Language: UR
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خطبات علوم و معارف کا ایک انمول خزانہ ہیں اور پیش گوئی کے الہامی الفاظ ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیاجائے گا‘‘ پر شاہدناطق ہیں۔ آپؓ کا دور خلافت نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے جو ایک تاریخ ساز دور تھا۔ اس نہایت کامیاب اور طویل دور میں آپؓ نے اپنے خطبات جمعہ کے ذریعہ جماعت کی تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ سیاسی، سماجی اور مذہبی افقوں پر نمودار ہونےوالے ہر معاملے پر بروقت اور درست رہنمائی عطافرمائی۔ الغرض یہ خطبات جمعہ جماعت احمدیہ کا ایک بہت ہی قیمتی خزانہ اور سرمایہ ہیں۔ جسے فاؤنڈیشن نے یکجا کرکے کتابی شکل دی ہے۔
1 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تعارف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فیضان بے پایاں ایک چشمہ رواں کی شکل میں کئی سمتوں میں جاری ہے.اس کی ایک عظیم نہر قدرت ثانیہ یعنی خلافت حقہ ہے جس میں ایک عالم کی سیرابی کا سامان ہے.سلسلہ خلافت آیات اللہ میں سے ایک عظیم الشان اور جلیل القدر نشان ہے.یہ وہ حبل اللہ ہے جس کے ساتھ وابستگی ہر شر سے حفاظت اور ہر خیر کے اکتساب کا ذریعہ ہے.خلافت ثانیہ کے نصف صدی سے زائد دور میں یہ نشان جس قدر درخشندگی کے ساتھ ظہور پذیر رہا وہ تاریخ اسلام کا ایک روشن باب بن چکا ہے.فضل عمر فاؤنڈیشن کے مقاصد اور فرائض میں سے ایک اہم مقصد اور فرض یہ بھی ہے کہ فاؤنڈیشن خلافت ثانیہ کے انوار اور فیوض کے سرچشموں کو اس طور پر محفوظ کرنے کا سامان کرے کہ وہ ہمیشہ کے لئے سالکین کی سیرابی کے لئے میسر رہیں.حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود کے خطبات عید الفطر کی تدوین اور اشاعت انہی مساعی کے سلسلہ کی ایک کڑی ہے اور ایک مبارک اقدام ہے اور خدا کے فضل - سعادت فاؤنڈیشن کو نصیب ہوئی ہے.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ خاکسار یقین رکھتا ہے کہ احباب جماعت اس اقدام کا بصد شوق خیر مقدم کریں گے اور اس سے پورا فائدہ اٹھانے کی سعی کریں گے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحم سے ایسا ہی کرے.آمین
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پیش لفظ حضرت المصلح الموعود کے خطبات کے مجموعہ کی پہلی جلد احباب کے ہاتھوں میں ہے.یہ تمام خطبات سلسلہ کے اخبارات سے لئے گئے ہیں.چونکہ انہیں زود نویسوں نے قلمبند کیا ہے اور ابتدائی دور میں تو کہنہ مشق زود نویس بھی میسر نہیں تھے اس لئے یہ ممکن ہے کہ بعض مقامات پر زود نویس نے مفہوم کو اپنے الفاظ میں ادا کیا ہو یا وہ فقرات میں ربط اور ترتیب قائم نہ رکھ سکا ہو.یا وہ مفہوم کو صحیح رنگ میں سمجھ ہی نہ سکا ہو.اس کے علاوہ ہمارے ملک میں مروجہ طریق کتابت و طباعت کی وجہ سے عموماً ہر کتاب میں اغلاط رہ جاتی ہیں.اور اخبارات و رسائل کی طباعت میں تو خاص طور پر وقت کی کمی کے باعث اتنی احتیاط اور کوشش اور توجہ ممکن ہی نہیں.ان خطبات میں بھی بعض مقامات پر محسوس ہوتا ہے کہ زود نویس یا کاتب حضور کے بیان کو پوری طرح ضبط میں نہیں لا سکا.بعض جگہ عبارت میں ربط نہیں اور فقرات کی ترتیب درست معلوم نہیں ہوتی.یا یہ احساس ہوتا ہے کہ کچھ الفاظ رہ گئے ہیں.اس بارے میں یہ تو کوشش کی گئی ہے کہ حاشیہ میں اس طرف اشارہ کر دیا جائے لیکن متن میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی.بلکہ کتابت کی بعض صریح اغلاط کو بھی نظر انداز کر کے نقل مطابق اصل کا اصول اختیار کیا گیا ہے.یہ بھی کوشش کی گئی ہے کہ ان خطبات میں جو حوالہ جات آئیں یا جو تاریخی واقعات بیان کئے گئے ہیں ان کے اصل ماخذ کا حوالہ دیا جائے.ان حوالہ جات کی صحت کی تمام تر ذمہ داری مرتب پر ہے.جہاں مرتب اپنی کم علمی کے باعث کوئی حوالہ تلاش کرنے سے قاصر رہا ہے.وہ جگہ خالی چھوڑ دی گئی ہے تاکہ حوالہ مل جانے پر اسے مکمل کیا جاسکے.خاکسار اس کتاب کی ترتیب کے سلسلے میں امداد کے لئے بہت سے بزرگوں اور دوستوں
۴ کا احسان مند ہے.خاص طور پر حوالہ جات ڈھونڈنے میں نے خاکسار کی گرانقدر امداد فرمائی ہے.اس موقع پر میں اور ان کے عملہ کے دیگر ارکان کا شکریہ ادا کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں جنہوں نے تلاش حوالہ جات کے لئے مجھے جس کتاب کی بھی ضرورت پڑی بروقت مہیا کر کے میری امداد فرمائی.
عید یہ ہے کہ خدا سے تعلق ہو جائے اور بندے کی اس سے صلح ہو جائے یہ عید جب آتی ہے تو جاتی نہیں اور اس عید کے دن کی شام نہیں اس کو کوئی زمانہ ہٹا اور ختم نہیں کر سکتا.وہ دن ایسا ہے کہ اس کی عید ختم نہیں ہوتی.وہ عید نہ اس دنیا میں ختم ہوتی ہے نہ قبر میں ختم ہوتی ہے.نہ اگلے جہان میں وہ ختم ہوتی ہے.بلکہ اس عید کا دن یہاں چڑھنا شروع ہوتا ہے اور اگلے جہان میں عروج پر ہوتا ہے." (خطبہ عید الفطر فرموده ۸ - جون ۱۹۲۱ء) "شاید بعض لوگ میرے خطبات عید من کر کہیں کہ یہ ہمیشہ رنج کی خبریں سناتا ہے.لیکن یاد رہے کہ خدا نے میری طبیعت ایسی نہیں بنائی کہ خوشی کی بات کو رنج کی بات بتاؤں.عظمند انسان ہر ایک بات کو سمجھتا اور اس سے فائدہ اٹھاتا ہے اور جس سے عبرت حاصل ہوتی ہے اس سے عبرت حاصل کرتا ہے.پس میں اگر خطبات عید میں اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ کچی عید کیا ہے تو اس سے یہ مطلب نہیں کہ خوشی کو رنج سمجھتا ہوں بلکہ یہ مطلب ہے کہ جس واقعہ سے عبرت حاصل ہو سکتی ہو اس سے عبرت حاصل کریں اور اس کو یونہی نہ جانے دیں.آج میں پھر اسی بات کو دہراتا ہوں جس بات کو قریباً ہر عید کے خطبہ میں دُہراتا ہوں.گو الفاظ اور امثلہ اور طرز بیان میں تبدیلی آگئی ہو.(خطبہ عید الفطر فرموده ۸ - جون ۱۹۲۱ء)
(1) فرموده ۲۵.ستمبر ۱۹۱۱ء بمقام قادیان) اَعُوْذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيْمِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ إِذْ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ يُعِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ هَلْ يَسْتَطِيعُ رَبُّكَ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ قَالَ اتَّقُوا اللهَ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ - قَالُوا نُرِيدُ اَنْ نَّاكُل مِنْهَا وَتَطْمَئِنَّ قُلُوبُنَا وَنَعْلَمَ أَن قَدْ صَدَقْتَنَا وَنَكُونَ عَلَيْهَا مِنَ الشَّهِدِينَ - قَالَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ اللهُم رَبَّنَا اَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِاَوَّلِنَا وَاخِرِنَا وَأيَةً مِنْكَ وَارْزُقْنَا وَاَنْتَ خَيْرُ الرُّزِقِينَ - قَالَ اللهُ إِنِّي مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ فَمَنْ يَكْفُرُ بَعْدُ مِنْكُمْ فَإنّي أُعَذِّبُهُ عَذَا بَا لَّا أَعَذِّبُهُ أَحَدًا مِنَ الْعَلَمِيْنَ.انسان اپنے نفس کی خوشی کے لئے بہت سی مختلف خواہشات اپنے اندر رکھتا ہے.وہ چاہتا ہے اُسے آرام ملے ، سکون حاصل ہو، عزت ہو ، خوشی ہو، راحت ہو، فرحت ہو ان خواہشات کو پورا کرنے کے واسطے وہ مختلف طرز کی کوششیں کرتا ہے اور ہر قسم کے سامان مہیا کرتا ہے.دانا لوگوں نے جب فطرتِ انسانی کا مطالعہ کیا اور دیکھا کہ ان خواہشات کا پورا کرنا انسان کی فطرت میں داخل ہے تو انہوں نے ایسی تدابیر سوچیں جن سے یہ فطری تقاضا بھی پورا ہو اور کوئی مفید مطلب نتیجہ بھی نکل آئے.اس کوشش کی سب سے چھوٹی سی مثال گڑیوں کے کھیل میں پائی جاتی ہے.جب دیکھا گیا کہ لڑکیوں میں قدر تا کھیل کی طرف میلان ہے.تو ان کے واسطے ایک ایسا کھیل ایجاد کیا گیا جو نہ صرف تفریح کا کام دے اور قومی کی نشوو نما میں مدد دے بلکہ ان کی تعلیم و تربیت کا موجب ہو جائے.گڑیوں کا کھیل ایسا ہے کہ اس میں لڑکیاں سینا، پرونا کھانا پکانا اور آئندہ زندگی کے تمام ضروری حالات سے واقف ہو جاتی ہیں.کبھی گریا کا پاجامہ رسیا جا رہا ہے، کبھی اس کا کرتہ بنا جا رہا ہے، پھر گڑیا کا بیاہ ہوتا ہے.اس طرح کھیل میں ہی ان کا تمام چال چلن سنوارا جاتا ہے.ان کے خیالات میں ترقی ہوتی ہے.ان کے نشو و نما میں مدد ملتی ہے.یہ تو انسانی تدابیر کا نتیجہ ہے.مگر انسان کیا اور اس کے ذہنی قوی کیا.جب اللہ +
، تعالی اس طرح انسان کے فطرتی تقاضا کو پورا کرنے کے واسطے کوئی مفید حکمت بتلاتا ہے تو وہ بہت ہی اعلیٰ بات ہوتی ہے اور اس میں بڑے بڑے فوائد نظر آتے ہیں.اللہ تعالیٰ چونکہ خود خالق ہے وہ خوب جانتا ہے کہ انسان کی فطرت میں بھی یہ بات رکھی گئی ہے کہ وہ خوشی کی خواہشمند ہو اس واسطے اللہ تعالیٰ نے اس کی خوشی کے لئے عید کا دن مقرر کیا ہے اور اس میں بہت سی باریک حکمتیں رکھ دی ہیں اور انسان کے لئے بڑے بڑے منافع کی باتیں اس میں شامل کر دی ہیں.عید یا خوشی کا دن چونکہ فطرتِ انسانی میں داخل ہے اس واسطے تمام قوموں میں عید منائی جاتی ہے.عیسائیوں کی عید عنقریب دسمبر کے آخر میں ہونے والی ہے جس کو کرسمس کہتے ہیں.ایک اور عید عیسائیوں کی ایسٹر میں ہوتی ہے.ہندو بھی دسہرہ اور ہولی مناتے ہیں.سکھ بھی عید کرتے ہیں.یہودیوں میں بھی فرعون کی غلامی سے بچنے کے دن سہال سال عید ہوا کرتی ہے اور اس کے سوا اور بھی ان کے درمیان عید میں ہیں.غرض گل قوموں میں عید منانے کا دستور چلا آتا ہے.یہی انسانی فطرت کا تقاضا ہے.اس سے قومی میں نشو و نما ہوتا ہے.لیکن حقیقتاً عید دل کی خوشی سے ہوتی ہے.اگر کسی کے گھر میں رات چوری ہو گئی ہو اور اس کا تمام مال لوٹا گیا ہو تو وہ صبح کیا عید منائے گا.یا کسی کے ہاں ماتم ہو گیا تو وہ کیا عید کرے گا جب تک کہ دل میں راحت نہ ہو کوئی عید نہیں.صرف کپڑوں کی تیاری اور کی کھانے پینے کا نام عید نہیں ہے مگر عید دل کی خوشی سے بنتی ہے.اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے واسطے دو عیدیں مقرر کی ہیں اور ہر دو میں بڑی حکمتیں رکھ دی ہیں.ہر دو میں اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ دل کی کچی راحت جس کو تم تلاش کرتے ہو وہ ہم بتلاتے ہیں کہ کس طرح مل سکتی ہے.پہلی عید کے قبل ایک ماہ کا روزہ مقرر کیا ہے کہ جب انسان اپنی خواہشات کو اللہ تعالٰی کے لئے چھوڑ دیتا ہے اور اس کے لئے بھوک پیاس برداشت کرتا ہے تو یہ اس کے واسطے ایک خوشی کا مقام ہے.اللہ تعالیٰ کی اس عبادت کے بعد وہ ایک عید مناتا ہے.دوسری عید میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی طرف اشارہ کر کے ہر مسلمان کو جسے استطاعت ہو قربانی دینے کا حکم ہے.اس میں یہ بہتر ہے کہ تم حضرت اسماعیل علیہ السلام کی طرح اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دو.حقیقی عید یہی ہے.مگر یہاں کیسی مشکل ہے کہ بر خلاف اس کے آج کل کے مسلمان عید کے دن گندے افعال کرتے ہیں.عیش و عشرت میں دن گزارتے ہیں.بجائے اس کے کہ دل کی خواہشوں کو قربان کریں زنا
3 اور فسق و فجور میں مبتلا ہوتے ہیں.حضرت مسیح کے حواریوں نے خواہش کی کہ ہمیں مائدہ ملے تاکہ ہمارے لئے عید ہو..اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مائدہ تو اُترے گا مگر مال و دولت پاکر انسان گمراہ ہو جاتا ہے اور فرعون بن جاتا ہے.اللہ کے پیاروں پر حملے کرنے لگ جاتا ہے.یاد رکھو کہ اگر مائدہ پا کر تم میری مرضی کے خلاف چلو گے تو میں ایسی سزا دوں گا جو کبھی کسی کو نہ ملی ہو.جب خدا کی نعمت ملتی ہے تو اس کے ساتھ ذمہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں.خدا کے عذاب سے ہر وقت ڈرتے رہنا چاہئے.خدا اندھا کر دے، بہرہ کر دے ، جذام ہو جائے، مرگی پڑ جائے ، پاگل بن جائے، ننگ و ناموس جاتا رہے، عذاب الہی کو کون برداشت کر سکتا ہے.عیسائیوں کو دیکھو انہوں نے خدا ہی نیا بنالیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ ایسا سخت گناہ ہے کہ قریب ہے اس سے آسمان و زمین پھٹ ئیں.پیشگوئیوں سے ظاہر ہے کہ کوئی ایسا سخت وقت آنے والا ہے.ابتلاء سے بچنے کے واسطے اللہ تعالیٰ نے عید کے دن جو خوشی کا دن ہے بجائے پانچ کے چھ نمازیں مقرر کر دی ہیں.اس میں اشارہ ہے کہ جب مال و دولت، آرام و راحت حاصل ہو تو عبادت زیادہ کرو.جب ان کی خواہشات بڑھیں تو نماز بھی ایک اور بڑھا دی.جب چھ نمازیں پڑھیں گے تو ان کی توجہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں اور بھی بڑھ جائے گی.مسلمانوں نے جب اس کے برخلاف کیا تو ان پر ہر طرف سے دکھ کی مار پڑی.ملک چھینے جا رہے ہیں، عزت و مال جاتے رہے، سب سے زیادہ ذلیل ہو گئے ہیں.دیکھو مراکش مسلمانوں کی سلطنت ہے مگر جرمن اور فرانس اس پر قبضہ کرنے کے واسطے اعلانیہ آپس میں جھگڑا کر رہے ہیں.گویا اسلامی بادشاہ کی کوئی ہستی ہی نہیں اور اس کے ملک کو اپنا حق جانتے ہیں اور اس کی کوئی عزت ان کے دلوں میں نہیں.ہمارے بادشاہ بھی ذلیل ہو گئے.اللہ تعالٰی نے ان ابتلاؤں سے بچنے کا یہ علاج مقرر کیا ہے کہ پہلے سے بڑھ کر عبادت کرد ، صدقہ دو حج کے لئے سفر اختیار کرو ، قربانیاں دو.افسوس ہے کہ مسلمان خیال کرتے ہیں کہ عید ایک میلہ ہے اور دنیوی راحت کے لئے ہے.اصلی راحت تو اللہ تعالیٰ کی رضا سے حاصل ہوتی ہے.خدا تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ ہم حقیقی راحت کو سمجھیں اور پائیں.ل العائدة : ١١٣ تا ١١٦ یدر نمبر ۴۶ ۴۷ جلد ۱۰ صفحه ۱۲۸۴۷ اکتوبر ۱۹۱۱ء)
(۲) فرموده ۳- ستمبر ۱۹۱۳ء بمقام قادیان حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی طبیعت بہ سبب درد پسلی علیل رہی لیکن اب آرام ہے نماز عید کے واسطے مسجد میں تشریف لے گئے تھے مگر حضور کے حکم سے حضرت صاحبزادہ میاں بشیر الدین محمود صاحب نے خطبہ عید پڑھا اور نماز پڑھائی خطبہ میں آپ نے فرمایا کہ انسان کو حکم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرے مگر اس قدوس کی تسبیح وہی کر سکتا ہے جو اپنے آپ کو گناہوں سے پاک صاف کرے اور یہ بات مشق اور ریاضت سے حاصل ہوتی ہے جیسا کہ دنیوی ہنر میں جب تک انسان بار بار اپنے کام میں محنت کے ساتھ مشق نہ کرے تب تک صفائی پیدا نہیں ہو سکتی یہی حال باطنی صفائی کا ہے".اخبار بدر ۱۱۴.ستمبر ۱۹۱۳ء) خلیفة المسیح الاول حضرت مولوی نور الدین صاحب ۱۸۴۱/۴۲ء ۱۹۱۴ء بیعت ۱۸۸۹ء خلافت ۱۹۰۸ء تا مارچ ۱۹۱۴ء
(۳) فرموده ۲۴.اگست ۱۹۱۴ء به تمام میدان نزد مسجد نور - قادیان) اَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ - اَلْحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ تُظْلِلُهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ : لاَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ إِذْ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ بِعِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ هَلْ يَسْتَطِيعُ رَبُّكَ اَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ قَالَ اتَّقُوا اللَّهَ إِنْ كُنتُم مُّؤْمِنِينَ - قَالُوا نُرِيدُ اَنْ نَّاكُلَ مِنْهَا وَتَطْمَئِنَّ قُلُوبُنَا وَنَعْلَمَ أَنْ قَدْ دَقْتَنَا وَنَكُونَ عَلَيْهَا مِنَ الشَّهِدِينَ - قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا اَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيْدًا لَّاوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنْكَ وَارْزُقْنَا وَاَنْتَ خَيْرُ الرَّزِقِيْنَ - قَالَ اللهُ إِنِّي مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ فَمَنْ يَكْفُرُ بَعْدُ مِنْكُمْ فَإِنّى أُعَذِّبُهُ عَذَا ًبا لَا أَعَذِّبُهُ أَحَدًا مِّنَ الْعَلَمِيْنَ - ٣ ہر ایک انسان فطرتاً اپنی بھلائی اور بہتری اور اپنے لئے آرام چاہتا ہے.کوئی بیوقوف سے ہیو قوف انسان بھی ایسا نہیں ہو گا جو اپنے لئے دُکھ چاہتا ہو لیکن اپنی نادانی کی وجہ سے بعض لوگ ایک مسکھ طلب کرتے ہیں لیکن وہ اس کی وجہ سے دُکھ میں پڑ جاتے ہیں..ایک آدمی اپنے لئے آرام و راحت طلب کرتا ہے وہ الٹا اس کے لئے موجب تکلیف بن جاتا ہے ، وہ انعام طلب کرتا ہے اور وہ اس کے لئے عذاب ہو جاتا ہے وہ ترقی طلب کرتا ہے جو تنزل ہو جاتی ہے اور وہ مفید چیزیں طلب کرتا ہے لیکن وہ اس کے لئے مضر ثابت ہوتی ہیں.اس طرح کے ہزاروں نظارے دنیا میں نظر آتے ہیں کہ ایک انسان بڑی خوشیوں اور بڑی امیدوں کے ساتھ ایک چیز کو طلب کرتا ہے لیکن وہ اس کے لئے دکھ کا موجب بن جاتی ہے.ایک انسان کے گھر اولاد نہیں وہ خود دعائیں کرتا ، لوگوں کو دعا کے لئے کہتا اور صدقہ و خیرات
بھی کرتا ہے اور جو کچھ بھی وہ اس کے لئے کر سکتا ہے کرتا ہے مگر ایسی خبیث اولاد اس کی ہوتی ہے کہ وہ اس کے لئے انقطاع نسل کا باعث ہو جاتی ہے.اس کی نسل تو ہوتی ہے لیکن وہ ایسی رم ایسی شرمناک حرکات کرتی ہے کہ اس کا نام لیتے ہوئے بھی اس کو شرم آتی ہے.معاویه ۳ یزید که کی پیدائش پر کتنا خوش ہوا ہو گا اور اس نے خیال کیا ہو گا کہ یہ بیٹا میرے لئے عزت افزائی کا موجب ہو گا لیکن اسی یزید نے ایسی ایسی خباثتیں کیں کہ اب کوئی آدمی نہیں کہہ سکتا کہ میں معاویہ کی اولاد ہوں ، کیوں؟ کہ اس کے درمیان ایک گندے آدمی کا واسطہ آتا ہے جس کی وجہ سے وہ بدنام ہوتے ہیں.تو وہی یزید جسے اس نے اپنی نسل بڑھانے والا اور ناموری کا باعث تصور کیا وہ اس کے لئے ہلاکت اور تباہی کا باعث ہو گیا.تو انسان بڑی خوشیاں کرتا اور اپنے لئے ایک چیز کو مفید خیال کرتا ہے لیکن وہی اس کے لئے تباہی و بربادی کا باعث ہو جاتی ہے.بدر کے موقع پر کفارِ مکہ جب آئے.انہوں نے سمجھا کہ بس اب ہم نے مسلمانوں کو مار لیا اور ابو جہل نے کہا ہم عید منائیں گے اور خوب شرابیں اُڑائیں گے.ھے اور سمجھا کہ بس اب مسلمانوں کو مار کے ہی پیچھے ہٹیں گے.لیکن اسی ابو جہل کو مدینہ کے دو لڑکوں نے (کفار مکہ مدینہ والوں کو نہایت ذلیل خیال کرتے تھے اور ان کو ارائیں کہا کرتے تھے قتل کر دیا.اور اسے ایسی حسرت دیکھنی نصیب ہوئی کہ اس کی آخری خواہش بھی پوری نہ ہو سکی.عرب میں رواج تھا کہ جو سردار ہوتا وہ اگر لڑائی میں مارا جاتا تو اس کی گردن لمبی کر کے کاٹتے تاکہ پہچانا جاوے کہ یہ کوئی سردار تھا) عبداللہ بن مسعود کو نے اسے دیکھا (جب یہ بے حس و حرکت زخمی پڑا تھا اور پوچھا کہ تمہاری کیا حالت ہے.اس نے کہا مجھے اور تو کوئی افسوس نہیں صرف یہ ہے کہ مجھے مدینہ کے دو ارائیں بچوں نے مار دیا.عبداللہ نے دریافت کیا کہ تمہاری کوئی خواہش ہے ؟ اس نے کہا اب میری یہ خواہش ہے کہ میری گردن ذرا لمبی کر کے کاٹ دو.انہوں نے کہا میں تیری یہ خواہش بھی پوری نہ ہونے دوں گا.اور اس کی گردن کو ٹھوڑی کے پاس سے سختی سے کاٹ دیا ، اور وہ جو عید منانی چاہتا تھا وہی اس کے لئے ماتم ہو گیا اور وہ شراب جو اس نے پی تھی اسے ہضم ہونی بھی نصیب نہ ہوئی.انسان ایک لطیف سے لطیف غذا کھاتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میرے جزو بدن ہو گی لیکن وہ نہیں جانتا کہ یہی غذا اس کے لئے ہیضہ کا باعث ہو جائے گی.
۱۲ بڑی بڑی خوشیوں اور شادیوں کے موقعوں پر لوگ جاتے ہیں اور خوشی میں حد سے گزر جاتے ہیں اور شریعت کے احکام کو توڑتے ہیں لیکن بیویاں ایسی آتی ہیں کہ وہ گھر میں امن کی بجائے فساد کا موجب ہو جاتی ہیں.اور بعض ، بعض بد کاریاں کر کے اس گھر کی بدنامی کا باعث ہو جاتی ہیں.تو ہم دیکھتے ہیں کہ ایک خوشی جسے انسان طلب کرتا ہے ہو سکتا ہے کہ وہ خوشی نہ ہو.ممکن ہے انسان خدا کو ناراض کر کے خوشی کے بدلے دُکھ خرید لے.یہ آیت جو میں نے پڑھی ہے اس میں یہی بتلایا ہے.پہلے مسیح کے حواریوں نے مسیح سے عرض کیا کہ آپ ہمارے لئے دعا کریں کہ ہمیں آسمان سے مائدہ ملے.ہم کو دولت مل جاوے تاکہ یہ جو آئے دن چندے لگے رہتے ہیں ان سے چھٹی ہو اور آرام سے ہم خرچ کر سکیں گے اور پھر ہم خوب دل کھول کر عبادت بھی کر سکیں گے کیونکہ بے فکر ہوں گے.حضرت مسیح نے فرمایا.یہ دولت مت طلب کرو.جو اللہ دیتا ہے اسے لو.انسان ایک وقت میں ایک چیز کو مفید خیال کر کے طلب کرتا ہے لیکن وہ اس کے لئے دُکھ کا موجب ہو جاتی ہے.انہوں نے کہا.ہم نیک ارادے سے طلب کرتے ہیں.حضرت مسیح نے ان کے لئے دعا کی.اللہ تعالیٰ نے فرمایا.میں دوں گا تو سہی لیکن جو شخص پھر اس کی ناشکری کرے گا تو میں اسے ایسا خطرناک عذاب دوں گا کہ اور کسی کو ایسا خطرناک عذاب نہ ملے گا.خدا تعالی کا معمولی عذاب بھی کوئی برداشت نہیں کر سکتا.ایک بہادر سے بہادر آدمی کو ذرا سر میں درد ہو یا پیٹ میں درد ہو تو اسے گرا دیتی ہے.ہمارے موجودہ بادشاہ شہ کے والد ایڈورڈ ہفتم ملے کا جشن تاجپوشی ہونے والا تھا.پیٹ میں پھوڑا تھا.باوجود اس کے کہ ہر طرح کی تیاریاں کر چکے تھے مگر خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت سرجھکانا پڑا اور جشن ملتوی کرنا پڑا.غرضیکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ابتلاء آتے ہیں بادشاہ بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے.غرض انسان کو بہت سی خوشیاں پہنچتی ہیں لیکن ان میں سے بہت سی خوشیاں اصل میں خوشیاں نہیں ہو تیں بلکہ آخر کار مصیبت ثابت ہوتی ہیں.اللہ تعالی نے اس آیت میں فرمایا ہے ہم دیں گے تو سہی مگر ایسا نہ ہو تم نافرمانی کرو.تو میں پھر تم کو ایسا خطرناک عذاب دوں گا کہ کسی کو نہ دیا ہو گا.اب اس کا اندازہ کون کر سکتا ہے.ایک جگہ اس عذاب کو آسمان کے پھٹ جانے للہ
f 2 श مشابہت دی ہے.ایک معمولی ستارہ زمین پر گر جاوے یا سورج یا چاند ہی زمین پر گر جاویں سے تو تہلکہ مچ جاوے تو جب تمام نظام ہی درہم و برہم ہو جاوے تو اس وقت کیا حالت ہو گی.اب اس زمانہ میں ایک ایسی لڑائی کا شروع ہوئی ہے کہ پہلے اس کا نمونہ نہیں ملتا.صحابہ کے زمانہ میں جنگ ہوتی تھی، تیروں کی جنگ.بعض صحابہ کو تیر لگا ہوا ہے اور نماز پڑھ رہے ہیں.ساہ اُس وقت وہ لوگ باوجو د زخموں کے کام بھی کر سکتے تھے مگر اب خطرناک سے خطرناک سامانوں کے ساتھ لڑائی ہو رہی ہے اور یہ ایک خطرناک عذاب ہے.خطرناک قسم کے گولے جو آدمی تو کیا ہستی رکھتا ہے بڑی بڑی دیواروں اور قلعوں کو تباہ کر دیتے ہیں.اور ہم ہوائی جنگی جہاز بڑی بڑی طاقت کی مشین والی تو ہیں ، بڑے بڑے جنگی جہاز ہیں جن کے ذریعے سے لڑائی کرتے ہیں.تو یہ سامان جو آج کل لڑائیوں میں نظر آتے ہیں.یہ دنیا میں آج تک نہیں پائے گئے اور ایسے ایسے خطر ناک سامان ہیں کہ ان سے بچنا نا ممکن ہوتا ہے.عجیب عجیب قسم کی بندوقیں اور کروزر (CRUISER) اور اس قدر لڑائی کے سامان اکٹھے ہوئے ہیں کہ : انسان کے خیال میں بھی نہیں آسکتے تھے.پہلے آج تک کبھی ایسی لڑائی نہیں ہوئی.کہتے ہیں کو رو چھیتر ۱۴ کے میدان میں کئی لاکھ آدمی مارے گئے حالانکہ اس میدان میں لاکھ دو لاکھ آدمی بھی سما نہیں سکتا.یورپ کہتا ہے کہ ہم نے لڑائی کے سامان ایجاد کئے.ہم نے تو ہیں بنا ئیں ، ہم نے بندوقیں بنائیں ، ہم نے جنگی جہاز بنالئے اور کروزر (CRUISER) بنائے.ہم کہتے ہیں.یہ بالکل ٹھیک ہے ایسا ہی ہے.لیکن یہ خدا کا فرمان پورا ہو رہا ہے.تمہاری ایجادیں قرآن کریم کی آیت کی تصدیق کرتی ہیں.چنانچہ اب یورپین اخبارات خود اس بات کا اقرار کر رہے ہیں کہ یہ لڑائی ایسی ہے کہ ایسی لڑائی اور خونریزی اس میں ہونیوالی ہے کہ آج تک کبھی نہیں ہوئی.گویا وہی سامان ان کے لئے دُکھ کا موجب بن گیا.تو خوب یاد رکھو کہ انسان کو بڑی خوشیاں ہوتی ہیں لیکن وہ اس کے عذاب اور دکھ و تکلیف کا باعث ہو جاتی ہیں.آج بھی ایک عید کا دن ہے.لوگ خوشی میں ہیں کہ عید آگئی اور بڑے خوش ہو رہے ہیں.ها.قرآن کریم جیسی پاک کتاب اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۵له جیسا پاک انسان اس سے استنباط کرنے والا.آپ نے ایک عید کا دن بنایا.لوگ تو خوشیوں میں اپنے فرضوں کو بھول کر شریعت کے احکام توڑتے ہیں.آپ نے بجائے پانچ کے اس دن چھ نمازیں مقرر
۱۴ فرمائیں کہ ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ اس خوشی میں متوالے ہو کر شریعت کے احکام کو توڑیں اور مورد عذاب بنیں.بعض قوموں کو اللہ تعالیٰ نے انعام دیتے اور خوشی دی انہوں نے کفر کیا اور ان کو عذاب ملا.تو عید بیشک خوشی اور راحت کی چیز ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں.یہ خوشی کا دن ہے.14 یہ کیوں خوشی کا دن ہے.یہ ایک الگ سوال ہے اور لمبا مضمون ہے.غرض یہ دن خوشی کے ہیں.خوشیوں میں لوگ فرائض کو بھول جایا کرتے ہیں لیکن ہم کہتے ہیں کہ خوشیوں میں ذمہ داریاں بڑھ جایا کرتی ہیں.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ پر ہزار ہزار رحمتیں اور برکات ہوں اور سلام و صلوة و برکات آپ پر نازل ہوں آپ نے کیا ہی احتیاط کی ہے اور ہمیں بچا لیا.قرآن کریم میں ہے جو نعمت کا نا شکر گزار ہو اسے عذاب دوں گا.حملہ آپ نے ہمیں بتلا دیا کہ کوئی خوشی ہو تم اس میں ضرور کچھ نہ کچھ عبادت کر لیا کرو.شریعت میں ہر خوشی کے موقع پر عبادت کا حکم دیا ہے.بچہ پیدا ہوتا ہے تو اور لوگ تو گانا بجانا اور دیگر بدعات کرنی شروع کر دیتے ہیں لیکن ایک مسلمان کو حکم ہے کہ بچہ پیدا ہو تو اُس وقت اس کے کان میں اللہ کا نام ڈالو.اَللهُ أَكْبَرُ اس کے کان میں پھونکو ۱۸ء کہ تم خدا کی عبادت کرنا اور کوئی خوشی آئے اسے خدا تعالیٰ کے احکام کے ماتحت رکھنا.شادی کا وقت آتا ہے اُس وقت خطبہ نکاح رکھا جس میں اَلْحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَ نَسْتَعِيْنُهُ رکھا.پھر اس کے بعد بعض آیات قرآنی پڑھی جاتی ہیں.جن میں بار بار اتَّقُوا اللَّهَ اتَّقُوا اللَّهَ لے آتا ہے.پھر جب وہ بیوی کے پاس جاتا ہے اس وقت بھی عبادت رکھی اور فرمایا.دعا مانگا کرو.اَللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَنَ وَجَيِّبِ الشَّيْطَنَ مَا رَزَقْتَنَا ۲۰ کھانے کو بیٹھے.بِسمِ اللهِ.اس کھانا کھا کر سستی پیدا ہو جاتی ہے.فرمایا.الْحَمْدُ لِلَّهِ ۳ کہو.ہر حالت میں خدا کی حمد کرتے رہو.کوئی خوشی اور کوئی راحت نہیں جس میں آپ نے عبادت اللہ تعالیٰ کی نہیں رکھی.کیونکہ اگر انسان عبادت الہی نہ کرے اور کفران نعمت کرے.تو قرآن شریف فرماتا ہے فَانِي أُعَذِّبُهُ عَذَابًا لَا أَعَذِّبُةَ أَحَدًا مِّنَ NANGALKANG - نبی کریم صل ال ماروی میمن نے خود ہمارے لئے راستہ صاف کر دیا.اور ہمارے لئے اصول مقرر فرما دیئے.گویا آپ نے علاج بتلا دیا کہ تم ہر ابتدائے امر پر بسم اللہ اور اس کے اختتام اَلْحَمْدُ لِلَّهِ کہو.قرآن کریم میں آتا ہے.وَاخِرُ دَعُونَهُم اَنِ الْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ
۱۵ الْعَلَمِینَ - ۲۳ تو آج ایک خوشی اور راحت کا دن ہے.کیوں ہے ؟ یہ ایک لمبا مضمون ہے.ہمیں خدا نے ایک عبادت کا موقع دیا ہے.آنحضرت ملی یا اللہ نے ہماری ہر ایک خوشی کے موقع پر عبادت مقرر فرمائی ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں ایک عبادت کا موقع دیا.اللہ تعالیٰ کے پیاروں کے کام بھی کیا ہی عمدہ ہوتے ہیں.رضی حضرت عائشہ اب ۲۴ صدقہ و خیرات بہت کیا کرتی تھیں.عبداللہ ابن زبیر ۲۵ ان کے بھتیجے نے کہیں کہہ دیا کہ ان کو روکنا چاہئے کیونکہ اس طرح ان کے وارثوں کو کیا ملے گا.ان کو یہ خبر پہنچ گئی.انہوں نے کہا.میں اگر اسے ملوں تو میں نذر دوں گی.ایک دن قریش کے ایک دو آدمیوں نے عبداللہ بن زبیر کو ساتھ لیا اور دروازے پر جا کر دستک دی اور کہا.ہم اندر آنا چاہتے ہیں.اب ہم کے لفظ میں عبد اللہ بن زبیر بھی شامل تھے اور ان کو پس پردہ کیا تو معلوم تھا کہ وہ بھی ساتھ ہیں) آپ نے اجازت دے دی.جب اندر گئے تو عبد اللہ حضرت عائشہ ان سے لپٹ گئے.تب حضرت عائشہ نے کہا کہ میں نے جو نذر مانی ہوئی تھی.اب اسے پورا کروں.۲۶ ، وہی بات جس سے عبد اللہ بن زبیر نے روکنا چاہا اسے کیا.تو گویا انہوں نے اپنے بھتیجے کے ملنے کی خوشی میں ایک عبادت کی.اور صدقہ و خیرات کیا.یہ باتیں انہوں نے نبی کریم مالی یوری سے ہی سیکھیں.آپ نے فرمایا.کہ رمضان آیا روزے رکھو عبادت کرو.جب گزرا تو خوشی کرو کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی کہ روزے رکھے اور اس خوشی میں عبادت کرو.یہی ایک نہیں بلکہ ہر ایک خوشی میں عبادت رکھی.کیونکہ انسان خوشی میں اندھا ہو جاتا ہے اس لئے فرمایا خوشی میں عبادت بھی کر لیا کرو تاکہ تم اپنی غلطیوں کے ضرر سے بچ جاؤ اور تمہیں اس سے فائدہ پہنچے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے فائدہ پہنچاوے اور حقیقی اسلام کے پھیلانے کی ہمیں توفیق دے.ہمیں تقویٰ کے لباس سے ملبوس کرے.خدا کرے ہم وہ دن دیکھیں کہ اسلام دنیا میں بڑھے اور پھیلے.آمین ثم آمین (الفضل ۳۰.اگست ۱۹۱۴ء) d سنن ابی داود كتاب النكاح باب فى خطبة النكاح جلد اول صفحه ۲۸۹ ہندی المائدة : ۱۱۳ ۱۱۶
14 معاویہ بن ابی سفیان - بنوامیہ ۶۶۰۳ - ۶۸۰ء حکومت ۶۶۵۶ یزید بن معاویہ.بنو امیہ ۲۵ ھ / ۶۶۴۵.۶۸۳ء حکومت ۶۶۸۰ ابو جهل (ابو الحکم بن ہشام - بنو مخزوم - جنگ بدر ۶۲۴ء میں مسلمانوں کے خلاف لڑتا ہوا مارا گیا اشد ترین معاند رسول اکرم ملی و یا امیل - (صحیح بخاری کتاب المغازى باب قتل ابى جهل - صحيح مسلم كتاب الجهاد والسير باب قتل ابى جهل - ) (الف) صحیح مسلم کے مطابق یہ دونوں معاذ بن عمرو بن الجموح و معاذ بن عفراء تھے.مسلم كتاب الجهاد والسير باب استحقاق القاتل سلب القتيل ۸۸/۲ مجتبائی.(ب) حاشیہ صحیح بخاری کے مطابق ان کے نام معاذ اور معوذ تھے اور یہ دونوں عفراء کے بیٹے تھے.(بخارى كتاب المغازی باب قتل ابى جهل ۵۶۵/۲ حاشیہ) اور سیرت ابن ہشام میں مرقوم ہے کہ (ج) معاذ حضرت عثمان کی خلافت تک زندہ رہے جب کہ معوذ اسی جنگ میں شہید ہوئے.ان دونوں کے ساتھ مقابلے کے بعد بھی ابو جہل میں زندگی کی رمق باقی تھی.عبد اللہ بن مسعودؓ نے حضور کے حکم پر اس کی لاش تلاش کی اور اس کا سر قلم کیا.(سيرة ابن هشام الجزء الثاني صفحرام) عبداللہ بن مسعود.بنو ہذیل.۶۰ برس سے کچھ اوپر عمر پا کر ۳۲ھ میں وفات پائی.بخارى كتاب المغازی باب قتل ابى جهل جارج پنجم ۱۸۶۵ء.۱۹۳۶ء ایڈورڈ ہفتم ۱۸۴۱ء.۱۹۱۰ ء - جشن تاجپوشی ۲۶ جون ۱۹۰۲ء کو ہونا قرار پایا تھا مگر بیماری کے باعث ملتوی ہو کر ۹.اگست ۱۹۰۲ء کو ہوا.الله الحاقه : الرحمن : ۳۸ ۱۲ جنگ عظیم ۶۱۹۱۴ - ۱۹۱۸ء سنن ابي داؤ د كتاب الطهارة باب الوضوء من الدم سيرة الامام ابن هشام الجزء الثاني صفحه ١٣٦ راجہ دھرت راثر کے بیٹوں کو رؤں اور راجہ پانڈ کے بیٹوں پانڈوؤں کی مشہور
16 اٹھارہ روزہ جنگ جس کی تفصیل مہابھارت میں ملتی ہے.ها فخر موجودات نبی کریم ابو القاسم محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب صلی اللہ علیہ وسلم.بنو ہاشم.۶۵۷۰.۶۳۲ء (دعومی ۶۶۱۰) ۱۲ صحیح مسلم کتاب صلوة العيدين باب الرّخصة في اللعب الخ جلد اول صفحه ۳۵۳٬۳۵۲ طبع مصری.صحیح بخاری کتاب العيدين باب سنة العيدين لاهل الاسلام جلد اول صفحہ ۱۳۰ طبع ہندی.اه ابراهیم: ۸ ۱۸ ترندی باب الاذان في اذن المولود 19 النساء : الاحزاب : اے الحشر : ١٩ ۲۰ اللهم سے پہلے بسم الله بھی ہے) بخاری کتاب النكاح باب ما يقول الرجل اذا اتى اهله ال صحیح بخارى كتاب الاطعمة باب التسمية على الطعام ۲۲ صحیح بخاری کتاب الاطعمة باب ما يقول اذا فرغ من طعامه جلد ثانی صفحہ ۸۲۰.تین دعائیں مذکور ہیں.(الف) الحمد لله كثيرا طيبا مباركا ۲۳ فيه غير مكفى ولا مودع ولا مستغنى عنه ربنا (ب) الحمد لله الذي كفانا واروانا غير مكفى ولا مكفور - (ج) لك الحمد ربنا غير مكفى ولا مودع ولا مستغنى ربنا - يونس : ١١ ری ٢٢ اُمّ المؤمنين عائشہ بنت ابي بكر - قریش - بنو تمیم وق ۵ / ۱۴.۶۱۳ء ۶۶۷۸/۵۵۷-۵۸ ۲۵ عبد اللہ ابن زبیر.قریش.بنو اسد بن عبد العزئی ۲.ا ھ ش / ۶۷۲۲.۷۳ ھ / ۶۷۹۲.د عومی خلافت ۵۶۴ صحیح بخارى كتاب المناقب باب مناقب قريش
1 ۱۸ (۴) فرموده ۱۳.اگست ۱۹۱۵ء بمقام مسجد اقصی.قادیان) تمام قوموں میں بعض دن عید کے سمجھے جاتے ہیں.ان میں لوگ اکٹھے ہو کر خوشیاں مناتے ہیں.اس سے ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ قوم کے مختلف افراد آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر وہ کوفت اور تھکان جو گذشتہ محنت کے دنوں میں ان کے جسموں پر وارد ہوئی ہے دور کریں.اور اس خوشی کے ذریعہ اپنے رنجوں اور دکھوں کو دور کر کے تازہ دم ہو جائیں کیونکہ انسانی طبیعت کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ اس کے لئے بعض دفعہ بناوٹ کا رنج رنج ہو جاتا ہے اور بعض اوقات بناوٹ کی خوشی اصل خوشی ہو جاتی ہے.چنانچہ اگر ذرا غمگین چہرہ بنایا جائے تو فوراً طبیعت میں بھی غم آجاتا ہے.اور اگر ذرا خوشی کا چہرہ بنایا جائے تو باوجود رنج اور غم کے انسان بننے لگ جاتا ہے.اور اس طرح بہت کچھ غم کم ہو جاتا ہے.اس لئے عیدین اور خوشی کے دن لوگوں کی خوشیوں اور غموں پر بہت کچھ اثر ڈالتے ہیں اور لوگ ان کے ذریعہ اپنی مصیبتوں کو کم کرتے ہیں.اسی لئے ہر قوم اور ہر ملک میں عید کا رواج ہے حتی کہ افریقہ کے حبشی جن کا کسی مہذب ملک سے تعلق نہ تھا ان کی نسبت بھی معلوم ہوا ہے کہ ان کے خاص تہوار تھے جن میں وہ خوشیاں کیا کرتے تھے.پس معلوم ہوا کہ عید منانا ایک فطرتی تقاضا ہے.چونکہ فطرتِ انسانی چاہتی ہے کہ اس کے بوجھ ہلکے ہوں، رنج دور ہوں اور خوشی قائم ہو اس لئے ضروری تھا کہ کوئی ایسا دن مقرر کیا جاتا جس میں انسان اپنے غموں کو دور کر کے یا کم از کم انہیں بھلا کر زینت کے سامانوں سے آراستہ ہو کر خوشی خوشی لوگوں کے ساتھ بیٹھے اور ملے اور اس کے دل میں کتنا ہی رنج اور تکلیف ہو تو بھی خوشی کا اظہار کرے.اس فطرتی تقاضا کو پورا کرنے کے لئے تمام مذاہب نے عیدیں رکھی ہیں اور اسی غرض کیلئے اسلام نے بھی.مگر اسلام کی عیدوں اور دوسرے مذاہب کی عیدوں میں ایک بہت بڑا فرق ہے.دوسرے مذاہب نے تو یہ مد نظر رکھا ہے کہ انسان کی اُمنگیں اور خواہشیں کیا چاہتی ہیں.مگر اس بات کو مد نظر نہیں رکھا کہ ان اُمنگوں کو نیکی اور بھلائی کی طرف پھیرنے کے لئے کون سی بات کی
.۱۹ ضرورت ہے.اسلام نے اس بات کا بھی خوب خیال رکھا ہے.اسلام کی عیدوں اور دوسرے مذاہب کی عیدوں میں اسی طرح کا فرق ہے.مثلاً ایک انسان کو بھوک لگے اور بھوک چاہتی ہے کہ پیٹ میں کچھ جائے.لیکن ایک شخص اس کے متعلق یہ کرے کہ اس بھوکے کو آکھ کے پتے یا تھوہر کے ڈنٹھل کھانے کو دے یا کسی انسان کو جب پیاس لگے تو طبیعت چاہتی ہے کہ کچھ پیئے لیکن ایک شخص اس پیاسے کو گرم کھولتا ہوا پانی یا خون اور پیپ پینے کے لئے دے.گو اس شخص کے آکھ یا تھو ہر کھانے اور گرم پانی یا خون پینے سے بھی بھوک اور پیاس میں کسی قدر کمی آجائے گی کیونکہ گرم اور گندہ پانی بھی پیاس کو کم کر دیتا ہے.اسی طرح بھوک کے وقت کچھ کھا لینے سے پیٹ بھر جاتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جس شخص نے اس بھوکے اور پیاسے کو یہ کچھ کھلایا اور پلایا.آیا وہ کس قدر دانا اور عظمند ہے؟ اس کی عقلمندی میں ضرور شک پڑ جائے گا کیونکہ اس نے عارضی اور وقتی علاج تو کیا مگر اس کے لئے ہمیشہ کے واسطے تنور جلا دیا ہے.گندی اور خراب چیز کھانے والا کو عارضی طور پر پیٹ بھر لے گا مگر اس کے اثرات سے جو بیماریاں پیدا ہونگی ان کا اسے نتیجہ نبھگتنا پڑے گا.اسی طرح گندے اور غلیظ پانی سے کسی قدر پیاس تو کم ہوگی مگر اس کے بعد جو بہت سخت بیماریاں لاحق ہونگی ان کی تکلیف برداشت کرنی پڑے گی.لیکن ایک اور شخص جو کسی کی بھوک اور پیاس کو دیکھ کر بجائے ان چیزوں کے اس کو طیب غذاؤں اور صاف پانیوں سے سیر کرتا اور پیاس بجھاتا ہے واقعہ میں یہ دانا اور عظمند ہے.پس یہی فرق ہے دوسرے مذاہب اور اسلام کی عیدوں میں.انہوں نے انسانی خوشی کے فطرتی تقاضا کو تو سمجھا ہے لیکن اس کو پورا ایسے رنگ میں کیا ہے کہ گو عارضی طور پر وہ ترکیب دل کی آگ بجھانے والی ہے لیکن دراصل دائمی طور پر انسان کو خراب کر دینے والی ہے.ہاں اسلام نے جو عید کا طریق رکھا ہے وہ عارضی طور پر ہی اس فطرتی تقاضا کو پورا نہیں کرتا بلکہ دائگی اور ہمیشہ کی خوشی اور راحت کے سامان بھی مہیا کر دیتا ہے اور یہی فرق ہے اسلامی عیدوں اور دوسرے مذاہب کی عیدوں میں.ان کی عیدیں کیا ہوتی ہیں.یہ کہ خوب ناچ گانا ہو ، بخش اور گندے گیت گائے جائیں، کھانے پینے کی چیزیں ہوں، خرید و فروخت کے سامان ہوں.لیکن اسلام کی عید یہ ہے کہ آؤ بھئی آج بڑی خوشی کا دن ہے.ہر روز پانچ نمازیں پڑھا کرتے تھے آج چھ پڑھیں.خوشی تو یہ ہوئی کہ کہا کپڑے بدلو ، عطر لگاؤ اچھے کھانے پکاؤ اور
کھاؤ.کیوں؟ اس لئے کہ آج تمہیں خدا کی عبادت کرنے کا پہلے سے زیادہ موقع ملا ہے.یہی تو عید ہے.پس خدا تعالٰی نے بتا دیا کہ مومن کی عید یہ ہوتی ہے کہ اللہ اس پر خوش ہو جائے اور جوں جوں مومن کو اللہ کے قرب کی راہ ملتی ہے اتنی ہی اس کے لئے عید ہوتی جاتی ہے.چنانچہ ہماری دونوں عیدیں بلکہ تینوں عیدیں خدا تعالیٰ نے ایسی ہی رکھی ہیں جن میں عام دنوں کی نسبت عبادت میں کچھ زیادتی کر دی ہے.دو عیدیں تو وہ ہیں جو ہمارے ملک میں چھوٹی اور بڑی کے نام سے موسوم ہیں.معلوم نہیں چھوٹی اور بڑی کا فرق کس خوردبین سے دیکھا گیا ہے.تیسری جمعہ کی عید ہے.کے بمعہ کے دن ایک خطبہ رکھ دیا ہے اور اس طرح نماز کو بڑھا دیا ہے.گو فرض چار رکعت کی بجائے دو کر دیئے ہیں لیکن خطبہ اور دو رکعت کا وقت ملا کر چار رکعت سے بڑھ جاتا ہے.یہ دو عیدیں جو سال میں آتی ہیں ان میں سے ایک ماہ رمضان کے روزے رکھنے کے بعد آتی ہے اور دوسری عید وہ ہے جو ایام حج کے بعد آتی ہے اس سے پتہ لگتا ہے کہ مومن کی عید میں اس وقت ہوتی ہیں جب کہ وہ خدا تعالیٰ کے رضا کے سامان پیدا کرے.خدا تعالیٰ نے سال میں دو عیدیں رکھ کر گویا نمونہ بتایا ہے.دنیاوی گورنمنٹیں بھی نمائشیں کرتی ہیں جن سے ان کی یہ غرض ہوتی ہے کہ لوگوں کو مختلف اقسام کے مال اسباب دکھائے جائیں اور ان سے فائدہ اٹھانے کی تحریک کی جائے.عیدمیں آسمانی بادشاہت کی نمائشیں ہیں.خدا تعالیٰ نے یہ نمونہ بتا کر مسلمانوں کی اس طرف راہنمائی کی ہے کہ اگر تم چاہو تو ہر روز عید کر لو.اس لئے مومن کی ہر روز ہی عید ہوتی ہے.چنانچہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے بار بار فرمایا ہے اور اگر گنا جائے تو سینکڑوں تک نوبت پہنچتی ہے.کہیں صریحا اور کہیں کنایہ کہ مومن کی جنت اسی دنیا سے شروع ہو جاتی ہے ۳.تو عید میں نمائش ہیں.ان میں خدا تعالیٰ نے یہ دکھایا ہے کہ اگر تم خوشی کے دن لینا چاہتے ہو تو اس کا یہی طریق ہے کہ خدا کو راضی کر لو.اور جب خدا راضی ہو گیا تو پھر ہر روز عید ہی عید ہے.پس عیدیں اس بات کا نمونہ ہیں کہ انسان خدا تعالیٰ کے قرب کے راستے تلاش کرے اور جب کسی نے خدا کو راضی کر لیا تو جتنا بھی وہ خوش ہو اور فخر کرے بجا ہے.اور جیسی کچھ بھی زینت کرے درست ہے.کیونکہ جس پر خدا خوش ہو گیا اسے کو نسا غم اور رنج رہ سکتا ہے.تو مومن کی عید یہی ہے کہ خدا کی رضا کے طریق تلاش کرے.کسی مومن کے لئے اس سے بڑھ کر اور کوئی عید کا دن
۲۱ نہیں ہو سکتا کہ اس دن خدا اس پر راضی ہو جائے.یاد رکھو! انبیاء کی ہر روز عید ہوتی ہے دنیا کی کوئی تکلیف انہیں غمگین نہیں کر سکتی اور کوئی رنج ان کی کمر نہیں توڑ سکتا.اللہ تعالی آنحضرت میں عوام کی نسبت فرماتا ہے.وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ الَّذِی انْقَضَ ظَهْرَگ کے ہر ایک انسان پر خصوصاً کام کرنے والے انسان پر اور پھر خصوصا مصلح پر بہت بڑا بوجھ ہوتا ہے.خواہ وہ مصلح دنیا کا ہو یا دین کا.کام اور فکر کی وجہ سے وہ چور ہو جاتا ہے.چونکہ آنحضرت ملی م پر ایک بہت بڑا بوجھ تھا.اس کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے تیرا بوجھ اٹھا لیا.کیوں؟ اس لئے کہ جب تو ہمارا مطیع و منقاد اور فرمانبردار ہو گیا تو پھر تجھ پر بوجھ کیوں رہنے دیا جاتا.بوجھ تو واقعہ میں ایسا تھا کہ تیری کمر توڑ دیتا اور کوئی اسے اٹھا نہ سکتا تھا کیونکہ ایک گھر کا بوجھ اٹھانا بھی مشکل ہو جاتا ہے.لڑائی جھگڑا ہو تو لوگ.پریشان ہو جاتے ہیں.اب جو جنگ ہو رہی ہے اس کی وجہ سے تمام سلطنتوں کے وزراء گھبرا گئے ہیں کہ یہ کام بہت بڑھ گیا ہے اس لئے ان کی مدد گار کمیٹیاں بنا دی گئی ہیں.مگر آنحضرت میں وہ انسان تھے جو ایک جنگ چھیڑتے ہیں اور سارے جہان کے ساتھ چھیڑتے ہیں.آپ صرف اکیلے اور تن تنہا ہیں جن کی نسبت وطن والے بھی یہ سمجھتے ہیں کہ گلا گھونٹ کر مار دیں گے لیکن آپ سارے جہان سے جنگ شروع کرتے ہیں.عیسائیوں کو کہتے ہیں.لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ ثَالِثُ ثَلَثَةٍ - - ہود کو کہتے ہیں ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذلة وَالْمَسْكَنَةُ : - مجوس کو کہتے ہیں کہ اللہ ہی نور اور ظلمت کو پیدا کرنے والا ہے کہ.جو کچھ تم کہتے ہو غلط ہے.مشرکین کو فرماتے ہیں.اِنَّ اللهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ ۸.اور گناہ تو خدا تعالیٰ بخش دے گا لیکن جو کچھ تم کرتے ہو یہ ایسا گناہ ہے کہ کبھی نہ بخشا جائے گا.غرض تمام دنیا کے مذاہب کو جھوٹا قرار دیتے ہیں.اور وہ زمانہ کوئی امن کا زمانہ نہیں کہ آج کل کی طرح اپنے گھر بیٹھے جو جی میں آیا کسی کی نسبت کہہ دیا بلکہ ایسا زمانہ تھا کہ لوگ اپنے خلاف بات منکر تلوار اٹھا لیتے تھے اور آپس کی مخالفت کو تلوار کے ذریعہ مٹانا چاہتے تھے.ایسے وقت میں آنحضرت لیلی دی او لیول کا تمام دنیا کے لوگوں کو علی الاعلان یہ کہنا کہ تم غلطی پر ہو اور تمہارے پاس حق نہیں ہے ساری دنیا سے جنگ چھیڑنا ہے.پھر یہ جنگ ایک دن نہیں ، دو دن نہیں ، تین دن نہیں بلکہ متواتر ۲۳ سال ہوتی رہتی ہے.باوجود اس کے آپ کو دیکھنے والے یہی کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی ساری عمر میں کبھی آنحضرت ملی ایم کے چہرہ مبارک
۲۲ پر ملال اور رنج کا نشان بھی نہیں دیکھا بلکہ جب کبھی دیکھا تبسم فرماتے ہی دیکھا ہے.واقعی آپ " کو کیوں رنج ہوتا؟ جب کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ.وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ الَّذِى اَنْقَضَ ظَهْرَكَ وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ - فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا - کہ تمہارا بوجھ تو وہ تھا کہ کمر چور کر دیتا مگر جب تم نے ہماری فرمانبرداری کی تو ہم نے اس کو تم پر سے اس طرح اٹھایا کہ تمہیں ظاہری خوشی اور خورمی ہی حاصل نہ ہوئی بلکہ ہم نے تمہارے دل کو بھی خوشی کے لئے کھول دیا.میں نے بتایا ہے کہ عید ظاہری خوشی کا سامان ہے جن کے دل مغموم ہوں انہیں خوشی نہیں ہو سکتی.لیکن آنحضرت میر کی نسبت خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تو تیرا سینہ کھول دیا ہے اور دل میں بھی خوشی بھر دی ہے.بعض غم ایسے ہوتے ہیں جن کا ظاہر پر تو اثر نہیں ہو تا لیکن دل پر ضرور ہو جاتا ہے.فرمایا.یہاں تو ایسی خوشی ہے اور اللہ کے وعدوں پر ایسا یقین اور بھروسہ ہے کہ کوئی بھی غم نزدیک نہیں آسکتا.اور ذرا بھی فکر خوشی کو مکدر نہیں کر سکتا.چنانچہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت لمللی ایک درخت کے نیچے سو گئے.ایک کافر آیا اور اس نے آکر آ.تلوار اٹھا کر سونت لی اور زور سے کہا.او محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) اب تمہیں میرے ہاتھ کون بچا سکتا ہے؟ آپ بجائے اس کے کہ کسی قسم کی گھبراہٹ سے جواب دیتے بڑے اطمینان اور دلجمعی سے فرماتے ہیں.اللہ.چونکہ آپ نے بغیر کسی گھبراہٹ کے بڑے جلال سے جواب دیا تھا اس لئے اس آدمی کے ہاتھ سے ڈر کے مارے تلوار گر گئی.آپ نے اٹھالی اور فرمایا.اب تو بتلا کہ تجھے میرے ہاتھ سے کون بچائے گا؟ اس نے کہا آپ ہی بچائیے اور کون ہے جو مجھے بچا سکے اللہ.(عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ اگر کسی سوئے ہوئے کو اچانک جگا دیا جائے تو وہ چونک پڑتا ہے.لیکن آنحضرت میں اللہ کو ایک شخص ڈانٹ کر اور تلوار کھینچ کر کہتا ہے کہ بتاؤ تمہیں کون بچائے گا.تو آپ فرماتے ہیں.اللہ بچائے گا.ہندوستان کے لوگ تو عموماً اس نظارہ کو اپنی آنکھوں کے سامنے لا ہی نہیں سکتے.کیونکہ ان میں سے اکثروں کو تلوار کے دیکھنے کا بھی موقع نہیں ملا.اگر کسی کے گھر میں چور آن تھے تو اس کا کہاں تک مقابلہ کیا جاتا ہے.بعض تو یہاں تک بُزدلی دکھاتے ہیں کہ چور ڈاکوؤں کو خود کنجیاں دے کر کہہ دیتے ہیں کہ فلاں جگہ مال ہے خود نکال لو.تو آنحضرت م ل ل ا ل لیول کے اس واقعہ کا اپنی آنکھوں کے سامنے نقشہ کھینچنا آسان نہیں) مگر تم اپنے دلوں میں اس بات کا اندازہ لگاؤ کہ ایک کافر جو آنحضرت میر کو قتل
۲۳ کرنے کے ارادہ سے آتا ہے اور تلوار کھینچ کر کھڑا ہو جاتا ہے اور اس پر اتنا اثر ہوتا ہے کہ اس کی تمام طاقتیں زائل ہو جاتی ہیں اور عاجز و درماندہ ہو کر جان بخشی کا خواہاں ہوتا ہے.تو یہ وہ بات ہے جس کی نسبت خدا تعالیٰ فرماتا ہے.اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ اور فَإِنَّ مَعَ - الْعُسْرِ يُسْرًا إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا - بھلا تجھے کوئی کیا دکھ اور تکلیف پہنچا سکتا ہے.اگر کوئی تجھے ایک رنج پہنچائے.تو ہم دو خوشیاں دیں گے.پس فَإِذَا فَرَغْتَ فَا نُصَبُ وَ إِلَى رَبِّكَ فَارُغَبُ لا.تجھے چاہئے کہ اپنے رب کی عبادت میں لگا رہے.کیونکہ اسی کا نتیجہ ہے کہ تیری رات بھی خوشی میں اور دن بھی خوشی میں گذرتا ہے.پس تمہارے لئے عیدین خوشی حاصل کرنے کے لئے نمائش کے طور پر ہیں.تا خدا کو راضی کر لو اور تمہارے لئے ہر وقت عید ہو.چنانچہ دیکھو صحابہ کرام نے خدا کو راضی کیا ۳ ان کے لئے کیسی عیدیں ہو ئیں.صحابہ وہ لوگ تھے جنہیں دو وقت کا کھانا بھی نصیب نہیں ہو تا تھا اور جنہیں ملتا تھا وہ وہ لوگ تھے جو جو کا آٹا کھاتے اور وہ بھی چھنا ہوا نہیں ہو تا تھا.اب اگر کسی کو جو کی روٹی دی جائے تو ناراض ہو جائے.مگر ان کی یہ حالت تھی کہ جو کا آٹا کھاتے اور بے چھنا کھاتے.حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ سے ایک عورت نے پوچھا کہ کیا آپ " کے زمانہ میں چھلنیاں ہوتی تھیں؟ تو انہوں نے کہا کہ اس طرح کیا جاتا تھا کہ پتھر پر جو رکھ کر کوٹ لئے جاتے تھے اور پھونک کر صاف کر لیتے اور روٹی پکا لیتے تھے.ملا.لیکن انہی لوگوں کو خدا تعالیٰ نے وہ ترقیاں دیں اور وہ عید کے دن دکھائے کہ دنیا میں نہ کسی نے دیکھے اور نہ دیکھے گا.جس طرف جاتے کامیابی اور فتح پہلے ہی تیار رہتی.لاکھوں انسان مقابلہ کے لئے آتے مگر صحابہ پہاڑ کی طرح کھڑے رہتے اور جس کسی نے ان سے سرمارا خود پاش پاش ہو گیا.قیصر و کسری ٹڈی دل لشکر کے ساتھ آئے مگر جس طرح ایک بوسیدہ کپڑا پارہ پارہ ہو جاتا ہے اسی طرح ان کے لشکروں کا حال ہوا اور وہ زبر دست ستون جو آنحضرت میں یا ہم نے گاڑا تھا اسے کوئی نہ ہلا سکا.یہی صحابہ ایک دوسرے کو اپنی پہلی حالت سناتے ہیں.ابو ہریرہ 14 کہتے ہیں کہ میں بھوک کی وجہ سے گر پڑا کرتا تھا اور لوگ یہ سمجھ کر کہ اسے مرگی ہو گئی ہے علاج کے طور پر جوتیاں مارا کرتے تھے ۱۷.پھر کہتے ہیں.جب میں مسلمان ہو گیا تو ایک دن جب سخت بھوک لگی تو میں قرآن شریف کی ایک آیت جس میں بھوکوں کو کھانا کھلانے کا ذکر ہے.ابو بکر ۱۸ء کے پاس اس
۲۴ کا مطلب پوچھنے کے لئے لے گیا.جس سے میری یہ غرض تھی کہ وہ سمجھ جائیں گے کہ میں بھوکا ہوں تو کھانا کھلا دیں گے.(صحابہ کرام سوال کرنے سے بڑی نفرت کرتے تھے.مگر آج کل یہ بات بُری نہیں سمجھی جاتی لیکن وہ مطلب بتا کر آگے چلے گئے.پھر اسی آیت کو لے کر میں عمر 19ء کے پاس گیا انہوں نے بھی مطلب بتا دیا اور چل دیئے.ابو ہریرہ بڑے غصہ ہو کر کہتے ہیں.میں اس آیت کے معنی ان سے کچھ کم نہ جانتا تھا.میری غرض تو یہ تھی کہ کچھ کھلا دیں لیکن وہ اس بات کو نہ سمجھے.پھر میں آنحضرت ملی یا دیوی کے پاس آیا.آپ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے.آپ نے خود بخود ہی فرمایا.ابو ہریرہ تمہیں بھوک لگی ہوئی ہے.یہ ایک دودھ کا بھرا ہوا پیالہ ہے لو اور مسجد میں جس قدر بھوکے ہیں انہیں بھی بلا لاؤ.ابو ہریرہ کہتے ہیں مجھے یہ بات ناگوار تو گذری کیونکہ مجھے بڑی سخت بھوک لگی تھی.میں نے کہا کہ اگر مجھے ہی مل جاتا تو کچھ میری ہو جاتی.لیکن میں تعمیل ارشاد کے لئے گیا اور سب کو بلا لایا.میں نے سمجھا کہ آپ پہلے مجھے ہی پیالہ دیں گے.میں اچھی طرح پی لوں گا.مگر جب وہ آدمی آئے تو آپ نے ایک کو کہا کہ لو پیو.اس نے پیا.پھر دوسرے نے پھر تیسرے نے حتی کہ سات آدمی تھے ساتوں نے پیا.بعد میں آپ نے مجھے فرمایا کہ تم پیو.میں نے پیا.جب سیر ہو چکا.تو آپ نے فرمایا پھر پیو.میں نے پیا.پھر آپ نے فرمایا پیو.میں نے کہا.یا رسول اللہ ! اب تو نتھنوں سے باہر نکلنے ہے.اس وقت آپ نے پیالہ لے لیا.اور سب کا بچا ہوا دودھ خود پیا ۲۰.تو یہ حالت تھی.مگر خدا تعالیٰ کی اطاعت کا یہ نتیجہ نکلا کہ کسریٰ کا وہ شاہی لباس جسے وہ دربار کے وقت پہنا کرتا تھا.جب مسلمانوں کے ہاتھ آیا.تو اس میں سے ایک رومال ابو ہریرہ کے حصہ میں آیا.انہوں نے اس میں تھوکا اور کہا.واہ ابو ہریرہ تجھ پر ایک وہ وقت تھا جب کہ تو بھوک کے مارے گرا کرتا تھا اور لوگ جوتیاں مارا کرتے تھے.ایک یہ وقت ہے کہ کسریٰ کے رومال میں تھوکتا ہے.ال مجھے ایک فرانسیسی مؤرخ کی ایک بات پڑھ کر بڑا لطف آیا.وہ اسلامی تاریخ لکھتے لکھتے لکھتا ہے کہ اے ناظرین! ذرا غور تو کرو مجھے اس بات میں بڑا مزا آ رہا ہے کہ سر اور پاؤں سے نگے ، پیٹ سے خالی اکثر ان پڑھ ایک کچی مسجد کے اندر بیٹھے ہوئے جس کی چھت کھجور کی ٹہنیوں سے بنی ہوئی ہے.کیا باتیں کر رہے ہیں.کہتے ہیں کہ قیصر کے مقابلہ کے لئے کے بھیجا جائے.کسری کو کس طرح تباہ کیا جائے.میں تو حیران ہوں کہ یہ لوگ بیٹھے ہوئے کہاں اور کس
۲۵ حالت میں ہیں لیکن باتیں کیا کرتے ہیں اور جب یہ باتیں کر کے اٹھتے ہیں تو سب کو بھگا دیتے ہیں ۲۲.اس مؤرخ کو یہ واقعہ لکھ کر بڑا مزا آیا.لیکن مجھے اس کی تحریر سے مزا آیا کہ گو ایک دو سرے مذہب کا ہے مگر اس کا دل گواہی دے رہا ہے کہ ان لوگوں میں ایسی قوتیں اور طاقتیں تھیں جو اور کسی قوم میں نظر نہیں آتیں.پس عید جو ہوا کرتی ہے دل کی خوشی ہوتی ہے.یہ جو بناوٹی عیدیں ہیں گو ایک حد تک فائدہ دیتی ہیں مگر عید وہی ہے جو دل کی خوشی کی ہو.اور دل کی خوشی اطمینان قلب کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی.اور دل کا اطمینان سوائے اس کے نہیں ہو سکتا کہ خوف نہ ہو.اور خوف سے اُس وقت تک انسان محفوظ نہیں ہو سکتا جب تک یہ یقین نہ ہو کہ میرا ایسا پہرہ دار ہے کہ کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.اور وہ پہرہ دار خدا کے سوا اور کوئی نہیں ہے.اس لئے حقیقی عید یہی ہے کہ انسان کو یقین ہو جائے کہ اللہ مجھ سے راضی ہو گیا ہے.یہ عید میں نمائش اور نمونہ کے طور پر ہیں.ان سے وہ کچی عید حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو کسی وقت انسان سے جدا نہیں ہوتی.نہ دن کو نہ رات کو نہ اٹھتے نہ بیٹھتے نہ سوتے نہ جاگتے.جس کو عید نصیب ہو جائے اس کی نسبت بچے طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ :.وہ ہر روز روز عید است و هر شب شب برات ایسے انسان کی حالت ہر وقت خوشی ، یقین اور اطمینان کی ہوتی ہے.ہمارے لئے بھی یہی سچی عید ہے.پہلوں کے لئے بھی یہی تھی.اور بعد میں آنے والوں کے لئے بھی یہی ہوگی.خدا تعالٰی ہمارے لئے پہلوں کی طرح ہی کرے اور ہماری کمزوریوں کو دور کر دے.ورنہ جب تک حقیقی عید نہ آئے یہ عیدیں اسی طرح کی ہیں.جس طرح کسی بیمار کو عارضی طور پر آرام دینے کیلئے کو کین دی جائے.کیونکہ حقیقی خوشی تب ہی حاصل ہو سکتی ہے جب کہ حقیقی رنج ڈور ہو اور یہ دُور ہو نہیں سکتا.جب تک اس بات کا یقین نہ ہو جائے کہ خدا میرے ساتھ ہے.خدا تعالیٰ ہماری کمزوریوں، دکھوں، لڑائی جھگڑوں اور فسادوں کو دور کر کے حقیقی عید کرائے.تا ہمارے لئے ہر وقت عید ہو اور وہ غم جو خوشی کو دُور اور کمروں کو چور کر دینے والے ہیں ان کو دفع کر کے ہمارے لئے ہر گھڑی عید ، بچی راحت اور آرام مہیا کر دے.آمین (الفضل ۲۲.اگست ۱۹۱۵ء) اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ ۱۷ روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۳۱
۲۶ سنن ابی داؤد كتاب الصلوة باب اذا وافق يوم الجمعة يوم العيد مریم : ٢٢ البقرة : ٣٦ الرحمن : ۴۷ الانشراح: ۴۳ ه العائدة : ۷۴ تھے ل البقرة : ٧٢ ك الانعام: النساء : ٤٩ ترمذی ابواب المناقب باب صفة النبي الانشراح : ۲تا۶ لله صحيح بخارى كتاب المغازى باب غزوة ذات الرقاع اه الانشراح : ٩٨ المجادلة: ٢٣ صحيح بخارى كتاب الرقاق باب كيف عيش النبي واصحابه و كتاب الاطعمة باب النفخ في الشعير ها صحیح بخارى كتاب الاطعمة باب ما كان النبي واصحابه ياكلون عبد الرحمن ابو ہریرہ.دوس.قدیم نام عبد الشمس ۲۱ - ۵ / ۶۷۰۲.كا ۵۷-۵۸ھ / ۷۸-۶۶۷۶- بعمر ۷۸ سال.صحیح بخارى كتاب الاعتصام باب ما ذكر النبى و حض على اتفاق اهل العلم خلیفة الرسول الله الاول عبد اللہ ابو بکر بن ابی قحافہ قریش.بنو تمیم ۵۷۲ء.۷۳۴ء خلافت اله تا ۱۳ھ/ ۶۶۳۲ تا ۶۹۳۴ 19 خلیفۃ الرسول اللہ الثانی عمر بن الخطاب - قریش بنو عدی ۴۰ ق ن - ۵۲۳ / ۶۷۴۴ خلافت ۱۳ تا ۵۲۳ / ۶۳۴ تا ۶۶۴۴ ۲۰ صحيح بخارى كتاب الرقاق باب كيف كان عيش النبي واصحابه و صحيح بخارى كتاب الاطعمة باب قول الله تعالى كلوا من طيبات ما رزقناكم ۲۱ صحیح بخاری کتاب الاعتصام باب ما ذكر النبي وحض على اتفاق اهل العلم ۲۲
۲۷ (۵) فرموده ۲- اگست ۱۹۱۶ء بمقام عید گاه - قادیان) قُلْ يَاَيُّهَا النَّاسُ إِنّى رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا إِلَّذِى لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِ وَيُمِيتُ فَامِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّنِ الَّذِى يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ - لَ عید یعنی خوشی کا دن.چونکہ خوشی کے دن کی نسبت سب انسان یہ امید رکھتے ہیں کہ بار بار آئے اس لئے اس کا نام عید رکھا گیا ہے ۲.عید کیا چیز ہے اور خوشی کسے کہتے ہیں.اس پر اگر غور کیا جائے تو ایک ادنی سے غور اور فکر سے معلوم ہو جاتا ہے کہ خوشی اصل میں اجتماع کا نام ہے.دنیا کی جس قدر بھی خوشیاں ہیں وہ سب اجتماع سے پیدا ہوتی ہیں.بڑی سے بڑی خوشی شادی کی ہوتی ہے لیکن وہ کیا ہے یہی کہ ایک عورت اور ایک مرد مل جاتے ہیں اور ان کا اجتماع ہو جاتا ہے.پھر بچوں کے پیدا ہونے کی خوشی ہوتی ہے.وہاں بھی یہی ہوتا ہے کہ ایک نئی روح آکر ان میں شامل ہو جاتی ہے.تو خوشی کی اصل یہ ہے کہ کوئی چیز جب باہر سے آکر دوسری سے ملتی ہے تو اسے خوشی کہا جاتا ہے اور جب ایک چیز دوسری چیز سے جُدا ہوتی ہے تو اسے رنج کہتے ہیں.دنیا میں جس قدر بھی اجتماع ہوتے ہیں وہ سب خوشیوں ہی کا موجب ہوتے ہیں اور خوشی کے اظہار کا طریق ہی یہی ہے کہ اجتماع ہو.دیکھو میلوں پر جو لوگ جمع ہوتے ہیں وہ اسی لئے ہوتے ہیں کہ خوشی کریں.کبھی ایسا نہیں ہو گا کہ کوئی شخص چھپتا پھرے ، کسی کے پاس نہ بیٹھے ، اکیلا جنگل میں چلا جائے اور جب کوئی پوچھے کہ اس طرح کیوں کرتے ہو تو کہے کہ آج میرے لئے عید ہے.کسی ملک کسی علاقہ اور کسی قوم میں ایسی عید نہیں ہو گی کہ اس دن ایک.دوسرے سے چُھپتے بھاگتے اور علیحدہ پھرتے ہوں بلکہ ہر ایک ملک اور ہر ایک قوم میں عید کی علامت ہی یہی ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے ملتے اور ایک جگہ جمع ہوتے ہیں.اور جو لوگ اپنے غم و اندوہ کو بڑھانا چاہتے ہیں ان کا یہ طریق ہوتا ہے کہ دوسروں سے علیحدہ رہتے ہیں لیکن جو غم غلط کرنا چاہتے ہیں وہ مجلسوں میں بیٹھتے اور لوگوں سے ملتے جلتے ہیں.بعض انسان
۲۸ چونکہ غم کو پسند کرتے ہیں اس لئے وہ علیحدگی اختیار کر لیتے ہیں.مکان میں بیٹھے ہوں گے تو بھی علیحدہ جنگل میں جائیں گے تو بھی علیحدہ غرضیکہ ہر وقت وہ علیحدگی کو ہی پسند کریں گے.اور اگر کسی کے ہاں میت ہو جائے تو گو لوگ اس کے پاس جمع ہوں گے لیکن وہ یہی کہے گا کہ ہٹ جاؤ مجھے اکیلا رہنے دو اس طرح ہجوم سے میرا دل گھبراتا ہے.لیکن یہ کبھی نہیں ہو گا کہ کسی کے ہاں لڑکا پیدا ہو اور لوگ اس کے گھر جمع ہوں تو وہ کہے کہ ہٹ جاؤ مجھے اکیلا رہنے دو مجمع کی وجہ سے میرا دل گھبراتا ہے بلکہ وہ تو لوگوں کو خود بلائے گا اور جس قدر زیادہ لوگ جمع ہوں گے اسی قدر وہ زیادہ خوش ہو گا.اسی طرح جس شخص کی شادی ہو اس کے پاس جب لوگ جمع ہوں گے تو وہ سب سے خوشی کے ساتھ ملے گا لیکن ماتم کے وقت گو لوگ اس کی ہمدردی کیلئے ہی جمع ہونگے تاہم وہ یہی کہے گا کہ سب لوگ میرے ارد گرد سے ہٹ جائیں اور مجھے تنہا رہنے دیں کیونکہ علیحدگی میں اظہارِ غم کا خوب موقع مل جاتا ہے اور انسان اپنے دل کی بھڑاس اچھی طرح نکال لیتا ہے.تو اظہارِ غم کے لئے علیحدگی پسند کی جاتی ہے اور اظہار خوشی کے لئے اجتماع.اور اس بات کو خدا تعالیٰ نے انسانی فطرت میں رکھ دیا ہے کہ جب اسے خوشی ہو تو دوسروں سے ملے اور جب ملے تو خوشی حاصل کرے.گویا خوشی اور اجتماع دونوں لازم و ملزوم ہیں.اسلام تو عین فطرتِ انسانی کے مطابق مذہب ہے.اگر تمام دنیا نے عید کا مسئلہ خلاف فطرت بنایا ہو تا تو اسلام یہ رکھتا کہ خوشی کے وقت انسان ایک دو سرے سے علیحدہ ہو جایا کریں، جنگلوں میں الگ الگ پھرا کریں ، کسی جگہ اکٹھے نہ ہوں.مگر یہ نہیں رکھا بلکہ یہی رکھا ہے کہ عید کے دن ایک مقام کے لوگوں کا جمع ہونا تو الگ رہا ارد گرد کے لوگ بھی ایک جگہ جمع ہوا کریں.اس سے پتہ لگتا ہے کہ اجتماع خوشی کا باعث ہوا کرتا ہے.اگر انسان اپنی زندگی پر خوب غور کرے تو آسانی سے اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ جب وہ ایک اجنبی سے ملتا ہے تو تھوڑی دیر گفتگو کرنے کے بعد اس سے تعلق پیدا ہو جاتا ہے.تعلق پیدا ہونے کے بعد اسے ایک قسم کی خوشی حاصل ہوتی ہے.اسی طرح ریل میں گھر پر مکان پر کسی سے ملاقات ہو جاتی ہے اور انسان اسے اس قابل سمجھتا ہے کہ تعلق اور دوستی پیدا کرے جب دوستی پیدا ہو جاتی ہے تو ایک خاص خوشی حاصل ہوتی ہے.اس کی کیا وجہ ہے.یہی کہ ایک اجتماع ہوا ہے.تو خوشی در حقیقت اجتماع کا نام ہے.اور چونکہ اجتماع ہی عید کا باعث ہے اس لئے سب سے بڑی اور سب سے عظیم الشان عید وہی ہو سکتی ہے جس میں سب سے بڑا ،
۲۹ اجتماع ہو.پس دنیا میں اگر سب سے بڑی عید ہوئی تو وہی ہوئی جب کہ ایک انسان نے تمام دنیا کو پکار کر کہہ دیا کہ بيَااَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا - ، دنیا نے چھوٹی چھوٹی تو بہت سی عید میں دیکھی تھیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت عید ہوئی تھی ، حضرت داؤد ، حضرت مسیح ، حضرت کرشن ، حضرت را چند ر حضرت زرتشت کے وقت بھی عیدیں ہوئی تھیں.مگر یہ کوئی تو ہندوستان کی عید تھی ، کوئی مصر کی کوئی ایران کی اس لئے سب سے چھوٹی چھوٹی تھیں لیکن حضرت آدم کی پیدائش سے لیکر دنیا میں اگر کوئی بڑی عید ہوئی ہے تو وہ وہی ہے جب کہ خدا تعالیٰ نے اپنے ایک برگزیدہ انسان کو کہا کہ تم اپنے ذریعہ سارے جہان کو ایک جگہ جمع کرو.یہی بڑی عید تھی کیونکہ اس میں خدا تعالیٰ نے اپنے خاص کلام کے ساتھ اپنے ایک انسان کی معرفت تمام دنیا کو کہہ دیا کہ اس کے ہاتھ پر سب لوگ جمع ہو جائیں." اس میں کسی قوم کسی ملک کسی علاقہ کی شرط نہ رکھی گئی تھی.خواہ کوئی مصری ہو یا چینی ہو، ہندوستانی ہو یا ایرانی کوئی ہو سب جمع ہو سکتے ہیں.کیونکہ اب یہ نہیں کہا جائے گا کہ میں اپنے موتی سوروں کے آگے نہیں ڈالتا اور نہ یہ کہا جائے گا کہ میں اپنی روٹی کتوں کے آگے نہیں پھینکتا.۵، حضرت مسیح کے آنے کے وقت بھی عید ہوئی تھی.مگر وہ عید صرف ان کی اپنی قوم کے لئے ہی تھی اگر وہ غیروں کو کھانا کھلاتے تو پھر ان کی قوم کیا کھاتی اسی لئے حضرت مسیح نے کہا کہ میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا.گویا ان کا آنا صرف بنی اسرائیل کے لئے ہی عید کا موجب تھا.لیکن رسول کریم ملی کو جو خدا تعالیٰ نے بھیجا تھا تو ایسے خزانوں کے ساتھ بھیجا جن میں سے خواہ کتنا ہی خرچ کیا جائے کوئی کمی نہیں آسکتی.یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو کہا ہے کہ تم سے جو مانگے اسی کو نہ دو بلکہ تم خود تمام دنیا کو بلاؤ اور کہو کہ آؤ جس کو جس چیز کی ضرورت ہے میں اسے دوں.چنانچہ آپ کو فرمایا گیا.وَاَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثُ.کہ تیرا کام ہی یہ ہے کہ تو خدا کی نعمتوں کو لوگوں کے سامنے بیان کرے.پس خدا تعالیٰ نے آنحضرت میں ایم کیو ایم کے دو کام رکھے ہیں.حضرت مسیح کے پاس تو ایک عورت نے آکر سوال کیا تھا کہ اے خداوند داؤد کے بیٹے ! مجھ پر رحم کر.تو حضرت مسیح نے جواب میں کہا تھا کہ مناسب نہیں کہ لڑکوں کی روٹی لے کر کتوں کو پھینک دیویں.۸ مگر آنحضرت میں لال کو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تیرا کام یہ نہیں بلکہ جو سوال کرے اسے ضرور
دے.یہ ایک درجہ فضیلت تھی آنحضرت میں یا ایک کو دوسرے انبیاء پر.پھر فرمایا.یہی نہیں کہ تجھ سے جو آکر مانگے تو اسے دینے سے انکار نہ کرے بلکہ تو لوگوں کے پاس خود جا اور جاکر اعلان کر کہ خدا نے مجھے یہ نعمت دی ہے آؤ تم بھی اس سے حصہ لے لو.یہ دوسری فضیلت ہے جو آپ کو تمام انبیاء" پر دی گئی ہے.پہلے تمام انبیاء تو اس درجہ پر تھے کہ جب کوئی سائل ان کے پاس آتا تو کہتے کہ ہم تمہیں کچھ نہیں دے سکتے کیونکہ جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ صرف اپنی ہی قوم کے لئے ہے.لیکن آنحضرت م ل ل ل ا ل لیول کو وہ خزانہ دیا گیا کہ آپ کو نہ صرف یہ فرمایا گیا.کہ جب کوئی تمہارے پاس مانگنے کے لئے آئے تم اسے نہ دھتکار و.بلکہ یہ کہا گیا کہ محتاجوں کو گھر جا کر دو.تو دنیا کے لئے سب سے بڑی عید کا دن یہ تھا.پھر بڑی عید کا وہ دن تھا جب کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو مبعوث کر کے تکمیل تبلیغ کا ذمہ اٹھایا.اور وہ دن آیا جب کہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّه له کا ہونا مقدر تھا.شریعت اسلام کی تکمیل رسول کریم ملی و یا لیلی کے ذریعہ ہوئی چنانچہ آپ کے آنے پر سب دنیا کو بغیر کسی استثناء کے کہہ دیا گیا کہ اب ایک ایسا نبی مبعوث ہوا ہے جس کے ساتھ بہت ہی وسیع خزانے ہیں تم اس کے پاس آؤ اور جو کچھ چاہتے ہو لو.آپ نے لوگوں کو اپنی طرف بلانے کے لئے یہ آواز اس زور سے بلند کی جو آخر کار اپنی گونج میں بڑھتے بڑھتے عرش سے ٹکرائی.اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ کی شکل میں واپس دنیا میں آئی.چنانچہ اس نے بھی آکر یہی کہا کہ يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّى رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمُ جَمِيعًا ۰۱۲ - پہلے محدود علاقوں، خاص ملکوں اور خاص قوموں کے لئے رسول آیا کرتے تھے مگر آنحضرت ملک کی طرح حضرت مسیح موعود نے بھی ایسا وسیع دستر خوان بچھایا کہ کسی کو اس پر بیٹھنے سے دھتکارا نہیں بلکہ لوگوں کو ان کے گھروں سے بلا بلا کر کھلایا ہے اس لئے ہر وہ نئی روح جو ہم میں آکر شامل ہوتی ہے ہمارے لئے عید کا باعث ہوتی ہے اور ہر وہ شخص جو مسلمان ہوتا ہے ہماری خوشی کو بڑھاتا ہے ہے.یہ شریعت کے احکام پر جمع ہونے کی عید ہے اور جب سب لوگ عملی رنگ میں ایک دین پر جمع ہو جائیں گے تو اس کے نتیجہ میں جو عید ہوگی وہ بہت ہی بڑی عید ہوگی اور اس عید کا کرنا خدا تعالیٰ نے ہمارے ہی سپرد کر دیا ہے.تمام دنیا کی طرف ایک نبی بھیجنا خدا تعالیٰ کا کام تھا تمام دنیا کے لئے مکمل اور پوری شریعت بھیجنا خدا کا کام تھا، پھر تکمیل تبلیغ کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجنا خدا کا
کام تھا مگر عید منہ عید منانا اس نے ہمارے سپرد کیا ہے اس لئے میں اپنی جماعت کے لوگوں کو بڑے زور سے اس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ وہ عید پر غور کریں اور سمجھیں کہ سب خوشیاں اجتماع سے حاصل ہوتی ہیں.اور عید کا مطلب ہی یہی ہے کہ لوگ جمع ہوں اس لئے حقیقی اور بچی عید وہی ہوگی کہ جب خدا تعالیٰ کے کلام پر سب لوگ جمع ہو جائیں گے.حضرت مسیح نے ایک پیشگوئی کی تھی مگر افسوس کہ اس کے غلط معنی سمجھ لئے گئے.متی باب ۶ آیت ۱۰ میں وہ پیشگوئی اس طرح ہے کہ مسیح نے کہا.”اے ہمارے باپ ! جو آسمان پر ہے.تیرے نام کی تقدیس ہو.تیری بادشاہت آوے.تیری مرضی جیسی آسمان پر ہے زمین پر بھی بر آوے".اس سے یہ سمجھا گیا کہ گویا زمین پر خدا کی بادشاہت نہیں ہے حالانکہ متی میں ہی یہ بھی لکھا ہے کہ خدا کی بادشاہت جس طرح آسمان پر ہے.اسی طرح زمین پر بھی ہے.ا ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ حضرت مسیح کے نزدیک خدا کی بادشاہت زمین پر نہ تھی اس لئے آپ نے یہ کہا ہے کہ " تیری مرضی جیسی آسمان پر ہے زمین پر بھی بر آوے ".بلکہ آپ نے وہ دعا کی ہے جو آنحضرت ملی کی بعثت کے متعلق ہے کہ جس طرح خدا ایک ہے اسی طرح اس کا نبی بھی ایک ہی آوے جو سب دنیا کو ایک جگہ اکٹھا کر دے.اس سے یہ بھی اشارہ پایا جاتا ہے کہ جس طرح آسمان کے ہر ایک حصہ پر فرشتے تسبیح و تحمید کرتے ہیں اسی طرح اس نبی کے ذریعہ زمین کے چیتے پیتے پر ایسے لوگ پیدا ہو جائیں گے جو خدا کی تقدیس اور تعریف کریں گے.چنانچہ آنحضرت نے فرمایا جُعِلَتْ لِىَ الْاَرْضُ مَسْجِدًا لاء کہ تمام روئے زمین کو میرے لئے مسجد بنا دیا گیا ہے.یعنی ہر جگہ اور ہر ملک میں میرے ذریعہ ایسے لوگ پیدا ہو جائیں گے جو خدا کی حمد اور تقدیس کرتے ہونگے.گویا جس طرح فرشتے آسمان پر مشغول رہتے ہیں اسی طرح انسان زمین پر مشغول رہیں گے.تم لوگوں کو یہ عید منانے کا جو موقع دیا جاتا ہے اس کے متعلق دیکھو کہ کیسی تیاریاں کی جاتی ہیں.مرد و عورت، بچوں اور بوڑھوں کو کیسی خوشی ہوتی ہے.حالانکہ عید کے دن کوئی انعام نہیں ملتا.بظاہر کوئی چیز نہیں حاصل ہوتی.بلکہ کچھ نہ کچھ خرچ ہی کرنا پڑتا ہے.مگر اس دن ہر ایک خوش خوش نظر آتا ہے.اس کی کیا وجہ ہے.یہی کہ لوگ ایک جگہ جمع ہوتے ہیں.میں نے دیکھا ہے جہاں چند آدمی جمع ہوں وہاں راہ چلتے لوگ بھی کھڑے ہو جاتے ہیں کیونکہ اجتماع میں کشش اور لذت ہوتی ہے.جہاں دو آدمی جمع ہوتے ہیں
۳۲ وہاں تیسرا جہاں تین جمع ہوتے ہیں وہاں چوتھا آجاتا ہے.اصل میں تمام ارواح ایک بڑی روح سے جو خدا ہے پیدا شدہ ہیں گو وہ اس کی مخلوق ہیں.مگر جس طرح ایک بچہ کا ماں سے ایک بھائی کا بھائی سے تعلق ہوتا ہے اگر چہ وہ دونوں الگ الگ ہوتے ہیں اسی طرح بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ خالق کا مخلوق سے تعلق ہے ۵ا.دیکھو ایک بھائی دوسرے بھائی سے ملتا ہے تو کیسی لذت اور سرور حاصل کرتا ہے.اسی طرح دنیا کی جماعتیں جب آپس میں ملتی ہیں تو خوش ہوتی ہیں.چونکہ سب مخلوق میں ایک تعلق اور رشتہ ہے اس وجہ سے جب کہیں ایک دو سرے سے مل جائیں تو بہت خوش ہوتی ہیں.اس سے سمجھ لینا چاہئے کہ اگر تمام لوگ ایک دین پر اپنے ایک آقا کے آستانہ پر اپنے ایک خالق کے دربار میں جمع ہو جائیں تو ایک دوسرے کے لئے کس قدر خوشی کا موجب ہو سکتے ہیں اسی لئے خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے سرور اور خوشی کا دروازہ کھول کر یہ فرما دیا ہے کہ قُلْ يَا يُّهَا النَّاسُ إِنِّى رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا ہمارا یہ رسول تمام دنیا کی طرف آیا ہے.یہ کام تو ہمارے متعلق تھا کہ تمام دنیا کو جمع کرنے کے لئے ایک رسول بھیج دیں اس کو ہم نے کر دیا.اب یہ تمہارا کام ہے کہ سب کو ایک جگہ اور ایک نقطہ پر اکٹھا کر کے سرور اور خوشی حاصل کر لو.ان چھوٹے چھوٹے اجتماعوں کو بہتوں نے دیکھا ہو گا.بعض نے حج کا اجتماع بھی دیکھا ہو گا.گو وہ چند لاکھ سے زیادہ انسانوں کا نہیں ہوتا لیکن اس سے جو خوشی حاصل ہوتی ہے وہ بہت بڑی ہوتی ہے.پس جب چند لاکھ کے مجمع سے اتنی خوشی حاصل ہو سکتی ہے تو جب دنیا کا اکثر حصہ ایک نقطہ پر جمع ہو گا اس سے کتنی بڑی خوشی ہوگی اور وہ کتنی بڑی عید کی جائے گی.لوگ خوش ہو جاؤ اور تمہیں مبارک ہو کہ اس بڑی عید کے آنے کا زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہی زمانہ ہے جس کے متعلق خدا تعالٰی نے فرمایا ہے.لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّه - کہ مسیح کا زمانہ وہ زمانہ ہو گا جب کہ اسلام کو تمام ادیان پر غلبہ حاصل ہو جائے گا اور آنحضرت م السلام کی صداقت کو مسیح موعود اور آپ کی جماعت کے ذریعہ پھیلا کر سب کو ایک جگہ پر جمع کر دیا جائے گا اس وقت ہمارے لئے اصل عید ہو گی.جب تک وہ عید نہیں آتی اُس وقت تک یہ عیدیں تو ہمیں شرمندہ کرنے کے لئے آتی ہیں.تاہم آپ لوگ ان سے سبق حاصل کریں اور دیکھیں کہ جب چند آدمیوں کے جمع ہونے کے لئے اتنی تیاری کی جاتی ہے اور اس مجمع سے اتنی خوشی ہوتی ہے حالانکہ بظاہر کچھ ملتا نہیں بلکہ خرچ ہی کرنا پڑتا ہے گو لذت بھی
حاصل ہوتی ہے مگر وہ عبادت کی ہوتی ہے.تو اس عید کے لئے کس قدر کوشش کرنی چاہئے جس میں کروڑوں کروڑ لوگ جمع ہوں گے اور جس کے متعلق کوشش کرنے والوں کی نسبت خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ مصلح جماعت ہو گی.چنانچہ فرماتا ہے.وَلَتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةً يَدْعُونَ إلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ا.یعنی وہ لوگ جو اس عید میں مدد دیں گے اور لوگوں کو دوسری طرف سے روک کر اس طرف بلائیں گے وہ کامیاب مظفر و منصور ہو جائیں گے.تو اس کام میں جتنے ہاتھ کام کرنے والے ہوں گے خدا تعالیٰ ان سب سے وعدہ کرتا ہے کہ میں انہیں اپنے انعامات کا وارث بناؤں گا.ہماری جماعت نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ وعدہ کیا ہوا ہے کہ وہ اس کام میں کوشش کرے گی اور ان سب روحوں کو جو اپنے اندر رشد اور سعادت کا مادہ رکھتی ہیں ایک جگہ پر جمع کر دے گی.حملہ پس تم لوگ اپنے اس فرض کو سمجھو اور بڑی کوشش اور ہمت سے اس کام میں لگے رہو.دیکھو جب ایک جگہ ایک نقطہ خیال کے چند آدمی جمع ہوتے ہیں تو کیسا سرور حاصل ہوتا ہے تو جس وقت وہ عظیم الشان اجتماع ہو گا جس کا کرنا تمہارے سپرد ہے اُس وقت تمہیں کیسی لذت حاصل ہو گی.تم خیال کرو کہ جس وقت جو کلمہ تم پڑھتے ہو وہی کلمہ دنیا کے ایک سرے سے دو سرے سرے تک پڑھا جائے گا.ہر بستی، ہر گاؤں اور ہر شہر میں وہی آواز سنائی دے گی.چونکہ زمین گول ہے اس لئے ہر وقت اذانیں اور نمازیں ہی ہوتی رہیں گی اُس وقت تمہیں کتنی لذت حاصل ہوگی.پھر جب تم یہ دیکھو گے کہ جس کلمہ جس دین اور جس آواز پر تم لوگوں کو بلاتے ہو اسی آواز پر بے شمار لوگ بلانے والے ہونگے اور ہر شہر اور ہر بستی سے اَشْهَدُ اَنْ لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَ اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ - كى آواز آتی ہوگی.تمام دنیا میں رسول کریم میں اللہ کو گالیاں نہیں دی جائیں گی بلکہ آپ پر درود بھیجا جائے گا.خدا کو بُرا بھلا کہنے والے نہیں ہوں گے بلکہ اس کی محبت میں چور اور اس کے تعلق سے مسرور نظر آئیں گے.یہ خیال جو خوشی اور سرور پیدا کر سکتا ہے وہ اور کوئی نہیں پیدا کر سکتا.سب سے بڑی عید تو حج کی عید ہے مگر وہ بھی اس کے مقابلہ میں کچھ حقیقت نہیں رکھتی.باقی سے چھوٹی چھوٹی عیدیں ہیں اور یہ دراصل اس بڑی عید کا نشان اور اس کی یاد دلانے والی ہیں.پس ہماری جماعت کے لوگوں کو چاہئے کہ اس عید کے لئے کوشش کریں سب
سلام سلام کیونکہ اس سے زیادہ لذت اور کسی خوشی میں نہیں ہے.آپ لوگ اپنے نفسوں پر غور کریں اور اس بات کے لئے تیار ہو جائیں کہ جہاں تک تمہاری طاقت اور ہمت ہے خدا کے جلال قدرت شان شوکت اور بڑائی کے ظاہر کرنے میں صرف کر دو اور سب بھولے بھٹکوں کو ایک جگہ جمع کر کے لے آؤ.تم اس بات سے خوب واقف ہو کہ جب تم میں کوئی نیا آدمی آکر ملتا ہے تو تمہیں کس قدر خوشی ہوتی ہے لیکن جب سارے کے سارے سعید الفطرت لوگ تم میں شامل ہو جائیں گے تو اس وقت تمہاری خوشی کی کیا انتہا ر ہے گی.پس تم میں سے ہر ایک کا یہ فرض ہے کہ اپنے حلقہ اثر میں تبلیغ کی کوشش کرے اور جو کوئی عام تبلیغ نہیں کر سکتا وہ اپنے مال سے اپنی جان سے اپنی عزت سے اپنی آبرو سے اپنے اثر سے کام لے.یہ سب چیزیں دین کے مقابلہ میں بیچ ہیں.سب سے پیاری چیز مال کو سمجھا جاتا ہے لیکن یہ میل سے نکلا ہے ۱۸ یعنی جھک جانے والی چیز ہے.پس دنیا کا مال دنیا کی آرائشیں اور آسائشیں عارضی ہیں.ایک وقت آتی اور دوسرے وقت چلی جاتی ہیں.وہ نادان جو یہ سمجھتا ہے کہ اگر میں دین کے لئے مال خرچ کروں گا تو مجھے کوئی فائدہ نہیں ہو گا سخت غلطی پر ہے آج ہی مجھے دل میں ایک خیال آنے سے ہنسی آگئی.میں نے دیکھا چھوٹے بچے کپڑے بدل رہے ہیں اور ہر بچہ یہی چاہتا ہے کہ اس کی ہر ایک چیز نئی ہو.ذرا پرانی ہو.تو اسے پرے پھینک دیتا ہے.مجھے اس بات پر ہنسی آئی کہ کبھی ہم بھی اسی طرح کرتے ہوں گے.لیکن اب یہ باتیں لغو معلوم ہوتی ہیں.اُس وقت تو اپنی ساری خوشی اسی میں سمجھی جاتی ہوگی کہ اچھے اچھے کپڑے پہن لیں لیکن اب ان باتوں کا خیال کرتے ہوئے بھی شرم آجاتی ہے.کیوں؟ اس لئے کہ انسانی خیالات بدلتے رہتے ہیں اور ان میں ایک تغیر عظیم آتا رہتا ہے اس لئے اگر ہر ایک انسان اپنی موجودہ حالت پر ہی غور کرے تو سمجھ سکتا ہے کہ بعض باتیں ایسی ہوں گی جن پر آج سے کچھ عرصہ بعد مجھے شرم آئے گی.پھر بہت سے انسان ایسے ہوتے ہیں کہ ہر ایک چیز جسے وہ اچھا سمجھتے ہیں چاہتے ہیں کہ لذت اور مزے کے لئے کھالیں مگر کھانے کے بعد وہ افسوس کرتے ہیں کہ کیوں ہم نے کھائی.پہلے تو وہ اپنی خواہش کے غلام ہو جاتے ہیں لیکن جب اس سے آزاد ہوتے ہیں تو پتہ لگتا ہے کہ ہم نے اچھا نہیں کیا.اسی طرح بعض لوگ کپڑوں پر خرچ کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے اس قسم کے کپڑے نہ پہنے تو ہماری عزت نہیں رہے گی لیکن جب وہ کپڑے پھٹنے لگتے ہیں تو افسوس کرتے ہیں کہ ہم نے اس قدر زیادہ قیمت کے کپڑے
۳۵ بنانے میں غلطی کی تھی.تو انسان کے خیال میں بعض اوقات جلدی ہی تغیر آجاتا ہے.وہ ایک خیال کے ماتحت اپنے لئے حقیقی خوشی سمجھتا ہے مگر دراصل وہ عارضی خوشی ہوتی ہے اور نہایت ہی عارضی ہوتی ہے اور اس کے بعد فور ارنج اور افسوس آجاتا ہے.لیکن وہ شخص جو اپنے مال دولت جائداد و غیرہ کو ایسی جگہ صرف کرتا ہے کہ جس سے اسے دائمی خوشی حاصل ہو اس کے دل میں کبھی رنج نہیں آتا.پس تم لوگ یہ مت خیال کرو کہ اگر تم دین کے لئے اپنے مال اپنی دولت اپنی جائداد خرچ کرو گے تو بعد میں پچھتاؤ گے بلکہ یہ یقین رکھو کہ خوش ہو گے کیونکہ پچھتاوا دنیاوی اخراجات پر ہوا کرتا ہے کہ ان سے عارضی خوشی حاصل ہوتی ہے مگر دین کے راستہ میں خرچ کرنا اُس عید کا باعث بنتا ہے جو سب سے بڑی عید ہے اور جس کا نتیجہ کامیابی و ظفر مندی ہے اس لئے اس کا رنج نہیں ہو سکتا.حضرت مسیح نے کیا ہی خوب کہا ہے کہ تم اپنے پاس غلہ جمع کرتے ہو.جہاں سے چوہے کھا جاتے ہیں.لیکن خدا کے حضور جمع نہیں کرتے.جہاں کوئی چوہا نہیں کھا سکتا.19.پس تم یہ مت خیال کرو کہ خدا کے راستہ میں مال خرچ کرنے سے تمہارا مال ضائع ہو جائے گا.ضائع نہیں جائے گا بلکہ وہ تمہارے لئے حقیقی خوشی کا باعث ہو گا اس لئے اپنے طریق عمل میں اصلاح کرو اور جو کچھ پہلے کر رہے ہو اس سے آگے بڑھو.بہت لوگ ہوتے ہیں جو یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے پچھلے سال اس قدر چندہ دیا تھا اب کیا دیں.حالانکہ انہیں چاہئے کہ اس سال پہلے سال کی نسبت اور زیادہ دیں اور پہلے کی نسبت اور زیادہ آگے بڑھیں.دیکھو ایک ڈاکٹر جس وقت کام شروع کرتا ہے تو ابتداء میں وہ ایسا عمدہ نہیں کرتا لیکن جوں جوں اسے زیادہ مشق ہوتی جاتی ہے وہ زیادہ صفائی اور عمدگی سے کام کرتا ہے.ہاں اگر غور نہ کرے تو اور بات ہے.اسی طرح وہ انسان جو خدا کے لئے خرچ کرتا ہے وہ بھی پہلے کی نسبت بہت زیادہ فراخدلی سے خرچ کرتا ہے اور جوں جوں خرچ کرتا ہے اس کے لئے اور زیادہ جوش اور ولولہ پیدا ہوتا جاتا ہے.پس اگر تم لوگ خدا کے لئے خرچ کرتے ہو تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ تمہارے دل میں دوسرے وقت خرچ کرنے کے لئے پہلے کی نسبت اور زیادہ تحریک ہو اور اگر زیادہ تحریک نہیں ہوتی تو سمجھ لو کہ پہلے تم نے جو کچھ دیا تھا وہ خدا کے لئے نہیں بلکہ کسی اور وجہ سے دیا تھا اور وہ ضائع ہو چکا ہے.ایسی صورت میں تو اور بھی زیادہ خرچ کرنا چاہئے.اگر کوئی ایک سال خدا کے لئے کچھ دیتا ہے تو اگلے سال اس سے اور زیادہ دے گا.جس طرح ایک پیشہ ور پہلی دفعہ کام کرنے سے دوسری
دفعہ اس سے اچھا کرتا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ کے راستہ میں دینے والا جب ایک دفعہ دیتا ہے.تو اسے جو خوشی حاصل ہوتی ہے دوسری دفعہ دیتے ہوئے اس سے زیادہ ہوتی ہے.اور تیسری دفعہ اس سے بھی زیادہ.لیکن جو شخص یہ دیکھے کہ پہلے دینے کے بعد اس کے دل میں رنج اور تکلیف محسوس ہوئی ہے وہ سمجھ لے کہ اس نے خدا کے لئے نہیں دیا تھا اور اس کے دل کا رنج محسوس کرنا بتاتا ہے کہ جو کچھ دیا تھا وہ ضائع ہو چکا ہے.اس کے لئے اور بھی ضروری ہے کہ مرنے سے پہلے پہلے خدا کی راہ میں جس قدر زیادہ دے سکے دے.غرض تم لوگ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لو کہ آنے والی عید تمہارے اپنے ہاتھوں میں ہے.تم جتنی جلدی اسے لانا چاہو لا سکتے ہو.اگر تم نے اپنی جانوں اور مالوں کے ذریعہ اس کے لانے کی کوشش نہ کی تو کوئی اور قوم ہوگی جو اس کو لائے گی مگر اس وقت خوشی اسی کے لئے ہوگی نہ کہ تمہارے لئے.تمہارے لئے تو وہ دن ماتم کا دن ہو گا.پس تم اس بات کے لئے کوشش کرو کہ آنے والی عید تمہارے لئے عید کا دن ہو اور تمہاری ہی زندگی میں آجائے.وہ دن آئے گا تو ضرور کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِهِ - که اسلام کا غلبہ ہو گا اور ضرور ہو گا.کوئی بڑی سے بڑی حکومت اس کے مقابلہ کے لئے کھڑی نہیں ہو سکتی.اگر ساری دنیا بھی اس کے خلاف کھڑی ہو جائے تو اس طرح مسل دی جائے گی جس طرح تازہ گھاس مسل دی جاتی ہے کیونکہ اسلام کا مقابلہ نہ دنیا کا مال کر سکتا ہے نہ تلوار نہ توپ نہ جہاز کیونکہ اسلام خدا کے ہاتھ کے سہارے کھڑا ہوا ہے.اب اس کو کوئی نہیں بٹھا سکتا یہ کھڑا ہی رہے گا اور سوائے شقی ازلی روحوں کے باقی سب اس کی صداقت اور حقانیت کو قبول کر لیں گی اور تمام دنیا میں اسلام ہی اسلام پھیل جائے گا.پس جب وہ دن آئے گا تو حقیقی عید اور خوشی ہوگی مگر ان کے لئے جن کے ہاتھوں اسلام پھیلے گا.اور افسوس اور ماتم ہو گا ان کے لئے جن کو اس بات کا موقع تو دیا گیا تھا مگر انہوں نے اس سے فائدہ نہ اٹھایا.تم لوگ اس بات کی کوشش کرو کہ جو موقع تمہیں نصیب ہے اس سے فائدہ اٹھا لو.تمہارے سامنے حقیقی خوشی اور جنت ہے کوشش کرو کہ اس کو حاصل کر لو.مگر دوزخ بھی تمہارے قریب ہی ہے.ذرا پاؤں لڑکھڑایا اور اس میں گر پڑے.یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ پل صراط کی طرح ہے.اگر تم نے کوشش اور ہمت سے کام لیا تو جنت میں داخل ہو گئے اور ذرا بے احتیاطی کی تو دقبال کے درزخ میں گر پڑے.پس تم ہوشیار ہو جاؤ.مال کا خدا کی راہ میں خرچ کرنا چیز ہی کیا
۳۷ ہے.ایک جنگ میں کچھ صحابی کھجوریں کھا رہے تھے.ان میں سے ایک نے بعض صحابہ کو جو شہید ہوتے دیکھا تو کھجوریں پرے پھینک کر کہنے لگا میرے اور جنت کے درمیان صرف یہ کھجوریں روک ہیں.یہ کہہ کر تلوار لے کر اتنا لڑا کہ شہید ہو گیا.۲۰، تو یہ مال و اموال آرائش اور آسائش کی چیزیں مومن کے لئے ایک پردہ ہیں جو اس کے اور جنت کے درمیان حائل ہے.اس کو ہٹا دیا جائے تو آگے جنت ہے.جس طرح ایک آم یا خربوزہ پڑا ہو اور اس سے ورے مصنوعی خربوزہ رکھا ہو.جو شخص اس مصنوعی کو لیکر بیٹھ رہے گا وہ یقینا نا کام رہے گا لیکن جو اسے چھوڑ کر اصلی کو لے گا وہ کچھ حاصل کر لے گا.تو حقیقی خوشی اور لذتیں وہی ہوتی ہیں جو خدا کی طرف سے حاصل ہوتی ہیں.یہ دنیاوی ساز و سامان عارضی خوشیاں ہیں، جو امتحان لینے اور ترقی کا موقع دینے کے لئے ہیں.پس تم ان عارضی خوشیوں کو چھوڑو اور خدا کے لئے اپنے اموال اور جائدادوں کو خرچ کرو تا تمہیں اُس عید کے دیکھنے کا موقع ملے جو ازل سے آنحضرت ام لیا اور آپ کے صحابہ کے لئے مقدر تھی.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی جماعت کے لئے ہے.خدا تعالی ہمارے دلوں سے دنیا کی ملونی دُور کر دے اور اپنی محبت کو ہمارے دلوں میں جگہ دے.اپنے دین اپنے جلال اور اپنی شان کو دنیا میں پھیلانے کی توفیق بخشے.آنحضرت مال الملک کی صداقت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی پیش کرنے کی ہمت اور استقلال دے.ہمارے دلوں کو وسیع کر دے اور جس طرح ہر سال یہ چھوٹی چھوٹی عید میں آتی ہے ہیں ہمارے لئے وہ بڑی عید بھی لائے.عجائب گھروں میں بڑی بڑی مشہور عمارتوں کے نمونے رکھے ہوتے ہیں تاکہ ان کو دیکھ کر اصل کو دیکھنے کا شوق پیدا ہو.لیکن جس طرح آگرہ کے تاج محل اور دہلی کی جامع مسجد کے نمونوں کو دیکھ کر ان کے اصل سے واقفیت نہیں ہو سکتی اسی طرح ان عیدوں کو دیکھ کر اُس اصل عید کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا.آنحضرت ملی و جنت کے متعلق فرماتے ہیں کہ نہ وہاں کی چیزوں کو کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی دل میں خیال آیا ہے کہ کس طرح کی ہیں.اس اسی طرح اس عید کی نسبت اس وقت کوئی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا اور ان عیدوں سے اس کا کچھ بھی مقابلہ نہیں ہو سکتا.پس تم دعائیں مانگو کہ خدا تعالیٰ تمہیں وہ عید دیکھنے کا موقع دے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے لئے مقدر ہے.الفضل ۱۲ اگست ۱۹۱۶ء )
ل الاعراف : ۱۵۹ مفردات امام راغب زیر لفظ "عود " الاعراف: ۱۵۹ بخاری کتاب الصلوۃ باب قول النبی میل الا الله جعلت لي الارض مسجدا و طهورا متی باب ۷ آیت ۶ متی باب ۱۵ آیت ۲۴ ك الضحى : ۱۲ متی باب ۱۵ آیت ۲۶ الضحى : ١٢١ الصف :۱۰ تذکره صفحه ۴۵.ایڈیشن ۱۹۹۵ ء الشرکتہ الاسلامیہ ربوہ.چشمہ معرفت صفحه ۸۲ - ۸۳ - تریاق القلوب صفحہ ۱۲۰ - ۱۲۲ اله بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود علیہ ۶۱۸۳۵ - ۱۹۰۸ء.دعوی ۱۸۸۹ء کا تذکرہ صفحہ ۳۶۰.ایڈیشن ۱۹۵۶ء الشركة الاسلامیہ ربوہ ۱۳ متی باب ۱۶ آیت ۱۹ السلام ۱۴ صحیح مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلوة - صحیح بخاری کتاب الصلوة باب قول النبي صلى اللہ علیہ وسلم جعلت لى الارض مسجدا و طهورا ها صحیح بخاری کتاب الادب باب رحمة الولد و تقبيله ال عمران:۱۰۵ كل الوصیت صفحه ۸-۹ مطبوعہ مارچ ۱۹۷۶ء نظارت بهشتی مقبره مفردات امام راغب زیر لفظ "میل" ۱۹ متی باب ۶ آیت ۱۹ - ۲۰ میں عبارت اس طرح ہے.اپنے واسطے زمین پر مال جمع نہ کرو.جہاں کیڑا اور زنگ خراب کرتا ہے اور جہاں چور نقب لگاتے اور چراتے ہیں.بلکہ اپنے لئے آسمان پر مال جمع کرو.جہاں نہ کیڑا خراب
۳۹ کرتا ہے نہ زنگ.اور نہ وہاں چور نقب لگاتے اور چراتے ہیں." ۲۰ صحیح بخاری کتاب المغازي باب غزوة احد صحیح مسلم کتاب الجنة وصفة نعيمها واهلها ات
...(۶) (فرمودہ ۲۲.جولائی ۱۹۱۷ ء مطابق یکم شوال ۱۳۳۵ھ بمقام مسجد اقصیٰ.قادیان) اِنَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَهُمْ وَاَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُوْنَ لَن وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرِيةِ وَالْإِنْجِيلِ وَالْقُرَانِ وَمَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِى بَايَعْتُمْ بِهِ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ التَّائِبُونَ الْعَابِدُونَ الْحَامِدُونَ السَّائِحُونَ الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ الْأَمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَالْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللَّهِ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ - ا آج کے دن کا نام اس نام کے علاوہ جو ہفتہ کے دنوں کا ہوتا ہے ایک اور بھی ہے.اس دن کو لوگ عید کہتے ہیں لیکن بہت کم لوگ ہیں جو جانتے ہیں کہ عید کیا ہوتی ہے.چھوٹے بچے جو ابھی اماں اور ابا بھی نہیں کہہ سکتے وہ بھی خوش ہیں کیونکہ وہ دیکھتے ہیں کہ دوسرے لوگ خوش ہیں.پھر جو ان سے بڑے ہیں وہ بھی خوش ہیں کہ ان کے کپڑے بدلے جا رہے ہیں انہیں نہلایا دھلایا جا رہا ہے، ان کو مٹھائیاں دی جارہی ہیں اور آج ان کی پہلے دنوں کی نسبت کچھ زیادہ خاطر تواضع ہو رہی ہے.پھر وہ بھی خوش ہیں جو سکولوں میں پڑھتے یا کوئی اور کام کرتے ہیں کیونکہ آج انہیں چھٹی ہے.بچے خوش ہیں کہ عید جس کی آمد کا وہ کئی دن سے انتظار کر رہے تھے آگئی ہے.مگر اس لئے خوش نہیں کہ وہ عید کو جانتے ہیں بلکہ ان کی خوشی صرف اس لئے ہے کہ انہیں آج پہلے کی نسبت اچھی اور زیادہ چیزیں کھانے کو ملی ہیں.کپڑے بدلے گئے ہیں.بڑے لڑکے بھی خوش ہیں اس لئے نہیں کہ وہ عید کو جانتے ہیں بلکہ اس لئے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس کے ذریعہ مدرسہ سے آزادی ملی ہے.بہت لوگوں نے میلے دیکھے ہوتے ہیں وہ عید کو بھی ایک میلہ سمجھ کر خوش ہوتے ہیں کیونکہ اجتماع کا اثر دماغ پر پڑتا ہے اور اس خیال میں اکثر بچے، جوان، بوڑھے سب ہی شامل ہیں کہ فلاں جگہ اجتماع ہے وہاں جائیں.مگر ان میں سے کثیر حصہ ایسا ہے جو نہیں جانتا کہ آج وہ خوش کیوں ہے آج وہ کونسی
ایسی زائد چیز مل گئی ہے جو پہلے نہ تھی جس کے باعث آج غیر معمولی طور پر خوشی ہے.اگر صرف کھانے کی چیزیں اس خوشی کا موجب ہیں تو اور وقتوں میں بھی ایسا کھانا کھایا جا سکتا ہے اور یہ کوئی ضروری نہیں کہ جو کھانے آج پکائے گئے ہیں.وہ کسی دوسرے دن نہ پکائے جائیں بلکہ اور دنوں میں اس سے بھی زیادہ پکائے جا سکتے ہیں.پھر کیا صرف نئے اور عمدہ کپڑے پہننا خوشی کا موجب ہے ؟ یہ بھی کوئی ایسی بات نہیں جو کسی اور وقت میں نہ ہو سکتی ہو سال کے دوسرے کئی ایام میں بھی اچھے سے اچھے کپڑے پہنے جاسکتے ہیں.پھر کیا پیشہ ور اور کام کرنے والے اس لئے خوش ہیں کہ آج ان کو کام سے فراغت ہے؟ نہیں کیونکہ وہ سال کے دوسرے ایام میں بھی کام سے فراغت حاصل کر سکتے ہیں.ایک تاجر بھی اور زمیندار بھی دوسرے ایام میں خوش ہو سکتا ہے.غرض یہ چیزیں جو بظاہر خوشی کا باعث نظر آتی ہیں ان میں تو کوئی ایک بھی ایسی نہیں جو صرف عید سے ہی تعلق رکھتی ہو.سال کے کسی دوسرے حصہ میں بھی یہ بطریق احسن میسر آ سکتی ہیں.مگر جب لوگوں سے سوال کیا جائے تو اکثر یہی جواب دیں گے کہ ہماری خوشی کا باعث عید ہے.معلوم ہوا کہ لفظ عید ان کی خوشی کا سبب ہے.بعض الفاظ اس قسم کے ہوتے ہیں کہ ان کے معانی اور نتائج ان میں اس قدر پیوست ہوتے ہیں کہ ان کے سننے کے ساتھ ہی فورا محسوس ہونے لگتے اور دل میں بیٹھ جاتے ہیں.یہی حال عید کے لفظ کا ہے.مسلمانوں کا بہت سا حصہ ایسا ہے جو نہیں جانتا کہ اس لفظ میں کیا حکمت ہے مگر اس سے ایک قسم کی خوشی ضرور محسوس کرتا ہے اور اس کے جذبات میں ہیجان پیدا ہوتا ہے.نئے کپڑے پہنے اور اجتماع میں جانے سے بہت سے لوگ ہیں جو خوش ہو جاتے ہیں.مگر دانا انسان کا کام یہ نہیں کہ وہ ایسی باتوں پر ہی خوش ہو جائے.دانا انسان ہمیشہ کسی حکمت کو دیکھتا ہے.ایسا انسان جو کسی بات کی حکمت معلوم ہوئے بغیر خوش ہوتا ہے اس کی خوشی بے معنی اور بے حقیقت ہوتی ہے اس کی فرحت، راحت ایسی ہی ہوتی ہے جیسے بعض دواؤں سے عارضی آرام حاصل کیا جاتا ہے..آج کے دن اگر محض یہی باتیں کسی شخص کی خوشی کا موجب ہیں جن کا ذکر کیا گیا ہے تو ایک دانا کو تو نا خوش ہونا چاہئے کیونکہ آج اسے پہلے کی نسبت زیادہ خرچ کرنا پڑا ہے.پھر اس دن کی خصوصیت نہیں رہتی کیونکہ اس قسم کے سامان اور
دنوں میں بھی انسان مہیا کر سکتا ہے.ظاہری طور پر جب ہم دیکھتے ہیں تو خوشی کے یہی اسباب معلوم ہوتے ہیں.کسی کے ہاں بیٹا پیدا ہوا.اس کے لئے خوشی کا موقع ہے ، کسی کی شادی ہوئی اسے خوش ہونا چاہئے کہ اپنا یا اپنے کسی دوست کا گھر آباد ہوا مال مل گیا یا کسی کو کوئی درجہ یا عہدہ حاصل ہو گیا، کسی تاجر کو کسی سودے میں بڑا نفع حاصل ہوا.یا کہ کسی کسان کی فصل اچھی ہو گئی اور کھیت پھلا اور پھولا ہے اور غلہ کثرت سے پیدا ہوا اس کے لئے یہ ایک خوشی کی بات ہے.پھر ایک حکومت اپنے دشمنوں پر فتح پا کر خوش ہوتی ہے کہ وہ دشمن کے مقابلہ میں جو اخراجات برداشت کر رہی تھی اور لاکھوں جانوں کو قربان کر رہی تھی ان سے اسے نجات حاصل ہو گئی اور دشمن کا خاتمہ کر کے اس کے ملک کو اپنے قبضہ میں کر لیا.پھر ایک طالب علم جب وہ امتحان میں کامیاب ہو جاتا ہے تو خوش ہو تا ہے کیونکہ اس کی سال بھر کی محنت کا نتیجہ اسے مل گیا.مگر عید کرنے والا اور اس موقع پر خوش ہونے والا کیوں خوش ہوتا ہے.کیا اس کے کوئی لڑکا پیدا ہوا؟ یا اس کی یا اس کے کسی دوست کی شادی ہوئی ؟ یا کسی تجارت میں اس کو نفع عظیم ملا؟ یا اس کی کھیتی میں اچھا غلہ پیدا ہوا؟ یا کسی امتحان میں وہ کامیاب ہوا؟ یا اس کو کوئی درجہ اور عمدہ اور خطاب ملا؟ یا اس کو کہیں سے مال حاصل ہوا ؟ یا اس کو اس کے دشمنوں پر فتحی حاصل ہوئی ؟ ان باتوں میں سے تو کوئی بات بھی عید منانے والے کو حاصل نہیں ہوئی.پس جب ان وجوہات میں سے جو بظاہر خوشی کا سبب ہوا کرتی ہیں کوئی وجہ بھی عید پر خوش ہونے والے کے پاس نہیں اور نہ ہی ان کے علاوہ کوئی ایسی وجہ رکھتا ہے جو ان سب سے اعلیٰ ہے تو پھر اس کا خوش ہو نا پاگلوں والا فعل ہے.عید کے دن خوش ہونے والے لوگوں سے پوچھنا چاہئے کہ تمہارے خوش ہونے کی کیا وجہ ہے ؟ اگر وہ صرف اچھے کھانے کھانا نئے کپڑے پہنتا ہی بتا ئیں تو یہ باتیں جیسا کہ میں پہلے بتا آیا ہوں اور ایام میں بھی میسر آسکتی ہیں.ان پر خوش ہونا عقلمندوں کا کام نہیں کیونکہ ایک ایسے کام پر خوشی جو ہر وقت کیا جا سکتا ہے اور جس پر بہت کچھ خرچ ہوتا ہے دانائی نہیں ہے.اس طرح خوش ہونے والوں پر مجھے ایک بات یاد آگئی.حضرت خلیفہ اول کے پاس جب ہم پڑھا کرتے تھے ایک دن ایک عورت آئی اور اس طرح ہنستے ہنتے کہ گویا اسے کوئی بڑی خوشی حاصل ہوئی ہے کہنے لگی مولوی صاحب میرا بیٹا طاعون سے مر گیا ہے یہ کہہ کر پھر ہنستی ہوئی چلی
گئی.دوسرے دن پھر آئی.اور بنتے بنتے اور اسی طرح بے اختیار ہو کر کہ اس کے منہ سے مارے ہنسی کے لفظ بھی بمشکل نکلتا تھا.حضرت مولوی صاحب کو کہنے لگی حضور ! میرا دوسرا لڑکا بھی مر گیا ہے.تیسرے دن پھر آئی اور اسی طرح ہنستے ہوئے کہا مولوی صاحب میرا خاوند بھی مر گیا ہے.اس کے ہاں چار موتیں ہوئیں اور اس نے ہر ایک کا حال مولوی صاحب کو ہنس ہنس کر سنایا.وہ اس قدر زیادہ ہنستی کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے.لیکن کیا وہ کسی خوشی کی وجہ سے ہنستی تھی.نہیں بلکہ اسے مراق کی بیماری تھی.اس کا دل غمگین تھا اور جو واقعات اسے پیش آئے تھے وہ رلانے والے تھے اس لئے اسے رونا چاہئے تھا مگر اسے رونے کی بجائے ہنسی آتی تھی.کیا اس کی ظاہری خوشی در حقیقت خوشی تھی.نہیں بلکہ وہ خوشی اسے پاگل ظاہر کر رہی تھی.میں کہتا ہوں آج خوشی کی کیا بات ہے کہ مسلمان خوش ہیں.اس کا جواب بجز اس کے اور کچھ نہیں دے سکتے کہ آج عید ہے.لیکن وہ لوگ جو حقیقتاً شریعت کے مغز کو جانتے ہیں وہ اس کا یہ جواب دیں گے کہ آج مسلمان اپنے خدا کے حضور چونکہ اس بات کا شکریہ ادا کرنے کے لئے حاضر ہوئے ہیں کہ انہوں نے مہینہ بھر اس کے حضور کامل طور پر اپنی عبودیت کا اقرار کیا ہے.پس آج کی خوشی کسی دنیادی وجہ سے نہیں بلکہ اس لئے خوشی ہے کہ مسلمانوں نے اپنے آقا کے حضور جو عہد کیا تھا اس کو پورا کیا اور بارہ مہینوں میں سے ایک مہینہ میں انہوں نے بعض جائز باتوں کو بھی اس کی رضا کے لئے ترک کیا.لیکن وہ شخص جو بلا غذر روزوں میں دن کو کھاتا پیتا اور نفسانی خواہشات کو پورا کرتا رہا خدا کے حکم بلاوجہ ٹلاتا رہا اس نے تو اپنی جان ظلم کیا.اس کے لئے آج خوش ہونے کا کوئی موقع نہیں بلکہ اسے تو آج ماتم کرنا چاہئے.پھر س نے اپنے اندر رمضان کا مہینہ پانے کے باوجود کوئی تبدیلی نہیں کی کوئی عبودیت کا اقرار نہیں کیا کوئی خدا سے صلح کرنے کی تیاری نہیں کی کہ جس سے وہ خدا کے فضل کا جاذب ہو تا اس کے لئے بھی خوش ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے.اس کے لئے رنج کا موقع ہے.اس کے لئے کسی راحت کا وقت نہیں بلکہ اسے دکھ در پیش ہے.وہ کیوں ہنستا ہے اگر اس نے روحانی تبدیلی نہیں کی ، خدا کا عمد پورا نہیں کیا اور روحانیت کی طرف کوئی ترقی کا قدم نہیں اٹھایا.تو کیا اس کو خوش ہونا چاہئے؟ ہر گز نہیں.اسے تو رونا چاہئے.عید ایسے دن کو کہتے ہیں جو بار بار آئے اور جس کے بار بار آنے کی خواہش کی جائے.کہ مگر کیا وہ شخص جس کے گھر میں ماتم ہو وہ
1 سهم سلام کہتا یا خواہش رکھتا ہے کہ ایسا موقع میرے لئے روز روز آئے ؟ یا وہ جس کو تجارت میں گھانا پڑے یا جس کا مال چور لے گئے ہوں خوش ہو کر کہتا ہے کہ میرے لئے یہ موقع بار بار آئے؟ یا کسی کا گھر گر جائے یا کوئی اور نقصان ہو جائے تو کیا وہ خدا سے دعا ئیں کرے گا کہ یہ دن پھر بھی آئے ؟ ہرگز نہیں.اسی طرح جس شخص نے رمضان میں روحانی ترقی نہیں کی ، اپنے اندر تبدیلی پیدا نہیں کی، خدا سے صلح نہیں کی بلکہ خدا تعالیٰ کی نافرمانی اور عہد شکنی کر کے گناہ کا مرتکب ہوا ہے وہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ اس پر یہ دن لوٹ کر آئے.لیکن اگر کوئی یہ کہے گا تو کیا اس کے یہ معنی نہیں ہوں گے کہ وہ چاہتا ہے کہ ایسا دن مجھ پر بار بار آئے جس میں میں عہد شکنی اور نافرمانی کر کے خدا سے دُور ہی دُور ہوتا جاؤں.کوئی عظمند تو ہر گز یہ نہیں کہہ سکتا کہ ایسی حالت جس میں اس نے خدا سے کوئی تعلق نہیں پیدا کیا، دین کی کوئی خدمت نہیں کی، روحانی اصلاح نہیں کی اس پر کوٹ کر آئے تا پھر وہ اسی طرح کرے.لیکن جو شخص ایسی حالت کے باوجود عید کے دن خوش ہوتا اور خوشی کا اظہار کرتا ہے وہ گویا اپنے لئے بد دعا کرتا ہے کہ میری ایسی ہی بُری اور بد تر حالت رہے.ایسا کرنے والے پر بچوں کی ایک کہانی صادق آتی ہے.کہتے ہیں ایک شخص کو کسی نے کھچڑی کھلائی جو اسے بہت پسند آئی.اور اس نے ارادہ کیا کہ اپنے گھر جا کر بھی پکوائیں گے.مگر راستہ میں اس کا نام بھول گیا اور سوچ سوچ کر کھا چڑی" نام یاد کیا.وہ اس خیال سے کہ پھر نہ بھول جائے اونچی آواز سے یاد کرتا ہوا ایک کھیت کے پاس سے گذرا جسے چڑیوں نے بہت نقصان پہنچایا تھا.زمیندار نے جب اس کے منہ کھا چڑی کھا چڑی" سنا تو اسے بہت غصہ آیا.اس نے پکڑ کر خوب مارا اور کھا چڑی ھا چڑی" کہنے سے روک دیا.مار کھا کر اس نے کہا یہ نہ کہوں تو اور کیا کہوں.زمیندار نے کہا.کہو.اُڑ چڑی".اب وہ "اُڑ چڑی اُڑ چڑی " کہتا ہوا چل پڑا.آگے ایک ایسی جگہ پہنچا جہاں کسی شکاری نے جال بچھا رکھا تھا.اس کا اڑ چڑی اڑ چڑی کہنا شکاری کو بہت برا معلوم ہوا.اس نے اسے مارا اور کہا تم اُڑ چڑی کی بجائے یہ کہو کہ " آتے جاؤ پھنستے جاؤ." آگے جو گیا تو وہاں چور چوری کر رہے تھے انہوں نے اس کا گلا گھونٹا اور کوئی اور فقرہ سکھا دیا.وہ وہی کہتا ہوا ایک ایسی جگہ پہنچا جہاں شادی کا سامان ہو رہا تھا.وہ اس کے سر چڑھے کہ ایسے موقع پر ایسے بڑے الفاظ نہ کہو بلکہ یہ کہو کہ خدا یہ دن روز دکھائے.وہی یہی کہتا ہوا چلا.آگے کچھ لوگ جنازہ لئے جا رہے تھے.انہوں نے اسے مارنا شروع کیا کہ ہم پر تو ایک ماتم کا وقت ہے اور تو یہ
کہتا ہے کہ خدا یہ دن روز دکھائے.یہی حال ہے اس شخص کا جو عید کی حکمت غرض اور غایت کو نہیں جانتا اور رمضان میں اپنے اندر تبدیلی نہیں پیدا کرتا.خدا کی رضا کی راہوں پر اس نے قدم نہیں مارا مگر عید کے دن خوش ہوتا ہے حالانکہ اس کے لئے عید نہیں بلکہ ماتم ہے.اس کو تو یہ کہنا چاہئے کہ خدا یہ دن مجھے پھر نہ دکھائے.نہ کسی اور کو.لیکن جس نے واقعہ میں رمضان میں اپنے اندر کوئی اچھا تغیر ا کیا ہے، خدا سے صلح کی ہے خدا کی عبادت کی ہے اُس کے لئے عید ہے اور وہ جس قدر بھی خوش ہو اُس کا حق ہے.ہم دیکھتے ہیں وہ شخص جسے گورنمنٹ کی طرف سے کوئی خطاب ملتا ہے وہ خوش ہوتا ہے اس کے عزیز و اقارب خوش ہوتے ہیں.پھر کیا وجہ ہے کہ وہ شخص جسے خدا خطاب دیتا ہے جس کو خدا کا قرب حاصل ہوتا ہے وہ خوش نہ ہو.اسے تو بہت زیادہ خوش ہونا چاہئے.بہت سی عیدیں منانا چاہئے.ہاں جس نے ایک ذرہ بھی قرب حاصل نہیں کیا اس کے لئے عید نہیں.جس نے کوئی تغیر پیدا نہیں کیا اس کے لئے بھی عید نہیں.اس نے اپنے وقت کو ضائع کیا اپنے مال کو بے وجہ خرچ کیا اس کا عید منانا پاگلوں کا سا کام ہے اور اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسا کہ ایک ماتم کے وقت یہ کہنے والے کی کہ خدا یہ دن پھر لائے.پس خوب یاد رکھو کہ یہ دن کوئی دنیاوی خوشی کا دن نہیں.آج خوشی منانے کے وہی لوگ مستحق ہیں جنہوں نے اپنے اندر تبدیلی پیدا کی ہے خواہ وہ تبدیلی تھوڑی ہو یا بہت مگر پہلے کی نسبت کچھ نہ کچھ اصلاح کی ہے خواہ وہ کتنی ہی کم کیوں نہ ہو.اسلامی عیدیں کیا ہیں؟ ایک جانی قربانی کے بعد ہوتی ہے کہ مہینہ بھر تمام حلال چیزوں کو دن میں ترک کرنا پڑتا ہے اور اس کے بعد شکریہ ادا کیا جاتا ہے کہ خدایا تیرا شکر ہے کہ ہم تیرے اس حکم کو بجالا سکے.دوسری عید مالی قربانی کی ہے اس پر مال قربان کیا جاتا ہے.اسلام کسی ایسی عید کا قائل نہیں جس کے ساتھ کچھ قربانی نہ ہو اور وہ قربانی محض خدا تعالیٰ کے لئے نہ ہو.اسلام تو عید ابی کو کہتا ہے کہ خدا کی راہ میں مال و جان جو کچھ بھی ہو قربان کر دیا جائے اور اس کے بعد خوشی منائی جاوے.پس میں اپنی جماعت کے لوگوں کو اسی قربانی کی طرف متوجہ کرتا ہوں کہ وہ خدا کے لئے ہر ایک چیز کی قربانی کرنے کے لئے تیار رہیں اور کسی چیز کو بھی خدا کے دین کے مقابلہ میں عزیز نہ رکھیں.ان کے لئے وہی خوشی کا موقع ہو گا جب کہ ان میں یہ طاقت اور ہمت پیدا ہو جائے گی کہ وہ خدا کی راہ میں اپنا سب کچھ صرف کرنے کے لئے
۴۶ تیار رہیں.رمضان کا مہینہ ان کو یہی سبق دینے آیا تھا پس وہ اس سے یہ سبق لیں.خدا تعالٰی مومن کی نسبت فرماتا ہے اِنَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ وَهُدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِى التَّوْرَيةِ وَالْإِنْجِيلِ وَالْقَرَانِ وَمَنْ اَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِى بَايَعْتُمْ بِهِ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ پس آؤ ہم اللہ سے ہی سودا کریں کہ اپنی جان و مال اس کے حضور میں پیش کر دیں جنت کے بدلے.پھر وہ جس طرح چاہے ہماری جانوں اور مالوں کو صرف کرے.ہمارا یہ کام ہو کہ خدا کی راہ میں جان و مال سب کچھ پیش کر دیں اور ان کے دینے میں کوئی عذر نہ ہو.پس جب ہم خدا سے یہ بیچ کر لیں گے اور یہ عہد نامہ پختہ ہو جائے گا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم کو خوش ہونا چاہئے کہ تم نے بہت اچھا سودا کیا ہے.دنیا میں لوگ بہت سے سودے فائدہ اور نفع کی خاطر کرتے ہیں مگر ان کا فائدہ یقینی نہیں ہو تا مگر خدا کہتا ہے کہ جب تم مجھ سے بیچ کر لو گے تو تمہارا نفع یقینی ہے.وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ.یاد رکھو یہ بڑی کامیابی اور اس سودے میں بڑا نفع ہے.پس مومن کی تو یہ عید ہے کہ وہ خدا کی راہ میں جان لڑا دے.مال پانی کی طرح بہا دے جب وہ اس بیج کو پورا کرتا ہے تو اس کو خوش ہونا چاہئے کیونکہ حقیقی عید اسی شخص کی ہے جس نے خدا سے بیع کی اور اس کے حضور اپنا سب کچھ ڈال دیا.اسلام ایک مسلمان کو خوشی کا اسی وقت مستحق سمجھتا ہے جب وہ خدا کی راہ میں قربانی کرے.یہاں موجود ہونے والے دوست اچھی طرح اس بات کو سن لیں اور باہر کے دوست اخبار کے ذریعہ معلوم کر کے یاد رکھیں.ہر انسان سوچے کہ اس نے اپنے اندر اس عرصہ میں کیا تبدیلی پیدا کی ہے کہ خوش ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے خوشی اس کے لئے ہے جس نے خدا کی راہ میں اپنا سب کچھ ڈال دیا.بہت لوگ ہیں جو خدا کی راہ میں جان کو محنت و مشقت میں ڈالنے سے بخل کرتے ہیں پھر بہت ہیں جو مال دینے سے بچتے ہیں مگر یاد رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے انعام اسی وقت حاصل ہو سکیں گے جب کہ اس کی راہ میں اپنی کسی چیز کو نثار کرنے سے دریغ نہیں کیا جائے گا.آج اسلام پر جو مصیبت کا زمانہ ہے وہ محتاج بیان نہیں.دشمن ہر طرف سے اس پر حملہ آور ہیں.اسلام پر اس سے بڑھ کر خطرناک وقت کوئی نہیں گذرا.شیطان اپنی ساری فوجوں
کو لے کر آیا ہے اور اسلام کی حالت اس وقت ایک ایسے دودھ پیتے بچہ کی مانند ہے جو جنگل میں پڑا ہو اور اس پر چاروں طرف سے درندے حملہ آور ہوں.آج حقیقی مسلم کے لئے خوشی کا دن نہیں.نادان بے شک خوش ہو سکتا ہے مگر وہ جو جانتا ہے کہ اسلام کی کیا حالت ہے وہ کبھی خوش نہیں ہو سکتا.اُس کی خوشی اسی میں ہے کہ اس کا سب کچھ اس راہ میں نثار ہو جائے.پس جس نے اپنی جان و مال کو خدا کی راہ میں خرچ نہیں کیا اُس کو خوش نہیں ہونا چاہئے.کیا اگر کسی کا بچہ بستر مرگ پر پڑا ہو اور وہ اس کے علاج میں کچھ نہ خرچ کرے تو اسے خوشی حاصل ہو سکے گی.یا کسی کی بیوی تکلیف میں ہو اور وہ اسے اسی حالت میں چھوڑ کر خوش ہو گا؟ ہرگز نہیں.پھر اُس مسلمان کیلئے کیا خوشی کا موقع ہے جو اسلام کو مصیبت میں مبتلا دیکھتا ہے.ہاں جب ایک انسان اپنا تمام زور لگا چکے پھر اُس کو خوش ہونا چاہئے کہ میں نے تو اپنی طرف سے جس قدر کر سکتا تھا کر دیا اور اپنی طرف سے کچھ بخل نہیں کیا.پس جب تک اسلام کو پوری طاقت اور قوت حاصل نہیں ہوتی ہمارے لئے بھی کوئی پوری خوشی نہیں.ہمیں حقیقی خوشی اُسی وقت حاصل ہو گی جب اسلام اکناف عالم میں پھیل جائے گا اور جب ہم خدا کے فضلوں کے وارث ہو جائیں گے.اس سے پہلے ہمارے لئے غم ہے کیونکہ ہماری سب سے بڑھ کر اور سب سے اعلیٰ چیز اسلام خطرہ میں ہے.پس تم لوگ آج ہی عہد کر لو کہ تم پر جب اگلی عید آئے تو تم میں ایک تبدیلی پائے.بلکہ تم ابھی سے اپنے اندر تبدیلی کرنی شروع کر دو.یہ زمانہ نہایت پُر آشوب ہے.تیرہ سو سال میں اسلام پر ایسا وقت نہیں آیا جو اب آیا ہے.اس لئے خدا نے مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے والوں کے لئے وہی انعامات رکھتے ہیں جو آنحضرت م م یتیم کے ماننے والوں کے لئے تھے.کہ اگر ہم اس وقت کو کھو دیں گے تو اس کے بعد ہمیں کوئی وقت ایسا میسر نہیں آئے گا.پس کوشش کرد که تمام جهان پر اسلام کی صداقت ظاہر ہو جائے اور تمام اس کے حلقہ بگوش ہو جائیں.پھر جتنا بھی کسی نے بڑے سے بڑا انعام حاصل کیا ہے وہ ہمیں حاصل ہو جائے گا اور اس کے دروازے ہمارے لئے کھل جائیں گے اور ہمارے لئے وہی عید کا زمانہ ہو گا جس وقت کہ ان انعامات کو حاصل کریں گے اور خدا کے دین کو تمام دنیا تک پہنچا دیں گے.یہ وہ دن ہیں جو پھر نہیں آئیں گے اس لئے ان کی قدر کرو اور ان کو ضائع نہ کرو.اگر ایسا کرو گے تو تمہیں وہی انعامات حاصل ہوں گے جو تمام انبیاء کی معرفت ان کے پیروؤں کو حاصل ہوئے.
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَهُدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَةِ وَالْإِنْجِيلِ وَالْقُرْآنِ یہ وعدے ایسے نہیں کہ جھوٹے ہوں بلکہ یہ سچے وعدے ہیں کیونکہ ان کا ظہور ہر زمانہ میں ہوا ہے.تو رات کے ماننے والوں سے کیا گیا تھا وہاں بھی پورا ہوا.اب متبعین قرآن سے کیا جاتا ہے.پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ ان سے پورا نہ ہو.پس جنہوں نے خدا سے سودا کیا وہ کبھی بھی ٹوٹے میں نہیں رہے.تم لوگ اسلام کی مدد و نصرت کے لئے کھڑے ہو جاؤ.تا شرک اور کفر کی وہ ظلمتیں دور ہو جاویں جنہوں نے دنیا کو گھیرا ہوا ہے.تم ان عہدوں کو پورا کرو جو خدا کے مامور کے ہاتھ پر کئے ہیں اور ہر ایک رنگ میں مال سے ، جان سے قلم سے ، زبان سے ، جس طرح بھی ہو سکے اسلام کی خدمت کرو.یہ دن پھر نہیں آئیں گے.جب امتحان کے دن قریب ہوتے ہیں تو طالب علم خوب محنت کرتے ہیں اور خدا سے دعا ئیں بھی کرتے ہیں.پس تمہارے امتحان کے دن بھی قریب ہیں.تم دین میں کامیابی کے لئے خوب محنت کرو اور خدا سے دعا ئیں بھی مانگو.تا اللہ تعالیٰ کے انعامات پاؤ.اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب لوگوں کو خواہ مرد ہوں یا عورتیں ، قادیان کے رہنے والے ہوں یا باہر کی جماعتوں کے سب کو توفیق دے کہ خدا کی راہ میں قدم ماریں ، اس کے دین کی اشاعت کے لئے کسی چیز کے خرچ کرنے سے مجل نہ کریں بلکہ ہر ایک چیز خوشی سے خرچ کریں.تا اللہ تعالیٰ کی اس بشارت عظیمہ کے مستحق ہو جائیں جس کا ایک حصہ نبی کریم کے وقت اور صحابہ کے ذریعہ پورا ہوا دوسرے حصہ کو ہم پورا کرنے والے ہیں.خدا ہمیں وہ دن دکھائے کہ اسلام تمام جہان میں پھیل جائے.اللہ کے نبی کی عظمت دنیا پر قائم ہو جائے.ہم پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں.دنیا کے لوگ خدا کی طرف آ جائیں.پھر وہ اللہ سے خوش اور خدا اُن سے خوش ہو جائے.اللہ تعالٰی ہم سب پر رحم کرے.آمین الفضل ۴ اگست ۱۹۱۷ء ) d التوبة : ١١١ ١١٢ - مفردات امام راغب زیر لفظ " عود" "کیا ابھی اس آخری مصیبت کا وہ وقت نہیں آیا جو اسلام کے لئے دنیا کے آخری دنوں
۴۹ میں مقدر تھی کیا کوئی ثابت کر سکتا ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی زمانہ بھی آنے والا ہے....بیرونی اور اندرونی فتنے انتہا کو پہنچ گئے پس وہ کونسا فساد کا زمانہ اور کس بڑے دجال کا وقت ہے جو اس زمانہ کے بعد آئے گا." آئینہ کمالات اسلام صفحه ۵۲-۵۵) اس زمانہ میں اس قدر آنحضرت مایا اور اور اسلام کی توہین کی گئی ہے کہ کبھی کسی زمانہ میں کسی نبی کی توہین نہیں کی گئی." (چشمہ معرفت صفحه ۸۶-۸۷) الجمعة : ۴۶۳.ایام الصلح صفحہ ۷۲-۷۳ و تبلیغ رسالت جلد دهم صفحه ۵۴-۵۶ ل الصف : ١٠
(<) (فرمودہ اا.جولائی ۱۹۱۸ء بمقام ڈلہوزی) سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى الَّذِى خَلَقَ فَسَوَّى وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدَى وَالَّذِي اخْرَجَ الْمَرْعَى فَجَعَلَهُ غُشَاء اَحْوَى سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسَى إِلَّا مَا شَاءَ اللهُ إِنَّهُ يَعْلَمُ الْجَهْرَ وَمَا يَخْفَى وَنُيَسِرُكَ لِلْيُسْرَى فَذَكَّرَانُ نَّفَعَتِ الذِّكْرَى ، سَيَذَكَرُ مَنْ يَخْشَى وَيَتَجَنَّبُهَا الْأَشْقَى الَّذِي يَصْلَى النَّارَ الكبرى ثُمَّ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَى قَدْ َافْلَحَ مَنْ تَزَكَّى وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيُوةَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَّاَبقَى إِنَّ هَذَا لَفِي ! الصُّحُفِ الأولى ) صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسى عید کا لفظ اردو فارسی اور عربی زبان میں خوشی کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن یہ معنی محاورے کے معنی ہیں.در حقیقت عید کا لفظ عود سے نکلا ہے اور عود کے معنی دوبارہ واپس آنے اور بار بار آنے والی چیز کے ہیں.کہ خوشی کے لئے یہ لفظ اس وجہ سے استعمال ہوتا ہے کہ خوشی ہی ایک ایسی چیز ہے کہ جس کے واسطے بار بار آنے کی خواہش ہوتی ہے.۳.دکھ مصیبت اور رنج و غم کوئی نہیں چاہتا کہ آدیں اور بار بار آویں.کوئی نہیں چاہتا کہ موت جدائی نقصان اور گھاٹا آوے بلکہ چاہتے ہیں کہ لڑکے پیدا ہوں، تجارتوں میں فائدے ہوں، دوستوں اور عزیزوں کی ملاقاتیں ہوں ، دشمن سے نجات ہو اسی واسطے محاورے میں خوشی کے لئے ایسا لفظ استعمال کیا گیا جس میں بار بار آنے کے معنے پائے جاتے ہیں.اس لفظ میں ایک اور بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ کہ کھوئی ہوئی چیز کے واپس آنے میں جو خوشی ہوتی ہے وہ دوسری چیزوں میں نہیں ہوتی.مثلاً کسی شخص کے گھر میں لاکھ روپیہ موجود ہے.اس کی موجودگی کی کوئی خاص خوشی نہیں ہوگی جیسا کہ اس کی جیب سے ایک دس روپیہ کے گم شدہ نوٹ کے دوبارہ مل جانے کی خوشی ہوگی.اسی طرح ہر وقت پاس رہنے والے عزیزوں اور دوستوں کی ملاقات کوئی ایسی خاص خوشی پیدا نہیں کرے گی جیسا کہ ایک مدت کے
اه بچھڑے ہوئے دوست کی ملاقات سے ہو گی.کسی شخص کے دس بیٹے ہوں اور ان میں سے ایک کے متعلق اسے یقین ہو کہ وہ مر گیا ہے اور وہ اچانک اسے مل جاوے تو اس کی یہ خوشی بے حد ہوگی اور موجودہ نو لڑکوں کی موجودگی سے کہیں بڑھ کر ہو گی بلکہ ممکن ہے بعض صورت میں شادی مرگ بھی ہو جائے کیونکہ کھوئی ہوئی چیز کے دوبارہ ملنے کی خوشی ایک خاص خوشی ہوتی ہے.انجیل میں حضرت مسیح نے ایک واقعہ مثال کے طور پر بیان کیا ہے.وہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص کے کئی بیٹے تھے.اس نے بہت سا مال ان میں تقسیم کیا اور ہر ایک کو اپنی زندگی میں ہی ایک معقول رقم دی تا مرنے کے بعد فساد نہ ہو اور جھگڑا نہ ہو.اس کے بیٹے مال لے کر مختلف جہات کو گئے اور انہوں نے مختلف ذرائع سے اپنے اموال کو بڑھایا اور فائدہ اٹھایا.مگر ایک لڑکے نے اپنا روپیہ اپنی غفلت اور سُستی اور غلط کاری و عیاشی کے باعث تمام کا تمام ضائع و برباد کر دیا اور کچھ بھی اس کے پاس باقی نہ رہا.نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ بھوکا اور نگا ہو گیا اور مجبوراً اسے ایک سور پالنے والے کی ملازمت اختیار کرنی پڑی.آخر ایک دن اس کے دل میں خیال آیا کہ میرے باپ کے کئی نوکر چاکر ہیں وہ ان کو کھانا کھلاتا ہے اور کپڑے پہناتا ہے اگر میں بھی واپس جاؤں تو کیا وہ مجھے کھانے اور پہننے کو نہ دے گا.اس خیال سے وہ واپس آیا اور شرم کے مارے اپنے باپ کے سامنے تو نہ گیا بلکہ اس کے نوکروں میں بیٹھ گیا.کسی نے اس کے باپ کو اطلاع کر دی.حضرت مسیح فرماتے ہیں.بتاؤ اس کے باپ نے یہ خبر پا کر کیا کیا ہو گا؟ فرماتے ہیں.اس نے فورا ایک موٹا تازہ بکرا منگایا اور قربانی کیا اور اس کے واپس آنے کی بہت بڑی خوشی منائی.نوکروں میں سے اٹھا کر عزت کی جگہ بٹھلایا.تب اس کے دوسرے بیٹوں نے باپ سے کہا کہ ہم بھی آپ کے لڑکے تھے اور ہم نے آپ کے مال کی حفاظت کی اور خوب اس کو بڑھایا مگر آپ نے ہمارے آنے پر اس قدر خوشی کا اظہار نہیں کیا جس قدر کہ اس لڑکے کے آنے پر اور اس کے لئے موٹا بکرا ذبح کیا مگر ہمارے لئے ایک ڈبلی بکری بھی ذبح نہ کی.اس پر ان کے باپ نے کہا کہ تمہاری غلطی ہے تم کھوئے نہ گئے تھے کہ میں نے تم کو پایا مگر یہ میرا بیٹا کھویا گیا تھا اور اب میں نے اسے پایا ہے.پس اس کے آنے پر اس قدر خوشی چاہئے تھی.کہ یہ تو ایک ایسے باپ کا ذکر ہے جس کے کئی بیٹے تھے.اگر کسی کا ایک ہی بیٹا ہو اور وہ کھویا جائے.پھر مدتوں بعد واپس آجائے تو اس کی خوشی کتنی بڑی خوشی ہو گی اور وہ اس کے واپس آجانے پر کیا
۵۲ کیا خوشی کرے گا.اندازہ کرلیں.ایک شخص جس کے پاس ہزاروں روپے ہیں وہ اگر ایک کھویا ہوا روپیہ پاتا ہے تو اس کو بھی ایک خوشی ہوتی ہے.مگر اس شخص کی خوشی کا اندازہ کرو جس کے پاس چند روپے تھے اور وہ گر گئے.بہت سرزنی اور بہت سرگردانی و مایوسی کے بعد اچانک اسے مل گئے.خیال کرتے ہو کہ اس کو کس قدر خوشی ہوگی.ایک شخص جو کسی لیے جنگل میں سفر کر رہا ہو جہاں نہ کھانے کو کچھ ملتا ہو اور نہ پینے کو میسر آتا ہو ایسے ہولناک جنگل میں اس کے پاس جو کچھ تھوڑا سا کھانا اور پانی ہو وہ کسی طرح اس سے گم ہو جائے یا کھویا جائے اور جب وہ بالکل مایوس ہو جائے تو پھر اسے اچانک وہ کھانا اور پانی مل جاوے تو اسے کس قدر خوشی ہو گی.حضرت مسیح نے تو بہت سے بیٹوں کی مثال دی ایک گم ہو گیا مگر باقی موجود تھے کیونکہ حضرت مسیح تمام دنیا کے لئے مبعوث نہ ہوئے تھے بلکہ آپ کی بعثت صرف بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے لئے تھی.۵.ان کی مثال بتاتی ہے کہ اگر ان کی اپنی قوم حق و راستی سے دور ہو کر راہ راست سے گم گشتہ تھی تو بعض اور قومیں دنیا میں اس وقت ایسی بھی موجود تھیں جن میں نیکی و تقویٰ اور خدا پرستی موجود تھی.ان کی مثال بتاتی ہے کہ اس باپ کے اکثر بیٹے لائق اور ہونہار تھے صرف ایک بیٹا نالائق اور عیاش تھا جو ان کی اپنی قوم کی طرف اشارہ ہے.حضرت مسیح کے زمانہ میں دنیا میں نیک اور خدا پرست لوگ کثرت سے موجود تھے اس لئے ان کی مثال میں ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ کا نقشہ نہیں پایا جاتا بلکہ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي بَنِي إِسْرَاءِیل کا رنگ نظر آتا ہے.مگر بر خلاف ان کے ہمارے رسول کریم ملی اور وہ چونکہ تمام دنیا کے واسطے مبعوث ہوئے تھے اور آپ کی تعلیم کسی خاص ملک یا قوم کے لئے نہ تھی بلکہ تمام دنیا کے واسطے بلا تخصیص زمانہ و مکان تھی اور آپ کی بعثت کے وقت ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ کا پورا پورا نقشہ موجود تھا.لہذا آپ نے جو مثال دی وہ بھی اس مضمون کی شاہد ناطق ہے.آپ فرماتے ہیں کہ ایک شخص اونٹنی پر سوار ایک بہت بڑے وسیع جنگل میں جا رہا ہو اور وہ جانتا ہو کہ اس سواری کے بغیر اس جنگل سے گزرنے کی اور کوئی سبیل نہیں اور نہ کوئی اور چارہ ہے.اتفاقاً وہ سواری اس سے گم ہو جائے اور وہ اس کی تلاش میں ادھر ادھر بے تابانہ پھرتا رہے لیکن
۵۳ اسے وہ سواری نہ ملے.آخر دوپہر تک کی تلاش کے بعد تھک کر ایک درخت کے نیچے لیٹ جائے اور اپنی سواری سے ناامید ہو کر سو جائے مگر اچانک اس کی آنکھ کھلنے پر اپنے پاس ہی اپنی ناقہ کو کھڑا دیکھے تو اس کے ملنے پر اسے کس قدر خوشی ہو گی.خدا تعالی کو بھی اپنے بندے کے واپس آنے اور اپنے مولا کی طرف رجوع کرنے پر ایسی ہی خوشی ہوتی ہے.کہ ان دونوں مثالوں میں فرق ہے.حضرت مسیح جب دنیا میں مبعوث ہو کر آئے اس وقت بنی اسرائیل کے سوا باقی اکثر اقوام میں صلاحیت و تقوی، نیکی اور دینداری موجود تھی اور روحانی پانی ان کو سیراب کرتا تھا.جیسا کہ حضرت مسیح کی مثال سے مستنبط ہوتا ہے کہ باپ کے بیٹے قابل ، لائق ہو نہار اور فرمانبردار موجود تھے صرف ایک گمراہ تھا جس کا ذکر کر کے حضرت مسیح نے بنی اسرائیل کو بتایا ہے کہ بنی اسرائیل کی مثال اس نالائق اور نادان بیٹے کی سی ہے اور کہ آپ اس قوم کی اصلاح کو مبعوث ہوئے ہیں.بر عکس اس کے ہمارے رسول کریم میں او لیول کے زمانہ بعثت میں تمام دنیا میں گمراہی اور جہالت پھیلی ہوئی تھی اور کوئی ملک اور کوئی قوم بلا تخصیص ملکی و قومی گمراہی اور گناہ کے اتھاہ گڑھے سے باہر نہ تھی.نہ کوئی ملک اور نہ کوئی قوم اس وقت دنیا کی آبادی میں ایسی موجود تھی جو روحانی پانی سے سیراب ہوتی ہو.اور انسانوں میں سے کوئی جماعت بھی خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ نہ تھی.گویا سب کے سب بندے خدا تعالیٰ کے راستہ سے کھوئے گئے تھے.اس وقت آپ مبعوث ہوئے اور کھوئے ہوئے بندوں کو پھر خدا تعالی کے پاس لائے.پس حضرت مسیح نے ایک ایسے شخص کی مثال دی جس کی اکثر اولاد نیک تھی اور ایک خراب تھی تا اپنے احاطہ تبلیغ کی طرف اشارہ کرے.اور رسول کریم مینی لیون نے ایک ایسے شخص کی مثال دی جس کا سب کچھ کھویا گیا تھا تاکہ ان کے احاطہ تبلیغ کی طرف اشارہ ہو.اور یہ دونوں مثالیں ان دونوں نبیوں کے مدارج کی طرف اشارہ کرتی ہیں.پس عید ہم کو اس بات کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ اگر حقیقی خوشی چاہتے ہو تو ضائع شدہ مال و منال کی تلاش کرو.اس کے حاصل کرنے کی کوشش کرو.مسلمانوں کے لئے تو عید ایک عبرت کا مقام ہے.وہ شخص کیا خوشی کر سکتا ہے اور کیونکر اس کا دل خوش ہو سکتا ہے جس کو ذلت و ادبار نے گھیرا ہو، جو مصائب و مشکلات میں پھنسا ہو، جو اپنے موروثی ملک سے بدر کیا جا چکا ہو، جو شدائد کی وجہ سے اپنی ماں ، باپ، بہنوں سے الگ ہو رہا ہو ، جو بجائے دوستوں کے
۵۴ شمنوں کے نرغے میں گھرا ہوا ہو ، بد بختی اور بد نصیبی کے باعث جس کے گھر میں ہر وقت جنگ و جدل، لڑائی جھگڑا رہتا ہو اور افلاس اور تنگی اسے سر نہ اٹھانے دیتی ہو ایسے شخص کی خوشی اور عید جس کے اندرونی حالات ایسے ہوں صرف ظاہری عمدہ لباس سے پوری نہیں ہو سکتی.نہ اس کا ہنسنا اور لوگوں میں بیٹھ کر خوشی کا اظہار کرنا اس کی دلی خوشی کا ثبوت دے سکتے ہیں بلکہ یہ تو ایک منافقانہ حالت ہے کہ اندر کچھ اور ظاہر کچھ.اور ایک عذاب ہے کہ دل تو اندر سے افکار و عموم سے کباب ہو رہا ہے مگر یہ اس کا اظہار بھی نہیں کر سکتا.غرض عیدین مسلمانوں کے واسطے ایک عبرت کا مقام ہیں.یا مصیبت اور دکھ کے کم کرنے کے لئے وقفے ہیں حقیقی عیدیں نہیں.ایک کھلونا ہیں جو روتے بچے کے ہاتھ میں دے دیا جاتا ہے وہ اس کی بھوک و پیاس کو نہیں مٹا سکتا.صرف اس کی توجہ کو تھوڑی سی دیر کے واسطے دوسری طرف لگا کر اس کی تکلیف میں وقفہ کا کام دے سکتا ہے.یہی حال مسلمانوں کی موجودہ حالت میں ان کی عیدوں کا ہے.عارضی خوشی عارضی ہنسی کا موقع ان کو مل جاتا ہے اور صرف غم غلط کرنے کا ایک ذریعہ ہیں.ورنہ اس ذلت و رسوائی، ادبار و تباہی کے ہوتے ہوئے حقیقی خوشی کے معنی ہی کیا ہوئے جب دن رات باہم دنگا و فساد چھڑا رہتا ہے.تو ایسی صورت میں حقیقی عید کیا ہوئی؟ پس مسلمان حقیقی عید اور اصلی خوشی اسی وقت حاصل کر سکتے ہیں جب موجودہ عید سے عبرت حاصل کر کے کھوئی ہوئی دولت و عزت آبرو و ثروت، جاہ و جلال، تقوی و طهارت نیکی و عبادت، رتبہ و مرتبت کی تلاش اور اس کے حاصل کرنے کی سر توڑ کوشش کر کے ان گم شدہ چیزوں کو حاصل کر لیں گے اور جس طرح ایک وقت تھا کہ دنیا میں اسلام ہی اسلام تھا اسی طرح اب بھی اسلام روحانی طور پر دنیا پر غالب ہو.اور جب مسلمان دلائل اور براہین، علم اور عمل سے یہ ثابت کر دیں کہ کسی شخص کی گردن اسلام کے دلائل کے سامنے اونچی نہیں رہ سکتی اور کوئی باطل اس حق کے مقابلہ کی تاب نہیں لا سکتا اُسی وقت اور صرف اسی وقت مسلمان حقیقی خوشی اور عید منانے کے قابل ہوں گے اور وہی کچی عید اور اصل خوشی کا دن ہو گا.اس واسطے میں اپنی جماعت کو خاص طور پر تاکید کرتا ہوں.اور زور سے توجہ دلاتا ہوں کہ آپ لوگوں کے لئے ایک بہت بڑی عید مخفی ہے اور وہ یہی ہے کہ دنیا کے تمام لوگ آپ
۵۵ لوگوں کے ذریعہ سے حق اور راستی کی چٹان پر جمع ہو جائیں.اور پھر تمام ادیان اس حقیقی نور اور میر کن پانی کو پینے لگیں جو خدا تعالیٰ نے آنحضرت میم تی وی کی معرفت دنیا کے بچاؤ کے واسطے نازل فرمایا اور جس کے اظہار کے لئے اللہ تعالٰی نے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا.حضرت مسیح کی مثال کی طرح یہاں ایک ہی بیٹا کھویا ہوا نہیں ہے بلکہ ہزاروں لاکھوں پیارے بھائی گمشدہ ہیں جن کی تلاش اور راہنمائی آپ لوگوں کے ذمہ ہے.پس جس وقت آپ لوگ اس مقصد میں کامیاب ہوں گے وہی وقت حقیقی عید اور سچی خوشی کا ہو گا.نادان ہے جو ہنستا ہے اور بے وقوف ہے وہ جو خوش ہوتا ہے جب تک اپنے اس فرض اور غرض کو نہیں سمجھتا اور پورا نہیں کرتا.نادان بچہ اپنے باپ کی مرگ کا احساس نہ کر کے ہنستا اور کھیلتا پھرے تو یہ اس کی کم علمی اور جہالت و نادانی ہے.مُردہ باپ کو غسل دیتے ہوئے لوگوں کو دیکھ کر پرواہ نہ کرے اور بے علمی سے سمجھے کہ میرے باپ کو لوگ مل مل کر نہلا رہے ہیں اور خوش ہو تو یہ اس کی کم فہمی ہے.باپ کو کفن دیتے ہوئے دیکھ کر اگر وہ خوش ہو اور سمجھے کہ میرے باپ کو نئے کپڑے پہناتے ہیں تو یہ اس کی بے سمجھی ہے.کیونکہ یہ دراصل اس کے واسطے مصائب کا دروازہ ہے یہ تو اُس بیچارے کے واسطے ماتم کا وقت ہے.یہ وقت تو در حقیقت اس کے نیم کی ابتدا ہے اور اس کے واسطے مصائب اور مشکلات کا پیش خیمہ ہے.مگر وہ اپنی کم علمی اور نادانی کی وجہ سے اسے سمجھتا نہیں اور خوشی کر رہا ہے.تو کیا اس کی یہ خوشی حقیقی خوشی ہو گی؟ پس وہ خوشی جس سے انسان غافل ہو جائے اور اپنے اصلی فرض کو اور اغراض و مقاصد کو بھول جائے وہ خوشی نہیں بلکہ ماتم ہے.اور اگر خوشی اور عید کو انسان اپنے اغراض و مقاصد کے حصول کا ذریعہ اور محرک سمجھے تو وہ ایک گونہ عید اور خوشی ہو سکتی ہے.پس یہ عیدیں دراصل حقیقی عید اور سچی خوشی کے حصول کا ایک موقع دیتی ہیں.اگر آپ لوگ ان کو اصل غرض کے حصول کا ذریعہ و محرک یقین کر کے اس کے حصول میں سعی و کوشش کرنی شروع کر دیں.یہ وقت ہے کہ آپ لوگ ہر قسم کے دلائل و براہین جو اللہ تعالی نے آپ لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے تازہ بتازہ دیئے ہیں ان کو لے کر اور نشانات سماوی کے ذریعہ سے دنیا پر محبت تمام کر دیں.نہ ختم ہونے والا گولہ بارود اور ہر ایک دشمن کو مغلوب کرنے والا تو پخانہ حضرت مسیح موعود کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے
۵۶ آپ لوگوں کو عطا کر دیا ہے.اب ضرورت ہے تو اس بات کی کہ آپ لوگ ڈٹ کر ان کا صحیح استعمال کریں اور نہ ہیں جب تک کہ منزل مقصود تک نہ پہنچ جائیں.انسان کو کامیابی کے واسطے دو ہی سامانوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے.ایک ہتھیار دوسری قوت بازو.ہتھیار خدا نے آپ کو دے دیئے ہیں جو ایسے تیز اور کاری ہیں کہ ان کی نظیر کسی دوسرے مذہب میں نہیں اور نہ کوئی ہتھیار ان کا مقابلہ کر سکتا ہے اب ضروت ہے کہ آپ لوگ دلوں کو مضبوط کر کے قوت بازو سے کام لیں.نہ کوئی خالی ہتھیار دنیا میں کام کر سکتا ہے اور نہ صرف قوتِ بازو غالب آسکتی ہے.دونوں چیزیں مل کر کامیابی کا منہ دکھا سکتی ہیں.ایک چیز دنیا سے مسلمانوں کی غفلت اور بد عملی اور سستی کی وجہ سے اٹھ گئی تھی سو وہ بھی خدا تعالیٰ نے دوبارہ آپ لوگوں کو دیدی ہے اور وہ دلائل و برائین کی تیز تلوار اور تباہ کن توپ ہے.اب ان کا استعمال کرنا آپ لوگوں کے ذمہ ہے.دیکھو اگر یہ کام ملائکہ نے ہی کرنا ہوتا اور انسانی محنت اور تبلیغ اور سعی کی ضرورت نہ ہوتی تو پھر آنحضرت ملی اور ملک کے زمانہ میں ضرور ملائکہ اسلام کے دشمنوں کو زیر کرتے پھرتے.نہ صحابہ کو محنت کرنی پڑتی نہ ملک چھوڑنے پڑتے اور نہ مشکلات اور مصائب برداشت کر کے جائیں تک دینی پڑتیں خود بخود سب کام ملائکہ کے ذریعہ سے ہو جاتے.مگر نہیں ایسا نہیں ہوا بلکہ آنحضرت کو دن اور رات جان توڑ محنت برداشت کرنی پڑی.لوگوں سے دکھ اٹھانے پڑے.صحابہ کی جانیں تک اس راہ میں خرچ ہو ئیں جب جا کر یہ کام ہوا.پس بعینہ اب بھی اسی طرح ہو گا.جب تک ہر شخص اس بات کے لئے تیار نہ ہو جائے کہ اسے دین کے لئے اپنی عزت آبرو جان و مال قربان کرنے سے دریغ نہ ہو گا یہ کام انجام کو پہنچے گا.ضروت ہے ہر احمدی اپنے اس فرض کو سمجھے اور دین کی تبلیغ و اشاعت کے واسطے ہر قسم کی قربانی کو تیار ہو جائے.کام تو جو مقدر ہوتا ہے ہو کے رہتا ہے مگر افسوس اس شخص کے لئے جو اس خدمت سے بے نصیب رہ جائے اور اس کے جان و مال کا اس میں کوئی حصہ شامل نہ ہو.اسلام ضرور کامیاب ہو گا اور ہو کر رہے گا یہ مقدر ہو چکا ہے مگر تلوار کے ذریعہ سے نہیں کیونکہ یہ زمانہ تلوار کا نہیں.آنحضرت ملی لی کے زمانہ میں دنیا نے تلوار سے مقابلہ کیا تھا.چنانچہ اُس وقت تلوار سے ہی اس کا مقابلہ کیا گیا تھا.دشمن کو جس چیز پر گھمنڈ تھا اور جس
طاقت کا ناز تھا اس کو مقہور و مغلوب کر کے دکھا دیا گیا کہ اسلام خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.مگر آج دشمن تلوار نہیں اٹھاتا بلکہ اسلام پر طعن کرتا اور ہنستا ہے کہ اسلام نے تلوار کے زور سے ہمارے بدن اور جسم کو مغلوب کیا تھا نہ کہ ہمارے دلوں کو.اسلام ہمارے دلائل کا مقابلہ نہیں کر سکتا، ہماری سائنس کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا.وہ نادان نہیں سمجھتا ضد اور تعصب کی پٹی اس کی آنکھوں پر بندھی ہوئی ہے اور وہ جھوٹی محبت میں ایسا اندھا ہوا ہے کہ حق پوشی کرتا ہے.کیا وہ نہیں جانتا کہ اسلام نے تلوار بھی دفاعی رنگ میں اٹھائی اور خود حفاظتی کے لئے پکڑی جب کہ کفار کے مظالم کی کوئی انتہا ہی نہ رہی تھی.مگر اللہ تعالٰی نے دشمن کو یہ پہلو بھی دکھا دیا اور مسیح موعود کے ذریعہ سے جو آنحضرت میں تعلیم کے ایک غلام ہیں اس کو دلائل و براہین کے مقابلہ میں مغلوب و مقہور کر کے بتا دیا کہ وہ اس میدان میں بھی اسلام کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا.مگر گو اصولی طور پر اسلام کے دشمنوں کو مسیح موعود کے وقت میں شکست دے دی گئی مگر اب سب دنیا میں ان ہتھیاروں کے ذریعہ سے جو مسیح موعود نے ہمیں بہم پہنچائے ہیں اسلام کا پھیلانا ہماری جماعت کا کام ہے.اور خوش قسمت ہیں وہ جن کے ذریعہ سے اور جن کی سعی اور کوشش سے یہ کام انجام پذیر ہو گا.یہ فکر تو دور ہو چکی کہ اسلام غالب ہو گا یا نہیں.اسلام غالب ہو گا اور ضرور غالب ہو گا.مگر سوال یہ ہے کہ کس کے ذریعہ سے اور کس کی وساطت سے.موجودہ حالات بتاتے ہیں کہ ہمارے ذریعہ ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ نے ہمیں احمدیت کے قبول کرنے کی توفیق دی ہے.مگر کیا ہمارے حالات بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں؟ کیا ہماری کوششیں بھی ہمیں اس بات کا مستحق بناتی ہیں کہ ہمارے ہاتھ سے یہ کام پورا ہو ؟ ہر شخص اپنے حالات پر غور کر کے دیکھے کہ کیا اس کی قربانی دین اسلام کی خدمت کے لئے ایسی ہی ہے کہ اس کے ذریعہ سے اسلام کو دیگر ادیان پر غالب کیا جاوے.اکثروں کی نسبت کہا جا سکتا ہے کہ بات یوں نہیں.میں دیکھتا ہوں کہ با ہم کینہ و فساد جھگڑا و عناد ذرا ذرا سی بات پر بگڑ جانا، اتفاق و اتحاد کی بھی پرواہ نہ کرنا موجود ہے.حالانکہ ضرورت تھی اور وقت تھا کہ اتفاق و اتحاد کے لئے اپنی ذاتی اغراض کو ترک کیا جاتا اور اتحاد کے واسطے اپنے اغراض کو قربان کر دیا جاتا.ذرا ذراسی بات پر ابتلا آ جاتے ہیں.انتظام نہیں ہے ، قربانی کا مادہ نہیں، اتنا بھی نہیں جتنا ان دنیوی سپاہیوں میں پایا جاتا ہے.ان کا افسران کو خواہ کیسے ہی خطرناک موقع پر جانے کا حکم دے انکار
۵۸ نہیں کرتے.جان جائے مگر نافرمانی نہیں کرتے.حتی کہ بعض اوقات صریح غلط اور تباہ کن احکام کی بھی تعمیل کرنی پڑتی ہے مگر سر نہیں پھیرتے.بے چون و چرا چلے جاتے ہیں.ورنہ انتظام جاتا ہے.تمام کی تمام فوج تباہ ہوتی ہے.دیکھو کبھی بھی کوئی ایسی لڑائی نہیں لڑی گئی جس میں تمام جرنیلوں کا اتفاق رائے ہو یعنی طرز جنگ وغیرہ میں.مگر ایک دوسرے کی بات پر اپنی رائے اور تجربہ کو قربان کرتا ہے اور جہاں اس کے خلاف ہوتا ہے ہلاکت اور تباہی وہیں اپنا دامن دراز کر دیتی ہے.موجودہ جنگ ۸ میں اس امر کی ایک تازہ مثال موجود ہے.روس کے ملک میں سامان جنگ کافی موجود تھا.آدمیوں کی کمی نہ تھی.مگر پھر جرمنی کے مقابلہ میں اسے شکست ہوئی.کیوں؟ اس لئے کہ ان کے افسروں اور سپاہیوں میں قربانی کا مادہ موجود نہ تھا.ہر شخص اپنے پ کو بڑا خیال کرتا تھا اور اپنی ذاتی رائے کو قربان کرنے کے لئے تیار نہ تھا.چنانچہ مسٹر کرنکی که جو روسی حکومت کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں انہوں نے ابھی حال میں ایک تقریر میں بیان کیا ہے کہ گولہ بارود اس وقت ہمارے پاس اس قدر موجود تھا کہ اس سے پہلے کبھی موجود نہ تھا اور سپاہی اس قدر موجود تھے لیکن ایک چیز نہ تھی اور وہ انتظام ہے.نہ کوئی شخص دوسرے کی بات ماننے کے لئے تیار نہ تھا.فطرت انسانی میں یہ بات رکھی گئی ہے کہ حقیقی خطرے کے وقت انسان اپنے آپ کو بھول جاتا ہے.مثلاً کسی کے گھر کو آگ لگی ہوئی ہو اور لوگ اس کے بجھانے میں مشغول ہوں تو اس وقت اگر ایک بوڑھا بھی گھر کے مالک کو اس آگ کے بجھانے کے متعلق حکم دینے لگے تو اس کے قبول کرنے میں وہ مذر نہیں کرتا.اس وقت افسری اور ماتحتی کا خیال نہیں رہتا.اب اگر اسلام کے خطرے کو لوگ اپنا خطرہ خیال کرتے ہیں تو کیوں اپنے تمام جذبات اس کی کامیابی کے لئے قربان کرنے کو تیار نہیں ہوتے اور خاموش اور غافل ہیں.یہ امر دو باتوں سے خالی نہیں.یا تو اس خطرہ کو جہالت کی وجہ سے اپنا خطرہ نہیں سمجھتے یا نعوذ باللہ اسلام کو سچا نہیں یقین کرتے ورنہ مسلمان اسلام سے جدا نہیں ہیں.اسلام اگر ترقی نہ کرے گا تو مسلمان زیادہ سے زیادہ ذلیل ہوں گے.پس اسلام کی عزت در حقیقت مسلمانوں کی عزت اور اسلام کی ترقی در حقیقت ان کی ترقی ہے.معلوم ہوتا ہے مسلمان اسلام کے خطرے کو اپنا خطرہ نہیں سمجھتے.اور اسلام کی نکبت کو اپنی نکبت یقین نہیں کرتے.ورنہ ان کی تو وہ مثال ہے کہ کوئی شخص اپنا پاؤں آپ کلہاڑی سے کائے.اسلام اگر ترقی نہیں کرے گا
۵۹ تو مسلمان کیونکر خوشحال ہو سکتے ہیں اور ترقی کر سکتے ہیں.مسلمان اسلام سے الگ نہیں ہو سکتے البتہ اسلام مسلمانوں سے الگ ہو سکتا ہے.اگر یہ اپنے فرائض سے واقف نہ ہوئے اور ست بیٹھے رہے تو خدا کوئی اور قوم لائے گا جو اسلام کی خادم ہو گی.لے مگر وہ دن ماتم کا ہو گا نہ کہ خوشی کا.پس اگر حقیقی عید دیکھنا چاہتے ہو تو اسلام کی ترقی کے لئے پوری سعی کرو.اور اسلام کی ترقی وابستہ ہے مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق پر.اور اتحاد و اتفاق کبھی پیدا نہیں ہو سکتے جب تک ہر شخص سچے دل سے ہر ایک چیز کو اس راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار نہ ہو جاوے.خوب یاد رکھو کہ جب تک وہ عید جو حقیقی عید ہے قریب لانے کی کوشش نہیں کی جاتی.اُس وقت تک یہ عید بھی ایک کھلونا ہے حقیقی عید نہیں.فاخرہ لباس اور خوشبو لگا کر خوش ہو جانا کسی کام کا نہیں جب تک دلوں میں حقیقی خوشی پیدا نہ ہو.اور وہ پیدا نہیں ہو سکتی جب تک اسلام کی خدمت نہ کرو اور اسلام کے واسطے کچی قربانی نہ کرو.دنیا داروں میں قربانی کی ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں کہ ان کے مقابلہ میں ہم میں کچھ بھی نہیں.وہ لوگ ایک مدرسہ کھولتے ہیں تو اس کے لئے بیسیوں قربانی کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں مگر بر خلاف اس کے اسلام کے اہم کاموں کے لئے بھی بہت کم لوگ قربانی کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں.اور کوئی شخص پانچ دس روپے کم لے کر بھی اگر کسی کام کے لئے لگتا ہے تو اس کو احسان سمجھتا ہے اور اس کا احسان جتاتا ہے.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو قربانی کی توفیق دے تا عید ان کے لئے حقیقی خوشی اور کچی عید الاعلى : ۲ تا ۲۰ J المنجد ۱۹۴۷ء ایڈیشن بیروت صفحه ۵۶۲ مفردات امام راغب زیر لفظ "عود " کے لوقا باب ۱۵ آیات ۱۱ تا ۳۲ ه متی باب ۱۵ آیت ۲۴ له الروم:٤٢ (الفضل ۲۳.جولائی ۱۹۱۸ء)
4.بخارى كتاب الدعوات باب التوبة جلد ا صفحه ۹۳۳ طبع هندی جنگ عظیم اول ۱۹۱۴ء.۱۹۱۸ء کی طرف اشارہ ہے.1881ءAleksandrF.Kerenskii Historians History of the world Vol.XXVI.These Eventful Years: Part 11 P:80 سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ روسی ارباب اختیار نے یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ جرمنی کی افواج کے ہاتھوں روسی افواج کی تباہی اور شکست کی اصل وجہ انتظام کی خرابی تھی.కా Reference Department, Slavic and Central European Division (The Library of Congress) کے نزدیک یہ بات کرنسکی نے ۱۹۱۶ ء یا ۱۹۱۷ء کے ابتدائی ایام میں Duma میں تقریر کرتے ہوئے کہی تھی Sergius yakobson Chief, Slavic and Central Europen Division) مکتوب مورخہ یکم اکتوبر ۱۹۶۸ء بنام مرتب) SCHOOL OF SLAVONIC AND EAST EUROPEAN STUDIES UNIVERSITY OF LONDON کے نزدیک اس بات کی تصدیق KERENDKY, A, The crucifixion of liberty.London.1934.سے بھی ہو سکتی ہے.(مکتوب مؤرخہ ۲۲.اگست ۱۹۷۸ء از SCHOOL OF SLAVONIC AND EAST EUROPEAN STUDIES Librarian, بنام مرتب) الله محمد :۳۹
41 (۸) (فرمودہ ۳۰.جون ۱۹۱۹ء بمقام مسجد اقصی قادیان) يا يَتْهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِى إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِي عید کا دن تمام اقوام میں مشترک ہوتا ہے.اس لحاظ سے نہیں کہ سب قومیں عید مناتی ہیں.اس لحاظ سے بھی نہیں کہ عید کی وہ عبادتیں جو ہم بجالاتے ہیں دوسرے بھی وہی عبادتیں کرتے ہیں بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ تمام اقوام میں خوشی اور عید کا دن منایا جاتا ہے اور عجیب عجیب رنگ میں منایا جاتا ہے.پس ہر ایک قوم میں عید کا نشان ملتا ہے خواہ وہ ہند کے باشندے ہوں، خواہ تہذیب کے پرانے مرکز عراق و ایران مصر و شام کے باشندے ہوں، خواہ امریکہ و آسٹریلیا اور افریقہ کے قدیم باشندے ہوں جن کے متمدن قوموں سے کوئی واسطہ نہیں رہا ان سب میں کسی نہ کسی رنگ میں عید منائی جاتی ہے.ہاں مختلف لوگوں نے اس کے مختلف نام رکھے ہوئے ہیں.بے شک ان میں عید نام نہیں.وہ اس کا نام میلہ رکھتے ہیں یا فیسٹول (Festival) یا کوئی اور نام رکھتے ہیں لیکن ایک دن چھٹی منانے کے لئے وقف ضرور کرتے ہیں جس میں جمع ہو کر وہ خوشی مناتے اور ایسی حرکات کرتے ہیں جن سے خوشی کا اظہار ہوتا ہو.اور یہ عیدوں کا سلسلہ ایسا ہے کہ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے لئے فطرت نے لوگوں کو مجبور کیا ہے.پس ہر ایک قوم میں عید کے نشان پائے جانے سے ثابت ہوا کہ یہ ایک طبعی امر ہے.اگر یہ نہ ہو تا تو سب میں یہ بات نہیں پائی جا سکتی تھی.افغانستان میں ہندوستان کے قرب کے باعث اسی قسم کی تقریب ہو سکتی تھی لیکن امریکہ جس کا ہندوستان سے کوئی تعلق ہی نہ تھا اس کے باشندوں میں نہیں پائی جاسکتی تھی.پس سب اقوام میں تہواروں کا رواج ہے.جس سے معلوم ہوا کہ کسی بڑے بزرگ سے عید کا طریق سیکھا ہے.یا یہ فطرت کے تقاضا کے ماتحت ہے.بہر حال تہواروں کے مشترک طور پر تمام اقوام میں پائے جانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بات دو حال سے خالی نہیں یا تو کسی ابتدائی بزرگ سے سب نے سیکھا.یا یہ ایک S
۶۲ فطری تقاضا ہے.اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ابتدائی بہت سے کام ہیں جن کا اب ایک دوسرے میں نشان نہیں ملتا لیکن یہ ایک ایسا فعل ہے کہ اب تک سب میں مشترک طور پر پایا جاتا ہے یہ ثبوت ہے اس کا کہ یہ فطرت کے صحیح تقاضوں کے ماتحت ہے اور محض وراثت میں ملی ہوئی بات نہیں کیونکہ اس کے ذریعہ فطرت کے ایک تقاضا کو پورا کیا گیا ہے.پس عید کوئی معمولی چیز نہیں یہ ایک فطرت کا تقاضا ہے.نیچر مجبور کرتی ہے اور انسان کے دل میں ایک خواہش پائی جاتی ہے.اور یہ صحیح فطرت ہے کیونکہ بعض فطرتیں اصل میں رسوم کے ماتحت پیدا ہو جاتی ہیں ان کو فطرت نہیں کہا جاتا بلکہ وہ عادت کے طور پر کسی ایک قوم میں پیدا ہو جاتی ہیں جن کی وجہ عام طور پر وقتی ضروریات بھی ہوتی ہیں.مگر یہ وہ فطرت ہے جس پر انسان کو اللہ تعالیٰ نے خلق کیا ہے.اس کا ثبوت یہ ہے کہ تمام مذاہب کے لوگوں نے اس کے آگے سر تسلیم خم کر دیا ہے.اور جو باتیں فطرت نہیں ہو تیں ان میں اختلاف پایا جاتا ہے.حقیقی فطرت نے مجبور کیا کہ وہ ایک دن ایسا رکھیں جس میں جمع ہو کر خوشی منائیں.تو خواہ لوگ مذاہب کے پابند ہوں یا نہ ہوں سب نے اس قسم کے ایام رکھے ہوئے ہیں.کسی نے میلے بنائے ہیں اور بعض قوموں نے عیاشی کے رنگ میں یہ دن رکھا ہے.بہر حال دن سب نے رکھا ہے کیونکہ فطرت کی طرف سے نقاضا ہے کہ ایسا دن ہونا چاہئے.یہ اتنا بڑا تقاضا ہے کہ جس کو مذاہب نے قبول کیا ہے اور جہاں مذاہب نہیں وہاں بھی اس کا وجود پایا جاتا ہے.اس کی کیا غرض ہے اور یہ کیوں پایا جاتا ہے.یہ تقاضا خدا نے انسان کی طبیعت میں رکھا ہے.وہ تقاضا پکار پکار کر کہتا ہے کہ ایسا کوئی دن ہونا چاہئے جس میں ادنی اعلیٰ، جاہل عالم ، متمدن و غیر متمدن سب مل کر خوشی منائیں اس کے لئے ہم اس زبان کی طرف جاتے ہیں جو اللہ تعالٰی نے اپنے الہام کے طور پر انسان کو سکھائی اور وہ عربی زبان ہے.اس میں یہ خصوصیت ہے کہ یہ فطرت کے تقاضوں کو لفظوں کے ذریعہ پیش کرتی ہے.عید عربی زبان کا لفظ ہے.اور اس کے معنے ہیں وہ خوشی اور راحت اور برکت کا دن جو انسان کے دل میں یہ بات پیدا کرتا ہے کہ وہ خواہش کرے کہ یہ دن پھر بھی اس پر آئے.عید عود سے نکلا ہے تو عید وہ دن ہوا جس کے بار بار آنے کی خواہش کی جائے اور چاہا جائے کہ یہ دن بار بار آئے.۳ اب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کون سے دن ہوتے ہیں جن کے بار بار آنے کی خواہش کی جاتی ہے.بعض دن تو اس قسم کے ہوتے ہیں کہ ان کے متعلق انسان انتظار کرتا ہے کہ یہ کب ختم
۶۳ ہوتے ہیں.اسی طرح بعض راتیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کے متعلق انسان کہتا ہے کہ کب سورج چڑھے اور یہ کب گزریں.عید ان دنوں میں سے نہیں جن کے ختم ہونے کی خواہش کی جاتی ہے بلکہ یہ ان دنوں میں سے ہے جن کے متعلق آرزو کی جاتی ہے کہ وہ پھر پھر کر آئیں.وہ گھڑیاں جن میں انسان دکھوں اور مصیبتوں سے بچا ہوا ہو.وباؤں ابتلاؤں اور مصیبتوں سے محفوظ ہو.راحتیں اور آرام میسر ہوں اس کے اور اس کے عزیزوں اور اقارب میں ہر طرح خوشی و خور می ہو اس دن کو عید کہتے ہیں.به دن تو عید کے معنے ہوئے وہ دن جس میں انسان ابتلا سے بچ جائے اور جب انسان دکھ سے اور آفت سے بچ جاتا اور اس کو سکھ پہنچ جاتا ہے تو وہی دن اس کے لئے عید کا دن ہوتا ہے اور وہی گھڑی اور وہی ساعت اس کے لئے عید کی ساعت ہوتی ہے.رنج اور دکھ اور آفت کا دن عید کا دن نہیں ہو تا.جو شخص بلاؤں میں سے گذر رہا ہو اس کے لئے عید نہیں.عید اسی کی ہے جو راحت اور آرام میں ہوتا.اس سے معلوم ہوا کہ عید محض اجتماع کا نام نہیں کیونکہ جنازہ پر بھی اجتماع ہوا کرتے ہیں اور اس اجتماع کے دن کے متعلق تو تم یہ کہتے ہو کہ دوبارہ ہم پر نہ آئے اور خدا یہ دن نہ لائے.پرسوں اتر سوں ہی ایک جنازہ پر بڑا اجتماع ہوا تھا ے مگر تم یہ نہیں چاہتے کہ وہ دن پھر تم پر آئے اور اس دن کو تم عید نہیں کہتے مگر آج کے دن کو عید کہتے ہو.اگر چہ اس دن تمہاری زبانیں یہ نہیں کہتی تھیں کہ یہ دن نہ آئے لیکن تمہارے دل یہی کہتے تھے کہ یہ دن نہ آئے.اس کے مقابلہ میں آج کے دن کے لئے تمہاری خواہش ہے کہ خدا کرے یہ دن پھر بھی ہم پر آئے کیونکہ تمہارے نزدیک یہ دن تمہارے لئے خوشی کا دن ہے.عید کے معنے جیسا کہ میں نے بتایا ہے.دوبارہ لوٹ کر آنے کے ہیں.اس مفہوم کو دل میں جگہ دو اور سوچو کہ کیا واقع میں تم سچ سچ خواہش رکھتے ہو کہ یہ دن تم پر پھر بھی آئے.کسی چیز کی خواہش کرنے کے معنے یہ ہوا کرتے ہیں کہ ایسی چیز جو اب اپنے پاس نہیں اس کو حاصل کیا جائے.اور جو چیز اپنے پاس ہو، اس کی خواہش نہیں کی جاتی.مثلاً وہ شخص جس کے پاس روپیہ ہو وہ روپیہ کی آرزو نہیں کرتا.خواہش اسی چیز کی ہوتی ہے جو چیز میسر نہ ہو اور جس چیز کا لانا اور لینا اپنے اختیار میں نہ ہو.مثلاً آج لوگ کپڑے پہنتے ہیں، آج لوگ اچھے کھانے کھاتے ہیں، آج لوگ جمع ہوتے ہیں ان میں سے کوئی چیز بھی عید نہیں کیونکہ یہ تینوں چیزیں
۶۴ ان کے اپنے اختیار میں ہیں.انسان جب چاہئے ان کو عمل میں لا سکتا ہے ، جب چاہئے آج ہی کی طرح اچھے کپڑے پہن سکتا ہے، جب چاہئے آج ہی کی طرح اچھا کھانا کھا سکتا ہے اور لوگ جب چاہیں جمع ہو سکتے ہیں.ان باتوں میں سے کسی بات کے لئے بھی کوئی شخص مجبور نہیں کہ وہ ایک وقت میں کر سکتا ہو اور دوسرے وقت میں نہ کر سکتا ہو کیونکہ جس کے پاس کچھ ہو گا وہ جب چاہے گا یہ چیزیں مہیا کر لے گا.پس معلوم ہوا کہ یہ باتیں تو عید نہیں اور نہ ان کے لئے بار بار کی خواہش ہو سکتی ہے کیونکہ یہ انسان کے اختیار میں ہیں.پھر چھٹی کا نام عید نہیں یہ بھی انسان جب چاہے منا سکتا ہے.اب ظاہر ہے کہ عید کوئی ایسی چیز ہے جو انسان کے قبضہ اور اختیار میں نہیں ہے کیونکہ انسان عید کے لئے خواہش کرتا اور دعائیں مانگتا ہے کہ وہ دن آئے.تو ثابت ہوا کہ یہ چیزیں عید نہیں بلکہ حقیقی عید کے لئے کچھ نشان ہیں جن سے اس کا پتہ لگتا ہے.حقیقی عید وہ ہوتی ہے جس میں دل خوش ہو نہ کہ اچھے اور سفید کپڑے پہننے کو عید کہا جاتا ہے.یوں تو مردہ کو بھی سفید کفن پہنایا جاتا ہے مگر کیا اس دن کو کوئی عید کہتا ہے.پھر اجتماع کا نام بھی عید نہیں کیونکہ مُردہ پر بھی اس کے رشتہ دار اور اس کے دوست آشنا جمع ہوتے ہیں.مرنے والے کے وارثوں کے لئے اس کا گھر میں اکیلے چار پائی پر پڑے رہنا زیادہ خوشی کا موجب ہو تا بہ نسبت اس کے کہ اس کے مرنے پر لوگ اس کے ارد گرد جمع ہوتے ہیں کیونکہ جب تک ان کے ہاں ایسا اجتماع نہیں ہوا تھا ان کو خیال تھا کہ یہ ہم میں رہے لیکن اس اجتماع کے بعد معلوم ہو گیا کہ یہ اب دنیا میں ہم سے ہمیشہ کے لئے جُدا ہو گیا.پھر عمدہ کپڑے پہننا بھی خوشی کی بات نہیں کیونکہ مردہ کا کفن بھی سفید ہوتا ہے.ممکن ہے کہ عمدہ کپڑوں کے نیچے ایک غمگین اور افسردہ اور روتا ہوا دل ہو.اسی طرح کھانا بھی وہی اچھا ہوتا ہے جو خوشی کا کھانا ہو.اگر خوشی نہیں تو ہر عمدہ سے عمدہ کھانا حلق سے بمشکل اُترے گا.دکھوں اور آفتوں میں مبتلا دل کے لئے کوئی کھانا عمدہ نہیں لیکن جو شخص خوش و خرم ہو اس کے لئے جنگل کے پتے زیادہ خوشی اور راحت کا باعث ہو سکتے ہیں کیونکہ اس کے دل کو آرام اور سکھ اور طمانیت حاصل ہوتی ہے.اسی طرح ایک میلے کپڑوں والا جس کا دل آرام میں ہے اس عمدہ پوشاک والے کی نسبت جس کے دل میں اطمینان نہیں راحت میں ہوتا ہے.تو عید کے معنے دل کی خوشی اور راحت کے ہیں اور جس کا حاصل کرنا فطرت کا تقاضا ہے.یہی وجہ ہے کہ اس کی خواہش سب میں پائی جاتی ہے.پس عید کے معنے کپڑے پہننا
۶۵ نہیں.یہ تو در حقیقت ایک نشان ہے یا جھوٹی خوشی.جیسا کہ جب بچہ کی ماں اس سے جدا ہو جائے تو وہ روتا ہے اور اس کو بہلانے کے لئے اس کے ہاتھ میں کھلونا دے دیتے ہیں جس سے وہ عارضی طور پر بہل جاتا ہے لیکن پھر رونا شروع کر دیتا ہے.اسی طرح یہ عید چونکہ اصل عید نہیں اس سے عارضی اور آنی طور پر انسان خوش ہو جاتا ہے لیکن پھر اس کو محسوس ہوتا ہے کہ اصل چیز تو اس کو حاصل نہیں ہوئی.پھر لوگ ایک سال کے بعد جمع ہوتے ہیں اور دل بہلانے کی کوشش کرتے ہیں.اس سے ایک دن یا ایک گھنٹہ یا چند گھنٹہ کے لئے خوش ہو جاتے ہیں اور پھر ان کو افسوس ہوتا ہے.دراصل اگر صحیح راستہ پر نہ چلا جائے تو راحت میسر نہیں : سکتی..ہو اسلام نے تقاضہ فطرت کو پورا کرنے کے لئے دو عیدیں رکھی ہیں جو ہمارے ملک میں ایک بڑی عید اور ایک چھوٹی عید کے نام سے موسوم کی جاتی ہیں.یعنی عید الفطر اور عید الاضحی.ان دونوں عیدوں میں ایسی عبادتیں لگائی گئی ہیں کہ ان پر عمل کرنے سے انسان خدا کو پالیتا ہے.اور چونکہ حقیقی خوشی وہی ہے جس میں خدا مل جائے اور اسلام نے جو عید رکھی ہے اس میں خدا کو پانے کے گر بتائے ہیں.اس لئے اس کے واسطے یہ خواہش کرنا بجا ہے کہ یہ دن بار بار لوٹ کر آئے.یہ دن ہے جس میں حقیقی راحت کا نشان ہے کیونکہ اس میں بتایا گیا ہے کہ تم اس راستہ پر چل کر خدا کو دیکھ لو گے اور جب تک وہ دن تم پر نہ آئے کہ تم خدا کو دیکھ لو اُس وقت تک تمہارے لئے کوئی عید کا دن نہیں ہو سکتا.پس اسلام نے چونکہ ان عیدین کو حقیقی عید کا نشان رکھا ہے اس لئے ان سے ایک حد تک دل کو بچی راحت پہنچتی ہے اور ان سے خدا تعالی کے پانے کا پتہ چلتا ہے.ہماری عید کیا ہے؟ یہ کہ ہمارا محبوب ہمارا خدا ہمیں مل جائے.جو شخص کو شش کرتا اور برداشت کرتا ہے اس کو اس کا خدا مل جاتا ہے اور پھر ایسا آرام اور ایسی خوشی حاصل ہو جاتی ہے کہ جسے کوئی ہٹا نہیں سکتا.دیکھو عید الفطر کے لئے اسلام نے ایک ماہ کے روزے فرض قرار دے کر خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے جسمانی قربانی ضروری رکھی ہے.ھے اور دوسری عید پر انسان ظاہری قربانی کرتا ہے جو کہ اس بہت بڑے انسان کے نمونہ کی یادگار میں ہوتی ہے جس نے خدا کے لئے اپنا بیٹا ذبح کرنا چاہا.مگر خدا نے اس کی جگہ جانور ذبح کرا دیا.کہ اور آئندہ کے لئے مقرر کر دیا کہ جانوروں کی قربانیاں کی جایا کریں.تو اس عید پر
षष بکرے ذبح کرنا دلیل ہوتا ہے اس امر کے لئے کہ اس بندے کو جو قربانی کرتا ہے خدا کے رستہ میں اگر اپنا سر بھی دینا پڑے تو اس میں توقف نہیں کرے گا.یہ اسلام کی مقرر کردہ عیدوں کی حقیقت ہے.مگر اور لوگوں کی عیدیں اپنے اندر یہ حقیقت نہیں رکھتیں اس لئے ان میں جو خوشی منائی جاتی ہے وہ راحت بخش خوشی نہیں ہوتی کیونکہ ان کی عیدیں ایسی ہی ہوتی ہیں جیسا کہ روتے ہوئے بچہ کو ایک کھلونا دے دیا جائے جس سے وہ تھوڑی دیر کے لئے بہل جائے.یوں تو اسلام کی عیدیں بھی حقیقی اور اصلی خوشی حاصل کرنے کا نمونہ ہی ہیں.لیکن دوسروں کی خوشی کے نمونہ اور ان میں ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ ان کے میلے اور تہوار محض نمونہ ہی نمونہ ہیں جن کے بعد ان کے لئے حسرت و افسوس ہوتا ہے.لیکن مسلمانوں کی عید ایسی ہوتی ہے کہ وہ چیز جس کی انسان کو تلاش ہے اس کے بہت قریب کر دیتی ہے.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسا کہ ایک شخص کے محبوب کا مجسمہ بنا کر اس کے سامنے رکھ دیا جائے اور وہ اس کو لپٹ کر خوش ہو لے کہ میرا محبوب مجھ کو مل گیا لیکن ایک دوسرے شخص کو ایسے رستہ پر ڈال دیا تو جائے جس پر چل کر وہ اپنے محبوب تک پہنچ سکتا ہو اور پھر اس کو اس کے محبوب کے دروازے پر پہنچا دیا جائے اور پردہ اٹھا کر دکھا دیا جائے کہ وہ ہے تیرا محبوب.اب اور کوشش کر اور اس کو دروازے سے گذر کر اپنے محبوب سے مل لے.اب وہ شخص جس کے پاس صرف بے جان مجسمہ ہے اس کی خوشی تھوڑی دیر کے بعد مایوسی سے بدل جائے گی.لیکن وہ جو پہلے کی نسبت پنے محبوب کے زیادہ قریب پہنچ گیا ہے اس کی خوشی بہت زیادہ بڑھ جائے گی.غیروں کی عیدوں میں جو خوشی ہوتی ہے وہ ایسی ہی ہے جیسے ایک بت پر کوئی شخص فدا ہو جائے لیکن ہماری عید میں وہ ہیں جن میں ایک صحیح راستہ پر چلایا جاتا ہے اور جس کے ذریعہ ہمیں ہمارا خدا دکھایا جاتا ہے اور پھر ہماری دعاؤں میں قبولیت اور ہم میں تقویٰ پیدا کیا جاتا ہے.پس ہماری عید کی یہی غرض ہے جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ ہمیں ہمارا خدا مل جائے اور اس کے ملنے کا یہ طریق ہے کہ اس کے لئے قربانیاں کی جائیں.اگر ہم اس غرض کو یاد رکھیں تو ہماری عید عید ہے ورنہ جھوٹے طرز پر خوش ہو تا ریخ اور دکھ کو اور بڑھا دیتا ہے.یاد رکھو آرام دو طرح کے ہوتے ہیں.ایک یہ کہ انسان دکھ اور مصیبت کو بھلانے کی کوشش کر کے آرام پانا چاہتا ہے.دوسرا یہ کہ جس چیز سے تکلیف ہے اس کو دور کرنے کے لئے محنت اور مشقت بجالاتا ہے.مثلاً پہلا شخص جو دکھ کو بھلا کر آرام پانا چاہتا ہے وہ افیون کھاتا
42.ہے یا شراب پی لیتا ہے اور اس طرح اپنا غم غلط کرتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی قوتوں میں ایک تعطل واقع ہو جاتا ہے.اور گو اس کو وہ تکلیف ایک وقت تک کے لئے بھول جاتی ہے لیکن جب وہ ہوش میں آتا ہے تو پہلے سے بھی زیادہ تکلیف محسوس کرتا ہے اور دوسرا شخص جو اپنی تکلیف یوں بھلانے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ اس کی حالت یہ ہوتی ہے کہ اپنے رنج و غم اور دکھ کو جو اس کو کسی نقصان کے ذریعہ پہنچا ہو دور کرنے کیلئے محنت شاقہ برداشت کرتا ہے اور اُس نقصان کو پورا کر لیتا ہے ان دونوں کی حالتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے.اور حقیقی آرام اور سکھ اسی کو حاصل ہوتا ہے جو تکلیفوں کو دور کرنے کی سعی کرتا ہے.یہی وجہ ہے کہ اسلام یہ نہیں سکھاتا کہ اگر تم کو رنج پہنچے تو اس کو بھلا دینے کی کوشش کرو بلکہ یہ کہتا ہے کہ محنت کے ذریعہ اس کی تلافی کرو.اسلام یہ نہیں جائز رکھتا کہ اگر تم پر قرض ہے تو اس کے غم کو بھلانے کے لئے شراب پیو بلکہ یہ کہتا ہے کہ محنت کرو اور کوشش اور سعی کر کے خوشی حاصل کرو.چنانچہ دونوں عیدوں میں محنت رکھی گئی ہے.یہ آیت جو میں نے پڑھی ہے.يَايَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِى إلى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِى عِبَادِى وَادْخُلِي جَنَّتِنہ یہ وہ عید ہے جس کی طرف مومن کے لئے اشارہ کیا گیا ہے.یعنی ایسا دن جس میں وہ نفسِ مطمئنہ ہو جائے.اس کی اضطرابی حالت اطمینان سے بدل جائے.یہ ہے اصل عید کا دن جس کے آنے کی انسان کو خواہش کرنی چاہئے اور یہ وہ دن ہے کہ جب آتا ہے تو پھر جاتا نہیں.مطمئنہ حالت سے یہ مراد نہیں کہ حرکت بند ہو جائے کیونکہ حرکت سے ہی تو انسان ترقی کرتا ہے.عام طور پر لوگوں نے حرکت کے نہ ہونے کا نام اطمینان رکھا ہوا ہے حالانکہ حرکت نہ ہونے اور اطمینان میں بہت بڑا فرق ہے.اطمینان اس حرکت کو کہتے ہیں جس میں تزلزل نہ ہو.ورنہ یوں تو حرکت کے بغیر کچھ ہو ہی نہیں سکتا اور حرکت سے ہی ترقی ہوتی ہے.دیکھ لو رسول کریم میں لیاری کے لئے ہر روز دعائیں کی جاتی ہیں اور دم بہ دم روحانی مدارج میں ترقی کر رہے ہیں یہ آپ کی حرکت ہے لیکن اس کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آپ کو اطمینان نہیں.پس اطمینان وہ حالت ہے جس میں اضطراب و تزلزل نہ ہو.اور یہ وہ حرکت ہوتی ہے جو آگے کی طرف بڑھاتی ہے لیکن اطمینان کے بغیر جو حرکت ہوتی ہے وہ نیچے کی طرف گراتی ہے.دیکھو جب چلنے والے کو اطمینان ہوتا ہے تو وہ عمدگی سے چلا جاتا ہے لیکن جب اسے اطمینان نہ ہو تو اس کے قدم
۲۸ ڈگمگاتے ہیں اور گرنے لگتا ہے.تو نفس مطمئنہ میں کون سی حرکت ہوتی ہے ؟ وہ جو گرنے کے خلاف ہو جس میں ثبات ہو.فرمایا.اے نفس مطمئنہ ! تو خدا کی طرف جا کیونکہ تیرا خدا تجھ سے راضی ہو گیا اور تو خدا سے راضی اور میرے بندوں میں داخل ہو جا کیونکہ تجھ کو یہ انعام دیا جاتا ہے کہ تو جنت میں داخل ہو.اور جنت وہ مقام ہے جہاں جس کو داخل کیا جاتا ہے پھر اسے نکالا نہیں جاتا اور دنیا میں بھی جس کو جنت ملتی ہے وہ اس سے نکالا نہیں جاتا.یہی وجہ ہے کہ جو خاص رتبے اور درجے خدا کی طرف سے بندوں کو دنیا میں دیئے جاتے ہیں ان سے وہ معزول اور موقوف نہیں کئے جاسکتے.اور دنیا کی کوئی طاقت نہیں جس نے کبھی نبیوں اور ان کے خلفاء کو ان کے درجہ سے ہٹا دیا ہو کیونکہ وہ ایسی جنت میں داخل ہوتے ہیں جس میں داخل ہونے والا نکالا نہیں جا سکتا.دیکھو دنیا نے نبیوں کے خلاف کس قدر زور لگائے کہ ان کو مٹا دیں اور ان کو ان کے درجہ سے موقوف کر دیں مگر وہ جس جنت میں خدا کی طرف سے داخل کئے گئے اس سے ہر گز نہ نکالے جاسکے.پھر لوگوں نے خلفاء کے مقابلہ میں کس قدر زور لگائے اور ان کو موقوف کرنے کے لئے کس قدر کوششیں کیں مگر وہ موقوف نہ ہوئے.دنیا کے ایسے بادشاہ موقوف ہو گئے جن کی حفاظت کے لئے زبردست سے زبردست باڈی گارڈ تھے لیکن خلفاء کو کوئی موقوف نہ کر سکا.حضرت عثمان ۸ سے بہت چاہا گیا کہ وہ خلافت سے علیحدہ ہو جائیں مگر انہوں نے یہی جواب دیا کہ یہ خلافت کی قباء مجھے خدا نے پہنائی ہے میں اس کو اتار نہیں سکتا.اس پر دشمنوں نے آپ کو شہید کر دیا.اس طرح گو آپ کی ظاہری حیات باقی نہ رہی لیکن جس جنت میں خدا تعالیٰ نے آپ کو داخل کیا تھا اس میں سے آپ کو کوئی نہ نکال سکا.تاریخ شاہد ہے کہ آپ کے دشمن آپ سے یہ تو کہتے رہے کہ آپ خلافت سے علیحدہ ہو جائیں لیکن نہیں کر سکے کہ بالمقابل کسی کو خلیفہ بنا دیا ہو.تو خدا جس جنت میں اپنے بندوں کو داخل کرتا ہے اس سے کوئی نکال نہیں سکتا.فرمایا اگر اس جنت میں داخل ہونا چاہتے ہو تو میرے بندوں میں داخل ہو جاؤ.اس کا ایک ہی طریق ہے کہ خدا کی عبودیت اختیار کرو.جب خدا کے عہد ہو جاؤ گے تو جنت میں داخل کر دیئے جاؤ گے اور پھر ایسے داخل ہو گے کہ کبھی نکالے نہ جاؤ گے.ہاں اس میں جو داخل ہو جاتا ہے اس کے لئے ہر روز ترقی کا روز ہے اور جو دن اس پر چڑھتا ہے وہ عید کا ہی دن ہو تا ہے.
