں بلکہ سلسلہ کا قانون ہے اس لئے میں ان کا عام اظہار کرنا ہی مناسب سمجھتا ہوں تا اگر باہر سے آنے والوں کے لئے بعض تبدیلیاں تکلیف دہ ثابت ہو سکتی ہوں تو وہ ان کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہو کر آئیں.بہت سے دوستوں نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اخراجات میں بہت سی زیادتی پر ہیزی کھانے سے ہو جاتی ہے اس لئے جس طرح ہو سکے اس پر ہیزی کھانا کا علاج ہونا چاہئے.میں تو
خطبات محمود ۵۳۵ سال ۶۱۹۲۸ شروع سے ہی اس نام کا مخالف ہوں کیونکہ یہ نام بہت دھوکا دینے والا ہے.اور جس سال یہ رسم شروع ہوئی تھی میں نے کہا تھا کہ جو بات آپ لوگ چاہتے ہیں اسے بہادری سے پیش کریں غلط ناموں سے اسے کیوں تعبیر کرتے ہو.مگر اس وقت ان کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی اور میں نے حکماً اسے بند کرنا اس لئے مناسب خیال نہ کیا کہ یہ کوئی دینی بات نہ تھی اگر چہ یہ رواج حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے وقت میں بھی تھا کہ بعض لوگوں کے لئے خاص کھانے تیار کئے جاتے تھے مگر ان دنوں لوگ بہت کم آتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کے ایام کے آخری جلسہ پر صرف سات سو آدمی تھے.چونکہ اس وقت اتنے زیادہ لوگ نہ آتے تھے اس لئے اسی نسبت سے خاص کھانا کھانے والوں کی تعداد بھی بہت کم ہوتی تھی اس لئے ایسا کھانا گھر سے ہی آجایا کرتا تھا.اگر میں اکیس آدمی خاص کھانا کھانے والے ہوں تو اتنے لوگوں کے لئے گھر میں کھانا تیار کر لینا کوئی مشکل کام نہیں تھا.بہر حال اس زمانہ میں ایسا انتظام ضرور تھا گو ایسا وسیع نہیں تھا جتنا اب ہے.آہستہ آہستہ وہ لوگ جو انتظام میں زیادہ دخل اور تصرف رکھتے تھے اپنے لئے اور پھر اپنے دوستوں کے لئے ایسے کھانے پکوانے لگے.اس پر اعتراض بھی ہوئے اور معترضین نے یہ دلیل پیش کی کہ مسیح موعود کے لنگر میں خاص کھانے کا کیا ذکر ہے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے جب یہ اعتراض پیش ہوا تو آپ نے فرمایا جو فرق خدا نے رکھا ہے میں اسے کیسے مٹا دوں.بعض لوگ وال کے نام سے بھی ڈرتے ہیں حالانکہ بعض صورتوں میں وہ گوشت سے بھی زیادہ مقوی ہوتی ہے تو جو عادت وہ گھر سے لے کر آیا اسے ہم کس طرح بدل سکتے ہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فیصلہ کے خلاف ہم نہیں کر سکتے.جلسہ کے دنوں میں اگر خاص ، عام اور درمیانہ درجہ کے کھانے کا انتظام کیا جائے تو نہ تو اتنے کارکن میسر آسکتے ہیں اور نہ ہی اخراجات برداشت کئے جاسکتے ہیں.نیز اس طرح عام لوگوں کو شکایت کا موقع بھی ملتا ہے کہ فلاں کو خاص کھانا دیا گیا مجھے کیوں نہیں دیا گیا اس لئے کارکنوں نے اس سے بچنے کے لئے یہ بہانہ کیا کہ اس کا نام پر ہیزی کھانا رکھ دیا جائے.جس سے سننے والا یہی سمجھ سکتا ہے کہ یہ بیماروں کا کھانا ہے اور مئولفتہ القلوب کے طور پر بعض احمدیوں اور غیر احمدیوں کو بھی اس پر ہیزی میں شامل کر لیا گیا.مگر کجا مانند آن رازے کزو سازند محفلیا.ہوتے ہوتے پر ہیزی کافی تعداد تک جا پہنچی.پہلے سال تو کار کن بہت خوش ہوئے کہ اس طرح
خطبات محمود ۵۳۶ سال ۱۹۲۸ء کرنے سے خرچ بہت کم ہو گیا ہے لیکن بعد میں تعداد اس قدر بڑھ گئی کہ انہیں اس کے اڑانے کی فکر ہوئی.اور یہ مسئلہ پچھلے سے پچھلے سال مجلس شورٹی میں بھی پیش ہوا.گو بعض شدت سے اس کے مخالف تھے مگر کثرت رائے اس کے جاری رکھنے کے حق میں تھی.اس پر میں نے اس کو جاری رکھنے کی منظوری دی.اور کہا کہ اس سال تجربہ کر کے اس انتظام کو دیکھ لیا جائے.اگر آرام رہا تو بہتر ورنہ اگلے سال یہ تجویز پھر پیش ہو جائے گی.چنانچہ یہ طریق قائم رہا.اور چونکہ میں ایسے فیصلہ کو توڑنا پسند نہیں کرتا جو جماعت نے کیا ہو سوائے کسی خاص مجبوری کے اس لئے اسے جاری ہی رہنا چاہئے.جب ہم سینکڑوں ہزاروں میلوں سے جماعت کے نمائندوں کو بلاتے ہیں تاکہ متحدہ فیصلہ کیا جا سکے تو پھر اگر اس فیصلہ کو بلا وجہ توڑ دیا جائے تو یہ بات چنداں پسندیدہ نہیں اور اس کا لازمی نتیجہ اس قسم کی استبدادیت ہو گا جو اسلام میں جائز نہیں.اسلام نے مشورہ کا حکم دیا ہے اور اس مشورہ کے احترام کا حکم بھی دیا ہے.گو خلیفہ کو اختیار دیا ہے کہ وہ مفاد سلسلہ کے لئے کثرت کے فیصلہ کو بھی مسترد کر سکتا ہے مگر جہاں تک ممکن ہو اس کی پابندی اور جماعت کے مشترکہ فیصلہ کے احترام کا حکم دیا ہے.پس اس کو اڑانے کے لئے یہ مشکل درمیان میں ہے.مگر اب ایسی شکایات بھی پہنچی ہیں کہ اس سے خرچ زیادہ ہو گیا ہے اور اگر یہ شکایت صحیح ہے تو اس کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے.خصوصاً اس سال جب کہ قحط پڑا ہوا ہے اور ممکن ہے اس سال خرچ بڑھ جائے.پس اس سال اخراجات میں تخفیف کا سوال اور جماعت کے مشورہ کا احترام میرے مد نظر ہیں اس لئے میرا خیال ہے کہ کوئی اپنی تدبیر سوچنی چاہئے جس سے کوئی ایسا درمیانی رستہ مل سکے.جس سے کثرت رائے کا فیصلہ بھی مسترد نہ ہو اور خرچ میں بھی کمی ہو سکے.اس میں شبہ نہیں کہ خدا تعالٰی نے مجھے فیصلہ کے مسترد کرنے کا بھی اختیار دیا ہے.مگر میں سمجھتا ہوں کوئی ایسی اہم ضرورت در پیش نہیں کہ میں اسے رو کروں اور اگر ایسی تدابیر اختیار کرلی جائیں جن سے مشورہ کا احترام بھی قائم رہے اور خرچ بھی کم ہو تو یہ طریق بہت بہتر ہے.چونکہ دوستوں سے مشورہ مانگا گیا تھا اور میں نے اسے قبول بھی کر لیا تھا.اس لئے اسے بدلنے سے پہلے ضرروی ہے کہ اسے دوبارہ شورٹی میں پیش کیا جائے.یہ ایک بات ہے جو میں جلسہ کے متعلق بیان کرنا چاہتا ہوں.دوسری بات جسے عام طور پر دوستوں نے پیش کیا ہے ایسی ہے کہ مجھے حیرت ہوتی ہے اس پر پہلے کیوں توجہ نہیں کی گئی جلسہ میں سب سے زیادہ خرچ آئے کا ہوتا ہے کیونکہ یہاں پر کھانا
خطبات محمود ۵۳۷ سال ۱۹۲۸ء سادہ ہی ہوتا ہے.جہاں پر تکلف دعوت ہو وہاں آٹے کا خرچ سب سے کم ہوتا ہے لیکن جہاں سادہ ہو وہاں آٹا بہت زیادہ خرچ ہوتا ہے.باہر سے بھی اور قادیان کے دوستوں نے بھی لکھا ہے کہ روٹی کچی ہوتی ہے جس میں پختہ حصہ کھا لیا جاتا ہے اور کنارے کاٹ کر پھینک دیئے جاتے ہیں.غلط بیانی کی تو کسی کو ضرورت ہی نہیں مگر بعض اوقات غلط فہمی ہو جاتی ہے لیکن یہ بات اس کثرت سے آئی ہے کہ اس کو غلط فہمی پر محمول نہیں کیا جا سکتا.معلوم ہوتا ہے ایسا ہی ہوتا ہے اور مجھے حیرت ہے کہ آج تک اس پر کارکنوں کی نظر کیوں نہیں پڑی.اس میں کیا شبہ ہے کہ کچی روٹی نہیں کھائی جاسکتی اور اس طرح سینکڑوں آدمیوں کا کھانا ٹکڑوں میں چلا جاتا ہے.اور ضائع ہو جاتا ہے.میں پچھلی غلطی پر اظہار افسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا.میں یہ بھی جانتا ہوں کہ کارکنوں کے راستہ میں مشکلات بھی ہوتی ہیں.اور میں نہیں سمجھتا کہ دنیا میں کوئی اور جگہ بھی ایسی ہو جہاں اتنے آدمیوں کا کھانا ایک انتظام کے ماتحت تیار ہو تا ہو.بعض عرسوں پر بے شک هجوم زیادہ ہوتا ہے لیکن وہاں صرف ایک روٹی ہی ملتی ہے اور ایک روٹی دے دینا معمولی بات ہے.لیکن چودہ پندرہ ہزار آدمیوں کو کئی دن تک کھانا کھلانا بہت مشکل ہے.اور اتنے بڑے انتظام میں کو تاہیاں ہو سکتی ہیں مگر پھر بھی میں کہوں گا کہ کارکنوں کا اس طرف توجہ نہ کرنا قابل افسوس ہے.اور میں امید کرتا ہوں کہ اب وہ ضرور اس طرف توجہ کریں گے.میں نے بھی ایک سال لنگر خانہ میں کام کیا ہے مگر میرا تجربہ اتنا قلیل ہے کہ میں انہیں کوئی مشورہ نہیں دے سکتا.میرے وقت میں صرف ستائیس سو آدمی جلسہ میں شامل ہوئے تھے اس لئے میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ یوں کر لو.مگر یہ مشورہ ضرور دوں گا کہ وہ کوئی نہ کوئی تجویز ضرور نکالیں.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے لكل داء دواوا یعنی ہر مرض کے لئے اللہ تعالی نے دوا پیدا کی ہے اور کچی روٹی بھی ایک مرض ہے اس کی دوا بھی ضرور ہوگی اگر چہ مجھے معلوم نہیں.ان تجاویز میں جو تخفیف اخراجات کے سلسلہ میں مجھے موصول ہوئی ہیں بعض بہت لطیف اور کار آمد ہیں.طالب علموں میں سے احمد یہ سکول کے بوائے سکاؤٹس کی تجاویز بہت کار آمد اور مفید ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اس کے متعلق بہت غور و خوض سے کام لیا ہے.اگر چہ وہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں مگر نہایت لطیف ہیں اور ان سے بہت بچت ہو سکتی ہے.میں ان لوگوں کے متعلق جنہوں نے مشورے دیئے ہیں خصوصاً احمد یہ سکول کے سکاؤٹس کے متعلق اظہار خوشنودی کرتا ہوں.وہ ایسے لطیف ہیں کہ جب میں نے ان کو پڑھا تو مجھ پر اتنا اثر ہوا کہ
