Khutbaat-eNoor

Khutbaat-eNoor

خطبات نور

Author: Hazrat Hakeem Noor-ud-Deen

Language: UR

UR

یہ ایک نہایت ہی قیمتی اور ایمان افروز  مجموعہ ان خطابات کا ہے جو حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے عیدین اور جمعہ کے مواقع پر دیئے۔ قرآن کریم کی کئی آیات کی ان میں تفسیر ہے۔ اور جماعتی تربیت کے لحاظ سے ان کا مطالعہ نہایت مفید ہے۔اولاً اس کو 1912 میں مکرم شیخ عبدالحمید صاحب آڈیٹر ریلوے نے لاہور سے 2 جلدوں پر مشتمل 372 صفحات پر طبع کروایا تھا۔مرتب کنندہ نے جماعتی اخبارات الحکم، البدر اور الفضل کے شماروں سے حضورؓ کے قادیان میں مستقل تشریف آوری سے لیکر1913ءتک ارشادفرمودہ 118خطبات جمعہ ، خطبات عیدین اور خطبات نکاح کو طبع کروایا تھا۔جبکہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان کے مرتب کردہ اس موجودہ ایڈیشن میں 141خطبات اور ایک تفصیلی انڈیکس شامل ہے۔ دردمندانہ نصائح اور علم و حکمت کے بیش بہا خزانہ کی یہ  ٹائپ شدہ کتاب قریبا 700 صفحات پر مشتمل ہے۔


Book Content

Page 1

خطبات نور مجموعه خطبات حضرت حکیم مولا نا مولوی نورالدین خليفة المسيح الاول

Page 2

بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم عرض حال بار دوم شکر ایزدی پر اللہ تعالی کا خاص فضل و رحم ہے کہ اس نے ۱۹۱۳ء میں حضرت امیر المومنین خلیفہ اسی اول رضی اللہ عنہ کی زندگی میں حضور کی منظوری سے خطبات نور دو جلدوں میں شائع کرنے کی توفیق عطا کی.جو بہت مقبول ہوئے مگر اب نایاب ہیں.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے خطبات جمعہ عیدین اور نکاح کو کتابی صورت میں شائع کرنے کا ارادہ کیا اور مسودہ جو میں نے اخبار الحلم و بدر قادیان سے مرتب کیا تھا، حضور کی خدمت میں پیش کیا تو حضور نے دیکھ کر خوشنودی کا اظہار ان الفاظ میں فرمایا :- ”میرے تو وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ کوئی ان کو جمع کرے گا.بڑی محنت کی ہے.جیسی آپ نے ان سے محبت کی ہے خدا آپ سے محبت کرے.“ خطبات شائع کرنے کے لئے حضور کی اجازت ضروری تھی.میری درخواست پر حضور نے فرمایا:.بابوعبد الحمید صاحب نے میری اجازت سے اور مجھے مسودات دکھانے کے بعد میرے خطبات کو کتابی صورت میں شائع کرنے کا انتظام کیا.اللہ تعالیٰ اس اخلاص کے واسطے انہیں جزائے خیر دے اور ان کے کام کو با برکت کرے.“ نورالدین ۲۰ جون ۱۹۱۲ء

Page 3

نمبر شمار 1 خطبہ جمعہ عنوان خطبه عيد الفطر.خطبہ جمعہ ۴ خطبہ عید الاضحی.فهرست فرموده ۲۷ جنوری ۱۸۹۹ء ۱۳ فروری ۱۸۹۹ء ۳۱ مارچ ۱۸۹۹ء ۲۱ اپریل ۱۸۹۹ء صفحہ - ۵ ۱۴ 19 ۲۹ ۴۰ ۴۵ ۵۱ ۶۰ ۸۴ ۹۶ 1+9 111 ۱۱۸ ۱۳۳ ۱۴۴ ۱۵۸ Λ ۹ " "1 = خطبه جمعه خطبه جمعه خطبه جمعه خطبہ عیدا عید الفطر.خطبہ عید الاضحی.خطبه جمعه خطبہ عید الفطر.۱۲ خطبه جمعه ۱۳ | خطبہ نکاح ۱۴ خطبہ جمعہ " الوداع ۱۵ خطبه عيد الفطر.۱۶ خطبه عید خطبہ عید الاضحیٰ ۱۷ خطبہ عید الفطر.۱۸ | خطبه جمعه ۲۰ اکتوبر ۱۸۹۹ء ۸ دسمبر ۱۸۹۹ء ۲۳ اپریل ۱۹۰۰ء ۲۲ جنوری ۱۹۰۱ء ۳۰ مارچ ۱۹۰۱ء ۱۷ مئی 1901ء جنوری ۱۹۰۲ء ۳۱ جنوری ۱۹۰۲ء ۱۲ ستمبر ۱۹۰۲ء جنوری ۱۹۰۳ء جنوری ۱۹۰۳ء ۱۱ مارچ ۱۹۰۳ء ۲۱ دسمبر ۱۹۰۳ء ۲۲ جنوری ۱۹۰۴ء

Page 4

فرموده ۲ دسمبر ۱۹۰۴ء ۹ دسمبر ۱۹۰۴ء له ۱۶۷ صفحه ۱۶۲ IAI ۱۹۵ ۱۹۸ ۲۰۸ ۲۱۷ ۲۲۶ ۲۳۷ ۲۴۲ ۲۴۶ ۲۴۸ ۲۵۳ ۲۵۷ ۲۶۱ ۲۶۶ ۲۶۸ ۲۷۲ ۲۸۰ ۲۹۲ ۲۹۸ نمبر شمار ۱۹ خطبه جمعه عنوان................۲۰ خطبه عيد الفطر.۲۱ خطبہ عید الاضحیٰ ۱۶ فروری ۱۹۰۵ء ۲۲ خطبہ نکاح ۲۱ مئی ۱۹۰۵ء ۲۳ خطبه جمعه ۲۷ اپریل ۱۹۰۶ء ۲۴ خطبه جمعه ۴ مئی ۱۹۰۶ء ۲۵ خطبه جمعه 11 مئی ۱۹۰۶ء ۲۶ خطبه جمعه ۱۹ اکتوبر ۱۹۰۶ء ۲۷ خطبہ نکاح کسوف ۲۸ خطبه ۱۵ نومبر ۱۹۰۶ء ۱۴ جنوری ۱۹۰۷ء ۲۹ خطبہ نکاح ۱۷ جون ۱۹۰۷ء ۳۰ خطبه جمعه ۲۳ اگست ۱۹۰۷ء ۳۱ خطبہ نکاح ۱۳ ستمبر ۱۹۰۷ء ۳۲ خطبه جمعه ۱۸ اکتوبر ۱۹۰۷ء یکم نومبر ۱۹۰۷ء ۳۳ خطبه جمعه" الوداع ۳۴ خطبه عيد الفطر.۳۵ خطبه جمعه................۳۶ خطبہ عید الاضحیٰ ۳۷ خطبہ نکاح..........۸ نومبر ۱۹۰۷ء ۲۰ دسمبر ۱۹۰۷ء ۱۵ جنوری ۱۹۰۸ء ۱۷ فروری ۱۹۰۸ء ۲ مارچ ۱۹۰۸ء ۱۳۹ خطبه جمعه ۱۳ مارچ ۱۹۰۸ء ۳۸ خطبه جمعه

Page 5

صفحہ ۳۰۵ ۳۱۴ ۳۲۵ ۳۳۰ ۳۳۸ ۳۴۷ ۳۵۴ ۳۵۶ ۳۵۹ ۳۶۱ ۳۶۳ ۳۶۵ ۳۶۷ ۳۷۰ ۳۷۴ ۳۸۲ ٣٨٦ ۳۸۹ نمبر شمار ۴۰ خطبه جمعه ۴۱ 3 خطبہ نکاح ۴۲ خطبه جمعه عنوان فرموده ۲۰ مارچ ۶۱۹۰۸ ۲۵ مارچ ۱۹۰۸ء ۳ اپریل ۱۹۰۸ء ۴۳ خطبه جمعه ۱۰ اپریل ۱۹۰۸ء ۴۴ خطبه جمعه ۱۷ اپریل ۱۹۰۸ء ۴۵ خطبه جمعه ۲۴۰ اپریل ۱۹۰۸ء بعد از خلافت ۴۶ خطبه جمعه ۴۷ خطبه جمعه ۵ جون ۱۹۰۸ء ۴ ستمبر ۱۹۰۸ء ۴۸ خطبه جمعه 11 ستمبر ۱۹۰۸ء ۴۹ خطبه جمعه........۱۸ ستمبر ۱۹۰۸ء ۵۰ خطبه جمعه ۲۵ ستمبر ۱۹۰۸ء ۵۱ خطبه جمعه یکم اکتوبر ۱۹۰۸ء ۵۲ خطبه جمعه ۸ اکتوبر ۱۹۰۸ء ۵۳ | خطبه جمعه ۲۵ دسمبر ۱۹۰۸ء ۵۴ خطبه جمعه یکم جنوری ۱۹۰۹ء ۵۵ خطبہ عید الاضحی جنوری ۱۹۰۹ء ۵۶ خطبه جمعه ۱۵ جنوری ۱۹۰۹ء ۵۷ خطبه جمعه ۲۲ جنوری ۱۹۰۹ء ۵۸ خطبه جمعه ۲۹ جنوری ۱۹۰۹ء ۱۵۹ خطبه جمعه ۱۲ فروری ۱۹۰۹ء

Page 6

صفحہ ۳۹۱ ۳۹۳ ۳۹۹ ۴۰۱ ۴۰۳ ۴۰۵ ۴۰۷ ۴۰۹ ۴۱۱ ۴۲۳ ۴۲۶ ۴۲۹ ۴۳۸ ۴۴۲ ۴۴۶ ۴۴۸ ۴۵۴ ۴۵۷ ۴۵۹ ۴۶۱ ۴۶۳ فرموده ۵ مارچ ۱۹۰۹ء عنوان نمبر شمار ۶۰ خطبہ جمعہ ۶۱ = خطبه جمعه ۶۲ خطبه جمعه ۶۳ خطبه جمعه ۶۴ خطبه جمعه ۶۵ | خطبه جمعه ۱۴ مئی ۱۹۰۹ء ۴ جون ۱۹۰۹ء ۲۵ جون ۱۹۰۹ء ۳۰ جولائی ۱۹۰۹ء ۱۳ اگست ۱۹۰۹ء ۶۶ | خطبه جمعه ۲۰ اگست ۱۹۰۹ء ۶۷ خطبه جمعه ۱۰ ستمبر ۱۹۰۹ء ۶۸ | خطبہ عید ۱۵ اکتوبر ۱۹۰۹ء ۶۹ خطبه جمعه ۷۰ خطبه جمعه ا خطبہ عید الاضحیٰ ۷۲ عید کے جمعہ کا خطبہ ۷۳ خطبه جمعه ۳۱ دسمبر ۱۹۰۹ء ۲۹ اکتوبر ۱۹۰۹ء ۱۲ نومبر ۱۹۰۹ء ۲۴ دسمبر ۱۹۰۹ء ۲۴ دسمبر ۶۱۹۰۹ ۷۴ خطبہ نکاح جنوری ۱۹۱۰ء ۷۵ خطبه جمعه ۱۴ جنوری ۱۹۱۰ء ۷۶ خطبہ جمعہ ۲۱ جنوری ۱۹۱۰ء ۷۷ خطبہ نکاح ۵ فروری ۱۹۱۰ء ۷۸ خطبه جمعه ۱۸ فروری ۱۹۱۰ء ۷۹ خطبہ جمعہ ۲۵ فروری ۱۹۱۰ء ۸۰ خطبه جمعه ۲۵ مارچ ۱۹۱۰ء

Page 7

عنوان فرموده ۲۶ مارچ ۱۹۱۰ء صفح ۴۶۶ ۴۷۰ ۴۷۳ ۴۷۵ ۴۸۰ ۴۸۵ ۴۸۷ ۴۹۰ ۴۹۳ ۴۹۸ ۵۰۰ ۵۰۲ ۵۰۵ ۵۰۹ ۵۱۱ ۵۱۳ ۵۱۶ ۵۱۸ ۵۲۱ ۵۲۲ نمبر شمار ۸۱ خطبہ نکاح ۸۲ | خطبہ نکاح ۸ اپریل ۱۹۱۰ء ۱۸۳ خطبه جمعه ۲۹ اپریل ۱۹۱۰ء ۸۴ خطبه جمعه یکم جولائی ۱۹۱۰ء ۸۵ خطبہ نکاح ۲۶ اگست ۱۹۱۰ء خطبة عيد الفطر.۵ اکتوبر ۱۹۱۰ء ۸۷ خطبه جمعه ۸۸ خطبه جمعه ۱۸ نومبر ۱۹۱۰ء ۱۷ فروری ۱۹۱۱ء..........۸۹ | خطبه جمعه ۹۰ | خطبه جمعه ۹۱ خطبه جمعه ۹۲ خطبه جمعه.........۱۹ مئی 1911ء ۲۶ مئی ۱۹۱۱ء ۹ جون ۱۹۱۱ء ۲۳ جون ۱۹۱۱ء ۹۳ | خطبه جمعه ۲۱ جولائی ۱۹۱۱ء ۹۴ خطبہ عید الفطر کے بعد وعظ ۲۵ ستمبر ۱۹۱۱ء ۹۵ | خطبه جمعه ۲۷ اکتوبر ۱۹۱۱ء ۹۶ | خطبه جمعه ۱۰ نومبر ۱۹۱۱ء............۹۷ | خطبه جمعه ۸ دسمبر ۱۹۱۱ء ۹۸ | خطبه جمعه ۱۵ دسمبر ۱۹۱۱ء ۹۹ خطبہ نکاح ۲۵ دسمبر ۱۹۱۱ء ۱۰۰ خطبه جمعه ۱۹ اپریل ۱۹۱۲ء ۱۰۱ خطبه جمعه ۲۷ ستمبر ۱۹۱۲ء

Page 8

نمبر شمار عنوان فرموده صفحہ ۱۰۲ خطبہ جمعہ ۱۱ اکتوبر ۱۹۱۲ء ۱۰۳ ۱۰۴ خطبه جمعه ۱۸ اکتوبر ۱۹۱۲ء خطبه جمعه ۲۵ اکتوبر ۱۹۱۲ء ۱۰۵ خطبہ نکاح ۲۸ اکتوبر ۶۱۹۱۲ ۵۲۴ ۵۲۶ ۵۲۹ ۵۳۰.............۱۰۶ خطبه جمعه یکم نومبر ۱۹۱۲ء ۱۰۷ خطبہ جمعہ ۸ نومبر ۱۹۱۲ء ۱۰۸ خطبہ نکاح ۱۱ نومبر ۱۹۱۲ء ۱۰۹ خطبه جمعه ۱۵ نومبر ۱۹۱۲ء ۲۰ نومبر ۱۹۱۲ء ۱۱۰ خطبہ عید الاضحیٰ ۱۱۱ خطبه جمعه ۱۱۲ خطبه جمعه ۱۱۳ خطبه جمعه ۱۱۴ خطبه جمعه ۱۱۵ خطبہ نکاح.....۶ دسمبر ۱۹۱۲ء ۱۳ دسمبر ۱۹۱۲ء ۲۷ دسمبر ۱۹۱۲ء یکم مارچ ۱۹۱۳ء ۲۴ اپریل ۱۹۱۳ء ۱۱۶ خطبه جمعه ۱۳ جون ۱۹۱۳ء ۱۱۷ خطبه جمعه ۲۰ جون ۱۹۱۳ء ۱۱۸ خطبه جمعه ۲۷ جون ۱۹۱۳ء ۱۲۰ ۱۱۹ خطبه جمعه ۱۲۱ طبہ جمعہ خطبہ خطبہ جمعہ ۱۲۲ خطبه جمعه ۴ جولائی ۱۹۱۳ء 6 6 4 4 3 2 4 0 6866 11 جولائی ۱۹۱۳ء 6868686 6 6 6 4 6 8 848 44860844 8 8 8 8 8 8 8 8 8888888 ۱۸ جولائی ۱۹۱۳ء ۲۵ جولائی ۱۹۱۳ء ۵۳۳ ۵۳۷ ۵۴۰ ۵۴۲ ۵۴۵ ۵۴۷ ۵۵۱ ۵۵۴ ۵۶۱ ۵۶۳ ۵۶۶ ۵۶۸ ۵۷۱ ۵۷۶ ۵۷۸ ۵۸۱ ۵۸۷

Page 9

عنوان ۱۲۳ خطبه جمعه *******.........۱۲۴ خطبه جمعه ۱۲۵ خطبه جمعه فرموده یکم اگست ۱۹۱۳ء ۸ اگست ۱۹۱۳ء ۱۵ اگست ۱۹۱۳ء صفحہ ۵۹۰ ۵۹۴ ۵۹۷ ۱۲۶ خطبه جمعه ۲۲ اگست ۱۹۱۳ء ۶۰۰ ۱۲۷ خطبه جمعه ۱۲ ستمبر ۱۹۱۳ء ۶۰۴ ۱۲۸ خطبه جمعه ۱۹ ستمبر ۱۹۱۳ء ۱۲۹ خطبه جمعه ۲۶ ستمبر ۱۹۱۳ء ۱۳۰ خطبه جمعه ۳ اکتوبر ۱۹۱۳ء ۶۰۷ ۶۱۱ ۶۱۴ ۱۳۱ خطبه جمعه ۱۰ اکتوبر ۱۹۱۳ء ۶۱۷.........۱۳۲ خطبه جمعه ۱۷ اکتوبر ۱۹۱۳ء ۶۲۱ ۱۳۳ خطبه جمعه ۳۱ اکتوبر ۱۹۱۳ء ۶۲۴ ۱۳۴ خطبه جمعه ۷ نومبر ۱۹۱۳ء ۶۲۷ ۱۳۵ خطبه جمعه ۱۴ نومبر ۱۹۱۳ء ۶۳۳ ۱۳۶ خطبه جمعه ۲۱ نومبر ۱۹۱۳ء ۱۳۷ خطبه جمعه ۲۸ نومبر ۱۹۱۳ء ۱۳۸ خطبه جمعه ۵ دسمبر ۱۹۱۳ء ۱۳۹ خطبه جمعه ۱۲ دسمبر ۱۹۱۳ء ۶۴۰ ۶۴۳ ۶۴۷ ۱۴۰ خطبه جمعه ۱۹ دسمبر ۱۹۱۳ء ۱۴۱ خطبه جمعه ۲۶ دسمبر ۱۹۱۳ء ۶۵۳

Page 10

— j ۲۷ جنوری ۱۸۹۹ء بمقام دھاریوال خطبہ جمعہ 1 تشہد، تعوز اور تسمیہ کے بعد آپ نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی.يُأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ - وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِيْنَ نَسُوا اللَّهَ فَانْسُهُمْ اَنْفُسَهُمْ أُولئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ - لَا يَسْتَوِى أَصْحَابُ النَّارِ وَ اَصْحَابُ الْجَنَّةِ اَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَائِزُونَ - (الحشر: ۱۹ تا ۲۱) اور پھر فرمایا:.یہ کلمات طیبات جن کو میں نے ابھی پڑھا ہے قرآن شریف کی آیتیں ہیں جو خدا تعالیٰ کا کامل کلام ہے.ان پاک آنوں میں تاکید یہ ہوتی ہے کہ نانيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا الله لو گویا کو مومن کہلاتے ہو اور تم اس بات کو جانتے ہو کہ اللہ تعالی گندوں اور پاک لوگوں کو پسند نہیں کرتا.وہ پاک ہے.پس وہ

Page 11

2 قدوس خدا پاکیزگی اور طہارت چاہتا ہے) تو پھر اس دعوائے ایمان کے ساتھ متقی بن جاؤ.اور متقی بھی ظاہر کے نہیں.اس لئے نہیں کہ لوگ تمہیں متقی اور پرہیز گار کہیں یا مجلسوں میں تمہاری تعریف کریں.نہیں ! نہیں !! اِتَّقُوا اللہ اللہ تعالیٰ کے متقی بنو.متقی کے لئے یہ ضروری باتیں ہیں.اولا.ہر ایک کام جب کرو ، اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے، دشمنی میں، دوستی میں عداوت اور محبت میں مقدمہ ہو یا صلح ہو، غرض ہر حالت میں یہ امر خوب ذہن نشین رکھو کہ نہیں معلوم موت کی گھڑی کس وقت آجاوے.وہ کونسا وقت ہو گا جب دنیا سے اٹھ جاویں گے اور اس وقت ماں ، باپ، بیوی، بچے دوست یار کنبے کے بڑے بڑے ہمدردی کا دم بھرنے والے انسان مال، دولت، غرض کوئی چیز نہ ہو گی جو اس وقت ساتھ دے سکے.اس وقت اگر کوئی چیز ساتھ جا سکے گی تو وہ وہی انسان کا عمل ہو گا خواہ اچھا ہو خواہ برا ہو اور جیسا عمل ہو گا ویسا ہی اس کا پھل ملے گا.جیسے تم ہر روز دنیا میں دیکھتے ہو کہ ایک زمیندار گیہوں کے بیج بو کر جو یا جو بو کر گنے کا پھل نہیں لے سکتا پس اسی طرح پر جیسے عمل ہوں گے ، بدلہ ان کے ہی موافق اور رنگ کا ہو گا.یہی سچی بات ہے کہ ملے کام کا پھل دنیا اچھا اٹھاتی ہے.پس یہ بات ضرور ضرور یاد رکھو کہ جن کی خاطر انسان عداوتیں اور دشمنیاں کرتا ہے اور مکرو فریب اور کیا کیا شرارتیں کرتا ہے، وہ اس آخری ساعت میں اس کے ساتھ نہ جائیں گی.اکیلا ہی آیا ہے اور اکیلا ہی چلا جائے گا.بادشاہوں کی بادشاہت امیروں کی امارت دوستوں کی دوستی کنبہ گھر پڑوس گاؤں اور سارے شہر کے رشتہ دار ہیں رہ جاتے ہیں.پس ان ساری باتوں کو غور کرو اور موت کی آنے والی اور یقینا آنے والی اور نہ ٹلنے والی گھڑی کا خیال رکھو اور اس خیال کے ساتھ ہی کل کا فکر آج کرو اور اپنے اعمال کا محاسبہ اور پڑتال کر لو کیونکہ نیک بدلہ تب ہی ملے گاجب کہ اعمال بھی نیک ہوں گے.ثانیا.متقی کے لئے ضروری ہے کہ اس کا ایمان سچا ایمان ہو اور اس کے عقائد نیک عقائد ہوں اور پھر اس پر اعمال بھی نیک ہوں.ایمان کے اصول صاف ہیں.قدوس اور پاک خدا قدوسیت چاہتا ہے.ناپاک انسان پاک ذات سے تعلق پیدا نہیں کر سکتا.تم اپنے اندر اس بات کو دیکھو کہ کیا کوئی بھلا مانس اور شریف پسند کرتا ہے کہ وہ بد معاش اور بدنام آدمیوں کے ساتھ ملے اور تعلق پیدا کرے.پھر اس پر قیاس کرو کہ وہ خدا جو قدوسوں کا قدوس اور پاک ہے جو تمام محامد اور خوبیوں کا مجموعہ اور سرچشمہ ہے کب پسند کر سکتا ہے کہ گندے اور ناپاک لوگ اس سے تعلق رکھ سکیں.پس اگر خدا سے رشتہ قائم رکھنا چاہتے ہو اور اس کو خوش کرنا پسند کرتے اور ضروری سمجھتے ہو تو خود بھی پاک ہو جاؤ اور اس پر کچا

Page 12

3 ایمان لاؤ کہ تمام محامد اور تعریفوں اور خوبیوں کے لئے وہی ایک پاک ذات سزاوار ہے.جس طرح سے اللہ تعالی اپنی مخلوق پر رحم کرتا اور شفقت اور پیار کی نگاہ سے دیکھتا ہے تم بھی اس کی مخلوق کے ساتھ کچی محبت اور حقیقی شفقت کرو اور رحم اور ہمدردی کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ برتاؤ کرو.میں پھر کہتا ہوں سوچو اور غور کرو کہ تقویٰ کے سوا فائدہ نہیں.خدا تعالیٰ نے صاف صاف لفظوں میں اس بات کو کھول کھول کر بیان کیا ہے کہ مغرب یا مشرق کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا ہی نیکی نہیں بلکہ سچا ایمان خدا کو مطلوب ہے.اس لئے اس بات پر ایمان لاؤ کہ وہ خدا قدوس ہے، تمام رحمتوں ، بزرگیوں اور سچائیوں کا سرچشمہ ہے اور اس کے قرب کے لئے ضروری ہے کہ ہم بھی اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا پورا لحاظ رکھیں.خدا تعالیٰ کی صفت ہے کہ بدکار اور غافل بھی اس کی ربوبیت سے فیض پاتے ہیں اور حصہ لیتے ہیں.پس تم بھی خدا کی مخلوق کے ساتھ مہربانی، نیکی اور سلوک کرنے میں مسلم غیر مسلم کی قید اٹھا دو اور تمام بنی نوع انسان سے جہاں تک ممکن ہو احسان کرو.خدا رَبُّ الْعَالَمِین ہے.یہ بھی رَحِيمُ لِلْعَالَمِین ہو جاوے.پس یہ تقویٰ ہے.ایسے لوگوں کی طرح مت ہو جاؤ جن کی نسبت فرمایا کہ نَسُوا اللَّهَ فَانْسُهُمْ أَنْفُسَهُمْ أُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ یعنی جنہوں نے اس رحمت اور پاکی کے سرچشمہ قدوس خدا کو چھوڑ دیا اور اپنی شرارتوں، چالاکیوں نا عاقبت اندیشیوں، غرض قسم قسم کی حیلہ سازیوں اور روباہ بازیوں سے کامیاب ہونا چاہتے ہیں.مشکلات انسان پر آتی ہیں.بہت سی ضرورتیں انسان کو لاحق ہیں.کھانے پینے کا محتاج ہوتا ہے.دوست بھی ہوتے ہیں.دشمن بھی ہوتے ہیں.مگر ان تمام حالتوں میں متقی کی یہ شان ہوتی ہے کہ وہ خیال اور لحاظ رکھتا ہے کہ خدا سے بگاڑ نہ ہو.دوست پر بھروسہ ہو تو ممکن ہے کہ وہ دوست مصیبت سے پیشتر دنیا سے اٹھ جاوے یا اور مشکلات میں پھنس کر اس قابل نہ رہے.حاکم پر بھروسہ ہو تو ممکن ہے کہ حاکم کی تبدیلی ہو جاوے اور وہ فائدہ اس سے نہ پہنچ سکے اور ان احباب اور رشتہ داروں کو جن سے امید اور کامل بھروسہ ہو کہ وہ رنج اور تکلیف میں امداد دیں گے اللہ تعالیٰ اس ضرورت کے وقت ان کو اس قدر دور ڈال دے کہ وہ کام نہ آسکیں.پس ہر آن خدا سے تعلق نہ چھوڑنا چاہئے جو زندگی موت کسی حال میں ہم سے جدا نہیں ہو سکتا.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے خدا تعالیٰ سے قطع تعلق کر لیا ہے.اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم دکھوں سے محفوظ نہ رہ سکو گے اور سکھ نہ پاؤ گے بلکہ ہر طرف سے ذات

Page 13

4 کی مار ہوگی اور ممکن ہے کہ وہ ذلت تم کو دوستوں ہی کی طرف سے آجاوے.ایسے لوگ جو خدا سے قطع تعلق کرتے ہیں وہ کون ہوتے ہیں؟ وہ فاسق فاجر ہوتے ہیں.ان میں سچا اخلاص اور ایمان نہیں ہوتا.یہی نہیں کہ وہ ایمان کے کچے ہیں.نہیں.ان میں شفقت علی خلق اللہ بھی نہیں ہوتی.یاد رکھو کبھی یہ بات نہیں ہو سکتی کہ قدوس کے قبع اور بھلے مانس ذلیل ہوں.نہیں.وہ دنیا میں، قبر میں، حشر میں، جنت میں عیش اور سچا آرام پاتے ہیں.وہ ان لوگوں کے جو آگ میں جل رہے ہیں برابر نہیں اور ہرگز نہیں.وہ لوگ جو کچے راستباز اور متقی ہیں اور ہمیشہ سکھ پاتے ہیں، یہ لوگ ہی آخر کار کامیاب ہونے والے ہیں.میں پھر آخر میں کہتا ہوں کہ کامل ایمان کے بدوں انسان اس درجہ پر نہیں پہنچتا.کامل ایمان یہی ہے کہ اسمائے الہی پر ایمان لاؤ کہ اللہ تعالیٰ ظالم نہیں ہے کہ ایک ناپاک اور گندے کو ایک پاک اور مومن سے ملاوے اور گندے کو عزت دیوے.پھر کامل ایمان میں سے یہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وسائط پر ایمان لاؤ.یعنی ملائکہ پر اللہ تعالیٰ کی کتابوں پر ایمان لاؤ.وفادار ہو.عسرویسر میں قدم آگے ہی بڑھاؤ اور جزا و سزا پر ایمان لاؤ.نمازوں کو مضبوط کرو اور زکو تیں دو.غرض یہ لوگ ہوتے ہیں جو متقی کہلاتے ہیں.خدا تعالی آپ کو اور مجھے توفیق دے کہ ہم متقی بن جاویں.یاد رکھو کہ دنیا سے وہی تعلق ہو جو خدا چاہتا ہے.آخر جیت راستبازوں ہی کی ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ مخفی در مخفی حالات کا واقف ہے.ہمیشہ اس کے پاک قانون کے متبع بنو اور ہر حالت میں رضائے الہی کے طالب رہو اور اس پاک چشمہ سے دور نہ رہو.آمین.الحکم جلد ۳ نمبر ۵----۱۰ر فروری ۱۸۹۹ء صفحه ۸-۹) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 14

یکم شوال ۱۳۲۶ھ ۱۳ فروری ۱۸۹۹ء 50 خطبہ عید الفطر تشہد، تعوذ اور تسمیہ کے بعد آپ نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی.يُبَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِيْنَ - واتَّقُوا يَوْمًا لا تَجْزِى نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّلَا هُمْ يُنْصَرُونَ.(سورة البقرة: ۴۸-۴۹) اور پھر فرمایا:.اللہ تعالی ہمارا مالک ہمارا خالق ہمارا رازق کثیر اور بے انتہا انعام دینے والا مولا فرماتا ہے کہ میری نعمتوں کو یاد کرو.انسان کے اندر قدرت نے ایک طاقت ودیعت کر رکھی ہے کہ جب کوئی اس کے ساتھ احسان کرتا ہے تو اس کے اندر اپنے محسن کی محبت پیدا ہوتی ہے.جُبِلَتِ الْقُلُوبُ عَلَى حُبِّ مَنْ أحسن إليها (جامع الصغیر).اور ایسا ہی اس آدمی سے اس کے دل میں ایک قسم کی نفرت اور رنج پیدا

Page 15

6 ہو جاتا ہے جس سے اس کو کسی قسم کی تکلیف یا رنج پہنچے.اور یہ ایک فطرتی اور طبعی تقاضا انسان کا ہے.پس اسی فطرت اور طبیعت کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ اس مقام پر فرماتا ہے کہ اللہ کریم کے احسانوں کا مطالعہ کرو اور ان کو یاد کر کے اس محسن اور منعم کی محبت کو دل میں جگہ دو.اس کے بے شمار اور بے نظیر احسانوں پر غور تو کرو کہ اس نے کیسی منور اور روشن آنکھیں دیں جن سے وسیع نظارہ قدرت کو دیکھتے اور ایک حظ اٹھاتے ہیں.کان دیئے جن سے ہر قسم کی آوازمیں ہمارے سننے میں آتی ہیں.زبان دی جس سے کیسی خوشگوار اور عمدہ باتیں کہہ کر خود بخود خوش ہو سکتے ہیں.ہاتھ دیئے کہ جن سے بہت سے فوائد خود ہم کو اور دوسروں کو پہنچتے ہیں.پاؤس دیئے کہ جن سے چل پھر سکتے ہیں.پھر ذرا غور تو کرو کہ دنیا میں اگر کوئی شخص کسی کے ساتھ ادنی سا احسان بھی کرتا ہے تو وہ اس کا کس قدر ممنون ہوتا ہے اور ہر طرح سے اس احسان کو محسوس کرتا ہے.مگر خدا تعالیٰ کے احسان جو کل دنیا کے احسانوں سے بالا اور بالاتر ہیں.اور جو سچ پوچھو تو وہ احسان بھی جو دوسرا ہم سے کرتا ہے دراصل اللہ تعالیٰ ہی کے احسان ہیں جس نے یہ توفیق عنایت فرمائی.کوئی کسی کو نو کر کر دیتا ہے یا دعوت کرتا ہے یا کپڑا دیتا ہے.پر سوچو تو سہی کہ اگر خداداد طاقتیں نہ ہوں تو ہم کیا سکھ ان سے اٹھا سکتے ہیں.دعوت میں عمدہ سے عمدہ اغذیہ اور کھانے کے سامان ہوں لیکن اگر قے کا مرض ہو یا پیٹ میں درد ہو تو وہ کھانے کیا لطف دے سکتے ہیں اور ان سے کیا مزہ اٹھایا جا سکتا ہے؟ عمدہ سے عمدہ چیز بجو فضل الہی فائدہ اور سکھ نہیں دے سکتی.یہ روشنی جس سے ہزارہا سکھ اور فائدے پہنچتے ہیں، کس نے دی؟ اس نے جو نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ (النور:۳۲) ہے.ہوا پانی کس نے عطا فرمایا؟ اسی منعم حقیقی کی نعمتوں اور برکتوں کا ایک شعبہ ہے.سرسبز کھیت اور باغوں میں پھل لگانا اس کی نوازش اور عنایت ہے.غرض کل دنیا کی نعمتوں سے جو انسان مالا مال ہو رہا ہے یہ اس کی ہی ذرہ نوازیاں ہیں.جسمانی نعمتوں اور برکتوں کو چھوڑ کر اب میں ایک عظیم الشان نعمت روح کے فطرتی تقاضے کو پورا کرنے والی نعمت کا ذکر کرتا ہوں.وہ کیا؟ یہ اس کا پاک اور کامل کلام ہے جس کے ذریعے سے انسان ہدایت کی صاف اور مصفا راہوں سے مطلع اور آگاہ ہوا اور ایک ظلمت اور تاریکی کی زندگی سے نکل کر روشنی اور نور میں آیا.ایک انسان دوسرے انسان کی باوجود ہم جنس ہونے کے رضا سے واقف نہیں ہو سکتا تو پھر اللہ تعالیٰ کی رضا سے واقف ہونا کس قدر محال اور مشکل تھا.یہ خدا تعالیٰ کا احسان عظیم ہے کہ اس نے اپنی رضا کی راہوں کو بتلانے اور اپنی وراء الورٹی مرضیوں کو ظاہر کرنے کے لئے انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ قائم فرمایا.انسان دنیا کے عجائبات اور خداداد چیزوں میں غور کر کے سکھ پاتا ہے.لیکن وہ ابدی اور دائمی خوشی جو خود اللہ تعالی ظاہر کر دے کیسی بچی ہو گی.

Page 16

1 7 کس قدر کاوش اور تکلیف سے جسمانی سکھ حاصل کرنے کے لئے انسان کپڑا اور غذا بہم پہنچاتا ہے.مگر ایک وقت آتا ہے کہ کپڑا پھٹ جاتا ہے اور غذا کا فضلہ باقی رہ جاتا ہے.روحانی نعمتیں ابد الآباد کی راحتیں ہیں.دنیا میں، مرنے میں، جنت میں، حشر و نشر میں ہمارے ساتھ ہیں.غرض خدا تعالیٰ کے دلچسپ انعامات میں سے انبیاء اور رسل کا بھیجنا ہے.گذشتہ ایام میں چونکہ رستے صاف نہ تھے ، تعلقات باہمی مضبوط نہ تھے، اس لئے ایک ایک قوم میں نبی اور رسول آتے رہے.جب مشرق اور مغرب اکٹھا ہونے لگا خدا کے علم میں وہ وقت خلط ملط کا آگیا تو اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا.انبیاء علیہم السلام اور جس قدر رسول آئے فرداً فرداً قوموں کی اصلاح کے لئے آئے.ان کا جامع اور راستبازوں کی تمام پاک تعلیموں کا مجموعہ.قرآن کریم ہے جو جامع اور مہیمن کتاب ہے.فِيهَا كُتُبْ قَيِّمَةٌ (البينة: ٢) فرمایا.پھر انبیاء علیہم السلام کی تعلیم کے لئے ایک مشکل یہ پیش آتی تھی کہ ان میں کوئی خلیفہ اور کوئی یاد دلانے والا نائب نہ ہو تا تھا.اس لئے لوگ بے خبر ہو جاتے تھے اور قوم پھر سو جاتی تھی.مگر مولا کریم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا دامن چونکہ اِلى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وسیع کر دیا ہے اور آپ کا ہی دعوى إِنَّ رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (الاعراف ) کا ہے اور ایسی مضبوط کتاب آپ کو عطا فرمائی ممکن تھا کہ لوگ بے خبر رہتے، اس کی حفاظت کا انتظام بھی خود ہی مولا کریم نے فرما دیا.جیسے ظاہری حفاظت کے لئے قراء اور حفاظ ہیں، ایسے ہی باطنی تعلیم کے لیے ایک سامان مہیا فرمایا.ہزارہ مذاہب اس وقت دنیا میں نظر آئیں گے.مگر جب دیکھا گیا تو انبیاء علیہم السلام کا ہی مذہب عمدہ پایا.کوئی درختوں کی پوجا کرتا ہے.کوئی پتھروں کے آگے سرجھکاتا ہے.افسوس انسان ہو کر حیوان اور بے جان استھان کی پرستش کرتا ہے.اور پھر ایک اپنے جیسے کھاتے پیتے محتاج اور ناتواں انسان کو معبود مانتا ہے.ایسی صورت میں توحید کا پاک چشمہ مکدر ہو چکا تھا اور قریباً توحید پرستی کا نام و نشان مٹ گیا تھا.مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اس پاک چشمہ اور مبارک سلسلہ توحید کو قائم کیا اور پھر اس کی تکمیل کی.ہر ایک قسم کی گندی اور ناپاک بت پرستی کو دور کر دیا.اللہ تعالیٰ کے سوا اس کے کسی اسم کسی فعل اور کسی عبادت میں غیر کو شریک کرنا یہ شرک ہے.اور تمام بھلے کام اللہ تعالیٰ ہی کی رضاء کے لئے کرے اس کا نام عبادت ہے.لوگ مانتے ہیں کہ کوئی خالق خدا تعالیٰ کے سوا نہیں.اور یہ بھی مانتے ہیں کہ موت اور حیات خدا تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں اور قبضہ اقتدار و اختیار میں ہے.یہ مان کر بھی دوسرے کے لئے سجدہ کرتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں اور

Page 17

8 طواف کرتے ہیں.عبادت الہی کو چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کرتے ہیں.خدا تعالی کے روزوں کو چھوڑ کر دوسروں کے روزے رکھتے اور خدا تعالی کی نمازوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے غیر اللہ کی نمازیں پڑھتے ہیں اور ان کے لئے زکو تین دیتے ہیں.ان اوہام باطلہ کی بیخ کنی کے لئے اللہ تعالٰی نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا.انسان کی اوسط عمر ساٹھ ستر اسی.پس اس عمر کا انسان پچھلی صدی کے حالات تو پہچان سکتا ہے.یہ احسان ہے اللہ تعالیٰ کا جو اسلام سے مخصوص ہے کہ بھولی بسری متاع جیسا وقت ہوتا ہے اس کے لحاظ سے اللہ تعالٰی اس کو یاد دلانے والا بھیج دیتا ہے.یہ انعام ہے، یہ فضل اور احسان ہے اللہ تبارک و تعالیٰ کا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو دین لائے تھے اور جس کے ضروری کاموں میں سے ایک یہ تھا کہ کوئی شخص خدا تعالیٰ کی ذات کے سوا نہ ہمارا خالق ہے نہ رازق نہ اس کے سوا علیم نہ میں نہ ہمیت نہ سکھ دکھ دینے والا ہے.بلکہ صرف خدا ہی ہے جو سب کام کرنے والا ہے.سجدہ رکوع ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا ہو پکارتا ہو، یہ سب کام صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہوں.ملائکہ پر ایمان لانا اللہ تعالیٰ کی کتابوں، اس کے پاک رسولوں کو ماننا اور جزا و سزا پر ایمان لانا اور اس امر کا ماننا کہ ہر چیز کا اس نے اندازہ کیا ہے.یہ ایمان کے اصول ہیں.اپنے سب عقائد کو رضائے الہی میں لگا دینا ایک سچے مومن کا کام ہے.پانچ وقت کی نماز ادا کرنا اپنے مال میں سے ایک معین حصہ یعنی زکوۃ کا ادا کرنا، یتیموں ، بیکسوں اور رشتہ داروں کی خبر گیری کرنا، رنج و راحت، بیماری تندرستی، دکھ سکھ ، غربی، امیری، مقدمہ مقابلہ، عسریر، صلح، عداوت میں خدا تعالیٰ کی رضاء کو ہاتھ سے نہ دینا یہ اصول یہ پاک اور مبارک اصول ممکن تھا کہ بھول جاتے جس طرح اور قومیں اپنی کتابیں کھو بیٹھیں.لیکن یہ خدا تعالیٰ کا فضل ، اس کا کمال احسان ہوا کہ ایمان، عقائد اخلاق فاضلہ کے سکھانے کے لئے اور اصلاح نفس اور تہذیب کے لئے وہ وقت پر اور عین ضرورت کے وقت پر اپنے پاک بندے پیدا کرتا رہتا ہے.بڑے ہی بد قسمت ہیں وہ لوگ جن کو ان بیدار کرنے والوں کی خبر ہی نہیں ہوتی.اور بڑے ہی بد قسمت ہیں وہ لوگ جن کو خبر تو ہوتی ہے مگروہ اپنی کسی خطا کاری کے برے نتیجے کی وجہ سے اس کو شناخت نہیں کر سکتے.غرض اس آیت میں خدا تعالی اس فطرت کے لحاظ سے جو انسان میں ہے ارشاد فرماتا ہے کہ میری نعمتوں کو یاد کرو جو میں نے تم پر کی ہیں.وَانّى فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ بنی اسرائیل کو کہتا اور مسلمانوں کو سناتا ہے کہ میں نے تم کو دنیا پر ایک قسم کی بزرگی عطا فرمائی ہے.خدا تعالی کے حکموں پر چلتے والا آسمانی اور پاک علوم سے دلچسپی رکھنے والا جیسی زندگی بسر کر سکتا ہے اس سے بہتر اور افضل وہم میں