۶۹ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے جب آپ نے اپنی طاقتوں کو خدا کی راہ میں خرچ کیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر ایسا عید کا دن چڑھایا کہ جو پھر غروب نہ ہوا.آپ کے دشمنوں نے آپ کو ہزار ہا قسم کی تکلیفیں پہنچا ئیں لیکن آپ کو اس جنت سے جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو داخل کیا تھا نہ نکال سکے.آپ پر ایسے ایسے شدائد آئے کہ جن سے کمر ٹوٹ جائے لیکن دنیا کے کسی بڑے سے بڑے حادثہ نے آپ پر کوئی اثر نہ کیا.گورداسپور میں جن دنوں مقدمہ تھا میں تو چھوٹا تھا لیکن بعض دوستوں نے سنایا ہے کہ ایک صاحب بھاگے ہوئے آئے اور کہا کہ حضور ایج تو اس بات پر آمادہ ہے کہ چاہے ایک ہی دن کی سزا دے مگر دے ضرور تاکہ اپیل بھی نہ ہو سکے.اس پر کہا گیا کہ کسی طرح صلح کر لینی چاہئے.اس وقت حضرت صاحب لیٹے ہوئے تھے.آپ اُٹھ بیٹھے اور کہا کہ وہ خدا کے شیریر کیا ہاتھ ڈالے گا.خدا کے شیر پر ہاتھ ڈالنا آسان نہیں.خدا کے نبی خدا کے شیر ہوتے ہیں ان پر ہاتھ ڈالنا اپنی ہلاکت کا سامان کرنا ہے.ا اسی طرح جن دنوں کلارک کا مقدمہ تھا.لاہ میری عمر اُس وقت دس سال کے قریب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب اوروں کو دعاؤں کے لئے کہا تو مجھے بھی کہا کہ دعا اور استخارہ کرو.میں نے اس وقت رویا میں دیکھا کہ ہمارے گھر کے ارد گرد پہرے لگے ہوئے ہیں.میں اندر گیا جہاں سیڑھیاں ہیں وہاں ایک تہہ خانہ تھا میں نے دیکھا کہ حضرت صاحب کو وہاں کھڑا کر کے آگے اُپلے چن دیئے گئے ہیں اور ان پر مٹی کا تیل ڈال کر کوشش کی جارہی ہے کہ آگ لگا دیں مگر جب دیا سلائی سے آگ لگاتے ہیں تو آگ نہیں لگتی.وہ بار بار آگ لگانے کی کوشش کرتے ہیں مگر کامیاب نہیں ہوتے.میں اس سے بہت گھبرایا لیکن جب میں نے اس دروازہ کی چوکھٹ کی طرف دیکھا تو وہاں لکھا تھا کہ ”جو خدا کے بندے ہوتے ہیں ان کو کوئی آگ نہیں جلا سکتی.غرض مصائب پر مصائب آئے مگر وہ اس طرح گزر گئے جس طرح جسم پر انڈیلا ہوا گھڑے کا پانی گذر جاتا ہے.پس ان کے لئے جو خدا کے عہد ہوں ہر روز عید کا روز ہوتا ہے اور دنیا کی کوئی مصیبت ان پر اثر نہیں ڈال سکتی کیونکہ ان کو دل کا اطمینان حاصل ہوتا ہے.لیکن وہ شخص جس کا دل دکھوں اور آفتوں میں گھرا ہوا ہو اور جس کا دل آفتوں کا شکار ہو ، وہ خواہ اچھے کپڑے پہن لے اچھا کھانا لے، اس کے لئے کوئی عید نہیں ہے.ان کے مقابلہ میں خدا کے بندے ایک ایسے
باغ میں ہوتے ہیں جہاں کوئی آفت اثر نہیں کر سکتی.وہ ہر دکھ سے محفوظ ہوتے ہیں اور ایسے مصائب جو دنیا کی کمر توڑ دینے والے ہوتے ہیں ان پر کوئی اثر نہیں کرتے.مبارک احمد جس دن فوت ہوا.۱۲ میں پاس ہی تھا میں نے دیکھا کہ حضرت مولوی صاحب نبض دیکھ رہے تھے.سلا کہ یہ کہتے ہوئے کہ حضرت مُشک لاؤ.حضرت مشک لاؤ لڑکھڑا کر زمین پر بیٹھ گئے.حضرت صاحب ۱۴ نے ٹرنک کھولا.آخر آپ سمجھ گئے کہ فوت ہو گیا ہے.آپ نے کاغذ اور قلم دوات لے کر خطوط لکھنے شروع کر دئے ھا، جن میں لوگوں کو تسلی دیتے ہوئے لکھا.مبارک احمد کی وفات خدا کا ایک نشان ہے کیونکہ اس کے پیدا ہونے سے پہلے ہی خدا نے کہا تھا کہ یہ چھوٹی عمر میں فوت ہو جائے گا.11.حضرت مولوی صاحب نے بعد میں فرمایا کہ اُس وقت میری حالت اس لئے ایسی ہو گئی تھی کہ میں نے خیال کیا کہ حضرت صاحب کو جو اس سے اتنی محبت ہے اور اب یہ فوت ہو گیا ہے تو اس سے آپ کی طبیعت پر بہت اثر پڑے گا.اس خیال سے میری حالت غش کے قریب پہنچ گئی تھی اور اگر میں کھڑا رہتا تو ضرور غش کھا کے گر جاتا.ایسا ہی اور لوگوں کا اس وقت خیال تھا کہ خدا جانے اس واقعہ کا حضرت صاحب پر کیا اثر ہوتا ہے مگر آپ کے چہرے پر کوئی رنج و غم نہ تھا نہ کوئی آنسو آپ کی آنکھوں میں تھا.یہ عید ہے جو مومن کو حاصل ہونی چاہیئے.ورنہ یہ عید نہیں کہ کپڑے سفید پہن لئے جاویں.جب دل رنج میں ہو تو عید کیسے ہو سکتی ہے.عید اسی کی ہے جس کا دل خوش ہو.اور دل اس کا خوش ہو سکتا ہے جس کو اس کا خدا مل جائے یا اس کے حصول کے ذرائع مل گئے ہوں.اور جو خدا کے انعام کا وارث ہوتا ہے دنیا اس کو دیکھ کر حیران ہو جاتی ہے کیونکہ خدا کے عبد کے لئے کوئی رنج نہیں.وہ نفس مطمتہ ہوتا ہے اور ایسی جگہ ہوتا ہے جہاں خدا اس سے راضی اور وہ خدا سے راضی.یہ عید اس کے لئے خدا کی رضا کے لئے نشان ہو جاتی ہے اور خدا کے فرشتے اس کے محافظ اور پہرہ دار ہو جاتے ہیں.خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو ایسی ہی (الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۱۹ء) عید نصیب کرے.الفجر : ۲۸ تا ۳۱ منن الرحمن : صفحه ۱۲- ۱۳ مفردات امام راغب زیر لفظ " عود"
<1 یہ جنازہ غالبا ماسٹر محمد زمان صاحب ٹیچر ہائی سکول کا تھا.جنہوں نے ۲۷.جون ۱۹۱۹ء کو وفات پائی.(الفضل ۲۸.جون ۱۹۱۹ء صفحہ ۱) البقرة : ۱۸۴ الصفت: ١٠٣ که مستدرک للحاكم حواله تفسیر در منثور جلد ۵ صفحه ۲۸۰ خلیفہ رسول اللہ الثالث عثمان بن عفان بنو عبد الشمس - ۴۷ ق ۵ / ۵۲ ق ھ ۶۵۷۵-۶۵۷۱ خلافت ۵۲۴ تا ۶۶۴۴۵۳۴ تا ۶۶۵۶ ترندی ابواب المناقب باب مناقب عثمان بن عفان بله سیرت المهدی حصہ اول صفحه ۹۳ تا ۹۸ تاریخ احمدیت جلد ۳ صفحه ۹۶ - ۳۹۵.یہ واقعہ مولوی کرم دین آف بھین ضلع جہلم کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف دائر کردہ دوسرے فوجداری مقدمے کے دوران پیش آیا.اس مقدمہ کی سماعت گورداسپور میں ۴.۱۹۰۳ء میں ہوئی.لله مسیحی متاد پادری ہنری مارٹن کلارک (۱۹۰۰ء) نے عبد الحمید خان نامی ایک شخص کو اپنا آلہ کار بنا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ امرتسر میں دائر کیا تھا.اگست ۱۸۹۷ء میں اس مقدمہ کی سماعت ڈپٹی کمشنر گورداسپور کیپٹن ایم ولیم ڈگلس (۱۸۶۴ء ۱۹۵۷ء) کی عدالت میں ہوئی عدالت نے حضور علیہ السلام کو اس الزام سے باعزت بری قرار دیا.(روحانی خزائن جلد ۱۳ کتاب البریه صفحه ۲۳۲ تا ۲۶۱) گلا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سب سے چھوٹے صاحبزادے تھے.۱۴.جون ۱۸۹۹ء کو پیدا ہوئے اور ۱۶.ستمبر۷ ۱۹۰ء کو سوا آٹھ سال کی عمر میں وفات پائی.(بدر ۱۹.ستمبر۷ ۱۹۰ء) حضرت مولوی صاحب سے مراد حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب خلیفة المسیح الاول ( بیعت ۱۸۸۹ء وفات ۱۹۱۴ء) ہیں سلام حضرت صاحب سے مراد حضرت مسیح موعود مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام (۶۱۸۳۵ - ۱۹۰۸ء) ہیں.ها خطوط بنام حضرت میر محمد اسمعیل صاحب و حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری (مکتوبات احمد جلد پنجم حصہ پنجم مکتوب نمبر ۱۷۵٬۱۵۰) ۱۶ تذکره صفحه ۳۴۱ مطبوعه ۱۹۵۶ء الشرکتہ الاسلامیہ ربوہ.
۷۲ (9) (فرموده ۱۸.جون ۱۹۲۰ء بمقام باغ حضرت مسیح موعود.قادیان) آج کا دن اسلامی اصطلاح میں عید کا دن کہلاتا ہے.یہ دن سال میں دو دفعہ دو تقریبوں مسلمانوں کے لئے شریعت کے احکام کے مطابق آتا ہے.اس میں شبہ نہیں فطرت کا تقاضا ہے کہ سال میں ایک آدھ ایسا موقع ہونا چاہئے کہ ایک ہی خیال کے لوگ ایک جگہ جمع ہو کر خوشی کا اظہار کریں اور ملیں جلیں.یہ نظارہ تمام دنیا میں نظر آتا ہے کسی ملک میں جائیں ، کسی مذہب کے لوگوں میں جائیں عیدیں نظر آتی ہیں.ہندوؤں میں اس کا رواج ہے.اے یہود میں یہ پائی جاتی ہیں.کہ عیسائیوں میں عید منائی جاتی ہے.۳.زرتشتیوں میں بطور تہوار ہے.ک حتی که اگر ان متمدن قوموں کو چھوڑ کر وحشیوں کو دیکھیں تو ان میں بھی پائی جاتی ہیں.افریقہ کے ننگے پھرنے والے..نجی کے انسان خور باشندے سال میں تہوار مناتے ہیں.3 پس تمام سال میں ایک آدھ موقع ہر ایک قوم میں ایسا پایا جاتا ہے جس میں خوشی منائی جاتی ہے.اس سے معلوم ہوا کہ انسان کی فطرت کا تقاضا ہے کہ خوشی منائے اور عام آرام کا کوئی دن تجویز کرے.متمدن دنیا کو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ پرانے تہواروں کی قدر بوجہ مذہب سے دور ہونے کے نہیں کرتی لیکن تماشوں وغیرہ کے طرح طرح کے جلسے ان اقوام نے بھی نکالے ہیں.جس سے پتہ لگتا ہے کہ ان کے دل میں بھی وہی خواہش ہے جو دوسروں میں پائی جاتی ہے.لیکن اسلام نے عید کا تقرر صرف اسی خواہش کے پورا کرنے کے لئے نہیں کیا بلکہ اس میں اور بھی حکمتیں ہیں.عید کے لفظ کے ہی جو معنی ہیں وہ بھی اپنے اندر حکمت رکھتے ہیں.عید کہتے ہیں بار بار کوٹ کر آنے کو.پس اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان اس دن اور تقریب کے لئے گویا خواہش کرتا ہے کہ یہ مجھ پر بار بار آئے.کہ اور یہ قدرتی بات ہے کہ انسان کسی رنج اور تکلیف کی گھڑی کے متعلق نہیں چاہتا کہ بار بار آئے.کسی کے گھر میں بیماری آجائے یا کوئی موت ہو جائے تو وہ خواہش نہیں کرے گا کہ یہ دن بار بار آئیں لیکن بچہ پیدا ہو، شادی ہو تو وہ بھی اور دو سرے بھی کہتے ہیں کہ یہ دن پھر بھی آئیں.کسی شخص کو عزت و رتبہ ملتا ہے اور
ترقیات ملتی ہیں تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ یہ دن بار بار آئیں.تو لفظ عید میں مسلمانوں کو توجہ دلائی ہے کہ ان کو اس بات کی خواہش ہو کہ یہ دن ان کی کیلئے بار بار آئے مگر بہت لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے.ان کی عید عید نہیں بلکہ روز ماتم ہوتی ہے.وہ ظاہر میں اچھے کپڑے پہنتے ہیں خوش نظر آتے ہیں لیکن ان کی اندرونی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ کہہ رہے ہوتے ہیں خدا کرے پھر یہ دن نہ آئیں.یہ عید حقیقی عید نہیں.حقیقی عید وہی ہوتی ہے جس کے لئے زبان کے ساتھ دل سے بھی آواز نکلے کہ یہ دن بار بار آئیں اور وہ عید مومن کی عید ہوتی ہے کیونکہ وہ ایک نیکی اور خدا کی رضا حاصل کرنے کا کام کرتا ہے اور اس کی خواہش ہوتی ہے اور وہ کوشش کرتا ہے کہ یہ دن پھر آئیں.پس اگر کوئی عید کا مستحق ہے تو وہ صرف مومن ہے باقی جو لوگ عید کرتے ہیں وہ صرف تفاول کے طور پر کرتے ہیں جیسا کہ جب کسی کے بچہ پیدا ہوتا ہے اور وہ اس کا نام شیر بہادر رکھتا ہے حالانکہ اُس وقت وہ بچہ نہ شیر ہوتا ہے نہ بہادر.ہاں اس بچہ کے باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ یہ بچہ شیر بہادر ہو جائے.تو چونکہ دنیا چاہتی ہے کہ اس کو عید ملے کیونکہ یہ ایک فطرتی تقاضا ہے اور اصلی طور پر ان کو عید میتر نہیں ہوتی اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ بناوٹی طور پر ہی عید منالیں.اور اصل کی بجائے نقل سے دل کو تسلی دینا عام طور پر پایا جاتا ہے.ہنود میں کم لوگ ہیں جو کھلے طور پر گوشت کھاتے ہیں مگر اکثر اس طرح کرتے ہیں کہ گوشت کی بڑیاں بنا لیتے ہیں.اگر چہ وہ بڑیاں کہلاتی ہیں لیکن چونکہ ان میں گوشت بھی ہوتا ہے اس لئے اس طرح وہ اپنے اس طبعی تقاضا کو پورا کرتے ہیں.اسی طرح حقیقی عید جو کہ خدا کا قرب حاصل ہونے سے ہوتی ہے جس کو یہ میسر نہیں وہ بناوٹی طور پر اس خوشی کو جو خدا کے ملنے سے ہونی چاہئے ایک دن عید منا کر حاصل کرنا چاہتا ہے.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے کچی عید اسی کی ہوتی ہے جو مومن ہوتا ہے اور جس کے دل میں ایمان نہیں ہوتا اس کی عید نہیں ہوتی نہ ایک سال میں نہ عمر میں.ہم صحابہ کو دیکھتے ہیں ان کے قلوب ایمان سے پُر تھے وہ کیسی خوشی محسوس کرتے تھے اور خوشی اور عید اس کی ہے جس کا دل خوشی میں ہو.وہ لوگ وہ تھے جو موت کے منہ میں عید کو دیکھتے تھے کیونکہ وہ مومن نہیں جو اپنے مولا کی ملاقات سے ڈرے.شام میں جب عیسائیوں سے جنگ ہو رہی تھی عیسائیوں کی طرف سے ایک شخص نکلا اور اس نے مبارز طلب کیا.مسلمانوں کی طرف سے یکے بعد دیگرے کئی شخص نکلے اور شہید ہو گئے.اس سے عیسائیوں کا
جوش دم بہ دم بڑھتا گیا اور عیسائیوں میں خوشی کے نعرے شروع ہو گئے.اس وقت کا یہ رواج تھا کہ پہلے دونوں طرف سے ایک ایک شخص مقابلہ کے لئے نکلا کرتا تھا.جب مسلمانوں کے کئی آدمی شہید ہو گئے تو مسلمانوں نے بھی اس بات کو محسوس کیا.اس وقت مسلمانوں کی طرف سے ضرار بن ازور نکلے جو مسلمانوں میں ایک بڑے جری سپاہی اور اعلیٰ درجہ کے افسر تھے وہ اس کے مقابلہ میں گئے لیکن فورا واپس چلے آئے اور اپنے خیمہ میں داخل ہو گئے.چونکہ وہ رسول اللہ کے صحابی اور ایسے اعلیٰ درجہ کے بہادر سپاہی تھے اس لئے ان کے بھاگنے سے مسلمانوں میں تحیر اور عیسائیوں میں خوشی پھیل گئی.ایک صحابی ان کے پیچھے آئے اور ان سے پوچھا یہ تم نے کیا کیا؟ انہوں نے جواب دیا کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں موت کے ڈرا سے بھاگا ہوں؟ نہیں یہ بات نہیں بلکہ میری عادت ہے کہ میں ہمیشہ بے زرہ لڑائی پر جایا کرتا ہوں لیکن آج اتفاق سے میں نے زرہ پھٹی ہوئی تھی.اب اس عیسائی نے جو اتنے مسلمانوں کو شہید کیا اور میں اس کے مقابلہ میں گیا تو مجھے خیال آیا کہ اگر میں آج اس کے ہاتھ سے اس حال میں مارا گیا کہ میرے جسم پر زرہ ہوئی تو میں خدا تعالیٰ کو کیا منہ دکھاؤں گا اور کیا جواب دوں گا کہ میں نے تیرے حضور میں حاضر ہونے سے بچنے کے لئے زرہ پہنی تھی.پس میں نے خیال کیا کہ یہ تو منافقت کی موت ہوگی اس لئے میں بھاگا کہ زرہ اتار دوں.اب میں نے زرہ اُتار دی ہے اور لڑنے جاتا ہوں.چنانچہ اس طرح وہ اس کے مقابلہ میں گئے اور اس کو مار لیا.A تو مومن تو وہ ہے جو خدا کی راہ میں موت کو عید سمجھتا ہے.نادان ہے جو ظاہری خوشی پر خوش ہے مومن کو موت بھی ناخوش نہیں کر سکتی.مومن مرتا ہے تو اس کی عید ہوتی ہے ، جیتا ہے تو اس کی عید ہوتی ہے اس کی رات بھی اس کے لئے عید کا دن ہے اور اس کا دن بھی عید کا دن ہے کیونکہ حقیقی عید اللہ سے تعلق ہوتا ہے اور جس کا خدا تعالیٰ سے تعلق ہو جاتا ہے اس کی ہر ساعت خوشی کی ساعت ہوتی ہے اور جب تک یہ نہ ہو منافقت کی عید ہے.نجاست پر اگر چاندی کے ورق بھی چڑھا دیئے جائیں تو اس کی بدبو اور اس کی خرابی میں فرق نہیں آ سکتا.ورق لگانے سے اس میں لطافت و شیرینی نہیں پیدا ہو سکتی.پس محض ظاہری درستگی اصلی خوبیاں پیدا نہیں کر سکتی اس کے لئے ضروری ہے کہ اندرونہ پاک و صاف اور خوبصورت ہو.پس جس دل کا اللہ تعالیٰ سے تعلق نہیں وہ رنج میں ہے اور جو رنج میں ہے اس کی کوئی عید نہیں.
۷۵ ہے دیکھو قرآن کی ابتداء الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ 9 سے کی گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ جو سب جہان کا رب ہے ہمارا اس کے ساتھ تعلق ہے.اگر کوئی غم ہے تو اس کے لئے.اگر کوئی راحت ہے تو اس کے لئے اس لئے ہمارے لئے عید ہی عید ہے حتی کہ اگر کوئی مرتا بھی ہے تو ہم ناخوش نہیں اس لئے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف گیا اور ہمیں بھی خدا ہی کے پاس جانا ہے اور اس میں بھی ہمارے لئے عید ہے.ہم نے حضرت صاحب کی زندگی کو دیکھا ہے.نبی کریم م ل ل ا ل لیلی کی زندگی کو پڑھا ہے اور ان اولیائے امت کے حالات بھی پڑھے ہیں وہ مشکل سے مشکل اور آفت سے آفت میں یقین رکھتے ہیں کہ خدا ہمارے ساتھ ہے.اے رسول کریم ملی والی ریلی کا ایک واقعہ تاریخوں میں مذکور ہے.ایک دفعہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنگل میں سوئے ہوئے تھے آپ کی تلوار درخت سے لٹک رہی تھی کہ ایک بدوی آیا اور اس نے تلوار درخت سے اتار کر بے نیام کر لی اور آپ کے سر پر کھڑا ہو کر کہنے لگا.تلوار تیرے قبضہ میں نہیں ساتھی تیرے پاس نہیں بتا تجھ کو اب کون بچا سکتا؟ رسول کریم میں لیا لیلی نے نہایت اطمینان سے فرمایا مجھ کو اللہ بچا سکتا ہے.اس شخص کی نظر ظاہر پر تھی مگر محمد رسول اللہ میں اللہ کی نظر باطن پر تھی اس لئے پ کو کوئی خوف و خطر نہ تھا.آپ نے سادگی اور اطمینان سے کہہ دیا مجھے خدا بچا سکتا ہے.شخص پر اس بات کا اتنا اثر ہوا کہ وہ کانپ گیا تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی.اس وقت آپ نے تلوار اٹھالی اور کہا اب تو بتا تجھ کو کون بچا سکتا ہے ؟ اس کو رسول کریم میں میر کا جواب سن کر بھی اس کی نقل کرنے کی جرأت نہ ہوئی کیونکہ اس میں وہ بصیرت کہاں تھی اس لئے اس نے کہا کہ آپ ہی رحم کریں.لا اور مجھے چھوڑ دیں پس چونکہ رسول کریم ملی کا خدا تعالیٰ سے تعلق تھا اس لئے شمشیر برہنہ بھی آپ کے قلبی آرام اور اطمینان پر کوئی اثر نہ.، ڈال سکی.اسی طرح حضرت صاحب کا واقعہ ہے جن دنوں گورداسپور میں آپ پر کرم دین والا مقدمہ تھا.جس عدالت میں مقدمہ دائر تھا اس کا مجسٹریٹ آریہ تھا.اس کی خود بھی خواہش تھی کہ حضرت صاحب کو سزا دے اور آریوں نے اس پر بہت زور ڈالا کہ کچھ نہ کچھ ضرور سزا ہونی چاہیئے اور انہوں نے اس پر یہاں تک زور ڈالا کہ یہ قومی سوال ہے اب یہ بیچ کر نہ جائے اور اس مجسٹریٹ نے بھی اقرار کر لیا تھا کہ میں تھوڑی سی سزا ضرور دے دوں گا تاکہ اپیل بھی }
24 نہ ہو سکے.مگر بعض شرفاء بھی ہوتے ہیں.ایک ہندو نے ہی ہمارے ایک شخص کو اطلاع دے دی کہ میں محض خیر خواہی کی راہ سے کہتا ہوں.جب اس احمدی کو معلوم ہوا تو وہ نہایت گھبرایا ہوا حضرت صاحب کو اطلاع دینے کے لئے آیا اور وہ خود بھی خیال کرتا تھا کہ حضرت صاحب پر اس کا بہت اثر ہو گا.مگر جب آپ کو اطلاع دی گئی تو آپ لیٹے ہوئے تھے، بیٹھ گئے اور آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور کہا کہ کیا وہ خدا کے شیر پر ہاتھ ڈالنا چاہتا ہے.ڈال کر دیکھ لے کہ کیا نتیجہ نکلتا ہے.ا پس در اصل عید ان ہی کی عید ہوتی ہے اور یہ وہ عید نہیں جو سال میں ایک یا دو دفعہ آتی ہے بلکہ ہر گھڑی عید ہوتی ہے اور ہر ساعت کی ہوتی ہے.آج کل مسلمانوں کی کیا حالت ہے اور مسلمانوں کو کتنا صدمہ ہے.اگر اس کا کوئی اندازہ کرے تو جان نکل جائے اور عظمند مجنون ہو جائے.جس وقت اس کا علاج ہو سکتا تھا اس وقت حضرت صاحب نے پکار پکار کر کہا کہ یہ وقت نہایت نازک ہے اس وقت ہوش میں آؤ.هر طرف کفر است جوشاں ہمچو افواج یزید دین حق بیمار و بیکس بیچو زین العابدین چاروں طرف کفر و ضلالت پھیلا ہوا ہے اور اسلام کی حالت دم بہ دم نازک ہو رہی ہے مگر اس وقت لوگوں نے اس آواز پر کان نہ دھرا بلکہ اس آواز پر ہسنی اڑائی اور کہا کہ اسلام تو ترقی کر رہا ہے.اب واقعات نے بتلا دیا ہے کہ اس درد مند نے جو کچھ کہا وہی سچ تھا.اس وقت جاہلوں میں مشہور تھا کہ ترکوں کا بادشاہ جب باہر نکلتا ہے تو تمام دنیا کے سفیر جو قسطنطنیہ میں ہوتے ہیں بطور باڈی گارڈ کے اس کے ساتھ ہوتے ہیں اور اگر وہ تلوار اٹھائے تو دنیا کی کوئی طاقت اس کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتی لیکن ان نادانوں کو کیا خبر تھی کہ وہ تو چاروں طرف سے شکنجہ میں کسا ہوا ہے اور ساعت به ساعت وہ شکنجہ تنگ ہو تا جا رہا ہے.اُس وقت کسی نے خطرہ کی پرواہ نہ کی جس سے ڈرایا جا رہا تھا اور اب یہ حالت ہو گئی ہے کہ وہ لوگ جن کے دلوں میں اسلام کی محبت ہے وہ عجیب عجیب حرکتیں کرتے ہیں حالانکہ ان کو صرف نام کا تعلق ہے.واقع میں اسلام کا اس وقت کا صدمہ بہت ہی بڑا ہے.ہم بھی اس سے پاگل ہو جاتے مگر چونکہ ہمیں اللہ تعالٰی پر کامل ایمان ہے اور ہم جانتے ہیں کہ ایک ہستی ہے جو اسلام کی محافظ و نگران ہے.ورنہ اگر ہمارا خدا تعالیٰ کے قادر ہونے پر ایمان نہ ہوتا اور اس کے بچے
LL وعدوں پر یقین کامل نہ رکھتے تو ہم بھی اس وقت یقینا پاگلوں کی سی حرکتیں کرتے.ہمیں بہت صدمہ ہے اور اتنا صدمہ ہے کہ اس کے اثر سے ہم بھی پاگل ہو جاتے مگر ہمیں چونکہ خدا کی نصرت پر بھروسہ ہے کہ ایسی حالتوں میں اس کی خاص نصرت آیا کرتی ہے اور جب ہر طرف سے مایوسی ہو جاتی ہے تب وہ اپنی قدرت کے ہاتھ دکھاتا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ خدا کی نصرت آئے گی اور اسلام کی مخالفتوں کو مسل ڈالے گی اس لئے باوجود اس قدر سخت صدمہ کے ہم راحت میں ہیں اور آنے والی گھڑی کے سچے وعدوں سے مطمئن ہیں اور یہی مومن کی علام ہے کیونکہ مومن کو کوئی غم اور حزن پریشان نہیں کر سکتا.مت میں نے جو کہا ہے کہ مومن کو غم نہیں ہوتا اس کے یہ معنی نہیں کہ مومن کو غم کا احساس بھی نہیں ہو تا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مومن غم میں بھی ایک عید ہی دیکھا کرتا ہے.اسلام کی موجودہ حالت کا ہمیں صدمہ ہے اور ہمارے صدمہ کے مقابلہ میں دوسروں کو ہزارواں حصہ بھی صدمہ نہیں مگر ہمارے اور ان کے صدمہ میں ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ ہمیں خدا پر یقین ہے کہ خدا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ ہم خدا کی حفاظت کے حصار میں ہیں.ہماری اور ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسا کہ بید کی ایک پتلی چھڑی کو دیوار کے ساتھ کھڑا کر دیا جائے.اس پر اگر زیادہ بوجھ بھی ڈالا جائے گا تو بھی وہ نہیں ٹوٹے گی.لیکن اگر موٹا تا ہو اور بغیر سہارے کھڑا ہو تو اس پر جب بید کی چھڑی سے تھوڑا بوجھ پڑے گا تو وہ ضرور ٹوٹ جائے گا.پس وہ بظاہر ہم سے مضبوط ہیں مگر اس نے کی مانند جس کا کوئی سہارا نہیں اور ہم کمزور ہیں مگر ہماری حفاظت خدا کی نفرتوں اور تائیدوں کی دیواریں کر رہی ہیں.میں احساس اور بے حسی کو مثال کے ذریعہ سمجھاتا ہوں.جنہوں نے حضرت صاحب کو دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ حضرت صاحب کو مبارک احمد للہ سے کس قدر محبت تھی.اس محبت کی کئی وجہیں تھیں.اول یہ کہ وہ کمزور تھا اور کچھ نہ کچھ بیمار رہتا تھا اس لئے اس کی طرف خاص توجہ رکھتے تھے اور یہ لازمی بات ہے کہ جس کی طرف خاص توجہ ہو اس سے محبت ہو جاتی ہے.دو سرے وہ اگر چہ ہم سب سے چھوٹا تھا اور اس کی عمر بھی بہت تھوڑی تھی مگر بہت ذہین اور ذکی تھا.اس کی عمر سات سال کی تھی مگر وہ اسی عمر میں شعر کہ لیتا تھا اور عام طور پر اس کے شعر کا وزن درست ہو تا تھا.اس کی ذہانت اور حافظہ کی مثال یہ ہے کہ جب حضرت صاحب نے وہ بڑی نظم جس کی ردیف ” یہی ہے" لکھی.صلہ تو ہم سب کو فرمایا کہ تم قافیہ تلاش کرو." 6
LA چو اس نے ہم سب سے زیادہ قافیہ بتلائے.جن میں بہت سے عمدہ قافیہ تھے.جب وہ مرض الموت میں گرفتار ہوا تو حضرت صاحب باوجود تالیف و تصنیف میں بھی مصروف رہنے کے شب و روز اس کے معالجہ میں لگے رہتے حتی کہ میں رات کے گیارہ گیارہ بجے سوتا تو آپ جاگ رہے ہوتے اور جب کبھی آنکھ کھلتی تو آپ جاگے ہوتے.حیرت ہوتی تھی کہ آپ سوتے کس وقت ہیں.جس دن وہ فوت ہوا اس دن خیال تھا کہ حضرت صاحب کو اس کا غیر معمولی صدمہ ہو گا.حضرت خلیفہ اول بڑے جری اور دلیر تھے آپ کو گھبراہٹ نہیں ہوا کرتی تھی مگر ونکہ انہوں نے اس محبت کو دیکھا تھا جو حضرت صاحب مبارک احمد سے رکھتے تھے اس لئے وہ سمجھے کہ حضرت صاحب کو خدا جانے اس حادثہ سے کتنا صدمہ پہنچے آپ اس کی نبض دیکھنے لگے اور حضرت صاحب سے کہا کہ حضرت مُشک لائیے.حضرت صاحب مشک لینے گئے اور حضرت مولوی صاحب نے گھبرا کر کہا حضرت جلدی لائیے اور چونکہ آخری وقت تھا اور نبض بند ہو رہی تھی اس لئے حضرت مولوی صاحب جلدی جلدی مختلف مقامات سے دیکھ رہے تھے اور حالت یہ تھی کہ قریب تھا کہ آپ گر جاتے.مگر جب حضرت صاحب کو معلوم ہوا کہ نبض بند ہو گئی ہے تو آپ باہر آکر دوستوں کو نصیحت فرمانے میں مصروف ہو گئے اور بیرون جات خط لکھنے شروع کر دیئے کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ایسے صدمے ہوا ہی کرتے ہیں اور تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے لئے تو یہ خوشی کا موقع ہے.کیونکہ خدا تعالی کا ایک الہام اس کی جلدی وفات کے متعلق موجود ہے جو آج پورا ہو گیا.14 اس طرح تو آپ کا رنج خوشی سے بدل گیا.اس سے ظاہر ہے کہ آپ کو غم کا احساس تو تھا لیکن چونکہ خدا تعالیٰ سے تعلق تھا اس لئے وہ غم خوشی ہو گیا.اس کے مقابلہ میں ایک عورت ہیں قریب ہی کی رہنے والی تھی.میں ان دنوں حضرت خلیفہ اول سے پڑھتا تھا.ایک دن انہوں نے مجھے یہ بتانے کے لئے کہ بے حسی کا مرض بھی ہوتا ہے.اس عورت سے کہا کہ تیرے بڑے بیٹے کا کیا حال ہے وہ یہ سنکر بننے لگی اور اتنی نہیں کہ بے خود ہو گئی اور ہنستے ہنتے کہا وہ تو مر گیا ہے.حضرت مولوی صاحب نے اسی طرح اس کے کئی رشتہ داروں کا حال پوچھا اور اس نے اسی طرح ہنس ہنس کر بتایا کہ وہ مر گئے.اب دیکھئے کہ حضرت صاحب کا بیٹا فوت ہوا تو آپ نے صبر کے ساتھ اس کو دیکھا اور لوگوں کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے اس پر خوشی کا اظہار کیا اور اس عورت کے بھی رشتہ دار فوت ہوئے اور اس نے
49 ہنس ہنس کر ان کے مرنے کا ذکر کیا.پھر حضرت صاحب اور اس عورت میں کیا فرق تھا.حضرت صاحب کے ہاں بھی موت ہوئی اور اس عورت کے بھی بلکہ اس کے ہاں تو تین چار موتیں ہو گئیں مگر وہ ہنستی ہی رہی.بظاہر تو شاید کوئی کہے کہ وہ عورت زیادہ صابر تھی.لیکن در حقیقت یہ بات نہیں کیونکہ حضرت صاحب کا جو صبر تھا وہ جس کے باوجود تھا اور اس عورت کا صبر یا اس کا جو بھی نام رکھیں بغیر حس کے تھا.اس کو بیماری تھی کہ وہ ہر ایک صدمہ میں اسی حالت کا اظہار کرتی.مگر حضرت صاحب حس رکھتے تھے یہی وجہ تھی کہ تمام رات بیمار کی تیمار داری میں صرف کر دیتے تھے.اور شب بھر خدمت کرتے تھے.مگر اس احساس کے باوجود جب وہ فوت ہوا تو آپ بے صبری ظاہر نہیں کرتے بلکہ صبر کامل دکھاتے ہیں اور اس عورت کو اس کا احساس اہی نہ تھا.پس عید کا یہ مطلب نہیں کہ انسان بے حس ہو جائے اور خواہ اسے کتنی تکلیف ہو اس کا اسے احساس ہی نہ ہو بلکہ جس ہو اور پھر خوشی ہو تو یہ عید ہوگی.اسلام کے اگر کانٹا لگے تو اس کے دل میں نشتر لگے مگر ساتھ ہی یہ ہو کہ وہ یقین رکھے کہ یہ خدا کا دین ہے وہ اس کی نصرت کے سامان خود کرے گا اور ہمارا تعلق ایک مقتدر اور طاقتور ہستی سے ہے جب یہ دونوں باتیں جمع ہو جائیں کہ جس بھی ہو اور خدا تعالیٰ کی قدرتوں پر کامل بھروسہ بھی تو اس وقت عید ہوتی ہے.اور جو شخص بے حس ہو اس کو سمجھو کہ وہ مر گیا کیونکہ حق مُردے ہی میں نہیں ہوتی.لیکن اگر آفتوں میں اضطراب ہے اور تم اپنے دلوں میں گھبراہٹ پاتے ہو اور تم مصیبت کو اپنے لئے ایسی خیال کرتے ہو کہ اب ہمیں کوئی نہیں بچا سکتا اور اب ہماری مدد نہیں ہو سکتی تو بھی سمجھ لو کہ تمہارا ایمان باطل ہو گیا.ایمانِ کامل یہ ہے کہ ایک طرف تم دیکھ رہے ہو کہ یہ ابتلاء اور یہ مصائب تمہاری کمر توڑنے والے ہیں مگر اس کے ساتھ ہی تمہیں خدا کی قدرت پر ایمان کامل ہو کہ وہ ضرور کامیابی دے گا.در حقیقت عید یہی ہے کہ تمہیں زبردست احساس ہو اور تم ذرا سی بات کو بھی محسوس کرو مگر ساتھ ہی خدا کی قدرت پر ایمان رکھو اور کسی آفت سے نہ گھبراؤ.اللہ تعالی ہمارے سب دوستوں کو وہ مقام عنایت فرمائے جس میں ایک طرف وہ درد ہو جو خدا کے لئے ہوتا ہے اور جس کے بغیر کوئی مومن مومن نہیں اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی معرفت ہو اور ہمیں درمیانی مقام عنایت فرمائے اور اسلام کی کامیابی دکھائے.ہماری یہ
عید بے مغز عید نہ ہو بلکہ ایسی عید ہو جو عملی جامہ پہنے اور ہماری عید ہمارے جسموں ہی کی عید نہ ہو بلکہ روحوں کی بھی ہو.جب حضور دوسرے خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے تو فرمایا.رمضان کا مہینہ چٹی اور بیگار کے طور پر نہیں ہو تا بلکہ یہ مہینہ ورزش کے لئے آتا ہے.کوئی ہوشیار طالب علم مدرسہ کو چھٹی نہیں سمجھتا.تم اس کو روحانیت کا مدرسہ سمجھو.مدرسہ میں تمہیں بیگار اور چٹی کے طور پر داخل نہیں کیا جاتا بلکہ تمہیں عادی بنایا جاتا ہے کہ مدرسہ میں پڑھ کر تم آئندہ خود بخود پڑھنے لکھنے کے اہل ہو جاؤ.اسی طرح رمضان تمہیں سبق دینے آتا ہے کہ تم باقی سال میں اسی طرح کرو جس طرح رمضان نے سکھایا ہے.جب مدرسہ یا کالج سے چھٹی ہوتی ہے تو سمجھدار طالب علم یہ نہیں سمجھتے کہ ہم ایک بیگار سے آزاد ہوئے ہیں بلکہ وہ ان ہدایتوں پر کاربند رہتے ہیں جو انہیں کالج میں دی جاتی ہیں.اسی طرح رمضان کے بعد جو تمہیں چھٹی دی گئی ہے اس میں رمضان کے دیئے ہوئے سبقوں پر عمل کرو.ے انسائیکلو پیڈیا ریلیجن اینڈ ایتھکس جلد ۵ صفحه ۸۶۷ تا ۸۷۱ استثنا باب ۱۶ آیت ۱ تا ۱۶ یوحنا باب ۱۰ آیت ۲۲ انسائیکلو پیڈیا ریلیجن اینڈ ایتھکس جلد ۵ صفحہ ۸۷۲ الفضل ۲۸ جون ۱۹۲۰ء) ه انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا زیر لفظ افریقہ 673738.2.Story of Nations Vol انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا 232.Vol.9P زیر لفظ نجی ک مفردات امام راغب زیر لفظ "عود" اصابه جلد ۳ صفحه ۲۷۹ الفاتحة : ا التوبة :۴۰ و بزم صوفیہ تذکرہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء صفحه ۲۰۸ مصنفہ سید صباح الدین عبد الرحمن ایم اے مطبع معارف اعظم گڑھ ۱۹۴۹ء الله بخاری کتاب المغازی باب غزوة ذات الرقاع سیرت المہدی حصہ اول صفحه ۹۳ تا ۹۸ - تاریخ احمدیت جلد ۳ صفحه ۲۹۵ تا ۲۹۶
Al ا فتح اسلام شائع کردہ ابو الفضل محمود قادیان صفحه ۷۱ ۱۴ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سب سے چھوٹے صاحبزادے تھے.۱۴.جون ۱۸۹۹ء میں پیدا ہوئے.اور ۱۶.ستمبر ۱۹۰۷ء کو فوت ہوئے.(بدر ۱۹.ستمبر ۱۹۰۷ء و تاریخ احمدیت جلد ۳ صفحه ۵۰۱ تا ۵۰۳ ها " قادیان کے آریہ اور ہم " مطبوعہ ۱۹۰۷ء صفحہ ۸ ۱۶ تذکره صفحه ۳۴۱ مطبوعہ الشركة الاسلامیہ ربوہ ۱۹۵۶ء و تاریخ احمدیت جلد ۳ صفحه ۵۰۱ تا ۵۰۲
사 (10) ( فرموده ۸ - جون ۱۹۲۱ء بمقام باغ حضرت مسیح موعود علیہ السلام - قادیان) دنیا میں دو قسم کی طبیعتیں ہوتی ہیں.بعض وہ جو ہر بات کو خواہ وہ کسی قسم کی ہو بُرے معنوں میں لے جاتے ہیں خواہ اچھی خبر ہو تو وہ افسوس کرتے ہیں اور ہر بات کا بُرا پہلو لیتے ہیں.خوشی ان کے لئے رنج اور راحت ان کے لئے افسردگی کا موجب ہوتی ہے.اور کچھ ایسے ہیں جو ہر بُری بات کو اچھے معنوں میں لیتے ہیں کوئی تکلیف ہو ان کو گھبرا نہیں دیتی.یہ مطلب نہیں کہ ان کو احساس نہیں ہوتا.نہیں احساس تو ہوتا ہے مگر وہ برداشت کرتے ہیں.ان پر غم کا اثر کم ہوتا ہے جس طرح بعض پر خوشی کا اثر کم ہوتا ہے.شاید بعض لوگ میرے خطبات عید سن کر کہیں کہ یہ ہمیشہ رنج کی خبریں سناتا ہے.لیکن یاد رہے کہ خدا نے میری طبیعت ایسی نہیں بنائی کہ خوشی کی بات کو رنج کی بات بتاؤں.عظمند انسان ہر ایک بات کو سمجھتا اور اس سے فائدہ اٹھاتا ہے اور جس سے عبرت حاصل ہوتی ہے اس سے عبرت حاصل کرتا ہے.پس میں اگر خطباتِ عید میں اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ کچی عید کیا ہے تو اس سے یہ مطلب نہیں کہ خوشی کو رنج سمجھتا ہوں بلکہ یہ مطلب ہے کہ جس واقعہ سے عبرت حاصل ہو سکتی ہو اس سے عبرت حاصل کریں اور اس کو یونہی نہ جانے دیں.آج میں پھر اسی بات کو دُہراتا ہوں جس بات کو قریباً ہر عید کے خطبہ پر دُہراتا رہا ہوں کو الفاظ اور امثلہ اور طرز بیان میں تبدیلی آگئی ہو.پس میں آج پھر کہتا ہوں کہ عید ہمیں ایک بات کی طرف توجہ دلاتی ہے اور اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے جو یہ ہے کہ انسان کا دل راحت کے سامان چاہتا ہے اور پھر توجہ دلاتا ہے کہ وہ راحت کس طرح حاصل ہوتی ہے.کوئی مسلمان عید کے دن کو ماتم کا دن نہیں سمجھتا لیکن کیا ہمارے یہ کہنے سے وہ عید ہو جاتا ہے.ہر ایک شخص کے کہنے سے یا شریعت کے عید کہنے سے عید ہر ایک کے لئے عید نہیں ہو سکتی.کیا وہ شخص جس کے گھر میں موت ہوئی ہو وہ عید کے دن کو عید سمجھے گا یا کوئی شخص جس کا کوئی رشتہ دار بیمار ہو وہ عید سے خوشی محسوس
۸۳ کرے گا یا کوئی شخص قید میں پڑا ہو، یا کسی کے ہاں خونریزی ہوئی ہو ، یا کسی کے ہاں چوری ہوئی ہو ، ڈاکہ پڑا ہو وہ عید سے خوشی محسوس کر سکتا ہے.کسی کی گھر میں لاش ہو یا کسی کی بیوی پاگل خانہ میں ہو وہ عید سے خوش ہو سکتا ہے؟ کیا اس کا دل خوش ہو گا کہ آج عید ہے اس سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ عید عید کہنے سے عید نہیں ہوتی بلکہ عید اسی وقت ہوتی ہے جب عید ہو.یعنی جب تک عید کی شرائط پوری نہ ہوں اس وقت تک عید عید نہیں بن سکتی.یہ سبق ہے جس کی طرف میں نے پہلے بھی توجہ دلائی ہے اور آج پھر وہی بات دہراتا ہوں.میں اس بات کی طرف توجہ دلاتا رہا ہوں مگر آپ میں بہت ہیں جنہوں نے ادھر توجہ نہیں کی اس لئے میں اس کی طرف توجہ دلاؤں گا اور اس وقت تک جب تک کہ ایک بھی شخص ایسا ہے جس نے توجہ نہیں کی توجہ دلاتا رہوں گا.گو میں آپ لوگوں کے احساسات کا خیال کر کے طرز بیان اور امثلہ بدل دوں.عید کیا ہے.سو عید کے لفظ میں ہی یہ بات بتادی گئی ہے.کوئی عید نہیں جس میں لوگ جمع نہ ہوں.سب مذاہب کی عیدوں میں یہی بات پائی جاتی ہے.اس فطری قانون نے توجہ دلائی کہ سچی خوشی یہ ہے کہ وصال ہو.تم دنیا کے کسی گوشہ میں چلے جاؤ عید کے مفہوم میں اختلاف نہیں پاؤ گے.اور غم کس کو کہتے ہیں اس کو کہ جدائی ہو.مل جانے کا نام عید ہے.جتنا بڑا ملاپ ہو گا اتنی ہی بڑی عید ہو گی.لوگ نماز کے لئے جمع ہوتے ہیں یہ بھی ایک عید ہے مگر محلہ کے لوگوں کی.لوگ جمعہ کے دن جمع ہوتے ہیں یہ شہر کے لوگوں کی عید ہے.اور عید میں علاقہ کے لوگ جمع ہوتے ہیں یہ ان کی عید ہے.اور حج میں تمام دنیا کے مسلمانوں کی عید ہے کہ اس میں تمام جہان کے مسلمان جمع ہوتے ہیں اور یہ بڑی عید ہے.بتاؤ کہ جب تک حقیقی اجتماع نہ ہو عید کیسے ہو سکتی ہے.اب سوال ہو تا ہے کہ کن سے ملیں.اس کو عید ہی کے لفظ سے حل کریں گے اور عید ہی سے پوچھیں گے کہ کن سے ملنا چاہئے.تو جب ہم اس بات پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ملنا ان سے چاہئے جن سے خوشی ہو اور انہی سے ملنے کا نام عید ہے کیونکہ لوگ لڑائیوں میں ملتے ہیں جتنے جرمنی و فرانس کے میدانوں میں لوگ ملے.اتنے پہلے کہاں ملے ہوں گے مگر ان کا ملنا عید نہ تھا.اس سے معلوم ہوا کہ ملنا وہ عید ہے جو ہمارے لئے مفید ہو.پس دنیا کے دستور نے بتا دیا کہ عید وہ ہے جس میں ملاپ ہو اور ملاپ بھی وہ جو مفید ہو.گویا عید اس
وجود سے ملنے کا نام ہے جس سے ملنے سے راحت ہو اور اس سے جدائی غم ہے ماتم ہے.اب کون ہے وہ وجود جس سے ملنے سے فائدہ ہوتا ہے.اپنے اپنے حال پر غور کرو.بیوی سے ملنا مفید ہے، بچے سے ملنا خوشی کا باعث ہے، بیوی کا خاوند سے ملنا اس کے لئے مفید ہے دوست کا دوست سے ملنا مفید ہے ، محلہ دار کا محلہ دار سے ملنا خوشی ہے ، گورنمنٹ ہمارے لئے مفید ہوتی ہے.یہ سب چیزیں اپنی اپنی جگہ مفید ہیں مگر یہ ہر جگہ اور ہر وقت مفید نہیں نہ یہ ہر وقت ہمارے کام آسکتی ہیں.یہ ایک ایک ضرورت کو پورا کرتی ہیں مگر سب ضرورتوں کو پورا نہیں کرتیں.پانی اعلیٰ درجہ کی چیز ہے مگر جب پیاس نہیں تو کسی کام کا نہیں.کھانا مفید ہے لیکن اگر کھانے کے لئے دینے کی بجائے ایسا ہو کہ اس شخص کے سر پر اُٹھوا دیا جائے یا اس کی کمر کے ساتھ بندھوا دیا جائے تو کھانا اس کو کہاں مفید ہو سکتا ہے.یہ سچ ہے کہ گورنمنٹ امن قائم کرتی ہے لیکن گورنمنٹ کی موجودگی میں لوگ قتل ہوتے ، ڈا کے پڑتے اور تو اور گورنمنٹ کو لوگ الٹ دیتے ہیں.پس معلوم ہوا کہ یہ بھی ہر حال میں کام آنے والی نہیں.بیوی بچے مفید ہیں، راحت کا باعث ہیں لیکن بیسیوں موقعے بادشاہوں پر آئے ہیں کہ جب بادشاہ بھاگے ہیں اور انہوں نے دیکھا کہ نیم جو سر پر ہے وہ ان کے ننگ و ناموس کو خاک میں ملا دے گا تو انہوں نے اپنی بیوی اور لڑکیوں کو ہاتھ سے قتل کر دیا.یا امراء نے کر دیا.یا عورتوں کو جل کر مر جانے کی تاکید کر دی.۲.پس یہ بھی ہر حال میں موجب راحت نہیں.ہر حال میں راحت کے لئے ایک ہی ہستی ہے اور وہ خدا کی ذات ہے جو ہر وقت اور ہر حال میں ہمارے کام آتا ہے اور ہمارے لئے ہر ایک راحت کو مہیا کرتا ہے اور کوئی موقع نہیں جو ہم پچھتائیں کہ ہم نے کیوں اس سے تعلق کیا.ایک انسان شادی کرنے اور اولاد ہونے پر افسوس کرتا ہے جب وہ ان کے لئے خوراک مہیا نہیں کر سکتا.وہ اُس وقت کہتا ہے کہ اے کاش! میں نے شادی نہ کی ہوتی اور یہ اولاد پیدا نہ ہوتی تا مجھے یہ دن تو نہ دیکھنا پڑتا کہ یہ بھوکے میری آنکھوں کے سامنے تڑپ رہے ہیں.وہ شخص جو دشمنوں کے نرغہ میں آتا ہے اس وقت افسوس کرتا ہے کہ میری بیوی اور یہ لڑکیاں کیوں موجود ہیں.مگر یہ موقع خدا سے تعلق کرنے میں نہیں آتا.دنیا کا کوئی رشتہ نہیں جس میں انسان ہر وقت خوشی محسوس کرے.ایسا با رہا ہوتا ہے کہ باپ بچے کے ہونے پر افسوس کرتا ہے اور بچہ باپ کے اور بیوی خاوند کے اور خاوند بیوی کے دوست دوست پر افسوس کرتا ہے.اور اس بات پر افسوس کیا جاتا ہے کہ ہم فلاں شہر
۸۵ یا فلاں ملک یا فلاں قوم میں کیوں پیدا ہوئے.لیکن اگر کبھی افسوس نہیں ہو سکتا تو وہ محض خدا کی ذات ہے جس سے تعلق پر کوئی شخص افسوس نہیں کر سکتا اور کبھی نہیں کر سکتا.پس حقیقی عید کیا ہوئی.یہی کہ خدا سے تعلق ہو جائے ، اس سے ملاقات ہو جائے ، پھر کوئی برکت نہیں جو حاصل نہ ہو کوئی راحت نہیں جو میسر نہ آئے بلکہ ایسے شخص کے لئے ہر ایک آن عید ہے.کے پس عید کیا ہے؟ خدا سے ملنا.اس لئے عید کے دن سے عبرت حاصل کرو اور خدا سے ملنے کی کوشش کرو ایسی کوشش جو کبھی ست نہ ہو.اگر اس کو پا لو گے تو کوئی رنج نہیں جو دور نہ ہو جائے اور کوئی راحت نہیں جو میسر نہ آئے.جس کو خدا تعالی مل جائے اس کو کوئی موت رنجیدہ نہیں کر سکتی کوئی غصہ دکھ نہیں دے سکتا.دیکھو بیوی خاوند جن میں خوب محبت ہو اور پھر کوئی ایسا وقت جبکہ ایک دوسرے کو یقین ہو کہ ہم میں بہت محبت ہے اس وقت اگر خاوند غصہ والی شکل بنائے بھی تو کیا عورت ناراض ہو گی.ہر گز نہیں.بلکہ ہنس دے گی اور سمجھے گی کہ یہ بھی پیار ہے.پس جس کے ساتھ خدا کو محبت ہو اور جس کا خدا سے تعلق ہو اسے اگر غصہ کی نظر سے بھی دیکھے تو وہ رنجیدہ نہیں ہو گا بلکہ یقین کرے گا کہ یہ غصہ نہیں بلکہ یہ بھی ایک اظہار محبت کا طریق ہے.کسی عزیز کی موت اسے غمگین نہیں کر سکتی ، کوئی لڑائی کوئی فتنہ اور کوئی منصوبہ اس کو غمگین نہیں کر سکتا کوئی بیماری اور کوئی روگ ہو اس کا دل افسردہ نہیں ہو سکتا.پس اگر عید چاہتے ہو تو اس کا ایک ہی طریق ہے اور وہ سفید کپڑے پہننے اور سیویاں کھانے کا نام عید نہیں ہے کہ بلکہ عید یہ ہے کہ خدا سے تعلق ہو جائے اور بندے کی اس سے صلح ہو جائے.یہ عید جب آتی ہے تو جاتی نہیں اور اس عید کے دن کی شام نہیں.اس کو کوئی زمانہ ہٹا اور ختم نہیں کر سکتا.وہ دن ایسا ہے کہ اس کی عید ختم نہیں ہوتی.جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے کہ ہے جدھر دیکھتا ہوں اُدھر تو تو ہی وہ عید نہ اس دنیا میں ختم ہوتی ہے نہ قبر میں ختم ہوتی ہے نہ اگلے جہان میں ختم ہوتی ہے بلکہ اس عید کا دن یہاں چڑھنا شروع ہوتا ہے اور اگلے جہان میں عروج پر ہوتا ہے.پس اس عید سے یہ سبق لوجو خدا نے مقرر کیا ہے.دوسری عید جو اس سے چھوٹی ہے مگر ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ سے محبت رکھنے کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کے بندوں سے محبت کی جائے.ھو اور اگر یہ ضروری نہ ہو تا تو بجائے اس کے کہ خدا تعالی ماں
AY باپ کے ذریعے سے انسان کو پیدا کرتا یونہی آسمان سے اتار دیتا.یا وہ ضرور تیں جو انسان کے لاحق حال ہیں وہ اور ذرائع سے پوری ہو جاتیں.مرد کو عورت کی اور عورت کو مرد کی ضرورت ہے تو بجائے مرد کے لئے عورت پیدا کرنے کے خدا تعالی کوئی ایسا سامان کرتا جو عورت کی ضرورت ہی مرد کو نہ پڑتی لیکن خدا نے ایسا نہیں کیا بلکہ عورت کو پیدا کیا اولاد دی محلہ دار بنائے.خدا کا یہ عمل بتاتا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے آپس میں محبت کریں.انسان بچوں سے محبت کرتا ہے ، بیوی سے محبت کرتا ہے، رشتہ داروں سے محبت کرتا ہے.کیوں کرتا ہے.کیوں خدا نے یوں نہ کیا کہ انسان کا یہ تقاضا بغیر ان کے پورا کیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا.خدا کے فرشتے نہیں اترتے اور اس کے ساتھ جماعت نہیں کراتے.اس سے پتہ لگتا ہے جس قدر لوگوں کے ہم سے اچھے تعلقات نہ ہوں گے وہ ہم سے نفرت کریں گے اور ہماری عید میں اتنی ہی کمی ہوگی.خوشی اس وقت ہوتی ہے جب اجتماع ہوا اور مفید ہو.کوئی نہیں جو اجتماع سے ناراض ہو تا ہو.کوئی مقرر جب تقریر کرتا ہے اگر اس کی تقریر میں لوگ اٹھ جائیں تو اس کو تکلیف ہو گی اور اگر بڑھ جائیں تو خوشی کا احساس ہو گا.پس سوائے مراقی کے کوئی نہیں جس کو اجتماع سے خوشی نہ ہوتی ہو.3 ނ مگر ان سب اجتماعوں سے بڑھ کر وہ اجتماع خوشی کا موجب ہوتا ہے جو خدا کے ذریعہ ہو وہ حقیقی اجتماع ہے اور اس سے جو خوشی ہو وہ حقیقی خوشی ہے.ماں باپ سے انسان علیحدہ ہو سکتا ہے مگر ایک مومن سے مومن جدا نہیں ہو سکتا.کیا ایک مومن کا اجتماع آنحضرت میری چھوٹ سکتا ہے.ممکن ہے بیٹا جنم میں جائے یا باپ.لیکن ایک مومن کا مومن سے وہ رشتہ ہے جو قیامت کو بھی جدا نہ ہو گا.کہ پس وہ اجتماع جو خدا کے ذریعہ نہ ہو وہ حقیقی عید نہیں ہو سکتا کیونکہ اس میں جدائی ہوتی ہے لیکن وہ اجتماع جو خدا کے ذریعہ ہو اور وہ وصال جو خدا کے واسطے سے ہو اس میں جُدائی نہیں اس لئے جب تک دنیا میں ایسے لوگ ہیں جن کا تعلق خدا سے نہیں ہم خوش نہیں ہو سکتے اور ہمارے لئے مکمل عید نہیں ہو سکتی.غور کرد اگر کسی شخص کے دیوار به دیوار کوئی لاش پڑی ہو تو وہ انسان اگر اس کے دل میں ذرا بھی شرافت ہے راحت میں نہیں ہو سکتا.اسی طرح جب اس کے رشتہ دار اور اس کے اہل شہر اور اہل قوم اہل بلک بلکہ تمام دنیا کے لوگ اس سے جُدا ہیں تو وہ خوشی کیسے ؟
کر سکتا ہے وہ ضرور افسردہ ہو گا.اگر اس افسردگی کو محسوس نہ کرے تو اس کا دل زنگ آلودہ ہو گا.پس اگر دنیا میں ایک بھی شخص ہو جو ہم سے علیحدہ ہے تو ہم اس کی علیحدگی کی وجہ سے افسوس اور رنج محسوس کریں گے اور ہم کو حقیقی خوشی نہیں ہو سکتی.ہماری کوئی خوشی مکمل نہیں ہو سکتی.جب تک ہمارا ایک بھائی بھی امن میں نہ ہو لیکن جب تک تمام بنی نوع انسان امن میں نہ ہوں تو بالکل ہی نہیں ہو سکتی.ہمارے کتنے بھائی ہیں جو ان سگے بھائیوں سے کہیں زیادہ ہیں جو ہم سے علیحدہ ہیں.مگر ہم ان کو دیکھتے ہیں کہ وہ رنج اور تکلیف میں ہیں.کتنے احمدی بچے ہیں جن کے والدین محض ان کی احمدیت کی وجہ سے ان سے ناراض ہیں اور نہ صرف ناراض ہیں بلکہ ان کے دشمن ہیں.تم خود خیال کرو کہ ان احمدی بچوں کے دل کی آج کیا حالت ہو گی.ان کے لئے آج خوشی نہیں بلکہ وہ اپنے عزیزوں سے صبح سے طعن سن رہے ہوں گے اور ایسے بُرے سلوک کو برداشت کر رہے ہوں گے جس کو انسان گوارا نہیں کر سکتا آج عید ان کے لئے عید نہیں ہو سکتی.مثال کے طور پر میں ایک نوجوان کا واقعہ سناتا ہوں جو اس وقت میرے مد نظر ہے سوچو کہ اس کے دل کی کیا حالت ہو گی.مدراس میں ایک نوجوان کالج کا طالب علم ہندو سے مسلمان ہوا ہے.اس کے ماں باپ سخت درجے کے متعصب لوگ ہیں.کچھ عرصہ تک وہ اپنے مذہب کو چھپائے رہا لیکن اس عرصہ میں اس کے والدین کو اس کے متعلق کچھ شکوک پیدا ہونے لگے.وہ اس کے حالات کی گرید میں لگ گئے.روز بروز ان کا شک بڑھتا گیا اور وہ اس کو تکلیف دینے لگ گئے.مجھے ایک اور شخص نے اس کے حالات لکھے کہ اس کے والدین اس کو بہت تکلیف دیتے ہیں.میں نے اس کے نام ایک خط لکھوایا جو اخبار الفضل ۸ میں بھی شائع ہو چکا ہے کہ بغیر تکلیف اور شدائد کی آگ میں پڑنے کے ایمان مکمل نہیں ہو تا.اگر ہماری جماعت ان تکالیف میں سے گذر جاتی تو پختہ ہو جاتی.و نکہ لوگ مِنْ حَيْثُ الجماعت مصیبتوں میں سے نہیں گذرے اس لئے بعض لوگ تھوڑی ی تکلیف پر گھبرا جاتے ہیں اس لئے تم مصائب و شدائد سے گھبراؤ نہیں بلکہ شکر کرو خدا نے تمہارے لئے بہتری کا سامان کیا ہے.اس کے جواب میں اس نے پچھلے دنوں خط لکھا کہ ابھی آپ کا خط آیا جس سے مجھے خوشی ہوئی.میں تسلیم کرتا ہوں کہ مصائب میں سے گذرے بغیر کوئی شخص مضبوط نہیں ہوتا اور میں ان مصائب کے برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں.جس وقت آپ کا خط پہنچا اُس وقت رمضان شروع ہو گیا تھا.میں نے روزہ شروع کیا تو میرے دن چون
AA کے وقت کھانا نہ کھانے سے والدین کو میری نسبت اور شک بڑھ گیا اور انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تو دن کے وقت کھانا کیوں نہیں کھاتا اس طرح مسلمان دن کے وقت کھانا نہیں کھایا کرتے.سارے گھر کے لوگ جمع تھے کہ اُس وقت مجھ سے سوال ہوا اور پھر پوچھا گیا کہ کیا تو مسلمان ہے؟ وہ لکھتا ہے کہ یہ سوال تھا جس کے پوچھے جانے کا میں منتظر تھا.جس وقت انہوں نے پوچھا میں نے صاف کہدیا کہ ہاں میں مسلمان ہوں.میرا یہ کہنا تھا کہ تمام گھر کی حالت بدل گئی اور جوش و خروش شروع ہو گیا.اُس وقت میرا بڑا بھائی گھر میں تھا اس نے کھانا چھوڑ کر مجھے مارنا شروع کیا اور اتنا مارا اور اتنا مارا کہ مجھے بے حال کر دیا مگر نہ میں نے بھائی کے مقابلہ میں ہاتھ اُٹھایا نہ زبان سے کچھ کہا وہ مارتا رہا اور میں مار کھاتا رہا.آخر جب وہ خود ہی مارتے مارتے تھک گیا.تو مجھ سے الگ ہوا اور میں خاموش تھا.بھائی کی اس سختی اور میری اس حالت نے ایک اور حالت گھر کی بنادی.وہ لوگ جو ایک دم پہلے جوش اور غصہ میں تھے سب رو پڑے اور والد جس کو میں نے کبھی روتے نہ دیکھا تھا وہ بھی بے اختیار رو پڑا اور والد والدہ اور دوسرے عزیزوں نے میرے پیر پکڑ لئے اور کہا کہ تو مسلمان رہ مگر ظاہر نہ ہو اس میں ہماری ہتک ہے.مار کھانا میرے لئے آسان تھا مگر اس نظارے کے لئے میں تیار نہ تھا اس لئے میں بھی کانپنے لگ گیا لیکن میرے دل میں یہ بات پڑی کہ یہ بھی میری آزمائش ہے اور میں نے اس حال میں خدا سے دعا کی کہ خدایا ! مجھے اس امتحان میں ثابت قدم رکھ.اس نازک وقت میں میرا قدم حق سے پھل نہ جائے.دعا کے بعد مجھ میں ایک قوت آگئی اور میں نے شرک کی مذمت اور اسلام کی خوبیوں اور خدا تعالیٰ کی وحدانیت پر تقریر کی اور بتایا کہ میں کیوں مسلمان ہوا ہوں اور میں نے اس کے بعد بتایا کہ اے میرے باپ! میری جگہ دوزخ میں تم نہیں جاؤ گے اور نہ میں تمہاری جگہ جاؤں گا یہ جو کچھ میں نے کیا ہے حق ہے ہر ایک شخص کو اپنا معاملہ آپ صاف کرنا ہو گا.9 میں دنیاوی معاملات میں آپ کا فرمانبردار ہوں.مگر دین کے بارے میں آپ کی بات ماننے کے لئے تیار نہیں.میری تقریر سے ان کی نفرت میں اور زیادتی ہو گئی اور میری حالت ایک قیدی کی مانند ہو گئی.میں نے والدین سے اجازت چاہی کہ میں عشاء کے بعد باہر تھوڑی دیر کے لئے ٹھروں تو وہ مجھ کو اجازت نہیں دیتے.اور رشتہ دار آتے ہیں اور مجھے اسلام چھوڑنے کے لئے کہتے ہیں کہ باپ کا کہنا مانو کہ باپ کا درجہ خدا کے درجہ سے بڑھا ہوا ہے اور ہر ایک کو مجھ سے حقارت بڑھ رہی ہے مگر میرا دل مطمئن ہے.سوچو کہ آج عید کا دن
۸۹ ہے مگر یہ اس کے لئے کس قدر ابتلاء کا دن ہو گا.لیکن یہ حالت ایک قلب کی نہیں ہزاروں لاکھوں قلوب ہیں جن کی یہ حالت ہے.ان کے لئے عید کیا خوشی کا موجب ہو سکتی ہے.بہت ہیں جو اپنی احمدیت کا اظہار کریں تو ان کے رشتہ دار ان کا خون بہا دیں.یہ حالت کیوں ہے؟ اس لئے کہ ابھی تک تمام دنیا نے مسیح موعود علیہ السلام کی قدر کو نہیں پہچانا اور لوگ آپ کی مخالفت کر رہے ہیں.غور کرو.وہ بچہ جس کے ماں باپ مخالف ہیں اور وہ مسیح موعود کو قبول کرتا ہے.اگر ان کے سامنے کہتا ہے تو لوگ جان کے دشمن ہوتے ہیں ورنہ ہر طرح اس کو گلے سے لگانے کو تیار ہیں.ان کی کیا حالت ہے اور عید ان کو کہاں تک خوشی پہنچا سکتی ہے.ہمارے لئے مکمل عید اور پوری خوشی کا دن وہ ہو گا جس دن تمام دنیا میں سے کوئی شخص ہم سے جدا نہیں رہے گا.پس اس کے لئے کوشش کرو اور پوری جدوجہد سے کام لو تاکہ ہمارے لئے حقیقی عید کا دن آئے.یاد رکھو کہ زمانہ ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا.حالات میں تغیرات آتے رہتے ہیں.یہ خدا کا فضل تھا کہ آج بولنے کی توفیق مل گئی.ورنہ اب جو گلے کی حالت رہتی ہے اس کو دیکھتے ہوئے بولنا ایک ڈور کی امید نظر آتا ہے.تحریر بھی کم ہو سکتی ہے بوجہ نظر کی کمزوری کے.پس ہمیشہ ایسے دن نہیں رہا کرتے نہ ایسے حالات رہتے ہیں جن سے انسان سبق سیکھ سکے.نہ سمجھانے والے ہی ہمیشہ رہا کرتے ہیں.آج کل دنیا کی جو حالت ہے کہیں جنگیں ہیں، کہیں بیماریاں ہیں، کہیں قحط یہ سب حالات دنیا کے سمجھانے کے لئے ہیں مگر یہ حالات ہمیشہ نہیں رہا کرتے.آج کل ان حالات کی ایک رو چلی ہے اس سے فائدہ اٹھاؤ غفلت چھوڑ دو اور دل میں فیصلہ کرو کہ ہم تبلیغ میں نہ ست ہوں گے نہ ہٹیں گے جب تک ایک شخص بھی ہم سے بچھڑا ہوا ہے.ہم تمام پچھڑے ہوئے بھائیوں کو جمع کریں گے تب خوش ہوں گے.اور یہ بھی فیصلہ کرو کہ اگر ہم اس کام میں مر جائیں تو اپنی اولاد کو وصیت اسی کام کے کرنے کی کریں گے.اپنے آپ کو ایک قیمتی اور کار آمد وجود بناؤ.بیت الخلاء کی اینٹ نہ بنو.اپنے آپ کو ستون کی اینٹ بناؤ.ایک ہو جاؤ ، متحد کوشش کرو.اُس وقت تک اس کوشش میں لگے رہو جب تک کہ دنیا میں ایک بھی کافر ہے.جب دوسرے خطبے کے لئے کھڑے ہوئے.تو فرمایا.
۹۰ اصل عید کا تعلق دل سے ہے.کوئی آفت کوئی مصیبت کوئی ٹھو کر ہلاکت کا موجب نہیں ہو ہو سکتی اگر دل تندرست ہو.اے انسان معمولی بیمار ہوتے ہیں مگر ان کی بیماری بیماری نہیں کہلاتی لیکن جس کے جسم میں بیماری گھر کر جائے وہ بیمار ہے.اگر کسی انسان کا خدا سے تعلق ہو تو دنیا کی کوئی آفت اس کے لئے آفت نہیں.پس خدا سے تعلق پیدا کرو ، معاملات میں عدل و انصاف کرو دوسروں کے حقوق ادا کرو اور یاد رکھو کہ تم سے خدا کا جلال ظاہر نہیں ہو سکتا جب تک کہ تم اپنی ہر ایک حالت کو درست نہ کرو.تم اپنے حقوق پر زور مت دو کیونکہ دنیا میں سب سے بڑی غلطی یہی ہے کہ ہر شخص اپنے حقوق کا دوسروں سے مطالبہ کرتا ہے.مگر چاہئے کہ تم دوسروں کے حقوق کو اپنے ذمہ نہ رہنے دو.اگر کوئی شخص مقروض ہے اور وہ فی الحال روپیہ نہیں دے سکتا تو اس سے نرمی کرو.اگر یہ روح پیدا ہو جائے تو دنیا میں فتنے نہیں رہ سکتے.پس تمہاری عید تب ہوگی جب تمہارے دل ٹھیک ہو جائیں گے.خدا سے صفائی کرو.اپنے اندر صفائی پیدا کرو اور اس عید کے لئے کوشش کرو جس کا میں ذکر کر چکا ہوں.اب میں (الفضل ۲۰ جون ۱۹۲۱ء) دعا کرتا ہوں باقی سب آمین کہیں.جنگ عظیم اول ۱۹۱۴ء.۱۹۱۸ء کا ذکر ہے.جنرل دریا خان نے مغل شہنشاہ ہند شاہجہان کے خلاف بغاوت کی.جب وہ شاہی افواج کے ہاتھوں مغلوب ہوا تو اس کے ہمراہی سرداروں نے اپنے ہاتھوں اپنی بیویوں کو قتل کر دیا.منتخب اللباب مغلیہ دور حکومت حصہ دوم صفحہ ۴۹ مطبوعہ نفیس اکیڈمی کراچی ۱۹۶۳ء) ملفوظات جلدی صفحه ۱۴۵ تا ۱۵۰ ہندوستان کے مسلمانوں میں عید الفطر کے دن سیویاں کھانے کا رواج ہے.اسی طرف اشارہ ہے (فرہنگ آصفیہ مطبوعہ اسلامیہ پریس لاہور ۱۸۹۸ء) ه ملفوظات جلد ۸ صفحه ۱۰۲ علم الامراض میرا شرف علی جی.ایم.سی.بی صفحہ ۱۶۸ ترمذی ابواب الجنة باب ماجاء في سوق الجنة - صحیح بخاری کتاب المغازى باب غزوة الطائف صحیح بخاری کتاب الحوض باب قول الله انا
91 اعطينك الكوثر صحیح بخارى كتاب الادب باب علامة الحب في الله الفضل مورخہ ۲۳.مئی ۱۹۲۱ء الانعام: ۱۶۵ صحیح مسلم كتاب البيوع باب اخذ الحلال و ترك الشبهات
۹۲ (11) (فرموده ۲۹.مئی ۱۹۲۲ء بمقام باغ حضرت مسیح موعود.قادیان) میں نے پہلے بھی مختلف موقعوں پر آپ لوگوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ عید اپنے اندر سبق رکھتی ہے اور وہ انسان کسی کام کا نہیں جو عبرت پر سے گذرے اور عبرت حاصل نہ کرے اور جو شخص خوشی کی باتوں سے عبرت حاصل نہ کرے اللہ تعالیٰ اس کو رنج سے عبرت دلاتا ہے.مومن چھوٹی سے چھوٹی باتوں سے عبرت حاصل کرتا ہے.عید اپنے اندر کئی ایک عبرتیں رکھتی ہے اور میں ان میں سے بعض کی طرف اس وقت آپ لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں.اگر آپ ان سے فائدہ اٹھائیں گے تو ایسی عظیم الشان تبدیلی پیدا ہو گی اور اس قدر تغیرات ظاہر ہونگے کہ آپ کے لئے حقیقی عید آجائے گی.میں نے بار ہا بتایا ہے کہ جب تک دل کی خوشی نہ ہو عید نہیں ہوتی.دیکھو.کیا جن کے گھر میں ماتم ہو وہ بھی عید منا سکتے ہیں.وہ گھر جس کے اند ر لاش رکھی ہو اس کے لئے عید نہیں دنیا کی خوشی ان کے لئے خوشی نہیں.وہ عورت جو اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے خاوند کی لاش دیکھ رہی ہو اگر اس کے سامنے تمام دنیا کے بادشاہ بھی مل کر خوشی منائیں اور اپنی مسرت کے نعروں سے آسمان سر پر اٹھا لیں تو بھی اس کے رونے کی آواز کو نہیں دبا سکتے کیونکہ اس کو صدمہ ہے.اسی طرح وہ بچہ جس کی بچپن کی عمر میں کوئی خبر لینے والا نہ رہے جب باپ کی لاش سامنے دیکھ رہا ہو تو کوئی دنیا کی خوشی اسے خوش نہیں کر سکتی.پس جس کا دل زخمی ہو اس کے لئے کوئی خوشی خوشی نہیں ہوتی.ایک صاحب تاج و تخت جس کے ارد گرد ہزاروں لوگ جمع ہوں اور جسے ہر قسم کے سامان تعیش حاصل ہوں اس پر اگر ایک خطرناک غنیم چڑھا آ رہا ہو تو یہ آنے والی مصیبت ڈرانیوالی شکل میں اس کی تمام راحت کو تکلیف سے بدل دیتی ہے.اس خطرے کی موجودگی میں کوئی چیز اس کو خوش نہیں کر سکتی.عید دل کی خوشی کا نام ہے.ل.اور جس کا دل خوش نہیں اس کے لئے کوئی عید نہیں.اب میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ آپ لوگ جو آج خوش ہیں اور تم میں سے ہر ایک کہتا
۹۳ ہے کہ آج عید ہے کیا کل کے اور آج کے دن میں کوئی فرق ہے ؟ جیسا کل تھا ویسا ہی آج ہے وہی حالت ہے.پھر کیا اس لئے خوشی ہے کہ بعضوں نے عمدہ کپڑے پہنے ہیں یا کیا اس بات کی خوشی ہے کہ بعض نے عمدہ کھانے تیار کئے ہیں.اگر یہی ہے تو کیا کل نئے کپڑے نہیں پہنے جا سکتے تھے یا اچھے کھانے نہیں پکائے اور کھائے جاسکتے تھے پھر آج کیوں خوش ہو.کیا اس لئے کہ لوگ جمع ہوئے ہیں مگر کیا کل جمع نہیں ہو سکتے تھے.پھر جانتے ہو کہ آج تمہاری خوشی کا کیا سبب ہے تمہارے آج خوشی محسوس کرنے کی وجہ یہ ہے کہ تم پر خدا کی طرف سے ایک فرض عائد کیا گیا تھا وہ تم نے پورا کر لیا ہے اس لئے تم خوش ہو اور یہ ایسی بات ہے کہ اس پر تم جس قدر خوشی مناؤ جائز ہے.پس عید خوشی ہے مگر اس کے لئے جس نے خدا کے حکم کو پورا کیا.تمہیں رمضان میں روزے رکھنے کا حکم تھا، تمہیں ایک خاص وقت سے خاص وقت تک کھانے سے منع کیا گیا تھا، تمہیں حکم تھا کہ بیوی سے تعلقات چھوڑو سوائے اس وقت کے جس میں تم کو اجازت تھی.اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ تم اس سے دعا ئیں کرو اور اس کی زیادہ سے زیادہ عبادتیں کرو سوائے مجبوری کے.۲.اگر کسی شخص نے ان احکام کو نہیں پورا کیا، کھانا پینا ایک خاص وقت تک نہیں چھوڑا خدا تعالیٰ سے دعائیں نہیں کیں ، عبادتوں میں وقت نہیں لگایا تو وہ کیسے خوش ہو سکتا ہے اس کی خوشی کی وجہ کیا ہو سکتی ہے.اور وہ شخص مجنون ہوتا ہے جو بلا وجہ خوش ہوتا ہے.یہاں ایک عورت ہمارے مزارعوں میں سے ہی تھی.میں جن دنوں حضرت خلیفہ اول سے پڑھتا تھا وہ آپ کے پاس آئی.آپ نے مجھے فرمایا کہ آؤ میاں آج تمہیں ایک بات بتائیں.آپ نے اس عورت سے دریافت کیا کہ تیرے بھائی کا کیا حال ہے.وہ عورت نسی اور اتنا ہی کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے.اور پھر ہنستے ہنستے ہی اس نے کہا کہ وہ تو مر گیا ہے.میں حیران ہوا کہ یہ ہننے کی کیا بات ہے.پھر آپ نے اس کے ایک اور رشتہ دار کے متعلق پوچھا تو وہ اسی طرح نہیں اور کہا کہ وہ بھی مر گیا.حضرت خلیفۃ المسیح نے مجھے فرمایا اسے مرض ہے اور اسے ہننے کا جنون ہو گیا ہے.تو بے موقع خوشی جنون کی علامت ہے.وہ لڑکا جس نے اپنا سبق یاد نہیں کیا.وہ امتحان کے سر پر آنے سے خوش نہیں ہو گا بلکہ وہی لڑکا سکول جانے اور امتحان میں شامل ہونے سے خوش ہو گا جس نے سبق یاد کیا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جب میں سبق سناؤں گا تو استاد خوش ہو گا اور میری تعریف کرے گا لیکن جس نے سبق یاد نہیں کیا وہ اگر خوش ہو گا تو مجنون ہو گا.7
۹۴ پس وہ شخص جس نے اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی کی اس کے لئے تو آج خوشی ہے مگر جس نے احکام الہی کی پیروی نہیں کی اس کے لئے ماتم ہے کیونکہ یہ حساب کا دن ہے.لوگ جمع ہیں ہر ایک شخص کا لباس اور اس کی حالت بتا رہی ہے کہ وہ حساب دینے کے لئے حاضر ہے اور آج یوم الحساب ہے اور اس حالت نے حشر کا نظارہ پیدا کر دیا ہے.پس وہ شخص جس نے کچھ کام نہیں کیا اور احکام کو نہیں مانا اس کے لئے رونے کا دن ہے نہ کہ خوش ہونے کا اور جس نے ان احکام کو پورا کیا ہے میں تمہیں کہتا ہوں کہ اسی کی عید آج حقیقی عید ہے اور اس کی خوشی کچی خوشی ہے.یاد رکھو کہ عید میں روحانی ترقی کے ذرائع ہیں اور اس میں روحانی ترقی کے لئے مشق کرائی جاتی ہے.جو لوگ سارے سال میں تہجد نہیں پڑھ سکتے وہ کم از کم رمضان میں تہجد ضرور پڑھتے ہیں اور ان کا رمضان کے ایک مہینہ میں تہجد پڑھنا گواہی ہو جاتا ہے ان کے خلاف کہ تہجد پڑھنا مشکل کام نہیں.جو لوگ راتوں کو تہجد کے لئے اس لئے نہیں اٹھتے کہ وہ اٹھ نہیں سکتے اور جو لوگ سردی کی چودہ چودہ گھنٹے کی راتیں بستروں میں گزار دیتے ہیں اور اٹھ کر تجد نہیں پڑھتے خدا کے مجرم ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے عمل سے بتا دیا ہے کہ وہ گرمی کی آٹھ آٹھ گھنٹے کی راتوں میں جب مہینہ بھر اٹھتے رہے ہیں تو چودہ گھنٹے کی رات میں کیوں نہیں اٹھ سکتے.کیا وہ شخص جو آٹھ گھنٹے کی رات میں سحری کے لئے اٹھتا ہے اور ساتھ ہی تجد بھی پڑھتا ہے وہ کہہ سکتا ہے کہ میں پندرہ گھنٹہ کی رات میں نہیں اٹھ سکتا.اگر تم نہیں اٹھ سکتے تھے تو آٹھ گھنٹہ کی رات میں کیسے اٹھے.پس اس طرح تم اللہ تعالی کے حضور اقراری مجرم ہو گئے.اس لئے میں کہتا ہوں کہ رمضان اور عید سے سبق حاصل کرو.میں نے اسی لئے گل ہدایت کی تھی کہ پہلے کی طرح آج کی رات بھی اٹھو، تہجد پڑھو اور دعائیں کرو ، کیونکہ ہمارے بزرگوں کا طریق تھا کہ جب کوئی نیک کام کرتے تھے تو پھر دوبارہ شروع کر دیتے تھے تا سلسلہ نہ ٹوٹے.لوگ عموماً عید کی رات کو زیادہ سوتے ہیں حالانکہ اس رات میں زیادہ جاگنے کی ضرورت ہوتی ہے.حضرت خلیفہ اول کا قاعدہ تھا کہ آپ جب قرآن کریم ختم کرتے تو خاتمہ کے ساتھ پھر سورۃ فاتحہ پڑھتے تا کہ قرآن کریم کا سلسلہ پھر شروع ہو جائے.اسی طرح جب رمضان ختم ہو گیا اور شوال شروع ہوا تو میں نے چاہا کہ رمضان کے بعد شوال کے پہلے دن لوگوں کو کھڑا کر دوں تاکہ دوسرا باب شروع ہو جائے اور نیکی کا سلسلہ ٹوٹ نہ جائے.
۹۵ ہے.پس چونکہ آپ لوگ رمضان کے تمیں دن کے علاوہ ایک دن شوال کا بھی جاگے ہو اور یہ گل اکتیس دن ہو گئے.اب بقیہ گیارہ مہینوں میں رات کو اٹھنا تمہارے لئے کیا مشکل ہے سوائے بیماری کے جس میں نماز کے فرائض بھی جمع کرنے کی اجازت ہے اور کوئی مجبوری نہیں.پس چونکہ تہجد کا پڑھنا خدا کے قرب کے حصول کے لئے بہت بڑا مددگار رسول کریم میں اللہ نے ایک صحابی کے متعلق فرمایا کہ فلاں شخص بہت اچھا ہے بشرطیکہ رات کو اٹھے.کہ اس لئے اس سلسلہ کو جاری رکھو اور رمضان میں جو کام تم نے شروع کیا ہے اسے ختم نہ ہونے دو.ی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جب کہ دوسروں میں نماز پڑھنے والے بھی زیادہ نہیں ہم میں تہجد پڑھنے والوں کی معقول تعداد ہے.اور تجد خدا کے فضلوں میں سے ایک فضل ہے اور قرآن کریم میں اس کا ذکر ہے.اور اس کو اَشَدُّوا واقْوَمُ قِيلاً ف کیا گیا ہے.یعنی تجد نفس کی اصلاح کے لئے ایک بہترین آلہ ہے اور اس سے تمام اعمال درست ہوتے ہیں.اور انسان کے اندر یہ طبعی تقاضا ہے کہ خوبی کی طرف دوڑتا اور خوبصورت چیز کو پسند کرتا ہے.اگر تم جنگل میں جاؤ اور وہاں پھولوں کو دیکھو تو ان کو پسند کرو گے اور ان کی طرف دوڑو گے.پھر خدا نے تمہاری ہدایت کا جو باغ لگایا اور تمہاری روحانیت کی ترقی کے لئے اس میں پھول پھل لگائے پھر کیونکر ممکن ہے کہ تم اس کی طرف نہ دو ڑو.تو آپ لوگوں میں اکثر نے روزے رکھے اور اس مہینہ میں اکثر وقت عبادت میں گزارا.اس کا لطف اٹھایا اور خدا تعالیٰ جو تمام حسینوں سے زیادہ حسین اور تمام خوبصورتیوں کا خالق ہے اس کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کی.اب میں آپ کو ہدایت کرتا ہوں کہ آپ میں سے جن کو عادت نہیں تھی وہ بقیہ گیارہ مہینے کے لئے بھی تہجد پڑھنے کی نیت کر لیں.اگر کبھی نہ اٹھ سکیں تو کچھ حرج نہیں مگر نیت ضرور کریں پھر اللہ تعالیٰ ان کو توفیق دے گا.دوسرا سبق اس میں یہ ہے کہ بہت سے لوگ چھوٹی چھوٹی تکلیف سے ڈرتے ہیں ایسے لوگوں نے مہینہ بھر کے روزے رکھے اور تکلیف برداشت کی ہے.جس سے ثابت ہوا کہ وہ بھوک کی تکلیف برداشت کر سکتے ہیں اور شدید گرمی میں جب کہ دم بہ دم ہونٹ خشک ہوتے ہیں روزہ داروں نے پیاس کی تکلیف برداشت کی ہے اس سے ظاہر ہے کہ وہ پیاس کی تکلیف بھی برداشت کر سکتے ہیں اور جب کہ گرمی کی چھوٹی رات میں اٹھ سکتے ہیں تو سردی کی لمبی
۹۶ راتوں میں ضرور اٹھ سکتے ہیں.تم نے یہ سب کچھ کر کے دیکھ لیا اور ایک حد تک تکلیف کے برداشت کرنے کی عادت بھی تمہیں ہو گئی ہے اس سے سبق لینا چاہئے اور دینی خدمات کو زیادہ جوش کے ساتھ بجا لانا چاہئے اور تکالیف اور مشکلات سے نہیں ڈرنا چاہئے.دیکھو کسی کام کا ارادہ کرنے اور نہ کرنے میں کتنا فرق ہوتا ہے.چونکہ رمضان کے دنوں میں نیت کی گئی تھی کہ ہم بھوک پیاس کو برداشت کریں گے اس لئے پندرہ پندرہ گھنٹے کی بھوک پیاس برداشت کی گئی مگر دوسرے دنوں میں جب کہ یہ نیت نہیں ہوتی دو گھنٹے بھی برداشت نہیں کی جاسکتی.تو نیت اور ارادہ سے بڑے سے بڑا کام بھی ہو سکتا ہے.اسی طرح اب نیت اور ارادہ کو پختہ کر لو کہ خدا کے دین کی اشاعت کے لئے غفلت نہیں کریں گے اور دین کے معاملہ میں کسی تکلیف کو تکلیف نہیں خیال کریں گے جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا تھا.۰۶ قرآن کریم میں تو اس طرح ذکر نہیں ہے قصوں میں آتا ہے کہ ان کے لئے آگ جلائی گئی تھی جس میں ڈال دیئے گئے مگر وہ آگ ان کے لئے باغ ہو گئی.کہ لیکن دین کے لئے آگ میں پڑنا بہشت میں داخل ہونا ہوتا ہے اور دین کے لئے کوئی تکلیف تکلیف نہیں ہو سکتی.خدا کے لئے آگ میں پڑنا جنت میں داخل ہونا ہوتا ہے اور خدا کے لئے مرنا در حقیقت زندہ ہوتا ہے.رسول کریم میں تم سے صحابہ نے پوچھا کہ اگر دین کے لئے لڑتے ہوئے مر گئے تو کیا ہو گا فرمایا کہ جنت ملے گی.وہ احد کے موقع پر جب کہ بعض صحابہ سر ڈالے بیٹھے تھے اور انہی میں حضرت عمرہ بھی تھے تو ایک صحابی نے پوچھا جو کھجوریں کھا رہے تھے کہ آپ اس طرح کیوں بیٹھے ہیں حضرت عمر نے کہا کہ آنحضرت میں شہید ہو گئے ہیں ان صحابی نے کہا اگر رسول کریم میلی لی اور شہید ہو گئے ہیں تو ہم کیوں بیٹھے ہیں چلو ہم بھی چلیں یہ کہہ کر کھجوریں پھینک کر میدان جنگ میں چلے گئے اور اس قدر لڑے کہ شہید ہو گئے اور جب ان کی لاش ملی اور ان کے جسم کے زخم شمار کئے گئے تو ستر زخم تھے.10.پس جو لوگ دین کی خدمت کی نیت اور ارادہ کر لیتے ہیں ان کی موت ان کے لئے باغ ہو جاتی ہے.ایک عورت جو اپنے بچہ کی صحت اور اس کی تربیت کے خیال سے سردی کی رات کو اس لئے جاگتی ہے کہ بچہ کہیں پیشاب نہ کر دے اور اس کا بستر بھیگ جائے جس سے اس کو تکلیف ہو.یا اس کے جسم کو کپڑے سے ڈھانکتی ہے کہ سردی نہ لگ جائے.اگر کوئی شخص اس کو نصیحت کرے کہ بی بی کیوں تکلیف اٹھاتی ہے سو جا تو وہ اس خیر خواہی کی نصیحت پر بجائے
96 خوش ہونے کے ایسے شخص کو بد دعائیں دے گی کیونکہ وہ اس تکلیف کو تکلیف نہیں خیال کرے گی.یا ایک طالب علم جو تعلیم کے فوائد سے واقف ہے راتوں کو جاگتا ہے وہ اس تکلیف کو تکلیف نہیں خیال کرتا.اس طرح وہ تکلیف جو خدا کے دین کی خدمت کرنے پر ملے یا آگ میں پڑنا پڑے وہ تکلیف در حقیقت تکلیف نہیں.تم نے خدمت دین کے لئے مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر اقرار کیا ہے کہ تم دین کے مقابلہ میں دنیا کی پروا نہیں کرو گے اور تکالیف سے گھبرا کر دین کا پہلو نہیں چھوڑو گے.اللہ تم نے جو قصد اور ارادہ کیا ہے اگر تم اس کو پورا کرو تو یہ بڑی خوشی کی بات ہے اور اس سے بڑی نعمت اور کوئی نہیں ہو سکتی.وہ ارادہ یہ ہے کہ خدا کے حاصل کرنے کے لئے ہر ایک تکلیف کو خوشی سے برداشت کرو گے.کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ایک عورت اپنے بچے کی راحت کے لئے تو تکلیف اٹھا سکتی ہے اور ایک طالب علم ایک زبان سیکھنے کے لئے جو زیادہ سے زیادہ تمہیں چالیس سال کے لئے اس کو نفع دے سکتی ہے مشقت برداشت کر سکتا ہے لیکن تم خدا کے حاصل کرنے کے لئے کوئی بڑی سے بڑی تکلیف نہیں برداشت کر سکتے حالانکہ اس راہ میں جو تکلیف ہو وہ ہے ہی کیا اور کتنی کیونکہ اس کا نتیجہ ابدی راحت اور آرام ہے.پس یقیناً جان لو کہ خدا کے لئے تکلیف اٹھانا بڑی نعمت اور بڑا آرام ہے.خدا کے لئے بھوکا رہنا لذیذ ترین کھانا کھانے سے زیادہ اچھا ہے.جو خدا کے لئے نگا رکھا جائے خدا اس کو ننگا نہیں رکھے گا اور کسی عزیز کی محبت خدا کی محبت کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں.پس جو خدا کے لئے عزیزوں کو چھوڑتا ہے خدا تعالیٰ اس کو بہت سے اعلیٰ درجہ کے محبت کرنے والے دیتا ہے جو خدا کے لئے وطن چھوڑتا ہے خدا اس کو بہتر وطن دیتا ہے.حضرت ابو بکر کا ذکر ہے آپ کے ایک بیٹے اسلام لانے میں پیچھے رہ گئے تھے.انہوں نے ایک دفعہ کہا کہ میں ایک دفعہ جنگ کے موقع پر اگر چاہتا تو آپ کو مار ڈالتا ( کیونکہ وہ کافروں کی طرف سے جنگ کر رہے تھے اور حضرت ابو بکر مسلمان تھے مگر میں نے باپ سمجھ کر چھوڑ دیا.حضرت ابو بکر نے فرمایا.خدا کی قسم ! اگر میں تمہیں دیکھتا تو ضرور مار ڈالتا.ا جو شخص خدا کے لئے اپنے کھانے پینے ، عزیز و اقارب گھر بار اور وطن ، جائدادیں اور املاک چھوڑتا ہے خدا اس کی کسی ایک چیز کو بھی ضائع نہیں کرتا بلکہ جو کچھ وہ قربان کرتا ہے وہ ایک بیج کی مانند ہوتا ہے جسے خدا تعالیٰ کئی گنا بڑھا کر اس کو واپس دیتا ہے.سلا اور اسے بہت بہتر انعام عطا فرماتا ہے.صحابہ نے خدا کے لئے قربانیاں کیں مگر جو کچھ ان کو خدا کی طرف
۹۸ سے دیا گیا اس کے مقابلہ میں وہ قربانیاں بہت ادنی درجے کی تھیں.غور تو کرو.صحابہ نے کیا قربانی کی.انہوں نے اپنا وطن چھوڑا مگر خدا نے اس کے بدلے میں انہیں کیا دیا.بیشک صحابہ نے وطن چھوڑا تھا مگر غلامی کی حالت میں چھوڑا تھا.پھر انہیں حاصل ہو گیا اور حکمران کی حالت میں حاصل ہوا.حضرت ابو بکر و عمر و عثمان و علی ۱۴ نے غلامی کی حالت میں وطن چھوڑا تھا.مگر دوبارہ وہ مکہ میں بادشاہ ہونے کی حیثیت میں داخل ہوئے کیا ان کی قربانی ضائع گئی ؟ پھر انہوں نے جائدادیں اور مال چھوڑے لیکن خدا نے اس کے بدلے میں ان کو کس قدر مال دیئے.دس میں سو دو سو ہزار دو ہزار نہیں.حضرت عبد الرحمن بن عوف هله جب فوت ہوئے تو تین کروڑ روپیہ ان کے گھر سے نکلا.الہ جو آج کل بھی جب کہ دولت کی کثرت ہے.کسی کے پاس ہو تو اسے بڑا دولت مند سمجھا جاتا ہے.لیکن اُس وقت جب کہ اشیاء کی قیمت ستی اور روپے کی قیمت گراں تھی ، صحابہ کے اموال کی یہ حالت تھی.حضرت ابو ہریرہ کا واقعہ ہے کہ وہ ایک جگہ کے گورنر تھے ان کے پاس کسری کا درباری رومال تھا کھانسی جو آئی تو اس رومال میں تھوکا اور کہا.واہ واہ! ابو ہریرہ کسری کے رومال میں تھوکتا ہے.لوگوں نے پوچھا یہ کیا بات ہے.حضرت ابو ہریرہ نے کہا.میں رسول کریم ملی ایر کی باتیں سننے کے لئے مسجد نبوی میں پڑا رہتا تھا اور میں کسی وقت بھی مسجد سے دور جانا اس لئے پسند نہ کرتا تھا کہ شاید کسی وقت رسول کریم میں لیلی لیلی آئیں اور میں نہ ہوں اور کوئی بات سننے سے رہ جائے.اس حال میں بعض اوقات یہ حالت ہو جاتی کہ بھوک کے مارے میرے منہ سے بات نہیں نکل سکتی تھی.اور بھوک میں ہی سات سات وقت گذر جاتے.چونکہ صحابہ سوال نہیں کرتے تھے اس لئے حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں بھوک سے بیتاب ہو گیا اور اتنے میں حضرت عمرہ گذرے میں نے ان سے آیت صدقہ کے معنے پوچھے.انہوں نے بتائے اور چلے گئے.حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں.کیا میں اس آیت کے معنے نہیں جانتا تھا.میرا تو یہ مطلب تھا کہ وہ میری حالت دیکھیں اور کھانے کے لئے دیں.پھر حضرت ابو بکڑ آئے.میں نے ان سے بھی اسی آیت کے معنے پوچھے.وہ بڑے صدقہ کرنے والے تھے مگر انہوں نے بھی معنے بتائے اور چلے گئے لیکن کیا میں اس آیت کے معنے نہیں جانتا تھا.اتنے میں حضرت نبی کریم باہر تشریف لائے اور آپ نے میرا چہرہ دیکھ کر فرمایا.ابو ہریرہ تم بھوکے ہو.آپ" کے پاس دودھ کا پیالہ تھا.آپ نے فرمایا.دوسرے غرباء کو بھی جمع کر لو اور ہم سب سات
٩٩ تھے.آپ نے فرمایا.پہلے ان کو پلاؤ.میں ڈرا کہ یہ دودھ ختم نہ ہو جائے مگر ان سب نے پیا اور قسم ہے خدا کی پیالہ اسی طرح بھرا ہوا تھا.پھر مجھے دیا.میں نے خوب سیر ہو کر پیا.نے فرمایا اور پیو.میں نے پیا.آپ نے فرمایا اور پیو.میں نے اور پیا.اور یہاں تک میں نے پیا کہ مجھے معلوم ہوا کہ میرے ناخنوں سے دودھ نکل جائے گا.حملہ پھر بعض اوقات میری فاقہ سے یہ حالت ہوتی تھی کہ میں بے ہوش ہو کر گر جاتا تھا.لوگ سمجھتے تھے کہ مجھے مرگی ہو گئی ہے اور عرب میں قاعدہ تھا کہ مرگی والے کو جوتے مارتے تھے کہ اس سے ہوش آ جائے.لوگ یہ نہ سمجھتے تھے کہ بھوک کی وجہ سے میرا یہ حال ہوا ہے اس لئے مجھے مارتے تھے.یا تو میری یہ حالت تھی یا اب یہ حال ہے کہ کسرئی جو آدھی دنیا کا بادشاہ تھا اس کے خاص درباری رومال میں میں تھوکتا ہوں.۱۸ صحابہ نے جو قربانیاں کیں وہ بدلے کے لئے نہیں کی تھیں.نیکی کا کام خود اپنے اندر ایک لذت اور راحت رکھتا ہے.جو شخص ایک ڈوبتے ہوئے کو بچاتا ہے اس کو اتنی خوشی ہوتی ہے کہ ایک بادشاہ کو ایک ملک کے فتح کرنے پر نہیں ہو سکتی.کسی بے کس اور بے بس کی مدد سب سے بڑا کام ہے اور سب سے بڑی خوشی ہے اور سب سے زیادہ بے کس وہ شخص ہے جو خدا سے دور ہوتا ہے.ایک فاقہ کش شخص کی حالت ہزار درجہ بہتر ہے اُس بادشاہ سے جس کے خزانے روپیہ سے پُر ہیں اور ملکوں پر اس تعریف ہے مگر وہ اپنے رب سے دور ہے.اگر وہ خوش ہے تو اس کی خوشی اس نادان بچے کے مانند ہے جس کی ماں مرگئی ہو اور وہ خیال کرتا ہو کہ یہ مجھ سے روٹھ گئی ہے اور وہ اس کو منانے کے لئے اس کے منہ پر ہاتھ مارتا اور کہتا ہو کہ ماں تو مجھ سے بولتی کیوں نہیں کیا تو مجھ سے روٹھ گئی ہے.حالانکہ وہ نادان نہیں جانتا اس کی ماں کی خاموشی عارضی نہیں بلکہ وہ ہمیشہ کے لئے اس کو چھوڑ گئی ہے.پس کوئی شخص خواہ کتنے ہی خزانے اور جائدادیں رکھتا ہو اگر وہ خدا سے دور ہے تو ایک سنسان جنگل میں ہے اور سانپوں سے کھیلتا ہے جن کے زہر کا اسے علم نہیں.پس تم دنیا کی خوشی پر مت جاؤ.اس کی خوشیاں عارضی ہیں.دنیا داروں کے مال ان کے آرام اور ان کے علوم بیچ ہیں جب کہ ان کا خدا سے تعلق نہیں.مگر تم دولتمند ہو.تم بادشاہ ہو کیونکہ خدا نے تم سے دوستی کی ہے.دنیا کے امیر تمہارے سامنے کچھ نہیں.پس تم خدا داد دولت لیکر نکلو اور ان لوگوں کے پاس پہنچو جو دنیا کی نظروں میں امیر اور بادشاہ اور دولتمند ہیں مگر در حقیقت وہ محتاج اور سخت محتاج ہیں.
آج عید ہے.تم نے صدقہ و خیرات کیا ہے اور اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کیا ہے مگر دنیا کا بہت بڑا حصہ ہے جو ظاہر میں عید کرتا نظر آتا ہے لیکن دراصل ان کے گھروں میں ماتم ہے.وہ خدا سے جدا ہیں اور خدا ان سے جدا ہے.انہوں نے خدا کی رحمت کے دامن کو چھوڑ کر اپنے تیں ہلاک کر دیا اور ان کی حالت یہ ہے کہ گویا وہ سانپ یا شیر کے منہ میں چلے گئے.تمہارا ہاتھ خدا نے اپنے مامور کے ہاتھ میں دے دیا اس لئے آج تمہارے سوا کسی کی عید نہیں.تم سے زیادہ کس کی عید ہوگی جنہوں نے خدا کے مامور اور مرسل کا زمانہ پایا اور اس کو قبول کیا.تمہارا خوشیاں منانا جائز ہے کیونکہ تم نے اس مامور کا زمانہ پایا ہے جس کا انتظار کرتے کرتے اُمتیں گزر گئیں اور جس کی آمد کی بشارتیں نبیوں نے دیں.تم نے اس کو شناخت کیا اس لئے 1 عید تمہاری ہی عید ہے.مگر میں کہتا ہوں کہ تم ان غریبوں کی طرف دیکھو جو خدا سے بیگانہ ہیں اور انہوں نے خدا کے بندوں کو خدا بنا لیا.وہ بندہ جو خدا کے بندوں میں بھی بہت بڑا نہیں بلکہ کئی سے چھوٹا ہے جو موسیٰ علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے تو یقیناً چھوٹا ہے.پس ان کی کیا عید ہو گی جو بچے خدا کو چھوڑ کر بندوں کو خدا بنا بیٹھے ہیں.ان کے لئے تو یہ عید کا دن نہیں.مگر جن دنوں میں ہمارا جلسہ ہوتا ہے وہ ان کی عید کا دن ہوتا ہے.19.ان کے لئے کیا خوشی کی بات ہے.کیا وہ لوگ خوش ہو سکتے ہیں جن کے ایک انسان کو خدا بنانے پر خدا تعالیٰ اس قدر ناراض ہے کہ فرماتا ہے.ان کو وہ عذاب دوں گا جو پہلے کسی کو نہ دیا.۲۰ پس ان کی حالت قابل رحم ہے گو یورپ کے بڑے بڑے لوگ بظاہر خوش نظر آتے ہیں اور ان کی دنیاوی حیثیت بڑی ہے مگر وہ تمہاری نظروں میں مردہ ہیں.ان کی حالت پر رحم کرنا چاہئے اور ان کو خدا کی طرف لانا چاہئے.پھر مسلمان کہلانے والے جو آج عید منانے میں ہمارے ساتھ شامل ہیں ان کی حالت بھی قابل رحم ہے کیونکہ انہوں نے خدا کے اس مرسل کا انکار کیا ہے جس کو رسول کریم نے سلام کیا.۲۱.اور وہ جن کی قبروں پر سجدہ کرتے ہیں ان کی خواہش تھی کہ کاش ان کی غلامی ہمیں مل جائے.وہ بزرگ جن کو یہ بڑا ہی بزرگ خیال کرتے ہیں اپنی زندگی میں مسیح موعود علیہ السلام کا انتظار کیا کرتے تھے.۲۲ مگر جب وہ آیا تو ان لوگوں نے قدر نہ کی اور مسیح موعود سے تعلق نہ کیا.پھر ان کے لئے کیسی عید ہے جن کو خدا کی طرف سے دعوت کا پیغام آیا اور انہوں نے اس کو رد کر دیا وہ خدا کے حضور مجرم ہیں اور کہیں مجرموں کے لئے بھی عید
١٠١ ہوا کرتی ہے.مستیاں بہت ہو چکیں.اب وقت ہے تم میں سے چھوٹا بڑا بے پڑھا اور عالم سب خدمت دین کے لئے کھڑے ہو جائیں.تم میں جاہل کوئی نہیں بے پڑھے لکھے ہونا جہالت نہیں کیونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی پڑھے لکھے نہ تھے.۲۳ ، جاہل وہ ہے جس کو خدا کی معرفت نہ ہو.حضرت مسیح علیہ السلام نے خوب کہا ہے کہ انسان روٹی سے زندہ نہیں رہتا بلکہ خدا کے کلام سے زندہ رہتا ہے.۲۴.پس تمہیں عرفان حاصل ہے.تمہیں خدا کی طرف سے ایک دولت ملی ہے اور تمہیں ایک قوت اور ہتھیار دیا گیا ہے.اگر تم اس طاقت اور ہتھیار کو استعمال نہیں کرو گے تو وہ طاقت ضائع ہو جائے گی اور ہتھیار نا کارہ ہو جائے گا کیونکہ جس چیز کو حرکت نہ دی جائے وہ ناکارہ ہو جاتی ہے.اگر ہاتھ کو بے جنبش رکھا جائے تو وہ شل ہو جاتا ہے.پس تمہیں جو روحانی طاقت ملی ہے تم اس کو خرچ کرو.ورنہ اگر تم خدا کے رستہ میں خرچ نہیں کرو گے اور محتاجوں کو نہیں دو گے تو اس طاقت سے محروم ہو جاؤ گے.پس ہمت کرو اور بڑھتے چلے جاؤ اور دنیا کے کناروں تک جا کر خدا کے نام کو پھیلا دو.اس راستہ میں تمہیں جو بھی قربانی کرنی پڑے اس سے مت گھبراؤ اور نہ رُکو.اگر تمہیں اس راہ میں اپنی عزیز سے عزیز چیز قربان کرنی پڑے تو کرو اور صرف ایک مقصد لے کر کھڑے ہو جاؤ اور اس عرفان کے خزانے کو دنیا میں پہنچاؤ جس کے لئے احادیث میں آیا ہے کہ مسیح موعود خزانے تقسیم کرے گا مگر لوگ لیں گے نہیں.۲۵ مسیح موعود علیہ السلام نے تمہیں قرآن کے خزانے دیئے ہیں.ان کو تمام دنیا میں پہنچا دو اور پھیلا دو.اس وقت ضرورت ہے کہ تمام دنیا سے سلوک کرو.خواہ بادشاہ ہوں یا امیر وہ سب تمہارے محتاج ہیں.در حقیقت کوئی خوشی مکمل نہیں ہوتی جب تک بھائی بند بھی خوش نہ ہوں چونکہ تمام دنیا کے باشندے خواہ وہ عیسائی ہوں یا یہودی ، ہندو ہوں یا سکھ وہ سب ہمارے بھائی ہیں کیونکہ ہمارے دادا آدم کی اولاد ہیں اس لئے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہمیں تو خدا مل گیا ہو اور ہم ان سے غافل ہو جائیں اور ان کی پرواہ نہ کریں.میں نصیحت کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ توفیق دے کہ تم ان خزانوں کو جو تمہیں دیئے گئے ہیں دنیا میں پہنچاؤ اور وہ طاقتیں جو تمہیں دی گئی ہیں استعمال میں لاؤ.تم مت آرام لو جب تک کہ خدا کے دین کو دنیا کے کناروں تک نہ پہنچا دو کیونکہ تمہاری ذمہ داری ختم نہیں ہوتی جب تک کہ ہر ایک کو خدا کے حضور میں
۱۰۲ نہ کھڑا کر دو.مجھے ایک قصہ یاد کر کے ہمیشہ لذت حاصل ہوتی ہے.ایک دفعہ ترکوں اور یونانیوں میں جنگ ہوئی.یونانیوں کا ایک قلعہ تھا جو پہاڑی پر واقع تھا اور بہت مضبوط تھا.یورپ والوں کا خیال تھا کہ ترک اس کو جلدی فتح نہیں کر سکتے اور اتنے میں ہم بیچ بچاؤ کر کے صلح کرا دیں گے.گو ترکوں کے جرنیل عموماً خائن ہوتے رہے ہیں مگر بعض اعلیٰ درجہ کے بھی ہوتے تھے.چنانچہ ایک ترکی فوج کا کمانڈر جس کو اپنے وطن اور قوم کی عزت کا احساس تھا اس نے اپنے تھوڑے سے سپاہیوں کو جو اس کے ماتحت تھے جمع کیا اور ایک تقریر کی جس میں بُزدلی سے نفرت دلائی اور نیک نامی سے مرنے کی فضیلت بدنامی سے جینے پر ثابت کی اور پھر بڑے زور سے حملہ کیا.چونکہ انہوں نے نیچے سے اوپر چڑھنا تھا اور دشمن سر پر تھا اس لئے وہ آسانی سے ان کو نقصان پہنچا سکتا تھا اور ترک اس کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے.بہت دفعہ حملہ کیا گیا مگر اوپر نہ چڑھ سکے.آخر اس جرنیل کو ایک گولی لگی اور وہ گر پڑا.دشمنوں نے خوشی کا نعرہ لگایا کیونکہ انہوں نے سمجھا اب ترکوں کو شکست ہو جائے گی لیکن دراصل جرنیل کو گولی لگنا ترکوں کی شکست کی علامت نہ تھی بلکہ اس میں ان کی فتح تھی.جب جرنیل گر پڑا اور لوگ اسے میدان جنگ سے اٹھا کر علیحدہ جگہ میں لے جانے لگے تاکہ اس کی مرہم پٹی کریں تو اس نے اپنے ماتحتوں کو جن سے وہ بہت محبت کرتا تھا اور وہ بھی اسے اپنا محبوب سمجھتے تھے کہا کہ تمہیں خدا کی قسم ہے میرے جسم کو ہاتھ مت لگاؤ.اگر تمہیں مجھ سے محبت ہے اور میری اس آخری گھڑی میں مجھ اظہارِ الفت کرنا چاہتے ہو تو اس کا صرف یہی طریق ہے کہ میری قبر اس قلعہ میں بناؤ.اگر یہ نہیں کر سکتے تو مجھے نہیں پڑا رہنے دو کہ میری لاش کو کوے اور کتے کھا جائیں.جرنیل کے اس قول نے سپاہیوں کو دیوانہ بنا دیا اور انہوں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور اس زور کا حملہ کیا کہ قلعہ پر چڑھ کر قبضہ کر لیا اور اس جدوجہد میں ان کے ناخن تک اُڑ گئے اور یورپ حیران رہ گیا جب یہ خبر شائع ہوئی کہ یونان کا فلاں قلعہ ترکوں نے فتح کر لیا.اسی طرح ایک عورت کا قصہ انگریزی ریڈروں میں طلباء نے پڑھا ہو گا کہ ایک عورت کے بچے کو عقاب اٹھا کر ایک پہاڑ پر لے گیا.عورت بھی اس کے پیچھے گئی اور پہاڑ پر چڑھ کر عقاب کے گھونسلے تک پہنچ گئی اور اپنے بچے کو نکال لائی.جب اس نے اپنے بچے کو سینہ سے لگایا اور خوش ہو چکی تو اسے ہوش آیا اور پھر اس کے لئے پہاڑ سے اترنا مشکل ہو گیا.لوگوں
۱۰۳ نے بمشکل اسے اتارا.اس سے پوچھا کہ تو کیونکر چڑھ گئی تھی.اس نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ میں کیسے چڑھی تھی.میں تو صرف یہ دیکھ رہی تھی کہ میرے بچے کو عقاب ادھر لے گیا ہے اور اُدھر ہی خود جا رہی تھی.دیکھو ایک عورت نے اس بچے کی تلاش میں وہ کام کیا جو بڑے بڑے مرد بھی نہیں کر سکتے تھے.پس تم بتاؤ کہ تمہیں خدا کے دین سے اس سے زیادہ محبت نہیں ہونی چاہئے جو عورت کو اپنے بچے سے یا ترک سپاہیوں کو اس جرنیل سے تھی.کیا تم دیکھتے نہیں کہ رسول کریم میں لیا لیلی کا جسم مبارک اعتراضوں سے زخمی کیا گیا ہے.اسلام مُردہ کی مانند ہے اور زخموں سے چور ہے.خدا تعالیٰ کا جسم بھی مثالی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ چور چور ہے.کیا تم اس نظارے کو برداشت کر سکتے ہو کہ خدا اور رسول کریم میں لیا ہے اور اسلام کا جسم اعتراضوں کے زخموں سے چور ہو اور تم آرام سے بیٹھے رہو.کیا تمہیں خدا اسلام اور رسول کریم ملی دیوی کی محبت میں دیوانہ نہیں ہونا چاہئے؟ پس تم ایک دیوانگی پیدا کرو اور بد عقیدگی پر حملہ کرو اور دنیا کو اس نقطہ بلاؤ کہ دنیا کو خدا اور اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود علیہ ! قابل ستائش نظر آئیں.اللہ تعالیٰ تمام نقصوں سے پاک ہے مگر اس پر طرح طرح کے نقص لگائے جاتے ہیں.تم ان تقصوں کو دور کرو.اور اس احساس کے ساتھ کھڑے ہو کہ سب لوگوں کو ایک دین پر جمع کر دیں گے اور تمام مسکینوں اور محتاجوں کو اور تمام ڈوبتے ہوؤں کو بچائیں گے اور اپنی ہر ایک راحت اور آرام کو اس راہ میں قربان کر دیں گے اب میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے دوبارہ کھڑے ہو کر فرمایا :.السلام دعا میں یہ یاد رکھو میں نے پہلے بھی نصیحت کی ہے کہ دعا کی قبولیت کے لئے بعض شرائط ہیں اور کچھ سامان ہیں.ایک تو یہ ہے کہ خدا تعالی کی حمد کی جائے سورۃ فاتحہ پڑھی جائے ، نبی کریم مسلم پر درود پڑھا جائے.۳۶ میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ آپ دعا کرنے سے پہلے دل میں سورہ فاتحہ پڑھیں اور پھر درود پڑھیں.اس ذریعہ سے جو دعا کی جائے گی اللہ تعالیٰ اس کو قبول فرمائے گا.اور ساتھ ہی نیت اور ارادہ بھی کریں.اگر نیت اور ارادہ نہ ہو گا تو آپ لوگوں کی دعائیں زبانی ہوں گی جو عرش پر نہیں پہنچیں گی اور جن میں نیت اور ارادہ شامل ہو گا وہ خدا کے فضل کو کھینچ لائیں گی.
۱۰۴ اس کے بعد حضور نے دعا کروائی اور دعا کے بعد کھڑے ہو کر فرمایا :- ایک بات اور ہے.رمضان ختم ہو گیا.آنحضرت تیم ملی کا طریق تھا کہ شوال کے مہینہ ہے.میں عید کا دن گزرنے کے بعد چھ روزے رکھتے تھے.۲۷ اس طریق کا احیاء ہماری جماعت کا فرض ہے.ایک دفعہ حضرت صاحب نے اس کا اہتمام کیا تھا کہ تمام قادیان میں عید کے بعد چھ دن تک رمضان ہی کی طرح اہتمام تھا.آخر میں چونکہ حضرت صاحب کی عمر زیادہ ہو گئی تھی اور بیمار بھی رہتے تھے اس لئے دو تین سال بعد آپ نے روزے نہیں رکھے.جن لوگوں کو علم نہ ہو وہ سن لیں اور جو غفلت میں ہوں ہوشیار ہو جائیں کہ سوائے ان کے جو بیمار اور کمزور ہونے کی وجہ سے معذور ہیں چھ روزے رکھیں.اگر مسلسل نہ رکھ سکیں تو وقفہ ڈال کر بھی رکھ سکتے ہیں.مفردات امام راغب زیر لفظ "عود " البقرة : ۱۸۴ تا ۱۸۸ الفضل ۲۹ مئی و یکم جون ۱۹۲۲ء صحیح بخاری کتاب التهجد باب فضل قيام لليل المزمل : ل الانبياء : که تفسیر روح المعانی جلد ۵ صفحه ۳۷۳ مطبوعہ مصر ۱۳۰۱ھ البقرة : ۱۵۵ و صحیح بخاری کتاب المغازى باب غزوة أحد الفضل ۸ جون ۱۹۲۲ء) صحیح بخاری کتاب المغازى باب غزوة أحد وقول الله تعالى و اذ غذوت صحیح مسلم كتاب الامارة باب ثبوت الجنة لشهيد - لال اشتهار تحمیل تبلیغ ۱۲.جنوری ۱۸۸۹ء شرط پنجم كل السيرة الحلبية جلد ٢ صفحه ١٧٩ ١٣ البقرة : ۲۶۲۲۴۶ خلیفہ رسول اللہ الرابع علی ابن ابی طالب.بنو ہاشم.۰اق ھ / ۶۰۰.۵۴۰ / ۶۱ء
۱۰۵ خلافت ۶۶۵۶/۵۳۴ ه عبد الرحمن بن عوف.بنو زہرہ ۶۵۷۹ الاصابة جلد ۴ صفحه ١٠٠٠ وسير الصحابة جلد اول صفحه ۱۲۰ کل صحیح بخارى كتاب الرقاق كيف كان عيش النبي و اصحابه ۱۸ صحیح بخاری کتاب الاعتصام باب ما ذكر الله النبی الخ ۱۹ کرسمس ۲۵ دسمبر عیسائیوں کے نزدیک مسیح علیہ السلام کا یوم ولادت ہے جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ بھی ان دنوں میں ہی یعنی ۲۸٬۲۷۲۶ دسمبر کو ہر سال انعقاد پذیر ہوتا ہے.ل المائدة : ١١٦ ۲۱ در منشور جلد ۲ صفحه ۴۴۵ مسند احمد بن حنبل جز۶ صفحه ۳۰ ۲۲ ازالہ اوہام جلد ۲ صفحه ۴۸۱ تا ۴۸۸ روحانی خزائن جلد ۳ ٢٣ المنكبوت: ۴۹ ۲۴ متی باب ۴ آیت ۴ ۲۵ صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عيسى بن مريم سنن ابي داود كتاب الصلوة باب الدعاء ترمذی ابواب الصوم باب ماجاء فى صيام ستة ايام من شوال
1.4 (اله) فرموده ۱۸ مئی ۱۹۲۳ء بمقام باغ حضرت مسیح موعود علیہ السلام.قادیان) عید کا دن جو مسلمانوں میں خوشی کا دن شمار کیا جاتا ہے اس کے متعلق قابل غور بات یہ ہے کہ ہم اس دن کیوں خوش ہوتے ہیں.یہی دن بعینہ اپنے تمام حالات کے ساتھ جس طرح ہم پر آیا ہے اسی طرح ہندوؤں عیسائیوں اور سکھوں پر چڑھا ہے.مثلاً یہ نہیں کہ ہم پر یہ دن ٹھنڈا ہو ہندوؤں پر گرم ہو ، یا مثلاً ہمارے لئے سورج چڑھنے اور اُترنے میں فرق پڑ گیا ہو، دن رات چھوٹے بڑے ہو گئے ہوں، ان میں سے کوئی فرق نہیں.جس طرح ان کے لئے ہے اس کی طرح ہمارے لئے ہے.پس جب یہ دن سب کے لئے برابر ہے تو وجہ کیا ہے کہ ہم خوش ہیں اور وہ نہیں.ہمارا بچہ بچہ خوش ہے ، ہماری عورتیں خوش ہیں ، ہمارے مرد خوش ہیں لیکن اس کے مقابلہ میں ہندوؤں کے مرد اور بچے اس دن کو معمولی طور طریق پر گزارتے ہیں.یہی حال اس دن سکھوں کا ہے اور اس دن کا اثر ان لوگوں کے اعمال پر حرکات و سکنات پر کچھ بھی نہیں.ہمارے لئے آج کا دن جانیوالی اور آنیوالی کل کی نسبت اہم ہے.کل ہمارے بچوں اور عورتوں اور مردوں نے نئے لباس نہ پہنے تھے اور کل کے لئے بھی تیاری نہیں کریں گے مگر آج کرتے ہیں.پھر ہم دیکھتے ہیں ہندوؤں اور عیسائیوں کی جو عیدیں ہوتی ہیں ان کا ہم پر کوئی اثر نہیں ہوتا.ہندوؤں کی دیوالی ! ہوتی ہے اور ہولی کہ ہوتی ہے ان کا ہم پر کچھ اثر نہیں ہوتا.ہمارے ہاں وہی چراغ جلتے ہیں جو عام طور پر جلا کرتے ہیں اور اس کے مقابلہ میں وہ غریب ہندو جس کو روزانہ جلانے کے لئے بھی تیل نہ ملتا ہو دیوالی کے دن ضرور چراغ جلاتا ہے.غرض مسلمانوں کی عید ہندوؤں اور عیسائیوں پر موثر نہیں اور ہندوؤں کے تہوار مسلمانوں عیسائیوں کے لئے اثر انداز نہیں اور عیسائیوں کی عید مسلمانوں اور ہندوؤں کے لئے پر اثر نہیں.لیکن سوال یہ ہے کہ خوش ہونے کی وجہ کیا ہے.اگر ہم اس بات پر غور کریں تو اپنی زندگی کو اپنے تصرف کے نیچے لا سکتے ہیں.عید کا دن اپنے ظاہری سامانوں سے عید نہیں ہے
کپڑوں سے عید نہیں کیونکہ کپڑے ہندو عیسائی بھی بناتے ہیں.کھانوں سے عید نہیں کھانے دو سرے بھی کھا سکتے ہیں اور خود مسلمان بھی دوسرے دن پکا سکتے ہیں مگر اس دن چہل پہل ہوتی ہے.اگر کھانوں کپڑوں ہی سے عید ہو تو ہندوؤں ، عیسائیوں کے لئے بھی ہو سکتی ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے لئے ہے ان کے لئے نہیں.پس معلوم ہوا کہ عید کپڑوں اور کھانوں سے نہیں بلکہ کپڑے عید کے لئے ہیں اور کھانے عید کے لئے ہیں.عید کی وجہ سے لوگ ہنستے اور بولتے ہیں.جس جگہ لاش پڑی ہو وہاں اگر کوئی شخص ہے تو اس سے عید نہیں بن سکتی.اس دن عمدہ کپڑے میت والے کے گھر میں پہنو یا اچھے کھانے پکا کر بھیج دو تو ان کی عید نہیں ہو جائے گی کیونکہ یہ مسنون طریق ہے کہ جس دن کسی مسلمان کے گھر میں میت ہو جائے تو دوسرے مسلمان ان کے گھر میں کھانا بھیجتے ہیں.کیونکہ وہ صدمہ کی وجہ سے کھانا نہیں پکا سکتے.اگر ایسا نہ ہو تو بچے وغیرہ بھوکے رہیں.پس ایسی حالت میں اس گھر کے لئے عید نہیں.اگر کھانے پینے سے عید ہوتی تو سب کی ایک عید ہوتی مگر حقیقت یہ ہے کہ سب کی نہیں.ہم امراء کو دیکھتے ہیں کہ ان کے پاس عموماً اتنے زائد اور اچھے کپڑے ہوتے ہیں کہ وہ عید پر کوئی خاص اہتمام نہیں کرتے.پس معلوم ہوا کہ عید کے دن خوش ہونے کی وجہ کھانوں اور کپڑوں کے علاوہ کوئی اور چیز ہوتی ہے.اگر یہ کہا جائے کہ چونکہ رمضان کے بعد آتی ہے اس لئے ہم خوش ہوتے ہیں کہ روزے ختم ہو گئے اس لئے خوشی ہے.تو ہم کہتے ہیں کہ کس نے مجبور کیا تھا کہ روزے رکھتے، نہ رکھتے.خدا کی طرف سے جبر کے سامان نہیں کہ فرشتے پکڑ کر کسی سے کوئی کام کرائیں.پس عید اس لئے بھی نہیں کہ روزے ختم ہو گئے کیونکہ روزے رکھنے کے لئے کوئی جبر بھی نہ تھا پس اس لئے بھی خوشی نہیں کہ ایک بوجھ اُتر گیا.ہاں عید کے معنی یہ ہیں کہ ہمارا ایک کام اور فرض تھا ہم نے اس کو پورا کر دیا.لڑکا امتحان دینے جاتا ہے پاس ہو جاتا ہے خوش ہوتا ہے.شادی ہوتی ہے تو شادی کی غرض اولاد ہے.جب اولاد ہو تو انسان خوش ہو تا ہے کیونکہ عورت مرد کے ملنے کا نتیجہ اولاد ہے پس اگر خوشی ہے تو اس لئے کہ کام کر لیا.ورنہ بہت ہیں جنہوں نے کپڑے نہیں بدلے.کئی ہیں جنہوں نے کھانے نہیں کھائے.اگر عید ہے تو اس کی کہ ہم نے اپنے فرض کو ادا کر لیا اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے.اگر کہو کہ وہ بھی خوش ہیں جنہوں نے روزے نہیں رکھے.اس کا جواب یہ ہے کہ ہے کہ
انسان کے کئی قسم کے تعلقات ہوتے ہیں.تھوڑے سے تعلق سے بھی ایک رنگ پیدا ہو جاتا ہے اور کامل مشارکت سے ہم رنگ ہو جاتے ہیں.اگر ایک شخص کے ہاں اولاد ہو جو ہمارا دوست ہے تو ہم خوش ہوتے ہیں.دوستوں کی خوشی اپنی خوشی ہوتی ہے جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر ہم خوش ہوں تو خاموش آدمی بھی خوش ہو جاتا ہے پس ان کی چونکہ اسلام کے نام میں مشارکت ہے اس لئے وہ لوگ جو جان کر بھی روزہ نہیں رکھتے وہ اس رسمی مشارکت کے باعث خوشی میں خوش ہوتے ہیں.علاوہ ازیں وہ لوگ جو رسما ر کھتے ہیں وہ ان رسوم کے پابند ہیں جو ماں باپ کو کرتا دیکھتے ہیں.اس کی مثال اس بچے کی ہے جس کی ماں مرگئی اور وہ اس کو سویا ہوا سمجھ کر تھپڑ مارتا ہے اور کہتا ہے ماں بولتی کیوں نہیں حالانکہ وہ ماں خاموش نہیں ہوتی بلکہ مر گئی ہوتی ہے.اسی طرح وہ لوگ جو رسمی طور پر خوش ہوتے ہیں بے خبری سے خوش ہوتے ہیں ورنہ یہ موقع ان کے لئے ماتم کا ہوتا ہے کہ فیل ہو گئے.جس طرح فیل شدہ طالب علم کے لئے خوش ہونے کا مقام نہیں ہو تا جیسے مُردہ ماں کے بچے کے لئے بننے کا مقام نہیں ہو تا اسی طرح ان لوگوں کے لئے خوشی کی جگہ نہیں جو عید مناتے ہیں مگر انہوں نے اپنا مقصد پورا نہیں کیا ہوتا.پس عید انہی کی ہے جنہوں نے اپنے فرائض مفوضہ کو پورا کیا.چونکہ روزے بھی ایک فرض ہیں کہ اس لئے مسلمان خوش ہوتے ہیں کہ انہوں نے اس فرض کو ادا کر دیا.مگر میں پوچھتا ہوں کہ کیا ہمارے لئے ایک فرض صرف روزوں کا رکھنا ہی تھا.اگر نہیں تو پھر ہمیں ان کی طرف توجہ کرنی چاہئے کیونکہ ان فرائض کے ادا کرنے کے بعد جو عید میں ہیں وہ کبھی ختم ہی نہیں ہوتیں.یہ عید تو ایسی ہے کہ آج آئی اور آج ہی چلی جائے گی.وہ عید آکر نہ جائے گی غرباء اپنے کپڑے سنبھال کر رکھیں گے مگر اس عید کا لباس کبھی میلا اور پرانا نہ ہو گا.یہ عید عارضی ہے وہ عیدیں مستقل ہوں گی.ہاں یہ عید اُس عید کے لئے بطور نشان کے ہے.جیسے دکاندار نمونہ کے طور پر دکھاتا ہے.اس عید میں یقین نہیں ہو تاکہ ہم اپنے جس فرض کو ادا کر چکے ہیں وہ مقبول بھی ہوا ہے کہ نہیں لیکن ان فرائض کے ادا کرنے کے بعد جو عید آتی ہے وہ یقینی ہوتی ہے.اس کے بعد کوئی مصیبت نہیں کوئی نگا اور بھوکا رہنا نہیں بلکہ اگر وہ خدمتیں مقبول ہو جائیں تو ان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ.کوئی انسان نہیں جانتا کہ کون سے سامان راحت اس کے لئے مہیا کئے گئے ہیں اور تو اور محمد رسول اللہ مال بھی نہیں ا
۱۰۹ جانتے کہ ان کے لئے کون سے راحت کے سامان اللہ تعالیٰ نے مخفی رکھتے ہیں.نہ پھر جب انسان ان امور میں کامیاب ہوتا ہے تب اس کو حقیقی عید ملتی ہے.یہ عید تو ایسی ہے جیسے نمونہ اور چاشنی ہوتی ہے کہ انسان کو محسوس ہو جائے کہ خوشی کی گھڑیاں کیسی ہوتی ہیں.جب حقیقی عید ملتی ہے تو اس کے بعد انسان کے لئے نہ بھوک ہے نہ ننگا ہونا ہے نہ کمزوری ہے نہ کوئی اور خطرہ ہے.پس ہمیں اس عید کو سمجھنا چاہئے اور چاہئے کہ اس عید کے لئے تیار ہو جائیں.اگر اس کے لئے تیار نہیں تو بے سود ہے.فوجوں میں کرتب کرائے جاتے ہیں، گھوڑے پر چڑھنا سکھایا جاتا ہے ، گولی چلانی سکھائی جاتی ہے ان کی غرض یہ ہے کہ سپاہی میدان میں کام کر سکے اگر میدان میں کام نہ کیا جائے تو پھر کرتبوں وغیرہ کا سیکھنا بے سود ہے..ہمارا مقصد کیا ہے.اس کے متعلق قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے دو مقصد ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پہلا مقصد یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضاء اور قرب اور وصل ہمیں مل جائے.کہ اگر اس مقصد میں کامیاب ہو جائیں تو یہ بڑی کامیابی اور حقیقی عید ہے.انسان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے.اللہ چاہتا ہے کہ انسان چاروں طرف سے منقطع ہو کر میرے ہو جائیں، باقی باتوں پر لات مار دیں، خدا کے لئے مال و جان کو قربان کریں رشتہ داروں کو چھوڑ دیں ، خیالات و وطن اولاد، امیدوں اور امنگوں کو قربان کریں تو حقیقی عید دیکھیں گے اور یہی راز ہے جو اس آیت میں بیان کیا گیا ہے.فَادْخُلِي فِي عِبَادِی وَادْخُلِي جَنَّتِي - خدا کے بندوں میں داخل ہو جاؤ اور خدا کی جنت میں داخل ہو جاؤ.دوسرا مقصد بنی نوع پر شفقت ہے.وہ اس کے کئی حصے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہم ان تک وہ باتیں پہنچا ئیں جن کے بغیر ان کی حالت موت سے بد تر ہے.ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کو خدا تک پہنچائیں اور صحیح راستہ پر لے آئیں اس سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں.اگر ہم بھوکے کو روٹی دیتے ہیں تو اس کے ایک وقت کی تکلیف دور ہو جاتی ہے لیکن اگر ہدایت دیں تو وہ دونوں جہان میں کام آئے گی.اگر ننگے کو کپڑا دیں تو کچھ دیر کے لئے اس کا کچھ ستر ڈھک جائے گا.اگر تقویٰ کا لباس دیں اور خدا کے دین میں داخل کریں تو وہ ہمیشہ کے لئے نگا ہونے سے محفوظ ہو جائے گا.پس خدا کے بندوں پر بڑی شفقت یہ ہے کہ ہم ان کو خدا تک پہنچائیں یہ شفقت کا بڑا مقام ہے.اگر ہم خدا کی مخلوق کا تعلق خدا سے کر دیں تو حقیقی عید ہے.اس کے بعد کوئی اور دن نہیں.ہمیں چاہئے کہ اس کچی عید کے لئے اور ان مقاصد کے لئے کام کریں.8
اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کی فکر کریں اور دنیا کو ہدایت دینے کے لئے جد وجہد کریں.جب تک ساری دنیا ہدایت نہ پالے سانس نہ لیں.کوئی کہے مجھے کیا فائدہ ہے کہ دنیا ہدایت پائے.تو میں کہتا ہوں اگر کوئی فائدہ نہ ہو تو یہ کیا کم ہے کہ ہم تمام دنیا کو ہدایت پر جمع کئے بغیر عید کو ہی نہیں دیکھ سکتے.جب تک لوگوں کے دُکھوں کو دور نہ کریں اللہ تعالی عید نہیں دیا کرتا.اگر ایک بچہ مر رہا ہو اور اس کے بچنے کی امید ہو.لوگ خوش نہیں ہوتے.اسی طرح جب تک امید ہے عید نہیں منا سکتے.ہاں اگر ان سے بالکل مایوسی ہو جائے تو پھر لوگ سمجھ جائیں گے ان کے قلوب پر مہر لگ جائے تو گویا وہ مر جاتے ہیں تو مرنے والوں کے بعد بھی عید ہو سکتی ہے.اگر ہم عید چاہتے ہیں تو دنیا میں ہدایت پھیلائیں ، خدا سے جو دور ہیں ان کو قریب کریں، کچے راستہ پر ئیں ، ورنہ ہمارے لئے عید نہیں.کچی عید خدا کے قرب میں ہے اور خدا کا قرب خدا کے بندوں کو اس کے قریب کرنے سے ملتا ہے.اس مقصد میں کامیابی کے بعد جو سورج چڑھتا.وہ غروب نہیں ہو تا.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے.ہمارے مقاصد پورے کرے.ہم حقیقی عید کو دیکھیں جس کے لئے یہ عید میں بطور نشان مقرر ہوئی ہیں.محمد و مجھے ہے الفضل ۲۸ - مئی ۱۹۲۳ء) ہندوؤں کا ایک مشہور تہوار جو کا تک کی پندرہ تاریخ یعنی ۳۱.اکتوبر کو منایا جاتا ہے اس موقع پر لچھمی دیوی یعنی دولت کی دیوی کی پوجا کی جاتی ہے اور اس موقع پر چراغاں کیا جاتا ہے.(فرہنگ آصفیہ جلد ۲ صفحہ ۲۷۸ زیر لفظ دوالی.مطبوعہ رفاہ عام پریس لاہور) ہندوؤں کا ایک مشہور تہوار جو ہر سال پھاگن (فروری.مارچ کے مہینے میں منایا جاتا ہے.لکڑیوں یا اپلوں کے ڈھیروں میں آگ لگاتے اور ایک دوسرے پر رنگ پھینکتے ہیں اور خوب راگ رنگ مناتے ہیں.(فرہنگ آصفیہ جلد ۴ صفحه ۷۵۶ زیر لفظ ہوئی.مطبوعہ رفاہ عام پریس لاہور) جامع ترمذى ابواب الجنائز باب ماجاء في الطعام يضع لاهل الميت البقرة : ۱۸۴ ه السجدة : ١٨ ل صحیح بخاری کتاب التفسير سورة التنزيل السجدة فلا تعلم نفس ما أخفى
که کتاب البریه از روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۹۴ - ۲۹۳ حاشیه الفجر : ٣١٣٠ ملفوظات جلد ۸ صفحه ۲۷۷
١١٢ (۱۳) (فرمود ۲۰.مئی ۱۹۲۴ء بمقام باغ حضرت مسیح موعود علیہ السلام.قادیان) آج کا دن اپنے اندر ایک خصوصیت رکھتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اسلام نے فطرت انسانی کو مد نظر رکھتے ہوئے کیونکہ وہ چاہتی ہے کہ انسان اپنے ہم جنسوں کے ساتھ مل کر کوئی خوشی کا دن منائے ، عید کا دن مقرر کیا ہے لے اور اس فطرتی خوشی کے اظہار کے لئے باقی اقوام نے بھی اپنی اپنی خوشی کے منانے کے لئے کوئی نہ کوئی دن مقرر کیا ہوا ہے لیکن ان کے دن ایک تو مشروع نہیں دوسرے ان میں ایسا اجتماع کا رنگ نہیں جیسا کہ اسلام نے عید کے دن میں اجتماع کا رنگ رکھا ہے.اسی طرح اسلامی عید ان اقوام کی خوشیوں کے دنوں کی نسبت ایک اور خصوصیت اپنے اندر رکھتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس میں خطبہ اور نماز کی زیادتی ہے.عید کی نماز کے بعد آنحضرت مالی و خطبہ پڑھا کرتے تھے.، اور اس کی غرض یہ ہوتی تھی کہ جہاں لوگ عید کے دن کی خوشی منانے کے لئے جمع ہوئے ہیں وہاں خدا کی باتیں سننے کے لئے بھی جمع ہوں.تو دوسری قوموں کی عیدیں صرف کھانے پینے کی اور لہو و لعب کی ہوتی ہیں لیکن ہماری عیدوں میں دوسرے دنوں سے بھی زیادہ ذکر الہی کا حصہ ہے یہ بات کسی اور مذہب کی عید میں نہیں پائی جاتی.ان عیدوں کی پہلے سے تیاری اور انتظار شروع ہو جاتی ہے.خاص کر ۲۹ تاریخ کا روزہ لوگوں میں بہت بے قراری پیدا کر دیتا ہے اور یہاں تک بے قراری ہوتی ہے کہ وہ ضعیف البصر لوگ جو کہ نزدیک کی چیز کو بھی اچھی طرح نہیں دیکھ سکتے ۲۹ تاریخ کو اپنی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاند کو دیکھتے ہیں.ان کے اندر ایک ولولہ اور شوق پیدا ہو جاتا ہے کہ کسی طرح وہ ۲۹ تاریخ کو ہی چاند دیکھ لیں.پھر وہ لوگ جو عینکوں کے بغیر دیکھ نہیں سکتے وہ بھی کوشش کرتے ہیں کہ ان کو ۲۹ کا ہی چاند نظر آ جائے اور وہ عید منالیں.اسی طرح وہ بچے جن کی تمام خوشیاں عید منانے میں ہوتی ہیں وہ رمضان کی پہلی تاریخ سے ہی پوچھنے لگ جاتے ہیں کہ اماں عید کب ہوگی اس کے لئے بے قراری ظاہر کرتے ہیں اور بڑی بے صبری سے ایک ایک روزے کو گزارتے ہیں.غرضیکہ عید کے لئے بچے بھی بے قراری سے انتظار کرتے ہیں اور بڑے بھی ۲۹
١١٣ تاریخ کو بہت بے قرار ہوتے ہیں کہ کسی طرح عید ۲۹ روزوں کے بعد ہی ہو جائے لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ ۲۹ گذر جاتی ہے اور ۳۰ تاریخ آتی ہے اور ۳۰ تاریخ کے بعد ممکن نہیں کہ عید نہ ہو.لیکن باوجود اس کے کہ تمیں روزوں کے بعد ہونی لازمی ہے خواہ چاند نظر آئے یا نہ آئے پھر بھی لوگ شوق سے چھتوں پر چڑھ کر عید کے چاند کو دیکھتے ہیں.اگر یہ کہہ دیا جائے کہ وہ چاند کو اس لئے دیکھتے ہیں کہ پہلی رات کا چاند ہوتا ہے.تو میں کہتا ہوں کیوں نہیں وہ اور مہینوں میں پہلی تاریخ کے چاند کو دیکھتے حالانکہ اور مہینوں میں بھی تو چاند نکلتا ہے.پھر وہ کیا چیز ہے جو بچوں اور بوڑھوں کو عید کا چاند دیکھنے کا مشتاق بناتی ہے.میں کہتا ہوں وہ وہی عید کا شوق اور ولولہ ہے جو عید کی طرف آدمی کو کھینچتا ہے اور اسی طرح کھینچتا ہے جس طرح محبوب کو ملنے کا شوق استقبال کے لئے لے جاتا ہے اور انسان راستہ میں ملتا ہے.پس اس محبوب کے استقبال کی طرح لوگ پہلے ہی سے عید کے چاند کو دیکھنا چاہتے ہیں.اس کے لئے بے قرار ہوتے ہیں اور عید کے لئے استقبالی ولولہ اور جوش ان میں پیدا ہو جاتا ہے جس سے وہ عید کے منتظر اور اس کے لئے بے قرار ہوتے ہیں.یہ رمضان جو گذرا ہے اس میں ۳۰ روزے پورے ہو گئے اور ہمیں یقین تھا کہ کل ضرور عید ہوگی باوجود اس یقین کے پھر بڑوں اور چھوٹوں نے بڑے شوق سے کل چاند دیکھا اور وہ ولولہ اور جوش اور شوق جو استقبال محبوب کے لئے پیدا ہوتا ہے ان میں عید کے لئے پیدا ہوا.جب لوگ چھتوں پر چاند کو دیکھنے کے لئے چڑھے تو میں بھی چھت پر چڑھا اور دور بین سے میں نے چاند کو دیکھنا چاہا کیونکہ میری نظر کمزور ہے لیکن میں نہ دیکھ سکا اور بیٹھ گیا.اچانک میرے کان میں ایک بچہ کی جو میرا ہی بچہ ہے.آواز آئی جو یہ تھی.کہ چاند دیکھ لیا.چاند دیکھ لیا.میں نے بھی چاند دیکھ لیا.اس آواز نے میرے اندر ایک لہر پیدا کر دی اور ایسی کیفیت میرے اندر پیدا ہو گئی جو اب تک ہے.اور اب بھی متواتر وہ مضمون میرے دماغ میں آتا ہے اور یہی آواز کان میں آتی ہے کہ ”چاند دیکھ لیا.چاند دیکھ لیا.میں نے بھی چاند دیکھ لیا." کیسی خوشی ہوگی اس وقت اس بچہ کو جب اس نے عید کا چاند دیکھا اور پھر اس نے بچہ ہونے کی حیثیت میں چاند کو دیکھا اور اس وقت دیکھا جب کہ اس چاند کو کئی تیز نظر والے بڑے بھی نہ دیکھ سکتے تھے.اس بچہ کی آواز کے اندر دو جذبات تھے جو ظاہر ہوتے تھے.اس نے کہا.”میں نے بھی چاند دیکھ لیا.اس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ جیسے اور لوگوں نے عید کا چاند دیکھ لیا ہے ویسے ہی اس نے بھی دیکھ لیا ہے اور دوسرے یہ کہ ” میں نے بھی دیکھ
یعنی پہلی رات کا چاند میں نے بھی دیکھ لیا ہے.باوجود اس کے کہ میری نظر کمزور تھی میں نے اس چاند کو دیکھ لیا جس کو تیز نظر والے بہت کم دیکھ سکتے.اس فقرہ نے میرے اندر ایک اور مضمون کی لہر پیدا کر دی اور میں نے کہا کہ کیسا شوق اس بچے کو اس بات کا ہے کہ کل عید ہوگی.پھر میں نے خیال کیا.جب رمضان کا چاند نکلا تھا اس وقت نہ چھتیں چاند دیکھنے والوں سے اس قدر بھری ہوئی تھیں نہ بچے اس قدر خوش تھے.اس وقت لوگوں میں ایسے جوش کی ہر تھی بلکہ سنجیدگی تھی، عزم تھا اور ارادہ تھا کہ رمضان میں عبادت میں ترقی کریں گے، روزے رکھیں گے اور خدا کا قرب حاصل کریں گے.اور بیویاں یہ خیال کرتی تھیں کہ کل خاوندوں کے لئے سحری کا انتظام کرنا ہو گا اور بچے اس خیال میں تھے کہ رمضان کے گذرنے کے بعد عید آئے گی اور اس دلچسپیوں سے خالی مہینے کے بعد ایک دن ان کی دلچسپیوں کا آئے گا.جب میں ان خیالات تک پہنچا تو میری توجہ اس مضمون کی طرف ہوئی کہ عید کیا ہے اور کیوں ہے اور کس غرض کے لئے ہے.اس وقت مجھے القاء کے طور پر بتایا گیا کہ رمضان کا مہینہ نبیوں کا زمانہ ہے کہ اور اس کے چاند کو وہی لوگ دیکھتے ہیں جو عقل و خرد رکھتے ہیں اور مصائب اور تکلیفوں کے زمانہ میں نبی کا ساتھ دیتے ہیں.لیکن بچے والی عقل رکھنے والے لوگ اس چاند کی پروا نہیں کرتے اور اس لئے نہیں دیکھتے کہ ہم کو روزے رکھنے پڑیں گے یعنی نبیوں کے ساتھ ہو کر مشقت اٹھانی پڑے گی.ہاں عید جو نبی کی ترقی کا زمانہ ہوتی ہے اس کا انتظار کرتے ہیں اور اس کے چاند کو دیکھنے کے مشتاق ہوتے ہیں.غرضیکہ رمضان نبیوں کا زمانہ ہوتا ہے اور اس کی پہلی رات کا چاند وہ لوگ جو عقلمند اور جن میں حق کے قبول کرنے کا مادہ ہوتا ہے دیکھتے ہیں.اس بچے کے کہنے کا یہی مطلب تھا کہ میں نے بھی چاند دیکھ لیا جس کو بہت کم لوگ بوجہ اس کے نہایت باریک ہونے کے دیکھتے ہیں.اسی طرح نبیوں کے ابتدائی ایام میں وہ جن میں عقل و خرد ہوتی ہے اور حق کے قبول کرنے کا مادہ ہوتا ہے وہی لوگ اس چاند کو دیکھتے ہیں اور اس وقت دیکھتے ہیں جب کہ مخالفت کا ایک سیلاب عظیم چل رہا ہوتا ہے اور ان کو ہر طرح سے دکھ دیا جاتا ہے، بھوکا رکھا جاتا ہے ، فاقے پر فاقے اس کے صحابہ کو دیئے جاتے ہیں ، ملازمتوں سے الگ کیا جاتا ہے ، ان کی عورتوں اور بچوں پر مظالم توڑے جاتے ہیں وہ دکھ سہتے ہیں لیکن شکایت نہیں کرتے اور صبر سے انتظار کرتے ہیں
۱۱۵ یہاں تک کہ عید کا دن یعنی ترقی کا زمانہ آجاتا ہے اور وہ لوگ جو مخالفت کرتے ہیں اور نبیوں کے دکھ کے زمانہ میں اس کا ساتھ نہیں دیتے وہ بھی بچوں کی طرح آکر ان کی عید میں شامل ہو جاتے ہیں اور اپنا حق طلب کرتے ہیں.غرض جس طرح رمضان میں انسان فاقے رہتا ہے.بعینہ اسی طرح نبی کے متبع لوگوں کو شروع زمانے میں بھوکا رہنا پڑتا ہے.اور جس طرح رمضان میں بیوی سے صحبت کرنا ترک کی جاتی ہے اور اس کو چھوڑا جاتا ہے بعینہ اسی طرح بیوی اور بچوں کو نبی کے متبع لوگوں سے نبی کے شروع کے زمانہ میں چھڑایا جاتا ہے اور ایک نبی کو مانے والا نبی کی خاطر اپنے سب عزیز سے عزیز رشتہ داروں کو چھوڑ کر نبی کے ساتھ ہو جاتا ہے کیونکہ ایسی حالت میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے لَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا - تک ظالم لوگوں کی صحبت میں نہ رہو.اور بعض دفعہ زبر دستی ان سے جدا کیا جاتا ہے اور دوسرے رشتہ دار اس کی مخالفت کرتے ہیں اور اس پر جبر کرتے ہیں اور اس کو نکال دیتے ہیں.پھر جس طرح رمضان میں لوگ صدقے دیتے ہیں اسی طرح نبی کے متبع لوگوں کو چندے دینے اور پھر ان کو رمضان میں عبادتیں کرنی پڑتی ہیں.که بعینہ اسی طرح جس طرح نبی کے قبع لوگ اس کی بعثت کے شروع زمانے میں ترقی کے لئے عبادتیں کرتے ہیں اور دعائیں کرتے ہیں کہ ان کی زیادتی ہو.پس انبیاء کے ماننے والے مال کی بھی قربانی کرتے ہیں، عبادتیں بھی کرتے ہیں اور ان کے ماننے کی وجہ سے رشتہ داروں کو بھی چھوڑتے ہیں وہ ان کی پروا نہیں کرتے اور یہ وہی تیز نظر والے لوگ ہوتے ہیں جو ۲۹ تاریخ کے چاند کو دیکھتے ہیں اور ان مصائب کو قبول کرتے ہیں جو ان کو انبیاء کے ماننے سے اٹھانے پڑتے ہیں اور تکالیف پر صبر کرتے ہیں مگر نبیوں کا ساتھ نہیں چھوڑتے.لیکن وہ نادان جو بچے کی طرح ہیں عید کا انتظار کرتے ہیں اور نبیوں کے ساتھ مصائب اٹھانے میں شریک نہیں ہوتے.وہ کہتے ہیں کہ کیوں ان کے ساتھ ظاہری شان و شوکت نہیں.کیوں نہیں ان کی صداقت کی تمام دنیا فورا قائل ہو جاتی ہے اور ان کے جھنڈے کے نیچے آجاتی ہے.پس وہ ایسی باتوں کا مطالبہ کرتے ہیں یہاں تک کہ چاند چڑھتا ہے اور زمانہ ترقی کرتا ہے تب اقرار کرتے ہیں کہ یہ سچا نبی تھا.نبی اپنی زندگی میں ایک بیج ہو جاتا ہے جو آہستہ آہستہ نشو و نما پاتا ہے ، اور یہ بیج لیلۃ القدر میں بویا جاتا ہے.اور جو جو کمالات اس کی قوم نے حاصل کرنے ہوتے ہیں ان کا
114 فیصلہ اسی لیلۃ القدر میں ہوتا ہے جس میں وہ نبی بیج بو کر جاتا ہے اور اسی میں وہ فوت ہو جاتا ہے.پھر ایک وقفہ پڑ جاتا ہے جس طرح لیلۃ القدر اور عید کے چاند میں ہوتا ہے.اس وقفہ میں فورا ترقی نہیں ہو جاتی بلکہ نبی کی قوم کو اس وقت جدوجہد کرنی پڑتی ہے اور اسی طرح مصائب کو برداشت کرنا پڑتا ہے جس طرح وہ نبی کے شروع کے زمانے میں برداشت کرتے تھے.ان مصائب کو برداشت کرنے کے بعد عید کا چاند طلوع ہوتا ہے یعنی ان کی ترقیات کا زمانہ آتا ہے مگر اس ترقیات کے زمانہ کی ان لوگوں کو خوشی نہیں ہوتی جنہوں نے رمضان کی لذت اور سرور کو حاصل کیا ہوتا ہے یعنی ان مصائب کو برداشت کیا ہوتا ہے جو نبی کے شروع زمانہ میں ان کو اٹھانے پڑتے ہیں ان کے لئے عید کوئی خوشی لانے والی نہیں ہوتی کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ ہمیشہ رمضان ہی رہے.وہ مصائب کا زمانہ ان کے لئے خوش کن نظر آتا ہے اس عید کی نسبت جو اپنے اندر ظاہری خوشی رکھتی ہے.چنانچہ حدیث میں ہے کہ سورۃ النصر جب نازل ہوئی تو تمام صحابہ خوش ہو گئے کہ فتوحات کا زمانہ آگیا لیکن حضرت ابو بکر رو پڑے.تب صحابہ نے کہا کہ تم کو کیا ہو گیا ہے کہ تم روتے ہو حالانکہ فتوحات کے زمانے کے آنے کی خوشی کرنی چاہئے.تب آپ نے کہا کہ میں اس لئے روتا ہوں کہ رسول اللہ لیا اور اب فوت ہو جائیں گے.ملے پس جس طرح اس ترقی کے زمانہ کی خوشخبری کو سن کر حضرت ابو بکر رو پڑے تھے میں کہتا ہوں کہ میرے لئے بھی وہ ترقی کا زمانہ کوئی خوشی کا زمانہ نہ ہو گا.اوروں کے لئے وہ خوشی کا زمانہ ہو گا لیکن میں یہی چاہوں گا کہ میرے لئے رمضان ہی ہو اور مجھے ان مصائب میں جو نبی کے وقت اٹھانی پڑیں زیادہ مزا آئے گا بہ نسبت اس عید کے جس میں تمہیں خوشی ہوگی.پھر میں کہتا ہوں وہ لیلۃ القدر وہ ہے کہ جس میں تمام معاملات شرعیہ کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے.اللہ اور جب مِنْ كُلِّ آخرِ کا فیصلہ ہو جاتا ہے تو نبی کی وفات کا زمانہ آجاتا ہے اور اس کی وفات ہوتی ہے.پھر ایک وقفہ پڑ جاتا ہے جس میں اس قوم کو جدوجہد کرنی پڑتی ہے اور اس کے بعد عید کا چاند نکلتا ہے اور ترقی کا زمانہ آتا ہے اور ترقی ہوتی ہے.اس وقت وہ لوگ جو مَتى نَصْرُ اللهِ لا کہتے تھے.پکار اٹھتے ہیں کہ یہ نبی سچا تھا اور بچوں کی طرح اس عید میں آکر شامل ہو جاتے ہیں لیکن مصائب کے زمانہ میں وہی لوگ نبی کے ساتھ شامل ہوتے ہیں جو بالغ اور عاقل اور صاحب فراست ہوتے ہیں.بچوں کی سی عقل رکھنے والے رمضان کا چاند نہیں دیکھتے اور جس طرح بچے روزے نہیں رکھتے لیکن عید میں شامل ہو جاتے ہیں اسی طرح کم عقل
114 لوگ بھی نبی کے ساتھ اس کی ترقی کے زمانے میں آکر مل جاتے ہیں اور بچوں کی طرح خوشی مناتے ہیں.لیکن ان کا یہ خوشی منانا فضول ہوتا ہے کیونکہ وہ جد وجہد اور لذت و سرور جو بھوکا رہنے میں حاصل ہوتی ہے انہوں نے حاصل نہیں کی ہوتی اور یونسی عید میں آکر شامل ہو میں کہتا ہوں کہ اگر عید نہ آتی تو نبی کے بچے متبع لوگ یہی چاہتے کہ ہمیشہ رمضان رہے اور ہمیشہ ہی روزے رکھتے رہیں لیکن خدا کہتا ہے کہ عید آئے گی اور میں عید کو لاؤں گا اور جو روزہ رکھے گا وہ ضرور عید کرے گا.پس عید نبیوں کے ظاہری فتوحات اور ان کی ترقیوں کا زمانہ ہے.لیکن اس وقت نبی کا وجود ان میں نہیں ہوتا.اس وقت مخلص لوگ اور بچے متبع اس کا زمانہ یاد کر کے آنسو بہاتے ہیں.چنانچہ ایک شاعر کہتا ہے.كُنتَ السَّوَادَ فَعَمِيَ عَلَى مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَعَلَيْكَ لنَاظِرِي الناظر فَلْيَمُتْ كُنتُ أحَاذِرُ ا یعنی اے محمد رسول اللہ میں لی لی تو میری آنکھ کی پتلی تھا تو مر گیا تو میری آنکھ اندھی ہو گئی.اب مجھے کسی کے مرنے کی پروا نہیں.میں تو تیرے مرنے سے ہی ڈرتا تھا.میں تو تجھے ہی دیکھنا چاہتا تھا.یعنی میری آنکھیں رمضان کا چاند ہی دیکھنے کی مشتاق تھیں اور وہ تو تھا.اب میری آنکھیں عید کے چاند کو دیکھنا نہیں چاہتیں.اسی طرح روایت یہ ہے کہ رسول کریم لا لا لا لا کے وصال کے بعد حضرت عائشہ کے سامنے جب کوئی اچھی چیز لائی جاتی.تو انہیں افسوس ہو تا.چنانچہ ایک دفعہ چھنے ہوئے آٹے کی روٹی لائی گئی.آپ جب اسے کھانے بیٹھیں تو آنسو جاری ہو گئے.کسی نے پوچھا کہ آپ روتی کیوں ہیں.فرمایا.رسول اللہ میں لے کے وقت ہمارے پاس چکی نہ ہوتی تھی ہم آٹا پینے کی بجائے دانوں کو کوٹ کر روٹی پکاتے تھے.لیکن اس میں جو مزا تھا اس چھنے ہوئے آٹے کی روٹی میں نہیں.۱۴ پس مومن تو عید کرتا ہے مگر محض اس لئے کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئی پوری ہوئی لیکن حقیقی لذت اور سرور اس کو رمضان میں ہی حاصل ہو تا ہے.اس زمانہ میں بھی رمضان کا چاند نکلا.ھلہ اس وقت بہت کم لوگوں نے دیکھا حتی کہ وہ
HA بڑھتا ہوا چودھویں کا چاند ہو گیا.اس وقت بہت لوگوں نے دیکھا لیکن اس وقت بھی بہت تھے.جنہوں نے نہ دیکھایا نہ دیکھنا چاہا اور اپنی آنکھوں کو نیچا کر لیا.انہوں نے سمجھ لیا کہ اگر نہ دیکھیں گے تو ہم پر الزام نہ آئے گا اور اس طرح ہم رمضان کے مہینے کے روزوں یعنی تکلیف کے دنوں سے بچ جائیں گے.بہت ایسے لوگ ہیں کہ جب ان کو کہا جاتا ہے کہ احمدیت کی تحقیق کرو تو وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم غور کریں گے اور تحقیق کریں گے تو ہم کو احمدی ہونا پڑے گا اور تکلیفیں اٹھانی پڑیں گی اور نہ ماننے سے الزام آ جائے گا اس لئے وہ اپنی آنکھ اٹھا کر رمضان چاند کو ہی نہیں دیکھتے تا روزوں سے بچ جائیں اور روزے نہ رکھنے پڑیں.یہ وہ حیلہ تراشتے ہیں مگر ان کا یہ حیلہ ایسا ہی ہے جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول فرماتے تھے کہ بہادر شاہ رمضان کا چاند نکلنے پر سفر کے بہانے دہلی سے چل پڑتے کچھ دن قطب صاحب کے پاس کاٹ کر ۲۹ تاریخ کو گھر واپس آجاتے.لوگ کہتے یہ رمضان کا مہینہ تھا تو وہ تعجب سے کہتے پہلے کیوں نہیں بتایا ہم نہ جاتے.11.اسی قسم کے بہت سے لوگ ہیں جو جان بوجھ کر حق کو نہیں سمجھتے.غرضیکہ چاند چڑھا یعنی مسیح موعود آیا اور بہت سے لوگوں نے دیکھا اور بہت نے نہ دیکھا اور الزام سے بچنے کے لئے آنکھیں نیچی کر لیں اور چاند کو نہ دیکھنا چاہا یہاں تک کہ وہ چاند چودھویں کا چاند ہو گیا.تب بہتوں نے دیکھا پھر لیلۃ القدر کا زمانہ آیا اور تمام معاملات کا اس میں فیصلہ کیا گیا.پھر آپ وفات پا گئے اور وہ دن آگیا جو ۲۹ کا دن ہے جس میں عید کی شدید انتظار ہوتی ہے.اس وقت تک بچپن کا زمانہ رکھنے والے یہی کہتے رہے کہ اماں اماں چاند کہاں ہے اور عید کب ہوگی.اور جب عید آئے گی تو بچوں کا سا مزاج رکھنے والے کہیں گے چاند دیکھ لیا.چاند دیکھ لیا.ہم نے بھی چاند دیکھ لیا.لیکن رمضان کی خوشی اور سمرور ان لوگوں کو کہاں ملتا ہے جو صرف عید کے منتظر ہوتے ہیں.میں تو یہ کہتا ہوں جنہوں نے پہلی رات کا چاند نہ دیکھا اور دوسری رات کا چاند دیکھا ان کے لئے اتنی خوشی نہیں جتنی کہ پہلی رات کا چاند دیکھنے والوں میں ہوتی ہے کیونکہ نظر کی تیزی پہلی رات کا چاند دیکھنے والے کی ہی تسلیم کی جاتی ہے.جو فخر کا حق اَلسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ على کو حاصل ہوتا ہے کسی اور کو نہیں ہوتا کیونکہ پہلی رات کا چاند دیکھا ہوتا ہے اور نبی کے زمانے کے رمضان میں انہوں نے بھوک اور پیاس کی تکلیف اٹھائی ہوتی ہے.پس تم ان کی قدر کرو جنہوں نے اس زمانہ میں پہلی رات کا چاند دیکھا.ایک بچے کی طرح عید کی انتظار ہی نہ کی بلکہ
119 انہوں نے رمضان کا چاند دیکھا اور اس نبی کو مان کر تکلیفیں اور مصیبتیں اٹھا ئیں اور اپنے اموال کو دین کے لئے خرچ کیا حتی کہ بیوی بچے ان سے چھڑائے گئے اور انہوں نے دین کی خاطر چھوڑ دیئے اور بھوکے رہے مگر بھوک کی پرواہ نہ کی.پھر جنہوں نے رمضان کے کچھ دن پائے وہ بھی قابل قدر اور خدا کے نزدیک مقبول ہیں.ہاں جب عید کا چاند نکل آئے گا اس وقت ہمارے ساتھ جو لوگ شامل ہوں گے جو بچہ کی حالت میں ہوں گے وہ ہمارے ساتھ کوششوں اور کاوشوں میں شامل نہ ہوں گے بلکہ عید کے دن آئیں گے اور بچوں کی طرح ان کی عید کپڑے پہننے اور کھانا کھانے کی عید ہوگی.وہ اس وقت ہماری عید کے کھانے میں سے حصہ مانگیں گے لیکن ان پر ان لوگوں کا حق مقدم ہے جنہوں نے رمضان کا چاند دیکھا اور اس کی تکلیفوں کو برداشت کیا اس میں بھوکے رہے.پھر وہ لوگ جنہوں نے دوسری رات کا چاند دیکھا.یا اس کے بعد کی تاریخوں میں یا لیلتہ القدر کے بعد کے زمانہ میں آئے اور انہوں نے اس وقفہ میں جو لیلہ القدر سے لیکر عید تک کا ہوتا ہے شامل ہو کر تکلیفوں اور مصیبتوں کو اٹھایا ہے وہ بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے پہلی رات کا چاند دیکھا کیونکہ جو شخص نماز کے رکوع میں شامل ہو جاتا ہے وہ اسی شخص کی طرح ہے جس نے قیام کو پایا ۱۸، کیونکہ ابھی عید کا چاند نہیں چڑھا.اس لئے تم لوگ جنہوں نے یہ زمانہ پایا ہے ہوشیار ہو جاؤ اپنی اصلاح کرو اور دوسروں کے مصلح بنو.اس زمانہ سے جو لوگ فائدہ اٹھائیں گے وہی کامیاب اور کامران ہونگے اور وہ اس کی نسبت جو عید کے دن آکر ہم سے ملیں گے بہت اعلیٰ درجہ رکھیں گے.پس جو تمہیں وقفہ ملا ہے اس کی قدر کرو اور اس میں قربانیاں کرو کیونکہ روحانی رمضان کے مہینے کا یہی حق ہے کہ اس میں قربانیاں کی جائیں.اس میں بھوکے رہو اور اپنا مال قربان کرد یہاں تک کہ عید آجائے اور بچوں کی سی حالت رکھنے والے وہ لوگ بھی شامل ہو جائیں جنہوں نے روحانی رمضان میں نبی کا ساتھ نہیں دیا اور نہ ہی کسی قسم کی قربانی کی.ایسے لوگوں کو ہی مد نظر رکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے.بے خدا کوئی بھی ساتھی نہیں تکلیف کے وقت اپنا سایہ بھی اندھیرے میں جدا ہوتا ہے ؟ دیکھو ۴۰ کروڑ مسلمان ہیں لیکن وہ چاند جو تاریکی کو جہان سے دور کرنے کے لئے چڑھا اس کو انہوں نے نہ دیکھنا چاہا بلکہ الٹا اس پر خاک ڈالنے کی کوشش کرنے لگے.انہوں نے اس
کو دجال کہا، فریبی کہا کفر کے فتوے لگائے ۲۰، اور اس نے اسلام کے لئے جو قربانیاں کیں ان کو اس کے اپنے فائدے کے لئے بتایا.اس پر اعتراض ہی کرتے رہے اور اس کے رمضان سے حصہ نہ لیا.یہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کہلاتے تھے لیکن انہوں نے تکلیف میں محمد م کا ساتھ نہ دیا اور اس تاریکی کے موقع میں آپ کو چھوڑ کر چلے گئے.وہ کہتے ہیں کہ یہ مسیح موعود سچا نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی پیشگوئی پوری ہوئی ہے لیکن اس لئے نہیں کہ واقعہ ایسا ہی ہے بلکہ اس لئے کہتے ہیں کہ ہم کو اس کے ماننے سے تکلیف نہ اٹھانی پڑے اور یہ اسی طرح تکذیب کرتے چلے جائیں گے اور یہی کہتے رہیں گے یہاں تک کہ قیامت کا دن آجائے گا تب یہ لوگ کہیں گے اگر ہم کو پتہ ہو تاکہ دین تباہ ہونے والا ہے تو ہم اس کے ساتھ مل جاتے اور اس کی تکذیب نہ کرتے.تو یہ لوگ ابھی اس لئے نہیں شامل ہوتے کہ ہم کو قربانی کرنی پڑے گی اور تکلیفیں برداشت کرنی پڑیں گی لیکن عید کے دن یہ ہماری دعوتوں میں شامل ہوں گے اور حصہ مانگیں گے.تم کو جو یہ رمضان کا زمانہ ملا ہے تم اس کی قدر کرو اور اس کا حق ادا کرو.جو دین کے لئے ہر قسم کی قربانی کرتا ہے.پس قربانی کرو ایثار کرو اور اپنی اصلاح کرو تا کہ حقیقی عید منا سکو.اس وقت اگر چہ رمضان کا زمانہ نہیں رہے گا جو بہت ہی مبارک زمانہ ہے اور اس کو افسوس کے ساتھ لوگ یاد کریں گے لیکن جب عید آئے گی وہ وقت بھی ہمارے لئے خوشی کا وقت ہو گا اس لئے نہیں کہ ہمیں ہر قسم کی ظاہری ترقی حاصل ہو جائے گی بلکہ اس لئے کہ اس طرح بھی خدا کی وہ پیشگوئی پوری ہوگی جو اس نے اپنے نبی کے متبعین کے غالب ہونے کے لئے اس وقت کی تھی جب کہ وہ ہر ظاہری رنگ میں مغلوب تھے.اسے تو خوش ہو کہ وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو خدا نے کی تھی.مومن کی عید یہی ہوتی ہے کہ وہ خدا کی پیشگوئی کے پورا ہونے پر خوش ہوتا ہے اور یہی فرق مومن اور کافر کی عید میں ہے.مومن خدا کے نشانات دیکھ کر اور اس کی پیشگوئیوں کو پورا ہوتے دیکھ کر خوش ہوتا ہے لیکن کافر ظاہری خوشی کو دیکھتا ہے اور ظاہری عید مناتا ہے اور تکلیف میں نبی کا ساتھ نہیں دیتا.نظام الدین اولیاء کے متعلق لکھا ہے.ایک کوچہ میں سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ گزر رہے تھے کہ انہوں نے ایک خوبصورت بچہ کو گلی میں کھڑا دیکھا اور اس کو بوسہ دیا.باقی مریدوں نے جو یہ دیکھا تو انہوں نے بھی اپنے پیر کی اقتداء کرتے ہوئے بوسہ دیا لیکن وہ مرید جو بہت مقرب سمجھا جاتا تھا اور آپ کی وفات کے بعد آپ کا خلیفہ
IMI ہوا اس نے اس بچہ کو بوسہ نہ دیا.اس پر دوسروں نے اسے ملامت کی.آگے پیر صاحب نے ایک بھڑ بھونجے کو دیکھا جو بھٹی میں آگ جلا رہا تھا پیر صاحب نے آگے بڑھ کر آگ کو بوسہ دیا اور سب پیچھے کھڑے رہے لیکن وہ جس نے بچہ کو بوسہ نہ دیا تھا آگے بڑھا اور آگ کو بوسہ دیا.اس وقت اس نے دوسروں کو کہا کہ پیر صاحب کو تو بچہ میں خدا کا جلوہ نظر آیا تھا اس لئے انہوں نے بوسہ دیا مگر تم نے اس کی شکل خوبصورت دیکھ کر بوسہ دیا کیونکہ جب وہی جلوہ پیر صاحب کو آگ میں نظر آیا تو تم پیچھے ہٹ گئے میں نے وہ جلوہ آگ میں دیکھا اس لئے میں نے اس کو بوسہ دینے میں اقتداء کی.۲۲، تو بچے قبع ہر وقت نبی کے ساتھ رہتے ہیں لیکن جھوٹے آرام میں شامل ہوتے ہیں اور اس وقت نبی کا ساتھ دیتے ہیں جب کہ دکھ دور ہو جاتے ہیں اور دنیاوی آرام و آسائش کے دن آجاتے ہیں.تم مومن بنو اور اس رمضان کے چاند کا حق ادا کرو.اور مہینوں کے بھی حق ہوتے ہیں لیکن رمضان کے مہینہ کا حق یہ ہے کہ انسان بڑھ کر مالی اور جانی قربانی کرے.پس تم ہر ایک قسم کی قربانیاں کرو کیونکہ تمہاری قربانیاں عید لائیں گی.اس وقت اور لوگ خوش ہوں گے کہ عید آئی اور وہ فائدہ حاصل کرنا چاہیں گے حالانکہ تمہاری قربانیاں عید لانے والی ہوں گی.تم شیر بنو جو خود شکار کو مارتا ہے اور کھاتا ہے وہ گیدڑ ہوں گے جو تمہارے بچے ہوئے گوشت سے کھائیں گے اور بعد میں تمہارے ساتھ شامل ہوں گے.تمہاری عید صرف خوشی کے لئے نہ ہوگی بلکہ اس لئے ہوگی کہ خدا کی پیشگوئی پوری ہوئی اور تم نے مومن بن کر رمضان میں نبی کے شروع زمانہ میں عسرت کے وقت اس کا ساتھ دیا اور اس تکلیف کے زمانہ میں خوشی ظاہر کی جس وقت چاروں طرف غم چھایا ہوا تھا.پس بچے متبع اور مومن وہی ہیں جو عُسر اور ٹیر میں نبی کا ساتھ دیتے ہیں اور عمر میں بھی خوش ہوتے ہیں.ہمارے چھوٹے بھائی مبارک احمد کی حالت جب بیماری میں نازک ہو گئی تو حضرت خلیفہ اول جو نبض دیکھ رہے تھے ہاتھ آگے آگے بڑھاتے گئے یہاں تک کہ بغل تک ہاتھ لے گئے ادھر حضرت صاحب کو کہہ رہے تھے کہ حضور کستوری لائیں حضور کستوری لائیں لیکن جب نبض بالکل بند ہو گئی تو آپ صدمہ سے کھڑے نہ رہ سکے اور وہیں بیٹھ گئے.لیکن حضرت صاحب نے جب دیکھا کہ مبارک احمد فوت ہو گیا ہے تو باوجود اتنی سخت محبت کے جو آپ کو اس کے ساتھ تھی آپ نے اس کی وفات پر بالکل کسی قسم کی گھبراہٹ ظاہر نہ کی اور لوگ آپ کی محبت کی وجہ سے جو آپ کو مبارک احمد کے ساتھ تھی خیال کرتے تھے کہ نہ
۱۲۲ معلوم حضرت صاحب کی کیا حالت ہوگی لیکن آپ بجائے رنج کرنے کے خوش نظر آتے تھے اور فرماتے تھے خدا کی پیشگوئی پوری ہوئی.۲۳، اور آپ نے کس خوشی میں کہا.جا مبارک تجھے فردوس مبارک ہووے ۲۴ اور اپنے دوستوں کو تسلی کے خطوط لکھے کہ فکر نہ کریں.۲۵، پس سچے مومن اور متبع مصیبتوں کے وقت بھی خوش ہوتے ہیں.احد میں مسلمانوں پر مصیبت آئی.لیکن انہیں اس بات کی خوشی ہوئی کہ خدا نے اس کی پہلے ہی خبر دے دی تھی اور وہ پوری ہو گئی.۲۶ ، ان کو ترقیات کی خوشی نہ ہوتی تھی بلکہ خدا کی بات کے پورا ہونے کی خوشی ہوتی تھی اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ رنج اور مصیبت کے وقت بھی خوشی کا اظہار کرتے تھے.پس عید ہمارے لئے آئے گی، ترقیات ہوں گی ، حکومتیں ملیں گی لیکن وہ ترقی اور وہ کھانے اور وہ عیش ہمارے لئے دعوت عائشہ ان کے کھانے کی طرح تلخ ہوں گے تاہم ہمیں عید کی خوشی ہوگی اور اس لئے ہوگی کہ تاریکی کے زمانے کی پیشگوئیاں پوری ہوں گی.یہ عید ہماری ہوگی.پس عید نبیوں کی ترقی کا زمانہ ہے اور رمضان نبیوں کے شروع کا زمانہ ہے.تم رمضان کے مہینے میں نبیوں کے ساتھ مل کر قربانیاں کرو اور عید کے دن اس لئے خوش ہو کہ خدا کی پیشگوئی پوری ہوئی.اس وقت اندھے بھی چلا اٹھیں گے کہ ہم نے عید کا چاند دیکھ لیا.پس تم اس رمضان میں سے بھی گذرے جو ہر سال آتا ہے اور جس میں تم کو بھوکا اور پیاسا رہنا پڑا“ میاں بیوی کے تعلقات منقطع کرنے پڑے، ترقیات کے لئے عبادتیں اور دعائیں کرنی پڑیں.یہ رمضان تم کو سبق دیتا ہے کہ نبی کے رمضان میں اگر تم کو بھوکا رہنا پڑے ، تکلیفیں اٹھانی پڑیں تو تم شکایت نہ کرو کیونکہ جس طرح یہ رمضان گذرتا جاتا ہے اور تم اس کے معین دن جانتے ہو اور گھبراتے نہیں ہو اسی طرح وہ نبیوں کے زمانے کا رمضان بھی گذر جاتا ہے اور عید آ جاتی ہے.پس جس طرح تم اس رمضان کی شکایت نہیں کرتے کہ یہ رمضان ختم بھی نہیں ہوتا تو نبیوں کے رمضان کی کیوں شکایت کرتے ہو.اور اگر تم اس رمضان کی طرح مسیح موعود علیہ السلام کے رمضان کو جان لیتے تو خوش ہوتے کہ یہ مہینہ دین کے لئے تکلیفوں کے برداشت کرنے کا ہے اور تم خوش ہوتے کہ مصیبت کے وقت تم کو خدمت دین کا موقع ملا ہے.چاہئے کہ تم ان دنوں کی قدر کرو اور عید کے دن کے آنے سے پہلے خدا سے صلح کرد ورنہ تمہاری عید بچوں کی سی ہوگی.حالانکہ ہونا یہ چاہئے کہ ہم میں سے ہر ایک کا حصہ عید
١٢٣ لانے میں ہو اور خوش ہو کہ پیشگوئی کے پورا کرنے میں ہمارا اسی طرح حصہ ہو جس طرح ماں اور باپ کا حصہ بچہ میں ہوتا ہے اور جس طرح ماں بچہ کو دیکھ کر خوش ہوتی ہے اسی طرح عید کو کر ہم خوش ہوں کہ ہمارا حصہ بھی عید لانے میں ہے.فتوحات ہماری مقصود نہ مموں اور نہ ہی کسی ترقی کی ہم کو خوشی ہو بلکہ خوشی ہو تو اس بات کی کہ خدا کی پیشگوئی پوری ہوئی.یہ پیشگوئی پوری ہوگی اور ضرور ہوگی لیکن ڈر یہی ہے کہ اس وقت روحانیت ایسی نہ ہوگی جیسی نبی کے زمانہ کے قرب میں ہوتی ہے اس لئے میں دعاء کرتا ہوں اور ہم اس عید یعنی ترقی کے زمانے میں تکبر میں ، غرور میں ، عیاشی میں، دوسروں کے حق مارنے میں مبتلاء نہ ہوں بلکہ آگے سے بھی اعلیٰ اخلاق دکھائیں اور خدا کے کامل فرمانبردار ہوں تاکہ وہ عید کا دن بھی ہمارے لئے رمضان کے مہینے کی طرح بابرکت ہو.آمین الفضل مؤرخہ ۳.جون ۱۹۲۴ء) صحیح بخاری کتاب العيدين باب سنة العيدين لاهل الاسلام صحیح بخاری کتاب العيدين باب الخطبة بعد العيد صحیح بخاری کتاب الصوم باب رؤية الهلال ملفوظات جلدی صفحه ۱۵۵ هود : ۱۱۴ بخاری کتاب الصوم باب اجود ما كان النبى صلى الله عليه وسلم يكون في رمضان که بخارى كتاب الصوم باب فضل من قام رمضان تذکرۃ الشہادتین صفحه ۶۵۶۴ و القدر : ۲ تا ۶ بخاری کتاب المناقب باب سدوا الباب الاباب ابي بكر الى القدر : ٢ البقرة : ۲۱۵ یہ حضرت حسان بن ثابت کے اشعار ہیں جو آپ نے حضور میل (فداہ روحی) کی وفات پر کہے.(السيرة الحلبية الجزء الثالث صفحہ ۳۹۷ حاشیہ مطبع محمد علی صبیح میدان الازهر مصر ۱۹۳۵ء)
مهم ۱۲ ترمذی ابواب الزهد باب ما جاء في معيشه النبي صلى الله عليه وسلم و طبقات ابن سعد (اردو) جلد ۳ صفحه ۱۸۸ - شمائل ترندی صفحه ۱۰ ها حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶ بہادر شاہ ظفر ۱۷۷۵ء.۱۸۷۲ء.حکومت ۱۸۳۷ ء علیحدگی از حکومت و اسیری ۱۸۵۷ء ك التوبة : ١٠٠ ۱۸ موطا امام مالک باب و قوت الصلوة من ادرك ركعة من الصلوة - نيل الاوطار از علامه شوکانی جلد ۲ صفحه ۲۱۹ اشتهار معیار الاخیار والاسرار ۱۷ مارچ ۱۸۹۴ء و مندرجه تبلیغ رسالت جلد سوم صفحه ۸۰ مطبوعه دسمبر ۱۹۲۰ء قادیان ۲۰ روحانی خرائن ( آئینہ کمالات اسلام) جلد ۵ صفحه ۲۲۵ ا روحانی خزائن ( تذکرۃ الشہادتین) جلد ۲۰ صفحه ۶۷ ۲۲ نظام الدین اولیاء ۵۶۳۴ - ۷۲۵ ھ.- ۲۳ تذکره صفحه ۳۴۱ مطبوعه الشركة الاسلامیہ ربوہ ۲۲ یہ مصرع ” جا مبارک تجھے فردوس مبارک ہو دے" صاحبزادہ حضرت مرزا مبارک احمد صاحب کے لوح مزار پر کندہ ہے.یہ علم نہیں ہو سکا کہ یہ مصرع حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا ہے یا کسی دوسرے صاحب کا.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ مد ظلها العالی نے اس ضمن میں خاکسار کے استفسار پر تحریر فرمایا.یہ مصرع "جا مبارک تجھے فردوس مبارک ہو دے اس زمانہ میں عرصہ تک میری زبان پر جاری رہا اور اب بھی کبھی کبھی یاد آتا ہے لیکن حالا نکہ وہ سال آخری دو سال میرے اکثر جو وقت ملتا اور خصوصاً سب ہوتے تھے تو حضرت مسیح موعود کے پاس گذرے کیونکہ پیر صاحب کے پاس پڑھنا بوجہ بیماری ممانی جان کی والدہ کے رک گیا تھا مجھے بہت یاد ہے.لیکن نہ جب خیال تھا نہ اب یاد ہے کہ یہ مصرع حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا.بہت ممکن ہے کہ میں نے بعد میں سنا جس وقت میں سامنے نہ ہونگی مگر پھر کسی نے میرے سامنے اس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب نہ کیا ہو.بہرحال
۱۲۵ میں نے اس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مصرع کبھی نہیں سمجھا تھا بلکہ یہ اثر تھا کہ یہ شاید قاضی اکمل صاحب مرحوم یا ثاقب صاحب وغیرہ کسی کا ہو گا.اگر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے فرمایا ہے تو ممکن ہے ان کو صحیح یاد ہو مگر حیرت ہے مجھے اپنے پر کہ اکثر کوئی مصرع کوئی شعر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا یا کسی کا شعر پڑھا تو وہ یادرہ گیا یہ خصوصیت سے کیوں میں کسی اور کا ہی سمجھتی رہی.خصوصاً جس کو اکثر دہراتی تھی نہ کبھی حضرت اماں جان سے سنا." (مکتوب بنام مرتب محرره ۱۷.اگست ۱۹۶۸ء) ۲۵ بدر ۱۹.ستمبر ۱۹۰۷ ء و تاریخ احمدیت جلد ۳ صفحه ۵۰۲ أل عمران : ۱۲۲-۱۲۸ صحیح بخاری کتاب المغازي باب من قتل من المسلمين يوم احد
(۱۴) فرموده ۲۵ اپریل ۱۹۲۵ء بمقام مسجد اقصیٰ.قادیان) ید کا آج ہم اس جگہ اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ عید کا دن ہے اور عید کا دن مسلمانوں کے دلوں میں خوشی اور انبساط کی لہر پیدا کر دیتا ہے لیکن کیا عید کے دن کی خوشی اس سبب سے ہے اور اس وجہ سے ہے کہ اس دن کے آنے پر لوگوں کو کچھ مل جاتا ہے.کیا اس دن انعامات ا تقسیم ہوتے ہیں.کیا اس دن کوئی جاگیریں ملتی ہیں.ان میں سے کوئی بات بھی نہیں بلکہ عام طور پر لوگوں کو اس دن کچھ نہ کچھ خرچ کرنا پڑتا ہے مگر باوجود اس کے لوگ خوش ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آج خوشی کا دن ہے.یہ بات ہمیں دو سبق دیتی ہے.جن میں سے ایک تو ظاہری سبق ہے اور ایک باطنی.ظاہری سبق اس سے یہ ملتا ہے کہ انسان کی فطرت خدا تعالیٰ نے ایسی بنائی ہے کہ اگر وہ چاہے تو اپنے لئے آپ خوشی کے سامان پیدا کر سکتا ہے اور اگر چاہے تو اپنے لئے غم کے سامان پیدا کر لیتا ہے.ہم کیوں خوش ہوتے ہیں؟ اگر ہم اس کا ظاہری جواب دینا چاہیں تو ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ ہم اس لئے خوش ہوتے ہیں کہ خوش ہیں.ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ آج خوش ہونگے اس لئے خوش ہو جاتے ہیں اور اگر یہ فیصلہ کرتے کہ غمگین ونگے تو بغیر کسی باعث اور سبب کے غمگین ہو جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام فرمایا کرتے تھے اگر کوئی رونی صورت بنالے تو واقعہ میں تھوڑی دیر کے بعد رونے لگ جائے گا اور اگر کوئی نسی کی صورت بنالے تو واقعہ میں خوش ہو جائے گا.لے یہ ایسی سچائی ہے کہ کوئی شخص بھی اس کا انکار نہیں کر سکتا.ہم روزانہ دیکھتے ہیں ایک شخص مجلس میں آتا ہے جو سروں کو دیکھ کر ہنسنے لگتا ہے اسے یہ بھی معلوم نہیں ہو تا کہ ہنسی کا سبب کیا ہے لیکن ساری مجلس کو ہنستے دیکھ کر وہ بھی بننے لگ جاتا ہے.یہی دیکھو جب کبھی اجتماع کے موقع پر دعا کی جاتی ہے تو سب لوگ آرام اور خاموشی سے دعا کر رہے ہوتے ہیں کہ ایک طرف سے کسی کی شیخ نکل جاتی ہے اس کے بعد چاروں طرف سے چیچنیں سنائی دینے لگتی ہیں اور آہ و بکا کا شور پڑ جاتا ہے.وہ ایک شخص ابتداء کرتا ہے کوئی وجہ اور کوئی سبب ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ برداشت دو
۱۲۷ نہیں کر سکتا اور اس کی چیخ نکل جاتی ہے لیکن جونہی اس کی چیخ نکلتی ہے اس وقت وہ لوگ جو اپنی طبیعت کو روکے ہوئے خشیت سے دعا کر رہے ہوتے ہیں چیخیں مارنے لگ جاتے ہیں جن سے ساری مسجد گونجنے لگ جاتی ہے.پھر آہستہ آہستہ سکون ہوتا جاتا ہے.آہ وبکا اور چیخ و پکار مدھم ہونے لگتی ہے کہ اتنے میں کسی اور کی چیخ نکل جاتی ہے اس سے پھر ساری مجلس میں شور پڑ جاتا ہے.سارے کے سارے الگ الگ دعائیں مانگ رہے ہوتے ہیں.اگر امام اونچی آواز سے دعا مانگ رہا ہو تا تو کہہ سکتے تھے کہ اس کی دعا کے کسی حصہ سے سب پر رقت طاری ہو گئی اور سارے کے سارے بے تاب ہو کر چیخیں مارنے لگ گئے مگر سب لوگ مختلف دعا ئیں کر رہے ہوتے ہیں.کوئی کہہ رہا ہوتا ہے میرا قرض اُتر جائے کوئی کہہ رہا ہوتا ہے مجھے نیک اولاد حاصل ہو ، کوئی کہہ رہا ہوتا ہے ملازمت مل جائے کوئی کہہ رہا ہوتا ہے مجھے ترقی مل جائے“ کوئی کہہ رہا ہوتا ہے مجھے یا میرے فلاں رشتہ دار کو صحت حاصل ہو جائے کوئی کہہ رہا ہوتا ہے فلاں مجھ سے ناراض ہے وہ راضی ہو جائے کوئی کہہ رہا ہو تا ہے میرا فلاں دشمن ہے وہ تباہ ہو جائے غرض ہر شخص علیحدہ علیحدہ دعا کر رہا ہوتا ہے اس لئے یہ نہیں کہہ سکتے کہ کسی دعا کی وجہ چیخیں نکل جاتی ہیں بلکہ اس شیخ کی وجہ سے نکلتی ہیں جو کسی کی کسی خاص حالت میں نکل جاتی ہے.کسی شاعر نے کہا ہے اور درست کہا ہے.افسرده دل افسرده کند انجمنی را ۲ ایک رونی صورت والا انسان اگر مجلس میں آجائے تو سب کی رونی صورت بن جاتی ہے اور اگر ایک ہنستا ہوا آ جائے تو سارے ہنسنے لگ جاتے ہیں.اس سے یہ معلوم ہوا کہ انسانی فطرت میں خدا تعالیٰ نے یہ مادہ رکھا ہے کہ اگر وہ ارادہ کرے کہ غم نہیں کروں گا تو خوش ہو جاتا ہے.اور اگر ارادہ کرے کہ غمگین ہوں گا تو غمگین ہو جاتا ہے بغیر کسی اس قسم کی بات کے کہ اسے انعام ملا ہو، یا جاگیر ملی ہو یا کامیابی ہوئی ہو وہ کہتا ہے کہ میں خوش ہوں گا اور وہ خوش ہو جاتا ہے.اسی طرح بغیر اس کے کہ اس کا کوئی عزیز مرا ہو ، یا اسے کوئی ناکامی ہوئی ہو یا کوئی اور صدمہ پہنچا ہو وہ کہتا ہے کہ میں غمگین ہوں گا اور فورا اس کا دل غم سے بھر جاتا ہے اور بہت دفعہ اس کے آنسو جاری ہو جاتے ہیں.بائبل میں آیا ہے اور گو اس میں غلطی بھی ہے مگر ایک حد تک سچ بھی ہے کہ خدا نے چاہا کہ انسان کو اپنی را کرے.سے اور اس میں شک نہیں کہ انسان میں بعض ایسی طاقتیں ہیں جو خدا تعالیٰ
۱۳۸ کی طاقتوں سے ملتی ہیں.یہ خدا تعالیٰ کی طاقت ہے کہ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ کہ اس کے ماتحت انسان جب کہتا ہے کہ آج میں خوش ہوں گا تو وہ خوش ہو جاتا ہے بغیر کسی سامانِ خوشی کے.اسی طرح جب وہ کہتا ہے کہ آج میں غمگین ہوں گا تو بغیر کسی غم کی وجہ کے غمگین ہو جاتا ہے.غرض جیسا وہ ارادہ کرتا ہے اس کے ماتحت ارد گرد کے حالات کو بدل دیتا ہے.اگر وہ خوش ہونے کا ارادہ کرتا ہے تو جو میں خوشی ہی خوشی اسے نظر آتی ہے.ایسی حالت میں اگر وہ کوئی جنازہ بھی دیکھتا ہے تو خیال کر لیتا ہے نامعلوم یہ بیچارہ کسی مصیبت میں پھنسا ہوا ہو گا اب اس پر خدا کا فضل ہو گیا کہ دنیا کے مصائب سے چھوٹ گیا اس طرح وہ اس نظارہ پر بھی خوش ہو جاتا ہے.اسی طرح اگر کسی کو بیمار دیکھتا ہے تو کہتا ہے ممکن ہے اس نے اس سے بھی زیادہ سخت بیمار ہونا تھا کہ خدا نے اس پر فضل کر کے اس بیماری میں مبتلاء کیا یا وہ یہ خیال کر لیتا ہے کہ یہ کوئی ایسی سخت بیماری نہیں ہے اس سے بھی زیادہ خطرناک بیماریوں میں لوگ مبتلاء ہوتے ہیں یا یہ سمجھ لیتا ہے کہ اس بیمار کا تو علاج کرانے والے موجود ہیں کئی ایسے بھی بیمار ہوتے ہیں جنہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہو تا غرض ایسی صورت میں طبیعت کئی قسم کے بہانے نکال لیتی ہے اور انسان ہر ایک بات پر خوش ہو جاتا ہے.غرض ارادہ کے ساتھ انسان اپنی کیفیت کو بدل دیتا ہے اور نہ صرف کیفیت کو بدل دیتا ہے بلکہ گردو پیش کے حالات کو بھی بدل دیتا ہے.وہی حالات جو دوسروں کو خوش کر رہے ہوتے ہیں ، غمگین ہونے کا ارادہ کرنے والے کو غمگین بنا دیتے ہیں اور وہی حالات جو دوسروں کو غمگین کرنے والے ہوتے ہیں خوش ہونے کا ارادہ کرنے والے کو خوش کرنے کا باعث بن جاتے ہیں.پس ہم کو اس سے جو عظیم الشان سبق ملتا ہے وہ یہ ہے کہ ہماری جنت اور ہمارا دوزخ ہمارے اپنے اختیار میں ہے.ہم چاہیں تو اپنے لئے جنت بنالیں اور چاہیں تو اپنے لئے دوزخ تجویز کر لیں.خدا تعالیٰ نے ہمارے دل میں یہ طاقت رکھ دی ہے کہ ہم جب چاہیں دوزخ تیار کر لیں اور جب چاہیں جنت بنا لیں.یہی وجہ ہے کہ کئی بار قرآن کریم میں یہ بیان ہوا ہے کہ جنت اور دوزخ انسان اپنے اعمال سے تیار کرتا ہے.ھے جب کہ یہ بات ہمیں دنیا کی ہر چیز میں نظر آتی ہے تو ایک بات یاد رکھنی چاہئے اور وہ یہ کہ اگر ہم کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو ہماری کامیابی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہماری ہمتیں بلند ہمارے حوصلے وسیع ، ہمارے ارادے عظیم الشان ہوں کیونکہ کوئی قوم جو عظیم الشان امید نہایت وسیع امنگ اور اپنے آپ ہے
۱۲۹ پر پورا بھروسہ نہیں رکھتی وہ کامیاب نہیں ہوا کرتی.وہ قوم جو اپنے دل میں اپنی ناکامی یا موت کا فیصلہ کر لیتی ہے وہ ظاہر میں کبھی غالب نہیں ہو سکتی خواہ وہ کتنی ہی بہادر ، کتنی ہی جری اور کتنی ہی زبر دست کیوں نہ ہو.برخلاف اس کے وہ قوم جو اپنے دل میں فیصلہ کر لیتی ہے کہ مجھے دنیا میں غالب ہونا ہے وہ ضرور غالب ہو کر رہتی ہے خواہ بظاہر کتنی ہی کمزور ، کتنی ہی قلیل اور کتنی ہی ادبی حالت میں ہو.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے بار بار اس طرح توجہ دلائی ہے کہ ہمارا ایمان خوف اور رجاء کے درمیان ہو.وہ یعنی ایک طرف اگر ہمیں ہر وقت یہ امید ہو کہ ہم دنیا میں غالب ہو کر رہیں گے تو دوسری طرف خوف بھی ہو.مگر یہ خوف امید کو کاٹنے والا نہیں ہو تا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو رجاء کے ساتھ جمع نہ ہو سکتا کیونکہ متناقض جمع نہیں ہو سکتے.جو چیز دوسری کو کاٹ دیتی ہے ان دونوں کو اگر جمع کیا جائے تو دونوں تباہ ہو جاتی ہیں.اگر کسی شخص کے پاس ایک روپیہ ہے اور اس نے ایک روپیہ کسی کا دیتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ اس کے پاس کچھ نہیں ہے.اسی طرح اگر ایک ہی درجہ کا خوف اور ایک ہی درجہ کی امید ایمان کے لئے ہوتی تو اس کا یہ مطلب ہوتا کہ کچھ نہ ہوتا.اس لئے جب یہ کہا جاتا ہے کہ ایمان خوف اور رجاء کے درمیان ہو تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ یہاں وہ خوف مراد ہے جو رجاء کے مطابق ہے.خوف دو قسم کا ہے ایک وہ جو امید کے خلاف ہے یہ جتنا بڑھتا جاتا ہے امید ملتی جاتی ہے.لیکن دوسرا خوف رجاء کا مؤید ہوتا ہے.یعنی یہ کہ ایسا نہ ہو ہم یہ کام نہ کر سکیں.یہ خوف ہمت اور جوش پیدا کرتا ہے اور اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ ہم نہیں جیتیں گے بلکہ یہ ہوتے ہیں کہ ایسانہ ہو ہماری کسی کمزوری کی وجہ سے کامیابی میں نقص آ جائے.اور جب امید حوصلہ کو بلند کرتی ہے، قربانیوں پر آمادہ کرتی ہے اور آگے قدم بڑھانے کی ہمت دلاتی ہے تو یہ خوف شرور کے دروازے بند کرنے اور فتنوں کے دبانے کی طرف متوجہ کرتا ہے اور انسان کے اندر ایسی ہوشیاری پیدا کر دیتا ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے کوئی چور اس کے اندر داخل نہیں ہو سکتا جب کسی قوم کی ایسی حالت ہو تو وہ ضرور کامیاب ہو جاتی ہے.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم میں اور یہی ہمیشہ مایوسی کو نہایت نا پسند کرتے تھے.کہ اور قرآن کریم نے اسے کفر قرار دیا ہے.چنانچہ آتا ہے.لَا تَايْنَسُوا مِنْ رَّوْحِ اللَّهِ إِنَّهُ لَا يَا يْنَسُ مِنْ رَّوْحِ اللهِ اِلَّا القَوْمُ الكَفِرُونَ ، مایوس ہونا کافروں کا کام ہے کیونکہ مایوسی کسی وقت ایمان کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتی.اور جو مایوس ہوا وہ کافر ہو گیا کیونکہ ہو نہیں سکتا کہ ایک
١٣٠ زبر دست خدا تعالیٰ پر ایمان لائے اس کے وعدوں پر بھروسہ رکھے اور پھر مایوس ہو.پس جو جماعت خدا تعالی کے فرستادہ نے کھڑی کی ہو اس کے افراد کا فرض ہے اور اولین فرض ہے کہ ایک منٹ کیلئے بھی مایوسی کو اپنے پاس نہ آنے دیں.ان کے دل میں خوف ہو.وہ چوکس ہوں.انہیں یقین ہو کہ شیطان ان پر حملہ کرے گا کیونکہ وہی اس کے حقیقی دشمن ہیں اور حملہ ہمیشہ دشمن پر ہی کیا جاتا ہے.کیا اگر بچے لکڑیاں لئے پھر رہے ہوں ان میں سے کوئی جرنیل کوئی کرنیل کوئی میجر بن جائے تو لوگ دروازے بند کر لیں گے نہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ تماشہ ہے.اسی طرح جب لڑکے شیر شیر کر کے کھیلتے ہیں تو کیا لوگ اپنے جانوروں کو مکانوں میں بند کر لیتے ہیں.نہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ منہ کا شیر ہے.لیکن اگر سچ سچ کا شیر آجائے تو دیکھو کس طرح اس کے مقابلہ کے لئے کھڑے ہو جائیں.پس دنیا میں اگر کسی جماعت کے لئے شیطان کے حملہ کا خوف ہے تو وہ خدا کے فرستادہ کی جماعت ہے.اللہ کے نبیوں، اس کے ماموروں اور اس کے مرسلوں کی جماعت ہے.کیونکہ یہ سچ سچ کے شیر ہوتے ہیں.شیر قالین نہیں ہوتے اور چونکہ وہ لوگ جو بہیمیت کی صفت رکھتے ہیں وہ ڈرتے ہیں کہ انہیں یہ شیر کھینچ کر لے جائیں گے اور وہ جانتے ہیں کہ یہ بچی فوج ہے اس لئے سارا زور ان کے خلاف لگاتے ہیں تاکہ اسے توڑ دیں.اس وجہ سے سب سے زیادہ خوف کی وجہ اگر موجود ہوتی ہے تو اسی جماعت کے لئے جسے خدا نے کھڑا کیا ہو.لیکن باوجود اس خوف کے مومنین کی جماعت میں مایوسی کبھی نہیں آسکتی کیونکہ ایمان اور مایوسی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے.میں یہ نہیں کہتا کہ مومن کو کوئی غم نہیں ہو تا مگر میں یہ کہتا ہوں کہ مومن کو کوئی ایسا غم نہیں ہو تا جو اسے مایوس اور افسردہ بنا دے.وہ غم میں بھی لذت محسوس کرتا ہے اور ایسی لذت محسوس کرتا ہے کہ کسی خوشی کے لئے اسے چھوڑنے کے واسطے تیار نہیں ہو سکتا.کیا ایک باپ جو اس فکر اور غم میں ہو کہ اس کا بچہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر لے اسے کوئی کہے کہ اس فکر کو اپنے دل سے نکال دو اور اس غم کے بوجھ سے اپنے دل کو ہلکا کر لو تو وہ اس کے لئے تیار ہو گا.کوئی باپ اس بات کو پسند نہیں کرے گا کیونکہ اس کلفت اور فکر میں ہی اس کے لئے ایسی لذت رکھی گئی ہے جو خوشیوں سے بڑھ کر ہے.غرض مومن کا غم بھی ایسا غم ہوتا ہے اور اس میں ایسی لذت اور ایسا سرور ہوتا ہے کہ وہ اس غم کو بھی چھوڑنا پسند نہیں کرتا.وہ غم ہوتا ہے اور اتنا بڑا غم ہوتا ہے کہ قریب ہے غمگین کی کمر توڑے دے مگر
١٣١ باوجود اس کے اس غم کے ساتھ ایسی لذت بھی ہوتی ہے جس کی قیمت دنیا کی کوئی خوشی نہیں ہو سکتی.جس طرح ڈوبتے کو بچانے کی کوشش کرنے والا جانتا ہے کہ شاید میں بھی ڈوب جاؤں مگر باوجود اس خوف کے وہ اس کام میں خوشی کی ہر محسوس کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ ایک کام ہے جو میں اپنی زندگی میں کر رہا ہوں اور یہ مخلوق خدا کی خدمت ہے جو میں ادا کر رہا ہوں.اسی طرح ایک سپاہی جو اپنے ملک کی خاطر جان دیتا ہے اس کی حالت ہوتی ہے.جان دینا کوئی معمولی بات نہیں.انسان تو انسان حیوان اور ادنیٰ سے ادنی حیوان اور مکھی اور چیونٹی بھی پسند نہیں کرتی کہ ہلاک ہو جائے.مگر ایک سپاہی خوشی خوشی جان دیتا ہے.یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اسے جان دینے میں غم اور صدمہ نہیں ہوتا ، ہوتا ہے مگر جب وہ محب وطن کے لئے لڑتا ہے تو اس میں خوشی بھی محسوس کرتا ہے.اور ہر سپاہی میدان جنگ میں اس لئے جان نہیں دیتا کہ اس کے لئے مجبور ہوتا ہے.بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے جب کہا جاتا ہے کہ فلاں خطرناک موقع پر کون کون جانا چاہتا ہے اس وقت بہت لوگ اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں.ان کے متعلق کوئی نہیں کہہ سکتا کہ انہیں اپنی جان عزیز نہیں ہوتی ، انہیں بیوی بچوں سے محبت نہیں ہوتی وہ جانتے ہیں کہ ۹۹ فیصدی امکان موت ہے.وہ جانتے ہیں ان کی بیوی بچوں کا کوئی خبر گیراں نہ ہو گا.وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے بوڑھے ماں باپ کو پانی تک پلانے والا کوئی نہ ہو گا مگر باوجود اس کے وہ جاتے ہیں اور اپنی جانیں قربان کر دیتے ہیں.وہ غمگین ہوتے ہیں ان کے لئے جو ان کے پیچھے رہ جاتے ہیں مگر وہ خوش ہوتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ملک کی خاطر جان دی.میں نے ولایت میں شاہی نمائش میں جنگ کا ایک نقشہ دیکھا جو سرکاری طور پر دکھایا گیا تھا.ایک جگہ جرمنوں کا بحری بیڑہ خطرناک حملہ کرتا تھا جہاں اس نے سینکڑوں جہاز برطانیہ اور فرانس کے غرق کر دیئے جب نقصان حد سے زیادہ بڑھ گیا تو انگریزی امیر البحر نے فیصلہ کیا کہ خواہ کچھ ہوا سے فتح کرنا چاہئے مگر وہ مقام فتح نہیں کیا جا سکتا تھا جب تک کچھ جہازوں کے ساتھ کچھ جانیں بھی ضائع نہ ہوں.اُس وقت بحری فوج میں اعلان کیا گیا کہ کون کون لوگ اس کام کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں.اس پر سب بحری فوج نے اپنے آپ کو پیش کر دیا.اس میں سے کچھ آدمی چنے گئے.ان کا کام یہ تھا کہ اس مقام پر جا کر اپنے اپنے جہاز کو غرق کر کے وہ راستہ بند کر دیں جہاں سے نکل کر جرمن جہاز حملہ کرتے تھے.ادھر جرمن بھی سوئے ہوئے نہ تھے.ان کے پہرے مقرر تھے اس لئے یہ تجویز کی گئی کہ انگریزی بیڑہ ایک اور طرف حملہ
۱۳ کرے اور جب جرمن بیڑہ کی ادھر توجہ ہو تو ادھر سے انگریزی جہاز گھس جائیں.یہ اتنی میل کی دیوار بنی ہوئی تھی اس کے سرے کو توڑنے کی کوشش کی جانی تھی اس کے لئے ایک ایسا جہاز تیار کیا گیا جس کے لئے سب سے زیادہ یقینی موت تھی.اس میں کام کرنے کے لئے پھر خاص طور پر آدمی چنے گئے.ان میں سے ایک سپاہی نے اپنے آپ کو پیش کیا جس کی عمر ۱۷ سال کی تھی اس کا دوسرا بھائی افسر تھا اس نے کہا میں قواعد کے لحاظ سے اپنے آپ کو پیش تو نہیں کر سکتا مگر میں یہ درخواست کرتا ہوں کہ ہماری بوڑھی ماں ہے اگر میرا چھوٹا بھائی اس مہم میں چلا گیا تو وہ خیال کرے گی کہ چھوٹے بھائی کی اس نے کچھ مدد نہ کی اس لئے مجھے بھی اس کام لینے کی اجازت دی جائے تاکہ میں اپنے بھائی کو بچانے کی کوشش کروں.اسے اجازت دی گئی.اس کے بعد ان کا ایک ماموں زاد بھائی تھا اس نے کہا مجھے ان دونوں کو بچانے کی اجازت دی جائے.اسے بھی اجازت مل گئی.آخر وہ جہاز گیا.اس وقت کا سارا نظارہ دکھایا میں حص گیا خدا کی قدرت وہ تینوں ہی بچ گئے اور راستہ بند کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے.3 اس قسم کی کیفیات جو پیدا ہوتی ہیں ان کے متعلق ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ان میں لذت بھی ہوتی ہے اور رنج بھی.اس شخص کی کیفیت جس نے کہا کہ میرا چھوٹا بھائی جاتا ہے مجھے بھی جانے دیا جائے ورنہ میری ماں مجھ پر افسوس کرے گی جہاں غم پیدا کرتی تھی کہ یہ ایسا موقع ہے جہاں قریباً یقینی موت ہے وہاں خوشی بھی پیدا کرتی تھی کہ میں اپنے فرض کو ادا کرنے جا رہا ہوں اور میں اپنے بھائی کو بچانے کے لئے آخری کوشش جو کر سکتا تھا اس سے دریغ نہیں کیا.پس کامیابیوں اور فتوحات کے ساتھ جو غم اور تکالیف ہوتی ہیں ان میں بھی لذت ہوتی ہے.اور وہ قوم جو خدا کی ہو جاتی ہے وہ بھی غموں میں مبتلاء ہوتی ہے بلکہ دوسروں سے بہت زیادہ مبتلاء ہوتی ہے کیونکہ اس کی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہوتی ہیں مگر اس کے ساتھ ہی اسے بہت بڑی خوشی اور فرحت بھی ہوتی ہے.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ رسول کریم میں کے متعلق فرماتا ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ اَلا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ نا تجھے دنیا کے کفر پر اتنا غم ہے کہ قریب ہے تو اس غم سے ہلاک ہو جائے.گویا خدا تعالیٰ غم کو چھری تصور کر کے فرماتا ہے کہ وہ کاٹتے کاٹتے گردن کے پچھلے چھڑے تک چلی گئی ہے.لیکن کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اگر رسول کریم ملی ایم کو ساری دنیا کی بادشاہت دے کر کہا جاتا کہ آپ اس غم کو جانے دیں تو
١٣٣ آپ اسے تسلیم کر لیتے ہرگز نہیں.اگر ایسا ہوتا تو اس سے رسول کریم ملی کو سخت غصہ آتا.تو مومنوں کے غم اپنے اندر خوشیاں رکھتے ہیں.ان کے غم اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ اگر ساری دنیا کے کافروں کے غم بھی جمع کئے جائیں تو ان کے غم کے برابر نہیں ہو سکتے مگر وہ غم مزیدار بھی ایسے ہوتے ہیں کہ اگر ساری دنیا کی خوشیاں جمع کر کے دے دی جائیں تو بھی وہ ان غموں کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ دیکھتے ہیں کہ اس غم کی وجہ سے وہ اپنے محبوب کے قریب ہوتے اور اس کی رضا حاصل کرتے ہیں.غم کی گھڑی میں ان کے آنسو کا قطرہ وہ دریا ہوتا ہے جس میں وہ کشتی چلتی ہے جو انہیں خدا تعالیٰ تک پہنچا دیتی ہے.اور ان کا غم جو خون خشک کر دیتا ہے اس سمندر کو سکھا دیتا ہے جو انسان اور خدا تعالیٰ کے درمیان حائل ہوتا ہے.پس غم مومن کو ہوتا ہے اور جب میں یہ کہتا ہوں کہ مومن افسردہ نہیں ہو تا تو اس کے یہ معنی نہیں کہ اسے غم نہیں ہوتا.جو شخص غم نہیں کرتا میں اسے مومن ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں.مومن وہی ہے جس کا دل غمگین اور فکر مند ہو اور جتنا کوئی بڑا مومن ہو گا اتنا ہی زیادہ غمگین ہو گا مگر باوجود اس کے مومن کبھی افسردہ دل نہیں ہوتا، کبھی ہمت نہیں ہارتا اس کے چہرہ پر کبھی مُردنی نہیں چھاتی ، وہ کبھی ہتھیار نہیں ڈالتا اور جب سب سے زیادہ خطرہ کا وقت ہوتا ہے اس وقت سب سے زیادہ ہوشیار اور سب سے زیادہ عقلمند ہوتا ہے.خدا تعالیٰ نے اس کے اندر ایسی قوت پیدا کی ہوتی ہے کہ وہ ایک منٹ کے لئے بھی نہیں سمجھتا کہ میں پس جاؤں گا.اور خواہ غموں کے پہاڑ بھی اس کے سامنے کھڑے ہو جائیں پھر بھی اس کی قوت کے سامنے حقیر ہوتے ہیں.پس عید ہم کو یہ سبق دیتی ہے کہ ایک مسلم کا رویہ کیا ہونا چاہئے یا یوں کہنا چاہئے کہ عید ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ خوشی کا پیدا کرنا انسان کے اپنے اختیار میں ہے اور جو قوم مشکلات اور تکالیف کی وجہ سے مایوس ہو جاتی ہے وہ کافروں میں داخل ہو جاتی اور خدا تعالیٰ کی مدد سے محروم ہو جاتی ہے.لیکن جس طرح ہر شخص عید کے دن خوش ہوتا ہے اسی طرح ہم جو خدا تعالیٰ کے ایک نبی اور مرسل کی جماعت ہیں یہ کہیں کہ نبی کے زمانہ میں ہم خوش ہی رہیں گے اور کبھی اور کسی حالت میں ہمت نہ ہاریں گے اور ساری دنیا کو فتح کرلیں گے تو جس طرح آج خوش ہو گئے ہیں اس سے بہت زیادہ خوشیاں پیدا ہو سکتی ہیں اور جس طرح آج عید کے دن ہماری طبیعت خوشی کی طرف مائل ہو جاتی ہے اور اگر کوئی غم کی بات ہو بھی تو
کہہ دیتے ہیں اس میں بھی کوئی حکمت اور فائدہ ہے اسی طرح اگر ہم اپنے لئے حقیقی عید پیدا کر لیں اور ہر تکلیف اور ہر مصیبت جو آئے اس کے متعلق کہیں.ہر بلا کیں قوم را حق داده است زیر اں گنج کرم بنهاده است الله تو کوئی مصیبت مصیبت نہیں رہ سکتی.پس میں آج اپنے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ جس طرح میں نے کل کہا تھا کہ ہم جب چاہیں رمضان کا آخری عشرہ اور لیلۃ القدر بنا سکتے ہیں.لالہ اسی طرح میں آج کہتا ہوں کہ عید بنانا ہمارے اختیار میں ہے جب ہم چاہیں عید بنا سکتے ہیں کیونکہ عید ہمارے قلب میں پیدا ہوتی ہے اور اگر ہم فیصلہ کرلیں کہ ہر روز عید ہی رکھیں گے تو کوئی طاقت نہیں جو ہمارے اس فیصلہ کو مٹا سکے کیونکہ اس زمانہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمیں عید دی گئی ہے اور خدا تعالیٰ کی دی ہوئی چیز میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ کوئی طاقت اسے مٹا نہیں سکتی.پس جب کہ ہم نے خدا تعالٰی کے مامور اور مُرسل کو قبول کیا ہے اور جب کہ اس کے نبی کی بیعت کی ہے اور اس کے اتباع میں داخل ہوئے ہیں اور جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی معرفت ہمیں عظیم الشان کامیابیاں حاصل ہو چکی ہیں.تو پھر کوئی طاقت نہیں جو ہمیں پیس سکے اور کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے دل غمگین ہو سکیں.میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ آئندہ مشکلات نہیں ہوں گی.مشکلات ہوں گی اور اس سے زیادہ ہوں گی جتنی اب تک ہو چکی ہیں اور جتنی اب تک کی قربانیاں کی گئی ہیں اس سے بہت زیادہ آئندہ کرنی پڑیں گی لیکن جس طرح باوجود اس کے کہ عید کے دن روپیہ خرچ کرنا عید کی خوشی کو زائل نہیں کر دیتا اسی طرح کوئی وجہ نہیں کہ غم اور مشکلات اور تکالیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کو ہمارے لئے عید کا زمانہ نہ رہنے دیں.اگر ہم عید کے طور پر اس زمانہ کو منانا چاہیں تو کوئی نہیں جو ہمیں اس سے روک سکے.پس میں دوستوں کو کہتا ہوں کہ اس عید کے منانے کے لئے اپنے دل میں فیصلہ کر لو اور جب تم یہ فیصلہ کر لو گے کہ ہم مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کو عید کی طرح منائیں گے تو پھر تم دیکھو گے کہ آج جو مشکلات تمہیں گھبرا دیتی ہیں اس ارادہ کے بعد نہیں گھبرائیں گی اور وہ فکر اور غم جو اب تمہیں ڈراتے ہیں وہ اس ارادہ کے بعد نہیں ڈرائیں گے اور وہ مشکلات جو پہاڑوں کی مانند نظر آتی ہیں اس ارادہ کے بعد تنکا کے برابر بھی حقیقت نہ رکھیں گی.
