Language: UR
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خطبات علوم و معارف کا ایک انمول خزانہ ہیں اور پیش گوئی کے الہامی الفاظ ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیاجائے گا‘‘ پر شاہدناطق ہیں۔ آپؓ کا دور خلافت نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے جو ایک تاریخ ساز دور تھا۔ اس نہایت کامیاب اور طویل دور میں آپؓ نے اپنے خطبات جمعہ کے ذریعہ جماعت کی تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ سیاسی، سماجی اور مذہبی افقوں پر نمودار ہونےوالے ہر معاملے پر بروقت اور درست رہنمائی عطافرمائی۔ الغرض یہ خطبات جمعہ جماعت احمدیہ کا ایک بہت ہی قیمتی خزانہ اور سرمایہ ہیں۔ جسے فاؤنڈیشن نے یکجا کرکے کتابی شکل دی ہے۔
خطبات مود (خطبات جمعہ) ۱۹۲۶ فرموده سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمد احمد اصلح الموعود جلد زیرا اهتمام
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلى رَسُولِهِ الكَرِيمُ پیش لفظ اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے فضل عمر فاؤنڈیشن کو حضرت مصلح موعود کے خطبات جمعہ کی دسویں جلد احباب جماعت کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت نصیب ہو رہی ہے.الحمد للہ علی ذالک.اس جلد میں ۱۹۲۶ء کے ۳۶ خطبات جمعہ شامل ہیں.حضرت فضل عمر سلطان البیان کے خطبات علوم و معارف کا انمول خزانہ ہیں اور پیشگوئی کے الہامی الفاظ ” وہ علوم ظاہری وباطنی سے پیر کیا جائے گا“ پر شاہد ناطق ہیں.حضرت مصلح موعود کا دور خلافت جو کم و بیش ۵۲ سال پر محیط ہے.ایک تاریخ ساز دور تھا.اس نہایت کامیاب طویل دور میں حضور " کے خطبات نے جماعت کی علمی و روحانی ترقی اور تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا.ہمارا یہ روحانی و علمی ورثہ سلسلہ کے لٹریچر میں بکھرا پڑا تھا.اور جماعت کے دوستوں کو اس سے استفادہ کرنا مشکل تھا.فضل عمر فاؤنڈیشن اس جماعتی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ان خطبات کو کتابی شکل میں شائع کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں ان خطبات سے پورے طور پر استفادہ کرنے اور جماعتی ذمہ واریوں کو احسن رنگ میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین
فہرست مضامین خطبات محمود خطبات جمعہ ۱۲۶ جلد نمبر ۱۰ موضوع خطبه صفر نمبر 1 16 ۳۷ ۴۵ ۵۲ ۶۳ ۶۹ ^ ۸۹ ۱۱۵ 141 ۱۳۳ خطبه نمیری تاریخ بیان فرموده A ۹ 1.11 ۱۲ یکم جنوری نئے سال کے لئے چار باتیں د/ جنوری ایک مبشر رویاء اور جماعت احمدیہ کی ذمہ داریاں ۱۵ جنوری کارکنان سلسلہ کے لئے چند ضروری باتیں ۲۲ جنوری صراط مستقیم کا کیا مطلب ہے ؟ ۲۹ جنوری حضرت مسیح موعود کی بعثت کا خاص مقصد ۵ فروری انبیاء کی جماعت میں مختلف استعداد کے لوگ ار فروری انعام حاصل کرنے کی نسبت انعام قائم رکھنا مشکل ہے ۲۶ فروری انسانی خصائل ثلاثہ کا بر محل استعمال هر مارچ حقیقی عبادت ۱۲ ؍ مارچ ۱۹ / مارچ غیر مبایعین کا نامناسب رویہ رمضان المبارک میں خاص برکات کے حصول کا موقعہ ۲۶ مارچ رمضان المبارک سے استفادہ رمضان المبارک کی برکات ۲ اپریل ۱۴ ۹- اپریل لیلۃ القدر کی تلاش ۱۵ ۱۶ را پریل قوم ترقی اور عروج کے زریں اصول
خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده 14 а 19 ۲۰ ۲۱ ۲۲ ۲۳ را پریل ۳۰ را بپریل مارمی ۱۴ رمئی ۲۱ مئی موضوع خطبہ صفحہ نمبر یا ہم عفو اور درگزر سے کام لیں ترقی کے لئے ضروری چیزیں چندہ خاص کی تحریک وصیت کی اصل غرض اور ضرورت ایمان بہتر اخلاق سے ظاہر کرو ۴ جون وبا کے دنوں میں پوری پوری اختیاط کریں قوموں کے تنزل کے اسباب ۲۵ جون ۲۳ ۲۳ جولائی چند ضروری باتیں ۲۴ ۳ رستمبر ۲۵ 44 ۲۶ یکم اکتوبر حمد کے لفظ میں تین سبق تعمیر احمد یہ بیت الذکر لندن اور ہماری ذمہ واری ۱۵ اکتوبر اصلاح و ارشاد کا کام بند نہیں ہونا چاہیئے ۲۷ ۲۲ اکتوبر حضرت مسیح موعود کا ایک زبر دست نشان ۱۴۴ ۱۵۰ 12.JA.۱۹۱ ۲۱۳ ۲۲۹ ۲۳۲ ۲۳۶ ۲۴۲ ۲۵۴ ۲۷۰ ۲۷۳ ۲۷۹ ۲۸۶ ۲۹۳ ۲۹۷ ٣٠٣ ۳۰۹ ۲۹ اکتوبر احمدیہ جماعت کی قدر و قیمیت در نومبر دنیا میں ہی جنتی بن جائیں ۱۹ نومبر لوگوں کے دلوں کو محبت و نرمی سے فتح کریں ۲۶ نومبر احمدية بريت الذکر لندنے سے فائدہ اُٹھانے کا زریں موقعہ ۳ دسمبر جلسہ سالانہ کے لئے مکانا تھے اور خدماتھے پیش کریں ۱۰ر دسمبر روحانی علوم اپنے اندر جذب کر کے دنیا میں پھیلائیں ۱۷ دسمبر دعا مذہب کی روح ہے ۲۴ دسمبر ۳۱ دسمبر خدائی انعام کی قدر قربانیوں سے ہوتی ہے طریقے مباہلہ اور اس کی شرائط ۲۸ ۲۹ F.i I ۳۲ ۳۴ ۳۵
1 نئے سال کے لئے چار باتیں (فرموده یکم جنوری 1926ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ جلسہ سالانہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک اہم یادگار ہے.خیر و خوبی کے ساتھ ختم ہوا.باوجود ان انتہائی درجہ کی مشکلات کے جن کی وجہ سے ظاہری حالات کے ماتحت اس دفعہ جلسہ کا انعقاد بہت مشکل نظر آتا تھا.خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے اور اس کی مہربانی اور نوازش سے جماعت کو توفیق ملی کہ نہ صرف جلسہ خیر و خوبی سے اپنی ذات میں ہوا.بلکہ جیسا کہ اندازہ لگایا گیا ہے جلسہ کے اخراجات کا بھی ایسا بوجھ نہیں پڑے گا جیسا کہ گزشتہ سالوں میں پڑا کرتا تھا.اب نیا سال شروع ہوا ہے اور شروع بھی ایک نہایت مبارک دن سے ہوا ہے یعنی ایسے دن سے شروع ہوا ہے جس میں ایک گھڑی ایسی آتی ہے جب کہ دعائیں خصوصیت سے قبول ہوتی ہیں اور ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا موقعہ دیا ہے کہ ہم اس سال کو ایسی کوشش اور ایسی دعا کے ساتھ شروع کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کی ابتدا کو اس کے درمیان کو اور اس کے انتہاء کو ہمارے لئے مبارک کرے.میں چاہتا تھا کہ آج میں اپنی جماعت کو بعض نصائح اس کے کاموں کے متعلق کروں اور اس کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاؤں.لیکن چونکہ جمعہ کا دن جلسہ کے اتنا قریب آیا ہے اور جلسہ میں کام کرنے کا اثر میری صحت اور گال پر بہت پڑا ہے.اس لئے میں مفصل تقریر نہیں کر سکتا اور اختصار کے ساتھ بعض باتیں بیان کرتا ہوں.سب سے پہلے تو میں تبلیغ کو لیتا ہوں.اس کے بغیر ہمیں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی.ہماری جماعت اس وقت اتنی قلیل ہے کہ دنیا کی ذمہ داریوں کا جو بوجھ اس کے سر پر ہے اسے اٹھا
2 نہیں سکتی.چاروں طرف سے آوازیں آ رہی ہیں کہ خدا کے رسول کا پیغام ہم تک پہنچایا جائے.لیکن ہمارے پاس ان سب کے پاس جانے اور انہیں پیغام پہنچانے کے ذرائع نہیں ہیں.اور اس کی بظاہر ایک ہی صورت نظر آتی ہے کہ ہندوستان میں ہماری تبلیغ وسیع ہو.جب تک ہندوستان میں تبلیغ کا حلقہ وسیع نہ ہوگا اور خصوصا" پنجاب میں اس وقت تک ہم وہ بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہو سکیں گے جس کا اٹھانا ہمارا فرض ہے.میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس سال جلسہ پر بیعت پہلے سالوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے.تین سو کے قریب مردوں نے اور ساڑھے تین سو کے قریب مستورات نے بیعت کی ہے.پچھلے سالوں میں پانچ سو تک تعداد پہنچتی تھی.اس سال چھ سو سے بھی زیادہ تعداد نے بیعت کی ہے.پھر تعداد کے زیادہ ہونے کے علاوہ اس سال ایک اور بھی خصوصیت ہے.اور وہ یہ کہ بیعت کرنے والوں میں بالعموم ایسا طبقہ تھا جو اپنے اپنے حلقہ میں اثر اور رسوخ رکھنے والا ہے.گویا اس سال کمیت کے لحاظ سے بھی اور کیفیت کے لحاظ سے بھی بیعت کرنے والوں کو خاص خصوصیت حاصل تھی.تعلیم یافتہ اور بارسوخ طبقہ نے پچھلے سالوں کی نسبت زیادہ بیعت کی.پھر ایک اور خصوصیت یہ بھی ہے کہ ایسے علاقوں کے لوگوں نے بیعت کی ہے جہاں اس وقت تک ہماری جماعت نہ تھی اور بیس بائیس سال سے ہم وہاں کوشش کر رہے تھے.اس دفعہ خدا کے فضل سے تین چار ایسے علاقوں کے لوگوں نے بیعت کی ہے جو احمدیت کی مخالفت کے گڑھ تھے.پھر جلسہ پر ملاقات کے دوران میں احباب سے معلوم ہوا ہے کہ عام طور پر اس تبلیغی پروگرام کے نتیجہ میں جو پچھلے سال سے شروع کیا گیا ہے ایسے علاقوں میں بھی زندگی کے آثار پیدا ہو گئے جہاں اس سے پہلے بالکل خاموشی تھی.ان علاقوں میں کثرت سے لوگ احمدیت کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں.تبلیغ کا پروگرام ایسا نہیں جسے ایک سال کے بعد ترک کر دیا جائے اور یہ سمجھ لیا جائے کہ اب کام ہو چکا.کیونکہ تبلیغ ایک جنگ ہے اور جنگ بھی روحانی جنگ اور روحانی جنگیں لمبی ہوا کرتی ہیں.اس لئے میں سب سے پہلے تبلیغی پروگرام کی طرف توجہ دلاتا ہوں.اور دوستوں سے امید رکھتا ہوں کہ ان میں سے جنھوں نے پہلے اس طرف توجہ نہیں کی وہ اب کریں گے اور جنھوں نے پہلے توجہ کی ہے وہ اس میں اور زیادتی کریں گے.میں نے پہلے بھی اپنی جماعت کے دوستوں کو توجہ دلائی تھی اور اب بھی دلاتا ہوں کہ تبلیغ لیکچروں اور مباحثوں سے نہیں ہوا کرتی.ان سے لوگوں میں جوش تو پیدا کیا جا سکتا ہے.مگر احمدیت قبول نہیں کرائی جا سکتی.یہ کام افراد سے ملنے اور گفتگو کرنے سے ہی ہو سکتا ہے جن جماعتوں نے
3 گزشتہ سال اس پہلو پر زور نہیں دیا.بلکہ یہاں سے مبلغ منگا کر لیکچر دلانے یا خود لیکچر دینے پر زور دیا ہے ان میں ترقی نہیں ہوئی اور اگر ہوتی ہے تو بہت کم.لیکن جنھوں نے اس بات کو سمجھ لیا ہے کہ تبلیغ افراد سے ملنے اور گفتگو کرنے سے ہو سکتی ہے.انہوں نے خاص طور پر ترقی کی ہے.بعض جگہ تو جماعتیں پہلے کی نسبت دگنی تعداد میں ہو گئی ہیں اور بعض جگہ اس سے بھی زیادہ ترقی ہوئی ہے.اصل بات یہ ہے جیسا کہ ایام جلسہ میں ملاقات کرنے والے اصحاب کو بھی میں نے سمجھایا کہ بعض بیماریوں کے علاج ایک تو ٹوٹکے ہوتے ہیں جو عورتوں کو بھی یاد ہوتے ہیں.لیکچر اس کے مشابہ ہوتا ہے.جس طرح ٹوٹکا اگر مطابق آجائے تو فائدہ ہو جاتا ہے ورنہ نہیں.اسی طرح لیکچر ہوتا ہے اگر اس میں کوئی ایسی بات بیان کی گئی جو سننے والے کے کسی شک و شبہ کے لئے مفید ہوئی تو اسے فائدہ پہنچ گیا.ورنہ وہ کورے کا کورا رہا لیکن افراد کی تبلیغ ایسی ہوتی ہے جیسے طبیب یا ڈاکٹر کا علاج.ڈاکٹر بیمار کو دیکھتا ہے کہ اسے کیسا بخار ہے کیسا نزلہ ہے اور پھر جس قسم کی بیماری ہوتی ہے اس کے مطابق علاج کرتا ہے.اسی طرح انفرادی تبلیغ کرنے والا دیکھتا ہے کہ کس قسم کے شکوک اور شبہات کسی شخص کے دل میں ہیں اور پھر ان کے دور کرنے کی کوشش کرتا ہے.اس کے مقابلہ میں ایک لیکچرار یا واعظ کھڑا ہو کر لیکچر دیتا ہے اور اپنے لیکچر میں انی متوفیک الخ کی آیت پر بہت زور دیتا ہے لیکن سامعین کے دل میں وما قتلوه الخ کی آیت کھنکتی ہے.مولویوں نے اس کے متعلق شبہات ڈالے ہوتے ہیں تو انہیں لیکچرار کے سارا زور صرف کر دینے سے بھی کوئی فائدہ نہ ہو گا.لیکن اگر افراد کو تبلیغ کی جائے گی تو گفتگو میں جس شخص کے دل میں جو اعتراض ہو گا وہ اسے پیش کر کے کہے گا کہ اس کا جواب دو اور مجھے یہ بات سمجھاؤ اس طرح اس کے سمجھنے اور ہدایت پانے کا زیادہ موقعہ ہو گا.پس لیکچر کی مثال اس ٹوٹکے کی سی ہوتی ہے جو عورتوں کو بھی یاد ہوتا ہے اور جس سے کسی کو فائدہ پہنچ جاتا ہے مگر بہتوں کو فائدہ نہیں پہنچتا.اور افراد کو تبلیغ کرنا ڈاکٹری علاج کی طرح ہوتا ہے.ڈاکٹر بھی پیٹنٹ دوائیاں یاد رکھتے ہیں اور جب ضرورت ہو انہیں استعمال کرتے ہیں.اسی طرح بے شک افراد کی تبلیغ میں ایسی باتیں بھی استعمال کی جائیں جو ٹوٹکا کے طور پر ہوں.لیکن اصل طریق تبلیغ یہی ہے کہ افراد سے مل کر ان کے شکوک اور شبہات کا ازالہ کرنے کی کوشش کی جائے.پس تمام احمدی جماعتوں کو چاہیے کہ ان کا ہر ایک فرد ایک ایک دو دو آدمیوں کو مد نظر رکھ کر ان کو تبلیغ کرے.اگر اس پر پورے طریق سے عمل کیا جائے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک سال میں جماعت دگنی ہو سکتی ہے اور کئی جگہ ہو بھی گئی ہے.
4 دوسری بات جس کی طرف میں احباب کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اس سال خاص طور پر مد نظر رکھیں.وہ جماعت کی تربیت ہے.جماعت خدا کے فضل سے اب اتنی ترقی کر گئی ہے کہ تربیت کی ضرورت خاص طور پر محسوس ہو رہی ہے.اس پہلو میں ایک معاملہ خاص توجہ کا مستحق ہے.اور وہ آپس کے جھگڑوں کا معاملہ ہے.کثرت جماعت کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ حقوق ٹکرا جاتے اور اس طرح مختلف پارٹیاں بنی شروع ہو جاتی ہیں پچھلے سال میں نے سیالکوٹ کے احمدیوں کو توجہ ولائی تھی.اور اب سب سے کہتا ہوں کہ جب کوئی لڑائی جھگڑا پیدا ہو جائے تو پھر کسی کو حج مقرر کرنا اتنا مفید نہیں ہو سکتا.جتنا پہلے سے مقرر کرنے سے ہو سکتا ہے.اس لئے ضرورت ہے کہ ہر جگہ کی جماعتیں اس بارے میں انتظام کریں.جہاں بڑی جماعتیں ہوں وہاں ۵-۶ آدمیوں کی اور جہاں چھوٹی ہوں.وہاں تین چار کی پنچایت بنائی جائے اور ساری جماعت یہ طے کرے کہ کسی جھگڑے میں یہ پنچایت جو فیصلہ کرے گی اسے منظور کیا جائے گا.پھر جب کوئی جھگڑا ہو تو اس پنچایت میں پیش کیا جائے.اور فریقین اقرار کریں کہ ہم اس کا فیصلہ مانیں گے.اور دوسرے لوگ یہ اعلان کریں کہ جو فیصلہ پنچایت کرے گی ہم اس کی تائید کریں گے.اس بارے میں تفاصیل میں بعد میں شائع کروں گا.مگر جلد سے جلد ہر جگہ پنچایت ضرور قائم ہو جانی چاہئے تاکہ فتنہ و فساد کے دروازے بند ہو جائیں.تیسری بات جو اس سال مد نظر رکھنی ضروری ہے وہ جماعت کی مالی حالت ہے میں نے بتایا ہے کہ کوئی نیا کام اس وقت تک نہ شروع کیا جائے گا جب تک مالی حالت قابل اطمینان نہ ہو جائے.مگر موجودہ حالت اس حد تک پہنچی ہوئی ہے کہ جو کام ہو رہے ہیں ان میں بھی رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں.اس کے لئے ایک صورت تو میں نے یہ بتائی تھی کہ جب تک مشکلات دور نہ ہو جائیں اس وقت تک هر سال ۴۰ فیصدی چنده خاص ادا کیا جائے.اس کے علاوہ دو اور ذرائع بھی ایسے ہیں جن پر عمل کرنے سے مالی حالت درست ہو سکتی ہے.ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ جو نادہند ہیں یا پوری شرح سے چندہ نہیں دیتے ان سے پورا چندہ وصول کیا جائے.اس طریق سے موجودہ حالت میں جس قدر زائد آمدنی کی ضرورت ہے اس کا ۵۰ فی صدی اس طرح وصول ہو سکتا ہے.مثلا " ۴۰ ہزار کی ضرورت ہے تو کم از کم ۲۰ ہزار اس طرح وصول ہو سکتے ہیں.پس احباب اس بات کی کوشش کریں کہ اپنے اپنے مقامات میں جو لوگ چندہ دینے میں سست ہیں.ان سے باقاعدہ وصول کریں.اور جو مقررہ شرح سے کم چندہ دیتے ہیں.ان سے پوری شرح پر چندہ لیا جائے.دوسرا طریق یہ ہے کہ وصیت کرنے پر زور دیا جائے.اگر دو ہزار نئے موصی ہو جائیں.تو پھر
5 سمجھیں بقیہ ۲۰ ہزار اس طرح پورا ہو سکتا ہے.اور اگلے سال چندہ خاص کی ضرورت نہیں پیش آئے گی پھر اس سے ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ وصیت کرنے والے چندہ وصیت ادا کرنے کو بوجھ نہیں گے.وہ وصیت کر کے خدا کے انعام کے مستحق بنتے ہیں.اس لئے وہ شکایت نہیں کریں گے.پس اگر وصایا پر زور دیا جائے تو یہ احساس اور بلاوجہ احساس جو کچھ لوگوں میں پایا جاتا ہے کہ ہم پر بہت بوجھ پڑ گیا ہے.دور ہو سکتا ہے.اس وقت قلیل حصہ جماعت کا ایسا ہے جو وصیت کے معیار کے مطابق ماہوار چندہ دیتے ہیں اور کثیر نہیں دیتے.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس معیار کو اونی معیار قرار دیتے اور فرماتے ہیں.جو وصیت نہیں کرتا اس میں ڈر ہے کہ نفاق کی رگ ہو.اب اگر جماعت کا وہ حصہ جو وصیت کے مقرر کردہ اونی معیار یعنی آمدنی کے دسویں حصہ سے بھی کم چندہ دیتا اور پھر شور مچاتا ہے کہ بڑا بوجھ پڑ گیا اسے غور کرنا چاہئے کہ وہ نفاق کی رگ کو دور کرنے میں کس طرح کامیاب ہو سکے گا.اگر وصیت پر زور دیا جائے تو وہ لوگ جو اب سمجھتے ہیں کہ ان سے زور کے ساتھ چندہ لیا جاتا ہے موجودہ شرح سے زیادہ چندہ دیں گے اور اپنی خوشی سے دیں گے کیونکہ وہ سمجھیں گے کہ ہم وصیت میں دیتے ہیں.اس طرح ان کے نقطہ نگاہ میں تبدیلی ہو جائے گی اور نقطہ نگاہ کی تبدیلی سے بہت بڑا تغیر ہو جایا کرتا ہے.اس طرح کم از کم ایک لاکھ آمدنی زیادہ ہو سکتی ہے پھر میں نے بتایا ہے کہ مالی بوجھ جماعت کی زیادتی سے بھی دور ہو گا.اس لئے تبلیغ میں خاص کوشش کرنی چاہئے.چوتھی بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود کی کتابوں کی فروخت کے لئے خصوصیت سے کوشش کی جائے یا اس بات کو اور وسیع کر کے کہتا ہوں کہ سلسلہ کا لٹریچر فروخت کیا جائے.دیکھو آریہ ہر سال ہزارہا کی تعداد میں ستیارتھ پرکاش اور دوسری کتابیں فروخت کرتے اور عیسائی لاکھوں کی تعداد میں انجیل وغیرہ بیچتے ہیں.ہم نے اس بارے میں گذشتہ سال کے آخری مہینہ میں تجربہ کیا ہے جو خوش کن ثابت ہوا ہے.ہم نے لاہور ایک آدمی مقرر کیا جس نے بڑے بڑے بارسوخ لوگوں ججوں ، بیرسٹروں، وکیلوں، رئیسوں میں کئی سو کی کتابیں فروخت کی ہیں اسے ہم کتب کی فروخت نہیں کہتے بلکہ یہ خالص تبلیغ ہے اور یہ طریق تبلیغ بہت زیادہ مفید ہے کیونکہ جو لوگ کتابیں مول لیتے ہیں وہ پڑھتے بھی ہیں.پس دوست ہر جگہ بک ڈپو قائم کر کے کتابیں فروخت کرنے کی کوشش کریں تو ہر سال ہزاروں روپیہ کی کتابیں فروخت ہو سکتی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تبلیغ میں بھی بہت کامیابی ہوگی.ایک تو آمدنی بڑھے گی اور دوسرے تبلیغ مفت میں ہو جائے گی.اور لوگوں کو
6 ہمارے سلسلہ کی کتابیں خریدنے کی عادت ہوگی.لوگ آریوں اور عیسائیوں کی کتابیں اس لئے خریدتے ہیں کہ وہ مفت نہیں دیتے ہم چونکہ مفت دیتے رہے ہیں اس لئے لوگوں کو قیمتاً خریدنے کی عادت نہیں.اب اگر فروخت کریں گے تو انہیں عادت ہوگی اور عادت کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے.دیکھو پہلے غیر احمدی ہمارے جلسہ پر بہت کم آتے تھے.مگر اب کم از کم ہزار کے قریب معززین آتے ہیں.اسی طرح کتابوں کے متعلق ہو گا.اگر پانچ سال متواتر اس کے لئے کوشش کی جائے تو پچاس ساٹھ ہزار بلکہ لاکھ تک سالانہ بکری ہو جانا بھی مشکل نہیں.اس طرح سلسلہ کو مالی فائدہ بھی ہوگا اور ہزاروں آدمی احمدی بھی ہوں گے.یہ چار باتیں پیش کر کے میں امید رکھتا ہوں کہ ان کے لئے خاص کوشش کرتے ہوئے احباب دوسرے کاموں پر بھی زور دیں گے تاکہ خدا کے فضل کے ماتحت نیک نتائج پیدا ہوں.جماعت کی زیادتی ہو.اخلاقی اور مالی حالت کی درستی ہو.تبلیغ کے لئے نئے میدان حاصل ہوں.اللہ تعالی ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی ذمہ داریاں سمجھیں.ہم میں سے جو کمزور ہیں ان کی کمزوریاں دور ہوں اور جو مضبوط ہیں ان کی مضبوطی میں زیادتی ہو.اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری جن میں نہیں ان میں پیدا ہو اور جن میں ہے ان میں اور بھی زیادہ ہو.آمین الفضل ۸ جنوری ۱۹۲۶ء)
2 ایک مبشر رڈیا اور جماعت احمدیہ کی ذمہ داریاں (فرموده ۸ جنوری (۱۹۲۶ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : میں نہیں کہہ سکتا کہ آج میں نے اگر وہ نظارہ نہ دیکھا ہوتا جو میں نے دیکھا ہے تو میں کس موضوع پر خطبہ جمعہ بیان کرتا لیکن اس نظارہ کے دیکھنے کے بعد جو میں نے دیکھا ہے.میں سمجھتا ہوں.یہی ضروری ہے کہ میں اس کے متعلق بیان کروں.میں نے متواتر اور بارہا دو وستوں کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ ہمارے سامنے کس قدر اہم کام ہے اور اس کے مقابلہ میں ہماری ہمتیں نہایت ہی کمزور ہیں ہمارے سامان بہت محدود ہیں.اور ہماری توجہ بٹی ہوئی ہے.ان حالات میں ہم اس مقصد کو حاصل نہیں کر سکتے جس کے لئے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا اور اس منزل تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے جو ہم نے اپنے لئے نہیں بلکہ خدا نے ہمارے لئے تجویز کی.جب تک انتہائی طاقت اور قوت صرف نہ کردیں.میں آج صبح کی نماز کے بعد کچھ دیر کے لئے لیٹ گیا تو میں نے ایک عجیب نظارہ دیکھا.اس کے کئی حصے ہیں.لیکن چونکہ میرے نزدیک بعض حصوں کا ایسا بین تعلق جماعت کے ساتھ نہیں ہے.اس لئے میں انہیں چھوڑتا ہوں اور صرف اسی حصہ کو لیتا ہوں جس کا میرے نزدیک جماعت کے ساتھ تعلق ہے اور جس میں جماعت کو اس کے فرائض کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور جس میں جماعت کی آئندہ ترقیات کے متعلق بعض باتیں ہیں.ایک لمبی خواب کے دوران میں نے اپنے آپ کو ایک لمبے دالان میں دیکھا جو اتنا ہی لمبا تھا.جتنے لمبے دالان بڑے بڑے سٹیشنوں مثلاً لاہور امرتسر.دہلی وغیرہ کے ہیں.میں اس میں ٹہل رہا تھا کہ میں نے دیکھا خان صاحب منشی فرزند علی صاحب بھی وہاں آگئے ہیں.جو میرے ٹہلنے کو دیکھ کر اور
8 میری حالت پر نظر کر کے اور میرے بعض افکار سے متاثر ہو کر میرے ساتھ ٹہلنے لگ گئے.اور مجھے سے دریافت کیا کہ آپ اس طرح کیوں ٹہل رہے ہیں اس وقت جو خیالات اور افکار میرے قلب میں موجزن تھے میں ان سے متاثر ہو کر جیسا کہ عام قاعدہ ہے کہ جب کوئی انسان نہایت ہی متاثر کر دینے والے افکار اور جذبات پر قابو پانے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے.اور احساسات کو ابھارنے والے خیالات کی ادھیڑ بن میں ہوتا ہے تو بسا اوقات وہ اپنی طاقت کا ایک حصہ جذبات کے دبانے اور ان کے بخار بن کر آنکھوں کے رستہ ٹپک پڑنے کو روکنے کی کوشش میں صرف کرتا ہے.لیکن اگر کوئی اور شخص آ کر اس سے بات چھیڑ دیتا ہے تو چونکہ اسے اپنی توجہ کا ایک حصہ اس شخص کی طرف بھی لگانا پڑتا ہے.اس لئے اس کا اپنی طبیعت پر سے قابو جاتا رہتا ہے اور جونہی وہ اس کا جواب دینے کی کوشش کرتا ہے.اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑتے ہیں.اس وقت میں نے اپنی حالت کو ایسا ہی پایا.میں سمجھا اگر میں ان کے سوال کا جواب دینے لگا تو اس کے ساتھ ہی مجھے اس وقت اپنے نفس پر جو قابو ہے وہ جاتا رہے گا اور جن جذبات کو میں نے روکا ہوا ہے وہ ایل پڑیں گے اور آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑیں گے.یہ خیال کر کے میں نے ان کے سوال کا جواب دینے سے قبل چاہا کہ میں اپنے جذبات کو اس قدر دبالوں اور ان پر اتنا قابو پالوں کہ بغیر آنسوؤں کے ٹیکنے کے ان کو جواب دے سکوں.میں اسی کوشش میں تھا کہ میں نے دیکھا.ایک تیسرا شخص ہمارے درمیان آگیا اور اس نے بہت جلدی میری حالت کا اندازہ کر کے خان صاحب منشی فرزند علی صاحب کے کان میں کہنا شروع کیا کہ ان کی آنکھوں میں نمی ہے.مجھے اس شخص کی یہ بات بہت بری معلوم ہوئی.کیونکہ اس قسم کی حالت بھی ایک راز ہوتا ہے اور مجھے یہ گراں گزرا کہ اس نے اس راز کو کیوں ظاہر کر دیا.پھر میں نے خان صاحب منشی فرزند علی صاحب کو جواب دینا شروع کیا.میں نے انہیں کہا میرے افکار کا باعث یہ ہے کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک رؤیا دیکھی ہے.اس وقت یوں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک پرانی رؤیا ہے جو ایک کاپی میں آج تک پوشیدہ تھی اور اس وقت میں نے دیکھی ہے.میں نے انہیں کہا کہ اس رڈیا کا میرے قلب پر اثر ہے.جو نہی کہ میں یہ بات ان سے کہتا ہوں اور وہ رؤیا بیان کرتا ہوں.اس رؤیا کے واقعات ظاہری طور پر آنکھوں کے سامنے سے اس طرح گزرتے جاتے ہیں جس طرح سنیما میں تصاویر حرکت کرتی ہیں.بعینہ اسی طرح وہ سارا نظارہ جو رویا میں بیان ہوا آنکھوں کے سامنے گذرتا ہے.اور اگرچہ میں نے وہ رڈیا کسی کاغذ یا کاپی پر لکھی ہوئی دیکھی تھی.لیکن جب میں اسے بیان کرتا ہوں.تو بعینہ وہی
9 نقشہ آنکھوں کے سامنے سے گذرتا جاتا ہے.جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رویا میں بیان کیا.میں دیکھتا ہوں کچھ لوگ ہیں جماعت کے جو گروہ در گروہ کھڑے ہیں چند یہاں ہیں چند وہاں ہیں چند پرے ہیں چند اس سے پرے ہیں اور آپس میں متفرق باتوں میں مشغول ہیں.کوئی کسی قسم کی باتوں میں لگا ہے اور کوئی کسی قسم کی باتوں میں.اتنے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس جگہ تشریف لے آئے اور آپ ان لوگوں سے کہتے ہیں تم کن باتوں میں لگے ہو.کیا چھوٹی چھوٹی باتوں میں مشغول ہو.کیسے چھوٹے چھوٹے اختلافات میں پڑے ہو.تم نہیں دیکھتے دین کی کیا حالت ہے اور دین کتنے بڑے خطرے میں ہے.اس خطرہ کو دیکھتے ہوئے تم کس طرح ایسی باتوں میں مشغول ہو.وہ لوگ جو گروہ در گروہ کھڑے ہیں.ان کا آپس میں کوئی اس قسم کا اختلاف نہیں معلوم ہوتا جس طرح کا اختلاف مبایعین اور غیر مبایعین میں ہے.بلکہ وہ سب مبایعین ہیں.ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس طرف متوجہ کرتے ہیں کہ تم کیسی چھوٹی چھوٹی باتوں میں جھگڑ رہے ہو اور اختلاف کر رہے ہو کیا تمہیں دین کی حالت کا احساس نہیں کہ وہ کس قدر خطر ناک حالت میں ہے یہ کہتے کہتے جس طرح کوئی گھبرا جاتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان لوگوں کو دھکے دے دے کر متوجہ کرتے اور فرماتے ہیں.تم کن باتوں میں مشغول ہو.کیا دیکھتے نہیں دین کی کیا حالت ہے کیا اسی طرح اسلام ساری دنیا میں پھیلے گا اور اسی طرح خدا کی تقدیس دنیا میں قائم ہو گی.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی حالت یوں معلوم ہوتی ہے جیسے کسی ایسی ماں کی حالت ہو جس کا بچہ بھوک اور پیاس سے تڑپ رہا ہو.جیسے حضرت ہاجرہ کی اس وقت کی کیفیت دل میں آسکتی ہے جبکہ انہیں ایک چھوٹے سے بچہ کے ساتھ بے آب و گیاہ جنگل میں اکیلا چھوڑ دیا گیا تھا اور جب بچہ پیاس کی وجہ سے تڑپنے لگا تھا.بعینہ یہی کیفیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظر آتی ہے.آپ کبھی ادھر دوڑے جاتے ہیں کبھی ادھر.کبھی ایک جماعت کو دھکے دے کر جگاتے ہیں کبھی دوسری کو کبھی تیسری کی طرف جاتے ہیں اور کبھی چوتھی کی طرف کہ تم کن باتوں میں پڑے ہو.دین کی حالت دیکھو.آخر جیسے کوئی شخص تھک جاتا ہے.آپ یہ سوچتے ہوئے کہ اب میں کیا طریق اختیار کروں کہ یہ لوگ اشاعت اسلام کی طرف متوجہ ہوں ایک طرف کھڑے ہو گئے.اس وقت آپ پر یہ وحی نازل ہوئی وقع مکانک اے اپنے مکان کو وسیع کر.کیونکہ اب لوگ جوق در جوق اس سلسلہ میں داخل ہوں گے اور گروہ در گروہ تیرے پاس آئیں گے.
10 اس وقت میں سمجھتا ہوں یہ نظار، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس زمانہ کے متعلق دیکھا اور جب میں یہ دیکھتا ہوں تو اپنے جذبات کو بہت روکتا ہوں کہ ظاہر نہ ہوں.مگر اس سارے نظارہ کا مجھ پر اس قدر اثر ہوتا ہے کہ آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے اور آنسوؤں کا تار بندھ گیا.میں کچھ بیان کر کے ٹھہر جاتا ہوں.اور رقت سے آگے نہیں بیان کر سکتا.پھر خان صاحب کہتے ہیں.آگے.اور میں کچھ بیان کر کے رک جاتا ہوں.اس وقت میں نے دیکھا.ان کے قلب پر بھی اثر ہوا اور ان کی آنکھوں سے بھی آنسو رواں ہو گئے اور ناک سے پانی بہنے لگا.میں ان کو یہ نظارہ سناتا ہوں اور بتاتا ہوں دیکھو جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کوشش کی.اور اس کا خاطر خواہ نتیجہ نہ دیکھا.اور جب انسانی کوششیں کام نہ کر سکیں تو خدا نے یہ وعدہ دیا کہ وسیع مکانک.ہم خود انتظام کریں گے کہ لوگ کثرت سے تمھارے پاس آئیں.اس لئے اپنے مکان کو وسیع کرو.میری اس وقت رقت کی حالت تھی کہ آنکھ کھل گئی اس کے متعلق میں نے سمجھا کہ اس رویا میں تین باتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.اور ایک نہایت لطیف پیرا یہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ جماعت میں اختلافات کیونکر پیدا ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ فرمانا کہ تم چھوٹی چھوٹی باتوں میں پڑے ہو بڑی بات یعنی اسلام کی طرف نہیں دیکھتے کہ اس کی کیا حالت ہے یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اختلافات تب ہی پیدا ہوتے ہیں.جب انسان یہ خیال کر لیتا ہے کہ اب میں امن میں ہو گیا ہوں.ورنہ جب تک کسی انسان کے سامنے کوئی بڑا مقصد ہو جسے اس نے حاصل کرنا ہو اور وہ اپنے ارد گرد خطرات کو دیکھتا ہو.اس وقت آپس میں لڑائی جھگڑا پیدا نہیں کرتا.چھوٹی چھوٹی باتوں پر اسی وقت لڑتا ہے.جب وہ سمجھتا ہے کہ اب میں امن میں ہوں اور اپنا کام کر چکا ہوں.دیکھو مجلس وعظ میں بیٹھے ہوئے اگر ایک کا پاؤں دوسرے پر جا پڑے یا ایک کی کہنی دوسرے کو لگ جائے تو چلا اٹھتا ہے کہ دیکھتا نہیں.لیکن اگر کسی گھر میں آگ لگی ہو اور پچاس ساٹھ آدمی اس کے اندر ہوں جن کے باہر نکلنے کے لئے ایک ہی دروازہ ہو تو اس وقت کئی ایک کو دھکے بھی لگیں گے.چوٹیں بھی آئیں گی.مگر کوئی شکایت کرنے نہیں بیٹھ جائے گا.اس لئے کہ وہاں بڑا خطرہ سامنے ہے جو سب پر حملہ کر رہا ہے اور ان میں یہ احساس ہے کہ ہم بڑی تکلیف میں پڑ جائیں گے اس وجہ سے وہ اس وقت چھوٹی تکلیفوں کی طرف توجہ نہیں کرتے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس حالت نے بتایا کہ چھوٹے چھوٹے اختلافات اور جھگڑوں کا باعث یہی ہوتا ہے کہ یہ مقصد وحید کہ ہم نے ساری دنیا کو فتح کرتا ہے، ہمارے سامنے
11 نہیں رہتا اور یہ بات ذہن سے اتر جاتی ہے کہ ساری دنیا ہماری دشمن ہے.اگر یہ مقصد سامنے رہتا کہ ساری دنیا کو ہم نے فتح کرنا ہے اور اگر یہ بات ذہن سے نہ اتر جاتی کہ ساری دنیا ہماری دشمن ہے تو کبھی ہم میں سے کوئی شخص آپس میں نہ لڑتا نہ جھگڑتا.کیا وہ لوگ جو کشتی میں بیٹھے یہ دیکھ رہے ہوں کہ کشتی غرق ہو رہی ہے.کبھی اس بات کے لئے لڑتے ہیں کہ یہ میرے بیٹھنے کی جگہ ہے اور وہ تمھارے بیٹھنے کی.کیوں؟ اس لئے کہ وہ جانتے ہیں اگر ہم اس بحث میں پڑے رہے تو نہ جگہ رہے گی اور نہ کشتی.اس وقت ان کے سامنے ایک ہی بات ہوتی ہے اور وہ یہ کہ کشتی کو غرق ہونے سے بچایا جائے.خواہ کوئی کہیں بیٹھ جائے.پس ہمیشہ اختلاف کا موجب یہ ہوتا ہے کہ وہ چیز سامنے سے جاتی رہتی اور وہ مقصد بھول جاتا ہے جس کے لئے کھڑے ہوتے ہیں.اگر ہم میں سے ہر ایک شخص اس بات کو مد نظر رکھے کہ خدا نے ہمیں اس لئے کھڑے کیا ہے کہ ہم ساری دنیا کو فتح کریں تو ہم میں کبھی کوئی لڑائی جھگڑا فساد اور اختلاف نہ ہو.کیونکہ بڑی چیز کے مقابلہ میں چھوٹی چیز کی پروا نہیں کی جاتی.کیا جان بچانے کے لئے انسان اپنا ہاتھ نہیں کٹوا دیتا یا ناک نہیں کٹوا دیتا یا کان نہیں کٹوا دیتا یا آنکھ نہیں نکلوا دیتا.کیوں؟ اس لئے کہ جان کسی عضو کے مقابلہ میں بڑی چیز ہے.اسی طرح دیکھو عورت کو اولاد سے کتنی محبت ہوتی ہے.لیکن وہ عورت جس کے رحم میں بیماری پیدا ہو جائے اور یہ ڈر ہو کہ اگر بچہ پیدا ہوا تو مر جائے گی وہ رحم ہی نکلوا دیتی ہے.اور اس طرح قطعی اور یقینی طور پر فیصلہ کر لیتی ہے کہ میں آئندہ اولاد سے محروم رہوں.پس بڑی چیز کو بچانے کے لئے چھوٹی چیز کا نقصان گوارا کیا جاتا ہے.اگر بڑا مقصد سامنے ہو اگر یہ بات مد نظر ہو کہ ساری دنیا کو فتح کرنا ہے.اگر یہ بات آنکھوں کے آگے ہو کہ حضرت مسیح موعود کی تعلیم کو ساری دنیا میں پھیلانا ہے تو پھر کس طرح معمولی باتوں پر لڑائی جھگڑا اختلافات اور انشقاق پیدا ہو سکتا ہے وہ لوگ جو جماعت میں فتنہ کا موجب بنتے اور آپس میں لڑتے جھگڑتے ہیں وہ وہی ہوتے ہیں جن کے سامنے سے یہ مقصد جاتا رہتا ہے.وہ دین کی خطر ناک حالت نہیں دیکھتے.اور اپنے چھوٹے چھوٹے فوائد کو دیکھتے ہیں.وہ اسلام کو دنیا میں پھیلانے کی کوشش نہیں کرتے اور اپنے ذاتی اغراض کے حصول میں لگ جاتے ہیں.تو اس رویا میں تین باتیں بیان ہوئی ہیں.ایک یہ کہ ہمیں تبلیغ کی طرف خاص توجہ کرنی چاہئے.دوم یہ کہ تبلیغ میں ہم اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے.جب تک تربیت نہ کریں.سوم اپنے مقصد کو سامنے سے ہٹا دینا موجب ہے ، ان اختلافات کا جو بعض دوستوں میں پیدا ہو جاتے ہیں.یہ تین باتیں تو ہمارے متعلق ہیں.لیکن چوتھی بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ ا
12 الصلوۃ والسلام کی درد بھری دعائیں درجہ قبولیت کو پہنچ گئیں اور خدا تعالی اپنے فضل سے ایسے سامان کرے گا کہ یہ سلسلہ وسیع ہو گا اور نئے سرے سے اسی طرح توسیع مکان کی ضرورت پیش آئے گی.جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت پیش آئی تھی.مجھ پر اس رویا کا اتنا اثر ہوا کہ میں خواب میں ہی سوچتا ہوں کہ جب خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ کیا ہے کہ جماعت بڑھے گی.اور باوجود اس کے کہ جماعت میں غفلت اور سستی پائی جاتی ہے.کئی لوگ لڑائی جھگڑوں میں پڑے ہیں.فرماتا ہے کہ مکان وسیع کرو.تو اب رڈیا کو پورا کرنے کے لئے کس طرح مکان کو وسیع کیا جائے.خواب میں ہی میں خیال کر رہا ہوں.میں نے تو کبھی مکان نہیں بنوایا.اب کس طرح وسعت کراؤں گا.پس یہ وہی وعدہ ہے کہ جماعت بڑھے گی اور یہ پورا ہو کر رہے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو متواتر و منع مکانک کا الہام ہوتا رہا اور نبیوں کے الہام بعض دفعہ دُوری ہوتے ہیں.یعنی ایک زمانہ آتا ہے.جب وہ پورے ہوتے ہیں.پھر درمیان میں وقفہ پڑ جاتا ہے.پھر ان کے پورے ہونے کا وقت آجاتا ہے.گویا وہ ایک ہی دفعہ پورے ہو کر ختم نہیں ہو جاتے بلکہ بار بار پورے ہوتے رہتے ہیں.وجہ یہ کہ انسان کی زندگی تو اس کے سانس تک ہوتی ہے.لیکن نبیوں کی زندگی ان کے سانس تک نہیں ہوتی.بلکہ ان کی قوم کے سانس تک ہوتی ہے.اس لئے متواتر ان کے الہام پورے ہوتے رہتے ہیں.چونکہ یہ رویا ہماری جماعت کی اصلاح اور درستی سے تعلق رکھتی ہے.اس لئے میں نے اس کا بیان کرنا ضروری سمجھا.امید ہے کہ دوست اس مقصد کو مد نظر رکھیں گے جو سلسلہ کے قیام میں خدا تعالٰی نے ہمارے لئے تجویز کیا ہے.میں کسی قسم کا احسان جتانے کے طور پر نہیں اپنی کسی بڑائی کے اظہار کے لئے نہیں.فخر کے طور پر نہیں.بلکہ امر واقعہ کے طور پر اور مجبوری سے کہتا ہوں کہ تم اپنے نفسوں میں غور کر کے دیکھو.آپ لوگوں کی دینی خدمات ذاتی طور پر مجھے کیا نفع دیتی ہیں.آخر اتنا تو سوچو کہ میں جو تمھیں خدمت دین کے لئے نصیحت کرتا اور اس کی طرف توجہ دلاتا ہوں تو اس میں میرا ذاتی کیا نفع ہے.جسمانی لحاظ سے جن آراموں کی آپ لوگوں کو ضرورت ہے.مجھے بھی ہے.جسمانی لحاظ سے جو چیزیں آپ لوگوں کو لذیذ اور تسکین وہ معلوم ہوتی ہیں.وہ مجھے بھی لذیذ اور تسکین وہ معلوم ہوتی ہیں.پھر کون سے ذاتی نفع کا خیال ہے جو مجھے مجبور کرتا ہے کہ میں آپ لوگوں کو اس امر کی طرف توجہ
13 دلاؤں.اگر اس میں میرا ذاتی نفع ہے تو جو کام میں کہتا ہوں اسے کرنے سے قبل سوچ لو کہ اسے کیوں نفع پہنچائیں لیکن اگر اس میں میرا کوئی ذاتی نفع نہیں اور اگر غور کرو تو معلوم ہو جائے گا کہ فی الواقع میرا کوئی ذاتی نفع نہیں.تو وہ بات میں آپ ہی کے فائدہ کے لئے آپ لوگوں سے کہتا ہوں.اور وہ جس کی طرف توجہ کرنا آپ کا اپنا فرض تھا اس کی طرف توجہ دلانا میرا فرض نہ تھا.سوائے اتنے فرض کے جتنا آپ لوگوں کا بھی ہے.یعنی بحیثیت خداتعالی کا بندہ ہونے کے.تو پھر کیا وجہ ہے کہ آپ لوگ بار بار توجہ دلانے کے باوجود زندگی میں تغیر نہیں پیدا کرتے اور اشاعت سلسلہ اور قیام سلسلہ کی طرف توجہ نہیں کرتے.مثل مشہور ہے.کہتے ہیں کوئی پہاڑی آدمی تھا.جو سخت گرمی کے دنوں میں دھوپ میں بیٹھا تھا.کسی شخص نے اسے کہا.دیکھو تمھارے قریب درخت ہے.اس کے سائے تلے بیٹھ جاؤ.آگے سے جواب میں اس نے کہا.میں سائے میں بیٹھنے کے لئے تیار تو ہوں مگر یہ بتاؤ دو گے کیا.لوگ اس.لطیفہ کو بیان کرتے ہوئے ہنستے ہیں.اور حیران ہوتے ہیں کہ کیا واقعہ میں ایسے بیوقوف بھی دنیا میں ہو سکتے ہیں کہ جنھیں ان کے فائدہ کی بات بتائی جائے تو وہ کہیں اس کے کرنے پر کیا دو گے.مگر میں کہتا ہوں کہ آپ لوگ اپنے نفسوں پر غور کر کے دیکھیں.کیا یہی حالت دوسرے رنگ میں آپ کے اندر نہیں پائی جاتی.کیا ایسی باتیں آپ لوگوں کی جسمانی روحانی اور قومی ترقی کا موجب نہیں ہیں.جو آپ لوگوں کو بتائی جاتی ہیں.پھر کیوں ان کی طرف توجہ نہیں کی جاتی.کیا آپ لوگوں کی مثال اس پہاڑی آدمی کی سی نہیں.جو دھوپ میں بیٹھا جل بھن رہا تھا اور جسے کہا گیا کہ سائے میں بیٹھ جاؤ.تو اس نے کہا تھا.کیوں بیٹھوں، کیا ملے گا؟ اسے یہی ملنا تھا کہ اس کی تکلیف دور ہو جاتی.اسی طرح تم لوگوں کو یہ ملے گا کہ تمھارے قلوب کی اصلاح ہوگی.تم خدا تعالٰی کے فضلوں کے وارث بن جاؤ گے.پس اس میں کہنے والے کا تو کئی ذاتی فائدہ نہیں.تمھارا ہی فائدہ ہے.تم اپنی حالتوں پر غور کرو.ہر قسم کے فتنہ و فساد کو چھوڑ کر اپنے نفوس کی اصلاح کے ساتھ ساتھ بنی نوع انسان کی اصلاح کی طرف بھی متوجہ ہو جاؤ.یہ بہت بڑا کام اور بہت بڑا مقصد ہے جو تمھارے سامنے ہے اور تمھاری مثل اس بچہ کی سی ہے.جو سرکنڈے کی شاخ اٹھا کر کہتا ہے.یہ نیزہ ہے اور فخر کے ساتھ کہتا ہے.میں اس سے دنیا کو فتح کر لوں گا.ہم بھی دنیا کی فتح کے لئے نکلے ہیں.مگر ہماری کمزوری اس بچہ کی کمزوری سے بھی زیادہ بڑھی ہوئی ہے.ہماری تلواریں اس سرکنڈے سے بھی زیادہ کند ہیں.اور ہماری حالت اس بچہ سے بھی زیادہ غیر مامون ہے.اس لئے کہ بچہ اپنی حالت میں ایک ہے.اور ایک میں شقاق نہیں
14 ہوتا.مگر ہم باوجود کمزور ہونے کے کئی ہیں اور کئی میں اختلاف اور انشقاق پیدا ہو جاتا ہے.اور جب کسی جماعت میں اختلاف اور انشقاق پیدا ہو جائے تو اس میں ایک آدمی جتنی طاقت بھی نہیں رہتی.دیکھو رسول کریم انا ایک تھے اور آپ نے ساری دنیا کو فتح کر لیا.مگر مسلمان آج کروڑوں ہیں اور کچھ نہیں کر سکتے.کیونکہ ان میں اختلاف ہے.تو ہمارا ضعف بہت بڑھا ہوا ہے.ان حالات میں ہمارا اپنے اصلی مقصد کو بھلا دینا اور اپنی توجہ کو مختلف باتوں میں بانٹ دینا اس قدر مہلک اور خطرناک ہے کہ اس سے زیادہ اور کوئی چیز خطرناک نہیں ہو سکتی.پس اے عزیزو! اور اے دوستو! اس فکر اس قربانی اور اس گداز کر دینے والی محبت کو یاد کرتے ہوئے جس کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہماری پرورش کی ہے اس کام کی طرف توجہ کرو جس کام کے لئے خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے.اور اپنے مقصد کو ایک منٹ کے لئے بھی مت بھلاؤ تاکہ خدا تعالیٰ کی نصرت تمھارے لئے اس رنگ میں ظاہر ہو کہ دنیا کے لوگ جو اپنے آپ کو بہت بڑا اور بہت طاقتور سمجھتے اور خیال کرتے ہیں کہ وہ اپنی طاقت اور قوت کے ذریعہ ہمیں تباہ کر دیں گے.دیکھتے کے دیکھتے رہ جائیں اور وہ دن آجائے کہ اسلام کی سیاست اسلام کا تمدن اسلام کی صداقت دنیا میں قائم ہو جائے اور اکناف عالم میں وہ تعلیم جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پھیلانا چاہتے تھے پھیل جائے.میں سمجھتا ہوں مجھے اس سے زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں.مجھے یقین ہے کہ خد اتعالیٰ اسلام کو کامیاب کرے گا.ہاں اگر فکر ہے تو یہ کہ کامیابی ہمارے ہاتھ سے ہوگی یا ہم سے بعد میں آنے والوں کے ہاتھ سے.ہمیں اطمینان اور خوشی اسی وقت ہو سکتی ہے جبکہ ہم بھی اس برکت میں حصہ دار ہوں.اگر حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے اس لئے سوال کیا تھا کہ اطمینان قلب حاصل ہو تو ہم کون ہیں جو اس سے لاپرواہ ہوں.اگر حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کہا تھا کہ میں خدا کی طاقتوں پر ایمان لاتا ہوں.مگر ان کا مشاہدہ کرنا چاہتا ہوں.تاکہ مجھے فائدہ پہنچے ۲؎ - تو ہم کون ہیں جنہیں اس بات کی ضرورت نہ ہو.پس اس میں شک نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم دنیا میں پھلے گی.حضرت مسیح موعود کو ماننے والے ساری دنیا میں پھیل جائیں گے.قرآن کریم کی تعلیم پھیل جائے گی.لیکن اگر ہمارے ذریعہ نہ پھیلی تو ہمیں کیا فائدہ.اسے خود غرضی نہیں کہا جا سکتا.خود غرضی اس وقت ہوتی ہے جب دوسروں کو اس فائدہ سے محروم کرنے کی کوشش کی جائے.مگر اس میں یہ بات نہیں ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں دینی اور روحانی ترقیات غیر محدود ہیں.اگر ہم سے پہلے لوگوں کی دینی ترقیات نے ہمیں ان کے حاصل کرنے سے محروم نہیں کر دیا.تو جو لوگ
15 ہمارے بعد آئیں گے انہیں ہم محروم نہیں کر دیں گے.ان کے لئے بھی ترقیات کا میدان کھلا ہو گا.ہم جو کچھ کہتے ہیں وہ اپنے حق کا مطالبہ ہے اور اس حق کا جو کسی کے لئے چھوڑا نہیں جا سکتا.باوجود اس کے کہ ہم آئندہ نسلوں کے خیر خواہ ہیں اور ان کے لئے دعا گو ہیں کہ خدا تعالیٰ انہیں بڑی بڑی ترقیات عطا کرے اپنا یہ حق نہیں چھوڑنا چاہتے کہ ہمارے ذریعہ دین کی خدمت ہو.کیونکہ اس حق کا چھوڑنا موت سے بد تر ہے اور اس کی خاطر جان دیدینا آسان ہے.پس ہمیں اس پر خوشی نہیں کہ اسلام ساری دنیا میں پھیل جائے گا.جب کہ بعض لوگ کہتے ہیں.جب اسلام کی ترقی کی پیشگوئیاں ہیں تو ہمیں کیا فکر ہے.بلکہ میں کہتا ہوں اگر ہمارے ہاتھوں اسلام کی اشاعت اور ترقی نہ ہوئی تو پھر ہمیں کیا.کیا وہ لوگ جو دوزخ میں ڈالے جائیں گے.اس بات پر خوش ہو جائیں گے کہ خدا نے لاکھوں کروڑوں انسانوں کو جنت میں داخل کر دیا اور ان پر اپنی نعمتیں نازل کی ہیں.اگر دوزخی کے لئے یہ خیال خوشی کا باعث نہیں ہو سکتا کہ دوسرے لوگ جنت میں داخل ہو گئے تو آپ لوگ کس طرح اس بات پر خوش ہو سکتے ہیں.کہ کسی اور قوم کے ذریعہ اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی.جس چیز کی ہمیں ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اسلام ہمارے ذریعہ بڑھے اور اس طرح بڑھے کہ آنے والے سمجھیں.ہم نے بھی اس کے لئے کچھ کوشش اور قربانی کی ہے.ورنہ یوں تو اسلام بڑھے گا اور بڑھ رہا ہے.اب غیر احمدیوں کے ذریعہ بھی غیر مذاہب کے لوگ مسلمان ہوتے رہتے ہیں.مگر یہ ترقی ایسی نہیں کہ بعد میں آنے والے لوگ اس کی وجہ سے دعائیں دیں.اور سمجھیں کہ پہلوں نے اسلام کی اشاعت کے لئے بڑی کوشش اور سعی کی ہے.اب تو اسلام طبعی طور پر بڑھ رہا ہے نہ کہ مسلمانوں کی کوششوں سے اور جس طرح کوئی ماں یہ احسان نہیں جتا سکتی کہ میں نے بچہ کی پیٹ میں 9 ماہ پرورش کی.کیونکہ یہ طبعی بات تھے اور اس کے لئے ممکن ہی نہ تھا کہ پرورش نہ کرتی.اسی طرح اسلام کی موجودہ ترقی بھی کسی کی زیر بار احسان نہیں ہے.پس بعض ترقیاں طبعی ہوتی ہیں.ان کو قربانی نہیں کہہ سکتے ان سے بالا ترقیاں ہوتی ہیں جو خاص قربانی اور ایثار کا نتیجہ ہوتی ہیں اور جب تک ہم اس قسم کی قربانیاں نہ کریں آئندہ نسلوں کی دعاؤں کے مستحق نہیں ہو سکتے اور جب تک ہم اس طرح سلسلہ کی اشاعت نہ کریں یہ نہیں کہ سکتے کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا.پس دوستوں کو اس طرف خاص توجہ کرنی چاہئے.کہ موجودہ سال ہم اس مقصد کو اپنے سامنے رکھیں اور ممکن ہے ایک سال اسے سامنے رکھنے کی کوشش سے یہ ہمیشہ ہمیش کے لئے ہمارے سامنے رہے.اس کے بعد میں دعا کرتا ہوں کہ الہی ہماری کمزوری ہماری کم علمی پر نظر کرتے ہوئے آپ ہی
16 ہمیں اپنے فضلوں کا وارث بنا.اور جس مذہب کی اشاعت کا حکم آپ نے دیا ہے.اس کے لئے ہم میں طاقت نہیں.اسے تو ہی وسیع کر.ہم لولے لنگڑے ہیں.ہم برینگ کر بھی منزل مقصود پر نہیں پہنچ سکتے.تو خود ہی اٹھا کر ہمیں اس مقام پر پہنچا دے.آمین اسه تذکره صه ۵۳ ٢ البقره ۲۶۱ الفضل ۱۵ جنوری ۱۹۴۶ء)
17 3 کارکنان سلسلہ کے لئے چند ضروری باتیں (فرموده ۱۵ جنوری ۱۹۲۶ء) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : دنیا میں ہر قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں.کچھ لوگ مضبوط ہوتے ہیں وہ تکلیفوں کو بھی برداشت کر سکتے ہیں اور قربانیاں بھی کر سکتے ہیں اور کچھ دوسرے لوگ ہوتے ہیں جن کی ہمتیں اتنی بلند نہیں ہوتیں جتنی ان کے دوسرے بھائیوں کی ہوتی ہیں.وہ نہ تو ان کی طرح قربانیاں کر سکتے ہیں نہ ان کی طرح تکالیف برداشت کر سکتے ہیں.ایسے لوگوں کو قائم رکھنے اور ان کے سدھارنے کے لئے ان لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جو اپنی ذات میں قوت اور طاقت رکھتے ہیں.عام قانون قدرت اسی رنگ میں چلتا ہے.ماں باپ اپنے کھانے پینے اور پہننے کا انتظام کر سکتے ہیں.خدا تعالٰی نے بچہ کو جو اپنی ذمہ داریاں آپ اٹھانے کے قابل نہیں ہوتا.ماں باپ کے سپرد کر دیا ہے.اسی طرح اور باتوں میں نظر آتا ہے اور دنیا کا قریباً تیسرا حصہ ایسا ہی ہے جس کا بوجھ دوسرے لوگ اٹھائے ہوئے ہیں بلکہ میں سمجھتا ہوں ۱/۳ سے بھی زیادہ دنیا ایسی ہوگی جو اپنے قیام کے لئے دوسروں کی محتاج ہے تمام بچے جو ہیں ان کا بوجھ ماں باپ اٹھاتے ہیں.پھر بچوں کے سوا اور کمزور ہوتے ہیں.بیمار ہوتے ہیں.بوڑھے ہوتے ہیں ان کا بوجھ ان کے ماں باپ یا عزیز اٹھاتے ہیں.پھر کئی لوگ اپاہج ہوتے ہیں.اگر ان سب کا اندازہ کیا جائے تو نصف کے قریب دنیا ایسی ہوگی جو کام کرنے کے قابل ہوگی اور باقی نصف ایسی ہوگی جو دوسروں کی محتاج ہوگی اور جن لوگوں کو خدا تعالیٰ نے طاقت اور قوت دی ہے ان کا فرض ہے کہ دوسروں کا بوجھ اٹھائیں.پھر جسمانی کمزوریوں کو اگر ہم نظر انداز بھی کر دیں تو دماغی کمزوریوں کے لحاظ سے بھی اسی نسبت سے بلکہ اس سے بھی زیادہ ایسے لوگ ہوں گے.جو دوسروں کی امداد کے محتاج ہوں گے ان کے پاس طاقت ہوگی ، علم ہو گا ، دولت ہوگی مگر امنگ اور
18 ہمت نہیں ہوگی اور جن میں امنگ اور ہمت ہوتی ہے.ان کے سمجھانے اور بتانے پر کام کرتے ہیں.دیکھو فوج میں سپاہی اپنے افسروں کے ذریعہ لڑتے ہیں.اگر افسر بہادر ہو تو سپاہی بھی بہادر ہوتے ہیں اور اگر افسر بزدل ہو تو سپاہی بھی بزدل ہو جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ فتوحات اور شکستوں کا ذمہ دار افسروں کو سمجھا جاتا ہے.اگر افسروں کی کوششیں اور نمونے اپنے ماتحتوں پر گہرا اثر نہ رکھتے.اگر افسر کی بہادری ۱۰ - ۵۰ - ۱۰۰ آدمی کو بہادر نہ بنا سکتی.اگر افسر کی بزدلی ۱۰-۵۰ - ۱۰۰ کو بزدل نہ بنا دیتی.تو شکست کے موقعہ پر اس پر الزام کیسا؟ اور فتح حاصل ہونے پر اس کی تعریف کیسی؟ ہر افسر شکست کے موقعہ پر کہہ سکتا تھا میں کیا کرتا میرے ماتحت بزدل سپاہی تھے یا فتح کے موقعہ پر کہا جا سکتا تھا.افسر کسی تعریف کا مستحق نہیں اس کے ماتحت بہادر سپاہی تھے.کونسا جرنیل ہے جو اکیلا فتح حاصل کرتا یا اکیلا شکست پاتا ہے نہ اکیلا کوئی جرنیل فتح پا سکتا ہے اور نہ اکیلا شکست پا سکتا ہے.اگر ہ نظر ڈالی جائے تو فتح پانے والے سپاہی ہوتے ہیں اور شکست پانے والے بھی سپاہی ہوتے ہیں.مگر کہا یہ جاتا ہے کہ فلاں افسر بہت اعلیٰ درجہ کا ہے اور فلاں افسر قابل مذمت ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ افسر ایسے شخص کو بنایا جاتا ہے.جس کے متعلق امید کی جاتی ہے کہ وہ طاقتور اور بہادر ہے اور دوسروں کو سہارا دے کر کھڑا کر سکے گا اور تمام بنی نوع انسان کی فطرتیں اس بات کو قبول کرتی ہیں کہ افسر کی بہادری اور بزدلی سے ہزاروں سپاہی بہادر یا بزدل بن جاتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی افسر فوج سمیت شکست کھاتا ہے تو اس کی نالائقی سمجھی جاتی ہے اور اگر فتح حاصل کرتا ہے تو اس کی بہادری قرار دی جاتی ہے.کیونکہ جب اس امر کو تسلیم کر لیا گیا کہ افسر کے اندر یہ طاقت ہوتی ہے کہ وہ سینکڑوں بزدلوں کو بہادر بنا دے یا سینکڑوں بہادروں کو بزدل بنا دے تو فتح و شکست کا بیشتر حصہ بھی افسر کی طرف ہی منسوب کیا جائے گا.ظاہر پر غرض دنیا کے تجارب بتاتے ہیں.ایک انسان میں یہ طاقت ہوتی ہے کہ سینکڑوں کو بہادر بنا دے یا سینکڑوں کو بزدل بنا دے اور وہ ان سب کی طرف سے ذمہ دار ہوتا ہے.ایسے شخص کی ذمہ داریاں بہت بڑھی ہوتی ہیں اور ماتحتوں کی خرابیاں ایک حد تک اس کی طرف منسوب ہو سکتی اور ان کی اصلاح کی ذمہ داری اس کے سر پر ہوتی ہے.میں اس تمہید کے بعد اپنی جماعت کے کارکنوں کو یعنی مختلف جماعتوں کے امیروں ، پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ ان علاقوں کی جماعتوں کی خرابیاں یا کامیابیاں ان کی ہمت اور طاقت پر منحصر ہیں.اگر کسی جماعت میں سستی، فساد، جھگڑا یا رخنہ پڑتا ہے تو اس کے ذمہ دار کار کن
19 ہیں اور اگر کسی جماعت میں اتفاق و اتحاد ترقی کرتا.دینی کاموں میں چستی پیدا ہوتی.بنی نوع انسان کی ہمدردی کا اچھا نمونہ دکھاتے اور قربانیاں زیادہ کرتے ہیں تو یہ بھی ان کی کوششوں کا نتیجہ سمجھا جائے گا اور اس کے بہت بڑے حصہ کی تعریف کے حق دار امراء ، پریذیڈنٹ ، سیکرٹری اور دوسرے کارکن ہوں گے.پس میں اس خطبہ کے ذریعہ قادیان کے کارکنوں اور باہر کے کارکنوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ مختلف جماعتوں کی کامیابیاں اور چستیاں ، ہوشیاریاں یا قربانیاں یا پھر مستیاں اور کو تاہیاں جو نظر آئیں.ان کے بہت حد تک وہی ذمہ دار ہیں اور ہو سکتا ہے کہ کارکنوں کی ذراسی غفلت ایک جماعت کو بالکل نکما کر دے اور ممکن ہے کہ ان کی چستی ایک غافل اور سست جماعت کو چست اور ہوشیار بنا دے.بسا اوقات ایسا نظر آتا ہے کہ ایک جماعت میں جب کوئی شخص چلا جاتا ہے تو اس جماعت کی کایا پلٹ دیتا ہے.وہ جماعت سستی اور غفلت کے چولے کو اتار کر نیا لباس پہن لیتی ہے.پھر اس کے مقابلہ میں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ بعض جماعتیں خوب چستی اور جوش سے کام کر رہی ہوتی ہیں.لیکن جب ان میں سے کوئی اچھا کار کن تبدیل ہو کر کسی دوسری جگہ چلا جائے یا فوت ہو جائے یا کسی اور وجہ سے وہ جماعت اس کی خدمات سے محروم ہو جائے تو معا" اس میں تفرقہ اور شقاق پیدا ہو جاتا ہے.ان حالات اور واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت کے کارکنوں پر بہت بڑی ذمہ داریاں ہیں اور جماعت کے دوستوں کا فرض ہے کہ جس کا رکن کو کسی کام کے لئے چنیں.اس کے متعلق پہلے دیکھ لیں کہ وہ کام کرنے کے قابل ہے یا نہیں.تا نام کے افسر اور نام کے کارکن نہ ہوں.بلکہ حقیقتاً دوسروں کے لئے نمونہ ہوں اپنی قربانی اپنی ہوشیاری اور اپنی چالاکی سے جماعت کی بہتری اور ترقی کی کوشش کریں.اپنے جذبات کو دبانے کے عادی ہوں تاکہ ان کے نمونہ کو دیکھ کر دوسرے لوگ بھی اپنے جذبات کو دبائیں.وہ خود قربانی کے عادی ہوں تا دوسرے ان کے نمونہ کو دیکھ کر قربانی کریں.وہ خود تقویٰ و طہارت میں اعلیٰ نمونہ دکھائیں تا دوسرے ان کا نمونہ دیکھ کر تقویٰ و طہارت پیدا کریں." - پھر میں ان لوگوں سے جن کے ہاتھ میں انتخاب کے ذریعہ یا تقرر کے ذریعہ جماعت کی باگ ہے.کہتا ہوں وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور خود اعلیٰ درجہ کی قربانیاں دکھانے کی کوشش کریں.بغیر اس کے کہ وہ خود اعلیٰ قربانیوں کے عادی ہوں.دوسروں کو اعلیٰ قربانیوں کے قابل نہیں بنا سکتے.جب تک جماعت کی تربیت اس طرح نہ کی جائے.جس طرح ڈاکٹر مریض کی نگرانی کرتا ہے.اس
20 وقت تک حقیقی اصلاح نہیں ہو سکتی.پس میں خصوصیت سے جماعت کے کارکنوں کو یہاں کے کارکنوں کو بھی اور باہر کے کارکنوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ دو باتوں کی طرف جماعت کے لوگوں کو بار بار توجہ دلائیں اور سمجھانے اور ذہن نشین کرنے کی کوشش کریں.پہلی بات تو یہ ہے کہ کوئی قوم قربانی کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی.ہماری جماعت کے لوگ باوجود اس کے کہ دوسروں کے مقابلہ میں بہت قربانیاں کرتے ہیں.مگر ابھی تک اچھی طرح ان کے ذہن نشین یہ بات نہیں ہوئی.کہ قربانی کا حقیقی مفہوم کیا ہے.اور یہ کہ بغیر قربانی کے کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی.بہت دفعہ کسی بات کا صحیح مفہوم معلوم نہ ہونے کی وجہ سے بھی انسان ٹھوکر کھا جاتا ہے.اور سخت نقصان اٹھاتا ہے.مثلا" ایک انسان یہ خیال کر کے کہ جس سفر پر میں جانے لگا ہوں وہ ایک دن کا سفر ہے.اسی قدر کھانے پینے کی تیاری کرے جو ایک دن کے لئے کافی ہو.لیکن وہ سفر سات دن کا ہو جائے.تو باوجود اس کے کہ اس نے سامان سفر مہیا کیا ہو گا وہ اپنے آپ کو بھوک وغیرہ کی تکلیف سے بچا نہ سکے گا.اس لئے کہ اس نے سامان سفر تو لیا.مگر یہ غلطی کی کہ اسے یہ معلوم نہ ہوا کہ کس قدر سامان کی ضرورت تھی.اسی طرح گو ہماری جماعت کے بہت لوگ اس بات کو محسوس کرتے ہیں کہ ہمیں قربانی کی ضرورت ہے.مگر ان میں سے ایسے بہت سے ہیں جو یہ محسوس نہیں کرتے کہ کس قدر قربانی کی ضرورت ہے.ایسی صورت میں مختلف جماعتوں کے امیروں پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں کا فرض ہے کہ بار بار لیکچروں کے ذریعہ اور لوگوں سے مل کر انہیں اس طرف توجہ دلائیں کہ احمدیت میں داخل ہونا معمولی بات نہیں بلکہ اپنے لئے اور اپنے عزیزوں کے لئے موت قبول کرنا ہے.انہیں بتائیں کہ بیعت کا مفہوم یہ ہے کہ اپنا سب کچھ قربان کر دے.اپنا مال اپنی جان اپنی عزت اپنا وطن اپنی حکومت غرض کہ جب تک کوئی اپنی ہر ایک چیز کو قربان کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا بیعت کے مفہوم پر عامل نہیں ہو سکتا.بیعت کے معنی ہیں بیچ دیتا.میں حیران ہو تا ہوں وہ لوگ جو قربانی کے چھوٹے چھوٹے سوال پر کہ دیتے ہیں.ہم کب تک قربانی کرتے جائیں.وہ بیعت کا کیا مفہوم سمجھتے ہیں کیا وہ بیعت کا وہی مفہوم سمجھتے ہیں.جو عام پیروں کی بیعت کا سمجھا جاتا ہے.کہ ایک شخص کا دامن پکڑ لیا.اب یہ اس کا کام ہے کہ اٹھا کر نجات کے دروازہ پر پہنچا دے.بیعت کرنے والوں کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے.حالانکہ ایسا کوئی انسان نہیں گذرا.حتی کہ حضرت محمد انے میں بھی یہ طاقت نہ تھی کہ کسی کو اس کی اپنی کوشش اور سعی کے بغیر نجات دلا سکیں.پس خواہ خاتم
21 النبین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی کیوں نہ ہوں جب ایسا نہیں کر سکے تو کسی اور کی کیا مجال ہے کہ اس کے متعلق اس قسم کی توقع رکھی جائے.جو چیز انسان کو نجات کے دروازہ پر پہنچاتی ہے وہ اس کی اپنی کامل قربانی ہے اور وہ قربانی جس کے بعد کوئی چیز اس کے اپنے قبضہ میں نہیں رہتی.حضرت مسیح کا یہ قول کیا ہی لطیف ہے کہ ہر شخص اپنی صلیب آپ اٹھا کر چلے ا نجات پانے کے لئے یہ ضروری ہے.کہ ہر شخص اپنی صلیب آپ اٹھائے.پس بیعت کا یہ مفہوم نہیں کہ کوئی شخص ایسا بھی ہو سکتا ہے جو اٹھا کر نجات کے دروازہ پر کسی کو پہنچا دے.بلکہ بیعت کا مفہوم یہ ہے کہ انسان ایک انسان کے ہاتھ پر وعدہ کرتا ہے کہ میں اپنی جان مال عزت آبرو آرام آسائش غرض ہر چیز خدا کے رستہ میں قربان کرتا ہوں اگر اس عہد کا پابند رہتا اور مرتے دم تک پابند رہتا ہے تو بے شک وہ نجات پا گیا.لیکن اگر اس کا پابند نہیں رہتا.اتنی قربانی نہیں کر سکتا جتنی کا اس سے مطالبہ کیا جائے تو قطعا" نجات نہیں پا سکتا.خواہ وہ اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے.خواہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے ہاتھ میں اس نے ہاتھ دیا.اور خواہ خود محمد اللہ کے ہاتھ میں دیا.وہ ایک دھوکہ خوردہ یا دھوکہ دینے والا انسان ہے.اس کی مثال اس پاگل کی سی ہے جو اینٹوں کے ٹکڑوں کو ہیرے اور جواہرات سمجھ کر اپنے قبضہ میں رکھتا ہے.یا اس فریبی انسان کی سی ہے.جو پیتل کے سکوں پر پارہ چڑھا کر دوپے کی جگہ استعمال کرنا چاہتا ہے.ایسے لوگ یا تو اپنے نفس کو آپ ہلاک کر رہے ہیں یا دوسروں کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں.کیونکہ وہ بیعت کے اصل مفہوم کو نہیں سمجھتے.وہی شخص اور صرف وہی شخص بیعت کے مفہوم کو ادا کرتا ہے جو دین کی خدمت کے لئے ہر چیز قربان کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے.آخر یہ بھی تو سوچنا چاہئے کہ جب وہ قربانی جس کا مطالبہ جماعت سے کیا جاتا ہے.اگر زیادہ نہیں دس ہیں یا سو اس کے کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں تو وہی قربانی دوسرے کیوں نہیں کر سکتے.اگر ایک جماعت سے دو ہزار آدمی ایسا نکل سکتا ہے جو اس مطالبہ کو پورا کرنے کے لئے تیار ہو جائے بلکہ مطالبہ سے بڑھ کر قربانی اور ایثار پیش کرتا ہے تو دوسرے لوگ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ وہ حد سے زیادہ مطالبہ ہے اور اس کو پورا کرنا نا ممکن ہے اگر نا ممکن تھا تو دوسروں کے لئے بھی ناممکن ہونا چاہئے تھا.وہ بھی انسان ہی تھے.ان کے لئے وہ کس طرح ممکن بن گیا اور اگر وہ اس پر قادر ہو گئے.تو دوسرے بھی ہو سکتے ہیں.پھر میں کہتا ہوں کوئی مطالبہ ناممکن اور حد سے بڑھ کر کیونکر ہو سکتا ہے.اگر دین میں کوئی ایسا موقعہ نہیں آ سکتا.جب جان و مال سب کچھ دے دینے کی ضرورت پیش آ سکتی ہو.تو پھر خدا تعالیٰ نے یہ کیا کیا ہے کہ بیعت لیتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ سب کچھ
22 دیکھو لے لینے کا اقرار کرتا ہے.پھر جتنے مطالبہ کی زیادہ سے زیادہ ضرورت ہو سکتی تھی.اتنے کا ہی اقرار کراتا.مگر خدا تعالیٰ نے بیعت کا حکم دیا ہے اور بیعت کا حکم دینا جتاتا ہے کہ ایسا موقعہ آسکتا ہے جبکہ دین کے لئے سب کچھ قربان کرنے کی ضرورت ہو اور پہلے زمانوں میں ایسے موقعے آتے رہے ہیں.خطرناک وقت وہ ہوتا ہے جبکہ کھانا ختم ہو رہا ہو اور میسر آنے کا کوئی موقعہ نہ ہو اور انسان سمجھے جو کچھ میرے پاس ہے اگر وہ ختم ہو گیا تو میں بھوکا مرجاؤں گا.ایسی حالت میں انسان عزیز سے عزیز چیز کو بھی بھول جاتا اور قریب سے قریب تعلق کی بھی کوئی پرواہ نہیں کرتا.کیونکہ اس وقت اپنی جان کی ہلاکت کا خطرہ ہوتا ہے.دیکھا گیا ہے کہ بعض دفعہ مکانوں میں آگ لگی تو وہ پیارے جو ایک دوسرے کے لئے جان دینے کے لئے تیار ہوتے تھے.ایک دوسرے کو دھکے دے دے کر باہر نکل آئے.ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے عزیزوں کو بچا لاتے ہیں.اور ایسے بھی ہوتے ہیں جو دو سروں کو بچانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی جان دے دیتے ہیں.مگر ایسے بھی ہوتے ہیں جو عزیزوں کو دھکے دے کر پہلے خود باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں.یورپ میں جب کسی سینما میں آگ لگتی ہے.تو اس قسم کے نظارے دیکھے جاتے ہیں.پچھلے ہی دنوں امریکہ میں ایک سینما میں آگ لگ گئی تو شائع ہوا تھا کہ کئی عورتوں نے اس افراتفری میں اپنے بچے کچل ڈالے اور ان کو چھوڑ کر بھاگ گئیں.ایسے موقعہ پر جبکہ انسان سمجھتا ہے.تباہی سامنے ہے.اسے زیادہ گھبراہٹ ہوتی ہے.بہ نسبت اس کے کہ آئندہ تباہی کا خطرہ ہو.مگر ہم دیکھتے ہیں رسول کریم اے سفر کر رہے ہیں.لوگوں کے پاس کھانا کم ہو جاتا ہے.سفر ابھی لمبا ہے اور کوئی ایسا ذریعہ نہیں کہ مزید کھانا مہیا کر سکیں.یا کہیں سے خرید سکیں.بعض کے پاس کچھ کھانا رہ گیا ہے.اور بعض کا بالکل ختم ہو گیا ہے.اس وقت رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس جس کے پاس کچھ ہے لا کر رکھ دو.اب وہ کسی کا نہیں ساری جماعت کا ہے.اس وقت جس کے پاس جو کچھ تھا اس نے لا کر آپ کے سامنے رکھ دیا ۲؎ اور ایک نے بھی نہ کہا کہ اگر دوسرے مرتے ہیں تو مرنے دو ہماری جانیں تو ہمارے کھانے سے بچنے دو.ایک جنگل بیابان میں جہاں کھانے پینے کی کوئی چیز مہیا نہیں ہو سکتی تھی یہ مطالبہ کہ جو کچھ کسی کے پاس ہے لاکر رکھ دو.اس سے مراد اگرچہ وہ کھانا ہی تھا جو ان کے پاس تھا لیکن جن لوگوں نے ایسے موقعہ پر کھانا لا کر رکھ دیا.ان کے متعلق یقین کامل کیا جا سکتا ہے کہ اگر یہی مطالبہ ان سے گھر پر کیا جاتا اور کسی کے گھر میں دس لاکھ روپیہ بھی ہوتا تو وہ سارے کا سارا لا کر رکھ دیتا.کیونکہ جب انہوں نے موت سامنے دیکھتے ہوئے قربانی کی تو معلوم ہوا کہ وہ قربانی کے لئے تیار اور آمادہ
23 ہیں.اور یہی مفہوم ہے بیعت کا.پس اگر ایسے مواقع نہ پیش آسکتے.جب سب کچھ دینا پڑتا تو ہرگز خدا تعالیٰ بیعت کا حکم نہ دیتا.اگر خدا تعالیٰ کے ارادہ میں یہ تھا کہ کبھی ایسا موقعہ پیش نہ آئے گا کہ سب کچھ مانگیں گے یا بیعت کرنے والوں پر فرض نہیں کہ سب کچھ دے دیں تو پھر ہرگز خدا تعالیٰ بیعت کا اقرار نہ لیتا بلکہ یہی اقرار لیتا کہ مال کا اتنا حصہ دوں گا.اور وہی انتہائی حد قرار دیتا.جس پر آگے قدم رک جانا چاہئے تھا مگر اس کی بجائے خدا تعالیٰ نے بیعت لی.جس میں ہر چیز جان ، مال ، عزت ، آبرو وغیرہ آجاتی ہے اور اس طرح یہ اقرار لیا کہ جب دین کے لئے ضرورت ہو تو کسی چیز کے دینے سے دریغ نہیں کروں گا.اس کا یہی مطلب ہے کہ ایسے مواقع پیش آسکتے ہیں اور کام کرنے والوں کے لئے جائز ہے کہ ایسے موقع پر مطالبہ کریں کہ لاؤ سب کچھ لا کر رکھ دو.جسے دین کے لئے خرچ کیا جائے.ایسے مواقع پر سوائے اس چیز کے جو شریعت کے لحاظ سے ضروری ہو کہ اپنے پاس رکھی جائے.مثلا " ستر ڈھانکنے کے لئے.اگر کوئی ایک پیسہ بھی اپنے پاس رکھتا ہے تو وہ اس کے لئے حرام ہے.جب تک اس قربانی کے لئے ہماری جماعت تیار نہیں ہوتی اور صرف تیار ہی نہیں بلکہ عملی نمونہ نہیں دکھاتی اور کر کے نہیں دکھا دیتی.اس وقت تک بیعت صرف منہ کے الفاظ ہیں.فریب ہے.دھوکہ ہے.جھوٹ ہے اور جھوٹ بھی اتنا بڑا جو خدا تعالیٰ سے بولا گیا.پس قربانی اور بیعت کا یہ مفہوم ہے جو میں نے بیان کیا ہے.جماعتوں کے امیروں پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں کو چاہئے کہ متواتر یہ مفہوم اپنی جماعت کے لوگوں کے ذہن نشین کرتے رہیں اور کم از کم ۱۲ دفعہ سال میں ضرور افراد کے سامنے پیش کریں.اس کے علاوہ افراد سے مل کر بھی انہیں سمجھائیں.کیونکہ جب تک یہ امرا چھی طرح ان کے ذہن نشین نہ ہو جائے گا.لوگوں میں کامل جوش نہ پیدا ہو گا.دراصل دل کی خوشی اور امنگ ہی کام کراتی ہے.جن لوگوں کے دل وسیع ہوتے ہیں.وہ بہت بڑی بڑی قربانیاں کر کے بھی کہتے ہیں.ہم نے کچھ نہیں کیا.اور جن کے دل تنگ ہو ہوتے ہیں.وہ ایک پیسہ دیگر بھی کہہ اٹھتے ہیں بڑا بوجھ پڑ گیا.پس دلوں کی اصلاح کی سب سے زیادہ ضرورت ہے.اگر دلوں کی اصلاح ہو جائے اور لوگ بیعت کا حقیقی مفہوم سمجھ جائیں.تو پھر کوئی بڑی سے بڑی قربانی ان کے لئے مشکل نہ ہوگی.دیکھو حضرت ابو بکر این متواتر سارا مال لاکر رسول کریم ﷺ کے سامنے حاضر کرتے رہے.اور کبھی انہوں نے یہ نہ کہا کہ بڑا بوجھ پڑ گیا ہے.لیکن منافقوں نے کبھی ادنیٰ چندوں میں بھی حصہ نہ لیا اور کہتے رہے بوجھ سے دب گئے.پس یہ بات منحصر ہے دل کی قربانی پر اور ا الله
24 دل کی قربانی بغیر نفس کی قربانی کے قبول نہیں کی جا سکتی اور دل کی قربانی بغیر ظاہری قربانی کے نہیں ہو سکتی.اس لئے احمدی جماعتوں کے امراء پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں کا فرض ہے کہ لوگوں کے ارادوں اور خیالات کو بدل دیں اور انہیں حقیقی قربانی کا مفہوم سمجھا دیں.جب ان کے دل بدل جائیں گے تو وہی قربانیاں جن پر اب بعض شور مچاتے ہیں کہ بہت بڑا بوجھ پڑ گیا.انہیں نہایت حقیر اور ادنی معلوم ہوں گی.ان کی آنکھوں سے آنسو ہیں گے.اور چینیں نکل جائیں گی کہ ہم نے تو کچھ نہیں کیا.دیکھو دلوں کے فرق کس طرح ہوتے ہیں.حضرت عمر جیسا انسان جنہوں نے اپنی ساری عمر ہی ملت اسلامیہ کے غم اور فکر میں گھلا دی.جنہوں نے ہر موقعہ پر اعلیٰ سے اعلیٰ قربانی کی.گو عمل کے لحاظ سے ان کی قربانیاں حضرت ابوبکر ان کی قربانیوں تک نہ پہنچیں.لیکن ارادہ اور نیت کے لحاظ سے سب کی برابر تھیں.جب ابو بکر اپنے فوت ہوئے تو حضرت عمر ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے.اور انہوں نے کہا.خدا تعالٰی ابو بکر ان پر برکت کرے.میں نے کئی دفعہ کوشش کی کہ ان سے بڑھ جاؤں مگر کبھی کامیاب نہ ہوا.ایک دفعہ رسول کریم اللہ نے فرمایا مال لاؤ تو میں اپنا نصف مال لے گیا اور خیال کیا کہ آج میں ابو بکر پینے سے بڑھ جاؤں گا مگر ابو بکر نے مجھے سے پہلے وہاں پہنچے ہوئے تھے اور رسول کریم ان کا چونکہ ان سے رشتہ بھی تھا اور جانتے تھے کہ انہوں نے کچھ نہیں چھوڑا ہو گا.اس لئے آپ دریافت فرما رہے تھے ابو بکر گھر کیا چھوڑا انہوں نے کہا گھر خدا اور رسول کا نام چھوڑا ہے.یہ کہہ کر حضرت عمر انہ روتے اور فرماتے میں اس وقت بھی ان سے نہ بڑھ سکا ۳ الله الله رضي یہ ان کی قربانیاں تھیں.حضرت ابو بکر یہ پہلے بھی دیتے رہتے تھے.لیکن جب خاص موقعہ آیا تو سب کچھ لا کر رکھ دیا.ایک طرف تو یہ لوگ تھے اور ایک طرف وہ لوگ ہیں جنہیں اپنے مال کے دسویں حصہ کی قربانی کا بھی موقعہ نہیں ملتا اور کہتے ہیں ہم لٹ گئے.حضرت عمر : جب فوت ہونے لگے تو بار بار ان کی آنکھیں پر نم ہو جاتیں اور کہتے خدایا میں کسی انعام کا مستحق نہیں ہوں میں تو صرف یہی چاہتا ہوں کہ سزا سے بچ جاؤں.ہم اسی طرح حضرت ابو بکر ان کے متعلق آتا ہے کہ آپ باوجود اس قدر قربانیوں کے پرندوں کو رشک کی نظر سے دیکھتے اور فرماتے.یہ کیا ہی خوش قسمت ہیں کہ خدا تعالیٰ کے عذاب سے بچے ہوئے ہیں مگر ہم خطرہ میں ہیں.۵.کیا تم سمجھتے ہو حضرت ابو بکر یہ کو ہماری طرح حاجتیں نہ تھیں.کیونکہ وہ بھی انسان تھے مگر ان کی جو چیز بدلی ہوئی تھی وہ ان کا دل تھا اور وہ جانتے تھے کہ بیعت کا کیا مفہوم ہے اس لئے وہ بڑی سے بڑی قربانی
25 کرتے اور پھر بھی یہی سمجھتے کہ ابھی ہمارے ہی ذمہ کچھ نکلتا ہے.خدا تعالیٰ کی طرف ہمارا کچھ نہیں نکلتا.خدا تعالیٰ سے تو ہم نے جنت لینی ہے مگر ہمارے پاس ابھی اپنی جان مال اور دوسری چیزیں باقی ہیں.یہ وجہ تھی جس کے باعث ان کے دل میں بڑی بڑی قربانیاں کر کے کبھی شکایت پیدا نہ ہوتی بلکہ مہیں تمنا رہتی کہ ابھی کچھ نہیں کیا.کچھ اور کیا جائے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ خدا تعالیٰ کا ہی حق ہمارے ذمہ ہے ہمارا خدا پر نہیں ہے کیونکہ ہم نے ابھی تک بیعت کا مفہوم پورا نہیں کیا.جو اسی طرح پورا ہو سکتا ہے کہ اپنا سب کچھ خدا تعالیٰ کو دے دیں.یہ وجہ تھی کہ ان کے دل یقین اور ایمان سے پر تھے اور وہ جانتے تھے کہ بغیر قربانی کے ترقی نہیں ہو سکتی اور خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی کرنا اپنے اوپر احسان کرتا ہے نہ کہ خدا تعالٰی پر.اس وجہ سے ہر قربانی جو وہ کرتے انہیں حقیر نظر آتی.لیکن ویسی ہی قربانی کا مطالبہ جیسی کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ نے خود کی کئی لوگوں کے لئے ٹھوکر کا باعث بن گیا اور وہ مرتد ہو گئے.اسی طرح اب بھی کئی ایسے لوگ ہیں جو بغیر اس کے کہ اتنی قربانی کریں جتنی جماعت کا دوسرا حصہ کر رہا ہے ٹھوکر کھا رہے ہیں.ان کا سارا مال دینا تو الگ رہا ایک آنہ فی روپیہ دینا یا چندہ خاص دینا جو کبھی لیا جاتا ہے اس پر شور مچا رہے ہیں.حالانکہ جماعت کا ہے فیصدی حصہ ایسا ہے جو نظام کے ماتحت ہے اور چندہ اسی طریق سے ادا کرتا ہے اور باقی جو انتظام کے ماتحت نہیں وہ زیر الزام نہیں کیونکہ اس تک ہم پہنچ نہیں سکتے.ایسی حالت میں وہ لوگ جو شور مچاتے ہیں غور کریں.وہ بیعت کا مفہوم کیا سمجھے ہوئے ہیں.ذمہ دار کارکنوں کا فرض ہے کہ بیعت کے حقیقی مفہوم کو اپنے ذہن نشین بھی کریں اور جو لوگ کمزور ہیں ان کے ذہن نشین بھی کرائیں.پھر میں یہاں کے کارکنوں سے کہتا ہوں سلسلہ کا کام کرنا ہر فرد کے ذمہ ہے ہماری مشکلات اور روکیں جو ہیں وہ اگر کسی وقت اس حد تک پہنچ جائیں کہ باہر کے لوگ ہماری کچھ مدد نہ کر سکیں تو ہمیں یہ خیال ہونا چاہئے کہ یہ کام ہمارے ہیں.دیکھو رسول کریم ان کے وقت صحابہ نے بغیر تنخواہ اور اجرت کے کام کئے ہیں.اب ہماری جماعت کے کارکنوں کو بھی اس بات کے لئے آمادہ اور تیار رہنا چاہئے کہ اگر خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے بغیر کسی بھائی کی مدد کے کام کرنا پڑے تو کیا جائے.وہ جو خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کرتے ہوئے فاقہ سے مرتا ہے اس سے بہتر کس کی موت ہو سکتی ہے.شہادت تلوار کی موت کو ہی نہیں کہتے اس سے بہت بڑی شہادت وہ ہے جو متواتر تکلیف اٹھا کر میسر آئے.کون کہہ سکتا ہے کہ احد کے شہداء سے بڑھ کر رسول کریم ﷺ کی شہادت کا مرتبہ نہ تھا.احد کے شہداء کو تو ایک شہادت نصیب ہوئی مگر خدا تعالیٰ رسول کریم اتی
26 کے متعلق فرماتا ہے.لعلک باخع نفسك الا يكونوا مومنين (الشعراء ۴) کہ تو ہر گھری اس فکر اور غم میں ہے جو موت سے بڑھ کر ہے کہ دنیا کیوں ایمان نہیں لاتی.اس لئے اگر دنیا میں کوئی سب سے بڑا شہید گذرا ہے تو وہ محمد ا ہیں.کیونکہ آپ کو ایک ایک گھڑی میں شہادت حاصل ہوتی تھی.شہادت کا یہ مفہوم ہے جس کو مد نظر رکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کربلا ئیست میر صد حسین است ور ہر آنم گریبانم کہ میرے گریبان میں سو حسین ہیں لوگ اس کے معنے یہ سمجھتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے میں سو حسین کے برابر ہوں لیکن میں کہتا ہوں اس سے بڑھ کر اس کا یہ مفہوم ہے کہ سو حسین کی قربانی کے برابر میری ہر گھڑی کی قربانی ہے.وہ شخص جو اہل دنیا کے فکروں میں گھلا جاتا ہے.جو ایسے وقت میں کھڑا ہوتا ہے جبکہ ہر طرف تاریکی اور ظلمت پھیلی ہوئی ہے اور اسلام کا نام مٹ رہا ہے.وہ دن رات دنیا کا غم کھاتا ہوا اسلام کو قائم کرنے کے لئے کھڑا ہوتا ہے کون کہہ سکتا ہے کہ اس کی قربانی سو حسین کے برابر نہ تھی.پس یہ تو ادنی سوال ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام امام حسین کے برابر تھے یا ادنی.حضرت امام حسین ولی تھے.مگر ان کو وہ غم اور صدمہ کس طرح پہنچ سکتا تھا جو اسلام کو مٹتا دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہوا.حضرت امام حسین اس وقت ہوئے جبکہ لاکھوں اولیاء موجود تھے.اسلام اپنی شان و شوکت میں تھا.ایسی حالت میں ان کو وہ غم کہاں ہو سکتا تھا.جو اس شخص کو ہوا.جو ایسے ہی حالات میں مبعوث ہوا.جن حالات میں خود محمد ﷺ کی بعثت ہوئی تھی.کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ حضرت امام حسین کی شهادت رسول کریم ﷺ کی شہادت سے بڑی تھی.نہیں اس لئے کہ جو غم اور تکلیف آپ کو اسلام کے لئے اٹھانی پڑی.وہ حضرت امام حسین کو نہیں اٹھانی پڑی.اسی طرح حضرت مسیح موعود کی شہادت بھی بہت بڑھی ہوئی تھی.بعض لوگ کہتے ہیں کہ مرزا صاحب اپنے گھر میں بیٹھے رہے پھر کس طرح امام حسینؓ سے بڑھ گئے.میں کہتا ہوں کہ کیا محمد ال اسی طرح فوت ہوئے جس طرح امام حسین فوت ہوئے تھے؟ نہیں.مگر کوئی ہے جو کے محمد ایتا کی قربانی حضرت امام حسین کی قربانی سے کم تھی.محمد ان کی ایک ایک سیکنڈ کی قربانی حضرت امام حسین کی ساری عمر کی قربانی سے بڑھ کر تھی.پس جس طرح محمد ﷺ کی قربانی بڑی تھی.اسی طرح وہ شخص جو انہی حالات میں کھڑا ہو گا.جن میں محمد اپنا لیے کھڑے ہوئے.اس کی قربانی بھی بہت بڑھ کر ہوگی.اسی لئے حضرت
27 مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کہا ہے.کربلا ٹیست سیر ہر آنم صد حسین است در گریبانم کہ مجھے پر تو ہر لمحہ سو سو کر بلا کی مصیبتیں گذرتی ہیں اور میں تو ہر گھڑی کربلا کی سیر کر رہا ہوں.یہ شہادت بہت بڑی ہے.ایک شہید تو وہ ہوتا ہے جو تلوار اٹھا کر دشمن کے سامنے جاتا اور اپنے آپ کو موت سے بچاتا ہوا مارا جاتا ہے.لیکن ایک شہید وہ ہوتا ہے کہ اگر اسے دنیا کی بہبودی کا خیال نہ ہو تو وہ اپنے قلب کو تسلی دینے کے لئے ہزار دفعہ موت قبول کر لے.وہ جو دین کے لئے قربان ہوتا ہے مگر تلوار اٹھاتا ہے اس کے مقابلہ میں اس کی قربانی بہت بڑی ہوتی ہے.جو تلوار کے ذریعہ تو نہیں مرتا مگر ہر گھڑی قربان ہو رہا ہوتا ہے کیونکہ وہ اس لئے نہیں مرتا کہ موت کو پسند نہیں کرتا.بلکہ اس کا غم اور فکر تو ہزار دفعہ مرنے سے بھی بڑھا ہوتا ہے.پس قربانی اور شہادت ہی ہے جو انسان کو کمالات تک پہنچاتی ہے.اس کے لئے یہاں کے کارکنوں کو بھی تیار رہنا چاہئے.ہمارے لئے فی الحال تلوار کی شہادت کا تو موقع نہیں مگر امت محمدیہ اور تمام عالم کے غم میں گھلنے کی شہادت کا موقعہ ہے اور یہ تلوار کی شہادت سے بہت بڑھ کر شہادت ہے.جس شخص کو قومی درد سے واسطہ پڑا ہو وہ سمجھ سکتا ہے کہ قوم اور بنی نوع انسان کا درد اتنا بڑا درد ہوتا ہے کہ ایسے شخص کو موت سے زیادہ کوئی نعمت نظر نہیں آتی.اگر وہ یہ محسوس نہ کرے کہ کم ہمتی ہوگی.اگر میں جان دے دوں اور اپنی ذمہ داری کو موت کے ذریعہ ترک کر دوں تو وہ سب سے بڑی نعمت موت کو سمجھے.پس میں اپنی جماعت کے ان کارکنوں سے جو مرکز میں کام کرتے ہیں کہتا ہوں.قطع نظر اس سے کہ دوسرے بھائی ان کی مدد کرتے ہیں یا نہیں انہیں تیار رہنا چاہئے کہ ہر حالت میں اسلام کی خدمت کرنی ہے.جو شخص اس نیت اور اس ارادہ سے کام نہیں کر سکتا.اس کے لئے سلسلہ کا کام کرنے کی نسبت بہتر ہے کہ کسی اور جگہ اپنا ٹھکانا بنائے تاکہ وہ پہلا ایمان بھی نہ کھو بیٹھے.دین اسلام کی خدمت وہی کر سکتا ہے جو اس بات کے لئے تیار ہو کہ کوئی تکلیف اسے اس کام سے نہیں بنا سکے گی اور وہ ہر لمحہ موت کے لئے تیار رہے خواہ وہ موت تلوار سے ہو خواہ گھٹ گھٹ کر فاقہ کشی سے ہو.دوسری نصیحت میں کارکنوں اور دوسروں کو یہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ جماعت کے لوگوں کے یہ بات بھی ذہن نشین کرائیں کہ کوئی انسان غلطی سے پاک نہیں ہو سکتا اور غلطی کرنا قابل الزام نہیں.بد نیتی اور کو تاہی قابل الزام بناتی ہے.مگر میں نے بعض لوگوں کو دیکھا ہے.وہ بعض لوگوں
28 کی غلطیاں دیکھ کر ہمت ہار دیتے ہیں.میں کہتا ہوں.دنیا میں کون سا انسان ایسا ہو گا جس سے کبھی غلطی نہیں ہوئی ہر انسان سے غلطی ہوتی ہے اور بغیر غلطی کے کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی وہ قوم جو اس بات سے ڈرتی ہے کہ اس سے غلطی نہ ہو جائے.وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی.دیکھو یہ لوہے چینی کے برتن جو استعمال میں آتے ہیں یہ جرمنی کے ایک نواب نے ایجاد کئے تھے.اس نے اپنی ساری دولت اس میں صرف کر دی.وہ بہت سا خرچ کر کے بھٹی تیار کرتا لیکن جب نکالتا تو لوہے کا لوہا ہوتا.اس طرح جب اس کی اپنی ساری دولت صرف ہو گئی تو اس نے قرض لے کر خرچ کرنا شروع کیا مگر پھر بھی ناکام رہا اور قرض خواہوں کے مطالبہ پر قید بھی رہا.جب قید سے نکلا تو چونکہ لائق آدمی تھا پروفیسری پر مقرر ہو گیا وہاں سے جو کچھ ملتا وہ بھی اسی کام میں صرف کر دیتا اور یہاں تک حالت پہنچ گئی کہ اس کے بیوی بچوں کو فاقے آنے لگے اور وہ اس قدر کنگال ہو گئے کہ شرفاء ان کو اپنی مجالس میں نہ بلاتے اور اس کے بیوی بچے اپنے رشتہ داروں سے جو بڑے امیر اور دولتمند تھے نہ ملتے.کیونکہ ان کے پاس پہننے کے لئے کپڑے نہ تھے.ایک دن جب اس نے بھٹی چڑھائی اور اس کے پاس ایندھن نہ تھا اور اس کا ارادہ تھا کہ گھر کا مال اسباب بھٹی میں جلا دوں تو اس نے بیوی سے کہا کپڑے مانگ کر ایک جگہ چلی جائے.اس سے اس کی غرض یہ تھی کہ گھر کا اسباب جلتا دیکھ کر اسے صدمہ نہ ہو اور وہ مزا ہم نہ بنے.جب وہ چلی گئی تو اس نے کرسیاں میز وغیرہ توڑ تاڑ کر جلا دیں حتی کہ مکان کی چھت اکھیڑ کر بھی جلا دی.اس بھٹی کو جب اس نے نکالا تو جس بات کے لئے وہ کوشش کر رہا تھا وہ پوری ہو گئی یعنی برتن تیار ہو گئے تھے اس وقت اسے اس قدر خوشی ہوئی کہ اسی حالت میں وہ دوڑتا ہوا مجلس میں چلا گیا اور جاکر کہنے لگا.میں کامیاب ہو گیا.اب ساری دنیا اس ایجاد سے فائدہ اٹھا رہی ہے.اس نے غلطیاں کیں اور بار بار غلطیاں کیں.مگر نہ گھبرایا.آخر کامیاب ہو گیا.کیا کوئی نواب چاہتا ہے کہ اپنی دولت ضائع کر کے چوہڑوں کی حیثیت میں آجائے.ہرگز نہیں.اسی طرح وہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ اس کی دولت ضائع ہو مگر قانون قدرت یہی ہے کہ کامیابی تب ہو جب بعض حصے ضائع ہوں.پس کارکنوں کا فرض ہے کہ جو کام ان کے سپرد ہو اسے نیک نیتی سے کریں اور ایسے طریق سے کریں جس سے نیک نتیجہ نکلنے کی امید ہو.لیکن اگر باوجود اس کے پھر نتیجہ اچھا نہیں نکلتا تو جو کچھ صرف ہوا اسے ضائع نہیں قرار دیں گے.بلکہ وہ ایسا ہی ہو گا جیسے کھیت میں بیج.وہ کسی نہ کسی وقت پھل لائے گا.
29 دیکھو قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے.ولنبلونکم بشيء من الخوف والجوع و نقص من الاموال و الا نفس و الثمرات (البقرہ (۱۵۶) کہ ہم تم کو خوف بھوک اور تمھارے اموال تمہاری جانیں اور تمہارے ثمرات ضائع کر کے آزمائیں گے.کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس سے مراد وہ چندے ہیں جو مومن خدا کی راہ میں دیتے ہیں.اور وہ اموال مراد ہیں جو خدا کے لئے خرچ کرتے ہیں.ہر گز نہیں کیونکہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی چندہ دے کر رو پڑا ہو.اس سے مراد یہی ہے کہ مسلمانوں کے مال بعض جگہ ضائع ہوں گے اور ان کا کوئی نتیجہ نہ نکلے گا.چنانچہ اس کی ایک مثال میں پیش کرتا ہوں.جس میں رسول کریم اے کا مشورہ بھی شامل تھا اور کئی لاکھ روپیہ خرچ ہوا مگر صحابہ قطعا " نہ بولے وہ غزوہ تبوک ہے اس کے لئے رسول اللہ اللہ میں ہزار کا لشکر لے کر چلے فصل کی کٹائی کے دن تھے.زمین دار سمجھ سکتے ہیں اس وقت کیسی حالت ہوتی ہے.کم از کم دو ماہ کا سفر تھا اور اس سے زیادہ عرصہ بھی لگ سکتا تھا.اس عرصہ میں کھیتیاں یقیناً" برباد ہو جاتیں مگر حکم تھا سب چلو کیونکہ خبر ملی تھی کہ عیسائی حکومت روم کی بڑا لشکر جمع کر رہی ہے.اس کے مقابلہ کے لئے رسول کریم تا ۲۰ ہزار کا لشکر لے کر چلے جس پر لاکھوں روپے صرف ہو گئے.صرف حضرت عثمان کا چندہ ساٹھ ستر ہزار کے قریب تھا.کم از کم خرچ کا اندازہ اتنے بڑے لشکر کے لئے ۲۰ لاکھ ہے.اس کے علاوہ پیچھے جو کھیتیاں برباد ہو گئیں.وہ علیحدہ ہیں مگر جب لشکر وہاں پہنچا تو معلوم ہوا دشمن کا کوئی لشکر وہاں نہ تھا اور یونی واپس چلے آئے ۵.لیکن کسی نے اس نقصان کی پروا نہ کی کیونکہ انہوں نے سمجھا کہ اب گئے تو ۱۵ - ۲۰ لاکھ خرچ ہوا اگر نہ جاتے اور دشمن حملہ آور ہو جاتا تو سارا عرب تباہ ہو جاتا.اس لئے یہ نقصان نقصان نہیں ہے.تو ضیاع ہوا ہی کرتا ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ یہ ہوتا نہیں یا آئندہ نہیں ہو گا.ہاں میں یہ کہتا ہوں کہ وہ قوم جو یہ کہتی ہے کہ ہمارا مال اتنا ضائع ہو گیا اور وہ اس وجہ سے ہمت ہار کر بیٹھ جاتی ہے اسے اگر کل تباہ ہوتا ہے تو آج ہی تباہ ہو جائے.وہ اس بات کی مستحق ہے کہ تباہ ہو اس بات کی مستحق ہے کہ خدا تعالیٰ کا عذاب اسے پکڑ لے کیونکہ وہ بدنام کنندہ ہے قوموں کی.الله خدا تعالیٰ نے اس آیت میں اموال کے ضائع ہونے کے متعلق اشارہ فرمایا ہے کہ ولنبلونکم بشئ من الخوف والجوع و نقص من الاموال والانفس والثمرات جب یہ واقعہ ہوتا ہے تو مومنوں کی کیا حالت ہوتی ہے یہ کہ الذین اذا اصابتهم مصيبة قالوا انا للہ وانا الیہ راجعون کون کہہ سکتا ہے کہ اس نقص اموال سے مراد چندے ہیں یہ تو وہی مال ہے جس کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے ضائع ہو گا
30 اور یہ ضروری ہے ورنہ قوم کم ہمت ہو جاتی ہے وہی قوم دنیا میں بڑھتی اور ترقی کرتی ہے جو کامیابی کا اندازہ لگا کر اس کے لئے ہر طرح کوشش کرتی ہے.اس کے سوا کامیابی کی کوئی صورت نہیں.کوئی کامیابی دنیا میں ایسی نہیں.جس میں کچھ نہ کچھ ضیاع نہ لگا ہو.یہی چھوٹی مثال دیکھ لواے باہر کی جماعتوں میں جہاں مبلغ کی ضرورت ہوتی ہے وہاں کی جماعت مبلغ کے لئے درخواست کرتی ہے.اس پر اگر ہم کہیں کہ پہلے یہ بتاؤ وہاں کتنے آدمی احمدی ہوں گے تب مبلغ بھیجا جائے گا تو کیا کبھی کامیابی حاصل ہو سکتی ہے.بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی لیکچرار اچھا نہیں بول سکتا یا بیمار ہو جاتا ہے یا اس کا گلہ خراب ہو جاتا ہے تو اس کے جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور بعض دفعہ تو ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ ایک دو شخص مرتد بھی ہو جاتے ہیں پھر کیا ان باتوں کی وجہ سے مبلغ ہی نہ بھیجے جایا کریں.کیا دنیا میں کبھی کوئی ایسا کام بھی ہوا ہے جس میں یقینی نفع ہو اور ایک ذرہ بھی نقصان نہ ہو.جب تک انسان کام کرنے والے ہیں اس وقت تک ایسا ہی ہو گا کہ کام کرنے میں نقصان بھی اٹھانا پڑے گا جو قوم یہ چاہتی ہے کہ اس کا مال ضائع نہ ہو.وہ دنیا میں کوئی کام کرنے کے قابل نہیں ہے اسے چاہئے کہ اپنے گھروں میں بند ہو کر بیٹھی رہے.پس یہ مت خیال کرو.اگر تم کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہو کہ تمہارے مالوں کا کوئی حصہ ضائع نہیں ہونا چاہئے.ہاں یہ کوشش کرو کہ ہر ایک کام دیانت داری سے ہو.اگر کسی کام کرنے والے کی بد دیانتی ہو تو اسے علیحدہ کر دو.لیکن اگر کسی سے غلطی ہوتی ہے تو اسے ناقابل معافی مت سمجھو.میرے کانوں میں یہ اعتراض پہنچا ہے کہ پچھلے دنوں اچھوت لوگوں کی اصلاح کے لئے جو کوشش کی گئی اس میں بہت سا روپیہ تباہ کر دیا گیا ہے.میں کہتا ہوں اگر اس کام میں کامیابی ہو جاتی اور لاکھوں آدمی اسلام میں داخل ہو جاتے تو یہی لوگ جو اب اعتراض کرتے ہیں کہتے ہم پہلے ہی کہتے تھے.اس میں کامیابی ہوگی.اور اس طرح فتح میں وہ بھی شامل ہو جاتے.بلکہ دوسروں سے بڑھ کر اپنے آپ کو حصہ دار بتاتے.مگر میں کہتا ہوں کہاں وہ روپیہ ضائع ہوا.دو سو کے قریب اب بھی ان میں سے ایسے لوگ ہیں کہ بعض کو میں دیکھ کر پہچان نہیں سکتا کہ یہ ان لوگوں میں سے ہیں.ان کے چہرے بدل گئے.ان میں رشد نظر آتا ہے.نمازوں میں باقاعدہ شامل ہوتے ہیں تبلیغ کرتے ہیں اور ان کے ذریعہ نئے آدمی مسلمان ہونے کے لئے آتے ہی رہتے ہیں.پھر یہ روپیہ ضائع تو نہیں ہوا.رسول کریم فرماتے ہیں.اے علی (دوسرے موقعہ پر ایک اور صحابی سے فرماتے ہیں) ایک آدمی کا ہدایت پا جانا دو پہاڑوں کے درمیان بھرے ہوئے بھیٹر بکری کے گلے سے زیادہ قیمتی ہے.اگر اتنے
31 بڑے گلہ کی قیمت ایک لاکھ بھی سمجھی جائے تو معلوم ہوا کہ ایک لاکھ خرچ کر کے بھی اگر ایک آدمی ہدایت پاتا ہے تو یہ سودا مہنگا نہیں سستا ہے.اسی طرح ہمیں اگر ان لوگوں میں سے ایک آدمی بھی مل گیا تو جو کچھ ہمارا خرچ ہوا ہے اس کے مقابلے میں سستا ہے.مہنگا نہیں ہے.ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو امید تھی کہ یک لخت ہزاروں آدمی اسلام میں داخل ہو جائیں گے وہ پوری نہیں ہوئی.باقی جنہوں نے اسلام قبول کیا ہے ان کی شکل دیکھ کر وہ شخص معلوم کر سکتا ہے جسے چہروں کے مطالعہ کی قابلیت ہو کہ سچا ایمان لائے ہیں.پس بعض جگہ مال ضائع ہو جاتا ہے مگر بغیر اس خطرہ میں پڑے کامیابی کب ہو سکتی ہے.پہلے انسان گھر کی چیز تباہ کرنے کے لئے نکلتا ہے.تب کامیاب ہوتا ہے.پچھلے دنوں ضلع سیالکوٹ کے کچھ لوگ آئے.جنہوں نے بتایا کہ ہمارے علاقہ میں بغیر بارش کے فصل نہیں ہو سکتی.کنویں ایسے ہیں کہ اگر ان کا پانی کھیتوں کو دیا جائے تو کھیت بالکل تباہ ہو جائیں.ہم لوگ گھر میں جو غلہ تھا وہ کھیتوں میں ڈال آئے ہیں.اب اگر بارش ہوئی تو فصل ہو جائے گی ورنہ نہیں.اب دیکھو ان لوگوں نے جو غلہ ان کے پاس تھا اسے بھی خطرہ میں ڈالا یا نہیں.اور اگر بارش نہ ہوئی تو کیا ان کو کوئی ملامت کرے گا کہ تم کھیتی باڑی کرنے کے قابل نہیں تم سے زمینیں چھین لینی چاہیئں.ہرگز نہیں.بات یہ ہے کہ خطرہ برداشت کرنے کے بعد کامیابی ہوتی ہے.اور جب تک کوئی قوم اس بات کے لئے تیار نہ ہو کہ موقع کو دیکھ کر خطرہ بھی برداشت کرے.اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی.ہم نے جب علاقہ ملکانہ میں کام شروع کیا.تو اس وقت سارے مسلمان ملکانوں کی طرف سے مایوس ہو چکے تھے.یہاں قادیان میں بھی جب میں نے اس بارے میں مشورہ لیا تو کئی آدمیوں نے مجھے کہا اس میں کامیابی نہ ہوگی.کیونکہ آریہ سالہا سال سے وہاں کام کر رہے ہیں.اس وقت میں نے بتایا کہ اگر اس کام کو ہم شروع کریں گے تو کم از کم پچاس ساٹھ ہزار روپیہ خرچ ہو گا اور سینکڑوں آدمیوں کو اس کے لئے اپنا وقت صرف کرنا ہو گا.چنانچہ لاکھ ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہماری جماعت کا روپیہ اس کام میں صرف ہوا مگر آج سارا ہندوستان اس بات کا اقرار کر رہا ہے کہ احمدیوں کی وجہ سے آریوں کو علاقہ ملکانہ میں شکست ہوئی.ابھی مفتی محمد صادق صاحب علی گڑھ گئے تو سر عبدالرحیم نے جو اس سال مسلم لیگ کے پریذیڈنٹ تھے.علاقہ ملکانہ میں کام کرنے کی وجہ سے مفتی صاحب سے کہا.آپ ہی کی جماعت کچی مسلمان جماعت اور بچے طور پر اسلام کی خدمت کرنے والی
32 ہے.باوجود اس کے کہ وہ ہماری جماعت میں شامل نہیں مگر انہوں نے کہا سچے مسلمان آپ ہی لوگ ہیں.اب ممکن تھا کہ علاقہ ملکانہ میں ہمارا جو روپیہ اور محنت صرف ہوئی وہ صرف ہوتی مگر کوئی نتیجہ نہ نکلتا.کیونکہ آریہ وہاں دیر سے کام کر رہے تھے.ان کا اس علاقہ میں بڑا اثر اور رسوخ تھا.ممکن تھا کہ سات آٹھ لاکھ آدمی آریوں کے قبضہ میں چلے جاتے.مگر خدا تعالیٰ نے ہمیں فتح دی اور اب سارے اس فتح میں شامل ہیں اور کہتے ہیں ہم احمدیوں نے یہ کام کیا.اگر خدا نخواستہ شکست ہوتی تو کہتے خلیفہ نے اس قدر روپیہ ضائع کر دیا.دراصل کام کرنے والے کا صرف یہ کام ہوتا ہے کہ وہ اپنی عقل سے اندازہ لگاتا ہے کہ کامیابی ہو سکتی ہے اور پھر موقعہ دیکھ کر حملہ کر دیتا ہے.اس کے لئے یہ کام منٹوں کا ہوتا ہے منٹوں میں اسے فیصلہ کر کے حملہ کرنا ہوتا ہے.اگر اس کا اندازہ بالکل ٹھیک لگ گیا.اور حملہ عین وقت پر ہو گیا تو کامیابی ہو جاتی ہے ورنہ نہیں.دیکھو نپولین جیسے فاتح کی آخری شکست صرف پانچ منٹ کی وجہ سے ہوئی تھی.اس نے سارے یورپ کو شکست دے دی تھی.آخر سب نے مل کر اسے شکست دی اور قید کر لیا.مگر وہ قید سے نکلا اور فوج لے کر مقابلہ کے لئے چلا.دونوں لشکروں کے درمیان ایک ٹیلہ تھا.نپولین نے اپنے ایک جرنیل کو بھیجا کہ اس پر جا کر قبضہ کر لو اور اس پر توپ خانہ رکھ دو.وہ جرنیل فوج لے کر گیا لیکن چونکہ سپاہی تھکے ہوئے تھے.اس ٹیلے کے نیچے پہنچ کر اس نے اجازت دے دی کہ رات کو یہاں آرام کر لو صبح ٹیلہ پر قبضہ کریں گے.صبح اٹھ کر جب وہ قبضہ کرنے کے لئے گئے تو ان سے صرف پانچ منٹ پہلے انگریزی فوج اس پر قبضہ کر چکی تھی.اس سے جنگ کا نقشہ ہی بالکل بدل گیا.نپولین کو شکست ہوئی اور وہ پکڑا گیا.اگر اس ٹیلہ پر پانچ منٹ پہلے انگریزوں کا قبضہ نہ ہو جاتا تو آج نہ انگریز اس حالت میں ہوتا اور نہ جرمن.مگر پانچ منٹ کی غفلت اور دیر نے دنیا کی قوموں کے حالات بدل ڈالے.تو کام کرنے والوں کو منٹوں میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے.پھر بعض دفعہ ان کا فیصلہ صحیح ہوتا ہے اور بعض دفعہ غلط بھی ہوتا ہے.ایک قوم کے سردار آتے ہیں ان کے متعلق سمجھا جاتا ہے کہ آج ان کے لئے اگر روپیہ صرف کریں گے تو کل یہ ہمیں مدد دیں گے.ہو سکتا ہے کہ جس قدر امید لگائی جائے وہ پوری نہ ہو لیکن اس سے بددل نہیں ہونا چاہئے.دیکھو عیسائیوں نے ہندوستان کی اچھوت اقوام کے لئے کروڑوں روپے خرچ کر دیئے.جس کا نتیجہ سالہا سال کی کوششوں کے بعد یہ نکلا ہے کہ آج انہیں کونسل میں ممبری کا حق حاصل
33 ہے.یہ حق عیسائیوں کو مغلوں.پٹھانوں اور سیدوں کی وجہ سے نہیں.بلکہ چوہڑوں کی وجہ سے حاصل ہوا ہے.تم میں سید مغل پٹھان ہیں.مگر احمدیوں کو یہ حق نہیں دیا گیا اور عیسائیوں کو دیا گیا ہے.کیونکہ یہاں ان کی تعداد زیادہ ہے.تو وہ روپیہ جو عیسائیوں نے ان لوگوں کے لئے خرچ کیا تھا اس طرح کام آگیا کہ ان کا اس ملک پر حق تسلیم کر لیا گیا مگر تمھارا نہیں تسلیم کیا گیا.ابھی چند دن ہوئے ایک دوست کا خط آیا ہے کہ عدن میں ۳۴ سال ہو گئے ہیں عیسائیوں کا مشن قائم ہوئے جس پر لاکھوں روپے خرچ ہو چکے ہیں.ان کا ایک بہت بڑا ہسپتال ہے مگر اس وقت تک ایک آدمی بھی عیسائی نہیں ہوا.اور عیسائی اسی جوش سے مال صرف کر رہے ہیں.ان سے پوچھا گیا کہ جب کوئی فائدہ نہیں تو کیوں تم مال خرچ کرتے ہو.انہوں نے کہا.ہمارا کام کام کرنا ہے آگے ماننا ان لوگوں کا کام ہے.اس وقت تک ان کا کروڑ ڈیڑھ کروڑ کے قریب روپیہ صرف ہو چکا ہو گا مگر اس بات کی انہیں کوئی پروا نہیں کہ یہ روپیہ ضائع ہو گیا.دراصل وہ اسے ضائع نہیں سمجھتے.کیونکہ وہ سمجھتے ہیں نیک نیتی سے کام کرتے ہوئے مال کا ضائع کرنا ہی کامیابی ہے.کیونکہ جو قوم خطروں کو برداشت کرتی ہے وہی جیتی ہے.ہماری جماعت کے لوگوں کو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہئے کہ اگر کوئی کارکن غلطی کر جائے اور کسی کام کا نتیجہ اس طرح نہ نکلے جس طرح امید کی جائے.تو اس کے متعلق یہ نہیں کہنا چاہئے کہ اس میں مال ضائع ہو گیا.جس کا کوئی فائدہ نہ ہوا.جو قوم اپنا مال ضائع کرنے کے لئے تیار نہیں وہ فتح کے لئے بھی تیار نہیں ہو سکتی.ایسا کوئی کام نہیں.جس کے متعلق یہ کہا جاسکے کہ اس میں نقصان کا احتمال نہیں ہو گا.بلکہ انسان جب اپنی جان تک دے دینے کے لئے تیار ہوتا ہے تب کامیابی ہوتی ہے.دیکھو عورت جان دیتی ہے تب بچہ پیدا ہوتا ہے.بیسیوں عورتیں بچہ پیدا ہونے کی وجہ سے مرجاتی ہیں.اس سے کیا عورتیں یہ کہہ دیں کہ چونکہ جان کا خطرہ ہوتا ہے اس لئے بچے ہی پیدا نہیں کرنے چاہئیں.پھر دیکھو خدا تعالیٰ کے کاموں میں بھی ضیاع پایا جاتا ہے اور دہریہ اس پر اعتراض کرتے ہیں.دس بچے پیدا ہوتے ہیں.جو سارے کے سارے زندہ نہیں رہتے.بلکہ ان میں سے پانچ مرجاتے ہیں.اسی طرح درختوں پر کروڑوں من بور لگتا ہے جس میں سے بہت سا گر جاتا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ سب کاموں میں ضیاع لگا ہوا ہے اور اس کے بغیر کوئی کامیابی اور کوئی فتح حاصل نہیں ہو سکتی.پس اگر کوئی بات قابل اعتراض ہے تو وہ بدنیتی اور بے پرواہی ہے ورنہ نیک نیتی سے اگر کوئی
34 اپنے آپ کو خطرہ میں ڈالتا ہے تو قابل تعریف ہے.نہ کہ قابل مذمت.مثلا ایک شخص کسی کو ڈوتا دیکھ کر پانی میں کود پڑتا ہے.اب ممکن ہے وہ خود بھی ڈوب جائے اور ممکن ہے دوسرے کو بچا لائے.اگر وہ خود بھی ڈوب جائے تو قابل ملامت نہیں ہو گا.پس ہر کام میں یہ دیکھنا چاہئے کہ بدنیتی تو نہیں اگر یہ نہیں اور ضیاع ہے تو یہ فطرتی بات ہے.تیسری بات یہ یاد رکھنی چاہئے کہ ہر الزام سچا نہیں ہو تا بعض لوگ ہر بات سن کر یقین کر لیتے ہیں کہ سچی ہوگی.حالانکہ ایسی باتوں میں سے 99 فیصد غلط ہوتی ہیں.مثل مشہور ہے.پر سے کتوں کی قطاریں بن گئیں.ہے تو لغو ہی قصہ مگر مشہور اس طرح ہے کہ کوئی بادشاہ پاخانہ میں گیا تو اس نے دیکھا وہاں پر پڑا تھا.اس نے اس بات کی شکایت کی کہ صفائی اچھی نہیں ہوتی پاخانہ میں پر پڑا ہوا تھا.اس سے کسی نے یہ سمجھا کہ پاخانہ میں سے پر نکلا ہے.اس سے آگے یہ سمجھا گیا کہ کھانے میں پر کھایا گیا.اس طرح بات بتاتے بتاتے کوے بنا دیئے گئے.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کس طرح باتیں بنائی اور بڑھائی جاتی ہیں.اس لئے سمجھنا چاہئے کہ ہر خبر جو پہنچے بچی نہیں ہوتی.اگر اس بات کو مد نظر رکھا جائے تو بہت سے فتنوں سے انسان محفوظ رہ سکتا ہے.تین باتیں تمام لوگوں کے ذہن نشین کرائی جائیں.کیونکہ ان کے سمجھنے کے بغیر ہماری جماعت کامیاب نہیں ہو سکتی.اور ان کے بغیر کسی قوم کے قدم فتح کی طرف نہیں اٹھ سکتے.بلکہ وہ قوم ذلیل ہو جاتی ہے.دیکھو انگریز اس ملک میں اپنی جانوں کو خطرہ میں ڈال کر آئے اور فاتح بن گئے.ہمارے ملک کے لوگ جانوں کے خطرہ کی وجہ سے گھر سے نہ نکلے.انہوں نے سمجھا ہم سمندر میں ڈوب جائیں گے.نتیجہ یہ ہوا سمندر تو الگ رہا.خشکی میں ڈوب گئے اور ایسے ڈوبے کہ ایک لاکھ کے قریب انگریز کئی کروڑ پر حکومت کر رہے ہیں پھر انگریزوں نے نقصان کی پروا نہ کرتے ہوئے صنعت و حرفت میں اپنا روپیہ لگایا.مگر ہمارے ملک کے لوگ نقصان سے ڈرتے رہے.اب حالت یہ ہے کہ ہر چیز کے لئے ان کے محتاج ہیں.سوئی دھاگہ.جراب.پگڑی غرض جس چیز کی ضرورت ہو ہم ان کا منہ تکتے ہیں.ہم نے کہا اگر ہم کارخانے کھولیں گے تو شائد گھانا پڑ جائے اور روپیہ ضائع ہو جائے.مگر جب ہم ضیاع سے ڈرے تو خدا نے ہمیں روپیہ ہی نہ دیا اور ہم تجارتی میدان میں گر گئے.تاریخوں میں واقعہ لکھا ہے کہ شاہ جہان کی بیوی تاج محل نے خواب میں ایک مقبرہ دیکھا.دنیا میں جو سات عمارتیں اعلیٰ درجہ کی سمجھی جاتی ہیں ان میں سے ایک تاج محل ہے.بیگم نے بادشاہ کو بتایا.اس نے انجنیر بلائے اور کہا کیا تم اس قسم کا مقبرہ تیار کر سکتے ہو.سب نے انکار کر دیا.آخر
35 ایک نے نقشہ بنا کر دکھایا.تو بیگم نے کہا یہ ہے وہ نقشہ جو میں نے دیکھا.بنانے والے نے کہا یہ بن تو جائیگا مگر اس کے ساتھ ایک شرط ہے اگر وہ پوری ہو جائے تو بن جائے گا.بادشاہ نے کہا بتاؤ جو بھی شرط ہے پوری کی جائے گی.اس نے کہا آپ روپوں کے توڑے کشتی میں لاد کر کشتی میں میرے ساتھ بیٹھ جائیں اور دریا کے دوسرے کنارہ تک چلیں.بادشاہ نے ایسا ہی کیا جب کشتی چلی تو اس نے ایک توڑا اٹھا کر دریا میں پھینکتے ہوئے کہا بادشاہ سلامت مقبرہ بن تو جائے گا مگر اس طرح روپیہ خرچ ہو گا.بادشاہ نے کہا کوئی پروا نہیں اسی طرح خرچ کرو.پھر اس نے وہی بات کہتے ہوئے دوسرا توڑا پھینک دیا.حتی کہ کنارے تک پہنچتے پہنچتے سارے توڑے پانی میں ڈال دیئے.آخر جب اس نے دیکھا کہ بادشاہ اسی طرح روپیہ خرچ کرنے کے لئے تیار ہے تو اس نے کہا ضرور ایسا مقبرہ بن جائے گا.اس کے بعد اس نے بنانا شروع کیا.اس سے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جو قربانی کے لئے تیار ہوتا ہے وہی کامیاب ہوتا ہے.پس میں یہ نہیں کہتا کہ سب باتیں غلط ہوتی ہیں.بچی بھی ہوتی ہیں مگر پھر بھی بد دل نہیں ہونا چاہئے.دیکھو تاجر کا روبار کرتے ہیں مگر ان کا کوئی ملازم خائن نکل آئے تو کیا وہ کام کاج بند کر دیتے ہیں کہ اب یہ کام نہیں کریں گے.تمام دنیا کے کاموں میں کام کرنے والے خائن اور غبن کرنے والے بھی ہوتے ہیں مگر کام کرنے والے کراتے ہی ہیں.پس اول تو ہر بات کے متعلق تحقیقات کرنی چاہئے کہ وہ جھوٹ ہے یا سچ.پھر اگر وہ سچ ہو تو بھی تو کوئی ایسی بات نہیں جو ناممکن ہو.سارے کے سارے انسان نیک نہیں ہوتے.سارے کے سارے دیانت دار نہیں ہوتے.مگر ان کی وجہ سے کام نہیں چھوڑ دیئے جاتے.پھر بسا اوقات دیانتداروں سے بھی غلطیاں ہو جاتی ہیں.پس اگر دیانتداری سے کام کرتے ہوئے نقصان ہو تو اس سے نہیں ڈرنا چاہئے.پھر ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار رہنا چاہئے.جس کے لئے کسی قسم کی حد بندی نہیں ہے.آنہ دو آنے نہیں بلکہ ضرورت کے وقت سب کچھ دینا ہو گا.اگر کوئی اس کے لئے حد بندی کرتا ہے تو وہ بیعت پر قائم نہیں رہتا.تم ہر ایک چیز قربان کرنے کے لئے تیار رہو پھر دیکھو کامیابی کس طرح حاصل ہوتی ہے.تم لوگ اپنی اس تھوڑی سی قربانی کو ہی دیکھو جو قربانی کہلانے کی بھی مستحق نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے تمھاری کس قدر عزت اور توقیر کی جاتی ہے.خطرناک سے خطرناک دشمن بھی مانتے ہیں کہ تم لوگ دین کی بڑی خدمت کر رہے ہو اور دین کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہو اور کسی نقصان سے نہیں ڈرتے.پس یہی بات ہے جس کی وجہ سے ہماری جماعت کا
36 رو و سروں پر رعب ہے.اس میں زیادتی کی وجہ سے ہم سب پر فتح پا سکتے ہیں اور اسی میں کمی کی وجہ سے نامرادی اور ناکامی ہو سکتی ہے.پس ہماری جماعت کے کارکن ان باتوں کو سمجھیں اور دوسرے لوگوں کے دلوں میں ڈالیں.اپنا سمجھ لیتا ہی کافی نہ سمجھیں.بلکہ جو کمزور ہوں ان کو سمجھانے کی بھی کوشش کریں تاکہ کمزور بھی مضبوط ہو جائیں اور جو روکیں ہمارے راستہ میں ہیں وہ دور ہو جائیں اور ایسی رو کیں نہ کھڑی ہوں جن سے قو میں تباہ ہو جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ رکھے.امتی بخاری کتاب المغازی باب غزوة سيف البحر تاریخ الخلفاء للسیوطی صد ۳۷ ۰۴ تاریخ الخلفاء صه ۱۰۵ ۵ تاریخ الخلفاء صد ۸۴ سیرت ابن ہشام حالات غزوہ تبوک الفضل ۲۶ جنوری ۱۹۲۶ء)
37 4 صراط مستقیم کا کیا مطلب ہے (فرموده ۲۲ جنوری ۱۹۲۶ء) تشهد تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میری آواز اور میرے گلے کی حالت آج ایسی ہے کہ وہ اجازت نہیں دیتی کہ میں بولوں لیکن خطبہ جمعہ چونکہ اسلام کی سنتوں میں سے ایک ضروری سنت ہے.اس لئے اسے ترک بھی نہیں کیا جا سکتا.پس میں نہایت اختصار کے ساتھ اپنے دوستوں اور اپنے بھائیوں کو سورہ فاتحہ کے ایک ایسے نکتہ کی طرف توجہ دلاتا ہوں.جو نہایت ہی اہم اور نہایت ہی ضروری ہے.سورہ فاتحہ میں کہا گیا ہے کہو اهدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت عليهم یعنی اے خدا ہمیں راستہ دکھا پہلے منعم علیہ لوگوں کا.اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ راستہ کونسا راستہ ہے جو صراط الذین انعمت عليهم میں ذکر کیسا گیا ہے.کہ ان لوگوں کا راستہ دکھا جن پر تو نے ہم سے پہلے انعام کیا.اس کے معنے اگر یہ کئے جائیں.کہ ہم سے پہلے جو لوگ گذر چکے ہیں.ان کے مدارج ہمیں بھی عطا کر.اور جو جو درجے ان کو ملے تھے.جو جو رہے ان ارگوں کو عطا کئے گئے تھے.اور جو جو مقام ان کو دیئے گئے تھے.وہ سب درجے وہ سب رہتے اور وہ سب مقام ہمیں بھی دے.تو گویا دنیا کا ہر فرد بشر ایک رنگ میں ان مدراج اور رتبوں کے لئے دعا کر سکتا ہے.لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آنحضرت ا بھی یہی دعا مانگتے تھے ؟ اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ آپ پانچوں نمازوں تجد اور نوافل کے علاوہ کثرت سے یہ دعا مانگا کرتے تھے.اور ادھر یہ بھی ہے کہ آپ سب سے افضل بھی تھے.اب یا تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ آنحضرت کے اوپر کے درجہ کے بھی لوگ تھے.جن کے درجہ کو پانے کے لئے آنحضرت یا دعا مانگتے تھے اور اگر ہم یہ مان لیں تو اس صورت میں آپ کو افضلیت پر حرف آتا ہے.یا پھر یہ کہنا پڑے گا کہ آپ نعوذ باللہ یہ کہتے ہیں کہ الهلال
38 مجھے بھی پہلے لوگوں کا راستہ دکھا جس پر چل کر منعم علیہ بن گئے.اس صورت میں آپ خود جو راستہ دنیا کے لئے لائے اس پر اعتراض ہوتا ہے کہ اس کے ذریعہ منعم علیہ میں انسان شامل نہیں ہو سکتاک اگر صرف الصراط المستقیم ہوتا تو ہم کہتے راستہ خدا کا وسیع ہے.اور جس طرح زید بکر کو اس کی ضرورت ہے اسی طرح آنحضرت ا کو بھی اس کی حاجت ہے لیکن قرآن شریف نے صراط المستقیم کی تشریح انعمت علیھم کی ہے.یعنی ان کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا.تو اس انعمت علیہم نے راستہ کو محدود کر دیا.اب زید اور بکر اور دوسرے لوگ تو اس دعا کو مانگ سکتے ہیں.لیکن نبی کریم ا اس دعا کو نہیں مانگ سکتے.کیونکہ ہم سب مانتے ہیں اور شروع سے ہی تمام مسلمان مانتے چلے آئے کہ آنحضرت ﷺ نہ صرف رسول ہی تھے بلکہ سید ولد آدم بھی تھے حتی کہ آپ خاتم النیسین تھے اور سب سے زیادہ خدا تعالیٰ کے مقرب بھی تھے مگر جب ہم دوسری طرف یہ بھی مانتے ہیں کہ آپ یہ دعا بھی مانگا کرتے تھے اور کثرت سے مانگا کرتے تھے.نہ صرف پانچوں نمازوں میں بلکہ نوافل میں بھی بلکہ اور اور موقعوں پر بھی.تو اگر اس کے یہی معنے کئے جائیں کہ وہی مدارج ہمیں بھی دے جو پہلوں کو دیئے تو رسول اللہ کے لئے یہ دعا بے فائدہ ہو جاتی ہے.یا پھر یہ دعوئی بالکل غلط ہو جاتا ہے کہ آپ سب نبیوں سے افضل تھے.قرآن شریف سے بھی کوئی استثناء آپ کی نہیں معلوم ہوتی کہ آپ تو یہ دعا نہ مانگا کریں لیکن صحابہ اور دوسرے افراد است مانگا کریں.اسیا ہی نہ آپ کے عمل سے کوئی اس قسم کی استثناء معلوم ہوتی ہے.پس اس صورت میں یہی کہنا پڑے گا کہ آپ کے لئے اس سے مراد وہ مدارج نہیں جو پہلوں کو دیے گئے اور آپ کو نہیں دیتے گئے اور آپ ان کے حصول کے لئے دعا کرتے ہیں.مگر ابھی اس بات کا ایک اور پہلو بھی ہے.اور اس کو مد نظر رکھتے ہوئے دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آنحضرت ا سے بڑھ کر بھی کوئی شخص ہے ؟ قرآن شریف کہتا ہے نہیں اور روز روشن کی طرح روشن کر کے کہتا ہے کہ آپ تمام انبیاء کے کمالات کے جامع تھے.اور جس جس طرح کے اور جتنے جتنے کمال کسی نبی میں پائے گئے.وہ سب آپ پر ختم ہو گئے اور نسل آدم کے تمام کے تمام کمال آپ میں جمع تھے.مطلب یہ کہ آپ سے بڑھ کر کوئی بھی نہیں ہوا اور کسی کو کوئی ایسا رتبہ یا درجہ یا مقام نہیں دیا گیا.جو آپ کو نہ دیا گیا ہو.الا اس صورت میں کہ جب یہ بھی نہیں کر سکتے کہ آپ سے پہلے کوئی اور آدمی بھی بڑا ہوا ہے تو مانا پڑے گا کہ اهدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت عليهم کے یہ معنے نہیں کہ آپ پہلوں
39 کے مدارج مانگتے تھے.کیونکہ اس سے قرآن شریف میں اختلاف لازم آتا ہے.پس سوچنا چاہئے کہ وہ کون سے معنے ہیں.جن سے یہ اختلاف دور ہو جاتا ہے.اس کے لئے جب ہم تدبر کرتے ہیں تو صاف طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ اس آیت کے معنے پہلے لوگوں کی روحانی ترقیات کا طریق ہے اور اس میں یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ الہی پہلے لوگوں کی روحانی ترقیات کا جو طریق تھا وہ ہمیں بھی عطا فرما.ورنہ اگر صراط سے مراد وہ راستہ ہے جس پر پہلے لوگ چلے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ پہلی شریعتیں منسوخ نہیں ہوئیں.اور ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ ان شریعتوں پر چلا.لیکن یہ بات نہیں اور ہم یہ دعا نہیں مانگتے کہ الہی پہلے لوگوں کے راستہ پر چلا.کیونکہ اگر یہ دعا مانگیں گے تو اس کا یہ مطلب ہو گا.کہ پہلی شریعتیں منسوخ نہیں ہوئیں اور بحال ہیں.بلکہ اس سے مراد روحانی ترقی کا طریق ہے کہ جس رنگ میں انہوں نے قدم مارا تھا اور روحانی ترقیات حاصل کیں اسی رنگ میں ہمارا قدم بھی اٹھا.تا ہم بھی ہر وقت ترقی کرتے چلے جائیں اور روحانیت کی انتہا تک پہنچ جائیں.پس ہماری دعا یہ نہیں ہوتی کہ الہی تو ان کا راستہ ہمیں بھی دکھا جو ہم سے پہلے گذرے.کیونکہ اگر ہم ایسا کہیں تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ پہلی شریعتیں منسوخ نہیں ہوئیں.لیکن ہم تو یہ کہتے ہیں کہ پہلی شریعتیں منسوخ ہو چکی ہیں.اور اب اگر کوئی شریعت ہے تو وہی ہے جو نبی کریم ﷺ لائے.پس ہماری دعا اس لئے ہوتی ہے کہ ان کے ترقی کے طریق بتا.اس لئے اھدنا الصراط المستقيم صراط الذين نعمت علیھم کی دعا کا اگر کوئی صحیح مفہوم ہمارے نزدیک ہے تو یہی ہے کہ ہر لحظہ اور ہر قدم پر ہمیں ایمانی اور روحانی ترقیات دی جائیں.کیونکہ ہم سے پہلے جو تھے.وہ جس حال میں بھی تھے.علم.ایمان اور عرفان میں ترقی کرتے جاتے تھے.کیونکہ انعمت علیھم کا گروہ وہی گروہ ہے.جس کا قدم ترقی سے رکتا نہیں.دوسرا اور کوئی گروہ منعم علیہ نہیں.اس لئے ہمیں بھی ویسے ہی روحانی ترقی کے طریق بتا.کیونکہ جو ایک جگہ کھڑا ہے.اور جس کا قدم ترقی کی طرف اٹھتا نہیں منعم علیہ ہونا تو درکنار اس کا ایمان بھی خطرہ میں ہے اور جس کا ایمان خطرہ میں ہو وہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ میں منعم علیہ گروہ میں سے ہوں.پس انعمت عليهم وہی گروہ ہے جو ہر لحظہ روحانی ترقی کی طرف قدم اٹھاتا ہے اور آیت صراط الذین انعمت علیھم کے یہ معنے ہوئے کہ ایسے رنگ میں ہمارے ایمان اور ہمارے عرفان کو کر دے کہ ہر وقت اس میں زیادتی ہوتی رہے.جب اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ ہمیں ہر وقت روحانی ترقیات عطا فرما.اور کوئی گھڑی بھی ایسی نہ گذرے کہ جس سے ہمارا قدم روحانی ترقی کے اس راستہ پر پڑنے سے رک جائے.جس پر ہم
40 سے پہلے لوگ قدم مارتے رہے تو اب رسول اللہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ پہلے انبیاء جس طرح ترقیات کرتے رہے تھے اسی طرح مجھے بھی ترقیات دے.جس طرح ابراہیمؑ اپنے درجہ میں ترقی کر رہے تھے.جس طرح عیسی اپنے درجے میں ترقی کر رہے تھے.اسی طرح میں بھی اپنے درجے میں ترقی کروں.ان معنوں میں اگر آنحضرت ایتا بھی یہ دعا کریں تو کوئی حرج نہیں.پس صراط الذین انعمت علیھم کا یہی مفہوم ہے.اور در حقیقت کوئی شخص مومن نہیں کہلا سکتا.جب تک عرفان میں نہ بڑھے.یہی وجہ ہے کہ ہر ایک شخص کے لئے ہر وقت رب زدنی علما " کہنا ضروری ہے.جس طرح آدم کہتے تھے.جس طرح موسی کہتے تھے.جس طرح عیسیٰ کہتے تھے.اور جس طرح تمام دوسرے نبی کہتے تھے.اسی طرح رسول کریم ﷺ بھی کہتے تھے.اور ہر شخص بھی یہ کہتا ہے.ادنی یا اعلیٰ ہوں.تمام اس میں برابر ہیں.پس صراط الذین انعمت علیھم میں یہ سکھایا گیا ہے کہ ہمارے قدم میں رکاوٹ پیدا نہ ہو.پس میں اپنی جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ ہر ایک ان میں سے ایمان اور عرفان اور میں ترقی کرتا اور آگے بڑھتا جائے.تمام تباہی آگے نہ بڑھنے سے آتی ہے اور ساری بربادی اسی سے پیدا ہوتی ہے کہ انسان ایک جگہ پر جم جائے اور ترقی کرنے سے رک جائے.شائد کسی کو خیال پیدا ہو کہ کون چاہتا ہے کہ آگے نہ بڑھے.لیکن محض خیال کچھ نہیں کر سکتا.جب تک اس کے ساتھ احساسات نہ ہوں.احساس کے بغیر کچھ نہیں ہو تا.اگر کوئی شخص یہ خیال کرے کہ میں علم پڑھ جاؤں تو وہ صرف خیال سے ہی نہیں پڑھ جائے گا.جب تک اس میں پڑھنے کا احساس پیدا نہ ہوگا.ایسا ہی اگر کوئی شخص یہ خیال کرے کہ میں نیک ہو جاؤں تو وہ نیک نہیں ہو جائے گا.البتہ جس میں احساس پیدا ہو جائے وہ نیک ہو سکتا ہے.غرض صرف خیال کوئی چیز نہیں.جو کچھ ہوتا ہے.احساس سے ہوتا ہے.خیال تو محض علم کا نام ہے.ایسے علم کا جس میں اپنا کچھ نہیں ہو تا.اور احساس اس علم اور ارادے پر غالب آنے والی ذہنی کیفیت کا نام ہے.جو مجبور کر کے اپنا کام کرا لیتی ہے.اگر تم خیال کرو کہ محبت پیدا ہو تو محبت صرف خیال سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ احساس اسے پیدا کرتا ہے.بے شک خیال پہلے پیدا ہوتا ہے اور احساس پیچھے پیدا ہوتا ہے.مگر جب تک یہ پیدا نہیں ہو تا خیال کچھ نہیں کر سکتا.ماں کے دل میں بچے کی محبت کا خیال نہیں ہو تا بلکہ احساس ہوتا ہے.پھر وہ اس احساس سے کیا کیا تکلیفیں برداشت کرتی ہے.لیکن جو صرف خیال کرتے ہیں کہ محبت ہے وہ کچھ نہیں کر سکتے.