Page 18

9 بھی نہیں آسکتی.منافق کا نفاق جب ظاہر ہوتا ہے تو اس کو کیسی شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے.جھوٹ بولنے والے کے جھوٹ کے ظاہر ہونے پر وعدہ خلافی کرنے والے کے خلاف وعدہ کام کرنے پر ان کو کیسا دکھ ہوتا ہے.مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے مذہبی حیثیت سے اپنے پاک اور ثابت شدہ بین اور روشن عقائد اور اصول مذہب کے لحاظ سے کل دنیا پر فضیلت رکھتے ہیں.کیا خدا تعالیٰ کے حضور کوئی صرف دعوے سے افضل ہو سکتا ہے؟ ہر گز نہیں.خدا تعالی مخفی در مخفی ارادوں اور نیتوں کو جانتا ہے.اس کے حضور نفاق کام نہیں آسکتا.بلکہ مَنْ جَاءَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ کام آتا ہے.سلامتی ہو.انکار نہ ہو.خدا سے سچی محبت ہو.اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے ہمدردی اور خیر خواہی ہو.امر بالمعروف کرنے والا اور نَاهِی عَنِ الْمُنْكَرِ ہو.بدی کا دشمن، راستبازوں کا محب ہو.خد اتعالیٰ سے غافل اور بے پرواہ نہ ہو.یہ منشائے اسلام ہے.پس یاد رکھو کہ عقائد کے لحاظ سے دنیا میں بینظیر چیز اسلام ہے.میں راستی سے کہتا ہوں کہ ایمان کے لحاظ سے اعمال کے لحاظ سے دنیا میں کوئی مذہب اسلام سے مقابلہ نہیں کر سکتا.مگر میں یہ بھی ساتھ ہی کہوں گا کہ اسلام ہو.دعوائے اسلام نہ ہو.مَنْ أَسْلَم وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِن (البقرة: 3) ساری توجہ خدا تعالیٰ ہی کی طرف لگا دیوے اور ایسے طریق پر کہ گویا وہ خدا کو دیکھ رہا ہے.یا کم از کم اتنا ہی ہو کہ اس بات کو کامل طور پر سمجھے کہ خدا مجھ کو دیکھ رہا ہے.خدا تعالٰی کے انعام کو یاد کر کے اور یہ دیکھ کر کہ کیسی کتاب کیسا مذ ہب اس نے عطا کیا ہے.دنیا کے دیگر مذاہب کی حفاظت کے لئے موید من اللہ نصرت یافتہ پیدا نہیں ہوتے.اسلام کے اندر کیسا فضل اور احسان ہے کہ وہ مامور بھیجتا ہے جو پیدا ہونے والی بیماریوں میں دعاؤں کا مانگنے والا خدا کی درگاہ میں ہوشیار انسان، شرارتوں اور عداوتوں کے بد نتائج سے آگاہ بھلائی سے واقف انسان ہوتا ہے.جب غفلت ہوتی ہے اور قرآن کریم سے بے خبری ہوتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہوں میں بے سمجھی پیدا ہو جاتی ہے تو خدا کا وعدہ ہے کہ ہمیشہ خلفاء پیدا کرے گا جس کے سبب سے کل دنیا میں اسلام فضیلت رکھتا ہے.یہ امر مشکل نہیں ہوتا کہ ہم اس انسان کو کیونکر پہچانیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہو کر آیا ہے.اس کی شناخت کے لئے ایک نشان منجملہ اور نشانوں کے خدا تعالیٰ نے یہ مقرر فرمایا ہے کہ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ (النور (٥٢)- خدا فرماتا ہے کہ ہمارے مامور کی شناخت کیا ہے؟ اس کے لئے ایک تو یہ نشان ہے کہ وہ بھولی بسری متاع جس کو خدا تعالی پسند کرتا ہے اس سے لوگ آگاہ ہوں اور غلطی سے چونک اٹھیں اور اسے چھوڑ دیں.اس کو پورا کرنے کے لئے اس کو ایک طاقت

Page 19

10 دیجاتی ہے.ایک قسم کی بہادری اور نصرت عطا ہوتی ہے.اس بات کے قائم کرنے کے لئے جس کے لئے اس کو بھیجا ہے قسم قسم کی نصرتیں عطا ہوتی ہیں.کوئی ارادہ اور سچا جوش پیدا نہیں ہو تا جب تک کہ خدا تعالیٰ کی مدد کا ہاتھ ساتھ نہ ہو.بڑی بڑی مشکلات آتی ہیں اور ڈرانے والی چیزیں آتی ہیں مگر اللہ تعالٰی ان سب خوفوں اور خطرات کو امن سے بدل دیتا ہے اور دور کر دیتا ہے.ایک معیار تو اس کی راستبازی اور شناخت کا یہ ہے.اب ذرا ہادی کامل صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت پر غور کرو.جب آپ نے دعوت حق شروع کی ، تنہا تھے.جیب میں روپیہ نہ تھا.بازو بڑے مضبوط نہ تھے.حقیقی بھائی کوئی نہ تھا.ماں باپ کا سایہ بھی سر سے اٹھ چکا تھا اور ادھر قوم کو دلچسپی نہ تھی.مخالفت حد سے بڑھی ہوئی تھی.مگر خدا کے لئے کھڑے ہوئے.مخالفوں نے جس قدر ممکن تھا دکھ پہنچائے جلا وطن کرنے کے منصوبے باندھے قتل کے منصوبے کئے کیا تھا جو انہوں نے نہ کیا.مگر کس کو نیچا دیکھنا پڑا.آپ کے دشمن ایسے خاک میں ملے کہ نام و نشان تک مٹ گیا.وہ ملک جو کبھی کسی کے ماتحت نہ ہوا تھا آخر کس کے ماتحت ہوا.اس قوم میں جو توحید سے ہزاروں کوس دور تھی توحید پہنچادی اور نہ صرف پہنچادی بلکہ منوا دی.خوف کے بعد امن عطا کیا.ان کے بعد ان کے جانشین حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہوئے.آپ کی قوم جاہلیت میں بھی چھوٹی تھی.حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی قوم میں سے بھی نہ تھے.پھر کیونکر ثابت ہوا کہ خلیفہ حق ہیں.اسامہ کے پاس ہیں ہزار لشکر تھا اس کو بھی حکم دے دیا کہ شام کو چلے جاؤ.اگر اسامہ کا لشکر موجود ہوتا تو لوگ کہتے کہ ہیں ہزار لشکر کی بدولت کامیابیاں ہوئیں.نواح عرب میں ارتداد کا شور اٹھا.تین مسجدوں کے سوا نماز کا نام و نشان نہ رہا تھا.سب کچھ ہوا.پر خدا نے کیسا ہاتھ پکڑا کہ رافضی بھی گواہی دے اٹھا کہ اسد اللہ الغالب کو خوف کی وجہ سے ساتھ ہونا پڑا............کیسا خوف پیدا ہوا کہ عرب مرتد ہو گئے.مگر سب خوف جاتا رہا.کیوں؟ اس لئے کہ وہ اللہ تعالیٰ نے خلیفہ بنائے تھے.اسی طرح ہمیشہ ہمیشہ جب لوگ مامور ہو کر آتے ہیں تو خدا تعالیٰ کی قدرت نمائی ہے.اس کے ہاتھ کا تھا منا یہ دکھلا دیتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی حفاظت میں محفوظ ہوتا ہے.یادر رکھو جس قدر کمزوریاں ہوں، وہ سب معجزات اور الٹی تائید میں ہیں.کیونکہ ان کمزوریوں ہی میں تائید الہی کا مزہ آتا ہے اور معلوم ہو جاتا ہے کہ خدا کی دستگیری کیسا کام کرتی ہے.امیر دولت کے گھمنڈ سے مولوی علم کے گھمنڈ سے کوئی منصوبہ بازیوں اور حکام کے پاس آنے جانے کے گھمنڈ سے اگر کامیاب ہوتا ہے تو خدا کے بندے خدا کی مدد سے کامیاب ہوتے ہیں.ان کے پاس سرمایہ علوم اور سفر کے وسائل نہیں ہوتے.مگر عالم ہونے کی

Page 20

11 لاف و گزاف مارنے والے ان کے سامنے شرمندہ ہو جاتے ہیں.اس کے پاس کتب خانے اور لائبریریاں نہیں ہو تیں.وہ حکام سے جا کر ملتے نہیں.مگر وہ ان سب کو نیچا دکھا دیتے ہیں جو اپنے رسوخ اپنی معلومات کی وسعت کے دعوے کرتے ہیں.برادری اور قوم اس کی مخالفت کرتی ہے مگر آخر یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کی طرح ان کو شرمندہ ہونا پڑتا ہے.یہی ہمیشہ ان کی پہچان ہوتی ہے.غرض راستباز اور مامور کی شناخت کے یہ نشان خدا تعالیٰ نے خود ہی بیان فرما دیئے ہیں.اللہ تعالیٰ اس آیت میں اپنے انعام یاد دلاتا ہے.ہر ایک مخلوق مخلوق ہونے اچھی قوم میں پیدا ہونے کو دیکھے.مگر اس میں شبہ پڑے گا کہ اور بھی شریک ہیں.پھر عقائد کو دنیا کے مقابلہ میں رکھے.میں نے مذاہب کو بے تعصب ہو کر ٹولا ہے، بت پرستوں آریوں براہموؤں کو دیکھا ہے.جب ہم ایک خدا کے عقیدے کو پیش کرتے ہیں تو کوئی مذہب بھی ایسا نظر نہیں آتا جو اللہ تعالیٰ کو تمام صفات کاملہ سے موصوف اور تمام بدیوں سے منزہ مانتا ہو.یہ فخر اسلام اور صرف اسلام کو ہے.اس کے ساتھ کیا کوئی عقیدہ مل سکتا ہے؟ پھر انبیاء کو جنہوں نے چھوڑا اور اپنے عقلی ڈھکونسلوں سے اسے پانا چاہتے ہیں وہ ایک گڑھے میں گر رہے ہیں.ایک مشہور براہمو لیکچرار نے نہایت جوش سے اپنے لیکچر میں کہا کہ اے خدا ! میں ہندوستانیوں کو تیرے پاس پہنچانا چاہتا ہوں مگر وہ نہیں آتے.ایک شخص کہتا ہے کہ اس کا یہ فقرہ سن کر میں دعا میں گر گیا اور دعا کی کہ اے خدا! تو میرے دل کو کھول دے.پھر میں استقلال سے اوپر آیا اور کہا کہ میں ایک عرض کرنی چاہتا ہوں کہ آپ نے فرمایا کہ میں ہندوستانیوں کو خدا کے حضور پہنچانا چاہتا ہوں.میں تیار ہوں.مگر آپ اتنا فرما دیں کہ کیا آپ یقینا یقیناً مجھے اس کے حضور پہنچا دیں گے؟ چونکہ اس کا انبیاء علیہم السلام اور اللہ تعالی کی کتابوں پر ایمان نہ تھا، گھبرا گیا اور بولا کہ آج تک کی تحقیقات کے بھرو، سنیں سکتا ہوں.مگر کل معلوم نہیں کیا جدید بات پیش آوے لہذا یقینا نہیں.اس پر میں نے کہا کہ ایک شخص ایک دعوے اور کامل شعور اور بھروسے سے کہتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کے حضور یقینا پہنچا سکتا ہوں تو پھر اس کی طرف رجوع کرنا چاہئے یا آپ کی طرف؟ اس کو شرمندہ ہو کر کہنا پڑا کہ ہاں! اس کو ہی مانو!! وہ شخص جو کامل بھروسے اور پورے یقین اور شعور سے خدا تعالیٰ تک پہنچانے کا دعوی کرتا ہے اور اس نے پہنچا دیا اور پہنچاتا ہے اور پہنچا دے گا وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.کیا وہ جو کہتے ہیں کہ دو ارب سال گزرے خدا تعالیٰ نے ہم کو کتاب دی اور وہ آج تک ایک بھی ترجمہ پیش نہ کر سکے اور اس پر بھی وہ اسے کامل کہتے ہیں، کیا ان کو شرم نہیں آتی؟ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ان چند سال کے اندر خدا تعالیٰ نے

Page 21

12 قرآن کریم کو مشرق اور مغرب میں پہنچا دیا.غرض انسان خوب مطالعہ کرے کہ اسلام سے بڑھ کر نعمت اور عزت و شرافت کا موجب اور کوئی چیز نہیں ہے.میں نے پہلے بتلایا ہے کہ زمانہ کی ضرورتوں کے لحاظ سے خلیفہ بنانے کا خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے اور وہ خلیفہ دلائل سے نہیں ، آدمیوں کے انتخاب سے نہیں، بلکہ خدا تعالیٰ ہی کی تائید اور نصرت اور طاقت سے بنیں گے.اب اس زمانہ کے منعم علیہ پر غور کرو.کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ منصوبہ باز اور مشرک ہے ، عبادت میں سست ہے؟ ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ ایک عابد اور موحد خدا کا پرستار کہلانے والا ممکن ہے ریاکار ہو.مگر اللہ تعالٰی اس کے خلوص نیت اور صدق کو اپنی تائیدات اور نصرتوں سے ثابت کر رہا ہے.پھر یہ خیال ہو سکتا ہے کہ خوف کے وقت ہی وہ پرستار الہی ہو.نہیں! نہیں !! وہ جبکہ خوف امن سے بدل جاتا ہے، وہ اس وقت بھی سچا پرستار ہوتا ہے.الغرض ایمان بڑھانے کے لئے خدائے تعالیٰ کے انعام پر غور کرنے سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے.ایمان، عقائد، اعمال معاملات کے لحاظ سے بے نظیر نعمت اسلام ہے.اور پھر مسلمانوں سے وہ فرقہ جو خلفاء اللہ کے سلسلے کو مانتا ہے ان سے بڑھ کر نہیں.کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان سے بڑھ کر کوئی موید من اللہ نہیں.انسان اکیلی نماز زیادہ پڑھتا ہے.جماعت کے ساتھ نماز کو چھوٹی اور مختصر ہی ہو مگر اس میں ثواب زیادہ ہوتا ہے.اس سے پتہ لگتا ہے کہ امام کے ماتحت اعمال میں کسقدر زیادتی ہوتی ہے.پس یہ ایک عظیم الشان نعمت ہے جو خدا نے ہم کو دی ہے.مگر اس انعام میں ان الفاظ کو بھی یاد رکھو کہ ”دین کو دنیا پر مقدم کروں گا.بڑی ذمہ داری کا وعدہ ہے.یہ وعدہ کسی عام انسان کے ہاتھ پر نہیں بلکہ امام کے ہاتھ پر نہیں! نہیں!! بلکہ خدا تعالی کے ہاتھ پر کیا ہے.خوب یاد رکھو کہ خدا تعالٰی سے وعدہ کر کے خلاف کرنے والا منافق مرتا ہے.پس ڈرنے اور رونے کا مقام ہے اور بڑے حزم واحتیاط کی ضرورت ہے.پھر اللہ تعالیٰ کے انعام یاد کر کے مومن اس بات کو سوچے کہ ایک وقت آتا ہے وَاتَّقُوا يَوْمًا.ایک وقت آتا ہے کوئی دوست آشنا اپنا بیگانہ کچھ کام نہیں آتا.دنیا میں نمونہ موجود ہے.انسان بیمار ہوتا ہے تو ماں باپ بھی اس کی بیماری کو نہیں بٹا سکتے.یہ نمونہ اس بات کا ہے کہ یہ سچی بات ہے کہ خدا تعالیٰ کی پکڑ کے وقت کوئی کام نہیں آتا.کسی کی سفارش اور جرمانہ کام نہیں آتا.اس لئے اس دن کے لئے آج سے ہی تیار رہو.پس خدا تعالی کے فضل کو یاد کر کے محبت الہی کو زیادہ کرو اور غفلتوں اور کمزوریوں کو چھوڑ دو اور اپنے وعدوں پر لحاظ کرو کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے".رنج و راحت عسریر میں

Page 22

13 قدم آگے بڑھائیں گے.اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور بھائیوں سے محبت کریں گے.پھر کہتا ہوں کہ یہ بڑی خطرناک بات ہے کہ جو وعدوں کی خلاف کرتا ہے وہ منافق ہوتا ہے.جھوٹ اور وعدوں کی خلاف ورزی کرتے کرتے انسان کا انجام نفاق سے مبدل ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ مجھ کو اور آپ کو اس سے بچائے اور صدق، اخلاص اور اعمال حسنہ کی توفیق دے.آمین.الحکم جلد ۳ نمبرے.....۳/ مارچ ۱۸۹۹ء صفحہ ۳ تا ۶) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 23

۳۱ مارچ ۱۸۹۹ء 14 خطبہ جمعہ (خلاصه) إِنَّ الَّذِينَ هُمْ مِنْ خَشْيَةِ رَبِّهِمْ مُشْفِقُونَ - وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ - وَ الَّذِينَ هُمْ بِرَبِّهِمْ لا يُشْرِكُونَ - وَ الَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا اتَوا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَى رَبِّهِمْ رَاجِعُوْنَ - أُولَئِكَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ.(المومنون: ۵۸ تا۲۲) مولا کریم رحمن ورحیم مولا ان آیات میں انسان کو ان راہوں کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو اس کو ہر ایک قسم کے سکھوں کی طرف لیجاتے ہیں اور اپنے ہم چشموں اور ہم عصروں میں معزز و موقر بنا دیتے ہیں.انسان فطرتی طور پر چاہتا ہے کہ وہ ہر ایک قسم کے سکھوں اور آراموں اور پہلی باتوں کو حاصل کرے اور پھر ان میں سب سے بڑھ کر رہنا چاہتا ہے.جب وہ دیکھتا ہے کہ اس کے متعلقین خوش و خورسند ہیں اور لوگوں کو بھلائی کی طرف متوجہ پاتا ہے تو اس کے دل میں یہ بات پیدا ہوتی ہے کہ فلاں بھلائی میں ایک سعادتمند نے قدم رکھا ہے اور فلاں شخص نے بھی رکھا ہے.پس میں سب سے بڑھ کر سبقت لے

Page 24

15 جاؤں.غرض عام طور پر انسان فطرتا ایک کمپیٹیشن (Competition) میں لگا رہتا ہے اور ساتھ والوں سے سر بر آوردہ ہونے کا آرزومند ہوتا ہے.بچے چاہتے ہیں کہ کھیل میں دوسری پارٹی سے بڑھ کر رہیں اور جیت جاویں.عورتیں کھانے پہننے ، لباس و زیورات میں چاہتی ہیں کہ اپنی ہم نشینوں سے بڑھ کر رہیں.پس یہ خواہش اور آرزو جو فطرتی طور پر انسان کے دل میں پائی جاتی ہے اس کے پورا کرنے کے اسباب اور وسائل قرآن کریم میں اس مقام پر رحیم کریم مولا بیان فرماتا ہے اور وہ چند ایک اصول پر مشتمل ہے.پہلا اصل.انسان غور کرے کہ اس کے دل میں اپنے سے بڑے کا ڈر ہوتا ہے.ادنی ادنی کام والے لوگ نمبردار کا اور نمبردار تحصیلدار کا اور تحصیلدار حکام بالا دست کاڈر رکھتے ہیں.ماتحت اگر افسروں کا ڈر دل میں نہ رکھیں تو وہ اپنے فرض منصبی کو اس خوبی اور صفائی سے نہ کریں جس سے وہ اس ڈر کی حالت میں کرتے ہیں.اب اس اصل کو زیر نظر رکھ کر مولا کریم فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو نیکیوں اور بھلائیوں کے کمپیٹیشن (Competition) اور مقابلہ میں سرفراز ہوتے ہیں سب سے پہلے وہ ہر ایک کام کرتے وقت اس بات کا لحاظ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کا نگران ہے اور ان کے ہر فعل کھانے پینے دوستی دشمنی، بغض و عداوت لین دین ، غرض تمام معاملات میں ان کو دیکھتا ہے.پس مومن وہ ہوتے ہیں جو خیرات میں بڑھتے ہیں، جو ان اعمال و افعال کے وقت علیم و خبیر کی ذات اور نگرانیوں پر نگاہ کرتے ہیں اور ہر آن خوف و خشیت الہی سے لرزاں رہتے ہیں.اس لئے ہر ایک کام میں خواہ کھانے پینے کا ہو یا بغض و عداوت ہو ، دوستی ہو یا دشمنی ہر بات میں خوش رہنے اور بڑھ کر رہنے کے لیے پہلا اور ضروری اصل کیا ہے؟ خشیت الہی.عمل کرنے سے پہلے دیکھ لیا کرو کہ یہ عمل خدا تعالیٰ کی رضا جوئی کی وجہ سے کسی سرخروئی کا باعث ہے یا اس کی نارضامندی کا موجب ہو کر سیاہ روئی کا پیش خیمه؟ خوف الہی کے بعد دو اصل اور ہیں.وہ کیا؟ ایک اخلاص.دوسرا صواب.کوئی عمل صالح ہو نہیں سکتا جب تک اخلاص اور صواب نہ ہو.اخلاص کیا ہے؟ اخلاص کے معنے ہیں کہ جو کام کرو اس میں یہ مد نظر ہو کہ مولا کریم کی رضا حاصل ہو.حب ہو تو حبا" اللہ ہو.بغض ہو تو.غضا" اللہ ہو.کھاؤ تو اس لئے کہ کھانے کا حکم دیا ہے.پیتے ہو تو سمجھ لو کہ وَاشْرَبُوا کے حکم کی تعمیل ہے.غرض سارے کاموں میں اخلاص ہو، رسم وعادت نفس و ہوا کی ظلمت نہ ہو.اندرونی جوش اس کے باعث نہ ہوئے ہوں.

Page 25

16 صواب کیا ہے؟ کہ ہر بھلا کام اس طرح پر کیا جاوے جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کر کے دکھایا ہے.اگر نیکی کرے مگر نہ اس طرح جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سکھائی ہے، وہ راہ صواب نہیں.غرض یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس کام کے کرنے میں اجازت سرکاری ہے یا نہیں.اور پھر اللہ کی رضا مقصود ہے یا نہیں.پس کام کرو خشیت الہی سے اور پھر اخلاص و صواب سے.وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ اللہ تعالیٰ کے احکام پر ایمان لاتے ہیں.وَالَّذِيْنَ هُمْ بِرَبِّهِمْ لا يُشْرِكُونَ اور پھر اللہ تعالیٰ کے ساتھ اعمال اور ترک اعمال میں کسی کو شریک نہیں کرتے.نیکی کو اس لئے کرے کہ خدا تعالیٰ کی رضا کا باعث ہے اور اس کے لئے اس کو کرے.اور بدی سے اس لئے اجتناب کرے کہ خدا نے ان کو برا فرمایا اور ان سے روکا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اتباع مد نظر رکھ کر نیکی کرے.نیکی کرتا ہوا بھی خوف الہی کو دل میں جگہ دے کیونکہ وہ نکتہ نواز اور نکتہ گیر ہے.حدیث شریف میں آیا ہے جنابہ صدیقہ رضی اللہ عنہا عرض کرتی ہیں کہ بدیاں کرتے ہوئے خوف کریں؟ فرمایا نہیں! نہیں! نیکیاں کرتے ہوئے خوف کرو.جو نیکیاں کرنے کی ہیں، کرو اور پھر حضور الٹی میں ڈرتے رہو کہ ایسا نہ ہو کہ عظیم و قدوس خدا کے حضور کے لائق ہیں یا نہیں.ایسے لوگ ہیں جو يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ کے مصداق ہوتے ہیں.یعنی اول اور آخر میں خشیت ہو.فعل اور ترک فعل اخلاص اور صواب کے طور پر ہوں اور وہ بھلائیوں کے لینے والے اور دوسرے سے بڑھنے والے ہیں.وسوسہ شیطانی یہ بھی آجاتا ہے کہ یہ راہ کٹھن ہے کیونکر چلیں گے.خدا تعالیٰ خود ہی اس وسوسہ کا جواب دیتا ہے لا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (المومنون: ٢٣) کہ ہم نے جو اعمال کے کرنے کا حکم دیا ہے اور نواہی سے روکا ہے وہ مشکل نہیں.کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ عدم استطاعت پر حج کا حکم ہے.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اوامر و نواہی ایسے ہیں کہ عمل کر سکتا ہے اور ان سے باز رہ سکتا ہے.اور یہ امر بھی بحضور دل یاد رکھو کہ بعض اعمال بھول جاتے ہیں.جناب الہی کے ہاں بھول نہیں.بلکہ فرمایا وَلَدَيْنَا كِتَبْ يَنْطِقُ بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ (المومنون:) یاد رکھو! جناب الہی میں اعمال محفوظ رکھے جاتے ہیں.خدا کے ہاں ظلم نہیں ہوتا.انسان اگر غور کرے تو دنیا میں بھی ایک جنت اور نار کا نمونہ دیکھ سکتا ہے.مجھے افسوس آتا ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ دوستوں کی چٹھیوں کے پڑھنے پڑھانے میں کس قدر ہوشیاری اور مستعدی سے کام لیا

Page 26

17 جاتا ہے ، مگر خدا تعالی کی چٹھی.اور پھر جس کے لانے والا وہ کامل انسان جو محمد ہے ، صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اتنی پرواہ نہیں کی جاتی.ستی کی جاتی ہے تو کتاب الہدی کے سمجھنے میں.بعض اعمال ایسے ہیں کہ ہم نیکی سمجھتے ہیں مگر قانون الہی کا فتویٰ نہیں ہوتا.جب انسان مرفہ الحال اور اکثر باز ہو جاتا ہے تو وہ دکھوں میں مبتلا ہوتا ہے، اس وقت نجات کی راہ نہیں ملتی.میں دیکھتا ہوں کہ ایسے انسان ہیں کہ دعوی اسلام کرتے ہیں مگر عمل دیکھو تو بازار میں کفار کے اعمال اور ان کے اعمال برابر ہیں.نیک نمونہ دکھا کر دوسروں کو قائل کر سکتا ہے.اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اخلاق کی نسبت فرماتا ہے کہ اگر تو نرم مزاج نہ ہو تا تو یہ لوگ تیرے گرد جمع نہ ہوتے.صحابہ کرام کی زندگیوں کے حالات پر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام سے کوئی غلطی بھی ہو جاتی تھی اور آپ استغفار بھی فرمایا کرتے تھے.مگر ذرا ذرا سی بات پر مواخذہ اور تشدد کرتے تو تیرے پاس یہ قوم کس طرح جمع ہوتی.حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس نہ مال نہ طمع کی امید تھی.اگر کوئی چیز گرویدہ کر سکتی تھی تو وہ صرف حق کا نور اور آپ کے برگزیدہ اخلاق تھے.اپنے اعمال میں یہ امر مد نظر رکھو کہ اخلاص اور صواب ہو.نہ یہ کہ اپنے اغراض و مقاصد کے لئے کسی آیت یا حدیث کا بہانہ تلاش کرتے پھرو.اور نیکی کرتے ہوئے یہ نہ سمجھو کہ گویا تمام منازل طے کر لئے.نہیں! بلکہ بعض امور ضروری ہیں اور بعض اس سے کم.بعض فرائض ہیں ، بعض سنن ، بعض واجبات ہیں.ایک سخت بدی ہوتی ہے، ایک اس سے کم اور بعض ایسی کہ ان پر حرام اور مکروہ کا لفظ عائد ہوتا ہے.خدا تعالی کی باتیں جب سنائی جاویں تو مناسب نہیں کہ انسان سن کر بھی اس راہ کو اختیار نہ کرے جو خدا تعالیٰ کی رضامندی کی راہ ہے.اور اسے اساطیر الاولین کہنے والوں کی طرح لا پروائی سے چھوڑ دے.میں ایک ضروری امر آخر میں تمہیں بتلانا چاہتا ہوں کہ جب کوئی ہادی دنیا میں آتا ہے تو اس کی شناخت کے کئی طریق ہوتے ہیں.اول.جاہل اور بے علم نہ ہو.خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والے ہادی کے لئے ضروری ہے کہ وہ نادان اور بے خبر نہ ہو.اب کتاب اللہ کو پڑھو اور دیکھو کہ جو معارف اور حقائق اس میں بیان کئے گئے ہیں وہ ایسے ہیں کہ کسی جاہل اور نادان کے خیالات کا نتیجہ نہیں ہو سکتے.سوچو! اور پھر سوچو!! نادان ایسی معرفت اور روح و راستی سے بھری ہوئی باتیں نہیں کر سکتے.

Page 27

18 دوم.وہ ہادی اجنبی نہ ہو.کیونکہ ایک ناواقف انسان دور دراز ملک میں جا کر باوجود بدکار اور شریر ہونے کے بھی چند روز تصنع اور ریاکاری کے طور پر اپنے آپ کو نیک ظاہر کر سکتا ہے.پس ہادی کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان لوگوں کا واقف ہو.اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوی صاف ہے کہ مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَاغَوَى (النجم: ٣) تیسری بات یہ ہے کہ ہادی یا امام یا مرشد اپنے بچے علوم کے مطابق عملد رآمد بھی کرتا ہو.اوروں کو بتلاوے اور خود نہ کرے؟ پس اس امر کو حضور علیہ الصلوۃ و السلام کی نسبت فرمایا ہے مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَاغَوَی.حضور کے عملدرآمد کا یہ حال ہے کہ جنابہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک لفظ میں سوانح عمری بیان فرما دی.كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ (مسند احمد بن جنبل جلد 1 صفحه) یعنی آپ کے اعمال و افعال بالکل قرآن کریم ہی کے مطابق ہیں.اللہ تعالیٰ مجھے اور سب احباب سامعین کو نیک رستہ پر چلاوے اور قرآن کریم کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی طاقت اور ہدایت بخشے.آمین.(الحکم جلد ۳ نمبر ۱۴......۱۹ر اپریل ۱۸۹۹ء صفحہ ۴.۵) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 28

۲۱ اپریل ۱۸۹۹ء 19 خطبہ عید الاضحیٰ الله اكبر الله اكبر لا إله إلا الله والله اكبر الله أكبرُ وَ لِلَّهِ الْحَمْدُ أَشْهَدُ أن لا إله إِلَّا اللهُ وَ اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ - اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (المائدة : ۴) یہ آیت شریف قرآن مجید میں کس وقت نازل ہوئی؟ ایک یہودی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ ایک آیت آپ کی کتاب میں ہے ، اگر ہماری کتاب میں ہوتی تو جس دن وہ اتری تھی اسے عید کا دن قرار دیتے.حضرت عمر نے پوچھا کہ وہ کونسی آیت ہے؟ تو اس نے یہ آیت پڑھی الْيَوْمَ أكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الاسْلَامَ دِينًا.جناب عمر نے فرمایا کہ یہ آیت کب نازل ہوئی؟ کس وقت نازل ہوئی؟ کہاں نازل ہوئی؟ میں اسے خوب جانتا ہوں.وہ

Page 29

20 جمعہ کا دن تھا.وہ عرفہ کا دن تھا.وہ اسی عید اضحی کا مقدمہ تھا.عرفات میں نازل ہوئی تھی.اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چند روز زندہ رہے.یوں تو اللہ جل شانہ کا نزول ہر روز خاص طور پر رات کے آخر ثلث میں ہوتا ہے مگر جمعہ کے دن پانچ دفعہ اور عرفات کو نو دفعہ نزول ہوتا ہے.احادیث صحیحہ سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ شیطان ایسا کبھی یاس میں نہیں ہو تا جیسے عرفات کے دن.یہ وہ دن ہے کہ اللہ جل شانہ نے ہماری نعماء دینیہ کے لئے جس کتاب کو نازل فرمایا تھا اسے کامل کر دیا.کامل دین جس کا نام اسلام ہے اسے اسی دن کامل کر دیا.جس دین کی متابعت ضروری اور اس پر کاربند ہونا سعید انسان کو لازم ہے اس کے اصول اور فروع اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس دن میں تمام و کامل کر دیئے.وہ چیز جس کو کامل طور پر تمہیں، نہیں بلکہ دنیا کو پہنچانے کے لئے سرور عالم فخر بنی آدم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی ساری دعاؤں اور کل طاقتوں اور مساعی جمیلہ کو پورے طور پر لگایا تھا اس کا نام اسلام ہے اور اس کی تکمیل کا دن جمعہ کا مبارک دن اور عرفات کا پاک دن ہے.تمام ادیان مروجہ اور مذاہب موجودہ کا مقابلہ کرنا چاہیں اور غور کر کے دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ کیا بلحاظ اصول کے اور کیا بلحاظ حفظ اصول اور فروع کے وہ اسلام کے مقابلہ میں کچھ حقیقت ہی نہیں رکھتے اور بالکل بیچ دکھائی دیتے ہیں.اس کے اہم ترین امور میں سے اللہ جل شانہ کا ماننا اس کو اسماء حسنیٰ اور صفات و محامد میں یکتا و بے ہمتا مانتا ہے.جس کا خلاصہ لا الہ الا اللہ میں موجود ہے، جس کا نام افضل الذکر ہے اور جس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ کل نبیوں کی تعلیم کا خلاصہ ہے، جس کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے اور آج میں بھی کہتا ہوں.اَشْهَدُ أَن لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ اس کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی ہستی کے برابر اور ہستی کو یقین نہ کرے اور اللہ تعالیٰ کے اسماء میں افعال میں یکتا وجود و بقا میں یکتا تمام نقائص سے منزہ اور تمام خوبیوں سے معمور یقین کرے.وہی معبود حقیقی ہے.اس کے سوا کسی دوسرے کی عبادت جائز نہیں.عبادت کا مدار ہے حسن و احسان پر پھر یہ دونوں باتیں بدرجہ کامل کس میں موجود ہیں؟ اللہ ہی میں.احسان دیکھ لو.تم کچھ نہ تھے.تم کو اس نے بنایا.کیسا خوبصورت تنومند اور دانشمند انسان بنا دیا.بچے تھے.ماں کی چھاتیوں میں دودھ پیدا کیا.سانس لینے کو ہوا پینے کو پانی کھانے کو قسم قسم کی لطیف غذا ئیں ، طرح طرح کے نفیس لباس اور آسائش کے سامان کس نے دیئے؟ خدا نے! میں کہتا ہوں کیا چیز ہے جو انسان کو فطرتا مطلوب ہے اور اس نے نہیں دی.سچی بات یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کے احسان اور افضال کو کوئی گن ہی نہیں سکتا.حسن دیکھو تو کیسا اکمل.ایک ناپاک قطرہ سے کیسی خوبصورت شکلیں بناتا ہے کہ انسان محو ہو ہو رہ جاتا ہے.

Page 30

21 پاخانہ سے کیسی سبز اور نرم دل خوشکن کو نپل نکالتا ہے.انار کے دانے کس لطافت اور خوبی سے لگاتا ہے.ادھر دیکھو.ادھر دیکھو.آگے پیچھے دائیں بائیں جدھر نظر اٹھاؤ گے اس کے حسن کا ہی نظارہ نظر آئے گا.اور یہ بالکل سچی بات ہوئی يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ (التغابن:۲).ساری دنیا میں جس قدر مذاہب باطلہ ہیں ان میں دیکھو گے تو معلوم ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کے کسی اسم یا صفت کا انکار کیا ہے اور اسی انکار نے ان کو بطلان پر پہنچا دیا ہے.ایک بت پرست اگر خدا تعالیٰ کو علیم خبیر سمیع، بصیر، قادر جانتا ہے تو کیوں پھر شجر ہوا سورج چاند اور ارزاں ترین چیزوں کے سامنے سجدہ کرتا اور کیوں اس کی استتی کرتا ہے.اور کوئی جواب نہیں ملتا تو یہی عذر تراش لیا کہ ہماری عبادت صرف اسی لئے ہے کہ یہ اصنام و معبود ہم کو خدا تعالیٰ کے حضور پہنچا دیں اور مقرب بارگاہ الہی بنا دیں.اصل یہی ہے کہ وہ اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ خدا تعالیٰ ہر غریب و گنہگار کی آواز سنتا ہے اور ہر ایک دور شدہ کو نزدیک کرنا چاہتا ہے.اونچی آواز سے پکارو یا دھیمی آواز سے وہ سمیع ہے.اگر ایسا مانتے تو کبھی بھی وہ عاجز اور ناکارہ مخلوق کے آگے ہاں ان اشیاء کے آگے جو انسان کے لئے بطور خادم ہیں، سر نہ جھکاتے اور یوں اپنے ایمان کو نہ ڈبوتے.عیسائی مذہب کو اگر دیکھیں تو یہ بطلان پرستی کیوں ان میں پیدا ہوئی؟ صرف اس لئے کہ خدا تعالیٰ کی صفات اور اسماء کا انکار کیا.ایک طرف زبان سے خدا تعالیٰ کو قدوس اور رحیم اور عادل خدا پکار رہے ہیں مگر اپنے معتقدات اور ایمان سے بتلاتے ہیں کہ جس کو خدا مانا ہے وہ ساری برائیوں اور بدیوں کا مورد ہے.خدا کو عادل قرار دیتے ہیں مگر گنہگاروں کے بدلے ایک بے گناہ کو سزا دے کر بھی اس کے عدل کو قائم رکھ سکتے ہیں.آریہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کو سرب شکتی مان تو مانتا ہے لیکن خَالِق كُلَّ شَئی ہونے کی اسے مقدرت نہیں.ایک ایک ذرہ کو علیحدہ سمجھتے ہیں اور روحوں کو مخلوق نہیں مان سکتے.ان کے خواص گن کرم سبھاؤ سب کے سب انادی اور خدا تعالیٰ کے ہمتا اور شریک سمجھتے ہیں.خدا تعالیٰ کو اس بات پر قادر نہیں مان سکتے کہ وہ بڑے سے بڑے بھگت اور پریمی کو بھی ابدی نجات دے بلکہ ابدی نجات کا دینا گویا خدا تعالیٰ کو خدائی ہی سے دست بردار کرنا چاہتے ہیں.مَعَاذَ اللَّهِ مِنْهَا.براہمو لوگوں کو دیکھو تو خدا تعالیٰ کی بڑی تعریفیں کریں گے مگر خدا تعالیٰ کی اس صفت سے ان کو قطعاً انکار ہے، جس سے وہ ہدایت نامے دنیا میں بھیجتا اور انسان کو غلطیوں سے بچانے کے لئے رہنمائی کرتا ہے اور نہیں مانتے کہ يُرْسِلُ الرَّسُولَ بھی خدا تعالیٰ کی کوئی صفت ہے.الغرض ہر ایک مذہب پر اگر غور

Page 31

22 اور دھیان کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ بجز اسلام کے ان کو اللہ تعالیٰ کے اسماء اور صفات پر ایمان نہیں رہا.کوئی اسم اعلیٰ طور پر ایسا نہیں جس کے معنی مسلمان اعلیٰ طور پر نہیں کرتے.کسی نے کیا چھوٹا اور سچا فقرہ کہا ہے."مسلمان خدا کے سامنے شرمندہ ہونے کے قابل نہیں".لیکن اس نعمت کی قدر کیا ہو سکتی ہے؟ کیا تم لوگوں میں خدا کے سوا دوسرے کی پرستش نہیں ہوتی ؟ کیا غفلت نہیں رہی؟ کیا برادری اور اخوت کا وہ بے نظیر اور قابل قدر مسئلہ جو مخلوقات کو سکھلایا گیا تھا اور یہ بتلایا گیا تھا کہ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَاكُمُ (الحجرات :) یعنی تم میں معزز اور زیادہ مکرم وہ ہے جو زیادہ تر متقی ہے.جس قدر نیکیاں اور اعمال صالح کسی میں زیادہ تر ہیں وہی زیادہ معزز و مکرم ہے.کیا بے جایخی اور انانیت پیدا نہیں ہو رہی؟ پھر بتلاؤ کہ اس نعمت کی قدر کی تو کیا کی؟ یہ اخوت اور برادری کا واجب الاحترام مسئلہ اسلام کے دیکھا دیکھی اب اور قوموں نے بھی لے لیا.پہلے ہندو وغیرہ قومیں کسی دوسرے مذہب و ملت کے پیرو کو اپنے مذہب میں ملانا عیب سمجھتے تھے اور پر ہیز کرتے تھے مگر اب شدھ کرتے اور ملاتے ہیں.گو کامل اخوت اور بچے طور پر نہیں.مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غور کرو کہ حضور نے اپنی عملی زندگی سے کیا ثبوت دیا کہ زید جیسے کے نکاح میں شریف بیبیاں آئیں.اسلام یا مقدس اسلام نے قوموں کی تمیز کو اٹھا دیا.جیسے وہ دنیا میں توحید کو زندہ اور قائم کرنا چاہتا تھا اور چاہتا ہے اسی طرح ہر بات میں اس نے وحدت کی روح پھونکی اور تقویٰ پر ہی امتیاز رکھا.قومی تفریق جو نفرت اور حقارت پیدا کر کے شفقت علی خلق اللہ کے اصول کی دشمن ہو سکتی تھی، اسے دور کر دیا.ہمیشہ کا منکر، خدا رسول کا منکر، جب اسلام لاوے تو شیخ کہلاوے.یہ سعادت کا تمغہ یہ سیادت کا نشان جو اسلام نے قائم کیا تھا، صرف تقویٰ تھا.ا اب بتلاؤ ایسے انعام اور ایسے فضل کے نازل ہونے کے بعد اب کیا حالت موجود ہے.کیا وہی اتحاد برادری ہے؟ کیا اسماء الہی پر ویسا ہی یقین کامل ہے؟ وہ کتاب جس نے غافل و بد مست قوم کو ہوشیار کر کے دکھا دیا تھا اور جس نے عرب جیسی اکھڑ قوم کو ہمدردی اور اخوت کا ایک پاک نمونہ دنیا میں بنا کر دکھا دیا کیا اس کی ایسی قدر اور عظمت ہے جو اس کی اتباع اور عمل درآمد کا نام ہے؟ کیا مسلمان کہلانے والے کتاب اللہ رسول اللہ کی ایسی ہی عزت کرنے والے چست و چالاک ہیں جیسے صحابہ تھے ؟ مجھے اندیشہ ہے کہ اگر سب باتوں کا جواب دیا جائے تو دلوں کو نہ ہلا دے.میں دیکھتا ہوں عقائد کا حال خدا ہی کو معلوم ہے.دل کی باتیں تو وہی جانتا ہے جو عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ہے.مگر یہ بات تو مانی ہوئی ہے کہ انسان کے دل کا جوش قومی پر ضرور جلوہ گری کرتا ہے.کون ہے جو یہ جانتا ہو کہ آگ جلاتی ہے اور