۱۳۵ دوسرا سبق ہمیں عید سے یہ ملتا ہے کہ کوئی عید بغیر قربانی کے نہیں حاصل ہو سکتی.اگر ہم علاوہ اس وجہ کے جو اوپر بیان کی گئی ہے کہ ہم خوش ہونا چاہتے ہیں یہ دیکھیں کہ خدا نے عید کیوں مقرر کی ہے؟ تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب ہم خدا تعالٰی کے حکم کے ماتحت کھانا پینا چھوڑتے ہیں سولہ تو اس کے بعد عید میتر آتی ہے گویا ظاہری عید نفس کی طرف سے آتی ہے اور اصل عید خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے اور وہ قربانیوں کے بعد آتی ہے.پس اگر تم حقیقی عید دیکھنا چاہتے ہو تو اس کے لئے ایک ہی رستہ ہے کہ کچی قربانیاں کرو.خدا تعالی کے دین کی خدمت اس کے کلمہ کے اعلاء کے لئے ، اس کی طرف سے جو صداقت آئی ہے اس کے پھیلانے کے لئے اپنی جان اپنے مال اپنے اوقات اپنے علوم اپنے خیالات اپنی اُمنگوں اپنے رشتہ داروں ، اپنے قریبوں ، اپنے نفوس کو قربان کرنا چاہئے کیونکہ بغیر قربانی کے کوئی عید نہیں.اور جتنی بڑی قربانی ہو اتنی ہی بڑی عید ہوتی ہے.دیکھو جو لڑکا پانچ سال قربانی کرتا ہے اس کے لئے پرائمری کی عید ہوتی ہے اور جو دس سال قربانی کرتا ہے اس کے لئے انٹرنس کی اور جو چودہ سال قربانی کرتا ہے اس کے لئے بی.اے کی عید ہوتی ہے.پس جتنی بڑی قربانی ہو اتنی ہی بڑی عید ہوتی ہے.ہمیں بھی چاہئے کہ اس بڑی عید کے لئے پوری تیاری کریں.اپنے مال ، اپنے نفوس غرض اپنی ہر ایک چیز کو خدا ہی کی سمجھیں اور سمجھیں کیا پہلے ہی جو کچھ ہے خدا کا ہے.ہم جب یہ کہیں گے کہ ہمارا سب کچھ خدا کے لئے ہے تو یہ صرف صداقت کا اقرار ہو گا کوئی نئی قربانی نہ ہوگی بلکہ ایک جھوٹ کو چھوڑنا ہوگا کیونکہ جب ہم یہ سمجھتے تھے کہ یہ مال ہمارا ہے تو وہ ہمارا نہ تھا بلکہ خدا ہی کا تھا کیونکہ اسی کی طرف سے ملا تھا.مگر ہم احسان فراموش تھے جو دینے والے کو بھول گئے تھے اور جب یہ کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ خدا ہی کا ہے تو اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اس نے دیا ہے اور یہ کوئی قربانی نہیں بلکہ جھوٹ کو چھوڑ کر سچ کو اختیار کرنا ہے.پس میں جہاں اپنی جماعت کو اس بڑی عید کی طرف توجہ دلاتا ہوں وہاں یہ بھی کہتا ہوں کہ اس کے لئے بڑی بڑی قربانیاں بھی کرنی چاہئیں.مجھے بڑا تعجب آتا ہے جب میں سنتا ہوں کہ جماعت پر بوجھ بہت بڑھ گیا ہے بڑی قربانیاں ہو گئی ہیں کیونکہ جو کچھ ہونا چاہئے تھا میرے نزدیک اس کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہوا.دیکھو اگر ایک کمزور اور نحیف آدمی کو اٹھا کر چارپائی پر بھی بٹھایا جائے گا تو وہ کہے گا میں تھک گیا ہوں مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہو گا کہ اس نے کوئی بڑا کام کیا ہے.اسی طرح جب کہا جاتا ہے کہ بڑی قربانیاں ہو گئی ہیں تو میں یہ کہنے
کو تو تیار ہوں کہ یہ کہنے والے تھک گئے ہیں مگر یہ نہیں کہہ سکتا کہ انہوں نے کوئی بڑا کام بھی کیا ہے.اور انہیں تھکنے کا حق بھی تھا بے شک وہ تھکان محسوس کرتے ہیں مگر بوجہ اپنی کمزوری اور کم ہمتی کے نہ کہ بوجہ کام کے.اور اس وجہ سے تھکنے والوں کو کام لینے والا چھوڑ نہیں سکتا.بیمار کا یہ کام نہیں کہ اپنی کمزوری کو پیش کر کے کام کرنے سے جی چرائے بلکہ اس کا کام ہے کہ بیماری کا علاج کرائے.پس یہ ایک وسوسہ ہے جو بعض لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو گیا ہے کہ انہوں نے قربانی کی ہے.ہرگز انہوں نے کوئی ایسی قربانی نہیں کی جسے قربانی کہا جاسکے.اگر تم حقیقی عید حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس کے لئے ایسی قربانیاں کرو جن کی نظیر پہلے زمانوں میں نہ مل سکتی ہو حتی کہ صحابہ میں بھی نہ ملتی ہو.ہے؟ کیونکہ اس زمانہ میں جو کام تمہارے سپرد کیا گیا ہے وہ اس زمانہ کے کام سے بہت بڑا ہے.تمہارا کام شیطان کو کچلنا ہے اور ایسے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالٰی نے مبعوث کیا ہے جب کہ تمام دنیا کے لوگوں کے دلوں پر شیطان نے قبضہ کیا ہوا ہے.پھر تم کمزور اور مفتوح ہو اور جن لوگوں کے دلوں پر تم نے قبضہ کرنا ہے وہ فاتح اور طاقتور ہیں.اس حالت میں شیطان کو مٹانے کا کام کسی نبی کی جماعت کے سپرد نہیں کیا گیا.رسول کریم ملی امید لالی کے لئے یہ کام مقرر تھا مگر آپ کی دوسری بعثت میں یہ کام ہو نا تھا.۴.سو یہ کام ہو گا تو آپ" کی ہی قوت قدسیہ کے ذریعہ مگر پہلے نہیں ہوا.پہلے ظہور کے وقت آپ کے سپرد یہ کام نہ کیا گیا تھا جو آب کیا گیا ہے.پس اس کام کے لئے جس قربانی کی ضرورت ہے وہ اپنی مثال پہلے زمانہ میں نہیں رکھتی.مگر ہماری قربانیاں ابھی حضرت مسیح کے زمانہ کی قربانیوں جتنی بھی حقیقت نہیں رکھتیں.پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اپنے نفوس کو اس قربانی کے لئے تیار کرو جس کی نظیر پہلے نہیں مل سکتی اور جس کے بغیر حقیقی عید نہیں حاصل ہو سکتی.خدا تعالیٰ ہمارے لئے اپنے فضل سے دونوں عیدیں دکھائے.وہ عید بھی جو اپنے نفسوں سے پیدا ہوتی ہے اور وہ بھی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے.اس کے ساتھ ہی میں اپنے دوستوں کو اس امر کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ یہ زمانہ اشاعت کا زمانہ ہے ۱۵ مگر کوئی اشاعت اس وقت تک فائدہ نہیں دے سکتی جب تک اسے قبول کرنے کے لئے قلوب تیار نہ ہوں.مگر مجھے افسوس ہے کہ بعض دوستوں کا خیال ہے اشاعت کے معنی یہ ہیں کہ لیکچر دیئے جائیں.حالانکہ لیکچر دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا ج
۱۳۷ تک اسے قبول کرنے کے لئے قلوب تیار نہ ہوں.جتنے لیکچر اب تک ہو چکے ہیں اتنے کسی نبی کے زمانہ میں نہیں ہوئے ہوں گے مگر ان کا اثر اتنا ظاہر نہیں ہوا جتنا ہونا چاہئے تھا.جس کی وجہ یہ ہے کہ سننے والوں میں سے ہر ایک یہ سمجھتا ہے کہ یہ باتیں دوسروں کے لئے ہیں.اس وجہ سے سب کے سب خالی رہ جاتے ہیں اور کسی کے برتن میں بھی پانی نہیں پڑتا.دوستوں کو چاہئے کہ اپنی حالتوں میں تغیر پیدا کریں اور یہ یقین رکھیں کہ جو بات بتائی جاتی ہے وہ ان کے لئے ہی ہوتی ہے.اس کے بعد اب میں دعا کرتا ہوں سب احباب اس میں شامل ہوں.خدا تعالیٰ اپنے فضل سے ایسی اصلاح کر دے جو اس زمانہ کے کام کے لئے ضروری ہے اور جو خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کے بچے پیارے اور مقرب بندوں میں ہونی چاہئے.اسلامی اصول کی فلاسفی صفحه ۲۵ مطبوعه الشركته الاسلامیه ربوه (الفضل ۵ مئی ۱۹۲۵ء) ه در محفل خود راه مده بچو سنے را - افسردہ دل افسرده کند انجمن را (غنی کاشمیری) پیدائش باب ا آیت ۲۶ الحج : ١٩ ه البلد : ا ق : ۱۸ تا ۳۵ الانفال : ٣ بخارى كتاب الرقاق باب الرجاء مع الخوف که مسلم كتاب التوبة باب في سعة رحمة الله يوسف : ٨٨ یہ حضور کے سفر انگلستان ۱۹۲۴ء کا واقعہ ہے.اس بارے میں مکرم محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب تحریر فرماتے ہیں.” ویمبلے کی نمائش میں بعض فوجی مناظر سٹیج کئے جاتے تھے حضور شائد دو بار ہی نمائش میں تشریف لے گئے تھے ممکن ہے تین بار تشریف لے گئے ہوں.صرف ایک بار خاکسار کو حضور کی خدمت میں ساتھ جانا یاد ہے.اس وقت جو منظر سیج کیا گیا وہ فوجی تھا.بحری منظر کا دکھایا جانا خاکسار کو یاد نہیں.فوجی منظر کے دیکھنے کے بعد حضور نے فرمایا لوگ تو منظر دیکھ کر خوش ہو رہے تھے اور تالیاں پیٹ رہے تھے اور میں اس فکر میں تھا کہ جس قوم کی یہ روایات ہیں ہم اس کا مقابلہ کیسے کر سکیں گے.(مکتوب بنام
مرتب محرره ۱۹ اگست ۱۹۲۸ء) الشعراء: الله مثنوی معنوی کا جو نسخہ خلافت لائبریری میں ہے اس میں یوں مرقوم ہے.زندگی ور مرون و ور سخنشست آب حیواں ظلمت ور درون ہر بلا کیں قوم را حق داده است سرت زی او صد فائده است بشاره ذکر کرامات شیبان راعی و معجزہ ہود) مثنوی معنوی مولانا روم - دفتر ششم مطبوعه تیج کمار پریس.لکھنو.نیز الهام منظوم ترجمه مثنوی مولانا روم ۱۲ خطبه جمعه فرموده ۲۴ اپریل ۱۹۲۵ء مطبوعہ الفضل ۷ مئی ۱۹۲۵ء البقرة : ١٨٨ بخاریى كتاب الانبياء باب نزول عيسى بن مريم ها التكوير )
۱۳۹ (۱۵) ( فرموده ۱۴.اپریل ۱۹۲۶ء بمقام باغ حضرت مسیح موعود علیہ السلام - قادیان) ! بسا اوقات دنیا میں انسان اپنی صحیح حالت کا اندازہ لگانے سے قاصر رہ جاتا ہے.بہت دفعہ دیکھا گیا ہے کہ ایک انسان ترقی کی طرف جا رہا ہوتا ہے ، کامیابی کی طرف چل رہا ہوتا ہے اور فتح و ظفر کی طرف قدم مار رہا ہوتا ہے لیکن خیال یہ کرتا ہے کہ میں ناکام ہو رہا ہوں شکست کھا رہا ہوں.اور بہت دفعہ دیکھا گیا ہے انسان یہ خیال کرتا ہے کہ میں کامیاب ہو رہا ہوں، ترقی کی طرف جا رہا ہوں اور فتح و ظفر کی طرف قدم مار رہا ہوں لیکن در حقیقت وہ ناکام ہو رہا ہوتا ہے اور شکست کے سامان اس کے لئے پیدا ہو رہے ہوتے ہیں.اس غلطی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بسا اوقات انسان کامیابی کے سرے پر پہنچ کر پھر ہمت ہار دیتا ہے اور اس دھوکا کی وجہ سے جو اس کے نفس کو لگا ہوتا ہے کہ شکست کھا رہا ہوں واقعہ میں وہ شکست کھا جاتا ہے اور اسی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ جن کے لئے تباہی کے سامان ہو رہے ہوتے ہیں وہ اندھا دھند چلے جاتے ہیں اور بغیر علاج کئے موت کے منہ میں جا پڑتے اور اپنے فریب میں آپ ہی اُلجھ جاتے ہیں اس لئے انسان کی صحیح حالت کا اندازہ ضروری ہوتا ہے اور صحیح اندازہ ہی اس کی ترقی میں بہت بڑائی ہو سکتا ہے.اگر کوئی اپنے متعلق صحیح اندازہ نہیں لگاتا تو بسا اوقات کامیابی اس کے ہاتھ میں آئی ہوئی جاتی رہتی ہے اور بسا اوقات وہ ناکامی سے بچ سکتا تھا مگر کوشش نہیں کرتا.پس صحیح اندازہ کامیابی کے لئے نہایت ضروری ہے کوئی حقیقت ہی اس کے لئے ضروری نہیں جس پر قائم ہو بلکہ اس کا صحیح علم بھی ضروری ہے.آج کا دن عید کا دن کہلاتا ہے اور جس دن کو خدا اور اس کے رسول ملی کی طرف سے عید کا دن ہ قرار دیا جائے کون ہے جو کے وہ عید کا دن نہیں ہے لیکن باوجود اس کے کہ یہ عید کا دن ہے پھر بھی خدا تعالیٰ کے قانون کے ماتحت ہو سکتا ہے کہ بعض کے لئے یہ عید کا دن ہو اور بعض کے لئے نہ ہو.دیکھو عمدہ غذاؤں کے عمدہ ہونے میں شک ہی کیا ہو سکتا ہے اور طیب غذاؤں کے طبیب ہونے میں کون شک کر سکتا ہے.پھر جن غذاؤں کو خدا تعالیٰ نے جسم کو قور
دینے کے لئے پیدا کیا ہے کون ہے جو ان کی اس صفت سے انکار کر سکے.مگر باوجود اس کے کہ طیب غذا ئیں جسم کو طاقت دیتی ، صالح خون پیدا کرتی ، جسم کو فربہ کرتی ، دماغ کو قوت دیتی ہیں وہی غذائیں انسان کی اپنی حالت کے ماتحت ایسی ہو جاتی ہیں کہ انہیں کھا کر بیمار ہو جاتا ہے.دودھ کیسی اعلیٰ درجہ کی غذا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر انسان کے لئے بہت فوائد رکھے ہیں.قرآن کریم میں اس کی یہ تعریف کی گئی ہے کہ سب سے زیادہ ہضم ہونے والی اور نہایت عمدگی سے جسم میں جذب ہونے والی غذا ہے ، لیکن یہی دودھ کسی بیماری اور جسمانی نقص کی وجہ سے مضر ہو جاتا ہے.میرا ہی ذاتی تجربہ ہے.مجھے دودھ کسی صورت میں نہیں بیچ سکتا.چند دن اگر طبیعت کو مجبور کر کے استعمال کروں تو بخار ہو جاتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی وفات سے ایک سال پہلے سے میری یہی حالت چلی آتی ہے.۱۹۰۷ء میں میں بیمار ہوا تو حضرت خلیفہ المسیح الاول نے حکم دیا کہ چھ ماہ تک میں دودھ یا شامی کباب خشکہ کے ساتھ کھانے کے سوا اور کچھ نہ کھاؤں پیوں.اس کے بعد مجھے دودھ سے قدرتی طور پر تنفر پیدا ہو گیا اور اگر میں استعمال کروں تو بخار ہو جاتا ہے گلا پک جاتا ہے، نزلہ ہو جاتا ہے اس سارے عرصہ میں صرف ایک دفعہ ایسا ہوا ہے کہ دودھ مجھے بیچنے لگا اور وہ اس طرح کہ میں حضرت خلیفہ اول کی زندگی میں ایک دفعہ میر کے لئے پھیر و چیچی کے کی طرف گیا.ہم دریا ، پر سے پھر کر واپس آ رہے تھے کہ ایک احمدی بھائی نے دودھ کا پیالہ پیش کیا اور اصرار کیا کہ میں پی لوں.میں نے ہر چند انکار کیا مگر اس نے نہ مانا آخر میں نے شیخ یعقوب علی صاحب بہ اور مفتی فضل الرحمن صاحب مکہ سے جو میرے ساتھ تھے کہا کہ میری مدد کریں اور اس شخص کو سمجھائیں کہ میں تکلف نہیں کرتا بلکہ مجھے دودھ پینے سے تکلیف ہو جاتی ہے.انہوں نے بھی سمجھایا مگر اس نے کسی کی نہ مانی اور یہی اصرار کیا کہ میری خاطر آپ ایک گھونٹ ہی پی لیں.میں نے خیال کیا اگر میں انکار پر ہی قائم رہا تو اس کی دل شکنی ہوگی اور ایک گھونٹ کیا پینا ہے میں نے یہ یقین کرتے ہوئے کہ ضرور بیمار ہو جاؤں گا سارا پیالہ ہی پی لیا.مگر اس کا ایسا اثر ہوا کہ نہ صرف وہ دودھ ہضم ہو گیا بلکہ اس کے بعد چھ ماہ تک مجھے دودھ پچتا رہا.مگر یہ خاص واقعہ خاص حالات کے ماتحت ہوا اور پھر وہی حالت ہو گئی تو دودھ جیسی اعلیٰ غذا بھی انسان کو نہیں بچ سکتی.بعض لوگ گوشت نہیں کھا سکتے بعض گھی نہیں ہضم کر سکتے کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ اعلیٰ غذا ئیں نہیں ہیں.ہیں اور ضرور ہیں مگر بعض کے حالات کے ماتحت ان کے لئے
اعلیٰ نہیں رہتی.پس یہ بالکل صحیح بات ہے کہ انسان کے قلب کی حالت اور اس کے وجود میں جو تغیر پیدا ہوتے رہتے ہیں ان کی وجہ سے کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بیرونی چیزیں جو اچھی ہوتی ہیں اس سے مل کر بُرا نتیجہ پیدا کرتی ہیں اور کبھی ایسی چیزیں جو بُری ہوتی ہیں اس سے مل کر اچھا نتیجہ پیدا کر دیتی ہیں.دیکھو وہی خدا تعالیٰ کی کتاب جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے اس میں شفا اور رحمت اور بینات ہیں.اسے بعض لوگ جب پڑھتے ہیں تو اس میں انہیں عیب ہی عیب نظر آتے ہیں.عیب قرآن کریم میں نہیں مگر جن کی بینائی میں فرق ہوتا ہے ان کو عیب ہی عیب نظر آتے ہیں.اس کے مقابلہ میں دیکھو وہ شیطان جس کا کام انسانوں کے دلوں میں شبہے ڈالنا دسوے پیدا کرنا اور نیکی سے محروم کرنا ہے اس کے متعلق رسول کریم میں اور فرماتے ہیں وہ مجھے نیک باتیں کہتا ہے.3.اس کے معنی یہ ہیں کہ رسول کریم میل ل ل ل ل مل کی نیکی اتنی ترقی کر گئی تھی کہ اگر کوئی بڑی بات بھی آپ کے کان میں پڑتی تو وہ اچھی ہو جاتی تھی.اس کی مثال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ایک واقعہ سے بھی ملتی ہے.وہ کہیں جا رہے تھے کچھ اور لوگ بھی ان کے ساتھ تھے کہ راستہ میں کتا مرا پڑا تھا.ساتھیوں نے کہا کیا بد صورت جانور ہے کتنی بدبو آ رہی ہے.حضرت عیسی علیہ السلام نے کہا دیکھو اس کے کیسے - خوبصورت دانت ہیں.ملا بات یہ ہے کہ جس کے اپنے اندر خوبی ہو اسے بُرائی میں بھی خوبی کا پہلو ہی نظر آتا ہے اور جس کے اندر عیب ہو وہ اچھی باتوں میں بھی عیب ہی دیکھتا ہے اس لئے اگر اچھے انسان کی نظر بڑی چیز پر پڑے تو وہ اس میں سے بھی اچھائی اخذ کر لیتا ہے اور بُرے کی نظر اگر اچھی چیز پر بھی پڑے تو اسے بُرائی ہی نظر آتی ہے.پس یہ ایک عام قانون ہے کہ اچھی چیزیں بُری سے مل کر بڑی ہو جاتی ہیں اور بڑی اچھوں سے مل کر اچھی ہو جاتی ہیں.پس عید بے شک عید ہے اور اس کے عید ہونے میں شبہ نہیں مگر سوال یہ ہے کہ ہم پر اس کا کیا اثر ہوتا ہے.دودھ دودھ ہی ہے مگر مجھے اس کے پینے سے تکلیف ہو جاتی ہے ، گھی بے شک اچھی غذا ہے مگر کئی لوگوں کے معدے اسے ہضم نہیں کر سکتے ، گوشت اچھی غذا ہے اور خدا تعالیٰ نے اس کی تعریف کی ہے لاء مگر کئی لوگوں کو اس سے بواسیر ہو جاتی ہے.پس عید خوشی کا دن ہے.مگر کیا ہر ایک کے لئے خوشی کا دن ہے ہر ایک کے لئے تو قرآن بھی ہدایت نہیں ہے.کیا عید قرآن کریم سے بھی بڑھ کر ہے قرآن تو شروع سے لے کر اخیر تک ہدایت ہی ہدایت ہے جس کا
ما ایک ایک لفظ شفا اور رحمت ہے.پھر کیا یہی قرآن لاکھوں اور کروڑوں انسانوں کے نزدیک گمراہی کا موجب نہیں ہے.پس کوئی یہ خیال نہیں کر سکتا کہ عید قرآن کریم سے بھی بڑھ کر مبارک ہے کہ ہر ایک کے لئے خوشی کا موجب ہو.اصل بات یہ ہے کہ جس طرح قرآن کریم انسان کی قلبی حالت کے مطابق اس کے لئے شفا اور ہدایت بنتا ہے اسی طرح عید بھی کسی کے لئے عید ہوتی ہے اور کسی کے لئے نہیں ہوتی.اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ کس کے لئے عید بنتی ہے اور کس کے لئے نہیں بنتی.اس کے لئے ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ عید میں سب سے بڑی خوشی کا موجب کیا چیز ہوتی ہے.جب ہم اس بات کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عید میں خوشی کا موجب اجتماع ہوتا ہے دوست ایک دوسرے سے ملتے ہیں ، اس دن کا روبار بند کر دیتے ہیں ، اکھٹے چلتے پھرتے ہیں اور بنی نوع میں خدا تعالیٰ نے یہ مادہ رکھا ہے کہ جب وہ اپنے بھائیوں کو اکٹھے دیکھے تو خوشی محسوس کرے اس لئے جب انسان اکٹھے ہوتے ہیں تو خوشی اور دل بستگی حاصل کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ میلے ہوں یا اجتماع ان میں خوشی کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں.تو اجتماع کی خوشی فطرت میں ایسی رکھی گئی ہے کہ جب انسان اجتماع میں ہوتا ہے تو لذت اور آرام محسوس کرتا ہے اور اس کا نتیجہ ظاہری خوشی ہوتی ہے پس حقیقی خوشی اجتماع کی وجہ سے ہوتی ہے دیکھو جن کو حقیقی اجتماع میسر آتا ہے انہیں حقیقی خوشی ہوتی ہے اور جنہیں یہ میسر نہیں ہوتا ان کے لئے کوئی خوشی خوشی نہیں ہوتی.جن عورتوں کے بچے گھروں میں ہوتے ہیں وہ عید کے دن خوشی مناتی ہیں لیکن جن کے پاس ان کے بچے نہ ہوں انہیں عید کے دن ہر چیز دیکھ کر رقت آجاتی ہے.وہ دوسروں کو سیویاں کھلا رہی ہوتی ہیں مگر ان کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا رہے ہوتے ہیں.وہ دوسروں کو کپڑے پہناتی ہیں مگر خود رنج والم میں ڈوبی ہوتی ہیں.چونکہ خوشی کے ساتھ انہیں رنج پہنچا ہوتا ہے اس لئے ان کے لئے عید نہیں ہوتی.پھر کسی کے گھر کوئی مرجائے تو وہ کیوں عید نہیں کرتے اسی لئے کہ وہاں اجتماع نہیں رہا بلکہ جدائی ہو گئی ہے اور جدائی کی وجہ سے اس گھر والوں کو خوشی نہیں ہو سکتی.پس جب عید کی خوشی اصل اجتماع سے ہے تو سوال یہ ہے کہ عید کی خوشی کا حق ان لوگوں کو کہاں میسر ہے جنہیں حقیقی اجتماع حاصل نہیں ہوا.در حقیقت انسان کی پیدائش پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے.انسان دو اجتماعوں کے
۱۳ لئے پیدا کیا گیا ہے اس کی دو غرضیں اور دو مقصد ہیں جو مذہب پیش کرتا ہے.اول یہ کہ خدا تعالیٰ سے اجتماع ہو اور دوسرا یہ کہ بنی نوع انسان سے اجتماع ہو.اے خدا تعالیٰ کے ساتھ اجتماع کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بنی نوع انسان سے ملے اور اس کے ساتھ ایک ہو جائے.پس حقیقی عید اسی کی ہے جس کا خدا تعالیٰ سے وصال اور اجتماع ہو گیا.جسے یہ حاصل نہیں اس کے لئے کوئی عید نہیں کیونکہ وہ ہستی جو کبھی فنا ہونے والی نہیں وہ اللہ ہی کی ذات ہے.۱۳ دوسری تمام ہستیاں ایسی ہیں کہ جن سے اگر آج جو ڑ ہوا تو گل افتراق ہو گیا.بعض دفعہ موت ایسے انسانوں کو جدا کر دیتی ہے کہ انسان سمجھتا ہے کہ اگر فلاں وجود مجھ سے جُدا ہو گیا تو میں ایک منٹ بھی زندہ نہیں رہ سکوں گا مگر جس سے اسے اس قدر محبت ہوتی ہے وہ مرجاتا ہے اور پھر یہ زندہ رہتا ہے.وہ وجود کہ جس کے متعلق ایک انسان خیال کرتا ہے جہاں اس کا پسینہ گرے گا وہاں میں اپنا خون گراؤں گا اور خیال کرتا ہے کہ اس سے میرا الگ ہونا میرے لئے موت ہے مگر وقت آجاتا ہے کہ اسے الگ ہونا پڑتا ہے اس کا محبوب دنیا سے چلا جاتا ہے اور وہ زندہ رہتا ہے.دیکھو رسول کریم ملی والے سے بڑھ کر کسی سے کسی کو کیا محبت ہوگی جو صحابہ کو رسول کریم ملی سے تھی.یا رسول کریم ملی کو صحابہ سے تھی.۱۴ اس کا اندازہ دنیوی رشتوں اور تعلقات کی بناء پر لگایا ہی نہیں جا سکتا.کس طرح صحابہ اپنے دوست رشتہ دار وطن اور جائدادیں چھوڑ کر آپ کے پاس آگئے تھے.ھا، اور کس طرح رسول کریم ملی تیم کے چہرہ مبارک پر ایک نظر ڈالنے سے دنیا و مافیہ کا بھول جاتے تھے.۱۶ لیکن رسول کریم فوت ہو گئے اور وہ آپ کے عشق و محبت میں چور جو سمجھتے تھے کہ آپ کی جدائی میں ایک دن بھی زندہ نہ رہ سکیں گے زندہ رہے.اور دس ہیں ، تمھیں ، چالیس سال تک زندہ رہے.بے شک رسول کریم صلی اللہ و آلہ و سلم کی ذرا ذراسی بات کو یاد کر کے ان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے اور بلاشبہ آپ کی محبت اور پیار کے سلوک کو یاد کر کے ان کے لئے دنیا تلخ ہو جاتی تھی.مگر باوجود اس کے مرتے نہیں تھے ، زندہ رہے.حضرت عائشہ کے متعلق آتا ہے کہ آپ جب چھنے ہوئے آٹے کی روٹی کھاتیں تو آپ کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے.ایک عورت بیان کرتی ہے ایک دن میں نے دیکھا عائشہ نے روٹی کھا رہی ہیں اور رو رہی ہیں.میں نے پوچھا کیا ہوا تو انہوں نے کہا.رسول کریم میں ولیوں کی زندگی میں آٹا چھاننے کا سامان نہ ہو تا تھا.میں گیہوں کوٹ کر آپ کو روٹی پکا دیتی تھی.اب مجھے یہ خیال آ رہا ہے کہ
۱۴۴ آپ کی زندگی میں بھی ایسا آتا ہو تا تو میں آپ کو اس کی روٹی پکا کر کھلاتی.حملہ اس سے ظاہر ہے کہ رسول کریم میل و یا لیلی کی جدائی کی وجہ سے تھے حلق میں پھنستے کھانا نہ کھایا جاتا مگر پھر بھی حضرت عائشہ ان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمہیں چالیس سال تک زندہ رہیں.۱۸ اسی طرح حضرت ابو بکر جو رسول کریم میں اور کے ایک ایک اشارہ سے نتیجہ اخذ کرنے والے تھے اور جب رسول کریم می لی لی نے فرمایا یہ کیسی مبارک ۱۹ سورۃ نازل ہوئی ہے کہ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ اَفَوَاجًا فَسَبِّحُ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا تو صحابہ بہت خوش ہوئے مگر حضرت ابو بکر رو پڑے.لوگوں نے پوچھا آپ کو کیا ہو گیا.خدا کا رسول " خوشی اور فتح کی خبر دیتا ہے اور آپ رو رہے ہیں.انہوں نے کہا تم نہیں جانتے.خدا کے رسول اسی وقت تک دنیا میں رہتے ہیں جب تک ان کا کام ہو تا ہے اگر فتح آگئی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول کریم ملی دیوی کی وفات کا زمانہ بھی آگیا.۲۰ رسول کریم م ل ل ل ل لو و فوت ہو گئے.اس اور حضرت ابو بکر کی جان ساتھ نہ نکل گئی.گو وہ موت کو زندگی سے بہتر سمجھتے تھے مگر یہ حالت ان کو مار نہ سکی.پھر حضرت عمرہ کا کیا حال ہو ا ر سول کریم ملی ا للہ کی وفات پر.۲۲ مگر کیا وہ آپ کے ساتھ مر گئے.مرے نہیں تھے بلکہ ایک عرصہ تک بعد میں زندہ رہے اور جو کام ان کے لئے مقدر تھا وہ کر کے فوت ہوئے.۲۳ تو خواہ کسی کو کسی سے کتنی محبت ہو ساتھ مرتا نہیں اور خدا تعالیٰ کا قانون جدائی ڈال دیتا ہے جو برداشت کرنی پڑتی ہے.اب اس زمانہ میں ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا.آپ کے دیکھنے والوں کو آپ سے جو محبت تھی اس کا اندازہ وہ لوگ نہیں کر سکتے جو بعد میں آئے.یا جن کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں عمر چھوٹی تھی مگر مجھے خدا تعالیٰ نے ایسا دل دیا تھا کہ میں بچپن سے ہی ان باتوں کی طرف متوجہ تھا.میں نے ان لوگوں کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے محبت کا اندازہ لگایا ہے جو آپ کی صحبت میں رہے.میں نے سالہا سال ان کے متعلق دیکھا کہ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جدائی کی وجہ سے اپنی زندگی میں کوئی لطف محسوس نہ ہو تا تھا اور دنیا میں کوئی رونق نظر نہیں آتی تھی.حضرت خلیفہ اول جن کے حوصلہ کے متعلق جو لوگ واقف ہیں جانتے ہیں کہ کتنا مضبوط اور قوی تھا وہ
۱۴۵ اپنے غموں اور فکروں کو ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے مگر انہوں نے کئی دفعہ جب کہ آپ اکیلے ہوتے اور کوئی پاس نہ ہو تا مجھے کہا میاں! جب سے حضرت صاحب فوت ہوئے ہیں مجھے اپنا جسم خالی معلوم ہوتا ہے اور دنیا خالی خالی نظر آتی ہے.میں لوگوں میں چلتا پھرتا اور کام کرتا ہوں مگر پھر بھی یوں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں کوئی چیز باقی نہیں رہی.آپ کے علاوہ کئی اور لوگوں کو بھی میں نے دیکھا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی صحبت میں رہے ان کی محبت اور عشق ایسا بڑھا ہوا تھا کہ کوئی چیز انہیں لطف نہ دیتی وہ چاہتے کہ کاش ہماری جان نکل جائے تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جا ملیں.مگر باوجود اس خواہش کے وہ زندہ تھے ، مر نہیں گئے تھے.پس دنیا میں چیزیں خواہ کیسی ہی محبوب کیوں نہ ہوں ان سے جدائی ہوتی ہے اور وہ برداشت کرنی پڑتی ہے.لیکن ایک ایسی ہستی ہے جس سے کبھی جُدا نہیں ہونا پڑتا بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ اس سے انسان جدا نہیں ہو سکتا ممکن ہی نہیں کہ اس سے جُدا ہو سکے اور وہ خدا تعالیٰ کی ذات ہے.انسان اگر اپنی نادانی اور غفلت سے خدا تعالیٰ سے جُدا بھی ہونا چاہے تو بھی خدا تعالیٰ چونکہ محیط ہے ہر ایک چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے اس لئے انسان چاہے کتنا بھاگے اس کے احاطہ سے بھاگ نہیں سکتا.۲۴ خدا تعالیٰ اپنے علم اور فضل سے ہر جگہ موجود ہے اور جس طرح اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا احاطہ کیا ہوا تھا اسی طرح ابو جہل کا بھی کیا ہوا تھا.ہاں اس کی رحمت کئی شکلوں میں نازل ہوتی ہے کبھی تو اس کی رحمت فضل اور انعام کے ذریعہ نازل ہوتی ہے اور کبھی عذاب کے ذریعہ.تبھی تو خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے.رَحْمَتِی وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۲۵، اگر خدا تعالیٰ کا عذاب دیتا بھی رحمت نہیں تو پھر رَحْمَتِی وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ کس طرح ہوا.بات اصل میں یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کسی پر جو عذاب نازل ہوتا ہے وہ بھی چونکہ اس کی بھلائی اور بہتری کے لئے ہی ہوتا ہے اس لئے وہ بھی انعام اور فضل ہی ہوتا ہے کیونکہ بندہ خواہ کس قدر خدا تعالیٰ سے بھاگے وہ اسے نہیں چھوڑتا.دیکھو ابو جهل ۲۶ اپنی ساری کوششوں کے باوجود خدا تعالیٰ کے احاطہ سے بھاگ نہ سکا اسی طرح فرعون ۲۷ بھی اپنی تمام سعی کے باوجود بھاگ نہ سکا، شداد ۲۸ اور نمرود ۲۹ نے بھی بھاگنے کی بہت کوشش کی مگر بھاگ نہ سکے کیونکہ وہ ایسی ہستی سے ملے ہوئے تھے جس سے جدا نہیں ہو سکتے تھے مگر اس حالت میں تو وہ ہستی ان سے ملی ہوئی تھی وہ اپنی طرف سے نہ ملے ہوئے تھے
اور نہ اس کے لئے کوشش کرتے تھے.بات تو جب ہے کہ انسان بھی خدا تعالیٰ سے ملنے کی کوشش کرے.دیکھو اگر ماں بچہ سے محبت کرے لیکن بچہ اُس سے دُور بھاگے تو یہ ملاپ تو ہو گا مگر اس کے ساتھ ہی جُدائی بھی ہوگی.ماں کی طرف سے ملاپ ہوگا اور بچہ کی طرف سے جدائی.مگر عبد تب حقیقی عبد بنتا ہے جب دونوں طرف سے ملاپ ہو.بے شک اللہ تعالی کی طرف سے انسان کے ساتھ ہر حالت میں ملاپ رہتا ہے خواہ انسان فسق و فجور کرے خواہ انبیاء کا انکار کرے حتی کہ خدا کا بھی انکار کرے پھر بھی خدا تعالیٰ اسے نہیں چھوڑتا.وہ یہی کہتا ہے یہ میرا بندہ ہے میں اسے کیوں چھوڑوں.۳۰ کیونکہ خدا تعالیٰ وفا میں کامل اور محبت میں پورا ہے.کو تاہی اگر ہوتی ہے تو ہماری طرف سے ہی ہوتی ہے.مگر عبد بننے کے لئے ضروری ہے کہ ہماری طرف سے غفلت نہ ہو.جس طرح خدا تعالیٰ ہم سے ملا ہوا ہے ہم بھی اس سے ملیں.پس وہ عبد جس کے لئے واقعہ میں خوشی کا موقع ہو سکتا ہے وہی ہے جو اپنے مالک اور اپنے پیدا کرنے والے کے حضور جا گرتا ہے اور کہتا ہے میں تمام جُدائیوں کو چھوڑ کر تیرے آگے آگرا ہوں تو مجھے لے لے اور اپنے پاس رکھ لے.جب یہ حالت ہو جائے تب عید حقیقی عید کہلا سکتی ہے.پھر دوسری عید وہ عید ہے جب بنی نوع انسان آپس میں ملتے ہیں مگر ہر اجتماع خوشی کا موجب نہیں ہو تا.دو دشمن اگر ایک جگہ جمع ہوں تو انہیں خوشی نہیں ہوگی بلکہ عداوت اور بڑھ جائے گی.لوگ کہتے ہیں اگر دعوت کرنی ہے تو دو دشمنوں کو اکٹھا نہ کرو ورنہ دعوت کا مزا کر کرا ہو جائے گا.تو بے شک اجتماع سے خوشی ہوتی ہے مگر سچی خوشی تبھی ہوتی ہے جب دلوں کا اجتماع ہو.پس کچی اور حقیقی خوشی اس قوم کے لئے ہو سکتی ہے جو دو سروں کو اپنے اندر شامل کرتی، ان کو جذب کر لیتی اور اپنے ساتھ ملا لیتی ہے.اور جو قوم دوسروں کو جذب نہیں کرتی اور یہ قابلیت اپنے اندر پیدا نہیں کرتی اس کا کوئی حق نہیں ہے کہ عید منائے.میں پوچھتا ہوں وہ کس بات پر عید منا سکتی ہے.جب کہ اس کے بھائی اس سے جُدا ہوں اور اس کے بھائی ظلمت اور تاریکی میں پڑے ہوں.پس دوسری عید انہی لوگوں کو منانے کا حق حاصل ہو سکتا ہے جو دن رات اس کوشش میں لگے ہوں کہ اپنے بھائیوں کو کھینچ کر اپنے ساتھ ملالیں.دیکھو دنیوی طور پر یورپ کے لوگوں میں کھینچنے اور جذب کرنے کی طاقت ہے وہ عید منا رہے ہیں یا نہیں ؟ ساری دولت کھینچ کر لے جا رہے ہیں اور مزے اُڑا رہے ہیں.مگر یہ مادی طور پر کھینچنا
سے.ہے اسے کچی عید نہیں کہہ سکتے.بچی عید روحانی طور پر کھینچنے سے ہی حاصل ہو سکتی ہے.اس بات کو مد نظر رکھ کر اگر غور کرو تو معلوم ہو گا کہ عید منانے کا استحقاق صرف احمدی جماعت کے لئے ہی ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالیٰ تک پہنچنے کا دروازہ جو بند پڑا تھا اس کے لئے کھول دیا ہے اسے اور پھر ہمارے لئے ممکن بنا دیا ہے کہ ہم دنیا کو کھینچ کر اپنے ساتھ ملالیں.لوگ کس طرح کھینچ سکتے ہیں روحانیت کے ذریعہ یا دلائل.اور دنیا سے روحانیت مفقود ہے سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سچا تعلق پیدا کیا.اور حقیقی دلائل بھی موقوف ہو چکے ہیں سوائے اس کے کہ جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چشمہ سے پانی پیا.عیسائیت اگر لوگوں کو کھینچ رہی ہے تو دنیوی زیب و زینت کی وجہ سے ورنہ کون سے دلائل ہیں عیسائیت کے پاس جو دلائل کہلا سکنے کے مستحق ہیں.یہی حال ہندو ازم ، آریہ دھرم ، بدھ مذہب ، سکھ دھرم وغیرہ کا ہے.پھر مسلمان کہلانے والوں کے پاس کیا ہے.قرآن کریم دنیا میں موجود ہے مگر ان کے لئے بند پڑا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ہمارے لئے ہی کھولا گیا ہے.۳۲ پس اگر خدا تعالیٰ سے اجتماع کا امکان ہے تو ہمارے لئے ہی ہے اور اگر دنیا کو اپنے ساتھ ملا لینے کا امکان ہے تو وہ بھی ہمارے لئے ہی ہے.آگے یہ ہماری ہمتوں اور ارادوں پر منحصر ہے کہ اس بارے میں ہم کیا کرتے اور کس قدر کامیابی حاصل کرتے ہیں مگر بہر حال ہمارے لئے امکان ہے اوروں کے لئے یہ بھی نہیں.اگر کچی عید حاصل ہو سکتی ہے تو احمدیوں کو ہی ہو سکتی ہے.باقی یہ ہمارا کام ہے کہ جو دیوار ہمارے راستہ میں ہے اسے توڑ دیں اوروں کے لئے ممکن نہیں جب تک وہ بھی احمدیت میں داخل نہ ہو جائیں اور ان دلائل کو اخذ نہ کر لیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائے ہیں.ہم میں سے بہت ہیں جنہیں خدا تعالیٰ کے فضل سے حقیقی عید میسر ہے.خدا ان سے راضی ہے اور وہ خدا سے راضی ہیں.۳۳، اور خدا تعالیٰ نے ان میں وہ قوت اور طاقت رکھ دی ہے جس سے بنی نوع انسان کو کھینچ رہے ہیں.مگر ابھی بہت سے ایسے ہیں جن سے خدا تعالیٰ راضی نہیں ہوا اور انہوں نے خدا تعالیٰ کو راضی نہیں کیا وہ لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش نہیں کرتے.پس میں سب دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اس کے لئے کوشش کریں تا خدا تعالیٰ ان کے لئے کچی عید لائے.اور جس طرح بڑوں کے لئے عید حقیقی عید ہے اسی طرح چھوٹوں کے لئے بھی ہو اور
۱۴۸ ہمیشہ کی عید ہو.آج کی عید تو صبح آئی اور شام کو چلی جائے گی مگر دوسری عید ہمیشہ ہمیش رہتی ہے اور اس کا انسان کی موت سے بھی خاتمہ نہیں ہوتا بلکہ اس میں اور ترقی ہو جاتی اور اس کی خوبیاں بڑھ جاتی ہیں.اس عید کا مزا ہماری جماعت کے کئی لوگوں نے چکھا ہے اور ان کو بطور نمونہ خدا تعالیٰ نے پیدا کیا.مثلاً حضرت خلیفہ اول تھے آپ کے متعلق الہام میں خدا تعالیٰ نے بتایا.چہ خوش بودے اگر ہر یک زائت نور دیں بودے ۳۴ آپ کا نام نور دین تھا.مگر خدا تعالیٰ نے واقعہ میں آپ کو نور دین بنا دیا.اسی طرح ہماری جماعت کے کئی اور لوگوں نے اپنی جانیں دے کر بتا دیا کہ دین کے مقابلہ میں دنیا کی انہیں کوئی پروا نہیں ہے.پانچ نے تو یہ ثبوت پیش کر دیا.۳۵ مگر یہی نہیں کہ یہ پانچ ہی ایسے تھے.ان کو موقع مل گیا اور انہوں نے ایسا کیا.ورنہ ہزاروں ایسے انسان موجود ہیں کہ اگر انہیں موقع ملے تو پہلوں سے بھی بڑھ کر نمونہ دکھائیں گے مگر یہ خدا تعالیٰ کی دین ہے جس کو چاہے چن لیتا ہے.پس سب لوگوں کو چاہئے کہ بچی عید کے لئے کوشش کریں تا دنیا جو سمجھتی ہے کہ ہم مر رہے ہیں پس رہے ہیں دیکھ لے کہ ہم زندہ ہیں اور کامیابی کا دروازہ صرف ہمارے لئے کھلا ہے.در حقیقت اگر زندگی کی مستحق ہے تو ہماری ہی جماعت ہے اور مرنے اور مٹنے کے مستحق سرے لوگ ہیں.دیکھو موت اس کے لئے ہوتی ہے جو جنگل میں پڑا ہو اور اس کے قریب کہیں پانی نہ ہو.لیکن جو چشمہ کے کنارے بیٹھا ہو وہ پیاس سے نہیں مرسکتا.اگر ہم میں سے کچھ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے چشمہ سے پانی نہیں پیا تو چشمہ تو ان کے پاس ہے.جب ہاتھ بڑھا ئیں گے چشمہ سے سیراب ہو جائیں گے مگر جن کے پاس چشمہ ہی نہیں وہ کیا کر سکتے ہیں.پس ہمارے لئے صرف ہاتھ بڑھانے کی دیر ہے خدا تعالیٰ کا فضل ہمارے لئے آسکتا ہے.بچی کامیابی ہمارے لئے مقدر ہے.آگے تھوڑی سی کوشش کی ضرورت ہے.وہ دشمن ہم پر کیا ہنس سکتا ہے جو خود شراب پر بیٹھا ہے.کیا سُراب پر بیٹھنے والے کا حق ہے کہ چشمہ پر بیٹھنے والے پر ہے.اس کے لئے تو رونے کا مقام ہے کیونکہ وہ شراب پر بیٹھا ہوا سمجھتا ہے کہ پانی اس کے کنارے بیٹھا ہے حالانکہ وہ پانی نہیں ہے.پس دوستوں کو ہر قسم کی مایوسیوں اور نا امیدیوں کو دل سے نکال دینا چاہئے.میں ان لوگوں کی عقل پر حیران ہو تا ہوں جو کہتے ہیں لوگ ہماری
۱۴۹ : باتیں سنتے نہیں.اگر لوگ ہماری باتیں سننے کے لئے تیار نہیں تو پھر خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ کیوں کیا ہے کہ وہ ساری دنیا کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قدموں پر لا کر ڈال دے گا.۳۶، خدا تعالی زیادہ جانتا ہے یا تم.جب خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ دیا ہے تو معلوم ہوا دنیا حضرت مسیح موعود کی تعلیم کو مانے کے لئے تیار ہے.پس تم لوگ مایوسیوں اور ناامیدیوں کو اپنے دلوں سے نکال دو.تمہارے لئے اور صرف تمہارے لئے عید کا دن مقرر ہو چکا.پھر کیا کوئی عید مناتے ہوئے بھی رویا کرتا ہے.دوسری قوموں کے لئے عید نہیں وہ جتنا ماتم کریں کر سکتی ہیں مگر تمہارے لئے خوشی کا دن ہے تمہیں عید منانی چاہئے.رسول کریم می کریم نے فرمایا ہے جو شخص عید کے دن روزہ رکھتا ہے وہ شیطان ہے.۳۷، اس کے یہی معنی ہیں کہ جو عید نہیں مناتا وہ شیطان ہے.جب خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے خوشیوں کی گھڑیاں رکھی ہیں اور کامیابی کے وعدے دیئے ہیں تو پھر جو نا امید ہوتا ہے وہ شیطان بنتا ہے.میں پھر کہتا ہوں تم مایوسیوں اور نا امیدیوں کو اپنے دل سے نکال دو کیونکہ خداوند خدا جس کے ہاتھ میں سب دنیا ہے وہ کہتا ہے کہ تمہیں دنیا میں بڑھائے گا اور تباہ ہونے سے بچائے گا.۳۸، کیا تمہارے خیال بچے ہیں، یا خدا تعالیٰ کے وعدے بچے ہیں بے شک تمہاری غفلت ، سستی اور کو تاہی سے کامیابی کے حاصل ہونے میں دیر ہو سکتی ہے اس میں التوا ہو سکتا ہے مگر وہ دن وہ کامیابی اور کامرانی کا دن جو تمہارے لئے مقدر ہو چکا ہے ہمیشہ کے لئے پیچھے نہیں ڈالا جا سکتا.وہ ایک دن کے لئے دو ن کیلئے پیچھے ڈالا جا سکتا ہے ہمیشہ کیلئے نہیں کیونکہ اگر وہ دن نہ چڑھے تو خدا تعالیٰ کے وعدے جھوٹے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں غلط ہوں گی مگر ہم جھوٹے ہو سکتے ہیں، ہمارے علم جھوٹے ہو سکتے ہیں، ہمارا عرفان ہمارا تجربہ جھوٹا ہو سکتا ہے مگر خدا اور خدا کا رسول جھوٹا نہیں ہو سکتا.دنیا کی ہر چیز جھوٹی ہو سکتی ہے ہمارے اپنے وجود وہم ہو سکتے ہیں مگر خدا کے وعدے کبھی جھوٹے نہیں ہو سکتے.پس میرے دوستو اُٹھو اور خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے جو عید بنائی ہے اسے مناؤ.یہ بھی عید ہے جو آج منائی جارہی ہے مگر اس کے مقابلہ میں وہ بہت بڑی عید ہے جو خدا نے تمہارے لئے رکھی ہے.دیکھو، پیتل، تانبے کے زیور بھی ہوتے ہیں اور انہیں مال سمجھا جاتا ہے مگر سونے کے زیوروں کے مقابلہ میں انہیں جھوٹے زیور کہتے ہیں حالانکہ وہ مفت نہیں ملتے ان کی بھی قیمت ہوتی ہے اسی طرح یہ عید بھی بے شک عید ہے مگر اصل عید کے مقابلہ میں ایک
۱۵۰ بے حقیقت چیز ہے.تم اس کے لئے تو تیاریاں کرتے ہو مگر کیا ہی افسوس کی بات ہے اصل عیدی کے لئے تیاری نہیں کرتے.خدا تعالیٰ نے تم میں اپنا ایک نبی بھیجا مگر تم میں بہت سے ایسے ہیں جو ابھی تک نا امیدیوں میں پڑے ہوئے ہیں.اگر تم اس پیتل کے زیور کو خوشی سے قبول کرتے ہو تو سونے اور جواہرات کے زیوروں کو کیوں رو کرتے ہو.ان کی ایسی قدر کرو جس کے وہ مستحق ہیں.اپنے دلوں میں وہ محبت پیدا کرو کہ ہم خدا تعالیٰ سے مل جائیں اور لوگوں کے دلوں میں وہ محبت پیدا کرو کہ ہم سے مل جائیں تاکہ دنیا سے افتراق دور ہو.تا وہ خوشی کا دن آئے جو آسمان پر ہمارے لئے مقدر ہو چکا ہے اور بچے دل سے کہو اے خدا! تیری بادشاہت جس طرح آسمان پر ہے زمین پر بھی ہو.۳۹، مگر نہ ان معنوں میں جن میں عیسائی کہتے ہیں بلکہ ان معنوں میں جن میں انبیاء کہتے چلے آئے ہیں.اب میں دعا کروں گا کہ خدا تعالیٰ ہمارے لئے حقیقی عید لائے.ہماری تاریک راتوں کو روشن دنوں سے بدل دے اور ہماری مستیوں اور کوتاہیوں کو دور کر دے.الفضل ۲۷ اپریل ۱۹۲۶ء) عسى أن تكرهوا شيئا وهو خير لكم وعسى أن تحبوا شيئا وهو شر لكم " البقرة : ۲۱۷ صحيح بخارى كتاب العيدين باب سنة العيدين لاهل الاسلام النحل : ۶۷ تحصیل و ضلع گورداسپور کا ایک گاؤں جو قادیان کے شمال مشرق کی طرف سات آٹھ میل کے فاصلہ پر ہے.و دریائے بیاس ل ۶۱۸۷۵-۱۹۵۷ء.بیعت ۱۸۸۹ء که ۶۱۸۷۲- ۱۹۴۰ء.بیعت ۱۸۸۹ء A يونس : ۵۸ البقرة : ۱۸۶ صحیح مسلم كتاب صفة القيامة والجنة والنار باب تحريش الشيطن و بعثه سراياه لفتنة الناس -
لله البقرة : ۶۲٬۵۸ ۱۵۱ الذريت: ۵۷ النساء : ۳۷ ملفوظات جلد ۳ صفحه ۶ صفحه ۹۶ صفحه ۱۸۴ صفحه ۱۸۵ ملفوظات جلد ۸ صفحه ۷ ۲۴- براہین احمدیہ صفحه ۲۲۲ و صفحه ۲۲۵ حاشیہ ۱۱: اسلامی اصول کی فلاسفی صفحه ۱۶۰٬۱۵۹ س الرحمن : ۲۷-۲۸ ها آل عمران: ۱۶۰ التوبه : ۱۲۸ شمائل ترندی باب ماجاء في صفة مزاح سول الله صلى الله عليه وسلم صحيح بخارى كتاب الهجرة - سيرة الامام ابن ہشام الجزء الاول صفحه ۱۶۳ تا ۱۷۴ - السيرة الحلبية جلد ثاني صفحه 4 سنن ابي داود كتاب الجهاد باب يستجن بالا مام في العهود ترمذی ابواب الزهد بحوالہ اسوہ صحابہ حصہ اول صفحہ ۲۷ مصنفہ مولانا عبد السلام ندوی مطبوعہ اعظم گڑھ بھارت ۱۹۵۰ء ترمذى ابواب الزهد باب ماجاء فى معيشة النبي صلى الله عليه وسلم - طبقات ابن سعد (اردو) جلد ۳ صفحه ۱۸۸ و شمائل ترمندی صفحه ۱۰ ۱۸ حضرت امیر معاویہ کی خلافت کے زمانہ میں ۱۷.رمضان ۵۸ھ کو فوت ہو ئیں.(طبقات كبير مصنفہ محمد بن سعد کاتب الواقدی (۵۵/۸) 19.سورة النصر ۲۰ صحيح بخارى كتاب المناقب باب مناقب ابي بكر - تفسیر کشاف الجزء الثالث في سورة النصر صفحه ۲۹۳ مصنفہ علامہ الزمخشری طبع ا ۱۲ ربیع الاول بروز پیراان (مطابق - جون ۶۶۳۲) طبری جلد ۳ صفحه ۲۰۰ دار المعارف ۲۲ مصر ۱۹۲۲ء صحیح بخارى كتاب المناقب باب مناقب ابى بكر " - صحیح بخاری كتاب المغازى باب مرض النبي ووفاته سيرة الامام ابن ہشام
۱۵۲ الجزء الثالث - صفحہ ٩٩ - ١٠٠ ۲۳ حضرت مغیرہ بن شعبہ کے غلام ابولولو فیروز کے ہاتھوں ۲۸.ذوالحجہ ۲۳ھ بروز بدھ صبح کی نماز میں شدید زخمی ہوئے.یکم محرم ۲۴ھ بروز ہفتہ وفات پائی.الرحمن : ۳۴ ۲۵ الاعراف: ۱۵۷ ۲۶ ابو جہل بن ہشام جس کا نام عمرد ہے اور پہلے اس کی کنیت ابوالحکم تھی.سیرت ابن ہشام ترجمہ شیخ محمد اسمعیل پانی پتی صفحه ۱۲۹ ۲۷ فرعون مصر کے بادشاہوں کا لقب تھا.حضرت موسیٰ کے زمانہ نبوت کا فرعون منفتاح بن رعمسیس تھا جو بنی اسرائیل کا تعاقب کرتا ہوا نیل میں غرق ہو گیا.جیوش انسائیکلو پیڈیا جلد ۸ صفحہ ۵۰۰.بعض نے اس کا نام ولید بن مصعب بن ریان بھی بتایا ہے.( فرہنگ آصفیہ جلد ۳ صفحه ۳۳۵) ۲۸ مصر و ارم کا بادشاہ اور خدائی کا دعویدار تھا.بہشت کی جگہ باغ ارم اس نے بنوایا تھا.اور اس میں خوبصورت عورتیں اور مرد چھوڑ رکھے تھے.اس کو دیکھنے گیا تو گھوڑے کی رکاب سے اترنے نہ پایا تھا کہ مر گیا.(فرہنگ آصفیہ جلد ۳ صفحه ای از یر لفظ شداد) ۲۹ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ کا انتہائی ظالم بادشاہ جس نے آگ کی پرستش کی بنیاد رکھی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا.(جیوش انسائیکلو پیڈیا جلد ۹ صفحه ۳۱۰) ۳۰ ترمذی ابواب الزهد باب في حسن الظن بالله اس نسیم دعوت صفحه ۸۲ کشتی نوح صفحه ۳۰ ۳۲ ملفوظات جلد ۵ صفحه ۱۴ جلد ۶ صفحہ ۱۶۷ ازالہ اوہام صفحه ۳۵۲-۳۶۴٬۳۵۶-۳۶۷ الجمعة : ۴ المائدة : ۱۲۰ تذکره صفحه ۲۸۸٬۵۰۷ ۳۴ نشان آسمانی صفحہ ۷۶ مطبوعہ الشركة الاسلامیہ.ربوہ ۳۵ یہ پانچ شہدائے کابل کی طرف اشارہ ہے جن میں پہلے حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب تھے جو ۱۹۰۱ء میں شہید ہوئے.
۱۵۳ (روحانی خزائن.تذکرہ الشهاد تین صفحه ۷ ۴۸۴۴ جلد ۲۰) دوسرے حضرت صاحبزادہ سید عبد اللطیف صاحب جو ۱۴.جولائی کو شہید ہوئے.(روحانی خزائن تذکرۃ الشہادتین صفحه ۵۹ جلد (۲۰) تیسرے حضرت مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی تاریخ شهادت ۳۱.اگست ۱۹۲۴ء (الفضل ۱ ستمبر ۱۹۲۴ء) چوتھے اور پانچویں مولوی عبدالحلیم صاحب اور قاری نور علی صاحب 11 رجب ۱۳۴۳ھ کو شہید کئے گئے.(الفضل ۲۱ فروری ۳.مارچ ۱۹۲۵ء) ۳۶ روحانی خزائن ( تذکرۃ الشہادتین) صفحه ۶۷ جلد ۲۰ ۳۸، الوصیت صفحه ۳ - ۱۴ و ضمیمہ براہین احمدیہ صفحہ ۱۲۸-۱۲۹ ۳۹ متی باب ۶ آیت ۱۰-۱۱
۱۵۴ (١٦) ۴.اپریل ۱۹۲۷ء کو باغ حضرت مسیح موعود علیہ السلام.قادیان میں حضرت خلیفہ الثانی نے عید کی نماز پڑھائی.(الفضل ۸.اپریل ۱۹۲۷ء) افسوس ہے کہ یہ خطبہ الفضل میں شائع نہیں ہوا.
۱۵۵ (12) ( فرموده ۲۴ مارچ ۱۹۲۸ء بمقام باغ حضرت مسیح موعود علیہ السلام - قادیان) رسول کریم یا اور ہم نے عید کے دنوں کے متعلق فرمایا ہے یہ کھانے پینے کے دن ہیں.لے اور ایک عید کے متعلق جو موجودہ عید ہے آپ کی سنت تھی کہ گھر سے کچھ کھا کر نماز کے لئے چلتے تھے.لے اور دوسری عید کے متعلق آپ کی یہ سنت تھی کہ نماز کے بعد قربانی کا گوشت جب تک استعمال کے قابل نہ ہو جاتا آپ پسند نہ کرتے کہ اس وقت تک کچھ کھایا جائے.۳ کیونکہ قربانی کی خوشی اسی وقت پورے طور پر ہو سکتی ہے جب انسان خود اس کا گوشت استعمال کرے.وہ روزہ نہیں ہو تا تھا بلکہ قربانی کی خوشی کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے قربانی کا گوشت استعمال کرنے کے لئے وقفہ ہو تا تھا.بعض لوگ سمجھتے ہیں وہ روزہ ہے مگر روزہ نہیں.اس وقت تک کھانے سے رُکنا اس لئے نہیں کہ روزہ ہے بلکہ اس لئے ہے کہ اس دن جو خاص کھانا تیار کیا گیا ہے وہ کھایا جائے.تو عید کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس دن لوگ کھاتے پیتے ہیں اور ساری دنیا میں یہی ہوتا ہے.جہاں میلے ہوتے ہیں وہاں کھانے پکائے جاتے ہیں.یورپ میں بھی رواج ہے جیسے بڑا دن ہے.کہ اس کے لئے خاص کھانے مقرر ہوتے ہیں.ایک مرنا جسے لڑکی کہا جاتا ہے خصوصیت سے اس دن پکایا جاتا ہے.یا کرسمس پڈنگ ہوتے ہیں.خاص قسم کی مٹھائی اور کھانے ہوتے ہیں.تو ہر ملک میں ایسے موقعوں پر خاص کھانے تیار کئے جاتے ہیں اور یہ عید کی ایک علامت رکھی گئی ہے.قرآن کریم سے بھی معلوم ہوتا ہے.کہ بے شک کھانا عید کی علامت ہے مگر اس کے ساتھ ہی یہ بتایا ہے کہ عیدیں دو قسم کی ہوتی ہیں.ایک عید ناقص ہوتی ہے جو ہمارے اپنے پکائے ہوئے کھانے کھانے سے ہو جاتی ہے لیکن ایک عید کامل ہوتی ہے.مومن کے لئے ہر چیز میں سبق ہوا کرتا ہے.اس کے لئے خدا تعالیٰ کی کائنات کھلی ہوئی کتاب ہوتی ہے.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کی پہلی سورۃ کا نام فاتحہ رکھا گیا ہے.اس سے اس طرف اشارہ ہے کہ مومن کے لئے ہر بات کھلی ہوئی ہے.کئی لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ه
۱۵۶ مرزا صاحب اچھے آئے کہ طاعون پڑنے لگ گئی فلاں عذاب آگیا.آج کی مکھیوں سے بھی ایک نکتہ معلوم ہوتا ہے.کہ یہ مکھیاں جو شہد لاتی ہیں ان کو خدا نے ڈنگ بھی دیا ہے اور شہد کو خدا تعالیٰ نے اپنے کلام سے تشبیہ دی ہے ، اس لئے نبی بھی شہد لاتے ہیں.جب کہ خدا تعالیٰ نے شہد کی مکھیوں کو ڈنگ دیا ہے تو انبیاء کو کیوں نہیں دے گا.شہد کی ایک بوتل قرآن کریم کی ایک آیت سے کوئی نسبت نہیں رکھتی.جب اس کے لئے خدا تعالیٰ نے حفاظت کا سامان کیا ہے تو کیا وجہ ہے کہ نبی کے لائے ہوئے کلام کے لئے نہ ہو.نبی کی بعثت پر دنیا میں تباہیاں اور بربادیاں اسی لئے آتی ہیں کہ جو لوگ نبی کو برباد کرنا چاہتے ہیں ان کے شر سے محفوظ رکھا جائے.میں نے بتایا تھا کہ کھانے پینے کے دن عید کہلاتے ہیں مگر قرآن کریم نے بتایا ہے کہ حقیقی عید یہ نہیں جو کھانے پینے سے منائی جاتی ہے.حقیقی عید وہ ہے جو سورۃ مائدہ میں بیان ہوئی ہے.خدا تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام کی زبان سے یہ دعا نازل فرمائی ہے.قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا اَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيد الاَوَّلِنَا وَاخِرِنَا وَآيَةً مِنْكَ وَارْزُقْنَا وَاَنْتَ خَيْرُ الرَّزِقِينَ - و عیسی ابن مریم نے کہا.اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے مائدہ نازل کرتا کہ ہمارے پہلوں کے لئے بھی اور پچھلوں کے لئے بھی عید ہو.اس سے حضرت عیسی علیہ السلام کی یہ مراد نہیں کہ میری جماعت کے پہلوں کے لئے بھی عید ہو اور آخری لوگوں کے لئے بھی اور درمیانی لوگ مصیبت میں رہیں.اس کا یہ مطلب نہیں ہو سکتا.کون کہتا ہے کہ میرا بڑا بیٹا بھی آرام میں رہے اور چھوٹا بھی لیکن درمیانہ دکھ میں رہے.اس سے مراد یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ دعا کی ہے کہ میری پہلی بعثت میں بھی عید ہو اور جب دوسری بعثت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے رنگ میں ہو اس وقت بھی عید ہو.پس انہوں نے عید الا ولِنَا میں اپنی امت کے لئے اور اخِرِنَا میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی امت کے لئے دعا مانگی تھی.چونکہ انہوں نے اپنی قوم کے لئے جو دعا مانگی تھی اس سے مراد یہ تھی کہ ایسے سامان ہوں جن سے اس کی دولت بڑھ جائے آرام و آسائش کے سامان حاصل ہو جائیں اس لئے خدا تعالٰی نے کہا کہ اگر قدر نہ کرد گے تو عذاب بھی نازل ہو گا.اے مگر ہمارے لئے عذاب کا خطرہ نہیں ہے کیونکہ اس دعا میں ہم
۱۵۷ نے کچھ نہیں مانگا آپ ہی آپ ہمارے لئے دعا کی گئی ہے.پس ہمارے لئے مائدہ کا وعدہ تو ہے مگر عذاب کا نہیں.اس وجہ سے ہماری عید حضرت مسیح ناصری کی عید سے زیادہ کامل اور مکمل ہے.مگر افسوس ہے کہ جماعت کے لوگوں نے ابھی تک اس کی پوری پوری قدر نہیں کی اور بہت کم ہیں جو اس مائدہ سے فائدہ اٹھاتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ نازل ہو اللہ اور جو خدا تعالیٰ کا کلام ہے.یہ ایک ثابت شدہ بات ہے کہ کچی خوشی کچی امید پیدا ہوتی ہے.یقین کو دل سے نکال دو ہر وقت دوزخ میں انسان رہے گا.امید کو نکال دو کبھی خوشی نہ حاصل ہو سکے گی کیونکہ خوشی امید اور یقین سے حاصل ہوتی ہے.حتی کہ چھوٹے بچے بھی اسی عید سے خوشی پاتے ہیں.میں نے کسی جگہ پڑھا ہے ایک عورت اور اس کا چھوٹا سا بچہ تھا.عورت بیمار ہوئی اور مکان کے اندر مرگئی.جب دیر تک اس کا دروازہ نہ کھلا تو ہمسائیوں نے دروازہ توڑ کر کھولا اور دیکھا کہ ماں مری ہوئی ہے اور بچہ اس سے کھیل رہا ہے.چونکہ بچہ کو یہی یقین تھا کہ اس کی ماں زندہ ہے اس لئے اس سے کھیل رہا تھا حالانکہ اس کا یہ یقین جھوٹا تھا.جب جھوٹی امید اور یقین بھی انسان کے لئے خوشی اور مسرت پیدا کر دیتا ہے تو جسے سچا یقین ہو کہ دنیا میں میں غالب ہوں گا خدا تعالیٰ نے میرے لئے برکات رکھی ہیں وہ کبھی غمزدہ نہیں ہو سکتا.ایک تھکا ہوا مسافر جس کے لئے ایک قدم چلنا بھی مشکل ہوا سے اگر معلوم ہو کہ اس کا ۲۰-۳۰ سال کا چھٹا ہوا کوئی عزیز آدھ میل کے فاصلہ پر ہے تو پھر دیکھو اس میں کیسی بشاشت اور طاقت پیدا ہو جاتی ہے.مگر جس کے گھر ماتم ہوا ہو اسے گھر سے نکلتے ہوئے بھی مصیبت معلوم ہوتی ہے.وجہ یہ کہ جو تھکا ہوا ہونے کے باوجو د بشاش اور طاقتور ہو جاتا ہے اس کے دل میں امید پیدا ہو گئی ہے اور جو گھر سے نہیں نکل سکتا وہ نا امیدی کا شکار ہوا ہے.غرض امید اور یقین ہی حقیقی عید لاتا ہے اور یہ امید اور یقین ہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لائے.۱۲ اس سے ایسی عید پیدا ہوتی ہے جو دنیا میں کسی کے لئے نہیں.اس وقت یورپ گھبرا رہا ہے کہ ایشیاء بیدار ہو رہا ہے نہ معلوم اب کیا حالت ہو جائے گی.سینکڑوں سال سے یورپ ایشیا کو لوٹ رہا ہے.یہاں سے نہایت سستی روٹی لے جاتے اور نہایت گراں کپڑا لا کر فروخت کرتے ہیں.ایک روپیہ کی چیز لیتے ہیں اور اسی کے پھر دس وصول کرتے ہیں.اس طرح اہل یورپ نے بے شمار دولت جمع کرلی ہے مگر اب گھبرا رہے U
۱۵۸ ہیں کہ کیا بنے گا.پھر وہ اس لئے گھبرا رہے ہیں کہ وہ مزدور جن کی جہالت سے فائدہ اٹھاتے تھے اب کہہ رہے ہیں کہ ہمارے حقوق ہمیں دو.پھر بادشاہ گھبرا رہے ہیں کیونکہ رعایا کہتی ہے ہمیں کسی بادشاہ کی ضرورت نہیں ہم ملک پر آپ حکومت کریں گے.پھر حکومتیں گھبرا رہی ہیں کہ کیا بنے گا کیونکہ اس قسم کے خیالات پیدا ہو رہے ہیں کہ کیوں نہ گاؤں گاؤں اور شہر شہر کی حکومت اپنی ہو.پھر غریب گھبرا رہے ہیں کہ مالدار ہمیں کچلے ڈالتے ہیں اور مالدار گھبرا رہے ہیں کہ غریب ہمارے خلاف کھڑے ہو رہے ہیں.ہندو گھبرا رہے ہیں کہ مسلمان ان کو مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں اور مسلمان ڈر رہے ہیں کہ ہندو ان کو تباہ کر رہے ہیں.غرض ہر قوم ہر طبقہ اور ہر ملک میں گھبراہٹ اور بے چینی پائی جاتی ہے.اگر کوئی ایسی جماعت ہے جو اپنے مذہب پر پکی اور امید و یقین سے پُر ہے تو وہ احمدی جماعت ہے.وہ لوگ جو واقعہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لاتے ہیں وہ سمجھتے اور یقین رکھتے ہیں کہ سب کچلے جائیں گے صرف ہم باقی رہیں گے.ہر ایک کو موت نظر آ رہی ہے اور صرف ہم کو زندگی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ ہمارے متعلق ہی کہا گیا ہے.آسمان سے کئی تخت اترے پر تیرا تخت سب سے اوپر بچھایا گیا.سال پس دوسری بادشاہتوں کو خطرہ ہے کہ وہ ٹوٹ جائیں گی مگر ہمیں امید ہے کہ بادشاہت دی جائے گی.حکمران ڈر رہے ہیں کہ ان کی حکومت جاتی رہے گی مگر ہم خوش ہیں کہ ہمارے ہاتھ میں دی جائے گی.لوگ ڈر رہے ہیں کہ تباہ ہو جائیں گے مگر ہم خوش ہیں کہ خدا تعالیٰ کا ہم سے وعدہ ہے کہ کوئی تمہیں تباہ نہیں کر سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا گیا ہے کہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.۱۴ آگ سے مراد وہ مصیبتیں اور تباہیاں ہیں جو کچل دینے والی ہوتی ہیں پس وہ بلا ئیں اور مصیبتیں دنیا پر نازل ہو رہی ہیں جو بھسم کر دینے والی ہیں مگر خدا تعالیٰ کا کلام جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر نازل ہوا.اس میں بتایا گیا کہ کہو آگ سے نہ ڈراؤ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.پس یہ مصیبتیں تو ہماری ترقی کے لئے ہیں ہمیں کسی طرح کچل سکتی ہیں.غلام کے کیا معنی ہیں یہ کہ جس کا غلام ہوتا ہے اس کا کام کرتا ہے.پس یہ مصیبتیں جو نازل ہو رہی ہیں ان سے کسی احمدی کو نہیں گھبرانا چاہئے کیونکہ خدا کہتا ہے یہ ہماری غلام بنائی گئی ہیں.یہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و اسلام سے وعدہ نہیں بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ آگ غلاموں کی غلام ہے.گویا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے غلام ہیں ان کی بھی غلام ہے.پس ہمارے -
۱۵۹ لئے ایسی عظیم الشان خوشی اور ایسی مسرت آمیز عید ہے کہ اور کسی کے لئے نہیں.بے شک ! موجودہ حالات میں مشکلات ہمارے لئے روک بنتی ہیں اور بعض لوگ گھبرا بھی جاتے ہیں مگر ہم جانتے ہیں یہ ہماری کامیابی کا موجب ہو نگی.پس حقیقی عید ہمارے لئے ہی ہے مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ اس الہی کلام کو پڑھا جائے اور سمجھا جائے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام پر اترا.بہت کم لوگ ہیں جو اس کلام کو پڑھتے اور اس کا دودھ پیتے ہیں.۵ل دوسری کتابیں خواہ کتنی پڑھی جائیں جو سرور اور یقین قرآن کریم سے پیدا ہوتا ہے وہ کسی اور سے نہیں ہو سکتا.اسی طرح وہ سرور اور لذت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہاموں کو پڑھنے سے حاصل ہوتی ہے اور کسی کتاب کے پڑھنے سے نہیں ہو سکتی.جو ان الهاموں کو پڑھے گاوہ کبھی مایوسی اور ناامید میں نہ گرے گا.مگر جو پڑھتا نہیں یا پڑھ کر بھول جاتا ہے خطرہ ہے کہ اس کا یقین اور امید جاتی رہے.وہ مصیبتوں اور تکلیفوں سے گھبرا جائے گا کیونکہ وہ سرچشمہ امید سے دور ہو گیا.اگر وہ خدا تعالیٰ کا کلام پڑھتا رہتا اور دیکھتا کہ خدا تعالیٰ نے کیا کیا وعدے دیئے ہیں اور پھر ان پر دل سے یقین رکھتا تو ایسا مضبوط ہو جاتا کہ کوئی مصیبت اسے ڈرا نہ سکتی.پس حقیقی عید سے فائدہ اٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات پڑھے جائیں جو ان کو پڑھے گا وہ کبھی مایوس نہ ہو گا.دیکھو عیسائی باوجود مذہب کو کوئی وقعت نہ دینے کے انجیل پڑھتے ہیں.وہ اپنے بچوں کو سونے نہیں دیتے جب تک انجیل کے بعض فقرات نہ کہلوائیں.مگر ہم میں سے بہت سے ایسے ہوں گے جنہوں یہ بھی معلوم نہ ہو گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات ایک جگہ جمع بھی ہیں یا نہیں.1.یہ تو بہتوں کو یاد ہو گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بذریعہ الہام فرمایا تھا کہ لیکھرام مارا جائے گا اور وہ مارا گیا.محلہ طاعون آئے گی اور وہ آگئی.۱۸ مگر یہ تو دشمن کے متعلق کلام ہے.عجیب بات ہے اپنے متعلق جو الہامات ہیں وہ تو یاد نہ ہوں مگر طاعون کا آنا جو دشمنوں کے لئے ہے وہ یاد ہو.ماننے والوں کے لئے جو کلام ہے وہ خدا کی مدد اور نصرت کا یقین دلانے اور امید پیدا کرنے کے لئے ہے مگر اس کی طرف بہت کم توجہ کی گئی اور جس میں دشمنوں کے لئے عذابوں کی پیشگوئیاں ہیں وہ یاد ہیں.نہیں عید سے حقیقی فائدہ حاصل کرنے کے لئے یاد رکھو کبھی مایوس نہ ہونا چاہئے اور کبھی گھبرانا نہیں چاہئے کیونکہ ایمان اور مایوسی جمع نہیں ہو سکتے اس لئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے قوم کا فر ہی مایوس ہوتی ہے.وہ پس ہماری جماعت کے ہر
ایک فرد کو گھبراہٹ اور مایوسی سے بچنا چاہئے اور اس کے لئے حقیقی گر یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات پڑھے جائیں.میں سمجھتا ہوں اگر کوئی ایک دفعہ بھی ان الہامات کو پڑھ جائے تو وہ مصیبتیں جنہیں وہ سمجھتا ہو گا کہ کچل ڈالیں گی ایک پر سے بھی ہلکی ہو جائیں گی.پس آج کے دن میں حقیقی عید کے متعلق جو نصیحت کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام پڑھنے چاہئیں.جب ان کو پڑھو گے تو تمہیں اپنے مصائب اُڑتے نظر آئیں گے اور جو قربانیاں تم دین کے لئے کر رہے ہو ان کے متعلق معلوم ہو گا کہ تم خدا کو دے کیا رہے ہو اور تمہیں ملنے والا کیا ہے.اس کے بعد میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس عید کے سچے مستحق بنائے.وہ عید تو ہو گی مگر ہم بھی اس عید کو دیکھیں، خدا کے کلام کو پھیلتا ہوا پائیں ، اس کے برگزیدہ رسول م اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عزت پھیلے اور اس کے دین کی اتنی اشاعت ہو کہ دوسرے مذاہب اس میں بھسم ہو جائیں.(الفضل ۳.اپریل ۱۹۲۸ء) ا.سنن ابی داؤد کتاب الصيام باب صيام ايام التشريق صحیح بخاری کتاب العیدین باب الا كل يوم المنحر صحیح بخارى كتاب العيدين باب الا كل يوم الفطر قبل الخروج حدیث مسند احمد بن حنبل الجز الاول دارالمعارف مصر نمبر ۲۸۲٬۲۲۴٬۱۶۳- صحيح بخارى كتاب العيدين باب الاكل يوم النحر ے کرسمس کے ایام.۲۵.دسمبر کو حضرت مسیح کی ولادت کی خوشی منائی جاتی ہے.انسائیکلو پیڈیا ریلیجن اینڈ ایتھکس جلد ۳ صفحہ ۶۰۱ ه المائدة ۱۱۵ النمل - ۷۶ کہ نماز عید ساڑھے نو بجے حضرت مسیح موعود کے باغ میں پڑھی گئی.نماز پڑھنے کی جگہ کو تاہی سے ایسے مقام پر بنائی گئی جہاں شہد کی مکھیوں کے چھتے لگے ہوئے تھے اس لئے دورانِ خطبہ بہت بے لطفی پیدا ہوئی اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کو باغ سے باہر نکل کر
(41 کھلے کھیتوں میں خطبہ پڑھنا پڑا.(الفضل ۲۷ مارچ ۱۹۲۸ء) النحل :20 بنی اسرائیل : ۸۳ حم سجدة : ۴۵ ف المائدة : ۱۱۵ المائدة ١٦ الله رؤیا حضرت مسیح موعود علیه السلام تذکره صفحه ۱۸ مطبوعہ الشركته الاسلامیہ ربوہ.۱۹۵۶ء له الوصیت صفحه ۳ تا ۱۴ ۱۳ تذکره صفحه ۶۴۳ ۱۴ تذکرہ شائع کردہ الشركته الاسلامیہ ربوہ صفحه ۴۱۰ ها تذکره صفحه ۴۰۶ و صفحه ۶۵۲ مطبوعه الشركته الاسلامیہ ربوہ ۱۹۵۶ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات ، رؤیا و کشوف کا مجموعہ " تذکرہ" کے نام سے ۱۹۳۵ء میں مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل ہلالپوری نے ترتیب دے کر بکڈپو تألیف و اشاعت قادیان سے شائع کیا.دوسری مرتبہ ۱۹۵۷ء میں اس کا نظر ثانی داضافہ شدہ ایڈیشن مولوی عبد اللطیف صاحب فاضل بہاولپوری نے الشرکتہ الاسلامیہ ربوہ سے شائع کیا.۱۸۹۳ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دشمن اسلام لیکھرام پشاوری کی نسبت پیشگوئی فرمائی کہ وہ چھ سال کے عرصہ میں عبرتناک ہلاکت سے دو چار ہو گا.اس پیشگوئی کے کچھ عرصہ بعد آپ کو الہاما بتایا گیا کہ یہ نشان عید کے قریب واقع ہو گا.چنانچہ عین پیشگوئی کے مطابق یہ گندہ دہن دشمن اسلام چھ سال کے اندر عید کے دوسرے دن یعنی -۲ شوال بروز ہفتہ مطابق -۲ مارچ ۱۸۹۷ ء ایک نامعلوم شخص کے ہاتھوں ہیبت ناک طور پر قتل ہو کر کیفر کردار کو پہنچا.- (روحانی خزائن ، تریاق القلوب) جلد ۱۵ صفحه ۳۸۷ تا ۳۹۸) فروری ۱۸۹۸ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو رویا میں دکھایا گیا کہ پنجاب میں خوفناک طاعون پھیلنے والا ہے (تذکرہ صفحہ (۳۱۸) چنانچہ حسب پیشگوئی ۱۹۰۲ء میں اس وباء نے سارے پنجاب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اس دوران میں حضور کو الہانا بتایا گیا کہ
۱۶۲ آپ کے بچے پیرو کار اس سے محفوظ رہیں گے.(روحانی خزائن ، وافع البلاء صفحہ ۲۲۵ تا ۲۳۰ کشتی نوح صفحه ۱ تا ۱۰) يوسف : ٨٨ 19
(۱۸) فرموده ۱۳ مارچ ۱۹۲۹ء بمقام باغ حضرت مسیح موعود علیہ السلام.قادیان) انبیاء کی وحی اپنے اندر کئی معانی رکھتی ہے اور مختلف مطالب پر اس سے روشنی پڑتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام ہے جو عید سے تعلق رکھتا ہے.ایک تو اس الہام کے وقتی معنی تھے کہ اس دن شبہ تھا کہ آیا عید ہے یا نہیں.اللہ تعالیٰ نے اس شبہ کو دور فرما دیا اور بتایا کہ عید تو ہے چاہے کر دیا نہ کرو.لیکن میرے نزدیک اس وحی کا صرف یہی مفہوم نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.چاہے کرو یا نہ کرو اور جس کام کے متعلق خود اللہ تعالیٰ فرمائے ”چاہے کرو یا نہ کرو " صرف اس کے لئے خصوصیت سے الہام کرنا کوئی وجہ نہیں رکھتا.میرے نزدیک علاوہ اس مفہوم کے ایک اور لطیف نکتہ بھی اس میں بیان فرمایا گیا ہے اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کی طرف اشارہ ہے.انبیاء کی بعثت بھی ایک عید ہوا کرتی ہے.یعنی ان کی بعثت سے اللہ تعالٰی کے فضل پھر دنیا پر نازل ہوتے ہیں اور دنیا میں ترقیات کا بیج ان کے ذریعہ سے بویا جاتا ہے وہ ایک ایسا بیج ہوتے ہیں جو آہستہ آہستہ ترقی کر کے ایک اتنا بڑا درخت بن جاتا ہے.جس کے پھلوں اور سایہ سے اہلِ دنیا مستفید ہوتے ہیں کہ لیکن اکثر لوگوں کو وہ عید نظر نہیں آیا کرتی لوگ عام طور پر اس سے منہ پھیر لیتے ہیں.اس عید کے لئے شوق سے روزے رکھتے ہیں اور بعض دفعہ چاند نظر نہیں آتا تو دوسرے لوگوں کے کہنے پر ہی عید کر لیتے ہیں.ایک دوست نے سنایا.ایک شہر میں سات سال تک ایک گاؤں کے لوگ آکر قسمیں کھاتے رہے کہ ہم نے چاند دیکھ لیا ہے اور ان کی قسموں پر اعتبار کر کے وہاں عید کرلی جاتی رہی.آخر جب یہ سوال پیدا ہوا کہ کیا وجہ ہے ہر سال اسی گاؤں کے رہنے والوں کو چاند نظر آتا ہے کیا باقی سب لوگ اندھے ہو جاتے ہیں کہ انہیں دکھائی نہیں دیتا تو ان لوگوں نے اقرار کر لیا کہ ہم عید کرنے کی خوشی میں جھوٹ بولتے رہے ہیں.اس سے ظاہر ہے کہ اس عید کا تو نام سنکر ہی لوگ کر لیتے ہیں لیکن اس عید کی طرف جو انبیاء کی آمد سے ہوتی ہے بہت کم توجہ کرتے ہیں.
فقرہ کہ "عید تو ہے چاہے کر دیا نہ کرو.اس میں اس عید کی طرف اشارہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کی عید ہے.اور اس کا یہ مطلب نہیں کہ چاہے یہ کرو یا نہ کرو ایک ہی بات ہے بلکہ یہ اسی طرح کہا گیا ہے جیسے کہتے ہیں.ہے تو سچا چاہے مانو یہ نہ مانو.یعنی اس سے فائدہ اٹھانا نہ اٹھانا تمہارا کام ہے ہم نے چیز مہیا کر دی ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام بھی عید ہیں.خدا تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ مسلمانوں کی ترقی کے سامان پیدا کر دیئے.اب یہ ان کی مرضی ہے ان ذرائع اور ان سامانوں کو استعمال کر کے فائدہ اٹھائیں ، ترقی کریں اور عزت حاصل کریں یا نہ اٹھائیں اور اپنی ذلّت و نکبت میں بڑھتے چلے جائیں.تو انبیاء بے شک عید ہوتے ہیں مگر خدا تعالٰی عید لوگوں سے جبرا نہیں منواتا بلکہ ان کی مرضی پر چھوڑ دیتا ہے.اگر کوئی شخص عید منائے تو وہ خوشی اور مسرت حاصل کرتا ہے لیکن اگر نہ منائے اور سوگ ہی رکھے تو یہ بھی اس کی مرضی ہے اس میں کوئی جبر نہیں.اس الہام میں اللہ تعالیٰ نے علم النفس کا ایک عجیب نکتہ بیان فرمایا ہے یعنی عید کرنا یا نہ کرنا انسان کے اندر کے احساسات پر منحصر ہے صرف سامان کا موجود ہونا عید منانے کے لئے کافی نہیں ہو تا بلکہ ان کا اختیار کرنا بھی ضروری ہوتا ہے.دنیا میں بہتر سے بہتر چیزیں ہیں اگر انہیں استعمال نہ کیا جائے تو وہ کوئی فائدہ نہیں دے سکتیں.اسی عید کے دن کو لے لو.کئی علاقوں میں چاند نظر نہیں آتا اور وہ لوگ روزہ رکھتے ہیں.اب عید تو ہوتی ہے مگر بوجہ محسوس نہ کرنے کے اس علاقہ کے لوگوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور وہ اس کی خوشی سے محروم رہتے ہیں.اسی طرح عید کا دن ہو لیکن ایک گھر میں میت پڑی ہو عورتیں آہ و فغاں کر رہی ہوں بچے رو رہے ہوں اور اگر کوئی زیادہ تقویٰ والا گھر نہ ہو تو وہاں عورتیں گالوں کو پیٹتی اور بالوں کو نوچتی ہیں تو ان کے لئے کوئی عید نہیں حالانکہ باقی لوگ عید کی خوشیاں منا رہے ہوں گے.تو عید انسان کے اندرونی اور قلبی احساسات اور جذبات سے ہوتی ہے جس میں اس کے لئے احساسات نہ ہوں اس کے لئے کوئی عید نہیں ہوتی.پس بات یہی ہے کہ "عید تو ہے چاہے کرو یا نہ کرو " غرضیکہ عید کا ہونا ہی کافی نہیں ہو تا بلکہ اسے منانے کی خواہش بھی اس کی تکمیل کیلئے ضروری ہے.جب تک اپنے نفس میں یہ خواہش نہ ہو کہ ہم نے عید منانی ہے اس وقت تک عید کوئی فائدہ نہیں دے سکتی.اس.سے ہمارے سلسلہ کے متعلق بھی ایک سبق حاصل ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جب.
۱۶۵ ثابت ہے کہ انبیاء کی بعثت عید ہوتی ہے اور انبیاء دنیا میں ترقی اور خوشی پیدا کرنے کے لئے آتے ہیں وہ اس لئے آتے ہیں کہ ظالموں کو گرا دیں اور مظلوموں کو اونچا کر دیں ، کھوئی ہوئی عزتوں کو دوبارہ قائم کر دیں اور گئی ہوئی شوکت کو واپس لائیں، مصائب زدہ لوگوں کو بچائیں.لیکن جب تک لوگ خود اپنے اندر یہ خواہش نہ پیدا کریں کہ ان سے فائدہ اٹھا ئیں اس وقت تک انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا.انبیاء کے آنے پر کچھ لوگ تو ان کا بالکل ہی انکار کر دیتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بھی ایسا ہی ہوا.اکثر مخالفین کہا کرتے تھے بلکہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک شخص نے پیسہ اخبار میں مضمون لکھا کہ یہ اچھا نبی آیا ہے کہ دنیا پر مصائب ہی مصائب نازل ہو رہے ہیں کہیں طاعون ہے کہیں قحط ہے لیکن بات تو وہی ہے کہ عید تو ہے چاہے کرو یا نہ کرو." خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیج کر عید کا موقع پیدا کر دیا اب اگر تم دروازے بند کر کے رونے پیٹنے میں لگے رہو تو تمہارے لئے وہ کسی خوشی کا موجب نہیں ہو سکتی.خدا تعالیٰ کے مامور دو دھاری تلوار کی طرح ہوتے ہیں جس کا ایک سرا ماننے والوں کے لئے ہوتا ہے جو ان کے ہر قسم کے رنج و غم کا تا چلا جاتا ہے.اور ایک نہ ماننے والوں کے لئے ہوتا ہے جو ان کی خوشی اور راحت کو کاٹتا ہے.وہ ایک طرف بشارت کا اعلان ہوتے ہیں تو دوسری طرف تباہی و بربادی کا.ان کے آنے سے عالم قیامت برپا ہو جاتا ہے.وہ بشیر و نذیر ہوتے ہیں.نہ وہ اپنی ذات میں تو عید ہی ہوتے ہیں لیکن دوسروں کے لئے ان کی دو حیثیتیں ہوتی ہیں.جو قبول کر لیتے ہیں ان کے لئے عید ہو جاتی ہے لیکن جو نہیں مانتے ان کا اس عید کے موقع پر بھی روزہ ہی ہوتا ہے اور رسول کریم میل و سلم نے فرمایا عید کے دن روزہ رکھنا شیطان کا کام ہے.کہ آگے جو ماننے والے ہوتے ہیں وہ بھی ان دو حالتوں سے خالی نہیں ہوتے.ان میں سے اکثر تو ان ذمہ داریوں کو اپنے پر قبول کر لیتے ہیں جو خدا تعالیٰ ان پر ڈالتا ہے اور اپنے لئے عید کر لیتے ہیں لیکن جو ان ذمہ داریوں کو قبول نہیں کرتے ان کے لئے کوئی عید نہیں ہو سکتی کیونکہ عید کے لئے قربانی نہایت ضروری چیز ہے.عید ہمیشہ قربانیوں کے بعد ہوا کرتی ہے.عید بھی روزوں کے بعد ہوتی ہے جو بہت بڑی قربانی ہوتی ہے اور عید الاضحیٰ بھی خدا کے لئے
149 گھر بار چھوڑنے اور خدا کی خاطر وطن سے بے وطن ہونے کی یاد میں ہوتی ہے تو عید ہمیشہ قربانیوں کے نتیجہ میں ہوتی ہے.پس جو لوگ انبیاء کی تعلیم کے مطابق قربانیاں کرتے ہیں ان کے لئے تو عید ہوتی ہے.لیکن جو ایسا نہیں کرتے ان کے لئے ہلاکت اور تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوتا.یہ یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا میں تکالیف سے کوئی بھی بچا ہوا نہیں ہوتا.لیکن تکالیف بھی دو طرح کی ہوتی ہیں ایک وہ جو انسان خود اپنے لئے چن لیتا ہے اور دوسری وہ جن سے انسان بچنا چاہتا ہے لیکن بچ نہیں سکتا.جو تکلیف تو انسان خود اپنے لئے تجویز کرتا ہے وہ تکلیف نہیں بلکہ س کے لئے لذت ہو جاتی ہے لیکن جو جبرا اس پر ڈال دی جاتی ہے وہ عذاب ہوتا ہے.دیکھو ایک ماں اپنے بچے کے ساتھ کس قدر مصیبتیں جھیلتی ہے ، راتوں کو اس کے لئے جاگتی ہے، اسے کھلاتی پلاتی ہے اور اس کے لئے اتنا کام کرتی ہے کہ اگر اتنا ہی کام کسی قیدی سے لیا جائے تو میں سمجھتا ہوں ملک میں شور پڑ جائے کہ ظلم ہو رہا ہے ، مگر ایسا کام ہر گھر میں عورتیں کرتی ہیں، لیکن کوئی اسے ظلم یا تکلیف نہیں کہتا.کیوں؟ اس لئے کہ وہ یہ کام اپنے شوق سے کرتی ہیں اور اس مصیبت کو آپ اپنے پر ڈالتی ہیں اور میرا خیال ہے اگر کسی عورت سے کہا جائے تم کیوں اس قدر تکلیف اٹھاتی ہو اس بچہ کو پھینک دو اور آرام کرو تو وہ گالیاں دینے لگ جائے کیونکہ اس مشکل کو وہ راحت سمجھتی ہے.اسی طرح طالب علم جس قدر رات دن محنت کرتا ہے میں سمجھتا ہوں اگر دوسرے تنخواہ دار لوگوں سے اس قدر کام لیا جائے تو وہ چلا اٹھیں.مگر دیکھو طالب علم کی کیا چھوٹی سی جان ہوتی ہے لیکن وہ اس خیال سے کہ میں عزت پا جاؤں نہایت شوق سے تعلیم کی محنت کو اپنے اوپر برداشت کرتا ہے.تو جو مشکل انسان خود اپنے پر ڈالے اسے وہ مصیبت نہیں بلکہ راحت سمجھتا ہے لیکن جو مصیبت اس پر ڈال دی جاتی ہے وہ فی الحقیقت اس کے لئے مصیبت ہوتی ہے.انبیاء اور ان کے بچے متبعین کے راستہ میں جو مشکلات ہوتی ہیں ان میں سے اکثر ایسے ہوتی ہیں جنہیں وہ خود مانگتے ہیں اور ان کے لئے دعائیں کرتے رہتے ہیں.حضرت عمر کے متعلق لکھا ہے.آپ ہمیشہ دعا کرتے تھے کہ مجھے موت مدینہ میں آئے اور شہادت کی موت آئے.۸ دیکھو موت کس قدر بھیانک چیز ہے.موت کے وقت عزیز سے عزیز بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں.کہتے ہیں کسی عورت کی بیٹی بیمار ہو گئی.وہ دعائیں کرتی خدایا میری بیٹی بچ جائے اور اس کی جگہ میں مرجاؤں.ایک شب اتفاق
۱۹۷ سے اس کی گائے کی رسی کھل گئی اس نے ایک برتن میں منہ ڈال دیا جس میں اس کا سر پھنس گیا.اور وہ اسی طرح گھڑا سر پر اٹھا کر ادھر ادھر بھاگنے لگی.یہ دیکھ کر کہ گائے کے جسم پر منہ کی بجائے کوئی بڑی سی چیز ہے وہ عورت ڈر گئی.اس نے سمجھا شاید میری دعا قبول ہو گئی اور عزرائیل میری جان نکالنے کے لئے آیا ہے.اس پر بے اختیار بول اُٹھی.عزرائیل بیمار میں نہیں ہوں.بلکہ وہ لیٹی ہے اُس کی جان نکال لے.تو جان اتنی پیاری چیز ہے کہ اسے بچانے کے لئے انسان ہر ممکن تدبیر کرتا ہے اور علاج کراتے کراتے کنگال ہو جاتا ہے.لیکن صحابہ کرام کو یہی جان خدا تعالیٰ کے لئے دینے کی اس قدر خواہش تھی کہ حضرت عمر دعائیں کرتے مجھے مدینہ میں شہادت نصیب ہو.مجھے خیال آیا کرتا ہے حضرت عمرؓ کی یہ دعا کس قدر خطرناک تھی.اس کے معنی یہ ہیں کہ دشمن مدینہ پر چڑھ آئے اور مدینہ کی گلیوں میں حضرت عمرہ کو شہید کر دے لیکن خدا تعالیٰ نے ان کی دعا کو اور رنگ میں قبول کر لیا اور وہ ایک مسلمان کہلانے والے کے ہاتھ سے ہی مدینہ میں شہید کر دیئے گئے.بعض کے نزدیک وہ شخص مسلمان نہ تھا بہر حال وہ ایک غلام تھا جس سے خدا تعالیٰ نے حضرت عمر کو شہید کرا دیا.وہ تو انسان خود جن چیزوں کو چاہتا ہے اور خواہش رکھتا ہے وہ اس کے لئے مصیبت نہیں ہوتیں.حضرت خالد له بن ولید جب فوت ہونے لگے تو رو پڑے.ایک دوست نے دریافت کیا.آپ کیوں روتے ہیں؟ فرمایا.میرے جسم سے کپڑا اتار کر دیکھو سر سے لے کر پاؤں تک تلواروں کے نشان موجود ہیں.میں نے میدان جنگ میں ہر جگہ شہادت کے لئے اپنے آپ کو ڈالا.میرے پاؤں کے انگوٹھے سے لے کر تالو تک صد ہا نشانات تلوار کے موجود ہیں لیکن آج میں بستر پر پڑا مر رہا ہوں.للہ تو وہی جان جو لوگوں کو اس قدر پیاری ہوتی ہے انہوں نے کس شوق سے خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کی کوشش کی اور شہادت نہ ملنے پر روتے اور اظہار افسوس کرتے رہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو قربانی خوشی سے برداشت کی جائے اس میں انسان لذت محسوس کرتا ہے.نبی کی جماعت کو قربانیاں اسی شوق سے کرنی چاہئیں جس شوق سے روزے رکھے جاتے ہیں.روزہ میں بھوکا اور پیاسا رہنا پڑتا ہے مگر بچے روتے ہیں کہ ہم بھی روزہ رکھیں گے.ویسے تو اگر کھانے کے معمولی اوقات سے دو گھنٹہ بھی کھانا ملنے میں دیر ہو جائے تو بچے اور ھم مچا دیتے ہیں لیکن روزہ نہ رکھنے دو تو پھر بھی روتے ہیں.وہ چونکہ دیکھتے ہیں کہ ماں باپ روزہ رکھنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں اس لئے وہ بھی اس فاقہ سے لو
1 ۱۹۸ خوش ہوتے ہیں اور وہی روزہ جس کی وجہ سے بھوکا اور پیاسا رہنا پڑتا ہے خوشی سے رکھنا راحت کا موجب ہو جاتا ہے.پس بظاہر انبیاء کی آمد سے ماننے والوں کے لئے مصیبتیں نازل ہوتی ہیں اور انہیں مال و جان عزت و آبرو وطن اور عزیز و اقارب ، دوست و احباب غرضیکہ ہر چیز کی قربانی کرنی پڑتی ہیں جو بظاہر ان کے لئے مصیبت ہوتی ہے.۱۲ لیکن ان کے لئے یہ مصائب روزہ کے مصائب کی طرح ہوتے ہیں.روزہ کے دنوں میں بھوک اور پیاس سے انسان کا جسم گھلا جاتا ہے مگر اس کی آنکھوں میں ہر روز عید کا چاند پھر رہا ہوتا ہے.لیکن جن کے لئے روزہ خوشی کا موجب نہیں ہوتا، ان کے لئے رمضان قیامت کا نظارہ ہوتا ہے.پس یہ نیت اور ارادہ کی بات ہے.جسے انسان خوشی سمجھتا ہے وہ اس کے لئے عید ہوتی ہے اور جسے بُرا سمجھتا ہے وہ مصیبت ہے.ہماری جماعت کو بھی جس نے اس زمانہ کے مامور کو قبول کیا ہے قربانیوں کو اسی رنگ میں دیکھنا چاہئے جس طرح رمضان کے روزے ہوتے ہیں.جس طرح رمضان کے روزے مصیبت نہیں سمجھے جاتے بلکہ ان میں لذت محسوس ہوتی ہے بعینہ اسی طرح دین کی اشاعت اور خدمت اسلام کے لئے جو قربانیاں ہمیں کرنی پڑیں ان میں لذت محسوس کرنی چاہئے اور سمجھ لینا چاہئے کہ یہ مصائب روزہ یا حج کی طرح ہیں اور ان کے نتیجہ میں عید آئے گی اور اگر دنیا میں عید نہ آئی تو شہادت نصیب ہوگی اور وہ بھی عید ہے.جو اس دنیا میں ہو گا وہ عید کے اس چاند کو دیکھے گا اور جو مر گیا وہ اس حقیقی چاند کا منہ دیکھ سکے گا جس کی خواہش میں لوگ اس چاند کو دیکھا کرتے ہیں اس لئے اس سے بڑھ کر وہ عید ہے.پس مومنوں کو قربانی سے کبھی گھبرانا نہ چاہئے کیونکہ قربانیاں تباہی کا نہیں بلکہ آئندہ ترقیات کا موجب ہوتی ہیں لیکن یہ قربانیاں دنیا یا کسی انسان کے لئے نہیں ہونی چاہئیں اور نہ اس خیال سے ہونی چاہئیں کہ لوگ ہماری ان قربانیوں کو دیکھیں اور تعریف کریں کیونکہ دین کے لئے قربانیوں کا کوئی شخص بدلہ نہیں دے سکتا بلکہ جو شخص یہ خیال بھی کرتا ہے اور کسی انسان سے دین کے لئے قربانیوں کے بدلہ کی امید بھی رکھتا ہے خواہ وہ انسان نبی یا اس کا خلیفہ ہی کیوں نہ ہو وہ اپنی قربانیوں کو ضائع کرتا ہے.یاد رکھنا چاہئے دین کے لئے قربانیاں اتنی عظیم الشان چیز ہے کہ ان کا بدلہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی دے ہی نہیں سکتا اور جو سمجھتا ہے ایسی قربانیوں کا بدلہ کوئی انسان بھی دے سکتا ہے وہ ایسی قربانیوں کی حقیقت کو ہی نہیں سمجھتا اور وہ اپنے ساتھ اس شخص کی بھی تذلیل کرتا ہے جس سے ایسے بدلہ
149 کی امید وابستہ رکھتا ہے.جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ دین کے لئے قربانیوں کا بدلہ کوئی انسان دے سکتا ہے.اس کی مثال اس بیوقوف فقیر کی سی ہے جسے کسی اکسٹرا اسٹنٹ کمشنر نے کچھ دے دیا تو اس نے خوش ہو کر کہا.” خدا تینوں تھانیدار کرے " یعنی خدا تمہیں پولیس کا سب انسپکٹر بنائے.چونکہ تھانیدار عام طور پر آوارہ گرد فقیروں کو پکڑ کر ڈانٹتے ڈپٹتے رہتے ہیں اس لئے اس کے نزدیک سب سے بڑا عہدہ یہی تھا.پس یہ خیال کہ ایسی قربانیوں کا بدلہ خدا نہیں بلکہ کوئی انسان دے گا یہ ایسا ہی خیال ہے جیسا اس بیوقوف فقیر کا تھا.حدیثوں میں آتا ہے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہر عمل کا بدلہ ہے لیکن رمضان کا بدلہ خود میری ذات ہے.ا، اگر کوئی کہے یہ حدیث ہی میں ہے قرآن میں ایسا کہاں لکھا ہے تو قرآن میں بھی موجود ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَاِنّى قَریب اله رمضان کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا.رمضان میں جب میرے بندے مجھ سے دعا کرتے ہیں تو میں ان کے پاس آکر ان کی دعائیں سنتا ہوں.پھر حدیث میں چاند کی رویت کو خدا تعالیٰ کے دیدار کی مثال میں پیش کیا گیا ہے.رسول کریم میل الی الوی سے صحابہ نے دریافت کیا.یا رسول اللہ! میلیم ! قیامت کے دن اس قدر ہجوم ہو گا ہم خدا تعالی کو کس طرح دیکھ سکیں گے.آپ نے فرمایا جس طرح ہلال کو دیکھتے ہو.کیا اُس وقت بھیڑ ہوتی ہے ؟ ھلہ تو خدا تعالیٰ کی خاطر قربانیوں کا بدلہ خود خدا تعالیٰ ہی ہے.پس دین کی خاطر جو مشکلات برداشت کی جائیں ان میں یہ بات ہمیشہ مد نظر رکھنی چاہئے کہ ان کا بدلہ کوئی انسان نہیں دے سکتا بلکہ میرے نزدیک اس میں کوئی ہتک نہیں بلکہ فخر ہے اگر میں یہ کہوں کہ محمد رسول اللہ علی الا اللہ بھی خدا کے لئے قربانیوں کا بدلہ نہیں دے سکتے کیونکہ جس چیز کا بدلہ خود خدا ہو اس کا بدلہ انسان خواہ وہ کس قدر بھی بلند شان ہو کس طرح دے سکتا ہے.یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ بغیر کچی قربانی کے عید بھی نہیں ہو سکتی جیسے وہ شخص جو روزہ کو چھٹی سمجھتا ہے اور اس کے لئے اپنے اندر کوئی خواہش نہیں پاتا اس کے لئے کوئی عید نہیں.اسی طرح جو شخص دین کے لئے قربانی کرنے کی بچی خواہش نہیں رکھتا بلکہ اسے چھٹی سمجھتا ہے اس کے لئے بھی عید نہیں ہو سکتی.پس دین کی خدمت اسی شوق اور خواہش سے کرنی چاہئے جس طرح ایک ماں اپنے بچہ کی پرورش کرتی ہے.وہ اسے چھٹی نہیں سمجھتی بلکہ اس میں لذت محسوس کرتی ہے.بعض لوگ بچوں کو کھلانے کے لئے نوکر رکھتے ہیں لیکن بچے نوکر کے پاس جا
14.کر روتے ہیں اور ماں کے پاس ہی رہنا چاہتے ہیں کیونکہ نوکر بچہ کو کھلانا پیٹی سمجھتے ہیں مگر ماں دلی محبت سے کھلاتی ہے.اس وجہ سے بچہ ماں کے پاس رہنا چاہتا ہے نوکر کے پاس نہیں جاتا.تو جو لوگ اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت میں لذت محسوس نہیں کرتے ان کے پاس خدا تعالیٰ کبھی نہیں آتا.آج مسلمانوں کے لئے خدا تعالیٰ نے عید کا سامان مہیا کر دیا ہے کہ حضرت نوح سے لے کر آنحضرت میر تک کوئی ایسا نبی نہیں گذرا جس نے اس عید کی بشارت نہ دی ہو.14 اب یہ ہمارے اختیار میں ہے چاہے عید کریں یا نہ کریں.پس چاہئے کہ ہم ان قربانیوں کو جو خدا تعالیٰ کے دین کی خاطر کرنی پڑیں چھٹی نہ سمجھیں بلکہ ان میں لذت محسوس کریں تا پیشتر اس کے کہ عید کا دن آئے جب کہ خدا تعالیٰ کا نور تمام دنیا میں پھیل جائے ہمیں عید ہی عید نظر آتی رہے.پس میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ ہمارے لئے جو عید آئی ہے خدا تعالیٰ ہمیں اس (الفضل ۱۹.مارچ ۱۹۲۹ء) کے کرنے کی توفیق دے.ا تذکرہ صفحہ ۷۳۸ مطبوعہ الشركته الاسلامیہ ربوہ روحانی خزائن (تذکرۃ الشہادتین) جلد ۲۰ صفحه ۶۷ تذکره صفحه ۵۳۵٬۳۳۰ ه تبلیغ رسالت جلد ۱۰ صفحه ۹۵ هفت روزه پیسه اخبار ۱۸۸۷ء میں فیروز والہ (گوجرانوالہ) سے منشی محبوب عالم نے جاری کیا بعد ازاں لاہور منتقل ہوا.صدی کے آخر میں روزنامہ ہو گیا.۱۹۴۷ء میں بند ہو گیا.ل المائدة : ٢٠ كه B صحيح بخارى كتاب الجهاد باب الدعاء بالجهاد والشهادة حضرت مغیرہ بن شعبہ کے عیسائی غلام ابولولو (فیروز) کے ہاتھ ۲۸.ذوالحجہ ۲۳ھ کو زخمی ہوئے اور یکم محرم ۲۴ھ وفات پائی.( تاریخ کامل ابن اثیر جلد ۳ صفحه ۲۴) ا ابو سلیمان سیف اللہ خالد بن ولید بنو مخزوم ۶۶۴۲ - ۲۲ھ لام صحیح بخارى كتاب الجهاد باب تمنى الشهادة واستيعاب في معرفة الاصحاب جلدا صفحه ۱۵۸ مصنفہ علامہ قرطبی مطبوعہ دائرة المعارف حیدر آباد دکن ۵۱۳۱۸ 1
121 ۱۴ البقرة : ۲۱۴ ۲۱۵ و نوٹ تفسیر صغیر زیر هر دو آیات.صحیح مسلم کتاب الفضائل باب فضائل سعد بن ابي وقاص - أسد الغابة في معرفة الصحابة جلد ۲ صفحه ۲۹۲ تذکره حضرت سعد بن ابي وقاص والسيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۳۷۳۶ تذکرہ حضرت صہیب رومی صحيح بخارى كتاب الصوم باب هل يقول اني صائم اذا شتم و صحيح مسلم كتاب الصيام باب فضل الصيام البقرة : ۱۸۷ ها حدیث جريد بن عبدالله البجلی - ابن الجوزى فى مناقب الامام احمد صفحه ۳۹۱ بحواله تاریخ بغداد مصنفه حافظ خطیب بغدادی جلد 11 صفحه ۶۷-۴۶۶ مطبوعه مصر ۱۹۳۱ء.صحیح بخاری کتاب التوحيد باب قوله الله تعالى وجوه يومئذ ناضرة الى ربها ناظرة - ملفوظات جلد ۷ صفحه ۱۴۳ آئینہ کمالات اسلام صفحه ۳۰۳‘ تحفہ گولڑویہ صفحہ ۲۱۶ د نوٹ حاشیه صفحه هذا جوزف برکلے ایل ایل ڈی دی طالمود: تعارف.باب پنجم صفحہ ۳۷ مطبوعہ لندن ۱۸۷۸ء - دانیال باب ۱۳- آیات ۱۳۹ پطرس ۲ باب ۳ آیات ۱۲- ۱۳ سفرنگ دساتیر مطبوعه ۱۲۸۰ صفحه ۱۹۰-۱۸۹ بھگوت گیتا ادھیائے ۴ صحیح بخارى كتاب الانبياء باب نزول عيسى ابن مريم صحيح بخاري كتاب التفسير زير آيت و اخرين منهم لما يلحقوا بهم
۱۷۲ (19) فرموده ۲- مارچ ۱۹۳۰ء بمقام عید گاہ.قادیان) اسلامی عبادتیں اپنے اندر کئی رنگ کے سبق رکھتی ہیں.بعض سبق ان کے ایسے ہوتے ہیں جو ان میں سے ہر عبادت سکھاتی ہے اور بعض سبق ان میں سے ایسے ہوتے ہیں کہ ایک سے زیادہ عبادتوں کی نسبت سے پیدا ہوتے ہیں اور بعض سبق ایسے ہیں جو ساری عبادتوں کی مجموعی حالت سے پیدا ہوتے ہیں.بعینہ اسی طرح جس طرح خدا تعالٰی کے پیدا کردہ عالم میں ہمیں یہ نقشہ نظر آتا ہے کہ اس کا ہر فرد اپنے اندر ایک حقیقت رکھتا ہے پھر دو افراد مل کر اپنے اندر حقیقت رکھتے ہیں، پھر دو سے زیادہ افراد مل کر ایک حقیقت پیدا کرتے ہیں ، پھر سارا عالم اپنے اندر ایک حقیقت رکھتا ہے.انسان کو ہی ہم دیکھتے ہیں ایک مرد ہوتا ہے ایک عورت.مرد اپنی ذات میں ایک غرض پوری کر رہا ہے اور عورت اپنی ذات میں ایک غرض کو پورا کرنے کے لئے بنائی گئی ہے.جہاں مرد سے خدا تعالیٰ کی قوت اور قدرت کے جلالی پہلو کا ظہور ہوتا ہے وہاں عورت سے خدا تعالیٰ کے رحم اور شفقت کا ظہور ہوتا ہے.پھر دونوں مل کر بقا کے ظہور کا موجب ہوتے ہیں کیونکہ اس طرح ان کی نسل چلتی ہے اور ہر مرد بھی اپنے اندر حقیقت رکھتا ہے اور ہر عورت بھی اپنے اندر حقیقت رکھتی ہے پھر مرد و عورت مل کر اپنے اندر ایک حقیقت رکھتے ہیں پھر تمام مرد بھی ایک حقیقت رکھتے ہیں اور تمام عورتیں بھی پھر سارے مرد اور ساری عورتیں مل کر بھی ایک حقیقت رکھتے ہیں.پھر سارے کے سارے مرد اور ساری کی ساری عورتیں بھی ساری دنیا سے مل کر ایک حقیقت رکھتی ہے پھر ساری دنیا بھی ایک حقیقت رکھتی ہے.پس جس طرح ہر ایک فرد کے ذریعہ افراد کے مجموعہ کے ذریعہ افراد کی اقسام کے ذریعہ اور افراد کے سارے مجموعہ کے ذریعہ علیحدہ علیحدہ حقیقت پیدا ہوتی ہے اور سب کے مجموعہ سے بھی یہی حال عبادتوں کا ہے اور جس طرح قانون قدرت میں ایک ترتیب اور ربط پایا جاتا ہے قانون شریعت میں بھی ایک ترتیب اور ربط موجود ہے.مگر یہ بات صرف شریعت اسلامیہ کو ہی حاصل ہے باقی شرائع میں نہیں.ان میں بھی نماز، روزہ، حج، زکوۃ کی قسم
12 کی عبادتیں ہیں مگر ان کا آپس میں کوئی ربط نہ ہو گا وہ ایسی ہی ہیں جیسے بکھری ہوئی اینٹیں.لیکن شریعت اسلامیہ کو دیکھا جائے تو اس کی مثال یہ ہے جیسے ہر اینٹ اپنے اندر حقیقت رکھتی ہے.اور پھر دیوار میں دوسری اینٹوں سے مل کر حقیقت رکھتی ہے پھر سارے مکان سے مل کر حقیقت رکھتی ہے.یہی حال اسلامی احکام کا ہے.ہر ایک حکم اپنے اندر حقیقت رکھتا ہے.پھر دوسرے حکم سے مل کر ایک حقیقت رکھتا ہے پھر سارے کے سارے احکام مل کر حقیقت رکھتے ہیں میں اس وقت اس کی ایک چھوٹی سی مثال نماز اور روزہ کے متعلق پیش کرتا ہوں.نماز اپنی ذات میں ایک سبق رکھتی ہے اور روزہ بھی اپنی ذات میں ایک سبق رکھتا ہے پھر نماز اور روزہ مل کر ایک سبق رکھتے ہیں.اس وقت میں اس سبق کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.اگر نماز نہ ہوتی صرف روزے ہوتے تو یہ سبق رہ جاتا اور اگر روزے نہ ہوتے نماز ہی ہوتی تو بھی یہ سبق رہ جاتا.بے شک روزے اپنی ذات میں مفید ہیں اور بے شک نماز اپنی ذات میں مفید ہے جس طرح اسلام کی ساری عبادتیں اپنی اپنی ذات میں مفید ہیں لیکن نماز اور روزہ مل کر ایک نیا سبق دیتے ہیں.وہ کیا ہے میرا خیال ہے ممکن ہے کسی نے اس طرف توجہ دلائی ہو لیکن میں نے کسی کا اس کے متعلق کوئی اشارہ نہیں دیکھا کہ نماز اور روزہ میں مل کر ایک سبق پایا جاتا ہے.نماز کا اصل مقام طہارت ہے جسے وضو کی حالت کہتے ہیں.اسی لئے رسول ملالی نے فرمایا ہے جو وضو کر کے نماز کے لئے بیٹھ جاتا ہے وہ نماز کی حالت میں ہی ہوتا ہے.کہ نماز اس حالت کا انتہائی مقام ہے ورنہ اصل نماز قلبی کیفیت ہے جو وضو سے تعلق رکھتی ہے.اب یہ دیکھنا چاہئے کہ وضو کی کیا حقیقت ہے.وضو کے ذریعہ جو فعل ہم کرتے ہیں وہ اُس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کوئی چیز جسم سے خارج نہ ہو خواہ وہ پیشاب و پاخانہ کے رنگ میں خارج ہو.خواہ مرد و عورت کے تعلقات کے ذریعہ خارج ہو یا اور ایسے رنگوں میں خارج ہو جن سے طہارت کو نقصان پہنچتا ہو جیسے ہوا خارج ہو.غرض وضو کا مدار کسی چیز کے جسم سے نہ نکلنے پر ہے.سہ اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ نماز کی طہارت کا مدار اس پر ہے کہ کوئی چیز جسم سے خارج نہ ہو.اسی طرح روزہ کی طہارت کا مدار کس پر ہے.اس پر کہ کوئی چیز جسم کے اندر داخل نہ ہو.کہ بے شک روزہ میں مرد و عورت کے تعلقات سے بھی روکا گیا ہے ، مگر یہ اس لئے کہ روزہ کی حالت میں انسان کی کمی توجہ اور طرف نہ ہو.ورنہ روزہ کا اصل مدار کسی چیز کے جسم میں داخل نہ ہونے پر ہے اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ روزہ کا مدار اس پر ہے کہ کوئی چیز اردو
۱۷۴ جسم میں داخل نہ ہو.اگر صرف نماز ہی ہوتی اور وضو صرف ظاہری صفائی ہو تا تو کہا جاتا کہ اس سے مراد صرف ہاتھ منہ اور پاؤں کا دھونا ہے اسی طرح اگر روزہ ہوتا اور کوئی چھوٹی موٹی چیز کھا لی جاتی تو کہا جا سکتا تھا کہ روزہ سے مراد فاقہ کرانا ہے لیکن جسم سے کچھ خارج ہونے سے وضو کا باطل ہو جانا اور کسی چیز کے جسم میں داخل ہونے سے روزہ کا ٹوٹ جانا بتاتا ہے کہ کسی چیز کے خارج ہونے کا نماز سے اور کسی چیز کا اندر داخل ہونا روزہ سے تعلق رکھتا ہے اور ان دونوں کو ملا کر یہ لطیف بات نکلتی ہے کہ انسان طہارت میں کامل نہیں ہو سکتا.جب تک وہ دو احتیاطیں نہ کرے.یعنی بعض چیزیں اپنے جسم سے نکلنے نہ دے اور بعض داخل نہ ہونے دے.اگر ہم ان دو باتوں کا لحاظ رکھ لیں کہ بعض چیزوں کو جسم سے نکلنے نہ دیں اور بعض کو داخل نہ ہونے دیں تو طہارت کامل ہو جاتی ہے.نماز اور روزہ سے مجموعی طور پر انسان کو یہ گر سکھایا گیا ہے کہ ہر انسان کو مد نظر رکھنا چاہئے کہ بعض چیزوں کے جسم سے نکلنے کی وجہ سے وہ ناپاک ہو جاتا ہے ان کو نکلنے نہ دے اور بعض کے جسم میں داخل ہونے کی وجہ سے ناپاک ہو جاتا ہے ، انہیں داخل نہ ہونے دے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ جو چیزیں جسم سے نکلنے والی ہیں وہ نقص پر دلالت کرتی ہیں.مثلاً پیشاب پاخانہ وغیرہ گندی چیزیں ہیں اور جو چیزیں انسان کے جسم میں داخل ہوتی ہیں وہ جسمانیات کی طرف توجہ دلاتی ہیں اور روحانیات سے پھیرتی ہیں.پس معلوم ہوا جن چیزوں کے نکلنے سے روکا گیا ہے وہ گندی ہیں اور جن کے داخل ہونے سے روکا گیا ہے وہ مادی ہیں.اب سوال یہ ہوتا ہے کہ کونسی گندی چیزیں ہوتی ہیں جن کا نکلنا مضر ہوتا ہے.دنیا میں تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ گند کا نکلنا ہی اچھا ہوتا ہے.کیا ایسے گند بھی ہیں کہ جن کا نہ نکلنا اچھا ہوتا ہے.اس کے متعلق ہمیں قرآن کریم اور رسول کریم ملی ایل کی تشریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض گند ایسے ہوتے ہیں کہ جن کا نہ نکلنا ہی اچھا ہوتا ہے اور ان کے نکلنے سے مراد ان کا ظہور ہوتا ہے.مثلاً کسی کی طبیعت میں غصہ زیادہ ہے اور کسی موقع پر اسے سخت غصہ آگیا مگر وہ اسے نکلنے نہیں دیتا.تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ له که نیک اور متقی انسان کو بھی غصہ آجاتا ہے.مگر وہ نظم کر لیتا ہے یعنی روک لیتا ہے گھونٹ دیتا ہے جیسے کسی کو قے آنے لگے تو وہ اسے روک دے.یا نماز کے وقت اس بات کا لحاظ رکھ لیتا ہے کہ اس وقت ایسی چیزیں ظاہر نہ ہوں جو وضو کو باطل کر دیں.بعض کیفیتیں ایسی ہوتی ہیں کہ روک دینے سے کم نکلتی ہیں اور اگر انہیں نکلنے کے لئے آزاد چھوڑ دیا جائے تو بڑھ جاتی ہیں.غصہ بھی ایسی کیفیات
۱۷۵ میں سے ہی ہے اگر کوئی اسے نکلنے دیتا ہے (اور ہمارے ہاں محاورہ بھی یہی ہے.مثلاً کہتے ہیں اب تو آپ نے غصہ نکال لیا اب جانے دو.یعنی گالی گلوچ یا مار پیٹ کے ذریعہ غصہ کا اظہار کر لیا تو وہ اس کے لئے بھی اور دوسرے کے لئے بھی مضر ہو جاتا ہے لیکن اگر اسے دبا لیتا اور روک لیتا ہے تو اس کے لئے نیکی ہوتی ہے.چنانچہ رسول کریم میں یہ فرماتے ہیں.اگر کسی کے دل میں کوئی بُرا خیال پیدا ہو مگر اسے روک لے اور اس پر عمل نہ کرے یہ اس کے لئے نیکی ہو جاتی ہے.کہ غرض قلب کے ایسے حالات ہیں کہ اگر انہیں ظاہر کیا جائے تو طہارت باطل ہو جاتی ہے لیکن اگر دل میں ہی رکھیں تو نیکی بن جاتی ہے.مثلا کسی کی بُرائی دیکھیں اور اس پر غصہ بھی آئے مگر باوجود اس کے اس کی بڑائی ظاہر نہ کریں تو یہ نیکی ہوگی.قرآن کریم میں رسول اللہ یا ولی کے متعلق آتا ہے.عَبَسَ وَ تَوَلَّى أَنْ جَاءَهُ الْأَعْمى A ایک رقعہ آپ کی مجلس میں ایک نابینا نے ایسی حرکت کی جو ناپسندیدہ تھی اور رسول کریم میں کو ناگوار گذری لیکن آپ نے منہ سے اس پر اظہار ناراضگی نہ فرمایا.تاکہ نابینا کو بُرا نہ لگے.وَ تَوَلَّی اور منہ پھیر لیا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے ہمارے رسول نے ایسے اعلیٰ اخلاق دکھائے کہ ! نے منہ پھیر لیا مگر بات نہ کی تاکہ نابینا کو برا نہ لگے.بعض نادانوں نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ نَعُوذُ بِاللهِ رسول کریم مال الله قصور ہوا تھا اور خدا تعالیٰ نے آپ کو تنبیہہ کی ہے لے حالانکہ یہاں رسول کریم میں اللہ کے اخلاق کا ذکر ہے.نابینا شخص نہ دیکھ سکتا تھا کہ اسے ناپسندیدگی کا پتہ لگتا لیکن رسول کریم م نے چہرہ سے بھی ناراضگی کا اظہار نہ ہونے دیا اور نہ زبان سے اسے کچھ کہا صرف اتنا کیا کہ منہ پھیر لیا.یہ رسول کریم میں دی او لیول کی فضیلت کا ذکر کیا گیا ہے کہ آپ کو غصہ تو آیا کیونکہ اس نابینا نے ایسی بات کی تھی جو تبلیغ میں روک تھی.آپ بعض بڑے بڑے لوگوں کو تبلیغ کر رہے تھے کہ اس نے باتیں کرنی شروع کر دیں.اس سے آپ کو غصہ آیا اور آپ نے اس کی اس حرکت کو ناپسند فرمایا مگر یہ سمجھ کر کہ یہ معذور ہے اور اسے اگر یہ کہا جائے گا کہ خاموش رہو تو سمجھے گا مجھے غریب اور چھوٹا سمجھ کر کہا گیا ہے اس لئے آپ نے منہ سے تو اسے کچھ نہ کہا صرف اس سے اعراض کیا اس کی طرف توجہ نہ کی.خدا تعالیٰ نے یہ بات مقام مدح میں بیان کی ہے نہ کہ مقام ذتم میں جیسا کہ مفسرین نے لکھا ہے.للہ غرض جب بُری چیز کو روک لیا جاتا ہے ظاہر نہیں ہونے دیا جاتا تو وہ نیکی ہو جاتی ہے.
124 مثلاً دوسرے کی دلجوئی کے خیال سے اپنا کوئی حق چھوڑ دیا جائے.جیسے رسول کریم میں دل کا حق تھا کہ نابینا کو روک دیتے کہ اس وقت نہ بولو مگر آپ نے یہ حق روک لیا تاکہ دوسرے کا دل میلا نہ ہو.بعض دفعہ حق بات بھی کڑوی لگتی ہے جیسا کہ کہا گیا ہے.اَلْحَقُّ مُرُّ ا.یہ مثال اس بات کی ہے کہ دل میں آئی ہوئی کسی بُری بات کو اگر روک لیا جائے تو وہ نیکی بن جاتی ہے.یہ نماز سے سبق حاصل ہوتا ہے کہ اس طرح اخلاق کامل ہوتے ہیں.دوسری چیز یہ ہے کہ کوئی چیز جسم میں داخل نہ ہونے دی جائے.اس کی مثال جھوٹ استهزاء ، چغلخوری ، غیبت وغیرہ کی باتیں ہیں.ان کا نہ سنتا نیکی ہوتی ہے کیونکہ ایسی باتیں روحانیت سے عاری کر دیتی ہیں.غرض ایسے گند ہوتے ہیں جو باہر سے انسان کے اندر داخل ہوتے ہیں اور ان کا داخل نہ ہونا اچھا ہوتا ہے اور بعض گند دل سے پیدا ہوتے ہیں ان کو نہ نکلنے دینا نیکی ہوتی ہے.پس اخلاق فاضلہ مکمل کرنے کے لئے چاہئے کہ بعض قسم کے گندوں کو باہر نہ نکلنے دیں اور بعض کو اندر نہ داخل ہونے دیں.اس کے ماتحت ہر مومن کو اپنی زندگی بسر کرنی چاہئے.بعض لوگوں کو چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ آجاتا ہے.بعض کی تو یہ عادت ہوتی ہے اور بعض ایسی عادت بنات لیتے ہیں.ایسی عادت بنانا تو بہت بُری بات ہے لیکن بعض کو اپنی طبیعت کے لحاظ سے غصہ آجاتا ہے جیسا کہ حضرت عمرہ کی طبیعت جلالی تھی.باوجود اس کے کہ آپ نے اسلام لانے کے بعد ایسی تبدیلی پیدا کی جو دوسروں کے لئے نمونہ تھی بعض اوقات آپ کی طبیعت میں بے حد جوش پیدا ہو جاتا مگر ایسا جوش دین کے متعلق ہو تا تھا دنیا کی باتوں کے لئے نہ ہو تا تھا اور وہ بھی کبھی کبھی.ورنہ جاہلیت کے زمانہ میں ان کی جو حالت تھی وہ بالکل اور تھی.۱۳، اور اس کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا تھا کہ جاہلیت کے عمر اور تھے اور اسلام کے عمرؓ اور.اسلام لانے کے بعد ب کبھی آپ کی طبیعت میں جلال پیدا ہو تا تو وہ رنگ نظر آجاتا ہے.ایک دفعہ ایک یہودی کا ایک مسلمان سے جھگڑا ہو گیا.مسلمان نے حضرت عمر کے پاس آکر کہا آپ فیصلہ کر دیں.آپ کو بھی قاضی مقرر کیا ہوا تھا.وہ مسلمان منافق تھا اس نے خیال کیا حضرت عمر جو شیلی طبیعت رکھتے ہیں اور مسلمان پرور ہیں وہ ضرور میرے حق میں فیصلہ کریں گے.یہودی نے اس موقع پر کہا اچھا آپ ہی فیصلہ کر دیں.مگر یہ شخص محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس گیا تھا اور ان کا فیصلہ اس نے نہیں مانا اب آپ کے پاس آیا ہے.حضرت عمر نے کہا اچھا.یہ کہہ کر آپ گھر
166 بہت گئے اور جاکر تلوار لے آئے اور مسلمان سے کہنے لگے تم نے رسول کریم میل کا فیصلہ نہیں مانا اب میں تلوار سے تمہارا فیصلہ کرتا ہوں.کہ تو دینی معاملہ میں انہیں غصہ آجاتا تھا مگر بہ کم.جاہلیت کے زمانہ میں ان کی حالت بالکل اور تھی.تو بعض کو غصہ آجاتا ہے مگر اسے روک لینا نیکی کا کام ہوتا ہے.بعض حدیثوں میں آتا ہے اور بعض نے اسے آثار قرار دیا ہے کہ طبیعت نہیں بدلتی اگر تمہیں کوئی یہ خبر دے کہ احد پہاڑ اپنی جگہ سے مل گیا ہے تو اسے مان لو لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ کسی کی طبیعت بدل گئی ہے تو نہ مانو ها، جب طبیعت کا بدلنا اتنا مشکل کام ہے تو جو شخص غصیلی طبیعت رکھتا ہو وہ اگر اسے بدل دیتا ہے اور اپنے جوش کو دبا لیتا ہے تو اس کے لئے یہ نیکی ہے اور یہ اس کے لئے نماز کی عبادت کی طرح ہے.اسی طرح جب کوئی لغو باتیں نہیں سنتا اور جو لوگ ایسی باتیں کرتے ہوں انہیں روک دیتا ہے.مچغلی اور بد گوئی نہ خود کرتا ہے اور نہ کسی سے سنتا ہے تو اس کی مثال روزہ دار کی سی ہوتی ہے.غرض یہ دو عبادتیں ہمارے لئے سبق رکھتی ہیں.ہر مومن کو خیال کرنا چاہئے کہ کیا ان سے اسے یہ سبق حاصل ہوتا ہے جب وہ نماز پڑھتا ہے تو کیا اندر کے گند اور عیب چھپانے کی کوشش کرتا ہے اور جب روزہ رکھتا ہے تو باہر کے گند اندر داخل ہونے سے روکتا ہے.اگر وہ اندر سے گند باہر نہیں نکالتا تو صحیح معنوں میں نماز پڑھتا ہے اسی طرح اگر باہر کے گندوں کو اندر داخل ہونے سے روکتا ہے تو صحیح معنوں میں روزہ دار کہلا سکتا ہے لیکن اگر یہ نہیں تو وہ سمجھ لے کہ وہ بھوکا پیاسا رہا ہے نہ کہ اس نے روزے رکھے ہیں.مومن کو ہر پہلو پر غور کرنا چاہئے.اس کی نماز اور روزے دکھاوے کے طور پر نہیں ہونے چاہئیں.خدا تعالیٰ کو کیا ضرورت ہے کہ کسی کو بھوکا پیاسا رکھے ، جب کہ اس نے انسان کو کھانے پینے والا بنایا ہے صرف سبق دینے کے لئے اس سے روزے رکھواتا ہے.اسی طرح ہمارے وضو کرنے سے اسے کیا فائدہ ہے انسان کی روحانی اصلاح اور ترقی کے لئے اس نے یہ حکم دیئے ہیں.اگر ہم ان باتوں کا خیال نہیں رکھتے جو نماز اور روزہ کو باطل کر دیتی ہیں تو روحانیت حاصل نہیں کر سکتے.ہماری جماعت کو خدا تعالیٰ نے نمونہ کے طور پر کھڑا کیا ہے اس لئے ہمیں ہر بات سے سبق حاصل کرنا چاہئے.لکھا ہے ایک ولی اللہ کا جاتے جاتے ایک جگہ گھوڑا اڑ گیا.کسی نے گھوڑے کو بُرا بھلا کہنا شروع کیا تو انہوں نے روک دیا کہ اس طرح نہ کہو.اور کیا معلوم ہوتا ہے مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہے اور میں نے اپنے مالک کی کوئی نا فرمانی
۱۷۸ کی ہے اس وجہ سے گھوڑا مجھ سے اڑنے لگا ہے.تو مومن رستہ چلتا ہوا بھی سبق حاصل کرتا ہے.درختوں کے پتے گھاس کے تنکے ، جھاڑیوں کے کانٹے اور پرندوں کی آوازیں بھی اسے سبق سکھاتی ہیں.غرض زمین و آسمان کی ہر چیز سے سبق حاصل کرتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ فِى خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَايَةٍ لِأُولِى الالباب کله پس جب ہر چیز میں سبق ہے تو کیا نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ ہی ایسی چیزیں ہیں جن سے کوئی سبق حاصل نہیں ہو تا.ان سے بھی بڑے بڑے سبق حاصل ہوتے ہیں مگر بہت ہیں جو نماز پڑھتے ہیں مگر اس سے جو سبق حاصل ہوتا ہے اس کی طرف توجہ نہیں کرتے.روزے رکھتے ہیں مگر ان کے ذریعہ جو سبق دیا گیا ہے اس سے غافل ہوتے ہیں.جماعت احمدیہ کا قیام ہی اس غرض سے ہوا ہے کہ ان باتوں کی طرف توجہ کی جائے اس لئے ضروری ہے کہ ہماری جماعت کا ہر فرد ان کا خیال رکھے.ورنہ نمازیں پڑھنے والے روزہ رکھنے والے حج کرنے والے زکوۃ دینے والے ہم سے زیادہ دوسرے لوگ موجود ہیں.غیر احمدیوں میں ایسے لوگ ہیں جو سارا سارا دن مصلے پر بیٹھے رہتے ہیں مگر باوجود اس کے ہم مانتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آنے کی ضرورت تھی.ہم ان کی طرح مصلوں پر نہیں بیٹھتے لیکن ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ ہمارے جیسے انسانوں کی بھی اسلام کو ضرورت ہے.میں تو سارا دن مصلے پر نہیں بیٹھ سکتا.اتنے کام ہوتے ہیں کہ بسا اوقات دل چاہتا ہے کہ تخلیہ میں بیٹھ کر خدا تعالیٰ کا ذکر کروں مگر ایسا موقع کم ہی میسر آتا ہے، کبھی کوئی ملنے کے لئے آجاتا ہے.کبھی کوئی کام اپنی طرف توجہ کو کھینچ لیتا ہے گو یہ بھی دینی کام ہوتے ہیں مگر ذاتی طور پر علیحدگی کا موقع میسر نہیں آتا.۱۸، تو باوجود اس کے کہ ہم تخلیہ میں مصلے پر بیٹھنے کا موقع نہیں پاتے اور باوجود اس کے کہ غیر احمدیوں میں ایسے لوگ ہیں جو ایسا کرتے ہیں مگر پھر بھی ہم کہتے ہیں کہ دنیا کو مسیح موعود علیہ السلام کی ضرورت تھی اور یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم جیسے انسانوں کی بھی ضرورت تھی اور بغیر اس کے روحانیت قائم نہیں ہو سکتی تھی.پھر ہم دیکھتے ہیں غیر احمدیوں میں ایسے لوگ ہیں جو بکثرت روزے رکھتے ہیں اور متواتر روزے رکھتے ہیں.ہمارے حافظ روشن علی صاحب مرحوم ہی سناتے تھے کہ ان کے والد صاحب نے چلہ کشی کی اور اتنے روزے رکھے کہ بیمار ہو گئے اور اسی بیماری سے فوت ہو گئے.19.غرض ان لوگوں میں ایسے ایسے روزہ دار ہیں جو اپنی جانیں گنوا دیتے ہیں مگر باوجود اس کے ہم تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت
169.سیح موعود علیہ السلام کی ضرورت تھی اور باوجود اس کے کہ ہم یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اگر چہ ہم میں سے بہت ہیں جو رمضان کے روزے رکھتے ہیں مگر نفلی روزے نہیں رکھ سکتے ہماری بھی ضرورت تھی اور ہمارے بغیر دنیا نہیں چل سکتی تھی.جب ہم کہتے ہیں کہ احمدیت کی دنیا کو ضرورت ہے تو اس کے یہی معنی ہیں کہ ہمارے بغیر دنیا نہیں چل سکتی.کوئی کہے ہم نے کب یہ کہا ہے مگر جب ہم لوگوں سے کہتے ہیں کہ احمدی ہو جاؤ.تو اس کا یہی مطلب ہوتا ہے کہ احمدیوں کے بغیر دنیا قائم نہیں رہ سکتی.پس ہم لوگ جن کا دعوی ہے کہ ہم دنیا کے ستون ہیں اگر ہم نہ ہوتے تو دنیا تباہ ہو جاتی جب ہم ظاہری نماز ظاہری روزہ ظاہری حج ، ظاہری زکوۃ میں دوسروں کے برابر نہیں بلکہ کم ہیں تو معلوم ہوا کوئی اور چیز ہمارے پاس ہے جو دو سروں کے پاس نہیں اور وہ ان چیزوں کی حقیقت ہے.دنیا میں نماز تھی مگر نماز کی روح نہ تھی ، دنیا میں روزہ تھا مگر روزہ کی روح نہ تھی، دنیا میں زکوۃ تھی مگر ز کوۃ کی روح نہ تھی، دنیا میں حج تھا مگر حج کی روح نہ تھی، دنیا میں ایمان تھا مگر ایمان کی روح نہ تھی، دنیا میں اسلام تھا مگر اسلام کی روح نہ تھی، دنیا میں قرآن تھا مگر قرآن کی روح نہ تھی اور اگر حقیقت پر غور کرو تو کہا جا سکتا ہے کہ دنیا میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی موجود تھے کیونکہ آپ کا کلمہ پڑھنے والے لوگ موجود تھے مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روح نہ تھی.ہم جس چیز کے دعویدار ہیں وہ یہ ہے کہ ہمارے ذریعہ اسلام کی روح قائم کی گئی، ہمارے ذریعہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روح قائم کی گئی ہمارے ذریعہ نماز، روزہ، حج، زکوۃ کی حقیقت قائم کی گئی حتی کہ ہمارے ذریعہ تمام احکام اسلامی کی حقیقت قائم کی گئی.۲۰ اب اگر ہمارا دعوئی تو یہ ہو لیکن ہماری نماز ہمارا روزہ ہماری زکوۃ اور ہمارا حج ایسا ہی ہو جیسا اوروں کا تو یاد رکھو دیسی ہی چیز جو اپنے جیسی چیز سے کم ہو اس سے بھاری نہیں ہو سکتی.اگر ترازو کے ایک پلڑے پر مولیاں ہوں اور دوسرے پر بھی مولیاں ہی رکھی جائیں جو کم ہوں تو دونوں پلڑے برابر نہ ہوں گے ہاں اگر دوسری طرف سونا رکھ دیا جائے تو پھر خواہ وہ کم ہو رہی بھاری ہو گا.اگر ہماری نمازیں اور ہمارے روزے بھی دیسے ہی نمائشی ہوں جیسے دوسروں کے تو ان کی نمازیں اور روزے وزنی ہوں گے.کیونکہ وہ ہم سے زیادہ ہیں اور ہم تھوڑے ہیں.ہاں اگر ہماری نمازوں اور روزوں کی حقیقت اور ہو تب ان سے بھاری ہو سکتے ہیں.تھوڑی مٹی زیادہ مٹی سے بھاری نہیں ہو سکتی البتہ تھوڑا سونا زیادہ مٹی سے بھاری ہوتا ہے.پس اگر
۱۸۰ ہماری نمازوں ، ہمارے روزوں ، ہمارے حج، ہماری زکوة کی حقیقت دوسروں کی نمازوں روزوں، زکوۃ اور حج سے بدل نہیں گئی تو ہمیں دوسروں پر کوئی فضیلت نہیں اور ہم جو دعوئی کرتے ہیں وہ محض لاف و گزاف جھوٹ اور فریب ہو گا کیونکہ اس میں حقیقت نہ ہوگی اور ہمارے جیسا مکار اور فریبی اور کوئی نہ ہو گا کہ ہم اپنے سوا ساری دنیا کو ہدایت سے محروم قرار دیتے ہیں مگر اپنے اندر دوسروں کے مقابلہ میں کوئی تبدیلی نہیں پیدا کرتے.میں مانتا ہوں.الْإِنْسَانُ مُرَكَّبٌ مِنَ الْخَطَا وَالنِّسْيَانِ - ال اور اعلیٰ مقام پر پہنچے ہوئے انسان سے بھی خطا ہو سکتی ہے ۲۲ مگر باوجود اس کے اس میں کھری باتیں بھی ہوتی ہیں اس لئے وہ باوجود بعض کمزوریوں کے سونا اور کندن ہی ہوتا ہے.سوال یہ ہے کہ کوئی حقیقت زائدہ پائی جاتی ہے یا نہیں.اگر پائی جاتی ہے تو بعض کمزوریاں جو انسانیت کے ساتھ لگی ہوئی ہیں نظر انداز بھی کی جا سکتی ہیں لیکن اگر حقیقت زائدہ نہیں پائی جاتی تو پھر نہیں مان سکتے کہ وہ شخص یا جماعت دو سروں پر کسی قسم کی فضیلت رکھتی ہے.میں اپنی جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ نماز، روزہ، حج، زکوۃ غرض ہر فعل جس کے کرنے کی اسے توفیق ملے اس کی حقیقت اور روح حاصل کرے تا دنیا میں اسے امتیاز حاصل ہو اور جو دعوئی وہ کرتی ہے اس میں راستباز قرار پائے.میں دعا کرتا ہوں کہ ہم میں وہ روح پائی جائے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام دنیا میں قائم کرنے آئے تھے.اور ہم خدا کے فضل سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ہمارے نفوس کو پاک کر دے گا اور ہماری کمزوریوں کو دور کر دے گا میں ان سب دوستوں کے لئے جو یہاں ہیں یا یہاں نہیں ، بچوں اور بڑوں کیلئے ، غریبوں اور امیروں کیلئے ، بیماروں اور تندرستوں کیلئے غرضیکہ سب کے لئے دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان پر اپنا فضل کرے.(الفضل المارچ ۱۹۳۰ء) "مفتاح الصلوة "الطهور " ترمذى كتاب الطهارة باب ماجاء ان مفتاح الصلوة الطهور صحيح بخارى كتاب الاذان باب من جلس في المسجد ينتظر الصلوة نیل الاوطار جلدا صفحه ۱۸۱ - ابواب :
IAL نیل الاوطار جلد ۳ صفحه ۲۰۱، ابواب ما يبطل الصوم وما يكره ه.البقرة : ١٨٨ د ال عمران :۱۳۵- صحيح بخاري كتاب الادب باب الحذر من الغضب ليس الشديد بالصرعة انما الشديد الذي يملك نفسه عند الغضب) صحيح بخارى كتاب الرقاق باب من هم بحسنة او سيئة عبس : ۳۲ تفسیر فتح البیان مصنفہ ابو طیب صدیق بن حسن قنوجی جلد ۱۰ صفحه ۱۸۶ مطبوعہ مصر ۱۳۰۱ھ ل تفسیر در منثور الجزء السادس صفحه ۳۵-۳۱۴ زیر سورة عبس لا المنجد (فرائد الادب) صفحه ۹۴۳- المطبعة الجديدة بيروت ١٩٢٠ء ۱۳ کنز العمال جلد ۲ صفحہ ۳۲۷- سيرة الامام ابن هشام الجزء الاول صفحہ ۱۱۹ مشكوة كتاب القضاء باب العمل فى القضاء صفحه ۳۲۵ و تفسیر کبیر رازی جلد ۳ صفحه ۲۴۸۲۴۹ ها الجامع الصغير للامام الحافظ السيوطى الجزء الاول صفحه ۲۳ مطبوعہ مصر ۵۱۳۰۶ بخاری کتاب الصوم باب من لم يدع قول الزور و العمل به عل ال عمران:19 ۱۸ تیری نمازوں سے تیرے کام افضل ہیں." تذکره صفحه ۸۰۲ مطبوعه الشركته الاسلامیہ ربوہ) ۱۹ حضرت حافظ روشن علی صاحب ۱۸۷۲ء.۱۹۲۹ء ۲۰ تذکره صفحه ۶۵۹ مطبوعه الشركته الاسلامیہ ، ملفوظات جلدا صفحه ۳۳۲ جلد ۸ صفحه ۲۴۵ جلد ۹ صفحه ۱۷۰ ال مخزن الاخلاق.مصنفہ مولوی رحمت علی سبحانی صفحہ ۳۶۹ مطبوعہ لاہور ۱۹۴۸ء ۲۲ صحیح بخارى كتاب الاحكام باب موعظة الامام للخصوم
IAF (۲۰) فرموده ۲۰ فروری ۱۹۳۱ء بمقام عید گاہ.قادیان) انسانی اعمال کا دائرہ کسی زمانہ میں بہت وسیع ہوتا ہے اور کسی زمانہ میں بہت تنگ ہو جاتا ہے.یعنی بعض اوقات تو اگر انسان چاہے تو کئی قسم کے کاموں میں اپنے آپ کو مشغول کر سکتا ہے اور کبھی اس کا دائرہ عمل محدود ہو جاتا ہے اور وہ مجبور ہو جاتا ہے کہ خاص قسم کے کام کی طرف ہی توجہ کرے یا اس کی طرف ضرور توجہ کرے.ہم دیکھتے ہیں ایک گھر کی مثال ہمارے سامنے ہے.گھر میں مرد بیوی، بچے اور بعض دفعہ بعض اور رشتہ دار بھی ہوتے ہیں.مردوں میں سے کوئی باہر زراعت کرتا ہے، کوئی تجارت کوئی صنعت و حرفت کا کوئی کام کرتا ہے، عورتیں گھر میں سینے پرونے کا کام کرتی ہیں ، کھانا پکاتی ہیں گھر کی صفائی کرتی ہیں ، بچوں کو نہلاتی اور ان کے کپڑے وغیرہ دھوتی ہیں، سہیلیوں سے باتیں کرتی ہیں اور اگر کوئی پڑھی لکھی ہو تو وہ مطالعہ بھی کرتی ہے.بچوں میں سے بعض سکول جاتے ہیں جب وہاں سے آتے ہیں تو اپنی پڑھائی کرتے ہیں.چھوٹے بچے کھیل کود میں لگے رہتے ہیں.گویا گھر ایک ہوتا ہے مگر اس میں بسنے والے ہر ایک فرد کے مشاغل مختلف ہوتے ہیں.پھر ایک آدمی بھی مختلف اوقات میں مختلف کام کرتا ہے.کبھی کھاتا ہے، پیتا ہے، کبھی کماتا ہے ، کبھی بیوی بچوں سے باتیں کرتا ہے، کبھی سوتا ہے لیکن یہی گھر جس کے مختلف افراد مختلف اوقات میں مختلف کاموں میں لگے ہوتے ہیں.اس کی مالکہ یا مالک اگر خطرناک طور پر بیمار ہو جائے تو اس میں رہنے والوں کے کاموں کی ساری تنویع یکدم بند ہو جاتی ہے.بیوی کی بیماری پر خاوند اگر زمیندار ہے تو زمینداره کام ملتوی کر دیتا ہے، اگر تاجر ہے تو دکان بند کر دیتا ہے ، اگر ملازم ہے تو رخصت لے لیتا ہے اور اس کے سامنے صرف ایک شغل یہ رہ جاتا ہے کہ اپنی بیوی کی تیمار داری کرے.بچے اگر ماں بہت زیادہ بیمار نہیں تو بدر سے تو جاتے ہیں مگر کھیل کو د کا وقت اس کی خبر گیری میں صرف کرتے ہیں.چھوٹے بچے گو کھیل کود میں تو مصروف رہتے ہیں مگر ان کی حرکات سے صاف پتہ لگ سکتا ہے کہ ان کا دل اس میں نہیں لگ رہا اور ان کی توجہ بار بار اپنی بیمار ماں کی طرف جاتی ہے.گویا
IAP قریباً تمام افراد ایک ہی کام کرنے کے لئے مجبور ہو جاتے ہیں اور باقی سب کام یا تو گلی طور پر نظر انداز کر دیئے جاتے ہیں یا جزئی طور پر.اسی طرح اگر خاوند بیمار ہو تو بیوی کو ہر وقت اسی کے علاج اور تیمار داری کی فکر رہتی ہے اور سب کام بند ہو جاتے ہیں.غرض انسان مختلف حالتوں میں مختلف کام کرتا ہے اور ان حالتوں کے مطابق کبھی تو اس کا حلقہ عمل وسیع ہوتا ہے اور کبھی محدود.بعض بے وقوف ایک ہی قسم کا کام ہمیشہ کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ باقی سب لوگ بھی وہی کام کریں حالانکہ یہ طریق قطعاً غلط ہے.پھر جس طرح افراد کے متعلق یہ بات ہے کہ وہ مختلف اوقات میں مختلف کام کرتے ہیں اسی طرح قوموں کے بھی مختلف اوقات کے مختلف کام ہوتے ہیں.حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے متعلق بائیبل میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ آپ کی ایک گھر میں کھانا کھانے بیٹھے تھے اُس وقت کچھ لوگوں نے جو ان کے مخالف تھے ان کے پاس آ کر کہا کیا سبب ہے کہ ہم اور فریسی تو روزے رکھتے ہیں مگر تمہارے شاگر د روزہ نہیں رکھتے.حضرت مسیح علیہ السلام نے ان سے کہا کیا براتی جب تک دولہا ان کے ساتھ ہے ماتم کر سکتے ہیں مگر وہ دن آئیں گے کہ دولہا ان سے جُدا کیا جائے گا اس وقت وہ روزہ رکھیں گے.ل.اب دیکھو! روزے جیسی لطیف عبادت کے متعلق حضرت مسیح علیہ السلام نے جو کچھ فرمایا بظاہر یہ ناموزوں معلوم ہوتا ہے مگر صحیح بات یہی ہے کہ بعض ایام روزہ چھوڑنے والے ہوتے ہیں اور یہ عید کا دن بھی ایسا ہی ہے جب روزہ رکھنا نا جائز ہے.لے کیونکہ یہ دن مومن کے لئے وہی خوشی اپنے اندر رکھتا ہے جو خاوند کے گھر آنے پر ایک عورت کو ہوتی ہے.آج کے دن مومن یہ فرض کرتا ہے کہ میرا خدا میرے گھر آنے والا ہے.مومن اپنے فعل کو عبث قرار نہیں دیتا، وہ بے ایمان نہیں ہوتا اسے خدا پر پورا پورا یقین ہوتا ہے وہ سمجھتا ہے میں نے جو فاقے میں دن (یا جو معذور تھا اس نے کم و بیش) خدا تعالیٰ کے لئے کئے ہیں ان کے نتیجہ میں میرا خدا مجھے مل گیا ہے.۳، گویا ان تمیں ایام کی عبادت کے بعد وہ خدا تعالیٰ کے متعلق یقین کرتا ہے کہ وہ اسے مل گیا ہے اور جس طرح وہ عورت جس کا خاوند ایک عرصہ کے بعد باہر سے آئے سوگ نہیں کیا کرتی بلکہ اپنے کپڑے صاف کرتی، بناؤ سنگار کرتی ہے ، گھر کی صفائی کرتی ہے ہے ، عمدہ عمدہ کھانے پکاتی ہے اور یہ سب کچھ اس امید پر کرتی ہے کہ جب میرا خاوند گھر آئے گا تو یہ دیکھ کر خوش ہو گا کہ مکان آراستہ پیراستہ اور ہر چیز قرینہ سے رکھی ہے اسی طرح آج کے دن مومن بھی اسی لئے کہ سمجھتا ہے آج میرا خدا میرے گھر آنے والا ہے، اپنے بدن اور
۱۸۴ کپڑوں کی صفائی کرتا اور عمدہ عمدہ کھانے پکاتا ہے.وہ آج اپنے لئے نئے کپڑے نہیں پہنتا بلکہ خدا کے لے پہنتا ہے.وہ آج کے دن اس لئے خوشی کرتا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کی ملاقات کا دن ہے جس سے بڑھ کر خوشی اور کوئی نہیں ہو سکتی.ایک بزرگ کے متعلق مشہور ہے کہ ہمیشہ میلے کپڑے پہنے رہتے تھے یوں تو اسلام کی سنت ہے کہ انسان صاف ستھرا رہے مگر یہ نسبتی امر ہے گویا وہ صفائی کا زیادہ خیال نہیں رکھتے تھے.ان کے پاس ایک نہایت بیش قیمت جو ڑا تھا اور ان کے عقید تمند ہمیشہ ان سے پوچھا کرتے تھے یہ آپ نے کس دن کے لئے رکھا ہوا ہے اسے کیوں نہیں پہنتے.اس پر وہ یہی جواب دیتے کہ ابھی اس کے پہنے کا وقت نہیں آیا جب وقت آئے گا تب پہنوں گا.ایک دن انہوں نے اپنے احباب کو بلایا اور ان سے کہا اب وقت آگیا ہے کہ میں اپنے محبوب کے پاس جاؤں اور یہ چونکہ خوشی کا دن ہے اس لئے جب میں مرجاؤں تو مجھے اچھی طرح غسل دے کر خوشبو لگانا اور یہ بیش قیمت لباس پہنچا کر دفن کر دیتا.پس عید کے دن جو تبدیلی مومن اپنے ظاہری لباس وغیرہ میں کرتا ہے اس کے یہی معنی ہوتے ہیں کہ وہ سمجھتا ہے کہ چونکہ میرے باطن میں تبدیلی ہو چکی ہے اور میرا مولیٰ میرے گھر آنے لگا ہے اس لئے مجھے خوشی منانی چاہئے اور خوشی کی تمام علامات ظاہر کرنی چاہئیں.بظاہر تو یہ ایک ناٹک سا معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہی آپ یہ خیال کر لیا جائے کہ میں روزے رکھنے کے بعد پاک و صاف ہو گیا ہوں اور آپ ہی یہ سمجھ لیا جائے کہ اب میرا خدا میرے پاس آنے والا ہے.یہ تو ایسی ہی بات ہوئی جیسے پنجابی میں ایک ضرب المثل ہے کہ آپے میں نہاتی دھوتی آپے میرے بچے جیون.لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ تماشہ نہیں کیونکہ اس کا تعلق باطن سے ہے اور تماشہ صرف ظاہر سے تعلق رکھتا ہے.یہ روحانیت کا معاملہ ہے مادیات کا نہیں.خدا تعالی کا آنا فی الحقیقت خیالات کی تبدیلی اور باطن کے تغیر سے تعلق رکھتا ہے.اگر تو خدا تعالی مجسم ہوتا اور اس نے چل کر آنا ہو تا تو بے شک اس کی آمد سے قبل ضروری تھا کہ کارڈ یا لفافہ یا کسی اور ذریعہ سے اس کے آنے کی اطلاع آتی.پھر ریل یا موٹر کے آنے کی آواز سنائی دیتی.پھر وہ ظاہری شان و شوکت کے ساتھ آتا.مگر اللہ تعالیٰ کی ملاقات دراصل دل کی تبدیلی کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.جب کوئی انسان رمضان کے بعد اپنے دل میں تبدیلی محسوس کرے تو پھر اسے حق ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے ملنے کی امید رکھے اور اگر انسان واقعہ میں یہ سمجھ لے کہ میرا خدا مجھے ملنے والا ہے تو پھر مل بھی جاتا ہے.رسول کریم صلی الہ و سلم نے فرمایا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.
۱۸۵ اَنَا عِنْدَ ظَنْ عَبْدِى بِى.کہ میرا بندہ مجھ سے جیسا گمان کرتا ہے میں اس سے ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں.ایمان کا مطلب ہی یہ ہے کہ انسان فیصلہ کر لیتا ہے کہ خدا تعالیٰ مجھے مل گیا اور جب انسان یقینی طور پر یہ سمجھ لے تو ایسا ہو بھی جاتا ہے.ناٹک کا تماشہ کرنے والا دل میں جانتا ہے کہ جو کچھ وہ ظاہر کر رہا ہے حقیقت وہ نہیں مگر مومن کی حالت اس کے الٹ ہوتی ہے وہ جو کچھ کہتا ہے اس کے درست ہونے کا یقین بھی رکھتا ہے.حقیقت نہ جانے والے لوگ اسے پاگل کہہ سکتے ہیں مگر ناٹک والا نہیں کہہ سکتے کیونکہ ناٹک والا جو کچھ کرتا ہے اسے خود بھی محض بناوٹ اور غلط سمجھتا ہے.اس کے مقابلہ میں ایک پاگل جو کچھ کہتا ہے وہ غلط ہوتا ہے اور اس کی کچھ حقیقت نہیں ہوتی لیکن وہ خود اسے غلط اور بے حقیقت نہیں سمجھتا بلکہ اس کے درست ہونے پر یقین رکھتا ہے.پس وہ لوگ جو مومن کی باتوں کو اپنی جہالت اور نادانی سے درست نہ سمجھیں وہ اسے پاگل تو کہہ سکتے ہیں ناٹک والا نہیں کہہ سکتے.لیکن پھر پاگل اور بچے مومن میں امتیازات بھی مقرر ہیں.پاگل انسان کا سارا زور و ہم پر ہوتا ہے عمل پر نہیں ہو تا.مثلاً بادشاہ کا کام ہے لوگوں میں عدل و انصاف کرنا امن قائم کرنا ملکی ترقی کی کوشش کرنا ، ملک کو دشمنوں محفوظ رکھنا، ملک میں علوم کی اشاعت کرنا.اب اگر کوئی شخص کہے میں بادشاہ ہوں اور ساتھ ہی ملک کی حفاظت کرے علوم کو رائج کرے، رعایا کی بہبودی کے سامان مہیا کرے لوگوں میں عدل و انصاف اور امن و امان قائم کرے تو کوئی اسے پاگل نہیں کہے گا بلکہ یہی سمجھے گا کہ اگر یہ شخص آج بادشاہ نہیں تو کل ضرو ر بادشاہ بننے والا ہے کیونکہ مشہور ہے ہو نہار بروا کے چکنے چکنے پات.۵ لیکن پاگل منہ سے تو کہے گا میں بادشاہ ہوں مگر کام بادشاہوں والے اس سے سرزد نہیں ہونگے.وہ زیادہ سے زیادہ یہ کرے گا کہ خالی مٹھی بند کر کے کسی کے ہاتھ میں رکھ دے اور کہے یہ لو روپیہ مگر بادشاہ فی الواقعہ لوگوں کو مال دیتا ہے، فساد مٹاتا ہے ، صنعت و حرفت کو ترقی دیتا ہے علوم کو رائج کرتا ہے اور تمدنی حالت کی اصلاح میں کوشاں رہتا ہے.اگر کوئی شخص ایسا کرنے لگے تو ہم سمجھ لیں گے یہ یقین رکھتا ہے کہ اگر آج نہیں تو کل میں ضرور بادشاہ ہونے والا ہوں.اسی طرح جو مومن واقعہ میں یہ یقین رکھتا ہے کہ میرا خدا مجھے ملنے والا ہے وہ اپنے اعمال میں بھی تبدیلی کرے گا وہ دین کے لئے محبت رکھے گا اور اس کے لئے قربانی کرے گا، علوم کی اشاعت کرے گا اپنے بھائیوں کے فسادات دور کرے گا کیونکہ لوگ جو کام اپنے آقا کو کرتا دیکھتے ہیں وہی خود کرنے لگ جاتے ہیں اور جو شخص خدا تعالیٰ کو اپنا آقا سمجھے گا 6
JAY وہ اس کے کاموں کی نقل کرنے کی کوشش کرے گا ، وہ رحیم بننے کی کوشش کرے گا، وہ رحمان بننے کی کوشش کرے گا ، اسی طرح ستار ، غفار ، شکور ، میمن ، و دود وہاب بنے گا ، لطیف خبیر بنے گا.غرضیکہ خدا تعالٰی کی تمام صفات کا انعکاس اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرے گا.اور اس میں کیا شبہ ہے کہ جو شخص اپنے اندر یہ صفات پیدا کر لے گا اسے فی الواقعہ خدا تعالیٰ مل جائے گا اور جس کے اندر یہ صفات پیدا ہو گئے اس کے متعلق پھر کون کہہ سکتا ہے کہ اس میں خدا تعالیٰ نہیں آگیا کیونکہ جب خدا تعالی کا پر تو کسی پر پڑنے لگے تو سمجھو اسے خدا مل گیا.عید کا مفہوم دراصل یہی ہے کہ انسان ظاہر کرتا ہے مجھے اپنے خدا پر ایسا اعتماد اور یقین ہے کہ میں سمجھتا ہوں وہ میرے کسی عمل صالح کو ہر گز ضائع نہیں کرے گا اور ساتھ ہی مجھے اپنے نفس پر اعتماد ہے کہ وہ منافقت سے عمل صالح نہیں کرتا.میں نے جو روزے رکھے تھے وہ محض خدا تعالی کی رضا کے لئے رکھے تھے.اور جب یہ دونوں باتیں جمع ہو جائیں یعنی خدا تعالیٰ پر پورا یقین بھی حاصل ہو جائے اور اعمال صالحہ بھی انسان بجا لائے تو اس میں کیا شبہ رہ جاتا ہے کہ اسے مقصود مل گیا.اور جب خدا تعالیٰ انسان کو ملے تو اس کا فرض ہے کہ اس کی شان کے مطابق اس کے آنے کے لئے تیاری کرے اور اس کے استقبال کے لئے تیار ہو.پس بادشاہوں کی کے بادشاہ کے استقبال کے لئے ضروری ہے کہ ظاہری و باطنی صفائی کی جائے اسی وجہ سے ومن کا عید کے روز کپڑے تبدیل کرنا اور مسرت و شادمانی کا اظہار کرنا اس بات کا ثبوت ہو تا ہے کہ وہ یقین رکھتا ہے کہ میرا رب مجھے مل گیا ہے یا ملنے والا ہے.اور میں نے بتایا ہے.اقرار پاگل کر سکتا ہے یا مومن اور یا پھر منافق ان تینوں کے سوا اور کوئی ایسا اقرار نہیں کر سکتا.اب تم میں سے ہر ایک غور کرے کہ وہ ان تینوں میں سے کس گروہ میں شامل ہے.اگر واقعہ میں عید کا کوئی مفہوم ہے.اگر تم سمجھتے ہو تمہارے روزے قبول ہو گئے اور اب خدا تعالیٰ تم سے ملنے والا ہے تو ضروری ہے اپنے ظاہر و باطن میں ایسی صفائی کرو کہ خدا تعالیٰ ملنے کے بعد پھر تم سے جدا نہ ہو.وہ روزوں کے ذکر میں فرما چکا ہے.وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِّى قریب کا یعنی جو شخص میرے لئے روزہ رکھتا ہے میں اس کے پاس آتا ہوں اور یہ کس طرح سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ آنے کا وعدہ کرے اور پھر پہنچ نہ سکے.روزہ کا ذکر کر کے خدا تعالیٰ فرماتا ہے.اِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَنِّی جب میرا بندہ مجھے ملنے کے لئے پکارتا ہے فانی قَرِيبٌ.تو میں اسے کہتا ہوں کہ یہ روزے تم ختم کر لو پھر عید کے دن میں تمہارے پاس ہوں.
IAZ تمہارے مجاہدہ میں تھوڑی سی کسر باقی ہے.تمہارے یہ روزے دراصل میرا سفر ہیں.ان کے ختم ہوتے ہی میں تمہارے پاس آجاؤں گا.قریب کا مفہوم ہی یہ ہے کہ جب مجاہدہ تکمیل کو پہنچ جائے تو خدا پاس آجاتا ہے.^ اسی کی طرف اس حدیث میں اشارہ ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.میرا بندہ نوافل کے ذریعہ میرے قریب ہو جاتا ہے.وہ اور روزوں میں تهجد، صدقہ و خیرات وغیرہ نوافل ادا کرنے کا بہت موقع ملتا ہے اور یہ مجاہدہ جس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے قریب آنے کا وعدہ فرمایا ہے عید کے دن ختم ہوتا ہے.اگر وہ مجاہدہ جس کے بعد عید آئی منافقانہ نہ تھا تو یقیناً خدا تعالیٰ مل گیا.یہ علیحدہ بات ہے کہ انسان اپنی غفلت کے سبب اسے پھر کھو دے یا حاصل کرنے کی پوری اور مکمل کوشش نہ کرے مگر اسلام نے ایسا انتظام کر رکھا ہے کہ سال میں ایک دفعہ ضرور مومن خدا کو مل جاتا ہے.بعض لوگ نا سمجھی کی وجہ سے کہا کرتے ہیں ہمیں خدا نہیں ملتا حالا نکہ ان کی زندگی میں کئی بار خدا کے ملنے کے مواقع آچکے ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ نے ایسا سامان کر رکھا ہے کہ اگر انسان صدق دل سے روزے رکھے نوافل ادا کرے تو کم از کم ایک دفعہ سال میں وہ ضرور مل جاتا ہے اور اس عید کا منشاء ہی یہ ہے کہ مومن کو خدا مل جائے.رسول کریم میں لایا اور ہم نے اس عید کو کھانے کا دن فرمایا ہے.ملے اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس دن خوب پیٹ بھر کر کھایا جائے کیونکہ مومن اپنے ایک اندازہ سے زیادہ نہیں کھایا کرتا.حدیث میں آتا ہے.مومن اگر ایک انتڑی سے کھاتا ہے تو کافر سات انتریوں سے کھاتا ہے.لا حضرت خلیفہ المسیح الاول کو ایک دفعہ انتڑیوں میں کچھ تکلیف ہو گئی اسہال کی شکایت تھی اس وجہ سے آپ دہی کھایا کرتے تھے.اور صبح ہی صبح ادھ رڑ کا پیا کرتے تھے.والدہ صاحبہ لاء نے بھینس رکھی ہوئی تھی آپ دہی بھیج دیا کرتی تھیں.کبھی میر محمد اسحق صاحب ا، اور کبھی میں لے جاتا تھا.دہی سے نفع پیدا ہوتا ہے اس سے آپ کو ریح را ہو گئی اور ہوا خارج ہونے لگی.ایک دفعہ مجھے یاد نہیں میں لے کر گیا تھا یا میر صاحب مگر اس دن آپ نے فرمایا آج سے میں ادھ رڑکا نہیں پیوں گا کیونکہ رات کو مجھے الہام ہوا ہے.بَطْنُ الْأَنْبِيَاءِ صَامِت یعنی انبیاء کا پیٹ خاموش ہوتا ہے اس لئے انبیاء کی صفت سے حصہ لینے کے لئے میں دہی کا استعمال بند کرتا ہوں.۱۴ سو مومن کی غذا ہمیشہ ہی کم ہوتی ہے.پس عید کے دن کو کھانے کا دن کہنے سے یہ مراد نہیں کہ اس دن خوب پیٹ بھر د.یہ بات سنت انبیاء کے خلاف ہے.ها بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس دن مومن یہ سمجھ کر کھاتا ہے کہ میرا خدا پیدا
۱۸۸ مجھے کھلاتا ہے اور اصل کھانا یہی ہے.سید عبد القادر جیلانی 11 کے متعلق آتا ہے انہوں نے فرمایا میں کھانا نہیں کھاتا جب تک خدا تعالیٰ مجھے الہام نہیں کرتا کہ اے عبد القادر تجھے میری ہی ذات کی قسم کھا.کلہ اسی طرح آپ بہت قیمتی لباس پہنا کرتے تھے.لکھا ہے آپ کا ایک ایک جوڑا ہزار دینار یعنی قریباً چودہ ہزار روپیہ کی مالیت کا ہوتا تھا.۱۸ اور آپ اسے بہت جلدی جلدی تبدیل کیا کرتے تھے.آپ پر جب اعتراض کیا گیا کہ یہ اسراف ہے تو آپ نے فرمایا کہ میں تو کوئی کپڑا نہیں پہنتا جب تک میرا خدا مجھے نہیں کہتا کہ اے عبد القادر تجھے میری ذات کی ایسا کپڑا پہن.19 اور نہیں کھاتا جب تک خدا تعالیٰ نہیں کھلاتا.اولیا اللہ تو کبھی بھی خدا کے حکم کے بغیر نہیں کھاتے اور نہیں پہنتے لیکن یہ عید کا دن ایسا ہے جب ہر مومن کو خدا کھلاتا ہے.پس عید کے متعلق رسول کریم ملی و و و و ویو کا یہ فرمانا کہ یہ کھانے پینے کا دن ہے.اس کا یہی مطلب ہے کہ اس دن مومن خدا کے حکم سے کھاتا پیتا ہے نہ یہ کہ اس طرح پیٹ بھر کر کھاؤ جس طرح ہند و پانڈے کھاتے ہیں.اور اصل کھانا یہی ہے جو خدا کے حکم سے کھایا جائے.اگر خدا تعالیٰ یہ حکم دیتا کہ عید کے دن بھی روزہ رکھو تو ہم رکھتے.اگر اس کا حکم ہو تا کہ بیماری اور سفر میں بھی روزہ رکھو تو ہم اس حالت میں بھی روزہ رکھتے اور اگر وہ حکم دیتا کہ رمضان کے بعد بھی روزے رکھتے جاؤ تو ہم اس کی بھی تعمیل کرتے.مگر خدا تعالیٰ نے عید کے دن کھانے پینے کا حکم دیا ہے اور رسول کریم میں یا لیلی نے فرمایا ہے جو عید کے دن روزہ رکھتا ہے وہ شیطان ہے.۲۰، اس کی یہی وجہ ہے کہ یہ وہ دن ہے جب خدا تعالٰی اپنے بندہ سے کہتا ہے آج تو میرے لئے کھا اور پی.پس چاہے انسان ایک لقمہ ہی کھائے یا ایک گھونٹ ہی پانی پیئے اصل کھانا پینا یہی ہے جو خدا کے حکم کے ماتحت کھایا گیا اس لئے آج لباس تبدیل کرنا دین ہے، آج کھانا پینا دین ہے، آج جسم کی صفائی کرنا دین ہے، آج میاں بیوی کا تعلق دین ہے اور یہ دین کیا ہی خوش کن دین ہے کہ جس میں ظاہری لذات بھی عبادات بن گئیں.ہر ایک انسان کا یہ مقام نہیں ہوتا کہ ہمیشہ کے لئے اپنے اوپر یہ حالت طاری رکھے.صرف کامل اولیاء اللہ کو ہی یہ مقام حاصل ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ چونکہ اپنے کسی بندہ کو بھی اس درجہ سے محروم نہیں رکھنا چاہتا اس لئے اس نے چاہا کہ میرے تمام بندے کم از کم ایک دن تو یہ مقام حاصل کر لیں اس کے لئے اس نے فرمایا میرا حکم ہے کہ اس دن کھایا پیا جائے.اس سے انکار گناہ ہے جس طرح ابلیس نے سجدہ سے انکار کیا.۲۱ تو شیطان بن گیا اسی طرح آج کے دن جو نہ کھائے پیئے گا وہ
: ۱۸۹ 21 بھی شیطان ہو گا.رو پس یہ دن ہمارے لئے کیوں عید نہ ہو جب کہ خدا تعالیٰ ہمیں مل جاتا ہے اور اس کے ملنے کا ظاہری ثبوت یہ ہے کہ وہ کہتا ہے اے میرے بندے آج میری خاطر کھا.اگر آج کا کھانا پینا خدا تعالیٰ کے حکم سے نہیں تو پھر آج روزہ رکھنے سے انسان شیطان کیوں بن جاتا ہے.شیطان اسی وقت بن سکتا ہے جب کہ خدا کے حکم کی خلاف ورزی کرے.قرآن کریم میں خدا تعالٰی ابلیس کو مخاطب کر کے فرماتا ہے.مَا مَنَعَكَ اَلا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ ۲۲، الخ - یعنی کس چیز نے تجھے آدم کو سجدہ کرنے سے روکا جب میں نے حکم دیا تھا.اس سے معلوم ہوا کہ چونکہ ابلیس نے خدا تعالیٰ کے حکم کو رد کیا.اس لئے شیطان بن گیا.گویا جو خدا تعالیٰ کے حکم کو د کرتا ہے وہ شیطان ہو جاتا ہے.پس آج انسان نماز چھوڑنے سے شیطان نہیں بنتا، حج نہ کرنے سے شیطان نہیں بنتا زکوۃ نہ دینے سے شیطان نہیں بنتا روزہ ترک کرنے سے شیطان نہیں بنتا بلکہ آج جس چیز سے وہ شیطان بنتا ہے وہ یہ ہے کہ کھانا نہ کھائے اور پانی نہ پیئے کیونکہ آج کے دن کے لئے یہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے.اور جب انسان کی لذات میں خدا تعالی داخل ہو جائے تو یہی مقام ولایت ہے.ولی اور دوست کی کیا علامت ہوتی ہے یہ کہ اس کی دعوت کی جائے اور آج ہر مومن کی خدا تعالیٰ کی طرف سے دعوت ہے.آج ہمارے گھروں میں جو کھانا پکتا ہے اور جو پانی ہے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لئے بطور دعوت آیا ہے.پھر ولی وہ ہوتا ہے جس کا اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا سونا جاگنا سب خدا کے لئے ہو.۲۳، اور آج ہر ایک مومن کے خواہ اسے ولایت کا بلند مقام حاصل ہے یا نہیں یہ تمام افعال خدا کے لئے ہیں.آج کے دن وہ خدا تعالٰی.اسے بطور دعوت کھاتا اور پیتا ہے اور اس کا ہر فعل اخلاق فاضلہ ہی نہیں ، نماز اور تلاوت قرآن کریم ہی نہیں، بلکہ کھانا پینا اور پہننا بھی عبادت ہے.وہ آج خدا کا مہمان ہے.آج خدا اسے مل گیا.آج جو کپڑے وہ پہنتا ہے وہ اسی خوشی میں پہنتا ہے کہ اس کا خدا اسے مل گیا.آج جو کچھ کھاتا پیتا ہے وہ اسی خوشی میں کہ خدا نے اسے کھانے اور پینے کا حکم دیا ہے.معلوم ہوتا ہے ہندوؤں کے کسی نبی نے بھی ایسی ہی کوئی بات کہی ہو گی جسے غلط طور پر سمجھنے کی وجہ سے ان میں پانڈے بن گئے ہیں.۲۴- اسلام تو ہر بات کے متعلق تفصیل سے بیان کرتا ہے مگر پرانے مذاہب میں صرف اشارے ہی ہوتے تھے.ہندوؤں میں برہمن کو کھلانا بہت ثواب سمجھا جاتا ہے.۲۵، شراده ۲۶ کے دنوں میں امراء انہیں خوب کھلاتے ہیں.جب وہ خوب کھا
19.چکیں تو پھر ان کے لئے انعام مقرر کرتے ہیں مثلا یہ کہ جتنے لڈو کوئی کھائے اتنے ہی روپے دیئے جاتے ہیں.پھر فی لڈو دو روپیہ تین روپیہ دینے لگ جاتے ہیں.یہ لوگ بھی کئی کئی مہینے قبل زیادہ کھانے کی مشق شروع کر دیتے ہیں.ان میں زیادہ شریف خاندان وہی سمجھا جاتا ہے جس میں زیادہ حادثات ایسے ہو چکے ہوں کہ زیادہ کھانے کی وجہ سے موت واقع ہو چکی ہو.ایک قصہ مشہور ہے کہتے ہیں ایک برہمنی ساس نے اپنی بہو سے کہا تیرا خاوند اور خُسر آئیں گے اور زیادہ کھانے کی وجہ سے وہ بیٹھ نہیں سکیں گے اس لئے ان کے آنے سے قبل بستر بچھا دو تاکہ وہ آتے ہی لیٹ جائیں.اتنا سننا تھا کہ بہو چیچنیں مار کر رونے لگ گئی اور عائیں دینی شروع کر دیں کہ پر میشور میرے ماں باپ کا بیڑا غرق کرے انہوں نے مجھے ذلیل کر دیا.ساس بہتیرا چپ کراتی اور رونے کا سبب دریافت کرتی مگر وہ زیادہ سے زیادہ شور مچاتی جاتی.ساس ہاتھ جوڑتی ، پاؤں پڑتی اور دریافت کرتی کہ آخر میں نے کیا کہا جو تم اس طرح رو رہی ہو مگر وہ برابر روتی جاتی اور کوئی جواب نہ دیتی حتی کہ شور سن کر محلہ کے لوگ جمع ہونے شروع ہو گئے اور انہوں نے بھی رونے کی وجہ پوچھنی شروع کی.بہت اصرار کے بعد اس نے بتایا کہ میری قسمت تو برباد ہو گئی کہ میں ایسے کمینے خاندان میں بیاہی گئی جس کے افراد شرادھ کھانے کے بعد پیدل چل کر گھر آجاتے ہیں.ہمارے خاندان کے آدمی تو کھانے کے بعد چل ہی نہیں سکتے اور ڈولیوں میں پڑ کر آتے ہیں.اگر چہ ہندوؤں میں شرادھوں کی یہ حالت ہو گئی ہے لیکن معلوم ہوتا ہے یہ در حقیقت اسی نکتہ سے نکلے ہیں اور ان کا بھی کسی زمانہ میں وہی مفہوم تھا جو ہماری عید کے دن کھانے کا ہے کہ چونکہ اس دن کھانے پینے کا حکم خدا نے دیا ہے اس لئے اصل کھانا اسی دن کا ہے.مگر لوگوں کی نا سمجھی سے اب یہ ایک عجیب کی رسم بن گئی ہے.دراصل حکم یہی ہو گا کہ خدا کے لئے کھاؤ لیکن جس طرح بیوقوف ملانوں نے عید کا یہ مفہوم سمجھ لیا کہ اتنا کھانا کھانا چاہئے کہ یا تمہ ہو جائے یا ہیضہ.اسی طرح پنڈتوں نے بھی غلط سمجھ لیا.دراصل شرادھ کا مطلب بھی یہی ہو گا.اور رسول کریم میں یا تو وہ ملک کے اس ارشاد کا کہ یہ کھانے کا دن ہے یہی مطلب ہے کہ آج انسان خدا کے لئے کھاتا پیتا ہے یہ نہیں کہ اتنا کھاؤ کہ بد ہضمی کی ڈکاریں آنی شروع ہو جائیں اور عارف لوگ تو ایسے خوشی کے موقع پر اپنی مقدار کے لحاظ سے بھی کم کھاتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نزول ہو رہا ہوتا ہے اور ان کا خیال اس طرف لگا ہوتا ہے کھانے کی طرف ان
191 کا ذہن کہاں جاتا ہے.حضرت مظہر جان جاناں دہلی کے ایک مشہور بزرگ گزرے ہیں ان کے متعلق لکھا ہے ایک دن کوئی شخص ان کے پاس بالائی کے لڈو لایا.دہلی میں بالائی کے لڈو خاص! طور پر بنتے ہیں جو بہت چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں.انہوں نے ان میں سے دو لڈو اپنے ایک شاگرد کو دیئے کہ کھا لو.تھوڑی دیر کے بعد پوچھا میاں لڈو کھا لیئے.اس نے کہا وہ تو میں نے اسی وقت کھا لئے تھے.آپ نے فرمایا کیا دونوں کھا گئے.اس نے کہا وہ دونوں تھے ہی کتنے بڑے میں نے تو اسی وقت کھا لئے.ان کی مقدار ہی کتنی ہوتی ہے.بہت چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں.دو لڈو ایک ہی دفعہ منہ میں ڈالے جا سکتے ہیں.آپ نے فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے تمہیں لڈو کھانے نہیں آتے.اس نے کہا پھر آپ سکھا دیجئے.انہوں نے کہا پھر کبھی لڈو آئے تو یاد دلانا تمہیں لڈو کھانے سکھاؤں گا.کچھ عرصہ کے بعد پھر لڈو آئے اور اس نے کہا حضور اب سکھائیے.آپ نے ایک رومال بچھایا.ایک لڈو اس پر رکھ کر اس میں سے ایک چھوٹا سا ٹکڑا تو ڑا اور شاگرد سے کہا.کیا تم نے کبھی سوچا کہ یہ لڈو کن چیزوں سے بنتا ہے.اس میں گھی استعمال ہوتا ہے ، شکر ڈالی جاتی ہے اور پھر دوسرے اجزاء کے نام لئے اور پھر پوچھا.تمہیں معلوم ہے شکر کس طرح تیار ہوتی ہے ؟ ہزاروں لوگ اس کام پر لگے ہوتے ہیں.اس کے لئے پہلی چیز زمین ہے.جس میں نیشکر بویا جائے.بھلا انسان اسے پیدا کر سکتا ہے.ہرگز نہیں.مگر اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا کیا.پھر اگر زمین بھی ہوتی مگر اس میں نیشکو نہ پیدا ہو سکتا تو انسان کیا کر سکتا.مگر خدا نے زمین میں یہ خاصیت رکھی کہ اس میں نیشکر پیدا ہو اور اس لئے رکھی کہ تا مظہر جان جاناں لڈو کھائے.لڈو تو آج میں کھا رہا ہوں مگر اس کی تیاری میں ایک عرصہ کئی لوگ لگے ہوئے تھے.ایک زمیندار گنا بونے کے لئے راتوں کو جاگتا رہا، پہلے اس نے زمین میں قلبہ رانی کی ، پھر اس میں بیج ڈالا، پھر اس کی آبپاشی کرتا رہا اس نے یہ ساری مصیبتیں اس لئے جھیلیں کہ تا مظہر جان جاناں لڈو کھا سکے.اسی طرح لڈو کے دوسرے اجزاء کے متعلق بیان کرتے رہے کہ اتنے میں کسی نے آکر کہا عصر کی نماز کا وقت ہو گیا ہے.اس پر آپ لڈو وہیں چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے.۲۷، آخر وہ روز تو اس طرح نہ کھا سکتے تھے یہ تو سبق سکھایا ہے اور یوں تو اولیاء اللہ کا ہر کام ہی خدا تعالیٰ کے لئے ہوتا ہے اور وہ ہر وقت ہی اس کے احسانات یاد رکھتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کھانا کھاتے وقت انگلیوں سے روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے توڑتے جاتے تھے کوئی ٹکڑہ منہ میں بھی ڈال لیتے تھے گویا یوں
۱۹۲ معلوم ہو تا تھا کہ آپ دیکھتے ہیں ان میں سے حلال کو نسا ریزہ ہے اور حرام کونسا اور ساتھ ہی ساتھ سبحان اللہ سبحان اللہ کہتے جاتے.اصل بات یہی ہے کہ اولیاء اللہ کا ہر کام ہر وقت خدا تعالی کے لئے ہی ہوتا ہے اور ان کے لئے ہر وقت ہی عید ہوتی ہے.مگر اکثر بندے چونکہ غافل ہوتے ہیں اس لئے خدا تعالیٰ نے ایسا انتظام کر دیا کہ کچھ دن مجاہدہ کے رکھ دیئے اور پھر کہا.آج تمہارے اس مجاہدہ کی تکمیل میں تمہاری خوشی میں ہم بھی خوشی مناتے ہیں.پس یہ عید ہے مومن کی اور اس کی حقیقی غرض یہی ہے کہ مومن یقین کر لیتا ہے کہ آج مجھے خدا مل گیا ہے اور آج میں جو کھانا کھاتا ہوں وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے دعوت ہے.اور غور کرو ایسا طیب کھانا کھانے سے جو خدا تعالٰی کھلائے کس قدر طیب خون پیدا ہو گا اور پھر اس سے کتنے بلند حوصلہ اور امنگیں پیدا ہوں گی.لوگ کہا کرتے ہیں یتیم بچے کو خواہ کتنی مرغن اغذیہ کھلائی جائیں وہ اس طرح نہیں پنپ سکتا جس طرح ماں کے ہاتھ سے سوکھی روٹی کھانے والا.گویا ماں کے ہاتھ سے جو سوکھی روٹی کھائے اس میں بہت طاقت ہوتی ہے.پھر غور کرو.خدا تعالیٰ کی دی ہوئی خوراک میں کس قدر قوت ہو گی.مگر اکثر لوگ اس نکتہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اس طاقت کو ضائع کر دیتے ہیں.اور ان کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے خدا تعالیٰ رات کو بارش تو کر دے مگر زمیندار گھر میں سویا رہے اور اس کے کھیت سے پانی نکل کر بہہ جائے.پس اس نکتہ کو نہ سمجھ کر کہ آج کے دن خدا تعالی کھلاتا ہے لوگ اپنی غفلت سے اس طاقت کو ضائع کر دیتے ہیں جو انہیں حاصل ہونی چاہئے.لیکن اگر وہ اسے سمجھ کر اس طاقت کو اپنے اندر جمع کر لیں تو ان کے اندر بجلی کا ایسا خزانہ جمع ہو جائے جو سارا سال کام دے اور اگلے سال پھر اور مل جائے.خدا آتا تعالیٰ کی طرف سے ہر چیز ضرورت اور حکمت کے مطابق دی جاتی ہے.قرآن کریم میں ہے.وَإِنْ مِّنْ شَيْ ءٍ إِلَّا عِنْدَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ ۲۸ پس عید کے دن جو طاقت خدا تعالیٰ انسان کو دیتا ہے وہ اس کی ضرورت کے مطابق ہوتی ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ اسے اپنے اندر جمع رکھے.ہر شخص اپنے درجہ اور شان کے مطابق اپنے شاگرد سے امید رکھتا ہے.اور جسے خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے کھلائے پلائے اس سے کیسے بہادری اور جاں نثاری کے کاموں کی امید ہونی چاہئے.بڑے بڑے پہلوان اپنے شاگردوں سے اپنے ہی جیسے کارناموں کی توقع رکھتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں جسے ہم نے ورزش کرائی ہے کوئی وجہ نہیں کہ وہ ہمارے برابر کا نہ ہو.اللہ تعالیٰ کا ثانی تو کوئی نہیں ہو سکتا مگر اس
۱۹۳ کے مظہر ہوتے ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ آج کے دن جسے خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے کھلاتا ہے وہ ضرور اس کا مظہر بنے اور سارا سال اس سے اس کی صفات کا اظہار ہو تا رہے.بے شک خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے کھانا بہت بڑی نعمت ہے مگر اس کی شان کے مطابق ہی پھر قربانی بھی کرنی ضروری ہے.پرانے زمانے میں قاعدہ تھا کہ بادشاہ جن امراء پر اپنی خوشنودی کا اظہار کرتے تھے انہیں اپنے دستر خوان سے کچھ بھجوا دیتے.اسے اُلش کہا جاتا تھا.پھر اس عزت افزائی کے بدلہ میں امراء بھی اپنی شان اور حیثیت کے مطابق قربانی کرتے تھے.کوئی لاکھ کوئی دو لاکھ کوئی دس لاکھ یا جتنی کسی کی توفیق ہوتی ، صدقہ دیتا.۲۹ے اس کے معنی یہ ہوتے تھے کہ وہ بادشاہ کے انعام کی قدر کرتا ہے.جب بادشاہوں کی خوشنودی کے لئے لاکھوں کی قربانی کی جاتی تھی تو آج جسے خدا تعالیٰ کی طرف سے الش آیا اگر اس کے بدلہ میں اس کی جان بھی چلی جائے تو اس انعام کے مقابل میں یہ قربانی کیا حیثیت رکھتی ہے.کیا یہ افسوس کا مقام نہیں کہ براہمن تو اس وقع پر بیوقوفی سے جانیں قربان کر دیتے ہیں مگر ہم اس کے فوائد انعامات اس کی غرض و غایت اور حکمتوں کو سمجھتے ہوئے اس سے دریغ کریں.ہمیں اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ ہم عہد کریں.اے خدا تیرے جیسی بلند و بالا ہستی جب ہمارے جیسے ذلیل و حقیر بندہ کو کھلاتی ہے تو پھر ہم بھی تیری خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہیں اور اگر واقعہ میں ہم یہ نیت کر لیں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں ضعف نہیں پہنچا سکتی کیونکہ جو خدا کی قربانی کا بکرا بن جائے کسی انسان کی طاقت ہے کہ اس پر چھری چلا سکے ؟ پس جو خدا کی قربانی ہے وہ سارے انسانوں کی چھریوں سے محفوظ ہو گیا.اس کے لئے نئی زندگی ہے جسے کوئی برباد نہیں کر سکتا.پس میں سمجھتا ہوں اگر ہر مومن عید کی اغراض کو مد نظر رکھے تو بہت فوائد حاصل کر سکتا ہے.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ اس شاہی نعمت اور عزت افزائی کو سمجھ سکیں اور پھر اس کی قدر بھی کر سکیں.باقی دنیا بھی کھاتی پیتی ہے اور اگر ہم مومن نہ ہوتے تب بھی کھاتے.پس یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ جو کام ہم نے اپنی مرضی سے کرنا تھا وہ کہتا ہے آج اسے میری خاطر کرو.یہ کتنا بڑا احسان ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ اس کے اس احسان کی قدر جائیں اور اس نعمت کے بدلہ میں بادشاہی الشوں سے بہت بڑھ چڑھ کر قربانی کر سکیں.(الفضل ۲۸.فروری ۱۹۳۱ء) متی باب ۹ آیت ۱۰ تا ۱۵
۱۹۴ جامع ترمذی ابواب الصوم باب ماجاء في كراهية الصوم يوم الفطر و يوم النحر - صحيح بخارى كتاب الصوم باب صوم يوم الفطر صحيح بخارى كتاب الصوم باب فضل الصوم جامع ترمذی ابواب الزيد باب في حسن الظن بالله تعالى- صحيح بخارى كتاب التوحيد باب قول الله تعالى يريدون ان يبدلوا كلام الله انه لقول الفصل فرہنگ آصفیہ جلد ۴ صفحہ ۷۶۱ زیر لفظ ہو نہار البقرة : ۱۳۹ - ملفوظات جلد ۲ صفحه ۱۳۲ - ۱۳۳ و ۱۳۷ جلد ۵ صفحه ۴۲۸ تخلقوا باخلاق الله البقرة : ۱۸۷ العنكبوت: 20 الانشقاق : لملفوظات جلد ا صفحه ۳۶۳ و جلد ۲ صفحه ۳۱۰ صحیح بخاری کتاب الرقاق باب التواضع صحیح بخاری کتاب العيدين باب الاكل يوم النحر لا صحیح بخاری کتاب الاطعمة باب المومن ياكل في معى واحد ۱۲ حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم (۶۱۸۲۲ - ۱۹۵۲ء) ۱۳ حضور کے ماموں اور رضاعی بھائی (۱۸۹۰ء.۱۹۴۴ء) ۱۴ مرقاة الیقین صفحه ۲۶۲ نا شر الشرکتہ الاسلامیہ لمیٹڈ.ربوہ ۱۵ سیرت المہدی جلد ۳ صفحه ۹۰ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ۶۱۰۷۷ - ۱۱۲۶ء کله سفینتہ الاولیاء مصنفه دارا شکوہ صفحہ ۷۴ اردو نفیس اکیڈمی کراچی نزهة الخواطر فی مناقب شیخ عبد القادر مصنفہ ملا علی قاری مترجمه علامه اقبال احمد فاروقی صفحہ ۷۴ میں بیان ہوا ہے کہ آپ نہایت قیمتی کپڑا زیب تن فرماتے.19 سفينة الاولیاء مصنفہ دارا شکوہ صفحہ ۷۴
البقرة :۳۵ ۱۹۵ ۲ الاعراف: ۱۳ الانعام: ۱۶۳ ۲۴ آدرش ہندی شہد کوش زیر لفظ پانڈے.۲۵ انسائیکلو پیڈیا ریلیجن اینڈ ایتھکس جلد ۲ صفحہ ۷۹۷‘ منو سمرتی ادھیائے ۳.اشلوک ۱۲۵ تا ۲۷۲ ہندوؤں میں مُردوں کو خوراک پہنچانے کے لئے برہمنوں کو کھانا کھلایا جاتا ہے.اسے شرادھ کہا جاتا ہے.(فرہنگ آصفیہ جلد ۳ صفحه ۶۲ زیر لفظ سراده) مرزا مظہر جان جاناں ۱۰ااه - ۱۶۹۸ء.شہادت ۵۱۱۹۵ - ۱۷۸۱ء ۲۸ الحجر : ۲۲ ۲۹ فرہنگ آصفیہ جلد ا صفحہ ۱۲۷ مطبوعہ لاہور مئی ۱۹۰۸ء زیر لفظ الش.
· 194 (۲۱) فرموده ۹ - فروری ۱۹۳۲ء بمقام عید گاہ.قادیان) - انسان عادات اور جذبات کا ایک مجموعہ ہے اس کے کام یا تو جذبات کے ماتحت ہوتے ہیں اور یا عادات کے ماتحت ہوتے ہیں.عقل بھی بے شک انسان کے کاموں میں ایک حد تک حصہ رکھتی ہے لیکن وہ حصہ اتنا محدود ہے کہ اگر ہم محض کتابی علم النفس پر اپنے خیالات کی بنیاد نہ رکھیں بلکہ غور اور فکر سے کام لیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ در حقیقت عقل جو ہے وہ کسی نہ کسی ساتھی کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے.یا تو وہ جذبات سے ملکر کام کرتی ہے یا عادات سے مل ر علیحدہ کام اس کا بہت ہی کم ہوتا ہے اتنا کم کہ ہم اسے گنتی میں نہیں لا سکتے.تم صبح سے شام تک جو کام کرتے ہو انہیں دیکھ لو تمہیں یہی نظر آئے گا کہ یا تو تمہارے کاموں کا اکثر عادتوں کا نتیجہ ہو گا اور یا وہ جذبات کا نتیجہ.حرص کی وجہ سے طمع کی وجہ سے، غصہ کی وجہ سے محبت کی وجہ سے وفاداری کی وجہ سے ، طبعی میلان کی وجہ سے ، غرض تمام ایسی باتوں کی وجہ سے وہ کام ہوں گے جو جذبات کے تابع ہیں.- حصہ پس اس امر کے سبب سے کہ انسان جذبات و عادات کے تابع ہوتا ہے بہت سے لوگ اپنے کاموں کی علت اور ان کے مقصد پر نگاہ نہیں رکھتے.وہ کام تو کرتے ہیں مگر غور نہیں کرتے کہ وہ کس لئے کرتے ہیں کیونکہ در حقیقت وہ بے اختیار ہو کر کام کر رہے ہوتے ہیں.عید کے متعلق بھی ہم میں سے بہت سے ایسے لوگ ہوں گے جو در حقیقت ایک عادت کے مطابق عید مناتے ہیں.یہی نہیں کہ وہ اپنے ماں باپ کی طرف سے ایک عادت لئے ہوئے ہوتے ہیں بلکہ مذہب کی بھی ایک عادت ہوتی ہے.لوگ کہتے ہیں کہ چونکہ خدا اور اس کے رسول نے ایسا کیا ہے اس لئے ہم اس طرح کرتے ہیں اور وہ آہستہ آہستہ حقیقت اور اصلیت سے ناواقف ہو کر عادتا ان امور کو کرنے لگ جاتے ہیں.وہ نہا دھو کر اور اچھے کپڑے پہن کر عید گاہ میں پہنچ جاتے ہیں لیکن کبھی عید کی علت غائی پر غور نہیں کرتے اور وہ کبھی اس امر کے سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ عید کیا چیز ہے؟ اس کے فوائد کیا ہیں اور آیا جب ہم عید منا
194 رہے ہوتے ہیں اس وقت ہماری عید ہوتی بھی ہے یا نہیں.میں آج اختصار کے ساتھ کیونکہ میں دیر سے پہنچ سکا ہوں بسبب اس کے کہ رات سے مجھے اسہال کی تکلیف ہو گئی تھی اور اس وجہ سے مجھے صبح کے بعد بھی لیٹنا پڑا اور تہجد کے وقت سے کئی دفعہ پیٹ میں درد بھی ہوا اور اسمال بھی ہوئے.تو وقت چونکہ زیادہ ہو گیا ہے اس لئے اختصار کے ساتھ میں بتاتا ہوں کہ آج کئی قسم کے لوگ ہمارے اندر موجود ہیں لیکن وہ اپنی اقسام کو سمجھتے نہیں.وہ مختلف اقسام کے ہیں لیکن باوجود اس کے انہیں معلوم نہیں کہ ہماری کئی قسمیں ہیں.یہ عجیب فرق ہے.قو میں کئی قسم کی ہوتی ہیں.ایک ظاہری قومیں ہوتی ہیں اور ایک باطنی.یعنی بعض قومیں لوگوں کے ظاہر اور بیرونی امور کی وجہ سے ہوتی ہیں اور بعض باطنی خیالات کی وجہ سے.ظاہر کے لحاظ سے جو قومیں ہوتی ہیں ان کا تو لوگوں کو علم ہوتا ہے.مثلاً کوئی کہتا ہے میں راجپوت ہوں، کوئی کہتا ہے میں پٹھان ہوں ، کوئی کہتا ہے میں سید ہوں، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ظاہری قوموں کے متعلق تو لوگ مدعی ہوتے ہیں کہ ہم فلاں قوم کے ہیں لیکن باطنی قوم کے متعلق ان کے دل میں کبھی خیال پیدا نہیں ہوتا اور وہ کبھی نہیں جانتے کہ ہم کس قوم کے ہیں اور نہ کبھی کوشش کرتے ہیں کہ پتہ لگے وہ کس قوم سے تعلق رکھتے ہیں.لیکن جس طرح انسانوں کی ظاہری قومیں ہیں اسی طرح ان کی باطنی قومیں بھی ہیں.ان باطنی اقوام میں سے جو قومیں عید سے متعلق ہیں میں اس وقت ان کا ذکر کرنا چاہتا ہوں.عید دراصل خوشی کا نام ہے اور خوشی تبھی ہوتی ہے جب انسان کامیاب ہو کیونکہ در حقیقت کامیابی سے ہی حقیقی خوشی حاصل ہوتی ہے ورنہ نا کام انسان کبھی خوش نہیں ہو سکتا بلکہ وہ اپنی ناکامی پر روتا پیٹتا ہے.پس جب ہم میں سے کوئی شخص عید مناتا ہے تو دراصل وہ یہ دعوی کرتا ہے کہ میں کامیاب ہو گیا.اب ہمیں یہ دیکھنا چاہیئے کہ کیا واقعہ میں ہم میں سے ہر شخص کامیاب ہو گیا اور کیا واقعہ میں اس کامیابی کی وجہ سے اسے حق حاصل ہو گیا ہے کہ وہ عید منائے.ایک تو ظاہری عید ہے کہ دنوں میں سے ایک دن اپنے لئے خوشی کا قرار دے لیا جائے جس دن اچھا کھانا کھانا اور اچھا کپڑا پہننا چاہئے اس کو تو جانے دو کہ یہ عید تو کوئی قیمت ہی نہیں رکھتی کیونکہ اس پر ہمیں کچھ نہ کچھ خرچ ہی کرنا پڑتا ہے اگر اور کچھ نہ ہو تو غریب لوگ سویاں ہی پکا کر کھا لیتے ہیں
۱۹۸ تب بھی کم از کم ان کے دو چار آنے ضرور خرچ ہو جاتے ہیں تو جس عید پر ہمیں خرچ کرنا پڑتا ہے اور جو ہمیں کچھ دے کر نہیں جاتی وہ تو عید نہیں ہو سکتی.عید تو وہ ہے جو کچھ ہمیں دے کر جائے اور وہ عید در حقیقت باطنی عید ہی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ہم کامیاب ہو گئے.اس کامیابی کو دیکھ کر ہمارے دلوں میں جو خوشی پیدا ہوتی ہے اس کی ظاہری علامت اللہ تعالٰی نے عید رکھی ہے.یہ علامت اللہ تعالیٰ نے روزہ داروں کے مہینہ بھر کے روزوں کے قبول ہونے کی قرار دی ہے.لے یہ علامت اس بات پر شہادت مقرر کی ہے کہ ان کے روزے قبول ہو گئے.پس روزوں کے مقبول ہونے کے خیال سے اس عید پر لوگ خوشی مناتے ہیں اور وہ اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں عبادت کی توفیق عطا فرمائی مگر سوال تو یہ ہے کہ کیا واقعہ میں خدا نے ہمیں اپنی عبادت کی توفیق دی اور کیا واقعہ میں ہماری وہ عبادت قبول بھی ہو گئی.اگر ہمیں عبادت کی توفیق ملی ہے تو بھی ہمیں کیا پتہ کہ ہماری وہ عبادت قبول بھی ہے یا نہیں کیونکہ کئی عبادتیں قبول نہیں ہوتیں.رسول کریم میں ایم کیو ایم کے سامنے ایک نے جلدی جلدی نماز پڑھی.جب نماز سے فارغ ہوا تو رسول کریم میں یا الیہ نے فرمایا پھر نماز پڑھو کیونکہ تمہاری نماز قبول نہیں ہوئی.اس نے پھر جلدی جلدی نماز پڑھی.رسول کریم الی عالی عالم نے پھر فرمایا کہ پھر نماز پڑھو تمہاری نماز قبول نہیں ہوئی.اس نے پھر اس طرح نماز پڑھی اور جب رسول کریم ملی یا دلیل دی ہم نے پھر نماز پڑھنے کے لئے کہا تو اس نے عرض کیا یارسول اللہ ! میں کس طرح نماز پڑھوں.آپ نے فرمایا آہستگی اور سکون کے ساتھ نماز پڑھنی چاہئے.کہ تب نماز قبول ہوتی ہے.پس جس طرح نمازیں قبول نہیں ہو تیں اسی طرح بعض روزہ داروں کے روزے بھی قبول نہیں ہوتے پھر کئی ایسے ہوتے ہیں جنہیں بیماریوں اور معذوریوں کی وجہ سے روزے رکھنے کی توفیق ہی نہیں ملتی اور کئی ایسے ہوتے ہیں جو باوجود طاقت کے روزے نہیں رکھتے مگر عید میں یہ تمام لوگ جو بالکل مختلف اقسام کے ہیں شامل ہو جاتے ہیں بلکہ ایسے لوگ سب سے پیش پیش ہوتے ہیں.ہمارے ملک میں ایک لطیفہ مشہور ہے کہ ایک لونڈی تھی جو رمضان کے دنوں میں با قاعدہ اٹھ کر سحری کھایا کرتی مگر روزہ نہیں رکھا کرتی تھی.ایک دن اس کی مالکہ نے اسے کہا تو روزانہ سحری کے وقت اٹھتی ہے اور سحری کھانے کے باوجود روزہ نہیں رکھتی تجھے کیا ضرورت
١٩٩ پڑی ہے کہ سحری کے وقت اٹھتی ہے.اس نے کہا بی بی میں نماز نہیں پڑھتی ، روزہ نہیں رکھتی کیا سحری بھی نہ کھاؤں اور کافر ہی ہو جاؤں.گویا اس کے نزدیک اسلام کے تین رکن تھے.نماز روزہ اور سحری کھانا اگر پہلے دو رکن نماز اور روزہ چھوٹ جاتے ہیں تب تو اسلام رہتا ہے لیکن اگر تیسرا رکن سحری کھانا چھوٹ جائے تو انسان کا فر ہو جاتا ہے یہ ہے تو لطیفہ لیکن اگر غور کیا جائے تو بہت لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں.نمازیں وہ نہیں پڑھتے، روزے وہ نہیں رکھتے ، مگر عید میں سب سے زیادہ خوشی مناتے بلکہ سب سے پہلے آکر شامل ہو جاتے ہیں.وہ عید مناتے ہیں اور پوری طرح مناتے ہیں، نہاتے ہیں ، اچھے کپڑے پہنتے ہیں ، بناؤ سنگھار کرتے ہیں ، خوب کھاتے پیتے ہیں گویا جو کمی نمازوں اور روزوں کی وجہ سے ان کے ایمان میں رہ گئی تھی اسے عید کے روز کھانے پینے اور عمدہ کپڑے پہننے سے پورا کرنا چاہتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے اسلام کے ارکان کو پورا کر لیا.لیکن اس قسم کے دھوکوں کے ساتھ خدا تو دھوکے میں نہیں آسکتا اور نہ ہی ہمارے نفس کو کچھ فائدہ ہو سکتا ہے.پس ہمیں اپنے دلوں میں غور کرنا چاہئے کہ ہم لوگ کس قسم میں سے ہیں اور ہماری عید کیسی ہے.سو یا د رکھو عموماً عید تین قسم کی ہوا کرتی ہے.ایک عید تو اس شخص کی ہے جس نے اپنے رب سے ملنے کی کوشش کی ، اخلاص سے عبادت کی محبت الہی سے خدا کے بندوں کی خدمت کی صفائی قلب سے اس نے خدا سے اور اس کے بندوں سے صلح کی اس نے نمازیں پڑھیں اور صرف خدا کے لئے پڑھیں ، دکھاوے کے لئے نہیں اس نے روزے رکھے اور صرف خدا کے لئے رکھے لوگوں میں روزہ دار مشہور ہونے کے لئے نہیں اس نے ذکر الہی کیا اور محض خدا کے لئے کیا لوگوں کے خوش کرنے کے لئے نہیں، اس نے صدقہ و خیرات دیا اور اس لئے دیا کہ خدا کی رضا حاصل ہو لوگوں پر احسان جتانے یا نیک نامی حاصل کرنے کیلئے نہیں، اس نے حج بھی کیا مگر سیر کرنے کیلئے یا لوگوں میں حاجی کہلانے کے لئے نہیں بلکہ محض اس لئے کہ اس کا خدا اس سے راضی ہو جائے اس نے دین کی تبلیغ کی مگر اس لئے نہیں کہ وہ بڑا مبلغ کہلائے اور لوگ اس کی تعریف کریں بلکہ اس نے ایک ایک لفظ جو اپنی زبان سے نکالا اس خیال اور یقین کے ماتحت نکالا کہ خواہ لوگ میری تعریف کریں یا مذمت میں بہر حال وہی کہوں گا اور کہتا چلا جاؤں گا جس کا خدا نے مجھے حکم دیا ایسے شخص نے اپنے خدا کو پا لیا اور اس کے خدا نے اس گم گشتہ بندے کو ڈھونڈ لیا جدائی اور فراق کی گھڑیاں کٹ گئیں
بچھڑے ہوئے مل گئے اور عاشق اپنے معشوق کی صحبت میں جا بیٹھا.اس بندہ کی آج بھی عید ہے اور کل بھی بلکہ ایسے بندہ کی ہمیشہ ہی عید ہے.اللہ تعالیٰ کے کئی ایسے بندے آج ہماری اس مجلس میں بھی بیٹھے ہوئے ہیں.، پھر کئی ہیں جن کے لباس بوسیدہ ہیں، سکتی ہیں جن کے چہرے پر مردہ ہیں ، کئی ہیں جن کی میں بگڑی ہوئی ہیں کئی ہیں جن کی کمریں جھکی ہوئی ہیں، جن کی آنکھیں نیچی اور جن کی آواز پست ہے.دیکھنے والا انہیں دیکھ کر نہیں سمجھ سکتا کہ یہ بھی کوئی عید منا رہے ہیں.ایک اچھے کپڑے پہن کر اور عمدہ کھانے کھا کر آنے والا انسان ان کو دیکھ کر حقارت سے اپنا منہ پھیر لیتا ہے اور کہتا ہے ان کی بھی کوئی عید ہے حالانکہ عید انہی کی ہے.جس وقت یہ مغرور اور خود پسند انسان عمدہ عمدہ کھانوں پر اپنا ہاتھ مار رہا تھا، عمدہ اور تر لقے اپنے حلق سے اتار رہا تھا اس وقت اس مسکین غریب اور کمزور نظر آنے والے انسان کو خدا اپنی گود میں لے کر اپنے ہاتھ سے لقمے کھلا رہا تھا..وہ خشک اور سوکھا ٹکڑہ جو اس کے حلق میں گیا یا وہ گرد و غبار سے اٹی ہوئی ہوا جو اس کے نتھنوں میں پہنچی ، یا وہ کرخت شور جس نے اس کے دماغ کو پراگندہ کرنا چاہا ساری دنیا کی نگاہ میں حقیر اور ذلیل تھا مگر اس غریب اور مسکین کے لئے نہیں کیونکہ یہ چیزیں اسے اپنے محبوب کے ہاتھوں ملیں اور محبوب کا عطیہ دنیا کی تمام چیزوں سے اعلیٰ اور گراں بہا ہوتا ہے.پھر ہماری مجلس میں وہ بھی ہیں جن کے ظاہری لباس بھی اچھے ہیں، جنہیں کھانے بھی اچھے نصیب ہوئے ، جن کو سنت نبوی کے مطابق عطر و خوشبو لگانے کا بھی موقع ملا کہ اور ان ظاہری زیب و زینت کی چیزوں کے ساتھ ہی باطنی طور پر اللہ تعالیٰ کا وصال بھی ان کو حاصل ہوتی گیا.جس طرح اس غریب اور مسکین بندہ کے منہ میں جسے اللہ تعالٰی نے اپنے حضور قبولیت عطا فرمائی خدا نے اپنی نہاں در نہاں مصلحتوں اور حکمتوں کے ماتحت سوکھی روٹی کا ٹکڑہ ڈالا اسی خدا نے اپنی ایک اور مصلحت کے ماتحت اپنے ایک اور بندہ کے منہ میں نرم نرم اور اعلیٰ غذا ڈالی.یہ اس کی مصلحتیں ہیں اور نادان ہے وہ جو ان مصلحتوں پر اعتراض کرے خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں اپنے کسی بندے کو کس نظر سے دیکھوں.اس کی ازل سے یہی سنت چلی آتی ہے کہ وہ اپنے کسی بندہ کو کانٹوں پر سے گزارتے ہوئے اپنے پاس بلاتا ہے اور کسی کو پھولوں کی سیج پر سے گذارتے ہوئے اپنے پاس جگہ دیتا ہے.وہ بیوقوف ہے جو یہ کہتا ہے کہ کانٹوں پر سے ہے
چل کے آنے والا ہی خدا رسیدہ اور مقبول ہے اسی طرح وہ بھی بیوقوف ہے جو خیال کرتا ہے کہ پھولوں پر سے گذر کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آنے والا ہی مقبول ہے.یاد رکھو جس طرح اللہ تعالی کی مختلف صفات ہیں اسی طرح اس کے پاس پہنچنے کے راستے بھی مختلف ہیں.بعض لوگ اسی بات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے بعض برگزیدوں پر اعتراض کر دیا کرتے ہیں کہ یہ کیونکر اللہ تعالی کے برگزیدہ ہو سکتے ہیں جب کہ یہ اچھی چیزیں کھاتے ہیں.حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ آپ اس مکان کے قریب سے گذر رہے تھے جو مسجد اقصیٰ ملحق ہے.یہ ڈپٹیوں کا مکان کہلاتا تھا اسے اب خرید لیا گیا ہے اور اس میں سلسلہ کے دفاتر ہیں اس مکان کا مالک جو ہندو تھا اور ڈپٹی رہ چکا تھا حضرت خلیفہ اول سے کہنے لگا میں آپ سے ایک بات دریافت کرنا چاہتا ہوں اگر آپ ناراض نہ ہوں.آپ فرماتے ہیں میں نے کہا بیشک دریافت کرو میں ناراض نہیں ہوں گا.اس نے کہا میں نے سنا ہے آپ کے مرزا صاحب پلاؤ اور بادام روغن بھی کھا لیتے ہیں.فرمانے لگے میں نے کہا ہاں کھا لیتے ہیں ہمارے ہاں یہ چیزیں پاک اور طیب ہیں اور ان کا کھانا جائز ہے.اس پر وہ پڑ مُردہ کی صورت بنا کر کہنے لگا کیا فقیراں نوں بھی جائز ہے ؟ آپ فرماتے میں نے کہا ہاں فقیراں نوں بھی جائز ہے تب وہ خاموش ہو گیا اور اس نے سمجھ لیا کہ میری بات کا کوئی اثر نہیں ہوا.تو اس کے نزدیک بزرگی کا یہی معیار تھا کہ عمدہ غذا ئیں نہ کھائی جائیں.ایک اور ہمارے دوست تھے وہ ایک دفعہ کسی مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش ہوئے.مجسٹریٹ نے ان سے کہا میں آپ سے ایک مذہبی سوال پوچھنا چاہتا ہوں آپ ناراض تو نہ ہوں گے.انہوں نے کہا میں کوئی پاگل ہوں جو یونہی ناراض ہو جاؤں ہاں اگر آپ ناراض کرنے والی بات کہیں گے تو ناراض ہوں گا.مجسٹریٹ نے کئی ایک سوالات کئے جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ میں نے سنا ہے مرزا صاحب اچھے کھانے کھاتے ہیں.کہنے لگے مرزا صاحب پاک آدمی ہیں وہ پاک کھانے کھاتے ہیں.آپ بے شک نجاست کھا ئیں ہم آپ پر کبھی اعتراض نہیں کریں گے.اس نے اور بھی کئی سوالات کئے تھے جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ میں نے سنا ہے مرزا صاحب اپنی بیوی کو ساتھ لے کر سیر کرنے جاتے ہیں اُس زمانہ میں دستور تھا کہ ہندو عورتیں جب باہر نکلتیں تو ان کے ساتھ کوئی نوکر جسے ٹھملیا کہتے جاتا اور خاوند کا ساتھ جانا معیوب سمجھا
۲۰۲ جاتا.وہ کہنے لگے حضرت مرزا صاحب کے ساتھ ان کی بیوی کو دیکھ کر لوگ یہی کہتے ہوں گے کہ یہ مرزا صاحب کی بیوی ہے مگر جب آپ کی بیوی نوکر کے ساتھ پھرتے دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں ٹھلیا کی بیوی ہے یہی فرق ہے ورنہ بات تو کچھ نہیں.تو دنیا میں لوگوں نے قیاسات سے کام لے کر سمجھ لیا ہے کہ خدا رسیدہ لوگوں کی یہ یہ علامات ہیں.اس غلط اصل کے ماتحت بعضوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ خدارسیدہ وہ ہوتے ہیں جو فاقے کریں اور کئی کئی دن تک بھو کے رہیں.حالانکہ بعض بندے ایسے ہوتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اعلیٰ سے اعلیٰ کھانے کھلا کر اپنے حضور قریب کرتا ہے اور بعض بندے ایسے ہوتے ہیں جنہیں فاقوں کے ذریعہ اپنے قریب کرتا ہے.حضرت مسیح ناصری پر بھی لوگوں نے یہی اعتراض کیا جب انہوں نے دیکھا کہ وہ کھاتے پیتے ہیں تو انہوں نے کہا.”دیکھو کھاؤ اور شرابی آدمی." حضرت مسیح نے اس موقع پر یہی جواب دیا کہ پہلے وہ آئے جو فاقے کرتے اور اللہ تعالی کے لئے بھوکے رہتے تھے مگر لوگوں نے جب انہیں دیکھا تو کہنے لگے ان پر خدا کی مار پڑی ہے کھانے کو کچھ ملتا نہیں تب اس نے اپنا وہ رسول بھیجا جسے کھانے اور پینے کو بافراط عطا فرمایا اس وقت لوگوں نے کہا کہ یہ کھاؤ اور پیو ہے.۵.قرآن کریم سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب رسول کریم ملی هلال اليوم تشریف لائے تو اللہ تعالیٰ کی یہ مشیت ہوئی کہ وہ آپ کو فاقوں کے ذریعے اپنے قریب کرے.وہ یہی وجہ ہے کہ مخالف اعتراض کرتے اس کے پاس دولت نہیں سلطنت اور حکومت نہیں، ترقہ اور فارغ البالی کا کوئی سامان نہیں، فرشتے اس کے ساتھ دکھائی نہیں دیتے.کہ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا اور اسے ہر قسم کا سامان راحت عطا فرمایا تب لوگوں نے پہلے مسیح کی طرح اس پر بھی اعتراض کرنے شروع کر دیئے اور کہا یہ مسیح موعود کیونکر ہو سکتا ہے جبکہ یہ پلاؤ اور بادم روغن کھاتا ہے حالانکہ نہ کھانا کھانا خدا کی محبت کا ثبوت ہے اور نہ فاقہ کرنا اس کے قرب کی دلیل ہے.کیا ہزاروں نہیں لاکھوں فاقے کرنے والے ایسے نہیں جن کا خدا سے کوئی تعلق نہیں اور کیا لاکھوں عمدہ عمدہ کھانے کھانے والے ایسے نہیں جن کے دل خدا کی محبت سے محروم ہیں.پس خدا سے تعلق کا ثبوت انسان کے فاقوں یا کھانے پر نہیں بلکہ خدا سے محبت کا ثبوت خدا کے سلوک پر ہے اگر لوگوں کو فاقوں سے ہی بزرگی حاصل ہو سکتی تو لاکھوں فاقہ کرنے والے آج خدا رسیدہ نظر آتے اور اگر اعلیٰ کھانوں سے بزرگی حاصل ہو سکتی تو امراء سب سے بڑھ کر خدا رسیدہ ہوتے.مگر
۲۰۳ امارت نے جہاں بہت سے فرعون پیدا کر دیئے وہاں فاقہ نے بھی بہت لوگوں کو کافر بنایا.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم لالا لالا اور فرماتے ہیں كَادَ الْفَقْرُانْ يَكُونَ كُفْرًا - ۸، قریب ہے کہ فقر و فاقہ انسان کو کافر بنا دے.پس یہ دونوں راہیں غلط ہیں اصل راہ وہی ہے جو اللہ تعالٰی کے منشاء کے ماتحت ہو.خدا اگر فاقہ کے ذریعہ کسی کو اپنے قریب کرنا چاہے تو اس وقت فاقہ اختیار کرنا ہی اصل نیکی ہے اور اگر خدا کسی کو کھانا کھلا کر اپنے قریب کرنا چاہے تو اس وقت کھانا کھانا ہی اللہ تعالیٰ کی رضا کا موجب ہوتا ہے.رسول کریم ل ل ا ل لا علم کے زمانہ میں ایک دفعہ کثرت سے اموال آئے.آپ نے انصار سے فرمایا کہ لو میں تمہیں اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے اموال میں سے دیتا ہوں اس وقت انصار نے کہا یا رسول اللہ یہ سب کچھ مہاجرین کو دیدیں ہمارے پاس جو کچھ ہے وہی کافی ہے.3 اب بظاہر یہ انصار کی کتنی بڑی قربانی دکھائی دیتی ہے کہ اموال مل رہے ہیں مگر وہ انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے پاس بہت ہے ہمارے دوسرے بھائیوں کو دیدیئے جائیں لیکن خدا کی نگاہ میں یہ قربانی نہ ٹھری.رسول کریم میں اللہ ہم نے اس وقت انصار کے جواب میں فرمایا میں نے تمہیں خدا کی ایک نعمت دینی چاہی مگر تم نے انکار کیا اب دنیا میں تمہیں کوئی نعمت نہیں مل سکے گی حوض کوثر پر ہی آکر لینا."اے چنانچہ دیکھو لو رسول کریم میں یا ای میل کے بعد مسلمانوں کو جب بادشاہت ملی تو کوئی انصاری بادشاہ نہیں ہوا.تیرہ سو سال کے عرصہ میں مہاجرین بادشاہ بنے.غلام بادشاہ بنے خادم بادشاہ بنے اسلام کے ذریعہ راجپوت ، پٹھان، مغل، ایرانی طر ابلیسی اور جزائری ہی بادشاہ ہوئے مگر وہ قوم جس کے متعلق آتا ہے کہ اس نے خدا اور اس کے رسول پر ایمان لانے والوں کے لئے اپنے گھر خالی کر دیئے انہیں بادشاہت نصیب نہ ہوئی اس لئے نہیں کہ انہوں نے خدا کے لئے فاقے نہیں کئے تھے بلکہ اس لئے کہ انہوں نے خدا کے لئے کھانا نہیں کھایا تھا.بے شک خدا نے اس لئے کہ انہوں نے اس نعمت کا انکار گستاخی کی وجہ سے نہیں بلکہ نا سمجھی کی وجہ سے کیا انہیں اجر سے محروم نہیں رکھا اور انہیں حوض کوثر پر انعامات دیئے جانے کا وعدہ دے دیا مگر دنیا میں انہیں کبھی بادشاہت نصیب نہ ہوئی.غرض کئی اللہ تعالیٰ کے بندے ہماری مجلس میں اس وقت ایسے ہیں جن کے ظاہری جسمی بھی عید منا رہے ہیں اور جن کے دل بھی عید منا رہے ہیں.انہیں اس وقت اللہ تعالی کے قرب اور اس کی محبت کا مقام حاصل ہے اور گو وہ بظاہر اس جگہ بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں مگر
۲۰۳ ان کے قدم عرش الہی پر ہیں یہی لوگ ہیں جن کی حقیقی عید ہے.پھر کئی غریب اور فقیر ہیں جن کا کھانا اچھا نہیں اور جن کے کپڑے اچھے نہیں انہیں دیکھ کریوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ ہر ایک نعمت سے محروم رکھے گئے ہیں مگر وہ بھی اس وقت خدا کی گود میں ہیں اور گو وہ یہاں بیٹھے ہیں مگر وہ بھی دراصل عرش الہی پر پہنچے ہوئے ہیں.یہ دونوں گروہ مبارک ہیں ، یہ دونوں گروہ بابرکت ہیں، ان دونوں کو عید مبارک ہو.پھر ایک اور قسم کے لوگ ہیں جنہوں نے اپنی اپنی توفیق کے مطابق عمدہ کھانے بھی کھائے ، اچھے کپڑے بھی پہنے ، عطر اور خوشبو بھی لگائی ، بالکل ممکن ہے انہوں نے عید کارڈ بھی بھیجے اور انہیں بھی عید کارڈ آئے ہوں انہوں نے عیدیاں دیں اور خود بھی وصول کیں وہ بھی خوش ہیں کہ انہیں عید مل گئی مگر وہ عید سے اتنے ہی دور ہیں جتنا مشرق مغرب سے دور ہے یا جتنا زمین سے آسمان دور ہے مگر باوجود اس کے وہ خوش ہیں اور باوجود اس کے وہ عید کی مسرتوں میں شامل ہیں ان کی خوشی بالکل اس بچے کی سی ہے جو نادانی سے ایک سانپ کو دیکھتا ہے اور اس کی چمکیلی آنکھوں کو دیکھ کر اسے کھلونا سمجھتا ہے تب وہ محبت اور پیار سے اسے پکڑ لیتا ہے اور سمجھتا ہے مجھے بڑی اچھی چیز حاصل ہو گئی حالانکہ جس وقت وہ خوشی سے جھوم رہا ہوتا ہے، جس وقت وہ مسرت اور انبساط سے اپنے جامہ میں پھولا نہیں ساتا اس وقت سانپ کا زہر جو اسے ایک منٹ میں اس جہان سے اگلے جہان پہنچانے والا ہوتا ہے اس کے بدن میں سرایت کر رہا ہوتا ہے اور وہ نہیں جانتا کہ تھوڑی ہی دیر میں اس کی تمام خوشی جاتی رہے گی، اس کی تمام مسرتیں خاک میں مل جائیں گی اور وہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا.یا اس کی خوشی اس بچے کی سی ہوتی ہے.جس کی بیمار ماں اکیلی رات کو مکان میں سو رہی ہو، اس کے رشتے داروں اور عزیزوں میں سے کوئی پاس نہ ہو ، رات ہی کو وہ وفات پاگئی صبح اس کا بچہ اٹھتا ہے وہ مسکراتے ہوئے اپنی باہیں ماں کے گلے میں ڈال دیتا ہے اور اسے سویا ہوا سمجھ کر جگانے کی کوشش کرتا ہے، اپنی مسکراہٹ سے ماں کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہے اس وقت عید کی سی خوشی اس کے دل میں پیدا ہوتی ہے اور اس کا ننھا سا دل انتہائی خوشی سے لبریہ ہو جاتا ہے مگر اسے کیا معلوم کہ اب دنیا میں سوائے تاریکی اور ظلمت کے اس کے لئے کچھ نہیں سالہا سال کی جدائی سالہا سال کی مصیبت اور سالہا سال کا دکھ اس کے لئے مقدر ہو چکا.وہ کبھی اپنے ماں کے گالوں پر ہاتھ پھیرتا ہے اور کہتا ہے اماں اماں مگر وہ نہیں جانتا کہ اب اس کی
۲۰۵ ماں اسے جواب نہیں دے گی.اس کی ماں اس سے جدا ہو چکی اور اب وہ کبھی اس سے بات نہیں کرے گی.یہی مثال اس شخص کی ہوتی ہے.یہ بھی خوش ہوتا ہے اور شاید اپنی نادانی سے ان خدا رسیدہ لوگوں سے بھی زیادہ خوش ہو جو عرش الہی پر پہنچ چکے ہوں مگر یہ نادانی اور غفلت کی خوشی ہوتی ہے.بے شک اس کے لئے اپنے خیال میں عید ہے مگر ایک ماتم کی پیش خبری.ہر تر لقمہ جو آج اس کے حلق میں جاتا ہے وہ ایسا ہی تر لقمہ ہے جو پھانسی سے پہلے کسی قاتل کو کھلایا جاتا ہے.کہتے ہیں جب کسی کو پھانسی دینے لگتے ہیں تو اس سے پوچھتے ہیں کہ جو چیز کھانا چاہے کھا لے اور جو کچھ کہتا ہے اسے منگا دیتے ہیں تا دنیا کی نعمتوں میں سے اپنا آخری حصہ لے لے مگر اسے کیا معلوم کہ جس وقت وہ خوشی خوشی کھانا کھا رہا ہے باہر اس کے لئے پھانسی کا رسہ لٹکایا جا رہا ہے اور لوگ اس کے جنازہ کی تیاریوں میں مصروف ہیں.اس شخص کی خوشی بھی جو یہ عید پر مناتا ہے ناواقفی اور جہالت کی خوش ہوتی ہے اس کے لئے بھی پھانسی کا رسہ تیار ہو رہا ہوتا ہے ، اس کے لئے بھی لوگ جنازہ کی تیاریوں میں مصروف ہوتے ہیں مگر آہ وہ خوش ہو رہا ہوتا ہے کہ میں عید منا رہا ہوں.کاش اس کی آنکھیں کھلتیں.کاش اسے کوئی بتا تا کہ جس وقت وہ بتاتا عید منا رہا ہے دراصل اس کے لئے ماتم کا مقام ہے، جب وہ خوشی کر رہا ہے لوگ اس پر ماتم کی تیاری میں مصروف ہیں، جس وقت وہ دوستوں اور عزیزوں سے مل رہا ہوتا ہے اس کے واقف اور دوست اس کی موت پر رو رہے ہوتے ہیں.کاش اس کو بھی عید نصیب ہوتی ، کاش اس کو بھی حقیقی خوشی حاصل ہوتی.ان دونوں کے سوا کچھ اور لوگ ہیں یہ دونوں تو وہ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ہم عید منا رہے ہیں.خدا رسیدہ بھی سمجھتے ہیں کہ ہم عید منا رہے ہیں اور وہ جنہیں عید نصیب نہیں مگر وہ دھوکا خوردہ ہیں وہ بھی سمجھتے ہیں کہ ہم عید منا رہے ہیں لیکن ایک تیسری قسم ہے جو ان دونوں سے بالکل جداگانہ ہے اور وہ اس گنہگار کی عید ہے جو جانتا ہے کہ میں گنہگار ہوں اس نے روزے تو رکھے مگر سمجھتا ہے کہ روزے پوری طرح نہیں رکھے.وہ خیال کرتا ہے کہ جو روزوں کا حق تھا وہ ادا نہیں کر سکا.اس نے نمازیں بھی پڑھیں مگر وہ کہتا ہے اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی شرطوں کے مطابق میں نمازیں ادا نہیں کر سکا.آج وہ بھی شاید ایک رسم کے ماتحت اور شاید لوگوں کے دکھاولے کے لئے عمدہ لباس پہن کر اس مجلس میں آگیا ہے اور شاید وہ عمدہ کھانا کھا کر بھی آیا ہو :
۲۰۶ مگر اس کا دل رو رہا ہے، اس کا دماغ پریشان ہے اور اس کی ایک نگاہ اپنے بھائیوں پر پڑتی ہے اور دوسری نگاہ اپنے تاریک دل پر اچھے اور تر لقے اس کے گلے سے نیچے نہیں اترتے اور ہر لقمہ خواہ وہ کتنا ہی تر ہو اس کے گلے میں پھنس پھنس جاتا ہے، وہ آج صبح اچھے کپڑے تو پہن کے آیا مگر باوجود اس کے ہر دفعہ جب اس کی نگاہ اپنے اچھے کپڑوں پر پڑی اس کا دل رو پڑا اس نے کہا کاش میرا اندرونہ بھی ایسا ہی سفید ہو تا جس طرح لباس سفید ہے.پھر جب اس کی نظر اپنے بھائی پر پڑتی ہے تو بالکل اس طرح جس طرح چور کسی دوسرے شخص کو دیکھ کر ٹھنک جاتا ہے، اس کے قدم لڑکھڑا جاتے ہیں اور وہ خیال کرتا ہے کہ مجھے پکڑنے والا آگیا اور میری چوری پکڑ لی گئی اسی طرح یہ بھی خیال کرتا ہے کہ شاید میرے دل کے گناہ اسے نظر آگئے ، شاید میرے اندرونہ کی تاریکی اسے نظر آنے لگی اور شاید اسے پتہ لگ گیا کہ مجھ میں یہ یہ نقائص ہیں.ہر دفعہ جب یہ اپنے بیوی اور بچوں اور دوستوں اور ہمسایوں پر نگاہ دوڑاتا ہے اور پھر اپنے نفس پر غور کرتا ہے تو شرمندہ ہو جاتا اور ندامت سے سر جھکا لیتا ہے یہ ظاہر میں خوشی کی مجلس میں شامل ہے مگر اس کا دل اپنے گناہوں کی وجہ سے ندامت اور شرمندگی سے پڑ ہے.اس جیسے اور بھی کئی گناہگار ہوں گے مگر یہ اپنی ندامت اور شرمندگی کی وجہ سے خیال کرتا ہے شاید میں ہی ایک ایسا ہوں جسے حقیقی عید میسر نہیں.وہ حیران ہوتا ہے کہ میں نہ ادھر کا رہا اور نہ ادھر کا.نہ ان میں شامل ہوں جو غفلت اور نادانی سے عید منا رہے ہیں اور نہ ان میں شامل ہوں جو وصالِ الہی کی خوشی میں عید منا رہے ہیں.اس شخص کی مثال بالکل اس شخص کی سی ہوتی ہے جو رسی کے ذریعہ بلند مینار پر چڑھنا چاہتا ہو مگر درمیان میں لٹک رہا ہو وہ زمین پر نہیں کہ اوپر چڑھنے کی امید رکھتا ہو اور اس جگہ نہیں جہاں اس کا پہنچنا ضروری ہے بلکہ درمیان میں لٹکا ہوا ہے.ممکن ہے ایسے شخص نے ظاہر میں بھی عید نہ منائی ہو اور ممکن ہے اس شخص کے ظاہر نے اس خیال کے ماتحت عید منالی ہو کہ اگر میں اپنے باطن کو اچھا نہیں بنا سکا میں اپنا ظاہر ہی خوبصورت بنالوں.پھر ممکن ہے اس شخص نے اس خیال سے عید منا لی ہو کہ خدا بڑا ستار ہے اگر میں ظاہر میں عید منالوں تو کیا تعجب ہے خدا مجھے باطن میں بھی عید منانے کی توفیق عطا فرما دے اور کیا تعجب ہے جس طرح خدا نے میرے ظاہر کی ستاری کی ہے اس طرح میرے باطن کی بھی ستاری کرے.یہ ندامت والے اور نفس لوامہ رکھنے والے بندے ہی زیادہ ہوتے ہیں ان کے لئے عید ولی لحاظ سے سب سے زیادہ صدمے والی ہوتی ہے
کیونکہ سب سے زیادہ رونا اسی وقت آتا ہے جب دوسرے تو خوشی منا رہے ہوں مگر خود انسان اس میں حصہ نہ لے سکے.جدائی کی گھڑیاں ہمیشہ ہی شاق ہوتی ہیں.لیکن عید کے دن وہ اور بھی زیادہ شاق ہو جاتی ہیں جب وہ بھائی کو اپنے بھائی سے ملتا دیکھتا ہے، جب وہ دوست کو دوست سے ملتے دیکھتا ہے، جب وہ باپ کو بیٹے سے اور بیٹے کو باپ سے ملتے دیکھتا ہے تو اس کے دل سے ایک آہ نکلتی ہے.ایک کمزوری آہ ایک ضعیف ہی آہ مگر اس لئے نہیں کہ اس کا درد بہت زیادہ نہیں بلکہ اس لئے کہ درد نے اسے اس قدر نڈھال کر دیا ہے کہ اب وہ بلند آواز سے آہ بھی نہیں کر سکتا.وہ دیکھتا ہے کہ سب اپنے اپنے محبوبوں سے مل رہے ہیں لیکن میں اپنے محبوب سے نہیں مل سکا.وہ جس کے دل میں خدا کی محبت نہیں وہ تو اپنے عزیزوں سے مل کر خوش ہو سکتا ہے اور کہہ سکتا ہے کہ یہی عزیز تھے جن سے ملنا میرا مقصد تھا مگر جس کا خدا محبوب ہے وہ جب اپنے بیوی بچوں عزیزوں اور دوستوں کو خوش ہوتے دیکھتا ہے تو ان کی خوشی اس کے دل میں بجائے خوشی کے حسرت اور بجائے راحت کے رنج و الم کے جذبات پیدا کر دیتی ہے.وہ حیران ہوتا ہے کہ میں کسن مصیبت میں پھنس گیا.وہ اپنا قدم بڑھانا چاہتا ہے مگر نہیں اٹھتا وہ نہ آگے بڑھ سکتا ہے نہ پیچھے ہٹ سکتا ہے اس شخص کی عید سے زیادہ غمناک اور رنجیدہ اور کوئی گھڑی نہیں ہو سکتی.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایک واقعہ لکھا ہے ان کے سامنے ایک دفعہ نہایت ہی عمدہ کھانا پکا کر رکھا گیا.میدے کی نرم نرم روٹیاں تھیں جو ان کے سامنے لائیں گئیں.اس زمانہ کے لحاظ سے یہ نئی چیز تھی کیونکہ عرب لوگ جب باہر نکلے اور انہوں نے دوسرے ملکوں کو فتح کیا تو ان فتوحات کی وجہ سے میدہ عرب میں آنے لگا.ورنہ عرب میں میدہ نہیں ہو تا تھا.میدہ کی نرم نرم روئی جب ان کے سامنے رکھی گئی تو وہ روٹی کھائی جاتی تھیں اور روتی جاتی تھیں.ایک عورت کہتی ہیں کہ میں نے دریافت کیا آپ روتی کیوں ہیں کھانا تو بڑا اچھا ہے.حضرت عائشہ رب نے کہا کھانا اچھا ہونا ہی میرے لئے وبال جان بن گیا ہے اور میرے گلے سے نیچے نہیں اتر تا بلکہ پھنس پھنس جاتا ہے.مجھے آج خیال آ رہا ہے کہ رسول کریم میں دو یا تیاری کے وقت چکیاں نہیں تھیں ہم پتھروں پر جو کوٹ لیتے اور ہتھیلیوں پر پھونک کر اس کی بھوسی اڑا دیتے اور جو کچھ باقی بچتا اس کی روٹی پکا کر کھا لیتے.لاء مجھے خیال آتا ہے کہ اگر یہ نعمتیں جو ہمیں آج رسول کریم م ل ا ل لیلی کی وجہ سے حاصل ہیں اس وقت ہو تیں جب رسول کریم میں لی اور موجود تھے تو میں یہ میدے کی روٹی آپ کو پکا کر کھلاتی.