خطبات محمود ۵۳۸ سال ۱۹۲۸ء میں نے دستخط دیکھے کہ شاید ان میں کوئی بڑا آدمی ہو مگر دستخط بھی ایک لڑکے کے ہی تھے.یہ تجاویز نہایت ہی معقول ہیں اور ایسی باریک باتیں نکالی گئی ہیں جس طرح کوئی پولیس آفیسر تحقیقات کرتا ہے دستخط کرنے والا اگر چہ پولیس انسپکٹر کا لڑکا ہے مگر وہ خود پولیس انسپکٹر نہیں.اور میں سمجھتا ہوں کہ جتنے مشورے باہر سے یا یہاں سے آئے ہیں ان سب سے زیادہ لطیف سکاؤٹس کے مشورے ہیں.اگر ہمارے طالب علم اس روح سے زندگی بسر کرنے کی کوشش کریں تو یہ امر ہمارے لئے بہت ٹھنڈک کا موجب ہو گا.اور میں امید کرتا ہوں کہ جس طرح انہوں نے تدابیر بتائی ہیں ان پر عمل بھی کریں گے.میں کوشش کروں گا کہ کارکن کمیٹی ان سب کو قبول کرلے مگر ممکن ہے کوئی قبول نہ ہو سکے لیکن ان کا فرض ہے کہ وہ عملی طور پر ایسا کام کر کے دکھا ئیں جو مفید ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے باتیں کرنے سے کام نہیں ہوتے بلکہ کام کام کرنے سے ہی ہوتے ہیں.اور ایک مثال دیا کرتے تھے اور اس پر ہنسا بھی کرتے تھے.فرماتے ایک امیر کے باروچی خانہ میں بہت سے کتے گھسے رہتے تھے.وہ ایک دن دیکھنے آیا تو اسے پتہ لگا کہ اس طرح بہت نقصان ہوتا ہے نوکروں نے کہا کہ جناب کیا کیا جائے دروازہ نہیں اس لئے کئے آجاتے ہیں.اس نے کہا یہ تو معمولی بات ہے.پہلے ہی مجھے اس کے متعلق تم لوگوں نے کیوں نہ بتایا.آخر اس نے احاطہ بنوا دیا اور دروازہ لگا دیا کتوں کو جب یہ ماجرا معلوم ہوا تو وہ رونے لگے.ان کو روتے دیکھ کر ایک بڑھا کتا ان کے پاس آیا اور دریافت کیا کہ تم پر کونسی ایسی مصیبت آئی ہے کہ رو رہے ہو.انہوں نے بتایا کہ مصیبت ہی مصیبت ہے ہمارا سارا گزارا اس باورچی خانہ پر تھا.اب یہاں لگ گیا ہے دروازہ ہم کہاں سے کھا ئیں گے.اس نے کہا بے شک دروازہ تو لگ گیا ہے مگرا سے بند کون کرے گا.تو اصل بات یہ ہے کہ کام کرنے سے ہی کام چلتا ہے.پس میں امید کرتا ہوں کہ سکاؤٹس ان تجاویز پر عمل بھی کریں گے اور جو کچھ انہوں نے کہا ہے اس سے بہتر کام کر کے دکھائیں گے.باقی دوستوں سے بھی میں یہی کہوں گا کہ جہاں تک ہو سکے کفایت مد نظر رکھیں.بعض دوستوں نے ایک اور مشورہ بھی دیا ہے.میں نے جس سال انتظام کیا تھا اس پر عمل بھی کیا تھا گو اس سے غلط فہمی بھی ہوئی مگر اس پر عمل کرنے سے فائدہ ہوا اور خرچ بھی کم ہوا.اور وہ یہ ہے کہ ہر ایک انجمن سے کچھ ایسے کارکن لئے جائیں جو اپنی اپنی جماعتوں کا انتظام کریں.اس سے بہت فائدہ ہوتا ہے.ایک تو یہ کہ وہ لوگ اپنی ضروریات کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں اور اگر کوئی غلطی یا
خطبات محمود ۵۳۹ سال ۶۱۹۲۸ کو تا ہی ہو جائے تو دوسروں کو سمجھا بھی سکتے ہیں کہ ایسا ہو ہی جاتا ہے.دوسرے یہ فائدہ ہوگا کہ بعض دفعہ جو بد دیانت لوگ کھانا لے جایا کرتے ہیں وہ نہیں لے جاسکیں گے.یہاں تو کوئی ایسا بد دیانت یا بھیٹر کے لباس میں بھیڑیا ہو سکتا ہے جو دھوکا دہی سے زیادہ کھانا لے جائے مگر مہمان کو کیا ضرورت ہے کہ وہ اس کی جگہ ہمیں آدمی کا کھانا لے جائے.یہ نہیں ہونا چاہئے کہ وہ سارا کام کریں.کام یہاں کے لوگ ہی کریں لیکن ان کو شامل ضرور کر لیا جائے.اس پر گو اعتراض بھی ہوتے ہیں کہ ہم جلسہ سننے کے لئے آتے ہیں یا کام کرنے کے لئے لیکن اگر انہیں سمجھایا جائے کہ وہ اتنی قربانی کریں کہ جلسہ سننے کے بعد کام بھی کریں.آخر کچھ وقت وہ ادھر ادھر پھرنے میں بھی تو صرف کرتے ہیں تو وہ آمادہ ہو سکتے ہیں.میں نے جس سال ایسا کرنا چاہا پہلے لوگ اس میں شامل نہیں ہوتے تھے لیکن آخر سمجھانے سے وہ اس پر آمادہ ہو گئے.وہ شاید حضرت خلیفہ اول کا آخری یا اس سے پہلا سال تھا.اس میں گو وقت بھی ہو گی لیکن اگر دوست سمجھیں اور قربانی کریں اور ایسے دوست ہر سال بدلتے رہیں تو انتظام میں بہت سہولت ہو سکتی ہے.اس کے بعد میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ یہ خیال کر کے کہ میں کفایت و اقتصاد پر بہت زور دے رہا ہوں جلسہ پر لوگوں کو لانے کی تحریک کو ہی بند نہ کر دیں.کفایت کی تحریک اسی حد تک ہے جہاں تک انتظام کا تعلق ہے.لوگوں کے آنے کے لحاظ سے تو ہمارا فرض ہے کہ اگر ساری دنیا کو لا سکیں تو لے آئیں.ہم کو زید یا بکر کے لئے نہیں کھڑا کیا گیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کبھی یہ نہیں کہا کہ میں کسی مخصوص طبقہ کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں.بلکہ یہ کہا کہ ”دنیا میں ایک نذیر آیا.الخ گویا آپ کا پیغام کسی خاص قوم یا ملک سے مخصوص نہیں بلکہ ساری دنیا کے لئے ہے.پس اگر آسکے تو ساری دنیا بھی آجائے ہم اپنے گھروں میں فاقہ کریں گے اور جو کچھ ہو گا ان کو کھلائیں گے.اور ہم اسی حد تک مکلف ہیں جہاں تک ہماری وسعت ہے.اگر اس کے بعد بھی وہ بھوکے رہیں گے تو ہم جواب دہ نہیں ہوں گے بلکہ ہمارا یہی فعل خدا کو پسند ہو گا.پس دوست کفایت شعاری کے اعلان سے لوگوں کو لانے کی تحریک میں ست نہ ہو جائیں.ضمنا میں یہ بھی ذکر کر دیتا ہوں کہ اس سال ریل آگئی ہے اور شرح کرامیہ اور ٹائم ٹیبل بھی
۵۴۰ سال ۱۹۲۸ء ریلوے والوں نے ہمارے پاس بھیج دیا ہے اس لئے ریل کی وجہ سے جو آسانیاں پیدا ہوئی ہیں.ان سے فائدہ اٹھانا چاہئے.پہلے جو لوگ بوڑھے تھے یا وہ غیر احمدی جن کو کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوتی تھی تکلیف کے خیال سے نہیں آتے تھے لیکن اب آسانی ہو گئی ہے اور خرچ میں بھی کفایت ہو گئی پہلے جہاں ایک روپیہ کرایہ دینا پڑتا تھا.اس سال زیادہ سے زیادہ چار آنے خرچ ہوں گے گویا آنے جانے میں ڈیڑھ روپیہ کی بچت ہو جائے گی.تو اس سال سفر میں سہولت اور اخراجات میں کمی کے باعث اور بھی زیادہ تحریک کرنی چاہئے کہ لوگ جلسہ میں شامل ہوں.ممکن ہے کہ اس سال جو غیر احمدی اصحاب آئیں انہیں پہلے سالوں کی طرح سہولت نہ پہنچ سکے اس لئے ایسے لوگوں کو جو دوست ساتھ لائیں وہ خود ان کا ہر طرح خیال رکھیں.کارکن بھی خیال رکھیں گے مگر انہیں خود زیادہ خیال رکھنا چاہئے اور اگر کوئی کوتاہی ہو جائے تو سمجھایا جائے کہ ایسے مجمع میں ایسا ہو ہی جاتا ہے.ایک برات کے کھانے کا انتظام مشکل ہوتا ہے اور یہاں تو اس قدر ہجوم ہوتا ہے کہ میں نہیں سمجھتا کوئی معقول آدمی اس بات کو نہ سمجھ سکے.پس ساتھ لانے والے خود خیال رکھیں اور سب سے زیادہ یہ ہے کہ خاص دعائیں کی جائیں.یہ آیات کے دن ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے نشان کے دن ہوتے ہیں اس لئے دعاؤں پر بہت زور دینا چاہئے.بعض اوقات ذرا سا نقص تمام کام کو تہ و بالا کر دیتا ہے.اور اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ تمام کام اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہوتا ہیں.جو لوگ نرم بستروں پر بھی کروٹیں بدلتے رہتے ہیں وہ یہاں آکر کسیر پر سوتے ہیں اور پھر سردی کے دنوں میں سارا سارا دن بیٹھ کر تقریریں سننا اور پھر ملاقات کے لئے گیارہ بارہ بجے رات تک بیٹھے رہنا اور پھر بعض اوقات بھی موقع نہ مل سکنا اور پھر ان کا علی الصباح آجانا یہ سب اتنی کوفت ہے کہ بیماری کا شدید خطرہ ہوتا ہے.کل ہی سردی میں درس دینے کے لئے کھڑے رہنے کی وجہ سے گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ تک میری پہلی میں درد رہا.جہاں ایسے اجتماع ہوں وہاں کئی لوگ بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں حالانکہ وہاں اتنا بوجھ نہیں پڑتا.ہندوؤں کا میلہ ہوتا ہے غوطہ لگایا اور باہر آگئے.عرسوں پر بھی قوالی ہی سننا ہوتا ہے.مگر یہاں تو ایسی حالت ہوتی ہے کہ جیسے کسی کو پکڑ کر بیمار کرنے کی کوشش کی جائے.مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے اتنی کم بیماری ہوتی ہے کہ انسانی بیان اس کی حقیقت کو کھول نہیں سکتا.پس خدا تعالیٰ سے دعائیں کرنی چاہئیں کہ اس کا یہ فضل اور بھی زیادہ ہو اور اس میں رکاوٹ پیش نہ آئے.بلکہ یہ ہمیشہ بڑھتا چلا جائے کیونکہ اس کے اس پر فضل
MI خطبات محمود ہمیشہ ترقی کرتے ہیں.۵۴۱ سال ۱۹۲۸ء مسلم کتاب السلام باب لکل دارد و او د استحباب التداوی کے تذکرہ ایڈیشن چهارم الفضل ۱۴ / دسمبر ۱۹۲۸ء)
خطبات محمود ۵۴۲ سال 1927ء ہے) اء خطبہ جمعہ (۲۶ دسمبر ۱۹۱۹ مسجد نور قادیان) نوٹ : ( یہ خطبہ بوجوہ جلد ششم میں شامل نہیں ہو سکا.بطور ضمیمہ اس جلد میں شائع کیا جا رہا الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ إِيَّاكَ نَعبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ، صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ) (الفاتح ۲ تا ( وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَ نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الوريد (ق:12) جلسہ سالانہ پر آنے والے احباب کا خیر مقدم اور خدا کا شکر اللہ تعالی کا فضل اور احسان ہے کہ اس کے مامور اور اس کے مرسل کی قائم کردہ سنت کے ماتحت پھر اس وقت ہماری جماعت کے احباب چاروں طرف سے قادیان میں جمع ہوئے ہیں.در حقیقت لوگوں میں اخلاص کی روح پھونکنا کسی انسان کی طاقت میں نہیں اور اخلاص کی روح اگر کوئی ہستی پھونک سکتی ہے تو وہ خدا تعالیٰ ہی کی ذات ہے.سب سے بڑے اور اعلیٰ انسان رسول کریم ﷺ ہوئے ہیں.مگر آپ کو بھی خدا تعالیٰ فرماتا ہے.لُو انْفَقْتَ مَا فِي الاَرضِ جَمِيعًا مَا الغَتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ - (الانفال: (۱۴) اگر سب کچھ جو دنیا میں پایا جاتا ہے وہ تمام کا تمام بھی تم خرچ کر دیتے تو ان انسانوں کے اندر وہ محبت اور خلوص پیدا نہیں کر سکتے تھے جو خدا نے پیدا کیا.