41 محبت کا نتیجہ تو قربانی ہے مگر کتنے ہیں جو محبت کا دعوی کرتے ہوئے پھر قربانی کرتے ہیں.قربانی تو اس وقت ہی کوئی شخص کرے گا جب اسے محبت کا احساس بھی ہو.دیکھ لو ماں کو اپنے بچے کی محبت کا احساس ہوتا ہے پھر وہ ہر قسم کی قربانی اس کے لئے کرتی ہے اور ہر وقت اس کے سکھ کا خیال رکھتی ہے.خواہ اس میں اسے خود دکھ میں مبتلا کیوں نہ ہونا پڑے.پس وہ خیال جس میں احساس نہیں ہوتا بے فائدہ ثابت ہوتا ہے اور اکارت جاتا ہے اور ایک خیال وہ ہوتا ہے.جس کے ساتھ احساس بھی ہوتا ہے ایسا خیال ضائع نہیں جاتا.اور وہ خیال جس کے ساتھ احساس پایا جاتا ہے.دراصل خیال کہلانے کا وہی مستحق ہے اور وہی ہے.جس سے کچھ نتیجہ بھی برآمد ہوتا ہے مثلاً عبادات میں غور کر لو.ایک شخص احکام کی پیروی کرتا ہے اور مالی قربانیاں بھی کرتا ہے لیکن اگر وہ یہ محاسبہ نہیں کرتا کہ مجھے کس حد تک قربانی کرنی چاہئے اور میں کس حد تک قربانی کر رہا ہوں کیونکہ احساس سے ہی ترقی پیدا ہوتی ہے.اور احساس کی علامت ہے قربانیاں کرنا.اگر وہ ایک حد تک قربانیاں کرتا ہے اور پھر رک جاتا ہے.تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اندر اس حد تک احساس نہیں جس حد تک کہ چاہئے اور جب احساس نہیں تو ترقی بھی نہیں.پس سچا ارادہ وہی ہوتا ہے جس کے ساتھ احساس ہو.اور اس حد تک ہو کہ اس سے پوری پوری قربانیاں کرانے والا ہو تاکہ وہ ترقی پا سکے.پس دوستوں کو چاہئے کہ وہ اس حالت کو پیدا کر لیا.جو احساس کی حالت کہلاتی ہے اور ربّ زدنی علما " (طه ۱۱۵) کی کیفیت کو اپنے اندر پیدا کریں.اگر آنحضرت اللہ کو ترقی اور قربانیوں کی ضرورت تھی.تو ہماری جماعت کے لوگوں کو کیوں ان کی ضرورت نہیں.پس میں پھر کہتا ہوں اور بطور نصیحت کہتا ہوں کہ رب زدنی علما کی حالت کو اپنے اندر پیدا کرو.لوگ چند دلائل کو سن لیتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں.بس ہم نے غور کر لیا.ہم نے مان لیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام برحق تھے.اب ہمیں کیا ضرورت ہے کہ مزید غور کرتے پھریں.لیکن وہ جانتے نہیں اتنی سی بات سے انہوں نے سب کچھ کر نہیں لیا بلکہ اس سے تو ابھی وہ ڈیوڑھی پر آئے ہیں اور میدان عمل تو ابھی آگے ہے.اگر وہ یہاں پہنچ کر رک جائیں تو پھر زنگ لگ جانے کا خطرہ ہے.جس سے خوف ہے کہ وہ پھر اسی جگہ نہ جاگریں جہاں سے اٹھ کر وہ یہاں تک پہنچے تھے.خدا نے یہ فیصلہ قرار دیا ہوا ہے.قانون شریعت میں بھی یہی ہے اور نیچر میں بھی ایسا ہی پایا جاتا ہے کہ جو آگے قدم نہیں بڑھاتا تباہ کر دیا جاتا ہے.نیچر کے قانون میں بھی یہی ہے.جو کھڑا ہوا وہ
42 تباہ ہوا اور جب تک ہر ساعت آگے نہیں بڑھتا.وہ اپنے آپ کو شیطان کے قبضے میں دیتا ہے.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ دوست اپنے علم کو اپنے ایمان کو اور اپنے عرفان کو بڑھائیں.دلائل کا نام عرفان نہیں اور احساس اس کو نہیں کہتے کہ صرف خیال ہی کر لیا کہ میں فلاں کام کرلوں.بلکہ احساس اس کا نام ہے کہ خدا کے ساتھ تعلق مضبوط ہو.گویا خدا اور اس کے درمیان ایک رسی بندھی ہوئی ہو.اور انسان یہ سمجھتا ہو کہ اگر میں اس سے الگ ہو کر پرے ہٹنا چاہوں تو بھی نہیں ہٹ سکوں گا.غرض کہ وہ سمجھے اب میرے تعلقات خدا تعالیٰ سے ایسے مضبوط ہو چکے ہیں کہ اگر چاہوں بھی تو بھی خدا کو نہیں چھوڑ سکتا.پس یہ کہنا کاش خدا مل جائے.یہ عرفان نہیں بلکہ عرفان یہ ہے کہ انسان سمجھے اب میں خدا سے ایسا مل گیا ہوں کہ اب میری سب طاقتیں مضمحل ہے گئی ہیں.اور مجھ میں ہمت نہیں رہی کہ اس تعلق کو توڑ کر کہیں اور جا سکوں.میری حالت تو کیلے سے بندھے ہوئے گھوڑے کی طرح ہے کہ وہ کہیں جا نہیں سکتاکہ یہ احساس ہے اور یہ عرفان کہلاتا ہے.جو ہو شخص اس مقام پر پہنچ گیا کہ وہ سمجھتا ہے میرا لگاؤ خدا تعالیٰ سے اب ایسا ہو گیا ہے کہ جہاں کہیں جاؤں گا.خدا ہی کا بندہ کہلاؤں گا.وہ اگر چاہے بھی کہ چھوڑے تو نہیں چھوڑ سکتا اور اگر وہ چھوڑے تو خدا خود اس کو اپنی طرف لے آتا ہے.ایسے آدمی کی مثال پٹے والے کتے کی ہوتی ہے وہ اگر آوارہ بھی ہو جائے تو لوگ اسے اسی مالک کا سمجھتے ہیں جس کا پٹہ اس کے گلے میں پڑا ہوتا ہے.جدھر بھی وہ جاتا ہے لوگ پکڑ کر اسے مالک کے پاس لے آتے ہیں.اسی طرح اگر کوئی شخص احساس پیدا کر لے اور علم اور عرفان میں ترقی کرے تو عبودیت کا پٹہ اس کے گلے میں پڑ جاتا ہے.وہ اگر کسی جذبہ کے ماتحت خدا کے ساتھ اپنے تعلق کو توڑ کر دوسروں کے دروازوں پر پھر رہا ہوتا ہے تو بھی سب اسے یہی کہتے ہیں یہ خدا ہی کا بندہ ہے.پس عرفان کو بڑھاؤ.جب یہ مقام حاصل ہو جائے تو انسان پھر خدا کو چھوڑ کر کہیں جا نہیں سکتا.بھلا سوچو تو ایک اپنے آقا کو چھوڑ کر چلا جائے.تو کیا اس کا آقا اسے چھوڑ دیتا ہے.اور اس کو تلاش کر کے واپس گھر نہیں لے آتا.اگر کسی کی بلی بھاگ جاتی ہے تو وہ اس کے پیچھے پیچھے بھاگا پھرتا ہے.اور آرام نہیں لیتا.جب تک اسے واپس نہیں لے آتا خواہ واپس لانے میں بلی رضا مند ہو یا نہ ہو.مگر وہ اسے لے آتا ہے.کسی شخص کا ایک طوطا اڑ جائے.تو وہ بھی اس کے لانے کی کوشش کرتا ہے.پر کیا خدا ہی ایسا ہے کہ وہ اپنے بندہ کو جس کے گلے میں اس کی عبودیت کا پٹہ پڑ چکا ہو واپس نہیں کتا اگر
43 لاتا.کیا ایک بندہ کی قیمت بلی اور طوطے جتنی بھی نہیں؟ پس اگر عرفان پیدا ہو جائے تو عبودیت پیدا ہو جاتی ہے اور جب عبودیت پیدا ہو گئی تو ایک انسان مرتد بھی اگر ہونا چاہئے تو نہیں ہو سکتا.عارضی جوش اگر ان تعلقات میں خلل پیدا کر دے اور انسان عارضی جوش سے پیدا شدہ خلل کے سبب جانا بھی چاہتے تو خدا جانے نہیں دیتا.لوگوں کی بھینسیں اور گائیں کھرلیوں سے اسے تڑا کر چلی جاتی ہیں.مگر لوگ انہیں چھوڑ نہیں دیتے.بلکہ پکڑ کے لے آتے ہیں.کیونکہ وہ ان کے مالک ہوتے ہیں.اور کون ہے جو اپنے مال کو یوں جانے دے.پس تم بھی اپنے آپ کو خدا کا مال بناؤ تاکہ اس کے بعد تم بھاگنا چاہو تو بھاگ نہ سکو.یہی عرفان ہے اور یہ عرفان جوں جوں بڑھتا جائے گا عبودیت کا رسہ مضبوطی سے گلے میں پڑتا جائے گا.پس میں پھر کہتا ہوں کہ ہماری جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو خدا تعالی کا مال بنائیں تا وہ خود ان کی حفاظت کرے.ہماری جماعت میں ایسے لوگ بھی ہیں.جن کے لئے بہت سی باتیں ٹھوکر کا باعث ہو جاتی ہیں.مگر میں جانتا ہوں کہ باوجود ٹھوکر کھانے کے وہ جماعت سے الگ نہیں ہو سکتے.مگر ان کے بالمقابل ایسے بھی ہیں.جن کو اگر وہی ٹھوکر لگے تو وہ بھاگ سکتے ہیں.بعض بڑے بڑے آدمیوں کو میں جانتا ہوں کہ اگر انہیں کوئی ابتلا آئے تو وہ چلے جائیں گے مگر ان کے مقابلہ میں بعض ایسے ادنیٰ اونی آدمیوں کو بھی جانتا ہوں کہ وہ نہیں جائیں گے کیونکہ وہ عارف ہو چکے ہیں اور عارف ابتدائی حالت میں غلطیاں بھی کر سکتا ہے لیکن خدا اسے ان غلطیوں کے سبب چھوڑ نہیں دیتا.اور اگر وہ جاتا بھی چاہے تو خدا اس کی گردن پکڑ لیتا ہے کہ جاتا کہاں ہے اب تو تو میرا بندہ ہے.یہ ہے وہ مقام جس کے بعد انسان خطرات سے محفوظ ہو سکتا ہے.اگر ہماری جماعت کے اکثر لوگ اس مقام کو حاصل کر لیں.تو پھر کسی فتنہ و فساد کا ڈر نہیں رہ جاتا.کیونکہ اس مقام پر پہنچ کر پاؤں میں محبت کی بیڑیاں پڑ جاتی ہیں.ہاتھوں میں محبت کی زنجیریں پڑ جاتی ہیں.گلوں میں محبت کے طوق ڈال دئے جاتے ہیں.پس ہماری جماعت کو چاہئے کہ دل سے اس احساس کو جو خدا سے دور کر دے ، دور کر دے.اور اس احساس کو پیدا کرے جو خدا کے قریب کر دیتا ہے اور عرفان کے مقام کو پانے کی کوشش کرے.میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہماری کمزوریوں کو دور فرمائے.اور ہمیں ایمانی کمی اور قدم کے ڈگمگانے سے بچائے.تاہم اس سے دور نہ جاپڑیں اور وہ ہر وقت ہماری مدد کرتا رہے اور ہم کو وہ
44 سب روحانی مدارج کے طریق سمجھائے جو اس نے پہلوں کو بتائے تھے ہماری جماعت میں سے جو کمزور ہیں ان کو بھی ہدایت دے ان میں اور ہم سب میں عرفان پیدا فرمائے.تاکہ اس کی کچی معرفت حاصل ہو.پھر میں یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ وہ لوگ جنہیں سلسلہ میں داخل ہونے کی توفیق نہیں ملی.مگر جن کے لئے آنحضرت ا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسی طرح مبعوث ہوئے جس طرح ہمارے لئے انہیں بھی سلسلہ میں داخل ہونے کی توفیق بخشے.تاکہ خدا کا جلال ظاہر ہو.پھر میں یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ ہماری طرف سے جو بے توجہی اور کو تاہی اس وقت تک ان کے متعلق ہوئی ہے وہ آئندہ نہ ہو اور وہ سب سلسلہ میں داخل ہو کر خدا کا عرفان حاصل کریں تا خدا کا پورا پورا جلال دنیا میں ظاہر ہو.آمین الفضل ۲۹ جنوری ۱۹۲۶ء)
45 5 حضرت مسیح موعود کی بعثت کا خاص مقصد (فرموده ۲۹ جنوری ۶۲۶) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : دین میں ہر ایک وہ شخص جو خدا تعالٰی کی طرف سے الہام پا کر کھڑا ہوتا ہے.اس کا کوئی نہ کوئی خاص مقصد اور کوئی نہ کوئی خاص مشن ہوتا ہے.دنیا میں اکثر سچائیاں ابتدائے آفرینش سے ہی بنی نوع انسان پر ظاہر کر دی گئی تھیں.لیکن باوجود اس کے کہ صداقتیں ابتدا سے ہی ظاہر کی گئی تھیں.انسانی طبیعت چونکہ ایسی واقعہ ہوتی ہے کہ بغیر خاص طور پر کسی امر کے متعلق زور دینے کے اس کی طرف توجہ نہیں کرتی.اس لئے خدا تعالیٰ نے زمانہ کے حالات اور ضروریات کو مد نظر رکھ کر ہر نبی اور مامور کے ذریعہ خاص خاص باتوں پر زور دیا ہے.اس وقت مجھے اس بات کے پیچھے پڑنے کی ضرورت نہیں کہ پچھلے انبیاء کیا کیا مشن لائے.وہ مشہور انبیاء جن کے سپرد خاص خاص کام ہوئے ان کے مشن دنیا پر ظاہر ہیں آج میں اس امر کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دنیا کے لئے کیا خاص مقصد اور مشن لے کر آئے تھے.اس سے میری غرض یہ نہیں ہے کہ میں اس وقت وہ تعلیمات بیان کروں جو پہلے انبیاء دیتے آئے اور جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی دی ہیں.بلکہ یہ غرض ہے کہ ہر نبی جو اپنے زمانہ میں بنی نوع کے اندر خاص خیال پیدا کرتا رہا ہے اور تمام انبیاء اپنے زمانہ کے لوگوں کی حالت دیکھ کر کوئی خاص خیال ان کے اندر جاگزیں کرنا چاہتے تھے ایسا ہی حضرت مسیح موعود نے کون سا خاص خیال دنیا میں پیدا کرنا چاہا ہے.پھر میری غرض اس سے یہ بھی نہیں ہے کہ میں ان بدیوں یا ان نیکیوں کو بیان کروں جن کو دور کرنے یا جن کو پیدا کرنے کے لئے انبیاء آتے رہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
46.نے بھی اپنے زمانہ میں ان بدیوں کو چھوڑنے اور نیکیوں کے کرنے پر زور دیا ہے.مثلا" عقائد میں توحید الہی ہے.ہر نبی نے اس پر زور دیا ہے.لیکن انسان کی دماغی ترقی کے ساتھ ساتھ توحید کا بیان بھی زیادہ واضح اور زیادہ بین ہو تا گیا ہے.جیسا کہ پہلے نبیوں نے اسے بیان کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی بیان کیا ہے.مگر آپ نے ایسے رنگ میں اور اس وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ دوسری امتوں کے انبیاء نے اس طرح بیان نہیں کیا.چنانچہ پچھلے دنوں میں نے اس کے متعلق اپنے بعض خطبات میں کچھ روشنی ڈالی تھی.اسی طرح نیکیوں میں سے خدا تعالیٰ کی محبت ایسی نیکی ہے کہ سب انبیاء اس پر زور دیتے آئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اس پر زور دیا ہے.اور اس زمانہ کی خاص بدیوں میں سے ایک بدی دنیا کو دین پر مقدم کرنا ہے.اس کے خلاف حضرت مسیح موعود نے بہت زور لگایا ہے.میری مراد اس قسم کے عقائد یا اعمال کے متعلق آپ کی کوششوں کا ذکر کرنا نہیں.بلکہ میری مراد دماغی تغیر یعنی دماغ میں ایسا خیال پیدا کرتا ہے.جس کے ماتحت دنیا کے سارے اعمال آ جاتے ہیں.پس اس وقت میری مراد خاص اعمال سے نہیں.خاص اعتقادات سے نہیں بلکہ روح عمل اور عقائد کی روح سے ہے.اس بات کے لئے جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیمات کو دیکھتے ہیں.تو ہمیں دو باتیں نظر آتی ہیں.جن پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خاص طور پر زور دیا ہے.اور جن پر اس رنگ میں روشنی ڈالی ہے.جس رنگ میں آپ سے پہلے نہیں ڈالی گئی.ان میں سے ایک تو امید کا پیغام ہے.مختلف زمانوں میں مختلف حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے انبیاء نے خیالات کی رو پیدا کرنے کی کوشش کی ہے.مگر یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے ہی مقدر تھی کہ آپ نے دنیا میں امید کی رو پیدا کرنی چاہی.امید سے میری مراد وہ طرب اور خوشی نہیں کہ انسان اس حالت کے ماتحت ہر قسم کے افکار سے بچ جاتا ہے.پھر امید سے میری مراد آرزو بھی نہیں.انسان اس کے اثر کے نیچے اعمال میں کمزور ہو جاتا ہے.پھر امید سے میری مراد محض التجا اور دعا بھی نہیں کہ التجا اور دعا محض بے کسی اور بے بسی پر دلالت کرتی ہے.بلکہ امید سے مراد ان بار یک در باریک قوتوں ان نہاں در نہاں طاقتوں اور ان مخفی در مخفی مقدرتوں پر اطلاع پانا ہے.جو انسان کے اندر اس لئے پیدا کی گئی ہیں کہ وہ اس مقصد وحید کو پالے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو جائے.اور امید.سے میری مراد یہ ہے کہ انسان نہایت ہی زبردست طاقتوں بہت وسیع قوتوں اور بے انتہا مقدرتوں کو لے کر پیدا ہوا ہے اور امید سے میری مراد یہ ہے کہ اس کے محدود جسم میں غیر
47 محدود طاقت مخفی ہے.اور امید سے میری مراد یہ ہے کہ جو مقصد وحید انسان کے سامنے ہے اس کے حصول کے لئے گوناگوں اور رنگا رنگ قابلیتیں اس میں پیدا کی گئی ہیں.یہ خیال ہے جو پہلے کسی نبی نے اس زور اس قوت اور اس وضاحت کے ساتھ دنیا میں پیش نہیں کیا.جس زور ، وضاحت اور قوت کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیش کیا ہے.پہلے انبیاء کے وقت کئی قسم کے خوف دلائے گئے.امیدیں دلائی گئی مردہ دلوں کو زندہ کرنے کی کوششیں کی گئیں.وہم میں پڑے ہوئے لوگوں کو حقیقت کی طرف لانے کی کوشش کی گئی.ستوں اور غافلوں کی ہشیار اور چست بنانے کی تدبیریں کی گئیں.اپنی تیزی طبع سے دوسروں کے جذبات کو پامال کرنے والوں کو پیچھے کھینچا گیا.مگر امید کا یہ پہلو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیش کیا کسی نے پیش نہیں کیا.پھر دوسری تعلیم جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دنیا کے سامنے نئے رنگ میں پیش کیا.اور جسے آپ نے اپنی ہر تحریر اور بات کا مغز بنا لیا وہ اصلاح ہے.آپ نے اس امر کو پیش کیا ہے کہ دنیا کی کوئی چیز اصل مقصود نہیں.سب اعمال پوست اور چھلکا ہیں اور ایک قسم کی پوشش اور لباس ہیں.ان تمام پوششوں اور چھلکوں کے درمیان ایک اور مغز ہے اور ان تمام لباسوں کے نیچے ایک اور جسم ہے.اور وہ روح نتیجہ ہے جو اعمال کا پیدا ہوتا ہے.اگر کسی اچھے سے اچھے اور خوبصورت سے خوبصورت کام کے نتیجہ میں بدی اور بد کاری فساد اور جھگڑا پیدا ہوتا ہے تو وہ عمل اچھا نہیں.کیونکہ جس چیز کا روحانی نتیجہ اچھا نہیں نکلتا.وہ اپنی ذات میں اچھی نہیں.اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس امر کو پیش کیا ہے کہ ہمارے تمام اعمال میں اصلاح مد نظر ہونی چاہئے.لیکن اس اصلاح سے مراد وہ سطحی اصلاح نہیں جیسے کسی شاعر نے یہ کہہ دیا ہے.دروغ مصلحت آمیز به از راستی فتنه انگیز کہ مصلحت کے ماتحت جھوٹ بولنا اچھا ہے فتنہ پیدا کرنے والی سچائی ہے.یہ محض شاعرانہ خیال اور سطحی نظر سے دیکھنے کا نتیجہ ہے جس میں صرف اس بات کو دیکھا گیا ہے کہ ہمارے عمل کا عاجل نتیجہ بھی نکلا کرتا ہے اور یہ نہیں دیکھا گیا کہ بعد میں آنے والا بھی اثر ہوتا ہے جو ہمیشہ قائم رہتا ہے.اس خیال کے لوگوں نے اس بات پر تو غور کیا ہے کہ بعض دفعہ سچائی سے پہلے فوری طور پر کوئی فتنہ پیدا ہو جاتا ہے اور جھوٹ سے امن قائم ہو جاتا ہے مگر یہ نہیں دیکھا کہ دنیا کے ہزاروں ہزار لوگ بلکہ دنیا کے تمام لوگ نیتوں کو نہیں دیکھتے.نتیجوں کو دیکھتے ہیں کیونکہ ان میں کسی کی نیت پڑھ لینے
48 کی طاقت نہیں ہوتی.بچے اور دوسرے لوگ جب کسی کو جھوٹ بولتے دیکھیں گے تو انہیں یہ نہیں نظر آئے گا کہ جھوٹ بولنے والے کی نیت کیا ہے بلکہ وہ یہی دیکھیں گے کہ فلاں آدمی جس پر انہیں اعتماد اور بھروسہ ہے وہ جھوٹ بول رہا ہے.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جھوٹ پھیل جائے گا.اور اس طرح اخلاقی ، ملکی اور قومی تباہی آجائے گی.اس میں شبہ نہیں کہ بعض دفعہ سچ بولنے سے فساد پیدا ہو جاتا ہے.اور جھوٹ بولنے سے فساد دب جاتا ہے.مگر اس میں بھی شبہ نہیں کہ آخر کار اس سے دنیا کا امن برباد ہو جاتا ہے.یہ خیال کرنے والوں نے اس بات کو نہیں سوچا اور نہ یہ سوچا ہے کہ راستی کے یہ معنی نہیں کہ جو بات جسے معلوم ہو اسے ضرور بیان کرتا پھرے.راستی اور جھوٹ کے درمیان اور درجہ بھی ہے.اور وہ خموشی ہے.بے شک جھوٹ برا ہے اور بیشک سچائی کبھی فساد کا باعث بھی ہو جاتی ہے.مگر ایک شخص کیوں سچ یا جھوٹ بولے.جب اس کے لئے یہ رستہ کھلا ہو کہ خاموش رہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مراد اصلاح سے یہ نہ تھی کہ انسان بظاہر فتنہ پیدا کرنے والے امور سے بچ جائے.کیونکہ بہت دفعہ ایسا واقعہ ہوتا ہے کہ بعض امور فوری طور پر فتنہ کا موجب ہوتے ہیں لیکن حقیقی نتیجہ ان کا بہت اعلیٰ نکلتا ہے.اس لئے اصلاح سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ تھی کہ انسان کو سب باتوں پر وسیع نظر ڈال کر اور تمام اثرات کو دیکھ کر جو کسی کام سے پیدا ہو سکتے ہیں.خواہ وہ جسمانی ہوں یا روحانی.دینی ہوں یا دنیوی.مخلوق سے تعلق رکھتے ہوں یا خالق سے ان کا موازنہ کرنا چاہئے اور پھر جس کام کے نتیجہ میں انجام کار بہتری ہو وہ اختیار کرنا چاہئے.یہ دو پیغام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایسے دیتے ہیں کہ اگر دنیا ان پیغاموں کی طرف توجہ کرے تو آج تمام تکالیف دور ہو سکتی ہیں.دنیا کی ظلمت کافور ہو سکتی ہے.نور کی شعائیں دنیا کے نہایت تاریک گوشوں تک پہنچ سکتی ہیں.ہماری جماعت کے لوگوں کو یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہئے کہ یہ زمانہ امید اور اصلاح کا زمانہ ہے اور اس زمانہ میں مایوسی کا سر کچلا گیا.کیونکہ مایوسی شیطان ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے پیشگوئی ہے کہ وہ شیطان کا سر کچلے گا.اور شیطان کو عربی میں ابلیس کہتے ہیں.جس کے معنی ہیں مایوس ہونے والا.گویا اس کا مطلب یہ ہے کہ مایوسی کو کچل دیا جائے گا ورنہ یہ معنی نہیں کہ وہ چیز جسے خدا نے پیدا کیا اور جو قیامت تک رہے گی اسے حضرت مسیح موعود کچل
49 دیں گے.ابلیس اس لئے پیدا گیا کہ انسان کو ہوشیار کرے اور ملا مکہ کے مقابلہ میں نیکی سے روکے اب اگر وہ ابلیس کچلا جائے گا تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ ملائکہ بھی مارے جائیں گے.مگر ملا ء مکہ چونکہ مارے نہیں جائیں گے بلکہ قیامت تک رہیں گے اور قیامت کے بعد کے متعلق ہمیں علم نہیں.اس لئے اگر انسان نے خدا تعالیٰ تک پہنچنا ہے.تو ابلیس کا رہنا بھی ضروری ہے.کیونکہ جب کسی کام میں روکیں اور مشکلات نہ ہوں.اس وقت تک اس کام کے کرنے والے کو انعام بھی نہیں مل سکتا.پس اگر ابلیس نہیں تو جنت بھی نہیں.خدا تعالیٰ کے انعامات بھی نہیں.دیکھو بکریوں بھیڑوں گائیوں کے لئے ابلیس نہیں تو ان کے لئے جنت بھی نہیں.انسان کے لئے ابلیس ہے تو انسان ہی کے لئے جنت بھی ہے.اور بغیر خطرناک امتحانوں میں پڑنے کے کوئی انعام کا مستحق نہیں ہو سکتا.پس وہ ابلیس تو رہے گا جو انسان کو ہوشیار کرنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے.کیا حضرت مسیح موعود نے ساری دنیا سے بدی مٹا دی.اگر نہیں اور واقعہ میں نہیں مٹائی اور نہ کلیتہ " مٹ سکتی ہے تو یہ کہاں سے آگئی؟ جب کہ بدی کی تحریک کرنے والا ابلیس مارا گیا.بات یہ ہے کہ ابلیس کے کچلے جانے کی پیشگوئی کا یہ مطلب نہیں کہ حضرت مسیح اس بدروح کو جو بد خیالات پیدا کرتی ہے کچل ڈالے گا اور تمام دنیا سے بدی مٹ جائے گی.بلکہ یہ ہے کہ مسیح موعود امید کا پیغام لے کر آئے گا اور مایوسی کو کچل دے گا.سوائے اس کے کوئی معنی اس پیشگوئی کے نہیں ہو سکتے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک کام یہ بھی تھا کہ امید کا پیغام لائے گا اور مایوسی اور نا امیدی کو مٹا دے گا.اور دنیا میں امید کے خیالات کی رو چلائے گا.اب ہر وہ شخص جو امید کے مقام پر اپنے آپ کو کھڑا کرتا ہے.حضرت مسیح موعود کا ساتھ دے کر ابلیس کا سر کچلتا ہے.اور ہر وہ شخص جو مایوسی اور نا امیدی کو اپنا شعار بناتا ہے اس وجود کو زندہ کرتا ہے جسے مارنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے.اسی طرح ہر ایک وہ شخص جو اپنے اعمال کے وسیع نتائج پر نگاہ نہیں ڈالتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کام میں روکاوٹ ڈالتا ہے.اور ہر وہ شخص جو ہر ایک فعل کے وسیع نتائج پر نظر ڈالتا اور اس بات کا موازنہ کرتا ہے کہ اس سے روحانی اور دنیوی نتیجہ کیا نکلے گا.اور جس کام کا انجام اچھا ہوتا ہے اسے اختیار کرتا ہے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کام میں مدد دیتا ہے.پس میں اپنے تمام دوستوں اور بھائیوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس پیغام کو یاد رکھیں جسے لے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے تھے.اور وہ پیغام ابلیس کا سر کچلنا اور امید در جا کے جذبات پیدا کرنے کا ہے.
50 یاد رکھنا چاہئے کہ امید خوف اور خشیت کے مخالف نہیں بلکہ اس کی تائید کرتی ہے.کوئی امید بغیر خوف کے نہیں ہو سکتی.کیونکہ امید کہتے ہی اسے ہیں کہ جب غالب طور پر خیال ہو کہ ایسا ہو جائے گا.انسان سمجھتا ہے سامان موجود ہیں مگر ممکن ہے کوئی روک پیدا ہو جائے.تو امید کا لفظ اپنے اندر خوف اور خشیت رکھتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے امید کے مقام پر جماعت کو کھڑا کیا اور مایوسی سے نکالنے کی کوشش کی ہے.بعض لوگوں کے لئے یہ زمانہ مایوسی اور ناامیدی کا زمانہ ہے.اور اگر اس قوم کے لئے یہ زمانہ مایوسی کا زمانہ نہ ہوتا جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سب سے پہلے مبعوث ہوئے تو پھر آپ کے متعلق یہ پیشگوئی بھی نہ ہوتی کہ آپ ابلیس کا سر کچلیں گے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے.تو خود مسلمان کہہ رہے تھے کہ سو سال کے اندر اندر عیسائیت اسلام کو کھا جائے گی.وہ اسلام کی طرف سے عیسائیت کے آگے معذرتیں شائع کر رہے تھے.اور اسلام کو عیسائیت کے قالب میں ڈھال رہے تھے.مگر آج دیکھو کیسی کایا پلٹ گئی ہے.خواہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ان لوگوں نے مانا یا نہ مانا.مگر وہ امید کی بارش جو آپ نے دنیا میں برسائی اس سے متاثر ہوئے بغیر وہ بھی نہ رہے.اور وہ لوگ جنھوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا انکار کیا.وہ بھی امید کے پانی سے کچھ نہ کچھ سیراب ہوئے بلکہ وہ یورپین اور مغربی قومیں جو ایک طرف تو غلط قسم کے خیالات میں مبتلا اور دوسری طرف سخت مایوسی میں گرفتار ہونے کی وجہ سے اخروی زندگی سے انکار کر رہی تھیں.ان میں ایسے لوگ پیدا ہو گئے ہیں جو لکھ رہے ہیں کہ اخروی زندگی بھی ہے.پس امید کی جھلک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نہ صرف مسلمانوں کے دلوں میں پیدا کر دی بلکہ یورپ میں بھی پیدا کر دی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ نبی کا یہ کام نہیں کہ ہر جگہ پہنچے بلکہ خدا تعالیٰ لوگوں کے قلوب میں فرشتوں کے ذریعہ تحریک کراتا ہے اور لوگ اس رو سے متاثر ہوتے ہیں جو نبی پیدا کرتا ہے.پس دنیا میں جو تبدیلی غیر معمولی ہوتی ہے وہ اسی کی طرف سے ہوتی ہے.کیونکہ خدا تعالٰی اس کی مدد فرشتوں کے ذریعہ کرتا ہے.پس گو ان علاقوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نہیں گئے.اور ابھی تک ہمارے مبلغ بھی نہیں پہنچے.لیکن وہاں جو تبدیلی ہوئی ہے وہ وہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پیدا کرنا چاہتے تھے.قرآن کریم میں بھی یہ پیشگوئی ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں تمام قوموں میں امنگ پیدا ہو گی کہ ہم سب کو فتح کرلیں.ا یہ بھی امید ہی ہے اور اب دیکھ لو ہر قوم میں اس زمانہ میں کس طرح یہ پیدا ہو
51 رہی ہے.وہ ہندو جو صدیوں سے مفتوح چلے آرہے ہیں.اور جو کسی کو اپنے مذہب میں داخل ہی نہ کرتے تھے وہ بھی کہتے ہیں کہ دنیا میں غلبہ حاصل کرنے کے لئے دوسروں کو اپنے اندر داخل کرنا چاہئے اور وہ کر رہے ہیں.اسی طرح یہودی بھی جو کسی کو اپنے اندر داخل نہ کرتے تھے وہ بھی غلبہ حاصل کرنے کے لئے اپنی تعداد بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں.ان سب قوموں کی مثال ایسی ہے کہ جب بارش ہوتی ہے تو جہاں کھمبیں نکلتی ہیں وہاں بدبودار بوٹیاں بھی نکل آتی ہیں.چونکہ وہ امید کا پانی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ آسمان سے برسا وہ دوسروں پر بھی پڑا اس لئے انہوں نے بھی امید اپنے دل میں پیدا کر لی.مگر یہ ہماری جماعت کے لئے افسوس اور رنج کی بات ہوگی کہ وہ قوم جس کے لئے امید اتاری گئی اگر وہ اس سے محروم رہے اور دوسرے فائدہ اٹھا لیں.اگر بارش سے زہریلی ہوئی اگ سکتی ہے اور اگتی ہے تو کیا شیریں پھل کا فرض نہیں ہے کہ وہ بھی اس بارش سے فائدہ اٹھائے اور ترقی کرے.پس میں اپنی تمام جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے دل میں امید پیدا کرو اور مایوسی کو چھوڑ دو کیونکہ جو شخص مایوسی کا ساتھ دیتا ہے وہ حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام کے ساتھ نہیں رہ سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ اہے جس کے قلب میں فوارہ کی طرح امید پھوٹتی ہے.اور جسے کوئی بند نہ کر سکتا ہو.میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالٰی ہماری جماعت کے لوگوں میں کچی امید پیدا کرے اور ناامیدی جو تمام ہلاکتوں اور تباہیوں کی جڑ ہے اسے نکال دے.آمین وہی رہ سکتا.الفضل ۵ فروری ۱۹۲۶ء)
52 6 انبیاء کی جماعت میں مختلف استعداد کے لوگ (فرموده ۵ فروری ۱۹۲۶ء) تشهد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : دنیا میں کسی جنس کی بھی تمام چیزیں یکساں نہیں ہوتیں.کوئی چیز اپنی جنس کی خوبی نمایاں طور پر دکھانے والی ہوتی ہے اور کوئی کم طور پر دکھانے والی.کوئی اس جنس کی تمام خوبیاں اور تمام صفات اپنے اندر رکھتی ہے کوئی بہت کم اور کوئی درمیانہ انداز میں.حتی کہ تمام کے تمام انسان بھی یکساں نہیں ہوتے.نہ ہی سارے انسان فرشتہ ہوتے ہیں اور نہ ہی شیطان کچھ فرشتہ خصلت ہوتے ہیں کچھ شیطان صفت اور کچھ درمیانی حالت والے ہوتے ہیں.اسی طرح کوئی عمدہ سے عمدہ پھل لے لیں اور اگر یہ چاہیں کہ سارے کے سارے یکساں ہوں تو یہ مشکل ہے.سارے کے سارے پھل کسی جنس کے بھی برابر نہیں ہو سکتے ان میں سے کوئی تو اپنی تمام خوبیاں اپنے اندر رکھتے ہیں اور کوئی کم.آم ہی کو لے لو بعض ان میں سے نہایت اعلیٰ درجے کے ہوتے ہیں اور بعض ادنی درجے کے پھر ایسے بھی ہوتے ہیں جو درمیانی ہوتے ہیں.پھر جو ادنی درجے کے ہوتے ہیں ان میں سے بعض ایسے ہوتے ہیں جو اتنے خراب تو نہیں ہوتے کہ انسان کھا ہی نہ سکے لیکن اتنے اچھے بھی نہیں ہوتے کہ انسان ان کو ہی پسند کرے.پس کسی چیز کا فائدہ اگر دیکھنا ہو.تو اس میں سے جو اعلیٰ ہو اس سے دیکھا جا سکتا ہے.ایک دوائی کے متعلق ڈاکٹر بحث کرتے ہیں مگر وہ اس کے متعلق بحث کرتے ہوئے یہ نہیں کہتے کہ فلاں فلاں کو یہ دوائی دی مگر اس نے فائدہ نہ دیا.بلکہ وہ اس پر بحث کرتے ہیں کہ فلاں فلاں کو دی گئی تو اس نے یہ یہ عظیم الشان فائدے دکھائے اور جب کسی دوائی سے فائدہ نہیں ہوتا تو وہ کہتے ہیں دوائی نے اثر نہ کیا.نہ یہ کہ دوائی میں اثر ہی نہیں.پس اگر اس دوائی سے مرض بڑھ جاتی ہے تو کہتے
53 ہیں دوائی کا اثر نہیں ہوا.اور اگر اس نے آہستہ آہستہ مرض کو روک دیا تو سمجھا جاتا ہے اس نے اثر کیا.پھر بعض دوائیں فوری اثر کرتی ہیں اور انسان حیرت میں پڑ جاتا ہے کہ آنا فانا کس طرح صحت ہو گئی.پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جہاں دوائی نے اثر نہ کیا وہاں سمجھا جا سکتا ہے.کہ مریض ہی کی حالت اس دوائی کے لائق نہ تھی.یا طبیب نے ہی غلط نسخہ تجویز کیا ہو.یا اگر طبیب نے صحیح نسخہ تجویز کیا ہو تو تیمار داروں نے ہی احتیاط نہ کی ہو.لیکن یہ بات بالکل درست ہے کہ جہاں غیر معمولی تغیر پیدا ہو وہ ضرور دوائی کا اثر ہوتا ہے.اسی معیار پر انبیاء کے کام کو بھی دیکھا جاتا ہے.اگر اعلیٰ نمونوں کو چھوڑ کر انبیاء کی جماعت میں سے صرف یہی دیکھیں کہ فلاں میں کمزوری ہے.فلاں میں نقص ہے فلاں میں عیب ہے تو کسی نبی کی بھی نبوت ثابت نہیں ہو سکتی.کوئی نبی ایسا نہیں گذرا جس کی امت میں کمزور آدمی نہ ہوئے ہوں.یا جس کی امت میں نقص رکھنے والے اشخاص نہ پائے گئے ہوں.نبی کی امت انتخاب کے ذریعہ نہیں بنائی جاتی کہ جو لوگ اچھے اچھے ہوں انہیں منتخب کر لیا جائے.اس کی مثال تو ہسپتال کی طرح ہے.جہاں مختلف مرضوں والے آتے ہیں اور شفا پاتے ہیں.جس طرح ایک ڈاکٹر ہسپتال میں ایک مریض کی صحت کے لئے سعی کرتا ہے اسی طرح ایک نبی کا کام ہے کہ وہ اپنی جماعت کی کمزوریوں اور نقصوں کی اصلاح کی کوشش کرے.نبی تو اس شخص کی بھی اصلاح کی کوشش کرے گا جو کمزوریوں کی انتہا کو پہنچ چکا ہے.اور اسے چھوڑ نہیں دیتا.جس طرح کہ ڈاکٹر اگر ایک مرتے ہوئے مریض کے پاس بھی بلایا جاتا ہے تو بھی نسخہ تجویز کرتا ہے اور یہ نہیں کہتا کہ اب علاج نہ کراؤ.اعلیٰ ڈاکٹر تو ایسے نازک وقت میں بھی دوائی تجویز کرنے سے انکار نہیں کرتا.لیکن بعض نادان ایسے ہوتے ہیں جیسا کہ آج کل بھی بعض لوگ ہیں کہ بعض ان مریضوں کو جو سخت بیمار ہوتے ہیں.اور جن کی مرض لمبی چلی جاتی ہے اس خیال سے کہ بچنا تو ہے نہیں آج نہ مرا تو کل مرے گا بیمار کو خود ہی مار ڈالتے ہیں.لیکن عقلمند لوگ ایسا نہیں کرتے.بلکہ وہ اس کی مخالفت کرتے ہیں.کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ بعض دفعہ ایسے مریض تندرست ہو جاتے ہیں.جن کے بچنے کی قطعا " توقع نہیں ہوتی.چنانچہ بیسیوں ایسے مریض دیکھے گئے ہیں کہ وہ لا علاج قرار دیئے گئے.مگر ان کو صحت حاصل ہو گئی.تھوڑے ہی دن ہوئے ہمارے ایک ڈاکٹر نے اسی قسم کا ایک واقعہ سنایا کہ ایک دفعہ ایک سل
54 کی مریضہ میرے پاس آئی.اس کی حالت اس قدر خراب تھی کہ میں نے سمجھا یہ بچ نہیں سکتی ضرور مر جائے گی.چونکہ اپنے پیشے کے لحاظ سے مریض کو جواب نہیں دیا جا سکتا.اس لئے اس کی تسلی کے لئے کچھ نہ کچھ دوائی دینی پڑتی ہے.میں نے سکاٹس ؛ مشن اور آئیڈو فارم ملا کر اسے دے دیا.اور اس کے ساتھ والوں کو کہہ دیا کہ یہ اسے کھلایا کرو.وہ اسے چارپائی پر اٹھا کر لائے تھے.چند ماہ کے بعد ایک عورت آئی جو بالکل تندرست تھی وہ اپنے ساتھ کچھ پھل اور کچھ اور چیزیں لائی اور مجھے دینے لگی.میں نے پوچھا یہ کیسے ہیں.ساتھ کے آدمی کہنے لگے.ڈاکٹر صاحب پہچانتے ہو یہ کون عورت ہے.جب میں نے کہا نہیں.تو انہوں نے بتایا یہ وہی عورت ہے جسے چار پائی پر اٹھا کر لائے تھے اور آپ نے نسخہ دیا تھا اب تندرست ہو گئی اور آپ کی خدمت کرنا چاہتی ہے.تو بسا اوقات ڈاکٹر بھی ایک مریض کے متعلق خیال کر لیتے ہیں کہ یہ مرجائے گا.مگر وہ بعد ازاں صحت یاب ہو جاتا ہے.جب دنیا میں ایسے نمونے نظر آتے ہیں کہ ایسا مریض جس کے متعلق ہر ایک سمجھتا ہے کہ مر جائے گا بچ رہتا ہے.تو کیونکر عقل اجازت دے سکتی ہے کہ اسے زہر دے دیا جائے اور اسے مار دیا جائے.اور پھر ان روحانی مریضوں کے متعلق بھی یہ کہہ دیا جائے کہ ان کی اصلاح نہ ہوگی.حالانکہ وہ علاج کے لئے ایک نبی کے پاس آتے ہیں.ایک شخص کی لات میں کچھ خرابی واقع ہو گئی.اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو لکھا کہ میں نے ہر چند علاج کیا کہ آرام آجائے مگر نہ آیا.اب ڈاکٹر کہتے ہیں لات کٹوا ڈالو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اپنی طرف سے پوری کوشش کرنی چاہئے کہ بچ سکے اگر ڈاکٹروں سے فائدہ نہیں ہوا تو اب کچھ دیر کسی نائی سے جو جراحی کا کام کرتا ہو علاج کرا کر دیکھیں شائد اس سے ہی فائدہ ہو جائے.چھ سات ماہ کے بعد اس شخص نے لکھا کہ آپ کے مشورہ سے یہ فائدہ ہوا کہ لات کٹنے سے بچ گئی اور اب درست ہو گئی ہے.اس میں کچھ شک نہیں کہ کبھی ایسی بھی ضرورت آپڑتی ہے کہ کوئی عضو کاٹ دیا جائے اور چونکہ زندگی کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا.اس لئے اگر کانا پڑ جائے تو حرج بھی نہیں ، کیونکہ ایک عضو کے بالمقابل ایک جان کی بہت قیمت ہے.اس لئے اس جان کے بچانے کے لئے بعض دفعہ عضو کاٹ دیا جا سکتا ہے.میری غرض اس سے یہ ہے کہ عظمند ڈاکٹر بھی انتہائی حالت میں تدبیر نہیں چھوڑتا.اگر وہ موت کے منہ سے نہیں بچا سکتا تو تکلیف سے تو بچانے کی کوشش کرتا ہے.انبیاء کی جماعت کا بھی یہی حال ہے.ہر قسم کے لوگ اس میں آتے ہیں.بعض سچائی کے لئے آتے ہیں.بعض دنیاوی
55 اغراض کے لئے آتے ہیں.بعض ایسے بھی آتے ہیں کہ ان کا سارا خاندان نبی کی جماعت میں داخل ہو گیا ہے.اب وہ اکیلے رہ گئے ہیں کہتے ہیں چلو ہم بھی ان میں شامل ہو جائیں.بعض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کے دوست ادھر آجاتے ہیں اور وہ بھی دوستوں سے جدا نہ رہنے کی خاطر ان کے ساتھ مل جاتے ہیں.مثلا اگر کوئی عورت ہے اور اس کا خاوند نبی کی جماعت میں داخل ہو گیا ہے تو وہ یونہی اس میں شامل ہو جاتی ہے.غرض بیسیوں لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بغیر سمجھے داخل ہو جاتے ہیں اور بیسیوں ایسے ہوتے ہیں جو سمجھ کر داخل ہوتے ہیں.لیکن ان میں بھی ہر ایک کی سمجھے یکساں اور برابر نہیں ہوتی.پھر بیسیوں ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے اندر شقاوت ہوتی ہے.اس لئے ان کے اندر کوئی تغیر پیدا نہیں ہوتا.پھر ایسے بھی ہوتے ہیں.جن کے اندر سعادت ہوتی ہے اور ان میں عظیم الشان تغیر پیدا ہو جاتا ہے.تو کئی قسم کے لوگ ہوتے ہیں جو نبیوں کی جماعتوں میں داخل ہوتے ہیں اور وہ ایسے ہی ہوتے ہیں.جیسے ہسپتال میں داخل ہوتے ہیں.پھر ہسپتال میں بھی جو لوگ آتے ہیں.ان میں سے بھی بعض ایسے ہوتے ہیں کہ بظاہر تو وہ علاج کراتے ہیں مگر دوائی جو ان کو دی جاتی ہے.وہ پیتے نہیں.ایسے بیماروں کو جب دوائی دی جاتی ہے تو وہ بجائے پینے کے پھینک دیتے ہیں.پس مریض جو ہسپتال میں داخل ہوتے ہیں.بعض شفا پا جاتے ہیں اور بعض فی الواقع لا علاج ہوتے ہیں مگر ہسپتال میں آنے سے کم از کم اتنا فائدہ ضرور ہو جاتا ہے کہ ان کی مرض ترقی پانے سے رک جاتی ہے.یہی حال ایک نبی کی جماعت کا ہوتا ہے.جو لوگ اس میں داخل ہوتے ہیں.ان میں سے بعض میں نقائص اور کمزوریاں تو ہوتی ہیں.لیکن ان کو اس سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ وہ تباہ ہونے سے بچ جاتے ہیں.گو بیماری کے مقابلہ میں صحت پیدا نہیں ہوتی لیکن بیماری بڑھتی بھی نہیں.پس اگر بظاہر کوئی کمزور نظر آئے.تو وہ بھی کئی خوبیاں رکھتا ہے.پھر اچھے لوگوں میں سے بعض اعلیٰ تغیر پیدا کر لیتے ہیں اور بعض اونی.پھر بعض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اخلاص کے ساتھ آتے ہیں مگر داخل ہو کر پھر رہ جاتے ہیں.ان کے علاوہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو غیر المغضوب عليهم ولا الضالین ہوتے ہیں.وہ یا تو پوری صحت پالیتے ہیں اور پورا پورا تغیر ان میں پیدا ہو جاتا ہے یا اگر پوری نہیں تو نسبتا ان کو صحت ہو جاتی ہے.اور کسی حد تک ان میں تغیر پیدا ہو جاتا ہے.ایسے لوگ انعمت علیھم کے ماتحت ہوتے ہیں.تم یہ کہہ سکتے ہو کہ وہ جنہوں نے تھوڑی صحت پائی پوری صحت پانے والوں کی طرح نہیں ہو سکتے.لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کو صحت ہوئی نہیں.صحت تو ضرور ہوئی مگر ابھی پوری نہیں تو ایسے
56 لوگ ضرور ا نعمت علیھم کے ماتحت ہیں.ہاں ان کے سوا جو بعض اغراض کے ماتحت کسی نبی کے سلسلے میں داخل ہوئے یا داخل ہو کر گر گئے.وہ سب انعمت علیھم کے گروہ کے سوا ہیں.تو نبیوں کا کام ہسپتال کی طرح دیکھا جاتا ہے.جس میں ہر قسم کی مرض والے ہوتے ہیں.اس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ ڈاکٹر کام کس طرح کرتا ہے.اور اس کے ہاتھ سے کس قدر مریض اچھے ہوتے ہیں.مگر بعض نادان ایسے ہوتے ہیں کہ وہ ان لوگوں کو دیکھتے ہیں جو ابھی اچھے نہیں ہوئے اور زیر علاج ہوتے ہیں یا جو دوائی ہی نہیں پیتے.بعض لوگ مغضوب علیھم ولا الضالین سے انبیاء کا کام دیکھتے ہیں.حالانکہ دیکھنا انعمت علیھم سے چاہئے.ایسے لوگ آنحضرت ﷺ کے وقت بھی تھے.جو ان کو تو نہیں دیکھتے تھے.جو آنحضرت ﷺ کی تعلیم، تربیت اور فیضان سے صحت پاچکے تھے.بلکہ ان کو دیکھتے تھے.جو نئے نئے آپ کے شفا خانہ میں آتے یا ابھی زیر تربیت ہوتے یا اپنے باطنی نقص کی وجہ سے اصلاح نہ پکڑتے.یا اگر اصلاح پکڑتے تو کمزور ہوتے.ایسے لوگ مثال کے طور پر ابی ابن سلول کو پیش کیا کرتے.اور کہتے دیکھو یہ نمونہ ہے مسلمانوں کا اور جب ان کو کسی سے کوئی معاملہ پیش آجائے تو جھٹ کہہ دیتے یہ ویسا ہی ہے جیسے فلاں شخص.مگر کوئی ان سے پوچھے کہ اس ایک شخص سے ساری جماعت کا کیونکر اندازہ ہو گیا.اگر غور سے دیکھا جائے تو دنیا میں کسی کے جسم میں کامل صحت نہیں پائی جاتی.کوئی کسی بیماری میں مبتلا ہے اور کوئی کسی میں.ہاں کسی میں مرض نمایاں طور پر ظاہر ہو چکی ہے اور کسی میں ابھی ظاہر تو نہیں ہوئی مگر ہے ضرور اور اسے تندرست ہی کہا جاتا ہے اور اگر ڈاکٹر کے پاس لے جایا جائے تو وہ بھی یہ کہہ دیتا ہے کہ کچھ نہیں معمولی بات ہے.لیکن حقیقت یہ ہوتی ہے کہ ہوتا وہ بیمار ہے.پس جب باوجود اس کے کہ ایک شخص اپنے جسم میں بیماری رکھتا ہے اسے بیمار نہیں کہا جاتا تو کیا وجہ ہے کہ صرف ایک عیب کی وجہ سے کوئی شخص بدکاروں میں داخل سمجھا جائے.دیکھو اگر کسی کے اعضائے رئیسہ تندرست ہوں لیکن کوئی خفیف سی بیماری اسے لگ جائے جو نمایاں طور پر ظاہر نہ ہو تو تم اسے تندرست ہی کہتے ہو بیمار نہیں کہتے پھر کوئی وجہ نہیں کہ اگر کسی وقت کسی سے کوئی کمزوری ظاہر ہو تو بدکاروں میں شمار کیا جائے.یاد رکھو جس طرح وہ باوجود بیمار ہونے کے تندرست کہلاتا ہے اسی طرح وہ روحانی طور پر بھی تندرست ہی کہلائے گا.کیا ہوا اگر کسی وقت اس سے کوئی کمزوری ظاہر ہو گئی.
57 اگر کسی جگہ ہزار آدمی بیٹھا ہو اور ایک ایک کو پوچھنا شروع کریں تو دس یا بیس یا زیادہ سے زیادہ پچاس یا سو آدمی ایسے ملیں گے.جو اپنے آپ کو تندرست کہیں گے.اور ان میں سے بھی اگر ڈاکٹری طور پر دیکھا جائے.تو کسی کے سر میں کوئی بیماری ہو گی.کسی کی آنکھ میں کوئی نقص ہوگا.کسی کی ناک میں کوئی خرابی ہوگی.کسی کے سینے میں کوئی تکلیف ہوگی.لیکن باوجود اس کے اس مجمع کو بیماروں کا مجمع نہیں کہا جاتا بلکہ ان کو تندرست ہی قرار دیا جاتا ہے حالانکہ ان کے اندر عیب ہوتے ہیں.پھر یہ عجیب نادانی ہے کہ اگر کسی قوم کے کسی فرد سے کوئی کمزوری ظاہر ہو.تو اس کے متعلق یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ ہے ہی برا اور پھر اس سے آگے بڑھ کر ساری قوم پر الزام دے دیا جاتا ہے کہ یہ ساری قوم ہی بری ہے.لیکن یہ ایسی بات ہے کہ اگر کوئی شخص ہسپتال میں جائے اور وہاں مریضوں کو دیکھ کر یہ کہہ دے کہ یہ سارا ملک ہی بیمار ہے.یا اگر دو آدمی کسی جگہ کھڑے ہوں.ان میں سے ایک کسی شخص کو دور سے پہچان کر کہہ دے کہ یہ فلاں آدمی ہے مگر دوسرا نہ پہچان سکے تو اس پر کہہ دیا جائے اس کو تو نظر ہی نہیں آتا.اور پھر کہہ دیا جائے.یہ سارا ملک ہی اندھوں کا ہے.نادان اسی طرح انبیاء کی جماعت کے متعلق کہا کرتے ہیں اور یہ کچھ مخالف لوگوں پر ہی منحصر نہیں.بعض اپنے بھی ایسے ہوتے ہیں کہ اگر کسی میں نقص دیکھتے ہیں تو جھٹ کہہ دیتے ہیں.جماعت بگڑ گئی.اس طرح جماعت کی کمزوریوں کو ظاہر کیا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ قوم بگڑ گئی.حالانکہ اگر انہوں نے کوئی نقص دیکھا تو ایک شخص میں نہ کہ ساری قوم میں مگر وہ ایک ہی شخص سے تمام قوم کے متعلق رائے زنی کرنی شروع کر دیتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کے متعلق بھی بعض لوگوں نے یہی دھوکہ کھایا ہے کہ بعض کمزوروں کی کمزوریوں یا اچھوں کی کمزرویوں کو دیکھ کر یہ رائے قائم کرلی کہ یہ ساری قوم ایسی ہے.انگلستان میں اگر کوئی جائے.تو وہاں بھی کچھ لوگ فاقہ کرتے نظر آئیں گے.حالانکہ وہ دولتمند ملک ہے اب کیا ایسے لوگ جو اس قسم کی غلط رائیں قائم کیا کرتے ہیں ان فاقہ کرنے والوں کو دیکھ کر یہ کہہ دیں گے کہ سارا ملک بھوکا مر رہا ہے اور بالکل غریب ہے حالانکہ اس ملک کے دولتمند اور امیر ہونے میں کسی کو شک نہیں.ایک دفعہ انگلستان سے آنے والے ایک شخص نے سنایا کہ میں ایک محلہ میں سے گذر رہا تھا میں نے دیکھا کہ چند لڑکے کوڑا کرکٹ میں سے روٹی کے ٹکڑے نکال نکال کر کھا رہے ہیں.اس بات کو دیکھ کر اگر کوئی یہ کہے کہ اس ملک کے باشندے کوڑے کرکٹ سے چن کر روٹی کھاتے ہیں تو یہ
58 اس کی نادانی ہوگی.کیونکہ اس ملک کی عام حالت امیرانہ ہے اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ غریب ملک ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت اس عام قاعدہ سے خالی نہیں ہو سکتی.اور نہ ہی حضرت موسی یا حضرت عیسی کی جماعتیں اس سے خالی تھیں.کمزور بھی ان میں پائے جاتے تھے اور ایسے بھی ان میں پائے جاتے تھے جو غلطیاں کرتے تھے.لیکن ان کو دیکھ کر یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ ساری جماعت ہی ایسی ہے.ایسے لوگ تو بیمار ہوتے ہیں اور طبیب کا یہ فرض ہوتا ہے کہ ان کا علاج کرے.اگر بالکل اچھے ہو گئے تو ہو گئے.ورنہ ان کی بیماری بڑھنے سے تو رک جائے گی.پس نبیوں کا کام یہ ہے کہ جو بھی ان کی جماعت میں آئے.اس کا علاج کریں اور یہ ظاہر ہے کہ ان آنے والوں میں سے ہر ایک علیحدہ علیحدہ امراض میں مبتلا ہوتا ہے.یہی حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کا ہے.اس میں کثرت سے لوگ آئے اور اس کثرت سے آئے کہ دشمن بھی حیران ہیں اور ان آنے والوں میں سے ہر ایک کسی نہ کسی مرض میں مبتلا تھا.ان میں سے اگر کسی کا کسی کے ساتھ جھگڑا پیدا ہو جائے.تو وہ جھٹ اس معالمہ کی بناء پر کہہ دے گا کہ ساری جماعت ہی ایسی ہے.ایسے لوگ قوم کی قوم کو ہی برا کہنا شروع کر دیتے ہیں مگر یہ ان کی غلطی ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جماعت ایسی نہیں.جماعت کی عام رو سے تو دشمن بھی کہتے ہیں کہ یہ تقویٰ اور نیکی میں سب جماعتوں سے بڑھی ہوئی ہے.ہم ہر روز مقدمے سنتے ہیں.بعض دفعہ دیکھتے ہیں کہ ایک شخص نا واجب طور پر غلطی کر رہا ہوتا ہے لیکن وہ جانتا ہے کہ میں مظلوم ہوں.اس کی آنکھیں نم دار ہوتی ہیں.اس کا چہرہ زرد ہوتا ہے.اس کا جسم کانپ رہا ہوتا ہے وہ حیران ہو کر لوگوں کا منہ دیکھتا ہے کہ وہ کیوں اس کو مظلوم نہیں سمجھتے.پھر بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض دفعہ ایک شخص ظالم کو مظلوم سمجھ لیتا ہے تو ایسے لوگ بعض وقت ایک کے قصور سے ساری جماعت کو قصوروار سمجھنے لگتے ہیں.کمزور تو کمزور بعض دفعہ نیک آدمی بھی غلطی کر بیٹھتا ہے لیکن ایک شخص اپنے ذاتی غصہ کی وجہ سے سمجھتا ہے ساری جماعت ہی ایسی ہے.پھر اس قسم کے لوگ جہاں بیٹھتے ہیں یہی کہتے ہیں.اجی جماعت خراب ہو گئی.لیکن جب ان سے یہ پوچھا جائے کہ جماعت سے آپ کی مراد کیا ہے تو چار پانچ آدمی نکل آتے ہیں اور وہ بھی ایسے کہ جن کے ساتھ ان کا کوئی معالمہ ہوتا ہے.ان کی مثال بادشاہ کے نائی کی طرح ہے کہتے ہیں کہ کسی بادشاہ کا ایک نائی تھا بادشاہ نے خوش ہو
59 کر اسے پانچ سو اشرفی کی تحصیلی دی.وہ اس تھیلی کو ہر وقت اٹھائے پھرتا.چونکہ عام طور پر امراء اور رؤساء کی حجامتیں بنایا کرتا تھا.اس لئے اسے یہ فکر نہ تھا کہ کوئی تھیلی چرا لے گا یا چھین لے گا.وہ اطمینان سے اسے اپنے ساتھ لئے پھرتا.اور ہر مجلس میں جا کر اچھالتا.امراء بھی اس کا تمسخر اڑاتے اس سے پوچھتے سناؤ میاں حجام شہر کا کیا حال ہے.وہ جواب دیتا.اچھا ہے سارا شہر امیر ہے.کوئی کم بخت بھی ایسا نہیں.جس کے پاس کم از کم پانچ سو اشرفی کی تھیلی نہ ہو اور یہ کہہ کر پھر وہ اپنی تھیلی اچھالتا.ایک دفعہ کسی نے وہ تھیلی کسی طرح اٹھا کر کہیں رکھ لی.نائی کو جب پتہ لگا تو بڑا متفکر ہوا.پھر جب وہ حجامت بنانے آیا تو جو واقف راز تھے.انہوں نے پوچھا کہو میاں حجام شہر کا کیا حال ہے کہنے لگا بہت برا حال ہے نحوست برستی ہے کنگال ہے بھوکا مرتا ہے انہوں نے کہا کہ شہر کو بھوکا نہ مارو اور اپنی تھیلی لے لو ہماری جماعت میں کثیر آدمیوں نے تبدیلی پیدا کی ہے اور جس طرح آنحضرت ایت کے زمانہ میں لوگوں نے تبدیلی پیدا کی.بعینہ اسی طرح بعض افراد جماعت اپنے نفس کی اصلاح کر رہے ہیں.پھر کیا ایسے لوگ فاسق فاجر اور بد اعمال کیے جائیں؟ جو شخص ہر وقت شیطان کی رسیوں کو چاقو نکال کر کاٹ رہا ہو.کیا وہ بدکار کہلائے گا یا ولی اللہ ؟ وہ ہزار دلدل میں پھنسا ہوا ہو اگر نکلنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ گندہ نہیں کہلائے گا ایسا آدمی ظاہری گند سے گندہ نہیں کہلائے گا بلکہ باطنی گند سے گندہ کہلائے گا.کیونکہ در حقیقت گندہ کر دینے والا گند باطنی گند ہے اور ایسا آدمی جب اس میں سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہو تو اسے گندہ نہیں کہا جا سکتا.یہ اس پاک تبدیلی کا نتیجہ ہے کہ جب کوئی کام کا وقت ہوتا ہے.تو ان میں ایسا احساس پیدا ہو جاتا ہے جیسے کسی نے جگا دیا.ان لوگوں کو کثرت سے مالی ، جانی اور عقلی قربانیاں کرنی پڑتی ہیں اور اگر ان کی یہ قربانیاں جمع کر کے دنیا کے سامنے رکھی جائیں تو دنیا کی آنکھیں کھل جائیں کہ کس طرح ایک چھوٹی سی جماعت دوسروں کے لئے قربانیاں کر رہی ہے.قرآن شریف اور احادیث میں بتایا گیا ہے کہ آنحضرت اللہ کی بعثت ثانیہ مسیح موعود کے ذریعہ ہوگی.کیونکہ وہی کام جو رسول کریم ﷺ کے زمانے میں کئے گئے اس زمانہ میں نئے رنگ میں کئے جانے تھے.آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں اس قدر فسق و فجور نہیں تھا جس قدر اب ہے.شیطان کے خبائل کم تھے لیکن اس زمانہ میں یہ سب باتیں پورے زور کے ساتھ دنیا میں پیدا ہو گئی ہیں.اس وقت جس قوم سے مقابلہ تھا وہ کسی بات کی دعویدار نہ تھی مگر آج جس قوم سے مقابلہ ہے
60 اور جس کی اصلاح کرنی ہے وہ کہتے ہیں ہم آسمان پر بیٹھے ہیں ہمیں کون نیچے لا سکتا ہے.وہ اپنے آپ کو عام انسانوں سے بالا سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے تمدن کو کون نیچے لا سکتا ہے.پھر وہ یہ خیال کئے بیٹھے ہیں کہ ہم میں سے کوئی پیدا ہو گا.جو سپرمین (Super Man) ہو گا.وہ اپنے آپ کو عام انسان بھی نہیں سمجھتے.پس اس زمانہ میں ایسے لوگوں سے مقابلہ ہے.اس لئے اگر اس طرح کے نتائج نہیں نکل رہے.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت نکلے.تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مفاسد اور برائیوں کا مقابلہ زیادہ سخت ہے.اس وقت بدیوں کا منبع مغرب ہے اور طبعی کمزوریاں مغربی مظالم سے پیدا ہو رہی ہیں.جب تک ان کو کاٹا نہ جائے یہ رک نہیں سکتیں اور اگر تمدنی اور علمی اور فلسفی غلطیاں اور بدیاں پیدا ہو رہی ہیں.تو وہ بھی مغربی مظالم سے ہی پیدا ہو رہی ہیں.غرض اس وقت ایسے دشمن سے مقابلہ ہے.جو ہر لحاظ سے زبردست ہے اور شروع شروع میں اس کا مقابلہ آسان نہیں.کیونکہ قرآن شریف میں ہے کزرع اخرج شطاء فأذره فاستغلظ فاستوى على سوقہ (الفتح ۳۰) کہ وہ آہستہ آہستہ ترقی کرے گی پہلے باریک کو نیل کی طرح نکلے گی.جس کے یہ معنے ہیں کہ وہ اپنی ذات میں کمزور ہوگی اور ارد گرد کی چیزیں اسے پنپنے نہیں دیں گی.ایک شخص جس کو ایک ٹہنی کے توڑنے پر مقرر کیا جائے.شمنی کو جلدی توڑ لیتا ہے.لیکن وہ شخص جس کو درخت کاٹنے پر لگایا جائے وہ درخت کاٹنے میں دیر ہے.اس شخص کے بالمقابل کسی الزام کے نیچے نہیں آتا کیونکہ تمام لوگ جانتے ہیں کہ درخت کا کاٹنا ٹنی کے کاٹنے سے مشکل کام ہے اور زیادہ محنت چاہتا ہے.آنحضرت کے ذمہ جو کام تھا.وہ بے شک بڑا اہم کام تھا اور بڑی بڑی قربانیوں کو چاہتا تھا.اور جب تک وہ لوگ قربانیاں نہ کرتے ہم تک یہ نور اور ایمان نہ پہنچتا.یہ سارا نور اور ایمان ان کی قربانیوں کا ہی نتیجہ ہے جو ہمیں ملا.مگر آج ہماری جماعت کی قربانیاں بھی کم نہیں.اگر سرعت کے ساتھ نتائج نہیں نکلتے تو اس کے یہ معنے ہیں کہ ہمارے ذمہ لمبا کام ہے.اس وقت اگر ہیضہ کے مریض تھے.تو اب دق کے مریض ہیں اور دق کا مریض آہستہ آہستہ اچھا ہوتا ہے.ہیضہ کا مریض دو دن میں تندرست ہو جاتا ہے.اس زمانہ میں دق کے مریض کی طرح حالت ہے.اس وجہ سے نہ اپنے اور نہ دوسروں کے نفوس کی اصلاح اس قدر جلدی ہو سکتی ہے بلکہ یہ اصلاح آہستہ آہستہ ہو سکتی ہے.ضرورت صرف یہ ہے کہ محنت کے ساتھ لگے رہیں اور میں سمجھتا ہوں اگر اسی طرح لگے رہیں تو آہستہ آہستہ ہر ایک کی اصلاح ہو سکتی ہے.پس مغضوب عليهم ولا الضالين کرتا.
61 رو نہیں دیکھنا چاہتے بلکہ کسی نبی کی جماعت کے ان لوگوں کو دیکھنا چاہئے جو انعمت علیھم ہیں اور اگر اس نگاہ سے جماعت احمدیہ کو دیکھیں تو بے نظیر کام نظر آئیں جو ہو رہے ہیں اور جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ساری جماعت ایسی نہیں ہے جیسی اس قسم کے لوگ سمجھتے ہیں.میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنی اصلاح کر سکیں.یہ کام انسانی طاقت سے بالا ہے اور جب تک اس کی طرف سے مدد نہ ہو کچھ نہیں بنتا.خواہ اپنی اصلاح ہو خواہ سروں کی.سو میں دعا کرتا ہوں خدا ہم سب کی اصلاح کرے اور اس کام کے لئے ہم میں استقلال پیدا فرمائے اور ہمیں ہمت بخشے کیونکہ استقلال اور ہمت کے بغیر بھی اسے ہم نہیں کر سکتے.ہم اعتراض کرنے والوں کے اعتراضوں اور طعن دینے والوں کے طعنوں سے خائف نہ ہوں اور ہم نے کی اصلاح کرتے چلے جائیں اور رکیں نہیں.(آمین) خطبہ ثانی میں فرمایا : آج میں کچھ جنازے پڑھاؤں گا جو سب ایسی جگہوں کے ہیں.جہاں احمدی جنازہ پڑھنے والے نہیں تھے.(1) پیارا صاحب ضلع ہوشیار پور کے.نمونیہ سے فوت ہو گئے ہیں اکیلے احمدی تھے.(۲) میاں محمد جمیل صاحب میاں ونڈ کی ہمشیرہ فوت ہو گئی ہے.سوائے ان کے اور کوئی شخص ان کا جنازہ پڑھنے والا اس جگہ نہیں تھا.(۳) رحمت اللہ صاحب سنوری حیدر آباد دکن میں فوت ہوئے ہیں.(۴) نجم النساء شاہجہان پور کے ضلع میں فوت ہوئی ہیں.ان کا جنازہ پڑھنے والے بھی نہ تھے.(۵) ان کے ساتھ ایک اور جنازہ بھی ہے.وہ زین الدین صاحب کا ہے.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پرانے مخلصوں میں سے تھے.بمبئی میں انجینیئر تھے.اب ضیعف العمر تھے.بہت اونچا سنتے تھے.مسیح موعود کو خاص محبت ان سے تھے.وہ میری بیعت میں داخل ہو گئے تھے.لیکن بعد میں سیٹھ اسماعیل صاحب آدم کے سبب غیر مبایعین کے ہم خیال ہو گئے.چونکہ خود وہ اونچانتے تھے اور سیٹھ اسماعیل آدم کے ساتھ ان کے تعلقات تھے.اس لئے سیٹھ صاحب ہی ان کے کان تھے.سیٹھ صاحب خود بھی بہت مخلص تھے.اور اب بھی وہ مخلص ہیں لیکن جب وہ کسی حد تک پیغامی ہو گئے تھے تو یہ بھی کچھ سست ہو گئے اور ادھر متوجہ ہو گئے مگر میں ان کا بھی جنازہ پڑھاؤں گا.میرے نزدیک غیر مبا میعین کا جنازہ پڑھنا جائز ہے.میں نے شیخ رحمت اللہ صاحب کا جنازہ بھی پڑھا تھا.میں نے رویا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ان پر ناراض دیکھا.میں نے متواتر
62 دیکھا کہ حضرت صاحب ان کی طرف ناراضگی کی وجہ سے نہیں دیکھتے اور یہ بتایا گیا تھا کہ ان کو غلطی لگی ہوئی ہے.اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہی خدمت دین ہے ان کی وفات کے متعلق بھی اللہ تعالٰی نے مجھے بتایا تھا.میں نے ان کے مرنے سے پہلے رویا میں دیکھا وہ آئے ہیں اور مجھے کہتے ہیں چلو صلح کی تدبیر نکالی ہے.میں ان کے ساتھ چلا گیا اور لوگ بھی تھے.مولوی محمد علی صاحب بھی تھے.باتیں ہونی شروع ہوئیں مولوی محمد علی صاحب نے کچھ ایسی باتیں کیں جن سے معلوم ہو تا تھا کہ صلح نہیں ہو سکتی.شیخ صاحب اس پر ایک طرف کونے میں جابیٹھے.ان کا چہرہ افسردہ ہو گیا.اور کہنے لگے اچھا آپ لوگوں کی مرضی زندگی کا کوئی اعتبار نہیں.ہم مر گئے تو ہمارے بچے بھی احمدی نہیں رہ سکتے.میں نے یہ خواب اس وقت بعض دوستوں کو سنائی تھی.اس سے معلوم ہو تا تھا کہ شیخ صاحب اب فوت ہو جائیں گے.حالانکہ جو مرض ان کو تھی وہ کوئی ایسی خطرناک صورت میں نہ تھی.غرض جب وہ فوت ہو گئے تو میں نے ان کا جنازہ پڑھا تھا.زین الدین صاحب کے متعلق بھی میں نے رویا میں دیکھا.کہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم آئے ہیں.میں نے دریافت کیا آپ کہاں؟ فرمانے لگے میں بھی آیا ہوں اور حضرت صاحب بھی آئے ہیں.زین الدین صاحب کو لے جاتا ہے.میں نے اس سے سمجھ لیا کہ رؤیا ان کی موت پر دلالت کرتی ہے.ان کی عمر ۹۵ یا سو سال کے قریب تھی اور حضرت صاحب کے دیرینہ مخلص تھے.وہ بالکل اسی طرح کے مخلص تھے.جس طرح کے شیخ رحمت اللہ صاحب.چند لوگ جنہیں حضرت صاحب بہت پیار کیا کرتے تھے.ان میں سے ایک یہ زین الدین صاحب تھے.الفضل ۱۶ فروری ۱۹۲۶ء)
63 7 انعام حاصل کرنے کی نسبت انعام قائم رکھنا مشکل ہے (فرموده ۱۳ فروری ۱۹۲۶ء) تشہیر، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : روحانی امور ایسے پیچیدہ اور نازک ہوتے ہیں کہ بعض دفعہ بعض بڑی نظر آنے والی باتیں ایسے نتائج پیدا نہیں کرتیں جیسے کہ بعض وقت خفیف سے خفیف باتیں نتائج پیدا کرتی ہیں.بڑی بڑی خدمات بعض دفعہ ایک لفظ کے ساتھ ضائع ہو جاتی ہیں.اور بعض دفعہ بڑا لمبا کفر ایک فقرہ کے ساتھ دھویا جاتا ہے.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ کفار مکہ اسلام کے مٹانے میں اس قدر زور خرچ کرتے رہے ہیں کہ کوئی صورت مخالفت کی خالی نہ رہی.ہر زمانہ میں نبیوں کے دشمنوں نے ایسا ہی کیا.مگر رسول کریم کی مخالفت میں جو زور لگایا گیا اس سے بڑھ کر انسان کی انسانیت کو مد نظر رکھتے ہوئے مخالفت ممکن نہیں.جھوٹ اور نفرت سے انہوں نے پرہیز نہ کیا.قتل و غارت سے انہوں نے پرہیز نہ کیا.عزت و آبرو برباد کرنے میں انہوں نے کوئی دقیقہ نہ چھوڑا.فساد پھیلانے اور جھوٹی روایتوں کے بیان کرنے سے انہوں نے کوئی پرہیز نہ کیا.اور جو لوگ نیکی کو قبول کرنا چاہتے تھے ان کو نیکی سے روکنے میں اور جو بدی کو پھیلانا چاہتے تھے ان کی امداد کرنے میں انہوں نے کوئی کمی نہ چھوڑی.انہیں لوگوں اور سرداروں میں سے ایک ابو سفیان تھے.جو آخر زمانہ تک اسلام کا برابر مقابلہ کرتے رہے.اور آخر زمانہ تک رسول کریم کے خلاف بھڑکاتے رہے.اور آپ کے خلاف لڑتے رہے.حتی کہ آپ پر حملہ آور ہوتے رہے.پھر آپ کے خلاف نہ صرف خود انہوں نے تلوار چلائی.بلکہ ان کی بیوی نے بھی تلوار چلانے میں حصہ لیا.لیکن نہ معلوم وہ کیا چیز تھی جس نے ان کو
64 ایمان لانے پر کھڑا کر دیا.اور ان کے کفر کو ایسا دھویا کہ ان کے دو بیٹے اسلام کے بہت بڑے خادم ہوئے.ایک بیٹا تو حضرت عمر کے زمانہ میں گورنر ہوا اور محض گورنر ہی نہ تھا بلکہ مسلمانوں میں ولی اور بزرگ مانا جاتا تھا.دوسرے بیٹے حضرت معاویہ تھے.جو حضرت علی کے بعد مسند خلافت پر بیٹھے.یہ اور بات ہے کہ لوگ ان کی خلافت پر اعتراض کریں مگر بہر حال صحابہ نے بعض وجوہات کے باعث ان کی خلافت کو تسلیم کیا اور ان کے متعلق یہی حسن ظنی تھی کہ وہ اسلام کے خادم ہیں.اس طرح وہ لوگ جو اسلام کے خلاف تلوار چلاتے رہے تھے.ان پر ایسا زمانہ آیا کہ انہیں کے ہاتھوں میں اللہ تعالٰی نے اسلام کی حکومت کی باگ دے دی.اس کے مقابلہ میں انصار کی حالت دیکھتے ہیں.مکہ سے ہر قبیلہ رسول اللہ کو نکالتا ہے.مکہ کے ارد گرد کی ہمسایہ قومیں ہیں ان کی طرف آپ رخ کرتے ہیں تو وہ آپ کے پتھراؤ کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.طائف سے لہولہان ہو کر آپ واپس آتے ہیں.حج کے موقعہ پر ایک ایک خیمہ میں جاتے ہیں.ان کو تبلیغ کرتے ہیں.تو وہ آپ پر پہنتے ہیں کہتے ہیں پاگل ہو گیا لیکن ادھر مدینہ سے حج پر چند آنے والے لوگ سنتے ہیں کہ ایک شخص خدا کی طرف سے آنے کا دعویٰ کرتا ہے.تو کہتے ہیں ہمیں اس کی بات سننی چاہئے.وہ آپ کے پاس حاضر ہوتے ہیں.اور آپ کی باتیں سنتے ہی معا آپ پر نہ صرف ایمان لاتے ہیں بلکہ وعدہ کرتے ہیں کہ ہم اپنے ملک کو اسلام لانے کے لئے تیار کریں گے.اگلے سال پھر وہ وعدہ پورا کرتے ہیں کہ اپنے ساتھ اپنے علاقہ کے روسا لے کر آتے ہیں اور یہاں تک وہ لوگ آپ کو کہتے ہیں کہ آپ ہمارے ساتھ مدینہ چلیں اور ہمارے پاس رہیں.ہم آپ کی حفاظت اور مدد کریں گے.اس وعدہ کے ساتھ آپ کو اپنے شہر میں لے جاتے ہیں.پھر کس شان اور کس وفاداری سے وعدہ پورا کرتے ہیں.کوئی دردمند دل ان کے واقعات پڑھ کر بغیر اس کے کہ اس کی آنکھیں پر نم ہو جائیں نہیں رہ سکتا.ایک موقعہ پر جبکہ آپ کو مدینہ سے باہر ایک جنگ پر تشریف لے جانا پڑا تو آپ نے مسلمانوں کو اکٹھا کر کے مشورہ لینا چاہا.در حقیقت آپ کا منشاء انصار سے مشورہ لینے کا تھا.کیونکہ انصار سے پہلے یہ معاہدہ تھا کہ اگر مدینہ پر دشمن حملہ آور ہوگا تو وہ لوگ آپ کی حفاظت اور مدد کریں گے اور مدینہ سے باہر کے لئے یہ معاہدہ نہ تھا.اس معاہدہ کے مطابق رسول کریم دراصل انصار سے مشورہ لینا چاہتے تھے کہ ہمیں اب کیا کرنا چاہئے.مہاجرین بار بار اٹھ کر آپ کو مشورہ دیتے ہے
65 لیکن آپ نے فرمایا.میں تم سے مشورہ نہیں لینا چاہتا.آخر انصار سمجھ گئے کہ ہمیں بلایا جاتا ہے.اور ہم سے رسول الله اللا مشورہ پوچھتے ہیں اس پر ان میں سے ایک نے اٹھ کر کہا.کیا آپ کی مراد ہم سے ہے؟ یا رسول اللہ اللہ وہ معاہدہ تو اس صورت میں تھا.جبکہ ابھی ہم آپ کی رسالت کی حقیقت سے ناواقف تھے.لیکن اب جب آپ کو خدا کا رسول یقین کر چکے ہیں.اور رسالت کی حقیقت سے واقف ہو گئے ہیں.تو اب ہمارا وہ وعدہ کیا حقیقت رکھتا ہے.اب تو یا رسول اللہ اگر آپ فرمائیں گے.تو ہم سمندر میں کود پڑیں گے.اگر آپ ہمیں دنیا کے دوسرے کنارہ پر لے جانا چاہیں.تو ہم وہاں جائیں گے.دنیا کی کسی جگہ میں بھی آپ پر اگر کوئی حملہ آور ہو گا تو ہم آپ کے دائیں بھی اور بائیں بھی لڑیں گے.اور دشمن آپ تک نہیں پہنچے گا.جب تک ہماری لاشوں پر سے نہ گذرے.ا اس فقرہ پر ایک صحابی کہتے ہیں کہ میں بارہ غزوات میں رسول کریم ﷺ کے ساتھ شامل رہا.لیکن میں یہ چاہتا تھا کہ بارہ غزوات میں شامل نہ ہوتا.مگر اس دن یہ فقرہ میرے منہ سے نکلتا.۲ الا شخص اور سنئے عبداللہ بن ابی ابن سلول نے جو منافق تھا.ایک موقعہ پر کہا کہ میں جو معزز ہوں.محمد رسول اللہ اس کو جو ذلیل انسان ہے.مدینہ سے باہر نکال دوں گا.یہ بات اس کے بیٹے کو بھی کسی طرح سے پہنچ گئی.وہ رسول کریم ان کی خدمت میں حاضر ہوتا اور کہتا ہے.اس کی سزا اب قتل کے سوا اور کوئی ہو نہیں سکتی.اس لئے آپ مجھے حکم دیں کہ میں اپنے ہاتھ سے اس کو قتل کروں تا ایسا نہ ہو کہ اور کوئی شخص اس کو قتل کرے.اور میرا نفس شرارت کرے.۳.یہ وہ قربانیاں تھیں جو انہوں نے کیں.انہوں نے اپنے گھر بانٹ دیئے.حتی کہ اپنی بیویاں دوسروں کے لئے علیحدہ کر دیں.جن کے پاس ایک سے زائد تھیں.یہ وہ ایثار اور قربانی ہے کہ دنیا میں اس کی نظیر بہت کم ملتی ہے.پھر غزوہ حنین کے موقعہ پر جبکہ بارہ ہزار کا لشکر جرار آپ کے ساتھ تھا.بعض کے عجب کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ سزا نازل کی کہ لشکر کے پاؤں جنگ میں اکھڑ گئے.آپ پر ایسا وقت آیا کہ چار ہزار لشکر کے مقابل آپ کے ساتھ صرف بارہ آدمی رہ گئے تھے.اس وقت آپ نے فرمایا.انصار کو بلاؤ.آپ نے یہ نہیں فرمایا.کہ مہاجرین کو بلاؤ.پھر آواز ایسی خطرناک حالت میں جب انصار کو پہنچتی ہے تو وہ آپ کی طرف اس طرح بے اختیار ہو کر دوڑے چلے آتے ہیں کہ اگر ان کے
66 گھوڑے رکتے ہیں تو ان کی گردن کاٹ کر رکھ دیتے ہیں.اگر اونٹ چلنے سے رکتے ہیں تو ان کے پاؤں کاٹ دیتے ہیں.اور پیادہ لبیک یا رسول اللہ لبیک کہتے ہوئے اس طرح واپس لوٹتے ہیں کہ تھوڑی دیر میں رسول کریم ﷺ کے ارد گرد بہت بڑا جتھا اکٹھا ہو جاتا ہے.۴.پھر ان کے نوجوانوں اور بچوں کا یہ حال تھا کہ بدر کے موقعہ پر حضرت عبدالرحمن بن عوف کہتے ہیں میرے دل میں کفار کے مظالم کی وجہ سے لڑنے کے لئے بڑا جوش تھا.لیکن جب میں نے اپنے دائیں بائیں دیکھا.تو دو چھوٹے بچے تھے.اور ایسے موقعہ پر بہترین جنگی خدمت وہی کر سکتا ہے.جس کے دائیں بائیں تجربہ کار بہادر سپاہی ہوں.میں نے سمجھا.میں آج کیا لڑوں گا.میں یہ خیال ہی کر رہا تھا کہ دائیں طرف سے ایک لڑکے نے مجھے کہنی مار کر اپنی طرف متوجہ کیا اور میرے کان میں کہا تا دوسرا لڑکا نہ سن لے کہ چا وہ جو ابو جہل رسول اللہ کا بڑا دشمن ہے وہ کہاں ہے.میں نے اسے جواب نہیں دیا تھا.اور میں خیال کر رہا تھا کہ باوجود میرے بہادر اور تجربہ کار سپاہی ہونے کے میرے دل میں بھی یہ خیال نہیں آیا کہ ابو جہل پر حملہ کروں.اسی خیال میں تھا کہ دوسرے لڑکے نے میرے کان میں کہا.چچا ابو جہل کہاں ہے.میں نے انہیں اشارہ سے بتایا کہ جس کے ارد گرد بڑے بڑے سردار ہیں وہ ہے.حضرت عبدالرحمن بن عوف کہتے ہیں.میری انگلی کا اٹھنا ہی تھا کہ چیل کی طرح جھپٹ کر وہ دونوں صفوں کو چیرتے ہوئے ابو جہل پر جا حملہ آور ہوئے اور اسے اتنا زخمی کر دیا کہ ان زخموں سے وہ مر گیا.اس سے ان لوگوں کی قربانی کا اندازہ ہو سکتا ہے.ال لیکن خدا کی حکمت ہوتی ہے کہ جنگ حنین کے بعد رسول کریم نے ایک موقعہ پر مال غنیمت تقسیم کیا.اور تقسیم کرتے وقت مکہ کے نو مسلموں کو بھی مال دیا.اس پر ایک سترہ سالہ انصاری لڑکے کے منہ سے یہ فقرہ نکل گیا کہ خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے اور مال رسول اللہ ﷺ نے اہل مکہ کو جو آپ کے رشتہ دار ہیں دے دیا ہے.رسول اللہ کو یہ بات پہنچی تو آپ نے انصار کو بلایا.انصار بھی اس غلطی کو سمجھ گئے.انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ یہ بات ہماری طرف سے نہ سمجھیں.ہم میں سے ایک بیوقوف نے ایسا کہا ہے.آپ نے فرمایا اے انصار تم کہہ سکتے ہو کہ ہم نے اس وقت تمھاری مدد کی اور اپنے گھروں میں جگہ دی جب تمہیں قوم دھتکار رہی تھی اور تمھارے لئے اس وقت اپنی جانوں کو خطرہ میں ڈالا.جب تمھیں قوم دھتکار رہی تھی اور آپ کے لئے اس وقت اپنی جانوں کو خطرہ میں ڈالا جبکہ
67 قوم آپ کو قتل کرنا چاہتی تھی.ہم نے تمھاری اس وقت مدد کی.جب تم کو وطن سے نکالا گیا.جب آپ کے عزیز رشتہ دار آپ کو مار ڈالنا چاہتے.اس وقت ہم نے اپنی جانوں کو قربان کرکے ہر میدان میں تمھاری مدد کی اور تمھارے دشمنوں کو زیر کیا.وہ قربانی کرنے والی قوم بھلا کہاں رسول کریم یا ان کی ان باتوں کو برداشت کر سکتی تھی.ان کی چیخیں نکل گئیں.اور بار بار کہتے.یا رسول اللہ ہم نہیں ایسا کہہ سکتے.پھر آپ نے فرمایا.اے انصار سنو.تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ محمد رسول اللہ مکہ کا باشندہ تھا.مکہ اس کی پیدائش کی جگہ تھی.اس لئے مکہ کے حق اس پر بہت تھے.خدا نے مکہ میں پھر واپس آنے کے سامان پیدا کر دیئے جب مکہ فتح ہو گیا اور اس کے عزیزوں رشتہ داروں کا بھی اس پر حق تھا کہ اب ان کے پاس رہے لیکن وہ تو مال اور مویشی لے کر اپنی گھروں کو چلے گئے اور تم خدا کا رسول اپنے گھروں میں لے آئے.اب اے انصار یاد رکھو.اس دنیا میں تم کو بادشاہت نہیں ملے گی.اب حوض کوثر پر ہی مجھے ملنا.۶.وہاں تمھاری قربانیوں کے بدلے ملیں گے.خدا کی قدرت دیکھو.ابوسفیان کے بیٹے بادشاہ ہو جاتے ہیں اور یہ خاندان سینکڑوں سال تک دنیا پر حکومت کرتے ہیں اور بعد میں مغل آتے ہیں.پٹھان آتے ہیں.صدیوں تک حکومت کرتے ہیں.لیکن وہ انصار جن کے خون سے اسلام کا باغ سینچا گیا.اس قوم سے ۱۳۰۰ سال تک کوئی بادشاہ نہیں ہو تا.کیوں؟ یہی بات ہے جس کی طرف سورہ فاتحہ میں توجہ دلائی گئی ہے.دیکھو انعمت علیھم میں داخل ہونا اور انعام لیتا بھی بیشک بڑا مشکل ہے.لیکن انعام کا قائم رکھنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے.اس لئے انسان کو اپنے دل و دماغ اور اپنی زبان پر قابو رکھنا.چاہئے.تاکہ اس کے منہ سے کوئی ایسی بات نہ نکل جائے.جس سے اس کو اور اس کے خاندان اور اس کی قوم کو نقصان پہنچے.جب تک ہر وقت انسان اپنے فہم اور تدبر سے کام نہ لیتا رہے.اور روزانہ اخلاص میں ترقی نہ کرتا رہے.تب تک وہ خطرہ سے محفوظ نہیں ہو سکتا.میرے اس خطبہ میں پہلے مخاطب قادیان والے ہیں.پھر باہر کے لوگ.اگرچہ اس خطبہ کے محرک باہر کے لوگ ہی ہیں لیکن پھر بھی پہلے مخاطب آپ لوگ ہی ہیں کیونکہ نیک نمونہ دکھانا سب سے پہلے آپ لوگوں کا فرض ہے.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالٰی ہمارے اعمال اور ہمارے قلوب کی اس رنگ میں حفاظت کرے کہ ہم اس کے کسی انعام کی ناقدری کر کے اپنی کسی حرکت سے اس کے غضب کے نیچے نہ آئیں.
68 بلکہ اس کے انعامات اور اکرام زیادہ سے زیادہ شان کے ساتھ ہم پر ظاہر ہوں.میں چونکہ چند دن کے لئے باہر جانے والا ہوں.اس لئے میرے پیچھے مولوی شیر علی صاحب امیر ہوں گے.آپ لوگ نہ صرف ان کی اطاعت ہی کریں بلکہ سلسلہ کے کاموں میں ہر رنگ میں ان سے تعاون بھی کریں.الفضل ۱۹ فروری ۱۹۲۶ء) ا بخاری کتاب المغازی باب غزده بدر ۲- عمدة القاری شرح بخاری جلد ۷اصه ۸۰ ترمذی ابواب التفسیر تفسیر سوره منافقون م بخاری کتاب المغازی غزوہ حنین ۵ بخاری کتاب المغازی قتل ابى جهل و مسلم کتاب الجہاد والسير باب استحقاق القاتل سلب التقتيل بخاری کتاب المناقب باب مناقب الانصار
69 8 انسانی خصائل ثلاثہ کا بر محل استعمال (فرموده ۲۶ فروری ۱۹۲۶ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر تین خصلتیں پیدا کی ہیں اور یہ تینوں خصلتیں ہر انسان کے اندر تھوڑی بہت ہوتی ہیں.کسی میں یہ خصلتیں بہت زیادہ طور پر ظاہر ہوتی ہیں اور کسی میں کم.مگر کچھ نہ کچھ حصہ ان کا ہر شخص میں پایا جاتا ہے گو یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی وقت کوئی خصلت ظاہر ہوتی ہے.اور کسی وقت کوئی.بعض وقت تینوں ظاہر ہوتی ہیں.بہر حال تمام انسانوں میں یہ تینوں خصلتیں پائی جاتی ہیں.ان میں سے پہلی خصلت جو رحمانیت کے ماتحت ہے.وہ انانیت کی خصلت ہے.انسانوں کے اندر یہ مادہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے وجود کو علیحدہ اور ممتاز دیکھنا چاہتے ہیں.وہ چاہتے ہیں کہ اپنی شخصیت کو قائم رکھیں اور یہ مادہ رحمانیت کے ظہور کے ساتھ ان میں پیدا ہوتا ہے.دیکھ لو امراء اور رؤسا کے بچے جن کا ادب و احترام کیا جاتا ہے اور بعض حالتوں میں بغیر وجہ اور بلا سبب کیا جاتا ہے.بغیر اس کے کہ ان میں کوئی خوبی پائی جائے.بغیر اس کے کہ ان میں کوئی عمدہ بات ہو.بغیر اس کے کہ ان میں کوئی اچھی بات ہو ان کا ادب و احترام کیا جاتا ہے وہ جب بڑے ہوتے ہیں تو اس وقت بھی بلا وجہ یہ کہتے ہیں.ہم ایسے ہیں ویسے ہیں لوگوں کو چاہئے کہ ہمارا ادب و احترام کریں.اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اس بات کے عادی ہو گئے ہوتے ہیں کہ لوگ ان کا ادب و احترام کریں.چونکہ بچپن میں بلا وجہ ان کا ادب و احترام کیا جاتا ہے.اس لئے بڑے ہو کر بھی بلا وجہ ہی چاہتے ہیں کہ لوگ ان کا ادب و احترام کریں.اس میں وہ یہ نہیں دیکھتے کہ کیوں لوگ ہمارا ادب و احترام کریں.آیا ہمارا کوئی احسان ان پر
70 ہے یا تمدنی طور پر کوئی غلبہ ان پر دیا گیا ہے.یا ان کو ہم سے کوئی آئندہ فائدہ کی امید ہو سکتی ہے.یا کوئی ذاتی کمال ہم میں ہے.آخر کیا سبب ہے کہ لوگ قدر کریں.دنیا میں ہزاروں انسان ایک دوسرے کے سامنے سے گذر جاتے ہیں اور ان میں سے سارے ہی سب کا ادب و احترام نہیں کرتے لیکن وہ کوئی گلہ بھی نہیں کرتے کہ کیوں ہمارا ادب و احترام نہیں کیا گیا.کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ادب و احترام کے لئے کچھ تعلق ہونا چاہئے.لیکن وہ لوگ جن کو ادب و احترام کرانے کی عادت ہو.خواہ مخواہ لوگوں سے لڑتے ہیں کہ ہمارا ادب کیوں نہیں کرتے.ایک دفعہ ایک سیدانی فقیرنی ہمارے گھر میں آئی.میں اس وقت چھوٹا تھا.وہ آکر چارپائی پر بیٹھ گئی اور کہنے لگی.میں آل رسول ہوں.مجھے کچھ دو.حضرت صاحب نے بھی کچھ دیا اور گھر کے لوگوں نے بھی دیا.پھر اس نے پانی مانگا مگر جب ایک عورت نے اسے پانی دیا تو سخت ناراض ہو کر کہنے لگی.امتیوں کے گلاس میں مجھے پانی دیتی ہے.ہم سادات آل رسول ہیں.اول تو پانی پلانے کے لئے نیا گلاس چاہئے تھا اور اگر پرانے ہی میں پانی دینا تھا تو پہلے اسے اچھی طرح مانجھنا تھا.اب وہ فقیرنی ہو کر آئی تھی.مگر باوجود اس کے اس میں وہ عادت موجود تھی جو ناواجب ادب و احترام کراتے رہنے سے پیدا ہو جاتی ہے.اس میں کچھ شک نہیں جو آنحضرت ﷺ کی اولاد سے ہو اسے اگر واقعی مدد کی ضرورت ہے تو ہمارا فرض ہے کہ اس کی مدد اور خدمت کریں مگر بعض لوگ یوں ہی سادات کے اس ادب و احترام کو دیکھ کر جو لوگ ان کا کرتے ہیں.سید بن جاتے ہیں اور پھر چاہتے ہیں کہ ان کا بھی ادب و احترام کیا جائے.سادات کو جو فخر حاصل ہے.وہ طفیلی طور پر ہے.اور آنحضرت ﷺ کے سبب سے ہے.مگر باوجود اس کے ایک مدت تک ادب و احترام کئے جانے کا اثر ان میں اس حد تک ہوتا ہے کہ حالات بدلنے اور خود کوئی خوبی نہ رکھنے کے بعد بھی ان میں یہ خواہش رہتی ہے.کہ لوگ ان کا ادب کریں.چنانچہ وہ فقیر نی جو سیدانی تھی.اس طفیلی فخر کی بناء پر اور اس لطف و کرم کی وجہ سے جو سادات پر خدا تعالیٰ نے اس رنگ میں بھی کیا کہ لوگوں کو ان کے ادب و احترام کی طرف مائل کر دیا سمجھتی تھی کہ میں حق رکھتی ہوں کہ میرا ادب و احترام کیا جائے اور اسی عادت کی بنا پر اس نے یہ کہا کہ آل رسول کو ہمیشہ نئے گلاس میں پانی پلانا چاہئے.یا اگر امتیوں کے گلاس میں پلانا ہو تو اسے اچھی طرح مانجھ لینا چاہئے.تو انسان کے اندر سب سے پہلے جو خصلت پیدا ہوتی ہے.وہ انانیت کی ہے.وہ ان حالات کو دیکھتا ہے جو اس کے ادب و احترام کے لئے پیدا ہوتے ہیں تو سمجھتا ہے کہ ربّ
71 السموات والارض جو میری قدر کرتا ہے.تو لوگ کیوں نہ میری قدر کریں.دیکھو بچہ جب پیدا ہوتا ہے.تو سب سے پہلے انانیت کا یعنی اپنے وجود کا خیال اس میں پیدا ہوتا ہے.وہ سمجھتا ہے میں بھی کوئی وجود ہوں اور مجھے بھی اپنے وجود کے قائم رکھنے کے لئے کچھ چاہئے.یہ بات وہ الفاظ میں نہیں کہہ سکتا بلکہ طبعی طور پر یہ حس اس کے اندر پیدا ہوتی ہے.وہ دنیا میں آکر آنکھ ہی کھولتا ہے اور پیدا ہو کر پہلا ہی سانس لیتا ہے کہ اس میں یہ انانیت پیدا ہو جاتی ہے پھر اسے سب اٹھائے پھرتے ہیں.اسے پیار کرتے ہیں.چومتے ہیں.اس کے آرام کو مد نظر رکھتے ہیں.غرض ہر طرح اس کی قدر کرتے ہیں اور جونہی اس میں احساس بڑھتا ہے.وہ ان حالات کو محسوس کر کے سمجھتا ہے کہ میں مرجع عالم ہوں.وہ لوگوں کو پیار کرتے دیکھتا ہے تو چاہتا ہے کہ ہر ایک مجھے پیار کرے.وہ دیکھتا ہے کہ لوگ اسے اٹھائے پھرتے ہیں تو اسے یہ عادت پڑ جاتی ہے کہ لوگ اٹھائے پھریں اور یہ سب کچھ اس انانیت سے ہی پیدا ہوتا ہے.جو پیدا ہونے کے ساتھ ہی اس میں پیدا ہوتی ہے.غرض انسان کی پیدائش سے پہلے بھی رحمانیت ہوتی ہے اور جب وہ مرجاتا ہے.تو اس کے بعد بھی.پس جو خصلت خدا کی سب سے پہلے انسان کے لئے ظاہر ہوتی ہے.وہ رحمانیت ہی ہے.ایک انسان کے پیدا ہونے سے پیشتر اس نے کئی قسم کی چیزیں اپنی صفت رحمانیت سے پیدا کیں مثلا" رحم مادر دیا.غذا ئیں دیں.پھر ماں کے پیٹ میں ہی اسے ناک.کان.آنکھ.ہاتھ پاؤں تمام اعضاء دیئے اور اور بھی ذریعے بہم پہنچائے.جن سے وہ وہاں زندہ رہ سکے.پھر پیدا ہونے سے پہلے دودھ پیدا کیا.غرض ایسی تمام چیزیں دے کر رحمانیت کی صفت کو بلا واسطہ ظاہر کیا.اور اب جب وہ پیدا ہو گیا تو اسی اپنی رحمانیت کی صفت کو بالواسطہ ظاہر کرنا شروع کیا.اور انسانوں کو اس کا ذریعہ بنا دیا.ان حالات کے ماتحت سب سے پہلے انانیت ہی انسان میں پیدا ہوتی ہے.اور انانیت ہی کا سب سے پہلا درجہ بھی ہے.جب ایک بچہ اس سے اور آگے قدم اٹھاتا ہے.تو دوسری صفت رحیمیت کی اسے ملتی ہے.اس کے ماتحت اسے کام کرنا پڑتا ہے.اس صفت کے ماتحت اب بچہ کو برے کاموں سے بچنے اور اچھے کاموں کے کرنے کا خیال پیدا ہوتا ہے.گویا اسے ایک طرح نیک و بد کی تمیز ہونی شروع ہو جاتی ہے.اور اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں پر بھی صفت رحیمیت کا غلبہ ہو تا چلا جاتا ہے.جن پر اس بچے کے لئے رحمانیت کا تسلط تھا.جونہی وہ ہاتھ پاؤں ہلانے لگتا ہے.تو طریق سلوک بھی بدل
72 جاتا ہے.پہلے اگر اسے گود میں اٹھائے پھرتے تھے.تو اب چاہتے ہیں کہ وہ اپنے پاؤں آپ چلے.پہلے اگر کسی ہلکی سی مشقت کا بھی اس کی ذات سے مطالبہ نہ کیا جاتا تھا.تو اب کسی در تک اس کا تقاضا ہونے لگتا ہے.غرض اب وہی سلوک اس سے نہیں ہوتا.جو اس سے پہلے ہو تا تھا.کیونکہ رحیمیت کے ماتحت اب لوگ چاہتے ہیں.بلکہ ماں باپ بھی چاہتے ہیں کہ پہلی حالت میں اور اس حالت میں فرق ہونا چاہئے.اور اس زندگی میں اور اس زندگی میں امتیاز پیدا کرنا چاہئے.اس وقت اگر یہ کچھ نہیں کہتا تھا.تو اب اسے کہنا چاہیئے.اسے اپنی حاجات بتانی چاہئیں.وہ منتظر ہوتے ہیں کہ بچہ خود کہے بھوک لگی ہے.تو رحمانیت کے بعد دوسرا درجہ رحیمیت کا ہوتا ہے.اور رحیمیت کے ماتحت فردیت بدلے ملتے ہیں.اس کے بعد ایک اور خصلت انسان کے اندر پیدا ہوتی ہے وہ مالک یوم الدین کی صفت ہے.اللہ تعالیٰ نے اس صفت کے ماتحت بتایا ہے کہ اس مقام پر بحیثیت مجموعی جزا ملتی ہے.اس وقت فرد سے نکل کر جماعت میں داخل ہو جاتا ہے.اور مجموعی حیثیت سے اس کے ساتھ سلوک ہونا شروع ہو جاتا ہے.اس مقام پر پہنچ کر وہ دیکھتا ہے.کہ قوم کیا کرتی ہے.اور سمجھتا ہے کہ قوم کی بہتری کے ساتھ اس کی بہتری وابستہ ہے کیونکہ اسے محسوس ہوتا ہے کہ میں قوم سے الگ رہ کر اپنے آپ کو بچا نہیں سکتا.اس وقت وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے کیا قوم اگر نباہ ہوتی ہے تو ہو میں اپنے آپ کو بچالوں.کیونکہ وہ قوم سے علیحدہ رہ کر اپنے آپ کو بچا نہیں سکتا.یہ بات بلوغت کے بعد شروع ہوتی ہے.بلوغت کے بعد ایک شخص اکیلا نہیں ہوتا.بلکہ قوم کا فرد ہوتا ہے.اور اس حد پر پہنچ کر اسے جن حالات میں سے گذرنا پڑتا ہے.ان کا بیشتر حصہ وہ ہوتا ہے.جو دوسروں کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے جب تک دو سرے نہ ہوں.تب تک وہ کام ہو نہیں سکتا.اور جب وہ نہیں ہو سکتا.تو اس کی اپنی تکمیل بھی نہیں ہو سکتی.چنانچہ بلوغت کے بعد ہی شرائع بھی فرض ہوتی ہیں.تمام اخلاق اور بہت سے دوسرے اعمال ایسے ہی ہیں کہ ان کے لئے کوئی دوسرا وجود ہونا چاہئے.چنانچہ کوئی اچھا اخلاق انسان دکھا نہیں سکتا جب تک اس کے دوسروں کے ساتھ تعلقات نہ ہوں.اور دوسروں کے ساتھ تعلقات ہو نہیں سکتے جب تک دوسرے نہ ہوں.پس اخلاق دکھانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ دوسرے ہوں اور دوسروں کے ساتھ اس کے تعلقات ہوں.کیونکہ جب تک یہ نہ ہوں.تب تک کوئی شخص کسی قسم کا اخلاق نہیں دکھا سکتا.اسی طرح اگر وہ الگ رہے تو
73 نماز روزہ اور زکواۃ کس طرح ادا کرے گا.نماز کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ باجماعت ادا ہو.پھر اگر غرباء اور مساکین نہ ہوں.تو زکوۃ کن کو دے گا.پس تقریبا" تمام احکام شریعت تمدن کو چاہتے ہیں.اور ان کو وہ محسوس کرتا ہے.جب تمدن کا احساس انسان میں پیدا ہوتا ہے.تو اس موقعہ پر وہ اپنے حقوق چھوڑتا ہے.اور قربانی کرتا اور ایثار سے کام لیتا ہے.وہ دیکھتا ہے کہ کون سی بات بہتر اور کون سی بات مضر ہے.پھر جو اسے بہتر نظر آتی ہے.اس کے متعلق دیکھتا ہے.کیا اس سے قوم میں تفرقہ تو نہیں پڑتا.اور اگر اسے تفرقہ پڑتا ہوا نظر آئے.تو باوجود اس کے کہ وہ بات اس کی اپنی ذات کے لئے مفید ہو.وہ اسے قوم کی خاطر چھوڑ دیتا ہے.اور یہی پسند کرتا ہے کہ اپنا نفع تو چھوڑ دوں.لیکن قوم کا نقصان نہیں کر سکتا.چونکہ اس میں قوم کا فائدہ ہوتا ہے.اس لئے وہ قومی مفاد کی حفاظت کے واسطے اور اس کے ساتھ اتفاق کے لئے اسے چھوڑ دے گا.اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تمدن قائم رہے گا.یہ مالک یوم الد بن کے ماتحت ہوتا ہے.پھر یہی حالت انفرادی نقصان کے ساتھ ہے.جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ انفرادی طور پر تو بیشک مجھے اس سے نقصان ہے.لیکن میرے اس نقصان سے جماعت کو فائدہ ہوتا ہے تو وہ اپنے نقصان پر جماعت کے فائدے کو ترجیح دیتا ہے.اور اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ میرا نقصان ہوتا ہے.مجھے اپنے آپ کو بچانا چاہئے.اور اگر کوئی اسے کہتا بھی ہے تو وہ کہتا ہے میں مجبور ہوں.میری قوم کہتی ہے کہ ایسا کرو یا ایسا نہ کرو.اور میری قومی حیثیت تقاضا کرتی ہے کہ میں اس کے فائدہ کو ہر وقت مد نظر رکھوں.یہ تین صفات ہیں.جو انسان میں پیدا ہوتی ہیں.ان میں سے جو انانیت کی صفت ہے.بیشک یہ صفت یہ تقاضا تو کرتی ہے کہ انسان اپنے وجود کو علیحدہ اور نمایاں طور پر دکھلائے.لیکن قوم سے کٹ کر نہیں.بلکہ قوم کے ساتھ منضبط رہ کر.بیشک یہ صفت ایک رنگ میں ایک حد تک غیر محدود بھی ہے.لیکن اس کے ساتھ ہی یہ اپنی ذات میں محدود بھی ہے.اور ایک انسان کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنے وجود کو علیحدہ اور الگ دکھلائے لیکن قوم کے ساتھ رہ کر.قرآن شریف میں مومن کے متعلق آیا ہے کہ وہ سابق بالخیرات ہوتا ہے.گویا مومن کے لئے یہ بھی ایک شرط ہے.کہ وہ آگے بڑھنے کی کوشش کرے.پس جو مومن ہوتے ہیں وہ سباق کرتے ہیں.مگر سباق کرنے کے یہ معنے نہیں کہ دوسرے کو لتاڑ کر اور پچھاڑ کر آگے بڑھے.بلکہ یہ ہیں کہ دوسروں کو بھی اپنے ساتھ بڑھائے اور جو جس حال میں ہے آگے بڑھتا جائے.اس کے معنے یہ ہوں گے کہ سارے آگے بڑھ رہے ہیں.
74 کیونکہ ایک مومن کی شان یہی ہے کہ وہ ساری قوم کو بھی آگے بڑھائے.اور خود بھی آگے بڑھے.ہماری جماعت کے افراد کو بھی چاہئے کہ اس قسم کا سباق کریں.کیونکہ اگر کسی جماعت کے بعض افراد خود سباق تو کریں.مگر دوسروں کو گرا کر تو وہ در حقیقت سباق نہیں کرتے بلکہ قوم کو تباہ کرتے ہیں.کیونکہ اس میں ان کو اپنا ذاتی فائدہ متصور ہوتا ہے جو قومی فوائد کے منافی ہوتا ہے.پھر اگر کوئی امر کسی قوم کے فوائد کے منافی ہوتا ہے تو اس سے نہ صرف وہ قوم ہی متاثر ہوتی ہے.بلکہ خود وہ شخص بھی اس سے متاثر ہوتا ہے.جس نے ناواجب سباق کے ذریعے ایک ایسا امر کیا ہو جو جماعتی اور قومی فوائد کے مختلف ہو کیونکہ قوم افراد کا ہی مجموعہ ہوتی ہے.اور وہ شخص بھی قوم کا ایک فرد ہوتا ہے.ایک دفعہ بعض وہ صحابی جو غریب تھے اور صدقہ و خیرات کی مقدرت نہ رکھتے تھے.آنحضرت ا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ ہمارے بھائی جو امیر ہیں اور دولت رکھتے ہیں.صدقہ خیرات کرتے ہیں.اور اس طرح ہم سے نیکی میں بڑھ جاتے ہیں.اس لئے ہمیں کوئی ایسا طریقہ بتایا جائے کہ نیکی کرنے اور ثواب پانے میں ہم ان سے بڑھ جائیں.آنحضرت الیتا ہے فرمایا کہ تم نماز کے بعد تینتیس تینتیس بار تسبیح و تحمید اور چونتیس بار تکبیر پڑھ لیا کرو.انہوں نے ایسا کرنا شروع کر دیا.لیکن جب امراء کو اس کا پتہ لگا کہ آنحضرت ﷺ نے ان کو یہ بات بتائی ہے تو انہوں نے بھی یہی تسبیحیں اور تکبیر پڑھنی شروع کر دی.اس پر غریب صحابہ نے پھر آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ حضور ! امراء بھی یہ تسبیجیں پڑھنے لگ گئے ہیں.اور نے اس طرح وہ پھر ہم سے بڑھ گئے ہیں.یہ سن کر آپ نے فرمایا.جسے خدا ئیکی دے میں اسے کیسے روکوں ا.اس میں سباق بالخیر کا ایک عمدہ سبق ہے.غریب صحابہ نے یہ نہیں چاہا کہ ان کا مال و دولت جس کی وجہ سے یہ ہم سے نیکی میں بڑھ جاتے ہیں جاتا رہے بلکہ یہ چاہا کہ ان کا مال و دولت بھی رہے اور ہمیں بھی کوئی ایسا طریق معلوم ہو جائے کہ ہم ان سے بڑھ سکیں.اسی طرح امراء صحابہ نے بھی یہ نہیں کیا کہ ان غرباء کو اس طریق سے محروم کر دینے کا خیال کیا ہو.بلکہ یہ کیا کہ سباق بالخیر کے ماتحت اس کام کو اختیار کر کے اور بھی ان سے آگے بڑھ گئے.تو یہ جو انانیت ہے.یہ شرطی طور پر اعلیٰ چیز ہے.یہ نہ ہو تو افراد قائم نہیں رہ سکتے اور اگر افراد قائم اور مضبوط نہ ہوں تو قوم قائم اور مضبوط نہ ہوگی.پس صحیح انانیت یہ ہے کہ دوسروں کو انسان دبائے بھی نہیں.ان کے حقوق بھی ضائع نہ کرے اور آگے بھی بڑھے اور آگے بڑھنے میں یہ بات مد نظر ہو کہ دوسرے بھی ساتھ ساتھ بڑھیں.لیکن اگر یہ نہ کہا جائے یعنی دوسروں کے حقوق کا
75 خیال نہ رکھا جائے.اور ان کو دبا کر آگے بڑھا جائے.تو یہ انانیت نہیں.یہ جباریت ہے اور یہ منع ہے.اس سے بچنا چاہئے.پس آگے بڑھتے ہوئے یہ دیکھتے رہنا چاہئے کہ انانیت بدل کر کہیں جہاریت تو نہیں بن گئی.دوسری صفت رحیمیت ہے.اس کے ماتحت انسان میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے.کہ میں اچھے کام کروں اور برے کاموں سے بچوں.اس صفت کا تقاضا یہ ہے کہ اس سے امتیاز بین الحق و الباطل پیدا ہو اور امتیاز بین الحق والباطل کی پیدائش کے لئے کسی شرط کی ضرورت نہیں.یہ امتیاز بغیر کسی شرط کے ہوتا ہے اس کے ماتحت انسان میں یہ مادہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ ہر اس چیز کو اختیار کرے جو حق ہے.خدا کا قرب حاصل کرنے والی ہے.ترقی دیتی ہے اور ہر اس چیز کو چھوڑ دے جو باطل ہے.خد اتعالیٰ سے دور کر دینے والی ہے اور بجائے ترقی کے تنزل کی طرف لے جانے والی اور مضر ہے.رحیمیت کی شرط تو کوئی نہیں مگر اس کی کچھ حد بندی ضرور ہے اور وہ اگلے حصے کے ماتحت ہے.جو مالک یوم الدین کا ہے.اس میں جب ایک شخص پہنچتا ہے.تو اس کے لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ قربانی کرے.یعنی جب مل کر کسی کام کے کرنے کا حکم دیا جائے تو پھر اپنے نفع و نقصان کو چھوڑ کر کرے.اسے اکیلے طور پر وہی کام کرنے میں خواہ کس قدر سہولت اور آرام ہو اور مل کر کرنے میں خواہ کس قدر ہی نقصان اور تکلیف ہو مگر جب وہ مالک یوم الد ین کے ماتحت آ جائے.اور اسے مل کر کرنے کے لئے کہا جائے.تو اس کے لئے ضروری ہے کہ مل کر کرے.مثال کے طور پر نماز ہی کے معاملے کو لے لو.نماز مل کر پڑھنے کا حکم ہے یعنی یہ کہ اکٹھے ہو کر باجماعت پڑھو.اب اگر امام کو آنے میں دیر ہو جائے اور کوئی شخص اکیلا نماز پڑھ لے تو یہ اس کے لئے ہرگز جائز نہیں ہے.شریعت نے ہر نماز کے لئے وقت کا جو اندازہ مقرر کیا ہے کہ فلاں وقت سے لے کر فلاں وقت تک نماز ہو سکتی ہے.اس کا یہی مطلب ہے کہ اگر تھوڑی دیر آگا پیچھا ہو جائے تو کوئی حرج نہیں.اگر یہ مد نظر نہ ہوتا تو شریعت میں خاص وقت مقرر کر دیا جاتا کہ عین فلاں وقت پر فلاں نماز ادا کرو.مگر ایسا نہیں کیا گیا.جس طرح رحمانیت کے آخر میں رحیمیت کی ابتدا نے شروع ہو کر ایک ہلکا سا فرق رحمانیت کی تعریفوں میں پیدا کر دیا.اسی طرح رحیمیت کے آخر میں مالک یوم الدین نے شامل ہو کر رحیمیت کی تعریفوں میں تبدیلی پیدا کر دی.چونکہ اس کے ساتھ ساتھ تمدن کا سوال بھی پیدا ہو جاتا ہے.اس لئے تمدن کے لحاظ سے تعریفوں میں تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے.اور نہ صرف انسان ہی کے
76.....لئے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ تمدن کو مد نظر رکھے بلکہ احکام شریعت بھی یہاں سے اسی قسم کے شروع ہو جاتے ہیں.جو تمدن کو اپنے اندر رکھتے ہیں.نماز کی فلاسفی کا ایک پہلو قیام تمدن بھی ہے.لوگ اگر جماعت کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں.تو یہ ان کو شریعت کی طرف سے حکم دیا گیا ہے کہ باجماعت نماز پڑھو مگر مل کر کوئی کام کرنا تمدن کی ایک فرع بھی ہے اور جب نماز مل کر باجماعت پڑھی گئی تو تمدن کی اس فرع پر عمل کیا گیا.پھر رکوع و سجود وغیرہ ہے.یہ بھی سراسر امام کی متابعت ہے.قطع نظر اس سے کہ مقتدی کی منشاء ہو یا نہ ہو کہ وہ اس وقت رکوع یا سجود میں جائے جس وقت کہ امام جاتا ہے.اسے اس کی اقتداء کرنی پڑتی ہے اور بغیر پوری اقتداء کرنے کے یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس نے جماعت کے ساتھ نماز پڑھی اور یہ ظاہر ہے کہ کسی امام کی متابعت کرنا بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ کسی سردار قوم کی اطاعت کرنا اور سردار قوم کی اطاعت کرنا یہ بھی تمدن ہی ہے.کیونکہ جب تک قوم کسی سردار کی اطاعت نہ کرے.تمدن قائم نہیں کر سکتی.غرض مل کر کام کرنا اور کسی امام کی متابعت کرنا تمدن ہے.چونکه تمدن کا قائم رکھنا ہر قوم کے لئے ضروری ہے.اس لئے مسلمانوں کے لئے جو شرعی حکم اس وقت کے لئے رکھے گئے ہیں.وہ تمدن کو بھی مد نظر رکھ کر رکھے گئے ہیں.مگر باوجود اس کے بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ جب جماعت کے ساتھ نماز ادا کر رہے ہوں.تو پوری اقتداء نہیں کرتے یہاں تک کہ امام اگر سجدہ سے سر اٹھاتا ہے تو وہ سجدے میں پڑے ہوتے ہیں اور جب امام دو سرے سجدہ میں جانے کے لئے تکبیر کہتا ہے.تو وہ پہلے سجدہ سے سر اٹھاتے ہیں ایسے سجدے سجدے نہیں ہوتے کیونکہ امام کی اقتداء میں نہیں ہوتے بلکہ اپنی مرضی کے مطابق ہوتے ہیں.وہ سمجھتے ہوں گے امام تو ایک منٹ سجدہ کر کے اٹھ کھڑا ہوتا ہے.ہم دو منٹ سجدہ کریں گے تو زیادہ ثواب ملے گا.مگر یہ بات غلط ہے ایسے موقعہ پر امام کی اقتداء میں ہی ثواب اور نیکی ہے اور سجدہ وہی ہے جو امام کے ماتحت ہو.آنحضرت نے فرمایا جو لوگ امام کے پیچھے رہتے ہیں.یا امام سے آگے چلے جاتے ہیں.ان کا سر گدھے کے سر کی طرح بنا دیا جائے گا.پس اس سے بچنا چاہئے.نادان اسے نیکی سمجھتے ہیں.لیکن یہ نیکی نہیں ہے.نیکی اسی میں ہے کہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتے وقت امام کی پوری پوری اقتداء کی جائے.تیسری صفت مالک یوم الدین کی ہے.اور یہ صفت تمدنی طور پر قوم کے ساتھ اپنے آپ کو ملا دیتا ہے.بعض لوگ قوم کے ساتھ اپنے آپ کو ملاتے تو ہیں.لیکن ان سے غلطی یہ ہو جاتی ہے کہ
مخصر 77 اتنے نقل ہوتے ہیں کہ اپنی انانیت کو ہی مٹا دیتے ہیں اور یہ کوئی خوبی کی بات نہیں.کیونکہ اگر کوئی قوم میں داخل ہوتے وقت اپنے وجود کو مٹا ڈالے.تو وہ صرف نقال رہ جاتا ہے.اور صرف نقال رہ جانا کوئی خوبی نہیں ہے.اس کی مثال آج کل کے مسلمان ہیں کہ در حقیقت اسلام کی کوئی بات ان میں نہیں لیکن ان کے باپ دادے چونکہ مسلمان تھے.اور ان میں اسلام کی خوبیاں تھیں.اس لئے یہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں.یہ اگر کچھ ہیں تو صرف باپ دادوں کے اظلال اور ایسی تصویریں ہیں جو اپنی ذات میں کوئی شے نہیں کیونکہ یہ اس لئے ظہور میں آیا کہ انانیت کے ساتھ انہوں نے دوسری خوبیوں کو بھی مٹا دیا.پس سب سے پہلی بات جو انسان کے لئے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ انانیت کو قائم رکھے اور ایسے طریق پر قائم رہے کہ جہاریت کا رنگ نہ اختیار کرے.پس مومن کو چاہئے کہ وہ ان تینوں صفات کو قائم رکھے.یعنی اس میں انانیت بھی ہو.اچھے برے میں تمیز بھی ہو اور اندھا دھند نقل بھی نہ کی جائے.بلکہ اپنے آپ کو ایسے رنگ میں قوم کے ساتھ ملائے کہ قوم کے ساتھ ملا بھی رہے اور اس کا اپنا وجود بھی الگ نظر آئے.بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ بالکل ست بچنئے بن جاتے ہیں.خواہ کچھ ہی بات ہو.وہ سچ ہے“، ”سچ ہے " کہتے اور اپنی رائے اور اپنے ارادے کو دبا کر ضائع کر دیتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک راجہ نے ایک دفعہ بینگن کھائے تو اسے بہت ہی مزہ آیا.وہ جب دربار میں آیا تو کہنے لگا.بینگن کیا ہی اچھی چیز ہے.اس کا ایک مصاحب تھا اس نے بھی بینگن کی تعریف کرنی شروع کر دی کہ اور تو اور اس کی شکل ہی دیکھئے کیسی عمدہ ہے.سرتو ایسا ہے جیسے کسی پیر نے سبز پگڑی باندھ رکھی ہو.نیلگوں لباس تو آسمان کی رنگت کو مات کر رہا ہے.پودے کے ساتھ لٹکا ہوا ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی شہزادہ جھولا جھول رہا ہے.اور طبی طور پر جتنی اس کی خوبیاں تھیں ساری کی ساری گن ڈالیں.یہ باتیں سن کر راجہ کو اور شوق پیدا ہوا.اور اس نے کچھ دن بینگن کھائے.بینگن چونکہ گرم ہوتے ہیں اس لئے انہوں نے ”حدت" پیدا کی.تو راجہ نے ایک دن کہا بینگن بہت بری شے ہے.اس پر اسی مصاحب نے اس کی برائیاں بیان کرنی شروع کر دیں.کہنے لگا شکل تو دیکھئے.کلا منہ نیلے پاؤں ہیں اس سے بھی زیادہ اور کیا اس کی برائی ہو سکتی ہے کہ الٹا لٹکا ہوا ہے.جیسے کسی نے پھانسی پر لٹکایا ہو.چونکہ ہر شے کی کچھ خوبیاں اور کچھ برائیاں ہوتی ہیں.اس موقعہ پر اس مصاحب نے اس کی تمام وہ برائیاں جو طبی طور پر تھیں.بیان کیں.پاس بیٹھنے والوں میں سے کسی نے کہا یہ کیا؟ اس نے جواب دیا.میں راجہ کا نوکر ہوں نہ
بینگن کا.78 ایسے لوگ جو ست بچئے ہوتے ہیں.جس مجلس میں جاتے ہیں.ویسے ہی ہو جاتے ہیں.اگر وہ جماعت کے لوگوں سے ملتے ہیں تو وہی کام کرنا شروع کر دیتے ہیں جو جماعت کے افراد کر رہے ہوتے ہیں.وعظ کہنا شروع کر دیتے ہیں.تبلیغ کرنی شروع کر دیتے ہیں.مضامین نویسی شروع کر دیتے ہیں لیکن جب دوسروں میں جاتے ہیں تو انہیں کے سے ہو جاتے ہیں.اور کہتے ہیں بھائی کیا کبھی ہو سکتا ہے کہ ہم ان کے ساتھ دل سے مل جائیں.ایسے لوگوں کی روش وہی ہوتی ہے جسے انگریزی میں (Herd Instinct) یعنی بھیڑ چال کہتے ہیں.بھیڑوں میں یہ بات ہوتی ہے کہ اپنی عقل اور ارادہ سے کام نہیں لیتیں.بلکہ جو ایک بھیڑ نے کیا.وہی باقی سب کرتی ہیں.کہتے ہیں ایک دفعہ بھیڑوں کے راستے میں رسی باندھ دی گئی.جب بھیڑیں وہاں پہنچیں.تو سب سے اگلی دو تین بھیڑیں اس پر سے کود کر گزریں ان کے بعد رسی کھینچ لی گئی لیکن پھر بھی جو بھیڑ اس جگہ پہنچتی کود کر گزرتی.اس سے بھیڑ چال کی مثال مشہور ہو گئی.یہی حال ان لوگوں کا ہوتا ہے.جو اپنی عقل اور ارادہ سے کام نہیں لیتے.ان کے کام بھیٹر چال سے بڑھ کر نہیں ہوتے.ایسے لوگ جس مجلس میں جاتے ہیں اسی کے رنگ میں رنگین ہو جاتے ہیں.اور جس رنگ کے لوگوں سے ملتے ہیں ویسے ہی بن جاتے ہیں.ان کی نہ کوئی اپنی طاقت ہوتی ہے نہ عقل نہ ان میں ارادہ ہوتا ہے نہ استقلال.ہر ایک مومن کو چاہئے.اس عادت سے بچے اور ان خصائل ثلاثہ کو اپنے اندر پیدا کرے.کیونکہ جب یہ تینوں خصلتیں اکٹھی ہوں.تو انسان میں کمال پیدا ہوتا ہے.مگر یہ بھی نہ ہو کہ انانیت اس حد تک بڑھ جائے کہ ایک طرف جباریت کا رنگ اختیار کرلے اور دوسری طرف سرکشی کا اور کسی کا کہنا ہی نہ مانے.ایک حضرت دفعہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.احمدیوں کی کوئی خاص علامت ہونی چاہئے.جس سے لوگ انہیں پہچان لیں مثلا" سبز پگڑی ہو.اگر اس بات کو جاری کیا جائے.اور پھر کوئی کہے کہ میں سبز پگڑی نہ باندھوں تو کیا ہرج ہے.تو یہ انانیت ٹھیک نہیں ہوگی.ایسا ہی داڑھی منڈانا ہے.اب اگر کسی شخص کو ہم یہ کہیں کہ میاں داڑھی نہ منڈایا کرو.داڑھی منڈانا اچھا نہیں.اور وہ کے مجھے اس کے متعلق شریعت کا حکم دکھاؤ.تو اسے کہا جائے.فرض کر لو شریعت میں اس کے متعلق کوئی حکم نہیں لیکن جب تمھاری قوم کا یہ ایک امتیازی نشان ہے.تو تمہیں داڑھی رکھنی چاہئے.اس پر بھی اگر وہ نہ مانے.تو اس میں صحیح اور کچی انانیت نہیں بلکہ سرکشی ہوگی یا انانیت کا غلط استعمال.
79 بغیر کیریکٹر کے کوئی قوم قوم نہیں بن سکتی.جتنی قومیں دنیا میں ہیں.ان کے کیریکٹر ہوتے ہیں.ان کے کچھ امتیازی نشان ہوتے ہیں.جن سے ان کا پتہ ملتا ہے اور وہ شناخت کی جاتی ہے اور افراد قوم کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ ان کیریکٹروں ، رنگوں اور نشانوں کی پابندی کریں.کیونکہ افراد اگر چاہتے ہیں کہ قوم قائم رہے.اور قومی روح اگر ان کے اندر ہے.تو ان کو چاہئے کہ وہ قوم کے ساتھ ہر رنگ میں مشابہت پیدا کریں.جب کہ ان امور میں جن کا قوم کے ساتھ اتنا تعلق نہیں ہو تا.اور اپنی ذات میں بھی وہ بالکل چھوٹے اور معمولی ہوتے ہیں.ایک شخص دوسرے سے مشابہت پیدا کرتا ہے.جس سے تمدن قائم ہوتا ہے.تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ ان امور میں قوم کے ساتھ مشابہت پیدا نہ کرے.جن کا قوم کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہوتا ہے.دیکھو اگر ایک خاوند اپنی بیوی سے کیے.میری چارپائی فلاں جگہ بچھانا.اور بیوی دوسری جگہ بچھا دے تو خاوند یہ دیکھ کر لڑائی پر آمادہ نہیں ہو جائے گا.بلکہ بیوی کے کام سے اتفاق کر لے گا.ورنہ اگر ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر گھر میں لڑائی جھگڑا ہونے لگے تو گزاراہ کس طرح ہو سکے.بے شک بہت سی چیزیں اپنی ذات میں مفید ہوتی ہیں.مگر وہ بعض مقام پر غیر مفید ہو جاتی ہیں.مثلا " لیٹنا ہے.یہ اچھا تو ہے اور خدا تعالیٰ نے لیٹنے میں آرام رکھا ہے.جب انسان تھک کر لیٹ جائے تو اسے آرام پہنچتا ہے.اور تھکاوٹ دور ہو جاتی ہے.لیکن اگر مجلس میں آکر پاؤں پیار کر لیٹ جائے.تو ہم کہیں گے یہ برا کام ہے کیونکہ یہ لیٹنے کا مقام نہیں.اس میں کچھ شک نہیں کہ لیٹنا اچھا ہے اور اپنی ذات میں بہت مفید ہے.لیکن اس موقعہ پر اچھا نہیں.اسی طرح جہاں نماز کے لئے جماعت ہوتی ہو.وہاں اگر کوئی شخص اپنی علیحدہ نماز پڑھے.تو وہ نماز اس موقعہ پر اچھی نہ ہوگی.پس ہر کام کرتے وقت یہ بھی دیکھنا چاہتے کہ وہ کام اپنی ذات میں کیسا ہے اور پھر اس کے موقعہ اور مقام پر غور کرنا چاہئے کہ اگر اپنی ذات میں اچھا ہے تو کیا موقعہ اور مقام کے لحاظ سے بھی اچھا ہے.تمدنی طور پر چھوٹی چھوٹی باتوں کا کرنا جن کا کہ اخلاق اور روحانیت کے ساتھ تعلق ہے.جب مفید ہوتا ہے تو کیوں نہ اس قسم کی بڑی بڑی باتوں میں قوم کے لئے قربانی کی جائے.ہاں تمدن پر انانیت کو غالب نہ آنے دنیا چاہئے.اور کوئی ایسی بات نہ کرنی چاہئے جو قومی رنگ میں نقصان دہ ہو.پس ہر شخص کو چاہئے کہ ہر اس بات کو چھوڑ دے جو قوم کے لئے مفید نہ ہو.خواہ وہ اپنی ذات اور
80 مقام کے لحاظ سے اس کے اپنے لئے بیحد ہی مفید ہو.غرض یہ تینوں صفات جب اکٹھی ہوں تب انسان کامل ہوتا ہے.اس کا نام صراط المستقیم ہے.وہ ان سب کے بین بین چلتا ہے.اس راہ پر چلتے ہوئے جب ان شرائط کی پابندی بھی ہو.تو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو جاتا ہے.اور انسان مدارج ترقی پر چڑھنا شروع کر دیتا ہے لیکن اگر کوئی ان شرائط کی پابندی نہیں کرتا تو پھر وہ ایسی انانیت کرتا ہے جو درست نہیں.اور جس سے وہ قوم کے ساتھ مل نہیں سکتا.اور الگ رہ کر تباہی پیدا کرتا ہے.درست راستہ یہی ہے کہ وسطی طریق اختیار کیا جائے.بالآخر میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمیں ان باتوں کے سمجھنے اور کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اور ہم اس کے بتائے ہوئے طریق پر چل کر اس کی رضا اور خوشنودی حاصل کریں.الفضل ۱۲ مارچ ۱۹۲۶ء) ا بخاری کتاب الصلاة باب الذكر بعد الصلوة
81 9 حقیقی عبادت (فرموده ۵ مارچ ۱۹۲۶ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : قرآن کریم میں اس کی ام الکتاب یعنی سورہ فاتحہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور قدرت ہمیشہ جاری رہتی ہے.دنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں.بعض خیال کرتے ہیں.کہ دنیا میں جو کچھ کرتا ہے انسان ہی کرتا ہے.خدا تعالیٰ کا اس کے اعمال سے کوئی تعلق نہیں ہے.اور بعض ایسے ہیں.جو یہ خیال کرتے ہیں کہ سب کچھ خدا تعالیٰ ہی کرتا ہے.بندہ کا اپنے اعمال سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے.خدا تعالیٰ قرآن کریم میں ان دونوں خیالوں کو رد فرماتا ہے.چنانچہ سورہ فاتحہ میں ہی خدا تعالیٰ فرماتا ہے.کہو ایاک نعبد کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں.تیری ہی بندگی اور عبودیت اختیار کرتے ہیں.اب یہ دیکھنا چاہئے کہ عبودیت کیا ہوتی ہے، عبودیت کے یہ معنی نہیں کہ کوئی انسان نماز پڑھ لے.کیونکہ خدا تعالیٰ کو کسی کے نماز پڑھنے یا نہ پڑھنے سے کیا تعلق.کیا کوئی ایسا شخص ہو سکتا ہے جو یہ کہے فلاں میرا غلام ہے.کیونکہ وہ دن میں ایک دفعہ یا دو دفعہ یا تین دفعه یا چار دفعه سلام کر جاتا ہے.نماز کیا ہے؟ خدا تعالیٰ کے حضور سلام اور حاضری ہے.پھر کیا کبھی کوئی حاضری اور سلام سے غلام کہلا سکتا ہے.اگر کوئی شخص کسی کو ایک دو بار نہیں بلکہ دس ہیں دفعہ سلام کر جاتا ہے.لیکن اس کے احکام کی پابندی نہیں کرتا تو وہ کبھی اس کا غلام نہیں کہلا سکتا.پس جب خدا تعالی سورہ فاتحہ میں یہ سکھاتا ہے.کہ کہو ایاک نعبد کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں.تو اس کا یہ منشا نہیں ہو سکتا.کہ کوئی نماز پڑھ لے اور کچھ نہ کرے تو وہ عبد بن جائے گا.کیونکہ ۲۴ گھنٹہ میں ۵ دفعہ سلام کو جانا عبودیت نہیں کہلا سکتی.اتنی عبودیت تو دوست اپنے دوستوں کی یا محلہ والے ایک دوسرے کی بھی کر لیتے ہیں.جب دن میں ایک دوسرے کو سلام کر لیتے ہیں.