۲۰۸ اسی صبح جب حضرت عائشہ نے جو کی روٹی کھائی ہوگی تو یہ خیال نہیں آیا مگر جب زیادہ آرام کی گھڑی آئی تو اس کے ساتھ ہی زیادہ دکھ کی گھڑی بھی آگئی.تو یہ محروم انسان جس دن عید آتی ہے اس دن اور زیادہ غمگین ہوتا ہے.اس دن اس کے دکھ کی کوئی انتہاء نہیں رہتی اور یہ جس قدر لوگوں کو خوشی میں دیکھتا ہے اتنا ہی اس کا غم بڑھ جاتا ہے.خوشی اس سے عنقا ہوتی ہے، خوشی اور اس میں ایک تاریک پردہ حائل ہوتا ہے مگر کیا تم سمجھتے ہو کہ اس کی ندامت را نگاں جائے گی.کیا تم سمجھتے ہو کہ اس کی حسرت ضائع ہو جائے گی.کیا تم خیال کرتے ہو کہ اس کا دکھ بے قیمت ہے اور اس کی پشیمانی خدا کی نگاہ میں حقیر اور ذلیل ہے یا کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ یہ شخص اسی طرح تاریکی میں مرجائے گا؟ یاد رکھو پہلی قسم کے تو وہ لوگ ہیں جو بھاگ کر خدا کے پاس پہنچ گئے اور دوسری قسم کے وہ لوگ ہیں جو بھاگ کر شیطان کے پاس چلے گئے مگر یہ تیسری قسم کے وہ لوگ ہیں کہ جب ندامت محسوس کرتے ہیں، جب پشیمانی ان کی رگ وپے میں سرایت کر جاتی ہے تو خدا بھاگ کر ان کے پاس آتا ہے.۱۲، اور وہ اپنے بندہ کی حسرت کو رائیگاں جانے نہیں دیتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جس کے پاؤں تھے اور میرا تھا وہ چل کر میرے پاس آگیا اور جس کے پاؤں تھے اور شیطان کا تھا وہ چل کر شیطان کے پاس چلا گیا مگر یہ وہ بندہ ہے جس کے پاؤں نہیں یہ کہیں جانے کی طاقت نہیں رکھتا چلو میں اس کے پاس جاتا ہوں اور اگر یہ گرا ہوا ہے تو میں آپ اس کو اٹھا کر اپنے پاس لے آتا ہوں.پس اگر تم پہلی قسم میں سے نہیں بن سکتے تو اس قسم میں سے ہی بن جاؤ کہ یہ مقام بھی کوئی تحقیر کا مقام نہیں.یاد رکھو کہ وہ کامل حسرت وہ کامل عجز وہ کامل انابت وہ کامل غم اور وہ کامل دکھ جو انسان کے ظاہر و باطن پر متولی ہو جاتا ہے وہ بھی انسان کو خدا کا محبوب بنا دیتا ہے.تم اس دوسری قسم کی عید والوں میں سے مت بنو جن کی عید صرف ان کا کھانا اور پینا ہے بلکہ ان میں سے بنو جو خدا سے جاملے اور جنہوں نے اللہ تعالیٰ کو پالیا.یا ان میں سے بنو جو اگر چہ خدا تک ابھی نہیں پہنچے مگر وہ وہیں گر گئے اور اس ندامت اور پشیمانی کی وجہ سے ان کا دل پانی پانی اور ان کا جگر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور انہوں نے وہیں گرے گرے اپنی جان کو رنج و الم سے ایسا ہلاک کیا کہ ان کی حالتِ زار سے عرش الہی ہل گیا اور عرش کا مالک خود چل کر ان کے پاس آیا اور اس نے انہیں اٹھا کر اپنی محبت کے مقام پر بٹھا لیا.پس یہ تین قسم کی عیدیں ہیں اور ان تینوں اقسام کے لوگ اس وقت یہاں موجود ہیں مگر پیشتر اس کے کہ
۲۰۹ عید ختم ہو پہلی اور تیسری اقسام میں سے کسی ایک میں داخل ہو جاؤ.اگر تم نے پہلی غلطیوں اور کو تاہیوں کی وجہ سے ابھی تک خدا کو نہیں پایا تو حسرتوں اور ندامتوں سے خدا کو پالو کہ یہ راستہ بھی کوئی تنگ راستہ نہیں بلکہ اس راستہ سے بھی جو خدا کے حضور پہنچتے ہیں وہ اس کے پیارے اور مقربین میں شامل ہو جاتے ہیں.پھر میں کہتا ہوں جسے خدا عید دے اس کا فرض ہے کہ وہ دوسروں کو بھی عید دے چاہے اسے پہلی قسم کی عید میسر ہو یا تیسری قسم کی درمیانی عید تو خدا کسی کو میسر نہ کرے.اگر ان دونوں عیدوں میں سے کوئی عید بھی تمہیں میر ہے تو خدا کے وہ بندے جنہیں عیدیں میسر نہیں ان کے لئے بھی عید کی کوشش کرو.میں نے بتایا ہے کہ عیدیں دو قسم کی ہوتی ہیں ایک ظاہری اور دوسری باطنی.پس باطنی طور پر جن لوگوں کو اس صداقت کی خبر نہیں جو تمہارے پاس ہے اور وہ جو کچے دین سے ابھی تک ناواقف ہیں جاؤ اور ان کو تبلیغ کے ذریعہ حق و حکمت کی باتیں پہنچاؤ.تا انہیں بھی عید میتر ہو اور وہ بھی عید سے خوشی حاصل کریں اسی طرح وہ لوگ جو ظاہری طور پر مصائب میں مبتلاء ہیں اور جنہیں سوائے مصیبت اور دکھ کے راحت سے کوئی حصہ نہیں ملا جیسے کشمیر کے مسلمان ہیں یا انفرادی طور پر جیسا کہ ہر شہر میں ہوتے ہیں کوشش کرو کہ ان مظلوموں اور حسرت کے شکاروں کی بھی عید ہو جائے اور وہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن جائیں.یہ کبھی خیال مت کرو کہ تمہارے قلیل مال کی کوئی قیمت نہیں.اگر تم اخلاص سے اللہ تعالیٰ کے راستہ میں ایک پیسہ بھی دیتے ہو تو وہ ان سونے کے پہاڑوں سے جو بغیر اخلاص کے دیئے جائیں زیادہ درجہ رکھتا ہے.میں اللہ تعالٰی سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہم پر ایسا فضل نازل کرے تاکہ ہم میں سے ہر شخص کو حقیقی عید میتر ہو اور وہ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم نہ صرف اپنے لئے عید منائیں بلکہ دوسروں کے لئے بھی جو مصائب اور دکھوں میں گرفتار ہیں عید کا سامان کر دیں.یہاں تک کہ ہمارے کمزور ہاتھوں سے دنیا میں پھر حقیقی عید قائم ہو ، رنج اور حسرت کی گھڑیاں کٹ جائیں، تاریکی کے بادل چھٹ جائیں اور ہدایت کا سورج دنیا کو اپنی نورانی کرنوں سے جگمگا دے اور خدا کی بادشاہت جس طرح آسمان پر ہے زمین پر بھی قائم ہو جائے.یہ ایک محاورہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح آسمان پر ہر فرشتہ اطاعت کرنے والا ہے اسی طرح زمین پر بھی ہر فرد خدا تعالیٰ کا اطاعت گزار ہو ورنہ یہ مطلب نہیں کہ زمین پر
۲۱۰ اس کی بادشاہت نہیں.اس کی بادشاہت تو ہر جگہ ہے.مطلب یہ ہے کہ جس طرح ملا ئک ہوتے ہیں اسی طرح انسان بن جائیں اور دنیا میں کوئی فرد اس کا نافرمان نہ رہے.✓ الفضل ۱۶.فروری ۱۹۳۲ء ) اه کنز العمال جلد ۸ صفحه ۵۹۰ مطبوعہ ۱۹۷۱ء مطبع البلاغه الحلب صحيح بخارى كتاب الصلوة باب وجوب القراءة للإمام والمأموم في الصلوة - صحيح بخاري كتاب الايمان باب اذا حنث ناسيا في الايمان صحیح بخاری کتاب الایمان باب واقسموا بالله جهد ايمانهم صحيح بخارى كتاب الصلوة باب الطيب للجمعة ه متی باب 11.آیات ۱۸-۱۹ صحيح بخاري كتاب الاطعمة باب قول الله تعالى كلوا من طيبات مارزقنكم ک هود ۱۳ الفرقان: ۹۸ الانعام: الجامع الصغير للامام السيوطى جلد ۲ صفحه ۷۴ و صحيح بخاری باب مناقب الانصار - باب قول النبي صلى الله عليه وسلم للانصار اصبروا الخ صحیح بخارى باب مناقب الانصار - باب قول النبي صلى الله عليه وسلم للانصار اصبروا الخ لله طبقات ابن سعد اردو جلد ۳ صفحه ۱۸۸- ترندی ابواب الزهد باب معيشة النبي صلى الله علیه و سلم و شمائل ترندی صفحه ۱۰ کا صحيح بخاري كتاب الدعوات باب التوبة - صحيح بخاري كتاب الرقاق باب من أحب لقاء الله احب الله لقاءه
MI (۲۲) ( فرموده ۲۸ جنوری ۱۹۳۳ء بمقام عید گاہ.قادیان) فطرت انسانی میں اللہ تعالیٰ نے خوشی اور غم کی دو لہریں جاری کی ہیں غم کی لہر کیا ہے اس بات کی علامت ہے کہ کوئی چیز کھوئی گئی ہے اور خوشی کی لہر کیا ہے اس بات کی خبر ہے کہ کوئی چیز پائی گئی ہے.وہی باتیں جو ہم اپنی زبان سے کہتے اور الفاظ سے ادا کرتے ہیں ان کو ہماری فطرت احساسات سے ادا کرتی ہے.جس طرح ہم خوشی کے موقع پر دوسرے سے کہتے ہیں مبارک ہو اس کے مقابل طبیعت کیا کرتی ہے؟ دل میں خون کا دورہ پیدا کرتی ہے حرکت ہوتی ہے اور یوں محسوس کرتے ہیں کہ گویا ہمیں کوئی چیز مل گئی ہے.اسی طرح جب کسی غم کے موقع پر ہم کسی سے کہتے ہیں بڑا افسوس ہے تو طبیعت اس کے دل پر ایک بوجھ ڈالتی ہے اور اس کے نتیجہ میں ہم یوں محسوس کرتے ہیں کہ طبیعت کسی بات میں لگتی نہیں گویا کوئی چیز کھوئی ہے.یہ فطرت کی آواز ہوتی ہے جو بسا اوقات ہمیں بہت سی تباہیوں سے بچا لیتی ہے.فرض کرو کوئی شخص اعصابی کمزوری میں مبتلاء ہے.اعصاب کا سلسلہ اتنا باریک ہوتا ہے کہ اس کے نقائص کو اطباء اور ڈاکٹر بھی اچھی طرح نہیں سمجھ سکتے.چہ جائیکہ کسی اور انسان کو اس ہو.ایک شخص ڈاکٹر کے پاس جاتا اور کہتا ہے میری طبیعت اداس رہتی ہے اس سے ڈاکٹر سمجھ لیتا ہے کہ اس کے اعصاب کمزور ہو رہے ہیں اور وہ اسے کوئی Nervous لے ٹانک دے دیتا ہے.اعصابی کمزوری کے باعث اسے جو اُداسی لاحق تھی وہ گویا اس کی فطرت کی آواز تھی جس نے اس کے اندرونی نقص سے اسے اطلاع دے دی اور اسے بتا دیا کہ اس کے جسم کا کوئی حصہ ضائع ہو گیا ہے.تو غم اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ کوئی چیز کھوئی گئی ہے اور خوشی اس بات کی کہ کوئی چیز مل گئی ہے.اب یہ جو عید کا دن ہے جسے ہم خوشی کا دن قرار دیتے ہیں ہمیں دیکھنا چاہئے کہ اس دن کیا چیز ہے جو ہمیں مل گئی.میں نے کل کے خطبہ لہ میں بیان کیا تھا کہ رسول کریم میں نے فرمایا ہے.اللہ تعالٰی نے کہا کہ بندے کے ہر نیک فعل کے لئے میں اسے کوئی نہ کوئی انعام دیتا ہوں لیکن روزوں کے بدلہ میں اپنی ذات اسے دے دیتا ہوں.۳
PIP.گویا عید الفطر کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ایک ماہ روزے رکھنے سے خدا تعالیٰ ہمیں مل گیا.اب سوچنا چاہئے کہ کیا سچ مچ ہمیں خدا مل گیا ہے.کئی پاگل ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس ٹوٹی ہوئی طشتریوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہوتے ہیں انہیں وہ روپے کہتے ہیں اور کنکر وغیرہ جمع کر کے انہیں ہیرے اور موتی قرار دے لیتے ہیں.انہیں دیکھ کر وہ ایسے ہی خوش ہوتے ہیں جیسا فی الواقعہ ہیرے اور موتی رکھنے والا بلکہ اس سے بھی زیادہ کیونکہ جس کے پاس سچ سچ کے ہیرے موتی ہوں اسے یہ فکر رہتا ہے کہ کوئی انہیں کچرا نہ لے مگر پاگل کو یہ فکر بھی نہیں ہوتا اس لئے اس کی خوشی در اصل ہیرے موتی رکھنے والے سے بھی زیادہ ہوتی ہے.مگر باوجود اس کے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس کی خوشی اصلی خوشی ہے کیونکہ وہ غلط طور پر خوش ہو رہا ہے واقعہ میں اس کے پاس کچھ نہیں.تو معلوم ہوا کہ اصلی خوشی اسی کی ہوتی ہے جسے واقعہ میں کوئی چیز مل جائے.پس غور کرو کہ تمہاری عید سطحی اور بناوٹی تو نہیں اور اگر واقعہ میں روزوں یا کسی اور ذریعہ.ریعہ سے تم نے خدا کو پا لیا تو تمہاری عید اتنی بڑی ہے کہ اس کے مقابل بادشاہوں کی عید بھی بیچ ہے کیونکہ جسے خدا مل جائے اس کے سامنے بادشاہ کیا حیثیت رکھتے ہیں.نبیوں کا حال تو اور ہوتا ہے ان کے خادم اور غلام بھی ایسے ہو جاتے ہیں کہ بادشاہوں کی ہستی ان کے مقابل کچھ نہیں ہوتی.نظام الدین اولیاء ایک بزرگ دہلی میں ہوئے ہیں جو بہت سے اولیاء کے پیر تھے.ہندوستان میں ان کے ذریعہ بہت ہدایت پھیلی ہے.انہوں نے ایک دفعہ کوئی ایسی بات کی کہ تغلق خاندان کا بادشاہ جو اس وقت ہندوستان پر فرمانروا تھا ناراض ہو گیا وہ اس وقت سفر پر جا رہا تھا اس نے کہا کہ واپس آکر میں ان کو سزا دوں گا.مریدوں کو جب یہ اطلاع پہنچی تو اس بات سے بہت فکر ہوا اور جب بادشاہ واپس روانہ ہوا تو یہ فکر اور بھی بہت بڑھ گیا.انہوں نے آپ سے کہا کہ بادشاہ آ رہا ہے اس لئے دہلی پہنچنے سے پہلے کوئی صلح کی کوشش کرنی چاہئے.انہوں نے فرمایا ہم نے کیا کوشش کرنی ہے سب کچھ اللہ تعالیٰ کے ہی ہاتھ میں ہے جو چاہے کرے.بادشاہ جب اور قریب آگیا تو مریدوں کو اور فکر ہوا اور انہوں نے پھر کہا کہ اب تو تھوڑا فاصلہ رہ گیا ہے مگر آپ نے فرمایا کوئی غم نہ کرو ہنوز دلی دور است آخر بادشاہ بالکل قریب آگیا اور اسلامی بادشاہوں کا طریق یہ رہا ہے کہ وہ رات کے وقت شہر میں داخل نہیں ہوتے تھے اور در حقیقت رسول کریم ملی تی وی کی سنت بھی یہی ہے.کہ بادشاہ بھی اس پر عمل کرتے تھے.چنانچہ جب بادشاہ رات کے وقت شہر کے قریب پہنچا تو رات کو باہر ہی قیام کیا اور
۲۱۳ اعلان ہو گیا کہ کل داخلہ ہو گا.مریدوں نے پھر کہا کہ اب تو بادشاہ آیا ہی چاہتا ہے.مگر آپ نے پھر وہی جواب دیا کہ ہنوز دلی دور است.جب صبح ہوئی تو ان کے اخلاص مند مریدوں میں سخت گھبراہٹ تھی کہ اب بادشاہ شہر میں داخل ہو گا اور معلوم نہیں کیا آفت آئے مگر اطلاع ملی کہ بادشاہ کسی حادثہ سے فوراً مر گیا ہے اور اس کے بجائے اس کی لاش شہر میں داخل ہوئی.تو اللہ تعالیٰ کا جو انسان ہو جائے اس کے مقابلہ میں بادشاہ بھی بیچ ہوتے ہیں کیونکہ حقیقی خوشی اسے ہی پہنچ سکتی ہے جس کا خدا تعالیٰ سے تعلق ہو.بادشاہتیں کیا چیز ہیں.غم و فکر کا انبار ہیں جن کے ساتھ کوئی تسلی نہیں.نبوتیں بھی غم و فکر کا انبار ہوتی ہیں مگر ان کے ساتھ تسلی ہوتی ہے.بادشاہ کی رات بھی فکر میں بسر ہوتی ہے اور دن بھی مگر نبی جب لوگوں کے غموں اور فکروں میں گھرا ہوا رات کو سوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے الہاموں کی لہر اُنہیں بالکل دور کر دیتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا قول مجھے خوب یاد ہے آپ فرمایا کرتے تھے کہ بارہا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت سے کہ میں تکیہ پر سر رکھتا ہوں خدا تعالیٰ کی یہ وحی نازل ہونا شروع ہوتی ہے.اِنِّى مَعَ الرَّسُولِ أَقُومُ ، إِنِّى مَعَكَ وَمَعَ اَهْلِكَ که اور اس وقت تک برابر جاری رہتی ہے جب میں سر تکیہ سے اٹھاتا ہوں.اس الہام کے معنی یہ ہیں کہ میں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں دیکھوں تو کون اس پر حملہ کرتا ہے اور یہ کہ میں اپنے رسول اور اس کے اہل کے ساتھ ہوں.تو غم و فکر تو شاید انبیاء کو بادشاہوں سے بھی زیادہ ہوتے ہیں مگر بادشاہ کا دن بھی بے چینی سے گذرتا ہے اور رات بھی.مگر نبی کی وہ طاقت جو غم و فکر کی وجہ سے زائل ہوتی ہے دنیا سے علیحدگی کے وقت دوبارہ قائم ہو جاتی ہے.پھر بادشاہ کا غم اپنی جان کے لئے ہوتا ہے مگر انبیاء کا دوسروں کے لئے.بادشاہ کو یہ فکر ہوتا ہے کہ کہیں میں نہ مارا جاؤں مگر نبی کا فکر اس لئے نہیں بلکہ اس لئے ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ نہ ہلاک ہو جائیں.۸؎ جب یہ حالت ہو تو یہ عید تو ایک عید ہے مگر وہ کیا عید ہے جب انسان کے اندر خدا تعالیٰ کی محبت کا کوئی ذرہ نہ ہو.میں یہ نہیں کہتا کہ ہر شخص کو یہ مقام حاصل ہونا چاہئے اور نہ ہر شخص محمد یا موسی یا عیسی ہو سکتا ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ اگر انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت کا ایک ذرہ بھی قائم ہو گیا تو پھر حقیقتاً اس کی عید ہو جاتی ہے کیونکہ اگر ایک گھر میں ہزار لیمپ بھی رکھے ہوں مگر دیا سلائی نہ ہو تو گھر والوں کو فکر رہے گا کہ معلوم نہیں اندھیرے میں کیا گزرے لیکن اگر ایک گھر میں پیسے کی چار چار بکنے والی ایک موم بتی بھی
۲۱۴۴ ہو اور پھر ساتھ ہی دیا سلائی یا آگ بھی ہو تو انہیں کوئی فکر نہیں ہو گا کیونکہ اگر ذرا بھی کھٹکا ہو تو وہ جلا کر دیکھ سکتے ہیں.اسی طرح اگر کسی کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت کا ایک ذرہ بھی پیدا ہو گیا تو سمجھو اسے خزانہ حاصل ہو گیا.اب ہمت کی دیر ہے جب وہ ذرا توجہ کرے گا اس چنگاری سے آگ مشتعل ہو جائے گی.پس اگر کوئی شخص رمضان کے بعد یہ دیکھے کہ محبت الہی کی ایک چنگاری بھی اس کے اندر پیدا ہو گئی ہے، اگر وہ محبت کا جذبہ اپنے اندر محسوس کرے اور یہ سمجھے کہ یہ جذبہ اس کے دماغ سے اتر کر اس کے دل میں آگیا ہے تو وہ سمجھ لے کہ اسے خدا مل گیا.گو اپنے ظرف کے مطابق ہی ملا لیکن خواہ تھوڑا ملا یا بہت اس کی عید حقیقی عید ہے نہ صرف اس کی بلکہ اس سے ملنے والوں کی بھی کیونکہ جس کے اندر اللہ تعالیٰ کی محبت ہو اسے ایک مقناطیسی طاقت حاصل ہو جاتی ہے.جس طرح آگ کے پاس بیٹھنے والا بھی گرم ہو جاتا ہے اور خواہ آگ کی چنگاری چنے کے دانے کے برابر ہو اسے اٹھانے والے کا ہاتھ حرارت محسوس کرتا ہے اسی طرح جس کے اندر خدا تعالیٰ کے عشق کی چنگاری ہو اس کے پاس بیٹھنے والے بھی اس کا اثر محسوس کریں گے.وہ جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت کی چنگاری ہو اس کے بیوی بچے بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے بلکہ دوست احباب بھی.خدا تعالیٰ نے آگ میں نور رکھا ہے اور روشنی کبھی اپنی جگہ محدود نہیں رہ سکتی وہ ضرو ر باہر نکلتی ہے.سیاہی اور ظلمت کا دائرہ محدود ہوتا ہے مگر روشنی ہمیشہ پھیلنے کی کوشش کرتی ہے.وہ کرم شب چراغ جو رات کے وقت چمکتا ہے کتنا چھوٹا سا ہوتا ہے مگر کس طرح دور سے اس کی روشنی رات کے وقت نظر آتی ہے.مسافر جب گاؤں کے قریب آتا ہے تو کس طرح جھاڑیوں میں اسے چمکتا دیکھ کر کہہ اٹھتا ہے کہ وہ گاؤں آگیا.اسی طرح جس کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت کی چنگاری ہو اگر اس کرم شب چراغ کے برابر بھی ہو تب بھی وہ دوسروں کو روشنی پہنچائے گا اور خود ترقی کرتا جائے گا.ممکن نہیں کوئی خدا کا ہو جائے اور سورج، چاند یا ستارہ نہ بنے.قرآن کریم میں اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اللهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ - ا جو الله تعالیٰ سے ذرہ بھی تعلق پیدا کرے وہ اس نور کو لے لیتا ہے اور جب وہ حاصل ہو و گیا تو پھر وسروں کو بھی روشن کر دیتا ہے خواہ وہ ایسا نہ بھی کرنا چاہے.اگر سورج چاہے بھی کہ اپنی روشنی دوسروں کو نہ دے تب بھی وہ ایسا نہیں کر سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے.رو
۲۱۵ ”میرے لئے یہ کافی تھا کہ وہ میرے پر خوش ہو.مجھے اس بات کی ہر گز تمنا نہ تھی.میں پوشیدگی کے حجرہ میں تھا اور کوئی مجھے نہیں جانتا تھا اور نہ مجھے یہ خواہش تھی کہ کوئی مجھے شناخت کرے.اس نے گوشہ تنہائی سے مجھے جبرا نکالا.میں نے چاہا کہ میں پوشیدہ رہوں اور پوشیدہ مروں مگر اس نے کہا میں تجھے تمام دنیا میں عزت کے ساتھ شہرت دوں گا."للہ تو نور کا خاصہ ہے کہ ظاہر ہو وہ کہاں چھپ کر رہ سکتا ہے.پس جب انسان اللہ تعالیٰ کی محبت اپنے اندر پیدا کرے تو نہ صرف اس میں بلکہ اس کے ملنے والوں میں بھی ایک پاک تبدیلی ہو جاتی ہے.ہو سکتا ہے کہ لاکھوں انسانوں کے اندر وہ تبدیلی نامکمل ہو مگر پھر بھی نور ضرور ظاہر ہو کر رہتا ہے.جس طرح کالے کپڑے کی اوٹ میں اگر بتی جلائی جائے تو بھی روشنی نکلے گی ضرور.اسی طرح ممکن ہے کہ محبت الہی کی روشنی پر گناہوں کی سیاہ چادر پڑی ہو مگر وہ صرف اس کے نور کو کم کر سکے گی مٹا نہیں سکتی.اور جب کوئی انسان ایسا ہو جائے تو پھر اسے خدا کہتا ہے کہ اب تیرا حق ہے کہ میری نعمتوں سے فائدہ اٹھائے.قرآن کریم نے دوستوں کے ہاں سے کھانا جائز قرار دیا ہے گا، مگر غیر کے ہاں سے کھانے کا کسی کو حق نہیں ہوتا.جب تک انسان خدا کا نہیں ہو جاتا اس وقت تک خدا کی نعمتیں استعمال کرنے کا اسے کوئی حق نہیں ہاں جب کوئی خدا کا ہو جائے تو اس وقت اچھا کھانا پینا اور پہننا اس کا حق ہو جاتا ہے بلکہ نہ کھانا موجب ناراضگی ہوتا ہے.دیکھو اگر ہم کسی دوست کے سامنے کچھ کھانے کے لئے رکھیں مگروہ نہ کھائے تو ہم ناراض ہوتے ہیں.اور اگر کوئی غیر کسی کی کوئی چیز استعمال کر لے تو وہ برا مناتا ہے بلکہ اگر کسی کی طبیعت میں حیا نہ ہو تو لڑ پڑے گا ورنہ چپ رہے گا لیکن رنج ضرور محسوس کرے گا.۱۳ پس جس کا خدا تعالٰی کے ساتھ تعلق نہیں اس کا کوئی حق نہیں کہ اس کی پیدا کی ہوئی چیزیں استعمال کرے لیکن خدا سے جس کا تعلق ہو جائے اسے خود خدا تعالیٰ کہتا ہے کھاؤ پیو اور عید کا دراصل یہی مطلب ہے کہ ہم نے رمضان میں روزے رکھے یعنی کہا نہیں کھائیں گے جب تک خدا تعالیٰ ہمارا نہ ہو جائے.مگر آج خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ میرے بندے خوش ہو جا کہ میں تیرا ہو گیا پس تو کھا اور پی.یہ گفتگو ۲۹ یا ۳۰ دن تک برابر قائم رہتی ہے اور پھر فیصلہ ہوتا ہے.اگر تم خدا کے کلام کو غور سے پڑھنے والے ہو تو تمہیں پتہ لگے گا کہ یہ رمضان
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس وعدہ کی تکمیل ہے جو ان سے تمہیں راتوں کا کیا گیا تھا مگر چالیس میں پورا کیا گیا ۱۴ لیکن محمد مصطفی میں یا ای میل کے لئے تھیں دن میں ہی مکمل کیا گیا.گویا حضرت موسیٰ کو چالیس دن کے بعد خدا ملا لیکن رسول کریم ملی و لی لی لی اور آپ کی امت کو تمہیں دنوں میں.پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو طور پر جانا پڑا.مگر ہمارے گھروں میں خدا آیا ھا، اور بعض دفعہ تو تمیں سے بھی ایک کم کر کے ۲۹ میں مل جاتا ہے یہ وہی ثَلْثِيْنَ لَيْلَةَ ہیں جن کا ذکر قرآن و مجید میں ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں یہ وعدہ پوری طرح پورا نہیں ہوا کیونکہ آپ کی امت نے غداری کی اور کہہ دیا کہ جاتو اور تیرا رب لڑتے پھرو ۱۶ رو ۱۶.لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں نے کہا جب ہم نے آپ کو رسول مان لیا تو باقی کیا رہ گیا.اگر آپ سمندر میں بھی گھوڑے ڈالنے کو کہیں گے تو ہم کبھی منہ نہ موڑیں گے.سکا، غرض خدا تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کیا کیونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بھی موسیٰ ہے.۱۸ مگر بنی اسرائیل کے موسیٰ کے ساتھ نہیں بلکہ بنی اسماعیل کے موسیٰ کے ساتھ یہ وعدہ پورا ہوا.پس بندے اور خدا کے درمیان ۳۰ دن تک یہ گفتگو جاری رہتی ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اچھا میں تیرا ہو گیا اب تو میری نعمتیں کھا سکتا ہے.آج عید کے دن کھانا کھانا حرام نہیں بلکہ نہ کھانا حرام ہے کیونکہ آج میرا تیرا دوستانہ ہو گیا ہے میری چیزیں اب تیری ہیں.اگر آج تو نہ کھائے گا تو میں ناراض ہوں گا.یہی تعلق جب بڑھتا ہے اور انسان ترقی کرتا ہے تو ایسے مقام پر کھڑا ہو جاتا ہے کہ بسا اوقات اسے اللہ تعالیٰ الفاظ میں کہتا ہے کہ کھا.رسول کریم میں ایم کی امت میں سے سید عبد القادر جیلانی اس مقام کے خاص مظہر تھے ویسے بھی ان کو باقی صلحاء پر یہ فضیلت ہے کہ اللہ تعالٰی نے مسیح موعود علیہ السلام کو جو بلحاظ مدارج کئی نبیوں سے بھی افضل ہیں اور صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب ہو کر ایسے مقام پر پہنچے کہ نبیوں کو بھی اس مقام پر رشک ہے عبد القادر کا نام دیا گیا.19 سید عبد القادر اس مقام کے خاص مظہر تھے وہ کہتے ہیں خدا تعالیٰ مجھے کہتا ہے عبد القادر تجھے میری ہی قسم.کھا.تب میں کھاتا ہوں.خدا تعالیٰ کہتا ہے عبد القادر تجھے میری ہی قسم یہ کپڑا پہن ، تب میں پہنتا ہوں.۲۰، تو بسا اوقات ایک بندہ ایسے مقام پر جا پہنچتا ہے کہ اللہ تعالی اس طرح اس سے معاملہ کرتا ہے تب اگر وہ نہ کھائے اور نہ پہنے تو گنہگار بنتا ہے.ایسے انسان کی گویا ہر حرکت خواہ وہ دنیوی ہی کیوں نہ ہو خدا تعالیٰ دین بنا دیتا ہے.اس کا کھانا پینا اور پہننا بھی اس کے لئے ثواب کا موجب ہو جاتا ہے وہ چونکہ خدا تعالیٰ کے
۲۱۷ حکم سے کھاتا ہے اور خدا کے حکم سے جو کچھ کھایا جائے وہ ایسی ہی عبادت ہے جیسے نماز اور روزہ.اس کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے بیمار روزہ کے دنوں میں کھائے.رمضان میں دن کو کھانا پینا گناہ ہے مگر بیمار چونکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت کھاتا ہے اللہ اس لئے اس کے لئے ثواب کا موجب ہے وہ تو بیماری کے باوجود روزہ رکھنے کو تیار تھا اور اس بات پر بالکل آمادہ تھا کہ خدا کی راہ میں بھوکا رہ کر جان تک دے دے.مگر اللہ تعالیٰ نے چونکہ اسے حکم دیا کہ کھا“ اس لئے کھاتا ہے اور اس لئے اس کا کھانا بھی ثواب کا موجب ہوتا ہے وہ خواہ تمام قسم کی مرغن غذا ئیں کھائے اسے ثواب ہی ہو گا.یہ حالت تو عوام کی ہے مگر خواص پر خاص اوقات میں بھی اللہ تعالیٰ یہی حالت دارد کرتا ہے.میں پہلے بھی کئی بار سنا چکا ہوں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سخت کھانسی میں مبتلاء ہوئے.ایسی شدید کھانسی تھی کہ اخباروں میں اس کا ذکر پڑھ کر عبدالحکیم نے لکھ دیا کہ آپ رسل سے فوت ہوں گے.۲۲ ان دنوں چونکہ میری ڈیوٹی آپ کو دوا پلانے کی تھی اس لئے میں بھی اپنے آپ کو نصف ڈاکٹر سمجھتا تھا.ایک دن کہیں سے پھل آیا.آپ نے دریافت فرمایا کیا پھل ہے؟ میں نے بتایا کیلا ہے سنگترہ ہے.آپ نے فرمایا.قریب کرو، میں نے قریب تو کر دیا کیونکہ حکم تھا مگر عرض کیا کیلا کھانا آپ کے لئے مضر ہو گا.آپ مسکراتے جاتے اور کھاتے جاتے میں اپنے دل میں کڑھ رہا تھا کہ تکلیف بڑھا جائے گی.آخر آپ نے فرمایا مجھے ابھی الہام ہوا ہے کھانسی دور ہو گئی جو چاہو کھاؤ.۲۳ میں اپنی جہالت کی وجہ سے کڑھ رہا تھا مگر آپ اپنے علم کے مطابق ہنس رہے تھے کہ خدا تعالی کا حکم پورا کر رہا ہوں.ایسی حالت میں پیچھے ہٹنا گناہ ہوتا ہے.بہت سے نادان ایسے لوگوں پر اعتراض بھی کر بیٹھتے ہیں.حضرت خلیفۃ المسیح الاول سنایا کرتے تھے کہ وہ مکان جو مسجد اقصیٰ کے قریب ہے اور جس میں اب خدا کے فضل سے ہمارے دفاتر ہیں یہ ایک ہندو ڈپٹی نے بنایا تھا.جب یہ اونچا بنا تو لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عرض کیا کہ اس طرح آپ کے مکانوں کی بے پردگی ہوگی.آپ نے فرمایا کوئی فکر کی بات نہیں بادشاہ کے مکان کے پاس جو مکان بنایا جاتا ہے وہ آخر شاہی کیمپ میں ہی داخل ہو جاتا ہے.آخر مکان بنانے والا مر گیا اس کی اولاد بھی تباہ ہو گئی اور مکان ہمارے پاس فروخت ہو گیا.۲۴.وہ ڈپٹی صاحب ایک دن مکان کے باہر بیٹھے تھے کہ حضرت خلیفہ اول درس دے کر آ رہے تھے.اس نے کہا مولوی صاحب آپ سے میں ایک بات پوچھنی چاہتا ہوں اگر آپ ناراض نہ ہوں.آپ نے فرمایا
۲۱۸ پوچھو.اس نے کہا سنا ہے مرزا صاحب بادام روغن اور پلاؤ بھی کھا لیتے ہیں.آپ فرماتے میں نے کہا ہمارے ہاں حلال ہے.کہنے لگا کیا خدا رسیدہ لوگوں کے لئے بھی حلال ہے.آپ نے فرمایا ہاں ہمارے ہاں ان کے لئے بھی حلال ہے.تو نادان انسان کئی چیزوں پر اعتراض کرتا ہے اور کئی دفعہ دوست بھی کہہ دیتے ہیں کہ یہ احتیاط نہیں کی جاتی.یہ محبت کے اعتراض ہوتے ہیں.کہا جاتا ہے یوں پہرہ کا انتظام نہیں ہوتا اس طرح نگرانی نہیں کی جاتی.اس میں شک نہیں کہ دنیوی سامان بھی چاہئیں لیکن جو انسان ایسا ہو جائے کہ اس کی موت و حیات سب خدا کے لئے ہو اس کا حافظ خود اللہ تعالیٰ ہو جاتا ہے ایسی صورت میں اگر خدا موت لاتا ہے تو وہ بھی اس انسان کی حفاظت کے لئے ہی ہوتی ہے اور جب خدا تعالٰی پسند کرے کہ فلاں بندے پر موت آ جائے تو پھر اس رنگ کی موت زندگی سے اچھی ہوگی.ہاں خدا تعالیٰ کے ظاہری قانون کا احترام قائم رکھنے کے لئے حکم ہے کہ ظاہری سامان بھی کرو تا لوگ تو کل سے محروم نہ ہو جائیں.توکل کا لفظ سن کر شاید بعض لوگ حیران ہوں لیکن میں جو تو گل کے معنی کرتا ہوں وہ عوام الناس سے مختلف ہیں.میں نے کچھ دن ہوئے اسی رمضان میں ایک رؤیا دیکھا کہ ایک بڑا ہجوم ہے ایسا ہی جیسا کہ اب آپ لوگ بیٹھے ہیں میں اس میں بیٹھا ہوں اور ایک دو غیر احمدی بھی میرے پاس بیٹھے ہیں.کچھ لوگ مجھے دبا رہے ہیں ان میں سے ایک شخص جو سامنے کی طرف بیٹھا تھا اس نے آہستہ آہستہ میرا ازار بند پکڑ کر گرہ کھولنی چاہی.میں نے سمجھا اس کا ہاتھ اتفاقاً جالگا ہے اور میں نے ازار بند پکڑ کر اس کی جگہ پر انکا دیا.پھر دوبارہ اس نے ایسی ہی حرکت کی اور میں نے پھر بھی یہی سمجھا کہ اتفاقیہ اس سے ایسا ہوا ہے اور پھر ازار بند اڑس لیا.تیسری دفعہ پھر اس نے ایسا ہی کیا تب مجھے اس کی بدنیتی کے متعلق شبہ ہوا اور میں نے اسے روکا نہیں جب تک کہ میں نے دیکھ نہ لیا کہ بالا رادہ ایسا کر رہا ہے تاکہ جب میں کھڑا ہوں تو نگا ہو جاؤں اور لوگوں میں میری سبکی ہو.اس پر میں نے اسے ڈانٹا اور کہا تو جانتا نہیں مجھے اللہ تعالیٰ نے عبد القادر بنایا ہے اور کہا کوئی ہے؟ اس پر معلوم ہوا کہ ہجوم میں بھی بعض اس کے ساتھی ہیں جو حملہ آوار ہونا چاہتے ہیں لیکن جب میں نے کہا کہ کوئی ہے تو دو نوجوان لڑکے جن کے ابھی داڑھی نہیں اگی تھی آگے بڑھے میں سمجھتا ہوں یہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہیں؟ انہوں نے ہاتھ کے اشارہ سے کہا.ہٹ جاؤ.اور ایسا معلوم ہوا گویا سب کو گرفتار کر کے ایک طرف کھڑا کر دیا گیا ہے.مجھے خیال ہوا کہ کہیں یہ غیر احمدی یہ نہ سمجھیں کہ میں نے اس شخص کو یونہی ڈانٹا
۲۱۹ ہے.اس پر میں انہیں کہتا ہوں اس نے پہلے بھی دو بار ایسا کیا مگر میں نے حُسن ظنی سے کام لیا اور تیسری دفعہ معلوم کیا کہ اس کا منشاء یہ ہے کہ مجھے نگا کرنا چاہتا ہے مگر یہ نہیں جانتا کہ میں کون ہوں.تب اسی وقت رویا میں ہی میرے دل میں ڈالا گیا کہ عبد القادر سے مراد یہ ہے کہ بندہ ایک ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اس کے سب کام اللہ تعالیٰ کے لئے ہو جاتے ہیں اور کوئی خواہ کتنا طاقتور کیوں نہ ہو اس پر حملہ نہیں کر سکتا.حملہ ہمیشہ کمزوریوں کی وجہ سے ہوتا ہے مگر جس کا کھانا پینا پہننا بھی عبادت ہو جائے اس پر حملہ کرنا خدا پر حملہ کرنا ہوتا ہے.تو بہت سے دوست ہیں جو لکھتے رہتے ہیں یوں حفاظت ہونی چاہئے یوں پہرے ہونے چاہئیں اور ہم انتظام کرتے بھی ہیں مگر صرف خدا تعالیٰ کا حکم پورا کرنے کے لئے وگرنہ اگر ہماری حفاظت کا حصر سامانوں پر ہو تا تو اللہ تعالٰی ہمیں کثرت کے ساتھ سامان بھی عطا کر تا لیکن جب سامانوں کے لحاظ سے ہماری یہ حالت ہے کہ عید کے دن بھی ہماری جماعت میں سینکڑوں ایسے لوگ ہیں جنہیں پیٹ بھر کر کھانا نہیں ملا ہو گا اور اس لحاظ سے عید کے دن بھی ان کا روزہ ہی ہے تو اس کے معنی یہی ہیں کہ وہ سامانوں سے کام لینے کا حکم دینے کے باوجود بغیر سامانوں کے ہماری حفاظت کرنا چاہتا ہے.اور اس کا منشاء یہی ہے کہ اس کے فرشتے خود ہمارا کام کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جہاں عبد القادر قرار دیا گیا ہے.۲۵ وہاں یہ بھی کہا گیا ہے کہ يَنْصُرُكَ رِجَالٌ نُّوْحِي إِلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ ، یعنی تیری مدد کے لئے ہم لوگوں کو اٹھا ئیں گے اور بذریعہ وحی انہیں تحریک کریں گے اور یہی معنی عبد القادر کے ہیں جو چیز بھی آپ کے پاس آئی وہ گویا خدا تعالیٰ کی طرف سے پیش کی جاتی تھی کیونکہ خدا ہی اس کے لئے لوگوں کو تحریک کرتا اور وحی کے ماتحت آتی تھی.تو جو بات سید عبد القادر کو کبھی کبھی میسر آتی تھی وہ حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام کو ہر روز حاصل تھی اور ہر تحفہ میں خواہ وہ کسی نوعیت کا ہو تا موجود ہوتی تھی.کیونکہ يَنْصُرُک کے معنی یہ ہیں کہ جتنے تیری مدد کرنے والے ہوں گے ہم انہیں وحی کریں گے اسی کیفیت کا نقشہ عید ہے.اللہ تعالٰی نہیں چاہتا کہ اس کا کوئی بندہ کسی نعمت سے محروم رہے اس لئے وہی چیز جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ساری عمر حاصل رہی جو سید عبد القادر رحمہ اللہ علیہ کو کبھی کبھی حاصل ہوتی تھی وہ سال میں ایک دفعہ ہر مومن کو مل جاتی ہے اور آج کے دن ادنی مومن بھی سید عبد القادر اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کا اس بات میں مثیل ہو جاتا ہے البتہ اتنا ہی فرق ہے کہ جتنا شاہی دعوت میں خاص اور
۲۲۰ عام آدمیوں کے متعلق ہو جاتا ہے کہ جب بادشاہ کی طرف سے دعوت ہوتی ہے تو بعض کو گھر پر بلا کر کھلایا جاتا ہے اور بعض کے ہاں کھانا بھیج دیا جاتا ہے.حضرت سید عبد القادر اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو تو گھر بلا کر کھلایا گیا اور کچھ عام طور پر تقسیم کر دیا گیا جو آج ہر احمدی کے گھر میں پکا ہے.پس عید کا مقام یہ ہے کہ کھانا پینا بھی اللہ تعالیٰ کے لئے ہو جائے اور یہی اصل عید ہے اسے حاصل کرو مگر یہ حاصل ہوتی روزوں سے ہے گویا تکلیف پانے سے ملتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر جب گورداسپور میں مقدمہ دائر تھا اس وقت روپیہ کی تنگی تھی ۲۷ اخراجات بڑھ گئے تھے اس وقت اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے ماتحت بعض لوگوں کو تحریک کی گئی اور جنہیں تحریک کی گئی ان میں سے ایک ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب ۲۸ بھی تھے اس موقع پر ان کے گھر میں جو کچھ تھا انہوں نے جمع کر کے سب بھیجوا دیا اور لکھ دیا کہ آئندہ بھی جو آمدنی ہوگی وہ بھیجتا رہوں گا.چنانچہ تنخواہ اور پریکٹس سے جو کچھ انہیں ملتا اسے بھیج دیتے.ایک دوست نے جو ان دنوں ان کے مہمان تھے سنایا کہ میں نے کہا :.سب کچھ وہاں بھیج دیتے ہیں اپنے لئے کیوں کچھ نہیں رکھتے.انہوں نے جواب دیا کہ ہاں اب وقت ایسا ہی ہے.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کو ایک چٹھی لکھی جو میں نے خود پڑھی ہے اس میں آپ نے لکھا آپ نے قربانی کی حد کر دی آب آپ کو چندہ دینے کی ضرورت نہیں.۲۹، حالانکہ آپ نے فرمایا ہے جو تین ماہ چندہ نہ دے وہ جماعت میں نہیں رہا سکتا.۳۰ یہ چٹھی اب بھی شاید خلیفہ صاحب مرحوم کے گھر میں ہو.وہ اس کے بعد بھی چندہ دیتے تھے اور انہیں دینا چاہئے تھا کیونکہ پہلے وہ فرض ادا کرتے تھے اور بعد میں شکریہ کے طور پر دیتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالی کی وحی کے ماتحت جو کتاب لکھی.اس میں ہمیں وصیت سے مستثنیٰ کیا ہے.۳۱ میرے دل میں ہمیشہ ایک خلش سی رہتی تھی کہ ہمیں قربانی کے ایک موقع سے محروم کر دیا گیا مگر پھر خیال آیا کہ رسول کریم ملی ام اس قدر عبادت کرتے تھے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں ، آپ کے پاؤں متورم ہو جاتے.یہ دیکھ کر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا : جب اللہ تعالیٰ نے آپ کے سب گناہ معاف کر دیئے تو آپ اس قدر تکلیف کیوں اٹھاتے ہیں.آپ نے فرمایا اَفَلَا أَكُونَ عَبْدًا شَكُورًا - ۳۲، یعنی کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں.ایسے مقام پر پہنچ کر فرضا اور وجوباً نہیں تو شکریہ کے طور پر عمل ہونا چاہئے.چنانچہ اس کے بعد میں نے ایسا طریق اختیار کیا کہ میرا
٢٢١ چندہ موصیوں کے چندوں سے زیادہ ہی ہو.پھر مجھے یاد آیا میرا ایک الہام بھی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے تھوڑے دنوں بعد مجھے الہام ہوا اِعْمَلُوالَ دَاوُدَ شُكْرًا - ۳۳ ، یعنی اللہ تعالیٰ بعض لوگوں سے مشقت اٹھا دیتا ہے مگر ان کا فرض ہوتا ہے کہ شکریہ کے طور پر پھر بھی عمل کریں.شاید یہ الہام میرے اسی وہم کے ازالہ کے لئے ہو.تو رمضان کے مقام پر عمل کر کے عید کا مقام آنا چاہئے اس کے بعد شکر کا مقام آتا ہے.پس یہ وہ سبق ہے جو ہمیں عید دیتی ہے.اسے یاد رکھنا چاہئے.عید کچھ حاصل ہو جانے کا نام ہے پس کوشش کرو کہ خدا مل جائے.ابتدائی حالت سے مایوس مت ہو کیونکہ عید مایوسی سے بھی بچاتی ہے.دیکھو آج جن کے گھروں میں میت پڑی ہوگی عید ان کے لئے بھی آئی ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ عید سب کے لئے مقدر ہے.یہ مت سمجھو کہ حقیقی عید حاصل نہ ہو گی.مانگو تمہیں دیا جائے گا، کھٹکھٹاؤ تمہارے لئے کھولا جائے گا.۳۴، پس مایوسی چھوڑ کر کوشش کرو کہ عید ملے یعنی خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہو.یہ وہ چیز ہے جس کے لئے بندے کو پیدا کیا.جس دن یہ مل گئی خواہ تھوڑی ہی ہو اسی دن سمجھ لو دروازہ کھل گیا اور تعلقات قائم ہو گئے.پھر تم ہی انہیں تو ڑو تو تو رو خدا تعالیٰ نہیں توڑے گا.اس نے فرما دیا ہے.اِنَّ اللهَ لَا يُغَيِّرُ مَا حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ - ۳۵ ، یعنی ہم تعلقات نہیں تو ڑا کرتے تم بے شک تو ڑو تو تو رو اور اگر خود توڑو گے تو تمہارا قصور ہو گا.تمہارے لئے وسیع اور غیر محدود انعامات کا دروازہ کھلا ہے اگر چاہو تو آسانی سے حاصل کر سکتے ہو صرف دل کی صفائی کی ضرورت ہے.پس جلن اور سوزش پیدا کرو پھر پانچوں انگلیاں گھی میں ہوں گی کیونکہ اس وقت اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہونا شروع ہو جاتا ہے.خطبہ ثانی میں فرمایا.میں اب دعا کروں گا اللہ تعالٰی جماعت کے لئے حقیقی عید لائے.آپ بھی دعا کریں اور بیرونی جماعتوں کو بھی شامل کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ایسی برکات دی ہیں کہ بیعت کرتے ہی خدا تعالیٰ سے تعلق کا دروازہ کھل جاتا ہے پھر اپنی غفلت سے کوئی محروم ہو جائے تو علیحدہ بات ہے وگرنہ کوئی سچا احمدی ایسا نہیں جس کی زندگی میں کوئی نہ کوئی ایسی گھڑی نہ آئی ہو کہ اسے خدا تعالیٰ نہ ملا ہو.یہ خزانہ تو ہر ایک کو مل جاتا ہے آگے اسے بڑھانا یا گھٹانا یا ضائع ہی کر دینا اپنے اختیار میں ہے.میں یہ نہیں مان سکتا کہ کسی احمدی کو خدا ملتا ہی نہیں اگر تم کہو کہ اس وقت سورج نہیں چڑھا ہوا تو میں اسے مان سکتا ہوں اور 15
.تمہارے قول کے مقابلہ میں اپنے حواس کو غلطی پر تسلیم کر سکتا ہوں لیکن اس بات کو ایک لمحہ کے لئے بھی نہیں مان سکتا کہ کوئی شخص سچے دل سے حضرت مسیح موعود پر ایمان لایا اور اسے خدا نہیں ملا.میں تمہارے قول کو اپنے حواس پر ترجیح دے سکتا ہوں مگر خدا کے قول پر ترجیح نہیں دے سکتا.اور خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ جو سچا ایمان لائے اسے میں ضرور مل جاتا ہوں ۳۶ ایک نہ ایک ساعت کے لئے اللہ تعالیٰ اسے ضرور مل جاتا ہے پھر انسان تعلق چھوڑتا ہے تو اس کا اپنا قصور ہے.پس تمہیں خدا مل چکا کوشش کرو کہ اب ہاتھ سے نہ جائے کھویا نہ الجائے بلکہ زیادہ ملے پس دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ کا جلال زیادہ سے زیادہ تمہارے دلوں پر نازل ہو تمہارے دلوں میں اس کی محبت زیادہ سے زیادہ قائم ہو اور اس کا نور آگے سے بڑھ کر تم پر جلوہ فگن ہو.تمہارے آگے پیچھے، دائیں بائیں اوپر نیچے ہر طرف اس کا نور ہی نور ہو وہ نور تمہارے دلوں میں داخل ہو جائے اور تم نور ہی نور بن جاؤ.بندہ کیا ہے وہ کوئی مستقل چیز نہیں اگر اسے ایک علیحدہ مستقل چیز مانا جائے تو یہ شرک ہو گا انسان محض تمثل ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں اور جب وہ کوئی مستقل چیز نہیں بلکہ محض تمثل ہے.۷ سلے تو اس کے سرا سر نور بن جانے میں کیا روک ہو سکتی ہے.آرید اسی لئے گمراہ ہو گئے کہ انہوں نے بندہ کو ایک مستقل چیز قرار دے لیا اور پھر یہ سوال ان کے دلوں میں پیدا ہونے لگے کہ اگر انسان مادہ کے ذرات کا مجموعہ ہے تو نور نہیں ہو سکتا اور اگر نور ہے تو ذرات کا مجموعہ نہیں ہو سکتا.۳۸ یہ مت سمجھو کہ ترقیات کے دروازے محدود ہیں وہ غیر محدود ہیں.ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص نامکمل بینائی کی وجہ سے ٹھو کر کھا جائے.مگر جوں جوں بینائی اور معرفت زیادہ ہو گی اسے معلوم ہو جائے گا کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں غلط نہیں ہے.ناممکن کوئی چیز نہیں سب کچھ ممکن ہے جو خدا نے ممکن بنایا ہے.ہر نیکی کی کے جڑھ محبت ہے.جب تم اس رستہ پر چل پڑو گے تو سب کمزوریاں دور ہو جائیں گی اس وقت تمہاری مثال اس کپڑے کی سی ہو گی جو دھوبی کے ہاتھ میں چلا جائے.کپڑے پر دھبہ کی فکر اسی وقت تک ہمیں ہو سکتی ہے جب تک وہ ہمارے گھر میں ہو مگر جب دھوبی اسے صابن لگا کر پتھر پر مارنا شروع کر دے تو دھبہ قائم نہیں رہ سکتا.اصل چیز خدا تعالیٰ کی محبت ہے جب وہ پیدا ہو جائے تو سمجھ لو کہ میلا کپڑا دھوبی کے ہاتھ چلا گیا وہ ضرور صاف ہو گا اس لئے محبت الہی حاصل کرنے کی فکر کرو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک شعر میں جس کا ایک مصرعہ الہامی ہے فرماتے ہیں.
۲۲۳ ہر اک نیکی کی جڑھ یہ اتقا ہے ۳۹ اگر یہ جڑھ رہی سب کچھ رہا ہے 9س اتقا کیا ہے یہ خدا کی محبت کا نام ہے اور اتقا کے معنی ہیں خدا تعالیٰ کو پناہ بنا لینا اور وہ پناہ اسی کی ہو سکتی ہے جس کے دل میں اس کی محبت ہو.پس دعا ئیں کرو کہ ہمارے دلوں میں اللہ تعالٰی کی محبت پیدا ہو اور ساری جماعت کے لئے دعائیں کرو ہماری جماعت تمدن کا نیا ظہور ہے.خدا تعالٰی نے دنیا کی ترقیات کے مسلسل دور رکھے ہیں اور مسیح موعود کا زمانہ تمدنی ترقیات کا دور ہے.میں اس وقت اس وسیع مضمون کو چھیڑنا نہیں چاہتا.صرف یہی کہتا ہوں کہ یہ تعاون کا زمانہ ہے.پس دعاؤں سے ایک دوسرے کی مدد کرو.ہمارا کام بہت بڑا ہے مگر دعا ایک ایسا جادو اور منتر ہے کہ جس سے یہ بالکل آسان اور معمولی ہو جاتا ہے.اِنَّ اللهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَ قَلبه - ۲۰ کے بھی یہی معنی ہیں.اللہ تعالیٰ کافروں کو ڈراتا ہے کہ تمہارے دل ایسے سیاہ کروں گا کہ تو بہ بھی نصیب نہ ہو گی اور مومن کو جرأت ولا تا ہے کہ تبلیغ سے نہیں گھبرانا چاہئے کیونکہ دل میرے ہاتھ میں ہیں.اب میں دعا کرتا ہوں آپ بھی دعا کریں اسلام کے غلبہ اور سلسلہ کی ترقی کے لئے بھی دعا کریں اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی سچی محبت اور عشق عطا کر.مقوی اعصاب الفضل ۵ فروری ۱۹۳۳ء) خطبہ جمعۃ الوداع فرموده ۲۷ جنوری ۱۹۳۳ء شائع شدہ الفضل مؤرخہ ۲.فروری ۶۱۹۳۳ صحیح بخاری کتاب الصوم باب هل يقول اني صائم اذاشتم صحیح مسلم كتاب الجهاد والسير باب كراهية الطروق وهوالد خول ليلا لمن ورد من سفر - تذکرہ اولیائے کرام ادبستان لاہور صفحہ ۹۷ تا ۹۹ تذکره مطبوعه الشركته الاسلامیہ صفحہ ۴۱۵٬۴۰۷ که تذکره مطبوعه الشركته الاسلامیه ۴۷۴۴۴۱۵ ☑ الكهف : الشعراء: ۴
حقیقۃ الوحی صفحه ۱۴ تا ۱۸ ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحه ۶۲۶۱ النور : ٣٦ لله حقیقة الوحی صفحه ۱۴۹ النور : ٦٣ ۱۳ صحیح بخاری کتاب الصيام باب الوصال صحیح بخاری کتاب الصيام باب التنكيل لمن أكثر الوصال الاعراف: ۱۴۳ ها الاعراف: ۱۴۴ له تاریخ طبری جلد ۲ صفحه ۴۳۵ المزمل :١٢ 19 تذکره صفحه ۳۷۰ مطبوعه الشرکتہ الاسلامیہ.ربوہ - ۱۹۵۶ء ۲۰ سفينة الاولیاء مصنفہ دارا شکوہ صفحہ ۷۴ ال البقرة : ١٨٦ المائدة : ۲۵ ۲۲ ڈاکٹر عبدالحکیم پٹڑی ۱۹۱۹ء میں خود سل کے مرض سے ہلاک ہوا.۲۳ تذکره صفحه ۷۸۷ ۲۴ تاریخ احمدیت جلد ۲ صفحه ۳۳۲ ۲۵ تذکر صفحه ۳۷۰ مطبوعہ الشركة الاسلامیہ - ربوه - ۱۹۵۶ء تذکره صفحه ۶۲۴٬۲۴۲ ۲۷ مولوی کرم دین آف بھین کی طرف سے حضور علیہ السلام کے خلاف دوسرے فوجداری مقدمه (۲۸ جنوری ۱۹۰۳ء) کی طرف اشارہ ہے.۷.جنوری ۱۹۰۵ء کو حضور اس مقدمہ میں بری قرار دیئے گئے.(الحکم ۲۴.جنوری ۱۹۰۵ء حقیقۃ الوحی صفحہ (۱۲۲ ۱۲۱ ۲۸ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے خسر تھے.۱۸۶۶ء.۱۹۲۶ء بیعت ۱۹۸۲ء ۲۹ ۳۰ تبلیغ رسالت جلد دهم صفحه ۴۹-۵۰ ا خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد کو وصیت کی شرط سے مستثنیٰ قرار دیا
۲۲۵ ہے (الوصیت صفحہ ۱۸) ۳۲ صحیح بخاری کتاب التهجد باب قيام النبي صلى الله عليه وسلم ترم قدماه ۳۳، خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو داؤد قرار دیا ہے یا داؤد عامل بالناس رفقا و حسنا ( تذکره صفحه ۱۰۹ - ۱۲۰) ٢٤ البقرة : ۱۸۷ ۳۵ الرعد : ۱۲ البقرة : ۲۵۸ ۳۸٬۳۷، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے توضیع مرام صفحہ ۸۶-۸۷-۸۸ میں اس موضوع پر تفصیل سے بحث فرمائی ہے.مختصراً آپ فرماتے ہیں کہ تمام مخلوقات اللہ تعالیٰ کے کلمات ہیں.یہاں تمثل سے مراد ہے کہ خدا کی صفت خلق گویا وجو د پکڑ گئی ہے.یعنی مادہ.ذات باری کی ایک صفت.جو لازماً نور ہے کی ایک شکل ہے.لہذا ترقی کر کے اس کے نوری شکل اختیار کرنے میں کوئی استبعاد عقلی نہیں.آریہ مادہ کو علیحدہ اور مستقل چیز قرار دیتے ہیں اور اسے مخلوق یا صفت خلق سے وجود یافتہ نہیں مانتے اس لئے مادے کا نور بن جانا ان کے نزدیک ممکن نہیں ہو سکتا.کیونکہ یہ دو علیحدہ اور مستقل چیزیں ہیں.۳۹.در همین صفحه ۳۱ تذکره ۴۲۲ ٢٠ الانفال: ۲۵
(۲۳) فرموده ۱۷ جنوری ۱۹۳۴ء بمقام عید گاہ.قادیان) اسلامی تعلیم اور دوسرے مذاہب کی تعلیم میں ایک مَا بِهِ الْاِمْتِيَازُ نظر آتا ہے وہ میانہ روی ہے وگرنہ سب مذاہب کی تعلیموں میں ایک حد تک اشتراک پایا جاتا ہے.اسلام اگر نماز کا حکم دیتا ہے تو ہر مذہب میں کسی نہ کسی رنگ میں خدا کی عبادت کی جاتی ہے ، اسلام اگر روزہ کا حکم دیتا ہے تو دنیا کا کوئی مذہب ایسا نہیں جس میں روزہ کی کوئی نہ کوئی شکل نہ رکھی گئی ہو ، اسلام میں اگر حج ہے تو ہر قوم اور ہر مذہب میں کوئی نہ کوئی مقدس مقام ہے جہاں جانانہ ہی فرض سمجھا جاتا ہے ، اگر اسلام نے زکوۃ کی تعلیم دی ہے تو ہر مذہب میں صدقہ و خیرات کی تعلیم پائی جاتی ہے اور ہندو عیسائی زرتشتی سب مذاہب میں ایسی تعلیم موجود ہے.پس اجمالی رنگ میں اگر دیکھا جائے تو اسلامی تعلیم اور دوسرے مذاہب میں کوئی فرق نہیں اس لئے وہ لوگ جنہوں نے تفصیلات اور ان کی اہمیت پر غور نہیں کیا ہو تا کہہ دیتے ہیں کہ سب مذاہب ایک ہی ہیں اور کوئی فرق ان میں نہیں.وہ دیکھتے ہیں کہ سب نے خدا کی یاد اس کی فرمانبرداری اور نیکی و تقویٰ کا حکم دیا ہے.سب نے نماز، روزہ، حج، زکوة کی تلقین کی ہے پھر کیوں کسی کو نا قابل عمل کہیں اور کسی کو قابل عمل کسی کو جھوٹا کہیں اور کسی کو سچا، کسی کو ناقص ٹھہرائیں اور کسی کو کامل مگر سب نے گو اجمالی تعلیم یکساں دی ہے لیکن تفصیلات میں اتنا فرق ہے جتنا زمین و آسمان میں.اس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ جیسے کپڑا ہے وہ بھی کپڑے ہی ہیں جو یورپ کی عورتیں پہنتی ہیں جن کا نام اگر چہ کپڑا ہوتا ہے مگر جسم کا ہر حصہ اس میں سے نگا نظر آتا ہے.جب میں ولایت گیا لہ تو مجھے خصوصیت سے خیال تھا کہ یورپین سوسائٹی کا عیب والا حصہ بھی دیکھوں مگر قیام انگلستان کے دوران میں مجھے اس کا موقع نہ ملا.واپسی پر جب ہم فرانس آئے تو میں نے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے سے جو میرے ساتھ تھے کہا کہ مجھے کوئی ایسی جگہ دکھائیں جہاں یورپین سوسائٹی عریانی سے نظر آسکے.وہ بھی فرانس سے واقف تو نہ تھے مگر مجھے ایک اوپیرا میں لے گئے جس کا نام مجھے یاد نہیں رہا.اوپیرا Opper a) سینما کو کہتے
۲۲۷ ہیں چوہدری صاحب نے بتایا کہ یہ اعلیٰ سوسائٹی کی جگہ ہے جسے دیکھ کر آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان لوگوں کی کیا حالت ہے.میری نظر چونکہ کمزور ہے اس لئے دُور کی چیز اچھی طرح انہیں دیکھ سکتا.تھوڑی دیر کے بعد میں نے جو دیکھا تو ایسا معلوم ہوا کہ سینکڑوں عورتیں بیٹھی ہیں.میں نے چوہدری صاحب سے کہا کیا یہ ننگی ہیں؟ انہوں نے بتایا یہ تنگی نہیں بلکہ کپڑے پہنے ہوئے ہیں مگر باوجود اس کے وہ جنگی معلوم ہوتی تھیں.تو یہ بھی ایک لباس ہے اسی طرح ان لوگوں کے شام کی دعوتوں کے گاؤن ہوتے ہیں نام تو اس کا بھی لباس ہے مگر اس میں سے جسم کا ہر حصہ بالکل ننگا نظر آتا ہے.پھر وہ ایک لباس ہے جو ہندوستانی عورتیں پہنتی ہیں اور جو ایسے موٹے کپڑے کا ہوتا ہے کہ اگر اس میں سے سیال چیز چھائی جائے تو شاید نہ نکل سکے ایک تو ایسا موٹا کپڑا ہے اور دوسرا اتنا باریک کہ نظر کے لئے بھی روک نہیں بن سکتا مگر نام دونوں کا لباس ہے.ای طرح صرف نماز روزہ کہہ دینا کافی نہیں.دیکھنا یہ ہے کہ ان کا مفہوم کیا ہے اور تفاصیل کیا ہیں.مثلاً نماز کو ہی لے لو.ایک طرف یہ نماز ہے جس میں اس حد تک غلو کیا جاتا ہے کہ سورج نکلا تو اس کی پرستش کے لئے اس کی طرف دیکھنا شروع کیا اور شام تک دیکھتے ہی رہے ، ۳، یا گرمیوں میں ارد گرد الاؤ جلا کر بیٹھے رہے، سردیوں میں ٹھنڈے پانی میں کھڑے رہے ، ۲۴ گھنٹے اُلٹے ہی لٹکے رہے.پھر ایک یہ نماز ہے کہ ساتویں دن گر جا میں جمع ہوئے ، کچھ شعر پڑھے گانا سنا، با جا بجایا کچھ وعظ بھی سن لیا اور گھر آگئے.وعظ کے متعلق تو عام شکایت کی جاتی ہے کہ اس میں لوگ سوئے رہتے ہیں صرف اُسی وقت تک جاگتے ہیں جب تک یا بجا بجتا رہے یا گیت گائے جاتے ہوں.وعظ کے وقت سو جاتے ہیں پھر اس میں بھی یہ تفریق ہے کہ امیر غریب الگ الگ بیٹھتے ہیں.جس طرح تھیٹروں میں ٹکٹ ہوتے ہیں اور سیٹیں ریزرو ہوتی ہیں اسی طرح گرجوں میں بھی بڑے آدمیوں کے لئے کوچ ریز رد ہوتے ہیں.اگر کوئی غریب آدمی اس پر جا بیٹھے تو پادری صاحب فورا اٹھا دیتے ہیں.پھر ایک عبادت آریوں نے نکالی ہے وہ بھی ساتویں دن مندر میں جمع ہو کر گا لیتے اور چھینے وغیرہ بجا لیتے ہیں مگر یہ عبادت ایسی ہی ہے جیسے میرے ایک عزیز سنایا کرتے ہیں کہ زمانہ طالب علمی میں میرے ایک دوست تھے جو میرے ساتھ رہا کرتے تھے.ایک دن میں نے دیکھا کہ وہ سخت مغموم ہیں گویا کوئی بہت بڑا صدمہ پہنچا ہے.میں نے وجہ دریافت کی تو کہنے لگے مجھ سے بہت غفلت ہو گئی ہے امتحان سر پر ہے اور میں
۲۲۸ نے آج سبق یاد نہیں کیا یو نہی وقت ضائع کر دیا.اس کے لئے میں نے اپنے آپ کو سزا دی ہے.جس کا مجھے افسوس ہے انہوں نے پوچھا کیا سزا دی ہے.کہنے لگے میں نے اپنے پر دو آنہ جرمانہ کیا ہے.انہوں نے کہا کیا آپ نے کسی غریب کو دو آنے دے دیئے.کہنے لگے نہیں اگر ایسا کر سکتا تو خوشی نہ ہوتی.میں نے دو آنہ کی مٹھائی لے کر کھائی ہے تو جیسا یہ جرمانہ ہے ویسی ہی یہ عبادت ہے اگر یہ عبادت ہے تو سب سے زیادہ عابد تھیٹروں والے ہیں جو ہر روز گاتے بجاتے رہتے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ عابد کنچنیاں ہیں جنہیں آٹھ آنے دے کر جس کا جی چاہے گانا سن لے.غرض ایک طرف تو یہ عبادت ہے اور دوسری طرف بالکل انسانیت سے خارج کر دینے والی عبادت ہے یعنی اُلٹے لٹکے رہنا یا بعض لوگ ایسی چارپائی پر سوتے ہیں جس میں کیل ہی کیل لگے ہوتے ہیں.ساری رات وہ بدن میں مجھتے رہتے ہیں ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں نیند کیا خاک آئے گی اور یہ عبادت ہو رہی ہوتی ہے.پھر روزہ ہے ایک طرف تو ایسے لوگ ہیں جو چھ چھ ماہ روزے رکھتے ہیں اور کچھ وہ ہیں جنہوں نے روزہ کی یہ صورت سمجھ رکھی ہے کہ آگ پر پکی ہوئی چیز نہیں کھائیں گے.یوں دن بھر دو در جن کیلئے سیر بھر مونگ پھلی دو چار سیر دودھ اور دیگر مٹھائیاں اور پھل وغیرہ کھا جائیں گے اور پھر بھی یہی کہیں گے کہ ہم نے روزہ رکھا تھا.ہے گاندھی جی کی خوراک کے متعلق ایک اخبار نے لطیفہ شائع کیا تھا کہ وہ اتنی نارنگیاں اتنی مونگ پھلی، اتنا دودھ روزانہ پیتے ہیں جو عام آدمیوں کی خوراک سے بہت زیادہ ہے اور پھر کہا جاتا ہے کہ وہ کھانا بالکل نہیں کھاتے.حالانکہ ان کی خوراک ہماری خوراک سے دو تین گنا ہو جاتی ہے.پھر صدقہ زکوٰۃ ہے اس کے متعلق بھی یہی حال ہے بعض لوگ کسی قومی تحریک میں کوئی رقم دے دیتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ اس فرض سے سبکدوش ہو گئے.اس کے عوض میں وہ خان بہادر یا سر بھی ہو جاتے ہیں اور اس طرح اس کی قیمت بھی مل جاتی ہے.دوسری طرف انجیل میں آتا ہے کہ جب تک تو سارا مال خدا کی راہ میں نہیں لٹا دیتا اس وقت تک خدا کی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتا.وہ ایک نے تو صدقہ کو سودے کی چیز بنا رکھا ہے اور دوسرے نے یہ تعلیم دی ہے کہ اپنا سب کچھ لٹا دو.اگر تمہارے گھر میں مال ہے تو تم نجات نہیں پاسکتے.غرض کہ سب جگہ افراط تفریط ہے سوائے اسلام کے.اسلام ہر روز پانچ نمازیں ادا کرنے کا حکم دیتا ہے کہ مگر الٹے لٹکے رہنے یا ایسی عبادتوں کو جو جسم کو کچل ڈالتی ہیں
۲۲۹ حرام کرتا ہے.اسی طرح روزہ کے متعلق وہ چھ ماہ کا حکم نہیں دیتا بلکہ صرف ایک ماہ کے روزے مقرر کرتا ہے.اور اس میں بھی یہ ہدایت ہے کہ بغیر سحری کھائے روزہ رکھنا ناپسندیدہ ہے اور افطاری بھی جلدی کرنے کی تاکید کرتا ہے.3 پھر کھانے پینے کے متعلق حکم ہے کہ كُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا - 1 یعنی کھاؤ پیو مگر ایک حد کے اندر.اسراف نہ کرو.یہ نہیں کہ کھانے لگے تو کھاتے ہی گئے اور پینا شروع کیا تو پیتے ہی گئے بلکہ ایک حد تک کھاؤ پیو.اسی طرح خوشی غمی کے متعلق بھی حد بندی کر دی.دوسری اقوام کی عید میں عید میں نہیں بلکہ بدمستیاں ہوتی ہیں اور غمی غمی نہیں بلکہ مایوسی ہوتی ہے مگر اسلام نے اس معاملہ میں بھی حد بندی کر دی.غم کے وقت انسان رونے لگتا ہے تو اسلام کہتا ہے صبر کرو.اللہ اور خوشی میں بننے لگتا ہے تو کہتا ہے زیادہ مت ہنسو.گاہ گویا اس نے ہمیں ایسے مقام پر کھڑا کر دیا ہے کہ اگر انسان ہر وقت سوچ سوچ کر قدم نہ رکھے تو ہلاکت کے گڑھے میں گرنے کا خطرہ ہے.کیا عجیب بات ہے کہ اسلام نہ تو ہمیں ہننے دیتا ہے اور نہ رونے ، دونوں سے روکتا ہے.میں ابھی گھر سے عید کیلئے آیا تھا تو خیال آیا کہ اسلام کہتا ہے کہ جاؤ عید کرو لیکن جب ہم خوشی منانے لگتے ہیں تو کہتا ہے اس طرح نہیں.پھر کہتا ہے جاؤ غریب انسانوں سے ہمدردی کرو لیکن جب ہم رونے لگتے ہیں تو کہتا ہے اس طرح نہیں.اس پر مجھے ایک شاعر کی رباعی یاد آگئی ہے جو اگر چہ کی تو اس نے اپنے عشق کا اظہار کرنے لئے ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اس میں اسلامی تعلیم کو بیان کیا ہے.وہ کہتا ہے:.کسی کی شب ہجر روتے کئے ہے ہے کسی کی شب وصل سوتے کئے ہماری یہ شب کیسی شب ہے الہی نہ روتے کئے ہے نہ سوتے کئے ہے ہمارا مذ ہب نہ ہمیں رونے دیتا ہے اور نہ ہننے.وہ کہتا ہے کہ عید کرو ، غم کرو مگر دونوں حد کے اندر.غم کے وقت تمہارے اندر مایوسی نہ ہونی چاہئے اگر چہ تمہارے سامنے مصائب کا پہاڑ ہو.تمہیں یہ سوچنا چاہئے کہ ہمارے سر پر ایک خدا ہے جو سب مشکلات کو دور کر سکتا ہے.پھر عید کرو تو اس میں بھی انتہاء نہ کرو اور یہ خیال کرو کہ تمہارے اوپر ایک خدا ہے جو تمہاری ساری نعمتیں چھین سکتا ہے.وہ غم کیا جس نے انسان پر مایوسی طاری کر دی وہ تو موت
۲۳۰ ہے.اور وہ خوشی کیا جو امیدوں کو آرزؤں سے بدل دے.حقیقی غم وہی ہے جو آئندہ کی امید دلاتا ہے اور حقیقی خوشی وہی ہے جو آئندہ کے خطرات سے آگاہ کرتی ہے.اس کے بغیر نہ غم غم ہے اور نہ خوشی خوشی.چاہئے کہ جب انسان غم میں ہو تو ساتھ ہنستا بھی ہو اور عید میں ہو تو ساتھ غم بھی ہو گویا بعینہ وہی حالت ہو کہ ہماری بھی شب کیسی شب ہے الہی نہ روتے کئے ہے نہ سوتے کئے ہے یہی وہ مقام ہے جو انسان کو خدا تعالیٰ کے قریب کر دیتا ہے جو شخص غم میں مایوس ہو جاتا ہے وہ جہنمی ہے اور خدا سے اس کا کوئی تعلق نہیں.کتنا ہی دکھ اور کتنی ہی مصیبت ہو ہمت قائم رہنی چاہئے اور امیدیں انسان کے دل میں مضبوطی سے قائم ہونی چاہئیں.وہ مصائب کا پہاڑ سامنے دیکھے مگر کے میرا خدا انہیں دور کر سکتا ہے.غم و ہموم کے بادل اس کے سر پر منڈلا رہے ہوں مگر وہ یقین رکھے کہ خدا ہے جو انہیں پھاڑ سکتا ہے.پھر خواہ دنیا کی ساری عیدیں اس کے لئے جمع ہوں مگر وہ کے بے شک مجھے خوشی ہے مگر میرے سامنے ایک ایسی منزل ہے کہ ایک قدم آگے اٹھانے پر میں ایسی ٹھوکر کھاؤں کہ گر جاؤں.مجھ پر ساری دنیا کی ذمہ داری ہے اور جب ) تک ایک بھی ایسا انسان ہے جسے خوشی میسر نہیں اس وقت تک میری عید نہیں ہو سکتی.إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ - ۱۴ میں ہی سکھایا گیا ہے کہ رنج و راحت میں بنی نوع انسان شریک ہیں اس لئے جس وقت عید ہو چاہئے کہ انسان سوچے کئی گھر آج ایسے ہوں گے جن میں ماتم ہو رہا ہو گا اور اس خیال کے آتے ہی اس کی خوشی حد سے آگے نہیں جا سکے گی.گویا عید کی کیفیت یہ ہو کہ جیسے کسی کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا اور ایک موت واقع ہو گئی ہو بچہ کی پیدائش گھر والوں کے لئے خوشی اور موت غم کا موجب ہو گی.عید کے موقع پر انسان خیال کرے کہ کئی ایسے بھی میرے بھائی ہیں جو غم میں مبتلاء ہیں اور اگر غم پہنچے تو یہ خیال کرے کہ میرے کئی بھائی ہیں جنہیں آج خوشی نصیب ہو گی.یہی وہ مقام ہے جو حقیقی غمگساری کا مقام ہے اسے حاصل کرو.اس کے بغیر خدا کا قرب اور حقیقی راحت حاصل نہیں ہو سکتی.ہماری خوشی تب مکمل ہو گی جب دوسرے اس میں شامل ہوں اور جب دوسروں کے رنج میں ہم شریک ہوں.اس سے یہ نکتہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں اپنی خوشیوں میں دوسروں کو شریک کرنا چاہئے اور دوسروں کے رنج میں خود شریک ہونا چاہئے.اسی وجہ سے مجھے خیال آیا کہ جب عید
۲۳۱ آتی ہے تو چاہئے کہ اسے سب بھائیوں کے ساتھ مل کر منایا جائے.اس عید پر لوگ سیویاں تقسیم کرتے ہیں اور اس رسم کی حد ہو گئی ہے چاہے کوئی کھائے یا نہ کھائے مگر اس دن سیویاں ضرور ایک دوسرے کے ہاں بھیجی جاتی ہیں.رشتہ داروں اور دوستوں کے ہاں سے پیالے پر پیالے آتے ہیں.گویا ساری خوشی عید کی سیویوں میں ہوتی ہے.اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی عورت کسی کے ہاں ملازم تھی اس کے آقا نے اسے ایک دن کہا ہم سحری کے وقت تجھ سے کوئی کام تو لیتے نہیں اور روزہ تو رکھتی نہیں پھر اٹھنے کا کیا فائدہ.اس نے کہا میں نماز نہ پڑھوں روزہ نہ رکھوں سحری نہ کھاؤں تو کافر ہو جاؤں.اسی طرح عید کی سیویاں بھی اسلام کا چھٹا رکن سمجھ لیا گیا ہے چاہے انہیں دیکھ کر کسی کو قے آتی ہو، چاہے رکھنے کو جگہ نہ رہے ، مگر ایک دوسرے کے ہاں بھیجنا ضروری ہے.میں نے تو گھر میں اس سے روک دیا ہے تحفہ کی حد تک تو یہ چیز جائز تھی مگر اب یہ علت کی حد تک پہنچ گئی ہے.اسی طرح عید الاضحی کے موقع پر گوشت ہوتا ہے جس کا باہم ایک دوسرے سے تبالہ ہو جاتا ہے اور وہی مثلاً ہو جاتی ہے کہ "آنا ونڈے ریوڑیاں مڑ مڑ اپنیاں نوں دے." یعنی نابینا ریوڑیاں بانٹتے ہوئے اپنوں کو بار بار دے.گوشت کو آپس میں ہی بانٹ دیا جاتا ہے اور غریبوں کے ہاں اُس دن بھی دال ہی پکتی ہے.یا اگر غرباء میں بھی بانٹا جائے تو اس بیوقوفی سے بانٹا جاتا ہے کہ ایک غریب کے ہاں تو دس سیر جمع ہو جائے گا جس کی اسے ضرورت نہیں ہوتی اور دوسرے کے ہاں اس دن بھی فاقہ ہی ہو گا.میں نے اس خیال سے کہ ان باتوں کو ہم کیوں نہ معقول بنائیں.بجائے اس کے کہ سیویوں کے پیالے تقسیم کئے جائیں ایک دعوت کا انتظام کیا ہے.اسلام نے غرباء کے کھانے پینے کا ذمہ دار بیت المال کو قرار دیا ہے.ھا، مگر ہمارے پاس چونکہ بیت المال اس قسم کا نہیں صرف چندہ پر ہی کام چلتا ہے سرکاری ٹیکس چونکہ سرکار وصول کرتی ہے اس لئے جو چندہ دے وہ بھی کم ہی دے سکتا ہے اس لئے میں نے سوچا کہ ہم میں یہ طاقت تو نہیں کہ سارا سال سب کا بوجھ اٹھا سکیں لیکن کم سے کم یہ انتظام تو ہونا چاہئے کہ عید کے روز ہر غریب کے گھر میں کھانا پہنچا سکیں.ہمارے ہاں یہ دستور ہے کہ تحفہ تو رشتہ داروں اور دوستوں کو دیا جاتا ہے اور صدقہ غریبوں کو.ہمسایوں کو بھی تحفہ دینے کا رواج نہیں.عرب اور دوسرے اسلامی ممالک میں یہ رواج ہے اس لئے میں نے خیال کیا کہ اس دعوت میں بیت المال کی ذمہ داری کے علاوہ تحفہ کا رنگ بھی ہو.عید کے روز دعوت عام ہو.14 جس میں کچھ خرچ تو بیت المال سے ہو
۲۳۲ اور کچھ دوسرے دوستوں سے بطور تحفہ وصول کیا جائے صدقہ بالکل نہ ہو.اور باہم برادرانہ تعلق کے لئے میں نے یہ تجویز کی کہ دوسرے لوگ بھی اس میں شامل ہوں مگر قیمت دے کر یعنی کھانا تو انہیں لنگر سے دیا جائے لیکن اس کی قیمت ان سے لے لی جائے.اس میں میرے مد نظریہ بھی خیال تھا کہ باہر کے لوگ تو آکر لنگر سے کھانا کھاتے ہیں مگر قادیان کے لوگ نہیں کھاتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک شعر ہے واللہ بچو کشتی نوحم ز کردگار بے دولت آنکه دور بماند زلنگرم ۱۷ میں نے خیال کیا کہ اس رنگ میں کچھ رقم داخل کر کے قادیان کے لوگ بھی لنگر سے کھانا حاصل کر سکیں گے.آخر وہ ہمارے ہی روپیہ سے چلتا ہے دوسرے بھی چندہ کے طور پر رقوم دید میں اور اس طرح وہ اس دعوت میں بھی شریک ہو جائیں اور اس لنگر سے کھانا کھا کر اس کے وعید سے بھی بچ جائیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لنگر سے دور رہنے والوں نے کے متعلق ہے اور اس طرح غرباء کو کھانا کھلانے کی ذمہ داری بھی کم سے کم ایک دن کے لئے سلسلہ پر آجائے.پھر چونکہ دوسرے بھی اس میں شریک ہوں گے اس لئے تحفہ بھی ہو جائے گا جو کہ ایک نظام کے ماتحت ساری جماعت میں تقسیم کر دیا جائے گا.اسی طرح میرا خیال ہے کہ عید الا ضحی کے موقع پر یہ انتظام کیا جائے کہ جہاں تک ہو سکے دوست کو شش کریں کہ پہلے ہی روز قربانی کی جائے اور پہلے بتادیں کہ وہ کتنا گوشت مجموعی انتظام میں دیں گے.پھر اسے انتظام کے ماتحت ہر گھر میں پہنچا دیا جائے.میری تجویز یہ ہے کہ ہم اس طرح مشتر کہ عید منایا کریں.اس کے ماتحت آج جو دعوت ہوگی اس میں کچھ بطور تحفہ نہ کہ صدقہ دے کر صاحب استطاعت دوست شریک ہو سکتے ہیں اور کچھ بیت المال سے ڈال کر تمام غرباء اور ان میں دوسرے دوستوں کے گھروں میں جو قیمت دے کر شامل ہوں کھانا پہنچا دیا جائے گا.میری تجویز یہ ہے کہ اس انتظام کو بڑھا کر ایسی شکل میں لایا جائے کہ ایک وقت ایسا آ جائے جبکہ تمام دوستوں کی دعوت ہو جائے اور اس طرح سب مل کر اکٹھے کھانا کھایا کریں.قرعہ اندازی کے ذریعہ کچھ یوں بھی ایک جگہ جمع ہو کر اکٹھے کھالیا کریں اور اس طرح اکٹھے بیٹھ کر کھانے کی رسم بھی پوری ہو جائے اور اس سے یہ بھی فائدہ ہو گا کہ ہماری عید مجموعی عید ہوا کرے گی.اس کے بعد میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالٰی ہمیں توفیق دے کہ ہماری عیدیں بچی عیدیں
۳۳۳ ہوں.خوشی کے موقع پر خدا کا خوف ہمارے دل سے نہ نکلے اور غموں کے وقت ہمیں مایوسی نہ ہو.غم سب پر آتے ہیں حتی کہ انبیاء پر بھی آتے ہیں مگر جب مایوسی نہ پیدا ہو تو غم بھی عید ہی ہوتا ہے.اللہ تعالٰی ہماری عیدوں اور غموں کو اسلامی بنائے اور توفیق دے کہ ایک دوسرے کی خوشی و غم میں شریک ہو سکیں نفسا نفسی سے جو نہایت ہی ادنیٰ مقام ہے خدا تعالیٰ ہمیں محفوظ رکھے.مجھے ابھی خیال آیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ جو قادیان میں موجود ہوں وہ ضرور اس دعوت میں شریک ہوں.یعنی جن لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے ہاتھ پر یا آپ کے زمانہ میں بیعت کی اور آپ کو دیکھایا پیدائشی احمدی ہونے کی صورت میں آپ کو دیکھا ہے انہیں ضرور دعوت میں شریک کیا جائے اور ان کی شمولیت کا قرعہ اندازی پر حصر نہ ہو.۱۹۲۴ء کے سفر انگلستان کا ذکر ہے.۲ ۱۸۹۳ء.بیعت ۱۹۰۷ء مگر احمدی ۱۹۰۴ء سے ہیں.رگوید ۱۳:۱۰ : I رگوید ۱۱۵:۱ : شنگر رگ وجے صفحہ ۱۳ ه ، دھرم سندھو صفحہ ۱۷ هه ۶۱۸۶۹-۱۹۴۸ء مرقس باب ۱۰ آیت ۲۱ تا ۲۵ الفضل ۲۸ جنوری ۱۹۳۴ء) کہ بنی اسرائیل : ۷۹ - صحیح بخاری کتاب الصلوة باب كيف فرضت الصلوة A البقرة :۱۸۶ - صحیح بخاری کتاب الصوم باب وجوب صوم رمضان صحیح بخاری کتاب الصوم باب بركة السحور - و صحیح بخاری کتاب الصوم باب تعجيل الافطار - صحیح مسلم کتاب الصيام باب فضل السحور و تأكيد استحبابه واستحباب تاخيره وتعجيل الافطار الاعراف: ۳۲ لله البقرة : ۱۵۷۱۵۶٬۱۵۴
صحيح بخارى كتاب الرقاق باب قول النبى صلى الله عليه وسلم لو تعلمون ما اعلم لضحكتم قليلا - یہ قطعہ آصف الدولہ والی اودھ وزیر الممالک یحی خان کا ہے جسے قدرت اللہ قاسم نے مجموعه نفذ حصہ اول صفحہ ۳۵ پر نقل کیا ہے.قطعہ کی صحیح صورت یہ ہے.کسو کی شب وصل سوتے کئے ہے ل الفاتحة : ۵ کو کی شب ہجر روتے کئے ہماری روتے کئے ہے شب کیسی شب ہے الہی ہے نہ سوتے کئے ہے (بشکریہ جناب مشفق خواجہ معتمد انجمن ترقی اردو کراچی) هاوطن و حضور کے ارشاد کی تعمیل میں عید کی شام کو لنگر خانہ مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے قادیان کے ساڑھے چار ہزار احباب کو کھانے کی دعوت دی گئی.ان میں سے اکثریت غرباء کی تھی.قلیل حصہ ایسے احباب کا بھی شامل ہوا جنہوں نے کھانے کی قیمت ادا کی.اسی شام مسجد اقصیٰ میں بھی ایک دعوت کا اہتمام کیا گیا.مدعووین کی تعداد چار صد تھی.حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے علاوہ جملہ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور قادیان کے محلہ جات کے نمائندہ احباب جن کا چناؤ بذریعہ قرعہ اندازی ہوا تھانے شمولیت فرمائی.الفضل ۲۱ جنوری ۱۹۳۴ء) کا ازالہ اوہام حصہ اول صفحه ۱۵۷
۲۳۵ (۲۴) ( فرموده ۷.جنوری ۱۹۳۵ء بمقام عید گاہ.قادیان) عید کا دن خوشی کا دن کہلاتا ہے اور صحابہ کے طریق سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عید کے روز آپس میں کثرت سے ملا کرتے تھے.ا ہمارے ملک کا عام دستور بھی یہی ہے کہ عید میں تمام لوگ باہم ملتے ہیں حتی کہ ہماری زبان کا ایک محاورہ ہو گیا ہے کہ آؤ عید مل لیں.تو عید نشان ہے در حقیقت مل جانے کا اور اتحاد کا لیکن ایک جگہ پر مل کر بیٹھ جانا حقیقی اتحاد نہیں کہلا سکتا.جو لوگ ایک دوسرے کے دشمن بلکہ جان کے بیری ہوتے ہیں وہ بھی کبھی ریل میں کبھی ٹریم سے میں ، کبھی موٹر میں کبھی لاری میں مل کر بیٹھ جاتے ہیں.ایک دوسرے کی شکل سے متنفر طالب علم ایک کلاس روم میں اور ایک جماعت میں مل کر بیٹھتے ہیں.افسر ماتحت کا دشمن ہوتا ہے اور ماتحت افسر کا مگر پھر بھی انہیں ایک دفتر میں بیٹھ کر کام کرنا پڑتا ہے.افسر چاہتا ہے کہ ماتحت کو نقصان پہنچائے اور ماتحت چاہتا ہے کہ افسر کو ضعف پہنچائے لیکن ظاہر میں وہ بالکل ایک ہوتے ہیں.پس کسی گروہ کا اکٹھے مل بیٹھنا اتحاد کی علامت نہیں.اتحاد تبھی پیدا ہوتا ہے جب دل ایک نقطہ مرکزی پر جمع ہو جائیں.اگر دل نقطه مرکزی پر جمع نہیں ، اگر خیالات میں اتفاق نہیں ، اگر دلوں میں محبت اور یک جہتی نہیں تو بظاہر مل کر بیٹھنا کوئی نفع نہیں دے سکتا.انبیاء جو دنیا میں آتے ہیں ان کی غرض یہی ہوتی ہے کہ لوگوں کو ایک کر جائیں اور اس وجہ سے ان کا زمانہ عید ہوتا ہے.دنیا میں حقیقی عید صرف ان کے ذریعہ ہی میسر آتی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم ملی و و و و و ویو کے دشمنوں کی نسبت فرماتا ہے کہ بظاہر یہ لوگ متحد و متفق نظر آتے ہیں مگر قُلُوبُهُمْ شَتَّی ۳ ان کے دل ایک دوسرے کے مخالف ہیں.ان کے مقابلہ میں مسلمان ایک جسم نہیں مگر اَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ کے خدا نے ان کے دلوں کو ایک کر دیا ہے.تو کفار کا جتھا بھی در حقیقت پراگندہ ہے اور مومنوں کے گروہ بھی دراصل ایک چیز ہے یہی چیز ہے جس کی وجہ سے انبیاء کی بعثت دنیا کے لئے رحمت قرار پاتی ہے.عربوں کے اندر بہت پرانی عداوتیں اور جنگیں تھیں.معمولی معمولی بات پر صدیوں تک لڑائیاں جاری رہتیں اور
۲۳۶ کسی لڑائی کا دس میں سال تک جاری رہنا تو معمولی بات سمجھی جاتی تھی.پھر لڑائیاں ان میں ایسی وجوہ کی بناء پر ہوتی تھیں کہ سن کر انسان کو حیرت ہوتی ہے.مثلا کسی کے کھیت میں کسی آوارہ کتیا نے بچے دے رکھے تھے کسی اور شخص کے مہمان کی اونٹنی چرتے چرتے اس کھیت میں چلی گئی اور ایک پلا اس کے پاؤں کے نیچے آکر مرگیا.کھیت والے نے اس بناء پر کہ اس کتیا نے میرے کھیت میں پناہ لی تھی اونٹنی کو مار دیا.جب میزبان نے سنا تو اس نے کہا کہ میرے مہمان کی اوٹنی کو مار دینے کا یہ مطلب ہے کہ گویا مجھے مار دیا اس لئے اس نے اونٹنی کو مارنے والے شخص کو قتل کر دیا.اس پر مقتول کے دوست رشتہ دار اس کا انتقام لینے کے لئے آئے ادھر اس کے دوست رشتہ دار شامل ہو گئے اس طرح تمام عرب میں لڑائی کی آگ بھڑک اُٹھی اور سالہا سال تک جاری رہی.باوجود ان حالات کے جب رسول کریم میں نے فرمایا کہ میں ان تمام لڑائیوں کو مٹاتا ہوں جو پیچھے گزر چکیں.وہ اب ان کی یاد قائم نہیں رکھی جائے گی تو اسی وقت سب لڑائیاں ختم ہو گئیں اور ان کا نشان تک باقی نہ رہا.تو انبیاء کی اصل غرض یہ تی ہے کہ لوگوں میں اتحاد اتفاق اور مساوات پیدا کریں.یہ مساوات اُس مساوات سے الگ ہوتی ہے جس کا دنیا کی مختلف قومیں دعویٰ کرتی ہیں.سوشلسٹ بھی کہتے ہیں کہ ہم مساوات قائم کرتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں کرتے وہ تو عداوت پیدا کرتے ہیں.جن امراء سے مال چھین کر وہ غرباء کو دے دیتے ہیں ان کے دلوں میں غرباء کے لئے کب ہمدردی پیدا ہو سکتی ہے.یا وہ کس طرح غرباء کو اپنا بھائی سمجھ سکتے ہیں وہ تو انہیں ظالم اور ڈاکو قرار دیتے ہیں اور اس تاک میں رہتے ہیں کہ موقع ملے تو انہیں تباہ کر دیں اور جب موقع ملے وہ ایسا کر بھی دیتے ہیں.اسی طرح سوشلسٹ غرباء کے دلوں میں بھی بغض پیدا کر دیتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ امیروں نے ہمیں لوٹ لیا ہے.انہیں مار دینا اور قتل کر دیتا چاہئے.پس یہ بھی کوئی مساوات ہے کہ غریبوں کے دلوں میں امیروں سے نفرت اور امیروں کے دلوں میں غریبوں سے نفرت پیدا کی جاتی ہے.یہ عجیب مساوات ہے جو امیروں کو غریبوں کا اور زیادہ دشمن بنا دیتی اور غریبوں کو شقی القلب کر دیتی ہے.یا دنیا کی اور قومیں بھی ہیں جو مختلف ناموں سے مساوات قائم کرنے کی دعویدار ہیں مگر اصل میں ہے ایک بھی نہیں.مساوات کا دل سے تعلق ہے.گھر میں میاں بیوی، باپ ماں اور بچے ہوتے ہیں مگر دیکھو ان میں کیسی مساوات ہوتی ہے.بیوی خاوند کی اطاعت کرتی ہے اور خاوند بیوی سے ہمدردی رکھتا
۲۳۷ ہے اور کوئی نہیں کہہ سکتا یہ مختلف لوگ ہیں.خاوند بیوی کے مقابل پر یا بیوی خاوند کے مقابل یا بچے ماں باپ کے مقابل پر بھی کوئی امتیاز محسوس نہیں کرتے حالانکہ بعض امتیازات ہوتے ضرور ہیں مگر پھر بھی ان کے دلوں میں امتیاز نہیں ہوتا.انتظامی ضرورتوں کے لحاظ سے یا حالات کی بعض مجبوریوں کے باعث ظاہری طور پر ایک حد تک امتیاز ہوتا ہے مگر چونکہ باطن میں ان کے درمیان کوئی امتیاز نہیں ہوتا اس لئے اس وجہ سے کبھی کوئی جھگڑا پیدا نہیں ہوتا.محبت کرنے والی بیوی کبھی یہ بات پسند نہیں کرتی کہ وہ اپنے خاوند کے حقوق تلف ہونے دے.یا ہمدرد خاوند کبھی اس بات کا خیال بھی نہیں کرتا کہ اصرار اور محبت کے ساتھ مجھے اپنا ہم خیال بنالینے کی طاقت جو میری بیوی میں ہے میں اس کو کچل دوں.بیٹے بھی یہ خیال نہیں کرتے کہ ہمارا باپ ہمیں کوئی ہدایت نہ دے اور باپ کبھی یہ نہیں چاہتا کہ میرے بیٹے ترقی نہ کریں اور نہ بڑھیں.سوائے کسی پاگل کے کوئی شخص بھی ان امتیازات کو مٹانا نہیں چاہتا جو ایک خاندان کے مختلف ممبروں میں ہوتے ہیں بلکہ کوئی ان امتیازات کو محسوس بھی نہیں کرتا.بیوی خاوند کی خدمت کرتی ہے اور اس میں لذت محسوس کرتی ہے اسی طرح اصرار سے یا روٹھ کر بھی بیوی اگر خاوند سے کوئی بات منوائے تو کیا خاوند اسے بُرا مناتا ہے بالکل نہیں کیونکہ یہ بھی محبت کا ایک طریق ہوتا ہے.ایک سمجھدار بچہ ماں باپ کی اطاعت پر فخر کرتا ہے اور کبھی یہ نہیں سمجھتا کہ میں غلام ہوں بلکہ اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتا ہے کہ مجھے خدمت کا موقع ملا کیونکہ یہ ایک بہت بڑی سعادت ہے.لوگ اس کے حاصل ہونے کے لئے دعائیں کراتے ہیں.مجھے ہر روز اس قسم کے خطوط ملتے ہیں کہ دعا کیجئے اللہ تعالیٰ والدین کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے.دیکھو یہ غلامی کتنی خوبصورت ہے.یہ اگر مساوات کے خلاف ہوتی تو لوگ اس کے لئے دعائیں کیوں کراتے.دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں جہاں کے رہنے والے یہ دعائیں کرتے ہوں کہ ہمارے ملک کی اپنی حکومت نہ رہے اور کوئی دوسرا ملک ہم پر حکمران ہو.مگر اکثر لوگ یہ دعائیں کراتے ہیں کہ والدین کی غلامی کی توفیق مل جائے.پس معلوم ہوا کہ ایسا امتیاز موجب برکت ہے اور اس میں حقیقی مساوات ہے دیکھو یہی حکم کرنے والا باپ یا خاوند یا محبت اور ضد سے اپنی بات منوانے والی بیوی تر یا ہٹ ، یا بالک ہٹ سکہ سے کام لینے والی عورت یا بچے جس وقت ایک دستر خوان پر جمع ہوتے ہیں تو کوئی ہے جو اس وقت ان میں فرق کر سکے.جب بیٹا چھوٹا ہوتا ہے تکلیف میں مبتلاء ہو تو کیا باپ اس کے لئے جان نہیں دے دیتا.
۳۳۸ کیا ایک ضدی بیٹا اپنے نرم طبیعت رکھنے والے باپ کے لئے خطرہ کے وقت مصیبت برداشت نہیں کرتا.وہی تر یا ہٹ سے کام لینے والی بیوی خاوند کی بیماری میں اپنے آپ کو قربان نہیں کر دیتی.پھر کیا وہ خاوند جو حکومت کرتا ہے جب اس کی بیوی تکلیف میں ہو تو اپنا مال و جان قربان نہیں کر دیتا.اس وقت یہ امتیاز کہاں جاتے ہیں.پس صاف معلوم ہوا کہ یہ سب امتیاز ظاہری تھے ورنہ حقیقتاً ان میں پوری طرح مساوات قائم ہے.آپ لوگوں نے تاریخ میں پڑھا ہوگا جب ہمایوں بیمار پڑا تو اگر چہ وہ بیٹا تھا اور عام قانون کے رو سے باپ کے ماتحت پھریوں بھی اس کا باپ بادشاہ اور حاکم تھا اور وہ ماتحت مگر دیکھو ان میں کیسی مساوات قائم تھی.جب ہمایوں بیمار پڑا تو اس کا باپ جو بادشاہ تھا اس کی چارپائی کے گرد گھوم کر دعا کرتا ہے کہ اس کی بلا مجھے لگ جائے.اور یہ دعا اس نے ایسے اخلاص سے کی کہ ادھر وہ دعا کر کے الگ ہوا ادھر اس کا نتیجہ ظاہر ہونے لگا.حتی کہ ہمایوں اچھا ہو گیا اور وہ فوت ہو گیا.اس وقت دیکھو ان میں جو امتیاز بظاہر نظر آتا تھا وہ کہاں گیا.پس حقیقی مساوات قلوب کی ہوتی ہے ورنہ ظاہری اتحاد کوئی چیز ایک شخص زربفت کی قبا پہنے ہوئے ہے اور دوسرا کھنڈ ر وہ دونوں کس طرح مل سکتے جب ان کے دل نہیں ملتے تو وہ اگر چہ اکٹھے بیٹھ جائیں تو بھی اس سے کچھ فائدہ نہ ہو گا.امیر دل میں کہے گا کہ کمبخت نے کیسے میلے کپڑے پہن رکھے تھے بد بو سے دماغ پھٹا جاتا ہے اور غریب اپنے دل میں بد دعائیں دے رہا ہو گا کہ خدا اس کا بیڑا غرق کرے کمبخت اپنے آپ کو فرعون سمجھتا ہے.وہ ادھر تیوری چڑھا رہا ہو گا اور وہ اُدھر خفا ہو رہا ہو گا.بتاؤ ایسے اکٹھے بیٹھنے کا کیا فائدہ اور کیا اس طرح مساوات قائم ہو سکتی ہے.جس چیز سے مساوات پیدا ہوتی ہے وہ دل کا اتحاد ہے اور جب دل کا اتحاد ہو جائے تو ظاہر کے امتیازات خود بخود مٹ جاتے ہیں یا وہ کوئی اثر نہیں رکھتے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ بیوی اور خاوند باپ اور بچوں میں امتیازات ضرور ہوتے ہیں مگر چونکہ دلوں میں اتحاد ہوتا ہے اس لئے وہ کبھی اسے محسوس نہیں کرتے بلکہ بخوشی برداشت کرتے ہیں اور یہی وہ مساوات ہے جسے قائم کرنے کے لئے انبیاء آتے ہیں اور یہی ہے جس سے حقیقی عید پیدا ہو سکتی ہے اور جب تک یہ بات پیدا نہ ہو حقیقی مساوات کا مقصد پورا نہیں ہو سکتا.ایک امیر آدمی اگر دکھاوے کے لئے یا ذاتی اغراض کے ماتحت غریبانہ طرز زندگی اختیار کر لیتا ہے اور اس کے لئے لباس اور غذا میں سادگی پیدا کرتا ہے مگر دل کا غریب نہیں تو وہ حقیقی مساوات پیدا نہیں کر سکے گا کیونکہ ایسی مساوات دل سے آتی ہے.
۳۳۹ چاہے کوئی شخص زربفت کے کپڑے پہنے ہوئے ہو اور خواہ وہ خالص سونے کے تاروں کے لباس میں ملبوس ہو لیکن اگر اس کے دل میں یہ خیال ہو کہ یہ غریب لوگ بھی میرے بھائی ہیں میں ان سے جدا نہیں ہوں اس کے دل میں ہر انسان کی محبت ہو ادنی بھی اس کی نظر میں اعلیٰ ہو ایسا انسان دنیا کے لئے راحت کا موجب ہو گا.وہ یہ خیال نہیں کرے گا کہ غریب کے کپڑوں سے بو آتی ہے بلکہ یہ سمجھے گا کہ میرا بھائی غریب ہے میں اپنی دولت کو اس کی حالت اچھی کرنے پر صرف کروں.اس کے متعلق غرباء میں یہ خیال نہیں ہو گا کہ یہ متکبر اور مغرور ہے بلکہ وہ سمجھیں گے کہ یہ ہمارا بھائی ہے جو اپنی اعلیٰ طرز زندگی کے باوجود ہم سے ملتا ہے اور ہماری خدمت کے لئے برابر تیار رہتا ہے تو اس وقت حقیقی عید قوم کے لئے ہوگی.یہی عید کا مقام ہے جس طرح عید گاہ میں امیر غریب سب جمع ہو جاتے ہیں اس طرح یہ وہ مقام ہے جہاں انبیاء سب کو جمع کرنے کے لئے آتے ہیں اس کے سوا اور کوئی مقام نہیں جہاں امیر غریب مل سکیں ، جہاں مشرقی و مغربی جمع ہو سکیں، جہاں بوڑھے اور جو ان اکٹھے ہو سکیں، ایک مغربی شاعر نے کہا ہے EAST IS EAST AND WEST IS WEST AND NEVER THE TWIN SHALL MEET یعنی مشرق مشرق ہے اور مغرب مغرب اور کوئی تدبیر ایسی نہیں جو دونوں کو ملا سکے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ حقیقی امتیاز باتوں سے کبھی نہیں مٹتے.بچہ اور بوڑھا کہاں جمع ہو سکتے ہیں.وہ کونسا نقطہ ایسا ہو سکتا ہے جس پر امیر غریب مرد عورت جمع ہو جائے ، جہاں آقا غلام اکٹھے ہو سکیں.اس نقشہ کو تلاش کئے بغیر اجتماع کی کوشش کرنا فضول ہے.جس طرح یہ کہا جاتا ہے کہ امیر و غریب اکٹھے ہو جائیں اسی طرح یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ مرد و عورت بھی اکٹھے ہو جائیں.مگر کیا یہ ممکن ہے جس طرح یہ ناممکن ہے کہ بچہ اور بوڑھا یکساں ہو جائیں مرد و عورت اکٹھے ہو جائیں اسی طرح یہ بھی ناممکن ہے کہ امیر و غریب کو اکٹھا کیا جاسکے جب تک کہ اس کے لئے کوئی نقطہ مرکز یہ ہم نہ نکالیں جس پر ایسا اجتماع ممکن ہو سکے.یہ خیال کرنا کہ امیروں سے دولت وغیرہ چھین کر اسے غریبوں میں تقسیم کر دیا جائے اور اس طرح مساوات قائم کی جائے بالکل لغو بات ہے.اس سے مساوات نہیں بلکہ بغض بڑھتا ہے اور ہر ایک طبقہ دوسرے کو مٹانے کی کوشش کرتا ہے جس سے فساد بڑھتا ہے.اسی طرح مرد و عورت میں بھی
۲۴۳۰ اختلافات وسیع ہو رہے ہیں.کسی جگہ عورتیں مردوں کے حقوق تلف کر رہی ہیں جیسے یورپ میں اور کسی جگہ مرد عورتوں کے حقوق دبا رہے ہیں جس طرح ایشیا میں اور کوئی چیز ان میں اتحاد پیدا نہیں کر سکتی.اتحاد صرف اسی چیز سے ہو سکتا ہے جو انبیاء آکر لوگوں کے دلوں میں پیدا کرتے ہیں اور وہ اس اختلاف کو مٹا دیتے ہیں.ایک نوجوان بوڑھے سے کیوں مختلف ہوتا ہے اسی لئے کہ ان کی طبیعتوں کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں.نوجوان ہلنا جلنا اور حرکت کرنا چاہتا ہے اور بوڑھا کہتا ہے ٹھہر جاؤ سوچ لیں.مگر اسلام اس اختلاف کو مٹاتا ہے وہ ہر نوجوان سے کہتا ہے کہ بوڑھا بنے.وہ اس کے اندر تبدیلی کر کے اسے اور بوڑھوں کو اکٹھا کرنا چاہتا ہے.وہ چاہتا ہے کہ وہ وقار اور عقل سیکھے.اسی طرح وہ ہر بوڑھے سے مطالبہ کرتا ہے کہ جوان بنے ست نہ ہو غافل نہ ہو.اپنے آپ کو کبھی پینشن کے قابل نہ سمجھے اسلام میں پنشن کوئی نہیں وہ انسان کو آخری سانس تک کار آمد بنانا چاہتا ہے.رسول کریم میں نے فرمایا ہے کہ جب تک غرغرہ نہ شروع ہو جائے انسان کی توبہ قبول ہو سکتی ہے.وہ یعنی عمر کے آخری لمحات تک وہ خدا کے حضور قبول ہونے اور اس کی فوج میں داخل ہونے کے قابل ہے.پس اسلام نوجوانوں سے کہتا ہے کہ بوڑھے بنو اور بوڑھوں سے کہتا ہے کہ جوان بنو.اسی طرح اسلام چاہتا ہے کہ مرد عورت بن جائے اور عورت مرد اسی لئے قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ مومن کی مثال مریم کی سی ہے اور مومن عورت کی مثال عیسی علیہ السلام کی سی.لاله پس اسلام عورت سے چاہتا ہے کہ مرد بنے اور مرد سے چاہتا ہے کہ عورت بنے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ اپنی جنس بدل دے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بعض اخلاقی خوبیاں عورت میں ہوتی ہیں وہ مرد اپنے اندر پیدا کریں اور بعض مرد میں ہوتی ہیں وہ عورتیں پیدا کریں.عورت میں جتنا استقلال ہوتا ہے وہ مرد میں نہیں ہوتا.وہ سالہا سال تک ایک کام کرتی جاتی ہے مگر گھبراتی نہیں.بچہ بیمار ہوتا ہے اور اس قدر لمبے عرصہ تک بیمار چلا جاتا ہے کہ مرد کو بھول جاتا ہے کہ اس کا بچہ بیمار ہے مگر عورت اس کی چارپائی کے پاس سے نہیں بنتی.مرد میں استقلال بہت کم ہوتا ہے.وہ بہت جلد گھبرا جاتا ہے.بچہ ایسی ضد کرتا ہے کہ مرد کے پاس ہو تو اٹھا کر زمین پر دے مارے.مگر ماں پھر بھی اسے پیار کرتی اور کہتی جاتی ہے میرے چاند میرے تارے.بعض اوقات بچہ بیہودہ باتیں کرتا ہے.مثلاً یہ کہ مجھے تارے اُتار دو.ایسی بات پر مرد پہلے تو کہے گا کہ نہیں اُتارے جا سکتے اور بچہ بار بار کے گاتو اسے ایک تھپڑ مار دے گا اور اس پر بھی وہ اگر ضد سے باز نہ آئے تو.
احلام السلام اٹھا کر پھینک دے گا.مگر ماں ساری رات اسے بہلانے کی کوشش کرتی رہے گی اور ذرا نہیں گھبرائے گی.یہ عورت کا کیریکٹر ہے یہ بات اگر مرد میں پیدا ہو جائے تو وہ دنیا کی کایا پلٹ سکتا ہے.اس جوش کے ساتھ جو پہلے ہی اس کی فطرت میں ہوتا ہے اور جو عورت میں موجود نہیں ہو تا.اگر اس کے اندر عورت والا استقلال پیدا ہو جائے تو وہ دنیا کو کھا جائے.اور جو انسان اپنے اندر مرد و عورت دونوں کی خوبیاں رکھتے ہیں وہ واقعی دنیا کو کھا جاتے ہیں.نادان اور جاہل لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ مرزا صاحب مرد بھی تھے اور عورت بھی لیکن انہیں معلوم نہیں کہ یہ دونوں صفات اپنے اندر پیدا کئے بغیر کوئی غالب نہیں آ سکتا.عورت کی سی محبت اور استقلال اور مرد کی سی دلیری اور اقدام جب یہ صفات جمع ہو جائیں تب ہی غلبہ حاصل ہو سکتا ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں اسلام سب کو جمع کرنا چاہتا ہے.اسلام عورت سے کہتا ہے کہ بُزدل نہ بن اور اقدام کر اور مرد سے کہتا ہے کہ استقلال، محبت اور قربانی سیکھ.جب عورت اپنے اندر اقدام اور دلیری پیدا کرے تو وہ مرد بن جاتی ہے اور استقلال ، محبت ، قربانی پیدا کرنے کے بعد مرد عورت بن جاتا ہے.تب وہ دونوں ایک مقام پر آ جاتے ہیں اور اسی حالت میں مساوات قائم ہو سکتی ہے.یہی حال امیر و غریب کا ہے.اسلام یہ نہیں کہتا کہ امیروں کی دولت چھین کر غریبوں کو دے دو یا غریب کی گردن امیر کے قبضہ میں بلکہ وہ کچھ امیر کو نیچے کرتا ہے اور کچھ غریب کو اوپر.میں نے بتایا ہے کہ حقیقی مساوات دل سے تعلق رکھتی ہے اور یہی چیز ہے جو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے.اسلام ظاہری مساوات کا قائل نہیں اس لئے وہ چاہتا ہے کہ جس کے پاس دولت ہو اس کے دل میں امارت ہونی چاہئے کیونکہ جو ظاہر کا بھی غریب ہو اور دل کا بھی غریب ہو ، وہ دنیا میں کوئی کام نہیں کر سکتا.کام کرنے والا وہی امیر ہے جو دل کا غریب ہو اور وہی غریب ہے جو دل کا امیر ہو.یہ حالت پیدا ہونے پر ہی قومیں ترقی کر سکتی ہیں.پاس دولت اور مال نہیں مگر وہ کہتے ہیں کیا پروا ہے سب دنیا کے اموال ہمارے ہی ہیں.یا اگر دولت ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ دولت کا کیا ہے یہ آئی گئی چیز ہے اور یہ ہمیں اس لئے دی گئی ہے کہ نیکی پیدا کریں اور جب یہ احساس پیدا ہو جائے تو امیر غریب ہو جاتا ہے اور غریب امیر غریب ساری دنیا کی دولت کو اپنی سمجھتا ہے اور امیر اپنی کو بھی اپنی نہیں سمجھتا اور اس طرح وہ دونوں ایک مقام پر جمع ہو جاتے ہیں اور یہی وقت حقیقی عید کا ہوتا ہے.پس حقیقی عید حقیقی مساوات سے پیدا ہوتی ہے اور حقیقی مساوات دے دو.
1 موم ۲ سوائے اسلام کے اور کہیں نہیں.اور اسے سوائے انبیاء کے اور کوئی قائم نہیں کر سکتا.امتیازات کو صرف اسلام ہی دور کر سکتا ہے اور اسلام ہی سب کو ایک جگہ جمع کرتا ہے.ایک طرف وہ عالموں کو جاہل بناتا ہے.وہ کہتا ہے علم سیکھو کلاء اور جب سیکھ لیا تو کہتا ہے کہ علم ہی سب سے بڑی مصیبت ہے.علم کیا ہے ایک اندھیرے سے دوسرے اندھیرے میں جانے کا نام علم ہے.جس نے یہ دریافت کیا کہ پانی مرکب ہے مگر کیا اس سے حقیقت ہم پر ظاہر ہو گئی.اب بھی ہمارے سامنے یہ سوال موجود ہے کہ کیا وہ گیسیں اپنی اپنی جگہ پر مفرد ہیں یا مرکب.پس ہم صرف ایک اندھیرے سے نکل کر دوسرے اندھیرے میں چلے گئے ہیں.یا مثلاً پہلے صرف یہ سمجھا جاتا تھا کہ سات سیارے اور آسمان اور زمین ہے مگر اب کہتے ہیں ہزاروں سیارے ہیں مگر پھر بھی کون یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ جتنے اس نے معلوم کر لئے ہیں ان کے سوا اور کوئی نہیں.تو اس طرح وہ ایک اندھیرے سے دوسرے اندھیرے میں چلے گئے اور یہی وہ چیز ہے جسے علم کہا جاتا ہے.اس کے مقابلہ میں جہالت ہے.ایک شخص اگر پڑھا ہوا نہیں لیکن وہ اپنے دل و دماغ کو استعمال کرتا اور سمجھتا ہے کہ مجھے اللہ تعالٰی نے طاقتیں دی ہیں اور مجھے ان کو استعمال کرنا چاہئے تو وہ عالم ہے.رسول کریم میں لی لی لی اور ظاہری علوم کا ایک لفظ بھی نہ پڑھے ہوئے تھے مگر کون ہے جو آپ سے زیادہ علم رکھنے والا ہو.پس جہالت اور علم دونوں نفس سے پیدا ہوتی ہیں.علم جہالت پیدا کرتا ہے اور جہالت سے علم حاصل ہوتا ہے.میں ایک دفعہ بعض اور ساتھیوں سمیت دریا پر سیر کرنے کے لئے گیا ہوا تھا لوٹتے ہوئے رات ہو گئی اور رات بھی تاریک تھی.ایک جگہ ہم سطح زمین سے کوئی دس فٹ اونچے جا رہے تھے اور نیچے بہت گہرے گڑھے تھے.ہمارے آگے آگے گاؤں کے ایک نوجوان دوست تھے جو بوجہ اپنے آپ کو مقامی آدمی سمجھنے کے تیز تیز آگے جا رہے تھے اور راستہ جسے ہم کھو چکے تھے اس کی تلاش میں تھے.ایک جگہ جا کر انہوں نے آواز دی کہ میرے پیچھے آجائے میں نے رستہ تلاش کر لیا ہے اور یہ فقرہ کہنے کے ساتھ ہی نظروں سے غائب ہو گئے اور صرف ایک دھماکے کی آواز آئی.آخر معلوم ہوا کہ جسے وہ رستہ سمجھے تھے دریا کی چمکتی ہوئی ریت تھی اور جسے وہ سات آٹھ فٹ اونچے کنارہ سے دیکھ رہے تھے چنانچہ قدم رکھتے ہی وہ نیچے جا پڑے.ہم لوگ دو میل سے آ رہے تھے مگر چونکہ خیال تھا کہ رستہ سے ناواقف ہیں اس لئے ٹول ٹول کر قدم رکھتے تھے لیکن وہ چونکہ اپنے آپ کو واقف سمجھتے تھے اس لئے زیادہ محتاط نہ تھے اور اسی وجہ.
۲۳ سے وہ نیچے گر گئے.ان کی اس بات پر کہ میں نے رستہ ڈھونڈ نکالا ہے میرے پیچھے پیچھے آجاؤ سب دوست خوب ہے کہ تم ہم کو اچھا رستہ دکھانے لگے تھے اور رستہ بھر ان سے دوست دل لگی کرتے آئے.تو حقیقت یہی ہے کہ علم ہزاروں جہالتوں کا موجب ہے اور جہالت ہزاروں علموں کا اور حقیقی اتحاد کی صورت یہی ہو سکتی ہے کہ عالم اپنے آپ کو جاہل سمجھیں اور جاہل عالم اور اس کے لئے انبیاء آتے ہیں کہ اور اسی سے حقیقی عید پیدا ہوتی ہے.آج چونکہ عید کا دن ہے اس لئے میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ دوست آپس میں حقیقی اتحاد پیدا کریں.امراء یہ سمجھیں کہ یہ اموال ہمارے پاس امانت ہیں اور خدا نے اس لئے دیئے ہیں کہ اس کے دین کی خدمت اور غرباء کی امداد کے لئے خرچ کریں اور جب تک ان کی یہ ذہنیت نہ ہو ان کے لئے عید نہیں ہو سکتی.دوسری طرف غرباء جب تک لا تَمُدَّنَ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِہ ا پر عمل نہ کریں گے اور للچائی ہوئی نظروں سے دوسروں کے اموال کو دیکھنے کی عادت ترک نہ کریں گے اس وقت تک ان کے لئے عید نہیں ہو سکتی.خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ دوسروں کی چیزوں کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھو اور جب تک غرباء میں یہ روح پیدا نہ ہو ان میں وسعت حوصلہ پیدا نہ ہوگی.انہیں سمجھنا چاہئے کہ مال کیا چیر ہے.صحابہ کے پاس کونسا روپیہ تھا مگر باوجود اس کے انہوں نے ساری دنیا کو فتح کر لیا لیکن ہم ابھی تک اپنے کاموں کے لئے روپیہ کے محتاج ہیں.فلاں کام کے لئے میں ہزار چاہیئے اور فلاں کے لئے دس ہزار.ابھی ہم میں یہ احساس پیدا نہیں ہوا کہ روپیہ کوئی چیز نہیں.اب بھی اگر چند آدمی ایسے پیدا ہو جائیں جو سلسلہ کے لئے گھروں سے نکل کھڑے ہوں اور چاروں اطراف میں پھیل جائیں تو دیکھو کس قدر ترقی ہوتی ہے.ایسے لوگ مشکلات کی پرواہ نہ کریں اگر مانگ کر بھی روٹی کھانی پڑے تو کھالیں.اس میں کیا حرج ہے اللہ تعالٰی کے لئے مانگنا بُرا نہیں.سارے انبیاء اللہ تعالی کے لئے مانگتے آئے ہیں.جو مانگنا برا ہوتا ہے وہ اپنے نفس کے لئے مانگنا ہے.جو گھر پر رہتے ہوئے خدا تعالیٰ کے لئے مانگتا ہے وہ بُرا نہیں تو جو تبلیغ کے لئے گھر سے نکلتا ہے اسے اگر مانگنا پڑے تو یہ مانگنا خدا کے لئے کیوں نہ ہو گا اس میں ذلّت کوئی نہیں.خدا کے لئے ہم اب بھی مانگتے ہیں.یہ چندے جو لئے جاتے ہیں یہ بھی خدا کے لئے مانگنا ہی ہے.رسول کریم میں اور میری جھولی لے کر عورتوں میں چلے جاتے تھے کہ لاؤ چندہ دو.کہ ایک عورت نے ایک کڑا اتار کر دیا.آپ نے فرمایا.دوسرا ہاتھ بھی آگ سے بچا.ها پس دین کے لئے
1 سلام مهم مانگنا پڑے تو اس میں عیب کی کوئی بات نہیں.بہر حال جب تک ہمارا مال پر بھروسہ رہے گا جب تک ہم یہ سمجھتے رہیں گے کہ اتنے ہزار سے ہمارا کام چل سکتا ہے اس وقت تک ترقی مشکل ہے.غرباء اپنے دل میں یہ سمجھیں کہ جب ہمارے پاس ایمان ہے تو ساری دنیا کے اموال ہمارے ہیں وہ اپنے آپ کو امیر سمجھیں یہ خیال بالکل نہ کریں کہ ہم غریب ہیں اور کچھ نہیں کر سمجھیں کہ ہمارے پاس جو دولت ہے یہ دین اور سلسلہ کے لئے ہے تب وہ اس کی مساوات اور عید میں شامل ہو سکیں گے.انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اگر وہ اپنے اموال نہ دیں گے تو دین تو تب بھی ترقی کرے گا مگر وہ اس خوشی میں شریک نہیں ہو سکیں گے منافقوں کی طرح خوشی میں شامل ہو جائیں تو اور بات ہے لیکن حقیقی خوشی میں ہرگز شریک نہیں ہو سکیر سکتے اور امیر گے.اسی طرح جوان اپنے اندر بڑھاپا اور بوڑھے اپنے اندر جوانی پیدا کریں.مومن کبھی بوڑھا یا جوان نہیں ہوتا.جس دن سے وہ ہوش سنبھالے بوڑھا ہے اور جس دن سے بڑھاپے کے آثار شروع ہوں وہ جو ان ہے.جب اس کا نفس جوان ہوتا ہے تو عقل بوڑھی ہوتی ہے اور جب جسم بوڑھا ہو جائے تو اس کی امنگیں جوانوں کی سی ہوتی ہیں.رسول کریم می مال لیلی جب عمرہ کے لئے گئے تو اُن دنوں سخت بخار پھیلا ہوا تھا اور صحابہ میں سے بعض بیمار رہنے کی وجہ سے چل بھی نہیں سکتے تھے اور کپڑے کبڑے چلتے تھے.اس وقت رسول کریم میں میں نے دیکھا کہ ایک صحابی اکڑ اکڑ کر چلتے ہیں.آپ نے دریافت فرمایا کہ اس طرح کیوں چلتے ہو.تو انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ! اگر چہ ہماری کمریں ٹیڑھی ہو گئی ہیں مگر وہ دیکھئے سامنے پہاڑ پر کفار ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ وہ ہماری کمزوری کو محسوس کریں.آپ ہنسے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو تکبر نا پسند ہے مگر تمہارا یہ اکڑ کر چلنا بہت پسند آیا ہے.۱۶ تو کمزوری کے وقت طاقت کا اظہار اور طاقت میں کمزوری کا اظہار اسلام کا منشاء ہے.جب مومن دشمن کا سر کچل سکتا ہو اس وقت چاہئے کہ اسے چھوڑ دے مگر جب کمزور ہو تو چاہئے کہ اپنے سر کو اونچا رکھے.یہی وہ مقام ہے جہاں جوان اور بوڑھے اکٹھے ہو سکتے ہیں.عمر کی کمی یا زیادتی کوئی چیز نہیں.بوڑھے اپنے عزم اور ہمت میں جوانوں کی طرح ہوں اور جوان عقل و فراست میں بوڑھوں کی طرح.رسول کریم ملی کی عمر ۶۳ سال کی تھی مگر آپ آخر تک جنگوں میں شریک ہوتے رہے اور آپ نے کبھی بڑھاپے کو تسلیم نہیں کیا.ایک صحابی کے متعلق آتا ہے کہ ان کی بیوی فوت ہو
۲۴۵ گئیں اُس وقت ان کی عمر ۱۳ سال کی تھی.ساہ اور وہ خود بیمار تھے اور جلد فوت ہو گئے.اس وقت بھی وہ کہتے تھے کہ میری شادی کرا دو کیونکہ رسول کریم ملی وسلم نے فرمایا ہے کہ جو مجرد ہو اس کی عمر گویا ضائع ہو گئی.۱۸ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس عمر میں بھی اپنے آپ کو بوڑھا نہیں سمجھتے تھے بلکہ یہی خیال کرتے تھے کہ میں جوان ہوں.اور دوسری طرف ہم ہیں کہ جوان بڑھاپے والا طریق اختیار کرتے اور دین کے لئے اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھتے تھے.رسول کریم میلی لی لی لی نے اپنے کنبہ والوں کی دعوت کر کے ان کو تبلیغ کی اور آخر میں کہا کہ کوئی ہے جو خدا کی بات سنے اور اس کے دین کی مدد کرے.وہ لوگ سب مخالف تھے اس لئے چپ چاپ بیٹھے رہے بلکہ ممکن ہے ان کے چہروں پر حقارت اور غصہ کے آثار بھی ہوں.اُس وقت حضرت علی کی عمر صرف گیارہ سال تھی مگر آپ کھڑے ہو گئے اور کہا میں ہوں.آپ وقت اگر چہ بچہ تھے مگر خیال کرتے تھے کہ میں اسلام کی ذمہ داریاں برداشت کرنے کے قابل ہوں.19.اس وقت بھی آپ میں گویا بوڑھوں والی فراست تھی.دوسری طرف انس ۱۱۳ سال کے تھے مگر سولہ سترہ سال کے بچے کی طرح اپنے آپ کو شادی کے قابل سمجھتے تھے اور یہی حقیقی مساوات ہے.ورنہ اس کے سوا اور کس طرح مساوات قائم ہو سکتی ہے اور اگر قائم کر بھی دی جائے تو وہ قائم کہاں رہ سکتی ہے.سب کو مکان غذا لباس اور دولت تو یکساں بانٹی جا سکتی ہے مگر عقل ، علم اور ذہن کون بانٹ سکتا ہے.پس مساوات اتحاد باطنی سے ہی قائم ہو سکتی ہے.بوڑھے اپنے اندر یہ عزم پیدا کریں کہ آخر دم تک لڑیں گے.حضرت خالد بن ولید جب فوت ہونے لگے تو بے اختیار رو ر ہے تھے.آپ کے دوستوں نے کہا کہ آپ کو تو خوش ہونا چاہئے کہ آپ اپنے رب کے پاس انعام لینے جاتے ہیں.مگر آپ نے کہا یہ ٹھیک ہے مگر میرے بدن پر سے کپڑا اٹھا کر دیکھو کوئی دو انگلی بھر بھی جگہ ایسی نہ ہو گی جہاں تلوار کا زخم نہ ہو مگر میری قسمت میں شہادت نہ تھی اور آج میں چارپائی پر جان دے رہا ہوں.۲۰، تو مومن ہر حالت میں اور ہر عمر میں خدا کا سپاہی ہوتا ہے.اب دیکھ لو ہم میں سے کتنے ہیں جو اپنے آپ کو خدا کا سپاہی سمجھتے ہیں، کتنے ہیں جو تبلیغ کے لئے وقت دیتے ہیں اگر پوچھا جائے تو کہیں گے وقت نہیں ملتا حالا نکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو سوائے کام کے چھ سات گھنٹوں کے باقی سارا وقت ان کا ضائع جاتا ہے.اگر وقتوں کی نگرانی کی جائے تو اتنا ہی وقت تبلیغ کے لئے نکال سکتے ہیں.صرف ہمت پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور اس امر کی ضرورت ہے کہ جوان بوڑھوں والی
الحرام ما عقل اور فراست پیدا کریں اور بوڑھے جوانوں والی ہمت.مرد عورتوں والا استقلال اور ایثار پیدا کریں اور عورتیں مردوں والی جرأت اور دلیری اور اقدام پیدا کریں.علم والے جب جاہلوں کی طرح خدا کے در پر نہ گر جائیں، کچھ فائدہ نہیں ہو سکتا.اور جاہل جب تک یہ نہ سمجھ لیں کہ ایمان کی روشنی کے بعد دنیوی علوم کی کیا حقیقت ہے اور یہ ان کے رستہ میں حائل نہیں ہو سکتے اس وقت تک ترقی محال ہے.یہ حالت پیدا کرو پھر دیکھو دو چار سال کے ہی قلیل عرصہ میں تم کس طرح دنیا کو تہ و بالا کرتے ہو مگر ضرورت عمل کی ہے مونہہ کی باتوں سے کچھ نہیں بنتا.مساوات عمل سے قائم ہوتی ہے اور جس دن ہم یہ باتیں اپنے اندر پیدا کر لیں پھر حقیقت میں ایک جگہ جمع ہو سکتے ہیں جس کا لازمی نتیجہ عید ہے.میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ ہزار پانچ سو آدمی بھی اگر مرنے کے لئے تیار ہو جائیں.اتنے نہیں اگر دس بلکہ ایک ہی ہو جائے تو بھی اسے کوئی نہیں مار سکتا.حقیقی موت کا پیالہ چکھنے والی انبیاء کی جماعتیں ہوتی ہیں.اور دنیا ان کو مارنے کے لئے کتنا زور لگائے نہیں مار سکتی.بتاؤ کبھی کسی نبی کی جماعت کو کسی نے ہے کبھی کوئی نبی مرا ہے نہیں بلکہ انہوں نے ہمیشہ کی زندگی پائی ہے اور ہمیشہ زندہ رہیں گے.پس حقیقی زندگی کے لئے موت کا پیالہ چکھنا ضروری ہے.جو ان آدمی کے نفس میں شوخی اور شرارت ہوتی ہے.اسے مار کر بڑھاپا پیدا کرنا اور اسی طرح بڑھاپے کو مار کر جوانی پیدا کرنا موت ہے.مرد کی موت یہ ہے کہ عورت والا استقلال اور ایثار اپنے اندر پیدا کرے اور عورت کی یہ ہے کہ مرد والی جرأت اور اقدام پیدا کرے.اسی طرح غریب کی موت یہ ہے کہ اپنے کو امیر سمجھے کنگال ہونے کے باوجود حوصلہ بلند رکھنا گویا غربت کے وجود کو مار دینا ہے اور امیر کے لئے اپنی امارت پر گھمنڈ نہ کرنا اور دل میں غربت پیدا کرنا موت ہے.اور یہ موتیں اگر اپنے اوپر وارد کرلی جائیں تو جماعت کامیاب ہو سکتی ہے.اس کے لئے کسی بڑی قربانی کی ضرورت نہیں صرف نیت کی ضرورت ہے.اسی منٹ میں اگر نیت کر لی جائے تو جو ان بوڑھا بن سکتا ہے اور بوڑھا جو ان.مرد عورت بن سکتی ہے اور عورت مرد.صرف ارادہ کی دیر ہے اور پھر سمجھ لو کہ حقیقی عید دروازہ پر کھڑی ہے.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں بچے اور مخلص مومن بننے کی توفیق دے ہمارے درمیان سے تمام امتیازات کو مٹا کر ہم کو ایک کر دے.ہم كَانَّهُمْ بُنْيَانُ مرصوص ال کی طرح ہو کر خدا کی خدمت میں لگ جائیں.اور اللہ تعالی ہمارے ہاتھوں
۲۴۷ سے اس کام کو پورا کرے جس کے لئے اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا.ل صحیح بخاری کتاب العیدین (الفضل ۷.فروری ۱۹۳۵ء) - ٹریم: بجلی سے چلنے والی گاڑی جو شہر کی سڑکوں پر ریل کی پٹری ڈال کر چلائی جاتی ہے.الحشر : ۱۵ الانفال: ۶۴ ه سیرت الامام ابن ہشام جزء ثالث صفحہ ۷۶ ن تریا ہٹ: عورتوں کی ضد ک بالک ہٹ: بچے کی ضد ہمایوں نامہ.اردو ترجمہ صفحہ ۳۷.مصنفہ گلبدن بیگم بنت بابر بادشاہ Rudyard Kipling Ballad of East and West ترمذى كتاب الدعوات باب التوبة لك التحريم: ١٢١١ التوبة : ۱۳۲۲ طه ۱۱۵ صحیح بخاری کتاب العلم باب قول النبي صلى الله عليه وسلم اللهم علمه الكتاب صحیح بخاری کتاب العلم باب فضل من علم و تعلم الحجر : ٨٩ صحيح بخارى كتاب الزكوة باب التحريض على الصدقة والشفاعة فيها وكتاب العيدين باب موعظة الامام النساء يوم العيد حله انس بن مالک ۶۱۲ء - خادم حضور صلی اللہ علیہ وسلم ولید بن عبدالملک کے عہد میں وفات پائی.تفصیلی حالات کے لئے دیکھیں طبقات ابن سعد جلد ہفتم جزء اصفحه ۱۵-۱۶ ۱۸ سیرت الامام ابن ہشام جزء ثالث صفحہ ۷۶
۲۴۸ ۱۹ طبقات ابن سعد (اردو ترجمہ) حصہ اول صفحه ۲۸۵ ٢٠ الاستيعاب في معرفة الاصحاب جلدا صفحه ۱۵۸ مطبوعہ دائرۃ المعارف - حیدر آباد ال الصف: ۵
۲۴۹ (۲۵) ( فرموده ۲۸ دسمبر ۱۹۳۵ء بمقام عید گاہ.قادیان) اللہ تعالیٰ اپنے تمام بندوں کا اس سے زیادہ متکفل ہوتا ہے جتنا کہ ماں باپ اپنے بچوں کے متکفل ہوتے ہیں.پس انسان کو اپنے تعلقات کی بنیاد اس محبت پر رکھنی چاہئے جو خدا تعالیٰ اپنے بندوں کی نسبت ظاہر کرتا ہے.بہت سے لوگ خدا تعالی کے ساتھ اپنا تعلق ایسا رکھتے ہیں جو صرف خوف پر مبنی ہوتا ہے لیکن ایسا تعلق کبھی بھی انسان کے اندر روحانیت پیدا نہیں کرتا.وہی تعلق روحانیت کو پیدا کرتا ہے جس میں خوف کے ساتھ محبت بھی شامل ہو بلکہ محبت کا پہلو غالب ہو.اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے رَحمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْ ءٍ لا یعنی میری رحمت تمام باقی صفات پر غالب ہے اور مخلوقات پر جس شدت سے میری دوسری صفات نازل ہوتی ہیں اس سے زیادہ میری رحمت نازل ہوتی ہے.پس اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل تعلق انسان کا خدا تعالیٰ سے محبت کا ہے.، خوف کا حصہ یا تو کمزور انسانوں کے لئے ہے یا کامل انسانوں کے لئے ان معنوں میں ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی سزا سے نہیں بلکہ اس کی ناپسندیدگی سے خوف رکھتے ہیں اور یہ خوف بھی محبت کی ایک شاخ ہے اس سے مجدا نہیں.جو لوگ صرف سزا کے خوف سے اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرتے ہیں وہ کبھی بھی اس کے حکموں کی حکمت سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور ان کا عظیم دین کبھی مکمل نہیں ہوتا اور نہ ہو سکتا ہے کیونکہ جو شخص یہ سمجھتا ہو کہ میں نے تو مار کے ڈر سے کام کرنا ہے وہ حکمت سمجھنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھتا مگر جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے سب سے زیادہ پیار کرنے والا ہے وہ چھوٹے سے چھوٹے حکم کو بھی اپنے فائدہ اور بہتری کے لئے خیال کرتا ہے اور جب اسے ظاہر نظر میں کوئی بہتری نظر نہیں آتی تو وہ اس حکم پر غور کرتا اور اس کی حقیقت کو معلوم کرنا چاہتا ہے تب اس کی روحانی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور اس کی باطنی نظر تیز ہو جاتی ہے اور وہ اسرار الہیہ کا واقف ہونا شروع ہو جاتا ہے.میں نے اپنی ساری عمر میں جو کچھ قرآن کریم سے حاصل کیا ہے اور جو اس کے مخفی خزانے مجھے پر کھلے ہیں ان کی بنیاد اس امر پر ہے کہ میں نے
۲۵۰ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی محبت کو ہر دوسری محبت سے زیادہ محسوس کیا ہے اور کبھی بھی میں یہ خیال نہیں کر سکا کہ اس نے کوئی بات مجھے ایسی کسی ہوگی جو بے وجہ اور بے فائدہ ہو گی.تب میں نے اس کے تمام احکام پر نہایت سنجیدگی اور کامل غور کے ساتھ توجہ کی اور ہمیشہ مجھے یہ معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ بھی قرآن کریم میں نازل کیا گیا ہے وہ اپنے اندر بے انتہا فائدے اور بے حد نفع میرے لئے اور میرے ساتھیوں کے لئے رکھتا ہے بلکہ میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ اگر خدا تعالیٰ کی محبت پر مجھے یہ یقین نہ ہوتا اور میں کسی خوف کی بناء پر اس کے کلام کو دیکھا تو قرآن کریم میرے لئے بالکل بے معنی ہوتا اور اس کی معرفت کی باتیں مجھ پر کبھی نہ کھلتیں.پس آج عید کے دن جب کہ ہر ایک کا دل خوشی سے معمور ہے اور جب عزیز عزیز کو تحفہ دینے کی خواہش رکھتا ہے اور جب دوست اپنے دوست کی خدمت میں ہدیہ پیش کرتا ہے میں چاہتا ہوں کہ میں آپ لوگوں کو عید کا یہ تحفہ پیش کروں کہ ہمارا خدا کامل محبت ہے.کوئی محبت اس کے مقابل پر نہیں ٹھر سکتی خواہ ماں باپ کی ہو، خواہ خاوند بیوی کی ہو، خواہ استاد کی ہو خواہ شاگرد کی ہو، خواہ اولاد کی ہو، خواہ دوستوں کی ہو، خواہ ماتحتوں کی ہو، خواہ حکام کی ہو، خواہ چھوٹوں کی ہو، خواہ بڑوں کی ہو، اس کی محبت ایک سورج ہے جس کے مقابل پر تمام محبتیں ایک جگنو کی چمک سے بھی کم ہیں.پس اس محبت کو لے لو اور اس محبت کو اپنے دل میں جگہ دو کہ اس سے زیادہ قیمتی اور کوئی چیز نہیں.۳.جس کو وہ محبت مل گئی اسے سب کچھ مل گیا اور جسے وہ نہ ملی وہ دنیا کی ہر نعمت سے محروم رہا.دنیا میں انسان چھوٹی چھوٹی نعمتوں کی بھی قدر کرتے ہیں.پھر میں نہیں سمجھ سکتا کہ خدا کی طرف سے جو اتنا قیمتی تحفہ انسان کو ملا ہے کیوں انسان اس کی قدر نہیں کرتا اور کیوں ایک مومن کہلانے والا انسان شریعت پر اس لئے عمل کرتا ہے کہ کہیں خدا اس کو سزا نہ دے یہ سزا کا خیال ہمارے دل میں پیدا ہی کیوں ہو جب کہ خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے حکم اس لئے نازل نہیں کئے کہ ہم ان کو توڑیں اور سزا پائیں بلکہ اس لئے نازل کئے ہیں کہ ہم کو ان سے ہدایت اور راہنمائی حاصل ہو اور ایسی پاکیزگی ہمارے دلوں میں پیدا ہو جائے جس کی وجہ سے ہم اپنے قدوس خدا کو دیکھ سکیں گے اس کی محبت کی گرمی کو محسوس کر سکیں اس کی شفقت کے ہاتھ کو چھو سکیں اور اپنے دل کو خدا تعالیٰ کے انوار سے منور کر سکیں.پس اے دوستو ! یقین کرو کہ تمہارا خدا محبت کرنے والا ہے.۵ تمہارے دل میں اپنے
۲۵۱ بچوں کو قریب کرنے کی جو خواہش پیدا ہوتی ہے اس سے بہت زیادہ خدا تعالیٰ کو خواہش ہے کہ آپ کو اپنے قریب کرے.اور تمہارے دل میں بچوں کی دوری پر جو رنج محسوس ہوتا ہے اس سے بہت زیادہ خدا تعالیٰ کو اپنے بندے کی دوری پر رنج محسوس ہوتا ہے.تہ یہ خیال مت کرو کہ تم خدا تعالیٰ کو کیونکر پاسکتے ہو کیونکہ اگر صرف تمہارے دل میں خدا تعالیٰ کو پانے کی خواہش ہوتی تو بے شک معاملہ نہایت مشکل ہو تا لیکن یہاں تو معاملہ ہی بالکل الٹ ہے ملنے کی خواہش تو خدا کے دل میں پیدا ہو رہی ہے کہ تم اسے نہیں ڈھونڈ رہے.تم اسے تلاش نہیں کر رہے بلکہ وہ تمہیں تلاش کرتا پھرتا ہے اور یہ کیونکر ممکن ہے کہ خدا تعالی تلاش کرے اور پھر نہ پائے.پس اس میں کوئی بھی شبہ نہیں کہ اگر تم اپنے تعلقات کی بنیاد خدا تعالیٰ کی محبت پر رکھو تو تم اس وقت سے پہلے نہیں مرسکتے جب تک خدا تعالیٰ کا قرب تم کو نہ مل جائے.اللہ تعالیٰ اس بندے کو جس کے دل میں ایک ذرہ بھر بھی اس کی محبت ہو کبھی گمراہ نہیں ہونے دیتا ، بلکہ سارا جہان بھی اگر اسے مارنا چاہے تو وہ اس کی موت کو ٹلاتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اس کے نور کو دیکھ لے اور اسی دنیا میں خدا تعالٰی کی زیارت کرلے.کیونکہ مَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَعْمَى فَهُوَ فِي الاخِرَةِ أَعْمَى..جو کوئی اس دنیا میں اندھا ہو وہ آخرت میں اندھا ہی اٹھایا جاتا ہے.اگر.محبت رکھنے والا شخص خدا تعالیٰ کو دیکھے بغیر مرجائے تو اس کے معنی یہ ہونگے کہ وہ اندھا مرا اور اس لئے اگلے جہان میں اندھا ہی اٹھایا جائے گا.مگر اس کے ساتھ اس کے یہ معنی بھی ہوں گے کہ خدا تعالیٰ کی محبت بھی اندھی ہو سکتی ہے اور یہ کبھی نہیں ہو سکتا پس ایسا شخص کبھی بھی اللہ تعالیٰ کو دیکھے بغیر نہیں مرتا.مگر ضرورت ہے کہ ایمان کی بنیاد محبت پر رکھی جائے اور خوف کو کمزوروں یا کمزور حالتوں کے لئے چھوڑ دیا جائے.ہر انسان کو دن میں ایک وقت یا کم یا زیادہ بار پاخانہ میں جانا پڑتا ہے مگر کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ انسان کی پیدائش صرف پاخانہ پھرنے کے لئے ہوئی ہے.پھر تم کس طرح یہ خیال کر سکتے ہو کہ خدا تعالیٰ نے بندے کو خوف کے لئے بنایا ہے.خوف کی حالت تو بالکل ویسی ہے جیسے انسان کا پاخانہ میں جانا.جس طرح پاخانہ کا وقت دوسرے کاموں کے مقابلہ میں تھوڑا اور بے حقیقت ہے اسی طرح خوف رحمت اور محبت کے مقابلہ میں چھوٹا اور بے حقیقت ہے.ہم یہ نہیں کہتے کہ اس کی ضرورت نہیں انسان کو پاخانہ پھرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے مگر پاخانہ اس کا مقصود نہیں.اسی طرح ایک ادنی انسان کو گناہوں سے بچانے کے لئے خوف کی بھی ضرورت ہے مگر ایک حقیقی مومن کے ایمان کی اصل
۲۵۲ بنیاد محبت ہے.لے اور جب تک کوئی شخص اس نکتہ کو نہیں سمجھتا معرفت کے دروازے اس پر نہیں کھولے جاتے مگر جس پر یہ نکتہ حل ہو جاتا ہے اس کا قدم ہر وقت آگے بڑھتا ہے اور اس کو کی روحانیت پر کبھی موت نہیں آسکتی اس کی غلطیاں اسے آگے بڑھاتی ہیں اور نیکیاں بھی.لاہ کیا تم نہیں دیکھتے کہ ایک بچہ تلاتا ہے اور بولنے میں غلطی کرتا ہے تو ماں بجائے مارنے کے اسے چومنے لگتی ہے.پس جس بندے کا تعلق خدا تعالیٰ سے محبت کا ہوتا ہے جب اس سے کوئی خطا ہو تو اللہ تعالیٰ کی محبت اور بھی جوش میں آتی ہے اور وہ اسے گودی میں اٹھا لیتا ہے اور پیار کرتا ہے.کیا تم نے کبھی دیکھا ہے کہ کسی کا بچہ گر جائے اور وہ اسے مارنے لگے وہ اسے اٹھاتا بلکہ اگر اسے کمزور دیکھے تو گود میں اٹھا لیتا ہے.پس جب خدا تعالی کا بندہ جو اپنے اندر بچوں والی محبت محسوس کرتا ہے گر جاتا اور گناہ کی ٹھوکر کھاتا ہے تو خدا تعالٰی بھی محبت کرنے والے ماں باپ کی طرح بجائے مارنے کے اسے اٹھا لیتا ہے.اس کی گرد جھاڑتا ہے اور اسے پیار کرتا اور تسلی دلاتا ہے اور اگر بہت کمزور دیکھے تو محبت کے ہاتھوں میں اسے اٹھا لیتا ہے.اگر اس کا یہ سلوک نہ ہو تو روحانیت کا دروازہ بالکل بند ہو جائے اور کوئی انسان خواہ کتنا طاقتور ہو کبھی روحانیت کے میدان میں ایک قدم نہ اٹھا سکے کیونکہ ایک حقیر کیڑے سے بنے ہوئے انسان کی کیا طاقت ہے کہ ازلی ابدی خدا کو ملے.تلا- اس کا ملنا اسی طرح ممکن ہے کہ ازلی ابدی خدا آپ اس کے پاس آتا اور آپ اسے ڈھونڈتا اور آپ اس کی جستجو کرتا ہے.پس میں آپ کو آج عید کے دن اس عید کے دن جو اس جلسہ کے بعد آئی ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قائم کیا ہے ، سلا، اس عید کے دن جس میں چاروں اطراف کے احمدی قادیان میں موجود ہیں ، وہ عید جو ۳۶ سال کے بعد ہی پھر آسکتی ہے ، آپ لوگوں کو یہ تحفہ پیش کرتا ہوں ان کے رب کی محبت کا تحفہ.انہیں چاہئے کہ اسے ادب کے ہاتھوں میں لیں اور دلوں میں رکھ لیں اور آج سے اس یقین پر قائم ہو جائیں کہ ان کا خدا تمام محبت کرنے والوں سے زیادہ محبت کرتا ہے پھر وہ دیکھیں گے کہ ان کے دلوں کی حالت بدل جائے گی.وہ خدا تعالیٰ کو ہر وقت اپنے قریب پائیں گے ان کے دماغوں میں ایک روشنی پیدا ہو جائے گی جو اس سے پہلے انہوں نے نہ دیکھی ہوگی اور ان کے دلوں میں ایسی سکینت پیدا ہوگی جو اس سے پہلے انہوں نے محسوس نہ کی ہوگی.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ ہمارے دوستوں کو اس تحفہ کی قیمت سمجھنے اور
۲۵۳ اس سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دے کہ وہی اول اور وہی آخر ہے، وہی اندر اور وہی باہر ہے ۱۴ اس کی مدد کے بغیر ہم کچھ نہیں کر سکتے اور جب اس کی مدد حاصل ہو جائے تو اور کسی چیز کی ضرورت بھی نہیں رہتی.نِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ال الاعراف: ۱۵۷ الفضل ۴.جنوری ۱۹۳۷ء) روحانی خزائن (اعجاز المسیح) صفحه ۱۳۸ مسند احمد بن حنبل جزءا صفحا المكتب الاسلامی بیروت کشتی نوح صفحه ۳۰ الجمعة : ٢ ه هود : ۹۱ ترمذی ابواب الزهد باب من احب لقاء الله - صحیح بخاری کتاب الادب باب رحمة الولد و تقبيله الخ که نسیم دعوت صفحه ۲۴ اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ ۵۲-۵۳ ܪ܂ صحیح بخارى كتاب الايمان باب حلاوة الايمان صحیح بخاری كتاب الايمان باب تفاضل اهل الايمان في الاعمال بنی اسراءیل : ۷۳ صحیح بخاری کتاب الادب باب الحب في الله لله النساء :۴۱، صحیح بخاری کتاب الادب باب علامة حب الله لا البقرة : ۲۵۶ ۱۳ جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ کی طرف اشارہ ہے.جو ہر سال ۲۶-۲۷-۲۸ دسمبر کو ނ منعقد ہوتا ہے اور جس کا قیام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقدس ہاتھوں.۱۸۹۱ء میں ہوا.۱۹۳۵ء میں ۲۸ دسمبر کو عید ہونے کی وجہ سے جلسہ سالانہ ۲۷ دسمبر کو حضور کی اختتامی تقریر کے ساتھ ختم ہو گیا تھا.لیکن بیرو نجات کے بہت سے احباب عید پڑھنے کے لئے قادیان میں ٹھر گئے تھے.عید پڑھنے والوں کی کثرت کے پیش نظر یہ عید جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایک بے مثال اور نہایت ہی شاندار تقریب تھی.حضور عید بڑھانے کے لئے صبح نو بجے عید گاہ تشریف لے گئے تھے.لیکن چونکہ اس وقت
۲۵۴ تک قادیان کے دیہات کے احباب کی آمد جاری تھی.اس لئے حضور نے دس بجے عید کی نماز پڑھائی.احباب کی کثرت کے باعث خدشہ تھا کہ حضور کی آواز بغیر لاؤڈ سپیکر تمام احباب تک پہنچ نہ سکے گی.اس لئے یہ انتظام کیا گیا تھا کہ مختلف مقامات پر کئی ایک اصحاب کو کھڑا کر دیا گیا.حضور ایک فقرہ کہتے تھے جس کے بعد یہ اصحاب باری باری حضور کا فرمودہ فقرہ دہراتے یہ اصحاب تعداد میں نو تھے.الفضل ۲.جنوری ۱۹۳۶ء) الحديد : ۴
۲۵۵ (۲۶) فرموده ۱۶ دسمبر ۱۹۳۶ء بمقام عید گاہ قادیان) دنیا میں دو قسم کی عیدیں ہوتی ہیں ایک عید مستقل عید ہوتی ہے اور ایک عید عارضی عید ہوا کرتی ہے.عارضی عیدوں کی مثال عید الفطر اور عید الاضحیہ ہیں یہ آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں لیکن ایک لمبے عرصہ کے بعد پھر ایک دن عید کا آجاتا ہے اور کچھ دنوں کے بعد دوسری عید آجاتی ہے.ان دونوں عیدوں کا آپس میں تقریباً سوا دو مہینے کا فرق ہوتا ہے اور یوں سال سال کے بعد عید آتی ہے.رسول کریم ملی لی لی لی لی نے جمعہ کو بھی عید قرار دیا ہے.لہ اس لحاظ سے ایک عید ہر ساتویں دن بھی آجاتی ہے مگر بہر حال چھ دنوں کے گزرنے کے بعد وہ آتی ہے ہفتہ اتوار ، پیر منگل بدھ اور جمعرات ان دنوں میں جمعہ والی عید نہیں ہوتی بلکہ عید جمعہ کا دن ہے اور جب جمعہ گزر جاتا ہے تو پھر عام دن آجاتے ہیں.پھر جمعہ آتا ہے اور پھر عام دنوں کا تسلسل شروع ہو جاتا ہے.بہر حال یہ تینوں قسم کی عیدیں عارضی ہیں مستقل عیدیں نہیں ہیں.اس میں اللہ تعالیٰ نے مومن کو یہ سبق دیا ہے کہ اسے اپنے روحانی مقام پر خوش نہیں ہو جانا چاہئے.اگر کوئی شخص جمعہ کے آنے پر بھول جائے.مثلاً طالب علم جمعہ کا دن آئے جو اس کے لئے چھٹی کا دن ہے تو چھٹی ملنے پر بھول جائے اور مدرسہ جانا چھوڑ دے تو دوسرے دن اس کو سزا ملے گی.ادھر اس کے ماں باپ اسے ناراض ہو کر گھر سے مدرسہ بھیجیں گے اور ادھر استاد اسے سزا دیں گے.یا عید کا دن آئے اور انسان سمجھ لے کہ بس عید آگئی اور روزے ختم ہو.اس کے بعد جب پھر رمضان کا مہینہ آئے تو کہے کہ میں اب روزے نہیں رکھ سکتا کیونکہ عید جو آگئی تھی تو ایسا شخص اپنے ایمان کو کھو بیٹھے گا اور خدا تعالیٰ کی نظروں سے گر جائے گا.غرض یہ عیدیں انسان کو اس امر کی طرف توجہ دلاتی ہیں کہ روحانی مقام بھی عارضی مقام ہوا کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ رحم فرمائے ایک احمدی تھے اب تو وہ فوت ہو چکے ہیں.ایک دوست نے سنایا کہ میں ان کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ سلسلہ کی ضروریات کے لئے چندہ دیں.وہ اچھے مال دار آدمی تھے مگر چندے کا ذکر سن کر کہنے لگے میں حضرت صاحب کے زمانہ میں بڑے
۲۵۶ بڑے چندے دے چکا ہوں اور اب میں سمجھتا ہوں مجھ پر کوئی چندہ نہیں.نتیجہ کیا نکلا؟ نتیجہ یہ نکلا کہ دوستوں نے ایک دن دیکھا کہ وہ نماز نہیں پڑھتے تو وہ کہنے لگے میں نے بڑی نمازیں پڑھی ہیں.سرکار بھی ایک لمبے عرصہ تک کام لینے کے بعد پنشن دے دیتی ہے خدا کیوں نہیں گا.تو دیکھو ایک چیز انہیں دوسری طرف لے گئی.انہوں نے اتکال کیا اور سمجھ لیا کہ میری عید آ گئی.نتیجہ یہ ہوا کہ پہلے چندہ گیا اور پھر نماز ان کے ہاتھ سے نکل گئی اور ہے اللہ تعالٰی نے رحم کیا کہ انہیں وفات دے دی ورنہ ممکن تھا وہ یہ بھی کہہ دیتے کہ خدا پر ہم بہت لمبا عرصہ ایمان لا چکے ہیں اب اس سے بھی پنشن ملنی چاہئے اور گو ان کا عملی حصہ چھن گیا مگر وفات کی وجہ سے ان کا ایمانی حصہ محفوظ رہا.یہ تو نہایت نمایاں اور کھلی مثال ہے لیکن اس نے قسم کی چھوٹی مثالیں قریباً ہر شہر اور ہر محلہ میں پائی جاتی ہیں.کچھ دنوں تک لوگوں میں خدمت دین کا جوش رہتا ہے اور وہ ہر قسم کی قربانیوں میں حصہ لیتے ہیں لیکن چند دنوں کے بعد ہی قربانیاں چھوڑ دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں ہم نے بہت کچھ کر لیا.یہ بے استقلالی کا مرض ہے جو لوگوں میں پایا جاتا ہے اور بے استقلالی غلط اشکال کا نام ہوتا ہے.انسان سمجھتا ہے میں نے بہت کچھ کر لیا اور وہ اس بات کو نہیں سمجھتا کہ ہماری شریعت میں بہت کے معنی ہی کوئی نہیں.دیکھو اللہ تعالیٰ یہ کبھی نہیں کہتا کہ میں نے اپنے بندہ کو بہت دے دیا لیکن بندہ چند دن خدمت کر کے یہ سمجھنے لگ جاتا ہے کہ میں نے بہت خدمت کر لی.کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ہندے تو خدا تعالیٰ کے دین کے متعلق یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ اس نے بہت کچھ دے دیا.لیکن خدا یہ نہیں کہتا کہ میں نے اپنے بندے کو بہت کچھ دے دیا چنانچہ دیکھ لو آریہ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ کچھ مدت تک انسانی ارواح کو جنت میں رکھ کر خدا تعالٰی پھر انہیں جنت سے نکال دے گا اور دنیا میں واپس بھیج دے گا.مثل مشہور ہے داتا دے اور بھنڈاری کا پیٹ پھٹے.خدا تعالیٰ تو کہتا ہے کہ میں اپنے بندوں کو ابدی جنت دوں گا لیکن آریہ کہتے ہیں کہ ابدی جنت کس طرح دے سکتا ہے.اگر وہ دینے لگے تو اس کا خزانہ نَعُوذُ بِالله خالی ہو جائے.یہ اعتراض در اصل ان کی اپنی فطرت کا آئینہ دار ہوتا ہے.ان کی اپنی فطرت میں چونکہ نجل ہوتا ہے اور یہ کہنے کے عادی ہوتے ہیں کہ بہت کچھ دے چکے بڑی خدمتیں کرلیں اس لئے وہ خدا تعالیٰ کی طرف بھی وہی بات منسوب کر دیتے ہیں حالانکہ جنت کی نعماء کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عَطَاء غَيْرَ مَجْذُون کہ ہم جو کچھ جنتیوں کو دیں گے وہ واپس نہیں لیں گے بلکہ ہمارا انعام برابر چلتا چلا
۲۵۷ جائے گا.اور دراصل عام مومن کے لئے وہی حقیقی عید ہے گویا جو نہ ہٹنے والی عید عام مومن کے لئے ہے وہ جنت ہے اور جنت ہی بندے کا اصل مقام ہے جو بندہ اس دنیا میں اپنے روحانی کاموں کو چھوڑ کر بیٹھ جاتا ہے وہ تباہ ہو جاتا ہے.مجھے ہمیشہ ایک لطیفہ یاد رہتا ہے ایک دفعہ جمعہ کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد مسجد سے روانہ ہونے لگا تو ایک دوست نے کہا کوئی صاحب آئے ہوئے ہیں اور وہ کچھ باتیں دریافت کرنا چاہتے ہیں.وہ کوئی غیر احمدی تھا جو ہوشیار پور کی طرف کا تھا وہ آگے بڑھا اور کہنے لگا کہ میں ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں.میں نے کہا فرمائیے.وہ کہنے لگا اگر کوئی دریا کے دوسرے ! کنارے جانے کے لئے کشتی میں بیٹھ جائے تو کنارے پر پہنچ کر کیا کرے.اس سوال کے دو ہی جواب دیئے جا سکتے تھے کہ وہ اُتر جائے یا بیٹھا رہے اور عام حالات میں انسان یہی جواب دے سکتا ہے کہ جب دریا کا کنارہ آجائے تو عقلمند آدمی کا کام یہی ہے کہ کشتی سے اُتر جائے.پس اپنے خیال میں اس نے ایک چیستان ڈالی تھی اور اس کا خیال تھا کہ میں یہی جواب دوں گا کہ جب کنارہ آجائے تو انسان اتر جائے اور میرے اس جواب پر اس نے پھر دوسری بات یہ کہنی تھی کہ بہت اچھا جب انسان کو خدا مل گیا تو پھر اسے عبادت کرنے کی کیا ضرورت ہے.مگر جو نہی اس نے یہ سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس سوال کی حقیقت مجھ پر ظاہر کر دی اور میں نے اسے یہ جواب دیا کہ اگر تو جس دریا میں وہ کشتی پر سوار ہے اس کا کوئی کنارہ ہے تو بے شک جب کنارہ آئے تو اُتر جائے لیکن اگر اس دریا کا کوئی کنارہ نہیں تو پھر وہ جہاں اُتر ا ڈوبا.میرے اس جواب پر وہ حیران سا رہ گیا اور تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد کہنے لگا تو پھر یہ عبادتیں ہمیشہ ہی کرنی پڑیں گی.وہ شخص دراصل عام فقیروں سے اس قسم کی باتیں سن کر آیا تھا اور اس کا مطلب ؟ تھا کہ نماز پڑھی جاتی ہے خدا تعالیٰ سے ملنے کے لئے لیکن جسے خدا تعالیٰ مل گیا اسے نماز لی کیا ضرورت ہے.روزے رکھے جاتے ہیں خدا تعالیٰ سے ملنے کے لئے لیکن جسے خدا مل گیا اسے روزوں کی کیا ضرورت ہے اسی طرح زکوۃ دی جاتی ہے خدا سے ملنے کے لئے لیکن جسے خدامل گیا اسے زکوۃ کی کیا ضرورت ہے.غرض جتنی نیکیاں ہیں وہ خدا تعالیٰ سے ملنے پر ختم ہو جاتی ہیں کیونکہ نیکیاں سواری کی طرح ہوتی ہیں اور جب انسان گھر پہنچ جائے تو سواری پر بیٹھا رہنا بے وقوفی ہوتی ہے.میں نے اس کے اعتراض کو سمجھ کر یہی جواب دیا کہ جب منزل مقصود محدود ہو تو انسان سواری سے اُتر
۲۵۸ پڑے لیکن جب منزل مقصود غیر محدود ہو تو سواری سے اترنے کے معنی ہی کیا ہوئے وہ تو جہاں اُترے گا وہیں تباہ ہو گا.غرض میرے دل پر اللہ تعالٰی نے حقیقت کو منکشف کر دیا اور میں نے اسے یہی کہا کہ غیر محدود دریا میں کشتی سے اُترنے والا ڈوبے گا نجات نہیں پائے گا.اسی طرح بہت سے لوگ دنیا میں موجود ہیں جو گو ایسے فقیروں کے مرید نہیں ہوتے مگر اس قسم کے خیالات میں مبتلاء ہوتے ہیں.وہ چھپے رہتے ہیں اور لوگوں کو ان کے خیالات کا علم نہیں ہوتا لیکن ایک دن آتا ہے کہ وہ ننگے ہو جاتے ہیں اور ان کے عقائد لوگوں پر کھل جاتے ہیں اور گو وہ بظاہر ان فقیروں کے قائل نہیں ہوتے لیکن عملاً انہی کے قائل ہوتے ہیں.اور کچھ دن نمازیں پڑھتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ نمازیں بہت پڑھ لیں اب انہیں نمازوں کی ضرورت نہیں رہی وہ کچھ دن روزے رکھتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ انہوں نے بہت روزے رکھ لئے اب انہیں روزوں کی ضرورت نہیں رہی، وہ چند دن صدقہ و خیرات دیتے ہیں اور خیال کرنے لگ جاتے ہیں کہ اب صدقہ و خیرات دینے کی انہیں ضرورت نہیں رہی کیونکہ وہ بہت صدقہ دے چکے حالا نکہ وہ اپنے کھانے پینے اور پہننے میں کبھی یہ خیال نہیں کرتے کہ ہم نے بہت کھالیا یا بہت پی لیا یا بہت پہن لیا وہ کچھ دن روٹی کھانے کے بعد یہ نہیں کہتے کہ ہم نے بہت روٹی کھائی اب ہمیں روٹی کھانے کی ضرورت نہیں ، وہ کچھ دن پانی پینے کے بعد یہ نہیں کہتے کہ ہم نے بہت پانی پی لیا اب ہمیں پانی پینے کی ضرورت نہیں ، وہ کچھ دن کپڑے پہننے کے بعد یہ نہیں کہتے کہ ہم نے بہت کپڑے پہن لئے اب ہمیں کپڑوں کی ضرورت نہیں اور اب آئندہ نہ تو کھانا کھانے کی ضرورت ہے نہ پانی پینے کی ضرورت ہے نہ کپڑے پہننے کی ضرورت ہے بلکہ وہ اپنے جسم کی طاقت قائم رکھنے اور بدن کو سردی گرمی کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہتے ہیں مگر روح کی طاقت کا جہاں سوال آتا ہے وہ یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ ہم نے بہت عبادتیں کر لیں اب نماز روزے کی کیا ضرورت ہے.گویا جسمانی غذا کے متعلق تو انسان ہمیشہ یہ خیال کرتا ہے کہ مجھے فلاں فلاں غذا ملتی رہنی چاہئے مگر روحانی غذا کے متعلق وہ ہمیشہ اس طرف مائل رہتا ہے کہ میں اس غذا کو کسی وقت چھوڑ دوں حالانکہ جس طرح انسان کو جسمانی غذا کی ہر وقت ضرورت ہے اسی طرح اسے روحانی غذا کی بھی ہر وقت ضرورت ہے.مگر حالت یہ ہے کہ کچھ عرصہ تو نمازیں پڑھی جاتی ہیں، روزے رکھے جاتے ہیں اور دوسرے احکام شریعت پر عمل کیا جاتا ہے لیکن جونہی چند خواہیں آئیں یا بعض آسمانی
۲۵۹ برکات و فیوض سے اسے حصہ ملا اس نے یہ سمجھنا شروع کر دیا کہ اب مجھے ان عبادتوں کی کوئی ضرورت نہیں رہی میں مادر پدر آزاد ہو گیا.مجھے نہ نماز کی ضرورت ہے نہ روزہ کی ضرورت ہے نہ زکوۃ کی ضرورت ہے، نہ حج کی ضرورت ہے نہ نظام سلسلہ کی پابندی کی ضرورت ہے نہ فرمانبرداری اور اطاعت کی ضرورت ہے اب خدا تعالیٰ سے براہ راست میرا اتصال ہو گیا.اس احمق کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے گورنر جب بادشاہ سے ملنے کے لئے جاتا ہے تو بعض دفعہ بادشاہ اس گورنر کے چپڑاسی سے بھی ہنس کر بات کر لیتا ہے.اس پر اگر وہ چپڑاسی نوکری چھوڑ دے اور یہ سمجھنے لگ جائے کہ اب میں اتنا بڑا ہو گیا ہوں کہ بادشاہ مجھ سے براہ راست گفتگو کر سکتا ہے تو وہ نادان ہے.وہ نہیں سمجھتا کہ جس وقت گور نر چلا جائے گا اور وہ وہیں رہے گا تو اسے کان پکڑ کر باہر نکال دیا جائے گا اور جس دن وہ گورنر کی نوکری سے الگ ہو جائے گا کوئی اسے اپنے دروازہ میں بھی گھنے نہیں دے گا.در حقیقت کسی وقت چپڑاسی سے بادشاہ کا کلام کرنا چپڑاسی سے کلام کرنا نہیں بلکہ گورنر سے کلام کرنا ہے اور اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے ہمارے پاس جب کوئی دوست ملنے آتا ہے اور اس کے ساتھ کوئی چھوٹا بچہ ہوتا ہے تو ہم اس چھوٹے بچے کو بھی پیار کر دیتے ہیں.اب اس بچہ سے پیار کرنا دراصل اس دوست سے اپنی محبت کا اظہار کرنا ہے ورنہ بچے سے ہمیں کونسی محبت ہو سکتی ہے.وہ تو جب بڑا ہو گا تب معلوم ہو گا کہ وہ ہم سے دوستی رکھتا ہے یا دشمنی لیکن اب جو ہم اسے پیار کرتے ہیں تو دراصل اپنے دوست کے لئے.اور چونکہ ہمارے دوست کے اعمال ظاہر تھے اور ہم جانتے تھے کہ وہ ہم سے محبت کرتا ہے اس لئے ہم نے اس کے بچہ سے بھی پیار کر دیا.پس کئی لوگ اس بیوقوفی کی وجہ سے کہ ان پر بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی فیض نازل ہو چکا ہے سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ اب ہم اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ ہمیں کسی خدمت کی ضرورت نہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ مارے جاتے ہیں اور تباہ ہو جاتے ہیں.وہ ایک عارضی عید کو مستقل عید سمجھ لیتے ہیں اور اس طرح روحانی لحاظ سے ہلاک ہو جاتے ہیں حالانکہ مستقل عید مرنے کے بعد کی عید ہے یا اس شخص کے لئے مستقل عید ہے جو اپنی زندگی میں ہی مر گیا مگر عمل ایسے شخص سے بھی معاف نہیں ہوتے.دوسری بیوقوفی یہ ہوتی ہے کہ لوگ عمل کو سزا سمجھتے ہیں حالانکہ اگر عمل کرنا سزا ہے تو پھر غذا بھی سزا ہے کیونکہ آخر روٹی کھانا بھی ایک عمل ہے، پانی پینا بھی ایک عمل ہے اور کپڑا پہننا بھی ایک عمل ہے مگر جسمانیات
میں تو لوگوں کی یہ عادت ہے کہ انہیں جتنی جتنی طاقت ملتی ہے اتنا ہی وہ کھانے پینے اور پہننے کے عمل کو زیادہ کرتے جاتے ہیں کم نہیں کرتے.چنانچہ دیکھ لو ایک طاقتور آدمی اپنی روٹی کم نہیں کرتا بلکہ اپنی سابقہ نسبت سے زیادہ کر دیتا ہے یا جب آدمی مالدار ہو جائے تو اپنے کپڑوں کی تعداد کم نہیں کر دیتا بلکہ زیادہ کر دیتا ہے مگر روحانیات میں لوگ چاہتے ہیں کہ ان کی غذا کم ہو جائے حالانکہ روحانیت رکھنے والے افراد بھی جوں جوں انہیں روحانی طاقت حاصل ہوتی ہے اپنی روحانی غذا کو زیادہ کرتے جاتے ہیں کم نہیں کرتے.ایک پہلو ان کی غذا اور بچہ کی غذا میں کیا فرق ہے یہی کہ بچہ کم کھاتا ہے اور پہلوان زیادہ کھاتا ہے.مگر عجیب بات یہ ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں وہ روحانی پہلوان ہونے کا دعویٰ تو کر دیں مگر اپنی غذا بچے والی رکھیں.کیا تم نے کبھی دیکھا کہ کسی پہلوان نے چوسنی سے دودھ پینا شروع کر دیا ہو اور وہ یہ کہتا ہو کہ اب چونکہ میں پہلوان ہو گیا ہوں اس لئے میں چوسنی سے دودھ پیتا ہوں.جب نہیں بلکہ دنیا کے جسم کے معاملہ میں یہ کہا جاتا ہے کہ پہلوان اور بچہ کی کیا نسبت ہے تو روحانی معاملات میں لکھی کی طرف آنا بھی کسی روحانی آدمی کا کام نہیں ہو سکتا.تم نے کبھی نہیں دیکھا ہو گا کہ ایک مضبوط پہلوان یہ کہے کہ ایک دودھ کی کٹوری مجھے میر کرنے کے لئے کافی ہے.سیر بھر دودھ اور دوسری مقوی غذاؤں کی مجھے ضرورت نہیں.مگر روحانی معاملہ میں جہاں انسان پر ذرا سا بھی الہی فیضان نازل ہو وہ کمزوری دکھانا شروع کر دیتا ہے اور کہتا ہے اب مجھے ان مجاہدات کی کیا ضرورت ہے ایسا خیال جنون کی علامت تو ہو سکتا ہے مگر عقل کی علامت نہیں کہلا سکتا.غرض عمل کسی صورت میں ترک نہیں کیا جا سکتا نہ اس دنیا میں نہ اگلے جہان میں فرق صرف یہ ہے کہ اگلے جہان جو مومن کی مستقل عید ہوگی اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اب یہ انعام ضائع نہیں ہو سکتا ورنہ کام اس جگہ بھی نہیں چھوڑا جائے گا.آخر عید کے دن خدا تعالٰی نے کوئی نماز معاف تو نہیں کر دی بلکہ ایک نماز اس نے زائد کر دی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اسلامی اور روحانی عید کام چھوڑنے کا نام نہیں بلکہ کام میں زیادتی کرنے کا نام ہے.غرض عمل کسی صورت میں نہیں چھوڑا جا سکتا نہ اس جہان میں نہ اگلے جہان میں.ہاں انعام مستقل ہو سکتا ہے اور وہ کبھی اس دنیا میں بھی مستقل طور پر انسان کو حاصل ہو جاتا ہے.جو لوگ اس دنیا میں زندہ رہتے ہوئے مرجاتے ہیں ان کا انعام اللہ تعالیٰ کی طرف سے مستقل ہو جاتا ہے گویا ایسے لوگوں پر اسی دنیا میں يَوْمَ الْبَعْث آجاتا ہے جس کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے کہ
۲۶۱ شیطان نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ مجھے کچھ مہلت دی جائے تاکہ میں لوگوں کو يَوْمَ الْبَعْث سه تک در غلاؤں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص جس پر يَوْمَ الْبَعْثِ آ ئے اس کی عید اسی دنیا سے مستقل ہو جاتی ہے اور وہ اپنے درجہ سے گرتا نہیں.رسول کریم پر یہ عید اس دنیا میں آگئی تھی اور آپ ایسے مقام پر پہنچ چکے تھے کہ آپ کے لئے یہ ناممکن تھا کہ گر سکیں.مگر سوال یہ ہے کہ کیا محمد میں اسلام نے عمل کرنا چھوڑ دیا کیا انہوں نے نمازیں ترک کر دیں، روزے رکھنے بند کر دیئے اور اسی طرح شریعت کے دو سرے احکام پر انہوں نے عمل کرنا چھوڑ دیا.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر بھی وہ دن آیا مگر کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اشاعت دین کا کام چھوڑ دیا اور خدمت خلق ترک کر دی؟ ہم تو یہی دیکھتے کہ آپ رات اور دن برابر کام کرتے رہتے تھے.پس کام چھوڑنے کا نام عید نہیں بلکہ کام میں زیادتی اور خوشی کا نام عید ہے.چنانچہ دیکھ لو جس دن ہم عید پڑھتے ہیں اس دن پانچ نمازوں کے علاوہ ایک چھٹی نماز بھی ہمیں پڑھنی پڑتی ہے لیکن چونکہ ہم جانتے ہیں کہ اس سے روحانیت ترقی کرتی ہے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے اور اس کی محبت انسان کو میسر آتی ہے اور یہ نہ صرف ہمارا عقیدہ ہے بلکہ ہماری جماعت میں سے ایک حصہ تجربہ کر کے اللہ تعالٰی کی ان نعمتوں کو دیکھ چکا ہے اس لئے یہ زائد عبادت بجائے بوجھ ہونے کے ہمارے لئے خوشی کا موجب ہو جاتی ہے لیکن جسے اس حقیقت کا علم نہ ہو اور وہ عید کا مطلب صرف یہ سمجھتا ہو کہ اچھے کپڑے پہن لئے اور عمدہ کھانا کھا لیا وہ یہی کہے گا کہ اچھی مصیبت آئی آگے تو پانچ نمازیں تھیں اور آج جو عید کا دن آیا تو چھ نماز میں کر دیں.پھر اس نماز کے ساتھ خطبہ بھی رکھ دیا.گویا چھٹی نماز کے بعد بھی جتنا وقت انسان اپنے گھر میں صرف کر سکتا ہے اتنا وقت بھی نہ رہنے دیا اور اس میں سے بھی ایک حصہ خطبہ کے لئے رکھ لیا.مگریہ نادانی ہے اور ایسی باتوں کا اُسی وقت خیال آتا ہے جب کام کی حقیقت انسان پر واضح نہیں ہوتی ور نہ وہ لوگ جن پر يَوْمَ يُبْعَثُونَ ، والی کیفیت طاری ہو جائے وہ کام کو بوجھ نہیں سمجھتے بلکہ اس سے خوش ہوتے ہیں.جیسے باپ جب اپنی اولاد کے لئے کوئی کام کرتا ہے تو بجائے بوجھ سمجھنے کے خوش ہوتا ہے، یا ایک خدا پرست ڈاکٹر جو خدمت خلق میں مشغول رہتا ہے اور چاہے رات ہو یا دن مریضوں کو دیکھنے کے لئے چلا جاتا ہے وہ اس خدمت کو بوجھ نہیں سمجھتا بلکہ خوشی محسوس کرتا ہے یا ایک علم پڑھانے والا استاد جو چاہتا ہے کہ ہر وقت بچوں کو علم سکھاتا
۲۶۲ رہے اور رات دن اس کام میں لگا رہے وہ اس کام کو بوجھ نہیں سمجھتا بلکہ خوش ہوتا ہے کہ اسے خدمت کی توفیق مل رہی ہے.پس جب بشاشت قلب پیدا ہو جائے تو عمل خوشی کا موجب ہے اور اگر بشاشت قلب پیدا نہ ہو تو عمل تکلیف کا موجب ہوتا ہے اور ایمان کا نام ہی رسول کریم می لی نے بشاشت قلب ا رکھا ہے.پس جسے کامل ایمان مل جاتا ہے اسے کامل بشاشت حاصل ہو جاتی ہے.جیسے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالتَّزِعَتِ غَرْقًا وَالنُّشِطَتِ نَشَطَات کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو عمل کرتے کرتے بالکل اس میں محو ہو جاتے ہیں اور ان کے دل کی تمام گر ہیں کھل جاتی ہیں پھر وہ اس کام میں خوشی اور بشاشت محسوس کرنے لگتے ہیں اور فرمایا یہی لوگ ہیں جو کامل مومن ہیں.پس حقیقی عید وہی ہے جب انسان کو عمل میں خوشی محسوس ہونے لگے اور وہ کام کو بوجھ نہ سمجھے بلکہ اسے جتنی زیادہ خدا تعالیٰ کے لئے قربانی کرنی پڑے یا بندوں کے لئے قربانی کرنی پڑے ، یا نظام سلسلہ کے لئے قربانی کرنی پڑے ، یہ تمام قربانیاں اس کے دل میں راحت پیدا کریں اور اس کی خوشی اور اطمینان کا موجب بنیں اور ان باتوں کے حصول کی وجہ سے کام کو وہ دو بھر نہ سمجھے بلکہ کام میں اسے لذت آنے لگے.یہ مقام کبھی عارضی ہوتا ہے اور کبھی مستقل.جب عارضی ہو تو اس کی مثال اس عید کی سی ہوتی ہے جو آتی ہے اور چلی جاتی ہے.پھر کسی کے لئے ایک ہی عید آتی ہے کسی کے لئے دو عیدیں آتی ہیں اور کسی کے لئے ہر چھٹے دن عید آ جاتی ہے اور کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جس کے لئے ہر روز روز عید ہوتا ہے کیونکہ اس کی عید ۲۴ گھنٹوں والے دن میں نہیں آتی بلکہ اس کے لئے خدا تعالیٰ وہ دن عید کے لئے مقرر کرتا ہے جس کے متعلق فرماتا ہے فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُ ةَ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ کہ یعنی خدا تعالیٰ کے بعض کام ایسے دن میں بھی ہوتے ہیں جو تمہارے اندازہ کے مطابق ایک ہزار سال کے برابر ہوتا ہے.ایسے ہی ایک بزرگ تھے جو دن رات خدمت دین میں مشغول رہتے اور اپنی روزی کمانے کا کوئی فکر نہ کرتے.ایک دو سرے بزرگ نے جو ان کے درجہ کو نہیں سمجھتے تھے ایک دن انہیں نصیحت کی کہ آپ کو کچھ کام بھی کرنا چاہئے اور محنت کر کے روزی کمانی چاہئے.انہوں نے کہا دیکھئے صاحب! میں اللہ تعالیٰ کا مہمان ہوں اور اگر مہمان خود کھانا پکانے لگ جائے تو میزبان کی اس میں کیسی ہتک ہوتی ہے.پس اگر میں اپنی روزی کا فکر کروں گا تو میرا خدا مجھ سے ناراض ہو جائے گا.وہ بھی آخر عالم تھے یہ سن کر کہنے لگے آپ نے بات تو معقول کسی مگر رسول کریم
۲۶۳ م نے فرمایا ہے مہمانی تین دن ہوتی ہے آپ کی مہمانی اب لمبی ہو گئی ہے پس یہ مہمانی نہیں رہی بلکہ سوال ہے.انہوں نے کہا یہ سوال ہو گا ان کے لئے جن کا دن چوبیس گھنٹے کا ہے میں تو اس دن کا قائل ہوں جس کے متعلق وہ فرماتا ہے فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُ ةَ اَلْفَ سَنَةٍ ممَّا تَعدُّونَ جس دن تین ہزار سال مہمانی کے پورے ہو گئے اس دن میں اپنا کام شروع کر دوں گا جس کے معنی یہ ہیں کہ اس دنیا میں وہ مہمان ہی مہمان تھے.اس مقام پر پہنچا ہوا انسان جس کو خدا نے یہ کہ دیا ہو کہ اب تیری عید میں نے مستقل کر دی ہر قسم کے تنزل کے خوف سے محفوظ ہو جاتا ہے لیکن کام وہ بھی نہیں چھوڑتا کیونکہ یہ مقام ملتا ہی ایسے شخص کو ہے جسے کام میں لذت آنی شروع ہو جائے.اگر کوئی ڈاکٹر کسی مریض کو پانچ مہینے مارفیا کی پچکاری کرتا رہے اور پھر اسے کہہ دے کہ اب جانے دو مارفیا کی پچکاری کی ضرورت نہیں تو وہ مریض مارفیا کی پچکاری کو نہیں چھوڑ سکتا کیونکہ اس کی اس کو عادت ہو جاتی ہے لیکن جو عادت مارفیا یا افیون کی ہے اس سے بہت زیادہ نیک کام کرنے کی عادت ہوتی ہے اور جب کسی انسان کو نیک کام کی عادت ہو تو چاہے اسے مارو پیٹو وہ اسے نہیں چھوڑ سکتا.دیکھتے نہیں ہو اللہ تعالیٰ کے نبیوں پر لوگ ایمان لاتے ہیں پھر مخالف انہیں مارتے ہیں ستاتے ہیں، گالیاں دیتے ہیں ، بائیکاٹ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کی مجلس میں نہ جاؤ.مگر جونہی وہ آزاد ہوتے ہیں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنے نبی کے پاس پہنچ جاتے ہیں.ایسے ایسے دُکھ انبیاء علیہم السلام پر ایمان لانے والوں کو دیئے گئے ہیں کہ جن کی کوئی نظیر نہیں مل سکتی مگر انہی حالات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جونہی ان کے ہاتھ پاؤں کھلے وہ دوڑ کر اپنے نبی کے پاس پہنچ گئے.حضرت ابوذر غفاری 3 کی مثال ہی احادیث میں پائی جاتی ہے.جب وہ پہلے پہل رسول کریم ملی پر ایمان لائے تو اس وقت تک بہت تھوڑے لوگ آپ پر ایمان لائے تھے.سولہ سترہ کے قریب آدمی تھے جو اسلام میں داخل تھے انہوں نے کسی مسلمان سے رسول کریم می کی باتیں سنیں تو آپ پر ایمان لے آئے لیکن عرض کیا یا رسول اللہ ( م ) میرے قبیلہ کے لوگ چونکہ ابھی ایمان نہیں لائے اس لئے آپ مجھے اجازت دیں کہ میں اپنا ایمان اس وقت تک چھپائے رکھوں جب تک کہ وہ ایمان نہیں لاتے.رسول کریم میں یا ہم نے
۲۶۴.انہیں اجازت دے دی لیکن آپ جب رسول کریم میلی لی لی لی لیک کی مجلس سے اٹھ کر باہر آئے تو دیکھا کہ ایک جگہ کفار کی مجلس لگی ہوئی ہے اور مکہ کے بڑے بڑے عمائد رسول کریم ملی کو برا بھلا کہہ رہے ہیں.ان سے برداشت نہ ہو سکا اور انہوں نے زور سے ANAL NAWALANA AND AND A الله مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ.ایسے شدید دشمنوں کے پاس جنہیں اپنی طاقت و قوت پر بھی بہت گھمنڈ تھا جب انہوں نے بلند آواز سے کلمہ پڑھا تو کفار کو جوش آگیا اور انہوں نے آپ کو اتنا مارا کہ آپ زخمی ہو کر زمین پر گر پڑے.حضرت عباس نلہ کہیں پاس سے گذرے تو انہوں نے کفار سے کہا غفار قبیلہ سے تمہارے پاس غلہ آتا ہے اگر تم اسے نہ چھوڑو گے اور اس کی قوم نے اس کا ساتھ دیا تو تمہارے پاس غلہ آنا بند ہو جائے گاللہ اور تم بھوکے مرجاؤ گے اس لئے بہتر ہے کہ اسے چھوڑ دو.آخر بڑی مشکلوں سے انہوں نے حضرت ابوذر کو ان کے ہاتھ سے چھڑایا.وہ گھر گئے اور چند دن فکوریں کرتے رہے.جب آرام آگیا تو باہر نکلے اور دیکھا کہ کفار کی پھر ایک مجلس لگی ہوئی ہے اور وہ رسول کریم میں سری دیوی کو برا بھلا کہہ رہے ہیں انہیں پھر جوش آگیا اور وہ بلند آواز سے کہنے لگے.اَشْهَدُ أَنْ لا إلهَ إِلَّا اللَّهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہ انہوں نے پھر آپ کو مارا اور شدید طور پر زخمی کر دیا.وہ پھر گھر میں زخموں کا چند دن علاج کرنے کے بعد جب باہر نکلے تو اسی طرح ایک اور مجلس میں انہوں نے بلند آواز سے اپنے اسلام کا اظہار کر دیا اور لوگوں نے پھر انہیں مارا.اب دیکھو یہ ایک لذت تھی جو انہیں آرہی.تھی اور جس کے نتیجہ میں وہ بار بار اپنے اسلام کا ذکر کرتے اور بار بار لوگوں سے مار کھاتے اور رسول کریم میل اور مولی کی طرف سے انہیں اس بات کی اجازت تھی کہ وہ اپنے اسلام کو چھپائیں لیکن عمل کی لذت کی وجہ سے وہ اعلان کرنے پر مجبور ہو گئے اور انہوں نے ماریں کھائیں.اسی طرح رسول کریم میں ایل ایلامی کے زمانہ میں ایک بچہ تھا بارہ تیرہ سال اس کی عمر تھی کہ وہ مسلمان ہو گیا.وہ اپنے ماں باپ کا اکلوتا بچہ تھا لیکن چونکہ وہ مسلمان ہو گیا اور اس کے ماں باپ سخت متعصب تھے اس لئے جب کھانا کھانے کا وقت آتا تو اُس کی ماں اس کے آگے اس طرح روٹی پھینک دیتی جس طرح کتے کے آگے روٹی پھینکی جاتی ہے برتن میں وہ اس لئے رکھ کر نہ دیتی کہ اس طرح بر تن پلید ہو جاتا ہے.آخر جب اسلام پر وہ مضبوطی سے قائم رہا تو اسے ماں باپ نے گھر سے نکال دیا اور کہا یا تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس جانا چھوڑ دے یا گھر سے چلا جا.اس نے گھر چھوڑ دیا اور غالبا حبشہ کی طرف ہجرت کر کے چلا گیا.سالہا سال کے
۲۶۵ دور بعد وہ واپس آیا.اس کی ماں کو پتہ لگا تو اس نے کہلا بھیجا کہ میں تجھ سے ملنا چاہتی ہوں مجھے آکر مل جاؤ.وہ چھوٹی عمر کا بچہ تھا جب وہ اپنے والدین سے جُدا ہوا.پھر وہ اپنے والدین کا اکلوتا بچہ تھا وہ سالہا سال اپنے گھر سے باہر رہنے کی وجہ سے خیال کرتا تھا کہ شاید اس کی ماں کے دل میں نرمی پیدا ہو گئی ہوگی مگر جب وہ اپنی ماں سے ملنے کے لئے گیا تو اس نے بڑے پیار سے اپنے بیٹے کو گلے لگاتے ہوئے کہا بیٹا اب تو امید ہے کہ تم اس صابی کے پاس نہیں جاؤ گے.وہ صحابی فورا علیحدہ ہو گیا اور اس نے کہا.اماں میں نے تو سمجھا تھا کہ میرے دور جانے کی وجہ سے تمہارا ار ہو گیا ہو گا ۱۲ مگر تمہاری کیفیت تو اب تک وہی ہے.میں تمہاری وجہ سے محمد رسول اللہ مال کو نہیں چھوڑ سکتا.یہ کہہ کر وہ نوجوان اسی وقت گھر سے نکل گیا اور پھر اس نے کبھی اپنی ماں کا منہ نہیں دیکھا.پس حقیقی عید وہی ہے جس میں انسان کو عمل میں لذت محسوس ہونے لگے اور وہ خدا کے لئے ہر قسم کی قربانیوں کی آگ میں کودنے کے لئے تیار رہے اور کبھی ترک عمل کے قریب بھی نہ جائے.یہ مقام جب کسی فرد یا قوم کو حاصل ہو جاتا ہے تو اسے حقیقی عید میسر آجاتی ہے اور دینی اور دنیوی مقاصد میں وہ کامیاب ہو جاتا ہے.پس کوشش کرو کہ تمہیں یہ عید میتر آئے اور تمہاری تمام تر لذت اور تمہاری ساری خوشی اسی بات میں ہو جائے کہ تم خدا کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دو اور اسی کو اپنی عید سمجھو.اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو اور وہ تمہیں اس حقیقی عید سے حصہ دے جس کے میتر آنے کے بعد دنیا کی کوئی تکلیف انسان کو پریشان نہیں کر سکتی.الفضل ۲۲ - فروری ۱۹۶۳ء) صحيح بخارى كتاب الاضاحي باب ما يوكل من لحوم الاضاحي سنن ابي داؤد باب اذا وافق يوم الجمعة يوم عيد هود : ۱۰۹ الاعراف: ۱۵ ۱۶ نوٹ ۴ صفحہ ۳۰۶ تفسیر صغیر الحجر :٣٤ ل النزعت : ۳۲ ك السجدة : ل صحیح بخاری کتاب الاداب باب اکرام الضيف و خدمته
قبیلہ غفار.نام.بریر بن جنادة يا جندب بن جنادة 1 عم رسول الله ل ل ا ل ا للہ ابن عبد المطلب.بنو ہاشم ۶۸-۶۵۶۷ ۷ ۸۸ھ / ۵۳-۶۶۵۲ لله صحیح بخاری کتاب المناقب باب قصة زمزم - طبقات ابن سعد - القسم الاول جزء ۴
۲۶۷ (۲۷) ( فرموده ۵- دسمبر۷ ۱۹۳ء بمقام عید گاہ.قادیان) دنیا میں یہ ضرورت ساری قوموں میں محسوس کی گئی ہے اور سارے ملکوں میں محسوس کی گئی ہے کہ زبانی وعظ اور تذکیر جہاں بہت سے لوگوں پر اثر کرتا اور ان کے دلوں میں تغیر پیدا کر دیتا ہے وہاں ایک طبقہ انسانوں کا ایسا بھی ہوتا ہے جو زبانی وعظ و تذکیر سے نصیحت حاصل نہیں کرتا اور وہ بعض اور ذرائع کا محتاج ہوتا ہے جو مُردہ قلوب میں زندگی اور جامد خیالات میں حرکت پیدا کریں.اس کے لئے دنیا نے کئی قسم کی ایجادیں کی ہیں.کہیں وعظ کو نثر سے لے کر شعر میں بدل دیا ہے ، کہیں شعر سے ڈرامے کی صورت میں بدل دیا.پھر جب دیکھا ہے کہ اس کا بھی پورا اثر نہیں ہو تا تو لفظی ڈرامے کو تمثیلی ڈرامے میں تبدیل کر دیا ہے.ایک اسٹیج بنا دیا جاتا ہے اور اس پر مختلف قسم کے لوگ آتے ہیں.کوئی بادشاہ بن جاتا ہے کوئی وزیر بن جاتا کوئی حاجب بن جاتا ہے کوئی مسخرہ بن جاتا ہے، کوئی تاجر بن جاتا ہے، کوئی بیچنے والا بن جاتا ہے، کوئی خریدار بن جاتا ہے، کوئی حاسد بن جاتا ہے، کوئی محسود بن جاتا ہے ، کوئی عاشق بن جاتا ہے، کوئی معشوق بن جاتا ہے غرض مختلف شکلوں میں وہ انسانی جذبات کو ممثل کرتے ہیں یعنی ایکٹ کر کے دکھاتے اور نقل اتارتے ہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہ نقل دنیا میں بہترین اثر کرنے والی چیز ہے اور اس اثر کو اتنا وسیع قبول کیا گیا ہے کہ اس زمانہ میں اس کو ترقی کا واحد ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے.چنانچہ گورنمنٹوں نے اب اپنے تمثیل خانے بنائے ہوئے ہیں جن میں ایکٹ کیا جاتا ہے پھر ان کی فلم کی جاتی ہے اور وہ فلم مختلف تھیئیٹروں سے لوگوں کو دکھائی جاتی ہے.روس کی تمام ترقی اور جدوجہد کی بنیاد ہی تمثیلات ایکٹنگ اور تھیئیٹر پر ہے.مذہب کے خلاف بھی وہ اس سے پروپیگنڈا کرتے ہیں ، سیاسیات کے متعلق بھی وہ اس سے پرو پیگنڈا کرتے ہیں اور دنیا کے تمدنی اور اقتصادی حالات کے متعلق اپنی تدابیر کی تائید میں بھی وہ اس سے پروپیگنڈا کرتے ہیں.فلسفے کے باریک نکتے جب کتابوں میں ہوتے ہیں تو ان کے سمجھنے کے لئے عالم دماغوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن وہی سکتے جب تھیئیٹر کی سٹیج پر آ جاتے
۲۶۸ ہیں تو ایک بچہ بھی ان کو سمجھ لیتا ہے.اس نکتہ کو سمجھتے ہوئے انہوں نے اپنے اصول کی بنیاد ہی سینما پر رکھی ہے.چنانچہ گاؤں گاؤں میں انہوں نے سینما کھولے ہوئے ہیں جن کے ذریعہ لوگوں کو ان چیزوں کے عیوب دکھائے جاتے ہیں جن کے خلاف روس کی حکومت ہے اور ان چیزوں کے محاسن دکھائے جاتے ہیں جن کی تائید میں بالشوزم لہ ہے.اسی طرح مذہب کے خلاف منافرت کے جذبات پیدا کرنے کے لئے بھی وہ سینما سے کام لیتے ہیں.یہاں تک کہ وہ خدا تعالیٰ کی تمثیل بھی دکھاتے ہیں اور فلم کے پردہ پر اسے پیش کرتے ہیں، پھر اس پر جرح کرتے ہیں اور کہتے ہیں تو لوگوں کو مارتا ہے تو ان پر قحط نازل کرتا ہے ، تو ان کی ہلاکت کے لئے وبائیں ہے تو طاعون سے لوگوں کو موتیں دیتا ہے تو لڑائیاں ڈالتا اور فساد پیدا کرتا ہے.غرض اسی طرح وہ خدا تعالیٰ پر جرح کرتے ہیں اور آخر لینن ک کو پریذیڈنٹ بنا کر اس کے ذریعہ یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ نعوذ باللہ اس خدا سے زیادہ ظالم اور مضرت رساں اور کوئی وجود نہیں پھر اس کے بعد خدا کو پھانسی دے دی جاتی ہے.یہ تمثیل جب بچے دیکھتے ہیں تو گو اس کے پس پردہ غلط خیالات کام کر رہے ہیں مگر چونکہ یہ نہایت ہی بھیانک اور ڈرانے والے نظارے ہوتے ہیں اس لئے وہ ان باتوں کو اپنے دل میں جذب کر لیتے ہیں اور جب وہ جوانی کو پہنچتے ہیں تو بغیر اس کے کہ یورپین فلسفیوں کی کتابیں انہوں نے پڑھی ہوں وہ پکے دہر یہ ہو چکے ہوتے ہیں.غرض تمثیلی زبان دنیا میں ایک اہم زبان ہے اور اسی اہمیت کی وجہ سے مذاہب نے بھی تمثیلات اختیار کی ہیں.مثلاً ہندوؤں میں دسرہ سے ہے اس میں تمثیلی زبان میں جہاں اپنے باپ دادوں کی قربانیوں کا نمونہ دکھایا جاتا ہے وہاں بدی کا انجام آخر آگ میں جلنا قرار دیا جاتا ہے چنانچہ وہ راون کی مورتی جلاتے ہیں اور اس طرح تمثیلی زبان میں اس امر کا اظہار کرتے ہیں کہ جو شخص حق کے خلاف چلتا ہے آخر آگ میں جلتا ہے.یہی تمثیلی نظارہ ہولی میں نظر آتا ہے اور یہی تمثیلی نظارہ مسلمانوں میں محرم کے دنوں میں نظر آتا ہے.گیارہ مہینے شیعہ سنیوں کے سامنے نہایت زور دار رنگ میں اپنے دلائل پیش کرتے اور انہیں شیعیت کی طرف مائل کرتے رہتے ہیں مگر سنی ان باتوں کو ایک کان سے سنتا اور دوسرے کان سے نکال دیتا ہے لیکن بارھویں مہینے جب شیعہ تعزیہ نکالتے ہیں اور وہ ساتھ ساتھ پیٹتے جاتے ہیں تو ان کی گیارہ مہینوں کی محنت کے مقابلہ میں اس ایک دن قریباً سارے سنی شیعہ نظر آتے ہیں اور اس دن یہ فرق نہیں کیا جا سکتا کہ شیعہ کون ہے اور سنی کون؟ سوائے اس کے کہ فساد کے دن ہوں اور شیعہ
۲۶۹ سنی ایک دوسرے سے الگ ہوں ورنہ عام حالات میں ان میں فرق کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے اور بظاہر جو کچھ نظر آتا ہے وہ یہی ہوتا ہے کہ اگر شیعہ ہو تو اس کی آنکھوں میں بھی آنسو ہوتے ہیں اور اگر کوئی سنی ہو تو اس کی آنکھوں میں بھی آنسو ہوتے ہیں فرق صرف درجے کا ہوتا ہے.یعنی شیعہ ظاہر میں پیٹتا جاتا ہے لیکن سنی کا دل پیٹتا جاتا ہے لیکن بہر حال ہوتے سارے ہی متاثر ہیں اس لئے کہ تمثیلی زبان میں کربلا کے واقعات اور ان کے نتائج سب کو دکھا دیئے جاتے ہیں.پھر بعض جگہ یہ تمثیلی زبان اتنی بڑھا دی گئی ہے کہ حیدر آباد میں محرم کے دنوں میں کسی زمانہ میں یزیدی لشکر کو ریچھ بندر اور سور کی شکل میں دکھایا جاتا تھا اور یہ نظارہ اس قدر بھیانک ہو تا تھا کہ جن لوگوں کے جذبات واقعات کربلا سے متاثر نہیں ہوتے تھے ان پر اس کا الٹا اثر ہو تا تھا.چنانچہ ایک یورپین اسلام کی تعلیم کا مطالعہ کرنے کے بعد اسلام کی طرف بہت کچھ مائل ہو گیا اور اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اسلامی ممالک کو بھی دیکھنا چاہئے.جب وہ حیدر آباد پہنچا تو اس کی بد قسمتی سے وہ محرم کے ایام تھے اور لوگوں کا ایک حصہ وہاں بند ر سٹور اور کتے بن کر پھر رہا تھا.وہ یہ نظارہ دیکھتے ہی اسلام سے متنفر ہو گیا اور یہ کہہ کر چلا گیا کہ کتابی اسلام اور حقیقی اسلام میں بہت بڑا فرق ہے اور ہر شخص جو اسلام کے متعلق کتابیں پڑھے اس کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ عمل میں بھی مسلمانوں کو دیکھے اور پھر اس مذہب کے متعلق اپنی رائے قائم کرے.مگر یہ ان لوگوں کا حال ہے جن کے جذبات ان واقعات سے متاثر نہیں ہوتے.وہ لوگ جن کے جذبات ان واقعات سے متاثر ہوتے ہیں وہ اس قسم کی لغویات کی بھی پروا نہیں کرتے.علم النفس کے ماہرین نے اس امر پر بحث کی ہے کہ کیا وجہ ہے کہ انسانی طبیعت پر تمثیلات کا زیادہ اثر ہوتا ہے اور انہوں نے آخر یہ وجہ قرار دی ہے کہ تمثیلی زبان پہلے تھی اور لفظی زبان بعد میں پیدا ہوئی.یعنی پہلے پہل جب انسان نے دنیا میں ہوش سنبھالا تو چونکہ اس کی کوئی زبان نہیں تھی اس لئے وہ اپنے خیالات ہاتھوں اور اشاروں سے ظاہر کرتا اور بجائے زبان سے کچھ کہنے کے عمل کر کے اپنے مافی الضمیر کا اظہار کیا کرتا تھا اسی لئے وہ کہتے ہیں کہ جتنی کوئی پرانی چیز ہو اتنا ہی اس کا دل پر گہرا نقش ہو تا ہے.تو چونکہ زبان بعد کی ایجاد ہے اس لئے اس کا اتنا گہرا اثر نہیں ہوتا جتنا تمثیلی زبان کا جو پرانی ہے ہو تا ہے.گویا پرانے زمانے میں جب تک زبان ایجاد نہیں ہوئی تھی تمام باتیں ایکٹ کر کے کی جاتی تھیں.جیسے ماں جب اپنے بچے کو کہتی ہے تو مجھے پیارا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ ماں مجھ سے پیار 185 1
کرتی ہے لیکن یہ موجودہ زمانہ کی زبان ہے.ابتداء میں جب ابھی یہ زبان ایجاد نہیں ہوئی تھی جب ماں نے اپنے بچے سے یہ کہنا ہوتا کہ تو مجھے پیارا ہے تو وہ اسے چومتی تھی اور اس کا بیٹا سمجھتا تھا کہ میری ماں مجھ سے پیار کر رہی ہے لیکن اب اس زمانہ کی یاد گار صرف چومنا رہ گیا ہے ورنہ اظہار محبت کے بہت سے الفاظ پیدا کر لئے گئے ہیں.پس تمثیلی زبان پرانی ہے اور لفظی زبان نئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ تمثیلی زبان کا عوام الناس پر بھی گہرا اثر پڑتا ہے.چنانچہ بعض دوستوں نے بتایا کہ ڈیرہ غازیخاں میں کسی کو کتنی گالیاں دے لی جائیں وہ ان کو برداشت کرتا چلا جائے گا لیکن اگر اسے جوتی اٹھا کر دکھا دو تو قتل تک نوبت پہنچ جاتی ہے حالانکہ گالیوں کے مقابلہ میں جوتی دکھانا زیادہ اہم نہیں لیکن وہاں جوتی کا تلا دکھا دینا خونریزی پیدا کرنے والی بات ہو جاتی ہے.غرض تمثیلات کا اثر انسانی زندگی پر بہت گہرا ہوتا ہے.اسلام نے بھی اس اثر کو ایک رنگ میں ظاہر کیا ہے لیکن اسلام میں اور دوسرے مذاہب میں ایک فرق ہے دوسرے مذاہب تمثیل ایسے رنگ میں دکھاتے ہیں جب وہ کھیل اور تمسخر ہوتی ہے مگر اسلام نے اسے ایسے رنگ میں لیا ہے جب وہ کھیل اور تمسخر نہیں بلکہ حقیقت ہوتی ہے.شاید تمہارے لئے یہ بات بغیر مثال کے سمجھنی مشکل ہو اس لئے میں اس کی وضاحت کے لئے ایک مثال دے دیتا ہوں.اگر کسی سنگدل کو یہ بتانا ہو کہ محبت بنی نوع انسان سے کیا قربانی کرواتی ہے تو اس کی ایک صورت یہ ہے کہ ایک تھیئیٹر بنا دیا جائے اور اس پر ایک اجنبی جس کا دوسرے سے کوئی رشتہ نہیں باپ بن جائے اور ایک شخص جس کا اس سے کوئی رشتہ نہ ہو بیٹا بن جائے اور یہ دکھایا جائے کہ بیٹا چار پائی پر بیمار لیٹا ہے اور مصنوعی باپ اسے دوائی پلا رہا ہے اور اس کی بیماری کے درد سے متاثر ہو کر روتا جا رہا ہے.لیکن دوسری صورت یہ ہے کہ بجائے مصنوعی تماشہ دیکھنے کے کوئی شخص دریافت کرے کہ شہر میں کوئی بیمار ہے یا نہیں اور جب اسے کسی بیمار کا حال معلوم ہو تو وہ اس کے حال کے دریافت کے لئے اس کے گھر جائے اور دیکھے کہ اس بیمار بچے کے ماں باپ کا کیا حال ہے اور ان کی غم کے مارے کیا کیفیت ہے.اب پہلے نے بھی تمثیلی زبان میں ایک نظارہ دکھایا اور دوسرے نے بھی لیکن پہلے نے جو کچھ دکھایا وہ محض تماشہ تھا لیکن دوسری جگہ اسے جو کچھ نظر آیا وہ حقیقت تھی.پہلے نظارہ کے دیکھنے سے جہاں انسانی طبیعت پر ایک اچھا اثر پڑتا ہے وہاں اندرونی طور پر یہ بھی اثر پڑتا ہے کہ اعلیٰ سے اعلیٰ جذبات سے بھی راق کیا جا سکتا ہے.جب ہم جانتے ہیں کہ ایک شخص باپ نہیں اور ہم جانتے ہیں کہ ایک.