خطبات محمود ۵۴۳ سال 1927ء میری یہ بات شائد بعض لوگوں کو اصل محبت اور اخلاص نبی سے ہی ہوتا ہے.سمجھ میں نہ آئے اور ان کو خیال پیدا ہو کہ ہم دیکھتے ہیں کہ صرف نبیوں سے ہی لوگوں کو خلوص اور محبت نہیں ہو تا بلکہ بعض دوسرے لوگوں سے بھی ہوتا ہے.لیکن یہ شبہ درست نہیں ہے.اس لئے کہ اول جن اور لوگوں سے انسانوں کو محبت اور اخلاص ہوتا ہے وہ بھی خدا تعالٰی ہی کی طرف سے ہوتا ہے.یعنی بعض دنیاوی اسباب ایسے خدا تعالی پیدا کر دیتا ہے جن کے نتیجہ میں ان سے محبت پیدا ہو جاتی ہے.لیکن حقیقی خلوص اور اصلی محبت لوگوں کی نبیوں سے ہی ہوتی ہے اور یہ اس لئے کہ ان سے جو محبت اور اخلاص ہوتا ہے وہ کبھی ٹوٹنے والا نہیں ہوتا.قیامت کے دن کو نسی محبت کام آئے گی ؟ دنیا اپنی بصیرت اور عقل کی کمی کی وجہ سے اس دن کا انکار کر دے جو موت کے بعد آنے والا ہے اور جس دن ہر ایک انسان کو اس کے اچھے یا برے اعمال کی جزا یا سزا دینے کے لئے زندہ کیا جائے گا مگر اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ دن آئے گا اور ضرور آئے گا.کیونکہ تمام انبیاء نے شہادت دی ہے کہ وہ دن آئے گا جب کہ موت کے بعد تمام انسانوں کو زندہ کیا جائے گا.اور نیکی کے بدلے انعام اور بدی کے بدلے سزا کے لئے انسانوں کو خداتعالی کے حضور حاضر کیا جائے گا.اس دن کون سی محبت اور کونسا اخلاص قائم رہے گا؟ کیا وہ جو دنیاوی اسباب کے ماتحت لوگوں سے ہوتا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں.بلکہ وہی محبت اور اخلاص قائم رہے گا جو محض دین کے لئے خدا تعالیٰ کے نبیوں سے ہو گا.اس میں شک نہیں کہ دنیاوی آدمیوں سے بھی لوگوں کو محبت اور اخلاص ہوتا ہے مگر وہ عارضی ہوتا ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ایک زمانہ اور ایک وقت ایسا آنے والا ہے جب کہ وہ محبت ٹوٹنے والی اور وہ تعلق قطع ہونے والا ہے.اگر اس دنیا میں وہ محبت اور تعلق نہیں ٹوٹا اور اس میں کوئی نقص یا کمی واقع نہیں ہوئی تو اس میں ذرہ بھی شک نہیں کہ دنیا میں وہ تعلاقات جو خدا تعالٰی کے لئے اور اس کے احکام کے ماتحت نہیں ہوتے وہ اس دن ضرور ٹوٹ جائیں گے.حتی کہ ماں کی محبت جو بچہ کے ساتھ نہایت ہی مضبوط مانی جاتی ہے اس کے متعلق بھی خداتعالی فرماتا ہے کہ ٹوٹ جائے گی.ماں کہیں ماری ماری پھرے گی اور بچہ کہیں.لیکن وہ اخلاص اور محبت جو خدا تعالیٰ کے لئے خدا تعالیٰ کے نبیوں سے ہوگی وہ اس دن نہیں ٹوٹے گی اور نہ صرف یہ کہ ٹوٹے گی نہیں بلکہ اور مضبوط ہو جاوے گی.خدا تعالٰی اس دن کے متعلق فرماتا ہے ماں ایک
خطبات محمود ۵۴۴ سال 1927ء طرف بھاگی بھاگی پھرے گی اور بچہ دوسری طرف.باپ ایک طرف پریشان اور سرگردان ہو گا تو بیٹا دوسری طرف خاوند ایک طرف مارا مارا پھرے گا تو بیوی دوسری طرف.گویا ان کی آپس کی محبت ٹوٹ جائے گی اور ہر ایک کو اپنی اپنی پڑی ہوگی.مگر اس وقت لوگ نبیوں سے بھاگیں گے نہیں.بلکہ ان کے پاس دوڑے دوڑے جائیں گے اور کہیں گے کہ خدا تعالی کے حضور ہماری سفارش کرو تاکہ ہم بچ جائیں.تو اس دن جہاں لوگ دوسرے عزیز سے عزیز رشتہ داروں اور پیارے سے پیارے تعلق رکھنے والوں اور معزر سے معزز لیڈروں سے بھاگیں گے اور نہ صرف بھاگیں گے بلکہ ان میں سے بعض سے نفرت اور بیزاری کا اظہار کریں گے وہاں نبیوں کے پاس جائیں گے اور کہیں گے کہ ہمارے لئے خدا تعالیٰ سے سفارش کرو.اس سے معلوم ہوا کہ وہ وقت جب کہ تمام تعلقات قطع ہو جائیں گے اس وقت اگر کوئی تعلق قطع نہیں ہو گا تو وہ نبیوں کا تعلق ہو.گا جو اور مضبوط ہو گا.تو حقیقی خلوص اور اصلی محبت انبیاء سے ہی ہو سکتی ہے.اور وہ خداتعالی ہی کی پیدا کی ہوئی ہوتی ہے.پس ہم اللہ تعالی کا شکر کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں اپنے کرم اپنے فضل اپنے رحم اور عنائت سے ہم میں یہی محبت پیدا کر دی ہے اور ہمیں ہدایت کے اس چشمہ پر پہنچا دیا ہے جو پیاسی اور مضطر دنیا کو سیراب کرنے کے لئے اس زمانہ میں اس نے خود پھاڑا ہے ورنہ جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے دنیا اور اس کے تمام سازو سامان ہم میں کبھی یہ محبت اور اخلاص پیدا نہیں کر سکتے تھے.جلسہ پر آنے والوں کو نصیحت خدا تعالی کے اس شکر کے بعد میں ان تمام دوستوں کو جو یہاں جمع ہوئے ہیں نصیحت کرتا ہوں کہ ہر اس چیز کے ساتھ جو خوشی کا موجب ہوتی ہے تکلیف بھی ہوتی ہے.اور جہاں پھول پائے جاتے ہیں وہاں خار بھی ہوتے ہیں.اس طرح ترقی کے ساتھ حسد بغض اور اقبال کے ساتھ زوال لگا ہوتا ہے.غرض ہر چیز جو اچھی اور اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہے اس کے حاصل کرنے کے راستہ میں کچھ مخالف طاقتیں بھی ہوا کرتی ہیں اور اصل بات یہ ہے کہ کوئی شخص اس وقت تک اس بات کا مستحق ہی نہیں کہ اسے کامیابی حاصل ہو جب تک وہ مصائب اور تکالیف کو برداشت نہ کرے.یہی وجہ ہے کہ انبیاء کی جماعتوں کو بھی کچھ نہ کچھ تکالیف اٹھانی پڑتی ہیں.کبھی تو ان پر ایسے ایسے ابتلا آتے ہیں کہ کمزور اور کچے ایمان والے لوگ مرتد ہو جاتے ہیں.اور کبھی چھوٹی چھوٹی تکالیف پیش آتی ہیں مگر بعض کمزور ایمان والے ان سے بھی ٹھو کر کھا جاتے ہیں.مجھے یاد ہے قادیان میں ایک دفعہ پشاور سے ایک
محمود ۵۴۵ سال 1927ء مہمان آیا.اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود مغرب کی نماز کے بعد مسجد میں بیٹھتے تھے اور مہمان آپ سے ملتے تھے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے نبیوں سے ان کے متبعین کو خاص محبت اور اخلاص ہوتا ہے اور انہیں نبی کو دیکھ کر اور کچھ نظر ہی نہیں آتا اور وہ کسی اور بات کی پرواہ نہیں کرتے ہیں جیسا کہ ہمارے مفتی محمد صادق صاحب کی روایت ہے.جلسہ کے ایام میں ایک دفعہ جب حضرت صاحب باہر نکلے تو آپ کے ارد گرد بہت بڑا ہجوم ہو گیا.اس ہجوم میں ایک شخص نے حضرت صاحب سے مصافحہ کیا اور وہاں سے باہر نکل کر اپنے ساتھی سے پوچھا تم نے مصافحہ کیا ہے یا نہیں؟ اس نے کہا اتنی بھیٹر میں کہاں جگہ مل سکتی ہے ؟ اس نے کہا جس طرح ہو سکے مصافحہ کر.خواہ تمہارے بدن کی ہڈی ہڈی کیوں نہ جدا ہو جاوے یہ مواقع روز روز نہیں ملا کرتے.چنانچہ وہ گیا اور مصافحہ کر آیا.غرض نبی کو دیکھ کر انسان کے دل میں ایک خاص قسم کا جوش موجزن ہوتا ہے.اور وہ جوش اتنا وسیع ہوتا ہے کہ نبی کے خدمت گاروں کو دیکھ کر بھی اہل پڑتا ہے.جب حضرت مسیح موعود نماز کے بعد مسجد میں بیٹھتے تو لوگ آپ کے قریب بیٹھنے کے لئے دوڑ پڑتے.گو اس وقت تھوڑے ہی لوگ ہوتے تھے تاہم ہر ایک یہی چاہتا تھا کہ میں سب سے قریب بیٹھوں.اس شخص کے مقدر میں چونکہ ابتلا تھا اس لئے اسے خیال نہ آیا کہ میں کس شخص کی مجلس میں آیا ہوں.اس نے سنتیں پڑھنی شروع کیں اور اتنی لمبی کر دیں کہ پہلے تو کچھ عرصہ لوگ اس کا انتظار کرتے رہے.مگر جب انتظار کرنے والوں نے دیکھا کہ دوسرے لوگ ہم سے آگے بڑھتے جاتے ہیں اور قریب کی جگہ حاصل کر رہے ہیں تو وہ بھی جلدی سے آگے بڑھ کے حضرت صاحب کے پاس جا بیٹھے.مگر ان کے جلدی کے ساتھ گزرنے سے کسی کی کہنی اسے لگ گئی.اس پر وہ سخت ناراض ہو کر کہنے لگا اچھا نبی اور مسیح موعود ہے کہ اس کی مجلس کے لوگ نماز پڑھنے والوں کو ٹھوکریں مارتے ہیں.اتنی سی بات پر وہ مرتد ہو کر چلا گیا.گویا جو چیز ایمان کی ترقی کا باعث ہے اور اب بھی ہو سکتی ہے وہ اس کے لئے ٹھوکر کا موجب ہو گئی.اور اس کی مثال اس جماعت کی سی ہو گئی جس کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب روشنی ہوئی تو ان کا نور جاتا رہا.آپ لوگ جو ان دنوں قادیان آئے ہیں ان کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ کثرت ہجوم اور کام کرنے والوں کی قلت کی وجہ سے آپ لوگوں کو بہت سی تکلیفیں پہنچ جاتی ہیں.جیسا کہ آپ لوگوں کو معلوم ہے جلسہ کے قریب میرے خطبے جو اخبار میں چھپتے ہیں ان میں یہاں کے لوگوں کو نصیحت کی جاتی ہے کہ وہ پوری کوشش اور سعی سے مہمان نوازی کریں.اور وہ حتی الامکان بہت