Page 32

23 پھر اس میں ہاتھ ڈال دے.کون گڑھے میں عمد ا گر سکتا ہے؟ روٹی کو بھوک کا علاج جانتے ہو اور پیاس کا علاج پانی جانتے ہو تو بھوک کے وقت روٹی کھاتے اور پیاس کے وقت پانی پیتے ہو.پھر جب کوئی انسان یہ اصول مانتا ہے کہ خدا تعالیٰ علیم و خبیر ، سمیع و بصیر ہے تو پھر قیاس کرے کہ ان اسماء حسنیٰ کو مان کر بھی بد معاشیوں اور بدکاریوں کے ارتکاب میں کیوں دلیری کرتا ہے.ہندو دہریہ ، سکھ ، آریہ ، عیسائی وغیرہ قسم قسم کی مخلوق موجود ہے اور ان کے اخلاق ظاہری اور افعال و اعمال دیکھ لو اور پھر اپنے افعال و اعمال کا معائنہ کرو.تم میں تو خاص نعمت اتری تھی اور پھر اس کی تکمیل ہوئی تھی.اب اس نعمت کے لینے کے بعد اور قوموں میں اور تم میں کیا امتیاز ہوا؟ صحابہ کرام میں اخوت کا مسئلہ ایسا تھا کہ وہ اس امر کو تکملہ ایمان سمجھتے تھے کہ جب تک اپنے بھائی مسلمان کے لئے وہی نہ چاہیں جو خاص اپنی ذات کے لئے چاہتے تھے.دوسرے کی عزت و آبرو، دوسرے کے آرام و چین کے لئے ایسی ہی کوشش کرو جیسی اپنے لئے کرتے ہو.مگر جب اپنے آپ ہی کو غفلت میں ڈال رکھا ہے تو دوسرے کی بہتری کی کیا امید کرتے نفاق ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ وہ نعمتیں ملیں جو اتفاق میں ہیں.جہالت میں پڑے ہیں اور چاہتے ہیں کہ علم کی عزت و آبرد ملے.غفلت میں سرشار ہیں اور ہوشیاری اور لذت کے خواہاں.علم ہاں صحیح علم کے مطابق عمل نہیں کرنا چاہتے مگر اجر وہ لینا چاہتے ہیں جو عالمین کو ملتے ہیں.مکہ کے کفار کہتے تھے کہ ہم پر رسولوں والی بات کیوں نازل نہیں ہوتی.بہت سے تم میں سے ہیں جو چاہتے ہیں ہم فلم کیوں نہیں بنتے.ہماری دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں.ہم کیوں آسودہ حال نہیں ہوتے.مگر یہ تو بتلاؤ کہ کتاب اللہ کے مطابق عمل درآمد کرنے میں تم نے کس قدر محنت اٹھائی ہے.انصاف تو یہی ہے کہ جس قدر روپیہ اور عمر کو رسوں کے پورا کرنے میں صرف کیا ہے کیا قرآن کریم کے مطالب پر اطلاع پانے اور اس کو دستور العمل بنانے میں اس سے آدھا بھی کیا ہے؟ خدا کے حضور بخیلی نہیں.اس کے اسماء میں بخل نام کو نہیں.پھر یہ محرومی کیوں؟ سچی بات یہ ہے مَا ظَلَمَهُمُ اللَّهُ وَ لَكِنْ أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ (ال عمران :) اللہ تعالیٰ نے تو کسی کی جان پر ظلم نہیں کیا مگر بات یہ ہے کہ لوگ خود ہی اپنی جان پر ظلم کرتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ کی نعمت کی قدر کرو.اس نے خاتم الانبیاء بھیجا.کتاب بھی کامل بھیجی.کتاب کے سمجھانے کا خود وعدہ کیا اور ایسے لوگوں کے بھیجنے کا وعدہ فرمایا جو آ آکر خواب غفلت سے بیدار کرتے ہیں.اس زمانے ہی کو دیکھو کہ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ (النور (۵۲) کا وعدہ کیا سچا اور صحیح ثابت ہوا.اس کا رحم اس کا فضل اور انعام کس کس طرح دستگیری کرتا ہے.مگر انسان کو بھی لازم ہے کہ خود بھی قدم

Page 33

24 اٹھاوے.یہ بھی ایک سنت اللہ چلی آتی ہے کہ خلفاء پر مطاعن ہوتے ہیں.آدم پر مطاعن کرنے والی خبیث روح کی ذریت بھی اب تک موجود ہے.صحابہ کرام پر مطاعن کرنے والے روافض اب بھی ہیں.مگر اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ان کو تمکنت دیتا ہے اور خوف کو امن سے بدل دیتا ہے.بچے پرستار الہی اور مخلص عابد بنو.خدا کی طرف قدم اٹھاؤ.یہاں بھی رَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلَامَ دِينًا (المائدة:) فرمایا.اسلام کا لفظ چاہتا ہے کہ کچھ کر کے دکھاؤ.موجودہ حالت میں ہم نے (ہم سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے امام کے ہاتھ پر تو بہ کی ہے) اور مسلمانوں سے بڑھ کر امتیاز پیدا کیا ہے.ہم میں علم ہے.ہم میں ہادی اور امام ہے.ہم میں وہ ہے جس کی خدا تائید کرتا ہے.جس کے ساتھ خدا کے بڑے بڑے وعدے ہیں.اس کو حکم اور عدل بنا کر خدا نے بھیجا ہے.مگر تم اپنی حالتوں کو دیکھو.کیا مدد اور عمل درآمد کے لئے بھی ایسا ہی قدم اٹھایا ہے جیسا کہ واجب ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مجھے سورۃ ہود نے بوڑھا کر دیا.اس میں کیا بات تھی؟ فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ (هود: (۱۳) تم سیدھی چال چلو نہ صرف تم بلکہ تیرے ساتھ والے بھی.یہ ساتھ والوں کو جس نے حضور کو بوڑھا کر دیا.انسان اپنا ذمہ دار تو ہو سکتا ہے مگر ساتھیوں کا ذمہ دار ہو تو کیونکر؟ بس یہ بہت خطرہ کا مقام ہے.ایسا نہ ہو کہ تمہاری غفلتوں سے اللہ تعالیٰ کے وہ وعدے جو تمہارے امام کے ساتھ ہیں ، پورا ہونے میں معرض توقف میں پڑیں.موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر نبی کے ساتھ کنعان پہنچانے کا وعدہ تھا مگر قوم کی غفلت نے اسے محروم کر دیا.پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اور خوب سمجھو.غفلت چھوڑ دو اور اس نعمت کی قدر کرو جو آج کے مبارک دن میں پوری ہوئی.میں پھر کہتا ہوں کہ فرماں بردار بن کر دکھاؤ.لہ خطبہ ثانیہ إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ - فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُ - إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الابْتَرُ (الكوثر : ۲ تا ۴) یہ ایک مختصرسی سورۃ ہے اور اس مختصر سی سورۃ شریف میں اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم الشان پیشگوئی بیان فرمائی ہے جو جامع ہے.پھر اس کے پورا ہونے پر شکریہ میں مخلوق الہی کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہئے اس کا ارشاد کیا.وہ پیشگوئی کیا ہے؟ إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَر تجھے ہم نے جو کچھ دیا ہے بہت ہی بڑا دیا ہے.عظیم الشان خیر عطا کی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن نبوت دیکھو تو قیامت تک وسیع.کسی دوسرے نبی کو اس قدر وسیع وقت نہیں ملا.یہ کثرت تو بلحاظ زمان ہوئی اور بلحاظ مکان یہ کثرت کہ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (الاعراف:۵۹) میں ظاہر فرمایا کہ میں سارے جہان کا رسول ہوں.یہ

Page 34

25 کوثر مکان کے لحاظ سے عطا فرمائی.کوئی آدمی نہیں ہے جو یہ کہہ دے کہ مجھے احکام الہی میں اتباع رسالت پناہی کی ضرورت نہیں.کوئی صوفی کوئی مست قلندر بالغ مرد بالغہ عورت کوئی ہو اس سے مستثنیٰ نہیں ہو سکتے.اب کوئی وہ خضر نہیں ہو سکتا جو لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا (الكيف:۲۸) بول اٹھے.یہ وہ موسیٰ " ہے جس سے کوئی الگ نہیں ہو سکتا.کوئی آدمی مقرب ہو نہیں سکتا جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اتباع نہ کرے.کتاب میں وہ کچی کو ثر عنایت کی کہ فِيْهَا كُتُبْ قَيِّمَةٌ (البينه:) کل دنیا کی صداقتیں اور مضبوط کتابیں سب کی سب قرآن مجید میں موجود ہیں.ترقی مدارج میں وہ کو ثر کہ جبکہ یہ سچی بات ہے الدَّالُ عَلَى الْخَيْرِ كَفَاعِلِهِ (ترمذی.کتاب العلم) پھر دنیا بھر کے نیک اعمال پر نگاہ کرو جبکہ ان کے دال محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو ان کی ، جزائے نیک آپ کے اعمال میں شامل ہو کر کیسی ترقی مدارج کا موجب ہو رہی ہے.اعمال میں دیکھو! اتباع ، فتوحات عادات علوم اخلاق میں کس کس قسم کی کوثریں عطا فرمائیں ہیں.استحکام و حفاظت مذہب کے لئے دیکھو.جس قدر مذاہب دنیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ان کی حفاظت کا ذمہ وار خود ان لوگوں کو بنایا.مگر قرآن کریم کی پاک تعلیم کے لئے فرمایا إِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (الحجر: ) یہ کیا کوثر ہے؟ اللہ تعالیٰ اس دین کی حمایت و حفاظت اور نصرت کے لئے تائیدیں فرماتا اور مخلص بندوں کو دنیا میں بھیجتا ہے جو اپنے کمالات اور تعلقات الہیہ میں ایک نمونہ ہوتے ہیں.اس کو دیکھ کر پتہ لگ سکتا ہے کہ کیونکر بندہ خدا کو اپنا بنا لیتا ہے.اس ہستی کو دیکھو، زبان اور اس کے حرکات کو دیکھو.جب خدا بنانے پر آتا ہے تو اسی عاجز انسان کو اپنا بنا کر دکھا دیتا ہے اور ایک اجڑی بستی کو اس سے آباد کرتا ہے.کیا تعجب انگیز نظارہ ہے.بڑے بڑے شہروں اور بڑے اکثر باز مدبروں کو محروم کر دیتا ہے حالانکہ وہاں ہر قسم کی ترقی کے اسباب موجود ہوتے ہیں اور علم و واقفیت کے ذرائع وسیع ہوتے ہیں.مثلا دیکھو! کس بستی کو برگزیدہ کیا جہاں نہ ترقی کے اسباب نہ معلومات کی توسیع کے وسائل نہ علمی چر چے نہ مذہبی تذکرے نہ کوئی دار العلوم نہ کتب خانہ صرف خدائی ہاتھ ہے جس نے تربیت کی اور اپنی تربیت کا عظیم الشان نشان دکھایا.غور کرو کس طرح یہ بتلاتا ہے کہ محمد رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو خدا نے کیا کوثر عطا فرمایا.لیکن غافل انسان نہیں سوچتا.افسوس تو یہ ہے کہ جیسے اور لوگوں نے غفلت اور سستی کی ویسے ہی غفلت کا شکار مسلمان بھی ہوئے.آہ ! اگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عالی مدارج پر خیال کرتے اور خود بھی ان سے حصہ لینے کے آرزومند ہوتے تو اللہ تعالیٰ ان کو بھی کوثر دیتا.

Page 35

26 میں نے جو کچھ اب تک بیان کیا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیاوی کو ثر کا ذکر تھا پھر مرنے کے بعد ایک اور کوثر برزخ میں حشر میں صراط پر بہشت میں ، غرض کو ثر ہی کو ثر دیکھے گا.اس کو ثر میں ہر ایک شخص شریک ہو سکتا ہے مگر شرط یہ ہے فَصَلِّ لِرَبِّكَ.اللہ تعالیٰ کی تعظیم میں لگو.دیکھو اس آدم کامل کا پاک نام ابراہیم بھی تھا جس کی تعریف اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے وَ إِبْرَاهِيمَ الَّذِي وَفَّى (النجم:۳۸) اور وہی ابراہیم جو جَاءَ رَبَّهُ بِقَلْبِ سَلِيمٍ (الصافات:۸۵) کا مصداق تھا، نے سچی تعظیم الہی کر کے دکھائی جیسے مولیٰ کریم فرماتا ہے.وَ إِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَةٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا (البقرة: ۱۳۵) پھر کیا نتیجہ پایا.اللى تعظیم جس قدر کوئی انسان کر کے دکھاتا ہے ای قدر ثمرات عظیمه حاصل کرتا ہے.مثلاً حضرت ابوالملت ابراہیم کو دیکھو.اس کی دعاؤں کا نمونہ دیکھو.ہمارے سید و مولی، اصفی الاصفیاء، خاتم الانبیاء ان دعاؤں کا ثمرہ ہیں.اَللَّهُمَّ صَلِّ وَسَلَّمْ وَ بَارِكْ عَلَيْهِ وَعَلَى إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ابراہیم علیہ السلام بہت بوڑھے اور ضعیف تھے.خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق اولاد صالح عنایت کی.اسمعیل جیسی اولاد دی.جب جوان ہوئے تو حکم ہوا کہ ان کو قربانی میں دے دو.ابراہیم کی قربانی دیکھو، بڑھاپے کا زمانہ دیکھو مگر ابراہیم نے اپنی ساری طاقتیں، ساری امیدیں، تمام ارادے یوں قربان کر دیئے کہ ایک طرف حکم ہوا اور معابیٹے کے قربان کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا.پھر بیٹا بھی ایسا بیٹا تھا کہ جب ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا بیٹا! إِنِّي أَرَى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ (الصافات:۰۳) تو وہ خدا کی راہ میں جان دینے کو تیار ہو گیا.غرض باپ بیٹے نے ایسی فرمان برداری دکھائی کہ کوئی عزت کوئی آرام کوئی دولت اور کوئی امید باقی نہ رکھی.یہ آج ہماری قربانیاں اسی پاک قربانی کا نمونہ ہیں.پھر اللہ تعالیٰ نے بھی کیسی جزا دی.اولاد میں ہزاروں ہزار بادشاہ اور انبیاء بلکہ خاتم الانبیاء بھی اسی کی اولاد میں پیدا کیا.وہ زمانہ ملا جس کی انتہا نہیں.خلفاء ہوں تو وہ بھی ملت ابراہیمی میں.سارے نواب اور خلفاء الہی دین کے قیامت تک اسی گھرانے میں ہوئے ہیں اور ہونے والے ہیں.پھر جب شکریہ میں نماز میں خدا کی عظمت اور کبریائی بیان کی تو مخلوق الہی کے لئے بھی.کیونکہ ایمان کے اجزاء تو دو ہی ہیں.تَعْظِیم لامر الله اور شَفْقَتْ عَلى خَلْقِ اللَّهِ ہاں مخلوق کے لئے یہ کہ وَانْحَرُ جیسے نماز میں لگے ہو قربانیاں بھی دو تاکہ مخلوق سے سلوک ہو.قربانیاں وہ دو جو بیمار نہ ہوں.دیلی نہ ہوں.بے آنکھ کی نہ ہوں.کان چرے ہوئے نہ ہوں.عیب دار نہ ہوں.لنگڑی نہ ہوں.اس میں اشارہ یہ ہے کہ جب تک کامل قومی کو خدا کے لئے قربان نہ کرو گے، ساری نیکیاں تمہاری ذات پر

Page 36

27.جلوہ گر نہ ہوں گی.پس جہاں ایک طرف عظمت الہی میں لگو دوسری طرف قربانیاں کر کے مخلوق الہی سے شفقت کرو اور قربانیاں کرتے ہوئے اپنے کل قومی کو قربان کر ڈالو اور رضاء الہی میں لگا دو.پھر نتیجہ کیا ہو گا؟ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَر تیرے دشمن ابتر ہوں گے.انسان کی خوشحالی اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی کہ اس کو آپ تو راحتیں ملیں اور اس کے دشمن ہلاک ہوں.یہ باتیں بڑی آسانی سے حاصل ہو سکتی ہیں.خدا کی تعظیم اور اس کی مخلوق پر شفقت.نمازوں میں خصوصیت دکھاؤ.کانوں پر ہاتھ لے جاکر اللہ اکبر زبان سے کہتے ہو مگر تمہارے کام دکھا دیں کہ واقعی دنیا سے سروکار نہیں.تمہاری نماز وہ نماز ہو جو تَنْهى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ (النحل) ہو.تمہارے اخلاق، تمھارے معاملات عامیوں کی طرح نہ ہوں بلکہ ایک پاک نمونہ ہوں پھر دیکھو! کوثر کا نمونہ ملتا ہے یا نہیں.لیکن ایک طرف سے تمہارا فعل ہے، دوسری طرف سے خدا کا انعام.درود پڑھو.آج کل کے دن عبادت کے لئے مخصوص ہیں.وَاذْكُرُوا اللهَ فِي أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ (البقرة :۲۰۴).کل وہ دن تھا کہ کل حاجی ہر طبقہ اور ہر عمر کے لوگ ہوں گے.دنیا سے نرالا لباس پہنے ہوئے عرفات کے میدان میں حاضر تھے اور لبیک لبیک پکارتے تھے.تم سوچو اور غور کرو کہ تمھاری کل کیسی گذری.کیا تم بھی خدا تعالیٰ کے حضور لبیک لبیک پکارتے تھے.آج منی کا دن ہے.آج ہی وہ دن ہے جس میں ابراہیم نے اپنا پاک نمونہ قربانی کا دکھلایا.کوئی اس کی طاقت نہ رہی تھی جسے خدا پر قربان نہ کیا ہو.نہ صرف اپنی بلکہ اولاد کی بھی.یہ جمعہ کا دن ابراہیم کی قربانی اور مفاخر قومی کا روز ہے، جس میں عرب کے لوگ قبل اسلام بزرگوں کے تذکرے یاد کر کے فخر کیا کرتے تھے.اس میں خدا کا ذکر کرو جیسے فرمایا.فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَ كُمْ (البقرة:۳۰) خدا کے حضور ساری قوتوں کو قربان کرنے کے لئے خرچ کرو پھر دیکھو کہ تمھارے کام کیا پھل لاتے ہیں.انسان خوشحالی چاہتا ہے اور دشمنوں کی ہلاکت.خدا تیار ہے مگر قربانی چاہتا ہے.اولاد پر نمونے دکھاؤ جیسے اسماعیل نے دکھایا.پس نئے انسان بنو پھر دیکھو کہ خدا تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل تم کو کس طرح کی کوثر دیتا ہے اور تمہارے دشمنوں کو ہلاک کرتا ہے.واخر دعوانا أن الْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ..الحکم جلد ۳ نمبر ۱۶-۱۵ مئی ۱۸۹۹ء صفحه ۳ تا ۵) کا حکم جلد ۳ نمبر ۱۷ - ۱۲ مئی ۱۸۹۹ء صفحه ۱تا۳)

Page 37

۱۲۰ اکتوبر ۱۸۹۹ء 28 خطبہ جمعہ تشهد و تعوذ کے بعد آپ نے سورۃ الدھر کے پہلے رکوع کی تلاوت فرمائی اور پھر فرمایا:.یہ ایک وہ سورۃ شریف ہے جو جمعہ کے دن فجر کی نماز کی دوسری رکعت میں پڑھی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ اس میں اول اپنے ان احسانات کا تذکرہ فرماتا ہے جو مولیٰ کریم نے انسان پر کئے ہیں.اس تذکرہ کی وجہ یہ ہے کہ اگر آدمی کی فطرت اچھی ہو اور وہ سعادت مند ہو ، فہیم ہو ، عقل کی مار اس پر نہ پڑی ہو تو یہ بات ایسے انسان کی سرشت میں موجود ہے کہ جو کوئی اس پر احسان کرے تو محسن کی محبت طبعاً انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے.اسی طبعی تقاضائے فطرت کی طرف ہمارے سید و مولیٰ محمد مصطفیٰ احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایما کر کے ارشاد فرمایا ہے.جُبِلَتِ الْقُلُوبُ عَلَى حُبِّ مَنْ اَحْسَنَ اليها (جامع الصغير) یعنی انسانی سرشت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ اپنے محسن سے محبت کرتا ہے.اسی قاعدہ اور تقاضائے فطرت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ طرز بھی اختیار کیا ہے کہ سعادت مندوں کو اپنے احسان و انعام یاد دلاتا ہے کہ وہ محبت الہی میں ترقی کر کے سعادت حاصل کریں.اندرونی

Page 38

29 اور بیرونی انعامات پر غور کریں اور سوچیں تا ان کی جناب الہی سے محبت ترقی کرے.پھر یہ بات بھی انسان کی فطرت میں ہے کہ جب انسان کسی سے محبت بڑھا لیتا ہے تو محبوب کی رضامندی کے لئے اپنا وقت اپنا مال اپنی عزت و آبرو غرض ہر عزیز سے عزیز چیز کو خرچ کرنے پر تیار ہو جاتا ہے.پس جب خدا تعالیٰ کے احسانات اور انعامات کے مطالعہ کی عادت پڑ جاوے تو اس سے اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہو گی اور روز بروز محبت بڑھے گی.اور جب محبت بڑھ گئی تو وہ اپنی تمام خواہشوں کو رضاء الہی کے لئے متوجہ کر سکے گا اور اس رضاء الہی کو ہر چیز پر مقدم سمجھ لے گا.دیکھو سب سے بڑا اور عظیم الشان احسان جو ہم پر کیا وہ یہ ہے کہ ہم کو پیدا کیا.اگر کوئی دوست مدد دیتا ہے تو ہمارے پیدا ہونے اور موجود ہونے کے بعد.اگر کوئی بھلی راہ بتلا سکتا ہے یا علم پڑھا سکتا ہے، مال دے سکتا ہے.غرض کہ کسی قسم کی مدد دیتا ہے تو پہلے ہمارا اور اس چیز کا اور دینے والے کا وجود ہوتا ہے تب جا کر وہ مدد دینے والا مدد دینے کے قابل ہوتا ہے.غرض تمام انعاموں کے حاصل کرنے سے پیشتر جو کسی غیر سے ہوں پہلا اور عظیم الشان احسان خدا تعالیٰ کا یہ ہے کہ اس نے ہم کو اور اس چیز کو جس سے ہمیں راحت پہنچی اور جس نے ہمیں راحت پہنچائی اس کو وجود عطا کیا.پھر صحت و تندرستی عطا کی.اگر ذرا بھی بیمار ہو جاوے تو تمام راحت رساں چیزیں بھی راحت رساں نہیں رہتیں.دانت درد کرے تو اس کو نکالنا پسند ہو جاتا ہے.آنکھ دکھ دینے کا باعث بن جاوے تو گا ہے اس کو نکالنا ہی پڑتا ہے.برادران ! جب بیماری لاحق ہوتی ہے تب پتہ لگتا ہے کہ صحت کیسا انعام تھا.اس صحت کے حاصل کرنے کو دیکھو کس قدر مال خرچ کرنا پڑتا ہے.طبیبوں کی خوشامد ، دعا والوں، تعویز ٹوٹکے والوں کی منتیں غرض قسم قسم کے لوگوں کے پاس جن سے کچھ بھی امید ہو سکتی ہے انسان جاتا ہے.دواؤں کے خرید کرنے میں کتناہی روپیہ خرچ کرنا پڑے بلا دریغ خرچ کرتا ہے.ایک آدمی مرنے لگتا ہے تو کہتے ہیں.دو باتیں کرا دو خواہ کچھ ہی لے لو.حالانکہ اس نے لاکھوں باتیں کیں.چونکہ ان لوگوں کو جو احسانات کا مطالعہ نہیں کرتے خبر بھی نہ تھی.غرض یہ سب انعامات جو ہم پر ہوتے ہیں ان میں سے اول اور بزرگ ترین انعام وجود کا ہے جو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے پس اس سورۃ شریفہ میں اول اس کا ذکر فرمایا.هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ حِينٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئًا مَّذْكُورًا (الدھر:(۲) انسان پر کچھ زمانہ ایسا بھی گذرا ہے یا نہیں کہ یہ موجود نہ تھا.میری حالت کو دیکھو.اس وقت میں کھڑا بول رہا ہوں مگر کیا کوئی بتلا سکتا ہے کہ سو اسی برس پیشتر میں کہاں تھا؟ اور میرا کیا مذکور تھا.کوئی نہیں بتلا سکتا.یہ جناب الہی کا فیضان ہے کہ ایک ذرا سی چیز سے

Page 39

30 انسان کو پیدا کیا.چنانچہ فرماتا ہے إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشَاجِ نَّبْتَلِيْهِ (الدھر:۳) ہم نے انسان کو نطفہ سے بنایا.نطفہ میں صدہا چیزیں ایسی ہیں جن سے انسان بنتا ہے.عام طور پر ہم لوگ ان کو دیکھ نہیں سکتے.کوئی بڑی اعلی درجہ کی خورد بین ہو تو اس کے ذریعہ سے وہ نظر آتے ہیں.پھر بتلایا کہ پہلا انعام تو عطاء وجود تھا پھر یہ انعام کیا فَجَعَلْنَهُ سَمِيعًا بَصِيرًا.خدا ہی کا فضل تھا کہ کان دیئے آنکھیں دیں اور سنتا دیکھتا بنا دیا.سارے کمالات اور علوم کا پتہ کان سے لگ سکتا ہے یا نظارہ قدرت کو دیکھ کر انسان باخبر ہو سکتا ہے.یہ عظیم الشان عطیے بھی کس کی جناب سے ملے ؟ موٹی کریم ہی کی حضور سے ملے.آنکھیں ہیں تو نظارہ قدرت کو دیکھتی ہیں.خدا کے پاک بندے اس کے پاک صحیفوں کو دیکھ کر حظ اٹھاتے ہیں.کان کے عطیہ کے ساتھ زبان کا عطیہ بھی آگیا.کیونکہ کان اگر نہ ہوں تو زبان پہلے چھن جاتی ہے.اب اگر ان میں سے کوئی نعمت چھن جاوے تو پتہ لگتا ہے کہ کیسی نعمت جاتی رہی.آنکھ بڑی نعمت ہے یا کان بڑی دولت ہے.ان عطیوں میں کوئی بیماری یا روگ لگ جاوے تو اس ذرا سے نقصان کی اصلاح کے لئے کس قدر رو پیه وقت خرچ کرنا پڑتا ہے.مگر یہ صحیح سالم 'محمد' بے عیب بے روگ عیلیے اس مولی کریم نے مفت بے مزد عنایت فرمائے ہیں.یوں نظر اٹھاتے ہیں تو وہ عجیب در عجیب تماشا ہائے قدرت دیکھتے ہوئے آسمان تک چلی جاتی ہے.ادھر نظر اٹھاتے ہیں تو خوش کن نظارے دیکھتی ہوئی افق سے پار جا نکلتی ہے.کان کہیں دلکش آوازیں سن رہے ہیں، کہیں معارف و حقایق قدرت کی داستان سے حظ اٹھاتے ہیں، کہیں روحانی عالم کی باتوں سے لطف اٹھا رہے ہیں.بیشک یہ مولیٰ کریم ہی کا فضل اور احسان ہے کہ ایسے انعام کرتا ہے.پیدا کرتا ہے اور پھر ایسی بے بہا نعمتیں عطا کرتا ہے.کسی کی ماں کسی کا دوست کسی کا باپ وہ نعمتیں نہیں دے سکتا جو خدا تعالیٰ نے دی ہیں.پھر اسی پر بس نہیں فرمائی.اِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ (الدهر :) ہم نے انسان کو ایک راہ بتلائی.یہی ایک مسئلہ ہے جو بڑا ضروری تھا.ہم پیدا ہوئے سب کچھ ملا مگر کوئی کتنی کوششیں کرے ہمیشہ کے لئے نہ کوئی رہا ہے نہ رہے گا.سارے انبیاء و رسل، تمام اولیاء و کبراء ملت تمام مدبر اور بڑے بڑے آدمی سب کے سب چل دئے.پس کوئی ایسا انعام ہو جو ابدالآباد راحت اور سرور کا موجب ہو.اس کے لئے فريليا إِنَّا هَدَيْنَاهُ الشینیل ہم نے ایک راہ بتلائی، اگر اس پر چلے تو ابد الاباد کی راحت پا سکتا ہے.اس پاک راہ کی تعلیم ہمیشہ ہمیشہ خدا تعالی کے برگزیدہ بندوں کی معرفت ہوئی ہے.گو خود فطرت انسانی میں اس کے نقوش موجود ہیں.بہت مدت گذری جب کہ دنیا میں ایک عظیم الشان انسان اس پاک راہ کی

Page 40

31 ہدایت کے لئے آیا جس کا نام آدم علیہ السلام تھا.پھر نوح ابراہیم موسیٰ، عیسی علیم السلام آئے اور ان کے درمیان ہزاروں ہزار مامور من اللہ دنیا کی ہدایت کو آئے.اور ان سب کے بعد میں ہمارے سید و مولی سید ولد آدم فخرالاولین والآخرین افضل الرسل و خاتم النبین حضرت محمد رسول رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے.اور پھر کیسی رہنمائی فرمائی کہ ان کے ہی نمونہ پر ہمیشہ خلفاء امت کو بھیجتا رہا.حتی کہ ہمارے مبارک زمانہ میں بھی ایک امام اس ہدایت کے بتلانے کے لئے مبعوث فرمایا.اور اس کو اور اس کے اقوال کو تائیدات عقلیہ اور نقلیہ و آیات ارضیہ و سماویہ سے موید فرما کر روز بروز ترقی عطا کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ کس طرح الہی ہاتھ ایک انسان کی حفاظت کرتا ہے اور کس طرح آئے دن اس کے اعداء نیچا دیکھتے ہیں.وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ.ہاں تو پھر خدا کی ایک ممتاز جماعت ہمیشہ اپنے اقوال سے اس راہ کو بتلاتی اور اپنے اعمال سے نمونہ دکھلاتی ہے جس سے ابدی آرام عطاء ہو.پھر دیکھو کہ انعام الہی تو ہوتے ہیں مگر ان انعامات کو دیکھنے والے دو گروہ ہوتے ہیں.اِمَّا شَاكِرَا وَ اِمَّا كَفُورًا - (الدھر:۴) ایک تو وہ لوگ ہوتے ہیں جو ان ہدایات کی قدر کرتے ہیں اور ایک وہ ہوتے ہیں جو قدر نہیں کرتے ہیں.اور ان دستوروں پر عمل در آمد نہیں دکھاتے.ہمیشہ سے یہی طریق رہا ہے.ایک گروہ جو سعادتمندوں کا گروہ ہو تا ہے ان پاک راہوں کی قدر کرتا ہے اور اپنے عمل درآمد سے بتلا دیتا ہے کہ وہ فی الحقیقت اس راہ کے چلنے والے اور اس راہ کے ساتھ پیار کرنے والے ہیں اور دوسرے اپنے انکار سے بتلا دیتے ہیں کہ وہ قدر نہیں کرتے.یہ قرآن شریف جب آیا اور ہماری سید و مولی، رسول اکرم مخربنی آدم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم اور پھر اپنے کامل اور پاک نمونہ سے ہدایت کی راہ بتلائی تو بہت سے نابکار سعادت کے دشمن انکار اور مخالفت پر تل پڑے.اور جو سعادت مند تھے وہ ان پر عمل کرنے کے لئے نکلے اور دنیا کے سرمایہ فخرو سعادت اور راحت و آرام ہوئے اور ان کے دشمن خائب و خاسر اور ہلاک ہوئے.آخر وہ سعادت کا زمانہ گزر گیا.دور کی باتیں کیا سناؤں.گھر کی اور آج کی بات کہتا ہوں.اب بھی اسی نمونہ پر ایک وقت لایا گیا اور وہی قرآن شریف پیش کیا گیا ہے.مگر سعادت مندوں نے قدر کی اور ناعاقبت اندیش نابکاروں نے ناشکری اور مخالفت.مگر نادان انسان کیا یہ سمجھتے ہیں کہ انعام الہی کی ناقدری کرنے سے ہم سے کوئی باز پرس نہ ہو گی.ان کا یہ خیال غلط ہے.دنیوی حکومت میں ہم دیکھتے ہیں کہ کسی حاکم کا حکم آجادے اور پھر رعایا اس حکم کی تعمیل نہ کرے تو سزا یاب ہوتی ہے.نہ مانے والوں کا آرام رنج سے اور ان کی عزت ذلت سے متبدل

Page 41

32 ہو جاتی ہے.پھر اگر کوئی احکم الحاکمین کی بتائی راہ اپنا دستور العمل نہ بنادے تو کیونکر دکھوں اور ذلتوں سے بچ سکتا ہے.یاد رکھو کہ حکم حاکم کی نافرمانی حسب حیثیت حاکم ہوا کرتی ہے.یہ ذلت بھی اسی قدر ہو گی جس قدر کہ حاکم کے اختیارات ہیں.دنیا کے حاکم جو محدود حکومت رکھتے ہیں ان کی نافرمانی کی ذلت بھی محدود ہی ہے.مگر خدا تعالیٰ جو غیر محدود اختیارات رکھتا ہے اس کے حکم کی خلاف ورزی میں ذلت بھی طویل ہوگی.گو یہ سچ ہے کہ سَبَقَتْ رَحْمَتِي عَلَى غَضَبِی میری رحمت میرے غضب سے بڑھی ہوئی ہے مگر جیسی کہ اس کی طاقتیں وسیع ہیں اسی انداز سے نافرمان کی ذلت بھی ہونی چاہئے اور ہو گی.ہاں بہت سی سزائیں ایسی ہیں کہ انسان ان کو دیکھتا ہے اور بہت سی سزائیں ہیں کہ ان کو نہیں دیکھ سکتے.تو غرض یہ ہے کہ کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ خدا کے قانون اور حکم کی اگر پرواہ نہ کریں گے تو کیا نقصان ہے؟ نہیں نہیں.خبردار ہو جاؤ.مولیٰ فرماتا ہے إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ سَلَا سِلاً وَأَغْلَالًا وَّسَعِيرًا (الدھر:٥) منکر کو تین قسم کی سزا دیں گے.ہر ایک انسان کا جی چاہتا ہے کہ میں آزاد رہوں.جہاں میری خواہش ہو وہاں پہنچ سکوں.پھر چاہتا ہے کہ جہاں چاہوں حسب خواہش نظارہ ہائے مطلوبہ دیکھوں اور آخر جی کو خوش کروں.کہیں جانا پڑے تو جاؤں اور کہیں سے بھاگنا پڑے تو وہاں سے بھاگوں اور کسی چیز کو دیکھنا پڑے تو اسے دیکھوں.بہرحال اپنا دل ٹھنڈا رکھوں.پس یہ تین عظیم الشان امور ہیں.اگر کہیں جاتا ہے تو منشا ہے کہ دل خوش ہو.کسی کو دیکھتا ہے تو اس لئے کہ جان کو راحت ملے.نتیجہ بہر حال دل کی خوشی ہے مگر جب انسان خدا تعالیٰ کی نعمتوں کا کفر کرتا ہے تو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان نعمتوں سے محروم ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ نے اولاً تین ہی نعمتوں کا ذکر کیا ہے عطاء وجود عطاء سمع ، عطاء بصر ان نعمتوں سے اگر کوئی جاتی رہے تو کیا سچی خوشی اور حقیقی راحت مل سکتی ہے ؟ کبھی نہیں.پھر خاص الخاص نعمت جو انبیاء علیم السلام کے ذریعہ لی ہے اس کے انکار سے کب راحت پاسکتا ہے ؟ قانون اٹھی اور شریعت خداوندی کو توڑتا ہے کہ راحت ملے مگر راحت کہاں؟ دیکھ لو ایک نابکار انسان حدود اللہ کو توڑ کر زنا کا ارتکاب کرتا ہے کہ اسے لذت و سرور ملے.مگر نتیجہ کیا ہے کہ اگر آتشک اور سوزاک میں مثلاً مبتلا ہو گیا تو بجائے اس کے کہ جسم کو راحت و آرام پہنچاوے دل کو سوزش اور بدن کو جلن نصیب ہوتی ہے.قانون الہی کو -

Page 42

33 توڑنے والے کو راحت کہاں؟ پھر اس کے لئے إِنَّا اعْتَدْنَا لِلْكَافِرِینَ یعنی منکر انسان کے لئے کیا ہوتا ہے.پاؤں میں زنجیر ہوتی ہے، گردن میں طوق ہوتا ہے جن کے باعث انواع و اقسام راحت و آرام سے محروم ہو جاتا ہے، دل میں ایک جلن ہوتی ہے جو ہر وقت اس کو کباب کرتی رہتی ہے.دنیا میں اس کا نظارہ موجود ہے مثلا وہی نا فرمان زانی بد کار قسم قسم کے آلام جسمانی میں جتلا ہو کر اندر ہی اندر کباب ہوتے ہیں اور پھر نہ وہاں جا سکتے ہیں نہ نظر اٹھا کر دیکھ سکتے ہیں.اسی ہم و غم میں مصائب اور مشکلات پر قابو نہ پاکر آخر خود کشی کر کے ہلاک ہو جاتے ہیں.دنیا میں ہدایت کے منکروں اور ہادیوں کے مخالفوں نے کیا پھل پایا؟ دیکھو! ہمارے سید و مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر جنہوں نے اس ابدی راحت اور خوشی کی راہ سے انکار کیا ان کا کیا حال ہوا؟ وہ عمائد مکہ جو ابو جہل، عقبہ شیبہ وغیرہ تھے اور مقابلہ کرتے تھے وہ فاتح نہ کہلا سکے کہ وہ اپنے مفتوحہ بلاد کو دیکھتے اور دل خوش کر سکتے؟ ہر گز نہیں.ان کے دیکھتے ہی دیکھتے ان کی عزت گئی، آبرو نہ رہی مذہب گیا، اولاد ہاتھ سے گئی.غرض کچھ بھی نہ رہا.ان باتوں کو دیکھتے اور اندر ہی اندر کباب ہوتے تھے اور اسی جلن میں چل دیئے.یہ حال ہوتا ہے منکر کا.جب وہ خد اتعالیٰ کی کسی نعمت کا انکار کرتا ہے تو برے نتائج کو پالیتا ہے اور عمدہ نتائج اور آرام کے اسباب سے محروم ہو جاتا ہے کہ پھر دوسرے گروه إما شاكرا (الدهر (۴) کا ذکر فرمایا کہ شکر کرنے والے گروہ کے لئے کیا جزا ہے.إِنَّ الْأَبْرَارَ يَشْرَبُونَ مِنْ كَاسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورًا (الدھر ) بے شک ابرار لوگ کافوری پیالوں سے پیئیں گے.ابرار کون ہوتے ہیں؟ جن کے عقائد صحیح ہوں اور ان کے اعمال صواب اور اخلاص کے نیچے ہوں اور جو ہر دکھ اور مصیبت میں اپنے تئیں خدا تعالیٰ کی نارضامندی سے محفوظ رکھ لیں.خود جناب الی ابرار کی تشریح فرماتے ہیں.سورۃ البقرۃ میں فرمایا.لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوا وُجُوْهَكُمْ (البقرة:۱۷۸) ابرار کون ہوتے ہیں؟ اول جن کے اعتقاد صحیح ہوں کیونکہ اعمال صالحہ دلی ارادوں پر موقوف ہیں.دیکھو ایک اونٹ کے ناک میں نکیل ڈالے ہوئے ایک بچہ بھی اسے جہاں چاہیے، جدھر لے جائے لئے جاتا ہے.لیکن اگر کنوئیں میں گرانا چاہیں تو خواہ دس آدمی بھی مل کر اس کی نکیل کو کھینچیں ممکن نہیں وہ قدم اٹھا جاوے.ایک حیوان مطلق بھی اپنے دلی ارادے اور اعتقاد کے خلاف کرنا نہیں چاہتا.وہ سمجھتا ہے کہ قدم اٹھایا i

Page 43

34 اور ہلاک ہوا.پھر انسان اور سمجھدار انسان کب اعتقاد صحیحہ رکھتا ہوا اعمال بد کی طرف قدم اٹھا سکتا ہے.اس لئے ابرار کے لئے پہلے ضروری چیز یہی ہے کہ اعتقاد صحیحہ ہوں اور وہ پکی طرح پر اس کے دل میں جاگزیں ہوں.اگر منافقانہ طور پر مانتا ہے تو کاہل ہو گا حالانکہ مومن ہوشیار اور چالاک ہوتا ہے.ان اعتقادات صحیحہ میں سے پہلا اور ضروری عقیدہ خدا تعالیٰ کا ماننا ہے جو تمام نیکیوں کی جڑ اور تمام خوبیوں کا چشمہ ہے.دنیا میں ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ جب تک دوسرے سے مناسبت پیدا نہ ہو اس کی طاقتوں اور فضلوں سے برخوردار نہیں ہو سکتا.جب انسان قرب الہی چاہتا ہے اور اس کی دلی تمنا ہوتی ہے کہ اس کے خاص فضل اور رحمتوں سے بہرہ ور اور برخوردار ہو جائے تو اسے ضروری ہے کہ ان باتوں کو چھوڑ دے جو خدا تعالیٰ میں نہیں یا جو اس کی پسندیدہ نہیں ہیں.جس قدر عظمت الہی دل میں ہو گی اسی قدر فرمان برداری کے خیالات پیدا ہوں گے اور رذائل کو چھوڑ کر فضائل کی طرف دوڑے گا.کیا ایک اعلی علوم کا ماہر جاہل سے تعلق رکھ سکتا ہے یا ایک ظالم طبع انسان کے ساتھ ایک عادل مل کر رہ سکتا ہے؟ ہرگز نہیں.پس خدا تعالیٰ کی برکتوں سے برخوردار ہونے کے لئے سب سے ضروری بات صفات الہی کا علم حاصل کرنا اور ان کے موافق اپنا عمل درآمد کرتا ہے.اگر یہ اعتقاد بھی کمزور ہو تو ایک اور دوسرا مسئلہ ہے جس پر اعتقاد کرنے سے انسان خدا تعالیٰ کی فرماں برداری میں ترقی کر سکتا ہے وہ جزا و سزا کا اعتقاد ہے.یعنی افعال اور ان کے نتائج کا علم مثلاً یہ کام کروں گا تو نتیجہ یہ ہو گا.برے نتائج پر غور کر کے انسان ہاں سعید الفطرت انسان برے کاموں سے جو ان نتائج بد کا موجب ہیں پر ہیز کرے گا اور اعمال صالحہ بجا لانے کی کوشش.یہ دونو اعتقاد نیکیوں کا اصل الاصول اور جڑیں ہیں یعنی اول خدا تعالیٰ کی صفات اور محامد کا اعتقاد اور علم تاکہ قرب الہی سے فائدہ اٹھاوے اور رذائل کو چھوڑ کر فضائل حاصل کرے.دوسرا یہ کہ ہر فعل ایک نتیجہ کا موجب ہوتا ہے.اگر بد افعال کا مرتکب ہو گا تو نتیجہ بد ہو گا.ہرانسان فطر تا سکھ چاہتا ہے اور سکھ کے وسائل اور اسباب سے بے خبری کی وجہ سے افعال بد کے ارتکاب میں سکھ تلاش کرتا ہے مگر وہاں سکھ کہاں؟ اس لئے ضروری ہے کہ افعال اور ان کے نتائج کا علم پیدا کرے اور یہی وہ اصل ہے جس کو اسلام نے جزا و سزا کے لفظوں سے تعبیر کیا ہے.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ انسان تجربہ کار اور واقف کار لوگوں کے بتلائے ہوئے مجرب نسخے آرام و صحت کے لئے چاہتا ہے.اگر کوئی ناواقف اور نا تجربہ کار بتلائے تو تامل کرتا ہے.پس نبوت حقہ نے جو راہ دکھلائی ہے وہ تیرہ سو برس سے تجربہ میں آچکی ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے راحت کے جو