82 اس سے معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ نے جس عبودیت کا حکم دیا ہے.وہ اور ہی رنگ کی عبودیت ہے.جس کے متعلق بندہ کہتا ہے کہ وہ اتنی بڑھی ہوئی ہے اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ اس کے مقابلہ میں یہ کہنا کہ کسی اور کی بھی اطاعت کرتا ہوں غلط ہے.کیونکہ ایاک نعبد کے یہ معنی ہیں کہ انسان کہتا ہے میں تیری ہی عبادت کرتا ہوں لیکن اگر اس سے خدا تعالیٰ کے حضور حاضری اور سلام ہی مراد ہے.تو اس سے زیادہ تو ایک انسان دن رات میں دوستوں سے ملاقات کر لیتا ہے.اور اس کی بنا پر تو انسان یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ اے خدا میں دوسروں کے مقابلہ میں تیرے لئے زیادہ وقت دیتا ہوں.اور تیری ہی عبادت کرتا ہوں اور کسی کی نہیں کرتا.کیونکہ اس قسم کی اطاعت تو وہ دوسروں کی بھی کرتا ہے.وہ جتنا وقت خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے میں صرف کرتا ہے.اس سے زیادہ دوستوں کی صحبت میں گذارتا ہے.اور اگر انسان دیکھے تو اسے معلوم ہو جائے کہ دوسروں کے لئے وہ خدا تعالی کی نسبت بہت زیادہ وقت صرف کرتا ہے.اگر وہ کسی جگہ نوکر ہے تو اس کا اکثر حصہ وقت اپنے آقا کی خدمت میں صرف ہوتا ہے اور اگر اس کے آقا کی خدمت کا وقت اور خدا تعالیٰ کی حاضری کا وقت دیکھا جائے.تو معلوم ہو گا کہ وقت کا اعلیٰ حصہ اور مقدار کے لحاظ سے زیادہ حصہ آقا کی خدمت میں صرف ہوگا بہ نسبت خدا تعالیٰ کے وقت کے.اور خدا کے لئے جو وقت صرف کیا جاتا ہے.وہ عموما" تھکے ہوئے اوقات میں سے اور مقدار میں بہت کم ہوتا ہے.پھر وہ اپنے وقت کا ایک حصہ کھانے پینے میں صرف کرتا ہے.اور مجبور ہے کہ ایسا کرے.کیونکہ خدا تعالیٰ نے اسے ایسا ہی بنایا ہے.وہ شخص جو دن کے ۱۰ یا ۱۲ گھنٹے بیوی بچوں کے لئے روٹی کمانے میں خرچ کرتا ہے.اس کے متعلق نہیں کہہ سکتے کہ اسلام کے خلاف کرتا ہے.وہ عین اسلام کے مطابق کرتا ہے.کیونکہ خدا نے انسان کو ایسا ہی بنایا ہے کہ وہ اپنے اوقات کا ایک حصہ اپنی اور اپنے لواحقین کی معاش پیدا کرنے میں صرف کرے.مگر اس کے متعلق یہ بھی نہیں کہہ سکتے.کہ خدا ہی کا کام کرتا ہے.باوجود اس کے کہ وہ خدا کے حکم کے ماتحت کرتا ہے.مگر وہ کام عبادت نہیں کہلا سکتی.کیونکہ یہ کام تو ایک دہریہ اور خدا تعالیٰ گا کا منکر بھی کرتا ہے.اور وہ بھی اس میں شامل ہے.اس سے معلوم ہوا کہ ایاک نعبد میں جس عبادت کا ذکر ہے وہ اور قسم کی عبادت ہے.اور عبادت صرف سجدہ اور رکوع نہیں ہے.کیونکہ اگر محض سجدہ کر لینا یا رکوع کرنا ہی عبادت ہوتی تو یہ کون سی مشکل تھی.بہت لوگ کہیں گے.چلو خدا کے آگے سجدہ کر لو کسی اور کے آگے نہ جھکے خدا ہی کے آگے جھک گئے.اس میں کیا حرج ہے.اس میں تو کم محنت پڑتی ہے.کیونکہ اور دس کے
83 آگے جھکنے کی نسبت ایک خدا کے آگے جھکنا آسان ہے.اس میں کم محنت ہوگی اور کون نہیں چاہتا کہ کم محنت اٹھائے.مگر بات یہ ہے کہ صرف خدا کے آگے جھکنا عبادت نہیں.گو خالص عبادت اسی کے لئے کی جائے نماز روزہ اسی کے لئے ہو.مگر صرف یہی کام کرنا اگر دوسروں کو ملا کر دیکھا جائے تو بہت آسان ہو گا.مسلمانوں میں سے ایسے لوگ ہیں جو نماز پڑھتے ہیں.اور پھر سنتیں سید عبد القادر کے لئے پڑھتے ہیں وہ زیادہ عبادت کرتے ہیں.پس عبادت سے مراد محض نماز روزہ نہیں.بلکہ اس سے مراد کامل فرمانبرداری ہے.کامل استقطاع اور کامل تذلل ہے.اس طرح یہ نہیں کہہ سکتے کہ صرف ظاہری عبادت خدا تعالیٰ کے لئے ہے.اس کو عبادت میں سے نکال نہیں سکتے.کیونکہ یہ بھی عبادت ہے.مگر صرف ان ظاہری اعمال کو عبادت نہیں کہہ سکتے.کیونکہ جس طرح ہم خدا تعالیٰ کے یہ احکام مانتے ہیں.اسی طرح دوسروں کے احکام بھی مانتے ہیں.مثلا ایک شخص کسی کا ملازم ہوتا ہے تو اس کے احکام مانتا ہے.اور خدا تعالٰی کی نسبت اس کے احکام کی تعمیل میں زیادہ وقت صرف کرتا ہے.اس وجہ سے اس طرح کی عبادت صرف خدا کے لئے نہ ہوئی.اب سوال یہ ہے کہ وہ کیا طریق ہے کہ انسان دوسرے کاموں میں مصروف ہوتا ہوا بھی خداتعالی کی عبادت میں لگا رہے.اور جس میں امکان ہو کہ اس کا ایاک نعبد کا دعویٰ صحیح ہو سکتا ہے.یہ ظاہر ہے کہ سوائے قلبی، ذہنی اور فکری عبادت کے اور کوئی عبادت ایسی نہیں ہو سکتی جو صرف خدا تعالیٰ کے لئے ہو.کیونکہ یہ ممکن ہے کہ انسان کے ہاتھ پاؤں، آنکھ ، کان زبان اور کاموں میں مصروف ہوں.مگر وہ اپنے دل کو محض اللہ تعالیٰ کی طرف لگائے رکھے.جیسے صوفیاء نے کہا ہے دست در کار دل با یار انسان دنیا کے کام کرے وہ بھی ایک رنگ میں عبادت ہے کیونکہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے.شخص اپنی بیوی کو ایک لقمہ دیتا ہے یہ بھی اس کی عبادت ہے.اگر وہ اس نیت سے دیتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ میں بیوی کو کھانے کے لئے دوں.پس اگر ایک انسان اپنی نیت درست کر لیتا ہے.اور اگر اپنے تمام کاموں میں جڑھ یہی قرار دے لیتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی عبادت کرے تو اس کا ہر کام عبادت کہلا سکتا ہے.اگر وہ روزی اس لئے کماتا ہے کہ خدا کا حکم ہے کہ خود کماؤ دوسروں پر بار نہ بنو.خدا کا حکم ہے کہ اپنی زندگی لغو نہ گزارو.خدا کا حکم ہے کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو.خدا کا حکم ہے کہ بیوی بچوں کی ضروریات مہیا کرو.اس نیت سے اگر وہ ظاہری کام کرتا ہے تو وہ خدا کی عبادت میں لگا ہوگا.پس معلوم ہوا کہ حقیقی عبادت قلب کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.یہی وجہ ہے
84 کہ خدا تعالیٰ نے ایاک نعبد کے آگے ایاک نستعین فرمایا.بعض لوگ اس پر حیران ہوتے ہیں کہ عبادت کو پہلے رکھا گیا.اور استعانت کو بعد میں.حالانکہ استعانت پہلے طلب کرنی چاہئے تھی.تاکہ عبادت کرنے میں سہولت اور آسانی میسر آئے.مگر حق یہی ہے.جو ترتیب خدا تعالیٰ نے رکھی ہے وہی درست ہے.کیونکہ اعمال ظاہری پہلے ہوتے ہیں.اور بعد میں وہ حالت ہوتی ہے کہ اخلاص کامل ہو.قطع نظر اس سے کہ خدا تعالیٰ کا قانون جاری ہے.اور ہم اسے تسلیم کرتے ہیں.مگر خدا تعالیٰ نے انسان کو جو قدرت دی ہے.اسے مد نظر رکھتے ہوئے جانتے ہیں کہ انسان اپنے ارادہ سے کام کرتا اور نفس کو کام کرنے کے لئے مجبور کر سکتا ہے.مثلا" جس قدر لوگ اس وقت یہاں بیٹھے ہیں ان میں سے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس کے لئے یہاں سے اٹھ کر مسجد مبارک میں جانا ناممکن ہے.اگر اس کے ہاتھ پاؤں ثابت ہیں.کیونکہ ہم جانتے ہیں.دل خواہ کسی کام کو کتنا ہی نہ چاہے.خدا تعالیٰ نے انسان میں طاقت رکھی ہے کہ اگر وہ چاہے تو اپنے نفس کو وہ بات ماننے پر مجبور کر سکتا ہے.ایک ایسا شخص ہے جس کا دل نہیں چاہتا کہ نماز پڑھے.مگر وہ اپنے آپ کو مجبور کر سکتا ہے کہ کھڑا ہو.رکوع کرے.سجدہ کرے.ہاں جس بات پر انسان کا کوئی اختیار نہیں ہے وہ دل کی حالت ہے.مثلا ایک شخص کی ایک سے زیادہ بیویاں ہیں.وہ اپنے آپ کو مجبور کر سکتا ہے کہ سب کو مساوی باری دے.سب سے ایک جیسا سلوک کرے.لیکن اگر اس کے دل میں سب سے یکساں محبت نہیں.تو وہ اپنے دل کو مجبور نہیں کر سکتا کہ سب سے یکساں محبت کرے اور اس وقت تک ایسا نہیں کر سکتا جب تک " ایسے حالات نہ پیدا ہو جائیں کہ اس کے دل کی حالت بدل جائے.یا مثلا ایک شخص ہے وہ بعض طبائع کو پسند کرتا اور ان کے ساتھ مل کر کام کر سکتا ہے.لیکن ایسا افسر آ جاتا ہے.جس سے اس کی طبیعت نہیں ملتی تو اس کے دل میں اس کی ہر بات کھٹکتی رہے گی.گو ظاہری طور پر اس کی اطاعت کر سکتا ہے.تو خدا تعالیٰ نے انسان کو یہ طاقت دی ہے کہ وہ ظاہری کاموں میں اپنے آپ کو مجبور کر سکتا ہے.اب اگر ایاک نعبد میں صرف ظاہری اعمال ہوتے.تو اس کے لئے ایاک نستعین کی ضرورت نہ تھی.مگر یہاں قلبی اطاعت مراد ہے.کیونکہ اصل عبادت قلب ہی کی ہے.اس لئے انسان کہتا ہے.الہی قلب کا بدلنا میرے اختیار میں نہیں ہے.اسے تو ہی بدل سکتا ہے.کیونکہ قلب تیرے ہی اختیار میں ہے میرے اختیار میں نہیں ہے.میں اپنے آپ کو عبادت کے لئے کھڑا کر سکتا.رکوع بھی کر سکتا ہوں.سجدہ بھی کر سکتا ہوں.مگر دل کو نہیں عبادت میں لگا سکتا.اسے تو ہی بدل دے.پس ایاک نستعین نے بتا دیا کہ یہ قلبی عبادت ہے.جہاں خدا کی مدد کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا.
85 کوئی کہے ایسا شخص عبادت کے لئے کھڑا ہی کس طرح ہو سکتا ہے.جس کا دل نہیں مانتا.مگر جانا چاہئے.انسان میں دو کیفیتیں ہوتی ہیں.ایک عقل کی اور ایک احساسات کی.عقل کو انسان مجبور کر سکتا ہے.مگر جذبات اور احساسات کو مجبور نہیں کر سکتا.جو عبادت کے لئے کھڑا ہوتا ہے وہ عقل اور دلیل سے یہ بات منوا لیتا ہے.مگر دلیل سے محبت پیدا نہیں کی جا سکتی.محبت خدائی فعل سے ہی پیدا ہوتی ہے.اور اس کے باریک ذرائع ہیں اور ایسے باریک کہ انسان کے قبضہ میں وہ ایسے نہیں ہیں جیسے عقل اس کے قبضہ میں ہے.مثلاً ایک شخص کے سامنے جب حضرت عیسی کے فوت ہونے کے دلائل پیش کئے جائیں.اور وہ نہ مانے تو کہیں گے.کیسا پاگل ہے.ایسے زبردست دلائل نہیں مانتا.لیکن اگر کسی سے کہیں فلاں سے محبت کرو اور وہ نہ کرے تو یہ نہیں کہہ سکتے وہ پاگل ہے.اتنی دفعہ کہا ہے کہ فلاں سے محبت کرو مگر نہیں کرتا.کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ دل میں محبت پیدا کرنا اس کے اختیار کی بات نہیں ہے.دیکھو خدا تعالیٰ رسول کریم ان سے فرماتا ہے.اگر خدا کا فضل جاری نہ ہوتا اور تو ساری دنیا کا مال خرچ کر دیتا.تو بھی لوگوں کے دلوں میں اپنی محبت نہ پیدا کر سکتا.گو عقل یہ کہتی ہے کہ جو احسان کرے اس سے محبت کرو.مگر جذبات دل کو مجبور نہیں کیا جا سکتا.کہ اس طرح محبت پیدا ہو.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں.رسول کریم ﷺ نے بعض لوگوں پر بڑے بڑے احسان کئے.مگر ان کے دلوں میں ذرا بھی محبت نہ پیدا ہوئی.عبد اللہ بن ابی بن سلول اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ رسول کریم لالا نے کیسے کیسے احسان کئے.مگر چونکہ وہ لوگ خدا تعالیٰ کے حضور ایاک نعبد و ایاک نستعین سچے دل سے نہ کہتے تھے.اس لئے ان کے دلوں میں رسول کریم کی کچھ بھی محبت نہ پیدا ہوئی.ان کے دل میں جو یہ خیال تھا کہ ہم سے کوئی سلوک اور احسان نہیں کیا گیا.یہ محبت کی کمی کا ہی نتیجہ تھا اور کوئی عقلی دلیل یہاں کام نہ کر سکتی تھی.یہاں خدا کا فضل ہی کام دے سکتا تھا اور اس نے مخلص صحابہ کا دل رسول کریم ﷺ کی طرف پھیر دیا تھا.حضرت عمرو بن العاص جب فوت ہونے لگے.تو یہ کہہ کر رو پڑے کہ میں نہیں جانتا میرا کیا انجام ہوگا.ان کے بیٹے نے ان سے کہا.آپ نے بڑی بڑی خدمات کی ہیں.آپ کو اس قدر گھبراہٹ کیوں ہے.انہوں نے کہا.عبداللہ یہ ان کے بیٹے کا نام تھا.تمہیں نہیں معلوم مجھ پر کئی زمانے آئے ہیں.ایک وقت ایسا بھی آیا جب میں یہ بھی پسند نہ کرتا تھا کہ ایک چھت کے نیچے میں اور رسول کریم جمع ہوں.اس وقت مجھے رسول کریم سے بڑھ کر کوئی مبغوض نہیں نظر آتا تھا.اور اسی وجہ سے میں نے کبھی آپ کی شکل نہ دیکھی تھی.پھر ایک زمانہ مجھ پر ایسا آیا کہ خدا تعالیٰ نے میرا
86 الله دل کھول دیا.اس وقت ساری دنیا میں سوائے محمد ان کے اور کوئی چیز مجھے محبوب نہ تھی.اس وقت محبت کی وجہ سے آپ کے جلال کے باعث میں نے آپ کی شکل نہ دیکھی.اب اگر کوئی مجھے سے رسول کریم ﷺ کا حلیہ پوچھے تو میں نہیں بتا سکتا اگر میں رسول کریم کے وقت فوت ہو جاتا.تو اچھا ہوتا آپ کے بعد جھگڑے پیدا ہو گئے.معلوم نہیں مجھ سے کیا کیا غلطیاں ہوئیں یہ اللہ ہی جانتا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ دل خدا ہی کے قبضہ میں ہیں اور وہی ان کو بدل سکتا ہے.پھر دیکھو کیا رسول کریم ﷺ نے حضرت عمر اللہ پر اس وقت احسان کرنے شروع کئے تھے جب ان کے دل میں رسول کریم ﷺ کی محبت پیدا ہوئی.احسان تو آپ پہلے سے کرتے چلے آ رہے تھے.بات یہ ہے کہ خدا کے فضل نے حضرت عمر کے دل میں اس وقت محبت پیدا کر دی.اور جب محبت پیدا کر دی تو پچھلے احسان بھی نظر آنے لگ گئے.اب اگر ظاہری حالات کو دیکھا جائے تو حضرت ابو بکر اور حضرت عمر وغیرہ جو رسول کریم اللہ کے حکم پر اپنے مال قربان کرتے تھے.کہہ سکتے تھے کہ ہم نے یہ احسان کیا.وہ احسان کیا.مگر اس کے مقابلہ میں وہ اپنے مال اور جانیں قربان کر کے کہتے ہم پر رسول کریم نے بڑا احسان کیا کہ ہم کو ان خدمات کا موقعہ حاصل ہوا.دوسری طرف عبد اللہ بن ابی کو مال ملتا تھا.مگر وہ یہ کہتا مجھ پر کوئی احسان نہیں کیا.بات یہی ہے کہ احساسات جذبات اور قلب سے تعلق رکھتے ہیں.اور یہ خدا ہی کے ہاتھ میں ہوتا ہے.اسی لئے خدا تعالیٰ نے مومن کو سکھایا ہے کہو.ایاک نعبد و ایاک نستعین - ایاک نعبد سے انسان کی عقلی اصلاح ہوتی ہے.تب وہ ظاہری عبادت کرتا ہے.مگر اصل چیز محبت کا درجہ ہے.جو عمل کے بعد اس وقت آتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد اور نصرت حاصل ہوتی ہے.اس لئے بتایا خدا ہی کی عبادت کرو.مگر ساتھ ایاک نستعین کہو یعنی خدا سے اپنے دل کی اصلاح چاہو.کیونکہ اس کے بغیر کوئی عبادت عبادت نہیں ہے.محبت کا جذبہ ایک ایسا جذبہ ہے کہ جب یہ پیدا ہو جائے تو پھر کسی دلیل کی حاجت باقی نہیں رہتی.مجھے سلسلہ احمدیہ کے ایک قابل قدر رکن کی بات جو فوت ہو چکے ہیں اور جن کا نام منشی روڑے خان تھا.بہت ہی پسند آئی.وہ اپنا واقعہ سناتے ہوئے کہتے مجھ سے کسی نے پوچھا.مرزا صاحب کے بچے ہونے کی تمھارے پاس کیا دلیل ہے.میں نے کہا اگر دلیل پوچھنی ہے تو کسی اور سے جا کر پوچھو.مجھے تو ایک ہی دلیل یاد ہے.اور وہ یہ کہ میں نے مرزا کا چہرہ دیکھا.وہ جھوٹا نہیں ہو سکتک یہ محبت کا جذبہ تھا.پس محبت کے جذبات جن کے دل میں پیدا ہو جاتے ہیں.وہ ہر قسم کی
87 آفات سے جو ایمان کے ساتھ لگی ہوتی ہیں محفوظ ہو جاتے ہیں مگر محبت کے جذبات دلائل سے یا عقل سے پیدا نہیں کئے جا سکتے.بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتے ہیں.اس میں ذہن اور عقل اور اعمال کا بھی دخل ہوتا ہے.مگر اصل چیز خدا تعالیٰ کی مدد اور نصرت ہی ہے.کیونکہ وہی ان چیزوں کی وہ مقدار جانتا ہے جس کے بعد محبت کا درجہ دیتا ہے.اس لئے خدا تعالیٰ سے ہی کہنا چاہئے کہ ہمیں اس مقام پر لے جا کہ ہماری اطاعت محبت کی اطاعت ہو.اور ہمیں وہ مقام عطا کر کہ جب انسان اس پر پہنچ جاتا ہے تو پیچھے ہٹ ہی نہیں سکتاک یہ ہے وہ فدائیت کا مقام جسے صوفیا فنا کہتے ہیں.اس وقت انسان اپنے وجود کو فنا کر دیتا ہے.اس وقت وہ عقل سے کام نہیں کرتا.کیونکہ عقل اس مقام سے پیچھے رہ جاتی ہے.وہ عقل سے سچائی اور راستی کا پتہ لگا لیتا ہے.اور جب اسے اس کا پتہ لگ جاتا ہے تو پھر وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں جذبات کا کام ہوتا ہے.اس جگہ پہنچ کر انسان ٹھوکر سے بچ جاتا ہے.کیونکہ جذبات دوسری طرف بھی اپنا کام کر رہے ہوتے ہیں.ایک دفعہ میں نے رویا میں دیکھا کہ ایک چبوترہ پر حضرت مسیح کھڑے آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں.اوپر سے حضرت مریم اتریں.اور ان سے آکر گلے مل گئیں.اس وقت میری زبان سے یہ فقرہ نکلا Love Creats Love محبت محبت سے پیدا ہوتی ہے.پس جب انسان کے دل میں محبت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں تو خدا تعالیٰ کی طرف سے بھی اس کی محبت کے سامان پیدا ہو جاتے ہیں.اور پھر ان ارواح میں بھی محبت پیدا ہو جاتی ہے جن سے وہ شخص محبت کرتا ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ انہیں ان محبت کرنے کی تحریک کرتا ہے عقلی اور ذہنی سلوک تو انسان زندوں سے کر سکتا ہے مردوں سے نہیں کر سکتا.مگر محبت کا سلوک مردوں سے بھی کر سکتا ہے.بلکہ زندوں کی نسبت زیادہ کر سکتا ہے اور وہ بھی اس سے محبت کا سلوک کرتے ہیں.اس وقت انسان ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اس کے لئے زندہ تو زندہ ہوتے ہی ہیں مردہ بھی زندہ ہو جاتے ہیں اور وہ ایسے مقام پر ہوتا ہے کہ گو اس کا جسم مردوں سے دور ہوتا ہے مگر ان کی روحیں اکٹھی ملی ہوتی ہیں.پس ہماری جماعت کے لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنی عقلی ، فکری اور عملی اصلاح کے بعد خداتعالی سے یہ دعائیں مانگیں کہ ایسا جذبہ عطا ہو کہ ان کا ہر کام خدا ہی کے لئے ہو.اور خدا سے ان کا تعلق عقل کے ساتھ نہ ہو بلکہ عشق سے ہو.یعنی ایسی آگ لگی ہوئی ہو کہ ایک دم کی دوری بھی جلا دے.اس کے بعد انہیں وہ صراط مل جائے گی جس سے پیچھے نہیں لوٹیں گے.پس میں دوستوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے ظاہری اعمال پر نہ رہیں.اور نہ عقل
88 و فکر پر تکیہ کریں.بلکہ وہ جذبہ پیدا کریں جس کے پیدا ہونے کے بعد قدم کبھی پیچھے نہیں ہٹ سکتا اور خدا تعالیٰ کے حضور ایسی محبت پیدا ہو جائے کہ ہماری اس سے دوری ہونے کو وہ بھی پسند نہ کرے اور ہمیں اپنے سے دور نہ جانے دئے.الفضل ۱۶ مارچ ۱۹۲۶ء) ا مسلم کتاب الایمان باب کون الاسلام يحدم ما قبله وكذا الهجرة - مهاجرین حصہ دوم معین الدین ندوی صه ۱۵۲
89 10 غیر مبایعین کا نامناسب رویہ (فرموده ۱۲ مارچ ۱۹۲۶ء) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : میرا طریق اور مسلک ہمیشہ سے یہی چلا آیا ہے کہ جہاں تک ہو سکے میں بحث سے گریز کرتا ہوں.قدرتی طور پر میری طبیعت ایسی واقع ہوئی ہے کہ میں مبا مثانہ طریق کو نا پسند کرتا ہوں.اگر کوئی شخص مجھ سے بحث کے رنگ میں گفتگو شروع کرنا چاہے.تو میں اس طریق سے حتی الوسع کنارہ کشی کرتا ہوں.ہاں مذہبی بحث اور چیز ہے.مذہب کی خاطر اس خیال سے کہ بحث نہ کرنے کی صورت میں اسے نقصان پہنچے گا.پورے شوق اور ذوق کے ساتھ بحث میں حصہ لیتا ہوں.لیکن دوسرے امور میں مباحثانہ رنگ اختیار کرنے سے گریز کرتا ہوں.اور باوجود اس کے کہ دلیل کا جواب میں دلیل سے دے سکتا ہوں پھر بھی میرا ہمیشہ سے یہی طریق رہا ہے کہ میں بحث سے پہلو تہی کرتے ہوئے معاملہ کو اور صورت میں طے کرنا چاہتا ہوں.مثلاً بسا اوقات جب ہمارے انتظامی معاملات پر آپس میں گفتگو ہو.اور دوستوں کے درمیان اختلاف ہو.تو میں ایسا طریق اختیار کرتا ہوں کہ سننے والا یہی خیال کرے گا شائد اس کے پاس کوئی دلیل نہیں جس کی وجہ سے یہ اپنے مقام کو چھوڑ رہا ہے اور پیچھے ہٹ رہا ہے.مگر میں ہمیشہ یہی چاہتا ہوں کہ بجائے مخاصمانہ رنگ میں گفتگو کرنے کے کوئی ایسا درمیانی طریق نکل آئے جس سے بغیر اس کے کہ کسی قسم کا نقصان پہنچے میں دوسروں کی آراء اور احساسات کو مد نظر رکھ سکوں.لیکن اس طریق کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ مخالفین ہمیشہ میری ذات پر طرح طرح کے حملے کرتے رہے ہیں.بسا اوقات دوستوں نے چاہا کہ میں بعض معاملات میں دخل دوں اور اپنے مخالفین کے اعتراضات کے جواب دوں.لیکن میں حتی الامکان اس خیال سے بچتا رہا کہ جب میری طرف سے
90 خاموشی ہوگی تو وہ ایسے کمینہ حملوں سے خود ہی باز آجائیں گے لیکن باوجود اس کے غیر مبایعین کی طرف سے میرے خلاف ہمیشہ مضامین نکلتے رہتے ہیں.جن میں وہ مجھے پر ذاتی حملے کرتے رہتے ہیں اور اب وہ اس میں بہت بڑھ گئے ہیں.اگر پچھلے چند سال کے میرے خطبات اور مضامین نکال کر دیکھے جائیں.تو معلوم ہو سکتا ہے کہ جس کثرت سے غیر مبایعین نے میرے خلاف لکھا ہے.اس کے مقابلہ میں دسواں حصہ بھی میرے خطبات میں ان کے متعلق نہیں کہا گیا.اس کی یہ وجہ نہیں ہے کہ مجھے ان کے اعتراضات پر اطلاع نہیں ہوتی اور نہ میں یہ خیال کر سکتا ہوں کہ کسی کو یہ خیال ہو گا کہ ان کے اعتراضوں کا کوئی جواب ہی نہیں دیا جا سکتا.اور نہ ان پر کوئی اعتراض ہو سکتا ہے.کیونکہ ہم دیکھتے ہیں.اعتراض کرنے والے تو لا الہ الا اللہ پر بھی اعتراض کر دیتے ہیں.پس اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ غیر مبایعین جو کچھ لکھتے ہیں وہ درست ہوتا ہے تو بھی یہ نہیں خیال کیا جا سکتا کہ ان پر کوئی اعتراض ہی نہیں کیا جا سکتا.کیونکہ ان کی باتیں لا الہ الا اللہ سے تو زیادہ سچی نہیں ہو سکتیں.بیشک وہ یہ تو خیال کر سکتے ہیں کہ میں ان کی نظر میں حق سے دور لے جانے والا ہوں.لیکن وہ یہ نہیں خیال کر سکتے کہ ان کی باتوں کا کوئی جواب ہی نہیں ہو سکتا.جب کہ دنیا میں ہر ایک بات کا جواب دیا جاتا ہے اور بچی سے سچی بات کے جواب میں بھی اعتراض کئے جاتے ہیں.پس میری خاموشی اس وجہ سے نہیں کہ میں ان کی باتوں کا جواب نہیں دے سکتا.اور ان پر کوئی اعتراض نہیں کر سکتا.بلکہ اس طبعی امر کی وجہ سے ہے کہ میں حتی الوسع ذاتیات میں نہیں دخل دینا چاہتا اور ذاتیات کی طرف جانا پسند نہیں کرتا.نزدیک دوسرے پر اعتراض کرنے اور دوسرے کی ذات پر حملہ کرنے سے تقویٰ اور بڑائی ثابت نہیں ہو سکتی.بلکہ یہ اپنے اعمال اور افعال سے ثابت ہوتی ہے ہم اگر کسی کو ذلیل سے ذلیل بھی ثابت کر دیں.تو اس سے یہ نہیں ثابت ہو جائے گا کہ ہمارے اندر کوئی خوبی ہے.اپنی خوبی اپنے کام سے ہی ثابت ہوگی.پس نہ تو ہمارے مخالفین کا یہ خیال ہونا چاہئے کہ ہم ان کی باتوں کا کوئی جواب نہیں دے سکتے اور نہ ان کو یہ سمجھنا چاہئے کہ ہم پر ناپاک حملے اور اعتراض کرکے وہ اپنی خوبی اور بڑائی کا لوگوں کو قائل کر سکیں گے.بے شک وہ اپنی باتوں کو سچا سمجھتے ہوں گے.لیکن کم از کم وہ دنیا کے حالات سے اتنے تو ناواقف نہیں ہوں گے کہ دنیا میں ہر ایک بات کا جواب دیا جا سکتا ہے اور دیا جاتا ہے.اسی طرح وہ اپنے آپ کو بے عیب خیال کرتے ہوں گے.لیکن ایسے نادان تو نہیں ہو
91 سکتے کہ وہ یہ خیال کر لیں ان پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا جبکہ وہ دیکھتے ہیں کہ خدا جیسی بے عیب ذات پر بھی اعتراض کرنے والے اعتراض کرتے ہیں.پس جب خدا پر اور اس خدا پر جسے اسلام پیش کرتا ہے اعتراض کرنے والے اعتراض کرتے ہیں.تو وہ کس طرح خیال کر سکتے ہیں کہ وہ خدا سے بھی بڑھ کر بے عیب ہیں کہ ان پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا.پس اگر ذرا بھی وہ عقل سے کام لیتے تو سمجھ سکتے تھے کہ میں جو ان کے مقابل اکثر خاموش رہتا ہوں.تو میری اس خاموشی کی وجہ یہ نہیں کہ میں ان کے اعتراضات کے جواب نہیں دے سکتا اور میرے پاس دلائل نہیں.پھر وہ یہ بھی خیال کر سکتے تھے کہ ان کی ذات اس قدر بے عیب نہیں کہ ان پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا.بلکہ میری خاموشی کی وجہ میرا طبعی میلان ہے.اور اسی وجہ سے اپنے دوستوں کو بھی اخباروں میں ذاتیات میں پڑنے سے روکتا رہتا ہوں.خود میں نے کبھی ذاتیات پر بحث نہیں کی.اور سوائے شاذ و نادر کے ان کے ایسے اعتراضوں کے جواب نہیں دیئے.اور جو دیئے.وہ بھی اس وقت جبکہ بعض لوگوں کے ایمان کا خطرہ تھا.لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض لوگ شرافت سے اس قدر عاری ہو جاتے ہیں کہ خاموشی کو شکست اور نرمی کو بزدلی اور عفو کو کمزوری خیال کر لیتے ہیں.جب وہ مقابل سے خاموشی دیکھتے ہیں.یہی روش غیر مبایعین نے اختیار کر رکھی ہے.وہ روز بروز ایسے حملوں میں بڑھتے چلے جاتے ہیں.حالانکہ میں جانتا ہوں کہ پچھلے دو سال میں ایک سطر یا ایک اشارہ بھی میرے خطبات میں سے کسی غیر مبایع کے متعلق ایسا نہیں دکھا سکتے.جس میں کسی قسم کا حملہ کیا گیا ہو.ایسی حالت میں ان کے برابر بڑھتے چلے جانے کی وجہ یہی ہے کہ ان کے ذاتی اعتراضات کا ہماری طرف سے جواب نہیں دیا جاتا.بعض دفعہ ان کے معززین جب ملے ہیں.تو انہوں نے خواہش ظاہر کی ہے کہ آپس میں ایک دوسرے پر اعتراضات نہ کئے جائیں.اور باہمی صلح کر لی جائے.کیونکہ اعتراضات سے سلسلہ کو نقصان پہنچتا ہے.اس کے متعلق میں نے ہمیشہ آمادگی ظاہر کی ہے.لیکن ان کی یہ خواہش کبھی سچی ثابت نہیں ہوئی.یہی دیکھ لو گذشتہ ڈیڑھ دو سال میں ایک خطبہ بلکہ کسی خطبہ میں کوئی فقرہ بھی ان کے خلاف میرے منہ سے نہیں نکلا.لیکن اس کے مقابل ان کے پریذیڈنٹ اور ان کے امیر نے اپنے کئی خطبات اور تقریروں میں مجھ پر ذاتی حملے کئے ہیں.اب ایک طرف ان کے امیر کا اس طرح غیر شریفانہ اعتراضات کرنا.اور دوسری طرف یہ کہنا کہ آؤ صلح کرلیں.ذاتی اعتراضات سے بڑا نقصان پہنچا ہے.یہ ان کی نیتوں اور ارادوں پر بخوبی روشنی ڈالتا ہے.بھلا اس طرح بھی کبھی صلح ہو سکتی
ہے.92 صلح دل کی اصلاح کے ساتھ ہوا کرتی ہے.دیکھو مسٹر گاندھی نے دلوں کو درست کئے بغیر ہندو مسلمانوں کی صلح کرانی چاہی.سال بھر تک تو آپس میں اس قدر صلح نظر آتی تھی کہ سگے بھائیوں سے زیادہ محبت معلوم ہوتی تھی مگر اس کے بعد پھر مخالف اثر پیدا ہونا شروع ہوا.اور ایسا اثر ہوا کہ آج سے میں سال پہلے مسلمانوں اور ہندوؤں کے تعلقات اتنے خراب نہیں تھے.جتنے اس صلح اور اتحاد کے بعد ہو گئے ہیں جو مسٹر گاندھی نے کرائی تھی.اور جس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ کبھی ٹوٹ نہیں سکتی.وہ ٹوٹی اور ایسی ٹوٹی کہ پہلے سے بھی بدتر حالت ہو گئی.اس کی یہی وجہ ہے کہ بغیر دلوں کی اصلاح کئے صلح کی کوشش کی گئی مگر قوموں کی صلح ہمیشہ اسی صورت میں ہو سکتی ہے.جب ان کے دل اس بات کو محسوس کریں کہ ذاتیات پر بلا وجہ بیہودہ اعتراضات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا.اگر اس بات کو دل محسوس نہ کریں تو لاکھ مریں اور دستخط ہوں.اور لاکھ شرائط طے کئے جائیں.صلح کبھی قائم نہیں رہ سکتی.پھر قوموں میں صلح بڑوں کے صلح کر لینے سے اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتی.جب تک قوم کے افراد میں سے صلح کے موانع دور نہ کئے جائیں.وہ اقوام جن میں صلح کے مواقع پیدا ہوتے رہیں.ان کے افراد میں کبھی صحیح صلح نہیں ہو سکتی.پھر تمام طبائع ایک سی نہیں ہوتیں.بعض طبائع جو شیلی ہوتی ہیں.بعض متحمل اور نرم ہوتی ہیں جو دوسروں کی سختی برداشت کر لیتی ہیں.لیکن بعض طبائع برداشت نہیں کر سکتیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک مخلص دوست پروفیسر کے نام سے مشہور تھے.وہ حضرت صاحب کے خلاف کوئی بات سن کر برداشت نہیں کر سکتے تھے.ایک دفعہ خواجہ کمال الدین صاحب نے حضرت صاحب کی خدمت میں ان کے متعلق شکایت کی کہ یہ لوگوں سے بڑی سختی سے پیش آتے ہیں.ان کو نرمی اور صبر کی نصیحت کی جائے.حضرت صاحب نے انہیں بلا کر نصیحت شروع کی کہ آپ سختی چھوڑ دیں.اگر کوئی ہمیں برا بھلا کے تو صبر کیا کریں.ایسے موقعہ پر اسلام صبر کی تعلیم دیتا ہے.پہلے تو وہ خاموشی سے سنتے رہے.جب حضرت صاحب خاموش ہو گئے تو بڑے جوش سے کہنے لگے.آپ ہمیں تو صبر کی تعلیم دیتے ہیں.لیکن جب آپ کے پیر ( محمد رسول اللہ ا ) کو کوئی گالی دیتا ہے.تو مباہلہ کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.تو طبائع مختلف قسم کی ہوتی ہیں.اب اگر ایک جماعت دیکھتی ہے کہ اس کے امام کو بلاوجہ گالیاں دی جاتی ہیں.اور اس پر بے جا
93 اعتراضات کئے جاتے ہیں.تو وہ کب تک برداشت کرتی جائے گی.بہت سے لوگ ہوں گے جو قتل ہو جانا برداشت کر لیں گے.لیکن یہ برداشت نہیں کریں گے کہ ان کے امام پر بے ہودہ اعتراضات کئے جائیں اور اسے برا بھلا کہا جائے.میں پوچھتا ہوں.اگر واقعہ میں غیر مبایعین صلح کے خواہشمند ہیں اور نیک نیتی سے ایک دوسرے کے خلاف لکھنا بند کرنا چاہتے ہیں.تو کیا وجہ ہے کہ ہماری طرف سے خاموشی اختیار کرنے پر وہ مجھ پر بلا وجہ اعتراض پر اعتراض کرتے چلے جاتے ہیں.پیچھے ایک دفعہ ڈلہوزی میں ان میں سے ایک شخص مجھے ملنے آئے.ان کے والد پہلے تو غیر مبایع تھے لیکن بعد میں انہوں نے میری بیعت کرلی اور مخلص ہیں.وہ کہنے لگے.آپ مولوی محمد علی صاحب سے صلح کر لیں.اس کا نیک نتیجہ پیدا ہو گا.اور مولوی محمد علی صاحب کہتے ہیں کہ میں آپ کی دعوت کرنا چاہتا ہوں.آپ قبول کر لیں.میں نے کہا آپ میری بات بھی سن لیں.اور پھر اندازہ لگائیں کہ میں کیونکر دعوت قبول کر سکتا ہوں.میں نے کہا حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد جب میں لاہور آیا.تو میں نے ایک دوست کے ذریعہ اس خیال سے کہ بعض دفعہ ملاقات کرنے سے ایک دوسرے سے نفرت دور ہو جاتی ہے.یہ تجویز کی کہ مولوی محمد علی صاحب کی دعوت کی جائے.چنانچہ اس دوست نے دعوت کی.لیکن مولوی محمد علی صاحب نے بجائے دعوت منظور کرنے کے یہ کہا کہ پہلے مباحثہ ہونا چاہئے.اب دیکھئے میں نے تو یہ تجویز کی لیکن ادھر مولوی صاحب نے دعوت کا انکار کرتے ہوئے مباحثہ کے لئے آمادگی ظاہر کی.جس کے لئے بعد میں شرائط وغیرہ بھی پیش ہوتی رہیں.اور آخر وہ مباحثہ کی طرف بھی نہ آئے.پھر ایک دفعہ عبدالحی مرحوم کی وفات پر مولوی محمد علی صاحب اور ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب وغیرہ یہاں آئے.تو میں نے دعوت کے لئے پیغام بھیجا.لیکن اس وقت بھی انہوں نے دعوت سے انکار کر دیا.پھر ایک دفعہ یہاں شیخ رحمت اللہ صاحب آئے.اور بہشتی مقبرہ میں گئے.تو میں نے قاضی امیر حسین صاحب کے ذریعہ وہیں انہیں دعوت کا پیغام بھیجا.مگر انہوں نے انکار کر دیا.اور پھر میں خودان کے پاس پہنچا.اور وہیں چائے منگا کر ان کو پلائی اور ٹھیرنے کے لئے بھی کہا.لیکن وہ ٹھیر نہ سکے.پھر یہ لوگ مولوی محمد احسن صاحب کے لئے یہاں آئے تو میں نے دعوت کا پیغام بھیجا.لیکن انہوں نے دعوت رد کر دی میں نے مولوی شیر علی صاحب کے ہاتھ ٹانگہ پر کھانا بجھوایا کہ بٹالہ اتر کر کھا لینا.لیکن انہوں نے ٹانگہ میں برتن رکھے ہوئے اتار دیے.ان واقعات کے بعد بتائیے.غیرت بھی کوئی چیز ہے یا نہیں.اور ان حالات میں میں ان کی دعوت کیونکر قبول کر سکتا ہوں.اس پر اس دوست نے
94 کہا.پھر آپ دعوت کریں.مولوی صاحب آجائیں گے.میں نے کہا یہ ٹھیک ہے لیکن یہ موقعہ دعوت کے لئے مناسب نہیں.کیونکہ یہاں نہ تو ہمارے پاس برتن کھانا پکانے کے لئے ہیں اور نہ آدمی کھانا پکانے والا ہے.اس لئے پھر کسی موقعہ پر دعوت ہو سکتی ہے.اس کے بعد وہ دوست چلے گئے اور مولوی صاحب سے یہ باتیں کہہ دیں.میں جب یہاں واپس آیا.تو آتے ہی میں نے اپنے اخباروں کے ایڈیٹروں کو سمجھا دیا کہ اب ان کے خلاف کوئی بات نہ لکھی جائے لیکن ادھر تو میرا یہ رویہ تھا کہ میں نے یہاں پہنچتے ہی اخباروں کے ایڈیٹروں کو ان کے خلاف لکھنے سے منع کر دیا اور ادھر اسی سفر کے متعلق ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کی طرف سے پیغام میں ایک مضمون نکلا.جس میں لکھا گیا کہ معلوم ہوتا ہے اب میاں صاحب کی آمدنی کم ہو گئی ہے اور ان کی جماعت ان کی فضول خرچیوں سے تنگ آگئی ہے.کیونکہ اب سفر ڈلہوزی میں ان کے ساتھ شان و شوکت نہ تھی.بہت سادگی کے ساتھ انہوں نے یہ سفر کیا.اب دیکھئے ادھر تو صلح کے لئے بات چیت کی جاتی ہے اور میں واپس آکر اخبار والوں کو ان کے خلاف قلم اٹھانے سے روکتا ہوں.اور ادھر میرے اس سفر کے متعلق لکھا جاتا ہے کہ اب معلوم ہوتا ہے.میاں صاحب کو ان کی جماعت روپیہ نہیں دیتی.اور ان کی فضول خرچیوں سے تنگ آگئی ہے اور جماعت میاں صاحب سے متنفر ہو رہی ہے.کیونکہ اب کی دفعہ میاں صاحب کے ساتھ شان و شوکت نہیں تھی.اس وقت میں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا تھا.کیونکہ میں سمجھتا تھا.بعض طبائع میں نیش زنی کی عادت ہوتی ہے.شریف آدمی جو تعصب سے خالی ہو.وہ خود ہی ان کی تحریر.اندازہ لگا لے گا کہ ان کا دل شرافت سے خالی ہو چکا ہے.مضمون ان کے کسی بچہ یا نوجوان کا نہیں تھا.بلکہ ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کا تھا جو مولوی محمد علی صاحب کے خسر ہیں اور جن کو ان کی جماعت میں خاص اعزاز حاصل ہے.اب ان سے کوئی پوچھے.ہماری کون سی بات ہوگی جس پر تم اعتراض نہیں کرو گے.حقیقت یہ ہے کہ وہ لوگ جن کے دل شرافت سے خالی ہو چکے ہوں اور جائز و ناجائز مخالفت کی کوئی پروانہ کریں وہ ہر بات پر اعتراض کر سکتے اور کرتے ہیں.دیکھو حضرت مسیح علیہ السلام جب دنیا میں آئے تو دشمنوں نے ان پر یہ اعتراض کیا کہ اگر یہ سچا ہے تو اس کے ساتھ فوجیں کیوں نہیں مگر جب محمد رسول اللہ اللہ فوجوں کے ساتھ آئے تو کہہ دیا کہ یہ خونریزی کرتا ہے.اگر سچا ہے تو فوجیں اس کے ساتھ کیوں ہیں.اسی طرح ہماری حالت ہے.اگر ہمارے ساتھ سفر میں جماعت کے کچھ آدمی
95 ہوں تو غیر مبایعین شور مچا دیتے ہیں.کہ اتنا خرچ کر کے جماعت کا مال تباہ کر دیا اور اگر ساتھ نہ لے جاؤں تو پھر کہتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے.میاں صاحب سے جماعت تنگ آگئی ہے.کیونکہ ان کے ساتھ شان و شوکت نہیں.میں کہتا ہوں بھلے مانسو! مجھے اس کے سوا تم ہی کوئی طریق بتاؤ کہ نہ تو میرے ساتھ سفر میں آدمی جائیں اور نہ میں بغیر آدمیوں کے جاؤں.اگر آدمی جاتے ہیں.تو اس کے یہ معنے لئے جاتے ہیں کہ میں شہرت اور شوکت چاہتا ہوں اور جماعت کا روپیہ برباد کرتا ہوں اور اگر نہ لے جاؤں تو پھر اعتراض ہوتا ہے کہ جماعت میں میرے خلاف ایک جوش پیدا ہو گیا ہے.پیچھے جب میں ولایت گیا تو شور مچا دیا کہ بھلا بارہ تیرہ آدمیوں کو ساتھ لے جانے کی کیا ضرورت تھی.اس طرح قوم کا روپیہ برباد کیا گیا ہے.اب میں پوچھتا ہوں مہربانی کر کے مجھے بتائیے.میں وہ کون سا طریق اختیار کروں کہ جب میں کسی سفر پر جاؤں تو میرے ساتھ اور آدمی جائیں بھی اور نہ بھی جائیں.یہ تو ویسی ہی بات ہے جیسے پنڈت دیانند نے انجیل پر ایک یہ اعتراض کیا ہے کہ انجیل میں آتا ہے خدا سب دنیا کی دعائیں سنتا ہے.اور زمین گول ہے.اس لئے معلوم ہوا کہ خدا رات دن دعائیں ہی سنتا رہتا ہے.پھر کیا رات دن یہ کام کرنے سے تھکتا نہیں.یہ ناممکن ہے کہ وہ نہ تھکے اور بائبل میں لکھا ہے خدا نے زمین و آسمان پیدا کرنے کے بعد آرام کیا.اس پر اعتراض کیا جاتا ہے.کہ وہ خدا کیسا ہوا جو تھک جائے.یہی طریق غیر مبایعین کا ہے.میں کہتا ہوں اگر مولوی محمد علی صاحب وغیرہ کی تحریریں صلح کے متعلق واقعی سچائی اور دیانتداری پر مبنی ہوتیں.تو وہ بھی میری طرح ہی اپنے اخبار والوں کو ذاتیات پر بے ہودہ اعتراضات کرنے سے روک دیتے.لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا.اور ان کا ایسا نہ کرنا بتاتا ہے کہ وہ صلح کے لئے کہنے کے لئے تو بہت کچھ تیار ہیں.لیکن کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں.مجھے سمجھ نہیں آتی کہ میری ذات پر اعتراضات کرنے سے کون ساند ہی مسئلہ حل ہو جاتا ہے.آیا میرے اپنے ساتھ سفر میں آدمی لے جانے یا نہ لے جانے کی بحث نبوت کا مسئلہ حل جاتا ہے.یا خلافت کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے.کون سا مذہبی مسئلہ ایسی باتوں کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.میں اگر اپنی جماعت کا مال کھاتا ہوں.تو میری جماعت کا حق ہے کہ مجھ پر اعتراض کرے.اور اگر نہیں کھاتا تو بھی میرا اور اس کا معاملہ ہے.ان لوگوں کو ہمارے ان معاملات میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے.میں تو مالی معاملات میں اس قدر احتیاط کرتا ہوں کہ جو روپیہ آتا ہے.میں اسے ہاتھ بھی نہیں
96 لگاتا.میرا اپنا روپیہ بھی دفتر میں سے ہو کر آتا ہے تاکہ کسی کو شبہ نہ پیدا ہو.مگر بہرحال کچھ بھی ہو ان کا کوئی حق نہیں کہ میرے معاملات میں دخل دیں اور مجھ پر اعتراض کریں.پھر ان کو یہ بھی خیال کرنا چاہئے.کیا ہم اس قسم کے اعتراضات مولوی محمد علی صاحب پر نہیں کر سکتے.کیا ہمارے پاس قلمیں نہیں ہیں.لیکن باوجود اس کے کہ وہ شیشہ کے مکان میں بیٹھ کر ہم پر اعتراض کرتے ہیں.ہم ان کے مقابلہ میں اس قسم کی روش اختیار نہیں کرتے.جو ہماری شرافت پر دلالت کرتا ہے.مولوی محمد علی صاحب مجھ سے زیادہ سفر بھی کرتے ہیں.کبھی وہ اپنے دوستوں کے ساتھ سفر کرتے ہیں.کبھی اکیلے سفر کرتے ہیں.مگر ہم نے کبھی اعتراض نہیں کیا.کیونکہ ہم سمجھتے ہیں ہمیں کیا ضرورت ہے.اعتراض کریں.وہ کہیں جائیں یا نہ جائیں.اکیلے جائیں یا آدمیوں کو ساتھ لے کر جائیں ہمیں کیا.لیکن باوجود ہمارے اس رویہ کے ان کی طرف سے ذاتی اعتراضات کا سلسلہ برابر چلا جاتا ہے.اب میری شادی کا ہی معاملہ ہے.اس میں مجھ پر اعتراض کئے جا رہے ہیں.ہم اگر ان کی شادیوں کے متعلق لکھیں.تو ان کی بہت زیادہ ہتک ہو سکتی ہے.لیکن میں اس طریق کو کمینگی سمجھتا ہوں اس لئے اس میں میں ہاتھ ڈالنا نہیں چاہتا.مگر انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے والے بھی موجود ہیں.پھر میں ان سے پوچھتا ہوں.میری شادی کون سی خلاف شریعت ہے.باقی رہیں شادی کی وجوہات.میں کہتا ہوں رسول کریم ﷺ کی نو شادیوں کے متعلق جو وجوہات وہ بیان کریں گے.وہی وجوہات خدا کے فضل سے اپنی شادی کی میں بیان کر سکتا ہوں.ایسی حالت میں میں پوچھتا ہوں.کیوں نہیں تم محمد رسول اللہ اللہ پر اعتراض کرتے اور کیوں نہیں تم صحابہ پر اعتراض کرتے؟ کیونکہ انہوں نے بھی ایک سے زیادہ نکاح کئے.کیا تم اسی لئے اعتراض نہیں کرتے کہ تمھارے محمد رسول اللہ اللہ پر اعتراض کرنے سے ساری دنیا تمھارے پیچھے پڑ جائے گی.مگر حقیقت یہ ہے کہ تم میری آڑ میں محمد رسول اللہ پر اعتراض کر رہے ہو.پھر چاروں خلفاء کی شادیوں کی وجوہات بیان کرو.کیونکہ چاروں نے ایک سے زیادہ بیویاں کیں.رسول کریم یا اس کے متعلق اگر نرینہ اولاد کی وجہ بیان کرو.تو یہ وجہ بھی درست نہیں ہو سکتی.کیونکہ رسول کریم ان کو خدا نے پہلے ہی ما کان محمدا با احد من رجالکم (الاحزاب ۴۱) میں خبر دے دی تھی کہ آپ کے ہاں اولاد نرینہ نہیں ہو گی.لیکن اس کے بعد بھی آپ نے نکاح کئے.پھر اگر کہو دین سکھانے کے لئے شادیاں کیں.تو حضرت عائشہ کے متعلق آپ فرما چکے تھے کہ
97 نصف دین ان کے ذریعہ مسلمانوں کو حاصل ہو گا.پس اگر حضرت نبی کریم ﷺ اور آپ کے خلفاء نے ایک سے زیادہ شادیاں کیں اور تم ان پر اعتراض نہیں کرتے.حالانکہ تم ان کی وجوہ بھی نہیں جانتے.تو کیا وجہ ہے کہ تم مجھ پر اعتراض کرتے ہو.ہاں اگر وہ گالیاں جو مجھے دیتے ہو.ویسی ہی ان کو بھی دو اور جو اعتراض مجھ پر کرتے ہو وہی ان پر بھی کرو.تب میں سمجھوں گا کہ تم نے دیانت داری سے مجھ پر اعتراض کیا ہے.اب یا تو ان پر بھی ہاتھ صاف کردیا پھر یہ ماننا پڑے گا کہ مجھ پر یانتداری سے اعتراض نہیں کئے جا رہے بلکہ شرار تا کئے جا رہے ہیں.باقی رہا میری صحت کا معالمہ.تم کہتے ہو میری صحت اجازت نہیں دیتی کہ میں نکاح کروں.میری صحت تو بچپن سے ہی خراب ہے.اس لحاظ سے تو میری پہلی شادی بھی نہیں ہونی چاہئے تھی.بچپن میں میری صحت خراب تھی اسی وجہ سے حضرت صاحب نے حساب کی تعلیم مجھ سے چھڑا دی تھی.پھر محض شادی سے صحت نہیں بگڑ جایا کرتی.اگر انسان صحت کے اصول کا خیال رکھے اور احتیاط کرے تو دس شادیوں کے ساتھ بھی صحت نہیں بگڑتی.لیکن سوال تو یہ ہے کہ میری صحت کے متعلق آپ لوگوں کو کب سے فکر پیدا ہوا ہے.اس رنگ میں اعتراض کرنا اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ یہ محض ایک بہانہ ہے.اور اصل مقصد اعتراض کرنا ہے.یہ ایسی ہی بات ہے کہ ایک عورت کو جس کی ایک آنکھ تھی ایک شخص جب سلام کہتا تو وہ اس پر برا مناتی.لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی تو کہنے لگی یہ مجھے سلام نہیں کہتا بلکہ کہتا ہے کہ بھابی کانی سلام.اس کا سلام کرنا مجھے چھیڑنے کے لئے ایک بہانہ ہے.اسی طرح ان کے نزدیک میرا شادی کرنا ایک عیب ہے.جو مجھ پر ثابت کرنا چاہتے ہیں.مگر کہتے یہ ہیں دیکھو جی.میاں صاحب کی صحت خراب ہے.گویا یہ ایک آڑ ہے جس کے پیچھے مجھ پر اعتراض کرنا چاہتے ہیں.میں پوچھتا ہوں میری صحت کی فکر ان کو کب سے ہوئی میری صحت کی فکر تو مجھے ہو سکتی ہے یا میرے عزیزوں اور میری جماعت کو ہو سکتی ہے.ان کو میری صحت کی کیا پرواہ ہے.ان کے نزدیک تو میں گمراہ کرنے والا ہوں.دراصل وہ ایک بہانہ سے اعتراض کرنا چاہتے ہیں.میں کہتا ہوں.اگر ایک سے زیادہ نکاح کرنا برائی ہے.تو یہ برائی تمہیں اوروں میں کیوں نظر نہیں آتی.اکثر صوفیاء نے ایک سے زیادہ شادیاں کی ہیں.پھر عشرہ مبشرہ صحابہ میں سے کوئی ہی ہو گا.جس نے ایک سے زیادہ نکاح نہ کئے ہوں.دراصل غیر مبایعین کے اس قسم کے اعتراض نیش عقرب کے مصداق ہیں.جن سے سوائے ہمیں دکھ پہنچانے کے اور کوئی فائدہ نہیں.اور نہ کوئی ان سے مذہبی مسئلہ حل ہوتا ہے.ہم سے
98 گفتگو کرد حضرت مسیح موعود کی نبوت کے متعلق ہم سے پوچھو.نظام سلسلہ کے متعلق ہم سے سوال کرو.حضرت مسیح موعود کے درجہ کے متعلق.آپ کی تعلیم کے متعلق.یہ باتیں ہیں جن کے متعلق ہم سے گفتگو کی جا سکتی ہے.شادیوں سے ان مسائل کو کیا تعلق؟ بلاوجہ مجھ پر اعتراض کرنے سے وہ لوگ جن کو مجھ سے محبت ہے.وہ تم سے کیسے صلح کر سکتے ہیں.حضرت مسیح موعود نے آریوں کے حضرت نبی کریم ﷺ کی ذات پر بے ہودہ اعتراضات کے جواب میں پیغام صلح میں لکھا ہے کہ ہماری جنگل کے درندوں اور شور زمین کے سانپوں سے صلح ہو سکتی ہے.لیکن اس قوم سے صلح نہیں ہو سکتی جو آنحضرت ﷺ کی ذات پر حملے کرنے.یہی جواب مجھ سے محبت رکھنے والے غیر مبایعین کو دیں گے.کہ ایسی حالت میں جبکہ تم ہمارے امام پر ناپاک اور گندے اعتراض کرتے ہو.ہم جنگل کے درندوں سے اور شور زمین کے سانپوں سے صلح کر سکتے ہیں.مگر تم سے صلح نہیں ہو سکتی.اگر تمھاری صلح کی نیت ہے تو صلح والے کام بھی کرو.اگر وہ ایسے اعتراضات اور نیش زنیوں سے باز نہیں آئیں گے تو پھر میں بھی اپنے آدمیوں کو جو ان کے مقابل لکھنا جانتے ہیں.لکھنے کی اجازت دے دوں گا.حضرت خیلفہ اول نے ایک دفعہ ان لوگوں کو فرمایا تھا.جو آپ پر جماعت میں سے اعتراض کرتے رہتے تھے کہ یاد رکھو میرے پاس ایسے خالد ہیں جو تمھیں سیدھا کر دیں گے.میں بھی کہتا ہوں کہ میرے پاس بھی خالد موجود ہیں.جنہیں میں نے اس وقت تک روکا ہوا ہے.جب وہ میری ذات پر اعتراضات سنتے ہیں.اور میں انہیں جواب دینے سے روکتا ہوں.تو ان کی آنکھوں میں خون اتر آتا ہے.ان کے پاس ایسے ایسے جواب ہیں کہ جن کے لکھنے کے بعد اعتراض کرنے والوں کو شرم کے مارے منہ چھپانے کی بھی جگہ نہیں ملے گی.ایسی صورت میں ہمارا جواب سے خاموش رہنا ہماری شرافت پر دلالت کرتا ہے.اور ان کا ہم پر اعتراضات کرتے جانا ان کے کمینہ پن کو ظاہر کرتا ہے.لیکن اب جب کہ وہ حد سے بڑھ رہے ہیں.اگر ہماری طرف سے انہیں جواب دئے گئے.تو پھر ہم پر کسی کو گلہ نہیں ہونا چاہئے.ہمارے پاس ایسے لکھنے والے موجود ہیں.جن کے جوابات سے پہلے ایک دفعہ وہ چلا اٹھے تھے.ان کے ہاتھ میں اب بھی قلمیں موجود ہیں اور واقعات بھی پہلے سے زیادہ موجود ہیں پھر ان کے لئے جواب میں لکھنا کیا مشکل ہے.مگر میں پھر کہتا ہوں.کیا حقیقت ہے ان پرزوں کی جو صلح کے متعلق لکھے گئے اور ان تجویزوں کی جو صلح کے لئے کی گئیں.جب دماغ دشمنی کے خیالات اور افکار سے پراگندہ ہیں تو پھر قلم کی تحریروں اور منہ کی باتوں پر کیا اعتبار ہو سکتا ہے.
99 میں اب بھی انہیں کہتا ہوں.اپنے رویہ کو بدلو.شرافت سے کام لو.اور مذہبی مسائل پر جتنا چاہو لکھو ایسی باتوں میں نہ پڑھو جن کا نتیجہ سوائے رنجش اور بدمزگی کے اور کچھ نہیں نکل سکتک میں پوچھتا ہوں.بھلا شادی کرنا مذہبی طور پر کون سا ایسا مسئلہ ہے.جن پر وہ متواتر ہمیں اعتراضات کا نشانہ بنا رہے ہیں.میں کہتا ہوں اگر ہم بلاوجہ بھی شادی کریں.بشرطیکہ ہم عدل و انصاف تمدنی و سیاسی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے شادی کریں.تو بھی ہم پر شرعا" کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا.اگر ملکی تمدنی شرعی حالات اجازت دیتے ہوں اور کوئی وجہ نہ ہو تب بھی شادی جائز ہے اور اگر کوئی شخص صرف اسی نیت سے زیادہ شادیاں کرے کہ اولاد زیادہ ہو تو بھی جائز ہے.ہاں اگر تمدنی و قومی یا شرعی حالات کسی کو زیادہ شادیوں کی اجازت نہ دیتے ہوں تو پھر اس شخص کے لئے جائز نہیں.خواہ اسے ضرورت بھی ہو.میں نے یہ شادی خوابوں کی بناء پر کی.اگر وہ کہیں کہ خواب دوسروں کے لئے کیسے حجت ہو سکتی ہے تو میں کہتا ہوں کہ رڈیا کا اعتبار یا عدم اعتبار تو میں ہی سمجھ سکتا ہوں.کیونکہ رڈیا کا تعلق میری ذات سے ہے.میں سمجھ سکتا ہوں کہ میری رڈیا کیا عظمت رکھتی ہے.اور وہ قابل عمل ہے یا نہیں اور کس طرح اس پر عمل کرنا چاہئے.دشمن کا کسی بات کو ماننا یا نہ مانا اس امر کی سچائی کی دلیل نہیں ہوا کرتی.سچائی اپنی ذات میں سچائی ہوتی ہے.میری تو یہ حالت ہے کہ میں اپنے ذاتی معاملات میں بھی دوستوں سے مشورہ لے لیا کرتا ہوں.حالانکہ قومی اور مذہبی طور پر مجھ پر اپنے ذاتی معاملات میں دوسروں سے مشورہ لینا فرض نہیں اور اسی وجہ سے بعض دوستوں نے مجھے کہا بھی ہے کہ آپ خواہ مخواہ کیوں دوسروں کو اپنے معاملات میں دخل دینے کا موقعہ دیتے ہیں.کسی کا حق نہیں کہ آپ کے ذاتی معاملات میں دخل دے.لیکن میرا اپنا یہی دستور ہے کہ میں اکثر مشورہ لیتا ہوں.کیونکہ مشورہ سے آخر کوئی نہ کوئی ایسی مفید بات نکل آتی ہے جو پہلے معلوم نہیں ہوتی.پیچھے جب میں نے ولایت جانے کے لئے جماعت سے مشورہ لیا تو میں نے دیکھا کہ بالکل ان پڑھ لوگوں کے منہ سے ایسی ایسی باتیں نکلتی تھیں.جن کے سننے سے لطف آجاتا تھا.اور بعض باتیں بڑے بڑے آدمیوں کے ذہن میں نہیں آئی تھیں جو دوسرے آدمیوں کے منہ سے نکلیں.پس میں ان لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی قلموں کو روکیں اور اپنے رویہ کو بدل لیں.
100 خطرہ کیونکہ جب کوئی حد سے بڑھ جاتا ہے.تو پھر اس کا جواب دینے کی ضرورت آپڑتی ہے.جب یہ ہو کہ دوسروں کو ٹھوکر لگے گی.اور لوگوں کے ایمان میں نقص واقع ہو گا.تو اس وقت مجبورا جواب دینا پڑتا ہے.اب اگر انہوں نے اپنے رویہ کو نہ بدلا.اور یہی طرز جاری رکھی جو اب اختیار کر رکھی ہے.تو پھر میں بھی اپنے دوستوں کو ان کے مقابل قلم اٹھانے کی اجازت دے دوں گا اور اس کی ذمہ داری ان معترضین کی گردنوں پر ہوگی.کیونکہ ان جوابوں کے موجب وہی لوگ ہوں گے.بالآخر میں خود بھی دعا کرتا ہوں.اور اپنے دوستوں کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ان لوگوں کے لئے دعا کریں.میں تو ہمیشہ ان کی خیر خواہی کرتا ہوں.ان میں سے کوئی مرجاتا ہے تو مجھے اس پر رحم ہی آتا ہے.کیونکہ معلوم نہیں.مخالفت کی وجہ سے اسے کیا نقصان پہنچے گا یا اس کے درجات میں ترقی نہیں ہو گی.دیکھو آخر یہ لوگ انہی میں سے تھے.جو حضرت صاحب کی خدمت میں بیٹھا کرتے تھے.لیکن ایک ٹھوکر سے کہاں سے کہاں پہنچ گئے.بات یہ ہے.شیشہ کے برتن کی حفاظت زیادہ آسان ہے.بہ نسبت ایمان کے.پس تم لوگ ہمیشہ اپنے تقویٰ اور ایمان کی حفاظت کرو اور دوسروں کے لئے دعا کرتے رہو.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ایمانوں کو سلامت رکھے.اور ہر ایک قسم کی ٹھوکر سے بچائے.اس کی طرف ہماری نظر ہو اور اسی کی طرف ہماری ایسی توجہ ہو کہ اسے کوئی دشمن نہ پھیر سکے.آمین الفضل ۲۳ مارچ ۱۹۲۶ء)
101 11 رمضان المبارک میں خاص برکات کے حصول کا موقعہ (فرموده ۱۹ مارچ ۱۹۳۶ء) تشہد ، تعوذ سورہ فاتحہ کی تلاوت اور سورۃ الحجرات کی آیات ۱۵ تا ۱۹ کی تلاوت کے بعد فرمایا : یہ مہینہ وہ مبارک مہینہ ہے.جس میں قرآن کریم کے نزول کی ابتدا بتائی جاتی ہے اور جس میں رسول کریم ﷺ پر دوبارہ سارے کا سارا قرآن جتنا نازل ہو چکا ہو تا جبریل کے ذریعہ نازل ہوتا تھا.اے گویا یہ مہینہ قرآن کریم سے خاص خصوصیت رکھتا ہے.پس اس مہینہ کا ادب و احترام ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے.اور ہر ایک مومن کا فرض ہے کہ ان ایام کو خدا تعالیٰ کی ہدایت کے ماتحت خرچ کرے.دیکھو بعض صداقتیں.بعض فرائض اور بعض ذمہ داریاں ہمیشہ ہی انسان کے ساتھ لگی رہتی ہیں لیکن ان کے ظہور کے خاص اوقات بھی ہوتے ہیں.ماں باپ کا ادب کرنا ہمیشہ ہی انسان کا فرض ہے.اور ماں باپ سے محبت کرنا ہمیشہ ہی انسان کا فرض ہے.اور ماں باپ سے محبت کرنا ہمیشہ ہی بچہ کے لئے ضروری ہے.لیکن یہ بات جو فطرتا انسانوں میں پائی جاتی ہے.اور جو کسی مذہب سے تعلق نہیں رکھتی.یہ بھی ہر وقت انسانوں میں یکساں طور پر نہیں پائی جاتی.ایک باپ یا ماں جب بچے کے سامنے ہوتی ہے.اس وقت جو ادب اور محبت بچہ کے دل میں پیدا ہوتی ہے وہ ہر وقت نہیں ہوتی.وہ ادب جو اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب ماں باپ سامنے ہوتے ہیں اور وہ محبت جو اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ماں باپ پاس ہوں وہ اور رنگ کی ہوتی ہے.اور جب وہ سامنے نہ ہوں.اس وقت ادب اور محبت اور رنگ کی ہوتی ہے.اس حالت کو دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ دوسرے وقت میں ماں باپ کی محبت اور ادب نہیں ہوتا.ہوتا ہے.لیکن یہ قدرتی بات ہے کہ جب ماں باپ سامنے ہوں.تو ان کی محبت اور ادب زیادہ ہو.یہی حال اللہ تعالیٰ کے تعلق کا ہے.ہر
102 وقت بندہ پر خدا تعالیٰ کی اطاعت فرض ہے.لیکن بعض دن ایسے ہوتے ہیں.جن میں خدا تعالیٰ اسی طرح بندہ کے قریب ہو جاتا ہے.جس طرح ماں باپ بچہ کے سامنے آجاتے ہیں.ان دنوں میں بندہ کو اطاعت اور فرمانبرداری میں اسی طرح زیادتی کرنی چاہئے جس طرح ماں باپ کے سامنے آنے سے ان کے ادب اور محبت میں زیادتی ہوتی ہے.آخر ایسا زمانہ تو بندہ پر کبھی نہ آئے گا کہ خدا تعالیٰ کو ان مادی آنکھوں سے دیکھ سکے.خدا خدا ہی ہے اور بندہ بندہ ہی ہے جب انسان ان آنکھوں سے خدا تعالیٰ کی ساری مخلوق کو بھی نہیں دیکھ سکتا تو خدا تعالیٰ کو کہاں دیکھ سکے گا.پس انسان خواہ کتنی ہی ترقی کر جائے.جسمانی آنکھوں سے خدا تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکے گا.ہاں روحانی آنکھوں سے دیکھے گا اور اس میں ترقی کرتا جائے گا.اب اگر کوئی یہ سمجھے کہ چونکہ خدا تعالیٰ کی جسمانی رویت حاصل نہیں ہو سکتی.اس لئے وہ کیفیت کس طرح پیدا ہو سکتی ہے.جو ماں باپ کے سامنے آنے سے اس کے دل میں ان کی محبت اور ادب کے متعلق پیدا ہوتی ہے تو وہ نادان ہے.اللہ تعالی کی رویت روحانی آنکھوں سے ہی حاصل ہو سکتی ہے.اور اس سے ایسا ہی تغیر انسان میں پیدا ہوتا ہے.جیسا ماں باپ کو جسمانی آنکھوں کے سامنے دیکھنے سے اور اگر کوئی انسان روحانی آنکھوں سے خدا کو نہیں بھی دیکھ سکتا تو بھی اس میں یہ تغیر پیدا ہونا چاہئے دیکھو آخر ایک نابینا کے دل میں بھی ماں باپ کی محبت اور ادب کا جوش پیدا ہوتا ہے یا نہیں.ایک نابینا بچہ کبھی ماں باپ کو نہیں دیکھ سکتا.لیکن جب اسے ان کی آواز آتی ہے یا دوسروں سے سنتا ہے کہ ماں باپ پاس بیٹھے ہیں تو کیا اس کے دل میں دیسی ہی محبت جوش نہیں مارتی جیسی آنکھوں سے ماں باپ کو دیکھنے والے کے دل میں جوش مارتی ہے پس وہ شخص جسے یہ مقام حاصل نہیں کہ روحانی آنکھوں سے خدا تعالیٰ کو دیکھ سکے اسے یہ مقام تو حاصل ہے کہ دوسروں سے خدا تعالیٰ کے متعلق سن سکے اس لئے یہ کہنا بے جانہ ہو گا کہ اگر کسی میں ادنیٰ سے ادنی درجہ کا ایمان ہو.تو بھی رمضان کے ایام میں اس کے دل میں وہی کیفیت پیدا ہونی چاہئے.جو روحانی آنکھوں سے خدا تعالیٰ کو دیکھنے والے کے قلب میں پیدا ہوتی ہے.اور جو ایسی ہی کیفیت ہے.جیسی بچہ کے سامنے ماں باپ کے آنے پر اس کے دل میں پیدا ہوتی ہے.پس میں اپنی جماعت کو ان ایام کی طرف خصوصیت سے توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ان میں دوسرے ایام کی نسبت دینی احکام کا ادب اور احترام بہت زیادہ کریں.اور ان میں خدا تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں دوسرے ایام کی نسبت بڑھ جائیں.دیکھو رمضان کے روزوں کی غرض کسی کو بھوکا یا پیاسا مارنا نہیں ہے.اگر بھوکا مرنے سے جنت مل سکتی.تو میں سمجھتا ہوں کافر سے کافر اور منافق سے منافق لوگ
103 بھی اس کے لینے کے لئے تیار ہو جاتے.کیونکہ بھوکا پیاسا مرجانا کوئی مشکل بات نہیں.در حقیقت مشکل بات اخلاقی اور روحانی تبدیلی ہے.لوگ بھوکے تو معمولی معمولی باتوں پر رہنے لگ جاتے ہیں.قید خانوں میں جاتے ہیں.تو بھوک سٹرائک شروع کر دیتے ہیں.اور برہمنوں کا تو یہ مشہور حیلہ چلا آتا ہے کہ جب لوگ ان کی کوئی بات نہ مانیں تو کھانا چھوڑ دیتے ہیں.پس بھوکا رہنا تو کوئی بڑی بات نہیں.اور نہ یہ رمضان کی غرض ہے.رمضان کی اصل غرض یہ ہے کہ اس ماہ میں انسان خدا تعالیٰ کے لئے ہر ایک چیز چھوڑنے کے لئے تیار ہو جائے.اس کا بھوکا رہنا علامت اور نشان ہوتا ہے اس بات کا کہ وہ ہر ایک حق کو خدا کے لئے چھوڑنے کے لئے تیار ہے.کھانا پینا انسان کا حق ہے.میاں بیوی کے تعلقات اس کا حق ہے.اس لئے جو شخص ان باتوں کو چھوڑتا ہے.وہ یہ بتاتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کے لئے اپنا حق چھوڑنے کے لئے تیار ہوں.ناحق کا چھوڑنا تو بہت ادنی بات ہے.اور کسی مومن سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ کسی کا حق مارے.مومن سے جس بات کی امید کی جا سکتی ہے.وہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنا حق بھی چھوڑ دے.لیکن اگر رمضان آئے اور یونہی گذر جائے اور ہم یہی کہتے رہیں کہ ہم اپنا حق کس طرح چھوڑ دیں.تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ ہم نے رمضان سے کچھ حاصل نہ کیا.کیونکہ رمضان یہی بتانے کے لئے آیا تھا کہ خدا کی رضا کے لئے اپنے حقوق بھی چھوڑ دینے چاہئیں جب تک یہ بات پیدا نہ ہو کوئی یہ دعوی کرنے کا مستحق نہیں ہے کہ وہ ایمان لایا اور اس نے رمضان سے کچھ فائدہ اٹھایا.زبانی دعوی کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی.بہت لوگ ہوتے ہیں جو بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں.لیکن جب عمل کا وقت آتا ہے تو رہ جاتے ہیں.اس قسم کا دعوئی کوئی حقیقت نہیں رکھتا.وہی دعوی حقیقت میں دعویٰ کہلانے کا مستحق ہوتا ہے.جس کے ساتھ عمل بھی ہو.اور ایسا ایک دعویٰ جس کے ساتھ عمل ہو، قربانی ہو اخلاص ہو، ایسے ہزار دعووں سے بڑھ کر ہوتا ہے جن کے ساتھ عمل نہ ہو.بھلا بتاؤ تو سہی دنیا میں کس کی قدر و قیمت ہوتی ہے.اس شخص کی جو تھیٹر کے تماشا میں بادشاہ بنتا ہے.یا اس کی جو تیس چالیس روپیہ کا کہیں ملازم ہوتا ہے.صاف بات ہے کہ ایسے بادشاہ کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی.وہ بڑے بڑے دعوے کرتا ہے.مگر اس کے مقابلہ میں ایک معمولی کلرک کی زیادہ عزت ہوتی ہے وجہ یہ کہ وہ دعویٰ تو کرتا ہے کہ میں بادشاہ ہوں مگر بادشاہ چھوڑ معمولی افسر بھی نہیں ہوتا.اس کے مقابلہ میں دوسرا گورنر ہونے کا بھی دعوی نہیں کرتا.کلرک یا ہیڈ کلرک سو ڈیڑھ سو روپیہ تنخواہ کا ہوتا ہے.مگر اس کا دعویٰ زیادہ احترام کے قابل ہوتا ہے.کیونکہ اس میں حقیقت ہوتی ہے.
104 اللہ تعالی ان آیات میں جو میں نے ابھی پڑھی ہیں.فرماتا ہے.قالت الا عراب امنا کچھ عربوں میں سے ایسے لوگ ہیں کچھ قبائل کے لوگ ہیں جو کہتے ہیں ہم ایمان لائے فی الواقعہ ظاہر میں وہ ایمان لائے.اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں سے اس لئے علیحدہ ہو گئے کہ وہ مسلمان نہ تھے.کئی باتوں میں اسلام کا رنگ ان میں پایا گیا.وہ نمازیں پڑھتے، روزے رکھتے، زکوۃ دیتے تھے.گو رسول کریم کے بعد انہوں نے زکوۃ دینے اور باجماعت نماز پڑھنے سے انکار کر دیا تھا.مگر رسول کریم ﷺ کے وقت سب اعمال بجالاتے تھے.باوجود اس کے خدا تعالیٰ فرماتا ہے.قل لم تو منوا اے محمد الا ان سے کہدے تم ہر گز ایمان نہیں لائے کیونکہ ایمان لانے کے لئے صرف منہ سے کہہ دینا کافی نہیں ہے.یہ ان لوگوں کو کہا گیا ہے.جو نمازیں پڑھنے والے زکوۃ دینے والے.رسول کریم ایتا کی اطاعت کا دم بھرنے والے.اسلام لانے کی وجہ سے اپنے رشتہ داروں سے تعلق قطع کرنے والے تھے.پھر کیوں ان کے متعلق یہ فرمایا.ظاہری احکام تو انہوں نے ماننے شروع کر دیئے تھے.اگر نماز پڑھنے سے کوئی مومن ہو سکتا ہے.تو وہ نمازیں پڑھتے تھے.اگر روزہ رکھنے سے کوئی مومن ہو سکتا ہے.تو وہ روزے بھی رکھتے تھے.اگر حج کرنے سے کوئی مومن ہو سکتا ہے.تو وہ حج کرنے کے لئے بھی تیار تھے اور کرتے تھے.اگر زکوۃ دینے سے کوئی مومن ہو سکتا ہے تو وہ یہ بھی دیتے تھے پھر وہ کیا چیز تھی جس کے نہ ہونے کی وجہ سے خدا تعالیٰ فرماتا ہے یہ ایمان نہیں لائے بلکہ یہ کہیں ولکن قولوا اسلمنا ہم نے بات مان لی ہے.اب کوئی کہے یہ عجیب بات ہے.ایمان لانے اور مان لینے میں کیا فرق ہے.اللہ تعالیٰ نے کہا رسول کریم کے ذریعہ کہ نمازیں پڑھو.انہوں نے کہا بہت اچھا پڑھتے ہیں.رسول کریم نے کہا اپنے مال سے زکوۃ دیا کرو.کسی مال پر چالیسواں حصہ اور کسی پر دسواں حصہ انہوں نے کہا یہ بھی منظور ہے، اسی طرح جہاد کے متعلق جب حکم دیا گیا.اس کی بھی انہوں نے تعمیل کی.کئی لڑائیوں میں شامل ہوئے.ورثہ کے متعلق جو احکام دیئے گئے ان کو بھی انہوں نے مانا.مگر باوجود اس کے کہ وہ نمازیں پڑھتے روزے رکھتے، زکوۃ دیتے اور دیگر تمام احکام مانتے تھے پھر ان کے متعلق کہا گیا ہے.قل لم تومنوا ولكن قولوا اسلمنا تم یہ کہو ہم مسلمان ہو گئے.مگر ایمان کا نام نہ لو.اب سوال ہوتا ہے کہ وہ کونسی چیز تھی.جو ان سے رہ گئی تھی.اور کس وجہ سے خدا تعالیٰ نے کہا کہ یہ نہ کہو ایمان لائے.بلکہ یہاں تک فرماتا ہے.ولما يدخل الایمان فی قلوبکم کہ ایمان تو ال
105 ان کے قلوب میں داخل ہی نہیں ہوا.تم سب کچھ کرتے ہو سارے احکام کی تعمیل کرتے ہو.مگر باوجود اس کے تمہارے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا.اب سوال ہوتا ہے کہ وہ کونسی چیز تھی جس کی وجہ سے ایمان ان کے دل میں داخل ہو جاتا اور وہ ان کے پاس نہ تھی اور کیوں باوجود اس کے کہ وہ نمازیں پڑھتے تھے.روزے رکھتے تھے.حج کرتے تھے.زکوٰۃ دیتے تھے.خدا تعالیٰ نے فرمایا ابھی تم اطاعت اللہ و اطاعت رسول میں داخل نہیں ہوئے.بے شک تم سب باتیں مانتے ہو.کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.تم یہ کہہ سکتے ہو اسلمنا ہم اسلام لے آئے ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ظاہری اطاعت کرتے تھے کیونکہ اگر ظاہری اطاعت نہ کرتے تو خدا تعالیٰ یہ نہ کہتا کہ تم کہہ سکتے ہو ہم اسلام لائے.پھر اس کے ہوتے ہوئے کیوں کہا جاتا ہے.تم مطیع نہیں ہو.اور تم ایمان نہیں لائے.معلوم ہوتا ہے.ظاہری اطاعت اور چیز ہے اور ایمان اور چیز.کیونکہ ان کے ظاہری فرمانبردار ہوتے ہوئے کہا جاتا ہے.کہ تم ایمان نہیں لائے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے وان تطيعوا الله و رسوله لا يلتكم من اعمالکم اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کر لو تو پھر اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہارے اعمال میں کمی نہیں کی جائے گی.یہ جواب ان باتوں کا ہے جو پیچھے بیان ہوئی ہیں اور جہاں یہ فرمایا کہ یہ لوگ ایمان نہیں لائے.اگر کہو یہ تو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں.سب احکام مانتے ہیں.تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس میں ایمان اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پیدا ہو جائے اس کے ایمان میں پھر کی نہیں ہوتی.چونکہ اعراب کو یہ بات حاصل نہیں.اس لئے معلوم ہوا.ان میں حقیقی ایمان رضاي نہیں ہے.اب دیکھو یہ آیت حضرت ابو بکر ان کے زمانہ میں کس طرح پوری ہوئی.انہیں لوگوں نے رسول کریم ﷺ کے وصال کے بعد کہہ دیا.اب ہم زکوۃ نہیں دیتے ۲.یہ صرف رسول کریم کو دینے کا حکم تھا.اور باجماعت نماز پڑھنے میں ست ہو گئے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے بے شک اب تم نمازیں پڑھتے ہو زکوۃ اور چندہ دیتے ہو.مگر ایک وقت آئے گا.جب ان میں کمی واقع ہو جائے گی.یہ بات ایک مومن کے اعمال میں کبھی نہیں ہوتی.چنانچہ لا بلتکم کی تشریح رسول کریم نے فرمائی ہے.فرماتے ہیں.کسی کے دل میں ذرا بھی ایمان داخل ہو جائے.یعنی بشاشت ایمان ہی رکھتا ہو سارا ایمان نہیں.بلکہ ایمان کی خوشبو ہی اس کے دل میں ہو تو خواہ اسے آگ میں ڈال دیا جائے.پھر بھی وہ ایمان سے نہیں پھرے گا.۳ سے یہ ہے ایمان.اور ایمان کے معنی یہ ہیں
106 کہ اس کا ادنی درجہ رکھنے والا بھی ایسا مضبوط ہو کہ اگر اسے آگ میں ڈالا جائے تب بھی اسلام اور اپنے اعمال کو نہیں چھوڑتا.اسے ایسا وثوق اور ایسا اثبات کا مقام حاصل ہوتا ہے کہ خواہ کچھ ہو وہ اپنی جگہ سے نہیں بہتا وہ پہاڑ کی چٹان کی طرح ہوتا ہے.جس سے سمندر کی لہریں ٹکرا کر خود ہی پیچھے ہٹ جاتی ہے.اس آیت میں اعراب کے متعلق پیش گوئی تھی کہ وہ رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد ان اعمال کو چھوڑ دیں گے جو اب کرتے ہیں.اس لئے خدا تعالیٰ کہتا ہے.تمہارا حق نہیں کہ تم کہو ہم مومن ہیں.تمہارے اندر ایمان نہیں اور اس کا یہ ثبوت ہو گا کہ تو ٹھو کر کھاؤ گے.وہ زمانہ آنیوالا ہے.جب تمہارے اعمال میں کمی آجائے گی.فرمایا یہ مومن کی شان نہیں ہے.بلکہ اس کی شان یہ ہے کہ وہ کبھی اعمال میں تھکتا نہیں بلکہ ترقی کرتا جاتا ہے.پس تم مومن نہیں ہو.ہاں اپنے آپ کو مسلمان کہہ لو.کیونکہ مومن کا قدم کبھی پیچھے نہیں ہوتا اور حقیقی مومن وہی ہوتا ہے.جو اپنے اعمال میں ثبات اور استقلال رکھتا ہو.کیونکہ ایمان کے معنی ہیں کہ انسان نے برکت کو حاصل کر لیا.اور امن میں ہو گیا.لیکن جو امن میں نہیں آتا بلکہ خطرہ میں رہتا ہے وہ مومن کہاں ہو سکتا ہے.امن باللہ کے معنی ہیں کہ اللہ کے ذریعہ انسان امن میں آچکا ہے.اسے تنزل کا خطرہ نہیں رہا.جس انسان کو یہ مقام حاصل نہیں وہ اگر ظاہری فرمانبرداری کرتا ہے.تو مسلم کہلا سکتا ہے.اور اگر اس کی ظاہری اطاعت میں بھی نقص ہے تو پھر یہ بھی نہیں کہلا سکتا.خدا تعالی فرماتا ہے.ان اللہ غفور رحیم یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک انسان سچے دل سے خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا بھی کرے.اور پھر خدا اس کا انجام بخیر نہ کرے.اور اس کی کمزوریوں اور نقصوں کو ظاہر ہونے دے.کیا یہ ممکن ہے کہ بچہ ماں کی گود میں ہو.اور کے سردی لگ رہی ہے.اگر بچہ ماں کے لحاف میں ہے تو سردی اسے کس طرح لگ سکتی ہے.خدا تعالیٰ غفور ہے اور غفر کے معنی ہیں چادر اڑھا دینا پس جو خدا کی گود میں اس کی چادر کے نیچے چلا گیا وہ کس طرح ننگا ہو سکتا ہے اور اگر ننگا ہے تو معلوم ہوا کہ وہ غفور کی گود میں نہیں ہے.پھر وہ رحیم ہے اور رحیم کے معنی ہیں.بار بار رحم کرنے والا.اگر کوئی ارتداد کی طرف مائل ہو جاتا ہے یا اس کے اعمال میں کمزوری اور کو تاہی واقع ہو جاتی ہے تو اس پر رحم کہاں ہوا.اس میں تو کمی آگئی.اگر اس کا سچا تعلق اس سے ہوتا جو رحیم ہے تو بار بار رحیمیت کا جلوہ اس پر ہوتا.تو فرمایا.ان اللہ غفور رحیم خدا تو اپنے بندوں کی کمزوریوں کو ڈھانپنے والا اور ان پر بار بار رحم کرنے والا ہے جس کا اس کے ساتھ حقیقی تعلق ہو جاتا
107 ہے وہ پھر تنزل کی طرف نہیں جاسکتا.فرمایا تم اپنے آپ کو ابھی مومن نہ کہو.ہاں مسلم کہو.کیونکہ تمہارے اعمال میں وہ پختگی پیدا نہیں ہوئی.جو مومن کے اعمال کے لئے ضروری ہے.اور جس کے بعد ان میں کمی نہیں آسکتی.میں اپنے دوستوں کو اس آیت کی طرف توجہ دلاتا ہوں آج کل رمضان کے دن ہیں.اور خصوصیت سے برکات حاصل کرنے کے دن ہیں ان میں سچے مومن بننے کی کوشش کرو.میں نے کئی لوگوں کو دیکھا ہے جو کچھ دین کی خدمت کر کے پھر سست ہو جاتے ہیں.مگر اس آیت سے پتہ لگتا ہے کہ مومن کبھی سمت نہیں ہوتا.اور جس کے اندر ستی پیدا ہو وہ اپنے آپ کو مسلم کہہ سکتا ہے.مومن نہیں کہہ سکتا.کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مومن کی یہ علامت ہے کہ لا يلتكم من اعمالكم شيئا " اگر تم مومن ہو گے تو تمہارے اعمال میں کبھی کمی نہ ہونے دی جائے گی.یہ معنی اس آیت کے ہر گز نہیں ہیں کہ خدا تعالیٰ مومنوں کے اعمال ضائع نہ کرے گا.اور ان کا نتیجہ ضرور نکلے گا.کیونکہ یہ تو خدا نے کافروں کے متعلق بھی فرمایا ہے فمن يعمل مثقال ذرة خيرا " یرہ کہ کسی کی رائی کے برابر نیکی بھی ضائع نہ کی جائے گی.اب کونسا مومن ہو گا جو رائی کے برابر بھی نیکی نہ رکھتا ہو.مومن تو الگ رہا کوئی خطرناک سے خطرناک کافر اور آریہ بھی ایسا نہ ہو گا.جس نے رائی کے برابر بھی کوئی نیک عمل نہ کیا ہو.اس کی بھی یہ نیکی ضائع نہ جائے گی.پھر اگر کوئی ایسا انسان فرض بھی کر لیا جائے.جس کی نیکی رائی کے دانہ کے برابر ہو.حالانکہ ہر انسان کی نیکی اس سے زیادہ ہی ہو گی.تو جس طرح اگر اور سب قسم کے دانے دنیا سے تباہ ہو جائیں اور صرف رائی کا ایک دانہ رہے.تو وہی بڑھتے بڑھتے اس قدر بڑھ جائے گا کہ ساری دنیا پر رائی ہی رائی پھیل جائے گی.اسی طرح وہ نیک عمل جو رائی کے دانہ کے برابر ہو گا.وہ کیوں ترقی نہ کرے گا.وہ بھی ضرور بڑھے گا.پس یہ بات کہ خدا تعالیٰ کسی کے نیک عمل کو ضائع نہ کریگا یہ تو کافروں کے متعلق بھی ہے پھر یہ کیوں فرمایا وان تطيعوا الله و رسوله لا يلتكم من اعمالكم شینا " اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو گے.تو تمہارے اعمال میں کمی نہ کی جائے گی.اس سے معلوم ہوا.یہاں اعمال کو ضائع کرنے سے کوئی اور مراد ہے.اور وہ یہ کہ اعراب کو بتایا ہے.آج جو تم نمازیں پڑھنے میں چست ہو ایک وقت آئے گا.جب ان میں سست ہو جاؤ گے.آج جو زکوۃ دینے میں چست ہو.دوسرے وقت میں سست ہو جاؤ گے.اسی طرح آج جو اعمال بڑی چستی سے کرتے ہو.کچھ عرصہ کے بعد ان میں.ست ہو جاؤ گے.پس یہاں اعمال کا ضائع ہونا مراد نہیں.بلکہ خود اعمال میں کمی ہونا مراد ہے.جس
108 شخص کے اعمال میں کمی اور سستی واقع ہو جائے اسے سمجھ لینا چاہئے.وہ اطاعت اللہ و اطاعت رسول میں کامل نہیں اور وہ مومن کہلانے کا مستحق نہیں.میں ان دوستوں کو جو سینکڑوں کی تعداد میں ہیں اور جو اپنی سستی اور کوتاہی کی وجہ سے دوسروں پر بھی برا اثر ڈالتے ہیں.اس آیت کی طرف متوجہ کرتا ہوں یہ آیت بتاتی ہے کہ ایسے لوگ جو اعمال میں سست ہو جائیں ان کے قلوب میں ایمان داخل نہیں ہوتا.اور وہ مومن کہلانے کے مستحق نہیں ہیں.چنانچہ فرماتا ہے.انما المومنون الذين امنوا بالله و رسوله ثم لم يرتابوا و جاهدوا باموالهم و انفسهم في سبيل الله اولئک هم الصادقون یہ مومن کی تعریف خدا تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے کہ مومن صرف وہی لوگ ہیں.جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائیں.پھر کبھی شبہ پیدا نہ ہو اور ان کے اعمال میں وقفہ نہیں ہوتا.انہوں نے کبھی ریب نہیں کیا اور وہ کبھی اس شک میں نہیں پڑے کہ دین کی خدمت میں کتنا حصہ لیں.اور کتنانہ لیں.وہ ہمیشہ خدا کے راستہ میں اپنا مال اور جان اور ہر چیز خرچ کرنے لگ گئے.ریب کے معنی کاٹنے کے ہیں.ارتیاب کٹنے کو کہتے ہیں.اس لئے شبہ کے معنی یہ ہوئے کہ وقفہ پڑ گیا.سلسلہ کٹ گیا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے مومن کے اعمال میں ایسا نہیں ہوتا.ان کے اعمال میں کبھی وقفہ نہیں پڑتا.انہیں کبھی یہ شبہ نہیں پڑتا کہ خدمت دین کریں یا نہ کریں.خدمات دین کا بالکل چھوڑ دینا تو الگ بات ہے.مومن کی یہ شان ہے کہ اسے کبھی شبہ اور شک بھی نہیں پڑتا کہ خدمت دین کے لئے اسے کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے.مومن کا یہ درجہ اللہ تعالی بیان فرماتا ہے ہماری جماعت پر خدا تعالیٰ کا یہ بہت ہی فضل ہے کہ اس کو خدا نے ایک ایسا عظیم الشان نبی دیا ہے.جس کے متعلق سارے انبیاء پیشگوئیاں کرتے رہے ہیں اور اس سے بڑھ کر اس کی کیا تعریف ہو سکتی ہے کہ وہ آنحضرت اے کا بروز ہے.بڑے سے بڑا مظہر خدا تعالیٰ کا رسول کریم ﷺ تھے.آپ سے بڑھ کر تو اب کوئی آنا نہیں.اور اب بڑے سے بڑا مقام جو کسی کو حاصل ہونا ممکن ہے.وہ یہی ہے کہ آپ کا بروز اور مثیل بنایا جائے.یہ انتہائی کمال ہے.جواب کسی کو حاصل ہو سکتا ہے اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو حاصل ہوا ہے اور ہم آپ کی جماعت ہیں.اس سے بڑھ کر ہمارے لئے خدا کا فضل اور کیا ہے.اب غور کرو اگر کوئی شخص بڑے سے بڑے ڈاکٹر کے زیر علاج رہ کر شفایاب نہ ہو تو معلوم ہوا کہ وہ لا علاج ہے وہ ہلاک ہو گیا.اسی طرح اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہو سکتا.
109 جماعت میں شامل ہو کر بھی کسی کے اعمال میں ثبات اور استقلال پیدا نہ ہو.وہ اعمال میں سست رہے.تو پھر کون آکر اس کی اصلاح کر سکتا ہے.پس میں دوستوں سے خاص طور پر کہتا ہوں.کہ اگر پہلے نہیں تو اس رمضان میں ہی ہر قسم کی سستی اور کو تاہی دور کر دیں اور ایسے مومن بن کر دکھا دیں جن کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے.لا يلتكم من اعمالکم شیئا " ان کے اعمال میں کمی نہیں ہو گی.ان کا قدم کبھی پیچھے نہ پڑے گا.وہ قربانی میں زیادہ سے زیادہ بڑھتے جائیں گے.میں نے اپنی جماعت کو متواتر اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے.کہ ان دنوں نہایت مالی مشکلات درپیش ہیں.اور سارا بوجھ اٹھانا جماعت کا ہی کام ہے.میں نے جلسہ سالانہ میں اعلان کیا تھا کہ مالی مشکلات کی وجہ سے کچھ عرصہ تک ہر سال چندہ خاص لینا پڑے گا.تب جا کر کام چلے گا.میں نے کہا تھا دوست اپنی ایک ماہ کی آمدنی کا چالیس فیصد ہر سال دیا کریں.یہ ایک مہینہ کی آمد کے لحاظ سے سوا تین فیصد بنتی ہے.اور پہلے جماعتیں سوا چھ فیصد چندہ دیتی ہیں.یعنی ایک آنہ فی روپیہ ماہوار.اس میں اگر ایک ماہ کی آمدنی کے چندہ کی اوسط جمع کر دی جائے.تو یہ ساڑھے نو فیصد بنتا ہے.اور یہ وصیت کے ادنی معیار تک بھی نہیں پہنچتا.کیونکہ وصیت کا ادنی درجہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دس فیصد رکھا ہے.تو اس چندہ خاص سے بھی جماعت قربانی کے ادنی درجہ تک نہیں پہنچ سکتی.اور حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے جو وصیت نہیں کرتا وہ نفاق سے پاک نہیں.پس یہ جسے چندہ خاص کہا جاتا ہے.دراصل اسے چندہ خاص نہیں کہنا چاہئے.کیونکہ یہ وصیت کے ادنیٰ معیار تک پہنچاتا ہے.اور جو وصیت کر چکے ہیں.انہیں اس معیار سے اوپر لے جاتا ہے.اور ان کا حق بھی ہے کہ اوپر جائیں.اب میں اعلان کرتا ہوں یہاں کی جماعت کے لئے اور پھر اخباروں کے ذریعہ باہر کی جماعتوں کو بھی اطلاع ہو جائے گی کہ ہماری جماعت کے لوگ تین ماہ کے اندر اندر اپنی ایک ایک ماہ کی آمدنی کا ۴۰ فیصد چندہ ادا کریں.چونکہ بعض لوگ زیادہ قرضہ میں دبے ہوتے ہیں.اور انہیں زیادہ مالی مشکلات ہوتی ہیں.اس لئے میں نے اب کے یہ تجویز کی ہے کہ بعض سے ۲۳ فی صد چندہ لیا.جائے.بعض سے چالیس اور بعض سے پچاس فیصد.جو لوگ قرضوں میں دبے ہوئے ہوں.وہ ۳۳ فی صد چندہ دیں.جنہیں کچھ سہولت حاصل ہو وہ درمیانی درجه یعنی ۴۰ فی صد اختیار کریں.اور جنہیں مال میں اور اخلاص میں خدا تعالیٰ نے زیادتی دی ہے وہ پچاس فیصد دیں
110 العين زمینداروں کے لئے چندہ خاص ایک سیر اور سوا سیر اور ڈیڑھ سیر فی من پیدوار پر مذکورہ بالا ہدایتوں کے ماتحت ہو گا.) اس کے علاوہ ماہواری چندہ کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں.اس میں بھی بعض جگہ سستی کی جا رہی ہے جن اعراب کا ذکر ان آیات میں ہے.جو میں نے پڑہی ہیں.انہوں نے حضرت ابوبکر کے زمانہ میں کہہ دیا تھا رسول کریم ﷺ کے وقت جو ہم زکوۃ دیتے رہے ہیں.اب کیوں دیں.خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان کے متعلق پیش گوئی فرما دی تھی کہ مومن وہ ہوتا ہے.جس کے اعمال میں کمی نہ آئے.مگر یہ لوگ تو اعمال چھوڑ دیں گے.پس مومن وہی ہے.جو اپنے اعمال میں کمی نہ کرے اگر کوئی فی الواقعہ مومن ہے اسے یہ یقین ہے کہ مرنے کے بعد زندگی ہے اور ہمیشہ ہمیش کی زندگی ہے.اور اس وقت دنیا کی قربانیوں کے بدلے ملیں گے.تو وہ چندہ دیکر کب سمجھ سکتا ہے کہ میں نے بھی کچھ کام کیا ہے.انسان کو اتنا تو سوچنا چاہئے کہ وہ اپنی آمدنی کا 90 فیصد اس زندگی پر خرچ کرتا ہے.جو ساٹھ ستر یا سو سال کی ہے.اور صرف دس فیصدی اس زندگی کے لئے دیتا ہے.جو ہمیشہ کی زندگی ہے.تو وہ کونسا بڑا کام کرتا ہے.خدا تعالیٰ کا یہ کتنا بڑا احسان ہے کہ اس دنیا کی زندگی جو اگلی زندگی کے مقابلہ میں ایک منٹ کی بھی حیثیت نہیں رکھتی اس کے متعلق تو کہتا ہے کہ اپنی آمدنی کا 90 فیصد خرچ کر لو لیکن جو ہمیشہ ہمیش کی زندگی ہے اس کے متعلق کہتا ہے ۱۰ یا ۱۵ فیصدی خرچ کر دو.پس ایک مسلمان جو اگلی زندگی پر ایمان رکھتا ہے.اور یہ بھی اس کا ایمان ہے کہ اس دنیا کی قربانی کا بدلہ اس جہاں میں ملے گا.اس کے دل پر قربانیاں بجائے اس کے کہ کسی قسم کی میل پیدا کریں.وہ احسان سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہ موقعہ دیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:- قل اتعلمون الله بدينكم والله يعلم ما في السموات وما فی الارض والله بكل شئی علیم اگر کوئی شخص قربانی نہیں کرتا تو پھر اسلام میں داخل کس بات کے لئے ہوا ہے.کیا اسلام لانے کی غرض یہ ہے کہ وہ منہ سے کہدے کہ میں مومن ہوں، میں احمدی ہوں.ان سے کہدے کیا تمہارے مومن ہونے اور احمدی ہونے کا علم خدا کو نہ تھا.جو تم منہ سے یہ کہہ کر اسے بتانا چاہتے ہو.یاد رکھو اللہ ہر بات جانتا ہے.جو آسمانوں اور زمین میں ہے.پھر فرماتا ہے.ہمنون علیک ان اسلموا ، قل لا تمنوا على اسلا مكم ، بل الله يمن عليكم ان هذا كم للايمان - ان كنتم صادقین جو شخص بے عمل ہے کوئی قربانی خدا کی راہ میں نہیں کرتا.اس کی تو بات ہی اور ہے.جو کوئی عمل کر کے کہتا ہے.میں نے یہ کام کیا.اور اس طرح احسان جتاتا
111 - ہے اسے بھی سمجھ لینا چاہئے اس نے بھی تم پر کونسا احسان کیا ہے.اے رسول! کیا ان کی اطاعت اور فرمانبرداری سے تو جنت میں جائے گا.ان کی نمازوں.روزہ حج زکوٰۃ کا احسان اگر کسی پر ہے تو ان کے اپنے اوپر ہی ہے.کہ وہ ان تکالیف اور مصائب سے بچ جائیں گے جو خدا پر ایمان نہ لانے والوں کو پیش آئیں گے اور اس ظلمت میں فائدہ اٹھائیں گے جس کے متعلق آتا ہے کہ جو ایمان نہ لائے گا وہ قیامت کے دن اندھا اٹھایا جائے گا.اور جیسے ایک اندھے کو جنگل بیابان میں چھوڑ دیا جائے یہی حالت ایمان نہ لانے والے انسانوں کی ہوگی.وہ تاریکی اور ظلمت میں پڑے ہوں گے.پس اگر لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اور فرمانبرداری کریں گے.تو ان سے تاریکی اور ظلمت دور کی جائے گی.انہیں دوسری زندگی میں بھی اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں سے ملایا جائے گا.پس یہ ان پر احسان ہوا.تم پر ان کا کیا احسان ہے.اس سے معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی کر کے بھی کسی کا حق نہیں کہ احسان جتلائے رسول کریم کو خدا تعالیٰ فرماتا ہے.ان سے کہو میرے ساتھ تمہیں کوئی واسطہ نہیں.اور نہ مجھ پر تمہارا کوئی احسان ہے.میں تمہیں خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ضرورت بتائے دیتا ہوں.آگے تمہارا تعلق اور واسطہ خدا سے ہے.اور اس پر تم احسان نہیں جتلا سکتے.کیونکہ یہ اس کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں نجات کا ذریعہ بتایا ہے.کیا دنیا میں کوئی ایسا نادان ہو سکتا ہے.جسے ڈاکٹر کسی بیماری میں بتائے یہ نسخہ استعمال کرو.اور وہ کہے ڈاکٹر صاحب یاد رکھنا میں نے آپ کی خاطر اس نسخہ پر ایک روپیہ صرف کیا ہے.اب نماز، روزہ، حج، زکوۃ کیا ہیں، نسخہ ہیں روحانی نجات کا.ان کے ذریعہ روح بیماریوں سے بچتی ہے.پس یہ کس قدر عجیب بات ہے کہ ایک شخص جسمانی ڈاکٹر کے پاس جاتا.اور اپنے دانت نکلوا کر فیس دیتا ہے.ہاتھ یا لات کٹوا کر فیس ادا کرتا ہے.ناک جو عزت کا نشان سمجھا جاتا ہے.یہ کٹواتا اور فیس پیش کرتا ہے.مگر اللہ تعالیٰ نے روحانی بیماریوں سے بچنے کے لئے جو حکم دیتے ہیں ان کو مان کر اللہ اور اس کے رسول پر احسان جتلاتا ہے..فرمایا ایسے لوگوں سے کہدو.اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں اسلام لانے کی ہدایت دی اور وہ ذرائع بتائے کہ اگر تم ان پر عمل کرو تو تمہاری روح کو عذاب سے بچا سکتے ہیں.وہ لوگ جو واقع میں ایمان لاتے ہیں.وہ یہی سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا تو ان پر اصل احسان ہے.اور پھر رسول اور ان کے قائم مقاموں کا ان پر طفیلی احسان ہے.ایسے لوگوں کو دین کے لئے خواہ کس قدر قربانیاں کرنی پڑیں.وہ اسے خدا کا فضل اور احسان ہی سمجھتے ہیں.لیکن اگر کسی کا دعوئی
112 کے ایمان سچا نہیں.تو پھر اس کے لئے تو ایک پیسہ خرچ کرنا بھی حرام ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان اللہ يعلم غيب السموات والارض والله بصير بما تعملون اللہ آسمانوں اور زمین کے غیب سے واقف ہے.اور وہ سب کچھ دیکھتا ہے جو تم کرتے ہو.اگر تم ظاہری عمل نہ کرو تو یہ تو بہت ہی برا ہے.لیکن اگر تم عمل کر کے بھی خدا پر احسان رکھو.یا اس کے رسول اور اس کے قائم مقاموں پر احسان جتلاؤ.تو تمہارے کرنے کا بھی کوئی نتیجہ نہ نکلے گا.کیونکہ اس طرح کرنے والے اپنے ایمان اور عمل کو باطل کر لیتے ہیں تم سمجھتے ہو.احکام مان کر تم خدا کا کام کرتے ہو.حالانکہ یہ تمہارا اپنا کام ہے.اور یہ بالکل درست بات ہے.دیکھو اگر ہم چندہ جمع کر کے اشاعت اسلام میں صرف کرتے ہیں.تو اس سے خدا کو کیا فائدہ.ہم اپنی برادری اور ساتھیوں میں اضافہ کرتے ہیں.اسی طرح اگر چندہ جمع کر کے ہم غرباء کی مدد کرتے ہیں.تو اس سے خدا تعالٰی کو کیا نفع.یہ ہم اپنے بھائیوں کی مدد کرتے ہیں.اور اپنی جماعت کو مضبوط بناتے ہیں.اسی طرح اگر ہم چندہ اکٹھا کر کے تعلیم و تربیت میں خرچ کرتے ہیں.تو اس سے خدا تعالیٰ کو کیا فائدہ یہ ہم اپنی اولاد کی اصلاح اور ترقی کے سامان کرتے ہیں.آخر سوچو تو سہی دین کے لئے جو چندہ جمع کیا جاتا ہے وہ کہاں خرچ ہوتا ہے.رسول کریم اے زمانہ میں اور اب بھی دین کی اشاعت ، غرباء کی مدد ، اپنی جماعت کی تعلیم و تربیت پر ہی صرف ہوتا ہے.اور یہ سب باتیں ایسی ہیں.جن کا فائدہ ہمیں ہی پہنچتا ہے.خدا تعالیٰ کو اس سے کیا کہ ہم اشاعت اسلام کریں یا نہ کریں.خدا تعالٰی کا اس سے کیا حرج کہ ہم غرباء کی مدد کریں یا نہ کریں.خدا تعالی کو اس سے کیا نقصان کہ ہم جماعت کی تعلیم و تربیت کریں یا نہ کریں.ان سب باتوں میں ہمارا ہی فائدہ ہے.پھر کتنی بڑی بے وقوفی ہے اگر ہم یہ سمجھ لیں کہ دین کے لئے ہماری قربانیوں سے خدا کو فائدہ ہو گا.یہ تو خدا تعالیٰ کا بندوں سے ایسا ہی سلوک ہے جیسے کسی ماں سے کہا جائے تو اپنے بچہ کا منہ دھلاؤ تو تمہیں یہ انعام دیا جائے گا.خدا تعالیٰ اپنے بندوں سے کہتا ہے تم اپنے غریب بھائیوں کی مدد کرو.اپنے بچوں کو تعلیم دو.اپنی برادری بڑھاؤ.تو تمہیں ہم ہمیشہ کے انعام دیں گے.پس ہماری جماعت کو اچھی طرح یہ نکتہ سمجھ لینا چاہئے کہ وہ جو کچھ دین کے لئے کر رہے ہیں وہ اپنے ہی فائدہ کے لئے کر رہے ہیں.اور جو لوگ اس میں ذرا بھی سستی اور کوتاہی کرتے ہیں.وہ یہ بات ظاہر کرتے ہیں کہ ان میں حقیقی ایمان نہیں ہے.جو شخص کسی غیر کا بچہ لے کر پالتا ہے وہ اس کی پرورش سے تنگ آجاتا ہے.لیکن کبھی کسی نے دیکھا ہے کہ ماں بھی اپنے بچہ کی پرورش سے تنگ آگئی ہو.اگر تم لوگ دین کو اپنی چیز قرار دو اور سب سے ضروری اور اہم سمجھو تو پھر اس کی
113 خدمت سے تنگ آنے کے کیا معنی.اس سے تنگ آنے کے تو یہی معنی ہو سکتے ہیں کہ تم نے اسے سوتیلا بچہ بلکہ اجنبی بچہ سمجھا اور معلوم ہوا کہ احمدی بننے میں ایک رو میں بہ گئے تھے.ورنہ حقیقی ایمان تم نے حاصل نہیں کیا.اس وقت میں قادیان کے دوستوں کو خصوصا اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے اعمال اور افعال میں بہت زیادہ تبدیلی کریں.کیونکہ باہر کے لوگ آپ لوگوں کو اپنے لئے نمونہ سمجھتے ہیں.اور آپ لوگوں کی کمزوریوں کو دین کی طرف منسوب کرتے ہیں.حالانکہ آپ لوگ دین نہیں ہیں.مگر مرکز میں رہنے کی وجہ سے ایسا سمجھتے ہیں.اس لئے آپ لوگ اپنے ایمان کی حفاظت اور اسلام کی اشاعت کے لئے سب سے بڑھکر قدم اٹھائیں.اسلام اور ایمان کے یہ معنی نہیں کہ تم اپنے وطن چھوڑ کر آجاؤ.یا نمازیں پڑھتے رہو.جب تک تم سچے مومن اور خدا اور رسول کے فرمانبردار نہ بنو گے تمہاری ہر بات خدا کے لئے نہ ہوگی.اس وقت تک تمہیں ایمان حاصل نہ ہو گا.چونکہ آپ لوگوں کو دیکھ کر دوسرے لوگوں کو ٹھوکر لگتی ہے.اس لئے آپ کو بہت احتیاط کرنی چاہئے اور اپنے اعمال کو دوسروں کے لئے نمونہ بنانا چاہئے.ورنہ جن لوگوں کو آپ کے ذریعہ ٹھوکر لگے گی.اس کا گناہ بھی آپ پر ہو گا.کیونکہ جس طرح کسی کو جس کے ذریعہ ہدایت ملتی ہے.اس کو بھی ثواب پہنچتا ہے.اسی طرح ٹھوکر کا نقصان بھی اسے ہوتا ہے.جس کے ذریعہ کسی کو ٹھوکر لگتی ہے.پس تمہارے اخلاص میں کبھی کمی نہ ہونی چاہئے.تمہیں فرمانبرداری میں مست نہیں ہونا چاہئے.تمہاری زبانوں کانوں آنکھوں کو خدا تعالٰی کے احکام کے ماتحت ہونا چاہئے.تمہیں اپنے معاملات درست رکھنے چاہیں.اللہ تعالیٰ قادیان والوں کو اور باہر کے لوگوں کو توفیق دے کہ وہ اپنے فرائض کو سمجھیں.وہ اپنا سب کچھ اسلام کی اشاعت میں لگا دیں.اور ایسا نہ ہو کہ ان پر کبھی ایسا زمانہ آئے جس کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک عورت تھی جو سوت کاتی رہی جب سردی کا موسم آیا تو اس نے سوت ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے.پھر خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو اس سے بچائے کہ دشمن کی نظروں میں تو ہم ذلیل سمجھے ہی جاتے ہیں.خدا کے نزدیک ذلیل نہ ہوں.ہمارا ایمان اخلاص دل کی خوشی اور مسرت بڑھتی رہے.اور اللہ تعالیٰ کی رضا بھی بڑھتی رہے.آج جمعہ کی نماز کے بعد میں چند جنازے پڑھاؤں گا.ایک تو مولوی عبد الواحد صاحب برہمن برمیہ بنگال کے متعلق تار آئی ہے کہ فوت ہو گئے ہیں.وہ جماعت کے لئے نہایت قربانی کرنے
114 والے انسان تھے.ان کے ذریعہ بنگال میں کئی مقامات پر جماعتیں قائم ہوئی ہیں.احمدیت کی وجہ سے انہیں مالی مشکلات بھی پیش آئیں.مگر انہوں نے کسی بات کی پروا نہ کی.اور احمدیت کے لئے سب کچھ برداشت کیا.خدا تعالٰی نے ان کے ذریعہ کئی ہزار کی جماعت دی ہے.وہ کچھ عرصہ سے بیمار تھے.آج تار آئی ہے.کہ فوت ہو گئے ہیں.ایک تو میں ان کا جنازہ پڑھوں گا.دوسرے جناب میر حامد شاہ صاحب مرحوم کی اہلیہ صاحبہ فوت ہو گئی ہیں.میر صاحب بہت مخلص انسان تھے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ دعوئی سے بھی پہلے سے تعلق رکھتے تھے.چونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.جو لوگ نیک ہوں گے.ان کے ساتھ جنت میں ان کے بال بچوں کو بھی رکھا جائے گا.(بعض لوگ کہتے ہیں.بڑوں کی رعایت کی جاتی ہے.مگر یہ رعایت تو خدا تعالیٰ بھی کرتا ہے.رسول کریم کی بیویوں کو ام المومنین قرار دیا گیا ہے.اس لئے میں میر صاحب کی اہلیہ کا جنازہ پڑھوں گا.تیسرے قاضی غلام حسین صاحب جھنگ کی جماعت کے امام کی اہلیہ صاحب فوت ہو گئی ہیں.مرحومہ نے موت کے وقت خواہش ظاہر کی تھی کہ میں جنازہ پڑھوں.چونکہ مرنے والے کی خواہش کا احترام ضروری ہوتا ہے.اس لئے میں ان کا بھی جنازہ پڑھوں گا.چوتھے ایک شخص دین محمد ساکن پاجیاں متصل رائے ونڈ فوت ہو گئے ہیں.پانچویں ایک شخص جن کا نام ہیرا تھا.اور بھنڈال علاقہ قصور کے رہنے والے تھے فوت ہو گئے ہیں.چھٹے محمد عبداللہ صاحب موضع جوئے ضلع منٹگمری وفات پاگئے ہیں.چونکہ ان کا جنازہ پڑھنے والے احمدی نہ تھے.اس لئے میں ان کا جنازہ بھی پڑھوں گا.الفضل ۳۰ مارچ ۱۹۲۶ء) ا..بخاری کتاب الصوم باب اجود ماکان النبي يكون في رمضان تاریخ الخلفاء للسيوطي ص ۶۱ بخاری کتاب الایمان باب صلادة الايمان
115 12.رمضان المبارک سے استفادہ (فرموده ۲۶ مارچ ۱۹۲۶ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : یہ مہینہ جو گزر رہا ہے وہ ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ اگر کوئی عذر ایسا نہ ہو جس کو شریعت نے عذر قرار دیا ہے.تو وہ خدا کے قرب اور رضا جوئی کے لئے پو پھٹنے سے لے کے سورج ڈوبنے تک کھانے پینے اور تعلقات مرد و زن سے بالکل مجتنب رہیں.اس وجہ سے یہ وہ مہینہ ہے جس میں انسان بہت سی حالتوں میں خدا تعالٰی کے مشابہ ہونے کی کوشش کرتا ہے.یہ خدا تعالیٰ کی صفت ہے کہ وہ کھاتا پیتا نہیں.یہ خدا تعالیٰ کی صفت ہے کہ وہ جوڑے کا محتاج نہیں.بندہ بھی رمضان کے دنوں میں خدا تعالیٰ کے رنگ کو جس حد تک کہ انسان کے بس میں ہے اختیار کرتا ہے.اور باوجود اس کے کہ وہ کھانے کا محتاج ہوتا ہے.کھانا چھوڑ دیتا ہے.باوجود اس کے کہ پینے کا محتاج ہوتا ہے.پینا چھوڑ دیتا ہے.باوجود اس کے کہ بقائے نسل کے لئے دوسری جنس کی طرف مائل ہونے کا محتاج ہوتا ہے.اس سے اجتناب کرتا ہے.پس اس طرح وہ رمضان کے دنوں میں خدا تعالیٰ کا مظہر بننے کی کوشش کرتا ہے.ان معنوں میں نہیں کہ خدا تعالیٰ کا مد مقابل بن جائے.بلکہ اس طرح جس طرح ہر محبت کرنے والا انسان اپنے محبوب کی شکل اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے.یہ مشابہت برابری کی نہیں ہوتی.بلکہ غلامی کی ہوتی ہے.جیسا کہ ہر ایک غلام کا فرض ہے کہ اپنے آقا کے قدم بقدم چلے اور اس پر کوئی یہ نہیں کہتا کہ وہ اپنے آقا کی نقل کرتا ہے.اسی طرح خدا تعالی کی مشابہت اختیار کرنے والا ہوتا ہے.ہمیشہ سزا کا مستحق وہی ہوتا ہے جو کسی کی نقل کے طور پر کوئی کام کرتا ہے.ایک غلام جو اپنے آقا کے پیچھے پیچھے چلتا ہے.وہ نقال نہیں ہو تا.کیونکہ اس کا فرض ہے کہ پیچھے چلے.اسی روح اور نیت سے بندہ رمضان میں وہ رنگ اختیار
116 کرتا ہے جس سے الوہیت کے سمجھنے کی طاقت اسے حاصل ہوتی ہے.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم نے فرمایا ہے.اور اعمال کی تو مختلف جزائیں ہیں.مگر روزے کی جزا خود خدا تعالیٰ ہے ا.اس کا یہی مطلب ہے کہ ان دنوں خدا تعالیٰ کی مشابہت انسان اختیار کرتا ہے.غرور اور تکبر سے نہیں.بلکہ خدا تعالی ہی کے حکم سے برابری کے دعوئی سے نہیں بلکہ اطاعت اور فرمانبرداری کے رو سے انسان اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر بناتا ہے.اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب تک انسان میں خدا کی صفات جلوہ گر نہ ہو جائیں وہ نجات نہیں پا سکتا.کیونکہ بغیر عرفان الہی کے کوئی نجات نہیں.اور جس ہستی کا ظاہری آنکھوں سے مشاہدہ نہیں ہو سکتا.اس کے مشاہدہ کا ایک ہی طریق ہے کہ اندرونی طور پر اس کا مشاہدہ کریں.دیکھو وہ چیزیں جن کو دنیا میں انسان اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا.ان کو اپنے اندر جذب کر کے محسوس کرتا ہے.ہم ہوا اور گیس کو نہیں دیکھ سکتے.مگر جب وہ ہمارے جسم میں داخل ہوتی ہیں تو پتہ لگتا ہے.اسی طرح بجلی کو ہم نہیں دیکھ سکتے.بلکہ اس کے اثر سے محسوس کرتے ہیں.پس ہم خدا تعالیٰ کو جسمانی طور پر نہیں دیکھ سکتے اس لئے اس کی طاقت کو جذب کر کے اس کا عرفان حاصل کر سکتے ہیں.خدا تعالیٰ کی خدائی اور الوہیت اسی طرح انسان کے اندر داخل ہوتی ہے.جس طرح بجلی.جس انسان میں بجلی داخل ہو جائے وہ بجلی نہیں بن جاتا مگر بجلی والا ضرور بن جاتا ہے.اسی طرح انسان خدا نہیں ہو سکتا.لیکن خدائی صفات کا مظہر ہو کر خدا والا ضرور ہو جاتا ہے.یہ تو نا ممکن ہے کہ کوئی چیز جو چیز کہلانے کی مستحق ہے.اپنے آپ کو ایسا فنا کر دے کہ وہ بالکل نہ رہے.کیونکہ جو کچھ مٹتا اور فنا ہوتا ہے.وہ آثار اور نشان ہوتے ہیں.نہ کہ اصل چیز.ہم گوشت اور سبزی کھاتے ہیں.بظاہر وہ مٹ جاتے ہیں مگر اصل میں نہیں مٹتے.جو کچھ مٹتا ہے وہ ان کی ظاہری شکل و صورت ہوتی ہے.پس جب ادنیٰ سے ادنی چیز بھی مٹ نہیں سکتی.اور ایک جنس غیر جنس کا وجود نہیں بن سکتی.تو کیونکر ممکن ہے کہ انسان مٹ کر خدا بن جائے.یا خدا مٹ کر انسان بن جائے.یہ جہالت اور نادانی کی باتیں ہیں.مگر اس میں شک نہیں کہ خدا تعالیٰ اپنے صفات میں تغیر کر لیتا اور تنزل کر کے ان صفات کو اس طرح انسان میں ظاہر کرتا ہے کہ انسان سمجھ سکے.اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ سمیع ہے اور انسان کو خدا کی طاقت سماعت حاصل ہو جاتی ہے.مگر اس میں بھی شبہ نہیں کہ انسان میں سمیع ہونے کی جو طاقت ہے.وہ اس نے خدا ہی کی طاقت سے حاصل کی ہے.اسی طرح ہر طاقت جو انسان کو حاصل ہے وہ خدا تعالیٰ کی قوت اور طاقت سے حاصل کردہ ہے.بتاؤ انسان میں سننے اور دیکھنے کی طاقت کہاں سے آئی.خدا تعالیٰ کی طرف سے
117 ہی آئی ہے.اگر خدا تعالیٰ بصیر نہ ہوتا.تو انسان بھی بصیر نہ بن سکتا.اگر خدا تعالیٰ سمیع نہ ہوتا تو انسان بھی سمیع نہ بن سکتا.پس وہ منبع ہے تمام طاقتوں اور قوتوں کا اور اس منبع سے اسی صورت میں طاقتیں حاصل ہو سکتی ہیں کہ خدا اور بندہ کے درمیان جو روکیں ہیں وہ دور ہو جائیں.چونکہ خدا تعالٰی نے بندہ کو ارادہ اور اختیار دیا ہے کہ وہ جس طرح چاہے کوئی کام کرے.اس لئے جب تک بندہ اپنا ارادہ چلاتا ہے.اس وقت تک خدا تعالیٰ کی طاقتیں اس میں آنے سے رکی رہتی ہیں.انسان کی اپنی خواہشیں ڈاٹ کی طرح ہوتی ہیں.جو رکاوٹ کا باعث ہو جاتی ہیں.اور اس وقت تک خدا کا فضل انسان کے اندر داخل ہو کر اسے خدا کا جلوہ گاہ اور مظہر نہیں بناتا جب تک وہ دور نہ ہو جائیں.ہاں جب انسان یہ سمجھ لے کہ میری ہر چیز خدا تعالیٰ کی طرف سے آئی ہے.ہم سمیع نہیں بن سکتے تھے اگر خدا سمیع نہ ہوتا.اس نے اپنے فضل سے یہ طاقت دی ہے.اسی طرح اصل بصیر خدا تعالیٰ ہے.اسی نے ہمیں بصارت دی ہے.اصل علیم خدا ہی ہے.اسی نے ہمیں علم بخشا ہے.اصل مالک خدا ہی ہے.اسی نے ہمارے سپرد چیزوں کو کیا ہے جب تک انسان اس طرح اپنا سب کچھ خدا ہی کا نہیں سمجھ لیتا اور خدا کے سپرد نہیں کر دیتا اس وقت تک خدا تعالیٰ کی صفات اس پر جلوہ گر نہیں ہو سکتیں.ا رمضان اس بات کی علامت قرار دیا گیا ہے کہ ہم اپنی ہر ایک چیز خدا تعالیٰ کے سپرد کرتے ہیں.رمضان میں ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہر چیز خدا ہی کی ہے کیونکہ رمضان میں اقرار کرتے ہیں کہ ہماری زندگی اور ہماری موت خدا ہی کے لئے ہے.ہم کھانے پینے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے.یہ فردی زندگی کے لئے ضروری ہے.اور بغیر نسل چلنے کے قوم زندہ نہیں رہ سکتی.یہ قومی زندگی ہے.مگر ہم ان دونوں کو رمضان میں قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.جب ہم کھانا پینا چھوڑتے ہیں.تو اس سے ہماری یہ مراد ہوتی ہے کہ اپنی زندگی خدا تعالیٰ کے لئے قربان کرنے کے لئے تیار ہیں.اور جب مرد عورت سے تعلقات چھوڑتا یا عورت مرد سے چھوڑتی ہے تو اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ ہم قومی زندگی بھی خدا کے لئے قربان کرتے ہیں.اسی طرح ہم اپنے وجود کو مٹا دیتے ہیں.اور اقرار کرتے ہیں کہ ہماری فردی زندگی خدا ہی کے لئے ہے اس طرح ہم یہ بھی اقرار کرتے ہیں کہ ہماری قومی زندگی بھی خدا کے لئے ہے.اگر ہمیں خدا کے لئے اپنے آپ کو قربان کرنا پڑے گا تو قربان کر دیں گے.اگر ہمیں خدا کے لئے قوم کو قربان کرنا پڑے گا تو اس کو بھی قربان کر دیں گے.جب انسان حالت اختیار کر لیتا ہے.تب خدا ملتا ہے.اور یہی مطلب ہے اس ارشاد کا کہ روزہ کی جزا خود خدا
118 ہے.اس کا یہ مفہوم نہیں کہ روزہ رکھ کر انسان خدا کا مالک بن جاتا ہے.مالک مالک ہی ہے اور بندہ بندہ ہی بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ روزہ رکھنے کے بدلے میں خدا مل جاتا ہے.خدا کا قرب حاصل ہو جاتا ہے.خدا کی معرفت میسر آجاتی ہے.پس جب انسان نسلی اور ذاتی زندگی کو خدا تعالیٰ کے لئے قربان کر دیتا ہے.تب خدا الملتا ہے.اور جب تک انسان اپنے وجود کو قائم رکھتا ہے.اور سمجھتا ہے کہ قوم بھی کچھ ہے.وہ اندھیرے میں چکر لگاتا رہتا ہے.اور کچھ نہیں پاسکتا.پس رمضان کی اصل غرض اور فائدہ یہی ہے کہ خدا مل جائے.خدا تعالیٰ کو ہمارے بھوکے پیاسے رکھنے سے کیا فائدہ ہے.اسی طرح اگر مرد و عورت کے تعلقات نہ ہوں.تو اسے کیا نقصان خدا تعالیٰ نے خود انسان میں بھوک رکھی اور اس کے لئے کھانا پیدا کیا ہے.اسی طرح خود پیاس رکھی اور پانی پیدا کیا.خود مرد کو عورت کے لئے اور عورت کو مرد کے لئے پیدا کیا.تاکہ ایک دوسرے سے آرام اور سکون حاصل کریں.پس جب کہ اللہ تعالیٰ نے مرد و عورت کا جوڑا اس لئے پیدا کیا ہے.کہ ایک دوسرے سے تسکین حاصل کریں.اور کھانا اور پانی اس لئے پیدا کیا ہے.کہ انسان کھائیں اور پیئیں.تو پھر اس کی کیا ضرورت ہے کہ ان سے روکے.دراصل یہ انسان کو سبق دیا گیا ہے کہ اس کی فردی اور قومی زندگی صرف خدا کے لئے ہی ہونی چاہئے.اگر کوئی رمضان سے یہ سبق حاصل نہیں کرتا.تو پھر اس کا بھوکا اور پیاسا رہنا محض بھوکا اور پیاسا رہنا ہی ہے.اس کی بھوک اور پیاس خدا کے لئے نہیں ہے.اس نے سوائے اس کے کہ قانون قدرت توڑا اور کچھ نہیں کیا.اگر ایک شخص کھانا نہ کھائے اور بھوکا رہ کر مر جانا چاہے تو وہ شریعت کا گنہگار ہو گا.اسی طرح اگر کوئی شادی نہ کرے اور کسے خدا تعالیٰ کو اس سے کیا یہ میرا ذاتی کام ہے تو وہ بھی گنہگار ہو گا.قرآن کریم میں اسے نا پسند کیا گیا ہے.اور رسول کریم ﷺ نے شادی نہ کرنے والے کے متعلق فرمایا ہے کہ آوارہ گردی میں مرگیا.پس کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ شادی کرنا میرا ذاتی معاملہ ہے.خدا کو کیا ہے.میں شادی کروں یا نہ کروں.یا اسی طرح زندگی میری ذاتی ہے.اگر میں کھانا نہ کھا کر مر جاؤں تو خدا کو اس سے کیا کیونکہ قانون قدرت خدا تعالیٰ نے بنایا ہے.اور اس کی پابندی فرض ہے پس اگر کوئی روزہ کی غرض اور مقصد پورا نہیں کرتا.تو بھوکا پیاسا رہ کر قانون قدرت کو توڑنے کا گناہ گار ہوتا ہے.روزہ کی غرض یہی ہے کہ انسان اپنی ذاتی اور قومی زندگی خدا تعالیٰ کے لئے قربان کرنے کے لئے تیار رہے.اگر روزہ رکھ کر کوئی شخص یہ آمادگی اور تیاری اپنے اندر پاتا ہے.تو بے شک وہ روزہ سے فائدہ اٹھاتا ہے.لیکن جب ذاتی قربانی کا مطالبہ ہو تو وہ اپنے آپ کو اس کے لئے تیار نہ پائے یا جب قومی قربانی کا مطالبہ ہو تو اس کے لئے آمادگی نہ رکھتا ہو.تو سمجھ لے کہ روزہ کا اسے کچھ فائدہ نہیں شخص
119 ہوا.جس شخص کو ذاتی یا قومی قربانی کے وقت سستی یا کسل ہو.اس کا روزہ رکھنا بے فائدہ ہے.اور قانون قدرت کو توڑنا ہے.اور جو قانون شریعت کی پابندی نہ کرتا ہوا قانون قدرت کو توڑتا ہے وہ سزا کا مستحق ہوتا ہے.انعام کا مستحق نہیں ہوتا.پس اس مبارک مہینہ میں میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس سے برکات حاصل کرنے کی کوشش کریں.معمولی تکلیف سے روزہ نہیں چھوڑنا چاہئے.خدا تعالیٰ نے روزہ نہ رکھنے کا عذر بیماری رکھا ہے.۲ یا سفر اس کے بغیر روزہ نہ رکھنا خدا تعالیٰ کے حکم کو توڑنا ہے.تو بیمار یا بیماری کی حالت کو چھوڑ کر (بیماری کی حالت میں اس لئے کہتا ہوں کہ بیماری کی تعریف اتنی محدود ہے کہ بعض بیماریاں اس میں سے نکل جاتی ہیں مثلاً بڑھاپا.بوڑھے آدمی کو بیمار نہیں سمجھا جاتا.ایسے آدمیوں کو چھوڑ کر) جو انسان بالغ ہو چکا ہو.اس کا فرض ہے کہ روزہ رکھے.ہاں بچوں پر جو بالغ نہ ہوئے ہوں یا عورتوں پر جنہیں ماہواری ایام آئے ہوں.روزہ فرض نہیں روزہ کا بچپن اور ہے اور نماز کے لئے اور یہ بات میں نے گذشتہ سال بہت تفصیل سے بیان کی تھی.نماز کے لئے تو 10-1 سال کی عمر تک بچپن ختم ہو جاتا ہے.لیکن روزہ کے لئے بچپن اس وقت تک ہوتا ہے جب تک بچہ پوری طاقت حاصل نہیں کر لیتا.اس وجہ سے مختلف بچوں کے یہ بچپن مختلف ہوتا ہے.جو ۱۵ سے ۲۰ سال کا ہوتا ہے.ہاں اگر بچپن کی عمر میں بچے تھوڑے تھوڑے روزے ہر سال رکھیں.تو اچھا ہے.اس طرح انہیں عادت ہو جائے گی.مگر بہت چھوٹی عمر میں اس طرح بھی روزہ نہیں رکھوانا چاہئے.یہ شریعت پر عمل کرانا نہیں.بلکہ بچہ کو بیمار کر کے ہمیشہ کے لئے نا قابل بناتا ہے.یہ غلط خیال پھیلا ہوا ہے کہ بچہ کا روزہ ماں باپ کو مل جاتا ہے.حالانکہ ایسے بچہ سے روزہ رکھوانا جو کمزور ہو اور اپنی جسمانی صحت کے لحاظ سے استوار نہ ہو چکا ہو.ثواب نہیں.بلکہ گناہ کا ارتکاب کرنا ہے.ہاں جب بچہ کی ضروری قوتیں نشو نما پا چکی ہوں تو ہر سال کچھ نہ کچھ روزے رکھوانے چاہیئیں.تاکہ عادت ہو جائے مثلاً پہلے پہل ایک دن روزہ رکھوایا.پھر دو تین چھوڑ دیئے.پھر دوسری دفعہ رکھوایا ایک چھڑوا دیا.میرے نزدیک بعض بچے تو ۱۵ سال کی عمر میں اس حد کو پہنچ جاتے ہیں کہ روزہ ان کے لئے فرض ہو جاتا ہے.بعض ۱۶ ۱۷ ۱۸ - ۱۹- اور حد میں سال تک اس حالت کو پہنچتے ہیں.اس وقت روزہ رکھنا ضروری ہے.- - پس یاد رکھو روزہ فرض ہونے کی حالت میں بلا وجہ روزہ نہ رکھنا اپنے ایمان کو ضائع کرنا ہے.ہمارے ملک میں دو قسم کے خیال پائے جاتے ہیں.ایک تو یہ کہ خواہ مر جائیں روزہ نہیں چھوڑنا.اور دوسرے یہ کہ کمزوری ہو گئی ہے.اس لئے روزہ نہیں رکھتے.مگر وہ کونسا آدمی ہے کہ جو روزہ رکھے.اور طاقت ور ہو جائے.ہاں بعض لوگ جو رمضان میں خاص کھانے کھایا کرتے ہیں.