خطبات محمود ۵۴۶ سال 1927ء کوشش کرتے ہیں.مگر پھر بھی اتنے بڑے ہجوم کے انتظام میں وہ کہاں پورے اتر سکتے ہیں.اگر کسی گھر میں ایک مہمان آجائے اور دس کام کرنے والے ہوں تو بھی کئی کو تاہیاں ہو جاتی ہیں.مگر جہاں ایک کام کرنے والا ہو اور دس مہمان ہوں وہاں کی کیا صورت ہونی چاہئے.لیکن جس طرح آپ لوگوں کی خدمت کرنے والوں کو اس بات کا مزا آتا ہے کہ جتنا زیادہ بوجھ ان پر پڑے اتنی ہی زیادہ خوشی سے اٹھا ئیں.اسی طرح آپ لوگوں کو بھی اگر کوئی تکلیف ہو تو اس تکلیف کو عین راحت سمجھنا چاہئے.کیونکہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ ہر نعمت کے ساتھ تکلیف بھی ہوا کرتی ہے.کچھ عرصہ ہوا مجھے ایک شخص ملا.میں نے اسے کہا آپ قادیان کیوں نہیں آتے کہنے لگا قادیان کے رستہ میں یکہ کے دھکے ایک بہت بڑا ابتلا ہے.مجھے خیال آیا عجیب انسان ہے اس کو رستہ کے دھکے ہی بہت بڑا ابتلا معلوم ہوتے ہیں اگر جلسہ پر آکر دیکھے تو اسے پتہ لگے کہ یہاں کس مزے اور کس لطف سے دھکے کھائے جاتے ہیں.آخر اس کا انجام کیا ہوا یہ کہ اختلاف کے وقت مرتد ہو گیا اور یہاں تک اس نے کہہ دیا کہ مرزا صاحب کی تین سو غلطیاں میں نے نکالی ہیں.لیکن یہ مرزا صاحب کی تین سو غلطیاں نہ تھیں بلکہ یہ تین سو د ھنگے تھے جو قادیان نہ آنے کی وجہ سے اسے لگے.قادیان کے رستہ کے دھکے تو جسم کو ہی تکلیف پہنچانے والے تھے مگر ان دھکوں نے اس کی روح کو چور چور کر دیا.تو جہاں میں نے جلسہ کے موقع پر خدمت اور کام کرنے والوں کو نصیحت کی ہے اور اب بھی کرتا ہوں کہ اپنے آنے والے بھائیوں کو آرام اور آسائش پہنچانے کی پوری پوری کوشش کریں.وہاں آنے والے دوستوں کو بھی کہتا ہوں کہ اگر انہیں کوئی تکلیف ہو تو یہی نہیں کہ صبر کریں بلکہ یہ کہ اس سے مزا محسوس کریں.کیونکہ محبت میں جو چیزیں بھی ملتی ہیں ان میں بڑا مزا ہوتا ہے.لقمان کے متعلق لکھا ہے کہتے ہیں آپ ابتدا میں کسی شخص کے ملازم تھے لیکن اس شخص کو آپ سے بہت محبت تھی حتی کہ عشق تک نوبت پہنچی ہوئی تھی.ایک دفعہ اس کے پاس بے موسم کا خربوزہ آیا.اس نے ایثار اور محبت سے لقمان کو پھانک دی.انہوں نے وہ اس طرز سے کھائی کہ چہرہ سے معلوم ہو تا تھا کہ بہت مزا آ رہا ہے.اس نے یہ دیکھ کر ایک اور پھانک دی انہوں نے اسے اور بھی مزے سے کھایا.پھر اس نے اور دی.آخر اس کو خیال آیا کہ یہ اتنا مزے لے لے کر اس خربوزہ کو کھا رہا ہے یہ خربوزہ نہایت مزیدار ہو گا میں بھی چکھوں.یہ خیال کر کے اس نے ایک
خطبات محمود ۵۴۷ سال 1927ء پھانک کائی اور اسے کھانا چاہا.مگر جونہی اس کا ٹکڑا منہ میں ڈالا منہ بد مزا ہو گیا اور قریب تھا کہ اُلٹی ہو جاوے.اس پر اس نے حیران ہو کے پوچھا.لقمان تو نے یہ کیا کیا انہوں نے کہا اگر میں آپ کے ہاتھ سے لے کر منہ بنا تا تو مجھ سے زیادہ بے شرم کون ہو تا.میں نے آپ کے ہاتھ سے اتنی میٹھی چیزیں کھائی ہیں آج اگر ایک کڑوی کھالی تو کیا ہوا.تو خدا کے رستہ میں جب انسان نکلتا ہے اس وقت جو تکلیفیں اسے اٹھانی پڑیں انہیں خوشی سے برداشت کرنا چاہئے.آپ لوگ خدا تعالٰی کے لئے یہاں آئے ہیں.اس زمانہ کا سب سے بڑا انسان جس کے لئے آپ لوگ اپنے گھروں سے نکل سکتے تھے وہ فوت ہو چکا ہے.اور اس کے بعد اس کا ایک جانشین بھی فوت ہو گیا ہے.مگر آپ لوگ برابر ہر سال یہاں آتے ہیں.جس سے ظاہر ہے کہ آپ کسی انسان کے لئے نہیں آتے بلکہ خدا کے لئے اپنے گھروں سے نکلتے ہیں.اور خدا تعالٰی کے لئے جو شخص کوئی تکلیف اٹھائے اس سے زیادہ خوش قسمت کون ہو سکتا ہے؟ یہ آپ لوگوں کی بڑی خوش قسمتی ہے.لیکن چونکہ انتظام میں بہتری اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ نقصوں اور کمیوں کا پتہ لگے اس لئے میں یہ بھی کہتا ہوں کہ جماعتوں کے سیکرٹری ان نقائص کو جو جلسہ کے انتظام میں انہیں معلوم ہوں لکھ بھیجیں.تاکہ آئندہ ان کو دور کرنے کی تجاویز کی جائیں یہ کوئی بری بات نہیں بلکہ منتظمین جلسہ کی اعانت اور مدد ہے.اس کے بعد میں اپنے دوستوں کو اس آیت کے قرآن کریم کے معانی کی وسعت مضمون کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو ابھی میں نے پڑھی ہے اور وہ یہ ہے وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ اليه مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ - خدا تعالٰی کے کلام کے کئی معنی ہوتے ہیں.ایک صحابی کہتے ہیں کوئی شخص فقیہ نہیں ہو سکتا جب تک اس کو کم از کم ایک ایک آیت کے پچیس معنی نہ آئیں.یہ کلام الہی کی کتنی بڑی وسعت ہے جو اس صحابی نے سمجھی ہے.آج کل مسلمانوں کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ جب کوئی معنی بیان کرے تو کہتے ہیں یہ تفسیر کبیر میں ہیں یا نہیں.اگر نہیں تو یہ قرآن کریم میں تصرف کیا گیا ہے اور تصرف بدعت ہے.حالانکہ صحابہ کا یہ حال ہے کہ ایک صحابی کہتے ہیں کہ فقیہ ہونے کے لئے قلیل سے قلیل یہ شرط ہے کہ ایک ایک آیت کے پچیس پچیس معنی آتے ہوں.اور کثیر کی کوئی حد ہی نہیں اور جو خد اتعالیٰ کے کلام کی حد مقرر کرے وہ نادان ہے.کیونکہ خدا تعالٰی کے فعل کی کوئی انسان حد نہیں مقرر کر سکتا.دنیا میں کون سی چیز ہے جس کی حد کو لوگ پہنچ چکے ہیں ایک بھی
خطبات محمود ۵۴۸ سال 1927ء نہیں.انسانی وجود ہی ہے پانچ چھ فٹ کا انسان ہے اس کے جسم کے متعلق ہی نئی نئی باتیں نکلتی رہتی ہیں.تو خدا تعالی کے کلام کی کوئی حد بندی نہیں کر سکتا.اس وقت میں اس آیت کے ایک ایسے معنی کی طرف آپ لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں جو عام لوگوں کو معلوم نہیں ہیں.انسانی طبیعت کا میلان اگر انسان کی طبیعت کی طرف دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ عام طور پر دو چیزوں میں سے ایک چیز کی طرف جھکی ہوئی ہوتی ہے.بعض لوگوں کا میلان خوشی اور امید کی طرف ہوتا ہے اور بعض کا رنج اور نا امیدی کی طرف.جن لوگوں کا میلان خوشی کی طرف ہوتا ہے ان کو ہم دیکھتے ہیں کہ مصیبت اور دکھ کے وقت بھی خوش و خرم ہی نظر آتے ہیں.چھوٹی عمر میں میں حضرت خلیفہ اول کے پاس قرآن کریم کے معنی پڑھنے کے لئے جایا کرتا تھا.ایک دن آپ نے مجھے ایک عورت کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ اس کو ہر بات پر خواہ وہ خوشی کی ہو یا غمی کی ہنسی ہی آتی ہے.چنانچہ آپ نے میرے سامنے اس سے پوچھا تیرے بڑے بیٹے کا کیا حال ہے؟ اس کے جواب میں اس نے بنتے بنتے اور جس طرح عورتوں کی عادت ہوتی ہے کہ بات کرتے وقت شرم ہے اپنے منہ کو ڈھانپ لیتی ہیں اسی طرح اس نے منہ پر ہاتھ رکھ کر کہا وہ تو مر گیا ہے.اسی طرح آپ نے اس کے تین چار اور رشتہ داروں کے نام لئے.ہر دفعہ وہ ہنس کر کے وہ مر گیا ہے.آپ نے مجھے بتایا کہ یہ ایک بیماری ہے.تو ایک اس قسم کے لوگ ہوتے ہیں اور دوسرے ایسے کہ ہر حال میں روتے اور چلاتے رہتے ہیں.ان کا نقصان ہو تو روتے ہیں بیٹا پیدا ہو تو روتے ہیں کہ کہاں سے کھلا ئیں گے ؟ آگے ہی بہت ساکنبہ ہے.شادی ہو تو روتے ہیں کہ لڑکی کو اس کے والدین نے یہ نہیں دیا دہ نہیں دیا خود لڑکی بیاہتے ہیں تو روتے ہیں کہ زیور کہاں سے دیں ؟ ان کی ترقی ہو تو روتے ہیں.تنزل ہو تو روتے ہیں.مال مل جائے تو خوش نہیں ہوتے کہ دنیا کے بکھیڑے بڑھتے جاتے ہیں.مال چلا جائے تو چلاتے ہیں.لیکن یہ عادت کسی میں نمایاں طور پر نظر آتی ہے اور کسی میں کم.اور سوائے ان لوگوں کے جو خدا تعالیٰ کے ہو کر صراط مستقیم پر قائم ہو جاتے ہیں دنیا میں ایسے ہی لوگ ملیں گے جو ان دونوں قسموں کے آدمیوں میں سے ایک قسم میں داخل ہوں.اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے ؟ یہ کہ لوگ عجب میں مبتلا ہو جاتے اور تکبر کرنے لگ جاتے ہیں اور خدا تعالٰی سے مستغنی ہو جاتے ہیں.وہ نہیں سمجھتے کہ ہمیں کچھ اور بھی حاصل کرنے کی ضرورت ہے.اور وہ نہیں جانتے کہ خدا بھی ہے جس کی مدد کی ہمیں ضرورت ہے.وہ ہر کام اور ہر فعل میں اپنے ہی نفس پر نظر رکھتے یا دنیا کے اسباب ان