Page 44

35 سامان بتلائے ہیں ان کا امتحان کرنا آسان ہے.غور کرو اور بلند نظری سے کام لو! عرب کو کوئی فخر حاصل نہ تھا.کس سے ہوا؟ اسی نسخہ سے! کیا عرب میں تفرقہ نہ تھا؟ پھر کس سے دور ہوا؟ ہاں اسی راہ سے!! کیا عرب نابودگی کی حالت میں نہ تھے.پھر یہ حالت کس نے دور کی؟ مانا پڑے گا کہ اسی نبوت حقہ نے !!! عرب جاہل تھے ، وحشی تھے، خدا سے دور تھے.محکوم نہ تھے تو حاکم بھی نہ تھے.مگر جب انہوں نے قرآن کریم کا شفا بخش نسخہ استعمال کیا تو وہی جاہل دنیا کے استاد اور معلم بنے.وہی وحشی متمدن دنیا کے پیشرو اور تہذیب و شائستگی کے چشمے کہلائے.وہ خدا سے دور کہلانے والے خدا پرست اور خدا میں ہو کر دنیا پر ظاہر ہوئے.وہ جو حکومت کے نام سے بھی ناواقف تھے دنیا بھر کے مظفر و منصور اور فاتح کہلائے.غرض کچھ نہ تھے سب کچھ ہو گئے.مگر سوال یہی ہے کیونکر؟ اسی قرآن کریم کی بدولت اسی دستور العمل کی رہبری سے.پس تیرہ سو برس کا ایک مجرب نسخہ موجود ہے جو اس قوم نے استعمال کیا جس میں کوئی خوبی نہ تھی اور خوبیوں کی وارث اور نیکیوں کی ماں بنی.غرض یہ مجرب نسخہ ہے کہ جس قدر خدا تعالیٰ کے قرب اور سکھ کی تلاش چاہو اسی قدر جن کے محامد الہیہ اور صفات باری تعالیٰ پر ایمان لاؤ.کیونکہ اسی قدر انسان رزائل سے بچے گا اور پسندیدہ باتوں کی طرف قدم اٹھائے گا.حاصل کلام ابرار بننے کے لئے مندرجہ بالا اصول کو اپنا دستور العمل بنانا چاہئے.میں نے ذکر یہ شروع کیا تھا کہ شاکر گروہ کا دوسرا نام قرآن کریم نے ابرار رکھا ہے اور ان کی جزا یہ بتلائی ہے کہ کافوری پیالوں سے پیئیں گے.چنانچہ فرمایا إِنَّ الْاَبْرَارَ يَشْرَبُونَ مِنْ كَاسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورًا (الدهر) پہلے ان کو اس قسم کا شربت پینا چاہئے کہ اگر بدی کی خواہش پیدا ہو تو اس کو دبالینے والا ہو.کافور کہتے ہی دبا دینے والی چیز کو ہیں.اور کافور کے طبی خواص میں لکھا ہے کہ وہ سمی امراض کے مواد ردیہ اور فاسدہ کو دبادیتا ہے اور اسی لئے وبائی امراض طاعون اور ہیضہ اور تپ وغیرہ میں اس کا استعمال بہت مفید ہے.تو پہلے انسان یعنی سلیم الفطرت انسان کو کافوری شربت مطلوب ہے.قرآن کریم نے ایک دوسرے مقام پر فرمایا ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْهُمْ ظَالِمُ لِنَفْسِهِ (فاطر:۳۳) پھر وارث کیا ہم نے اپنی کتاب کا ان لوگوں کو جو بر گزیدہ ہیں.پس بعض ان میں سے ظالموں کا گروہ ہے جو اپنے نفس پر ظلم کرتے ہیں اور جبر و اکراہ سے نفس امارہ کو خدا تعالیٰ کی راہ پر چلاتے ہیں اور نفس سرکش کی مخالفت اختیار کر کے مجاہدات شاقہ میں مشغول ہیں.دوسرا گروہ میانہ رو آدمیوں کا ہے جو بعض خدمتیں خدا تعالی کی راہ میں اپنے نفس سرکش سے ہے

Page 45

36 بجبر و اکراہ لیتے ہیں اور بعض اللی کاموں کی بجا آوری میں نفس ان کا بخوشی خاطر تابع ہو جاتا ہے اور ذوق اور شوق اور محبت اور ارادت سے ان کاموں کو بجالاتا ہے.غرض یہ لوگ کچھ تو تکلیف اور مجاہدہ سے خدا تعالیٰ کی راہ پر چلتے ہیں اور کچھ طبعی جوش اور دلی شوق سے بغیر کسی تکلف کے اپنے رب جلیل کی فرماں برداری ان سے صادر ہوتی ہے.تیسرے سابق بالخیرات اور اعلی درجہ کے آدمیوں کا گروہ ہے جو نفس امارہ پر بکلی فتحیاب ہو کر نیکیوں میں آگے نکل جانے والے ہیں.غرض سلوک کی راہ میں مومن کو تین درجے طے کرنے پڑتے ہیں.پہلے درجہ میں جب بدی کی عادت ہو تو اس کے چھوڑنے میں جان پر ظلم کرے اور اس قوت کو دبادے.شراب کا عادی اگر شراب کو چھوڑے گا تو ابتدا میں اس کو بہت تکلیف محسوس ہو گی.شہوت کے وقت عفت سے کام لے اور قوائے شہوانیہ کو دبادے.اسی طرح جھوٹ بولنے والا سست منافق، راستبازوں کے دشمنوں کو بدیاں چھوڑنے کے لئے جان پر ظلم کرنا پڑے گا تا کہ یہ اس طاقت پر فاتح ہو جائیں.بعد اس کے میانہ روی کی حالت آوے گی.کبھی کبھی بدی کے چھوڑنے میں گو کسی وقت کچھ خواہش بد پیدا بھی ہو جاوے ایک لذت اور سرور بھی حاصل ہو جایا کرے گا مگر تیسرے درجہ میں پہنچ کر سابق بالخیرات ہونے کی طاقت آجاوے گی اور پھر خدا تعالیٰ کے فضل و کرم کی بارش ہونے لگے گی اور مکالمہ الہی کا شرف عطا ہو گا.تو سب سے پہلے ابرار کو کافوری شربت دیا جاوے گا تاکہ بدیوں اور رذائل کی قوتوں پر فتح مند ہو جاویں اور اس کے ساتھ ہی فرمایا کہ بدیوں کو دباتے دباتے نیکیوں میں ترقی کرتا ہے اور پھر وہ ایک خاص چشمہ پر پہنچ جاتا ہے.عَيْنًا يَّشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللَّهِ يُفَخِرُوْنَهَا تَفْجِيْرًا- (الدهر) وہ ایک چشمہ ہے کہ اللہ کے بندے اس سے پیتے ہیں.صرف خود ہی فائدہ نہیں اٹھاتے بلکہ دوسروں کو بھی مستفید کرتے ہیں اور ان چشموں کو چلا کر دکھاتے ہیں.فطرت انسانی پر غور کرنے سے پتہ لگتا ہے کہ تمام قومی پہلے کمزوری سے کام کرتے ہیں.چلنے میں، بولنے میں پکڑنے میں، غرض ہر بات میں ابتداء لڑکپن میں کمزوری ہوتی ہے.لیکن جس قدر ان قوی سے کام لیتا ہے اسی قدر طاقت آجاتی ہے.پہلے دوسرے کے سہارے سے چلتا ہے پھر خود اپنے سارے چلتا ہے.اسی طرح پہلے تلا کر بولتا پھر نہایت صفائی اور عمدگی سے بولتا ہے، پکڑتا ہے، وغیرہ وغیرہ.گویا بتدریج نشو و نما پاتا ہے.اگر چند طاقتوں سے کام لینے کو چھوڑ دے تو وہ طاقتیں مردہ یا پژمردہ ضرور ہو جاتی ہیں.یہی معنی ہیں جب انسان بدی کی طرف قدم اٹھاتا ہے تو طاقت کمزور ہو جاتی ہے اور نیکی کے

Page 46

37 قوی بالکل از کار رفتہ ہوتے ہیں.یہ کوئی علم نہیں اگر کسی حاکم کو حکومت دی جارے اور وہ فرائض منصبی کو ادا نہ کرے تو نگران گورنمنٹ اس کے وہ اختیارات سلب کر دے گی اور اسے معزول کرے گی اور اگر اس حالت کو دیکھتے ہوئے بھی کوئی پروا نہ کرے تو یہ امر عاقبت اندیشی اور عقل کے خلاف ہے کہ سست انسان کے پاس رکھی جاوے.ایسے ہی وہ انسان ہے جو ایمانی قوی کو خرچ نہیں کرتا وہ ابرار کے زمرہ میں رہ نہیں سکتا.جن کے عقائد حقہ ہیں یعنی وہ خدا پر ایمان لاتے ہیں.جزا و سزا اور خدا کی کتابوں اور انبیاء علیهم السلام پر ایمان لاتے ہیں.پھر ان وسائط کو مانتے ہیں جن کا مقصود اتم فرمان برداری ہے.پھر عمل کے متعلق کیا چاہئے.سب سے زیادہ عزیز مال ہے.پانچ روپے کا سپاہی پانچ روپیہ کے بدلے میں عزیز جان دے دینے کو تیار ہے.ماں باپ اس روپیہ کے بدلے اس عزیز چہرہ کو جدا کر دیتے ہیں.تو معلوم ہوا کہ مال کی طرف انسان بالطبع جھکتا ہے.لیکن جب خدا سے تعلق ہو تو پھر مال سے بے تعلقی دکھاوے اور واقعی ضرورتوں والے کی مدد کرے.مسکینوں کو دے جو بیدست و پا ہیں.رشتہ داروں کی خبر لے.کوئی کسی ابتلا میں پھنس گیا ہو تو اس کے نکالنے کی کوشش کرے.مگر سب سے مقدم دوی القربی کو فرمایا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ذَوِي الْقُرْبی کے ساتھ سلوک کرنا زیادتی عمر کا موجب ہے.قیموں کی خبر لے.پھر جو بے دست و پا ہیں ان کی خبر لے.پھر جو علم پڑھتے ہیں اور خدا تعالی کی رضا کے لئے پڑھتے ہیں اور مصیبت میں جتلا شدہ لوگوں کی خبر لے.پس جناب الہی کے ساتھ تعلق ہو اور دنیا اور اس کی چیزوں سے بے تعلقی دکھلاوے.پھر جناب الہی کی راہ میں جان کو خرچ کرے.خدا تعالیٰ کی راہ میں جان خرچ کرنے کی پہلی راہ کیا ہے؟ نمازوں کا ادا کرنا.نماز مومن کا معراج ہے.نماز میں ہر قسم کی نیازمندیاں دکھائی گئی ہیں.غرض کا فوری شربت پیتے پیتے انسان اس چشمہ پر پہنچ جاتا ہے جہاں اسے شفقت علی خلق اللہ کی توفیق دی جاتی ہے.پھر بتلایا کہ جو معاہدہ کسی سے کریں اس کی رعایت کرتے ہیں.مسلمان سب سے بڑا معاہدہ خدا سے کرتا ہے کہ میں ایک نمونہ ہوں گا.میں فرمان بردار ہوں گا.میں اپنے ہاتھ اور اپنی زبان سے کسی کو دکھ نہ دوں گا.اور ایسا ہی ہماری جماعت امام کے ہاتھ پر معاہدہ کرتی ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.رنج میں ، راحت میں عسر یسر میں قدم آگے بڑھاؤں گا.بغاوت اور شرارت کی راہوں سے بچنے کا اقرار کرتا ہے.غرض ایک عظیم الشان معاہدہ ہوتا ہے.پھر دیکھا جاوے کہ نفسانی اغراض اور دنیوی مقاصد کی

Page 47

38 طرف قدم بڑھاتا ہے یا دین کو مقدم کرتا ہے.عامہ مخلوقات کے ساتھ نیکی اور مسلمانوں کے ساتھ خصوصا نیکی کرتا ہے یا نہیں؟ ہر امر میں خدا تعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھے.مقدمہ ہو تو جھوٹے گواہوں، جعلی دستاویزوں سے محترز رہے.دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لئے وعظ کہنا بھی مفید امر ہے.اس سے انسان اپنے آپ کو بھی درست بنا سکتا ہے.جب دوسرے کو نصیحت کرتا ہے تو اپنے دل پر چوٹ لگتی ہے.امر بالمعروف بھی ابرار کی ایک صفت ہے اور پھر قسم قسم کی بدیوں سے رکتا ہے.المختصر يُفَجِّرُونَهَا تفجير ا.جب خود بھلائی حاصل کرتے ہیں، ظالِمٌ لِنَفْسِهِ ہوتے ہیں تو دوسروں تک بھی پہنچاتے ہیں- يُوفُونَ بالنذر (الدھر یہ جو معاہدہ جناب الہی سے کیا ہو اس کو وفاداری سے پورا کرے اور نیکی بِالنَّذْرِ یوں حاصل کرے کہ میرے ہی افعال نتائج پیدا کریں گے.ایک فلسفی مسلمان کا قول ہے.گندم از گندم بروید جو ز جو از مکافات عمل غافل مشو وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبّهِ مِسْكِيْنَا وَ يَتِيمًا وَأَسِيرًا (الدھر:۹) اور کھانا دینے میں دلیر ہوتے ہیں.مسکینوں ، یتیموں اور اسیروں کو کھلاتے ہیں.قرآن کریم میں لباس اور مکان دینے کی تاکید نہیں آئی جس قدر کھانا کھلانے کی آئی ہے.ان لوگوں کو خدا نے کافر کہا ہے جو بھوکے کو کہہ دیتے ہیں کہ میاں! تم کو خدا ہی دے دیتا اگر دینا منظور ہوتا.قرآن کریم میں سورۃ لیس میں ایسا لکھا ہے وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا للذين امنوا الطعمُ مَنْ لَّوْ يَشَاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ الت ١٣٨ آج کل چونکہ قحط ہو رہا ہے انسان اس نصیحت کو یاد رکھے اور دوسرے بھوکوں کی خبر لینے کو بقدر وسعت تیار رہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے لئے یتیموں، مسکینوں اور پابند بلا کو کھانا دیتا رہے.مگر صرف اللہ کے لئے دے.یہ تو جسمانی کھانا ہے.روحانی کھانا ایمان کی باتیں، رضاء الہی اور قرب کی باتیں، یہاں تک کہ مکالمہ الہیہ تک پہنچا دینا اسی رنگ میں رنگین ہوتا ہے.یہ بھی طعام ہے.وہ جسم کی غذا ہے، یہ روح کی غذا.منشایہ ہو کہ اس لئے کھانا پہنچاتے ہیں إِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا يَوْمًا عَبُوسًا قَمْطَرِيرًا (الدهر ) کہ ہم اپنے رب سے ایک دن سے جو عبوس اور قمطر پر ہے ڈرتے ہیں.عبوس تنگی کو کہتے ہیں.تمطر پر دراز یعنی قیامت کا دن، تنگی کا ہو گا اور لمبا ہو گا.بھوکوں کی مدد کرنے سے خدا تعالیٰ قحط کی تنگی اور درازی سے بھی نجات دے دیتا ہے.نتیجہ یہ ہوتا ہے فَوَقَهُمُ اللهُ شَرَّ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَلَقَهُمْ نَضْرَةً وَ سُرُورًا

Page 48

39 الدهر ۳) خدا تعالی اس دن کے شرسے بچالیتا ہے اور یہ بچانا بھی سرور اور تازگی سے ہوتا ہے.میں پھر کہتا ہوں کہ یاد رکھو آج کل کے ایام میں مسکینوں اور بھوکوں کی مدد کرنے سے قحط سالی کے ایام کی تنگیوں سے بچ جاؤ گے.خدا تعالیٰ مجھ کو اور تم کو توفیق دے کہ جس طرح ظاہری عزتوں کے لئے کوشش کرتے ہیں ابدالاباد کی عزت اور راحت کے لئے بھی کوشش کریں آمین.الحکم جلد ۳ نمبر ۳۸-۰-۲۴ اکتوبر ۱۸۹۹ء صفحه ۳ تا ۶) کل (احکام جلد ۳ نمبر۴۱-۰-۷ار نومبر ۱۸۹۹ء صفحه ۱ تا ۴) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 49

۸/دسمبر ۱۸۹۹ء 40 خطبہ جمعہ وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُوْرِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ انَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّلِحُونَ - إِنَّ فِي هَذَا لَبَلْغَا لِّقَوْمٍ عُبِدِينَ - وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (الانبیاء۱۸۱۰۲) کی تلاوت کے بعد آپ نے فرمایا:.ہم نے زبور میں نصیحت کے بعد یہ بات لکھ دی تھی کہ اس زمین کے مالک میرے نیکوکار بندے ہوں گے.اس بات میں جو زبور کی پیشگوئی کے متعلق بیان کی گئی ، فرماں بردار لوگوں کے لئے ایک پیغام ہے اور ہم نے تجھ کو اے نبی! کل مخلوقات کے لئے رحمت کر کے بھیجا ہے.اس آیت شریف کے پڑھنے سے میری یہ غرض نہیں کہ اس پیشگوئی کے متعلق شرح وبسط کے ساتھ بہت سی باتیں بیان کروں.یہ ایک لمبا مضمون ہے.اس وقت مجھے اپنی جماعت کو چند باتیں صلاح و تقویٰ کے متعلق سنانی منظور ہیں.خدا تعالیٰ نے اس آیت میں کہ إِنَّ فِي هَذَا لَبَلْغَالِقَوْمٍ عَبِدِین ایک لگتی ہوئی بات سنائی ہے.یہود ہمیشہ اپنے تئیں یہ سمجھتے تھے کہ ہم ابراہیم کے فرزند ہیں اور خدا نے ہم میں سے ایک بڑا سلسلہ انبیاء

Page 50

41 علیہم السلام اور ملوک کا پیدا کیا اور خدا تعالی کے ہر قسم کے فضل و کرم کے وارث اور ٹھیکیدار ہم ہی ہیں.لیکن انھوں نے اس امر کے سمجھنے میں سخت غلطی کھائی کہ خدا تعالیٰ کے فضل کا انحصار اور اس کی رحمت و برکت کا مدار کسی کی قرابت پر ہے.حالانکہ خدا کے نزدیک صرف ایک اور صرف ایک ہی بات تھی اور ہے جو اس کی نصرت تائید اور اس کے فضل و کرم کا موجب رہی ہے اور وہ بات قوموں کے در میان صلاح و تقویمی ہے.مدتوں اس سے پہلے خدا فرما چکا تھا کہ جب بنی اسرائیل اس اصل کو چھوڑ دیں گے اور صلاح و تقویٰ سے دور جاپڑیں گے خدا تعالی کے فضل و رحمت کے وارث نہ رہیں گے اور ایک اور قوم پیدا کی جاوے گی جو متقی ہوں گے اور اس وعدہ کی زمین کے ، جس کے لئے قوم تڑپتی تھی، ہاں اسی ارض مقدس یعنی زمین شام کے وارث وہ بنیں گے.اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پھر خدا نے بنی اسرائیل کو یاد دلایا ہے کہ اس وعدہ کے پورا ہونے کا وقت آیا ہے.قرآن کریم کی تعلیم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک نمونہ سے ایک قوم تیار ہو رہی ہے جو داؤد علیہ السلام کی پیشگوئی کے موافق ارض مقدس کی وارث ہو گی.مگر ہاں اس کے لئے راہ یہی ہے کہ عابد اور فرماں بردار بن جاؤ.رسول کے آگے پست ہو جاؤ اور وہ تقویٰ جو خیال بناوٹ اپنی تجویز سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاک نمونہ اور خدا تعالیٰ کے فرمودہ نقشہ کے موافق ہے وہ اختیار کرو.وَ ما أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِيْنَ اس کے ضمن میں نکلتا ہے کہ اگر اس رحمت کو اختیار نہ کرو گے اور اس کے نقش قدم پر چل کر اپنا چال چلن صلاح و تقویٰ نہ بناؤ گے تو ذلیل ہو کر ہلاک ہو جاؤ گے.رسول اللہ پر حرف نہ آئے گا کیونکہ وہ تو رحمت مجسم ہے.یہ بات کہ ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخلوق کے لئے رحمت کر کے بھیجا ہے مراد عومی ہی دعوئی نہیں.تاریخ بتلاتی ہے اور تجربہ صحیحہ گواہی دیتا ہے کہ جس قوم نے صدق دل سے روح اور راستی سے اس پاک نمونہ کی پیروی کی وہ قوم کیا سے کیا ہو گئی.وہ بد نام اور ذلیل قوم جس میں کسی قسم کی خوبی نہیں تھی، وہ جنگجو وحشی بدوی لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کی اطاعت کرنے سے آخر اس ارض مقدس کے وارث ہوئے جس کے لئے بنی اسرائیل کی برگزیدہ قوم جنگلوں اور بیابانوں میں ترقی اور بھکتی رہی تھی.بنو قریظہ اور بنو نضیر جو وارث بنے بیٹھے تھے کہاں گئے ؟ اس سے ایک سبق ملتا ہے.بہت سے لوگ اپنی نحوستوں اور فلاکتوں، اپنے فقر و فاقہ کے متعلق چلاتے ہیں اور واویلا مچاتے ہیں.وہ یاد رکھیں کہ تنگ دستیوں اور فلاکتوں کے دور کرنے کے لئے ہیں

Page 51

4.2 اور ہاں یہی ایک مجرب نسخہ ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اطاعت کی جاوے اور صلاح و تقویٰ جو اس اطاعت کی غایت اور منشاء ہے اپنا شعار بنا لیا جاوے.پھر خدا تعالیٰ کا وعدہ صادق ہے که يَرْزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ (الطلاق:۴).بے شک! بے شک !! یہ سچی بات ہے کہ ممکن نہیں رحمت کی اطاعت میں زحمت آئے.پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی کامل اطاعت کرو کہ اس سے تمام نحوستیں اور ہر قسم کے حزن و ہموم دور ہو جاتے ہیں.خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ صلاح و تقویٰ کے اختیار کرنے والے کا متولی حافظ و ناصر خود د.ولی کریم ہو جاتا ہے.ہاں متقی بنو.اس کے فرماں بردار اور صالح بندے بنو.پھر وعدہ کی زمین وہ شام کی زمین ہو یا کوئی اور وہ مومنوں کا حق ہے اور وہی اس کے حقیقی وارث ہیں.مسلمانوں کے ادبار اور نکبت پر بہت سی رائے زنیاں کرتے ہیں لیکن اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو میں تو کھول کر کہتا ہوں کہ یہ ساری ذلتیں اور نحوستیں جو مسلمانوں پر آئی ہیں یہ خلاف سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیدا ہوئی ہیں.رحمت سے جس قدر کوئی دور ہو تا جاوے گا ذلت اور زحمت اس کے شامل حال ہوتی جاوے گی.پس متقی بنو کہ ہر تنگی اور ہر قسم کی سختی سے نجات ملنے کا ذریعہ تقویٰ اللہ ہے.اللہ تعالیٰ جل شانہ فرماتا ہے.وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا (الطلاق: (۳) جو اللہ تعالیٰ کا متقی ہوتا ہے اس کو ہر تنگی سے نجات ملتی ہے.تقویٰ اللہ کیا ہے؟ متقی کے ہر قول اور فعل اور اس کی ہر حس و حرکت میں اللہ کا خوف اور اس کی صفات کا دیا ہوتا ہے.کبھی اس کی صفت علیم خبیر بصیر سے ڈرتا ہے، کبھی اعلم بما في الصُّدُورِ کو دیکھ کر گندے اور ناپاک منصوبوں سے پر ہیز کرتا ہے.غرض جس قدر اللہ تعالیٰ کی صفات کی حیا ہو اسی قدر تقوی اللہ کی راہوں پر چلنے کی توفیق ملتی ہے اور اسی نسبت سے خدا اس کا متولی ہو جاتا ہے.متقی کو بڑی بات یہ میسر آتی ہے کہ کسی دکھ کے وقت جب کہ ہر طرف سے وحشت پر وحشت اور تاریکی پر تاریکی نظر آتی ہو اسے کسی قسم کی گھبراہٹ اور بے دلی آکر نہیں ستاتی.اس کو کامل یقین ہوتا ہے کہ خدا نکلنے کی راہ پیدا کر دے گا اور ضرور کر دیتا ہے.میں نے خود آزما کر اور تجربہ کر کے بارہا دیکھا ہے کہ خدا نے کس کس طرح پر مخرج عطا کیا ہے.خدا کے بڑے بڑے راستبازوں، صدیقوں اور متقیوں کے تجربے اور شہادتیں موجود ہیں.کوئی بڑے سے بڑا دنیادار جس کو ہر قسم کی آسائشیں اور راحتیں میسر ہوں کبھی بھی سچا اطمینان اور حقیقی راحت حاصل نہیں کر سکتا جب تک خدائے عظیم کا تکیہ اور سمارا نہ ہو.فطرت انسانی ایک تکیہ چاہتی ہے.دیکھو کوئی

Page 52

43 آدمی گفتگو کرنے اور بولنے میں کیسا ہی آزاد اور دلیر کیوں نہ ہو لیکن جب کوئی بیماری آتی ہے تو دل چھوٹ چھوٹ جاتا ہے مگر طبیب کے کہنے سے کہ تم اچھے ہو جاؤ گے ، نئی جان اور طاقت آجاتی ہے.جی کا گھٹنا تسلی سے بدل جاتا ہے.اس نکتہ معرفت کو سوچو.ایک خدا ہے.یقینا خدا ہے.پس جن کو وہ تسلی دیتا ہے اور جن سے ہم کلام ہوتا ہے، ان کی سنتا اور اپنی سناتا ہے.ان کو کیسا اطمینان، کیسی راحت اور سکینت اور جمعیت خاطر ملتی ہے.یورپ کے بڑے بڑے لائق فلسفہ دانوں کی خود کشی کا کیا سر ہے ؟ یہی کہ ان کو اطمینان اور سکینت مل نہیں سکتی کیونکہ خدا پر ایمان نہیں ، وہ ایمان جو دکھ اور مصیبت کی گھڑیوں میں ایک لذیذ رفیق ہو تا ہے.یاد رکھو جو ایمان اور یقین قرآن لایا ہے، فطرت انسانی کی سیری اور غذا اسی میں ہے.کسی قوم کسی مذہب و ملت کسی کتاب میں یہ لذیذ ایمان نہیں ہے جس کے ذریعہ دکھوں اور حزنوں کی ساعتوں میں انسان کو خدا کی آواز میں راحت پہنچاتی اور تسلی دیتی ہیں.جیسے مریض کو ڈاکٹر کہتا ہے کہ تو اب غم نہ کھا تیری مرض دور ہو چلی اور تو اچھا ہے اور مریض ایک تسلی حاصل کر لیتا ہے ، اس سے کہیں زیادہ شیریں آوازیں خدا کی کان میں آتی ہیں.مگر بات وہی ہے کہ تقویٰ اختیار کرو.نامرد عورت اور مرد کے تعلقات کی لذت کو کیا سمجھ سکتا ہے.اسی طرح پر خدا سے دور اور اس کی صفات سے حیا نہ کرنے والا بے حیا کیا سمجھ سکتا ہے کہ خدا کی راحت رساں آواز کیا ہوتی ہے؟ ہر وقت اللہ کی صفات کا کپڑا پہن لینا.یہی وہ بات ہے جو نئی زندگی نئی طاقت اور نئی روح نیا دل عطا کرتی ہے.اسوۃ المتقین کو دیکھ لو.خدا تعالیٰ کی ساری راست بازی اور ایک ہدایت کا مجسم نمونہ ہے.دشمنوں کے سانپوں اور بچھوؤں نے کیسے گھیرا ہے.ایک سوراخ سوئی کے برابر بھی نکلنے کو نہیں.مگر دیکھتے ہو کہ کیسا صاف اور کشادہ راستہ ملا.شَاهَتِ الْوُجُوهُ کی ایسی مٹی پھینکی کہ بھونڈے اور اندھے ہو گئے اور وہ مکہ کا نکالا ہوا بیابان مدینہ کا سرگردان ، نصرت الہی کا تاج پہنتا ہے.اللَّهُمَّ صَلَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ - یہ ایک سبق ہے.اسی طرح اللہ سے انس لگاؤ.اللہ تعالیٰ کے منکر و نواہی سے بچو اور امر کی اطاعت کرو.پھر ایسی مدد کرے گا جو اسوۃ المتقین کی اس نے کر کے دکھائی.اے میرے دوستو! جن کو اللہ کے فضل و کرم سے موقع ملا ہے کہ وہ امام المتقین کے موعود اور اس پر سلام پہنچائے ہوئے کے نمونہ کے پاس بیٹھے ہیں.ہاں جن کو اس رحمت اور نور خدا کے عاشق قرآن کریم کے غیرت مند عاشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بچے شیدا کی صحبت نصیب ہوئی ہے.

Page 53

44 تم سب سے بڑھ کر تقویٰ پیدا کرو.تمھاری آنکھ میں وہ دیا ہو کہ دیکھنے والا کہہ اٹھے کہ یہ آنکھ خدا کو دیکھتی ہے.تمھارے ہر عضو کا منہ قبلہ حقیقی کی طرف ہو.پھر تم شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ (البقرۃ: ۱۴۴) ہو گے اور خدا کا فضل اور نصرت تمھارے شامل حال ہو گی.یاد رکھو ہمارے مذہب میں کسی انسان سے مرا پیار اور محبت کام نہیں دے سکتا.ایمان اور اعمال صالحہ کام دیتے ہیں.اگر نرا پیار اور محبت ہو اور عمل صالح نہ ہو تو یہ ایسا ہی ہے جیسے یہود کہتے تھے نَحْنُ ابْنَاءُ الله (المائدة :19).آخر میں پھر کہتا ہوں کہ متقی ہند کہ متقی کامیاب ہوتے ہیں.خدا سے دعا ہے کہ ہماری جماعت کو سچا متقی بنادے اور اپنے فضل و رحمت کا وارث.آمین.الحکم جلد ۳ نمبر ۴۵ ----- کار دسمبر ۱۸۹۹ء صفحه ۱ تا ۳)

Page 54

۲۳ / اپریل ۱۹۰۰ء 45 خطبہ جمعہ وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ و تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (العصر: ۲ تام) کی تلاوت کے بعد آپ نے فرمایا:.قرآن کریم سے بڑھ کر دنیا کے لئے کوئی نور شفا رحمت، فضل اور ہدایت نہیں ہے اور قرآن کریم سے بڑھ کر کوئی مجموعہ سچی باتوں کا نہیں ہے.یہ سچ اور بالکل سچ ہے.أَصْدَقُ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ - اس قرآن کی ایک مختصر سی سورۃ میں اس جمعہ میں سنانے کو کھڑا ہوا ہوں.ذرا سی سورۃ ہے، ایک سطر میں تمام ہو گئی ہے.لیکن اگر اسی ذراسی سورۃ کو انسان اپنا دستور العمل بنالے تو کوئی چیز اس سے باہر نہیں رہ جاتی.اس سورۃ کو مولیٰ کریم نے عصر کے لفظ سے شروع فرمایا ہے.انسان کے واسطے دن معاش کا ذریعہ اور رات آرام کا وقت بنایا ہے اور فرمایا وَجَعَلْنَا النَّهَارَ مَعَاشًا (النبا:) سرور عالم مخربنی آدم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بَارَكَ اللهُ فِي بُكُورِهَا (ترمذی کتاب البیوع) فرمایا.کس قسم کا معاش؟ دنیوی معاش اخروی معاش کے لئے یہ جگہ ہے.اَلدُّنْيَا مَزْرَعَةُ الْآخِرَةِ.جیسا بیج بوو گے انجام کار

Page 55

46 ویسا پھل پاؤ گے.کون اس بات کو نہیں جانتا کہ جو کے بونے والے کو آخر جو کاٹنے پڑیں گے.اس دن میں آخری حصہ کا نام عصر ہوتا ہے.عصر کے بعد کوئی وقت فرضی نماز کے ذریعہ رضا الہی کے حصول کے لئے باقی نہیں رہتا.دن کی نمازوں کی انتہا عصر کی نماز ہے.جو عصر کی نماز ترک کرتا ہے اسے اب دن نہیں ملتا.اسی طرح جس کو عصر کے وقت تک مزدوری نہیں ملی اب اس کا دن ضائع گیا اور اسے مزدوری نہیں مل سکتی.اسی طرح پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ عصر کا زمانہ ہے.ایک حدیث میں تصریح آتی ہے کہ بعض قو میں صبح سے دوپہر تک مزدور بنائے گئے ہیں اور بعض دوپہر سے عصر تک مزدور بنائے گئے اور ایک قوم عصر سے غروب آفتاب تک ٹھیکہ دار ہے.پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا زمانہ عصر سے مناسبت رکھتا ہے.جیسے قرآن کریم کے بعد اور کوئی کتاب نہیں اور شرائع الہیہ کے بعد اور شرع نہیں.عصر کے بعد کسی نماز کا وقت نہیں.پس اس عصر کی نماز کے لئے بہت تاکیدیں فرمائی ہیں.جو عصر کی نماز چھوڑتا ہے اس کا اہل و مال کاٹا گیا.اسی نماز کے لئے فرمایا کہ یہ نماز منافق کی تمیز کا نشان ہے جو سورج کے غروب کے وقت چار ایک چونچیں سی لگا دیتا ہے.امت محمدیہ میں آنے والے لوگوں کے لئے بھی عصر کا نمونہ ہے.ہم کھلے طور پر مدلل مبرہن دکھا سکتے ہیں.حجت ملزمہ کی طرح یقین دلانے کو تیار ہیں اگر فطرت سلیم ہو.یہ حقیقی وقت ہے کہ کوئی کا سر صلیب مامور ہونے والا ہو.پس یہ عصر کا وقت ہے اس کو غنیمت جانو.جب سایہ زرد ہوتا ہے اور آفتاب غروب ہونے کو ہوتا ہے، مفید وقت جاتا رہتا ہے.اسی وقت منافق کی نماز کا وقت ہوتا ہے.ایسا ہی جو قوم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مشرف بہ اسلام نہ ہوئی وہ آخر خلفاء کے زمانہ میں مسلمان تو ہوئے مگر وہ غیرت اور شوکت ان کی نہ رہی.رعب کے نیچے آکر کثرت کو دیکھ کر بہت سے لوگ ایک جماعت میں شامل ہو سکتے ہیں مگر ابتلا کے وقت مخلص ہی شامل ہوتے ہیں.جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کاہن، ساحر ، مفتری مجنون کہا جاتا تھا اس وقت جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آکر ملے اور آپ کی دعوت کو قبول کیا ان کے ساتھ پیچھے آنے والے کب مل سکتے ہیں.خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرو تو بھی سابقین کے ایک مٹھی جو کے برابر قدر نہیں ہو سکتی.یہی وہ سر عظیم تھا جس کو پہنچ کر صحابہ نے ابوبکر صدیق کو حضور علیہ السلام کا جانشین بنایا.غار ثور میں جب آپ تشریف رکھتے تھے اس تیرہ و تار غار میں ساتھ جانے والا جو کچھ لے گیا ہے وہ دوسروں کو نصیب نہیں ہے.غرض عصر کے وقت کو غنیمت سمجھو.

Page 56

47 اس عصر کے وقت میں کیا کر سکتے ہو ؟ چار کاموں کے لئے ارشاد فرمایا.وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي محشر ساری مخلوق کھانے میں ہے.انسان گویا برف کا تاجر ہے.برف پر ایک وقت آئے گا کہ ساری پکھل جائے گی اس لئے برف کے تاجر کو لازم ہے کہ بہت ہی احتیاط کرے.انسان بھی اگر غور کرے تو عمر کے لحاظ سے اس کو برف کا کارخانہ ملا ہے.ایک بچہ کی ماں اپنے بیٹے کو چار برس کا دیکھ کر خوش ہو رہی ہے لیکن حقیقت میں اس کی عمر میں سے چار برس کم ہو چکے ہیں.پس اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عمردم بدم گزرتی اور برف کی طرح چھلتی جاتی ہے اور اس وقت کا علم نہیں جب یہ تمام ہو.اس لئے انسان کو لازم ہے کہ اپنے وقت کی قدر کرے اور عمر کو غنیمت سمجھے اور اس تھوڑے سے دنوں میں جو اس کو مل گئے ہیں مولا کریم سے ایسا معاملہ کرے کہ ان کے گزرنے پر اس کو عظیم الشان آرام گاہ حاصل ہو.بڑے بد بخت ہیں وہ جو اپنے بیوی بچے کے آرام کے لئے دین برباد کرتے ہیں.یاد رکھیں کہ مال ، اسباب، عزیزوں رشتہ داروں سے برخوردار ہونا اور فائدہ اٹھانا محض مولیٰ کریم کے فضل پر ہے.اس سورۃ شریفہ میں فرمایا کہ سب انسان گھاٹے میں پڑ رہے ہیں مگر ایک قوم نہیں.وہ کون؟ الا الَّذِيْنَ امنوا وَ عَمِلُوا الصَّلِحْتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوا بالصبر - چار باتوں کو دستور العمل بنالے تو اس عصر کے وقت سارے دن کی مزدوریوں سے زیادہ مزدوری مل جاوے.حدیث میں لکھا ہے کہ صبح سے شام تک مزدور کے لئے ایک دینار ہے.پس صبح والے مزدوروں نے دوپہر تک کام کیا اور چھوڑ بیٹھے ، پھر اور مزدوروں نے دوپہر سے عصر تک کام کیا اور پھر کام کو ترک کر دیا.مگر تیسری اور جماعت مزدوروں کی آئی جنہوں نے عصر سے کام کو شروع کیا آخر دن تک تو ان کے لئے دو دینار مزدوری ملی.مگر قرآن شریف سے یہ ملتا ہے کہ جب ایک مومن عمل کرتا ہے تو اس کو دس گنا بڑھ کر اجر ملتا ہے.غرض وہ چار باتیں کیا ہیں جن کا اس سورۃ میں ذکر ہے؟ ان میں اول اور مقدم ایمان ہے.یہ عظیم الشان چیز ہے.بدوں اس کے کوئی عمل مقبول ہی نہیں ہوتا.ہر ایک عمل میں ضروری ہے کہ ایمان اخلاص اور صواب ہو.یہ پتہ لگانا کہ کس درجہ کا مومن ہے، آسان نہیں.ایک دراز تجربہ کے بعد معلوم ہو سکتا ہے.شادی غمی کا موقع آتا ہے.ایک طرف اللہ تعالیٰ کی حکومت ہے اور دوسری طرف برادری کا قانون اور قومی محرکات.اب اگر اللہ تعالیٰ کی حکومت سے نہیں نکلتا اور قومی اور برادری کے اصولوں کی پروا نہیں کرتا تو بیشک مخلص مومن ہے.ایک طرف نفس کا فیصلہ ہو، دوسری طرف قوم کا فیصلہ اور تیسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا

Page 57

48 فیصلہ.اب اگر اپنے اور قوم کے فیصلہ کی کچھ پروانہ کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کے نیچے گردن رکھ دیتا ہے تو یقینا مومن ہے.میں دیکھتا ہوں شادیاں ہوتی ہیں تو بڑی قوم کی تلاش ہوتی ہے.تقویٰ کی تلاش نہیں کی جاتی.بدمعاش، آوارہ مزاج شریر ہو ، کچھ پرواہ نہیں مگر ہڈی پسلی اور خون کسی بڑی قوم کا ہو.افسوس! صد افسوس !! پھر شادی کی دعوتوں میں مسکینوں کو دھکے دے کر باہر نکالا جاتا ہے لیکن شریر النفس اور بے حیا لوگوں کو بلا بلا کر بٹھایا جاتا ہے.جن لوگوں کے اموال کا تلف کرنا غضب الہی کا موجب ہے نہایت بیباکی اور شوخی کے ساتھ اس کو تباہ کیا جاتا ہے.دوسروں کا مال ناجائز طور پر کھانے میں بیباک ہیں.مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہو کر احکام الہی کو سنتے ہیں.مگر اپنی جماعت یا سوسائٹی کے کسی معمول پر عمل کے خلاف دیکھ کر اس کے لینے میں مضائقہ کرتے ہیں.میرا تو یقین ہے کہ یہ لوگ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں بھی ہوتے تو آپ کی باتوں کے ماننے میں اسی طرح مضائقہ کرتے جیسا آج امام کی اتباع سے مضائقہ کرتے ہیں.غرض ایمان موقوف ہے خدا کی ذات میں اسماء میں یاد میں.عظمت و جبروت میں دوسرے کو شریک نہ کرے خواہ فرشتہ ہو یا رسول ہو ، نبی ہو یا ولی ہو.کیسا افسوس آتا ہے کہ موحد لوگ توحید کا اقرار کر کے پھر مسیح کو خَالِقِ كَخَلْقِ اللهِ اور مُحْيِي كَاحْيَاءِ اللہ مانتے ہیں! کیا یہی توحید ہے.اور یہ کہنا کہ خدا کے اذن سے کرتے تھے ایک دھوکا ہے.اگر کوئی کام اذن الہی سے بھی کیا جاوے تو کیا وہ خدا کی طرح کا کام ہو جاتا اور کرنے والے کو خدا کا شریک بنا دیتا ہے.خَالِقُ كُلِّ شَيْی اللہ تعالیٰ کی ہی ذات ہے.ایک شخص امام علیہ السلام کے پاس آیا.جب اس سے پوچھا گیا کہ مسیح اور خدا تعالیٰ کی چمگادڑوں میں کچھ فرق بھی ہے تو اس نے کہا کہ رل مل گئے ہیں.ایمان کی پہلی شرط ہے ایمان باللہ کہ کسی حمد فعل، عبادت، حسن و احسان الہی میں کسی غیر کو شریک نہ کرے.مجھے ان لوگوں پر تعجب آیا کرتا ہے جو اپنی محر میت کے باعث خدا تعالیٰ سے ہمکلام ہونے سے محروم ہیں.کہا کرتے ہیں کہ الہی محبت نہیں ہے وہ اَطِيْعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ (التغابن:۱۳) کے کیا معنے کرتے ہیں؟ قرآن کریم تو ہمیں اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ذریعہ پہنچا ہے.اَطِيْعُوا اللَّهَ کا موقع ہی کب ملتا ہے.رسول کے ذریعہ ماننا اس کے بھی بعد ہے.خدا تعالیٰ کی قدر کرو ایسا نہ ہو کہ مَا قَدَرُوا اللهَ (الانعام:۹۲) کے نیچے آجاؤ.پس جبکہ اللہ تعالیٰ کلام کرتا ہے اور ہمیشہ کرتا رہا پھر کیا وجہ ہے کہ وہ آج چپ ہو گیا؟ مجھے اس آیت پر کہ موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں جب قوم نے بچھڑے کو خدا بنایا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ دلیل