۲۷۱ شخص بیٹا نہیں اور وہ مصنوعی طور پر ایک نظارہ پیش کر رہے ہیں تو ہم اعلیٰ سے اعلیٰ اور قیمتی سے قیمتی جذبات کو کھیل میں تبدیل کر دیتے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان چیزوں کا ایک ظاہری اثر بھی ہوتا ہے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ لوگ اس طرح نقال بن جاتے ہیں.گویا اس چیز کا دوہرا اثر ہوتا ہے اور وہ دو دھاری تلوار ہے جو ایک طرف جہاں اعلیٰ جذبات کو ابھارتی ہے وہاں دوسری طرف بعض اعلیٰ جذبات کو کچل بھی دیتی ہے اور ہنسی اور تمسخر کی طرف انسان کو مائل کر دیتی ہے.چنانچہ ایکٹڑوں کی زندگی دیکھ لو.وہی ایکٹر جو ایکٹنگ کے وقت رو رہا ہوتا ہے جب اس جگہ سے الگ ہوتا ہے تو بسا اوقات سیدھا شراب خانے کا رخ کرتا اور اپنی محبوبہ سے عیش و عشرت میں مشغول ہو جاتا ہے لیکن اگر تم اس گھر کو دیکھو جہاں ماں باپ اپنے بیمار بچے کے پاس اس کی تیمارداری میں مشغول تھے اور ایک دو گھنٹے کے بعد پھر ان کے حالات کا جائزہ لو تو تمہیں وہاں اور بھی فکر و ملال کے آثار نظر آئیں گے.پھر جب اس سٹیج پر تمہیں یہ نظارہ دکھائی دے کہ بیمار لڑکا مر گیا ہے اور ایکٹر رو رہے ہیں تو اس کے ساتھ ہی تمہیں یہ بھی نظر آئے گا کہ تھوڑی دیر کے بعد وہی رونے والے کھانے پینے اور ہنسی مذاق میں مشغول ہو جاتے ہیں.مگر وہ گھر جہاں واقعہ میں کوئی موت ہو جائے اگر اس گھر میں جا کر دیکھو تو تمہیں معلوم ہو گا کہ ماں افسردہ ہے، اس کے کپڑے میلے کچیلے ہیں ، اسے نہ کھانے کا ہوش ہے نہ پینے کا رات دن وہ گریہ و بکا میں مشغول رہتی ہے یہاں تک کہ زمانہ آپ ہی آپ اس کا غم مٹا دیتا ہے.تو اس جگہ انسانی طبیعت پر جو اثر پڑے گاوہ ایک ہی رنگ کا ہو گا اور اچھا ہی ہو گا.مگر جہاں ایکٹ کر کے کوئی واقعہ دکھایا جاتا ہو اس کے دیکھنے سے دو طرح کا اثر پڑے گا ایک اچھا اور ایک برا.اسلام نے اس نکتہ کو سمجھتے ہوئے نقل سے منع کیا ہے اور رسول کریم م نے فرمایا ہے کہ جو شخص کوئی ہنسی مذاق کا کام اس لئے کرتا ہے تاکہ دوسرے کو ہنسائے اس پر اللہ تعالی کی لعنت ہے.کہ گویا مصنوعی ایکٹنگ کو رسول کریم میں یا اللہ نے لعنت کا باعث قرار دیا ہے.ہاں اس ایکٹنگ کو رسول کریم نے لعنت کا باعث قرار نہیں دیا جہاں تمثیلی زبان میں فطرت اپنے آپ کو ظاہر کرتی ہے سوائے اس کے کہ وہ اظہار حد سے زیادہ ہو.چنانچہ رسول کریم میلہ کا ہی واقعہ ہے.آپ ہمیشہ لوگوں کو صبر کی تلقین فرمایا کرتے تھے.مگر آپ کا ایک نواسہ ایک دفعہ شدید بیمار ہوا.آپ کی بیٹی کی طرف سے آپ کو کئی دفعہ پیغام پہنچا کہ بچے کو آکر دیکھ جائیں.مگر چونکہ آپ کی طبیعت رقت والی تھی اس لئے آپ نہ گئے مگر آخری.
۲۷۲ دفعہ اس نے بہت اصرار کے ساتھ آپ کی خدمت میں پیغام بھیجا اور آپ تشریف لے گئے.اس وقت بچہ پر نزع کی حالت طاری تھی آپ نے اسے گود میں اٹھایا اور آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے جب آپ کی آنکھوں سے آنسو ٹیکنے لگے تو ایک شخص نے کہا.یا رسول اللہ آپ تو لوگوں کو صبر کی تلقین فرمایا کرتے ہیں آپ اس موقع پر کیوں رو رہے ہیں؟ رسول کریم میہ و سلم نے فرمایا مجھے اللہ تعالیٰ نے رقیق القلب بنایا ہے اگر تیرے دل کو اس نے سخت بنایا ہے تو میں کیا کروں.ھو یہ تمثیلی زبان تھی جس میں رسول کریم میں تعلیم کی فطرت نے آپ کو ظاہر کیا.آنسو کیا ہیں؟ وہ تمثیلاً محبت کے اظہار کا ایک ذریعہ ہیں.جن میں فطرت اپنے آپ کو ظاہر کرتی ہے اور فطرت چونکہ حقیقی چیز ہے اس لئے جو اثر اس میں ہوتا ہے وہ چھڑے کی زبان میں نہیں ہو تا.یہ جو عید کا موقع ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ نے ایک تمثیل پیش کی ہے اور اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے کئی سبق دیئے ہیں.مگر وہ سبق جو آج میں بیان کروں گا اگر اس کو جماعت کے لوگ اپنے ذہن میں مستحضر رکھیں تو ان کی جماعتی زندگی میں بہت بڑا تغیر پیدا ہو سکتا ہے.دیکھو ہم تھیں دن روزے رکھتے ہیں یا ۲۹ دن روزے رکھتے ہیں اور ۲۹ یا ۳۰ دنوں کے بعد ایک دن ایسا آتا ہے جب ہم عید مناتے ہیں گویا تمشیلی زبان میں ہم اقرار کرتے ہیں کہ دنیا کی ساری خوشیاں قربانی کے بعد پیدا ہوتی ہیں جب تک ہم قربانی نہ کریں اس وقت تک ہم حقیقی خوشی دیکھ ہی نہیں سکتے.مگر دیکھو تمیں دن کے جو روزے ہیں ان میں کیا خدا کا یہ قانون ہے کہ کوئی مسلمان نہ مرے.کیا تم سمجھتے ہو کہ باقی گیارہ مہینوں میں تو مسلمان مرتے رہتے ہیں مگر اس کی بارہویں مہینہ میں مسلمان نہیں مرتے.یقیناً اس بارہویں مہینہ میں بھی اسی طرح مسلمان مرتے ہیں جس طرح باقی گیارہ مہینوں میں.پس رمضان کے مہینہ میں ان مسلمانوں کا بارہواں حصہ فوت ہوتا ہے جو سال کے باقی مہینوں میں فوت ہوتے ہیں.مسلمان اس وقت دنیا بھر میں چالیس کروڑ ہیں.اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ ایک فیصد آدمی روزانہ مرتا ہے تو سال بھر میں چالیس لاکھ آدمی مرجاتے ہیں.اب اگر ہم اس تعداد کو مہینوں میں تقسیم کریں تو سوا تین لاکھ مسلمان ایسے بنتے ہیں جو ہر مہینہ میں مرتے ہیں اور اس لحاظ سے رمضان میں بھی سوا تین لاکھ مسلمان مرتے ہیں.کچھ لمبی بیماریوں سے کچھ فوری بیماریوں سے کچھ اتفاقی حادثات سے ، پھر ان میں سے بھی کوئی دو روزے رکھ کر مرجاتا ہے کوئی تین روزے رکھ کر مرجاتا ہے کوئی چار.
روزے رکھ کر مرجاتا ہے کوئی چھ روزے رکھ کر مرجاتا ہے کوئی سات کوئی آٹھ کوئی دس کوئی پندرہ کوئی میں کوئی اکیس ، کوئی بائیں کوئی تئیس ، کوئی چوہیں کوئی پچیس کوئی چھیں کوئی ستائیں ، کوئی اٹھا ئیں اور کوئی انتیس روزے رکھ کر مرجاتا ہے.اب فرض کرد کسی نے انتیس ۲۹ روزے رکھے تھے کہ وہ گھر سے نکلا اور موٹر سے ایسا ٹکرایا کہ وہیں فوت ہو گیا یا اسے ہیضہ ہوا اور وہ مر گیا یا اسے کسی اتفاقی حادثہ سے آگ لگ گئی ، یا اس کا ہارٹ فیل ہو گیا تو گویا وہ انتیس ۲۹ روزے رکھ چکا تھا اور اس بات کی امید کر رہا تھا کہ مجھے اس کے بعد عید ملے گی مگر انتیس ۲۹ روزوں کے بعد اس کی عید کہاں گئی ؟ اسے نہ صرف خود عید نہ ملی بلکہ اس کے گھر کی عید بھی خراب ہو گئی.غرض اسی طرح سوا تین لاکھ آدمی رمضان میں ایسا مرتا ہے جو عید کی تیاری تو کرتا ہے مگر اسے عید میسر نہیں آتی.مگر کیا اس امر کو دیکھتے ہوئے باقی مسلمان روزے رکھنا چھوڑ دیتے ہیں؟ اور کیا وہ یہ کہا کرتے ہیں کہ ہم کیوں روزے رکھیں ہمیں کیا پتہ ہمیں عید ملے گی یا نہیں؟ وہ باوجود یہ نظارے اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے وہ باوجود اس کے کہ وہ یقینی اور قطعی طور پر سمجھتے ہیں کہ ہم میں سے ایک تعداد ایسی ہے جسے عید میسر نہیں آسکتی پھر بھی روزے رکھتے اور قربانیاں کرتے ہیں اس لئے کہ جو قومی زندگی کا طریق ہے وه فردی نتائج کو نہیں دیکھا کرتا.اگر ساری قوم قربانیاں نہیں کرے گی تو کسی کو بھی عید میسر نہیں آئے گی.لیکن اگر ساری قوم قربانیاں کرے گی تو بعض کو عید ملے گی اور بعض کو نہیں ملے گی.یہ سبق ہے جو تمثیلی زبان میں عید کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیا اور بتایا کہ جب تم اجتماعی کاموں کے لئے کوشش کرتے ہو تو یہ ضروری نہیں ہو تاکہ ہر فرد کی قربانی اس کی زندگی میں نتیجہ پیدا کر دے.بالکل ممکن ہے کہ ایک تعداد قربانیاں کرے مگر نتیجہ کچھ بھی نہ دیکھے اور کچھ دوسرے قربانیاں کریں اور ان کا نتیجہ انہیں مل جائے.تو قومی کاموں کے نتائج افراد کے لحاظ سے نہیں دیکھنے چاہئیں.جو تو میں یہ سبق سیکھ لیتی ہیں وہ عیدوں پر عید میں دیکھتی چلی جاتی ہیں.مگر جو قومیں اس سبق کو بھلا دیتی ہیں وہ اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتیں.جرمنی اور انگلستان کی لڑائی ہوئی اور اس میں دو کروڑ آدمی یا زخمی ہوا یا مارا گیا.اٹھارہ اٹھارہ ہیں ہیں ، بچیں بچیں، تمھیں تمہیں اور چالیس چالیس سال کی عمر سے لے کر بڑھاپے تک کی عمر کے لوگ اس جنگ میں شامل ہوئے اور مارے گئے.ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو اپنے بچے چھوڑ کر میدان جنگ میں چلے گئے، ایسے بھی تھے جو اپنی بیویاں چھوڑ کر میدان جنگ میں چلے
۲۷۴ گئے ، ایسے بھی تھے جو اپنے ماں باپ چھوڑ گئے چنانچہ انگلستان کا سب سے بڑا شاعر بلکہ حقیقتاً دنیا کا سب سے بڑا شاعر رڈیارڈ کپلنگ 3 کا ایک ہی بیٹا تھا جو اس جنگ میں مارا گیا.اسی طرح انگلستان کا سب سے بڑا ناولسٹ یا کم سے کم ان ناولسٹوں میں سے ایک ناولسٹ جس کی کتابیں بالعموم پڑھی جاتی ہیں کانن ڈائل کہ تھا جس کا ایک ہی لڑکا تھا اور وہ بھی اس جنگ میں مارا گیا تھا.کانن ڈائل پر اس کی موت کا ایسا اثر ہوا کہ وہ اس اثر کے نتیجہ میں صوفی بن گیا اور مردہ روحوں کو بلانے کا شغل اس نے اختیار کر لیا.گویا بڑھاپے میں اس صدمے کا اس کے دماغ پر ایسا اثر ہوا کہ ایک قسم کا جنون اسے ہو گیا اور اس جنون میں جو جو آوازیں اس کے کان میں پڑ جاتیں انہیں سنکر وہ خوش ہو جاتا اور خیال کرتا کہ میرا بیٹا مجھ سے بول رہا ہے.رڈیارڈ کپلنگ کی بھی ایسی ہی حالت ہو گئی اور اس کی زندگی میں بہت بڑا تغیر واقع ہو گیا.چنانچہ اس کا ایک بہت قریبی رشتہ دار لارڈ بار لو جو لارڈ بالڈون 4 کا رشتہ دار تھا لکھتا ہے کہ میں نے اس کے بعد اسے ہنستے ہوئے کبھی نہیں دیکھا حالانکہ وہ اس سے پہلے ہنسوڑ تھا اور ہمیشہ بچوں کے متعلق کتابیں لکھا کرتا تھا.مگر اس صدمے کا اثر اس پر ایسا ہوا کہ ساری عمر پھر اسے کبھی ہنستے ہوئے نہیں دیکھا گیا.یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے لڑائی سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ اگر کسی کے گھر کا ایک چراغ تھا تو وہ ایک چراغ بھی اس لڑائی کی وجہ سے بجھ گیا مگر رڈیارڈ کپلنگ سے ہی بعد میں کسی نے دریافت کیا کہ کیا اب تم لڑائی کے مخالف ہو گئے ہو تو وہ کہنے لگا نہیں اگر پھر ویسے ہی حالات پیدا ہو جائیں تو میں پھر لوگوں کو لڑائی کی ترغیب دوں گا اور انہیں قربانیوں پر آمادہ کروں گا.غرض اس لڑائی کا نتیجہ انہوں نے نہیں دیکھا بلکہ ان کی قوم نے دیکھا لیکن چونکہ ان کی قوم کو اس کا فائدہ حاصل ہو گیا اس لئے انہوں نے سمجھا کہ ہمیں بھی وہ فائدہ حاصل ہو گیا ہے.یہ وہ لوگ ہیں جن کی تمام امیدیں ان کی دنیوی زندگی سے وابستہ ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اخروی زندگی پر کوئی یقین نہیں اور جو سمجھتے ہیں کہ انہیں جو کچھ ملنا تھا وہ مل گیا اور جو نہیں ملا وہ اب نہیں مل سکتا.مگر باوجود اس کے انہوں نے کہا لڑائیاں قوم کی خاطر ہوتی ہیں اگر قوم کی فتح ہو گئی ہے تو یہی فتح حقیقی ہے.جرمنی اور انگلستان کی لڑائی کے ابتدائی ایام میں ایک اخبار میں میں نے پڑھا.ایک جرمن بڑھیا جس کی اتنی سال عمر تھی اس کا ایک ہی لڑکا تھا جو جنگ میں شامل ہوا اور مارا گیا.وہ بڑھیا چونکہ اچھی حیثیت رکھتی تھی اور گورنمنٹ کا خیال تھا کہ اس کی دلجوئی کی جائے اس لئے وزیر جنگ کی طرف سے اسے چٹھی ملی کہ مجھ سے آکر ملو
۲۷۵ اور فیصلہ کیا گیا کہ وزیر جنگ خود اس کا اعزاز کرے اور اسے اس کے بیٹے کی موت کی خبر دے.چنانچہ وہ بڑھیا آئی اور وزیر جنگ نے بادشاہ کی طرف سے اس کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ تم نے بڑی - سے بڑی قربانی اپنے ملک کے لئے پیش کر دی تھی مگر افسوس کہ تمہارا لڑکا اس جنگ میں مارا گیا ہے.لکھا ہے کہ جب وہ بڑھیا یہ خبر سن کر باہر نکلی تو اس کا جسم غم سے ایسا کانپ رہا تھا کہ اس سے کھڑا نہیں ہوا جاتا تھا اور اس کی کمر جھکی چلی جارہی تھی مگر یہ دکھانے کے لئے کہ کیا ہوا اگر میرا بیٹا مارا گیا ہے وہ مصنوعی ہسٹیریکل 3 ہنسی ہنستی اور قہقہہ مارتے ہوئے کہتی اگر میرا بیٹا مر گیا ہے تو کیا ہوا وہ قوم اور ملک کے لئے قربان ہوا ہے.اور باوجود اس کے کہ یہ نظارہ دیکھنے والا جرمن قوم کا ایک دشمن تھا وہ لکھتا ہے کہ یہ نظارہ دیکھ کر ہمیں بے اختیار آنسو آگئے.اب دیکھو ادھر اندرونی صدمہ اسے سخت تھا کہ اس سے کھڑا بھی نہیں ہوا جاتا تھا اور دوسری طرف وہ لوگوں کو دکھانے کے لئے زور سے اپنی لکڑی پر سہارا لیتی اور قہقہہ مارتی ہوئی کہتی کہ کیا ہوا اگر میرا بیٹا مر گیا ہے وہ ملک کی خاطر ہلاک ہوا ہے.یہ وہ لوگ ہیں جن سے اخروی زندگی میں انعام کا کوئی وعدہ نہیں، جنہیں اخروی زندگی پر کوئی یقین نہیں ، جن کی عمریں لوگوں کو یہ بتاتے ہوئے گذر گئیں کہ موت کے بعد کوئی حیات نہیں وہ قربانی کرتے ہیں اور قربانی کرنے کے بعد عید کا دن ان کو نصیب نہیں ہو تا مگر پھر بھی وہ قربانی سے دریغ نہیں کرتے اور ان میں سے کوئی نہیں کہتا کہ ہمیں بتاؤ ہمیں اس قربانی کا کوئی انعام بھی ملے گا یا نہیں.وہ جانتے ہیں کہ ہماری قوم کی زندگی ہماری زندگی ہے.ان کے اندر یہ احساس پیدا ہو چکا ہے کہ ہمارے دو وجود ہیں ایک فردی اور ایک قومی.جس طرح ایک ہاتھ دوسرا ہاتھ بچانے کے لئے کٹ جاتا ہے اور اگر اس ہاتھ کا دماغ ہوتا تو وہ کہتا کہ مجھے اپنے کالے جانے کی پروا نہیں اگر میں کٹ گیا تو کیا ہوا باقی جسم تو بچ گیا ہے اسی طرح قومی زندگی کا احساس جن لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو جاتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ ہم فرد نہیں بلکہ قوم کے جسم کا ایک حصہ ہیں.ہم انسان نہیں بلکہ انسان احمدیت ہے اور وہ اپنے آپ کو اس احمدیت کے اعضاء میں سے ایک عضو سمجھتے اور اپنی قربانی کا شمار کسی حساب میں نہیں سمجھتے.جس طرح کسی کا ناک کٹ جائے یا آنکھ نکل جائے مگر وہ اپنے دشمن پر فتح حاصل کر لے تو وہ خوش ہوتا ہے اور کہتا ہے کیا ہوا اگر میرا ناک کٹ گیا یا میری آنکھ نکل گئی دشمن پر تو میں غالب آ گیا.اسی طرح وہ لوگ جو اپنے آپ کو قوم کے اعضاء سمجھتے ہیں وہ اس بات کی پروا نہیں کرتے کہ ان کا کیا انجام ہوا وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ان کی قوم کو فتح
حاصل ہوئی ہے یا نہیں اور جب اسے فتح حاصل ہو جاتی ہے تو وہ اپنی ہر قربانی بے حقیقت سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو ایک عضو تھے اگر ایک عضو نہیں رہا تو کیا ہوا جسم نے تو فتح پائی ہے.غرض وہ لوگ جو قومی زندگی میں شریک ہوتے ہیں وہ یہ احساس کرنے لگ جاتے ہیں کہ ہمارے دو وجود ہیں ایک فردی جو ادنی ہے اور ایک قومی جو اعلیٰ ہے.ہم قومی وجود کے مقابلہ میں ایسے ہی ہیں جیسے جسم کے مقابلہ میں کوئی عضو - ہم آدمی نہیں بلکہ آدمی کے کان ہیں ، ہم آدمی کے ہاتھ ہیں ، ہم آدمی کا ناک ہیں اور ہم آدمی کا دل و دماغ اور جگر ہیں اگر ہم سارے کے سارے بھی اپنے جسم کو بچانے کے لئے کٹ جاتے ہیں تو ہم کوئی قربانی نہیں کرتے کیونکہ جسم کے بچ جانے کے بعد عزت بہر حال ہماری ہوگی.یہ شعور جس قوم میں پیدا ہو جاتا ہے وہی کچی قربانی کرتی ہے.پس روزوں نے تمثیلی زبان میں ہمیں یہ نظارہ دکھایا ہے کہ لوگ سارے روزے کھتے ہیں مگر عید بعض کو میسر آتی ہے اور بعض کو نہیں آتی.کچھ عید سے پہلے چل بستے ہیں، کچھ پہلے روزے کے بعد کچھ دوسرے روزے کے بعد کچھ پندرھویں روزے کے بعد کچھ اٹھا ئیسویں یا انتیسویں روزے کے بعد اور کوئی نہیں کہتا کہ روزے رائیگاں گئے کیونکہ قوم کو عید بہر حال مل گئی.یہ تمثیلی اثر ہے جو ذہنوں پر رمضان نے پیدا کیا مگر کم لوگ ان باتوں کو دیکھتے اور ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے حکمت پر کبھی غور نہیں کیا ہوتا اور چونکہ وہ غور کرنے کے عادی نہیں ہوتے اسی لئے وہ فائدہ بھی نہیں اٹھاتے.پس آج میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اپنی قربانیوں کی طرف کبھی اس نقطۂ نگاہ سے خیال نہ کرو کہ ان سے اس فرد کو فائدہ پہنچے گا جس نے قربانی کی.قربانیاں دو قسم کی ہوتی ہیں ایک فردی اور ایک قومی.فردی قربانیاں فرد کی زندگی کو چاہتی ہیں مگر قومی قربانیاں قوم کی زندگی کو چاہتی ہیں.جیسا کہ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے ہماری ایک قوم بنا دیتی ہے جو احمدیت ہے.پس ہمیں اس نقطہ نگاہ سے اپنی قربانیوں کو نہیں دیکھنا چاہئے کہ ہمیں ان قربانیوں سے اپنی زندگیوں میں کیا فائدہ ہوگا بلکہ ہمیں اس نقطہ نگاہ سے دیکھنا چاہئے کہ میں احمدیت کا فرد ہوں اور اگر مجھے عید کا دن دیکھنا نصیب نہ ہوا لیکن میری قوم نے دیکھ لیا تو وہ عید گویا مجھے ہی مل گئی.حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید نے احمدیت کے لئے اپنی جان دی ان کی شہادت ۱۹۰۳ء میں ہوئی ان کے بھی اس وقت بچے تھے بلکہ کئی بچے بعد میں بالغ ہوئے بلکہ اگر میں غلطی نہیں کرتا تو ان کا ایک بچہ ان کی شہادت کے بعد پیدا ہوا.لے پس کیا ہے
۲۷۷ اس وقت ان کے سامنے ان کے بچے نہیں تھے یا ان کی بیوی نہیں تھی، تھے مگر وہ جانتے تھے کہ میں جب تک احمدیت میں شامل نہیں ہوا تھا ایک فرد تھا مگر احمدیت میں شامل ہونے کے بعد اب میں احمدیت کی انگلی یا اس کا ہاتھ بن گیا ہوں.پس آدمی ہونے کے لحاظ سے میری زندگی ر قسم کی تھی مگر احمدیت کا ایک عضو ہونے کے لحاظ سے اب میری زندگی اور رنگ کی ہے.اب میں دوسرے درجہ پر ہوں اور احمدیت پہلے درجہ پر.اور جس طرح جسم کو بچانے کے لئے کسی عضو کے کٹ جانے کی کوئی پروا نہیں کی جاتی اسی طرح احمدیت کی عزت بچانے کے لئے اگر میری جان چلی جاتی ہے تو وہ بے حقیقت شئے ہے.چنانچہ انہوں نے احمدیت کی عزت قائم رکھی اور خود شہید ہو گئے.اگر خدانخواستہ وہ اس وقت ثبات قائم نہ رکھ سکتے اور احمدیت سے انکار کر دیتے تو گو ان کی جان بچ جاتی مگر لاکھوں انسانوں کی نظر میں احمدیت کی وقعت کم ہو جاتی اور وہ یہ سمجھتے کہ یہ دین کوئی بڑا دین نہیں جب اس کے ایک متبع کو حقیقی ڈر پیدا ہوا تو اس نے احمدیت سے انکار کر دیا.مگر کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ وہ انگلی جو اپنی زندگی کی پروا کرتی اور اپنے جسم دشمن کا دار ہونے دیتی ہے وہ بیچ سکتی ہے ؟ یہ تو ممکن ہے کہ انگلی مرجائے اور جسم بچ جائے مگر یہ بالکل ممکن نہیں کہ جسم مرجائے اور انگلی بچ جائے.یہ تو ممکن ہے کہ چاروں یا پانچوں انگلیاں کٹ جائیں اور جسم پھر بھی زندہ رہے مگر یہ ممکن نہیں کہ جسم پر موت آجائے اور انگلیاں محفوظ رہیں.ہزاروں آدمی ایسے ہیں جن کے دانت نکل جاتے ہیں ، جن کی آنکھیں نکل جاتی ہیں ، جن کے ہاتھ کٹ جاتے ہیں جن کے پاؤں رہ جاتے ہیں مگر پھر بھی وہ زندہ رہتے ہیں.مگر تم یہ کبھی نہیں دیکھو گے کہ کسی کا جسم مر گیا ہو مگر اس کے ہاتھ یا پاؤں زندہ رہے اسی طرح جب کوئی قوم قوم بنے گی اس وقت یہ تو ممکن ہو گا کہ افراد مریں اور قوم زنده ای رہے مگر یہ ممکن نہیں ہو گا کہ قوم مر جائے اور افراد زندہ رہیں.اسی لئے عقلمند لوگ اپنی قربانیاں پیش کرتے اور اپنی قوم کو مرنے سے محفوظ رکھتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری موت میں ہماری قوم کی حیات ہے لیکن ہماری قوم کی موت میں ہماری اپنی بھی موت ہے.مگر یہ اس نقطہ نگاہ سے ہے اگر ہم سمجھیں کہ اگلا جہان کوئی نہیں لیکن اللہ تعالیٰ تو قرآن کریم میں مسلمانوں کے متعلق فرماتا ہے.وَتَرْجُونَ مِنَ اللهِ مَا لَا يَرْجُونَ اللہ کہ تم دکھوں سے کیوں ڈرتے ہو یہ دکھ تم کو ویسے ہی پہنچتے ہیں.جیسے دشمنوں کو پہنچتے ہیں مگر وہ ان دکھوں سے نہیں ڈرتے بلکہ قربانیاں کرتے چلے جاتے ہیں پھر تم کیوں تکالیف سے ڈر کر قربانیاں کرنے سے ہوں..
۲۷۸ ہچکچاتے ہو.اس کے علاوہ تم میں اور ان میں ایک فرق بھی ہے اور وہ یہ کہ تم امید رکھتے ہو کہ جب ہم مریں گے تو جنت میں جائیں گے مگر تمہارا دشمن سمجھتا ہے کہ ہم مریں گے تو مٹی ہو جائیں گے.پس تمہاری قربانی تمہارے یقین کے مطابق ضائع نہیں گئی صرف یہ فرق ہوا کہ تمہاری عید اس جہان میں نہ ہوئی اگلے جہان میں ہو جائے گی.تو مومن قربانی میں بہت زیادہ دلیر ہوتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اگر میں نے اپنے آپ کو فنا کر دیا اور مجھے عید اس جہان میں نہ ملی تو اگلے جہان میں مل جائے گی لیکن کافر سمجھتا ہے کہ اگر مجھے اس جہان میں عید نہ ملی تو پھر کہیں بھی نہیں ملے گی.غرض یہ ایک بھاری سبق ہے ؟ رمضان سے حاصل ہوتا ہے.تمام مسلمان رمضان کے مہینہ میں روزے رکھتے ہیں مگر کئی ہیں جو روزوں میں ہی مرجاتے ہیں اور عید کو نہیں دیکھ سکتے.یہ مت خیال کرو کہ عید کے لئے کون روزے رکھتا ہے کیونکہ میں جب عید کا لفظ بولتا ہوں تو اس سے یہ کپڑوں اور کھانوں والی عید مراد نہیں ہوتی.اگر عید سے یہی عید مراد ہو تو کوئی اس عید کے لئے ایک دن کا بھی روزہ نہ رکھے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ظاہری عید وہ لوگ زیادہ مناتے ہیں جو روزے نہیں رکھتے.ہمارے ملک میں ایک مثل مشہور ہے جو دراصل ایسے ہی لوگوں کے متعلق ہے جو قربانی نہیں کرتے مگر انعام میں شامل ہو جاتے ہیں.کہتے ہیں کوئی لڑکی تھی جو روزے نہیں رکھتی تھی مگر سحری ضرور کھا لیا کرتی تھی.ایک دن اس کی مالکہ نے اسے کہا کہ تو خواہ مخواہ اپنی نیند کیوں خراب کرتی ہے.جب تو روزہ نہیں رکھتی تو سحری کیوں کھاتی ہے.وہ کہنے لگی ، بی بی نماز میں نہیں پڑھتی ، روزہ میں نہیں رکھتی اب میں سحری بھی نہ کھاؤں تو کافر ہی ہو جاؤں.یہ ہے تو بظاہر ہنسی کی بات مگر حقیقتاً کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو رمضان کے روزے نہیں رکھتے، جو نمازیں نہیں پڑھتے مگر عید کے لئے سب سے پہلے پہنچ جاتے ہیں.گویا عملا وہ یہی کہتے ہیں کہ ہم روزے بھی نہیں رکھتے، نمازیں بھی نہیں پڑھتے اب عید بھی نہ منائیں تو کافر ہی ہو جائیں.ان کے نزدیک ساری عبادت عید میں ہی ہے.پس روزہ دار اس عید کے لئے روزے نہیں رکھتا.روزہ دار جس عید کے لئے قربانی کرتا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام دنیا میں قائم ہو جائے روحانیت دنیا میں قائم ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کی محبت دلوں میں قائم ہو جائے.تم کہہ سکتے ہو کہ روزہ دار روزے اپنے لئے رکھتا ہے دنیا کے لئے نہیں رکھتا پھر اس کے روزوں کی یہ غرض کیونکر ہو سکتی ہے کہ دنیا میں اسلام اور روحانیت قائم ہو جائے.مگر میں کہتا ہوں اگر یہ
۲۷۹ حصہ روزے افراد کے لئے ہوتے تو ایک مہینہ خاص طور پر کیوں مقرر کر دیا جاتا اور کیوں کہا جاتا کہ اسی ایک مہینہ میں سب لوگ روزے رکھیں.اس ایک مہینہ میں تمام مسلمانوں پر یہ واجب کر دینا کہ وہ روزے رکھیں بتاتا ہے کہ روزوں کا ایک حصہ جہاں افراد کے لئے ہے وہاں ایک اس کا قوم کے لئے بھی ہے تبھی اللہ تعالیٰ نے سب لوگوں کو روزوں پر لگا دیا تا قومی بیداری پیدا ہو.اگر افراد کے لئے روزے ہوتے تو یہ کیفیت پیدا نہ ہوتی اور ہر شخص کو اجازت ہوتی کہ جس مہینہ میں چاہے روزے رکھے.مگر اب ایک مہینہ میں سب کو اکٹھا کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان دنوں میں ایک قومی بیداری پیدا ہو جاتی ہے.بچے بھی سحری کے وقت اٹھ بیٹھتے ہیں اور گو روزہ نہ رکھیں مگر سحری کھا لیتے ہیں.اسی طرح ان دنوں میں مساجد لوگوں سے بھری رہتی ہیں لوگ تراویح پڑھتے ہیں ، تجد ادا کرتے ہیں، دعاؤں کرتے ہیں کہ یہ شعور الگ الگ روزے رکھ کر پیدا نہیں ہو سکتا تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے ایک مہینہ مقرر کر دیا اور حکم دے دیا کہ اس مہینہ میں سوائے معذوروں کے سب لوگ روزے رکھیں.سلا، اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے نماز با جماعت ہے جو نماز فردی ہوتی ہے اس کے متعلق حکم ہے کہ جہاں جس کا جی چاہے پڑھ لے.چاہے تو گھر میں پڑھ لے اور چاہے تو مسجد میں پڑھ لے ۱۴ مگر نماز با جماعت کے لئے ایک امام مقرر کر دیا اور حکم دے دیا کہ سب لوگ اس کے پیچھے نماز پڑھیں.ها پس نماز با جماعت بھی فردی نہیں بلکہ قومی عبادت ہے اسی طرح رمضان کے روزے فردی عبادت نہیں بلکہ قومی عبادت ہیں.حج بھی فردی عبادت نہیں بلکہ قومی عبادت ہے.غرض جس عبادت کے ساتھ خدا تعالیٰ نے اجتماع کی شرط لگادی ہے وہ شرط صاف بتاتی ہے کہ وہ قومی عبادت ہے اور جس کے ساتھ شرط نہ ہو وہ فردی عبادت ہوتی ہے.نفلی روزہ فردی عبادت ہے ، گھر پر جو نمازیں پڑھی جاتی ہیں وہ فردی عبادت ہیں، عمره فردی عبادت ہے مگر جج قومی عبادت ہے.اسی طرح چنده عام یا صدقہ و خیرات فردی عبادت ہے مگر ز کوۃ قومی عبادت ہے کیونکہ اس کے متعلق حکم ہے کہ بیت المال میں جمع ہو اور قوم کی ترقی کے لئے خرچ ہو.تو ان ساری عبادتوں میں ایک حصہ قوم کا ہے اور ایک افراد کا حج فرض ہے.مگر عمرہ نفل اسی لئے حج قومی عبادت ہے اور عمرہ فردی.نوافل فرض نہیں وہ فردی عبادت ہیں مگر نماز با جماعت فرض ہے اور وہ قومی عبادت ہے.نفلی صدقہ فردی عبادت ہے مگر ز کوۃ فرض ہے اور وہ قومی عبادت ہے.اسی طرح رمضان کے علاوہ دوسرے دنوں کے روزے فردی عبادت ہیں اور وہ
فرض نہیں مگر یہ روزے فرض ہیں اور قومی عبادت ہیں.پس یہ مت خیال کرو کہ روزے فردی عبادت ہیں یہ قومی عبادت ہے اور جو لوگ قوم کے لئے قربانیاں کرتے ہیں وہی قومی عید دیکھنے کے مستحق ہوتے ہیں بلکہ وہ دہرا فائدہ اٹھاتے ہیں یعنی انہیں وہ فائدہ بھی پہنچتا ہے جو فردی ہوتا ہے.اور وہ فائدہ بھی پہنچتا ہے جو قومی ہوتا ہے.چنانچہ دیکھ لو حج کرنے والا وہ فائدہ بھی اٹھا لیتا ہے جو عمرے والا اٹھاتا ہے مگر عمرے والا وہ فائدہ نہیں اٹھا سکتا جو حج کرنے والا اٹھاتا ہے.اسی طرح نفلی روزے رکھنے والا وہ فائدہ نہیں اٹھا سکتا جو رمضان کے روزے رکھنے والا اٹھاتا ہے مگر رمضان کے روزے رکھنے والا نفلی روزوں کا فائدہ بھی اٹھا لیتا ہے.یعنی جس طرح نفلی روزہ رکھنے والا جاگتا ہے اسی طرح وہ بھی جاگتا ہے ، جس طرح وہ عبادت کرتا ہے اسی طرح یہ بھی کرتا ہے، جس طرح وہ روزہ رکھتا ہے اسی طرح یہ بھی رکھتا ہے مگر اسے مزید فائدہ یہ حاصل ہو جاتا ہے کہ یہ نیکی میں اپنی قوم کے ساتھ شریک ہوتا ہے.اسی طرح نفلی صدقہ بھی نیکی پیدا کرتا ہے اور فرض زکوۃ بھی نیکی پیدا کرتی ہے مگر فرق یہ ہے کہ نفلی صدقہ صرف ایک انسان کی ذات کو فائدہ پہنچاتا ہے مگر فرض زکوۃ قوم کو فائدہ پہنچاتی ہے اور زکوۃ دینے والا جانتا ہے کہ میرا روپیہ یونہی خرچ نہیں ہو گا بلکہ قومی بیت المال میں جا کر ساری قوم کے لئے ایک اصول اور سکیم کے ماتحت خرچ ہو گا.اسی طرح نفلی نماز پڑھنے والا بھی نیکی حاصل کرتا ہے اور با جماعت نماز پڑھنے والا بھی نیکی حاصل کرتا ہے مگر نفلی نماز میں وہ فائدہ انسان کو حاصل نہیں ہو سکتا جو نماز با جماعت کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے کیونکہ نماز با جماعت میں یہ سبق سکھایا جاتا ہے کہ تمہیں ہمیشہ بُنْيَانُ قَرْصُوص ال.رہنا چاہئے اور ایک امام کی اطاعت پر ہر وقت کمر بستہ رہنا چاہئے.تو فرض اور قومی عبادتوں سے دو ہرا فائدہ انسان کو پہنچتا ہے.مگر نفلی اور فردی قربانیاں صرف ایک فائدہ انسان کو پہنچاتی ہیں.غرض روزوں نے ہمیں عظیم الشان سبق دیا ہے مگر افسوس ہے کہ بوجہ عرصہ دراز سے محکوم ہونے کے مسلمان اس سے وہ فائدہ نہیں اٹھا رہے جو پہلے زمانوں میں مسلمان اٹھاتے تھے.اور ابھی تک ان میں قومی ترقی اور قومی بہبود کا خیال پیدا.نہیں ہوا اور میں دیکھتا ہوں کہ احمدیوں میں بھی کسی حد تک یہ بات پائی جاتی ہے.چنانچہ یہ تڑپ ہر احمدی کے دل میں پائی جائے گی کہ میں نیک ہو جاؤں مگر یہ تڑپ بہت کم احمدیوں کے دلوں میں پائی جائے گی کہ ہماری قوم نیک ہو جائے.یہ تڑپ ہر احمدی کے دل میں پائی جائے گی کہ میں بدنام نہ ہوں مگر یہ تڑپ بہت کم احمدیوں کے دلوں میں پائی جائے گی کہ قوم بد نام نہ
۲۸۱ ہو.یہ تڑپ ہر احمدی کے دل میں پائی جائے گی کہ مجھے ترقی اور کامیابی حاصل ہو مگر یہ تڑپ بہت کم احمدیوں کے دلوں میں پائی جائے گی کہ میری قوم کو ترقی اور کامیابی حاصل ہو سوائے علماء و عارفین کے مگر ان علماء و عارفین سے میری مراد جسمانی عالم نہیں بلکہ روحانی عالم ہیں.یہی وجہ ہے کہ جب کبھی قومی قربانی کا مطالبہ کیا جاتا ہے افراد بہانے بنانے لگ جاتے ہیں وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالٰی نے قومی عبادات کے متعلق فردی تکلیفوں کی ذرہ بھی پروا نہیں کی.چنانچہ دیکھ لو فردی نوافل جب جی چاہے انسان پڑھ سکتا ہے چاہے دن میں پڑھے یا رات کو پڑھے مگر جو نمازوں کے اوقات ہیں ان میں ہر ایک کو قربانی کرنی پڑتی ہے.مثلاً ظہر کے وقت ہر ایک کو بلایا جاتا ہے.جنہیں اس وقت زیادہ سے زیادہ کام ہوتا ہے انہیں بھی اور جنہیں تھوڑا کام ہوتا ہے انہیں بھی.اس وقت کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے کام زیادہ ہے اس وقت اللہ تعالیٰ کہتا ہے آؤ اور نماز باجماعت پڑھو اور اپنے کام کا نقصان کرو.تو قومی عبادتوں میں ہمیشہ افراد کو قربانیاں کرنی پڑتی ہیں اور ان کی تکلیفوں کی کوئی پروا نہیں کی جاتی.ہمارے ملک کا ایک تاریخی واقعہ ہے کہ شاہ جہان کی بیوی ممتاز محل نے خواب میں دیکھا کہ وہ مرگئی ہے اور فرشتے اس کی قبر پر ایک شاندار عمارت تعمیر کر رہے ہیں.اس نے بیدار ہونے پر بادشاہ سے ذکر کیا اور بادشاہ نے وعدہ کیا کہ وہ اس کی قبر پر ویسی ہی شاندار عمارت بنائے گا.جب وہ مرگئی تو جس قسم کی عمارت کا اس نے بادشاہ سے ذکر کیا تھا اس قسم کی عمارت تیار کرنے کے لئے بادشاہ نے انجنیئروں کو بلایا.مگر ہر انجنیر نے یہی کہا کہ اس قسم کی عمارت بنی ناممکن ہے.آخر ایک انجنیر ایران سے آیا اور اس نے کہا میں اس قسم کی عمارت بنانے کے لئے تیار ہوں مگر شرط یہ ہے کہ آپ دو لاکھ روپیہ کی تھیلیاں لے کر کشتی میں میرے ساتھ بیٹھ جائیں اور جمنا کے دوسرے کنارے پر چلیں اور مجھے وہ مقام دکھائیں جہاں آپ مقبرہ بنانا چاہتے ہیں.چنانچہ بادشاہ نے ہزار ہزار روپیہ کی دو سو تھیلیاں بھروا کر ساتھ رکھ لیں اور کشتی میں وہ اور انجنیر سوار ہو گئے.ابھی تھوڑی دور ہی کشتی گئی تھی کہ انجنیئر نے ایک تھیلی اٹھائی اور پانی میں یہ کہتے ہوئے ڈبو دی کہ بادشاہ سلامت! یوں روپیہ خرچ ہو گا.بادشاہ نے کہا کوئی پروا نہیں مقبرہ بننا چاہئے.پھر دو گز کشتی آگے چلی تو اس نے دوسری تھیلی اٹھا کر دریا میں پھینک دی اور کہا بادشاہ سلامت! یوں روپیہ غرق ہو گا.بادشاہ نے کہا کوئی پروا نہیں مقبرہ بنا چاہئے.یہاں تک کہ اسی طرح اس نے دو سو تھیلیاں دریا میں غرق کر دیں مگر بادشاہ کے ماتھے پر ذرا بھی بل نہ آیا.جب کشتی
۲۸۲ دوسرے کنارہ پر پہنچی تو بغیر وہ جگہ دیکھنے کے جہاں بادشاہ مقبرہ بنوانا چاہتا تھا وہ انجنیر کہنے لگا بادشاہ سلامت! اب مقبرہ بن جائے گا.وہ کہنے لگا تم نے جگہ تو دیکھی نہیں.اس نے کہا میں صرف آپ کے حوصلہ کا امتحان لینا چاہتا تھا اور میں نے دیکھ لیا کہ دو لاکھ روپیہ کے غرق ہو جانے کے باوجود آپ کے ماتھے پر بل تک نہیں آیا.پس میں سمجھ گیا ہوں کہ جو شخص دو لاکھ روپیہ اس طرح غرق کرا سکتا ہے وہ مقبرہ پر کئی کروڑ روپیہ بھی خرچ کر سکتا ہے.یہ بھی اسی بات کی مثال ہے کہ دنیا میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو قربانیاں کرتے ہیں.بادشاہ نے یہ دیکھ کر کہا باقی انجنیئر بڑے نالائق تھے جو کہتے تھے کہ ایسا مقبرہ نہیں بن سکتا.وہ کہنے لگا حضور وہ نالائق نہیں تھے انہوں نے حضور کے حوصلے کا امتحان لئے بغیر ہی خیال کر لیا تھا کہ پچاس ساتھ کروڑ روپیہ آپ کہاں مقبرہ پر خرچ کریں گے مگر میں نے آپ کا امتحان لے کر یقین کر لیا ہے کہ آپ اس قدر روپیہ خرچ کر دیں گے اگر وہ بھی امتحان لیتے تو ان میں بھی بڑے بڑے لائق انجنیئر تھے اور وہ اس قسم کا مقبرہ بنا سکتے تھے.کلہ تو اس واقعہ میں بھی یہ نکتہ بیان کیا گیا ہے کہ جس قوم کے افراد قومی ترقی کے لئے قربانیاں کرتے ہیں وہ قوم دنیا پر غالب آکر رہتی ہے لیکن جس قوم کے افراد اس نکتہ کو فراموش کر دیتے ہیں وہ ہار جاتی ہے.تم میں سے ہر شخص جو یہ خیال کرتا ہے کہ میں اس وقت قربانیوں میں حصہ لوں گا جب مجھے یقین ہو کہ عید میں اپنی آنکھوں سے دیکھوں گا اس سے زیادہ احمق اور اس سے زیادہ بے وقوف اور کوئی نہیں اور اسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ اس کی قوم کبھی جیت نہیں سکتی.قوم اسی وقت جیت سکتی ہے جب ہر فرد یہ سمجھ لے کہ مجھے عید چاہے میسر آئے یا نہ آئے چاہے میں روزوں میں ہی مر جاؤں یا زندہ رہوں مجھے اس کی پروا نہیں اگر میری قوم کو عید مل گئی تو میں سمجھ لوں گا کہ مجھے بھی عید مل گئی.اس صورت میں یقینا تمہاری ترقی میں کوئی شبہ نہیں اور پھر کسی اور کے ہاتھ سے کیا خدا تمہارے ہاتھوں پر ہی اسلام کو فتح دے گا کیونکہ تم اس فتح کے اول مستحق ہو اور تم نے ایک نبی کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیا ہے.آخر خدا نے اپنا کام کرنا ہے اور اس نے اسلام کو دنیا پر غالب کرتا ہے.یہ وہ فیصلہ ہے جو ہو چکا اور جس میں کسی قسم کا تغیر و تبدل نہیں ہو سکتا لیکن اگر تم اس نقطہ نگاہ کو سمجھ لو گے جو میں نے بتایا ہے تو پھر ہمیں فتح حاصل ہوگی اور اگر اس نقطہ نگاہ کو نہیں سمجھو گے تو یا تو فتح سے محروم ہو جاؤ گے اور یا پھر مرتد ہو کر مرد گے اور قوم کی فتح کی خوشی تمہیں نصیب نہیں ہوگی.لیکن اگر تم اس نقطہ نگاہ کو سمجھ لو گے اور تم میں سے ہر شخص
۲۸۳ فیصلہ کر لے گا کہ میری فردی زندگی کی کوئی حقیقت نہیں میرا چین ، میرا آرام اور میری زندگی سب قومی حیات میں ہے تو تم کامیابیوں پر کامیابیاں حاصل کرتے چلے جاؤ گے.لیکن قوم سے میری مراد جماعت احمدیہ ہی ہے نہ کہ کچھ اور.اور ان معنوں میں قوم کا لفظ حضرت خلیفۃ المسیح الاول بھی استعمال فرمایا کرتے تھے لیکن جب آپ کی مراد قوم سے جماعت احمد یہ نہ ہوتی تو آپ اس لفظ پر چڑتے اور فرماتے قوم قوم کہنے نے ہی لوگوں کو تباہ کر دیا ہے.تو قوم سے میری مراد جماعت احمد یہ ہے پس جو شخص قومی ترقی اپنے مد نظر رکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میرے وجود کی کوئی حیثیت نہیں وہ صرف قوم کے جسد کے مقابلہ میں ایک عضو ہے اور عضو چاہے سو دفعہ کٹ جائے اس کی کوئی پروا نہیں کی جا سکتی اور جو شخص سمجھتا ہے کہ میری عید جماعت کی عید میں ہے اگر جماعت کو عید میسر آگئی تو مجھے بھی آگئی وہ ضرور کامیاب ہو جاتا ہے.اور جب میں نے کہا ہے کہ وہ ضرور کامیاب ہو جاتا ہے تو اس سے میرا یہ مطلب ہے کہ اگر کوئی شخص اس نکتہ کو اپنے مد نظر نہیں رکھتا تو وہ کبھی کامیاب نہیں ہو تا.اس موقع پر مجھے ایک لطیفہ یاد آگیا.کہتے ہیں کوئی بادشاہ تھا.جس کا یہ طریق تھا کہ وہ جس پر خوش ہو تا اسے تین ہزار درہم انعام دے دیتا.ایک دفعہ وہ کہیں سے گذر رہا تھا کہ اس نے دیکھا ایک بڑھا جس کی عمر نوے سال کے قریب ہے وہ زمین میں ایک ایسا درخت بو رہا ہے جس نے بہت مدت کے بعد پھل لانا تھا.بادشاہ یہ دیکھ کر وہاں کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا میاں بڑھے ! یہ کیا حماقت کی بات کر رہے ہو جب تک یہ درخت بڑا ہو گا اور اسے پھل لگے گا اس وقت تک تو تم فوت ہو چکے ہو گے پھر کیوں یہ درخت بو رہے ہو.وہ بڑھا یہ سنتے ہی کدال چھوڑ کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا بادشاہ سلامت! آپ جیسا دانا آدمی ایسی بیوقوفی کی بات کے تو تعجب ہی آتا ہے.اے بادشاہ! اگر ہمارے باپ دادے اسی خیال کے ہوتے تو ہم درختوں کے پھل کہاں سے کھاتے انہوں نے درخت لگائے اور ہم نے ان کے پھل کھائے اب ہم درخت لگائیں گے اور ہماری نسلیں اس کا پھل کھائیں گی.جب یہ معرفت کا نکتہ اس بڑھے کی زبان سے نکلا تو بے اختیار بادشاہ کہنے لگا.زہ.جس کے یہ معنے تھے کہ تم نے کیا ہی اچھی بات کہی.وزیر نے فورا تین ہزار روپیہ کی تھیلی نکالی اور اس بڑھے کے سامنے پیش کر دی.اس بڑھے نے وہ تھیلی لی اور پھر بادشاہ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا بادشاہ سلامت! آپ کی بات کی تو ابھی تردید ہو گئی آپ کہتے تھے کہ تو نے اس درخت کا پھل کب کھانا ہے جب تک اسے پھل لگے گا اس وقت تک تو مر چکا
۲۸۴۴ ہو گا مگر بادشاہ سلامت دیکھئے لوگ تو دس بارہ برس کے بعد درخت کا پھل کھاتے ہیں اور میں نے اس درخت کا پھل اسی وقت کھا لیا.بادشاہ یہ سنتے ہی پھر بے اختیار کہہ اٹھا.زہ.اور وزیر نے جھٹ تین ہزار درہم کی دوسری تحصیلی بھی بڑھے کے سامنے پیش کر دی.یہ دیکھ کر وہ بڑھا کہنے لگا بادشاہ سلامت! اب دیکھئے ایک اور لطیفہ ہو گیا.لوگ تو اپنے درختوں کا پھل سال میں ایک دفعہ کھاتے ہیں اور میرے درخت نے تھوڑی ہی دیر میں دو دفعہ پھل دے دیا.بادشاہ بے اختیار کہہ اٹھا.زہ.اور وزیر نے جھٹ تیسری تھیلی بھی اس کے سامنے پیش کر دی.یہ دیکھ کر بادشاہ کہنے لگا یہاں سے چلو ورنہ یہ بڑھا ہمیں لوٹ لے گا.۱۸ یہ بظاہر ایک لطیفہ ہے مگر اتنی معرفت کا نکتہ اپنے اندر رکھتا ہے کہ قومیں اس نکتہ کو یاد رکھ کر زندہ رہ سکتی ہیں اور قومیں اس نکتہ کو فراموش کر کے ہلاک ہو سکتی ہیں.وہ نکتہ یہ ہے دیکھنے والے کو صرف یہی نہیں دیکھنا چاہئے کہ میری قربانی مجھے کیا فائدہ دے گی بلکہ اسے یہ دیکھنا چاہئے کہ میری قربانی کا میری اولاد اور آئندہ نسل پر کیا اثر پڑے گا.دنیا میں بے اولاد بہت کم ہوتے ہیں اور جو بے اولاد ہوں ان کے بھی بھائیوں اور بہنوں کی اولاد ہوتی ہے.الا ما شاء اللہ.تو انسان جو قربانیاں کرتا ہے ان کے متعلق اسے سمجھ لینا چاہئے کہ اگر اس کا مجھے فائدہ نہ پہنچا تو قوم کو فائدہ پہنچ سکتا ہے اور اگر کسی کو قوم کا خیال نہ آئے تو وہ یہ سمجھ سکتا ہے کہ میری اولاد کو اس سے فائدہ پہنچے گا.بہر حال قومی طور پر اور اہلی اور عائلی طور پر بھی قربانیوں کا نفع پہنچ جاتا ہے اور کون ہے جو اس غرض کے لئے قربانی کرنے کیلئے تیار نہ ہو کہ میری اولاد کو میری قربانی سے فائدہ پہنچے.ہم تو دیکھتے ہیں لوگ آپ مر جاتے ہیں مگر اپنی اولاد کو زندہ دیکھنے کے متمنی ہوتے ہیں.ہمایوں بیمار ہوا تو بابر نے اس کی چارپائی کے گردبارہ چکر کاٹے اور دعا کی کہ الہی اس کی موت مجھے دے دے.اس کی یہ دعا ایسی قبول ہوئی کہ آٹھ دس دن کے اندر اندر ہمایوں اچھا ہو گیا اور بابر بیمار ہو کر مر گیا.19ء تو ماں باپ بچوں کی خاطر قربانیاں کرتے ہیں پھر کون کہہ سکتا ہے کہ اگر قومی ترقی کے لئے قربانیاں کرنی پڑیں تو وہ دو بھر ہو سکتی ہیں.قومی ترقی کے بعد تو تمام قوم معزز سمجھی جانے لگتی ہے چنانچہ ایک عرب شاعر کہتا ہے میں ذلیل نہیں بلکہ معزز ہوں اس لئے کہ میرے ہمسائے معزز ہیں مگر وَجَارُ الاكثرين ذليل ٢٠ اکثر لوگوں کے ہمسائے ذلیل ہوتے ہیں اور اس لئے وہ خود بھی ذلیل سمجھے جاتے ہیں.اسی
۲۸۵ طرح جو قوم غالب ہوتی ہے اس کے ذلیل ترین وجود بھی غالب ہوتے ہیں اور جو قوم ذلیل ہوتی ہے اس کے معزز ترین افراد بھی ذلیل ہو جاتے ہیں.پس فردی طور پر اگر عزت نہ ملے لیکن مجموعی طور پر مل جائے تو مجموعی عزت بھی بڑی بیش قیمت ہوتی ہے اور اس کے نتیجہ میں اس قوم کے افراد بھی معزز سمجھے جاتے ہیں.لیکن جو افراد اپنی عزت کے لئے قوم کی عزت برباد کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں ان کی اپنی عزت بھی کوئی نہیں ہوتی.کچھ عرصہ ہوا جب امریکہ نے امتناع شراب کا حکم نافذ کیا الہ تو اس وقت امریکہ کے علاقہ میں باہر کی قومیں شراب لا کر فروخت کر دیا کرتی تھیں.ایک دفعہ ایک انگریزی جہاز وہاں آیا اور امریکن جہازوں کو یہ شبہ ہوا کہ اس میں شراب ہے انہوں نے انگریزی جہاز کو روکا مگروہ نہ رکا.اتفاقاً وہ جہاز ایسی جگہ تھا جہاں امریکن جہاز اسے روکنے کا اختیار نہیں رکھتے تھے.سمندروں میں جہازوں کی حد بندی کی ہوئی ہوتی ہے اور ساحل کے قریب تین میل کے اندر اندر غیر ملکی جہازوں کی تلاشی لی.جا سکتی ہے مگر وہ جہاز اس حد سے باہر تھا اور وہ اس علاقہ میں تھا جہاں انگریزی مملکت تسلیم کی جاتی تھی.جب انگریزی جہاز نہ رکا تو امریکہ کے جہاز نے اس کا تعاقب کیا اور آخر ہوا میں ایک گولہ پھینکا.طریق یہ ہے کہ جہاز والے پہلے ہوا میں گولہ پھینکتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب تو ہم نے ہوا میں گولہ پھینکا ہے مگر دو سرا گولہ تم پر پھینکا جائے گا.اگر باز آتے ہو تو آ جاؤ.جب امریکن جہاز نے ہوا میں گولہ پھینکا تو یہ دیکھتے ہی انگریزی جہاز ٹھہر گیا اور اس نے اپنے جہاز پر انگریزی جھنڈا لہرا دیا جس کے معنی یہ تھے کہ یہ انگریزی حکومت کا جہاز ہے اگر ہمت ہے تو اس پر گولہ پھینک کر دیکھو.امریکن جہاز نے جب انگریزی جھنڈا دیکھا تو چُپ کر کے واپس لوٹ گیا.تو قوموں کی عزت کے ساتھ ہی افراد کی عزت وابستہ ہوتی ہے لیکن افراد کی عزت کے ساتھ قوم کی عزت وابستہ نہیں ہوتی.مسلمانوں نے جب سے اس نکتہ کو بھلا دیا وہ ذلیل ہو گئے ، وہ کمزور ہو گئے اور ان میں کوئی قوتِ عمل باقی نہ رہی.آج اللہ تعالٰی نے احمدیت کے ذریعہ پھر اسلام کی ترقی کا فیصلہ کیا ہے.پس آج اگر ہماری جماعت کے افراد اس نکتہ کو سمجھ لیں گے تو وہ عزت پالیں گے لیکن اگر وہ اس نکتہ کو نہیں سمجھیں گے تو وہ اسی طرح بے طاقت ہو کر رہ جائیں گے جس طرح مسلمان ہوئے.اگر ہم میں سے ہر فرد کے ذہن میں یہ بات موجود رہے گی کہ احمدیت کی عزت میں میری عزت ہے اور احمدیت کی ذلت میں میری ذلت ہے.اگر میں مرجاؤں اور احمدیت زندہ رہے تو میں کامیاب ہو گیا اور اگر میں زندہ رہوں
۲۸۶ اور احمدیت کو شکست ہو جائے تو ایسی زندگی موت سے بدتر ہے تو اسی دن سے ہماری جماعت کے لئے قومی احیاء کا دن شروع ہو جائے گا ورنہ ہم اپنے لئے اور اپنے خاندانوں کے لئے موت طلب کر رہے ہیں.آج احمدیت میں شامل ہونے کے بغیر کوئی عزت نہیں.اگر احمدیت دنیا میں ذلیل ہوگی تو ہماری جماعت کا ہر فرد ذلیل ہو گا اور اگر احمدیت معزز ہوگی تو ہماری جماعت کا ہر فرد معزز ہو گا.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمارے دلوں میں وہ محبت پیدا کرے جو انبیاء کی جماعتوں کے قلوب میں پیدا ہوا کرتی ہے اور ہمارے تمام کام اس کی رضا اور خوشنودی کے حصول کے لئے ہوں.ہم اپنے نفسوں کو بالکل بھول جائیں، اپنے خاندانوں کو بالکل بھول جائیں ، اپنی نسلوں کو بالکل بھول جائیں اور صرف ایک ہی خواہش اور ایک ہی مقصد ہمارے مد نظر ہو اور وہ یہ ہے کہ اسلام اور احمدیت کا بول بالا ہو ، احمدیت کی ترقی ہو اور احمدیت ہی دنیا میں قائم ہو.الفضل ۳۰ اپریل ۱۹۵۷ء) روی سوشلسٹ پارٹی کے بائیں بازو جو لینن کی زیر قیادت ۱۹۱۷ء کے انقلاب کے بعد حکومت پر قابض ہوا کی طرف سے پیش کردہ فلسفہ.یہ پارٹی بعد میں کمیونسٹ پارٹی کے نام سے موسوم ہوئی.۶۱۹۲۴ - ۶۱۸۷۰ رامچندر جی کی لنکا کے راجہ راون سے لڑائی جو بالآخر راون کی شکست اور موت پر ختم ہوئی کی یادگار کے طور پر ہندو اب تک ہر سال یہ تقریب بڑے اہتمام سے مناتے ہیں.ترندی کتاب الذهد باب من تكلم بالكلمة ليضحك الناس صحیح بخاری کتاب المرضى باب عيادة الصبيان د ۶۱۸۲۵-۱۹۳۶ء که ۶۱۸۵۹-۱۹۳۰ء ۶۱۸۶۷.۶۱۹۴۷ مجنونانه حضرت صاحبزادہ صاحب کے صاحبزادہ سید محمد طیب صاحب کے بقول حضرت صاحبزادہ
۲۸۷ صاحب کے تمام بچے صاحبزادہ صاحب کی زندگی میں ہی پیدا ہوئے تھے اور اپنے سب بچوں اور بچیوں کے نام بھی صاحبزادہ صاحب نے خود رکھے تھے.صاحبزادہ صاحب کی شہادت کے وقت آپ کے صرف دو بچے بالغ تھے.ایک لڑکا محمد سعید صاحب جن کی عمر اس وقت ۱۸ سال تھی اور ایک لڑکی بی بی شفاء صاحبہ جن کی عمر اس وقت ۲۵ سال تھی.یہ دونوں بچے شادی شدہ تھے ان کے علاوہ صاحبزادہ صاحب کے چار لڑکے اور چار لڑکیاں تھیں جن میں سے سب سے بڑی بچی کی عمر ۱۰ سال تھی.(مکتوب صاحبزادہ محمد طیب صاحب بنام مرتب.محرره ۲۹.اکتوبر ۱۹۶۸ء) لا النساء : ۱۰۵ صحیح مسلم کتاب الصلوۃ باب الترغيب فى قيام رمضان وهو التراويح البقرة : ١٨٦ ۱۴ صحیح مسلم کتاب الصلوة باب جواز النافلة قائما الخ ها صحیح مسلم کتاب الصلوة باب من احق بالامامة الصف: ۵ کا شاہجہان ۱۰۰۰ ھ - ۶۱۵۹۳ / ۷۶ ۱۰ھ / ۱۹۷۶ء.ممتاز محل.19 - ۵۱۰۴۰ / ۶۱۵۹۲ - ۵۱۰۰۰ نظم نوشیرواں و باغبان پیر الہی نامه مصنفہ فرید الدین عطار.بحوالہ کتاب فارسی مطبوعہ سیکنڈری ایجو کیشن بورڈ - لاہور - ۱۹۵۶ء و سیاست نامه مصنفه نظام الملک طوی.بابر ۵۸۸۸ ۶۱۴۸۳/ ۶۱۵۳۰/۵۹۳۷- ہمایوں ۹۱۳ھ/ ۱۵۰۸ء.۹۷۳ھ / ۱۵۵۶ء ”ہمایوں نامہ " مصنفہ گلبدن بیگم بنت بابر بادشاه اردو ترجمه صفحہ ۳۷.تاریخ ہندوستان مصنفہ خان بهادر شمس العلماء مولوی محمد ذکاء اللہ دہلوی جلد ۳ صفحه ۱۱۸-۱۱۹ ۲۰ پورا شعر یوں ہے.وما ضرنا انا قليل وجارنا عزیز وجار الاكثرين ذليل
۲۸۸ (سموئیل بن علویا.دیون الماسه - باب الحماسه صفحه ۳۲) ا امریکہ میں ۱۶.جنوری ۱۹۱۹ء کو امتناع شراب کا حکم نافذ ہوا تھا.Historians History of the world Vol.XXVI: These Eventful years: Part || p.538
۲۸۹ (۲۸) فرموده ۲۴ نومبر ۱۹۳۸ء بمقام عید گاہ.قادیان) آج ہم لوگ اس جگہ عید کی خاطر جمع ہوئے ہیں اور عید خوشی کا نام ہے.لے لیکن سوال یہ ہے کہ ہماری آج کی خوشی کس سبب سے ہے ؟ آیا اس لئے کہ آج کئی لوگوں کے گھر سیویاں پکی ہیں ، یا کئی لوگوں نے آج نئے کپڑے پہنے ہیں، یا اس لئے کہ آج چھٹی ہے اور ہم لوگ اپنے کاموں سے فارغ ہو گئے ہیں اور دوستوں کی ملاقات کا موقع ہمیں ملا ہے، یا ہم اس لئے خوش ہیں کہ ہمارے ارد گرد لوگ خوش نظر آتے ہیں اور ان کی خوشی نے ہمارے دلوں پر بھی اثر کیا ہے ، یا ہم اس لئے خوش ہیں کہ آج روزوں کی مصیبت سے ہمارا چھٹکارا ہو گیا ہے اور ہم جب چاہیں کھانا کھا سکتے ہیں اور جب چاہیں پانی پی سکتے ہیں یا ہم اس لئے خوش ہیں کہ پہلے تو ہم اپنے ہم مذہب بھائیوں کے ڈر سے ظاہر میں کھانا نہیں کھا سکتے تھے اور گو روزہ دار نہ تھے مگر پھر بھی ہمیں چُھپ چُھپ کر اپنی خواہشات پوری کرنی پڑتی تھیں ان سب وجوہ میں سے کونسی وجہ ہے جس کے سبب سے ہم خوش ہو سکتے ہیں.یا جو وجہ خوشی کا معقول سبب کہلا سکتی ہے ان وجہوں کے علاوہ ایک اور وجہ بھی ہو سکتی ہے جس کے سبب سے ہم آج خوش ہیں اور وہ وجہ یہ ہے کہ ہمیں اللہ تعالٰی نے اپنے حکم کے ماننے کی توفیق بخشی اور گزشتہ مہینہ میں باوجود اس کے کہ ہمارے گھروں میں کھانے کے سامان موجود تھے ہمیں اپنی خاطر فاقہ کرنے کی توفیق دی.جہاں تک میں سمجھتا ہوں ہر مومن یہ جو آخری وجہ میں نے بیان کی ہے اسی کو عید کی خوشی کا سبب سمجھتا ہے اور حقیقتاً ایک مومن کے لئے اس سے زیادہ خوشی کا سبب کوئی نہیں ہو سکتا کہ اسے اللہ تعالی کی راہ میں خوشی کے ساتھ تکلیف اٹھانے کا موقع ملا ہو.اور یہ موقع جس مومن کو نصیب ہو جاتا ہے وہ اسی دن سے اپنے لئے عید کا منتظر ہو جاتا ہے اور جان لیتا ہے کہ اگر میں کمزور بندہ ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے وفاداری کا معاملہ کر رہا ہوں تو اللہ تعالیٰ جس کے خزانے وسیع ہیں گے اور جو تمام صفات حسنہ سے متصف ہے.وہ کبھی بھی مجھ سے غداری نہیں کرے گا بلکہ میری وفاداری سے بڑھ کر وفاداری کا معاملہ کرے گا اور میری محبت سے بڑھ کر
محبت کا اظہار کرے گا اور واقعہ میں ایسا ہی ہوتا ہے.کبھی کسی بندہ نے خدا کی راہ میں اخلاص اور تقویٰ کے ساتھ کوئی قربانی نہیں کی کہ اس سے ہزاروں گئے بڑھ کر اس کے رب نے اس کے ساتھ حسن سلوک نہیں کیا.کہ خدا تعالیٰ کی غیرت کا نمونہ تم اس میں دیکھ سکتے ہو کہ ابراہیم علیہ السلام کے وفات پا جانے کے قریباً تین ہزار سال بعد جب کہ دنیا کا اکثر حصہ ان کے نام کو بھی بھول گیا تھا اور خود ان کی اپنی اولادیں ان کے کام کو فراموش کر چکی تھیں جب ابرہہ والٹی یمن نے اس مقام کو گرانے کا ارادہ کیا ھے جس مقام کو ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا.تو خدا تعالیٰ کی غیرت اس طرح بھڑ کی کہ ابرہہ کے لشکر میں شدید طور پر چیچک کی وباء پھیل گئی اور چند ہی دن میں اس کا لشکر تباہ و برباد ہو گیا اور جو بچے وہ ناکام و نامراد ہو کر اپنے گھروں کو لوٹ گئے.جب ابرہہ کے لشکر نے مکہ پر چڑھائی کی تو خود حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ابرہہ کے لشکر سے ڈر کر اس امانت کو چھوڑ کر بھاگ گئی جو ابراہیم نے ان کے سپرد کی تھی.اور انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ جب تک ابرہہ کا لشکر واپس نہیں جائے گا وہ مکہ کے گرد کی پہاڑیوں کے میں چھپے بیٹھے رہیں گے اور مکہ میں داخل نہیں ہونگے.تاکہ ابرہہ کا لشکر انہیں نقصان نہ پہنچائے.مگر جب ابراہیم علیہ السلام کی اولاد اپنے دادا کی امانت کو چھوڑ کر مکہ سے بھاگ رہی که زمین و آسمان کا مالک خدائے قہار عرش عظیم پر سے سات آسمانوں کو طے کرتا ہوا زمین پر اتر رہا تھا تا کہ وہ اس نشان کی حفاظت کرے جو ابراہیم علیہ السلام نے قریبا تین ہزار سال پہلے دنیا میں قائم کیا تھا اور وہ نہیں ہٹا جب تک اس نے اس نشان کی حفاظت کے سامان نہیں کر لئے اور اس دشمن کو تباہ و برباد نہیں کر دیا جو ابراہیمی نشان کو مٹانے کے لئے آیا تھا.^ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ہمیں اسی قسم کی غیرت کی طرف توجہ دلاتا ہے.جب وہ فرماتا ہے کہ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِيْمَ مُصَلَّى 3 اے انسانو! تم اسی طرح اخلاص کا تعلق میرے ساتھ پیدا کرو جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے میرے ساتھ تعلق پیدا کیا تھا تو پھر دیکھو کہ کیا میں اسی طرح تمہارے ساتھ معاملہ نہیں کرتا جس طرح میں نے ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ معاملہ کیا ہے.کئی ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کے ابراہیم" کے ساتھ معاملہ کو دیکھ کر رشک کرتے ہوں گے کہ کاش! خدا تعالٰی ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ کرتا لیکن وہ کبھی یہ خیال نہیں کرتے کہ ہم نے بھی تو خدا سے وہ معاملہ نہیں کیا جو ابراہیم علیہ السلام نے اپنے رب سے کیا تھا.ابراہیم تو ہر مصیبت کے بعد اپنے اوپر خدا کا ایک احسان خیال کرتا تھا اور تکالیف اور مصائب کے بعد
۲۹۱ 16 بجائے اللہ تعالیٰ سے شکوہ کرنے کے اس کا ممنون بنتا تھا لے اور یہی رنگ ہے جسے پیدا کیا جائے تو انسان کے ساتھ خدا کا بھی وہی معاملہ ہوتا ہے جو پہلے زمانہ میں ابراہیم سے ہوا اور آج بھی ابراہیم سے ہو رہا ہے اور آئندہ بھی ابراہیم سے ہوتا رہے گا.ابراہیم مر گیا، اس کی خدمتیں ختم ہو گئیں ، اس کی وفاداریوں کا زمانہ جاتا رہا اس کی تکلیفیں بھی کٹ گئیں ، اس کی قربانیاں بھی جاتی رہیں وہ اب اگلے جہان کی لذتوں اور نعماء سے مسرور ہو رہا ہے مگر اس کا خدا زندہ ہے باوجود اس کے کہ ابراہیم علیہ السلام کی قربانیاں ختم ہو چکیں خدا کے انعام ختم ہونے میں نہیں آتے کیونکہ ابراہیم نے وہ کچھ کیا جو اس کی شان کے مطابق تھا اور اس کے خدا نے وہ کیا جو اس کی شان کے مطابق تھا.ابراہیم " جو ایک فانی وجود تھا اس نے اپنی محدود زندگی کو خدا کے لئے خرچ کر دیا اور خدا تعالیٰ جو غیر فانی ہے اس نے اپنی ابدی ہستی کو ابراہیم کے اعزاز کے لئے مقرر فرما دیا.اور جو شخص ابراہیم کے نقش پر چلے گا خدا تعالیٰ اس سے بھی یہی معاملہ کرے گا اور اسے کبھی نہیں چھوڑے گا خواہ اس کے اپنے عزیز اور دوست بھی اسے چھوڑ دیں اور اس وقت بھی اسے نہیں چھوڑے گا جب وہ وفات پا جائے گا بلکہ اس وقت بھی نہیں چھوڑے گا جب کہ اس کی اپنی اولاد اس کے نام کو بھی بھول جائے گی کیونکہ بندوں کا حافظہ کمزور ہے مگر ما را خدا عَلِیم و خبیر لال ہے کوئی چیز اس کے حافظہ سے نہیں اُترتی اور کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں نکلتی.کلا پس اے عزیزو ! تم اپنے اپنے نفسوں میں غور کر کے دیکھو کہ تم آج کیوں خوش ہو اور پھر جو جواب تمہارے نفس دیں تم ان کے اوپر غور کرو کہ کیا تمہاری عید حقیقی عید ہے.اگر تمہارے نفس تمہیں یہ جواب دیں کہ ہم عید اس لئے منا رہے ہیں کہ آج چھٹی کا دن ہے، تمام یار دوست اکٹھے ہونگے ، سہیلیاں اور ہمجولیاں جمع ہوں گی، مرد اور عورتیں اپنے اپنے حلقوں میں اِدھر اُدھر کی باتیں کر کے دل خوش کریں گے تو پھر تم خود سوچ لو کہ تمہاری اس عید کے بدلہ میں تمہیں خدا کی طرف سے کیا ملنا چاہئیے ؟ تمہاری اس عید میں خدا کا کیا حصہ ہے؟ جتنا حصہ تمہاری عید میں خدا کا ہو گا اتنا ہی بدلہ تمہیں خدا کی طرف سے مل جائے گا.مگر جس عید کا میں نے ذکر کیا ہے اس کا بدلہ تو اسی کے اندر شامل ہے.دوست جمع ہوتے ہیں ، سہیلیاں جمع ہوتی ہیں ، ادھر ادھر کی باتیں کر لیتے ہیں ، کچھ وقت خوشی میں گزار لیتے ہیں اور اس طرح عید کی قربانی اور عید کی قربانی کا بدلہ دونوں ہی وہیں ختم ہو جاتے ہیں اور کوئی حصہ باقی نہیں رہتا جو
۲۹۲ جزاء کے قابل ہو.پس یہ عید اسی دن ختم ہو جاتی ہے اور اس کے انعامات دوسرے دن کے لئے چھوڑے نہیں جاتے.پھر اگر تمہارا نفس تمہیں یہ جواب دے کہ میں تو اس لئے عید منا رہا ہوں کہ سب لوگ باقی بھی عید منا رہے ہیں اور جدھر میری قوم جا رہی ہے ادھر ہی میں چل رہا ہوں تو تم سمجھ لو کہ تمہارا بدلہ بھی آج ہی ختم ہو گیا کیونکہ تم اپنی قوم کے ساتھ یہاں جمع ہو گئے اور تم نے اپنا مقصود پا لیا جس چیز کے لئے تمہاری قربانی تھی وہ تم کو مل گئی اور اب کسی مزید جزاء کی امید رکھنا عبث اور فضول ہے.اور اگر تمہارا نفس تم کو یہ جواب دے کہ میں تو آج اس لئے خوش ہوں کہ پہلے چوری چھپے کھانا پڑتا تھا اور آج علی الاعلان بیٹھ کر کھانے کھاؤں گا اور کوئی مجھے ٹوک نہ سکے گا.تو تم سمجھ لو کہ تم تو اقراری مجرم ہو تم کسی جزائے نیک کے امیدوار نہیں ہو سکتے بلکہ تم تو خدا کی گرفت اور سزا کے مستحق ہو کیونکہ تم نے اس کے احکام کی ہتک کی اور اس کے ارشادات کو حقیر جانا.تمہارے روزے بھی تمہارے لئے لعنت تھے اور تمہاری عید بھی تمہارے لئے لعنت ہے نہ روزوں نے تمہیں خدا کے قریب کیا.اور نہ عید نے تمہیں خدا کے قریب کیا اور اگر تمہارا نفس تمہیں یہ جواب دے کہ میں تو اس لئے خوش ہوں کہ مجھے روزوں کے ایام سے چھٹکارا نصیب ہوا اور وہ تکلیف جو میں روزے کی وجہ سے روزانہ اٹھایا کرتا تھا آج مجھے اس سے نجات حاصل ہوئی تو وہ بھی سمجھ لے کہ جس طرح اس نے خدا کے حکم کو چٹی سمجھا ہے خدا بھی اس کے بدلہ کو چھٹی ہی سمجھے گا.وہ اسے بدلہ تو کچھ دے دے گا مگر جس طرح چھٹی کا کام دہرایا نہیں جاتا اسی طرح خدا کا بدلہ بھی دہرایا نہیں جائے گا.وہ ایک ہی دفعہ مل کر ختم ہو جائے گا اور بار بار آسمان سے نازل نہیں ہو گا.لیکن اگر تمہارا نفس تمہیں یہ جواب دے کہ میں تو آج اس لئے خوش ہوں کہ میں خدائی امتحان میں پورا اترا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے حکم کو باوجود اس کے کہ اس میں میرے لئے تکلیفیں میں نے خوشی سے پورا کیا اور ایک دن بھی میرے دل میں ملال پیدا نہیں ہوا اور میں اسے اپنے لئے رحمت سمجھتا رہا اور میں نے اسے سزا یا جرمانہ نہیں سمجھا.میں نے اس حکم کو قبول کیا اس نیت اور اس ارادہ کے ساتھ کہ اگر یہ حکم مجھے بار بار ملے گا تو میں بار بار اس کی تعمیل کروں گا اور منہ نہیں موڑوں گا جب تک کہ میری جان میں جان ہے اور میرے دماغ میں ہوش و حواس ہیں اور میرے دل میں حرکت ہے تو وہ سمجھ لے کہ اس کا خدا اس سے گرا ہوا نہیں ہے بلکہ اس سے بہت زیادہ بلند شمان رکھتا ہے.جس طرح اس نے کہا کہ میں خوشی سے خدا کے امتحان تھیں
۲۹۳ کو قبول کروں گا خدا بھی عرش سے کہے گا کہ میں خوشی سے اس بندے کو قبول کروں گا اور جس طرح اس نے کہا کہ جب تک میں زندہ ہوں میں بار بار ایسے حکموں کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوں اس کا خدا بھی کہے گا کہ جب تک میں ہوں میں بار بار اس پر انعام کرنے کے لئے تیار ہوں.بندے کا عہد تو تیس چالیس سال کے اندر ختم ہو جائے گا کیونکہ موت آکر اس کو اس عہد سے آزاد کر دے گی مگر خدا کا عہد کبھی ختم نہیں ہو گا کیونکہ خدا کے لئے کوئی موت نہیں اور اس کے انعامات کبھی ختم نہیں ہوں گے کیونکہ اس کے خزانوں کی کوئی حد بند نہیں.پس یاد رکھو کہ تمہاری عید تبھی عید کہلا سکتی ہے جب کہ وہ آخری قسم کی عید ہو اور اگر وہ آخری قسم کی عید نہیں ہے تو یا تو وہ ایک فضول اور عبث چیز ہے جس کی قیمت چند فضول ضائع کئے ہوئے گھنٹوں سے زیادہ نہیں.اور یا پھر وہ ایک لعنت ہے جسے قبول کرنے کی بجائے رد کر دینا زیادہ مناسب ہے لیکن اگر وہ عید اس قسم کی ہے جو میں نے مومنوں کی شان کے مطابق بیان کی ہے تو وہ عید ایک قیمتی چیز ہے اس کے لئے جتنی بھی قربانی کی جائے کم ہے اور جتنی بھی فدائیت اس کے لئے دکھائی جائے وہ بے حقیقت ہے.پس اے دوستو! اس عید کی تلاش کرو کہ عید یہ نہیں جو ہم یہاں جمع ہوئے اور عید یہ بھی نہیں جو ہم نے دو رکعت نماز پڑھی ہے اور عید یہ بھی نہیں جو ہم نے یہاں بیٹھ کر خطبہ ڑھایا یا سنا ہے.عید تو ہمارے دل کی وہ آواز ہے جو آج خدا کی طرف جا رہی ہے اور عید تو وہ جواب ہے جو خدا کی طرف سے ہماری طرف آ رہا ہے.اگر وہ آواز مومنانہ آواز تھی اور اگر وہ جو اب مرتبیا نہ جواب ہے تو ہمارا خطبہ خطبہ ہے اور ہماری نماز نماز ہے اور ہماری خوشی خوشی ہے اور اگر یہ بات نہیں تو نہ ہمارا خطبہ خطبہ ہے ، نہ ہماری عید عید ہے اور نہ ہماری خوشی خوشی ہے.اس صورت میں تو بہتر ہوتا کہ ہم بجائے اس جگہ پر جمع ہونے کے جنگلوں میں نکل جاتے اور تنہائی کے مقاموں میں اپنے سر زمین پر رکھ کر خدا کے حضور میں گریہ و زاری کرتے کہ اے خدا! ہمارے دل مرگئے اور ہمارے ایمان جاتے رہے کیونکہ ہم نے نہ تیرے رمضان کو سمجھا اور نہ تیری عید کی قدر کی ہم پر رحم کر اور ہمیں بچا رمضان دکھلا اور ہمیں کچی عید سے مسرور کر.شاید کہ اس طرح ہمارے گناہوں کا کفارہ ہوتا اور شاید کہ آئندہ رمضان ہمارے لئے حقیقی رمضان ثابت ہوتا اور آئندہ عید ہمارے لئے حقیقی عید ثابت ہوتی.اور اگر تمہارا نفس تمہیں وہی جواب دیتا ہے جو میں نے کہا ہے کہ اسے دینا چاہئے تو اے عزیزو! پھر بھی
۲۹۴ تمہارے لئے مطمئن ہونے کا موقع نہیں کیونکہ بعض دفعہ انسان کا نفس اسے دھوکا بھی دیا کرتا ہے.پھر بھی تم کو فکر کرنی چاہئے کہ کیا اس کا جواب صحیح ہے یا نہیں ؟ اور یہ امتحان تم اس طرح کر سکتے ہو کہ جب جب بھی اور جس جس رنگ میں بھی خدا کے لئے قربانی کی آواز تمہارے کان میں پہنچتی ہے تو تمہارا نفس خوشی سے اس کو قبول کیا کرتا ہے یا نہیں؟ یا اسے ہمیشہ چھٹی سمجھتا ہے یا بعض موقعوں پر اسے چھٹی سمجھتا ہے.اگر وہ خدا کی راہ میں قربانی کو ادا کرتا ہے لیکن اسے چٹی سمجھتا ہے تو جان لو کہ تمہارے ایمان میں بہت بڑا نقص ہے.لیکن اگر تم اپنی زندگی کا مطالعہ کر کے یہ معلوم کرو کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں بعض قربانیاں تم پر شاق گزرتی ہیں اور معلوم ہوتی ہیں تو تمہیں ڈر جانا چاہئے کہ شاید جو قربانیاں تم کرتے ہو ان کی وجہ بھی اخلاص نہیں بلکہ اس کے بواعث بعض ایسے نفسیاتی محرکات ہیں جو تمہاری نظروں سے پوشیدہ ہیں اور خدا کی محبت ان کا موجب نہیں.پس باوجود اس کے کہ تمہارا نفس بعض دفعہ نیکی کی طرف راغب ہے تمہیں اپنے لئے خطرہ محسوس کرنا چاہئے اور اصلاح کی مزید کوشش کرنی چاہئے.پھر آخر میں میں کہتا ہوں کہ جب کہ خدا کی راہ میں قربانی حقیقی عید ہے اور اس کے سوا کوئی عید نہیں تو وہ شخص جو تمہیں قربانی کی طرف بلاتا ہے، ہلاکت کی طرف نہیں بلکہ عید کی طرف بلاتا ہے وہ تمہارا دشمن نہیں بلکہ تمہارا خیر خواہ ہے اور جب بھی اس کی آواز کو سن کر تمہارے دلوں میں انقباض پیدا ہوتا ہے اور تم کہتے ہو کہ اس شخص کے ہاتھوں ہماری جان کس طرح مصیبت میں پڑ گئی ہے تو اس وقت تم اپنی خیر خواہی نہیں کر رہے ہوتے بلکہ تم اپنے ساتھ اور اپنے خیر خواہ کے ساتھ دشمنی کر رہے ہوتے ہو کیونکہ وہ تمہیں عید کی طرف بلاتا ہے اور تم ماتم کی طرف جانا چاہتے ہو.میں نے جو ماتم کا لفظ بولا ہے یہ یونہی نہیں بولا.خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایسے شخص کی نسبت فرماتے ہیں کہ اے خدا ہر گز مکمن شاد آن دل تاریک را آنکه او را فکر دین احمد مختار نیست ۱۳ یعنی اے خدا! جس شخص کو محمد رسول اللہ میں ایم کیو ایم کے دین کے لئے قربانیاں کرنے کی تڑپ نہیں ہے تو کبھی بھی اس کے دل کو خوشی مت دکھا ئیو اور اسے سوگوار ہی رکھیو.پس جب میں نے تمہیں کہا کہ وہ جو تمہیں خدا کی راہ میں قربانیوں کے لئے بلاتا ہے وہ تمہیں عید کیلئے بلاتا ہے اور تمہارا نفس یا تمہارا دوست جو تمہیں کہتا ہے کہ دیکھنا اس وادی میں قدم نہ رکھنا کہ
۲۹۵ یہاں تو قدم قدم پر ہلاکت ہی ہلاکت ہے آنکھوں دیکھتے ہوئے کیوں اپنے آپ کو تباہی میں ڈالتے ہو وہ تمہارا نفس اور تمہارا دوست تمہارے حقیقی دشمن ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ تمہارے گھروں میں ماتموں کی صف بچھ جائے اور عید کبھی تمہارے نزدیک بھی نہ آئے کیونکہ تم خیال بھی نہیں کر سکتے کہ خدا کے حضور میں ایک طرف تو تمہاری التجائیں پیش ہو رہی ہوں کہ اے خدا! ہمیں عید دکھا اور دوسری طرف خدا کے عرش کا پایہ پکڑ کر آخری زمانہ کا نبی اور خاتم الخلفاء اور محمد رسول اللہ صلی اللہ کا بروز اور نائب کا کھڑا ہو کر التجا کر رہا ہو کہ اے خدا ہر گز مکن شاد آن دل تاریک را اے خدا! اس تاریک دل کو ہر گز خوشی نہ دیجیو.تو خدا تمہاری دعا کو سن لے اور اپنے مامور اور مرسل کی دعا کو رد کر دے یقینا تمہاری ہی دعا رد کی جائے گی اور یقینا اس کی دعا قبول کی جائے گی.تم اپنے لئے عید لے کر نہیں لوٹو گے بلکہ وہی تمہارے لئے ماتم لے کر لوٹے گا کیونکہ جس نے محمد رسول اللہ ا ل ا ل ل ای میل کے لئے عید نہ چاہی وہ ہر گز عید کا مستحق نہیں.وہ ہرگز عید کا مستحق نہیں اور وہ ہر گز عید کا مستحق نہیں.تمہارے ناک رگڑے جائیں، تمہاری آنکھیں روتے روتے اندھی ہو جائیں مگر جب تک کہ دین کے لئے کچی قربانی کر کے تم محمد رسول الله ملی کام کیلئے عید نہیں لاؤ گے تمہیں کبھی عید نصیب نہیں ہوگی اور کبھی نصیب نہیں ہوگی.لیکن اگر تم محمد ملی ایلیا ای میل کے لئے عید لاؤ تو تم ایک عید لاؤ گے تو خدا تمہارے لئے سو عید میں لائے گا اور تمہارے گھروں کو برکتوں سے بھر دے گا کیونکہ ہمارا خدا غیور خدا ہے.وہ کبھی برداشت نہیں کر سکتا کہ اس کا رسول تمہارے احسان کے نیچے رہے ، وہ کبھی برداشت نہیں کر سکتا کہ اُس کا دین تمہارے احسان کے نیچے رہے ، وہ کبھی برداشت نہیں کر سکتا کہ اس کا مسیح تمہارے احسان کے نیچے رہے ، بلکہ وہ یہ بھی برداشت نہیں کر سکتا کہ اس کا خلیفہ تمہارے احسان کے نیچے رہے.پس جو کچھ قربانی تم اس کی آواز کے جواب میں کرو گے اس سے بہت بڑھ کر تم اور تمہاری اولاد میں بدلہ پائیں گی.اب اگر تمہارے دلوں میں ایمان ہے تو اس بات کو سوچو کہ کیا یہ ممکن ہے کہ محمد رسول اللہ میں لال اور خدا کے خاتم النبین کا ہوں اور مسیح موعود خدا کی طرف سے خاتم الخلفاء ہوں اور اسلام اور احمدیت کچی ہو اور وہ بات غلط ہو جو میں نے اس وقت کی ہے.اگر یہ ممکن ہے تو بے شک سمجھو کہ جو کچھ میں کہتا ہوں غلط کہتا ہوں اور اگر یہ ممکن ہی
٢٩۶ نہیں تو کیا تم میں سے وہ لوگ پاگل نہیں جو کہتے ہیں کہ یہ شخص ہم کو ہلاکت کی طرف لے جا رہا ہے اور ہم سے ایسی قربانیاں چاہتا ہے جن کی ہم میں برداشت اور طاقت نہیں.میں تو تم سے کچھ بھی نہیں چاہتا میں تو تم سے صرف محمد رسول اللہ میا ملک کے لئے عید مانگتا ہوں.تم میں سے کئی عید کے دن مجھے تحفہ دیتے ہیں مگر مجھے ان تحفوں سے کیا فائدہ اور مجھے ان تحفوں سے کیا غرض میری عیدی تو وہی ہے جو محمد رسول الله میلی لیہ کو ملتی ہے اسی عیدی میں میری عید شامل ہے.اگر محمد رسول الله الا اللہ کا دل خوش ہوتا ہے تو ہمارا دل بھی خوش ہوتا ہے اور اگر ان کا دل خوش نہیں ہوتا تو نہ ہمیں جمع ہونے میں کوئی خوشی ہے اور نہ ہمیں جدا ہونے میں کوئی رنج ہے.ہمارا ایمان کم سے کم اس عورت کے ایمان کے مطابق تو ہونا چاہئے جس نے احد کی جنگ کے وقت میں جب یہ خبر سنی کہ محمد رسول اللہ لیا اور شہید ہو گئے ہیں تو وہ گھبرا کر مدینہ سے باہر آگئی اور جب ایک سوار نے جو احد کی طرف سے واپس آرہا تھا آگے بڑھ کر اس عورت کو کہا.اے بہن! تیرا خاوند مارا گیا ہے تو اس نے کہا مجھے یہ بتاؤ محمد رسول اللہ میر کا کیا حال ہے؟ چونکہ اس کو معلوم تھا کہ آپ خیریت سے ہیں اس لئے وہ اس عورت کے قلب کی کیفیت کو نہ سمجھ سکا اور اس نے بجائے اس کے سوال کا جواب دینے کے اسے یہ کہا کہ اے بہن ! مجھے افسوس ہے کہ تیرا باپ بھی مارا گیا ہے.اس عورت نے پھر آگے سے یہی جواب دیا کہ مجھے یہ بتاؤ محمد رسول اللہ میں لی لی لی کا کیا حال ہے ؟ تب بھی اس شخص نے اس حقیقت کو نہ سمجھا اور کہا اے بہن! مجھے افسوس ہے کہ تیرے دونوں بھائی بھی مارے گئے ہیں تب اس عورت نے جنجھلا کر کہا انے شخص تجھے کیا ہو گیا ہے میں تجھ سے محمد رسول اللہ میم کی خبر پوچھتی ہوں اور تو میرے رشتہ داروں کی خبریں مجھے بتا رہا ہے.اس نے کہا بہن وہ تو اچھی طرح ہیں.تب اس عورت نے کہا اگر محمد رسول اللہ میں کی خیریت سے ہیں تو مجھے نہیں پروا کہ کون مارا گیا اور کون نہیں مارا گیا.17.یہی وہ ایمان ہے جو سچی خوشی دکھاتا ہے اور یہی وہ ایمان ہے جو کچی عید دکھاتا ہے.غور تو کرو کہ اس عورت کا باپ مارا گیا، اس کے بھائی مارے گئے ، اس کا خاوند مارا گیا مگر اس کے دل میں ماتم کی صف نہیں بچھی بلکہ اس کے دل میں عید منائی جا رہی تھی اور اس کا دل پکار پکار کر کہہ رہا تھا میرا محمد خیریت سے ہے میرا محمد خیریت سے ہے.یہ وہ ایمان ہے جو کچی عید میں لاتا ہے ، یہ وہ ایمان ہے جس کے بعد خدا تعالیٰ اس بات کا ضامن ہو جاتا ہے کہ اس شخص کے لئے عید ہی عید آئے اور اس کے رنج بھی خوشیاں بن
۲۹۷ جائیں اور اس کی خوشیاں بھی خوشیاں بن جائیں اور اس کی پیدائش بھی دنیا کے لئے رحمت ہو اور اس کی موت بھی دنیا کے لئے رحمت ہو.مجھے یاد ہے کہ ہمارا چھوٹا بھائی مبارک احمد جس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نہایت محبت رکھتے تھے جب بیمار ہوا.یہ ۱۹۰۷ ء کی بات ہے تو حضرت خلیفہ اول اور ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اور ڈاکٹر عبد الستار شاہ صاحب حملہ اس کا علاج کیا کرتے تھے اسے محرقہ بخار تھا اور یہ بخار لمبا چلا کرتا ہے شاید وہ بھی چودہ تانا پندرہ دن تک بیمار رہا.میں ہی اس کا تیمار دار تھا اور دوائی پلانی میرے ہی سپرد تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود بھی اس کی تیمار داری کرتے تھے اور ان ایام میں مجھے یاد میں کہ جب بھی میں سویا ہوں میں نے اپنے سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سویا ہوا دیکھا ہو اور جب بھی میں جاگا ہوں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنے سے پہلے جاگا ہوا نہ دیکھا ہو اور رات اور دن اس کی خدمت میں مصروف نہ پایا ہو.آپ کی اس تیمار داری اور آپ کے اس احساس کو دیکھ کر بعض لوگوں کے دلوں میں خیال تھا کہ اس کی وفات کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بہت صدمہ ہو گا.چنانچہ مجھے یاد ہے کہ جس دن وہ فوت ہو ا بظاہر اس کا بخار تو کم ہو رہا تھا مگر اس کا ضعف بڑھتا چلا جا رہا تھا.صبح کی نماز پڑھ کے جب میں گھر میں داخل ہوا تو حضرت خلیفہ اول اور ڈاکٹر رشید الدین صاحب مرحوم یہ تو مجھے یقیناً یاد ہیں اور شاید ان کے سوا اور بھی کوئی دوست تھے جن کا نام اس وقت میرے ذہن میں نہیں میرے ساتھ ہی اندر آئے.مبارک احمد اس وقت آرام سے لیٹا ہوا تھا.حضرت خلیفہ اول نے اس کی نبض دیکھی اور میں نے دیکھا کہ ان کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا ہے اور کانپتی ہوئی آواز میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آواز دی اور کہا حضور بہت ضعف ہے مشک لائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ٹرنک کی طرف گئے تاکہ اس میں سے مشک نکالیں تو حضرت خلیفہ اول نے پھر گھبرا کر کہا حضور جلدی کریں بہت زیادہ ہے.اس کے بعد میں نے دیکھا کہ حضرت خلیفہ اول نے ہاتھ پہنچے کے پاس سے ہٹا کر کہنی کے اوپر رکھا اور ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کو دیکھ کر کہا کہ اب نبض صرف یہاں محسوس ہوتی ہے پھر آپ نے گھبرا کر کہا حضور جلدی کریں اور میں نے دیکھا کہ حضرت خلیفہ اول صدمہ کی وجہ سے بمشکل کھڑے تھے اور ان کا جسم کانپ رہا تھا آخر ضعف کی وجہ سے آپ زمین پر بیٹھ گئے اور پھر انہوں نے کہا حضور جلدی کریں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ ضعف
٢٩٨ والسلام نے ٹرنک بند کر دیا اور فرمایا مولوی صاحب شاید اس کی نزع کا وقت ہے.پھر واپس آئے نبض پر ہاتھ رکھا اور فرمایا یہ تو فوت ہو گیا ہے.پھر اسی وقت آپ نے کاغذ منگوایا اور دوستوں کو باہر خط لکھنے شروع کر دیئے کہ مبارک احمد کی بیماری کی وجہ سے بہت سے دوستوں کو تشویش تھی اس لئے میں اطلاع کے طور پر لکھ رہا ہوں کہ مبارک احمد فوت ہو گیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ایک امانت تھی اس نے وہ امانت اٹھالی اور ہمیں رنج کی کوئی وجہ نہیں.جب تک وہ زندہ تھا ہم نے خدمت کر کے ثواب حاصل کر لیا اور اب جو وہ وفات پا گیا تو ہمیں اس پر کوئی رنج نہیں.پھر آپ جب جنازہ کے لئے باہر تشریف لے گئے تو میں نہیں کہہ سکتا کہ جنازہ سے پہلے یا بعد میں آپ دوستوں سمیت باغ میں بیٹھ گئے ، اور فرمایا دیکھو اللہ تعالیٰ کے بندوں کے لئے ہر موقع پر خوشی کا سامان ہی پیدا ہو جاتا ہے.لوگوں کے بچے مرتے ہیں اور ان کے گھروں میں ماتم پڑ جاتا ہے مگر ہمارا بچہ فوت ہوا تو معاً ہمیں وہ الہامات یاد آ گئے جو اس کی وفات کے متعلق اللہ تعالی کی طرف سے سالوں پہلے نازل ہو چکے تھے بلکہ بعض اس کی پیدائش سے بھی پہلے نازل ہو چکے تھے اور ہمارا دل خوشی سے بھر گیا کہ دنیوی دوست تو مصیبت آنے کے بعد ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں مگر ہمارے خدا نے اس بچہ کی پیدائش سے بھی پہلے ہم سے ماتم پرسی کر چھوڑی تھی اور ہم سے ہمدردی کا اظہار کر دیا تھا.پس یہ رنج کا موقع نہیں ہمارے لئے خوشی کا موقع ہے اس لئے کہ ہمارا خدا ہم سے خوش ہے اور اس لئے بھی کہ خدا کی باتیں پوری ہو ئیں اور جب خدا کی باتیں پوری ہوں تو مومن غمگین کب ہو سکتا ہے.اب یہ دیکھو کیسی عمدہ مثال اس امر کی ہے کہ جو سچا مومن ہو اس کے لئے رنج کی گھڑیاں بھی خوشی کی گھڑیاں ہوتی ہیں.اب دیکھ لو جو معاملہ میرے ہی ساتھ ہے کہ کوئی فتنہ جماعت میں ایسا نہیں آیا جس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر نہ دی ہو اور وہ چھپ نہ گئی ہو بلکہ تفصیلات تک بعض دفعہ اس نے بتادی ہیں.ان مصائب کو دیکھ کر گو بشریت کے طور پر ایک قدرے قلیل رنج پیدا ہو مگر وہ اس خوشی کے مقابلہ میں کچھ بھی تو حقیقت نہیں رکھتا جو اس بات کو دیکھ کر ہوتی ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں پہلے ہی اس سے خبردار کر دیا تھا.ہمیں اگر اس کا افسوس ہو سکتا ہے تو اتنا ہی ہو سکتا ہے کہ شاید اس شرارت کی وجہ سے سلسلہ کو کوئی نقصان نہ پہنچے لیکن خدا نے جب پہلے ہی اس فتنہ کی خبر دے دی ہو اور یہ بھی خوشخبری دے دی ہو کہ دشمن ناکام رہے گا اور ہماری ہی فتح ہو گی تو پھر خوشی کی نسبت رنج کی نسبت سے بہت زیادہ ہوتی ہے.اور یوں تو اس دنیا میں
۲۹۹ مشکلات اور مصیبتیں لگی ہوئی ہیں.انسانی زندگی ہی خدا نے ایسی بنائی ہے.اصل سوال تو احساس کا ہوتا ہے اور اگر مصیبتیں اور تکلیفیں اور فتنے اور ابتلاء انسان کو دبا نہ دیں اور مغلوب نہ کر لیں اور خدا کی محبت اور اس کا پیار اس کے دل کو بڑھاتا رہے اور طاقت دیتا رہے تو عید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹتا اور ماتم کا لباس انسان کے جسم پر نہیں پہنایا جا تا ریخ تو صرف ایسا ہی ہوتا ہے جیسے ہاتھ کو چھو گیا اور عید اس طرح ہوتی ہے جیسے کسی نے زرہ پہن لی کہ وہ جسم کی حفاظت بھی کرتی ہے اور اس سے جدا بھی نہیں ہوتی.پس جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کرے وہ سچی خوشی دیکھتا ہے اور اس کی خوشی اصل خوشی ہے.اور یہ خوشی تبھی نصیب ہوتی جب محمد رسول اللہ میم کے توسط سے وہ خوشی ہمیں ملے کیونکہ کوئی سمجھے یا نہ سمجھے محمد رسول الله ملی و خاتم الانبیاء ہی نہیں بلکہ وہ خاتم الانسان بھی ہیں.اور در حقیقت اب ان کے بعد انسان بھی ظلی انسان ہیں.پس اگر کوئی انسان خوشی حاصل کرنا چاہتا ہے تو پہلے محمد رسول اللہ علی کے دل میں خوشی ڈالے پھر وہاں سے وہ خوشی اس کی طرف آئے گی.اگر وہ براہ راست اس کو لینا چاہے گا تو وہ اس کے گلے میں اٹک جائے گی اور نہ نکلی جائے گی اور نہ تھو کی جائے گی اور آخر اس کی موت کا باعث ہوگی اور وہ عید کا دن نہیں بلکہ موت کا دن دیکھے گا.لیکن اگر وہ محمد رسول اللہ میں لی لی عوام کے دل میں خوشی ڈالے گا تو وہ خوشی اسی طرح بڑھ کر جس طرح ایک اچھا دانہ ایک اچھی زمین میں ایک اچھے موسم میں ایک اچھی طرح تیار کی ہوئی کھیتی میں ڈالا جاکر اور باوقت پانی پا کر اور اچھے موسم میں سے گذرتے ہوئے بڑھتا اور پھلتا اور پھولتا ہے اور کئی گنے زیادہ ہو جاتا ہے اسی طرح اس کی وہ تھوڑی سی خوشی جو یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل میں ڈالے گا بڑھے گی اور نشو و نما پائے گی اور ایک دانہ سے سینکڑوں دانے بن جائے گی اور پھر وہ کھیتی پک کر کائی جائے گی اور اس کا دانہ اس کے بھوسے سے جُدا کیا جائے گا اور اس کے خواب و خیال سے بھی زیادہ خوشی کا غلہ فرشتے لا کر اس کے دل میں ڈال دیں گے اور کہیں گے کہ یہ وہی خوشی کا بیج ہے جو تم نے محمد رسول اللہ علی کے دل میں بویا تھا.تمہاری کھیتی پک گئی اور ہم اسے کاٹ کر تمہارے پاس لائے ہیں تمہاری امانت تم ہی کو دی جاتی ہے محمد رسول اللہ ملی او لیول کو اس کی ضرورت نہیں.اے دوستو! مختلف پیرایوں میں یہ سبق میں نے تم کو پڑھایا ہے مگر افسوس کہ بہت کم لوگوں کو ابھی یہ یاد ہوا ہے.اکثر لوگ سنتے ہیں اور بھول جاتے ہیں، سنتے ہیں اور بھول
جاتے ہیں ، سنتے ہیں اور بھول جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ خدا بھی انہیں بھول جاتا ہے.کاش وہ دن آئے جب تم سب کو یہ سبق ہمیشہ کے لئے یاد ہو جائے اور جب تمہارا خدا بھی تمہیں ایسا یاد کرے کہ پھر تم کبھی بھی اس کی یاد سے نہ اترو.اللَّهُمَّ امین.- اب دوست مل کر دعا کر لیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری کمزوریوں کو دور کرے اور ہمیں سچا مومن بننے کی توفیق عطا فرمائے.آمین الفضل ۴.دسمبر ۱۹۳۸ء) مفردات امام راغب زیر لفظ "عود " ل المتفقون : الحجر : ٢٢ الاعراف: ۱۸۱ بنی اسراءیل :ااا : : البقرة : ۲۴۶ ۲۳ الاحزاب : ۴۵: بنی اسراءيل :١٠ النساء :۱۴۷ حم السجدة 9 التين : الانعام الرقاق باب من هم بحسنة أو سيئة صحيح بخاری کتاب ه ۶۵۷۰ ل البقرة : ١٢٨ A السيرة الحلبية الجزء الاول صفحه ۶۳ - ۶۴ سیرت الامام ابن ہشام الجزء الاول صفحہ ۱۷ تا ۱۹ الفيل : ۲تا۶ البقرة : ١٢٦ ابراهیم: ۳۸ تا ۴۰ الله التحريم: الحجرات : ۱۴ 与 البقرة : ۲۵۶ ا بركات الدعاء صفحہ ۳۲ مطبوعہ ۱۳۱۰ھ النحل : ۱۲۱ - ۱۲۲ ۱۲ - چشمه معرفت صفحه ۸۲ ۸۳ - ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحه ۱۸۴ کشتی نوح صفحہ ۷۷ ها الاحزاب : ۴۱
السيرة الحلبية الجزء الثاني صفحه ۲۷۸ سيرة الام ابن بشام الجزء الثاني صفحه ۹۲ کہ حضرت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب.صحابی.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے خسر.۱۹۳۷ء.بیعت ۱۹۰۱ء ۱۸ سیرت المہدی حصہ اول صفحہ ۱۷۶-۱۷۷.الحکم ۲۴.ستمبر ۱۹۰۷ء 2
(۲۹) ( فرموده ۱۳ نومبر ۱۹۳۹ء بمقام عید گاہ.قادیان) دنیا میں کوئی ایک بھی ایسی چیز نہیں جس کے متعلق یہ کہا جا سکے کہ اگر فلاں فلاں شرائط کے ساتھ اس کام کو کر لیا جائے تو یہ کام مکمل ہو جائے گا.میری مراد ان کاموں سے ہے جن کے شرعی نتائج نکلتے ہیں.سائنس کے تجارب سے میری مراد نہیں.تمام حد بندیاں کسی نہ کسی وقت میں جاکر ٹوٹ جاتی ہیں اور کوئی نہ کوئی پہلو ایسا ضرور نکل آتا ہے جو ان شرائط کو بھی نامکمل اور ناقص بنا دیتا ہے.جب ہم پڑھا کرتے تھے تو اس وقت کے ریڈروں میں ایک بڑی عجیب تمثیل بیان کی گئی تھی جو میرے اس مضمون کو اچھی طرح واضح کر دیتی ہے.کہتے ہیں کوئی آقا تھا جو اپنے ملازموں کے ساتھ بڑی سختی کا سلوک کیا کرتا تھا اور آہستہ آہستہ جب اس کی یہ شہرت ہو گئی اور لوگوں میں وہ بدنام ہو گیا تو اس کے پاس کوئی شخص نوکر رہنے کے لئے آمادہ نہ ہوتا تھا.آخر بہت جستجو کے بعد اسے ایک شخص ملا جس نے یہ شرط اس کے سامنے پیش کی کہ آپ مہربانی کر کے میرے فرائض مجھے لکھ کر دے دیں اور میں انہیں ادا کر دوں گا اگر ان میں میں کوئی کوتاہی کروں تو میں مجرم ہوں گا اور ان سے زائد اگر آپ مطالبہ کریں تو میں نہیں کروں گا.اسے چونکہ خادم نہ ہونے کی وجہ سے تکلیف تھی اس نے یہ شرط قبول کر لی اور نوکر کے جتنے فرائض اس کے ذہن میں آسکتے تھے ان کو ایک کاغذ پر لکھ کر نوکر کے حوالے کر دیا.نوکر نے وہ کاغذ رکھ لیا اور کام شروع کر دیا.کچھ روز تک تو دونوں کا نباہ ہو تا رہا.ایک دن آقا گھوڑے پر سوار ہو کر کہیں جا رہا تھا کہ گھوڑا کسی چیز سے ڈر کر بد کا اور سور اگر گیا لیکن بد قسمتی سے اس کا ایک پاؤں رکاب میں پھنس گیا.اس کا سر تو زمین کے ساتھ گھٹتا ہوا جا رہا تھا اور پاؤں رکاب میں پھنسا ہوا تھا اور پیچھے پیچھے نو کر چلا جا رہا تھا کیونکہ اس کی ملازمت کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ جب آقا گھوڑے پر سوار ہو کر کہیں جائے تو وہ پیچھے پیچھے چلے.اس نے نوکر کو پکارا اور کہا کہ میں مر رہا ہوں رکاب سے میرا پاؤں جلدی نکال نگر نوکر نے وہ ان شرائط نامہ جیب سے نکالا اور کہا
٣٠٣ دیکھ تو سرکار اس میں شرط یہ لکھی نہیں" اب کون شخص ہے جس کے ذہن میں یہ شرط بھی آسکتی ہے کہ اگر میں گھوڑے سے گروں اور پاؤں رکاب میں پھنس جائے تو اسے نکالنا بھی ملازم کا فرض ہے.تو روحانی و جسمانی تعلقات میں ایسی بیسیوں باتیں ہوتی ہیں اور ان میں ایسا تنوع پایا جاتا ہے کہ ان کی معین طور پر حد بندی نہیں کی جا سکتی خواہ کتنی شرطیں باندھ لی جائیں پھر بھی کوئی نہ کوئی پہلو ضرور ان سے باہر رہ جاتا ہے.نماز کے ساتھ چاہے جتنی شرطیں لگا لو اور ان کی پابندی پوری احتیاط سے کرو پھر بھی کوئی نہ کوئی موقع ایسا ضرور آئے گا کہ ان حد بندیوں کے باوجود تمہاری نماز ناقص رہ جائے گی.اصل چیز یہی ہے کہ نماز کو خدا تعالی کی خاطر پڑھا جائے.لے باقی رہی یہ بات کہ وضو اس طرح کیا جائے ، اس طرح ہاتھ باندھے جائیں، اس طرح جھکا جائے ، کمر اس طرح رکھی جائے یہ ایسی تفاصیل ہیں کہ پوری احتیاط کے باوجود کوئی نہ کوئی پہلو ایسا رہ جاتا ہے جس کی وجہ سے کہا جا سکتا ہے کہ نماز ناقص رہ گئی.اسی طرح روزہ ہے تم اس کے متعلق کتنی پابندیاں لگالو ایسی کوئی معین صورت مقرر نہیں کی جاسکتی کہ کوئی کہہ سکے اس طرح روزہ بالکل مکمل ہو جائے گا.خواہ چار صفحات کی شرطیں لکھ ڈالی جائیں پھر بھی کسی نہ کسی پہلو سے نقص رہ جائے گا اور اس طرح روزہ نا مکمل ہو جائے گا.پس اصل شرط یہی ہے کہ نماز خدا تعالیٰ کے لئے اور حتی المقدور اس کے بنائے ہوئے احکام کے مطابق پڑھی جائے.روزہ خدا تعالیٰ کے لئے اور حتی المقدور اس کے بنائے ہوئے احکام کے مطابق رکھا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ عام مومن کے لئے دین العجائز ہی بہترین چیز ہے بڑھیا والا ایمان ہی کافی ہے کہ خدا تعالیٰ اور اس کے رسول نے ایک بات کہہ دی ہے اس لئے اسے اختیار کرنا چاہیئے.کہ لمبی بحثوں میں پڑنا اچھا نہیں صرف یہ کافی ہے کہ اللہ و رسول کا یہ حکم ہے اس کی پابندی ہونی چاہئے اور عوام کے لئے یہ دین العجائز ہی بہترین چیز ہے اس لئے کہ ان میں اتنی قابلیت نہیں ہوتی کہ وہ ہر بات سے فلسفیانہ نتائج اخذ کر سکیں.دوسروں کے لئے بھی یہی بہتر ہوتا ہے کہ کیونکہ انہوں نے عوام کے لئے نمونہ بنتا ہوتا ہے اور ہر ایک مسئلہ کے متعلق فلسفیانہ موشگافیاں کی جائیں تو آسان مسائل بھی نہایت پیچیدہ بن جاتے ہیں.میں ایک مرتبہ منالی سہ سے واپس آ رہا تھا راستہ میں ایک سکھ وکیل مجھ سے ملے.انہوں نے کہا کہ میں بعض باتیں کرنا چاہتا ہوں وہ پہلے سے سلسلہ احمدیہ کی کتب کا مطالعہ
۳۰ کرتے رہتے تھے.انہوں نے مجھ سے کہا کہ بعض باتیں میری سمجھ میں نہیں آتیں.مثلاً یہ کہ شراب کی اسلام نے ممانعت کی ہے کہ کیونکہ اس سے انسان بد مست ہو جاتا ہے لیکن سینکڑوں لوگ ایسے ہیں جو شراب کے استعمال سے بد مست نہیں ہوتے.انہوں نے ساری عمر کبھی اتنی شراب نہیں پی کہ دماغ پر اس کا اثر ہو اور اسلام اس کے فوائد بھی تسلیم کرتا ہے.پھر اس کے استعمال کی ممانعت کیوں کی گئی ہے کیوں اس پر پابندی نہیں لگا دی.میں نے کہا یہ تو صحیح ہے کہ بعض لوگ ایسے ہو سکتے ہیں جو بد مست نہ ہوں لیکن ہر انسان کی عقل مختلف ہوتی ہے اور ہر شخص اس کا اہل نہیں ہو تا کہ صحیح اندازہ کر سکے.میں نے کہا آپ وکالت کرتے ہیں اور اس بات کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ بیسیوں باتیں ایسی ہیں جو کئی لوگ کر سکتے ہیں اور کئی نہیں کرتی سکتے لیکن ان کے متعلق جو قانون ہوتا ہے اس کے نفاذ میں کوئی امتیاز نہیں کیا جاتا.مثلاً دفعہ ۱۴۴ کا اگر نفاذ کسی شہر میں کیا جاتا ہے تو یہ فرض کر کے نہیں کیا جاتا کہ تمام لوگ یہاں فسادی ہیں.وہاں شریف بھی ہوتے ہیں جو فساد سے بچتے ہیں لیکن اس دفعہ کے نفاذ میں کوئی امتیاز نہیں کیا جا سکتا.اگر اس کا اعلان اس رنگ میں کیا جائے کہ ایسے پانچ آدمی جمع نہ ہوں جو فساد کرنے والے ہیں.تو کیا آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کوئی بھی ایسا آدمی ہو گا جو کے کہ میں فساد کی نیت سے آیا ہوں.میں نے انہیں بتایا کہ قانون میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کتنے لوگ اس کی پابندی کر سکیں گے اور کتنے نہیں بلکہ اعلان عام ہوتا ہے اور اس بات کو مد نظر رکھا جاتا ہے کہ فساد اور ضرر کا احتمال ہی باقی نہ رہے اور جب ضرر کا احتمال زیادہ ہو تو اسی کو مقدم رکھ کر حکم دیا جاتا ہے.یہ بحث تو میں نے انہیں سمجھانے کے لئے کی ورنہ حقیقت یہی ہے کہ سائنس کی موجودہ تحقیقات سے یہی ثابت ہوا ہے کہ الکحل قلیل مقدار میں بھی دماغ پر اثر کرتا ہے.کہ میں نے کہا میں مان لیتا ہوں کہ آپ ساری عمر شراب استعمال کریں تو بھی حد کے اندر رہ سکتے ہیں لیکن سوال تو یہ ہے کہ آپ کا ہمسایہ بھی جو عقل و فہم کے لحاظ سے آپ سے بہت کم ہے اپنے آپ کو حد کے اندر رکھ سکتا ہے یا نہیں.میں یہ مان لیتا ہوں کہ آپ اپنے ہمسایہ سے زیادہ اچھے ہیں لیکن سوال تو یہ ہے کہ کیا آپ کا ہمسایہ بھی اس بات کو تسلیم کر لینے کے لئے تیار ہے ؟ وہ تو کہے گا کہ وہ آپ سے زیادہ اچھا ہے اور چونکہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کون حدود کے اندر رہ سکتا ہے اور کون نہیں اس لئے شریعت اسلامیہ نے عام قانون بنا دیا اور حکم دے دیا کہ آپ بھی شراب استعمال نہ کریں تا آپ کا ہمسایہ بھی اس سے باز رہ سکے.یہ ایک نہایت -
۳۰۵ نازک معاملہ ہے اور کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں اپنے دوست شاگرد ہمسایہ یا متعلقین کے لئے ایسی باتیں بیان کر سکتا ہوں کہ پھر ان کو تشریح کی کوئی ضرورت نہ رہے اور کام آپ ہی آپ چلتا رہے.ہدایات خواہ کتنی مفصل کیوں نہ ہوں پھر بھی کئی پہلو ایسے نکل آئیں گے کہ انسان کو قیاسات سے کام لینا پڑے گا اور وہاں غلطی کا امکان رہے گا اس لئے کوئی ایسی چیز ہونی چاہئے جو ایسی غلطیوں کو آپ ہی آپ ٹھیک کرتی رہے.میں نے دیکھا ہے بعض نہایت واضح مسائل ہوتے ہیں مگر ان میں بھی اجتہاد کی چھوٹی سی غلطی سے کیا کی کیا صورت بن جاتی ہے.اسی رمضان میں ہمارے گھر میں ہی ایک ایسا مسئلہ پیش ہوا.ہمارے گھر کا ایک فرد بیمار تھا بیچ میں افاقہ ہوا تو انہوں نے کہا کہ میں آج روزہ رکھوں گی.شاید اللہ تعالیٰ نے یہ مسئلہ ہی حل کرانا تھا جو یہ صورت پیدا ہوئی.انہوں نے کہا کہ آج ستائیسواں روزہ ہے میں رکھ لیتی ہوں مگر ستائیسواں روزہ جمعہ کے روز تھا کسی نے ان سے کہا کہ جمعہ کا اکیلا روزہ رکھنا تو جائز نہیں.اب یہ بات غلط بھی ہے اور صحیح بھی.ایک شخص جو رمضان میں بیمار ہے اگر جمعہ کے روز اس کو افاقہ ہو تو اس کا اس روز روزہ رکھنا نا جائز نہیں.یہ ممانعت نفلی روزہ کے متعلق ہے.۸ میں نے ان سے کہا کہ آپ کے لئے یہ مسئلہ نہیں کہ جمعہ کے روز علیحدہ روزہ رکھنا جائز ہے یا نہیں بلکہ یہ ہے کہ بیمار کے لئے روزہ جائز نہیں ہے ؟ اور جس روز اسے صحت ہو ضرور روزہ رکھنا چاہئے.یہ نہیں کہ اگر ایک شخص جو باقی رمضان میں بیمار ہو کسی جمعہ کے روز اچھا ہو تو اس روز روزہ نہ رکھے.رمضان کا تو ہر دن فرض ہوتا ہے اور اس میں جس دن بھی کوئی شخص اچھا ہو اسے روزہ رکھنا چاہئے.وہ دن اگر جمعہ کا ہو تو بھی روزہ رکھنا چاہئے.مگر بعض لوگوں نے نادانی سے یہ مسئلہ بنایا ہوا ہے کہ جمعہ کا روزہ خواہ رمضان کا ہو اکیلا رکھنا جائز نہیں حالانکہ اس میں یہ وضاحت ضرور ہونی چاہئے کہ یہ نفلی روزوں کے متعلق ہے.اگر کسی شخص کے حالات ایسے ہیں کہ وہ صرف جمعہ کو ہی رمضان کا روزہ رکھ سکتا ہے تو اسے ضرور رکھنا چاہئے.فرض کرو ایک شخص سفر پر ہے وہ جمعہ کو گھر پہنچا اور ہفتہ کو اسے پھر سفر پر روانہ ہوتا ہے تو اسے اس جمعہ کا روزہ ضرور رکھنا چاہئے کیونکہ یہ فرض روزے ہیں اور ان کا ہر دن فرض کی ہے مگر بعض مولویوں نے غلطی سے یہ مسئلہ بنا دیا ہوا ہے.اور حقیقت یہی ہے کہ خواہ کتنی شرائط لگا دیئے جائیں اجتہاد کی صورت میں غلطیوں کا امکان پھر بھی باقی رہتا ہے اور اس لئے
محفوظ طریق یہی ہو سکتا ہے کہ کوئی ایسا انتظام ہو کہ آپ ہی آپ ایسی غلطیاں درست ہوتی رہیں.جس طرح آج کل ایک آلہ آٹو میٹک ایڈ جسٹر (Automatic Adjuster) ایجاد ہوا ہے جو ہوائی جہازوں میں لگایا جاتا ہے اور اس میں اگر کوئی معمولی نقص واقعہ ہو جائے تو وہ خود بخود اسے درست کر دیتا ہے.ایک جہاز جب میں ہزار یا چالیس ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہا ہو تو مشینری میں ذرا سا نقص بھی خطرناک نتائج کا موجب ہو سکتا ہے اور ایسی معمولی غلطیوں کا ہوا باز کی نظر سے اوجھل ہو جانا ممکن ہوتا ہے اس لئے ہوائی جہازوں میں ایسے آلے لگا دیئے جاتے ہیں کہ ایسی غلطیاں آپ ہی آپ درست ہوتی رہیں.مثلاً اگر توازن قائم نہ رہے تو آٹو میٹک ایڈ جسٹر خود بخود اسے ٹھیک کر دے گا.پس کوئی ایسا آٹو میٹک ایڈ جسر انسان کے لئے بھی ہونا ضروری ہے جو اس کی غلطیوں کو خود بخود درست کرتا رہے.انسان سے ہر نیکی نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ میں غلطی کا امکان ہے اس لئے ان نیکیوں کو غلطی سے پاک رکھنے کے لئے ایسے انتظام کی ضرورت ہے.ایک مرتبہ رسول کریم میں تو وہ لو جہاد پر تشریف لے گئے.آپ کے ساتھ جو صحابہ تھے ان میں سے بعض روزہ دار تھے اور بعض نہیں تھے.جب منزل پر پہنچے تو روزہ دار تو جا کر بستروں پر گر گئے اور جو لوگ روزہ سے نہیں تھے انہوں نے خیمے وغیرہ لگائے اور دوسرے ضروری انتظامات کئے.رسول کریم میں لیا اور ہم نے فرمایا آج بے روز روزہ داروں سے بڑھ گئے ہیں.بله دراصل وہ روزہ کا موقع ہی نہ تھا.یہ نیکی تو تھی مگر بے موقع.تو بسا اوقات انسان خیر خواہی اور نیک نیتی سے کوئی کام کرتا ہے مگر وہ بُرا ہو جاتا ہے.ایک شخص کے پاس کوئی فقیر آتا ہے وہ اسے صدقہ دے دیتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ یہ جیسا کہ بیان کرتا ہے بھوکا ہے روٹی کھائے گا اور پیٹ بھرے گا مگر وہ سیدھا چند و خانہ 10 یا شراب خانہ میں پہنچتا ہے اور اس طرح وہ پیسے خرچ کرتا ہے.اب اس نے تو نیکی کی تھی مگر اس نے اس کے دیئے ہوئے صدقہ کو بدی میں صرف کیا اور اس لئے یہ اگر اسے صدقہ نہ دیتا تو اچھا ہوتا.اس نے تو رحم کر کے دیا مگر اس نے اس سے ایسا کام کیا جو ملک کے لئے یا قوم کے لئے یا دین کے لئے مضر تھا.اگر اس نے اس سے شراب پی یا کنجر خانہ میں گیا تو دین اور دنیا کے لئے مُفتر فعل کا ارتکاب کیا.یا اگر افیون کھائی تو اپنی صحت کے لئے اور قوم کے لئے میقتر حرکت کی.ہزاروں افعال ایسے ہیں جو انسان کرتا تو نیک نیتی اور نیک ارادہ سے ہے مگر نتیجہ چونکہ اس کے اپنے اختیار میں نہیں
٣٠٧ ہوتا اس لئے وہ خلافِ توقع نکل آتا ہے اور ان باتوں سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی ایسی چیز ہونی چاہئے جو غلطیوں کو آپ ہی آپ درست کرتی رہے.نماز انسان پوری احتیاط سے پڑھے اس کا ترجمہ بھی پوری طرح سیکھ لے ، قیام ، سجدہ ، رکوع ہر حرکت شریعت کی بتائی ہوئی ہدایات کے مطابق کرے پھر بھی جب وہ نماز کے لئے کھڑا ہو تو کوئی شخص قریب ہی شور مچانا شروع کر دے تو اس کی توجہ ضرور خراب ہو جائے گی اور اس طرح نماز میں ضرور نقص رہ جائے گا اور یہ بات اس کے اختیار میں نہیں کہ یہ شور نہ ہونے دے.بے شک اس کی نیت درست ہو مگر بیرونی شور توجہ کو ضرور خراب کر دے گا.بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ عام لوگوں کا حال ہے کہ بیرونی شور و شر نماز کی توجہ کو خراب کر دیتا ہے بزرگوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا بلکہ ان کو تو پتہ بھی نہیں ہو تا کہ کیا ہو رہا ہے اور کئی اس قسم کے قصے بھی بنائے ہوئے ہیں.کہتے ہیں ایک مرتبہ امام حسین " لاء کو جب کہ وہ نماز میں تھے بچھو نے کاٹ لیا مگر انہیں اس کا پتہ ہی نہ لگ سکا.نماز سے فارغ ہوئے تو معلوم ہوا کہ بچھونے کاٹا ہے.یہ تو ہو سکتا ہے کہ کسی بزرگ کی کوئی نماز ایسی ہو لیکن یہ بات کہ کسی بڑے سے بڑے بزرگ کی ہر نماز ایسی ہوتی ہے بالکل صریح جھوٹ ہے اس لئے کہ رسول کریم میں میں نے ایک موقع پر خود فرمایا کہ میری نماز خراب ہو گئی.آپ نماز پڑھا رہے تھے کہ کسی بچے نے رونا شروع کر دیا آپ نے نماز جلدی جلدی پڑھائی اور فرمایا کہ اس کی ماں اسے کیوں نہیں پکڑتی اس کے رونے کی وجہ میری نماز خراب ہو گئی.کا، اور جب رسول کریم ملی دلیل اللہ کی نماز کا یہ حال ہو تو کسی بڑے سے بڑے بزرگ کے متعلق یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اس پر بیرونی شور و نشر کا کوئی اثر نہیں ہوتا.اگر یہ ممکن ہو تا تو رسول کریم ملی میل کے لئے اس کا سب سے زیادہ امکان تھا.مگر جب آپ نے فرمایا کہ میری نماز خراب ہو گئی تو کوئی دوسرا کیونکر یہ دعوی کر سکتا ہے.اسی طرح ایک موقع پر رسول کریم میں نے نماز پڑھتے ہوئے ہی دروازہ کھول دیا.۱۳، پھر ایک اور موقع پر آپ نے نماز پڑھتے ہوئے حضرت زینب ہی حملہ کی بچی یعنی اپنی نواسی کو اٹھایا.سجدہ میں جاتے تو اتار دیتے اور کھڑے ہوتے تو اٹھا لیتے.کھلا اگر نماز میں پتہ ہی نہیں ہو تا کہ کیا ہو رہا ہے تو آپ یہ سب کچھ کس طرح کر سکتے تھے.تو یہ سب باتیں غلط ہیں بے شک غیر معمولی طور پر جذب کی کیفیت بھی ہوتی ہے مگر وہ شاذ ہوتی ہے.پھر یہ بھی صحیح ہے کہ عام لوگوں اور بزرگوں کی نمازوں میں ایک حد تک ضرور فرق ہوتا ہے اور جہاں ایک عام آدمی کو ذرا سا کھٹکا رضی
۳۰۸ اپنی طرف متوجہ کر لیتا ہے ان کو زیادہ شور ہی متوجہ کر سکتا ہے مگر یہ کہ اثر ہو ہی نہیں یہ بات فطرت انسانی کے بالکل خلاف ہے.انسان کی نیکی اس کی فطرت کو نہیں دبا سکتی.نیکی کا یہ نتیجہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ انسان پانی پیئے اور پیاس نہ مجھے بلکہ نیک آدمی کی فطرت تو زیادہ چمک ہے.دنیا میں ایسے لوگ ہیں جو سیر سیر بھر مٹھائیاں کھا جاتے ہیں اور ان کو پتہ بھی نہیں لگتا.مگر انبیاء اور صلحاء ذرا ذرا سی چیز میں مزا محسوس کرتے ہیں اور تھوڑا سا کھا کر بھی ان کی زبان پر تسبیح جاری ہو جاتی ہے کیونکہ ان کے حواس زیادہ مکمل ہو چکے ہوتے ہیں.پس انبیاء اولیاء و صلحاء کے متعلق یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ ان کی فطرت مسخ ہو چکی ہوتی ہے بلکہ ان کی فطرت تو زیادہ چمک جاتی ہے.یہ خیال بالکل غلط ہے کہ ان کے احساسات نہیں ہوتے.بے شک انہیں دوسروں سے امتیاز حاصل ہوتا ہے ان کی طبیعت آپ ہی آپ دوسری طرف مائل نہیں ہوتی اور دوسرے لوگوں کی آپ ہی آپ اور بلاوجہ دوسری طرف متوجہ ہو جاتی ہے مگر یہ کہ ان پر اثر ہوتا نہیں بالکل غلط ہے اثر ہر شخص پر ہوتا ہے.تم کتنی احتیاط سے نماز پڑھو پاس کوئی ڈھول بجانے لگے یا بچہ شور مچانے لگے تو نماز میں نقص واقع ہو جائے گا اور یہ بات تمہارے اختیار کی نہیں اسی طرح روزہ میں بھی نقص کا پیدا ہو جانا ممکن ہے.تم احتیاط روزہ رکھتے ہو مگر طبیعت تیز ہے کوئی شخص تم کو گالی دے دیتا ہے اور جواب میں تم بھی اسے گالی دے دیتے ہو اور اس سے روزہ میں نقص پیدا ہو جاتا ہے.رسول کریم میلی یا ہم نے فرمایا ہے کہ روزہ کے صرف یہ معنی نہیں کہ دن بھر بھوکا پیاسا رہو بلکہ زبان اور دوسرے اعضاء کو بھی قابو میں رکھنا ضروری ہے.۱۶ پس یہ بات بھی روزہ میں شامل ہے کہ اخلاق کو درست رکھا جائے زبان ، آنکھ ، ناک کان کو قابو میں رکھا جائے.کوئی شخص اگر روزہ رکھے مگر لوگوں کو مارتا پیٹتا رہے، کسی کو گالیاں دے دوسروں کی چغلیاں سنتا رہے تو اس کا روزہ روزہ نہیں.کلہ بے شک وہ زبان سے کھانے پینے کی کوئی چیز نہیں چکھتا مگر غیبت کا مزا ضرور چکھتا؟ ہے اور جس طرح روٹی منہ میں ڈال کر چبانے سے روزہ خراب ہو جاتا ہے اسی طرح اگر زبان کو غیبت میں استعمال کیا جائے تو روزہ خراب ہو جاتا ہے.پس اول تو کسی کام کے لئے ایسی مفصل شرائط کا معلوم ہونا مشکل ہے جن پر عمل کرنے سے کوئی نقص اس میں واقع نہ ہو اور پھر ان کی پابندی کی کوشش کے باوجود نقص کے پیدا ہونے کے کئی بیرونی اسباب پیدا ہو جاتے ہیں اور انسان کے لئے محفوظ طریق یہی ہو سکتا ہے کہ کوئی آٹو میٹک ایڈ جسر ایسا ہو جو آپ ہی آپ
٣٠٩ ایسی غلطیوں کی اصلاح کرتا رہے اور جہاں کوئی نقص پیدا ہو اس کو فورا ٹھیک کر دے اسی طرح ہم محفوظ رہ سکتے ہیں ورنہ نہیں.فرض کرو ہم نماز پڑھتے ہیں اور یہاں تک احتیاط کرتے ہیں کہ پہرہ دار مقرر کرتے ہیں کہ کسی کو پاس نہ آنے دے تا توجہ خراب نہ ہو مگر گھر میں ہی شور ہونے لگے یا ارد گرد کے کسی مکان میں شور ہونے لگے تو اس کا کوئی کیا علاج کر سکتا ہے.اسی طرح کوئی شخص روزہ رکھتا ہے اس کی طبیعت غصہ والی ہے اس لئے وہ گھر میں بیٹھا رہتا ہے کہ کسی سے کوئی تکرار کا موقع ہی پیدا نہ ہو اور اپنے ملازم کو ہدایت کر دیتا ہے کہ کسی کو پاس نہ آنے دے اور اس طرح اپنے روزہ کی حفاظت کرنا چاہتا ہے لیکن یہ تو بیرونی باتوں کو روکنے کا انتظام ہے.اگر گھر میں ہی کوئی ایسی بات ہو جائے تو اس کا وہ کیا انتظام کر سکتا ہے.اس مشکل کا علاج سورۃ فاتحہ میں بتایا گیا ہے اور انسان کو خبر دی گئی ہے کہ کس طرح انسان اس قسم کے فتنوں سے محفوظ رہ سکتا ہے.فرمایا اِيَّاكَ نَعْبُدُ ايَّاكَ نَسْتَعِينُ - ۱۸ الی ہم تیری ہی عبادت کے لئے کھڑے ہوئے ہیں یہ ارادہ ہے کہ تیرے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے مگریہ ارادہ یکطرفہ ہے ہم اکیلے اسے نباہ نہیں سکتے.ہمارے کئی قسم کے تعلقات ہیں ، بیوئی ہے بچے ہیں، کسی سے حاکمانہ تعلقات ہیں اور کسی سے ماتھی کے ، کہیں طالب علمی کے ہیں اور کہیں استاد ہونے کے ہزار ہا چیزیں ہیں جو ہماری اس عبادت میں روک بن سکتی ہیں ہم تیری عبادت کرنے تو لگے ہیں لیکن اگر ہمارا افسر حکم دے دے کہ پہلے فلاں کام کرو تو ہم کیا کر سکتے ہیں، کبھی ہم عبادت کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو ماتحت شور مچاتے آ جاتے ہیں کہ فلاں کام میں نقص پیدا ہو گیا ہے اس کی طرف توجہ کریں، کبھی کھڑے ہوتے ہیں تو بیوی شور مچاتی ہے کہ گھر کا انتظام خراب ہو رہا ہے، کبھی ہمسایوں کی طرف سے کوئی ایسی ہی بات پیدا ہو جاتی ہے ، پھر کئی دوست اور کئی دشمن ہیں اور وہ سب اپنی اپنی طرف ہماری توجہ کو کھینچتے ہیں غرض اِيَّاكَ نَعْبُدُ ہم تیری عبادت تو کرتے ہیں مگر ایسی چیزیں جو ہماری توجہ کو کھینچ لیتی ہیں ان سے بچ نہیں سکتے اس لئے چاہتے ہیں کہ ان چیزوں سے محفوظ رہیں اور ہماری عبادت مکمل ہو اور وہ اسی طرح ہو سکتی ہے کہ تیری مدد شامل حال رہے اور جہاں کہیں نقص ہونے لگے وہیں اس کی اصلاح ہو جائے اس کے بغیر ہم نیکی نہیں کر سکتے.یہی ایک ایسا آٹو میٹک ایڈ جسٹر ہو سکتا ہے جو خود بخود نقص کی اصلاح کرتا رہے.لیکن یہاں پہنچ کر آپ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ میں نے جو تمہید باندھی تھی اس کی رو سے
اس پر اعتراض ہو سکتا ہے.میں نے کہا تھا کہ ہر شخص کی عبادت میں نقص واقع ہو سکتا ہے خواہ انبیاء کی ذات ہو اور اب یہ مضمون میں نے بیان کیا ہے کہ جسے یہ آٹومیٹک ایڈ جسٹر حاصل ہو اس کی غلطیاں خود بخود دور ہوتی رہتی ہیں اس پر کوئی کہہ سکتا ہے کہ جب آپ نے یہ بھی کہا ہے کہ بعض دفعہ خود رسول کریم میں ولیم کی توجہ میں بھی نقص ہو سکتا تھا تو ان کے نقص کو اس ایڈ جسٹر نے کیوں نہ دور کر دیا ؟ اور جب انبیاء کے معاملہ میں یہ کیفیت ہے تو عوام کس طرح اس ایڈ جسٹر سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟ سو اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ ایک مقام کے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کا کام دنیا کو سکھانے کا ہوتا ہے.رسول کریم میں سے جو سہو ہو تا تھا وہ لوگوں کو سکھانے کے لئے ہو تا تھا.19.انبیاء اور صلحاء سے بعض باتیں اللہ تعالی خود کراتا ہے تا دوسروں کے لئے عملی سبق حاصل ہو.انبیاء کی اجتہادی غلطیوں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے تحریر فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ ان سے خود ایسی غلطیاں کراتا ہے.۲۰، چنانچہ رسول کریم میں لایا اور ہم سے بھی بعض اجتہادی غلطیاں اس نے کرائیں اور آپ کی وہ غلطیاں بھی اپنی ذات میں ایک نشان ہیں.کئی واقعات ایسے ہیں کہ اگر ان میں اجتہادی غلطی نہ ہوتی تو نشان اتنا واضح نہ ہوتا.ایسی غلطیاں انبیاء کی شان کو بڑھاتی ہیں اور اللہ تعالی خود کراتا ہے تا ان کی شان کو ظاہر کرے یا دوسروں کے لئے سبق ہو.اللہ تعالیٰ ان کو غلطی میں مبتلاء ہونے دیتا ہے تا ان کے لئے نشان ہو یا دوسروں کے لئے سبق لیکن عام لوگوں کی حالت اس سے مختلف ہوتی ہے وہ ذاتی طور پر بھی غلطی میں پڑنے کے اہل ہوتے ہیں.ان میں سے جو شخص کامل تو گل کر کے اور کامل ارادہ کر کے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حضور ڈال دیتا ہے اور کہتا ہے کہ الہی میرا ارادہ تو تیری ہی عبادت کرنے کا ہے مگر میں نہیں جانتا کہ اپنے اس ارادہ کو مکمل کر سکوں گا یا نہیں.میں تیری عبادت کے لئے کھڑا ہوں گا تو کئی رو کیں پیدا ہوں گی کہیں میرے اپنے خیالات ادھر ادھر جائیں گے ، کہیں دوسرے لوگ میری توجہ کو خراب کریں گے اور میری کوششوں کے باوجود کئی صورتیں ایسی پیدا ہو جائیں گی جو میرے ارادہ کو مکمل نہ ہونے دیں گی یہ مکمل اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ تو میری مدد کرے اور جو جو غلطیاں ہوتی جائیں تو خود ان کی اصلاح کرتا جائے ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ کی حفاظت حاصل ہوتی ہے اور وہ اپنی استعداد اور اخلاص کے مطابق خدا تعالیٰ کی مدد حاصل کرتا.تا ہے.میں نے ایک رویا کئی دفعہ بیان کی ہے جو یہ ہے.میں نے دیکھا کوئی بہت بڑا اور اہم کام
۳۱۱ میرے سپرد کیا گیا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ میرے راستہ میں بہت مشکلات حائل ہوں گی.یہ خلافت سے بہت پہلے کی رؤیا ہے اور بعد میں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ اس سے مراد خلافت تھی.میں نے دیکھا کہ ایک فرشتہ میرے پاس آیا ہے اور وہ مجھے کہتا ہے کہ اس کام کی تکمیل کے راستہ میں بہت سی رکاوٹیں ہوں گی ، بہت مخالفتیں ہوں گی مگر ان سب کا ایک ہی علاج ہے اور وہ یہ کہ جب تم کوئی غیر معمولی نظارہ دیکھو اس کی کوئی پروا نہ کرو اور خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ." " خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ." کہتے ہوئے آگے بڑھتے جاؤ.- چنانچہ میں چل پڑا ہوں میرا راستہ دو پہاڑیوں کے درمیان سے گزرتا ہے اور میں جنگلوں میں سے جا رہا ہوں.راستہ میں اندھیرا ہو جاتا ہے، بالکل سنسان جنگل ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ بہت خطرہ اور خوف کی جگہ ہے.میں جا رہا ہوں کہ دور سے شور سنائی دیتا ہے اور مختلف قسم کی آوازیں آنے لگتی ہیں.کوئی مجھے گالی دے دیتا ہے اور کوئی بیہودہ سوال کر دیتا ہے لیکن میں "خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ " " خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ کہتا ہوا آگے بڑھتا جاتا ہوں.اور جب میں یہ کہتا ہوں تو وہ شور بند ہو جاتا ہے مگر تھوڑی دور آگے جاتا ہوں تو بعض عجیب قسم کے وجود نظر آنے لگتے ہیں، عجیب عجیب شکلیں دکھائی دیتی ہیں کئی کئی ہاتھوں والے انسان نظر آتے ہیں کسی کا سر بہت بڑا ہے اور کسی کا بہت چھوٹا مگر جب میں ”خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ " کہتا ہوں تو وہ شکلیں غائب ہو جاتی ہیں مگر تھوڑی دیر بعد اور بھی بھیانک نظارے دکھائی دیتے ہیں.کوئی ہاتھ کٹا ہوا علیحدہ نظر آتا ہے کوئی سر بغیر دھڑ کے دکھائی دیتا ہے.اور کوئی دھڑ بغیر سر کے کوئی شکل ایسی نظر آتی ہے کہ جس کی لمبی زبان باہر نکلی ہوئی ہے ، کسی کے بال کھلے ہوئے ہیں آنکھیں حلقوں سے باہر نکل رہی ہیں اور وہ شکلیں طرح طرح سے مجھے ڈرانے کی کوشش کرتی ہیں.مگر میں ”خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ "."خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ " کہتا ہوا آگے بڑھتا جاتا ہوں اور جب میں یہ الفاظ کہتا ہوں وہ غائب ہو جاتی ہیں یہاں تک کہ میں منزل مقصود پر پہنچ جاتا ہوں.اس رویا میں بھی یہی مضمون بیان کیا گیا ہے کہ انسان جب کوئی کام شروع کرتا ہے تو کئی چھوٹی چھوٹی چیزیں اس کی توجہ کو اپنی طرف پھراتی ہیں.جب وہ کوئی نیکی کا کام کرنے لگتا ہے تو شیطان اپنا یہ حربہ چلاتا ہے کہ اس کی توجہ پھر جائے.اہلہ لیکن جب انسان ان سے منہ پھیر کر اپنے کام میں لگا رہے تو خدا تعالی خود اس کی تحمیل کے سامان کر دیتا ہے.میری خلافت کے زمانہ میں ہی دیکھ لو جماعت میں کئی فتنے پیدا
ہوئے.۲۲ جماعت نے ایک حد تک ان کا مقابلہ بھی کیا.میں نے بھی جواب دیئے مگر آخر معاملہ خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیا.اتنا زور نہیں دیا جتنا کہ دشمن چاہتا تھا یا بعض کمزور احمدی چاہتے تھے.کئی لوگوں نے مجھے کہا کہ نتیجہ بڑا ہو گا.مگر میں نے کہا کہ جو بھی ہو یہ خدا تعالیٰ کی جماعت ہے، وہ خود اسے سنبھالے گا.مجھے اس کی طرف سے یہی حکم ہے کہ جماعت کی ترقی کی طرف توجہ رکھوں.بسا اوقات ان فتنوں نے نہایت بھیانک شکلیں اختیار کیں مگر آخر کار وہ اپنی موت مر گئے اور جس طرح ایک چوہا اپنے بل کے اندر ہی مرجاتا ہے اور باہر کسی کو پتہ بھی نہیں ہو تا کہ کیا ہوا یہی حال آج ان فتنوں کا نظر آ رہا ہے.تو اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُی دراصل وہ مقام ہے کہ اگر انسان صحیح طور پر اسے اختیار کرے تو کامیاب ہو سکتا ہے ورنہ نہیں.میں نے دیکھا ہے بعض لوگ اپنی نمازوں اور روزوں پر مغرور ہو جاتے ہیں جو ٹھیک نہیں.کل ہی دعا کے موقع پر کسی شخص کی آواز میرے کان میں آئی جو کہہ رہا تھا کہ اے خدا! تو جانتا ہے کہ ہم نے کس طرح تکالیف اٹھا کر تیرے لئے روزے رکھے ہیں.حالانکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل میں مومن تکلیف محسوس نہیں کرتا.بے شک اسے جسمانی طور پر کچھ تکلیف بھی ہوتی ہے مگر وہ اس کا احساس نہیں کرتا وہ تو انتہائی تکلیف خدا تعالیٰ کے راستہ میں اٹھا کر بھی شرمندہ ہوتا ہے کہ اس نے کچھ نہیں کیا.اور یوں بھی اگر دیکھا جائے تو ہم نے خدا تعالٰی کے لئے کیا تکلیف اٹھائی ہے.ہزاروں لوگ ایسے ہیں جن کو روٹی ملتی نہیں اور وہ فاقہ پر مجبور ہوتے ہیں لیکن جسے ملتی ہے وہ اگر روزہ رکھ کر یہ کہے کہ اس نے تکالیف اٹھا کر رکھا ہے تو وہ خدا تعالی کی نعمتوں کی ناشکری کرنے والا ہے.اللہ تعالیٰ سے مانگنے کی ہزاروں راہیں ہیں یہ کیا ضروری ہے کہ مانگنے کے لئے انسان بے ادبی کا طریق اختیار کرے اور اس طرح اپنے لئے اس کے فضلوں کے دروازے بند کرلے.یاد رکھو کہ روزے رکھنے کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ملتی ہے.میں ہمیشہ بیمار رہتا ہوں اس سال تو میں نے ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب سے کہا کہ اب کے تو میری صحت اتنی گری ہوئی ہے کہ شاید روزے نہ رکھ سکوں.۲۳، مگر جب رمضان شروع ہوا تو میں ۲۳ روزے مسلسل رکھتا چلا گیا سوائے ایک کے کہ اس روز مجھے لاہور جانا پڑا اور مجھے پتہ بھی نہ لگا کہ روزے رکھ رہا ہوں.تب میں نے خیال کیا کہ اب تو رمضان پورا ہو گیا اور باقی روزے بھی میں رکھ سکوں گا اور اس کے معابعد میں ایسا بیمار ہوا کہ پھر ایک بھی نہ رکھ سکا.تو جب میں سمجھتا تھا کہ ایک بھی روزہ نہیں رکھ سکوں گا اس وقت تو
۳۱۳ ۲۳ رکھ لئے اور پتہ بھی نہ لگا لیکن جب یہ خیال آیا کہ اب تو بہت تھوڑے رہ گئے ہیں یہ تو پورے کر سکوں گا تو ایک بھی نہ رکھ سکا اور تکلیف بھی ایسی شروع ہوئی کہ روزہ رکھنا ممکن ہی نہ تھا.یوں تو بیمار کو روزہ جائز نہیں مگر بعض مزمن امراض میں انسان رکھ بھی سکتا ہے مگر نقرس کا مرض ایسا ہے کہ اس میں بار بار پانی پینا ضروری ہوتا ہے تا وہ مادہ جو اس مرض کا موجب ہوتا ہے صاف ہو تا رہے.تو یہ خدا تعالیٰ کے احسانوں میں سے ایک احسان ہوتا ہے کہ روزہ رکھنے یا نیکی کے کرنے کی توفیق حاصل ہو.۲۴، پس اگر ہم نے روزے رکھے ہیں تو خود کوئی تکلیف نہیں اٹھائی بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان کیا کہ نیکی کا موقع دیا.اگر اس قسم کا خیال میرے دل میں آتا کہ روزوں کے ذریعہ دعا مانگوں تو اس طرح نہ کہتا بلکہ یوں کہتا کہ اے خدا ! تو نے ہمیں توفیق دی کہ روزے رکھ سکیں اب تو اپنے اس فضل کو مکمل کر دے.خدایا ! اس سارے مہینہ میں تو نے ہم پر فضل کیا ہے اب عید کو ہمارے لئے مکمل کر کے اپنے فضل کو مکمل کر دے.اس شخص نے دعا کا یہ رنگ تو اچھا نکالا تھا مگر قلتِ تدبر کی وجہ سے اسے شکل بری دے دی.اگر بجائے یوں کہنے کے کہ ہم نے کس طرح تکلیف اٹھا کر روزے رکھے ہیں وہ دوست یوں کہتے کہ اے اللہ ! تو نے کتنا فضل کیا ہے کہ روزے رکھنے کی توفیق عطا کی ہے مگر اب اس فضل کو ادھورانہ رکھیوا سے مکمل کر کے ہمیں عید بھی دکھا دے تو کیسی خوبصورت دعا ہو جاتی.مومن کے اعمال اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان کے ماتحت ہوتے ہیں اس کے بغیر وہ ان کو مکمل نہیں کر سکتا.مگر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اول تو کسی کام کی تکمیل کے لئے ساری شرائط کا علم ہونا نا ممکن ہے اور اگر علم ہو تو بھی تشویش کے کئی ایسے سامان موجود رہتے ہیں کہ نقص کا امکان ہر وقت رہتا ہے پس انسان کو کبھی اپنی نمازوں ، روزوں یا نیکیوں پر غرور نہیں کرتا چاہئے.ذرا غور کرو کیا کیفیت ہو گی اس شخص کی جو رسول کریم میں یوں کی وحی لکھا کرتا تھا.کس طرح دو سرے صحابہ اس کی حیثیت پر رشک کرتے ہوں گے کہ آنحضرت ملی و سفر و حضر میں اسے ساتھ رکھتے ہیں اور خدا تعالیٰ کا کلام سننے کا سب سے پہلے اسے موقع ملتا.رسول کریم میل اللہ کی وحی تو نہایت ہی شاندار چیز ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وحی کے متعلق یہ کیفیت تھی کہ احمدی دن چڑھتے ہی عاشقوں کی طرح ادھر ادھر دوڑنے لگتے تھے کہ معلوم کریں حضور کو رات کیا وحی ہوئی ہے.ادھر میں نکلا اور مجھ سے پوچھنے لگے یا کوئی اور بچہ نکلا تو اس سے دریافت کرنے لگے کہ آج کی تازہ وحی کیا ہے آپ کو کیا الہام ہوا ہے اور ہماری
۳۱ یہ حالت تھی کہ ادھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز کے لئے تشریف لے گئے اور ہم نے جھٹ جا کر کاپی اٹھا کر دیکھی کہ دیکھیں تازہ الہام کیا ہے.یا پھر خود مسجد میں پہنچ کر آپ کے دہن مبارک سے سنا.تو رسول کریم میں اللہ علیہ کی وحی کو لکھنے والے کے لئے کیسا قابلِ رشک موقع تھا کہ وہ سب سے پہلے وحی کو سنتا تھا مگر چھوٹی سی بات پر ایسی ٹھوکر لگی کہ مرتد ہو گیا.۲۵ تو اپنی کسی نیکی یا خدمات پر فخر کرنا اور یہ کہنا کہ میں ایسا میں ویسا یہ ایک لغو بات ہے.انسان کا کوئی نیک عمل مکمل نہیں ہو سکتا جب تک خدا تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہو اور یہی فضل حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالٰی نے یہ دعا سکھائی ہے کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ - نیکی کی نیست بے شک انسان کرتا ہے مگر اس کی تکمیل خدا تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی طرف ہی اشارہ کیا ہے کہ انسان کو اپنے اعمال پر کبھی غرور نہیں کرنا چاہئے بلکہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے رہتا چاہئے.میں نے دیکھا ہے کہ بعض لوگ حج کر کے آتے ہیں تو ان کی سنگدلی میں اضافہ ہو جاتا ہے اور ایسے سنگدل ہو جاتے ہیں کہ کوئی حد نہیں رہتی.ایک لطیفہ مشہور ہے کہ کوئی اندھی بڑھیا عورت تھی جو ریل کے انتظار میں مسافر خانہ میں بیٹھی تھی اس کے پاس ایک ہی چادر تھی جو کسی نے اٹھالی اس نے ہاتھ مارا تو معلوم ہوا کہ چادر ہے.اس نے کہا کہ وے بھائی حاجیا! میری چادر دے دے، یعنی بھائی حاجی صاحب مجھ غریب کو چادر دے دو.اس شخص نے اس کی بات سنی تو اس کے پاس گیا اور کہا کہ مائی چادر تو نے لے مگر یہ بتا کہ تجھے یہ کس طرح علم ہوا کہ میں حاجی ہوں.اس بڑھیا نے جواب دیا کہ ایسا سنگدل سوائے حاجی کے کون ہو سکتا ہے.تو دیکھو بعض دفعہ انسان وطن کو عزیز و اقارب کو چھوڑ کر حج کے لئے جاتا ہے ، روپیہ خرچ کرتا ہے، تکالیف اٹھاتا ہے مگر دل پتھر کا ہو جاتا ہے.میرے سامنے کئی دوستوں نے ذکر کیا ہے کہ حج کے بعد ان کے اندر وہ بات نہیں رہی جو پہلے تھی اور عبادت میں پہلے جیسی لذت محسوس نہیں ہوتی اس قسم کی حالت اکثر اس وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ بسا اوقات انسان اپنے اس فعل کو بہت اہمیت دے لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں نے بہت نیکی کی ہے اور اس تکبر کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اسے اخلاص سے محروم کر دیتا ہے پس نیکی کے بعد انسان کو فخر ہرگز نہیں کرنا چاہئے اور خدا تعالیٰ پر احسان نہیں دھرنا چاہئے.بلکہ یہی سمجھنا چاہئے کہ میں اب بھی خدا تعالیٰ کے فضل کا محتاج ہوں تب اللہ تعالی کی طرف سے اس پر مزید فضل نازل ہوں گے لیکن جو اپنے اعمال پر غرور کرتا ہے وہ حج ، نماز اور روزہ کا لفظ لئے بیٹھا
۳۱۵ رہتا ہے اور مغز سے محروم رہ جاتا ہے جب میں حج پر گیا ۶ ، تو ایک شخص کو میں نے دیکھا جو منی کی طرف جاتے ہوئے بجائے دعا کے اردو کے نہایت ہی گندے اور عشقیہ اشعار پڑھ رہا.تھا.واپسی پر وہ اسی جہاز میں تھا جس میں میں تھا.ایک روز میں ٹہل رہا تھا میں نے سنا وہ نہایت کو حسرت سے ہاتھ مار مار کر کہہ رہا تھا کہ خدایا یہ جہاز کیوں فرق نہیں ہو جاتا جس میں یہ شخص سوار ہے.یہ خلافت سے قبل کا واقعہ ہے اسے جب معلوم ہوا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیٹا ہوں اور یوں بھی میں تبلیغ کرتا رہتا تھا تو اس نے یہ فقرات زبان سے کہے.ایک دوسرے موقع پر میں نے اسے کہا کہ آپ کو حج کی کیا ضرورت تھی جب کہ آپ منی کو جاتے ہوئے اردو کے نہایت گندے اور عشقیہ اشعار پڑھ رہے تھے.اس نے جواب دیا کہ مجھے تو اس کی کوئی ضرورت نہ تھی بات صرف یہ ہے کہ ہمارے ساتھ میں جس شخص کی دکان ہے وہ حج کر آیا تو اس کی بکری بہت زیادہ ہونے لگی سب لوگ اسی سے سودا خریدنے لگے.میرے باپ نے کہا کہ اس طرح تو ہماری دکان تباہ ہو جائے گی تم بھی جا کر حج کر آؤ تاہم بھی بورڈ پر حاجی کا لفظ لکھ سکیں.تو جو شخص حج کے بعد خیال کرتا ہے کہ اس نے خدا تعالیٰ پر احسان کیا ہے زکوٰۃ اور دو سرے نیک اعمال کو بھی خدا تعالیٰ پر احسان سمجھتا ہے وہ کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا.یہ ایسا ادنی درجہ کا خیال ہے کہ اس کے نتیجہ میں اس کے تمام اعمال اکارت چلے جاتے ہیں گویا تھے ہی نہیں.پھر بعض دفعہ انسان کسی عمل کو مکمل بھی کر لیتا ہے مگر ایسے سامان پیدا ہو جاتے ہیں کہ اس کے لئے بعد میں ٹھوکر کی کوئی صورت پیدا ہو جاتی ہے.تو ایاک نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ہی ایک ایسا ذریعہ ہے کہ جو انسانی کو ہر قسم کی ٹھوکروں اور غلطیوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے.اللہ تعالیٰ جب بھی انسان کو نیکی کا موقع دے اسے چاہئے کہ خدا تعالیٰ سے ہی اس کی تکمیل کی توفیق طلب کرے کیونکہ اس کے لئے قدم قدم پر ٹھوکر کا امکان ہوتا ہے.ایک صحابی کے متعلق مجھے معلوم ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں وہ بہت جو شیلے تھے میں جب حج کے لئے گیا تو سفر میں ان کے پاس ٹھہرنے کا موقع ملا اور مجھے معلوم ہوا کہ وہ نماز بھی نہیں پڑھتے اور چندہ بھی نہیں دیتے.میں نے ایک دوسرے دوست سے کہا کہ ان سے دریافت کریں کہ آپ اتنے بڑے اور پرانے صحابی ہیں یہ کیا بات ہے کہ نمازیں نہیں پڑھتے اور چندے وغیرہ نہیں دیتے.انہوں نے پوچھا تو وہ کہنے لگے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بہت خدمات کی ہیں اب ہمیں ضرورت
۳۱۶ نہیں اب تم لوگوں کا کام ہے جو بعد میں آئے ہو.ہمارا وقت گزر چکا ہوا ہے اب تمہارا وقت ہے کہ کام کرو حالانکہ نیکی کے وقت کی کوئی حد نہیں ہوتی کیونکہ اس کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ نے جو انعام دینا ہوتا ہے وہ غیر محدود ہے.۲۷، آریہ لوگ اسلام پر اعتراضات کرتے ہیں کہ محدود اعمال کے نتیجہ میں غیر محدود انعامات کس طرح حاصل ہو سکتے ہیں.۲۸، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے جواب میں فرمایا ہے کہ چونکہ انسان کی نیت غیر محدود ہوتی ہے اس لئے اللہ تعالی انعام بھی غیر محدود دیتا ہے.۲۹.پس انسان کی نیت تو کم سے کم غیر محدود ہوئی ضروری ہے.کتنا ہی بیوقوف ہے وہ انسان جو تھوڑی دیر نیکی کرنے کے بعد چھوڑ دیتا ہے حالانکہ اس کی محدود نیکی کے نتیجہ میں اسے غیر محدود انعامات حاصل ہونے والے تھے اور جو شخص غیر محدود انعامات کے باوجود محدود عمل بھی نہیں کرتا اس کی بیوقوفی میں کیا شک ہے.انسان کا عمل تو محدود ہی ہوتا ہے کم سے کم اس کی نیت تو غیر محدود ہونی چاہئے.بعض صوفی مشرب لوگوں نے اس مسئلہ کو غلط سمجھا ہے.ایک دفعہ ایک ایسا ہی شخص مجھے ملا اس نے کہا کہ میں نے کچھ سوال کرتا ہے.جمعہ کا روز تھا نماز کے بعد میں مسجد میں بیٹھ گیا اور کہا کہ سوال کریں.اس نے کہا کہ کوئی شخص اپنے دوست سے ملنے جائے رستہ میں دریا ہو جسے کشتی میں بیٹھ کر عبور کرنا ہے کشتی میں بیٹھنے کے بعد جب کنارہ آجائے تو وہ کشتی کے اندر ہی بیٹھا رہے یا اثر پڑے.میں فوراً سمجھ گیا کہ یہ اباحتی طریق کا آدمی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جب انسان کو خدا مل گیا تو پھر اسے نماز روزہ کی کیا ضرورت ہے یہ تو محض سواریاں ہیں خدا تعالی تک پہنچنے کے لئے.اللہ تعالیٰ نے فورا مجھے جواب سمجھایا اور میں نے کہا کہ آپ کی بات تو ٹھیک ہے اگر تو دریا محدود ہے اور اس کا کنارہ موجود ہے تو جب کنارہ آ جائے چاہئے کہ فوراً کشتی سے اتر پڑے لیکن اگر دیارِ غیر محدود ہو تو جہاں اُتر ا و ہیں ڈوبا اور اس کا پچھلا سفر سارا ضائع ہو جائے گا جہاں اس نے پانی پر قدم رکھا وہیں ڈوبے گا.میں نے کہا آپ فرمائیے جس دریا کا آپ ذکر کر رہے ہیں وہ محدود ہے یا غیر محدود.وہ مبہوت سا ہو گیا اور کہنے لگا کہ ہے تو غیر محدود.میں نے کہا پس پھر یقین رکھیں کہ جہاں وہ شخص کشتی سے نیچے اُتر ا و ہیں ڈوبا.کنارہ آجائے ۳۰ گا خیال صرف ایک وہم ہے.تو انسان خواہ سو سال بھی نمازیں پڑھتا رہے جب وہ یہ سمجھے گا کہ خدا مل گیا اب میں اس کشتی سے اترتا ہوں تو فور آڈوبے گا اور سو سال کی تمام نماز میں ضائع جائیں گی اس لئے جب اللہ تعالی کسی نیکی کی توفیق دے تو اسے چاہئے کہ اپنی
اچھی حالت کو اور بھی سنوارے تا ایسا نہ ہو کہ پچھلی عمارت بھی گر جائے.جب کسی شخص کے پاس ایک پیسہ ہو تو وہ اس کی حفاظت بہت کم کرتا ہے مگر جب ایک ہزار روپیہ ہو جائے تو زیادہ انتظام حفاظت کا کرتا ہے.پس اگر اعمال صالحہ ایک خزانہ ہیں تو خزانہ جتنا بڑھے اتنی ہی اس کی حفاظت زیادہ کرنی چاہئے.میں حج سے جب واپس آیا تو ایک دن جہاز کے انگریز کپتان نے مجھے کہا کہ میرے نائب کو اسلام کی طرف رغبت ہے آپ میرے پاس آئیں تو اس سے بات چیت کراؤں.دراصل اسے خود بھی دلچسپی تھی.کپتان کے کمرہ میں عام لوگوں کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی سوائے ان کے جن کو وہ خود بلائے.میں وہاں گیا تو پہلے وہ مجھے مشینری دکھاتا رہا اور بتا تا رہا کہ اس طرح جہاز کو چلاتے ہیں.چائے وغیرہ بھی پلائی اور کہا کہ میں نے آپ کو اس لئے ی بلایا ہے کہ میرا نائب اسلام کی طرف مائل ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اگر اس نے مسلمان ہونا ہے تو آپ کے ہی ذریعہ ہو جائے.اس نے اسے بلایا مگر میں نے محسوس کیا کہ اس کا رنگ مذاق کا رنگ تھا.راستی کی تحقیقات اس کی غرض نہ تھی.وہ مسائل پوچھتا رہا.دوران گفتگو میں کپتان نے مجھے کہا کہ اب تو آپ حج کر آئے ہیں.اب تو خواہ کوئی عمل کریں جائز ہے.میں نے کہا کیوں؟ وہ کہنے لگا کہ پچھلا تختہ اب صاف ہو چکا ہے اس لئے اب آپ نئے گناہ کر سکتے ہیں.میں نے اسے کہا کہ جس شخص نے نیا سوٹ پہنا ہو وہ زیادہ حفاظت اس کی کرتا ہے یا پہلے میلے کپڑوں کی.اس نے کہا ہر شخص نئے سوٹ کو داغ سے بچانے کی زیادہ کوشش کرتا ہے.اس پر میں نے کہا کہ پھر آپ مجھے یہ مشورہ کس طرح دیتے ہیں کہ حج کے نتیجہ میں جو نیا لباس مجھے ملا ہے اسے زیادہ خراب کروں.تو مومن کو جب بھی نیکی کرنے کا موقع ملے اسے چاہئے کہ بجائے مغرور ہونے کے اور احتیاط سے کام لے اور رمضان یا دوسری عبادتوں کے بعد ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ ہمارا فرض ختم ہو گیا.اگر تو رمضان میں ہم نے کچھ کمایا نہیں تو ہمارے لئے فخر کی کونسی بات ہے اور اگر کمایا ہے تو پھر اس خزانہ کی حفاظت زیادہ ضروری ہے جو حاصل کیا ہے تا چور نہ لے جائیں.یاد رکھو چور ہمیشہ وہیں پڑتا ہے جہاں کچھ ہو اور جب تم نے کوئی نیکی کی ہے اور خزانہ جمع کیا ہے تو کیا تم سمجھتے ہو کہ شیطان اب تم پر حملہ آور نہیں ہو گا.پس اگر تم نے رمضان میں کچھ کمایا نہیں تو تمہارا لنخر فضول ہے اور اگر کمایا ہے تو یاد رکھو کہ اب ڈاکہ ضرور پڑے گا.اب تمہارے گھر میں خزانہ ہے جسے شیطان ضرور چرانے کی کوشش کرے گا.پہلے تمہارے پاس کچھ نہ تھا مگر اب رمضان کے نتیجہ میں تمہارے ہاتھ 21
۳۱۸ روحانی خزانہ آیا ہے اور چور اچکوں، جیب کاٹنے والوں کی طرف سے حملہ کا خطرہ ہے اور اب وہ خزانہ چُرانے کی اور اگر یہ نہ ہو سکے تو تمہارے گھر کو آگ لگانے کی کوشش کریں گے تایہ خزانہ ضائع ہو جائے اس لئے تمہیں چاہئے کہ زیادہ ہوشیار رہو.اب تمہارے لئے زیادہ نازک مقام ہے اب اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ پکارنے کی زیادہ ضرورت ہے اور اب وقت ہے کہ زیادہ فکر کے ساتھ ہم اپنے خزائن کی حفاظت کریں.اور اللہ تعالی سے دعا کریں کہ خدایا ! پہلے ہم بالکل فقیر اور حقیر تھے.چور ڈاکو کی ہم پر نظر نہ پڑتی تھی مگر اب تو نے اپنے فضل سے ہمیں ایک خزانہ بخشا ہے کیونکہ تو نے روزوں کی توفیق دی.دنیوی خزانے نظر آتے ہیں اور انسان ان کی حفاظت کا تھوڑا بہت انتظام کر سکتا ہے پھر اس کو چرانے والا چور بھی نظر آ سکتا ہے مگر یہ خزانہ بھی نظر نہیں آتا اور اس کا چرانے والا بھی نظر نہیں آسکتا.اگر یہ چوری ہو ہائے تو ہمیں مہینوں اس کا علم بھی نہیں ہو سکتا کہ کس طرح چلا گیا.پھر دنیوی خزانہ چرانے والے کا تو ہم کھوج بھی لگا سکتے ہیں مگر اس کا پتہ بھی نہیں لگ سکتا کہ کہاں گیا اس لئے اے ہمارے خدا! تو ہی اس خزانہ کی حفاظت فرما.تو نے ہی ہمیں یہ بخشا ہے اور تو ہی اس کی حفاظت فرما.تاہم پھر خالی ہاتھ تیرے پاس نہ آئیں.اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا ملنا اتنا مشکل نہیں جتنا ان کا سنبھالنا ہوتا ہے.پس آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ نے رمضان میں جو فضل ہم پر نازل کیا ہے اسے ہم محفوظ رکھ سکیں.اس کے علاوہ اسلام اور جماعت کی ترقی کے لئے بھی دعائیں کریں اور جماعت کی ترقی کے ساتھ جو خرابیاں پیدا ہو جایا کرتی ہیں ان سے محفوظ رہنے اور ان کے دور ہونے کے لئے بھی دعائیں کریں.اپنی ذات کے لئے بھی اور اپنے متعلقین اور دوست احباب کے لئے بھی دعائیں کریں.اب خطبہ کے بعد میں جو دعا مانگوں گا اس میں بھی دوست یہ دعائیں کریں کہ خدا تعالیٰ ہم سب پر اپنا فضل نازل کرے.تا یہ خزانہ جو ہمیں ملا ہے ایسا ہو جو ہم اس کے حضور لے جاکر رکھ سکیں اور تحفہ کے طور پر پیش کر سکیں.خدا تعالیٰ کے حضور تحفہ پاک دل اور پاک ایمان کا ہی پیش کیا جا سکتا ہے اسے اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا کرے کہ ہم اس کے حضور کوئی قابل قدر تحفہ پیش کر سکیں.الانعام: ۸۰ ملفوظات جلد ۹ صفحه ۲۱ الفضل ۵- دسمبر ۱۹۳۹ء)
کے ملفوظات جلد اول صفحه ۲ ۳۱۹ ✓ منالی.کلو ویلی.ہندوستان کا ایک پہاڑی مقام المائدة : 9 البقرة : ٢٢٠ ضابطہ فوج داری کی دفعہ ۱۴۴ جس کے تحت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ایس.ڈی.ایم یا کسی دوسرے مجسٹریٹ کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ متوقع خطرہ یا مفادِ عامہ کے پیش نظر کسی شخص یا اشخاص یا عوام کو کسی خاص فعل سے روک دے.J.A.Brown Pears Medical Encyclopdia زیر لفظ Alcohol اور Alcoholism صحیح بخاری کتاب الصوم باب صوم يوم الجمعة البقرة : ۱۸۵ ا صحیح بخاری کتاب الجهاد باب فضل الخدمة في الغزو چنڈو خانہ : چنڈو پینے کی جگہ.چنڈو ایک نشہ آور چیز ہے جو افیون سے بنائی جاتی ہے اور حقے پر رکھ کر پی جاتی ہے.لله امام حسین ابن امیر المومنین علی بن ابی طالب و فاطمه انا بنت رسول الله - بنو ہاشم ۴ھ /۶۲۶ء.شہادت ۶۱ھ / ۶۶۸۰.ا صحیح بخاری كتاب الصلوة باب من اخف الصلوة عند بكاء الصبي سنن ابی داور باب العمل في الصلوة ۱۴ ۰اق ن.سنہ ۵۸ ها یہ حضرت امامہ بنت زینب و ابو العاص کا واقع ہے.صحیح بخاری کتاب الصلوة باب اذا حمل جارية صغيرة على عنقه في الصلوة صحیح بخاریى كتاب الصوم باب من لم يدع قول الزور والعمل به عا صحیح بخاری کتاب الصوم باب هل يقول اني صائم اذا شتم الفاتحة : ٥ 19 مؤطا امام مالك كتاب الصلوة باب العمل في السهو
۳۲۰ ۲۰ روحانی خزائن (ازالہ اوہام) جلد ۳ صفحه ۴۷۳ ال الاعراف: ۱۸ نوٹ تفسیر زیر آیت یوسف :۴۳ ۲۲ ان فتنوں کی تفصیل کے لئے دیکھیں تاریخ احمدیت جلد چہارم تا نم ۶۱۸۸۷۲۳- ۱۹۶۵ء بیعت ۱۸۹۹ء آزاد هود : ۸۹ ۲۵ عبدالله بن سعد بن ابی سرح کا ذکر ہے.سيرة الامام ابن هشام الجزء الثاني صفحه ۲۱۷ - تاريخ الطبرى القسم الاول الجزء ۳ صفحه ۴۰-۱۶۳۹.سيرة الحلبية الجزء الثالث صفحه ۱۰۴ ٢٦ حضور اس سفر کے لئے ۲۶.ستمبر ۱۹۱۲ء کو قادیان سے روانہ ہوئے اور ۱۳.جنوری ۱۹۱۳ ء کو واپس قادیان تشریف لے آئے.ال عمران: ۲۸ هود : ۱۰۹ ۲۸ چشمه معرفت صفحه ۲۲ مطبوعه تألیف و تصنیف ربوه ۲۹ روحانی خزائن (سرمه چشم آریہ ) جلد ۲ صفحه ۹۴ ۳۰ غالباً صحیح عبارت یوں ہے.یہ خیال کہ کنارہ آجائے گا صرف ایک وہم ہے.ا المائدة : ۲۸ - ملفوظات جلد ۸ صفحه ۲۴۰
۳۲۱ (۳۰) (فرموده ۲ نومبره ۱۹۴ء بمقام عید گاہ.قادیان) رمضان گذر گیا اور وہ دن آگیا جسے عید کہتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے رمضان ہمیشہ ختم ہو جاتے ہیں اور خدا اپنے بندوں کے لئے عیدیں بھیج دیتا ہے لمبے سے لمبا عرصہ امتحان کا جو خدا نے اپنے بندوں کے لئے رکھا ہے رمضان کا مہینہ ہے.تمہیں دن خدا کے بندے روزے رکھتے ہیں، بھوکے رہتے ہیں ، پیاسے رہتے ہیں ، شہوانی تقاضوں سے بچتے ہیں، راتوں کو جاگتے ہیں، دعائیں کرتے ہیں، تلاوت قرآن کریم زیادہ کرتے ہیں ، ذکر الہی کرتے ہیں اور بعض تروایح بھی پڑھتے ہیں.غرض یہ تمھیں دن کا مہینہ دینی لحاظ سے عجیب لطف اور مزے کا مہینہ ہوتا ہے لیکن جسمانی لحاظ سے ایک امتحان ہوتا ہے کیونکہ خدا کے بندے بھوکے اور پیاسے رہتے اور شہوانی تقاضوں سے اپنے آپ کو مجتنب رکھتے ہیں لیکن یہ ابتلاء ایک مہینہ کے ختم ہو جاتا ہے اور خدا اپنے بندوں کے لئے عید کا دن لے آتا ہے.اس طرح مومنوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ جب خدا تعالیٰ کی طرف سے مشکلات پیدا ہوتی ہیں تو وہ ہمیشہ عارضی ہوتی ہیں اور ان کے بعد جلد ہی خوشی اور راحت کا دن آجاتا ہے لے لیکن بندہ جب خود اپنے لئے کوئی مصیبت پیدا کرتا ہے تو بعض دفعہ وہ اتنی لمبی ہو جاتی ہے کہ نسلاً بعد نسل وہ مصیبت چلتی جاتی ہے اور بعض دفعہ تو صدیوں تک وہ مصیبت سروں پر مسلط رہتی ہے اور عید آنے میں ہی نہیں آتی بلکه روز بروز دور ہوتی چلی جاتی ہے.کے پس ہندے کو ہمیشہ یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ جو ابتلاء لمبا ہو جائے اس میں ضرور کسی بندے کی کو تاہی کا دخل ہوتا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کبھی لمبے ابتلاء نہیں آتے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ابتلاء بھی آتا ہے وہ عارضی ہوتا ہے اور تھوڑے ہی عرصہ کے بعد ایسے سامان پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ میرے بندے پر جتنی جلدی ہو سکے عید کا دن آجائے مثلا رسول کریم ملی الم کے زمانہ میں صحابہ نے پوری کوشش کی کہ وہ اسلام کو پھیلائیں اور رسول کریم ملی دلیل اللہ کے احکام کی پوری
۳۲۲ پوری فرمانبرداری کریں نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی عید بہت جلد آگئی.۳.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کا واقعہ بھی بتاتا ہے کہ خدا تعالی بنی اسرائیل کے لئے کتنی جلدی عید لانا چاہتا تھا ، مگر بندوں نے اسے کس طرح دور کر دیا.خدا نے تو چاہا تھا کہ وہ انہیں ارضِ مقدسہ میں موسیٰ علیہ.السلام کی زندگی میں ہی لے جائے اور قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ چالیس سال پہلے انہیں ارض مقدسہ میں لے جانا چاہتا تھا مگر بندوں نے اسے پیچھے ڈال دیا.کہ گویا خدا تو ان کے لئے عید کا دن جلد لانا چاہتا تھا مگر انہوں نے اپنے اعمال سے اسے کسی اور وقت پر ڈالی دیا.ہماری جماعت کو بھی غور کرنا چاہئے کہ وہ اپنے لئے جلد سے جلد عید کا دن لانے کی کوشش کر رہی ہے یا اس عید کو اور زیادہ پیچھے ڈال رہی ہے.جن قوموں کے سامنے کوئی عید موجود نہیں ہوتی انہیں اپنی کامیابی میں شک ہو سکتا ہے لیکن ہماری جماعت کو اس عید کے آنے میں کیا شک ہو سکتا ہے جب کہ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اس عید کا اسی طرح وعدہ کیا ہوا ہے کہ جس طرح اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے ساتھ کیا اور جس طرح حضرت مسیح ناصری کی جماعت کو اس نے وعدہ دیا.وہ پس اس وعدے کا اسی طرح پورا ہونا ضروری ہے جس طرح وہ پہلے انبیاء کے زمانہ میں پورا ہو تا رہا کیونکہ وہ خدا جو نوح کے زمانہ میں تھا آج بھی ہے ، وہ خدا جو ابراہیم کے زمانہ میں تھا آج بھی ہے ، وہ خدا جو موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں تھا آج بھی ہے وہ خدا جو عیسی علیہ السلام کے زمانہ میں تھا آج بھی ہے اور وہ خدا جو محمد رسول اللہ علیہ کے زمانہ میں تھا آج بھی ہے.پھر ہماری جماعت کو غور کرنا چاہئے کہ کیوں اس کیلئے اللہ تعالیٰ کی نصرت اور تائید نازل ہونے میں دیر کر رہی ہے یقیناً اس نصرت اور تائید کے دیر میں آنے کی وجہ یہ ہے کہ ہماری طرف سے کوتاہیاں ہو رہی ہیں اور ہماری غفلتیں اور ستیاں اس میں روک بن رہی ہیں.اگر ہم اپنی کو تاہیوں کو دور کر دیں تو یقینا وہ ابتلاء کا زمانہ وہ آزمائش کا زمانہ اور وہ امتحان کا زمانہ جو ہر نبی کی جماعت کے لئے مقدر ہوتا ہے اسی طرح چھوٹا ہو جائے جس طرح رسول کریم میل ل ل ا ل لیول کے زمانہ میں چھوٹا ہوا.رسول کریم پر وفات نہیں آئی جب تک آپ نے اسلام کو عرب میں قائم نہیں کر دیا.کہ اور صحابہ پر اس وقت تک وفات نہیں آئی جب تک ساری دنیا پر اسلام غالب نہیں آگیا.بے شک مسیحی صفت انبیاء کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا جو سلوک ہوتا ہے وہ موسوی صفت انبیاء
۳۲۳ کے سلوک سے مختلف ہوتا ہے.موسوی صفت انبیاء کو فورا حکومت مل جاتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ ان کی زندگی میں ہی شریعت کا عملی رنگ میں نفاذ ہو جائے ، مگر مسیحی صفت انبیاء شریعت نہیں لاتے صرف سابق شریعت کی تبلیغ کرتے ہیں وہ اسی لئے ان کے وقت میں حکومت ضروری نہیں ہوتی.پس ان کی جماعت کو حکم ہوتا ہے رافت سے محبت سے پیار سے ملاطفت سے تبلیغ کرتے جاؤ اور دشمنوں کی مخالفتوں پر صبر کرو.تلہ اور اللہ تعالی ان کی ترقی کے زمانہ میں نسبتا تاخیر ڈال دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام چونکہ مسیحی صفت نبی تھے اللہ اس لئے ان کے زمانہ ترقی کے آنے میں اس سے تو ضرور زیادہ تاخیر ہونی چاہئیے جس قدر کہ رسول کریم میل ل ل ل ولیم کی ترقی میں ہوئی مگر پھر بھی یہ کوئی ضروری نہیں کہ یہ تاخیر اس قدر ہی لمبی ہو جتنی مسیح ناصری کے زمانہ میں ہوئی.موسیٰ اور نبی کریم میل الا اللہ کی آپس میں مماثلت ہے کہ مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور رسول کریم ملی اهل لالی کا زمانہ ترقی ایک جیسا نہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو موعود سر زمین پر جو غلبہ حاصل ہوا دہ قریباً ۸۰ - ۹۰ سال کے بعد حاصل ہو ا سلا مگر رسول کریم ملی المال الملک کے زمانہ میں صحابہ کو یہی غلبہ ہیں سال کے عرصہ میں حاصل ہو گیا تھا.گویا یہ عرصہ قریباً ۲۵ فیصدی رہ گیا اور پچھتر فیصدی کمی آ گئی.چنانچہ چالیس پچاس سال تو حضرت موسیٰ علیہ السلام زندہ رہے اور اپنے دین کی اشاعت کرتے رہے پھر چالیس سال تک خدا تعالیٰ نے ان کی قوم کو جنگلوں میں پھرایا اور اس کے بعد انہیں موعود سر زمین پر غلبہ حاصل ہوا.گویا قریباً ۸۰ یا ۹۰ سال کے بعد انہیں غلبہ ملا.اس کے مقابلہ میں رسول کریم میں ا ل ل لیلی کی تیرہ سالہ کی زندگی ہے اور مدینہ میں جانے کے قریباً سات سال کے بعد آپ کو غلبہ حاصل ہو گیا گویا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے وقت سے چوتھائی حصہ میں آپ کو غلبہ مل گیا لیکن حضرت مسیح ناصری کی قوم کی ترقی تین سو سال میں وئی تھی.اب اگر ہم بھی صحابہ کے طریق کو اختیار کریں اور صحابہ کی طرح ہی اطاعت و فرمانبرداری میں کوشاں رہیں اور ہم کوشش کریں کہ ہم ان کے نقش قدم پر چلنے والے ثابت ہوں تو ہمارے لئے بھی خدا تعالیٰ کا وہی نشان ظاہر ہونا چاہئے جو رسول کریم ملی ایم کے صحابہ کیلئے ظاہر ہوا اور ہمیں بھی مسیح ناصری کی قوم کی ترقی کے زمانہ کے چوتھائی حصہ میں غلبہ حاصل ہونا چاہئے جو پچھتر سال بنتے ہیں.ان پچھتر سالوں میں سے پچاس سال گزر چکے ہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۹۰ء سے کچھ عرصہ پہلے بیعت کا اعلان کیا تھا گلہ اور
۳۲۴ اب ۱۹۴۰ء ہے گویا پچاس سال گذر چکے اور اب صرف پچیس سال رہتے ہیں.اگر ہم یہ ثابت کرنا چاہیں کہ ہم صحابہ کے نقش قدم پر ہیں، اگر ہم یہ ثابت کرنا چاہیں کہ ہم پر اسی نسبت سے برکات نازل ہو رہی ہیں جس نسبت سے صحابہ پر برکات نازل ہو ئیں تو ان بقیہ پچیس سالوں میں ہماری تبلیغ اس قدر پھیل جانی چاہئے کہ دشمن بھی اقرار کرے کہ اب احمدیت دنیا میں قائم ہو گئی ہے مگر یہ پچیس سال کا عرصہ اس پچاس سال کے اخراصہ کو دیکھتے ہوئے جو گزر چکا بہت تھوڑا معلوم ہوتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آج سے پچاس سال پہلے صرف ایک شخص تھا جس نے قادیان میں کھڑے ہو کر یہ دعویٰ کیا کہ میرا خدا مجھ سے ہمکلام ہوتا ہے اور اس نے میرے سپرد یہ کام کیا ہے کہ میں دنیا کو راہ راست پر لاؤں.ھلہ اس کے ہمسایوں ، اس کے عزیزوں ، اس کے دوستوں اور اس کے رشتہ داروں نے اس کی اس آواز کو سنا اور اسے انتہائی نفرت اور حقارت کے ساتھ رد کر دیا اور کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو ہم سب مل کر تمہیں تباہ کر دیں گے.چنانچہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے جوانی کے دوست اور آپ سے تعلق رکھنے والے تھے ، اور جو ہمیشہ آپ کے مضامین کی تعریف کیا کرتے تھے کہ انہوں نے اس دعوئی کے معا بعد یہ اعلان کیا کہ میں نے ہی اس شخص کو بڑھایا تھا اور اب میں ہی اس کو تباہ کر دوں گا.۱۸ اس وقت کون تصور کر سکتا تھا که مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جیسا معزز اور بار سوخ انسان کسی کے متعلق یہ کہے کہ میں اسے تباہ کر دوں گا اور پھر وہ تباہ نہ ہو.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے رشتہ داروں نے اعلان کر دیا بلکہ بعض اخبارات میں یہ اعلان چھپوا بھی دیا کہ اس شخص نے دکانداری چلائی ہے اس کی طرف کسی کو توجہ نہیں کرنی چاہئے 19ء اور اس طرح ساری دنیا کو انہوں نے بدگمان کرنے کی کوشش کی.پھر یہ میرے ہوش کی بات ہے کہ بہت سے کام کرنے والے لوگوں نے جو زمیندارہ انتظام میں کمین کہلاتے ہیں آپ کے گھر کے کاموں سے انکار کر دیا.اس کے محرک در اصل ہمارے رشتہ دار ہی تھے.غرض اپنوں اور بیگانوں نے مل کر آپ کو مٹانا اور آپ کو تباہ اور برباد کر دینا چاہا مگر خدا نے اپنے بندے سے کہا دنیا میں ایک نبی آیا.پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا.لیکن خدا اسے قبول کرے گا.اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی کو ظاہر کر دے گا.۲۰
۳۲۵ ایک بے کس اور بے بس انسان قادیان جیسی بستی میں جہاں ہفتہ میں صرف ایک دفعہ ڈاک آیا کرتی تھی ، جہاں ایک پرائمری سکول بھی نہ تھا اور جہاں ایک روپیہ کا آٹا بھی لوگوں کو میر نہیں آتا تھا کھڑا ہوتا ہے اور پھر وہ انسان بھی ایسا ہے جو نہ مولوی ہے اور نہ بہت بڑی جائداد کا مالک ہے.(بے شک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک شریف خاندان میں سے تھے مگر راجوں اور نوابوں کی طرح بہت بڑی جائداد کے مالک نہیں تھے ) وہ اٹھ کر دنیا کے سامنے یہ اعلان کرتا اور پہلے دن ہی کہتا ہے کہ خدا میرے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچائے گا الے اور کون ہے جو آج کہہ سکے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام دنیا کے کناروں تک نہیں پہنچا.لندن میں ایسے لوگ موجود ہیں جو آپ پر ایمان لاتے اور آپ پر درود اور سلام بھیجتے ہیں ، امریکہ میں ایسے ہزاروں لوگ موجود ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر صدق دل سے ایمان رکھتے ہیں اور ہر ہفتہ وہاں سے جماعت کے اخلاص کے خطوط میرے نام آتے رہتے ہیں.جاوا اور سماٹرا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو آپ پر ایمان رکھتے ہیں ویسٹ افریقہ میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو آپ پر ایمان رکھتے ہیں چنانچہ گزشتہ مردم شماری میں تو وہاں کی صرف ایک ریاست میں ۲۵ ہزار احمدی ثابت ہوئے تھے.اسی طرح مشرقی افریقہ میں ، مصر میں ، شام میں ، فلسطین میں عرب میں اٹلی میں ، ایران میں ، چین میں جاپان میں روسی علاقوں میں، جنوبی امریکہ ارجنٹائن وغیرہ میں ایسے لوگ موجود ہیں جو آپ پر ایمان رکھتے ہیں.غرض دنیا کا کوئی علاقہ اور کوئی ملک ایسا نہیں جہاں آپ کا نام نہ پہنچا ہو مگر آج سے پچاس سال پہلے کیا کوئی خیال بھی کر سکتا تھا کہ ایسی عظیم الشان کامیابی آپ کو حاصل ہو گی.پھر یہ کامیابی آپ کو یونہی حاصل نہیں ہو گئی بلکہ آپ کو دکھ دیئے گئے اپنوں کی طرف سے بھی اور غیروں کی طرف سے بھی، رعایا کی طرف سے بھی اور حکومت کی طرف سے بھی چنانچہ قادیان میں اُس وقت جو احمدی بھی آتا حکومت اس کا نام نوٹ کر لیتی.ایک پولیس کانسٹیبل قادیان میں متعین تھا اور وہ ہر آنے والے مہمان کا نام نوٹ کیا کرتا تھا گویا قادیان حکومت کی نظر میں ایک مجرموں کی بستی تھی جہاں آنے والے لوگوں کی نگرانی کی جاتی سلسلہ مخالفت ایک لمبے عرصہ تک جاری رہا مگر آخر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے ایک ایک کر کے آدمیوں کو کھینچنا شروع کیا اور احمدیت کو اتنی ترقی حاصل ہوئی کہ آج قادیان میں جتنے احمدی ہیں اتنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں کسی
۳۲۶ جلسہ سالانہ پر بھی اکٹھے نہیں ہوتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں جو آخری جلسہ سالانہ ہوا اس میں سات سو کے قریب احمدی آئے تھے ۲۲ اور اس کو اتنا بڑا نشان سمجھا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جلسہ سالانہ کے ایام میں ایک دن جب کہ سیر کے لئے تشریف لے گئے تو تھوڑی دور جانے کے بعد ہی واپس آگئے اور آپ نے فرمایا کہ اتنے بڑے گروہ کے ساتھ اب سیر کرنا مشکل ہے.اور فرمایا شاید اب میری وفات کا زمانہ قریب آگیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نبیوں کی وفات اسی وقت ہوتی ہے جب ان کا سلسلہ ترقی کر جائے.تو اس وقت سات سو آدمیوں کے آنے کو اتنی اہمیت دی گئی کہ ان کا آنا خدا تعالی کا ایک نشان سمجھا گیا مگر آج قادیان میں معمولی تقریبوں پر تین تین چار چار ہزار آدمی اکٹھے ہو جاتے ہیں اور جلسہ سالانہ پر کجا تو سات سو آدمی آئے تھے اور ان کے آنے کو ایک بہت بڑا نشان سمجھا گیا تھا اور کجا یہ حالت ہے کہ گزشتہ جلسہ جو بلی ۲۳ کے موقع پر بیالیس ہزار آدمی اکٹھے ہوئے تھے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ معجزانہ ترقی ہے مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ یہ ایسی ترقی نہیں جسے دیکھ کر یہ کہا جاسکے کہ اب دنیا احمدیت کا مقابلہ کرنے سے مایوس ہو چکی ہے اور جس ترقی کا میں نے ذکر کیا ہے وہ وہی ہے جس کے بعد لوگ مقابلہ کرنے سے مایوس ہو جاتے ہیں اور یہ چیز تو ہمیں ابھی قادیان میں بھی میسر نہیں اور اس وقت تک میسر نہیں آسکتی جب تک مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب کے رہنے والے لا اله الا الله محمد رسول اللہ کہتے ہوئے احمدیت میں داخل نہ ہو جائیں.صرف ہندوستان کے لوگ ہی نہیں ، صرف ایشیا کے لوگ ہی نہیں ، صرف افریقہ اور امریکہ کے لوگ ہی نہیں، بلکہ جب تک تمام کے تمام بر اعظم احمدیت کے جھنڈے تلے نہیں آجاتے اس وقت تک وہ روحانی غلبہ جو جماعت کے لئے مقدر ہے نہیں آسکتا.پس ہماری جماعت کو یہ پچیس سال ایسے سمجھ لینے چاہئیں جیسے زندگی اور موت کا سوال اور ہر شخص کو تبلیغ میں مصروف ہو جانا چاہئے.اگر وہ اپنے رشتہ داروں میں تبلیغ کر سکتا ہے تو رشتہ داروں میں تبلیغ کرے، غیروں میں تبلیغ کر سکتا ہے تو غیروں میں تبلیغ کرے ، اپنے ملک کے اندر تبلیغ کر سکتا ہے تو ملک کے اندر تبلیغ کرے اور اگر ممالک غیر میں جاکر تبلیغ کر سکتا ہے تو ممالک غیر میں جا کر تبلیغ کرے.