خطبات محمود ۵۴۹ سال 1927ء کے سامنے ہوتے ہیں.مصیبتیں اور تکلیفیں ان کی آنکھیں کھولنے کا باعث نہیں ہو تیں وہ ان پر اسی طرح گزر جاتی ہیں جس طرح تیل ملی ہوئی چیز پر سے پانی گزر جاتا ہے.ان کے دل میں حد درجہ کا عجب غرور اور تکبر پیدا ہو جاتا ہے اور وہ اپنے نفس اور اسباب کی طاقت پر نظر کر کے خدا کو بھول جاتے ہیں دوسرا وہ گروہ ہوتا ہے جو کبھی خوشی نہیں محسوس کرتا اور نہ صرف اپنے آپ کو بالکل بے بس اور مجبور سمجھتا ہے بلکہ خدا کو بھی ایسا ہی یقین کر لیتا ہے.یہ دونوں گروہ سخت گمراہی اور ضلالت میں ہوتے ہیں.اور دونوں ایسے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے سزا پائیں.وہ گروہ جو عجب اور تکبر کرتا ہے اس کو تو خیال ہی نہیں آتا کہ کوئی ایسا خدا بھی ہے جو مجھے سزا دے سکتا ہے اور کوئی ایسا کام بھی ہو سکتا ہے جس میں مجھے اس کی مدد اور ہدایت کی ضرورت ہے.اور وہ گروہ جو مایوس اور نا امید ہو جاتا ہے اس کو وہم بھی نہیں گزرتا کہ خدا تعالیٰ ایک ایسا سمارا ہے جو مجھے دکھ اور تکالیف سے بچا سکتا ہے.اللہ تعالیٰ اس آیت میں ان دونوں قسم کے لوگوں کا ذکر کرتا ہے.فرماتا ہے انسان کے اندر پیدا ہونے والا پہلا وسوسہ اور اس کا ازالہ ولَقَدْ خَلقنا الإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ - ہم نے انسان کو پیدا کیا.اور خوب جانتے ہیں کہ انسان کے اندر اس کا نفس کیسے کیسے وسوسے پیدا کرتا ہے.دو قسم کے وسوسے انسان کے اندر پیدا ہوتے ہیں.ایک وسوسہ عجب اور تکبر کا اور خدا سے استغناء کا ہوتا ہے.ہم اس کو خوب سمجھتے ہیں.ایسی طبیعت والے انسان کو ہم ایک نسخہ بتاتے ہیں اور وہ یہ کہ وہ سمجھتا ہے میں خود ہی سب کچھ کر سکتا ہوں.مجھے خدا کی کوئی ضرورت نہیں ہے.لیکن کیا وہ نہیں جانتا کہ اس کا سارا زور اور قوت دماغ ہی پر منحصر ہے.ورنہ انسان اور لکڑی میں کیا فرق ہے ؟ یہی کہ انسان میں دماغ ہے.اور لکڑی میں نہیں.مگر جانتے ہو دماغ کیا چیز ہے؟ اور کیوں کر اس میں قوت اور طاقت پائی جاتی ہے.یہی دماغ مردہ میں بھی ہوتا ہے.مگر کیا وہ اس سے کچھ کام لے سکتا ہے.اس کے سامنے اسے کوئی ہزار گالی دے جو اب تک نہیں دے سکتا.ایک چھوٹا بچہ بھی اگر اس کی ٹانگ کاٹ لے تو اسے ہٹا نہیں سکتا.اس کا گھر کوئی لوٹ لے تو اسے روک نہیں سکتا.دماغ تو اس میں بھی موجود ہوتا ہے.پھر وہ کیا چیز ہے جو اس میں نہیں ہوتی اور جس کے نہ ہونے کی وجہ سے وہ دماغ سے کوئی کام نہیں لے سکتا.یہی کہ دل سے دماغ تک جو سلسلہ قائم ہوتا ہے وہ ٹوٹ جاتا ہے اور دل سے جو خون دماغ کو پہنچ رہا ہوتا ہے وہ رک جاتا ہے.چنانچہ عارضی
خطبات محمود ۵۵۰ سال 1927ء طور پر بھی جب خون پہنچنا بند ہو جاتا ہے تو انسان بے ہوش ہو جاتا ہے اور دماغ بیکار ہو جاتا ہے.تو فرمایا کہ ایسا انسان نہیں جانتا کہ ہمارا اس کے ساتھ جبل الورید یعنی اس دل اور دماغ کے سلسلہ سے بھی زیادہ تعلق ہے کیونکہ حبل الورید کا تو اگر خون بند ہو جائے تو انسان کے دماغ پر اثر پڑتا ہے.لیکن ہمارا اثر اس پر بلا واسطہ پڑتا ہے.اور خود حبل الورید ہماری پیدا کردہ ہے پھر وہ خون بھی جو دماغ کو پہنچاتی ہے اور دماغ بھی ہمارا ہی پیدا کردہ ہے.جب یہ بات ہے تو پھر وہ عجب اور تکبر کس بات پر کرتا ہے.ہم اگر اس سے اپنی مدد بند کر دیں تو پھر وہ چیز ہی کیا ہے ؟ حبل الورید چلتی ہی رہتی ہے اور خدا تعالی کا حکم ہو جاتا ہے کہ فلاں پاگل ہو جائے تو دماغ کسی کام کا نہیں رہتا ایسی حالت ہو جاتی ہے کہ دیکھنے والے کہتے ہیں کاش! اسے موت آجائے.ایک پردہ دار عورت ہوتی ہے.اسلامی پردہ نہ سہی عام پر وہ جو ستر کو ڈھانپنے کے لئے ہوتا ہے.وہی سہی مگروہ پاگل ہونے پر کپڑے پھاڑ کر ننگی بازار میں نکل جاتی ہے.اس وقت اس کے رشتہ داروں کی جو حالت ہوتی ہے وہ انسی سے پوچھنی چاہئے.اسی طرح ایک لڑکا جسے سارا خاندان اپنا سہارا سمجھتا ہے جب پاگل ہو کر کسی کو مارتا ہے اور کسی سے مار کھاتا ہے کسی کو گالیاں دیتا ہے اور کسی سے سارے خاندان کو گالیاں دلاتا ہے تو وہی رشتہ دار جو اس کے لئے جان تک دینے کو تیار ہوتے ہیں کہتے ہیں کاش یہ مرجاتا.تو اللہ تعالی کا انسان سے تعلق جبل الورید سے بھی زیادہ ہے.اس لئے فرماتا ہے انسان یہ ضعیف اور کمزور انسان ہم سے کیونکر اپنے آپ کو مستغنی سمجھ لیتا ہے.بھلا اس کی بھی کوئی طاقت کوئی زور اور کوئی ہمت ہے؟ یہ تو ہماری مدد اور ہمارے سہارے کے بغیر کچھ بھی نہیں ہے.پس یہ تلوار اس قسم کے وسوسہ کے کاٹنے کے لئے ہے.جو انسان میں تکبر.عجب اور غرور پیدا کر کے خدا تعالٰی سے مستغنی کر دیتا ہے.دوسرا وسوسه اب رہاد و سرا مایوسی کا وسوسہ اس کا جواب دیتا ہے.فرماتا ہے وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الورید.ہم نے انسان کو پیدا کیا ورنہ یہ تو کم يَكُن شَئًا مَذْكُورًا تھا.ہم نے اسے انسان بنایا.پھر ہم خوب جانتے ہیں جب یہ کام کرنے لگتا ہے تو اس کے دل میں وسوسہ پیدا ہوتا ہے کہ میرے مقابلہ میں یہ مصیبت ہے یہ تکلیف ہے یہ مشکل ہے میں کیا کر سکتا ہوں ؟ فرمایا لقد خلقنا إِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسُوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ کیا نادان ہے.کیا
خطبات محمود ۵۵۱ سال 1927ء بچہ ماں کے ہوتے ہوئے مایوس ہو سکتا ہے؟ ہر گز نہیں.بچہ رات کو ڈر کر چلاتا ہے مگر جب ماں محبت سے ہاتھ پھیر کر کہتی ہے میں پاس ہی ہوں تو چپ کر کے سو جاتا ہے.اور یا تو وہ بلبلاتا ہوا اٹھا ہے یا ایسی آرام کی نیند سو جاتا ہے کہ گویا کوئی مصیبت اس پر آئی ہی نہیں مگر کیوں ؟ اس لئے کہ ماں نے اسے کہا کہ میں پاس ہوں.حالانکہ ماں کی طاقت ہی کیا ہوتی ہے.مگر بچہ اس کی ہمدردی اس کی محبت اور کسی قدر اس کی طاقت کو دیکھ کر اپنے آپ کو بالکل محفوظ سمجھ لیتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے ماں تو پھر بھی پرے ہوتی ہے مگر ہم تو انسان سے حبل الورید سے بھی قریب ہیں.پھر کیوں انسان مایوس ہوتا ہے؟ ایک بچہ ماں کو پاس نہ سمجھ کر بلبلاتا ہے مگر ماں کو پاس پا کر اطمینان کی نیند سو جاتا ہے.پھر کیا وجہ ہے کہ بندہ خدا کے ہوتے ہوئے بلبلاتا ہے اور جب خدا اتنا قریب ہے کہ اس کے ذاتی جسم کی حفاظت کی چیزوں سے بھی زیادہ قریب ہے تو وہ مایوس ہو جاتا ہے اور کہتا ہے میرے لئے یہ مصیبت ہے یہ تکلیف ہے جب خدا اس کے اتنا قریب ہے تو پھر کیسی مصیبت اور کیسی آپ لوگ جو یہاں جمع ہوئے ہیں.کسی غرض جلسہ پر آنے والوں کو کیا کرنا چاہئے؟ کے لئے ہی جمع ہوئے ہیں.اور میں نے بتایا ہے لوگوں کی عموماً دو قسم کی طبیعتیں ہوتی ہیں.سوائے ان کے جن کو خداتعالی بچاتا ہے.اور جو حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی طرح حنیف ہو جاتے ہیں.آپ لوگ جس کام کے لئے یہاں آئے ہیں.اس طبعی میلان کے ماتحت جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے.ممکن ہے آپ میں سے بعض وہ ہوں جو سمجھتے ہوں ہم اس کے متعلق یوں کریں گے یا یوں کریں گے.اور ممکن ہے بعض وہ ہوں جو سمجھتے ہوں ہم کیا کر سکتے ہیں ؟ ہماری مثال تو اس پنجابی مثل کے مطابق ہے "ڈھائی بوٹیاں تے ہصتو باغبان " شیطان ہمارے مقابلہ پر کھڑا ہے اور اس کی ذریت تمام دنیا میں پھیلی ہوئی ہے.ملا کبھی یہ ممکن ہے کہ سب لوگوں کو ہم اپنا ہم خیال بنا لیں.ہم کیا کر سکتے ہیں ؟ کیا پدی اور کیا پڑی کا شور با.ممکن ہے بعض لوگوں کے یہ خیال ہوں.چونکہ جن لوگوں کے دلوں میں اس قسم کے خیالات ہوں وہ کوئی کام نہیں کر سکتے.اس لئے میں نصیحت کرتا ہوں کہ یہ آیت جو میں نے پڑھی ہے اس میں دو تلواریں دی گئی ہیں ان کے ذریعہ جس کسی کے دل میں ان وسوسوں میں سے کوئی ہو وہ اس کو کاٹ ڈالے.کیونکہ وہ وسوسہ ایک ہیبت ناک دیو ہے.جو ان کی جان اور ایمان کو کھانے کے لئے آیا ہے.پہلا وسوسہ جن لوگوں کے دلوں میں ہو وہ سمجھیں کہ خدا ہی ہے جو یہ کام کر سکتا بھلا.