Page 58

49 دی ہے کہ اَلا يَرْجِعُ إِلَيْهِمْ قَولاً ( یعنی تم دیکھتے ہو کہ تمہاری بات کا جواب نہیں دیتا، یہ تفہیم ہوئی کہ جو خدا جواب نہ دے وہ بچھڑے کا سا خدا ہوا.ہاں یہ بھی سچ ہے کہ سارے جگ سے بات کرنا کبھی نہیں ہوا.انسان اپنے اندر وہ خوبیاں اور خواص پیدا کرے جو کلام الہی کے لئے ضروری ہیں پھر جواب ملے گا.دوسری شرط ایمان کی اخلاص ہے یعنی خدا ہی کے لئے ہو.اور تیسری شرط صواب ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے موافق عملدرآمد ہو.کوئی عمل قبولیت کا درجہ حاصل نہیں کرتا جب تک اخلاص اور صواب سے نہ ہو.پھر ایمان بالملائکہ ہے.ایمان بالملائکہ ایسی چیز ہے جس کی طرف سے تساہل کرکے نیکی سے محروم رہ جاتے ہیں.آج کل کے لوگ سمجھتے ہیں اور یقین کرتے ہیں کہ بدوں سبب کے فعل سرزد نہیں ہوتا.پس بیٹھے بیٹھے جو انسان کو دفعتاً نیکی کا خیال آتا ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ ایک لمتہ الملک انسان کے ساتھ ہے.اس کے ذریعہ نیک خیال پیدا ہوتے ہیں اور شیطانی تعلقات سے برے خیالات اٹھتے ہیں.پس انسان کو لازم ہے کہ ہر نیکی کی تحریک پر فی الفور نیکی کرے.ایسا نہ ہو يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَ قَلْبِهِ (الانفال: ۳۵) کا مصداق ہو جاوے.ایمان بالملائکہ کا یہی فائدہ ہے کہ نیکی سے تغافل نہ کرے.پھر اللہ کی کتابوں، اس کے رسولوں پر ایمان لائے.قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے.اس کو دستور العمل بناؤ.افسوس ہے کہ مسلمان اس کو کتاب اللہ جان کر بھی دستور العمل بنانے میں مضائقہ کرتے ہیں اور السُّئَةُ فَاضِيَةٌ عَلَى كِتَابِ اللہ کا قولی دیتے ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی قرآن کریم کو کس ادب اور عظمت کی نگاہ سے دیکھا ہے.ساری حدیث کی کتابیں دیکھو.جن مسائل پر قرآن کریم نے مفصل بحث فرمائی ہے اور ان کے دلائل دیئے مثلاً ہستی باری تعالیٰ ضرورت نبوت مسئلہ تقدیر وغیرہ ان پر احادیث میں بحث نہیں کی گئی.پھر تقدیر کے مسئلہ پر ایمان لاوے کہ یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ فاسق کو کوئی عمدہ نتیجہ ملے.پھر جزاء و سزا پر ایمان لاوے.اس کے بعد دوسری بات عَمِلُوا الصلحت ہے.اس کا عام اصول ہے کہ ہر سنوار کا کام کرے اور اس کے معلوم کرنے کے واسطے قرآن کریم ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا عملدرآمد معیار ہے.پھر انسان سوچ لے کہ امت محمدیہ کو كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ (ال عمران) قرار دیا ہے.پس جس سے آٹھ پر میں کوئی بھلائی بھی نہ ہو وہ اپنی حالت پر غور کرے.ایسی ہی وصیت الحق ضروری ہے.گونگا شیطان بننا اچھا نہیں.مقابلہ میں مشکلات پیش آتی ہیں.پھر کوشش کرے اور صبر و استقلال سے کام

Page 59

50 لے.یہ ہیں چار دستور العمل جو اس مختصر سی سورت میں بیان ہوئے ہیں.اللہ تعالی مجھے اور آپ کو توفیق دے کہ قرآن ہمارا دستور العمل ہو محمد صلی اللہ علیہ و سلم مطاع ہو اور یہ زمانہ جو دین اور ایمان کے لئے ہے ہم اس کی قدر کریں.آمین.الحکم جلد ۴ نمبر۲۹-۱۶ اگست ۱۹۰۰ء صفحه ۴ تا ۷)

Page 60

۲۲ جنوری ۱۹۰۱ء 51 خطبہ عید الفطر سورۃ البقرہ کے چوبیسویں رکوع ( آیات ۱۹۰ تا ۱۹۷) کی تلاوت کے بعد فرمایا :.یہ رکوع شریف جو میں نے ابھی پڑھا ہے ، یہ رمضان شریف کی تاکیدوں اور اس کے احکام اور فضائل اور فوائد کے بیان کے بعد نازل فرمایا گیا ہے.اس رکوع کا مضمون اور مطلب رمضان کے بعد ہی سے بلا فصل شروع ہوتا ہے جو آج کی تاریخ ہے.یہ مہینہ ایک ایسا مہینہ ہے کہ بہ نسبت اور مہینوں کے ایک خاص فضل اور انعام مسلمانوں پر اس میں نازل ہوا ہے.گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا یہی مہینہ ابتدائی سال ہے.آخر رمضان میں جو وحی نازل ہوئی ہے تو تبلیغ شوال ہی سے شروع فرمائی ہے.وہ نور جو تاریکیوں کے دور کرنے کے واسطے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا اور جس کا ذکر اَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُّبِينًا (النساء:۷۵) میں کیا ہے اس کا شروع یہی مہینہ ہے.جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رمضان کے فضائل اور فوائد سنے اور معلوم کیا کہ اس

Page 61

52 سے اس طرح پر تقویٰ حاصل ہوتا ہے تو ان کے دلوں میں ایک فکر اور جوش پیدا ہوا کہ دوسرے مہینوں کے بھی فضائل اور حقائق سے واقف ہوں.اس لئے يَسْتَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ اس کی طرف اشارہ کرتا ہے.رمضان میں تقویٰ کا سبق یوں ملتا ہے.سخت سے سخت ضرور تیں بھی جو بقائے نفس اور بقائے نسل کے لئے ضروری ہیں ان کو بھی روکنا پڑتا ہے.بقائے نفس کے لئے کھانا پینا ضروری چیز ہیں اور بقائے نسل کے لئے بیوی سے تعلق ایک ضروری شے ہے مگر رمضان میں کچھ عرصہ کے لئے یعنی دن بھر ان ضرورتوں کو خدا کی رضامندی کی خاطر چھوڑنا پڑتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس میں یہ سبق سکھایا ہے کہ جب انسان بڑی ضروری خواہشوں اور ضرورتوں کو ترک کرنے کا عادی ہو گا تو غیر ضروری کے چھوڑنے میں اس کو کیسی سہولت ہوگی.دیکھو ایک شخص کے گھر میں تازہ دودھ ٹھنڈے شربت، انگور‘ نارنگیاں موجود ہیں.پیاس کے سبب سے ہونٹ خشک ہو رہے ہیں.کوئی روکنے والا نہیں.باوجود سہولت اور ضرورت کے اس لئے ارتکاب نہیں کرتا کہ مولیٰ کریم ناراض نہ ہو جائے اور اسی طرح عمدہ عمدہ کھانے پلاؤ کباب اور دوسری نعمتیں میسر ہیں اور بھوک سے پیٹ میں بل پڑ جاتے ہیں اور پھر کوئی نہیں جو ان کھانوں سے روکنے والا ہو مگر یہ اس لئے استعمال نہیں کرتا کہ مولیٰ کریم کے حکم کی خلاف ورزی نہ ہو.جبکہ یہ حال ہے کہ ایسی حالت اور صورت میں کہ اس کو عمدہ سے عمدہ نعمتیں جو اس کے بقائے نفس کے لئے اشد ضروری ہیں، یہ صرف مولیٰ کریم کے حکم کی رضامندی کی خاطر ان کو چھوڑتا ہے اور پھر دیکھتا ہے کہ چھوڑ سکتا ہے تو بھلا ایسا انسان جو خدا کے لئے ضروری چیزیں چھوڑ سکتا ہے وہ شراب کیوں پینے لگا اور خنزیر کیوں کھانے لگا؟ جس کی کچھ بھی ضرورت نہیں ہے یا مثلاً کوئی رشوت خور ربوخوری کرنے والا یا چور یا ایسا انسان جو قرض لیتا ہے کہ ادا کرنے کی نیت نہیں ہے جبکہ دیانت داری سے کام لیتا ہے اور مولیٰ کریم کی اجازت اور پروانگی کے سوا کچھ نہیں کرتا وہ ایسے خبیث مال کے لینے میں کیوں جرات کرے گا؟ ہرگز نہیں.اسی طرح گھر میں حسین جوان بیوی موجود ہے مگر اللہ ہی کی رضا کے لئے تھیں دن چھوڑ سکتا ہے تو بد نظری کے لئے جی کیوں للچائے گا.غرض رمضان شریف ایک ایسا مہینہ تھا جو انسان کو تقوی، طہارت، خدا ترسی، صبر و استقلال‘ اپنی خواہشوں پر غلبہ فتح مندی کی تعلیم عملی طور پر دیتا تھا.ان ترقیوں کو دیکھ کر جو صحابہ نے رمضان میں تقویٰ میں کی تھیں، انھوں نے دوسرے مہینوں کے فضائل و فوائد سننے کی خواہش ظاہر کی اور سوال کیا.اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا جواب یوں دیا.قُلْ هِيَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ

Page 62

53 (البقرة :۱۹) کہہ دو کہ لوگوں کے فائدہ کے لئے یہ وقت مقرر فرمائے ہیں.کیسا ہی خوش قسمت ہے وہ انسان جس کو صحت، فرصت پھر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے علم بھی عطا ہوا ہے اور اگر نہیں تو کوئی درد دل سے سنانے والا موجود ہے.عاقبت اندیشی کی عقل دی ہے مگر باوجود اس قدر اسباب اور سہولتوں کے میسر آجانے پر بھی اگر اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کی فکر نہیں کرتا اور منافع اٹھانے کی سعی میں نہیں لگتا تو اس سے بڑھ کر بد قسمت کون ہو سکتا ہے؟ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ کیا عجیب وقت بنایا ہے تمہارے فائدہ کے لئے اور نفع اٹھانے کا بہت بڑا موقع دیا ہے اور اس لئے بھی کہ تم حج کرو.یاد رکھو کہ حج اللہ کی سنن میں سے ہے.یہ ایک سچی بات ہے کہ جہاں بدکاریاں کثرت سے ہوں وہاں غضب الہی نازل ہوتا ہے اور جہاں عظمت اور ذکر الہی ہو وہاں فیضان الہی کثرت سے نازل ہوتا ہے.قوی روایات سے متفقہ یہ شہادت ملتی ہے کہ بیت اللہ کا وجود تو بہت بڑے زمانہ سے ہے.لیکن حضرت ابو الملت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے جس کی تاریخ صحیح موجود ہے اَبَا عَنْ جَدٍ قوموں کا مرکز اور جائے تعظیم چلا آیا ہے اور پتہ ملتا ہے کہ رات دن میں کوئی ایسا وقت بیت اللہ میں نہیں آتا کہ وہاں اللہ تعالیٰ کی عظمت و جبروت کے اور ا د نہ پڑھے جاتے ہوں.مکہ معظمہ میں اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس کی صفات کا زندہ اور بین ثبوت موجود ہے.چنانچہ قرآن شریف میں آیا ہے جَعَلَ اللهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِيَامًا لِلنَّاسِ (المائدة:٨) یعنی اس الی گھر کو معزز گھر بنایا.اس کو لوگوں کے قیام اور نظام کا محل بنایا اور قربانیوں کو مقرر کیا کہ تم کو سمجھ آجائے کہ خدا ہے اور وہ علیم و خبیر خدا ہے کیونکہ جس طرح اس نے فرمایا ہے اسی طرح پورا ہوا.میں نے ایک دہریہ کے سامنے اس حجت کو پیش کیا وہ ہکا بکا ہی تو رہ گیا.لوگوں کے مکانات اور پھر مذہبی مقامات کو دیکھو کہ ذرا سے انقلاب سے ساری عظمت خاک میں مل جاتی ہے.بابل کس عظمت و شان کا شہر تھا مگر آج اس کا کوئی پتہ بھی نہیں دے سکتا کہ وہ کہاں آباد تھا.کار تھیج میں ہنی بال کا معبد پر اموں کا مندر جہاں سکندر عظیم الشان بادشاہ آکر نذر دیتا تھا اور اپنے آپ کو اس کا بیٹا منسوب کرتا تھا، آتش کدہ آذر، غرض بڑے بڑے مقدس مقامات تھے جن کا نام و نشان آج زمانہ میں موجود نہیں ہے.مگر مکہ معظمہ کی نسبت خدائے علیم و حکیم نے اس وقت جبکہ وہ ایک وادی غیر ذی زرع تھا یہ فرمایا کہ وہاں دنیا کے ہر حصہ سے لوگ آئیں گے، وہاں قربانیاں ہوں گی اور خدا تعالیٰ کی عظمت و جبروت کا اظہار ہوتا رہے گا.صدیاں اس پر گذر گئیں.دنیا میں بڑے بڑے انقلاب ہوئے.سلطنتوں کی سلطنتیں تباہ ہو کر نئی پیدا ہو گئیں مگر مکہ معظمہ کی نسبت جو پینگوئی کی گئی وہ آج بھی اسی شوکت اور جلال کے

Page 63

54 ساتھ نظر آتی ہے جس طرح پر کئی سو سال پیشتر اس سے اللہ تعالیٰ کی علیم و خبیر ہستی کا کیسا پتہ لگتا ہے.اگر انسانی منصوبہ اور ایک خیالی اور فرضی بات ہوتی تو اس کا نام و نشان اسی طرح مٹ جاتا جیسے دنیا کے اور بڑے بڑے مقدس قرار دیئے گئے مقامات کا نشان مٹ گیا.مگر نہیں یہ اللہ تعالیٰ کی باتیں تھیں جو ہر زمانہ میں اس کی ہستی کا زندہ ثبوت ہیں.یہ بات اللہ تعالیٰ کے عجائبات میں سے ہے کہ جس کو وہ عزت دینی چاہے وہ معزز و مکرم ہو جاتا ہے اور جس کو ذلیل کرنا چاہے وہ ذلیل ہو جاتا ہے.انسانی کوشش اور سعی پر اس کا انحصار اور مدار نہیں ہے.بیت اللہ کی عزت و حرمت کا ٹھیکیدار وہ خود ہو گیا ہے.اس لئے کوئی نہیں کہ اس کی ذلت کا خواہشمند ہو اور خود ذلیل نہ ہو جائے.اسی طرح پر یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ جس کی عزت کا ٹھیکہ لے لے وہ دنیا داروں کی ذلت کے ارادوں سے ذلیل ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں.میں نے بار ہا سنایا ہے کہ جب مامور من اللہ آتا ہے تو لوگوں کو اس کی مخالفت کا ایک جوش ہوتا ہے اور یہ اس لئے ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی کے اعزاز کے لئے تل جائے اس کو کوئی ذلیل نہیں کر سکتا.مدینہ طیبہ میں ایک راس المنافقین کا ارادہ ہوا لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لِيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الاذل (المنافقون:) ہم اگر لوٹ کر مدینہ پہنچیں گے تو ایک ذلیل گروہ کو معزز گروہ نکال دے گا.جناب الہی نے فرمایا وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ (المنافقون:) معزز تو اللہ ہے اور اس کا رسول اور اس کی جماعت.منافقوں کو یہ کبھی سمجھ نہیں آتی.آخر ایام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک بھی منافق نہ رہا.بلکہ یہ فرمایا مَلْعُوْنِيْنَ أَيْنَمَا ثُقِفُوا خِذُوا وَقُتِلُوا تَقْتِيلاً (الاحزاب:۲۳).اللہ تعالیٰ نے ارادہ کر لیا تھا کہ وہ تیری مجاورت میں بھی نہ رہیں گے.تو حج کا مقام وہ مقام ہے کہ لاکھوں کروڑوں انسان اللہ کی یاد کے لئے حاضر ہوتے ہیں.اللہ کی تحمید کے لئے مال و جان کو خطرات میں ڈالتے ہیں.اہل و عیال اور رفقاء لوگوں کو چھوڑتے ہیں، پھر خدا کا فیضان کیسا جلوہ گری فرماتا ہے.قرآن جو نازل فرمایا اس کی حفاظت کا خود ذمہ دار ہوا.اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكْرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحَافِظُوْنَ - دنیا کی اور کسی کتاب کی نسبت یہ ارشاد خداوندی نہیں ہوا اور جس مقدس اور راستباز“ ہاں قوم کے مسلم امین اور صادق انسان پر یہ پاک کتاب نازل ہوئی، اس کی حفاظت کا ذمہ دار بھی مولیٰ کریم ہی ہوا.چنانچہ وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (المائدة:۱۸) کی صدا اسی راستباز کو پہنچی.پھر جو دین لے کر یہ خدا کا سچا نبی صلی اللہ علیہ وسلم آیا اس کا نام اسلام رکھا جس کے معنی ہی میں سلامتی موجود ہے.

Page 64

55 یہی وہ دین ہے جس کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اپنی رضامندی کا اظہار یہ کہہ کر فرمایا وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِينًا (المائدة: ٤).اور اس اسلام پر عملدرآمد کرنے والے بچے مسلمان کو جس نتیجہ پر پہنچایا وہ دار السلام ہے.پس کون ہے جو اس قدر سلامتیوں کو چھوڑے؟ وہی جو دنیا میں سب سے بڑھ کر بد نصیب ہو.لیکن یاد رکھو کہ ہر ایک چیز کے لئے خدا تعالیٰ نے ایک راہ رکھی ہوئی ہے.اسی راہ پر چل کر وہ اصل مقصد حاصل ہو سکتا ہے.اسی طرح نیکیوں کے حاصل کرنے کے واسطے یہی ایک راہ ہے.کوئی نیکی نیکی نہیں ہو سکتی جب تک اخلاص اور صواب اس کے ساتھ نہ ہو.عام طور پر نیکیوں کے سمجھنے کے واسطے انسان کی عقل کفایت نہیں کر سکتی.انسان اپنی عقل اور دانش سے اپنے جیسے انسان کی رضامندی معلوم نہیں کر سکتا پھر وراء الورٹی کی رضا کیونکر سمجھ لے.اس کا ایک ہی طریق ہے کہ وہ اپنے بندوں میں سے ایک کو منتخب فرماتا ہے.مگر انسان اپنی انکل بازی اور دانش سے اس منتخب شدہ بندہ کو نہیں سمجھ سکتا اس لئے کہ نبوت اور ماموریت ایک باریک اور لطیف راز ہوتا ہے جس کو دنیا میں منہمک انسان جھٹ پٹ نہیں سمجھ سکتا.اگر یہ بات ہوتی کہ ہر شخص معانی کے دعوی کرنے ہی پر اس کی حقیقت کو سمجھ لیتا تو پھر مخالفوں کا وجود ہی نہ ہوتا.چونکہ انسان اپنی عقل و دانش پر بھروسہ کرنا چاہتا ہے اور مجرد اسی کے فیصلہ پر راضی ہونا پسند کرتا ہے اس لئے اکثر اوقات وہ غلطیاں کرتا اور نقصان اٹھاتا ہے.یہی انکل بازی تھی جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لوگوں سے یہ کہلوایا لولا نُزِلَ هَذَا الْقُرْانُ عَلَى رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ (الزخرف (۳۲) میاں یہ قرآن شریف تو مکہ یا طائف کے کسی بڑے نمبردار پر نازل ہونا چاہئے تھا.اپنی نگاہ و نظر میں وہ یہی رکھتے تھے کہ قرآن شریف اگر نازل ہو تو کسی نمبردار پر نازل ہو.کیونکہ ان کی نگاہوں کی منتمئی تو وہ نمبرداری ہو سکتی تھی.پس یہی حال ہے کہ انسان اپنی انکلوں سے کام لینا چاہتا ہے حالانکہ ایسا اس کو نہیں کرنا چاہئے.بلکہ جس معاملہ میں اس کو کوئی علم اور معرفت نہیں ہے اس پر اس کو رائے زنی کرنے سے شرم کرنی چاہئے.اس لئے پاک کتاب کا حکم ہے کہ لا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ (بنی اسرائیل:۳۷).ناواقف دنیا اپنی تدبیروں سے جو انتخاب کرنا چاہتی ہے وہ منظور نہیں ہو سکتا.سچا انتخاب وہی ہے جس کو اللہ تعالی کرتا ہے.چونکہ انسانی عقل پورے طور پر کام نہیں کرتی اور وہ فتویٰ نہیں دے سکتی کہ ہمارا کیا ہوا انتخاب صحیح اور مفید ثابت ہو گا یا ناقص.اس لئے ماموریت کے لئے انتخاب اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے.

Page 65

56 ایک بار ایک شیعہ نے مجھ سے پوچھا کہ تیرہ سو برس کے وہ دلائل جو سنیوں نے حضرت ابو بکر صدیق کی خلافت کے بیان کئے ہیں اور شیعوں نے جو دلائل ان کے مقابل میں پیش کئے ہیں ان سب کو لکھ دو اور پھر ان پر ایک محاکمہ اور فیصلہ لکھو.اس وقت اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ تیرہ سو برس کے جھگڑے کو فیصل کرنے کے واسطے تو عمر نوح بھی وفا نہیں کر سکتی کیونکہ کہتے ہیں کہ وہ تو ساڑھے نو سو برس ہی اس دنیا میں رہے.پس مجھے اس وقت اس جھگڑے کے فیصلہ کی تفیم یہ ہوئی اور میں نے لکھ دیا کہ بات یہ ہے کہ چونکہ خلافت کا انتخاب عقل انسانی کا کام نہیں، عقل نہیں تجویز کر سکتی کہ کس کے قومی قوی ہیں کس میں قوت انتظامیہ کامل طور پر رکھی گئی ہے اس لئے جناب الہی نے خود فیصلہ کر دیا ہے وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ (النور:۵۶).خلیفہ بنانا اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے.اب واقعات صحیحہ سے دیکھ لو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے کہ نہیں؟ یہ تو صحیح بات ہے کہ وہ خلیفہ ہوئے اور ضرور ہوئے.شیعہ یہی مانتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی ان کی بیعت آخر کر لی تھی.پھر میری سمجھ میں تو یہ بات آ نہیں سکتی اور نہ اللہ تعالیٰ کو قوی، عزیز حکیم خدا ماننے والا کبھی و ہم بھی کر سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ارادہ پر بندوں کا انتخاب غالب آگیا تھا.منشاء الہی نہ تھا اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہو گئے.غرض یہ بالکل سچی بات ہے کہ خلفائے ربانی کا انتخاب انسانی دانشوں کا نتیجہ نہیں ہوتا.اگر انسانی دانش ہی کا کام ہوتا ہے تو کوئی بتائے کہ وادی غیر ذی زرع میں وہ کیونکر تجویز کر سکتی ہے.چاہئے تو یہ تھا کہ ایسی جگہ ہوتا جہاں جہاز پہنچ سکتے.دوسرے ملکوں اور قوموں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے اسباب میسر ہوتے.مگر نہیں.وادی غیر ذی زرع ہی میں انتخاب فرمایا اس لئے کہ انسانی عقل ان اسباب و وجوہات کو سمجھ ہی نہیں سکتی تھی جو اس انتخاب میں تھی اور ان نتائج کا اس کو علم ہی نہ تھا جو پیدا ہونے والے تھے.عملی رنگ میں اس کے سوا دوسرا منتخب نہیں ہوا اور پھر جیسا کہ عام انسانوں اور دنیا داروں کا حال ہے کہ وہ ہر روز غلطیاں کرتے اور نقصان اٹھاتے ہیں آخر خائب اور خاسر ہو کر بہت سی حسرتیں اور آرزوئیں لے کر مر جاتے ہیں.لیکن جناب الہی کا انتخاب بھی تو ایک انسان ہی ہوتا ہے.اس کو کوئی ناکامی پیش نہیں آتی.وہ جدھر منہ اٹھاتا ہے ادھری اس کے واسطے کامیابی کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور وہ فضل شفاء نور اور رحمت دکھلاتا ہے.الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ (المائدة: ) کی صدا کس کو آئی؟ کیا اپنی دانش اور عقل کے انتخاب کو یا وادی غیر ذی زرع میں اللہ تعالیٰ کے انتخاب کو ؟.

Page 66

57 جناب الہی ہی کا منتخب بندہ تھا جو دنیا سے نہ اٹھا جب تک یہ صدا نہ سن لی.پس یاد رکھو کہ مامور من اللہ کے انتخاب میں جو جناب الہی ہی کا کام ہے چون و چرا کرنی درست نہیں ہے.ہزارہا مصائب اور مشکلات آئیں وہ اس کوہ وقار کو جنبش نہیں دے سکتیں.آخر کامیابی اور فتح ان کی ہی ہوتی ہے.اب یہ سوال پیدا ہو گا کہ پھر ہم اس مامور من اللہ اور منتخب بارگاہ الہی کو کیونکر شناخت کریں ؟ اول یاد رکھو کہ حق اور باطل دو ایسی چیزیں ہیں کہ تم معا دونوں کو شناخت کر سکتے ہو اور ان میں امتیاز کر لیتے ہو.اسی طرح پر مامور من اللہ کو تم اس کے فوق العادت غیر معمولی کاموں سے شناخت کر سکتے ہو.علاوہ اس کے اس مامور سے پہلے بھی تو مامور گزرے ہوتے ہیں.ان حالات کو ان گزرے ہوئے لوگوں کے حالات اور واقعات سے مقابلہ کرو.یہ یاد رکھو کہ یہ کبھی نہیں ہوا اور نہ ہو گا کہ کوئی مامور اور خلیفہ آئے اور لوگوں نے اس کو بغیر چون و چرا کے مان لیا ہو اور اس کی کوئی مخالفت نہ ہوئی ہو.خلفائے ربانیین کی تاریخ ہم کو بتلاتی ہے کہ ان کی ترقی تدریجی ہوتی ہے.تاریخ کو جانے دو.عام مشاہدہ قانون قدرت میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر ایک ترقی اپنے اندر تدریج کا سلسلہ رکھتی ہے.ایک بچہ جو آج ہی پیدا ہو آج ہی جوان نہیں ہو سکتا.ایک طالب علم جس نے ابھی ابجد شروع کی ہو ابھی عالم فاضل نہیں بن سکتا.پس یاد رکھو کہ مامور من اللہ کی ترقی بھی تدریجی ہوتی ہے.اس لئے ایک دم میں اس کی نشو و نما یا ترقی کو معیار نہ ٹھراؤ کہ یہ غلط راہ ہے اور حق سے دور پھینک دینے والی.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا لطیف ارشاد فرمایا قُلْ مَا كُنْتُ بِدُعَا مِنَ الرُّسُلِ (الاحقاف) کہہ دو کہ میں کوئی نیا رسول تو نہیں آیا.مجھ سے پیشتر ایک دراز سلسلہ انبیاء و رسل کاگزرا ہے ان کے حالات دیکھو.وہ کھاتے پیتے بھی تھے، بیویاں بھی رکھتے تھے.پھر مجھ میں تم کونسی انوکھی اور نرالی بات پاتے ہو.غرض یہ مامور ایک ہی قسم کے حالات اور واقعات رکھتے ہیں.ان پر اگر انسان خدا ترسی اور عاقبت اندیشی سے غور کرے تو وہ ایک صحیح رائے اور یقینی نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے جبکہ تم نے سمجھ لیا کہ اللہ تعالی کو سپر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی رضا کا حال معلوم ہو اور وہ مامور من اللہ کے ذریعہ سے معلوم ہوتی ہے اور مامور من اللہ کی شناخت کا اصول بھی سمجھ لیا.میں آگے چلتا ہوں.وَاتَّقُوا الله (البقرة :۱۹۵).بڑے بڑے مشکلات اور مصائب پیش آتے ہیں.اختلافات ہوتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.دشمنوں کی زدوں اور ماموروں کی سادگی کو دیکھتا ہے تو حیرت زدہ ہو جاتا ہے.ان مشکلات سے نجات پانے کے واسطے ایک ہی راہ ہے.اللہ کو سپر بنا لو.نتیجہ یہ ہو گا اِنْ تَتَّقُوا اللهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقَانًا (الانفال :۳۰).اللہ تعالیٰ متقی کو فیصلہ کی راہیں خود بتا دیتا ہے.ہزاروں ہزار طریقے

Page 67

58 ہیں جن سے سمجھا دیتا ہے.وجدان ، فطرت، علمی دلائل، الہام، رؤیا، غرض جس طرح پر وہ چاہتا ہے سمجھا دیتا ہے.تقویٰ کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ متقی بامراد ہوتا ہے.اس کو ایسی جگہ سے رزق ملتا ہے کہ اسے سمجھ میں بھی نہیں آتا.اس کے دشمن ہلاک ہو جاتے ہیں.الہی نصرت اس کو ملتی ہے.خدا کی محبت کا انعام اس پر ہوتا ہے.پھر دنیا میں کون انسان ہے جو کامیابی نصرت، محبت الہی دشمنوں کی ہلاکت نہیں چاہتا مگر اس کا انحصار اور مدار تو تقویٰ پر ہے.تقویٰ اختیار کرو.وَقَاتِلُوا فِي سَبِيْلِ اللهِ (البقرة (9) اللہ تعالیٰ کی راہ میں اعلائے کلمتہ اللہ میں اللہ کے بندوں کی عزت اور وقعت کے لئے دشمنان دین دشمنان قرآن کریم ، نبی کریم کے دشمنوں، آپ کے جانشینوں کے دشمنوں سے مقابلہ کرو مگر اس راہ سے جس راہ سے وہ مقابلہ کرتے ہیں.وہ اگر تلوار اور تیر سے کام لیں تو تم بھی تلوار اور تیر سے کام لو.لیکن اگر وہ تدابیر سے کام لیتے ہیں تو تم بھی تدابیر ہی سے مقابلہ کرو.ورنہ اگر اس راہ سے مقابلہ نہیں کرتے تو یہ اعتدا ہو گا اور اللہ تعالیٰ اعتدا کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا.غرض جو راہ دشمن اختیار کرے اسی قسم کی راہ اختیار کرو.پس میں پھر کہتا ہوں کہ انسان کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اس راہ اور سبب کو اختیار نہیں کرتا جو اس کے حصول کے واسطے مقرر ہے.کامیابی کے صحیح اور یقینی اسباب اور ذرائع معلوم نہیں ہو سکتے جب تک سچا علم نہ ہو اور سچا علم بدوں قرآن کے نہیں آسکتا اور قرآن بدوں تقویٰ کے حاصل نہیں ہوتا اور سچا تقویٰ اور خشیت الہی پیدا نہیں ہوتی جب تک اللہ تعالیٰ کے منتخب فرمائے ہوئے بندوں کی صحبت میں نہ رہے اور مامور اور منتخب کی شناخت کا اصول یہ ہے کہ جو اس سے پہلے آئے ہیں ان کے کاموں اور حالات سے اس کو پہچانو.غرض آج کا دن نبوی تاریخ کا پہلا دن ہے اور تقویٰ کی تیاری رمضان کے مہینہ سے شروع کی ہے.اس لئے واجب ہے کہ سال آیندہ کے لئے اب ہی سے تیاری کریں.پھر رمضان شریف کے احکام و فضائل کو لَا تَأكُلُوا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ (البقرة:۱۸۸) پر ختم کیا ہے.باطل طریق سے اموال کا لینا بہت خطرناک بات ہے.پس ہر ایک اپنے اپنے اندر سوچو اور غور کرو کہ کہیں بطلان کی راہ سے تو مال نہیں آتا.اپنے فرائض منصبی کو پورا کرو.ان میں کسی قسم کی سہستی اور غفلت نہ کرو.لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ.(بخاری کتاب الایمان).اپنی طاقتوں اور عمر کے ایام کو غنیمت سمجھو.ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کو کسی طرح بھی ناراض کرو اور

Page 68

59 آج کے لئے فقراء اور مساکین کے واسطے اپنے اموال کا ایک حصہ دے دو.صدقات مال کو پاک کر دیتے ہیں اور آفات اور مشکلات کو روک دیتے ہیں.آج کے صدقہ میں گیہوں دو مد (بھرا ہوا بک) اور غلہ چار مد غرباء اور مساکین کو دینا چاہئے کیونکہ مالوں ہی کی احتیاطوں سے اس رکوع شریف کو یا یوں کہو کہ آج کے دن کو شروع اور رمضان کو ختم کیا ہے.خدا کے فضل اور توفیق کے بدوں کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا.پس اس کا فضل ہمارے شامل حال ہو.آمین.بعد ظهر "انجمن تشخیز الاذہان کا جلسہ ہو گا.شاید میں اس میں تمہیں کچھ اور سناؤں اس لئے اب ختم کرتا ہوں.الحکم جلد ۵ نمبر ۵ ---- ۱۰ / فروری ۱۹۰۱ء صفحه ۴ تا ۶) , الحکم جلد نمبر ۶....۷ار فروری ۱۹۰۱ء صفحہ ۵ تا ۷) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 69

۳۰ مارچ ۱۹۰۱ء 60 خطبہ کے شروع میں آپ نے فرمایا.خطبہ عید الاضحی (ایڈ میٹر " حکم " کے الفاظ میں) ☆ عید کا خطبہ پڑھنے کے واسطے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ارادہ فرمایا تو لوگوں کو کہا کہ جس کی مرضی ہو بیٹھے ، جس کی مرضی نہ ہو یا اسباب اس کے نہ بیٹھنے کے ہوں وہ بے شک چلا جاوے اس کے بعد آپ نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی.ضرب الله مثلا عَبْدًا مَمْلُوا لَا يَقْدِرُ عَلَى شَيْءٍ وَ مَنْ رَّزَقْنَهُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا فَهُوَ يُنْفِقُ مِنْهُ سِرًّا وَّ جَهْرًا هَلْ يَسْتَوْنَ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (النحل :) میں نے یہ آیت شریف سورۃ محل میں سے پڑھی ہے.اس کے ابتدا میں حضرت حق سبحانہ تعالیٰ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ السَّائِبِ قَالَ شَهِدْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِيْدَ فَلَمَّا قَضَى الصَّلاةَ قَالَ إِنَّا نَخْطُبُ فَمَنْ اَحَبَّ أَنْ يَجْلِسَ لِلْخُطْبَةِ فَلْيَجْلِسْ وَ مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَذْهَبَ فَلْيَذْهَبْ - اسنن ابی دائود کتاب الصلوة باب الجلوس للخطبة.نیز دیکھیں.سنن نسائی کتاب صلوة العيدين - سنن ابن ماجه كتاب اقامة الصلوة و السنة فيها)

Page 70

61 نے اپنی ہستی ، اپنی توحید اپنے اسماء اپنے محامد اور لا انتہا عجائبات قدرت کا اظہار فرمایا ہے اور بعد اس بیان کے جو در حقیقت لا AND ADATA اللہ کے معنوں کا بیان ہے، اس کے دوسرے جزو مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ پر بحث کی ہے اور ضرورت نبوت، پھر ختم نبوت پر لطیف طرز سے بحث کی ہے اور بیان کیا ہے کہ کیوں خدا کی طرف سے کوئی مامور ہو کر آتا ہے اور اس کا کیا کام ہوتا ہے؟ پھر اس آیت میں بتایا ہے کہ جو شخص مامور من اللہ اور حجۃ اللہ ہو کر آتے ہیں وہ بلحاظ زمانہ بلحاظ مکان عین ضرورت کے وقت آتے ہیں اور ان کی شناخت کے لئے وہی نشانات ہیں جو اس آیت میں بیان کئے جاتے ہیں.وہ کیا کام کرتے ہیں.ان پر کیا اعتراض ہوتے ہیں.دوسروں کی نسبت ان میں کیا خصوصیت ہوتی ہے ؟ ان دو آچوں میں انہی باتوں کا تذکرہ ہے.ان میں سے پہلی آیت شریف کا ترجمہ یہ ہے، مگر ترجمہ سے پیشتر یہ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے انسان کو ممتاز بنایا ہے اور پھر انسانوں میں سے کچھ لائق اور بعض نالائق ہوتے ہیں اور اس طرح پر خود ان میں ایک امتیاز قائم کرتا ہے.غرض نبوت کی ضرورت اور اس کے اصول کے سمجھنے کے لئے اللہ تعالیٰ اس آیت میں ایک نہایت ہی عجیب بات سناتا ہے." مثل " اعلیٰ درجہ کی عجیب بات کو کہتے ہیں.غرض اللہ تعالیٰ ایک عجیب بات اور نہایت ہی اعلیٰ درجہ کی بات سناتا ہے.کوئی کسی کا غلام ہے، وہ عبد جو کسی کا مملوک ہے اس کا مالک اس کے لئے بہت سے کام رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کا غلام وہ کام کرے مگر غلام کی یہ حالت ہے کہ لا يقدر جس کام کو کہا جاتا ہے وہ مضائقہ کرتا ہے اور اپنے قول و فعل ، حرکات و سکنات سے بتاتا ہے کہ آقا! یہ تو نہیں ہو سکتا.وہ زبان سے کے یا اعمال سے دکھاوے، اس کا مطلب یہی ہے کہ میں اس کام کے کرنے کے قابل نہیں.اب ایک اور غلام ہے جو کام اس کے سپرد کیا جاوے ، جس خدمت پر اسے مامور کیا جاوے پوری تندہی اور خوش اسلوبی سے اس کو سر انجام دیتا ہے.جب اس کو کوئی مال دیا جاوے تو وہ اس کو کیا کرتا ہے؟ اس مال کو لیتا ہے.جہاں آقا کا منشاء ہو کہ مخفی طور پر دیا جاوے وہاں مخفی طور پر دیتا ہے اور جہلی مالک کی مرضی ہو کہ ظاہر طور سے دیا جاوے وہاں کھلے طور پر دیتا ہے.غرض وہ مالک کی مرضی اور منشاء کا خوب علم رکھتا ہے اور اس کے ہی مطابق عمل درآمد کرتا ہے.اور مخفی در مخفی اور ظاہر در ظاہر موقعوں پر ہی جہاں مالک کی مصلحت ہوتی ہے اس مال کو خرچ کرتا ہے.اب تم اپنی فطرتوں سے پوچھو کہ یہ دو غلام ہیں جن میں سے ایک تو ایسا ہے کہ کسی کام کے کرنے کے بھی قابل اور لائق نہیں.اور دوسرا ہے کہ اپنے مالک کی مرضی اور مصلحت کا پورا علم رکھتا ہے اور صرف علم ہی نہیں اس پر عمل بھی کرتا اور سراً اور جہراً دونوں قسم کے اخراجات کر سکتا ہے.اب یہ کیسی صاف بات ہے اپنی ہی فطرت سے فیصلہ

Page 71

62.پوچھ لو.هَلْ يَسْتون کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ ہر گز نہیں.ہر ایک دانشمند کو اعتراف کرنا پڑے گا.چونکہ وہ فطرت انسانی، اعتقادات، اخلاق سب کو جانتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اپنے کامل علم اور فطرت کی صحیح اور کامل واقفیت کی بنا پر فتوی دیتا ہے.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الله تعالی ہی کی حمد دنیا میں قائم ہو گی.کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہی غلام لائق اور ممتاز ہو سکتا ہے جو ہر قسم کے اخراجات کو بر محل کرنے اور اپنے آقا کی منشاء و مصلحت کو جانتا ہے اور یہی نہیں بلکہ عملی طاقت بھی اعلیٰ درجہ کی رکھتا ہے.جب یہ بات ہے تو عرب و عجم کی تاریخ پر نظر کرو.نہیں! دنیا کی تاریخ کے ورق الٹ ڈالو اور دیکھو کہ جس زمانہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا پر جلوہ گری کی کیا اس سے بہتر کوئی اور وجود اس قابل تھا کہ وہ دنیا کا معلم ہو کر آتا؟ ہر گز نہیں.لوگوں کو بچے علوم ملتے ہیں اور بابرکت اساتذہ کا اثر بھی ہوتا ہے لیکن یہ بات کہ حق سبحانہ تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا ہو اور اس کے مقرب ہونے کے لئے اقرب راہ مل جاوے یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کامل طور پر دنیا میں نہیں ہوا.زمانہ کے امراض پر پوری نظر کر کے مریضوں کی حالت کی کامل تشخیص کس نے کی تھی؟ کسی کا نام تو لو.جب معالج ہی نہ تھا تو شفاء کا تو ذکر ہی کیا! مگر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شفاء کامل کا نسخہ لے کر آئے اور مریضوں پر اس کا استعمال کر کے ان کو تندرست بنا کر دکھا دیا کہ یہ دعویٰ کہ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَآءُ (بنی اسرائیل :۸۳) بالکل سچا دعوی ہے.اس وقت کی عام حالت پر نظر تو کرو تو معلوم ہو گا کہ دنیا میں ایک بلاخیز طوفان بت پرستی اور شرک کا آ رہا تھا.کوئی قوم کوئی ملک کوئی خاندان کوئی ملت ایسی نہ رہی تھی جو اس ناپاکی میں مبتلا نہ ہو.کیا ہند میں عالم نہ تھے ؟ مجوسیوں کے پاس گھر اور دستور آگاہ نہ تھے ؟ * یہود کے پاس بائیبل اور طالمود نہ تھی؟ عیسائیوں کی روما کی سلطنت نہ تھی؟ مصریوں کے ہاں علم کا دریا نہ بہتا تھا؟ کیا خاص عرب میں بڑے بڑے طلیق اللسان اور فصیح البیان شعراء موجود نہ تھے ؟ مگر قوم کی امراض نہیں بلکہ ملک کی بیماریوں، نہیں نہیں دنیا کو تباہ کر دینے والی بلا کی کس نے تشخیص کی؟ وہ کون تھا جس نے شفاء اور نور کہلانے والی کتاب دنیا کو دلوائی؟ جواب آسان اور بہت آسان ہے بشرطیکہ انصاف اور سچائی سے محبت ہو کہ وہ پاک ذات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تھی.اس آیت پر غور کرنے سے یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ مطابق اصل

Page 72

63 اللہ تعالیٰ کی اصطلاح میں رزق اور مال سے کیا مراد ہے؟ لوگ کہتے ہیں کہ جیسے اس زمانہ میں مولوی اور درویش کاہل اور سست اور ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کوئی ان کو پکی پکائی روٹی دے جاوے، اسی طرح جب مہدی موعود علیہ الصلوۃ و السلام آئیں گے تو لا تعداد ز رومال تقسیم کریں گے اور اس طرح پر گویا قوم کو سست اور بے دست و پا بنائیں گے.اور قرآن کریم نے جو یہ اشارہ فرمایا تھا وَ اَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى (النجم:۳۰) اور حصر کے کلمہ کے ساتھ فرمایا تھا اس کو عملی طور پر منسوخ کر دیں گے.اس میں جو حصر کے کلمے کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کیا یہ حکم منسوخ ہو جاوے گا اور جناب مہدی کا یہی کام ہو گا؟ سوچو اور غور کرو.صاف معلوم ہوتا ہے کہ رزق کے کیا معنے ہیں.اس کے بعد جناب الہی ایک دوسری شہادت سناتے ہیں اور اس مثال میں آبگم کا لفظ اختیار فرمایا ہے.پہلے ایکم نہ تھا اس لئے کہ ہم کو غرض ہے کسی ایسے آدمی کی جو پیغام رسانی کر سکے.لیکن جب کہ وہ آبگم ہے کچھ بول ہی نہیں سکتا، بھلا وہ اس منصب کے فرائض کو کیوں کر سرانجام دے گا؟ غلام مت سمجھو.رجلین ہیں یعنی " حُر " ہیں.آدم سے لے کر اس وقت تک ان پر کسی نے سلطنت نہیں کی اس لئے اس میں ترقی فرمائی ہے اس سے پہلے عبد کہا اب رجلین.اس سے میرے دل میں یہ بات آتی ہے کہ حروں میں، عربوں میں تاریخ پتہ نہیں دیتی کہ وہ کبھی کسی کی رعایا ہوئے ہوں.انہوں نے کبھی کسی کے تسلط اور جبروت کو پسند نہیں کیا اور یہاں تک آزاد ہیں کہ بذریعہ انتخاب بھی کل جزیرہ نما عرب پر ایک شخص حاکم ہو کر نہیں رہا.اب انہی سے ہم پوچھتے ہیں کہ اس وقت جو بحر و بر میں فساد برپا ہو رہا ہے اور دنیا میں بت پرستی، فسق و فجور، ہر قسم کی شرارت اور بغاوت پھیل رہی ہے کوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی گم شدہ توحید کو از سر نو زندہ کرے اور مری ہوئی دنیا کو زندہ کر کے دکھاوے؟ اللہ تعالیٰ کی عظمت و جبروت اس کے جلال وسطوت کو کھول کر سنا دے.وہ جو ابکم الگن ہیں وہ کیا بتا سکیں گے.کیا تم نہیں جانتے کہ ابکم نو کر تو اپنے آقا پر بھی دو بھر ہوتا ہے.اس کو کھانا کھلانا اور ضروریات کے سامان کا تکفل کرنا خود مالک کو ایک بوجھ معلوم ہوتا ہے اور پھر جہاں جاتا ہے تو کوئی خیر کی خبر نہیں لا سکتا.اب پھر تم اپنی فطرت سے پوچھو هَلْ يَسْتَوى هُوَ وَ مَنْ يَّامُرُ بِالْعَدْلِ وَ هُوَ عَلَى صِرَاطٍ - مُسْتَقِيمٍ (النحل ۷۷) کیا اس کے برابر یہ ہو سکتا ہے جو امر بالعدل کرتا ہے اور جو کچھ کہتا ہے اپنی عملی حالت سے اس کو دکھاتا ہے کہ وہ صراط مستقیم پر ہے؟ اس وقت جو دنیا میں افراط و تفریط بڑھ گئی ہے.دنیا کو اعتدال کی راہ بتانے والا اور اقرب راہ پر چل