۳۲۷ غرض ہر احمدی دیوانہ دار احمدیت کی تبلیغ میں مشغول ہو جائے اور خدا تعالیٰ کا وہ نور جس سے اس کی اپنی آنکھیں منور ہو ئیں اسے دوسرے لوگوں تک پہنچائے کیونکہ آدم کی نسل میں سے ہونے کی وجہ سے دنیا کے تمام لوگ ہمارے بھائی ہیں ۲۴ ، اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی دولت میں ان کو بھی شریک کریں جو دولت خدا تعالیٰ نے ہمیں دی ہے وہ صرف ہماری ہی نہیں بلکہ سب کی ہے.بے شک وہ ہم سے اپنا ورثہ نہیں مانگتے مگر یہ کوئی شرافت نہیں ہے کہ جو بھائی ورثہ نہ مانگے اسے ورثہ سے محروم رکھا جائے بلکہ شریف آدمی اس وقت تک خوش نہیں ہو تا جب تک اپنے بھائی کا حصہ اسے پہنچا نہیں دیتا.پس ہم پر ایک بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہے اور ایک زبر دست امانت ہمارے سپرد کی گئی ہے جس میں آدم کا ہر بیٹا حصہ دار ہے جب تک ہم اس ہدایت کو ہر آدمی تک نہیں پہنچا لیتے اس وقت تک ہم خدا تعالیٰ کے حضور کبھی سرخرو نہیں ہو سکتے.پس میں اس عید کی تقریب پر جماعت کے تمام دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ آج سے تبلیغ کی طرف وہ پہلے سے بہت زیادہ متوجہ ہو جائیں اور جہاں جہاں ہماری جماعتیں قائم ہیں وہ سب تبلیغ احمدیت میں منہمک ہو جائیں تا اگلے پچیس سالوں میں اس نسبت کو ملحوظ رکھتے ہوئے جو حضرت موسیٰ کی قوم کے مقابلہ میں رسول کریم میلی لیہ وسلم کے صحابہ کو حاصل تھی اور مسیح ناصری کی قوم کے مقابلہ میں مسیح محمدی کی جماعت کو حاصل ہے ہم ساری دنیا کو اسلام کے جھنڈے تلے لانے میں کامیاب ہو جائیں اور دنیا میں ایک ہی دین ہو اور ایک ہی پیشوا.۲۵، اور آدم اول کی طرح آدم ثانی ۲۶، پھر ایک دفعہ تمام دنیا کو ایک ہاتھ پر جمع کرے تاکہ خدا کی بادشاہت جس طرح آسمان پر ہے اسی طرح زمین پر بھی قائم ہو اور جس طرح فرشتے اس کی تقدیس کرتے ہیں اسی طرح تمام بندے اس کی تقدیس کرنے لگ جائیں.اب میں دعا کر دیتا ہوں دوست بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہماری کوتاہیوں اور غفلتوں کو دور کرے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اس کا روشن چہرہ تمام دنیا کو دکھا سکیں اور اسلام تمام عالم میں پھیل جائے.وہ ہماری زبانوں میں برکت ڈالے ، ہماری باتوں میں اثر پیدا کرے اور ہمارے دلوں میں سچائی کو جگہ دے تا ہمارا کوئی قدم جھوٹ، فریب اور ظلم پر مبنی نہ ہو بلکہ ہمارے تمام اعمال انصاف اور سچائی پر مبنی ہوں اور بنی نوع انسان کی ہمدردی ہمارے دلوں میں جاگزیں ہو.خدا ہمیں تکبر اور ظلم سے بچائے.ہمارے دلوں میں محبت، شفقت اور رافت کے
۳۲۸ جذبات پیدا کرے اور عشق الہی سے ہمارے قلوب کو سرشار کرے تاکہ ہماری دنیا ہی درست نہ ہو بلکہ دین بھی درست ہو اور صرف ہماری ہی دنیا اور ہمارا ہی دین درست نہ ہو بلکہ تمام له لوگوں کی دنیا اور تمام لوگوں کا دین درست ہو.الم نشرح : ۷۲ ملفوظات جلد 4 صفحہ ۳۶۱ (الفضل ۱۳ نومبر ۱۹۴۰ء) النساء : ١٦ البقرة : ۷۲ العائدة : ۲۴٬۱۴۱۳ تا ۲۷ التوبة : ١٠٠ ه ضمیمه بر امین احمدیہ صفحہ ۱۲۸-۱۲۹- روحانی خزائن ( تذکرۃ الشہادتین) جلد ۲۰ صفحه ۶۷ ل العائدة : ۱۱۲۱۵ تا ۱۱۹ لله حضور میل کا وصال ۱۱ ہجری مطابق ۶۳۲ء میں ہوا.اس سے تین سال قبل ۸.ہجری مطابق ۶۲۹ء میں مکہ فتح ہوا جس سے کفار کی طاقت بالکل ختم ہو گئی اور تمام عرب حضور میں اسلام کے ماتحت آگیا.التوبة : ۱ تا ۵ و نوٹ تفسیر صغیر زیر آیات مندرجہ بالا سیرت الامام ابن ہشام الجزء الثانی صفحه ۲۲۵٬۲۰۹ المزمل : ١٧٦: المائدة : ۴ - صحیح بخارى كتاب المغازى باب حجة الوداع متی باب ۵ آیات ۱۷-۱۸ بركات الدعا صفحه ۲۴ اشتهار منسلکه آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۶۵۷ اه متی باب ۵ آیات ۳۹ تا ۴۵ ملفوظات جلد ۴ صفحه ۲۳۵٬۲۲۸ براہین احمدیہ صفحه ۵۷۲٬۵۷۱ حاشیه در حاشیہ نمبر ۳ و کشف الغطاء صفحه ۱۱ المزمل : ۱۶ - کشتی نوح صفحہ ۱۴۴۱۳- آئینہ کمالات اسلام صفحه ۳۴۳ ۱۳ یوشع باب ۱۶ تا ۲۰ ۱۴ اشتهار یکم دسمبر ۱۸۸۸ء ۱۵ براہین احمدیہ حصہ سوم طبع اول صفحه ۲۴۲٬۲۳۸ حاشیه در حاشیه و کتاب البریه حاشیه ۱۶ صفحه ۲۰۱ حضور علیہ السلام مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو مخاطب فرماتے ہوئے ان کے ساتھ 1
۳۲۹ اپنے دوستانہ مراسم کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.قطعت و دادا قد غرسناه في الصبا - وليس فوادى فى الوداد يقصر (روحانی خزائن جلد ۱۲ (براہین احمدیه) صفحه ۳۳۵ کہ حضور علیہ السلام کی تصنیف ” براہین احمدیہ پر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ۱۹۲۵ء) کے ریویو کے لئے دیکھیں.(اشاعۃ السنہ نمبر ۶ جلد بابت سال ۱۸۸۴ء) اشاعۃ السنہ جلد ۱۳ نمبر ا صفحه ۲-۴ 19 تاریخ احمدیت جلد ۲ صفحه ۱۳۹ - ۱۴۴ ملفوظات جلد ۵ صفحه ۱۶۷ ۲۰ تذکرہ.مطبوعہ الشركة الاسلامیہ ربوہ صفحہ ۱۹۰٬۱۰۸.ا تذكره مطبوعه الشرکة الاسلامیہ.ربوہ صفحہ ۱۹۱ ۲۲، جلسہ سالانہ ۱۹۰۷ء کا ذکر ہے.بدر ۹.جنوری ۱۹۰۸ ء کے مطابق حاضرین کی تعداد تین ہزار تھی جس میں عورتیں اور بچے شامل ہیں جب کہ حضور نے غالبا صرف مردوں کی تعداد بیان فرمائی ہے.واللہ اعلم بالصواب ۲۳، ۱۹۳۹ء کے جلسہ سالانہ کی طرف اشارہ ہے اس موقع پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خلافت کی پچیس سالہ جوبلی منائی گئی تھی.الجامع الصغير جزثانی صفحہ ۷۹ خطبہ حجة الوداع البيان والتبيين جلد ۲ صفحه ۲۴-۲۵ ۲۵ ”دنیا میں ایک ہی مذہب ہو گا اور ایک ہی پیشوا" (تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۶۷ ۲۶.براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحه ۸۹-۹۰
۳۳۰ (۳۱) فرموده ۲۳ اکتوبر ۱۹۴۱ء بمقام عید گاہ.قادیان) دنیا میں ہر قوم اپنی خوشی کے لئے کوئی نہ کوئی ذریعہ تجویز کرتی اور اپنے مشہور واقعات کی یاد گار منانے کی کوشش کیا کرتی ہے.کیا ہندو اور کیا سکھ اور کیا مسلمان اور کیا عیسائی اور کیا یہودی سب ہی قوموں میں ایسے ایام پائے جاتے ہیں جو ان کے بزرگوں کی کسی کامیابی کی یاد میں خوشی کے دن کے طور پر منائے جاتے ہیں.استثنائی صورت فرقوں میں سے ایک شیعوں کے فرقہ کی ہے جو بجائے خوشی کا دن منانے کے رنج کا دن مناتا ہے.مگر بہر حال شیعوں کا رنج بھی ایک ایسی ہستی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے پیاروں میں سے تھی اور جس کی موت یا شہادت اللہ تعالیٰ کی خاطر اور دین کی خاطر ہوئی تھی.اے ان یادگاروں کے علاوہ دنیوی یادگاریں بھی ہوتی ہیں چنانچہ بعض قومیں اپنی فتح کے نشانات قائم کرتی ہیں ، بعض قو میں اپنے کسی دشمن کی تباہی کے نشانات قائم کرتی ہیں اور بعض قو میں اپنی کسی خاص اقتصادی یا سیاسی کامیابی کے نشانات قائم کرتی ہیں.ان میں سے سوائے ان ایام کے جو جسمانی تعیش کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور سوائے ان ایام کے جو انسانی فطرت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں باقی ایام کا اگر دینی یادگاروں سے سے مقابلہ کیا جائے تو ہمیں ان میں ایک بہت بڑا فرق نظر آتا ہے.مثلاً موسموں کی تبدیلی ہے.جن علاقوں میں سخت سردی پڑتی ہے ان میں جب گرمی کا موسم آتا ہے تو قدرتی طور پر سب کے اندر ایک جوش پیدا ہو جاتا ہے اور وہ خوشی منانے کے لئے کوئی نہ کوئی طریق اختیار کرتے ہیں.ہندوستان میں برسات کا موسم اور بہار کا موسم خاص طور پر اچھے مجھے جاتے ہیں.بہار میں لوگ باغوں میں جانا اور سیرو تفریح کرنا پسند کرتے ہیں اور برسات میں عورتیں جھولے جھولنا پسند کرتی ہیں.اسی طرح لوگ اس موسم میں آموں کی پارٹیوں اور نہروں اور دریاؤں پر نہانے کا انتظام کرتے ہیں.یہ در حقیقت قومی ایام نہیں بلکہ موسمی ایام ہوتے ہیں.ایک مسلمان کے دل میں بھی اگر وہ انگلستان میں رہتا ہو تو مئی کے دنوں میں خوشی کی لہر پیدا ہو جائے گی اور وہ کہے گا کہ اب سردی کی تکلیف کے دن ختم ہونے لگے ہیں.اسی
۳۳۱ طرح ایک عیسائی اور یہودی کے دل میں بھی اگر وہ ہندوستان میں رہتے ہوں بہار کے موسم میں جب سخت سردی جاتی رہتی ہے یا برسات کے موسم میں جب گرمی کے بادل امڈ امڈ کر آتے ہیں خوشی کی لہر پیدا ہو جائے گی.چنانچہ بغیر اس کے کہ کسی کا کیا مذ ہب ہے ان دنوں ہر شخص راحت اور آرام محسوس کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کچھ دیر کے لئے ایسی جگہ جائے جو زیادہ آرام دہ ہو.اس طرح ہر شخص ان ایام کو خوشی کے ساتھ بسر کرنے کی کوشش کرتا ہے.مگر باقی ایام جو موسمی تغیرات کے ساتھ تعلق نہیں رکھتے ان کا اگر ہم دینی واقعات کے ساتھ تعلق رکھنے والے خوشی کے دنوں سے مقابلہ کریں تو ہمیں الشان فرق نظر آتا ہے اور پتہ لگتا ہے کہ انبیاء" کے کاموں یا ان کے اظلال سے تعلق رکھنے والی باتوں میں اور دنیا کی کسی اپنی قائم کردہ یادگار میں کس قدر نمایاں امتیاز ہوتا ہے.اتفاق کی بات ہے کہ اس سال ہندوؤں کا تہوار دیوالی اور مسلمانوں کا تہوار عید دونوں اکٹھے آ گئے ہیں یعنی کل دیوالی کے ایام ختم ہوئے ہیں اور آج عید آگئی ہے.بعض دفعہ اس طرح اکٹھے ایام آجانے سے انسان کے خیالات کی رو خاص طرف منتقل ہو جاتی ہے.ہم جو سندھ میں زمینداری کرتے ہیں اور جہاں سلسلہ کی زمینیں بھی ہیں اور میری اپنی زمینیں بھی وہاں ہمارے ایجنٹ ہندو ہوتے ہیں کیونکہ یہ کام کلی طور پر انہی کے ہاتھ میں ہے اس سال دیوالی کے قریب ان کے میرے نام تاریں آئیں کہ اس دن ہمیں کوئی چیز بیچنے یا خریدنے کی اجازت دی جائے اور بعض نے تو خط بھی لکھے کہ ہمارے نزدیک یہ دن بہت مبارک ہوتا ہے اور اس میں جو سودا کیا جائے وہ نفع مند سمجھا جاتا ہے اس لئے ہمیں اس دن کوئی چیز خریدنے یا بیچنے کی اجازت دی جائے.میں نے یہ سمجھتے ہوئے کہ اس میں شرک کی کوئی بات نہیں انہیں اجازت دے دی اور میں نے خیال کیا کہ ان کا دیوالی کے دن خرید و فروخت کے لئے متبرک قرار دینا ایسا ہی ہو گا جیسے رسول کریم ملی علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ میری امت کے لئے جمعرات اور پیر کے دنوں میں سفر کرنے میں برکت رکھی گئی ہے.۲.ممکن ہے ان میں سے اگر کوئی اخلاص کے ساتھ کام کرے تو اس کے لئے یہ برکت اللہ تعالی کی طرف سے قدیم زمانہ میں دیوالی میں رکھی گئی ہو اس لئے میں نے انہیں اجازت دے دی مگر ساتھ ہی فورا میرا ذہن ایک نئے مضمون کی طرف منتقل ہو گیا.دیوالی کا تہوار اتنا پرانا ہے کہ اس کی تاریخ ہی دنیا سے مٹ چکی ہے عجیب عجیب قسم کے خیالات ہیں جو ہندوؤں میں رائج ہیں.کوئی کہتا ہے یہ دن
۳۳۲ شوجی کے جوا کھیلنے کی یاد گار میں منایا جاتا ہے اور کوئی اسے کسی بزرگ کی طرف منسوب کرتا ہے.زیادہ تر یہ خیال رائج ہے کہ رام چندر جی جب بن باس سے واپس آکر تخت نشین ہوئے تھے تو ان کی تخت نشینی کی خوشی میں یہ دن منانا شروع کیا گیا تھا.جیسے بادشاہ کی تخت نشینی چراغاں کیا جاتا ہے اسی طرح دیوالی کے موقع پر چراغاں کیا جاتا ہے.پس میرا ذہن فورا اس طرف منتقل ہوا کہ دنیا میں وہ کامیابیوں کی یادگاریں پائی جاتی ہیں جن میں سے ایک تو قریب کی کامیابی کی یادگار ہے اور دوسری اتنی پرانی کامیابی کی یادگار ہے کہ تاریخ سے اس یادگار کی حقیقی وجہ تک معلوم نہیں ہوتی اور لوگ مختلف قسم کے خیالات رکھتے ہیں.کوئی اسے شوجی کے جوئے کی یادگار قرار دیتا ہے اور کوئی رامچندرجی کی تخت نشینی کی یادگار قرار دیتا ہے.غرض ایک طرف تو وہ کامیابی ہے جس کی تاریخ تک مٹ چکی ہے مگر پھر بھی اس کی یادگار کو بڑے اہتمام کے ساتھ منایا جاتا ہے اور دوسری طرف ایک لڑائی ہماری آنکھوں کے سامنے ہوئی ہے.اتنی عظیم الشان لڑائی کہ اس کے مقابلہ میں رام چندر جی کی لڑائی کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتی.بس یوں سمجھ لو کہ ایک طرف انگریزوں، روسیوں ، جرمنوں اور اٹلی والوں کی فوجیں لڑ رہی ہوں اور دوسری طرف گاؤں کے دو نوجوان گت کا لے کر مقابلہ کے لئے نکل کھڑے ہوں جو نسبت ان دونوں کی آپس میں ہو سکتی ہے.وہی نسبت اس جنگ کی اور رام چندر جی کی جنگ کی ہے.یہ اتنی عظیم الشان لڑائی تھی کہ اس میں ساری دنیا کے لوگ شامل تھے اس میں جرمنی بھی شامل تھا، اس میں ترکی بھی شامل تھا اس میں رومانیہ بھی شامل تھا، اس میں بلغاریہ بھی شامل تھا، اس میں سرو یہ بھی شامل تھا، اس میں پولینڈ بھی شامل تھا، اس میں روس بھی شامل تھا اس میں پرتگال بھی شامل تھا اس میں انگلستان بھی شامل تھا اس میں فرانس بھی شامل تھا اس میں جاپان بھی شامل تھا اس میں ہندوستان بھی شامل تھا، اس میں مصر بھی شامل تھا، اس میں عرب بھی شامل تھا، اس میں چین بھی شامل تھا، پھر اس میں امریکہ بھی شامل ہوا اور جنوبی امریکہ کی بعض سٹیٹس نے بھی لڑائی کی تائید میں اعلان کر دیا غرض سارا جہان اس لڑائی میں شامل ہوا.پھر سامانِ حرب یہ نہیں تھا کہ وہ ایک دوسرے پر پتھر مارتے تھے یا غلیل چلاتے تھے یا تیراندازی کرتے تھے یا صرف تلوار سے کام لیتے تھے جیسے رام چندر جی نے تلوار یا تیرے دشمن کا مقابلہ کیا بلکہ اس جنگ میں بم چلائے جاتے تھے.ایسی ایسی تو پوں سے کام لیا جاتا تھا جو پچھتر پچھتر میل تک گولے پھینکتی تھیں اسی طرح ہوائی جہازوں کو لڑائی میں استعمال کرنے کا کام
۳۳ 2 الله اسی لڑائی میں شروع ہوا.ٹینک اس لڑائی میں بننے شروع ہوئے جو فوجوں کی فوجوں کو کچل کر رکھ دیتے ہیں.پھر اسی جنگ میں ٹرنچز کی لڑائی ایسی اہم صورت اختیار کر گئی کہ زمین کے اندر وہ ہی اندر میلوں تک شہر بسے ہوئے ہوتے تھے.پھر یہ وہ جنگ تھی جس میں دو کروڑ آدمی بیک وقت شامل تھا.رام چندرجی کے زمانے میں تو ہندوستان اور لنکا کی ساری آبادی بھی دو کروڑ نہ ہو گی مگر یہ وہ لڑائی تھی جس میں صرف دو کروڑ سپاہی شامل تھا اور زخمی اور مرنے والوں کی تعداد ساٹھ لاکھ تھی.رام چندرجی کی لڑائی کے جو واقعات بیان کئے جاتے ہیں ان میں سے اگر مبالغہ آمیز قصوں کو نکال دیا جائے تو مرنے والوں کی تعداد چھ سو سے زیادہ نہیں ہوگی مگریہ و جنگ تھی جس میں ساٹھ لاکھ آدمی کام آئے.اس عظیم الشان لڑائی کی یاد منانے کے لئے بھی دنیا نے 11.نومبر کا دن کہ مقرر کیا تھا.مگر ا.نومبر کا دن جس طرح سونا گذر جاتا ہے وہ لوگوں کی سے مخفی نہیں.ہندوستان کو جانے دو انگلستان جہاں گورنمنٹ اس دن کو تکلف سے مناتی ہے وہاں بھی لندن والوں کے سوا دیہات کے لوگوں کو کوئی دلچسپی نہیں ہوتی.پانچ سات سال تک تو اس دن کو خوب جوش سے منایا گیا تھا اور سمجھا گیا تھا کہ یہ ہمیشہ کے لئے ایک قومی تہوار بن جائے گا مگر اب اس دن کے ساتھ لوگوں کی کوئی دلچسپی نہیں رہی.امریکہ جو خود لڑائی میں شامل تھا وہاں تو لوگوں کو خیال بھی نہیں آتا کہ یہ دن کب آیا اور کب گذر گیا.ہندوستان میں اس دن صرف دو منٹ خاموش رہنے کو کہا جاتا ہے اور وہ بھی اس لئے کہ گورنمنٹ جانتی ہے اگر زیادہ وقت خاموش رہنے کے لئے کہا گیا تو کوئی مانے گا نہیں.مگر باوجود اس کے کہ سال میں سے صرف ایک دن اور وہ بھی صرف دو منٹ خاموش رہنا ہوتا ہے پھر بھی اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جنہیں یہ معلوم ہی نہیں ہو تا کہ وہ دو منٹ کب آئے اور کب گزر گئے.پہلے انہیں پتہ لگتا ہے کہ ابھی خاموش ہونے میں پانچ منٹ باقی ہیں اور پھر گھڑی دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دو منٹ پر پانچ اور منٹ گزر چکے ہیں اس طرح ان کے دو منٹ کبھی آتے ہی یہ جنگ ۱۹۱۸ء میں ختم ہوئی تھی کہ اور اب ۱۹۴۱ء ہے گویا اس یاد گار کو قائم ہوئے ابھی صرف ۲۳ سال ہوئے ہیں مگر اس ۲۳ سال کے اندر اندر یہ تحریک اپنی ساری طاقت اور دلکشی کھو بیٹھی ہے.اس کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ کا ایک مامور اور مرسل ایسے تاریک زمانہ میں پیدا ہوا جس
۳۳۴ کی تاریخ تک محفوظ نہیں اور ایسے ملک میں مبعوث ہوا جہاں کے رہنے والوں کو اگر وہ سمندر پار جاتے تو دھرم سے خارج کر دیا جاتا تھا اور خشکی کے ذریعہ بھی اگر کوئی ہندوستان سے باہر جاتا تو اسے بے دین سمجھا جاتا تھا.اس کے بعد اسے بڑی بڑی عبادتیں کرنی پڑتی تھیں اور بڑے بڑے حر جانے ادا کرنے پڑتے تھے تب اسے قوم میں داخل کیا جاتا تھا.۵، گویا اپنے ملک کے اندر ہی محدود رہنے والی ایک قوم جس کا غیر ممالک کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا اس کے ایک چھوٹے سے واقعہ کو صرف اس وجہ سے کہ وہ خدا تعالیٰ کے ایک مامور اور مرسل کے ساتھ پیش آیا.خدا تعالیٰ نے ہزارہا سال سے قائم کیا ہوا ہے اور زمانہ اس یادگار کو مٹا نہیں سکا حالانکہ رامچند رجی کے ساتھ اس وقت لاکھوں یا کروڑوں آدمی نہیں تھے.ان کا باپ ایک چھوٹی سی ریاست کا راجہ تھا.ہ پر ان کے ساتھ کسی واقعہ کا پیش آنا ایسا ہی تھا جیسے کپور تھلہ یا اس سے کم درجہ کی کسی ریاست کے راجہ کے ساتھ کوئی واقعہ پیش آ جائے مگر صرف اس لئے کہ وہ انسان خدا تعالیٰ کا پیارا تھا اور خدا تعالیٰ سے کامل تعلق رکھتا تھا اللہ تعالیٰ نے اس کی کامیابی اور فتح کو جو پیشگوئیوں کے ماتحت تھی اتنا عظیم الشان نشان بنا دیا کہ اس فتح کے ہزاروں سال بعد آج جب کہ ہندوستان کی ۳۸ کروڑ آبادی میں سے ۲۰ کروڑ سے زیادہ ہندو ہیں وہ ہیں کروڑ کی تمام آبادی اس روز ایسی خوشیاں مناتی ہے کہ شاید اپنے بیٹے کی پیدائش اور شادی بھی کسی نے ایسی خوشی نہیں منائی ہو گی.اب دیکھو کجا دو ہزار سال سے زائد عرصہ کا ایک واقعہ جس کا لوگوں کے قلوب پر اتنا عظیم الشان اثر ہے کہ آج بھی اس واقعہ کی یادگار میں ہر ہندو گھر میں خوشی منائی جاتی ہے اور کجایہ حالت کہ دنیا میں ایک بہت بڑی جنگ لڑی جاتی ہے اور اس میں تمام حکومتیں حصہ لیتی ہیں مگر وہ ساری حکومتیں مل کر بھی اس کی یادگار میں لوگوں کو دو منٹ خاموش نہیں کرا سکتیں کیسا عظیم الشان فرق ہے اور خدا کے فعل اور بندے کے فعل میں کتنا نمایاں امتیاز نظر آتا ہے.پھر اس واقعہ کے ساتھ ہی ایک اور عظیم الشان واقعہ مجھے یاد آیا جو دشمنوں کے مقابلہ میں رامچندرجی کی فتح سے بھی زیادہ شاندار ہے.رام چندر جی کی فتح کا نشان تو اس لئے مقرر کیا گیا تھا کہ خدا کا ایک مامور اور مرسل اپنے گھر سے نکال دیا گیا تھا، وطن سے بے وطن کر دیا گیا تھا مگر پھر خدا اسے فاتح اور کامیاب کر کے
۳۳۵ اور درمیانی مشکلات کو دور کر کے اپنے ملک میں واپس لایا اور اسے اپنی قوم کی اصلاح کا موقع دیا.مگر ایک اور شخص تھا جو رامچند رجی سے بھی پہلے گذرا تھا نام بھی اس کا رام سے ہی ملتا ہے حتی که بعض لوگ ای اشتراک کی وجہ سے اس طرف چلے گئے ہیں کہ رام اور ابراہیم ایک ہی شخص تھے کہ مگر وہ دنیوی لحاظ سے رام چندر جتنی حیثیت بھی نہیں رکھتا تھا.رام چندر کے باپ تو راجہ تھے مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک معمولی زمیندار کی حیثیت رکھتے تھے اور وہ بھی بعد میں زمیندار بنے.۸ پہلے اپنے چچا کی دکان پر مال بیچا کرتے تھے اور وہ دکان بتوں کی تھی.ان کا باپ بچپن میں فوت ہو چکا تھا چانے انہیں اپنی دکان پر بٹھا دیا ، مگر ان کا سودا بیچنے کا طریق عجیب تھا.یہودی تاریخوں میں آتا ہے کہ ایک دن دکان پر ایک بڑھا شخص آیا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس سے پوچھا کہ تمہیں کیا چاہئے.اس نے کہا مجھے ایک بت کی ضرورت ہے.حضرت ابراہیم نے اپنی دکان کے تمام بت اٹھا کر اس کے سامنے رکھ دیئے اور کہا ان میں سے جو پسند آئے وہ لے لو.اس نے خوب دیکھ بھال کے بعد ایک بت چنا اور جب اس کی قیمت دینے لگا تو باوجود اس کے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر اس وقت صرف چودہ پندرہ سال وہ قہقہہ مار کر ہنس پڑے.بڑھا ان سے کہنے لگا کہ لڑکے تم نے کیوں ؟ انہوں نے کہا بابا! آپ کی عمر کیا ہوگی اس نے ستر پچھتر یا اسی سال کی عمر بتائی حضرت ابراہیم علیہ السلام یہ سن کر پھر ہنسے اور کہنے لگے میرا چچا یہ بت کل بنا کے لایا ہے کیا اتنی بڑی عمر کے ہو کر تمہیں اس بت کے آگے سر جھکاتے ہوئے شرم نہیں آئے گی.اس بات کا اس بڑھے پر ایسا اثر ہوا کہ اس نے بت وہیں پھینکا اور چلا گیا.اے کی آپ کے چیرے بھائیوں نے اس واقعہ کی اپنے باپ سے شکایت کی اور کہا کہ اگر ابراہیم دکان پر بیٹھا رہا تو وہ اسے اجاڑ دے گا چنانچہ چچا نے ان کو دکان سے اٹھا دیا.پھر کچھ عرصہ کے بعد انہوں نے کئی تکالیف کی وجہ سے اپنا وطن چھوڑ دیا اور کنعان میں آگئے.یہاں آ کر انہوں نے کچھ گلے بکریوں کے رکھ لئے اور انہی پر گزارہ کرنا شروع کر دیا.الہ آہستہ آہستہ خدا نے ان کو برکت دی اور شاید سو دو سو بکریاں اور پندرہ میں گائیں ان کے پاس ہونگی یہ ان کی کل جائداد تھی گویا دنیوی لحاظ سے رام چندر جی کی دنیوی حیثیت کے مقابلہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کوئی حیثیت ہی نہ تھی.مگر ابراہیم کی یاد کو بھی چونکہ خدا نے ہمیشہ کے لئے زندہ رکھنا تھا اس لئے خدا نے ابراہیم سے کہا کہ اپنے بیٹے کو ذبح کر دو.حضرت ابراہیم علیہ
۳۳۶ السلام نے اسی وقت چھری لی بچے کو لٹایا اور چاہا کہ اسے ذبح کر دیں اتنے میں خدا نے ان پر الهام نازل کیا کہ یا اِبْرَاهِيمُه قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا لا اے ابراہیم! اس بات کو جانے دے تو نے جو کچھ دیکھا تھا اسے اپنی طرف سے تو نے پورا کر دیا ہے مگر ہمارا یہ منشاء نہیں تھا.اصل بات یہ ہے کہ اس رویا میں یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا بیٹا مکہ کے بے آب و گیاہ علاقہ میں چھوڑنا پڑے گا تاکہ وہاں ان لوگوں کی آبادی ہو جو.خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے والے اعتکاف کرنے والے اور دین کی خدمت کرنے والے ہوں سلا، چنانچہ ایسا ہی ہوا.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کو وہاں جا کر چھوڑ دیا ، اور خدا تعالیٰ نے رفتہ رفتہ ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل علیهما السلام دونوں نے کعبہ کی دوبارہ بنیاد رکھی اور اس طرح اسلام کی بنیاد کعبہ کی بنیاد کے ساتھ ہی قائم کر دی گئی.عید الاضحیہ جسے بڑی عید بھی کہتے ہیں در حقیقت اسی قربانی کی یادگار ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی.ھا، پھر دیکھ لو اس دن کو مسلمان کیسی خوشی کے ساتھ مناتے ہیں.امیروں کو جانے دو کئی غرباء بھی عید کے دن جانوروں کی قربانی کرتے اور اپنے دل میں بہت بڑی خوشی محسوس کرتے ہیں حالانکہ عید کے دن اتنا گوشت ہو تا ہے کہ اگر مسلمان صحیح طور پر تقسیم کریں تو کوئی گھر ایسا نہ رہے جس میں گوشت نہ پہنچ جائے.مکہ میں تو گوشت کی اس قدر کثرت ہوتی ہے کہ دُنبوں کو ذبح کر کے گڑھوں میں دبا دیا جاتا ہے.حج کے دنوں میں پچاس ساٹھ ہزار حاجی جمع ہوتے ہیں اور بعض دفعہ لاکھ ڈیڑھ لاکھ آدمی بھی اکٹھے ہو جاتے ہیں.پھر ہر شخص صرف اپنی طرف سے ہی قربانی نہیں کرتا بلکہ کوئی اپنے ماں باپ کی طرف سے قربانی کرتا ہے اور کوئی کسی اور رشتہ دار اور دوست کی طرف سے.میں نے ہی سات آٹھ دنے قربانی کئے تھے جن میں اپنے علاوہ ایک ایک دنبہ رسول کریم حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ اول کی طرف سے بھی تھا.اور جو زیادہ حیثیت رکھنے والے ہیں وہ تو ہیں ہمیں تمھیں تمھیں دینے قربانی کرتے ہیں اس طرح دنبوں کی تعداد ہزاروں سے متجاوز ہو کر لاکھوں تک پہنچ جاتی ہے.اتنے دنبوں کو بھلا کون کھا سکتا ہے اس لئے گورنمنٹ نے گڑھوں کا انتظام کیا ہوا ہوتا ہے.قصاب چھری پھیرتے اور کھال اتار کر فوراً گڑھے میں ڈال دیتے ہیں.البتہ ایسے موقع پر ادھر ادھر سے اعراب آجاتے ہیں اور وہ بعض موٹے تازے دنبے چھین جھپٹ کر لے جاتے ہیں.میں نے ہی جب دُنبے ذبح کرانے چاہے تو
قصاب کہنے لگا ذرا احتیاط سے کھڑے ہوں ایسا نہ ہو کہ کوئی چھین کر لے جائے کیونکہ آپ کے ایک دو دنبے بہت اچھے ہیں.میں نے تو اسے ہنسی ہی سمجھا مگر اس نے چھری پھیر کر ابھی اٹھائی بھی نہ تھی کہ میں نے دیکھا دُنبہ گھٹتا ہوا جا رہا ہے اور دیکھتے دیکھتے آنکھوں سے غائب ہو گیا.پس بے شک ایسا بھی ہوتا ہے مگر بدوی آکر گوشت لے جاتے ہیں مگر وہ بھی ایسا دُنبہ لے جاتے ہیں جو چنندہ ہو ورنہ وہاں استا دنبہ ذبح ہوتا ہے کہ جیسے بوجھ اٹھا کر پھینک دیا جاتا ہے اسی طرح لوگ دنبوں کو ذبح کر کے اور گڑھوں میں دبا کر چلے آتے ہیں.موجد تو یہ دن ساری دنیا میں نہایت اہتمام سے منایا جاتا ہے اور لوگ اس قدر جوش سے قربانی کرتے ہیں کہ ہندو مسلم فساد اس عید کا نشان مقرر ہو گیا ہے.گویا صرف بکرے اور دُنبے وغیرہ ہی ذبح نہیں ہوتے بلکہ کچھ ہندوؤں اور مسلمانوں کا خون بھی اس دن گرایا جاتا ہے.یہ جوش لوگوں کی طبائع میں آخر کیوں پایا جاتا ہے.اللہ ہی ہے جس نے طبائع میں یہ جوش پیدا کیا ہے ورنہ کجا حضرت ابراہیم علیہ السلام کا زمانہ جو آج سے چار ہزار سال پہلے آئے ، اور جن سے ساری دنیا کا نہ کوئی قومی تعلق تھا نہ مذہبی نہ نسلی اور نہ سیاسی.پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کوئی بڑے بادشاہ نہیں تھے اور نہ کوئی بڑے عالم.(عالم سے میری مراد دنیوی علوم جاننے والے کی ہے.جیسے سیاستدان یا ریاضی دان) پھر نہ وہ کوئی مشہور طبیب تھے نہ فلسفی تھے نہ تھے نہ سیاستدان تھے نہ انہوں نے ریاضی کی کوئی دریافت کی تھی اور نہ جغرافیہ یا علم ہیئت وغیرہ میں کمال حاصل کیا تھا صرف انہوں نے اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کا ارادہ کیا تھا.حالا نکہ یہ بات ایسی ہے جو ہندوستان میں آج کل بھی پائی جاتی ہے اور سینکڑوں بچے دیویوں پر قربان کر دیئے جاتے ہیں.کئی ظالم لوگ اپنی مالی تکالیف دور کرنے کے لئے اپنے یا کسی اور کے بچے کو لکشمی دیوی کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں.اسی طرح بعض لوگ مصائب سے نجات حاصل کرنے کے لئے کالی دیوی کے سامنے اپنے یا کسی اور کے بچہ کو ذبح کر دیتے ہیں کہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح ان کی مصیبتیں دور ہو جائیں گی اور ان کے دل اتنے سخت ہوتے ہیں کہ اس کا ان کی طبیعت پر کچھ بھی اثر نہیں ہوتا.سینکڑوں واقعات اس قسم کے ہوتے رہتے ہیں اور سینکڑوں بچے کالی دیوی یا لکشمی دیوی پر قربان کر دیئے جاتے ہیں مگر ان قربانی کرنے والوں کو کوئی جانتا بھی نہیں.زیادہ سے زیادہ ان کو اگر کوئی جانتا ہے تو پولیس والے جو مجرموں کو ہتھکڑی لگا لیتے ہیں.پھر ان پر مقدمہ چلتا ہے اور آخر انہیں سزا ہو جاتی ہے.اس پر بعض
1 ٣٣٨ اخبارات والے کوئی مضمون شائع کر دیتے ہیں اور ان کے پچاس ساٹھ پر چے زیادہ بک جاتے ہیں مگر دوسرے دن کوئی جانتا بھی نہیں کہ کیا ہوا تھا.اور ایک سال کے بعد تو تمام واقعات لوگوں کے ذہن سے اُتر جاتے ہیں مگر اس کے مقابلہ میں تم دیکھو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بچے کو مارا نہیں بلکہ اسے مارنے کے لئے صرف اپنی چھری اٹھائی تھی مگر اس چھری اٹھانے کو خدا نے اتنی اہمیت دی اتنی اہمیت دی کہ قوموں کی قومیں ملکوں کے ملک اور نسلوں کی نسلیں اس واقعہ کو یاد کر کے خوشی مناتی ہیں.ہندوستان میں بھی خوشی منائی جاتی ہے ، عرب میں بھی خوشی منائی جاتی ہے، ایران میں بھی خوشی منائی جاتی ہے ، چین میں بھی خوشی منائی جاتی ہے، سماٹرا میں بھی خوشی منائی جاتی ہے ، جاوا میں بھی خوشی منائی جاتی ہے، سنگا پور میں بھی خوشی منائی جاتی ہے ، ملایا میں بھی خوشی منائی جاتی ہے، امریکہ کے مختلف علاقوں میں بھی خوشی منائی جاتی ہے.غرض کس کس ملک کا نام لیا جائے کوئی بھی ایسا علاقہ نہیں جہاں مسلمان ہوں اور یہ عید منائی جاتی ہو حالانکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بچہ کو ذبح نہیں کیا تھا بلکہ ذبح کرنے کے ارادہ سے انہوں نے صرف چھری اٹھائی تھی.اب دیکھو کجا تو یہ حالت ہے کہ ساٹھ لاکھ آدمی ایک جنگ میں مارا جاتا ہے مگر میں سال تک قومیں اور حکومتیں مل کر بھی اس کی یاد گار کو قائم نہیں رکھ سکتیں اور کجا یہ حالت کہ ابراہیم جو سو دو سو بکریوں اور تمہیں چالیس گائیوں کا مالک تھا وہ خدا کے حکم کے ماتحت اپنے بچہ کو ذبح کرنے کے لئے صرف چھری اٹھاتا ہے اور خدا اس کی یاد گار کو دنیا میں ہمیشہ کے لئے قائم کر دیتا ہے اور آج تک وہ دنیا کے ہر حصہ میں بڑی شان و شوکت کے ساتھ منائی جاتی ہے.یہ تو وہ عید ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی سے تعلق رکھتی ہے مگر روزوں کی عید رسول کریم ماله الا اللہ کی عید ہے کیونکہ اس عید کا کسی پہلے زمانہ میں پتہ نہیں لگتا.رسول کریم سے ہی یہ عید جاری ہوئی ۱۸ مگر دیکھ لو اس دن بھی مسلمان کتنی خوشیاں مناتے ہیں حتی کہ وہ لوگ بھی خوشیاں مناتے ہیں جن کی حالت پر رونا آتا ہے.چنانچہ کئی لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو مہینہ بھر فاقہ کرتے ہیں اور عید کے دن پیٹ بھر کر کھانا کھاتے ہیں مگر کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو رمضان میں بھی فاقہ کرتے ہیں اور عید کو بھی فاقہ سے رہتے ہیں لیکن پھر بھی عید کے دن ان کے چہروں سے خوشی اس طرح پھوٹ پھوٹ کر ظاہر ہو رہی ہوتی ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ بڑے بڑے موٹے دُنبوں کی چربی کا پلاؤ کھا کر وہ باہر آئے ہیں.
۳۳۹ اب غور کرو اس خوشی کی کیا وجہ ہے؟ اور کیوں مسلمان اس عید کے دن خوش ہوتا ہے.اگر غور کرو تو تمہیں معلوم ہو گا کہ ایک مسلمان آج کے دن اس لئے خوش ہوتا ہے کہ آج ہمارے محمد مالی و خوش ہوئے تھے.پس چونکہ آج رسول کریم مالی اور خوش ہوئے تھے اس لئے ہر مسلمان بھی آج خوش ہوتا ہے.اور یہ چیز ایسی ہے جو فطرت انسانی میں داخل ہے فطرتا ہر انسان جب اپنے محبوب کو کسی بات پر خوش دیکھتا ہے تو وہ بھی خوش ہوتا ہے.اس کی ایک نہایت لطیف مثال آنحضرت ملا کے واقعہ میں ملتی ہے.رسول کریم ملی الا اللہ کا طریق کا تھا کہ جب مہمان آتے تو کچھ خود رکھ لیتے اور باقی کے لئے آپ مسجد میں اعلان فرما دیتے کہ اتنے مہمان آئے ہوئے ہیں کون کون دوست انہیں اپنے گھروں میں لے جا کر کھانا کھلا سکتے ہیں.اس پر کوئی ایک مہمان کو اور کوئی ایک سے زیادہ مہمانوں کو اپنے ساتھ لے جاتا اور اس طرح ان کی مہمان نوازی ہو جاتی.ایک دفعہ ایک مہمان آیا.رسول کریم ملی و یا لیلی نے اپنے گھروں سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ کسی گھر میں کھانے کے لئے کچھ نہیں.آپ نے مسجد میں اعلان کر دیا کہ ایک دوست مہمان آئے ہیں کوئی انہیں اپنے ساتھ لے جا سکتا ہے تو لے جائے.اس پر ایک غریب صحابی کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! انہیں میرے سپرد کر دیجئے.چنانچہ وہ مہمان کو اپنے ساتھ لے کر گھر گئے اور بیوی سے پوچھا کہ کچھ کھانے کو ہے.اس نے کہا کہ کچھ تھوڑا سا کھانا تو موجود ہے مگر وہ بچوں کے لئے بھی بمشکل کفایت کر سکے گا.میرا ارادہ یہ ہے کہ ہم کھانا اپنے بچوں کو کھلا دیں اور خود بھوکے رہیں.انہوں نے کہا رسول کریم میں میر کی تحریک پر ایک مہمان کو میں اپنے ساتھ لے آیا ہوں اس لئے بچوں کو دلاسہ دے کر بھوکا ہی سُلا دو اور کھانا مہمان کو کھلا دو.اس نے کہا بہت اچھا میں ایسا ہی کروں گی مگر ایک مشکل ہے اور وہ یہ کہ عرب کا مہمان اکیلا کھانا نہیں کھاتا وہ ضرور اصرار کرے گا کہ ہم بھی اس کے ساتھ کھانا کھائیں اور ونکہ کھانا صرف اسی کے لئے ہے اس لئے ہمیں سخت مشکل پیش آئے گی ہم اس کے ساتھ ھ کر کھانا کھانے سے انکار بھی نہیں کر سکیں گے اور کھا بھی نہیں سکیں گے کیونکہ کھانا تھوڑا ہ کا حکم اُس وقت تک نازل نہیں ہوا تھا.۲۰ اور عرب کے دستور کے مطابق مہمان گھر والوں کو بھی کھانے میں اپنے ساتھ شامل کرنے پر اصرار کیا کرتا تھا.الہ آخر کچھ سوچنے کے بعد وہ صحابی کہنے لگے میرے نزدیک اس کا حل یہ ہے کہ جب ہم سب کھانا کھانے بیٹھیں تو پرو
۳۴۰ میں تمہیں کہوں گا کہ روشنی ذرا تیز کرو اور تم اس وقت روشنی ٹھیک کرنے کے بہانہ سے اٹھ کر چراغ کو گل کر دیتا.اس پر میں کہوں گا کہ اب تو اندھیرا ہو گیا اور یہ ٹھیک نہیں اس لئے کسی ہمسایہ کے گھر جا کر آگ جلا لاؤ اور تم یہ جواب دے دیتا کہ اس وقت ہمسائے سو چکے ہیں انہیں تکلیف دینے کی کیا ضرورت ہے اندھیرے میں ہی کھانا کھا لیا جائے.مہمان بھی کہے گا کہ تکلیف کرنے کی کیا ضرورت ہے اندھیرے میں ہی کھانا کھا لیتے ہیں.اس پر اندھیرے میں ہم اس کے ساتھ بیٹھ جائیں گے اور منہ ہلا کر کھانا کھانے کی آواز نکالتے جائیں گے وہ سمجھے گا کہ ہم اس کے ساتھ کھانا کھا رہے ہیں.چانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا.عورت نے بچوں کو دلاسہ دے کر بھو کا سُلا دیا اور جب مہمان کے ساتھ میاں بیوی کھانا کھانے بیٹھے تو میاں اپنی بیوی سے کہنے لگا کہ ذرا روشنی تیز کر دو.ان دنوں مٹی کے دیئے ہوا کرتے تھے اس نے روشنی ٹھیک کرنے کے بہانہ سے اٹھ کر چراغ کو گل کر دیا اور اندھیرا ہو گیا.وہ صحابی کہنے لگے اب کسی ہمسایہ کے گھر جا کر آگ مانگ لاؤ.وہ کہنے لگی ہمسائے سب سو چکے ہیں اب میں کہاں سے روشنی لاؤں.اندھیرے میں ہی کھانا کھالو.مہمان بھی کہنے لگا تکلیف کرنے کی کیا ضرورت ہے اندھیرے میں ہی کھانا کھا لیتے ہیں.چنانچہ اندھیرے میں ہی کھانا کھانا شروع کر دیا گیا.اور وہ دونوں اس کے ساتھ بیٹھ کر خالی منہ ہلا ہلا کر کھانے کی آواز پیدا کرنے لگے.مہمان یہ خیال کرتا رہا کہ وہ بھی ساتھ ہی کھانا کھا رہے ہیں مگر دراصل وہ کچھ کھا نہیں رہے تھے.جب صبح ہوئی تو صحابی نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں گئے.نماز کے بعد رسول کریم میم نے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا آج خدا نے عرش سے مجھے ایک بات بتائی ہے.پھر اس کے بعد آپ نے ہی تمام واقعہ سنایا کہ کس طرح ایک شخص رات کو ایک مہمان اپنے ہاں لے گیا اور اس نے اپنی بیوی سے مشورہ کرنے کے بعد بچوں کو بھو کا سُلا دیا، روشنی گل کر دی اور خود اس کے ساتھ بیٹھ کر خالی منہ ہلا ہلا کر کھانے کی آواز نکالتے رہے.یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد آپ زور سے ہنسے قہقہہ مار کر نہیں کیونکہ قہقہہ مارنا آپ کی عادت نہیں تھی ۲۲ بلکہ نسبتا کچھ بلند آواز سے.پھر آپ نے صحابہ سے فرمایا تم جانتے ہو میں کیوں ہنسا ہوں.انہوں نے کہا یا رسول اللہ ہمیں تو معلوم نہیں.آپ نے فرمایا خدا اس واقعہ کو دیکھ کر عرش پر ہنسا اس لئے میں بھی اس واقعہ پر ہنس پڑا.۲۳ یہی حال اس دن مسلمانوں کا ہوتا ہے ان کی خوشی بھی اس دن کھانے کے لئے نہیں ہوتی بلکہ اس لئے ہوتی ہے کہ ان کا آقا اور محبوب محمد رسول اللہ علی ال اس دن خوش
۳۴۱ ہو ا تھا.گو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے بعض لوگوں کے لئے رمضان ایسا ہی آتا ہے جیسے گھوڑے کے لئے خوید ۲۴ ہوتی ہے وہ بھی ان دنوں خوب گھی استعمال کرتے اور قسم قسم کے مرغن کھانے کھاتے ہیں.سحری اور افطاری کا خاص طور پر انتظام کیا جاتا ہے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ رمضان تو لوگوں کو دبلا کرنے کے لئے آتا ہے مگر وہ رمضان کے بعد پہلے سے بھی زیادہ موٹے ہو جاتے ہیں اور کئی لوگ تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو روزہ تو نہیں رکھتے مگر افطاری ضرور کرتے ہیں.لطیفہ مشہور ہے کہ ایک لونڈی تھی جو سحری کے وقت ضرور اٹھا کرتی تھی مگر روزہ نہیں رکھتی تھی.ایک دن اس کی مالکہ نے اسے کہا کہ لڑکی! تو اپنی نیند کیوں خراب کرتی ہے جب تو نے روزہ نہیں رکھنا ہو تا تو سحری کے وقت اٹھنے کا کیا فائدہ؟ وہ کہنے لگی بی بی نماز میں نہیں پڑھتی ، روزہ میں نہیں رکھتی اب سحری بھی نہ کھاؤں تو کافر ہی ہو جاؤں.گویا شریعت کے تین ارکان ہیں.نماز روزہ اور سحری.بچوں کو دیکھا جائے تو وہ بھی سحری کے وقت ضرور اُٹھتے ہیں مگر دن بھر انہیں روزہ کا خیال تک نہیں آتا.تو رمضان بھی آسوده حال لوگوں کے لئے خوید بن جاتا ہے اور وہ اس قدر مرغن غذائیں ان دنوں استعمال کرتے ہیں کہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جاتے ہیں لیکن پھر بھی عید کے دن وہ خاص خوشی محسوس کرتے ہیں.اس کے مقابلہ میں ایک اور طبقہ ہے جس کے لئے رمضان اور عید دونوں یکساں ہوتے ہیں.رمضان میں بھی انہیں روٹی نہیں ملتی اور عید کے دن بھی انہیں روٹی نہیں ملتی.صرف ایک چھوٹا سا طبقہ ایسے لوگوں کا رہ جاتا ہے جو صحیح طریق پر روزے رکھتے ہیں اور پھر ان کے ختم ہونے پر اس وجہ سے کہ تکلیف کے دن جاتے رہے وہ راحت اور آرام محسوس کرتے ہیں اور بچے ایماندار تو پھر ان میں اور بھی کم ہوتے ہیں مگر ان کے لئے رمضان کا جانا کسی خوشی کا موجب نہیں بلکہ رنج کا موجب ہوتا ہے.اگر صرف رمضان کے گذرنے کا سوال ہو تا تو بچے مومن اس دن خوش ہونے کی بجائے غمگین ہوتے مگر وہ صرف اس لئے خوش ہوتے ہیں کہ رسول کریم ملی لی ہے اس دن خوش ہوئے تھے.ورنہ ہم نے تو دیکھا ہے رمضان کے ختم ہونے پر بہت لوگ حسرت کے ساتھ آہیں بھر کر کہتے ہیں کہ بڑی برکتوں کے دن تھے جو چلے گئے اب کوئی خوش نصیب ہی ہوں گے جو اگلے سال پھر رمضان پائین گے اور پھر انہیں خاص عبادت
سوم ۳ اور دعاؤں کا موقع ملے گا.پس ان کے لئے رمضان کا فاقہ کسی دکھ کا موجب نہیں بلکہ راحت اور آرام کا موجب ہوتا ہے اور انہیں رمضان کے ہر فاقہ میں رحمت کے خزانے پوشیدہ نظر آتے ہیں.پس عید کے دن ہمارا خوش ہونا اس لئے نہیں ہوتا کہ رمضان گذر گیا بلکہ در حقیقت ہماری عید کی خوشی اس لئے ہوتی ہے کہ اس روز محمد رسول اللہ علی خوش ہوئے تھے.پس یہ عید محمدملی یا لیلی کی خوشی کی یاد گار ہے اور عید الاضحیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی یاد گار ہے.اب دیکھو کہ اس عید کے آنے پر کس طرح تمام دنیا کے مسلمانوں میں خوشی کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے اور کس طرح مسلمان خواہ وہ مشرق میں رہتے ہوں یا مغرب میں اس دن کو مناتے ہیں اور یہ عید چند سالوں سے نہیں بلکہ ساڑھے تیرہ سو سال سے منائی جاتی ہے.مگر ساڑھے تیرہ سو سال گذرنے کے باوجود اسی جوش اور اسی شوق کے ساتھ اس عید کو منایا جاتا ہے جس جوش اور جس شوق کے ساتھ شروع میں اس عید کو منایا گیا تھا اور اس ایک دن کی خوشی لانے کے لئے مسلمان تھیں دن کے روزے رکھتے اور مسلسل تمہیں دن اللہ تعالیٰ کے لئے فاقہ کرتے ہیں محض اس لئے کہ انہیں وہ خوشی حاصل ہو جو محمد مالی کو اس روز حاصل ہوئی تھی اور محمدم ل ل ا ل لیلی کی خوشی اس لئے تھی کہ آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ میری قوم خدا کے لئے فاقے برداشت کرنے اور خدا کے لئے اپنی نیند ترک کرنے اور خدا کے لئے اپنی نسل کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئی ہے یہی نکتہ تھا جس کی وجہ سے محمد میں تم کو خوشی ہوئی.آپ نے جب دیکھا کہ مسلمان خدا کے لئے تمہیں دن فاقہ برداشت کرتے رہے ہیں تھیں دن تک وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرتے رہے ہیں اور تمہیں دن تک وہ مشقت اور تکالیف برداشت کرتے رہے ہیں تو تمہیں دن کی اس قربانی کے بعد محمد ل کی خوشی کی کوئی انتہاء نہ رہی اور انہوں نے کہا کہ خدا کا یہ کتنا بڑا احسان ہے کہ میرے ذریعہ اس نے ایک ایسی قوم تیار کر دی ہے جو خدا کے لئے فاقہ کرنے ، خدا کے لئے عبادتیں کرنے ، خدا کے لئے دعائیں کرنے اور خدا کے لئے اپنی نیند ترک کرنے کے لئے تیار ہے.غرض خوشی کے وہ ایام جو مذاہب نے مقرر کئے ہیں ان کو آج تک ہزاروں سال گذرنے کے باوجود بڑے جوش کے ساتھ منایا جاتا ہے.مگر جو ایام قومیں یا حکومتیں مقرر کرتی ہیں وہ چند سالوں میں ہی اپنی تمام دلکشی کھو بیٹھتے ہیں.عیسائیوں میں ہی جو نہ ہی عیدیں مقرر ہیں وہ ہر گوشہ عالم میں بڑے جوش سے منائی جاتی ہیں.ان کے لئے لنڈن کی ضرورت نہیں،
۳۳ ان کے لئے گورنمنٹ کے انتظام کی ضرورت نہیں.ایک غریب سے غریب شخص جو سکاٹ لینڈ کے ایک جھونپڑے میں رہتا ہے وہ بھی کسی مذہبی خوشی کے دن اپنے گھر میں بیٹھ کر عید منا رہا ہوتا ہے اور سمجھتا ہے کہ دنیا کے سارے میلے اس کے گھر میں جمع ہیں.یہی حال یہودیوں اور سکھوں وغیرہ کا ہے جو ایام سکھوں کے گوروؤں نے مقرر کئے ہیں وہ سینکڑوں سال گزرنے کے باوجود آج بھی اس خوشی کے ساتھ منائے جاتے ہیں کہ لوگ اپنی ذاتی خوشیاں اس دن بھول جاتے ہیں اور ان مذہبی ایام کی خوشیوں میں شریک ہو جاتے ہیں.یہ کتنا بڑا امتیاز اور کتنا عظیم الشان نشان ہے جو ہمیں نظر آتا ہے کہ دنیا میں ایک طرف ایک اتنی بڑی جنگ لڑی جاتی ہے جس میں پندرہ ہمیں حکومتیں شامل ہوتی ہیں ، لاکھوں آدمی مارے جاتے ہیں اور پھر جب وہ جنگ ختم ہوتی ہے تو حکومتیں فیصلہ کرتی ہیں کہ اس کی یادگار میں فلاں دن منایا جایا کرے مگر ابھی ۲۳ سال بھی نہیں گزرتے کہ وہ دن اپنی تمام شان کھو بیٹھتا ہے.صرف چند شہروں میں اسے رسمی طور پر منایا جاتا ہے اور محض اس ڈر سے کہ لوگ تعمیل نہیں کریں گے صرف دو منٹ خاموش رہنے کے لئے کہا جاتا ہے مگر دو منٹ چپ رہنے والے بھی نہیں ملتے اور جو لوگ اس دن خوشی مناتے ہیں ان میں سے اکثر صرف اس لئے خوشی مناتے ہیں کہ ڈپٹی کمشنر یا کمشنر یا گور نر سے جا کر کہہ سکیں کہ ہم نے اس دن یہ کام کیا ہے تاکہ خطاب کی لسٹوں میں یا آنریری مجسٹریٹوں کی لسٹ میں ان کا نام آجائے.مگر دیوالی کے لئے عید کے لئے ہندوؤں، سکھوں اور عیسائیوں کے دوسرے مذہبی ایام کے لئے بغیر کسی تحریک کے بے انتہاء جوش ہوتا ہے.ہر مقام پر ہر شخص ان دنوں میں خوشی مناتا ہے بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ ان دنوں کی خوشی ہر مذہب کے مومنوں کے لئے ایسی زیادہ ہوتی ہے کہ کئی مخلص ایسے نکلیں گے کہ اگر انہیں کہا جائے کہ تم اپنی عید نہ مناؤ تمہیں آنریری مجسٹریٹ بنا دیا جائے گا تو وہ کہیں گے کہ ہم دس لاکھ لعنت تمہاری آنریری مجسٹریٹی پر ڈالتے ہیں اور ہم اپنی عید چھوڑنے کے لئے تیار نہیں.یہ کتنا عظیم الشان فرق ہے جو خدا کے کاموں میں اور دنیا کے کاموں میں نظر آتا ہے.اور کس طرح اس سے یہ امر ظاہر ہوتا ہے کہ جس بات کو خدا تعالیٰ قائم کرنا چاہتا ہے وہ خود بخود دلوں میں گھر کرتی چلی جاتی ہے اور کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی اس کو مٹا نہیں سکتی.مگر جس چیز کو دنیا قائم کرنا چاہے وہ نہایت پیچ نہایت کمزور اور نہایت ، ناپائیدار ہوتی ہے.اس سے ہمیں یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ ہم سب کو یہ کوشش کرنی چاہئے
سلام سلام سلام کہ تمہاری خوشیاں وہ ہوں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آئیں تا کہ ان کو پائیداری اور دوام حاصل ہو.اپنی ذاتی خوشیاں نہ ہوں اور نہ گورنمنٹوں کی تجویز کی ہوئی خوشیاں ہوں بلکہ ہماری تمام خوشیاں اور ہماری تمام مسرتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوں تاکہ وہ ہمارے لئے اور ہماری آئندہ نسلوں کے لئے صحیح معنوں میں راحت اور آرام کا موجب ہوں اور ان کو بقا اور دوام حاصل ہو.ارم الفضل ۴.نومبر ۱۹۴۱ء) شیعہ حضرات ہر سال دس محرم کو حضرت امام حسین کی شہادت (۱۰.محرم ۶۱ھ) کی یاد میں سوگ مناتے ہیں.حضرت امام شہید یزید کی فوجوں کے ساتھ لڑتے ہوئے کربلا کے میدان میں شہید ہوئے تھے.( تاریخ الطبری الجزء الخامس صفحہ ۴۰۰) انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا.جلد ۲ صفحہ ۳۸۷ زیر لفظ Armistice day جنگ عظیم اول (۱۹۱۴ء.۱۹۱۸ء) کا بیان ہے.منوسمرتی ادھیائے ۳.منوسمرتی ادھیائے ۴.اشلوک ۳۸.منوسمرتی ادھیائے ۴.اشلوک ۷۶ حضرت رام چندر اجودھیا کے راجہ دسرتھ کے بیٹے تھے (انسائیکلو پیڈیا ریلیجن اینڈ ایتھکس جلد ۱۰ صفحه ۵۶۷ پیدائش باب ۱۲- آیت ۲ تا ۹ جیوش انسائیکلو پیڈیا جلدا صفحه ۸۶ زیر لفظ ABRAHAM ايضاً ال پیدائش باب ۱۲ آیت ۲ تا ۹ ا الصفت : ۱۰۳ تا ۱۰۶ ١٢٦ :ابراهیم: ۳۸ البقرة : ۱۲۶ ۱۴ صحیح بخارى كتاب الانبياء باب يزفون النسلان في المشي ها تفسیر در منثور جلد ۴ صفحه ۳۶۱
۳۲۷۵ تفسیر کبیر امام رازی جلد اول صفحه ۴۸۶ کا ہوشیار پور سے شائع ہونے والے ایک ماہوار (ہندی) رسالہ ” و شو جیوتی بابت ماہ نومبر ۱۹۶۸ء میں ایک خبر چھپی ہے:."گذشتہ ۲۱.مئی کو راجستھان کے ضلع اودے پور میں ایک تالاب کی بنیاد رکھتے وقت ایک ٹھیکیدار نے ایک بارہ برس کی عمر کے بچے گورنام سنگھ کو قتل کر کے اس کی بھینٹ دیدی." ۱۸ مدینہ میں ۲ھ میں رمضان کے روزے فرض ہوئے اور پہلی دفعہ عید الفطر منائی گئی.صحیح بخاری کتاب بنيان الكعبة باب ايام الجاهلية - تاريخ الطبرى الجزء ۳ صفحه ۱۲۸۱ تاریخ طبری جلد ۲ صفحه ۴۱۸ مطبوعہ دار المعارف مصر ۱۹۶۱ء ۱۹ صحیح بخاری کتاب مواقيت الصلوة باب السمر مع الاهل والضيف - صحیح مسلم كتاب الاشربة باب اكرام الضيف و فضل ايثارم ۲۰ ۵ھ ہجری میں آنحضرت ملی ایلیا ای میل کی حضرت زینب بنت حجش کے ساتھ شادی کی تقریب سعید کے دوران پہلی بار پردہ کا حکم نازل ہوا.الاحزاب : ۶۰ بخاری کتاب التفسير باب قوله لا تدخلوا بيوت النبى الخ تاریخ طبری جلد ۲ صفحه ۵۷۲ مطبوعہ دار المعارف مصر ۱۹۶۱ء ال صحیح بخاری کتاب مواقيت الصلوة باب السمر مع الاهل والضيف - صحيح بخارى كتاب الادب باب التبسم و الضحک شمائل ترمذی ۲۲ ۳۳ باب كيف كان كلام رسول الله صلى الله عليه وسلم - صحیح مسلم كتاب الاشربة باب اكرام الضيف و فضل ايثاره ۲۴ خونید : ہرے جو.جوی یا گندم جو گھوڑے کو کھلاتے ہیں (علمی اردو لغت صفحہ ۲۹۱ مطبوعہ ۱۹۹۶ ء لا ہور)
سلام ۳ (۳۲) (فرموده ۱۲ اکتوبر ۱۹۴۲ء بمقام عید گاہ.قادیان) اب رمضان گرمیوں کی طرف آرہا ہے اور عید کی نماز ایسے وقت پر ہوتی ہے کہ جس میں گرمی زیادہ ہو جاتی ہے اس لئے لازماً کچھ تو خطبوں کو چھوٹا کرنا پڑے گا اور شاید اس غرض کے لئے جگہ بدلنی بھی ضروری ہو یا پھر زائد انتظام سائبانوں کا کرنا پڑے گا اس لئے میں اس کے متعلق منتظمین کو ابھی سے توجہ دلا دیتا ہوں.آج بھی باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ نے صبح بارش نازل کر دی تھی کافی گرمی ہے اور دھوپ میں کھڑا ہونا لوگوں کے لئے مشکل ہو رہا ہے.پس یا تو سائبان اور خریدے جائیں اور وہ بھی آج کل خرید نے مشکل ہیں یا باغ میں پہلے کی طرح نماز عید ہوا کرے یا پھر بہت جلدی نماز ہو جایا کرے بہر حال آئندہ ان تینوں صورتوں میں سے کوئی ایک صورت اختیار کرنی چاہئے.آج میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ عید کا دن جس کے معنی در حقیقت لوٹنے والے دن کے ہیں.ہمارے لئے بہت سے سبق رکھتا ہے مگر ان میں سے ایک سبق یہ بھی ہے کہ اسلام میں عید وہی ہوتی ہے جس میں تمام لوگ جمع ہوتے ہیں اور اردگرد کے علاقہ کے لوگ ایک جگہ اکٹھے ہو جاتے ہیں.چنانچہ ہماری جو چھوٹی عید کہلاتی ہے وہ بھی ایسی ہی ہوا کرتی ہے اور جو بڑی عید کہلاتی ہے وہ بھی ایسی ہی ہوا کرتی ہے اور ہمارے جمعہ کا نام ہی جمعہ ہے جس میں لوگوں کے اجتماع کا مفہوم پایا جاتا ہے.اس کے خلاف دوسری قوموں کی عید میں اس طرح نہیں ہوتیں.مثلاً عیسائیوں میں کرسمس کی عید ہوتی ہے اس میں لوگ اس طرح جمع نہیں ہوتے اپنے اپنے گھروں میں رشتہ دار بے شک اکٹھے ہو جاتے ہیں لیکن ہماری عیدوں کی طرح کسی ایک مقام پر سب لوگوں کا اجتماع ضروری نہیں ہو تا.اسی طرح بعض اور قوموں میں بے شک بعض مواقع پر اجتماع ہوتا ہے مثلاً دسہرہ وغیرہ ہے مگر وہ اجتماع مذہب کا حصہ نہیں ہو تا.یعنی ان کے مذہب نے یہ حکم نہیں دیا ہو تاکہ دسرے پر اکٹھے ہو جاؤ بلکہ اس دن وہ ایک کھیل کھیلتے ہیں اور اس کھیل کو دیکھنے کے لئے لوگ آ جاتے ہیں.یوں تو بندر
نچانے والا بھی جب بندر نچاتا ہے تو لوگ اس کے ارد گرد جمع ہو جاتے ہیں مگر اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ بند ر نچانے والے کا یا اکٹھے ہونے والے لوگوں کا مذہب اور عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ اس موقع پر انہیں اکٹھے ہو جانا چاہئے.اسی طرح لوگ تھیٹروں میں جمع ہو جاتے ہیں مگر اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ جو لاہور کے ساکن ہیں یا امر تعرکے کے ساکن ہیں یا راولپنڈی کے ساکن ہیں یا سیالکوٹ کے ساکن ہیں ان سب کا عقیدہ ہے کہ ہر روز رات کے نو بجے تھیئیٹر دیکھنے کے لئے جمع ہو جانا چاہئے.یہاں عقیدے کا کوئی سوال نہیں بلکہ ایک تماشہ دیکھنا ان کے مد نظر ہوتا ہے اور اسی غرض کے لئے وہ جمع ہوتے ہیں.پس دسہرے وغیرہ پر جو اجتماع ہوتا ہے اس سے یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ وہ کوئی قومی یا مذہبی اجتماع ہوتا ہے بلکہ وہ انفرادی اجتماع ہوتا ہے اور ہر شخص اپنی طبیعت اپنے شوق اپنے رجحان طبع اور اپنی اغراض کے مطابق آجاتا ہے خدا نے یہ حکم نہیں دیا ہو تاکہ وہاں سب لوگ جمع ہو جائیں.یا مثلا دیوالی ہوتی ہے جس کے آنے پر گھروں اور بازاروں میں دیئے جلائے جاتے ہیں یہ بھی ایسی ہی چیز ہے.میں ایک دفعہ دیوالی کے موقع پر لاہور میں تھا اور میں نے دیکھا کہ لوگوں کے اژدھام کی وجہ سے راستے میں چلنا مشکل ہو گیا مگر پھر بھی جو لوگ اس دن جمع ہوتے ہیں وہ ایک تماشہ کے طور پر جمع ہوتے ہیں اس لئے جمع نہیں ہوتے کہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ جاؤ اور انار کلی میں جمع ہو جاؤ.یا جاؤ اور شہر کے کسی اور بازار میں جمع ہو جاؤ بلکہ جمع ہونا ان کی اپنی مرضی پر منحصر ہوتا ہے.جس کا دل چاہتا ہے چلا جاتا ہے اور جس کا دل نہیں چاہتا نہیں جاتا.لیکن ہم لوگ جو اس جگہ پر جمع ہوتے ہیں محض خدا تعالیٰ کے حکم اور اس کے ارشاد کے ماتحت جمع ہوتے ہیں.پس اس لحاظ سے صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے لوگوں کو ایک خاص جگہ جمع ہونے کا حکم دیا ہے اور اسی کا نام اس نے عید رکھا ہے.چنانچہ رسول کریم میں اللہ فرماتے ہیں جمعہ ہمارے لئے عید ہے ، اور عید کا نام تو عید ہے ہی گویا اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے قوم کے جمع ہونے کا نام عید رکھا ہے.بظاہر یہ ایک معمولی بات معلوم ہوتی ہے لیکن در حقیقت اس میں ایک بہت بڑا نکتہ پوشیدہ ہے.لوگ آج کل جتھوں پر اور قوموں پر اور حکومتوں کے اجتماع پر بڑا زور دیتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ اس اجتماع کے ساتھ ان کے مذہب کا کس حد تک تعلق ہے.اس نقطہ نگاہ کے ساتھ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ان کا مذہب انہیں یہ تعلیم نہیں دیتا کہ ساری قوم ایک خاص دن ایک
خاص مقام پر جمع ہو جایا کرے اور خاص طور پر اللہ تعالیٰ کی عبادت بجالایا کرے یہ صرف اسلام ہی ہے جس نے جمعہ کے علاوہ سال میں دو دن ایسے رکھے ہیں جس میں تمام شہر کے لوگوں کو ایک جگہ جمع ہونے کا حکم دیا ہے.پھر اس میں بھی اسلامی اجتماع کو ایک خاص خصوصیت حاصل ہے.بے شک جمعہ کو دوسری قوموں کے بعض دنوں سے اشتراک حاصل ہے.مثلاً بعض اقوام سبت کو قابل احترام سمجھتی ہیں، بعض اتوار کے دن مندروں اور گرجوں میں عبادت کرنا ضروری سمجھتی ہیں مثلاً عیسائی ہیں ان میں سے اکثر اتوار کے دن گرجے میں ضرور عبادت کرتے ہیں اسی طرح ہندو بھی اتوار کو اپنے اپنے مندروں میں عبادت کرتے ہیں مگر اس میں بھی ہمیں ایک اور فرق نظر آتا ہے جو اسلام کو امتیاز عطا فرماتا ہے اور وہ یہ کہ اسلامی مسئلہ یہ ہے کہ جمعہ کے دن تمام شہر کے لوگ ایک ہی مسجد میں جو جامع مسجد یا بڑی مسجد کہلاتی ہے جمع ہوں ، مگر ہندوؤں اور عیسائیوں میں ایسی کوئی شرط نہیں.ہندو ہر مندر میں جمع ہو سکتے ہیں.اسی طرح عیسائی اتوار کو ہر گر جے میں جا کر عبادت کر سکتے ہیں انہیں مذہبی لحاظ سے یہ حکم نہیں کہ وہ ایک گرجے مندر میں جمع ہوں یا ایک گرجے میں عبادت کے لئے اکٹھے ہوں لیکن اسلام نے یہ مسئلہ بتایا ہے کہ جمعہ کے دن شہر کے تمام لوگ ایک ہی مسجد میں اکٹھے ہوں اور سب مل کر اللہ تعالیٰ کی عبادت بجالائیں.پس اسلام کے نزدیک حقیقی خوشی وہ ہے جب تمام لوگ جو ایک جتھے اور گر وہ میں شامل ہوں ایک جگہ جمع ہو جائیں اور پھر اس اجتماع کی یہ خصوصیت رکھی کہ اس میں بڑے اور چھوٹے کا کوئی فرق نہیں.مسجد میں اگر کوئی بڑے سے بڑا آدمی بھی بیٹھا ہو اس کے ساتھ اسی دن کا نو مسلم جو خاکروبوں یا سائنسیوں میں سے آیا ہو کھڑے ہو کر نماز پڑھ سکتا ہے چاہے وہ بڑا آدمی بادشاہ ہی کیوں نہ ہو.یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ یہ محض مسلمانوں کا عقیدہ ہے اس پر کبھی عمل نہیں ہوا کیونکہ واقعہ یہ ہے کہ شروع سے مسلمانوں نے اس پر نہایت سختی سے عمل کیا ہے.چنانچہ میں نہیں کہہ سکتا اب وہ جگہ ہے یا نہیں ممکن ہے وہ جگہ گرادی گئی ہو مگر جب میں عرب ممالک میں گیا تو اُس وقت میں نے دیکھا کہ ایک مسجد کی ایک جہت میں ایک حجرہ بنا ہوا تھا اور اس کے ارد گرد کٹہرا لگا ہوا تھا.میں نے بعض لوگوں سے اس کے متعلق دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ پرانے زمانہ میں جب بادشاہ آتے تھے تو وہ اس حجرہ میں نماز پڑھا کرتے تھے اور اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ ایک دفعہ کوئی بادشاہ آیا اور اس کے ساتھ ہی ایک کتاس یعنی جھاڑو دینے والا بیٹھ گیا.اس کے نوکروں نے اسے ہٹانا چاہا تو سب مسلمان اور ،
23 الله ۳۴۹ قاضی پیچھے پڑ گئے اور انہوں نے کہا کہ یہ خدا کی مسجد ہے یہاں چھوٹے اور بڑے کا کوئی سوال نہیں.چنانچہ اس کو تو نہ اٹھایا گیا مگر بادشاہ پر اس کا ایسا اثر ہوا کہ اس نے جگہ بدل کر پیچھے کی طرف اپنے لئے حجرہ بنوالیا.میں نے جب یہ واقعہ سنا تو اپنے دل میں کہا کہ اسلام کے ایک حکم کی بے حرمتی کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے آئندہ اس سے مسجد میں نماز پڑھنے کی توفیق چھین لی کیونکہ جس جگہ حجرہ بنایا گیا تھا وہ مسجد کا حصہ نہیں تھا بہر حال مسلمانوں نے نہایت سختی سے اس حکم پر عمل کیا ہے.دیگر بہت سی باتوں میں انہوں نے امتیازات قائم کر لئے رشتوں ناطوں کا ان میں امتیاز پایا جاتا ہے، قومیت کا ان میں امتیاز پایا جاتا ہے، باہمی معاملات ہیں مثلاً میں ان میں امتیاز پایا جاتا ہے ، امیر اور غریب کا ان میں امتیاز پایا جاتا ہے، سید دوسری قوموں کو ذلیل سمجھتے ہیں اور بعض دوسری قوموں کے افراد سیدوں کو ذلیل سمجھتے ہیں اور اس طرح ان میں کئی قسم کے امتیازات پائے جاتے ہیں.میں نے یہاں ایک دفعہ ایک کشمیری لڑکی کا ایک غیر ملکی معزز سمجھی جانے والی قوم کے لڑکے سے رشتہ طے کیا جب لڑکی کی نانی کو معلوم ہوا تو وہ اپنے سر پر ہاتھ مار کر کہنے لگی کہ ہمارے لئے اب کذات ہی رہ گئے ہیں.اسی طرح ایک دفعہ ایک دوست میرے پاس آئے اور کہنے لگے آپ میری ہمشیرہ کے لئے کوئی رشتہ تلاش کر دیں.اور یہ بھی کہا کہ والد صاحب نے بھی یہی کہا ہے کہ میری لڑکی کا رشتہ آپ ہی کہیں کریں.میں نے کہا آپ کی کوئی شرط ہو تو مجھے بتا دیں تاکہ رشتہ کی تلاش کے وقت اس شرط کو ملحوظ رکھا جائے.کہنے لگے شرط کی کوئی ضرورت نہیں لڑکا متقی ہو اور اچھے خاندان میں سے ہو.میں نے کہا "اچھا خاندان " بڑے وسیع معنی رکھتا ہے اور پھر میں نے انہیں یہی واقعہ سنایا کہ ایک کشمیری لڑکی کا میں نے ایک جگہ رشتہ طے کیا اور وہ لڑکا میرے نزدیک معزز اقوام میں سے تھا مجھے اب یاد نہیں وہ سید تھا یا پٹھان تھا بہر حال وہ ایسی ہی قوم میں سے تھا جو بڑی سمجھی جاتی ہے مگر اس لڑکی کی نانی کو جب معلوم ہوا تو وہ کہنے لگی اب ہمارے لئے کذات ہی رہ گئے ہیں.تو میں نے کہا آپ بھی بتا دیجئے کہ آپ کس کو کذات سمجھتے ہیں اور کس کو اچھی ذات والا سمجھتے ہیں تاکہ آپ کے منشاء کے مطابق رشتہ تلاش کیا جائے.کہنے لگے کچھ نہیں صرف تقویٰ ہو اور لڑکا اچھی قوم سے تعلق رکھتا ہو.میں نے پھر کہا کہ اچھی قوم سے آپ کی کیا مراد ہے اور میں نے خود ہی اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملک میں دو قسم کی قومیں معزز سمجھی جاتی ہیں.ایک قو میں تو وہ ہیں جو ہندوستان کے اندر رہنے والی ہیں اور کچھ قو میں وہ ہیں جو باہر سے
۳۵۰ ہندوستان میں آئی ہیں.ہمارے ملک میں عام طور پر برہمنوں اور راجپوتوں کو بڑا سمجھا جاتا ہے اور جو قومیں باہر سے آئی ہیں ان میں سید قریشی ، مغل اور پٹھان اچھے سمجھے جاتے ہیں یہ چار قومیں ہیں جو باہر سے ہندوستان میں آئی ہیں جو افغانستان اور ایران سے آئے ہیں.وہ پٹھان کہلاتے ہیں جو ترکوں میں سے آئے ہیں وہ مغل کہلاتے ہیں اور جو عرب میں سے آئے ہیں وہ سید اور قریش کہلاتے ہیں.چاہے حقیقت میں وہ سید ہوں یا نہ ہوں، قریشی ہوں یا نہ ہوں، وہ کہتے اپنے آپ کو یہی ہیں.اسی طرح کچھ ہندوستانی قومیں ہیں جو بڑی سمجھی جاتی ہیں برہمن اور مشتری اعلیٰ سمجھے جاتے ہیں اور دیش اور شودر اونی سمجھے جاتے ہیں.پس آپ بتا دیں کہ آپ ان میں کس کو اعلیٰ سمجھتے ہیں اور کس کو ادنی تاکہ آپ کے منشاء کے مطابق رشتہ تلاش کیا جائے.جب میں نے اس طرح نام بنام قوموں کو گنایا اور ان سے پوچھا کہ آپ کے لئے کیسا رشتہ ہو ؟ سید ہو ، قریشی ہو ، مغل ہو ، پٹھان ہو، برہمن ہو ، راجپوت ہو تو وہ کہنے لگے کوئی ہو قریش ہو ، مغل ہو ، پٹھان ہو ، برہمن ہو ، راجپوت ہو ، سید کا لفظ وہ چھوڑ گئے.اس پر میرے دل میں شبہ پیدا ہوا کہ انہوں نے سید کا لفظ جان بوجھ کر چھوڑا ہے یا غلطی سے چھوڑ دیا ہے مگر میں نے اس بارہ میں ان سے سوال کرنا مناسب نہ سمجھا اور کہا کہ میں پھر دُہرا دیتا ہوں آپ اچھی طرح غور کر لیں اور اپنے والد صاحب سے بھی دریافت کر لیں.ہمارے ملک میں باہر سے جو اقوام آئی ہیں ان میں سید قریش، مغل اور پٹھان معزز سمجھے جاتے ہیں اور جو یہاں کے رہنے والے ہیں ان میں برہمن اور راجپوت معزز سمجھے جاتے ہیں کیا آپ ان اقوام میں سے رشتہ کو پسند کریں گے.اس پر کہنے لگے کوئی ہو قریشی ہو ، مغل ہو ، پٹھان ہو ، برہمن ہو راجپوت ہو اور دوبارہ سید کا لفظ انہوں نے چھوڑ دیا.میں نے انہیں کہا کہ میرے دل میں ایک شبہ پیدا ہوا ہے اور وہ یہ کہ میں نے دونوں دفعہ سیدوں کا پہلے نام لیا ہے کیونکہ وہ رسول کریم کی اولاد میں سے ہیں مگر آپ نے دونوں دفعہ سید کا لفظ چھوڑ دیا ہے کیا آپ نے سید کا لفظ سہو ا چھوڑا ہے یا ارادہ نام نہیں لیا.کہنے لگے اراد ناہی میں نے سید کا نام نہیں لیا ؟ میں نے کہا کیوں؟ آخر سیدوں کا کیا قصور ہے.ہنس کر کہنے لگے ہمارے ہاں تو سید فقیر اور منگتے ہی سمجھے جاتے ہیں.تو لوگوں نے قوموں میں امتیازات کئے اور خوب کئے وہ خود پٹھان تھا مگر اپنی بہن کی کسی سید سے شادی کرنا ذلت اور رسوائی کا موجب سمجھتا تھا.دوسری طرف میں نے بتایا کہ ایک کشمیری لڑکی کا میں نے ایک ہندوستان سے باہر سے آنے والی معزز قوم سے رشتہ تجویز
۳۵۱ کیا تو اس کی نانی کہنے لگی کہ اب ہمارے لئے کذات ہی رہ گئے ہیں.گویا ہر ایک نے دوسرے بدلہ لے لیا.ایک نے دوسرے کو کذات کہہ دیا اور دوسرے نے پہلے کو کذات قرار دے؟ دیا.سیدوں نے دوسری قوموں کو ذلیل سمجھا اور دوسری قوموں نے سیدوں کو فقیر اور منگتے کہہ دیا.بہر حال مسلمانوں میں تفریق ہوئی اور ان میں سے کچھ اچھے بن گئے اور کچھ ادنی سمجھے جانے لگے حالانکہ اسلام نے اس تفریق کو قائم نہیں کیا.اسی طرح عہدوں اور امارتوں کے متعلق مسلمانوں میں امتیاز کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ فلاں خاندان اچھا ہے اور فلاں نہیں.مگر نماز میں آج کل کے بگڑے ہوئے مسلمان بھی فرق نہیں کرتے اور وہ اس امر کو برداشت نہیں کر سکتے کہ مسجد میں چھوٹے اور بڑے کا سوال قائم ہو.چنانچہ تم لاہور کی شاہی مسجد یا دہلی کی جامع مسجد میں جا کر دیکھ لو وہاں اب بھی کسی امیر زادے کی یہ جرات نہیں ہوتی کہ کسی مسلمان کو وہ یہ کہہ سکے کہ یہاں سے ہٹ جاؤ.کہ اگر وہ اپنی عزت رکھنا چاہے تو اس کے لئے ایک ہی راستہ ہوتا ہے اور وہ یہ کہ آپ پیچھے ہٹ جائے.چنانچہ کئی متکبر اس طرح کرتے اور اس طرح پہلی صف کے ثواب سے محروم ہو جاتے ہیں.کہ وہ پیچھے تو اس لئے ہٹتے ہیں تا ان کی چودھراہٹ قائم رہے مگر حقیقتاً ان کا اپنا ہی نقصان ہوتا ہے وہ اول صف کے انعامات سے محروم ہو جاتے ہیں اور ایک گوشے میں بیٹھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں.اس موقع پر گو یہ بے تعلق کی بات ہے میں یہ کہنے سے نہیں رہ سکتا کہ حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام کے خاندان کے افراد اکثر اس ثواب سے محروم رہتے ہیں چنانچہ جمعہ میں جب بھی میری نظر پڑتی ہے میں انہیں آخری صفوں میں بیٹھا ہوا دیکھتا ہوں حالانکہ رسول کریم ملی کریم نے فرمایا ہے کہ جو شخص پہلی صف میں شامل ہوتا ہے اسے اونٹ کی قربانی کا ثواب ملتا ہے اور جو شخص بعد میں آتا ہے اسے اس سے کم ثواب ملتا ہے یہاں تک کہ ہوتے ہوتے مرغی کی قربانی تک کا ثواب رہ جاتا ہے.نہ گویا تدریجاً ثواب کم ہو تا چلا جاتا ہے اور بعد میں آنے والوں کو بہت ہی کم اس ثواب میں سے حصہ ملتا ہے.یہ کہ اتفاقاً کبھی پیچھے آئے اور بیٹھ گئے یہ اور بات ہے مگر جس چیز کو رسول کریم ملی عالم نے ثواب کا موجب قرار دیا ہے اس سے عادتاً پیچھے رہنا بڑی بھاری محرومی کی دلیل ہے.مومن کو تو جتنا ہو سکے ثواب کے کاموں میں آگے بڑھنا چاہئے نہ کہ پیچھے ہٹنا چاہئے.ایک دفعہ ایک صحابی جنازہ کے لئے گئے تو کسی دوسرے صحابی نے بیان کیا رسول کریم میں نے یہ فرمایا ہے کہ جو شخص جنازہ پڑھتا اور
۳۵۲ پھر واپس آ جاتا ہے اسے ایک قیراط کے برابر ثواب ملتا ہے مگر جو شخص جنازہ پڑھنے کے بعد دفنانے تک ساتھ رہتا ہے اسے دو قیراط ثواب ملتا ہے اور قیراط جانتے ہو کتنا ہوتا ہے؟ رسول کریم میں نے فرمایا ایک قیراط احد پہاڑ کے برابر ہو گا.دوسرے صحابی نے جب یہ بات سنی تو بڑی حسرت اور افسوس سے کہا تم نے یہ حدیث ہمیں پہلے کیوں نہ بتائی.معلوم نہیں ہم آج تک کتنے احد پہاڑ جتنے ثواب حاصل کرنے سے محروم رہ گئے ہیں.کہ تو جب بھی توفیق ملے اور پہلی صفوں میں جگہ حاصل کرنی چاہئے.میں نے سنا ہے ان میں سے بعض کا یہ خیال ہے کہ ہم اس حصہ مسجد میں بیٹھنا زیادہ پسند کرتے ہیں.جس حصہ میں حضرت مسیح موعود علیہ ) الصلوة والسلام نماز پڑھا کرتے تھے مگر اس حصہ میں بھی پہلی صفیں ہیں اور اس حصہ میں بھی آخری صفیں ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک حد تک ایسی تقدیم جائز ہو سکتی ہے گو اس حد تک اس تقدیم پر زور دینا کہ یہ خود ایک مرض بن جائے درست نہیں.مگر بہر حال اس میں بھی پہلی صفیں ہیں اور انسان کو چاہئے کہ ان پہلی صفوں میں بیٹھے جہاں خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نماز پڑھا کرتے تھے ان پچھلی صفوں میں کیوں بیٹھے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نماز نہیں پڑھا کرتے تھے.غرض میں یہ بتا رہا تھا کہ رسول کریم میں ملو یا لیلی نے مساجد میں پوری مساوات قائم کی ہے اور مسلمانوں نے بھی آج تک اس حکم پر نہایت سختی سے عمل کیا ہے گو اور کئی باتوں میں مسلمانوں نے اسلامی احکام کو نظر انداز کر دیا ہے مگر اس حکم کی تعمیل میں انہوں نے آج تک کوئی فرق نہیں کیا اور مسجد میں چھوٹے اور بڑے میں کبھی کوئی امتیاز نہیں کیا جاتا.گو بعض دفعہ ایسا ہو سکتا ہے کہ کسی مشتبہ یا غیر معروف آدمی کو امام کے پیچھے کھڑا ہونے سے روک دیا جائے.غیر معروف ممکن ہے مخلص ہی ہو مگر چونکہ اسے لوگ نہیں جانتے اس لئے مشتبہ کے علاوہ غیر معروف شخص کو بھی بعض دفعہ امام کے پیچھے کھڑا ہونے سے روکا جا سکتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایسا ہوا کرتا تھا اور اب بھی ہو سکتا ہے.مگر یہ امتیاز نہیں بلکہ احتیاط ہے اور ایسے شخص کو بھی پہلی صف میں کھڑا ہونے سے نہیں روکا جا سکتا.یہ تو ہو سکتا ہے کہ اسے کسی خاص مقام پر کسی مصلحت کی وجہ سے کھڑا نہ ہونے دیا جائے مگر پہلی سے اسے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا.اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں یہ قاعدہ تھا اور اب بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ مخلص اصحاب سے یہ امید کی جاتی ہے کہ صف..
۳۵۳ وہ پہلے ہی امام کے پیچھے آکر بیٹھ جائیں گے اور اس طرح بجائے اس کے کہ دوسرے کو اس کی جگہ سے اٹھایا جائے خود بخود وہ اس جگہ نہیں بیٹھتا اور اسے یہ کہنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی کہ آپ یہاں سے اٹھ جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بعض لوگ کئی کئی گھنٹے پہلے آکر مسجد میں بیٹھے رہتے تھے اور اس طرح انہیں دوسروں کو اٹھانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی تھی.یہ مساوات جو اسلام نے قائم کی ہے ہم کو بتاتی ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کی عید اسی بات میں ہے کہ سارے مسلمان اکٹھے ہو جائیں اور ان میں مساوات قائم کر دی جائے.اب ایک قسم کے امتیازات تو ہم کسی صورت میں مٹا نہیں سکتے مثلا کوئی لمبے قد کا ہوتا ہے اور کوئی چھوٹے قد کا ہوتا ہے، کوئی تندرست ہوتا ہے اور کوئی بیمار ہوتا ہے یہ امتیاز ہمارے اختیار کا نہیں اور اسے ہم کسی صورت میں مٹا نہیں سکتے.لیکن ایک اور مساوات ہے جسے ہم کوشش کر کے رائج کر سکتے اور اس لحاظ سے تمام مسلمانوں میں مساوات قائم کر سکتے ہیں اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ نے ہماری ہدایت کے لئے قرآن کریم نازل فرمایا ہے پس مسلمانوں میں مساوات قائم کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ہر مسلمان کو قرآن کریم آتا ہو اور وہ اس کا مفہوم اور مطلب اچھی طرح سمجھتا ہو.میرے نزدیک اگر کوئی شخص سچے دل سے اسلام کو قبول کرے تو وہ قرآن کریم کے سمجھنے اور اس کے مفہوم کو جاننے سے محروم رہ ہی نہیں سکتا کیونکہ قرآن سب سے بڑی دولت ہے اور کوئی سچا مسلمان یہ کس طرح پسند کر سکتا ہے کہ اس کا گھر اس دولت سے خالی ہو.حضرت خلیفہ اول سنایا کرتے تھے کہ ایک بُڑھیا جو بڑی نیک تھی.میں کبھی کبھی اس کے پاس جایا کرتا تھا.ایک دفعہ میں نے اس سے پوچھا کہ مائی تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے بتا دو میں وہ چیز تمہیں مہیا کرنے کے لئے تیار ہوں.وہ کہنے لگی پیتر مجھے بڑا آرام ہے کسی چیز کی ضرورت نہیں.فرماتے تھے میں نے پھر اصرار کیا اور کہا کہ آخر کچھ تو بتا ئیں مگر وہ ہر بار یہی کہتی کہ مجھے بڑا آرام ہے، ہر طرح کا سکھ ہے اور کسی قسم کی تکلیف نہیں.پھر کہنے لگی ہم صرف ماں بیٹا ہیں اللہ تعالٰی ہمیں صبح و شام دو روٹیاں بھیج دیتا ہے ایک روٹی میں کھا لیتی ہوں اور ایک روٹی میرا بیٹا کھا لیتا ہے پھر ہم اکٹھے ایک چارپائی پر ہی سو جاتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس صرف ایک رضائی ہے جب میری ایک طرف ٹھنڈی ہو جاتی ہے تو میں کہتی ہوں بیٹا کروٹ
1 ۳۵۴ بدل لو اور وہ کروٹ بدل لیتا ہے جس سے وہ پہلو بھی گرم ہو جاتا ہے.پھر تھوڑی دیر کے بعد جب اس کا پہلو ٹھنڈا ہو جاتا ہے تو وہ مجھ سے کہہ دیتا ہے کہ ماں اپنی کروٹ بدل لے اور میں کروٹ بدل لیتی ہوں جس سے اسے آرام آجاتا ہے پس ہمیں کسی چیز کی ضرورت نہیں.آپ فرماتے تھے میں نے پھر اصرار کیا اور کہا کہ نہیں کوئی ضرورت ہو تو بتا دیں.آخر جب میں نے بہت ہی اصرار کیا تو وہ کہنے لگی جب آپ نے ضرور کچھ دینا ہے تو میری صرف اتنی خواہش ہے کہ میری نظر اب بڑھاپے کی وجہ سے کمزور ہو گئی ہے اور پہلا قرآن مجھ سے اب اچھی طرح پڑھا نہیں جاتا کیونکہ اس کے حروف باریک ہیں آپ نے مجھے کچھ دینا ہی ہے تو موٹے حرفوں والا قرآن لا کر دے دیں تاکہ میں اسے آسانی سے پڑھ سکوں.تو سچی بات یہ ہے کہ ایک مومن کے لئے سب سے بڑی نعمت قرآن کریم ہے اور اسی کے ذریعہ ہم میں ظاہری رنگ میں مساوات قائم ہو سکتی ہے.مگر سوال یہ ہے کہ ہم میں اور ہمارے دوسرے بھائیوں میں یہ مساوات پائی جاتی ہے یا نہیں.ہمیں تو دکھائی دیتا ہے کہ اس لحاظ سے ابھی ہم میں بہت بڑا فرق ہے.ہم پر خدا تعالیٰ کے افعال کھلے ہوئے ہوتے ہیں ، اس کی کرشمہ سازیاں ظاہر ہوتی ہیں.معجزات کی حقیقت کو ہم سمجھتے ہیں اور خدا تعالیٰ اپنے بندوں سے جس رنگ میں محبت کرتا ہے اسے ہم جانتے ہیں، اس کی صفات کا ہمیں علم ہوتا ہے، اس کی قدرتوں سے ہم واقف ہوتے ہیں مگر ہمارے ہمسائے میں ہی ایک اور شخص بیٹھا ہوا ہوتا ہے جسے ان باتوں میں سے کسی کا بھی علم نہیں ہو تا حالا نکہ اگر یہ چیز قائم ہو جائے تو سب نقائص مٹ جائیں.لوگ کہتے ہیں فلاں کو فاقہ آتا ہے اور دوسرے پیٹ بھر کر کھانا کھاتے ہیں.بے شک یہ ایک نقص کی بات ہے اور اسے دور کرنا چاہئے مگر یہ فاقہ آخر اسی لئے آتا ہے کہ ہم میں ابھی قرآنی مساوات قائم نہیں ہوئی.اگر یہ مساوات قائم ہو جائے تو ہر شخص کا براہ راست اللہ تعالٰی سے تعلق ہو جائے اور جو شخص خدا تعالی کا بندہ بن جاتا ہے اس کی روٹی میرے اور تمہارے ذمہ نہیں رہتی بلکہ خدا اس کی روٹی کا خود ذمہ دار ہو جاتا ہے.اگر ساری دنیا کے لوگ ہی شیلی 9، اور جنید ” ل بن 1.9 جائیں تو ان کے لئے یہ سوال کہاں باقی رہے گا کہ ہم ان کے گزارہ کے لئے وظائف مقرر کریں ان کو تو خدا خود اپنے پاس سے رزق پہنچائے گا.چاہے لوگوں کے دلوں میں تحریک کر کے رزق پہنچائے یا غیب سے ان کے لئے سامان پیدا کر دے.بہر حال ان دونوں راستوں میں سے جس راستہ سے چاہے وہ انہیں رزق پہنچا سکتا ہے.وہ اپنے بندوں کو اس طرح بھی رزق دیتا •
۳۵۵ ہے کہ اس رزق میں کسی انسان کا دخل نہیں ہوتا اور بعض دفعہ بندوں کے ذریعہ ہی انہیں رزق پہنچا دیتا ہے مگر اس صورت میں بھی ہاتھ ان کا ہی اونچا رہتا ہے کیونکہ بعض چیزیں بعض کی نسبت سے اچھی سمجھی جاتی ہیں اور اگر وہ نسبت قائم نہ رہے تو ان کی خوبی بھی زائل ہو جاتی ہے.چنانچہ کئی لوگ صرف اس لئے اچھے سمجھے جاتے ہیں کہ انہوں نے کسی بزرگ کی خدمت کی ہوئی ہوتی ہے اب ایسے بزرگ سے جو کوئی تعلق رکھے گا اور اس کی خدمت بجا لائے گاوہ یہ نہیں سمجھے گا کہ میں نے احسان کیا بلکہ وہ یہ سمجھے گا کہ مجھ پر احسان کیا گیا ہے.قصہ مشہور ہے کہ کوئی بادشاہ تھا وہ کسی بزرگ کے گھر اس سے ملنے کے لئے گیا اور اس کے ایک لڑکے سے پیار کرتے ہوئے کہنے لگا.بتاؤ لڑکے تمہارے باپ کا گھر اچھا ہے یا میرا.لڑکا بڑا ذہین تھا وہ کہنے لگا امیرالمومنین اس وقت تو میرے باپ کا گھر زیادہ اچھا ہے کیونکہ امیرالمومنین اس میں موجود ہیں.تو دیکھو کوئی انسان ایسا بھی ہوتا ہے جسکے ساتھ تعلق ہونے سے انسان کی عزت بڑھتی ہے اور اس کی شان میں اضافہ ہوتا ہے.وہ اسلامی امیرالمومنین نہیں تھا مگر بہر حال بادشاہ ہونے کی وجہ سے اس لڑکے نے یہی کہا کہ اس وقت میرے باپ کا گھر زیادہ اچھا ہے کیونکہ آپ اس میں موجود ہیں تو دنیا میں بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو لوگ جب کچھ دیتے ہیں تو ان پر احسان کرتے ہیں مگر بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو دینے کے باوجود دینے والے پر احسان ہوتا ہے.اس شخص پر کوئی احسان نہیں ہو تا جسے دیا گیا ہوتا ہے وہ اپنی عزت اور اپنا شرف اسی بات میں سمجھتے ہیں کہ یہ نسبت قائم رہے کہ ہم نے فلاں کی خدمت کی.جیسے اس لڑکے نے کہا کہ اس وقت میرے باپ کا گھر زیادہ اچھا ہے.یعنی دیواریں تو بادشاہ کے مکان کی اچھی ہیں مگر شرف چونکہ ایک خاص آدمی کی وجہ سے ہے اور وہ اس وقت ہمارے گھر میں ہے اس لئے ہمارا گھر زیادہ بہتر ہے.اسی طرح مالدار کا شرف مال میں نہیں بلکہ اس کا شرف اس بات میں ہے کہ اسے خدا تعالیٰ کے راستہ میں اپنا مال خرچ کرنے کی توفیق کس حد تک ملی ہے.اگر خدا تعالیٰ کی راہ میں اسے اپنا مال خرچ کرنے کی توفیق حاصل ہو گئی ہے تو اس کا مال اس کے لئے شرف کا موجب ہے اور اگر یہ توفیق اسے حاصل نہیں ہوئی تو اس کا مال اس کے لئے شرف کا موجب نہیں سمجھا جا سکتا.غرض اگر ہم میں سے ہر ایک کو قرآن کریم آ جائے اور اس دولت سے ہماری جماعت کا ہر فرد متمتع ہو جائے تو ہم بہت حد تک اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو جائیں.پھر یہ بھی سمجھ لو کہ اگر سارے لوگ ہی قرآن کریم جاننے
3 1 ۳۵۶ والے ہوں تو الا ماشاء اللہ بہت سے جرائم ، ظلم، فسادات اور جھگڑے آپ ہی آپ کم ہو جائیں گے کیونکہ جہاں نور ہو وہاں ظلمت نہیں رہ سکتی.ایک چھوٹا سا دیا تم جلاتے ہو جس کی رو وشنی نہایت دھندلی سی ہوتی ہے مگر پھر بھی اس دیئے کے جلتے ہی اس کمرے کی ظلمت فوراً دور ہو جاتی ہے پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ قرآن کریم جو خدا کا دیا ہے وہ کسی گھر میں روشن ہو اور وہاں ظلمت باقی رہ جائے.اگر قرآن ہمارے دلوں میں آجائے تو تمام ظلمتیں خود بخود کافور ہونا شروع ہو جائیں گی اور نیکی اور تقویٰ کا بیچ اس طرح بویا جائے گا کہ آئندہ نسلیں بھی اسی رنگ میں رنگین ہو جائیں گی.پس مساوات کا سبق جو اس عید سے ملتا ہے وہ ہم میں سے ہر شخص کو یاد رکھنا چاہئے اور ہر شخص کو کوشش کرنی چاہئے کہ اس کی بیوی بچے رشتہ دار اور ہمسائے سب قرآن کریم کا ترجمہ جاننے والے ہوں.اگر ایسا ہو جائے تو ہم میں ایک ایسی دینی مساوات قائم ہو جائے گی جو جماعت کی روحانی ترقی کے لئے خاص طور پر مفید ہوگی اور جس کے نتیجہ میں خود بخود بدیوں کا استیصال اور نیکی کا قیام ہو تا چلا جائے گا کیونکہ قرآن کریم جاننے والا اپنی ذمہ داریوں کو بھی سمجھے گا فلموں سے بھی بچے گا، نیکیوں کے حاصل کرنے کی بھی کوشش کرے گا اور اسلامی تعلیم کو بھی قائم کرنے کی جدوجہد کرے گا اور در حقیقت اسلامی قیام ہی ہمارا اصل مقصد ہے.لاپس آج کے دن میں جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ کوئی ایسی سکیم سوچیں جس سے ہر احمدی قرآن کریم کا ترجمہ جاننے لگے.اگر ہم اس بات میں کامیاب ہو جائیں تو میں یقین رکھتا ہوں کہ دنیا کی کوئی طاقت ہم کو مٹا نہیں سکتی.قرآن کریم ایک زرہ ہے جس کو توڑنے کے لئے کوئی تلوار نہ آج تک بنی ہے اور نہ قیامت تک بن سکتی ہے.اگر یہ زرہ ہماری جماعت کے ہر فرد کو میسر آجائے تو ہماری مثال بالکل ویسی ہی ہو جائے جیسے ہندو دیوتاؤں کے متعلق کہانیوں میں بیان کیا جاتا ہے کہ تلواریں ایک ایک کر کے ٹوٹ جاتی تھیں مگر ان کے جسموں پر ان تلواروں کا کوئی اثر نہیں ہو تا تھا.اگر ہم میں سے ہر شخص بچے معنوں میں قرآن کریم کا حامل ہو ، اس کی تعلیم پر عمل کرتا ہو اور اس کا نور اس کے دل و دماغ میں سرایت کر چکا ہو تو دنیا اسے خواہ کتنی ہی تلواریں مارے تلواریں ٹوٹ جائیں گی مگر وہ اس کے دل کو نہیں توڑ سکیں گی جو خدا تعالیٰ کی محبت اور قرآن کریم کے معارف کا جلوہ گر ہو گا کیونکہ وہ دل خدا کے نور کا گھر ہو گا اور خدا یہ پسند نہیں کر سکتا کہ وہ گھر برباد ہو جس گھر میں اس کا نور جلوہ گر ہو.کیا تم میں سے کوئی شخص یہ پسند کر سکتا ہے کہ جس
۳۵۷ گھڑے میں اس نے دودھ ڈالا ہوا ہو اسے توڑ دیا جائے.یا تم میں سے کوئی شخص یہ پسند کر سکتا ہے کہ جس مشک میں اس نے پانی ڈالا ہوا ہو اسے چیر دیا جائے یا تم میں سے کوئی شخص یہ پسند کر سکتا ہے کہ جس صندوق میں اس نے خلعتیں رکھی ہوئی ہوں اسے ضائع ہونے دیا جائے.جب پسند نہیں کر سکتے تو کیا تم خدا تعالیٰ کو ایسا بیوقوف سمجھتے ہو کہ تمہارے دل خدا تعالیٰ کی نورانی خلعتوں کے صندوق بن جائیں، تمہارے دل خدا تعالیٰ کے برکتوں والے علم کے دودھ کے گھڑے بن جائیں، تمہارے دل خدا تعالیٰ کی رحمتوں والے پانی کی مشکیں بن جائیں اور پھر وہ دنیا کو اس بات کی توفیق دے دے کہ وہ تمہارے اس صندوق کو توڑ دے ، تمہارے اس گھڑے کو پھوڑ دے اور تمہاری اس مشک کو چیر دے.اگر تمہارے دلوں میں قرآن شریف آ جائے تو یقینا یقیناً دنیا کی کوئی طاقت تم پر غالب نہیں آسکتی.تم خدا کا خزانہ ہو گے تمہارا مرنا خدا کے دین کا مرنا تمہاری شکست خدا کے دین کی شکست اور تمہاری بربادی خدا کے دین کی بربادی ہوگی.پس ایسا کرو کہ تم میں سے ہر شخص قرآن کریم کے ترجمہ اور اس کے منا آگاہ ہو جائے.بے شک رمضان میں قرآن شریف سنایا گیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ رمضان میں کتنے لوگوں نے قرآن شریف کا درس سنا.مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس درس میں صرف تمھیں چالیس عورتیں شامل ہوتی تھیں حالانکہ قادیان میں تین چار ہزار عورتیں ہیں.اسی طرح مرد بھی اپنی نسبت کے لحاظ سے کم شامل ہوتے تھے.پھر اس طرح کا سنا ہوا ادرس پڑھے ہوئے کے برابر نہیں ہو سکتا.میں مانتا ہوں کہ ساری عورتیں قرآن کریم پڑھ نہیں سکتیں اور ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی ایک عورت بھی ایسی نہ رہے جسے قرآن کریم نہ آتا ہو مگر یہ تو ہو سکتا ہے کہ عورتوں کو اتنا قرآن سنایا جائے اتنا سنایا جائے کہ وہ ان کے لئے پڑھنے کے برابر ہو جائے.اسی طرح اتنی عورتوں کو قرآن کریم پڑھا دیا جائے کہ ان کی وجہ سے ہر گھر قرآن کریم کا مدرسہ بن جائے اور کوئی لڑکی قرآن کریم کے ترجمہ سے ناواقف نہ رہے.اسی طرح آج بے شک ہم ہر مرد کو قرآن کریم نہیں پڑھا سکتے مگر یہ تو ہو سکتا ہے کہ مردوں کو اتنا قرآن سنایا جائے اتنا سنایا جائے کہ وہ ان کے لئے پڑھنے کے برابر ہو جائے.اسی طرح اتنے مردوں کو قرآن کریم پڑھا دیا جائے کہ ان کی وجہ سے ہر گھر قرآن کریم کا مدرسہ بن جائے اور کوئی لڑکا ایسا نہ رہے جسے قرآن کریم کا ترجمہ نہ آتا ہو.پھر ہم یہ بھی کر سکتے ہیں کہ ہر شخص کے دل میں قرآن کریم کی اتنی عظمت اور محبت پیدا کر دیں کہ وہ اپنی اولاد کو قرآن کریم کی تعلیم دینا اپنا فرض سمجھے اور
۳۵۸ انہیں کہے کہ تمہارے گھر اگر کٹتے ہیں تو انہیں لگنے دو تمہاری تجارتیں اگر تباہ ہوتی ہیں تو ان تجارتوں کو تباہ ہونے دو مگر اس خزانے کو اپنے ہاتھ سے کبھی جانے نہ دو کہ اگر یہ خزانہ تمہارے پاس رہا تو سب کچھ رہا اور اگر یہ خزانہ نہ رہا تو تمہارے پاس کچھ بھی نہ رہا.میں سمجھتا ہوں ہماری عید واقعی عید ہو جائے اگر ہم میں سے ہر شخص آئندہ قرآن کریم کو پورے طور پر سمجھنے کی کوشش کرے اور اس بات کا عہد کرلے کہ وہ اپنی اولاد کے سینہ میں بھی اس کی صحیح تعلیم کو محفوظ کر دے گا اور اگر وہ قرآن کریم سے عشق رکھتے ہوئے اس کی لیم کو اپنی نسلوں کے سینہ میں ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دے گا تو اسے یقین رکھنا چاہئے کہ وہ خود بھی ہر قسم کی بلاؤں اور آفات سے محفوظ رہے گا.مفردات امام راغب زیر لفظ عود الفضل ۲۴ اکتوبر ۱۹۴۲) له سنن ابی داود باب اذا وافق يوم الجمعة يوم عيد صحيح بخارى كتاب الجمعة باب الجمعة فى القرى والمدن و باب الاذان يوم الجمعة صحيح بخاري كتاب الجمعة باب لا يقيم الرجل أخاه يوم الجمعة و يعقد في مكانه صحیح بخارى كتاب الصلوة باب الصف الاول صحيح بخارى كتاب الجمعة باب فضل الجمعة صحيح بخارى كتاب الايمان باب اتباع الجنائز من الايمان صحیح بخاری كتاب الجنائز باب فضل اتباع الجنائز....الخ و باب من انتظر حتى يدفن مسجد مبارک قادیان کی طرف اشارہ ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد بھی توسیع کی گئی تھی.ابو بکر شیلی ۲۴۷ / ۶۸۶۱ - ۶۹۴۷/۵۳۳۴ جنید بغدادی ۹۸-۲۹۷ - ۶۹۱۱ لله تذکرہ صفحہ اے ۶۵۹٬۶۲۷ 1
۳۵۹ (۳۳) فرموده یکم اکتو بر ۱۹۴۳ء بمقام عید گاہ.قادیان) پہلے تو میں عید کے بارہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں کیونکہ کل یہاں چاند دیکھنے کی کوئی اطلاع نہ ملی تھی لیکن باوجود اس کے رات کو صبح عید ہونے کا اعلان کر دیا گیا تھا اس کی وجہ یہ ہے کہ رات کو دو جگہ سے فون آئے کہ وہاں چاند دیکھا گیا ہے.ایک تو کپور تھلہ سے شیخ محمد احمد صاحب وکیل لے کا فون آیا کہ ان کی لڑکی اور ایک ملازم نے چاند دیکھا ہے.چونکہ مطلع بالکل صاف تھا اور ایسے موقع پر جب کہ مطلع صاف ہو ایک دو کی گواہی کافی نہیں سمجھی جاسکتی اس لئے میں نے ان کو کہہ دیا کہ یہ دو گواہیاں ایسی نہیں کہ ان کی بناء پر ایسے صاف دن میں عید کے متعلق فیصلہ کیا جا سکے.ہم روزہ ہی رکھیں گے مگر ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ڈلہوزی سے فون کے ذریعہ معلوم ہوا کہ وہاں احمدیوں اور غیر احمدیوں میں سے متعدد احباب نے چاند دیکھا ہے ہمارے قافلہ کے جو دوست تھے ان میں سے بھی سات کے متعلق کہا گیا کہ انہوں نے چاند دیکھا ہے اس پر میں نے انہیں دوبارہ فون کیا کہ ان کی حلفیہ شہادت لے کر مجھے فون پر اطلاع دی جائے کہ آیا وہ اپنی شہادت پر ایسا یقین رکھتے ہیں کہ اس بارہ میں حلف اٹھا سکیں یا نہیں.تھوڑی دیر کے بعد مجھے فون آیا کہ جو دوست موجود ہیں ان میں سے چار نے حلفاً کہا ہے کہ انہوں نے چاند دیکھا ہے اور لوگوں نے بھی کثیر تعداد میں چاند دیکھا ہے مگر چونکہ وہ دور دور رہتے ہیں اس لئے ان سے حلف نہیں لی جاسکی.اس کے بعد لاہور فون سے دریافت کیا گیا تو معلوم ہوا کہ وہاں جالندھر سے رپورٹ آئی ہے کہ شملہ میں لوگوں نے چاند دیکھا ہے اسی طرح معلوم ہوا کہ سولن پہاڑ پر بھی اور بمبئی میں بھی چاند دیکھا گیا ہے.معلوم ہوتا ہے چاند بہت کم اونچا تھا.قادیان کے احمدی دوست چونکہ اس وقت دعا میں مشغول تھے اس لئے وہ چاند نہ دیکھ سکے اور باہر بھی تھوڑے تھوڑے غبار کی وجہ سے نظر نہ آیا مگر پہاڑوں پر چونکہ اتفاقا مطلع صاف تھا اس لئے وہاں کے رہنے والوں نے چاند کو دیکھ لیا.چنانچہ اس بارہ میں جتنی رپورٹیں آئیں ان میں سے اکثر پہاڑی مقامات کی ہی ہیں سوائے کپور تھلہ کے کہ وہاں بھی
۳۶۰ بعض نے چاند دیکھ لیا تھا.( بعض احباب کے ذکر پر جنہوں نے قادیان میں بھی چاند دیکھ لیا تھا.حضور نے فرمایا) معلوم ہوتا ہے یہاں بھی بعض لوگوں نے چاند دیکھا ہے مگر وہ وقت پر آگے نہیں آئے اس لئے ان کی شہادت صرف تائیدی رنگ میں پیش کی جا سکتی ہے اگر یقینی شہادت ہو تو اس کا چُھپانا گناہ ہوتا ہے.تے معلوم ہوتا ہے کچھ نہ کچھ شبہ ان کے دلوں میں ضرور ہو گا کہ شاید ہم نے چاند نہ دیکھا ہو.بہر حال چونکہ ایسی یقینی شہادتیں آگئیں جو حلف پر مبنی تھیں اس لئے ہماری طرف سے عید کا اعلان کر دیا گیا.یاد رکھنا چاہئے کہ ایسی عیدوں کے موقع پر رسول کریم کا وہ قول چسپاں نہیں ہوتا کہ جو شخص عید کے دن روزہ رکھتا ہے وہ شیطان ہے.آج صبح ہی میں نے سنا ایک عورت کہہ رہی تھی کہ جن لوگوں نے آج روزہ رکھا ہوا ہے شیطان ہیں مگر یہ صحیح نہیں.جب چاند دیکھنے میں اس قسم کا اختلاف واقع ہو جائے تو ہر قوم کا الگ فتویٰ ہوتا ہے بلکہ ہر شہر کا الگ الگ فتویٰ ہوتا ہے.۳.فرض کرو باہر کی احمدی جماعتیں آج عید نہیں کرتیں بلکہ انہوں نے روزہ رکھا ہوا ہے تو یہ ہر گز ناجائز نہ ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایک دفعہ ایسے ہی موقع پر اللہ تعالیٰ نے الہام نازل کیا کہ "عید تو ہے چاہے کرو یا نہ کرو.کہ اس الہام نے صاف بتا دیا کہ اس روز عید تو تھی مگر چونکہ شریعت کا مسئلہ یہ ہے کہ چاند دیکھنے پر عید کی جائے.اس لئے لوگوں کو اختیار دے دیا گیا کہ وہ اگر چاہیں تو عید کر لیں اور اگر چاہیں تو نہ کریں.گویا یہ محض افتاء تھا شریعت کا حکم نہیں تھا اور محض افتاء کے متعلق اختیار ہوتا ہے کہ جس کا دل چاہے اس پر عمل کرے اور جس کا دل چاہے عمل نہ کرے.گو قومی لحاظ سے جب اکثریت ایک بات کا فیصلہ کر دے یا امام فیصلہ کر دے یا قاضی فیصلہ کر دے تو اس جگہ کے رہنے والوں پر اس فیصلہ کا مانتا واجب ہو جاتا ہے.کہ پس یہ بات صحیح نہیں کہ جن دوسرے شہروں والوں نے روزہ رکھا ہوا ہے یا قادیان کے جن غیر احمدیوں نے آج روزہ رکھا ہے وہ شیطان ہیں.ایسے حالات میں اگر بعض لوگ یہ سمجھتے ہوں کہ شہادت ایسی مکمل نہیں کہ اس کی بناء پر روزہ کو ترک کیا جا سکے تو وہ روزہ رکھ سکتے ہیں اسی طرح جو لوگ یہ سمجھتے ہوں کہ شہادت کی بناء پر روزہ کو ترک کیا جا سکتا ہے ان کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ روزہ نہ رکھیں اور عید کریں.پس جن لوگوں نے آج روزہ رکھا ہوا ہے وہ رسول کریم میں کی اس حدیث کے ماتحت نہیں آسکتے ان کے لئے روزہ رکھنا جائز ہے اور جو عید کر رہے ہیں ان کے لئے بھی جائز ہے مگر ان کے لئے نہیں جن کے لئے جماعتی رنگ میں عید کا
فیصلہ ہوا ہے.اس کے بعد میں تمام جماعت کو مقامی جماعت کو پہلے اور بیرونی جماعت کو خطبہ شائع ہونے کے بعد خطبہ کے توسط سے اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ گزشتہ ایام میں دنیا میں بعض ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں.جنہوں نے ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے بے انتہا سامان پیدا کر دیئے ہیں.پچھلے ایک دو مہینہ کے اندر اندر اٹلی بالکل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ہے اور اس کی حکومت جاتی رہی ہے.جاپان پر اتحادیوں کا زور بڑھ گیا ہے اور روس میں جرمنوں کو ایسی خطرناک شکستیں ہوئی ہیں کہ اگر ان شکستوں کے پیچھے کوئی بہت بڑا جنگی دھوکا نہ ہو تو کہا جا سکتا ہے کہ جہاں تک جرمنی کی جارحانہ پالیسی کا تعلق ہے جو من ختم ہو چکا ہے.میں نے بارہا بتایا ہے کہ جہاں تک جنگ کا تعلق ہے ، ہماری ہمدردیاں اتحادیوں کے ساتھ ہیں.ہمارے اپنے سینکڑوں نہیں ہزاروں احمدی بھائی اس جنگ میں گئے ہوئے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جن کو ہم نے خود کہہ کہہ کر سمجھا سمجھا کر اور تبلیغ کر کر کے لڑائی کے لئے بھجوایا ہے.کہتے ہیں " جنگ دو سر دارد " جنگ میں یا انہوں نے جیتنا ہوتا ہے یا اُنہوں نے.یا ایک فریق نے غالب آنا ہو تا ہے یا دوسرے نے.مگر ہماری اپنی پالیسی اور اپنی سمجھ کے مطابق اس جنگ میں اتحادیوں کا جیتنا زیادہ مفید ہے اسی بناء پر ہم نے انگریزوں کی مدد کی اور اسی وجہ سے آج ہزار ہا احمدی اتحادیوں کی طرف سے لڑ رہے ہیں.مجھے اس پالیسی کے متعلق متواتر رویا ہوئی ہیں.گو میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ دوسروں کے لئے محبت ہیں مگر کم سے کم میرے لئے وہ ضرور حجت ہیں اور جب رویا کے لحاظ سے وہ میری ذات کے لئے محبت ہیں تو اس کے بعد خلیفہ وقت کے فیصلہ کے لحاظ سے وہ جماعت کے لئے بھی حجت بن جاتی ہیں.پس جو چیز میرے لئے رویا کے لحاظ سے حجت ہے وہ دو سروں کے لئے گو رؤیا کے لحاظ سے حجت نہ ہو مگر خلیفہ کا فیصلہ چونکہ اس کے مطابق ہے اس لئے خلیفہ کے فیصلہ کے لحاظ سے وہی چیز جماعت کے لئے بھی مُحبت ہے.میں نے متواتر رویا دیکھی ہیں کہ جہاں تک دنیوی حالات کا تعلق ہے اور جہاں تک مستقبل کے ان مہم ! تاریک حالات کا تعلق ہے جن کا اندازہ قبل از وقت کوئی انسان نہیں لگا سکتا ان کی بناء اللہ تعالی کی مشیت اتحادیوں کی تائید میں ہے.اب بھی اٹلی پر جب انگریزی حملہ ہوا تو اس سے ایک دن پہلے رویا میں میں نے دیکھا کہ میں ایک جگہ گھڑا ہوں اور وہاں پاس ہی ایک دوسرا ملک نظر آتا ہے جو بہت لمبا سا ہے.وہاں اور
1 ۳۶۲ مولوی عبد الکریم صاحب 3 مرحوم کھڑے ہیں اور بڑے زور و شور سے انگریزوں کی مدد کے لئے فوج میں بھرتی ہونے کے متعلق تقریر کر رہے ہیں.خواب میں میں کہتا ہوں کہ مولوی عبدالکریم صاحب تو فوت ہو چکے ہیں معلوم ہوتا ہے انہوں نے اللہ تعالیٰ سے اجازت لی ہوگی کہ میں لوگوں کے سامنے بھرتی کے متعلق تقریر کروں اور اس اجازت کے بعد وہ تقریر کر رہے ہیں.غرض وہ بڑے زور شور سے تقریر کر رہے ہیں.اتنے میں میں کیا دیکھتا ہوں کہ اس علاقہ کی ایک نوک سے فوج سے بھری ہوئی لاریاں اتنی کثرت سے دوسرے ملک میں داخل ہونی شروع ہو گئیں کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ ان لاریوں سے تمام چوک بھر گیا ہے.بے تحاشا ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری موٹر دوڑتی چلی جاتی تھی.اس خواب کے دو سرے دن ہی اخبارات میں یہ اطلاع شائع ہو گئی کہ انگریزوں نے اٹلی پر حملہ کر دیا ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ تین چار دن کے بعد انگلستان کے اخبار ”ٹائمز " کا ایک فقرہ سول" وغیرہ انگریزی اخبارت میں نقل کیا گیا کہ جس طرح فوجوں سے بھری ہوئی لاریاں اٹلی میں داخل ہوئی ہیں اس کا اگر کسی نے اندازہ لگانا ہو تو وہ لندن کے کسی چوک کا اندازہ لگا لے جب وہاں موٹریں اور ا لاریاں کسی وجہ سے رُک جاتی ہیں تو اجازت ملنے پر کس طرح ایک دوسری کے پیچھے بھاگتی چلی جاتی ہیں جو حالت ایسے موقع پر لندن کے کسی چوک میں موٹروں اور لاریوں کی کثرت اور ان کے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگنے کی ہوتی ہے اس کو اگر کئی سو گنا بڑھا کر سوچے تو وہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ اٹلی میں ہماری فوجوں سے بھری ہوئی لاریاں کس کثرت اور کتنی بڑی تیزی کے ساتھ داخل ہو ئیں.میں نے خود چوک کی روک کا نظارہ دیکھا ہے.۱۹۲۴ء میں جب میں ولایت گیا تو ایک دفعہ لندن کے ایک چوک میں موٹریں تھوڑی دیر کے لئے رُک گئیں.اس روک کے ہٹنے پر میں نے دیکھا کہ متواتر آدھ گھنٹہ تک ہر موٹر کی دم کے ساتھ دوسری موٹر کی ناک لگی ہوئی ہوتی تھی اور بے تحاشا دوڑتی چلی جاتی تھیں.کوئی موٹر ایسی نہ تھی جس کے ساتھ دوسری موٹر لگی ہوئی نہ ہو اور مسلسل آدھ گھنٹہ تک یہ سلسلہ جاری رہا.”ٹائمز " کا بیان ہے اس سے کئی سو گئے زیادہ کا اندازہ لگایا جائے تو انسان سمجھ سکتا ہے کہ اٹلی پر حملہ کے وقت فوجوں سے بھری ہوئی لاریاں کس کثرت اور کتنی تیزی سے ملک میں داخل ہو ئیں.یہی نقشہ میں نے اپنے دوستوں کے سامنے کھینچا تھا حالانکہ اُس وقت تک ابھی یہ خبر شائع نہیں ہوئی تھی کہ اتحادیوں نے اٹلی پر حملہ کر دیا ہے.
۳۶۳ غرض اللہ تعالیٰ نے جہاں تک دنیوی مفاد کا سوال ہے اور جہاں تک موجودہ جنگ کے خاتمہ کا تعلق ہے ہماری ہمدردیاں اتحادیوں سے وابستہ کر دی ہیں.لیکن اس کا ایک اور پہلو بھی ہے جو اپنے ساتھ اگر کچھ اندیشے رکھتا ہے تو ساتھ ہی بہت بڑی بشارتیں بھی رکھتا ہے اور وہ پہلو یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک عظیم الشان پیشگوئی آج ایسی شان اور عظمت کے ساتھ پوری ہوئی ہے کہ میں نہیں سمجھ سکتا کہ دنیا کا کوئی اندھنے سے اندھا دشمن بھی اس پیشگوئی کی صداقت اور عظمت سے انکار کر سکے.آج سے چالیس یا پچاس سال پہلے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دعوئی کو پیش کر کے دنیا میں اس کی اشاعت فرمائی اور لوگوں میں آپ کی شہرت ہوئی تو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر سب سے بڑا اعتراض دشمن کا یہ تھا کہ آپ جہاد کو منسوخ قرار دیتے ہیں.اور وہ ایک ہی حربہ جس سے اسلام کو شان و شوکت نصیب ہو سکتی ہے اس کو آپ نے تو ڑ کر رکھ دیا ہے.ہر مسلمان جو اپنے دل میں اسلام کا درد رکھتا تھا وجہ اس کے کہ مولویوں نے اس کی عقل مار دی تھی ، بوجہ اس کے کہ وہ نور نبوت سے محروم ہو چکا تھا، بوجہ اس کے کہ اسے کبھی قرآن پر غور کرنے کا موقع نہیں ملا تھا اور بوجہ اس کے کہ اگر وہ قرآن پر غور بھی کرتا تھا تو قرآن کو سمجھنے کی طاقت اس میں نہیں تھی، یہ خیال کرتا تھا کہ مرزا صاحب نے جو ہتھیار چلایا ہے وہ اسلام کی تائید میں نہیں چلایا بلکہ اسلام پر ایک ایسا تبر رکھ دیا ہے جس کے بعد وہ کبھی زندہ نہیں رہ سکتا.حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید کی شہادت کی بڑی وجہ بھی یہی تھی کہ وہ جہاد کے مخالف تھے اور مسلمانوں کی نگاہ میں یہ تعلیم اسلامی طاقتوں کو کمزور کرنے کا موجب تھی.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بات لکھی لالہ اس وقت اسے مخالفین نے درست قرار نہ دیا اور یہی کہتے رہے کہ محض احمدیت کی وجہ سے انہیں مارا گیا مگر جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے وہ اپنے مأمورین کی ہر بات کی صفائی کے سامان پیدا کر دیا کرتا ہے اسی طرح اس نے آپ کی اس بات کی سچائی کے بھی سامان پیدا فرما دیئے.چنانچہ گو وہ وقت گزر گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام وت ہو گئے پھر حضرت خلیفہ اول کا زمانہ آیا اور آپ بھی فوت ہو گئے مگر جب میرا زمانہ آیا تو مجھے کسی دوست کے ذریعہ ایک انگریز انجنیئر مسٹر مارٹن کی لکھی ہوئی کتاب کا ملی جو اس وقت افغانستان گورنمنٹ کا چیف انجنیئر تھا جب کہ صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید کئے گئے.اس نے اپنی اس کتاب میں ایک خاص باب صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب کی شہادت کے متعلق ہیں.
! قائم کیا ہے اور اس کا عنوان رکھا ہے "دی ابسولیوٹ امیر" (The Absolute Amir) یعنی ایسا بادشاہ جس کی طاقتوں کی کوئی حد بندی نہیں.اس باب میں وہ لکھتا ہے.صاحبزادہ صاحب یہ تعلیم دیتے تھے کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ مسیحیوں کو اپنا بھائی سمجھیں اور ان کو واجب القتل خیال نہ کریں.اگر اس تعلیم کو مان لیا جاتا تو چونکہ امیر سال کا وہ بڑا ہتھیار جسے وہ انگریزوں اور روسیوں کے خلاف استعمال کر سکتا تھا باطل ہو جاتا تھا اس لئے جب اس کے پاس شکایتیں پہنچیں تو اس نے ان کو قید کر لیا اور اس نے کہا کہ میں ان کے سارے عقائد نظر انداز کر سکتا تھا مگر یہ عقیدہ کہ عیسائیوں کے خلاف جہاد جائز نہیں اس کو میں کسی طرح برداشت نہیں کر سکتا کیونکہ اس کے ہوتے ہوئے اسلامی حکومتیں زندہ ہی نہیں رہ سکتیں.وہ لکھتا ہے جب ملانوں نے ان کو سزا دینے کی کوئی وجہ نہ پائی تو امیر نے انہیں کہا کہ اس آدمی کو ضرور سزا ملنی چاہئے.امیر کے بھائی سردار نصر اللہ خان گل نے بھی بڑا زور دیا کہ اگر یہ تعلیم لوگوں کے دلوں میں راسخ ہو گئی تو انگریز اور روس ہمیں کھا جائیں گے اس کے تدارک کی ایک ہی صورت ہے کہ انہیں قتل کر دیا جائے.اب تو یہ حالت ہے کہ ہر مسلمان کے دل میں جہاد کا شوق پایا جاتا.ا ہے اور جب انہیں لڑنے کے لئے بلایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ آؤ اور جہاد کے لئے نکلو تو ہر شخص بغیر تنخواہ کے بغیر خوراک وغیرہ کا گورنمنٹ سے سامان لینے کے اور بغیر کسی معاوضہ کے لڑنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.مگر جس دن لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ جہاد کرنا ان پر فرض نہیں اور یہ کہ اگر وہ لڑتے ہیں تو بادشاہ اور حکومت کی خاطر لڑتے ہیں ، مذہب اسلام کی خاطر نہیں لڑتے تو ہماری طاقت بالکل کمزور ہو جائے گی اور ہمارے پاس اپنی حفاظت کا کوئی ذریعہ نہیں رہے گا.وہ لکھتا ہے امیر بار بار صاحبزادہ صاحب کو سمجھاتا اور کہتا کہ وہ اس عقیدہ کو ترک کر دیں مگر آپ نے کہا میں اس عقیدہ کو ترک نہیں کر سکتا.پھر اس نے اس واقعہ شہادت کی بعض ایسی تفصیلات بھی لکھی ہیں جو عام طور پر انگریز نہیں لکھا کرتے مگر چونکہ اللہ تعالی اس ذریعہ سے ان کی ولایت کا بھی ذکر قائم کرنا چاہتا تھا اس لئے اس انگریز نے ان باتوں کا بھی ذکر کر دیا.وہ لکھتا ہے جب انہیں شہید کیا جانے لگا تو انہوں نے خبر دی کہ میری شہادت کے بعد افغانستان پر ایک قیامت آئے گی.چنانچہ سات دن کے بعد کابل میں سخت ہیضہ پھوٹا اور کئی لوگ ہلاک ہو گئے.وہ لکھتا ہے کہ جب کابل میں شدت سے ہیضہ پھوٹ پڑا تو سردار نصر اللہ خان کے پاس امیر گھبرا کر ادھر ادھر ٹہلتا اور کہتا جاتا تھا کہ شاید اس مولوی کی بات پوری
2 אן ۲۳۶۵ ہو گئی ہے.۱۵ تو اللہ تعالٰی نے مسٹر مارٹن کے ذریعہ یہ گواہی مهیا فرما دی که صاحبزاده عبد اللطیف صاحب کی شہادت کی بڑی وجہ یہی تھی کہ وہ جہاد کے مخالف تھے.پس حقیقت یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور جماعت احمدیہ کی شدید مخالفت تعلیم یافتہ لوگوں اور سیاسی لوگوں کی طرف سے عام مذہبی مسائل کی وجہ سے نہیں ہوئی بلکہ اس وجہ سے ہوئی کہ ہر دیندار مسلمان جو اسلام کی شان و شوکت چاہتا تھا بوجہ اسلامی تعلیم سے ناواقفیت اور قرآن کے مغز سے نا آشنا ہونے کے آپ کی اس تعلیم سے فائدہ اٹھانے کی بجائے غصہ سے بھر جاتا تھا اور وہ سمجھتا تھا کہ آپ نے اسلام کو اٹھا کر نَعُوذُ بِاللهِ) کتوں کے آگے ڈال دیا ہے.وہ زمانہ ایسا تھا کہ مسلمان یہ یقین رکھتے تھے کہ اگر وہ اپنی تنظیم کو مکمل کر لیں تو یورپین طاقتوں کا آسانی کے ساتھ مقابلہ کر سکتے ہیں.گو وہ اتنی تو ہیں نہیں بنا سکتے تھے جتنی تو ہیں یورپین ممالک تیار کر سکتے تھے مگر پھر بھی تو پوں کا ڈھالنا ان کے لئے کوئی زیادہ مشکل کام نہ تھا.افغانستان میں ایسے مقامات تھے ، جہاں تو پوں کو ڈھالا جاتا تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ تو ہیں تیار کرنا ان کے لئے کوئی زیادہ مشکل کام نہیں پس گو وہ ایسی تو ہیں تیار نہیں کر سکتے تھے جن سے وہ روسی اور انگریزی فوجوں کو شکست دے سکیں مگر پھر بھی اپنی جان بچانے اور دشمن کو تنگ کرنے کے لئے ان کے پاس کافی تو ہیں تھیں اور وہ کافی تو ہیں تیار بھی کر سکتے تھے.اسی طرح بے شک ان کے پاس ویسی بندوقیں نہیں تھیں جیسی بندوقیں یورپین حکومتوں کے پاس تھیں مگر پھر بھی ان کے پاس ایسی بندوقیں تھیں جن سے وہ اپنی جان بچا سکتے تھے اور اگتے دستے غیر مسلم کو قتل بھی کر سکتے تھے.اسی طرح اگر دشمن کے پاس تلواریں تھیں یا نیزے تھے تو مسلمانوں کے پاس بھی بکثرت تلواریں اور بکثرت نیزے تھے اور مسلمان سمجھتے تھے کہ وہ تھوڑی سی تنظیم اور غیر مسلموں کے مقابلہ میں کچھ زیادہ قربانی کر کے اسلام کی عزت اور اس کی شان و شوکت کو دوبارہ قائم کر سکتے ہیں.اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا کے سامنے یہ اعلان کیا کہ.حکم سن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا وہ کافروں سے سخت ہزیمت اٹھائے گا ۱۶ لوگوں نے اس آواز کو سنا اور انہوں نے خیال کیا کہ یہ اسلام کو تباہ کرنے کا ذریعہ ہے حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مسلمان کی جان کو جو ایک نہایت ہی قیمتی چیز ہے بے موقع
ضائع ہونے سے بچانا چاہتے تھے.آپ نہیں چاہتے تھے کہ مسلمان غلط راستہ پر کھڑے ہوں اور غلط قدم اٹھا کر تباہ و برباد ہو جائیں.پس آپ نے اس راستہ پر چلنے سے مسلمانوں کو روکا اور ان کو ہٹانے کی کوشش کی مگر اس لئے نہیں کہ انگریزوں کی طرف داری کریں بلکہ اس لئے کہ اس غلط راستہ پر چلنے کی بجائے جو لوگ اپنے دلوں میں ایمان اور اخلاص رکھتے ہیں وہ اسلام کی اشاعت کی تائید میں اپنی کوششوں کو صرف کر دیں اور اس طرح بجائے اپنی طاقتوں کو تلف کرنے کے ان سے بہترین رنگ میں کام لیکر اسلام کی ترقی میں محمد ہوں.جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ اعلان لوگوں کے سامنے کیا دنیا کے اسلحہ کی یہ حالت تھی کہ گو مسلمان اتنا اسلحہ جمع نہیں کر سکتے تھے جتنا اسلحہ دوسری قوموں نے جمع کیا ہوا تھا اور گو وہ اتنا اعلیٰ اسلحہ تیار نہیں کر سکتے تھے جتنا اعلیٰ اسلحہ دوسری قوموں نے تیار کیا ہوا تھا مگر بہر حال جس قسم کا اسلحہ دوسری قومیں استعمال کرتی تھیں اسی قسم کا اسلحہ گو ردی ہی ہو مسلمان تیار کر سکتے تھے اور انہیں اس ذریعہ سے دنیا پر غالب آ جانے کا کسی قدر خیال ہو سکتا تھا مگر آج کیا حالت ہے.یہ اعلان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ۱۹۰۲ء میں کیا تھا اور اب ۱۹۴۳ء ہے گزشتہ اکتالیس سال کے عرصہ میں جنگ کے اسلحہ میں جو حیرت انگیز ترقی ہوئی ہے اس کو دیکھتے ہوئے کیا کوئی شخص بھی یہ خیال کر سکتا ہے کہ اس قدر اسلحہ آج مسلمان جمع کر سکتے ہیں.آج ساری جنگ یا تو آبدوز کشتیوں پر آگئی ہے اور یا پھر ہوائی جہازوں پر آگئی ہے.تو پیں بنانے والے مسلمانوں میں موجود تھے گوردی قسم کی تو ہیں بنانے والے ہی کیوں نہ ہوں، بندوقیں بنانے والے مسلمانوں میں موجود تھے گو ردّی قسم کی بندوقیں بنانے والے ہی کیوں نہ ہوں، تلواریں بنانے والے مسلمانوں میں موجود تھے گو روی قسم کی تلواریں بنانے والے ہی کیوں نہ ہوں مگر ہوائی جہاز اور آبدوز جہاز بنانے کا کارخانہ آج کسی اسلامی ملک میں نہیں اور نہ قریب ترین زمانہ میں کسی اسلامی ملک میں اس قسم کا کارخانہ بننے کی کوئی توقع کی جاسکتی ہے.اور اگر کسی وقت مسلمان حکومتوں میں کارخانے بنے بھی تو جس قسم کے سامان یورپین حکومتوں کے پاس ہیں اور جس قسم کے اعلیٰ درجہ کے کارخانے انہوں نے بنا رکھے ہیں ان کی اتنی کثرت ہے کہ اب کسی اور کار خانے کو پنپنے کا موقع ہی نہیں مل سکتا.جس طرح ایک بڑے درخت کے نیچے چھوٹی کو نپل پنپ نہیں سکتی اسی طرح یورپین حکومتوں نے اسلحہ کو اتنی بلندی پر پہنچا دیا ہے کہ اب کوئی اور کار خانہ ان کے سامنے پنپ ہی
نہیں سکتا.صرف امریکہ نے پچھلے سال ایک لاکھ چالیس ہزار ہوائی جہاز تیار کئے ہیں 19 اور ایک ایک ہوائی جہاز ایسا ہوتا ہے جو شہروں کے شہر برباد کر دیتا ہے.وہ جنگ جس کے متعلق کئی مسلمان یہ خیال کرتے تھے کہ اس میں انگریزوں کے دشمن غالب آجائیں گے اسی جنگ ނ نے انہیں اس قدر اسلحہ جمع کرنے کی طاقت دے دی ہے کہ اب ان کے سامنے دنیوی لحاظ سے کسی کے کھڑے ہونے کا امکان بھی نہیں ہو سکتا.جس وقت جرمنی نے حملہ میں ابتداء کی ہے وقت ہزاروں لاکھوں مسلمان اور کروڑوں کروڑ ہندو اور دوسرے مذاہب کے پیرو یہ خیال کرتے تھے کہ اس جنگ کے دوران میں انگریز اتنے کمزور ہو جائیں گے کہ وہ دنیا پر حکومت کرنے کے قابل نہیں رہیں گے مگر ہوا یہ کہ جنگ کو فتح کرنے کی نیت سے انہوں نے ایسی شاندار قربانی کی ہے اور ایسے ایسے اسلحہ جمع کر لئے ہیں کہ اب ان کے مقابلہ میں کھڑے ہونے کی کوئی جرات تک نہیں کر سکتا.لاکھوں لاکھ ہوائی جہاز انگلستان اور امریکہ نے جمع کر لئے ہیں اور ان کے مقابل کی وہ طاقتیں جو ان کا ہاتھ روک لیا کرتی تھیں کچلی جارہی ہیں.اب تک ان طاقتوں کو اگر ظلم سے کسی چیز نے باز رکھا تھا تو وہ یہ نہیں تھی کہ وہ ظالم نہیں تھیں بلکہ وہ اس لئے دو سروں پر ظلم کرنے سے رُکی ہوئی تھیں کہ وہ چاہتی تھیں کہ اس دوران میں اپنی طاقتوں کو زیادہ سے زیادہ بڑھا لیں.پس وہ اگر ظلم سے رُکی رہی ہیں تو ایشیائیوں کی بھلائی کے خیال سے نہیں بلکہ اپنی طاقت بڑھانے کے خیال سے اور اس وجہ سے کہ وہ اپنے اندر مقابلہ کی اور زیادہ قوت پیدا کر لیں مگر آج وہ تمام طاقتیں جو سو سال سے بعض مغربی طاقتوں کو روک رہی تھیں اس طرح کچلی جارہی ہیں کہ ایک دو سال کے اندر اندر ان کی پرانی طاقت اور قوت ایک کہانی بن کر رہ جائے گی اور وہ ایسے ہی کمزور ہو جائیں گے جیسے ہمارے ہمسایہ سرحدی قبائل ہیں کہ لڑائی کے ان کے پاس کوئی سامان نہیں.وہ اس طرح تو کرلیں گی کہ کبھی کسی انگریز کو مار دیا یا کبھی کسی امریکی کو مار دیا مگر با قاعدہ لڑائی کرنے کی جرات ان میں نہیں رہے گی اور نہ ان سامانوں کے مقابلہ میں کسی کو جرات ہو سکتی ہے جو آج انگریزوں اور امریکنوں کے پاس ہیں.ان پر لڑائی کرنے کی اب امید رکھنا ایسا ہی ہے جیسے لاکھوں ہوائی جہازوں کے مقابلہ میں کوئی شخص سرحدی افغانوں پر امید رکھے کہ وہ ان کا مقابلہ کر سکیں گے.لاکھوں ہوائی جہاز تو کیا اگر ان کا سواں حصہ بھی آجائے تو کیا سرحد کی کوئی طاقت ان کا مقابلہ کر سکتی ہے ؟ تو اللہ تعالٰی نے وہ الفاظ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے منہ سے کہلوائے تھے کہ
یہہ حکم سن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا وہ کافروں سے سخت ہزیمت اٹھائے گا ایسے واضح طور پر پورے کر کے دکھا دیئے ہیں کہ اگر دنیوی طاقت کے ذریعہ سے اسلام نے بڑھنا ہو تا تو آج اسلام کی موت کا دن ہو تا جس کے بعد اس کی زندگی کی کوئی صورت نہیں تھی.پس وہ لوگ جو اسلام کی ترقی جہاد سے وابستہ سمجھتے ہیں، وہ لوگ جو اسلام کی ترقی تلوار سے وابستہ قرار دیتے ہیں وہ دیکھ لیں اور اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ تلوار سے بڑھنے والے اسلام کی شان و شوکت ایک مُردہ جسم کی صورت میں پڑی ہوئی ہے.جس کے دوبارہ زندہ ہونے کی کوئی صورت نہیں مگر وہ جس کے دل میں یہ یقین اور ایمان ہے کہ اسلام تلوار سے نہیں بلکہ ہمارے طاقتور خدا کے ہاتھ سے بڑھے گا وہ دیکھ لے کہ اسلام زندہ ہے زندہ رہے گا اور اس کے مقابل کی تمام شیطانی طاقتیں مٹا دی جائیں گی.آج وہ حالات رونما ہیں کہ ان کی بناء پر ہم کہہ سکتے ہیں مسلمانوں کی وہی حالت ہے جو رسول کریم می و و و ویلی کی وفات پر مسلمانوں م کی کے ایک طبقہ کی ہوئی اور ہماری حالت وہی ہے جو حضرت ابو بکر کی محمد ل ل ل ا ل لیوی کی لاش مبارک کو دیکھ کر ہوئی.جب رسول کریم ملی الہ وسلم کی وفات ہو گئی تو اس وقت غلطی سے مسلمانوں کے ایک جبھہ نے یہ سمجھا کہ اگر ہم رسول کریم ملی یا اللہ کی موت کو تسلیم کر لیں تو اس کے معنی یہ ہونگے کہ اسلام کی موت ہو گئی.پس وہ رسول کریم میں لیوی کی وفات سے منکر ہو گئے.بالکل اسی طرح جس طرح جہاد کے منسوخ یا ملتوی ہونے کے منکر آج کل کے مسلمان ہیں.وہ رسول کریم میم کی وفات کو تسلیم ہی نہیں کرتے تھے بلکہ کہتے تھے کہ آپ زندہ ہیں اور جو شخص یہ کے گا کہ آپ وفات پاگئے ہیں اس کی گردن تلوار سے اُڑا دیں گے.آخر حضرت ابو بکر کو اس واقعہ کی خبر پہنچی.آپ آئے اور سب سے پہلے حضرت عائشہ ان کے گھر گئے اور کہا عائشہ ! تمہارے صاحب کا کیا حال ہے ؟ حضرت عائشہ نے کہا آپ وفات پا گئے ہیں.حضرت ابو بکر آگے بڑھے اور رسول کریم میل کے بے جان جسم کو چارپائی پر پڑا ہوا دیکھ کر آپ کی پیشانی کو بوسہ دیا.اُس وقت اسلام کی دنیوی شان و شوکت بظاہر بالکل مردہ نظر آتی جس طرح آج اسلام دنیوی لحاظ سے مُردہ نظر آتا ہے.پھر حضرت ابو بکر نے سر اٹھایا اور خاموشی سے باہر مسجد میں آگئے.اُس وقت حضرت عمر تلوار لئے کھڑے تھے تاکہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ محمد ملی میں فوت ہو گئے ہیں تو اسی وقت اس کا سر تلوار سے اُڑا دیں.کچھ اور.اضي
۳۶۹ جوشیلے صحابہ بھی ان کے ساتھ اپنے ہاتھوں میں تلواریں لئے ادھر اُدھر ٹہل رہے تھے کہ ادھر کسی مسلمان کے منہ سے یہ نکلے کہ رسول کریم میں اور وہ فوت ہو گئے ہیں اور ادھر وہ اس کا سر تن سے جدا کر دیں.حضرت ابو بکر خاموشی سے منبر کی طرف بڑھتے چلے گئے.جب حضرت عمر" نے دیکھا کہ ابو بکر منبر کی طرف جا رہے ہیں تو انہوں نے خیال کیا کہ ایسا نہ ہو یہ کوئی ایسی بات کہہ دیں جو میرے عقیدہ کے خلاف ہو.چنانچہ انہوں نے حضرت ابو بکر کے ہاتھ کو پکڑ کر بات کرنی چاہئی.حضرت ابو بکر نے جھٹکا دے کر ہاتھ چُھڑا لیا اور خاموشی سے منبر کے پاس گئے اور فرمایا.اے لوگو!ا سنو وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَّاتَ أوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ ، محمد رسول الله من صرف رسول تھے خدا نہیں تھے.خدا فرماتا ہے کہ اگر وہ مر جائیں یا قتل کر دیئے جائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل لوٹ جاؤ گے.پھر آپ نے فرمایا - مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللهَ فَإِنَّ اللهَ حَيَّ لَا يَمُوتُ.اے لوگو! سنو جو شخص تم میں سے محمد رسول اللہ کی عبادت کیا کرتا تھا.وہ دیکھ لے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں.لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کرتا تھا اسے معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ زندہ ہے اور وہ کبھی نہیں مرے گا.۱۸، یہی نظارہ ہمیں آج بھی دکھائی دے رہا ہے.جو لوگ اسلام کو صرف دنیوی طاقت کی صورت میں دیکھ رہے تھے وہ دیکھ لیں کہ اسلام ان کے سامنے مردہ پڑا ہوا ہے لیکن وہ لوگ جو اسلام کو خدا کے دین کی شکل میں دیکھ رہے تھے اور سمجھتے تھے کہ اسلام صرف دنیوی طاقت کی صورت میں نہیں بلکہ روحانیت کی صورت میں ہے وہ جانتے ہیں کہ اسلام زندہ ہے زندہ رہے گا اور دنیا کی کوئی طاغوتی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکے گی.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو یہ فرمایا تھا کہ :.حکم سن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا وه کافروں سے سخت ہزیمت اٹھائے گا یہ ارشاد ایسا تین اور واضح طور پر آج پورا ہو رہا ہے کہ سوائے کسی احمق اور پاگل کے جس کی جگہ پاگل خانہ کے سوا اور کوئی نہ ہو اس سے انکار کی اور کسی میں جرات نہیں ہو سکتی اور کوئی نہیں جو یہ کہہ سکے کہ دنیوی سامانوں، ہوائی جہازوں، آبدوزوں اور دوسرے سینکڑوں قسم کے ان جنگی ہتھیاروں کا مسلمان مقابلہ کر سکتے ہیں جو یورپین حکومتوں نے تیار کئے ہوئے ہیں بلکہ
٣٧٠ مسلمان تو کیا جو ہتھیار جرمن جاپان اور اٹلی نے تیار کئے ہوئے تھے وہ بھی ان کے کام نہ آئے اور خدا تعالیٰ نے پرانی پیشگوئیوں کے مطابق دنیا کے تغیرات کا جو راستہ مقرر کر رکھا ہے اس میں جو بھی کھڑا ہوا وہ ہٹا دیا گیا.لیکن اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے جو حضرت ابو بکر نے وَ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَاِنَّ اللهَ حَيَّ لا يَمُوتُ کے الفاظ میں بیان کیا تھا.یعنی اسلام کی زندگی روحانی سامانوں سے مقدر ہے نہ کہ جسمانی سامانوں سے اور یہی وہ چیز تھی جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لوگوں کو لانا چاہتے تھے.19، احمد یہ جماعت سے بھی یہ غفلت ہوئی کہ وہ جہاد کو اکیلا دنیا کے سامنے پیش کرتے رہے حالانکہ یہ کسی نبی کا کام نہیں ہو سکتا کہ وہ لوگوں کے دلوں میں مایوسی پیدا کر دے.مومن کا ایمان ہمیشہ خوف اور رجاء کے درمیان ہوتا ہے.۲۰ وہ ڈرتا بھی ہے اور اللہ تعالیٰ پر امید بھی رکھتا ہے.جو شخص صرف ڈرتا ہے اور امید نہیں رکھتا وہ بھی کافر ہے اور جو اپنی حالت پر بالکل مطمئن ہو جاتا ہے اور ڈرتا نہیں وہ بھی کافر ہے.مومن وہی ہے جس کا ایمان بَيْنَ الْخَوْفِ وَالرَّجَاءِ ہو جیسا کہ قرآن کریم کی تعلیم ہے اور صوفیاء نے لکھا ہے.اس پس یہ کہنا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جہاد سے ممانعت کی تعلیم اس لئے دی تاکہ مسلمان کافروں سے لڑیں نہیں اور اپنے مذہب کو غالب نہ کریں اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ نے مسلمانوں کے دلوں میں اپنی فتح کی نسبت مایوسی پیدا کر دی جو ہر گز درست نہیں.پس جہاد کی منسوخی اور اس کے التواء کے معنی صرف اس قدر لینا کہ اسلام کی فتح کا اب کوئی ذریعہ باقی نہیں رہا آپ کی طرف نَعُوذُ بِاللهِ کفر اور الحاد کی تعلیم کو منسوب کرتا ہے اور یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی آکر کہہ دے کہ فلاں راستہ بند ہے اور یہ نہ بتائے کہ کھلا کونسا راستہ ہے.پس خالی جہاد کی ممانعت کو پیش کرنا درست نہیں تھا کیونکہ یہ مضمون مسلمانوں کے دلوں میں مایوسی پیدا کرتا ہے.حقیقت ہے کہ تبلیغ اور جہاد یہ دو مضمون ہیں جو اکٹھے ایک وقت میں بیان ہونے چاہئیں اور یہ دونوں مضمون حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک ہی جگہ بیان فرمائے ہیں.چنانچہ سب آپ نے یہ کہا کہ موجودہ زمانہ میں جہاد جائز نہیں تو اس کا صرف یہ مطلب تھا کہ اسلام کی ندگی جہاد سے وابستہ نہیں بلکہ تبلیغ سے وابستہ ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام نے اسلام کی ترقی کا کوئی دروازہ بند نہیں کیا بلکہ جو دروازہ کھلا تھا اس کو پیش کیا.مگر ہماری جماعت کے دوست غلطی سے بند دروازہ تو پیش کرتے رہے مگر جو دروازہ کھلا تھا اور جو
ایک ہی ذریعہ احیاء اسلام کا تھا اس کو پیش نہ کیا.حالانکہ خالی جہاد کی تعلیم صرف انگریزوں کو خوش کر سکتی ہے مسلمانوں کے دلوں میں یہ تعلیم مایوسی پیدا کرتی ہے.یا اگر بعض مسلمان مایوس نہیں ہوتے تو وہ ہمارے متعلق سمجھتے ہیں کہ ہم اسلام کے دشمن ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جہاد کو دعوت و تبلیغ سے وابستہ قرار دیا ہے یعنی صرف ممانعت جہاد کا آپ نے اعلان نہیں کیا بلکہ اس کے ساتھ ہی آپ نے اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ اب اسلام کی اشاعت اور اس کی ترقی کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ لوگوں کو تبلیغ کی جائے اور انہیں اسلام کی طرف کھینچا جائے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسی ممانعت جہاد والی نظم کے خاتمہ پر فرماتے ہیں.میں سے جس کو دین و دیانت سے ہے پیار اب اس کا فرض ہے کہ وہ دل کر کے استوار لوگوں کو بتائے کہ وقت مسیح ہے اب جنگ اور جہاد حرام اور قبیح ہے ۲۲؎ یعنی یہ نہیں کہ میں تم کو صرف جنگ سے روکتا ہوں بلکہ اس کے ساتھ ہی تمہیں یہ بھی کہتا ؟ ہوں کہ اسلام کی فتح کا راستہ اور ہے اور اسی راستہ پر چلانے کے لئے خدا تعالٰی نے مجھے کو بھیجا ہے.پس میں تمہیں بتاتا ہوں کہ اب تلوار کے ذریعہ تم کامیاب نہیں ہو سکتے بلکہ اگر تم دشمنوں پر فتح حاصل کرنا چاہتے ہو ، تم اسلام کو دوسرے تمام ادیان پر غالب اور برتر کرنا چاہتے ہو تو تم میری تعلیم اور میرے لائے ہوئے براہین کو لوگوں کے سامنے پیش کرو اور پھر دیکھو کہ کس طرح اسلام دنیا پر غالب آتا ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جہاد کی ممانعت کے ذریعے مسلمانوں کے دلوں میں مایوسی پیدا نہیں کی بلکہ جہاد کے غلط راستہ پر چلنے سے روک کر تبلیغ کا راستہ ان کے سامنے کھول دیا اور اس طرح ان کے دلوں میں اسلام کی فتح اور اس کی کامیابی کے متعلق ایک غیر متزلزل یقین اور ایمان پیدا کر دیا.آج زمانہ کے حالات نے بھی بتا دیا ہے کہ جہاد پر عمل اس زمانہ میں غلط اور ملک ہے اور یہ کہ اب اسلام کے احیاء اور اس کی ترقی و اشاعت کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ تبلیغ سے دوسرے ادیان پر فتح پانا ہے.پس ہر وہ شخص جس کے دل میں دین کا درد ہے جو اپنے اندر سچا ایمان اور سچا اخلاص رکھتا ہے اس کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کو بتائے کہ مسیح آگیا ہے.وہ لوگوں کو یہ پیغام پہنچائے کہ اسلام کا
1 ۳۷۲ خدا سچا خدا ہے ، محمد رسول اللہ م ل ل ا ل لی ہے اس کے بچے رسول ہیں ، قرآن اس کی سچی کتاب ہے تا کہ اگر کوئی شخص مقابلہ کرے تو وہ خدا تعالیٰ کے نشانات و معجزات کی تلوار سے کاٹا جائے اور فرشتوں کی کھینچی ہوئی تلوار سے اس کے سر پر پڑے.آخر ہوائی جہاز کیوں غالب آتے ہیں اس لئے کہ وہ اوپر ہوتے ہیں اور لوگ نیچے ہوتے ہیں.رسول کریم ملایا اور فرماتے ہیں کہ اليد العليا خَيْرٌ مِنَ KNOWLEDGE السفلی ۲۳ اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے ہمیشہ بہتر ہوتا ہے.ہوائی جہاز چونکہ اوپر ہوتے ہیں اور لوگ نیچے ہوتے ہیں اس لئے وہ بمباری کر کے لوگوں کو ہلاک کر دیتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے فرشتے تو ہوائی جہازوں سے بھی اوپر ہوتے ہیں.پس جب کوئی خدا تعالیٰ کے دین کا مقابلہ کرتا ہے تو فرشتے آسمان کی بلندیوں سے اس پر گولے برساتے ہیں اور کسی شخص کی طاقت میں نہیں ہو تا کہ ان کا مقابلہ کر سکے کیونکہ ہوائی جہاز بھی نیچے رہ جاتے ہیں، لوگ بھی نیچے ہوتے ہیں مگر فرشتے اوپر سے ان پر گولے برساتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ نے موجودہ زمانہ کے حالات کے ذریعہ ہمیں بتا دیا ہے کہ اسلحہ کے ذریعے دشمنوں کا کبھی مقابلہ نہیں کیا جا سکتا اور وہ لوگ سخت غلطی پر تھے جو جہاد کو اسلام کی ترقی کا ذریعہ سمجھے بیٹھے تھے.د قالی طاقتوں کو کچلنے اور اسلام کو غالب کرنے کا ایک یہی ذریعہ ہے کہ ہر شخص تبلیغ میں منہمک ہو جائے اور لوگوں تک خدا تعالیٰ کی وہ آواز پہنچائے جو اس کے کانوں میں پڑی اور جسے قبول کرنے کی اسے سعادت حاصل ہوئی.بے شک یہ ایسا ذریعہ ہے کہ انسان بعض دفعہ یہ محسوس کرتا ہے کہ یہ تلوار دو سرے کی بجائے وہ خود اپنے اوپر چلا رہا ہے.وہ تبلیغ کرتا ہے اور مہینوں نہیں سالوں تبلیغ کرتا چلا جاتا ہے مگر اس کا کوئی اثر نہیں دیکھتا.لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ یہ تلوار بے حقیقت ہے یا تبلیغ اپنے اندر کوئی اثر نہیں رکھتی کیونکہ اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ بھی نظارہ نظر آتا ہے کہ ایک مدت کے بعد جب تبلیغ کا اثر ہونے لگتا ہے تو لوگ یوں جوق در جوق حق کو قبول کرنے لگ جاتے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے دریا نے بڑی تیزی سے کناروں کو گرانا شروع کر دیا ہے.غلطی یہ ہے کہ صحیح طور پر تبلیغ نہیں کی جاتی اور استقلال سے تبلیغ نہیں کی جاتی.رسول کریم میں لیا اور ہم نے تیرہ سال تبلیغ کی مگر مکہ میں سے صرف اسی آدمیوں نے آپ کو قبول کیا.۲۴- اس کے بعد آپ مدینہ تشریف لے گئے تو پانچویں سال کے آخر میں ہی قوموں کی قومیں علاقوں کے علاقے اور قبیلوں کے قبیلے اسلام میں داخل ہونے لگ گئے اور وہ آپ کے پاؤں پر عقیدت کے پھول نچھاور کرنے لگے.۲۵
غرض اس جنگ نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ اس زمانہ میں جہاد کا رستہ بند ہے تو تبلیغ کا رستہ پہلے سے زیادہ کھلا ہوا ہے.میں نے جو کہا ہے کہ اس زمانہ میں تبلیغ کا راستہ پہلے سے زیادہ کھلا ہوا ہے تو اس کی میرے پاس دلیل بھی موجود ہے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَإِذَا الْجَنَّةُ ازْ لِفَتْ ۲۶ کہ آخری زمانہ میں جنت قریب کر دی جائے گی جس کے معنی یہ ہیں کہ تبلیغ کا راستہ پہلے کی نسبت بہت زیادہ کھل جائے گا کیونکہ جنت تبھی قریب ہو سکتی ہے جب بغیر کسی خاص مشقت کے جنت میں داخل ہونے کے سامان میسر آجائیں.چنانچہ موجودہ زمانہ میں ایسے ہی حالات پیدا ہو چکے ہیں کہ اب لوگوں کے دل خود بخود موجودہ دینیوں سے متنفر ہو رہے ہیں.جس طرح یورپین لوگوں کے دل ایشیائیوں کی حقارت سے پر ہیں اسی طرح ان کے دل اپنے مذہب کی تحقیر سے بھی لبریز ہیں.پس اگر ایک طرف وہ ہمارا مٹی کا گھر توڑنے کی فکر میں ہیں تو دوسری طرف وہ اپنے روحانی گھر کو آپ تو ڑ رہے ہیں.پس یہ کیسا ہی اچھا موقع ہے کہ جب وہ ہمارے مٹی کے گھر کو توڑ رہے ہوں ہم انہیں تبلیغ کے ذریعہ اپنے روحانی گھر میں لے آئیں.اس کے بعد خانہ واحد کا معاملہ ہو جائے گا اور ہمارا نقصان ان کا نقصان اور ہمارا فائدہ ان کا فائدہ ہو جائے گا.غرض یہ ایک ایسی آنکھیں کھولنے والی بات ہے کہ اگر اس کو دیکھتے ہوئے بھی کسی شخص کے دل میں تبلیغ کے متعلق بیداری پیدا نہ ہو اور یہ عمد صمیم کر کے نہ اُٹھے کہ میں اپنے ارد گرد کے رہنے والوں کو اور اپنے ہمسایوں کو اور جہاں جہاں میں پہنچ سکتا ہوں وہاں تک رہنے والوں کو اسلام کی تبلیغ کروں گا تو اس سے زیادہ بد قسمت انسان اور کوئی نہیں ہو سکتا.آج اسلام کی ترقی کے لئے چاروں طرف تلوار سے کا راستہ بند اور مسدود ہو چکا ہے اسلام کی ترقی کے لئے بندوق کا راستہ بند اور مسدود ہو چکا ہے، اسلام کی ترقی کے لئے توپ کا راستہ بند اور مسدود ہو چکا ہے، اسلام کی ترقی کے لئے جہازوں اور ہوائی جہازوں کا راستہ بند اور مسدود ہو چکا ہے، ایک ایک قلعہ جو محمد علی الم کے صحابہ نے اپنے خون کو بہا کر قائم کیا تھا آج مسمار ہوتا نظر آ رہا ہے اور تلواروں، بندوقوں، تو پوں اور ہوائی جہازوں سے ان قلعوں کو محفوظ رکھنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا لیکن اس دنیا کے پردہ پر ایک احمدیہ جماعت ایسی ہے جو اپنے دلوں میں یہ یقین اور ایمان رکھتی ہے کہ تو پوں کے ذریعہ سے نہیں، تلواروں کے ذریعہ سے نہیں ، بندقوں کے ذریعہ سے نہیں ، ہوائی جہازوں کے ذریعہ سے نہیں، بلکہ تبلیغ اور
نہیں سوم کے سر تعلیم اور وعظ و نصیحت کے ذریعہ سے پھر دوبارہ ان کرتے ہوئے قلعوں کی تعمیر کی جائے گی پھر دوبارہ اسلام کے احیاء کی کوشش کی جائے گی ، پھر دوبار محمد میر کے جھنڈے کو کسی چوٹی کسی پہاڑ پر نہیں کسی قلعہ پر نہیں بلکہ دنیا کے قلوب پر گاڑا جائے گا.اور اس میں کیا شبہ ہے کہ دلوں پر گاڑا ہوا جھنڈا اُس جھنڈے سے بہت زیادہ بلند اور بہت زیادہ مضبوط اور بہت زیادہ پائیدار ہوتا ہے جسے کسی پہاڑ کی چوٹی یا قلعہ پر گاڑ دیا جائے.پس آج اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ تبلیغ میں لگ جائے اور غیر احمدیوں کو بھی تلقین کرے کہ وہ دوسرے مذاہب والوں کو تبلیغ کیا کریں کیونکہ گو احمدیت اور عام مسلمانوں کے عقائد میں بہت بڑا فرق ہے مگر پھر بھی بہت سے مشترکہ مسائل ایسے ہیں جن میں ہمارا اور ان کا یکساں عقیدہ ہے.پس اگر غیر احمدی بھی تبلیغ کرنے لگ جائیں اور وہ غیر مذاہب والوں کو داخل اسلام کریں تو گو وہ حقیقی اسلام سے پھر بھی دور ہوں گے مگر ہمارے نقطہ نگاہ سے وہ پہلے کی نسبت اسلام سے بہت زیادہ قریب ہو جائیں گے.آخر ہر جگہ ہم ہندوؤں میں تبلیغ نہیں کر سکتے ، ہر جگہ ہم سکھوں میں تبلیغ نہیں کر سکتے ، ہر جگہ ہم جینیوں میں تبلیغ نہیں کر سکتے ، ہر جگہ ہم زرتشتیوں میں تبلیغ نہیں کر سکتے ہر جگہ ہم بدھوں میں تبلیغ نہیں کر سکتے.بلکہ سینکڑوں ایسے مقامات ہیں جہاں ایک بھی احمدی نہیں.پس اگر ہم ہی تبلیغ کریں تو ایک وسیع میدان تبلیغ سے خالی پڑا رہے گا لیکن اگر ہم ہر غیر احمدی کو سمجھانے کی کوشش کریں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب جہاد سے منع کیا تھا تو اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ تم اپنے ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ جاؤ اور اسلام کی ترقی کے لئے کوئی کوشش نہ کرو بلکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ محمد میر کے لائے ہوئے دین کو بجائے تلوار کے ذریعہ پھیلانے کے دلائل و براہین اور تبلیغ کے ذریعہ پھیلاؤ اور اس لحاظ سے اب تمہارا بھی فرض ہے کہ تم یہی ہتھیار لے کر گھر سے نکلو اور ہر غیر مسلم کو تبلیغ کے ذریعہ اسلام میں داخل کرنے کی کوشش کرو تو اس کے بعد جو لوگ ان غیر احمدیوں کے ذریعہ اسلام میں داخل ہوں گے گو وہ اس نام نہاد اسلام میں داخل ہوں گے جس میں قسم قسم کی غلطیاں پیدا ہو چکی ہیں لیکن پھر بھی وہ حقیقی اسلام کے پہلے کی نسبت بہت زیادہ قریب ہو جائیں گے.پس صرف خود ہی تبلیغ نہ کرو بلکہ ہر غیر احمدی کو جو تمہیں ملتا ہے سمجھاؤ اور اسے بتاؤ کہ آج اسلام کی ترقی کا صرف یہی ایک حربہ رہ گیا ہے اس کے سوا اور کوئی ذریعہ اسلام کی ترقی کا نہیں.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ تم میں سے جسے
۳۷۵ دین سے پیار ہے، جسے دیانت سے پیار ہے، جس کے اندر نور ایمان اور نور اخلاص پایا جاتا ہے اب اس کا فرض ہے کہ وہ اپنے دل کو استوار کر کے لوگوں کو بتائے کہ وقتِ مسیح ہے اب جنگ اور جہاد حرام اور قبیح ہے اب اس کا یہی فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو تبلیغ کے لئے وقف کر دے اور لوگوں کو بتائے کہ وقتِ مسیح ہے.جنگ و جدل کا زمانہ گذر گیا.اب تلوار کا زمانہ نہیں بلکہ تبلیغ کا زمانہ ہے.پس ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ دن کو بھی تبلیغ کرے اور رات کو بھی تبلیغ کرے ، صبح کو بھی تبلیغ کرے اور شام کو بھی تبلیغ کرے اور جب عملی رنگ میں تبلیغ نہ کر رہا ہو تو دماغی رنگ میں تبلیغ کے ذرائع پر غور کرتا رہے گویا اس کا کوئی وقت تبلیغ سے فارغ نہ ہو اور وہ رات اور دن اسی کام میں مصروف رہے.مگر یاد رکھو تبلیغ وہی ہے جو حقیقی معنوں میں تبلیغ ہو بحث مباحثہ کا نام تبلیغ نہیں.میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ جس طرح تم اُس سانپ کو مارنے کی فکر میں لگ جاتے ہو جو تمہارے گھر میں نکلے اسی طرح اگر تمہارے دلوں میں نور ایمان پایا جاتا ہے تو تم بحث و مباحثہ کو اسی طرح کچل دو جس طرح سانپ کا سر کچلا جاتا ہے.جب تک تم میں بحث و مباحثہ رہے گا اس وقت تک تمہاری تبلیغ بالکل محدود رہے گی اور تمہارا مشن ناکام رہے گا.اگر تم اپنی تبلیغ کو وسیع کرنا چاہتے ہو ، اگر تم اپنے مشن میں کامیاب ہونا چاہتے ہو تو تم بحث مباحثہ کو ترک کر دو.جس دن تم تبلیغ کے لئے صحیح معنوں میں نکلو گے اور اپنے دلوں میں لوگوں کیلئے درد اور سوز بھر کر ان تک پہنچو گے وہی دن تمہاری کامیابی کا دن ہو گا اور اسی دن تم صحیح معنوں میں تبلیغ کرنے والے قرار پا سکو گے.تمہارا کام یہ ہے کہ تمہارے سامنے خدا تعالیٰ نے جو راستہ کھولا ہے اس پر چل پڑو اور اپنے دائیں بائیں مت دیکھو کہ مومن جب ایک صحیح راستہ پر چل پڑتا ہے تو اپنے ایمان اور اخلاص کے لحاظ سے وہ کسی اور طرف دیکھنے سے اندھا ہو جاتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میرا کام یہی ہے کہ میں اس راستہ پر چلتا چلا جاؤں اور درمیان میں آنے والی کسی روک کی پروا نہ کروں.وہ بہادر اور نڈر ہو کر سچائی دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے اور بحث مباحثہ کو ترک کر دیتا ہے.میرے پاس ایک دفعہ ایک انگریز آیا اور مجھے کہنے لگا آپ کس طرح کہتے ہیں کہ اسلام ! سچاند ہب ہے.میں نے اسے اسلام کی سچائی کے متعلق کئی دلائل بتائے مگر ہر دلیل جب میں
٣٧٦ پیش کرتا وہ اس کے مقابلہ میں انجیل کی کوئی آیت پڑھ دیتا اور کہتا.آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں انجیل میں تو یہ لکھا ہے میں نے اسے کئی دلائل دیئے مگر جب بھی کوئی دلیل دوں وہ ایسے رحم کے ساتھ کہ گویا میں پاگل ہو گیا ہوں میری طرف دیکھتا تھا اور کہتا تھا آپ کو یہ غلطی لگی ہے.انجیل میں تو یہ لکھا ہے.میں نے اُس وقت اپنے دل میں کہا کہ گو یہ ایک غلط راستہ پر ہی ہے مگر اپنے غلط مذہب سے ایسا اخلاص رکھتا ہے جو قابل رشک ہے.اگر وہ عیسائی ایک منسوخ اور غلط کتاب پر اتنا یقین رکھتا تھا کہ اس کے مقابلہ میں وہ کسی دلیل کو سننے کے لئے تیار نہیں تھا تو کیا ہم کچی کتاب اپنے پاس رکھتے ہوئے یہ پسند کر سکتے ہیں کہ ہم عقلی بحثوں میں پڑے رہیں اور اس کے دلائل لوگوں کے سامنے پیش نہ کریں.لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم میں سے بعض کی یہ حالت ہے کہ وہ کچی کتاب اپنے پاس رکھتے ہوئے عقلی بحثوں میں پڑ جاتے ہیں اور درد اور سوز کے ساتھ تبلیغ کرنے سے کتراتے ہیں حالانکہ سچاد عولی خود اپنی ذات میں ایسا زبر دست اثر رکھنے والا ہوتا ہے کہ اگر اس کے ساتھ کوئی دلیل نہ ہو تو اس کا صرف تکرار ہی لوگوں پر اثر ڈالنے کے لئے کافی ہوتا ہے.تم اگر توحید کے دلائل پیش نہ کرو اور صرف اتنا ہی کہنا شروع کر دو کہ خدا ایک ہے اور اس کی نافرمانی کرنا اور اس کے مقابلہ میں بتوں کو کھڑا کرنا اچھی بات نہیں تو گو اس دعوی کے ساتھ کوئی دلیل نہ ہو، چونکہ یہ ایک صداقت ہے اور صداقت خود اپنی ذات میں ایک شہادت رکھتی ہے اس لئے یہی بات دل پر اثر کر جائے گی اور دوسرا شخص متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے گا.پس بحث مباحثہ کو ترک کر دو کہ اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلتا.بحث مباحثہ میں انسان کبھی مذاق کر بیٹھتا ہے، کبھی چبھتا ہوا کوئی فقرہ کہہ دیتا ہے، کبھی کسی بات پر اعتراض کر دیتا ہے اور اس طرح بحث مباحثہ بجائے ہدایت دینے کے دو سرے کے دل کو اور بھی زیادہ سخت کر دیتا ہے اور تمہارا اپنا ایمان بھی اس کے نتیجہ میں کمزور ہو جاتا ہے کیونکہ جب تم مذاق کرتے ہو یا کوئی چبھتا ہوا فقرہ کہہ دیتے ہو تو تمہارے اپنے دل پر بھی زنگ لگ جاتا ہے اور تمہارا ایمان کمزور ہو جاتا ہے.جب تک تم یہ تبدیلی اپنے اندر نہیں کرے اس وقت تک تم تبلیغ کے کبھی صحیح نتائج نہیں دیکھ سکتے.پس بحث مباحثہ کا سر کچلو اور تبلیغ کی تلوار لے کر کھڑے ہو جاؤ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.اب دین اور دیانت کا معیار صرف یہی ہے کہ تم کھڑے ہو جاؤ اور لوگوں کو تبلیغ کرو.اگر تم لوگوں کو تبلیغ نہیں کرتے ، اگر تم رات اور دن
لوگوں کو داخل اسلام کرنے کی کوشش نہیں کرتے ، اگر تم لوگوں کو یہ نہیں بتاتے کہ اب وقت مسیح ہے، اب اسلام کے غلبہ کا یہ راستہ نہیں کہ تلوار لے کر دشمن کا مقابلہ کیا جائے بلکہ تبلیغ اس کو غالب کرنے کا ذریعہ ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں تمہارے اندر نہ دین پایا جاتا ہے نہ دیانت کا مادہ پایا جاتا ہے.اور جب تمہارا شیخ تمہارا نبی اور تمہارا مامور جو رسول کریم میں لیا اور ملک کا نائب اور خلیفہ ہے تمہارے متعلق یہ کہتا ہے کہ تمہارے اندر دینداری نہیں پائی جاتی تو چاہے تم ہزار قسمیں کھاؤ اور چاہے بیت اللہ کے پاس کھڑے؟ کر اپنی دینداری کے متعلق حلف اٹھاؤ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا فتویٰ یہی ہے کہ اگر تم تبلیغ میں نہیں لگ جاتے تو تمہارے اندر دین اور دیانت کا وجود کبھی تسلیم نہیں کیا جا أو سکتا.ہو (الفضل ۱۲.اکتوبر ۱۹۴۳ء) ۱۸۹۶ء.۱۹۹۳ء صحابی ابنِ صحابی حضرت منشی ظفر احمد صاحب کے صاحبزادے تھے.تقسیم برصغیر کے بعد سے لائلپور میں مقیم رہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیش کرده الهامی تھیوری کہ عربی زبان اُمّ الأنسنة ہے پر تحقیق کے سلسلہ میں اللہ زبانوں میں کام کیا.دو کتابوں اور بیسیوں مضامین کے مصنف اور صاحب دیوان شاعر تھے.۱۹۴۸ء تا ۱۹۹۳ء امیر جماعتہائے احمد یہ ضلع فیصل آباد کے طور پر خدمت کی سعادت پائی.۱۹۵۷ء تا ۱۹۹۳ء وقف جدید کے صدر رہے.صد سالہ جو بلی کمیٹی کے شروع سے لے کر آخر تک صدر رہے.۲۸ مئی ۱۹۹۳ء کو فیصل آباد میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی.البقرة : ۲۸۴ جامع ترمذی ابواب الصوم باب ما جاء لكل اهل بلد رؤيتهم ه تذکره مطبوعه الشركته الاسلامیہ صفحہ ۷۳۸ ایڈیشن چہارم ۱۹۷۷ء صحيح بخاري كتاب الصوم باب رؤية الهلال - فتوی کی دو قسمیں ہیں.ایک کسی شرعی حکم کی توضیح اور دوسرے کسی شرعی حکم کا کسی امر واقعہ پر اطلاق.مثلاً یہ فتویٰ کہ اگر ایک معتبر سنجیدہ آدمی بادل یا غبار والے دن یہ شہادت دے کہ اس نے اپنی آنکھ سے رمضان کا چاند دیکھا ہے تو اس کی شہادت
i واجب القبول ہوگی اور اس بناء پر اگلے دن لوگوں کے لئے روزہ رکھنا ضروری ہو گا یہ ایک شرعی حکم کی وضاحت ہے اور پہلی قسم سے متعلق ہے اس لئے قومی وحدت اور جماعتی نظم کی بناء پر اس قسم سے تعلق رکھنے والے انفرادی فتویٰ کو تسلیم کرنا عام حالات میں ضروری ہے.سوائے اس کے کہ اس قسم کے فتویٰ میں خلیفہ وقت بمشورہ علماء کسی تبدیلی کا فیصلہ کرے یا قاضی بدلائل اس کے خلاف فیصلہ دے.فتوی کی دوسری قسم اطلاقی ہے مثلاً اوپر کی مثال میں یہ فتویٰ کہ جس شخص نے گواہی دی ہے وہ معتبر ہے یا واقعہ میں اُفق ابر آلود یا غبار آلود تھا اس لئے اس شہادت کی بناء پر کل رمضان کا روزہ ہو گا.اس قسم سے تعلق رکھنے والا انفرادی فتویٰ جائز القبول ہے یعنی جس کا دل چاہے اس پر عمل کرے اور جس کا دل چاہے عمل نہ کرے ہاں اگر علماء کی اکثریت اس فتوی کی تائید کرے یا خلیفہ وقت اس کی تصدیق فرما دیں یا اگر وہ قضائی معاملہ ہے تو قاضی اس کے مطابق فیصلہ دے تو پھر یہ بھی واجب التعمیل ہو جائے گا کیونکہ یہ انفرادی فتویٰ دراصل ایک اطلاقی فیصلہ ہے جو دراصل قضاء کے دائرہ کار کے اندر ہے.اور حقیقتاً فتویٰ نہیں اور نہ دار الافتاء سے اس کا براہِ راست تعلق ہے کیونکہ عام حالات میں مفتی کو قاضی کے اختیارات حاصل نہیں ہوتے.حضور کا مذکوره ارشاد غالبا اس دوسری قسم کے فتویٰ سے متعلق ہے.(مکتوب محررہ ۱۲.مئی ۷۰ء ناظم صاحب دار الافتاء سلسلہ احمدیہ بنام مرتب) جنگ عظیم دوم (۱۹۳۹ء تا ۱۹۴۵ء) کی طرف اشارہ ہے جس میں اتحادی حکومتیں انگلستان امریکہ روس کا مقابلہ نازی جرمنی، اٹلی اور جاپان جو محوری طاقتیں کہلاتی ہیں سے تھا.بالآخر فتح اتحادی حکومتوں کی ہوئی.۱۸۵۸ء.۱۹۰۵ ء.بیعت ۱۸۸۹ء.آپ کے بارے میں حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں.وہ ہماری محبت میں ایسے محو ہو گئے تھے کہ اگر ہم دن کو کہتے کہ ستارے ہیں اور رات کو کہتے کہ سورج ہے تو وہ کبھی مخالفت کرنے والے نہ تھے وہ اصحاب الصفہ میں سے گئے تھے جن کی تعریف خدا تعالیٰ نے پہلے ہی سے اپنی وحی میں کی تھی ان کے متعلق ایک خاص الہام بھی تھا مسلمانوں کا لیڈر " ( بدر ۱۲ جنوری ۱۹۰۶ء) ہو ما
تذکره صفحه ۴۰۹ - نا دی ٹائمز.لندن اجراء ۱۷۸۵ء.سول اینڈ ملٹری گزٹ.شملہ.اجراء ۱۸۷۲ء.روزنامہ ۱۸۷۶ و لاہور سے.۱۹۶۳ء میں بند ہو گیا.الله روحانی خزائن جلد ۲۰ ( تذکره الشهادتین) صفحه ۵۳ Under the Absolute Amir ✓ امیر حبیب اللہ خان والی افغانستان - ۲۰ فروری ۱۹۱۹ء.حکومت ۱۹۰۱ء ۱۴ سردار نصر اللہ خان: امیر حبیب اللہ کا بھائی.امیر کے بعد اپنی بادشاہت کا اعلان کیا.لیکن 4 ہفتے بعد ہی امیر حبیب اللہ کے بیٹے امان اللہ نے اسے تخت سے اتار کر خود قبضہ کر لیا.ها ١٩٠٧ء 204-201.Frank A.MartinUnder the Absolute Amir.pp باب کا عنوان ہے Life of Europeans in Kabul ۱۶ ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحه ۴۰ شائع کرده صیغه تألیف و تصنیف ۱۹۵۱ء الفضل مورخہ ۲۰ مارچ ۱۹۴۳ء صفحہ ۶ کالم ۲ پر ۱۹۴۲ء میں امریکہ نے جو جہاز بنائے ان کی تعداد ۴۸ ہزار مرقوم ہے.آل عمران:۱۴۵ صحيح بخارى كتاب المناقب باب مناقب ابى بكر " - صحیح بخاری حجة الوداع باب مرض نبى ووفاته سيرت الامام ابن هشام الجزء الثالث صفحه ٩٩-١٠٠ 19 ملفوظات جلد ۴ صفحہ 11 گورنمنٹ انگریزی اور جہاد صفحہ ۱۴-٬۱۵ ملفوظات جلد سوم ۲۰ صفحہ ۱۷۶ صحیح بخارى كتاب الرقاق باب الرجاء مع الخوف ۲۱ مشهور صوفی بزرگ سہل بن عبداللہ ۲۰۳ھ/۶۸۱۸- ۲۸۳ھ/۸۹۷ء فرماتے ہیں.الخوف ذكر والرجاء انثى منهما يتولد حقائق الايمان - ۲۲ ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ ۴۲ شائع کرده صیغه تألیف و تصنیف ۱۹۵۱ء ( شرح التصرف صفحه ۵۷)
PAI (۳۴) اله فرموده ۱۹ ستمبر ۱۹۴۴ء بمقام عید گاہ.قادیان) 山 قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًاء یعنی ہر تنگی جو مومن پر آتی ہے اس کے بعد اللہ تعالی کی طرف سے غیر محدود وسعت نصیب ہوتی ہے جس کے کم سے کم دو جلوے ہوا کرتے ہیں.دوسری جگہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ که یعنی جو شخص بھی اپنے رب کے مقام سے خوف کرتا ہے اس کو دو جنتیں ملتی ہیں.گویا یہاں بھی دو جنتوں کا ذکر ہے اور وہاں بھی ایک عسر کے ساتھ دو ٹیر بیان فرمائے ہیں گویا ہر ایک عمر کے ساتھ دو ٹیسر کا وعدہ کیا گیا ہے.گو عُسر کا لفظ بھی دہرایا ہے مگر مراد ایک ہی عمر ہے کیونکہ اس پر ال لگایا ہے یعنی وہی عمر جو ہم نے پہلے بیان کیا ہے اس کا دوبارہ ذکر کرتے ہیں.مگر یسر پر ال نہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ پہلا ہی یسر نہیں بلکہ نیا ہے اور جس يُسر کا ذکر پہلی آیت میں ہے اسی کا ذکر دوسری میں نہیں بلکہ اس میں ایک نئے یسر کا ذکر ہے اور دوسرے نکرہ ہونے کی وجہ سے اس میں ایک غیر محدود پن پایا جاتا ہے.کوئی چیز جو انسان کے ذہن میں مستحفر نہ ہو محدود نہیں ہوا کرتی بلکہ اس کی حدود کا تعلق خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت کے ساتھ ہوا کرتا ہے جتنا ئیر ہم خدا تعالیٰ کی رحمت اور اس کے فضل کو جذب کرنے کے ساتھ بڑھاتے جائیں اتنا ہی وہ بڑھتا چلا جائے گا یعنی انسانی اعمال اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے فضل کو جتنا بڑھاتے جائیں گے اتنا ہی ٹیسر بڑھتا چلا جائے گا.مگر العُشر جو دو بار بیان فرمایا اس میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اسلام پر دو تاریک زمانے آنے والے ہیں ایک زمانہ تو وہ تھا جو بعثت رسول کریم میں دل کی ریل سے شروع ہوا اور آپ کی زندگی میں ہی ختم ہو گیا.تمام تکالیف و مصائب اور جملہ مشکلات جو اسلام کے راستہ میں دشمنوں کی طرف سے کھڑی کی گئیں وہ رسول کریم ملی کی زندگی میں ہی آپ کی دعاؤں اور آپ کی قربانیوں کی وجہ سے ختم ہو گئیں اور آپ کی وفات ایک فاتح جرنیل کی حیثیت میں ہوئی.اور آیت اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا میں اسی کی طرف اشارہ ہے اور بتایا گیا
۳۸۲ ہے کہ اے محمد ! ( م ) جو تنگیاں اور جو تکالیف تجھے پہنچ رہی ہیں ان کے بعد خدا تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑی کامیابیاں تجھے ملنے والی ہیں.تنگیاں تو ال لگا کر محصور اور محدود بتائی ہیں مگر سہولت نکرہ کی طرح وسیع ہوگی.رسول کریم میں او ریہ کی تنگی کا زمانہ سارا ۲۳ سال ہے مگر اس کے مقابلہ میں اسلامی فتوحات کا زمانہ اتنا لمبا ہے کہ وہ تنگیاں اور تکالیف اس کے سامنے پیچ ہیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ صحابہ کرام کو بڑے بڑے دکھ دیئے گئے ، بہت تکالیف پہنچائی گئیں مگر بعد میں جو انعام ان کو ملے وہ انعام بتا کر اگر آج لوگوں سے کہا جائے کہ تم یہ دکھ اٹھا لو پھر تمہیں یہ یہ انعام ملیں گے تو یقینا لاکھوں لوگ وہی دکھ بلکہ ان دکھوں سے بھی زیادہ دیکھ اٹھانے کو تیار ہو جائیں گے.اگر آج کسی سے کہا جائے کہ ۲۳ سال دکھ اور تکالیف اٹھاؤ اس کے تم ے بعد تمہیں بادشاہ بنا دیا جائے گا تو لاکھوں انسان بخوشی وہ تکالیف اٹھانے کو تیار ہو جائیں گے جو حضرت ابو بکر نے اٹھا ئیں ، لاکھوں ان مشکلات میں سے گذرنے پر آمادہ ہوں گے جن میں سے حضرت عمر گذرے اور جن میں سے حضرت عثمان اور حضرت علی کو گزرنا پڑا بشر طیکہ ان کو یہ معلوم ہو جائے کہ جو درجہ ان ملا وہی ان کو بھی مل جائے گا.بلکہ لاکھوں نہیں کروڑوں آدمی ان تکالیف کو برادشت کرنے کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیں گے جو صحابہ نے اٹھا ئیں اگر انہیں بتا دیا جائے اور انہیں یقین ہو جائے کہ ان کو بھی وہی انعام ملیں گے جو پہلوں کو ملے تھے.مگر آج کے لوگوں اور ان لوگوں کے حالات میں ایک فرق ہو گا.وہ یہ کہ ابو بکر ، عمر ، عثمان اور علی نے جب ان تکالیف کو برداشت کیا اُس وقت انعامات پر وہ غیب میں تھے.انہوں نے موت کو صرف موت کی خاطر قبول کیا تھا اور ان حکومتوں کے لئے نہ کیا تھا جو بعد میں ان کو ملیں.تیرہ سو سال کا لمبا عرصہ جو اس وقت تک گذرا ہے اور آئندہ خدا جانے یہ اور کتنا لمبا ہو گا اُس وقت ان کے سامنے نہ تھا جب کہ ابو بکر کا نام لیتے ہوئے ہر مسلمان رضی اللہ عنہ ساتھ کہنے والا تھا.حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان نے جب تکالیف اٹھا ئیں تو اُس وقت یہ اتنا لمبا عرصہ ان کے سامنے نہ تھا جب کہ ان کا نام لیتے ہوئے ہر مسلمان ادب و احترام کی وجہ سے آنکھیں نیچی کر لے گا.حضرت علی نے جب یہ تکالیف برداشت کیں تو ان کے سامنے یہ لمبا عرصہ نہ تھا جب ان کے نام کے ساتھ ہی دل میں محبت و احترام کے جذبات پیدا ہوں گے اور علی رضی اللہ عنہ کہا جائے گا بلکہ مسلمانوں کا ایک طبقہ تو ان کو علیہ السلام بھی کہتا ہے.تو فرق یہ ہے کہ ابو بکر نے قربانیاں قربانیوں کی خاطر کی تھیں، عمرؓ نے قربانیاں قربانیوں کی خاطر کی تھیں
٣٨٣ اور یہی حال دوسرے صحابہ کا تھا.وہ قربانیاں قربانیوں کی خاطر کرتے تھے وہ موت کو موت کیلئے قبول کرتے تھے اور ان کے سامنے صرف اللہ تعالٰی کی رضا جوئی تھی.وہ انعامات جو ان کو بعد میں ملے وہ ان کے سامنے نہ تھے نہ ان کے مقصود تھے اس لئے ان کی قربانیاں بڑی ہیں ورنہ جو انعامات ان کو ملے جو بدلہ ان کو ملا یا اگلے جہان میں ملنے والا ہے وہ سامنے رکھ کر اگر ان قربانیوں سے دس گنا بھی زیادہ قربانیاں کی جائیں تو وہ صحابہ کی قربانیوں کے سامنے حقیر ہوں گی اس لئے کہ صحابہ کے سامنے انعامات نہ تھے بلکہ وہ قربانیاں خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت کرتے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ تنگیاں اور یہ تکالیف جو تم نے اُٹھائی ہیں ان کے اٹھانے میں چونکہ یہ بات نہ تھی کہ اس کے بدلہ میں تمہیں انعامات ملیں گے بلکہ اس لئے اٹھا ئیں کہ یہ میرا حکم تھا اس لئے میرے انعامات بھی غیر محدود ہوں گے.گو مومن امید تو یہ رکھتا ہے کہ وہ جو نیک اعمال بجالاتا ہے اس کے نتیجہ میں اس پر اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو گا مگر وہ قربانی اس لئے نہیں کرتا کہ اس کے نتیجہ میں اسے کوئی انعام ملے گا یا جنت ملے گی.مومن اس لئے نمازیں نہیں پڑھتا کہ اس کے نتیجہ میں اسے جنت ملے گی ، اس لئے زکوۃ نہیں دیتا، اس لئے حج نہیں کرتا کہ اسے جنت حاصل ہوگی بلکہ سب نیکیاں اور سب قربانیاں اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھ کر کرتا ہے.، اگر خدا تعالیٰ کہہ دے کہ اس زندگی کے بعد کوئی اور زندگی نہیں بلکہ مرکز انسان مٹی ہو جائے گا تو کیا تم سمجھتے ہو کوئی شریف انسان کے گا کہ میں اب نماز نہیں پڑھوں گا، زکوۃ دینا ترک کر دوں گا ، حج نہیں کروں گا، یہ نیکیاں اور عبادات تو ان سابق احسانات کی وجہ سے ہیں جو اب تک اللہ تعالٰی ہم پر کر چکا ہے آئندہ کے لئے سودے کے طور پر نہیں ہیں.جو سودا کرتا ہے وہ مومن نہیں ہو سکتا.حضرت جنید بغدادی کے متعلق آتا ہے کہ کسی نے ان سے کہا کہ شبلی آپ کا شاگرد ہے وہ کہتا ہے کہ میں تو اللہ تعالیٰ کے سامنے جا کر یہ کہوں گا کہ بے شک تو مجھے دوزخ میں بھیج دے مجھے جنت کی پروا نہیں مجھے تو تیری رضا منظور ہے.یہ بات سنکر حضرت جنید نے کہا کہ شیلی بچہ ہے اس لئے اس نے اس رنگ میں بات کی.میں تو اللہ تعالی کے حضور یہ عرض کروں گا کہ اگر میرے جنت میں جانے سے خوش ہے تو جنت میں بھیج دے اور اگر میرے دوزخ میں جانے میں تیری خوشی ہے تو دوزخ میں بھیج دے.، تو سچا مومن قربانی اس لئے نہیں کرتا کہ اسے جنت مل سکے بلکہ خدا تعالیٰ کی خوشی کے لئے کرتا ہے.بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ وہ جنت اس لئے
حاصل کرتا ہے کہ اس میں اللہ تعالی کی خوشی ہے اور مومن دوزخ کے اظلال یعنی دنیوی تکالیف کو قبول کرتا ہے تو اس لئے نہیں کہ اسے جنت ملے بلکہ اس لئے کہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہو اور اس کا خدا اس سے خوش ہو جائے.لقمان کے متعلق آتا ہے کہ بچپن میں ڈاکو انہیں اٹھا کر لے گئے تھے اور بطور غلام فروخت کر دیا تھا.ان کا آقا ان کی ہوشیاری، ذہانت اور تقویٰ کی وجہ سے ان کی بہت خاطر مدارات کیا کرتا تھا.اس ملک میں خربوزوں کا موسم نہ تھا کسی دوسرے ملک سے ایک تجارتی قافلہ آ رہا تھا کہ اس کے کسی ملازم نے اس کے لئے بے موسم کا خربوزہ بھیجوایا.جب وہ خربوزہ یا سردا اسے ملا تو اس نے اسے چیر کر ایک قاش لقمان کو دی اس لئے کہ وہ ان سے بہت پیار کرتا تھا اور وہ بچے بھی تھے.لقمان نے اس قاش کو بہت مزے لے لے کر کھایا.یہ دیکھ کر اس شخص نے ایک اور قاش دی.آپ نے وہ بھی بہت مزے لے لے کر کھائی اور اس پر اس نے ایک تیسری قاش آپ کو دی اور آپ نے وہ بھی بڑے شوق سے کھائی.اس پر اس شخص کو خیال آیا کہ میں بھی چکھوں اور اس نے ایک قاش اپنے لئے کائی مگر جب پہلا ہی لقمہ اس میں سے لیا تو اسے قے آنے لگی وہ سخت بدبودار تھی اور اس میں سے ہیکہ آرہی تھی اور سخت بد مزہ تھی.اس پر اس نے لقمان کو ڈانٹا اور کہا کہ تمہیں تو میں یہ قاشیں مزے دار سمجھ کر دے رہا تھا نہ کہ دکھ میں ڈالنے کے لئے تم نے مجھے بتا کیوں نہ دیا کہ یہ ایسی خراب چیز ہے اور خواہ مخواہ اپنے آپ کو دکھ میں کیوں ڈالا.لقمان نے جواب دیا کہ میرے آقا! اس ہاتھ سے میں اتنی میٹھی قاشیں کھا چکا ہوں کہ بڑی بے حیائی ہوتی اگر میں ایک کڑوی قاش پر منہ بنانے لگتا.وہ جہاں سچی محبت ہو وہاں بے شک میٹھی میٹھی اور کڑوی کڑوی تو لگتی ہے مگر ایمان ایک ایسی چیز ہے کہ جو کڑوی کو بھی میٹھی بنا دیتا ہے.مومن کے سامنے صرف رضا الہی ہوتی ہے جنت یا دوزخ نہیں.وہ اگر جنت میں جاتا ہے تو اس لئے کہ اس میں اس کے خدا کی رضا ہے.جنت کے متعلق رسول کریم میں نے فرمایا ہے کہ لَا عَيْن رَأَتْ وَلَا أَذْنَّ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ - 1 یعنی اس کی نعمتیں ایسی ہوں گی کہ نہ کبھی انسانی آنکھ نے دیکھیں ، نہ کانوں نے ان کی تعریف سنی اور نہ ہی انسانی قلب میں ان کا خیال گذرا.یہ اس جنت کی تعریف ہے جس کا مومنوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے.کہ اور ہمارا ایمان ہے کہ خدا تعالٰی قادر ہے ، اور وہ چاہے تو اس سے کروڑوں گنا بڑی جنت بھی بنا سکتا ہے لیکن اگر ایسی جنت بنا کر بھی وہ اپنے عاشقوں سے یہ کہتا کہ میری رضا تو اسی میں
۳۸۵ ہے کہ تم اس جنت سے باہر رہو لیکن اگر تم چاہو تو میں تم کو اس میں داخل کر سکتا ہوں تو وہ اس جنت پر کبھی تھوکتے بھی نہ.مومن تو اس لئے جنت کو پسند کرتا ہے کہ اس میں جانا اس کے محبوب کی خواہش ہے اسی لئے خدا تعالیٰ نے جہاں جنت کا وعدہ فرمایا وہاں اپنے عاشقوں کا دل رکھنے کے لئے یہ فرمایا کہ فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِي ؟ یعنی اے پاکیزہ روح فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِی تو میرا سچا اور فرمانبردار بندہ ہوتے ہوئے اس باغ داخل ہو جا.جس میں میں بھی تیرے ساتھ ہوں گا.اس میں دو وجوہ بتائی ہیں کہ مومن جنت میں کیوں داخل ہو گا.ایک تو اس لئے کہ وہ میرا فرمانبردار ہو گا اور دوسرے میں اور وہ اکٹھے اس میں ہوں گے.اس آیت میں اللہ تعالٰی مومن کو گویا یہ بتاتا ہے کہ میں جانتا ہوں تو جنت کی خاطر جنت میں نہیں جائے گا بلکہ میرے قرب کی وجہ سے جائے گا.اس میں جنت کے انعام کو ایسا حقیر بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب تک میں بندہ سے یہ نہ کہوں گا کہ اس میں داخل ہونے میں میری اطاعت ہے وہ داخل نہ ہو گا اور دوسرے جب تک میں اسے یہ نہ کہوں گا کہ یہ جنت اصل مقصود نہیں بلکہ اصل مقصود اس میں داخل ہونے کا یہ ہے کہ تو میرے گا وہ داخل نہ ہو گا.تو اس چھوٹی سی آیت میں اللہ تعالٰی نے عشق و محبت کے رہے بے انتها باب کھول دیے ہیں فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا میں الله تعالى.نے ایک تو آنحضرت میں ایم کیو ایم کے زمانہ میں عظیم الشان انعامات کا وعدہ فرمایا ہے اور اسے دُہرا کر اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ آخری زمانہ میں اسلام پر پھر مشکلات اور مصائب آنے والے ہیں.مگر اے محمد ( ملال تیری قربانیاں اتنی بڑھی ہوئی ہیں کہ دوبارہ جب اسلام پر تنگی اور تکالیف کا زمانہ آئے گا تو انہی کے طفیل ہم دوبارہ ٹیر پیدا کر دیں گے.آخری زمانہ کی تنگیوں کی قیمت بھی ہم نے محمد م ل ا ل ول ولیم کی قربانیوں کی صورت میں وصول کرلی ہے اور یہی قربانیاں دوبارہ اسلام کے لئے رحمت اور فضل کا دروازہ کھولنے کا ذریعہ بن جائیں گی.یہ گویا اللہ تعالیٰ کا ایک وعدہ ہے جس کا مبادلہ بھی اللہ تعالیٰ وصول کر چکا ہے اور اللہ تعالیٰ کا وہ وعدہ بھی نہیں مل سکتا جس کا کوئی مبادلہ نہ ہو تو یہ کیسے ٹل سکتا ہے اور ایسے وعدہ کا ٹلنا تو گویا بیچ نسخ کرنے کے مترادف ہے.آنحضرت ملی و یا لیلی نے فرمایا ہے کہ جو شخص کوئی ہیہ کر کے اسے واپس لے ، وہ گویا قے کر کے چاہنے والا ہے.ملے اور وہ جو ایک سودا کر کے فسخ کرے وہ تو اور زیادہ بُرا فعل کرتا ہے پس اللہ تعالیٰ نے اس وعدہ کو اور زیادہ پختہ بنانے کے لئے فرما دیا کہ ہم ساتھ
۳۸۶ نے آخری زمانہ کے ٹیر کیلئے بھی محمد ( ملی ) سے قربانیاں وصول کرلی ہیں اس لئے اب وہ بالکل یکی بات ہے.پس جہاں تک تو اسلام کی ترقیات کا سوال ہے وہ ضرور آنے والی ہیں یہ ایک ایسی یقینی بات ہے کہ اس میں کوئی شبہ نہیں مگر سوال صرف یہ ہے کہ ان کے لانے میں ہمارا حصہ کتنا ہو گا.آنحضرت میں ہم نے قربانیاں کیں آپ کی اور آپ کے صحابہ کی قربانیوں کی وجہ سے عید تو آنے والی ہے.ٹیسر بھی ایک عید ہے جس کا آنا اب یقینی ہے.سوال صرف اتنا ہے کہ اس کے لانے میں ہمارا حصہ کتنا ہو گا.رمضان عید لاتا ہے عید کے لئے روزے رکھنے پڑتے ہیں.ہر مسلمان کے لئے روزے رکھنا ضروری ہے.غلطی سے بعض مسلمانوں نے یہ خیال کر لیا ہے کہ اگر کوئی فدیہ دے دے تو روزے معاف ہو جاتے ہیں حالانکہ اگر یہ صحیح ہو تو روزہ صرف غریبوں کے لئے ہی رہ جائے.صحیح بات یہ ہے کہ جو شخص ایسا بیمار ہو کہ دورانِ سال میں اچھا ہو جائے اس کے لئے ضروری ہے کہ فدیہ کے علاوہ روزے بھی رکھے سوائے دائم المریض کے کسی کو روزہ معاف نہیں ہو تا.لاہ پس عید ہمیں بتاتی ہے کہ حقیقی عید کے لئے ہر شخص کو اتنی قربانی ضرور کرنی چاہئے جتنی وہ کرنے کی توفیق رکھتا ہو.جیسے رمضان میں جو اتنی طاقت رکھتا ہے کہ پورے تمہیں کے تمھیں روزے رکھے اس کے لئے ضروری ہے کہ تمہیں ہی رکھے جو نہیں رکھ سکتا ہے وہ ہمیں رکھے اور جو پندرہ رکھ سکتا ہے وہ پندرہ اور جو دس رکھ سکتا ہے وہ دس رکھے حتی کہ جو ایک بھی رکھ سکتا ہے مگر نہیں رکھتا اس نے گویا عمدہ آ سارے رمضان کو کھو دیا.پس اگر حقیقی عید کو حاصل کرنا چاہو تو اس کا یہی طریق ہے کہ ہر فرد جتنی قربانی کی وہ طاقت رکھتا ہے ضرور کرے اور قوم میں سے اگر ایک فرد بھی کو تاہی کرتا ہے تو گویا وہ اپنے ساتھیوں کے لئے عید لانے میں تاخیر کا باعث بنتا ہے.پس عید کے لئے ضروری ہے کہ جتنی جتنی قربانی ممکن ہو قوم کا ہر فرد کرے اور صحیح بات تو یہ ہے کہ جب تک تمام کی تمام قوم اپنے لئے موت قبول نہ کرے اس کے لئے عید نہیں آسکتی.مخالف ہم پر اعتراض کرتے ہیں کہ ہم آنحضرت مالی وی کی توہین کرنے والے کے قتل کو بھی جائز نہیں سمجھتے اور دوسری طرف میں نے بارہا کہا ہے کہ ہمیں سلسلہ کے لئے اپنی جانوں کو قربان کر دینا چاہئے.مخالف اس پر اعتراض کرتے ہیں مگر اس میں اعتراض کی کوئی بات نہیں.ہم یہ کہتے ہیں کہ کسی کی جان لینا ظلم ہے لیکن اپنی جان خدا تعالیٰ کی راہ میں دینا ضروری
۳۸۷ ہے.اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ قاتل کو بھی اپنے آپ سزا نہ دینی چاہئے بلکہ عدالت کے ذریعہ اسے سزا دلوانی چاہئے.قاتل کو خود قتل کرنا جائز نہیں ملا لیکن آپ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی راہ میں قتل کر دیتا تو ضروری ہے مگر اس قتل سے مراد خوش کشی نہیں.خود کشی کو تو اسلام نے ناجائز قرار دیا ہے ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے علم کو اپنے مالوں کو اور اپنے اوقات کو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو.اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ سو آدمی اپنے گلوں پر خنجر پھیر لیں تو اس سے اسلام کو طاقت حاصل ہو جائے گی تو یہ ایک پاگل پن کی بات ہے اور بے دینی ہے.دین کے لئے قربانی کے یہ معنی نہیں کہ اپنے گلے کاٹ لئے جائیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دین کے لئے موت کی جو راہیں اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے تجویز کی ہیں اسے اختیار کیا جائے اور ان راہوں میں سے ایک یہ ہے کہ اپنے اموال دین کے لئے خرچ کئے جائیں.۱۴ مگر دیکھ لو ابھی جماعت میں کتنے لوگ ہیں جو اس راہ میں کو تاہی کرتے ہیں اور بہانے بنا کر پیچھے ہٹنا چاہتے ہیں.اس زمانہ میں اگر کوئی شخص مالی قربانی کرنے سے گریز کرتا ہے تو اس کا خنجر سے اپنا گلا کاٹ لینا اسلام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا.اسی طرح ایک اور راہ قربانی کی تبلیغ ہے.ایک انسان اپنے آپ کو ہمہ تن تبلیغ میں لگا کر بھی دین کے لئے موت قبول کر سکتا ہے.دن میں یا رات میں اپنی ڈیوٹی سے تھکا ہوا جب فارغ ہو کر آتا ہے تو اسے خدا تعالی کا حکم ملتا ہے کہ دین اسلام بے کس ہے ، مشکلات میں ہے اس لئے تبلیغ کرو.اگر تو وہ کہتا ہے کہ میں تو اب تھکا ہوا آیا ہوں کچھ وقت مجھے اپنے بیوی بچوں کے پاس بھی گزار نا لازمی ہے مجھے آرام بھی کرنا چاہئے اور اس واسطے وہ تبلیغ نہیں کرتا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنی جان کی قربانی کرنے سے گریز کرتا ہے.یا مثلاً غیر ممالک میں تبلیغ کے لئے نوجوانوں کی ضرورت ہے اور مطالبہ کیا جاتا ہے کہ نوجوان آگے آئیں تو اگر تو جماعت سو دو سو یا ہزار دو ہزار جتنے بھی نوجوانوں کی ضرورت ہے پیش کر دیتی ہے تو گویا اس نے قربانی کا حق ادا کر دیا.لیکن اگر ضرورت پوری نہیں ہوتی تو ساری جماعت گنگار ہوگی کیونکہ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جماعت قربانی کے لئے تیار نہیں.اسی طرح اور بھی بیسیوں صورتیں جائز رنگ میں دین کے لئے موت قبول کرنے کی ہیں اور ان صورتوں سے اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے لگا دینا گویا اپنے لئے موت قبول کرنا ہے.اسی طرح جو نوجوان اپنے آپ کو مروجہ مغربی فیشن کا شکار ہونے سے بچاتے ہیں ٹائی اور سوٹ کے یک رنگ ہونے کی فکر میں وقت ضائع نہیں کرتے اور سادگی ہے
۳۸۸ اختیار کرتے ہیں تا نمازوں میں آسانی پیدا ہو سکے اور تاوہ غریبوں کے ساتھ آسانی سے مل سکیں اور اس طرح جماعت کے غریب طبقہ کو ابھارنے کی کوشش کرتے ہیں وہ بھی دین کے لئے اپنی جان کو قربان کرنے والے ہیں.یا جو شخص امیر ہونے کے باوجود سادہ کھانا کھاتا ہے تاوہ دین کے لئے روپیہ بچا سکے ، تا غریبوں کے لئے اس کا دستر خوان وسیع ہو اور تا جماعت میں غریب اور امیر کے بے تکلفانہ میل جول کی روح پیدا ہو اور غریب طبقہ میں حرص و آز کے پیدا ہونے کا موجب نہیں بنتا وہ گو اپنے گلے پر خنجر نہیں پھیر تا مگر پھر بھی وہ اپنے دین کے لئے اپنی جان کو قربان کرنے والا ہے.اور بھی کئی طریق ایسے ہیں کہ انگریزی حکومت کے قانون کے اندر رہتے ہوئے بھی اور شرعی احکام کی پابندی کرتے ہوئے انسان دین کے لئے اپنی جان قربان کر سکتا ہے.انگریزی قانون میں اپنا مال اور اپنے وقت اور اپنے جذبات کی قربانی کوئی جرم نہیں خنجر مار کر خود کشی کرنا البتہ جرم ہے اور اس سے اسلام بھی روکتا ہے.اس زمانہ میں حقیقی قربانی یہی ہے کہ انسان اسلام کے لئے اپنا مال اپنا وقت اور اپنے جذبات کو قربان کر دے اور جب ساری جماعت میں یہ حالت پیدا ہو جائے اور ہر چھوٹا بڑا ہر امیر غریب اس قربانی کے لئے تیار ہو جائے جیسے رمضان سب امیروں اور غریبوں ، چھوٹوں اور بڑوں کے لئے یکساں ہوتا ہے تو پھر حقیقی عید آسکتی ہے.جس طرح رمضان میں ہر ایک کو اپنی طاقت کے مطابق قربانی کرنی لازمی ہے تا عید آئے اسی طرح ماموروں کے زمانہ میں بھی ہر ایک کے لئے اپنی طاقت کے مطابق قربانی کرنا لازمی ہوتا ہے اور جو پیچھے رہتا ہے اس کا بوجھ ساری قوم پر پڑتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ جو سُست ہیں ان کو آگے کیا جائے.محمد مصطفی میں نے خلعت انعام بنا کر تیار کر رکھا ہے ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہم اس تالہ کے لئے جس کے اندر وہ ہے کنجی تیار کر لیں اور اپنے دلوں کو اس ہتھوڑے کے نیچے لے آئیں جس کی زد میں آنے سے وہ چابی تیار ہوتی ہے جس سے وہ تالہ کھلتا ہے اور وہ خلعت مسلمانوں کو مل سکتا ہے اور ہمارے لئے حقیقی عید کا دن ہو گا جب یہ خلعت حاصل ہو جائے گا لیکن اگر یہ نہیں ملتا تو عید کا دن ہمارے لئے خوشی کا نہیں بلکہ موت کا دن ہو گا.اور اگر ہم اس حقیقی عید کو نہ لا سکے تو ہم سے زیادہ ذلیل قوم اور کوئی نہ ہوگی.ہر ایک کے لئے آج دنیا میں سر چھپانے کی جگہ ہے مگر محمد رسول اللہ اللہ کی امت کے لئے نہیں.اور کیسی بد نصیب ہوگی وہ قوم جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے عید کا دن مقدر کیا ہے مگر وہ تھوڑی سی قربانی نہ کرنے کی وجہ سے اس عید کے دن کو
۳۸۹ پیچھے ڈالتی جائے اور اس دن کو حاصل کرنے میں سستی کرتی جائے جس کے حاصل ہونے کے آنحضرت میام کو خوشی ہوگی اور تمام صلحائے امت کو خوشی ہوگی.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالٰی ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم وہ بچی قربانی کر سکیں جو وہ دن جلد از جلد لے آئے جب ہم رسول کریم ملی والوں کی قربانیوں کے نتیجہ میں آنے والی عید کو دوبارہ دنیا میں لا سکیں.اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالٰی ہمارے لئے اس مادی عید کو روحانی حقیقی اور آسمانی عید بنادے اور ہمیں رسول کریم میں اور اللہ کے دین کی اشاعت کا ذریعہ بنائے.آمین ا لام گاه الم نشرح : ٦ الرحمن : ۴۷ تذكرة الاولياء اردو مطبوعہ لاہور صفحه ۳۳۳ آہ بیک: ایک قسم کی ناگوار بُو مثنوی مولانا روم دفتر دوم مطبوعہ کانپور صفحه ۱۴۷ الفضل ۲۳.ستمبر ۱۹۴۴ء) الانعام: ۱۲۴۱۶۳ صحيح بخارى كتاب التفسير باب قوله فلا تعلم نفس ما أخفي لهم الرعد:۳۶ صحيح البقرة : ۲۸۵ الفجر : ٣١٣٠ بخارى كتاب الهبة باب لا يحل لاحد ان يرجع في هبته صحيح بخارى كتاب الهبة باب هبة الرجل لامراته البقرة :۱۸۵ ونوٹ تفسیر صغیر صفحه ۵۳ و ملفوظات جلد ۹ صفحه ۴۳۳٬۴۳۲ صحيح بخارى كتاب الديات باب القسامة البقرة :١٩٦ - صحيح بخارى كتاب الجنائز باب ماجاء في قاتل النفس التوبة :٤١
۳۹۰ (۳۵) (فرموده ۹ - ستمبر ۱۹۴۵ء بمقام راشمی.ڈلہوزی) انسانی زندگی کے ہر فعل کے مختلف نظریے ہوتے ہیں اور ایک ہی فعل کو مختلف نظریوں سے دیکھا جا سکتا ہے.کسی نظریے سے وہ فعل خوشی کا موجب ہو جاتا ہے اور کسی نظریے سے وہ فعل رنج کا موجب ہو جاتا ہے.موت ہو ، حیات ہو ، کامیابی ہو، ناکامی ہو یہ سب کے سب امور ایسے ہیں کہ خواہ وہ دنیا میں بہترین خوشیوں کے نمونے سمجھے جاتے ہوں اور خواہ وہ دنیا میں رنج والم کے نمونے سمجھے جاتے ہوں انسان ان کے متعلق محسوس کر سکتا ہے اور محسوس کروا سکتا ہے.ایک واقعہ مشہور ہے کہ بنو عباس لے کے زمانہ میں ایک بزرگ کو بادشاہ کی طرف حکم ملا کہ آپ کو تمام حکومت اسلامی کا قاضی القضاۃ مقرر کیا جاتا ہے.اسلامی حکومت کا یہ عمدہ انگریزی حکومت کے لحاظ سے لارڈ چانسلر کے برابر ہے اور لارڈ چانسلر کا عہدہ اس قسم کا ہے کہ بعض لحاظ سے اسے وزارتِ عظمیٰ سے بھی زیادہ اہمیت حاصل ہے.پرائم منسٹر خواہ ہیں سال تک کام کرے اس عہدہ سے علیحدہ ہونے پر اس کے لئے کوئی پنشن مقرر نہیں ہے لیکن لارڈ چانسلر خواہ تھوڑا عرصہ کام کرے اسے اس عمدہ سے علیحدہ ہونے پر پانچ ہزار پاؤنڈ سالانہ پنشن دی جاتی ہے.جب اس بزرگ کو قاضی القضاۃ مقرر کیا گیا تو ان کے چند دوست انہیں مبارک دینے کے لئے گئے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ہمارے دوست کو بہت بڑا عہدہ دیا گیا ہے ساری جوڈیشری (JUDICIARY) ان کے ماتحت کر دی گئی ہے اور ساری حکومت اسلامیہ کے آپ قاضی القضاۃ مقرر کئے گئے ہیں اس لئے ان کے نقطہ نگاہ سے یہ بڑی خوشی کی بات ہے.وہ اپنے دوست پر یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ ہم بھی آپ کی خوشی میں شریک ہیں ان کو مبارک دینے کے لئے گئے.جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں اور سخت گھبراہٹ کے آثار ان کے چہرہ پر نمایاں ہیں.انہوں نے پوچھا کہ کیا واقعہ ہوا ہے آپ کیوں رو رہے ہیں؟ اور ساتھ ہی بتایا کہ ہم تو اس خوشی کی خبر پر مبارکباد عرض کرنے کے لئے آئے ہیں.انہوں نے جواب میں کہا کہ آپ کو یہ بات خوشی کا باعث معلوم ہوتی ہے اور آپ اسے مبارک باد کے
۳۹۱ قابل سمجھتے ہیں مگر مجھے یہ بہت بڑی مصیبت نظر آتی ہے کیونکہ مجھے سارے عالم اسلامی کے فیصلے کرنے کے لئے مقرر کیا گیا ہے.فرض کرو میرے پاس دو شخص جھگڑا لے کر آتے ہیں.ان میں سے ایک کہتا ہے کہ اس شخص نے مجھ سے روپیہ لیا تھا لیکن اب واپس نہیں کرتا.دوسرا شخص کہتا ہے کہ میں نے اس سے روپیہ لیا ہی نہیں اور ہر ایک ان میں سے ثبوت پیش کرتا ہے.اب ان دونوں کو معلوم ہے کہ حقیقت کیا ہے.جو کہتا ہے کہ میں نے اسے روپیہ دیا ہے وہ جانتا ہے کہ اس نے دیا ہے یا نہیں اور جو کہتا ہے کہ میں نے لیا ہی نہیں وہ بھی جانتا ہے کہ اس نے لیا ہے یا نہیں مگر مجھے اس کے متعلق کچھ علم نہیں کہ کون حق پر ہے اور کون ناحق پر گویا دو بیناؤں کی راہ نمائی کے لئے ایک نابینا شخص مقرر کر دیا گیا ہے.ایسے جھگڑے ہر روز میرے سامنے پیش ہوں گے.ہو سکتا ہے کہ میں غلط فیصلہ کروں اور ان غلط فیصلوں کی اللہ تعالیٰ کے حضور مجھ سے جواب طلبی ہو.پس مجھ سے بڑھ کر اور کون قابل رحم ہو گا.کہ اسی نقطہ نگاہ کے ماتحت حضرت امام ابو حنیفہ نے قاضی کا عہدہ جو حکومت کی طرف سے پیش کیا گیا تھا لینے سے انکار کر دیا.حکومت ان کے انکار کی وجہ سے سخت ناراض ہوئی حتی کہ ان کو سزا بھی دی گئی انہوں نے کہا کہ اس عہدہ کی ذمہ داریوں کے ادا کرنے کے مجھ میں طاقت نہیں اور میں اپنے آپ کو اس عہد کے قابل نہیں پاتا.۳.یہی وہ عہدے ہیں جن کے لئے لوگ بے انتہا کوششیں کرتے ہیں اور وہ لوگ جو دنیوی اعزاز کے خواہاں ہوتے ہیں ایسے عہدوں کو بڑا سمجھتے ہیں اور انہیں حاصل کرنے کے لئے ہر جائز و ناجائز طریق اختیار کرتے ہیں لیکن وہ لوگ جو اس دنیوی زندگی پر اُخروی زندگی کو ترجیح دیتے ہیں ان کے سپر د جب کوئی اہم کام کیا جائے تو وہ اپنی ذمہ داریوں کو دیکھتے ہوئے بجائے خوش ہونے کے گھبرا جاتے ہیں کہ ہم اس کو کما حقہ ادا کر سکیں گے یا نہیں اور ڈرتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ کسی کو تاہی کی وجہ سے ہم خدا تعالیٰ کے مجرم ٹھریں.تو نقطہ نگاہ کے بدلنے سے احساسات کی ماہیت بدل جاتی ہے.ایسے ہی ایک اور نقطہ نگاہ ہے اور وہ ایک تاریخی واقعہ رسول کریم میں او لیول کے زمانہ کا ہے.رسول کریم ملی ایم کی وفات کے بعد جب اسلام کو فتوحات حاصل ہوئیں اور غیر ملکوں کا تمدن عرب میں داخل ہونا شروع ہوا اُس وقت عرب میں یا تو ایسی چکیاں تھیں جن کے ذریعہ موٹا آٹا پیسا جاتا تھا یا غریب لوگ پتھروں پر گندم کو کوٹ کر آٹا نکال لیتے تھے.صحابہ چونکہ کفار کے تختہ مشق بنے ہوئے تھے ، جائدادیں چھوڑ چکے تھے ، گھروں سے بے گھر ہو گئے تھے ان کے پاس بھلا چکیاں کہاں.