۵۵۲ سال 1927ء ہے ہم کیا اور ہماری طاقتیں کیا؟ وہ اپنے دشمن کو دیکھیں اور اپنی طاقتوں کو دیکھیں اور یاد رکھیں کہ خدا ہی ان کا کام کرتا ہے.پھر دوسرے وسوسہ والے جو یہ خیال کرتے ہوں کہ ہم کیا اور ہماری بساط کیا.ہم کچھ نہیں کر سکتے.ان کو میں کہتا ہوں وہ مایوس اور نا امید کیوں ہوتے ہیں؟ جب ماں کے ہوتے ہوئے بچہ مایوس نہیں ہو تا تو ہم خدا کے ہوتے ہوئے کیوں مایوس ہوں؟ پس جن کے دل میں یہ وسوسہ ہو.وہ بھی نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ کی تلوار سے کاٹ ڈالیں.کیونکہ مایوسی ایک خطرناک کرم ہے جو امید اور کامیابی کے درخت کو کھا جاتا ہے.تم سمجھو کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی سمجھو کہ ہم اس تلوار کی طرح ہیں جو ایک بہادر اور جری کے ہاتھ میں ہوتی ہے.اپنے آپ تلوار کیا کر سکتی ہے.ایک بچہ بھی تو ڑ کر اسے خراب کر سکتا ہے.مگر جب بہادر کے ہاتھ میں آتی ہے تو کشتوں کے پشتے لگا دیتی ہے.پس یہاں جو امور آپ لوگوں کے سامنے پیش کئے جائیں ان کے متعلق یہ نہ کہو کہ ہم ان کو کر دیں گے.بلکہ یہ کہو خدا انہیں کرے گا.اور خدا تعالیٰ ہی کی مدد کرتی ہے جو کچھ ہوتا ہے مگر ساتھ ہی دنیا کی بڑی سے بڑی طاقتوں کو دیکھ کر مایوس اور نا امید نہ ہو.کیونکہ خدا نے ہی کام کرتا ہے.میرے نزدیک تو جو شخص مایوس ہوتا ہے اس میں بھی عجب ہی پایا جاتا ہے.کیونکہ وہ خیال کرتا ہے کہ فلاں کام میں نے ہی کرنا تھا.اب چونکہ میں نہیں کر سکتا اس لئے وہ ہو ہی نہیں سکتا.لیکن جس کی نظر خد اتعالیٰ پر ہوتی ہے وہ کہتا ہے کہ اگر چہ میں کچھ نہیں ہوں مگر خدا تعالی کر سکتا ہے.اور گو میں کمزور.نیم جان اور مردہ ہوں مگر میں خدا تعالٰی کے ہاتھ میں ہوں.اور گو میں اپنی طاقت کے لحاظ سے کچھ نہیں ہوں مگر خداتعالی کے سہارے اور مدد کے لحاظ سے بہت بڑا اور طاقتور ہوں.دیکھو انسان سمندروں کو طے نہیں کر سکتا.مگر جہازوں کے ذریعہ طے کرتا ہے.پس جب لکڑی اور لوہے کے ذریعہ سمندر کو انسان طے کر لیتا ہے تو کیا زندہ خدا کے ذریعہ مصیبتوں مشکلوں اور تکلیفوں کے سمندروں کو طے نہیں کر سکتا ؟ ضرور کر سکتا ہے.پس تم لوگ ان دونوں خیالوں کو لے کر کھڑے ہو جاؤ.کہ اول ہم خود کچھ نہیں کر سکتے خدا ہی کرے گا اور دوسرے یہ کہ ہم سب کچھ خدا کے سہارے اور اسی کی مدد سے کریں گے اور کوئی مصیبت کوئی مشکل اور کوئی تکلیف ہمارے راستہ میں نہیں ٹھر سکے گی.غرض یہ خدا تعالٰی کی دی ہوئی تلوار ہے.اس کو استعمال کرو اور اس کے بعد جلسہ کے کاموں میں مشغول ہو جاؤ.
خطبات محمود ۵۵۳ سال 1927 خدا کرے کہ ہم اس ہتھیار سے کام لیں.تاکہ اس کے فضل سے ہم میں نہ تو معجب پیدا ہو کہ ہم سمجھیں سب کچھ ہم کرلیں گے.اور نہ مایوسی پیدا ہو کہ ہم خیال کریں کہ ہم کچھ نہیں کر سکیں گے.چونکہ آج سے جلسہ شروع ہے اس لئے جمعہ کے بعد عصر کی نماز بھی پڑھا ہی جائے گی تاکہ جلسہ کی کارروائی آسانی سے ہو سکے.الدهر : ٢
انڈیکس ا.آیات قرآنیہ ۲- احادیث.الهامات حضرت مسیح موعود اسماء مقامات.کتابیات 16
الفاتحة تفسیر آیات قرآنیہ آل عمران الْحَمْدُ للهِ....العالينَ تُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ (۲۷) (۷۲) د قُلْ يَا هَلَ الكِتب تَعَالَوْا (10) ۴۷۷٬۴۹٬۴۸) أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (۱۱۱) إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ (د) اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (1) ۴۳۳۴۰ ۴۶۳۱۹۸٬۴۹۳۴۶ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ (<) النساء خُذُوا حِدْرَكُمْ (۷۲) رحمتی وسعت ( دا) الانفال ۴۴۷۱۳۷ وَإِنْ جَنْحُوا لِلسلم فاجنَحْ لَهَا (٢٣) ٢٩٨٢٩٦٣٩١ يَايُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَ كُمْ ۲۴۴ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا (۶۴) التوبة ۳۸۶٬۳۸۵ بُرْهَانُ (۱۷۵) ۲۰۲٬۴۰۰ قُلْ إِنْ كَانَ أَبَاؤُكُمْ (۲۳) البقرة صُمٌّ بُكُم عُمَى (19) لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَّرى (۵۶) المائدة ۳۲ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ (۵۵) ۱۲۶۱ يونس لَهُمُ الْبُشْرَى (١٥) يوسف ۲۲۵ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ وَقَالَ لِلَّذِي ظَنَّ أَنَّهُ رَبَّنَا وَاجْعَلُنَا مُسْلِمَيْن مَنْ يَشَاءُ (۵۵) (۱۲۹) وَ لَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ (ددا) إِنِّي قَرِيبٌ (۱۸۷) ۲۷۷ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ ۳۴۵ الناس (٦٨) الاعراف تاج (لد اليه) قُلْ هَذِهِ سَبِيْلِي أَدْعُوا.(۱۰۹) 102107 الرعد ۵۴۲ ۱۵۹ ۴۵۳ ۴۱۹ ۴۲۹ ان الله لا يُغير ما بقوم (۱۳) ۴۷۴ لا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ أجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاع أَمَّا مَا يَنفَعُ النَّاسَ ۱۱۴ ۳۸۵ فَيَمْكُتُ (۱۸) (۵۷) ۴۱۵٬۳۳۷ (۱۸۷)
ابراهيم فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ (۳۸) النحل الاحزاب الصف وَمِنْهُمْ مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُوْرَ اللَّه (۲۴) ۴۵۷ ۴۳۹ الصفت ودا (9)/1.ސ الحاقة يَفْعَلُوْنَ مَايُو مَرُوْنَ (اد) ٤٣٩) عَلَى سُرُرٍ مُّتَقَبِلِينَ (۴۵) (۴۶۴ هَاؤُمُ اقْرَءُ وَاكِتَبِيَة فِيْهِ شِفَاءٌ لِلنَّاسِ (۷۰) الحج ۴۶۱ ۵۰۹٬۲۱۰ محمد أَفَمَنْ كَانَ عَلَى بَيِّنَةٍ (۱۵) ۴۰۴ الفتح أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّار (۳۰) (۲۰) ۴۷۲ الدهر لَمْ يَكُنْ شَيْئًا مَّدْ كُورًا.دد (r) وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُول (۵۳) النور لَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ (۱۳) الفرقان يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ (۳۱) العنكبوت وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ (۲۸) ۴۲۱ ۴۵۹ ۲۷۹٬۲۷۷ وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا (۷۰) ۱۱۳ ۵۰۷٬۵۰۶٬۵۰۵٬۵۰۴٬۵۰۳٬۵۰۲ الحجرات الاعلى يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا فَذَكَرْ انْ نَّفَعَتِ الذكرى كَثِيراً (۱۳) (1+) ۴۱۸ الفجر وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِيٌّ (12) الذريت bobofb وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ جنبي (۳۱۳۰) الناس قُلْ أَعُوذُ بِرَتِ النَّاسِ ۲۶ (70) (4) ۴۳۲
الف احادیث میرے بھائی کے پیٹ میں درد ہے فرمایا يُوضَعُ لَهُ الْقَبُولُ فِي الْأَرْضِ اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ احادیث بالمعنی الثامة احزاب کے موقع پر خندق کھودنا اور إِنَّ اللَّهَ يُؤَيِّدُ هَذَا الدِّينَ بِرَجُلٍ فَاجِرٍ ۱۸۱۳ بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھنا.شهد پلا ایک نوجوان نے خود جہاد کیلئے درخواست کی لیکن بالغ نہیں تھا.۳۲ پہلے اونٹ کا گھٹنا باند ھو پھر تو کل کرو ۱۸۴ تیراندازی کے مقابلہ میں حضور ایک طرف شامل ہو گئے دوسری پارٹی نے تیر پھینکنے سے انکار کر دیا کہ آنحضور پر إِنِّي مُكَاثِرُ بكُمُ الأسم ۲۷۸ آنحضرت ﷺ کی حفاظت کیلئے پہرہ کیسے تیر پھینکیں آپ مقابلہ سے الگ دیا جاتا تھا آنحضرت عل اللہ نے دیکھا کہ بعض 104 ہو گئے.تیز ہوا چلتی یا بادل اٹھتا ئبارش ہوتی یا تِلک پیلک ۵۲۸ ہیں.لوگ عبادت میں غلو کرتے ہیں.....آندھی چلتی...آپ گھر سے اندریا رِجَالٌ مِنْ أَهْلِ فَارَسُ ୮ ۲۲۳ فرمایا کہ دوام بہتر ہے ۲۰۱۷ باہر آتے جاتے آنحضور ﷺ نے مسجد میں حبشیوں جب تک مسلمانوں کو غلبہ حاصل ۵۲۸٬۵۲۷ نہ ہو لاس وقت تک کفار کے ہاتھ کا کا کھیل دیکھا اے خدا تو میر اید......ایک جنگ میں ایک عورت نے كُلِّ بِيَمِينِكَ وَكُلِّ مِمَّا ایک بچہ اٹھایا چھاتی سے لگا کر چھوڑ دیا دوسر ا پکڑا گلے سے لگایا...۳۱۷ کھانا نہیں کھایا ۵۲۰ ۱۵۴ جب کسی کو غصہ آئے تو بیٹھ جائے ۳۵۸ جنگ بدر کے وقت آنحضرت کا مشورہ لینا اور صحابہ کا جوش فرمایا.اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ جنگ میں ایک شخص کا بڑے جوش خوش ہوتا ہے جب....۵۴ سے لڑنا مگر حضور کا فرمانا کہ جہنمی ۵۲۲٬۵۱۷ | ایک جنگ میں عورت کی لاش دیکھ کر دیکھنا ہو تو اس شخص کو دیکھ لو صحابہ سے فرمایا کبھی کسی عورت پر حملہ چند چیزیں ایسی ہیں جن کا کر نیو 11 یلیک كَلِمَةُ الحكمة ضالة الْمُؤْمِن ل نه کرد ایک شخص حضرت ابو بحر کو برابھلا کہہ رہا لكُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ ی ایک شخص کا آنحضرت پر اموال کی تقسیم میں اعتراض کرنا ۲۸۳ قیامت کے دن خدا کے عرش کے ۳۹۵ ۲۱۸ سایہ کے نیچے ہو گا حضرت خدیجہ نے حضور سے کہا کہ خد اتعالیٰ آپ کو کبھی ضائع نہیں ۵۳۰ کرے گا کیونکہ آپ مہمان نواز ہیں ۵۳۰ ۲۲۳) ایک صحابی نے عرض کیا یارسول اللہ يَتزَوَّجُ وَيُوْلَدُ لَهُ حضرت عائشہ سے حضور نے
دهد ۲۲۱ ۱۳۹۶ ។ دوڑ لگائی اور حضرت عائشہ آگے بڑھ سب سے بہادر وہ سمجھا جاتا جو آلخضر - کتنے قصور بھائی کے معاف کرنے گئیں حضرت عمر اور حضرت ابو بکر کا ۵۲۸ کے قریب ہو کر لڑتا شراب کی حرمت پر شراب کے مٹکے چاہئیں فرمانی ستر بار کعب بن مالک والی حمد بیشه والی عبد اللہ بن ابی سلول کا حضور کی شان میں کیا تم نے وال پھاڑ کر دیکھ لیا ہے اختلاف اور آنحضرت ﷺ کے پاس توڑنے کا واقعہ نماز کے بعد نبیح و تحمید تکبیر یہودی کا مسلمان ہونا...قرض کی ادائیگی ۵۰۴ ۲۵۸ ایک دوسرے کو بے قصور کہنے کیلئے حاضر ہونا حضرت عمر کے اسلام لانے کا واقعہ ۵۰۳ ۴۱ خطبہ سے پہلے اعوذ باللہ پڑھتے تھے ۲۶۳ گستاخی کرنا اور اس کے بیٹے کا باپ کو قتل کرنے کی درخواست کرنا فرمایا.یہاں عذاب نازل ہوا تھا جلدی سے چلو...
الهامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام عربی الهامات لَوْلاكَ لَمَا خَلَقْتُ الأفلاك وَلَا تُبْقَى لَكَ مِنَ إِنَّ الَّذِينَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الذين.....اردو الهامات تائی آئی ۲۵۱ الْمُخْزِيَاتِ ذِكْرًا ۲۲۴ دنیا میں ایک نذیر آیا.....۵۳۹٬۳۵۱ إِنِّي مُهِينٌ مَنْ أَرَادَ يَأْتِيْكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ میں تیری تبلیغ کو زمین کے اهانتک عَمِيق ۲۴۸ کناروں....
۹ اسماء حزقیان حضرت امتہ الحی بیگم سیدو حضرت ۲۱ امر ناتھ چوپڑہ لالہ اندر من ( مراد آبادی) ۴۴۵ ۱۹۲ حسین حسین امام حضرت ۲۳۵ حشمت اللہ ڈاکٹر ۵۲۵۰ خ خديجه حضرت ۵۳۰۴۱۱ خلیل احمد صاحبزادو مرزا ۲۱ ۱۴۷ ۴۵۳ ۱۶۸ ۱۹۳ ۴۸۷۳۱۶٬۲۳۲ ( - t واس مسٹر دانیاں حضرت ۱۲۵ ۱۲۴ ۴۲۴ ۱۳۴۴ ۱۲۴ اور نگ زیب امین بی الف آدم حضرت ۳۴۱٬۲۶۰٬۶۴۳ 902724 ابراهیم حضرت ۲۷۵۲۷۴۱۷۲ تا ۲۷۹ ۵۵۱۴۵۷۴۳۹ ۳۱۲۷۲۵ ایوب انصاری حضرت ابوبکر حضرت ۴۸۲٬۴۸۱ ۴۴۹ ۵۲۱۴۱۴ ۵۰۳٬۴۷۸٬۴۷۴٬۳۹۵٬۳۰۶٬۲۱۹ ابو جهل ۲۳۸٬۲۱۱٬۶۳ ۵۰۱٬۲۳۹ بابا نانک حضرت ابو حنیفہ حضرت امام ۴۰۵ بشارت احمد ڈاکٹر ابو قحافہ د بشیر احمد میاں حضرت احمد جان صوفی حضرت ۳۴۳٬۳۴۲ بوس ڈاکٹر ۲۵ داود حضرت ث دلاور خان خان ثناء الله نظامی مولوی دلیپ ج سنگھ جسٹس سنگھ کنور جبر و (مشہور ڈاکو) د و یا نند پنڈت راجپال ۲۵۹ ۲۵۰ اجہانگیر حرمت بی بی ( تائی صاحبہ ) ۴۱۴ ۵۱۳ ١٩٨ ۱۲۵ ۲۲۳ ۲۵۹ ۴۵۷۶ احمد بر میلوی شید احمد نورسید اسماعیل بریلوی اسماعیل شهید سید اسماعیل حضرت اشتر نخعی افضل خان اکبر شاہ خان نجیب آبادی اکبر
عبد الله بن ابی بن سلول ۵۰۴٬۲۳۹٬۲۱۲ عبد اللہ ڈاکٹر عبد المجید خان شهزاده عبد الوہاب ۲۲۳ ۳۴۳٬۳۴۲٬۳۳۹ ۴۰۴ ۳۴۵ ۲۱۹٬۲۴۱۵ ۴۷۸۴۷۴٬۳۰۶۲۲۰ ۴۵۲ ۳۵۱ ۱۳۵۵۴ عبید اللہ مولوی عثمان حضرت عجب خان خان عصمت پاشا علی حضرت ۴۷۴۳۰۶٬۲۴۱۲۱۹٬۲۱۲۱۵۴ ۴۵۱ ۴ مجمد ۲۳۰ ۱۱۷۳۱۲۴ رام رام چندر رحیم بخش میاں دد صدر الدین مولوی رقیہ بی بی زوجہ شیر محمد ۹۸ b روشن علی حافظ حضرت ۳۰۳٬۲۸۵ j ۱۷۳ طلحہ حضرت ظ ظفر اللہ خاں چوہدری حضرت ۴۵۳٬۴۵۰ AL زرتشت زيد بن سعنه س ظهور حسین چوہدری سائمن ۴۸۸٬۴۸۶ ع رض سعد بن ربيع سندر سنگھ سیوطی امام ۵۰۸ ۶۵ عائشہ حضرت ۱۳۷۰٬۲۳۹ علی امام سر ۵۲۸٬۴۲۱ | عمر حضرت ۴۸۷ ۴۱۴۰۲۷ عباس حضرت ۴۳۷۳۰۶۲۴۱۲۴۰٬۲۱۹٬۹۸٬۵۰ ۱۳۵ ش عبد الجبار شاہ سید ۴۴۲۴۴۱ ۴۴۹ عیسی مسیح حضرت ۵۰۳٬۴۷۸٬۴۷۴ ۴۵۳۴ شاہ جہاں ۳۴۰ عبد الحق مولوی ۹۸ شاہ شجاع ۳۴۳ عبد الرحمن بن عوف حضرت ۲۶۰٬۲۳ ۵٬۲۳۰۱۴۹۱۲۹۴۱۲۱۴۴۷ ۴۲۷۳۸۲٬۳۴۸٬۳۱۱۲۹۰۲۶۱ ۴۶۴۴ ۵۱۴۳۹٬۴۳۵٬۴۳۲٬۴۳۰ ۵۰۱۲۱۹ شردھانند ( نیز دیکھیں رام ) ۴۸۰٬۴۷۹ ۱۲۲٬۹۰۱۸۱۵۱۳۱۱۱۰ عبدالر تیم سر ۲۰۹ ۲۳۲٬۱۲۳ عبد الرشید دهلوی غ ۱۸ غلام احمد قادیانی حضرت مسیح موعود دت ۶۰۵۲۴۷۴۶۱۰ ۲۳۲ ۱۱۶ ۱۱۵ ۱۰۸٬۹۸٬۹۳۷۸۷۳ ۷۲ ۴۵۰ شعیب قریشی ۴۸۷ عبد الرشید شود رانند ۱۹۵ عبد القادر سر
"1 ۱۴۴ ۱۶۶۱۴۸ قطب الدین مولوی ۴۵٬۴۱۲۳۷۵۱۳ تا ۷ ۷۰٬۶۹٬۶۴٬۵۲٬۴ له له له ولله الله له الدوله ٠,٧٠ا الله ۲۵۲٬۲۵۱٬۲۵۰٬۲۴۸٬۲۴۳٬۲۴۱ ۲۸۳٬۲۸۳٬۲۶۱٬۲۶۰٬۲۵۷٬۲۵۳۰ لله أو لا اله الله الله له له الله له اوله الله ۷ له الله فيه والله له دا ولله الله والله والله الله کرشن ۳۶۹٬۳۵۳٬۳۵۲ تا ۱۳۷۱ کسری ک ۴۵۱٬۴۲۶۳۹۰۳۸۹۳۷۶ کمال الدین خواجه ۴۶۷ ۲۴۶۳۴۶۱٬۴۵ ۴۸۵٬۴۷۹٬۴۷۸۴۷۳ کنفیوشس ۷٬۴۹۲ ۵۱۰٬۵۰ تا ٬۵۲۴٬۵۱۲ کیلکر مسٹر ۵۴۵٬۵۳۹٬۵۳۸٬۵۳۵٬۵۲۷ ۵۴۶ ۳۵۰۱۳۹ لم بها الله له گ ۷۲ تا ۷۴ ۷۸ ۱۰۶۱۰۳٬۹۲٬۸۶۳ اله ها اله الهله الله 7 االه الله 701 ۱۶۵۳۱۶۲۱۶۰ ۱۵۹ ۱۵ ۷۱۵۴۱۵۳ 7119471,47|AV71, JVI, "Por199197197ʻlar'ıq-ʻing ۲۲۳ ۲۲۲۱٬۲۱۹۲۲۱۷ ۲۱۱٬۲۰۰٬۲۰۴ ۳۵۰ الحمد لله والله الله وله له له له له له له ولا اله الا الله ولدان الدند و ولد لدله ۵۲۱ غلام حسن خان مولوی (پشاوری) گاندھی مسٹر ۱۴۶ تا ۵۲۱٬۱۴۸ غلام علی غلام قادر سرزا لد لد ما ولد له لمنه ا لد لدا ۹۸ ل ۲۵۰ لاجپت رائے لالہ ۵۲۱۱۲۳ ۵۴۷٬۵۴۶ لقمان حضرت غلام محی الدین مرزا ف فرزند علی خان منشی فقیر اللہ ماسٹر فرعون ۲۵۰ ۴۹۸ اله الا الله ۲۲۳ یکھرام لیفن مارٹن کلارک مالک ۱۸۱۳۱۲۱۱۱۰ ۱۷۴ ۲۵۰ د ۰۲۶۳۲۵۹٬۲۵۸٬۲۴۸٬۲۴۴ 171 ۲۹۵٬۲۹۳٬۲۹۱٬۲۸۷۲۸۴ ۲۹۷تا۳۰۸٬۳۰۶٬۳۰۲٬۳۰۰ الله له ثارالله الله الله الله الله الله الله الله الله له لله الله والله له له ولله الهه والله الا الله الله ۳۵۹٬۳۵۸٬۳۵۶٬۳۵۳٬۳۵۰ ۳۹۲٬۳۷۵٬۳۶۸٬۳۶۷۳۶۱ ۴۰۴۳۴۰۲٬۳۹۷٬۳۹۵٬۳۹۴ ولد فالله ولد المتولد 7 مال ٧٦ل 97 ولد با اولد ما ولد له ولد لد 27 لد لدله ولد الله طاوله الله لا اله الله إله الله الله ولد الله الله له ما ولد له لا ولد له له ولد اله ولدال ۵۳۳٬۵۳۰٬۵۲۸٬۵۲۷٬۵۲۱ ۴۵۲۰٬۵۱۷٬۵۰۸٬۵۰۷ ۵۰۵٬۵۰۱٬۴۹۶٬۴۹۵۲۴۹۴ ۵۴۲٬۵۳۷ ۴۵۰ ۶۲ ۳۰۴ محمد اقبال سر محمد حسین ۱۵۲۱۱۴۸۱۴۶ ۱۱۴۱۳۵۴ ق مالو کی پنڈت قاسم علی میر محمد ما حضرت ۱۳۵٬۳۴٬۳۳٬۲۵٬۲۱۲٬۱۹ محمد حسین بٹالوی