120 ان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ان کے لئے رمضان خوید بن جاتا ہے.وہ موٹے ہو جاتے ہیں.مگر خواہ کوئی کس قدر مقوی کھانے کھائے.روزہ کے وقت ضعف ضرور ہوتا ہے.ہماری جماعت کو چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو سکے روزہ کی قدر کرے.جن کو خدا تعالیٰ طاقت دے وہ سارا مہینہ پورا کریں.اور جن کو کسی شرعی عذر کی بنا پر بعض روزے چھوڑنے پڑیں وہ دوسرے اوقات میں پورے کریں.ہمارے ملک میں اس بارے میں بہت سستی پائی جاتی ہے.وہ جو روزوں میں سارا مہینہ روزے رکھ لیتے ہیں.ان کے بھی اگر کچھ رہ جائیں تو دوسرے ایام میں سستی کرتے ہیں.حالانکہ یہ بھی خدا تعالیٰ کا ہی حکم ہے.کہ من كان مريضا " او على سفر فعدة من ایام اخر (البقره ۱۸۶) مگر ۷۰ ۸۰۰ فیصدی لوگ ایسے ہوں گے.جو رمضان میں جس قدر روزے رکھ سکیں گے رکھیں گے.اور جو باقی رہ جائیں گے وہ رکھنے کی کوشش نہ کریں گے.وہ لوگ جو سالہا سال بیمار رہتے ہوں.ان کو چھوڑ کر دوسروں کو کوشش کرنی چاہئے کہ جو روزے رہ جائیں وہ دوسرے ایام میں رکھ لیں.پھر روزوں میں دعائیں قبول ہوتی ہیں.یہ بات قرآن کریم سے بھی معلوم ہوتی ہے اور حد میشوں سے بھی.کیونکہ رمضان کا ذکر کرتا ہوا خدا تعالیٰ فرماتا ہے.مجھ سے مانگو تو میں تمہیں دوں.کیا عجیب بات ہے لوگ ان سے مانگتے ہیں جو مانگنے پر بھی کچھ نہیں دیتے.لیکن خدا تعالیٰ جو کہتا ہے.میں دینے کے لئے تیار ہوں مجھ سے مانگو.اس سے نہیں مانگتے.رمضان کے دنوں میں چونکہ خصوصیت سے دعائیں قبول ہوتی ہیں.اس لئے اپنے لئے اور اسلام کی ترقی کے لئے کثرت سے دعائیں کرنی چاہیئیں.خدا تعالیٰ ہم کو اپنے فضل سے اعلیٰ سے اعلیٰ نتائج روزوں سے عطا کرے.اور ایسا نہ ہو کہ ہم نفس کی تکلیف بھی اٹھائیں.اور کچھ حاصل بھی نہ ہو.اور خدا تعالٰی ہماری اس حقیر اور نا چیز قربانی کو جسے ہم قربانی بھی نہیں کہہ سکتے.اور نہ خدمت کہہ سکتے ہیں.کیونکہ یہ صرف ارادہ اور نیت ہی ہے اور اس بات کا اظہار ہے کہ خدا کے لئے قربانی کے لئے تیار ہیں.خدا اسے قبول فرمائے.اور دنیا میں بھی اس کے نیک نتائج پیدا کرے.اور ہمارا قدم اس راستہ پر ہو جو وصال الہی کی طرف لے جاتا ہے.اور اس راستہ کی طرف نہ ہو جو ضلالت اور گمراہی کی طرف لے جاتا ہے.الفضل ۶ اپریل ۱۹۲۶ء) ا بخاری کتاب الصوم باب الى صائم اذا سم ٢ البقره ۱۸۶
121 13 رمضان المبارک کی برکات (فرموده ۲ اپریل ۱۹۲۶ء) ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : رمضان المبارک کا مہینہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت سی برکات لے کر آتا ہے.میں نے پچھلے جمعہ کے خطبہ میں بتایا تھا کہ در حقیقت رمضان میں انسان ان صفات میں کہ جن میں بشریت بالکل ممتاز ہوتی ہے.اور الگ نظر آتی ہے.اپنے مولا اور اپنے پیدا کرنے والے کی مشابہت پیدا کرتا ہے اور اس طرح یہ سبق حاصل کرتا ہے.کہ اگر انسان ان صفات میں خدا تعالیٰ کے مشابہ ہونے کی کوشش کرتا ہے.بوجہ محبت اور اخلاص کے جن میں اس کی بشریت بالکل ممتاز ہے.تو کیا وجہ ہے کہ ان صفات میں مشابہ ہونے کی کوشش نہ کرے.جن میں وہ خدا تعالیٰ کے مشابہ ہو سکتا ہے.اللہ تعالیٰ سمیع ہے.اور انسان بھی سمیع ہو سکتا ہے.لیکن اپنی طاقت کے دائرہ کے اندر اندر.اسی طرح خدا تعالی بصیر ہے.اور انسان بھی بصیر ہو سکتا ہے.سمع کی طاقت کا پیدا کرنا انسان کی زندگی اور بشریت کے خلاف نہیں ہے.بلکہ عین مطابق ہے.اسی طرح انسان کا علیم ہونے کی کوشش کرنا اس کی زندگی کو تباہ نہیں کرتا.بلکہ اس کے لئے ضروری ہے.لیکن خدا تعالٰی کی یہ صفت کہ وہ کھاتا پیتا نہیں اگر انسان حاصل کرنا چاہے تو مر جائے گا.کیونکہ انسان کی بناوٹ ہی ایسی ہے کہ اگر وہ اس بارے میں خدا تعالیٰ کی نقل کرے گا تو تباہ ہو جائے گا.اسی طرح خدا تعالیٰ کی یہ صفت ہے کہ وہ جوڑے کا محتاج نہیں.لیکن اگر انسان اس میں خدا تعالیٰ کی مشابہت اختیار کرنا چاہے تو اس کی نسل مٹ جائے گی.پھر کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت وہ صفات تو پیدا کرنے کی کوشش کرے کہ اگر ان میں پوری پوری نقل کرے تو تباہ و برباد ہو جائے.مگر ان صفات کو پیدا کرنے کی کوشش نہ کرے.جن کے پیدا کرنے سے وہ نہ صرف تباہ نہیں
122 ہوتا.بلکہ اس کی زندگی کا تقاضا ہے.کونسا انسان ہے جسے خدا تعالی کہتا ہے کھانا چھوڑ دے اور وہ بالکل چھوڑ دے تو نہ مرے اور کون سا انسان ہے جسے خدا کہتا ہے پینا چھوڑ دے.اور وہ بالکل چھوڑ دے تو نہ مرے.اسی طرح خدا تعالیٰ کہتا ہے.اگر مرد ہے تو عورت کے پاس نہ جائے.اور اگر عورت ہے تو مرد کے پاس نہ جائے.اس پر مستقل عمل کیا جائے تو نسل تباہ ہو جائے اور یہ تینوں باتیں ایسی ہیں کہ انسان کی تباہی کا باعث بن سکتی ہیں.مگر جب خدا تعالیٰ ان کے چھوڑنے کا حکم دیتا ہے.تو انسان روزہ رکھ کر چھوڑ دیتا ہے.آگے خدا کہتا ہے.کہ روزہ کھول تو کھولتا ہے.ورنہ وہ تو اپنی طرف سے یہ ظاہر کرتا ہے کہ اگر خدا کے روزہ نہ کھول تو نہ کھولوں گا اور مرجاؤں گا.اگر خدا کے عورت کے پاس مرد نہ جائے.اور مرد کے پاس عورت تو وہ نہ جائیں گے.اور نسل تباہ ہو جائے گی.مگر چونکہ خدا تعالیٰ اجازت دیتا ہے اس لئے ایسا کیا جاتا ہے.پس جب روزہ رکھ کر انسان ان احکام کی تعمیل کرتا ہے.جن سے اس کی موت لازمی ہے.تو پھر وہ امور جن سے اس کی زندگی وابستہ ہے ان کو اگر نہ کرے تو ماننا پڑے گا جو رمضان میں یہ ظاہر کرتا ہے کہ میں خدا کی مشابہت اختیار کرنے کے لئے کھانا پینا اور تعلقات مرد و عورت چھوڑتا ہوں یہ اس کا تمسخر ہوتا ہے اور محض دھوکہ ہوتا ہے.کیا کسی کے متعلق یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ کسی کی خاطر موت قبول کرنے کے لئے تو تیار ہے.لیکن اگر وہ اس سے پیار کرے.تو پیار کرانے کے لئے تیار نہیں.یا یہ کہ فلاں کے لئے فلاں شخص اپنا مال چھوڑنے کے لئے تو تیار ہے.لیکن اگر وہ اس پر احسان کرے.تو اسے رد کر دے گا.یہ بات نہیں مانی جا سکتی اور اگر مانی جا سکتی ہو تو معلوم ہوا.اس شخص کے افعال مجنونانہ ہیں.یا ان میں کوئی اس کی مخفی غرض ہے اس میں حقیقی اخلاص نہیں.تو رمضان حقیقی فرمانبرداری کی طرف توجہ دلاتا ہے.اور ساتھ ہی دعاؤں کی طرف متوجہ کرتا ہے.اور انسان پر اس کے نفس کا دھوکہ ظاہر کر دیتا ہے.انسان کہتا ہے.میں رات کو تہجد کے لئے نہیں اٹھ سکتا.اس وقت میرے لئے اٹھنا مشکل ہوتا ہے..مگر رمضان میں وہ اٹھتا ہے.کیونکہ اور لوگ بھی اٹھ رہے ہوتے ہیں.ان کو دیکھ کر یا ان کی نقل کے لئے اٹھتا یا کھانا کھانے کے لئے اٹھتا ہے.کیونکہ سمجھتا ہے اگر میں سحری کو کھانا نہ کھاؤں گا تو دن بھر بھوکا رہوں گا.پس جب کہ رمضان میں انسان سحری کے وقت اٹھ سکتا ہے.تو کیا وجہ ہے کہ اور دنوں میں نہ اٹھ سکے.پس رمضان کا مہینہ ایسے انسانوں کو شرمندہ کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ تمہارے اندر طاقت ہے کہ اور راتوں کو بھی اٹھ کر خدا تعالیٰ کے آگے سر بسجود سکو.یہ کہنا کہ اٹھ نہیں سکتے یہ صحیح نہیں.تم سستی سے نہیں اٹھتے.اگر تم ایک مہینہ کھانا ہو
123 کھانے کے لئے سحری کے وقت اٹھ سکتے ہو.تو باقی گیارہ مہینے عبادت کے لئے کیوں نہیں اٹھ سکتے.تو رمضان کا مہینہ بتاتا ہے کہ دعا کرنے کے لئے بہترین موقعہ سے فائدہ اٹھانا چاہئے.پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ رمضان سے پورے طور پر فائدہ اٹھائیں.کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے برکات نازل ہونے کے خاص دن ہیں.اس کی مثال یہ ہے جیسے ایک سخی اپنے خزانہ کے دروازے کھولکر اعلان کر دے کہ جو آئے لے جائے ان دنوں خدا تعالٰی بھی اپنی برکتوں اور رحمتوں کے دروازے اپنے بندوں کے لئے کھول دیتا ہے.اور کہتا ہے آؤ آکر لے جاؤ.ہاں اس کے ساتھ شرط ضروری ہے کہ تمہارا کوئی مطالبہ قانون الہی کے خلاف نہ ہو.اور جن باتوں سے خدا تعالیٰ نے خود روک دیا ہے.ان کا مطالبہ نہ ہو.پھر خدا پر پورا یقین اور اس کی بخشش پر کامل بھروسہ ہو.ورنہ جو ڈرتے ہوئے اور نا امید دل کے ساتھ خدا کے حضور جاتا ہے وہ نا کام آتا ہے.کیونکہ وہ خدا تعالیٰ پر بدظنی کرتا ہے.اور بدظنی کرنے والا سزا کا مستحق ہوتا ہے.وہی انعام لے کر آتا ہے.جو وثوق اور یقین کے ساتھ جاتا ہے.اور کبھی ناکام نہیں لوٹتا.اور کبھی ناکام نہیں آتا.خدا تعالیٰ کو اپنی طاقتوں کے متعلق غیرت آتی ہے.وہ کہتا ہے جب بندہ عجز اور انکسار کے ساتھ میرے سامنے آیا ہے.تو یہ میری الوہیت کی شان کے خلاف ہے کہ میں اسے ناکام کر دوں.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ اس مبارک مہینہ میں دعائیں کرو.اور وثوق اور یقین کے ساتھ کرو.بہت لوگ شکوہ کرتے ہیں.کہ ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں.مگر وہ جانتے نہیں کہ دعا کس وثوق اور کس یقین کے ساتھ کرنی چاہئے.خدا تعالیٰ رمضان کے ذکر میں فرماتا ہے.واذا سألك عبادی عنی فانی قریب (البقرہ ۱۸۷) میرے بندے اگر میرے بارہ میں سوال کریں تو انہیں کہو میں تو بالکل قریب ہوں.اس میں یہ حکمت بیان کی گئی ہے کہ انسان کو اپنی زندگی کی بنیاد محبت پر رکھنی چاہئے اور دعاؤں کی بنیاد بھی محبت پر ہی ہے.دعا انسان اس لئے نہ مانگے کہ مجھے یہ چیز مل جائے.یا وہ چیز مل جائے.بلکہ اس لئے مانگے کہ اگر خدا تعالیٰ سے نہ مانگوں تو اور کس سے مانگوں نیتوں سے کاموں کے انجام میں بھی بہت فرق پڑ جاتا ہے.بسا اوقات انسان ایک چیز اس لئے مانگتا ہے کہ تعلق پیدا ہو جائے.ماں باپ سے بچہ بسا اوقات اسی غرض سے سوال کرتا ہے.بچہ جب ماں باپ سے کوئی چیز مانگتا ہے.تو اس لئے کہ اس کا دل چاہتا ہے ماں باپ سے مانگوں اور ان سے چھٹوں ورنہ اس چیز کی اسے ضرورت نہیں ہوتی.اس وقت اتنی خواہش بچہ کو اس چیز کی نہیں ہوتی جو مانگ رہا ہوتا ہے.جتنی خواہش ماں کی گود میں بیٹھنے یا باپ سے پیار کرنے کی ہوتی ہے.
124 تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے.جب میرے بندے میرے متعلق سوال کریں تو اس کی غرض خدا کو اپنانا ہو نہ کہ کوئی اور چیز حاصل کرنا.پس جو سوال کرے اور کچھ مانگے اس کی حرص پر بنیاد نہ ہو بلکہ محبت پر ہو.وہ سمجھے اگر فلاں چیز نہیں ملتی تو نہ ملے خدا سے باتیں تو ہو جائیں گی.میں اس قسم کی ایک مثال سناتا ہوں.جس سے محبت کا ثبوت ملتا ہے.رسول کریم ﷺ کے وصال کا وقت جب قریب آیا اور آپ نے بعض رویا کی بنا پر معلوم کر لیا کہ میری وفات قریب ہے.تو آپ نے مجلس میں فرمایا.میں چاہتا ہوں مجھ پر کسی کا حق نہ رہے.اس لئے اگر کسی کو مجھ سے کوئی ایسی تکلیف پہنچی ہو جو ناجائز ہو تو آج مجھ سے اس کا بدلہ لے لے تا قیامت کے دن مجھ پر اس کا حق نہ رہے.صحابہ نے مختلف کیفیات قلبی کے ماتحت اس بات کو مختلف رنگ میں سمجھا اور فائدہ اٹھایا.کسی نے تو اس سے یہ سمجھا کہ اب آپ کی وفات کا وقت قریب ہے کسی نے سمجھا کیا اعلیٰ بات فرمائی ہے.کسی نے سمجھا کیا اعلیٰ سبق دیا ہے.دوسروں کے حقوق ادا کرنے کا.غرض ہر ایک نے اپنے اپنے رنگ میں فائدہ اٹھایا کہ اسی دوران میں ایک صحابی کھڑا ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ایک دفعہ مجھے آپ سے تکلیف پہنچی تھی.میں اس کا بدلہ لینا چاہتا ہوں.یہ سن کر صحابہ کی آنکھوں میں خون اتر آیا ہو گا.انہوں نے خیال کیا ہو گا.اس نے کیسی بیہودہ بات کہی ہے.اور رسول کریم ﷺ کی کس قدر گستاخی کی ہے.کئی اس پر دانت پیتے ہوں گے.کہ رسول کریم ﷺ کی وفات کے وقت ہی اسے اپنا بدلہ لینے کا خیال آیا.اور اس کا اس نے مطالبہ کر دیا.رسول کریم ﷺ نے فرمایا.اچھا بتاؤ کیا بات ہے.اس نے کہا یا رسول اللہ ایک دفعہ آپ جنگ کے موقعہ پر صف بندی فرما رہے تھے تو آپ کی کمنی میری پیٹھ پر لگی تھی.رسول کریم ﷺ نے فرمایا لو تم بھی مار لو.اس نے کہا یا رسول اللہ اس وقت میرا بدن نگا تھا مگر آپ کے جسم پر کپڑا ہے.آپ نے کپڑا اٹھا دیا اور کہالو اب مار لو.یہ دیکھ کر اس صحابی کی آنکھوں میں آنسو آگئے.اور اس نے رسول کریم ان کے جسم مطہر کو بوسہ دیتے ہوئے کہا.میں نے سمجھا تھا حضور کی وفات قریب ہے.پھر اس مبارک جسم کے دیکھنے کا موقعہ نہ ملے گا.اس لئے ایک دفعہ تو اسے چوم لوں اے الله دیکھو اس صحابی کا بھی یہ مانگنا تھا.اور اپنا حق مانگنا تھا.مگر اس کی اصل غرض رسول کریم کے جسم مبارک کو دیکھنا اور بوسہ دینا تھی.تو بسا اوقات انسان ایک چیز مانگتا ہے.مگر اس کی غرض قرب اور محبت حاصل کرنا ہوتی ہے.میں نے دیکھا ہے.باہر سے دوست آتے ہیں.اور کہتے ہیں بہت ضروری کام ہے.جس کے لئے ملنا چاہتے ہیں.لیکن جب ملتے ہیں تو کہتے ہیں یہی کام تھا کہ
125.آپ سے ملنا چاہتے تھے.تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے.اذا سألك عبادی عنی فانی قریب جس وقت میرے بندے میری بابت سوال کریں یہ سوال نہیں کہ یہ ملے اور وہ ملے.بلکہ ان کا اصل مقصد یہ ہو کہ خدا ملے.باقی جو کچھ ملے وہ سب زائد ہے.تو ان سے کہو میں ان کے قریب ہوں.ف بسا اوقات نتیجہ کے لئے آتی ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ جتنی تڑپ ہو کہ خدا کہاں ہے.اتنا ہی خدا نزدیک ہوتا ہے.تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے.میرا حاصل کرنا مانگنے پر منحصر ہے.مجھے پکارو تو میں آجاؤں گا.میں تو خود اس کا منتظر ہوں کہ آواز دو تو میں آؤں.ایک دفعہ میں نے ایک رویا دیکھی.اس وقت میں چھوٹی عمر کا تھا.میں نے دیکھا.حضرت عیسی ایک بچہ کی شکل میں ہیں.ایک چبوترہ ہے جس کی سیڑھیاں سنگ مرمر کی ہیں.وہ اس قسم کا چبوترہ ہے جس قسم کا امرت سر میں ملکہ وکٹوریا کے بت کا ہے.اس چبوترہ سے ایک سیڑھی نیچے ، حضرت عیسیٰ کھڑے ہیں.اور آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں.میں نے آسمان کی طرف دیکھا.تو نظر آیا.آسمان سے ایک عورت اتری ہے جس کے پر لگے ہوئے ہیں.اور بہت خوبصورت رنگوں کا لباس پہنے ہوئے ہے.وہ حضرت مریم ہیں.وہ بچہ کے پاس آکر کھڑی ہو گئی ہیں.اس وقت بچہ نے گھٹنہ ٹیک کر اپنا سر آگے کر دیا ہے.اور وہ کچھ نیچے جھکی ہیں اور بچہ کو پیار دیا ہے.اس وقت یہ الفاظ میری زبان سے نکلے Love Creats Love کہ محبت محبت سے پیدا ہوتی ہے.تو جب انسان خدا تعالیٰ کو پکارتا ہے.تو پھر خدا تعالیٰ کی طرف سے رحمت جاری ہوتی ہے.مگر فرمایا اُجیب دعوة الداع اذا دعان فليستجيبوا لی ولیومنوا ہی کہ دو شرطیں ہیں.ایک تو یہ ہے کہ استجابت ہو جس طرح بتایا گیا ہے اس طرح مانگیں اور دوسری یہ کہ یقین ہو کہ ضرور دوں گا.ولیومنوا ہی سے یہاں مراد ایمان نہیں ہے کیونکہ جو دعا مانگے گا وہ ایمان لایا ہی ہو گا تب وہ مانگے گا.یہاں ایمان کے معنی یقین کے ہیں.بسا اوقات انسان دعا مانگتا ہے مگر اس کی حالت شبہ کی ہوتی ہے.یا وقتی طور پر یقین پیدا ہوتا ہے.اگر اس کی دعا قبول نہ ہو تو کہتا ہے قبول ہو ہی نہیں سکتی حالانکہ ایسا ہوتا ہے کہ بعض اوقات دعا کا قبول نہ ہوتا ہی اس کے لئے مفید ہوتا ہے.اور اگر اسی طرح دعا قبول ہو جائے جس طرح وہ مانگتا ہے تو وہ کئی گناہوں میں مبتلا ہو جائے.اس کی دعا کو خدا تعالٰی عبادت قرار دے دیتا ہے.اور اس رنگ میں قبول نہیں کرتا.جس طرح اس کی خواہش ہوتی ہے مثلاً مقدمہ ہے.ایک شخص دعا کرے کہ مجھے اس میں کامیابی ہو.مگر اس کامیابی میں دوسرے کا حق اس کے قبضہ میں آتا ہو.تو خدا تعالیٰ اس کو دوسرے کا حق نہ دیدیگا.مگر اس کی یہ عبادت رد نہ کرے گا.کہے گا دوسرے کا
126 حق تو نہیں دوں گا.مگر اس کا بدلہ اور دیدوں گا.تو دعا کے لئے ایک شرط تو یہ ہے کہ ان اصول کے ماتحت مانگی جائے جو خدا تعالیٰ نے اور رسول کریم اینا نے قرار دیئے ہیں اور اس یقین سے مانگی جائے کہ کبھی رد نہ ہو گی.تو جو دعا خدا تعالیٰ کے قانون کے ماتحت مانگی جائے وہ کبھی رد نہیں ہوتی.اور اگر رد ہوتی نظر بھی آئے.تو بھی انسان کے لئے فائدہ ہی کے سامان ہوتے ہیں.تو دعائیں ہر رنگ میں قبول ہوتی ہیں.حتی کہ وہاں بھی قبول ہو جاتی ہیں جہاں خدا تعالیٰ کی طرف سے فیصلہ ہو جاتا ہے کہ ایسا نہ ہو گا.بسا اوقات ایک حالت کا تغیر نا ممکن معلوم ہوتا ہے.اس کے متعلق رڈیا اور کشوف بھی ہو جاتے ہیں.مگر جب دعا کی جاتی ہے تو وہ حالت بدل جاتی ہے.میں نے ایک عزیز کے متعلق رڈیا دیکھی.اور اس کے اثرات بھی ظاہر ہونے لگ گئے مگر میں نے اس کے لئے دعا کی تو خدا تعالی نے قبول کر لی.تو دعا جو عاجزانہ طور پر کی جاتی ہے تقدیر کو بھی بدل دیتی ہے.تقدیر دو قسم کی ہوتی ہے.ایک علم والی اور دوسری جو ارادہ کے بعد کی جاتی ہے.وہ بدل جاتی ہے.اور ایسے رنگ میں بدلتی ہے.کہ وہم بھی نہیں ہوتا.اس لئے میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ دعائیں کریں اور ان ایام میں دعاؤں پر بہت زور دیں مگر یاد رکھیں ان کا اصلی مقصود یہی ہو کہ خدا مل جائے.دنیا کے لئے بھی اگر دعا کریں تو منع نہیں مگر یہ نظریہ ہو کہ دنیا کی جتنی بھی حاجات ہیں ان کا مانگنا تو ایک ذریعہ اور بہانہ ہے خدا تعالیٰ سے ملنے کا اصل چیز خدا کی محبت اور اس کا قرب ہی ہے.اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص اپنے محبوب سے جدا ہو کر جب جاتا ہے.اور اسے کوئی اور بات یاد آجاتی ہے.تو پھر ملنے کے لئے واپس آجاتا ہے.اس وقت وہ دل میں خوش ہو رہا ہوتا ہے.کہ ملاقات کا ایک اور موقعہ مل گیا اور ایک اور موقعہ پیدا ہو گیا.پس اس نیت اور اس ارادہ سے خدا کے سامنے جاؤ پھر خواہ اولاد مانگو.خواہ مال مانگو.خواہ مدارج میں ترقی مانگو.خواہ اپنی مشکلات کے دور ہونے کے لئے دعا کرو.یہ سب کر سکتے ہو مگر جب بھی تم کچھ مانگ رہے ہو یہی سمجھو کہ اس چیز کو نہیں بلکہ خدا کو مانگ رہے ہیں.اس حالت میں اگر وہ چیز تم کو نہ بھی ملے تو بھی ناامیدی اور بد دلی نہ ہوگی.کیونکہ اصل غرض تو خدا تھی.وہ چیز تو محض بہانہ تھی.اصل غرض پوری ہوتی جا رہی ہے تو دوسری چیزوں کا کیا ہے.اس وجہ سے مایوسی نہ ہوگی.پس یقین اور وثوق کے ساتھ خدا تعالیٰ کو مانگو آج کل برکات کے دن ہیں.جتنا انسان ایمان میں ترقی کرتا جائے اس کے لئے ایسے دن پیدا ہو جاتے ہیں مگر ہر دن ایسا نہیں ہو تا کہ عید کا دن ہو بے شک ایسے لوگ ہوتے ہیں.جن کے لئے ہر روز روز عید نیست والی مثال غلط ہو جاتی ہے.خدا تعالی ان کے لئے ہر روز عید بنا دیتا ہے.مگر باقیوں کے لئے خاص خاص مواقع ہوتے
127 ہیں.دیکھو بادشاہ کا ایک مقرب تو روزانہ اسے مل سکتا ہے.مگر ہر شخص روزانہ نہیں مل سکتا.وہ تو جب دربار منعقد ہو گا.یا جو خاص دن ملنے کا مقرر ہو گا اسی دن مل سکے گا.رمضان کے دن ایسے ہیں کہ ہر شخص خدا سے مل سکتا ہے.پس ان بابرکت ایام کو ضائع نہیں کرنا چاہئے.ان دنوں خوب دعائیں کرنی چاہیں.اپنے لئے بھی اور سلسلہ کی اشاعت کے لئے بھی اور پھر ساری دنیا کے لئے بھی.کیونکہ سب لوگ ہمارے بھائی ہیں.ان کی تباہی سے ہمیں رنج اور صدمہ ہوتا ہے.پھر ان لوگوں کے لئے دعائیں کی جائیں جو سلسلہ کی خدمت کر رہے ہیں پھر ہم بخیل نہیں ہیں.وہ خدا جو مومنوں کو رزق دیتا ہے.وہی کافروں کو بھی دیتا ہے.ان کے لئے بھی دعا مانگنی چاہئے کیونکہ وہ ہدایت سے دور ہیں.پھر ہماری دعا نہیں ختم نہ ہو جانی چاہئے.کیونکہ خدا تعالیٰ نے اپنے سامان انہی تک نہیں محدود رکھے.جو خدا سے دور رہیں.بلکہ ان کو بھی دیتا ہے.جو خدا کو گالیاں دیتے ہیں.ان کے لئے بھی دعا کی جائے.کہ انہیں ہدایت حاصل ہو.اور ان کے دلوں کے زنگ دور ہو جائیں.تاکہ خدا تعالیٰ اور دین کی طرف متوجہ ہو سکیں.پس ہمیں وسیع دعا کرنی چاہئے.جیسا کہ ہمارے پیدا کرنے والے کی رحمت وسیع ہے.ہم کبھی تقویٰ حاصل نہیں کر سکتے.جب تک خدا تعالیٰ کی صفات حاصل نہیں کرتے اور خدا تعالیٰ کی صفات ہمارے اندر جلوہ گر نہیں ہو جاتیں.خدا تعالیٰ ہمیں ایسا بننے کی توفیق عطا فرمائے.(الفضل 4 اپریل ۱۹۲۶ء) ا تاریخ ابن ہشام الجزء الثانی حالات غزوة بدر
2 14 لیلتہ القدر کی تلاش (فرموده ۹ اپریل ۱۹۳۶ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : یہ رمضان کا آخری عشرہ ہے.اور اس آخری عشرہ کے متعلق رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں.اس کے اندر ایک ایسی رات ہے.جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعائیں خاص طور پر سنتا ہے.اس رات میں اس کے بندے جو کچھ طلب کرتے ہیں.وہ دیتا ہے.اور جو چاہتے ہیں.وہ پورا کرتا ہے.اور آپ نے اس کے متعلق فرمایا ہے.رمضان کے آخری عشرہ میں اسے تلاش کرو اے گو جیسا کہ میں پہلے کئی دفعہ بتا چکا ہوں.یہ ضروری نہیں کہ آخری عشرہ میں ہی وہ رات آئے.لیکن رسول کریم ﷺ کے کلام سے یہی معلوم ہوتا ہے.اور بعد میں آنے والے صلحاء اور اولیاء اللہ کے تجربہ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ رات بالعموم آخری عشرہ رمضان میں آتی ہے.اس رات کے برکات بہت سے اولیاء نے خود مشاہدہ کئے ہیں.اور اپنی روحانی آنکھوں سے انوار کو آسمان سے اترتے دیکھا ہے.جو انوار ایک دم میں تاریک دن کو نورانی بنا دیتے ہیں.اور متفکر انسان کو تمام دنیا میں سب سے زیادہ خوش کر دیتے ہیں.یہ تو ایک منٹ کے لئے بھی کبھی خیال نہیں کیا جا سکتا کہ رسول کریم ﷺ کا منشاء یہ ہے کہ اس گھڑی میں جو رمضان کے آخری عشرہ کی کسی رات میں آتی ہے جو آدمی جو کچھ بھی مانگے وہ اسے مل جاتا ہے.کیونکہ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے.تو پھر دین کے معاملہ میں امن و امان اٹھ جاتا ہے.اور لیلتہ القدر اس دعائے گنج العرش کی طرح رہ جاتی ہے.جس کے متعلق جاہلوں میں یہ خیال پھیلا ہوا ہے کہ وہ ایسی دعا ہے.جس سے انسان جو چاہے حاصل کر سکتا اور ہر قسم کی تکلیف سے بچ سکتا ہے.اور پھر ایسی دعا کا پتہ بھی چور کے ذریعہ لگا ہے نہ کسی ولی اور بزرگ کے ذریعہ کہتے ہیں ایک چور تھا جس نے کئی خون کئے بادشاہ نے اس کے قتل کا حکم دیا لیکن
129 رو.جب جلاد اسے قتل کرنے لگے.اور اس کی گردن پر کئی تلواروں کے وار کئے تو اسے ذرا بھی گزند نہ پہنچی.اور ذرا بھی گردن نہ کئی.اس پر بادشاہ کو اطلاع دی گئی کہ تلواریں اس کی گردن نہیں کٹ سکتیں بادشاہ نے کہا اگر اس کی گردن ایسی ہی ہے کہ تلواروں سے نہیں کٹ سکتی تو اسے پھانسی دے.لیکن جب پھانسی پر چڑھایا گیا تو پھانسی بھی اس پر کوئی اثر نہ کر سکی.اس کی اطلاع بادشاہ کو دی گئی.تو اس نے کہا کہ اچھا آگ میں ڈال دو مگر آگ نے بھی اس کا کچھ نہ بگاڑا پھر کہا گیا اسے اونچے پھاڑے گرادو.لیکن پھاڑ سے گرانے پر وہ اس طرح لڑھکتا ہوا نیچے آپہنچا گویا کھیل رہا ہے.پھر کہا گیا اسے وزنی پتھر باندھ کر پانی میں پھینک دو.لیکن جب پھینکا گیا تو وہ پانی پر اس طرح تیرنے لگا جس طرح کارک تیرتا ہے.آخر بادشاہ نے اسے اپنے پاس بلا کر کہا کہ ہم سے غلطی ہو گئی کہ ہم نے تمہیں چور سمجھ کر سزا دینی چاہی.تم تو بڑے باکرامت انسان ہو.اس نے کہا ہوں تو میں چور ہی مگر بات یہ ہے کہ میں ایک ایسی دعا جانتا ہوں کہ جتنے انبیاء گذر چکے ہیں ان کی نیکیوں کے برابر نیکیاں ایک دفعہ اس کے پڑھنے سے حاصل ہو جاتی ہیں.اسی طرح خواہ کوئی کتنے گناہ کرے.ایک دفعہ پڑھ لینے سے سب دور ہو جاتے ہیں اور کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی.میں وہ دعا پڑھا کرتا ہوں.تو نادانوں کی یہ دعا نکالی ہوئی ہے اگر لیلتہ القدر بھی اسی کی طرح ہو کہ خواہ کوئی ڈاکہ ڈالے چوری کرے، قتل کرے انبیاء کو گالیاں دے، شریعت کے کسی حکم پر عمل نہ کرے.لیکن اس رات دعا مانگ لے تو انبیاء کی دعائیں رد ہو جائیں مگر اس کی دعا رد نہ ہو گی.تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ پھر کسی کو نیک اعمال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے.مثلاً ایک شخص اس رات یہ دعا مانگ لے کہ میں جو چاہوں کروں لیکن جاؤں جنت کے سب سے اعلیٰ مقام میں اور اعلیٰ درجہ میں اور یہ دعا ضرور قبول ہوتی ہے.تو پھر خواہ وہ کچھ کرے جنت میں ہی جائے گا.مگر یہ بات اسلام کی تعلیم اور اسلام کے مغز کے قطعاً خلاف ہے.پس رسول کریم اس نے جو یہ فرمایا ہے کہ اس رات میں ایک خاص گھڑی ہوتی ہے جب کہ برکات نازل ہوتی ہیں.اور خصوصا " جمعہ کی رات کو اس سے بڑا تعلق ہے تو اس کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ اس گھڑی میں خواہ کوئی دعا کی جائے خدا تعالیٰ کو ضرور منظور کرنی پڑتی ہے.اور وہ اسے رد نہیں کر سکتا.بلکہ اس کے لئے کچھ حد بندی کرنی پڑے گی.جس کے ماتحت اس وقت دعائیں قبول ہوتی ہیں.اب یہ دیکھنا چاہئے کہ وہ حد بندیاں کیا ہیں.وہی ہیں جو شفاعت کے متعلق ہیں.یعنی ایک ایسا شخص جو کوئی ایسی چیز مانگتا ہے جو خدا تعالیٰ کے قانون کے ماتحت دی جاسکتی ہے لیکن بعض عارضی روکیں پیدا ہو گئی ہیں جو امکان قدرت سے تعلق نہیں رکھتیں یا اس انسان
130 کے درجہ سے تعلق نہیں رکھتیں.وہ ایسے موقعہ پر مانگے گا تو اسے مل جائے گی.ورنہ اگر اس کا یہ مطلب ہو کہ خواہ کوئی کچھ کرے جو دعا بھی اس وقت مانگے.وہی قبول ہو جائے گی.تو ہو سکتا ہے کہ ایک شخص رمضان کے پہلے ہیں روزے نہ رکھے.نہ نمازیں پڑھے.نہ کوئی اور نیک کام کرے.لیکن جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہو تو مغرب کی نماز کے بعد سے لے کر صبح کی نماز تک دعا مانگتا رہے.اور دن کو سو جائے نہ ظہر کی نماز پڑھے نہ عصر کی.پھر رات کو یہ دعا مانگنا شروع کر دے کہ میں جو چاہوں کرتا رہوں مجھ سے کوئی باز پرس نہ ہو اور میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام پر جنت میں رکھا جاؤں یہ ہرگز مفہوم نہیں ہو سکتا ان حدیثوں کا جو لیلتہ القدر کے متعلق آئی ہیں.دعا وہی سنی جاتی ہے جو خدا تعالیٰ کے قانون کے ماتحت قبول ہوئی ممکن ہو مگر عارضی روکوں کی وجہ سے قبول نہ ہو سکتی ہو اور یہ درست ہے کہ انبیاء کی ایسی دعائیں کبھی رد نہیں ہوتیں.ان کی وہی دعائیں نا منظور ہوتی ہیں جو خدا تعالیٰ کے قانون یا خاص تقدیر کے مقابلہ میں آپڑتی ہیں اور انبیاء کو اس کا پتہ نہیں ہوتا.ورنہ جو ایسی نہیں ہوتیں وہ قبول کی جاتی ہیں.اور کبھی رد نہیں کی جاتیں.یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات انبیاء کے منہ سے نکلے ہوئے فقرے اس صفائی کے ساتھ پورے ہو جاتے ہیں کہ لوگ خیال کر لیتے ہیں انہیں بھی قانون قدرت پر تصرف حاصل ہے.لیکن وہ اہم امور جو خاص قدرتوں کے ماتحت ہوتے ہیں اور جن کے متعلق خدا تعالیٰ کا قانون اور رنگ میں جاری ہوتا ہے.ان کے متعلق نہ صرف یہ کہ انبیاء کے منہ سے نکلی ہوئی دعائیں قبول نہیں ہوتیں بلکہ مہینوں اور سالوں اس کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں.تو بھی منظور نہیں ہوتیں.بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ انبیاء اور اپنے مقربین کی دعائیں ان کی محبت اور پیار کی وجہ سے سنتا ہے.مگر محبت اور پیار کی وجہ سے خدائی چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا.یہی وجہ ہے کہ وہ دعائیں جو اس کے قانون قدرت یا خاص تقدیر کے خلاف ہوں انہیں قبول نہیں کرتا.پس رمضان المبارک کا آخری عشرہ بھی بعض حد بندیوں کے ماتحت آئے گا.اور جب یہ بات تسلیم کی جائے گی.تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس عشرہ میں آنے والی خاص گھڑی سے وہی فائدہ اٹھائے گا جس کے دوسرے اعمال بھی اچھے ہوں گے.اور جو دوسرے ایام میں بھی اپنے اندر صلاحیت رکھتا ہو گا.یعنی وہی اس سے فائدہ اٹھائے گا جو اپنے اعمال کی رو سے اس کا مستحق ہو گا.پھر یہ حد بندی لگانے پر یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ لیلتہ القدر ہر انسان کے لئے نہیں ہے.بلکہ اس کے لئے ہے جو خود اسے اپنے لئے پیدا کرتا..یہ نہیں کہ اس عشرہ میں وہ خاص گھڑی اس لئے رکھ
131 دی گئی ہے کہ جو چاہے اس سے فائدہ اٹھا لے.بلکہ یہ کہ جو لوگ اپنے اعمال کے لحاظ سے اس کے مستحق ہوتے ہیں ان کے لئے یہ بنائی جاتی ہے.پس یہ بات خوب اچھی طرح یاد رکھنی چاہئے.کہ لیلتہ القدر اس رات میں پیدا نہیں کی جاتی جس کی طرف منسوب ہوتی ہے.بلکہ پچھلے سال اور پچھلے مہینے اسے بناتے ہیں.جس کے پچھلے اعمال اعلیٰ ہوں گے.اس کے لئے لیلتہ القدر ہو گی.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لیلتہ القدر میں یہ اشارہ ہے کہ جس کے ابتدائی ایام نیکی میں گذرتے ہیں.اس کے انتہائی ایام میں بھی خدا تعالیٰ کی تائید اس کے شامل حال ہو جاتی ہے.جیسا کہ رمضان کے ابتدائی ایام میں جو خدا تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے.اس کے لئے آخری ایام میں ایسا وقت آتا ہے کہ خدا اس کے لئے فضل نازل کرنے کا خاص موقعہ رکھتا ہے.پس لیلتہ القدر میں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اگر انسان اپنی زندگی کی ابتدائی گھڑیوں کو خدا تعالی کی رضا میں صرف کرے.تو اس کی انتہائی گھڑیاں خدا تعالیٰ خود اپنی رضا میں صرف کرا لے گا.اگر کوئی شخص اپنے طاقت کے ایام میں خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے.تو اس وقت جب کہ بڑھاپے کی وجہ سے اور کمزور ہو جانے کے باعث خدا تعالیٰ کی خاطر جسمانی اور مالی قربانی نہ کر سکے گا.خدا تعالی خود اس سے کرا لے گا.پس رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں جس لیلتہ القدر کا ذکر کیا گیا ہے.وہ دراصل انسان کے انجام کی طرف اشارہ ہے.اگر ایک انسان نے متواتر خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کی.اس کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کی.تو جب اس پر ایسا زمانہ آئے گا.جب وہ اپنی نا طاقتی کی وجہ سے خدمت دین میں حصہ نہ لے سکے گا.تو خدا تعالیٰ خاص طور پر اس کی مدد فرمائے گا.اور اس کی باتوں میں وہ اثر پیدا کر دے گا.جو دوسروں کے کاموں میں بھی نہیں ہو گا.کیونکہ اس نے اپنی ساری عمر خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول میں خرچ کر دی.اور دوسرے ابھی امتحان میں ہیں.نہ معلوم ان کا کیا نتیجہ ہو.پس لیلتہ القدر اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ ایک انسان جس نے اپنی ساری عمر خدا تعالیٰ کی رضا اور اس کے دین کی خدمت میں صرف کر دی وہ کمزور ہو جانے کی وجہ سے جب چھار کے لئے نہیں جا سکے گا.یا مالی قربانی نہیں کر سکے گا.اس وقت اس کے دل میں جو نیک ارادے پیدا ہوں گے.ان کا ہی اس کو اتنا ثواب ملے گا.جو جوانوں کو ان کے کاموں کا نہیں ملے گا.کیونکہ ان کی زندگی کی تو ابھی ابتدا ہوئی ہے.اور وہ اپنی زندگی اور قومی خرچ کر کے انتہا کو پہنچ چکا ہے.پس لیلتہ القدر پیدا کی جاتی ہے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں کام کرنے والوں کے انجام کی خوبی کی
132 طرف متوجہ کرتی ہے.مگر دوسری طرف اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی کا انجام اچھا نہیں ہو گا تو معلوم ہوا.اس کی ابتدا بھی اچھی نہ تھی.اور اس کی ابتدائی خدمات نیک نیتی اور خلوص پر مبنی نہ تھیں.پس لیلتہ القدر سے یہ سبق مل سکتے ہیں.اول یہ کہ جو انسان خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ ابتدا سے کام کرے گا.اس کا انتہا اچھا ہو گا.اور دوم یہ کہ اگر کسی کے لئے لیلتہ القدر کی حالت پیدا نہیں ہوتی.تو معلوم ہوا.گو اس کا پہلا زمانہ بظاہر اچھا معلوم ہوتا تھا.اور وہ اچھے کام کرتا نظر آتا تھا.مگر اس میں کچھ ایسے نقص تھے کہ جن کی وجہ سے اس کی خدمات قبول نہ ہوئیں.اور خدا تعالیٰ نے اس کے اعمال کے تسلسل کو جاری نہ رہنے دیا.ان دو سبقوں کے ماتحت دوستوں کو صرف رمضان میں ہی نہیں اور رمضان کے آخری عشرہ میں ہی نہیں بلکہ بعد میں بھی لیا تہ القدر کو تلاش کرنا چاہئے.اور اپنی زندگی کے آخری عشرہ کے لئے ایسے سامان مہیا کرنے چاہیئیں کہ انہیں لیلتہ القدر کے فیوض حاصل ہو سکیں.اور ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی زندگی کے پہلے ایام میں تو کام کریں.لیکن انجام کے وقت جب ان میں کام کرنے کی طاقت نہ رہے.تو خدا تعالیٰ کی طرف سے وہ مدد حاصل نہ ہو جو اپنے محبوب بندوں کو دیتا اور جو پنشن کے طور پر اس کی طرف سے ملتی ہے.اس وقت وہ اپنا خاص فضل نازل کرے.اور اپنے برکات کا وارث بتائے یہی سبق ہے جو خدا تعالیٰ لیلتہ القدر سے مومنوں کو دیتا ہے.اور اس کے حاصل کرنے کے لئے ہمیں کوشش کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم رمضان کی لیلتہ القدر سے بھی فائدہ اٹھائیں.اور انسان کی زندگی کی جو لیلتہ القدر ہوتی ہے.اس سے بھی مستفیض ہوں.ہم خدا تعالیٰ کی گود میں ہوں اور ہمارا آخری انجام اسی طرح ہو جس طرح لیلتہ القدر کے متعلق وعدہ کیا گیا ہے.(الفضل ۱۳ اپریل ۱۹۲۶ء)
133 15 قومی ترقی اور عروج کے زریں اصول (فرموده ۱۶ اپریل ۱۹۳۶) تشهد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : اگرچہ میں طبیعت کی علالت کی وجہ سے زیادہ تو نہیں بول سکتا.لیکن چونکہ میں سمجھتا ہوں کہ خطبہ جمعہ پڑھانا جہاں تک ممکن ہو میرے لئے ضروری ہے.اس لئے اختصار کے ساتھ میں کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں.دنیا میں جب کوئی نئی تحریک پیدا ہوتی ہے.اور نیا سلسلہ قائم ہوتا ہے.تو اس کے ساتھ قربانیاں لازمی اور ضروری ہوتی ہیں.کیونکہ بغیر قربانی کے کوئی قوم نہ قوم بنی ہے اور نہ بن سکتی ہے.جو لوگ عاجل فوائد کو آجل فوائد کے مقابل مقدم کرتے ہیں وہ کبھی دنیا میں زندہ رہنے کے مستحق نہیں ہو سکتے.یہ ایک وہم اور دھوکہ ہے کہ اگر ہم قربانیاں کریں گے تو تباہ و برباد ہو جائیں گے.ابھی تھوڑے دن ہوئے ہیں کہ ایک دوست نے میری طرف خط لکھا کہ اسلام نے دولت حاصل کرنے کے کیا قواعد مقرر کئے.اور کیا طریق بتائے ہیں.اگر کوئی طریق نہیں بتائے.تو جماعت پر چندوں کا جو بوجھ پڑ رہا ہے اس سے خطرہ ہے کہ قوم تباہ نہ ہو جائے.انگریزی میں ایک لفظ فالسی (FALLACY) ہے.جس کا یہ مطلب ہے کہ بظاہر ایک دلیل نہایت سچی اور خوبصورت معلوم ہوتی ہے.لیکن در حقیقت اس سے زیادہ کوئی جھوٹی بات نہیں ہوتی.اسی طرح یہ خیال بھی بظاہر تو بہت خوبصورت معلوم ہوتا ہے.لیکن دراصل یہ نفس کا ایک دھوکہ اور فریب ہے.یہ خیال کہ اگر ہم قربانی کریں گے تو اس کا یہ نتیجہ ہو گا کہ ہم تباہ اور ذلیل ہو جائیں گے.ایک غلط اور ترقی کے لئے تباہ کن خیال ہے.کبھی کوئی ایسی قوم برباد نہیں ہوئی جو ہر قسم کی قربانیوں کے لئے آمادہ ہو.اور وہ
134 قربانیاں کرتی ہو.ہمیشہ وہی قومیں دنیا میں برباد ہوتی رہی ہیں جن کا یہ خیال ہوا کہ ہم قربانی کرنے سے تباہ ہو جائیں گے.دیکھو مسلمان جو ابتدائے اسلام میں قربانیاں کرتے تھے.اور جو قربانیاں صحابہ کرام نے حضرت نبی کریم اللہ اور آپ کے خلفاء کے زمانہ میں کیں وہ بنو عباس کے زمانہ میں مسلمانوں سے ظہور پذیر نہیں ہوئیں.جس کا یہ نتیجہ تھا کہ اسلام کو جو شان و شوکت صحابہ کے زمانہ میں حاصل تھی.وہ بنو عباس کے زمانہ میں باوجود ہر قسم کی طاقت کے حاصل نہ تھی.کیونکہ صحابہ کے وقت ان کی قربانیوں کے نتیجہ میں مسلمان ترقی کی طرف قدم اٹھا رہے تھے.مگر بنو عباس کے وقت چونکہ قربانیاں کرنے والے نہ رہے.اس لئے مسلمانوں کا قدم تنزل کی طرف جا رہا تھا.دیکھو وہ مسلمان جنہوں نے اپنے تمام کے تمام اموال خدا تعالٰی کی راہ میں خرچ کر ڈالے.اور اپنی جانیں کلی طور پر اسلام کی خدمت میں وقف کر دیں اور اپنے وطن اسلام کے لئے بکلی چھوڑ دیئے.کیا ان کی قربانیوں کا یہ نتیجہ ہوا کہ وہ تباہ اور برباد ہو گئے یا یہ کہ وہ ساری دنیا پر غالب آگئے اور تمام دنیا پر حکمران ہو گئے.لیکن اس کے بعد جب بنو عباس کے زمانہ میں بڑی شان و شوکت مسلمانوں کو حاصل تھی.دنیا کی ترقی و تنزل کی باگیں ان کے ہاتھ میں تھیں.اس زمانہ میں اسلام کو وہ ترقی اور عزت حاصل نہیں تھی جو صحابہ کے زمانہ میں حاصل تھی.کیونکہ بے شک بنو عباس کے زمانہ میں مسلمانوں کے پاس سب کچھ تھا.لیکن اگر کوئی چیز نہیں تھی.تو قربانی تھی.اور صحابہ کے پاس بے شک کچھ بھی نہیں تھا.لیکن ان کے پاس وہ چیز تھی.جو بنو عباس کے زمانہ میں نہیں تھی.اور وہ قربانی تھی.جس کے باعث وہ تمام دنیا پر حکمران اور فاتح ہو گئے.انہوں نے بعد کے مسلمانوں کی طرح اپنے اموال کو گھروں میں سمیٹ کر نہیں رکھا ہوا تھا.اور نہ انہیں اپنی جانوں کی پروا تھی.بلکہ سب کچھ خدا کی راہ میں اور اسلام کی ترقی کے لئے قربان کر دیا تھا.اب بظاہر تو یہ چاہئے تھا کہ اسلام بنو عباس کے زمانہ میں ترقی کرتا لیکن وہ اس کے خلاف صحابہ کے زمانہ میں معزز ہوا.پس یہ خیال کہ قربانی کے نتیجہ میں ہم ذلیل ہوں گے.بالکل غلط خیال ہے جو یا تو خود پسندی اور حب نفس کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے.یا اس کی وجہ جنون ہو سکتی ہے.کیونکہ یہ خیال اس وقت ہی پیدا ہو سکتا ہے.جب انسان یہ خیال کرے کہ جو کچھ ہوں میں ہی ہوں.اور میرے ساتھ کسی اور ہستی کا تعلق نہیں.لیکن جب اسے یہ خیال ہو کہ میں ایک عمارت کی ایک اینٹ ہوں.سلسلہ کی ایک کڑی ہوں.اور باغ کا ایک درخت ہوں.تو پھر یہ خیال کبھی نہیں پیدا ہو سکتا.
135 بے شک اگر قومیت دنیا میں کوئی چیز نہ ہوتی اور محض انسانیت ہی انسانیت ہوتی.تو پھر یہ خیال پیدا ہو سکتا تھا.لیکن دنیا میں تو انسان کو صرف اپنی ذات سے ہی واسطہ نہیں پڑتا.بلکہ بیرونی دنیا سے بھی اس کو واسطہ پڑتا ہے.دنیا میں ہر شخص اگر یہی خیال کرے کہ مجھے کیا ضرورت ہے کہ میں قربانی کروں.تو ایک دم تمام دنیا تباہ ہو سکتی ہے.مثلاً اگر یہی خیال ماں کے دل میں آجائے کہ میں کیوں اپنے بچہ کو دودھ پلا کر اپنا خون خشک کرتی پھروں.مجھے اس سے کیا فائدہ ہو گا.باپ خیال کرے کہ میں کیوں اپنے گاڑھے پسینہ کی کمائی بچوں پر خرچ کروں مجھے کیا ضرورت پڑی ہے کہ تکلیف اٹھا کر بچوں کی پرورش کروں.مجھے کیا فائدہ پہنچے گا.تو کیا اس خیال کے نتیجہ میں وہ خاندان ترقی کرے گا یا تباہ ہو گا ضرور وہ خاندان تباہ ہو جائے گا در حقیقت دنیا میں بحیثیت اپنی ذات کے کوئی چیز نہیں زندہ رہ سکتی.بلکہ ایک دوسرے کی قربانی کے نتیجہ میں زندہ رہتی ہے.دیکھو آج ہندوستان میں کئی ایسے مالدار لوگ موجود ہیں.جن کے پاس کروڑہا روپیہ ہے..اور یورپ کے ہزارہا لوگ ان کے مقابلہ میں کنگال کی سی حیثیت رکھتے ہیں.ہندوستان کے بعض دولتمند ہزاروں یورپین کو اپنے ہاں ملازم رکھ سکتے ہیں.لیکن باوجود اس کے ایک یورپین کنگال تو دنیا کے ہر کونہ میں عزت کے ساتھ دیکھا جاتا ہے.اور دنیا میں کوئی نہیں جو اس کی طرف انگلی بھی اٹھا سکے.لیکن ہندوستانی کروڑ پتی بھی ہر جگہ ذلیل سمجھا جاتا ہے.اس کا کیا باعث ہے.اس کا یہی باعث ہے کہ اس کنگال یورپین کی قوم ایک زبردست قوم ہے.اور اس مالدار ہندوستانی کی قوم نہایت ذلیل اور کمزور قوم ہے.پھر دوسرے ممالک کی بات تو الگ رہی.ہندوستان میں ہی دیکھو.کس طرح ایک ہندوستانی یورپین کی گاڑی میں بیٹھنے سے ڈرتا ہے.ایک بڑے سے بڑا معزز ہندوستانی گاڑی میں ذرا ایک انگریز کی آنکھوں میں سرخی اور غضب کو دیکھتا ہے تو گاڑی میں بیٹھنے سے خوف کھاتا ہے.کیا یہ تعجب کا مقام نہیں کہ ایک ہندوستانی اپنے ہی ملک میں جہاں اس کے آباؤ اجداد کی ہڈیاں مدفون ہیں جہاں کے گیہوں کے اندر اس کے آباء و اجداد کا خون ملا ہوا ہے.جہاں ہزاروں خاندانوں کی ہڈیاں ذرات اور کھاد بن کر گیہوں کی شکل اختیار کرتی اور اس سے ہندوستانیوں کا گوشت اور پوست تیار ہوتا اور اسی طرح اس ملک کی ایک ایک چیز اس کے خون سے سیراب شدہ ہے.اس ملک میں جو اس کا اپنا ملک کہلاتا ہے.اسے اتنی بھی تو جرأت نہیں ہو سکتی کہ اس گاڑی کی طرف نظر اٹھا سکے جس میں ایک یورپین بیٹھا ہوا ہو.پچھلے ہی دنوں کا ایک واقعہ ہے کہ گاڑی میں ایک
136 انگریز کی زیادتی پر اس کے خلاف دس ہندوستانیوں کی شہادت تھی.لیکن باوجود ان ہندوستانیوں کی شہادت کے مجسٹریٹ نے لکھا کہ میں ان کے چہروں سے دیکھتا ہوں کہ جھوٹ بول رہے تھے.اور میں انگریز کے مقابلہ میں ان کی شہادت کو کوئی وقعت نہیں دے سکتا.یہ غیر منصفانہ رویہ اس نے کیوں اختیار کیا.اسی لئے کہ اس انگریز کی قوم بادشاہ ہے.لیکن ادھر ہندوستانی ہے جو اپنے گھر میں بے شک بڑا ہو تو ہو مگر جب گھر سے باہر اپنی گلی میں ہی قدم رکھے گا تو اس کی حیثیت ایک یورپین کے مقابلہ میں اتنی بھی نہیں ہو گی.جتنی ایک جانور کی ہو سکتی ہے.آج یورپ کا ایک معمولی سے معمولی باشندہ کل دنیا کے ہر گوشہ میں جہاں چاہیے جا سکتا ہے.وہ افریقہ میں وہاں جا سکتا ہے.جہاں بہت حد تک ایشیائی آباد ہیں.وہ آسٹریلیا میں جا سکتا ہے.جو ایشیا کا ہی حصہ ہے.وہ سماٹرا اور جاوا میں جا سکتا ہے.جہاں ایشیائی باشندے بستے ہیں.لیکن ایک ہندوستانی کروڑ پتی بھی آسٹریلیا کی زمین پر قدم نہیں رکھ سکتا.جب تک کہ وہ درخواست دیگر منظوری حاصل نہ کر لے.اور وجہ نہ بتائے کہ کیوں جاتا ہے اور ساتھ ہی جب تک یہ بھی نہ بتائے کہ وہ.کب تک اس ملک میں ٹھرے گا اور کب اپنے ناپاک وجود سے اس ملک کو خالی کر دے گا.جاپانیوں کو بے شک ایک حد تک طاقت حاصل ہے.لیکن وہ بھی بحیثیت قوم کے ایشیا ہی کا ایک حصہ ہیں.اور ایشیا کی غریب برادری سے ہی ہیں.اس لئے وہ تمام یورپ کے مقابلہ میں کیا کر سکتے ہیں.اس لئے جاپان بھی یورپ کے مقابلہ میں کچھ حیثیت نہیں رکھتا.اور یہ سب کچھ اسی وجہ سے ہے کہ جو قربانیاں یورپ نے کی ہیں وہ ایشیا والوں نے نہیں کیں.آج اگر یہی ہندوستانی مالدار لوگ اپنی دولت کو قوم اور ملک کے لئے قربان کر دیں تو پھر دیکھو کس طرح تھوڑے سے عرصہ کے اندر ہندوستانی ترقی کر جاتے اور دنیا میں معزز سمجھے جاتے ہیں..پچھلے دنوں ایک انگریزی اخبار میں میں نے ایک واقعہ پڑھا جس کے پڑھنے سے اس وقت بھی خون میں حرکت پیدا ہوئی اور اب بھی اس قدر جوش کی لہر اٹھتی ہے کہ سر سے پاؤں تک میرا جسم گرم ہوتا ہوا معلوم ہوتا ہے.وہ واقعہ یہ ہے کہ جنگ کے بعد امریکہ والوں نے ملک میں شراب کی ممانعت کر دی تھی.اور حکومت کے نزدیک قانونا شراب کا استعمال جرم قرار دیا گیا تھا.لیکن امریکہ کے آزاد اور مالدار لوگ جو سینکڑوں سالوں سے شراب کے عادی چلے آتے ہیں.اور پھر اس قدر مالدار ہیں کہ ان میں سے ایک ایک کے پاس کروڑوں نہیں اربوں روپیہ موجود ہے.جہاں کا ایک معمولی مزدور بھی کئی سو روپیہ ماہوار کما لیتا ہے.وہ شراب سے کہاں باز رہ سکتے ہیں ایسے ملک
137 میں اس قدر دولت ہوتے ہوئے ایسے قانون کی موجودگی میں شراب کا باہر سے پہنچانا دوسرے ممالک کے لوگوں کے لئے بہت مفید ہو سکتا ہے کیونکہ شراب بہت گراں قیمت پر فروخت ہو سکتی ہے.اس وجہ سے یورپ کے لوگوں نے وہاں چوری چوری شراب پہنچانی شروع کر دی.امریکہ کو اس کا علم ہوا.تو اس نے پہرہ پر جہاز مقرر کر دیئے کہ شراب لانے والے جہازوں کو پکڑ لیا کریں.اور اگر کوئی جہاز بھاگنا چاہے تو اس پر گولہ باری بھی کر دیں.اس کے بعد ایک جہاز امریکہ کے ساحل پر پہنچا ہی تھا امریکہ کے پہرہ والے جہاز کے افسروں کو اس کی بعض حرکات کی وجہ سے شک گذرا کہ وہ ہمارے ملک میں شراب لانا چاہتا ہے.اس پر انہوں نے جب جہاز کا پیچھا کیا تو اس نے اور بھی تیز حرکت شروع کر دی.جس سے امریکن افسروں کو اور بھی یقین ہو گیا کہ ضرور اس کے اندر شراب ہو گی.انہوں نے اس جہاز کو نوٹس دیا کہ ٹھہر جاؤ.لیکن پھر بھی وہ نہ ٹھہرا.بلکہ زیادہ تیزی سے چلنے لگا.اس کے بعد امریکن افسروں نے نوٹس دیا کہ ٹھہر جاؤ ورنہ ہم گولہ باری شروع کر دیں گے.اب جہاز والوں نے سمجھ لیا کہ اگر اس وقت ہم نہ ٹھہریں گے تو ضرور گولہ باری شروع ہو جائے گی.اس خیال سے انہوں نے جھٹ جہاز کو ٹھرا لیا.اور اپنا جھنڈا بلند کر دیا.اب بحری قانون یہ ہے کہ جس جگہ سمندر میں کسی حکومت کا جہاز ہو وہ سمندر اسی حکومت کا سمجھا جاتا ہے.اور اس جگہ حملہ کرنا گویا اس حکومت پر حملہ کرنا ہوتا ہے.اس قانون کے مطابق انگریزی جہاز نے جب اپنا جھنڈا کھڑا کر دیا تو اس کا یہ مطلب تھا کہ اس پر حملہ کرنا برطانیہ پر حملہ کرنا ہو گا اور کہہ دیا کہ یہ جھنڈا دیکھ لو اور اگر طاقت ہے تو گولہ باری کرو.یہ دیکھ کر امریکن جنگی جہاز نے اس کا پیچھا چھوڑ دیا.اور چپ چاپ واپس آگیا.اس کی کیا وجہ تھی.یہی تھی کہ امریکہ والوں نے سمجھا کہ اگر اس پر حملہ کیا تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ انگریزوں کو لڑائی کا الٹی میٹم دے دیا.اور اس کا یہ نتیجہ ہو گا کہ تھوڑی سی بات پر امریکہ انگلستان کے درمیان جنگ چھڑ جائے گی.جس میں قوم کی بیشمار دولت اور جانیں ضائع ہوں اور ملک کا امن برباد ہو جائے گا.یہ انگلستان کی طاقت اور قوت کا خوف تھا.اور یہ طاقت نتیجہ ہے انگلستان کے افراد کی ان قربانیوں کا جو انہوں نے اپنے ملک اور قوم کے لئے کیں.انگلستان کے ساحل پر جنگی بیڑا ہر وقت تیار رہتا ہے.اور کسی طاقت کی مجال نہیں کہ انگلستان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھے.اور اس سے مقابلہ کا خیال دل میں لائے.ایک وقت تھا جب یہی انگلستان دنیا میں اسی طرح ذلیل سمجھا جاتا تھا جیسے آج ہندوستان سمجھا جاتا ہے.اس پر غیر ملک کے لوگ حکومت کرتے رہے اور انگلستان کے لوگوں پر طرح طرح
138 کے ظلم و ستم کرتے رہے.مگر اس نے اپنی قربانیوں کے ذریعہت آہستہ آہستہ آزاد ہونا شروع کیا.پین ہمیشہ انگریزوں کو ذلیل کرتا رہتا تھا.کیونکہ اس کے پاس زبردست جنگی بیڑا تھا.وہ انگلینڈ کو ابھرنے نہیں دیتا تھا.آخر کار انگلینڈ کے بڑے بڑے لوگوں نے تنگ آکر یہ تجویز کی کہ سپین کے جہازوں پر متواتر ڈاکے ڈال کر اس کی طاقت کو توڑ دیا جائے.چونکہ انگلینڈ سپین کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا.اس لئے ان لوگوں جو کو سپین کے جہازوں پر حملے کرتے تھے.مجرم قرار دینا پڑے گا.اور اس طرح ان کے لئے اپنے ملک میں بھی امن نہ رہا.مگر باوجود اس کے انہوں نے کوئی پروا نہ کی اور سالہا سال سمندر میں رہائش اختیار کرتے ہوئے سپین کی بحری طاقت کو توڑنے میں مصروف رہے.اور اس طرح انہوں نے اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال کر اور زر و مال تباہ کر کے سپین کی طاقت کو کمزور کر دیا.ایسی ہی قربانیوں کا آج یہ نتیجہ ہے کہ انگلینڈ سے سارا یورپ اسی طرح ڈرتا ہے.جیسے ہندوستانی ڈرتے ہیں.پس تمام ترقی اس بات پر منحصر ہوتی ہے کہ کسی قوم کے افراد ہر قسم کی قربانیاں کریں.اور اسی طرح سینکڑوں سال تک اس قوم کی نسلیں متواتر قربانی کرتی چلی جائیں.تب جا کر کوئی قوم ترقی کی وارث ٹھرتی ہے.در حقیقت کوئی ترقی اور کوئی زندگی بغیر فنا کے نہیں حاصل ہو سکتی.حضرت خلیفہ اول ال فرمایا کرتے تھے.دیکھو روٹی پکانے والے کو ایک روٹی کے لئے تین دفعہ تنور میں الله رضي جانا پڑتا ہے.ایک دفعہ لگانے کے لئے دوسری دفعہ اسے دیکھنے کے لئے اور تیسری دفعہ اتارنے کے لئے.گویا ایک روٹی کے لئے اسے تین دفعہ جہنم میں جانا ہوتا ہے.یہی مثال تمام ترقیات میں چلتی ہے.کوئی ترقی بغیر قربانی کے نہیں.تمام قومی ترقیاں افراد کی قربانی پر منحصر ہوتی ہیں.اور افراد بھی کبھی ترقی اور عزت نہیں حاصل کر سکتے.جب تک تمام کی تمام قوم قربانی کر کے عزت اور ترقی نہ حاصل کرے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے احسب الناس ان يتركوا ان يقولوا آمنا وهم لا يفتنون (العنکبوت (۳) کیا لوگوں نے سمجھ رکھا ہے.وہ صرف اتنے پر ہی چھوڑ دئے جائیں گے کہ انہوں نے کہہ دیا ہم ایمان لے آئے نہیں جس طرح سونا بھٹی میں ڈال کر صاف کیا جاتا ہے اسی طرح ہم مومنوں کو بھٹی میں ڈال کر صاف کریں گے.کیونکہ جب تک ترقی چاہنے والی قوم ایسے مصائب میں نہ پڑے جو آگ کی بھٹی کا نمونہ ہوں تب تک وہ قوم کبھی ترقی اور کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکتی اور جانتے ہو آگ میں پڑنے والے کا کیا باقی رہ جاتا ہے.سوائے اس کے کہ وہ جل کر راکھ ہو جائے.اور
139 کیا رہ جاتا ہے.اسی طرح کوئی قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی جب تک وہ ایسی ایسی قربانیاں نہ کرے کہ گویا وہ آگ میں پڑ کر بالکل راکھ ہو گئی ہے.اور اس کا کچھ باقی نہیں رہا.جب کوئی قوم اس حالت کو پہنچ جاتی ہے تب وہ اٹھتی اور بلند ہوتی ہے.اور دنیا میں زندہ قوم کہلاتی ہے.پس اس شخص کے سوال کا کہ قومی ترقی کا کیا گر ہے.یہی جواب ہے کہ قومی ترقی کا ایک ہی گر ہے.اور وہ یہی ہے کہ تم فنا ہو جاؤ.جو قوم بھی دنیا میں زندہ ہوتی ہے.اسی طرح ہوتی ہے کہ پہلے اس نے اپنے آپ کو فنا کر دیا.قومیں تو الگ رہیں.انفرادی ترقی بھی بغیر قربانی کے حاصل نہیں ہو سکتی.دیکھو ایک باپ جو ڈیڑھ سو را سو روپیہ تنخواہ پاتا ہے...وہ اپنے چار پانچ بچوں کو تعلیم دلاتا ہے.اور اپنی تمام کمائی بچوں کی تعلیم پر خرچ کر دیتا ہے.وہ کنگال ہوتا ہوا معلوم دیتا ہے.اور اسکی تمام کمائی بظاہر برباد ہوتی نظر آتی ہے.لیکن کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ تباہ ہو رہا ہے.نہیں بلکہ وہ ترقی کر رہا ہے.کیونکہ پہلے اس گھرانہ میں اگر ایک شخص سو ڈیڑھ سو روپیہ کمانے والا تھا تو اب اس گھرانہ میں چار پانچ آدمی کمانے والے ہو جائیں گے.لیکن اگر وہ باپ پہلے اپنی جائداد اور اپنا روپیہ بچوں کی تعلیم میں فنا نہ کرتا تو اس کو یہ ترقی کیسے مل سکتی تھی.یہ ترقی اس جائداد اور روپیہ کے قربان کرنے کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے.اسی طرح جو سلسلے اللہ تعالی کی طرف سے قائم ہوتے ہیں ان کے اخراجات بھی ایسے ہی کاموں پر ہوتے ہیں جن کے نتیجہ میں کامیابی حاصل ہوتی ہے.مثلاً اشاعت کا ہی کام لے لو.بظاہر اس پر روپیہ خرچ کرنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ روپیہ تباہ ہو رہا ہے.لیکن در حقیقت اس روپیہ سے اور کئی ہزار آدمی تیار ہو رہے ہوتے ہیں.جس سے جماعت کی طاقت علیحدہ بڑھتی ہے اور دشمن کی طاقت علیحدہ گھٹتی ہے.کیونکہ جتنے آدمی جماعت میں نئے داخل ہو جائیں گے.اتنے ہی دشمن کے کم ہو جائیں گے.اس طرح جماعت کی مالی طاقت بڑھ جاتی ہے.اسی طرح تعلیم و تربیت پر روپیہ خرچ ہوتا ہے.اس کا فائدہ بھی ہم کو ہی پہنچتا ہے.خدا تعالیٰ کو تو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا.عجیب بات ہے.ہم نام تو یہ رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے راستہ میں خرچ کیا.لیکن در حقیقت سب کچھ ہمارے ہی فائدہ کے لئے خرچ ہو رہا ہوتا ہے.ایک پیسہ بھی تو ہمارا خدا تعالیٰ کو کچھ فائدہ نہیں دے سکتا بلکہ وہ ہماری ہی بہتری اور ترقی کے لئے خرچ ہوتا ہے.اور اس کا فائدہ ہماری طرف ہی لوٹتا ہے.ہماری مثال تو اس شخص کی سی ہے.جو کسی سے روپیہ لے اور اپنے بچوں پر خرچ کر ڈالے اور پھر نام دوسرے کا کر دے.در حقیقت وہ قوم بھی دنیا میں کبھی ترقی نہیں کر سکتی.جو غرباء کی خبر گیری نہ کرتی ہو.اور ان کی خدمت کے لئے کچھ نہ کرتی ہو.ہمیشہ وہی قوم زندہ رہ سکتی ہے.جو
1.40) اپنے غریب افراد کی زندگی کا خیال رکھتی ہے.مثلاً ایک شخص قومی کام کرتے کرتے مرگیا.اب اگر اس کی بیوی بچوں کی پرورش نہ کی جائے گی.تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ ایک طرف تو دوسرے لوگ اس قوم میں کبھی داخل نہیں ہوں گے.کیونکہ وہ خیال کریں گے کہ یہ تو ایک سنگ دل قوم ہے.جس میں بیواؤں اور یتیموں کو کوئی پوچھنے والا نہیں.ایسی سیاہ دل قوم میں داخل ہو کر کیا لینا ہے.اور دوسری طرف کام کرنے والوں میں بزدلی پیدا ہوگی اور سمجھیں گے کہ ہم مر گئے تو پیچھے ہمارے بیوی بچوں کی کون خبر گیری کرے گا.لیکن اگر لوگ یہ دیکھیں گے کہ قوم میں یتیم بچوں اور بیواؤں کی خبر گیری کی جاتی ہے.اور غرباء کا خیال رکھا جاتا ہے.تو بڑی خوشی سے قربانی کے لئے تیار ہو جائیں گے.پس قربانی کی روح ہمیشہ غرباء کی خدمت اور پرورش سے ہی پیدا ہوتی ہے.اور غرباء کی پرورش ایسی چیز ہے.جو قومی قربانی کے لئے جرات دلاتی ہے.غرض ترقی کے لئے قربانی کی ضرورت ہے.جب تک پہلے قربانی نہ کی جائے.تب تک کسی کام میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی.زمینداروں کو ہی دیکھ لو.پہلے وہ بیلوں پر اور ہل وغیرہ پر خرچ کرتے ہیں اور پھر اپنے گھر کا غلہ زمین میں ڈال دیتے ہیں.تب جا کر پیداوار گھر لاتے ہیں.اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں.اس سے کئی گنا زیادہ غلہ لاتے ہیں.غرض ترقی کا ایک ہی گر ہے کہ افراد اپنے آپ کو قربان کر دیں اور جب افراد اپنے آپ کو قربان کریں گے تو قوم ترقی کر جائے گی.تاریخ میں جو کوئی قوم بھی ترقی کے زینہ پر چڑھتی ہوئی دکھائی دیتی ہے وہ وہی قوم ہوتی ہے جس کے افراد نے یہ تہیہ کر لیا ہو کہ ہم قوم کے لئے فنا ہو جائیں لیکن جس قوم نے کہا کہ ہم مرگئے تو کیا ہو گا وہی قوم ہمیشہ تباہ اور ذلیل ہوتی رہی ہے.آج اس کی مثال میں ہندوستان کو ہی دیکھ لو.مسٹر گاندھی نے جب گورنمنٹ کے خلاف آواز اٹھائی تو پہلے پہل بہت لوگوں نے ان کا ساتھ دیا.یہاں تک کہ خود حکومت بھی گھبرا گئی تھی.اور بعض ہماری جماعت کے لوگوں نے بھی مجھے لکھا کہ اب کیا ہو گا.لیکن مجھے ان گورنمنٹ کے مقابلہ میں کھڑے ہونے والوں کے متعلق ایک قصہ یاد آتا.جو اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ ایک امیر کے باورچی خانہ میں اس کے باورچیوں کی غفلت سے دروازہ نہیں لگا ہوا تھا.اس وجہ سے کتے اس میں آگھسا کرتے اور خوب کھاتے.آخر ایک دن امیر کو پتہ لگا تو اس نے دروازہ لگوا دیا.اور دروازے بند کرنے کے لئے حکم دیدیا.جب کتوں کو معلوم ہوا تو گھبرائے کہ اب کیا بنے گا.ان میں سے ایک بڑھے کتے نے کہا.گھبراتے کیوں ہو.بے شک امیر نے دروازہ لگا دیا ہے لیکن تم یہ نہیں جانتے کہ دروازہ بند کون کرے گا.اب بھی وہی نوکر ہیں.جو پہلے باورچی خانہ پر مقرر تھے.اسی طرح مسٹر
141 گاندھی نے بہت شور مچایا.اور دوسرے لوگوں نے شور مچایا.لیکن اصل جڑ کو انہوں نے نہ پکڑا.جب تک اپنے آدمیوں کی اصلاح نہ ہو.اور وہ قربانی کے لئے تیار نہ ہوں.تب تک صرف (Non-co-Operation) نان کو اپریشن سے کچھ نہیں ہوتا.دنیا میں محض شور مچانے سے تو کچھ نہیں بنتا.ہمیشہ کام کرنے سے کچھ بنا کرتا ہے.بھلا نان کو اپریشن سے کیا فائدہ ہو سکتا تھا.جب کہ ہندوستان کی بہت بڑی تباہی کا موجب اپنے ہی آدمیوں کی بد دیانتیاں اور دھوکہ بازیاں ہیں.عام طور پر دیکھا گیا ہے اور خود ہندوستانی بھی اس کو محسوس کرتے ہیں کہ عام طور پر انگریز بد دیانت نہیں ہوتے خود ہندوستانی ہی ایک دوسرے کا گلا گھونٹ رہے ہوتے ہیں.بہت سے لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ جب کبھی ہندو مسلمانوں میں فساد ہوتا ہے تو وہ دونوں فریق انگریزوں کے پاس اپنا مقدمہ لے جاتے ہیں اور انگریز مجسٹریٹ سے فیصلہ کرانا چاہتے ہیں جو اس بات کا صاف اقرار ہے کہ ان کے نزدیک انگریز مجسٹریٹ دیانتداری اور انصاف سے کام لیتے ہیں.لیکن ہندوستانی آپس میں بد دیانتی سے کام لیتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ انگریز مجسٹریٹ کسی مذہبی وجہ سے دیانت دار نہیں ہوتے.بلکہ وہ حکومت کے لیے تجربہ کی وجہ سے دیانت اور بد دیانتی کے نتائج سے خوب واقف ہیں.اس لئے دیانتداری سے کام لیتے ہیں.پھر گورنمنٹ تک رپورٹیں پہنچانے والے کون ہوتے ہیں پولیس میں جھوٹی رپورٹیں بھیجنے والے کون ہوتے ہیں.کیا وہ ہندوستانی نہیں ہوتے.جھوٹی رپورٹیں پہنچانے والے ہیں تو ہندوستانی جھوٹی گواہیاں دینے والے ہیں تو ہندوستانی.قوم میں تفرقہ اور پھوٹ پیدا کرنے والے ہیں تو ہندوستانی.اور بد دیانت مجسٹریٹ اگر دیکھے جائیں تو ہندوستانی ہی ہوں گے.وائسرائے اور گورنر کے ہاتھ میں ہوتا کیا ہے.یہی پولیس کی جھوٹی رپورٹیں ہیں اور پولیس میں ہندوستانی ہی ہوتے ہیں.پولیس میں کام کرنے والے اپنے انگریز افسروں کو خوش کرنے کے لئے جھوٹی رپورٹیں پہنچاتے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان کی ترقی اور آزادی صرف تعلیم یافتہ طبقہ کی اصلاح اور تربیت پر موقوف ہے.اور یہ بہت آسان کام ہے.یہ نسبت اس کے کہ عوام کو جن کی تعداد کئی کروڑ ہے کوئی بات منوائی اور اس پر عمل کرایا جائے.اگر تین چار لاکھ تعلیم یافتہ لوگوں کو بھی قابو کیا جائے اور ان کی کچھ عرصہ تک تربیت کی جائے اور وہ لوگ ملک کے لئے متواتر قربانیاں کریں.تو ملک آزادی اور ترقی حاصل کر سکتا ہے.پھر ملک کی اصلاح اور ترقی تعاون سے ہو سکتی ہے.اور تعاون بھی تب ہو سکتا ہے ب تعلیم اور دیانت ہو اور اس کے ساتھ قربانی کی روح موجود ہو.مثلاً ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص
142 ہزاروں روپیہ کی ملازمت یا جس کام پر ہو.اسے قربان کر کے محض قوم کی خاطر تھانیداری منظور کر لے.تو وہ ضرور دیانت کے ساتھ کام کرے گا.کیونکہ اس نے اپنے ملک کے فوائد کی خاطر ہزاروں روپیہ پر لات ماری ہو گی.اس کو نہ تو کوئی روپیہ کا لالچ بد دیانتی کی طرف لے جائے گا.اور نہ عہدہ میں ترقی کے لئے افسروں کو خوش کرنے کے لئے جھوٹی رپورٹیں پہنچانے اور خوشامد کرنے کی ضرورت ہو گی.ایسا شخص کبھی بد دیانتی کے قریب تک نہیں جائے گا ہندوستانی اس طریق پر عمل کریں.پھر دیکھیں کس طرح ہندوستان کی حکومت تھوڑے عرصہ کے اندر ہندوستانیوں کے ہاتھ میں آجاتی ہے.جب کوئی نیا سلسلہ قائم ہوتا ہے.اور نئی قوم بنی شروع ہوتی ہے.تو اس کی ترقی کے لئے تو سینکڑوں سال تک متواتر قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے.ایسی قوم میں اگر یہ احساس پیدا ہو کہ ہم قوم کے لئے کنگال ہو گئے تو یہ اس کے تنزل کا پہلا قدم ہو گا.ہم نے تو ابھی کچھ کیا ہی نہیں.ابھی ہمارے سلسلہ کی عمر ہی کیا ہے.۳۵ سال تو کل ہمارے سلسلہ کی عمر ہے.ہم میں سے اگر کوئی یہ خیال کرتا ہے.کہ ہم نے بہت قربانیاں کرلی ہیں تو وہ نادان ہے اور ترقی کے اصول سے ناواقف.ایک مورخ لکھتا ہے کوئی قوم دنیا میں تبھی ترقی اور عزت حاصل کر سکتی ہے جب وہ کم از کم دو سو سال تک متواتر قربانیاں کرتی چلی جائے.اس لحاظ سے تو ابھی ہمیں کم از کم ۱۶۵ سال تک اور متواتر قربانیوں کی ضرورت ہے.تب جا کر ہم قلیل ترقی کے مستحق ٹھہریں گے.اور حضرت مسیح موعود تو ۳۰۰ سال کے بعد ہماری ترقی کے لئے فرماتے ہیں.حضرت مسیح کے ماننے والوں نے بھی تین صدیوں کے بعد ہی ترقی حاصل کی تھی.پس یہ مت خیال کرو کہ تم اپنے گھروں میں مال جمع کر کے ترقی حاصل کر لو گے.اور یہ مت خیال کرو کہ تم اپنی جانیں اپنے پاس رکھ کر کامیابی اور عزت کے وارث ہو جاؤ گے.بلکہ ایک لمبے زمانہ تک متواتر قربانیوں کے بعد عزت اور ترقی حاصل ہو گی.قرآن کریم جو تمہیں ترقی حاصل کرنے کے گر اور اصول بتانے آیا ہے.وہ تمہیں عظیم الشان ترقیات اور عزت کے حصول کے لئے یہ گر بتاتا ہے.کہ جاؤ تم اپنے آپ کو قربان کر دو اور کچی قربانی کے لئے آمادہ ہو جاؤ.تب تمام دنیا کی گردنیں تمہارے آگے خم ہو جائیں گی.اگر کہیں کہ اس وقت ہی ہمیں کامل ترقی مل جائے تو اس کے متعلق کہنا پڑے گا کے آمدی و کے پیر شدی کبھی ۳۵ سال میں بھی کوئی قوم بنی ہے.تاریخ ایسی کوئی نظیر پیش نہیں کرتی کہ کوئی قوم اتنے قلیل عرصہ میں ترقی کے مینار پر پہنچ گئی ہو اور ہماری تو کوئی بنی بنائی قوم ہی نہیں.ہماری قوم کی بنیاد تو ایک شخص رکھنے والا تھا.یعنی ہمارے سلسلہ کے بانی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں.اور حضرت مسیح
143 موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی ہماری ترقیات کا زمانہ ۳۰۰ سال بعد بتایا ہے.اس لحاظ سے ۳۰۰ سال میں نسلاً بعد نسل قربانیوں کے بعد جاکر ترقی اور اقبال کا زمانہ ہم پر آسکتا ہے.اس لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ اس عرصہ تک ہم برابر اپنے مالوں کو اپنی جانوں کو اپنی آبروؤں کو اپنے جذبات اور احساسات کو اپنی قومیت اور انفرادیت کو قربان کرتے چلے جائیں اور اس بات کی پرواہ نہ کریں کہ ہماری قربانیوں کا نتیجہ کب نکلے گا.اور بعد میں آنے والوں کی ترقی ہو گی تو ہمیں کیا.کیونکہ اس وقت ہماری ہی ترقی کہلائے گی.دیکھو محمد رسول اللہ ﷺ نے کس قدر قربانیاں کیں.لیکن کیا آپ کی قربانیوں کا نتیجہ آپ کی زندگی میں ہی نکل آیا تھا.اور پھر کیا وہ ترقی جو آپ کے بعد آپ کی قوم کو حاصل ہوئی وہ آپ کی ترقی نہیں کہلاتی کیا کوئی کہہ سکتا ہے.کہ محمد رسول اللہ نعوذ بااللہ آج مردہ ہیں ہرگز نہیں کیونکہ اگر کوئی صحیح معنوں میں زندہ ہے تو حضرت نبی کریم ہی ہیں.اور مسلمانوں کی تمام تر ترقیوں کا باعث آپ ہی کی قربانیاں ہیں.کیا بنو عباس کی حکومت ان کی اپنی تلواروں کا نتیجہ تھی.ان کی تلواروں کا نتیجہ نہیں تھی.بلکہ وہ صحابہ کی تلواروں کا نتیجہ تھی.اور یہ خیال کہ ہم مر گئے تو ہمیں کیا.یہ خیال یا تو کمی محبت کا نتیجہ ہے یا جنون کا نتیجہ کیا کبھی کوئی ماں بھی یہ کہتی ہے کہ میں بچہ کی کیوں پرورش کروں اس کے بڑھنے اور ترقی کرنے سے مجھے کیا.بلکہ اسے اگر کوئی کہے کہ تو کیوں بچہ کی پرورش کرتی ہے.تجھے اس سے کیا فائدہ؟ تو وہ بد دعائیں دینے لگ جائے گی سچی محبت میں تو انسان چاہتا ہے کہ کاش! میں مرجاؤں لیکن میرا محبوب زندہ رہے پس جن لوگوں کو اسلام سے سچی محبت ہے وہ کبھی اس قسم کا وسوسہ نہیں پیدا کر سکتے.کہ ہم اگر قربان ہو جائیں گے تو ہمیں کیا ملا.دیکھو عرب کے لوگ جو جاہل تھے.وہ بھی اس بات کو سمجھتے تھے کہ جو شخص اپنی قوم اور خاندانوں کے لئے مارا جائے.اس کا اگر بدلہ لینے والا کوئی ہو تو وہ مردہ نہیں ہوتا.بلکہ در حقیقت زندہ ہوتا ہے.قرآن کریم نے بھی اس اصول کو لیا ہے.کہ جو لوگ خدا کی راہ میں قربان ہو جاتے ہیں انہیں مردہ مت کہو بلکہ زندہ ہیں.اب کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ اتنا نعوذ باللہ دنیا سے ناکام گئے یا کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ حضرت امیر حمزہ دنیا سے ناکام گئے.پھر کون کہہ سکتا ہے کہ احد میں جان دینے والے صحابہ ناکام چلے گئے.وہ تو آج تک زندہ ہیں.اور ہمیشہ زندہ رہیں گے.جبکہ ساری ترقیات ان کے خون سے سیراب ہونے کے نتیجہ میں مسلمانوں کو حاصل ہوئی ہیں.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اندر محبت اور کچی قربانی کا جذبہ پیدا کرے.ہماری زندگیاں اس وقت تک زندگیاں کہلا سکتی ہیں.جب تک سلسلہ کی ترقی میں خرچ ہوں.الفضل ۳۰ اپریل ۱۹۲۶ء)
144 16 باہم عفو اور درگزر سے کام لیں (فرموده ۲۳ اپریل ۱۹۲۶ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : مسلمانوں کے لئے اللہ تعالٰی نے اپنے فضل سے خود ایک صحیح طریق عمل بیان فرمایا تھا اور وہ طریق عمل بیان فرمایا تھا جو کہ باقی تمام مذاہب کی تعلیم سے اعلیٰ اور ارفع اور اکمل ہے.مگر باوجود اس کے میں نے دیکھا ہے کئی لوگ اس قسم کے ہیں جو اس طریق کو چھوڑ کر اپنے لئے نئی راہیں اختیار کر لیتے ہیں.اور اس کی وجہ سے خود بھی دکھ اور تکلیف میں پڑتے ہیں.اور دوسروں کو بھی تکلیف میں ڈالتے ہیں.ہماری جماعت اب خدا کے فضل سے روز بروز ترقی کر رہی ہے.اور ایسے دور دراز علاقوں میں پھیل رہی ہے.جہاں کے لوگ پہلے ہماری جماعت کا نام بھی نہ جانتے تھے.اور انہیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ دنیا میں کسی شخص نے مسیح اور مہدی ہونے کا دعوی کیا ہے.انہیں جب یہ علم پہنچا تو اس کو پا کر انہوں نے اس پر غور و فکر کیا.بعض دفعہ اس کی مخالفت بھی کی.اس سے استہزاء بھی کیا.لیکن آخر بعض کے دل خدا تعالٰی نے کھول دیئے اور وہ سلسلہ میں داخل ہو گئے.بات یہ ہے کہ دنیا کے دور دراز ممالک میں خود بخود سلسلہ اپنے لئے آپ رستہ بنا رہا ہے.جس طرح دریا کا پانی جب چلتا ہے.تو آگے سے آپ ہی رستہ بناتا جاتا ہے.انسانوں کے لئے سڑکیں تیار کی جاتی ہیں.لیکن دریاؤں کے لئے رستہ نہیں بنایا جاتک دریا پہاڑوں اور جنگلوں میں خود بخود رستہ بنا کر گزر جاتے ہیں.ان کے آگے جو کچھ آئے اسے خود بخود ہٹا لیتے ہیں.غرض جس طرح دریاؤں کے لئے رستہ تیار کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی.اسی طرح سلسلہ احمدیہ کے لئے بھی تمام الہی سلسلوں کی مثال میں ان کی مشابہت میں اور ان کی مانند کسی رستہ بنانے کی ضرورت نہیں ہے.اس کے لئے آپ ہی آپ رستہ بنتا جاتا ہے اور جماعت بڑھتی جاتی ہے نئے ممالک نئی بستیوں اور نئے براعظموں کے لوگ
145 قبول کرتے جاتے ہیں اور جب کسی سلسلہ کی اشاعت مختلف بلاد میں ہونی شروع ہو جاتی ہے تو تربیت کا پہلو ہمیشہ کمزور ہوتا جائے گا.یہی وجہ ہے کہ انبیاء کے زمانہ میں ان کو ماننے والوں کا جو رنگ نظر آتا ہے وہ بعد میں نظر نہیں آتا.اس کی وجہ یہ نہیں کہ جماعت روحانیت میں کمزور ہو جاتی ہے.بلکہ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جماعت ایسی جگہوں میں بھی پیدا ہو جاتی ہیں.جہاں تربیت پورے طور پر نہیں ہو سکتی تربیت کرنے والوں کی ذمہ داریاں اتنی وسیع ہو جاتی ہیں کہ قریب کے علاقہ کی بھی پوری پوری نگرانی نہیں کی جاسکتی اس وجہ سے بعض لوگوں کی تربیت میں کمی رہ جاتی ہے.اور نقص دور نہیں ہو سکتا.مخالفین کو ایسے لوگوں کے نقص تو نظر آجاتے ہیں.مگر ان ہزاروں اور لاکھوں انسانوں کی خوبیاں جن کی تربیت مکمل ہوتی ہے.اور ان سے بھی اچھے ہوتے ہیں جو ان کے آباؤ اجداد کہلاتے تھے.نظر نہیں آتیں.ان کی نیکی نا تربیت یافتہ لوگوں کی برائی کے نیچے چھپ جاتی ہے.جیسے ایک مچھلی سارے تالاب کو گندہ کر دیتی ہے.اسی طرح کمزور لوگ جو تربیت سے پورا حصہ نہیں پاتے.اپنے نقائص سے باقیوں کی عمدہ حالت کو بھی پوشیدہ کر لیتے ہیں.پس سب سے زیادہ خطرہ کسی جماعت کے لئے اس وقت ہوا ہے جب اس کی کثرت ہو جاتی ہے.آپس میں ایک دوسرے سے معاملے پڑتے ہیں.جن کی وجہ سے شقاق اور تفرقہ پیدا ہو جاتا ہے.جب وہ تھوڑے سے ہوتے ہیں تو چونکہ ان کے تعلقات غیروں سے ہوتے ہیں.اس لئے لڑائی جھگڑا شقاق اور اختلاف غیروں سے ہوتا ہے.اس وقت ان کی نظروں میں آپس کے عیب پوشیدہ ہوتے ہیں.یا یوں کہو کہ ایسی حالت میں خواہ مخواہ انہیں ایک دوسرے کے عیب تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی.مگر جب امن ہو جائے اور دیر تک غیروں سے امن میں رہنے لگیں.تو بجائے غیروں کی عیب گیری کرنے کے آپس کی عیب جوئی میں لگ جاتے ہیں.جس طرح دوسرے سلسلوں کے ساتھ یہ بات لگی ہوئی تھی.اسی طرح ہماری جماعت کی ترقی کے ساتھ بھی یہ بات لگی ہوئی ہے اور جس طرح دوسروں کو اس فتنہ کا مقابلہ کرنا ضروری تھا اسی طرح ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ ہم بھی اس کا مقابلہ کریں.میں نے دیکھا ہے جو جماعتیں زیادہ پرانی ہیں.اور جن کی تعداد زیادہ ہے اور وہ اپنے آپ کو امن میں سمجھتے ہیں ان میں آپس میں شقاق کے آثار پائے جاتے ہیں.لیکن جہاں کے لوگ دشمن کے مقابلہ میں ڈٹے ہوئے ہیں.اور جماعتیں نئی ہیں.وہاں شقاق نہیں.بلکہ محبت اور پیار ہے.جہاں جہاں بھی.تبلیغ میں سستی پائی جاتی ہے.چونکہ وہ لوگ کام کرنے کے تو عادی ہو چکے ہیں.اس لئے اگر غیروں میں کام نہیں کرتے.تو آپس میں ہی لڑنے جھگڑنے لگ جاتے ہیں.اس لئے میں دوستوں کو اس
346 طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ہمیشہ سچی کامیابی روحانیت سے حاصل ہوتی ہے.مگر جس ایمان کا نتیجہ آخر میں بگاڑ اور شقاق اور اختلاف ہو معلوم ہوا وہ حقیقی ایمان نہ تھا.اس میں کوئی عیب کوئی کمزوری اور کوئی نقص ضرور تھا.میں نے بہت دفعہ تحقیق کر کے دیکھا ہے جتنے جھگڑے اور اختلاف ہوتے ہیں ان کی وجہ ایسی حقیر اور معمولی ہوتی ہے کہ حیرت آتی ہے عقلمند انسان کس طرح اس کی بنا پر جھگڑا پیدا کر سکتا ہے.اور جب کوئی سمجھدار اور معاملہ فہم شخص اس جھگڑے کے فیصلہ کے لئے بھیجا گیا تو بہت جلدی اس کا خاطر خواہ فیصلہ ہو گیا.اس وقت وہی لوگ حیرت سے کہتے ہیں.بہت جلدی فیصلہ ہو گیا.حالانکہ فیصلہ جلدی ہونے پر تعجب نہیں.تعجب اس بات پر ہوتا ہے کہ اس معمولی سی بات پر لڑائی اور جھگڑا کیوں ہوا.بات یہ ہوتی ہے کہ جب ایک سمجھ دار شخص اس معالمہ کو ان کے سامنے رکھتا ہے تو چونکہ وہ بہت معمولی ہوتا ہے.اس لئے ان لوگوں کی فطرت اور عقل ان کو ملامت کرتی ہے کہ اتنی سی بات پر لڑائی جھگڑا کیا.اور ان کے دل صاف ہو جاتے ہیں.اس وقت وہ سمجھتے ہیں.خاص طور پر ایسے ذرائع پیدا ہو گئے ہیں کہ معاملہ کا با آسانی فیصلہ ہو گیا.حالانکہ اصل بات یہ ہوتی ہے کہ فساد اور لڑائی کا موجب بہت کمزور ہوتا ہے اور جب اس کی کمزوری بتا دی جاتی ہے.تو فساد دور ہو جاتا ہے.بیسوں واقعات جو میرے سامنے آتے ہیں.ان میں شاذ ہی کوئی ایسا ہوتا ہے.جس میں حقیقی نقص نظر آئے.عموما" نہایت چھوٹی چھوٹی اور حقیر باتوں پر اختلاف پیدا ہو جاتا ہے.جو بڑھتا بڑھتا یہاں تک بڑھ جاتا ہے کہ اکٹھے نمازیں پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں.آپس میں بولنا چھوڑ دیتے ہیں.یہ نتیجہ ہوتا ہے اس بات کا کہ ایسے لوگوں نے اسلام کے مغز اور روح کو نہیں سمجھا ہوتا.جو یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو انسان اپنے بھائی کے قصور معاف کرے.عفو اسلام کا مغز اور روح ہے سزا محض شرطی طور پر جائز ہے.اور اس وقت جائز ہے جب سزا کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو.اور اس کے بغیر فتنہ پیدا ہوتا ہو.لیکن نہایت عجیب بات ہے کہ لوگ خیال کرتے ہیں اپنا حق لینا خواہ جبری طور پر ہی لینا پڑے اصل حکم ہے.حالانکہ اصل حکم عفو ہے.اسلام کہتا ہے جب انسان کسی پر رحم کر سکتا ہے.عفو کر سکتا ہے.تو معاف کرے.ایک ہی موقعہ پر اپنے حق کا مطالبہ جائز ہوتا ہے.جب کہ فتنہ و فساد کا ڈر ہو.مگر اس کے لئے بھی قواعد ہیں.اور ان کی پابندی ضروری ہے.جب کوئی دیکھے کہ فلاں نے مجھ پر زیادتی کی ہے اور وہ اس میں بڑھتا جاتا ہے.تو اس کی طرف اوپر کے افسروں اور ذمہ ودار لوگوں کو توجہ دلائے.اسے یہ حق حاصل نہیں کہ اس معاملہ کو اپنے ہاتھ میں لے لے.ہماری
جماعت میں جہاں اس قسم کا کوئی معاملہ ہو خلیفہ کو اطلاع دینی چاہئے کہ فلاں نے مجھ سے یہ بد سلوکی کی ہے جسے میں معاف نہیں کر سکتا.تب تحقیقات کی جائے گی.اگر قصور ثابت ہو گیا اور سزا ضروری سمجھی گئی تو سزا دی جائے گی.اور اگر جرم ثابت نہ ہوا تو بتا دیا جائے گا کہ جرم ثابت نہیں ہے.اگر اس طرح ہو تو کوئی فتنہ اور کوئی فساد کسی جگہ پیدا نہیں ہو سکتا.مگر مشکل یہ ہے کہ لوگ ایک درمیانی چال چلتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ایک طرف تو مقابلہ نہ کرنا.اور دوسری طرف معاف نہ کرنا.یہ عد درجہ کی بزدلی ہے.اور اس طرح معاملہ بہت بڑھ جاتا ہے.اگر کسی معاملہ کو کوئی شخص چھوڑتا ہے.تو پورے طور پر چھوڑے.اور اگر نہیں چھوڑنا چاہتا تو چلائے.اس کا کیا مطلب کہ اس بات کو دل میں تو رکھے اور منہ سے کسے میں نے اس بات کو جانے دیا.اس کا دل میں رکھنا بتاتا ہے کہ اس نے جانے نہیں دیا.بلکہ موقع کا منتظر ہے کہ کب موقع ملے تو بدلہ لوں.مومن کو ایک طریق اختیار کرنا چاہئے.یا تو معاف کر دینا چاہئے.اور یا پھر تحقیقات کے لئے ذمہ دار لوگوں کے سامنے لانا چاہئے.جو شخص یہ کہتا ہے کہ میں نے فلاں معاملہ معاف کر دیا.اس کا یہ مطلب ہے کہ پھر وہ کبھی اس بات کو ذہن میں نہ لائے اور سمجھ لے گویا وہ واقعہ ہوا ہی نہیں لیکن اگر معاف نہیں کرتا.تو اس کا فرض ہے کہ اسے چلائے جہاں تک کہ شریعت اجازت دیتی ہے.اعلیٰ افسر یا خلیفہ کے پاس اس بات کو پہنچائے اگر کوئی شخص ایسا نہیں کرتا یعنی نہ تو معاف کرتا ہے اور نہ آگے چلاتا ہے تو وہ مفسد ہے.وہ پھوڑے کو چھپا کر رکھتا ہے.اس لئے نہیں کہ اپنے قصور وار بھائی کو معاف کرتا ہے.بلکہ اس لئے کہ پیپ بڑھے.اس طرح فساد اور زیادہ بڑھتا ہے.لیکن اگر انسان معاف کر دے تو فساد نہیں ہوتا.یا اگر معاف نہ کرے بلکہ معاملہ کو چلائے تو بھی فساد نہیں ہوتا.کیونکہ اصل بات کھل جاتی ہے.لیکن ان دونوں طریقوں میں سے کوئی بھی اختیار نہ کرے.تو وہ فسادی ہے.اور اس کا حق نہیں ہے کہ کہے میں نے فلاں بات کو اس لئے جانے دیا کہ فساد ہو گا.فساد تو اس طرح ہو گا.پس میں ایک تو دوستوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں.اگر ان کے دل میں سلسلہ کی محبت اور الفت ہے اور وہ سلسلہ کے خیر خواہ ہیں تو جب بھی ان کا آپس میں کوئی اختلاف ہو.لڑائی ہو ایک دوسرے کو معاف کر دیں.اور اگر معاف نہ کر سکیں.تو اس معاملہ کو فیصلہ کے لئے پیش کریں.تاکہ اس کا تصفیہ ہو جائے.ان دونوں صورتوں کے علاوہ اگر وہ تیسری صورت اختیار کریں گے.تو یقیناً اس کے یہ معنی ہوں گے کہ وہ فسادی ہیں.اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث نہیں بن سکیں گے.بلکہ سزا کے مستحق ہوں گے.لیکن ان دو باتوں میں سے بھی کوئی ایک اختیار کرنے والوں
148 کو نصیحت کروں گا کہ اسلام کا حکم زیادہ تر عفو سے کام لینے کا ہے.خدا تعالیٰ رسول کریم اے کے متعلق فرماتا ہے کہ آپ میں عفو بخشش.نرمی اور رافت تھی اور ہمیں فرماتا ہے.تمہارے لئے رسول اسوہ حسنہ ہیں.نمونہ ہیں.پس جو ہمارے لئے نمونہ ہے وہ جب عفو اور بخشش سے کام لیتا تھا تو ہمارا بھی فرض ہے کہ جب کسی بھائی سے قصور ہو جائے تو اسے سزا دینے کے درپے نہ ہوں بلکہ جہاں تک ہو سکے.عفو اور درگزر سے کام لیں.مگر عفو اور درگذر کا وہی مطلب ہے.جو اوپر بیان ہوا ہے.یہ نہیں کہ ڈر کے مارے سامنے تو کچھ نہ کہا.اور دل میں اس پھوڑے کو پکاتے رہے.جو بھی بزدل ہو گا وہ یہی کرے گا کہ دل سے بات نہ نکالے گا اور موقع تاڑتا رہے گا کہ جب نقصان پہنچا سکے اس وقت اس بات کو نکالے.اس سے اگر پوچھا جائے کہ جب یہ بات ہوئی تھی اس وقت تم نے کیوں نہ بیان کی تو کہے گا میں نے سمجھا فساد ہو جائے گا.ہم پوچھتے ہیں اگر یہی وجہ تھی نہ بیان کرنے کی تو پھر آج کیوں بیان کی.آج فساد نہیں ہو گا.پس جو شخص کسی بات کو اپنے دل میں چھپائے رکھتا ہے اور چھ ماہ یا سال کے بعد نکالتا ہے.وہ یا تو بزدل ہے اسے سامنے ہونے کی جرأت نہ تھی.بزدلی کا نام اس نے عفو رکھ لیا جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ اگر ایک نامرد کے میں عفیف ہوں یا ایک اندھا کے کہ میں حرص اور لالچ کی نظر سے کسی کے مال کو نہیں دیکھتا.یا جس کے ہاتھ نہ ہوں وہ کہے میں نے کبھی کسی کو چپیڑ نہیں ماری تو یہ اس کی کوئی خوبی نہ ہو گی.جس بات کی طاقت ہی نہیں.اس کے نہ کرنے میں خوبی کیسی.پس بزدل ہے جو کہتا ہے میں نے فلاں کو معاف کر دیا.اس نے معاف کہاں کیا.جب کہ دل میں اس بات کو رکھ لیا.ایسا آدمی یقینا" بزدل ہے یا پھر شرارتی اور مفسد ہے.مومن کی شان یہ ہے کہ یا تو وہ معاف کر دیتا ہے.یا پھر معاملہ کو چلاتا ہے.بات کو ذمہ دار لوگوں کے ذریعہ چلانا شریعت کے خلاف نہیں بلکہ دل میں چھپا رکھنا یا بزدلی سے ڈر جانا یہ شریعت کے خلاف ہے اور پھر یہ اور بھی زیادہ شریعت کے خلاف ہے کہ بزدلی کا نام نیکی رکھا جائے کیونکہ ایک تو یہ گناہ کیا کہ دل میں ایک بات کو رکھا.اور پھر دوسرا گناہ یہ کیا کہ اسے نیکی قرار دیا.اس طرح دوہرا جرم ہو گیا.پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ دو طریقوں سے ایک طریق اختیار کر لیا کریں.یعنی اگر وہ کسی کو معاف کرنا چاہیں تو معاف کر دیں.اور اگر معاملہ کو پیش کرنا چاہیں تو پیش کریں مگر پیش کرنے والوں کے متعلق پھر میں نصیحت کروں گا کہ جہاں تک ہو سکے عضو سے کام لیں.کیونکہ محبت اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتی جب تک عفو سے کام نہ لیا جائے.دیکھو ہم اللہ تعالٰی سے کیا چاہتے اور کس سلوک کی توقع رکھتے ہیں.یہی کہ معاف کر دے.
149 اگر ہمیں خدا تعالٰی سے یہی امید اور توقع ہے تو کیا ہمارا فرض نہیں کہ خدا کے بندوں سے ہم بھی ایسا ہی سلوک کریں.اگر کوئی شخص لوگوں کے قصور معاف نہیں کرتا.اور ہر غلطی پر گرفت کرتا ہے تو اس کا کیا حق ہے کہ خدا تعالٰی سے عضو کی امید رکھے.کیا خدا تعالی اس سے نہ پوچھے گا کہ تم نے میرے بندوں کو چھوٹے چھوٹے قصور معاف نہ کئے.تو میں تمہارے بڑے بڑے گناہ کیوں معاف کر دوں؟ مگر وہ جو اپنے بھائیوں کے قصور معاف کرتا ہے.جب خدا تعالیٰ کے گا.تم نے انسان ہو کر انسانوں کے قصور معاف کئے.پھر میں خدا ہو کر کیوں تمہارے قصور معاف نہ کروں.پس اگر تم لوگ چاہتے ہو کہ خدا تعالیٰ تمہارے قصور معاف کرے.تو تمہارا بھی فرض ہے کہ لوگوں کے قصور معاف کرو.اگر اس نصیحت کو ہماری جماعت کے سب لوگ مان لیں.تو تمام فتنے دور ہو سکتے ہیں.اور وہی محبت پیدا ہو سکتی ہے جس کا پیدا کرنا اسلام کی غرض ہے.تم لوگ اس وقت اسلام کی نازک حالت کو دیکھو دشمنوں کی کثرت اور ان کے سمجھوتے کو دیکھو اور اپنی جانوں پر رحم کر کے آپس میں اتفاق اور محبت پیدا کرو کیونکہ اس کے بغیر کوئی قوم کامیاب نہیں ہو سکتی.میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ لوگوں کے دل صاف کرے.ان سے ہر قسم کا بغض نکال دے.اور ایک دوسرے کی سچی محبت پیدا کرے.جو مومنوں کا خاصہ ہے.الفضل ۴ مئی ۱۹۲۶ء)
150 17 ترقی کے لئے ضروری چیزیں فرموده ۳۰ ایریل ۱۹۲۶ء) تشهد تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : دنیا میں تمام ترقیات چار چیزوں پر مبنی ہوتی ہیں.کوئی ترقی دنیا میں نہیں ہو سکتی.جب تک کہ یہ چار چیزیں ایک وقت میں جمع نہ ہوں.پہلی چیز تو یہ ہے کہ ایک پیج ہو جس کے اندر نشو و نما کی قابلیت ہو بغیر پیج کے کبھی بھی کوئی کھیتی نہیں اگ سکتی.اور کوئی روئیدگی نہیں پیدا ہو سکتی.ایک کسان کھیت میں کتنا ہی ہل چلائے کیسی ہی عمدگی کے ساتھ زمین کی سختی کو توڑے اور باریک میدے کی سی مٹی کر دے.پھر اس زمین کو پانی دے اور تمام وہ احتیاطیں جو کسان اور زمیندار کھیتی کے متعلق کرتے ہیں ان سے زیادہ کرے لیکن وقت پر پیج نہ ڈالے تو کھیتی تیار نہ ہو سکے گی.دوسری چیز جو کھیتی کے تیار ہونے کے لئے ضروری ہے یہ ہے کہ عمدہ زمین ہو جب تک عمدہ زمین نہ ہو اس وقت تک کبھی بھی کوئی اچھی کھیتی پیدا نہیں ہو سکتی.خواہ کیسا ہی اعلیٰ بیج کیوں نہ ڈالا جائے.خواہ تمام احتیاطیں جو ضروری ہوں کی جائیں.لیکن اگر زمین شوریلی ہو تو پیشتر اس کے کہ نشو نما کا زمانہ آئے وہ زمین بیج کو بھی گلا ڈالے گی.اور بجائے اس کے کہ عمدہ غلہ پیدا ہو.گھر سے جو غلہ اس میں ڈالا جائے گا اسے بھی ضائع کر دے گی.تیسری چیز جو کھیتی کے اچھا بنانے میں ضروری ہوتی ہے.وہ زمین کی تیاری ہے یعنی وقت پر آبپاشی وغیرہ کرنا.ہل چلانا.اگر عمدہ زمین ہو لیکن اس کو تیار نہ کیا جائے ہل نہ چلایا جائے پانی نہ دیا جائے سوہا کہ نہ پھیرا جائے تو اچھی کھیتی نہ آگے گی.جب یہ تینوں باتیں جمع ہو جائیں کہ بیج اعلیٰ درجہ کا ہو.زمین اچھی ہو.اس کی تیاری
151 خوب کی جائے لیکن موسم اور وقت کا لحاظ کر کے بیج نہ بویا جائے تو بھی کھیتی نہ ہو گی.جب تک اس چیز کو جسے اگانا منظور ہو اپنے وقت اور موسم میں نہ بویا جائے کھیتی سے اچھا پھل پیدا نہیں ہو گا.بسا اوقات تو بے موسم کا ڈالا ہوا پیج بالکل ضائع ہو جائے گا.بسا اوقات روئیدگی تو اُگے گی لیکن خشک ہو کر برباد ہو جائے گی.جس طرح ایک کھیتی کو جب تک صحیح طریقوں کے ماتحت بویا نہ جائے اس میں کبھی اعلیٰ غلہ نہیں پیدا ہوتا اور اس کے کاٹنے میں کوئی کامیاب نہیں ہو سکتا.یہی چار باتیں دنیا کے تمام کاموں میں ضروری ہوتی ہیں.اور کوئی سلسلہ کوئی تعلیم اور کوئی جماعت دنیا میں پھیل نہیں سکتی.جب تک اچھا بیج نہ ہو.یعنی ایسی تعلیم نہ ہو جسے طبائع قبول کرنے کے لئے تیار ہوں.ایک : سلسلہ کی تعلیم کھیتی کے بیج سے مشابہت رکھتی ہے جس طرح ایک عمدہ زمین گندے پیج کو لیکر اعلیٰ کھیتی پیدا نہیں کر سکتی اسی طرح اعلیٰ قومیں بھی گندی اور ناقص تعلیم کو لیکر اعلیٰ نتیجہ نہیں پیدا کر سکتیں.دیکھو یورپ کے لوگ تمدن تعلیم اور تربیت کے لحاظ سے ایشیائیوں سے بہت بڑہے ہوئے ہیں.مگر باوجود اس کے کہ وہ رات دن اصلاح کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور اس درجہ تک اخلاقی اصلاح وہ نہیں کر سکتے جس کی انہیں خواہش ہے.اس کی وجہ یہ نہیں کہ زمین اچھی نہیں یا اس کی تیاری اچھی نہیں.زمین بھی اچھی ہے.تیاری بھی عمدہ ہے.لیکن جو بیج اس میں ڈالا جاتا ہے وہ کرم خوردہ اور ناکارہ ہے.اور اب تازہ بیج وہ ہے جو محمد ال لائے.مگر وہ لوگ حضرت مسیح کے زمانہ کا بیج بو رہے ہیں.جس کا نتیجہ اچھا نہیں ہو سکتا.وہ متواتر اپنی حالت درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اور اس کے لئے ایسی ایسی محنتیں کرتے ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.ہزارہا کی تعداد میں ان میں ایسے لوگ ہیں جو اپنے مال و دولت عزت و آسائش کو لات مار کر عیسائیت کی اشاعت کے لئے گھروں سے نکل کھڑے ہوتے ہیں اور ظاہری طور پر ان کے اخلاق ایسے ہوتے ہیں کہ لوگ انہیں گالیاں دیتے ہیں مگر وہ ہنستے رہتے ہیں.باجود اس کے وہ روحانیت میں گرے ہوتے ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ پیج اچھا نہیں ہے.تو روحانی سلسلوں کے لئے ضروری ہے کہ اعلیٰ تعلیم ہو.دوسری خوبی زمین کی خوبی ہے.اگر زمین اچھی نہ ہو تو اعلیٰ بیج بھی کوئی فائدہ نہیں دے سکتا.خراب زمین میں اگر اعلیٰ بیج بھی ڈالا جائے گا تو وہ اسے ضائع کر دے گی.اس کی مثال روحانیت کے لحاظ سے یہ ہے کہ جن لوگوں کے سامنے وہ تعلیم پیش کی جائے ان میں اگر اس تعلیم کو قبول کرنے کی قابلیت نہ ہو تو اعلیٰ نتیجہ پیدا نہ ہو گا.دیکھو رسول کریم ﷺ کے وقت وہی قرآن تھا جس نے ابو بکر - عمر عثمان اور علی جیسے انسان پیدا کر دیئے.یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ
152 جس نے محمد ال جیسا انسان پیدا کر دیا کیونکہ آپ بھی اس پر عمل کرنے سے رسول بنے.بے شک قرآن آپ پر نازل ہوا.مگر اس میں بھی شک نہیں کہ خدا تعالیٰ کہتا ہے.کہو انا اول المومنین (الاعراف (۱۴۴) میں سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں.تو یہ قرآن ہی کا اثر تھا.کہ محمد اے جیسا انسان پیدا ہوا.اور ابو بکر - عمر - عثمان اور علی جیسے انسان پیدا ہوئے پھر بعد میں قرآن ہی کے ذریعہ ہزاروں اور لاکھوں اولیاء اللہ پیدا ہوئے لیکن یہی قرآن جب ابو جہل - عتبہ اور شیبہ جیسے لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ کہنے لگے اس کو بدل کر کوئی اور لاؤ تو ہم مانیں گے.ورنہ ایسی بے ہودہ تعلیم کو ہم ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے.يضل به كثيرا " و يهدی به کثیرا " اچھی زمین میں جب اچھا بیج پڑتا ہے تو سبزی پیدا ہوتی ہے اور اگر بری زمین میں پڑتا ہے تو بری صورت میں تبدیل ہو جاتا ہے.دیکھو محمد ا اسی قرآن کو پڑھ کر ایسے ایسے معارف اور حقائق بیان فرماتے تھے کہ دنیا عش عش کر اٹھی.لیکن ابو جہل اسی قرآن کو ایسے گندے رنگ میں پیش کرتا کہ کوئی شریف آدمی اسے سننے کے لئے بھی تیار نہ ہو سکتا.اس کی وجہ یہ نہیں تھی.کہ قرآن شریف میں متضاد باتیں تھیں.محمد الیا اور الفاظ پڑھتے تھے اور ابو جہل وغیرہ اور بلکہ یہ وجہ تھی کہ ایک ہی بیچ دو مختلف قسم کی زمینوں میں جب پڑا تو اچھی زمین سے اچھا پھل پیدا ہو گیا اور بری زمین سے برا.تیسری چیز زمین کی تیاری اور وقت کی نگہداشت ہوتی ہے.قوموں میں ہل چلانے کے کیا معنی ہوتے ہیں.یہی کہ ان کے قومی کی نگرانی اور تربیت کی جائے اور وقت پر پانی دینے کا کیا مطلب ہوتا ہے.یہی کہ صحیح اور عمدہ تعلیم دی جائے.یہ پانی دینے کے مشابہ ہے.اور زمین کو ہل چلا کر نرم کرنا اور سوہا کہ پھیر کر ڈھیلے توڑنا تربیت کے مشابہ ہے.پس کسی قوم کی صحیح تعلیم و تربیت کھیتی میں ہل چلانے اور پانی دینے کے مشابہ ہے.اس کے بغیر بھی کوئی قوم کوئی ترقی نہیں کر سکتی.چوتھی چیز یہ ہے کہ وقت پر بیج بویا جائے.یہ روحانی معاملات پر اس طرح چسپاں ہوتا ہے کہ ٹھیک وقت اور محل و موقع پر کام کرنے سے نیک نتیجہ نکلے گا.اعلیٰ تعلیم اگر اس وقت پیش کی جائے جب قلوب اسے قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوں.زمانہ میں ایسی لہر نہ چلی ہو جس نے اس تعلیم کے متعلق ہلچل پیدا کر دی ہو تو کوئی اسے قبول نہیں کر سکتا.دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب دعویٰ کیا تو لوگوں نے مخالفت بھی کی لیکن ماننے والوں نے مان بھی لیا مگر آج بھی آپ کے دعوئی کو دیکھ کر کئی لوگ نبوت کے مدعی کھڑے ہوئے ہیں.وہ بہت کچھ کوشش بھی کرتے ہیں.اشتہار ٹریکٹ
153 اور کتابیں شائع کرتے ہیں.لیکن کوئی انہیں پوچھتا بھی نہیں.اس لئے کہ قبولیت کا زمانہ گذر گیا.انبیاء عین وقت اور عین موسم میں آتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے عین وقت پر بھیجا تھا.مگر آج آپ کی نقل کرنے والے بے موسم اور بے وقت کھڑے ہو رہے ہیں.چونکہ یہ بات صرف خدا تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ نبی کے بھیجنے کا عین وقت اور ٹھیک زمانہ کونسا ہوتا ہے.اس لئے وہ نبی کو اس وقت بھیج دیتا ہے.مگر جو خود بخود کھڑے ہو جاتے ہیں وہ بے وقت آتے ہیں اس لئے ناکام رہتے ہیں.اور سوائے اس کے کہ ان ناپاک اور گندی بوٹیوں کی طرح جو کھیتوں میں صرف اس لئے پیدا ہوتی ہیں کہ انہیں تمازت آفتاب جلا دے ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا اور ان کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا.میں نے دیکھا ہے دو تین مدعی نبوت ٹریکٹ اور رسالے بھیجتے رہتے ہیں.پھر گالیوں سے بھرا ہوا خط ان کی طرف سے آجاتا ہے کہ ہم نے اتنے رسالے اور ٹریکٹ بھیجے مگر کوئی توجہ نہیں کی جاتی.اپنے اخبارات میں گالیاں ہی دے چھوڑیں.میں نے لکھایا گالیاں بھی یونہی نہیں ملتیں یہ بھی خدا کے فضل سے ملتی ہیں.اب کہنے والے تو کہدیتے ہیں کہ محمد اے ایسے زمانہ میں آئے کہ لوگ آپ کی باتیں ماننے کے لئے تیار تھے.یہ صحیح ہے کہ آپ ایسے زمانہ میں آئے جب لوگ آپ کی باتیں ماننے کے لئے تیار تھے مگر ایسے وقت میں آنا ہی بتاتا ہے کہ آپ خدا تعالیٰ کی طرف سے تھے.کیونکہ خدا تعالیٰ ہی جان سکتا ہے کہ قبولیت کا زمانہ کونسا ہے.ورنہ یوں تو لوگ گالیوں کے خواہشمند ہوتے ہیں وہ بھی انہیں نہیں ملتیں.پس یہ خد تعالی ہی جانتا ہے کہ کونسی گھڑی.کونسا گھنٹہ.کونسا منٹ بلکہ کونسا سیکنڈ نبی کی بعثت کے لئے موزوں و مناسب ہے.اس وقت وہ نبی کو بھیج دیتا ہے پھر اس کے بعد آنے والا کامیاب نہیں ہو سکتاک یہ چار باتیں کامیابی کے لئے ضروری ہیں.ہماری جماعت جس مقصد کو لے کر کھڑی ہوئی ہے وہ کامیابی کے لحاظ سے سب قوموں کے مقاصد سے بڑا ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بعد کے نبی حضرت عیسی علیہ السلام یا حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پہلے کے کسی نبی کے خیال میں بھی یہ نہیں آسکتا تھا کہ وہ اپنی تعلیم تمام دنیا میں منوا لیں گے.حضرت عیسی علیہ السلام کی قوم ایک ایسی قوم ہے جس نے واقعات سے مجبور ہو کر ایسا طریق اختیار کیا جس سے خیال پیدا ہو سکتا تھا کہ ان کا مذہب ساری دنیا کے لئے ہے.حالانکہ حضرت عیسی علیہ السلام کا یہ مطلب اور یہ منشا نہ تھا کیونکہ وہ اپنی تعلیم ساری دنیا کو منوانے کے لئے نہ آئے تھے.بہر حال عیسائیوں میں یہ خیال پیدا ہو گیا مگر عیسائی صاحبان اس یقین کے ساتھ تو کھڑے ہوئے کہ حضرت عیسیٰ کی تعلیم ساری دنیا کے لئے ہے یا یوں
15+ کہو کہ یہ خیال ان میں آہستہ آہستہ پیدا ہو گیا.مگر باوجود اس کے ان میں یہ یقین پیدا نہیں ہوا تھا کہ وہ ساری دنیا کو حضرت عیسیٰ کی تعلیم منوا بھی لیں گے کیونکہ ان کا یہ عقیدہ تھا اور ہے کہ حضرت عیسیٰ کی تعلیم ہے تو ساری دنیا کے لئے مگر پھلے گی اس وقت جب مسیح دوبارہ آئیں گے.اب بھی عیسائیوں ا کا یہی عقیدہ ہے کہ مسیح کے دوبارہ آنے پر ساری دنیا کے لوگ اس تعلیم کو مانیں گے.حضرت عیسی کے بعد دنیا نے اور زیادہ ترقی کی اور رسول کریم ان کے زمانہ میں حقیقی طور پر سب لوگوں کے لئے ایک ہی دین نازل ہوا.حضرت عیسی کے حواریوں نے تو خیال کر لیا تھا کہ ان کی تعلیم ساری دنیا اور سارے زمانوں کے لئے ہے.لیکن حقیقت یہ ہے کہ ساری دنیا اور سب زمانوں کے لئے وہ تعلیم نہ تھی.اس میں عیسائیوں کو غلطی لگی اور دھوکہ میں پڑ گئے.رسول کریم کے متعلق جو پیش گوئیاں تھیں ان کے متعلق انہوں نے خیال کر لیا کہ حضرت عیسی پورا کرنے والے ہیں.اس وجہ سے انہوں نے سمجھ لیا کہ حضرت عیسی ساری دنیا کے لئے ہیں مگر جس وقت عیسائی یہ کہہ رہے تھے خدا تعالیٰ کچھ اور کہہ رہا تھا.مگر محمد ان کے زمانہ میں خدا اور انسان کی زبان ایک ہو گئی.خدا تعالیٰ نے کہا محمد اس سارے زمانہ اور سب لوگوں کے لئے ہیں انسانوں نے بھی کہا آپ سب زمانہ اور سب لوگوں کے لئے ہیں مگر اس کے ساتھ ہی ان کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ ساری دنیا کے اسلام پر جمع ہونے کے متعلق اور رسول کریم اس کے لائے ہوئے دین کو قبول کرنے کی پیشگوئی مسیح موعود کے زمانہ میں پوری ہوگی.اور سب مسلمانوں نے اس پر اتفاق کیا جس کا مفہوم یہ ہے کہ جب تک عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ نہ آجائیں یہ پیشگوئی پوری نہیں ہو سکتی.اس وجہ سے کہہ سکتے ہیں کہ تیرہ سو سال میں مسلمانوں کا بھی یہ مقصد نہیں رہا کہ ساری دنیا کو مسلمان بنا لیں حتی کہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ آیا جس کے متعلق یہ خیال تھا کہ ساری دنیا کا ایک مذہب ہو جائے گا.حضرت عیسی سے پہلے جس قدر نبی آئے ان کے پیروؤں کا تو یہ دعوی ہی نہ تھا کہ وہ ساری دنیا کے لئے آئے ہیں اور ان کی تعلیم ساری دنیا میں پھیل جائے گی عیسائی گو اس بات کے مدعی ہیں کہ عیسائیت کی تعلیم ساری دنیا میں پھیل جائے گی مگر ان کی اپنی کتابوں کی پیشگوئیاں بتا رہی تھیں کہ ایسا ہو نہیں سکتا جب تک مسیح نہ آئے.اسی طرح مسلمانوں کا یہ خیال تھا کہ اسلام ساری دنیا کے لئے ہے اور یہ صحیح بھی ہے.لیکن وہ بھی امید نہیں کر سکتے تھے کہ جب تک مسیح موعود نہ آجائے ایسا ہو سکتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئیاں کہتی ہیں کہ ساری دنیا میں اسلام کی اشاعت مسیح موعود کے آنے کے بعد ہوگی.
155 اب ہم وہ لوگ ہیں جو اس مسیح موعود کے ماننے والے ہیں.جس کے آنے کے بعد اسلام نے ساری دنیا میں پھیلنا ہے.اور اس مسیح نے اعلان کر دیا کہ اب ساری دنیا کو ایک مذہب پر جمع کرنے کا وقت آگیا ہے.اس وجہ سے ہمارا مقصد اور منتی تمام پہلی قوموں سے بلند اور بالا ہے.عیسائی کہتے تو تھے کہ ساری دنیا میں عیسائیت پھیل جائے گی لیکن وہ یہ امید نہیں کر سکتے تھے کہ عیسائیت اس وقت تک پھیل بھی سکتی ہے جب تک کہ مسیح دوبارہ نہ آجائے.اسی طرح مسلمان بھی کہتے تو تھے کہ ساری دنیا اسلام پر جمع ہو جائے گی لیکن وہ یہ خیال نہیں کر سکتے تھے کہ مسیح موعود کے آنے کے بغیر ایسا ہو سکتا ہے.مگر ہمارے زمانہ میں چونکہ مسیح موعود آگیا ہے اس لئے ہمارا مقصد پچھلی تمام قوموں سے بلند اور بالا ہو گیا ہے.اس مقصد عظیم کو پورا کرنے کے لئے جو نہ تو تیرہ سو سال تک مسلمانوں کا رہا.کیونکہ وہ جانتے تھے کہ مسیح موعود کے آنے کے بغیر پورا نہ ہو سکے گا.نہ عیسائیوں کا رہا.کیونکہ وہ جانتے تھے کہ مسیح نے آکر پورا کرنا ہے.اس طرح نہ کسی اور پہلی قوم کا رہا.کیونکہ وہ تو خیال بھی نہیں کر سکتی تھی کہ ساری دنیا اس کی تعلیم پر جمع ہو سکتی ہے.اس کے لئے ہمیں خاص محنت اور کوشش کی بھی ضرورت ہے.اور ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ وہ چار امور جن کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے.اور جو ہر قوم کی ترقی کے لئے ضروری ہیں.وہ ہمارے لئے موجود ہیں یا نہیں.پہلی چیز یہ ہے کہ پیج اعلیٰ درجہ کا ہو.یعنی تعلیم اعلیٰ ہو.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ہمیں حاصل ہو گئی ہے اور ہم نے اس کے ثبوت خود دیکھے اور مشاہدہ کئے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت اسی لاہور میں ایک جلسہ ہوا.جس میں تمام مذاہب کے نمائندوں نے بعض اہم مسائل کے متعلق اپنے اپنے مذاہب کی خوبیاں بیان کیں.حضرت مسیح موعود نے بھی اسلام کے متعلق مضمون لکھا.جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے پہلے ہی خبر دے دی تھی کہ وہ سب پر غالب ہو گا.اور اس بات کو آپ نے پہلے شائع کر دیا.پھر جب وہ مضمون پڑھا گیا تو سب اقوام نے تسلیم کیا کہ آپ کا مضمون سب سے بالا رہا اور اس سے بڑھ کر کسی تعلیم کے اعلیٰ ہونے کی کیا خوبی ہو سکتی ہے کہ دشمن بھی اس کے اعلیٰ ہونے کا اقرار کر لے.کسی دشمن سے یہ توقع تو نہیں کی جاسکتی کہ وہ ہر موقعہ پر اور ہر بات کو اعلیٰ کہے گا.کیونکہ اگر ایسا ہو تو وہ اس مذہب کو قبول ہی کیوں نہ کرے اور مسلمان کیوں نہ ہو جائے.اس سے یہی ہو سکتا ہے کہ دوسرے مذاہب کے مقابلہ میں جو تعلیم پیش کی جائے اسے اعلیٰ قرار دے دے تو اس مضمون کے متعلق سب نے تسلیم کیا کہ بالا رہا.ابھی ایک کانفرنس ولایت میں ہوئی.جس میں میں نے مضمون لکھا.وہ مضمون میرا نہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ )
156 ہی کی تعلیم تھی.اس کے بعض حصوں کے متعلق تو پہلے ہی بڑے بڑے اخبارات نے لکھ دیا تھا کہ بہت اعلیٰ تعلیم پیش کی گئی ہے.مگر اس سارے مضمون کو پڑھ کر ایک مشہور آدمی نے جو جرنیل ہے سب لکھا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ساری کانفرنس انہی کے لئے تھی.اور اس میں انہیں کا اثر سے غالب نظر آتا ہے.تو جہاں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم پیش کی گئی.وہاں ہی دشمنوں نے اس کی خوبی اور برتری کا اعتراف کیا اور ہر مباحثہ میں جہاں اسلام کی طرف سے احمدی مبلغ کھڑے ہوتے ہیں.دشمن بھی اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے اسلام کی عزت رکھ لی.وہ کہتے ہیں یہ ہیں تو کافر لیکن مخالفین اسلام کا مقابلہ یہی کر سکتے ہیں.گو یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ وجہ کیا ہے کہ اسلام کا سارا درد کافروں کو ہے اور اسلام سے انتہائی نفرت ان لوگوں کو ہے جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں.مگر ہم کہتے ہیں ہم وہ کافر بننے کے لئے تیار ہیں جو اسلام کی عزت اور حرمت اپنا سب سے بڑا فرض سمجھتے ہیں.اور وہ مسلمان بننے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ جو نہ صرف اسلام کی کوئی خدمت نہ کریں بلکہ مخالفین اسلام کے مقابلہ میں اسے بد نام کریں.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو تعلیم ہمیں دی ہے وہ ایسی ہے کہ دشمن بھی اس کی خوبی کا اعتراف کرتے ہیں.کچھ عرصہ ہوا فورمین کرسچن کالج لاہور کے پرنسپل صاحب قادیان گئے تھے.وہ جب ہندوستان سے ولایت گئے تو سیلون میں انہوں نے تقریر کی جس میں کہا عیسائی ساری دنیا میں اپنا مذہب پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں اور کہتے ہیں سب کو عیسائی بنالیں گے.لیکن میں عیسائیوں کو ہوشیار کرتا ہوں کہ عیسائیت کے مقابلہ کے لئے عظیم الشان تیاریاں ایک ایسی جگہ ہو رہی ہیں جو ریل سے دور ایک چھوٹا سا گاؤں ہے.اس سے عیسائیت کا مقابلہ ہو گا اور اس کے بعد فیصلہ ہو گا کہ عیسائیت دنیا میں جیتے گی یا اسلام.یہ کسی ایسے شخص کی رائے نہیں جو غیر جانبدار ہو.وہ ایک متعصب پادری تھے.قادیان میں جب آئے تو گفتگو میں اسلام کی مخالفت کرتے رہے.اسی طرح قرآن کریم کے پہلے پارہ کا میں نے جو ترجمہ کیا اور وہ انگریزی میں شائع ہوا.اس کے متعلق عیسائیوں کے ایک رسالہ نے لکھا کہ اس امر کا فیصلہ کہ عالمگیر مذہب اسلام ہے یا عیسائیت اس ترجمہ کے مکمل ہونے پر ہو سکے گا.تو دشمن بھی مانتے ہیں کہ وہ پیج جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بویا ہے.اعلیٰ درجہ کا ہے.اگر باقی تین شرطیں بھی میسر آجائیں تو پھر ہماری کامیابی میں کوئی کسر نہیں رہ جاتی.حال ہی میں تمام دنیا کے پادریوں کی ایک کانفرنس ہوئی ہے.اس نے اسلامی ممالک میں تبلیغ
157 کے لئے ایک سب کمیٹی بٹھائی اس کی رپورٹ اب شائع ہوئی ہے.اس میں بار بار یہ بات تسلیم کی گئی ہے.کہ عیسائیت کا مقابلہ کرنے والی اگر کوئی جماعت ہے تو وہ احمدی جماعت ہی ہے.اس سب کمیٹی نے سوائے ہماری جماعت کے مذہبی طور پر کسی کو کوئی وقعت نہیں دی.گو صریح لفظوں میں اس بات کا اعتراف نہیں کیا گیا کہ احمدیت کا مقابلہ عیسائیت کے لئے مشکل ہے مگر یوں کیا ہے کہ احمدی جماعت کے لوگ ایسی شرارت کرتے ہیں کہ ہمارا مقابلہ ہماری ہی تعلیم کے ذریعہ کرتے ہیں.ہم کہتے ہیں یہ عجیب بات ہے کہ عیسائیت کی تعلیم عیسائیوں کے ذریعہ تو کوئی اثر نہیں کرتی لیکن جب ہم اس کو پیش کریں تو اس کا اثر ہو جاتا ہے.اور اثر بھی ایسا جو عیسائیت کے خلاف ہوتا ہے..اب دوسری چیز زمین ہے.مذہب کے لئے زمین کیا ہے.وہ افراد جو اس تعلیم کو قبول کرتے ہیں.جن کے سامنے پیش کی جاتی ہے.جو نہیں مانتے وہ ایسے ہوتے ہیں جن میں بیج نہیں پڑا ہوتا.ان کے متعلق اس وقت بحث نہیں لیکن جہاں بیج پڑ گیا اس کی فکر ضرور ہو گی کہ اگر زمین اچھی نہیں تو پیچ ضائع ہو جائے گا.اب یہ سوال کہ اچھی زمین موجود ہے یا نہیں اس کا جواب میں نہیں دے سکتا نہ کوئی اور واحد شخص دے سکتا ہے اور نہ کوئی جماعت دے سکتی ہے.کیونکہ آپ میں سے ہر فرد کے لئے دوسروں کے قلوب کا اندازہ لگانا ناممکن ہے.یہ پتہ خدا تعالیٰ ہی لگا سکتا ہے جو عالم الغیب ہے.یا ایک حد تک اپنے نفس کا اندازہ ہر شخص کر سکتا ہے.لیکن میں اگر آپ لوگوں کے قلوب کا اندازہ نہیں لگا سکتا تو یہ کہہ سکتا ہوں کہ اپنے قلوب کی ایسی حالت بنائیں کہ وہ اچھی اور اعلیٰ درجہ کی زمین کی طرح ہو جائیں.تاکہ ان میں جو بیج پڑ چکا ہے وہ ضائع نہ ہو جائے بے شک میں قلب کی صحیح کیفیت کا اندازہ نہیں لگا سکتا لیکن آپ کو قلب کی صحیح کیفیت بنانے کی نصیحت تو کر سکتا ہوں.اور یہ اس وقت کرتا ہوں.آپ لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کبھی احمدیت ترقی نہیں کر سکتی جب تک طبائع میں اس کی قبولیت کا مادہ نہیں ہے.تعلیم خواہ کیسی اعلیٰ ہو ردی اور فضول ہو جائے گی.اب دیکھو رسول کریم ﷺ نے جو محنت ابی ابن سلول وغیرہ کے متعلق کی وہ کیا پھل لائی.ان لوگوں میں منافقت پیدا ہوئی.اسلام کے خلاف ریشہ دوانیاں ہوئیں.اسلام کو نقصان پہنچانے والے پیدا ہوئے.تو اپنے دلوں کو ایسا بنانا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کے ذریعہ جو بیچ بھیجا ہے.وہ ان میں نشوو نما پا سکے.تیسری چیز زمین کی تیاری ہے.یعنی تعلیم و تربیت یہ دو قسم کی ہوتی ہے.ایک وہ کہ جس کا منبع انسان کا اپنا نفس ہوتا ہے.اور دوسری وہ جو دوسروں کی طرف سے آتی ہے.باہر سے تعلیم و تربیت جو آتی ہے.اس کا تعلق مجھ سے جماعت کے واعظوں اور امراء سے اور والدین اور استادوں
158 سے ہے.کوئی آدمی اپنے کام کے متعلق آپ رائے نہیں لگا سکتا.اور حقیقت یہ ہے کہ اس کی زندگی میں بھی اس کے وسیع کام کے متعلق فیصلہ نہیں کیا جا سکتا.میرا کام تمام جماعت سے تعلق رکھتا ہے جو ایک جگہ نہیں ایک ملک میں نہیں بلکہ براعظموں میں پھیلی ہوئی ہے.اس کا اندازہ نہ میں لگا سکتا ہوں اور نہ کوئی اور اس وقت لگا سکتا ہے.اس کا اندازہ کئی نسلوں کے بعد قومیں کریں گی.پھر اپنے کام کا اندازہ کوئی شخص آپ نہیں کر سکتا.اور اگر کرے تو ہمیشہ غلط کرے گا کیونکہ وہ یا تو حد درجہ کے تکبر پر مبنی ہو گا یا انسان انکسار سے کام لے گا.وہ یہ دیکھے گا کہ مجھے جس قدر طاقتیں ملی ہیں خدا کی طرف سے ملی ہیں.میں نے خود کچھ نہیں کیا یا یہ دیکھے گا کہ اتنا بڑا کام تھا جس کے مقابلہ میں میں نے کچھ نہیں کیا اس لحاظ سے وہ اپنے کام کو بہت کم دیکھتا ہے.تو میرے اپنے متعلق جو جماعت کی تعلیم و تربیت کا کام ہے.اس پر میں رائے ظاہر نہیں کر سکتا.اور جو باقی ایسے لوگ ہیں جن پر جماعت کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ان کے کاموں پر میں رائے زنی تو نہیں کرتا مگر یہ ضرور کہتا ہوں کہ یہ بہت اہم کام ہے جس کی طرف میں جماعتوں کے امراء اور دوسرے کارکنوں کو توجہ دلاتا ہوں.اس وقت چونکہ لاہور کی جماعت میرے سامنے ہے.اس لئے لاہور کی جماعت کے امیر کی توجہ خاص طور پر جماعت کی اخلاقی اور روحانی اصلاح کی طرف دلاتا ہوں.ان کی ذمہ داریاں بہت بڑھی ہوئی ہیں.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کلکم راع و كلم مسئول عن رعيته ا.ہر شخص کی حیثیت چرواہے کی ہے اس سے پوچھا جائے گا کہ کس طرح اس نے ان لوگوں کی تربیت کی جو اس کے سپرد تھے.پس میں اپنے عزیز دوست چودھری ظفر اللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور کو توجہ دلاتا ہوں کہ ان کا کام بہت اہم اور بہت ذمہ داری کا ہے.دنیا کے سامنے انسان فریب سے بھی اپنی ذمہ داری سے بچ سکتا ہے.لیکن خدا تعالیٰ ہر پوشیدہ سے پوشیدہ بات کو جانتا ہے.اس لئے خدا تعالیٰ کو فریب نہیں دیا جا سکتا.پھر دنیا کی ذمہ داری پوری نہ کرنے سے جو اثر پڑتا ہے وہ محدود ہوتا ہے.اور اسے انسان برداشت کر سکتا ہے.مگر خدا تعالیٰ کی طرف سے جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان کا اثر اتنا زیادہ اور اس قدر وسیع ہوتا ہے کہ اگر انسان غلط راستہ پر چلے تو اس کے اثر کا خیال کر کے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.پھر میں سکرٹریوں اور دوسرے کارکنوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ اگر وہ اپنی اپنی جماعت کی صحیح تربیت نہ کریں گے اور لوگوں کو زمانہ کے سیلاب میں اسی طرح یہ جانے دیں گے جس طرح پانی میں تنکا بہتا ہے تو خدا تعالیٰ ان سے پوچھے گا کہ کیوں تم نے لوگوں کے متعلق کو تاہی اور سستی کی.پھر
159 چونکہ دوسری جماعتوں کے لوگ بھی اس موقعہ پر آئے ہوئے ہیں.اس لئے ان کو بھی ان ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں.ہمارا حال یہ ہے کہ ہمارے سامنے اتنا عظیم الشان کام ہے جتنا آج تک کسی قوم کا نہیں ہوا.ہماری جو منزل مقصود ہے وہ اتنی دور ہے جتنی اور کسی کی نہیں اور ہماری جو تمنا ہے وہ اتنی اعلیٰ ارفع اور اتنی بلند ہے جتنی اور کسی کی نہیں پس اگر اتنے عظیم الشان کام کے لئے ہم خاص تیاری نہ کریں.اتنی لمبی اور اتنی دور کی منزل مقصود کے لئے سستی سے قدم اٹھائیں اتنے بڑے مقصد اور مدعا کے لئے پوری ہمت سے کام نہ لیں تو سمجھ لو کیسے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں.پس میں تمام جماعتوں سے کہتا ہوں کہ جماعت کی صحیح تربیت کی طرف پوری پوری توجہ کریں.اگر جماعت میں سے ایک شخص بھی ست اور غافل ہو جاتا ہے تو وہ طاعون کے کیڑے سے زیادہ جماعت کے لئے زہریلا اور نقصان دہ ہوتا ہے.کیونکہ طاعون کے کپڑے کا زہر اس قدر نہیں پھیلتا جس قدر ایسے شخص کا زہر پھیلتا ہے.پس ایک آدھ آدمی کی سستی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.وہ ڈاکٹر ڈاکٹر کہلانے کا مستحق نہیں ہے جو بیماری کے چھوٹے سے چھوٹے کیڑے کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے.میں نے طاعون کے کیڑوں کے متعلق خود تو تحقیقات نہیں کی.لیکن ایک اخبار میں پڑھا ہے کہ ایک منٹ میں کئی ہزار گنا بڑھ جاتے ہیں.یہی ایمان کو کھانے والے کیڑے کا حال ہوتا ہے.جب ایک میں پیدا ہوتا ہے تو پھر آگے بڑھنا شروع ہو جاتا ہے.اس لئے ایک سچا اور حقیقی کار کن وہی ہے جو اگر ایک شخص میں بھی سستی اور کو تاہی دیکھتا ہے تو اسے اس وقت تک چین نہیں آتا.جب تک اس کی اصلاح میں کامیاب نہیں ہو جاتا.اگر اس کا جماعت سے کاٹنا ہی ضروری ہوتا ہے تو کاٹ دیتا ہے.تاکہ اس کا زہر دوسروں میں نہ پھیلے چوتھی چیز موزوں اور مناسب وقت ہے.یہ خدا تعالیٰ نے اپنے اختیار میں رکھا ہے.اور اس نے نبی بھیج کر فیصلہ کر دیا ہے کہ وہ وقت یہی ہے اس لئے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس زمانہ میں احمدیت پھیل نہیں سکتی.نادان ہیں جو کہتے ہیں آجکل احمدیت کو کون تسلیم کر سکتا ہے.اگر یہ درست ہے.تو پھر خدا تعالی پر الزام آئے گا کہ اس نے حضرت مسیح موعود کو بے وقت بھیجا کیوں کبھی نہ ہو گا کہ کوئی باغ والا ہو وہ جن کو باغ ٹھیکہ دے ان سے آم کی جنس کا اس وقت مطالبہ کرے جب آم کا موسم نہ ہو.ہمارے ملک میں آموں کا زور جون جولائی میں ہوتا ہے.اس وقت باغ کے مالک آم کی جنس کا مطالبہ کریں گے.پھر خدا کس طرح اس چیز کا مطالبہ کر سکتا ہے.جس کے لئے دنیا تیار نہ ہو.پس اس وقت خدا تعالیٰ نے نبی بھیج کر بتا دیا کہ عین یہی وقت ہے جب حضرت مسیح
160 موعود علیہ السلام کی لائی ہوئی تعلیم کو پھیلایا جائے.اگر کوئی اس کے متعلق گھبراتا ہے.اور سمجھتا ہے کہ تعلیم نہیں پھیل سکے گی.تو اس کے ایمان اور یقین میں کمزوری ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود کو اس وقت بھیجنا بتاتا ہے کہ یہی وقت اس تعلیم کے پھیلنے کا ہے.یہ چار چیزیں ہیں جو ترقی کے لئے ضروری ہیں.ان میں سے دو خدا تعالیٰ نے اپنے ذمہ رکھی ہیں اور دو ہمارے سپرد کی ہیں وقت کا انتخاب اور سچی تعلیم بھیجنا خدا نے اپنے ذمہ رکھا ہے اور یہ دونوں باتیں اس نے پوری کر دی ہیں.باقی دو ہمارے ذمہ ہیں یعنی اچھی زمین تلاش کرنا اور جو تعلیم قبول کریں ان کی غور و پرداخت کرنا انہی میں ہماری ستی کی وجہ سے جماعت کی ترقی میں روک پیدا ہو رہی ہے.ورنہ اور کوئی وجہ نہیں ہے.یہ کہنا کہ ابھی اس تعلیم کی اشاعت کا وقت نہیں آیا.اس کی وجہ یہ ہے کہ جو کام لوگ نہیں کرنا چاہتے جس طرح وہ اس کے متعلق کہہ دیتے ہیں.ہماری قسمت اسی طرح جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کی تعلیم کی اشاعت کا وقت نہیں ہے.لوگ اس کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں.وہ اپنی سستی اور کو تاہی کی وجہ سے کہتے ہیں ورنہ یہ کہنا پڑے گا.کہ خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بے وقت بھیجا.اور آپ کے ذریعہ ناقص تعلیم دی.مگر یہ دونوں باتیں غلط ہیں.ایسے لوگوں کو اپنے نفس کی اصلاح کرنی چاہئے.کیونکہ ان کے قلب کی زمین بگڑی ہوئی ہے.ایسے قلب پر اگر اچھی تعلیم بھی پڑے تو بھی اچھا نتیجہ پیدا نہیں کر سکتی.دیکھو حضرت عمرؓ کا ایک وقت وہی دل تھا کہ جس پر جب قرآن کریم کی تعلیم پڑتی تو تے ہو جاتی مگر پھر وہی دل تھا کہ اس نے اس طرح اس تعلیم کو قبول کیا جس طرح قبول کرنے کا حق تھا تو دل بدل سکتا ہے اور بدلا جا سکتا ہے.جس طرح زمین بری سے اچھی اور قابل زراعت بنائی جا سکتی ہے.اسی طرح دل بھی حق کو قبول کرنے کے لئے تیار کیا جا سکتا ہے.خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمارے اندر طاقت اور مادہ پیدا کیا ہے.کہ ہم دل کو بدل دیں آگے قصور ہمارا ہے کہ ہم کام نہیں کرتے یا تعلیم و تربیت کی وجہ سے نقص ہے.اور ہم نے جماعت تک وہ باتیں ابھی تک نہیں پہنچائیں جن کا پہنچانا ضروری ہے.میں سب احباب کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ امور جو ہمارے ذمہ ہیں ان کو پورا کریں اور مجھے امید ہے دوست رات دن کوشش کر کے ان کو پورا کریں گے.قلوب کی اصلاح ہو جائے اور تعلیم و تربیت بھی صحیح طور پر ہو تاکہ خدا تعالیٰ کا بھیجا ہوا بیج پھل لاوے اور ایسی غذا پیدا ہو کہ اسے کھا کر انسان کا تعلق شیطان سے منقطع ہو جائے.اور ایسا اثر ہو کہ کوئی بدی اثر نہ کر سکے.اور کوئی نیکی
161 چھوٹ نہ جائے.اس وقت میں احباب لاہور کو اس طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ دینی امور میں پنشن نہیں ملا کرتی.یعنی یہ نہیں کہ ایک وقت تک کام کر کے پھر کام کرنے کی ضرورت نہ رہے.مگر میں نے بہت لوگوں کو دیکھا ہے.ایک وقت تک کام کرتے رہتے ہیں.اور پھر ان میں سستی آجاتی ہے.ایسے لوگوں سے میں یہ کہہ کر بری الذمہ ہوتا ہوں کہ دینی کاموں میں کوئی پنشن نہیں.موت تک تو یہاں نہیں.اور پھر قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے.کہ اصل دار العمل دوسرا جہان ہی ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.ما خلقت الجن و الانس الا ليعبدون (الذاريات (۵۷) ہم نے انسان کو اپنا غلام بننے کے لئے پیدا کیا ہے.اب بتاؤ کیا کبھی غلام کو بھی پنشن ملی ہے.پنشن نوکر کے لئے ہوتی ہے.غلام کے لئے نہیں ہوتی.غلامی موت سے ہی ختم ہوتی ہے.لیکن کیا کوئی یہ چاہتا ہے کہ مرجاؤں.اگر یہ نہیں چاہتا تو پھر اس کا کام کس طرح ختم ہو سکتا ہے.پس میں دوستوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ستیوں کو چھوڑ دیں.اور اصلاح پیدا کریں میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.چونکہ لاہور کی جماعت کے مہمان ہونے کی وجہ سے اس کا ہم پر خاص حق ہے.اس لئے اس کے لئے خاص طور پر دعا کرتا ہوں.پھر باہر کے احباب جو اخلاص سے یہاں آئے ہیں.اور اپنا کام چھوڑ کر یہاں آئے ہیں.ان کے لئے بھی دعا کرتا ہوں.اور پھر سب جماعت کے لئے دعا کرتا ہوں کہ جو تعلیم خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کے ذریعہ دی ہے اس کو صحیح طور پر جذب کریں.تا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوں.اس کی محبت کا جامہ پہن لیں.اس کی رضا کی گھڑیاں میسر ہوں.اس دنیا کی زندگی بھی خدا کے لئے ہو.اور پھر جو زندگی ہو وہ بھی خدا کے لئے ہو.الفضل | مئی ۱۹۲۶ء) ا بخاری کتاب الاستقراض باب العبد راع في مال سيده
162 18 چندہ خاص کی تحریک (فرموده ۷ مئی ۱۹۲۶ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : میں نے پچھلے دنوں سلسلہ کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے چندہ خاص کی طرف جماعت کو توجہ دلائی تھی.جس کی مقدار ماہوار آمدنی کے ۳۰ فیصدی سے لے کر ۵۰ فیصدی تک حسب استعداد اور ہر ایک کے حالات کے مطابق تھی.اب میں اپنی جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ ولاتا ہوں کہ ہمارے چندوں کی تعداد قلیل سے قلیل بجٹ کو بھی جو ہر رنگ میں کانٹ چھانٹ کر بنایا گیا ہے پوری نہیں کر سکتی.جب تک ہمارے ماہواری چندوں میں اضافہ نہ ہو.چندہ خاص کی ضرورت رہے گی.جوں جوں چندہ عام میں غافل اور ست آدمیوں کے غفلت اور ستی چھوڑ دینے یا جماعت کے بڑھ جانے سے اضافہ ہو گا.اسی حالت میں چندہ خاص میں کمی ہو سکے گی.ان حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے جو اس سال کے ابتدائی مہینوں میں تمام لوگوں کو درپیش تھے.یعنی غلہ کی کمی اور قحط سالی.اس وجہ سے چندہ خاص کی تحریک کو میں نے بہت پیچھے ڈال دیا تھا لیکن چونکہ تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ کام کرنے والوں کو کام کرنے کے لئے وقت بھی دیا جائے اس لئے غلہ کے نکلنے سے ایک یا ڈیڑھ مہینہ پیشتر اعلان کر دیا گیا تھا.پھر یہ بات بھی مد نظر تھی کہ لوگ رمضان میں بھی کام پورے طور پر نہیں کر سکتے.مگر اب یہ دونوں حالتیں بدل گئی ہیں.رمضان ختم ہو چکا ہے اور نیا غلہ نکل رہا ہے.ہندوستان میں تو غلہ گھروں میں بھی آچکا ہے لیکن پنجاب میں ابھی ایسا نہیں ہوا.مگر کھیتیاں کائی جاچکی ہیں.اب دوستوں کو خصوصیت سے چندہ خاص کی طرف توجہ کرنی چاہئے.مجھے افسوس ہے کہ قادیان کے دوستوں نے بھی پورے طور پر چندہ میں حصہ نہیں لیا.