.۳۹۲ رسول کریم میں یا اللہ کے گھر میں جو آٹا پکا کرتا تھا وہ بھی بہت موٹا ہو تا تھا.جب مدینے میں ہوائی چکیاں لگیں اور میدے کی طرح کا آٹا پسنا شروع ہوا تو حضرت عمر نے حکم دیا کہ پہلا آٹا جو ان کی چکیوں سے پیسا جائے تو وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھجوایا جائے.چنانچہ رسول کریم الاول کے ادب و احترام کے پیش نظر سب سے پہلا آٹا حضرت عائشہ کی خدمت میں پیش کیا گیا.جب وہ آٹا حضرت عائشہ کے گھر میں آیا تو حضرت عائشہ نے اس کے چھلکے پکانے کے لئے کسی خادمہ کو کہا.اس وقت باریک آٹا مدینہ کے لوگوں کے لئے عجیب چیز تھی ان کے خواب و خیال میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ گندم کے اندر سے اس قسم کا باریک آٹا نکل سکتا ہے.حضرت عائشہ کے گھر میں مدینہ کی عورتوں کا ہجوم ہو گیا.عورتیں چھلکوں کو ہاتھوں میں لے کر ٹولتیں اور کہتیں کیسے نرم ہیں.آج ہمارے زمانہ میں تو باریک آٹا پینے کی بڑی بڑی مشینیں لگ گئی ہیں اس لئے ہم ان باتوں کا پوری طرف قیاس نہیں کر سکتے مگر ان کے لئے یہ نئی بات تھی.آخر حضرت عائشہ کے کھانے کا وقت آیا.حضرت عائشہ نے لقمہ توڑا اور منہ میں ڈالا مگر اسے نگل نہ سکیں.منہ میں ڈالتے ہی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے.تمام عورتیں حیران تھیں کہ اتنا نرم آتا ہے اور ان کے حلق میں پھنسا ہوا ہے اور اسے نگل نہیں سکتیں.انہوں نے کہا بی بی ا یہ تو بڑا نرم آتا ہے آپ کے گلے میں کیوں پھنس رہا ہے کیا بات ہے ؟ حضرت عائشہ نے جواب دیا ہاں گلے میں پھنس رہا ہے اس لئے کہ یہ لقمہ ڈالتے ہی میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ ہم رسول کریم میں دی او لیول کو ان کی بڑھاپے کی عمر میں بھی پتھروں پر کوٹ کر آٹا نکال کر دیا.کرتے تھے حالانکہ بڑھاپے میں انسان کے دانت کمزور ہو جاتے ہیں اور آج یہ ہوائی چکیاں رسول کریم ملی ایم کی پیشگوئیوں اور آپ کی دعاؤں کے نتیجہ میں آئی ہیں.ہم ان سے پیسے ہوئے باریک آٹے کی روٹیاں کھا رہے مگر رسول کریم میں دل کا دور گزر چکے ہیں اس لئے یہ آتا ہے میرے گلے میں پھنستا ہے اس خیال سے کہ رسول کریم ملی ہی کے طفیل ہمیں یہ نعمتیں ملیں لیکن ان میں ہمارے ساتھ شریک نہیں ہیں.کہ تو وہی نرم آٹا جس کی حضرت عمرؓ نے قدر کی اور فرمایا کہ پہلا آٹا حضرت عائشہ کو بھیجا جائے ، وہی نرم آٹا جس کی مدینہ کی عورتوں نے قدر کی اور اسے ٹولنے کے لئے اپنے گھروں سے چل کے گئیں ، وہی نرم آنا حضرت عائشہ کے گلے میں پھنس رہا تھا.ان عورتوں نے نرم میدے کو میدے کی صورت میں دیکھا مگر حضرت عائشہ نے اس میدے کو اس نظر سے دیکھا کہ جس کے حق کی چیز تھی وہ اس کے چلے آپ
۳۹۳ جانے کے بعد پہنچی ہے.ایک نقطہ نگاہ نے مدینے کے لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑا دی مگر دوسرے نقطہ نگاہ نے حضرت عائشہ کی آنکھوں سے آنسو جاری کر دیئے.یہی نقطہ نگاہ عید کے متعلق بھی ہو سکتا ہے.رسول کریم میں لیا لیلی نے فرمایا ہر قوم کے لئے کچھ خوشی کے دن ہوتے ہیں ہمارے لئے اللہ تعالیٰ نے عید کا دن خوشی کا دن مقرر کیا ہے ۵ لیکن آج ہمارے لئے بلکہ ہر مومن کے لئے وہ خوشی کا دن نہیں رہا.میں نے حضرت عائشہ کی مثال آپ لوگوں کو سنائی ہے جس طرح میدے کی روٹی نے حضرت عائشہ کے دل میں یہ خواہش پیدا کر دی کہ رسول کریمی ان کے ساتھ شریک ہوتے اسی طرح ہر شخص اپنے پیارے کو اپنی خوشی میں شریک کرنا چاہتا ہے.ہم بچوں کو دیکھتے ہیں وہ عجیب مضحکہ خیز کھیلیں کھیلتے ہیں اور اپنے ابا اور اماں کو پکڑ پکڑ کر کھینچتے ہیں کہ وہ بھی ان کی کھیل میں شریک ہوں کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کھیل بہت مزے کی چیز ہے.یا جب ماں باپ بچوں کو (JuJu Bes) جو جو بیر لا کر دیتے ہیں تو بچے اسے چاہتے چاہتے ماں کے پاس چلے جاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اسے اپنی ماں کی زبان پر بھی چھوائیں اور ان کی ماں بھی ان کے اس مزے میں شریک ہو.بعض مائیں جو زیادہ نظافت پسند ہوتی ہیں وہ کراہت کرتی ہیں کہ بچے کے منہ سے نکلی ہوئی چیز اپنے منہ میں ڈالیں لیکن بعض مائیں بچوں کی محبت کی زیادتی کی وجہ سے نظافت کا خیال چھوڑ کر اپنی زبان باہر نکال دیتی ہیں تو بچہ اس پر مٹھائی رکھ دیتا ہے اور پھر بہت خوش ہوتا ہے کہ اس نے اپنی ماں کو بھی اپنی مٹھائی میں شامل کر لیا.یہ تو ایک طبعی جذبہ ہوتا ہے کہ انسان اپنے آرام اور خوشی میں اپنے پیاروں کو بھی شامل کرنا چاہتا ہے اور وہ شامل نہ ہوں یا نہ ہو سکیں تو اسے تکلیف ہوتی ہے.جیسے شاعر نے کہا ہے.خاک ایسی زندگی پر ہم کہیں اور تم کہیں یعنی گو میں زندہ تو ہوں لیکن چونکہ تم میری زندگی میں شریک نہیں اس لئے زندگی کا کوئی لطف نہیں.جب زندگی کے عام ایام میں اپنے محبوب کے پاس نہ ہونے کی وجہ سے یہ حالت ہوتی ہے کہ زندگی بے کیف ہو جاتی ہے تو خوشی کے دنوں میں یا عید کے موقع پر کیوں بے چینی کی حالت پیدا نہ ہو.میں نے بیسیوں ماؤں کو دیکھا ہے کہ وہ ایسے موقعوں پر کھاتی بھی جاتی ہیں اور ساتھ آہیں بھی بھرتی جاتی ہیں.ان کے بچے کسی کالج میں پڑھتے ہیں یا کسی ملازمت میں ہوتے ہیں تو مائیں گھر بیٹھے کہتی رہتی ہیں ، پتہ نہیں میرے بچے کو آج یہ چیز ملی ہے یا نہیں.وہ
ہو معمولی معمولی چیر بھی کھائیں تو اس کے متعلق بھی یہ کہتی جائیں گی کہ پتہ نہیں میرے بچے کو یہ چیز ملی ہے یا نہیں.سویاں بھی بھلا کوئی بڑی چیز ہیں.معمولی معمولی آدمی بھی عید کے دن سویاں پکا لیتے ہیں لیکن مائیں سویاں کھاتی جاتی ہیں اور کہتی جاتی ہیں پتہ نہیں میرے بچے کو سویاں ملی ہیں یا نہیں.پتہ نہیں آج میرے بچے نے کیا کھایا ہو گا وہ اس معمولی سی چیز میں بھی اپنے بچے کہ شریک کرنا چاہتی ہے.تو ایک سچا مومن جس کے دل میں رسول کریم میں ایلو ویرا کا عشق اور آپ " کی محبت ہو اس کے لئے بھی یہ ممکن نہیں کہ اسے آرام اور راحت کی گھڑیوں میں رسول کریم می یا لیلی یاد نہ آئیں اور اس کے دل میں یہ خواہش پیدا نہ ہو کہ آپ بھی اس کی خوشی میں اور اس کے آرام میں شریک ہوتے.محمد رسول اللہ ملی او لیول کے احسانات ایسے نہیں کہ وہ حضرت عائشہ یا تک ہی ختم ہو جائیں اور نہ ہی آپ کے احسانات ایسے ہیں کہ وہ صحابہ تک ہی محدود ہوں بلکہ آپ کے احسانات ہم پر بھی ویسے ہی ہیں جیسے صحابہ و پر تھے.بعض وجود ایسے اتے ہیں جو پہلی نسل کے باپ اور دوسری کے دادا اور تیسری کے پردادا بن جاتے ہیں لیکن بعض وجود ایسے ہوتے ہیں جو ہمیشہ باپ ہی رہتے ہیں.محمد رسول اللہ علیم کا وجود ایسا ہے جو دادا پڑدادا بن ہی نہیں سکتا بلکہ آپ ہمیشہ ہمیش کے لئے دنیا کے باپ ہیں کہ اور وہ شخص جس کے دل میں سچا ایمان ہے وہ آپ کو اپنا باپ ہی سمجھتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے ماتحت آپ کی ہر حالت کو نمایاں کر دیا ہے ایسا نمایاں کہ ہمیں اپنے گھر کے حالات معلوم نہ ہوں تو یہ ممکن ہے ہمیں اپنے بہن بھائیوں کے حالات کا علم نہ ہو تو یہ ممکن ہے لیکن یہ ممکن نہیں کہ کوئی شخص قرآن و حدیث پڑھتا ہو اور اس پر آپ کے حالات مخفی ہوں.صحابہ نے رسول کریم کی ہر حرکت کا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ گویا آپ کے روحانی وجود کو ظاہر و باہر کر دیا ہے یعنی آپ کی کوئی چیز بھی لوگوں سے مخفی نہیں.آپ کا کھانا آپ کا پینا آپ کا بولنا آپ کا سونا آپ کا جاگنا، آپ کا چلنا آپ کا بیٹھنا، آپ کا یتیموں اور غریبوں سے ہمدردی کرنا آپ کا بیوگان کی خبر گیری کرنا آپ کا فیصلے کرنا ، آپ کا اپنوں سے سلوک ، آپ کا بیگانوں سے سلوک، آپ کا بیویوں سے سلوک، آپ کا ہمسایوں سے سلوک الغرض کوئی چیز ایسی نہیں جو پر وہ میں ہو آپ کا وجود دنیا کے سامنے ظاہر وباہر ہے اور دنیا کی نظروں سے کبھی بھی اوجھل نہیں ہو سکتا.پس آپ کا وجود دنیا کے لئے بطور باپ کے ہے اور انسان کی نظر سے اس کا باپ کبھی اوجھل نہیں ہو تا.ہاں دادا پڑدادا کا وجود او جھل ہو جاتا ہے
۳۹۵ کیونکہ وہ احسانات جو اس کے دادا نے اس کے باپ پر کئے ہیں وہ اس کی نظر سے اوجھل ہوتے ہیں.ایسے ہی پڑدادا کا وجود بھی نظر سے اوجھل ہو جاتا ہے کیونکہ اس کے پڑدادا نے جو احسانات اس کے دادا پر کئے تھے وہ پس پردہ جاچکے ہوتے ہیں ورنہ خون تو ایک ہی ہے.اگر پڑدادا نہ ہو تا تو دادا کا وجود دنیا میں کس طرح پیدا ہو سکتا تھا.اگر دادا نہ ہو تا تو اس کا باپ عالم وجود میں نہیں آسکتا تھا.دادا نے ہی اس کے باپ کو کمائی کے قابل بنایا.دادا کے احسان کے بغیر اس کے ماں باپ اس پر احسان کر ہی نہیں سکتے تھے لیکن دادا اور پڑدادا کے احسانات پس پردہ چلے جانے کی وجہ سے اکثر لوگ دادا اور پڑدادا کو بھول جاتے ہیں.میں نے بہت سے لوگوں سے ان کے پڑدادا کا نام پوچھا تو نوے فیصدی لوگوں نے یہ جواب دیا کہ ہمیں پتہ نہیں اور میرے خیال میں نوے فیصدی سے زیادہ لوگ ایسے ہوں گے جو اپنے پڑدادا کے باپ کا نام نہیں جانتے ہوں گے.لیکن رسول کریم میں اللہ کا وجود ایسا ہے جو دادا پڑدادا بن ہی نہیں سکتا کیونکہ آپ کی شفقتیں، آپ کی مہربانیاں، آپ کے احسانات ایسے ہیں جو ہر وقت ہماری آنکھوں کے سامنے رہتے ہیں اور آپ کی ذات کو ہماری آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے اس لئے آپ ہمیشہ ہمیش باپ کی حیثیت میں ہی رہیں گے.ایک بیٹا جب اپنے باپ کے لئے یہ انتہائی طور پر خواہش رکھتا ہے کہ اس کا باپ اس کی خوشی اور راحت میں شریک ہو تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک سچے مومن کے دل میں یہ خواہش پیدا نہ ہو کہ کاش آج محمد رسول اللہ عمل بھی اس کی خوشی میں شریک ہوتے بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر سچا مومن تمام خوشیوں اور راحتوں کے وقت اپنے اندر ایک شدید خواہش پاتا ہے کہ محمد رسول اللہ میل و یا لیلی بھی میری ان خوشیوں اور راحتوں میں میرے ساتھ شریک ہوں.جو مٹھائیاں والدین اپنے بچے کو لا کر دیتے ہیں وہ ان میں اپنے والدین کو شامل کرنا چاہتا ہے.یا جب کھیلتا ہے تو اپنی کھیلوں میں اپنے ماں باپ کو شامل کرنا چاہتا ہے کیونکہ وہ فطرت سے مجبور ہو تا ہے لیکن جب وہ بڑا ہو جاتا ہے تو اس کی خواہش میں معقولیت کا رنگ آنا شروع ہو جاتا ہے اور پھر وہ ان باتوں میں اپنے ماں باپ کو شریک کرنا چاہتا ہے جو ان کے مناسب حال ہوتی ہیں.تو کیا کوئی عظمند مسلمان اس بات سے مطمئن ہو سکتا ہے کہ محمد رسول اللہ میں دیا اور وہ میرے ساتھ سویاں کھانے یا چائے پینے میں شریک ہوں، کیا کسی عظمند مسلمان کا دل اس بات سے تسلی پا سکتا ہے کہ محمد رسول الله میل کی اور میرے ساتھ کھانے میں شریک ہوں اور میں ایک ٹوسٹ پر مکھن لگا کر آپ
کو دوں یا پر اٹھا آپ کو کھلاؤں یا انڈے ابال کر آپ کو دوں یا پڈنگ (Pudding) یا پارج (Porridge) یا اور جو چیزیں آسودہ حال گھروں میں پکتی ہیں، آپ کے سامنے رکھوں ، کیا کوئی ہو عظمند انسان یہ سمجھ سکتا ہے کہ محمد رسول اللہ میں ملا لیا اور اس کے ساتھ ان چیزوں میں شریک ہو جائیں گے.ان چیزوں میں تو وہ شامل ہو گا جسے ان کی قدر ہو گی مگر محمد رسول اللہ میں کہ ہم نے تو اپنی زندگی میں ہی یہ سب چیزیں غیروں کو دے دیں.جب مکہ فتح ہوا تو کتنا دردناک فقرہ ہے جو آپ نے کہا.اس فقرہ سے اس قربانی کا پتہ لگتا ہے جو آپ نے اور آپ کے صحابہ نے کی.مکہ فتح ہوا تو صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ کہاں ٹھہریں گے.اس کے جواب میں آپ نے فرمایا.کیا ہمارے رشتہ داروں نے کوئی مکان ہمارے لئے باقی چھوڑا ہے کہ اس میں ٹھہریں.- انسان جب اپنے وطن میں جاتا ہے تو اس کے دل میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ ان گھروں میں ٹھہرے جہاں اس نے بچپن گزارا ہے ان مکانوں میں ٹھہرے جن کے آگے کی گلیوں میں وہ سارا دن اپنے ہمجولیوں کے ساتھ کھیلا کرتا تھا ان کمروں میں بیٹھے جہاں اس کے نوجوان دوست اس کے ساتھ بیٹھ کر خوش طبعی کیا کرتے تھے ، ان کمروں کو دیکھے جن میں اس کے ماں باپ ، چا چی یا دوسرے رشتہ دار اس کے سر پر محبت و شفقت کا ہاتھ پھیرا کرتے تھے، پھر تم اس شخص کے متعلق قیاس کرو جس کو اس کے شہر سے نکال دیا گیا ہو اور اس کے متعلق یہ اعلان کر دیا گیا ہو کہ وہ آؤٹ لاء (Outlaw) ہے اور اسے اجازت نہیں کہ وہ آئندہ کبھی اس شہر میں داخل ہو اور اسے اس کے مکانوں سے اور اس کی جائیداد سے کلی طور پر محروم کر دیا گیا ہو اور ان سارے جذبات کے پورا کرنے سے جو انسان کے دل میں وطن میں آکر پیدا ہوتے ہیں قانونا روک دیا گیا ہو، اسے ان جگہوں پر ٹھرنے سے روکا گیا ہو جہاں اس کی ماں کا محبت بھرا ہاتھ اس کے سر پر پھرا کرتا تھا اور جہاں وہ اپنے دادا کی گود میں بیٹھا کر تا تھا اور اس کے متعلق یہ اعلان کر دیا گیا ہو کہ اب وہ ان کمروں میں نہیں ٹھہر سکتا جہاں اس کی قربانی کرنے والی بیوی خدیجہ 9 رہا کرتی تھی، جہاں اس کے بچے پیدا ہوئے اور جہاں اس کے پاس دوستوں کا جمگھٹا رہا کرتا تھا مگر اللہ تعالٰی نے غیر معمولی حالات پیدا کر دیئے اور وہ ایک فاتح کی حیثیت میں مکہ میں داخل ہوا.کتنی شدید خواہش ہوگی جو اس کے دل میں پیدا ہوتی ہوگی کہ آج میں ان گھروں میں جاؤں اور ان میں ٹھہروں.عام حالات میں یہ خواہش کتنی شدید ہوتی ہے اور محمد رسول الله ملا لیا اور ہم جیسے محبت کرنے والے انسان کے دل میں تو یہ خواہش اور بھی زیادہ شدت
۳۹۷ 2 रा کے ساتھ پیدا ہوتی ہوگی.آپ کو بھی اپنا شہر پیارا تھا.آپ " کو بھی اپنی والدہ پیاری تھی، آپ کو بھی اپنی بیوی پیاری تھی مگر آپ ان جگہوں کو دیکھ نہیں سکتے تھے جہاں آپ ان سے پیار کی باتیں کیا کرتے تھے.بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ انبیاء ان جذبات سے جو دو سرے لوگوں میں ہوتے ہیں عاری ہوتے ہیں ان کا یہ خیال حقیقت کے بالکل خلاف ہے.انبیاء کے جذبات ہم سے زیادہ لطیف ہوتے ہیں اور وہ ہم سے بہت زیادہ احساس کا مادہ اپنے اندر رکھتے ہیں بلکہ ان کے جذبات اور زیادہ ابھر آتے ہیں.رسول کریم ملی کے متعلق احادیث میں آتا ہے کہ آپ فتح مکہ کے موقع پر اپنی والدہ کی قبر پر تشریف لے گئے اور اتنی لمبی دعا کی کہ صحابہ کہتے ہیں کہ ہم نے آپ کو اتنی لمبی دعا کرتے کبھی نہیں دیکھا.پھر کہتے ہیں.بَكَى بُكَاءً شَدِيدًا وَ بَکی کہ آپ اتنا روئے کہ ہم نے کبھی آپ کو اتنا روتے نہیں دیکھا.پھر وہ صحابی کہتے ہیں کہ سارے صحابہ بھی رونے لگ گئے اور کوئی شخص ایسا نہ تھا جس کی آنکھوں سے آنسو نہ جاری ہوں حالانکہ جو جذبات رسول کریم ملی ایل ایل کے تھے وہ صحابہ کے نہیں ہو سکتے کیونکہ آپ کی والدہ کی قبر تھی لیکن آپ اس شدت سے روئے کہ صحابہ پر بھی آپ کے رونے کا اثر ہو گیا اور وہ بھی رونے لگ گئے.لاپس نہیں کہہ سکتے کہ رسول کریم میں کے جذبات ہماری طرح کے نہ تھے.آپ کے دل میں بھی خواہش پیدا ہوتی ہوگی جب صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ ! آپ کہاں ٹھریں گے.آپ نے فرمایا کیا ہمارے رشتہ داروں نے ہمارے لئے کوئی مکان چھوڑا ہے کہ ہم اس میں ٹھہریں.نہ صرف مکہ والوں نے آپ کو مکہ سے نکالا بلکہ آپ کے رشتہ داروں نے وہ مکان توڑ پھوڑ ڈالے اور انہیں فروخت کر دیا اور اس تھوڑی سی لذت سے بھی محروم کر دیا جو انسان اپنے ہمجولیوں سے محروم ہو کر اپنے مکانوں اور اپنے رہنے کے کمروں کو دیکھ کر اٹھا سکتا ہے.پس رسول کریم میلی لی نے اپنی چیزیں بھی چھوڑ دی تھیں تو ہمارا یہ خواہش کرنا کہ آپ ہماری چائے میں شامل ہوں یا ہمارے کیکوں میں شامل ہوں ، بچپن کی خواہش ہوگی.آپ ان عیدوں میں تو ہمارے ساتھ شریک نہیں ہو سکتے لیکن اگر ہم اسلام کے لئے حقیقی عید پیدا کر دیں اور اسلام کی حکومت ظاہر و باطن پر قائم کر دیں تو یہ اکردیں وہ عید ہے کہ جس میں آپ ہمارے ساتھ شریک ہو سکتے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ یہ عید میں اس لئے آتی ہیں تاکہ مومنوں کو ان سے بڑی عیدوں کی طرف متوجہ کریں.جیسے اللہ تعالٰی اس دنیا میں بھی بندوں کو نعمتیں دیتا ہے اس لئے کہ تا ان کو معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ کے پاس اگلے جہان
۳۹۸ میں اس سے بڑی نعمتیں ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دنیا میں تشریف لانے کی غرض یہ تھی کہ اس تعلیم اور اس شریعت کو جو رسول کریم میں لائے دلوں اور جسموں پر مسلمان تم کیا جائے.۱۲ دلوں پر قائم کرنے کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان اپنے آپ کو سچا م بنا ئیں.جب تک مسلمان بچے طور پر اسلام کے لئے قربانیاں نہیں کرتے جب تک رسول کریم میں ان کی تعلیم دنیا میں قائم نہیں کرتے ، جب تک اللہ تعالیٰ کی محبت میں محو نہیں ہو جاتے ، جب تک بنی نوع انسان کی خدمت میں لگ نہیں جاتے ، جب تک غریبوں پر رحم نہیں کھاتے ، جب تک اپنی خوشی میں تمام بھائیوں کو شریک نہیں کرتے اس وقت تک وہ محمد رسول لام کے لئے عید نہیں لا سکتے.محمد رسول الله لا لا لا لا لو تو اسی عید میں شامل ہوں گے جس میں سب لوگوں کے دکھ اور درد دور کئے جائیں اور دنیا امن اور چین کا سانس لے آپ کے دل میں وہ درد تھا کہ آپ کسی کا درد نہ دیکھ سکتے تھے.سا ایک جنگ کے بعد مدینے کے کئی گھروں سے رونے کی آواز میں بلند ہو ئیں لیکن ایک گھر سے جس کے رشتہ دار مدینے میں نہ تھے رونے کی آواز بلند نہ ہوئی.آپ نے فرمایا فلاں شخص کے گھر میں رونے والا کوئی نہیں.یہ نہیں کہ آپ رونے کو پسند کرتے تھے بلکہ یہ امتیاز آپ پر گراں گزرا کہ باقی شہیدوں کے رشتہ دار انہیں روئیں لیکن اس ایک شہید کو رونے والا کوئی نہ ہو حالانکہ آپ رونے سے منع فرماتے تھے.رونے سے قوم کی بہادری کی روح ماری جاتی ہے اور قوم بزدل ہو جاتی ہے.مگر اس فقرہ سے آپ کا یہ جذبہ نمایاں طور پر ظاہر ہو گیا کہ آپ اس فرق کو پسند نہیں فرماتے تھے.دنیا میں صحابہ کے عشق کی مثال بھی نہیں ملتی.صحابہ یہ فقرہ سنتے ہی اپنے گھروں کو دوڑے اور گھر جا کر اپنی بیویوں، بہنوں اور رشتہ داروں سے کہا.کم بختو ! تم اپنے مردوں کو رو رہی ہو رسول کریم یا اور یوں فرماتے ہیں کہ فلاں گھر میں رونے والا کوئی نہیں.ان عورتوں کا اخلاص بھی کس قدر بڑھا ہوا تھا بہن نے بھائی کو رونا چھوڑ دیا بیٹی نے باپ کو رونا چھوڑ دیا، ماں نے بیٹے کو رونا چھوڑ دیا سب نے اپنی چادریں سنبھالیں اور اس کے گھر میں جمع ہو گئیں جس کے متعلق رسول کریم میں یا تو میں نے فرمایا تھا کہ اس کے گھر میں رونے والا کوئی نہیں وہاں پہنچ کر سب عورتوں نے رونا شروع کر دیا.ان کے رونے سے مدینے میں ایک کہرام مچ گیا.رسول کریم میں نے یہ شور سن کر پوچھا یہ کیا ہو گیا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا.یا رسول اللہ ! فلاں گھر میں عورتیں رو رہی ہیں.آپ نے فرمایا ان کو منع کرو.میں نے تو افسوس کا اظہار کیا تھا.
۳۹۹ الله رضي یہ سنتے ہی ایک صحابی دوڑا دوڑا گیا اور کہا رسول کریم میں لیا یہ فرماتے ہیں چپ کرو.مگر ان کے دلوں کو ٹھیس لگ چکی تھی اور وہ محسوس کر چکی تھیں کہ رسول کریم میں کے دل کو ٹھیس والی لگی ہے اس لئے اب وہ رسول کریم میں دی او لیول کی خاطر رو رہی تھیں باوجود منع کرنے کے وہ باز نہ آئیں.وہ صحابی پھر رسول کریم میں اللہ کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ ! میں نے ان کو منع کیا ہے لیکن وہ باز نہیں آتیں.آپ نے فرمایا.اُخذُوا التَّرَابَ عَلَى وُجُوهِهِنَّ کہ ان کے منہ پر مٹی ڈالو.جیسے ہم پنجابی میں کہتے ہیں.کھر کھان.مطلب یہ تھا کہ ان کو چھوڑ دے.مگر معلوم ہوتا ہے وہ صحابی اتنا سمجھدار نہ تھا.اس نے مٹی کی جھولی بھر لی اور عورتوں کے منہ پر ڈالنے کے لئے چل پڑا.حضرت عائشہ نے اس کو ڈانٹا کہ رسول کریم ملی تعلیم کا یہ مطلب نہیں تھا کہ تم ان کے منہ پر مٹی ڈالو گے بلکہ آپ کا مطلب یہ تھا کہ ان کو چھوڑ دے وہ خود بخود خاموش ہو جائیں گی.تو اس رنگ میں رسول کریم میں دوسروں کے جذبات میں شریک ہوتے تھے.اگر ہم آپ کے جذبات میں شریک ہو جائیں تو آپ ضرور ہماری عیدوں اور ہماری خوشیوں میں شریک ہوں گے.رسول کریم میں لیا اور فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بعض لوگوں سے پوچھے گا کہ میں نگا تھا تم نے مجھے کپڑا نہ پہنایا میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا نہ کھلایا ، میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی نہ پلایا میں بیمار تھا تم نے میری عیادت نہ کی.وہ کہیں گے اے اللہ ! تو کس طرح بھوکا پیاسا ہو سکتا ہے.بھوکا پیاسا ہونا ، ننگا ہوتا یا بیمار ہونا ".باتیں تو انسان سے تعلق رکھتی ہیں.تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرے بندوں میں سے ایک ادنیٰ بندہ بھو کا تھا تم نے اسے کھانا نہ کھلایا.اسے بھوکا نہیں رکھا بلکہ مجھے ہی بھوکا رکھا میرے بندوں میں سے ایک ادنی بندہ پیاسا تھا تم نے اسے پانی نہ پلایا.تم نے اسے پیاسا نہیں رکھا بلکہ مجھے ہی پیاسا رکھا.میرے بندوں میں سے ایک اوئی بندہ نگا تھا تم نے اسے کپڑا نہ پہنایا.تم نے اسے نگا نہیں رکھا بلکہ مجھے ہی ننگا رکھا.میرے بندوں میں سے ایک ادنی بندہ بیمار تھا.تم نے اس کی عیادت نہ کی.وہ بیمار نہ تھا بلکہ میں ہی بیمار تھا تم نے میری عیادت نہ کی.پھر کچھ بندے ہوں گے اللہ تعالی ان سے کہے گا اے میرے بندو! جاؤ جنت میں کہ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی پلایا میں ننگا تھا تم نے مجھے کپڑا پہنایا ، میں بیمار تھا تم نے میری عیادت کی ، وہ استغفار کریں گے اور کہیں گے کہ اے اللہ ! تیری ذات تو ان تمام باتوں سے پاک ہے ہماری کیا ہستی ہے کہ ہم تجھے کھلا ئیں پلا ئیں تو ہم سب کا رازق ہے.اللہ تعالیٰ فرمائے گا سب
جب میرا ایک غریب بندہ بھوکا تھا تم نے اسے کھانا کھلایا ، جب میرا ایک غریب بندہ پیاسا تھا تم نے اسے پانی پلایا تم نے اسے نہیں پلایا بلکہ مجھے ہی پلایا ، جب میرا ایک غریب بندہ نگا تھا تم نے اسے کپڑا پہنایا تم نے اسے نہیں پہنایا بلکہ مجھے ہی پہنایا جب ایک غریب بندہ بیمار تھا تم نے اس کی عیادت کی تم نے اس کی عیادت نہیں کی بلکہ میری عیادت کی.هل اسی طرح قیامت کے دن جب امت کے لوگ رسول کریم میں لے کے پاس جاویں گے تو وہ لوگ جنہوں نے اسلام کی خاطر قربانیاں کی ہونگی اور مسلمانوں کو سچا مسلمان اور غیر مسلموں کو مسلمان بنایا ہو گا آپ ان و کو فرمائیں گے تمہاری عید مبارک کا شکریہ میں بھی تمہاری عیدوں میں شریک ہوں.اللہ تعالیٰ تمہاری عیدوں میں برکت دے میں تم سے خوش ہوں.مگر وہ لوگ جنہوں نے اپنی خوشی کو مقدم رکھا اپنے نفس کی اصلاح نہ کی اور اسلام کے احکام کو جاری کرنے کی کوشش نہ کی ان سے رسول کریم می فرمائیں گے تم نے بہت سی عیدیں کیں لیکن تم نے اپنی عیدوں میں مجھے شامل نہ کیا اور نہ تمہارے دل میں مجھے اپنی عیدوں میں شریک کرنے کی خواہش پیدا ہوئی.تمہارے دل میں یہ خواہش تو پیدا ہوئی کہ تمہاری عیدوں اور تمہاری خوشیوں میں تمہارے ماں باپ، تمہارے بہن بھائی، تمہارے بچے شریک ہوں لیکن میں جو تمہارے باپوں سے زیادہ شفیق اور تمہارے بہن بھائیوں اور بیٹوں سے زیادہ محبت کرنے والا تھا تم نے مجھے اپنی خوشیوں میں شریک نہ کیا.رسول کریم میں میا و ریمیک کی عید چائے اور ٹوسٹ سے نہیں ہو سکتی.آپ کی عید تو تبھی ہو سکتی ہے کہ اسلام کو دلوں میں قائم کیا جائے اور آپ کے مشن کو دنیا کے کونے کونے تک پھیلایا جائے اور تمام دنیا کو آپ کے جھنڈے تلے جمع کیا جائے جب تک اس حقیقی عید کو قائم نہیں کیا جاتا آپ کی روح خوش نہیں ہو سکتی.بد قسمت ہے وہ انسان جو ایسے محسن کے پاس جائے اور بجائے خوشی اور بشاشت کے اس کے چہرہ پر رنج اور ناراضگی کے آثار پائے.اگر ہم نے مرنا ہے اور مرنے کے بعد ایک زندگی ہم کو ملنی ہے اور رسول کریم میلی لی ہماری ملاقات ہوئی ہے تو اس ملاقات کے لئے ہمیں تیاری کرنی چاہئے تاکہ رسول کریم میں لایا لیلی ملاقات کے وقت ناراضگی کا اظہار نہ کریں بلکہ خوشی کا اظہار کریں.کتنے مسلمان ہیں جو معمولی معمولی باتوں پر لٹھ لے کر چل پڑتے ہیں اور اسلام کے لئے بہت جوش دکھاتے ہیں مگر کیا ان کی زندگیوں میں کوئی ایسی چیز ہے جس سے پتہ لگے کہ وہ اسلام کی حقیقت کو سمجھتے ہیں، کیا وہ با قاعدہ طور پر ہر روز پانچ نمازیں پڑھتے ہیں، کیا صحیح طور پر روزے رکھتے ہیں یا تمہیں دن کا فاقہ
کر کے سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے روزے رکھ لئے.جب تک روزے کے ساتھ اس کی شرائط کو ملحوظ نہ رکھا جائے اس وقت تک روزہ روزہ نہیں بلکہ ایک فاقہ ہے.کیا آج مسلمان رسول کریم کے دین کی اشاعت کے لئے کوشش کرتے ہیں؟ کیا وہ رسول کریم میں کے لائے ہوئے پیغام کو پڑھتے ہیں؟ حضرت خلیفہ اول عورتوں کے درس میں فرمایا کرتے تھے اگر تم میں سے کسی کو کسی رشتہ دار کا خط آجائے اور وہ خود پڑھ نہ سکتی ہو تو جب تک اس خط کو سات جگہ پڑھا نہ لے اس کی تسلی نہیں ہوتی لیکن خدا کا خط مسلمانوں کے نام آیا ہے کیا وہ اس کے ایک دفعہ پڑھنے کے لئے کوشش کرتے ہیں کیا آج مسلمان اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیا اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں آج جتنا روپیہ مسلم لیگ 14 پر خرچ ہوتا ہے کیا اس کا کروڑواں حصہ بھی اسلام کی اشاعت کے لئے خرچ ہوتا ہے تو کس طرح ہو سکتا ہے کہ مسلمان رسول کریم ملی اور ولولے کی ملاقات کے لئے جائیں اور آپ ان سے خوش ہوں کیونکہ ہر عید اور ہر خوشی انہوں نے اپنے لئے پیدا کی اور رسول کریم میں لاہوریوں کو اس میں شریک نہ کیا تو پھر وہ رسول کریم ملی اور ملک کی خوشیوں میں کس طرح شریک ہو سکتے ہیں.چھوٹے بچے ایک دوسرے سے کہا کرتے ہیں تو میری مٹھائی کھالے میں تیری کھا لیتا ہوں مگر تعجب ہے جس نکتہ کو بچہ سمجھتا ہے بڑے نہیں سمجھتے.جو لوگ رسول کریم ملی اہلیہ کو اپنی خوشیوں میں شریک نہیں کرتے وہ کس طرح خیال کرتے ہیں آپ ان کو اپنی خوشیوں میں شریک کر لیں گے.پس ہماری جماعت کو چاہئے کہ رسول کریم میں دل کی ریلی کی خوشی کو اپنی خوشی پر مقدم رکھے اور آپ کے مشن کو پورا کرنے کے لئے ہر وقت کوشاں رہے.دنیا میں توحید کو قائم کرے اسلام کی ترقی کے لئے دن رات کوشش کرے.اگر ہم یہ کام کر لیں تو یقینا رسول کریم ہماری عیدوں میں شریک ہوں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اسلام کے احکام پر پوری طرح عمل کر سکیں اور اللہ تعالیٰ کے نام کو دنیا میں بلند کرنا اپنا حقیقی مقصد قرار دے لیں.تاکہ ہماری زندگیاں رسول کریم می میل کے لئے عید پیدا کرنے میں لگ جائیں اور ہم اس مقصد میں کامیاب ہوں جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دنیا میں پیدا فرمایا ہے.امِيْنَ اللَّهُمَّ أَمِينَ له ا (الفضل ۲۰.ستمبر ۱۹۴۵ء) عبد الله السفاح (ولادت کا معلوم نہیں) ۱۳۶ھ - ۶۷۴۵ نے ۱۳۲ھ /۷۴۹ء میں بغداد
۴۰۲ کو پایہ تخت بنا کر بنو عباس کی حکومت قائم کی جو پانسو سال بعد ۶۵۱ ھ / ۱۲۵۸ء میں آخری عباسی تاجدار معتصم کی تاتاریوں کے ہاتھوں شکست کے ساتھ ختم ہو گئی.تذکرۃ الاولیا اردو صفحہ ۱۸۸ د سیرت النعمان از شبلی جلد ا صفحه ۴۷-۴۸ ترندی ابواب الزہد باب معيشة النبى صلى الله عليه و سلم و اصحابه صحیح بخاری کتاب العيدين باب سنة العيدين لاهل الاسلام ل هو الذي بعث فى الاميين رسولا منهم.......واخرين منهم لما يلحقوا بهم یعنی ہمارے خالص اور کامل بندے بجز صحابہ کے اور بھی ہیں......اور جیسی نبی کریم میں او یا لیلی نے صحابہ کی تربیت فرمائی ایسا ہی اس گروہ کی بھی باطنی طور پر تربیت فرمائیں گے اور آنحضرت صلی اللی کا فیضان ان میں جاری و ساری ہو گا.( آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۲۰۹-۲۱۰) ك الاحزاب و تفسیر در منثور جلد ۵ صفحه ۱۸۳..صحیح بخاری کتاب المغازی باب این ركز النبى الرأية يوم الفتح 3 ام المومنین خدیجہ بنت خویلد.بنو عبد العزبی ۳ ق ھ.۶۱۹ء صحیح بخاری کتاب الهجرة باب ما قدم النبى صلى الله عليه وسلم واصحابه الى المدينة لا صحیح مسلم کتاب الجنائز باب فضل فى الذهاب الى زيارة القبور - صحیح مسلم كتاب الجنائز باب استئذان النبى صلى الله عليه وسلم ربه عز وجل في زيارة قبرامه کا تحفہ قیصریہ صفحه ا ملفوظات جلد ۴ صفحه ۳۹۵ و تذکره صفحه ۶۲۷ اء الشعراء : الكهف :.تفسیر در منثور جلد ۴ صفحه ۲۱۱ یہ واقعہ غالبا دو علیحدہ علیحدہ واقعات پر مشتمل ہے.پہلا واقعہ غزوہ اُحد میں حضرت حمزہ بن عبد المطلب کی شہادت کے واقعات میں بیان ہوا ہے.(سیرت الامام ابن ہشام الجزء الثانی صفحه ۹۲) دو سرا واقعه غزوہ موتہ میں حضرت جعفر بن ابی طالب کی شہادت کے ضمن میں بیان
۲۰۳م ہوا ہے.(صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوة موته من ارض شام و صحیح بخاری کتاب الجنائز باب من جلس عند المصيبة يعرف فيه الحزن (وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ) ها صحیح مسلم کتاب البر والصلة باب فضل عيادة المريض - مسلمانان برصغیر کی سیاسی جماعت جس نے قائد اعظم محمد علی جناح کی زیر قیادت مسلمانوں کے لئے ایک آزاد علیحدہ مملکت پاکستان کے قیام کے لئے کامیاب جدوجہد کی.
م ۴۴۰ (۳۶) (فرموده ۲۹.اگست ۱۹۴۶ء بمقام " راشمی" ڈلہوزی) - آج کا دن مسلمانوں میں عید کا دن کہلاتا ہے اور عید کے معنی ہیں وہ چیز جو بار بار دہرائی جائے چونکہ خوشی کی تقریبوں کے متعلق انسان خواہش کرتا ہے کہ وہ بار بار آئیں اس لئے بار بار لوٹ کر آنے والی خوشی کا نام عید رکھا گیا جیسا کہ ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ایسی خوشیاں بار بار دکھائے.خوشی انسان کے دل سے تعلق رکھتی ہے اگر دل میں خوشی پیدا نہیں ہوتی تو ظاہری خوشی کوئی حقیقت نہیں رکھتی.دنیا میں ہزاروں ہزار مسلمان آج ایسے ہونگے جو باوجود عید کے خوش نہیں ہونگے.مسلمان اس وقت دنیا میں چالیس پچاس کروڑ کے قریب ہیں اور ان میں سے ہزاروں ہزار ایسے ہوں گے جن کے گھر آج رات کو موت ہو گئی ہو گی.لہذا یہ عید ان کے لئے خوشی کی عید نہیں آج ان کی طبیعت افسردہ ہو گی.جو مخلص ہیں وہ نماز کے لئے بھی جائیں گے لیکن دلوں کی افسردگی اس اجتماع کی وجہ سے دور نہیں ہوگی اگر ان کی آنکھوں سے آنسو نہ بہتے ہوں گے تو دل سے خون کے قطرے ضرور گرتے ہوں گے لیکن ایسے لوگوں کے علاوہ باقی تمام لوگ عید کی خوشیاں مناتے ہیں.آخر اس خوشی کی وجہ کیا ہے.انسان کو یا تو اس لئے خوشی ہوتی ہے کہ اس کے گھر بچہ پیدا ہو، یا اس لئے خوشی ہوتی ہے کہ انسان کو کوئی دنیوی مقصد حاصل ہو جائے یا دینی مقصد حاصل ہو یا انسان کو اس لئے خوشی ہوتی ہے کہ اس کی دلی خواہش پوری ہو، یا اس کے رشتہ داروں اور عزیزوں کی دلی خواہش پوری ہونے والی ہو یا ان کو کوئی خوشی پہنچ گئی ہو یا اس کی قوم کو کوئی خوشی پہنچ گئی ، یا اس کے ہم مذہب لوگوں کو کوئی خوشی پہنچ گئی لیکن ان چیزوں میں سے کوئی چیز بھی لازماً عید کے دن مسلمانوں کو نہیں ملتی.کیا عید کے موقع پر ہر مسلمان کے گھر بچہ پیدا ہوتا ہے اس لئے وہ خوش ہوتا ہے کیا عید کے موقع پر ہر مسلمان اس لئے خوش ہوتا ہے کہ اس کی شادی ہوتی ہے ، یا ہر مسلمان کوئی اہم مقدمہ جیتتا ہے اس لئے وہ خوش ہوتا ہے یا ہر مسلمان کو کوئی جاگیر مل جاتی ہے اس لئے وہ عید کے موقع پر خوش ہوتا ہے، یا کوئی خزانہ ملتا ہے یہی چیزیں ہیں جن سے انسان کو خوشی پہنچتی
۴۰۵ ہے.آخر کیا وجہ ہے کہ رمضان ختم ہوتا ہے تو تمام مسلمان خوشی مناتے ہیں وہ کونسی قربانی ہے.جس کا یہ نتیجہ ہے.جب کسی مسلمان کے گھر بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ عقیقہ کرتا ہے.اس کے پڑوس میں رہنے والے ہندو سے اگر پوچھا جائے کہ یہ کیسی تقریب ہے تو گو وہ عقیقہ کی حکمت یا اس کا نام نہ بتا سکے لیکن اتنا ضرور کہہ دے گا کہ یہ ایک رسم ہے جو مسلمان بچے کی پیدائش کے بعد کیا کرتے ہیں.یا مسلمان شادی کے بعد ولیمہ کی دعوت کرتے ہیں کہ اگر کسی ہندو سے پوچھا جائے کہ یہ آپ کے پڑوس میں کیسی دعوت ہے تو گو وہ ولیمہ کی دعوت نہ کہہ سکے اور نہ ہی اسے دعوت ولیمہ کی حکمتوں کا علم ہو لیکن وہ اتنا ضرور کہہ دے گا کہ یہ ایک دعوت ہے جو مسلمان شادی کے بعد اکثر کیا کرتے ہیں.اسے ان باتوں کا اس لئے علم ہو گیا کہ وہ ایک لمبے عرصہ سے متواتر ان رسوم کو دیکھتا آیا ہے اور وہ سمجھ جاتا ہے کہ یہ کوئی ایسی خوشی ہے جو بچے کی پیدائش سے تعلق رکھتی ہے یا یہ کوئی ایسی خوشی ہے جو شادی سے تعلق رکھتی ہے.اسی طرح اس کی بھی کوئی وجہ ہونی چاہئے کہ کیوں عید الفطر رمضان سے پہلے نہیں آتی یا رمضان کے درمیان میں نہیں آتی یا رمضان کے دو چار دن بعد نہیں آتی آخر اس کی کیا وجہ ہے اگر عید رمضان سے پہلے ہوتی تو ہم سمجھتے کہ کوئی خوشی رمضان سے پہلے ہے.یا اگر عید رمضان کے درمیان میں ہوتی تو ہم سمجھتے یہ خوشی روزوں کی وجہ سے ہے اور اگر رمضان کے کچھ دن بعد ہی کرنی جائز ہوتی تو ہم سمجھتے کہ کوئی نیا معاملہ پیدا ہوا ہے لیکن عید نہ ہی رمضان سے پہلے ہے نہ ہی درمیان میں ہے نہ ہی کچھ وقفہ کے بعد ہے بلکہ رمضان کے ختم ہونے کے معا بعد یعنی دوسرے دن ہوتی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عید روزے پورے کرنے کی خوشی میں آئی ہے اس لئے نہ رمضان سے پہلے عید رکھی نہ ہی درمیان میں رکھی گئی نہ ہی کچھ وقفہ کے بعد.اس کا رمضان کے خاتمہ کے معا بعد آنا بتاتا ہے کہ تکمیل عبادت کی خوشی میں یہ عید رکھی گئی ہے مگر بعض لوگ ادھوری اور ناقص قربانی کر کے ہی عید منا لیتے ہیں.حالانکہ دنیا میں ناکام قربانیاں بھی کی جاتی ہیں اور بعض قربانیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جو لغو فضول اور ادھوری ہوتی ہیں.جن لوگوں کی قربانیاں ادھوری ہیں ان کی عید بھی ادھوری ہے اور جن کی قربانیاں لغو اور فضول ہیں ان کے لئے حقیقت میں کوئی عید نہیں کیونکہ عید الفطر اس بات کی علامت رکھی گئی ہے کہ قربانی کی تکمیل ہو گئی اب قربانی کرنے والے کو اپنی قربانی کی تکمیل پر خوش ہونا چاہئے.
۲۰۶ اسلام میں دو عیدیں ہیں کہ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ تین عیدیں ہیں جمعہ کو بھی عید ہی کہا گیا ہے کہ ان کے سوا اسلام میں کوئی عید نہیں رکھی گئی.عید الاضحیہ اپنے اندر یہ سبق رکھتی کہ اس دن انسان اللہ تعالیٰ سے ایک عہد کرتا ہے اور اس عہد کی خوشی میں یہ عید کی جاتی ہے اور عید الفطر اس عہد کو پورا کرنے کی خوشی میں آتی ہے.مختلف مواقع کے لحاظ سے یہ تین عیدیں ہیں.عید الاضحیہ اس بات کی علامت ہے کہ قوم اس بات کا اقرار کرتی ہے کہ ہم جانی ومالی ہر قسم کی قربانی کریں گے اور کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے.اس عہد کی خوشی میں عید الاضحیہ آتی ہے اور عید الفطر اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ قوم نے اس عہد کو پورا کر دیا اور جمعہ کی عید اس بات کی خوشی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں دین واحد پر جمع کر دیا ہے گویا یہ اتحاد کی عید ہے.ان تینوں عیدوں کی اسلام نے اجازت دی ہے کہ یا تو قوم قربانی کا عہد کرے یا قوم اس عہد کو پورا کر دے یا قوم میں اتحاد پیدا ہو جائے اس کے علاوہ اسلام نے کوئی عید جائز نہیں رکھی.جو قوم اللہ تعالیٰ کے رستے میں جان کی قربانی ، مال کی قربانی ، عزت کی قربانی پیش کر دے اس کا حق ہے کہ وہ عید الفطر منائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو توفیق عطا کی اور انہوں نے اپنے عہد کو پورا کر دیا.اس سے پہلے جب انسان دل سے تمام احکام کو مد نظر رکھتے ہوئے بیعت کرتا ہے اور قربانی کا عہد کرتا ہے تو وہ عید الاضحیہ کا حق دار ہو جاتا ہے گویا عید الاضحیہ مومن کی پیدائش کا دن ہے اور عید الفطر اس کی وفات کا دن ہے جب کہ وہ کامیاب و کامران ہو کر خوشی خوشی اپنے خدا کے پاس جاتا ہے.ایک شاعر کہتا ہے کہ جب تو پیدا ہوا تھا تو تو رو رہا تھا اور لوگ تیرے ارد گرد بیٹھے ہوئے خوش ہو رہے تھے.اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ بچہ پیدا ہوتا ہے تو روتا ہے اور رونے کی وجہ سے سانس اس کے اندر چلا جاتا ہے اور پھیپھڑ نے کام کرنے لگ جاتے ہیں ماں کے پیٹ میں اس کے پھیپھڑوں کو کام کرنے کی عادت نہیں ہوتی لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے ہیں کہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس پر ایک دباؤ پڑتا ہے اور اس دباؤ کی وجہ سے وہ روتا اور چیختا ہے.اس کے رونے کی وجہ سے پھیپھڑے اپنا کام شروع کر دیتے ہیں.اس رونے میں ہی بچوں کی زندگی کا قیام رکھا گیا ہے اور ہر بچہ روتا ہے اور جاہل سے جاہل عورت بھی یہ جانتی ہے کہ اگر بچہ پیدا ہونے کے بعد نہ روئے تو اس کی زندگی خطرہ میں ہے.جب مردہ بچہ کی خبر ملے تو عور تیں پوچھتی ہیں کہ بچہ رویا تھا یا نہیں جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ زندہ پیدا ہوا یا مردہ.اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شاعر کہتا ہے کہ
ہنس رہے انْتَ الَّذِي وَلَدَتْكَ أُمُّكَ بَاكِيًا وَالنَّاسُ حَوْلَكَ يَضْحَكُونَ سُرُورًا کہ تو وہ شخص ہے کہ تیری ماں نے تجھے جنا اور تو رو رہا تھا اور لوگ تیرے ارد گرد خوشی سے تھے حالانکہ عام قاعدہ یہ ہے کہ لوگ روتے کو دیکھ کر رونا شروع کر دیتے یا دکھ محسوس کرتے ہیں اور اس سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں لیکن شاعر کہتا ہے کہ تیری یہ حالت تھی کہ تو رو رہا تھا اور غاغا کر رہا تھا لیکن تیرے ارد گرد بیٹھے ہوئے لوگ خوشی کے مارے ہنس رہے تھے اور ایک دوسرے کو مبارکبادیں دے رہے تھے کہ لڑکا ہوا مبارک ہو مبارک ہو.گویا تیرے ساتھ تمسخر کرتے تھے.فَاحْرِصْ عَلَى عَمَل تَكُونُ إِذَا بَكَوا فِي وَقْتِ مَوْتِكَ ضَاحِكَا مَّسْرُورًا ۲۵ دیکھ تیرے رشتہ داروں نے کس طرح تیرے ساتھ تضحیک کی اور تیری ہتک کے مرتکب ہوئے اب اگر تو شریف آدمی ہے تو تجھے چاہئے کہ ان سے بدلے لے.اور ان سے بدلہ لینے کا اچھا طریق یہ ہے کہ اب تو ایسے نیک عمل کر کہ جب تو خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہونے کے لئے جا رہا ہو گا تو تو ہنس رہا ہو اور یہ لوگ رو رہے ہوں.ہر انسان جو اپنی زندگی نیکی اور تقویٰ کے ساتھ گزارتا ہے وہ اپنی موت کے وقت خوش ہوتا ہے کہ اب میں اپنے پیدا کرنے والے کے پاس جا رہا ہوں اور اللہ تعالی کی طرف سے مجھے انعام اور فضل حاصل ہونگے اور میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا مورد بنوں گا لیکن دنیا کے لوگ اس مرنے والے کو روتے ہیں کہ ہمارا محسن جو ہم سے نیک سلوک کرتا تھا اور مصیبتوں اور مشکلات میں ہمارے کام آتا تھا وہ ہم سے جدا ہو گیا اب اس کا قائم مقام کون ہو گا.پس انسان کی زندگی میں جو اہم مواقع آتے ہیں ان میں سے سب سے اہم یہ دو موقعے ہیں.ایک جس وقت وہ پیدا ہوتا ہے، دوسرا جس وقت وہ مرتا ہے.اگر پیدا ہونے والا صحیح و سالم پیدا ہو تو یہ گھر والوں کے لئے ایک عید ہوتی ہے اور اگر مرنے والا کامیاب و کامران مرے تو یہ مرنے والے کے لئے ایک عید ہوتی ہے.اور عید الاضحیہ مسلمانوں کے لئے پیدائش کی عید ہے جب کہ ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اتباع میں بکرے ذبح کرتے ہیں.اور یہ قربانی اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ ان بکروں کی طرح بوقت ضرورت ہم اپنے نفسوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دیں گے اور کسی قسم کی قربانی سے خواہ
۴۰۸ وہ جانی ہو، خواہ مالی ہو، خواہ عزت کی ہو ، ہم دریغ نہیں کریں گے اور ہمارا اس عہد کے بعد خوشی منانا ایسا ہی ہوتا ہے جس طرح بچے کی پیدائش کے بعد ماں باپ خوشیاں مناتے ہیں اور اس بچے سے بہت بڑی امیدیں لگاتے ہیں اور یہ امید رکھتے ہیں کہ یہ بچہ ہمارے لئے برکت کا موجب ہوگا حالانکہ بعض بچے بڑے ہو کر والدین کے سخت نافرمان اور ان کے لئے باعث تکلیف بنتے ہیں لیکن ان کی پیدائش کے وقت ان کے والدین نیک امیدیں لگائے ہوتے ہیں.عید الاضحیہ ہماری روحانی پیدائش کا دن ہوتا ہے.اس دن ہم اللہ تعالیٰ کے رستے میں قربانی کرنے کا عہد کرتے ہیں اور عید الفطر کر کے ہم اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے جو عہد کیا تھا اسے پورا کر دیا ہے اور جمعہ کی عید سے اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ ہم ایک ہاتھ پر جمع ہیں.جمعہ کی عید بار بار رکھی گئی ہے اور باقی دونوں عید میں بہت وقفے پر رکھی گئی ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ عیدیں عہدوں کے اعلان یا ان کے پورے ہونے کا اعلان ہوتی ہیں اور قومی عہد باندھنے کا زمانہ دور ہوتا ہے اور نہ قومی عہد ایک دو دن میں پورے ہوتے ہیں بلکہ اس کے لئے بعض دفعہ مہینوں بعض دفعہ سالوں کی ضرورت ہوتی ہے اور بعض دفعہ ربع صدی اور بعض دفعہ ثلث صدی میں جا کر وہ عمد پورا ہوتا ہے لیکن اجتماع اور اتحاد ایک ایسی چیز ہے جس کی ہر روز اور ہر ہفتہ ضرورت ہے اس لئے یہ عید ہفتہ کے بعد رکھی گئی تاکہ یہ عہد بار بار دہرایا جائے اور اس سے ہمیں جمع ہو کر اور متحد ہو کر کام کرنے کی عادت پڑ جائے.لیکن قربانی کا عہد کرنا اور اسے پورا کرنا یہ کبھی کبھار ہوتا ہے اس لئے سال میں ایک دفعہ عید الاضحیہ اور ایک دفعہ عید الفطر آتی ہے لیکن بعض لوگ ان سب باتوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے کہ وہ کسی قربانی کا عہد کریں یا اس عہد کو پورا کریں عید منانے کے لئے سب سے آگے ہوتے ہیں.قادیان میں ایک دوست اس قسم کے تھے نہ وہ مسجد میں آتے اور نہ ہی روزہ رکھتے لیکن عید کے دن سب سے اونچا بالشت بھر طرہ رکھ کر خوشبو کیں لگا کر سب سے آگے بیٹھنے کی کوشش کرتے اور لوگ اکثر ان کا مذاق اڑاتے کہ یہ خوب ہے نہ روزہ رکھا نہ نمازیں پڑھیں اور عید کے لئے سب سے آگے آبیٹھے ہیں ایسی عید کوئی عید نہیں.اگر روزے نہیں رکھے ، فرض ادا نہیں کیا تو عید کیسی.عید کے صرف تین موقعے ہیں.اول یہ کہ ساری قوم قربانی کرنے کا اقرار کرے.دوسرے یہ کہ قوم اس عہد کو پورا کر دے تیسرے یہ کہ ساری قوم اپنے اندر اتحاد کی روح پیدا کرے اور ایک ہاتھ پر جمع ہو جائے.یہ تین موقعے ہیں جو عید کہلانے کا حق رکھتے
۴۰۹ ہیں.ان تینوں عیدوں میں مسلمانوں کو یہ سبق دیا گیا ہے کہ مسلمانوں کو اجتماعی زندگی بسر کرنی چاہئے اور پراگندہ نہیں ہونا چاہئے.یہ تینوں عباد میں اسلام نے اجتماعی مقرر کی ہیں اور ان میں مسلمانوں کو نصیحت کی ہے کہ دیکھنا باقی قوموں کی طرح اپنے دین کو انفرادی نہ بنا دینا.باقی تمام قومیں ایسی ہیں جن کا دین اجتماعی دین نہیں وہ محض رسم و رواج کے طور پر ان مذہبوں کو پکڑے ہوئے ہیں.ہندو یا عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والا خواہ ساری عمر میں ایک دفعہ بھی عبادت نہ کرے تو اس کا مذہب خراب نہیں ہوتا.عیسائی ہر روز کی بجائے ساتویں دن گر جا جاتے ہیں اور باجہ بجاتے اور گاتے ہیں گویا یہ گانا بجانا عیسائیوں کی عبادت ہے.آخر میں پادری انجیل کا کوئی حصہ پڑھ دیتا ہے اور سب آمین کہہ کر نکل جاتے ہیں اور کسی کے لئے ضروری نہیں کہ وہ ہر ہفتہ آئے یا نہ آئے.اگر وہ آجائے تو اس کی مرضی اور اگر نہ آئے تو اس کی مرضی.کوئی اخلاص نہیں کوئی تقویٰ نہیں.بعض کے لئے کو چیں اور کرسیاں مخصوص ہیں اور ہر ایک اپنی کرسی اور کوچ کا کرایہ ادا کرتا ہے اگر وہ نہ آئے تو اس کی جگہ خالی رہے گی اور کوئی دوسرا شخص اس کی جگہ پر بیٹھ نہیں سکتا.ذرا تم اس کا تصور اپنی نماز کے متعلق کر کے دیکھو کہ کیا نظارہ بنتا ہے کہ سنجے کی طرح کسی جگہ بال ہیں اور کسی جگہ بال نہیں ہیں.ایک قطار میں دو آدمی کھڑے ہیں اور ان کے درمیان دو آدمیوں کا وقفہ ہے پھر چار کھڑے ہیں پھر چار آدمیوں کا وقفہ ہے یہ اجتماعی عبادت نہیں بلکہ اس کا نام تو عبادت رکھا ہی نہیں جا سکتا کہ ایک نے اپنی اپنی جگہ مقرر کی ہوئی ہے اور ہر ایک نے اپنا ٹھکانا مقرر کیا ہوا ہوتا ہے لیکن اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا.اسلام کا یہ حکم ہے ہر آدمی جو پہلے آتا ہے اس کا حق ہے کہ وہ آگے بیٹھے جو پیچھے آتا ہے اس کو چاہئے کہ وہ پیچھے بیٹھے کہ مسجد میں تمام انسان برابر ہیں.مسجد میں ایک بادشاہ اور ایک چوہڑے میں کوئی امتیاز نہیں.چوہڑا اگر پہلے آتا ہے تو وہ آگے بیٹھے گا اگر بادشاہ دیر سے آتا ہے تو وہ پیچھے بیٹھے گا.انتظامی امور کو مد نظر رکھتے ہوئے جو انتظام کیا جائے وہ اور بات ہے.مثلاً ایک شخص فساد کی نیت سے آتا ہے یا ایک شخص شور مچاتا ہے تو اس کو پیچھے کیا جا سکتا ہے تاکہ امام کو تکلیف نہ ہو.اس صورت کے سوا خانہ خدا میں سب انسان برابر ہیں اور کسی کو دوسرے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں.جب میں حج کے لئے گیا - تو میں نے دیکھا کہ مسجد کعبہ کے صحن کے سرے پر ایک جگہ حجرہ بنا ہوا تھا.مجھے بتایا گیا کہ یہ حجرہ اس طرح بنا تھا کہ ایک بادشاہ جب مسجد میں آکر بیٹھا تو اس کے قریب کوئی غلیظ آدمی جو کہ ہر
۱۰ کناس تھا آکر بیٹھ گیا.بادشاہ کے سپاہیوں نے اسے اٹھانا چاہا لیکن اس نے اٹھنے سے انکار کر دیا.جب سپاہیوں نے زیادہ اصرار کیا تو مسجد میں جتنے نمازی تھے سب کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ ہم خدا کی نماز پڑھنے کے لئے آئے ہیں بادشاہ کی نماز پڑھنے کے لئے نہیں آئے امام کی مسجد نے نماز پڑھانے سے انکار کر دیا آخر بادشاہ کو دینا پڑا.اس کے بعد بادشاہ نے اپنے لئے مسجد کے صحن کے پیچھے ایک حجرہ بنوا لیا جس میں وہ نماز پڑھتا.لیکن اس نے حجرہ بنوا کر اپنی ہی ناک کٹائی کسی دوسرے کا کیا نقصان ہوا کیونکہ مسجد کعبہ کے ثواب سے وہ محروم ہوا.اس کے بعد بعض اور بادشاہوں نے بھی مسجد کے پیچھے حجرے بنوا لئے اور ان میں نماز ادا کرتے لیکن مسجد میں کوئی جگہ مخصوص نہ کر سکے.پس اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جسے ہم اجتماعی مذہب کہہ سکتے ہیں.اور مسلمانوں کے لئے یہ تین عید میں اس لئے رکھی گئی ہیں کہ مسلمانوں کو بوقتِ ضرورت قومی عہد باندھنے کا احساس رہے پھر اس عہد کو قومی طور پر پورا کرنے کا خیال رہے پھر قومی جتھے کو قائم رکھنے کا خیال رہے اور دشمن کسی صورت سے بھی ان میں انشقاق اور افتراق پیدا نہ کر سکے.اب انہی تینوں عیدوں کو روحانی شکل دے لو.انسان کی روحانی پیدائش یہ ہے کہ وہ کسی نیک انسان کے ہاتھ پر عقد بیعت باندھتا ہے اور اس سے رابطہ و اتحاد قائم کرتا ہے اور یہ عہد کرتا ہے کہ وہ ساری عمر اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار رہے گا.یہ اس کی عید الاضحیہ ہے اور اگر اس نے اپنے عہد کو پورا کیا اور نیکی اور تقویٰ کے ساتھ زندگی بسر کی اور جس وقت وہ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوا تو وہ خوش تھا تو یہ اس کی عید الفطر ہے.عید الجمعہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالٰی سے اتصال کا رشتہ نہ توڑے اور ہر حالت میں خواہ عسر ہو خواہ یسر ثابت قدم رہے.یہ تین روحانی عیدیں ہیں اور یہ تین مواقع ہیں جن پر مسلمانوں کو خوش ہونا چاہئے.لیکن ج چیزیں مسلمانوں میں سے مفقود ہوں اس وقت ان کا میلوں میں جانا اور عیدیں منانا محض حماقت ہے.ان عیدوں اور غیر مذاہب والوں کے میلوں میں کوئی فرق نہیں.آج کل مسلمان ان عیدوں کی حکمت سے بالکل ناواقف ہو گئے ہیں.بس میلوں میں جاتے ہیں عید گاہوں کے پاس یا ان کے راستوں پر کوئی ڈگڈگی بجا کر بند ر نچاتا ہے، کوئی ریچھ کا تماشا دکھاتا ہے کوئی پکوڑے بناتا ہے اور کوئی پنیاں بجاتا ہے، کچھ لوگ کشتیاں لڑتے ہیں اور یہ سب کچھ کرنے کے بعد مسلمان یہ سمجھ لیتے ہیں کہ بس عید ہو گئی گویا ایک میلہ آیا تھا جس کو انہوں نے کھیل تماشا کر
کے گزار دیا ہے اصل حکمت عید کی ان کے ذہنوں میں نہیں آتی.لیکن ہماری جماعت کے ہر فرد کو سوچنا چاہئے اور اپنے نفس کو ٹولنا چاہئے کہ کیا میرے لئے یہ مواقع حقیقت میں خوشی کا باعث ہیں یا میرے اندر کچھ کمزوریاں ہیں جن کی وجہ سے میری ایک عید تو ٹھیک ہے لیکن دوسری یا تیسری عید ٹھیک نہیں اور جس کمزوری کی وجہ سے اس کی عید درست نہیں ہوئی اسے کوشش کرنی چاہئے کہ وہ کمزوری اس میں نہ رہے.اگر ہر احمدی یہ محسوس کرتا ہے کہ اسے اپنی جان کی قربانی اپنے مال کی قربانی اپنی عزت کی قربانی دینے سے کوئی دریغ نہیں تو سمجھو تمہاری عید الاضحیہ ٹھیک ہو گئی.اگر تم نے جان ، مال اور عزت کی قربانی کر دی اور اپنے عہد کو پورا کر دیا تو سمجھو کہ تمہاری عید الفطر ٹھیک ہو گئی اور اگر تمہیں اللہ تعالیٰ سے اتصال تام حاصل ہو جائے اور ہر وقت یہ بات تمہارے مد نظر رہے کہ ہم جماعت کا حصہ ہیں اور کسی صورت میں بھی اور کسی ابتلا سے بھی ہم جماعت کو تو نہیں چھوڑتے تو تم سمجھو کہ تمہاری عید الجمعہ بھی ٹھیک ہو گئی.یہ قربانی عید الجمعہ کہلا سکتی ہے ورنہ ساتویں دن آنا اور آدھ گھنٹہ بیٹھ کر چلے جانا اور پھر یہ سمجھنا کہ ہم نے جمعہ ادا کر لیا ہے کوئی حقیقت نہیں رکھتا.عیاش اور بد کار لوگ آدھ گھنٹہ چھوڑتین تین چار چار گھنٹے کنچنیوں کے ناچ گانے سننے میں گزار دیتے ہیں کیا ہم سمجھیں کہ انہوں نے بہت قربانی کی ہے.پس یہ ایک گھنٹہ یا آدھ گھنٹہ کی قربانی کوئی قربانی نہیں بلکہ جمعہ کی اصل حقیقت کو مد نظر رکھنا اور اس پر عمل کرنا حقیقت میں عید الجمعہ کہلانے کی مستحق ہے.چاہئے کہ تم میں سے ہر ایک فرد اس بات پر عزم سے قائم ہو جائے کہ خواہ کتنی ہی مشکلات مجھے پیش آئیں، خواہ کتنی ہی آفات مجھ پر پڑیں، خواہ کتنے ہی ابتلاء مجھے پیش آئیں ، جماعت سے علیحدہ نہیں ہوں گا.ہماری جماعت کو یہ بات خصوصاً مد نظر رکھنی چاہئے کہ ہم ابھی ابتدائی زمانہ میں ہیں گویا ہم پر جوانی کا زمانہ آ رہا ہے اور جوانوں کے حوصلے بلند ہوتے ہیں وہ اپنے ارادوں پر بہت سختی سے قائم رہتے ہیں.اس وقت صرف جماعت احمدیہ ہی ایسی جماعت ہے جس کا ایمان تازہ ہے اور جس کے ارادے بلند ہیں اور وہ اللہ تعالٰی کے تازه به تازه نشانات دیکھتی رہتی ہے.عیسائیت کو قائم ہوئے انیس سو سال ہو گئے اس لئے اس پر بھی بڑھاپا چھا گیا ہے اور اسلام کے باقی فرقوں کو بھی کسی کو سات سو سال کسی کو آٹھ سو سال کسی کو نو سو سال ہو گئے ہیں.اس وقت صرف جماعت احمدیہ ہی ایسی جماعت ہے جو اس وقت اللہ تعالیٰ کی تائیدات سے مؤید ہے اور اس میں جوانوں والے حوصلے اور جوانوں والی اُمنگیں
: ہیں.پس جماعت کو کوشش کرنی چاہئے کہ اس کے لئے یہ تینوں عیدیں ہی جمع ہوں اور اس کی عیدمیں کامل عیدیں ہوں اور جماعت کا ہر فرد یہ عہد کر لے کہ جماعت کو جس قسم کی قربانی کی ضرورت ہوگی میں وہ قربانی کروں گا اور خواہ مجھ پر کتنے ہی ابتلاء آئیں میں جماعت کا دامن نہیں چھوڑوں گا.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ لوگوں کو ہر میدان میں ثابت قدم اور ہر قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ لوگوں کی عیدیں حقیقی عیدیں ہوں.آمین (الفضل ۱۱.ستمبر ۱۹۴۷ء) بچہ کی ولادت کے ساتویں دن لڑکا ہو تو دو بکرے اور لڑکی ہو تو ایک بکرا بطور عقیقہ ذبح کرنا مسنون ہے.عقیقہ کے اصل لغوی معنوں میں چیرنے اور کاٹنے کا مفہوم پایا جاتا ہے.اصطلاحا اس کے معنی نومولود کے بال اتر دانا اور اس موقع پر بچے کی طرف سے جانور ذبح کرنے کے ہیں.( صحیح بخاری کتاب العقيقة باب امالة الاذى عن الصبي في العقيقة ترندى باب ماجاء فى العقيقة جلدا صفحه ۱۸۳ نيل الاوطار جلد ۵ صفحه ۱۳۲ صحیح بخاری کتاب النکاح باب الوليمة ولو بشاة - صحیح بخاری کتاب النکاح باب الصفرة للمتزوج وراه صحیح مسلم کتاب العيدين باب العيدين - صحیح بخاری کتاب العیدین باب سنة العيدين لاهل الاسلام صحیح بخاری کتاب الاضاحي باب ما يوكل من لحوم الاضاحی - سنن ابی داؤد باب اذا وافق يوم الجمعة يوم عيد - الجامع الصغير للامام الحافظ السيوطى الجزء الاول صفحه ۸۴ مصری ۱۳۰۶ھ مجانی الادب ۲ بحوالہ دروس الادب صفحہ ۹۰ ل تفسیر در منثور جلد۴ صفحه ۳۶۱ زیر آیت والبدن جعلناها لكم من شعائر الله
سالم ک ترندی کتاب الصلوة ابواب الجمعة باب فى كراهية التحطى يوم الجمعة - صحیح بخاری کتاب الجمعة باب لا يفرق بين اثنين يوم الجمعة - صحيح بخاری کتاب الجمعة باب لا يقيم الرجل اخاه يوم الجمعة ويقعد في مكانه صحیح مسلم کتاب الصلوة باب تسوية الصفوف و اقامتها....الخ ۶۱۹۱۲ 2 t:
(۳۷) (فرموده ۱۸.اگست ۱۹۴۷ء بمقام مسجد اقصیٰ.قادیان) جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے اور جب سے اللہ تعالیٰ کے رسول دنیا میں آنے شروع ہوئے ہیں یہ الہی سنت چلی آتی ہے کہ خدا تعالیٰ کے لگائے ہوئے درخت ہمیشہ آندھیوں اور طوفانوں کے اندر ہی ترقی کیا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی جماعت کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ ان آندھیوں اور طوفانوں کو صبر سے برداشت کرے اور کبھی ہمت نہ ہارے.کہ جس کام کے لئے الہی جماعت کھڑی ہوتی ہے وہ کام خدا تعالیٰ کا ہوتا ہے بندوں کا نہیں ہو تا پس وہ آندھیاں اور طوفان جو بظاہر اس کام پر چلتے نظر آتے ہیں در حقیقت وہ بندوں پر چل رہے ہوتے ہیں اس کام پر نہیں چل رہے ہوتے اور یہ محض نظر کا دھوکا ہوتا ہے جیسے تم نے ریل کے سفر میں دیکھا ہوگا کہ چل تو ریل رہی ہوتی ہے مگر تمہیں نظریہ آتا ہے کہ درخت چل رہے ہیں اسی طرح جب آندھیاں اور طوفان الہی سلسلوں پر آتے ہیں تو جماعتیں یہ خیال کرتی ہیں کہ یہ آندھیاں اور طوفان ہم پر نہیں بلکہ سلسلہ پر چل رہے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ وہ سلسلہ پر نہیں آ رہے ہوتے بلکہ افراد پر آ رہے ہوتے ہیں.ان افراد پر جو اس سلسلہ پر ایمان لانے والے ہوتے ہیں ان آندھیوں اور طوفان کو بھیج کر اللہ تعالٰی مومنوں کے ایمانوں کا امتحان لیتا ہے.خدا تعالیٰ کے کلام اور خدا تعالیٰ کی بھیجی ہوئی تعلیم کا امتحان لینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ امتحان تو انسانوں کا لیا جاتا ہے.پس یہ آندھیاں اور یہ طوفان انسانوں پر آتے ہیں مگر انسان کم عقلی سے یہ سمجھتا ہے کہ یہ کسی اور پر آرہے ہیں اور وہ طوفان جو اس کو ہلا رہے ہوتے ہیں ان کے متعلق وہ یہ خیال کرتا ہے کہ یہ خدائی سلسلہ کو ہلا رہے ہیں.اس وقت ایسے انسان کی مثال بالکل اس عورت کی ہوتی ہے جو قادیان کی رہنے والی تھی اور تھی بھی نیک مگر اس کے دماغ میں کچھ نقص تھا اور یہ اس کی خاندانی بیماری تھی.وہ نہایت شریف اور باحیا عورت تھی مگر جنون کی حالت میں وہ باہر پھرا کرتی تھی.ایک دن وہ ہماری نانی صاحبہ مرحومہ ۳ کے پاس بیٹھی تھی اس دن اس کا دماغ کچھ اچھا تھا اور دورہ زور پر نہ تھا.ایک دو
۴۴۱۵ عورتیں بھی وہاں بیٹھی تھیں اتنے میں زلزلہ آیا.ہماری نانی صاحبہ مرحومہ نے کہا زلزلہ آیا ہے.یہ سن کر اس عورت نے اپنا ہاتھ نانی صاحبہ مرحومہ پر رکھا اور کہنے لگی.بی بی گھبراؤ نہیں زلزلہ نہیں آیا بلکہ میرا سر چکرا رہا ہے.ایسی ہی حالت اس انسان کی بھی ہوتی ہے.فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ اس عورت نے تو کہا تھا کہ میرا سر چکرا رہا ہے مگر اس ابتلاء کے وقت لوگ سمجھتے ہیں سلسلہ کا سر چکرا رہا ہے.پس ہماری جماعت کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ وہ پودا جو خدا تعالٰی نے لگایا ہے وہ بڑھے گا، پھلے گا اور پھولے گا کہ اور اس کو کوئی آندھی تباہ نہیں کر سکتی.ہاں ہماری غفلتوں یا ہماری ستیوں یا ہماری لغزشوں کی وجہ سے اگر کوئی ٹھو کر آجائے تو وہ ہمارے لئے ہوگی سلسلہ کے لئے نہیں ہوگی.جب ہم اپنے توازن کو درست کر لیں گے اور اپنے ایمانوں کو مضبوط کر لیں گے تو وہ حوادث خود بخود دور ہوتے چلے جائیں گے بلکہ وہ حوادث ہمارے لئے رحمت اور برکت کا موجب بن جائیں گے.رسول کریم میں یا ہم نے جب مکہ سے ہجرت کی تو لوگوں نے سمجھا کہ ہم نے ان کے کام کا خاتمہ کر دیا ہے اور یہ حادثہ محمد اور اس کے ساتھیوں کے لئے زبردست حادثہ ہے لیکن جس کو لوگ حادثہ سمجھتے تھے کیا وہ حادثہ ثابت ہوا یا برکت.دنیا جانتی ہے کہ وہ حادثہ ثابت نہ ہوا بلکہ وہ الہی برکت بن گیا اور اسلام کی ترقیات کی بنیاد اس پر پڑی.پس ہماری جماعت کو اپنے ایمانوں کی فکر کرنی چاہئے اگر تم اپنے ایمانوں کو بڑھا لو گے اور اپنے ایمانوں کو مضبوط کر لو گے تو تمہارے لئے سال میں صرف دو عیدیں ہی نہیں آئیں گے بلکہ ہر نیا دن تمہارے لئے عید ہو گا اور ہر نئی رات تمہارے لئے نیا چاند لے کر آئے گی.تم خدا تعالیٰ کی برگزیدہ جماعت ہو اور خدا تعالیٰ اپنی برگزیدہ جماعت کو اٹھانے اور بڑھانے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے اگر کوئی کوتاہی ہوتی ہے تو ہماری طرف سے ہوتی ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ بچہ جب تک نہ روئے ماں اُسے دودھ نہیں پلاتی لیکن ماں کی چھاتیاں ہر وقت بچے کو دودھ دینے کے لئے تیار رہتی ہیں جو نہی بچہ روتا ہے ماں اسے اٹھا کر اپنی چھاتی سے چمٹا لیتی اور اسے دودھ پلانے لگتی ہے.پس اللہ تعالی کے حضور ہر وقت دعاؤں میں لگے رہو اور اپنے اندر نیک تبدیلی پیدا کرو.ابھی تمہارے زخم تازہ ہیں اس لئے میں ان زخموں کو چھیڑنا نہیں چاہتا ورنہ میں تمہیں بتاتا کہ جو حادثات ہوئے ہیں کہ ان میں تمہاری اپنی بھی بہت سی ذمہ داری ہے مگر چونکہ میں تمہارے زخموں کو چھیڑنا اس وقت پسندیدہ نہیں سمجھتا اس لئے چشم پوشی سے کام لیتا ہوں لیکن میں تمہیں یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ تمہیں
مغموم ہونے اور مایوسی کی کوئی ضرورت نہیں.آج کا دن عید کا دن ہے اور عید کا دن بہر حال کثرت سے خوشی اپنے ساتھ لاتا ہے.اگر کسی کے گھر میں کوئی حادثہ ہو گیا ہو یا اسے کوئی رنج پہنچا ہو تو اور بات ہے ورنہ عام طور پر یہ دن اپنے ساتھ بے شمار خوشیاں لاتا ہے.اسی طرح اگر تم خود اپنے دلوں کو زخمی کر لو تو اور بات ہے ورنہ مأمور کا زمانہ خوشیاں ہی لانے والا ہوتا ہے اور وہ بہر حال اوپر کی طرف جاتا ہے نیچے کی طرف نہیں جاتا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالی قابض بھی ہے اور باسط بھی ہے نہ جیسے جہاز کبھی اوپر کو جاتا ہے اور کبھی نیچے کو.جن لوگوں نے کبھی جہاز کے ذریعہ سمندر کا سفر کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ کبھی تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ جہاز نیچے کو جا رہا ہے اور کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ جہاز اوپر کو جا رہا ہے حالانکہ جہاز سیدھا آگے کو بڑھ رہا ہوتا ہے.مگر سفر کرنے والوں کا احساس یہی ہوتا ہے کہ جہاز کبھی نیچے کو جاتا ہے اور کبھی اوپر کو جاتا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ جہاز آگے کو چلتا ہے نہ کہ اوپر یا نیچے کو اور جہاز کا اوپر یا نیچے ہونا اس کا اپنا اوپر یا نیچے ہونا نہیں ہوتا بلکہ سمندر کی لہروں کی بلندی یا پستی ہوتی ہے.اسی طرح انبیاء کی جماعتیں آندھیوں اور طوفانوں کا مقابلہ کرتے ہوئے آگے کو چل رہی ہوتی ہیں اور وہ تمام رکاوٹوں سے محفوظ رہ کر آگے بڑھ جاتی ہیں.یہاں تک کہ ان کا جہاز سلامتی کے ساتھ اس منزل مقصود پر پہنچ جاتا ہے جہاں وہ ان تمام وعدوں کو پورا ہو وتے دیکھ لیتی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے ساتھ کئے تھے.پس منزل مقصود تک کے لئے ایک ہی چیز کی ضرورت ہے اور وہ یہ ہے کہ اپنے اندر نیک اور پاک تبدیلی پیدا کر لو.نبیوں کی جماعتوں کے اندر عجز اور انکسار ہونا چاہیئے تکبر اور غرور نہیں ہونا چاہئے.ان کے اندر کبھی یہ احساس نہیں پایا جانا چاہئے کہ ہم فلاں کام کو اپنی طاقت کے ساتھ یوں کر دیں گے اگر وہ فی الحقیقت زور سے ایسا کر لیں تو خدا تعالیٰ اور اس کے انبیاء کی معجز نمائی کیا رہ گئی.تم ہمیشہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صداقت کی یہی دلیل دیا کرتے ہو کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے جو کچھ ہوا وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جماعت کبھی نہیں کر سکتی تھی.تم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سچائی کی دلیل یہی دیا کرتے ہو کہ حضرت عیسی علیہ السلام سے جو کچھ ہوا وہ حضرت عیسی علیہ السلام کی جماعت نہیں کر سکتی تھی.اسی طرح تم رسول کریم کے منجانب اللہ ہونے کی یی دلیل دیا کرتے ہو کہ آپ نے جو کچھ کیا وہ آپ کی جماعت نہیں کر سکتی تھی لیکن تم اپنے متعلق سوچتے وقت کہہ دیتے ہو ہم یوں کریں گے اور یوں کریں گے.بے شک تم ساتھ یہ بھی.
ہے.مانم کہتے ہو کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے مگر اللہ تعالیٰ کے فضل کا اقرار تم صرف منہ سے کرتے ہو.منہ سے تو ہر شخص کہہ دیتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے مگر بات یہ ہے کہ جزئیات کے متعلق تمہارے اندر یہ احساس پیدا ہوا کرتا ہے کہ ہم یوں کر دیں گے حالانکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ جماعت کی ترقی خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں نہیں بلکہ تمہارے ہاتھ میں ہے.اس طرح تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کو بات کرنا چاہتے ہو اور یہ ثابت کرنا چاہتے ہو کہ باللہ آپ کو خدا تعالیٰ نے کھڑا نہیں کیا تھا.مگر انہیں کیا تھا.اگر تمہاری بات کو درست تسلیم کر لیا جائے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نَعُوذُ بِاللهِ جھوٹا قرار دیتا اور اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خدا تعالیٰ کے راستباز نبی تھے اور یقینا تھے تو تمہاری بات غلط ثابت ہوتی ہے.پس تم اپنے آپ کو ایسے مقام پر کیوں کھڑا کرتے ہو جہاں تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ٹکراؤ.جب تک تمہارے اندر یہ یقین اور وثوق پیدا نہیں ہو جاتا کہ جو کچھ کرتا ہے خدا تعالیٰ ہی کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کے کاموں کو سمر انجام دینا تمہاری طاقت سے بالا ہے اور ہے بھی فی الواقعہ اسی طرح اس وقت تک تم خدا تعالیٰ کی شان اور اس کی برتری کا اقرار نہیں کرتے اور اس کی قدرت کو تسلیم نہیں کرتے اور جب تم خدا تعالیٰ کی شان اور اس کی قدرت کا سچے دل سے اقرار نہیں کرتے تو خدا تعالیٰ تمہاری مدد کس طرح کر سکتا ہے.تم اپنے متعلق صرف یہ سمجھو کہ خدا تعالیٰ نے تمہیں قربانی کا بکرا بنایا ہے اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ عید ان بکروں کی وجہ سے ہوتی ہے.عید بالکل الگ چیز ہے اور بکرے الگ چیز ہیں.پس تم اپنے دلوں کے اندر یہ یقین رکھو کہ تم صرف قربانی کے بکرے ہو اور جو کچھ ہے وہ تمہارا خدا ہی ہے تم کچھ بھی نہیں.جس دن تم اس انکسار کے مقام پر کھڑے ہو جاؤ گے اور جس دن تم اعتراف نصرتِ باری کا مقام حاصل کر لوں گے تو گو نصرت الہی اب بھی تمہارے شامل حال ہے مگر اس وقت جو خدا تعالیٰ کی نصرت تمہارے لئے آئے گی وہ اس سے کہیں بالا ہوگی.پس تم اپنے آپ کو اپنی قدرتوں کا آلہ بنا لو اس وقت ہزاروں اور لاکھوں انسان دنیا میں ایسے ہیں جو چوہڑوں اور چماروں کا کام کرتے ہیں، ہیں تو وہ بھی انسان ہی لیکن ذرا بازاروں میں ڈھونڈورا تو دو کہ فلاں چوہڑ الیل کے سے آیا ہے یا فلاں چوہڑا بسراواں سے آیا ہے.تو کیا لوگ اس کو دیکھنے لگ جائیں گے.یا شہر میں کوئی حرکت ان کی آمد سے پیدا ہوگی.اگر کوئی حرکت شہر میں پیدا ہو گی تو وہ یہ ہوگی کہ لوگ کہیں گے کہ ڈھنڈورا پیٹنے
۴۱۸ والے کا دماغ خراب ہو گیا ہے.لیکن اگر شہر میں یہ منادی کی جائے کہ نپولین و کی جوتی لاہور شہر میں لائی گئی ہے تو لوگ جوق در جوق لاہور کی طرف نپولین کی جوتی دیکھنے کے لئے روانہ ہو جائیں گے.اب دیکھو وہ ایک جوتی ہوگی اور اس مردہ بکری کا چمڑا انسان کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتا ہے جس سے وہ جوتی بنی ہوگی.اگر وہ چوہڑا علم حاصل کرتا اور ترقیات کے میدان میں دوڑ لگا تا تو ممکن تھا کہ وہ جرنیل بن جاتا یا بادشاہ بن جاتا لیکن اس کے آنے سے تو شہر میں کوئی حرکت پیدا نہ ہوگی اور نپولین کی جوتی کی خبر سن کر سارے شہر میں اس کے دیکھنے کے لئے شوق پیدا ہو جائے گا.عام طور پر پرانے قالین دو دو چار روپے کو سکتے ہیں.لیکن اگر کوئی قالین کسی سابق بادشاہ یا ملکہ کا ہو تو لوگ اسے پچاس پچاس ہزار روپے میں بھی فروخت کر لیتے ہیں بلکہ بعض شوقین تو ایسی چیزوں کو پچاس پچاس لاکھ روپیہ میں بھی خریدنے کو تیار ہو جاتے ہیں.انگریزی کے شاعر شیکسپئیر نا کی کتابیں جن کو اس نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا آج چالیس چالیس پچاس پچاس ہزار روپیہ میں فرخت ہوئی ہیں.بلکہ بعض ہستیاں تو ایسی ہیں کہ جن کے کسی چیز کو چھونے سے ہی حقیر چیزیں اعلیٰ ہو جاتی ہیں.پس تم یہ مت خیال کرو کہ تم نے کوئی کام کر دیا تو تم بڑے ہو جاؤ گے بلکہ یہ سمجھو کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے ہمارا خدا ہی ہمارے سب کام کرتا ہے.یقینا یہ بڑائی کہ تم اپنے کام کا ذکر کر کے اپنے آپ کو بڑا ثابت کرنے کی کوشش کرو اتنی نہیں جتنی یہ بڑائی ہے کہ تم خدا تعالی کی تلوار بن جاؤ.ہتھیار بے شک ایک بے جان چیز ہے مگر یہ نہ سمجھو کہ ہتھیار بن کر تم بے جان ہو کر گر جاؤ گے.اگر ایک بادشاہ کی جوتی یا کسی بادشاہ کا قلم یا شیکسپئیر کی کتابیں کچھ حیثیت رکھتی ہیں تو تم سمجھ لو کہ جو شخص خدا تعالی کا ہتھیار بن جائے ، اس کی کیا حیثیت ہوگی.پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ تکبر اور بڑائی کا خیال چھوڑ دو اور اپنے نفسوں پر ایک موت وارد کر لو تاکہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنا ہتھیار بنا ہے.یاد رکھو جب تک تمہارے نفسوں میں تکبر اور نخوت اور خود نمائی کی ذرہ بھی رمق باقی ہے اس وقت تک تمہارے نفس کسی کام کے نہیں ہیں.اب میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالٰی ہمارے لئے اپنے فضل کی بارش نازل فرمائے اور ہمارے لئے ساری عیدیں حقیقی معنوں میں عیدیں بن جائیں اور ہر عید ہمارے اندر عاجزی اور فروتنی کی روح پیدا کرنے والی ہو نہ کہ تکبر اور غرور پیدا کرنے والی.ہم جو بھی کام کریں اس کے متعلق یہ یقین رکھیں کہ یہ خدا تعالیٰ نے کیا ہے ہم تو اس
۴۱۹ کی عاجز اور کمزور مخلوق ہیں.ل ملفوظات جلد ۴ صفحه ۱۸۵- ۱۸۶ حاشیه کے ملفوظات جلد ۶ صفحه ۱۹۵ الفضل ۲۵ اگست ۱۹۴۷ء) حضرت سیده سید بیگم زوجہ حضرت میر ناصر نواب صاحب.۱۹۳۲ء میں ۸۰ سال کی عمر میں وفات پائی.روحانی خزائن ( تذکرۃ الشہادتین) جلد ۲۰ صفحه ۶۷ ه تقسیم برصغیر ۱۹۴۷ء کے پُر آشوب دور کا ذکر ہے خدائی نوشتوں کے ماتحت جماعت احمدیہ کو اپنا دائمی مرکز عارضی طور پر چھوڑنا پڑا.یہ عید ۱۸.اگست کو ہوئی اور چند ہی دن بعد قادیان سے احمدی عورتوں اور بچوں پر مشتمل پہلا قافلہ لاہور کے لئے روانہ ہوا.البقرة : ٢٤٦ کہ لیل قادیان سے جنوب کی طرف قریبا دو میل پر واقع ہے.ه بسراواں قادیان کے جنوب میں مشرق میں تقریباً تین میل دور ہے.۱۸۲۱-۶۱۷۷۹ء حکومت ۱۷۹۵ء ها ۶۱۵۶۴ - ۶۱۶۱۶
۴۲۰ (۳۸) فرموده ۷.اگست ۱۹۴۸ء بمقام یا رک ہاؤس.کوئٹہ ) کہا جاتا ہے کہ انسان متضاد جذبات پیدا نہیں کر سکتا یا کہا جاتا ہے کہ متضاد کیفیتیں منافق کی علامت ہوتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ متضاد جذبات ہر زمانہ میں اور ہر وقت منافقت کی علامت نہیں ہوا کرتے بلکہ بعض دفعہ متضاد جذبات پیش کرنا اعلیٰ درجہ کے اخلاق کی علامت ہوتے ہیں بلکہ حق یہ ہے کہ اگر متضاد جذبات پیش نہ کئے جائیں تو یہ انسان کی کمزوری سمجھی جاتی ہے.رسول کریم ملا ل ا ل لیلی کے زمانہ میں ایک دفعہ ایک صحابی کو جہاد پر بھجوایا گیا.ان کا بچہ سخت بیمار تھا وہ اسے بیمار چھوڑ کر بغیر کوئی عذر کئے جہاد پر چلے گئے جب وہ آپس آئے تو ان کی بیوی نهاد دھو کر ان کے استقبال کے لئے خوشی خوشی بیٹھ گئی.انہوں نے گھر آتے ہی پوچھا کہ بچے کا کیا حال ہے بیوی نے جواب دیا کہ بچے کو اب بالکل سکون ہے.پھر اس نے آپ کو کھانا کھلایا اور ادھر اُدھر کی باتیں کرتی رہی.رات کو جب بستر پر لیٹے تو بیوی نے کہا میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتی ہوں.انہوں نے کہا پوچھو بیوی نے کہا اگر کوئی شخص کسی کے پاس امانت رکھ جائے اور کچھ عرصہ کے بعد وہ اپنی امانت واپس لینے کے لئے آئے تو کیا اس کی امانت واپس کر دینی چاہئے یا نہیں ؟ انہوں نے کہا یہ کونسا مسئلہ ہے اگر کسی کی امانت ہے تو اسے ضرور واپس کر دینی چاہئے.بیوی نے کہا ہمارے پاس بھی بچہ کی شکل میں اللہ تعالیٰ کی ایک امانت تھی جو اس نے واپس لے لی ہے اور وہ فوت ہو چکا ہے.لہ اب دیکھو یہ اس عورت کے ایمان کی کیفیت تھی کہ اس نے اپنے غم کو دبالیا اور اسے ظاہر نہ ہونے دیا.وہ اپنے دل پر جبر کر کے نہا دھو کر بیٹھ گئی اور اپنے خاوند کو اس نے تسلی دی.کھانا کھلایا اور یہ نہ بتایا کہ بچہ مرگیا ہے تاکہ اسے زیادہ صدمہ نہ پہنچے اور وہ اس کے نتیجہ میں کوئی ایسی بات نہ کہہ دے جس سے اس کا ثواب کم ہو جائے.یہ جذبہ بظاہر متضاد تھا لیکن حقیقتاً یہی جذبہ اس وقت اس کے ایمان کی حقیقی تصویر تھا.اگر وہ اپنے اندرونی جذبات کو ظاہر کرتی، روتی اور واویلا کرتی.تو وہ متضاد جذبات کا اظہار نہ کرتی.اس کا ظاہر و باطن ایک ہوتا اور پھر اس کا یہ فعل ایمان کی کمزوری کی
۲۱ بھی علامت ہوتا اور قومی اخلاق اور قربانیوں کے بھی خلاف ہو تا.پس بعض متضاد حقیقتیں بھی ایسی ہوتی ہیں جو حقیقت حال پر مشتمل ہوتی ہیں.ایک قسم کے جذبات کا اظہار ہر جگہ پسندیدہ نہیں ہو تا.مثلاً ایک شخص دوسرے سے ناراض ہے وہ اس کے پاس آتا ہے تو وہ بشاشت کے ساتھ اس سے پیش آتا ہے اور اپنی ناراضگی کا اظہار نہیں کرتا اور گو اس کے دل میں ابھی رنج ہوتا ہے مگر اس کے دہانے میں ایک حد تک وہ کامیاب ہو جاتا ہے.لیکن ایک دوسرا شخص ہو تا ہے جو غصہ بھی نکالتا ہے اور بات بھی کر لیتا ہے.اب بظاہر یہ کہا جائے گا کہ دوسرا شخص دل کا زیادہ صاف ہے اور جو کچھ اس کے اندر ہوتا ہے وہ ظاہر کر دیتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ غصہ کو د با لینا اور اس میں کامیاب ہو جانا گو بظاہر اند روزی، جذبات کے خلاف فعل ہے مگر وہی شخص سچا اور حقیقی مومن کہلائے گا.۲.اسی طرح ہر انسان کے لئے عید بھی عید نہیں ہوا کرتی.ہزاروں مسلمان ایسے ہوں گے جن کے گھروں میں آج ماتم ہو گیا ہو گا.آخر چالیس کروڑ مسلمان ہیں تو یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی ایک کے گھر میں بھی آج موت نہ ہوئی ہو.ایسی حالت میں بعض تو اپنے غم کی وجہ سے عید میں کوئی حصہ ہی نہیں لے رہے ہوں گے اور بعض ایسے ہوں گے جو میت کو خدا کے حوالے کر کے عید کی نماز کے لئے چلے گئے ہوں گے.اب بظاہر وہ جو نماز کے لئے چلے گئے انہوں نے منافقت کا اظہار کیا ان کا ظاہر اور تھا اور باطن اور تھا اور جو گھر میں بیٹھے رہے وہ صاف دل اور کھرے تھے لیکن در حقیقت جو لوگ اپنے مُردے کو خدا تعالیٰ کے حوالہ کر کے عید کے لئے چلے گئے وہی سچے مومن ہیں کیونکہ انہوں نے خدا کی مرضی کو اپنی مرضی پر مقدم کر لیا.یہ تو ایک فردی مصیبت کی مثال ہے.لیکن اس کے مقابلہ میں آج لاکھوں مسلمان ایسے ہیں جو دیکھ رہے ہیں کہ اسلام کا نام اب صرف زبانوں پر رہ گیا ہے اور کفر دنیا پر غالب ہے.مگر اس کے باوجود ان کے دل میں کوئی درد پیدا نہیں ہوتا ان کے دل میں کوئی دکھ پیدا نہیں ہوتا وہ عید کی خوشیاں مناتے ہیں ، کپڑے بدلتے ہیں اور عطر لگاتے ہیں، صبح کے وقت وہ ملکی رواج کے مطابق سویوں کا ناشتہ بھی کر لیتے ہیں حالانکہ اس وقت اسلام ایسی نازک حالت میں سے گزری رہا ہے جسے دیکھ کر کوئی سچا مسلمان ایک گہرا صدمہ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا.اگر مسلمان ایک خون ٹپکاتے ہوئے دل کے ساتھ عید کی نماز کے لئے جاتے اگر وہ ایک ٹکڑے ٹکڑے جگر کے ساتھ عید کی نماز پڑھتے تو گو ان کے جذبات متضاد ہوتے مگر حقیقی عید انہی کی ہوتی.پس
۴۲۲ جس نے عید کی نماز پڑھی مگر اس کے دل میں اسلام کا درد پیدا نہیں ہوا اس کی اندرونی بینائی مردہ ہے.اور جس نے عید نہیں منائی اس کی بھی اندرونی بینائی مُردہ ہے.حقیقی عید اُسی کی ہے جو متضاد جذبات کے ساتھ عید مناتا ہے.اس کا دل ماتم کرتا ہے اور اس کا ظاہر عید مناتا ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے تمام زندہ افراد جن میں قومی جذبہ پایا جاتا ہے ایسے ہی مظاہرے کیا کرتے ہیں.جرمنی کی ایک عورت تھی اس کی عمراتی سال کے لگ بھگ تھی.اس کے ساتی بیٹے تھے جو سارے کے سارے جنگ میں مارے گئے.ہمارے ملک میں اگر کسی کے ساتھ ایسا واقعہ ہو تو کسی دوسرے کو احساس بھی نہ ہو.مگر زندہ قومیں ان باتوں کو نوٹ کرتی رہتی ہیں کہ کسی نے کتنی قربانی کی ہے.جب وزیر دفاع کو اس کی خبر ملی تو اس نے چاہا کہ وہ اس کو بلا کر بادشاہ اور ملک کی طرف سے اس سے ہمدردی کا اظہار کرے.چنانچہ وزیر دفاع نے اسے خود لکھی.جب وہ بڑھیا آئی تو وزیر دفاع نے اسے کہا کہ میں بادشاہ اور ملک کی طرف سے آپ سے ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں کیونکہ آپ کے تمام بیٹے جنگ میں کام آگئے ہیں.ایک ریزی اخبار کا نمائندہ بھی اس موقع پر موجود تھا.میں نے اس کی رپورٹ جو بعد میں شائع ہوئی پڑھی ہے.اس نے لکھا کہ جب وہ بڑھیا باہر نکلی تو باوجود اس کے اس کی پیٹھ کبڑی ہو چکی تھی وہ اپنے دونوں ہاتھ اپنے پیچھے رکھ کر اپنی کمر کو دبا کر سیدھا کرتی اور ایک بناوٹی قہقہہ لگا کر کہتی کیا ہوا اگر میرا آخری بیٹا بھی مارا گیا ہے آخر وہ ملک کی خدمت کرتے ہوئے ہی مارا گیا ہے.تو دیکھو اس عورت کے اندر قومی خدمت کا کس قدر احساس تھا.وہ دنیا کو بتانا چاہتی تھی کہ میرے بیٹوں کے مرجانے نے میری کمر کو خم نہیں کر دیا بلکہ اور بھی سیدھا کر دیا ہے کیونکہ انہوں نے ملک کی خاطر جان دی ہے.اب یہ تو نہیں تھا کہ اس کا دل اپنے بیٹوں کی وفات پر غمگین نہیں تھا.دل تو غمگین تھا لیکن وہ دنیا کے سامنے یہ ظاہر کرنا چاہتی تھی کہ میں اس تقدیر پر خوش ہوں جو میرے لئے غم لائی مگر میری قوم کے لئے اس نے عزت کے سامان پیدا کر دیئے.اسی طرح محمد رسول الله ملی علوم کے لڑکے حضرت ابراہیم سے جب فوت ہوئے تو رسول کریم میں اسے دفنانے کے لئے تشریف لے گئے.جب آپ " دفن کر چکے تو آپ نے فرمایا ؟ جا اپنے بھائی عثمان که بن مظعون کے پاس اور اس وقت آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے.لیکن جب وہ وقت گزر گیا.تو پھر محمد رسول اللہ ملی لیے پہلے جیسے جوش اور تندہی کے ساتھ خدمت دین میں مصروف ہو گئے.غرض حقیقی مومن کی یہی شان ہوتی ہے کہ وہ قومی
۴۲۳ اور مذہبی غم کو اپنے ذاتی غموں پر ترجیح دیتا ہے اور اس کے عزم اور استقلال میں کوئی فرق نہیں آتا بلکہ مصیبت اس کے عزم کو اور بھی بڑھا دیتی ہے اور اس کے استقلال کو اور بھی زیادہ کر دیتی ہے اس لئے نہیں کہ وہ تسلی پا گیا ہے بلکہ اس کے لئے کہ اگر کوئی شخص دونوں جذبات کو محسوس کرتا ہے تو وہ حقیقی مومن ہے بلکہ میں تو کہتا ہوں وہ حقیقی انسان ہے کیونکہ انسان کا کمال بھی اُسی وقت ظاہر ہوتا ہے جب وہ دل سے دکھ محسوس کرے اور اپنے ظاہر کو خدا کے تابع کرے.اس وقت دنیا میں ہزاروں قصبات اور شہر ایسے ہیں جن میں مسلمانوں کی بنائی ہوئی مسجد میں ویران پڑی ہیں اور ان میں خدا تعالیٰ کے آگے سجدہ کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا.بنانے والوں نے تو انہیں اس لئے بنایا تھا کہ ان میں خدا تعالیٰ کا ذکر کیا جائے لیکن اب وہ ویران اور غیر آباد پڑی ہیں اب جب تک یہ تمام مسجدیں پھر اسلام کی عظمت کا ایک زندہ نشان نہ بن جائیں جب تک قرآن کی حکومت پھر دنیا میں قائم نہ ہو جائے اُس وقت تک اگر کوئی شخص صرف ظاہری عید پر ہی خوش ہو جاتا ہے اور نئے کپڑے پہن کر سمجھ لیتا ہے کہ اس نے عید منان لی ہے تو وہ بے غیرت ہے اسی طرح وہ انسان جو ہمت ہار کر بیٹھ جاتا ہے وہ بھی نہایت ہی ذلیل اور بزدل انسان ہے.بے شک ہمارے خدا نے ہمیں ظاہری طور پر خوشی منانے کا حکم دیا ہے اور اس لئے ہم خوشی مناتے ہیں لیکن ہمیں حقیقی خوشی اس وقت حاصل ہو گی جب دنیا میں ہر جگہ اسلام پھیل جائے گا.جب مساجد ذکر الہی کرنے والوں سے بھر جائیں گی اور جب محمد رسول اللہ می لال لال ہے اور قرآن کی حکومت دنیا کے چپہ چپہ پر قائم ہو جائے گی.پس ہماری جماعت کے ہر فرد کو یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام اور مسلمانوں کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے ہمارے اندرونی زخم کبھی مندمل نہیں ہونے چاہئیں بلکہ ہمارے زخم اگر کبھی مندمل ہونے لگیں تو چاہئے کہ ہم اپنی انگلیوں سے ان زخموں کو پھر ہرا کر لیں کیونکہ ہماری سب سے بڑی عید اُسی وقت ہوگی جب اسلام دنیا کے کناروں تک پھیل جائے گا اور دنیا کے کونہ کونہ سے اللہ اکبر کی آواز میں اُٹھنا شروع ہو جائیں گی.(الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۶۱ء) صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابه باب من فضائل أبي طلحة الانصاري صحیح بخارى كتاب الجنائز باب من لم يظهر حزنه عند المصيبة
مهم با سوم آل عمران : ۱۳۵ صحیح بخاری کتاب الادب باب الحذر من الغضب ابن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و ام المومنین حضرت ماریہ قبطیہ ۲ ہجری - صحیح بخاری کتاب الجنائز باب قول النبي صلى الله عليه وسلم انابک لمحزونون - صحیح مسلم باب رحمة صلى الله عليه وسلم الصبيان.الخ
۴۲۵ (۳۹) ( فرموده ۲۸.جولائی ۱۹۴۹ء بمقام پارک ہاؤس.کوئٹہ ) عید ایک ایسی چیز ہے جس کو ساری ہی قومیں مناتی ہیں کوئی اس کا نام تہوار رکھ لیتا ہے کوئی عید کہہ دیتا ہے اور کوئی کرسمس (Christmas) کے نام سے اسے یاد کر لیتا ہے.بہر حال دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جس میں عید نہیں پائی جاتی ہر قوم کسی نہ کسی طرح عید مناتی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عید کا جذبہ فطرت انسانی میں رکھا گیا ہے اگر یہ جذبہ فطرت میں نہ رکھا ہوتا تو ہر جگہ اور ہر قوم میں عید کیوں منائی جاتی.سینکڑوں اور ہزاروں سال تک بنی نوع انسان آپس میں جدا جدا رہے.امریکہ والے دنیا کے دوسرے لوگوں سے اس وقت تک نہیں مل سکے جب تک کہ کولمبس نے اسے دریافت نہ کر لیا.آسٹریلیا والے بھی ایک وقت تک دوسرے لوگوں سے نہ مل سکے مگر باوجود اس کے تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پرانے باشندوں میں بھی عید کی رسم پائی جاتی تھی.اسی طرح افریقہ کے پرانے باشندوں میں بھی بعض تہوار پائے جاتے ہیں غرض عید کے موجبات خواہ مختلف ہوں اس کا وجود ہر قوم اور ہر ملک میں پایا جاتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عید کا تعلق فطرت کے ساتھ ہے.اسلام نے بھی سال میں دو عیدیں رکھی ہیں.جن میں سے ایک کا نام عید الفطر ہے اور دوسری کا نام عید الاضحیہ.ان کے علاوہ رسول کریم میلی لیلا و لیلی نے جمعہ کے دن کو بھی مسلمانوں کے لئے عید کا دن قرار دیا ہے.اے گویا اسلام دوسری قوموں اور مذاہب سے عید کے لحاظ سے بھی بڑھ کر ہے.مگر سوال یہ ہے کہ عید کہتے کس کو ہیں ؟ آخر کوئی وجہ بھی ہے جس سے ہر قوم اور ہر مذہب میں عید رکھی گئی ہے.عید اس لئے رکھی گئی ہے کہ انسان اگر ہمیشہ رنج کی طرف ہی دیکھتا ہے رہے تو اس کے قومی مضحل ہو جائیں.کبھی کبھی اس کی نظر اپنے اعلیٰ مقاصد اور کامیابیوں کی طرف بھی جانی چاہئے اگر وہ اپنی کامیابیوں کو یاد کرتا رہے اور اپنے مقاصد کو سامنے رکھے تو اس کا حوصلہ بڑھتا چلا جائے گا اور اس طرح قوم مرنے نہیں پائے گی.اگر عید نہ منائی جائے یا عید منائی تو جائے لیکن اس کے موجبات نہ ہوں صرف روایت ہی روایت ہو تو قوم مُردہ ہو جاتی کا
۴۲۹ ه ہے ، اس کی روح مرجاتی ہے اور تصویر ہی تصویر باقی رہ جاتی ہے.مثلاً خاکروب ہیں ان میں بھی ایسی روایات پائی جاتی ہیں کہ ان کے باپ دادا بادشاہ تھے.سانسی قوم میں بھی ایسی روایات پائی جاتی ہیں اور اسی وجہ سے وہ جوتی نہیں پہنتے ان میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ جب انہیں دوبارہ بادشاہت ملے گی تب وہ جوتی پہنیں گے.بہر حال یہ ایک حقیقت ہے کہ ان قوموں میں کسی زمانہ میں بادشاہت پائی جاتی تھی.ہندوستان میں آرین قوم کے آنے سے پہلے Dravadian قوم بہتی تھی اور ممکن ہے سانسی اسی قوم سے تعلق رکھتے ہوں.لیکن انہوں نے صرف روایت ہی روایت یاد رکھی عملی طور پر کچھ نہ کیا اس لئے یہ چیز صرف ایک نقش بن کر رہ گئی.آخر بادشاہت آسمان سے نہیں آیا کرتی بلکہ عمل کے نتیجہ میں ملا کرتی ہے مگر ان میں ہمیں کوئی عمل نظر نہیں آتا اور نہ ہی انہوں نے بادشاہت کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے کوئی جدوجہد کی ہے جس کی وجہ سے یہ قوم مُردہ ہے زندہ نہیں.پس کامیابیوں کو یاد رکھنا بے شک مفید ہے بشرطیکہ موجبات اور محرکات بھی پائے جاتے ہوں.لیکن اگر موجبات اور محرکات نہ پائے جائیں اور ان کے نظر آنے پر خون میں گرمی پیدا نہ ہو اور مردہ رگوں میں زندگی کی ایک لہر نہ دوڑ جائے تو سمجھ لو کہ وہ قوم مُردہ ہے زندہ نہیں وہ محض ایک تصویر ہے اس میں حقیقت نہیں پائی جاتی.ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ ہماری عیدوں کے پیچھے حقیقی خوشی کی بنیاد پائی جاتی ہے یا نہیں.ہماری عید کے پیچھے حقیقی خوشی کی بنیاد پائی جاتی ہے تو وہ ہمارے لئے موجب برکات ہے اور اگر اس کے پیچھے حقیقی خوشی کی بنیاد نہیں پائی جاتی تو پھر ہر عید جو آئے گی ہمیں پہلے سال سے بھی زیادہ مُردہ بنا دے گی کیونکہ جو کام نقل کے طور پر کیا جاتا ہے وہ کرنے والے کے دل پر زنگ لگا دیتا ہے.مثلاً کوئی شخص اپنے کسی عزیز کو یا دوست کو دیکھ کر بناوٹی طور پر رونے لگ جائے تو وہ ایک دفعہ تو بناوٹی طور پر رولے گا لیکن دوسری دفعہ باوجود اس کے کہ وہ بناوٹی طور پر رو رہا ہو گا اس کی آنکھوں سے آنسو بھی بننے لگ جائیں گے لیکن ایکٹر اور ایکٹریسیس جو روتی ہیں تو ان کے اندر اس سے غم پیدا نہیں ہوتا.ان کا رونا بھی مصنوعی ہوتا ہے اور اس کا رونا بھی مصنوعی ہوتا ہے لیکن ان دونوں میں یہ فرق ہوتا ہے کہ ایکٹروں اور ایکٹرسوں کو رونے کی عادت پڑ گئی ہے اور اسے عادت نہیں اس لئے بعض اوقات اگر بناوٹ کے طور پر بھی وہ غم کی حالت کو اپنے اوپر وارد کرتا ہے تو بیچ بیچ رنجیدہ ہو جاتا ہے.پس اگر عید میں آئیں.
ہو.۴۲۷ اور ان کے موجبات اور محرکات ہمارے اندر گرمی پیدا نہ کریں ، ہمارے اندر زندگی کی ایک بہر نہ دوڑ جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہر عید ہمیں پہلے سے بھی زیادہ مُردہ بنا کر چلی جائے گی.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ عید تین وجوہات کی بناء پر منائی جاتی ہے.اول انسان کو اس کا محبوب یعنی خدا مل جائے کہ جب اسے خدا مل جائے گا تو اس کی عید حقیقی معنوں میں عید ہوگی لیکن اگر اسے خدا نہیں ملتا تو پھر عید کیسی.در حقیقت اگر اسلام کے شروع زمانہ میں عید تھی تو صرف مسلمانوں کی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عیسائیت بھی خدا تعالی کی قائل تھی، ہندو بھی خدا تعالیٰ کے قائل تھے مگر کوئی ایسا گروہ نہیں پایا جاتا جو یہ کہتا ہو کہ ہمیں خدا مل گیا ہے.اگر کوئی ایسی جماعت تھی جو اس بات کی دعویدار تھی کہ ہمیں خدا تعالیٰ مل گیا ہے تو وہ رسول کریم ملی اور آپ کے صحابہ تھے.پس جس شخص کو اس کا محبوب مل جائے اس کی عید بن جاتی ہے.غالب کہتا ہے اصل خوشی اس شخص کی ہے جس کے بازو پر اس کے محبوب نے سر رکھ دیا.پس اصل خوشی اس شخص کی ہے جس نے خدا تعالیٰ کو دیکھا ہو اور اس سے باتیں کی ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عادت تھی کہ آپ اپنی نوٹ بک میں مختلف نوٹ لکھ دیتے تھے اور بعد میں جب موقع ملتا انہیں مضمون کی صورت میں بدل دیتے.جب میں نے ہوش سنبھالا میں ایسے نوٹوں کی تلاش میں رہتا جو کسی کتاب یا اخبار میں چھپے نہ ہوں اور اگر کوئی غیر مطبوعہ نوٹ مل جاتا تو اسے تشحیذ الاذھان کہ میں شائع کر دیتا.ایک دن میں آپ کی نوٹ بک سے کوئی غیر مطبوعہ نوٹ تلاش کر رہا تھا کہ میں نے ایک جگہ پر لکھا ہوا پایا کہ دنیا مجھے ڈراتی ہے، دشمن مجھے دھمکیاں دیتا ہے، وہ مجھے خائف کرنا چاہتا ہے لیکن مجھے حیرت ہے کہ وہ کس طرح یہ سمجھتا ہے کہ اپنے منصوبوں اور خوف دلانے میں وہ کامیاب ہو جائے گا آخر کسی میں ڈرنے کا مادہ ہو تو وہ ڈرتا ہے لیکن میں تو جب تکیہ پر سر رکھتا ہوں خدا تعالیٰ میرے پاس آجاتا ہے اور کہتا ہے میں تیرے ساتھ ہوں.اگر خدا تعالیٰ خود آکر مجھے کہتا ہے کہ میں تیرے ساتھ ہوں تو کیا مخالفوں سے میں ڈر جاؤں گا.پس جس کے ساتھ خدا تعالیٰ ہوتا ہے کسی اور شخص میں یہ طاقت ہی نہیں ہوتی کہ اسے نقصان پہنچا سکے.رسول کریم میں کی مثال ہمارے سامنے ہے.رسول کریم میں یا یہ حضرت ابو بکر کو ساتھ لے کر غار ثور میں جا چھپے.دشمن کھوجیوں کو ہمراہ لئے آپ کی تلاش میں اس غار پر جا پہنچا.غار ثور جیسا کہ عام مسلمانوں کا خیال ہے کوئی چھوٹی سی غار نہیں بلکہ ڈیڑھ گز لمبی اور اتنی ہی چوڑی جگہ ہے.اس میں کو
۴۲۸ چوہیں پچیس آدمی بیٹھ سکتے ہیں.اتنی بڑی جگہ میں بھلا جھانکنا کونسا مشکل تھا.رسول کریم م اور حضرت ابو بکر اس غار کے ایک طرف بیٹھے ہوئے تھے.غار کے منہ پر آکر کھوجیوں نے کہا کہ اگر محمد مللی زمین پر موجود ہے تو پھر اسی غار میں ہے.حضرت ابو بکر اُس وقت گھبرا گئے اور آپ نے خیال کیا کہ کہیں ایسا نہ ہو دشمن آپ کو دیکھ لے اور دکھ پہنچائے اور آپ کا رنگ فق ہو گیا.جب رسول کریم میں لیلی نے یہ کیفیت دیکھی تو آپ نے فرمایا.لا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا ابو بکر ! تم گھبراتے کیوں ہو خدا تعالی ہمارے ساتھ ہے.وہ ایسے موقع پر آپ کا یہ یقین اور وثوق اس بات کا ثبوت تھا کہ خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ۱۹۰۲ء میں مخالفین کی طرف سے ایک کیس چلایا گیا کہ اور جس مجسٹریٹ کے سامنے یہ کیس پیش تھا وہ آریہ تھا.اسے لاہور سے بلا کر آریہ لیڈروں نے قتسم دلائی کہ اس مقدمہ میں مرزا صاحب سے پنڈت لیکھرام کا بدلہ ضرور لینا ہے اور اس نے اپنے لیڈروں کے سامنے ایسا کرنے کا وعدہ کر لیا.خواجہ کمال الدین صاحب ۸ کو رپورٹ پہنچی کہ اس اس طرح مجسٹریٹ کو لاہو ر بلا کر قسم کھلائی گئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مقدمہ کے سلسلہ میں گورداسپور تشریف رکھتے تھے.خواجہ کمال الدین صاحب نے آپ سے کہا کہ کسی نہ کسی طرح اس مقدمہ میں صلح کرلی جائے کیونکہ یہ پکی بات ہے کہ مجسٹریٹ کو لاہو ر بلا کر اس سے یہ وعدہ لیا گیا ہے کہ وہ ضرور سزا دے اور اس نے سزا دینے کا وعدہ کر لیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لیٹے ہوئے تھے.خواجہ کمال الدین صاحب کی یہ عادت تھی کہ وہ بات لمبی کرتے تھے.انہوں نے کہا حضور مجسٹریٹ ضرور قید کر دے گا اور سزا دے دے گا بہتر ہے کہ فریق ثانی سے صلح کر لی جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کہنیوں پر سہارا لے کر بیٹھ گئے اور فرمایا.خواجہ صاحب! خدا تعالیٰ کے شیر پر ہاتھ ڈالنا کوئی آسان بات ہے.میں خدا تعالیٰ کا شیر ہوں وہ مجھے پر ہاتھ ڈال کر تو دیکھے وہ چنانچہ ایسا ہی ہوا.رو مجسٹریٹوں میں سے جو اس مقدمہ کا فیصلہ کرنے کے لئے مقرر تھے ایک کالڑ کا پاگل ہو گیا.اس کی بیوی نے اسے لکھا ( وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ کا مامور تو نہیں مانتی تھی) کہ تم نے ایک مسلمان فقیر کی ہتک کی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ایک لڑکا پاگل ہو گیا ہے اب دوسرے کے لئے ہوشیار ہو جاؤ.وہ تعلیم یافتہ تھا اور ایسی باتوں پر یقین نہیں رکھتا تھا اس نے اس طرف کوئی توجہ نہ کی.نتیجہ یہ ہوا کہ اس کا دوسرا لڑکا دریا میں ڈوب کر مر گیا.وہ
۴۲۹ دریائے راوی پر گیا وہاں نہا رہا تھا کہ مگر مچھ نے اس کی ٹانگ پکڑ لی لہ اس طرح وہ بھی ختم ہو گیا.وہ مجسٹریٹ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس قدر تنگ کیا کرتا تھا کہ مقدمہ کے دوران میں سارا وقت آپ کو کھڑا رکھتا اگر پانی کی ضرورت محسوس ہوتی تو پینے کی اجازت نہ دیتا.للہ ایک دفعہ خواجہ صاحب نے پانی پینے کی اجازت بھی مانگی مگر اس نے اجازت نہ دی.بعد میں اس کی یہ حالت ہوئی کہ اس نے خود مجھ سے دعا کیلئے درخواست کی میری عمر چھوٹی تھی کوئی بیس بائیس سال کی ہوگی میں کہیں جانے کے لئے اسٹیشن پر کھڑا تھا کہ وہ میرے پاس آیا اور ایک گھنٹہ میرے پاس کھڑا رہا اور اس نے درخواست کی کہ میرے لئے دعا کریں کہ کسی طرح یہ عذاب مجھ سے دور ہو جائے.دوسرے مجسٹریٹ نے بظاہر آپ کو مقدمہ میں کوئی تکلیف نہیں دی تھی لیکن آخر میں آپ کو جرمانہ کی سزا دے دی.گاہ وہ بھی ذلیل و خوار ہوا اور ملازمت سے الگ کر دیا گیا.۱۳ یہ چیزیں بتاتی ہیں کہ جو خدا تعالیٰ کا ہو جاتا ہے اگر دشمن اس پر کوئی مصیبت لانے کی کوشش بھی کرتا ہے تو وہ عارضی ہوتی ہے.غرض ایک عید اس شخص کی ہوتی ہے جسے اس کا محبوب یعنی خدا تعالیٰ مل جائے اور یہ وہ حقیقی عید تھی جو صحابہ کو حاصل تھی.اسی طرح یہ عید خلفائے راشدین کے زمانہ میں اور اس کے بعد بھی ایک عرصہ تک چلی گئی لیکن پھر ایک ایسا زمانہ آیا کہ خدا تعالیٰ کا ملنا تو الگ رہا مسلمانوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ خدا تعالیٰ مل ہی نہیں سکتا اور وہ کسی سے کلام نہیں کرتا حالانکہ خدا تعالیٰ اب بھی اپنے بندوں سے کلام کرتا ہے اور ان کی ہر کام میں مدد اور نصرت کرتا ہے.مجھے اپنی ذات کا تجربہ ہے مجھے ایک دفعہ کوئی تکلیف پہنچی.اس وقت میں نے اپنی دعا میں زور پیدا کرنے کے لئے یہ ارادہ کیا کہ جب تک میری وہ تکلیف دور نہ ہوگی میں زمین پر سویا کروں گا.ہمارے صوفیا میں یہ چیز پائی جاتی ہے.اسی طرح عیسائیوں میں بھی یہ چیز پائی جاتی تھی کہ کس طرح اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر خدا کے رحم کو کھینچا جائے.بہر حال میں نے ارادہ کیا کہ جب تک میری وہ تکلیف دور نہ ہوگی میں زمین پر سویا کروں گا.جب پہلے دن میں زمین پر سویا تو میری آنکھ ابھی لگی ہی تھی کہ خدا تعالیٰ کی ایک صفت انسان کی شکل میں متشکل ہو کر میرے سامنے آگئی.اس کے ہاتھ میں تازہ ملائم اور نرم نرم سبز چھڑی تھی اور جس طرح کوئی بناوٹی غصہ سے چہرہ کی شکل بناتا ہے ویسی ہی شکل بنا کر اس نے چھڑی اٹھائی اور مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا محمود ! چار پائی پر سوتا ہے یا نہیں.مجھے یاد 28
نہیں کہ وہ چھڑی مجھے لگی یا نہیں لیکن میں نے اسی وقت چارپائی پر کود کر جانے کی کوشش کی اور جب میری آنکھ کھلی میں چارپائی پر تھا.غرض اب بھی خدا تعالیٰ اپنے نیک بندوں سے اتنی محبت کرتا ہے کہ اسے اس بات سے بھی تکلیف ہوتی ہے کہ کیوں اس کے بندے نے اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالا اور کیوں اس نے یہ خیال کر لیا کہ جب تک وہ اپنے آپ کو تکلیف میں نہیں ڈالے گا میں اس کی بات نہیں مانوں گا.بہر حال اس واقعہ کے بعد میری طبیعت پر جو بوجھ تھا وہ ختم ہو گیا اور جو تکلیف تھی وہ بھی کچھ وقت کے بعد دور ہو گئی.لیکن جب تک وہ تکلیف قائم رہی اس نے میری طبیعت پر کچھ اثر نہ ڈالا.میں یہ سمجھتا تھا کہ جب خدا تعالیٰ نے یہ پسند نہیں کیا کہ میں زمین پر سوؤں اور اپنی بات منوانے کے لئے اپنے نفس کو تکلیف میں ڈالوں تو وہ آئندہ بھی یہ کس طرح پسند کرے گا کہ مجھے کوئی تکلیف پہنچے.بہر حال ان وجوہات میں سے جن کی وجہ سے صحابہ عید منایا کرتے تھے ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہیں ان کا محبوب یعنی خدا تعالیٰ مل گیا تھا.عید منانے کی دوسری وجہ جو قرآن کریم سے معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ فردی ترقی کے علاوہ قومی ترقیات بھی اس قدر مل رہی ہوں کہ جدھر بھی قوم منہ کرے کامیابیاں اور کامرانیاں اس کے قدم چومیں.صحابہ نے اتنی فتوحات حاصل کیں کہ جدھر بھی وہ منہ کرتے تھے فتح و نصرت ان کے ساتھ رہتی تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا وہ جنات ہیں جدھر بھی منہ کرتے ہیں دنیا کو مطیع بناتے چلے جاتے ہیں.پہلی چیز روحانی اور فردی تھی اور یہ مادی اور قومی تھی جس کی وجہ سے صحابہ عید منانے کے مستحق تھے.۱۴ تیسری وجہ عید منانے کی یہ ہوتی تھی کہ قومی اخلاق اس قدر بلند ہوں کہ لوگ کسی پر ظلم نہ کریں اور ہر شخص یہ سمجھے کہ اس کے حقوق محفوظ ہیں.صحابہ اخلاقی لحاظ سے اتنے کمال پر تھے کہ اس زمانہ میں ہر شخص کے حقوق محفوظ تھے اور وہ کسی پر ظلم نہیں کرتے تھے لیکن آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ایک پیسہ پر بازار میں جھگڑا ہو جاتا ہے.میں ایک دفعہ بمبئی گیا میرے ساتھ مستورات بھی تھیں انہوں نے کہا ہمارے علاقہ میں فلاں چیز نہیں ملتی وہ یہاں سے خرید لیں.میں ایک بہت بڑی دکان پر گیا اور دکاندار سے اس چیز کی قیمت دریافت کی.دُکاندار نے اس کا نرخ بتایا اور کہا ہمارے ہاں صرف ایک بات کی جاتی ہے بھاؤ کم نہیں ہو گا اور ساتھ ہی اس نے مجھ سے کہا ذرا ٹھہریئے وہ کسی اور شخص سے بات کر رہا تھا.دُکاندار اور خریدار.
۴۳۱ دونوں میں بحث شروع ہو گئی.ایک سو دس روپے کا بل تھا اور گاہک نوے روپے دینا چاہتا تھا اور دوکاندار مانتا نہیں تھا.آخر اس شخص کے سیکرٹری نے سو روپے کا نوٹ دکاندار کے آگے رکھا اور اپنے ساتھی کو کہا چلئے سیٹھ صاحب اور وہ چلے گئے.میں نے دکاندار سے کہا کیوں صاحب کیا یہاں ایک ہی قیمت ہوتی ہے.اس نے جواب دیا آپ نے دیکھ ہی لیا ہے آدھ گھنٹہ اس نے میرا ضائع کیا اور آدھ گھنٹہ اپنا ضائع کیا.آپ جانتے ہیں یہ کون ہے؟ میں نے کہا نہیں میں تو اسے نہیں جانتا.اس نے کہا یہ شخص کپڑے کے کارخانوں کے ایک بہت بڑے گروپ کا مالک ہے اگر یہ اپنے کارخانہ میں بیٹھا ہوتا تو اتنی دیر میں دو لاکھ روپیہ کما لیتا لیکن اس کو جھگڑا کرنے کی عادت ہے.اس کے مقابلہ میں میں تو ایک غریب آدمی ہوں لیکن وہ اتنا امیر ہے کہ اس کی ماں چونکے پر جانے سے پہلے پانچسو روپیہ روزانہ دان * گلہ کرتی ہے گویا وہ ماہوار ۱۵ ہزار روپے کا دان کرتی ہے لیکن باوجود اتنا امیر ہونے کے چند روپوں کے لئے وہ مجھ سے جھگڑتا رہا اور آدھ گھنٹہ میرا بھی ضائع کیا اور اپنا بھی اس میں میرا کیا قصور ہے.لیکن اس وقت صحابہ کی یہ حالت تھی کہ ایک صحابی کے پاس ایک بدوی آیا اور اس نے فروخت کرنے کے لئے اپنا گھوڑا پیش کیا انہوں نے بدوی سے گھوڑے کی قیمت دریافت کی اس نے ایک ہزار دینار بتائی.اس صحابی نے کہا میں گھوڑا تو خرید تاہوں لیکن یہ قیمت ٹھیک نہیں یہ گھوڑا دو ہزار دینار کا ہے.وہ بدوی تو دیہات کی قیمت بہتا رہا تھا اور اپنی جگہ پر ٹھیک بتا رہا تھا لیکن یہ صحابی جانتے تھے کہ شہر میں آکر کسی چیز کی قیمت کتنی بڑھ جاتی ہے لیکن بدوی ایک ہزار دینار سے زیادہ قیمت لینے پر راضی نہ تھا اور کہتا تھا میں حرام کیوں کھاؤں.اور وہ صحابی دو ہزار دینار سے کم قیمت دینے پر راضی نہ تھے اور کہتے تھے میں حرام کیوں کھاؤں.۱۵ جہاں یہ اخلاق ہوں وہاں دوسروں کے حقوق مارے ہی کس طرح جا سکتے ہیں.اگر کسی قوم کے اخلاق اس درجہ پر پہنچ جائیں تو اس میں مزدوروں وغیرہ کے جھگڑے کیوں ہوں اور ظلم کی آواز کیوں بلند ہو.بہر حال یہ تیسری وجہ ہے جس کی وجہ سے صحابہ عید منانے کے حق دار تھے اور ان کی حقیقی عید تھی.اس وقت کے ادنیٰ سے ادنی درجہ کے لوگوں میں بھی یہ نظارے اس قدر نظر آتے ہیں کہ حیرت آتی ہے.یزید کتنا ظالم تھا اور اس کے بد کردار اور ظالم ہونے میں شبہ ہی کیا ہے لیکن اس کا بیٹا جس کو غلطی سے لوگ گالیاں دیتے ہیں اور جس کو یزید ابن یزید ، کہہ کر پکارتے ہیں ایک نهایت ہی نیک انسان تھا اور اس کا یہ حال تھا کہ جب اس کا باپ مر گیا اور وہ اس کی جگہ بادشاہ
بنایا گیا تو بیعت لینے سے پہلے اس نے لوگوں کو مسجد میں جمع کیا اور ان کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا بادشاہت تلوار کے زور سے ہمارے خاندان میں نہیں آئی بلکہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمارے خاندان کو عطا ہوئی ہے اور یہ مسلمانوں کا حق ہے میرے باپ دادوں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے وہ اس کے مستحق ہوتے.اس وقت ایسے لوگ موجود ہیں جن کے باپ میرے باپ سے اور وہ مجھ سے یقیناً اچھے ہیں اور ضروری ہے کہ یہ بادشاہت انہی کو ملے.میں اس بادشاہت کو لینے کے لئے تیار نہیں ہوں جس کو تم چاہو بادشاہ بنا لو اور اتنی بات کہہ کر وہ گھر چلا گیا.جب اس کی ماں کو پتہ لگا کہ وہ بادشاہت کو چھوڑ کر آگیا ہے تو اس نے کہا کمبخت تو نے خاندان کی ناک کاٹ دی.اس نے اپنا سر جھکا لیا اور کہا ماں آپ کو معلوم نہیں میں نے خاندان کی ناک کائی نہیں بلکہ آج اس کی ناک رکھ لی ہے.اس کے بعد وہ اپنے کمرے میں چلا گیا اور اسی دکھ میں ہیں دن کے بعد مر گیا.کلہ یہ وہ شخص ہے جس کے حالات زندگی معلوم نہ ہونے کی وجہ سے مسلمان ان کی نیکی سے ناواقف ہیں.اسی طرح ایک اور مسلمان بادشاہ مالک ارسلان کے متعلق بھی ایک واقعہ مشہور ہے.گبن ۱۸ جیسا متعصب عیسائی مؤرخ اپنی کتاب Decline and Fall of the Roman Empir میں لکھتا ہے کہ مالک 19ء کے باپ کے فوت ہو جانے کے بعد سلطنت کے تین دعویدار کھڑے ہو گئے ان میں سے ایک تو خود مالک تھا، دوسرا اس کا چھوٹا بھائی اور تیسرا اس کا چچا تینوں میں لڑائیاں ہوئیں.گبن لکھتا ہے کہ ایک دن علامہ طوی ۲۰ نے جو مالک کے وزیر اعظم اور استاد بھی تھے کہا بادشاہ سلامت ! چلئے ہم حضرت موسیٰ رضا کی قبر پر دعا کر آئیں.مالک راضی ہوتی گئے اور وہ دونوں موسیٰ رضا اس کی قبر پر جا کر دعا مانگنے لگے.جب وہ دعا مانگ چکے تو مالک نے ی علامہ طوسی سے کہا آپ نے کیا دعا مانگی ہے؟ انہوں نے کہا میں نے تو یہ دعا مانگی ہے کہ اے خدا! تو کل کی لڑائی میں میرے بادشاہ کو فتح نصیب کر اور اس کے دشمنوں کو ناکام کر.مالک نے کہا مگر میں نے تو یہ دعا نہیں مانگی.کیا تم بتا سکتے ہو کہ میں نے کیا دعا مانگی ہے.علامہ طوسی نے کہا.بادشاہ سلامت! آپ خود ہی بتا دیجئے میرا تو ذہن اس طرف نہیں جاتا.مالک نے کہا میں نے تو یہ دعا مانگی ہے کہ اے میرے خدا! یہ بادشاہت مسلمانوں کا حق ہے میرا ذاتی حق نہیں جو مجھے ورثہ میں مل سکے.میں انسان ہوں مستقبل کے حالات کا مجھے علم نہیں.میں یہ نہیں جانتا
کہ میری زندگی اسلام کے لئے مفید ہے یا نہیں یہ علم تجھ ہی کو ہے.ہو سکتا ہے کہ میری بادشاہت مسلمانوں کے لئے مضر ہو.اس لئے میں آج تجھے اس بزرگ کا واسطہ دے کر جو تجھے پیارا تھا یہ دعا کرتا ہوں کہ اگر میرا وجود اسلام اور تیری مخلوق کے لئے اچھا نہیں تو کل کی لڑائی میں تو مجھے فتح نہ دے بلکہ مجھے موت دے دے تاکہ حقدار کو اس کا حق مل جائے.گمبن لکھتا ہے کہ ساری دنیا کی تاریخوں کو پڑھ جاؤ تم عیسائیت کے بزرگ ترین بادشاہوں پر نظر دوڑالو تمہیں اس اٹھارہ سالہ کا فر بادشاہ جیسی کوئی ایک مثال بھی نہیں مل سکے گی.۲۲ یہ چیزان لوگوں کی عید کا موجب تھی.جس قوم میں ایسے افراد پائے جاتے ہوں جن کو خدا مل گیا ہو جس قوم میں ایسے افراد پائے جاتے ہوں جنہوں نے نہ صرف انفرادی اور روحانی ترقیات حاصل کی ہوں بلکہ قومی ترقیات بھی حاصل کی ہوں اور جس طرف وہ منہ کرتے ہوں کامیابیاں اور فتوحات ان کے قدم چومتی ہوں، جس قوم میں ایسے بلند اخلاق پائے جاتے ہوں کہ ان کے زمانہ میں کسی کو اپنا حق مارے جانے کا خیال بھی پیدا نہ ہو وہ قوم مستحق ہے حقیقی عید منانے کی وہ قوم مستحق ہے حقیقی خوشیاں منانے کی.کیا دنیا میں اب بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں اس کا جواب یقیناً نفی میں ہو گا.محمد رسول اللہ میں لا رہی ہے اس لئے عید مناتے تھے کہ آپ کا محبوب یعنی خدا تعالیٰ آپ کو مل گیا اور مسلمان اس لئے عید مناتے تھے کہ ان کے آقا کی جائیداد انہیں مل گئی اور اس کی حکومت دنیا میں قائم ہو گی لیکن سوال یہ ہے کہ آج ایک مسلمان کیوں عید مناتا ہے.کیا وہ اس لئے عید مناتا ہے کہ اس کے باپ دادا کی جائیداد ایک ایک کر کے اس کے ہاتھ سے نکل گئی؟ کیا وہ اس بات پر خوش ہوتا ہے کہ اس کی اپنی روحانی جائیداد ایک ایک کر کے اس کے ہاتھ سے نکل گئی کیا وہ اس بات پر خوش ہوتا ہے کہ عدل و انصاف اس میں باقی نہیں رہا آخر وہ کونسی چیز ہے جس پر خوش ہو کر وہ عید مناتا ہے.کیا وہ نئے کپڑے بدلنے یا طرح طرح کے کھانے کھانے پر خوش ہوتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ عید پہلے زمانہ میں انعام تھی لیکن اب تازیانہ ہے اور ہر عید جو آتی ہے وہ ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ بولو تم عید کیوں منا رہے ہم بے شک ظاہر میں عید مناتے ہیں لیکن اس کے موجبات اور محرکات ہم میں موجود نہیں.ہر مسلمان موت کے بعد کی زندگی کا قائل ہے اور خواہ اس کا پورا یقین ہو یا نہ ہو وہ یہ سمجھتا ہے کہ ایک نہ ایک دن وہ خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہو گا اور وہاں رسول کریم میں لیا اور یہ بھی بھی
م ہوں گے ۲۳ اسے سوچنا چاہئے کہ وہ آپ کی خدمت میں کونسا نذرانہ لے کر جائے گا اور کونسا تحفہ آپ کی خدمت میں پیش کرے گا.آپ اس سے سوال کریں گے کہ میری قوم کی کیا حالت تھی.تو کیا وہ یہ جواب دے گا کہ یا رسول اللہ ( ملا لیا اور اسے تو دین کا کوئی فکر ہی ) نہیں اور اگر وہ یہ جواب دے گا تو پھر آپ اس سے پوچھیں گے کہ تم نے اس کے لئے کیا کیا.اس پر کیا وہ یہ جواب دے گا کہ میں تو اپنے بیوی بچوں کی فکر میں پڑا رہتا تھا مجھے قوم کا کیا پتہ ہے.کیا اس کے اس جواب پر رسول کریم ملی تیم ملی و کی روح خوش ہوگی اور کیا آپ کی نگاہ میں اس کی کوئی عزت ہو گی.دنیا میں ہر کام کا ایک درجہ ہوتا ہے.رسول کریم ملی دلیل اللہ فرماتے ہیں ایمان کے تین مدارج ہیں.اول بُرائی دیکھنے پر اس کی اگر طاقت ہو تو اس کے ذریعہ اصلاح کرنا.دوم اگر طاقت سے اصلاح نہیں ہو سکتی تو اس کے خلاف وعظ و نصیحت کرنا.سوم اگر اس میں اتنی جرات بھی نہیں پائی جاتی کہ اس بُرائی کے خلاف وعظ و نصیحت کرے تو کم از کم دل میں ہی بڑا منانا.۲۴ آخر ہر شخص کو یہ مقدرت نہیں ہو سکتی کہ لاکھوں آدمیوں کو سختی کے ذریعہ کسی برائی سے ہٹا سکے یا وعظ و نصیحت کر سکے لیکن اگر وہ دل میں بھی برا نہیں مناتا تو پھر اس کے ایمان کی کوئی حیثیت نہیں رہتی.ایک بزرگ کہیں بیٹھے ہوئے تھے آپ نے دیکھا کہ بادشاہ کا ایک ملازم ہاتھ میں سارنگی لئے بجا رہا ہے.انہوں نے اس کی سارنگی چھین لی اور توڑ ڈالی.اس نے بادشاہ سے اس بزرگ کی شکایت کی اور کہا آج انہوں نے میری سارنگی تو ڑ ڈالی ہے کل کسی وزیر کی یا آپ کی وہ ہتک کرے گا.بادشاہ کو غصہ آیا اور اس نے اس بزرگ کو بلا بھیجا اور سارنگی پاس رکھ لی.وہ بزرگ دربار میں آئے.بادشاہ نے ان سے کچھ نہ کہا.سارنگی ہاتھ میں لی اور بجانے لگ گیا.وہ بزرگ سر ڈال کر بیٹھے رہے.بادشاہ نے کہا جب کل تم نے میرے ملازم کی سارنگی تو ڑ دی تھی تو اب کیوں نہیں توڑتے.اس بزرگ نے جواب دیا بادشاہ سلامت ! رسول کریم میں یا اللہ نے فرمایا ہے کہ اگر تم کوئی برائی دیکھو اور تمہیں مقدرت حاصل ہو تو اس کے ذریعے اصلاح کی کوشش کرو اور اگر اس کی جرأت نہ کر سکو تو زبان سے روکنے کی کوشش کرو اور اگر اتنی بھی جرات نہ ہو تو کم از کم دل میں برا مناؤ.بادشاہ سلامت! کل میں سختی کے ساتھ ایک برائی کی اصلاح کر سکتا تھا سو میں نے اس ملازم کی سارنگی تو ڑ دی لیکن آج نہ میں اتنی طاقت رکھتا ہوں کہ اس برائی کی اس کے ذریعے اصلاح کروں اور نہ اس کے خلاف
۴۳۵ وعظ و نصیحت کرنے کی جرات کر سکتا ہوں لیکن بادشاہ سلامت! میں دل میں اسے برا منا رہا ہوں.غرض ہر فعل کا ایک درجہ ہوتا ہے لیکن کم از کم آخری درجہ تو انسان کو حاصل ہونا چاہئے.میں نے ایک امریکن شاعرہ کے شعر پڑھے ہیں اس نے اپنے شعروں میں ایک نہایت ہی لطیف مضمون بیان کیا ہے.وہ کہتی ہے مرنے کے بعد جب میں خدا تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوں گی تو امیر لوگ اپنے لعل و جواہر جو انہوں نے صدقہ کئے ہوں گے خدا تعالیٰ کے حضور پیش کریں گے اور جن لوگوں نے قومی خدمت کی ہو گئی وہ اپنی اس خدمت کو اس کے حضور پیش کریں گے اور کہیں گے کہ ہم نے یہ کیا.اس وقت میں پاس کھڑی ہوئی حسرت سے دیکھ رہی ہوں گی نہ میرے پاس دولت تھی جو صدقہ کے طور پر دیتی اور نہ طاقت اور علم تھا کہ اس کے ساتھ ملک و قوم کی خدمت کرتی لیکن میں نے خدا تعالیٰ کی محبت میں آنسو بہائے ہوں گے اور وہ اس کے تخت کے پاس پڑے ہوں گے اور میں وہی آنسوؤں کا تحفہ اس کے حضور پیش کروں گی اور اے مخاطب ! تو جانتا ہے کہ وہ کس کے تحفہ کو قبول کرے گا.وہ میرے ہی آنسوؤں کو قبول کرے گا.۲۵ اسی طرح اگر ایک مسلمان پہلی دو باتوں میں سے کچھ بھی نہیں کر سکتا تو کم از کم وہ خدا تعالی کے آستانہ پر گر کر آنسو تو بہا سکتا ہے.اگر مسلمان یہ کام کر سکتے ہیں تو ان کی عید عید ہے ورنہ ان کی عید کوئی عید نہیں.آج تبلیغ کا میدان خالی ہے وہ اگر چاہیں تو تبلیغ کے ذریعہ اسلام کی خدمت کر سکتے ہیں.آخر ہمارے نوجوان بھی تبلیغ کے لئے باہر جاتے ہیں وہ بھی جا سکتے ہیں.بعض جگہوں پر ہمارے نوجوانوں نے جو کام کیا ہے اسے دیکھ کر لطف آتا ہے.میرے ایک عزیز جو کرنل ہیں سنگا پور میں تھے.ہم نے سنگا پور میں اپنا مبلغ بھیجا اور اسے اور اسے کہا جاؤ جس طرح بھی ہو سکے تبلیغ اسلام کرو.وہ کہیں تبلیغ کر رہا تھا کہ کسی نے اسے مارا وہ زخمی ہوا اور اتنا زخمی ہوا کہ کچھ دنوں کے بعد اس کے زخموں میں کیڑے پڑ گئے.۲۶ میرے اس عزیز نے بتایا کہ میں اسے اپنے پاس لے گیا اور زخموں کا علاج کر کے واپس کیا.میں نے اس سے کہا تم یہاں کیوں آئے ہو اور اس قسم کے علاقہ میں تمہارا کیا کام ہے.تو اس نے جواب دیا اگر ہم تبلیغ نہیں کریں گے تو یہ ہوگی کس طرح.بہر حال کام کرنے والے کام کرتے ہیں.اگر مسلمانوں کے اندر یہی تبلیغ کا جوش پیدا ہو جائے ، اگر ان کے اندر قربانی کا صحیح جذبہ پیدا ہو جائے اور اگر دوسرے لوگوں کے سامنے اسلام کی تعلیم کو صحیح طور پر پیش کریں ، رسول کریم اور صحابہ کی قربانیوں کو لوگوں کے سامنے لائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ دنیا کا معتدبہ حصہ
اسم سلام اسلام میں داخل نہ ہو جائے اور جو لوگ یہ کام نہیں کر سکتے وہ مالی قربانیاں کریں اور اگر یہ بھی نہیں کر سکتے تو کم از کم راتوں کو Wilcox کی طرح رو تو چھوڑا کریں کہ اے اللہ ! میں کمزور ہوں نہ تیری راہ میں تکلیف اٹھا سکتا ہوں اور نہ مالی قربانیاں پیش کر سکتا ہوں.مجھ میں تو طاقت نہیں تجھ میں سب طاقتیں پائی جاتی ہیں تو ہی اسلام کو فتح دے ، تو ہی اسلام کو وہ غلبہ عطا کر جو اسے پہلے حاصل تھا.اگر وہ خدا تعالیٰ کے آستانہ پر گر کر چند آنسو بھی نہیں بہا سکتے تو ان کی عید بالکل بے معنی عید ہے.در حقیقت آج کل کی عید ایک تازیانہ بن کر آتی ہے اور ہم سے کہتی ہے بولو تم کس چیز کی بناء پر عید منا رہے ہو.ہم ایک طرف اس بات کے دعویدار ہیں کہ رسول کریم ا ا ا ا ا ا ا و ر ہمارے سردار ہیں اور دوسری طرف ہم آپ کی سرداری کو چھنتے ہوئے دیکھتے ہیں.ہر جگہ آپ کا دین مظلوم ہے مگر بے فکر بیٹھے ہوتے ہیں.پھر ہم کس چیز کی عید منا رہے ہیں.یہ ایک سوال ہے جو ہم میں سے ہر ایک کو اپنے نفس سے پوچھنا چاہئے.اگر واقعہ میں ہم میں جانی اور مالی قربانی کی روح پائی جاتی ہے، اگر ہم خدا تعالیٰ کے سامنے رو رو کر اس کی مدد طلب کرتے ہیں تو واقعی ہماری عید عید ہے اور ہم اللہ تعالیٰ اور رسول کریم ملی لیلی کے سامنے آنکھ اُٹھانے کے قابل ہیں، ورنہ ہماری عید کچھ بھی نہیں بلکہ ہر عید ہمیں پہلے بھی زیادہ مُردہ بنا دے گی.ل سنن ابی داؤر باب اذا وافق يوم الجمعة يوم عيد الفجر :۲۸-۳۱ ه.الفضل ۸ - اپریل ۶۵۹) نیند اس کی ہے، دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہو گئیں (دیوان غالب صفحه ۱۰۰ مطبوعہ مکتبہ جدید لاہور ۱۹۷۰ء) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی زیر ادارت انجمن تشحیذ الاذہان کی طرف سے شائع کیا جانے والا سہ ماہی مجلہ.اجراء کیم مارچ ۱۹۰۶ ء.مارچ ۱۹۲۲ء میں ریویو آف ریلیجنز اردو میں مدغم کر دیا گیا.- تذکره مطبوعہ الشركة الاسلامیہ صفحہ ۷۴۲ صحیح مسلم باب فضائل ابی بکر صحیح بخاری کتاب الهجرة باب هجرة النبي صلى الله عليه وسلم واصحابه الى المدينة - صحیح بخاری کتاب التفسير باب
۴۳۷ ثاني اثنين اذ هما في الغار.....الخ صحیح بخاری کتاب المناقب باب مناقب ابي بكر - التوبة : ٤٠ که مولوی کرم دین آف بھین ضلع جہلم کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف اکتوبر ۱۹۰۲ء میں مضامین شائع کئے گئے.اسی سال کے آخر میں اس نے حضرت اقدس کے خلاف ازالہ حیثیت عرفی کا دعویٰ جہلم میں دائر کیا.جس کی سماعت ۱۷.جنوری ۱۹۰۳ء کو ہوئی اس مقدمہ میں حضور باعزت بری قرار دیئے گئے.(الحکم ہے.فروری ۳۱.مئی ۱۹۰۳ء.تاریخ احمدیت جلد ۳ صفحه ۸۰-۲۷۱) خواجہ کمال الدین صاحب ۶۱۸۷۰ - ۱۹۳۲ ء - بیعت ۱۸۹۳ء.خلافتِ ثانیہ کے انتخاب کے موقع پر غیر مبائعین کا ساتھ دیا.اس مقدمہ کے بعد کرم دین کی طرف سے ایک اور مقدمہ حضور علیہ السلام پر دائر کیا گیا جس کی سماعت گورداسپور میں ہوئی یہ واقعہ اس دوسرے مقدمہ کے ایام کا ہے.البدر ۳.جولائی ۱۹۰۳ء.سیرت المهدی حصہ اول صفحه ۹۳ - ۹۸) حقیقة الوحی صفحه ۳۱۶ طبع اول نشان نمبر ۲۸ - تاریخ احمدیت جلد ۳ صفحه ۳۰۸ تا صفحه ۳۱۱ لا الحکم ۱۰.جولائی ۱۹۰۴ء حقیقۃ الوحی ( طبع اول) صفحہ ۱۲۱ - ۱۲۲ تاریخ احمدیت جلد ۳ صفحه ۲۹۹ - ۳۰۰ ۱۴ المائدة : ۱۵ - ملفوظات جلد ۸ صفحه ۲۷۲ جلد ۶ صفحه ۲۸۰ - ۴۱۴ - ۴۱۵ ادان: زکوة - صدقہ و خیرات بخشش.جہیز ها.یزید ابن یزید بنوامیہ ۶۷۸۳ تاریخ کامل لابن اثیر جلد ۴ صفحه ۵۵ تاریخ کامل لابن اثیر جلد ۴ صفحه ۵۵ ۱۸ گین ۶۱۷۳۷ - ۱۷۹۴ء ۱۹.ا ح ۱۷۲ء ش ۱۰۹۲ء نظام الملک طوسی ان شیعہ اصحاب کے ساتویں امام جن کا مزار بغداد میں ہے.۱۲۸ھ /۶۷۴۵.
۶۷۹۹ / ۱۸۳ EDWARD GIBBON: Decline and Fall of the Roman Empire VOL:111 pp; 178-79 ٢٣ البقرة :۵، تفسیر در منشور ۲۷/۱ صحیح مسلم كتاب القيامة باب احلال الرضوان على اهل الجنة صحيح مسلم كتاب القيامة باب روية النبي صحیح بخاری کتاب التوحید باب وجوه يومئذ ناضرة الخ ۲۴ صحیح مسلم كتاب الايمان باب كون النهي عن المنكر من الايمان ۶۱۹۱۹ - ۶۱۸۵۵Mrs.E.W.Wilcox ۲۵ یہاں مکرم محترم مولانا غلام حسین صاحب ایاز (۱۹۵۹ء) پر قاتلانہ حملہ کا ذکر ہے.حضور نے اپنے جن عزیز کا ذکر فرمایا ہے.وہ حضور کے برادر نسبتی ڈاکٹر کرنل تھی الدین احمد صاحب ابن حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب ہیں.مکرم کرنل تقی الدین احمد صاحب لکھتے ہیں:.یہ ۱۹۳۹ء کے اواخر یا شروع ۱۹۴۰ء کا واقعہ ہے.جب میں فوج کے ساتھ سنگا پور سٹاف آفیسر تھا.میں ان کی طرف نماز جمعہ کے لئے گیا تھا.جب لوگ ان کے خلاف بہت تھے میں یونیفارم میں اور غالبا ملٹری جیپ میں تھا.میرے آنے سے لوگ خوفزدہ ہو کر چلے گئے اور آئندہ کے لئے بھی میں نے ان کو دھمکایا اور مبلغ صاحب کے خاطر خواہ علاج کا انتظام کیا اور اس کے بعد باقاعدگی سے جمعہ کے لئے جانا ہوا.اور بعض دوسرے احباب بھی آنے لگے اور مبلغ صاحب کے لئے امن ہو گیا اور اس کے بعد کسی نے ان پر ہاتھ اٹھانے کی جرات نہ کی." (مکتوب بنام مرتب محررہ ۱۷.مئی ۱۹۷۰ء) ۲۷ دیکھیں حوالہ نمبر ۲۵
٣٩م (۴۰) (فرمودہ ۱۷.جولائی ۱۹۵۰ء بمقام یا رک ہاؤس.کوئٹہ ) دنیا میں کئی قسم کے انسان ہوتے ہیں اور مختلف قسم کی طبائع پائی جاتی ہیں.کوئی ایسے ہوتے ہیں جن کے دل اتنے سخت ہو چکے ہوتے ہیں کہ غم اور خوشی ، نیکی اور بدی اور ترقی اور تنزل کا ان کے دلوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا ان کے لئے عید اور محرم یکساں گذرتے ہیں.اگر وہ شیعہ ہیں تو وہ یہ محسوس نہیں کرتے کہ یہ ایام محرم کے ہیں اور اگر سُنی ہیں تو وہ یہ محسوس نہیں کرتے کہ یہ ایام عید کے ہیں.رسماً یا رواجا اگر کوئی تبدیلی ان کے اندر پیدا ہو جائے تو وہ ان کے بیوی بچوں کی طرف سے ہوتی ہے.مثلاً اسے نئے کپڑے پہنا دیئے یا اچھے کھانے کھلا دیئے ور نہ ایسا شخص اپنی ذات میں ہی محو رہتا ہے اور اپنے ارد گرد دیکھنے کا عادی نہیں ہوتا.اور کوئی اتنے حساس ہوتے ہیں کہ سال کا سال ان کے لئے محرم کا دن ہوتا ہے یا عید کا دن ہوتا ہے.مرنے والے مر رہے ہوتے ہیں اور وہ ہنس رہے ہوتے ہیں.ہننے والے ہنس رہے ہوتے ہیں اور وہ رو رہے ہوتے ہیں.مجھے یاد ہے جب ہم چھوٹے چھوٹے تھے ہمارے ایک مزارع کی بیوی حضرت خلیفہ المسیح الاول کے پاس علاج کے لئے آیا کرتی تھی.میں ان دنوں حضرت خلیفہ المسیح الاول سے پڑھا کرتا تھا.وہ عورت بلاوجہ بنتی چلی جاتی تھی اور بلا وجہ روتی چلی جاتی تھی.حضرت خلیفۃ المسیح الاول فرمانے لگے.آؤ میاں تمہیں اس عورت کی بیماری بتا ئیں ہسٹیریا کا مرض ہے.قریب کے عرصہ میں جب طاعون پڑی تھی اس عورت کے دو تین رشتہ دار مرگئے تھے.آپ اسے مخاطب کر کے فرمانے لگے بی بی اس طاعون میں کیا تیرا باپ مرا تھا اس پر وہ قصہ مار کر کہنے لگی.جی میرا باپ طاعون سے مرگیا تھا دوسرا شاید بھائی یا بیٹا تھا مجھے ٹھیک یاد نہیں رہا اس کے متعلق جب سوال کیا گیا تو اس عورت نے پھر قہقہہ مار کر کہا میرا بھائی یا بیٹا بھی طاعون میں مر گیا ہے.تیسرے کے متعلق جب پوچھا تب بھی اس نے قہقہہ مار کر جواب دیا جی وہ بھی مر گیا ہے.گویا اس کے سامنے کتنے ہی غم کی بات کرو دو سرے شخص کو اس کے صدمہ پر رونا آجا تا مگر وہ ہنس دیتی.پھر بعض دفعہ انسان ہر بات میں روتا ہے کہیں وہ مہمان
سم سوم جاتا ہے لوگ اس کی خاطر تواضع کرتے ہیں تو اس کی آواز بھرائی ہوئی ہوتی ہے، لوگ اس کا ادب کرتے ہیں اور اس کی آواز میں لرزش پیدا ہو جاتی ہے.پھر بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو سمجھدار ہوتے ہیں اور سمجھدار ہونے کے لحاظ سے وہ اپنے جذبات کو مناسب موقع پر استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں.آگے ان کے جذبات چونکہ بعض مذہبی یا اخلاقی غلطیوں کی وجہ سے مجروح ہوتے ہیں اس لئے ان کے جذبات میں تفاوت نظر آتا ہے.ایک شخص کے اندر رحم اور غضب دونوں پائے جاتے ہیں وہ رحم کے موقعوں پر رحم بھی کرتا ہے اور غضب کے موقعوں پر غضب بھی لیکن بعض دفعہ زیادہ مستحق اس کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے.مثلاً بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن میں محبت اور قربانی پائی جاتی ہے لیکن وہ اپنی توجہ اور محبت کا مرجع اپنی بیویوں کو بنا لیتے ہیں.دوسری طرف مائیں بیٹھی ہوئی ہوتی ہیں لیکن ان کی توجہ ادھر نہیں ہوتی ان کی محبت کے سارے احساسات بیوی کے لئے ہوں گے.بیوی بیمار ہوگی تو ان میں غم کے جذبات پائے جائیں گے اور وہ اس کے لئے قربانی بھی کریں گے اور اگر وہ خوش ہوگی تو وہ خوش ہوں گے لیکن اگر ماں کراہ رہی ہوگی تو اس کی خدمت اور قربانی کا جوش ان کے اندر پیدا نہیں ہو گا.اور کئی لوگ ایسے ہوں گے کہ ان کے اندر اولاد کی محبت شدت سے پائی جائے گی لیکن اولاد پیدا کرنے والی کو وہ پوچھیں گے بھی نہیں وہ صرف اولاد کو اٹھائے پھریں گے.پھر بعض کو بیویوں سے شدید محبت ہوتی ہے اور اولاد سے محبت نہیں ہوتی.کوئی اپنے بھائیوں کو بھول جاتا ہے کوئی عائلی محبت کو اتنی ترجیح دیتا ہے کہ وہ خاندان کی عزت کے لئے سب کچھ کر گزرتا ہے وہ اس کے لئے دوسروں کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا.غرض جو لوگ صحیح الخیال ہوتے ہیں اخلاقی اور مذہبی کمزوری کی وجہ سے ان کی محبت اور قربانی کے احساسات میں بھی امتیاز پایا جاتا ہے.کوئی ایک طرف زیادہ مائل ہو جاتا ہے اور کوئی دوسری طرف.مومنوں میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے.ان میں کوئی کامل مومن ہوتا ہے اور کوئی ادنی درجہ کا مومن ہوتا ہے.رسول کریم میں لایا اور ہم نے ایک دفعہ صحابہ سے فرمایا آؤ میں تمہیں تین آدمیوں کی ایک مثال بتاؤں تین آدمی ایک پہاڑ پر سے گذر رہے تھے کہ طوفان آیا ، بجلی کڑکی اور انہوں نے خیال کیا کہ یہ بجلی کہیں ہم پر نہ گر جائے وہ تینوں ایک غار کے اندر گھس گئے.اتفاق ایسا ہوا کہ وہ بجلی ایک پتھر پر پڑی اور وہ پتھر لڑھک کر غار کے منہ پر آرہا اور وہ اندر بند ہو گئے.وہ پتھر سینکڑوں من وزنی تھا جس کا پرے ہٹانا ان تینوں کے بس کی بات نہ تھی.باہر ہوتے
اسم سوم تو شاید بجلی گرنے سے ان میں سے ایک یا دو مرتے اب تینوں ہی گویا مر گئے کیونکہ وہ اس غار سے نکل نہیں سکتے تھے.کسی گذرنے والے کا اس طرف ذہن بھی نہیں جا سکتا تھا کہ یہ لوگ غار کے اندر پہلے گئے ہیں اور پھر بعد میں غار کے منہ پر آگیا ہے تاکہ وہ ان کے بچاؤ کی کوئی تدبیر اختیار کر سکتا.وہ تینوں بہت گھبرائے.آخر ان میں سے ایک کا ذہن اس طرف گیا کہ آؤ ہم دعا کریں اور ہم میں ہر ایک اپنی کسی نیکی کو جو اس کے ذہن میں سب سے بڑی نیکی ہو اس کا واسطہ دے کر خدا تعالیٰ سے الحاح کرے کہ اے خدا! اگر میں نے وہ نیکی محض تیری رضا کی خاطر کی ہے تو مجھے معاف کر دے اور مجھ پر رحم کرتے ہوئے میرے نجات کی کوئی صورت پیدا کر دے.ان تینوں میں سے ہر ایک نے ایک ایک نیکی مچنی اور خدا تعالیٰ کے حضور دعا کی.ان میں سے ایک نے کہا اے خدا! تو جانتا ہے کہ میں غریب ہوں اور چند بکریاں میرے پاس ہیں میں انہیں جنگل میں چرانے لے جاتا ہوں اور شام کو گھر واپس جا کر ان کا دودھ دوہتا ہوں اور وہ دودھ خود بھی پیتا ہوں اور اپنے بیوں بچوں کو بھی پلاتا ہوں.انہی بھیڑوں کی اون سے ہم کپڑا بن لیتے ہیں ان کے علاوہ نہ میری کوئی جائیداد ہے اور نہ میرے پاس کوئی دولت ہے.پھر اے خدا! تو نے اس غریب کے ماں باپ کو بھی زندہ رکھا ہے مجھ سے جہاں تک ہو سکا میں نے تیرے اس حکم کو مد نظر رکھا ہے کہ ماں باپ کو اپنے بیوی بچوں پر مقدم رکھو.میں اس درجہ کے مطابق ہی ان کی خدمت کرتا رہا ہوں.اے خدا! تجھے معلوم ہے کہ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ میں جنگل میں بکریاں چرانے گیا تو شام کو واپس آنے میں دیر ہو گئی میرے بڑھے ماں باپ نیند کی برداشت نہ کر سکے اور وہ سو گئے.جب میں گھر پہنچا تو میری بیوی اور میرے بچے منتظر بیٹھے تھے انہوں نے کچھ نہیں کھایا تھا.میری بیوی نے مجھے کہا بچے بھوکے ہیں دودھ دوہ دو تا انہیں پلاؤں.میں نے کہا پہلا حق ماں باپ کا ہے پہلے میں انہیں دودھ پلاؤں گا اور پھر تمہاری باری آئے گی.اے میرے رب ! میں نے دودھ کا پیالہ بھرا اور اپنے ماں باپ کے بستر کے پاس گیا تا انہیں بیدار کر کے دودھ پلاؤں.پھر مجھے خیال آیا کہ اگر انہیں جگایا تو انہیں تکلیف ہو گی اس کی لئے یہ آپ ہی جائیں گے اور انہیں دودھ پلاؤں گا.اے میرے رب! میں ان کے بستر کے پاس کھڑا رہا اور ساری رات گذر گئی میرے بچے بلبلا بلبلا کر سو گئے اور میری بیوی بڑ بڑاتی بڑبڑاتی سو گئی کہ کتنا سنگدل انسان ہے کہ بچے بھوک کی وجہ سے بلبلا رہے ہیں اور وہ اس طرف کوئی توجہ ہی نہیں دیتا.میرے ماں باپ جب صبح اٹھے تو میں نے انہیں دودھ پلایا اور پھر اپنے
م سوم بیوی بچوں کو پینے کے لئے دیا.اے میرے رب! اگر میری یہ نیکی صرف تیرے ہی لئے تھی اور اس میں دنیا کی کوئی ملونی نہیں تھی اور میرا یہ عمل محض تیری رضا کے لئے تھا تو میں اس کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ میری نجات کی کوئی صورت پیدا فرما.اس نے یہ دعا کی ہی تھی کہ بجلی دوسری بار چمکی اور اس پتھر پر گری جس پر اس کا تیسرا حصہ غار کے منہ سے پرے ہٹ گیا.اسی طرح باقی دو نے بھی دعائیں کیں اور ان کی دعا کے نتیجہ میں پتھر کا تیسرا تیسرا حصہ غار کے منہ سے ہٹتا گیا اور آخر غار کا منہ کھل جانے پر وہ آزاد ہو گئے.اے میرے مضمون کے ساتھ ان تینوں میں سے صرف پہلے شخص کی دعا کا ہی تعلق ہے.لوگوں میں اپنے رشتہ داروں کے لئے محبت اور قربانی کے جذبات بے شک ہوتے ہیں مگر کتنے ہیں جو ماں باپ کی عزت کرتے ہیں.بعض تو یہی خیال کرتے ہیں کہ بیوی بچوں کے اخراجات سے کیا کچھ بچتا ہے کہ ماں باپ کو دیا جائے.یا پھر افسوس کا اظہار کر دیتے ہیں کہ ہم اپنے ماں باپ کی کچھ خدمت نہیں کر سکے حالانکہ بات معمولی ہوتی ہے صرف نقشہ الٹنا ہوتا ہے.اگر خدمت کا نقشہ الٹ جائے تو اخلاق قائم ہو جائیں.مثلاً الف ب اور ج تین افراد ہیں.الف ب کی خدمت کرتا ہے اور ب ج کی خدمت کرتا ہے اور بد اخلاق بنتے ہیں.اگر یہ نقشہ الٹ جائے کہ ج ب کی خدمت کرے اور ب الف کی خدمت کرے تو خدمت بھی ہو جائے اور اخلاق بھی قائم رہیں.صرف ارادہ بدلنے کی دیر ہے اور اگر ارادہ بدل جائے گا تو خدمت ساروں کی ہوتی رہے گی.نہ ماں باپ خدمت سے رہ جائیں گے اور نہ بیوی بچے لیکن نقشہ بدل جائے گا.غرض انسان کے اخلاق میں مختلف جذبات ہیں لیکن سب اخلاق میں سے جو زیادہ قیمتی ہے وہ خدا تعالیٰ کی محبت ہے.ہم دوسری تمام چیزوں کے ساتھ کسی نہ کسی رنگ میں ترجیحی سلوک کر دیتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے متعلق ہمارا سلوک بہت ہی کم ترجیحی ہوتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ زبان پر ذکر بہت ہوتا ہے گو بعض کی زبان پر بھی ذکر نہیں ہو تا لیکن بہتوں میں ہوتا ہے مگر یہ ذکر بھی زبان تک رہ جاتا ہے نیچے نہیں جاتا.جیسے رسول کریم ملی کے زمانہ میں ایک یہودی عالم تھا وہ رسول کریم میں الہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کی باتیں سنتا رہا.باتیں سننے کے بعد اس کے بھائی نے اس سے پوچھا بتاؤ تم نے کیا نتیجہ نکالا ہے.وہ کہنے لگا جو باتیں اس نے کی ہیں وہ تو سچی ہیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئیاں بھی کچی معلوم
۳ م م ہوتی ہیں لیکن (گلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا) اس کی تعلیم صرف یہاں تک رہ جاتی ہے اس سے نیچے نہیں جاتی اور جب تک میری جان میں جان ہے میں نہیں مانوں گا.اس کے بھائی نے کہا میرا بھی یہی خیال ہے.۲ پس بعض چیزیں صرف گلے تک رہ جاتی ہیں نیچے نہیں جائیں.زبان تو اوپر کے حصہ میں ہے دل کے اندر نہیں اس لئے زبان دماغ کے تابع ہوا کرتی ہے.انسان باتیں کرتا رہتا ہے اور لوگ دھوکا کھاتے رہتے ہیں.زبانیں ایک بات کہتی ہیں لیکن دل اس کی بہت کم اتباع کرتا ہے.رسول کریم م ل لا لا لو لم نے فرمایا كَلِمَةُ الحِكْمَةِ ضَالة الْمُؤْمِن اَخَذَهَا حَيْثُ وَجَدَهَا ٣ بعض دفعہ غیر مومن کی زبان سے بھی حکمت کی بات نکل جاتی ہے لیکن مومن کو یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ یہ حکمت کی بات مومن نے کہی ہے یا کا فرنے اسے یہ سمجھنا چاہئے کہ ہر اچھی بات اس کی ملکیت ہے اور جب ہر اچھی بات اس کی ملکیت ہے تو وہ جہاں کہیں بھی اسے پائے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرے.یہ کہاں کی عقل ہے کہ حکمت کی بات الف نے کی لیکن ب کہتا ہے کہ میں یہ حکمت کی بات نہیں لیتا.تمہاری بکری کوئی دوسرا چھین لیتا ہے تو وہ تم واپس لے لیتے ہو لیکن حکمت کا کلمہ جو اس سے بھی زیادہ قیمتی ہے وہ نہیں لیتے.كَلِمَةُ الْحِكْمَةِ ضَالَّةُ الْمُؤْمِنِ اَخَذَهَا حَيْثُ وَجَدَهَا فرمایا حکمت کی جو بات ہوتی ہے وہ مومن کی ملکیت ہے حکمت کی بات اگر اسے کسی کافر کے پاس سے بھی مل جائے تو وہ اسے چھوڑا نہیں کرتا گویا جہاں بھی اسے کوئی کلمہ حکمت ملتا ہے وہ لے لیتا ہے.میں جب انگلینڈ گیا کہ تو کسی انگریز نے مجھے ایک کتاب بطور تحفہ دی.وہ کتاب کسی امریکن شاعرہ کی تھی ایک دن ہم بیٹھے ہوئے تھے.میری ایک بیوی بھی میرے پاس تھیں.مجھے خیال آیا کہ کسی نے یہ کتاب مجھے بطور تحفہ دی ہے میں اسے پڑھ ہی لوں.چنانچہ میں نے وہ کتاب پڑھی.اس کافرہ کے منہ سے مومنانہ باتیں نکلی ہوئی تھیں.وہ شاعرہ نظم میں اگلے جہان کا نقشہ اس طرح پیش کرتی ہے کہ گویا قیامت کا دن آگیا ہے اور خدا تعالیٰ کے سامنے سوال و جواب ہو رہا ہے.کچھ لوگ خدا تعالیٰ کے سامنے آئے اور انہوں نے موتیوں اور ہیروں اور اشرفیوں کے ڈھیر اس کے قدموں میں ڈال دیئے.اسی طرح وہ اور بھی کچھ مادی چیزیں بیان کرتی ہے اور کہتی ہے میں ایک گوشہ میں کھڑی حیران تھی کہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں میری باری آئے گی تو میں خدا تعالیٰ کو کیا تحفہ دوں گی.آخر یہ سارے کے سارے لوگ جب چلے گئے تو مجھے آواز آئی کہ آگے آؤ.میں خدا تعالی کے حضور حاضر ہوئی اور اس کے
موم موم سوم قدموں میں روتی ہوئی گر گئی.میں نے کہا اے اللہ ! میرے پاس سوائے ان چند آنسوؤں کے اور کچھ بھی نہیں.اللہ تعالیٰ نے مجھے اوپر اٹھا لیا اور کہا میرا سب سے قیمتی تحفہ آج کے یہ آنسو ہیں.ھم یہ کلمہ حکمت تھا جو ایک عیسائی عورت کے منہ سے نکلا.ایک عیسائی کی فطرت بھی خدا تعالیٰ نے ہی پیدا کی ہے اور کبھی کبھی وہ اپنے احساسات اور جذبات سے آزاد ہو کر فطرت کی طرف لوٹتا ہے اور جب وہ فطرت کی طرف جاتا ہے تو وہ ویسا ہی ہمارے قریب ہوتا ہے جیسے ایک مومن اور فطرت کے نوروں کو پڑھتا ہے اور ان نوروں کو سامنے لا کر رکھ دیتا ہے.مجھے یہ واقعہ پڑھے ۲۶ سال کے قریب گزر گئے ہیں.مگر اب بھی اس بات کا مجھ پر گہرا اثر ہے کہ اس عورت نے کیسی لطیف بات کی ہے.اللہ تعالٰی کے ساتھ جو انسان کے تعلقات ہیں وہ مقدم ہیں اور انہیں مقدم رکھنا چاہئے.افسوس ہے کہ اب بہت کم انسان ہیں جو انہیں مقدم رکھتے ہیں یا حقیقی طور پر انہیں مقدم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.اِنَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَهُمْ وَاَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ یعنی اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال خرید لئے ہیں اور انہیں جنت دے دی ہے.پس یہاں تحفہ کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ایک سودا ہے جو خدا سے ہوا اور جس کے بدلہ میں اس نے مومنوں کو جنت دے دی.امریکن شاعرہ نے جو بات کی ہے وہ صرف فطرت تک رسائی رکھنے کی وجہ سے اس کی زبان سے نکلی ہے مگر قرآن کریم دل کی بات کہتا ہے.اس عورت نے یہ محسوس کیا کہ خدا تعالی کے دربار میں حاضر ہو کر طاقتور نے اپنی طاقت پیش کر دی، مالدار نے اپنی دولت پیش کر دی لیکن میرے پاس سوائے چند آنسوؤں کے پیش کرنے کے کچھ بھی نہیں.لیکن قرآن کریم کہتا ہے یہ تو ایک سودا ہے ہم اسے تحفہ نہیں کہہ سکتے.اگر کوئی شخص کسی دوسرے کے پاس اپنی بھینس ۲۰۰ روپیہ پر بیچ دے اور خریدار ۲۰۰ روپے کی رقم بیچنے والے کی بیوی کو دے کر کہے کہ اپنے خاوند کو کہنا کہ فلاں شخص یہ تحفہ دے گیا ہے تو کتنی احمقانہ بات ہو گی.وہ ۲۰۰ روپیہ تو بھینس کی قیمت ہے وہ تحفہ کس طرح ہو سکتا ہے.اسی طرح قرآن کریم کہتا ہے.اِنَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اَنْفُسَهُمْ وَاَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ خدا تعالیٰ نے تمہارے جان و مال خرید لئے ہیں اور وہ اس کے بدلہ میں تمہیں جنت دے گا گویا یہ مال و جان جنت کی قیمت ہے اور اسے تحفہ وہی شخص کہہ سکتا ہے جو کہہ دے کہ میں جنت میں نہیں جاتا.اگر کوئی شخص یہ
اله ۴۴۴۵ کہنے کے لئے تیار ہو کہ میں جنت میں نہیں جاتا تو ایک حد تک اس کا یہ حق ہو گا کہ وہ انہیں تحفہ کہہ سکے گو غالب والی بات پھر بھی آجائے گی کہ جان دی دی ہوئی اسی کی تھی! حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا.وہ جان جو ہم نے خدا تعالیٰ کے حضور پیش کی وہ کیا تھی؟ خدا تعالیٰ کی ہی دی ہوئی تھی پھر اس کی دی ہوئی چیز کو واپس کر کے ہم نے کونسا احسان کیا ہے.مگر جہاں تک سودا کا سوال ہے اور جہاں تک قرآن کریم کی آیت بتاتی ہے یہ صاف بات ہے کہ ہمارے جان و مال کے بدلہ میں ہم نے جنت لے لی تو پھر کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے جان و مال تحفہ میں دیئے ہیں.وہ تو بطور قیمت دیئے گئے ہیں اور جو چیز بطور قیمت دی جائے وہ تحفہ نہیں کہلا سکتی.در حقیقت تحفہ وہی ہے جو اس عورت نے پیش کیا اس کے اندر جو عشق الہی کی گرمی تھی اور جو آنسو اس نے بہائے تھے وہی اصل تحفہ تھا کیونکہ خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کی جانے والی چیز وہی محبت ہے جو انسان کی خدا تعالی کے عشق میں گداز کر دیتی ہے اور گرمی کی وجہ سے دل کی رطوبت گیس بن کر اڑتی اور آنسو بن کر ٹپک پڑتی ہے.لیکن یہ آنسو بھی دو قسم کے ہوتے ہیں.ہر آنسو قبول نہیں ہو تا جیسے ہر موتی سُچا نہیں ہوتا، ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی ، ہر پھل کی شکل رکھنے والی چیز کھانے کے قابل نہیں ہوتی.پھل مٹی کے بھی بنائے جاتے ہیں اور گلے سڑے بھی پھل ہوتے ہیں.پھر چمکنے والی چیز ملمع کی بھی ہوتی ہے.اسی طرح آنسو حقیقی بھی ہوتے ہیں اور مصنوعی بھی.کون کہہ سکتا ہے کہ آنکھوں سے بہنے والا آنسو صرف دنیا کو دکھانے کے لئے ہے یا اس کی بے خودی کی علامت ہے.جب ایک چمکنے والی ہنڈیا سے بخار تیزی سے نکلتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ڈھکنا بخارات کو روک نہیں سکتا.مگر کبھی تم خود بھی پانی کا لوٹا اپنے ہاتھ سے بہاتے ہو اور جب تم پانی کا لوٹا بہاتے ہو تو اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ لوٹا اس پانی کو روک نہیں سکتا بلکہ تم خود اسے بہاتے ہو.لیکن جب بخارات زور سے ہنڈیا سے باہر نکلتے ہیں اور ڈھکنا پرے پھینک دیتے ہیں تو تم کہتے ہو ڈھکنا بخارات کو روک نہیں سکتا.اس پانی میں جو تم دیدہ دانستہ بہاتے ہو اور ان بخارت میں جو خود بخود ڈھکنا پرے پھینک کر نکل آتے ہیں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے.تو تم کام اس لئے بھی کرتے ہو کہ لوگ تم کو اچھا سمجھیں مگر جو کام خود بخود اچھا ہو جاتا ہے اس میں تصنع اور فریب نہیں ہو تا.
و سوم م جنگ بدر میں جب کا فر رؤسا کافی تعداد میں مارے گئے تو مکہ میں کوئی ایسا خاندان نہ رہا کہ جس کا کوئی نہ کوئی لیڈر یا رئیس نہ مارا گیا ہو.مکہ کے لوگ ڈرے کہ اگر یہ خبر عرب میں پھیل گئی تو ان کا وقار قائم نہیں رہے گا.انہوں نے واپس جاتے ہی یہ فیصلہ کیا کہ کوئی شخص اپنے مرنے والے رشتہ داروں پر ماتم نہ کرے اور نہ بہن ڈالے تاکہ جب لوگ باہر سے آئیں تو وہ یہ محسوس نہ کر سکیں کہ انہیں کوئی صدمہ پہنچا ہے لیکن دلوں میں تو آگ لگی ہوئی تھی.کسی کا ایک ہی بیٹا تھا اور وہ جنگ بدر میں مارا گیا، کسی کے دو ہی بیٹے تھے اور وہ مارے گئے اور پھر ان کی موت پر آنسو بہانے کا بھی حکم نہیں تھا بلکہ ماتم کرنے والے کے لئے ۱۰۰ اونٹ کی سزا مقرر تھی.ایک اونٹ کی قیمت اس زمانہ کے لحاظ سے اگر تمیں روپے بھی فرض کر لی جائے تو ایک سو اونٹ کی قیمت تین ہزار روپے ہو جاتی ہے جو اس وقت کے لحاظ سے ایک بڑی رقم تھی.سب لوگ اپنا جوش دبائے بیٹھے تھے.ایک رئیس جس کے دو بیٹے مارے گئے تھے وہ سارا دن اندر بیٹھا روتا رہتا تھا لیکن عرب میں چونکہ ٹین ڈالنے کا رواج تھا اس لئے اس کی آگ بجھتی نہیں تھی.وہ سمجھتا تھا کہ میں اکیلا رو رہا ہوں اور دوسرے لوگوں میں سے کوئی شخص بھی میرا ساتھ نہیں دیتا.کیا میرے بچے اتنے ہی ذلیل تھے کہ آج ان پر میرے سوا اور کوئی نہیں رو تا.روتے روتے اس کی بینائی بھی جاتی رہی.ایک دن کسی شخص کا اونٹ مر گیا وہ غریب آدمی تھا اور وہی اونٹ اس کی جائیداد تھی.اس نے ہو رج سر پر رکھا اور مکہ کی گلیوں میں سے گزرتا ہوا یہ شعر پڑھتا چلا جاتا تھا کہ ہائے میرا اونٹ مر گیا.میرا اونٹ کتنا ہی اچھا تھا.وہ یہ شعر پڑھتا ہوا ر کیس کے دروازے کے آگے سے بھی گذرا.اس رئیس نے جب یہ آواز سنی تو اس سے برداشت نہ ہو سکا اس نے دروزاہ کھول دیا اور چیخ مار کر کہنے لگا کہ اس شخص کو اپنے اونٹ پر رونے کی اجازت ہے لیکن مجھے ان بیٹوں پر رونے کی اجازت نہیں جو مکہ کی عزت تھے.اس کا یہ کہنا تھا کہ تمام عورتیں باہر نکل آئیں اور مکہ میں ایک ماتم برپا ہو گیا.تاوان وہیں کا وہیں رہ گیا اور انہوں نے اپنی قوم کے فیصلہ کی کوئی پروانہ کی.غرض جو چیز آپ ہی آپ نکل آتی ہے اس کو روکا نہیں جا سکتا لیکن جو نکالی جاتی ہے وہ رو کی جا سکتی ہے.تم ایک انجن کی آگ کو اونچا نیچا کر سکتے ہو لیکن ایک آتش فشاں پہاڑ کی آگ کو دبانا تمہارے بس کی بات نہیں.تم چھڑکاؤ کرتے وقت مشک کے پانی کو اونچا نیچا کر سکتے ہو لیکن بادلوں سے گرنے والے پانی کو تم تھام نہیں سکتے.تم پنکھے کی ہوا کو اونچا نیچا کر سکتے ہو مگر
۴۴ ہوئے طوفانوں کو قابو میں نہیں لا سکتے.جو جوش خود بخود نکلتا ہے وہ ایسا طوفان ہے جو بند نہیں کیا جا سکتا وہ ایسی آگ ہے جس کو کوئی شخص دبا نہیں سکتا وہ ایسی بارش ہے جس کو تھاما نہیں جا سکتا اور یہی وہ تحفہ ہے جو انسان خدا تعالٰی کو دے سکتا ہے.اس کے سوا جو کچھ ہے وہ تو ایک سودے کی چیز ہے اور کیا ہی بے شرمی ہے کہ ہم اس کا نام تحفہ رکھیں.پھر سودے میں بھی ہم پوری قیمت ادا نہیں کرتے اس میں بھی خدا تعالیٰ کا پلہ بھاری ہوتا ہے.انسان کہتا تو ہے کہ میں نے قیمت ادا کر دی ہے لیکن دیتا بہت قلیل رقم ہے لیکن اللہ تعالیٰ زبان نہیں کھولتا وہ اسے یاد نہیں کراتا.جس طرح لوگ سلائی کی مشینیں قسطوں پر لے لیتے ہیں اسی طرح خد اتعالیٰ نے بھی اپنے بندوں کو اپنی جنت قسطوں پر دے رکھی ہے.لیکن انسانوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو پوری اقساط ادا کر کے مرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کبھی بھی یہ نہیں کہتا کہ چونکہ نے پوری قسطیں ادا نہیں کی تھیں اس لئے میں تمہیں جنت کیسے دوں.اس کا یہ احسان ہے کہ وہ بغیر قسط ادا کئے اپنے بندوں کو جنت میں داخل کر دیتا ہے اور انسان کی یہ بے شرمی ہے کہ وہ کے کہ یہ میرا تحفہ ہے.تحفہ کیا اس نے تو پوری قیمت بھی ادا نہیں کی.تحفہ وہ عشق اور آگ ہے جو اللہ تعالیٰ کی یاد میں انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے اور جو اللہ تعالیٰ کو وہ بطور تحفہ پیش کرتا ہے وہی اس بات کا مستحق ہے کہ اسے خدا تعالیٰ کی محبت کا حقدار سمجھا جائے.دنیا میں ہر خوشی کے موقع پر غمگین آدمی کے دل میں ایک ٹیس اٹھتی ہے.مثلاً اگر کوئی شادی ہو رہی ہو لوگ اکٹھے ہو کر ایک دوسرے کو گلے مل رہے ہوں تو یہ نظارہ دیکھ کر ایک عورت جس کا بیٹا یا بھائی گم ہو گیا ہو رو پڑتی ہے اور اسے اپنا گم شدہ بھائی یا بیٹا یاد آجاتا ہے.وہ خیال کرتی ہے کہ کاش میرا بھی بھائی یا بیٹا موجود ہوتا تو میں بھی اس سے گلے ملتی.یہی وجہ ہے کہ ہماری شریعت میں ہر خوشی کے موقع پر خدا تعالیٰ نے نماز مقرر کر دی ہے.جمعہ کا دن چھٹی کا ہوتا ہے اس دن اجتماعی نماز رکھ دی.جمعہ کی نماز میں اگر چہ دو رکعت فرض ہی ہوتے ہیں.مگر اس کی تیاری میں زیادہ وقت صرف ہوتا ہے اور نماز ظہر کی نسبت جمعہ کی نماز کے لئے قربانی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے.پھر عید میں آتی ہیں ان میں بھی خدا تعالیٰ نے نماز مقرر کر دی جس میں اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے اگر تمہارے دل میں خدا تعالی کی سچی محبت اور عشق ہے تو جب ایک دوست دوسرے دوست سے ملے گا اس سے مصافحہ یا معانقہ کرے گا تو اس کے اندر ایک ٹیس بھی اٹھے گی کہ میں زید اور بکر اور خالد کو مل رہا ہوں مگر افسوس کہ میں اپنے اصل
۴۴۸ مقصود کو جو خدا تعالیٰ ہے نہیں مل رہا.پس عشق کے ہوتے ہوئے خوشی کی کوئی تقریب ایسی نہیں ہوتی جو غم نہ بن جائے.عشق کے ہوتے ہوئے خوشی کی تقریب کا غم نہ بن جانا ایک ناممکن امر ہے.جس ماں کا بچہ گم ہو گیا ہو ہر نیا بچہ جو اس کے ہاں پیدا ہوتا ہے اسے دیکھ کر وہ رو پڑتی ہے.اس کے خواہ دس بچے بھی ہو جائیں اس کی تسلی نہیں ہوتی.جب پوچھو کہ تمہارے ہاں دسواں بچہ پیدا ہوا ہے کیا اب بھی تم روتی ہو ؟ تو وہ کہے گی مجھے اپنا گم شدہ بچہ یاد آ گیا تھا.حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے وہ مگر جب تک یوسف نہیں ملا ان کے گیارہ بیٹے گیارہ خوشیاں نہیں تھیں بلکہ ان کے لئے ایک رنگ میں غم کا باعث تھے اور باری باری جب انہیں نظر آتے تو حضرت یوسف علیہ السلام یاد آجاتے اور ان کا دل غم سے بھر جاتا اور ان کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آتے لے کیونکہ گم شدہ بچہ ہمیشہ یاد آتا ہے لیکن مرنے والا یاد نہیں آتا.مرنے والے پر چند دن رو کر انسان چُپ کر جاتا ہے لیکن کھویا ہوا بچہ ساری عمر یاد آتا رہتا ہے.گذشتہ فساد لاء میں جن ماؤں کے بچے ادھر ادھر رہ گئے تھے ان میں سے بعض میرے پاس دعا کے لئے آتی ہیں تو ان کے یہی الفاظ ہوتے ہیں کہ دعا کریں یا تو اس کا پتہ لگ جائے کہ وہ کہاں ہے اور یا یہ پتہ لگ جائے کہ وہ مر گیا ہے اگر مرگیا ہے تو پھر خدا تعالیٰ کے ساتھ اس کا واسطہ ہو جائے گا.غرض جب کوئی محبوب چھٹا ہوا ہو تو خوشی کی تقریب بھی غم بن جاتی ہے.اگر خدا تعالیٰ کی محبت دل میں موجود ہے تو بندے کی بھی یہی حالت ہونی چاہئے اسی لئے اس خوشی کے موقع پر خدا تعالیٰ نے نماز رکھ دی جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ ہم خوشی منا رہے ہیں حالانکہ اصل خوشی حاصل نہیں اس لئے آؤ اب ہم کچھ رو بھی لیں اور خدا تعالیٰ کے حضور گریه و زاری کرلیں کیونکہ بعض دفعہ اس طرح بھی انسان کے اندر روحانیت پیدا ہو جاتی ہے.الفضل ۷.مارچ ۱۹۶۲ء) صحیح بخاری کتاب الاجارة - باب من استاجر اجیرا فترك اجره کے اس واقعہ سے ملتا جلتا واقعہ السيرة الامام ابن هشام الجزء الاول صفحه ۱۸۵ پر بیان ہوا ہے.ترمذی ابواب العلم باب ما جاء في فضل الفقه على العبادة - سنن ابن ماجه
۴۴۹ باب الحكمة ۱۹۲۴ء کے سفر انگلستان کی طرف اشارہ ہے.ه ۶۱۹۱۹-۶۱۸۵۵Mrs.E.W.Wilcox ل التوبة ک دیوان غالب صفحه ۴۷ مطبوعہ مکتبہ جدید لاہور ۱۹۶۰ء تاریخ لابن اثیر ۵۴/۲ تاریخ طبری ۴۶۳/۲ السيرة الامام ابن هشام الجز الثاني صفحه ۴۶-۴۷ یوسف :۵- تغییر در منثور ( آیت ہذا) جلد ۴ صفحه ۴ یوسف :۸۵ تا۸۷ ۱۹۴۷ء میں تقسیم برصغیر کے بعد کے خونی فسادات کی طرف اشارہ ہے.
۴۵۰ (۴۱) (فرمودہ ۲.جولائی ۱۹۵۱ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ) کل غلطی سے عید کا وقت ساڑھے نو بجے صبح مقرر ہو گیا اور یہ غلطی اس لئے ہوئی کہ میں نے پچھلے تین سال یہ عید کوئٹہ کے مقام پر گزاری ہے کوئٹہ ایک لمبا شہر ہے وہاں دوست کئی کئی میل سے عید کے لئے آتے ہیں.پھر فوجی لوگ بھی ہیں ان کا بھی لحاظ رکھ کر عید دیر سے پڑھی جاتی ہے لیکن یہاں گرمی اور آبادی کی وسعت کے لحاظ سے وقت ساڑھے آٹھ ہونا چاہئے تھا بلکہ اس سے بھی پہلے یہ نماز ادا ہونی چاہئے اور عید الاضحیہ تو سات بجے ہونی چاہئے بہر حال ہمارے کارکنوں کو چاہئے کہ وہ آئندہ اگر مجھ سے عید کا وقت پوچھیں تو مجھے یاد دلایا کریں کہ احباب کی ضرورتوں اور موسم کا لحاظ ضروری ہے.دوستوں کی ضروریات اور موسم کا لحاظ رکھتے ہوئے میں خطبہ اختصار کے ساتھ پڑھوں گا اور اس لئے بھی کہ زیادہ لمبا خطبہ سننا آپ لوگوں کے لئے اس وقت نا ممکن ہے.مشہور ہے کہ نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے یہاں کوئی دو سو عورت لیکچر دے رہی ہے اس شور کی وجہ سے میں خود بھی نہیں سمجھ سکتا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں کجا یہ کہ آپ لوگ میرے الفاظ سن سکیں.آئندہ عورتوں کے لئے یہاں جگہ نہیں بنانی چاہئے بلکہ دو سو گز پرے ہٹ کر جگہ بنانی چاہئے تا وہ اگر خود لیکچر دینا چاہیں تو ہمیں ان کی آواز سنائی نہ دے اور اگر وہ ہماری بات سننا چاہیں تو لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ سن لیں.آج کی تقریب کے لحاظ سے میں دوستوں کو اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ لوگوں کے لئے عید آتی ہے تو وہ ان کے لئے خوشی کی تقریب ہوتی ہے لیکن ہم جن حالات میں سے گزر رہے ہیں عید ہمارے زخموں کو ہرا کرنے کے لئے آتی ہے.عید کے معنی لوٹنے کے ہیں اور عید کو عید اس لئے کہتے ہیں کہ یہ دن بار بار آئے لیکن آج جو اسلام کا حال ہے ، آج جو محمد کا حال ہے ، آج جو قرآن کریم کی قدر کی جاتی ہے ، آج جو خدا تعالیٰ کی قدر ہے، آج جو دین کی دنیا پر حکومت قائم ہے ، ہم جو مقدس لے مرکز سے نکال کر باہر پھینک دیئے گئے ہیں کون
۴۵۱ بد بخت ہے جو کہے کہ یہ دن بار بار آئیں.ہم تو یہی کہیں گے کہ ایسے دن اسلام اور احمدیت پر نہ آئیں.اسلام اور احمدیت پر فتح اور کامیابی کے دن بار بار آئیں ، ان پر غلبہ کے دن بار بار آئیں ، خدا تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی برکتوں کے دن بار بار آئیں ، مرکز کی مضبوطی اور اس پر قبضہ کے دن بار بار آئیں، نیکی، تقوی پر ہیز گاری اور خدا تعالیٰ کی رضاء کے حصول کے دن بار بار آئیں جب ایسا ہو گا تو ہمارے لئے حقیقی عید ہوگی.یہ عید ہمیں یاد دلانے آتی ہے کہ اے بندۂ خدا! تم عید منا رہے ہو لیکن تم یہ فکر نہیں کرتے کہ خدا تعالیٰ تمہارے لئے حقیقی عید لائے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا تعالیٰ ایسا کر سکتا ہے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ قرآن کریم سے ثابت ہے کہ یہ وقت انسان کی اپنی کوششوں کے نتیجہ میں آتا ہے.سو تم اپنے قلوب کی اصلاح کرو اپنے اندر سچائی پیدا کرو دیانت پیدا کرو ، فتنہ و فساد کو کچل دو تم اپنے ایمان کی فکر کرو تا خدا تعالیٰ ہمارے لئے اور عام مسلمانوں کے لئے عید کا دن لائے اور پھر اس عید کو ہمیشہ کے لئے قائم رکھے.اے خدا! تو اپنے کمزور بندوں کو معاف کر اور انہیں توفیق دے کہ وہ اپنی اصلاح کر سکیں ایسی اصلاح جو تیرے فضل کو کھینچ سکے تا دنیا پر اسلام کی حکومت قائم ہو جائے اور تیرے بندے بھی عید کا منہ دیکھ سکیں.اب میں دعا کروں گا کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لئے حقیقی خوشی کا دن لائے اور وہ ہمارے لئے خیر و برکت کا موجب ہو.اصل چیز یہی ہے کہ خدا تعالیٰ ہماری کمزوریوں کو دور کرے کہ وہ اس خوشی کے دن کے آنے میں روک بن رہی ہیں.آخر خدا تعالی کا فرشتوں سے کیا رشتہ ہے کہ وہ آسمان پر فرشتوں میں رہتا ہے اگر تم فرشتے بن جاؤ تو خدا تعالیٰ اسی طرح زمین پر آجائے جس طرح وہ آسمان پر ہے.(الفضل ۱۷.جولائی ۱۹۵۱ء) جماعت احمدیہ کے دائمی مرکز قادیان کی طرف اشارہ ہے.جہاں سے خدائی سنت اور تقدیر کے تحت ۱۹۴۷ء میں ہجرت کرنا پڑی.
۴۵۲ (۴۲) ( فرموده ۲۴ جون ۱۹۵۲ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ) چونکہ مجھے رات سے دورانِ سر کی تکلیف ہے اس لئے میں کھڑے ہو کر خطبہ نہیں پڑھ رہا بلکہ مختصراً بیٹھ کر خطبہ پڑھوں گا.آج عید کا دن ہے لیکن ہمیں سوچنا چاہئے کہ کیا یہ عید ہمارے لئے بھی عید ہے.دنیا میں ہر چیز کئی نسبتیں رکھتی ہے.مثلاً ایک دشمن مارا جاتا ہے تو مومنوں کے گھروں میں عید ہوتی ہے لیکن کافروں کے گھروں میں عید نہیں ہوتی ان کے گھروں میں تو ماتم ہوتا ہے.بدر کی جنگ ہوئی تو بہت سے کفار اس میں مارے گئے حتی کہ مکہ کا کوئی گھر ایسا نہ رہا جس کا کوئی نہ کوئی رشتہ دار اس جنگ میں نہ مارا گیا ہو.مسلمانوں کے لئے وہ ایسی عید ہے کہ آج تک ہم اسے عید قرار دیتے ہیں ، لیکن کفار کے لئے یہ دن اتنے غم کا تھا کہ جب تک وہ مسلمان نہیں ہو گئے ان کے لئے یہ دن ماتم کا دن رہا.چنانچہ اس جنگ کے اثر کو مکہ والوں نے اتنا محسوس کیا کہ روسانے مل کر ایک میٹنگ کی اور اس میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا کہ کوئی آدمی بدر کے مقتولوں پر نہ روئے.انہیں خیال تھا کہ اگر وہ بدر کے مقتولوں پر روئیں گے تو مسلمان خوش ہوں گے چنانچہ انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ جو شخص بدر کے مقتولوں پر روئے گا اسے سو اونٹ بطور ڈنڈ دینے ہوں گے.اب دیکھو سکے والے اس زخم کو کتنا محسوس کرتے تھے کہ انہوں نے یہ خیال کر لیا کہ باوجود منع کرنے کے بھی لوگ بدر کے مقتولوں پر روئیں گے اور ان کی بات نہیں مانیں گے اس لئے انہوں نے ایک سو اونٹ مُجرمانہ مقرر کیا تا اس جرمانہ کے خوف سے لوگ اپنے غم کو دبائے رکھیں.چنانچہ مکہ والوں نے اس مجرمانہ کے خوف سے اور قوم کی ناراضگی سے بچنے کے لئے صبر سے کام لیا.وہ بولے نہیں.انہوں نے گھروں سے باہر آکر رسم و رواج کے مطابق ماتم نہیں کیا لیکن وہ گھروں کے دروازے بند کر کے روتے تھے.ایک شخص کے جنگ بدر میں دو بیٹے مارے گئے تھے وہ قوم کے ڈر کے مارے باہر نکل کر نہیں روتا تھا.لیکن اندر بیٹھ کر روتا تھا وہ خوب رویا لیکن اسے پھر بھی صبر نہ آیا.عرب میں یہ رواج تھا کہ جب کسی کا کوئی عزیز مرجاتا تو وہ باہر نکل کرئین کرتا تھا اس طرح اس کے گھر والے
۴۷۵۳ اور محلہ کے دوسرے لوگ بھی اس کے ساتھ مبین میں شریک ہو جاتے اور جب تک وہ اکٹھے ہو کر مرنے والے کا بین نہیں کرتے تھے انہیں تسلی نہیں ہوتی تھی اور سمجھتے تھے کہ انہوں نے مرنے والے کا غم نہیں کیا.ایک دن اتفاق یوں ہوا کہ کوئی شخص مکہ کے پاس سے گذر رہا تھا اس کی اونٹنی جس پر وہ سوار تھا مر گئی.عرب فطرتا شاعر تھے.اس شخص نے اپنی اونٹنی کے غم میں چند اشعار بنائے کہ تو بڑی اچھی اونٹنی تھی، تجھ میں فلاں خوبی تھی، فلاں خوبی تھی اب تو مر گئی ہے میں تیرا افسوس کس طرح کروں.میں تیری موت پر کیسے صبر کروں اس کا رستہ مکہ میں سے گزرتا تھا اور پھر اس شخص کے گھر کے قریب سے گزرتا تھا جس کے دو بیٹے جنگ بدر میں مارے گئے.وہ شخص اندر بیٹھ کر رو رہا تھا کہ اس اونٹنی کا مالک گلی میں سے وہ شعر پڑھتا ہوا گزرا جو اس نے اپنی اونٹنی کے متعلق بنائے تھے کہ تو بڑی اچھی تھی تجھ میں فلاں خوبی تھی، فلاں خوبی تھی، میں تیرا افسوس کس طرح کروں اس شخص نے جب یہ شعر سنے تو وہ برداشت نہ کر سکا اور دروازہ کھول کر چیخ مار کر باہر آگیا اور عرب کے رواج کے مطابق اس نے اپنا سر پیٹ لیا اور کہنے لگا اس شخص کو اپنی اونٹنی کے مرجانے پر ماتم کرنے کا حق ہے لیکن میرے دو بیٹے مر گئے مجھے ان پر آنسو بہانے کا حق نہیں مجھے ان کا ماتم کرنے سے منع کر دیا گیا ہے اور پھر وہ قصیدہ میں اپنے بیٹوں کی خوبیاں بیان کرنے لگا.قریباً سب لوگ زخم خوردہ تھے اور صرف جرمانہ کے خوف اور قوم کی ناراضگی سے بچنے کے لئے دبے بیٹھے تھے.جب اس کی چیخیں انہیں سنائی دیں تو سارے دروازے کھل گئے اور مکہ کے تمام لوگ باہر نکل کر رونے پیٹنے لگ گئے.کے اب دیکھو بدر کا دن ہمارے لئے اب بھی عید کا دن ہے مگر وہ کفار کے لئے ماتم کا دن تھا.پس عید بھی ایک نسبتی چیز ہے وہ ایک کے لئے عید ہوتی ہے لیکن دوسرے کے لئے عید نہیں ہوتی.ایک کے گھر میں بیٹا پیدا ہوتا ہے تو وہ ہنس رہا ہوتا ہے لیکن دوسرے گھر میں ماتم ہوتا ہے اور گھر والے سب رو رہے ہوتے ہیں.گویا ایک ہی وقت میں ایک گھر میں عید ہوتی ہے اور دوسرے گھر میں ماتم ہوتا ہے.دیکھنا یہ چاہئے کہ ہماری آج کی عید کس حد تک عید ہے.ہم ایک منظم جماعت ہیں ہماری عید وہی ہوگی جس میں ساری جماعت شریک ہو.جس عید میں ساری جماعت شریک نہیں وہ عید نہیں.پس آج اگر چہ عید ہے لیکن کیا ہماری جماعت کی حالت اس بات کی مقتضی ہے کہ ہم اسے عید قرار دیں.مثلاً اسی سال کو دیکھ لو عید آئی اور
۴۵۴ گورنمنٹ نے فیصلہ کیا کہ ملازمین کو عید سے پہلے تنخواہیں دے دی جائیں.صدرانجمن احمدیہ نے بھی اس ضرورت کو محسوس کیا اور اس نے بھی فیصلہ کیا کہ عید سے پہلے تنخواہیں مل جانی چاہئیں.میرے پاس کاغذات آئے تو میں نے کہا بڑی اچھی بات ہے بشرطیکہ خزانہ میں روپیہ موجود ہو لیکن خزانہ میں روپیہ نہیں تھا.محاسب صاحب کی رپورٹ تھی کہ میرے پاس چند سو سے زائد روپیہ نہیں اور فرض کرد تنخواہیں عید سے پہلے نہ بھی دینی ہوتیں تب بھی مہینہ میں سے کتنے دن باقی رہ گئے ہیں صرف سات دن باقی رہ گئے ہیں ان سات دنوں میں بھلا کتنا روپیہ آسکتا ہے کہ اس سے اگلے مہینہ کے شروع میں بھی تنخواہیں ادا کی جا سکیں.اس کے معنی یہ ہیں کہ عید نے محض ہماری ہے آنکھیں کھولی ہیں ورنہ ہم مہینہ کے آخر میں بھی اس قابل نہیں ہو سکتے کہ کارکنوں کو ان کا پانچواں یا چھٹا حصہ بھی گزارہ دے سکیں.اگر اس ماہ میں یہ حالت ہے تو اگلے ماہ کے متعلق ہم : کس طرح قیاس کر سکتے ہیں کہ اس میں یہ حالت نہ ہو گی.محاسب صاحب کہتے ہیں کہ چندے نہیں آئے اور ناظر صاحب بیت المال کہتے ہیں کہ چندے آئے ہیں اور تمام تر خرابی محاسب کی طرف سے ہے.ناظر صاحب کا دعوی ہے کہ پچھلے سال اس ماہ میں جتنا روپیہ آیا تھا اس سے پانچ ہزار روپیہ زیادہ اس ماہ میں آیا ہے.اگر پچھلے سال اس ماہ تنخواہیں ادا ہو گئی تھیں تو اس سال کیوں ادا نہیں کی جا سکتیں.محاسب صاحب کہتے ہیں خزانہ موجود ہے اور رجسٹرات بھی موجود ہیں میں روپے گھر تو نہیں لے گیا جو رقوم آئی ہیں رجسٹر میں درج ہیں ان کو دیکھ لو.اب تم سمجھ سکتے ہو کہ جب کارکنوں کی تنخواہیں ہی پیچھے پڑگئی ہیں تو ہمارے لئے کونسی عید ہے.اگر ہمارے اندر قومی جذبہ پایا جاتا ہے تو ہماری عید عید نہیں لیکن اگر ہمارے اندر انفرادی جذ بہ پایا جاتا ہے تو پھر بے شک ہم کہیں گے اگر یہاں گزارہ نہیں ہو گا تو کہیں با ہر نوکری کر لیں گے لیکن اگر ہم ایک منظم سلسلہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں تو ہماری عید کوئی عید نہیں.سلسلہ اب ایسی حالت پر پہنچ گیا ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کو گزارہ دینے کے بھی قابل نہیں رہا اور ہر شخص جس کے دل میں درد ہے اور وہ فردی ضرورتوں کو قومی ضرورتوں پر ترجیح دیتا ہے وہ زندہ نہیں رہا سکتا.اگر وہ نوکری چھوڑ کر کہیں اور چلا جاتا ہے تو اس کا دین مرجاتا ہے اور اگر یہیں رہتا ہے تو وہ اپنا اور بیوی بچوں کا پیٹ نہیں بھر سکتا.اگر وہ باہر چلا جاتا ہے تو اس کی دینی روح مرجاتی ہے اور اگر یہاں رہتا ہے تو اس کا جسم مرجاتا ہے.پس یہ حالات ہیں جن میں سے اس وقت ہم
۴۵۵ گزر رہے ہیں.اگر ناظر صاحب بیت المال کی بات ٹھیک ہے تو چندہ میں تھوڑا سا فرق ہو گا اور اگر محاسب صاحب کی بات صحیح ہے تو پھر بہت بڑا فرق ہے.بہر حال حالات ایسے نہ ہو گئے ہیں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں اب بیدار ہو جانا چاہئے.میں تمہیں کتنے عرصہ سے کہہ رہا ہوں کہ بیدار ہو جاؤ بیدار ہو جاؤ لیکن تم نے میری بات کو کوئی وقعت نہیں دی.جب دشمن بولتا ہے تو تم تقریریں کرنے لگ جاتے ہو کہ ہم یوں کریں گے یوں کریں گے لیکن جب خلیفہ کہتا ہے کہ تم یوں کرو تو اس کی بات تم یوں سمجھتے ہو جیسے ہوا کا ایک جھونکا آیا اور چلا گیا.لیکن یہ تو سمجھو کہ میں نے مالی دقتوں کے متعلق تمہیں کتنی دفعہ توجہ دلائی ہے میں تمہیں اس لئے توجہ نہیں ولا تا کہ میں نے کچھ کھانا ہوتا ہے.میں مارچ ۱۹۱۴ء میں خلیفہ ہوا ہوں اور اس وقت میری خلافت پر ۳۸ سال گذر چکے ہیں تم ہی بتاؤ میں نے اتنے عرصہ میں خزانہ سے کیا لیا ہے آخر میں تمہیں توجہ دلاتا ہوں، ڈراتا ہوں اور ہوشیار کرتا ہوں تو اس لئے نہیں کہ اس میں میرا کچھ فائدہ ہے میں تمہیں اس لئے توجہ نہیں ولا تاکہ سلسلہ کے مال میں میرا کوئی حصہ مقرر ہے.یہ نہیں کہ ۸ لاکھ آمد ہوگی تو ایک لاکھ میرا ہو گا، بارہ لاکھ آمد ہوگی تو ڈیڑھ لاکھ میرا ہو گا مجھے سلسلہ کے مال سے کوئی حصہ نہیں ملتا جس کی وجہ سے میں تمہیں ڈراتا ہوں.میں ۲۵ سال کی عمر کا تھا جب خلیفہ ہوا اب ۶۳ سال کا ہوں اب تک میں نے خزانہ لیا ہے ؟ جس کی وجہ سے کسی کو شبہ ہو کہ میں نے یہ بات کسی غرض کی وجہ سے کسی ہے میں نے جماعت کو کچھ دیا ہے لیا نہیں.پچھلے دنوں کسی شخص نے میرے متعلق جھوٹ بولا کہ میں جماعت کا چندہ کھا گیا ہوں تو میں نے اپنے چندے کا حساب نکلوایا تو معلوم ہوا کہ میں صرف تحریک جدید کو پچھلے ۱۸ سالوں میں دولاکھ سے زائد روپیہ دے چکا ہوں.پس میں جب تمہاری مالی حالت کی طرف توجہ دلاتا ہوں تو اپنے فائدہ کے لئے نہیں صرف تمہارے فائدہ کے لئے کچھ کہتا ہوں.تمہیں میں نے کم کہا ہے گو کہا ہے لیکن صدر انجمن کے کاغذات نکال کر دیکھ لو.کوئی تاریخ دان انہیں پڑھے گا تو وہ حیران ہو گا درجنوں صفحات ایسے نکلیں گے جن میں میں نے صدر انجمن احمدیہ کو توجہ دلائی ہوگی کہ اپنے آپ کو بچاؤ ورنہ تمہارا کوئی ٹھکانا نہیں ہو گا لیکن انہوں نے میری بات نہ سنی.ہمیشہ ان کی طرف سے یہی لکھا آتا ہے کہ فلاں مد میں زیادتی کر دی جائے.جب نظم میں خرابی ہوگی تو ہمارا کسی جگہ بھی ٹھکانہ نہیں ہو گا.میں کارکنوں سے کہتا ہوں کہ بد نظمی کا حال دیکھ لو.تم کہتے ہو کہ فلاں ناظر میں خرابی ہے اور ناظر کہتے ہیں کہ تم ایسے ہو حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ خرابی تم
۴۵۶ دونوں میں ہے.جب تک تم دونوں مل کر خرابی پیدا نہ کرو خرابی پیدا نہیں ہو سکتی.مثلا بل ہیں بل کیا ناظر بناتے ہیں بل تم بناتے ہو اور ناظر اس پر دستخط کرتے ہیں گویا بل بنانے میں دونوں شریک ہو.تم میں سے ایک شخص اس کی جرات نہیں کر سکتا جو نتیجہ نکلتا ہے وہ تم دونوں کا ہوتا ہے.اس سال جو مجلس شوری میں ہماری آنکھیں کھلیں تو معلوم ہوا کہ بجٹ آمد سے بہت زیادہ بنایا گیا ہے.بجٹ دوبارہ چیک کرنے کے بعد ہم نے ایک لاکھ اٹھارہ ہزار روپیہ کا خرچ کم کیا کچھ شورٹی کمیٹی نے خود ہی کم کر دیا تھا.گو بعض مدات میں زیادتی بھی کی گئی تھی لیکن مجموعی طور پر جو اخراجات میں کمی کی گئی تھی وہ ایک لاکھ ۸۰ ہزار روپیہ سالانہ کے قریب بنتی ہے گویا پندرہ ہزار روپیہ ماہوار بجٹ میں سے کاٹ دیا گیا.اتنا روپیہ کاٹ دینے کے بعد بھی ہمارا یہ حال ہے کہ کارکنوں کو تنخواہیں نہیں مل سکیں اگر انتار و پیہ نہ کاٹا جاتا تو تمہاری کیا حالت ہوتی.یہ خرابی کہاں سے پیدا ہوئی ہے بغیر اس کے کہ افسروں کے ساتھ ماتحت شریک ہوں خرابی پیدا ہونی ناممکن ہے.اکیلے ناظر خرابی پیدا نہیں کر سکتے.ماتحت ان کے پاس جاتے ہیں اور کہتے ہیں اتنے ٹکٹ زیادہ چاہئیں، اتنی میزیں اور چاہئیں، اتنی کرسیاں اور چاہئیں ، اتنی پنسلیں اور منگوا دیجئے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ روپیہ ان پر ضائع چلا جاتا ہے.ایک زمانہ تھا کہ ایک آدمی کے پاس پانچ پانچ کام تھے.کارکن راتوں کو کام کرتے تھے لیکن اب ہر ایک کارکن یہ سمجھتا ہے کہ اس کا کام ایک آدمی کا کام نہیں.وہ ناظر کے پاس جاتا ہے کہ ایک آدمی اور بڑھا دیا جائے وہ فورا سفارش کر دیتا ہے کہ مجھے ایک اور آدمی کی ضرورت ہے.اور وہ ایک آدمی بڑھا دیا جاتا ہے.اور حالت یہ ہوتی ہے کہ پہلے کارکن کی تنخواہ اگر بارہ آنے تھی تو آمد ایک روپیہ تھی.اب بارہ آنہ کا ایک اور کلرک آجاتا ہے تو آمد ایک روپیہ ہی رہتی ہے لیکن خرچ ڈیڑھ روپیہ ہو جاتا ہے اب دنیا کے کسی قاعدے کی رو سے ایک روپیہ سے ڈیڑھ روپیہ نہیں نکل سکتا.دوسرے ماہ آٹھ آنے قرض کی بجائے ایک روپیہ قرض ہو جائے گا اور تیسرے ماہ ڈیڑھ روپیہ قرض ہو جائے گا اور چار پانچ ماہ کے بعد دیوالیہ نکل جائے گا.آخر تمہیں میری بات سمجھ میں کیوں نہیں آ سکتی.کیا میری اس بات کو سمجھنے کے لئے کسی بڑے حساب کی ضرورت ہے.کیا اس کے لئے بڑی عقل کی ضرورت ہے کہ اگر خرچ دس لاکھ کا ہو اور آمد آٹھ لاکھ ہو تو دیوالیہ نکل جاتا ہے.افراد تو کہہ سکتے ہیں کہ اگر آمد چار لاکھ روپیہ ہے تو آٹھ لاکھ قرض لے لیں گے اور مطالبہ پر وہ جگہ چھوڑ دیں گے اور کسی دوسرے ملک میں بھاگ
۴۵۷ جائیں گے لیکن کیا تمہاری جماعت بھی ایسا کر سکتی ہے.ایک منظم جماعت ہر گز ایسا نہیں کر سکتی.ایک منظم جماعت کی بد دیانتی چُھپ نہیں سکتی سوائے اس کے کہ وہ اپنا کام بند کر دے.لیکن باوجود بار بار توجہ دلانے کے تم نے اور ناظروں نے اس طرف توجہ نہیں کی.تمہیں غصہ ہوتا ہے کہ ناظر صاحب نے تو ہماری سفارش کر دی تھی لیکن خلیفۃ المسیح نے دستخط نہیں کئے.خلیفہ کی جیب میں روپے ہوں تو وہ اس پر دستخط کر دے جب میرے پاس روپیہ نہیں خزانے کے متعلق رپورٹ ملتی ہے کہ وہاں روپیہ نہیں تو میں اضافہ جات پر دستخط کیسے کروں خلیفة المسیح روپیه خود خرچ نہیں کر لیتا.اب بھی خلیفہ کا دیا ہوا چندہ دوسروں سے زیادہ ہے لیکن میں کیمیا گر نہیں کہ میں روپیہ بنالوں اور نہ میں جادو گر ہوں اور نہ جادو اور کیمیا پر میرا ایمان ہے میں روپیہ کہاں سے لاؤں اگر روپیہ نہ ہو تو میں دوں کہاں سے.تم میں بے چینی ہوتی ہے کہ ناظر صاحب نے گو سفارش کر دی تھی خلیفۃ المسیح نے دستخط نہیں کئے.تم ہی کہتے تھے کہ ہمیں چار کی بجائے پانچ کرسیاں چاہئیں، پانچ کلرک کی بجائے سات کلرک چاہئیں اور تم نے میری بات نہیں مانی اس لئے تم آج بھوکے ہو.اگر میں تمہاری بات مان لیتا تو تمہاری ہڈی پس جاتی.آخر تم کیا سمجھتے ہو کہ کیا یہ روپیہ میں نے استعمال کر لیا تھا.اگر میں نے روپیہ لیا نہیں بلکہ روپیہ دیا ہے تو یہ بات تمہاری سمجھ میں کیوں نہیں آتی کہ میں تمہیں بچانے کی خاطر ایسا کر رہا ہوں.تمہارا کام تھا کہ اگر پانچ کلرک ہوں تو ان کی بجائے چار کرواتے تا خرچ کم ہو اور ناظروں کو چاہئے تھا کہ بجائے اس کے کہ وہ تمہارے ساتھ مل کر زائد کلرکوں کی سفارش کرتے تمہیں سمجھاتے اور آپ بھی قربانی کرتے تا سلسلہ پر تنگی کا وقت نہ آتا لیکن ناظروں نے بھی جب دیکھا کہ ہم کیوں ماتحتوں سے لڑیں تو انہوں نے تمہاری بات مان لی اور یہ سمجھ لیا کہ نئے خرچ کی اجازت چونکہ خلیفہ المسیح دیتے ہیں اس لئے بدنامی خلیفہ کی ہوگی ہماری تو نیک نامی ہی ہے.لیکن میں نے اس کی پرواہ نہ کی اور اب بھی میں پرواہ نہیں کروں گا اور سختی سے کام لوں گا.اگر کوئی صورت روپیہ پیدا کرنے کی ہوتی تو میں کہیں سے روپیہ لے آتا مگر یہ بات میرے بس سے باہر ہے.ہمارا اوسط خرچ ۸۰ ہزار روپیہ ماہوار ہے اور اگر وقتی خرچ نکال لیا جائے تو ۷۰-۲۵ ہزار روپیہ خرچ ہوتا ہے.پچھلے سال تم درخواستیں دیتے رہے کہ فلاں جگہ دو ہزار کی زیادتی کر دی جائے، فلاں جگہ چار ہزار کی زیادتی کر دی جائے اور سارا سال تم زیادتیاں کرواتے رہے، جب بارہواں مہینہ آیا تو تم نے دو لاکھ روپیہ کے بل محاسب کے پاس
۴۵۸ بھیج دیئے کہ پچھلے مہینوں کا اتنا خرچ ہے.دوران سال میں بل کم و بیش کرنے کے یہ معنی تھے کہ مجھے خزانہ میں روپیہ نظر آئے اور میں زیادتی کرنے سے انکار نہ کر سکوں.جب خزانہ میں جو روپیہ موجود تھا وہ خرچ کر لیا تو آخری مہینے میں ۶۰ - ۶۵ ہزار روپیہ کی جگہ دو لاکھ کے بل دے دیئے.شوریٰ میں بات ہوئی تو محاسب صاحب نے کہا کہ اس وقت ساٹھ ہزار روپیہ ہمارے پاس ہے ۲۴ ہزار روپیہ اور آ جائے گا.اس طرح ہم ماہوار خرچ بھی ادا کر دیں گے اور تیس ہزار روپیہ جو ایک مشن کے لئے منظور ہوا ہے وہ بھی ادا کر دیں گے.میں نے اپریل میں انہیں بار بار یاد دلایا کہ کیا یہ تمہیں ہزار روپیہ نکال لیا گیا ہے لیکن انہوں نے خاموشی برتی.آخر جب تاریخ ختم ہو گئی تو کہہ دیا کہ بل اتنے زیادہ آگئے تھے کہ ہمارے پاس کوئی روپیہ نہیں بچتا تھا اس لئے وہ تمیں ہزار روپیہ خزانہ سے نہیں نکالا گیا.بعد میں نظارتوں نے توجہ دلائی کہ ایک لاکھ دس ہزار روپے کے بل اور پڑے ہیں جو ادا نہیں ہوئے.تم سمجھ سکتے ہو کہ کیا ان حالات میں کام چل سکتا ہے؟ پہلے خرچ چھپا کر رکھا اور آخر میں آکر سب بل ڈال دیئے.ظاہر ہے کہ ان بلوں کو چھپانے کی غرض یہی تھی کہ مجھ سے دوران سال میں بجٹ میں اضافوں کی منظوریاں لی جا سکیں.مجھ پر ظاہر کیا جائے کہ آمد کافی اور ضرورت سے زیادہ ہے آپ ضرور اضافوں کی اجازت دے دیں.مگر کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ یہ کام صرف ناظر کر سکتے ہیں بل تم بناتے ہو جب تک تم اس چالا کی میں ناظر کے ساتھ شامل نہیں ہوگے وہ ایسا نہیں کر سکتا.بھلا ناظر کو کیا شوق ہے کہ وہ لکھے کہ مجھے فلاں کام کے لئے اتنے کلرکوں کی ضرورت ہے تم شور مچاتے ہو تو وہ زائد کلرک مانگتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کام کا معیار پہلے کی نسبت گر چکا ہے.جو کام تم آج سے میں سال پہلے کرتے تھے اس سے اب کم کرتے ہو.ناظروں پر کمیشن بٹھا کر دیکھ لو کہ پچھلے ماہ میں ان سب نے مل کر اتنا تحریری کام نہیں کیا جتنا اکیلے میں نے کیا ہے.ان کی تحریر مجھ سے چار پانچ گئے کم ہوگی.کلرکوں کو دیکھ لو بجائے اس کے کہ وہ ۲۰ چٹھیاں روزانہ نکالیں وہ پندرہ چٹھیوں پر شور مچا دیتے ہیں کہ کام بہت زیادہ ہے.دوسرا کلرک آئے گا تو کام ختم ہو گا لیکن اگر دوسرا آدمی آئے گا تو تم چلے جاؤ گے کیونکہ سلسلہ کے پاس اتنا روپیہ نہیں کہ تم دونوں کی تنخواہ دے سکے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تمہیں باہر کوئی نہ کوئی کام مل جائے گا لیکن ثواب نئے آنے والے کو ملے گا.تمہارا سارا شور اس بات کا نتیجہ ہے کہ تم سلسلہ کے کام کے ثواب اور عظمت کو ذہن میں نہیں رکھتے.تم ہمیشہ اس روپیہ کا حساب لگاتے ہو جو تمہیں
۴۵۹ کسی انسان کے ذریعہ ملا ہے اور جو روپیہ خدا تعالیٰ کے ذریعہ ملتا ہے اس کا حساب تم نہیں لگاتے.تم کہو گے کہ ہم نے وہ ثواب دیکھا نہیں لیکن تم نے وہ نعماء جنت بھی تو نہیں دیکھیں جن کے متعلق تمہیں یقین ہے کہ وہ محمد رسول الله ل ل ل ا ل لیول پر ایمان لانے کے نتیجہ میں تمہیں ملیں گی.اگر تم ان نعمائے جنت پر بغیر دیکھے ایمان لے آئے ہو تو میں سمجھتا ہوں کہ تمہیں اس پر بھی ایمان لے آنا چاہئے.تمہیں دو طرف سے تنخواہ ملتی ہے اگر تمہیں صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے تیس روپیہ تنخواہ ملتی ہے تو خدا تعالیٰ تمہیں تمہیں ارب روپیہ تنخواہ دیتا ہے لیکن تم اپنی ایک آمد کا اندازہ لگاتے ہو اور دوسری کا نہیں.ایک شخص اگر دو آدمیوں کا چپڑاسی ہے ہیں رو پید ا سے ایک جگہ سے ملیں اور نہیں روپیہ ایک جگہ سے ملیں لیکن دریافت کرنے پر وہ یہ بتائے کہ میری آمد صرف ہیں روپیہ ہے تو جب سننے والوں کو حقیقت معلوم ہوگی تو وہ اسے شرمندہ کریں گے اور کہیں گے کہ تم دھوکے باز ہو.تمہیں میں روپیہ تنخواہ نہیں ملتی بلکہ چالیس روپیہ تنخواہ ملتی ہے اسی طرح سلسلہ کا کام کرنے والا دو طرف سے تنخواہ لیتا ہے اسے انسان تھوڑا دیتا ہے اور خدا تعالی زیادہ دیتا ہے.جو شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے جو آمد ہوتی ہے اسے نہیں گنتا وہ دھوکے باز ہے، فریبی ہے.لیکن اگر تم اس انعام کی قدر کرو گے تو خدا تعالٰی بھی تمہارا خیال رکھے گا.اگر تم دو آدمیوں کی جگہ کام کرتے تو تمہیں تنخواہیں بھی ملتی رہتیں اور ریز روفنڈ بھی قائم ہو جاتا.پرسوں سے میں یہ سوچ رہا ہوں کہ جماعتی لحاظ سے ہماری یہ عید خوشی کی نہیں ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ ہم اپنے کارکنوں کو خواہ وہ کمزور ایمان والے ہی ہیں گزارہ دینے کے قابل نہیں.بے شک ہم یہ تو سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کوئی رستہ کھول دے گا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اب وقت آگیا ہے کہ خدا تعالیٰ ہم میں سے گند کو نکال دے اور مخلص آدمیوں کو الگ کر لے تا ہماری کمزوری دور ہو جائے.ناظر تو آرام سے سو رہے تھے لیکن میں عید سے پہلی رات اس غم کی وجہ سے سو بھی نہیں سکا کہ ہمارے کارکنوں کو عید سے قبل گزارہ نہیں مل سکا.کچھ دیر کے لئے آنکھ لگ جاتی تھی اور پھر کھل جاتی تھی.اسی طرح میں ساری رات بیدار ہو تا رہا اور دعا کرتا رہا.تہجد کے وقت بھی دعا کرتا رہا.میں تمہیں وہ دعا نہیں بتانا کہ تم اس سے ہی خوش ہو جاؤ گے لیکن ساری رات میرے دل پر یہ اثر تھا کہ ہمارے کارکنوں کو عید سے پہلے گزارے مل جانے چاہئیں تھے.کل چھ بجے دعا ہوئی لیکن عصر کے بعد تک میں یہی دعا کرتا رہا کہ اللہ تعالی کارکنوں پر رحم کرے اور ہماری حالت کو درست فرمائے.