Page 73

64 کر دکھانے والا اور اپنی کامیابی سے اس پر مہر کر دینے والا کہ یہی صراط مستقیم ہے جس پر میں چلتا ہوں.اب انسان اگر دانشمند اور سلیم الفطرت ہو تو اس کو صفائی کے ساتھ مسئلہ نبوت کی ضرورت کی سمجھ میں آجاتی ہے.میں نے ایک بار اس آیت پر تدبر کیا تو مجھے خیال آیا کہ اگر مولویوں کی طرح کہیں تو کیا عرب گونگے تھے ؟ سبعہ معلقہ اور امرء القیس کا قصیدہ دیکھو جو بیت اللہ کے دروازہ پر آویزاں کیا گیا تھا.زید بن عمرو اور اس کے ہم عصر اعلیٰ درجہ کے خطیب موجود تھے.ان لوگوں میں جب کبھی اس بات پر منازعت ہوتی تھی بڑے دنگل لگتے تھے.جس کی بات کو مکہ کے قریش پسند کرتے وہ جیت جاتا.ان کی زبان عربی تھی.وہ دوسروں کو عجم کہتے تھے.اپنے آپ کو فصاحت میں بے نظیر سمجھتے تھے.پھر اس پر کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ ابکم ہے ؟ اپنی معشوقہ اور عشیقہ کے خد و خال بہادری اور شجاعت کے کارنامے چستی و چالاکی کے ، غرض ہر قسم کے مضمون پر بڑی فصاحت سے گفتگو کر سکتے تھے اور اپنے تحمل مزاج کے ثبوت دیتے تھے مگر ہاں وہ "ایکم " تھے تو اس بات میں تھے کہ اللہ تعالیٰ کے محلد اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کا انہیں کچھ علم نہ تھا اور وہ اس کی بابت ایک لفظ بھی منہ سے نہ بول سکتے تھے.اللہ تعالیٰ کے افعال کی بینظیری کو بیان کرنے کی مقدرت ان میں نہ تھی.وہ عرب کہلاتے تھے مگر لَا إِلَهَ إِلَّا الله جیسا اعلیٰ درجہ کا فصیح و بلیغ کلمہ ان میں نہ تھا.وحشیوں سے انسان اور انسانوں سے بااخلاق انسان پھر باخدا انسان بننے کے لئے اور ان مراتب کے بیان کرنے کو آہ! ان میں ایک لفظ بھی نہ تھا.اخلاق فاضلہ اور رذائل کو وہ بیان نہ کر سکتے تھے.شراب کا تو ہزار نام ان میں موجود تھا مگر افسوس! اور پھر افسوس !! اگر کوئی لفظ اور نام نہ تھا تو اللہ تعالیٰ کے اسماء اور توحید کے اظہار کے واسطے.پھر یوں سمجھو کہ ان میں لَا إِلَهَ إِلَّا الله نہ تھا.وہ اپنی سطوت اور جبروت دکھاتے.ایک پہلے (کتی کے بچے) کے مرجانے پر خون کی ندیاں بہا دینے والے اور قبیلوں کی صفائی کر دینے والے تھے مگر اللہ تعالیٰ کا بول بالا کرنے کے واسطے ان میں اس وقت تک سکت نہ تھی یہاں تک کہ پاک روح مطهر و مز کی معلم جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں ظہور فرمایا.یہ وہ وقت تھا جب کہ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم:۳۲) کا نقشہ پورے طور پر کھینچا گیا تھا.سماوی مذاہب جو کہلاتے تھے اور خدا تعالیٰ کی کتابوں کے پڑھنے کے دعوے کرتے تھے باوجود اس کے کہ اپنے آپ کو مقربان بارگاہ الہی کہتے نَحْنُ ابْنَاءُ اللهِ وَاحِبَاوِة (المائدة:9) مگر مالت یہاں تک خراب ہو چکی تھی کہ عظمت اٹھی اور شفقت علی خلق اللہ کا نام و نشان تک نہ پایا جاتا تھا.اور دنیوی ڈھکوسلے والوں

Page 74

65 کی حالت بھی بگڑ چکی تھی.اسی حالت میں اللہ تعالیٰ مکہ والوں کو آگاہ کرتا اور بتاتا ہے کہ تم ابکم ہو.صنادید مکہ میں سے ابو جہل ہی کو دیکھ لو.اس کے افعال و اعمال اس کے اخلاق صاف طور پر بتاتے ہیں کہ وہ دنیا کے لیے ہرگز ہرگز خیر و برکت کا موجب نہیں.یہ صرف اسی پاک ذات کے لئے سزاوار ہے کہ وہ دنیا کی اصلاح اور فلاح کے لئے مامور ہوا جس کا پاک نام ہی ہے محمد واحمد صلی اللہ علیہ وسلم جس نے اپنی پاک تعلیم اپنی مقدس و مطهر زندگی اور بے عیب چال چلن اور پھر اپنے طرز عمل اور نتائج سے دکھا دیا که إن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله (ال عمران:۳۲) میں اپنے اللہ کا محبوب ہوں.تم اگر اس کے محبوب بنا چاہو تو اس کی ایک ہی راہ ہے کہ میری اتباع کرو.جب کہ میں اپنے خدا کا محبوب ہوں پھر بتاؤ کہ کوئی چاہتا ہے کہ اس کا محبوب ناکام رہے ؟ پھر خدا مجھے کبھی نا کام نہ رہنے دے گا.میرے دشمن ذلیل اور ہلاک ہو جائیں گے.اور یہ باتیں ایسی بچی اور صاف ہیں کہ تم خود کر کے دیکھ لو.میری اطاعت کرو، میرے نقش قدم پر چلو اللہ تعالیٰ کے محبوب ہو جاؤ گے اور تمہارے دشمن مردود اور مخذول ہو کر تباہ ہو جائیں گے.کیا اس وقت تم نہیں دیکھتے کہ نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا (الانبیاء:۲۵) کیسے واضح طور پر پورا ہو رہا ہے.اعلیٰ درجہ کے عظیم الشان لوگ طرف کہلاتے ہیں اس لئے کہ وہ ایک طرف ہو کر بیٹھتے ہیں.اور ادنیٰ درجہ کے لوگوں میں سے بعض سلیم الفطرت ہوتے ہیں، وہ بھی طرف کہلاتے ہیں.یعنی تمہارے اعلیٰ اور ادنیٰ درجہ کے لوگوں میں سے یا یہ کہو کہ ہر طبقہ اور درجہ میں سے جو عظیم الشان اور سلیم الفطرت لوگ ہیں وہ سب کے سب اسلام میں داخل ہو کر تمہاری جمعیت کو دن بدن کم کر رہے ہیں.غرض مامور من اللہ کا وجود ایک حجتہ اللہ ہوتا ہے.اس کی جماعت بڑھتی جاتی اور اس کے مخالف دن بدن کم ہوتے جاتے ہیں.یہ تو تیرہ سو برس کی بات تھی اور اب اس پر چودہویں صدی گزرتی ہے.اس میں سے بھی اٹھارہ سال گذرنے کو آئے.اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی بناوٹ کچھ اس قسم کی واقع ہوئی ہے کہ جو کچھ اس نے حاصل کیا ہوتا ہے اس کو تھوڑی دیر کے بعد خرچ کر کے پھر اور کی تلاش میں ہوتی ہے اور نئی چال اختیار کرتی ہے کہ وہ متاع واپس آئے.یہ نظام درختوں میں بھی نظر آتا ہے.ایک وقت یہ نہایت صاف آکسیجن جو انسانی زندگی کے لئے اعلیٰ درجہ کی ضروری شے ہے نکالتے ہیں اور ابھی اس پر پورے ۲ گھنٹے نہیں گذرنے پاتے کہ کاربن جیسی زہریلی چیز دینے لگتے ہیں.پھر اس آکسیجن کے نکالنے کے واسطے بہت سی زہر کی چیزیں ان کو جذب کرنی پڑتی ہیں.

Page 75

66 ہم آپ بیتی ہی کیوں نہ سنائیں.اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کی کھانے اور پینے کی چیزیں آتی ہیں.قوائے شہوانی کی سیری کا سامان موجود ہوتا ہے.سیر ہو کر ان کو ترک کر دیتے ہیں.اس وقت ایسا معلوم دیتا ہے کہ گویا ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیا ہے.ابھی تھوڑا وقفہ نہیں گذرتا کہ وہی بھوک، وہی پیاس وہی شہوانی خواہشیں موجود ہوتی ہیں.ابھی بہت عرصہ نہیں گذرا کہ سردی کے واسطے گرم کپڑوں کی ضرورت تھی اور بڑی محنت اور صرف سے کپڑے تیار کرائے تھے مگر اب وہی ہم ہیں اور وہی کپڑے، لیکن ان کپڑوں کو اب رکھ نہیں سکتے.ضرورت آپڑی ہے کہ نئی طرز کے کپڑے ہوں جو اس موسم کے حسب حال ہوں.غرض یہی حال حضرات انسان کا ہے.قسم قسم کی غذا ئیں اندر پہنچ کر صرف اپنا خلاصہ در خلاصہ چھوڑ کر پاخانے کی شکل میں نکل جاتی ہیں اور پھر انہیں غذاؤں کی ضرورت اور انہیں خلاصوں کی احتیاج پیدا ہوتی رہتی ہے.یہی مضمون اور مفہوم ہے تجدید دین کا.اس وقت بھی دیکھ لو اور غور سے دیکھ لو کہ کس قدر ضرورت ہے کہ کوئی مرد خدا آوے اور ہماری گم شدہ متاع کو پھر واپس دلائے.بڑا ہی بد قسمت ہے وہ انسان جس کا گھر لوٹا جا رہا ہو اور وہ میٹھی نیند سو رہا ہو اور خواب میں جنت کی سیر کر رہا ہو اور خوبصورت عورتیں اس کے گرد ہوں اور وہ اس نیند سے اٹھنا ایک مصیبت خیال کرتا ہو.یہی حال اس وقت اسلام کا ہو رہا ہے.دشمن نے چاروں طرف سے اس کا محاصرہ کر لیا ہوا ہے اور بعض اطراف سے در و دیوار کو بھی گرا دیا ہے.قریب تھا کہ وہ اندر داخل ہو کر ہمارے ایمان کی متاع لوٹ لے کہ ایک بیدار کرنے والے کی آواز پہنچی.یا تو ہمیں اپنے دکھ اور مصیبت کی خبر نہیں ہے اور یا خبر تو ہے مگر ہم پوری لا پروائی سے کام لے رہے ہیں.ہمارے سید و مولی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں ایک دعا تعلیم فرمائی ہے.میں بہت ہی خوش ہوں کہ ہمارے امام علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کو قریباً فرض قرار دیا ہے اور وہ یہ ہے اللَّهُمَّ اِنّى اَعُوْذُبِكَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْكَسْلِ (بخارى كتاب الدعوات).بجز کیا ہے؟ کہ اسباب ہی کو مہیانہ کر سکے اور کسل یہ ہے کہ اسباب تو مہیا ہوں لیکن ان سے کام نہ لے سکے.کیسا ہی بد قسمت ہے وہ انسان جو اسباب کو مہیا نہیں کرتا اور وہ انسان تو بہت ہی بد قسمت ہے جس کو اسباب میسر ہوں لیکن وہ ان سے کام نہ لے.اب میں تمہیں توجہ دلانی چاہتا ہیں گھر کی حالت پر.تمہیں یا مجھے یا ہماری موجودہ نسلوں کو وہ وقت تو یاد ہی نہیں جب ہم اس ملک کے بادشاہ تھے.سلطنت

Page 76

67 بھی خدا تعالی کے انعامات میں سے ایک بڑی نعمت ہے.اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ فرمایا ہے جَعَلَ فِيْكُمْ أَنْبِيَاءَ وَ جَعَلَكُمْ مُلُوكًا (المائدة:) یعنی اے میری قوم! خدا نے تجھ میں انبیاء کو مبعوث فرمایا اور تجھ کو بادشاہ بنایا.جب قوم کی سلطنت ہوتی ہے تو قوم کے ہر فرد میں حکومت کا ایک رنگ آجاتا ہے.ہاں ہمیں تو وہ وقت یاد نہیں جب ہم بادشاہ تھے.اچھا تو قوم کی سلطنت تو اب ہے نہیں اور خدا کا شکر بھی ہے کہ نہیں ہے.کیونکہ اگر ہوتی تو موجودہ نا اتفاقیاں یہ لاچاریاں ، یہ بے کسی اور بے بسی ، خود نمائی اور خود بینی ہوتی.ضروریات زمانہ کی اطلاع نہ ہوتی تو کس قدر مشکلات کا سامنا ہوتا اور کیسے دکھوں میں پڑتے.بیرونی حملہ آور اندرونی بغاوتوں کو دیکھ کر حملہ آور ہوتے اور ہلاک کر دیتے.تو یہ خدا کا رحم ہے جو اس نے سلطنت لے کر دوسروں کے حوالے کی اور ہم کو اس دکھ سے بچا لیا جو اس وقت موجودہ حالت کے ہوتے ہوئے ہمیں پہنچتا.اس کے ماوراء وہ مقدس چیز جس کا نام مذہب ہے اور جو ایسا صاف اور مدلل اور معقول تھا کہ فطرت انسانی اسے اپنا مایحتاج قرار دیتی تھی، اس کا یہ حال ہے کہ اس کے عقائد کو اصول ہوں یا فروع ایسا بنا دیا گیا ہے کہ وہ پہیلیوں اور چیستانوں میں ڈال رکھا ہے.وہ ایک ایسا معمہ کر دیا گیا ہے کہ حل ہی ہونے میں نہیں آتا.اس کا اثر اور نتیجہ یہ ہوا کہ وہ لوگ جو ایک ناتواں انسان کے بچہ کو جو گنے اور موتنے کا محتاج تھا خدا بنا رہے ہیں اور اپنے گناہوں کی گٹھڑی دوسرے پر ڈال کر جو کچھ کریں سو تھوڑا ہے، ان کو بھی جرات اور دلیری ہو گئی کہ وہ اس باطل کی اشاعت میں پورے مستعد اور تیار ہو کر نکلے ہیں اور کروڑوں کتابوں اخباروں، رسالوں سے کام لے رہے ہیں.کہیں ہسپتالوں کی شکل میں، کہیں مشن سکولوں کے رنگ میں ، غرض کہیں کسی بھیس میں کہیں کسی لباس میں انسان کی خدائی منوانے اور اس کو منجی" قرار دینے میں زور لگا رہے ہیں.ہمارے لئے یہ امر بھی کوئی رنجیدہ نہ ہو تا اگر ان کی کوششوں کی انتھا اپنے ہی مذہب کی اشاعت ہوتی.مگر اس پر آفت یہ برپا کی ہے کہ اپنے مذہب کی اشاعت کا طرز اور رنگ انہوں نے یہ اختیار کر لیا کہ مقدس اسلام پر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ذات پر وہ دل آزار حملے کرنے شروع کیے ہیں جن کی کوئی انتہا نہیں.تعجب اور حیرت ہوتی ہے کہ یہ لوگ محض خیالی باتیں دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی پاک کتاب پر حملے کرتے ہیں.فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَذَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ (البقرة:-

Page 77

68 یہ کچی بات ہے کہ ترجمہ مترجم کے ذاتی خیالات ہوتے ہیں.اب دیکھ لو نصاریٰ قوم تراجم کو ہاتھ میں لے کر کہتے پھرتے ہیں خدا کا کلام ہے.کتاب مقدس میں یوں لکھا ہے.حالانکہ اصل کتاب کا پتہ بھی نہیں لگتا کہ کہاں گئی.بلکہ یہاں تک مشکلات میں پھنسے ہوئے ہیں کہ ابھی تک یہ فیصلہ بھی نہیں ہوا کہ وہ اصلی زبان جس میں انجیل تھی عبرانی تھی یا یونانی.حالانکہ مسیح علیہ السلام کے آخری کلمات ایلی ایلی لما سبقتانی" اور ان کی قومی اور مادری زبان سے صاف طور پر یہ پتا لگتا ہے کہ وہ عبرانی ہی تھی مگر یہ یونانی کہتے جاتے ہیں.اصل یہ ہے کہ اصل کتاب کا پتہ ہی نہیں ہے.اب جو کچھ ان کے ہاتھ میں ہے وہ ذاتی خیالات ہیں.غرض اس قسم کا تو مذ ہب کمزور ہے اور پھر اس پر طرفہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی طریق اشاعت کی وجہ سے کہیں خوبصورت عورتوں کے ذریعہ تبلیغ کر کے، کہیں ہسپتالوں کے ڈھنگ ڈال کر اخبارات اور رسالہ جات کی اشاعت سے کوئی قوم کوئی خاندان ایسا نہیں چھوڑا جس میں سے کسی نہ کسی کو گمراہ نہ کر لیا ہو.یہ آفت ہی اسلام کے لئے کم نہ تھی کہ ایک اور قوم اٹھی جو اپنا وجود تو دو ارب سال سے بتاتی ہے مگر آج تک اتنا بھی نہ ہوا کہ اپنی پاک کتاب کو ہند سے باہر ہی کسی قوم کو سنا دیتی.ہند سے باہر تو بہت بڑی بات تھی وہ تو اپنے گھر میں بھی برہمنوں کے سوا باقی قوموں کو اس سے آگاہ کرنا گناہ سمجھتی رہی اور اب تک اصل سناتن دھرم والے وید کا پڑھنا بحجز برہمن کے دوسرے کے واسطے جائز نہیں سمجھتے.یہ قوم بھی با ایں ہمہ اسلام پر اعتراض کرنے کو آگے بڑھی.فلسفہ، طبعی اور طباعت وغیرہ علوم کی ترقی ، آزادی اور حریت کے بے طرح بڑھنے نے ایک اور قوم کو پیدا کر دیا جو اپنے آپ کو برہمو کہتے ہیں.انہوں نے سلسلہ نبوت ہی کا انکار کر دیا ہے اور اپنے ہی کانشنس کو سب کچھ سمجھ لیا حالانکہ وہ تفریق نہیں کر سکتے کہ ایک زناکار کا کانشنس زناہی کا مجوز کیوں ہے یا ایک ڈاکو اور راہزن خون کرنے اور لوٹ کھسوٹ ہی کا فتویٰ جب دیتا ہے تو وہ گناہ کیوں ہے؟ پھر ان سے اتر کر وہ لڑکے ہیں جن پر آئندہ نسلیں ہونے کا فخر کیا جاتا ہے اور ان کو اپنی بہتری اور بہبودی کا ذریعہ قرار دیا جاتا ہے.ان کو سکولوں اور کالجوں میں اس قسم کی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں جن کا لازمی نتیجہ دہریت اور بے دینی ہونی چاہیے.اس لئے کروڑ در کروڑ مخلوق دہریت کے لئے تیار ہو رہی ہے.ان کالجوں کی ذریت بجائے اس کے کہ وہ خدا پرست اور اعلیٰ درجہ کے الہیات میں غور کرنے والے ہوتے، پکے دہریہ اور مذہب کے

Page 78

69 سلسلہ سے آزاد پیدا ہو رہے ہیں.پھر اندرونی مشکلات قوم کو سمجھنے کے واسطے اہل دل گروہ قوم کا دل اور علماء دماغ تھے.امراء حکومت کرنے والے تھے.لیکن اگر اہل دل علماء اور امراء کے حالات کو غور سے دیکھیں تو ایک عجیب حیرت ہوتی ہے.عظمت الہی اور خشیت الہی علوم قرآنی کے جاننے کا ذریعہ تھا.إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ (فاطر (۳۹) یایوں کہو کہ اہل دل گروہ علماء سے بنتا ہے یا اہل دل ہی عالم ہونے چاہیے تھے مگر یہاں یہ عالم ہی دوسرا ہے.فقر اور علم میں باہم تباعد ضروری سمجھا جاتا ہے اور کہہ دیا جاتا ہے کہ عالم اور فقر کیا؟ وہ علم جو خشیتہ اللہ کا موجب ہوتا اور دل میں ایک رفت پیدا کرتا، ہر گز نہیں رہا.رہی نری زبان دانی جس پر کوئی یونیورسٹی فکر کر سکتی ہے وہ اس سے زیادہ نہیں کہ وہ ان لوگوں کے کلام ہیں جو شراب خور فاسق اور اللہ تعالی کے نام سے نا آشنا تھے.عربی زبان کے متعلق مجھ سے لوگوں نے پوچھا ہے اور میں نے بجائے خود بھی غور کیا ہے.چار قسم کی زبان ہے.اول اللہ کی زبان جو قرآن شریف میں موجود ہے.پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اس سے اتر کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زبان.ان تین قسم کی پاک زبانوں سے پوری محرومی ہے.چوتھا درجہ وہی ہے جس کا میں نے ابھی ذکر کیا.وہ جاہلیت کے شعراء کی زبان جن کے اخلاق و عادات ایسے تھے کہ ان کا ذکر بھی مجھے اچھا نہیں معلوم دیتا.یہ ایک بار یک علم ہے جس کی لوگوں کو بہت کم اطلاع ہے.زبان اندر ہی اندر انسان کے روحانی اور اخلاقی قومی پر ایک زبردست اثر کرتی ہے.بہت سی کتابیں اس قسم کی موجود ہیں جن کو پڑھ پڑھ کر دنیا کا ایک بہت بڑا حصہ فسق و فجور میں مبتلا ہو کر ہلاک ہو گیا ہے.استادوں اور کتابوں کا اثر بہت آہستہ دیر پا ہوتا ہے.اس لئے یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ استادوں کے تقرر اور تعلیمی کتابوں کے انتخاب میں بڑی فکر کرنی چاہئے کیونکہ ان کا اثر اندر ہی اندر چلتا ہے.اب دیکھ لو کہ اللہ کی زبان اس کے کامل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان صحابہ کرام کی زبان کی طرف مطلق توجہ نہیں کی.یونیورسٹی نے اگر کوئی حصہ لیا تو وہ بھی ان لوگوں کا جن کے کلام کا اثر اخلاق اور عادات پر اچھا نہیں پڑ سکتا.میں تم سے پوچھتا ہوں کہ بتاؤ تو سہی کہ تم نے کس قدر روپیہ کس قدر وقت اور محنت اس پر کی؟ جواب یہی ہو گا کہ کچھ نہیں.میں نے بہت سے آدمیوں کو دیکھا ہے کہ جب ان کو کہا گیا کہ قرآن شریف بھی پڑھا کرو تو انہوں نے آخر کہا تو یہی کہا کہ کوئی بہت ہی خوبصورت عمدہ سا قرآن دو اور وہ بھی مفت.اللہ ! اللہ !! ناولوں اور انگریزی کتابوں کی خرید میں جس قدر روپیہ خرچ کیا جاتا ہے اس کا

Page 79

70 سواں حصہ بھی قرآن شریف کے لئے خرچ نہیں کر سکتے.چاہئے تو یہ تھا کہ ساری توجہ اسی کی طرف ہوتی مگر ساری چھوڑ ادھوری بھی نہیں.مجھے اس وقت ایک معمول کی بات یاد آگئی ہے.میں نے اس کو کہا کہ قرآن شریف پڑھو.اس نے کہا کہ کوئی اعلیٰ درجہ کا خوبصورت قرآن ہو تو دو.میں نے اپنے دل میں کہا اللہ ! یہ شخص اپنے کوٹ پتلون کے لئے تو اس قدر روپیہ خرچ کر سکتا ہے اور نہیں لے سکتا تو قرآن نہیں لے سکتا.یہ بناوٹی بات نہیں ہے.خود سوچ کر دیکھ لو جس قدر جیب خرچ کے واسطے دیتے ہو دین پڑھانے کے لئے اتنا نہیں دیتے.توحید کا تذکرہ میں نے اس لئے نہیں کیا کہ مسلمان جو سامنے ہیں کفار نہیں.نبوت کا ذکر نہیں کیا اس لئے کہ برہمو نہیں ہیں.لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ پڑھنے والے میرے سامنے ہیں.انتخاب کا ذکر کیا تھا اس کی ایک ضرورت تھی.اس میں بات چل پڑی کہ کیسی ضرورت ہے کہ قرآن کریم کی طرف توجہ دلاؤں.دنیا کی لعنت ملامت.طعن و تشنیع سب کچھ سنا.پھر بھی ٹول کر دیکھو که خود قرآن دانی، قرآن فہمی کے لئے کیا کیا.کتنی کوشش کی؟ جواب یہی ہے کہ کچھ بھی نہیں.ہرگز نہیں.قطعاً نہیں کی.حضرت امام نے طاعون کے اشتہار دیے.تم ہی بتاؤ کہ تبدیلی کی تو کیا کی؟ غرض کیسے کیسے مشکلات ہیں.رہنمائی کے لئے صرف ایک ہی چیز تھی جس کا نام شفا اور نور ہے.اس کے سمجھنے کے لئے آپ نے کیا فکر کی ہے؟ اندرونی یہ آفت اور بیرونی وہ مشکلات.بعض لوگ کہہ اٹھتے ہیں کہ خدا تعالی کی کامل کتاب ہم میں موجود ہے.اس کے ہوتے ہوئے اور کسی کی کیا ضرورت ہے؟ میں کہتا ہوں کہ اس کتاب ہی کو اگر پڑھتے تو یہ سوال ہر گز نہ کرتے.کیونکہ اس میں صاف لکھا ہے هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِينَ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آياته الحمودي كتاب چاہئے کتاب کا پڑھنے والا بھی تو ضروری ہے اور اس کے پڑھانے والا ایسا ہو جو مزکی النفس اور مطر القلب ہو.محمد رسول اللہ ابگم نہیں بلکہ سراً وجهراً خرچ کرنے والا خود محبوب ہو کر دوسروں کو محبوب بنانے والا.اسی طرح کتاب سکھ دینے والی ہے مگر اس کے لئے مز کی معلم کی ضرورت ہے.بدوں اس کے وہ کارگر نہیں ہو سکتی.یہ ضرورت ہے مامور من اللہ کی.میں بھی اپنی جگہ درس دے لیا کرتا ہوں اور گھر میں اور باہر آکر بھی قرآن پڑھتا رہتا ہوں.مگر کیا مزکی ہوں؟ تاکہ میں اپنے عملدرآمد کے رنگ میں دوسرے کو دکھا سکوں.نہیں، نہیں اور ہرگز نہیں.

Page 80

71 میسیج مر گئے.حضرت اقدس نے اس مسئلہ کی انتہا کر دی اور قرآن شریف سے اس کو ایسا ثابت کر دیا کہ اب دوسرا کیا لکھے گا.روایت کشی میں مرزا خدا بخش صاحب نے حد کر دی ہے.میں سوچنے لگا کہ مجھے کوئی نئی دلیل اس کے متعلق سمجھ میں آسکتی ہے.قرآن کو اٹھاتے ہی یہ بات ذہن میں آئی.اِنَّ مَثَلَ عيسى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ (ال عمران:۳) جہاں جہاں اس کو دیکھا تو مردوں کے جی اٹھنے پر آیا ہے.پھر آدم سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک کسی نبی کی وفات کا تذکرہ نہیں مگر مسیح کی وفات کا تذکرہ ہے.پھر مشکلات ہیں تو کیا ہیں؟ جواب ہے وہی اندرونی اور بیرونی مشکلات جو ابھی کہہ چکا ہوں.کل بیٹھے بیٹھے مجھے خیال آیا کہ ایسا نہ ہو عید تجھ کو پڑھانی پڑھے.جیسے مجددوں کی ضرورت ہے، اس لئے عید کے متعلق تیرے دل میں نئی نئی بات کیا آتی ہے.اس دھن میں کبھی فقہ کی کتابیں پڑھتا.کبھی احادیث کو دیکھتا.کبھی مختصرات پر نظر کر ہے.آخر میرے جی میں آیا کہ ان لوگوں کی کتابوں کو دیکھوں جو اخلاق اور ضروریات کو بیان کر سکتے ہیں.اس مطلب کے لئے میں نے ایک کتاب لی.۴۲ صفحوں اور وہ بھی بہت با یک سطروں میں عید کا ذکر تھا.میں اسے پڑھنے لگا تو دیکھا کہ لیے مباہشات ہیں جن کا کچھ پتہ نہ چلتا تھا.آخر میں نے کہا کہ چھوڑ دوں.پھر کہا شاید کچھ آگے لکھا ہو.اسی طرح پر ساری کتاب کو ختم کیا.آخر مجھے افسوس ہی ہوا کہ کس قدر وقت ضائع کیا.لیکن میری نیت چونکہ بخیر تھی اس لئے وہ افسوس جاتا رہا.لیکن مجھے یہ حیران کر دینے والا خیال پیدا ہوا کہ کس قدر مشکلات اس ایک عید کے معاملے میں ہیں.کوئی کہتا ہے کہ کس وقت نماز پڑھی جاوے.ایک رحمہ سورج نکل آیا ہو.کس وقت اس عشرہ میں تمجید ، تکبیر تقدیس، تسبیح اللہ کو پسند ہے اور ہر وقت خدا کی یاد کی جاوے.پھر یہ کہ دو رکعت نماز پڑھ لو.پھر بحث شروع کی کہ فرض عین ہے یا نہیں.مستحب ہے یا کیا؟ تکبیریں کتنی پڑھنی چاہئیں وغیرہ.کپڑوں، خطبوں کے متعلق کیا احکام ہیں.غرض ایک لمبا سلسلہ تھا.مجھے اس پر غور کرتے کرتے یہ معلوم ہوا کہ وہ مقدس دین جس کو اللہ تعالٰی نے بھیجا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے جس کو پہنچایا اس کا خلاصہ تو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان ہو.ملائکہ پر ایمان ہو.اس کے رسولوں پر ایمان ہو.اس کی کتابوں پر ایمان ہو.تقدیر پر ایمان ہو.ختم نبوت اور قیامت پر ایمان ہو اور ضرورت ہے کہ اس میں کچھ بھی کمی بیشی نہ - لیکن یہ ایزادی کی ہی بات تھی جو ۴۲ صفحے لکھ دیئے.اب اس کے حل کرنے والا بھی تو کوئی ہونا ہو.چاہیئے.ایک شیعہ نے مجھے خط لکھا کہ تم جو دین کی طرف متوجہ ہو یہ تو بتاؤ کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے خلیفہ

Page 81

72 ہونے کے دلائل جو آج تک سنیوں نے دیئے ہیں کیا ہیں اور ان پر شیعوں نے جو اعتراض کئے ہیں اور پھر ان کا جو جواب سنیوں نے دیا ہے اور ان سب پر اپنا فیصلہ لکھ دو.تم سمجھ سکتے ہو کہ تیرہ سو برس کا جھگڑا اور پھر خوارج بھی ساتھ.اعتراض اور جرح الگ، ان سب پر نظر.لکھنا آسان بات نہ تھی.میں نے کہا موٹی کریم ! تو نے اپنے فضل و کرم سے ایسے زمانہ میں پیدا کیا ہے کہ حکم عدل تو موجودہی ہے.کوئی راہ اس کے پرتو سے کھول دے.آخر میں نے یہ لکھ دیا کہ ہمارا انتخاب آخر غلط ہوتا ہے اس کو معزول کرنا پڑتا ہے.زندگی اور موت ہی ہمارے اختیار میں نہیں ہے.ممکن ہے کہ ایک کو منتخب کریں اور رات کو اس کی جان نکل جاوے.میرے استاد کہتے تھے.سعادت علی خاں نے کئی کروڑ روپیہ ہند کے واسطے انگریزوں کو دیا کہ اسے دے دیں.کہتے ہیں جب عملدرآمد کے لئے کاغذ پہنچے تو رات کو جان نکل گئی.یہ مشکلات ہیں جو ہمارے انتخاب درست نہیں ہو سکتے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ (النور (٥٢) یہ خدا تعالیٰ ہی کا کام ہے کہ کسی کو خلیفہ بنادے.پس کسی دلیل کی حاجت نہیں.تم سمجھتے ہو کہ بنی ہاشم نے بڑی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوئے.خدا نے جس کو بنانا تھا اس کو بنا دیا.اسی امت سے خلیفہ ہونا اور خلیفہ کا تقرر خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہونا ہی قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے اور اگر خلیفہ بننا بہت کتابوں کے پڑھ لینے پر ہوتا تو چاہئے تھا کہ میں ہو تا.میں نے بہت کتابیں پڑھی ہیں اور کثیر التعداد میرے کتب خانہ میں ہیں.مگر میں تو ایک آدمی پر بھی اپنا اثر نہیں ڈال سکتا.غرض خدا تعالیٰ کا وعدہ آپ ہی منتخب کرنے کا ہے.کون منتخب ہوتا ہے؟ اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ (الانعام: ۱۳۵).جو شخص خلافت کے لئے منتخب ہوتا ہے اس سے بڑھ کر دوسرا اس منصب کے سزاوار اس وقت ہرگز نہیں ہوتا.کیسی آسان بات تھی کہ خدا تعالی جس کو چاہے مصلح مقرر کر دے.پھر جن لوگوں نے خدا کے ان مامور کردہ منتخب بندوں سے تعلق پیدا کیا انہوں نے دیکھ لیا کہ ان کی پاک صحبت میں ایک پاک تبدیلی اندر ہی اندر شروع ہو جاتی ہے اور خدا تعالی کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط اور مستحکم کرنے کی آرزو پیدا ہونے لگتی ہے.دیکھو انسان عبث پیدا نہیں کیا گیا.اَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَنا (المومنون ) کیا تمہیں یہ خیال ہے کہ ہم نے تم کو عبث پیدا کیا ہے؟ ایسا خیال تمہارا غلط ہو گا.ہمارے حضور تم کو آنا ہو گا.جب تم عبث نہیں بنائے گئے تو پھر سوچو کہ تم کیوں بنائے گئے ہو.يأَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمْ لوگو اپنے رب کے فرمانبردار بن جاؤ.فرمانبرداری ضروری ہے.مگر کوئی

Page 82

73 فرمانبرداری بدوں فرمان کے نہیں ہو سکتی اور کوئی فرمان اس وقت تک عمل کے نیچے نہیں آتا جبتک کہ اس کی سمجھ نہ ہو.پھر اس فرمان کے سمجھنے کے لئے کسی معلم کی ضرورت ہے اور الہی فرمان کی سمجھ بدوں کسی مزکی اور مطہر القلب کے کسی کو نہیں آتی.کیونکہ لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعه :۸۰) خدا تعالیٰ کا حکم ہے.پس کیسی ضرورت ہے امام کی کیسی مزکی کی.میں تمہیں اپنی بات سناؤں.تمہارا کنبہ ہے میرا بھی ہے.تمہیں ضرورتیں ہیں.مجھے بھی آئے دن اور ضرورتوں کے علاوہ کتابوں کا جنون لگا رہتا ہے.مگر اس پر بھی تم کو وقت نہیں ملتا کہ یہاں آؤ.موقع نہیں ملتا کہ پاس بیٹھنے سے کیا انوار ملتے ہیں.فرصت نہیں ، رخصت نہیں.سنو! تم سب سے زیادہ کمانے کا ڈھب بھی مجھے آتا ہے.شہروں میں رہوں تو بہت سا روپیہ کما سکتا ہوں.مگر ضرورت محسوس ہوتی ہے بیمار کو.ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ کا زمانہ ہے.میرے لئے تو یہاں سے ایک دم بھی باہر جانا موت کے برابر معلوم ہوتا ہے.تم شائد دیکھتے ہوگے کہ یہاں کھیت لہلہا رہے ہیں.دنیا اپنے کاروبار میں اسی طرح مصروف ہے.مگر میرا ایک دوست لکھتا ہے کہ وہا کے باعث گاؤں کے گاؤں خالی ہو گئے ہیں.بے فکر ہو کر مت بیٹھو.خدا کے درد ناک عذاب کا پتہ نہیں کس وقت آپکڑے.غرض اس وقت سخت ضرورت ہے اس امر کی کہ تم اس شخص کے پاس بار بار آؤ جو دنیا کی اصلاح کے واسطے آیا ہے.تم نے دیکھ لیا ہے کہ جو شخص اس زمانہ میں خدا کی طرف سے آیا ہے وہ ابکم نہیں ہے بلکہ علی وجہ البصیرت تمہیں بلاتا ہے.تم چاہتے ہو کہ اشتہاروں اور کتابوں ہی کو پڑھ کر فائدہ اٹھالو اور انہیں ہی کافی سمجھو.میں سچ کہتا ہوں اور قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ہرگز نہیں.کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے بے فائدہ اپنے وطنوں اور عزیز و اقارب کو چھوڑا تھا.پھر تم کیوں اس ضرورت کو محسوس نہیں کرتے.کیا تم ہم کو نادان سمجھے ہو جو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں؟ کیا ہماری ضرورتیں نہیں ؟ کیا ہم کو روپیہ کمانا نہیں آتا؟ پھر یہاں سے ایک گھنٹہ غیر حاضری بھی کیوں موت معلوم ہوتی ہے.شائد اس لئے کہ میری بیماری بڑھی ہوئی ہو.دعاؤں سے فائدہ پہنچ جاوے تو پہنچ جاوے مگر صحبت میں نہ رہنے سے تو کچھ فائدہ نہیں ہو سکتا.مختلف اوقات میں آنا چاہئے.بعض دن ہنسی ہی میں گزر جاتا ہے اس لئے وہ شخص جو اسی دن آکر چلا گیا وہ کیا فائدہ اٹھا سکتا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب عورتوں میں بیٹھے ہوئے قصہ کر رہے ہوں گے اس وقت جو عورت آئی ہو گی تو حیران ہی ہو کر گئی ہو گی.غرض میرا مقصد یہ ہے کہ میں تمہیں توجہ دلاؤں کہ تم یہاں بار بار آؤ اور مختلف اوقات میں آؤ.