163 نصف سے کچھ زیادہ تعداد ہے جس نے چندہ ادا کرنے کا وعدہ کیا یا ادا کیا ہے.اور ۴۰ فیصدی کے قریب ایسے لوگ ہیں جنہوں نے یا تو وعدے ہی نہیں لکھوائے.اور اگر لکھوائے ہیں تو نہ لکھوانے کے برابر.مثلاً کام کرنے والوں کی کچھ ایسی تعداد ہے کہ اگر اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ کبھی انہیں کام ملتا ہے اور کبھی نہیں ملتا.اگر ان کی آمد کا نصف بھی شمار کیا جائے.تو بھی چندہ خاص ان کی طرف ۲۰۱۵ روپے بنتا ہے.انہیں چاہئے تھا.کہ اسی قدر لکھاتے.مگر انہوں نے ۴ یا ۵ روپے لکھائے ہیں.اب ان کے کام کے لحاظ سے یہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ ایک لوہار یا ایک بڑھئی یا ایک معمار صرف دس بارہ روپے ماہوار کماتا ہے.مگر جو شخص ۴ روپے چندہ خاص لکھاتا ہے.وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس کی ماہوار آمدنی دس یا بارہ روپے ہے حالانکہ اب قادیان میں مزدور بھی اس سے زیادہ کماتے ہیں ہمارے چندے مقررہ رقم کے مطابق ہونے چاہیں.اور جس طرح دوسرے دوست اس کے مطابق چندہ لکھواتے ہیں.اسی طرح باقیوں کو بھی لکھوانا چاہئے.کوئی وجہ نہیں کہ جماعت کا ایک حصہ تو اس بوجھ کو اٹھائے اور دوسرا نہ اٹھائے.جن کاموں پر روپیہ صرف ہو تا ہے.وہ کسی کے ذاتی نہیں.اسلام کی اشاعت جماعت کی تعلیم و تربیت غرباء کی مدد اور دوسرے جماعت کے کاموں پر روپیہ صرف ہوتا ہے.اس کی ذمہ داری سب پر ہے.در حقیقت اس قسم کی سستی اور غفلت ایمان کی کمزوری کی وجہ سے ہوتی ہے.کیونکہ جس وقت ایک شخص قربانی کر کے آگے نکل رہا ہوتا ہے.دوسرا شور مچا رہا ہوتا ہے کہ میرے پاس کچھ نہیں ہے.میں کچھ نہیں دے سکتا.ہم دیکھتے ہیں بسا اوقات دو اشخاص کی ایک ہی جتنی تنخواہ ہوتی ہے.اور بسا اوقات ایک کے گھر کے آدمی دوسرے سے زیادہ ہوتے ہیں.مگر وہ شخص زیادہ بشاشت اور خوشی سے چندہ دیتا ہے اور زیادہ مقدار میں دیتا ہے اس شخص کی نسبت جس کے لواحقین کم تعداد میں ہوتے ہیں.مگر تنخواہ یا آمد مساوی ہوتی ہے.ایسا شخص چندہ لکھوانے میں کمی کرتا ہے اور پھر ادائیگی میں مشکل پیدا کرتا ہے.اس سے اس نتیجہ پر پہنچنے کے سوا چارہ نہیں رہتا کہ اس میں اخلاص کی کمی ہے.ورنہ وجہ کیا ہے کہ ایک آدمی مسادی بلکہ بعض اوقات کم آمدنی رکھتے ہوئے زیادہ چندہ لکھاتا اور زیادہ اخلاص سے ادا کرتا ہے.اور دوسرا چندہ لکھاتے وقت بھی سستی کرتا اور ادائیگی کے وقت اس سے بھی زیادہ سستی سے کام لیتا ہے.جو لوگ احمدیت کو سچا سمجھ کر سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں انہیں دیکھنا چاہئے کہ یہ فرق کیوں ہے؟ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جو دوسرے بتائیں تب معلوم ہو بلکہ ہر شخص اپنے متعلق خود دیکھ سکتا ہے کہ میرے ایسے بھائی موجود ہیں جن کے اخراجات مجھ سے زیادہ ہیں یا آمدنی مجھ سے کم ہے ان کو چندہ دیتے
164 وقت کسی قسم کا ملال نہیں ہو تا.اور وہ مجھ سے زیادہ چندہ دیتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ مجھے ملال پیدا ہوتا ہے.اور میں ان کے برابر چندہ نہیں دے سکتا.یہ خیال خود اس شخص کے دل میں پیدا ہونا چاہئے جو خدمت دین میں دوسروں سے پیچھے رہتا ہو.اور اسے اس بات کا منتظر نہیں رہنا چاہئے کہ یہ بات اسے کوئی دوسرا یاد دلائے عام طور پر لوگوں کو دوسروں کی آمد کا اندازہ ہوتا ہے.اس لئے ہر شخص دیکھ سکتا ہے.کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ چندہ لکھواتے وقت میرے دل میں ملال پیدا ہوتا ہے مگر دوسرا مجھے سے زیادہ لکھوا کر کوئی ملال محسوس نہیں کرتا.پھر میں چندہ ادا کرنے میں لیت و لعل کرتا ہوں.اور وہ خوشی سے دے دیتا ہے.جب ہمارے ظاہری حالات برابر ہیں.تو پھر کیا وجہ ہے کہ چندہ دینے میں فرق ہے اگر اس طرح انسان غور کرے.تو بہت جلدی اپنی اصلاح کر سکتا ہے.وہ لوگ جو دوسروں کے بتانے کے منتظر رہتے ہیں.عام طور پر وہ ہدایت نہیں پاتے.ہدایت وہی پاتے ہیں جو اپنے ایمان کی آپ فکر کرتے ہیں اور اپنا علاج آپ کرتے ہیں.چونکہ چندوں وغیرہ کے اعلان جلسوں میں ہوتے ہیں اس لئے ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے کہ دوسرے اس کے مقابلہ میں کس طرح اور کس قدر حصہ لے رہے ہیں اور اس طرح اپنی اصلاح کر سکتا ہے.لیکن افسوس ہے کہ بہت سے لوگ بجائے اس کے کہ دوسروں کی قربانی اور ایثار کا پتہ لگا کر اپنے نقص دور کریں دوسروں پر اس لئے ناراض ہوتے ہیں کہ وہ انہیں جگاتے کیوں ہیں.اس وقت میں سب سے پہلے قادیان کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ چندہ کی ادائیگی میں قربانی اور ایثار سے کام لیں.مگر اس کے ساتھ ہی میں کارکنوں کو ملامت بھی کرتا ہوں کہ انہوں نے چندہ کی وصولی میں اس اخلاص سے کام نہیں لیا.جو لینا چاہئے تھا.بلکہ اس دیانتداری سے بھی کام نہیں لیا جو ایسے موقعہ پر ضروری تھی.چندہ کی تحریک کے دو مہینے ہو گئے ہیں مگر ابھی تک قادیان سے بھی وصولی کی کوشش نہیں کی گئی اور باوجود اس کے کہ میں نے کئی بار توجہ دلائی ہے کہ قربانی اور ایثار کرنے والوں کی مثالوں سے دوسروں کو آگاہ کرنا چاہئے اور اس قسم کی باتوں کا ذکر اخباروں میں آنا چاہئے تاکہ ان لوگوں کے لئے تازیانہ ہو جو سستی اور کوتاہی کرتے ہیں مگر کچھ نہیں کیا گیا دیکھو انسان تو انسان جانوروں میں بھی دوسروں کو دیکھ کر بڑھنے کی حس ہوتی ہے.یہ میں نے دیکھا ہے گھوڑے کی سواری میں میرا ایک گھوڑا تھا جو بہت سفر کر کے تھک جانے کی حالت میں مارنے پر تیز نہیں چلتا تھا.لیکن ایک دفعہ جب کہ وہ بہت تھکا ہوا تھا.ایک تازہ دم گھوڑا آگیا.اسے دیکھ کر وہ اس قدر زور سے بھاگنا اور آگے بڑھنا چاہتا تھا کہ روکتے روکتے میرے ہاتھ زخمی ہو گئے.تو جانوروں میں یہ بات پائی جاتی
165 ہے.کہ ان میں اپنے ہم جنس سے مقابلہ اور اس سے بڑھنے کی خواہش ہوتی ہے.جب حیوانوں میں یہ بات ہے.تو میں نہیں سمجھتا کہ انسان اور پھر مومن انسان جب دیکھے کہ اور لوگ خدا تعالی کی راہ میں قربانی کرنے میں بڑھ رہے ہیں تو وہ خاموش بیٹھا رہے پس میرے نزدیک جہاں لوگوں کا قصور ہے کہ انہوں نے چندہ خاص کی تحریک میں پوری سرگرمی سے کام نہیں لیا وہاں کارکنوں کا بھی قصور ہے.اور بہت حد تک انہی کا قصور ہے انہوں نے تحریک کو مؤثر بنانے کی کوشش نہیں کی.اب میں کارکنوں اور قادیان کے سب لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ سرگرمی سے اس تحریک میں حصہ لیں.پھر میں بیرونی جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں.بیرونی جماعتوں سے چندہ خاص کی آمد کا اندازہ ۵۰ ہزار تک کا تھا مگر اس وقت تک جو فہرستیں آئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ بیس ہزار سے چند سو او پر یا چند سو نیچے تک چندہ پہنچا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ بہت سی جماعتیں ایسی ہیں جو ابھی اس تحریک میں شامل نہیں ہوئیں.اگر زمیندار جماعتوں کو نکال دیا جائے تو ۱۰ ہزار کے قریب رقم ایسی جماعتوں کے ذمہ پڑتی ہے جو زمیندار نہیں ہیں.اگر ہم سلسلہ کے کام کو صحیح طریق پر چلانا چاہتے ہیں تو اس کا صرف یہی طریق نہیں ہے کہ بجٹ کو چندہ عام کے ماتحت لائیں یا آمد کو بجٹ کے مطابق کرنے کی کوشش کریں.بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ ریز روفنڈ بھی قائم کیا جائے جس کی سالانہ اس قدر آمد ہو کہ جب کبھی جماعت کی آمدنی میں کسی وجہ سے کمی واقعہ ہو جائے یا کوئی خاص خرچ آپڑے تو اس آمدنی سے کام لیں.وہ لوگ جن کے گزارہ کا انحصار صرف اس آمد پر ہوتا ہے کہ ادھر آئی اور ادھر خرچ ہو گئی وہ ہمیشہ تکلیف میں رہتے ہیں.پس ضروری ہے کہ ایک حصہ آمد کا ایسا ہو جو مستقل ہو.موجودہ بجٹ جو اڑھائی لاکھ کے قریب ہوتا ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے ۴۰ فیصدی مستقل آمد کے لئے ریزرو فنڈ اس قدر ہونا چاہئے جس کی آمد ایک لاکھ سالانہ ہو.اور یہ ۱۵ لاکھ ریزرو فنڈ سے پیدا ہو سکتی ہے.بظاہر یہ بڑی رقم ہے لیکن اگر تدبیر اور توجہ سے اس کے مہیا کرنے کی کوشش کی جائے تو اس کا پورا ہونا کوئی مشکل بات نہیں.بہت آسانی سے یہ پوری ہو سکتی ہے.اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو چلانے کیلئے وصایا کا عظیم الشان طریق رکھا ہے.اور خدا تعالیٰ کا مقرر کردہ طریق کبھی غلط نہیں ہوتا.اگر کامیابی میں کوئی نقص پیدا ہوتا ہے تو انسان کے اپنے عمل سے نہ کہ اس طریق کے ناقص ہونے سے.دیکھو جب قرآن کریم آیا تو جن لوگوں نے اس پر عمل کیا وہ مٹھی بھر ہوتے ہوئے ساری دنیا پر غالب آگئے لیکن باوجود اس کے کہ اب بھی وہی قرآن ہے.اور مسلمان لاکھوں کروڑوں ہوتے ہوئے بھی ترقی نہ کر سکے.انہوں
166 نے نادانی سے سمجھا کہ قرآن میں نقص ہے.اور ہم قرآن کو چھوڑ کر ترقی کر سکتے ہیں.اس پر خدا تعالی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا تا آپ کے ذریعہ اسلام کو دنیا میں غالب کرے.اب دیکھ لو ہماری نہایت ہی قلیل جماعت جو تھوڑا بہت کام کر رہی ہے اس سے دشمن بھی اقرار کر رہے ہیں کہ یہ جماعت غالب ہونے والی ہے.اور اس طرح ثابت ہو رہا ہے کہ قرآن کریم کا نقص نہیں بلکہ اس پر عمل نہ کرنے والوں کا نقص ہے.تو خدا تعالٰی نے سلسلہ کا کاروبار چلانے کے لئے وصیت کا ایک ایسا طریق رکھا ہے کہ اگر اس پر صحیح طریق سے عمل کیا جائے تو کبھی مشکل نہ پیش آئے.اسی لئے میں کارکنوں سے کہا کرتا ہوں کہ اس سے ناجائز فائدہ نہ اٹھاؤ اگر اس سے صحیح طور پر فائدہ اٹھایا جاتا.اور جو ہدایات اس بارے میں میں دیتا رہا ہوں ان پر عمل کیا جاتا تو اس وقت تک ۴-۵ لاکھ روپیہ جمع ہو جاتا.وصایا کی آمد غیر معمولی آمد ہے.ایک آدمی فوت ہو جاتا ہے.جس کی دس لاکھ کی جائداد ہوتی ہے.اس کی جائداد سے اگر ایک لاکھ روپیہ آجائے.تو یہ غیر معمولی آمد ہو گی.کیونکہ ہر سال اتنا روپیہ اس طرح نہیں آسکتا اگر وصایا کی آمد کو غیر معمولی آمد قرار دے کر بجٹ میں شامل نہ کیا جائے.اور اسے علیحدہ رکھا جائے تو چند سال میں ۱۵ لاکھ روپیہ جمع ہو جانا کوئی مشکل بات نہیں ہے.اس کے لئے میں نے یہ تجویز بتائی تھی کہ وصیت کی آمد پانچ سو یا اس سے زائد جو اکٹھی آئے اس کو غیر معمولی آمد سمجھا جائے.اور ریز رو فنڈ میں شامل کر دیا جائے.اس طرح اگر صحیح طور پر عمل کیا جائے.اور جماعت کو وصیت کی اہمیت بتائی جائے اور بتایا جائے کہ یہ خدا تعالیٰ کا قائم کردہ طریق ہے.تو میں سمجھتا ہوں کہ ہزاروں آدمی جنہیں تاحال اس طرف توجہ نہیں ہوئی وصیت کے ذریعہ اپنے ایمان کامل کر کے دکھائیں گے.اس کے علاوہ اور بھی تدابیر ہیں.مثلاً چندہ عام اگر بجٹ کو پورا کر دے تو ہو سکتا ہے کہ تین تین چار چار سال کا وقفہ دیکر چندہ خاص جمع کر کے ریزرو فنڈ میں داخل کر دیا جائے.اس طرح کرنے سے جماعت کی مالی حالت محفوظ ہو سکتی ہے.اور کوئی کام مالی مشکلات سے بند کرنے کا خدشہ نہیں ہو سکتا.مشکلات کئی رنگ اور کئی طریق سے پیش آتی رہتی ہیں.بعض اوقات ایک شخص مخلص بھی ہوتا ہے مالی امداد دینے کو اس کا جی بھی چاہتا ہے مگر ایسی مشکلات میں پڑا ہوتا ہے کہ اپنی نیت کے مطابق عمل نہیں کر سکتا.مثلاً ایک سوداگر ہے اس کے کاروبار میں اگر نقصان واقعہ ہو جائے تو پھر اس سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ جس قدر سلسلہ کی امداد وہ پہلے کرتا تھا اسی قدر اپنی مالی حالت
16 - خراب ہو جانے کی صورت میں بھی کرے گا کیونکہ پہلے اسے ۲۵-۳۰ ہزار سالانہ کی آمد ہوتی ہے اور اب وہ ۵ - ۱۰ ہزار سالانہ قرض لیکر گزارہ کرتا ہے.پھر وہ پہلے کی طرح کس طرح خدمت کر سکتا ہے.یہی حال زمینداروں کا ہے فصل ماری جائے تو انہیں نقصان اٹھانا پڑتا ہے.بعض دفعہ سیالکوٹ کے ضلع کے متعلق ہوا ہے کہ اگر بارش نہ ہو تو ایک علاقہ ایسا ہے جہاں بیج کی قیمت بھی وصول نہیں ہو سکتی.کنوؤں کا پانی کھاری ہے وہ کھیتوں کو دیا نہیں جا سکتا.اور اگر بارش نہ ہو تو فصل تباہ ہو جاتی ہے.ایسی حالت میں زمیندار بھی مجبور ہو جاتے ہیں.ان حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ ریزرو فنڈ ہو.میں اس خطبہ کے ذریعہ جماعت کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ چندہ خاص کے متعلق میری جو تحریک شائع ہو چکی ہے.اس کی طرف جن لوگوں نے توجہ نہیں کی.یا ان کی توجہ میں کمی رہ گئی ہے.وہ پورے طور پر متوجہ ہو کر اسے پورا کریں.اور دوسرے اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وصیت کی تحریک خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.اور اس کے ساتھ بہت سے انعامات وابستہ ہیں.ابھی تک جنھوں نے وصیت نہ کی ہو وہ کر کے اپنے ایمان کے کامل ہونے کا ثبوت دیں.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے جو شخص وصیت نہیں کرتا مجھے اس کے ایمان میں شبہ ہے.پس وصیت معیار ہے ایمان کے کامل ہونے کا.مگر دسویں حصہ کی وصیت اقل ترین معیار ہے.یعنی یہ تھوڑے سے تھوڑا حصہ ہے.جو وصیت میں دیا جا سکتا ہے.مگر مومن کو یہ نہیں چاہئے کہ چھوٹے سے چھوٹے درجہ کا مومن بننے کی کوشش کرے بلکہ بڑے سے بڑے درجہ کا مومن بننا چاہئے.یہ درست ہے کہ رشتہ داروں اور لواحقین کو مد نظر رکھ کر کہا گیا ہے کہ ۱۱۳ حصہ سے زیادہ وصیت میں نہ دے.لیکن یہ نہیں کہا گیا کہ دسویں حصہ سے زیادہ وصیت نہ دے.مگر دیکھا گیا ہے کہ اکثر دوست ۱/۱۰ حصہ کی وصیت کرنے پر کفایت کرتے ہیں جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شاید ان کا خیال ہو کہ وصیت کا مفہوم دسویں حصہ کی وصیت کرنا ہی ہے حالانکہ یہ ادنی مقدار بیان کی گئی ہے اور مومن کے لئے یہی بات مناسب ہے کہ جس قدر زیادہ دے سکے دے.ایمان اور مومن کی شان کو مد نظر رکھتے ہوئے تو یہی ہونا چاہئے.جو وصیت کرے ۱۱۳ حصہ کی وصیت کرے.ہاں جو اتنا حصہ مجبورا نہ دے سکے.وہ اس سے کم دیدے.پس اصل وصیت ۱/۳ حصہ کا نام ہے ہاں جو یہ نہ دے وہ اس سے کم 10ا حصہ تک دے سکتا ہے.میں سمجھتا ہوں اگر ایک شخص اپنی موت کا نظارہ اپنی آنکھوں کے سامنے لائے اور اپنی حالت پر نظر کرے تو اسے معلوم ہو کہ مجھ سے بے شمار غلطیاں اور کمزوریاں سرزد ہو چکی ہیں اب مرنے کے وقت تو مجھے خدا تعالیٰ سے صلح کر لینی
168 چاہئے یہ خیال کر کے خدا تعالیٰ کی راہ میں سب کچھ دے دینا بھی اس کے لئے دو بھر نہیں ہو سکتا.دیکھو جو شخص خود جائداد پیدا کرتا ہے.اسے یہ بھی امید رکھنی چاہئے کہ اس کی اولاد بھی ایسی ہی ہوگی کہ جائداد بڑھائے گی.جو شخص اس بات سے ڈرتا ہے کہ اگر میں وصیت میں جائداد دے دوں گا تو اولاد کیا کھائے گی وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اس کی اولاد نالائق ہو گی.ایک شخص جس کے پاس کچھ نہ تھا.اس نے کوشش کر کے کئی ہزار کی جائداد پیدا کر لی.تو اسے امید رکھنی چاہئے کہ اس کی اولاد اس سے بھی بڑھ کر ترقی کرے گی.اور اس رنگ میں اولاد کی تربیت کرنی چاہئے کہ وہ دنیا میں ترقی کر سکے.ورنہ جو اولاد کی اس طرح تربیت نہیں کرتا اور یہ سمجھتا ہے جو کچھ میں نے کمایا ہے اسی پر اولاد کا گزارہ ہو گا.وہ اپنی اولاد کو نالائق سمجھتا ہے.اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے.انا عند ظن عبدی بیا.بندہ میرے متعلق جیسا خیال کرتا ہے میں ویسا ہی کر دیتا ہوں اگر کسی کو یہ خیال ہو کہ ہماری اولاد اور نالائق ہو گی ہم جو دے جائیں گے اس پر اس کا گزارہ ہو گا اسے بڑھا نہیں سکے گی تو خدا تعالیٰ ایسی اولاد سے یہی معالمہ کرے گا کہ اسے نالائق بنا دے گا.لیکن اگر یہ خیال ہو کہ ہماری اولاد ہم سے بھی زیادہ ہوشیار اور قابل ہو گی اور دین کی خدمت کرنے میں ہم سے بھی بڑھ جائے گی تو میں سمجھتا ہوں ایسی اولاد کو خدا تعالٰی ضائع نہیں کرے گا.کسی خدا کے بندہ کا قول ہے کہ کسی بچے مومن کی سات پشتوں تک کسی کو سوال کرتے نہیں دیکھا جائے گا.پس وصیت کرتے ہوئے احباب کو یہ بھی خیال رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے جو اعلیٰ حصہ مقرر کیا ہے.وہ ۱/۳ ہے اور ہر مومن کو کوشش کرنی چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ حصہ کی وصیت کرے.ہاں اگر اپنی مجبوریوں کی وجہ سے ۱۱۳ حصہ کی نہ کر سکے تو ۱/۴ حصہ کی کرے.اگر ۱/۴ حصہ کی نہ کرے سکے تو ۱/۵ کی کرے اگر ۱۱۵ حصہ کی نہ کر سکے تو ۱۱۶ حصہ کی کرے.اور اگر ۱۶ حصہ کی نہ کر سکے تو ا حصہ کی کرے.اگر ۱۱۷ حصہ کی نہ کر سکے تو ۱۸ حصہ کی کرے.اگر ۱۸ حصہ کی نہ کر سکے تو 1/9 حصہ کی کرے اور اگر کچھ بھی نہ کر سکے تو ۱/۱۰ حصہ کی کرے.میں امید کرتا ہوں کہ اگر دوست اس رنگ میں اپنے فرائض ادا کریں گے.تو خدا کے فضل سے بہت جلد کامیابی حاصل ہو گی.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ لوگوں کی کوششوں میں برکت ڈالے.اور جو اسلام کی اشاعت کا کام اس نے ہمارے ذریعہ جاری کیا ہے.اسے ہماری ستی سے نقصان نہ پہنچے بلکہ دن بدن ترقی کرے.میں ابھی ایک سفر سے واپس آیا ہوں مجھے یہ دیکھ کر خصوصیت سے خوشی ہوئی کہ ہمارا
169 نوجوان طبقہ تبلیغ کی طرف متوجہ ہے.اگرچہ ابھی ایک حصہ مست بھی ہے مگر خوشی کی بات ہے کہ ایک حصہ نے ادھر توجہ کی ہے.میں قادیان والوں کو بھی خصوصیت سے توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ارد گرد کے لوگوں کو احمدیت میں داخل کرنے کی کوشش کریں.خدا تعالیٰ کے فضل سے مرکز میں ہماری جماعت اس قدر مضبوط ہو گئی ہے کہ ارد گرد کے دیہات کے لوگوں کو اب یہ خوف نہیں کہ احمدی ہوئے تو مشکل پیش آئے گی.اس لئے کوشش کرنی چاہئے کہ لوگ احمدیت میں داخل ہوں.جتنی جماعت بڑھے گی اتنی ہی مالی مشکلات میں کمی ہوتی جائے گی.اور پھر تربیت میں بھی آسانی ہوگی.کیونکہ جب جماعت تھوڑی ہو.تو بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب ان کی اصلاح کی کوشش کی جائے.تو وہ کہتے ہیں کہ ہم ان میں سے نکل کر دوسروں میں شامل ہو جائیں گے.مگر جب جماعت مضبوط ہو.تو اس کو چھوڑ کر دوسروں میں جانا مشکل ہوتا ہے.پس اگر تبلیغ کی طرف توجہ کی جائے تو یہ بھی جماعت کی مضبوطی کا باعث ہو گی.الفضل ۱۸ مئی ۱۹۲۶ء) ا بخاری کتاب التوحید باب قول الله و يحذر كم الله نفسه
170 وصیت کی اصل غرض اور ضرورت (فرموده ۱۴ مئی ۱۹۲۶ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : بعض امور بظاہر چھوٹے نظر آتے ہیں.لیکن ان کے گرد و پیش ایسے حالات جمع ہو جاتے ہیں کہ ان حالات کی وجہ سے غیر معمولی اہمیت پکڑ جاتے ہیں.میں سمجھتا ہوں ہماری جماعت میں ایسے امور کی مثالوں میں سے ایک اہم مثال حصہ وصیت ہے.اللہ تعالٰی عالم الغیب ہے وہ تو سب باتوں کو جانتا ہے مگر میں سمجھتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب رسالہ الومینہ شائع کیا تو آپ کے ذہن میں وہ مشکلات نہ تھیں جو آئندہ زمانہ میں اس سلسلہ کے گرد جمع ہونے والی ان مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں وصیت عقلی طور بھی نجات کا ذریعہ ہے.اگر وہ مشکلات نہ پیدا ہوتیں اور اس قسم کے حالات وصیت کے متعلق رونما نہ ہوتے تو خیال ہو سکتا تھا کہ وصیت سے جنت کا کیا تعلق؟ مگر اس کے گرد و پیش ایسی مشکلات جمع ہو گئی ہیں جو قرآن کریم کے بتائے ہوئے قاعدہ کے ماتحت بتاتی ہیں کہ وہ اس امر کے گرد جمع ہوتی ہیں جو ہدایت کا باعث ہو.دیکھو خدا تعالیٰ فرماتا ہے يضل به كثيرا " و يهدى به كثيرا " (البقرہ ۲۷) کہ جو چیز ہدایت دینے والی ہوتی ہے اس کے ذریعہ بہتوں کو ٹھو کر بھی لگتی ہے.چنانچہ قرآن کریم جب بہت بڑی ہدایت لے کر آیا تو اس وقت بڑی ضلالت بھی آئی.توریت میں قرآن کریم کی نسبت ہدایت کم تھی اس وقت ٹھو کر بھی کم تھی.رسول کریم ال چونکہ ہمیشہ ہمیش کے لئے دنیا کے واسطے نبی بنا کر بھیجے گئے اور آپ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو آپ کی نبوت کو منسوخ کر دے.اس لئے آپ کے ذریعہ ہمیشہ کے لئے کفر کا دروازہ بھی کھول دیا گیا.اب موسوی شریعت کا انکار کفر نہیں کیونکہ اس کا زمانہ ختم ہو گیا مگر اس کا کمال بھی ختم ہو گیا اب کوئی شخص موسوی شریعت پر چل کر روحانی کمال حاصل نہیں کر سکتا.
اس کے مقابلہ میں اگر اسلام کے ذریعہ خدا کے قرب کا دروازہ ہمیشہ کے لئے کھولا گیا تو اس کے ساتھ ہی کفر کا دروازہ بھی ہمیشہ کے لئے کھل گیا.پس ہر ہدایت کے ساتھ ضلالت برابر چلتی ہے.اور یہ دونوں پیریل لائن (PARALLEL LINE) پر متوازی چلتی ہیں.کیونکہ جو چیز بھدی بہ کثیرا " ہو گی وہ ساتھ ہی یضل بہ کثیرا " بھی ہو گی.اب اگر وصیت کا مسئلہ یضل بہ نہ ہوتا.تو عقل تسلیم نہ کرتی کہ بھلائی کا باعث بن سکتا.کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ جو چیز ہدایت کا باعث ہوتی ہے اس کے ساتھ ضلالت کا پہلو بھی ہوتا ہے.اور خدا تعالیٰ کی سنت بدلا نہیں کرتی.اب دیکھو وصیت کس طرح ٹھوکر کا موجب ہوئی.پہلے تو غیر احمدیوں کو اس سے ٹھوکر لگی انہوں نے کہا روپیہ کمانے کا ڈھنگ نکالا گیا ہے ورنہ کسی زمین میں دفن ہو کر کوئی بہشتی کیونکر ہو سکتا ہے.یہ بھی وہی بات ہوئی جو کئی مقامات پر بہشتی دروازہ بنا کر کسی جاتی ہے کہ جو اس دروازہ میں ہے گذر جائے وہ بہشتی ہو گیا.اس طرح وصیت بہت سے لوگوں کے لئے ٹھوکر کا موجب ہوئی.کیونکہ انہوں نے اس کی حقیقت اور مغز کو نہ سمجھا.وصیت کا ہر گز یہ منشاء نہ تھا کہ کوئی اس زمین میں دفن ہونے سے بہشتی ہو جائے گا.اگر کسی کافر کو رات کے وقت لوگ اس میں دفن کر جائیں یا کسی ہندو کو دفن کر دیا جائے.تو کیا وہ اس لئے جنتی ہو جائے گا کہ اس جگہ دفن کر دیا گیا ہے.ہر گز نہیں.نہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ منشاء تھا.اور نہ خدا تعالیٰ کا کہ خواہ کوئی کسی طرح اس زمین میں دفن ہو جنتی ہو گا.بلکہ جو اصل منشاء تھا وہ یہ تھا کہ وصیت کے قواعد کو پورا کر کے جو داخل ہو گاوہ جنتی ہو گا گویا وصیت کے قواعد پورے کرنا علامت ہوگی اس بات کی کہ پورا کرنے والا بہشتی ہے جیسے قرآن کریم میں مومن کی علامتیں بتائی گئی ہیں کہ نماز کا پابند ہو.زکوۃ دے.حج کرے.خدا کی توحید پر ایمان لائے.رسولوں پر ایمان لائے تو جنتی ہو گا.مگر دوسری جگہ کہا محمد ایات پر ایمان لانے والے ال جنتی ہیں.اس کے یہی معنی ہیں کہ ان شرائط کے ساتھ جو ایمان لائیں وہ جنتی ہیں.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ رکھا کہ جو ان شرائط کے ساتھ اپنے آپ کو پیش کرتا ہے.خدا تعالیٰ اسے جنتیوں میں شمار کرتا ہے.کیونکہ انسان کا دل اس بات کا خواہاں ہوتا ہے کہ اسے کس طرح پتہ لگے کہ خدا کی رضا اسے حاصل ہو گئی ہے اور ہر زمانہ میں خدا تعالیٰ کی مرضی اور منشاء معلوم کرنے کے ذرائع مختلف ہوتے ہیں.اس زمانہ میں بھی خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں کی تڑپ معلوم کر کے وصیت کے قواعد کے ذریعہ بتایا کہ اگر تم میں ایسا اخلاص ایسا ایمان اور
172 ایسا تعلق باللہ ہو تو سمجھ لو کہ تم جنتی ہو گئے.اس سے کم ہو تو بات مشتبہ ہے.خدا ہی جانتا ہے تمہارا انجام کیا ہو گا تو یہ ایک ذریعہ ہے جس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کون جنتی ہے جیسے کہ رسول کریم کے زمانہ میں خدا تعالیٰ نے آپ کی معرفت فرمایا تھا جنت ان کو ملے گی جو خدا کی راہ میں جان الا اور مال دیں گے.چونکہ اس وقت جہاد کی ضرورت تھی.اس لئے جان کی بھی شرط تھی اور اس وقت یہی بہشتی مقبرہ تھا اور اس کی علامت یہ تھی کہ جان اور مال دیا ہے.مگر اب ایسا زمانہ ہے کہ پہلے زمانہ کی طرح جانیں دینے کی ضرورت نہیں ہے.بلکہ اخلاق اور اعمال اور اموال کی قربانی کی ضرورت ہے.کوئی کہے کہ رسول کریم ﷺ کے وقت بہشتی مقبرہ کیوں نہ بنایا گیا؟ اس کے متعلق یاد رکھنا چائے اس زمانہ میں حالات ایسے تھے کہ تاریخی طور پر بہشتی لوگوں کی قبروں کو محفوظ رکھنا مشکل تھا.اس وقت ریلیں نہ تھیں کہ دو دراز سے لاشیں لائی جاسکتیں لوگوں میں اتنی جہالت تھی کہ قبروں کو اکھیڑ کر پھینک دینا معمولی بات سمجھتے تھے.اس وجہ سے قبریں قائم نہ رہ سکتی تھیں.اگر اس زمانہ میں بھی اس طرح کی سہولتیں ہوتیں جیسی اب ہیں تو ان کے لئے بھی الگ مقبرہ تجویز کیا جاتا.مگر اس وقت لاشوں کا پہنچانا بہت مشکل تھا اور اب تو ممکن ہے کہ دنیا کے دوسرے سرے سے بھی لاش آجائے.ہوائی جہاز کے ذریعہ امریکہ سے دو چار دن میں لاش یہاں پہنچ سکتی ہے.پس اب وہ زمانہ ہے جب کہ لاشیں دور دور سے پہنچ سکتی ہیں اور قبروں کی حفاظت کی جاسکتی ہے.اس لئے ظاہری علامت کے طور پر مقبرہ بہشتی بھی مقرر کر دیا گیا ہے.ورنہ مقبرہ بہشتی تو پہلے سے بنی اسلام میں موجود ہے.کئی حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت البقیع میں دفن ہونے والوں کے متعلق رسول کریم نے فرمایا.یہ جنتی ہیں.اے چنانچہ بعض نادانوں نے جب حضرت عثمان شہید ہوئے تو جو ان کے متعلق خیال کرتے تھے کہ کافر ہو گئے انہوں نے کہا ہم اس جگہ دفن نہ ہونے دیں گے.کیونکہ ان کا خیال تھا کہ جو اس جگہ دفن ہو گا وہ جنتی ہو گا.اس وجہ سے وہ جنت کے ٹھیکہ دار کہنے لگے ہم دفن نہ ہونے دیں گے.انہوں نے یہ اسی لئے کہا کہ اس زمین کے متعلق رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ اس میں دفن ہونے والا جنتی ہو گا.میں اس کا نام وعدہ نہیں رکھتا نہ اس کا اور نہ اس کا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مقبرہ کے متعلق فرمائی.بلکہ یہ خبر ہے اور وعدہ اور خبر میں فرق ہوتا ہے.اس کے ساتھ علامتیں بتائی گئی ہیں کہ جس میں وہ پائی جائیں.اس کو پہچان لو کہ جنتی ہو گا.پس پہلے تو وصیت سے ٹھو کر غیر احمدیوں کو لگی.اور یضل بہ کثیرا " اس طرح پورا ہوا.
173 جن سے معلوم ہوا کہ یہ بھدی بہ کثیرا" بھی ضرور ہو گا.دوسری ٹھوکر کمزور ماننے والوں کو لگی انہوں نے وہی خیال کر لیا جو رسول کریم لالا لینے کے اقوال سے کمزور ایمان والے مسلمانوں نے سمجھ لیا تھا کہ جو بقیع میں داخل ہو جائے وہ جنتی ہو گا.اسی طرح انہوں نے خیال کر لیا کہ جو بہشتی مقبرہ میں داخل ہو جائے خواہ کسی طرح داخل ہو جتنی ہو گا.یہ خیال کر کے انہوں نے دھوکہ سے اس میں داخل ہونا چاہا.مثلاً اس طرح کہ کہہ دیا ہمارے مرنے کے بعد اتنی جائداد لے لینا.حالانکہ اتنی جائداد ہی نہ تھی.اس طرح انہوں نے گویا رجسٹر مقبرہ بہشتی میں اپنا نام لکھا جانا کافی سمجھا جنتی بننے کے لئے اگر یہی بات ہو کہ جس طرح بھی کوئی اس زمین میں دفن ہو جائے وہ جنتی بن جائے.تو ہمیں سارا روپیہ اس پر خرچ کرنا پڑے کہ مقبرہ کے ارد گرد پہرہ دار مقرر کئے جائیں.جو بندوقیں لے کر کھڑے رہیں تاکہ اس میں کوئی زبردستی دفن نہ کر جائے.ادھر جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف داخل ہو جانے سے ہی جنت مل سکتی ہے وہ رات کو لاش لا کر دفن کر جائیں.اس طرح مقبرہ تمسخر اور کھیل بن جاتا ہے." پس بعض نے اس طرح ٹھوکر کھائی کہ خیال کر لیا اس زمین میں دفن ہونے سے انسان جنتی بن جاتا ہے.اور اس کے لئے لگے دھو کے کرنے اور بعض نے اس کی غرض اور منشاء کو نہ سمجھ کر دھوکہ کھایا.کوئی کہے ادھر جنتی بنے کی خواہش اور ادھر دھوکہ کرنا یہ دونوں متضاد باتیں کس طرح پائی جا سکتی ہیں.مگر یاد رکھنا چاہئے جو لوگ ایمان کو ٹونے ٹوٹکے کے طور پر سمجھتے ہیں اور جن کے عقیدہ کی بنیاد عقل پر نہیں ہوتی وہ اس قسم کی متضاد باتیں جمع کر لیتے ہیں.ہم اس کا نام ظاہر پر محمول کر کے دھو کہ رکھتے ہیں.مگر ایسے لوگ حقیقت میں سمجھتے ہیں کہ ایسا ہی ہو سکتا ہے اس لئے وہ اپنے نزدیک دھوکہ نہیں کر رہے ہوتے.عام مسلمانوں میں یہ خیال پایا جاتا ہے اور حضرت خلیفہ اول ان سناتے تھے کہ بعض لوگ قرآن کریم کی چوری چوری نہیں سمجھتے.اور ان کا خیال ہے.خدا کا کلام چرا لینا گناہ نہیں.ایک دفعہ ایک دوست کے سپرد کچھ روپے تھے اس نے ذاتی مصارف میں اس خیال سے صرف کر لئے کہ جب میرے پاس ہوں گے دیدونگا.میرا اس شخص سے بہت تعلق تھا.مگر انجمن میں میں نے ہی یہ سوال اٹھایا کہ اس طرح ان کو خرچ نہیں کرنا چاہئے تھا.اس دوست نے بھی افرار کر لیا کہ غلطی ہو گئی ہے میں جلد روپیہ ادا کر دوں گا.مگر ایک اور دوست کھڑے ہو گئے جنہوں نے یہ بحث شروع کر دی کہ یہ غلطی ہے ہی نہیں کیونکہ روپیہ خدا کے لئے جمع کیا جاتا ہے.اور یہ بھی خدا کی مخلوق ہیں ان کو ضرورت تھی انہوں نے خرچ کر لیا تو حرج کیا ہو گیا اور اس میں
174 غلطی کیا ہوئی.تو ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں.حالانکہ یہ واضح بات ہے کہ خدا کے لئے روپیہ جمع کیا جاتا ہے.اور سب خدا کے بندے ہیں مگر جب اپنی ذات کے متعلق فیصلہ کرنا ہو تو غلطی کر جاتے ہیں.اس کے لئے فیصلہ کرنے والے اور ہونے چاہئیں.تو بسا اوقات انسان سمجھتا ہے کہ جو کچھ میں کر رہا ہوں دیانت داری کے ماتحت ہے مگر وہ بے وقوفی اور نادانی ہوتی ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ جنہوں نے کسی نہ کسی طرح مقبرہ بہشتی میں داخل ہونے کی کوشش کی وہ دھوکہ باز تھے.بہت سے ان میں ایسے تھے جنہوں نے صرف یہ خیال کیا کہ جنت میں داخل ہونے کے لئے مقبرہ بہشتی میں دفن ہو جانا کافی ہے پھر کیوں نہ ہم دنیا میں بھی مال سے فائدہ اٹھائیں.بلکہ میں تو کہوں گا ایک رنگ میں ان کا ایمان بڑھا ہوا تھا کہ انہوں نے سمجھا اگر ہم دھوکہ کر کے بھی مقبرہ میں داخل ہو جائیں گے تو بھی خدا تعالیٰ ہمیں اس میں داخل ہونے کی وجہ سے جنتی قرار دے دیگا.بے شک ایسے لوگ غلطی پر تھے.اور ان کا خیال درست نہ تھا.انہوں نے وصیت کا غلط مفہوم لیا اور دھوکہ میں پڑ گئے مگر وصیت سے سب سے بڑا فتنہ ایک اور پیدا ہوا جو خیال میں بھی نہیں آسکتا.اور وہ خلافت کے متعلق فتنہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خیال بھی نہ ہو گا جب آپ نے وصیت لکھی کہ ایسی جماعت بھی پیدا ہو گی جو اس کے ماتحت کے گی کہ خلیفہ نہیں ہونا چاہئے.مگر اس طرح بھی وصیت ٹھوکر کا باعث ہوئی.اور ایسا فتنہ پیدا ہوا جس نے جماعت کو تہ و بالا کر دیا.اور ایک وقت تو ایسا آیا کہ سوائے معدودے چند لوگوں کے سب اس طرف ہو گئے کہ خلیفہ کو منتخب کرنا غلط تھا.مگر حضرت خلفیہ اول کی تقریر نے بتا دیا کہ یہ خیال غلط تھا اور خلیفہ کا انتخاب بالکل درست تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد جماعت پر روحانیت اور برکات کے نزول کا خاص وقت تھا.اور یہ ممکن ہی نہیں کہ نبی کے فوت ہونے کے معا بعد جماعت گمراہی اور ضلالت پر جمع ہو.کیا یہ ممکن ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے نبی کو اٹھالیا اور جماعت سب سے زیادہ رحم کی مستحق ہو گئی.اس وقت خدا تعالیٰ جماعت کو گمراہ ہونے دے.پس در حقیقت سچا فیصلہ وہی تھا جو جماعت نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد خلیفہ کے انتخاب کے متعلق کیا.لیکن پھر بھی کچھ ایسے لوگ تھے.اور اب تو ان میں اور بھی اضافہ ہو گیا.جن کا خیال ہے کہ خلیفہ نہیں ہونا چاہئے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جماعت کے دو ٹکڑے ہو گئے.اور ایک ٹکڑہ پراگندہ ہو کر جماعت سے باہر چلا گیا پراگندہ میں اس لئے کہتا ہوں کہ اس میں کوئی اتحاد نہیں مگر ان میں ایسے لوگ شامل ہیں جو کسی وقت جماعت میں اہمیت رکھتے تھے.تو ان کے لئے وصیت ٹھوکر کا موجب ہوئی اور یضل بہ کثیرا " ان کے متعلق بھی الله
175 ظاہر ہوا ہے میں سمجھتا ہوں وصیت کے مسائل ابھی ایسے پیچیدہ ہیں کہ آئندہ بھی ٹھوکر کا موجب ہو سکتے ہیں.مگر میں ” سرود مستاں یاد دہانیدن " کے مطابق ان کا ذکر نہیں کرنا چاہتا.اس وقت میں صرف ایک مسئلہ کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں اور وہ وہ مسئلہ ہے جس کا اس سال کی مجلس مشاورت میں بھی ذکر ہوا تھا کہ کس قدر آمد پر کوئی شخص وصیت کرے.اور آمد اور جائداد پر وصیت ہو یا نہ ہو میں نے جہاں تک وصیت کو پڑھا ہے کبھی ایک منٹ کے لئے بھی مجھے یہ خیال نہیں آیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اس سے منشاء یہ تھا کہ جو اس زمین میں دفن ہو جائے وہ جنتی ہو گا.یہ بات ایسی ہے کہ خدا تعالیٰ تو الگ رہا حضرت مسیح موعود کی طرف بھی منسوب نہیں کی جاسکتی اور یہ وہ تعلیم ہے کہ شروع سے لے کر اخیر تک جس کا قرآن انکار کر رہا ہے.میں تو یہ سمجھ نہیں سکتا کہ کوئی شخص خدا تعالیٰ رسول کریم ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تعلق رکھنے سے تو جنتی نہ ہو سکے.لیکن اس زمین میں دفن ہونے سے جنتی ہو جائے.اس طرح تو نعوذ باللہ اس زمین کا خدا تعالیٰ سے بھی بڑا درجہ ہوا کہ اس زمین سے تعلق رکھنے والا جنتی بن سکتا ہے.مگر خدا تعالیٰ اور حضرت مسیح موعود سے تعلق رکھ کر کوئی شخص جنتی نہیں بن سکتا تو پھر اس زمین میں کونسی طاقت ہو سکتی ہے کہ جو اس زمین میں دفن ہو جائے.وہ سیدھا جنت میں چلا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ منشاء ہرگز نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ بات قرآن کریم کی تعلیم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم اور خود وصیت کی تعلیم کے خلاف ہے.جو منشاء وصیت کا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک ادنیٰ قربانی پیش کی ہے.جو اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ جو شخص اس قدر قربانی کرتا ہے.اس کے نفس میں اصلاح ہے اور جو اتنی قربانی کر دے اس کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ جنتی ہے پس اگر وصیت سے اس قسم کی قربانی مراد ہے تو وصیت کو اس کے ماتحت لانا ہو گا.اور جس بات میں قربانی نہ پائی جاتی ہو گی.وہ وصیت کے خلاف ہو گی.میں اس وقت تفصیلات کے متعلق بولنے کے لئے کھڑا نہیں ہوا.جس بات کے بتانے کے لئے کھڑا ہوا ہوں وہ یہ ہے کہ کسی دوست نے بتایا کہ بعض لوگوں نے کہا ہے چونکہ آج کل روپیہ کی سخت ضرورت ہے اس لئے وصیت کے نئے معنے کئے جاتے ہیں.جن سے غرض یہ ہے کہ زیادہ روپیہ وصول ہو جائے.گو یہ نہایت نامعقول اعتراض ہے مگر میں اس پر برا نہیں مناتا کیونکہ میں کسی سے اپنے لئے روپیہ نہیں مانگتا بلکہ خدا کے دین کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے.اور اس کے لئے میں روپیہ مانگتا ہوں اگر اس روپیہ سے خلیفہ کی ذاتی جائداد بنتی اور اس کے رشتہ داروں کو ورثہ میں ملتی تو اعتراض ہو سکتا تھا کہ میں اپنے لئے روپیہ
176 جمع کرنے کے لئے ایسا کر رہا ہوں.لیکن اگر یہ مال دین کی خدمت میں صرف ہوتا ہے.اور مجھ کو ذاتی طور پر اس سے کوئی نفع نہیں پہنچتا تو پھر اگر میں وصیت کے ایسے معنی کرتا ہوں جن کی رو سے خدا تعالیٰ کے دین کے لئے زیادہ روپیہ جمع ہو سکتا ہے تو یہ میرے لئے کونسی شرم کی بات ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی وصیت کی غرض یہی بیان فرمائی ہے کہ اس ذریعہ سے جو روپیہ حاصل ہو گا وہ خدا کے دین کی اشاعت کے لئے خرچ کیا جائے گا.پس جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس سے یہی غرض ہے کہ روپیہ آئے جو دین کی اشاعت کے لئے خرچ کیا جائے.تو پھر اگر ہم نے ایسے معنی کئے کہ زیادہ روپیہ آئے تو یہ کوئی حرج کی بات نہیں ہے.کسی بات سے انسان کی دو غرضیں ایسی ہوتی ہیں جو مذموم ہوتی ہیں.ایک تو یہ کہ وہ ایسے عقائد گھڑنا چاہتا ہے جن کی وجہ سے دوسروں کو شکنجہ میں کس سکے.اور دوسرے ذاتی فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے.وصیت کے معاملہ میں یہ دونوں باتیں نہیں ہیں پھر مجھے اس اعتراض پر کیا رنج ہو سکتا ہے.مگر میں کہتا ہوں کہ اگر اس رنگ میں ہر بات کو بدلا جائے تو کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ جو لوگ وصیت کے یہ معنی کرتے ہیں کہ خواہ کوئی کتنی ہی قلیل رقم ادا کرے اس کی وصیت ہو جاتی ہے.ان کا یہ مقصد ہے کہ وہ بغیر کچھ دیئے مقبرہ میں داخل ہو جائیں.اگر ان کا حق ہے کہ یہ کہیں کہ وصیت کو مال کی قربانی اس لئے قرار دیا جاتا ہے کہ اس طرح زیادہ روپیہ وصول ہو تو دوسروں کا بھی حق ہے کہ وہ کہیں کہ ان کا یہ مطلب ہے کہ بغیر کچھ دیئے داخل ہو جائیں لیکن میں سمجھتا ہوں کم سے کم اس خیال کے جو لیڈر تھے ان کی یہ نیت نہ تھی.اس خیال کے بہت بڑے مؤید میر محمد اسحاق صاحب تھے.جہاں تک میں سمجھتا ہوں ان کے ذہن میں یہ بات نہ تھی کہ یونہی لوگ مقبرہ بہشتی میں دفن ہو جائیں بلکہ یہ تھی کہ وصیت کا منشاء ہی وہ ہے جو انہوں نے سمجھا دوسرے اس خیال کے مؤید شیخ عبد الرحمان صاحب مصری تھے.ان کو بھی میں جانتا ہوں.اور بچپن سے جانتا ہوں ان کا منشاء بھی یہی تھا کہ حضرت صاحب کا منشاء وہی ہے جو انہوں نے سمجھا ان کی تائید میں جو اور لوگ تھے ان کی سخت غلطی تھی.مگر جو کچھ انہوں نے کہا دیانتداری سے کہا اور مجھے ان کے متعلق ایک ذرا بھی شبہ نہیں کہ ان کا خیال تھا کہ بغیر کچھ دیئے جنت میں داخل ہو جائیں.پھر جس نے یہ کہا کہ وصیت کے نئے معنی اس لئے کئے جاتے ہیں کہ روپیہ آئے اگر چہ اس کا خیال نہایت بے ہودہ ہے.مگر مجھے اس پر غصہ نہیں ہے.کیونکہ میں یہی چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت کے لئے زیادہ سے زیادہ روپیہ آئے.حضرت مسیح موعود علیہ والسلام فرماتے ہیں.
177 بعد از خدا بعشق محمدم مخمرم گر کفر این بود بخدا سخت کافرم کہ خدا تعالیٰ کی محبت کے بعد محمد ان کے عشق میں مخمور ہوں اگر یہ کفر ہے تو خدا کی قسم میں سب سے بڑا کافر ہوں.اسی طرح میں کہتا ہوں.اگر وصیت کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت کی خاطر مال جمع کرنے سے مجھے پر لالچ کا الزام آتا ہے.تو بخدا میں اس سے بھی بڑا لالچی ہوں جس قدر کوئی مجھے کہہ سکتا ہے.اگر وصیت کے الفاظ مجھے اجازت دیتے تو میں کہتا ۱/۳ سے کم کی وصیت نہیں ہو سکتی.لیکن افسوس کہ الفاظ اس لالچ کی اجازت نہیں دیتے پس مجھے تو خدا کے دین کے لئے روپیہ جمع کرنے کی اس سے زیادہ حرص اور لالچ ہے جس قدر کوئی کہہ سکتا ہے.اگر مجھے حضرت مسیح موعود کے منشاء کے خلاف کا خیال نہ ہوتا اور پھر مختلف طبائع کا خیال نہ ہو تا تو میں اس وقت کی ضروریات کے مطابق یہی فیصلہ کرتا کہ ۱۳ حصہ کی وصیت کی جائے.اب میں ایسا تو نہیں کر سکتا.لیکن میرا عقیدہ یہی ہے کہ یہ بھی جائز ہے.جب احمدیت ترقی کرے گی.ہماری جماعت کے لوگوں کی آمدنیاں زیادہ ہوں گی.ہمارے ہاتھ میں حکومت آجائے گی.احمدی امراء اور بادشاہ ہوں گے.تو اس وقت ۱/۱۰ حصہ کی وصیت کافی نہ ہو گی.اس وقت سلسلہ کی باگ جس کے ہاتھ میں ہوگی وہ اگر وصیت کے لئے ۱۳ حصہ ضروری قرار دیدے تو یہ جائز ہو گا.مگر ابھی وہی زمانہ ہے.جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے وقت تھا.اس لئے ابھی یہ حکم نہیں دیا جا سکتا گو دل یہی چاہتا ہے کہ زیادہ روپیہ آئے اور ۱۱۳ حصہ کی وصیت کی جائے.مگر ایک زمانہ ایسا آ نے والا ہ...وقت حکومت احمدیت کی ہو گی.آمدنی زیادہ ہو گی.مال و اموال کی کثرت ہو گی.اور ۱/۱۰ حصہ داخل کرنا کوئی بات ہی نہ گی.مگر اب تھوڑی جماعت ہے.جس نے بہت بوجھ اٹھانا ہے.احمدیت کی وجہ سے ہمارے آدمیوں کی ملازمتیں رکی ہوئی ہیں.ترقیاں رکی ہوتی ہیں.تجارتیں رکی ہوئی ہیں.ان باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ۶۰ یا ۶۵ فیصدی جو چندہ دیتے ہیں وہی بڑا سمجھا جاتا ہے.لیکن جب تجارت اور حکومت ہمارے قبضہ میں ہو گی اس وقت اس قسم کی تکلیفیں نہ ہوں گی.ایسے زمانہ میں اگر وصیت کے چندہ کو انتہائی حد تک بڑھا دیا جائے تو یہ بھی جائز ہو گا.کیونکہ اصل غرض اس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مالی قربانی کا موقعہ دینا ہے.اور مال زیادہ ہو تو زیادہ دینے سے ہی قربانی ہو سکتی ہے.اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ فرماتے کہ جو شخص وصیت کئے بغیر مرے وہ دوزخی ہے.تو میں کہتا ہوں وصیت کو وسیع کرو لیکن جب کہ آپ نے یہ نہیں لکھا.اور وصیت اس
کے بغیر بھی لوگ جنت میں جا سکتے ہیں.تو معلوم ہوا کہ وصیت اعلیٰ درجہ کے لوگوں کے لئے ہے.اور اگر کسی وقت 1/10 حصہ کی قربانی اعلیٰ نمونہ کے لئے کافی نہ ہو.تو اس کو بڑھایا جا سکتا ہے.میں اس کو جائز سمجھتا ہوں.آگے اس وقت کے فقہاء کیا فقاہت کریں گے.یہ ان کی بات ہے.گو اس اعتراض پر مجھے خوشی ہوئی.اگر یہ کسی نے کیا ہے.لیکن چونکہ میں نے خود معترض سے یہ نہیں سنا اس لئے بالکل قرین قیاس ہے کہ جس دوست نے مجھے سنایا ہے ان کو بات کے سمجھنے میں غلطی لگی ہو.لیکن اگر یہ صحیح ہے.تو میں اعتراض کرنے والے کو نصیحت کرتا ہوں کہ بہت الفاظ ایسے ہوتے ہیں جن کے منہ سے نکل جانے کے بعد انسان کو پچھتانا پڑتا ہے.رسول کریم الا کے متعلق کسی نے کہا تھا آپ نے انصاف کے ماتحت مال کی تقسیم نہیں کی.آپ نے کہا اگر میں نے انصاف نہیں کیا تو اور کون کر سکتا ہے.۲.اور پھر فرمایا اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ ہوں گے جو دین کو برباد کرنے والے ہوں گے قرآن ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا.کیسا خطرناک انجام ہوا.جو کچھ معترض نے کہا ہے اس کا یہی مفہوم ہو سکتا ہے کہ ہم دین کے لئے زیادہ مانگتے ہیں.مگر یہ کونسی بری بات ہے.جو جائز تدبیر ہو وہ تو ثواب کا موجب ہے.مگر ایسی باتیں اپنے نتائج کے لحاظ سے قابل اعتراض ہوتی ہیں گو اپنے الفاظ کے لحاظ سے نہ ہو.دیکھو قرآن کریم میں آتا ہے خدا تعالیٰ مسلمانوں کو فرماتا ہے تم رسول کو داعنا (البقرہ ۱۰۵) نہ کہو گو تمہاری نیت اس لفظ سے یہ نہیں کہ رسول کی ہتک کرو.مگر یہ لفظ ہتک کرنے والا ہے.اگر تم اس لفظ کو استعمال کرو گے تو تم سے انعام چھین لئے جائیں گے.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو انبیاء کے متعلق کس قدر غیرت ہوتی ہے.اور جس طرح اللہ تعالٰی کو اپنے انبیاء کی غیرت ہوتی ہے.گو ان کی ذاتی خوبیاں بہت بڑھی ہوئی ہیں اور خلفاء میں ان کے مقابلہ میں کمزوریاں ہوتی ہیں.ان میں انبیاء کی طرح معصومیت نہیں ہوتی.مگر جس مقام پر ان کو کھڑا کیا جاتا ہے.اس کی غیرت کی وجہ سے ان پر اعتراض کرنے والے بھی ٹھوکر سے نہیں بچ سکتے.تم میں سے اگر کسی کو اپنے ایمان کی فکر نہ ہو تو نہ ہو مگر مجھے ہے.کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت جیسی سلامت ایمان والی مجھے ملی تھی.اس سے بڑھ کر چھوڑ کے جاؤں پس ایسے الفاظ اپنے منہ سے نہ نکالو جو خدا تعالیٰ کی غیرت کو بھڑ کانے والے ہوں.اور ایسی باتیں مت کرو جن کا تمہیں صحیح علم نہ ہو.رسول کریم نے فرمایا ہے هل شققت قلبہ ۳.کیا تم نے اس کا سینہ پھاڑ کر دیکھ لیا.میں کہتا ہوں ایک منافق کو جو حق اسلام دیتا ہے.وہ خلیفہ کو بھی ضرور ملنا چاہئے.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں ایسا
179 منافق جو تلوار سے جنگ کر رہا ہوں وہ بھی اگر کے کہ میں مسلمان ہوں تو اس کی بات کو قبول کر لیتا چاہئے کیونکہ اس کا دل چیر کر کسی نے نہیں دیکھ لیا.جب یہ ادنی ترین حق ہے جو اسلام منافق کو بھی دیتا ہے.تو میں نہیں سمجھتا خلیفہ ہونے پر یہ حق کیونکر اس سے چھینا جا سکتا ہے.پس ایسی باتیں نہ کرو جن کا علم نہ ہو.پھر میں اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وصیت آزمائش ایمان کا ذریعہ ہے.وصیت پیمانہ ہے ایمان کو ناپنے کا اور وصیت آئینہ ہے اپنی ایمانی شکل دیکھنے کا.میں اس کے متعلق کچھ زیادہ نہیں کہتا.صرف اتنا کہتا ہوں کہ میں تمہاری نسبت اعلم ہوں اس معاملہ کے متعلق اور وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے.ابھی میں اصل مسئلہ کے متعلق کچھ نہیں کہنا چاہتا.مجھے اس بارے میں دوستوں سے مشورہ کرنا ہے.مگر میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہماری جماعت کے لوگوں میں قربانی اور ایثار کے جذبات پیدا کرے.اور ہم اس کے قرب کو حاصل کر سکیں.اور اس کے فضلوں کے وارث ہوں.(الفضل ۸ جون ۱۹۲۶ء) ا.طبقات ابن سعد القسم الثاني الجزء الثاني ۲ بخاری کتاب التوحید باب قول الله تعرج الملا کہ والروح الیہ مسلم کتاب الایمان باب من مات لا یشرک با اللہ دخل الجنته ٠٣
180 20 ایمان بہتر اخلاق سے ظاہر کرو (فرمودہ ۲۱ مئی ۱۹۲۶ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : میں نے بہت دفعہ اپنی جماعت کے دوستوں کو توجہ دلائی ہے.اور اب پھر اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ہمارے اہم اور ضروری فرائض میں سے ایک فرض یہ بھی ہے کہ ہم دوسرے لوگوں کے سامنے ایک عمدہ نمونہ بنیں ہمارے اخلاق دوسروں کی نسبت اچھے ہوں.تاکہ لوگ ہمارے نمونہ اور ہمارے معاملات اور ہمارے اخلاق دیکھ کر ہماری طرف توجہ کر سکیں اور ان کے لئے کوئی امر موجب ابتلاء نہ ہو اور وہ کوئی ٹھو کر نہ کھائیں.اخلاق ایک ایسی چیز ہے جو ہر ایک کو نظر آتے ہیں لیکن ایمان کو کوئی نہیں دیکھتا.کتنا ہی کسی کو یقین ہو کتنا ہی کسی کو وثوق ہو.اگر اپنے ظاہر پر اس کا اثر نہ ہو.تو کسی اور پر بھی اثر نہیں ہوتا.ایمان کا معاملہ بالکل پوشیدہ ہوتا ہے اور کسی پر ظاہر نہیں ہوتا.لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں مخفی اور پوشیدہ رہنے والی بات کو مقدم سمجھا جاتا ہے حالانکہ مقدم اس چیز کو رکھنے کی ضرورت ہے.جو ہر وقت نظر کے سامنے رہتی ہے.ایمان کو خدا تعالیٰ کے نزدیک بڑی حقیقت رکھتا ہے اور اس کی اہمیت زیادہ ہے.مگر بندوں کے نزدیک اس کی اتنی حقیقت نہیں.بندوں کے نزدیک تو اس چیز کی زیادہ حقیقت ہے جو ایمانی رنگ میں ہر وقت زیر نگاہ رہتی ہے.قلبی ایمان کی حقیقت بندوں کے سامنے نہیں ہوتی.وہ دل کے واقف نہیں ہوتے اس لئے کسی کے دل کی بات کا وہ اندازہ نہیں لگا سکتے.ان کے سامنے ظاہر اطور پر کچھ ہونا چاہئے تو وہ کچھ کر سکتے ہیں.یہ ایک نکتہ تھا لیکن افسوس کہ یہی نکتہ لوگوں کے سامنے مخفی ہو گیا ہے.چاہئے تو یہ تھا کہ لوگ اس بات کو سمجھتے مگر برخلاف اس کے اس زمانہ میں ہمارے لوگ بالکل ہی نہ سمجھ سکے کہ قلب کی ساری کیفیتیں صرف خدا
181 ہی جانتا ہے.قلبی حالت ہمیشہ انسان کی نظروں سے پوشیدہ رہتی ہے.اور انسان مطلقاً اس بات کو نہیں جان سکتا کہ کسی کے دل میں کس حد تک ایمان ہے.انسان جب بھی ایسا اندازہ لگائے گا.وہ کسی کے اعمال سے ہی لگائے گا.جو نظروں کے سامنے ہوتے ہیں.وہ اس کے عمدہ اخلاق کو دیکھ کر کے گا کہ یہ ایماندار آدمی ہے.وہ اس کے معاملات کی صفائی دیکھ کر کہے گا کہ اس کا قلبی ایمان اچھا ہے.لیکن اگر اس کے اخلاق عمدہ نہیں اور اس کے معاملات میں صفائی نہیں تو کوئی شخص نہیں جو (باوجود اس کے ایمان کے جو کہ ایک قلبی کیفیت ہے) اس کے متعلق عمدہ رائے ظاہر کر سکے.پس اخلاق اور معاملات کی صفائی ہی ایک شخص کے قلب کا پتہ بتاتے ہیں کہ وہ کیسا ہے.اس لئے یہ نہایت ہی ضروری ہے کہ اخلاق کو سنوارا جائے.اور معاملات میں صفائی پیدا کی جائے.اس بات کو سوچنا چاہئے کہ اگر کوئی شخص جو اس بات کا دعوی کرتا ہے کہ میرے اندر ایمان ہے اور اس کے اخلاق اور معاملات اچھے ہیں لیکن وہ اپنے ایمان کو واقعات کے ساتھ ثابت کرنا چاہے اور لاکھ کہے کہ مجھ میں ایمان ہے اور اس پر وہ ایک نہیں دو نہیں بیسیوں قسمیں بھی کھا جائے.تو کیا کوئی شخص محض اس کی قسموں کی بناء پر اس کے کہنے کے مطابق مان لے گا؟ وہ ہر گز نہیں مانے گا کیونکہ وہ اس کی ان باتوں کو دیکھ رہا ہوتا ہے جن سے ایمان کی شناخت ہو سکتی ہے اور جن سے ایک آدمی اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس کے اندر ایمان ہے اور کس حد تک ہے.جب لوگ ایک شخص پر اعتبار نہیں کرتے تو وہ قسموں پر قسمیں کھانا شروع کر دیتا ہے کہ خدا کی قسم میں ایسا دیانتدار ہوں.میں ایسا ایماندار ہوں.مگر اس کی ایسی قسموں پر بھی لوگ اعتبار نہیں کرتے کیونکہ وہ اس کی روزانہ زندگی میں یہ بات دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ اس کے اخلاق اچھے نہیں اور اس کے معاملات میں صفائی نہیں.بے شک خدا کی قسم بہت بڑی چیز ہے.بے شک بعض جھوٹی قسموں پر عذاب بھی آتے ہیں لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ صرف قسموں سے کسی کے ایمان پر یقین بھی پیدا نہیں ہو جاتا مگر ہمارے ملک میں اس کا احساس ہی نہیں رہا کہ بجائے قسمیں کھا کر یقین کرانے کے اپنے اخلاق سے اپنے اطوار سے اپنے معاملات میں صفائی اور عمدگی پیدا کرنے سے اپنے ایمان کا یقین کرانا چاہئے.لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ ذرا ذراسی باتوں پر قسمیں کھانا شروع کر دیتے ہیں.جس سے ان کی غرض یقین دلانا ہوتا ہے.لیکن ایسی قسمیں کھا کر وہ دو جرم کرتے ہیں.ایسے لوگوں کا صرف یہی جرم نہیں کہ انہوں نے دیانت شرافت اور اخلاص سے کام نہیں لیا.بلکہ انہوں نے دین کو بھی
182 نہیں سمجھا.کیونکہ اگر وہ دین سمجھتے تو خلاف واقع امر پر قسم نہ کھاتے بلکہ بجائے اس کے اپنے اخلاق اور معاملات کی عمدگی سے لوگوں کا اعتبار حاصل کرتے.اب اگر ان قسموں کی طرف دیکھا جائے تو کوئی شخص بھی کسی امر میں فیصلہ نہیں کر سکتا.عدالتیں بھی فیصلہ نہیں کر سکتیں.قسموں کا تو اب یہ حال ہے کہ ایک مجسٹریٹ بھی اگر کسی کو وقت اور موقعہ پر پکڑ لے.تو وہ قسمیں کھانی شروع کر دیتا ہے کہ جی میں تو ایسا نہیں ہوں یہ میرے ساتھ عداوت کی گئی ہے لوگوں کو میرے ساتھ دشمنی ہے.تو اگر اس قسم کی قسموں پر بھی اعتبار کیا جائے تو کوئی مجرم پکڑا ہی نہ جائے.یہ الگ بات ہے کہ اس کے دل میں یہ بات تھی یا نہ لیکن انسان کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ اس سے آگاہ ہو سکے.کیونکہ غیب کا علم اسے نہیں اور اگر وہ یہ کہہ کر اس شخص کو چھوڑ دے کہ جس کو غیب کا علم ہے وہ آپ ہی جان لے گا تو اس قسم کا فیصلہ دلالت کرتا ہے کہ اس بات کا احساس ہی نہیں رہا کہ کونسی دلیلیں انسان کے آگے کارگر ہو سکتی ہیں اور کونسی خدا کے سامنے.بہر حال قسم کے ساتھ اگر کوئی شخص کچھ بیان کرے تو وہ جب تک اس کے ساتھ ا اخلاق معاملات اور دیگر حالات اور واقعات کو پیش نہ کر سکے یا لوگ ان سے واقف نہ ہوں تو وہ قسم کچھ معنی نہیں رکھتی اور پھر ہر قسم دلیل بھی نہیں ہوا کرتی صرف وہ قسم دلیل ہوتی ہے جو ایسے حالات میں لی جاتی ہے جب دلائل مفقود ہو جاتے ہیں.پس قسم اس وقت دلیل بنتی ہے جب کہ ایک تو دلائل نہ ہوں اور دوسری طرف سے قرآئن الزام کے موجود ہوں یا پھر مباہلہ کے وقت دلیل بنتی ہے پھر خدا کی طرف سے آنے والے نبی بھی جو قسم کھاتے ہیں وہ بھی دلیل ہو جاتی ہے.کیونکہ ان سے ان کی غرض اعلان ہوتی ہے.ان حالات میں جو قسمیں کھائی جائیں صرف وہی دلیل ہوتی ہیں اور اگر تمام قسمیں ہی دلیل ہونے والی ہوں تو لوگ تو ہر روز سینکڑوں قسمیں کھاتے ہیں اور قسمیں کھانے کی ان کو کچھ ایسی عادت پڑ گئی ہے کہ بات تو ایک ہوتی ہے مگر وہ اس کے ساتھ بیسیوں قسمیں کھا جاتے ہیں ایسی قسمیں سراسر فضول اور لغو ہوتی ہیں.اور جو شے لغو ہو وہ کس طرح دلیل بن سکتی ہے.عرب میں تو بغیر قسم کے بات ہی نہیں کرتے.اگر قسموں پر ہی عذاب آنے ہوں تو میرا خیال ہے کہ عرب میں کوئی انسان باقی نہ رہے.مگر چونکہ ایسی قسمیں لغو ہوتی ہیں اس لئے ان پر کوئی گرفت نہیں ہوتی.میں نے عرب میں دیکھا ہے کہ وہ بات بات پر قسمیں کھاتے ہیں.ان کے منہ پر والله - بالله ثم باللہ کچھ ایسے طور پر رواں ہیں کہ وہ بات کرتے ہی نہیں جب تک کہ وہ چار پانچ بار پہلے
183 اور پانچ دس بار بعد میں قسمیں نہیں کھا لیتے اور یہ ایسی لغو قسمیں ہیں کہ ان کی بدولت وہ پکڑے نہیں جاتے.ورنہ اگر یہی بات ہوتی کہ ہر قسم حجت ہوتی تو آج عرب کا کوئی انسان نظر نہ آتا.انسان کیا وہاں کوئی پرندہ اور حیوان بھی دکھائی نہ دیتا.عرب کی اس عادت کو دیکھ کر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہاں کوئی آدمی ایسا نہ ہو گا جو دو تین لاکھ قسمیں مرنے سے پہلے نہ کھا چکا ہو مگر میں دیکھتا ہوں کہ یہ سب خالی جاتی ہیں اور جب قسموں سے کوئی فیصلہ نہیں ہو تا فرض کر لو کسی چیز کا بھاؤ چکایا جا رہا ہے تو جھٹ ایک شخص بول اٹھتا ہے کہ اگر اس کی یہی قیمت ہے تو پڑھ تو درود.وہ لوگ درود پر زیادہ اعتبار کرتے ہیں.اور درود پڑھنے پر سب فیصلہ ہو جاتا ہے.یہی حال کشمیر میں ہے.پچھلی دفعہ جب میں کشمیر میں گیا تو وہاں کشتی کے مکان میں ہم رہے اس مکان میں ایک شخص دو بطخیں لایا.بچوں نے کہا نوں کے کباب کھانے ہیں یہ لے دو.میں نے اپنے آدمی سے کہا کہ یہ اس سے خرید لو.جب ہم نے خریدنی چاہیں تو اس نے کہا میں آپ کے ساتھ رعایت کرتا ہوں.چنانچہ اس نے قسم کھا کر کہا کہ میں انہیں پانچ روپے پر لایا ہوں میں نے ان کو زیادہ قیمت پر بیچنا تھا مگر آپ اس کے چھ روپے دیدیں.ہم نے کہا یہ تو پانچ کی بھی نہیں پھر اس نے چار کئے اور قسم کھائی کہ میں چار پر لایا تھا پھر بھی میرے آدمی نے کہا کہ نہیں ابھی یہ بہت زیادہ ہے پھر تین پر بات آئی اس پر بھی اس نے قسم کھائی کہ میں انہیں تین روپے پر لایا ہوں.غرضیکہ وہ ہر دم قسم پر قسم کھائے چلا جاتا اور جو قیمت بتاتا.اس کے متعلق قسم کھا کر یہی کہتا کہ میں اس پر لایا ہوں پھر اڑھائی روپے پر ہمیں وہ بطخیں دے گیا.اور جب وہ جانے لگا تو میں نے اسے کہا کہ دیکھو کتنی قیمتیں تم نے بتائیں اور ان سب پر تم نے قسمیں کھائیں اب اڑھائی روپیہ پر تم دے چلے ہو.مجھے اب بھی شک ہے کہ یہ اتنے کی نہیں مگر تم ہو کہ قسمیں کھاتے ہی چلے گئے.کہنے لگا اسی طرح گزارہ چلتا ہے.پس قسموں کا یہ حال ہے کہ ان میں سے اکثر حصہ ایسا ہوتا ہے کہ اس پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا.اور پھر اکثر ایسا کہ جو ہر گز دلیل نہیں بن سکتک تو جب یہ حال ہے تو انسان کیونکر اس کی بناء پر اندازہ لگا سکتا ہے.یہ تو اس کی ایمانی کیفیت کا حال ہے جو اس کے اندر ہے اب ان قسموں پر اگر کوئی دیکھے تو وہ کسی طرح ایک شخص کے ایمان کا اندازہ کر سکتا ہے.ایمان کے اندازہ کے لئے بھی اور دیگر امور کا فیصلہ کرنے کے لئے بھی اخلاق اور معاملات ہیں ان کی بناء پر ایک شخص کسی کے متعلق اچھی یا بری رائے قائم کر سکتا ہے اور کوئی فیصلہ کر سکتا ہے.پس انسان کے سامنے تو اخلاق وغیرہ پر ہی فیصلہ ہوتا ہے.مثلاً اگر کوئی شخص کسی کو کہے تو مومن نہیں تو وہ اس بات کو ثابت نہیں کر سکتا جب تک
184 وہ ثبوت میں اپنے اخلاق اور معاملات کی صفائی اور گذشتہ واقعات کی عمدگی کو پیش نہ کر سکے.ایسا ہی اگر کسی کے سپرد کوئی کام ہوا ہے اور وہ کام نہ کرے اور بیٹھ جائے اور اگر اس نے پہلے بھی موقعہ ملنے پر ایسا کیا تو وہ ایک نہیں سو قسمیں کھائے کہ یہ ہو گیا تھا یہ درپیش آگیا تھا یہ رکاوٹ پڑگئی تھی تو کوئی شخص اس کے متعلق یہ نہیں کہے گا کہ اس کی قسمیں درست ہیں اور وہ فی الواقع ایسی مجبوریوں کے باعث ہی اس کام کے کرنے سے رکا رہا.ایسا شخص اگر اگلے سال تک بھی برابر قسمیں کھاتا چلا جائے تو بھی کسی کو یقین نہ آئے گا.لیکن اگر اس میں یہ بات نہیں بلکہ برخلاف اس کے اس میں کام کرنے کی عادت ہے اور پھر ایسا واقعہ پیش آیا ہے تو پھر قسم تو در کنار اس کے زبان کے کہدینے سے ہی لوگ اس بات پر یقین کر لیں گے.تو اخلاق ایک ایسا شعبہ اعمال کا ہے کہ لوگوں کے ایمانوں کے متعلق اور لوگوں کے خدا کے ساتھ جو تعلق ہیں.ان کے متعلق اگر کوئی قسم کھا کر کچھ کہے تو اس پر کوئی شبہ نہیں کر سکتا.اور چونکہ یہ مخفی ہوتے ہیں اور یہ مخفی شے اخلاق اور معاملات وغیرہ سے ظاہر ہوتی ہے.حضرت خلیفۃ المسیح اول نے فرمایا کرتے تھے کہ میں نے ایک شخص کے متعلق سنا کہ وہ ہر بات کے ساتھ گالی دیتے ہیں.میں نے انہیں کہا کہ آپ گالی نہ دیا کریں.اسکے جواب میں اس نے ایک نہایت گندی گالی نکال کر کہا کہ کون کہتا ہے کہ میں گالی دیتا ہوں اب اس کی عادت ہو چکی تھی وہ انکار کر رہا ہے مگر انکار کے ساتھ بھی گالی دے دی اس پر حضرت خلفیہ امسیح اول فرماتے ہیں میں نے اسے کہا جس نے مجھے کہا ہے اس نے غلط کہا ہے کہ آپ گالی دیتے ہیں.اب یہ اس کی عادت ثانی ہو چکی تھی.اب بغیر گالی دیئے بات کرنے کی اس سے توقع ہی نہیں.قوت ضبط اس میں نہ رہی تھی وہ اس بات کو محسوس ہی نہیں کر سکتا تھا کہ میں گالی نکال رہا ہوں.یہاں تک کہ ارادہ بھی اس کا مر چکا تھا.یہ تو صوفیاء کا رنگ تھا جو حضرت خلیفہ اول نے لیا مگر اس کے سوا دوسرے لوگ ہیں ان کا رنگ کچھ اور ہی ہے غور کرنا چاہیئے اب اگر کوئی دوسرا آدمی اس کو دیکھے تو کیا کہے یہی کہ گالی بھی دیتا ہے اور جھوٹ بھی بولتا ہے اور یہ گالی دینے کے سوا جھوٹا بھی ہے.غرض اخلاق کا معاملہ بڑا نازک ہے.کوئی شخص اخلاق کو چھپا نہیں سکتا.یہی معاملات کا حال ہے.اگر اخلاق اچھے ہوں اگر معاملات درست ہوں تو غلطی بھی ہو تو سمجھ لیتے ہیں کہ اتفاقی طور پر ہو گئی اور اگر یہ درست نہیں اور وہ عذر پر عذر کرے تو ہر گز یہ معنی نہیں ہوں گے کہ یہ اتفاقی طور پر ہوا ہے.پس جو جانتا ہے کہ میں روپیہ لے کر دے نہیں سکتا اور پھر تاریخ بھی مقرر کر دیتا ہے کہ
185 فلاں تاریخ کو ادا کر دوں گا اور بعد میں وہ اگر یہ کہے کہ مجھے خدا پر امید تھی کہ میں دید و نگا تو ایسا آدمی جھوٹ بولتا ہے.وہ ایک کروڑ روپیہ کسی سے اس امید پر کیوں نہیں لے لیتا اور صرف دس روپیہ کی امید کیوں رکھتا ہے.آخر اس کو کہنا پڑے گا کہ اس کی علامات نہیں تھیں کہ میں ایک کروڑ روپیہ خدا تعالیٰ سے لے سکتا ہوں.پس ہر وہ شخص جو قرض لیتا ہے اور دینے کا دن مقرر کرتا ہے اور دیتا نہیں اور کہتا ہے کہ خدا پر مجھے امید تھی وہ ایک گناہ کا ارتکاب کرتا ہے.یہ فریب ہے جو اس رنگ میں وہ کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالی پر امید دو طرح ہوتی ہے.یا تو علامتیں ظاہر ہو جائیں اور یا خدا کی طرف سے وعدہ ہو جائے.اگر وعدہ ہو جائے تو جو چاہے کرے کیونکہ خدا تعالٰی وعدہ کر کے پھر اس کے خلاف نہیں کرتا.اور پھر بعض وقت وہ وعدہ اس منشاء کا ہوتا ہے کہ پہلے ایک شخص قرضہ لے اور پھر خدا اسے دے.رسول کریم کے ساتھ بھی خدا کے وعدے تھے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ بھی خدا کے وعدے ہوئے.پس ایسے وعدوں کے مطابق بسا اوقات یہ لوگ قرض لیتے ہیں.بعض دفعہ قرض سے ان کے اخلاص کا امتحان لینا مد نظر ہوتا ہے.بعض دفعہ ان کی بشریت کا اظہار مقصود ہوتا ہے.معاملات کی درستی بھی مد نظر ہوتی ہے کہ لوگ دیکھیں کہ ایسے شخص قرض لے کر کس طرح ادا کرتے ہیں اور بھی کئی حکمتیں اس میں ہوتی ہیں.مگر جس کے ساتھ ایسا وعدہ نہیں اس کا کوئی حق نہیں کہ وہ قرض لے اور اگر وہ ایسا کرتا ہے تو بد دیانت ہے لیکن جس کو امید ہو مثلاً اگر کوئی پچاس روپے کا ملازم ہو اور وہ کسی سے تنخواہ کے وعدہ پر کچھ روپے قرض لے لے اور اس کے دس پندہ دن بعد اگر اس کا مالک اس کو نکال دے تو ایسا شخص اگر وقت پر ادا نہ کر سکے تو وہ بد دیانت نہیں اور نہ ہی اس پر جھوٹ کا گمان ہو سکتا ہے.کیونکہ اسے صحیح طور پر امید تھی.مگر وہ پوری نہ ہوئی.یا اگر ایک شخص کا کسی اور شخص نے دینا تھا اور وہ شخص اس بناء پر کسی اور سے کچھ لے لیتا ہے مگر جو وعدہ کرتا ہے اس پر وہ ادا نہیں کر سکا کیونکہ جس سے اسے لینا تھا اس نے اپنے وعدہ پر نہ دیا تو یہ شخص بھی بد دیانت نہیں کہلا سکتا.یا باوجود روپے کے ملنے کے صریح قرائن ہونے کے اس کو کوئی اور مشکل آگئی.جس کے سبب وہ اپنا قرض ادا نہ کر سکا تو یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ نادہندہ ہے اس کو تو خود مصیبت آگئی.لیکن ایک اور شخص بھی ہے جس نے کسی دوسرے سے فی الواقع کچھ لیتا ہے مگر اس کا مقروض سخت نادہندہ کے قرضہ کو مد نظر رکھ کر کچھ لیتا ہے.تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ وہ لیکر دینا نہیں چاہتا.کیونکہ اس کا یہی مطلب ہے.کہ نہ میرا قرض ملے گا اور نہ میں دوں گا.غرض اس قسم کی بہت سے صورتیں ہیں.جن میں قرضہ لینا درست نہیں مگر پھر بھی ایک شخص لیتا ہے اور
186 ایسی صورتوں میں اس کا قرضہ لینا بد دیانتی ہے.اب ایک اور شخص ہے جس کے پاس کچھ نہیں وہ ایک دوسرے شخص کے پاس جاتا ہے اور صاف صاف کہدیتا ہے کہ میرے پاس کچھ نہیں مجھے کوئی امید بھی نہیں.باقی اگر میرے پاس آگیا تو میں دیدوں گا ایسا شخص دیانتدار ہے.کیونکہ وہ صاف صاف سب کچھ کہدیتا ہے.اور یہ قرض دینے والے کا کام ہے کہ وہ اسے دے یا نہ دے.غرض معالمات کی صفائی ضروری چیز ہے.جو نہیں دے سکتا وہ وقت مقرر نہ کرے.صاف صاف کہدے خبر نہیں میں کب دے سکوں.اس صورت میں یہ شخص قرض لے سکتا ہے کہ بالکل سچ بتا دے.یا یہ کہ اگر اس کو فی الواقع کسی آمد کی آمید تھی اور وہ وقت پر نہ ہو سکی تو پھر اس کا فرض ہے کہ وہ وہ آپ جائے اور صاف صاف کہدے کہ میں اس وجہ سے وقت پر ادا نہیں کر سکا.کوئی دوسرا وقت مقرر کرو اس پر ادا کر دوں گا.پس معاملات کی صفائی ضروری چیز ہے.اس کے بغیر دنیا میں کسی کو یقین نہیں آسکتا.یہاں تک کہ کسی کے ایمان پر بھی یقین نہیں آتا.پس یہ انسان کے اخلاق ہی ہیں کہ وہ اس کے دل کی کیفیات کو ظاہر کرتے ہیں.محبت ، ہمدردی ، ظالموں کا مقابلہ ، مظلوموں کی مدد ، قومی فرائض کی ادائیگی ، ایثار، قربانی ، جھوٹ سے نفرت ، سیچ سے پیار ، دیانت ، معاملات میں درستی ، علم کے حاصل کرنے کی محبت اور نمونے کے سب اخلاق ہیں.اور انہی کو لوگ دیکھتے ہیں.پس ہر ایک شخص کا کام ہے کہ ان نمونوں کو نہایت عمدگی کے ساتھ ظاہر کرے.میں اس موقعہ پر ان لوگوں کو بھی متوجہ کرتا ہوں جو ایڈیٹر ہیں یا کسی نہ کسی طرح ان کا اخباروں کے ساتھ تعلق ہے یا مضمون نگار ہیں.یا مصنف کہ ان کی زبانیں شائستہ ہونی چاہیں.ان کے قلموں سے وہ باتیں نکلیں جو لوگوں کی ہدایت کا باعث ہوں.اور ان کی قلموں سے وہ باتیں ہرگز نہ نکلیں جو لوگوں کی ٹھوکر کا سبب ہوں وہ اخباروں والے کہ ان کی باتیں سینکڑوں ہزاروں کے پاس پڑھی جاتی ہیں.وہ اگر ایڈیٹر ہیں تو اور اگر نامہ نگار ہیں تو انہیں اپنی تحریروں کو ایسا بنانا چاہئے کہ ان پر کسی کو گرفت کرنے کا موقعہ نہ ملے.میں نے کئی دفعہ بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں اور تقریروں سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے.اس قسم کی تحریریں لکھنا مامورین کا کام ہوتا ہے.یا جو خدا کی طرف سے الہام پانے والے ہیں.اور لوگوں کی ہدایت کے لئے کھڑے کئے گئے ہیں ان کی نقل کرنا بے وقوفی ہے.ایک ضرب المثل ہے " ایاز قدر خود بشناس" ایاز آخر ایاز تھا اور محمود محمود.
187 غلام اور آقا میں بڑا فرق ہے.اب غلام اگر کہے کہ میں آگے بڑھوں یا کم از کم اس طرح کروں جس طرح آقا کرتا ہے.تو یہ اس کی گستاخی ہے.مامورین کو جو درجے حاصل ہیں وہ ہر ایک کو نہیں.ان کی ہتک ہے کہ ایک شخص اس رنگ میں ان کی نقل اتارنا شروع کر دے.ان کی نقل کرنے کی اور بہت سے باتیں ہیں.ان کے اخلاق ہیں ان میں ان کی نقل کرنی چاہئے.جو فیصلے وہ خدا کے الہام کے ماتحت کرتے ہیں یا جو فیصلے وہ اپنی میجسٹریل پاور کے ساتھ کرتے ہیں.اور اس کے لئے جو الفاظ استعمال کرتے ہیں وہ ان کے لئے ہی مخصوص ہوتے ہیں.دوسروں کا کام نہیں کہ ان کو اختیار کریں.ہر ایک آدمی مخلص نہیں.وہ جب اس قسم کی باتوں کو سنتا ہے.تو ٹھٹھا کرتا ہے.دیکھو ایک مجسٹریٹ اگر کسی کو چور کہتا ہے.تو اسے کوئی کچھ نہیں کہتا.لیکن کوئی دوسرا آدمی ایسا نہیں کہہ سکتا.اور اگر تو لوگ اسے دیوانہ سمجھتے ہیں کہ یہ کون ہے جو اس کو چور کہتا ہے اس میں شک نہیں کہ اس بات سے ہر شخص یہ سمجھے گا کہ چور کی چوری کو ظاہر کرتا ہے.مگر اس پر غیبت کا الزام بھی تو دھرا جائے گا.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ غیبت بہت ہی بری شے ہے.صحابہ نے پوچھا.اگر کسی کا عیب دیکھ کر کہیں تو یہ بھی کیا غیبت ہے؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اگر تم عیب دیکھے بغیر کوئی بات کہتے تو تم جھوٹے ہوتے.غیبت یہی ہے کہ سچی بات کو بیان کیا جائے اسے پس وہ شخص جو فی الواقعہ چور کو چوری کرتے دیکھتا ہے.ایک مجسٹریٹ کی طرح ہر گز اس کو چور نہیں کہہ سکتا.اور اگر وہ کہے تو ایک حد تک نقصان پہنچتا ہے.اسی طرح ایک مامور اور ایک غیر مامور کا معاملہ ہے.غیر مامور مطلقاً مامور کی طرح کسی کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا اور نہ ہی یہ اس کا منصب ہے کہ وہ اسے کہے.پس ہماری جماعت کے دوستوں کا یہ کام نہیں کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس بات میں نقل اتاریں نقل کرنے کے لئے اور بہت سی باتیں ہیں.انہیں نقل کرنا چاہئے.مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دوست اس طرف توجہ نہیں کرتے.یہاں تک کہ ہمارے اخبار نویسوں نے بھی اس طرف توجہ نہیں کی.اور میں دیکھتا ہوں کہ ابھی ان کی تحریروں میں خشونت استعمال کی جاتی ہے.اور سخت لفظ درج ہوتے ہیں.اس خطبہ کا محرک آج کا ایک خط ہوا ہے جو باہر سے آیا ہے.اس میں دو شخصوں کا ذکر ہے کہ وہ مذہب کی تحقیق میں مصروف ہیں.ان میں سے ایک شخص تعلیم یافتہ ہے.ایم اے ہے.ایک کالج میں پروفیسر ہے.وہ بھی مذہب کی تحقیقات میں مصروف ہے.ہمارے آدمیوں نے جب سنا تو اس کے پاس گئے اور کہا کہ آپ آج کل مذہب کی تحقیقات میں مصروف ہیں آپ احمدیت کی طرف بھی
188 توجہ کریں.اس نے کہا میں یہ تو تسلیم کرتا ہوں کہ تعلیم کے لحاظ سے احمدی اچھے ہیں.لیکن اخلاق کے لحاظ سے وہ ایسے اچھے نہیں کہ میں ان کی طرف توجہ کر سکوں.معاملات میں بھی بعض احمدی درست نہیں.پھر اگر ان کی تحریریں دیکھی جائیں.تو وہ سخت الفاظ سے بھری پڑی ہیں.اس نے کہا مجھے ایک احمدی ملا جو گالیاں دیتا تھا.یہ شخص سچا ہو یا نہ ہو لیکن اس سے ہمیں سبق ملتا ہے.اور ہمیں چاہئے کہ ہم اس سے فائدہ اٹھائیں.اور آئندہ اس قسم کی قابل شکایت باتوں سے رک جائیں.میں نے یورپ کے لوگوں کو دیکھا ہے.وہ جذبات کو قابو میں رکھنے کے عادی ہیں.خدا کو خوش کرنے کے لئے نہیں.بلکہ اس وجہ سے کہ اخلاق اور اخلاص سے مال ملتا ہے.اور جہاں ان کو یہ امید نہ ہو وہاں وہ بھی بد اخلاقی کرتے ہیں.تو ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے جذبات پر قابو رکھیں.اور لوگوں کو اپنے عمدہ اخلاق سے اپنی طرف کھینچ لیں.پس ایسی تحریریں جن میں خشونت ہوتی ہے لوگوں کے لئے ٹھو کر کا باعث ہو جاتی ہے.اس لئے ہمارے مضمون نویسوں اور ایڈیٹروں کو اس سے احتراز کرنا چاہئے.پس میں پھر توجہ دلاتا ہوں کہ یہ کوئی اخلاق نہیں کہ جن کی طرف انہیں بلایا جاتا ہے.گالی سے ہرگز کامیابی نہیں ہوتی.نہ ہی سختی سے فتح حاصل ہوتی ہے.میری تحریروں کو دیکھ لو میں فخر سے نہیں کہتا.مباہات اور تکبر کے طور پر نہیں کہتا کہ میں نے کبھی کوئی سخت لفظ استعمال نہیں کیا.لیکن اگر کبھی کوئی ایسا لفظ آبھی جائے.تو دشمن سے دشمن بھی جو ہے وہ بھی میری طرز تحریر کو دیکھ کر کے گا کہ یہ غلطی سے ہو گیا ورنہ اس شخص کی عادت نہیں کہ سخت الفاظ استعمال کرے.اس نرمی سے میں نے کبھی کسی سے شکست نہیں کھائی.میرے بالمقابل بڑے بڑے سخت الفاظ استعمال کئے گئے.مگر میں نے کبھی کوئی سخت لفظ استعمال نہیں کیا.بلکہ اپنے مطالب کو نہایت نرم الفاظ میں پیش کیا.پس میں چاہتا ہوں کہ ہمارے دوست بھی اسی رنگ کو اختیار کریں.اور اپنے جذبات پر قابو رکھیں.یہ غلط خیال ہے کہ نرم الفاظ استعمال کرنے سے ہار جائیں گے.بے شک بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں.جو میری تحریروں کے متعلق کہتے ہیں کہ گالیاں دیتا ہے مگر کہنے کو تو لوگ قرآن کے متعلق بھی یہی کہتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق بھی یہی کہتے ہیں.مگر کیا ان کے کہنے سے یہ بات سچ ہو جائے گی؟ بڑا دشمن جو زیادہ اعتراض کرتا ہے.وہ پیغامی ہے.ان سے اگر چہ مجھے عام طور پر رو در رو باتیں کرنے کا اتفاق نہیں ہوا لیکن پھر بھی جن لوگوں سے ایسا موقعہ ملا ہے.اور جنہوں نے اس قسم کے اعتراضات افراد سلسلہ پر کئے.میں نے ان سے پوچھا کہ اچھا مجھ پر کوئی اعتراض کرو.تو وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے کہ نہیں آپ کے متعلق ہم کچھ نہیں کہتے.ہم دوسروں کے متعلق کہتے ہیں
189 کہ وہ طریق اختیار کرتے ہیں تو دوسروں کے متعلق اعتراض اس اعتراض کے بالمقابل کوئی معنی نہیں رکھتا جو میری ذات پر کیا جا سکتا ہے.کیونکہ میں جماعت کا زمہ دار ہوں اور ایسے لوگ اپنے اپنے نفوس کے.مگر باوجود اس کے میں دوستوں سے کہتا ہوں کہ انہیں اس بات پر یقین کر لینا چاہئے کہ سخت کلامی بد اخلاقی ہوتی ہے اور ٹھوکر کا باعث بنتی ہے.اور نرمی عمدہ اخلاق سے ہے اور لوگوں کی توجہ کا سبب ہوتی ہے.اس لئے میں چاہتا ہوں کہ ہمارے احباب اپنی ہر بات میں نرمی اور سلوک پیدا کریں.اسلام کا حکم نرمی ہے سختی ٹیکہ کی مانند ہے یا اپریشن کی طرح.وہ اصل علاج نہیں.اصل علاج نرمی ہے پس اسے اختیار کرو.اور ایسے بن جاؤ کہ یہ خود بخود بطور نمونہ کے تمہیں پیش کرے.گلیوں میں چلتے ہوئے یہ نمونہ ظاہر ہو.کسی کو شکوہ نہ ہو کہ گالی دی.کسی کو گلہ نہ ہو کہ سختی کی.اور اگر یہ نہیں تو دلوں میں سوچو کہ پھر دنیا میں کیا پیش کرنا چاہتے ہو.پس میں پھر کہتا ہوں کہ نمونہ پیدا کرد دشمن تو کہتا ہے کہ تم میں نرمی نہیں.لیکن میں اپنے طور پر بھی کہتا ہوں کہ ایک حد تک یہ ہم میں نہیں.اس لئے چاہئے کہ سب دوست اسلام کی تعلیم کے مطابق نرمی پیدا کریں اور اسلام کی تعلیم سے تو از خود نرمی پیدا ہوتی ہے.اور اگر ہم یہ نہیں کرتے تو کون بیوقوف ہے جو ان باتوں کو مان لے.جو ہم کہتے ہیں.وہ تو ہم کو پاگل کے گل.یا مسخرہ سمجھے گا.اس لئے میں پھر کہتا ہوں کہ اپنے کلام میں نرمی پیدا کرو.اور اپنے اخلاق اور معاملات میں حسن و خوبی پیدا کرو جب تک یہ نہیں تب تک اسلام کی ترقی نہیں.اور اگر ہو بھی تو میرے نزدیک وہ ترقی نہیں.ہم جو کچھ لوگوں کو کہتے ہیں وہ اگر لفظی طور پر مان بھی لیں تو بھی کیا ہے.صرف ناموں کے بدلنے سے کیا ہوتا ہے.عیسائی اگر نہ کہلایا مسلمان کہلا لیا.اس میں کیا دہرا ہے.جب تک روحانیت کے کوئی مدارج نہ ہوں.اور جب تک یہ نہ ہوں کوئی ترقی بھی نہیں ہوتی.بلکہ یہ بات زیادہ نقصان کا باعث ہے.کیونکہ جب تک انہوں نے نام نہیں پایا.تب تک تو ان کو تڑپ اور جوش تھا کہ ہم یہ پائیں اور جب نام پالیں گے تو تمام کوششیں چھوٹہ دیں گے.اور بجائے اس کے کہ وہ دن ہمارے لئے فتح کا دن ہو ہمارے لئے شکست کا دن ہو گا.پس میں پھر کہتا ہوں کہ روح عمل پیدا کرد روحانیت کے مدارج پر چلو اور اپنے آپ کو نمونہ بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرو.میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمیں اخلاق کے درست کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اور معاملات میں حسن و خوبی کی.ہم میں نرمی پیدا ہو.اور سختی بالکل نہ ہو.ہم دنیا کے لئے نمونہ بن کر
190 ہدایت کا باعث ہوں.نہ کہ ٹھوکر کا موجب (آمین) ا مشکوة کتاب الادب باب حفظ اللسان (الفضل ۲۸ مئی ۱۹۲۶ء)
191 21 وبا کے دنوں میں پوری پوری احتیاط کریں (فرموده ۴ جون ۱۹۲۶ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : میرا منشا تو آج ایک اور موضوع پر خطبہ کہنے کا تھا لیکن جمعہ کی نماز پر آنے سے پہلے چند ایسے محرکات پیدا ہو گئے ہیں کہ مجھے وہ موضوع بدلنا پڑا.ہمارے دوستوں کو معلوم ہے کہ قادیان میں بعض کیس طاعون کے ہوئے ہیں.اگرچہ یہ ایک خطرناک بات ہے.لیکن اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ متواتر بعض محلوں اور علاقوں میں سے چوہے نکل رہے ہیں.بلکہ بیسیوں گھر ایسے ہیں جن سے پلیگ کے مرے ہوئے چوہے نکلے.در حقیقت طاعون کا کیس اتنا خطرناک نہیں جتنا چوہا.کیونکہ سب سے پہلے یہ بیماری چوہے کو ہوتی ہے اور چوہے سے پھیل کر انسان کو لگتی ہے.چوہے کے جسم میں اس بیماری سے ایک زہر پیدا ہو جاتی ہے جو بعد ازاں پھیل جاتی ہے.چوہے پر بیٹھنے والی لکھی جو ہوتی ہے وہ گویا چشمہ ہوتی ہے طاعون کا.کیونکہ زہر کے پھیلانے کا وہی بڑا سبب ہوتی ہے.جب چوہا مر جاتا ہے تو وہ اس سے اڑ کر انسان پر آ بیٹھتی ہے.اور اس طرح وہ طاعون کے پھیلانے کا باعث ہو جاتی ہے.پس طاعون کے بیماروں کا وجود اتنا خطرناک نہیں جتنا کہ چوہوں کا.مجھے نہیں یاد کہ کبھی پہلے بھی اس رنگ میں یہاں سے چوہے نکلے ہوں.ممکن ہے کبھی نکلے ہوں اور مجھے بچپن کی وجہ سے یاد نہ ہو.مگر طاعون ۱۹۰۳ء ۱۹۰۴ء یا ۱۹۰۵ء تک یہاں ہوئی.اس کے بعد اگر کبھی پڑی تو خدا کے فضل کے ماتحت ایسی سخت نہیں جیسی اور علاقوں میں.ممکن ہے یہ بات مجھے یاد نہ رہی ہو.مگر جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے چو ہے اس کثرت کے ساتھ یہاں سے کبھی نہیں نکلے جس کثرت کے ساتھ اب نکل رہے ہیں.یہ کثرت بتاتی ہے کہ زہر
192 خطرناک صورت میں ہے.پس دوستوں کو چاہئے کہ وہ ہوشیار ہو جائیں اور اس قبل از وقت خبر سے فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کریں.خدا تعالیٰ نے تو پہلے اطلاع دی اب یہ انسان کا کام ہے کہ وہ اس سے فائدہ اٹھائے یا اس سے بے پرواہی کر کے نقصان.خدا تعالیٰ ہمیشہ آنے والی مصیبت اور آنے والے عذاب سے پہلے لوگوں کو ہوشیار کر دیتا ہے.قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے.کبھی ہم عذاب نہیں بھیجتے جب تک رسول مقرر نہ کر لیں.تا لوگ یہ نہ کہیں کہ ہم کو آگاہ نہیں کیا گیا تھا.یہ قانون صرف روحانیات میں ہی نہیں بلکہ جسمانیات میں بھی چلتا ہے.چنانچہ یہ بات ہر روز مشاہدہ میں آتی ہے کہ بعض آنے والے واقعات کا کچھ نہ کچھ انعکاس پہلے ہونا شروع ہو جاتا ہے.اور یہ سب ہی جگہ ہے اور سب ہی اس کو مانتے ہیں.حتی کہ انگریزی زبان میں اس کے متعلق ایک ضرب المثل بھی ہے.کہتے ہیں Coming events casts their shadow beforehand کہ آنے والے واقعات پہلے ہی اپنی جھلک دکھا دیتے ہیں.گویا وہ ایک اطلاع ہوتی ہے کہ ہوشیار ہو جاؤ.اس کے بعد یہ واقعہ ہونے والا ہے.یہی حال پلیگ کا ہے.پلیگ جہاں پھوٹنے والی ہوتی ہے وہاں سے کچھ عرصہ پہلے مرے ہوئے چوہے نکلتے ہیں.یہ مرے ہوئے چوہے اطلاع ہوتے ہیں جو انسان کو ہوشیار کرنے کے لئے پیش از وقت دی جاتی ہے.حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر بات کا علاج پیدا کیا ہے اور تدبیر سے انسان بہت کچھ حاصل کر سکتا ہے.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں.لكل داء دواء الا الموت ۲۰ موت کو چھوڑ کر سب مرضوں کے لئے علاج ہے پس طاعون جو کہ بہت ہی خطرناک مرض ہے.اس سے بچنے کے ذرائع بھی موجود ہیں.یہ نہیں فرمایا کہ ہر شخص کا علاج ہے بلکہ یہ فرمایا ہے ہر بیماری کا علاج ہے.یہ الگ بات ہے کہ کوئی شخص طاعون سے نہ بچے لیکن یہ بات ضرور ہے کہ اس زہر کا ازالہ موجود ہے.طاعون کے زہر کا ازالہ تو بہر حال موجود ہے مگر افسوس ہے کہ لوگ اس طرف توجہ نہیں کرتے.یہاں ہم نے انتظام کیا تھا کہ ڈاکٹر (حشمت اللہ صاحب لیکچر دیں اور لوگوں کو طاعون کے زہر سے بچنے کی تدابیر سے واقف کریں.ڈاکٹر صاحب نے لکچر تو دیے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ لکچروں کی طرف بہت کم توجہ کی گئی ہے اور اس طرف سے اعراض کر لیا گیا اور کانوں میں انگلیاں دے لی گئیں حالانکہ یہ لوگوں ہی کے فائدہ کی بات تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بار بار توجہ ولائی تھی کہ اگر کسی جگہ سے چوہے نکلیں.تو اس جگہ کو فورا" چھوڑ دینا چاہئے اور چوہے کو وہیں
193 جلا دینا چاہئے کیونکہ اس پر سینکڑوں مچھر ہوتے ہیں جو اس سے اڑ کر ادھر ادھر بکھریں گے اور پھر انسانوں پر بیٹھیں گے.جس سے طاعون بڑھ جائے گی لیکن اگر چوہا وہیں جلا دیا جائے گا تو ایسے تمام مچھر بھی وہیں جل جائیں گے.اور طاعون پھیلنے کا باعث نہ ہو سکیں گے.لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جن لوگوں کے گھروں سے چوہے نکلتے ہیں وہ انہیں گلی میں پھینک دیتے ہیں.جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بلا جو ایک پر پڑ سکتی تھی.سب پر اس کے پڑنے کا خطرہ ہوتا ہے.ایسے چوہوں کو اپنے گھروں سے باہر پھینک دینے کا یہ معنے نہیں کہ پھینکنے والے خود اس سے محفوظ ہو گئے یا یہ کہ ان کا گھر اب اس زہر سے خالی ہو گیا بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ جو زہر پہلے اکیلے ان کے گھر میں تھا وہ اب محلہ بھر میں پھیل گیا.اور اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ ان کے ایسا کرنے سے ان کے گھر سے زہر نکل گیا تو کیا جب وہ زہر محلہ بھر میں پھیلنے لگے گا تو ان کا گھر محلہ سے باہر ہو جائے گا.اور وہ اس میں نہ آئے گا.یاد رکھو اگر تم اس طرح موت سے بچ بھی سکتے تب بھی اسلام تمھیں اس کی اجازت نہیں دیتا کہ تم اپنی تو جان بچالو اور دوسرے بہت سارے لوگوں کی جانیں خطرہ میں ڈال دو.اگر کوئی مر رہا ہوں تو کیا کسی کو مار کر بچ سکتا ہے.لیکن اگر ایسا ہو بھی تو بھی یہ جائز نہیں کہ دوسروں کو مار کر اپنی جان بچائے.پس لوگوں کا چوہوں کو گلیوں میں پھینکنا یہی معنے رکھتا ہے کہ دوسروں کو بھی اپنے ساتھ موت میں ملانا چاہتے ہیں.مگر میں ان سے کہتا ہوں انہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے.اگر وہ ان کو جلا دیں تو گھر کا زہر بھی کم ہو جائے اور دوسرے لوگ بھی بچ جائیں.پس یہ ایک ظالمانہ بات ہے کہ ہلاکت کو جانتے ہوئے ہلاکت میں پھنسا جائے.اور نہ صرف خود ہی پھنسا جائے بلکہ دوسروں کو بھی پھنسایا جائے.پس احباب کو چاہئے کہ وہ خاص طور پر اس بات کا خیال رکھیں کہ اگر کسی جگہ ایسا چوہا نکلے تو بجائے گلی میں پھینکنے کے مٹی کا تیل ڈال کر اسے وہیں جلا دیا جائے.ایسے موقعوں پر تو یہ کرنا چاہئے کہ سب ردی چیزوں کو بھی جلا دیا جائے.بعض لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ وہ پرانی پرانی چیزوں کو سنبھال کر رکھتے ہیں.مثلاً ایک ٹوکری ہے جو بالکل شکستہ ہے.کسی کام نہیں آسکتی.لیکن ایک شخص اسے بھی سنبھالتا ہے کہ یہ فلاں وقت کام آئے گی.اب یا فلاں وقت وہ کام آئے گی یا وہ ہلاکت کا باعث بنے گی.کیونکہ وہ دوسری ایسی ہی چیزوں میں اضافہ کا باعث ہوگی جو ردی ہوتی ہے.اور جو اس قسم کے وبائی امراض کے پھیلنے کا باعث ہو جاتی ہے.پس ایسی تمام ردیات کو جلا دینا چاہئے.اور ان کا مطلقا لالچ نہیں کرنا چاہئے.کئی سالوں کی بات ہے جب طاعون پڑی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تمام ردی اشیاء
194 جلوا دیں.اور میں نے خود دیکھا کہ آپ نے چند بڑے بڑے بستے جن میں کاغذات وغیرہ تھے نکلوا کر جلا دئیے.انہیں میں ایک وہ بستہ بھی جلا دیا جس میں گالیوں کے خطوط تھے.بعد ازاں جب لوگوں کو پتہ لگا کہ اب وہ خطوط تو ان کے پاس ہیں نہیں جن کا مختلف کتابوں میں ذکر ہے تو بعض نے اعتراض بھی کئے کہ وہ خطوط کہاں ہیں.مگر آپ نے اس بات کی پرواہ نہ کی.کیونکہ یہ خدا کے بنائے ہوئے قانون ہیں اور احتیاط ہر ایک کے لئے ضروری ہے اور اس احتیاط سے کام لینا ہر ایک کا فرض ہے.پس ردی سامان کو جلا دینا چاہئے اور بالکل اس بات کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے کہ نقصان ہوتا ہے.کیونکہ اول تو یہ کوئی نقصان نہیں.کیونکہ یہ روی ہی تو تھا.لیکن اگر کچھ نقصان ہو بھی تو بھی جان کے مقابلہ میں اس کی کیا حقیقت ہے.پس تمام روی سامان جلا دینا چاہئے.چوہوں کو مارنا چاہئے.زہر کی گولیاں ڈال کر یا چوہے دان رکھ کر اور جہاں تک ہو سکے اس مکان کو چھوڑ دینا چاہئے جس میں سے چوہے نکلے ہوں اور اس میں واپس نہ آیا جائے جب تک کہ یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ اب اس میں خطرہ نہیں.یہ سوال کہ مکانوں کو چھوڑ کر کہاں جائیں کوئی ایسا مشکل سوال نہیں.شہر کے باہر کھلے میدان میں چھپر ڈال لئے جائیں.آخر موت سے بڑھ کر یہ تکلیف دہ نہ ہوں گے.اس لئے اپنی حفاظت اور اپنے عزیزوں کی خیر مناتے ہوئے باہر چلے جانا چاہئے.اس میں کچھ شک نہیں کہ بہ نسبت گھروں کے چھپروں میں تکلیف ہوگی.خریدو فروخت میں بھی تکلیف ہوگی.دھوپ کی شدت بھی ستائے گی.تپش بھی ہوگی.لو بھی چلے گی.اور تکلیفیں بھی ہوں گی.مگر اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ ان تکلیفوں کے برداشت کرنے سے ایک بہت بڑی تکلیف سے نجات بھی حاصل ہوگی.اور نہ صرف خود کو ہی نجات ہوگی بلکہ اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں اور قریبوں اور دوستوں کو بھی ہوگی اور پھر یہ تکلیفیں ہمیشہ رہنے والی تکلیفیں بھی نہیں عارضی اور وقتی ہیں.پس ان کو برداشت کرنے سے نہیں ہچکچانا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں جب طاعون پڑی تو آپ نے قادیان سے باہر چلے جانے کا حکم دے دیا.مجھے یاد ہے کہ لوگوں نے ڈھاب کے باہر اس طرف کھیتوں میں چھپر ڈال لئے تھے.اور ان میں رہتے تھے.اب بھی اگر ایسی ضرورت پیش آئے.تو باہر چھپر ڈالے جا سکتے ہیں.دوستوں کو چاہئے کہ جہاں وہ ان تدابیر سے کام لیں وہاں خصوصیت سے استغفار بھی کریں اور اپنے گناہوں کی معافی چاہیں.کیونکہ طاعون عذابوں میں سے ایک عذاب ہے.پس کثرت سے
195 استغفار کرنا چاہئے.اور اپنی کمزوریوں کو دور کر کے خدا کے سامنے عجز و انکسار کرنا چاہئے.اس میں کوئی شک نہیں مومن کے لئے طاعون کی موت شہادت کی موت ہے.لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ایسی موت سے دشمن کو استہزاء کا موقع ملتا ہے.اور بہت سے کمزور لوگوں کو اس سے ٹھوکر لگتی ہے.شہادت خوشی کا باعث ہوتی ہے مگر وہی شہادت خوشی کا باعث ہوتی ہے جس سے کسی کو ٹھر کر نہ لگے.آپس کے معاملات کو درست کرنا چاہئے.آپس کی لڑائیوں اور فسادوں کو چھوڑ دینا چاہئے.کیونکہ آپس کی لڑائیوں اور فسادوں سے بھی عذاب آتے ہیں.حدیثوں میں آتا ہے.بدظنی پر بھی عذاب آتا ہے.اور ایسے لوگوں پر سے اللہ تعالیٰ کی رحمت اٹھ جاتی ہے جو بد ظنی کرتے ہیں اور لڑائیوں اور جھگڑوں اور فسادوں میں لگے رہتے ہیں.پس آپس میں محبت و پیار سے پیش آؤ.منصوبہ بندی چھوڑ دو.غیبت.چغلی.بد نظری ، استہزاء وغیرہ سے پر ہیز کرو.ہمدردی کا مادہ پیدا کرو.اگر کوئی بیمار ہو جائے تو اس کو چھوڑ نہ دو بلکہ اس کی خدمت کرو.یہ نہیں کہ ہر وقت ہی اس کے پاس گرے رہو اور احتیاط نہ کرو.بلکہ اس کے پاس بھی جاؤ اور اتنا ہی اس کے پاس جاؤ جتنا اس کے لئے ضروری ہے اور پوری پوری احتیاط کرو اور اگر موت ہو جائے تو مرنے والے بھائی کو اکرام کے ساتھ دفن کرو.مگر اس کے اتنا قریب بھی نہ جاؤ کہ خود کو خطرہ پیدا ہو جائے.بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو ان ایام میں جبکہ طاعون کا بڑا زور تھا یہ بھی فرمایا تھا کہ سخت طاعون کے دنوں میں مردہ کو غسل بھی نہ دیا جائے.کیونکہ غسل دینے کے لئے بھی بہت قریب جانا پڑتا ہے.اور جب ہم انہیں شہید قرار دیتے ہیں تو کیوں نہ شہید کے احکام ان پر جاری کئے جائیں.پس اپنی پوری پوری حفاظت کرو اور احتیاط کی تدبیروں کو بھی استعمال کرو.اور استغفار اور توبہ بھی کرو اور خدا کے حضور عاجزی کے ساتھ گر جاؤ.۱۹۲۰ء یا ۱۹۲۱ء میں میں نے اسی مسجد میں ایک خطبہ پڑھا تھا.جس میں بتایا تھا کہ مجھے رڈیا میں بتایا گیا تھا کہ طاعون پھر آئے گی.ان دنوں پنجاب میں کچھ کم ہو گئی تھی.علاقہ بھر میں دس بیس کیس بمشکل ہوتے تھے اور لوگ خیال کر رہے تھے کہ اب نہیں آئے گی اور گورنمنٹ نے بھی یہی کہا تھا کہ اب یہ یہاں سے اڑ گئی.اب نہیں آئے گی.اس وقت مجھے رڈیا میں طاعون کی بھینسیں دکھائی گئیں.اور طاعون کا ایک مریض بھی دکھایا گیا.جسے گلٹی نکلی ہوئی تھی.پھر میں نے دیکھا کہ میں لوگوں کو کھینچ رہا ہوں کہ ہٹ جاؤ ادھر نہ جاؤ.اس کے بعد ملک میں طاعون پھیل گئی.اور سات سات ہزار سے زیادہ موت پنجاب میں ہوتی رہی.گویا ایک ماہ میں ایک لاکھ سے زیادہ اموات کی نسبت
196 قائم ہو گئی.کسی جگہ پڑ گئی.کسی جگہ بند ہو گئی.اب بھی یہی حال ہے.بعض جگہ نئی پھوٹ رہی ہے.بعض جگہ ختم ہو رہی ہے.سو یہ رویا اطلاع تھی کہ طاعون دوبارہ ملک میں آنے والی ہے.ہماری جماعت کے لئے خدا کے وعدے ہیں کہ اس کی حفاظت کی جائے گی.پس ہمیں چاہئے کہ ان اسباب سے پورا پورا کام لیں جو ہماری حفاظت کر سکتے ہیں.اور پھر دعائیں بھی کریں کہ در حقیقت دعائیں ہی ہیں جو انسان کو ان بلاؤں سے بچا سکتی ہیں.کثرت سے استغفار کرنا چاہئے.عمدہ اخلاق پیدا کرنے چاہیں.بد ظنیوں.لڑائیوں.جھگڑوں.فسادوں اور حقوق کے مارنے ، لوگوں کو نقصان پہنچانے اور ان کے مالوں کو ضائع کرنے سے بچنا چاہے.ساتھ ہی طبعی تدابیر کو بھی اچھی طرح اختیار کرنا چاہئے اور دوسروں سے بہت زیادہ اختیار کرنا چاہئے تاکہ خدا کا امتحان لینے والے نہ بنیں.جو یہ کہتا ہے خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ میں احمدی جماعت کی حفاظت کروں گا اس لئے وہ آپ ہی ہماری حفاظت کرے گا ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں.وہ خد اتعالیٰ کا امتحان لیتا ہے اور اس کو سزا ملتی ہے.چونکہ ہمارے لئے خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ میں اس جماعت کی حفاظت کروں گا اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم اس کا امتحان نہ لیں.بلکہ ہمارا یہ فرض ہونا چاہئے کہ ہم بالخصوص ان تمام اسباب سے کام لیں.جن سے ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اس کا شکار ہونے سے بچ سکتے ہیں.اور ایسے اسباب تقوی کی صورت میں بھی ہیں اور دوسری تدبیروں کی صورت میں بھی.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنے فضل سے قادیان کی پہلی خصوصیت کو قائم رکھے.کہ دنیا میں تو طاعون تھی.قادیان کے ارد گرد کے علاقے تو اس سے تباہ ہو رہے تھے.مگر قادیان خدا کے فضل سے بچی رہی.پس میں دعا کرتا ہوں کہ خداتعالی اس کی پہلی خصوصیت کو قائم رکھے اور باہر کی جماعتیں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے خصوصیت کے ساتھ اس سے بچی رہیں.میں تو تین مہینہ سے دعا مانگ رہا ہوں کہ جماعت کی یہ خصوصیت قائم رہے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے لوگ توجہ نہیں کرتے اور ستیوں کو نہیں چھوڑتے اور اپنے کاموں یا اپنے بیوی بچوں میں مصروف رہتے ہیں.پس ہم سب کو دعا کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں طاعون سے محفوظ رکھے.طاعون کیا وہ تو آگ سے بھی ہمیں نکال سکتا ہے.اور طاعون بھی آگ ہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے " آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے " ہم بھی مسیح موعود کے غلام ہیں اور طاعون آگ ہی ہے.پس یہ آگ ہماری بھی غلام ہو سکتی ہے بشرطیکہ تقویٰ اور تدابیر سے کام لیں.کیونکہ بغیر ان کے کامل فضل اللہ تعالٰی کا نہیں ہو سکتا.پس دعا ہے کہ خدا تعالیٰ ہمیں
197 سب وہ کام کرنے کی توفیق بخشے جو اس کے کامل فضل کو حاصل کرنے والے ہیں تا کہ ہم اس کے کامل فضل کو پانے والے بنیں.(آمین) خطبہ ثانی میں فرمایا : آج جمعہ کی نماز کے بعد چند ایسے جنازے پڑھاؤں گا.جن کا جنازہ پڑھنے والے یا تو ایک دو احمدی تھے یا بالکل نہ تھے.(1) پروفیسر محمد صاحب بھاگلپوری کی بیوی قادیان کی رہنے والی اور صفدر خان صاحب مرحوم کی بیٹی تھیں.وہ مدراس میں فوت ہو گئی ہیں.ان کا جنازہ صرف تین چار احمدیوں نے پڑھا.(۲) ملک غلام محمد صاحب عیدی پور.ایک ایسے گاؤں میں فوت ہوئے ہیں جہاں کوئی احمدی نہ تھا اور لوگوں نے جنازہ پڑھے بغیر دفن کر دیا.(۳) اہلیہ صاحبہ قاضی فضل الہی صاحب قریشی سٹیشن ماسٹر بھرواں ان کا جنازہ صرف ان کے لڑکے اور خاوند نے پڑھا ہے.(۴) عبد الرحیم صاحب بمقام ڈلیہ فوت ہو گئے ہیں.کوئی احمدی ان کے جنازہ پر موجود نہ تھا.(۵) دختر میاں محمد شریف صاحب کلرک قلعہ میگزین راولپنڈی کوئی احمدی ان کا جنازہ نہیں پڑھ سکا.(۲) والدہ میاں احمد الدین صاحب زرگر پنڈی چری شیخوپورہ (۷) محمد صغیر میر مهدی حسین صاحب کے لڑکے وہ اپنے گاؤں میں فوت ہو گئے ہیں.یہ سارے جنازے انشاء اللہ تعالی نماز جمعہ کے بعد پڑھاؤں گا.سب لوگ میرے ساتھ ان میں شامل ہوں.ا بنی اسرائیل ۱۶ ا مشکوة كتاب الطب والرقى الفصل الاول (الفضل ۱۵ جون ۱۹۳۶ء)
198 22 قوموں کے تنزل کے اسباب (فرموده ۲۵ جوان ۱۹۲۶ء) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: مسلمان اپنی نمازوں اور دعاؤں میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے صراط مستقیم مانگتے رہتے ہیں.کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ وہ اپنے رب سے یہ درخواست نہ کرتے ہوں کہ ہمیں صراط مستقیم و سالیکن باوجود اس کے کہ وہ روزانہ بلکہ پنج و تختہ بلکہ بعض لوگ اس سے بھی زیادہ صراط مستقیم کے لئے دعا کرتے ہیں.پھر بھی خدائی فعل یہ ثابت کر رہا ہے کہ ان کے معاملات الٹے جا رہے ہیں.خواہش تو وہ کرتے ہیں سیدھے راستہ کی لیکن دکھایا جاتا ہے ان کو ٹیڑھا راستہ.جتنی گریہ و زاری وہ کرتے ہیں کہ ہمیں صحیح راستہ دکھا اتنا ہی ان کا قدم جادہ اعتدال سے ادھر ادھر پڑتا ہے.لیکن وہ قومیں جو خدا سے صراط مستقیم مانگتی نہیں اور اس پر انہیں کئی کئی دن ہی نہیں بلکہ ہفتے گذر جاتے ہیں بلکہ مہینے گزر جاتے ہیں بلکہ سال گذر جاتے ہیں بلکہ عمریں گزر جاتی ہیں کہ وہ ایک دن بھی سیدھے راستے کے لئے درخواست نہیں کرتیں بلکہ کئی ان قوموں میں ایسے ہیں جو اس بات کو ہی عبث سمجھتے ہیں اور کئی ایسے ہیں جو ایسا کرنے والوں سے ٹھٹھا کرتے اور ان کو بے وقوف سمجھتے ہیں.لیکن باوجود اس کے ان قوموں کے قدم ترقی کی طرف جا رہے ہیں.کامیابیاں انہیں میسر آ رہی ہیں.فتح مندیاں ان کو حاصل ہو رہی ہیں.وہ دعائیں بالکل ترک کر بیٹھے ہیں بلکہ دعائیں کرنے کو ہی عبث بیہودہ اور لغو سمجھتے ہیں مگر حال یہ ہے کہ وہ کامیاب ہو رہے ہیں لیکن مسلمان ہیں کہ باوجود اس کے کہ دعائیں کرتے ہیں اور بعض تو ان میں سے کثرت سے کرتے ہیں مگر پھر بھی تباہ ہو رہے ہیں.اس سے انسان یا تو یہ گمان کر سکتا ہے کہ نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کی قوتیں اب زائل ہو گئی ہیں کہ پہلے وہ سنتا تھا مگر اب نہیں سنتا یا پھر یہ کہ نعوذ باللہ وہ ایک چڑ چڑے راجہ یا نواب کی طرح ہو گیا ہے کہ آئے دن کی دعاؤں
199 سے تنگ آکر ان کے لئے الٹی بات کرتا ہے.یا پھر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ان کی دعاؤں میں ہی نقص ہے یا یہ کہ دعائیں تو وہ کرتے ہیں لیکن اس یقین اور ایمان کے ساتھ نہیں کرتے.جو دعائیں مانگنے کے لئے ہونا چاہئے.ایک ایسا شخص جو خداتعالی پر ایمان رکھتا ہے اور جانتا ہے کہ خداتعالی دعائیں قبول کرتا ہے بشرطیکہ پورے شرائط اور آداب سے کی جائیں وہ نہ تو یہ مان سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی قوتیں اب زائل ہو گئی ہیں اور نہ ہی اس بات کو تسلیم کر سکتا ہے کہ وہ اب چڑ چڑے راجہ یا نواب کی طرح ہو گیا ہے کہ لوگ تو سیدھے راستہ کی درخواست کریں اور وہ ان کو چڑ چڑاہٹ سے الٹا راستہ دکھائے.یا یہ کہ وہ لوگوں کی آئے دن کی درخواستوں سے ایسا اکتا گیا ہو کہ جیسے اکتائے ہوئے لوگ کہتے ہیں.کیا دماغ چاٹ کھایا ہے.وہ بھی ان کی درخواستوں پر یہ کہہ دے کیونکہ یہ بھی خدا تعالیٰ کی شان کے خلاف ہے.پس اب دو ہی باتیں باقی رہ جاتی ہیں کہ یا تو دعا میں کوئی نقص ہے یا پھر یہ کہ دعا کے ساتھ جو شروط ہوتی ہیں وہ پوری نہیں کی جاتیں.دعا میں نقص کے یہ معنے ہوا کرتے ہیں کہ انسان کو یقین اور ایمان نہیں ہو تا کہ دعائیں قبول ہوتی ہیں یا خدا تعالی دعائیں سنتا ہے.پھر بجز و انکسار کا دعا کے ساتھ نہ ہونا بھی دعا میں نقص پیدا کر دیتا ہے.پھر اگر استقلال نہیں اور ایک وقت میں دعا کر کے یہ سمجھ کر اسے چھوڑ دیا جائے کہ اگر قبول ہوئی ہوتی تو ہو جاتی تو یہ بھی نقص ہے.بعض اوقات اصرار کی ضرورت ہوتی ہے.اور اگر ایک شخص اصرار کے ساتھ دعا نہیں کرتا تو اس کی دعا بھی نقص سے خالی نہیں ہو سکتی.جب تک دعا کو ان نقائص سے پاک نہیں کیا جاتا اور جب تک یہ باتیں اس کے ساتھ نہ ہوں اور دعا کرتے وقت ان کا خیال نہ رکھا جائے.دعا دعا نہیں کہلا سکتی.جب تک یہ ایمان نہ ہو کہ خدا ہے اور وہ سنتا ہے اور جب تک یہ یقین اور امید نہ ہو کہ وہ میری بھی سنے گا.جب تک غرور اور کبر دور نہ ہو.کوئی دعا قبول نہیں ہوتی.غرور اور کبر کیا ہے؟ یہی کہ انسان کے اگر خدا دعا نہیں سنتا تو نہ سنے.یا یہ کہ اگر وہ نہیں سنتا تو ہم بھی نہیں سناتے.لفظا " تو یہ نہیں کہا جاتا لیکن عملاً ایسا ہی کیا جاتا ہے جبکہ دعا مانگ کر چھوڑ دی جاتی ہے.یہ طریق متکبرانہ ہے.اس طرح جو دعا مانگی جائے وہ قبول نہیں ہوتی.کیونکہ یہ گستاخی ہے کہ دعا مانگی تو جائے مگر متکبرانہ.جیسے کوئی کسی کو حکم دیتا ہے کہ یہ کام کر دو یا جیسے ایک افسر اپنے ماتحت سے کوئی بات کہتا ہے.پھر عجز و انکسار ہے.ایک شخص دعا تو مانگتا ہے اسے یہ ایمان بھی ہے کہ خدا ہے اور سنتا بھی ہے.اسے یہ یقین اور امید بھی ہے کہ وہ میری دعا بھی سنے گا.اس کی دعا کے ساتھ کبر و غرور بھی
200 نہیں ہوتا.لیکن اس کی دعا کے ساتھ بجز و انکسار بھی نہیں ہوتا تو ایسی دعا بھی نہیں سنی جاتی جس کے ساتھ عجز و انکسار نہ ہو.پھر اگر عجز و انکسار ہو لیکن دعا میں اصرار نہ ہو تو بھی دعا قبول ہونے سے رہ جاتی ہے.ایسا شخص دعا تو مانگتا ہے مگر ایک دفعہ اور جب دیکھتا ہے کہ اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا تو پھر اسے مانگنا چھوڑ دیتا ہے.حالانکہ وہ جانتا ہے کہ بعض وقت خدا تعالیٰ اس کو دیتا ہے جو اس طرح مانگتا ہے کہ اگر وہ ساری عمر بھی نہ دے تو یہ ساری عمر ہی مانگتا چلا جائے.سوائے اس صورت کے کہ خدا تعالیٰ منع کر دے کہ ایسی دعا نہ مانگو.جو شخص اس طرح اصرار کے ساتھ دعا مانگتا ہے اس کو ملتا ہے.پس اصرار ایک ایسی چیز ہے کہ دعا کے لئے ضروری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے.گداگر دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک نرگرا اور دوسرے خر گدا.نرگرا وہ ہوتا ہے جو کسی کے دروازے پر جا کر آواز دیتا ہے کچھ دو اور کسی نے کچھ ڈال دیا تو لے لیا نہیں تو دو تین آوازیں دے کر آگے چلے گئے.مگر خر گدا وہ ہوتا ہے کہ جب تک نہ ملے ٹلتا نہیں.اس قسم کے گداگر لئے بغیر پیچھا ہی نہیں چھوڑتے.اور ایسے گداگر بہت تھوڑے ہوتے ہیں.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس بھی آکر ایک شخص بیٹھا کرتا تھا وہ نہیں اٹھتا تھا جب تک کچھ لے نہ لیتا تھا وہ بیٹھا رہتا تھا جب تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام باہر نہ نکلتے اور اسے کچھ دے نہ دیتے.پھر بعض وقت وہ رقم مقرر کر دیتا کہ اتنی لینی ہے اور اگر حضرت صاحب اس سے کم دیتے تو وہ اسے ہرگز نہ لیتا.کئی دفعہ ایسا ہوا کہ مہمان اسے اتنی رقم پوری کر دیتے تھے کہ چلا جائے.میں نے دیکھا اگر اس کے منہ سے کوئی رقم نکل گئی کہ یہ لینی ہے اور وہ پوری نہ ہوتی تو وہ جاتا نہ تھا جب تک رقم پوری نہ کر دی جاتی.اور اگر حضرت صاحب بیمار ہوتے تو تب تک نہ جاتا جب تک صحت یاب ہو کر آپ باہر تشریف نہ لاتے.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے دعا کی قبولیت کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان خر گدا بنے اور مانگتا چلا جائے اور خدا کے حضور دھونی رہا کے بیٹھ جائے اور ملے نہیں جب تک کہ خدا کا فعل یہ ثابت نہ کر دے کہ اب اس کے متعلق دعا نہ کی جائے.خدا کا وہ فعل جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب اس کے متعلق دعا نہیں کرنی چاہئے.کئی طرح پر ظاہر ہوتا ہے مثلا یہی کہ ایک شخص کی بیوی حاملہ ہے.اسے لڑکی پیدا ہوئی ہے.اب وہ اس حمل کے متعلق دعا نہیں کر سکتا کہ اے خدا تو اس حمل سے لڑکا پیدا کر.ہاں وہ اگلے حمل کے لئے دعا کر سکتا ہے کہ اس میں لڑکا پیدا ہو.کیونکہ خدا تعالیٰ کے فعل نے یہ ثابت کر دیا کہ اب اس حمل کے گوگو
201 لئے دعا کرنا فضول ہے.یا یہ کہ خدا کی منشاء کچھ اور ہے.اگر ایک شخص پر کوئی بات کھول دی جائے کہ خدا تعالیٰ کی غشاء فلاں امر کے متعلق یہ نہیں.تو پھر اس کے متعلق دعا نہیں کرنی چاہئے.کیونکہ اگر پھر بھی اس کے متعلق دعا کی جائے گی تو بے ادبی ہوگی.لیکن اگر اس دعا میں کوئی نقص نہ ہو گا اگر اس کے شرائط پورے کئے جائیں گے.اگر اس کے ساتھ ایمان یقین اور امید ہوگی تو وہ قبول ہوگی.اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ انسان ان تدابیر کو بھی نہ چھوڑے جو انسانی اختیار میں ہیں.غرض وہ سب باتوں کو پورا کرتا ہوا دعا مانگتا چلا جائے اور چھوڑے نہیں جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے چھوڑنے کا حکم نہ ہو جائے.اسی طرح دعاؤں کے ساتھ تدابیر بھی اختیار کرے اور تدابیر کو بھی اس وقت تک نہ چھوڑے جب تک خدا تعالیٰ حکم نہ دے دے کہ اب تمہیں کوئی تدبیر نہیں کرنی چاہئے.کیونکہ بعض وقت خدا تعالیٰ اظہار قدرت کے لئے اپنے بعض بندوں کے ساتھ اس قسم کے سلوک کرتا ہے کہ انہیں تدابیر سے روک دیتا ہے.تو تدابیر کا دعا کے ساتھ ساتھ ہونا از حد ضروری ہے اور جو شخص ان کو چھوڑتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے ایسے شخص کی دعا اس کے منہ پر ماری جاتی ہے کیونکہ دعا کے ساتھ تدابیر کا اختیار نہ کرنا خدا کا قانون توڑنا اور اللہ تعالیٰ کا امتحان لینا ہے اور خدا تعالیٰ کی یہ شان نہیں کہ بندے اس کا امتحان لیں.یہ تو میں نہیں کہتا کہ مسلمان دعائیں نہیں کرتے.اگرچہ دعائیں کرنے والے ان میں کم ہیں مگر جو بھی دعائیں کرتے ہیں ان کی دعاؤں کا قبول نہ ہونا اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ یا تو دعا کے متعلق ان کے یقین میں کمی ہے یا ان کے ایمان میں کمی ہے یا ان کے استقلال اور اصرار میں کمی واقع ہو گئی ہے یا جو تدابیر وہ کرتے ہیں ان میں نقص ہے یا جو تدابیر اس دعا کے لحاظ سے مقرر ہیں ان کے اختیار کرنے اور ان کے استعمال کرنے میں کوئی نقص ہے.اور جب ایک شخص اس ساری کیفیت پر غور کرتا ہے تو اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ مسلمانوں کے ایمان میں بھی کمی آگئی ہے مسلمانوں کے یقین اور امید میں بھی کمی آگئی ہے.مسلمانوں کے عجز و انکسار میں بھی کمی آگئی ہے.مسلمانوں کے استقلال اور اصرار میں بھی کمی آگئی ہے اور ان شروط کے پورا کرنے میں بھی کمی آگئی ہے.جو دعا کے لئے ضروری ہیں.اور ان تدابیر کے اختیار کرنے میں بھی کمی آگئی ہے جو دعا کے ساتھ اختیار کرنی ضروری ہیں.ان لوگوں کا خدا پر ایمان نہ ہونا تو ظاہر ہی ہے.یہ موٹی بات ایک غیر احمدی کی سمجھ میں آنی تو
202 مشکل ہے کہ وہ جب تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان نہ لائیں گے تب تک خدا تعالی پر بھی ایمان نہیں لا سکیں گے.لیکن ایک احمدی اس بات کو خوب سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے ماموروں کو مان کر ہی انسان کو خدا پر حقیقی ایمان پیدا ہوتا ہے.دیکھو جو شخص آم کو خربوزہ کہے.یا خربوزہ کو انجیر بتائے.اس کے متعلق ہم کہیں گے کہ اسے نہ آم اور خربوزہ میں تمیز ہے اور نہ خربوزہ اور انجیر کی شناخت حاصل ہے.اسی طرح جو شخص خدا تعالٰی کے کسی راستباز کو دیکھ کر یہ کہے یہ سچا نہیں یا کسی نبی کے متعلق کے یہ نبی نہیں تو معلوم ہو جائے گا کہ اسے انبیاء کی شناخت نہیں اور اسے تھوڑا بہت ایمان جو خدا تعالیٰ پر ہے.وہ اسے ورثہ میں ملا ہے.پھر مسلمانوں میں ایمان اور یقین کا نہ ہونا اس بات سے بھی ثابت ہے کہ انہوں نے مسٹر گاندھی کو جو ایک بت پرست اور مشرک انسان ہیں کبھی تو ولی کہا.کبھی مجدد قرار دیا.کبھی امام بتایا اور کبھی روحانیت میں سب سے بڑھا ہوا کہا.جو اس بات کا ثبوت تھا کہ جس طرح ایک شخص کو آم اور خربوزہ میں شناخت نہیں یا خربوزہ اور انجیر میں تمیز نہیں.اسی طرح ان کو بچے اور جھوٹے میں فرق معلوم نہیں.مامور اور غیر مامور میں امیتاز حاصل نہیں.اگر مسلمانوں کو یہ یقین ہو تا کہ کچی روحانیت آنحضرت ﷺ کے متبعین کے ساتھ وابستہ ہے.اگر مسلمانوں کے اندر یہ یقین ہو تاکہ اگر کوئی اسلام سے ایک انچ بھی ادھر ادھر ہو جائے تو وہ روحانیت سے کاٹا جاتا ہے تو وہ ایسے آدمی کو اسلام کی مدد کے لئے کھڑا نہ سمجھتے جو اسلام سے کوئی تعلق نہیں رکھتا اور اس کی روحانیت کے قائل نہ ہوتے.مگر باوجود اس کے کہ مسٹر گاندھی ایک مشرک ہیں مگر مسلمان لیڈر اور علماء انہیں اپنا راہ نما سمجھ کر بڑے ادب سے ان کے سامنے بیٹھتے.پھر یہاں تک ہی نہیں وہ ان کے پیروں پر بھی پڑ جاتے اور کہتے سب کچھ آپ ہی ہیں.حالانکہ رسول کریم ﷺ کے پاؤں پڑنا بھی جائز نہیں.مگر مسلمان اس مشرک کے پاؤں پڑتے رہے.ہم کہتے ہیں آج اگر رسول کریم ﷺ بھی زندہ ہوتے تو ہم ان کے بھی پاؤں نہ پڑتے.کیونکہ خدا تعالٰی کے سوا کسی کے پاؤں پڑنا جائز نہیں.اور کسی کے آگے سجدہ کرنا درست نہیں.پھر ایک وقت تھا کہ یہ لوگ کہتے تھے کہ مسٹر گاندھی اس زمانے کے لئے خدا کی طرف سے مبعوث کیا گیا ہے اور علی الاعلان کہتے تھے کہ یہ امام ہے مجدد ہے مصلح ہے مگر آخر خدا کے کوڑوں سے چلاتے ہوئے مسٹر گاندھی کو انہوں نے چھوڑا.ال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے مسلمانوں کے تنزل کا باعث مسیح کو آسمان پر چڑھانا اور آنحضرت ﷺ کو زمین کے نیچے مدفون بتاتا ہے.خدا تعالیٰ نے یہ دیکھ کر کہ الله
203 الهلال مسلمان خود مسیح کو آسمان پر چڑھا رہے ہیں.عیسائیوں کو اوپر چڑھایا اور اس وجہ سے کہ محمد رسول اللہ کو انہوں نے زیر زمین بتایا.ان کو نیچا دکھایا.محمد رسول الله ال مسیح سے افضل ہیں اور ہر شان میں افضل ہیں.بہر حال آپ تو اونچے ہی ہیں.مگر مسلمانوں نے آپ کو نیچا کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خود نیچے ہو گئے اور عیسائی ان سے اونچے ہو گئے.پھر جب مسلمانوں نے مسٹر گاندھی کو اونچا چڑھایا.تو میں نے اس وقت یہ کہا کہ پہلے عیسی کو آسمان پر چڑھانے سے مسلمانوں کو سزا ملی تھی کہ عیسائی ان پر قابض ہو گئے.اب مسٹر گاندھی کو اونچا چڑھانے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ہندو مسلمانوں کے سر چڑھ جائیں گے.جب میں نے یہ کہا تو لوگوں نے اس کی مخالفت کی.بلکہ مسلمانوں نے تو اس بناء پر مجھے گالیاں بھی دیں اور کہا تم کیوں ایسا کہتے ہو.پھر یہ بات ان لوگوں تک ہی نہ رہی بلکہ بعض کمزور احمدیوں میں سے کہتے تھے کہ اس قسم کی باتیں کہنے میں ہمیں جلدی نہیں کرنی چاہئے ہمیں اس معاملہ میں سوچ لینے دو.پھر بعض ایسے بھی تھے جو میرے پاس آتے اور عجیب طریق پر کہتے کہ بس اب تھوڑے دنوں تک مسٹر گاندھی کی حکومت ہو جائے گی اور ہم پس جائیں گے.یہ لوگ اس وقت ہمیں کھا جائیں گے مگر میں نے ان سے یہی کہا کہ اگر کچھ ہو سکتا ہے تو صرف یہی کہ مسلمانوں پر ہندوؤں کو غلبہ حاصل ہو جائے گا.کیونکہ جو شخص خدا کے مامور کو نیچے گرائے گا وہ نیچے ہی گرے گا اوپر نہیں اٹھ سکتا.مسلمانوں نے خدا کے مامور کو چھوڑا بلکہ اسے گرانے کی کوشش کی اور ایک مشرک اور بت پرست کی طرف گئے اور اسے بلند کرنا چاہا.اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ان پر اس قوم کا غلبہ ہو جائے گا جس کا وہ بت پرست انسان ایک فرد ہے.یہ وہ بات تھی جو آج سے چھ سال پہلے میں نے کسی تھی اور آج بعینہ پوری ہو رہی ہے.آج ایک طرف مسلمان مسٹر گاندھی کو خفت کے ساتھ چھوڑ کر پیچھے آرہے ہیں.اور دوسری طرف مسٹر گاندھی کی قوم ان سے جو سلوک کر رہی ہے وہ ظاہر ہے.ہندو جابجا مسلمانوں کو مار رہے ہیں اور انہیں ہر طرح نقصان پہنچا رہے ہیں.مسلمان مار کھا کر نقصان اٹھا کر شور مچاتے ہیں.مگر ہندو خود ہی مارتے ہیں اور خود ہی شور مچاتے ہیں.ان کے شور ڈالنے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ مار تو لیا اب ان کو دوسری طرح بھی نقصان پہنچائیں.مسلمان بھی شور مچاتے ہیں.لیکن ان کے شور مچانے سے نہ کچھ بنتا ہے اور نہ بنے گا.جب تک وہ یہ مانتے رہیں گے کہ دنیا کی اصلاح کے لئے کوئی مصلح ہندوؤں میں سے آسکتا ہے یا عیسائیوں میں سے آسکتا ہے.جب تک مسلمان یہ مانتے رہیں گے کہ ہندوؤں اور عیسائیوں میں سے مصلح آسکتا ہے تب تک وہ اسی حالت میں رہیں گے.اور ان کا یہ تنزل دن بدن
204 بڑھے گا ہی کم نہیں ہو گا.ہاں جس دن وہ یہ سمجھیں گے کہ اب صرف امت محمدیہ سے ہی مصلح آسکتا ہے اس دن ہو سکتا ہے کہ ان سے تکلیفیں دور ہوں اور اس ذلت سے نکلیں.بہرحال حالات نے بتا دیا کہ یہ لوگ خود تنزل کی طرف جا رہے ہیں اور یہ جو ہم نے کہا تھا کہ جو لوگ خد ا کے مامور کو چھوڑ کر مسٹر گاندھی کے ساتھ ہو رہے ہیں وہ غلطی کر رہے ہیں اور ان کو اس غلطی کی سزا بھگتنی پڑے گی یہ بالکل درست تھا.کیونکہ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلمان سخت معتوب ہو رہے ہیں.باقی رہی امید یہ بھی مسلمانوں میں نہیں جن قوموں میں امید ہوا کرتی ہے وہ خود کشی پر آمادہ نہیں ہوتیں.لیکن مسلمان برابر خود کشی کی طرف جا رہے ہیں.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں خدا تعالیٰ پر امید نہیں رہی.جب بھی کوئی طریق اختیار کرتے ہیں تو یہ کہ ہم اگر نہ لیں گے تو دوسروں کو بھی نہ لینے دیں گے.یہ وہ اس لئے کہتے ہیں کہ انہیں امید نہیں ہوتی کہ انہیں کچھ مل سکتا ہے یا خدا تعالیٰ میں یہ طاقت ہے کہ کچھ دے سکے.چونکہ انہیں خود امید نہیں ہوتی اس لئے وہ اپنے آپ کو پہلے ہی محروم سمجھ لیتے ہیں.اور یہ سمجھ کر کہ ہمیں تو کچھ ملنا نہیں یہ کہہ دیتے ہیں کہ اوروں کو بھی نہ لینے دیں گے.تو امید کا پہلو بھی ان سے جاتا رہا اور اس وجہ سے یہ سمجھتے ہی نہیں کہ عقد ان کے لئے خدا کچھ کرے گا.ان میں سے بیسیوں مصنف بیسیوں تعلیم یافتہ اور بیسیوں لوگ مجھے ملے ہیں جو میری باتوں کو سن کر حیرت سے کہتے ہیں کہ کیا آپ کو یقین اور امید ہے کہ مسلمان پھر اٹھیں گے.کیونکہ ان کے لئے یہ ناممکن ہے.جب ان کو امید ہی نہیں تو وہ مسلمانوں کے ابھرنے اور ترقی کرنے کی دعا کیسے کر سکتے ہیں.کیونکہ دعا امید کے بغیر ہو نہیں سکتی.پس مسلمانوں میں یہ امید بھی اب نہیں رہی کہ وہ پھر اٹھ سکتے ہیں یا خدا ان کے لئے کچھ کر سکتا ہے.پھر بجز و انکسار بھی اگر ان میں ہوتا تو بھی وہ ذلیل نہ ہوتے مگر باوجود گر جانے کے بھی سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے ہیں اور یہ خیال کئے بیٹھے ہیں کہ ہم سب کچھ کر سکتے ہیں.حالانکہ آج تک وہ نہ کچھ کر سکتے ہیں اور نہ اب کر سکتے ہیں.کیونکہ ان میں عجز و انکسار ہی نہیں.اس عجز و انکسار کے نہ ہونے سے ایک طرف تو وہ کام کرنے سے گئے کیونکہ وہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم بڑے ہیں ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں اور دوسری طرف وہ خدا کے آگے جھکنے سے رہے کیونکہ ان کو خیال ہے کہ خدا کے آگے جھکنا کوئی فائدہ مند بات نہیں.کیونکہ جو کچھ ہونا ہے وہ ہمارے زور بازو سے ہونا ہے.عجز و انکسار کا نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ان میں کبر و غرور ہے اور یہ ہو نہیں سکتا کہ کبر اور غرور کے ساتھ جو دعا کی جائے وہ قبول ہو.اول تو کبر و غرور دعا کی طرف آنے ہی نہیں دیتا اور اگر کوئی ادھر
205 آبھی جائے تو اس کی دعا قبول نہیں ہوتی.دعا وہی قبول ہوتی ہے جو عجز و انکسار سے کی جاتی ہے.اور چونکہ مسلمانوں میں بجز و انکسار نہیں ہوتا اس لئے وہ دنیا میں کوئی کام نہیں کر سکتے.سکھ اور عیسائی ہندوؤں سے تعلقات رکھتے ہیں کیونکہ ان کے کاموں میں بجز و انکسار ہوتا ہے.ان کی کامیابی کی ایک وجہ عجز و انکسار بھی ہے.ایک ہندو ہمیشہ عاجزی اور انکساری سے کام لیتا ہے لیکن ایک مسلمان ہمیشہ خود پسندی کا راستہ اختیار کرتا ہے.لوگوں کے ساتھ کم عجز و انکسار سے پیش آتا ہے.یہی رنگ اس کی دعاؤں میں بھی ظاہر ہوتا ہے.بندے تو بندے وہ خدا کے حضور بھی عاجزی نہیں کرتا اور یہی وجہ ہے کہ وہ ہر میدان میں اور ہر کام میں ناکام ہو رہا ہے..مسلمان جن کا شعار تھا دعا کرنا اور نہایت عجز و انکسار کے ساتھ دعا کرنا وہ اول تو دعائیں کرتے نہیں اور اگر کرتے ہیں تو اس رنگ اور اس انداز میں کہ وہ دعائیں دعائیں کہلا نہیں سکتیں.اور بجائے اس کے کہ وہ قبول ہوں.وہ ان کے منہ پر ماری جاتی ہیں لیکن غیر مذاہب والے جو مذہب کے لحاظ سے مردہ کہلانے کے مستحق ہیں.وہ دعائیں کرتے ہیں اور بڑی عاجزی و انکساری سے کرتے ہیں.عیسائیوں کو دیکھ لو ان میں بادشاہ اور امراء تک بھی دعائیں کرتے ہیں اور بڑے عجز و انکسار سے کرتے ہیں.گر جا کے دن غریب بھی گرجا میں جاتے ہیں اور امیر بھی حتی کہ بادشاہ بھی لیکن مسلمانوں کی مسجدوں کا یہ حال ہے کہ ان میں اول تو امراء آتے ہی نہیں اور جو آتے ہیں تو شاز و نادر.اور وہ بھی عید کے دن یا پھر کبھی کبھی جمعہ کے روز.غرض عیسائیوں کا ہر خور دو کلاں دعائیں کرتا ہے اور عجز و انکسار کے ساتھ کرتا ہے.یہی حال ہندوؤں کا ہے.ہندوؤں میں بھی عجز و انکسار بہت زیادہ ہے اور اس عجز و انکسار کا رنگ دعاؤں میں بھی ظاہر ہوتا ہے.مہاراجہ دربھنگہ کے متعلق بتایا گیا کہ جب دہلی میں بادشاہ کی رسم تاج پوشی کے متعلق جلسہ ہوا تو جہاں اور لوگ سیرو تفریح کے کاموں میں اپنے اوقات گزارتے تھے وہاں مہاراجہ دربھنگہ با قاعدہ عبادت کرتے.ایسے موقعہ پر عبادت میں کمی واقع ہو جاتی ہے مگر انہوں نے ایسا انتظام کیا ہوا تھا کہ ہرگز کمی اور نقص نہ واقع ہو تا تھا.انہوں نے اپنے کیمپ میں عبادت کا سامان کیا ہوا تھا.ایک دن وہ عبادت کر رہے تھے اور ان کے پیچھے انگیٹھی جل رہی تھی.چونکہ وہ نہایت مشغولیت سے عبادت کر رہے تھے.اس لئے انہیں اس بات کا خیال نہ رہا کہ پیچھے انگیٹھی جل رہی ہے.اور اس محویت میں ان کی پیٹھ جل گئی.یہ واقعہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے بیان کیا.میر صاحب ان دنوں دہلی میں تھے اور مہاراجہ کے علاج کے لئے انہیں بلایا گیا تھا.