ناظروں نے سارا سال تمہاری سفارشیں کی ہیں لیکن آج انہیں اتنی تکلیف نہیں ہوئی جتنی تکلیف مجھے ہوئی ہے.مگر یہ مصیبت تمہارے اپنے ہاتھوں اور ناظروں کے ہاتھوں کی پیدا کی ہوئی ہے.یاد رکھو ناظر تمہارے سب سے بڑے دشمن ہیں اور تم ان کے سب سے بڑے دشمن ہو.جب وہ تمہاری سفارش کرتے تھے تو وہ جھوٹ بولتے تھے اور جب تم ان کی تعریف کرتے تھے تو تم جھوٹ بولتے تھے ناظر سمجھتے تھے کہ ہم نے انہیں دینا لینا کچھ نہیں صرف خلیفہ المسیح پر الزام لگاتا ہے وہ تمہاری پیٹھ ٹھونکتے تھے اور تم ان کی تعریفیں کرتے تھے اور کہتے تھے کہ آپ ہی ہمارے مائی باپ ہیں.اب کہاں ہیں ناظر.اب لائیں وہ روپیہ.اگر تم میری نصیحت پر عمل کرتے تو یہ دن نہ آتا.آج وہ اپنی بیویوں کے پاس خوش خوش بیٹھے ہیں اور تم عید پر تنخواہیں نہ ملنے کی وجہ سے افسردہ اور غمگین ہو.آج وہ روپیہ کیوں نہیں لاتے.یہ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں والی بات ہے جب فرعون نے بعض لوگوں کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ کے لئے بلایا تو انہوں نے رسیاں پھینکی جو سانپوں کی شکلیں اختیار کر گئیں لیکن موسیٰ علیہ السلام نے عصا پھینکا تو وہ سب سانپ غائب ہو گئے.۳.آج ان ناظروں کی خیر خواہیاں کہاں گئیں.اگر وہ اپنی خیر خواہی میں بچے تھے تو وہ آج روپیہ لاتے اور اپنے کارکنوں کو تنخواہیں دیتے.وہ صرف ظاہری طور پر تمہیں خوش کرنا چاہتے تھے.وہ بطور نمائش تمہارے ساتھ خیر خواہی کا اظہار کر رہے تھے.اگر انہیں درد ہوتا تو وہ اس قسم کی سفارش پیش نہ کرتے اور اگر تمہیں خیال ہو تا تو تم ان کی بات نہ مانتے.تم دونوں نے غداری کی ہے، ناظروں نے بھی غداری کی ہے اور تم نے بھی غداری کی ہے جو اب تم پر پڑ رہی ہے.اگر تم اب بھی نہ سمجھو گے تو تم اور زیادہ تکلیف میں مبتلاء ہو گے.اس سال بھی تمہارے ناظروں نے ایک لاکھ روپیہ کی سفارش شروع سال میں کی تھی اور اگر میں وہ ایک لاکھ روپیہ دے دیتا تو تمہیں اگست میں بھی مئی کی تنخواہیں نہ مل سکتیں.تم اب بھی سمجھ جاؤ اگر تمہیں سلسلہ کا درد ہے اگر تمہیں سلسلہ سے محبت ہے، اگر تم سلسلہ کی خاطر قربانی کر کے یہاں آتے ہو تو کام زیادہ کرو عملہ کو کم کرو دوسروں کے لئے نمونہ بنو ان کے لئے فتنہ کا موجب نہ بنو.لوگ زیادہ چندے دیں گے تو تمہاری سچ سچ عید آجائے گی.آج کوئی عید نہیں ، یہ تمہاری خطا ہے ، تمہارا جرم اور قصور ہے کہ ہم شروع سال میں ہی کارکنوں کو تنخواہ نہیں دے سکے.مہینہ کے ۲۴ دن گزر چکے ہیں ان میں اگر اتنی آمد نہیں ہوئی کہ ہم کارکنوں کو تنخواہیں دے سکیں تو باقی چھ دنوں میں
30 کیا ہو سکتا ہے.اگر تکلیف کو اگلے ماہ پر نہ پھیلا دیا جائے تو تنخواہیں جولائی تک بھی نہیں مل سکتیں.خزانہ میں صرف چار ہزار روپیہ ہے اس سے ۵۰ ہزار روپیہ کس طرح ادا کر دیا جائے.کسی ناظر میں یہ توفیق نہیں کہ وہ یہ روپیہ ادا کرے لیکن ان میں یہ توفیق ضرور ہے کہ وہ ایک لاکھ روپیہ کی سفارش کر دیں.ان میں یہ توفیق ہے کہ وہ اپنا عملہ زیادہ کروالیں لیکن یہ توفیق صرف خدا تعالیٰ کو ہی حاصل ہے کہ وہ کوئی ایسا انتظام کر دے کہ آپ لوگوں کو تنخواہیں مل سکیں اور یہ اس وقت ہو گا جب تم لوگ تعاون کرو.ناظر عقل سے کام لیں اور تم نیک مشورہ رو.آخر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ کتنے آدمی تھے.اگر تم واقعی قربانی کرنے کے لئے تیار ہو تو اپنا عملہ کم کر دو.اب لوگ کہتے ہیں کہ دفتر والے یاد دہانیاں نہیں کراتے لیکن اگر دفتر میں صرف دو کلرک ہوں تو وہ یہ نہیں کہیں گے کہ دفتر والے یاد دہانیاں نہیں کراتے بلکہ وہ کہیں گے کہ یہ ہمارا قصور ہے.اب وہ یہاں پچاس کلرک دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں تم حرام خوری کر رہے ہو تم یاد دہانیاں کیوں نہیں کراتے.پس تمہارا موجودہ طریق غلط ہے تم اخلاص والا طریق اختیار کرو.کل وکیل المال صاحب تحریک جدید نے رپورٹ کی کہ عید کا دن ہمارا کمائی کا دن ہوتا ہے.قادیان میں عید کے دن بھی عملہ بیٹھا رہتا تھا تا کہ لوگ آسانی سے روپیہ جمع کرا سکیں لیکن آج سب کلرک بھاگ گئے ہیں کیونکہ دفتر میں آج کی چھٹی ہے.اب لوگ آتے ہیں تو دفتر بند ہوتا ہے تم کہو گے کہ عید کی چھٹی ہونی چاہئے مگر کیا یہ چھٹی صرف تمہیں ہونی چاہئے.یا آج سے بیس سال قبل کے آدمیوں کو بھی اس کی ضرورت تھی.کہتے ہیں جب اوکھلی میں سر دیا تو موہلوں کا کیا ڈر.اگر تم سلسلہ کی خدمت کرنے کے لئے یہاں آئے ہو تو پھر یہ کیا کہ آج چھٹی ہے، آج دفتر بند ہے.میں بیمار ہوں لیکن عید پڑھانے کے لئے آگیا ہوں.میرے ساتھ روزانہ یہی ہوتا ہے کہ میں بیمار بھی ہوتا ہوں تو ایک رقعہ آجاتا ہے کہ میں تھوڑے وقت کیلئے یہاں آیا ہوں مجھے ملاقات کا وقت دیا جائے پھر تیسرا رقعہ آ جاتا ہے چوتھا رقعہ آجاتا ہے میں فلاں جگہ سے آیا ہوں اور آج میں نے واپس چلے جاتا ہے حضور ملاقات کا موقع دیں میں اسے ملنے کے لئے چلا جاتا ہوں.عصر کے بعد ایک رقعہ آجاتا ہے پھر کئی دفعہ راتوں کو اطلاع آجاتی ہے مجھے تو کوئی چھٹی نہیں ہوتی.اگر ہم نے دین کا کام کرنا ہے تو چھٹی کیسی؟ میرے لئے تو وہی چھٹی کا وقت ہے جو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ ہو.اگر ہم ایسا کریں گے تو ہمارے کاموں میں برکت ہوگی اور اگر ہم انگریزوں کی طرح کریں گے کہ آج دفتر میں
م چھٹی ہے کوئی کام نہ کرو تو خدا تعالٰی بھی ہمارے ساتھ انگریزوں کا سا سلوک کرے گا.جتنا ہم کمائیں گے وہ اتنا ہی ہمیں دے گا زیادہ نہیں لیکن اگر ہم صحابہ والے کام کریں گے اپنے آرام کا خیال نہیں کریں گے اور دن رات سلسلہ کی خدمت میں لگے رہیں گے تو خدا تعالیٰ کے گا ان لوگوں کا کھانا پینا ہمارے ذمہ ہے.قرآن کریم کہتا ہے کہ ہم ان لوگوں کے لئے زمین سے بھی رزق نکالتے ہیں اور آسمان سے بھی رزق نازل کرتے ہیں.کہ صرف اخلاص کی ضرورت ہوتی ہے.مجھے نظر آ رہا ہے کہ کل پرسوں اتر سوں اور اس کے بعد کی حالت آج سے زیادہ بد تر ہوگی اگر آپ لوگ سمجھ جائیں گے تو حالت بہتر ہو جائے گی ورنہ اور بھی خراب ہوگی.میں ناظروں کو بار بار توجہ دلاتا رہا ہوں کہ قیمتوں کے گرنے سے ہماری آمد میں فرق پڑا جائے گا.ہماری جماعت کے چندہ دینے والوں میں سے اسی فیصد زمیندار ہیں اور یہ صاف ظاہر ہے کہ جب چالیس روپے فی من کپاس کے گی تو زمینداروں کا چندہ اور ہو گا اور جب کپاس کی قیمت آٹھ دس پر آجائے گی تو ان کا چندہ اور ہو گا.ہمارا چندہ چھ سات لاکھ سے یک دم گیارہ لاکھ تک پہنچ گیا تھا اس کی وجہ یہی تھی کہ چندہ دینے والوں کی آمد نہیں بڑھ گئی تھیں پھر قیمتیں بڑھ جانے کی وجہ سے گورنمنٹ نے بھی تنخواہوں کے ساتھ مہنگائی الاؤنس بڑھا دیئے تھے اس لئے آمد بڑھ گئی اب اگر قیمتیں گریں گی تو ہماری آمد بھی گرے گی لیکن ہمارے خرچ میں کوئی بچت نہیں زیادہ سے زیادہ ہم مہنگائی الاؤنس کائیں گے سو وہ پہلے ہی قریبا نہ ہونے کے برابر ہے.ہمارا خرچ پچاس ہزار روپیہ ماہوار کے قریب ہے.اگر چندہ گرا اور ہم نے مہنگائی الاؤنس کاٹ بھی دیا تو تین چار ہزار روپیہ ماہوار کی کمی ہو جائے گی لیکن اگر بجٹ میں ساڑھے چار لاکھ کی کمی آگئی تو نہیں سو روپے میں سے صرف ساٹھ روپے ملیں گے.میں کئی سال سے توجہ دلا رہا تھا کہ ہمارا بجٹ زیادہ ہو رہا ہے.شوریٰ میں ہم نے بجٹ کو گرایا ہے تیرہ لاکھ روپیہ کا بجٹ پیش ہوا تھا اور ہم نے کاٹ کر اسے ساڑھے دس لاکھ روپیہ کر دیا.محکموں کی طرف سے رقعہ بازی ہو رہی تھی کہ ہمارا بجٹ ٹھیک تھا فانینانس کمیٹی والوں نے کم کر دیا ہے لیکن باوجود اس کے کہ فائینانس کمیٹی نے اور پھر میں نے بجٹ کم کر دیا تھا آپ لوگوں کو عید سے قبل تنخواہیں نہیں مل سکیں.پس ہمارے حالات ایسے ہیں کہ جب تک ہم سر جوڑ کر کام نہ کریں ہم ان سے نجات حاصل نہیں کر سکتے.سکول کی عمارت ہے ہیڈ ماسٹر صاحب کہتے تھے ہمیں سکول بنا دیں کچی عمارت ہی بنا دیں میں اس کی منظوری لے دوں گا.ہیڈ ماسٹر صاحب بیمار
d تھے وہ ہمارے عزیز ہیں ، میں انہیں دیکھنے کے لئے گیا تو انہوں نے کہا کہ آپ جیسا بھی ہو سکول بنوا دیں میں محکمہ سے آپ منظور کروالوں گا لیکن اب سکول کی طرف سے مطالبات بڑھ رہے ہیں کہ یہ بنوا دو ایسا بنوا دو.ہمیں سب سے زیادہ نوٹس سکول ہی دیا کرتا ہے کہ اگر فلاں مدد نہ دی جائے تو سکول کی ایڈ (AID) بند ہو جائے گی اور حالت یہ ہے کہ ایڈ پانچ ہزار روپیہ سالانہ ہے تو خرچ ایک لاکھ روپیہ سالانہ ہے.اگر سارے محکمے ایسا کریں تو پھر بنے گا کیا؟ آخر وہ یہ گر بھی بتائیں کہ کام کیسے ہو.بعض لوگ میرے پاس مشورہ کے لئے آتے ہیں کہ مخالفت بہت زیادہ ہے میں موجودہ گاؤں میں یا شہر میں نہیں رہ سکتا تجارت بند ہو گئی ہے لوگ باہر جانے کے لئے مشورہ دیتے ہیں میں باہر نہیں جا سکتا اور تجارت کے سوا اور کوئی کام بھی نہیں کر سکتا اب حضور سے مشورہ لینے آیا ہوں کہ اب کیا کروں.میں کہتا ہوں کہ رستے تو تم نے سب بند کر دیئے میں مشورہ کیا دوں تجارت چلتی نہیں ، تجارت کے سوا آپ کوئی کام نہیں کرنا چاہتے اور اپنے شہر میں آپ کام کر نہیں سکتے اور باہر بھی آپ جانا نہیں چاہتے تو میں مشورہ کیا دوں.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی کسے میں ایک جگہ بند ہوں ، سوراخ کوئی ہے نہیں ، اوپر سیمنٹ لگا ہوا ہے ، رستے سب بند ہیں آپ بتائیے کہ اب میں کس طرح نکلوں.آخر محکمے والے بتا ئیں تو سہی کہ میں کیا کروں.یہی کہ سکول بند کر دیا جائے یا وہ مجھے کوئی اور رستہ بتا ئیں.علی گڑھ والے جاتے ہیں اور تین چار لاکھ روپیہ چندہ اکٹھا کر کے لے آتے ہیں جس سے کالج وغیرہ چلتا 1.03.رہتا ہے لیکن تم لوگ یہ کام بھی نہیں کرتے اخراجات تو مانگتے ہو.کوئی ترکیب بھی تو بتاؤ کہ اخراجات کہاں سے لائے جائیں.ادھر کالج والے کہتے ہیں کہ فلاں خرچ ضرور کرنا ہو گا ورنہ یونیورسٹی کالج بند کر دے گی.آخر وہ خرچ ضروری ہے تو آمد پیدا کرنے کے متعلق بھی تو مشورہ دینا چاہئے.وہ خود کچھ نہیں کرنا چاہتے صرف ہم سے کہلوانا چاہتے ہیں کہ کام بند کر دو.مشہور ہے کہ قیصر جرمنی کا ایک گھوڑا تھا جو اسے بہت پیارا تھا.ایک دن گھوڑا بیمار ہو گیا ڈاکٹر اس کا علاج کرتے رہے لیکن آرام نہ آیا.ایک عرصہ کے بعد قیصر نے ڈاکٹروں کے چہروں سے معلوم کیا کہ وہ گھوڑے کی صحت سے مایوس ہیں اس نے اپنے مصاحبوں سے کہا تم جتنا خرچ ہو سکتا ہے کرد لیکن گھوڑا اچھا ہو جائے اگر میرا گھوڑا مر گیا تو مجھے سب سے پہلے جو خبر دے گا میں اسے پھانسی دے دوں گا اور اگر کسی نے خبر نہ دی تو سب کو پھانسی دے دوں گا.ڈاکٹروں نے بہتیرا زور لگایا لیکن گھوڑا مر گیا.بادشاہ کا ایک چہیتا نو کر تھا مصاحبوں نے اس سے کہا کہ تم بادشاہ
۴۲۴ کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ اس کا گھوڑا مر گیا ہے.اس نے کہا کیا میں نے مرنا ہے.انہوں نے کہا کہ اگر ہم میں سے کسی نے بادشاہ کو خبر نہ دی تو وہ سب کو پھانسی دے دے گا لیکن تم اس کے چہیتے نوکر ہو اگر تم جاؤ تو شاید اسے تم پر رحم آجائے اور وہ یہ سزا معاف کر دے.اس نے کہا اچھا میں جاتا ہوں.چنانچہ وہ بادشاہ کے پاس گیا بادشاہ نے اس سے دریافت کیا کہ گھوڑے کا کیا حال ہے؟ اس نے کہا حضور گھوڑے کو اب بالکل آرام ہے، وہ بالکل خاموش پڑا ہے، وہ اب کوئی حرکت نہیں کرتا نہ کان ہلاتا ہے نہ دم ہلاتا ہے نہ چھینیں مارتا ہے، نہ سانس لیتا ہے.بادشاہ نے کہا اس کا تو یہ مطلب ہے کہ گھوڑا مرگیا ہے.اس نے کہا حضور میں نے نہیں کہا کہ گھوڑا مر گیا ہے آپ نے خود فرمایا ہے کہ گھوڑا مر گیا ہے.ان لوگوں کا بھی یہی حال ہے.یہ خود تو کہتے نہیں مجھ سے کہلوانا چاہتے ہیں تاکہ ان کی نیک نامی رہے.مگر یہ طریق غلط ہے اگر تم مل کر کام کرو گے تو کچھ بنے گا.اگر تم میں سے ہر ایک مخالف سمت میں رسہ کشی کرے گا تو کام نہیں چلے گا.ممکن ہے کہ ہمیں سارا کام بند کرنا پڑے کیونکہ روپیہ ہو گا تو کام ہو گا ورنہ ہمارا کیا ہے.ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام والا کام شروع کر دیں گے کہ کوئی مہمان آ گیا تو آپ نے گھر سے کھانا کھلا دیا پانچ سات آدمی رکھ لئے جو خطوں کا جواب دیتے رہے اور اس قدر اخراجات ضرور مہیا ہو جائیں گے.نہ ناظر رہیں گے اور نہ کلرک.جب جماعت کے لوگ ہمیں کام کرتا ہوا دیکھیں گے تو وہ اس سے زیادہ روپیہ میرے ہاتھوں میں رکھ دیں گے.مجھے مانگنے کی بھی ضرورت پیش نہیں آئے گی.پس تم کوئی صحیح ذریعہ اختیار کرو ورنہ یاد رکھو تم (الفضل ۲۳ جولائی ۱۹۵۲ء) پچھتاؤ گے ، پچھتاؤ گے ، پچھتاؤ گے.هـ آل عمران : ۱۲۴ تا ۱۲۸ : الانفال: ۱۰ تا ۱۸ تاریخ کامل لابن اثیر جلد ۲ صفحه ۵۴ تاریخ طبری جلد ۲ صفحہ ۴۶۳ السيرة لامام ابن ہشام الجزء الثاني صفحه ۴۶-۴۷ الاعراف: ۱۱۲ تا ۶۱۱۹ ه ۶۷ تا ۷۰ الشعراء :۴۶۳۷ یونس : ۳۲ - النمل : ۶۵- سبا : ۲۵- فاطر : ۴۴ سبا: ۲۵ سید محمود اللہ شاہ صاحب ابن حضرت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب.حضور کے برادر نسبتی تھے.(۱۸۹۸ء.۱۹۵۲ء)
۴۶۵ (۴۳) (فرموده ۳- جون ۱۹۵۴ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ) قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایسی تقریبوں کا نام جو کہ انسان کے لئے خوشی کا موجب ہوتی ہیں اپنے ایک نبی مسیح ناصری علیہ السلام کے ذریعہ سے عید رکھوایا ہے ، اور اس آیت سے استدلال کر کے مسلمانوں کی ان تقریبوں کا نام بھی عید رکھ دیا گیا ہے.در حقیقت عید کا مادہ عود ہے کہ اور اس نام میں یہ حکمت رکھی گئی ہے کہ اس قسم کی تقریبیں بار بار آئیں.عربی زبان خدائی زبان ہے اگر چہ یہ انسانوں کی بنائی ہوئی ہے لیکن اس کی بناء اللی تصرف کے ماتحت ہے.عید کا لفظ عربی زبان کا ہے اور اس نام میں یہ حکمت ہے کہ جب کوئی چیز انسان کے لئے خوشی اور لذت کا موجب ہوتی ہے تو اس کا دل چاہتا ہے کہ وہ اسے پھر بھی ملے.پرانے زمانہ کا جو لٹریچر ہے وہ اکثر کہانیوں میں ہے.بچوں کو ایک کتاب پڑھائی جاتی ہے اس میں ایک کہانی کا عنوان ہے میں نے ایک دفعہ دیکھا ہے دوسری دفعہ دیکھنے کی مجھے خواہش ہے.یعنی اگر کوئی انسان ایسی چیز دیکھے جو اس نے لئے خوشی کا موجب ہو تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اسے پھر بھی دیکھے.اس لحاظ سے عید کا نام عید رکھا گیا ہے تاکہ یہ موقع اسے پھر بھی ملے.پس عید کا لفظ ایک تو اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس میں ایسا لطف لذت اور سرور ہے کہ انسان اس کا تکرار چاہتا ہے.دوسرے اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ انسانوں پر بار بار لطف کرے اور انہیں خوشی کے مواقع بہم پہنچائے.اگر انسان اسے رد کر دے تو یہ اس کا اپنا ہے ویسے خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر بار بار فضل کرنا چاہتا ہے.چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے کہ آپ نے فرمایا.إِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِين ٣ کہ بیمار میں ہوتا ہوں اور شفا مجھے اللہ تعالٰی دیتا ہے.غرض اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت آتی ہے اور بندے کی طرف سے اس کی اپنی غلطیوں کی وجہ سے زحمت آتی ہے اس کی طرف خدا تعالیٰ نے ایک اور جگہ اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شي کے میری رحمت ہر چیز پر وسیع ہے میں اپنے بندوں کو رحمت ہی رحمت دینا چاہتا ہوں لیکن
اگر ان میں سے کوئی رحمت نہ لے تو میں کیا کروں.گزشتہ انبیاء کی قوموں نے جب خدائی ہدایت کو ماننے سے انکار کیا تو خدا تعالیٰ انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے.انگرِ مُكْمُوهَا وَانْتُمْ لَهَا كَرِهُونَ.یعنی اگر تم خود ہدایت لینا پسند نہیں کرتے تو ہم جبراً تمہیں ہدایت نہیں سکتے.لیکن موجود زمانہ میں اس اصل کا بھی انکار کر دیا گیا ہے.یعنی خدا تعالیٰ نے تو یہ اصول مقرر کیا تھا کہ کسی شخص کو بالجبر ہدایت نہیں دی جا سکتی لیکن اب بعض مولویوں کا یہ عقیدہ ہے کہ ڈنڈا ہاتھ میں لے لیا اور کلمہ پڑھا دیا گویا ان کے نزدیک جبرہی اچھی چیز ہے ورنہ پہلے لوگ غلطی پر تھے جو دلیلوں کی طرف جاتے تھے.ان کے نزدیک اب اصول بدل گیا ہے.ان کے نزدیک اگر کوئی شخص دین کی بات نہیں مانتا تو اسے بالجبر منوایا جائے تو جائز ہی نہیں ضروری ہے.ان مولویوں کے اس عقیدہ پر ہمیشہ فطرتِ صحیحہ رکھنے والوں کی طرف سے مذاق اُڑایا جاتا ہے اور یہ مذاق بھی ہندوؤں، سکھوں یا عیسائیوں نے نہیں بنایا بلکہ خود مسلمانوں نے بنایا ہے.لطیفہ مشہور ہے کہ کوئی پٹھان تھا اس نے اپنے لڑکے کی تعلیم پر ایک ہندو کو مقرر کیا ایک دن اس نے دیکھا کہ ہندو آگے آگے بھاگ رہا ہے اور لڑکا اس کے پیچھے دوڑ رہا ہے.اس ہندو نے جب لڑکے کے باپ کو دیکھا تو وہ ٹھہر گیا اور اسے مخاطب کر کے کہنے لگا.خان صاحب !! میری جان بچائیے.پٹھان نے اس سے دریافت کیا بات کیا ہے؟ اس نے کہا تمہارا لڑکا مجھے مارنے لگا ہے.لڑکے نے بتایا کہ میں نے سنا ہے کہ جو شخص کسی کافر کو کلمہ پڑھا دے وہ سیدھا جنت میں جاتا ہے اسی طرح اگر کوئی شخص کلمہ نہ پڑھے تو جو شخص اسے مار دے وہ بھی سیدھا جنت میں جاتا ہے یہ چونکہ کلمہ نہیں پڑھتا اس لئے میں اسے مارنا چاہتا ہوں.اس پر اس پٹھان نے ہندو کو پکڑ لیا اور کہنے لگا خو! میرے بیٹے کا یہ پہلا وار ہے یہ خالی نہیں جانا چاہئے.اب ہے تو یہ ایک لطیفہ مگر یہ لطیفہ مسلمانوں نے ہی بنایا ہے.ہندوؤں ، سکھوں اور عیسائیوں نے نہیں بنایا.فطرت صحیحہ نے جب دیکھا کہ یہ مذاق والی بات ہے تو اس نے اس قسم کے لطائف بنا دیئے ورنہ فطرت صحیحہ اور خدا تعالیٰ کی ہدایت شروع سے ہی یہ کہتی چلی آئی ہے کہ اَنرِمَكُمْوْهَا وَاَ نَنْتُمْ لَهَا كَرِهُونَ کیا ہم تمہیں جبر ا ہدایت دے سکتے ہیں اس حال میں کہ تم اسے نا پسند کرتے ہو.پس یہ چیزیں جبری طور پر نہیں آتیں.بے شک خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کی رحمت، معافی اور بخشش آتی ہے.لیکن کسی انسان کو بالجبر اس سے حصہ نہیں دیا جا سکتا.اگر بندہ اس سے حصہ نہیں لیتا تو خدا تعالی بادل ناخواستہ اسے سزا دیتا ہے.ورنہ خرابی ہمیشہ بندے
کی طرف سے آتی ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں آتی.خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمیشہ رحمت اور بخشش آتی ہے ہاں اس نے یہ قانون بنا دیا ہے کہ جو شخص اس کی رحمت اور بخشش کو نہ لینا چاہے اس کو جبرا نہ دی جائے.پس عید کے لفظ سے دو نکتے نکلتے ہیں اور انہیں قرآنی سند حاصل ہے.ایک نکتہ تو یہ ہے کہ جس چیز میں لذت اور لطف محسوس ہو انسان چاہتا ہے کہ وہ نت نیت آئے.دوسرے خدا تعالیٰ کی رحمت ایسی ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ اس قسم کی تقریبات بار بار آئیں کیونکہ اس کا دل کسی کو سزا دینا نہیں چاہتا اس کا دل انسان کو رحمت دینا چاہتا ہے.اور اس سے یہ مضمون بھی نکل آیا کہ صفات الہیہ کا اصل مدار رحمت کے بار بار نزول پر ہے.مگر کتنے ہیں جن کے لئے عید آئی ہے ایسے لوگ بہت کم ہیں جن کے لئے حقیقی عید آتی ہے.عید دلی اور ظاہری چین کا نام ہے لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں دلی چین تو نصیب ہوتا ہے ، ظاہری چین میتر نہیں ہوتا اور بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں ظاہری چین نصیب ہو تا ہے لیکن دلی چین سے وہ محروم ہوتے ہیں.بعض لوگ با مذاق ہوتے ہیں وہ عید پڑھنے چلے جاتے ہیں لیکن ان کے تن پر نہ کپڑا ہوتا ہے اور نہ انہیں پیٹ بھرنے کے لئے روٹی میسر ہوتی ہے.لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں ظاہری طور پر سب کچھ نصیب ہوتا ہے ان کی بیویاں زیوروں سے لدی ہوئی ہوتی ہیں وہ زرق برق لباس پہنے ہوئے ہوتے ہیں، ادھر ادھر آنے جانے کے لئے ان کے پاس کاریں ہوتی ہیں، بچے کھلانے کے لئے ماما ئیں ہوتی ہیں ، گھروں میں قسم قسم کے کھانے پک رہے ہوتے ہیں لیکن ان کے معدہ میں ناسور ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کھانوں کی لذت انہیں نہیں آتی.صدمات اور آپس کے لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے انہیں حقیقی خوشی نصیب نہیں ہوتی.انہوں نے ظاہرا کپڑے پہنے ہوئے ہوتے ہیں لیکن ان کے پاس بیٹھی ہوئی پھٹے پڑانے کپڑے پہننے والی عورت کا دل باغ باغ ہوتا ہے لیکن ان کے دل کی اندرونی زخموں کی وجہ سے داغ داغ ہو رہے ہوتے ہیں.غرض کسی شخص کی عید اس رنگ میں خراب ہو جاتی ہے اور کسی شخص کی عید اُس رنگ میں خراب ہو جاتی ہے.وہ شخص جسے ظاہری طور پر بھی عید میسر ہو اور باطنی طور پر بھی اسے حقیقی عید حاصل ہو بڑی تلاش کے بعد ملتا ہے اور وہی شخص جسے ظاہری اور باطنی دونوں لحاظ سے عید نصیب ہو حقیقی خوشی محسوس کر سکتا ہے اور کہہ سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ یہ دن بار بار لائے.ورنہ دوسروں کے لئے اس خواہش کا اظہار ایسا ہی
۴۶۸ کے گا کہ ہے جیسے لطیفہ مشہور ہے کہ کوئی شخص سسرال جا رہا تھا اور وہ منحوس الفاظ دُہراتا جا رہا تھا.رستہ میں کچھ لوگ اسے ملتے گئے.انہوں نے اسے اس قسم کے الفاظ دہرانے سے منع کیا.اور ان کی بجائے جو الفاظ انہوں نے تجویز کئے اس نے وہ الفاظ دہرانے شروع کر دیئے.ایک جگہ پر ایک برات جارہی تھی اور وہ یہ الفاظ دہرا رہا تھا کہ خدا تعالٰی یہ دن کبھی نہ لائے.براتیوں نے اسے مارا اور کہا تم یہ منحوس الفاظ کیوں دُہرا رہے ہو.اس نے کہا میں پھر کیا کہوں؟ انہوں نے کہا تم یہ کہو کہ خدا تعالی یہ دن ہر ایک کو نصیب کرے.اس پر اس نے یہ الفاظ دہرانے شروع کر دیئے.آگے گیا تو ایک جنازہ آرہا تھا جنازہ کے ساتھ آنے والوں نے جب یہ الفاظ سنے تو انہوں نے اسے خوب مارا اور کہا ہمارا عزیز مرگیا ہے اور ہمارے دل زخمی ہیں اور تم کہ رہے کہ خدا تعالیٰ یہ دن ہر ایک کو نصیب کرے.اس نے کہا پھر میں کیا کہوں انہوں نے اسے بعض اور الفاظ بتا دیئے جو اس نے دُہرانے شروع کر دیئے.پس جس کا دل افسردہ ہے کیا وہ یہ دن خدا تعالیٰ بار بار لائے.وہ تو کہے گا کہ خدا کرے یہ دن پھر نہ آئے.پھر جس کا ظاہر دُکھی ہو گا وہ جب دوسری عورتوں کو زیور پہنے دیکھے گا وہ جب دوسروں کو زرق برق لباس پہنے اور عطر لگائے دیکھے گا تو وہ کہے گا خدا تعالیٰ کی شان ہے ہم تو اپنے بچوں کو تھپڑ مارتے ہیں کہ وہ ہم سے نئے کپڑے کیوں مانگتے ہیں ، ہمارے پاس سویاں نہیں جو پکا کر انہیں دیں اور یہ لوگ ہیں کہ زرق برق لباس پہنے ہوئے ہیں، کاروں میں سفر کر رہے ہیں، بچوں کے لئے ماما کیں مقرر ہیں ، عورتیں قسم قسم کے زیور پہنے ہوئے ہیں ہم تو کہیں گے کہ خدا تعالیٰ یہ دن پھر نہ لائے تاکہ ہمیں اور ہمارے بچوں کو تکلیف نہ ہو.پس عید کا ملنا ہر ایک کے اختیار میں نہیں.بہت کم لوگ ایسے پائے جاتے ہیں جنہیں حقیقی عید نصیب ہوتی ہے.کمیونسٹوں ان کو دیکھ لو انہوں نے ظاہری طور پر عید منانی چاہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ اس ظاہری عید کے منانے میں کامیاب ہو گئے ہیں.منہ کے دعوؤں سے کیا بنتا ہے دیکھنا تو یہ ہے کہ کیا ان کی سیکیم کامیاب ہو گئی ہے؟ ان کے سکہ کی یہ حالت ہے کہ وہ اس کی قیمت کو صحیح طور پر قائم نہیں کر سکے.اس کی قیمت اتنی بڑھی ہوئی ہوتی ہے کہ انسان حیران ہو جاتا ہے اور دوسری طرف ان کی ناکامی اس بات سے ظاہر ہے کہ وہ تیکہ کی قیمت بار بار وصول کرتے ہیں.مثلاً وہ باہر والوں کو کہتے ہیں کہ تمہیں ایک پونڈ کے بدلے پانچ روبل ملیں گے لیکن انہی کو یہ کہتے ہیں کہ تمہیں پانچ سو روبل کے بدلہ میں ایک پاؤنڈ ملے گا.اور اصل قیمت اس کی مثلا دو سو روبل ملتی ہے
۴۶۹ دوسرے ممالک کے اسمبیسیڈر وہاں جاتے ہیں اور چونکہ بعض ممالک بہت مالدار ہوتے ہیں اس لئے باہر کی ایمبیسیوں کا مجموعی خرچ دس پندرہ لاکھ پونڈ سالانہ ہو جاتا ہے اور روس والے اس ذریعہ سے کروڑ ڈیڑھ کروڑ پونڈ سالانہ کما لیتے ہیں اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ ان کی حالت درست نہیں.باہر والوں کو تو وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے مزدوروں کو مثلاً پانچ چھ سو روبل دیتے ہیں اور اس کے مقابلہ میں امریکن مزدور کو سوا سو ڈالر ملتے ہیں اور سوا سو ڈالر کے بدلہ میں پانچ سو روبل ملتا ہے.گویا ہمارے مزدور کو امریکن مزدور سے کئی گنے زیادہ مزدوری ملتی ہے کیونکہ ہمارے ہاں اشیاء ارزاں ہیں.لیکن اگر اس ملک والے ڈالر لینا چاہتے ہیں تو انہیں اس کی قیمت بہت بڑھا کر دکھائی جاتی ہے.ان کے پانچ سو روبل در اصل چودہ پندرہ ڈالر کے برابر ہوتے ہیں گویا پاکستان والی مزدوری آگئی حالانکہ یورپین ممالک میں مزدور کی مزدوری اس سے کہیں زیادہ ہوتی ہے.تو بظاہر روس والوں نے کمیونزم تو بنا دیا.یا کئی اور ممالک ہیں جنہوں نے اس قسم کی سکیمیں تیار کیں لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکیں.جرمن سکہ کی قیمت بھی کسی زمانہ میں اتنی گر گئی تھی کہ ایک پونڈ کی قیمت کئی لاکھ مارک ہو گئی تھی.شروع شروع میں جب جرمن سکہ کی قیمت دو سو تین سو چار سو گنا گر گئی تو لوگوں نے خیال کیا کہ اس وقت جرمن سنگہ خرید لیا جائے تو کچھ عرصہ کے بعد قیمت بڑھ جانے کی وجہ سے کافی منافع ہو گا.ان دنوں مولوی عبد المغنی خان صاحب کہ ناظر بیت المال تھے انہوں نے سمجھا کہ میں نے روپیہ کمانے کا فن نکال لیا ہے.ہم جرمن سکہ خرید لیتے ہیں کچھ عرصہ کے بعد جب اس کی قیمت بڑھ جائے گی تو ہمیں کئی گنا روپیہ منافع میں ملے گا.انہوں نے مجھے لکھا کہ ہم پچاس ساٹھ ہزار روپیہ وہاں بھیج دیں تو ہمیں ایک کروڑ روپیہ مل جائے گا.میں نے کہا سلسلہ کا روپیہ تو میں دیتا نہیں ہاں میں اپنا کچھ روپیہ دے دیتا ہوں.میں نے اپنے ایک عزیز کو کہا کہ تم جر مبنی جاکر تعلیم حاصل کر آؤ کیونکہ میرا خیال تھا کہ وہاں تھوڑے سے روپیہ میں تعلیم حاصل ہو جائے گی.چنانچہ میں نے دو ہزار روپیہ جرمنی کے ایک بنک میں بھیج دیا جس کے بدلے میں جرمن سکہ وہاں میرے حساب میں قریباً دو تین لاکھ جمع ہو گیا.میں نے اپنے اس عزیز کو جرمنی روانہ کر دیا مگر رستہ میں اسے حالات کچھ اس قسم کے پیش آگئے کہ وہ بجائے جرمنی جانے کے انگلستان چلا گیا.جماعت کے اور دوستوں نے بھی مارک خریدے اور اس طرح اڑھائی تین ہزار روپے کے مارک خرید لئے گئے.اس کے بعد مارک کی قیمت روز بروز گرتی گئی جب پانچ
چھ سو گنا مزید گر گئی تو مجھے تحریک کرنے والوں نے کہا کہ اب ہم کیا کریں؟ میں نے کہا اب کیا ہو سکتا ہے آپ لوگوں نے ہی تحریک کر کے روپیہ ضائع کیا ہے.چنانچہ کچھ دنوں کے بعد وہ واقعہ میں اپنے روپے کو رو دھو کے بیٹھ گئے.ہم نے یہ رو پید ایک بڑے بنک میں جمع کرایا تھا کیونکہ ہمارا خیال تھا کہ جب لاکھوں روپیہ ملے گا تو چھوٹا بنک اس کی ادائیگی نہیں کر سکے گا.بعد میں میں نے بنک کو لکھا کہ میں نے فلاں وقت اتنار و پیہ جمع کرایا تھا چاہے اس کی قیمت بہت زیادہ گر گئی ہے لیکن تاہم اس کی کچھ نہ کچھ قیمت تو ہوگی.آپ تحریر کریں ، اب اس روپے کے کتنے پاؤنڈ مل سکتے ہیں.بنک کا مینجر کوئی بانداق آدمی تھا اس نے مجھے جواب لکھا کہ آپ کا روپیہ ہمارے بنک میں جمع تھا لیکن اب اس کی کوئی قیمت نہیں بلکہ اس خط پر جو ٹکٹ لگا ہے وہ بھی اس روپیہ سے کئی گنا زیادہ قیمتی ہے گویا اس روپیہ کی قیمت ایک دمڑی سے بھی کم رہ گئی تھی.اب اگر جرمنی والے کہتے کہ امریکہ اگر اپنے مزدور کو ساٹھ پونڈ دیتا ہے تو ہم اپنے مزدور کو ایک لاکھ یا دو لاکھ مارک دیتے ہیں تو اس کے معنی صرف یہ ہوتے کہ وہ اپنے مزدور کو بارہ تیرہ روپے ماہوار دیتے ہیں.یہی حال روس کا ہے وہ اپنے مزدور کو امریکہ سے کئی گنا کم دیتے ہیں اور دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ ہم نے ملک میں مزدور کا درجہ بلند کر دیا ہے ہم اسے پچاس ہزار سے کم نہیں دیتے حالانکہ اس کے معنی صرف پچاس ساٹھ روپیہ کے ہوتے ہیں.پس یہ شکل دیکھ کر کہہ دینا کہ ہم نے ملک والوں کو عید کا موقع بہم پہنچایا ہے اور چیز ہے ورنہ حقیقی عید روس بھی نہیں دے گا.یہاں آنے والوں کی حالت بے شک اچھی نظر آتی ہے اگر کوئی روسی اس طرف آئے تو اسے دیکھ کر لوگ یہ خیال کر لیتے ہیں کہ ان کے ملک میں مزدور کی حالت نہایت اچھی ہے.لیکن حقیقت اس کے خلاف ہوتی ہے.ملک عمر علی صاحب ۸ کو اگر توفیق مل جائے تو انہیں تبلیغ کا بہت شوق ہے ایک دفعہ وہ سندھ کے سفر پر میرے ساتھ گئے.ہم تو سیکنڈ کلاس کے ڈبہ میں سوار ہوئے لیکن ملک عمر علی صاحب اپنی ریاست کے خیال سے فرسٹ اور ایئر کنڈیشنڈ کمپارٹمنٹ میں سوار ہوئے ایک روسی بھی اس کمپارٹمنٹ میں سوار تھا.اس سے ان کی گفتگو ہوئی گاڑی کسی اسٹیشن پر ٹھری تو ملک صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے ایک روسی دوست میرے ہم سفر ہیں میں نے ان سے گفتگو کی ہے وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں.اگر آپ اجازت دیں تو میں انہیں آپ کے پاس لے آؤں.میں نے کہا ممکن ہے اس میں کوئی سنجیدگی نہ ہو.ملک صاحب نے کہا نہیں وہ بہت سنجیدہ انسان ہیں.میں نے کہا یہ غلط ہے اگر وہ
سنجیدہ انسان ہیں تو انہیں کہو میرے پاس اتنی زمین ہے کہ اگر میں آپ کے ملک میں ہو تا تو وہاں سے نکال دیا جاتا کہ میں کیپیٹلسٹ ہوں لیکن میں سیکنڈ کلاس میں سفر کر رہا ہوں اور تم فرسٹ کلاس اور پھر ایئر کنڈیشنڈ کمپارٹمنٹ میں سفر کر رہے ہو تم کو یہ روپیہ کس نے دیا ہے.تم مزدور ہو کر اس قدر روپیہ کس طرح خرچ کر سکتے ہو جب کہ میں تمہارے نزدیک کیپیٹلسٹ ہو کر سیکنڈ کلاس میں سفر کر رہا ہوں.پس یا تو تم یہ ثابت کرو کہ روس کے سب لوگ اتنا خرچ کرتے ہیں اور یا سیدھی بات یہ ہے کہ تم جاسوس ہو اور پراپیگنڈا کی غرض سے یہاں آئے ہو.ملک صاحب کچھ دیر کے بعد آئے تو انہوں نے بتایا کہ اس نے کہا ہے کہ اب موقع نہیں پھر کسی وقت ملاقات کروں گا.میں نے کہا اصل میں دال میں کالا ہے اسے روپیہ دے کر یہاں پراپیگنڈا کے لئے بھیجا گیا ہے.ورنہ اس کے پاس جو رقم ہے وہ اس کی ذاتی نہیں اور نہ ہی وہ کپڑے اس کے اپنے ہیں جو اس نے پہن رکھے ہیں.برطانیہ کے وزیر اعظم مسٹرلائیڈ جارج ؟ کسی کام کے لئے روس گئے وہ جب واپس آئے تو لوگوں نے ان پر مختلف قسم کے سوالات کئے.بعض نے کہا روس والوں نے غریب اور امیر کو کس طرح مساوی درجہ دے رکھا ہے کسی نے یہ کہا کہ روسیوں کی حالت اگر خراب ہے تو آپ ان کی کیا مدد کر رہے ہیں.ایک مجلس میں یہ ذکر ہوا کہ روس کے تمام لوگوں میں کس قدر سادگی پائی جاتی ہے تو مسٹر لائیڈ جارج نے کہا (غالبا اس وقت لینن له بر سر اقتدار تھا کہ لینن کی دعوت کے موقع پر اتنے کھانے پکائے گئے تھے کہ مجھے اپنے ملک میں بھی اتنے کھانے کھانے کا موقع نہیں ملا.دوسرے موقع پر ان پر یہ سوال کیا گیا کہ روس ایک غریب ملک ہے آپ نے ان کی مدد کے لئے کیا کیا ہے.تو مسٹر لائیڈ جارج نے کہا میں جب ریل میں سوار ہوا تو میں نے ایک قلی کو دس لاکھ روبل انعام دیا لیکن اس نے حقارت سے اسے پھینک دیا اتنے بڑے امیروں کی ہم کیا مدد کر سکیں گے.دراصل اس دس لاکھ روبل کی قیمت اس وقت کے لحاظ سے دو چار پیسے تھی.اب اگر کہ یورپین پر خوش ہو کر اسے دو پیسے انعام دیا جائے تو وہ حقارت کی وجہ سے اسے رد نہ کرے گا تو کیا کرے گا؟ گویا مسٹر لائیڈ جارج نے بظاہر اس کا یہ مفہوم لیا کہ روس میں مزدوروں کی یہ حالت ہے کہ وہاں ایک مزدور دس دس لاکھ روپیہ کے انعام کو بھی ٹھکرا دیتا ہے پھر اتنے مالدار لوگوں کی میں کیا مدد کروں.مگر مطلب یہ تھا کہ روس پراپیگنڈا تو اپنے ملک کی اچھی حالت کا کرتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے سکے کی کوئی قیمت ہی نہیں رہی.پس یہ حالات بناوٹی ہیں.
دوسرے ممالک جو سرمایہ دار ہیں ان کی ظاہری حالت اگر چہ اچھی ہے وہ اچھی خوراک کھاتے ہیں اور قیمتی لباس پہنتے ہیں لیکن حقیقی عید انہیں بھی میسر نہیں.یورپین لوگوں کو ہم عیاش کہتے ہیں لیکن در حقیقت وہ عیاش نہیں.میں نے خود یورپین لوگوں سے باتیں کی ہیں ان میں روحانیت کی خواہش ایشیائیوں کی نسبت زیادہ ہے لیکن چونکہ امن اور چین انہیں باوجود سرمایہ دار ہونے کے میر نہیں اس لئے وہ اپنا غم غلط کرنے کے لئے ناچ دیکھتے ہیں، شرابیں پیتے ہیں، گانے سنتے ہیں اور دوسری عیاشیوں میں اپنا وقت کاٹتے ہیں.انہیں کسی طرح بھی چین نصیب نہیں وہ سوتے ہیں تو مصیبت زدہ ہونے کی حالت میں ، جاگتے ہیں تو دُکھ بھرے دلوں کے ساتھ اور چونکہ ان میں روحانیت کی خواہش موجود ہے اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم کالج بنائیں، ہسپتال بنائیں یا رفاہِ عامہ کی دوسری جگہیں بنا ئیں تو ہم پر فرشتے نازل ہوں گے ، ہمیں روحانیت نصیب ہوگی اس لئے وہ ان چیزوں پر اپنا روپیہ خرچ کرتے ہیں لیکن ہو تا کیا ہے وہ ہسپتال بناتے ہیں تو شیطان کا نزول ہونے لگتا ہے وہ سکول بناتے ہیں تو بجائے اس کے کہ ان پر فرشتوں کا نزول ہو شیطان ان کے گھروں میں آبستا ہے گویا ہر حرکت جو وہ روحانیت کے حصول کی خاطر کرتے ہیں ان کی بے ایمانی کے بڑھانے کا موجب ہوتی ہے اور ان کی بے چینی بڑھتی ہے.پھر انہیں عید کہاں نصیب ہوئی ؟ حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں کی درخواست پر یہ کہا تھا کہ اے اللہ ! ہم پر مائدہ نازل کیجئے اس میں قسم قسم کے کھانے ہوں اور وہ کھانے آسمانی ہوں، زمینی نہ ہوں.پھر یہ کھانے ہم پر روزانہ اُتریں تا ہمارے اگلے اور پچھلے لوگوں کے لئے عید ہو اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں تمہیں تمہاری خواہش کے مطابق مائدہ دیتا ہوں تا تمہاری عید ہو جائے لیکن اس کے بعد بھی اگر کسی نے ناشکری کی تو میں اسے شدید ترین عذاب دوں گا.للہ اگر وہ کہتے کہ اے اللہ ! ہم چاہتے ہیں کہ صبح و شام تیری رضا ملے تا ہمارے اگلے اور پچھلے لوگوں کے لئے عید ہو تو یہ زیادہ درست ہو تا.انہوں نے خواہش تو کی روحانیت کی لیکن اس کے حصول کے لئے جو ذرائع طلب کئے وہ سب دنیاوی تھے.جیسے یورپ کے لوگ خواہش تو روحانیت کے حصول کی کرتے ہیں لیکن اس کے لئے جو ذرائع استعمال کرتے ہیں وہ سب دنیوی ہوتے ہیں.روپیہ کمانے کے لئے اکثر دفعہ دوسروں کی دولت بھی چھینی پڑتی ہے اور جو دو سروں کی دولت چھینے گا اس کا دل سخت ہو گا اور جس کا دل سخت ہو اسے روحانیت کہاں میسر آتی ہے.مثلاً ایک غریب آدمی کے پاس تھوڑا سا آٹا تھا اس نے آٹا گوندھا اور ایک
۴۷۳ پیڑا بنایا کہ چلو یہ روٹی میرا بیٹا کھا لے گا اور میں خود بھوکا رہ کر گزارہ کرلوں گا لیکن ایک امیر شخص آیا اور اس نے وہ پیڑا چھین لیا پھر وہ امیر آدمی کسی دوسرے غریب شخص کے پاس جاتا ہے اور اس کے پاس سے بھی آئے کا پیڑا چھین لیتا ہے جس سے اس نے خود بھوکے رہ کر اپنے بیٹے کا پیٹ پالنا تھا.پھر وہ امیر آدمی کسی تیسرے غریب شخص کے پاس جاتا ہے اور اس سے بھی یہ سلوک کرتا ہے اور اس کے نتیجہ میں اس کے ہاں پر اٹھے پکتے ہیں وہ ان پر اٹھوں میں سے ایک پر اٹھا کسی غریب کو دے دیتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ میں اس طرح غرباء کی مدد کر رہا ت ہوں.وہ یہ خیال نہیں کرتا کہ اس نے پراٹھے کا آٹا کئی غریبوں سے چھینا ہے.اس کو جب بھی اس ظلم کا احساس ہو گا اس پر مصیبت آجائے گی.پھر ظالم ظلم چھوڑ بھی نہیں سکتا.جب کسی قوم کا سٹینڈرڈ دوسری قوموں سے بوجہ ظلم اعلیٰ ہو گیا ہو تو وہ ظلم کو مٹا نہیں سکتی کیونکہ یہ ایک قومی سوال بن جاتا ہے انفرادی سوال نہیں رہتا.یعنی اگر ایک فرد اسے چھوڑنا بھی چاہے تو وہ اسے چھوڑ نہیں سکتا جب تک کہ قوم کی اکثریت اس کے ساتھ نہ ہو.ایک چور چوری کی عادت چھوڑ سکتا ہے، ایک ظالم ظلم کو ترک کر سکتا ہے کیونکہ ایسا کرنے میں اسے کسی ہمسایہ یا دوست کی مدد کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن جو قوم دوسری قوم کو اقتصادی طور پر اپنا غلام بنالیتی ہے وہ اگر دو سروں پر ظلم کرنا ترک بھی کرنا چاہے تو وہ ایسا نہیں کر سکتی کیونکہ عام طور پر کسی ملک کی اکثر آبادی کسی کام میں متفق نہیں ہو سکتی اور جب کسی ملک کی اکثر آبادی اس بارہ میں متفق نہ ہو تو قومی عیب دور نہیں ہو سکتا.پس عید انسان نہیں لا سکتا عید صرف خدا تعالیٰ لا سکتا ہے لیکن اس کا طریق اور ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے تھے کہ جب تم خدا تعالیٰ سے دعا کرو تو رونی صورت بنا لیا کرو گا کیونکہ قاعدہ ہے کہ اگر مظلومیت کا جھوٹا احساس بھی کیا جائے تو وہ حقیقی رنگ اختیار کر لیتا ہے.ہم نے خود دیکھا ہے کہ ایک شخص جھوٹی شکایت لے کر آتا ہے اور ادھر ادھر کی باتیں بناتا ہے تاہم اس کی بات مان لیں لیکن تھوڑی دیر کے بعد اس پر یہ حالت طاری ہو جاتی ہے کہ اگر ہم کہیں کہ تو مظلوم نہیں تو اسے غصہ آتا ہے.عربی زبان میں ایک لطیفہ ہے کہ ایک غریب لڑکا تھا امراء کے لڑکے اسے مارتے وہ تو ان سے بچنے کے لئے یہ کہہ دیتا کہ فلاں شخص کے ہاں آج دعوت ہے.وہ لڑکے وہاں چلے جاتے اور اس کی جان بچ جاتی لیکن پھر آپ بھی بھاگ کر اس گھر کی طرف چلا جاتا اور خیال کرتا کہ میں نے مفت میں مار بھی کھائی اور اگر فی الواقعہ وہاں دعوت ہوئی تو کھانے سے بھی میں محروم رہ
۴۷۴ جاؤں گا.جب لڑکے اس مکان پر جاتے اور دیکھتے کہ اس لڑکے نے ان سے جھوٹ بولا ہے دعوت تو تھی نہیں تو وہ پھر اسے پکڑ لیتے اور خوب مارتے.اس پر وہ لڑکا اور بھی زور سے سکھنا شروع کر دیتا میں نے دھوکا کیا تھا اصل میں دعوت فلاں گھر میں ہے.اس پر وہ لڑکے اس گھر کی طرف جاتے لیکن بعد میں پھر وہ لڑکا خود بھی اس گھر کی طرف دوڑتا اور خیال کرتا کہ میں نے مارا بھی کھائی ہے اور پھر دعوت بھی دوسرے لڑکے کھائیں یہ درست نہیں.تو انسان ایک بناوٹی بات بناتا ہے لیکن بعد میں وہ حقیقت بن جاتی ہے.پس حقیقی عید کے لانے کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ انسان بناوٹی عید منانے کی کوشش کرے اس طرح خدا تعالیٰ اسے حقیقی عید بھی دے گا بشرطیکہ حقیقی عید لانے کے لئے وہ کوشش کرے.ہمیں تو خدا تعالیٰ نے بناوٹی عید دی ہوئی ہے.اللہ تعالٰی نے اس زمانہ میں اپنے ایک مامور کو بھیجا ہے اور بتایا ہے کہ اب مسلمانوں کے لئے عید کا زمانہ آیا ہے اب شوکتِ اسلام کا زمانہ ہے لیکن افسوس کہ حقیقی عید لانے کے لئے ہم نے کوئی کوشش نہیں کی.اگر ہم جھوٹے طور پر بھی عید عید کہیں گے گو ہمارا نفس تو جھوٹ بولے گا لیکن دراصل وہ بات کچی ہوگی.جیسے قرآن کریم میں آتا ہے کہ رسول کریم کے پاس منافق آکر کہتے کہ ہم گواہی دیتے ہیں تو اللہ کا رسول ہے اس پر خدا تعالیٰ نے کہا کہ یہ منافق جھوٹ بولتے ہیں لیکن اتنی بات ضرور سچ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کا رسول ہے.۱۳ پس اگر ہم جھوٹی عید بھی منائیں گے تو وہ سچ بن جائے گی کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کی تائید میں نہ ہوگی.نئے کپڑے بدل لینا ، عطر لگا لینا یا اچھے کھانے پکا لینا ایک ادنی شکل ہے.ہمیں اللہ تعالیٰ کی محبت اپنے دل میں پیدا کرنا چاہئے ، اس کی صفات کو یاد کرنا چاہئے ، اس کا ذکر کرنا چاہئے چاہے ہم اپنے دل سے ایسا نہ کر رہے ہوں صرف زبان سے ہی ذکر الہی کر رہے ہوں تا خدا تعالی کو بھی غیرت آ جائے اور وہ ہمارے جھوٹ کو سچ بنا دے.مثلاً ایک امیر شخص اپنے غلام کو دس تھپڑ مارے اور پھر اس سے کہے کہ تو نہیں تو وہ بظاہر آہا آہا کر دے گا تا اس کا مالک اس پر وش ہو جائے لیکن اس کا دل رو رہا ہو گا.اسی طرح اگر ہم بناوٹی عید محض خدا کی خوشنودی کے لئے منائیں گے تو خدا تعالیٰ بھی کہے گا کہ اس نے یہ بناوٹ صرف میری خاطر کی ہے اس میں جس چیز کی طاقت تھی اس نے اس کا اظہار کر دیا لیکن اِنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ قلبه ، دل میرے قبضہ میں ہیں ظاہری طور پر اس نے عید منالی ہے اندرونی طور پر میں اسے عید دیتا ہوں.
۴۷۵ پس جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ وہ ایسی باتیں کریں اور ایسا رنگ اختیار کریں جس سے معلوم ہو کہ واقع میں عید آگئی ہے.تمہیں خدا تعالیٰ نے دنیا کی اصلاح کے لئے مقرر کیا ہے تم کم از کم ظاہر ایسا بناؤ جو سچ کی تائید کے لئے ہو ایسا ظاہر نہ بناؤ جو جھوٹ کی تائید میں ہو.میرے پاس شکایت آئی ہے کہ بعض لوگ باتوں باتوں میں کہہ دیتے ہیں احمدی معاملات میں اچھے نہیں وہ خراب ہوتے جا رہے ہیں.ایسا کہہ کر وہ در حقیقت اپنے آپ کو مجرم بناتے ہیں کیونکہ جب خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ تمہارے لئے عید آئی ہے تو تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ عید نہیں آئی.خدا تعالیٰ کہتا ہے میں نے ان لوگوں کے ذریعہ باقی دنیا کی اصلاح کرنی ہے لیکن تم کہتے ہو ان میں فلاں نقص ہے، فلاں نقص ہے اگر ظاہری طور پر تمہیں بعض نقائص نظر بھی آتے ہوں تو تم کہو کہ گو ہمیں نقائص نظر آتے ہیں مگر ہم جھوٹے ہیں خدا تعالیٰ سچا ہے.رسول کریم میں ایم کیو ایم کے پاس ایک دفعہ ایک شخص آیا اور اس نے عرض کی.یا رسول اللہ میرے بھائی کے پیٹ میں سخت تکلیف ہے.آپ نے فرمایا اسے شہد پلاؤ.چنانچہ اس نے اسے شہد پلایا لیکن تکلیف پہلے سے بھی بڑھ گئی.وہ رسول کریم ملی دلیل مل کے پاس پھر دوبارہ گیا اور عرض کیا.یا رسول اللہ ! آپ کی ہدایت کے ماتحت میں نے اپنے بھائی کو شہر دیا تھا لیکن اس کی تکلیف بڑھ گئی ہے.آپ نے فرمایا اسے اور شہد دو.اس نے کچھ اور شہد دیا لیکن تکلیف پہلے سے بھی زیادہ ہو گئی.وہ پھر رسول کریم می لیہ کے پاس آیا.اور عرض کیا شہد تو میں نے اور بھی دیا ہے لیکن میرے بھائی کی تکلیف اور بڑھ گئی ہے.آپ نے فرمایا اسے اور شہد دو.تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے خدا تعالیٰ سچا ہے.جب اس نے کہا کہ شہد میں شفا ہے تو میں کس طرح مانوں کہ شہد کے ساتھ تمہارے بھائی کو شفا نہیں ہو سکتی.شاہ ممکن ہے کوئی کہہ دے کہ رسول کریم میں یا لال کی طلب نہیں جانتے تھے لیکن میں کہتا ہوں یہ بات درست نہیں.آپ روحانی طبیب تھے اس لئے جسمانی طب کے تمام اصول بھی سمجھتے تھے.آپ نے طبی اصول کی بناء پر ہی مریض کو شہد پلانا تجویز فرمایا.اگر وہ تیسری بار شهر پلا دیتا تو وہ یقینا تندرست ہو جاتا ممکن ہے اس نے ایسا کیا ہی ہو.ہم نے ایلو پیتھک اور ہو میو پیتھک کا مطالعہ کیا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ اسمال کا علاج بعض دفعہ ہلکے سے مسہل کے ذریعہ کیا جاتا ہے.تم اگر کسی ڈاکٹر کے پاس جاؤ اور کہو مجھے دست آتے ہیں تو وہ اکثر دفعہ تمہیں کسٹر آئل دے دے گا.کسٹر آئل پیچش کا علاج ہے اگر دست آتے ہوں اور ساتھ خراش بھی ہو تو اس کا علاج
کسٹرا ئل ہے.ہم سمجھتے ہیں کہ رسول کریم میں یہ کہ ہم نے جو کچھ فرمایا تھا وہ درست تھا اگر وہ کافی شہد پلا دیتا تو اس کا بھائی ضرور تندرست ہو جاتا ہے لیکن اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مقام یہ بھی ہے کہ انسان کے کہ مریض کا پیٹ جھوٹا ہے.آپ تو سمجھتے تھے کہ شہد پلانے سے مریض کو یقیناً صحت ہو جائے گی لیکن اس شخص کو یہ مقام حاصل نہیں تھا.اس کا مقام یہ تھا کہ وہ کہتا میرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے ورنہ جو علاج رسول کریم میں ہم نے تجویز فرمایا تھا وہی درست ہے.اس طرح جب خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں اپنے مامور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا اور فرمایا کہ عیسائیت اب شکست کھا جائے گی اور اکثر عیسائی اسلام کو قبول کرلیں گے اور دنیا میں رحم، انصاف ، عدل اور دیانتداری پیدا ہو جائے گی 11، تو چاہے بظاہر حالات تمہارا دل اسے مانے یا نہ مانے تم یہی کہو کہ جو کچھ خدا تعالیٰ نے کہا ہے وہی درست ہے.تمہارے نزدیک یہ جھوٹ ہی سہی لیکن تم جھوٹ کی شکل میں سچ بولو کیونکہ خدا تعالیٰ کا قول بہر حال سچا ہے.اگر تمہارے پاس کوئی اور شخص آتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ احمدی خراب ہوتے ہیں تو تم کہو مجھے بھی ایسا ہی نظر آتا ہے لیکن تم بھی جھوٹے ہو اور میں بھی جھوٹا ہوں.اگر خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ دنیا کی اصلاح انہی لوگوں کے ذریعہ ہوگی تو انہی لوگوں کے ہاتھوں سے اصلاح ہوگی.میں بھی تمہارے خیالات سے متفق ہوں لیکن ساتھ ہی نظر آ رہا ہے کہ میں بھی جھوٹا ہوں اور تم بھی جھوٹے ہو.تمہارا تو فرض تھا کہ تم خدا تعالیٰ کی خاطر عید مناتے لیکن تم نے تو ماتم کرنا شروع کر دیا ہے اس سے بڑھ کر اور بد قسمتی کیا ہوگی کہ خدا تعالیٰ تو عید دے اور تم ماتم کرو.پس تم خدا تعالیٰ کے کلام کے مناسب حال زبانیں بناؤ سبھی کامیابی ہوگی.تم اپنا مقصد اور مدعا مت بھولو.تمہارا مقصد یہ ہے کہ تم نے اسلام کے جھنڈے کو دنیا میں گاڑنا ہے.یہ مت خیال کرد که یہ لوگ غریب ہیں فقیر ہیں.بے شک یہ لوگ ظاہر میں غریب اور فقیر نظر آتے ہیں لیکن اسلام کا جھنڈا انہوں نے ہی گاڑنا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے یہی کہا ہے.اگر تمہارا دل نہیں مانتا تو بے شک نہ مانے ہم کہیں گے تمہارا دل جھوٹا ہے خدا تعالیٰ سچا ہے اس نے جو بات کی ہے وہ بہر حال بچی ہے.مجھے کوئی عزیز سے عزیز رشتہ دار بھی کسے کہ احمدیوں میں فلاں نقص ہے یا فلاں نقص ہے تو میں اسے جھوٹا ہی کہوں گا.پس تم یہ طریق اختیار کہ جماعت کے دوسرے دوستوں کے متعلق یہ کہو کہ وہ بڑے با اخلاق ہیں، بڑے بلند ہمت ہیں ركروكه
31 ۴۷ بڑے دیندار اور خدا رسیدہ ہیں کیونکہ اس سے تم خدا تعالی کی تائید کرو گے اور لوگوں میں نیکی ا کا جذبہ پیدا کرو گے اور اسی سے خدا تعالی کا فضل نازل ہو گا اور تمہارے دل کو بھی چین نصیب ہو گا اور ان کی بھی اصلاح ہوگی جن کے اندر کمزوری ہوگی.الفضل ۷ انو مبر ۱۹۵۴ء) لو المائدة : ۱۱۵ مفردات امام راغب صفحه ۳۵۸ مصری الشعراء : ۸۱ الاعراف:۱۵۷ اشارہ روس کی اشتراکی حکومت کی طرف ہے که هود :۲۹ که مولوی عبد المغنی خان صاحب ۶۱۸۸۷ - ۱۹۵۵ء.بیعت خلافت اوٹی.ملک عمر علی صاحب ۱۹۱۴ء.۱۹۶۴ء ڈیوڈ لائیڈ جارج ۱۸۶۳ء ۱۹۴۵ء ۱۰ لینن ۶۱۸۷۰ - ۱۹۲۴ء لله المائدة : ۱۵-۱۱۶ ۱۲ لیکچر سیالکوٹ صفحہ ۲۴-۲۸.اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ ۱۵ ل المنافقون: ٢ ل الانفال: ۲۵ ۱۵ صحیح بخاری کتاب الطب باب الدواء بالعسل - النحل :20 تذكرة الشہادتین صفحه ۶۴ - ۶۵ - " مسیح ہندوستان میں صفحہ ۷۰-۸۶
(۴۴) (فرموده ۱۲ مئی ۱۹۵۶ء بمقام مری) یہ عید جس کے خطبہ کے لئے میں کھڑا ہوا ہوں عید الفطر کہلاتی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ مہینہ بھر کے روزے رکھنے کے بعد مسلمان اس دن افطاری کرتے ہیں.اس عید میں ہم کو ایک بہت بڑا سبق دیا گیا ہے جیسا کہ عید الاضحیہ جسے ہمارے ملک میں بڑی عید کہتے ہیں اس میں بھی ہمیں کئی ایک سبق دیئے گئے ہیں وہ سبق جو اس عید میں ہمیں دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اصل عید وہ ہے جب انسان کو کھانے پینے کی توفیق ہو اور پھر وہ ایک لمبے عرصہ تک کھانے پینے سے گریز کرے اور مال و دولت کے ہوتے ہوئے اسے اپنی ذات پر خرچ نہ کرے بلکہ بنی نوع انسان کی خدمت کے کاموں پر خرچ کرے تب اسے اور اس کی قوم کو حقیقی عید میتر آتی ہے.انگریزوں پر لوگ بڑے بڑے اعتراض کرتے ہیں لیکن ان کی تاریخ پڑھو اور ملکہ ایلزبتھ ا سے لے کر ملکہ وکٹوریہ آ کے زمانہ تک اور وکٹوریہ کے زمانہ سے لے کر ترک ہندوستان ۳ تک ان کی قوم کو دیکھو تمہیں معلوم ہو گا کہ اس وقت انگریز جرنیل کو بھی اتنی تنخواہ نہیں ملتی تھی جتنی ہمارے لفٹنٹ کو ملتی ہے حالانکہ ان کا ملک گراں تھا.ان کا سارا فخر اس بات پر ہوا کرتا تھا کہ فلاں لارڈ کا لڑکا فوج میں ہے.وہ خود ڈیوک ہو تا تھا اور اس کی حیثیت ایسی ہی ہوتی تھی جیسے نواب بھوپال حیدر آباد کی حیثیت تھی مگر فوج میں اس کا لڑکا سو ڈیڑھ سو روپیہ تنخواہ لیتا تھا اور بڑا فخر سمجھا جاتا تھا کہ فلاں ڈیوک کا بیٹا ملک کی خدمت کر رہا.ہے.ہمارے کرنیل اور جرنیل بھی یہ توفیق نہیں رکھتے کہ ان کے پاس رئیس کے گھوڑے ہوں.مگر انگریزی زمانہ میں ان لفٹینٹوں کے پاس بھی ریس کے گھوڑے ہوا کرتے تھے.مجھے ایک دفعہ موٹر خریدنے کی ضرورت تھی مجھے یاد ہے ان دنوں اخبار میں فوج کے ایک انگریز لفٹنٹ کی طرف سے اشتہار چھپا کہ میرے پاس رولز رائس ہے میں چونکہ ولایت جانا چاہتا ہوں اس لئے جو شخص سب سے پہلے پچاس ہزار روپیہ دے گا اسے میں یہ کار دے دوں گا.اب دیکھو ایک لفٹنٹ تھا مگر وہ اعلان کر رہا تھا کہ میرے پاس رولز رائس" ہے اور میں پچاس ہزار
روپیہ میں فروخت کرنا چاہتا ہوں.ہمارے ہاں کسی جرنیل کو بھی یہ توفیق نہیں ہوتی کہ وہ یہ کار خرید سکے حالانکہ اس کی تنخواہ زیادہ ہوتی ہے.یہ فرق اس لئے ہے کہ وہ خاندانی لحاظ.امیر ہوتے تھے اور گھر سے روپیہ منگوایا کرتے تھے.انگریزوں میں دو قسم کے میجر ہوا کرتے تھے ایک تو وہ جو صرف تنخواہ پر گزارہ کرتا تھا اور وہ اونی سمجھا جاتا تھا اور دوسرے کو وائسرائے تک بلاتا تھا کیونکہ اس کا باپ اسے روپیہ بھیجتا تھا.گورنمنٹ سے اسے دو سو یا اڑھائی سو روپیہ ملتا تھا اور باپ اسے آٹھ دس ہزار روپیہ ماہوار بھیج دیتا تھا جس کے نتیجہ میں وہ ریس کے گھوڑے بھی رکھتا تھا اور بڑی شان سے رہتا تھا.کئی وائسرائے ایسے گزرے ہیں جنہوں نے اپنی لڑکیوں کی شادی فوج کے اے.ڈی.سی سے کر دی.اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ لفٹنٹ یا کپتان ہو تا تھا بلکہ وہ اس وجہ سے شادی کر دیتے تھے کہ ان کا باپ اتنی حیثیت کا مالک ہو تا تھا کہ وہ سمجھتے تھے اس لڑکے سے شادی کر دینے میں کوئی حرج نہیں.غرض اس قوم کی ہسٹری بتاتی ہے کہ اس نے اپنے اوپر رمضان گزارا ہے.ان کے گھروں میں مال بھی تھا مگر انہوں نے قوم کی خدمت کے لئے اور ملک کی خدمت کے لئے فاقہ کیا.یہی سبق ہے جو عید الفطر سے ہمیں حاصل ہوتا ہے.آخر روزے صرف غرباء نہیں رکھتے بلکہ امراء بھی رکھتے ہیں اور بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو خود بھی کھا سکتے ہیں اور پچاس اور کو بھی روزانہ کھلا سکتے ہیں مگر انہوں نے خدا تعالٰی کے لئے اور قوم کی ترقی کے لئے بھوک برداشت کی ہوتی ہے.اس کے بعد وہ دن آتا ہے کہ خدا کہتا ہے اب روزہ کھول دو اور رسول کریم یا یا وہ فرماتے ہیں کہ جو شخص عید کے دن روزہ رکھے وہ شیطان ہوتا ہے کہ لیکن رمضان میں روزہ رکھنے والا فرشتہ ہوتا ہے اس لئے کہ روزوں کے دنوں میں خدا کہتا ہے کہ نہ کھاؤ اور عید کے دن خدا کہتا ہے کہ اگر تمہارے پاس کچھ نہیں ہے تب بھی کھاؤ..پس چونکہ وہ خدا کی فرمانبرداری اور قوم کی ترقی کے لئے فاقہ کرتا ہے اس لئے اسے خدا کی طرف سے اعزاز مل جاتا ہے.پس یہ عید ہمیں توجہ دلاتی ہے کہ قومیں کس طرح ترقی کیا کرتی ہیں.ہمارے ملک کے لوگوں کی یہ حالت ہے کہ وہ ذرا ذرا سے فائدہ کے لئے ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں حالانکہ رمضان بتاتا ہے کہ دوسروں کا کیا چھینا ہے خود بھی فاقہ سے رہو اور جو کچھ تمہارے پاس ہے اسے بھی غرباء کی فلاح اور بہبود کے لئے خرچ کرو.یہ روح جس دن مسلمانوں میں پیدا ہو گئی در حقیقت وہی دن ان کے لئے حقیقی عید کا دن ہو گا
۴۸۰ کیونکہ رمضان نے ہمیں بتایا ہے کہ تمہاری کیفیت یہ ہونی چاہئے کہ تمہارے گھر میں دولت تو ہو مگر اسے اپنے لئے خرچ نہ کرو بلکہ دوسروں کے لئے کروں تب قوم کے لئے عید کا دن آتا ہے.آخر عید صرف کھانے پینے کا نام نہیں.مسلمانوں میں ایسے ہزاروں لوگ موجود ہیں جو روزانہ وہ کچھ کھاتے ہیں جو غرباء کو عید کے دن بھی میسر نہیں آتا.حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے زمانہ میں تعلیمی مدارس دیکھنے کے لئے میں نے ایک دفعہ دورہ کیا.کہ شاہجہانپور کے ایک برانے بزرگ ہیں ان کے والد جو مخلص احمدی اور شہر کے رکیں تھے انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بیٹا ہونے کی وجہ سے میری دعوت کی.میرے ساتھ سلسلہ کے علماء بھی تھے جب ہم کھانا کھانے بیٹھے تو کھانے اتنی کثرت کے ساتھ تھے اور اتنی دور تک ہوئے تھے کہ اگر ہاتھ کو پوری طرح لمبا بھی کر لیا جاتا تب بھی کھانوں کے آخر تک نہیں پہنچ سکتا تھا.میں اُس وقت بچہ تھا میں نے کہہ دیا کہ یہ اسراف ہے اس میں سے چوتھا حصہ بھی ہم نہیں کھا سکتے چاہئے تھا کہ جتنا روپیہ اس دعوت پر خرچ کیا گیا ہے اس کا زیادہ حصہ غرباء پر خرچ کر دیا جاتا اور ایک دو کھانے ہمارے لئے تیار کر لئے جاتے.اس پر وہ ایسے خفا ہوئے کہ جتنے دن میں وہاں رہا پھر وہ مجھے ملنے کے لئے نہیں آئے.اسی طرح حضرت عبدالرحمن بن عوف A مسلمانوں میں سب سے زیادہ امیر سمجھے جاتے تھے جب وہ فوت ہوئے تو ان کے گھر سے اڑھائی کروڑ دینار نکلا کہ حالانکہ اس زمانہ میں سکتہ کی قیمت بہت زیادہ ہوتی تھی اور چیزیں بڑی سستی مل جایا کرتی تھیں بلکہ وہ تو دور کا زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ سکھوں کے زمانہ میں بعض دفعہ آٹھ آٹھ آنے من غلہ مل جاتا تھا اور چار چار آنے سیر گھی مل جاتا تھا.پرانے زمانہ میں جب ہم کشمیر جاتے تھے تو سنا کرتے تھے کہ مری میں ڈیڑھ ڈیڑھ آنے میں مرغی مل جاتی ہے.ایسی جگہ اگر پندرہ روپے بھی کسی کو مل جاتے تو اس کا بڑا اچھا گزارہ ہو جاتا تھا.مجھے اپنی ہوش میں یاد ہے کہ دس گیارہ آنے سیر گھی مل جاتا تھا اور غریب آدمی عام طور پر ایک سیر گھی میں گزارہ کر لیتے ہیں.اسی طرح ڈیڑھ دو روپے من آٹا مل گیا تو گزارہ ہو گیا.اب ہمیں روپے بے شک زیادہ ملتے ہیں مگر مہنگائی بھی اس نسبت سے بڑھ گئی ہے اور اس طرح بات و میں آکر ٹھہری ہے جہاں پہلے تھی.مجھے یاد ہے کہ مولوی شیر علی صاحب لے چونکہ بیمار رہتے تھے اس لئے وہ اکثر دودھ پیا
MAI کرتے تھے.میں ان کا شاگرد تھا اور مجھے ان کے مکان پر بھی جانا پڑتا تھا.میں نے دیکھا کہ دودھ دینے والا روزانہ ان کے پاس آیا کرتا تھا مگر مہینہ کے بعد جب انہوں نے دودھ کا حساب کیا تو معلوم ہوا کہ روپیہ کا پندرہ سیر دودھ مل رہا ہے مگر اب سات آٹھ آنے سیر دودھ ملتا ہے.اس وقت اگر انہیں پندرہ ہیں روپے بھی ملتے ہوں تو خواہ بی.اے ہونے کی وجہ سے یہ بھی ایک قربانی ہوگی مگر پھر بھی اُس زمانہ کے لحاظ سے ان کا گزارہ اچھا ہو جاتا تھا.مجھے یاد ہے ابتدائی زمانہ خلافت میں میں اپنے گھروں میں پانچ روپیہ فی کس خرچ دیا کرتا تھا.اب میں اپنی بیویوں کو کہا کرتا ہوں کہ اُس زمانہ میں جو میری بیویاں تھیں وہ کتنی صابر تھیں کہ اتنی قلیل رقم میں وہ گزارہ کر لیا کرتی تھیں.اس پر وہ کہا کرتی ہیں کہ پہلے زمانہ کے بھاؤ کا آپ موجودہ بھاؤ سے مقابلہ کریں اور پھر دیکھیں کہ ہم کتنا خرچ کرتی ہیں.غرض عید الفطر ہمیں بتاتی ہے کہ اگر مسلمانوں نے ترقی کرنی ہے تو انہیں چاہئے کہ وہ اپنی دولت بجائے اپنے اوپر خرچ کرنے کے قوم اور ملک پر خرچ کیا کریں.جب فلسطین کا جھگڑا اٹھا ہے تو اُس وقت میری صحت اچھی تھی اور میں خوب کام کر سکتا تھا میں نے مسلمانوں کو توجہ دلائی کہ منہ سے فلسطین فلسطین کہنا اور عملی طور پر ان کی کوئی مدد نہ کرنا ایسی ہی بات ہے جیسے کہتے ہیں " سو گز واروں گز بھر نہ پھاڑوں." کہتے ہیں کوئی عورت تھی وہ بڑی جتاتی تھی کہ میں اپنا سب کچھ قربان کر دینے کے لئے تیار ہوں مگر گز بھر کپڑا بھی دینے کیلئے تیار نہیں ہوتی تھی.اسی طرح میں نے کہا تم بھی فلسطین فلسطین کے نعرے لگاتے ہو مگر تمہیں اتنی توفیق نہیں ملتی کہ تم عملی رنگ میں بھی کوئی کر سکو حالانکہ رسول کریم ملی وی کے مزار کے قریب دشمن آچکا ہے.اگر اور کچھ نہیں تو تم اپنی جائدادوں کا پانچ فی صدی ہی اس کام کے لئے وقف کر دو لا مگر انہوں نے کوئی توجہ نہ کی حالانکہ اگر و وہ اپنی جائدادوں کا صرف پانچ فی صدی ہی وقف کر دیتے تو کئی ارب روپیہ مصر اور شام کو دیا جا سکتا تھا اور دوسرے ممالک سے انہیں مد مانگنے کی ضرورت نہیں رہتی تھی.پاکستان میں اس وقت کئی کروڑ کی آبادی ہے اور اگر مسلمانوں کی جائیدادوں کا حساب لگایا جائے تو میرے نزدیک ساٹھ ستر ارب سے کم کی نہیں ہوں گی.پس پانچ فیصدی کے لحاظ سے تین ارب روپیہ یا ایک ارب ڈالر بن جاتا ہے اور اگر ایک ارب ڈالر مصر اور شام کو دے دیا جاتا تو وہ اس سے اپنی طاقت میں بہت کچھ اضافہ کر لیتے مگر اُس وقت انہوں نے میری بات کو نہ سنا اور عربوں نے یہ سمجھ لیا کہ ہم صرف " سو گز واروں " کہنا جانتے ہیں مگر عملی رنگ میں کوئی کام
۴۸۲ کرنے کے لئے تیار نہیں.پس ہمیں اس عید سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور کم سے کم اور اگر اور کچھ نہیں تو ہمیں اپنے دل میں یہ عہد کر لینا چاہئے جو کچھ خدا ہمیں دے گا ہم اسے اپنے نفسوں پر کم خرچ کریں گے اور اپنے ملک اور قوم پر اور غرباء پر زیادہ خرچ کریں گے.میں حضرت عبد الرحمن بن عوف کا واقعہ سنا رہا تھا کہ اڑھائی کروڑ دینار ان کے گھر سے نکلے مگر تاریخ بتاتی ہے کہ ان کے گھر کا روزانہ خرچ صرف اڑھائی درہم تھا.للہ اب کجا اڑھائی کروڑ دینار کی جائیداد اور کجا اڑھائی درہم خرچ.آج کل کے حساب سے درہم ساڑھے تین آنے کا ہے لیکن اُس زمانہ میں چونکہ سکہ کی قیمت زیادہ تھی اس لئے ایک درہم کے لحاظ سے ان کا ماہوار خرچ اگر دس روپیہ بھی قرار دو تب بھی پچیس روپے خرچ ہوا.گویا ۲۵ کروڑ کی جائیداد ان کے پاس تھی اور پچیس روپیہ مہینہ ان کے سارے گھر کا خرچ تھا مگر اب یہ حال ہے کہ ۲۵ روپیہ آمدن ہوتی ہے تو ساٹھ روپیہ خرچ ہوتا ہے اور دوسرے تیسرے مہینے شور مچ جاتا ہے کہ اتنا قرض ہو گیا ہے.ابھی پچھلے دنوں مجھے ایک عیسائی کے متعلق اطلاع ملی کہ وہ کہتا ہے مجھے چار سو روپیہ عیسائی دیتے ہیں اگر آپ مجھے چار سو روپیہ دینے کے لئے تیار ہوں تو میں ابھی مسلمان ہونے کے لئے تیار ہوں.میں نے کہا ایسے لوگ تو ہمیں لاکھوں مل سکتے ہیں بلکہ چار سو کیا پونے چار چار سو پر بھی لاکھوں لوگ اکٹھے کئے جاسکتے ہیں.ہمیں تو ان لوگوں کی ضرورت ہے جو محض خدا کی خاطر اسلام قبول کرنے کے لئے تیار ہوں ورنہ اگر ہم روپیہ دے کر لوگوں کو لانا چاہیں تو لاکھوں لوگ آنے کے لئے تیار ہو سکتے ہیں.حافظ روشن علی صاحب مرحرم ۱۳ سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ میں امر تسر گیا بازار سے گذر رہا تھا کہ ایک ملا ٹائپ آدمی ہاتھ میں میں پچیس روٹیاں اٹھائے ہوئے میرے پاس سے گذرا اور اس نے مجھ سے مصافحہ کیا.میں نے کہا میں آپ کو نہیں جانتا کہنے لگا آپ نہیں جانتے لیکن میں جانتا ہوں.میں مولوی ثناء اللہ صاحب کی مسجد کا امام ہوں.میں نے کہا پھر آپ نے مجھ سے مصافحہ کیوں کیا ہے؟ کہنے لگا اس لئے کہ میں دل سے احمدی ہوں.میں نے کہا تمہیں وہاں کوئی دقت تو پیش نہیں آتی.کہنے لگا کوئی دقت نہیں میں ہی ان کو نماز پڑھاتا ہوں اور وہ میرے لئے روٹی کا انتظام کر دیتے ہیں.اگر میں اپنے آپ کو ظاہر کر دوں تو پھر یہ روٹیاں آپ کو دینی پڑیں گی اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ یہی بہتر ہے میں ادھر مولوی ثناء اللہ صاحب کا اور ان کے ساتھیوں کو نمازیں پڑھا دیتا ہوں اور ادھر روٹیاں بھی ان سے لے لیتا ہوں.غرض روپیہ دے کر تو کئی لوگوں کو اکٹھا کیا جا
۴۸۳ سکتا ہے مگر وہ لوگ نہ اسلام کو کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ قوم اور ملک کے لئے ان کا وجود مفید ہو سکتا ہے.مذہب اور قوم اور ملک کے لئے وہی لوگ مفید ہوتے ہیں جو ہر قسم کی قربانیوں پر آمادہ رہنے والے ہوں.پس اس موقع پر ہمیں کم سے کم یہ عزم کر لینا چاہئے اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرنی چاہئے کہ عید الفطر میں جو سبق مخفی ہے وہ ہمیں حاصل ہو اور ہماری دولتیں ہمارے لئے نہ ہوں بلکہ قوم اور ملک کے لئے ہوں.میں سمجھتا ہوں کہ اگر پاکستان کے پچیس فیصدی مسلمان ہی یہ عہد کر لیں تو حقیقی عید انہیں میسر آ سکتی ہے.پھر نہ اسرائیل کا جھگڑا رہ سکتا ہے اور نہ کوئی اور مشکل انہیں پریشان کر سکتی ہیں مگر مصیبت یہی ہے کہ مسلمان صرف نعرے لگانا جانتے ہیں کام کرنا نہیں جانتے.دو تین سال ہوئے امریکہ نے شکاگو یونیورسٹی کے چانسلر کو ایشیا میں یہ پتہ لگانے کے لئے بھجوایا کہ ان ممالک میں کمیونزم کے پھیلنے کے کس قدر امکانات ہیں.وہ مجھے بھی ملنے کے لئے آیا.میں نے اس سے پوچھا کہ بتاؤ تمہیں کیا پتہ لگا؟ کہنے لگا مجھے اطمینان ہو گیا ہے کہ پاکستان میں کمیونزم نہیں پھیل سکتا.میں نے کہا کیوں؟ کہنے لگا اس لئے کہ اسلام کمیونزم کے خلاف ہے میں نے کہا یہ تو درست ہے مگر تم نے کبھی یہ بھی سوچا کہ کسی بڑے مولوی کو اگر ایک ہزار روپیہ بھی دے دیا جائے اور وہ آگے دوسروں میں دس دس روپے بھی تقسیم کر دے اور ان سے کہا جائے کہ وہ کمیونزم کی تائید میں تقریریں کریں تو وہ اس امر پر بھی تقریریں کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے کہ سارا قرآن کمیونزم سے بھرا ہوا ہے.اور پھر وہ یہ نعرے بھی لگوادیں گے کہ اسلام زندہ باد.کمیونزم زندہ رکھنے لگا یہ تو بڑی عجیب بات ہے.میں تو بڑا خوش تھا کہ یہاں کمیونزم کسی صورت میں بھی نہیں پھیل سکتا.میں نے کہا اصل بات یہ ہے کہ مسلمانوں کا تمام مدار صرف نعروں پر ہے عملی لحاظ سے وہ اپنے اندر کوئی تغیر پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتے اور جب تک سلو گنز پر کوئی قوم انحصار رکھتی ہے وہ جیت نہیں سکتی.وہ باہر اسلام زندہ باد کے نعرے لگا ئیں گے اور گھر میں آکر شراب پینے اور کنچنیاں نچوانے میں بھی کوئی عار نہیں سمجھیں گے.۱۹۵۳ء میں جب فسادات ہوئے کل تو ایک احمدی جو پچھتر سال کی عمر کا تھا لوگوں نے اس پر حملہ کر دیا اور کہا کہ تو بہ کرو اس نے کہا اچھا میری تو بہ اور لوگ خوش خوش واپس چلے گئے.وہاں کے ملاں نے یہ بات سنی تو اس نے لوگوں سے کہا اس نے تمہیں دھوکا دیا ہے.تم اس سے جا کر کہو کہ وہ ہمارے پیچھے آکر نماز پڑھے.چنانچہ وہ پھر اس کے پاس آئے اور کہنے باد.
۴۸۴ لگے تم نے ہمارے ساتھ دھوکا کیا ہے.ملاں نے ہمیں سمجھا دیا ہے کہ جب تک تم ہمارے پیچھے آکر نماز نہ پڑھو تمہاری توبہ پر ہم کوئی اعتراض نہیں کر سکتے.وہ کہنے لگا اگر تو بہ کے بعد بھی نمازیں ہی پڑھنی ہیں تو یہ تو بہ تو مرزا صاحب 11 بھی بڑی کرایا کرتے تھے.میں نے تو سمجھا تھا کہ اب جان بچی.ساری عمر یہ مصیبت رہی کہ مرزا صاحب کہتے رہے نہ سینما دیکھو نہ کنچھنیوں کا ناچ دیکھو نہ شراب پیو' نہ جوا کھیلو.اسی طرح وہ کہتے تھے کہ نمازیں پڑھو، روزے رکھو میں نے تو شکر کیا تھا کہ ان چیزوں سے نجات ملی اب سینما دیکھیں گے، کہنچنیاں نچوا ئیں گے ، شرابیں پیئیں گے اور خوب عیش کریں گے تم نے تو پھر کہنا شروع کر دیا ہے کہ نماز پڑھو اگر نماز ہی پڑھنی تھی تو یہ نماز تو مرزا صاحب بھی پڑھوایا کرتے تھے.اس پر وہ شور مچاتے ہوئے واپس چلے گئے کہ مرزائی بڑے شرارتی ہوتے ہیں.پس اپنے اندر حقیقی ایمان پیدا کرو.اگر تم اپنے اندر سچا ایمان پیدا کر لو اور اپنی آئندہ نسلوں کو بھی اس رنگ میں رنگین کرنے کی کوشش کرو تو صرف تم کو ہی نہیں بلکہ تمہاری نسلوں کو بھی عید الفطر نصیب ہوگی.اور جب تم بھی اسلام پر قائم ہو جا ہو جاؤ گے اور تمہاری نسلیں بھی ایمان کے اعلیٰ مقام پر قائم ہو جائیں گی اور باقی مسلمان بھی اسلام پر عمل کرنا اپنا دستور بنالیں گے تو اسلامی کانسٹی ٹیوشن خود بخود قائم ہو جائے گی لیکن اگر مسلمان اسلام پر عمل نہ کریں ، وہ نمازیں نہ پڑھیں ، وہ روزے نہ رکھیں ، وہ حج نہ کریں، وہ زکوۃ نہ دیں ، وہ ہر قسم کی مناہی کا ارتکاب کریں اور ساتھ ہی اسلامی کانسٹی ٹیوشن کا بھی شور بچاتے چلے جائیں تو یہ ایک بے معنی بات ہوگی.جب پاکستان کا قیام ہوا تو میں نے کوئٹہ میں ایک تقریر کرتے ہوئے کلاہ مسلمانوں سے یہی کہا تھا کہ تم اسلامی کانسٹی ٹیوشن کا شور مچانے کی بجائے یہ سوچو کہ تمہارے اندر اسلام پر کہاں تک عمل پایا جاتا ہے.اگر تم اسلام پر عمل نہیں کرتے تو تمہاری مثال اُن اینٹوں کی سی ہے جو کچی ہیں اور کچی اینٹوں سے بنا ہوا امکان کبھی پکا نہیں ہو سکتا وہ بہرحال کچا ہی ہو گا کیونکہ اینٹیں کچی ہوں گی.جس طرح کچی اینٹوں سے بنا ہوا امکان پکا نہیں ہو سکتا اسی طرح اگر افراد کا عمل اسلام پر نہ ہو تو ان کا مجموعہ بھی غیر اسلامی ہو گا لیکن اگر افراد کے مسلمان بن جائیں اور وہی اسمبلی میں جائیں تو ان کے ذریعہ جو کانسٹی ٹیوشن بنے گی اُسے اُن اسلامک قرار نہیں دیا جا سکے گا کیونکہ پکے مسلمان اس کے ممبر ہونگے.پس سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ مسلمان اپنے اندر تغیر پیدا کریں اور اسلامی احکام پر عمل کریں مگر اُس وقت میری بات کو نہ سنا گیا اب
۴۸۵ وہی بات کہی جا رہی ہے اور اخبارات میں بھی اس کے متعلق لکھا جاتا ہے.پس اپنے اندر نیک عزائم پیدا کرو اور پھر دعائیں کرو کہ اللہ تعالی مسلمانوں کو پکا مسلمان بنائے اور ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہمارا اٹھنا بیٹھنا، سونا اور جاگنا بلکہ ہماری زندگی اور ہماری موت اسلام کے لئے ہو ۱۸ اور ہم محمد رسول اللہ م ل ل ا و ریمیک کی عزت کے لئے صرف نعرے نہ لگا ئیں بلکہ حقیقی قربانی کریں جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے اکلوتے بیٹے کو خدا تعالی کی راہ میں قربان کر دیا تھا اُسی طرح خدا تعالٰی ہمیں توفیق دے کہ ہم بھی اپنے بیٹوں اور اپنی جانوں کو اس کی راہ میں قربان کر دیا کریں.جس دن ہم میں یہ جذبہ پیدا ہو جائے گا ہماری ترقی کو نہ امریکہ روک سکتا ہے نہ انگلستان روک سکتا ہے نہ کوئی اور ملک روک سکتا ہے پھر ہماری عید ہی عید ہوگی اور خوشی کے دن کے سوا اور دن ہمارے لئے نہیں ہو گا.اب میں دعا کروں گا دوست بھی دعا کریں نہ صرف اپنے لئے بلکہ ساری جماعت کے لئے.ہمارا سب سے پہلا فرض یہ ہے کہ ہم اپنی اصلاح کریں.پھر ہمارا فرض ہے کہ جماعت کی اصلاح کریں.پھر ہمارا فرض ہے کہ پاکستان کے مسلمانوں کی اصلاح کریں اور پھر ہمارا فرض ہے کہ ہم پاکستان کے باہر کے مسلمانوں کی اصلاح کریں اور پھر ساری دنیا کی اصلاح کریں مگر ایک انسان کی اصلاح بھی کسی انسان کی طاقت میں نہیں ہے.اس کا علاج یہی ہے کہ ہم اپنے خدا کے حضور گڑگڑائیں اور اس سے دعائیں کریں کہ الٹی ! دل تیرے قبضہ میں ہیں تو ہی لوگوں کے دلوں کی اصلاح فرما اور انہیں اسلام کی طرف کھینچ.میں جب انگلستان اپنے علاج کے لئے گیا 19 تو عید کی تقریب پر ڈسمنڈ شا ۲۰ بھی آیا.جب میں واپس گھر کی طرف آیا اور اندر داخل ہونے لگا تو مجھے اپنے پیچھے کی طرف سے آہٹ آئی.میں نے مڑ کر دیکھا تو ڈسمنڈ شا آ رہا تھا.میں نے کہا تم تو رخصت ہو گئے تھے.کہنے لگا میرے دل میں ایک سوال پیدا ہوا تھا میں نے چاہا کہ آپ سے پوچھ لوں.میں نے کہا پوچھو کیا ہے سوال ہے.کہنے لگا جب میں یہ تقریر کرتا ہوں کہ محمد رسول اللہ لیا اور سب سے بڑے آمن.پسند نبی ہیں تو مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ میری زبان سے خدا بول رہا ہے مگر لوگوں پر اثر نہیں ہوتا.میں نے کہا ڈسمنڈ شا! خدا جب بولتا ہے تو دل میں بولتا ہے اور تم لوگوں کے کان میں بولتے ہو.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک کان سے سن کر دو سرے کان سے نکال دیتے ہیں.جس دن خدا لوگوں کے دلوں میں بھی بولا ان پر بھی اثر ہو جائے گا.وہ ہنس پڑا اور کہنے لگا
۴۸۶ معلوم ہوتا ہے بات یہی ہے.میں نے کہا تم انتظار کرو اور اللہ تعالٰی سے دعائیں مانگو کہ جب تم بولا کرو تو خدا تعالیٰ صرف تمہاری زبان سے نہ بولے بلکہ لوگوں کے دلوں میں بھی بولے جس دن وہ لوگوں کے دلوں میں بولنے لگے گا لمبی چوڑی تقریروں کی ضرورت ہی نہیں رہے گی سارا یورپ تمہاری بات ماننے لگ جائے گا.پس دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں بھی بولے اور پھر سارے پاکستان اور پاکستان سے باہر جس قدر غیر مسلم ہیں ان کے دلوں میں بھی بولے تا کہ وہ بھی رسول کریم میں ای لاو یو پر درود بھیجنے لگ جائیں.جب یہ ہو جائے گا تو ہماری مشکلات دور ہو جائیں گی اور مبلغین کی کوفت بھی جاتی رہے گی اب تو وہ دس دس سال میں کسی ایک کو شکار کر کے لاتے ہیں.مگر پھر وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا ال کا نظارہ نظر آنے لگے گا اور ہزاروں ہزار لوگ اسلام میں داخل ہونے لگ جائیں گے.مگر یہ دن! لانا خدا کے اختیار میں ہے ہمارے اختیار میں نہیں.ہم لوگوں کے کانوں میں بولتے ہیں اس لئے وہ کورے کے کو رے رہتے ہیں.ہم اپنا گلا بھی پھاڑتے ہیں مگر وہ کپڑے جھاڑ کر چلے جاتے ہیں.جب خدا ان کے دلوں میں بولے گا تو اس کی آواز کانوں پر نہیں بلکہ دل پر پڑے گی اور دل کو کوئی جھاڑ نہیں سکتا اس لئے وہ ہمیشہ ان کے اندر رہے گی.الفضل ۱۸ اپریل ۱۹۵۸ء) ۶۱۶۰۳ - ۶۱۵۳۳ +19+1_1A19 سے ۱۵۱۴ اگست ۱۹۴۷ء ه صحیح بخاری کتاب العيدين باب الاكل يوم الفطر قبل الخروج صحیح بخاری کتاب الصوم باب صوم يوم الفطر البقرة :۱۷۸ الذريت:۲۰ ک تاریخ احمدیت جلد ۴ صفحه ۵۵۰ حضرت عبد الرحمن بن عوف - بنو زہرہ - ۶۵۷۹ - ۶۵۲ء عہد عثمانی میں وفات پائی.و سیر الصحابہ حصہ اول صفحه ۱۲۰ حضرت مولوی شیر علی صاحب (۱۹۴۷۶۱۸۷۵ء) مترجم قرآن کریم انگریزی و ایڈیٹر
۴۸۷ تفسیر القرآن انگریزی للہ حضور نے یہ تحریک اپنے مضمون الكفرملة واحدة (الفضل ۲۱.مئی ۱۹۴۸ء) میں فرمائی.اور مسلمانوں کو توجہ دلائی کہ وہ اپنی جائیدادوں کا ایک فیصد فلسطین کے لئے پیش کریں نیز فرمایا." آج ریزولیوشن سے کام نہیں ہو سکتا آج قربانیوں سے کام ہو گا " معلوم ہوتا ہے کہ اس خطبہ میں اپنی ۱۹۴۸ء کی تحریک کا ذکر کرتے ہوئے بر غلطی سے سے حضور نے ایک فیصد کے بجائے پانچ فیصد حصہ جائیداد برائے فلسطین کا ذکر کر دیا ہے.ویسے یہ بھی ممکن ہے کہ انہی دنوں حضور نے پانچ فیصد حصہ جائیداد پیش کرنے کی بھی تحریک فرمائی ہو جس کی رپورٹ اخبارات میں شائع نہ ہو ۱۲ شاید سکی.(واللہ اعلم بالصواب) ۱۳ حضرت حافظ روشن علی صاحب ۱۸۸۲ء.۱۹۲۹ء ۱۴ مولوی ثناء اللہ صاحب مشهور معاند احمدیت.امیراہل حدیث ۱۹۴۸ء ها ۱۹۵۳ء میں جماعت احمدیہ کے خلاف شورش کی طرف اشارہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام مراد ہیں.که تقریر فرموده ۱۴ جون ۱۹۴۸ء بمقام پارک ہاؤس.کوئٹہ مطبوعہ الفضل ۲۱.جون JA ۱۹۴۸ء الانعام: ١٦٣ ۱۹۵۴ء میں عبدالحمید نامی مخالف احمدیت نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی پر جب آپ نماز عصر پڑھا کر مسجد مبارک ربوہ سے باہر تشریف لے جا رہے تھے پیچھے سے چاقو کا حملہ کیا تھا جس سے گردن پر گہرا زخم لگا تھا جس کی وجہ سے حضور کو عرصہ تک تکلیف رہی اسی سلسلہ میں ۱۹۵۵ء میں حضور علاج کی غرض سے انگلستان تشریف لے گئے تھے.۲۰ اصل نام شاد سمنڈ ۱۹۶۰ء آئرش ناول نویس.مصنف.مقرر ال النصر : ٣
۳۸۸ (۴۵) (فرموده ۲.مئی ۱۹۵۷ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ ) مجھے آج پھر معذرت کرنی پڑتی ہے کہ میں کوئی لمبا خطبہ نہیں پڑھ سکتا بلکہ لمبا خطبہ تو الگ رہا میں چھوٹا خطبہ پڑھنے سے بھی معذور ہوں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ رمضان کے ایام میں میرے منہ میں تکلیف ہو گئی اور مسوڑھوں میں ایک جگہ پیپ پڑ گئی جس کو ڈاکٹر عبد الحق صاحب نے لاہور سے آکر نکالا اور اس کی وجہ سے قریباً سارا رمضان دانت استعمال نہیں ہو سکے.اگر خالی مسوڑھے ہوں اور دانت نہ ہوں تب بھی ایک حد تک غذا چبائی جا سکتی ہے لیکن اگر کچھ دانت ہوں اور دانت دانت پر لگ رہے ہوں تو جہاں دانت نہیں ہوتے وہاں خلا بن جاتا ہے جس کی وجہ سے غذا اچھی طرح چبائی نہیں جا سکتی.حضرت اماں جان ۸۶۰۲ سال کی عمر میں بھی مسوڑھوں سے غذا چبا لیا کرتی تھیں حالانکہ ان کے سارے دانت گر گئے تھے.پس ایک تو مسوڑھوں کی تکلیف کی وجہ سے غذا بغیر چہائے معدہ میں جاتی رہی جس کی وجہ سے اسہال کی تکلیف ہو گئی اور اس سے طبیعت میں ضعف پیدا ہوا.اس کے علاوہ طبیعت کی کمزوری کی ایک اور وجہ بھی ہوئی اور وہ یہ ہے کہ ۱۹۵۵ء میں رمضان کے قریب ہی مجھ پر فالج کا حملہ ہوا تھا ہم کراچی میں تھے رمضان شروع ہوا جس کی وجہ سے اس سال تلاوتِ قرآن نہ ہو سکی.پھر ۱۹۵۶ء آیا تو اس سال بھی رمضان کے مہینہ میں فالج کا اثر ابھی باقی تھا جس کی وجہ سے تلاوت نہ ہو سکی.اس دفعہ میں نے تلاوت پر زور دیا تاکہ پچھلی کسر نکل سکے اس کی وجہ سے بھی ضعف ہوا.فالج کا اثر جو کچھ کچھ باقی ہے وہ آنکھوں پر محسوس ہوتا ہے چنانچہ آنکھیں بڑی جلدی کام کرنے سے تھک جاتی ہیں.سامنے آدمی بیٹھا ہوا ہوتا ہے مگر وہ ذرا ادھر اُدھر ہو جائے تو مجھے پتہ نہیں لگتا کہ وہ کہاں گیا ہے اور میں اسے پہچان نہیں سکتا.پھر اس کا اثر جلد ہی حافظہ پر بھی پڑتا ہے اور میں تھوڑی ہی دیر میں بھول جاتا ہوں کہ مجھے کون ملا تھا.بہر حال تلاوت کی وجہ سے بیماری کی تکلیف اور بھی بڑھ گئی اور حافظہ کی کمزوری جس میں کافی کمی آگئی تھی.پھر زیادہ ہو گئی.پچھلے سال ۱۹۵۶ء میں مجھے لمبا آرام مل گیا تھا اس کی وجہ سے کمزوری
۴۸۹ کسی حد تک دور ہو گئی تھی اور حافظہ میں چستی پیدا ہو گئی تھی.۱۹۵۵ء میں یہ تکلیف بہت زیادہ تھی جو سال کے آخر تک بلکہ ۱۹۵۶ء کے شروع تک رہی اس کے بعد مری ایبٹ آباد اور جابہ سے میں کچھ آرام ملا تو اس میں کمی آئی شروع ہو گئی بلکہ قریباً اس کی اصلاح ہی ہو گئی لیکن اس دفعہ پھر بیماریوں کے مجموعہ کی وجہ سے خرابی زیادہ محسوس ہوتی ہے اس لئے میں لبی دیر تک بول نہیں سکتا.میں دوستوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری عید دراصل وہی ہو سکتی ہے جو محمد رسول اللہ میں اللہ کی عید ہو.اگر ہم تو عید منائیں لیکن محمد رسول اللہ مل لیل و نہ منائیں تو ہماری عید قطعا عید نہیں کہلا سکتی بلکہ وہ ماتم ہو گا جیسے کسی گھر میں کوئی لاش پڑی ہو ان کا کوئی بڑا آدمی فوت ہو گیا ہو تو لاکھ عید کا چاند نکلے، ان کے لئے عید کا دن ماتم کا ہی دن ہو گا.اسی طرح ایک مسلمان کے لئے چاہے محمد رسول اللہ میں اللہ کی وفات پر ۳۰۰ سال سے زیادہ عرصہ گذر چکا ہے اگر اس کی عید میں محمد رسول اللہ لی ولی شامل نہیں اور اگر وہ اس ظاہری عید پر مطمئن ہو جاتا ہے تو اس کی عید کسی کام کی نہیں.بیشک اس دن خدا تعالٰی نے ہمیں خوش ہونے کا حکم دیا ہے اور ہم خوشی منانے پر مجبور ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ہمارے دلوں کو چاہئے کہ وہ روتے رہیں کہ ابھی محمد رسول اللہ لی لی لی لی لی اور اسلام کی عید نہیں آئی.محمد رسول اللہ ملی یم اور اسلام کی عید سویاں کھانے سے نہیں آتی نہ شیر خرما کھانے سے آتی ہے بلکہ ان کی عید قرآن اور اسلام کے پھیلنے سے آتی ہے.اگر قرآن اور اسلام پھیل جائیں تو ہماری عید میں محمد رسول اللہ ملی بھی شامل ہو جائیں گے اور آپ خوش ہوں گے اگر چہ مجھے فوت ہوئے ۱۳۰۰ سال سے زائد عرصہ گذر چکا ہے لیکن جس مشن کو لے کر میں دنیا میں آیا تھا ابھی تک میری امت نے اسے قائم رکھا ہوا ہے.پس کوشش یہی کرو کہ اسلام کی اشاعت ہو، قرآن کی اشاعت ہو، تاکہ ہماری عید میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل ہوں اگر آج کی عید محمد رسول اللہ میل کی بھی عید ہے تو پھر سارے مسلمانوں کی عید ہے لیکن اگر آج کی عید میں محمد رسول اللہ میں شامل نہیں تو پھر آج سارے مسلمانوں کے لئے عید نہیں بلکہ ان کے لئے ماتم کا دن ہے.پس اس نکتہ کو یاد رکھو بے شک ایک حد تک ہماری جماعت کو تبلیغ اسلام کا موقع ملا ہے مگر ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ چیز ہمارے اندر اس قدر گھر کر گئی ہے کہ ہماری اولادوں میں بھی
۴۹۰ ان پر سینکڑوں سال تک چلی جائے گی.ابھی ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ بعض لوگوں کی اولاد میں اگر چہ سینکڑوں سال نہیں گذرے ابھی سے اپنے باپ دادوں والا اخلاص نہیں پایا جاتا حالانکہ ہماری اصل عید تبھی ہو سکتی ہے جب قیامت تک محمد رسول اللہ مال کا جھنڈا کھڑا رکھا جائے.اگر ہمیں یہ نظر نہ آئے اور ہماری اولادوں میں اتنا جوش نہ ہو کہ ہمارے مرنے کے بعد بھی وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ کے نام اور اسلام کی تعلیم کو دنیا میں پھیلاتی رہیں گی تو پھر ہمیں ڈر ہی رہنا چاہئے کہ اس وقت اگر عارضی طور پر ہمارے لئے عید ہے تو تھوڑے ہی عرصہ کے بعد ا کہیں خدانخواستہ ہمارے لئے ماتم نہ ہو جائے.پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ایسی اصلاح کریں.کہ ان کو یقین ہو جائے کہ وہ قیامت تک اسلام کا جھنڈا کھڑا رکھیں گے اور محمد رسول اللہ کی تعلیم کو دنیا میں پھیلائیں گے تاکہ ہماری زندگی ہی عید والی نہ ہو بلکہ ہماری موت بھی عید والی ہو.کسی شاعر نے کہا ہے کہ اے انسان! جب تو دنیا میں پیدا ہوا تھا تو اس وقت تو رو رہا تھا اور لوگ ہنس رہے تھے.در حقیقت بچہ کا سانس رکا ہوا ہوتا ہے جب وہ پیدا ہوتا ہے تو پہلی دفعہ اس کے پھیپھڑوں میں ہوا جاتی ہے اس وجہ سے بچہ پیدائش کے بعد ضرور شیخ مارتا ہے.پس وہ کہتا ہے کہ جب تو پیدا ہوا تھا تو اس وقت تو رو رہا تھا اور لوگ ہنس رہے تھے کہ ہمارے گھر میں بچہ پیدا ہو گیا ہے.اب تجھے چاہئے کہ تو ایسے نیک اعمال کر اور دنیا کے ساتھ ایسا نیک سلوک اور معاملہ کر کہ جب تو مرے تو تو ہنس رہا ہو اور لوگ رو رہے ہوں.تو اس لئے ہنس رہا ہو کہ اب میری خدمات اور نیک اعمال کا نتیجہ خدا تعالی کی طرف سے ملے گا اور لوگ رو رہے ہوں کہ ایسا اچھا آدمی ہم سے جدا ہو گیا ہے.کہ تو ہم اگر اپنی اولادوں کو اسلام پر قائم کر جائیں اور ہمیں یقین ہو کہ وہ اس کا جھنڈا کھڑا رکھیں گی تو یقیناً ہماری موتیں ایسی حالت میں ہوں گی کہ ہم ہنس رہے ہوں گے اور لوگ رو رہے ہوں گے اور یہی وہ موت ہے جس کی ایک مومن کو تمنا ہونی چاہئے.مرنا تو ہر ایک نے ہے مگر ایسی موت کہ انسان کو خدا تعالیٰ کے فرشتے خوشخبری دے دیں کہ تو خدا تعالی کی گود میں جائے گا اور فرشتے تیرے محافظ ہوں گے اور تیری اولاد تیرے بعد اسلام کا جھنڈا کھڑا رکھے گی موت نہیں ہوتی بلکہ خوشی کی گھڑی ہوتی ہے.پس ایسا رویہ اختیار کرو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اور تمہاری اولادوں کے لئے ہمیشہ
۴۹۱ ہمیش کے لئے عید بنائے.اولادوں کی بات تو بہت دور کی ہے ہم تو چاہتے ہیں کہ یہ سال ختم بھی نہ ہونے پائے اور ہمارے لئے کچی عید آجائے کیونکہ آج سے ۵۰ - ۶۰ سال کے بعد دیکھنا بوڑھوں کو کب نصیب ہو گا.یوں تو جوان آدمی کے لئے بھی ایک دن زندہ رہنے کی امید نہیں ہوتی لیکن بہر حال اس کی عمر کو دیکھ کر خیال کیا جا سکتا ہے کہ وہ اتنا عرصہ زندہ رہ سکے گا مگر بوڑھا آدمی تو پانچ دس سال زندہ رہنے کی بھی امید نہیں کر سکتا.پس ہمیں تو چاہئے کہ دعائیں کریں کہ خدا ہمیں ایسی عید نصیب کرے کہ ابھی یہ دن بھی ختم نہ ہو کہ ہمارے لئے کچی عید آ جائے اور اسلام کی فتح کی خبریں ہمیں چاروں طرف سے آنے لگ جائیں.پس تم دعاؤں میں لگے رہو تاوہ عید جو کچی اور حقیقی عید ہے ہمارے قریب آ جائے.اب کی دفعہ خدا تعالیٰ نے دو عیدوں کو جمع کر دیا ہے.آج بھی عید ہے اور کل جمعہ ہے جو مسلمانوں کے لئے عید کا دن ہے ، گویا دو عید میں جمع ہو گئی ہیں.خدا تعالیٰ ان دو ظاہری عیدوں کے ساتھ باطنی عید بھی ملا دے تو اس کے فضل سے یہ کوئی بعید بات نہیں.(الفضل ۸ مئی ۱۹۵۷ء) لے ڈاکٹر محمد عبد الحق صاحب ولد کرم علی صاحب ۱۸۹۸ء بیعت ۱۹۲۵ء حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ ۶۱۸۶۸ - ۱۹۵۲ء.رخصتانه ۱۸۸۴ء سرگودھا.راولپنڈی روڈ پر خوشاب سے قریباً ۴۰ میل پر ایک گاؤں ہے یہاں حضور نے گاؤں سے ہٹ کر ایک بستی آباد کی جس کا نام محلہ رکھا.انت الذي ولدتك امک باكيا والناس حولك يضحكون سرورا فاحرص على عمل تكون اذا بكوا في وقت موتک ضاحكا مسرورا مجانی الادب ۳ بحوالہ دروس الادب صفحہ ۹۰ سنن ابی داؤد باب اذا وافق يوم الجمعة يوم عيد -
۴۹۲ (۴۶) فرموده ۲۱.اپریل ۱۹۵۸ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ) کچھ دن ہوئے میں نے رویا میں دیکھا کہ ایک مجلس ہے اور بہت سے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں.میں ان میں بڑھتا چلا جاتا ہوں چلتے چلتے میں نے دیکھا کہ آگے قاضی ظہور الدین صاحب اکمل لے بیٹھے ہوئے ہیں اور میں ان کے پاس سے ہو کر گذرا ہوں.میں نے اس کی یہ تشریح کی کہ الدین سے مراد اسلام ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے اللہ تعالٰی فرماتا ہے اِنَّ الدِّيْنَ عِندَ اللهِ الْاِسلام کے پس اس لحاظ سے ظہور الدین اکمل کے یہ معنی ہونگے کہ ظہور الاسلام اکمل.یعنی خدا تعالیٰ نے ارادہ کر لیا ہے کہ وہ اسلام کو دنیا میں کامل طور پر غالب کرے.یہ ایک بہت بڑی خوشخبری ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس عید کے دن جب کہ سب لوگ اپنے اپنے دوستوں کو تحفے دیتے ہیں اس غریب جماعت کو یہ تحفہ دے کر اس کے ہاتھوں سے اسلام کو دنیا پر غالب کرے اور کامل طور پر غالب کرے یہاں تک کہ دنیا میں خدا تعالی کو رسول کریم ملی کو اور اسلام کو بُرا کہنے والا کوئی باقی نہ رہے.تمام کے تمام ایمان لانے والے ہوں اور اپنے ایمان اور اخلاص کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی توحید اور خدا تعالی کی شان کے بڑھانے اور اسے پھیلانے والے ہوں.پھر چند روز ہوئے میں نے دیکھا کہ میں ایک مجلس میں بیٹھا تقریر کر رہا ہوں ذہن میں تو نہیں مگر وہ ایسا ہی مجمع ہے جیسے عید کا مجمع ہوتا ہے اور میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ دیکھو گو اس وقت تلوار کا جہاد نہیں ہے مگر تبلیغ کا جہاد ہے جو تلوار کے جہاد سے زیادہ آسان ہے.تم رسول کریم معلم کے صحابہ کو دیکھو کہ انہوں نے ایمان لانے کے بعد ایسا اخلاص دکھایا کہ یا تو وہ اتنے بتوں کو پوجتے تھے کہ ہر دن میں ایک ایک بت آجاتا تھا اور یا پھر وہ توحید کا جھنڈا اٹھا کر دنیا میں نکل گئے اور اس کے کناروں تک پھیل گئے انہوں نے ایران فتح کیا، عرب فتح کیا افغانستان فتح کیا اور پھر سندھ کے ذریعہ سے ہندوستان فتح کیا، پھر مصر فتح کیا، پھر ٹیونس اور مراکش فتح کیا، پھر ہسپانیہ فتح کیا، پھر تاریخوں سے ثابت ہے اور بعض آثار قدیمہ بھی ایسے ملتے
3% الله ۴۹۳ ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ پھر مسلمانوں میں سے بعض جہازوں پر بیٹھ کر امریکہ چلے گئے جہاں اب تک بھی ایک پرانی مسجد باقی ہے اور کولمبس ۳ نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ میں نے جو امریکہ دریافت کیا ہے تو اس کی اصل تحریک مجھے ایک مسلمان بزرگ کی تحریر سے ہوئی ہے اس کا اشارہ حضرت محی الدین صاحب ابن عربی آہ کی طرف تھا.انہوں نے اپنی کتاب "فتوحات مکیہ " میں لکھا ہے کہ میں نے مغرب کی طرف دیکھا تو مجھے نظر آیا کہ سمندر کے پرے ایک اور ملک بھی ہے.چنانچہ جب لوگوں نے کولمبس پر اعتراض کیا اور بادشاہ نے اس کو روپیہ دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ تجھے وہم ہو گیا ہے اور تو پاگل ہے تو اس نے کہا نہیں میں نے یہ بات ایسے لوگوں سے سنی ہے جو کبھی جھوٹ نہیں بولتے یعنی مسلمانوں سے اور پھر انہوں نے بھی یہ بات اپنے ایک بہت بڑے بزرگ کے حوالہ سے کسی ہے اس لئے میں ضرور کامیاب ہوں گا اگر ناکام واپس آیا تو آپ کا اختیار ہے کہ جو چاہیں مجھے سزا دیں.آخر ملکہ نے اپنے زیور بیچ کر اس کے لئے روپیہ مہیا کیا.پادری اس وقت اتنے احمق تھے کہ ایک پادری نے دربار میں تقریر کی کہ یہ تو پاگل ہو گیا ہے اور عیسائیت کے خلاف تقریریں کرتا ہے.اُس وقت پادریوں کا خیال تھا کہ زمین چپٹی ہے گول نہیں اس نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اگر زمین گول ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی علاقہ اور بھی ہے جہاں انسانوں کا سر نیچے ہوتا ہے اور ٹانگیں اوپر اور بارش بھی اوپر سے نیچے کو نہیں ہوتی بلکہ نیچے سے اوپر ہوتی ہے اولے بھی نیچے سے اوپر گرتے ہیں اور یہ ساری حماقت کی باتیں ہیں.لیکن آخر وہی کامیاب ہوا.غرض میں نے لوگوں سے کہا کہ دیکھو رسول کریم میں ایم کے صحابہ یا تو اتنے کمزور اور ناطاقت تھے کہ سارے عرب میں دس ایرانیوں یا دس رومیوں کا مقابلہ کرنے کی بھی طاقت نہیں تھی یا وہ دن آیا کہ وہ اسلام کے سیاہ جھنڈے ہاتھوں میں لے کر نکلے اور دنیا کے گوشہ گوشہ میں پھیل گئے اور رسول کریم متی و لیوی کی وفات پر ابھی پندرہ سال کا عرصہ ہی گزرا تھا کہ مسلمان ہندوستان اور چین تک جاپہنچے.تم کو بھی چاہئے کہ چھوٹے چھوٹے سیاہ جھنڈے بنالو اور وقف جدید کے جو مجاہد ہیں وہ دنیا میں پھیل جائیں اور اسلام کا جھنڈا ہر جگہ گاڑ دیں یہاں تک کہ ساری دنیا میں اسلام کی حکومت قائم ہو جائے اور گو یہ حکومت سیاسی نہیں ہوگی بلکہ دینی اور مذہبی ہوگی کیونکہ یہ لوگ دوسروں کو پڑھائیں گے اور علاج معالجہ کریں گے اور دین سکھائیں گے مگر پھر بھی ان کے ذریعہ اسلام کا ایک نشان قائم رہے گا.دیکھ لو بعض علاقے ایسے
۴۹۴ ہیں جو ابھی تک بھی رہائش کے قابل نہیں لیکن حکومتوں نے ابھی سے وہاں اپنے جھنڈے گاڑ دیئے ہیں تا کہ جب کبھی بھی وہاں آبادی کی صورت پیدا ہو تو ان کا حق قائم رہے.چنانچہ بحر منجمد جنوبی کے قریب ایک جہاز اتفاقا روس کا پہنچ گیا، پھر جاپان کا ایک جہاز پہنچ گیا، پھر ڈچ کا پہنچ گیا ، پھر امریکہ کا پہنچ گیا ان چارون حکومتوں کے آدمی جب وہاں برف کے تودوں پر پہنچے تو انہوں نے وہاں اپنے اپنے ملک کا جھنڈا گاڑ دیا.اب چاروں حکومتیں اس علاقہ کی ملکیت کی مدعی ہیں.امریکہ کہتا ہے بحر منجمد جنوبی ہمارا ہے اور اس کے اندر جو زمین نکلے گی وہ ہماری ہے.کیونکہ ہمارے آدمیوں نے وہاں اپنا جھنڈا گاڑا ہے، ہالینڈ والے کہتے ہیں کہ وہ علاقہ ہمارا ہے کیونکہ ہمارے آدمیوں نے وہاں اپنا جھنڈا گاڑا ہے، جاپان والے کہتے ہیں وہ علاقہ ہمارا ہے کیونکہ ہمارے آدمیوں نے وہاں اپنا جھنڈا گاڑا ہے، روس والے کہتے ہیں وہ علاقہ ہمارا ہے کیونکہ وہاں ہمارے آدمیوں نے اپنا جھنڈا گاڑا ہے ، بہر حال وہ خیالی جگہ جہاں ابھی تک آبادی نہیں صرف خیال ہے کہ وہاں کسی وقت آبادی ہو جائے گی ابھی سے حکومتیں اس پر اپنا حق جتا رہی ہیں.پس کوئی وجہ نہیں کہ ان جھنڈوں میں سے ایک جھنڈا محمد رسول اللہ میں کا بھی نہ تاکہ ہم یہ کہہ سکیں کہ یہ علاقہ نہ امریکہ کا ہے، نہ جاپان کا ہے نہ ہالینڈ کا ہے نہ روس کا ہے، بلکہ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا علاقہ ہے کیونکہ آپ پر ایمان لانے والوں نے آپ کا جھنڈا وہاں گاڑا ہے اور چونکہ جو کچھ محمد رسول اللہ میں اللہ کا ہے وہ خدا تعالٰی کا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.کہ قُلْ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ.یعنی اے محمد رسول اللہ ا تو لوگوں سے کہہ دے کہ میری ہر قسم کی عبادتیں ، میری قربانیاں، میری زندگی اور میری موت سب اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے اس لئے جو کچھ محمد رسول اللہ میں اور وہ یہ کیا ہے وہ خدا تعالی کا ہے.پس دنیا میں جو چیز محمد رسول اللہ م کی بنے گی وہ آپ ہی خدا تعالیٰ کی بن جائے گی کیونکہ آپ کے سوا اور کوئی وجود دنیا میں ایسا نہیں جس نے توحید کامل کو قائم کیا ہو اور خدا تعالیٰ کی حکومت توحید ہی کے ذریعہ سے دنیا میں آتی ہے صرف منہ سے کہہ دینا کہ اے خدا! تیری بادشاہت جس طرح آسمانوں پر ہے زمین پر بھی ہو یہ کافی نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے تو صرف یہ دعا کی تھی اور محمد رسول اللہ میں یا تو میں نے عملاً خدا تعالیٰ کی حکومت دنیا میں قائم کر کے دکھا دی.اور وہ لوگ جو بت پرستی کرتے تھے اور طرح طرح کے عیوب میں مبتلاء تھے انہیں پاکیزہ کر کے کامل ہو
۴۹۵ اور ان پر توحید پر قائم کر دیا یہاں تک کہ وہ لوگ جو رات دن شرک میں مبتلاء تھے اس کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگے.چنانچہ جن لوگوں نے فتح مکہ سے قبل مسلمانوں پر بڑے بڑے سخت ظلم کئے تھے ر گندے.ے حملے کئے تھے جیسے ہندہ کہ جس نے بعض مسلمان شہیدوں کے کلیجے نکلوا کر انہیں کچا چبا لیا تھا.ان کے متعلق فتح مکہ کے موقع پر رسول کریم میں اور ہم نے حکم دیا کہ وہ جہاں کہیں ملیں انہیں قتل کر دیا جائے.ہندہ بڑی ہوشیار عورت تھی.جب رسول کریم م نے عورتوں کی بیعت لینی شروع کی تو ہندہ چادر اوڑھ کر ان میں شامل ہو گئی.جب آپ نے بیعت لینی شروع کی اور فرمایا کہو ہم زنا نہیں کریں گی چوری نہیں کریں گی ، شرک نہیں کریں گی تو ہندہ بے اختیار بول اٹھی اور کہنے لگی یا رسول اللہ کیا اب بھی ہم شرک کریں گی.آپ اکیلے تھے اور ہم سارا عرب آپ کے مخالف تھے.آپ نے توحید کی تعلیم دینی شروع کی اور ہم نے ۳۶۰ دیوتاؤں کی تائید کرنی شروع کی.مگر باوجود اس کے کہ سارا عرب پ کے مارنے پر تلا ہوا تھا آپ اکیلے خدا کے ساتھ جیت گئے اور ہم اپنے ۳۶۰ دیوتاؤں کے ساتھ ہار گئے کیا اس کے بعد بھی ہم شرک کر سکتی ہیں.وہ چونکہ آپ کی رشتہ دار تھی اس لئے آپ نے اس کی آواز کو پہچان لیا اور فرمایا ہندہ ہے؟ وہ عورت بڑی دلیر تھی اس نے کہا یا رسول اللہ ! اب آپ کا مجھ پر کوئی اختیار نہیں اب میں کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو چکی ہوں اور خدا تعالیٰ کی پناہ میں آچکی ہوں اور مسلمان ہونے کی وجہ میرے سارے پچھلے گناہ معاف ہو چکے ہیں کیونکہ اسلام انسان کے سارے پچھلے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے اب آپ مجھے میرے کسی پچھلے گناہ کی وجہ سے سزا نہیں دے سکتے.رسول کریم میں اللہ نے فرمایا تم ٹھیک کہتی ہو.تو دیکھو وہ عورت جو توحید کی اتنی مخالف تھی کہ مسلمان شہیدوں کے کلیجے دوسروں سے چروا کر کچا چبانے کے لئے تیار ہو جاتی تھی وہ کہتی ہے کہ ہم ایسے بیوقوف تھوڑے ہیں کہ باوجود یہ نمونہ دیکھنے کے کہ آپ اکیلے خدا کے ساتھ غالب آگئے اور ہمارے ۳۶۰ دیو تا با وجود ساری طاقت اور قوت کے اور باوجود سارے عرب کی مجموعی تائید کے ہار گئے پھر بھی ہم شرک کریں گی اب اس کے بعد توحید کا کون انکار کر سکتا ہے.تو دیکھو رسول کریم ملی ای ریلی کی صداقت کا یہ کس قدر زبردست نشان تھا کہ آپ نے اپنی زندگی میں ہی دیکھ لیا کہ توحید اور اسلام کے شدید ترین دشمن کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہو گئے اور پھر انہوں نے قربانیوں کے ایسے شاندار نمونے دکھائے کہ ان کی مثال دنیا کے پردہ پر نہیں ملتی.وہی ہندہ جو ایک وقت میں کفار کو اکسایا
۴۹۶ کرتی تھی کہ مسلمانوں پر حملہ کرو حضرت عمرؓ کے زمانہ میں اس کا خاوند ابو سفیان لہ اور اس کا بیٹا یزید لا حضرت ابو عبیدہ للہ کی امارت میں ایک لڑائی میں شامل ہوئے.رومیوں کے ساتھ بڑی سخت لڑائی ہوئی اور ایک وقت ایسا آیا جب مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے.مسلمانوں نے اپنی سواریوں کو روکنے کی بڑی کوشش کی مگر وہ نہ رکیں آخر وہ پیچھے کی طرف دوڑ پڑے.جب سپاہی پیچھے کی طرف آ رہے تھے تو ہندہ نے مسلمان عورتوں سے کہا کہ آج مردوں کے قدم اکھڑ گئے ہیں اب وقت ہے کہ عورتیں اپنی بہادری دکھائیں انہوں نے کہا ہم کس طرح مقابلہ کریں ہمارے پاس تو کوئی ہتھیار نہیں اس نے کہا خیموں کی طنابیں کاٹ دو اور ان کے بانس نکال لو اور بھاگتی ہوئی سواریوں کے مونہوں پر بانس مار کر انہیں پیچھے کی طرف موڑو.چنانچہ اس نے خود ایک طناب کاٹ دی اور بانس لے کر عورتوں کے آگے آگے مسلمانوں کے لشکر کی طرف بڑھی.ابو سفیان اور اس کا بیٹا یزید بھی بھاگے ہوئے آ رہے تھے اس نے ان کی سواریوں کے مونہوں پر بانس مار کر کہا تمہیں شرم نہیں آتی کہ ایک لمبے عرصہ تک تو تم لوگوں نے اسلام کے خلاف لڑائیاں کیں اب اسلام کی خاطر لڑائی کرنے کا موقع آیا ہے تو تم دشمن کے مقابلہ کی تاب نہ لاکر پیچھے کی طرف بھاگ پڑے ہو.ابو سفیان نے یزید سے کہا بیٹا واپس چلو دشمن کے تیروں سے زیادہ سخت ان عورتوں کے ڈنڈے ہیں.سلا، چنانچہ اسلامی لشکر واپس ہوا اور اس نے دشمن کے لشکر پر فتح پائی.تو دیکھو اسلام لانے کے بعد ان لوگوں میں خدا تعالیٰ نے کیسا تغیر پیدا کر دیا کہ وہی ہندہ جو مسلمانوں کے خلاف مشرکین کو ابھارا کرتی تھی اور اسلام کی شدید دشمن تھی اسلام کی خاطر لوگوں کو ابھارنے لگی اور اس نے اپنے خاوند اور اپنے بیٹے کی سواریوں کے مونہوں پر ڈنڈے مار کر انہیں واپس لوٹا دیا.تو میں رویا میں اس مجمع کو جو میں وہاں دیکھتا ہوں کہتا ہوں کہ اپنے ہاتھوں میں اسلام کے سیاہ جھنڈے لے کر باہر نکل جاؤ.اور جس طرح پہلے زمانہ میں مسلمانوں نے اسلام کے جھنڈے دنیا کے ہر کونہ میں ہرا دیئے تھے اسی طرح تم بھی اسلام کے جھنڈے دنیا کے تمام کونوں میں لہرا دو گویا یہ رویا میری پہلی رؤیا کی ایک تشریح ہے.یہ کام ہے جو تمہارے سپرد کیا گیا ہے.تم اس کام کو جلد سے جلد پورا کرو.اور اسلام کو دنیا کے کونہ کونہ میں پھیلا دو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وقف جدید کی تحریک کا پر ابھی بہت کم
: وقت گذرا ہے مگر وہ نتائج جو اب تک وقف جدید کے نکلنے چاہئیں تھے ان کا ہزارواں حصہ بھی نہیں نکلا.ہم تو یہ خیال کر رہے تھے کہ یہ لوگ جو نہایت قربانی اور اخلاص سے آگے بڑھے ہیں ان کی باتوں میں اور ان کے کام میں اس قدر برکت ہوگی کہ وہ رُشد و اصلاح اور تعلیم کے کام کو مہینوں میں لاکھوں اور کروڑوں افراد تک پہنچا دیں گے مگر اب تک اس تحریک کے شاندار نتائج نکلتے نظر نہیں آتے لیکن اللہ تعالیٰ کو تمام طاقتیں حاصل ہیں اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو وہ اس کو پورا کر سکتا ہے ہمیں اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ وہ ہماری حقیر کوششوں کو بار آور کرے اور ہماری پیدائش کی غرض اور سلسلہ احمدیہ کے قیام کی غرض کو ہمارے ہاتھوں سے جلد سے جلد پورا کرے اور ہم اسلام کے جھنڈے دنیا کے کناروں تک گاڑ دیں تاکہ قیامت کے دن ہم بھی سرخرو ہوں اور رسول کریم میں ہے اور یہ بھی سارے نبیوں کے سامنے اپنا سینہ تان کر اپنی فضیلت اور برتری کا اظہار فرمائیں اور ان سے کہیں کہ دیکھو تمہاری قوموں نے تو شرک سے ساری دنیا کو بھر دیا تھا مگر میری قوم نے ہر جگہ توحید کا جھنڈا گاڑ دیا اور لوگوں کو خدائے واحد کے آستانہ پر لاڈالا.اگر ایسا ہو جائے تو یہ ہماری انتہائی خوش قسمتی ہوگی اور اس کی وجہ سے ہم قیامت کے دن خدا تعالیٰ کے سامنے سر خرو ہو سکتے ہیں.ه الفضل ۲۹ اپریل ۱۹۵۸ء) قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل ابن حضرت مولوی امام الدین صاحب فیض.صحابی ابن صحابی ۶۱۸۸۱ - ۱۹۶۶ء بیعت ۹۷ - ۱۸۹۸ء ال عمران: ۲۰ کرسٹوفر کولمبس ۶۱۵۰۶۶۱۴۴۶ حضرت محی الدین ابن عربی (۱۱۲۵ء.۶۱۲۴۰) فرڈیننڈ ۶۱۴۰۲-۱۵۱۶ء اور ازابیلا ۱۵۰۴۶۱۴۵۱ء شاہ و ملکہ ہسپانیہ کا ذکر ہے.ل الانعام: ۱۷۳ ک ہند بنت عقبہ زوجہ ابو سفیان".بنو عبد الشمس - فتح مکہ کے وقت مسلمان ہو ئیں.عہد ☑ فاروقی یا عہد عثمانی میں وفات پائی.اصابہ جلد ۲ صفحہ ۸۲۱ یہ واقعہ جنگ اُحد کا ہے.جب ہند نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ بن عبد المطلب ( عام الفیل ۶۵۷۵ش ۵۳ / ۲۴-۶۶۲۵) کا کلیجہ نکال کر چبایا تھا.سیرة
۴۹۸ لامام ابن بشام الجزء الثانى فى ۸۸ - طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث صفحہ تاریخ طبری القسم الاول جلد ۳ صفحه ۱۶۴ - ۱۶۵ و تاریخ کامل لابن اثیر جلد ۲ صفحه ۲۶ ابو سفیان بن حرب بنو امیہ ۷۴ - ۶۵۶۳ - ۳۱ ھ / ۶۵۱-۷۵۲ء.فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے.الله یزید بن ابو سفیان - بنوامیہ ۵۱۸ - ۶۶۳۹ گاه امین الامت ابو عبیدہ بن عبد اللہ بن الجراح.بنو حارث.۴۰ ق ھ - ۱۸ھ یہ جنگ پر موک ۶۳۴ء کا واقعہ ہے.اسد الغابہ جلد ۵ صفحه ۵۶۳ ا وقف جدید کی تحریک کا اعلان حضور نے جلسہ سالانہ ۱۹۵۷ء کے موقع پر فرمایا اس کی تفصیلات حضور نے خطبہ جمعہ فرموده ۱۷ جنوری ۱۹۵۸ء (مطبوعہ الفضل ۲۰.جنوری ۱۹۵۸ء) میں جماعت کے سامنے پیش کیں انجمن وقف جدید کا با قاعدہ قیام ۱۹.جنوری ۱۹۵۸ء کو عمل میں آیا.
۴۹۹ (۴۷) فرموده ۱۰ اپریل ۱۹۵۹ء بمقام مسجد مبارک.ربوہ) جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے آج عید الفطر ہے.عید کے معنی عرف عام میں خوشیوں کے ہو گئے ہیں لیکن عربی زبان میں اس کے معنی لوٹنے والی چیز کے ہیں اور چونکہ خوشی ہی ایک ایسی چیز ہے جس کے متعلق انسان چاہتا ہے کہ وہ بار بار آئے.اس لئے اس لفظ کے ذریعہ فطرتِ انسانی کی ترجمانی کر دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ انسان بار بار اسی دن کو دیکھنے کی خواہش رکھتا ہے.عید کا لفظ در حقیقت "عود" سے نکلا ہے اور عربی زبان کا محاورہ ہے کہ "العود اَحمَدٌ" جو چیز دوسری دفعہ آتی ہے وہ زیادہ اچھی ہوتی ہے.پنجابی میں بھی کہا جاتا ہے کہ ا یہ دن جسم حجم آن " یعنی یہ دن بار بار آئیں اور جس چیز کی انسان کو بار بار خواہش ہوتی ہے وہ خوشی کی چیز ہی ہوتی ہے.موت کے متعلق تو کوئی نہیں چاہتا کہ وہ آئے.بے شک انسان کی پیدائش کے بعد اس پر ایک موت آتی ہے لیکن زندگی اللہ تعالی نے دائی رکھی ہے.چنانچہ موت کے بعد جو زندگی شروع ہوتی ہے اس زمانہ کا کوئی اندازہ ہی نہیں لگایا جا سکتا.تمام حساب فیل ہو جاتے ہیں اور زندگی ان سے بھی آگے نکل جاتی ہے اور وہ خدا کی ابدیت میں جاکر شامل ہو جاتی ہے گویا حقیقی طور پر انسان خدا نما مرنے کے بعد ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی جو یہ دو صفات ہیں کہ اس کو کسی نے پیدا نہیں کیا اور اس پر کبھی موت نہیں آئے گی ان میں سے پہلی صفت تو انسان میں پیدا ہی نہیں ہو سکتی کیونکہ انسان اپنے ماں باپ سے پیدا ہوتا ہے اور پھر اس کی اولاد پیدا ہوتی ہے جو اس کی قائم مقام بنتی ہے.لیکن دوسری صفت اس میں اس رنگ میں پیدا ہو جاتی ہے کہ جسمانی موت کے بعد اللہ تعالٰی اسے اگلے جہان میں ہمیشہ کی زندگی عطا کر دیتا ہے.پس مومن کی حقیقی عید در حقیقت اس کے مرنے کے بعد ہوتی ہے اسی لئے ایک عرب شاعر نے کہا ہے کہ اَنْتَ الَّذِي وَلَدَتْكَ أُمُّكَ بَاكِيًا وَالنَّاسُ حَوْلَكَ يَضْحَكُونَ سُرُورًا
..فَاخْرِصُ عَلَى عَمَلٍ تَكُونُ إِذَا بَكَوْا فِي وَقْتِ مَوْتِكَ ضَاحِكًا مَسْرُورًا ان یعنی اے انسان تیری ماں نے جب تجھے جنا تھا تو تو اس وقت رو رہا تھا اور لوگ تیرے اردگرد خوشی سے ہنس رہے تھے کہ ہمارے ہاں لڑکا پیدا ہوا ہے.اب تو اس کا بدلہ لوگوں سے اس طرح لے کہ ایسے نیک اعمال بجالانے کی کوشش کر کہ جب تو مرے تو لوگ تو تیرے ارد گرد رو رہے ہوں اور تو ہنس رہا ہو کہ میں خدا تعالی کے پاس اس سے انعامات لینے کے لئے جا رہا ہوں.پس مومن کی حقیقی عید در حقیقت اس کی موت کے بعد شروع ہوتی ہے.میری طبیعت بیماری کی وجہ سے تو پہلے ہی ناساز تھی لیکن میں چلنے پھرنے لگ گیا تھا.سال مری کی سخت پہاڑیوں پر بھی میں دو دو میل چل لیتا تھا.جابہ میں بھی دو دو میل چل لیتا تھا مگر ایک حادثہ کی وجہ سے مجھے ایسی درد شروع ہو گئی ہے کہ وہ ختم ہونے میں ہی نہیں آتی.پہلے تو یہ حالت ہو گئی تھی کہ میں ایک قدم بھی نہیں چل سکتا تھا لیکن اب کمرہ میں میں نے چند قدم چل لیتا ہوں.ڈاکٹروں نے بڑی تاکید کی تھی کہ مجھے کسی قسم کی تشویش نہیں ہونی چاہئے.بیماری کی وجہ سے عید میں شمولیت کا بوجھ بھی میرے لئے پریشانی کا موجب رہا.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ عید کے گزارنے کے بعد وہ صحت میں جلد جلد ترقی عطا فرمائے تاکہ میں سلسلہ کا کوئی کام کر سکوں.خالی پڑے ہوئے انسان کی مثال تو بالکل مردہ کی سی ہوتی ہے جیسے مردہ کوئی کام نہیں کرتا اسی طرح وہ بھی کوئی کام نہیں کرتا.اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہی یہ توفیق ہے.آخر تفسیر صغیر ۳.میں نے بیماری کے دنوں میں ہی لکھی ہے مگر اب نقرس اور وجع المفاصل کی وجہ سے ایسی حالت ہو گئی ہے کہ میں ایک سطر بھی نہیں لکھ سکتا.میں نے تجربہ کیا ہے اور پہلے بھی کئی بار بیان کر چکا ہوں کہ جن دنوں دوست خاص طور پر دعائیں کرتے ہیں اللہ تعالیٰ فضل نازل کر دیتا ہے اور طبیعت میں دلیری اور اُمنگ پیدا ہو جاتی ہے اور بیماری میں بھی کمی آجاتی ہے.رمضان میں اخبار میں تو چھپتا رہا ہے کہ دوست دعا کر رہے ہیں لیکن ابھی تک بیماری میں پوری طرح کمی واقع نہیں ہوئی.ممکن ہے دعا قبول ہونے میں کچھ وقت لگے آخر بچہ پیدا ہونے میں بھی نو ماہ کا عرصہ لگ جاتا ہے.ممکن ہے ان دعاؤں کی قبولیت میں بھی کچھ وقت لگے اور پھر اللہ تعالٰی کے فضل سے مجھے صحت ہو جائے اور یہ کیفیت دور ہو جائے.
۵۰۱ اب میں دعا کر دیتا ہوں کہ خدا تعالی ہماری جماعت پر فضل نازل کرے اور اپنی رحمت کے دروازے ہمارے لئے کھول دے.وہ ہماری کمزوریوں کو معاف کرتے ہوئے اپنی طاقت میں سے ہمیں کچھ طاقت بخشے تاکہ ہم صحیح طور پر اسلام کی خدمت کر سکیں اور تبلیغ اسلام کے کام کو سرانجام دے سکیں اور ہماری زندگیوں کا کوئی لمحہ ایسا نہ ہو جو ناکارہ اور غیر مفید ہو.الفضل ۲۸ اپریل ۱۹۵۹ء) مجانی الادب ۳ بحواله دروس الادب صفحه ۹۰ یہ حادثہ حضور کی کار کو سندھ کے سفر میں پیش آیا.تفسیر صغیر: قرآن کریم کا بامحاورہ اردو میں ترجمہ اور مختصر تفسیر جو حضور نے اپنی بیماری کے ایام میں مکمل کی.تاریخ طباعت بار اول ۱۹۵۷ء
۵۰۲ (۴۸) فرموده ۲۹.مارچ ۱۹۶۰ء بمقام ربوه) احادیث سے ثابت ہے کہ رسول کریم میں نا اہل و عید کے موقع پر عید گاہ میں آتے اور جاتے ہوئے اور پھر عید گاہ میں تشریف رکھتے وقت بھی بڑی کثرت کے ساتھ یہ تکبیر پڑھا کرتے تھے کہ اللهُ أَكْبَرُ اللَّهُ اَكْبَرَ - لَا إِلَهَ إِلَّا الله والله اَكْبَرُ الله اَكْبَرُ وَلِلَّهِ الحمد - له رسول کریم میں لیل و لیلی کی یہ سنت بتاتی ہے کہ مومنوں کی حقیقی عید اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور اس کی عظمت کے بیان کرنے میں ہی ہے.پس اگر ہم دنیا میں اللہ تعالیٰ کی عظمت قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں ، اس کے نام کو پھیلا دیں ، اس کی بڑائی کو ثابت کر دیں اور اپنی تمام کوششیں اور مساعی اس غرض کیلئے وقف کر دیں کہ خدا تعالیٰ کا نام بلند ہو تو یقینا ہماری عید حقیقی عید کہلا سکتی ہے.لیکن اگر ہمیں اپنے فرائض کا احساس نہ ہو اور خدا تعالیٰ کی توحید کی اشاعت اور اس کی عظمت کے قیام کے لئے اسلام جن قربانیوں کا ہم سے تقاضا کرتا ہے ان قربانیوں کے میدان میں ہمارا قدم سُست ہو تو پھر ہماری عید صحیح معنوں میں عید نہیں کہلا سکتی.پس آج میں اپنی جماعت کے تمام دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ انہیں اس عید کو حقیقی رنگ میں منانے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس ظاہری عید کو اس عظیم الشان روحانی کے حصول کا ایک ذریعہ بنانا چاہئے جس میں ساری دنیا خدا تعالیٰ کی بڑائی کی قائل عید جائے.ہو اگر دنیا میں خدا تعالیٰ کی بڑائی قائم نہ ہو تو ہماری عید کوئی عید نہیں لیکن اگر اس کی بڑائی ہو جائے اور دنیا محمد رسول اللہ سمیت تمام تعلیم کی غلامی میں داخل ہو جائے تو اس میں ہماری حقیقی عید ہے کیونکہ سچا غلام تبھی خوش ہوتا ہے جب اس کا آقا خوش ہو.غرض عید ہمیں تبلیغ اسلام کی وسعت اور خدا تعالیٰ کی بڑائی دنیا میں قائم کرنے کی طرف توجہ دلاتی ہے اور خدا تعالیٰ کی بڑائی اسی صورت میں قائم ہو سکتی ہے جب جماعت کے تمام افراد کیا چھوٹے اور کیا بڑے اور کیا مرد اور کیا عورتیں تبلیغ پر زور دیں اور محمد رسول الله ملی دلیل مل کے جھنڈے کے
۵۰۳ نیچے سب دنیا کو جمع کرنے کی کوشش کریں.بے شک پیشگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تغیر ایک دن واقعہ ہو کر رہے گا لے اور دنیا خدا تعالیٰ کے آستانہ پر اپنا سر جھکا دے گی.مگر پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے لئے دعاؤں اور قربانیوں اور جدوجہد سے کام لینا بھی ضروری ہوتا ہے.پس ہمیں اپنی تبلیغی مساعی کو زیادہ سے زیادہ وسیع کرنا چاہئے اور خدا تعالیٰ کے نام کو دنیا میں بلند سے بلند تر کرتے چلے جانا چاہئے کیونکہ اس میں ہماری عزت ہے اور اسی سے محمد رسول اللہ علیم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کی غرض پوری ہو سکتی ہے.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو اور وہ آپ کو نیکی اور تقویٰ کے ساتھ ہمیشہ خدمت اسلام کی توفیق بخشے اور آپ کی نسلوں میں بھی سچا ایمان پیدا کرے تاکہ قیامت تک خدائے واحد کا نام بلند ہوتا رہے اور قیامت تک اسلام کا جھنڈا دنیا کے تمام مذاہب کے جھنڈوں سے اونچا لہراتا رہے.اللَّهُمَّ أَمِين الفضل ۵ اپریل ۱۹۶۵ء) صحیح بخاری كتاب العيدين باب التكبير ايام منى......الخ.صحیح بخاری كتاب العيدين باب فضل العمل في ايام التشريق تذكرة اشهار تین صفحه ۶۴-۶۵- تجلیات الیہ صفحہ ۳۱-۳۲، تبلیغ رسالت جلد ششم صفحه ۸
۲۶۴۲۶۳ ۴۹۸-۴۹۷۴۹۶ ۴۹۸_۴۹۶ ۱۵۱ اشاریہ خطبات محمود جلد اوّل ۲۹.۱۰۱-۱۸۹ - ۳۲۷ | ابوذرغفاری حضرت ۳۲۷ ابوسفیان بن حرب ۳۷۸-۳۶۳_۳۶۲۳۶۱ ۳۷۸ ۲۶۲۳۶۱۳۳۲_۲۳۵ ۳۷۸-۳۷۰ ۲۹۶_۱۷۷_۱۲۲۹۶ ۴۹۷۴۰۲-۳۵۲ ۳۲۵ ۳۲۲ ۱۵۲ ۴۸۳ ۳۳۶ ۴۲۵-۳۲۶-۳۲۵-۷۲-۱۱-۱۸ ۴۲۶ ابو عبیدہ حضرت ۱۰۱ ابولولو فیروز ۴۲۸ | ابوهريرة حضرت آدم علیہ السلام حضرت آدم ثانی آرین آریہ دھرم آریہ لیڈر آسٹریلیا آصف الدولہ آگرہ ۶۱ - ۴۲۵ | اتحادی ۲۳۴ اتحادی حکومتیں ۳۷ اٹلی ابراہیم علیہ السلام حضرت ۲۹۱۲۹۰-۱۵۲۹۶-۲۵ ۳۳۷-۳۳۶-۳۳۵-۳۲۲- ۳۴۲-۳۳۸ | اُحد جنگ ۴۸۵-۴۶۵-۴۰۷ ابراہیم ابن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ۴۲۴-۴۲۲ ارجنٹائن ابرہہ ۲۹۰ ارض مقدسه ابن عربی حضرت شیخ محی الدین ابو العاص ۴۹۷۴۹۳ | ارم ۳۱۹ اسرائیل ابوبکر حضرت ۹۸-۹۷۲۶-۲۳ - ۱۶۶ اسماعیل علیہ السلام حضرت ۳۶۸-۱۴۴.۳۷۰-۳۸۲-۴۲۷ - ۴۲۸ | اعراب ابو جمل ابو حنیفہ حضرت امام ۱۵۲-۱۴۵-۱۶-۱۱ | افریقہ ۳۹۱ افغان |
۴۹۲۳۵۰_۳۳۸-۳۲۵_۲۸۱-۶۱۲۹ ۲۰۳ ۴۸۳_۳۲۶-۲۴۰-۱۵۷ ۴۷۲-۳۷۳ ۲۸۷۲۴۷ L ۲۷۴ ۲۶۸ ۴۹۴ ۴۵۳_۱۱ ۴۵۳-۴۵۲_۴۴۶۱۶ ۳۷۴ ۱۴۷ ۱۳۱.۱۳۷_۲۲۶-۲۳۳-۲۷۳ افغانستان الز بتھ اول ملکہ ۶۱ - ۳۵۰_۳۶۳_۳۶۵-۳۶۴ ایڈورڈ ہفتم امامہ بنت حضرت زینب و ابو العاص امرتسر امام الدین فیض حضرت مولوی والد حضرت قاضی محمد ظہور الدین اکمل امان الله امریکہ ۴۹۲-۳۷۹ | ایران ۴۷۸ ایرانی 19 ایشیا ۷۱ - ۴۸۲-۳۴۷ ایشیائی ۴۹۷ با برشہنشاہ ظہیر الدین بار لولا رڈ ۳۷۹ | بالڈون.لارڈ ۳۲۵-۲۸۸-۲۸۵۶۱ | بالشوزم ۳۶۷-۳۳۸-۳۳۳۳۳۲-۳۲۶ بحرمنجمند جنوبی ۴۲۵ - ۴۹۴۴۹۳-۴۸۵۴۸۳-۴۷۰ بدر ۳۶۷_۴۶۹ | بدر جنگ ۴۰۹۳۷۶_۲۲۸_۱۵۹_۵۱ بدھ ۲۴۵ - ۲۴۷ بدھ مذہب ۲۰۳ برطانیہ انگلستان ۳۶۷-۳۶۲-۳۳۳-۳۳۲-۳۳۰_۲۷۴ ۴۸۷۴۷۱-۴۶۹-۴۵۸-۴۴۹-۴۴۳-۳۷۸ ۴۱۹-۴۱۷ ۴۰۱.۴۳۷ ۳۳۲ ۴۳۰_۳۵۹ ۳۳۲ ۴۰۲_۳۹۰ امریکی انجیل انس بن مالک حضرت ۳۶۶۳۶۴۳۶۲-۳۶۱-۳۳۲_۲۱۷ ۴۷۹-۴۷۸-۴۶۱-۴۴۳-۳۷۵-۳۷۱-۳۶۷ ۴۷۸ براواں ۳۸۸_۳۹۰ | بغداد ۳۸۸ بلغاریہ ۲۳۴ بمبئی ۳۴۵ بن باس ۴۸۹ بنو عباس انصار انگریز انگریز کا ترک ہندوستان انگریزی حکومت انگریزی قانون اودھ اودے پور ایبٹ آباد I
۴۹۴-۳۷۸-۳۷۰۳۶۱۳۳۲۳۲۵ ۱۶ ۴۷۷-۴۷۱ ۳۵۹ ۳۳۸-۳۲۵ ۲۷۵-۲۷۴-۱۳۲_۱۳۱۸ ۴۶۹-۳۷۸-۳۷۰۳۶۱۳۳۲ ۴۶۹ ۲۷۴-۲۷۳-۸۳۵۸ ۴۷۰_۴۶۹۴۶۳۳۶۷۳۶۱ ۲۰۳ ۴۰۲ ۲۸۱ ۳۴۴۹۰ ۳۸۳_۳۵۸-۳۵۴ ۳۷۴ ۴۹۳-۳۳۸-۳۳۲-۳۲۵ ۲۶۴ ۳۷۹ ۱۲۳ ۲۱۶-۱۵۲-۵۳۵۲ | جاپان بنی اسرائیل بنی اسماعیل ۲۱۶ جارج پنجم بہادر شاہ ظفر شہنشاہ ۱۱۸ ۱۲۴ جارج ڈیوڈ لائڈ بھین ا جالندھر بیاس دریا ۱۵۰ جاوا بیت المال ۲۷۹ جرمن پاکستان ۴۸۳۴۸۱۴۶۹ تا ۴۸۶ پاکستان کا قیام ۴۸۴ جرمن سکه پانڈے ۱۸۹ - ۱۹۵ | جرمنی پرتگال ۳۳۲ پنجاب ۱۶۱ جریر بن عبد اللہ المجلی حضرت پولینڈ ۳۳۲ جزائری پھیر و هیچی ۱۴۰ جعفر بن ابی طالب حضرت تاج محل ۳۷ جمنا دریا ترک ۳۵۰-۱۰۲۷۶ جنگ عظیم اوّل ترکی ۳۳۲ جنگ عظیم دوم تغلق خاندان تقی الدین احمد کرنل ۲۱۲ جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ حضرت ۳۵۸ جہلم تورات ۴۸ جینی تیونس ۴۹۲ چین ثناء اللہ مولوی ۴۸۷۴۸۲ جبشه ثور غار ۴۲۷ حبیب اللہ امیر والی افغانستان جابه ۵۰۰-۴۸۹ | حسان بن ثابت حضرت
۴۲۶ ۴۸۵ حسین حضرت امام حشمت اللہ ڈاکٹر حضرت ۳۱۹-۳۰۷ - ۳۴۴ ڈریویڈین Dravadian (ایک قوم کا نام ) ۳۱۲_۳۲۰ ڈسمنڈ شا حمزہ بن عبدالمطلب حضرت ۴۹۷۴۰۲ ڈگلس کیپٹن ایم ولیم حیدر آباد ۲۶۹ ڈلہوزی ۴۰۴_۳۹۰_۳۵۹ خالد بن ولید حضرت ۱۶۷ - ۲۴۵ ڈیرہ غازیخان خديجة حضرت ۴۰۲-۳۹۶ | ڈیوک خلفائے راشدین ۴۲۹ را جستهان ۴۷۸ ۳۴۵ خندق جنگ ۳۸۰ رام چندر علیہ السلام حضرت خوشاب ۴۹۱ خویلد (حضرت خدیجہ کے والد ) ۴۰۲ راولپنڈی ۳۴۴-۳۳۵ ۴۹۱۳۴۷ دار الافتاء داؤد علیہ السلام حضرت دریا خان جنرل ۳۷۸ راون راجه ۲۲۵-۲۹ | راوی دریا ۹۰ ربوه دسر تھے.راجہ ۳۴۴ ۴۲۹ ۴۸۷۴۶۵-۴۵۲_۴۵۰ ۵۰۲_۴۹۹_۳۹۲-۴۸۸ دسہرہ دھرت را شٹر ا.راجہ دھلی دیوالی دیوتا ۳۴۷۳۴۶-۲۶۸ رحمت علی سبحانی مولوی ۱ مصنف مخزن الاخلاق ۳۷ - ۳۵۱-۲۱۳-۲۱۲-۱۹۱-۱۱۸ رشید الدین حضرت ڈاکٹر خلیفہ ۱۰۶_۱۱۰.۳۳۱-۳۳۲_۳۴۷۳۴۳ رفقاء حضرت مسیح موعود ۴۸۵ روس ۴۳۸-۲۹۷_۲۲۰ دیوی کالی ۳۳۷ دیوی لکشمی ۳۳۷ روی ڈائل سر آرتھر کین ناولسٹ ۲۷۴ روشن علی حضرت حافظ وچ ۴۹۴ رومانیه ۲۳۴_۲۳۳ ۳۳۲-۳۲۵_۲۶۸-۵۸ ۴۹۴۴۷۷-۴۷۱-۴۷۰-۴۶۹-۳۷۸-۳۶۴۳۶۱ ۴۷۰_۳۶۴-۳۳۲ ۴۸۷-۴۸۲-۱۸۱-۱۷۸ ۳۳۲ 1 IM
رومی زرتشت علیہ السلام حضرت زرتشتی زین العابدین حضرت ( فرزند حضرت امام حسین ) زینب بنت جحش حضرت زینب بنت رسول الله سانسی سرگودھا سرویه سعد بن ابی وقاص حضرت سکاٹ لینڈ سکھ سکھ دھرم سماٹرا سندھ 館 ۴۹۶ سیده سید بیگم حضر نه ۲۹ (زوجہ حضرت میر ناصر نواب) ۳۷۴_۲۲۶۷۲ شام شاہجہان.شہنشاہ شاہجہانپور ۳۴۵ شبلی رحمتہ اللہ علیہ ۳۱۹-۳۰۷ شداد ۴۲۶ شفاء.بنت حضرت ۳۴۸ صاحبزادہ عبد الطیف شہید ۴۹۱ ۳۳۲ ۳۴۳ شکاگو شملہ شوبی شوری مجلس ۱۰۱_۳۳۰-۱۰۶_۴۸۰-۴۶۶-۳۴۳ شیر علی حضرت مولوی ۱۴۷ ۳۳۸-۳۲۵ شیعہ ۴۱۹ ۴۸۱-۳۲۵-۷۳۶۱ ۲۸۷-۲۸۱-۹۰ ۴۸۰ ۴۰۲-۳۸۳_۳۵۸۳۵۴ ۱۵۲-۱۴۵ شیکسپر ولیم (William Shakespeare) ۳۳۱.۴۷۰ - ۵۰۱ صحابہ حضرت محمد د الله ۴۳۸-۴۳۵-۳۳۸ ۲۸۷ ۴۸۳ ۳۵۹ ۳۳۲ ۴۶۲_۴۵۶ ۴۳۷ ۳۳۰_۲۶۹-۲۲۸ ۴۱۸ ۹۹۲۹۵-۷۳۵۶ ۱۱۶.۱۳ ۱۴۳ ۱۴۴-۱۶۷_۱۶۹_۲۳۵_۲۴۳ ۳۰۶-۲۴۴_۳۲۱-۳۱۳ تا ۳۲۷۳۲۴_۳۴۰ ۳۹۴_۳۹۱۳۸۹-۳۸۳-۳۸۲-۳۷۳-۳۶۹ سوشلسٹ سولن ایک پہاڑ کا نام سھل بن عبد اللہ حضرت سیالکوٹ ۲۳۶ ۴۳۱_۴۳۰_۴۲۹-۴۲۷ -۴۰۲۳۹۸-۳۹۷_۳۹۶ ۳۵۹ ۴۹۳۴۹۲-۴۶۲۴۴۰_۴۳۵ ۳۷۹ صدر انجمن احمدیه ۳۴۷ ضرار بین از ور حضرت ۴۵۹-۴۵۵-۴۵۴ ۷۴ !
طاعون طرابلسی طور طوسی نظام کتاب ظفر احمد حضرت منشی عائشہ حضرت ۲۶۸-۱۶۵-۱۶-۱۵۹۱۵۶_۴۳۹ عبد الله بن سعد بن سرح ۲۰۳ عبد اللہ بن مسعود حضرت ۳۲۰ ۱۱.۱۶ ۲۱۶ عبد اللہ سنوری حضرت مولوی ۴۳۲-۲۸۷ - ۴۳۷ عبد المطلب حضرت ۳۷۷ عبد المغنی حضرت مولوی ۲۳-۱۷ ۱۲۲-۱۱۷ ۱۴۳ ۱۴۴ عثمان حضرت ۲۰۷ ۲۰۸ ۲۲۰ - ۳۹۲-۳۶۸_۳۹۳_۳۹۹-۳۹۴ عثمان بن سعد بن سرح لا ۴۶۹ ۳۸۲-۹۸ - ۷۱-۸-۱ ۳۲۰ ۳۳۸-۳۳۲-۳۲۸-۳۲۵۹۹ ۴۹۵-۴۵۳-۴۵۲۴۴۶-۳۹۱۳۴۸ ۱۶۷ 17 ۳۸۲۳۱۹-۲۴۵_۱۰۴۹۸ ۲۶۴ | عراق ۲۲۴۲۱۷ ۱۵۳ عزرائیل ۴۸۷۷۱ عفراء ۱۵۲ علی حضرت عباس بن عبد المطلب حضرت عبد الحق ڈاکٹر عبدالحکیم ڈاکٹر عبدالحکیم مولوی شہید عبدالحمید عبد الرحمن مولوی.حضرت شہید عبد الرحمن بن عوف حضرت ۹۸- ۱۰۵ - ۴۸۰ - ۴۸۲ - ۴۸۶ | علی قاری ملا عبدالستارشاہ حضرت سید ڈاکٹر ۴۶۴-۳۰۱-۲۹۷ علیگڑھ ۱۹۴ ۴۶۳ عبد القادر جیلانی " حضرت سید ۱۸۸ ۱۹۴ - ۲۱۶ ۲۲۰ عمر بن الخطاب حضرت ۲۴-۲۶-۹۶-۱۱۴۴۹۸_۱۶۶ عبدالکریم حضرت مولوی ۳۶۲ عبد الطیف شہید حضرت صاحبزادہ سید ۱۵۳-۲۷۶ - ۲۷۷ عمر علی ملک ۴۹۹_۳۹۲-۳۸۲۳۶۸-۱۷۶۱۶۷ ۲۸۷_۳۶۵۳۶۴۳۶۳ | عیسی علیہ السلام حضرت ۴۷۷-۴۷۰ ۲۹-۱۲.۳۱-۳۵-۵۱تا۵۳ ۲۱۳_۲۰۲_۱۸۳-۱۵۷-۱۵۶-۱۴۱_۱۰۱ ۴۹۴۴۷۲_۴۶۵-۴۱۶-۳۲۷-۳۲۳۳۲۲۲۴۰ ۷۲ تا ۱۰۱۷۴-۱۰۲ ۳۴۲-۳۳۱-۳۳۰_۲۲۶_۱۵۹_۱۵۰-۱۰۷ 12_11 ۴۰۱ عیسائی ۱۷۱۵ اللطیف بہاولپوری حضرت مولوی عبد الله عبد الله السفاح عبداللہ بن زبیر حضرت |
۳۴۸۳۴۶۳۴۳_۳۷۶۳۶۴_۴۰۹_۴۲۹ | فرعون ۴۸۲۴۷۶۴۶۶ | فریدالدین عطار عیسائیت ۸-۱۴۷ - ۴۱۱ - ۴۲۷ - ۴۳۰-۴۹۳۴۷۶ | فریسی غالب.اسد اللہ خاں ۴۴۵ | فسادات ۱۹۵۳ء ۴۶۰_۲۳۸_۲۰۳_۱۵۲-۱۴۵-۸-۷ ۲۸۷ غلام احمد قادیانی.حضرت مرزا اسیح موعود ۳۳-۳۲-۳۰ | فضل الرحمن حضرت مفتی فلسطین ۷۵-۷۱-۷۰-۶۹-۵۷-۵۵-۴۷۳۸-۳۷ تا ۷۹ ۱۰۱-۱۰۰-۹۷-۸۹_۱۰۳_۱۰۴_۱۰۶_۱۱۲۱۰۹ | فیروز والہ ۱۸۳ ۴۸۷۴۸۳ ۱۴۰ ۴۸۷-۴۸۱-۳۲۵ ۱۷۰ ۱۸۸ تا ۱۲۲_۱۲۴ تا ۱۲۶-۱۳۴-۱۳۶ ۱۳۹ ۱۴۰ | قادیان (مرکز احمدیت ۹-۱۸_۴۰_۴۸_۸۲۶۱-۹۲ ۱۵۵_۱۵۴۱۵۰-۱۳۹_۱۲۶_۱۱۲_۱۰_۱۰۴ ۲۳۲_۲۲۶_۲۱۱-۱۹۶-۱۲-۱۷۲۱۶۳۱۶۱ ۲۸۹-۲۶۷-۲۵۵۳ ۲۵۲-۲۴۹_۲۳۵۲۳۴ ۳۰۲_۳۲۱۳۲۰_۳۲۶۲۳۲۴_۳۳۰_۳۵۷تا۳۶۰ ۴۶۱-۴۵۱-۴۱۹-۴۱۴۳۸۱ ۲۳۴ ۲۴_۲۳ ۴۶۳ ۳۶۴ ۲۷۴ ۳۵۹-۳۳۴ ۴۸۸ م بهم ۳ ۱۵۸-۱۵۷-۱۵۶-۱۵۴-۱۴۹-۱۴۷ - ۱۴۵ ۱۴۴ ۱۶۴.۱۷۸تا ۱۸۰_۱۹۱_۲۰۱_۲۱۳۲۰۲ ۲۱۴_۲۱۶تا۲۱۸ ۲۲۰ تا ۲۲۳_۲۳۲۲۲۵ تا ۲۳۴-۲۴۱ ۲۴۷-۲۵۲-۲۵۳ ۳۳۱۳۳۱۰_۳۰۳_۲۹۸-۲۹۷۲۹۵_۲۹۴۲۶۱ ۳۳۶۳۲۶۴۳۲۳۳۱۶_۳۴۱_۳۵۱ تا ۳۵۳ ۳۵۸_۳۶۰_۳۶۳_۳۷۱-۳۷۰-۳۶۶-۳۶۵ قدرت اللہ قاسم قططنيه ۳۷۶-۳۷۴ تا ۳۷۸-۳۹۸ - ۴۲۹۳۴۲۷۴۱۷ ۴۸۰-۴۷۶-۴۷۳-۴۶۱۴۳۷ - ۵۰۳-۴۸۷۴۸۴ | قیصر ۴۳۸ | قیصر جرمنی ۱۳۷ کابل ۳۱۹ کیلنگ رڈیارڈ (Cipling Rudjard) ۴۲۵-۳۴۶_۱۶۰_۱۵۵_۱۰۵ ۴۹۷۴۹۵ - ۴۹۸ کپورتھلہ ۴۹ کراچی ۳۳۲-۲۲۶۱۳۱۸۳-۸ کربلا ۴۹۷ کرسمس غلام حسین ایاز حضرت مولوی غنی کا شمیری فاطمہ.حضرت بنت رسول اللہ فتح مکه فنجی فرانس فرڈینینڈ شاہ چین |
| کرشن علیہ السلام حضرت کرم دین بھیں کرم علی کرینسکی الیگزنڈر.ایف کسری کلارک - پادری هنری مارٹن الائیڈ جارج وزیر اعظم برطانیہ ۷۵-۷۱_۴۳۷۲۲۴ لاہور ۴۹۱ ۵۸ لقمان حضرت ۲۳_۲۴_۹۹-۹۸ | لندن ۲۰۹ | لنکا ۳۳۶ لیکھرام پنڈت ۶۹.۷ لیل کلوویلی (ہندوستان کا ایک پہاڑی مقام ) ۳۱۹ لینن.وی.آئی ۴۳۷-۴۲۹۴۲۸ | مارٹن فرینک اے ۴۸۳۴۶۹ ماریہ قطبیہ حضرت ۴۶۸ مبارک احمد مرزا ۳۵۹-۳۵۱-۳۴۷ ۱۷۰ ۴۸۸-۴۳۶۴۲۸ - ۴۱۹۴۱۸ ۳۸۴ ۳۶۲۳۴۲-۳۳۳۳۲۵ ۳۳۳ ۴۲۸-۱۶۱-۱۵۹ ۴۱۹۴۱۷ ۲۸۶.۴۷۷۴۷۱ ۳۶۵-۳۶۳ ۴۲۴۰ AI_ZA_26_21_2+ ۳۳۵ ) ابن حضرت مسیح موعود ).۱۲۱_۱۲۲_۱۲۴ - ۲۹۷-۲۹۸.۱۳ مبارکہ بیگم.حضرت نواب ۴۹۷۴۹۳-۴۲۵ | مجوس ۱۲۴ ۲۱ ۴۲۰ - ۴۲۵ - ۴۸۴-۴۵۰۴۳۹ - ۴۸۷ محاسب صدر انجمن احمدیه ۴۵۴-۴۵۵- ۴۵۷ - ۴۵۸ یه - - ۲۲۸ محبوب عالم منشی ایڈیٹر پیسہ اخبار ۴۳۳-۴۳۲ - ۴۳۷ | محرم ۲۴۷ - ۲۷ محمد رسول اللہ علیہ حضرت ۱۷۰ ۳۴۴ کمال الدین خواجہ کمیونزم کمیونسٹ کنعان کورو چھتر کولمبس کرسٹوفر کوئٹہ گاندھی مہاتما گین ایڈورڈ گلبدن بیگم گوجرانوالہ گورداسپور گورنام سنگھ لائل پور حال فیصل آباد 12 • ۴۳۷_۲۲۰_۱۵۰۷۵-۷۱-۶۹ ۳۴۵ ۲۲_۲۱۱۷۱۳ i ۲۹-۲۴ تا ۳۷۳۳-۴۷-۴۸-۵۳۵۲ ۵۵ تا ۶۷۵۷-۷۴-۷۵-۸۶-۹۵-۹۶-۲۹۸ ۱۲۹_۱۲۳-۱۲۰_۱۱۷ ۱۱۶ ۱۱۲-۱۰۸-۱۰۴_۱۰۳_۱۰۱ ۳۷۷ ۱۳۶-۱۳۳-۱۳۲_۱۴۱-۱۳۹_۱۴۳ تا ۱۴۵_۱۴۹-۱۵۵
۱۷۳-۱۷۰-۱۶۹-۱۶۰ تا ۱۷۷-۱۷۹-۱۸۴ - ۱۸۷ محمد ظفر اللہ خان حضرت چوھدری ۱۸۸.۱۹۰-۱۹۸_۲۰۲_۲۰۳_۲۰۷_۲۱۱ تا ۲۱۳ ۲۱۶ محمد ظہور الدین اکمل حضرت قاضی ۲۲۰_۲۳۵_۲۳۶_۲۴۰ ۲۴۲ تا ۲۴۵ - ۲۴۷ - ۲۵۵ | محمد عبد الحق ڈاکٹر ۲۷۲-۲۷۱-۲۶۶۵۲۶۱_۲۹۴ تا ۲۲۹۲۹۹_۳۰۳ محمد علی جناح قائد اعظم ۳۰۶ تا ۳۰۸_۳۱۰_۳۱۳-۳۱۴_۳۲۱ تا ۳۲۳-۳۲۷ محمود احمد حضرت مرزا بشیر الدین ۳۴۲۳۴۱-۳۳۹_۳۳۸-۳۳۶-۳۳۱-۳۲۸ ۳۴۷-۳۴۵_۳۵۰ تا ۳۵۲-۳۶۰-۳۶۸-۳۷۲ تا محمود اللہ شاہ حضرت سید ۳۸۰-۳۷۷-۳۷۴ تا ۳۸۲-۳۸۴ تا ۶ ۳۸ - ۳۸۸ محوری طاقتیں ۳۸۹_۴۲۰-۴۱۵-۴۰۲۳۳۹۱_۴۲۲ - ۴۲۳ - ۴۲۵ مدراس ۴۲۷ - ۴۳۳۴۲۸ تا ۴۳۶ - ۴۴۰ - ۴۴۲-۴۴۳-۴۵۰ مدینہ ۴۸۹-۴۸۶-۴۸۵-۴۸۱-۴۷۹-۴۷۶۲۴۷۴-۴۵۹ محمد احمد مظہر.حضرت شیخ محمد اسحاق.حضرت میر ۴۹۰_۴۹۲ تا ۴۹۵_۵۰۲-۵۰۳ | مراکش ۳۵۹ مری ۱۳۷.۲۲۶-۲۲۷ ۴۹۷۴۹۲-۱۲۵ ۴۹۱ ۴۰۳ ۱۶۰_۱۵۴_۱۲۵-۹ ۲۳۴.۴۲۹۳۲۹-۴۳۶-۴۸۷ ۴۶۴ ۸۷ ۳۴۵-۳۲۳-۱۶۷-۱۹۶-۱۱ ۳۹۸-۳۹۳_۳۹۲-۳۷۲ ۴۹۲-۸ ۵۰۰_۴۸۹-۴۸۰_۴۷۸ ۲۴۰ ۴۰۳-۲۰۱ ۳۳۲-۳۲۵_۱۵۲-۱۳۹ ۴۹۲-۴۸۱ ۱۹۱.۱۹۵ ۱۶ ۱۶ ۱۵۱-۱۶-۱۱ ۴۰۲ ۱۶ ۱۸۷ مریم حضرت میر محمد اسماعیل حضرت ڈاکٹر مسلم لیگ محمد اسماعیل پانی پتی محمد اسماعیل فاضل ہلالپوری حضرت ۱۵۲ ۱۶۱ محمد حسین بٹالوی مولوی محمد ذکاء اللہ دہلوی مولوی محمد زمان ماسٹر ۳۲۴ - ۳۲۹-۳۲۸ | مظہر جان جاناں ۲۸۷ | معاذ بن عفراء ا معاد عمرو بن الجموع حضرت محمد سعید ابن حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید ۲۸۷ معاویہ بن ابی سفیان حضرت ۲۸۷۲۸۶ معتصم عباسی تاجدار معو و حضرت محمد طیب سید ابن حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شهید |
۱۰ مغربی طاقتیں مغیرہ بن شعبہ مکه ۳۶۷ نوح علیہ السلام حضرت ۱۵۲ نورالدین حضرت مولوی ۳۲۲_۱۷۰ ۷۰۴۳-۴۲-۹ ۲۹۰-۲۶۴-۹ - ۳۳۶-۳۲۸ (خلیفه امسح الاول) ۷۸۷۱-۹۳-۹۴ - ۱۱۸-۱۲۱_۱۴۰ ۲۹۷۲۱۸-۲۱۷-۲۰۱-۱۸۷-۱۴۸-۱۴۵ ۱۴۴ ۴۸۰_۴۳۹-۴۰۱_۳۶۳-۳۵۳۳۳۲-۲۸۳-۲۹۸ ۱۵۳ ۲۸۷ ۱۵۲ ۴۷۹ ۴۹۸-۴۹۷۴۹۶ ۴۷۸ ۴۴۹-۴۴۴۴۳۶۴۳۵ ۲۴۷ ۱۵۲ ۱۳۷ ۳۳۶ ۴۹۴ ۴۱۵ ۴۹۲ ۲۸۷۲۳۸ I•Z_1•Y_I•I_AZ_ZP ۴۵۳-۴۵۲_۴۴۶-۴۱۵-۳۹۷_۳۹۶-۳۸۰۳۷۲ ۳۳۸ ملایا ممتاز محل ملکه زوجه شاه جهان ۲۸۱ - ۲۸۷ | نور علی قاری شہید منالی ۳۱۹ نوشیرواں منفتاح ۱۵۲ نیل دریا مینی ۳۱۵ وائسرائے موته غزوه ۴۰۲ وقف جدید موسیٰ علیہ السلام حضرت ۲۹_۱۰۰_۱۵۲ - ۲۱۳ - ۲۱۶ وکٹوریہ ملکہ ۴۶۰-۴۴۲-۴۱۶-۳۲۷-۳۲۳-۳۲۲ ولکاکس ای ڈبلیو (Willcocx.E.W) | ۴۳۲ ۲۰۳ ولید بن عبد الملک ۴۱۹ ولید بن مصعب ۴۵۵-۴۵۴ | ویمبلے ۴۱۸ ہاجرہ حضرت ۴۹۱ ہالینڈ ۳۷۹۳۶۴ | ہجرت ہسپانیہ ۴۹۱-۴۸۸-۱۹۴ ۲۱۲-۱۲۴-۱۲۰ ہمایوں شہنشاہ نصیر الدین) ہندو ۱۸۸-۱۵۸ تا ۲۲۶۱۹۰-۲۶۸-۲۸۶_۳۳۰-۳۳۱ ۱۵۳ ۱۵۲-۱۴۵ موسیٰ رضا حضرت مهاجرین ناصر نواب حضرت مہر ناظر بیت المال نپولین نصر اللہ خان سردار نصرت جہاں بیگم حضرت سیدہ نظام الدین اولیاء حضرت نعمت اللہ خان شہید حضرت مولوی نمرود |
۲۶۹ ۴۳۹ ۳۴۸-۳۴۳-۳۳۷-۳۳۴ - ۳۷۴-۳۶۷-۳۵۶ یزیدی لشکر ۴۰۹-۴۰۵ - ۴۲۲-۴۲۷ يقعوب علیہ السلام حضرت ۱۴۷ یعقوب علی عرفانی حضرت شیخ ۲۲_۲۱۲۹۰-۶۱-۲۹_۳۲۶ یمن ۱۴۰ ۲۹۰ ۱۵۷-۱۵۵-۱۴۶_۱۰۲-۱۰۰ ۴۸۶_۲۴۰_۲۲۶ ۴۷۲_۴۷۱_۴۶۹۳۷۳ ۴۴۸ ۱۰۲ ۱۰۲ ۳۴۳۷۲-۲۱ ۳۳۱۳۳۰-۱۰ ہندوازم ہندوستان ۳۳۰ تا ۳۳۴ - ۳۳۷ - ۳۳۸-۳۴۹-۳۵۰-۴۲۶ | یورپ ۴۹۳_۳۹۲-۴۷۸ ۴۹۵ تا ۴۹۶ | یورپین ۲۵۷ - ۳۴۵ یوسف علیہ السلام حضرت ۲۳۴ ۴۹۸ یونان یونانی یہود ۴۹۸۴۹۶۴۳۷ | یہودی ہندہ زوجہ ابی سفیان ہوشیار پور ہولی یحیی خان یرموک جنگ یزید بن معاویہ |
۱۲ ۳۲۸ (۱۳) ۳۲۸ (۴) ۱۷۰(۲۰) ۴۳۷ ۳۲۸ (۱۵) ۳۲۸ (۱۴) (۲۷) ۳۲۸ (۲۶) ۳۲۸ - ۲۲۴ (۲۵) ۳۲۸ (۲۴) ۳۱۹۹۱) ۲۶۴۷) ۳۲۸ - ۳۲۰ (۲۸) ۳۲۸ ۱۵-۸ (۱۱۴) ۳۲۸-۱۵-۸ (۱۱۳) ۳۲۸ (۱۱۲) (۱۱۶) ۴۷۷ - ۳۲۸ - ۱۲۱-۱۲۰-۱۵-۸ (۱۱۵) ۳۲۸ ۱۵۲(۱۲۰) ۴۷۷ ۳۲۸_۱۶۱-۱۰۵-۱۵-۸ (۱۶۱) ۳۱۸ (۸۰) ۲۱۰ (۹) ۲۶ (۲) ۴۹۷۴۸۷۳۸۹-۱۹۵ (۱۶۳-۱۶۲) ۳۰۰ المائدة الانعام قرآن کریم ۳۱۹-۲۳۴ (۵)۸۰(۲) ضروری نوٹ: بریکٹ کے اندر آیات کے نمبر ز جبکہ بقیہ صفحات ہیں.الفاتحة البقرة (۵) ۴۳۸.(۳۵) ۱۹۵(۲۶۳۶ (۵۸)۱۵۱ (۶۲)۱۵۱-۲۶.۳۲۸ (۳۱۹۹۱ له لله لله (الله) احالد ( الله (6) له (اله) له لدله ( الله ) (۱۶۶) ۲۳۳ (۱۵۷) ۲۳۳ (۱۵۶) ۱۰۴ (۱۵۵) (۱۸۶) ۳۱۹-۱۱۰ ۱۰۴ - ۷۱ (۱۸۴) ۴۸ (۱۷۸) ۳۰۰ ۹۱(۱۶۵) ۳۸۹ (۱۶۴) ۲۶۵ (۱۶)۲۶۵ (۱۵) ۱۹۵ (۱۳) (االه ) له (اله ( الله ) له ماله ( الله ) له لله الله (الله) ۱۹۴۱۷۱۱۰۴ (۱۸۷) ۲۸۷ - ۲۳۳ - ۲۲۴ - ۱۸۸-۱۵۰ ۱۷۱ (۲۱۴) ۳۸۹ (۱۹۶) ۱۸۱ - ۱۳۸ - ۱۰۴ (۱۸۸) - ۲۲۵ (۲۱۵) ۱۷۱-۱۲۳.(۲۱۷) ۱۵۰ - (۲۴۶) ۱۰۴_۳۰۰-۴۱۹ الاعراف (۱۱۸) ۴۶۴ (۱۱۷) ۴۶۴ (۱۱۶) ۴۶۴ (۱۱۵) ۴۶۴ له له له ( الولد ) له له له ( الدلله ) له (الد (bil) له اله ۱۰۴ (۲۶۲) ۲۲۵ (۲۵۸) ۳۰۰-۲۵۳ (۲۵۲) (۲۷۳) ۳۰۰ (۲۸۴) ۳۷۷.(۲۸۵)-۳۸۹ ۳۸ (۱۰۵) ۳۲۰ (۲۸) ۴۹۷ (۲۰) آل عمران ۴۷۷-۲۵۳-۱۵۲(۱۵۷) ۳۲۰ (۱۸۱) ۳۸ (۱۵۹) (۳) ۱۳۷ (۱۰ تا ۱۸) ۴۶۴ ۲۴۷ (۲۴) ۲۵۴ (۴۱) ۴۷۷ - ۲۲۵ (۲۵) ۴۳۷-۸۰ (۴۰) ۳۲۸ (۱۸۱) ۴۴۹۴۸ (۱۱۱) ۳۲۸ - ۱۲۴ (۱۰۰) ۱۳۸۹ (۴۱) الاعراف الانفال التوبة (۱۲۴) ۱۲۵ (۱۲۳) ۱۳۲۵ (۱۲۲) ۲۶ (۱۱۳) ( الله ) له الله الله ( الله ) له الله الله ( الله ) له اله الله ۱۸۱ (۱۳۵) - ۴۶۴ - ۱۲۵ - (۱۲۸) - ۴۶۴-۱۲۵ I^I_(191)101_(14+)_tz9_(iro)rrr ۲۵۳(۲۱) ۱۵۱ (۳۷) ۱۷ (۲) PPA(141)P(1M2)PAZ(1+0)+4(19) النساء
| ۱۳ ۱۵۱ (۱۲۸) - ۲۴۷ - (۱۲۲) - ۴۸ (۱۱۲) يونس هود (۱۱) - ۱۷.(۳۲) - ۴۶۴ (۵۸) ۱۵۰ | النمل (۱۳) ۲۱۰ (۲۹) ۴۷۷ (۸۹) ۳۲۰ | العنكبوت - - - يوسف (۹۱) ۲۵۳- (۱۰۹) - ۳۲۰-۲۶۵ (۱۱۴) ۱۲۳ الروم (۵)-۴۴۹.(۴۳) ۳۲۰ - السجدة ۸۵ ۸۷ - ۴۴۹ - (۸۸) - ۱۶۲-۱۳۷ الاحزاب الرعد ۳۸۹-(۳۶) ۲۲۵ (۱۲) ابراهيم (۸)۱۷(۳۸) ۳۴۴۳۰۰ | سبا الحجر النحل (۳۹) ۳۰۰ (۴۰) ۳۰۰ فاطر (۳۷ تا ۴۶) ۴۶۴.(۸۱).۴۷۷ 11_(24)__(10) ۱۹۴ (۷۰) ۱۰۵ (۴۹) ۵۹-(۴۲) ۱۱۰ (۱۸) ۲۶۵ (۶) ۳۰۰ (۴۱) - ۴۰۲ (۷) IZ_(21)_PMQ_(1•)_P••_(PD) ۴۶۴ (۲۵) ۴۶۴ (۴۴) (۲۲)-۱۹۵ (۳۶) ۲۶۵(۸۹) ۲۴۷ الصفت (۱۰۳) ۳۴۴۷۱ (۱۰۴ تا ۱۰۶) ۳۴۴ بنی اسرائیل 141_(20)_100_(12) (۱۲۱) ۳۰۰.(۱۲۲) ۳۰۰ حم السجدة (۱۰) ۳۰۰.(۷۳) ۲۵۳ محمد (۷۹) ۲۳۳.(۸۳) ۱۶۱ (۱۱۱) ۳۰۰ | الحجرات الكهف (۷) ۲۲۳-۴۰۲ | ق مریم (۶۲)-١٦ | الذريت ظة (۹) ۳۰۰ (۶۷ تا ۷۰-۴۶۴ | الرحمن ۲۳۴۱۱۹ (۱۱۸) ۲۴۷ - (۱۱۵) (۷۰) ١٠٤ الحديد الانبياء (۱۹) - ۱۳۷ | المجادلة الحج النور (۳۶) ۲۲۴ - ( ۲۲ ) - ۲۲۴ | الحشر الفرقان (۸)-۲۱۰-۹ الصف الشعراء (۴) ۲۲۳-۱۳۸_۴۰۲ | الجمعة ۲۶۵ (۷۹) ۱۶۱۴۵) ۳۰۰ (۹) ۶۰ (۳۹) ۳۰۰ (۱۴) (۱۸ تا ۳۵) ۱۳۷ 101(02)MAY(10) ۱۵۱(۳۴) ۱۵۱(۲۸-۲۷) ۳۸۹-۲۶ (۴۷) ۱۶ (۳۸) ۲۵۴ (۴) ۲۶(۲۳) ۱۷ (۱۹) ۲۴۷ (۱۵) ۴۹۳۸ (۱۰) ۲۸۷ - ۲۴۸ (۵) ۱۵۲-۴۹ (۴) ۴۹(۳) ۲۵۳(۲)
المتفقون التحريم الحاقة المزمل النزعت عبس التكوير الانشقاق الاعلى الفجر البلد الضحى الانشراح ۱۴ ۳۰۰ (۸) ۴۷ ۷ (۲) ۲۴۷ (۱۲-۱۱) ۳۰۰ (۴) تفاسیر قرآن ۷۱.۱۰۵-۱۸۱_۴۰۲۳۴۴ (۱۷) ۱۶ | تفسير الدر المنثور (۷) ۱۰۴ (۱۶) ۲۲۴ - ۳۲۸ (۱۷) ۳۲۸ مصنفه امام جلال الدین عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی ۳۲۸-۲۲۴ ۴۴۹ (۳۲) ۲۶۵ تفسیر روح المعانی ۱۰۴ مصنفہ ابوالفضل شہاب الدین السید محمود الدلوی البغدادی تفسیر صغیر ۳۸۹۳۲۸_۲۶۵۱۷۱ ۲۶۵(۳۲) ۳۸۰ (۱۴) ۱۳۸ - (۱) 195(2) ۵۹۲۰۳۲) ۴۳۶۷۰(۲۸) حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ السیح الثانی تفسير فتح البيان ابوطیب صدیق بن حسن القنوجی ) تفسير كبير At ۳۴۵-۱۸۱ (۲۹)۴۳۶۷۰.(۳۰) ۱۱۱۷۰-۳۸۹ حضرت علامہ فخر الدین رازی ۴۳۹_۳۸۹-۱۱۱-۷۰ (۳۱) تفسير الكشاف (۱۱) ۱۳۷ مصنفہ امام علامہ ابوالقاسم جارالله محمود بن عمر الزمخشرى الخوارزمی ۳۸(۱۲,۱۱) ۲۶۵۳۲) کتب احادیث (۹۳۹۳۲۸)٢٦ | الجامع للترمذى مؤلفه البوعيسى محمد بن عیسی بن سورۃ بن موسیٰ الترندی ۱۵۱ ۱۰۵-۹۰-۷۱-۲-۱۷ ۱۸۰-۱۵۲-۱۵۱-۱۲۴_۱۱۰ التين القدر r..(2) irr(yer) ۳۰۰ (۶۳۲) ۲۸۶-۲۵۳_۲۴۷ - ۲۱۰-۱۹۴ الفيل (۳) ۴۸۷ (۲تا۱۵۱۴ الجامع الصحيح للبخارى ۴۴۸ - ۴۱۳۴۱۲۴۰۲-۳۷۷ ۳۹_۳۸-۲۶_۱۷ ۱۶ النصر مؤلفه امام ابو عبد الله محمد بن اسماعیل البخاری ۸۰-۹۰-۱۰۴۹۱-۱۰۵ ۱۸۰-۱۷۱-۱۷۰-۱۰-۱۵۱-۱۵۰-۱۳۸-۱۳۷-۱۲۵-۱۲۳-۱۱۰ ۲۵۳-۲۴۷ ۲۳۴۲۳۳ - ۲۲۵ ۲۲۴ ۲۲۳۲۱۰۱۹۴ - ۱۸۱
۱۵ | ۳۵۸ - ۳۴۵ -۳۴۴۳۲۸-۳۱۹-۳۰۰_۲۸۶-۲۶۶ ۲۶۵ ۴۲۳۴۱۳۴۱۲_۴۰۳-۴۰۲-۳۸۹-۳۸۰-۳۷۹-۳۷۷ کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام آئینہ کمالات اسلام ۴۳۸۴۳۶-۴۲۴ - ۴۷۷-۴۴۸.۴۸۶-۵۰۳ ازالہ اوہام الجامع الصغير ۴۱۲-۳۲۹_۲۱۰-۱۸۱ ۴۹_۱۷۱-۱۲۴.۴۰۲۳۲۸ ۳۲۰_۲۳۴_۱۵۲_۱۰۵ مؤلفه امام جلال الدین ابوالفضل عبد الرحمن ابن ابوبکر السیوطی سنن ابن ماجه مؤلفه الحافظ ابو عبد الله محمد بن یزید القزوین ابن ماجه سنن ابی داؤد ۴۴۸ اسلامی اصول کی فلاسفی ۲۵-۱۳۷-۱۵۱-۲۵۳-۴۷۷ اشتہار ( منسلکہ آئینہ کمالات اسلام) اشتہار ( یکم دسمبر ) ۱۸۸۸ء ۲۶-۱۲-۱۵ - ۱۵۱-۱۰۵ | اشتهار تحیل تلخ ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء مؤلفه ابی داؤد سلیمان ابن الاشعث السجستانی ۱۶۰-۲۶۵-۳۱۹ اعجاز ایح ۳۲۸ ۳۲۸ ۱۰۴ الصحيح للمسلم ۴۹۱-۴۳۶-۴۱۲۳۵۸ الوصیت ۳۹-۳۸-۱۷-۱۲- ۹۱ | ایام الصلح ۲۵۳ ۲۲۵-۱۶۱-۱۵۳_۳۸ ۴۹ ۳۲۹_۳۲۸-۳۰۰_۲۲۴_۱۵۳_۱۵۱ ۳۲۸-۳۰۰ مؤلفہ امام ابوالحسین مسلم بن ۱۰۴.۱۳۷-۱۵۰-۱۷۱ براہین احمدیہ الحجاج بن مسلم القشیری ۲۲۳ - ۲۳۳ - ۲۸۷-۴۰۲۳۴۵ برکات الدعا ۲۰۳ ۲۱۲ ۴۲۳ - ۴۳۶-۴۲۴ - ۴۳۸ تبلیغ رسالت جلد سوم ۲۱۰-۱۸۱ تبلیغ رسالت جلد ششم تبلیغ رسالت جلد دہم كنز العمال في سن الاقوال و الافعال مؤلفه على المنفى علا والدین الہندی المستدرک علی الصحيحين في الحديث مؤلفه مولوی امام ابوعبد الله النيشا المعروف بالحکم مسند احمد بن حنبل امام احمد بن حنبل الشیبانی مشكوة المصابيح تجلیات الہیہ تحفہ قیصریه ۲۵۳-۱۶۰-۱۰۵ تحفہ گولڑویہ مؤلفه الخطيب ولی الدین محمد بن عبد الله لعمری التمیزی ۱۸۱ تذکرہ مجموعہ الہامات ۱۲۴ ۵۰۳ ۲۲۴_۱۷۰_۴۹ ۳۵۹ ۴۰۲ ۳۷۹-۱۷۱ ۱۵۲_۱۲۴۸۱۷۱۳۸ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۱-۱۷۰-۱۸۱_۲۲۳_۱۲۲۴_۲۲۵ مؤطا امام مالک بن انس مالک ۳۱۹-۱۲۴ ۴۳۶۴۰۲-۳۷۹-۳۷۷-۳۵۸-۳۲۹ ۱۷۰-۱۵۳۱۲۴-۱۲ تذكرة الشهادتين
۱۶ ۳۲۸_۵۰۳۴۷۷-۴۱۹-۳۷۹۳۲۹ ملفوظات جلد هفتم تریاق القلوب ۱۶۱۳۸ ملفوظات جلد هشتم ۱۷۱۱۲۳۹۰ ۴۳۷-۳۲۰-۱۸۱-۱۵۱-۱۱۱-۹۰ توضیح مرام ۲۲۵ ملفوظات جلد نهم ۱۸۱.۳۱۸-۳۲۸-۳۸۹ چشمه معرفت ۳۸_۴۹_۳۰۰_۳۲۰ منن الرحمن حقیقۃ الوحی ۲۲۴.۴۳۷ نیم دعوت دافع البلاء در مشین ۲۲۵ سرمه چشم آرید ۳۲۰ فتح اسلام قادیان کے آریہ اور ہم کتاب البریه Al ΔΙ ۳۲۸-۱۱۱۷۱ بزم صوفیه کشتی نوح كشف الغطاء گورنمنٹ انگریزی اور جہاد لیکچر سیالکوٹ مسیح ہندوستان میں ۳۲۸-۳۰۰_۲۵۳_۱۲_۱۵۲ ۱۶۲ نشان آسمانی ۳۲۸ ۳۷۹ ۲۵۳_۱۵۲ ۱۵۲ تصوّف و تاریخ تصوف الہی نامه ( شیخ فریدالدین عطار ) مصنفہ سید صباح الدین عبدالرحمن ایم.اے) تذكرة الاولياء ( مصنفه شیخ فریدالدین عطار اردو تر جمعه ) تذکرة حضرت صہیب رومی سفینۃ الاولیاء ۴۰۲_۳۸۹ ۲۸۷ ۸۰ شرح التصوف فتوحات مکیہ (حضرت شیخ محی الدین ابن عربی) مکتوبات احمد یہ جلد پنجم ملفوظات جلد اوّل ملفوظات جلد دوم ۳۱۹-۱۹۴-۱۸۱ ۱۹۴ مثنوی مولانا روم نزهة الخواطر فی مناقب شیخ عبدالقادر ملفوظات جلد سوم ۳۷۹-۱۵۱ ملفوظات جلد چهارم ۳۷۹۳۲۸_۴۰۲.۴۱۹ ملفوظات جلد پنجم ملاعلی قاری اردو تر جمه اقبال احمد فاروقی) ۳۲۹-۱۹۴-۱۵۲ سفرنگ دساتیر زرتشتی مذہب ملفوظات جلد ششم ۴۳۷-۴۱۹-۱۵۲ ۲۲۴_۱۹۴ ۳۷۹ ۴۹۳ ۳۸۹-۱۳۸ ۱۹۴ |
۲۳ ۲۳۳ ۲۳۳ ۳۳۲ مرقس (باب ۱۰: آیت ۲۱ تا ۳۲۵) یوحنا (باب۱۰: آیت ۲۲) کُتب ہندو دھرم بھگوت گیتا (حضرت کرشن علیہ السلام ) دھرم سندھو رگوید شنکر رگ و جے.(مصنفہ شری شنکر آچاریہ ) منوسمرتی.(مصنفہ منو) تاریخ و سوانح 14 ۸۰ ۱۳۷ ۳۴ ۳۲۸ ง 121 ۵۹ ۷۲ پیرانا عہد نامہ نامہ استثناء ( باب ۱۶: آیت ۱تا ۱۶) پیدائش (بابا: آیت ۲۶) ( باب ۱۲: آیت ۲ تا ۶۹ ) دانیال (باب ۱۳: آیت ۹ تا ۱۳) یوشع ( باب ۱۶: آیت ۲۰) نیا عہد نامہ پطرس (باب ۳: آیت ۱۲ تا ۱۳) لوقا باب ۱۵ آیت ۱۱ تا ۳۲) متی ( باب ۴: آیت ۴ ) متی ( باب ۵: آیت ۱۷, ۱۸) ۳۲۸ الاستيعاب في معرفة الاصحاب ۱۷۰.۲۴۸ باب ۵: آیت ۳۹ تا ۴۵) ۳۲۸ مصنفہ حافظ ابو عمر یوسف بن عبدالله القرطبی ( باب ۶: آیت ۱۰ ۱۱) اسد الغابة في معرفة الاصحاب ۱۷۱.۴۹۸ ۱۵۳ مصنفہ ابوالحسن علی بن محمد المعروف (باب: آیت ۲۰۱۹) ۳۸ ( باب ۷ : آیت ۶) ( باب ۹: آیت ۱۰ تا ۱۵) ( باب اا آیت ۱۹,۱۸) ( باب ۱۵: آیت ۲۴) ( باب ۱۵: آیت ۲۴ تا ۲۶) ( باب ۶ : آیت ۱۹) ۳۸ اُسوہ صحابہ.(مولانا عبد السلام ندوی) الاصابة في تميز الصحابة ۱۹۳ مصنفہ شہاب الدین احمد المعروف ابن حجر العسقلانی ۲۱۰ ۵۹ ۵۹ ۳۸ تاریخ احمدیت ( مولانا دوست محمد شاہد ) تاریخ بغداد ۱۵۱ ۴۹۷ - ۱۰۵ ۲۲۴-۱۲۵-۸۱-۸۰-۷۱ ۴۸۶-۴۳۷-۳۲۹_۳۲۰ مصنفہ خطیب ابی بکر احمد بن علی بغدادی
۱۸ تاریخ الرسل و الملوک ۱۵۱_۲۲۴_۳۴۴۳۲۰ کتب ادب ۴۹۸-۴۶۴۴۴۹_۳۴۵ ۴۴۹-۴۳۷ ۴۹۸-۴۶۴ ۲۸۲ مصنفہ ابی جعفر محمد بن جریر الطبری تاريخ الكامل مصنفہ ابو الحسن علی بن محمد المعروف ابن اثیر تاریخ ہندوستان مصنفه شمس العلماء مولوی محمد ذکاء اللہ دہلوی البيان والتبيين ( ابی عثمان عمرو بن الجاحظ ) دروس الادب ديوان الحماسه ۳۲۹ ۴۹۱_۴۱۲_۵۰ ۲۸۸ ۴۴۹۴۳۶ ۱۵۱-۱۶_۱۵۲_۱۸۱ - ۲۴۷ | دیوان غالب سيرة لامام ابی محمد ۳۰۰_۳۰۱_۳۲۸-۳۲۰ (مرزا اسد اللہ خان غالب ) ۴۹۸-۴۶۴۴۴۹۴۴۸-۴۰۲-۳۸۰۳۷۹ ۳۰۰_۱۷۱۱۵۱_۱۲۳_۱۰۴ عبد الملک ابن ہشام السيرة الحلبية مصنفہ علی ابن برہان الدین الحلمی ( حضرت مرزا بشیر احمد ) سیرت النعمان.مصنفہ علامہ شبلی نعمانی کتاب فارسی ۳۲۰۳۰۱ مجانی الادب مرتبه الاب شیخ الیسوعی ۳۰۱-۱۹۴-۸۰-۷۱_۴۳۷ مجموعه نغز.آصف الدولہ کی خان سیرت المہدی الغاب آورش ہندی شبد کوش فرهنگ آصفیه ۴۱۲ ۲۳۴ ۱۹۵ ۱۹۵-۱۹۴۱۵۲_۱۱۰ سیر الصحابه الطبقات الكبيرات مصنفہ محمد بن سعد مرقاة اليقين في حياة نورالدين ۴۰۲ ۴۸۶_۱۰۵ ۱۵۱۱۲۴ ۴۹۸-۲۶۶-۲۴۸۲۱۰ ۱۹۴ ( حضرت مولانا حکیم نورالدین خلیفہ اسیح الاوّل) مناقب الامام احمد بن حنبل مصنفہ حافظ عبدالرحمن الجوزی منتخب اللباب مصنفہ قاضی خاں نظام الملک ہمایوں نامہ مصنفه گلبدن بیگم ( اردو تر جمه ) ง 121 ۶۲ ۲۸۷-۲۴۷ المفردات في غريب القرآن ۳۸-۴۸-۵۹-۷۰-۸۰ للامام راغب الاصفہانی) ۱۰۴-۳۰۰ - ۳۵۸-۴۷۷ المنجد متفرق کتب سیاست نامه ( نظام الملک طوسی ) علم الامراض ( میرا شرف علی) مخزن الاخلاق (مولوی رحمت علی سبحانی) نیل الاوطار (علامہ شوکانی) ۱۸۱-۵۹ ۲۸۷ > IM ۱۸۱-۱۸۰-۱۲۴
۱۹ 4.Encyclopaedia Britannica p.80,243,344.5.Encyclopaedia Religion and Ethics p.,80,160,195,324,344.6.Historian History of the wordl VOL.XXVI: These Eveniful year part ii p.60,288.7.Jewish Encyclopaedia P.152,344.8.J.A.C.Brown: Pears Medical Encyclopedia.p.319 9.Joseph Berkeley Ed: The Talmud p.118,171.10.Frank A.Martin: Under the ۳۲۹ ۴۳۷-۳۰۱_۲۲۴ اشاعة السنة الحكم اخبار ورسائل ۹۱-۹۰-۸۰-۷۰-۵۹-۴۸-۳۷-۲۵_۱۵ ۱۵۴ ۱۵۳ ۱۵۰_۱۳۸ -۱۳۷-۱۲۳-۱۱۰-۱۰۴ ۲۳۳_۲۲۳۲۱۰۱۹۳-۱۸۰-۱۷۰-۱۶۱۱۶۰ ۳۱۸۳۰۰_۲۸۶_۲۶۵_۲۵۴۲۵۳-۲۴۷ ۲۳۴ ۴۱۲_۴۰۱_۳۸۹-۳۷۹-۳۷۷-۳۵۸-۳۴۴۳۲۸ ۴۷۷-۴۶۴-۴۵۱-۴۴۸-۴۳۶-۴۲۳۴۱۹ ۵۰۳۵۰۱_۴۹۸_۴۹۷۴۹۱-۴۸۶ ۴۳۷-۳۷۸-۳۲۹-۱۲۵-۸۱-۹-۸ ۱۷۰-۱۲۵ الفضل Absolute Amir.p.37.News Papers 1.The Civil and Millitary Gazete Lahore, p.379 2.The Times: London, p.379.۴۳۶ ۳۴۵ پیسہ اخبار تشحید الا ذہان ریویو آف ریلیجنز (اُردو) وشوجیوتی ( ہوشیار پور کا ایک ہندی رسالہ ) انگریزی کتب 1.Rudyard Kipling: Ballad of East and west p.241.2.Aleksandr.F.Kerenskii: The Crucifixion of liberty p.60.3.Edward Gibbon: Decline and Fall of the Roman Empire p.432,438