Page 83

74 میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ انسان عبث نہیں بنایا گیا اور اس کو خدا تعالیٰ کے حضور ضرور حاضر ہوتا ہے اور پھر یہ بھی بتایا ہے کہ انسان کی اصل غرض پیدا کرنے کی یہ ہے کہ وہ خدا کی عبادت کرے.اللہ تعالٰی کا فرمانبردار ہو.فرمانبرداری فرمان کے بغیر نہیں ہوتی اور فرمان کی تعمیل جب تک فرمان کی سمجھ نہ ہو نا ممکن ہے.خدا تعالی کا فرمان قرآن شریف ہے اور اس کی زبان عربی ہے.پس عربی زبان سے واقفیت پیدا کرو.پھر امام کی صحبت میں آکر رہو کیونکہ وہ مطر القلب ہے.قرآن شریف کا علم لے کر آیا ہے.ایک اور بات ہے جو انسان کو سچائی کے قبول کرنے سے روک دیتی ہے اور وہ تکبر ہے.خدا تعالٰی نے فرما دیا ہے کہ متکبر کو خدا تعالیٰ کی آیتیں نہیں مل سکتیں.کیونکہ تکبیر کی وجہ سے انسان تکذیب کرتا ہے اور جھٹلانے کے بعد صداقت کی راہ نہیں ملتی ہے.پہلے تکذیب کر چکتا ہے پھر انکار کرتا ہے.یاد رکھو مفتری کبھی بھی کامیاب نہیں ہوتا.إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِى مَنْ هُوَ مُسْرِفُ كَذَّابٌ (المومن (۲۹) پس اپنے اندر دیکھو کہ کہیں ایسا مادہ نہ ہو.کبھی کبھی انسان کی ایک بد عملی دوسری بد عملی کے لئے تیار کر دیتی ہے.خدا تعالیٰ سے بہت وعدہ کر کے خلاف کرنے والا منافق مرتا ہے.امام کے ہاتھ پر بڑا زبردست اور الشان وعدہ کرتے ہیں کہ دین کو دنیا پر مقدم کروں گا.اب سوچ کر دیکھو کہ کہاں تک اس وعدہ کی رعایت کرتے ہو اور دین کو مقدم کرتے ہو.جب قرآن شریف دیکھا ہے تو انبیا علیم السلام کی اجماعی تعلیم استغفار ہے.اس کے معنے ہیں اپنی غلطیوں اور ان کے بدنتائج سے بچنے کے لئے دعا کرنا.پہلے استغفار ہے.گذشتہ گناہوں کے بد نتائج اور آئندہ ان سے بچنے کی دعا.اس کے ذنوب سے بچنے کے لئے سعی اور مجاہدہ کرنا اور پھر امرالہی کی تعظیم کرنا اور نواہی سے اللہ تعالٰی کے جلال کو دیکھ کر ہٹ جانا اور ڈر جاتا ہے.قرآن شریف میں مطالعہ کرو کہ نابکار خدا تعالیٰ سے نہ ڈرنے والوں اور انبیاء علیہم السلام کا مقابلہ کرنے والے شریروں کا انجام کیا ہوا.کس طرح وہ ذلت کی مار سے ہلاک ہوئے.اللہ تعالٰی پر ایمان لاؤ اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں پر ختم نبوت پر تقدیر پر مسئلہ جزا و سزا پر.اس سب کے بعد رذائل سے بچنے اور فضائل کو حاصل کرنے کی بے تعداد ضرورت ہے.اور یہ بات حاصل ہوتی ہے کسی برگزیدہ انسان کی صحبت میں رہنے سے جس کو خدا نے اس ہی کام کے لئے مقرر کیا ہے.مشکلات آتی ہیں اور ضرور آتی ہیں.مگر مومن کا کام ہے کہ وہ خدا تعالیٰ پر کبھی بدظن اور اس سے مایوس نہیں ہوتا.مجھے اس آیت نے بڑا ہی مزا دیا ہے إِنَّهُ لَا يَايَنسُ مِنْ رَّوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ (یوسف: ۸۸).پس مجھے دیکھو کہ کتنی دیر سے کسی استقلال اور ہمت سے محض خدا کو راضی

Page 84

75 کرنے کے واسطے یہاں بیٹھا ہوں.مجھے بھی مشکلات ہیں.بعض دوست کہتے ہیں کہ تم الٹی ترقی کرتے ہو پر میں خود ہی سمجھتا ہوں کہ میری مرض گھٹ رہی ہے یا بڑھ رہی ہے.مشکلات ضرور ہوتے ہیں، تمہیں بھی آئیں گی.مگر اس بات کی کچھ پروا نہیں کرنی چاہئے کیونکہ ہم نے جس کو امام مامور من اللہ مانا ہے اور خدا کے فضل سے علی وجہ البصیرت مانا ہے اس کو خدا کے لئے مانا ہے.پس ہم کو تو اپنی فکر کرنے کی ضرورت ہے.یاد رکھو کہ مزکی کے پاس رہنے کے بغیر اصلاح نہیں ہو سکتی.علوم میں سے ہمیں ضرورت ہے اس بات کی کہ اسماء اللہ معلوم ہوں.خدا تعالٰی کے افعال کا علم ہو.ایمان کے معنے معلوم ہوں.کفر اور نفاق کی حقیقت معلوم کریں.ایک میرے بڑے پڑھے لکھے دوست نے کئی بار مجھ سے پوچھا ہے کہ عبادت کیا چیز ہے؟ پس جب اتنے بڑے علم کے بعد بھی ان کو مشکل پیش آئی تو وائے ان لوگوں پر جو مطلق بے خبر اور ناواقف ہیں.پرسوں یا اترسوں میں لِغَیر اللہ بہ پر کچھ کہہ رہا تھا کہ ایک بول اٹھا کہ تمہارے نزدیک سارے کافر ہو جاتے ہیں.پہلا الہام جو ہمارے سید و مولی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہو اوہ بھی رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا (طه:) کی دعا تعلیم ہوتی ہے.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ علم کی کس قدر ضرورت ہے.نیچے علوم کا مخزن قرآن شریف ہے تو دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن شریف کے پڑھنے اور سمجھ کر پڑھنے اور عمل کے واسطے پڑھنے کی بہت بڑی ضرورت ہے.اور یہ حاصل ہوتا ہے تقویٰ اللہ سے مامور من اللہ کی پاک صحبت میں رہ کر.یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی سلامتی، صدق نیت، شفقت علی خلق الله غاليت البعد عن الاغنیاء، آسانی جودت طبع، سادگی اور دور بینی کی صفات سے فائدہ پہنچاتے ہیں.ہوں.ایک اثر میں میں نے پڑھا ہے کہ نماز کی نسبت خطبہ چھوٹا ہو، اس لئے اب میں اس کو ختم کرنا چاہتا اولاد کے لئے ایسی تربیت کی کوشش کرو کہ ان میں باہم اخوت اتحاد جرات، شجاعت، خودداری شریفانہ آزادی پیدا ہو.ایک طرف انسان بناؤ دوسری طرف مسلمان ۲ 1 الحکم جلد ۵ نمبر ۲ ۳۱ مارچ ۱۹۰۱ء صفحہ ۷-۸) و (الحکم جلد ۵ نمبر ۱۳ ۱۰ اپریل ۱۹۰۱ء صفحه ۳ تا ۷) ا حکم جلد ۵ نمبر ۰۰۱۴ ۱۷ اپریل ۱۹۰۱ء صفحہ ۳-۴)

Page 85

ار مئی ۱۹۰۱ء 76 خطبه جمعه (ایڈیٹر "الحلم" کے اپنے الفاظ میں) وَ مَنْ تَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ ابْرَاهِيمَ حَنِيفاً وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (البقرة کی تلاوت کے بعد آپ نے فرمایا:.ہر ایک سلیم الفطرت انسان کے قلب میں اللہ تعالٰی نے یہ ایک بات محبت کے طور پر رکھ دی ہے کہ وہ ایک مجمع کے درمیان معزز ہو جاوے.گھر میں اپنے بزرگوں کی کوئی خلاف ورزی اس لئے نہیں کی جاتی کہ گھر میں ذلیل نہ ہوں.ہر ایک دنیا دار کو دیکھتے ہیں کہ محلہ داری میں ایسے کام کرتا ہے جن سے وہ با وقعت انسان سمجھا جاوے.شہروں کے رہنے والے بھی ہتک اور ذلت نہیں چاہتے.پھر اس مجمع میں جہاں اولین و آخرین جمع ہوں گے اس مقام پر جہاں انبیاء و اولیاء موجود ہوں گے وہاں کی ذلت کون عاقبت اندیش سلیم الفطرت گوارا کر سکتا ہے؟ کیونکہ عزت و وقعت کی ایک خواہش ہے جو انسان کی فطرت میں موجود ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ ایک نظیر کے ساتھ اس خواہش اور اس قاعدہ لو جس کے ذریعہ انسان معزز ہو سکتا ہے بیان کرتا ہے.نظیر کے طور پر جس شخص کا ذکر یہاں کیا گیا ہے اس کا نام ہے

Page 86

77 ابراہیم علیہ السلام.اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کو کیسی عزت دی، یہ اس نظارہ سے معلوم ہو سکتا ہے جو خدا نے فرمایا وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَهُ فِي الدُّنْيَا وَ إِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّلِحِينَ (البقرة:(۳) ہم نے اس کو برگزیدہ کیا دنیا میں اور آخرت میں بھی سنوار والوں سے ہو گا.اللہ تعالیٰ کے مکالمات کا شرف رکھنے والے شریعت کے لانے والے ہادی و رہبر بادشاہ اور اس قسم کے عظیم الشان لوگ ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے ہوئے.یہ ابراہیم علیہ السلام کی اولاد کے لئے نتیجہ دکھایا ہے.حضرت موسی ، حضرت داؤد ، حضرت مسیح علیہ السلام سب حضرت ابراہیم کی نسل سے تھے اور حضرت اسماعیل اور ہمارے سید و مولی ہادی کامل صلی اللہ علیہ وسلم اسی کی اولاد سے ہیں.ایک اور جگہ یہ بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ابراہیم اور اس کی اولاد کو بہت بڑا ملک دیا.مگر غور طلب امر یہ ہے کہ جڑ اس بات کی کیا ہے؟ کیا معنی.وہ کیا بات ہے جس سے وہ انسان اللہ تعالیٰ کے حضور برگزیدہ ہوا اور معزز ٹھہرایا گیا؟ قرآن کریم میں اس بات کا ذکر ہوا ہے جہاں فرمایا ہے.اِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ (البقرة :۱۳۲) جب ابراہیم کے رب نے اس کو حکم دیا کہ تو فرمانبردار بن جا تو حضرت ابراہیم عرض کرتے ہیں میں رب العالمین کا فرمانبردار ہو چکا.کوئی حکم نہیں پوچھا کہ کس کا حکم فرماتے ہو.کسی قسم کا بہل نہیں کیا.فرمانبرداری کے حکم کے ساتھ ہی معابول اٹھے کہ فرمانبردار ہو گیا.ذرا بھی مضائقہ نہیں کیا اور نہیں خیال کیا کہ عزت پر یا مال پر صدمہ اٹھانا پڑے گایا احباب کی تکالیف دیکھنی پڑیں گی.کچھ بھی نہ پوچھا.فرمانبرداری کے حکم کے ساتھ اقرار کر لیا کہ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِینَ.یہ ہے وہ اصل جو انسان کو خدا تعالیٰ کے حضور برگزیدہ اور معزز بنا دیتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا سچا فرمانبردار ہو جاوے.فرماں برداری کا معیار کیا ہے ؟ ایک طرف انسان کے نفسانی جذبات کچھ چاہتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے احکام کچھ.اور اب دیکھیں کہ آیا خدا تعالیٰ کے احکام کو انسان مقدم کرتا ہے یا اپنے نفسانی اغراض کو.ای طرح رسم و رواج عادات کسی کا دباؤ " حب جاہ رعایت قانون قومی ایک طرف کھینچتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا حکم ایک طرف.اس وقت دیکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے حکم کی طرف جھکتا ہے یا اس پر دوسرے امور کو ترجیح دیتا ہے.اب اگر اللہ تعالیٰ کے احکام کی قدر کرتا اور ان کو مقدم کر لیتا ہے تو یہی خدا کی فرمانبرداری ہے.وہ لوگ جو اولوا الا مر کہلاتے ہیں اور جن کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے ان کے لئے بھی ارشاد الہی یوں

Page 87

78 ہے.فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ النساء:1) یعنی اگر تم میں کسی امر کی نسبت تنازع ہو تو اس کا آخری فیصلہ اللہ اور اس کے رسول کی اتباع سے کر لو.یہی ایک سیدھی راہ ہے.مگر یہ یاد رکھو کہ اہل حق کے انکار کا مدار تمیز پر ہوتا ہے اس لئے اس سے دور رہو.ورنہ کیسی تعجب کی بات ہے کہ ہمارے سید و مولیٰ فرماتے ہیں کہ مَا كُنتُ بِدُعَا مِنَ الرُّسُلِ (الاحقاف:) میں کوئی نیا رسول تو نہیں آیا.آدم سے لے کر اب تک جو رسول آئے ہیں ان کو پہچانو.ان کی معاشرت، تمدن اور سیاست کیسی تھی اور ان کا انجام کیا ہوا ان کی صداقت کے کیا اسباب تھے ، ان کی تعلیم کیا تھی، ان کے اصحاب نے ان کو پہلے پہل کس طرح مانا ان کے مخالفوں اور منکروں کا چال چلن کیسا تھا اور ان کا انجام کیا ہوا؟ یہ ایک ایسا اصل تھا کہ اگر اس وقت کے لوگ اس معیار پر غور کرتے تو ان کو ذرا سی دقت پیش نہ آتی اور ایک مجدد مہدی، مسیح، مرسل من اللہ کے ماننے میں ذرا بھی اشکال نہ ہو تا.مگر اپنے خیالات ملکی اور قومی رسوم بزرگوں کے عادات کے ماننے میں تو بہت بڑی وسعت سے کام لیتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے ماموروں اور اس کے احکام کے لئے خدا کے علم اور حکمت کے پیمانہ کو اپنی ہی چھوٹی سی کھوپڑی سے ناپنا چاہتے ہیں.ہر ایک امام کی شناخت کے لئے یہ عام قاعدہ کافی ہے کہ کیا یہ کوئی نئی بات لے کر آیا ہے؟ اگر اس پر غور کرے تو تعجب کی بات نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ اصل حقیقت کو اس پر کھول دے.ہاں یہ ضروری ہے کہ اپنے آپ کو بیچ سمجھے اور تکبر نہ کرے ورنہ تکبر کا انجام یہی ہے کہ محروم رہے.پس انسان خدا کے غضب سے بچنے کے لئے ہر وقت دعا کرتا رہے.وہ دعا جس کے پڑھنے کے بغیر نماز نہیں ہوتی یہ ہے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ - صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ (الفاتحة) یعنی ہم کو صراط مستقیم دکھا جو ان لوگوں کی راہ ہے جن پر تیرا انعام ہوا.ان لوگوں کی راہ سے بچا جن پر تیرا غضب ہوا اور جو حق سے بیجا عداوت کرنے والے ہیں اور نہ ان لوگوں کی راہ جو گمراہ ہو گئے ہیں.مُنْعَمْ عَلَيْهِ گروہ کی شناخت کے لئے ایک آسان اور سہل راہ ہے.انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات احکام اور عملدرآمد اور ان کی زندگی کو ان کے ثبوتوں اور آخر انجام کو دیکھو.پھر ان کے حالات پر نظر کرو جنھوں نے مخالفت کی.غرض مامور من اللہ لوگوں کا گروہ ایک نمونہ ہوتا ہے.اس خواہش کے پورا کرنے کے قواعد بتانے کے لئے جو ہر انسان میں بطور حجت رکھی گئی ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ معزز ہو.خدا تعالیٰ کے حضور معزز وہی ہو سکتا ہے جو رب العالمین کا فرمانبردار ہو.یہ ایک دائگی سنت ہے جس میں تخلف نہیں ہو سکتا.اب ہم لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ ہم غور کر کے دیکھیں کہ ہم لباس عادات عداوت دوستی

Page 88

79 دشمنی ، غرض ہر رنج و راحت ہر حرکت و سکون میں کس پر عمل در آمد کرتے ہیں.کیا فرمانبرداری کی راہ ہے یا نفس پرستی کی؟ عام مسلمانوں اور عام غیر مذ ہب کے لوگوں کو دیکھو کہ اگر وہ جھوٹ بولتے ہیں تو کیا مسلمان ہو کر ایک مسلمان جھوٹ سے محفوظ ہے؟ غیر مذہب والے اگر نفس پرستیاں اور شہوت پرستیاں کرتے ہیں تو کیا مسلمانوں میں ایسے کام نہیں کرتے؟ اگر ان میں باہم تباغض اور تحاسد ہے تو کیا ہم میں نہیں ؟ اگر ان حالات میں ہم ان ہی کے مشابہ ہیں اور کوئی فرق اور امتیاز ہم میں اور ان میں نہیں ہے تو بڑی خطرناک بات ہے، فکر کرو.إِنَّ اللهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ (الرعد:) یاد رکھو خدا تعالیٰ کا مقرر کردہ قانون یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فیضان میں تبدیلی اسی وقت ہو سکتی ہے اور ہوتی ہے جب انسان خود اپنے اندر تبدیلی کرے.اگر ہم وہی ہیں جو سال گذشتہ اور پیوستہ میں تھے تو پھر انعامات بھی وہی ہوں گے لیکن اگر چاہتے ہو کہ ہم پر نئے نئے انعامات ہوں تو نئے نئے طریق پر تبدیلی کرو.خدا کی کتاب نے تصریح کردی ہے کہ کفر کیا ہوتا ہے کیونکر پیدا ہوتا ہے اور اس کا انجام کیا ہوتا ہے.ایمان کیا ہوتا ہے.اس کے نشان اور انجام کیا ہیں ؟ منافق اور مفتری کے انجام اور نشان کو بتا دیا ہے.پھر امام اور راستباز کی شناخت میں کیا وقت ہو سکتی ہے.آدم سے لے کر اس وقت تک ہزاروں ہزار مامور آئے ہیں.سب کے واقعات ایک ہی طرز اور رنگ کے ہیں.اگر تم اپنے آپ کو تکبر سے محفوظ کر لو تو شیطانی عمل دخل سے پاک ہو کر خدا کے فیضان کولے سکو گے.غرض حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خود بھی خدا تعالیٰ کی اطاعت کی اور انہی باتوں کی وصیت اپنی اولاد کو بھی کی اور یعقوب نے بھی یہی وصیت کی کہ اے میری اولاد! اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ایک عجیب دین کو پسند کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر وقت فرمانبرداری میں گزارو.چونکہ موت کا کوئی وقت معلوم نہیں ہے اس لئے ہر وقت فرمانبردار رہو تاکہ ایسی حالت میں موت آوے کہ تم فرمانبردار ہو.میری تحقیقات میں یہی بات آئی ہے کہ بچی تبدیلی کر کے اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی دعا کرے.اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے کہ وہ ایک پاک تبدیلی کریں.آمین ا حکم جلد ۵ نمبر ۱۹--- ۲۴/ مئی ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۰-۱۱)

Page 89

۲۲ نومبر ۱۹۰۱ء 80 خطبہ جمعہ ( خلاصه از ایڈیٹر الحکم ) تشہد، تعوذ اور تسمیہ کے بعد آپ نے سورۃ البقرہ کی آیات ۹ تا ۱۵ کی تلاوت فرمائی اور پھر فرمایا:.یہ آیتیں سورۃ بقرہ کے دوسرے رکوع کی ہیں.الحمد شریف میں خدا تعالٰی نے تین راہیں بتائی ہیں.ایک اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی راہ دوسرے مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ تیرے الضَّالِّينَ کی راہ.انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کے معنی خود قرآن شریف نے بتائے ہیں کہ وہ انبیاء اصدقاء شہداء اور صالحین کی جماعت ہے.انبیاء وہ رفیع الدرجات انسان ہوتے ہیں جو خدا سے خبریں پاتے ہیں اور مخلوق کو پہنچاتے ہیں.پھر وہ راستباز ہیں جو انبیاء کی تصدیق کرتے ہیں.اور پھر وہ لوگ ہیں جن کے لئے وہ باتیں گویا مشاہدہ میں آئی ہوئی ہیں اور پھر عام صالحین.اس گروہ کی تفسیر خدا تعالیٰ نے آپ ہی سورۃ بقرہ کے شروع میں بیان کر دی ہے کہ ہدایت کی راہ کیا ہے؟ وہ یہ کہ اللہ پر ایمان لائے.جزاء و سزا پر ایمان لاوے اور پھر اللہ ہی کی نیاز مندی کے لئے

Page 90

81 تعظیم لامر اللہ کے واسطے نمازوں کو درست رکھنا اور شفقت علی خلق اللہ کے واسطے جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کریں.پھر اس بات پر ایمان لاو میں کہ ہمیشہ خدا تعالیٰ سے تسلی اور تعلیم پا کر دنیا کی اصلاح کے لئے معلم اور مزکی آئے ہیں.یاد رکھو صرف علم تسلی بخش نہیں ہو سکتا جب تک معلم نہ ہو.بائیبل میں نصیحتوں کا انبار موجود ہے اور عیسائی بھی بغل میں کتاب لئے پھرتے ہیں.پھر اگر ایمان صرف کتابوں سے مل جاتا تو کیا کمی تھی.مگر نہیں ، ایسا نہیں.خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کو بھیجتا ہے جو يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ (الجمعة:٣) الجمعۃ:۳) کے مصداق ہوتے ہیں.ان مزکی اور مطہر لوگوں کی توجہ انفاس اور روح میں ایک برکت اور جذب ہوتا ہے جو ان کے ساتھ تعلق پیدا کرنے سے انسان کے اندر تزکیہ کا کام شروع کرتا ہے.یاد رکھو انسان خدا کے حضور نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ کوئی اس پر خدا کی آیتیں تلاوت کرنے والا اور پھر تزکیہ کرنے والا اور پھر علم اور عمل کی قوت دینے والا نہ ہو.تلاوت تب مفید ہو سکتی ہے کہ علم ہو اور علم تب مفید ہو سکتا ہے جب عمل ہو اور عمل تزکیہ سے پیدا ہوتا ہے اور علم معلم سے ملتا ہے.بہر حال مومنوں کا ذکر ہے کہ ان کو ایمان بالغیب کی ضرورت ہے جس میں حشر و نشر صراط جنت و نار سب داخل ہیں.یہ اس کا عقیدہ اول درست ہو جائے تو پھر نماز سے امرالہی کی تعظیم پیدا ہوتی ہے اور خدا کے دئے ہوئے میں سے خرچ کرنے سے شفقت علی خلق اللہ.پھر برہموؤں کی طرح نہ ہو جاوے جو الہام کی ضرورت محسوس نہیں کرتے بلکہ وہ اس بات پر ایمان لائے کہ خدا تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنا کلام اتارا اور آپ سے پہلے بھی اور آپ کے بعد بھی مکالمات الہیہ کا سلسلہ بند نہیں ہوا.یہ تو منعم علیہ گروہ کا ذکر ہے.اس کے بعد وہ لوگ مغضوب ہیں جو خدا کے ماموروں کے وجود اور عدم وجود کو برا سمجھ لیتے ہیں اور ان کے اندار اور عدم انذار کو مساوی جان لیتے ہیں اور پروا نہیں کرتے اور اپنے ہی علم و دانش پر خوش ہو جاتے ہیں.وہ خدا کے غضب کے نیچے آجاتے ہیں.یہی حال یہود کا ہوا.پھر تیسرا گروہ گمراہوں کا ہے جن کا ذکر ان آیات میں ہے جو میں نے پڑھی ہیں.اس کے کاموں میں دجل اور فریب ہوتا ہے.وہ اپنے آپ کو کلام الہی کا خادم کہتے ہیں مگر مَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ (البقرة :) بڑی بڑی تجارتیں کرتے ہیں مگر ہدایت کے بدلے تباہی خریدتے ہیں اور کوئی عمدہ فائدہ ان کی تجارت سے نہ ہوا.

Page 91

82 میرے دل میں بارہا یہ خیال آیا ہے کہ ایک تنکے پر بھی شے کا اطلاق ہوتا ہے اور وہی شے کا لفظ وسیع ہو کر خدا پر بھی بولا جاتا ہے.یاد رکھو منافق دو قسم کا ہوتا ہے.ایک یہ کہ دل میں کوئی صداقت نہیں ہوتی.وہ اعتقادی منافق ہو تا ہے.اس کا اعلیٰ سے اعلیٰ نمونہ عیسائیوں کا مذہب ہے.انجیل کی حالت کو دیکھو کہ اس کی اشاعت پر کس قدر سعی بلیغ کی جاتی ہے مگر یہ پوچھو کہ اس کتاب کے جملہ جملہ پر اعتقاد ہے؟ تو حقیقت معلوم ہو جائے گی.اس طرح پر میں دیکھتا ہوں کہ خدا کا خوف اٹھ گیا ہے.وہ دعوئی اور معاہدہ کہ ”دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا" قابل غور ہو گیا ہے.اب اپنے حرکات و سکنات، رفتار و گفتار پر نظر کرو کہ اس عہد کی رعایت کہاں تک کی جاتی ہے.پس ہر وقت اپنا محاسبہ کرتے رہو.ایسا نہ ہو کہ مَا هُمْ بِمُؤْمِنِینَ کے نیچے آجاؤ.منافق کی خدا نے ایک عجیب مثال بیان کی ہے کہ ایک شخص نے آگ جلائی مگروہ روشنی جو آگ سے حاصل کرنی چاہئے تھی وہ جاتی رہی اور ظلمت رہ گئی.رات کو جنگل کے رہنے والے درندوں سے بچنے کے واسطے آگ جلایا کرتے ہیں لیکن جب وہ آگ بجھ گئی تو پھر کئی قسم کے خطرات کا اندیشہ ہے.اسی طرح پر منافق اپنے نفاق میں ترقی کرتے کرتے یہاں تک پہنچ جاتا ہے اور اس کا دل ایسا ہو جاتا ہے کہ وہ حق کا گویا شنوا اور حق کا بینا نہیں رہتا.ایک شخص اگر راہ میں جاتا ہو اور سامنے ہلاکت کا کوئی سامان ہو وہ دیکھ کر بچ سکتا یا کسی کے کہنے سے بچ سکتا یا خود کسی کو مدد کے لئے بلا کر بچ سکتا ہے.مگر جس کی زبان ، آنکھ ، کان کچھ نہ ہو اس کا بچنا محال ہے.یا جوج ماجوج بھی آگ سے بڑے بڑے کام لے رہے ہیں مگر انجام وہی نظر آتا ہے.مومن کا کام ہے کہ جب دعویٰ کرے تو کر کے دکھاوے کہ عملی قوت کس قدر رکھتا ہے.عمل کے بدوں دنیا کا فاتح ہونا محال ہے.یاد رکھو کہ ہر ایک عظیم الشان بات آسمان سے ہی آتی ہے.یہ امر خدا کی سنت اور خدا کے قانون میں داخل ہے کہ امساک باراں کے بعد مینہ برستا ہے.سخت تاریکی کے بعد روشنی آتی ہے.اسی طرح پر فیج اعوج اور سخت کمزوریوں کے بعد ایک روشنی ضروری ہے.وہ شیطانی منصوبوں سے مل نہیں سکتی.بہتوں کے لئے اس میں ظلمت اور دکھ ہو اور ایک نمک کا تاجر جو اس میں جا رہا ہے اسے پسند نہ کرے.بہت سے لوگ روشنی سے فائدہ اٹھالیتے ہیں اور اکثر ہوتے ہیں جو اپنے کانوں میں انگلیاں دے لیتے ہیں مگر احمقوں کو اتنی خبر نہیں ہوتی کہ خدائی طاقت اپنا کام کر چکی ہوتی ہے.فرض یہ ہے کہ علم حاصل کرو اور پھر عمل کرو.علم کے لئے معلم کی ضرورت ہے.یہ دعوی کرنا کہ ہمارے پاس علم القرآن ہے

Page 92

83 صحیح نہیں ہے.ایک نوجوان نے ایسا دعویٰ کیا.ایک آیت کے معنے اس سے پوچھے تو اب تک نہیں بتا سکا.ہمارے ہادی کامل نبی کریم کو تو یہ تعلیم ہوتی ہے قُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْماً (طه:).تم بھی دعا کرو.یاد رکھو کہ اگر انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں سے ہو تو اور ترقی کرو اور کسی وجود کو جو خدا کی طرف سے آیا ہے اس کے وجود اور عدم وجود کو برابر نہ سمجھو.ظاہر و باطن مختلف نہ ہو.دنیا کو دین پر مقدم نہ کرو.بعض اوقات دنیا داروں کو دولت و عزت اندھا کر دیتی ہے.خدا کی برسات لگ گئی ہے.وہ اب بچے پودوں کو نشور نمارے گی اور ضرور دے گی.خدا کی ان ساری باتوں پر ایمان لا کر بچے معاہدہ کو یاد رکھو ایسا نہ ہو کہ إِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا (البقرة: ۱۵) ہی کے مصداق رہ جاؤ.اس کا اصل علاج استغفار ہے اور استغفار انسان کو ٹھوکروں سے بچانے والا ہے.ا حکم جلد ۵ نمبر ۴۳-۰-۲۴ نومبر ۱۹۰۱ء صفحه ۷-۸) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 93

جنوری ۱۹۰۲ء 84 خطبہ عید الفطر وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوحًا إِلى قَوْمِهِ فَقَالَ يُقَوْمِ اعْبُدُوا اللهَ مَا لَكُمْ مِّنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ أَفَلَا تَتَّقُونَ (المومنون (۲۴) کی تلاوت کے بعد آپ نے فرمایا:.یہ آیتیں جو میں نے تم کو سنائی ہیں یہ اس شخص کا قصہ ہے جو دنیا میں اصلاح الناس کے لئے بھیجا گیا تھا.اس کا نام نوح ہے، علیہ الصلوۃ والسلام.وہ ایک پہلا انسان ہے جو لوگوں کو آگاہ اور بیدار کرنے کے واسطے غفلت کے زمانہ میں آیا تھا.وہ ایک خطرناک ظلمت اور تاریکی کے دنوں میں نور اور ہدایت لے کر آیا تھا.یہ اسٹوریاں کہانیاں اور دل خوشکن قصے نہیں بلکہ عِبرَةٌ لا ولِي الْأَبْصَارِ صداقتیں ہیں ان اہل نظر کے لئے جن میں تذکرہ کا مادہ ہوتا ہے، جو فہم و فراست سے حصہ رکھتے ہیں.ان قصص میں بڑے بڑے مفید اور سود مند نصائح ہوتے ہیں.میں نے بجائے خود ان قصص سے بہت بڑا ذاکرہ اٹھایا ہے.ان میں یہ عظیم الشان (امور) قابل غور ہیں.اول : کسی مامور من اللہ کی کیونکر شناخت کر سکتے ہیں ؟ دوم : مامور من اللہ کیا پیش کرتے ہیں یا یوں کہو کہ وہ کیا تعلیم لے کر آتے ہیں یا یہ کہو کہ وہ خدا تعالی

Page 94

85 کے حضور سے کس غرض کے لئے مامور ہو کر آتے ہیں؟ سوم:.لوگ ان پر کس کس قسم کے اعتراض کرتے ہیں؟ یہ امور اس لئے پیش کئے ہیں تا کسی راستباز مامور من اللہ کی شناخت میں تمہیں کبھی کوئی دقت نہ ہو.یہی وجہ ہے کہ ہمارے سید و مولی باری کامل محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رسالت اور نبوت کو پیش کرتے ہوئے یہی فرمایا اور یہی آپ کو ارشاد ہوا.قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعَا مِنَ الرُّسُلِ (الاحقاف:) میں کوئی نیا رسول تو نہیں آیا ہوں.جو رسول پہلے آتے رہے ہیں ان کے حالات اور تذکرے تمہارے پاس ہیں ان پر غور کرو اور سبق سیکھو کہ وہ کیا لائے اور لوگوں نے ان پر کیا اعتراض کئے.کیا باتیں تھیں جن پر عملد رآمد کرنے کی وہ تاکید فرماتے تھے اور کیا امور تھے جن سے نفرت دلاتے تھے.پھر اگر مجھ میں کوئی نئی چیز نہیں ہے تو اعتراض کیوں ہے؟ کیا تمہیں معلوم نہیں ان کے معترضوں کا انجام کیا ہوا تھا؟ الغرض پہلے نبیوں کے جو قصص اللہ تعالیٰ نے بیان کئے ہیں ان میں ایک عظیم الشان غرض یہ بھی ہے کہ آئندہ زمانہ میں آنے والے ماموروں اور راستبازوں کی شناخت میں دقت نہ ہوا کرے.اس وقت میں نے نوح علیہ السلام کا قصہ آپ کو پڑھ کر سنایا ہے.سب سے پہلی بات جو اس میں بیان کی ہے و، یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا اصل وعظ اور ان کی تعلیم کا اصل مغز اور خلاصہ کیا ہوتا ہے.وہ خدا کے ہاں سے کیالے کر آتے ہیں اور کیا سنوانا چاہتے ہیں اور وہ یہ ہے.اُعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ الهِ غَيْرُهُ اَفَلَا تَتَّقُونَ اللہ جل شانہ کی کچی فرمانبرداری اختیار کرو اس کی اطاعت کرو اس سے محبت کرو اس کے آگے تذلل کرو اسی کی عبادت ہو اور اللہ کے مقابل میں کوئی غیر تمہارا مطاع، محبوب معبود مطلوب امید و بیم کا مرجع نہ ہو.اللہ تعالٰی کے مقابل تمہارے لئے کوئی دوسرا نہ ہو.ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کا حکم تمہیں ایک طرف بلاتا ہو اور کوئی اور چیز خواہ وہ تمہارے نفسانی ارادے اور جذبات ہوں یا قوم اور برادری (سوسائٹی) کے اصول اور دستور ہوں ، سلاطین ہوں، امراء ہوں، ضرور تیں ہوں، غرض کچھ ہی کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مقابل میں تم پر اثر انداز نہ ہو سکے.پس اللہ تعالیٰ کی اطاعت عبادت، فرمانبرداری، تذلل اور اس کی حب کے سامنے کوئی اور شے محبوب معبود مطلوب اور مطابع نہ ہو.یہ ایک صورت خدا تعالیٰ کے ساتھ ہڈ نہ بنانے کی اعتقادی طور پر ہے.دوسری صورت یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کا کوئی بد اور مقابل نہ ہو اسی طرح پر خدا تعالیٰ کی جس طرح پر عبادت کی جاتی ہے جس طرح اس کے احکام کی تعمیل اور اوامر کی تعظیم کی جاتی ہے، دوسرے کے احکام و اوامر کی ویسی

Page 95

86 اطاعت، دی تعمیل وی تعظیم اسی طرز و پنج پر امید و ڈر ہرگز نہ ہو اور کسی کو اس کا شریک نہ بتایا جاوے.جب انسان ان دونوں مرحلوں کو طے کر لیتا ہے یا یوں کہو کہ خدا تعالیٰ کی نافرمانی چھوڑتا اور اس کی اطاعت اور صرف اس کی اطاعت کرتا ہے تو پھر اس کا آخری مرتبہ یہ ہوتا ہے کہ وہ متقی ہو جاتا ہے.تمام دکھوں سے محفوظ ہو کر کچی راحتوں سے بہرہ ور ہوتا ہے.پس نوح نے آکر اپنی قوم کے سامنے وہی تعلیم پیش کی جو تمام راستبازوں کی تعلیم کا خلاصہ اور انبیاء اور رسل کی بعثت کی اصل غرض ہوتی ہے اور پھر انہیں کہا اَفَلَا تَتَّقُونَ تم کیوں متقی نہیں بنتے؟ یاد رکھو انسان کو جس قدر ضرورتیں پیش آسکتی ہیں، جس قدر خواہشیں اور امنگیں اسے کسی کی طرف کھینچ کر لے جاسکتی ہیں وہ سب تقولی سے حاصل ہوتی ہیں.متقی اللہ تعالیٰ کا محبوب ہوتا ہے.اور اللہ سے بڑھ کر انسان کسی دوست اور حبیب کی خواہش کر سکتا ہے.تقویٰ سے انسان خدا تعالیٰ کی "تولی" کے نیچے آتا ہے.متقی کے ساتھ اللہ ہوتا ہے.متقی کے دشمن ہلاک ہوتے ہیں.متقی کو اللہ تعالیٰ اپنی جناب سے تعلیم دیتا ہے.متقی کو ہر تنگی سے نجات ملتی ہے.اللہ تعالی متلی کو ایسی راہوں اور جگہوں سے رزق پہنچاتا ہے کہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا جیسا که ای حمید و مجید کتاب میں موجود ہے.إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ (التوبة») وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُتَّقِيْنَ الْحَالِيةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَالَّذِيْنَ هُمْ مُحْسِنُونَ (النحل) إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا (الانفال:۳۰) وَاتَّقُوا اللَّهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللهُ (البقرة: ۲۸۳) مَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ (الطلاق:۳۳).اب مجھے کوئی بتادے کہ انسان اس کے سوا اور چاہتا کیا ہے.اس کی تمام خواہشیں، تمام ضرورتیں ، تمام امنگیں اور ارادے ان سات ہی باتوں میں آ جاتی ہیں اور یہ سب متقی کو ملتی ہیں.پھر نوح ہی کے الفاظ بلکہ خدا تعالیٰ ہی کے ارشاد کے موافق میں آج تمہیں بھی کہتا ہوں اَفَلَا تَتَّقُونَ.تم کیوں متقی نہیں بنتے.اور تقویٰ کیا ہے؟ تقویٰ نام ہے اعتقادات صحیحہ اقوال صادقہ اعمال صالحہ علوم حقہ اخلاق فاضلہ ہمت بلند شجاعت استقلال، عفت حلم، قناعت، صبر کا.اور یہ شروع ہوتا ہے حسن ظن باللہ ، تواضع اور صادقوں کی محبت سے اور ان کے پاس بیٹھنے ، ان کی اطاعت سے.جبکہ تقویٰ کی ضرورت ہے تو راستبازوں اور ماموروں کا دنیا میں آنا ضرور ہوا اور ان کی تعلیم اور بعثت کا منشا اور مدعا یہی ہوا اور یہی تعلیم لے کر نوح آئے تھے اور انہوں نے قوم کو فرمایا.مگر نا عاقبت اندیش، جلد باز حیلہ ساز مخالفوں نے اس کے جواب میں کیا کہا ؟ فَقَالَ الْمَلَوا الَّذِيْنَ كَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ مَا هَذَا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ (المومنون (۲۵) نابکار اعدائے ملت ائمۃ الکفر نے کہا تو

Page 96

87 يه كما مَا هَذَا إِلا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ کہ یہ شخص جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہونے کا مدعی ہے کہتا ہے کہ تمہیں ظلمت سے نکالنے کے لئے میں بھیجا گیا ہوں.اس میں کوئی انوکھی اور نرالی بات تو ہے نہیں ہمارے تمہارے جیسا آدمی ہی تو ہے.پس یاد رکھو سب سے پہلا اعتراض جو کسی مامور من الله راستباز صادق انبیاء و رسل اور ان کے کے جانشین خلفاء پر کیا جاتا ہے وہ یہ ہوتا ہے کہ اس کو حقیر سمجھا جاتا ہے اور اپنی ہی ذات پر اس کو قیاس کر لیا جاتا ہے.ایک طرف وہ اس کے بلند اور عظیم الشان دعاوی کو سنتے ہیں کہ وہ کہتا ہے کہ میں خدا کی طرف سے آیا ہوں.خدا مجھ سے ہمکلام ہوتا ہے.اس کے ملائکہ مجھ پر اترتے ہیں.دوسری طرف وہ دیکھتے ہیں کہ وہی ہاتھ ، پاؤں، ناک، کان، آنکھ ، اعضاء رکھتا ہے.بشری حوائج اور ضرورتوں کا اسی طرح محتاج ہے جس طرح ہم ہیں اس لئے وہ اپنے ابنائے جنس میں بیٹھ کر یہی کہتے ہیں.يَأْكُلُ مِمَّا تَأكُلُونَ مِنْهُ وَيَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُونَ (المومنون (۳۴).پس اپنے جیسے انسان کی اطاعت و فرمانبرداری کر کے خسارہ اٹھاؤ گے.غرض اس قسم کے الفاظ اور قیاسات سے وہ مامور من اللہ کی تحقیر کرتے ہیں اور جو کچھ اپنے اندر رکھتے ہیں وہی کہتے ہیں.مگر انبیاء مرسل امور اور اصحاب شریعت کے بچے خلفاء اور جانشین انہیں کیا جواب دیتے ہیں.اِنْ نَّحْنُ إِلا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ (ابراهیم:(۳) اور کہتے ہیں.وَلَكِنَّ اللَّهَ يَمُنُّ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ (ابراهیم:) بیشک ہم تمہاری طرح بشر ہیں.تمہاری طرح کھاتے پیتے اور حوائج بشری کے محتاج ہیں.مگر یہ خدا کا احسان ہوا ہے کہ اس نے ہمیں اپنے مکالمات کا شرف بخشا ہے.اس نے ہمیں منتخب کیا ہے اور ہم میں ایک جذب مغناطیس رکھا ہے جس سے دوسرے کچے چلے آتے ہیں.خدا کی توحید کا پانی جو مایہ حیات ابدی ہے وہ ہمارے ہاں سے ملتا ہے اور لوگ خوش ہوتے ہیں.مگر بد کار انسان جس طرح اپنی بدیوں ، جہالتوں شہوات و جذبات کا اسیر و پابند ہو تا ہے دوسروں کو بھی اسی پر قیاس کرتا ہے اور ایک نامرادی پر دوسری نامرادی لاتا ہے.اور کہتے ہیں کہ يُرِيْدُ انْ يَتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ (المومنون:۲۵) یہ چاہتے ہیں کہ تم پر فضلیت حاصل کر لیں.دکان چل جاوے.اپنے اور اپنی اولاد کے لئے کچھ جمع کر لیں.یہ ان کی اپنی ہی ہوائے نفس ہوتی ہے جس میں دوسروں کو اسی طرح ملوث اور ناپاک خیال کرتے ہیں جیسے خود ہوتے ہیں.یہ خطرناک مرض ہے جس کو شریعت میں سوء ظن کہتے ہیں.بہت سے لوگ اس میں مبتلا ہیں اور ہزاروں قسم کی نکتہ چینیوں سے دوسروں کو ذلیل کرنا چاہتے ہیں اور اسے حقیر بنانے کی فکر میں ہیں.مگر یاد

Page 97

88 رکھو وَإِنْ عَاقَبْتُمْ (النحل :۱۳۷).عقاب کے معنے جو پیچھے آتا ہے.انسان جو بلاوجہ دوسرے کو بدنام کرتا ہے اور سوء ظن سے کام لے کر اس کی تحقیر کرتا ہے اگر وہ شخص اس بدی میں مبتلا نہیں جس بدی کا سوء ظن والے نے اسے مسم ٹھرایا ہے تو یہ یقینی بات ہے کہ سوء ظن کرنے والا ہر گز نہیں مرے گا جب تک خود اس بدی میں گرفتار نہ ہولے.پھر بتاؤ کہ سوء ظن سے کوئی کیا فائدہ اٹھا سکتا ہے.مت سمجھو کہ نمازیں پڑھتے ہو.عجیب عجیب خوابیں تم کو آتی ہیں یا تمہیں الہام ہوتے ہیں.میں کہتا ہوں کہ اگر یہ سوء ظن کا مرض تمہارے ساتھ ہے تو یہ آیات تم پر حجت ہو کر تمہارے ابتلا کا موجب ہیں.اس لئے ہر وقت ڈرتے رہو اور اپنے اندر کا محاسبہ کر کے استغفار اور حفاظت الہی طلب کرو.میں پھر کہتا ہوں کہ آیات اللہ جن کے باعث کسی کو رفعت شان کا مرتبہ عطا ہوتا ہے، ان پر تمہیں اطلاع نہیں وہ الگ رتبہ رکھتی ہیں.مگر وہ چیزیں جن سے خود رائی خود پسندی، خود غرضی، تحقیر، بد ظنی اور خطرناک بدظنی پیدا ہوتی ہے وہ انسان کو ہلاک کرنے والی ہیں.ایک ایسے انسان کا قصہ قرآن میں ہے جس نے آیات اللہ دیکھے مگر اس کی نسبت ارشاد ہوتا ہے.وَلَوْشِئْنَا لَرَفَعْنَهُ بِهَا وَلَكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ (الاعراف: ۱۷۷).اور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيْثِ (بخاری کتاب الوصاب) بدگمانیوں سے اپنے آپ کو بچاؤ ورنہ نہایت ہی خطرناک جھوٹ میں مبتلا ہو کر قرب الہی سے محروم ہو جاؤ گے.یاد رکھو حسن ظن والے کو کبھی نقصان نہیں پہنچتا.مگر بد ظنی کرنے والا ہمیشہ خسارہ میں رہتا ہے.غرض پہلا مرحلہ جو انبیاء علیہم السلام کے مخالفوں اور ان کی ذریت اور نوابوں کو پیش آیا وہ یہ تھا کہ اپنے آپ پر قیاس کیا.پھر یہ بدظنی کی کہ يُرِيْدُ اَنْ يَّتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ تم پر فضیلت چاہتا ہے.پس اس پہلی اینٹ پر جو ٹیڑھی رکھی جاتی ہے جو دیوار اس پر بنائی جاوے خواہ وہ کتنی ہی لمبی اور اونچی ہو کبھی مستقیم نہیں ہو سکتی اور وہ آخر گرے گی اور نیچے کے نقطہ پر پہنچے گی.سوء ظن کرنے والا نہ صرف اپنی جان پر ظلم کرتا ہے بلکہ اس کا اثر اس کی اولاد پر اعقاب پر ہوتا ہے اور وہ ان پر مصیبت کے پہاڑ گراتا ہے جن کے نیچے ہمیشہ راستبازوں کے مخالفوں کا سر کچلا گیا ہے.میں بار بار کہتا ہوں کہ یہ سوء ظن خطر ناک بلا ہے جو اپنے غلط قیاس سے شروع ہوتا ہے.پھر غلط نتائج نکال کر قوانین کلیہ تجویز کرتا ہے اور اس پر غلط ثمرات مترتب ہوتے ہیں اور آخر قوم نوح علیہ السلام کی طرح ہلاک ہو جاتا ہے.پھر اس سوء ظن سے تیسرا خیال اور غلط نتیجہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ لَوْ شَاءَ اللَّهُ لَانْزَلَ مَلَئِكَةً (المومنون:۲۵) اگر اس کو قرب الہی حاصل تھا، اگر یہ واقعی خدا کی طرف سے آیا تھا تو پھر کیوں خدا نے ملائکہ کو نہ بھیج دیا جو