206 عیسائیوں کا بھی یہی حال ہے کہ وہ ہر موقعہ پر دعائیں کرتے ہیں.چنانچہ جنگ میں بھی دعائیں کرتے رہے ہیں اور کثرت سے دعائیں کرتے رہے ہیں.کوئی مرد.کوئی عورت اور کوئی بچہ ایسا نہ تھا کہ دعا نہ کرتا ہو.غریب امیر سب دعائیں کرتے تھے.یہاں تک کہ بڑے بڑے امراء اور روساء بھی دعائیں کرتے تھے.وزیر اعظم تک دعاؤں پر زور دیتے تھے اور گرجوں میں اگر جگہ نہ ہوتی تو لوگ گھروں میں دعائیں کرتے تھے اور دعا کرنے والوں کی کثرت سے ان کا گھر گھر گر جا بنا ہوا تھا.ان دعاؤں میں وہ عجز و انکسار سے کام لیتے تھے اور پھر انہیں یہ یقین بھی ہوتا تھا کہ خدا تعالیٰ سب کچھ کر سکتا.ہے.یہ ایمان اور امید بھی ہوتی تھی کہ خدا ہمارے لئے سب کچھ کرے گا.لیکن مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ جہاں ان میں کوئی تعلیم یافتہ ہوا فورا" عجز چھوڑ دیا اور کبر و غرور اس میں آگیا اور یہ دعوی کرنا شروع کر دیا کہ ہم اپنی قوت اور زور بازو سے سب کچھ کر سکتے ہیں مگر ان کا یہ دعوی بھی غلط ہو جاتا اور اپنی قوت اور زور بازو سے بھی کچھ نہ کر سکتے..ابھی چند دن ہوئے ہیں جب لاہور میں مجھ سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ مسلمانوں کی تباہی کا موجب کیا ہے تو میں نے یہی جواب دیا تھا کہ اس تباہی کا موجب آپ لوگوں کی اپنی بزدلی ہے آپ لوگوں نے خلافت کے شور کے دنوں میں بزدلی سے مولویوں کو اس لئے اپنے ساتھ ملایا کہ ہم شائد عام لوگوں تک نہ پہنچ سکیں.اس وجہ سے آپ لوگوں نے کہا چلو مولویوں کو ساتھ ملائیں.مگر یہ ایک غلطی تھی.کیونکہ سیاسی کاموں میں جب مولویوں کا دخل ہو گیا تو انہوں نے اپنی چلانی شروع کر دی.اسی طرح یہ بھی ایک غلطی تھی کہ تم نے ایک سیاسی مسئلے کو زبر دستی مذہبی مسئلہ بنا دیا اور پھر اسے بھی کم ہمتی سے نبھا نہ سکے.چونکہ مسلمانوں میں استقلال نہیں اس لئے اب بھی وہ جن کاموں کو کرنا چاہتے ہیں کچھ دیر کر کے پھر ڈھیلے ہو کر بیٹھ جاتے ہیں.دعاؤں میں بھی ان کا یہی حال ہے.کچھ دن دعا کریں گے اور پھر اسے چھوڑ کر بیٹھ جائیں گے.حالانکہ وہ اس بات سے واقف نہیں ہوتے کہ اگر وہ ایک بار اور دعا کرتے تو شاید وہ کام ہو جاتا جس کے لئے دعائیں کر رہے تھے اور جسے استقلال کے نہ ہونے سے انہوں نے چھوڑ دیا.ان کو کیا معلوم ہے کہ کسی کام کے لئے کس قدر دعا کی ضرورت ہے.اس کا علم تو صحیح طور پر خدا تعالیٰ ہی کو ہے.ہاں ان کا یہ کام ہے کہ وہ دعا کرتے چلے جائیں اور اس وقت تک نہ چھوڑیں.جب تک کہ وہ بات ہو نہ جائے مگر یہ بات استقلال سے حاصل ہو سکتی ہے.اور استقلال مسلمانوں میں ہے نہیں.پھر عام تدابیر تھیں.ان میں بھی مسلمان ہندوؤں اور تمام دوسری قوموں سے پیچھے ہیں.
207 میں بھی پیچھے ہیں.Organization یعنی نظام و تنظیم میں بھی پیچھے ہیں.ہندوؤں نے جو نظام قائم کیا ہے برابر اس پر قائم ہیں.مسلمان مجسٹریٹوں پر رشوت وغیرہ کے مقدمات بنا کر نکلوا رہے ہیں.مسلمانوں کے نقصان جان و مال کے لئے ہر ضلع میں ان کی کمیٹیاں ہیں.مسلمانوں کو تکلیفیں پہنچانے کے لئے انہوں نے باقاعدہ گروہ بنائے ہوئے ہیں اور جب وہ کوئی نقصان مسلمانوں کو پہنچاتے ہیں تو مسلمان کچھ دیر کے لئے تلملاتے ہیں اور پھر سو جاتے ہیں.ہر محکمہ میں انہوں نے ایک ایک کمیٹی بنائی ہوئی ہے.اور وہ ہر طرح کوشش کر کے مسلمانوں کو نکلوا دیتے ہیں اور پہلے ہی سوچ رکھتے ہیں کہ اگر یہ جگہ خالی ہو گئی تو میں اپنے فلاں رشتہ دار کو اس جگہ لے آؤں گا.پھر انہوں نے یہ انتظام بھی کیا ہوا ہے ہے کہ اگر محکمہ کا کوئی ایک آدمی بھی مسلمان کے برخلاف آواز اٹھائے تو سب طرف سے وہی آواز اٹھنے لگتی ہے.اور اس انتظام کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ جس شخص کے برخلاف یہ آواز اٹھائی گئی.وہ آواز کچی ہو یا جھوٹی.وہ بدنام ہو جاتا ہے.بدنام ہو نا تو ادنی سی بات ہے وہ وہاں سے نکال دیا جاتا ہے.یہ عام لوگوں ہی کی عادت نہیں.بلکہ ہندوؤں کے ان لوگوں کی بھی یہی عادت ہے جو بظاہر صلح کن نظر آتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسلمانوں کے بچے خیر خواہ اور ہمدرد ہیں.پھر اس طبقہ میں بھی یہ بات عام طور پر پائی جاتی ہے جو تعلیم یافتہ طبقہ کہلاتا ہے.ایک ہندو مجسٹریٹ قانون کے اندر رہ کر بلکہ بعض اوقات قانون کی پابندی کو توڑ کر بھی مسلمانوں کو نقصان پہنچاتا ہے اور وہ اس بات کی پرواہ نہیں رکھتا کہ اسے کیا کہا جائے گا.لیکن ایک مسلمان مجسٹریٹ ایسا نہیں کرتا.ایک ہندو کے بالمقابل ایک مسلمان کے فوائد کو مد نظر رکھنا تو الگ رہا.وہ الٹا مسلمانوں کو بلا وجہ تکلیف دیتا ہے اور نقصان پہنچاتا ہے اور ایسا کرنے میں اس کی یہ غرض ہوتی ہے کہ اسے بے تعصب کہا جائے.پھر بعض وقت وہ ڈر کے مارے بھی ایسا کرتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ اگر میں نے ایسا نہ کیا تو ہندو میرے مخالف ہو جائیں گے اور پھر شائد مجھے یہاں سے نکلوا دیں.پس یہ وجہ ہے کہ مسلمان ہر جگہ نقصان میں رہتے ہیں اور جو تدبیر بھی وہ کرتے ہیں اس میں ان کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا.اگر غور سے دیکھا جائے تو انہیں تدبیریں کرنا آتا ہی نہیں اور اگر آتا ہے تو ان پر کار بند ہونا نہیں آتا یہ سب باتیں ایسی ہیں جو مسلمانوں کی مشکلات اور تباہی کا باعث ہو رہی ہیں.یہ لوگ ہمیں پاگل سمجھیں یا بیوقوف مگر بات کچی یہی ہے کہ جب تک یہ اس زمانہ کے مامور پر ایمان نہیں لائیں گے ہر گز ترقی نہ کر سکیں گے.وہ ہمیں کہتے ہیں تم ہر بات پر یہ کہتے ہو کہ اس زمانہ کے مامور پر ایمان لائے بغیر کچھ نہیں ہو گا.یہ ان کا ہم پر اعتراض ہوتا ہے مگر ہم پوچھتے ہیں.
208 کوئی ہمیں بتائے کبھی مامور کے بغیر دنیا میں کسی نے ترقی کی.مامور کے بغیر تو ترقی ہوتی ہی نہیں.ہم پاگل ہی سہی مگر سوچو تو سہی ہمیں کس بات کے لئے پاگل کہا جا رہا ہے.ہمیں جس بات کے لئے پاگل کہا جا رہا ہے وہ وہی ہے جس کے لئے آنحضرت این اے کو پاگل کہا گیا جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو پاگل کہا گیا.مگر کیا ان دونوں نے لوگوں کے پاگل کہنے پر اس بات کو چھوڑ دیا تھا جس کی بناء پر وہ پاگل کے جاتے تھے اور اس بات پر راضی ہو گئے تھے کہ ہماری قوم بیشک تباہ ہو جائے مگر لوگ ہمیں پاگل نہ کہیں.ہرگز انہوں نے ایسا نہ کیا.تو یہ بات ایمان سے ہی حاصل ہوتی ہے اور بغیر کامل ایمان کے دعا بھی نہیں سنی جاتی.اور کامل ایمان ہو نہیں سکتا جب تک مامور پر ایمان نہ لایا جائے اور اس زمانہ کے مامور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں.جب تک ان پر ایمان نہ لایا جائے گا.نہ یہ بات حاصل ہوگی.نہ مسلمان ان تکلیفوں اور ذلتوں سے مخلصی پائیں گے.امید بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لانے سے ہوگی.آخر وہاں سے ہی کسی کو امید پیدا ہو سکتی ہے جہاں سے کسی کو کچھ ملتا ہو.اگر ایک قلعہ بند کا بند پڑا ہو اور وہاں سے کسی کو کچھ ملتا نہ ہو تو کوئی عقلمند وہاں نہیں جائے گا اور نہ ہی اسے یہ امید پیدا ہو گی کہ مجھے وہاں سے کچھ مل سکتا ہے.اگر ایک کو ایک جگہ سے کچھ مل جائے تو دوسرا بھی امید لے کے وہاں جا بیٹھتا ہے.جہاں سے کسی کو کچھ ملے وہاں ہی کے متعلق کسی کو امید بھی ہو سکتی ہے.اور اب جس شخص نے کچھ پایا وہ اس زمانہ کا مامور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہے اور جہاں سے پایا وہ خدا تعالیٰ کی ذات ہے.پس امید بھی تب ہی پیدا ہوگی جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لایا جائے گا.کیوں؟ اس لئے کہ اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی ایک وہ ہستی ہے وہ جنھوں نے خدا پر یقین و ایمان رکھا.امید رکھی اور دعا کر کے سب کچھ لیا.اور دنیا کو دکھا دیا کہ قلعہ جسے لوگوں نے بند سمجھا اور بند کر دیا.وہ بند نہیں تھا کھلا تھا.چونکہ وہی مامور زمانہ ہیں اور خدا نے اپنی طرف سے ان کو کھڑا کیا ہے اس لئے ان پر ایمان لانے سے ہی فلاح اور کامیابی حاصل ہو سکتی ہے.رہا بجز و انکسار.سو عجز و انکسار بھی ایسی ہستیوں کے ہی سامنے پیدا ہوتا ہے جن کی طاقتوں کا اظہار لوگوں پر ہوا ہو.اور ایسی ہستی بجز خدا تعالیٰ کے کوئی نہیں.خدا کی طاقتوں کا اظہار تو ہر زمانہ میں ہوتا ہے اور اس زمانہ میں بھی ہو رہا ہے.مگر جب لوگوں نے اس پر سے ایمان اٹھا لیا اور ہر قسم کا یقین چھوڑ دیا اور ناامید ہو گئے تو حضرت مسیح موعود نے ان سب باتوں پر عمل کر کے بتا دیا کہ جس کو تم چھوڑ رہے ہو وہی تو ہے جس کے ساتھ تم رہو گے تو کامیاب ہو سکو گے.اسی طرح استقلال
209 ہے وہ بھی حضرت مسیح موعود پر ایمان لانے سے پیدا ہوتا ہے.لوگ کہتے ہیں احمدیوں کو سیاست سے کیا تعلق.جو لوگ ریلوے سٹیشن سے دور ایک گاؤں کے رہنے والے ہوں اور سیاسی معاملوں میں اتنا دخل بھی نہ دیتے ہوں.کسی سیاسی جماعت کے ساتھ تعلق بھی نہ رکھتے ہوں.بھلا ان کو سیاسی امور کی کیا خبر ہو سکتی ہے.یہ سچ ہے ہم سیاست سے تعلق نہیں رکھتے اور نہ ہی ہم ایسی کتابیں پڑھتے ہیں جن میں سیاسی امور پر بحث کی گئی ہے.اور یہ بھی ٹھیک ہے ہم ریل سے پرے بیٹھنے والے لوگ ہیں اور ہمیں جیسا کہ وہ کہتے ہیں.سیاسی معاملات کی اس قدر خبر نہیں ہو سکتی جتنی کہ ان کو جو ریل کے سر پر بیٹھنے والے ہیں مگر باوجود ان باتوں کے بات وہی صحیح ہوتی ہے جو ہم کہتے ہیں.خلافت کی تحریک کے دنوں میں جن مطالبات کو میں نے کہا کہ انہیں پیش کیا جائے.ان کو اس وقت ٹال دیا گیا لیکن بعد میں ترکوں نے وہی مطالبات کئے اور سر مو فرق نہ کیا.ان کی کمیٹیاں بیٹھیں اور ان کے سیاسی مدبر بڑی سوچ بچار کے بعد آخر انہیں مطالبات کے پیش کرنے پر آئے جن کے پیش کرنے کا ایک عرصہ پہلے میں نے مشورہ دیا تھا.پھر ہجرت کا واقعہ پیش ہوا.اس میں بھی میں نے صلاح دی اور اس کے بھی نفع و نقصان سے آگاہ کیا مگر بھی اس وقت توجہ نہ کی گئی اور آخر میرے بتائے ہوئے نقصانات ان کو برداشت کرنے پڑے.پھر ہندو مسلم اتحاد کا شور پڑا اس میں بھی میں نے جو تجاویز بتائیں اس وقت تو ان پر ہنس دیا گیا لیکن آخر آج یہ لوگ خود ہی چلا اٹھے کہ اگر ہندوؤں وغیرہ سے اتحاد ہو سکتا ہے تو ان شرائط پر اور اس پر ان تجاویز پر.اور وہ شرائط اور وہ تجاویز کیا تھیں؟ وہی تھیں جو میں نے پہلے ہی بتا دیں.پھر نان کو اپریشن (Non-co-Opration) کی آواز اٹھی.میں نے اس کے متعلق بھی کچھ مشورہ دیا مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دوسرے موقعوں کی طرح اس موقعہ پر بھی جو کچھ میں نے کہا وہ انہوں نے نہ مانا اور گو اس کو نہ ماننے کا نتیجہ ان کو تکلیف دہ صورت میں بھگتنا پڑا لیکن آخر کار وہی ہوا جو میں نے پہلے ہی کہا تھا.اسی طرح تقریبا تمام پیش آمدہ تحریکات اور حالات پر میں نے مشورہ دیا مگر انہوں نے نہ مانا اور گو اس وقت تو نہ مانا مگر جب وقت نکل جاتا رہا پھر اس کو مانا.اس سے کیا یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ ہماری رائے مذہب کی طرح سیاست میں بھی صائب ہوتی ہے.جب ہم ریل کے سٹیشن سے دور ایک گاؤں میں بیٹھنے والے ہیں.جب ہم سیاسی مجلسوں سے تعلق رکھنے والے نہیں.جب ہم ان کتابوں کو نہیں پڑھتے جن میں سیاسی بحث ہوتی ہے.اور جب ہم سیاسی امور سے اس قدر واقف بھی نہیں جس قدر کہ وہ لوگ خود ہیں.پھر ہم وقت پر اگر کوئی صلاح دیں اور مشورہ بتائیں اور وہ صلاح اور
210 مشورہ بعد میں صحیح اور درست ثابت ہو.تو کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان معاملوں میں خدا تعالیٰ ہماری رہبری کرتا ہے.اور ہمیں صحیح رائے دینے اور مفید مشورہ بتانے کے لئے خود اپنے فضل سے سکھلاتا ہے.پس جب یہ حال ہے تو کیا ان لوگوں کا جو کہ صحیح مشورہ نہ بتائے جانے کے سبب پے در پے تکلیفوں برداشت کر رہے ہیں یہ فرض نہیں کہ وہ ان تکلیفوں سے نجات پانے کے.لئے ہماری باتوں کی طرف پوری توجہ کریں اور وقت پر ان کو زیر عمل لا کر اپنی حفاظت کریں.انہیں مشوروں میں میں نے مسلمانوں کے سامنے یہ بات بھی پیش کی تھی کہ ایک لیگ آف مسلم نیشن ہونی چاہئے مگر مسلمانوں نے جیسا کہ ان کی عادت ہے کہ قادیان سے اٹھنے والی ہر بات کی مخالفت کی جائے قطع نظر اس سے کہ وہ مفید ہو یا غیر مفید اس کی بھی پرواہ نہ کی.اور میری اس تجویز کو جو سراسر مسلمانوں کے فائدے کے لئے تھی نہ مانا مگر آج وہ دن ہے کہ چاروں طرف سے مجبور ہو کر وہ اسی طرف جا رہے ہیں کہ مسلمانوں کی ایک متحدہ لیگ ہونی چاہئے.جس میں تمام اسلامی فرقوں کو شریک ہونا چاہئے.گو ابھی پوری طرح ادھر رخ نہیں ہوا.لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ جا اسی طرف رہے ہیں.لاہور میں میں نے بریڈ لا ہال میں ایک دفعہ تقریر کی تھی.اس میں میں نے ہندو مسلم اتحاد کے متعلق بیان کیا کہ یہ اتحاد ہو نہیں سکتا جب تک حقوق کا تصفیہ نہ ہو جائے اور جب تک پہلے ایک دوسرے کی شکایات نہ سنی جائیں پھر ان کے دور کرنے کی تجویز میں نہ سوچی جائیں.کیونکہ اگر ایسا نہ کیا جائے گا اور صرف اتحاد پر زور دیا جائے گا تو یہ اتحاد نہ ہو گا.میں نے وہاں یہ مثال بھی دی تھی کہ دو زمیندار جن کا کسی منڈیر پر جھگڑا ہو جائے اور وہ از خود یا کسی تیسرے شخص کے سمجھانے سے جھگڑا بند کر دیں اور ہر ایک ان میں سے دوسرے کا بھائی بن جائے اور وہ اس صفائی کے بعد جھگڑے کے خیال سے رو بھی پڑیں مگر ہر ایک ان میں سے یہ سمجھ کر پھر دل کو تسلی دے لے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرا اس منڈیر کو چھوڑ دے گا تو جس دن ایک ان میں سے ہل چلانے جائے گا ان کی آپس میں سر پھٹول ہو جائے گی کیونکہ ہر ایک ان میں سے یہ سمجھ رہا تھا کہ شائد دوسرے نے چھوڑ دیا ہے.اور جب پھر ان میں صفائی کی کوشش کی جائے گی تو ہر ایک ان میں سے یہی کہے گا کہ میں نے میں سمجھا تھا کہ شائد یہ اسے چھوڑ دے گا.میں نے اس وقت اس مثال کے بتانے کے بعد کہا تھا جب تک تصفیہ حقوق نہ کر لو گے صلح کام نہ آئے گی اور جب تقسیم دولت کا وقت آئے گا تو پھر شکایات ہوں گی اور پھر وہی جھگڑا ہو گا.لیکن میرے اس مشورہ پر جو عین وقت پر دیا گیا غور نہ کیا گیا.اور اور
211 ہی طریق سے صلح کرتے رہے.اور اتحاد کے لئے کوشش کرنے میں بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی.گوجو صلح اور اتحاد انہوں نے کیا اسے صلح اور اتحاد تو نہیں کہا جا سکتا تھا لیکن چونکہ وہ اسے صلح اور اتحاد کا نام دیتے تھے اس لئے میں بھی کہتا ہوں کہ انہوں نے بغیر تصفیہ حقوق کرنے کے صلح کر لی.لیکن جب وقت آیا تو وہی منڈیر والا قصہ ہوا اور وہی جنگ برپا ہو گئی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم نہ تو سیاسی کتابیں پڑھتے ہیں.نہ ہم سیاسی مجالس میں شرکت حاصل کرتے ہیں.اور نہ یہ باتیں جو ہم کہتے ہیں ہمارے غور فکر کا نتیجہ ہوتی ہیں.لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ یہ باتیں ہمیں خدا سمجھاتا ہے اور جو باتیں وہ ہمیں سمجھاتا ہے اور اس کے سمجھانے کے بعد جو باتیں ہم کہتے ہیں وہی اکثر پوری ہوتی ہیں.اس وقت تو لوگ ان کو نہیں مانتے لیکن بعد ازاں وقت آتا ہے جب زبان سے تو نہیں افعال اور خیال سے انہیں ماننا شروع کر دیتے ہیں.اور اب تو کہیں کہیں زبان سے بھی ماننا شروع کر دیتے ہیں.پس یہ ٹھیک اور بالکل ٹھیک ہے کہ ایسی باتیں ہمیں خدا سکھلاتا ہے.اور اس کے سکھلائے ہوئے علم کے ماتحت ہم دنیا کو بتاتے ہیں.میں جب ولایت گیا تو وہاں میں نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ ہندوستان کی ترقی زراعت سے ہو سکتی ہے.گورنمنٹ کہہ تو دیتی ہے کہ یہ زرعی ملک ہے اور زراعت سے اسے ترقی ہو گی مگر کرتی کچھ نہیں.پھر وہ جن افسروں کو اس ترقی کے لئے وہاں بھیجتی ہے وہ ایسے ہوتے ہیں کہ عام تو الگ رہے خاص لوگ بھی ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے.گورداسپور میں میں نے دیکھا کہ ایک ڈپٹی تھے وہ مجھے وہاں کے فارم دکھاتے رہے.میں نے دیکھا جب وہ آتے تو زمیندار صف باندھ کر سڑک کے کنارے کھڑے ہو جاتے اور آداب بجا لاتے.میں نے کہا ڈپٹی صاحب آئے تو اس لئے ہیں کہ ان لوگوں کو زراعت کی ترقی کے راز بتائیں مگر حال یہ ہے کہ زمیندار ان سے ڈر کے مارے بات بھی نہیں کر سکتے.تو میں نے کہا تھا گورنمنٹ کو ایسے افسروں کی بجائے ایسے افسر اس ملک میں بھیجنے چاہئیں جن سے اس ملک کے باشندے فائدہ حاصل کر سکیں اور اپنے ملک کی زراعت کو ترقی دے سکیں.اس وقت اس تجویز کو اتنی اہمیت نہ دی گئی لیکن اب دو سال بعد گورنمنٹ اس بات کی طرف جھکی ہے اور ایک کمیشن بٹھایا ہے جس نے اپنی رپورٹ میں یہی کہا ہے جو میں نے اپنی تقریر میں کہا تھا.حتی کہ وزیر ہند نے بھی اپنی تقریر میں اس بات پر زور دیا ہے کہ اس ملک کے لئے ایسے ر مقرر کئے جائیں جن سے رعایا فائدہ حاصل کر سکے اور اس ملک کی زراعت کو ترقی ہو سکے.غرض جو جو تدبیریں میں نے بتائی تھیں وہی آخر درست ثابت ہوئیں.پس صحیح تدبیر بھی خدا
212 وہ ایمان لانے سے ہی سوجھتی ہے.کوئی شخص اگر مسلمان ہو کر تدابیر اختیار کرنا چھوڑتا ہے تو وہ ذلیل ہوتا ہے.دوسرے لوگ تو تدبیریں اختیار کرتے ہیں اور کامیاب بھی ہو جاتے ہیں.لیکن اگر اختیار نہ بھی کریں تو ان پر اتنا گلہ نہیں جتنا مسلمانوں پر ہے.اور میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ غفلت عام طور پر مسلمانوں پر طاری ہے الا ماشاء اللہ سوائے چند لوگوں کے کہ وہ غلط تدبیریں ہوں یا صحیح کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں.اور در حقیقت وہی ہیں جو اس وقت تک قوم کا سہارا ہیں.اور انہیں کے سبب كلا نمد هولاء وهولاء من عطا ربك (بنی اسرائیل ۲۱) ان کی مدد بھی ہو رہی ہے.مسلمانوں کی دعائیں بھی الٹ ہی پڑ رہی ہیں جس کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ جب تک ان کی دعائیں سیدھی نہ پڑیں گی کبھی گورنمنٹ سے مارے جائیں گے کبھی ہندوؤں سے.اور دعائیں سیدھی پڑ نہیں سکتیں جب تک انہیں خدا پر حقیقی ایمان نہ ہو.حقیقی یقین نہ ہو.امید نہ ہو.عجز و انکسار نہ ہو نہ ہو.اور یہ باتیں حاصل ہو نہیں سکتیں جب تک اس زمانے کے مامور کو جسے خدا نے اس زمانہ کی اصلاح اور فلاح کے لئے مقرر کیا ہے.مانا نہ جائے.اور اس زمانہ کے مامور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سوا کوئی اور ہے نہیں.پس جب تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نہ مانا جائے گانہ یہ باتیں حقیقی طور پر ان میں پیدا ہوں گی اور نہ وہ ذلت سے نکلیں گے.اگرچہ مسلمان اپنی غفلت سے ذلت میں پڑے ہوئے ہیں.تاہم وہ قابل رحم حالت میں ہیں اور ان کی حالت کو بھی درست کرنا ہمارے لئے ضروری ہے.کیونکہ وہ ہمارے بھائی ہیں.پس میں ان کے لئے بھی اور ساری دنیا کے لئے بھی دعا کرتا ہوں کہ ساری دنیا کے لوگ ہی ہمارے بھائی ہیں.خدا ان پر رحم فرمائے اور ان کو اس حالت سے نکالے.لیکن مسلمان تمام دنیا سے ہمارے نزدیک ہیں.کیونکہ جو محمد رسول اللہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں وہ ہمارے بہت قریب ہیں.پس وہ ہمارے قریبی بھائی ہیں.اس لئے میں دعا کرتا ہوں کہ خدا ان کی مشکلات کو دور فرمائے تاکہ وہ بھی اس کے فضلوں کے اسی طرح وارث ہوں جس طرح احمدی جماعت وارث ہے.میں آج نماز جمعہ کے بعد مدد خان صاحب کی لڑکی آمنہ بیگم کا جنازہ پڑھاؤں گا.ماسٹر فقیر اللہ صاحب انسپکٹر مدارس یوپی کو بہت لوگ جانتے ہیں.پہلے تو وہ بہت قادیان آیا کرتے تھے.مگر اب کم آتے ہیں.آمنہ بیگم ان کی بیوی تھی.جو یوپی میں فوت ہوئی ہے.ماسٹر فقیر اللہ صاحب نے لکھا ہے کہ وہ اکیلے ہی اس کا جنازہ پڑھنے والے تھے.پس احباب کو چاہئے کہ وہ میرے ساتھ اس نماز جنازہ میں شریک ہوں.(الفضل ۶ جولائی ۱۹۲۶ء)
213 23 چند ضروری باتیں (فرموده ۲۳ جولائی ۱۹۲۶ء) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت پچھلے چھ جمعوں میں سے صرف ایک جمعہ پڑھانے کی توفیق مجھے ملی.جمعہ کے ان خطبات میں سے ایک خطبہ کے متعلق ایک طالب علم نے شکایت کی ہے.لیکن نہ تو اس کی کسی اور نے تائید کی ہے اور نہ میرے پاس کوئی اور اس قسم کی شکایت پہنچی ہے اور نہ ہی طالب علمانہ حیثیت میں ایک بچہ سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ کسی مضمون کو صحیح اور کامل طور پر سمجھ سکے.پس بحث اس شکایت کی نہیں اس لئے میں اس تحریر کو قابل التفات نہیں سمجھتا.لیکن جو غلط فہمی اس سے پیدا ہوئی ہے خواہ وہ طالب علم ہی کی ہو بہت بڑی ہے.اس لئے اس کا ازالہ ضروری ہے.پہلی دفعہ جب مجھ پر انفلوئنزا کا حملہ ہوا تھا تو ان دنوں کے خطبات میں سے ایک خطبہ کے متعلق اس طالب علم نے لکھا تھا اور میرا ارادہ تھا کہ اس کے متعلق بھی بیان کروں.لیکن بیماری کے دوسرے حملے سے پھر بیمار ہو گیا اس لئے میں اس کے متعلق کچھ بیان نہ کر سکا.گو جیسا کہ میں نے بتایا شکایت کرنے والا بچہ ہے.اس کی روایت اس لحاظ سے کہ ابھی اس کے دماغ کی نشود نما ایسی نہیں کہ بات کی تہ تک پہنچ سکے قابل توجہ نہیں.لیکن مضمون کے لحاظ سے بہت اہم ہے.اور مجھے اپنی بیماری کے ایام میں بہت تکلیف ہوئی کہ میں کیوں اس مضمون کے متعلق جلدی بیان نہیں کر سکتا.آج خدا تعالیٰ نے موقعہ دیا ہے اس لئے میں پہلے اس کے متعلق بیان کرتا ہوں.وہ شکایت یہ ہے کہ خطیب نے بیان کیا ہے کہ گویا بعض پیشگوئیوں کے لحاظ سے ایک موعود مسیح میں بھی ہوں.کیونکہ بعض پیشگوئیاں جو مسیح موعود کے متعلق ہیں مجھ پر پوری ہوتی ہیں.میں خطیب کی علمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اور جماعت میں اس کی جو پوزیشن ہے اسے اور اس کے تقویٰ اور نیکی کو
214 مد نظر رکھتے ہوئے یہی سمجھتا ہوں کہ در حقیقت شکایت کرنے والے کو اصل بات سمجھ نہیں آئی.کیونکہ پیشگوئیوں کا مضمون ایسا دقیق ہوتا ہے کہ اس کے بیان کرنے میں کئی الجھنیں رہ جاتی ہیں.پھر بسا اوقات مضمون تو واضح ہوتا ہے لیکن سننے والے اپنے پرانے خیالات اور آرا کی وجہ سے اس کو اور رنگ دے لیتے ہیں.دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے دعوئی مجددیت و نبوت سے لے کر برابر اپنی وفات تک یہ سمجھاتے رہے کہ مسیح موعود سے آپ کی کیا مراد ہے.لیکن باوجود اس کے آج تک ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو کہتے ہیں کہ آپ تاریخ کے قائل تھے.اور صرف ناواقف ہی ایسا نہیں سمجھتے اور ایسا نہیں کہتے بلکہ واقف بھی ایسا کہتے ہیں.یعنی ان لوگوں میں سے بھی بعض یہی بات کہتے ہیں جو سلسلے کے لٹریچر سے خوب واقف ہیں.پادری زدیم صاحب جو عیسائیوں میں اسلامی لٹریچر کے ماہر ہونے کے لحاظ سے بہت مشہور ہیں اور عربی جانتے ہیں.ایک دفعہ قادیان آئے اور باتوں کے سوا ان کے دل میں یہ بھی تھا کہ میں چل کر اس رنگ میں گفتگو کروں گا کہ آیا آپ لوگ تناسخ اور ارواح کے تصرف کے قائل ہیں یا نہیں.اگر کہا گیا نہیں تو کہوں گا تو پھر مرزا صاحب مسیح موعود کیسے ہو سکتے ہیں.اور اگر اس کا اقرار کیا تو کہوں گا یہ تو تناسخ ہے.دوسرے لوگ ان سے ملتے اور مختلف باتیں کرتے.وہ ان کے سامنے کچھ کچھ اعتراض بھی پیش کرتے مگر کہتے بعض سوال دل میں رکھے ہیں جو میں خلیفہ المسیح سے ہی پوچھوں گا.وہ سمجھتے تھے یہ سوال ایسے ہیں جن کا کوئی جواب ہی نہیں.اس لئے اچانک اس طرح پیش کروں گا جیسے بم پھٹتا ہے.غرض وہ مجھ سے ملے اور ادھر ادھر کی باتوں کے درمیان یہ سوال مجھے پر کیا کہ کیا آپ تاریخ اور ارواح کے تصرف کے قائل ہیں.ادھر انہوں نے یہ کہا ادھر میں نے سمجھا کہ ان کا کیا مطلب ہے اور اس طرح کیا اعتراض کرنا چاہتے ہیں.میں نے انہیں سمجھایا حضرت صاحب کا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا جو تھا وہ اس طرح نہیں تھا کہ مسیح کی روح آپ میں حلول کر گئی ہے بلکہ اس طرح تھا کہ آپ روحانی ترقی کر کے اس حد تک پہنچ گئے تھے کہ حضرت مسیح کے مثیل ہو گئے تھے تو پادری زدیمر ہمارے سلسلے اور ہمارے سلسلے کے لٹریچر سے خوب واقف ہیں.وہ ہمارے متعلق اپنے رسالہ مسلم ورلڈ" میں نوٹ بھی لکھتے رہتے ہیں.مگر باوجود ہمارے لڑیچر سے واقف ہونے کے پھر بھی دھوکہ کھا گئے.غرض بعض وقت ایسا ہوتا ہے کہ بات تو واضح ہوتی ہے لیکن سمجھنے والا اس کو اچھی طرح نہیں سمجھ سکتا.اس کے سماع پر پرانے خیالات ایسے جاری ہوتے ہیں کہ فرق نہیں کر سکتا اور پھر
215 آہستہ آہستہ هر که در کان نمک رفت نمک شد کے مطابق ان خیالات میں ایسا پھنستا ہے کہ کوئی دوسرا خیال اس پر اثر نہیں کرتا.جیسے اگر غیر احمدیوں کو نبوت کا مسئلہ سمجھا ئیں تو سب کچھ سمجھ لینے کے بعد پھر بھی وہ کہہ دیتے ہیں کہ پھر کلمہ بھی نیا بنانا چاہئے.نماز بھی نئی بنانی چاہئے.حالانکہ ہم جو کچھ ان کو نبوت کے مسئلہ کے متعلق سمجھاتے ہیں اس کا یہ مفہوم نہیں ہو تا مگر چونکہ پرانے خیالات کا اثر ان کے دماغ پر ہوتا ہے.اس لئے جب بھی نبوت کا مسئلہ پیش ہو گا ان کے دماغ فورا اس طرف جائیں گے کہ جب نبی ہو تو کلمہ بھی نیا ہونا چاہئے.تو بات کے سمجھنے میں اس طرح بھی غلطی لگ سکتی ہے.میرے یقین کی رو سے تمام وہ پیشگوئیاں جو حضرت مسیح موعود کے لئے تھیں.وہ تمام کی تمام ہمارے سلسلے کے بانی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات میں پوری ہو چکی ہیں.اور چونکہ وہ سب کی سب آپ کی ذات میں پوری ہو چکی ہیں اس لئے اب کوئی اور مسیح موعود نہیں.جیسا کہ آپ نے خود بھی فرمایا ہے کہ میرے بعد کوئی ایسا مسیح نہیں جو موعود ہو.ہو سکتا ہے کہ بعد میں مسیح ہوں.اور ہو سکتا ہے کہ پہلے بھی ہوئے ہوں.لیکن جسے رسول کریم ﷺ نے موعود کہا وہ حضرت مرزا صاحب ہی تھے آپ کے سوا اور کوئی نہیں.پس یہ تو ہو سکتا ہے کہ آپ کی مسیحیت کا پر تو اوروں پر بھی پڑ جائے اور یہ دروازہ قیامت تک کے لئے کھلا ہے مگر جو مسیح موعود ہے وہ ایک ہی ہے.دوسرا کوئی نہیں.پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں وہ آپ کے خدام کے ذریعہ پوری ہوں.اور یہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ ہمارے متعلق پیشگوئیاں ہیں ان میں سے بعض ہمارے مریدوں کے ذریعہ پوری ہوں گی اور میں خیال کرتا ہوں خطیب کا بھی یہی مطلب ہو گا کہ حضرت مسیح موعود کے متعلق بعض پیشگوئیاں میرے ذریعہ پوری ہوئی ہیں.جیسا اس شکایت کے لکھنے والے نے بھی اپنے رقعہ میں جو مثال دی ہے اس سے ظاہر ہے کہ انہوں نے کہا دمشق میں مسیح موعود کے تشریف لے جانے کی متعلق پیشگوئی تھی وہ میرے ذریعہ پوری ہوئی.اس پیشگوئی کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ میں یا میرے خلفاء میں سے کوئی خلیفہ دمشق میں جائے گا.اب جس کے ذریعہ یہ پیشگوئی پوری ہوئی.اس کے متعلق یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ اس پر حضرت مسیح موعود کی مسیحیت کا پر تو پڑا مگر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ
216 وہ مسیح موعود ہے.ایسے کام دراصل انتقال کے رنگ میں ہوتے ہیں.ایک مرید کے ذریعہ اگر کوئی ایسی پیشگوئی پوری ہوتی ہے جو رسول کو مخاطب کر کے بتائی گئی ہو.یا کوئی مرید ایسا کام کرتا ہے جو رسول کے کرنے کا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس رسول کی رسالت اس کی طرف منتقل ہو گئی بلکہ اس کا مطلب ہے کہ مرید کا کام رسول کی طرف منتقل ہو گیا.پس ہم یہ ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ اس پیشگوئی کے ماتحت جو بھی دمشق میں گیا وہ مسیح موعود ہو گیا بلکہ یہ کہتے ہیں کہ مسیح موعود کے ماننے والوں میں سے آپ کی تشریح کے مطابق جو دمشق میں گیا.اس کا یہ کام مسیح موعود کی طرف انتقال الا کر گیا.اور وہ پیشگوئی جو اس رنگ میں مسیح موعود کے لئے کی گئی تھی.اس طرح پوری ہو گئی.دیکھو آنحضرت ا نے دیکھا کہ قیصر و کسری کے خزانوں کی کنجیاں میرے ہاتھ میں دی گئی ہیں.لیکن وہ کنجیاں آپ کی وفات کے بعد حضرت عمر ان کے ہاتھ میں دی گئیں.اب اس میں " سے مراد آنحضرت ا تھے.حضرت عمر مراد نہیں تھے.لیکن کنجیاں حضرت عمر کے ہاتھ میں دی گئیں.اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ رسول کریم ﷺ کی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی.کیونکہ آپ کے ایک غلام کے ذریعہ پوری ہو گئی.اور مرید کے ذریعہ پیشگوئی کا پورا ہونا آقا کا ہی پورا ہوتا ہے.نہ کہ کوئی کام کرنے سے پیر کی پیری مرید کی طرف منتقل ہو جاتی ہے.پس جب پیر کا کوئی کام مرید کے ذریعے ہو.تو یہ نہیں کہا جاتا کہ پیر نے یہ کام نہیں کیا.کیونکہ مرید کا کام کرنا در حقیقت پیر کا کام کرنا ہی ہے.اس کی مثال ما رسیت اذ رمیت و لكن الله رمى (الانفال (۱۸) میں بھی موجود ہے.خدا تعالیٰ رسول کریم ان کو فرماتا ہے جب تو نے پھینکا تو تو نے نہیں پھینکا بلکہ خدا نے پھینکا.اس آیت میں خدا تعالیٰ نے ایک فعل کو اپنا فعل بتایا ہے.جو در حقیقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا.مگر اس سے آپ خدا نہیں ہو گئے.بلکہ آپ کا ایک فعل خدا کی طرف منتقل ہو گیا.تو ایسی تمام پیشگوئیاں جو کسی مدعی کے مریدوں کے ذریعہ پوری ہوتی ہیں.مدعی ہی کی سمجھی جاتی ہیں.اور ایسے کاموں سے مدعی کا دعوی اس کی طرف منتقل نہیں ہو جاتا.بلکہ مرید کا کام مدعی کی طرف منتقل ہو جاتا ہے.مارمیت میں آنحضرت ﷺ کا کام خدا تعالیٰ کی طرف منتقل ہو گیا.گویا یہ خدا تعالیٰ کا کام تھا.جو اس نے آنحضرت ﷺ سے کرایا.اور جب خدا نے آنحضرت ا کے ذریعہ اپنا ایک کام کر لیا.تو آپ کے لئے بہت بڑی عزت کی بات تھی.اور یہ ہمیشہ ہی عزت و افتخار کی بات ہوا کرتی
217 ہے کہ کسی غلام سے آقا کا کام سر انجام پائے یا آقا اپنا کام اس سے کرانے کے لئے اسے کہے.یہی بات میرے ساتھ بھی ہے.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کوئی پیشگوئی میرے ذریعے پوری ہو جائے تو یہ میرے لئے فخر کی بات ہے اور جیسا کہ ظاہر ہے بہت سی پیشگوئیاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی میرے ہاتھ سے پوری ہو ئیں اور بہت سے کام آپ کے میرے ذریعے ہوئے.بیشک یہ میرے لئے فخر کی بات ہے کہ مجھ سے حضرت مسیح موعود کے کام ہوئے اور میں اپنے اس فخر کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوں.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق دمشق والی پیشگوئی میرے ذریعے پوری کرائی اور بھی ہیں جو میرے ذریعے پوری ہوئیں.اور ایسی پیشگوئیاں ایک درجن سے زیادہ ہوں گی.مگر میں ان سے یہ نہیں سمجھتا کہ ان کے پورا ہونے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا عہدہ میری طرف منتقل ہو گیا ہے.بلکہ میرا کام آپ کی طرف منسوب ہو گیا.اور اس طرح میرے لئے موجب فخر ہو گیا.دیکھو ملک کی حفاظت بادشاہ کام ہے لیکن جب بادشاہ اس کام کو ایک جرنیل کے سپرد کر دے تو اس جرنیل کی عزت افزائی ہوتی ہے.اور وہ اگر اس پر فخر کرے تو اس کا فخر بجا ہو گا لیکن ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ حفاظت کا کام اس کے سپرد کر دینے سے وہ جرنیل بادشاہ نہیں ہو جاتا.اور نہ ہی بادشاہت اس کی طرف منتقل ہو جاتی ہے.بلکہ اس کا کام بادشاہ کی طرف انتقال پاتا ہے.پس یہ سچ ہے کہ یہ میرے لئے فخر کی بات ہے.گو میں نے اس کا کبھی اظہار نہیں کیا.لیکن ہے یہ میرے فخر کا باعث لیکن اس سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا عہدہ میری طرف منتقل ہو گیا ہے.چونکہ آپ کے ذریعہ سے اور آپ کے انفاس قدسیہ کی مدد سے یہ کام کئے گئے ہیں.اس لئے آپ ہی ان کے مستحق بھی ہیں.میرا دمشق میں جانا کس وجہ سے ہوا.اور پھر کونسی کشش تھی جو میری طرف لوگوں کو کھینچ کر لائی.کس بات نے اس ملک کے باشندوں میں ایک ہیجان پیدا کر دیا.کیا وہ یہی کشش نہ تھی کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا خلیفہ ہوں.کیا یہی ایک بات نہ تھی جس نے وہاں ایک ہیجان پیدا کر دیا.اس سے کیا یہ نتیجہ نہیں نکلتا.کہ یہ کام مسیح موعود ہی کا ہے.میں اگر مرزا محمود احمد کے نام سے وہاں جاتا تو کوئی بھی میرے پاس نہ آتا.لیکن بحیثیت خلیفہ المسیح میرا وہاں جانا لوگوں کو میرے پاس کھینچ کر لے آنے کا باعث ہوا.تو یہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام ہی تھا جو کشش کا باعث ہوا اور جس نے لوگوں میں ایک ہیجان پیدا کر دیا.وہ لوگ مسیح موعود کے
218 منتظر تھے اور اس بات پر بھی آمادہ تھے کہ اگر مسیح ظاہر ہو تو اس کے پاس جائیں.لیکن جب مسیح کا خلیفہ جس کے پاس مسیح کے بعد انہوں نے خود چل کے آنا تھا.خود ہی ان کے درمیان جا کھڑا ہو تو وہ کیوں نہ اس کے گرد جمع ہوتے اور کیوں نہ ان میں ایک ہیجان پیدا ہو جاتا.انہوں نے جب دیکھا.یہ ایک ایسے شخص کا خلیفہ ہے جو مسیح موعود ہونے کا مدعی ہے تو فورا" ادھر متوجہ ہوئے.اور یہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی روحانی توجہ کا ہی نتیجہ ہے.اس صورت میں کون عظمند انسان ایسا ہو سکتا ہے جو یہ کہے کہ یہ کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نہیں بلکہ کسی اور کا ہے.غرض اسلام کی شان و شوکت کے لئے جو کام ہماری جماعت میں ہوتا ہے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہی طرف منسوب ہو گا.آنحضرت نے فرمایا ہے لو كان الايمان معلقا بالثريا لنا له رجل من ابناء فارس ۲ مگر ایک دوسری روایت "رجال" کا لفظ بھی آیا ہے.یعنی ایک جگہ "رجل" کا لفظ استعمال کیا.اور دوسری جگہ "رجال" کا.اس میں یہی راز ہے کہ در حقیقت کام تو ایک ہی ”رجل فارس" کا ہو گا لیکن ہتھیار کے طور پر اور رجال بھی اس کے ساتھ لگا دیئے جائیں گے اور جو اور رجال اس کے ساتھ لگائے جائیں گے وہ اس کا کام کریں گے.کیونکہ اصل کام اس ایک کا ہی ہوگا.اس میں اشارہ" یہ بات بتائی گئی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کام میں ان کے خاندان کے اور افراد بھی بطور مدد گار لگائے جائیں گے.پس میں جہاں تک سمجھتا ہوں میرے نزدیک خطیب کا یہی مطلب ہو گا.کوئی نبی ایسا نہیں ہوا جس کی زندگی میں ہی اس کی پیشگوئیاں پوری ہو گئی ہوں.بلکہ مبالغہ نہ ہو گا اگر میں یہ کہوں کہ چوتھا حصہ بھی ان پیشگوئیوں کا پورا نہیں ہو تا بلکہ اکثر بعد میں پوری ہوتی ہیں.جس سے غرض یہ ہوتی ہے کہ ایک لمبے عرصہ تک دنیا ان نشانات کو دیکھ کر ان کی طرف متوجہ ہوتی رہے.مثلا" جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ کہا گیا کہ میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا تو کیا یہ کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں ہی ہو گیا.اور تبلیغ دنیا کے کناروں تک پہنچ گئی.تبلیغ تو شائد اس وقت تک بھی دنیا کے کناروں تک نہ پہنچی ہو.لیکن اس میں کچھ شک نہیں کہ حضرت مسیح موعود کے زمانہ سے لے کر اس وقت تک تبلیغ دور دور مقامات پر پہنچ گئی اور بعض ایسے مقامات پر پہنچ گئی کہ واقعی ان کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ وہ دنیا کا کنارہ ہیں.لیکن ابھی وہ وقت آنے والا ہے جب کوئی کنارہ دنیا کا ایسا نہ ہو گا جس میں تبلیغ نہ پہنچی
219 ہوگی.اور یہ کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد ہی ہوا اور بعد ہی ہو رہا ہے.اور پھر اس میں ایک آدمی ہی نہیں بہت سے آدمی کام کر رہے ہیں.اس پیشگوئی کے پورا کرنے میں لاکھوں آدمی شامل ہیں.اور ان لاکھوں کی کوشش سے یہ پوری ہو رہی ہے.لیکن دمشق کے متعلق جو ہوا.وہ اکیلے آدمی کے ذریعہ ہوا.اور مجھے اس پر فخر ہے کہ وہ اکیلا آدمی میں ہی ہوں کہ میرے ذریعے خدا تعالیٰ نے اس پیشگوئی کو پورا کرایا.اس وقت اس خیال کو دور کرنے کے لئے کھڑا ہوا ہوں جو اس کے متعلق ظاہر کیا گیا ہے.اس لئے میں اسے طول نہیں دینا چاہتا.صرف یہی پیشگوئی نہیں جو مجھ سے پوری ہوئی ہے بلکہ اور بھی ہیں.لیکن اس سے یہ نہیں کہ حضرت مسیح موعود کی ادنی سی مسیحیت بھی میری طرف منتقل ہو گئی.پس یہ ایک غلط فہمی ہے اور جیسا کہ میں نے شروع میں بھی اس کے متعلق کہا کہ یہ ایک غلط فہمی ہے.میں غلط فہمی اسے اس لئے کہتا ہوں.کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خطیب کا ہرگز یہ منشاء نہیں ہو گا.جو شکایت کے رنگ میں میرے سامنے بیان کیا گیا.بلکہ اس کی منشاء کے خلاف کچھ غلط فہمی ہو گئی ہے جسے دور کر دنیا چاہئے.اس کے بعد اور مضمون ہے جو میں بیان کرنا چاہتا ہوں اور جماعت کے لوگوں کو اس کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.روحانیت پر جہاں ہماری جماعت زور دیتی ہے.وہاں بعض غلط فہمیاں بھی پیدا ہو گئی ہیں.اور وہ غلط فہمیاں روحانیت کے مفہوم کے متعلق ہیں.روحانیت کا وہ مفہوم نہیں ہے جو عام طور پر سمجھا جاتا ہے.اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ انسان کے اندر ایسی باریک طاقتیں پیدا ہو جاتی ہیں جن سے وہ خدا تعالیٰ کے قریب ہو جاتا ہے اور ہر لحظہ اور بھی قریب ہو تا رہتا ہے.یعنی اس کے قرب پانے میں بہت کم واسطے ہوتے ہیں.وہ مادیت کو چھوڑتا جاتا ہے اور جیسے جیسے کوئی مادیت کو چھوڑتا جاتا ہے.ویسے ویسے اس کے واسطے" جو خدا تعالٰی اور اس کے درمیان ہوتے ہیں کم ہوتے جاتے ہیں.کیونکہ یہ ظاہر ہے کہ جتنی کوئی شئے مادی ہوتی ہے اس کے اور خدا کے درمیان واسطے" زیادہ ہوتے ہیں.اور جتنی کوئی شے لطیف ہوتی ہے واسطے کم ہوتے چلے جاتے ہیں.گویا جو شئے لطیف بنتی جاتی ہے.خدا کے قریب ہوتی جاتی ہے.اور جو خدا کے قریب ہوتی جاتی ہے وہ مادی واسطوں کو توڑتی جاتی ہے.لیکن جتنا کوئی مادیات میں ملوث ہو گا.اس کے درمیان واسطے بھی زیادہ ہوں گے.مثلا ایک شخص جو نہایت ہی مادی ہے اس کے لئے خدا تعالیٰ کے احکام بہت زیادہ واسطوں سے نازل ہوتے ہیں.ایک انسان ایسا ہوتا ہے کہ وہ کسی کے گھر ماتم دیکھتا ہے تو سمجھ لیتا ہے ee 33
220 کہ یہ دنیا فانی ہے اور مجھے بھی ایک دن مرنا ہے میں آخرت کی فکر کروں.لیکن ایک اور شخص ہوتا ہے جو بیمار کو دیکھ کر سمجھ جاتا ہے کہ بیماری کا نتیجہ موت ہے.اس میں اس شخص کے سمجھنے کی نسبت واسطے کم ہو گئے.پھر ایک اور شخص ہے وہ احتیاج کو دیکھ کر ہی سمجھ لیتا ہے.کہ انسان روزانہ کھاتا ہے.پیتا ہے.پہنتا ہے اور اور طرح کی احتیاجوں میں پھنسا ہوا ہے.پس کوئی خدا ہے جو احتیاجوں کا پورا کرنے والا ہے.یہ تو موٹی مثالیں میں نے بیان کی ہیں.ہر امر میں روحانی ترقی کرنے والوں کے لئے واسطے کم ہوتے جاتے ہیں اور جیسے جیسے کوئی شخص روحانیت میں ترقی کرتا جائے گا ویسے ویسے خدا اور اس کے درمیانی واسطے بھی کم ہوتے جائیں گے.آخر انسان کی روحانیت یہاں تک ترقی کر جاتی ہے کہ ملا کہ کے ذریعہ اس پر یر کشوف ہونے شروع ہو جاتے ہیں.اور ان کے سوا کوئی مادی واسطہ درمیان میں نہیں رہتا.پھر اور ترقی ہوتی ہے اور بعض ایسے احکام نازل ہونے شروع ہو جاتے ہیں.جو شریعت میں موجود ہوتے ہیں مگر توجہ دلانے کے لئے پھر نازل ہوتے ہیں.پھر اور آگے ترقی ہوتی ہے.اور ایسے مقام پر انسان پہنچ جاتا ہے جہاں ملائکہ بھی درمیان سے ہٹ جاتے ہیں.یعنی ملائکہ کا جو واسطہ درمیان میں ہوتا ہے.وہ بھی نہیں رہتا اور ملائکہ بجائے واسطہ ہونے کے اس کلام کے ساتھ چوکیدار کے طور پر آتے ہیں.تب انسان ایسا کامل ہو جاتا ہے کہ نہ صرف لفظوں میں ہی خدا کا کلام اس پر اترتا ہے بلکہ ہر وقت اس کے قلب پر اس کے انوار کا پر تو پڑتا رہتا ہے.یہ حالت کسی کو نماز میں رونا آجانے سے نہیں پیدا ہو سکتی.کیونکہ یہ طبعی حالات سے تعلق رکھتی ہے.مادی ذرائع سے مادی اشیاء اور مادی لذائد ہی حاصل ہو سکتے ہیں.جیسے کھانے سے زبان کو مزہ آتا ہے.وہ اذکار وغیرہ جن کا مادیات سے تعلق ہوتا ہے ان سے کچھ مزہ تو آتا ہے لیکن روحانیت پیدا نہیں ہو سکتی.جیسے کھانے سے مزہ تو آتا ہے لیکن یہ نہیں ہو تا کہ وہ مزہ بھی حاصل ہو جائے جو ایک دوست سے ملنے کی خوشی سے حاصل ہوتا ہے.دنیا میں دو قسم کی لذتیں ہیں.ایک انسان کے اندر سے آتی ہے اور ایک باہر سے.تمام وہ اذکار اور وظیفے جو عام طور پر کئے جاتے ہیں تمام کے تمام ظاہری ہوتے ہیں.ان کے ذریعے زیادہ سے زیادہ اگر کچھ ہوتا ہے تو یہ ہوتا ہے کہ انسان میں جذبات پیدا ہو جاتے ہیں.اور مثال بعینہ ہے جیسے کوئی شخص سخت گھبرایا ہوا ہو غموں فکروں اور صدموں کا مارا ہوا ہو.اسے افیون کھلا دی جائے یا بھنگ پلا دی جائے یا شراب پلا دی جائے اس سے کچھ دیر کے لئے وہ شخص غموں سے نجات پا ہوتی
221 جاتا ہے کیونکہ اس کے احساسات مار دیئے جاتے ہیں.لیکن اس طرح حقیقی خوشی نہیں حاصل ہوتی.لیکن چونکہ اس کے علم فکر اور جذبات کو مار دیا جاتا ہے اس لئے وہ شخص سمجھتا ہے.مجھے خوشی حاصل ہو گئی.حالانکہ یہ خوشی نہیں اور اگر یہ خوشی ہے تو یہ ایسی نہیں جو اندر سے پیدا ہوئی.بلکہ یہ ایسی ہے جو باہر سے آئی اور چونکہ وہ باہر سے آئی ہے اس لئے حقیقی خوشی نہیں.حقیقی خوشی وہ ہوتی ہے جو اندر سے پیدا ہو.جو باہر سے ہے وہ نقلی ہے آگے نقلی خوشی کی دو قسمیں ہیں.ایک وہ جو اصل کا رستہ صاف کرنے کے لئے آتی ہے.اور دوسری وہ جو اصلی سے ہٹا دیتی ہے.اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک تو شراب سے طاقت دی جاتی ہے.دوسری ورزش سے طاقت دی جاتی ہے.دنیا میں نہ کوئی عقل مند ایسا ہے اور نہ کوئی ڈاکٹر جو ان دونوں طاقتوں کو برابر کیے.ایک Stimulent دوائیاں ہوتی ہیں.جو عارضی طور پر طاقت دیتی ہیں اور جب ان کا نشہ اور اثر اتر جاتا ہے تو وہ اصل طاقت کو بھی کم کر دیتی ہیں.اور ایک قسم کی Exhaustion (ضعف و کمزوری پیدا کر دیتی ہیں.مثلا" شراب سے عارضی طاقت پیدا کی جاتی ہے اور کچھ دیر کے لئے غموں اور فکروں کو مار دیا جاتا ہے ہے.لیکن ایک اس قسم کی دوائیاں ہوتی ہیں جن سے مستقل طاقت پیدا کی جاتی ہے.نماز روزہ وغیر ظاہری عبادات اسی قسم کے اعمال ہیں جو اصلی خوشی کا راستہ صاف کرنے کے لئے ہیں.ان سے گویا وہ طاقت پیدا ہوتی ہے جو ورزش سے حاصل ہوتی ہے اور جو اس طاقت کی طرح عارضی نہیں ہوتی جو شراب یا افیون یا بھنگ سے پیدا کی جاتی ہے.یہ بے شک ظاہری پابندیاں ہیں.مگر یہ ایسی ہیں جن سے ایک ایسا سوراخ پیدا ہوتا ہے جس سے روحانیت کا وہ پانی انسان کے قلب میں پھوٹتا ہے جو در حقیقت انسانی زندگی کے لئے ضروری ہے.اور اس سے ایسی طاقت پیدا ہونی شروع ہوتی ہے.جو رفتہ رفتہ انسان کو پوری روحانیت میں لے آتی ہے.لیکن وہ طاقت جو اوراد وغیرہ مصنوعی طریقوں سے پیدا کی جاتی ہے شراب یا کسی اور ایسی چیز کے ذریعہ پیدا شدہ طاقت کی طرح ہوتی ہے.جو عارضی ہوتی ہے اور ایک حد تک قوت واہمہ کو بڑھاتی ہے اور تمام وہ چیزیں جو قوت واہمہ کو بڑھاتی ہیں مسلک ہوتی ہیں.لیکن خدا کی طرف سے جو اعمال کرنے کا حکم ہے وہ Soothing ہیں.ان سے ایک قسم کی تسکین حاصل ہوتی ہے اور وہ قوت واہمہ کو مار دیتے ہیں.ہمارے ایک دوست ہیں وہ کچھ عرصہ پہلے درود و ظائف اور اذکار وغیرہ کے متعلق گفتگو کرتے رہتے تھے.ایک دفعہ گفتگو اس مقام پر پہنچی کہ درود و ظائف سے بڑی لذت آتی ہے.میں نے کہا لذت تو آتی ہے لیکن لذت ہی اگر مراد ہے تو لد.و بھنگ پینے والے کو بھی آتی ہے.میں یہ پوچھتا
222 ہوں صرف لذت ہی لذت رہتی ہے یا کچھ ملتا بھی ہے.اس پر وہ ہنس پڑے اور کہنے لگے.ہمارے ایک پیر تھے جو کئی طرح کے وردو ظائف میں مشغول رہتے اور کہتے میں عرش پر سجدہ کرتا ہوں لیکن جب فصل کا وقت آتا تو گھر بہ گھر پھرتے اور غلہ جمع کرتے.سجدہ عرش پر کرتے تھے اور سوال زمین کے لوگوں سے کرتے تھے.حالانکہ سوال کرنا منع ہے.جو شخص عرش پر سجدہ کرتا ہو اس کے پاس تو ہر ایک چیز ہونی چاہئے.اور اسے کسی سے سوال نہ کرنا چاہئے مگر اس شخص کی یہ حالت تھی کہ لوگوں سے تو کہتا کہ میں عرش پر سجدہ کرتا ہوں مگر سوال دوسروں سے کرتا.حالانکہ مومن تو اپنے کام کا صلہ لینا بھی پسند نہیں کرتا کجا یہ کہ سوال کے لئے ہاتھ پھیلائے.ورود دیکھو آنحضرت ﷺ نے جو بھی کام دنیا میں کیا سراسر دنیا کی بھلائی کے لئے کیا مگر باوجود اس کے آپ نے کبھی کوئی صلہ طلب نہیں کیا بلکہ یہی فرماتے رہے ہم اس کا اجر نہیں مانگتے.باوجود اس کے کہ آنحضرت اللہ نے اجر طلب نہیں کیا خدا نے آپ کو دیا.یہ جو ہزارہا انسان آپ پر در پڑھتے ہیں یہ اجر ہی ہے.اگر آپ وہ کام نہ کرتے جو آپ نے دنیا کے لئے گئے تو کون آپ پر دروز بھیجتا.غرض آپ کو اجر تو ملا لیکن آپ کے دل میں یہ خواہش نہ تھی کہ ملے مگر اللہ تعالیٰ دلاتا ہے.اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ بندوں کو ناشکر انہیں بنانا چاہتا.غرض مومن اگر کوئی کام کرتا ہے تو اس کے اجر کے لئے سوال نہیں کرتا لیکن خدا تعالیٰ جب اسے دلاتا ہے تو پھر انکار بھی نہیں کرتا کیونکہ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ انکار سے کفران نعمت لازم آتا ہے.مگر ایک شخص سجدہ تو عرش پر کرتا ہے مگر اس کی خواہشات ملتی نہیں جو لذت اسے درود و ظائف سے حاصل ہوتی ہے وہ دراصل بھنگ پینے والوں کی لذت کے برابر ہے.حقیقی روحانیت اس تعلق باللہ کا نام ہے جس سے بلا واسطہ ایک شخص اپنا تعلق خدا کے ساتھ محسوس کرتا ہے اور جس سے رفتہ رفتہ وہ ایک ایسے مقام پر پہنچا دیا جاتا ہے کہ فرشتوں کو بھی درمیان سے ہٹا دیا جاتا ہے.چنانچہ معراج میں یہی ہوا.ایک مقام پر پہنچ کر جبرائیل بھی رک گئے.مگر یہ بات اوراد کے ذریعہ حاصل نہیں ہو سکتی.ان طریقوں پر عمل کرنے سے ہو سکتی ہے جو شریعت نے مقرر گئے ہیں.یہ آخری زمانہ کے لوگ جو بدعتی ہیں لوگوں کو بھنگ وغیرہ پلا کر نظارے دکھاتے اور کئی کئی دنوں کے نظارے دکھاتے ہیں.جس سے لوگ سمجھتے ہیں کہ بس جی پیر صاحب بڑے باکمال ہیں کہ اتنے لمبے عرصہ کے نظارے تھوڑے وقت میں دکھا دیئے مگر یہ پیر صاحب کا کمال نہیں ہوتا بلکہ
223 بھنگ کا کمال ہوتا ہے.بھنگ پینے والے کو وقت لمبا نظر آتا ہے.اب بھنگ پینے والا اگر بھنگ کے نشہ اور اثر کے نیچے کوئی خواب دیکھے تو اسے بڑا لمبا نظر آئے گا.میں نے دیکھا ہے بعض نادان یہ کہہ کر بڑا خوش ہوتے ہیں کہ ہمارے پیر صاحب بڑے باکمال ہیں کہ انہوں نے اپنی توجہ سے ہمیں چھ چھ ماہ کا نظارہ تھوڑے سے وقت میں دکھا دیا حالانکہ لمبے عرصے کے صحیح حالات کو تھوڑے سے وقت میں دیکھنا بہت کم ہوتا ہے.میں نے ساری عمر میں ایک ہی ایسی خواب دیکھی جس میں دو دن کا نظارہ تھوڑے وقت میں دیکھا مگر یہ لوگ جو روحانیت سے بالکل کورے ہوتے ہیں اس قسم کے دعوے کرتے ہیں جیسے روحانیت میں بڑے باکمال ہیں.مگر جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ وہ روحانیت نہیں ہوتی بھنگ ہوتی ہے.یا کوئی اور شئے کہ کچھ عرصہ کے لئے لذت دیتی ہے.پس میں اپنی جماعت کے دوستوں کو کہتا ہوں.کہ وہ حقیقی روحانیت حاصل کرنے کی کوشش کریں نہ کہ ان لذتوں سے یہ سمجھ لیں کہ ہم نے روحانیت پالی.میں یہ اعلان بھی کرنا چاہتا ہوں کہ صحت کی خرابی کی وجہ سے جو جلسے سے چلی آتی ہے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ کچھ دنوں کے لئے کسی پہاڑی علاقہ میں جاؤں.میں انشاء اللہ تعالیٰ جمعرات کو یہاں سے چلوں گا چونکہ اس جمعہ کے بعد اور جمعہ ایسا نہیں آئے گا جس میں اعلان کر سکوں اس لئے میں اس جمعہ میں ہی اعلان کرتا ہوں.مولوی شیر علی صاحب میرے بعد مقامی جماعت کے امیر ہوں گے ضروری امور کے لئے ایک سب کمیٹی ان کے ساتھ ہوگی.جس کے میاں بشیر احمد صاحب مولوی سرور شاہ صاحب اور ماسٹر محمد دین صاحب ممبر ہوں گے.ان تینوں کو اس لحاظ سے اس کمیٹی میں رکھا گیا ہے کہ میاں بشیر احمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اس لحاظ سے جو ان کا اثر ہے اس کی وجہ سے ان کو اس کمیٹی میں شامل کیا گیا ہے.دوسرے دونوں شخصوں کو اس لحاظ سے کہ ان کا دونوں سکولوں سے تعلق ہے.سکولوں کی تعداد مجتمع اور زیادہ ہے.مولوی شیر علی صاحب اس سب کمیٹی کے مشورے سے ضروری امور طے کریں گے.مجھے افسوس ہے کہ ہماری جماعت میں ابھی ایسا رنگ نہیں پیدا ہوا کہ جس کے ساتھ خاص تعلق نہ ہو اسے اگر کسی کام پر مقرر کیا جائے تو اس کی بھی مانیں یہی وجہ ہے کہ لوگ جس کے ساتھ تعلق پیدا کر لیتے ہیں اس کی تو مان لیتے ہیں اور دوسرے کی نہیں مانتے.حالانکہ اصل فرمانبرداری یہ ہے کہ سلسلے کے مفاد کے لئے سب کی مانیں بعض لوگ غلطی سے فرمانبرداری کو غلامی سمجھتے ہیں مگر فرمانبرداری غلامی نہیں ہے.غلامی اور چیز ہے اور فرمانبرداری اور چیز.دنیا میں سب سے زیادہ آزادی
224 پھیلانے والے انبیاء اور ان کی جماعتیں ہوتی ہیں اور وہی سب سے زیادہ فرمانبردار ہوتی ہیں.اگر فرماں برداری غلامی ہوتی تو نہ انبیاء فرماں بردار ہوتے اور نہ ان کی جماعتیں.پس یہ غلط خیال ہے کہ فرمانبرداری غلامی ہے.یورپ کی جتنی قومیں ہیں سب فرمانبرداری کرتی ہیں لیکن وہی اس وقت سب سے زیادہ آزاد سمجھی جاتی ہیں.پھر بعض نادان ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہمارے اندر سیاست تو ہے نہیں پھر ہم کیوں کسی کی مانیں.لیکن یہ بھی غلط بات ہے ہمارے اندر سیاست ہے جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس حکومت نہیں تو اس کا یہ مطلب ہے کہ ہم ان امور میں جن کو گورنمنٹ نے اپنے لئے مخصوص کر لیا ہے کچھ نہیں کر سکتے اور ان کے لئے اس کے پاس جانے کے لئے مجبور ہیں لیکن اس کے علاوہ جو اور امور ہیں وہ ہماری سیاست ہے.پس جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم میں سیاست نہیں وہ نادان ہیں وہ سیاست کو سمجھتے ہی نہیں.سیاست کے یہی معنے ہیں کہ کسی کو کس اصول پر چلایا جائے.اور وہ تمام امور جن میں دنیا دی گورنمنٹ دخل نہیں رکھتی خلیفہ کے ہاتھ میں ہیں اور خلیفہ جماعت کو ان پر چلاتا ہے یعنی ان تمام امور کو منتقلی کر کے جن کو گورنمنٹ اپنے لئے مخصوص کر لیتی ہے.باقی ساری خلیفہ کی سیاست ہوتی ہے.مثلا" گورنمنٹ کہتی ہے چوری نہ کرو لیکن اگر کوئی کرے تو کہتی ہے اسے ہمارے پاس لاؤ.اس سے وہ اپنے قانون کے مطابق سلوک کرتی ہے اور لوگ مجبور ہیں کہ اس قسم کے معاملات میں اس کے پاس جائیں.لیکن وہ امور جن میں گورنمنٹ نے آزادی دی ہے کہ اپنے طور پر طے کر لو.وہ خلیفہ کی سیاست کے ماتحت ہیں.جو شخص یہ نہیں مانتا کہ خلیفہ کی بھی سیاست ہے.وہ خلیفہ کی بیعت ہی کیا کرتا ہے.اس کی کوئی بیعت نہیں.اور اصل بات تو یہ ہے کہ ہماری سیاست گورنمنٹ کی سیاست سے زیادہ ہے.خلیفہ کے لئے سیاست وہی عقیدہ ہے جس کے لئے گیارہ سال سے میں غیر مبایعین سے جھگڑ رہا ہوں.وہ کہتے ہیں کہ ہم میں سیاست نہیں اور جب سیاست نہیں تو خلیفہ بھی نہیں کیونکہ خلیفہ بغیر سیاست کے نہیں ہو سکتا.مگر میں کہتا ہوں کہ ہم میں سیاست ہے.در اصل سیاست دو قسم کی ہوتی ہے.ایک سیاست تلوار والی اور دوسری محبت والی.خلیفہ کے پاس محبت والی سیاست ہوتی ہے.وہ حکم دیتا ہے.مانو.پس مان لیا جاتا ہے.لیکن گورنمنٹ کہتی ہے مانو نہیں تو سر اڑا دیا جائے گا.ان دونوں سیاستوں میں کتنا عظیم الشان فرق ہے.خلیفہ کو صرف زبان سے کہنا پڑتا ہے اور لوگ مان لیتے ہیں مگر گورنمنٹ کو تلوار کی دھمکی دینی پڑتی ہے اور لوگ پھر بھی
225 مضمون انکار کر جاتے ہیں.تو خلیفہ کی سیاست گورنمنٹ کی سیاست سے بھی زیادہ ہے.چنانچہ گورنمنٹ بھی یہ مانتی ہے.یہی وجہ ہے کہ اس نے الیکشن کے قانون میں یہ رکھا ہے کہ وہ شخص جو روحانی پیشوا ہو اور جس کے حکم کے متعلق اس کے ماتحت سمجھتے ہوں کہ اگر نہ مانیں گے تو دین و دنیا میں نقصان ہو گا اور جہنم میں جائیں گے وہ الیکشن کے موقعہ پر اپنے مریدوں کو حکم نہ دے کہ فلاں کو ووٹ دو یا نہ دو ہاں مشورہ دے سکتا ہے.حضرت خلیفتہ المسیح اول اب تو بار بار فرمایا کرتے تھے بلکہ اکثر آپ اس کے متعلق ڈانٹا بھی کرتے تھے.میں نے ڈانٹنا تو الگ رہا کبھی اس بات کو دہرایا تک نہیں مگر میرے ایسا کرنے کے یہ معنے نہیں کہ یہ مضمون ہی باطل ہو گیا.مضمون بالکل ویسا ہی ہے اور درست ہے.لیکن یہ میرا طریق نہیں کہ اس قسم کی باتوں کو جو میرے متعلق ہوں بیان کروں.جہاں تک کسی معاملے کا میری زات سے تعلق ہوتا ہے.میں اس سے اجتناب کرتا ہوں.چنانچہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میری خلافت کے زمانہ میں جو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانہ سے دگنا ہے.یہ اتنا نہیں دہرایا گیا جتنا حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں.اور اگر غور کیا جائے تو حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں یہ مضمون دس گنا زیادہ نکل آئے گا.اس کی وجہ یہی ہے کہ میں نے اس کے بیان کرنے سے اجتناب کیا.اللہ تعالیٰ نے مجھے بیان کرنے کی طاقت دی ہے اور اس نے یہ طاقت بھی بخشی ہے کہ میں اس سے اپنے دشمن پر غالب بھی آ جاتا ہوں.مگر پھر جو میں نے اس امر کو بیان نہیں کیا تو اس کا یہی مطلب ہے کہ میں ان امور کے بیان کرنے سے اجتناب کرتا ہوں جن کا تعلق میری ذات سے متعلق ہوتا ہے.پس اس سیاست کے مسئلے کو اگر میں نے بار بار بیان نہیں کیا تو اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ میں نے اس سے جان بوجھ کر اجتناب کیا.آپ لوگوں کو یہ بات خوب سمجھ لینی چاہئے کہ خلافت کے ساتھ ساتھ سیاست بھی ہے اور جو شخص یہ نہیں مانتا وہ جھوٹی بیعت کرتا ہے.جو سمجھنے والے ہیں وہ تو سمجھ لیں گے لیکن جو نہیں سمجھتے میں ان سے کہتا ہوں کہ کان کھول کر سن لیں کہ ان تمام امور میں کہ جن میں گورنمنٹ اپنے پاس آنے کے لئے مجبور نہیں کرتی سب پر خلیفہ کا حکم ہے.اور جو یہ بات سمجھ کر بیعت نہیں کرتا.وہ در حقیقت بیعت بھی نہیں کرتا.پھر جس طرح خلیفہ کا حکم ضروری ہے اسی طرح خلیفہ جو نائب مقرر کرتا ہے اس کا حکم مانا بھی ضروری ہے.کیونکہ قانون کی پابندی ہر حال میں ضروری ہے.وہ شخص انسان پرست ہے خدا پرست نہیں جو میری ہی مانتا ہے اور میرے مقرر کردہ دوسروں کی نہیں مانتا ایسا انسان دراصل خدا کا رضيت
226 حکم نہیں مانتا.وہ اپنا انجام سوچ لے.پس مجھے اس اطاعت میں ہی خوشی ہو سکتی ہے جو قانون یعنی خدا کے حکم کے ماتحت ہو.اس لئے میں چاہتا ہوں کہ ان کی اطاعت بھی کی جائے.اور ان کا کہا بھی مانا جائے.جن کو کسی کام کے لئے مقرر کیا جاتا ہے.میں اپنے بعد یہاں کی جماعت کا امیر مولوی شیر علی صاحب کو مقرر کرتا ہوں احباب کو چاہئے کہ ان کی اطاعت کریں.یہ ایک مسئلہ ہے جس کی یہاں کی جماعت کو بھی ضرورت ہے اور باہر کی جماعتوں کو بھی.کیونکہ باہر سے بھی آواز آتی ہے کہ ہم میں سیاست نہیں اس لئے کس کی مانیں.ہم کہتے ہیں سیاست تو ہے حکومت نہیں.اور میرے نزدیک اگر کوئی شخص یہ نہیں مانتا تو وہ گویا بیعت ہی نہیں کرتا.نبوت اور کفر و اسلام کے مسئلے میں اختلاف کرتے ہوئے ایک شخص بیعت کر سکتا ہے.لیکن خلافت کے اس مسئلے میں اختلاف کر کے بیعت نہیں کر سکتا.دیکھو یہ سمجھتے ہوئے کہ فلاں شخص نے غیبت کی یا جھوٹ بولا ہے.اس کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہے.لیکن یہ سمجھ کر کہ بے وضو کھڑا ہے ہرگز اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکتاک جسے خبر نہیں کہ امام بے وضو کھڑا ہے اس کی تو ہو جائے گی.مگر جسے خبر ہے اس کی نماز نہیں ہوگی.کیونکہ امامت کا جو مفہوم تھا وہ نہ رہا.اسی طرح یہ نکاح تو ہو سکتا ہے کہ عورت عیسائی ہو اور مرد مسلمان لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک بھائی اور بہن میں نکاح ہو جائے.پس خلیفہ کے احکام کی اطاعت ایک ایسا ضروری امر ہے کہ جو اس کا اقرار نہیں کرتا بلکہ اس سے اختلاف رکھتا ہے وہ بیعت میں بھی شامل نہیں ہو سکتا.دوستوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ سوائے ان امور کے جن میں نص شرعی موجود ہو یا جن کو گورنمنٹ نے اپنے لئے مخصوص کر لیا ہو.باقی سب میں خلیفہ کی سیاست ہے.خواہ وہ روحانی ہوں یا اخلاقی ہوں یا جسمانی ہوں یا تمدنی ہوں.ان میں خلیفہ کی اطاعت کرنی چاہئے.ہمارے ذمے بڑی بڑی باتیں ہیں لیکن ہم چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑتے رہتے ہیں.اور بڑی بڑی ذمہ داریاں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمارے ذمہ ہیں ہم سے رہ جاتی ہیں.آخر ایمان کیا ہے؟ اس پر غور کرنا چاہئے.مجھے تو یہ بیان کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں میں لڑ کر بڑی ذمہ داریوں کے ادا کرنے سے رہ جاتے ہیں.کوئی کہتا ہے ہم فلاں کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے کیونکہ ہم سے اس کی لڑائی ہوئی ہے.نماز تو فاسق و فاجر کے پیچھے بھی جائز ہے.مگر دیکھا یہ جاتا ہے کہ ذرا کسی بات پر جھگڑا ہوا تو کہہ دیا کہ میرا فلاں کے ساتھ جھگڑا ہے.میں
2 اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکتا.اور بعض نے تو بالصراحت کہا.چنانچہ ایک جگہ سے رپورٹ آئی جس میں ایک شخص کے متعلق لکھا تھا کہ وہ کہتا ہے.فاسق و فاجر کے پیچھے تو نماز ہو سکتی ہے لیکن فلاں کے پیچھے نہیں ہو سکتی.مگر میرا مذہب یہ ہے اور یقینا یہ صحیح ہے کہ اگر کوئی یہاں تک بھی دیکھ لے کہ اس کے کسی عزیز یا رشتہ دار کو کسی نے قتل کر دیا ہے تو اس کے پیچھے بھی نماز پڑھ لینی جائز ہے.ہاں اگر وہ اکثر رائے سے امامت سے الگ کر دیا جائے.تو پھر اس کے پیچھے نماز درست نہیں.ایسے موقعہ کے لئے امام کو بھی حکم ہے کہ وہ امامت سے ہٹ جائے یا پھر اس وقت اس کے پیچھے نماز درست نہیں جب اس شخص پر عدالت کی طرف سے الزام لگا دیا جائے.اور اس کو اس فعل کا ملزم قرار دیا جائے.ان حالات کو دیکھ کر مجھے کہنا پڑتا ہے کہ ان امور میں ہمارے لئے ابھی اور اصلاح کی ضرورت ہے اور ساتھ ساتھ دعا بھی کرنی چاہئے.کیونکہ دعا کے بغیر ہم خدا تعالیٰ کی توجہ کو کھینچ نہیں سکتے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.لوگوں سے کہہ دو کہ وہ خدا کو نہیں پکاریں گے تو خدا تعالیٰ کو ان کی پرواہ ہی کیا ہے.قل ما يعبوا بكم ربى لولا دعاؤكم (الفرقان (۷۸) سلسلہ کے پھیلانے کے یہی معنے ہیں کہ سب سلسلوں کو تباہ کر دیا جائے اور اگر ہم کچھ نہ کریں تو یہ خیال کرنا کہ خدا تعالیٰ ہمارے لئے ساری دنیا کو تباہ کر دے گا کیسی بے وقوفی کی بات ہے ہمیں اپنی طرف سے کوشش کا کوئی تے رہے.دقیقہ فروگزاشت نہ کرنا چاہئے پھر خدا تعالیٰ کی مدد اور نصرت ہمارے لئے جوش میں آئے گی.اس کے بعد میں یہ بھی اعلان کرتا ہوں کہ پرسوں خبر آئی ہے مولوی محمد احسن صاحب فوت ہو گئے ہیں.ان کا اختلاف ایسی عمر میں ہم سے ہوا.جب انسانی عقل کمزور ہو جاتی ہے اور قومی میں فتور واقع ہو جاتا ہے.تاہم وہ باوجود اختلاف کے مجھے خط لکھتے رہے اور اپنا تعلق ظاہر کرتے بیماری کے ان آخری ایام میں بھی انہوں نے لکھا کہ کوئی آدمی بھیجیں.مگر میں نے اراد تا خاموشی اختیار کی کہ کہیں کوئی اور فتنہ نہ پیدا ہو جائے.ان کی وفات کے متعلق جس شخص نے رپورٹ دی ہے وہ لکھتے ہیں کہ وہ اپنی وفات کے قریب بار بار آپ کو یاد کرتے تھے.ان کے لئے بعض مجبوریاں بھی تھیں.ان کی حالت ایک فالج زدہ شخص کی سی تھی.وہ نہ اپنے آپ پاخانہ کر سکتے تھے نہ پیشاب اور بڑھاپے میں ایسی باتیں پیدا ہو جاتی ہیں ایسی حالت میں جب کہ وہ دوسروں کے سہارے زندگی گزارتے تھے انہوں نے کمزوری دکھائی وہ قابل معافی ہو سکتی ہے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پرانے صحابی تھے گو بعد میں ان کو ہمارے ساتھ اختلاف ہو گیا.مگر یہ جو عقیدت اور اخلاص ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تھا وہ اپنے رنگ میں خاص تھا.وہ وہ ہر بات میں سے حضرت صاحب کی صداقت کا ثبوت نکالا کرتے تھے.چنانچہ ان کی اس عادت کو دیکھ کر ایک
228 دفعہ یہاں تک کہا گیا کہ ان سے اگر اینٹ کی تعریف پوچھی جائے تو اس سے بھی وہ حضرت صاحب کی تائید کا پہلو نکال دیں گے.غرض وہ حضرت صاحب کے پرانے صحابی تھے.اور بڑھاپے میں ان سے کوئی کمزوری ہوئی اس میں وہ ایک حد تک مجبور تھے.ان سے ایک اہم غلطی بھی ہوئی جو میرے متعلق ہے اور میں معاف کرتا ہوں.وہ غلطی یہ ہے کہ انہوں نے میرے متعلق کہا تھا کہ میں نے ہی اسے خلیفہ بنایا تھا میں ہی اسے معزول کرتا ہوں.میرے خیال میں اس کی سزا دنیا میں انہیں کافی مل گئی ہے.اور ایسے وقت میں سزا مل جانے سے میں سمجھتا ہوں کہ ان کا قصور معاف ہو گیا ہو گا.اس وقت میں نماز کے بعد ان کا جنازہ پڑھاؤں گا.سب لوگ میرے ساتھ شامل ہوں.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ایسے قصوروں پر جنازہ پڑھنا درست نہیں.لیکن جب تک کسی جنازہ پڑھنے سے روکا نہ جائے.اور اس کے لئے صریح حکم نہ مل جائے اس وقت تک پڑھنا ضروری ہے.آنحضرت ﷺ نے تو ابی ابن سلول منافق کا جنازہ بھی پڑھا تھا.بعض لوگ اسے یہاں تک وسعت دیتے ہیں کہ عیسائیوں کا جنازہ بھی پڑھ لینا چاہئے لیکن یہ آواز چونکہ ایک یا دو کی ہے اس لئے میں اس پر عمل کرنے سے ڈرتا ہوں.پھر اس کے لئے کوئی شرعی بھی نہیں.اگر کوئی ہوتی تو پھر اس کی بھی کوشش کرتا.مولوی صاحب تو پھر بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی تھے.آج نماز کے بعد ان کا جنازہ پڑھاؤں گا.سب دوست اس میں شامل ہوں.گو یہ لوگ ہم سے اختلاف رکھتے ہیں تاہم ایسے موقعوں پر یہ دعا بھی کرنی چاہئے کہ خدا ان کو ایسے رنگ میں وفات دے کہ ان کے متعلق جنازہ پڑھتے وقت کسی قسم کا انقباض پیدا نہ ہو.جو ان کے لئے دعا کرنے سے روکے.اور نہ ہی یہ خلافت کے انکار اور دیگر مسائل میں اختلاف کا گناہ اپنے سر پر لے جائیں.ا تفسیر فتح الباری جلد ۷ ص ۳۰۴ ۰۲ بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورة الجمعه الفضل ۳ اگست ۱۹۲۶ء)
229 24 حمد کے لفظ میں تین سبق بمقام ڈلہوزی فرموده ۳ ستمبر ۱۹۲۶ء) تشهد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : قرآن کریم میں مسلمان کی ابتدائی اور انتہائی دونوں حالتوں کو ایک ایسے لفظ سے ظاہر کیا گیا ہے.جو اسلامی تعلیم کا نچوڑ ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی حمد ہے.قرآن کریم کی ابتداء یا بلفظ دیگر سب سے پہلا سبق جو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دیا ہے وہ بھی الحمد للہ رب العالمین ہے اور مسلمان کی آخری بات بھی الحمد لله رب العالمین ہی بتائی گئی ہے جیسا کہ اس آیت سے ظاہر ہے واخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين (يونس ) حمد کے ہم معنی عربی زبان میں چند اور الفاظ بھی ہیں جو یہ ہیں مدح، ثناء شکر ، لیکن ان میں اور حمد میں ایک فرق ہے جو ان کے حروف کے اختلاف یا ان حروف کی تقدیم و تاخیر سے پیدا ہوتا ہے.عربی زبان کی ایک یہ بھی خصوصیت ہے کہ اس کے الفاظ اپنی معانی کو آپ ظاہر کرتے ہیں.پھر ان الفاظ کے حروف کی ترتیب کا بھی دخل ہوتا ہے.اور ان حروف کی خاصیات کے مطابق ان سے معانی پیدا ہوتے ہیں.اور جن حروف کی خاصیات میں اشتراک پایا جاتا ہو ان میں سے جو حرف ترتیب حروف تہجی کے رو سے بعد والا ہو وہ اپنے سے پہلے آنے والے اپنے ہم خاصیت حرف کی نسبت زیادہ زور دار ہوتا ہے.جیسے کہ لفظ قسم اور قسم جو ہم معنے ہیں ان میں سے موخر الذکر لفظ زیادہ زور دار ہے.کیونکہ حرف ص کی نسبت حرف ض جو اس کا ہم خاصیت ہے اور حروف تہجی کی ترتیب کی رو سے اس کے بعد آتا ہے.زیادہ زور دار ہے.اسی طرح حروف کی زیادتی سے بھی معنے میں زیادتی پیدا ہو جاتی ہے.جیسا کہ بعث کے مقابلہ میں بعثر اور قتل سے قتل اور علا کی نسبت تعالی زیادہ زور دار ہے.غرض عربی زبان کے الفاظ میں حروف کی تبدیلی یا تقدیم و تاخیر یا کمی بیشی پیدا
230 ہونے سے ان کے معانی میں بھی ویسی ہی تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے.حمد اور مدح کے حروف کو ایک ہیں مگر ترتیب حروف کی تبدیلی سے ان کے معانی میں ایک فرق پیدا ہو گیا ہے.اور وہ یہ ہے کہ مدح کا لفظ تو سچی اور جھوٹی دونوں طرح کی تعریف کے لئے بولا جا سکتا ہے.مگر حمد کچی تعریف کے لئے مخصوص ہے.جھوٹی تعریف کو حمد نہیں کہہ سکتے.اسی طرح حمد میں اور شکر و شاء میں بھی ان کے حروف کی خاصیات کی بنا پر ایک فرق پایا جاتا ہے.اور وہ یہ ہے کہ یہ دونوں موخر الذکر لفظ صرف احسان کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.اور حمد کا لفظ احسان کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ خواہ احسان کی قسم کی خوبی اور حسن ہو یا ایسی خوبی ہو جو احسان کے ماتحت نہ آتی ہو.دونوں کا اظہار حمد کے معنے میں داخل ہے.پس لفظ حمد میں وہ باتیں پائی جاتی ہیں جو اس کے قریب المعنی باقی الفاظ میں نہیں پائی جاتیں.اس لفظ میں ہمیں تین تعلیمیں دی گئی ہیں.اول یہ کہ جو تعریف کسی کی کریں سچی کریں.جھوٹی تعریف کبھی کسی چیز کی نہ کریں.مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس کے برعکس جھوٹی تعریفوں پر یہاں تک زور دیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی تعریف میں بھی جھوٹی حدیثیں گھڑ لیں.حالانکہ آنحضرت کو جو شان اللہ نے دی ہے وہ اس قدر ارفع ہے اور جو تعریفیں آپ کی ہیں وہ اس قدر اعلیٰ ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے کسی جھوٹی تعریف کی کبھی ضرورت ہی نہیں پیش آسکتی.کیونکہ آپ کی سچی تعریفیں ہی غیر متناہی ہیں اور اگر وہ جھوٹی باتیں آپ کی شان کو بڑھانے والی ہوتیں تو اللہ تعالیٰ ضرور وہ باتیں بھی آپ کی ذات میں رکھتا.غرض کسی چیز کی کوئی جھوٹی تعریف کبھی نہیں کرنی چاہئے.دوسری تعلیم اس میں ہمیں یہ دی گئی ہے کہ ہم جس چیز میں جس حسن و خوبی کا ادراک کریں اس کا اقرار کریں اور اس سے بہرہ ور ہونے کی کوشش کریں.جس قدر علوم پائے جاتے ہیں ان کے وضع کئے جانے کی غرض و غایت دراصل یہی ہے کہ جس چیز پر کسی علم میں بحث ہوتی ہے.اس چیز کی خوبیوں کا ادراک و اظہار اور اکتساب کیا جائے.علم ہیئت، علم حساب، علم ہندسہ، علم طب اور علم قانون.غرض ہر ایک علم کی غرض و غایت یہی ہے پس انسان کی نظر حسن پر ہونی چاہئے اور اس حسن کو اپنے اندر جذب کرنے میں کوشاں رہنا چاہئے.تیسری تعلیم اس میں یہ دی گئی ہے کہ ہم ہر حسن و خوبی کی قدر کریں اور اسے عظمت کی نظر سے دیکھیں اور ہر احسان کے شکر گزار ہوں.جو شخص بھی کوئی اچھا کام کرے اس کی قدر کرنی چاہئے خواہ کوئی ہو.دوسرے ممالک کے لوگ ایسے کام کرنے والوں کی قدر کرتے ہیں.مگر ہندوستان میں یہ
231 بات نہیں.خوبی والی چیز میں نقص اور عیب بھی ہو سکتا ہے.اور ہوتا ہے مگر اس کی وجہ سے اس خوبی کی قدر دانی میں فرق نہیں آنا چاہئے.اگر کسی خوبی والی چیز میں بہت سے نقص بھی پائے جاتے ہوں.تو بھی اس کی خوبی کی قدر کرنی چاہئے.لیکن ہمارے ملک میں اور مسلمانوں میں اس کے خلاف یہ بات پائی جاتی ہے.کہ اگر کسی چیز میں 49 خوبیاں ہوں اور بالمقابل ایک نقص ہو تو اسی نقص کو دیکھا جاتا ہے اور ان خوبیوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے.پس جس کسی میں کوئی خوبی پائی جاتی ہو.اس کی قدر کرنی چاہئے.اور اسے اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.اور ان اصول کو ہمیشہ اپنا دستور العمل بنائے رکھنا چاہئے.جیسا کہ ابتدائی اور انتہائی تعلیم الحمد للہ رب العالمین سے مفہوم ہوتا ہے.مسلمان کے کام کی ابتدا بھی حمد سے ہے اور انتہاء بھی حمد پر.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی سچی اور پاک تعلیم پر چلنے کی توفیق دے.(الفضل ۲۱ ستمبر ۱۹۲۹ء)
232 25 تعمیر احمدیہ بیت الذکر لندن اور ہماری ذمہ داری بمقام ڈلہوزی - فرموده یکم اکتوبر ۱۹۲۶ء) تشهد تعوذ سورہ فاتحہ اور سورۃ الاعلیٰ کی ابتدائی آیات کی تلاوت کے بعد فرمایا : چونکہ ایک ایسے ملک میں جس میں خدائے واحد کا نام لینے والے لوگ آج سے ایک عرصہ پہلے نہیں ملتے تھے.جہاں کے لوگ شرک کی تعلیم پھیلانے کا مرکز سمجھے جاتے تھے.وہاں ہماری جماعت کی طرف سے ایک مسجد تعمیر کی گئی ہے.جو اس لحاظ سے پہلی مسجد ہے کہ اس سے پہلے اس دار الحکومت میں کوئی مسجد نہ تھی.پھر اس لحاظ سے بھی پہلی مسجد ہے کہ مسلمانوں نے اپنے روپے سے بنوائی ہے (اس سے پہلے ایک مسجد تھی جو اول تو لنڈن سے باہر تھی.دوسرے اس کو ایک انگریز نے بنوایا تھا.گو مسلمانوں کے روپے سے بنوایا تھا) چونکہ اس کا افتتاح انشاء اللہ اسی ہفتہ میں ہونے والا ہے.اس لئے آج کا خطبہ میں اس کے متعلق ہی پڑھوں گا.مسجد اللہ کا ذکر کرنے کے لئے بنوائی جاتی ہے.اور اس لئے کہ اللہ کا نام لینے والے لوگوں کی جماعت تیار کی جائے.اس لئے مسجد وہی مبارک ہو سکتی ہے کہ جس میں اللہ کا نام استقلال کے ساتھ لینے والے لوگ جمع ہوں.دوسرے مکانوں سے مسجد علیحدہ اور ممتاز اسی وجہ سے ہوتی ہے کہ اس میں خدائے واحد کا نام لینے والے لوگ جمع ہوتے ہیں.اگر خدا کا ذکر کرنے والے لوگ نہ ہوں تو مسجد کا بنوانا بے سود ہوگا.خود قرآن کریم سے ظاہر ہے کہ بعض مسجدیں صرف بے برکت ہی نہیں ہوتیں.بلکہ ایمان کے ضائع کرنے کا موجب ہوتی ہیں.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں جو مسجد آپ کی تھی.اس کی بنیاد تقویٰ پر تھی.اور اللہ تعالیٰ کی رضامندی پر تھی.اس کے مقابلہ پر ایک اور مسجد بنائی گئی جس کی بنیاد کھوکھلی تھی جو گرنے والی تھی.پس کسی مکان کا مسجد نام رکھنے ہی سے وہ بابرکت نہیں ہو جاتا.بلکہ اس میں اللہ کا نام استقامت اور محبت کے ساتھ لینے سے ہوتا
233 ہے.اگر وہی روپیہ جو مسجد کی تعمیر پر خرچ ہوتا ہے.غریبوں اور مسکینوں پر خرچ کیا جائے تو بہت زیادہ موجب ثواب ہوگا بہ نسبت اس مسجد پر خرچ کرنے کے کہ جس میں خدا کا نام بلند کرنے والی جماعت نہ ہو اور وہ بے آباد رہے.ہم اگر دوسرے ملک میں مسجد بناتے ہیں تو اس کی غرض اس ملک میں توحید قائم کرنا اور وہاں کے لوگوں کو موحد بنانا ہے.اگر یہ نیت نہ ہو تو ہم اس روپیہ سے جو کہ مسکینوں اور غریبوں پر خرچ کیا جا سکتا تھا.ایسی مسجد پر خرچ کر کے نعمت کو ضائع کرنے والے بنیں گے.پس ہماری جماعت کے لئے اس مسجد کی تعمیر کے ساتھ تبلیغ اور اشاعت کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.سبح اسم ربک الا علی یعنی (اے رسول اے مومنو!) اپنے رب اعلیٰ کے نام کی تسبیح کرو.اس کے یہ معنے ہیں کہ کوئی کسی مکان کے گوشہ میں بیٹھ جائے اور سبحان اللہ سبحان اللہ کہہ لیا کرے اور سمجھ لے کہ تسبیح ہو گئی.بھلا خدا کو اس سے کیا فائدہ؟ کیا اس میں کوئی نقص تھا.جو اس تسبیح سے اس کی ترقی ہو کر وہ کامل بن گیا.تسبیح اس وقت تک تسبیح نہیں کہلا سکتی جب تک اس کا تعلق قلب کے ساتھ نہ ہو.وہ معلوم کرے کہ جس کا نمونہ میں نے بننا ہے وہ تمام عیوب سے پاک ہے پھر اس کے تمام صفات کو اپنے اندر لے.اس لئے یہ ضروری ہے کہ جن کی تصویر اپنے قلب کے اندر کھینچنا ہے.اس کا اچھا نقشہ پہلے سامنے جمالے.ورنہ تصویر درست نہ کھنچے گی مصور بھی تصویر تب ہی درست کھینچ سکتا ہے.جب کہ وہ پہلے درست نقشہ اپنے سامنے جمالیتا ہے.اسی لئے انسان بھی تب ہی اعلیٰ بن سکتا ہے جب وہ صفائی تصویر سامنے رکھے.اور اسی قسم کا بننے کی کوشش کرے.پھر فرمایا رب اعلیٰ وہ ہے جس نے انسان کو مکمل حالت میں پیدا کیا یہاں اسلام عیسائیت اور دیگر مذاہب سے اعلیٰ اور ممتاز معلوم ہوتا ہے.کیونکہ عیسائیت کہتی ہے کہ انسان چونکہ ناقص پیدا ہوا ہے اس لئے وہ گناہوں سے پورے طور پر نہیں بچ سکتا.اس لئے کفارہ کی ضرورت پیش آئی.ہندو مذہب بھی یہی کہتا ہے کہ چونکہ انسان بالکل گناہوں سے کبھی پاک نہیں ہو سکتا اسی وجہ سے ہمیشہ جونوں میں ڈالا جاتا ہے.لیکن برخلاف اس کے اسلام کہتا ہے کہ انسان کامل صفات اپنے اندر رکھتا ہے اگر وہ صحیح طور پر کوشش کرے تو کامل بن سکتا ہے تو الذی خلق فسوی کے یہ معنے ہیں کہ وہ خدا وہ ہے جس نے انسان کو پیدا کیا اور اس کے نقصوں کو دور کیا.اس لئے کہ اس کو کامل بنا دے.آگے فرمایا والذى قدر فھدے یعنے وہ وہ خدا ہے جس نے اس کی طاقتوں کا اندازہ لگاتے ہوئے کہ
234 کے وہ کامل ترقی کر سکتا ہے.الہی تعلیم کے ذریعہ اس کو ہدایت دی.جیسے آنکھ کو دیکھنے کی طاقت دے کر سورج کی روشنی کو بھی بنایا کہ جس کی مدد کے بغیر وہ آنکھ کچھ کام نہیں کر سکتی.چونکہ یہاں یہ بھی بتانا مقصود تھا کہ اسلام سے پہلی تعلیمیں جہاں اپنے وقت پر مفید تھیں وہاں وہ اب ناقص ہوگئی ہیں اور بے سود ہیں اس لئے اور مثال دی فرمايا والذي اخرج المرعى فجعلہ غشاء احوی معنے اور وہ خدا جس نے اعلیٰ کھیتیاں پیدا کیں.پھر ان کو کوڑا کرکٹ بنا دیا.اسی طرح پہلی تعلیمیں خراب ہو گئیں.جس طرح جب تازہ پھل ہوتا ہے.اس وقت وہ نہایت خوشگوار اور مفید ہوتا ہے لیکن جب گل سڑ جاتا ہے تو کوڑے کرکٹ کی طرح بوجہ اپنے مضرت کے پھینک دیا جاتا ہے.اسی طرح جو ہدایتیں آتی رہتی ہیں وہ ایک وقت مفید تھیں.لیکن اب گل سڑ گئی ہیں.اس وجہ سے رسول کریم ہے ذریعہ نئی تعلیم بھیج دی گئی.اب طبعا " یہ سوال پیدا ہو سکتا تھا کہ یہ اسلامی تعلیم بھی پہلی تعلیموں کی طرح ناکارہ ہو جائے گی.اور کسی وقت پھینک دینے کے قابل ہو جائے گی.اس لئے فرمایا.سنفرنک فلا تنسى الا ماشاء اللہ یعنی ایسی تعلیم ہو گی جو کہ اس طرح پر تجھ کو سکھائیں گے کہ تو اس کو بھولے گا نہیں.اس لئے ہمیشہ رہے گی.اور ہرگز ہرگز ترک نہ کی جائے گی.یعنی گلے سڑے گی نہیں.الا ماشاء اللہ مگر سوائے بعض باتوں کے جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ہی چھوڑ دی گئیں.جیسے بیت المقدس کو قبلہ بنانا ترک کر کے خانہ کعبہ کی طرف رخ کرنے کی ہدایت ملی.اس کا یہ مطلب نہیں کہ تمام تعلیم ہی چھڑوا دی جائے گی.جیسے بہائی کہتے ہیں کہ شریعت اسلام جاتی رہی.ان کا یہ کہنا بالکل غلط ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ تجھ کو ایسا سکھائیں گے کہ ہر گز نہ بھولے گا.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ونیسرک للیسرے یعنی ہم تجھ کو ایسی تعلیم دیں گے جو کہ ہر زمانہ کے لئے ہوگی.یہاں محنت کے لحاظ سے اس کا آسان ہونا بتلانا مقصود نہیں بلکہ یہ ہے کہ یہ تعلیم ایسی ہے کہ جس پر ہر زمانہ میں عمل ہو سکتا ہے اور کبھی بھی ضمیر کے خلاف یہ تعلیم نہ ہو گی.پس اس کے معنے یہ ہوئے کہ تجھ کو اس تعلیم تک پہنچائیں گے کہ جو ہر زمانہ میں بلحاظ عمل کرنے کے آسان ہوگی.اور کامل ہو گی آگے فرماتا ہے فذکر ان نفعت الذکری نے پس تو اس کو لوگوں تک پہنچا اور ایسا کرتا چلا جا.لوگوں سے نہ ڈرو.کیونکہ خدا کی تعلیم ایک نہ ایک دن لوگوں کے دلوں میں گھر کر ہی لے گی.یہ ایک حکم تبلیغ کے لئے ہے اور چونکہ خدا تعالیٰ سچائی کی بیچ کرتا ہے.اس لئے ہمارا فرض ہے کہ اس سچائی کو ہم دنیا میں پھیلائیں.دیکھو دنیا میں کسی سمت کو نکل جائیں کہیں لوگ خدا کو گالیاں دینے والے پائے جائیں گے.کہیں شرک کرنے والے ہوں گے.کہیں اس کی طرف سے بے پرواہ ہوں گے.ایسی
235 حالت میں اگر کسی کے دل میں اس کے نام کی غیرت ہے تو وہ کس طرح خاموش رہ سکتا ہے.ہم لوگوں کو سوٹے سے منوانا نہیں چاہتے.ہم فوجوں کے ساتھ لڑ کر اس کا نام قائم کرنے کی تعلیم نہیں دیتے.ہم چاہتے ہیں کہ تم زبان کے ساتھ اسلام کو سکھاؤ.قلم کے ساتھ اسلام سکھاؤ.لوگوں کے پاس چل چل کر جاؤ اور اسلام سکھاؤ.ان تمام باتوں کی طاقت خدا تعالٰی نے ہمیں دی ہے.قلم دی ہے.دل مضبوط دیا ہے.دلائل دئے.غرض تمام طاقتیں دی ہیں پس ہم اسلام کی سچائی کے خزانہ کو لوگوں میں تقسیم کریں.اس کے لئے نہ فوج کی ضرورت ہے نہ تلوار کی.صرف قلم کی ضرورت ہے یا زبان کی.خدا نے یہ طاقتیں ہماری امیدوں سے بڑھ کر دی ہیں.ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ ہم دیوانہ وار اٹھ کھڑے ہوں اور توحید کی سچائی کو لوگوں میں پھیلائیں.جو کوئی اللہ کے نام کے لئے دیوانگی ظاہر نہیں کرتا.اس میں خدا کی محبت بھی کم پائی جائے گی.دیوانگی کی حالت میں وہ کام بھی جو دوسری صورت میں ناممکن نظر آتے ہیں.انجام پا جاتے ہیں ہم نے سکول کے زمانہ میں ایک کہانی پڑھی تھی یعنی ایک عورت کا بچہ عقاب لے اڑا اور ایسی چوٹی پر لے گیا جہاں کسی کا چڑھنا ناممکن تھا.مگر وہ عورت اپنے بچہ کی محبت میں دیوانہ وار چڑھتی چلی گئی اور یہاں تک کہ اپنے بچہ کے پاس جا پہنچی.بچہ کو پالینے کے بعد جب واپس اترنے لگی تو یہ اس کو ناممکن معلوم دیا.رسول کریم ﷺ کو لوگ کیوں مجنوں اور دیوانہ کہتے تھے.اسی لئے کہ آپ لوگوں کو دیوانہ وار خدا کا کلام سناتے تھے.پس جب تک دین کے لئے دیوانہ نہ بن جاؤ گے.اس کو قائم نہیں کر سکتے.ایسے لوگ ضرور کامیاب ہو جاتے ہیں.جو اپنے کام کے لئے دیوانہ بن جاتے ہیں.جب لوگ دیوانہ وار اسلام کو پہنچائیں گے.لوگوں کے دلوں میں سرنگ لگ جائے گی.اور دل فتح ہو جائیں گے اور توحید کی روشنی پھیل جائے گی.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اس کی توفیق دے اور اسلام کے پھیلانے کی نعمت کا وارث بنائے.آمین الفضل || اکتوبر ۱۹۲۶ء)
236 26 اصلاح ارشاد کا کام بند نہیں ہونا چاہئے (فرموده ۱۵ اکتوبر ۱۹۲۶ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : ہدایت جس کا ذکر سورہ فاتحہ میں آتا ہے اور جو انسان کو سیدھے راستہ پر لے جاتی ہے اور اسے صراط مستقیم پر چلاتی ہے.وہ ایسی باریک اور ایسی لطیف ہوتی ہے کہ اندرونی احساسات کے سوا کوئی اور چیز اسے سمجھ نہیں سکتی.اور ابتدا اس کی حقیقت کا معلوم کرنا انسان کے لئے بعض وقت بہت مشکل ہو جاتا ہے.ایک شخص کو ہدایت مل تو رہی ہوتی ہے لیکن باوجود اس کے وہ اس کو سمجھ نہیں سکتا.اس کی وجہ یہ ہے کہ جتنی جتنی کسی کی اخلاقی حالت موٹی ہوتی ہے اتنی ہی اس کی ہدایت باریک ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ اسے شناخت نہیں کر سکتا.یہاں تک کہ بسا اوقات وہ سمجھتا ہی نہیں کہ اسے ہدایت مل بھی رہی ہے یا نہیں.بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہدایت پاتے ہوئے بھی ایک شخص یہی سمجھتا ہے کہ وہ ہدایت نہیں پا رہا.بسا اوقات وہ یہی خیال کر لیتا ہے کہ مجھے کوئی ہدایت نہیں مل رہی اس وجہ سے ایسا شخص کبھی ہدایت ملتے ہوئے اسے ترک کر دیتا ہے.کبھی حاصل ہوتی ہوئی ہدایت کو ضائع کر دیتا ہے.کیونکہ جن باتوں سے اسے آہستہ آہستہ ہدایت مل رہی ان باتوں کو چھوڑ دیتا ہے جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ ہدایت پانے سے بھی محروم رہ جاتا ہے.چونکہ ہدایت ایک لطیف چیز ہے اور انسان اسے بعض وقت نمایاں طور پر محسوس نہیں کر سکتا.اس لئے وہ ناامید ہو جاتا ہے کہ مجھے ہدایت مل ہی نہیں سکتی.یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو کہ عین ہدایت کے راستہ پر چلتے ہوئے بھی مایوس نظر آتے ہیں.اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نشاط اور وہ خوشی جو ہدایت سے حاصل ہوتی ہیں.شروع شروع میں اس قدر تھوڑی ہوتی ہے کہ وہ اسے محسوس نہیں کرتے اور یوں جب
237 مایوس ہوتے ہیں تو اس سے بالکل ہی محروم ہو جاتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو ایسا ہوتا ہے کہ بالکل دروازہ پر پہنچ کر لوٹ جاتے ہیں.اور اس طرح جو ہدایت پاچکے ہوتے ہیں اس کو بھی نقصان پہنچا لیتے ہیں.وہ تو ابتدائی حالت سے یہ سمجھتے ہیں کہ ہدایت نہیں پا رہے.لیکن حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ ہدایت پا رہے ہوتے ہیں مگر چونکہ یہ لطیف ہوتی ہے اس لئے نہیں محسوس ہوتی اس لئے وہ اسے مایوس ہو کر چھوڑ دیتے ہیں.لیکن در حقیقت ہدایت ان کے اندر ہوتی ہے دل کے اندر ہوتی ہے بلکہ فس کے ذرہ ذرہ کے اندر جاری و ساری ہوتی ہے.مگر سمجھتے ہیں کہ وہ ان کے اندر نہیں ہے.اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہدایت لطیف چیز ہوتی ہے.اور وہ شروع شروع میں اسے اپنے اندر محسوس نہیں کرتے.عام لوگ تو اسے سمجھ نہیں سکتے.لیکن اطباء نے اس کو اچھی طرح سمجھا ہے.وہ جب ایک مریض کو نسخہ دیتے ہیں تو اسی اصول کے ماتحت دیتے ہیں کہ آہستہ آہستہ فائدہ ہو گا.طبیب جب دوا دیتا ہے تو اس کا ہرگز یہ منشاء نہیں ہو تا کہ دو یا تین یا چار یا پانچ دن کے بعد اس کا فائدہ ہونے لگے گا بلکہ یہ منشاء ہوتا ہے کہ چھ دن کے بعد تم کو محسوس ہونے لگے گا کہ فائدہ ہوتا ہے.اسی طرح روحانی باتوں کا حال ہے.لیکن بسا اوقات انسان کے لئے اس بات کو سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ اسے فائدہ ہو رہا ہے کیونکہ اس کے احساسات اتنے کند ہوتے ہیں کہ وہ سمجھنے سے قاصر رہ جاتا ہے.مگر بات یہ ہے کہ اگر اس نکتہ کو لوگ سمجھ لیں تو سچائی کے معلوم کرنے میں انہیں کوئی تکلیف نہ ہو.سچائی کے دیکھنے کے لئے لوگوں کو چاہئے کہ وہ یہ دیکھنے کی کوشش نہ کریں کہ ہم پر کیا اثر ہوتا ہے.بلکہ یہ دیکھیں کہ ہم سے جو اعلیٰ قابلیت ہے اس پر کیا اثر ہوتا ہے بعض لوگ یہ دیکھ کر کہ ہمارے اندر کوئی تغیر پیدا نہیں ہوا.اس بات کو ہی چھوڑ دیتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ ہم میں جو اس کا اثر نہیں تو شائد اس میں کچھ اثر ہی نہیں ہے.حالانکہ ہدایت کا اثر بھی دوائی کی طرح ہوتا ہے.بعض دفعہ دنوں میں ظاہر ہوتا ہے.بعض دفعہ ہفتوں میں ظاہر ہوتا ہے.بعض دفعہ مینوں میں ظاہر ہوتا ہے.بعض دفعہ سالوں میں ظاہر ہوتا ہے.بعض دفعہ انجام پر ہی جاکر ظاہر ہوتا ہے.بلکہ بعض دفعہ مرنے کے وقت جا ظاہر ہوتا ہے.یہاں اخباروں میں ایک دفعہ ایک واقعہ شائع ہو چکا ہے کہ ایک لڑکی جو جاہل سی تھی اور جس نے صرف چند ایک سیپارے قرآن شریف کے شائد پڑھے ہوئے تھے.جب فوت ہونے لگی تو اسے وفات کے متعلق بعض عجیب عجیب نظارے نظر آئے جنہیں اس نے جب بیان کیا تو تمام لوگ جو
238 ارد گرد تھے جن میں ہندو بھی تھے.سن کر حیران رہ گئے.تو بسا اوقات ایک انسان موت تک بھی اس کو محسوس نہیں کرتا.پس یہ ایک غلطی ہے کہ اسے ایک حد تک پہنچا کر چھوڑ دیا جائے.کیونکہ جب نمونہ موجود ہو تو پھر اسے تسلیم کر لینا چاہئے کہ ہدایت تو ہے اس کا اثر تو ہے لیکن ہم محسوس نہیں کرتے.یہ ممکن نہیں کہ آگ کے پاس بیٹھیں اور گرم نہ ہوں یا برف کے پاس بیٹھیں اور ٹھنڈے نہ ہوں یا سایہ میں بیٹھیں تو خنکی محسوس نہ کریں یا دھوپ میں بیٹھیں تو گرمی کا احساس نہ ہو.یہ ممکن نہیں کہ سیاہی کو ہاتھ لگائیں اور سیاہی ہاتھ کو لگ نہ جائے یا سرخی کو ہاتھ لگائیں اور سرخی ہاتھ کو نہ لگے.یہ ہو سکتا ہے کہ نشان ہلکا لگے جو نظر نہ آئے یا پھر آنکھیں ہی اس درجہ کمزور ہوں کہ وہ اس داغ کو دیکھ نہ سکیں.لیکن یہ ناممکن ہے کہ داغ نہ لگے یا اگر دھوپ یا سایہ میں بیٹھیں تو گرمی اور سردی اپنا اثر نہ کرے.پس کچی جماعتوں میں داخل ہونے پر ہی اثر شروع ہو جاتا ہے.خواہ وہ اثر نظر آئے یا نہ آئے یا وہ اثر نہایت ہی خفیف ہو جو محسوس ہو یا نہ ہو لیکن ایسی جماعتوں میں داخل ہونے سے اثر ہوتا ضرور ہے.ایک دوست کا خط آیا ہے کہ ہم نے اتنا عرصہ تبلیغ کی اور کوئی تبدیلی نہ ہوئی اور اثر ظاہر نہ ہوا.ہم تبلیغ چھوڑ دیتے ہیں.کیونکہ ہم نے اصلاح نہیں پائی.مگر وہ نہیں سمجھتے کہ خود تبلیغ کی توفیق ملنا یہ بھی تو ایک نیکی ہے.کئی قسم کے لوگ ہوتے ہیں.ایک بدی کے مرتکب ہوتے ہیں جو اس سے بچتے ہیں ایک دوسروں کو روکتے ہیں.ایک وہ ہیں جو خود بھی نیکی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی نیکی کی بات بتاتے ہیں.پھر ان کے اثر بھی الگ الگ ہیں.ایک وہ ہیں جو ظاہر ہوتے ہیں.اور ایک وہ ہوتے ہیں جو ظاہر نہیں ہوتے.تو مختلف قسم کے نشان ہوتے ہیں.اور مختلف قسم کے اثر اور جو تبلیغ کر رہا ہے.وہ نیکی کر رہا ہے.اور یہ فضل ہے جو اس نے محسوس نہیں کیا.کیونکہ اس کی حسیں اتنی باریک تھیں کہ وہ ان کو محسوس نہیں کر سکا.اور اس نے صرف اپنے آپ کو دیکھا اور جب اسے اپنے آپ پر کوئی اثر نظر نہ آیا تو کہہ دیا کہ یہ بے اثر شے ہے.حالانکہ یہ دیکھنا چاہئے کہ ہماری جماعت کے لوگوں پر یہ اثر ہیں یا نہیں.اگر ہیں تو یقیناً یہ راستہ ٹھیک ہے.ہماری جماعت میں سے اگر کوئی شخص تبلیغ کرتا ہے اور پھر وہ اس کا کوئی اثر اپنے میں نہیں دیکھتا تو اس کے یہ معنے نہیں کہ یہ کوئی بے اثر چیز ہے.یا اس سے انسان کے اندر کوئی تبدیلی نہیں ہوتی.بلکہ اس کے یہ معنے ہو سکتے ہیں کہ ہماری رفتار ست ہے.کیونکہ اگر ہماری رفتار سست نہ ہو تو
239 اثر جلدی ظاہر ہونے لگے.پس میرے نزدیک ہر وہ شخص جو اس کو مان لیتا ہے.ضرور اپنے اندر ایک تبدیلی پیدا کر لیتا ہے.خدا کے انبیاء بارش کی طرح ہوتے ہیں.لوگوں کے کپڑے خواہ کتنے ہی چکنے ہوں مگر پھر بھی اس بارش سے کچھ نہ کچھ تری پاہی لیتے ہیں.یہاں بھی یہی بات ہے.تبلیغ خواہ کتنی ہی تھوڑی ہو اپنا اثر ضرور کرتی ہے اور ایک تبدیلی ضرور پیدا کرتی ہے.یہ الگ بات ہے کہ وہ اثر اور تبدیلی نظر نہ آئے تو جب کہ تبلیغ ضرور تبدیلی پیدا کرتی ہے تو ایک شخص باوجود اس بات کے اگر اس کو چھوڑ دیتا ہے تو یہ ایک نفس کا دھوکا ہے.اور ایسا خیال ایک شیطانی وسوسہ ہے جو اسے تبلیغ سے روکنے کے لئے پیدا ہوا ہے.تبلیغ سے ضرور اثر پیدا ہوتا ہے.حتی کہ منافقت کے رنگ میں بھی اگر تبلیغ کی جائے تو یہ منافقت کی تبلیغ بھی اثر پیدا کرتی ہے.اور ایسا منافق انسان بھی ان سب فوائد سے حصہ پاتا ہے.جو تبلیغ کے ہیں.کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کے قانون کے برخلاف ہے کہ ایک شخص بارش میں کھڑا ہو اور تری نہ لے.پس منافق بھی جو کہ منافقت سے تبلیغ کرتا ہے.جب اس سے حصہ پاتا ہے تو جو لوگ دیانت کے ساتھ تبلیغ کرتے ہیں وہ کیوں نہ پاتے ہوں گے.آنکھیں منور ہوں یا نہ ایک شخص روشنی سے ضرور حصہ لیتا ہے.ایک نابینا بھی روشنی سے فائدہ لیتا ہے.سورج جب نکلتا ہے تو اس کی آنکھیں ایک خاص قسم کا تغیر محسوس کرتی ہیں.جو اندھیرے اور روشنی میں اس کو تمیز پیدا کرا دیتا ہے پھر اس کے جسم پر کچھ اس قسم کی کیفیات ہو رہی ہوتی ہیں کہ وہ روشنی کو محسوس کر لیتا ہے.یا پھر اس کے اندر فوائد پہنچ رہے ہوتے ہیں.کئی قسم کی بیماریاں ہیں جو سورج سے دور ہوتی ہیں.تو یہ بالکل ناممکن ہے کہ ایک شخص اپنی سلسلہ میں داخل ہو اور پھر وہ کورا رہے.بیشک اسے فائدے ہوتے ہیں.لیکن چونکہ اس کے احساسات باریک ہوتے ہیں اس لئے وہ شروع شروع میں بلکہ بعض اوقات انجام تک بھی ان کو محسوس نہیں کرتا.اور وہ اسے نظر نہیں آتے.پس ان کے متعلق یہ خیال کرنا که ضرور نظر آجائیں.ایک غلطی ہے.موسیٰ کی قوم نے کہا تھا کہ خدا اگر نظر آجائے تو مان لیں گے.دیکھو خدا تعالیٰ تو نظر آتا ہے.لیکن باوجود اس کے وہ آنکھوں سے پوشیدہ ہے.جس طرح اللہ نظر نہیں آتا اسی طرح ہدایت بھی نظر نہیں آتی.اور جس طرح اللہ تعالیٰ نشانوں سے ظاہر ہوتا ہے اسی طرح ہدایت بھی نشانوں سے ظاہر ہوتی ہے.پس جو شخص یہ کہتا ہے کہ ہدایت محسوس نہیں ہوتی اور اس کا کوئی ثبوت نہیں.وہ درست بات نہیں کہتا وہ یہ تو کہہ سکتا ہے کہ وہ ان کے مقام پر نہیں پہنچا جو اسے نظر آئے.اور اس
240 کی روحانی حالت اس درجہ کی نہیں ہو گئی کہ وہ اسے محسوس ہو.لیکن یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس میں اثر ہی نہیں.تبلیغ میں اثر ہے اور تبلیغ کرنے سے ضرور فائدہ پہنچتا ہے.ایک یہی فائدہ کیا کم ہے کہ وہ ان بدیوں سے بیمار نہیں ہو تا جن سے وہ دوسروں کو روکتا ہے.اور اس طرح وہ ایک بیمار شخص کی طرح ہو جانے سے بچ جاتا ہے.بسا اوقات دیکھا گیا ہے کہ طبیب بیماری کا علاج نہیں کرتا بلکہ بیماری کو روکتا ہے.اسی طرح تبلیغ کا حال ہے کہ گمراہی میں جو ترقی کر رہا تھا وہ رو کی گئی.اور یہ بھی ایک فائدہ ہوتا ہے جو تبلیغ سے پہنچتا ہے کہ انسان گمراہی سے بچ جاتا ہے.اور ایسے ہزاروں ثبوت جماعت میں مل سکتے ہیں کہ جو ان فوائد کو پارہے ہیں.اور ان کے اندر یہ باتیں پیدا ہیں.پس اسی سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ روحانی سلسلسہ ہے اور جو خدا کے سلسلہ ہوتے ہیں ان کی ظاہر علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ خدا کے کلام سے مشرف ہوتے ہیں اور ان کو قبولیت دعا ملتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی حفاظت ان کے ہمراہ رہتی ہے.پھر تبلیغ کا یہ فائدہ بھی ہے کہ جو تبلیغ کرتے ہیں خدا ان کو ضائع نہیں کرتا.جو دوسروں کا خیال رکھتے ہیں خدا ان کا خیال رکھتا ہے ان کے علم میں اضافہ ہوتا ہے ان کا عرفان بڑھتا ہے ان کا دشمن پر رعب ہوتا ہے اور یہ سب باتیں ہماری جماعت میں میسر ہیں.پیس تبلیغ سے آہستہ آہستہ ایک شخص ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے جس پر وہ بالآخر محسوس کر لیتا ہے کہ اسے ہدایت مل رہی ہے.پس ہماری جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ وہ اس سے غفلت نہ کریں اور کچھ بھی ہو اسے چھوڑیں نہیں.اگر نشانات صداقت نہ ملیں تو تھک نہیں جانا چاہئے.کیونکہ یہ ابتدائی حالت ہوتی ہے اور جب یہ حالت گذر جاتی ہے تو از خود یہ محسوس ہونے شروع ہو جاتے ہیں.لیکن اگر کوئی شخص ایسے طور پر اسے چھوڑ دیتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے بے اثر شے ہے یا تبدیلی پیدا نہیں ہوتی.تو یہ شیطان کا دھوکہ ہے.جو نیکی سے روکنے والا ہوتا ہے.پس اس بات سے گھبرانا نہیں چاہئے کہ اس کا اثر ظاہر نہیں ہو رہا.وقت جب آتا ہے آپ ہی یہ ظاہر ہو جاتا ہے.اور انسان اس کو جان نہیں سکتا کہ اس کے اندر استعداد کتنی تھی اور پھر اس کے اثرات کے ظاہر ہونے کے لئے مدت کتنی چاہئے.اس لئے تبلیغ سے رکنا نہیں چاہئے.بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہم میں خود غلطیاں ہیں لوگوں کو کیسے سمجھائیں.مگر ان کو جاننا چاہئے کہ ان کا یہ خیال بھی غلط ہے کیونکہ جو دوسروں کو سمجھاتا ہے وہ نیکی کرتا ہے.اس لئے تبلیغ کرنا نیکی کرتا ہے اور اس سے رکنا غلطی ہے اور ایسی غلطیاں درست نہیں ہوتیں.جب تک نیکیاں
241 نہ کی جائیں.پس تبلیغ کرنا خود نیکی کرتا ہے جو ان کی اپنی غلطیوں کو بھی دور کر سکتی ہے.اور دوسروں کی غلطیاں بھی.پھر تبلیغ ایک فرض بھی ہے اس لئے بھی اسے پورا کرنا چاہئے.پس میں دوستوں کو کہتا ہوں کہ تبلیغ کے فرض کو ہرگز نہیں چھوڑنا چاہئے اور اس بات سے حوصلہ نہیں ہارنا چاہئے کہ اس کا اثر نہیں یا تبدیلی نہیں ہوتی یا ہم میں خود غلطیاں ہیں.ایک آدمی جو صرف اس لئے تبلیغ سے رک جاتا ہے کہ اثر نہیں وہ کیا جانتا ہے کہ اس کے بعد اگر وہ تبلیغ کرتا تو ضرور اس کا اثر ظاہر ہوتا.پس آدمی اگر آج نہیں تو کل کل نہیں تو پرسوں.پرسوں نہیں تواترسوں ضرور اس کا اثر محسوس کرتا اور دیکھتا ہے اور ایک دن وہ دیکھے گا کہ تاریکی سے نکل کر یکدم وہ روشنی میں آگیا ہے.خد اتعالیٰ ہمارے تمام اعمال کو درست کرے اور ہمیں اپنے فضلوں کا وارث بنائے.اور ہمیں توفیق دے کہ اپنے نفوس کی بھی اور دوسروں کی بھی اصلاح ہو.ہمیں تبلیغ کی اور بھی زیادہ توفیق ملے.اور ہم نیکی کرتے رہیں.آمین آج نماز کے بعد میں تین جنازے پڑھاؤں گا اور یہ تینوں ایسی جگہ فوت ہوئے جہاں ہماری جماعت کے لوگ یا تو نہیں تھے یا تھے تو ایک دو.پہلا جنازہ ملک غلام نبی صاحب اسٹنٹ ڈسٹرکٹ انسپکٹر مدارس سب ڈویژن پنڈی گھیپ کے والد ملک محسن خان صاحب کا ہے دوسرا امتہ الرحمن صاحبہ عبد القدیر صاحب چھاؤنی جالندھر کی ہمشیرہ اور تیسرا والدہ رحمت اللہ سکنہ اثر پور (انبالہ) ان تینوں کا جنازہ جمعہ کی نماز کے بعد پڑھاؤں گا.سب دوست میرے ساتھ شامل ہوں.الفضل ۲۲ اکتوبر ۱۹۲۶)
242 27 حضرت مسیح موعود کا ایک زبردست نشان (فرموده ۱۲۲ اکتوبر ۱۹۲۶ء) تشهد ، تعوز اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے دو ہی کامل راستے ہیں اور وہ دونوں دو شہادتیں ہیں جن میں سے ایک شہادت تو اپنے نفس کی ہے کہ انسان اپنے نفس سے یہ بات حاصل کرتا ہے کہ کوئی اللہ ہے اور اس پر ایمان لانا ضروری ہے اور دوسری شہادت غیر کی ہے.ان دونوں راستوں کے سوا اور کوئی راستہ نہیں جو انسان کو خدا تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات پر کامل یقین کرا سکے.عقل انسانی بھی ایک حد تک رہنمائی کرتی ہے.اور انسان اس کی رہنمائی سے سمجھتا ہے کہ شائد میں نے مدعا کو پالیا.لیکن چونکہ وہ ناقص ہوتی ہے اور اس کی رہنمائی ایسی محدود ہوتی ہے کہ انسان اپنے خیال میں ایمان کے اعلیٰ مرتبہ پر پہنچ چکا ہوتا ہے لیکن وہاں پہنچ کر بھی ایسا حادثہ ہو جاتا ہے جس سے اسے محسوس ہو جاتا ہے کہ میرا ایمان کچھ نہ تھا اور ایک ہی دن میں اسے اپنی غلطی اور کمی کا اندازہ ہو جاتا ہے.اگر صبح کے وقت وہ اپنے آپ کو سلوک اور مدارج پر چلتا ہوا خیال کرتا ہے تو شام کو شکوک کی اندھیری سے اس کا دل اڑتا پھرتا ہے.لیکن جو وجود پہاڑ کی طرح ثابت ہوتے ہیں.وہ اپنا قدم آگے ہی اٹھاتے ہیں اور وہ وہی ہوتے ہیں جو اپنے نفس کی شہادت سے اپنے ایمان کو کامل بناتے ہیں.ایسے لوگوں کو نفس کی شہادت سے ایسا پختہ ایمان حاصل ہوتا ہے کہ وہ ہر حالت میں اس پر قائم رہتے ہیں.یہ نہیں کہ وہ اتار چڑھاؤ سے بچے ہوتے ہیں نہیں بلکہ ان پر بھی اتار چڑھاؤ آتے ہیں.مگر وہ اس قسم کے اتار چڑھاؤ سے ہر قسم کے ظن اور شک سے محفوظ رہتے ہیں.ایک وقت ان کو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ساری دنیا ان کے قدموں پر آپڑی ہے.اور وہ ایسا محسوس کرتے ہیں
243 الله کہ سارے قانون قدرت نے ان کے آگے ہتھیار ڈال دیئے.اور دوسرے وقت ان کو معلوم ہوتا ہے کہ اپنے پرائے سب دشمن ہو گئے.لیکن باوجود اس کے ان کے ایمان میں فرق نہیں آتا بلکہ خطرے کے مقام پر ان کا ایمان آگے سے بھی بڑھ جاتا ہے اور یہ بات ان کو ممتاز کر کے دکھاتی ہے.غزوہ حنین میں ایک موقع پر تمام صحابہ باستثناء بارہ آدمیوں کے رسول کریم ﷺ کو چھوڑ کر چلے گئے.یہ لشکر بارہ ہزار کا تھا.ان میں سے صرف بارہ آدمی بھاگ جانے کے خیال سے بچے تھے.اور باقی سب آپ کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے.میں اس جگہ کسی تاریخی پہلو پر روشنی نہیں ڈال رہا.اس لئے میں اس کی تفصیل اور وجوہات کو چھوڑتا ہوں.مگر بہرحال یہ بات ظاہر ہے کہ ایک موقع پر ایسا وقت آیا کہ رسول اللہ الا صرف بارہ آدمیوں کے درمیان رہ گئے لیکن باوجود اس بات کے آنحضرت آگے بڑھے.مگر اس وقت بعض آپ کے شیدائیوں نے بڑھ کر گھوڑے کی باگ پکڑ لی کہ اس وقت آگے بڑھنا مناسب نہیں.آپ ٹھیریں کہ لشکر جمع ہو لے.وہ لوگ جانتے تھے کہ رسول اللہ اس کی زندگی میں ہماری زندگی ہے اور آپ کے جسم مبارک پر ذرا بھی آنچ آئی تو مسلمان دنیا کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے.کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اگر خدا نخواسته رسول کریم جنگ میں شہید ہو گئے تو اشاعت اسلام کے راستہ میں پہاڑ کھڑے ہو جائیں گے.گو وہ سمجھتے تھے کہ خدا تعالیٰ ان کو قتل ہونے سے بچائے گا لیکن وہ خدا کے استغناء پر بھی یقین رکھتے تھے.اس لئے رسول اللہ ان کی جان کی حفاظت کے خیال کو ضروری سمجھتے تھے اور یہ ایسا خیال تھا جو کبھی مبدل نہ ہو تا تھا.وہ جانتے تھے کہ خدا تعالیٰ پھر بھی غنی ہے اس لئے تدابیر اختیار کرنی چاہئیں غرض بعض صحابہ نے باگ پکڑ لی.مگر آپ نے زور سے فرمایا کہ چھوڑ دو اور گھوڑے کو ایڑ لگا کر آگے بڑھ گئے.اور بلند آواز سے کہا.انا النبي لا كذ بدانا بن عبدا لمطلب اگر نہ بولتے تو شائد نہ پہچانے جاتے.عرب میں اس زمانہ میں کلفی یا تاج نہیں ہوتے تھے کہ ان سے کسی بادشاہ کو پہچان لیا جاتا اور ایسے موقعہ پر جب کہ سارا لشکر چھوڑ کر بھاگ گیا ہو.اور جان کا سخت خطرہ ہو.بڑے سے بڑا بادشاہ بھی اپنے آپ کو ظاہر کرنے کی کوشش نہیں کرتا.مگر آپ بڑھے اور بلند آواز سے کفار اور اپنے دشمنان بر سر پیکار سے کہا انا النبي لا كذب انا بن عبدا لمطلب جس کا مطلب یہی تھا کہ میں خدا کا نبی ہوں.جھوٹا نہیں ہوں.اور دوسرے جملے سے یہ مراد تھی کہ کوئی میری طاقت کو دیکھ کر کہ سامنے تو چار ہزار تیر انداز کھڑے ہیں اور میں ان کی طرف ہی بڑھا جاتا ہوں یہ گمان نہ کر لے کہ میں خدا ہوں میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں اس دوسرے فقرے سے آپ
244 نے اپنی نبوت اور بشریت کا اظہار کیا ہے اور اس سے وہ شبہ جو آپ کی الوہیت کے متعلق پیدا ہو سکتا تھا دور کر دیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں بھی اس قسم کے واقعات ملتے ہیں.گورداسپور میں آپ پر ایک مقدمہ کیا گیا.فریق مخالف کی طرف سے مجسٹریٹ کو جو ان کا ہم قوم تھا کہا گیا کہ یہ بدلہ لینے کا موقعہ ہے اگر آج بدلہ نہ لیا تو قومی غدار سمجھے جاؤ گے.لاہور میں اس کے متعلق ان کا جلسہ ہوا.جس میں یہ سب باتیں طے ہوئیں.خدا کے تصرف بڑے زبردست ہوتے ہیں اور اس کی حکمتیں باریک.ان ہی میں سے ایک شخص نے ایک احمدی کو یہ سب قصہ آسنایا کہ یہ فیصلہ کیا گیا ہے اور کہا کہ آپ ان کو خبر کر دیں لیکن میرا نام نہ لیا جائے.کیونکہ اس سے میں بدنام ہو جاؤں گا اور ممکن ہے کہ ان کی طرف سے میرے ساتھ کوئی سخت سلوک کیا جائے.جن لوگوں نے اس وقت کی حالت کو دیکھا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس وقت باغ میں زمین پر لیٹے ہوئے تھے اور جو پاس بیٹھے ہوئے تھے ایک نے ان میں سے نہایت گھراہٹ کے ساتھ کہا کہ اب معلوم نہیں کیا ہو گا.یہ سنا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اٹھ کر بیٹھ گئے.اور بڑے زور سے فرمایا کہ آپ کو خدا پر ایمان نہیں.خدا کے نبی شیر ہوتے ہیں وہ اگر مجھ پر ہاتھ ڈالے گا تو شیر پر ہاتھ ڈالے گا.تو یہ ایمان نفس کے مشاہدات سے آتا ہے.اور جس کو ایسا ایمان حاصل ہو جائے.اس کے یقین اور اخلاص میں کوئی تزلزل واقع نہیں ہوتا.اس کی امیدوں میں کوئی تزلزل واقع نہیں ہو تا.اس کے ایمان میں کوئی تزلزل واقع نہیں ہو تا بلکہ اگر کوئی اور بھی واقعہ گذرتا ہے تو وہ اور بھی بڑھتا ہے.دوسرے لوگ جس بات سے خوف کھا جاتے ہیں اور جس سے ان کے ایمان میں تزلزل پیدا ہو جاتا ہے جس سے ان کے اخلاص میں تزلزل پیدا ہو جاتا ہے.جس سے ان کے یقین میں نقص پیدا ہو جاتا ہے.اسی سے ان لوگوں کا ایمان بڑھتا ہے اور ان کے اخلاص میں ترقی ہوتی ہے اور ان کے میں زیادتی پیدا ہوتی ہے.اور جب کوئی ایسا حادثہ گذرتا ہے تو ایسا ایمان کم نہیں ہو تا بلکہ بڑھتا ہے.خدا تعالیٰ سے دور رہنے والوں کی آواز مایوسی پر جا کر ختم ہو جاتی ہے.لیکن خدا کے ماننے والوں کی آواز شروع میں دھیمی اٹھتی ہے.نرمی کے ساتھ بلند ہوتی ہے مگر ایسی آواز کا خاتمہ امنگوں پر ہوتا ہے.امیدوں پر ہوتا ہے.حزقیل.دانیال عزرا.حبقوق.میکاہ.یرمیاہ و غیرہ کی کتابوں کو پڑھ کر دیکھ لو سب کی آوازیں دھیمی ہوں گی اور افسوس کے ساتھ شروع ہوں گی لیکن
245 امید پر جا کر ختم ہوں گی.وہ شروع اس طرح ہوں گی.اے لوگو ! تم نے یہ کیا وہ کیا اس لئے یہ ہوگا لیکن ختم اس پر ہوں گی کہ خدا تم کو نہیں چھوڑے گا.تمھاری ضرور مدد کرے گا.تو ان کی ابتدا غم و اندوہ سے ہوگی اور انتہا امید پر ہو گی.اول درجے کا ایمان اپنے نفس کی شہادت سے پیدا ہوتا ہے اور دوسرے درجے کا ایمان دوسرے لوگوں کی شہادت سے پیدا ہوتا ہے اور وہ اس طرح کہ جب وہ صادقوں کے معجزات.ان کی نصرت.خدا کی ان سے ہمکلامی کو دیکھتے ہیں تو ان کا ایمان تازہ ہو جاتا ہے اور وہ اس ایمان سے بڑھ کر جو عقل سے پیدا ہوتا ہے ان باتوں کا مشاہدہ کرتے ہیں.اسی لئے یہ اس سے بھی بلند ہے پس یہ ایمان بھی بڑا زبردست ہوتا ہے.ایسا ایمان بھی اگر پیدا ہو جائے تو دنیا کی سب چیزیں بیچ ہو جاتی ہیں اور صرف خدا تعالیٰ کا خیال رہ جاتا ہے.عقل کے ذریعے جو ایمان حاصل ہوتا ہے وہ کوئی ایسا عمدہ اور مضبوط ایمان نہیں ہو تا.تمام دنیا کے عقلی ایمانوں کو اگر جمع کر لیا جائے تو وہ انسان کے اس ایمان کے مقابلہ میں بالکل بیچ ہوں گے.جو شہادت نفس سے یا کم از کم شہادت غیر سے حاصل کیا جاتا ہے بلکہ میرے نزدیک تو وہ ایمان کہلانے کا ہی مستحق نہیں.عقل سے ایمان لانے والوں کے ایمانوں کو اگر جمع کیا جائے تو گو وہ ایمان کسی حد تک مشاہدہ بھی رکھتے ہوں اور موہبت والے بھی ہوں لیکن وہ پھر بھی سمندر کے مقابل پہ قطرہ ہی ہوں گے.کیونکہ ان کی تمام قوت ان کے مقابل پہ کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتی.یہی وجہ ہے کہ خدا انبیاء کو بار بار بھیجتا ہے.اور انبیاء کو بار بار بھیجنے سے وہ دکھانا چاہتا ہے.کہ میں مردہ خدا نہیں ہوں.میں بے کار اور غافل خدا نہیں ہوں.میں اپنی قدرتیں اور طاقتیں ہمیشہ دکھاتا ہوں اور ہمیشہ دکھا سکتا ہوں اور طاقتوں کے ذریعہ خدا تعالیٰ ایسے ایمان پیدا کراتا ہے اور بندوں کے لئے دونوں قسم کی راہیں کھول دیتا ہے.ہمارے اس زمانہ میں بھی یہ دونوں راہیں ایمان پانے کی خدا تعالیٰ نے کھولی ہیں.یہ دونوں راہیں یہی ہیں کہ اپنے نفس کی شہادت سے ایمان حاصل کرنا اور شہادت غیر سے ایمان پیدا کرنا.اور یہ دونوں راہیں جو اس نے کھولی ہیں.ان کے دروازوں کو کھولنے کے لئے وقت کے نبی کی جماعت میں داخل ہونا ضروری ہے.اس نبی کی بیعت کا سرٹیفکیٹ ان کے ہاتھ میں ہونا چاہئے.عام الہام کی شرط نہیں.اس کے لئے ایسے الہاموں کی ضرورت ہے جو دوسروں کو بھی حیران کر دیں اور ایسے الہام اور وحی صرف انبیاء کی بیعت کا سرٹیفکیٹ رکھنے والوں کو ملتے ہیں.