محمد شفیق قاضی محمد صادق مفتی حضرت ۴۴۱ رسی حضرت ۴۷٬۴۵٬۳۴ نوح حضرت ۱۷۲۴۷ ۶۳ ۵٬۴۳۰۱۷۲۸۴۶۴ ۷٬۵۰ ۵۰ نور الدین حضرت ۱۳۹٬۲۱۲۰ - ۱۳۸۲ ۵۴۵ محمد علی مولوی ۴۲۱ تا ۴۴۴ مولانا روم ۴۴۷ تا ۴۴۵۳٬۴۵۰ مونجے ڈاکٹر ۵۰۶٬۴۹۵٬۴۸۲۲۴۸۰ مہتی ۲۵۲٬۲۲۳٬۲۱۹۱۴۶۱۴۳٬۱۱۲۱۱۰ ۳۱۸۳۱۷ ۳۸۳٬۳۴۲٬۳۳۰٬۳۲۴٬۳۱۱٬۳۰۴ ۵۲۱۱۴۶۱۲۴ ۴۸۷۴۸۶ ۳۱۰ نهرو ۴۱۱ ۴۴۴۱۹۳ ۴۸۸٬۳۱۸ محمدی بیگم ۲۵۱ میاں میر ۹۴ محمد یوسف قاضی محی الدین ابن عربی حضرت ۴۵۱۴۵۰ میر مدثر ادم ورقہ بن نوفل ۲۲۰ مریم حضرت ۴۸۰۰ معاویہ حضرت ۱۳۵ ناصر احمد مرزا حضرت ولی اللہ شاد ی ۴۵۲ مفتاح نجم الدین میاں ۱۲۴ موتی لال پنڈت يحى حضرت نعمت اللہ ولی یعقوب بیگ مرزا نعمت اللہ مولوی د۳۴ یوسف حضرت ۵۱۳ ۲۲۳ ۴۸۶
آکسفورڈ اگرہ آئر لینڈ افریقہ افغانستان الف بدایوں ۱۴۳۵ ۵۳ ۵۲۰ ۱۳۶۱۰۵ برار برلن برما بڑودہ بغداد بلغارية ۱۳ مقامات ۲۰۹ ترکی ۲۹۶ ۴۵۱ ۲۹۹٬۲۹۷ ۲۹۶ ٹھیکر یوالہ ۴۱۷ جالندھر جاپان اد ۵۲۰ جاوا د ۵۲۱۵۱۹۵۱۸٬۳۴۳۱۴ اکھنور امر تر امریکہ دد بمبئی ۴۱۰۱۳۵ بنگال د ۴۶۱۴۵۶۱۲ انگلستان برطانیه ۳۲۷٬۲۰۸۱۴۴ بهار ٤٩٦ ۲۹۶ ۲۹۹٬۲۰۷، جرمنی ۴۴۶٬۳۹۱٬۲۹۹ جموں ۳۹۱٬۲۹۹٬۲۹۶٬۲۹۵ ۵۲۵٬۵۲۴٬۴۹۸٬۴۳۶۴۳۵ بيروت اودھ ۵۳۱ ایبٹ آباد 9A ایران ۱۳۹ ۱۳۴۴ پیشاور بابل بٹالہ بخارا ۳۱ ۵۴۴۴۵۱ ۱۲۸٬۹۴ ۳۹۱٬۳۶۹٬۲۹۹٬۲۹۶ ۱۸ ۵۱۹۴۵ ۵۲۱ | پنج پھیرو چیچی ۴۳۹ ۲۰۷ چار سده چوہدری والا چین دربار صاحب امر شهر ڈلہوزی تاج محل ڈ ۳۴۲ ۴۴۱ AL ۹۴ ودا ۴۱۰ ۴۴۲۰۴۴۱۴۳۴۴۲۹
ڈھاکہ رممون روس ۳۰۰ اله 6.۳۶۲۲۳۲٬۲۲۴۱۹۳۱۳۵۱۱۷ ۴۷۸٬۴۷۶٬۴۵۰٬۴۴۶۳۴۴۲ ۵۰۷٬۴۸۹٬۳۸۸ ۳۰۰ ۱۴۷ 17,47,7VA ۶۲ فرانس قادیان ق 7.0 7,V,40, الدھیانہ لندن ٬۲۲۱٬۲۰۰٬۱۴۳٬۱۳۹۷۳۶۸ ماریشس ولد له اوله ولد والد الله والله , له,۷۸ الله الا الله الله والله له ولله ۳۷,۰۰ ولد الدها ۴۶۶٬۴۵۸٬۴۵۲٬۴۱۱٬۴۰۱٬۳۵۴ مدراس ۷٬۴۹۴ ۱۵۳۳٬۵۳۰٬۵۲۳٬۵۱۲٬۵۰ مدرسه احمدیه ۵۴۶۲۵۴۴٬۵۴۲٬۵۳۴ ۳۴۳ ۵۲۵۰٬۴۹۹٬۴۲۴ ۳۴۵ 1640*4 ۵۲۴٬۵۱۳ ۱۰۳۲۵ تا ۱۰۷ سپین سرگودها چک نمبر ۶ سماٹرا سندھ سوات سیالکوٹ شام شمله ش ۲۹۶ لدلدا 471,764 تكفي ۳۴۴ ک مسجد احمد یہ (لاہور) ۱۴۵ مسجد نبوی ۱۸۰۱۷ مسجد نور کابل کٹارپور دارد ۴۲۴۱۵ کٹوعہ (جموں) ۴۸۶٬۴۵۸٬۲۰۰٬۱۹۸٬۸۷ کلکته صوبہ سرحد عراق ص ع 164,664, لد لداو له bh ۲۶۲۵٬۵ ٣٩٦ کیمبرج دد ۲۸۸٬۳۰۰ مظفر نگر ۳۵ ۵۳۳٬۵۳۰٬۲۹۷ كينيا گورداسپور لاہور گ ل •J,VV, مغربی افریقہ میکسیکو مینار و ۴۰۴۱۵۴ ۳۵۷ ۵۴۲۳۵۳ ۵۱۸۶۳ ۴۰۴ ۱۲۵ ۱۰۴ تا ۱۰۷ ۴۴۵۲۹۱۱۵۵ ۱۳۹
۵۲۱۵۲۰٬۵۱۷۱۲۵ ۲۹۶٬۲۹۵ ٤٩٦ د ۱۵ ۱۹۵۱۸۹۱۷۳٬۱۳۵۱۲۶ یورپ یوپی گنڈا اونان ۳۴۳٬۲۹۵۲۷۲۲۷۱۲۵۹ ۵۲۱٬۵۱۸٬۳۸۶ ۹۵ ۵۲۲ ۴۴۲ 自 ناس پور نجد نوشهره ہندوستان ۷۲ ۷۵ ۱۰۳۴تا۱۲۵۴٬۱۲۳٬۱۰۸۱۰۵ یروشلم
14
ابو داؤد اخبار الف ۵۲۸ ۱۳۸۷ انثناء ۱۳۸۷ ابن جریر ۵۰۸٬۳۰۸ اسد الغابة الامامة والسياسة البداية والنهاية ۳۱ الفضل ۲۴۹ 'raz'ra'rrr‘dóʻrarı 16 کتابیات انیسویں صدی کا مهرشی مصنفہ میر قاسم علی با تبل 191 ترندی تفسیر کبیر توریت ۱۸۴۱۵۸ ۵۲۲۴۱۶ ۵۴۷ د.د مجمع بحار الانوار ۱۳۹ بخاری ۱۵۸٬۱۰۹٬۴۸٬۳۹٬۱۸ ۲۲۱ تا ۳۳۱۲۶۲٬۲۴۲٬۲۲۳ ۵۳۳٬۵۲۸٬۵۰۸٬۳۵۳٬۳۳۸ براہین احمدیه ۱۹۲ رنگیلار سول ژند اوستا ۷۴۱۶۹ ادے ۱۹۱۱ ژ 122 ۷۵۴۶۷۴۶۲ ۱۴۸۸٬۴۸۳۴ پرتاب "اخبار" پیغام صلح "اخبار" ۴۹۰٬۴۸۹ ۸٬۵۰۱ ۵۰ داد ۵۲۲۰ ۵۴۱۵۳۳٬۵۲۸ ۴۴۷۴۴۳ سلطان بنگال کا ایک اخبار ۴۹۵٬۴۹۲٬۴۵۰٬۴۴۸ سیرت ابن ہشام ۲۹۴۱۵۸٬۵۰ الفوز الكبير الوصية انجیل تاریخ اسلام مصنفہ ( معین الدین ندوی) ۴۲۸ ۱۳۸۲۳۱ تاریخ الخلفاء للسیوطی ۲۴۲٬۳۱ ۴۷۹٬۴۳۲٬۴۳۰٬۴۰۲ تحفه الهند ۴۴۵ تذکره انقلاب (اخبار) ١٩٢ ۲۲۴۱۸ ۵۴۱۰۳ ۵۳۱۲۵۴٬۲۴۹٬۲۴۸٬۲۲۶ طبری b ع عمر فاروق مصنفہ محمد حسین تشکیل
۵۳۳٬۸۰ ۱۶۸ الله اله, واله له والده 641.471,271 **I, VII, 241,471,771 الله له ال 7 ۱۸ ۳۵۳ کنز العمال گ گرنتھ صاحب لوقا ل ۲۳۰ 471 ۲۹۴ مشكوة ماماپ اخبار موضاعات كبير و چتر جیون اور تمان , وید ٦٧٠ الله الله والله له فالله اله والدها الله.۳۲۳٬۳۱۷ ۳۳۸٬۳۲۳ ۵۴۱۴۰۹٬۳۸۶ متی مثنوی مولاناروم ۲۲ ۳۲۰ ف C.فتح الباری قرآن کریم ق الها والله حال 14,07,17,٢١١,٥ ,٧٢,لد ٧,لد حوله لا ولد له ولد او الله الله ولا 7J1,VC1,471,471,171,771, ۲۷۶۲۶۶٬۲۳۹٬۲۳۸٬۲۱۵٬۲۱۲ اله الله اله الله له وله الله ا ولد له ولدا 7 ولدهم ۱٬۴۰۵٬۴۰۴٬۴۰۲٬۴۰۱٬۳۸۰٬۳۵۴ الله له والله لها الله الله اله الله الله الله ۱۴۶۴٬۴۶۲۲۴۵۸ ۴۵۰۲٬۴۹۴٬۴۸۶٬۴۸۱٬۴۸۰٬۴۶۵ ۱٬۵۲۲٬۵۱۹٬۵۱۸٬۵۰۹۳۵۰۷ ۵۴۸٬۵۴۷٬۵۳۲ ک مسلم اؤٹ لک (اخبار) ۱۶۴٬۱۶۳ كتاب الخراج للقاضی ابو یوسف ۱۱۶ مسند احمد بن حنبل ۱۳۶۰٬۲۸۰ ہندو بیر لڈ اخبار ۵۰۸۳۹۹