246 دوسرا دروازہ بھی کھولا گیا ہے.اللہ تعالٰی نے اس زمانہ کے نبی کے لئے نشان بھی دکھائے اور کثرت سے دکھائے اور ہر رنگ میں کھلے کھلے طور پر دکھائے ہیں کہ اگر دلوں پر زنگ نہ ہو تو سورج سے زیادہ چمک کے ساتھ ان کی سچائی ظاہر ہو جائے.یہ ہو سکتا ہے کہ سورج کے وجود میں شہہ پڑ جائے لیکن خدا کے اس نبی کی شان میں جو نشان دکھائے گئے ہیں.وہ بہت ہیں اور اس کثرت سے ہیں اور اس طرح کھلے کھلے ہیں کہ ان میں شبہ پڑ نہیں سکتا اور جو روشنی ان سے پیدا کی وہ کبھی انسان کے اندر ظاہر ہوتی ہے کبھی جانوروں کے اندر سے ظاہر ہوتی ہے.کبھی بے جان سے ظاہر ہوتی ہے.کبھی آسمان سے ظاہر ہوتی ہے.کبھی زمین سے ظاہر ہوتی ہے.کبھی پہاڑوں سے ظاہر ہوتی ہے.اور کبھی زلزلوں سے ظاہر ہوتی ہے.ایسے نشان ہزاروں ہیں اور ایسی شہادتیں بے اندازہ کہ جن سے یہ قسم ایمان کی پیدا ہوتی ہے.ان میں سے اس وقت میں ایک کی طرف توجہ دلاتا ہوں.اور وہ یا تیک من کل فج عمیق اور يا تون من كل فج عميق ۳۰ یعنی دور دور سے لوگ تیرے پاس آئیں گے اور دور دور سے تیرے پاس تحائف لائے جائیں گے اور ایسے ایسے سامان کئے جائیں گے جن سے مہمان نوازی کی جائے اور اس کثرت سے لوگ آئیں گے کہ وہ راستے گھس جائیں گے جن راستوں سے وہ آئیں گے.یہ نشان ایک عظیم الشان نشان ہے اس عظیم الشان نشان کی کس وقت خدا تعالیٰ نے خبر دی.اس حالت کے دیکھنے والے اب بھی موجود ہیں.میری عمر تو چھوٹی تھی لیکن وہ نظارہ اب بھی یاد ہے.جہاں اب مدرسہ ہے وہاں ڈہاب ہوتی تھی اور میلے کے ڈھیر لگے ہوتے تھے اور مدرسہ کی جگہ لوگ دن کو نہیں جایا کرتے تھے کہ یہ آسیب زدہ جگہ ہے.اول تو کوئی وہاں جاتا نہیں تھا اور جو جاتا بھی تو اکیلا کوئی نہ جاتا بلکہ دو تین مل کر جاتے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ یہاں جانے سے جن چڑھ جاتا ہے.جن چڑھتا تھا یا نہیں بہر حال یہ ویران جگہ تھی.اور یہ ظاہر ہے کہ ویران جگہوں کے متعلق ہی لوگوں کا خیال ایسا ہوتا ہے کہ وہاں جانے سے جن چڑھ جاتا ہے.پھر یہ میرے تجربے سے تو باہر تھا.لیکن بہت سے آدمی بیان کرتے ہیں کہ قادیان کی یہ حالت تھی کہ دو تین روپے کا آٹا بھی یہاں سے نہیں ملتا تھا.آخر یہ گاؤں تھا.زمیندارہ طرز کی یہاں رہائش تھی.اپنی اپنی ضرورت کے لئے لوگ خود ہی پیس لیا کرتے تھے.یہ تو ہمیں بھی یاد ہے کہ ہمیں جب کبھی کسی چیز کی ضرورت پڑتی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کسی آدمی کو لاہور یا امرتسر بھیجا کرتے تھے.پھر آدمیوں کا یہ حال تھا کہ کوئی ادھر آتا نہ تھا.برات وغیرہ پر کوئی مہمان اس گاؤں میں آجائے تو آ جائے لیکن عام طور پر کوئی آتا
247 جاتا نہ تھا.مجھے وہ دن بھی یاد ہیں کہ میں چھوٹا سا تھا حضرت صاحب مجھے بھی ساتھ لے جاتے.مجھے یاد ہے برسات کا موسم تھا ایک چھوٹے سے گڑھے میں پانی کھڑا تھا میں پھلانگ نہ سکا تو مجھے خود اٹھا کے آگے کیا گیا.پھر کبھی شیخ حامد علی صاحب اور کبھی حضرت صاحب خود مجھے اٹھا لیتے.اس وقت نہ کوئی مہمان تھا اور نہ یہ مکان تھے.کوئی ترقی نہ تھی مگر ایک رنگ میں یہ بھی ترقی کا زمانہ تھا.کیونکہ اس وقت حافظ حامد علی صاحب آچکے تھے.اس سے بھی پہلے جب کہ قادیان میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کوئی شخص نہ جانتا تھا خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا کہ تیرے پاس دور دور سے لوگ آئیں گے اور دور دور سے تحائف لائے جائیں گے.اس وقت کی حالت کا اندازہ لگاتے ہوئے خدا تعالٰی کے اس وعدے کو ان الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے.اے وہ شخص جس کو کہ اس کے محلے کے لوگ بھی نہیں جانتے جس کو کہ اس کے شہر سے باہر دوسرے شہروں کے انسان نہیں جانتے جس کی گمنامی کے حالت سے لوگوں کو یہی خیال تھا کہ مرزا غلام قادر صاحب ۴ ہی اپنے باپ کے بیٹے ہیں.میں تجھ جیسے شخص کو عزت دوں گا.دنیا میں مشہور کروں گا.عزت چل کر پاس آئے گی.عزت دو طرح کی ہوتی ہے.ایک وہ عزت ہے جو دوسروں کے گھر جا کر لی جاتی ہے مثلا" کسی کے کام کر دیئے.کسی کی مقدمات میں خدمت کر دی.کسی کے بیاہ شادی میں مدد دی.کسی کے خیال کی تائید کر دی.یا گورنمنٹ کے ساتھ ہو کر بعض جرائم کا انکشاف کرا دیا.یا سرکار کے کاموں میں جا کر مدد کر دی.جس سے خوش ہو کر بعض کو اس کی طرف سے کوئی خطاب مل گیا.بعض کو زمین مل گئی.بعض کو اور قسم کی رعائتیں حاصل ہو گئیں.تو ایک عزت تو اس طرح ملتی ہے اور یہ عزت دوسروں کے گھر جا کر لی جاتی ہے.لیکن یہ حقیقی عزت نہیں ہوتی بلکہ ذلت ہوتی ہے.دوسری قسم شخص کی عزت وہ عزت ہے جس کے لئے لوگوں کے دروازوں پر نہیں جانا پڑتا بلکہ وہ لوگ خود اس کے گھر آکر اس کو عزت دیتے ہیں.اور یہی حقیقی عزت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو عزت ملی وہ اسی قسم کی ہے لوگ چل کر آئے اور عزت دی اور یہ سب باتیں اس نشان کے ماتحت ہو ئیں اور ہو رہی ہیں جو خدا تعالیٰ نے حضرت صاحب کو اس وقت دیا جب کہ آپ کو قادیان میں بھی کوئی نہ جانتا تھا.دشمن بھی اور بعض نادان دوست بھی اعتراض کرتے تھے کہ مرزا صاحب گھر بیٹھے رہتے ہیں باہر نہیں نکلتے اور دوسرے لوگوں کی طرح ادھر ادھر نہیں پھرتے.لیکن وہ نادان ہیں جو ایسا کہتے ہیں.
248 وہ نہیں سمجھتے.جس کو خدا گھر بیٹھے عزت دے اسے باہر نکلنے کی کیا ضرورت ہے.اسے خدا نے وعدہ دیا کہ تم ایک جگہ بیٹھو میں دنیا کو کھینچ کر تمھارے پاس لاؤں گا.اور یہ اب سب لوگوں کو نظر آ رہا ہے کہ خدا اپنی بات کے مطابق لوگوں کو لا رہا ہے اور تو کوئی معمولی طور پر مشہور ہو گا.زیادہ سے زیادہ ضلع میں اس کی عزت ہوگی یا زیادہ سے زیادہ صوبہ میں اس کی عزت ہوگی.زیادہ سے زیادہ ملک میں اس کی عزت ہوگی لیکن خدا تعالیٰ نے آپ سے اس سے بڑھ کر وعدہ کیا اور فرمایا کہ میں جو عزت تمھیں دوں گا وہ ایسی عزت ہو گی کہ ساری دنیا میں عزت ہو جائے گی.صرف شہر میں تمھاری عزت نہ ہوگی.صرف ضلع میں ہی تمھاری عزت نہ ہوگی.صرف صوبہ میں ہی تمھاری عزت نہ ہو گی.صرف ملک میں ہی تمھاری عزت نہ ہو گی.بلکہ دنیا کے کونے کونے میں عزت ہوگی.جدھر کوئی راستہ دنیا میں نکلتا ہو گا.جدھر کوئی پک ڈنڈی دنیا میں جاتی ہوگی.ادھر تیرا نام پہنچایا جائے گا.اور ادھر ہی تیری عزت قائم کی جائے گی.خدا خالی یہ لفظ ہی نہیں فرماتا بلکہ وعدہ بھی فرماتا ہے.اور وعدہ بھی وہ وعدہ ہے جسے وہ بڑے زور کے ساتھ ہر روز پورا کر رہا ہے اور اس وعدہ کے لئے لفظ بھی وہ استعمال فرمائے جو اپنے معانی کے لحاظ سے بڑے زبردست ہیں.یہ الفاظ دو معنے رکھتے ہیں.ایک معنی تو یہی ہیں کہ دور دور سے لوگ چل کر آئیں گے.اور اس کثرت سے آئیں گے کہ راستوں میں گڑھے پڑ جائیں گے.اور وہ گہرے ہو جائیں گے لیکن ان الفاظ سے صرف یہی مطلب نہیں.بلکہ یہ بھی مراد ہے کہ صرف سڑکوں والے علاقوں کے لوگ ہی نہیں آئیں گے بلکہ وہ لوگ بھی آئیں گے جن کے علاقوں میں راستے نہیں.یعنی ایسی گمنام جگہوں سے بھی لوگ آئیں گے جنہیں دنیا میں لوگ جانتے ہی نہیں.اور صرف شہروں کے لوگ ہی نہیں آئیں گے.صرف بستیوں اور آبادیوں کے لوگ ہی نہیں آئیں گے.بلکہ جنگلوں کے لوگ بھی آئیں گے.میدانوں کے لوگ بھی آئیں گے.پہاڑوں کے لوگ بھی آئیں گے.غاروں کے لوگ بھی آئیں گے.غرض ہر گوشہ گمنامی سے کھینچ کر لوگ لائے جائیں گے.اور یہ دونوں معنی ہی اس الہام سے پائے جاتے ہیں.لوگوں کے آنے سے بھی کہ جن کے آنے سے راستے عمیق ہو جائیں اور عمیق راستوں سے لوگوں کے آنے کے بھی.اور یہ ہی وہ بڑی عزت ہے جو حقیقی طور پر عزت کہلانے کی مستحق ہے.کہ شہروں اور آبادیوں سے نکل کر ایسے ویرانوں میں بھی نام چلا جائے جو دنیا کو معلوم ہی نہیں.دنیا میں بہت سے آدمیوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہوں نے شہرت پائی.سرٹیگور کے متعلق
249 بھی یہی کہا جاتا ہے.بے شک سرٹیگور نے شہرت پائی مگر شہروں میں.سرٹیگور کی عزت زیادہ سے زیادہ آبادیوں میں ہے اور آبادیوں میں سے بھی بہت تھوڑی آبادیوں میں اور پھر وہ بھی علمی حلقہ میں.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دنیا کے کونہ کونہ میں شہرت ہے.سر ٹیگور کو افغانستان کے پہاڑوں پر کوئی نہیں جانتا.ایران کے پہاڑوں پر کوئی نہیں جانتا.تو کستان کے پہاڑوں پر کوئی نہیں جانتا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام اڑ کر وہاں پہنچا.اور ایسے طریق سے پہنچا کہ عقلیں حیران ہیں کہ کس طرح آپ کا نام ایسے ایسے مقامات پر جا پہنچا کہ جہاں انسان کا گزر بھی بمشکل ہے اور یہ اسی شہرت اور عزت کا نتیجہ ہے.جو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنے وعدے کے مطابق بطور نشان دی کہ ہر ملک اور ہر علاقہ سے لوگ کھنچے چلے آتے ہیں.پھر آپ کا نام دنیا کے ہر طبقہ کے لوگوں میں بھی پہنچا آج قادیان کی کیا حالت ہے اس کا اندازہ اس کو دیکھنے سے ہو سکتا ہے کہ یہاں ہر وقت ہی ایک نمائش دنیا کے لوگوں کی لگی رہتی ہے.ہر طبقہ اور ہر علاقہ کے لوگ یہاں آتے ہیں.ہر قسم اور ہر ملک کے آدمی یہاں دیکھنے میں آتے ہیں.قریب کے لوگ بھی آتے ہیں اور دور دراز علاقوں کے لوگ بھی آتے ہیں.سیاہ بھی آتے ہیں اور سفید بھی آتے ہیں.اور کوئی قوم نہیں کہ جس کے لوگ یہاں نہ آتے ہوں.اور کوئی ملک نہیں کہ جس کے باشندے اس سے تعلق نہ رکھتے ہوں.ایک دفعہ مفتی صاحب کو اچھی سو جبھی آپ نے ایک دفعہ یہاں ایک میٹنگ کی.جس میں دنیا کے مختلف حصوں میں بولی جانے والی بائیس زبانوں میں تقریریں کی گئیں.اتنی زبانوں کے جاننے والے بعض بڑے بڑے شہروں میں بھی نہیں ملتے ہم نے حساب لگایا.ابھی بہت سی زبانیں رہ گئی تھیں.جن کے جاننے والے تو یہاں موجود تھے.مگر وہ اس میٹنگ میں شامل نہ ہو سکے.اور یہ ترقی روز بروز بڑھ رہی ہے اور دنیا کی باقی زبانیں جانے والے لوگ بھی یہاں جمع ہو رہے ہیں.تو یہ سب کچھ کس طرح ہوا.حضرت صاحب اس عزت کے لینے کے لئے کسی کے گھر چل کر نہیں گئے.بلکہ خدا تعالیٰ نے یہ عزت اور شہرت ان کو گھر بیٹھے ہی دی اور یہی حقیقی اور سچی شہرت اور عزت ہے جو گھر بیٹھے کسی کو ملے.حال ہی میں ایک کتاب بڑے بڑے مشہور مشنریوں نے لکھائی ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ عیسائیت کس طرح پھیلائی جائے.اس میں ایک مقام پر اسلامی ممالک میں عیسائیت پھیلانے کے پرا متعلق بحث کی گئی ہے.اس کتاب میں ہر فن کے ماہر سے مضمون لکھوائے گئے ہیں.جو جس فن
250 میں ماہر ہے.اس نے اپنے تجربوں کی بناء پر اس میں مضمون لکھتے ہیں.اس کتاب کا ایک فقرہ مجھے بہت پیارا معلوم ہوا.اس میں لکھا ہے کہ احمد یہ جماعت کو جو بھی کہیں کہیں لیکن یہ بات ضرور ہے کہ یہ قوم اپنی طاقت کے ہاتھ سے دنیا پر چھا گئی اور آنا فانا دنیا میں پھیل گئی.طاقت تو جو ہماری ہے وہ ہم جانتے ہی ہیں.ہمارا تو یہ حال ہے کہ ہمارے دوست ان علاقوں کو بھی نہیں جانتے جن میں احمدیت پھیل چکی ہے.یہ سب لوگ جو اس مسجد میں اس وقت بیٹھے ہیں.ان سے پوچھا جائے کہ ان ممالک کے نام بتاؤ.جہاں احمدیت پھیلی ہوئی ہے تو ہر گز نہ بتا سکیں گے.تو جو ان ملکوں کے ناموں سے بھی واقف نہیں کہ جن میں احمدیت پھیلی ہوئی ہے.تو ان کی طاقت ہی کیا ہوئی اور انہوں نے ملکوں میں تبلیغ ہی کیا کرنی ہے.ان میں سے ضرور ۹۰ بلکہ ۹۵ فی صدی ایسے نکلیں گے.جو ان ملکوں سے ناواقف ہوں گے.اور اگر ان ملکوں کے نام ان لوگوں کے سامنے لئے جائیں کہ جن میں احمدیت پھیلی ہوئی ہے.تو وہ حیران ہو جائیں گے وہ اتنا بھی نہیں جانتے کہ یہ کسی ملک کا نام ہے یا کسی گھوڑے بیل کا.پس ہماری تو یہ حالت ہے تاریخی اور جغرافیائی طور پر بھی ہمیں وہ علم حاصل نہیں.جس کی بناء پر یہ کہا جا سکے کہ ہماری طاقت نے کام کیا.پس یہ کہنا کہ یہ سب کام ہماری طاقت کے ساتھ ہوا غلط ہے.یہ اسی کی طاقت ہے کہ جس نے آج سے پچاس سال پہلے کہا تھا.یا تیک من کل فج عميق و يا تون من كل فج عمیق.پس اس کا پھیلانے والا خدا تھا نہ کہ ہماری طاقت.یہ جو کچھ بیان کیا گیا ہے یہ اس الہام کی وہ چھوٹی سی شکل ہے.جس میں وہ ظاہر ہو رہا ہے.لیکن اس سے بڑھ کر اور نہایت ہی موثر پیرایہ میں اس کو پورا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسہ سالانہ کی بنیاد رکھی.اور اس موقعہ پر یا تیک من كل فج عمیق اپنا پورا پورا اثر دکھاتا ہے.پس اس جلسے کے دن آنے والے ہیں.اور اس صورت میں جبکہ اس کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس الہام کے لئے رکھی.ہر وہ شخص جو اس میں شامل ہوتا ہے.وہ حضرت صاحب کے کام میں مدد دیتا ہے اور وہ خدا کے کلام میں مدد دینے والا ہے.خدا کا کلام تو پورا ہوتا ہے اور اس کے کام ہوتے رہتے ہیں.مگر وہ اپنے کلام کو بندوں سے پورا کراتا ہے.پورا کرنے والا تو در حقیقت خدا ہے لیکن وہ ہم کو کہتا ہے کہ اس میں شامل ہو جاؤ.اور یہ «مفت کرم داشتن» والا معالمہ ہے کہ کام تو وہ خود کرتا ہے مگر ہندوں کو اس میں شامل کر لیتا ہے.پس جماعت کو بھی اس
251 میں شامل ہونا چاہئے.اور ان کاموں میں شامل ہونے سے پہلے کچھ باتیں ہیں جو اسے پوری کرنی چاہیں.با تیک من كل فج عمیق خدا کا کلام ہے اور خدا اسے پورا کرے گا اور پورا کر بھی رہا ہے.مگر ہم کو بھی جو اس میں شامل ہونے کے لئے کہا گیا ہے تو ہمیں چاہئے کہ لوگوں کو لانے سے پہلے ان کی مہمان نوازی کے سامان مہیا کریں.کیونکہ سب باتوں سے پہلے مہمان نوازی کی جاتی ہے.دیکھو اگر کسی کے گھر میں چند مہمان آجائیں اور آگے مہمان نوازی کے سامان نہ ہوں تو شرمندگی ہوتی ہے اسی طرح ہمارا بھی حال ہے.اگر ہم لوگوں کو یہاں لاتے ہیں تو ہمارا یہ بھی تو کام ہے کہ ان کی مہمان نوازی کے سامان بھی کریں.پھر ہمارے مہمان بھی تو معزز مہمان ہیں.کیونکہ خدا ان کو اپنا مہمان کہتا ہے ہمیں تو ثواب کے لئے اس میں شامل کر رکھا ہے.پس ہمیں اس طرف توجہ کرنی چاہئے.اور زیادہ خصوصیت کے ساتھ قادیان والوں کو توجہ کرنی چاہئے کہ ان تمام آنے والوں کے لئے خدا نے ان کو میزبان بنایا ہے.پس اگر سب دوست نومبر کی آمد کا دسواں حصہ دے دیں تو جلسہ.کا خرچ چل سکتا ہے.ہماری بعض ذمہ داریاں ہیں.اور پھر ان ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ کچھ انعامات ہیں کہ جن کا ہمارے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے.پس ان انعامات کے بالمقابل یہ کوئی ایسی رقم نہیں جو بوجھ ہو.دوسرے بھی اس میں حصہ لیں.لیکن قادیان کی جماعت کو خصوصیت سے اس میں حصہ لینا چاہئے.کیونکہ دراصل قادیان کی جماعت ہی میزبان ہے.اور یہ ظاہر ہے کہ میزبان کو اپنے مہمان کی خاطر ہر قربانی کرنی پڑتی ہے.بیت المال والوں نے اعلان کیا ہے کہ اس دفعہ جلسے کے اخراجات کے لئے ہمیں ہزار روپیہ کی ضرورت ہے.میرے نزدیک ایسے کام کے لئے یہ رقم جمع کر لینی کوئی مشکل بات نہیں.لوگ معمولی شادیوں پر ہزاروں روپے لگا دیتے ہیں.یہ دین کی شادی ہے اور اگر کوئی شخص شادی پر ہزاروں روپے لگا سکتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے الہام کی شادی پر کیوں نہیں لگا سکتا.پس میں تو ایسا خیال ہی نہیں کر سکتا کہ ہماری جماعت کے دوست اس سے ہاتھ کھینچ لیں گے.اس میں ہزار روپے کی رقم میں سے جو سالانہ جلسہ کے اخراجات کے لئے تجویز کی گئی ہے.قاریان کی جماعت کے ذمہ پانچ ہزار روپیہ لگایا گیا ہے گو قادیان کی جماعت کی آمدنیاں قلیل ہیں.مگر میں سمجھتا ہوں کہ اس کے حوصلے وسیع ہیں اور وہ اس رقم کو بہت جلد ادا کر دے گی.میں ڈلہوزی ہی
252 تھا کہ میں نے اس تحریک کے متعلق سنا.قادیان واپس آکر میں نے اپنے حصہ کا چندہ بھیجا.تو مجھے یہ سن کر سخت تعجب ہوا کہ چندہ وصول کرنے والوں نے کہا کہ یہ پہلا چندہ ہے جو اس مد میں ہمیں وصول ہوا ہے.بعض نے تو یہاں تک کہا کہ ہمیں معلوم ہی نہیں کہ ایسی کوئی تحریک بھی ہوئی ہے.یہ درد پیدا کرنے والی باتیں ہیں.پس ہماری جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ ان باتوں کی خاص احتیاط رکھیں.یہ چندے ایسی چیز نہیں کہ ان کے متعلق کسی کو تمھیں کچھ کہنا پڑے بلکہ یہ تمھیں اپنے آپ ادا کرنے چاہیں.اور میرے نزدیک تو یہ شرم کی بات ہے کہ کوئی کہے کہ لاؤ جی چندہ دو بلکہ یہ چاہئے کہ کوئی کہنے نہ پائے کہ تم چندہ ادا کر دو.تا یہ اس کی طرف منسوب نہ ہو سکے.کہ فلاں نے کہا ہی تو چندے ادا کئے گئے کیونکہ اس طرح یہ دین اس کا ہو جائے گا.اور یہ سمجھا جائے گا کہ اسے تو دین کا خیال نہ تھا جسے خیال تھا اس نے آکر کہا.اگر اسے خود خیال ہوتا تو وہ آپ ہی اس کا فکر کرتا اور اپنے آپ اس کے لئے چندہ دیتا اور اس میں حصہ لیتا پس جو اس موقعہ پر ایسا کرتا ہے اور اپنے آپ اس میں حصہ لیتا ہے اور اس بات کی طرف نہیں دیکھتا کہ کوئی آکے اسے چندے کے لئے کہے.تو وہ اس الہام کو پورا کرتا ہے جو قیامت تک پورا ہوتا رہے گا.جو الہام بار بار پورا ہو وہ اس الہام کے بالمقابل افضل ہوتا ہے جو ایک دفعہ پورا ہو.حضرت صاحب کا یہ الہام بھی ان الہاموں میں سے ہے جو بار بار پورے ہونے والے ہیں.یہ الہام آج ہی نہیں پورا ہو رہا بلکہ قیامت تک پورا ہوتا رہے گا.قرآن کریم اسی لئے توریت پر افضل ہے کہ یہ ا قیامت تک ہے.اسی طرح حضرت صاحب کا یہ الہام بھی اعلیٰ الہاموں اور اور اعلیٰ وحیوں میں سے ہے جو قیامت تک پورا ہو تا رہنے والا ہے.پس جو اس میں چندہ دیتے ہیں وہ اس کے پورا کرنے میں حصہ لیتے ہیں.اسی طرح جو یہاں آتے ہیں وہ بھی اس کے پورا کرنے میں حصہ لیتے ہیں.اور جو دوسروں کو ساتھ لانے کی کوشش کرتے ہیں.وہ بھی اس کے پورا کرنے میں حصہ لیتے ہیں.پس میں یہ کہتا ہوں کہ دوست جہاں اس کی مالی خدمت کریں.وہاں وہ خود بھی آئیں اور دوسروں کو بھی ساتھ لائیں.میں ایک اور ضروری بات بھی کہنی چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ بعض دوست تبلیغ کرتے ہیں اور جب ایک آدمی حق بات کو پا کر بیعت کے لئے تیار ہو جاتا ہے تو وہ جلسہ کے قریب کے دنوں میں یہ کہتے ہیں کہ چلو جلسہ پر بیعت کر لیا مگر یہ ایک غلطی ہے.ایک شخص جسے ہدایت ہو گئی ہے کیا معلوم
253 کہ قلعہ کے باہر رہ کر اسے پھر خطرہ ہو جائے قلعہ یہی ہوتا ہے کہ اس میں داخل ہو کر ایک شخص خطروں سے محفوظ ہو جاتا ہے.اسی طرح بیعت بھی ایک قلعہ ہوتی ہے جو شخص بیعت کر لیتا ہے وہ گویا قلعہ میں داخل ہو جاتا ہے جہاں اس کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہو تا.اس لئے اس بات کو ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہئے کہ کوئی ایسی بات نہ ہو جس سے ایک شخص قلعے میں آتا آتا رک جائے اور پھر اس کے لئے خطرے پیدا ہو جائیں.پس دوستوں کو چاہئے کہ جس وقت کسی کو ہدایت ہو جائے اسی وقت اسے بیعت میں دخل کرا لینا چاہئے.خواہ وہ جلسہ کے دنوں کے قریب ہی کیوں نہ ہو.اور خواہ جلسہ میں ایک دن ہی کیوں نہ باقی رہ گیا ہو.اور اس بات کا فکر نہ کرو کہ جلسہ پر ہی ان کو بیعت کرانی چاہئے.ان کو تو اس وقت بیعت کرا دو.جلسہ کے موقعہ پر خدا تعالیٰ اور آدمی دے دے گا.تم لوگوں کو لاؤ تو سہی وہ یہاں کے حالات دیکھ کر آپ ہی اس طرف متوجہ ہو جائیں گے اور اس بات سے مت گھبراؤ کہ یہ لوگ جلسے پر جا کر گالیاں دیں گے یا کسی اور قسم کی بد زبانی کریں گے.میں نے دیکھا ہے.دشمن گالیاں دیتے ہوئے آئے.لیکن بیعت کر کے گئے.پس گالیوں یا اور باتوں سے مت ڈرو.تم ساتھ لانے کی کوشش کرو اور جو بیعت کے لئے تیار ہوں انہیں اسی وقت بیعت کراؤ.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالٰی ہمیں ان باتوں کی توفیق دے اور ہم اس کی وحی اور اس کے کلام پر ایمان لانے والے بنیں.ہمارے قلوب پر اس کے الہام نازل ہوں اور ہم ان نشانوں پر سے اندھے ہو کر نہ گزر جائیں جو سورج کی طرح روشن ہیں اور جو ہماری رہنمائی کے لئے ہیں.میں یہ دعا بھی کرتا ہوں کہ ہم ان الہاموں اور ان نشانوں سے جتنا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں اٹھائیں آمین (الفضل ۲۹ اکتوبر ۱۹۴۶ء) ا سیرت ابن ہشام حالات غزوہ حنین ۲- سیرت المهدی حصہ اول روایت حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب ۰۳ تذکره صه ۵۲ ۴.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے برادر اکبر
254 28 احمدیہ جماعت کی قدر و قیمت (فرموده ۲۹ اکتوبر ۱۹۲۶ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : یہ زمانہ ایسی تاریکی اور ایسی ظلمت کا زمانہ ہے کہ اس سے پہلے کبھی دنیا پر ایسی تاریکی کا زمانہ نہیں آیا اور کبھی اس پر ایسی ظلمت طاری نہیں ہوتی جیسے آج اس پر طاری ہے.بظاہر یہ زمانہ روشنی اور تعلیم کا زمانہ کہلاتا ہے اور اس زمانہ کے حالات اور خیالات نئی روشنی کے حالات اور خیالات کہلاتے ہیں اور ان حالات و خیالات کے واقف نئی روشنی کے آدمی کہلاتے ہیں.لیکن دین کو مد نظر رکھتے ہوئے اور روحانیت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات اچھی طرح معلوم ہو جاتی ہے کہ جس طرح اس زمانہ میں جسے روشنی کا زمانہ کہتے ہیں تاریکی پھیلی ہوئی ہے ایسی کبھی نہیں پھیلی تھی.پہلے زمانہ میں جو لوگ جہالت میں پھنسے ہوئے تھے اور تاریکی میں مبتلا تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ ہدایت مفقود تھی لیکن دنیا کی رو ایسی کبھی نہ ہوئی تھی کہ علوم روحانیہ کا پھیلنا ہی بند ہو جائے اس زمانہ کے لوگ جہالت میں تو تھے لیکن ہر ایک چیز کی ضرورت محسوس کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ مذہب اور علوم روحانیہ ضروری شے ہیں.یہ حقیقت آج لوگوں میں نہیں.ان کے دلوں میں ایسی امنگ ہی نہیں.ان کو اس بات کا احساس ہی نہیں کہ مذہب اور علوم روحانیہ کا ہماری ترقی کے ساتھ کیا تعلق ہے.دنیا کے کاموں کے لئے ان میں تڑپ موجود ہے اور ان کے لئے ایک آگ ان کے اندر ہے.اس کے واسطے ان میں جستجو ہے اور ایک شعلہ ان میں ہے جو ان کے اندر تے اٹھ کر سروں تک جا رہا ہے اور وہ ہر وقت اس سے یہ سمجھتے ہیں کہ ایک اور اونچا مقام ہے جو ابھی ہم نے حاصل کرنا ہے.اور جب یہ سب کچھ اسی تڑپ کے ماتحت ہے تو اس کے یہ معنے ہیں کہ گویا وہ تڑپ ہی ان کو غلط راہ پر لے جا رہی ہے.اگر ان میں سے کوئی ذرا اور آگے بڑھنا چاہتا ہے اور ترقی کرنا چاہتا ہے تو اس کا راستہ وہ یہی سمجھتا ہے کہ ان باتوں میں کوئی تبدیلی پیدا کر لینے سے وہ مقام حاصل کر لیا جا سکتا ہے اور اس کا
255 خیال مذہب کی طرف آتا ہی نہیں علوم روحانیت کی طرف اس کی توجہ ہوتی ہی نہیں جو کامیابی کا اصل ذریعہ ہے.یہی وجہ ہے کہ مذہب ان کے پاس نہیں ہے اور اگر ہے تو وہ نام کا ہے کام کا نہیں.زیادہ سے زیادہ اگر کچھ ان کے پاس ہے تو وہ الفاظ ہیں جن کی ان کے حالات کے مطابق کوئی حقیقت ہی نہیں جسم ہے پر جان نہیں.گویا وہ مذہب کے الفاظ کبھی بولتے ہیں تو صرف بولتے ہی ہیں.ان پر عمل ان کا ہرگز نہیں اور اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ دنیا کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں.آج عیسائی عیسائی نہیں رہے.ہندو ہندو نہیں رہے.سکھ سکھ نہیں رہے.مسلمان مسلمان نہیں رہے.جس طرح وہ پہلے عیسائی کہلاتے تھے آج بھی عیسائی کہلاتے ہیں جس طرح وہ پہلے ہندو کہلاتے تھے آج بھی ہندو کہلاتے ہیں.جس طرح وہ پہلے سکھ کہلاتے تھے آج بھی سکھ کہلاتے ہیں.جس طرح وہ پہلے مسلمان کہلاتے تھے آج بھی مسلمان کہلاتے ہیں.مگر ان کی اس حالت میں جو آج سے پہلے تھی اور اس حالت میں جو آج ہے بڑا فرق ہے آج سے پانچ سو سال پہلے جو عیسائی تھے وہ آج نہیں ہیں اسی طرح مسلمان بھی آج ویسے نہیں رہے جیسے آج سے پانچ سو سال پہلے تھے.وہ اسلام سے بالکل دور ہو گئے ہیں یہی حال ہندوؤں کا ہے.جس طرح پہلے زمانہ میں ہندو ہندو کہلاتے تھے.اب بھی وہ ہندو کہلاتے ہیں مگر جیسے وہ آج سے کئی سو سال پہلے ہندو تھے ویسے آج نہیں رہے نام رہ گئے ہیں حقیقت نہیں رہی چنے ہیں پر اندر کچھ نہیں.اور یہ ایسی ہی بات ہے کہ انسان کے کپڑے بھیڑیا پہن لے یا بھیڑ کی کھال اوڑھ لے.پس جس طرح بھیڑیا انسان کے کپڑے پہن کر انسان نہیں ہو جاتا اور جس طرح بھیڑ بھیڑیے کی کھال اوڑھ کر بھیڑیا نہیں بن جاتی اسی طرح ان لوگوں کا حال ہے کہ لباس تو مذہب کا ہے لیکن اندر مذہب سے خالی ہے لیکن جس طرح بھیڑیا انسان کے کپڑے پہن کر انسان کا نام تو ایک رنگ میں پالیتا ہے مگر انسان بن نہیں جاتا یا جس طرح بھیڑ بھیڑیے کی کھال اوڑھ کر بھیڑیے کی مشابہت سے بھیڑیا نام تو پالیتی ہے.مگر در حقیقت وہ ویسی نہیں ہو جاتی اسی طرح ان کا حال ہے کہ صرف کہلاتے ہی ہیں کہ ہم ہندو ہیں.ہم عیسائی ہیں.ہم سکھ ہیں.ہم مسلمان ہیں مگر یہ لوگ صرف ہندو یا سکھ یا عیسائی یا مسلمان نام پالینے سے وہ بچے ہندو وہ بچے سکھ وہ بچے عیسائی اور وہ بچے مسلمان نہیں بن سکتے جو آج سے پہلے تھے صرف نام رکھ لینے سے کوئی شخص وہ نہیں بن جاتا جس کا کہ وہ نام رکھ لے.سب سے زیادہ قابل افسوس مسلمانوں کی حالت ہے کہ ہندوؤں اور عیسائیوں سے بڑھ کر وہ اپنے مذہب سے دور.حقیقت کے لحاظ سے تو وہ بھی یعنی ہندو اور عیسائی اور سکھ وغیرہ بھی اپنے اپنے مذہب سے دور ہیں لیکن لگاؤ کے لحاظ سے وہ قریب ہیں.ایک عیسائی خواہ وہ یہ ہو جائے.عیسی کا نام لینے پر اسے جوش آجائے گا.وہ باوجود اس کے کہ دہریہ ہو گا عیسائیوں کی طرح گرجے
256 میں بھی جاتا ہے.اسے یسوع مسیح کی تو ہین پر غصہ بھی آتا ہے اور ان کاموں پر جو حضرت عیسی کی طرف منسوب ہیں.ہندوستان میں جتنے وائسرائے اور جتنے گورنر آتے ہیں وہ سب مذہبی رسوم ادا کرتے ہیں اور گرجوں میں جاتے ہیں لیکن مسلمانوں کی یہ حالت نہیں.ذرا ان میں کوئی آسودہ حال ہو جائے تو اگر وہ پہلے مسجد میں جاتا تھا تو پھر مسجد میں جانا بھی چھوڑ دیتا ہے.اگر وہ پہلے کچھ مذہبی رنگ رکھتا تھا تو پھر اس سے بھی غافل ہو جاتا ہے.غرض مسلمانوں کا وہ حال نہیں جو دوسرے مذہب والوں کا اپنے مذہب سے لگاؤ کی وجہ سے ہے.ان کی حالت بگڑ گئی ہے ان کے چلن خراب ہو چکے ہیں.ان کی شان و شوکت باقی نہیں ہے.وہ چھوٹے ہیں مگر بڑا کہلانا چاہتے ہیں بلکہ بڑا کہلانے والوں میں سے اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہیں.دنیا کے لئے وہ ہر کام کرنے کو تیار ہیں لیکن نہیں اگر تیار تو دین کے کام کے لئے نہیں تیار.دنیا کی طرف ان کی توجہ پھر سکتی ہے لیکن نہیں اگر پھر سکتی تو خدا کی طرف ان کی توجہ نہیں پھر سکتی.ایک ٹوٹی ہوئی جوتی کی ان کے نزدیک زیادہ قیمت ہے لیکن خدا کی اتنی بھی نہیں.پھٹے ہوئے کپڑے کی زیادہ عزت ان کی نظروں میں ہے لیکن خدا کے کلام کی اتنی بھی عزت ان میں نہیں.وہ ٹوٹی ہوئی جوتی اور پھٹے ہوئے چیتھڑے کو سنبھال کر رکھیں گے کہ کسی وقت کام آجائیں گے.لیکن خدا اور خدا کے کلام کی طرف مطلقاً توجہ نہیں کریں گے.خدا کا کلام خواہ رہے یا ضائع ہو جائے مگر انہیں پروا نہیں اور خدا کی ذات ان کی نظروں میں ایسی بھیانک ہو گئی ہے.جیسے کوڑھی کہ جس کے جسم سے کیڑے چلتے ہوں اور جس سے اتنی گھن آتی ہو کہ پاس بھی بھٹکنے کو جی نہ چاہئے.حضرت خلیفۃ المسیح اول فرماتے تھے.بھوپال میں ایک بزرگ تھے انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ایک آدمی پل پر پڑا ہے جس کے بدن پر کوڑھ تھا اور اس سے سخت تعفن اٹھ رہا تھا.انہوں نے اس سے پوچھا میاں تم کون ہو جو اس طرح پڑے ہو.اس نے کہا میں اللہ میاں ہوں.میں خدا ہوں.وہ بزرگ کہتے ہیں رڈیا میں ہی مجھے ایسی گھن پیدا ہوئی کہ میں گھبرا گیا اور اس شخص کے جواب سے سخت متعجب ہوا کیونکہ ہم نے تو قرآن شریف میں پڑھا تھا کہ خدا میں سب خوبیاں ہیں.ا کا.وہ منبع ہے کمالات کا.وہ منبع ہے تمام حسنوں کا.وہ منبع ہے تمام بھلائیوں کا.وہ منبع ہے تمام قدرتوں کا لیکن یہ تو مجموعہ ہے سب بدصورتیوں کا.مجموعہ ہے سب کمزوریوں کا.پھر ہم نے تو یہ سنا ہوا تھا کہ وہ عیب سے پاک ہے لیکن یہاں حالت بالکل برعکس ہے.یہ سن کر اس نے جواب دیا میں بھوپال کے لوگوں کا خدا ہوں انہوں نے مجھے ایسا ہی سمجھ رکھا ہے کہ میں بدصورت عیبوں سے بھرا ہوا لنجا کوڑھی اور کمزور ہوں کیا وہ خوش قسمتی کا زمانہ ہوگا جس میں بھوپال کا خدا ایسا بنا ہوا تھا.ہرگز نہیں.لیکن بخدا
257 آج ساری دنیا کا خدا ہی ایسا خدا بنا ہوا ہے.یہ صرف بھوپال پر ہی منحصر نہیں کہ اس نے خدا کو ایک وقت اس قسم کا خدا سمجھا بلکہ آج تمام دنیا کے لوگ اسے ایسا ہی سمجھ رہے ہیں.اور ان چند پاک لوگوں کو چھوڑ کر جن کے دلوں میں خدا تعالی کی خشیت ہے اور جن کے اندر اس کی محبت ہے باقی سب کا خدا ایسا ہی ہے.دنیا کیڑے پتنگے کی بھی عزت کرتی ہے اور ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو کسی کی محبت میں روتے ہیں مگر قرآن کی اتنی عزت بھی ان کے دلوں میں نہیں اور جو لوگ اس کی عزت کرتے ہیں اور اس کی محبت جتاتے ہیں اور اس کا ادب کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں وہ حقیقت میں اس کی عزت کے لئے عزت نہیں کرتے وہ حقیقت میں اس کے ادب کے لئے ادب نہیں کرتے بلکہ وہ صرف دنیا پر ظاہر کرنے کے لئے ایسا کرتے ہیں وہ صرف دنیا میں عزت پانے کے لئے اس کی عزت کرتے ہیں.وہ اس لئے اس سے محبت کرتے ہیں کہ وہ قوم میں عزت حاصل کریں اور قوم کی طرف سے محبت کئے جائیں.وہ قرآن کی اتنی ہی عزت اور محبت کرتے ہیں جتنی فریبوں اور دھوکوں میں کام آجائے.وہ صرف اس لئے اس کی عزت کرتے ہیں کہ وہ ان کی قسمیں کھانے میں کام آئے ورنہ قرآن کی عزت و عظمت کے برابر وہ ایک پھٹے پرانے کپڑے کے چیتھڑے کی عزت و عظمت کرتے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ.وہ حقیقت سے کوسوں دور جا پڑے ہیں.اور نور سے دور ظلمت میں بھٹک رہے ہیں.بسا اوقات گاؤں کے کتے کے ارد گرد لوگ جمع ہو جاتے ہیں جو ایک جانور سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا اور جانور بھی وہ جانور جو پرلے درجے کا نجس جانور ہے.لیکن نہیں اگر جمع ہوتے تو اس کے لئے نہیں جمع ہوتے جو زمین اور آسمان کا پیدا کرنے والا خدا ہے.جو دنیا میں لوگوں کے لئے ہدایت کے سامان بہم پہنچانے والا خدا ہے.ایک گاؤں کے بچے اور لوگ کتے سے تو کھیلتے ہیں اور اس کے لئے اگر وہ گم ہو جائے یا مرجائے تو رنج محسوس کرتے ہیں.لیکن افسوس خدا تعالیٰ کا نام لینے والے دنیا بھر سے عنقا ہیں.اس کا ثبوت یہ ہے کہ خدا تعالی کی حقیقی عظمت اور شان سے لوگ غافل ہیں.کہاں گئے وہ دن کہ اسلام دنیا کو جذب کر رہا تھا.کہاں گئیں وہ راتیں کہ نور خدا کی پھوہار برستی ہوئی نظر آ رہی تھی.کہاں گیا وہ زمانہ کہ لوگ قرآن کی عظمت کے قائل تھے.کہاں گیا وہ وقت کہ اسلام کے دشمن بلکہ اشد ترین دشمن بھی اسلام اور قرآن کی خوبیوں کے قائل تھے.یہودیوں کے ایک عالم نے حضرت عمرؓ سے ایک دفعہ بیان کیا کہ حسرت آتی ہے یہ دیکھ کر کہ آپ کے پیغمبر نے کوئی بات ایسی نہیں چھوڑی جس کے متعلق کچھ نہ کچھ بیان نہ کر دیا ہو.ہمیں اگر کسی امر کے متعلق ضرورت پڑتی ہے اور ہم اپنی کتاب کو اٹھا کر دیکھتے ہیں تو نہیں ملتی اور آپ کی کتاب میں مل جاتی ہے.غرض ایک تو وہ دن تھے کہ کافر بھی بار بار کہہ اٹھتے تھے کہ کاش ہم بھی مسلمان
258 ہوتے اور یہ تعلیم ہمارے اندر ہوتی یا ایک یہ وقت ہے کہ آج مسلمان کہہ رہے ہیں کہ کاش یہ تعلیم ہم میں نہ ہوتی.مسلمان رات دن کوشش کر رہے ہیں کہ ثابت کر دیا جائے کہ اسلام کی تعلیم یہ نہیں جو ظاہر کی جاتی ہے یا جو اس کی کتاب میں ہے بلکہ وہ یہ ہے جو ہم بتاتے ہیں.مسلمان حکومتیں برابر اسی کوشش میں لگی ہوئی ہیں کہ اسلام کے احکام کی متابعت ترک کر دیں.اور زمانہ کی تبدیلی کے ساتھ مذہب کو بھی بدل ڈالیں.پس کیا واقعی تاریکی نہیں چھا گئی.کیا واقعی لوگ دین اور تعلیم کو نہیں بدل رہے.کیا واقعی خدا کی محبت قرآن کی عزت اور رسول کا ادب ان کے دلوں سے نہیں نکل گیا.یقیناً نکل گیا ہے.جب مسلمانوں کا یہ حال ہے تو اس دین کا کیا حال ہو گا جس کے ماننے والوں کی یہ حالت ہے اور جس کے اپنے بھی دشمن ہو گئے.جس کے لگانوں نے بیگانوں کا طریق اختیار کر لیا.افسوس کہ اس زمانہ میں اسلام کی یہ حالت ہے کہ گلا گھونٹنے کو خود مسلمان ہی تیار ہیں.دنیا کے کاموں کے لئے انہیں فرصت مل سکتی ہے لیکن اگر نہیں فرصت ملتی تو اسلام کے لئے نہیں ملتی اور اس کی خدمت کے لئے نہیں ملتی.حالانکہ کچی بات تو یہ ہے کہ اسلام کے اندر ہر قسم کی خوبیاں ہیں اور اسلام ہی اس لائق ہے کہ اس کی خدمت کی جائے.اسلام کے اندر ہر قسم کی خوبیاں ہیں.لیکن مسلمانوں کو ان کا احساس نہیں ہے.وہ اپنے اندر محسوس ہی نہیں کرتے کہ اسلام ہر قسم کی خوبیوں کا مجموعہ ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں اس کا درد نہیں.انہیں اس بات کا یقین اور وثوق نہیں.اگر انہیں درد ہو تا اگر انہیں اس بات کا یقین اور وثوق ہو تا.اگر انہیں اس بات پر اعتبار ہوتا کہ اسلام میں ہر قسم کی خوبی موجود ہے تو جیسے صحابہ کی زبانوں میں اثر تھا جیسے صحابہ کی حرکات و سکنات میں اثر تھا جیسے صحابہ کے اشارات میں اثر تھا.ان کی زبانوں میں بھی اثر ہوتا.ان کی حرکات و سکنات میں بھی اثر ہوتا.ان کے اشارات میں بھی اثر ہوتا.اور لوگ جب ان کی باتوں کو سنتے اور ان کو دیکھتے تو دین کی طرف مائل ہو جاتے.پھر اگر وہ خود بھی اسی تڑپ کے ساتھ کوشش کرتے.جس تڑپ کے ساتھ صحابہ کرتے تھے.تو آج اسلام کی وہ حالت نہ ہوتی.جو ہو رہی ہے بلکہ اسلام ترقی پر ترقی کرتا چلا جاتا.اور جس طرح پہلے دنیا کو کھائے چلا جا رہا تھا آج بھی کھائے چلا جاتا.جس طرح پہلے دنیا کو اپنے اندر جذب کر رہا تھا آج بھی اسی طرح اسے جذب کر رہا ہوتا.لیکن افسوس ہے کہ آج مسلمانوں میں نہ وہ تڑپ ہے اور نہ وہ جوش.نہ وہ جنون ہے اور نہ وہ دیوانگی جو اسلام کے لئے صحابہ کو تھی آج اگر تلاش کریں تو اس دیوانگی کا اثر مسلمانوں میں کہیں نہیں ملتا.دیوانگی کا یہ اثر بھی مسلمانوں میں نہیں اور پھر ان کو اپنے دنیا کے کاموں سے فرصت بھی نہیں کہ وہ دین کی طرف متوجہ ہو سکیں.وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں.ان کے دلوں پر اور کانوں
259 مہر لگ گئی ہے اور ان کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہے.وہ سنتے ہوئے نہیں سنتے وہ دیکھتے ہوئے نہیں دیکھتے وہ تغیرات کو محسوس کرتے ہوئے نہیں محسوس کرتے اور یہ غفلت کی رو کسی ایک گوشہ میں نہیں بلکہ دنیا کے ہر گوشہ میں چلی ہوئی ہے اور صم بکم عمی فهم لا يرجعون (البقره 19) کا سماں نظر آ رہا ہے.وہ بہرے ہیں گونگے ہیں اندھے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں کہ جس کی طرف سے وہ غفلت کے ساتھ آنکھیں بند کر رہے ہیں.ان کے اموال کی تھیلیاں ہر ایک پلید اور گندے کام کے لئے کھل سکتی ہیں لیکن نہیں اگر کھلتیں تو خدا کے دین کے لئے نہیں کھلتیں ان کی آنکھیں دنیا کے سیر و تماشے کے لئے تو کھل سکتی ہیں لیکن نہیں اگر کھلتیں تو دین کی کمزور حالت کے لئے نہیں کھلتیں.ان کے کانوں پر مہر لگ جاتی ہے کہ وہ اس فریاد کو سنتے ہوئے نہیں سنتے ان کی زبانوں پر مہر لگ جاتی ہے کہ وہ بولتے ہوئے دین کے لئے نہیں بول سکتے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ جاتا ہے کہ وہ دیکھتے ہوئے دین کے کاموں کو نہیں دیکھ سکتے.سیر تماشوں کے لئے ان کے پاس فرصت ہے.لیکن دین کے لئے ان کے پاس فرصت نہیں.ذلیل سے ذلیل اور کمینہ سے کمینہ اشغال میں شوق سے مصروف ہوتے ہیں مگر اسلام کے کاموں کے لئے ان میں کوئی شوق نہیں بلکہ کہتے ہیں کہ یہ ملانوں کے کام ہیں کہ دین کے کاموں میں دخل دیں.غرض ایک مردار کی طرح سمجھ کر اسلام کو چھوڑ دیا گیا ہے اور دھتکار کر اسے اپنے گھر کے دروازے سے نکال دیا گیا ہے.یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث کیا ہے.آپ لوگ جو یہاں بیٹھے ہیں آپ لوگ جو دنیا کے ہر گوشہ سے آکر یہاں جمع ہو گئے ہیں آپ ہی ایک ایسی جماعت ہیں جس نے اس خطرناک اور نازک وقت میں خدا کی آواز پر لبیک کہا.آج اگر اسلام کا کوئی سہارا ہے.آج اگر اسلام کی کوئی مدد ہے آج اگر اسلام کے لئے ٹھرنے کی کوئی جگہ ہے تو اے احمدی جماعت کے لوگو! وہ آپ ہی ہیں جنہوں نے اپنی گردنوں کو اس کے احکام کے جوئے کے نیچے رکھا.وہ صرف آپ ہی ہیں جنہوں نے دنیا سے منہ پھیر کر اس کی طرف منہ کر لیا وہ صرف آپ ہی ہیں جنہوں نے دنیا کی لذات اور خواہشات سے منہ موڑ کر دل کو اس کی محبت سے بھر لیا.اور خدا نے آپ کو جو ذلیل سمجھے جاتے تھے.معزز بنا دیا.تم دیکھتے ہو کہ شہروں میں اور بڑی بڑی بستیوں میں بڑی بڑی عمارتیں بنی ہوئی ہیں تم دیکھتے ہو کہ ان کے دروازوں پر موٹریں کھڑی ہیں تم دیکھتے ہو کہ سپاہی ان کے دروازوں پر پہرہ دے رہے ہیں تم دیکھتے ہو کہ چوبدار ان کی نوکری بھر رہے ہیں.تم دیکھتے ہو کہ شان و شوکت کے ساتھ ایک عظیم الشان اور فرعون سے بھی بڑا بنا ہوا انسان ان اسباب کے ساتھ آرام سے زندگی بسر کر رہا ہے لیکن خبردار دھوکہ نہ کھا جانا وہ عزت جو تمہیں اس کی نظر آتی ہے عزت نہیں ہے.وہ آرام جو تم دیکھتے ہو کہ وہ پا رہا ہے وہ آرام نہیں.وہ آسائش جو اس
260 کے ساتھ وابستہ نظر آ رہی ہے آسائش نہیں ہے بلکہ وہ رسوائی ہے بلکہ وہ تکلیف ہے بلکہ وہ دکھ ہے.کیونکہ وہ خدا سے غافل ہے دین کے درد سے خالی ہے.قرآن کی تعلیم سے بے بہرہ ہے.اسے ان باتوں سے تعلق نہیں لیکن آپ لوگوں کو اللہ تعالٰی نے درد بخشا ہے اور دین کی خدمت کے لئے چن لیا ہے.پس جو عزت کا مقام آپ کو دیا گیا ہے.وہ بادشاہوں کو بھی نہیں دیا گیا.اس وقت اپنی قدر آپ لوگوں کو بھی معلوم نہیں ہے لیکن وقت آ رہا ہے کہ آپ کو اپنی قدر و قیمت معلوم ہو جائے گی.اور پتہ لگ جائے گا کہ خدا تعالٰی نے ہمیں بہت بڑی عزت کے مقام پر کھڑا کیا ہے اور جنہیں دوسرے لوگ ذلیل سمجھتے تھے.وہ ذلیل نہ تھے.بلکہ ذلیل وہ تھے جو خدا کے دین کی خدمت کرنے والوں کو ذلیل سمجھتے تھے.اس نقشہ کو دیکھو جس میں نبی کریم ا نے ایک سادہ لباس میں خانہ کعبہ میں عبادت کے لئے جاتے ہیں اور پھر اس نقشہ پر بھی نگاہ ڈالوں کہ فوجوں کے جھرمٹ میں آپ وہاں داخل ہوتے ہیں.پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ آپ تن تنہا رہ گئے اور آپ کو دیکھ کر آپ کے عزیز بھی آپ کے دوست بھی کترا جاتے وہ وقت بھی آیا کہ آپ کو تکلیفیں دی گئیں وہ وقت بھی آیا کہ آپ کی ذلت و رسوائی کے لئے کوئی کسر نہ چھوڑی گئی.لوگ آپ کو برا بھلا کہتے گالی گلوچ نکالتے.دست درازی کرتے حالانکہ خود ان کا یہ حال تھا کہ چوری وہ کرتے.ڈا کے وہ ڈالتے.مال اٹھا لے جانا ان کے نزدیک معمولی بات ہوتی اور کمزوروں پر ظلم کرنا کوئی عیب ہی نہ شمار کیا جاتا خود تو یہ حال تھا لیکن نبی کریم کو اذیتیں پہنچاتے اور یہ سمجھتے کہ ہم معزز ہیں اور یہ غیر معزز.یہ صرف اس لئے تھا کہ وہ لوگ تو خدا کو جانتے ہی نہ تھے اور اس کو بھلا بیٹھے تھے.لیکن آپ اللہ تعالی کو مانتے اور خدا سے نسوب شدہ گھر میں خدا کی عبادت کے واسطے داخل ہوتے.آپ کی ابتدائی حالت میں کوئی آپ پر میلا ڈالتا.کوئی دھکا دیتا.کوئی گلے میں پڑکا ڈالتا.غرض کوئی تکلیف نہ ہوتی جو پہنچائی نہ جاتی.اور کوئی سخت سلوک نہ تھا جو آپ کے ساتھ کیا نہ گیا.کیا اس وقت کی حالت کے دیکھنے سے کوئی کہہ سکتا ہے کہ آج جس کو ذلیل سمجھا جاتا ہے وہی دنیا میں سب سے زیادہ عزت دار ہو گا.آج جس کے بدن پر میلا ڈالا جاتا ہے اس کے پینے کی جگہ لہو بہانے کے لئے سینکڑوں انسان تیار ہو جائیں گے.کیا کوئی کہہ سکتا ہے اس تن تنہا شخص کے قدموں میں دنیا آگرے گی.کیا کوئی سیاح اس وقت کی آپ کی حالت کو دیکھ کر اندازہ لگا سکتا تھا کہ آپ دنیا میں بڑھیں گے.کیا کوئی ہندوستانی سیاح جسے ادھر جانے کا اتفاق ہوتا اور جسے آپ کی اس کمزور حالت کے دیکھنے کا موقعہ ملتا اس بات کو جان سکتا تھا کہ یہ دنیا میں مشہور ہو جائے گا.اس کی تعلیم دنیا کے ہر گھر میں پھیل جائے گی اور ملکوں کے ملک اس کی اطاعت کے جوئے کے نیچے آجائیں گے ہرگز نہیں اس کے گمان میں بھی یہ بات نہ آسکتی تھی کہ وہ
261 شخص جسے ہر شخص پاگل خیال کرتا ہے اس قدر بڑھے گا کہ دنیا کے عقلمند دنیا کے طاقتور دنیا کے عزت دار اس کی غلامی کو فخر سمجھیں گے.مگر وہ بڑھا اس کی تعلیم دنیا کے گھر گھر میں پھیل گئی بڑے بڑے بادشاہ اس کی غلامی کو فخر سمجھنے لگ گئے.اور یہ سب اس لئے ہوا کہ اس نے نہایت تاریکی کے دنوں میں خدا کا نام لیا اور خدا نے اسے روشن کرنے کا وعدہ کیا.پس اے احمدی جماعت کے لوگو! خدا کے وعدوں کی طرف نظر کرو اور سمجھ لو کہ اگر کوئی قوم اس وقت دنیا میں معزز مقبول ہے تو وہ آپ ہی ہیں اور یہ عزت اور مقام ہے جو خدا نے آپ کو بخشا آج اور کسی کو نہیں دیا.آج تمام دنیا خدا سے منہ پھیرے کھڑی ہے.اور تم ہی ہو جن کا منہ خدا کی طرف ہے.پس اے وہ لوگو جو احمدی جماعت سے تعلق رکھتے ہو یاد رکھو کہ آپ نے خدا کے لئے سب کچھ چھوڑا ہے.خدا کے دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیا ہے اور خدا کی کتاب کے لئے آپ نے کوشش شروع کی ہوئی ہے.پس خدا اپنی سنت کے مطابق آپ کو ضائع نہیں کرے گا.اس کی رحمت کے دروازے آپ کے لئے کھلے ہیں.اپنے دامنوں کو پھیلاؤ اور رحمت سے ان کو بھر لو.یہ دن روز روز نہیں آتے.جب احمدیت میں فوجوں کی فوجیں داخل ہوں گی.جب احمدیت دنیا کے کونہ کونہ میں پھیل جائے گی.جب احمدیت کے آگے بڑے بڑے بادشاہ آ جھکیں گے تو یاد رکھو پھر وہ دن نہیں رہیں گے جو آج ہیں اور وہ ثواب اور اجر نہیں مل سکے گا جو آج ادنی اونی امور پر مل سکتا ہے.پس یہ دن بڑے ہی مبارک دن ہیں اور بڑے ہی قدر والے.اس دن جب کہ احمدیت پھیل جائے گی.اس دن جب کہ بڑے بڑے لوگ احمدیت کی تعلیم کے جوئے کے نیچے اپنی گردنیں رکھ دیں گے.اس دن بادشاہ خواہش کریں گے کہ کوئی سلطنت لے لے اور وہ اجر ہمیں حاصل کرا دے جو آج ایک غریب کسان کو مل رہا ہے.وہ بادشاہتیں لٹا دینے پر تیار ہو جائیں گے مگر سابقین سا اجر حاصل نہ کر سکیں گے.تیمور کی طرف دیکھو جس نے سارا ہندوستان فتح کر لیا وہ مسلمان بادشاہ تھا.دین کی خدمت بھی کرتا تھا مگر کیا وہ اس اجر کو پا سکا جو ایک ادنیٰ سے صحابی نے اپنی حقیری خدمت کے ذریعے پایا.سلطان صلاح الدین ایوبی کو دیکھو.دین کی خاطر عیسائیوں اور دین کے دشمنوں کے ساتھ کس قدر اس نے جنگیں کیں.اور پھر اس حالت کو بھی مد نظر رکھو کہ بادشاہ سب کچھ ہی کر سکتا ہے.لیکن باوجود اس کے وہ اجر میں صحابہ کے برابر نہ ہو سکا.بادشاہ کیا کچھ نہیں کر سکتا.سلطان صلاح الدین ایوبی نے کیا کچھ نہ کیا.اگر یہ ہو سکتا کہ بادشاہت دے کر محمد رسول اے کے صحابہ اور غلاموں کا سا اجر مل سکتا تو وہ یہ بھی کر گزرتا.مگر وہ جانتا تھا کہ ایسا ہو نہیں سکتا.نہ صلاح الدین ایوبی اور نہ تیمور اور نہ کوئی اور بادشاہ باوجود سب کچھ کرنے کے محمد رسول اللہ اللی کے صحابہ کے برابر ہو سکا.لیکن اے احمدی قوم کے لوگو! وہ خدا جس کے اختیار میں سب کچھ ہے.وہ
262 اپنے فضل و کرم سے پھر وہی دن لایا ہے.اور ایک شخص ظاہر ہوا ہے.جس کی آواز پر لبیک کہنے والے آپ ہیں.اس لئے اپنی قدر کو پہچانو.اور اپنے اوقات کو ایسے رنگ میں خرچ کرو کہ دین پھیل جائے.اگر اب ستی کرو گے تو سمجھ لو ہمارے لئے کوئی ٹھکانہ نہیں ہو گا.پس تم اپنے علوم کو اپنے اموال کو اپنی طاقتوں کو دین کی اشاعت کے لئے خرچ کرو تا ترقی ہو.میں کس طرح اور کن الفاظ میں بیان کروں کہ خدا تعالی کی طرف سے راستے کھولے گئے ہیں.اس نے تمھاری رہبری کے لیئے سامان پیدا کر دئے ہیں.اس نے تمھاری رہبری کے لئے ایک شخص کو بھیج دیا ہے.اس نے تمھیں دین کی خدمت کے لئے چن لیا ہے پس تم غفلت نہ برتو.اس کی نعمتوں کی بے قدری نہ کرو.تاکہیں ایسا نہ ہو کہ یہ بے قدری ان نعمتوں کے چھن جانے کا باعث بنے.کوئی شخص دنیا میں نہ پاؤ گے کہ وہ کسی کو چیز دے اور وہ اس کی بے قدری کرے تو وہ ناراض نہ ہو یا کوئی کسی کو کہے کہ آتجھے کھانا دیں.اور وہ آگے سے کہہ دے نہیں میں نہیں لیتا تو وہ پھر بھی اسے دے.یا کوئی کسی کو کسے آتجھے عمدہ کپڑا دیں اور وہ کہہ دے مجھے تمھارے کپڑے کی ضرورت نہیں.اور وہ پھر بھی اسے دینے کی کوشش کرے یا کوئی کسی سے کہے.آ تجھے مکان دیں اور وہ کہہ دے کہ نہیں میں تمھارا مکان نہیں لینا چاہتا.تو وہ پھر بھی زبردستی اسے دے.پھر یہ بھی کبھی نہ دیکھو گے کہ کسی شخص نے کسی کو کچھ دیا اور اس نے اس کی بے حرمتی اور بے قدری کی ہو تو اسے طیش نہ آئے اور وہ آگے اسے کچھ دینے سے ہاتھ نہ کھینچ لے.پس جب انسان کو اپنی دی ہوئی چیز کی بے قدری اور بے حرمتی پر طیش آ سکتا ہے.تو اگر کوئی چیز خدا کی طرف سے دی گئی ہو.اور اس کی بے قدری اور بے حرمتی کی گئی ہو تو خدا کو طیش کیوں نہ آئے.پس سنو اور سمجھو کہ یقیناً خدا کو بھی طیش آجاتا ہے اور وہ بھی ناراض ہو جاتا ہے.اور اس کی ناراضگی یہی ہے کہ وہ دی ہوئی چیز چھین لیتا ہے اور آگے دنیا بند کر دیتا ہے.اس کے طیش کے مقابل میں دنیا کے طیش پیچ ہیں.خدا کے طیش کو جو انسان پر بے قدری اور بے حرمتی سے اسے آتا ہے.اس طیش کے مقابل میں انسان کا طیش کچھ شے نہیں.ایک مکھی کے پر کے برابر بھی نہیں.پس اگر تم اس کی نعمتوں کو پانا چاہتے ہو.اگر تم اس کی رحمت کے دروازے پھر اپنے اوپر کھلے ہوئے دیکھنا چاہتے ہو تو اس کی ان نعمتوں کی قدر کرو.جو اس نے تمھیں دی ہیں.اس کی تعلیم پر عمل کرو اس کے احکام کو مانو.فسادوں ، لڑائیوں ، جھگڑوں ، فتنہ انگیزیوں اور شورشوں کو چھوڑ دو.کیونکہ یہ سب ناشکری کی علامتیں ہیں اور بے قدری و بے حرمتی کی نشانیاں ہیں.دیکھو خدا جو کہتا ہے اسے پورا کرتا ہے.محمد ایلیا کو اس نے کہا میں تمھیں بلند کروں گا اور اس نے آپ کو بلند کر دیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کہا کہ میں تیرے نام کو دنیا
263 ہے.کے کونہ کونہ میں پہنچاؤں گا.اور تیرے ذکر کو بلند کروں گا.اس نے آپ کا نام دنیا کے کونہ کونہ میں پہنچا دیا اور آپ کا نام بلند کر دیا.چنانچہ آج آپ کا نام دنیا کے ہر گوشہ اور دنیا کی ہر قوم میں پہنچ رہا قومیں اور نسلیں آپ کی طرف متوجہ ہو رہی ہیں اور دنیا میں کو بکو آپ کا چرچا ہو رہا ہے اور یہ وہ باتیں ہیں جو اندھوں کو بھی نظر آ رہی ہیں تو ہم جو ماننے والے ہیں ان کو کیوں نہیں دیکھ سکتے.ایک ایک کر کے.دو دو کر کے.تین تین کر کے.چار چار کر کے تمام ممالک کے لوگ آپ کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں.اور لوگ ان میں سے نکل کر آپ کے پاس جمع ہو رہے ہیں.پس یقین رکھو کہ خدا جو کہتا ہے اسے ضرور پورا بھی کرتا ہے.بڑی قوم جو اسلام کے مقابل پر ہے اور جو شدت سے اسلام کے ساتھ دشمنی رکھتی ہے وہ عیسائیوں کی قوم ہے مگریہی عیسائیوں کی قوم مٹھی بھر احمدیوں سے ڈرتی ہے کیا بات ہے جس سے وہ اس چھوٹی سے جماعت سے تو ڈرتی ہے مگر تمام مسلمانوں سے خوف نہیں کھاتی.یہی ہے کہ یہ جماعت خدا کے مسیح کے ماننے والوں کی جماعت ہے جو اس لئے آیا کہ اسلام کے دشمنوں کو نیچا دکھائے اور اسلام کے ذکر کو بلند کرے.پس وہ آیا اور اس نے اسلام کے دشمنوں کو نیچا دکھایا.اسلام کے ذکر کو بلند کیا اور آج وہ دن ہے کہ عیسائیت کے بت کے پاؤں کانپ رہے ہیں.اس کے ہاتھوں پر رعشہ گر گیا ہے اور اس کا جسم مفلوج ہو رہا ہے.اور خود وہ تھرا رہی ہے.یہ خدا کے کام ہیں اور اس کی قدرتیں.دشمن بھی ان کو دیکھ رہا ہے.پھر کیا افسوس نہیں ہوگا کہ دشمن تو اس ساری کیفیت کو دیکھیں اور جو دیکھنے والے ہیں وہ نہ دیکھیں.پس ہمارا کام ان کو دیکھنا ہے اور دین اسلام کو بلند کرنا.ابھی تازہ واقعہ مسجد لندن کا ہوا ہے بڑے بڑے دشمنوں نے اقرار کیا ہے کہ یہ واقعی اس جماعت کے خدمت اسلام پر ہر وقت کمر بستہ رہنے کی دلیل ہے.کئی اخبارات نے اس کا اپنے کالموں میں تذکرہ کیا ہے ولایت کے اخباروں کی یہ حیثیت نہیں ہے جو ہمارے ملک کے اخبارات کی ہے.بعض ان میں سے پچیس پچیس لاکھ چھتے ہیں.بعض کی آمدنیاں حیدر آباد کی ریاست کی آمدنی سے بھی تگنی تگنی اور چوگنی چوگنی ہیں.ایک اخبار کی سات آٹھ بلکہ دس لاکھ کی آمدنی ہے ایک موقعہ پر ایک لڑکے نے ایک اخبار کی ایک دن کی ساری اشاعت خرید لی اور ایک ہی دن میں اس کی فروخت سے ایک لاکھ روپیہ کما لیا.اس کو کسی طرح معلوم ہو گیا تھا کہ یہاں سٹرائک ہو جائے گی اور اس دن اس شہر میں کوئی اخبار نہیں چھپے گا.اس نے ایک دن پہلے ایک دوسرے شہر میں چھپنے والے اخبار کے مالک کو تار دے دیا کہ فلاں تاریخ جو اخبار چھپے گا میں اس کی ساری کاپیاں خریدوں گا.چنانچہ اس نے اس ایک دن کے اخبار کی فروخت سے ایک دن میں ایک لاکھ روپیہ کما لیا.تو
264 اس سے ان اخبارات کی عظمت کا اندازہ لگانا چاہئے.ان اخباروں میں اس مسجد کا ذکر آیا ہے.اور ان کے ایڈیٹروں اور نامہ نگاروں نے اور ان کے نمائندوں نے بڑے عمدہ الفاظ میں اس کا ذکر کیا.پھر کئی اخبارات میں اس مسجد کے فوٹو بھی چھپے.اس طرح ہزاروں بلکہ کروڑوں آدمیوں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ذکر جا پہنچا.وہ اس قسم کے بڑے طبقے کے ایک نہیں کئی اخبارات شائع ہوا ہے کہ پندرہ سال سے مسلمان کوشش کر رہے تھے.مسلمان حکومیتں ان کی تائید میں تھیں.دولتمند لوگ اس کے لئے تیار تھے مگر باوجود ان سب باتوں کے وہ کچھ نہ کر سکے.اور کوئی مسجد وہاں کھڑی نہ کر سکے.لیکن احمدی قوم نے جب اس کام کا بیڑا اٹھایا تو کام کر لیا اور ایک مسجد وہاں کھڑی کر دی.سلطان عبدالحمید ترکی کے سابق بادشاہ ہندوستان کے رؤساء اور دوسری مسلمان سلطنتیں اور مسلمان امراء سب ہی اس کی تائید میں تھے کہ ضرور لندن میں ایک مسجد بنانی چاہئے.مگر باوجود ہر قسم کے سامان ہونے کے نہ بنا سکے.لیکن احمدیوں نے جب اس مسجد کا ارادہ کیا تو اسے کوئی دیر نہ لگی.کلکتہ کے " نظمین" نے بھی یہی لکھا ہے کہ مسلمانوں کی ہیں پچیس سال کی کوشش تھی.حکومتیں بھی اس خیال میں تھیں.لیکن احمدیوں کو اس میں کامیابی ہوئی اور انہوں نے جب ارادہ کیا کہ ایک مسجد لندن میں بنانی چاہتے تو فورا" بنا لی.غیر تو اسے کامیابی جتائیں لیکن نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اپنوں میں سے بعض نے کہ جن کی خوشیوں کی اس کامیابی کی وجہ سے کوئی حد نہیں ہونی چاہئے تھی.فتنہ گروں کی وجہ سے طرح طرح کی بدگمانیاں کرنی شروع کر دیں.اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ اتنا روپیہ برلن کی مسجد کا تھا.اتنا وہ تھا.اتنا روپیہ گیا کہاں.حالانکہ متواتر یہ بتایا گیا کہ پچھتر ہزار یا اسی ہزار روپیہ مکان اور فرنچر وغیرہ پر خرچ ہوا تھا.لندن کو اپنے شہروں پر قیاس نہ کر لو.وہ بہت بڑا شہر ہے.اور وہاں جائداد کی قیمتیں بھی بہت بڑی ہیں.یہاں لاہور میں ہم ایک مسجد بنانے لگے تھے.اس کے لئے جو زمین خریدی گئی تھی.وہ غالباً بیس ہزار روپیہ کو آئی تھی اور لاہور کی لندن سے کوئی نسبت ہی نہیں.چالیس لاہور اگر اکٹھے ہوں تو ایک لندن بنتا ہے.وہاں تو اول زمین لینا ہی مشکل تھا.یہ تو ایک موقعہ نکل آیا کہ وہاں بعض وجوہ سے جائداد کی قیمت گر گئی اور ایک ستا مکان مل گیا.لندن کی مسجد کے لئے ایک لاکھ روپیہ جمع ہوا تھا.ستر ہزار روپیہ برلن کی مسجد کے لئے جمع ہوا تھا.اس میں سے ستر اسی ہزار روپیہ مکان اور فرنیچر وغیرہ کے خریدنے پر صرف ہوا اور ساٹھ ہزار روپیہ سے تجارتی کام چلایا گیا.جس کی غرض یہ ہے کہ اس کی آمد سے وہاں کا مشن چلایا جائے.اب کوئی ساٹھ ہزار روپیہ اس کی تعمیر پر لگا ہے.یہ روپیہ ایک لاکھ نوے ہزار بنتا ہے.اور تیس ہزار روپیہ کی یہاں جائدادیں خریدی ہوئی ہیں.
265 جو اس لئے ہیں کہ اگر ضرورت پڑے تو ان کو نفع پر پیچ لیا جائے.جس سے یہ روپیہ بڑھے گا ہی گھٹے گا نہیں.لوگوں کے گھر سے تو جاتا ہے لیکن یہاں زیادہ ہوتا جاتا ہے.ہمیں ایک لاکھ ستر ہزار دیا گیا تھا.اب سوا دو لاکھ رکھا ہوا ہے.اگر یہاں کی جائدادوں کی قیمت خرید نہ لگائی جائے بلکہ رائج الوقت قیمت لگائی جائے تو بجائے تیس ہزار کے ساٹھ ستر ہزار بن جاتی ہے.اور یوں پھر یہ روپیہ سوا دو لاکھ کی بجائے اڑھائی لاکھ سے بھی اوپر جا پہنچتا ہے اور اگر وہ روپیہ بھی اس میں شمار کیا جائے.جو ہم نے بطور نفع حاصل کیا اور وہ اخراجات بھی اس میں شامل کر دئے جائیں جو اس میں شامل ہونے والے ہیں.تو یہ رقم تین پونے تین لاکھ جانتی ہے میں نہیں سمجھتا کہ باوجود اس طرح پیسے پیسے کے محفوظ ہونے کے پھر یہ سوال کیا معنے رکھتا ہے کہ روپیہ کہاں گیا.اللہ تعالیٰ نے کچھ ایسے سامان کر دئے کہ برلن میں مسجد نہ بن سکی.برلن کی مسجد کے لئے جو نقشہ تجویز کیا گیا تھا اس کے متعلق اندازہ تھا کہ موجودہ روپیہ سے وہ بن جائے گی لیکن جب نقشہ وہاں کی میونسپلٹی میں منظوری کے لئے دیا گیا.تو اس نے اس مقام کے لحاظ سے کہ جس پر ہم مسجد بنانا چاہتے تھے.ہمارے پیش کردہ نقشہ کو منظور نہ کیا اور اپنے پاس سے ایک نقشہ بنا کر کہا کہ اس کے مطابق مسجد بنائی جاسکتی ہے.اس کے سوا کسی اور نقشہ کے مطابق مسجد بنانے کی ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی اور جو نقشہ اس نے تجویز کیا.اس کے مطابق مسجد پندرہ لاکھ میں بھی نہ بن سکتی تھی.چونکہ جماعت اتنے خرچ کی متحمل نہ ہو سکتی تھی اور نہ ہی یہ مناسب معلوم ہو تا تھا کہ اتنا روپیہ اس ملک میں مسجد بنانے کے لئے صرف کر دیا جائے.اس لئے اس مسجد کے بنانے کا خیال چھوڑ دیا گیا اور یوں وہ مسجد نہ بن سکی.پس یہ فتنہ گروں کی فتنہ گریاں ہیں جو جماعت کے لوگوں کو سست کرنے کے لئے کی جا رہی ہیں.ان سے بچو.دشمن کو تو ایسا کرنا چاہئے شیطان اپنے وعدے کو کس طرح چھوڑ دے.لیکن کیا یہ عجیب نہیں کہ شیطان تو اپنا وعدہ پورا کرے.اور تم اپنے وعدے پورے نہ کرو.شیطان کا وعدہ یہ ہے کہ وہ انسان کو ورغلائے گا.دھوکہ دے گا اور فتنہ پھیلائے گا اور انسان کا وعدہ یہ ہے کہ وہ اس کے پھندے میں نہ پھنسے گا.پس تم کو بھی چاہئے کہ اپنے وعدے پورے کرو.اور اس کے پھندے میں ہرگز نہ پھنسو.دوسروں کو وعدہ بھول گیا ہے لیکن ہم گمراہ نہیں ہوئے.تم ہر ایسے فتنہ گر کو جو فتنہ گری کے لئے تمھارے پاس آئے یہ کہہ دو.روپیہ ہمارا دینے والے ہم، خرچ کرنے والے ہم ، تم کون ہو جو اس کے متعلق رائے زنی کرتے ہو.اور فتنہ گری کرکے چاہتے ہو کہ ہم کو دین کی خدمت کرنے سے سست کرو.پھر جماعت کے مال سے بھی آپ لوگوں کو واقفیت حاصل کرنی چاہئے کہ وہ کہاں سے آتا ہے
266 کتنا آتا ہے اور کیونکہ خرچ ہوتا ہے کیونکہ اس کا نہ جانتا ہی بعض اوقات اعتراضات کے لئے موقعہ پیدا کر دیتا ہے.اسی معالمہ کو دیکھ لو کہ اگر اس قسم کی تفصیلات کا علم ہوتا تو کبھی یہ سوال نہ اٹھایا جاتا کہ مسجد برلن کا روپیہ کہاں گیا.آپ لوگوں کے سامنے 9 کنال زمین سہ منزلہ مکان اور دوسری جائداد اس کی موجود ہے.پھر اس روپیہ میں بڑھوتی بھی ہوئی.جو اس طرح ہے کہ یہاں زمین خرید کر کے روپیہ بڑھایا گیا.ادھر پونڈ کی قیمت گری ہوئی تھی غرض خدا نے ایسے سامان پیدا کر دئے کہ ہمیں اس روپیہ سے خاصہ منافع حاصل ہوا.لوگوں کے مال سود سے بڑھتے ہیں.خدا نے اس سے ہمیں بچایا اور بجائے اس کے ہمیں خاطر خواہ نفع دے دیا.ایک لاکھ تیس ہزار عمارت زمین و دیگر مصارف پر خرچ آیا.پچھتر ہزار تجارت پر ہے.تیس ہزار کی جائداد قادیان میں خریدی ہوئی ہے.اور اگر اس جائداد کی رائج الوقت قیمت لگائی جائے تو ساٹھ ہزار سے بھی زیادہ بنتی ہے.اس طرح دو لاکھ ستر اسی ہزار کے قریب یہ روپیہ بنتا ہے پس اس میں نہ کوئی نقصان کی صورت ہے.نہ بدنیتی کا شائبہ.یہ محض فتنہ گروں کی فتنہ گریاں ہیں کہ جماعت میں پھوٹ ڈالوائیں.اور اسے آئندہ دینی خدمات کرنے میں سست کر دیں.ان سے بچنا چاہئے اللہ تعالٰی کے فضل سے کام کرنے والے مخلص ہیں.ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ ان سے کوئی غلطی ہو جائے.لیکن کون انسان ہے جو یہ کہے کہ میں کبھی غلطی نہیں کروں گا.اگر کوئی ایسا ہے تو میں ان کارکنوں کو جو مخلص ہیں بدل سکتا ہوں.حضرت یسوع مسیح کے پاس لوگ ایک مجرم عورت کو لائے اور کہا کہ یہ اس لائق ہے کہ سنگ سار کی جائے.آپ نے کہا اچھا ٹھیک ہے.ضرور ایسا ہی ہونا چاہئے.لیکن پہلا پتھر اس پر وہ مارے.جو یہ کہے کہ میں نے کبھی کوئی گناہ نہیں کیا مگر ایسا کون تھا.نتیجہ یہ ہوا کہ وہ جو عورت کو گناہ کے الزام میں پکڑ کر لائے تھے ایک ایک کر کے چلے گئے اور عورت اکیلی کھڑی رہ گئی.آخر یسوع مسیح نے اس عورت سے کہا اے عورت چلی جا.تجھے پتھر مارنے والا کوئی نہیں.اسی طرح میں بھی آج یہ کہتا ہوں کہ اگر کوئی ایسا شخص ہے جو یہ کہے کہ میں نے کبھی کوئی غلطی نہیں کی اور آئندہ کبھی کوئی غلطی نہیں کروں گا.تو وہ سامنے آئے.میں فورا اس کے سپرد کام کر دوں گا.پس میں پھر کہتا ہوں کہ ایسے لوگوں کو سامنے لاؤ جو کبھی غلطی نہیں کریں گے.میں محض اللہ کے دین کو مد نظر رکھتے ہوئے پہلوں کو بدل دوں گا.اگر بہتر آدمی مل جائیں تو میں ایک سیکنڈ بھی دیر نہ کروں گا.اور پہلوں کو بدل کر ان کو کام پر لگا لوں گا.مگر ایسا کرتے ہوئے میں یسوع مسیح کے اس قول کی طرف کہ پہلا پتھر وہ مارے جس نے کبھی گناہ نہ کیا ہو.یہ کہوں گا کہ سامنے وہ آئے جو یہ کہے میں نے کبھی کوئی غلطی نہیں کی اور کبھی کوئی غلطی نہیں کروں گا.آنحضرت ﷺ ایک دفعہ ایک ایسے مقام سے گزرے.جہاں لوگ کھجور لگا رہے تھے.یہ
267 دیکھ کر آپ نے ان سے کہا کہ نر اور مادہ کو کیا ملاتے ہو.اس پر لوگوں نے سمجھا.آپ کا شائد یہ منشاء ہے کہ یہ پیوند نہ لگایا جائے چنانچہ اس کے مطابق انہوں نے پیوند لگانا چھوڑ دیا نتیجہ یہ ہوا کہ دوسرے سال ان کھجوروں نے پھل نہ دیا ان لوگوں نے آنحضرت اللہ سے عرض کی.آپ نے فرمایا یہ میں نے کب کہا تھا کہ پیوند نہ لگاؤ میں نے تو صرف دریافت کیا تھا.اگر تم کو میرے دریافت کرنے سے یہ خیال گزرا تھا کہ میں ایسا کرنے سے منع کر رہا ہوں تو تم کو چاہئے تھا کہ مجھ سے کہہ دیتے کہ اس کے بغیر یہ پھل نہیں لائیں گی.میں کوئی زمیندار ہوں کہ مجھے ان باتوں کا علم ہوتا یہ تو تمھارا کام تھا کہ مجھ سے کہہ دیتے تو دنیاوی معاملات کے سمجھنے میں ایک نبی بھی غلطی کر سکتا ہے.پھر اور کون ہے جو نہ کرے.ہم نبی سے بڑھ کر نہیں ہیں.سو ہم سے غلطیاں ہوتی ہیں مگر غلطیوں کے موقعہ پر ہونا یہ چاہئے کہ ان سے آگاہ کیا جائے نہ کہ بدگمانی شروع کر دی جائے.میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ خدا کے فضل سے ہمارے سلسلے کے کارکن مخلص نیک نیت ، دیانتدار اور محنتی ہیں.وہ اپنی عقل سمجھ اور طاقت کے مطابق کوشش کرتے ہیں کہ غلطی نہ ہو لیکن پھر بھی اگر ہو جائے تو اس کے متعلق کسی قسم کی بدظنی کرنا درست نہیں.غلطی کو غلطی کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے.دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں ملے گا جو غلطیوں سے پاک ہو.مفسدوں نے تو یہ کوشش بھی کی تھی کہ مسجد لندن ہی نہ بنے.لیکن خدا نے ان کا منہ کالا کرنے کے لئے نہ صرف یہ کیا کہ مسجد بنانے کی توفیق دی.بلکہ ایسے سامان بھی پیدا کر دئیے کہ تکمیل کے بعد اس کا شاندار افتتاح بھی ہو گیا.جو ایسا شاندار تھا کہ ہر ایک نے اس بات کو تسلیم کیا کہ اس کی مثال پہلے موجود نہیں تھی.تقریباً دو سو سے زیادہ ولائتی اخبارات میں زبردست الفاظ کے ساتھ اس کا ذکر آیا.یہ اخبار انگلستان کے ہیں.ان کے علاوہ اور اخبارات ہیں جو دوسرے ملکوں سے نکلتے ہیں.اور جن میں اس کا ذکر ہو رہا ہے اور جن کے کنکس (Cuttings) آ رہے ہیں.اس طرح اس وقت تک قریبا بیس پچیس کروڑ انسان یہ بات سن چکے ہیں کہ لندن میں ایک مسجد بنی ہے.جس کا افتتاح ہوا اور جسے اس احمدی جماعت نے بنایا.جس کے امام مرزا غلام احمد صاحب ہیں.جنہیں خدا نے مسیح موعود اور نبی بنا کے بھیجا.اور جس کا کام اشاعت اسلام ہے.دنیا کے ہر تین آدمیوں میں سے ایک آدمی کو یہ بات پہنچ چکی ہے اور خود انگلستان کے اخبار نویسوں اور دیگر سر بر آوردہ لوگوں کی یہ رائے ہے کہ اگر ہم دو کروڑ روپیہ بھی خرچ کرتے تو اتنی اشاعت نہ ہوتی جتنی اب ہو گئی ہے بلکہ بعض نے تو یہ بھی کہا کہ دو کروڑ روپیہ نہیں دو کروڑ پونڈ بھی یہ کام نہ کرتا جو اس روپیہ نے کر دیا جو مسجد پر خرچ ہوا.پھر اس مسجد کے افتتاح میں بڑے بڑے لوگ شامل ہوئے.تین لارڈ.تیرہ ممبر پارلیمنٹ اور مختلف ممالک کے سفرا ، وزرا، نواب اور دیگر معزز اور سر بر آوردہ لوگوں نے ایک کافی
268 تعداد میں شمولیت اختیار کی اور نہ صرف یہ کہ شمولیت ہی اختیار کی بلکہ ان اعلیٰ طبقہ کے لوگوں نے پرلے درجے کی دلچسپی بھی لی اور خوشی محسوس کی.بعض نے تو کام کرنے میں بھی فخر سمجھا اور بڑے شوق سے انہوں نے ہر کام میں حصہ لیا.پھر ہندوستان کے بڑے بڑے لوگ بھی اس میں شامل ہوئے.حتی کہ مہاراجہ بردوان بھی شامل ہوئے.جنہوں نے اس موقعہ پر تقریر کرنے کی اجازت مانگی اور خوشی کا اظہار کیا.اور کہا کہ گو میں ہندو ہوں مگر میں اس میں شامل ہونا اپنا فرض سمجھتا ہوں.پھر گیارہ حکومتوں کے قائم مقام بھی اس موقعہ پر آئے.جرمنی.اٹلی.چین.وغیرہ ملکوں کے وزیر بھی تھے.پس یہ جو اب ہے ان لوگوں کے لئے جو کہتے ہیں کہ کہاں گیاوہ روپیہ جو مسجد کے لئے جمع ہوا تھا.وہ سن لیں وہ روپیہ یہاں گیا.میں ایسے لوگوں سے پھر کہتا ہوں کہ یہ روپیہ ضائع نہیں گیا.بلکہ محفوظ ہے اور نفع کے رنگ میں اصل سے بھی بڑھ گیا ہے.مکان اور زمین پر ستر ہزار کے قریب خرچ ہوا ہے.ساٹھ ہزار مسجد کی تعمیر اور سامان وغیرہ پر صرف ہوا.ستر ہزار وہاں تجارت پر لگا ہوا ہے.جو اس لئے وہاں لگایا گیا ہے.کہ اس کے نفع سے وہاں کے مشن کے اخراجات پورے کئے جائیں.ساٹھ ستر ہزار کی زمین قادیان میں موجود ہے.پس جس محنت محبت اور دانائی کے ساتھ یہ روپیہ خرچ کیا گیا ہے.اگر اس سے کام نہ لیا جاتا تو اس سارے روپے سے جو ہمیں دیا گیا.اتنا کام بھی نہ ہو تا جتنا کہ اب ہوا ہے.مگر اب یہ حالت ہے کہ یہ کام بھی ہو گیا ہے اور ہمارے پاس کافی جائداد بھی موجود ہے.تجارت پر جو روپیہ لگا ہوا ہے وہ الگ ہے قادیان کی زمین الگ ہے.پس یہ کام نہایت ہی اخلاص اور دیانت داری کے ساتھ کیا گیا ہے.ورنہ نہ تو مسجد بن سکتی تھی اور نہ ہی اس قدر جاندار ہاتھ میں رہ سکتی تھی.اس نمونہ کی عمارت کا اندازہ ڈیڑھ لاکھ سے کم نہ تھا.اور جب بھی مجھے ہمارے لندن کے دوست اس سے اطلاع دیتے.میں انہیں لکھتا کہ اور اندازہ کراؤ اور اندازہ کراؤ.شائد کسی جگہ سے اس اندازے سے کم رقم کا اندازہ لگایا جا سکے.تو ہمارے لندن کے دوستوں نے رات دن محنت سے کام کیا اور کوئی ایسی کمپنی نہ تھی جو عمارات کا کام کرتی اور ایسے اندازے لگاتی ہو جسے ہمارے دوستوں نے چھوڑا.آخر ان کی کوششوں اور محنتوں سے ایک کمپنی نے اس کام کا بیڑا اٹھایا کہ وہ اتنے روپے میں کہ جتنا اس پر اب خرچ آیا یہ عمارت بنوا دے گی.پس اگر معمولی طور پر اس کام کو کیا جاتا تو ڈیڑھ لاکھ روپیہ تو اسی پر لگ جاتا.اسی طرح مکان اور زمین کی خرید کا حال ہے.یہ سب کارکنوں کے اخلاص اور محنت اور محبت کا نتیجہ ہے.اتنے روپے میں مسجد تیار ہو گئی.ہر وقت اس بات کو مد نظر رکھنا چاہئے کہ آدم کے ساتھ شیطان کا ہونا ضروری ہے.خدا کا مسیح
269 آدم تھا تو یہ ضروری تھا کہ اس کے ساتھ کوئی شیطان بھی ہو.مگر افسوس کہ تم بھول جاتے ہو کہ اس آدم کے ساتھ کوئی شیطان بھی ہے.پس اس بات کو مد نظر رکھو اور ہر وقت اس شیطان سے بچو جو اس آدم کے ساتھ ہے جو لوگوں کو ورغلاتا پھرتا ہے.اور ان کے دلوں میں وساوس ڈال رہا ہے.پس اگر آدم تمھارے سامنے ہے تو شیطان بھی تمھارے سامنے ہونا چاہئے.اور یہ شیطان اگر اپنا وعدہ پورا کر رہا ہے تو تمھیں بھی اپنا وعدہ پورا کرنا چاہئے.وہ تمھیں ورغلائے تو تم اس کے پھندے میں نہ پھنسو اور کہو چل ہٹ دور یہ ہم اپنا وعدہ ایفا کریں گے.دیکھو یہ وقت بڑا نازک ہے.دنیا تاریکی کے گڑھے میں گر رہی ہے.تمھیں خدائے روشنی کے کنارے پر کھڑا کیا ہے.تم بچو کہ کہیں اندھیرے میں نہ جا پڑو.فتنہ فسادوں سے بچو.بے ہودہ گوئیوں سے کنارہ کرو.اور اپنی اس عظمت کو قائم رکھو جو مامور کی شناخت سے تمھیں ملی ہے.خدا ہم سب کو ان مضر باتوں سے بچائے اور ہمیں توفیق دے کہ ہمارے کندھوں پر جو بوجھ ہے وہ اٹھا سکیں اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور فتنہ و فسادوں سے بچیں.ہم خدمت دین میں پہلے سے بھی زیادہ کمر بستہ ہوں تا خدا کا نام بلند ہو اور دنیا سے تاریکی اور ضلالت دور ہو.خدا ہمیں فتنہ گروں کی فتنہ گریوں سے بھی بچائے.میں یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ خدا ہمیں نیکی کو سمجھ کر کرنے کی توفیق دے.اور جب ہم نیکی کریں تو کسی نا سمجھی سے ضائع نہ ہو جائے.خدا ہم سب کا مددگار ہو.آمین (الفضل ۹ نومبر ۱۹۲۶ء) ا بخاری تغییر سوره مائده باب قولہ الیوم اکملت لکم د لیکم ۲.مسلم کتاب الفضائل باب وجوب امتثال ما قاله شرفا دون ما ذكره النبي من معاليش الدنيا على سبيل الرائى
270 29 دنیا میں ہی جنتی بن جائیں (فرموده ۵ نومبر ۱۹۲۶ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : آج بعض ضروری کاموں کی وجہ سے اس قدر دیر ہو گئی ہے کہ خطبہ کے لئے بہت اختصار کی ضرورت ہے.اس لئے میں نہایت اختصار کے ساتھ آپ لوگوں کی توجہ اس امر کی طرف پھیرنا چاہتا ہوں کہ سورہ فاتحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے اندرونی حالات و کیفیات کو مد نظر رکھتے ہوئے چار قسم کے انسان پائے جاتے ہیں.ایک تو وہ لوگ ہیں جن کی حالت ایسے اطمینان کے مقام پر پہنچ گئی ہے کہ اس کے اندر کسی قسم کا تغیر اور کسی قسم کا بگاڑ نہیں پیدا ہو سکتک ان کے قلوب اس حد تک صاف ہو جاتے ہیں.ان کی روحانیت کا آئینہ ایسا مصفی ہو جاتا ہے اور ان کے افکار اتنے پاکیزہ ہو جاتے ہیں کہ کسی قسم کی میل کا نشان ان میں باقی نہیں رہتا.انہوں نے اسی دنیا میں ایسے مقام کو پا لیا ہوتا ہے کہ اس میں نہ ان پر بڑھاپا آتا ہے نہ ان پر موت وارد ہو سکتی ہے.وہ اس دنیا میں ہی اس مقام کو حاصل کر لیتے ہیں جس میں انسان ننگا اور بھوکا اور پیاسا نہیں رہتا.غرض مختصر الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے جنت کا مقام حاصل کر لیا.قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی خشیت رکھتے ہیں.ان کے لئے دو جنتیں ہوتی ہیں.ایک جنت تو اس دنیا میں پاتے ہیں اور ایک اگلے جہان میں.اور جنت وہ مقام ہے.جس میں نہ سردی ہے نہ گرمی.جس میں انسان نہ نگا ہوتا ہے نہ بھوکا اور نہ پیاسا ہوتا ہے.اب اگر کوئی اس دنیا میں ہی اس مقام کو پالیتا ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ جنت میں داخل ہو گیا ورنہ اگر ظاہری ترجمہ لیں تو دنیا میں کوئی انسان نہیں نظر آتا جو دنیا میں ان چیزوں سے متاثر نہ ہو.یہاں
271 تک کہ رسول بھی ان چیزوں سے متاثر ہوتے ہیں.قرآن کریم میں آتا ہے کوئی نبی ایسا نہیں گذرا جو فوت نہ ہوا ہو سب فوت ہوتے چلے آئے ہیں.اسی طرح تمام انبیاء کھاتے پیتے سوتے رہے ہیں.وہ کپڑوں کے بھی محتاج تھے.کھانے پینے کے بھی محتاج تھے اور سردی گرمی سے بھی متاثر ہوتے تھے بڑھاپا بھی ان پر آیا.پس اس دنیا میں جنت کے ہرگز یہ معنے نہیں کہ کسی کو ظاہری کپڑوں کی ضرورت پیش نہ آئے اور کھانے پینے کا محتاج نہ ہو.اصل بات یہ ہے کہ مذہب روحانیت کے متعلق گفتگو کرتا ہے اور باقی امور جو طبعی اور تمدن دنیا کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ان پر مذہب کا کام نہیں کہ روشنی ڈالے ہاں جتنے حصہ پر روحانیت و اخلاق کا اثر ہوتا ہے اتنے حصہ پر بے شک وہ روشنی ڈالتا ہے.وہ پس مومن جنت کا وارث نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ روحانی موت سے باہر نہ ہو جائے اور روحانی موت ارتداد کا نام ہے.جو شخص ارتداد سے بالا ہو جائے وہ جنت میں ہے.دنیا کا قانون بدل جائے تو بدل جائے لیکن اس مومن کے ایمان میں کسی قسم کا تغیر نہیں واقع ہو تا ایسا شخص اسی دنیا میں جنت میں ہے.اسی طرح وہ مومن بھی جنت میں ہے جس پر بڑھاپے کا اثر نہ ہو روحانی طور پر بڑھاپے کے کیا معنے ہیں اس کے یہ معنے ہیں کہ اس میں جو پہلے خدا تعالی کی راہ میں ہمت اور اخلاص کا جوش ہو اس میں کمی واقعہ ہو جائے لیکن جنت تو وہ مقام ہے کہ جہاں کبھی زوال نہیں آسکتا.اسی طرح مومن بھی وہی جنت میں سمجھا جائے گا جس پر بڑھاپے کا زمانہ نہ آئے.یعنی اس کی ہمت اور اخلاص میں روز بروز ترقی ہو.اسی طرح جنتی کبھی ننگے نہ ہوں گے.اس کے یہ معنے ہیں کہ ان کے تقویٰ کا جامہ چاق نہیں ہوتا.ان کی محبت الہی میں کمی نہیں آتی.اگر خدا کی محبت جو حقیقی تقویٰ ہے اس میں فرق آجائے جو محبت پہلے ہو نہ رہے تو وہ شخص جنتی نہیں کہلائے گا.پھر جنتی کبھی بھوکے اور پیاسے نہیں ہوں گے اس کے یہی معنے ہوں گے کہ کھانے سے مراد شریعت کے ظاہری علوم ہیں اور پانی سے مراد شریعت کے باطنی علوم ہیں.ظاہری علوم کا تو کھانا عقل کی تسلی کے لئے دیا جاتا ہے اور دل کی تسلی اور محبت کی ترقی کے لئے باطنی علوم کا پانی پلایا جاتا ہے.جس انسان کو یہ مقام حاصل ہو اس پر ایسے علوم کھلتے ہیں کہ جن سے ایک طرف عقل تسلی پائے اور دوسری طرف محبت ترو تازہ اور شاداب ہو.ایسا شخص جنتی کہلائے گا.یعنی وہ کبھی بھوکا
272 اور پیاسا نہیں رہے گا.یہ منعم علیہ کا مقام ہے اور اس انعام کے پانے والے یا نبوت کے مقام پر ہوتے ہیں یا صدیقیت کے مقام پر یا شہادت کے مقام پر ہوتے ہیں.اور ادنیٰ سے ادنی رتبہ صالحیت کا ہے.اس کے مقابل دوسری حالت انسان کی یہ ہوتی ہے کہ مغضوب علیہ میں داخل ہو جائے یعنی ایسے افعال کرے جن سے خدا کا غضب اس پر نازل ہو.بہت سے لوگ منعم علیہ ہو کر پھر ایسی ٹھوکر کھاتے ہیں کہ وہ مغضوب علیہ بن جاتے ہیں.اسی لئے فرمایا جو منعم علیہ سے بدل کر مغضوب علیہ بن جاتے ہیں وہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو ایسی حرکات کر بیٹھتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کو اپنے اوپر ناراض کر لیتے ہیں مثلا" کبھی وہ اس کے دشمنوں کو مدد دیتے ہیں کبھی اس کی نافرمانی کر بیٹھتے ہیں.مغضوب علیہ وہ شخص ہے جو دشمن کو مدد دے اور ضال وہ ہے جو نادان دوست ہو.دوستی کا صحیح مفہوم نہ ادا کرے.مثلا" ایک فریق تو وہ ہے کہ بنو دشمن کے ہاتھ میں اسلام کو نقصان پہنچانے والے ہتھیار دیتا ہے اور ایک فریق ہے جو نادانی سے دشمنی کرتا ہے وہ عمدا " دشمنی نہیں کرتا.مگر وہ ایسے ایسے کام کر بیٹھتا ہے.جن کے نتیجہ میں دشمنی ہوتی ہے گویا مغضوب علیہ تو وہ ہے جو ظاہر اور حقیقت دونوں کو مٹاتا ہے.اور ضال صرف حقیقت کو مٹاتا ہے.یہ تین گروہ ہیں جو اس سورہ میں بیان کئے گئے ہیں اور ایک چوتھا گروہ ہے جو سالک ہے یعنی ابھی رستہ پر چل رہا ہے.اس کے متعلق ابھی فیصلہ نہیں کہ کن لوگوں میں شامل ہو گا وہ جس طرف جا رہے گا اس میں شامل سمجھا جائے گا.اور ایسا شخص خطرہ سے خالی نہیں ہوتا.اس لئے ہر ایک مومن کا یہ فرض ہے کہ کوشش کر کے منعم علیہ میں داخل ہو جائے.یعنی ایسے مقام پر پہنچ جائے کہ اس کی عقل کو ثبات حاصل ہو.زمانہ کی رو اور جذبات کی رو اس کے ایمان میں تزلزل نہ پیدا کر سکے.پس میں جماعت کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ایسا ایمان اپنے اندر پیدا کریں جو منعم علیہ والا ایمان ہے جس میں کسی قسم کا تزلزل نہ واقع ہو.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کے ایمانوں کو پہاڑوں کی چٹانوں سے زیادہ مضبوط کرے اور ایسی تائید و نصرت ان کے شامل حال ہو کہ جس کی وجہ سے ان کو ایسا ایمان حاصل ہو جو ہر قسم کے تنزل سے محفوظ رہے.ا الر حمن کے ۴ (الفضل ۱۶ نومبر ۱۹۲۶ء)
273 30 لوگوں کے دلوں کو محبت و نرمی سے فتح کریں (فرموده ۱۹ نومبر ۱۹۲۶ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : میں نے متواتر جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ اپنی ذات کی اصلاح اور تبلیغ میں کامیاب ہونے کے لئے اپنے اندر اخلاق فاضلہ پیدا کریں اور اپنی زندگی کو اخلاق کے ماتحت بسر کریں.دنیا میں آج تک کبھی کوئی قوم دلائل کے ساتھ نہیں جیتی اور کبھی کسی قوم نے صرف دلائل کے ساتھ غلبہ حاصل نہیں کیا.اگر دلائل کے ساتھ ہی دنیا جیتی جا سکتی تھی یا ولائل کے موجود ہونے کی وجہ سے کوئی قوم غالب آسکتی تھی تو عیسائیت کو دنیا میں کبھی غلبہ حاصل نہ ہوتا کیونکہ تمام وہ مذاہب جو نہایت ہی کمزور اور بوسیدہ بنیاد رکھتے ہیں ان میں سے ایک عیسائیت ہے.انسان کے عقل کے کسی گوشہ میں بھی یہ بات نہیں آسکتی کہ ایک کھاتا پیتا انسان.انسانی حوائج میں گھرا ہوا انسان خدا بن جائے.اگر انسان تمام تعصبات سے علیحدہ ہو کر اور مخلی بالطبع ہو کر بھی سوچے کہ کسی طرح مسیح کی خدائی اس کے ذہن میں آجائے تو کبھی یہ بات اس کے ذہن میں نہیں آسکتی.لیکن باوجود اس کے ہم دیکھتے ہیں کہ لاکھوں آدمی ہر سال مسیحی ہوتے ہیں.دنیا میں اس کثرت کے ساتھ مسیحیت پھیل رہی کہ آج دنیا میں تعداد کے لحاظ سے سب سے زیادہ مسیحی ہیں.ایک طرف ایشیا کے بہت علاقوں میں مثلاً سائبیریا آرمینیا کے تمام علاقوں میں مسیحی پائے جاتے ہیں.اسی طرح افریقہ کا قریبا نصف حصہ مسیحیوں سے بھرا پڑا ہے.البتہ ایشیا کے بعض حصے ہیں جن میں اور مذاہب بھی پائے جاتے ہیں.پس عیسائیت کا غلبہ دلیلوں کی وجہ سے نہیں.اگر دلائل پر کسی مذہب کا دارو مدار ہوتا تو آج کبھی کی عیسائیت مفقود ہو چکی ہوتی.اس بات کو دیکھتے ہوئے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ کسی دلیل کا غلبہ کے ساتھ تعلق نہیں.ہاں اپنی
274 اصلاح کے لئے دلیل محرک ہو سکتی ہے.اور جو لوگ اپنے نفسوں پر قابو رکھتے ہیں ان کے مقابل میں بے شک یہ بڑا ہتھیار ہو سکتا ہے.لیکن ایسے آدمی بہت کم ہوتے ہیں ایسا آدمی ہزار میں ایک ہوتا ہے، ورنہ کثیر طبقہ وہی ہوتا ہے جو اخلاق سے متاثر ہوتا ہے وہ ایمان لاتا ہے تو کسی کے سر پر چڑھ کر.وہ مرتد ہوتے ہیں تو کسی کے سر پر چڑھ کر.وہ صرف ایک ہی دلیل جانتے ہیں کہ کوئی ایسا شخص ہمارے سامنے لاؤ جس کی ہم اتباع کر سکیں.کیونکہ یہ طریق ان کو آسان معلوم ہوتا ہے اور مشکل کام کے وہ عادی نہیں ہوتے اور اس طریق سے عیسائیوں نے کام لیا ہے اور اسی ذریعہ سے غلبہ حاصل کیا ہے.باوجود اس کے کہ مسیحی حکومتیں کئی رنگ میں دنیا کو تباہ کر رہی ہیں لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ مسیحی پادری سیاسی خیالات کو چھپاتے ہوئے بھیڑ کی کھال میں اخلاق سے کام لیتے ہیں اور لوگوں کو گرویدہ بناتے ہیں.وہ لوگ عیسائیت کو نہیں دیکھتے اور نہ انہوں نے مسیح کو دیکھا ہوتا ہے.وہ صرف اس بات کو دیکھتے ہیں کہ پادری محبت اور ہمدردی کا اظہار کرتا ہے.پس وہ اس بات کا خیال نہیں کرتے کہ اس کی تعلیم اس کے عمل کے خلاف ہے.اور اس کی تہ میں سیاسی خیالات کام کر رہے ہیں.اور حکومت کا یہ پیش خیمہ ہے یہ وجہ ہے کہ وہ عیسائیت جو یورپ کے سوا اور کہیں نہ پائی جاتی تھی اور وہ یورپ کہ جس کے کناروں پر اسلامی حکومتوں کا جھنڈا لہراتا تھا آج بحر ذخار کی طرح دنیا پر پھیل رہا ہے اور اس کی لہریں اس طرح اٹھ رہی ہیں کہ ہر مذہب کانپ رہا ہے کہ شائد میں لہر اس کا خاتمہ کر دے گی.وہ لوگ کہ جن کا مطمح نظر گرد و پیش سے چند گز آگے بھی نہیں اٹھتا.ان کے سوا ہر عقل مند جانتا ہے کہ عیسائی حکومت دنیا پر اب اس قدر مستحکم ہو چکی ہے کہ اب دنیا کی کوئی ظاہری طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.اور اس کو اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتی.اور یہ سب کچھ پادریوں کے چند یاد کئے ہوئے فقروں اور ان کے شیریں کلام اور بناوٹی اخلاق کا ہی نتیجہ ہے.بہت سی جگہیں ہیں کہ جہاں پادریوں نے اس طریق سے کامیابی حاصل کی ہے.چنانچہ پشاور ہی کا واقعہ ہے کہ وہاں مدت تک عیسائیت پھیلانے کے لئے کوششیں کی گئیں لیکن کامیابی نہ ہوئی.آخر وہاں ایک پادری پہنچا.جس نے بازاروں میں علی الاعلان وعظ کرنا شروع کیا.دوسرے لوگ اسے گالیاں دیتے.کوئی اس پر تھوکتا کوئی گالی دیتا اور کوئی اس پر راکھ وغیرہ پھینکتا.وہ جواب دیتا کہ بھائی تم مجبور ہو کیونکہ تمھارا مذہب ایسے ہی اخلاق کی تعلیم دیتا ہے اور میں
275 بھی مجبور ہوں کیونکہ میرا مذہب مجھے ایسی ہی برداشت ، محبت، نرم دلی سکھاتا ہے.آخر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک شخص بڑے جوش کے ساتھ کھڑا ہوا اور نہ صرف علی الاعلان عیسائیت کو قبول کیا بلکہ زمین بھی گر جا کے لئے دی.جہاں گر جا بنایا گیا.پھر اسی طرح چین میں بھی عیسائیت کی تبلیغ کی گئی اور آج وہاں بڑے بڑے خاندان سب عیسائی ہو چکے ہیں.یہ سب بناوٹی اخلاق کا نتیجہ ہے.جب یہ بناوٹی اخلاق دنیا کو جیت سکتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ بچے اخلاق دنیا کو نہ جیت سکیں.بار بار تجربہ ہوا ہے کہ مباحثات سے وہ کامیابی نہیں ہوئی جو اخلاق سے حاصل ہوئی ہے.چنانچہ ہمارے ایک دوست ہیں جو ایسی ایسی جگہوں میں جاتے ہیں.جہاں کسی طرح بھی احمدیت نہیں پھیل سکتی تھی.ان کے جانے سے وہاں جماعتوں کی جماعتیں قائم ہوئیں ہیں اور وہ ان کے اخلاق کا نتیجہ ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ چیز جسے ہمارے کان نہیں قبول کرتے اسے ہمارے دل کیسے مان سکتے ہیں.تم ہی اپنے نفسوں کو دیکھو کہ اگر تمھیں کوئی طعنہ یا سختی کے ساتھ بات منوانا چاہے تو کیا تم اس کی بات خوشی سے ماننے کے لئے تیار ہو گے.اگر کوئی سختی کے ساتھ بات سمجھانا چاہے اور گالیاں دینا شروع کر دے تو کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ اس کی محبت سے تمھارا دل بھر گیا ہو.پس جو کام محبت اور اخلاص سے ہو سکتا ہے وہ اور کسی ذریعہ سے نہیں ہو سکتا.محبت کے ہاتھ کا دنیا کی کوئی چیز مقابلہ نہیں کر سکتی.تلواریں وہ کام نہیں کرتیں جو محبت کام کرتی ہے حضرت نبی کریم ﷺ کے ہی ایک زمانہ کو دیکھ لو جس میں دس سال تک مسلمانوں نے تلواریں اٹھائیں.لیکن اس زمانہ میں اسلام اس طرح نہیں پھیلا جس طرح کہ اس وقت پھیلا جب کہ اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کو موقع دیا کہ جس میں مسلمان محبت کا اظہار کر سکتے تھے.جب اللہ تعالی نے مسلمانوں کو غلبہ اور طاقت دی تو اس وقت مسلمانوں نے محبت کا اظہار کیا.جب آنحضرت ا نے مکہ کو فتح کیا تو آپ نے کفار مکہ سے پوچھا کہ تئیس سالہ مظالم جو تم نے مسلمانوں پر کئے آج بتاؤ تم سے کیا سلوک کیا جائے.انہوں نے وہی جواب دیا جو ایسے وقت میں مجبوری کے ماتحت مفتوح و مجرم قو میں دیا کرتی ہیں کہ آپ ہمیں معاف کر دیں.یہ انہوں نے جو کچھ کیا وہ ایک طبعی بات تھی اور وہ ایک شکست خوردہ کی آواز تھی.لیکن محمد رسول اللہ نے اس جواب کے خلاف کہا جو عام طور پر فاتح شخص دیا کرتا ہے.عام طور پر تو یہی جواب دیا جاتا ہے کہ ابھی تم نے کیا دیکھا ہے لیکن حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو کچھ تم نے کہا ہے ٹھیک
276 ہے.لا تثريب عليكم اليوم جاؤ آج تم پر کوئی ملامت نہیں.بس پھر کیا تھا.اس ایک فقرہ نے چند منٹ کے اندر وہ کام کیا جو دس سال کی جنگیں نہ کر سکیں.وہ لوگ جو گھروں میں دروازے بند کئے بیٹھے تھے.عورتیں اور بچے بھی مارے خوف کے کانپ رہے تھے کہ اب معلوم نہیں کیا ہو گا.اب ہمارے مظالم کی ہمیں کیا کیا سزائیں ملیں گی اور مکہ کا ہر گھر ماتم کدہ بنا ہوا تھا.جب آنحضرت کی طرف سے اس حیات بخش اعلان کو سنا تو تمام لوگ بھاگتے ہوئے آنحضرت ایتا ہے قدموں پر آگرے.کس حیرت اور تعجب کے ساتھ مکہ کے لوگوں نے وہ آوازیں سنی ہوں گی جو مکہ کی گلیوں میں ایک سرے سے دوسرے تک پھیل گئیں اور حیات بخش کلام نے ان کے اندر کیا تغیر الليل کے پیدا کیا ہو گا.اب دیکھو تلواریں وہ کام نہ کر سکیں جو محبت کے تیر نے کام کیا لا تشریب علیکم الیوم کا ایک ہی تیر مکہ کے دلوں کو فتح کرتا ہوا چلا گیا.پھر جس وقت اطراف مکہ میں یہ آواز پہنچی تو وہ بھی ایک دوسرے سے بڑھ کر ایمان لانے میں مقابلہ کر رہے تھے.کیونکہ وہ تو مکہ کی تباہی کی خبر کے منتظر تھے.لیکن اس کے بالکل خلاف جب انہوں نے یہ سلوک دیکھا تو ان کے دل بالکل بے اختیار ہو گئے.شائد کوئی کہے کہ نبی کریم اللہ تو نبیوں کے سردار تھے تو میں ایک کافر کی مثال سناتا ہوں.امریکہ کا ایک پریذیڈنٹ تھا اس کے دل میں غلامی کی رسم کے خلاف خیال پیدا ہوا اور اس نے ایک مسودہ قرار دیا کہ جس میں غلامی کی رسم کی ممانعت کا اعلان کیا.لیکن امریکہ کہ جس کی تمام دولت کا انحصار غلاموں پر تھا اس کے روسا نے فیصلہ کے خلاف آواز اٹھائی اور انہوں نے کہا کہ ہماری ریاست علیحدہ کردو.پریزیڈنٹ نے کہا جب تم پہلے شامل ہو چکے ہوئے ہو تو اب تم علیحدہ نہیں ہو سکتے.آخر نتیجہ یہ ہوا کہ جنگ چھڑ گئی.جس میں پہلے تو پریذیڈنٹ کے مقابل فریق کا پلہ بھاری رہا کیونکہ وہ لوگ بوجہ زمیندار کے مضبوط تھے لیکن آخر پھر پریذیڈنٹ کو ہی کامیابی حاصل ہوئی اور اسے دوسرے علاقہ پر فتح حاصل ہوئی اور دوسروں کا لیڈر مارا گیا اور پریذیڈنٹ کی قوم نے بڑے بڑے افسروں نے بڑے جلوس نکالنے کا ارادہ کیا.اور اس میں پریذیڈنٹ کو بھی بڑی شان کے ساتھ نکالنے کا ارادہ کیا.بڑے بڑے لوگ ایک شاندار جلوس نکالنے کی تیاریاں کر چکے تو پریذیڈنٹ کو بلایا.اس نے کہا یہ جلوس کیسا؟ افسروں نے جواب دیا کہ آپ کے لئے جلوس نکالنا چاہتے ہیں.تو اس نے جواب دیا کہ جب میں حبشیوں کو غلام بنانا پسند نہیں کرتا تو اپنے بھائیوں کو کیسے غلام بنا سکتا ہوں.یہ دوسرے لوگ میرے بھائی ہیں.جس طرح میں نے ملک کی خدمت کی اسی طرح انہوں نے بھی
277 اپنے خیال میں ملک کی خدمت کی.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک میں ایک محبت کی رو چل گئی اور پھر تمام ملک ایک ہو گیا.پھر اس زمانہ میں بھی حضرت مسیح موعود کی تازہ مثالیں موجود ہیں جس جس رنگ میں دشمنوں نے آپ کا مقابلہ کیا.دوست جانتے ہیں دشمنوں نے گھماروں کو آپ کے برتن بنانے سے سقوں کو پانی دینے سے بند کر دیا.لیکن پھر جب کبھی وہ معافی کے لئے آئے تو حضرت صاحب معاف ہی فرما دیتے تھے ایک دفعہ آپ کے کچھ مخالف پکڑے گئے.تو مجسٹریٹ نے کہا کہ میں اس شرط پر مقدمہ چلاؤں گا کہ مرزا صاحب کی طرف سے سفارش نہ آئے.کیونکہ اگر انہوں نے بعد میں معاف کر دیا تو پھر مجھے خواہ مخواہ ان کو گرفتار کرنے کی کیا ضرورت ہے.مگر دوسرے دوستوں نے کہا کہ نہیں اب انہیں سزا ضرور ہی ملنی چاہئے.جب مجرموں نے سمجھ لیا کہ اب سزا ضرور ملے گی تو انہوں نے حضرت صاحب کے پاس آکر معافی چاہی تو حضرت صاحب نے کام کرنے والوں کو بلا کر فرمایا کہ ان کو معاف کر دو.انہوں نے کہا ہم تو اب وعدہ کر چکے ہیں کہ ہم کسی قسم کی سفارش نہیں کریں گے تو حضرت اقدس فرمانے لگے کہ وہ جو معافی کے لئے کہتے ہیں تو ہم کیا کریں.مجسٹریٹ نے کہا دیکھا وہی بات ہوئی جو میں پہلے کہتا تھا مرزا صاحب نے معاف ہی کر دیا.کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ اس کا نتیجہ کیا ہوا تو ہم کہتے ہیں کہ بے شک آج دنیا اس کو محسوس نہیں کرتی.لیکن ایک وقت آئے گا کہ جب تاریخوں میں واقعات پڑھے جائیں گے تو یہی واقعات لاکھوں آدمیوں کی ہدایت کا موجب ہوں گے.آج اگر پچاس آدمیوں پر اس واقعہ کا اثر ہے تو کل ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ اس میں ہزاروں آدمیوں پر یہ واقعات اثر کریں گے.دیکھو یہی واقعہ جو حضرت نبی کریم ﷺ کا میں نے سنایا ہے.بیشک اس نے اس وقت بھی اثر دکھایا.لیکن اگر اس وقت بھی اس کا وہ اثر نہ ہوتا تو کچھ بات نہ تھی.آج جس مجلس میں بھی اس کا ذکر کرتے ہیں تو خطرناک سے خطرناک دشمن کی نگاہیں بھی نیچی ہو جاتی ہیں تو اس واقعہ کا آج آکر اثر ہوا.ایک دفعہ ایک افسر نے حضرت مسیح موعود سے ایک معاملہ میں کہا کہ یہ لوگ آپ کے شہری ہیں آپ ان کے ساتھ نرمی کا سلوک کریں تو حضرت صاحب نے فرمایا.اس بڑھے شاہ ہی کو پوچھو کہ آیا کوئی ایک موقعہ بھی ایسا آیا ہے جس میں اس نے اپنی طرف سے نیش زنی نہ کی ہو اور پھر اس سے ہی پوچھو کہ کیا کوئی ایک موقعہ بھی ایسا آیا ہے کہ جس میں میں اس پر احسان کر سکتا تھا اور پھر میں نے
278 اس کے ساتھ احسان نہ کیا ہو.آگے وہ سر ڈال کر ہی بیٹھا رہا.یہ ایک عظیم الشان نمونہ تھا آپ کے اخلاق کا.پس ہماری جماعت کو بھی چاہئے کہ وہ اخلاق میں ایک نمونہ ہو.معاملات کی آپ میں ایسی صفائی ہو کہ اگر ایک پیسہ بھی گھر میں نہ ہو تو امانت میں ہاتھ نہ ڈالیں.اور بات اتنی میٹھی اور ایسی محبت سے کریں کہ جو دوسرے کے دل پر اثر کرے.میں نے تو آج تک محبت سے زیادہ اثر کرنے والی کوئی بات نہیں دیکھی.اس لئے ہماری جماعت کا بھی محبت آمیز شعار ہو جانا چاہئے کہ جب کوئی بات کرے تو ہر آدمی محسوس کرے کہ اس کے اندر اخلاص ہے اور اس کا دل محبت سے بھرا ہوا ہے.کبھی طعنہ سے کام نہ لو.میرے نزدیک سچے مذہب کے پیروؤں کا دلیل کے ساتھ دوسرے پر غالب آجانے پر ہنسنا سخت کمینگی ہے.کیونکہ دلیل تو خدا کی دی ہوئی چیز ہے کہ جیسے ایک جوان آدمی ایک بچہ پر ہے.دوسروں کی کمزوری تو بچوں کی طرح ہے جو آباؤ اجداد سے چلی آئی ہے.اس لحاظ سے ان میں ایک طبعی کمزوری ہے.اور دوسرے کی دی ہوئی طاقت کے باعث دوسرے کو کمزور سمجھنا شرافت کے خلاف ہے.پس گفتگو میں تحمل اور شیرینی پیدا کرو.قربانی و ایثار کا مادہ ہو.ہمدردی اور محبت ہو.طعن اور طنز و تشنیع نہ ہو.پھر اس کے ساتھ تبلیغ کا جوش ہو.وہ جوش جو لڑائی کو دیکھ کر اور مباحثات میں پیدا ہوتا ہے وہ سچا جوش نہیں ہوتا.اگر یہی سچا جوش ہے تو وہ غنڈوں میں بھی موجود ہے.اب کیا تمام غیرت اسلامی ان غنڈوں میں ہی آگئی ہے.صرف ایک خاص وقت میں ان کے جوش کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کی طبائع کمزور ہوتی ہیں.اس وقت ان کا بگڑنا اور لڑنا غیرت اسلامی پر دلالت نہیں کرتا.بلکہ ان کے بدمعاش ہونے پر دلالت کرتا ہے.سچا جوش وہ ہے جو ٹھنڈے وقت میں بھی ہو.آخر میں میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی تمام جماعت کو اس بات کی توفیق دے کہ وہ اسلام کا سچا نمونہ بن کر دکھائے.اور وہ اپنی غلطیوں سے اسلام کی ترقی کو پیچھے نہ ڈالنے والے ہوں.(الفضل ۳۰ نومبر ۱۹۲۶ء) ا طبقات ابن سعد القسم الثانی صہ ۱۸۹
279 31 احمدیہ بیت الذکر لندن سے فائدہ اٹھانے کا زریں موقعہ (فرموده ۲۶ نومبر ۱۹۲۶) تشهد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : میں نے ایک دفعہ پہلے بھی مسجد لندن کے افتتاح کے متعلق ذکر کیا تھا اور آج اس کے ایک اور پہلو کے متعلق جماعت کے سامنے بیان کرنا چاہتا ہوں.اس تقریب اور اس شاندار افتتاح پر جس طرح اللہ تعالٰی نے دنیا میں ایک تہلکہ اور زلزلہ برپا کر دیا ہے اور ایک شور پیدا کر دیا ہے.اور اس کی طرف تمام دنیا کی نگاہیں اٹھا دی ہیں.اس سے پہلے ایسی شاندار تقریب کبھی انگلستان کی تاریخ میں نظر نہیں آتی.چنانچہ یورپ کے بڑے بڑے اخباروں مے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے.کہ انگلستان میں اس قسم کا عظیم الشان نظارہ عیسائی مذہب کی تقریب پر بھی اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا.یہ ان لوگوں کی آواز ہے جو انگلستان کے عیسائی ہیں ایک تو وہ لوگ انگلستان کے رہنے والے پھر عیسائی اور عیسائی بھی پختہ اور اس کے ساتھ متعصب اور قومی تعصب میں بھی تمام دنیا کے عیسائیوں سے بڑھے ہوئے ہیں.اور اس تعصب کے باعث کبھی کوئی عجیب بات کسی اور قوم کی طرف منسوب ہونا پسند نہیں کرتے.باوجود ان باتوں کے پھر ولایت کے بڑے بڑے اخبار والوں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ کبھی کوئی ایسا شاندار اجتماع اور اس قدر دلچسپی رکھنے والی تقریب اس سے پہلے انگلستان میں نظر نہیں آتی.یہاں تک کہ ایک بہت بڑے اخبار والے نے اس حد تک بھی لکھا ہے.کہ یہ شاندار اجتماع اس بات کو ثابت کر رہا تھا اور دلوں میں ایک گہری خلش پیدا کر رہا تھا کہ اب انگلستان کو عیسائی مذہب کے علاوہ اور مذاہب میں بھی سچائی تلاش کرنی چاہئے.یہ وہ ہوا ہے جس سے ہم محسوس کر سکتے ہیں کہ اب انگلستان کے خیالات کس طرف جا
280 رہے ہیں.پھر صرف انگلستان میں ہی اس افتتاح کا چرچا نہیں بلکہ تمام ملکوں اور تمام زبانوں میں اس واقعہ کا ذکر ہو رہا ہے.اور تمام دنیا کے خیالات میں یک لخت عجیب تغیر پیدا ہو رہا ہے.چنانچہ آج ہی جدہ سے ایک خط آیا ہے جس میں لکھا ہے کہ یہاں ہم سلسلہ کی کتب لوگوں کو پڑھنے کے لئے دیتے تھے.لیکن لوگ کبھی اس طرف توجہ نہیں کرتے تھے اور نہ کبھی کتابیں ہی پڑھتے تھے.لیکن اب ہمارے گھروں میں آ آکر لٹریچر مانگتے ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف انگلستان میں بلکہ تمام دنیا میں سلسلہ کی طرف رغبت پیدا ہو رہی ہے.اور ضرور ہے کہ یہ غیر معمولی اور عالمگیر رغبت اپنا رنگ لائے کیونکہ جب لوگ ہمارے لٹریچر کا مطالعہ شروع کریں گے اور ہماری باتیں توجہ سے سنیں گے تو ان کی خوشبو خود بخود ان کو متوالا کرے گی.کوئی چیز اس وقت تک لوگوں کو اپنی طرف نہیں کھینچتی جب تک لوگ اپنی آنکھوں کو بند رکھتے ہیں اور وہ چیز پردہ اخفا میں رہتی ہے.لیکن جب لوگ اس چیز کو کھولتے ہیں یا وہ خود ظاہر ہوتی ہے تو اس کی خوشبو دلوں کو مائل کرتی چلی جاتی ہے اور لوگ شکار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے.جب اس افتتاح مسجد کی تقریب سے نہ صرف انگلستان میں بلکہ تمام دنیا میں سلسلہ کی طرف ایک زبردست رو چلنی شروع ہوئی تو اب ہمارے لئے اس عذر کی کوئی گنجائش نہیں رہی کہ لوگ توجہ نہیں کرتے بلکہ اب سوال یہ باقی ہے کہ ہم ان کی توجہ سے فائدہ اٹھائیں اور کس طرح اٹھائیں.دنیا میں کسی قوم کے غالب آنے کے لئے پہلی چیز یہ ہے کہ اس کا رعب دلوں میں بیٹھ جائے.جب رعب دلوں میں بیٹھ جائے تو اس کے بعد دنیا کو فتح کرنا آسان ہو جاتا ہے.کیونکہ رعب وہ چیز ہے جو اصل طاقت و قوت سے بھی بہت زیادہ مفید ہے.دیکھو رسول کریم انا نے جن چند باتوں پر فخر کیا ہے ان میں سے ایک رعب ہے.آپ فرماتے ہیں کہ میری نصرت رعب سے ہوئی ہے دور دراز کے فاصلہ پر بھی دشمن کے دل میرے خوف اور رعب سے کانپ رہے ہیں.آپ نے یہ نہیں فرمایا نصرت بالجند کہ لشکروں کے ساتھ مجھے نصرت دی گئی ہے.یہ اس لئے کہ دنیا میں جو اثر رعب کرتا ہے.وہ دنیا کی کوئی اور طاقت نہیں کرتی.لشکر وہ اثر نہیں کرتے جو رعب کرتا ہے.اور قوت و طاقت وہ نتائج نہیں پیدا کرتی جو رعب پیدا کرتا ہے.کیونکہ رعب خیالات کو منتشر کر دیتا ہے اور تمام طاقتوں کو کمزور اور پراگندہ کر دیتا ہے.پس رعب کا دنیا کی کوئی چیز مقابلہ نہیں کر سکتی.پنجاب میں ایک لطیفہ مشہور ہے.جو بظاہر تو لطیفہ کا رنگ اپنے اندر رکھتا ہے مگر اس میں
281 بڑی سچائی مخفی ہے.مشہور ہے کہ ایک دفعہ چوہوں نے مشورہ کیا کہ یہ بلی جو ہر روز ہمیں تنگ کرتی ہے.اس کا کوئی علاج کرنا چاہئے.آخر یہ ہے تو ایک ہی اور اس کے مقابل ہم کافی تعداد میں ہیں.ہم اگر سارے مل کر اس کا مقابلہ کریں اور اسے پکڑ کر ایک دفعہ اس کا فیصلہ کر دیں تو وہ ایک ہمارے مقابلہ میں کیا کر سکتی ہے اور کہاں تک ہمیں مارے گی.کسی نے کہا کہ میں اس کی ٹانگ پکڑ لوں گا.کسی نے کہا میں اس کی دوسری ٹانگ پکڑ لوں گا.ایک نے کہا میں اس کا منہ پکڑ لوں گا.غرض اس طرح انہوں نے اپنے حصہ بلی کے پکڑنے کے لئے ایک کام لے لیا اور خیال کیا کہ بس اب بلی ماری گئی.ہم جب سارے مل کر کام کریں گے تو اس کے مارے جانے میں کیا شک ہو سکتا ہے.اور بظاہر یہ درست معلوم ہوتا ہے کہ وہ واقعہ میں بلی کو مارنا چاہیں تو اس طرح وہ ضرور اسے مار سکتے ہیں.لیکن جو چیز انہوں نے نہیں سوچی تھی وہ ہلی کا رعب تھا.اس اکیلی کا رعب اپنے اندر اس قدر طاقت رکھتا ہے کہ اس کے مقابلہ میں ہزاروں چوہوں کی طاقت کچھ حقیقت نہیں رکھتی.اسی وجہ سے جو ان میں سے دانا تھا اس نے بھی یہی کہا کہ بے شک تم سب مل کر اسے پکڑ لو گے لیکن یہ تو پہلے بتاؤ کہ اس کی میاؤں کو کون پکڑے گا.کیونکہ جب وہ ابھی میاؤں ہی کرے گی تو نہ تمہارے ہاتھوں میں طاقت رہے گی نہ تمہارے پاؤں میں طاقت رہے گی.تو یہ لطیفہ در حقیقت اس بات کے بیان کرنے کے لئے بطور مثال بنایا گیا ہے کہ جو کام رعب دنیا میں کرتا ہے وہ طاقت اور قوت نہیں کر سکتی.اس لئے رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ میرا رعب دلوں پر بٹھا دیا گیا ہے اب جہاں میں جاتا ہوں دشمن کا دل کانپ اٹھتا ہے اور وہ اپنی طاقت کو بھول جاتا ہے.اس کے خیالات منتشر ہو جاتے ہیں.اور وہ میرے سامنے ایک بچہ کی حیثیت میں ہو جاتا ہے.پس پہلی چیز جو اللہ تعالیٰ غالب آنے والی قوم کو دیتا ہے وہ رعب ہے.اس قوم کو رعب دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ ہر چیز پر غالب ہوتے چلے جاتے ہیں اور کوئی چیز ان کے مقابلہ پر نہیں ٹھرتی.اب دیکھو ایک پولیس مین کے آنے پر یا ایک معمولی افسر کے آنے پر سب پر رعب طاری ہو جاتا ہے.حالانکہ وہ اکیلا ہوتا ہے.اس کی یہی وجہ ہے کہ اس کے پیچھے حکومت کا رعب ہوتا ہے.تو اب اللہ تعالٰی نے اپنی طرف سے ہمارے لئے ایسے سامان تو پیدا کر دیئے ہیں کہ جس سے سلسلہ کا رعب قائم ہو گیا ہے.چنانچہ یورپ کے لوگوں نے بھی اس بات کو لکھا ہے کہ امیر فیصل کے روکنے کی یہ وجہ بھی ہے کہ دوسرے مسلمانوں کے دل اس بات کو دیکھ کر جل گئے ہیں کہ وہ باوجود
282 تعداد اور مال میں ہماری نسبت کروڑوں درجہ زیادہ ہونے کے پھر اس کام میں کامیاب نہ ہو سکے جس میں ایک چھوٹی سی جماعت کامیاب ہو گئی ہے.ادھر یہی خیال ان کے لئے محرک ہوا کہ چلو اس جگہ کو بھی چل کر دیکھیں کہ جس کے افتتاح کے لئے امیر فیصل مکہ سے چل کر آیا اور پھر مذہبی حساد کے روکنے کی وجہ سے اس تقریب سے رک گیا.اور در حقیقت اس میں اللہ تعالی کا ہاتھ تھا کیونکہ خدا تعالٰی نہیں چاہتا تھا کہ اس کی مسجد کسی انسان کی مرہون منت ہو.بلکہ اس کے شاندار افتتاح اور اس کی عظمت و شہرت کے سامان اللہ تعالٰی نے خود ہی پیدا کر دیئے ہیں.چنانچہ بعض اخباروں میں تین تین دن تک افتتاح کی خبروں کا تانتا لگا رہا.یورپ کے اخباروں کی طاقت اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ ایک ایک خبر کے شائع کرنے میں سبقت کرنے کے لئے ہزاروں روپیہ خرچ کر دیتے ہیں.اور پھر ایک دفعہ شائع ہونے کے بعد دوسری دفعہ وہ کبھی شائع نہیں کرتے.اور اگر کسی وجہ سے کسی اور اخبار کے ذریعہ وہ خبر پہلے شائع ہو جائے.تب بھی اسے شائع نہیں کرتے.لیکن افتتاح مسجد کے متعلق ولایت کے ایک ایک اخبار مثلاً ٹائمز جیسے اخبار نے بھی تین دن متواتر خبریں درج کیں.اور یہ نہیں خیال کیا کہ اب یہ خبر پرانی ہو گئی ہے.کیونکہ وہ جانتے تھے کہ انگلستان کے ہر گھر میں مسجد کے متعلق ایک شور پڑا ہوا ہے اور چرچا ہو رہا ہے.اب سوال یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے اس قدر رعب اور عزت جو سلسلہ کو بخشی ہے اس سے فائدہ اٹھانے کی کیا صورت ہے.ان لوگوں کے دلوں میں اب جوش پیدا ہو گیا ہے کہ وہ اسلام کی صحیح کا مطالعہ کریں اور مسلمانوں سے ملیں.ان کی مذہبی حالت ان کی دینی حالت کے متعلق دریافت کریں.لیکن اگر ہمارے پاس اس کام کے لئے کافی لٹریچر نہ ہو جو ان کے ان جذبات کو جو ان میں پیدا ہو گئے ہیں.ٹھنڈا کرے.تو وہ ضرور پھر دوسرے لوگوں کی طرف متوجہ ہوں گے.اور ان کے پاس جائیں گے.اور اس طرح گویا ہماری تمام محنت اور لاکھوں روپیہ کا خرچ بالکل ضائع چلا جائے گا.اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اب ہماری جماعت کی بہت بڑی ذمہ داری ہے.ایک تو پہلے میرے ہی وہاں جانے سے ان کے اندر زبردست ہیجان پیدا ہو چکا تھا کیونکہ وہ لوگ تو مسیح کا نائب پوپ کے سوا اور کسی کو نہیں سمجھتے تھے ان کو یہ کہاں معلوم تھا کہ ایک اور مسیح بھی مسلمانوں میں پیدا ہوا ہے.جس کا نائب ہمارے ملک میں آئے گا.اس لئے پہلے تو میرے وہاں جانے نے ان کے اندر ایک بہت بڑا ہیجان پیدا کر دیا تھا.چنانچہ اسی وجہ سے اس کثرت سے انہوں نے ہمارے فوٹو لئے کہ ہم تھک جاتے تھے.پھر بڑی بڑی اخباروں کے نمائندے ملنے کے لئے آتے
283 تھے اور ہمارے متعلق متواتر اخباروں میں اس کثرت کے ساتھ ذکر ہوتا رہا کہ ایک نمائندہ نے ہمارے ایک دوست کو کہا کہ آپ اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکتے کہ آپ کو یہاں کس قدر عزت ملی ہے.آپ کے خلیفہ کی آمد پر اس کے متعلق اخباروں میں چھ چھ سات سات دفعہ حالات شائع ہوئے ہیں.حالانکہ یہاں بڑے سے بڑے بادشاہ کا بھی سوائے ایک دو دفعہ کے اخبار میں ذکر نہیں ہوتا.تو ایک میرا وہاں جانا خود ایک ایسی تحریک تھی جس سے ان کے طبائع میں ایک جوش پیدا ہو چکا تھا پھر امیر فیصل والا معاملہ درمیان میں آگیا جس سے سلسلہ کی شہرت ہوئی.اور پھر باوجود اس کے رک جانے کے ایسے شاندار افتتاح کا ہونا جس سے نہ صرف انگلستان میں بلکہ تمام دنیا میں ہلچل مچی ہوئی ہے.اس نے اور بھی ان لوگوں کے دلوں میں غیر معمولی رغبت اسلام کی طرف پیدا کر دی ہے.غرض تھوڑے سے روپیہ کے خرچ کرنے سے اتنی عظیم الشان لہر کا پیدا ہو جانا ایک ایسی بات ہے کہ اب اگر ہماری غفلت سے یہ تحریک ٹھنڈی پڑ جائے اور اس کے مفید نتائج نہ نکلیں تو پھر شائد کروڑوں روپیہ بھی خرچ کرنے سے اس قسم کی تحریک نہ پیدا ہو سکے.جب تک میلان نہ ہو تب تک اشتہار دینا بھی کچھ کام نہیں دیتا.اس لئے ان حالات کے ہوتے ہوئے اب ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہماری طرف سے سلسلہ کا لٹریچر ایسے رنگ میں شائع ہو کہ جس سے ان لوگوں کو سلسلہ کی طرف پورے زور سے توجہ پیدا ہو.اور ان تک لڑیچر پہنچانے کا یہی طریق ہے کہ انگریزی دان دوست انگریزی میں مضامین لکھنے کی طرف توجہ کریں.میں نے بہت سے دوستوں کو اس طرف توجہ دلائی تھی لیکن افسوس کہ سوائے ایک دو دوستوں کے اور کسی نے اس طرف توجہ نہیں کی.یہ خیال کرنا کہ انگلستان کے مبلغ ہی مضامین بھی لکھیں گے.لوگوں کو بھی ملیں گے.ملاقاتیں بھی کریں گے.سوسائیٹیوں میں بھی شامل ہوں گے.لیکچر بھی دیں گے.اور رپورٹیں بھی یہاں بھیجیں گے.یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ پدی آسمان کو سر پر اٹھائے یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک ہی آدمی حساب کتاب بھی رکھے.رپورٹیں بھی بھیجے.لیکچر بھی دے اور سوسائیٹیوں میں بھی شامل ہو.ملاقاتیں بھی کرے اور ہر وقت مکان پر بھی موجود رہے.اور پھر مضامین بھی لکھے.حالانکہ صرف ملاقات کرنا ہی ایک ایسا کام ہے.کہ جس پر بعض دفعہ دو دو تین تین گھنٹے صرف ہو سکتے ہیں اور ملاقات میں ناممکن ہے کہ ایک شخص جو دور سے گھر پر ملاقات کے لئے آیا ہے اسے چند منٹ مل کر وہیں چھوڑ دے اور دوسرے کاموں میں لگ جائے اور پھر باقی کاموں میں سے بھی کوئی
284 ایسا کام نہیں جسے وہ چھوڑ سکیں مثلاً یہ بھی ناممکن ہے کہ وہ سوسائیٹیوں میں جانا چھوڑ دیں اور یہ بھی نا ممکن ہے کہ وہ لیکچر چھوڑ دیں.اور یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ بچوں کو یا اور نو مسلموں کو پڑھانا چھوڑ دیں اور یہ بھی ناممکن ہے کہ ملاقاتیں چھوڑ دیں.ہاں اگر ہو سکتا ہے تو یہ ہو سکتا ہے کہ ریویو کے کام کی تخفیف ان سے کی جائے.مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اگر دوست ریویو میں اعلیٰ درجہ کے مضامین نکالیں تو ان کا ہاتھ بٹ جائے گا.کیونکہ کم از کم ہماری جماعت میں ایک سو انگریزی دان دوست ہیں.جن میں ہر آدمی بھی اگر تین صفحہ کا مضمون بھی سال بھر میں لکھے تو دو سال تک صرف ان کے ہی مضامین سے اخبار چل سکتا ہے.اگر نصف بھی سمجھ لیں اور تین ماہ پانچ صفحہ کا مضمون لکھیں.تب بھی ریویو کا سلسلہ جاری رہ سکتا ہے.اور ایسا مضمون جسے تین ماہ میں بڑی تحقیق کے ساتھ لکھا جائے نہایت اعلیٰ درجہ کا علمی مضمون تیار ہو سکتا ہے.اور اس طرح بھی ہو سکتا ہے کہ مثلاً ہزار صفحہ میں سے اگر ۴۰۰ صفحہ بھی چھانٹ لیا جائے تو وہ نہایت اعلیٰ درجہ کے مضامین ہوں گے.یورپ کے لوگوں میں یہ قاعدہ ہے کہ وہ ہر مضمون نہیں چھاپ دیتے.پس جب تک ریویو میں اس قسم کے اعلیٰ مضامین نہ نکلیں جو اسلام کے تمدن اسلام کے اخلاق اور اسلام کی سیاست اور مدنیت غرض اس کے مختلف شعبوں کے متعلق ہوں تب تک اسلام کا رخب یورپ میں قائم نہیں رہ سکتا اور اسلام نہیں پھیل سکتا.اور جو انگریزی نہیں جانتے وہ دو طرح سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں.ایک تو اسلام کی مالی خدمت میں پہلے سے زیادہ با قاعدہ ہو جائیں.اگر صرف باقاعدگی اور اخلاص کے ساتھ فرض ادا کریں تو بھی بہت بڑے نتائج پیدا ہو سکتے ہیں.اور جو لوگ کہ ست بیٹھے ہوئے ہیں اور بجائے کام کرنے کے دوسروں پر اعتراض کرتے رہتے ہیں وہ سمت بیٹھنا اور اعتراض کرنا چھوڑ دیں اور اس کی بجائے دعاؤں کے ساتھ کام لیں.تجربہ بتاتا ہے کہ زیادہ تر اعتراض کرنے والے ہی کام میں سست ہوتے ہیں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملے گی کہ اعتراض کرنے والا سلسلہ کی پورے طور پر خدمت بجا لاتا ہو.آج تک ایک مثال بھی اس قسم کی نہیں ملتی کہ معترض کو کام کرنے کی توفیق ملی ہو.کیونکہ اعتراض کرنے والے کے دل میں محبت اور اخلاص نہیں ہوتا.اور محبت اور اخلاص کے ہوتے ہوئے کبھی اعتراض نہیں پیدا ہوتے.پھر تجربہ یہ بھی بتاتا ہے کہ جب کبھی بھی اعتراضات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے.تو سلسلہ کی تباہی ہوتی ہے.اور یہ کہنا کہ ہم نے اخلاص اور ہمدردی سے اعتراض کیا ہے.یہ بھی بالکل غلط
285 طریق ہے.اس سے نہ کبھی اصلاح ہوئی اور نہ ہو گی.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی کسی کو جوتے مارے اور کہے میری غرض تو اس سے تمہاری عزت پیدا کرنا ہے.کیا یہ کبھی ہو سکتا ہے کہ سلسلہ کے کاموں اور مرکزی کاموں کے لئے محبت و اخلاص بھی ہو اور پھر اعتراض بھی کرتے چلے جائیں.پس بجائے اعتراضات میں طاقتیں خرچ کرنے کے خدمت دین میں اپنی طاقتیں خرچ کرو.دوسرا ذریعہ مدد کرنے کا یہ ہے کہ اپنے دلوں میں خشیت پیدا کر کے خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں کہ ان موجودہ تغیرات کو ہمارے لئے مفید کرے.یہ دو طریق ہیں جن سے جماعت کے دوست مدد کر سکتے ہیں.یاد رکھو کہ سست اور سکتے معترض جماعت اور سلسلہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے.ان کی غفلت کا بوجھ ان کی ہی گردن پر ہو گا.یہ کبھی نہیں ہو گا کہ کام کرنے والوں کے انعامات اور اجر ان کو دیئے جائیں.بلکہ وہی لوگ نعمتوں کے وارث ہوں گے.جو بچے طور پر دین کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں.لیکن وہ لوگ جو خود تو غفلتوں میں پڑے ہوتے ہیں.اور دوسرے کام کرنے والوں پر اعتراضات کرتے رہتے ہیں.وہ خدا تعالی کی درگاہ سے دھتکارے جائیں گے.بعد اس کے کہ ان کو بلایا گیا تھا.اور وہ مارے جائیں گے بعد اس کے کہ وہ زندہ کئے گئے تھے.آخر میں میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالٰی سچا تقویٰ اور اخلاص عطا کرے.اور ہر قسم کی ٹھوکروں اور ابتلاؤں سے محفوظ رکھے.میں ایک جنازہ بھی پڑھوں گا جو ہماری جماعت کے مولوی محمد امیر صاحب کے نوجوان بیٹے تھے.اور پروفیسر عطاء الرحمان صاحب کے چھوٹے بھائی تھے.وہ جہاں فوت ہوئے ہیں.صرف مولوی صاحب ہی ان کا جنازہ پڑھانے والے تھے.(الفضل ۷ دسمبر ۱۹۲۶ء)
286 32 جلسہ سالانہ کے لئے مکانات اور خدمات پیش کریں (فرموده ۳ دسمبر ۱۹۲۶) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : خدا کے فضل سے جلسہ کے دن قریب آرہے ہیں.اور جیسا کہ خدا تعالیٰ کی سنت ہم پچھلے سالوں سے دیکھتے چلے آئے ہیں کہ ہر سال اس کے فضل سے ہمارے اندازہ سے بڑھ کر مہمان آتے ہیں.اسی طرح ہمیں اس سال بھی یہی امید رکھنی چاہئے کہ پہلے سے زیادہ ہی لوگ آئیں گے.اور اس لحاظ سے ان دنوں میں پہلے سے زیادہ مختلف قسم کے سامانوں اور کام کرنے والوں کی ضرورت ہو گی.عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب کچھ دن جلسہ میں باقی رہ جاتے ہیں تو جلسہ کے انتظام کے متعلق تجاویز سوچی جاتی ہیں اس لئے بسا اوقات وہ تجاویز اتنی کار آمد اور مفید نہیں ثابت ہو تیں جیسا کہ اس صورت میں کار آمد ہو سکتی ہیں کہ وہ کافی عرصہ پہلے سوچی جائیں اور پہلے سے وہ تجاویز عمل میں لائی جائیں.بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ مکانات رک جاتے ہیں اور وقت پر مکان نہیں ملتے.اس کی یہی وجہ ہوتی ہے کہ لوگ اپنے کسی دوست اور رشتہ دار کے لئے پہلے سے ہی مکان کا انتظام کر لیتے ہیں.لیکن اگر شروع میں مکانات کو روک لیا جائے تو وقت پر منتظمین کو دقت پیش نہ آئے.کیونکہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک دوست کے پاس اتنا کھلا مکان ہوتا ہے کہ جس میں مثلاً چالیس آدمی آسکتے ہیں لیکن اس نے اس پانچ سات آدمیوں کے لئے خالی کیا ہوا ہوتا ہے.اس سے پہلے اگر اس مکان کا مطالبہ کیا جاتا تو ہو سکتا تھا کہ اس وقت وہ مکان دیدیتا اور اس کے اپنے مہمان بھی اس پر گزارہ کر لیتے.اس لئے ایک طرف میں منتظمین جلسہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جس قدر جلد ہو سکے دوستوں میں تحریک کر کے مکانوں پر قبضہ کر لیں.اور دوسری طرف دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جس قدر جلد ہو سکے اپنے مکان منتظمین کو
287 پیش کریں.اور اپنی خدمات بھی اس موقعہ پر کام کرنے کے لئے پیش کریں.زیادہ سے زیادہ چار پانچ دن کی بات ہے.اتنے دن مہمانوں کے لئے اور مہمان بھی وہ جو حضرت مسیح موعود کے مہمان ہیں.تنگی اور تکلیف کے ساتھ گزارہ کر لیں.جگہ کی بات ایسی ہے کہ بڑی سے بڑی جگہ بھی تنگ ہو سکتی ہے اگر اس میں تھوڑے آدمی رکھے جائیں.اور چھوٹی سے چھوٹی جگہ وسیع ہو سکتی ہے اگر اس میں چند دن گزارہ کرنے کا خیال ہو.ریل ہی کو دیکھ لو دو دو تین تین دن تک ایک کمرہ میں کتنے آدمی گزارہ کرتے ہیں.حتی کہ سونے کا بھی وہاں موقعہ نہیں ملتا.لیکن باوجود اس کے وہاں انسان کو کوئی دقت اور تکلیف نہیں محسوس ہوتی.بلکہ خوشی کے ساتھ وہ وقت گزار لیتا ہے.جس کی یہی وجہ ہے کہ اس نے پہلے سے ہی فیصلہ کر لیا ہوتا ہے کہ ریل میں اگر بیٹھنے کی جگہ بھی مل جائے تو بڑی غنیمت ہے.وہ اپنے اس خیال اور فیصلہ کی وجہ سے سارے سفر میں خوش رہتا ہے کہ یہ سفر ہے اور اس میں گزارہ کرتا ہے.حالانکہ اس کے مقابل اگر ریل کا سا کمرہ کسی اور جگہ دیا جائے تو وہ کہے گا یہ کیا دربہ سا ہے.لیکن ریل کے کمرہ میں اگر ٹیک لگانے کی بھی جگہ مل جائے تو کہتا ہے کہ اس دفعہ کا سفر آرام سے کٹا ہے.حالانکہ وہ تنگ جگہ میں کئی دن رہا ہے.تو یہ باتیں نسبتی ہوتی ہیں.نسبت کے ساتھ آرام میں تکلیف محسوس ہوتی ہے اور تکلیف میں آرام معلوم ہوتا ہے.پس خیالات کا بڑا اثر ہوتا ہے.خیال سے ہی ایک چیز تکلیف دہ ہو جاتی ہے.اور خیال سے وہی چیز آرام دہ ہو جاتی ہے.یہی خیال جلسہ کے دنوں میں احباب کو رکھنا چاہئے.وہ چند دن کے لئے یہی تصور کر لیں کہ وہ ریل کے کمرہ میں بیٹھے ہیں اور گزارہ کرنا ہے.جس وقت اس کے دل میں یہ خیال گڑ جائے گا بلکہ نمرہ ہی کہے گا اس وقت ہی اس کو کوئی تکلیف تکلیف نہیں محسوس ہو گی.بلکہ اس کے دل میں وسعت پیدا ہو جائے گی اور ہر بات میں اسے آرام اور خوشی محسوس ہو گی.پس جہاں تک ہو سکے.مہمانوں کی خاطر جو اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں اور اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے گھروں کو اپنے آراموں کو چھوڑنے والے ہیں.اپنے گھروں کو وسیع کر دو اینٹوں کے ساتھ نہیں بلکہ دلوں کے ساتھ.مکان صرف اینٹوں ہی کے ساتھ وسیع نہیں ہوتے بلکہ دلوں کی وسعت کے ساتھ وسیع ہوتے ہیں.دل اگر تنگ ہو تو کھلے سے کھلا مکان تنگ ہو جائے گا.اور دل اگر وسیع ہو تو تنگ مکان بھی وسیع معلوم ہو گا تو اپنے مکانوں کو کھلا کر دو اور دل کے کھلا کرنے کے ساتھ کھلے کرو.دنیا کا تمام کارخانہ تعاون کے ساتھ چل رہا ہے.اگر تعاون نہ ہو تو تمام کارخانہ بگڑ جاتا ہے.اور تعاون کا بہترین ذریعہ آپس کے تعلقات ہیں.جو جلسہ کی تقریب پر بھی پیدا ہوتے ہیں.
288 جلسہ کے فوائد میں سے بہت بڑا فائدہ تعلقات کا پیدا ہوتا ہے.ان کے ذریعہ سے تعاون اور ترقی کی صورتیں پیدا ہو جاتی ہیں.گویا سال بھر کے لئے ترقی کا راستہ کھل جاتا ہے.جلسہ کی وجہ سے ہر سال نئے آدمیوں سے واقفیت ہوتی ہے.اور تعلقات قائم ہوتے ہیں اور اس طرح سلسلہ کی ترقی کے لئے وہ مدد اور سہولتیں میسر ہو جاتی ہیں.جو اس کے بغیر بہت سے خرچ کرنے سے بھی میسر نہیں ہو سکتیں.لوگ تو تعلقات قائم کرنے کے لئے خود سفر کرتے اور دوسروں کے پاس پہنچتے ہیں.لیکن یہاں تو اللہ تعالیٰ خود ہمارے گھر پر لوگوں کو کھینچ کھینچ کر لاتا ہے.اور بیٹھے بٹھائے ہمیں دوستوں کے حالات سے واقفیت بہم پہنچتی ہے.اور تعلقات کے ذریعے ہمارے لئے کام کرنے کے رستے کھل جاتے ہیں اور کاموں میں سہولتیں پیدا ہو جاتی ہیں.تو اس خیال سے بھی دوست کوشش اور ہمت کے ساتھ مہمانوں کے لئے اپنی جگہیں پیش کریں اور یہ نہ ہو کہ جو کمرہ ضرورت اور استعمال سے زیادہ ہو وہ دیدیں بلکہ اس خیال سے کہ کم از کم ان کے لئے کتنی جگہ باقی رہ جاتی ہے اور زیادہ سے زیادہ کتنی جگہ مہمان کے لئے خالی ہو سکتی ہے.یہ نہ خیال کریں کہ کم از کم کتنا حصہ دے سکتے ہیں.بلکہ یہ خیال رکھیں کہ زیادہ سے زیادہ کتنا حصہ دے سکتے ہیں اور اپنے حصہ میں تھوڑی سے تھوڑی کتنی جگہ رکھ سکتے ہیں.اگر اس خیال اور اس روح کے ساتھ دوست کام کریں گے تو کوئی تنگی نہیں رہے گی اور تمام گھروں میں کافی گنجائش نکل سکتی ہے.اس صورت میں ہر سال زیادہ سے زیادہ آنے والے مہمان سما سکتے ہیں.دوسری ضرورت کارکنوں کی ہے.بے شک ہر سال بہت سے احباب اپنی خدمات پیش کرتے ہیں لیکن باوجود اس کے کچھ لوگ رہ جاتے ہیں اس لئے دفاتر اور دکانداروں کے سوا باقی تمام احباب کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس موقعہ پر جلسہ کے کاموں میں بھی حصہ لیں اور ابھی سے اپنے آپ کو پیش کریں.ہاں وہ اس خدمت کو کسی انسان کی خدمت نہ سمجھیں بلکہ دین کی خدمت سمجھیں.کیونکہ ہمارا جلسہ کوئی دنیوی تقریب کا جلسہ نہیں کوئی میلہ یا کانفرنس نہیں بلکہ یہ اللہ تعالٰی کی طرف سے حضرت مسیح موعود کے ذریعہ انتظام کیا گیا ہے کہ سال میں چند دن ایسے رکھے جائیں.کہ جن میں روحانیت کے علوم اور معرفت کے نکات کو ایسے طور پر قائم کیا جائے کہ وہ کبھی مفقود نہ ہوں.جب کہ تمام لوگ اپنا سارا مال اور ساری دولت اپنے آرام و آسائش اور دنیاوی ضروریات کے لئے خرچ کرتے اور سارا وقت اس پر صرف کرتے ہیں وہاں ہماری جماعت کے لوگ کم از کم کچھ دنوں کو دین کے لئے وقف کرتے اور سارا وقت اس پر صرف کرتے ہیں.اور تکلیفیں برداشت
289 کرتے ہیں.اور روپیہ خرچ کرتے ہیں.قادیان کے رہنے والے اصحاب کو تو بہت سے مواقع ان نکات کے سننے اور فائدہ اٹھانے کے ملتے ہیں اور ہمیشہ وہ کچھ نہ کچھ سنتے رہتے ہیں.لیکن باہر سے آنے والے دوستوں کو اس قدر وقت نہیں ملتا.اس لئے ان کے لئے یہ سنہری موقعہ ہوتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے دین کے لئے چند روزہ وقف کر کے اور تکلیف اٹھا کر یہاں تبلیغ و اشاعت کے لئے معلومات حاصل کریں اور معرفت و روحانیت کی ترقی کے سامان معلوم کریں.اس لئے ان دنوں میں قادیان کے دوستوں کا خدمت کرنا در حقیقت دین کی اشاعت اور تبلیغ کرتا ہے.وہ لوگ جو روٹی پکاتے ہیں اور وہ جو روٹی کھلاتے ہیں اور وہ لوگ جو لائینیں جلاتے ہیں اور وہ جو پانی پلاتے ہیں.غرض جو کام بھی مہمانوں کے لئے کرتے ہیں.وہ در حقیقت تبلیغ کر رہے ہیں یا تبلیغ میں مدد دے رہے ہوتے ہیں.یہ مت خیال کرو کہ تم مہمانوں کے لئے روٹی لا رہے ہو اور روٹی کھلا رہے ہو یا روٹی کے لئے انتظام کر رہے ہو یا ان کے سامانوں کی حفاظت کر رہے ہوں بلکہ جلسہ پر تمہارا ہر ایک کام جو مہمانوں کی خاطر ہے وہ دین کی خدمت ہے.وہ تعلیم ہے وہ تدریس ہے.ہر شخص جو روٹی لے جاتا اور کھانا کھلاتا اور مہمان کی خاطر و تواضع میں یا اس کے سامان کی حفاظت میں مشغول ہے.وہ در حقیقت ان لکچروں میں حصہ دار ہے.کیونکہ جو لوگ جلسہ گاہ میں بیٹھے لکچر سن رہے ہیں.وہ ان ہی کی خدمت اور انہیں کی محنت کا نتیجہ ہے.اس لئے جس طرح وہ شخص خدا تعالٰی کے فضلوں کا وارث ہے کہ جو خدا کی راہ میں کام کر رہا ہے اور تبلیغ میں حصہ لے رہا ہے.اسی طرح یہ شخص بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث ہو گا.پس یہ خدمت کوئی دنیوی خدمت نہیں بلکہ دینی خدمت ہے.جس کے اجر کا ہم اندازہ نہیں کر سکتے.معمولی مهمان نوازی کا اتنا بڑا اجر ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو ضائع نہیں کرتا تو ان مہمانوں کی خدمت کے اجر کا ہم کہاں اندازہ لگا سکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے مہمان ہوں.دیکھو حضرت نبی کریم کو جب پہلے پہل الہام ہوا تو آپ کو خیال ہوا کہ شائد میں ابتلا میں ڈالا گیا ہوں.تو اس وقت آپ کے اس خیال کو دور کرنے کے لئے اور تسلی دلانے کے لئے حضرت بی بی خدیجہ نے جو باتیں عرض کیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی.کہ آپ تو مہمان نوازی کرتے ہیں آپ کیونکر ضائع ہو سکتے ہیں.اے مہمان کی خدمت کرنے والے کو کب ٹھوکر میں ڈالا گیا کہ آپ ابتلا میں ڈالے جائیں گے.اللہ تعالی کبھی مہمان کی خدمت کرنے والے کو ٹھوکر میں نہیں
290 ڈالتا.پس جب خالی کسی کو کھانا کھلانا اتنا بڑا کام ہے کہ اس کے اجر میں انسان کو غیر متزلزل ایمان حاصل ہوتا ہے.اس کے ایمان کو تزلزل میں ڈالنے والے واقعات نہیں پیش آتے.تو ہ وہ کھانا کھلانا جو اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے اس کے دین کی اشاعت کے لئے ہو کتنے بڑے اجروں اور فضلوں کا موجب ہو سکتا ہے.اس لئے ایسی خدمات کو معمولی خدمت مت سمجھو بلکہ اس کو دین کی خدمت سمجھو تاکہ تم عمدگی اور اخلاص کے ساتھ کام کر سکو.مگر اس کے ساتھ کچھ ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں مثلاً صبر و تحمل ، محنت اور چستی ہو.کیونکہ بعض وقت ذرہ کی بے پروائی کے نتیجہ میں دوسرے کے ایمان کو ٹھوکر لگ جاتی ہے.تمہاری آنکھوں پر ، تمہاری زبان پر ، تمہاری تمام حرکات و سکنات پر قابو ہو اور چستی اور عقل کے ساتھ کام کرو.جب تک اس رنگ میں خدمت کے لئے تیار نہ ہو گے.تب تک خدمت مفید نہیں ہو سکتی.کیونکہ ہو سکتا ہے کہ تم خدمت تو کرو لیکن زبان پر قابو نہ ہونے کی وجہ سے تمہارے منہ سے ایسا کلمہ نکل جائے جو دوسرے کی شان کے خلاف ہو.اور گستاخی میں تمہارا ایمان ضائع ہو جائے یا تمہاری خدمت ہی ضائع چلی جائے.یا ہو سکتا ہے کہ کوئی ایسی حرکت تم سے سرزد ہو جو دوسرے کے ایمان کے لئے ٹھوکر کی موجب ہو.اس میں بھی تم اس کی ٹھوکر کا موجب بنے.اس لئے محبت اور نرمی محنت اور چستی کے ساتھ کام کر کے اپنے عمل سے یہ ثابت کر دو کہ قادیان کی رہائش اپنے اندر کس قدر مفید سبق رکھتی ہے اور کیا تغیر پیدا کر دیتی ہے.یہ کہنا بہت بڑی غلطی ہے کہ قادیان صرف ہسپتال ہے قادیان صرف ہسپتال ہی نہیں بلکہ وہ مدرسہ ہے معلمین کا.بھلا یہ بھی کبھی ہو سکتا ہے کہ ہسپتال میں کبھی مریض اچھے ہی نہ ہوں.کیا وہ ہسپتال بھی ہسپتال کہلانے کا مستحق ہو سکتا ہے.جو ۳۳ سال سے چلا آتا ہو اور اس میں کبھی کوئی مریض تندرست نہ ہوا ہو.اس میں ۳۳ سال سے مریض برابر چلے جاتے ہوں پھر اتنے لمبے عرصہ میں وہ تندرست نہ ہوئے ہوں.یہ تعریف نہیں یہ مذمت ہے.بلکہ گالی ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ قادیان ہسپتال بھی ہے.اور اس میں بعض نئے لوگ مریض کی طرح آتے ہیں وہ ایسی غلطیاں کر بیٹھتے ہیں جو دوسروں کی ٹھوکر کا موجب ہوں.اور بعض ایسے مریض بھی آجاتے ہیں جو کبھی تندرست نہیں ہوتے.لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ یہ صرف ہسپتال ہے اور ہسپتال بھی ایسا کہ جس میں ہمیش مریض ہی رہتے ہیں کبھی کوئی تندرست ہو کر نہیں نکلا.بلکہ یہ تعلیم گاہ ہے مدرسہ ہے روحانیت کا.کیا یہ تسلیم ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے ایسی صورت میں بھی اب تک اس
291 ہسپتال کو قائم رکھا ہوا ہے.ایسی بات یا تو بیوقوف کہہ سکتا ہے یا پھر منافق دشمن کہہ سکتا ہے جس کی غرض مخفی حملہ کرنا ہے.قادیان روحانی معلمین کی تعلیم گاہ ہے.بے شک یہ ہسپتال بھی ہے.جس میں کئی لوگ مایوس ہو کر آتے ہیں اور یہاں آکر بھی فائدہ نہیں اٹھاتے.مگر یہ خالی ہسپتال نہیں بلکہ یہ دینی مدرسہ بھی ہے جہاں سے بہت لوگ روحانی اور دینی تعلیم حاصل کر کے نکلتے ہیں.اور دوسروں کے لئے وہ نمونہ ہوتے ہیں.استاد اور رہنما ہوتے ہیں.ہاں بشری غلطیاں بھی ان سے سرزد ہوتی ہیں.اور ایسی غلطیوں سے تو خدا کے نبی بھی نہیں بچ سکتے.سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی ہستی غلطی سے پاک نہیں.ایسے لوگ ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ اگر ہم ہوتے تو یوں کرتے اور یہ لوگ تو یہاں تک بھی کہتے ہیں کہ اگر ہم محمد رسول اللہ اللہ کی جگہ فلاں مقام پر ہوتے تو ہم یوں کرتے.دیکھو محمد رسول اللہ ا نے فلاں سیاسی غلطی کی اگر میں اس وقت ہوتا تو ایسا کرتا.لیکن ہمارا سوال تو یہ ہے کہ تمہیں کس نے مجبور کیا تھا کہ تم اس وقت نہ ہوتے.کس نے تمہارے پاس درخواست کی کہ تم اس وقت موجود نہ ہوتے ہمارا گلہ تو یہی ہے کہ تم ہوتے تو نہیں اور کہتے یہ ہو کہ اگر ہم اس وقت ہوتے تو یوں کرتے.پس ہمارا شکوہ تو تمہارے اگر " پر ہے.تم اگر ان سے بہتر نمونہ پیدا کر کے یا بہتر تربیت کر کے دکھاتے تو ہم تمہارے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ جاتے اور درخواست کرتے کہ ہمیں سکھاؤ اور ہماری تربیت کرو.لیکن تم تو بد قسمتی سے ہمیشہ یہی کہتے ہو کہ اگر ہم ہوتے.تو تم خود تو ہمیشہ اگر ہوتے میں ہی رہے اور جو کام کرنے والے ہیں ان پر یوں اعتراض کرتے رہے.اس سے لازما " یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تم صرف چڑانے کے لئے کہتے ہو.حق یہی ہے کہ قادیان ہسپتال کی طرح روحانیت کی درسگاہ بھی ہے.اور ایسا اعلیٰ درجہ کا روحانی اور اخلاقی مدرسہ ہے کہ جو اپنی نظیر نہیں رکھتا.پس تمام دوست اپنے اخلاق اور عمدہ چال چلن اور اعلیٰ درجہ کے نیک نمونہ کے ساتھ اور اپنے عمل کے ساتھ ثابت کر دیں کہ واقعہ میں یہ جگہ ایسی تربیت گاہ ہے کہ اس کی نظیر دنیا میں کہیں نہیں پائی جاتی.میں تو حیران ہوتا ہوں اس نا بینائی پر کہ کس طرح وہ یہ دیکھتے ہوئے اعتراض کرتے ہیں کہ وہ بچے جو نوکروں سے کام کرانے کے عادی ہوتے ہیں.اور گھر میں کبھی کام کو ہاتھ تک نہیں لگاتے وہ دن رات جلسہ کے دنوں میں مہمانوں کی خدمت میں حاضر رہتے ہیں.معمولی معمولی مہمانوں کے لئے کھانا لاتے اور ان کے سامنے رکھتے ہیں اور ان کے برتن صاف کرتے ہیں.کیا اس قسم کی مثال دنیا کے کسی حصہ میں پائی جاتی ہے.اگر پائی بھی جاتی ہو تو پھر وہاں یہ محبت اور یہ اخلاص نہیں ہو
292 سکتا.وہاں تو شہرت اور عزت کی خواہش ہوتی ہے.اور یہاں یہ حالت ہے کہ ہمارے کام بھی برے دکھائی دیتے ہیں.ہماری ان خدمات کی کون قدر کرتا ہے.پس اگر مثالیں میں بھی تو وہ ناقص ہوتی.کیوں کہ ان خدمات میں عزت اور شہرت ہوتی ہے اور یہاں اچھی چیز بھی بری معلوم ہوتی ہے.اور ان کو برا سمجھنے والا ایسا ہی ہے جیسے کسی کا جگر خراب ہو اور وہ کھانے پر اعتراض کرے کہ اس کا ہیں.ذائقہ کڑوا ہے.اور وہ یہ نہیں سمجھتا کہ اس کی زبان میں کڑواہٹ ہے.پس قادیان میں نمونے موجود ہیں.خدمات کے لئے ایثار و قربانیوں کی مثالیں موجود ہیں.لیکن باوجود اس کے بعض لوگ ان قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے.لیکن بہت سے ایسے بھی ہیں جو نہ صرف قدر کرتے ہیں.بلکہ رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.آخر میں میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی پچھلے سالوں سے بہتر نمونہ دکھانے کی توفیق بخشے اور پہلے سے بڑھ کر اخلاص اور محبت کے ساتھ قربانی اور خدمت دین کی توفیق بخشے.(الفضل ۱۴ دسمبر ۱۹۴۶) ا بخاری باب كيف كان بدء الوحي الى رسول الله الله
293 33 روحانی علوم اپنے اندر جذب کر کے دنیا میں پھیلائیں تشهد (فرموده ۱۰ دسمبر ۱۹۲۶ء) تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ تمام کارخانہ اجسام اور روح پر چل رہا ہے.اور روح و جسم کا آپس میں ایسا تعلق ہے کہ نہ روح بغیر جسم کے پائی جاتی ہے اور نہ جسم بغیر روح کے پایا جاتا ہے.ہر جسم کے لئے روح ہے اور ہر روح کے لئے جسم ہے.روح بغیر جسم کے کچھ کام نہیں کر سکتی.روح کے تمام افعال اور خواص جسم کے ذریعہ سے ہی ظاہر ہوتے ہیں.دنیا میں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آتی جو بغیر روح اور جسم کے ہو.ہر چیز کے لئے اس جوڑے کا ہونا ضروری ہے.کیونکہ بغیر اس جوڑے کے وہ اپنے اثرات نہیں ظاہر کر سکتی بہر حال وہ کسی نہ کسی ظرف میں ہو گی.صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہی وحدت ہے اس کے سوا جہاں تک ہماری نظر کام کرتی ہے ہر چیز میں یہی سلسلہ نظر آتا ہے کہ اس کے لئے ایک جسم اور ظرف ضرور ہوتا ہے.جس کے ذریعہ سے اس کے افعال کا اظہار ہوتا ہے.یہاں تک کہ لطیف سے لطیف چیزوں میں بھی ہمیں یہی سلسلہ نظر آتا ہے مثلاً معانی دنیا میں لطیف چیز ہیں وہ بھی الفاظ کی صورت میں آکر ظاہر ہوتے ہیں اور نتائج پیدا کرتے ہیں.پس جب ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں کوئی چیز بغیر جسم کے نہیں پائی جاتی.ہر چیز کے لئے جسم ضرور ہوتا ہے جس کے ذریعہ وہ اپنے افعال ظاہر کرتی ہے.حتی کہ لطیف سے لطیف چیزیں بھی کسی جسم اور کسی ظرف کے ذریعہ ہی ظاہر ہوتی ہیں تو اسی طرح صداقت بھی بغیر ظرف کے ظاہر نہیں ہوا کرتی.اور بغیر ظرف کے نہیں پائی جاتی.حالانکہ صداقت ایک ایسی چیز ہے جو ہمیشہ سے چلی آتی ہے اور ہمیشہ چلی جائے گی.کیونکہ وہ خدا تعالیٰ سے نکلی ہے.اور خدا تعالیٰ اس کا منبع ہے.حتی کہ
294 خود اللہ تعالیٰ کی ذات بھی ایک صداقت ہے.چنانچہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ کی باقی صفات فاصلیت کا رنگ اپنے اندر رکھتی ہیں.اور فاعل کے معنی دیتی ہیں.مثلاً وہ رحمان ہے.یعنی رحم کرنے والا لیکن صداقت فاعل کے معنوں میں نہیں بولی گئی.کیونکہ خدا تعالیٰ کے متعلق آتا ہے.الحق.کہ وہ.ایک صداقت ہے.وہ حق ہے.جو ازلی ابدی ہے.لیکن اللہ تعالٰی بھی باوجود اس کے کہ ایک صداقت ہے جو ازلی ابدی ہے.ہمیشہ اپنی صفات بندوں کے ذریعہ ہی ظاہر فرماتا ہے.اپنے بندوں پر علوم کھولتا ہے.اور اپنی تجلیات ظاہر کرتا ہے.اور اس کے ذریعہ ہی اپنی ہستی کا ثبوت دیتا ہے.اور جس طرح وہ اپنی باقی صفات بندوں کے ذریعہ ظاہر فرماتا ہے.اسی طرح وہ اپنا کلام بھی بندوں کے دلوں اور دماغوں میں نازل کرتا اور اپنا کلام پاک قلوب میں الہام کرتا ہے.پھر آگے ان کے ذریعہ وہ کلام دنیا میں ظاہر ہوتا اور نتائج پیدا کرتا ہے.میرا اپنا یہی عقیدہ اور یہی مذہب ہے کہ اللہ تعالی کا کلام ہمیشہ سے جاری چلا آتا ہے اور جاری رہے گا.اور اس کے کلام کے ظروف بھی ہمیشہ پائے جاتے ہیں اور ہمیشہ پائے جائیں گے.اور وہ ظروف اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور اولیاء و صلحاء ہیں.جس طرح ہر زمانہ میں اس کی صفات کا ظہور ہوتا ہے.اور مختلف چیزوں کے ذریعہ اس کی صفات ظاہر ہوتی ہیں.مثلاً اس کا علم ہے.اس کی ہر زمانہ میں تجلیات مختلف رنگوں میں دیکھنے میں آتی ہیں.اس زمانہ میں بھی جس قدر ایجادات ہو رہی ہیں وہ سب در حقیقت اس کے علم کا ظہور ہیں.اس کے علم کا نتیجہ ہیں اس کے علوم نے دماغوں پر اپنا عکس ڈالا تب یہ ایجادیں نکلیں.اسی طرح اس کا کلام بھی ہر زمانہ میں دلوں پر نازل ہوتا ہے اور ان کے ذریعہ اس کے کلام کا ظہور ہوتا ہے.ہاں ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ اس کے کلام کے حصول کے لئے قابلیت اور استعداد پیدا کی جائے.جیسی تار کے وصول کرنے اور اسے سننے کے لئے اہمیت کی ضرورت ہے.تار گھر تو موجود ہے.لیکن اگر تار کو سننے والا اور حاصل کرنے والا نہ ہو تو کس طرح اس سے فائدہ حاصل ہو گا.اس کے سننے کے لئے تو قابلیت کی ضرورت ہے.جب تک وہ قابلیت اپنے اندر پیدا نہ کی جائے تب تک اس سے فائدہ نہیں حاصل ہوتا.اسی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے تو تار کا سلسلہ برابر جاری ہے.اس کا کلام ہر زمانہ میں نازل ہو سکتا ہے.لیکن اس کے سننے کے لئے اور اس کا حامل بننے کے لئے بھی تو پہلے قابلیت اور استعداد پیدا کرنے کی ضرورت ہے.خدا تعالیٰ کی طرف سے تو
295 کلام کا فیضان جاری ہے اور علوم کا سلسلہ چلا آتا ہے.لیکن اگر ہم میں اس کے لئے قابلیت نہیں ہو گی تو ہم اس سے کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتے.چنانچہ خدا تعالیٰ کے کلام کو جذب کرنے کے لئے حضرت نبی کریم ﷺ نے بھی مثال کے رنگ میں لوگوں کی تین اقسام بیان کی ہیں.ایک تو وہ لوگ ہیں جو اس زمین کی طرح ہیں کہ جو نہ تو پانی کو اپنے اندر جذب ہی کرتی ہے اور نہ ہی جمع رکھتی ہے.اور ایک اس زمین کی طرح ہیں جو پانی کو اپنے اندر جذب تو کرتی ہے لیکن جمع نہیں رکھتی اور دوسروں کے لئے مفید نہیں.اور بعض اس زمین کی طرح ہیں جو اپنے اندر جذب بھی کرتی ہے اور اتنا پانی جمع بھی رکھتی ہے کہ جس سے لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں.تو تین قسم کے لوگ دنیا میں پائے جاتے ہیں.ایک وہ ہیں جو نہ تو خدا تعالیٰ کے کلام اور علم کو جو پانی کی مثال ہے اپنے اندر لیتے ہیں.اور نہ اپنے اندر اسے جمع رکھتے ہیں.یعنی نہ تو خود اس کلام سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور نہ دوسروں کو فائدہ پہنچاتے ہیں.اور ایک وہ لوگ ہیں کہ جو اپنے اندر اس کلام کو تو جذب کرتے ہیں.اور خود اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں خود ترقی حاصل کرتے ہیں.لیکن دوسروں کو فائدہ نہیں پہنچاتے پس اس مثال سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تین مدارج کے لوگ پائے جاتے ہیں.اور جتنی جتنی کوئی قابلیت اپنے اندر پیدا کرے گا اتنا ہی وہ کلام اور علم سے فائدہ اٹھائے گا اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچا سکے گا.پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس قسم کی قابلیت پیدا کریں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے کلام اور اس کے علوم کو اپنے اندر جذب کریں.اور پھر ان کو دنیا میں پھیلائیں.کیونکہ حقیقی اور ابدی زندگی خدا کے کلام سے ہی حاصل ہوتی ہے.اس لئے حضرت مسیح بھی فرماتے ہیں کہ انسان طعام سے زندہ نہیں بلکہ خدا کے کلام سے زندہ رہتا ہے.جس کا یہی مطلب ہے کہ در حقیقت اللہ تعالیٰ کا کلام ہی زندگی بخش اور اس کے ہی علوم کام آتے ہیں.لیکن جس طرح پانی کے لئے مصفی اور اعلیٰ ظرف کا ہونا ضروری ہے.اسی طرح خدا کے کلام کے لئے بھی جس کو پانی سے تشبیہ دی گئی ہے.عمدہ اور صاف ظرف کا یعنی اعلیٰ قابلیت کا ہونا ضروری ہے.اور وہ ظرف وقت کے مامور اور نبی کی تعلیم پر چلنے سے ہی مصفی اور عمدہ ہو اسی لئے مامور کی تعلیم سے استفادہ کی بہت بڑی ضرورت ہے.پس کیوں نہیں تم اپنے ظروف کو اعلیٰ اور وسیع بناتے.کیا پانی بغیر ظرف کے کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے اور کسی استعمال میں آسکتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ کے کلام اور مامور کی تعلیم سے استفادہ بغیر اس کی تعلیم پر چلنے اور اپنے اندر عمدہ قابلیت
296 پیدا کرنے کے کیونکر حاصل ہو سکتا ہے.کہا جاتا ہے کہ اسلام کی تعلیم بہت اعلیٰ اور مکمل ہے.حضرت مسیح موعود کی تعلیم اعلیٰ ہے.بے شک یہ صحیح ہے.لیکن اس کے اعلیٰ اور بہترین ہونے سے تمہیں کیا فائدہ؟ جب تک کہ تم خود اس پر عمل نہیں کرو اور اس کے علوم کو اپنے اندر جذب کر کے انہیں دنیا میں نہ پھیلاؤ.چشمہ تو اس کے لئے اچھا اور مفید ہے کہ جس نے اس سے پانی پیا.لیکن جو شخص اس چشمہ سے پانی نہیں پیتا اس کو اس سے کیا فائدہ؟ اس کے صرف یہ کہنے سے کہ چشمہ بہت اچھا ہے ہلاکت سے نہیں بچا سکتا.وہ ہلاکت سے تب ہی بیچ سکتا ہے کہ اس چشمہ سے پانی پئے بے شک چشمہ تو بہت اچھا اور مفید ہے لیکن اس شخص کے لئے مفید ہو سکتا ہے جو اس سے سیراب ہو.وہ صرف اس چشمہ کی تعریف کرنے سے خواہ کس قدر بھی تعریف کرے موت سے نہیں بچ سکتا.اور نہ اس کی پیاس بجھ سکتی ہے جب تک کہ وہ اس کا پانی نہ پئے.بے شک اتنی نیکی تو اس کی ہے کہ اس نے لوگوں کی اس چشمہ کی طرف رہنمائی کی.لیکن خود تو پیاس کی شدت اور ہلاکت سے نہیں بچ سکتا جب تک کہ وہ خود بھی اس پانی کو نہ پی لے.جب نجات کے لئے خود بھی چشمہ سے پانی پینا ضروری ہے تو ہماری جماعت کے لوگ بھی کبھی نجات کی امید نہیں رکھ سکتے جب تک حضرت مسیح موعود کے چشمہ سے خود بھی پانی نہ پیئں گے.ان کی تعلیم پر اپنے آپ کو نہ چلائیں گے.اور اس تعلیم کے اخذ کے لئے اپنے دماغوں کے ظروف کو اعلیٰ نہ بنائیں گے پس ہماری جماعت کے دوستوں کے لئے ضروری ہے کہ اپنے ظروف کو اعلیٰ اور مصفی بنائیں.اور اپنے اندر وہ قابلیت پیدا کریں کہ جس سے نہ صرف ان کے اندر پانی جذب ہو بلکہ اتنا پانی جمع ہو کہ دوسروں کو بھی پلائیں.حضرت مسیح موعود کی تعلیم پر اپنے آپ کو ایسا چلاؤ کہ تمہاری ہستیوں پر پورا پورا انقلاب آجائے.آخر میں دعا کرتا ہوں.کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم پر پورے طور پر چلنے کی توفیق بخشے.اور ہمیں اس کو اپنے اندر لینے کے لئے اور اس کو دنیا تک پہنچانے کے لئے اعلیٰ درجہ کی قابلیتیں عطا کرے.اور ہمیں دنیا کے لئے نمونہ اور رہنما بنائے.آمین الفضل (۲ دسمبر ۱۹۲۶ء) ام بخاری کتاب العلم باب فضل من علم و تعلم
297 34 دعامذہب کی روح ہے (فرموده ۷ او سمبر (۱۹۲۶ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : مذہب کی جان اور خلاصہ اور اس کی روح اگر کوئی چیز ہے.تو وہ صرف دعا ہے.ہر ایک مذہب جو خدا تعالیٰ کی طرف سے کبھی کسی زمانہ میں قائم ہوا اور ہر ایک وحی جو کسی زمانہ میں کسی گوشہ میں نازل ہوئی.اس میں دعا کی تعلیم دی گئی ہے اور خصوصیت سے اس پر زور دیا گیا ہے.اس زمانہ میں ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی گفتگو کو آپ کی تقریروں کو آپ کی تحریروں کو غرض آپ کے جس کام کو بھی ہم دیکھیں تو آپ مجسم دعا نظر آتے ہیں.ان کی تحریریں دعا ہیں.ان کا عمل دعا ہے.ان کا ہر ایک کام دعا ہے.اگر کوئی چیز ایسی دنیا میں ہے جو یقینی علاج ہے روحانی امراض کا اور تمام مشکلات کا تو وہ دعا ہے.پس اگر کسی مذہب اور کسی تعلیم سے دعا کو نکال ڈالیں تو وہ مردہ چیز ہے.کیونکہ زندگی تو زندہ شخص کے آثار سے اور اس کے کاموں سے نظر آتی ہے.کسی چیز میں محض خوبصورتی کا پایا جانا زندگی پر دلالت نہیں کرتا.زندگی تو کاموں سے نظر آتی ہے اور کوئی کام ایک زندہ چیز ہی دے سکتی ہے مردہ چیز تو خواہ کس قدر خوبصورت ہو کوئی کام نہیں دے سکتی.ایک مردہ ہمیں کیا کام دے سکتا ہے.اس کی خوبصورتی ہمارے لئے مفید نہیں ہو سکتی.اسی طرح اگر کوئی تعلیم خوبصورت بھی ہو لیکن اس میں دعا کی تعلیم نہ ہو تو وہ مردہ ہے.کیونکہ اس میں زندگی کے آثار نہیں.اس میں وہ چیز نہیں کہ جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی صفات ظاہر ہوتی ہیں.اور وہ صرف دعا ہے کہ جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے افعال ظاہر ہوتے ہیں.اس لئے ایک شخص خواہ کتنا ہی اعلیٰ درجہ کا لکچر دے لیکن
298 اگر اس کے ساتھ اس کی دعا کے نتیجہ میں اللہ تعالٰی کی تائید اور نصرت نہیں تو وہ لکچر کیا اثر رکھتا ہے.تو دعا کو نکال کر مذہب کا کچھ باقی نہیں رہ جاتا.اب دیکھو دنیا میں پہاڑ خوبصورت نظر آتے ہیں.دریاؤں کا نظارہ خوبصورت معلوم ہوتا ہے.سبزہ زاروں کا منظر بہت بھلا معلوم ہوتا ہے.لیکن ان میں انسان اپنی زندگی نہیں گزار سکتا.تھوڑی دیر کے لئے تفریح کے طور پر دریاؤں اور پہاڑوں کے بے نقص نظاروں اور سبزہ زاروں کو پسند کرے گا اور اپنا دل بہلا لے گا.لیکن ان میں زندگی نہیں گزار سکتا.زندگی گزارنے کے لئے پھر انہیں لوگوں میں جائے گا جو زندہ ہیں.وہ ان بے نقص اور بے عیب نظاروں کو چھوڑ کر عیب دار مگر زندہ انسانوں کے پاس ہی رہنا اور زندگی گزارنا پسند کرے گا کیونکہ انسانوں میں روح ہے.زندگی ہے.مگر دوسرے نظاروں میں زندگی نہیں گو وہ بے نقص ہیں.اور وہ چیز جو جاندار ہے خواہ وہ عیبوں اور نقائص سے ہی بھری ہوئی ہو بے جان چیز پر فضیلت رکھتی ہے.جب عیب دار جاندار کو ہم بے نقص غیر جاندار پر فضیلت دیتے ہیں.تو ذی روح چیز جو خوبصورت اور بے نقص بھی ہے.اس کو ہم غیر ذی روح چیز پر کیسے فضیلت دے سکتے ہیں.پس جب تک کہ کسی تعلیم میں اللہ تعالٰی کا فضل اور اس کا رحم زندہ طور پر ہمارے شامل حال نہ ہو اس وقت تک وہ تعلیم زندہ نہیں کہلا سکتی زندہ مذہب وہی ہے کہ جس میں سب سے زیادہ زور دعا پر ہو.اور جو لوگ دعا سے کام نہیں لیتے ان کی مثال ایسی ہی ہے کہ جیسے کوئی قبرستان میں بیٹھ جائے.کون ایسا شخص ہے جو زندوں کو چھوڑ کر مردوں میں چلا جائے.کیونکہ مردہ عمل کے زمانہ سے گزر گیا ہے.اور اس کی روح قبرستان میں نہیں وہ تو خدا کے پاس ہے.البتہ جسم قبرستان میں ہے.اور وہ بغیر روح کے کچھ فائدہ نہیں دے سکتا.جس چیز کی محبت کا ہمارے ساتھ تعلق ہے وہ تو زندہ چیز ہونی چاہئے اور مذہب میں سے زندہ چیز دعا ہے.انسان جب دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی صفات ظاہر ہوتی ہیں.اس کی نہاں در نہاں ہستی کو اپنے قریب پاتا ہے.اور جب اس کی طاقتیں ظاہر ہوتی ہیں.اس کا جلوہ نظر آتا ہے.تو اس وقت پتے پتے میں زندگی نظر آتی ہے.اور جب اللہ تعالیٰ بندے کی دعا سنتا ہے تو اس وقت انسان کو مردہ چیز میں بھی زندگی نظر آنے لگتی ہے.
299 حضرت مسیح علیہ السلام ایک دفعہ کہیں جا رہے تھے.تو راستہ میں ایک مردہ کتا پایا گیا.ان کے دوسرے ساتھیوں نے تو اس کی بدبو وغیرہ کا ذکر کیا لیکن حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمایا تم اس کی بری شکل کو تو دیکھتے ہو لیکن اس کے دانتوں کو نہیں دیکھتے کیسے سفید ہیں.تو جو لوگ دعائیں کرنے والے ہوتے ہیں ان کو عیب نہیں نظر آیا کرتے بلکہ ان کی نظر خوبیوں پر ہی پڑتی ہے.کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہیں اور جو لوگ خدا کو دیکھ لیتے ہیں وہ خود زندہ ہوتے ہیں.ان کو اس کی مخلوق میں عیب کم نظر آتے ہیں اور جتنے جتنے عیب کسی میں نظر آتے ہیں اتنے حصہ میں وہ خود مردہ ہوتے ہیں.نبیوں کو ہی دیکھ لو وہ مجسم خوبی ہوتے ہیں.اس لئے ان کو لوگوں میں عیب نہیں نظر آتے.وہ ہر چیز میں خوبی دیکھتے ہیں اس کی یہی وجہ ہے کہ وہ خود کامل زندہ ہوتے ہیں.لیکن ان کے مقابل عیب دار لوگوں کو ان میں خوبیاں نظر نہیں آتیں بلکہ نقص ہی نقص نظر آتے ہیں اس کی یہی وجہ ہے کہ وہ خود مردہ ہوتے ہیں.پس جس کو جتنے عیب کسی کے نظر آتے ہیں.اس کو سمجھنا چاہئے کہ اتنا ہی وہ مردہ ہے.میں نے حضرت مسیح موعود سے خود سنا آپ فرماتے تھے کہ اگر غور کر کے دیکھا جائے تو کافر بھی رحمت ہوتے ہیں.اگر ابو جہل نہ ہوتا تو اتنا قرآن کہاں اترتا.اگر سارے حضرت ابو بکڑ ہی ہوتے تو صرف لا الہ الا اللہ ہی نازل ہوتا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالٰی کے ہو جاتے ہیں.ان کو ہر چیز میں بھلائی نظر آتی ہے.ایک دفعہ لاہور میں ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو زور سے دھکا دیکر گرا دیا.دوسرے دوست ناراض ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ اس نے مجھے جھوٹا سمجھ کر دھکا دیا ہے.اگر وہ سچا سمجھتا تو کیوں ایسا کرتا.اس نے تو اپنے خیال میں نیک کام کیا ہے.اور حق کی حمایت کی ہے.اب دوسرا اگر ہوتا تو ڈنڈا لے کر پیچھے پڑ جاتا لیکن آپ ہیں کہ ایک مخالف کی ایسی حرکت کو بھی برا نہیں مانتے بلکہ دوسروں کو فرماتے ہیں کہ اس نے تو نیک خیال سے حق کی خاطر ایسا کیا ہے.اس کی یہی وجہ ہے کہ جو لوگ دعاؤں کے عادی ہوتے ہیں اور دعاؤں کے نتیجہ میں ان کو ہر چیز میں زندگی نظر آتی ہے.تو ان کو عیب نہیں نظر آتے بلکہ نیکیاں اور خوبیاں ہی نظر آتی ہیں.اسی وجہ سے بعض وقت ایسے لوگوں کو بے وقوف سمجھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ بیوقوفی کی وجہ سے لوگوں سے دھوکا کھا جاتے ہیں.حالانکہ اس کی وجہ بے وقوفی نہیں ہوتی بلکہ یہی
300 وجہ ہوتی ہے کہ ان کو زیادہ تر خوبیاں دکھائی دیتی ہیں.• چنانچہ ایک قصہ مشہور ہے کہ حضرت نظام الدین اولیاء کو بعض جگہ جلوہ الہی نظر آجاتا تھا اس لئے ایک دفعہ آپ نے رستہ میں جاتے ہوئے ایک خوبصورت لڑکے کو چوم لیا اس وجہ سے کہ اس میں آپ کو اللہ تعالٰی کا جلوہ نظر آیا.دوسرے مریدوں نے بھی اس کو چوم لیا.لیکن آپ کے ایک مرید نے جو بعد میں آپ کا خلیفہ ہوا نہ چوما تو دوسرے مرید اسے کہنے لگے کہ تم نے کیوں نہیں اسے چوما جب کہ اس کو پیر صاحب نے چوم لیا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ تم مرید نہیں ہو.تو انہوں نے کہا کہ تم کو اس میں خدا کا جلوہ نظر آیا ہو گا اس لئے تم نے چوم لیا مجھے نہیں نظر آیا تو میں کیونکر چومتا.آگے جا کر حضرت نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے آگ کو چوم لیا تو وہاں دوسرے مرید پیچھے ہٹ گئے لیکن اس مرید نے آگے بڑھ کر اسے چوما.اس نے کہا اب یہاں تمہیں کیوں نہیں جلوہ نظر آتا.اصل بات یہ ہے کہ جیسے جیسے انسان خدا کے قریب ہوتا جاتا ہے اتنا ہی اسے ہر چیز میں اللہ تعالیٰ کا جلوہ نظر آتا ہے.اور یہ بات دعا سے حاصل ہوتی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے واذا سألك عبادي عنی فانی قریب (البقرہ ۱۸۷) کہ دعا کرنے والے کے میں قریب ہو جاتا ہوں.پس اگر کوئی بات ہے کہ جس سے انسان اللہ تعالیٰ کے قریب ہو جاتا ہے تو وہ صرف دعا ہے.ہاں بعض لوگ نادانی سے اس کا غلط استعمال کر لیتے ہیں.بے شک ہر بات اللہ تعالی ہی پوری کرتا ہے اور دعاؤں کو وہی سنتا ہے.لیکن جو قانون اس نے باندھے ہوئے ہیں انہیں وہ یونہی نہیں توڑ تا مثلاً اس نے پیاس بجھانے کے لئے پانی دیا ہوا ہے تو اس کے محض دعا کرنے سے خود بخود ہی اس کے منہ میں نہیں آجائے گا اس کے حاصل کرنے کے لئے اس کو صحیح کوشش بھی کرنی پڑے گی.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہی دعا بتلائی ہے اور اللہ تعالی ہی نے کنویں بھی بنائے ہیں.تو ہمیں دعا کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس نے قانون بھی بنائے ہوئے ہیں.جن کے ماتحت ہمیں دعا کرنی ہے.اب مثلاً کوئی کہے کہ مانگو جو مجھ سے مانگنا چاہتے ہو تو اس کا یہی مطلب ہو گا کہ اس کے قانون کے ماتحت مانگو نہ کہ اس کے قانون کو توڑتے ہوئے مانگو.اور اللہ تعالیٰ کے قوانین وہ ہیں جو ہماری پیدائش سے بلکہ ہمارے آباؤ اجداد کی پیدائش سے بھی پہلے کے ہیں.دوسری بات مد نظر رکھنی چاہئے کہ ہر دعا کا قبول ہونا ضروری نہیں کیونکہ اصل غرض ہماری پیدائش کی یہ نہیں کہ ہمیں مکان مل جائے یا زمین مل جائے یا گھوڑا مل جائے بلکہ اصل غرض تو یہ ہے کہ ہمارے نفس پاک ہوں یہ چیزیں تو عارضی ہیں اور اصل غرض کو پورا کرنے کے لئے یعنی نفس
301 کے تزکیہ کے لئے مصائب و مشکلات کا آنا ضروری ہے.بعض وقت نفس مصائب اور مشکلات کے ذریعہ سے ہی پاک ہوتا ہے.مثلاً کہیں مال کا نقصان ہو جاتا ہے.کبھی عزت کا نقصان ہوتا ہے.کبھی اولاد مرجاتی ہے.اب ہر شخص بیٹے کے لئے دعا مانگتا ہے کہ زندہ رہے.اگر ہر شخص کی دعا اللہ تعالیٰ اسی طرح قبول کرے کہ اس کا بیٹا ہمیشہ زندہ رہے تو اس طرح تو کسی کا بیٹا بھی کبھی بھی نہیں مرے گا.اور دنیا سے اس کا قانون موت جو مقرر ہے اٹھ جائے گا.تو ایک تو اس کا قانون ٹوٹتا ہے.دوسرے انسان کے نفس کا تزکیہ نہیں ہوتا.تو مشکلات بھی کئی حکمتوں کے ماتحت آتی ہے.جب کوئی مصیبت اس کی غفلت کی وجہ سے آتی ہے تو اس کو اللہ تعالٰی اس کی دعا سے ٹلا دیتا ہے.لیکن وہ مصیبت جو خدا کی طرف سے اس کی حکمت کے ماتحت آتی ہے.اس کو اللہ تعالیٰ نہیں ٹلایا کرتا اور اگر ٹلاتا ہے تو اس وقت جب کہ اس کے ٹلانے کا موقعہ آتا ہے یا اس کا ٹلانا اس کے تقویٰ کے لئے زیادہ مفید ہو.دو صورتوں میں ابتلا آیا کرتے ہیں یا تو دل کا گند ظاہر کرنے کے لئے اور اس کی پاکیزگی کے لئے.یا اس کی پاکیزگی کو ظاہر کرنے اور اس کے لئے اپنی غیرت کا اظہار کرنے کے لئے.اور یہ صورت خاص لوگوں کے لئے ہے.مصیبت کے آنے کی ان دو اغراض میں سے ایک غرض ضرور ہوتی ہے.کیونکہ مصیبت میں جب انسان گھر جاتا ہے.تو اس کو پتہ لگ جاتا ہے کہ میرے اندر کس قدر کمزوری ہے یا کیا عیب ہے اور یا اسے اور بھی نیکی اور تقویٰ میں ترقی ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف زیادہ جھکتا ہے.پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہر دعا کا قبول ہونا ضروری نہیں اور نہ قبول ہو سکتی ہے.اب مثلاً دو شخص مقدمہ لڑ رہے ہیں اور بسا اوقات دونوں فریق اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہیں وہ دونوں ہی دعا کریں کہ اسے کامیابی حاصل ہو تو اب بتاؤ اللہ تعالیٰ کس کی بنے گا.یہ تو ہو نہیں سکتا کہ دونوں بچے ہوں ایک بہرحال حق پر ہو گا ایک ناحق پر.اب اللہ تعالیٰ تو اس کی دعا سنے گا جس کا حق زیادہ ہے اور دوسرے کی دعا کا قبول نہ کرنا ہی اس کے حق میں اچھا ہے.پھر دعا کے بغیر روحانیت بھی حاصل نہیں ہو سکتی اور نہ مذہب کی غرض پوری ہو سکتی ہے.دعا سوال بھی ہے اور عبادت بھی اگر قبول ہو جائے تو دعا ہے اگر قبول نہ ہو تو عبادت میں شمار ہو گی.اور چونکہ ہم ہر چیز کے محتاج ہیں اس لئے دعا کا قبول ہونا بھی چاہتے ہیں.لیکن حق یہی ہے کہ دعا قبول نہ ہونے والی قبول ہونے والی کی نسبت بہتر ہے.کیونکہ وہ عبادت میں شمار ہوگی اور خدا کی رضاء کی موجب ہو گی جو ہماری پیدائش کی اصل غرض ہے.اور عبادت بہرحال ہماری مسئول
302 چیزوں سے بہتر ہے.سوائے اس دعا کے جو اللہ تعالٰی کے قرب اور اس کی رضاء کے لئے ہو.پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ہمیشہ خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگا کریں.دعا تو وہ چیز ہے کہ جس میں اللہ تعالٰی نے مومن اور کافر میں بھی تمیز نہیں رکھی.جس طرح اس کا رزق سب کے لئے ہے اسی طرح اس کے حضور دعا بھی سب کے لئے ہے.ہاں مومن کی دعاوہ زیادہ سنتا ہے.جس طرح مومن اگر چاہے اور کوشش کرے تو دنیاوی عزت بھی مومن کو ہی زیادہ ملتی ہے جیسے صحابہ کو اللہ تعالٰی نے دنیوی عزت بھی عطا کی.نماز جمعہ کے بعد تین شخصوں کا جنازہ پڑھوں گا.ایک تو غیاث الدین احمد صاحب بنگال کے ہیں.جو سلسلہ میں بہت مخلص نوجوان تھے.ایف اے تک تعلیم رکھتے تھے.یہاں بھی انہوں نے دو سال دینی تعلیم حاصل کی.تبلیغ کے لئے بہت جوش رکھتے تھے.تھوڑا سا وقت حصول معاش میں دیگر باقی سب وقت تبلیغ میں خرچ کرتے تھے.دوسرے چوہدری نعمت خاں صاحب کی اہلیہ ہیں.جہاں وہ فوت ہوئیں.وہاں جماعت نہیں ہے.تیسرے صاحب سید حاکم شاہ صاحب ہیں.جو بہت پرانے اور مخلص احمدی تھے.الفضل ۲۴ دسمبر ۱۹۲۹ء)
303 35 خدائی انعام کی قدر قربانیوں سے ہوتی ہے فرموده ۲۴ دسمبر ۱۹۲۶ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : قرآن کریم کی سورتیں ایک دریا ہیں جس میں سے قسم قسم کے قیمتی لعل نکلتے ہیں اور ایک سمندر ہیں جس میں سے قسم قسم کے جواہر نکلتے ہیں.اس کلام کے کئی بطن ہیں اور ہر بطن اپنے اندر کئی معانی رکھتا ہے.یہ ایسا کلام ہے جس میں انسانی کلام کا ذرہ بھر دخل نہیں.ایک ہی آیت کئی کئی معنوں پر حاوی ہوتی ہے.اور صرف ایک ایک لفظ کے علیحدہ علیحدہ معانی نہیں بلکہ ساری کی ساری آئت کئی مطالب پر مشتمل ہوتی ہے.میں نے سورہ کوثر پر کئی دفعہ خطبہ پڑھا ہے.اور کئی معانی بیان کر چکا ہوں.آج میں اس کے ایک اور پہلو پر بیان کروں گا.اللہ تعالٰی فرماتا ہے: انا اعطیناک الکوثر یعنی ہم نے تجھے کو بہت بھلائی دی ہے.اللہ تعالیٰ مومنوں کو فرماتا ہے کہ ہم نے تم کو خیر کثیر دی ہے جس کی کوئی انتہا نہیں تم جس قدر چاہو اس میں سے بھلائی کی باتیں معلوم کر سکتے ہو.یہ ایسی تعلیم ہے کہ جس کی کوئی یہ نہیں اور جس کی کوئی حد بندی نہیں لیکن اس انعام کے ساتھ یہ بھی یاد رکھو کہ انعام سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے دو باتوں کی ضرورت ہوتی ہے.اول تو یہ کہ انسان منبع انعام کی قدر کرے اگر اس کی قدر نہ کی جائے تو وہ انعام چھین لیا جاتا ہے.یہ ایک قانون ہے جو نہ صرف جانداروں میں ہے بلکہ بے جان چیزوں میں بھی جاری ہے.صرف یہی نہیں کہ ایک عالم استاد کی طالب علم قدر نہ کرے اور اسے عزت سے نہ دیکھے تو طالب علم کو اس سے فائدہ نہیں پہنچے گا.بلکہ بے جان چیزوں میں بھی یہ قانون نظر آتا ہے.جب تک ان کی قدر نہ کی جائے اور ان کا صحیح استعمال نہ کیا جائے تب تک وہ فائدہ نہیں دیتیں.سب سے بے جان
304 چیز زمین ہے جس پر ہم چلتے اور پرورش پاتے ہیں.اس پر اپنی تمام زندگی گزارتے ہیں.اس سے اگر صحیح کام نہ لیں تو وہ بھی ہمارے لئے مفید نہیں ہو گی.اس سے ہم فوائد نہیں حاصل کر سکیں گے.یہی حال دوسری چیزوں کا ہے ایک بے جان ہستی کی قدر نہ کرو تو وہ فائدہ دینا چھوڑ دیگی مثلا زمیندار کو ہی لے لو.وہ زمین میں ہل چلاتا ہے.اگر وہ وقت پر اس کی قدر نہ کرے اور وقت پر کھاد نہ ڈالے اور.پانی نہ دے تو دو چار سال بعد پیداوار کا ملنا بند ہو جائے گا.وہی زمین جو اعلیٰ سے اعلیٰ فائدہ دیتی ہے وہی چند سال بعد ردی ہو جائے گی.پھر انسان کے اپنے اعضاء ہیں مثلاً ہاتھ ہی ہے اگر اس کا استعمال چھوڑ دیا جاوے تو وہ تھوڑے عرصہ کے بعد خشک ہو جائے گا.ہر چیز جس سے فائدہ ہوتا ہے اگر بے جان ہے تو وہ استعمال کے چھوڑ دینے سے ضائع ہو جائے گی اگر وہ جاندار ہے تو فائدہ روک لے گی.اللہ تعالیٰ کا بھی یہی حال ہے اسی نے یہ عام قاعدہ جاری کیا ہے جس کی اصل میں یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے لئے چاہتا ہے کہ اس کے انعامات کی قدر کی جائے اور اگر قدر نہ کی جائے تو وہ اپنے فیض کو روک لیتا ہے.تو اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو فرماتا ہے کہ جب میں نے تم پر اتنا بڑا انعام کیا ہے تمہیں کوثر عطا کیا ہے.تو پہلی بات یہ ہے فصل لریک کہ اپنے رب کا شکریہ ادا کرو.اس کے انعامات کی قدر کرو ایک معمولی شخص کے معمولی احسان پر جب شکریہ ادا کرنا ضروری ہے تو ہم نے تو تم کو وہ چیز دی ہے جو ہر ضرورت اور ہر زمانہ میں کام دیتی ہے.تمہارا پہلا فرض اس نعمت سے فائدہ اٹھانے کے لئے یہ ہے کہ تم زبانی اور عملی طور پر دونوں طریق سے اس کا شکریہ ادا کرو.کیونکہ قدر نہ کرنے سے وہ انعام روک لیا جاتا ہے.اور بغیر ان دونوں طریق کے شکریہ پورا نہیں ہو سکتک اگر انسان عملی طور اظهار شکریہ کرے تب بھی درست نہ ہو گا.اگر صرف زبانی طور پر کرے تب بھی شکریہ میں شامل نہ ہو گا.مثلاً ایک دوست کے تحفہ کا زبانی شکریہ نہ ادا کرے.اگرچہ اسے لے ہی لے تب بھی تحفہ دینے والے دوست کا دل خوش نہ ہوگا اگر صرف زبانی طور پر شکریہ ادا کرے اور اس کی عملاً قدر نہ کرے تب بھی اس کے دل میں ملال پیدا ہو گا.تو شکریہ دونوں طریق سے پورا ہوتا ہے.پھر انسان کی نعمتیں تو بعض وقت بغیر ضرورت کے بھی ہوتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی نعمتیں تو تمام وجود سے کامل ہوتی ہیں اور تمام ضروریات کو پورا کرتی ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب ہم نے تم کو ایسی نعمت دی ہے کہ جس کی کوئی انتہا ہی نہیں تو تمہارا فرض ہے کہ تم اس کی قدر کرو اس کا شکریہ ادا کرو اب وہ شکریہ دو طور سے ہو سکتا ہے.ایک تو زبان سے کہ اس کے انعامات کا زبان کے
305 ذریعہ اظہار کیا جائے.اور اس کو یاد کیا جائے.دوسرے اپنے عمل سے.عمل سے اس طرح کہ ان نعمتوں کو موقع کے مطابق کرو.جس بات کے لئے اس نے کوئی طاقت دی ہے اس کے لئے تم ان نعمتوں کو حاصل کرو اور ایسے طور پر ان کا استعمال کرو کہ جس سے اللہ تعالیٰ کی ہتک نہ ہو.کوئی نعمت کبھی مفید نہیں ہوا کرتی.جب تک اس کے لئے محنت نہ کی جائے.اور اسے مفید بنانے کے لئے کوشش نہ کی جائے.مثلا پلاؤ ہے.اس کو وہ شخص کیسے کھا سکے گا جس کا معدہ خراب ہے اس کے اندر ایک چاول جانا بھی اس کے لئے نقصان دہ ہو گا.اسی طرح ایک بڑے مکان میں وہ شخص کیسے رہ سکے گا جو وہمی ہے اور بڑے مکانوں کی رہائش سے ڈرتا ہے.اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ انعام کے صحیح استعمال کے لئے طاقتوں اور محنت کی بھی ضرورت ہے.نعمت سے فائدہ اٹھانے کے لئے قربانی کی ضرورت ہے مثلا کنواں تو پانی کا موجود ہے لیکن اس سے پانی نکالنے کے لئے بھی تو محنت کی ضرورت ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صرف یہی ضروری نہیں کہ تم عمل اور زبان سے شکریہ ادا کرو بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ تم ہر قسم کی قربانیاں بھی کرو.اپنے آپ کو تم اسی طرح ذبح کر دو جس طرح اونٹ ذبح کیا جاتا ہے تب تم اللہ تعالیٰ کے دوسرے انعامات کے بھی وارث ہو گے.دیکھو اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود پر جو معارف کھولے گئے اس کی یہی وجہ ہے کہ انہوں نے قربانیاں کیں.پس تم بھی کامل طور پر اللہ تعالیٰ کے انعامات سے تبھی فائدہ اٹھاؤ گے جب تم اپنے آپ کو پورے طور پر اونٹ کی طرح ذبح کر دو گے.کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وانحر اور نحر اونٹ کے ذبح کرنے کو کہتے ہیں خدا تعالیٰ نے نحر کا لفظ رکھا ہے.جس میں دو باتیں بیان فرمائی ہیں.ایک تو یہ کہ قربانیاں کرد دوسرے یہ کہ خوشی سے قربانیاں کرو.یعنی قربانیاں منظور ہوں گی جو خوشی سے کی جائیں.بعض قربانیاں تو انسان کو مجبورا کرنی پڑتی ہیں مثلاً اللہ تعالی کی طرف سے اس پر بعض ابتلا آتے ہیں.لیکن یہاں یہ قربانیاں مراد نہیں بلکہ وہ قربانیاں مراد ہیں جن میں تمہاری شاہ رگ کٹ جائے.اور شاہ رگ کے کاٹنے سے تمام خون باہر نکل جاتا ہے اور کچھ باقی نہیں رہتا.تو یہاں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ایسی قربانیاں کرو کہ تمہارا کچھ باقی نہ رہے اور پھر ان قربانیوں میں تم خوشی اور سرور محسوس کرو.اس کا نتیجہ یہ ہو گا ان شا ننک هوا لا بتر کہ تمہارا مقابلہ کرنے والی قومیں نیست و نابود ہو جائیں گی.ابتر اسے کہتے ہیں کہ جس کی طرف کوئی قوم منسوب نہ ہو.تو فرمایا کہ اول تو ایسی قربانیاں کرو کہ تمہارا کچھ باقی نہ رہے.یعنی سب کچھ قربان کر دو.اور دوسری بات یہ ہے کہ تم خوشی سے وہ قربانیاں بجا لاؤ.تمہارے اندر ملال یا رنج نہ پیدا ہو بلکہ
306 جتنی زیادہ قربانیوں کا تم سے مطالبہ کیا جائے اتنی تمہارے دلوں میں بشاشت ہو.اس کا لازمی نتیجہ ہو گا کہ تمام قومیں تمہاری طرف اپنے آپ کو منسوب کریں گی.اور تمہاری ہی جماعت دنیا میں پھیلی ہوئی ہو گی اور دوسری تمام قومیں ملیا میٹ ہو جائیں گی.دیکھو یہ قرآن کریم اور یہ تعلیم کتنا عظیم الشان انعام ہے.اور کتنی بڑی نعمت ہے.لیکن اس نعمت سے فائدہ اٹھانے کے لئے کچھ شرائط بھی ہیں.ایک شرط تو یہ ہے کہ عمل اور زبانی طور پر شکریہ ادا کرو اس نعمت کی قدر کرو.دوسری شرط یہ کہ قربانیاں کرو.تیسری شرط یہ کہ ان قربانیوں میں بشاشت تمہارے اندر ہو.اللہ تعالی نے ہمیں کس قدر سامان ترقیات کے عطا کئے ہیں.ایک خزانہ دیا ہے جو کبھی ختم ہونے میں نہیں آتا ایک سمندر ہے جس کی تہ کا کوئی پتہ نہیں.اور ایسی رحمتیں اور نصرتیں اور تائیدیں کی ہیں کہ ہم ان کا اندازہ نہیں لگا سکتے.لیکن باوجود اس کے ہم بہت لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں کہ ہم کیسے قربانیاں کریں ہم کو تو کھانے کو نہیں ملتا اور دوسری قوموں کے پاس سب کچھ ہے ان کے گھر بالوں سے بھرے ہوئے ہیں.مگر ان لوگوں کو یہ علم نہیں کہ دوسری قوموں کو جو کچھ ملتا ہے.اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی کتوں کے آگے روٹی ڈالے اور اس میں زہر ڈال دے.اب تم بتاؤ کہ کیا تم دوسرے کتوں کے آگے روٹی دیکھ کر وہ روٹی اپنے کتے کے آگے بھی ڈال دو گے.خواہ وہ بھوکا ہی ہو.جب تم اپنے کتنے کے آگے زہر آلود روٹی نہیں ڈالتے تو اللہ تعالیٰ بھلا اپنے بندوں کو وہ چیز کیونکر دے سکتا ہے جس میں ان کی ہلاکت ہو.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا تم خیال کرتے ہو کہ ہم نے ان کفار کو جو اموال دیئے ہیں وہ ان کی ترقی کا موجب ہیں اور ہم انہیں ترقی دینا چاہتے ہیں.نہیں یہ تو ہم انہیں ہلاکت کے لئے دیتے ہیں.پس دو ہی صورتیں ہیں یا تو اللہ تعالی کو ہمارا علم نہیں اور یا ہماری کوششوں میں فرق ہے.نہ تو یہ صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ کو علم نہیں کہ ہم بھوکے مر رہے ہیں اور نہ یہ بات ہے کہ ہماری کوششوں میں فرق ہے.ہمیں کھانا بھی آتا ہے.جب دونوں باتوں میں سے کوئی بھی بات نہیں تو تیسری وجہ ہوگی اور وہ یہی ہے کہ وہ اموال ہمارے لئے بہتر نہیں وہ اس زہریلی روٹی کی طرح ہیں جو کوئی آقا اپنے غلام کو بلکہ اپنے کتے کو بھی نہیں دیتا.یہ ایسی ہی بات ہے کہ طبیب کہتا ہے کہ چاول مت کھانا.اب ایک بچہ خواہ کس قدر روئے کیا ہاں اپنے بچہ کو چاول کھلائے گی.تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ کبھی مال انسان کے دین اور عرفان کے لئے مضر ہوتا ہے.تو کیا خدا تعالی کی کچی خیر خواہی میں جتنی بھی نہیں.
307 حالانکہ وہ تو آپ ہی ماں ہے آپ ہی باپ ہے.آپ ہی خالق ہے.آپ ہی رازق ہے.پس یہ جو تم دیکھتے ہو کہ دوسروں کو ملتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایسی روٹی ہے جس میں سنکھیا پڑا ہوا ہے.اب کتنی حیرانی ہے کہ تم خیر خواہی کو بد خواہی سمجھتے ہو.پھر بہت ہیں جو نعمت کو جانتے ہیں لیکن اس کا شکریہ عملاً اور قولا نہیں ادا کرتے مثلاً قرآن اللہ تعالی کی نعمت ہے.اسے نہیں پڑھتے.حضرت مسیح موعود کی طرف سے جو ذخیرہ معارف و اسرار کا ملا ہے.اسے توجہ سے نہیں پڑھتے اور اگر پڑھتے ہیں تو اس پر عمل نہیں کرتے.اب جب تک اس نعمت کے شکریہ میں قربانیاں نہ کی جائیں.تب تک اس نعمت سے کیسے فائدہ پہنچ سکتا ہے.کونین کے جیب میں پڑے رہنے سے تو بخار نہیں اتر جاتا.روئی خواہ ایک من سر پر اٹھاؤ اس سے بھوک نہیں اتر سکتی.تیسرا گروہ وہ ہے جو اول تو قربانی نہیں کرتا اور اگر کرتا ہے تو بوجھ محسوس کرتا ہے.بلکہ بسا لوقات جب کوئی قربانی کے لئے اور خدمت کے لئے تحریک کرتا ہے تو اس سے بجائے اس کے کہ خوش ہوں اس پر ناراض ہو جاتے ہیں اور لڑ پڑتے ہیں حالانکہ اتنا نہیں سوچا جاتا کہ کہاں ماں کبھی ناراض ہو سکتی ہے کہ اس کو اس کے بچہ کے فائدہ کے لئے کوئی بات یاد دلائی جائے.اس کو تو تحریک کرنے والے اور یاد دہانی کرانے والے دوست کا اس قدر شکر گذار ہونا چاہئے کہ اس کا گویا غلام ہو جائے.کیونکہ اول تو مومن کا اپنا فرض ہے کہ وہ خدمت دین کے لئے ہر موقعہ پر قربانی کے لئے تیار رہے.لیکن اگر اس کو دوسرا دوست تحریک کرتا ہے تو اگر اس کے اندر ذرہ بھی بلکہ رائی برابر بھی ایمان ہوتا تو تمام عمر اس کا غلام ہو جاتا.پھر بعض لوگ ہیں جو قربانی تو کر دیتے ہیں لیکن بشاشت نہیں پاتے.پس یاد رکھو کہ جس قربانی میں بشاشت نہیں وہ قربانی منظور نہیں.جتنا جتنا تم بوجھ اٹھاؤ اتنا ہی تمہارے اندر نور اور سرور پیدا ہو.در حقیقت انسان اگر سوچے تو اس کو معلوم ہو جائے کہ جتنی یہ قربانیاں کرتا ہے.اتناہی اس کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے.دنیا کی نعمتیں ایک تھان کی طرح ہیں جو اس نے اپنے سر پر اٹھائے ہوئے ہیں.اب جوں جوں تھان اس کے سر پر سے اتارے جائیں گے توں توں اس کا بوجھ ہلکا ہوتا جائے گا مثلاً اگر دس کا بوجھ اس کے سر پر ہے اور اس میں سے تین کا بوجھ اٹھا لیا گیا ہے تو وہ خوش ہو گا کہ پہلے دس کا بوجھ تھا اب سات باقی رہ گئے ہیں چلو کم از کم تین کی کمی تو ہو گئی.اسی طرح جو شخص قربانیاں کرتا ہے وہ اپنا بوجھ ہلکا کرتا ہے.کیونکہ اس کو کم نعمتوں کا سوال ہو گا.بلکہ جتنا بوجھ ہلکا ہو گا اتناہی وہ خوش ہو
308 گا.انسان اس نقصان پر رنج مناتا ہے جو اس کے فعل کا یا دوسرے شخص کا نتیجہ ہو یا ایک طبعی گھبراہٹ ہوتی ہے جس کا تعلق اخلاق سے نہیں وہ تو جانوروں میں بھی پائی جاتی ہے.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے اندر زبانی شکریہ کا مادہ پیدا کرو اور ہر قسم کی قربانیاں کرو.اور ان میں بشاشت محسوس کرو.اگر قربانی میں بشاشت نہیں تو تم کبھی فاتح نہیں بن سکتے.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے انعامات کا زبانی اور عملی دونوں طور پر شکریہ ادا کرنے کی توفیق دے.اور ہم قربانیوں کے لئے بشاشت کے ساتھ تیار ہوں.اور ہمارے اندر ملال نہ ہو.(الفضل ۳۱ دسمبر ۱۹۲۶ء)
309 36 طریق مباہلہ اور اس کی شرائط (فرموده ۳۱ دسمبر ۱۹۲۶ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : میں نے جماعت کو کئی دفعہ اس طرف توجہ دلائی ہے کہ مباہلہ ایک ایسا قانون ہے جو عام قوانین کے خلاف جاری ہوتا ہے.اسلئے جب تک کہ مباہلہ صحیح طریق پر نہ ہو اور اپنے تمام شرائط کے ساتھ نہ ہو.تب تک اس کا صحیح نتیجہ نہیں نکل سکتا.لیکن نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ باوجود اس کے کہ متواتر مباہلہ کی حقیقت پر روشنی ڈالی گئی ہے اور اس حقیقت کو مد نظر رکھنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.اور کئی دفعہ بتایا ہے کہ کس صورت میں اور کس حد تک اور کن شرائط کے ساتھ مباہلہ جائز ہے.پھر بھی دوست اس معاملہ میں غلطی کر بیٹھتے ہیں.اور پھر اس غلطی پر ایک اور غلطی یہ کرتے ہیں کہ باوجود غلطی کے یہ امید رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی اس غلطی پر پردہ ڈالے اور اس کا خمیازہ بھگنے سے ان کو بچائے حالانکہ یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالٰی محض ان کی عزت کے لئے ان کی غلطی کے باوجود اپنے قوانین کو توڑ ڈالے.میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ مباہلہ ایک تقدیر خاص ہے.مباہلہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ایک نیا قانون، جاری کرتا ہے جو عام قوانین سے بالکل بالا ہوتا ہے.مثلاً انسان کی موت کے لئے اس کا یہ عام قانون ہے کہ اس میں بعض قسم کے زہریلے جراثیم داخل ہو جائیں یا زہریلے مواد جمع ہو جائیں تو وہ ہلاک ہو جاتا ہے.پھر اس کا قانون ہے کہ جس حد تک دنیا میں زندہ رہنے کے لئے اس کے قومی رکھے گئے ہیں اس حد تک ان قومی کے صرف کر دینے کے بعد انسان مرجاتا ہے یا یہ کہ کسی انسان کی گردن پر تلوار پڑتی ہے تو وہ ہلاک ہو جاتا ہے اسی طرح اور کئی ذرائع اس کی موت کے رکھتے ہیں.لیکن مباہلہ ان عام قوانین میں سے کسی قانون
310 کے ماتحت نہیں.نہ تو وہ کوئی زہر ہے جو جسم انسانی کے اندر داخل ہو کر اسے تباہ کر دیتا ہے.نہ وہ جسم کے اجزاء میں سے کوئی جز ہے جس کے خرچ ہو جانے سے انسان پر موت آجاتی ہے.نہ وہ کوئی عام آفات میں سے ہے جو انسان کو ہلاک کر دیتی ہے.بلکہ وہ ان چیزوں سے کوئی زاید چیز ہے اور ان قوانین کے علاوہ قانون ہے جو خاص حالات اور خاص شرائط میں جاری ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ انسان بغیر زہریلی چیزوں یا بیماریوں یا آفات کے نہیں مرا کرتا.لیکن مباہلہ کی صورت میں وہ اپنے عام قوانین کو بدل ڈالتا ہے.اور غیر معمولی سامان کر دیتا ہے یا معمولی سامانوں میں غیر معمولی تغیر پیدا کر دیتا ہے.یا معمولی سامانوں کو غیر معمولی سامانوں کے ساتھ ملا کر غیر معمولی تبدیلی پیدا کرتا ہے.مگر یہ تمام صورتیں اسی حالت میں ظاہر فرماتا ہے جب مباہلہ صحیح طریق اور پورے شرائط کی پابندی کے ساتھ ہو.اس کے سوادہ کبھی صحیح نتائج نہیں پیدا کرتا میری اس تمہید کا یہ باعث ہوا ہے کہ ضلع سیالکوٹ کے ایک گاؤں عینو والی میں ایک مباہلہ تجویز ہوا ہے.اس مباہلہ میں ہماری جماعت کے ایک آدمی غلام رسول ہیں اور دوسری طرف محمد شفیع مولوی ہیں اس کے حالات پڑھ کر مجھے تعجب ہوا ہے کہ یہ عجیب رنگ کا مباہلہ ہوا ہے.مباہلہ میں تو یہ شرط ہے کہ وہ ایسے رنگ میں ہو کہ جس سے ایک جماعت پر اثر پڑے.لیکن یہ دونوں شخص ایسے ہیں جن کا اثر جماعت پر نہیں.اور مباہلہ کی صورت میں عام قانون تبھی اڑ سکتا ہے جب کوئی خاص ایسا فائدہ پہنچتا ہو کہ جس کے بغیر اسلام کی عظمت قائم نہ ہو.اور ایسا فائدہ تبھی پہنچ سکتا ہے جب مباہلہ کرنے والی ایک جماعت ہو جو حق کو قبول کرنے کا معاہدہ کرے.مباہلہ کرنے والا ایسا ہو جس کے ساتھ ایسی جماعت ہو کہ جو اس کے خیالات کی پابند ہو.اپنے عقائد کو اس کے عقائد کے ساتھ وابستہ کرتی ہو.ان دونوں
311 صورتوں میں اسلام کو نمایاں فائدہ پہنچتا ہے.کیونکہ اس صورت میں یا تو قوم کی قوم پر عذاب آتا ہے جس کا اثر قوموں کی قوموں پر پڑتا ہے.یا اگر ایک قوم کے لیڈر پر عذاب آتا ہے تب بھی ایک قوم کی قوم اس سے متاثر ہوتی ہے.پس مباہلہ یا تو ایک قوم کے ساتھ ہو سکتا ہے یا ایسے شخص کے ساتھ ہو سکتا ہے جس کے ماتحت کوئی قوم ہو پہلی صورت میں دوسرے لوگوں پر حجت قائم ہو سکے گی دنیا میں ایک تہلکہ مچادے گی اور سعید طبائع اس نشان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتیں.دوسری صورت میں اگر دوسرے لوگوں پر نہیں تو کم از کم اس شخص کی جماعت پر تو اثر ہو گا.اس لئے ان دونوں صورتوں میں سے ہی کوئی ہونی چاہئے ورنہ مباہلہ فضول ہے.دوسری شرط یہ ہے کہ فریق مقابل پر اتمام حجت ہو.اور اس مباہلہ میں جس کا میں نے ذکر کیا ہے.یہ دونو شرطیں مفقود ہیں.حالانکہ مباہلہ بغیر ان شرائط کے کبھی صحیح نتیجہ خیز نہیں ہو سکتک مباہلہ میں اتمام حجت بھی ضروری شرط ہے.کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ بغیر اتمام حجت کے یونسی ایک شخص کو ہلاک کر دے.یہ بڑا ظلم ہے کہ ایک شخص کو بغیر اس کی غلطی ظاہر کئے ہلاک کر دیا جائے.اور اس صورت میں یعنی بغیر اتمام حجت اگر کسی شخص کو مباہلہ میں ہلاک کر دیا جائے تو نتیجہ زیادہ خطرناک ہو گا.کیونکہ اس کے لئے توبہ کا دروازہ بند ہو جائے گا اور نتیجہ نہ نکلنے کی صورت میں صرف ہمیں شرمندگی ہی ہو گی.جس کے بعد ہم کو اپنی غلطی کی اصلاح کا موقعہ مل سکتا ہے.اس لئے بغیر اتمام حجت کے بھی مباہلہ کا صحیح نتیجہ نہیں نکل سکتاک تیسری شرط مباہلہ کے لئے یہ ہے کہ میعاد کی تعیین ہو.اور کم از کم وہ تعیین ہو جو حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمائی ہے.یعنی ایک سال کی تعیین ہو.چوتھی شرط یہ ہے کہ عذاب کی تعین نہ ہو.بس یہ شرط ہو کہ لعنت ہو گی.آگے لعنت کی تعیین نہ کی جائے کہ لعنت فلاں قسم کی اور فلاں صورت میں نازل ہو گی.عام لعنت ہو گی خواہ وہ روحانی لعنت ہو یا جسمانی یا اخلاقی یعنی عذاب بصورت لعنت آئے گا.آگے یہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ وہ لعنت کسی صورت میں ہوگی بذریعہ موت یا ذلت یا کسی اور شدید نقصان کی صورت میں اس کا ظہور ہو سکتا ہے.پانچویں شرط یہ ہے کہ نتیجہ میں فریقین میں مساوات ہو.اگر مساوات نہیں تو مباہلہ نہیں رہے گا بلکہ وہ کچھ اور ہی ہو جائے گا.اب یہ مباہلہ جو میرے پاس آیا ہے اس میں دونوں طرف ہی
312 ایسے شخص ہیں کہ جن کا اثر دوسرے لوگوں پر کوئی نہیں پڑ سکتا.ایک طرف ہمارا آدمی ہے.اس کا بھی کوئی اثر جماعت پر نہیں ہو گا.دوسری طرف ایک مولوی ہے.جس کے متعلق لوگ کہہ دیں گے کہ ہمیں اس سے کیا ہم کوئی اس کے مرید ہیں.آج سے پہلے جتنے مولوی تباہ ہوئے ہیں لوگ ان سب کے متعلق کہہ دیتے ہیں کہ کیا ہم مولوی کے مرید ہیں جو اس کی ہلاکت ہم پر حجت ہو.پھر اتمام حجت کا بھی کوئی ثبوت نہیں.اس مباہلہ میں یہ ذکر ہی نہیں کہ کوئی تقریر ہوئی ہے یا مباحثہ ہوا ہے.بلکہ اس میں مولوی نے آتے ہی کہا ہے کہ ہم بحث نہیں کرتے کیونکہ نہ ہم نے مانا ہے نہ تم نے مانٹا ہے.اب جو شخص یہ کہتا ہے اس کو اتمام حجت کا کیا پتہ.پھر نتیجہ کے لحاظ سے بھی کوئی مساوات نہیں رکھی گئی.کیونکہ اس میں غیر احمدی کی یہ دعا ہے کہ اے خدا اگر مسیح زندہ نہیں ہے اور مرزا صاحب اپنے الہامات میں بچے ہیں تو مجھے پر عذاب نازل کر.اور پھر اقرار یہ ہے کہ اگر مجھ پر عذاب نازل ہو گیا تو مان لوں گا کہ مرزا صاحب اپنے دعوئی میں بچے تھے.اس کے مقابل احمدی کی دعا یہ ہے کہ اے خدا اگر مسیح زندہ ہے اور نبوت کا دروازہ کھلا نہیں اور حضرت مرزا صاحب اپنے دعوئی میں بچے نہیں تو مجھے پر عذاب نازل کر.اور پھر احمدی کا یہ اقرار ہے کہ اگر مجھ پر عذاب نازل ہو گیا تب بھی مرزا صاحب کو جھوٹے مان لوں گا.اور اگر کسی پر بھی عذاب نازل نہ ہوا تب بھی مرزا صاحب کو کاذب تسلیم کرلوں گا.اب قابل غور ہے کہ جب احمدی کے مرنے سے مرزا صاحب کا کذب لازم آتا ہے.تو اس کے بچ رہنے کی صورت میں مرزا صاحب کا صدق کیوں ضروری نہیں پس چونکہ اس مباہلہ میں نتیجہ کے لحاظ سے مساوات نہیں.اس لئے اس کا صحیح نتیجہ نہیں نکل سکتا.اور اندریں صورت یہ مباہلہ فیصلہ کن نہیں بن سکتاک مباہلہ میں چار شقیں ہیں.یا زید پر عذاب آئے گا.یا بکر پر آئے گا.یا دونوں پر آئے گا.یا دونوں پر نہیں آئے گا.ان میں سے پہلی شق صحیح ہے.یعنی یہ کہ دونوں میں سے ایک پر آئے گا.اگر زید پر آیا تو بکر سچا ہو گا.اگر بکر پر عذاب آئے.تو زید سچا ہو گا.تیسری شق کی صورت میں اگر مباہلہ ہو اور عذاب بھی آگیا ہو.تو پھر ہم یہ سمجھیں گے.کہ یہ عذاب تو ہے.لیکن یہ عذاب اتفاقی ہے.مباہلہ کا نتیجہ نہیں.یا اگر دونوں پر عذاب نہ آوے تو یا تو طریق مباہلہ کو غلط قرار دینا پڑے گا.گویا مباہلہ ہی صحیح نہیں ہوا.یا یہ نتیجہ نکلے گا.کہ دونوں امور دین کے ساتھ تعلق نہیں رکھتے تھے اس لئے نتیجہ ظاہر نہیں ہوا.مثلاً دو شخص مباہلہ کریں اور ہر ایک کے جس طریق پر میں گیہوں ہوتا ہوں وہ ٹھیک طریق ہے ورنہ مجھ پر عذاب نازل ہو دے.اب دونوں پر عذاب نازل نہیں ہو گا.
313 کیونکہ یہ بات مباہلہ کرنے کے ہی قابل نہیں.اگر دینی امور کے متعلق ہو تو ہم یہ سمجھیں گے کہ مباہلہ صحیح طریق پر نہیں ہوا.مثلاً دو شخص مباہلہ کریں اس بات پر کہ ایک شخص کہے کہ حضرت نبی کریم کے بعد نبی آسکتا ہے.اور دوسرا یہ کہے کہ نبی نہیں آسکتا.اب اگر دونوں پر عذاب آجائے.اور مباہلہ کو صحیح مانا جائے.تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ رسول اللہ ان کے بعد نبی آبھی سکتا اس ہے اور نہیں بھی آسکتا اور یہ دونوں باتیں متضاد ہیں یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ یہ دونوں باتیں صحیح ہوں.بہرحال ایک بات ہی صحیح ہو گی.پس ایسی صورتوں میں ماننا پڑے گا کہ مباہلہ غلط طریق پر ہوا ہے اور یہ عذاب اتفاقی ہے ورنہ صرف جھوٹے فریق پر آتا.ایسا ہی اس موجودہ مباہلہ کے متعلق بھی ہم یہی کہیں گے کہ یہ مباہلہ ہی غلط طریق پر کیا گیا ہے.اور اس سے یہ نتیجہ نہیں نکل سکتا کہ مرزا صاحب جھوٹے ہیں کیونکہ دوسرا نتیجہ بھی تو نکل سکتا ہے کہ فریق ثانی جھوٹا ہے.میں دوستوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں.کہ اس قسم کے مباہلے لغو ہیں.غلط مباہلہ کر کے صحیح نتیجہ کی امید رکھنا یہ دوسری ہے.جب محمد رسول اللہ اللہ کی اجتہادی غلطی بغیر نتیجہ کے نہیں رہی تو تمہاری شرعی غلطی کیسے معاف ہو سکتی ہے.دیکھو صحابہ سے جنگ احد میں اجتہادی غلطی ہوئی اس کا کیسا نتیجہ نکلا.صحابہ کو میدان سے الگ بھاگنا پڑا.اور رسول اللہ ال الليل الگ زخمی ہوئے.حتی کہ آپ کی شہادت کی خبر اڑ گئی.مباہلہ کرتے وقت ہمیشہ احتیاط رکھو.اور ان شرائط کے ساتھ مباہلہ کرو جو میں نے بیان کی ہیں.ایسے اہم معالمہ میں کہ جس میں عام قانون کو توڑا جاتا ہے.بہت احتیاط کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے قانونوں کو سمجھنے اور ان پر چلنے کی توفیق عطا فرمادے.آمین الفضل ۲۵ جنوری ۱۹۲۷ء)
اشاریہ ۱۸۸ ، ۱۷ ،۱۸۶ ، ۱۸۵ ، ۱۸۴۰۱۸۲۱۱۸۱۱۸۰ ۲۰۲ ،۲۰۱۰ ۲۰۰۰ ۱۹۹، ۱۹۸ ، ۱۹۶۰ ۱۹۵ ،۱۹۲۰۱۸۹ ۲۱۲ ،۲۱۱،۲۱۰،۲۰۸ ،۲۰۶ ،۲۰۵،۲۰۴ ،۲۰۳ ۲۲۷ ،۲۲۵ ،۲۲۲ ، ۲۲۰ ، ۲۱۹،۲۱۷ ،۲۱۶۰۲۱۳ ۲۴۰ ،۲۳۹،۲۳۸ ،۲۳۵۰۲۳۳ ،۲۳۲۰۲۳۱ ،۲۳۰ ۲۴۸۰۲۴۷،۲۴۶۰۲۴۵ ،۲۴۴ ، ۲۴۳ ، ۲۴۲ ،۰۲۴۱ ۲۵۹،۲۵۸ ،۲۵۷۷۲۵۶ ، ۲۵۳ ، ۲۵۱ ، ۲۵۰۰ ۲۴۹ 731741 آدم - ۳۸ ، ۱ آرمینیا - ۲۷۳ - آسٹریلیا.۱۳۶.آمنه بیگم - ۲۱۲ الله - ۱۹،۷،۶،۵،۲،۳،۲،۱ - ۲۵،۲۴ ،۲۳،۲۲ ، ۲۱،۱۰۱۵، ۱۴ ،۱۳ ۴۶ ، ۲۵ ، ۴۴ ۴۳ ۴۲،۳۹،۳۶۰۳۴ ،۳۲ ،۲۹ ۲۹۲،۲۹۱،۲۹۰،۲۸۹ ،۲۸۸ ،۲۸۷ ،۲۸۶،۲۸۵ ٢٩٠، ٠٢٩٩٠٢٩٠ ،۲۹۵،۲۹۴ ،۲۹۳ ۳۰۹،۳۰۸ ،۳۰۷ ،۳۰۶۰۳۰۵۰۳۰۴ ، ۳۰۳،۳۰۲ ابراهیمی - ۲۰۱۴ - - ۱۰۲ ، ۱۰۱،۱۰۰۰۹۹ ،۹۵ ، ۹۱ ،۸۸،۷۲ ،۸۵ " 11-61-461+ 1 + 6 6 1 4 6 1 + 61.1 ۱۱۹ ، ۱۱۸ ، ۱۱۷ ، ۱۱۹۰ ۱۱۵ ، ۱۱۴ ، ۱۱۳ ، ۱۱۲۰ ۱ ۱۲۸ ،۱۲۵ ،۱۲۶۰۱۲۵ ، ۱۲۴ ، ۱۲۳ ، ۱۲۲ ،۱۲۱۰۱۲۰ ابو بکر - ۲۳، ۲۴، ۲۵ ، ۸۶ ، ۱۰۵ ، ۱۱۰ ، ۱۵۱ ، ۱۵۲ -۲۹۹ - 799 (DY (44 - - 46647- ابوجہل - ابوسفیان الولد الداه الله ما والله والله المله لله والمها والله الله ۱۵۹،۱۵۸،۱۵۷ ،۱۵۵۷۱۵۳،۱۵۲،۱۴۹،۱۴۸ ،۱۴۷ 1616(6-614461987(46619971987(4)714
- -۲۷۶ ،۱۷۲ ،۱۳ ،۱۳۶۰۲۲ - امریکیه - ۲۲ ۱۳۶۷ ، ۱۳۷ امیر حمزه - ۱۴۳ - امیر فیصل - ۲۸۱ ۰۲۸۴ ،۲۸۲۲۱۰ -۲۴۱ انجیل - ۹۵۰۵ - انصار (مدینه) - ۶۴ ۰۷۷ ،۶۶ ،۶۵ ،۶ انگلستان / برطانیہ / ولایت - ۵۷، ۹۵، ۱۳۷،۹۹، ۱۳۸ انگلش مین (اختبار ) - ۲۶۴ - ایران - ۲۲۹ الشما اثر پور - ۲۴۱ احد (جنگ) احمدیت.اسلام.۰۳۱۳ ، ۲۵ ۱۸۷۱۷۷۱۶۹ ،۵۹ ، ۱۵۷ ، ۱۱۴ ، ۲۰ ،۲ ، ۳۱ ، ۳۰،۲۷،۲۶ ، ۱۵ ،۱۳ ،۱۱ ، ۱۰۰۹ - ۱۰۴ ،۹۲ ،۸۲،۷۷،۶۷۰۶۴،۶۳ ،۵۰،۳۷ ۱۳۲ ،۱۲۹ ،۱۲۰،۱۱۳ ،۱۱۲ ، ۱۱۱۰ ۱۱۰۰ ۱۰۵ ۱۵۶۰۱۵۵،۱۵۴ ،۱۴۹ ،۱۴۶،۱۴۳،۱۳۴ ۱۷۹ ،۱۷۵ ، ۱۹۲ ،۱۱،۱۶۸ ، ۱۹۷۰ ۱۹۳۱۱۵۷ ۲۴۳،۲۳۵ ،۲۳۴ ، ۲۳۳،۲۱۸ ،۲۰۲،۱۹۳ ، ۱۸۹ ۲۷۲ ،۲۶۷۰۲۲۳۰۲۵۹ ، ۲۵۸۰۲۵۷ ، ۲۵۵ ۲۷۵، ۲۷۸ ، ۲۸۲ ، ۲۸۳ ، ۲۹۷،۲۸۴، ۳۰۹ پائیل - ۹۵ - بخاری (صحیح) -4- افریقیه - -114- افغانستان - ۲۴۹ - الفضل.۱۶۱۶۱۴۹۰۱۴۳۰۱۴۲۰ ۱۲۷ ، ۱۲۰ ، ۱۱۴ ، ۱۰۰ ۲۳۵،۲۳۱۰۲۲۸ ،۲۱۲ ، ۱۹۷ ، ۱۹۰،۱۷۹ ،۱۶۹ ۲۹۷۰۲۹۲،۲۸۵ ،۲۷۸۲۲ ۰۲۶۹ ، ۲۵۳ ، ۲۴۱ 14.الوصیت (کتاب) - ۱۷۰ امت محمدیه.امت الرحمن - ۲۴۱ - -۲۴۱۰ - ۲۴۷ ،۱۲۵ ، ۷ امرتسر - ۲۲۸،۱۶۹ ،۱۹۱،۱۲۰،۱۱۴۰۰ ،۳۹ - ۱ ۲۹۶۰۲۹۲ ،۲۶۹ بدر (جنگ) - ۲۶ - 44 بردوان (مہاراجہ) - بر همن برید - ۱۱۳ - برین - ۲۶۴ ، ۲۶۵ بمبئی - ۶۱ - بنگال.-41- - ۳۰۲ ، ۱۳ بنو عباس - ۱۳۲ بھنڈال (گاؤں) - ۱۱۴.بھوپال.۲۵۷۰۲۵۶ -
پاجیاں (گاؤں) - ۱۱۴ - پادری زدیمیر - ۲۱۴ - پروفیسر عطاء الرحمن - ۵ پروفیسر محمد بھا گلپوری.“ پشاور - ۲۷۴ - پنجاب ۰۲۸۰،۱۹۵۰۱۶۳ ،۲۰ -196 پنڈی چری (گاؤں) - ، پنڈی گھیپ - ۲۴۱ - پھلروان - ۱۹۷ پیار ارنام) - ۶۱ پیغام صلح (اخبار) - ۹۸ جاوا - ۱۳۶ جبریل - ۱۰۱ ، ۲۲۲ جده -۲۸۰ جرمنی.-YYA / PA - جلسه سالانه - ١٠،١٠،٩،٩،٣،٢،١ ۲۵۲۰۲۵۱۰۲۵ ۰۲۹۱۰۲۸۹ ،۲۸۸ ،۲۸۷ ،۲۸۶،۲۵۳ - ۹۰۷ ،۶،۵،۴،۲۰۱ - ۲۷،۲۵۰۲۳ ،۲۱۰۲۰،۱۹،۱۸ ، ۱۵ ،۱۴۱۳ ،۱۲ جماعت احمدیہ سلسلہ احمدیہ -۱ 1-76961901916×66464164-609700 ۱۴۴۰۱۴۲،۱۴۰۰۱۲۷ ، ۱۱۹ ، ۱۱۳ ، ۱۱۲ ، ۱۰۹ ، ۱۰۸ ۱۶۱ ،۱۶۰ ،۱۵۹،۱۵۸ ،۱۵۷ ،۱۴۹ ،۱۴۷ ،۱۴۵ ۱۷۷ ،۱۷۴۰۱۷۰، ۱۶۹ ، ۱۶۷ ، ۱۶۵ ، ۱۶۳ ، ۱۹۲ ۲۲۳۰۲۱۹ ،۲۱۸۰۱۹۶۰۱۸۹،۱۸۰،۱۷۹ ، ۱۷۸ ۲۵۲ ،۲۵۰،۲۴۸ ،۲۳۵۰۲۳۳،۲۳۲۰۲۲۶ ۲۷۲،۲۶۷ ،۲۶۵ ،۲۶۳ ، ۲۶۱۰۲۵۹۰۲۵۴ ۳۰۲،۲۹۶،۲۸۸،۲۸۳ ،۲۸۱ ،۲۸۰ ،۲۷۸ ،۲۷۳ - ۳۱۰،۳۰۹ - ۱۱۴ ، ۳۶ - - Yor 14 - -۲۶۴ تاج محل - ۳۴ - تاریخ الخلفاء - ۳۶ تذکرہ - ترکی.ترکستان - ۲۴۹ - تورات - ۱۷۰، ۲۵۲ - جزت - ۱۵ ، ۴۹، ۱۰۲ ، ۱۳۰،۱۱۴، ۱۷۲،۱۷۲، ۱۷۵ - ۲۷۱،۲۷۰،۲۰۳،۱۷۸۱۶ جھنگ - ۱۱۴ - تیمور - ۲۶۱- ٹ ٹائمز (اخبار) - ۲۵۲ جهنم دوزخ - ۵ - ۱۳۸ ، ۱۵ - ج جوئیے (گاؤں) - ۱۱۴ جاپان.۱۳۶ چ جالندھر چھاؤنی - ۲۴۱ - چوہدری محمد ظفراللہ خاں.۱۵۸
چوہدری نعمت خاں - ۲ ٣٠٢ چین - حافظ حامد علی - ۲۴۷ حبقوق - ۲۲۴ - حرقيل - ۲۲۴ - حسین حوض کوثرہ.“ حیدر آباد (دکن) (۶) خانه کعبه..乙 -۳۶۳ ،۶۱ خ ڈاکٹر یعقوب بیگ..۹۳ ڈلہوزی - ۹۳، ۹۴، ۲۲۹ ، ۲۳۲ ، ۲۵۷..راولپنڈی - ۲۴۱ - رحمت اللہ سنوری - ۶۱ - رسول کریم - ت ۲۹۰۲۶،۲۵،۲۳۰۲۳ ،۲۲ ،۲۱،۲۰ ، ۱۳ ۶۰،۵۹ ،۵۶ ،۴۴۰ ۴۱۰۲ ۱۰۸،۱۰۲،۱۰۵ ،۱۰۴۰۱۰۱۷۹۸،۹۷ ،۹۶۰۹۴۰۹۲ خد مسجد - ۲۸۹ خلیفہ اول - ۱۷۴،۱۷۳،۱۳۸،۹۸،۹۳، ۱۸۴، ۲۲۵ ۰۲۵۶ خواجہ کمال الدین - ۹۲ - دانیال - ۲۴۲ دربھنگہ.۲۰۵ دمشق -., - ۲۱۹۰۲۱۰ ،۲۱۹ ، ۲۱۵ - دہلی.۷ ، ۲۰۵ دیانند (پنڈت) - ۹۵ - دین محمد - ۲۴ ڈاکٹر بشارت احمد - ۹۴ 39 ڈاکٹر حشمت اللہ خاں - ۱۹۲ ۱۲۸۰۱۲۹،۱۲۴ ، ۱۱۸ ، ۱۱۶ ، ۱۱۴ ، ۱۱۲ ، ۱۱۱ ، ۱۱۰ ۱۵۴ ،۱۵۳،۱۵۲ ، ۱۵۱ ، ۱۴۸ ،۱۴۳ ، ۱۳۴ ،۱۲۹ ۱۷۷ ،۱۷۵،۱۷۳،۱۷۲،۱۱،۱۷۰،۱۵۸ ،۱۵۷ ۲۱۲،۲۰۸،۲۰۳،۲۰۲ ، ۱۹۲ ،۱۸۷ ، ۱۸۵ ، ۱۷۸ ۲۳۴۰۲۳۲،۲۳۰،۲۲۸ ،۲۲۲ ،۲۱۸ ،۲۱۶ ۲۱۵ ۲۷۵،۲۶۷ ۲۶۶ ،۲۶۲ ،۲۹۱۰۲۶۰ ،۲۴۳۰۲۳۵ ۲۹۵ ،۲۹۱،۲۸۹ ،۲۸۱،۲۸۰۰۲۷۲ - ۳۱۳،۳۱۲ ،۳۱۱ ،۳۰۴ روم - ۲۹ - ریویو آف ریلیجنز در ساله) - ۸۴ زین الدین - ۶۱، ۶۲ - سائیبیریا - سپین - ۱۳۸ - ستیه پرکاش.۵ - ز س
3 ٹنگ سرور - ۲۴۹۰۲۴۸ سر عبد الرحیم - ۳۱- سلطان صلاح الدین ایوبی - 1 سلطان عبدالحمید - ۶۴ سماٹرا.-۲۶۴۰ سورہ فاتحہ - ا ، ، ، " ۶۷۶۳،۵۲،۴۵۰ ۱۴۴ ،۱۳۳،۱۲۳،۱۲۱ ، ۱۱۵ ،۱۰۱ ،۸۹ ،۸۱۰۶۹ ۲۲۹۰۲۱۳،۱۹۸ ،۱۹۱ ، ۱۸۰ ، ۱۷۰ ، ۱۹۲۰ ۱۵۰ ۲۸۶،۲۷۹ ،۲۷۳۷۲۷۰ ، ۲۵۴ ،۲۴۲۰۲۳۶۰۲۲۲ • ۳۰۳،۳۰۲ ،۲۹۷۰۲۹۳۰۲۹۰ -۳۰۰،۲۵۹،۱۷۸ ،۱۷۰،۱۲۰،۲۹،۱۹ - سورة بقره - سورۃ اعراف سورۃ انفال.۱۵۲۰ - 714.سورة يونس - ۲۲۹ - سورۃ بنی اسرائیل - ۱۹۷ ، ۲۱۲ - سورة طه - ۴۱ - سورة الفرقان - ۲۲۷ سورة الشعراء - ۲۶ - سورة العنكبوت - ۱۳۸ - سورۃ احزاب - ۹۶ سورة الفتح - ٦٠.-4.سورة ذاریات - ۱۶۱ - سورة الرحمن - سیٹھ محمد اسمعیل - 1 - 41 - سید حاکم شاہ - ۳۰۲ سید عبدالقادر جیلانی - ۸۳ - سید محمد سرور شاه - ۲۲۳ ، ۰۲۵۳ ، - ۲۵۳ ، ۱۲۷ ،۳۶۰ سیرت ابن ہشام.سیرت المهدی - ۲۵۳ - سیلون - ۱۵۶ - ش شاه جهان - ۳۴ - شاہ جہانپور - ۶۱ - ۱۵۲ - شیخ رحمت الله - ۶۱ ، ۶۳، ۹۳ شیخ عبد الرحمن مصری - ۱۷۶ - شیطان - ۲۸ ، ۳۹ ، ۵۲ ، ۵۹ ، ۱۶۰ ، ۲۴۰ ۲۶۹ ،۲۶۸ ،۲۶۵ صحابی ه ه ۲۵۰، ص ۱۴۳ ،۱۳۶ ،۱۲۴ ،۹۷ ،۹۶۰۷۴ ،۶۴،۲۵۰.۳۰۳ ،۲۶۱ ،۲۵۸ ،۲۴۱ صفدر خال - ۱۹۷ b طاعون - ۱۹۱،۱۵۹ ، ۱۹۳،۱۹۲، ۱۹۴، ۱۹۵ ، ۱۹۶ - طائف - ۰۶۴ طبقات ابن سعد - ۱۷۹، ۲۷۸ - سورۃ الاعلی - ۳۲ سیالکوٹ - ۴ ۷ ۳۱ ، ۳۰۵.ع عائش ۹۷ - 44 ويري
عبدالحئی میاں - ۹۳ - عبد الرحمن بن عوف - ۶۶ - عبد الرحیم آف ڈلیہ - ۱۹۷ - عبد اللہ بن ابی بن سلول - ۱۵۷۰۸۶،۸۵۰۶۵۰۵۶ -۲۲۸ عبدالقدير - ۲۴۱ - عبد المطلب - ۲۴۱ - علیہ عثمان - 107 - -۱۷۲۰۱۵۲ ۱۵۱ ،۲۹ - عدن - ۳۳ - عرب - ۲۴۱۰۱۸۲۰۱۴۳ - علی ۲۴۴ ۱۵۲ ،۱۵۱ ، ۶۴ - علی گڑھ.۳۱ - عمدة القاری - ۶۸ - عمر ۲۴، ۲ ۲۰۱۵۱۱۸۶۰۶۴ ،۲۴ عمر و بن العاص - ۸۵ - -706671461471 فتح الباری - ۲۲۸ ف فرشتے ملائکہ ۲۲۰۰۵۲،۵۰۰ فورمین کرسچین کالج (لاہور).ق -104 " قادیان - ۱۹ ، ۳۱ ، ۹۷ ، ۱۱۳ ، ۱۵۶، ۱۷۲، ۱۷۳، ۱۶۴ ۲۱۲ ،۲۱۰،۱۹۷ ، ۱۹۶۰۱۹۴ ،۱۹۱۰۱۶۹ ، ۱۶۵ ۲۶۶۰۲۵۲۰۲۵ ،۲۴۸ ،۲۴۷۰۲۴۶ ۰۲۱۴ - ۲۹۲ ،۲۹۱۰۲۹۰۰ ۲۸۹ ، ۲۶۸ قاضی امیرحسین - ۹۳ - قاضی غلام حسین - ۱۱۴ - قاضی فضل الہی قریشی - ۱۹۷ - قرآن کریم - ۲ ۷۵ ، ۷۳ ،۵۹،۵۰،۳۹، ۳۸،۲۹ ،۱۴ - ا ، ۱۰۱، ۱۱۰، ۱۲۰، ۱۳۸، ۱۴۲، ۱۴۳، ۱۵۲ ۱۷۳ ، ۱۷۱،۱۷۰ ، ۱۹۹ ، ۱۶۵ ، ۱۶۱ ، ۱۹۰۰ ۱۵۶ ۲۵۶،۲۵۲،۲۳۷،۲۳۲ ، ۲۲۹ ، ۱۹۲ ،۱۷۸ ،۱۷۵ عیسی ریح ۱۲۵،۹۴،۸۷ ،۸۵ ،۵۸۱.۲۰۳ ،۲۰۲،۱۵۵ ، ۱۵۴ ،۱۵۳ ، ۱۵۱۰۱۴۲ ۲۹۵،۲۸۲،۲۷۴ ، ۲۷۳ ، ۲۶۶ ، ۲۵۶ ،۲۱۴ - ۳۱۲ ، ۲۹۹ عینو والی (گاؤں) - ۳۰۹ غلام رسول....ا.غ غیاث الدین احمد - ۳۰۲ - قیصر.کربلا.کسری کلکت.- Fiy ۲۶۴ گ گاندھی - ۹۲، ۱۴۱۰۱۴۲۰، ۲۰۲، ۲۰۳، ۲۰۴ ۰
گورداسپور - ۲۱۱ - ل ۱۴، ۲۱، ۲۰،۲۶ ، الم ، ۴۴ ، ۴۵ ، ۴۰ ، ۴۷، ۴۸ ۷۷۰،۶۲ ،۶۱۰۵۸ ،۵۷ ، ۵۴ ،۵۱۰۵۰۰ ۴۹ لاہور - ۹۳۰۷۰۵ ، ۱۵۶۰۱۵۵، ۱۵۸، ۱۶۱ ، ۲۰۶ - لنڈن - ۲۳۲ ، ۲۶۴ ، ۲۶۷، ۲۶۸ - م ماسٹر فقیر الله.۰۲۱۲ ماسٹر محمد دین - ۲۲۳ - متی - ۳۶ - مجلس مشاورت - ۱۷۵ - محمد امیر ۲۸۵ - محمد شفیع مولوی - ۳۰۹ - محمد صغیر - -191 محمد عبد الله - ۱۱۴ - مدد خان - مدینه - ۶۴ ۰۲۱۲ مرزا غلام قادر - ۲۴۷ مریم - ۱۲۵،۸۷ مسجد برلن -744- مسجد لنڈن.مسجد مبارک (قادیان) - ۸۴- مسلم (صحیح) - ۸۸، ۱۷۹، ۲۷۹ - مسلم لیگ - ۲۱ - مسلم ورلد در ساله) ۰ ۲۱۳ - ۱۵۷ ،۱۵۶ ،۱۵۵ ،۱۵۴ ، ۱۵۳ ، ۱۵۲ ، ۱۴۸ ،۱۴۲ ۱۸۸ ۱۱۷ ۱۱ ، ۱۸۵ ،۱۷۸ ،۱۷۷ ،۱۷۹،۱۷۵ ۲۰۲ ، ۲۰۱۰۲۰۰،۱۹۶۰ ۱۹۵ ، ۱۹۴ ،۱۹۳،۱۹۲ ۲۱۷ ،۲۱۶۰۲۱۵ ،۲۱۴۰۲۱۳ ، ۲۱۲ ، ۲۰۹ ، ۲۰۸ ۲۴۴ ،۲۴۲،۲۲۸،۲۲ ، ۲۲۳ ،۲۱۹ ، ۲۱۸ ۲۶۲ ،۲۵۹۰۲۵۲ ، ۲۵۰۰ ۲۴۹ ، ۲۴۷ ۲۴۶ ۲۹۶۰۲۸۸ ،۲۸۷ ، ۲ ، ۲۶۷ ،۲۶۴ ،۲۶۳ ۰۳۱۳ ،۳۱۲ ،۳۰۷ ، ۳۰۵ ،۲۹۹ ، ۲۹۷ مشكوة (المصابيح ).١٩٠، ١٩٤ - س رض معاویه - ۶۴ ۱۹۷ ۱۹۰۰ معین الدین ندوی - ۸۸ - مفتی محمد صادق - ۲۴۹ - م - ۶۳ ملت اسلامیہ امحمدیه - ۲۴ - ملک غلام محمد اف عیدی پور - ملک غلام نبی - ۲۴۱ ملکانه - ۳۱ - ملک محسن خان - ۲۴۱ ۰ ملکہ وکٹوریہ - ۵ ۱۲۵ -141 منشی فرزند علی خانصاحب) - ، ، ۸، ۱۰ - مسیح موعود / مرزا صاحب - ۱، ۷، ۸، ۱۲،۱،۱۰۰۹ منشی روڑے خاں.۸۶.
منٹگمری دشهر ۱ - ۱۱۲ موسی مولوی شیر علی - ۶۸ ، ۰ ۱۵۳ ۱۵۸ -۲۲۶،۲۲۳ ،۹۳۰۶۸۰ -47- مولوی عبد الکریم - مولوی عبد الواحد - ۱۱۳ مولوی محمد احسن - ۹۳ ، ۲۲۶ - مولوی محمد علی - ۱۳،۶۲ مهاجرین (سیرت صحابه) - میاں احمد دین نہ رگرہ.-144 میاں بشیر احمد (صاحبزاده) - ۲۲۳ - میکاه - ۲۴۴ - نپولین.- Tr- نجم النساء - ۶۱ - -41 ن نظام الدین اولیاء - ۳۰۰ ہاجرہ - ٩ - ہندوستان.، ۱۶۱۰۱۵۶،۱۴۰ ،۱۳۷ ،۱۳۵ ،۳۲ ،۲ - ۲۶۴،۲۶۱ ،۲۵۶ ،۲۳۰ ،۲۱۱ -41 - ہوشیار پور.- ہیرا ( نام ) پر میاه - ۲۴۴ - یوپی.یورپ.۲۷۴ ،۱۸۸ ،۱۳۸ ،۱۳۷ ،۱۳۶ ، ۳۳ ،۲۲ - -۲۸۲ ،۲۸۱ ، ۲۷۹ -41 - 41 میاں محمد جمیل.میاں ونڈ.میاں محمد شریف - ۱۹۷ - میر حامد شاه - ۱۱۴ - میر محمد اسحاق - ۱۷۶ - 144 میر محمد اسمعیل (ڈاکٹر) - ۵.۲۰۵ - میر مهدی حسین - ۱۹۷ -
کتابیات شور قرآنیه قرآن کریم احادیث نبوید تاریخ و سیر صحیح بخاری صحیح مسلم جامع ترمندی مشكاة المصابيح عمدة القاری فتح البارى تاریخ الخلفاء سیرت ابن ہشام سیرت المهدی طبقات ابن سعد مؤلفہ " 4 " " " " " البقره ، بنی اسرائیل ، الرحمن - امام ابوعبد الله حمد بن اسمعیل البخاری ابوالحسن مسلم بن الحجاج القشیری نیشاپوری ابوعیسی محمد بن عیسی الترمذی محمد بن عبد الله الخطيب بدر الدین البومحمد محمود بن احمد الحلبي للعروف بدر العيني شهاب الدین احمد بن علی بن محمد بن محمد بن حجر العسقلانی - حافظ جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطی.البو محمد عبد الملک بن ہشام حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ایم.اسے ابو عبد الله محمد بن سعد مهاجرین جلد دوم رسیر صحابه مصنفہ معین الدین ندوی تذکرہ مجموعه الهامات وتشوف حضرت مسیح موعود علیہ السلام متی و انجیل.