Page 98

89 مخلوق کے دلوں کو کھینچ کر اس کی طرف متوجہ کر دیتے اور ان کو بھی مکالمات الہیہ سے مشرف کر کے یقین ولا دیتے؟ اس وقت بھی بہت سے لوگ ایسے موجود ہیں.میں اس نتیجہ پر ان خطوط کو پڑھ کر پہنچا ہوں جو کثرت سے میرے پاس آتے ہیں جن میں لکھا ہوا ہوتا ہے کہ کیا وجہ ہے ، ہم نے بہت دعائیں کیں توجہ کی اور کوئی ایسا رویا یا مکالمہ نہیں ہوا.پس ہم کیونکر جانیں کہ فلاں شخص اپنے اس دعوئی الہام میں سچا ہے؟ یہ ایک خطرناک غلطی ہے جس میں دنیا کا ایک بڑا حصہ ہمیشہ جتلا رہا ہے.حالانکہ انہوں نے کبھی بھی اپنے اعمال اور افعال پر نگاہ نہیں کی اور کبھی موازنہ نہیں کیا کہ قرب الہی کے کیا وسائل ہیں اور ان کے اختیار کرنے میں کہاں تک بچی محنت اور کوشش سے کام لیا ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ اگر مشیت حق میں یہ بات ہوتی تو وہ ملائکہ بھیجتا.یہ مثال ان لوگوں کی طرح ہے جیسے کوئی چھوٹا سا زمیندار جس کے پاس دو چار گھماؤں اراضی ہو اس کو نمبردار کے کہ محاصل ادا کرو اور وہ کہہ دے کہ تو میرے جیسا ہی ایک زمیندار ہے ، تجھ کو مجھ پر کیا فضیلت ہے؟ صرف اپنی عظمت اور شیخی جتانے کو محاصل مانگتا ہے اور ہمارا روپیہ مارنا چاہتا ہے.اگر کوئی بادشاہ ہو تا تو وہ خود آکر لیتا.وہ آپ کیوں نہیں آیا؟ مگر لَقَدِ اسْتَكْبَرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ وَعَتَوْ عُتُوا كَبِيرًا (الفرقان (۲۲) کیا بڑا بول بولا.نادان زمیندار بادشاہ کو طلب کرتا ہے.اسے معلوم نہیں کہ بادشاہ تو رہا ایک طرف اگر ایک معمولی سا چپڑاسی بھی آگیا تو وہ مار مار کر سر گنجا کر دے گا اور محاصل لے لے گا.اسی طرح ماموروں کے مخالف ایسے ہی اعتراض کیا کرتے ہیں.لیکن جب ملائکہ کا نزول ہو جاتا ہے پھر ان پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں جو انہیں یا تو چکنا چور کر دیتے ہیں اور یا وہ ذلیل و خوار حالت میں رہ جاتے ہیں اور یا منافقانہ رنگ میں شریک ہو جاتے ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تین قسم کے لوگ ہوئے تھے.ایک وہ جو سابق اول من المہا جرین تھے اور دوسرے وہ جو فتح کے بعد ملے.اور تیرے اس وقت جو رَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا النصر: ۳) کے مصداق تھے.اسی طرح جو لوگ عظمت و جبروت الہی کو پہلے نہیں دیکھ سکتے آخر ان کو داخل ہونا پڑتا ہے اور اپنی بودی طبیعت سے اپنے سے زبر دست کے سامنے مامور من اللہ کو ماننا پڑتا ہے اور بالآخر يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَّهُمْ صَاغِرُونَ (التوبة:۲۹) کے مصداق ہو کر رہنا پڑتا ہے.پھر اس سے ایک اور گندہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ جب ملائکہ بھی نہیں آتے تو ہمیں بھی الہام نہیں ہوتا کشف نہیں ہوتا.اور یہ دوکاندار بھی نہ سہی مگر یہ بھی تو دیکھیں کہ کیا ہمارے پیشوایان مذہب نے اس

Page 99

خطبات، نور 90 کو مان لیا ہے؟ وہ لوگ چونکہ اپنے نفس کے غلام اور اپنے جذبات کے تابع فرمان ہوتے ہیں اس لئے پھر کہہ دیتے ہیں کہ مَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي آبَائِنَا الْأَوَّلِينَ (القصص:۳۷) ہم نے یہ باتیں جو یہ بیان کرتا ہے اپنے آباء واجداد سے تو کبھی بھی نہیں سنی ہیں.جب کوئی مامور من اللہ آتا ہے تو نادان بد قسمتی سے یہ اعتراض بھی ضرور کرتے ہیں کہ یہ تو نئی نئی بدعتیں نکالتا ہے اور ایسی تعلیم دیتا ہے جس کا ذکر بھی ہم نے اپنے بزرگوں سے نہیں سنا.اس وقت بھی جب خدا کی طرف سے ایک مامور ہو کر آیا اور اس نے سنت انبیاء کے موافق ان بدعتوں اور مشرکانہ تعلیموں کو دور کرنا چاہا جو قوم میں بعد زمانہ کے باعث پھیل گئی تھیں تو ناعاقبت اندیش ناقدرشناس قوم نے بجائے اس کے کہ اس کی آواز پر آگے بڑھ کر لبیک کہتی اس کی مخالفت شروع کی اور نوح کی قوم کی طرح اس کی باتوں کو سن کر یہی کہا مَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي آبَائِنَا الْأَوَّلِينَ یہ سلف کے خلاف ہے.یہ اجماع امت کے مخالف ہے.فلاں بزرگ کے اقوال میں کہاں لکھا ہے ؟ فلاں مصنف کے مخالف ہے وغیرہ وغیرہ.یہی صدائیں ہمارے کان میں آرہی ہیں.ورنہ اگر غور کیا جاتا اور ذرا ٹھنڈے دل سے ان باتوں پر توجہ کی جاتی جو خدا کا مامور لے کر آیا تھا اور سنن انبیاء کے موافق اس کی تعلیم کو دیکھا جاتا تو آسانی کے ساتھ یہ عقدہ حل ہو سکتا تھا.مگر افسوس! ان نادانوں نے جلد بازی سے وہی کہا جو پہلے معترضوں اور مخالفوں نے کہا.میں سچ کہتا ہوں کہ قرآن شریف میں انبیاء ورسل کے مخالفوں کے اعتراضوں کو پڑھ کر مجھے بڑی عبرت ہوئی ہے اور خدا کے فضل سے میں اس مقام پر پہنچ گیا ہوں کہ میرے سامنے اب کسی نشان یا اعجاز کی ضرورت میرے ماننے کے لئے نہیں رہی.اس لئے تمہیں میں یہ اصول سمجھاتا ہوں کہ مامور من اللہ جب آتے ہیں تو کیا لے کر آتے ہیں اور ان پر کس قسم کے اعتراض کئے جاتے ہیں؟ میں نے بارہا معترضوں اور مخالفوں سے اب بھی پوچھا ہے کہ کوئی ایسا اعتراض کریں جو کسی نبی پر نہ کیا گیا ہو.مگر میں سچ کہتا ہوں کہ کوئی نیا اعتراض پیش نہیں کرتے.میں تعجب کرتا ہوں کہ آج جو لوگ حضرت اقدس کی مخالفت میں اٹھے ہیں ان کے معتقدات کا تو یہ حال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت کی اصل غرض اور قرآن شریف کی تعلیم کا خاص منشاء دنیا میں کچی توحید کا قائم کرنا تھا مگر لوگوں کو پوچھو تو وہ مسیح کو خالق مانتے ہیں كَخَلْقِ اللهِ شافی مانتے ہیں.عَالِمُ الْغَيْبِ یقین کرتے ہیں.مُحْسِنی اسے مانتے ہیں.حلال اور حرام ٹھہرانے والا اسے سمجھتے ہیں.قدوس وہ ہے.ساری دنیا کے راستبازوں حتی کہ اصفی الاصفیا سرور انبیاء صلی اللہ علیہ و سلم تک کو مس شیطان سے بری نہیں سمجھتے مگر مسیح کو بری کرتے ہیں.مسیح خلا میں ہے زندہ ہے مگر باقی سارے نبی فوت ہو چکے.اس کے آئندہ مرنے کے دلائل بھی بودے کمزور اور ایسے الفاظ پر

Page 100

91 مشتمل ہیں کہ ان پر بہت سے اعتراض ہو سکتے ہیں.غرض وہ کونسی صفت خدا میں ہے جو مسیح میں نہیں مانتے.اس پر بھی جو ایک خدا کے ماننے کی تعلیم دیتا ہے اور خدا کی عظمت و جلال کو اسی طرح قائم کرنا چاہتا ہے جیسے انبیاء کی فطرت میں ہوتا ہے، اس پر اعتراض کیا جاتا ہے اور اس کی تعلیم کو کہا جاتا ہے کہ سلف کے اقوال میں اس کے آثار نہیں پائے جاتے.افسوس! یہ لوگ اگر انبیاء علیہم السلام کی مشترکہ تعلیم کو پڑھتے اور قرآن شریف میں ماموروں کے قصص اور ان کے مخالفوں کے اعتراضوں اور حالات پر غور کرتے تو انہیں صاف سمجھ میں آجاتا کہ یہ وہی پرانی تعلیم ہے جو نوح، ابراہیم موسیٰ، عیسی علیم السلام اور سب سے آخر خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لے کر آیا تھا.اگر تعلیم پر غورنہ کر سکتے تھے تو ان اپنے اعتراضوں ہی کو دیکھتے کہ کیا یہ وہی تو نہیں جو اس سے پہلے ہر زمانہ میں ہر مامور پر کئے گئے ہیں.مگر افسوس تو یہ ہے کہ یہ قرآن شریف کو پڑھتے ہی نہیں.غرض یہ بھی ایک مرحلہ ہوتا ہے جو مامور من اللہ اور اس کے مخالفوں کو پیش آتا ہے اور اس زمانہ میں بھی پیش آیا.پھر یہ لوگ گھبرا اٹھتے ہیں اور لوگوں کو دین الہی کی طرف رجوع کرتا ہوا پاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ان کی مخالفتیں اور عداوتیں مامور کے حوصلے اور ہمت کو پست نہیں کر سکتی ہیں اور وہ ہر آئے دن بڑھ بڑھ کر اپنی تبلیغ کرتا ہے اور نہیں تھکتا اور درماندہ نہیں ہو تا اور اپنی کامیابی اور مخالفوں کی ہلاکت کی پیشگوئیاں کرتا ہے.جیسے نوح علیہ السلام نے کہا کہ تم غرق ہو جاؤ گے اور خدا کے حکم سے کشتی بنانے لگے تو وہ اس پر ہنسی کرتے تھے.نوح نے کیا کہا؟ إِن تَسْخَرُوا مِنَّا فَإِنَّا نَسْخَرُ مِنْكُمْ كَمَا تَسْخَرُونَ (عود ۱۳ اگر تم نہیں کرتے ہو تو ہم بھی ہنسی کرتے ہیں اور تمہیں انجام کا پتہ لگ جاوے گا کہ گندے مقابلہ کا کیا نتیجہ ہوا.اسی طرح پر فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کی تبلیغ سن کر کہا قَوْمُهُمَا لَنَا عبدُونَ (المومنون:۳۸) ان دونوں کی قوم تو ہماری غلام رہی ہے.هُوَ مَهِينٌ وَّلَا يَكَادُ يُبِينُ الز حرف ملا یہ کمینہ ہے اور بولنے کی اس کو مقدرت نہیں.اور ایسا کہا کہ اگر خدا کی طرف سے آیا ہے تو کیوں اس کو سونے کے کڑے اور خلعت اپنی سرکار سے نہیں ملا.غرض یہ لوگ اسی قسم کے اعتراض کرتے جاتے ہیں.اور جب اس کی انتھک کوششوں اور مساعی کو دیکھتے ہیں اور اپنے اعتراضوں کا اس کی ہمت اور عزم پر کوئی اثر نہیں پاتے بلکہ قوم کا رجوع دیکھتے ہیں تو پھر کہتے ہیں إِذْ هُوَ الَّا رَجُلٌ وجِنَّةٌ (المومنون (۳۴) میاں یہ وہی آدمی ہے.انسان جس قسم کی دحت لگاتا ہے اسی قسم کی رویا بھی ان کو ہو جاتی ہے.اس قسم کے خیالات کے اظہار سے وہ یہ کرنا چاہتے ہیں کہ تا خدا کی پاک اور کچی وحی کو ملتبس کریں.کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ جیسے رمال احمق، جفار گنڈے والے فال والے ایک سچائی کے ساتھ

Page 101

92 جھوٹ ملاتے ہیں اسی طرح اس سچائی کا بھی خون کریں.اس لئے کہہ دیتے ہیں کہ یہ دست کی باتیں ہیں.یہ وعدے اور یہ پیشگوئیاں اپنے ہی خیالات کا عکس ہیں.دوستوں کے لئے بشارتیں اور اعداء کے لئے انذار.یہ جنون کا رنگ رکھتے ہیں.عیسائی اور آریہ اب تک اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن شریف میں اپنے مطلب کی وحی بنا لیتے ہیں.اور دور کیوں جائیں اس وقت کے کم عقل مخالف بھی یہی کہتے ہیں.مگر ایک عجیب بات میرے دل میں کھٹکتی ہے کہ وہ کافر جو نوح علیہ السلام کے مقابل میں تھے انہوں نے یہ کہا فَتَرَبَّصُوا بِهِ حَتَّی حِيْنِ (المومنون (۲۶) چند روز اور انتظار کر لو.اگر یہ جھوٹا اور کاذب مفتری ہے تو خود ہی ہلاک ہو جاوے گا.مگر ہمارے وقت کے ناعاقبت اندیش اندھوں اور نادانوں کو اتنی بھی خبر نہیں اور ان میں اتنی بھی صلاحیت اور صبر نہیں جو نوح کے مخالفوں میں تھا.وہ کہتے ہیں فَتَرَبَّصُوا بِهِ حَتَّى حِيْنِ.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خوب سمجھتے تھے کہ کاذب کا انجام اچھا نہیں ہو تا.اس کی گردن پر جھوٹ سوار ہوتا ہے.خود اس کا جھوٹ ہی اس کی ہلاکت کے لئے کافی ہوتا ہے.مگر وہ لوگ کیسے کم عقل اور نادان ہیں جو اس سچائی سے بھی دور جاپڑے ہیں اور اس معیار پر صادق اور کاذب کی شناخت نہیں کر سکے.میرے سامنے بعض نادانوں نے یہ عذر پیش کیا ہے کہ مفتری کے لئے مہلت مل جاتی ہے.قطع نظر اس بات کے کہ ان کے ایسے بیہودہ دعویٰ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور آپ کی نبوت پر کس قدر حرف آتا ہے ، قطع نظر اس کے ان نادانوں کو اتنا معلوم نہیں ہو تا کہ قرآن کریم کی پاک تعلیم پر اس قسم کے اعتراف سے کیا حرف آتا ہے اور کیونکر انبیاء و رسل کے پاک سلسلہ پر سے امن اٹھ جاتا ہے؟ پوچھتا ہوں کہ کوئی ہمیں بتائے کہ آدم سے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک اور آپ سے لے کر اس وقت تک کیا کوئی ایسا مفتری گذرا ہے جس نے یہ دعوی کیا ہو کہ وہ خدا کی طرف سے مامور ہو کر آیا ہے.اور وہ کلام جس کی بابت اس نے دعوی کیا ہو کہ خدا کا کلام ہے، اس نے شائع کیا ہو اور پھر اسے مہلت ملی ہو.قرآن شریف میں ایسے مفتری کا تذکرہ یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک اقوال میں پاک لوگوں کے بیان میں اگر ہوا ہے تو دکھاؤ کہ اس نے تَقَوَّلَ عَلَى اللهِ کیا ہو اور بچ گیا ہو.میں دعوئی سے کہتا ہوں کہ وہ ایک مفتری بھی پیش نہ کر سکیں گے.مہلت کا زمانہ میرے نزدیک وہ ہے جبکہ مکہ میں اللہ تعالیٰ کا کلام نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر یوں نازل ہوا.لَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيْلِ - لا حَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِيْنِ - ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِيْنَ - فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِيْنَ (الحاقه ۲۵ تا ۳۸) اگر یہ رسول کچھ اپنی طرف سے بنالیتا اور کہتا کہ فلاں بات خدا نے میرے پر وحی کی ہے حالانکہ وہ اس کا اپنا کلام ہوتا نہ خدا کا تو ہم اسے دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے

Page 102

93 اور پھر اس کی رگ جان کاٹ دیتے اور کوئی تم میں سے اس کو بچانہ سکتا.کیسا صاف اور سچا معیار ہے کہ مفتری کی سزا ہلاکت ہے اور اسے کوئی مہلت نہیں دی جاتی.یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کی کیسی روشن دلیل اور ہر صادق مامور من اللہ کی شناخت کا کیسا خطا نہ کرنے والا معیار ہے.مگر اس پر بھی نادان کہتے ہیں کہ نہیں.مفتری کو مہلت مل جاتی ہے.یہ آیت مکہ میں نازل ہوئی.اب کیا مشکل ہے جو ہم اس زمانہ کو جو مفتری کے ہلاک ہونے اور راستباز کے راستباز ٹھہرائے جانے پر بطور معیار ہو سکتا ہے سمجھ لیں اس آیت کے نزول کا وقت صاف بتاتا ہے مگر اندھوں کو کون دکھا سکے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جبکہ جامع جمیع کمالات تھے آپ کی امت ان تمام برکات اور فیوض کی جامع ہے جو پہلی امتوں پر انفرادی طور پر ہوئے.اور آپ کے اعداء ان تمام خسرانوں کے جامع جو پہلے نبیوں کے مخالفوں کے حصہ میں آئے.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب سورۃ الشعراء میں ہر نبی کا قصہ بیان فرماتا ہے تو اس کے بعد فرماتا ہے إِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ (الشعراء:1) له غرض یہ آیت لو تقول والی ہر ایک مفتری اور صادق مامور من اللہ میں امتیاز کرنے والی اور صادق کی صداقت کا کامل معیار ہے.لیکن اگر کوئی نادان یہ کہے کہ اس سے تاریخ کا پتہ کیونکہ لگائیں اور میعاد مقررہ کیونکر معلوم ہو ؟ میں کہتا ہوں ان امور کے لئے اسی قدر کافی ہے کہ یہ آیت مکی ہے.اگر اس پر بھی کوئی یہ کہے کہ مکی اور مدنی آیتوں کا تفرقہ مشکلات میں ڈالتا ہے اور اصطلاحات میں اب تک بھی اختلافات چلا آتا ہے تو میں کہتا ہوں اس سے بھی ایک آسان تر راہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تم اس آیت کو آخری آیت ہی تجویز کر لو.پھر بھی تم کو مانا پڑے گا کہ تئیس برس تک خیر الرسل صلی اللہ علیہ و سلم کی صداقت ، عظمت و جبروت عزت وجاہت تائید و نصرت دشمن کے خسران کے لئے ایک فیصلہ کن امر ہے.اب بتاؤ کہ کیا حجت باقی رہی؟ مکی مدنی کا فیصلہ نہ کرو.اصطلاحات کے تفرقہ میں نہ پڑو.اس تیکس سال کی عظیم الشان کامیابیوں کا کیا جواب دو گے.پس بہر حال ماننا پڑے گا کہ اس قدر عرصہ دراز تک جو چوتھائی صدی تک پہنچتا ہے اللہ تعالیٰ مفتری کو مہلت نہیں دیتا.ایک راستباز کی صداقت کا پتہ اس کے چہرہ سے اس کے چال چلن سے اس کی تعلیم سے ان اعتراضوں سے، جو اس پر کئے جاتے ہیں، اس کے ملنے والوں سے لگ سکتا ہے.لیکن اگر کوئی نادان ان امور سے پتہ نہ لگا سکے تو آخر تئیس سال کی کافی مہلت اور اس کی تائیدیں اور نفرتیں ، اس کی سچائی پر مہر کر دیتی ہیں.میں جب اپنے زمانہ کے راستباز کے مخالفوں اور حضرت نوح علیہ السلام کے مخالفوں کے حالات پر غور کرتا ہوں تو مجھے اس زمانہ

Page 103

94 کے مخالفوں کی حالت پر بہت رحم آتا ہے کہ یہ ان سے بھی جلد بازی اور شتاب کاری میں آگے بڑھے ہوئے ہیں.وہ نوح علیہ السلام کی تبلیغ اور دعوت کو سن کر اعتراض تو کرتے ہیں مگر ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیتے ہیں فَتَرَبَّصُوا بِهِ حَتَّى حِيْنِ (المومنون (۲۶) چندے اور انتظار کر لو.مفتری ہلاک ہو جاتا ہے.اس کا جھوٹ خود اس کا فیصلہ کر دے گا.مگر یہ شتاب کار نادان اتنا بھی نہیں کہہ سکتے.العجب! ثم العجب!! غرض جب ان شریروں کی شرارت اور تکذیب حد سے گزر گئی تو چونکہ مامور من اللہ بھی انسان ہی ہوتا ہے، اعداء کی تکذیب اور نہ صرف تکذیب بلکہ مختلف قسم کی تکالیف خود اسے اور اس کے احباب کو دی جاتی ہیں تو وہ بے اختیار ہو کر لَوْ كَانَ الْوَبَاءُ المُتَبر کہہ اٹھتا ہے.ایسی حالت میں حضرت نوح علیہ السلام نے بھی کہا رَبِّ انْصُرْنِي بِمَا كَذَّبُونِ (المومنون (۲۷) اے میرے موٹی ! میری مدد کر.میری ایسی تکذیب کی گئی ہے جس کا تو عالم ہے.جب معاملہ اس حد تک پہنچا تو خدا کی وحی یوں ہوتی ہے.انِ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَ وَحْيِنَا (المومنون:۲۸) ہماری وحی کے موافق ہماری نظر کے نیچے ایک کشتی تیار کرو اور اپنے ساتھ والوں کو بھی ساتھ لے لو تو ہم تم کو اور تمہارے ساتھ والوں کو بچالیں گے اور شریر مخالفوں کو غرق کر دیں گے.چنانچہ حضرت نوح نے ایک کشتی تیار کی اور اپنی جماعت کو لے کر اس میں سوار ہوئے.خدا کا غضب پانی کی صورت میں نمودار ہوا.وہی پانی حضرت نوح کی کشتی کو اٹھانے والا ٹھرا اور اسی نے طوفان کی صورت اختیار کر کے مخالفوں کو تباہ کر دیا اور نتیجہ نے حضرت نوح علیہ السلام کی سچائی پر مہر کر دی.غرض یہ آسان پہچان ہے راستباز کی.تمہیں چونکہ اور بھی بہت سے کام ہوں گے میں خطبہ کو ختم کرنا چاہتا ہوں اور پھر مختصری بات کہہ کر آگاہ کرتا ہوں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو اپنی خاص حفاظتوں میں لاتا ہے، ارضی بیماریوں اور دکھوں سے بچاتا ہے، آسمانی مشکلات سے بھی محفوظ رکھتا ہے اور اس کی نصرت فرماتا ہے اسی طرح وہ لوگ جو بچے طور سے اس کا ساتھ دیتے ہیں یا یوں کہو کہ ان کے رنگ میں رنگین ہو کر وہی بن جاتے ہیں، سچا تقویٰ اور حقیقی ایمان حاصل کرتے ہیں اور مامور کا ادھورا نمونہ بھی بن جاتے ہیں تو مقتدا کی عظمت و ترقی اور نصرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ ان کو بھی شریک کرلیتا ہے.جو لوگ حضرت اقدس کے رات کے وعظ میں شریک تھے، ان کو معلوم ہو گا اور جو بد قسمتی سے نہیں پہنچے ان کو میں ایک جملہ میں اس کا مغز اور خلاصہ بتا دیتا ہوں کہ انسان سچا متقی، سچا مومن اور خدا کے حضور راستباز تب ٹھہرتا ہے جب وہ دین کو دنیا پر مقدم کرلے.یہ چھوٹی بات نہیں.کہنے کو بہت مختصر مگر حقیقت میں تمام نیکیوں کی جامع اور تمام اعمال حسنہ پر مشتمل.

Page 104

95 یاد رکھو کبھی کسی گناہ کو چھوٹا اور حقیر نہ سمجھو.چھوٹے سے چھوٹے گناہ سے انسان ایک خطر ناک اور گھیر لینے والے گناہ میں گرفتار ہو جاتا ہے.تمہیں معلوم نہیں یہ پہاڑ چھوٹے چھوٹے ذرات سے بنے ہیں.یہ عظیم الشان بڑ کا درخت ایک بہت ہی چھوٹے سے بیج سے بنا ہے.بڑے بڑے اجسام ان ہی باریک ایٹمز و ذرات سے بنے ہیں جو نظر بھی نہیں آتے.پھر گناہ کے بیج کو کیوں حقیر سمجھتے ہو ؟ یاد رکھو! چھوٹی چھوٹی بدیاں جمع ہو کر آخر پیس ڈالتی ہیں.انسان جب چھوٹا سا گناہ کرتا ہے تو اس کے بعد اور گناہ کرتا ہے.یہاں تک کہ خدا تعالی کی حد بندی کو توڑ کر نکل جاتا ہے جس کا نام کبیرہ ہوتا ہے اور پھر راستبازوں کے قتل کی جرات کر بیٹھتا ہے.اسی طرح پر ادنی سی نیکی اگر کرو تو اس سے ایک نور معرفت پیدا ہوتا ہے.نیکی اور بدی کی شناخت کا انحصار ہے قرآن شریف کے علم پر.اور وہ منحصر ہے بچے تقویٰ اور سعی پر.چنانچہ فرمایا وَاتَّقُوا اللَّهَ وَ يُعَلِّمُكُمُ الله (البقره: ۳۸۳).اور فرمایا وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنكبوت:-)- جب اللہ تعالیٰ میں ہو کر انسان مجاہدہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی راہیں اس پر کھول دیتا ہے.پھر بچے علوم سے معرفت نیکی اور بدی کی پیدا ہوتی ہے اور خدا کی عظمت و جبروت کا علم ہوتا ہے اور اس سے کچی خشیت پیدا ہوتی ہے.اِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ (فاضر (۲۹).یہ خشیت بدیوں سے محفوظ رہنے کا ایک باعث ہوتی ہے اور انسان کو متقی بناتی ہے اور تقویٰ سے محبت الہی میں ترقی ہوتی ہے.پس خشیت سے گناہ سے بچے اور محبت سے نیکیوں میں ترقی کرے ، تب بیڑا پار ہوتا ہے اور مامور من اللہ کے ساتھ ہو کر اللہ تعالیٰ کے غضبوں سے جو زمین سے یا آسمان سے نکلتے ہیں محفوظ ہو جاتا ہے.یہ بات کہ دین کو ہم نے دنیا پر مقدم کیا ہے یا نہیں ہم کو واجب ہے کہ ہم اپنے تمام معاملات میں، دین کے ہوں یا دنیا کے متعلق ہوں یا مال کے متعلق ہر وقت سوچتے اور پر کھتے رہیں اور اپنا محاسبہ آخرت کے محاسبہ سے پہلے آپ کریں.اور جب خدا کی راہ میں قدم اٹھایا جاتا ہے تو معرفت کا نور ملتا ہے.پس کوشش کرو، استغفار کرو اور جس درخت کے ساتھ تم نے اپنا آپ پیوند کیا ہے اس کے رنگ میں رنگین ہو کر قدم اٹھاؤ.اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا.ہم.له (الحکم جلد نمبر ۲-۷۰۰ار جنوری ۱۹۰۲ء صفحه ۸ تا ۱۰) و الحکم جلد نمبر ۳--- ۲۴/ جنوری ۱۹۰۲ء صفحہ ۶۴۵) الحکم جلد ۶ نمبر ۴-۰-۳۱ / جنوری ۱۹۰۲ء صفحہ ۷۶)

Page 105

۳۱ جنوری ۱۹۰۲ء 96 خطبہ جمعہ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَ الْفَتْحُ - وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا - فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ اسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا - (النصر : ۲ تا ۴) یہ ایک مختصر اور چھوٹی سی سورۃ قرآن شریف کے آخری حصہ میں ہے.مسلمانوں کے بچے علی العموم نمازوں میں اسے پڑھتے ہیں.اس پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے اور اس کی جناب میں قدم صدق پیدا کرنے کے لئے اور اپنی عزت و آبرو کو دنیا و آخرت میں بڑھانے کے واسطے انسان کو مختلف اوقات میں مختلف موقعے ملتے ہیں.ایک وہ وقت ہوتا ہے کہ جب دنیا میں اندھیر ہوتا ہے اور ہر قسم کی غلطیاں اور غلط کاریاں پھیلی ہوئی ہوتی ہیں.خدا کی ذات پر شکوک ، اسماء الہیہ میں شبہات، افعال اللہ سے بے اعتنائی اور مسابقت فی الخیرات میں غفلت پھیل جاتی ہے اور ساری دنیا پر غفلت کی تاریکی چھا جاتی ہے.اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا کوئی برگزیدہ بندہ اہل دنیا کو خواب غفلت سے بیدار کرنے اور اپنے مولیٰ کی عظمت و جبروت دکھانے “ اسماء الہیہ و افعال اللہ سے

Page 106

97 آگاہی بخشنے کے واسطے آتا ہے تو ایک کمزور انسان تو ساری دنیا کو دیکھتا ہے کہ کس رنگ میں رنگین اور کس دھن میں لگی ہوئی ہے اور اس مامور کی طرف دیکھتا ہے کہ وہ سب سے الگ اور سب کے خلاف کہتا ہے.کل دنیا کے چال چلن پر اعتراض کرتا ہے.نہ کسی کے عقائد کی پروا کرتا ہے نہ اعمال کا لحاظ.صاف کہتا ہے کہ تم بے ایمان ہو اور نہ صرف تم بلکہ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم:۳۳) سارے دریاؤں، جنگلوں ، بیابانوں، پہاڑوں اور سمندروں اور جزائر غرض ہر حصہ دنیا پر فساد مچا ہوا ہے.تمہارے عقائد صحیح نہیں.اعمال درست نہیں.علم بودے ہیں.اعمال نا پسند ہیں.قومی اللہ تعالیٰ سے دور ہو کر کمزور ہو چکے ہیں.کیوں؟ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِى النَّاسِ (الروم:۳۲) تمہاری اپنی ہی کرتوتوں سے.پھر کہتا ہے دیکھو میں ایک ہی شخص ہوں اور اس لئے آیا ہوں کہ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا (الروم:۴) لوگوں کو ان کی بد کرتوتوں کا مزہ چکھا دیا جاوے.بہت سی مخلوق اس وقت ایسی ہوتی ہے کہ ان کے عدم اور وجود کو برابر سمجھتی ہے اور بہت سے ایسے ہوتے ہیں کہ بالکل غفلت ہی میں ہوتے ہیں.انھیں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ کیا ہو رہا ہے؟ اور کچھ مقابلہ و انکار پر کھڑے ہو جاتے ہیں.اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ اپنی عظمت و جبروت دکھانا چاہتا ہے.وہ ان لوگوں کے مقابلہ میں جو مال و دولت کنبہ اور دوستوں کے لحاظ سے بہت ہی کمزور اور ضعیف ہوتے ہیں.بڑے بڑے رؤسا اور اہل تدبیرلوگوں کے مقابلہ میں ان کی کچھ ہستی ہی نہیں ہوتی.یہ اس مامور کے ساتھ ہو لیتے ہیں.ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یعنی ضعفاء سب سے پہلے ماننے والے کیوں ہوتے ہیں؟ اس لیے کہ اگر وہ اہل دول مان لیں تو ممکن ہے خود ہی کہہ دیں کہ ہمارے ایمان لانے کا نتیجہ کیا ہوا؟ دولت کو دیکھتے ہیں، املاک پر نگاہ کرتے ہیں، اپنے اعوان و انصار کو دیکھتے ہیں تو ہر بات میں اپنے آپ کو کمال تک پہنچا ہوا دیکھتے ہیں اس لئے خدا کی عظمت و جبروت اور ربوبیت کا ان کو علم نہیں آسکتا.لیکن جب ان ضعفاء کو جو دنیوی اور مادی اسباب کے لحاظ سے تباہ ہونے کے قابل ہوں عظیم الشان انسان بنا دے اور ان رؤسا اور اہل دول کو ان کے سامنے تباہ اور ہلاک کر دے تو اس کی عظمت و جلال کی چمکار صاف نظر آتی ہے.غرض یہ سر ہوتا ہے کہ اول ضعفاء ہی ایمان لاتے ہیں.اس دبدھا کے وقت جبکہ ہر طرف سے شور مخالفت بلند ہوتا ہے خصوصاً بڑے لوگ سخت مخالفت پر اٹھے ہوئے ہوتے ہیں کچھ آدمی ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے چن لیتا ہے اور وہ اس راستباز کی اطاعت کو نجات کے لئے غنیمت اور مرنے کے بعد قرب الہی کا ذریعہ سمجھتے ہیں.اور بہت سے مخالفت کے لئے اٹھتے ہیں جو اپنی مخالفت کو انتہا تک پہنچاتے ہیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت

Page 107

98 اور مدد آجاتی ہے اور زمین سے آسمان سے دائیں سے بائیں سے غرض ہر طرف سے نصرت آتی ہے اور ایک جماعت تیار ہونے لگتی ہے.اس وقت وہ لوگ جو بالکل غفلت میں ہوتے ہیں اور وہ بھی جو پہلے عدم و وجود مساوی سمجھتے ہیں آآکر شامل ہونے لگتے ہیں.وہ لوگ جو سب سے پہلے ضعف و ناتوانی اور مخالفت شدیدہ کی حالت میں آکر شریک ہوتے ہیں ان کا نام سابقین اولین مہاجرین اور انصار رکھا گیا.مگر ایسے فتوحات اور نصرتوں کے وقت جو آکر شریک ہوئے ان کا نام ”ناس" رکھا ہے.یاد رکھو جو پودا اللہ تعالی لگاتا ہے اس کی حفاظت بھی فرماتا ہے یہاں تک کہ وہ دنیا کو اپنا پھل دینے لگتا ہے لیکن جو پورا احکم الحاکمین کے خلاف اس کے منشاء کے موافق نہ ہو اس کی خواہ کتنی ہی حفاظت کی جاوے وہ آخر خشک ہو کر تباہ ہو جاتا ہے اور ایندھن کی جگہ جلایا جاتا ہے.پس وہ لوگ بہت ہی خوش قسمت ہیں جن کو عاقبت اندیشی کا فضل عطا کیا جاتا ہے.اس سورۃ شریفہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انجام کو ظاہر کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ اللہ کی تسبیح کرو اس کی ستائش اور حمد کرو اور اس سے حفاظت طلب کرو.استغفار یا حفاظت الہی طلب کرنا ایک عظیم الشان سر ہے.انسان کی عقل تمام ذرات عالم کی محیط نہیں ہو سکتی.اگر وہ موجودہ ضروریات کو سمجھ بھی لے تو آئندہ کے لئے کوئی فتویٰ نہیں دے سکتی.اس وقت ہم کپڑے پہنے کھڑے ہیں.لیکن اگر اللہ تعالیٰ ہی کی حفاظت اور فضل کے نیچے نہ ہوں اور محرقہ ہو جاوے تو یہ کپڑے جو اس وقت آرام دہ اور خوش آئند معلوم ہوتے ہیں ناگوار خاطر ہو کر موذی اور مخالف طبع ہو جادیں اور وبال جان سمجھ کر ان کو اتار دیا جاوے.پس انسان کے علم کی تو یہ حد اور غایت ہے.ایک وقت ایک چیز کو ضروری سمجھتا ہے اور دوسرے وقت اسے غیر ضروری قرار دیتا ہے.اگر اسے یہ علم ہو کہ سال کے بعد اسے کیا ضرورت ہوگی، مرنے کے بعد کیا ضرورتیں پیش آئیں گی تو البتہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ بہت کچھ انتظام کر لے لیکن جب کہ قدم قدم پر اپنی لاعلمی کے باعث ٹھوکریں کھاتا ہے پھر حفاظت الہی کی ضرورت نہ سمجھنا کیسی نادانی اور حماقت ہے.یہ صرف علم ہی تک بات محدود نہیں رہتی.دوسرا مرحلہ تصرفات عالم کا ہے وہ اس کو مطلق نہیں.ایک ذرہ پر اسے کوئی تصرف و اختیار نہیں.غرض ایک بے علمی اور بے بسی تو ساتھ تھی ہی پھر بد عملیاں ظلمت کا موجب ہو جاتی ہیں.انسان جب اولا گناہ کرتا ہے تو ابتدا میں دل پر غین ہوتا ہے پھر وہ امر بڑھ جاتا ہے اور رین کہلاتا ہے.اس کے بعد مہر لگ جاتی ہے.یہ چھاپا مضبوط ہو جاتا ہے.قفل لگ جاتا ہے.پھر یہاں تک نوبت پہنچتی ہے کہ بدی سے پیار اور نیکی سے نفرت کرتا ہے.خیر کی تحریک ہی قلب سے اٹھ جاتی ہے.اس کا ظہور

Page 108

99 ایسا ہوتا ہے کہ خیر و برکت والی باتوں سے نفرت ہو جاتی ہے.یا تو اس کے حضور آنے ہی کا موقع نہیں ملتا یا موقع تو ملتا ہے لیکن انتفاع کی توفیق نہیں پاتا.رفتہ رفتہ اللہ سے بعد ملائکہ سے دوری اور پھر وہ لوگ جن کا تعلق ملائکہ سے ہوتا ہے ان سے بعد ہو کر کٹ جاتا ہے.اس لئے ہر ایک عقلمند کا فرض ہے کہ وہ توبہ کرے اور غور کرے.ہم نے بہت سے مریض ایسے دیکھے ہیں جن کو میٹھا تلخ معلوم دیتا ہے اور تلخ چیزیں لذیذ معلوم ہوتی ہیں.کسی نے مجھ سے ملنذ ذ نسخہ مانگ میں نے اسے مصبر.کچلہ شہد ملا کر دیا.اس نے کہا کہ بڑا ملذذ ہے.یہ نتیجہ ہوتا ہے انسان کے معاصی کا.ان کی بصر اور بصیرت جاتی رہتی ہے اور ان کی آنکھیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کے چہروں پر نگاہ کر کے اہل بھرا نہیں اسی طرح دیکھتے ہیں جیسے ساپ بندر خنزیر کو دیکھتے ہیں.اس لئے مومن کو چاہئے کہ خدا کی حمد اور تسبیح کرتا رہے اور اس سے حفاظت طلب کرتا رہے.جیسے ایمان ہر نیکی کے مجموعہ کا نام ہے اسی طرح ہر برائی کا مجموعہ کفر کہلاتا ہے.ان کے ادنی اور اوسط اور اعلیٰ تین درجے ہیں.پس امید و بیم ، رنج و راحت، عسرویس میں قدم آگے بڑھاؤ اور اس سے حفاظت طلب کرو.غور کرو حفاظت طلب کرنے کا حکم اس عظیم الشان کو ہوتا ہے جو خاتم الانبیاء اصفی الاصفیاء سید ولد آدم ہے، صلی اللہ علیہ وسلم ، تو پھر اور کون ہے جو طلب حفاظت سے غنی ہو سکتا ہے؟ مایوس اور ناامید مت ہو.ہر کمزوری، غلطی بغاوت کے لئے دعا سے کام لو.دعاسے مت تھکو.یہ دھو کامت کھاؤ جو بعض ناعاقبت اندیش کہتے ہیں کہ انسان ایک کمزور ہستی ہے، خدا اس کو سزا دے کر کیا کرے گا؟ انہوں نے رحمت کے بیان میں غلو کیا ہے.کیا وہ اس نظارہ کو نہیں دیکھتے کہ یہاں بعض کو رنج اور تکلیف پہنچتی ہے.پس بعد الموت عذاب نہ پہنچنے کی ان کے پاس کیا دلیل ہو سکتی ہے ؟ یہ غلط راہ ہے جو انسان کو کمزور اور سست بنادیتی ہے.بعض نے یاس کو حد درجہ تک پہنچا دیا ہے کہ بدیاں حد سے بڑھ گئی ہیں اب بچنے کی کوئی راہ نہیں ہے.استغفار اس سے زیادہ نہیں کہ زہر کھا کر کلی کرلی.یہ بھی سخت غلطی ہے.استغفار انبیاء کا اجماعی مسئلہ ہے.اس میں گناہ کے زہر کا تریاق ہے.پس استغفار کو کسی حال میں مت چھوڑو.پھر آخر میں کہتا ہوں کہ نبی کریم" سے بڑھ کر کون ہے؟ وہ أَخْشَى لِلَّهِ أَتْقَى لِلَّهِ - أَعْلَمُ بِاللهِ انسان تھا، صلی اللہ علیہ وسلم.پس جب اس کو استغفار کا حکم ہوتا ہے تو دوسرے لاابالی کہنے والے کیونکر ہو سکتے ہیں.پس جنہوں نے اب تک اس وقت کے امام راستباز کے ماننے کے لئے قدم نہیں اٹھایا اور دبدھا میں ہیں وہ استغفار سے کام لیں کہ ان پر سچائی کی راہ کھلے اور جنہوں نے خدا کے.

Page 109

100 فضل سے اسے مان لیا ہے وہ استغفار کریں تاکہ آئندہ کے لئے معاصی اور کسی لغزش کے ارتکاب سے بچیں اور حفاظت الہی کے نیچے رہیں.الحکم جلد نمبر ۵-۷۰۰ / فروری ۱۹۰۲ء صفر ۶-۷) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 110

۱۱۲ نمبر ۶۱۹۰۲ 101 خطبہ نکاح حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سلمہ اللہ تعالٰی اَشْهَدُ أَنْ لا إِلهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ وَ اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُوْلُهُ - اَلْحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ - پھر آيات مسنونہ بابت نکاح کی تلاوت کے بعد فرمایا:.مومن ہر وقت اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتا ہے.کیا بلحاظ اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو پیدا کیا ہے اور یہ ایک عظیم الشان انعام انسان پر ہے.کیونکہ ساری راحتیں، ساری خوشیاں اور خوشحالیاں اسی کے بعد ملتی ہیں کہ پیدا ہوا ہو اور پھر پیدا بھی اپنے رب کے ہاتھ سے ہوا ہو جو بتدریج کمالات تک پہنچاتا ہے اور پھر ہمارے لئے تو خصوصیت کے ساتھ حمد ضروری ہے.کیا بلحاظ اس کے کہ ایسی نعمت عظمیٰ کے منعم ہیں کہ جس قدر صداقتیں اور حق و حکمت حضرت آدم سے لے کر ہمارے سید و مولا سرور عالم ، فخرینی آدم صلی اللہ علیہ و سلم تک مختلف اوقات میں مختلف نبیوں، رسولوں، راستبازوں کے ذریعہ مختلف زبانوں اور ملکوں میں پہنچایا گیا ان تمام صداقتوں کا مجموعہ مبرہن اور مدلل ہو کر ہم کو ملا جس کا نام قرآن کریم

Page 111

102 ہے.یہ انعام کیا کم انعام ہے.سوچ کر دیکھو کہ ساری دنیا کی کل صداقتیں، وہ تمام ذریعے جو روح کی پرورش کے تھے، وہ سب مہیمن کتاب مجید میں جس کا نام نور شفا رحمت برکت ہے، ہم کو دی گئی ہے اور پھر عربيٌّ مُّبِین میں جیسی صاف اور کھلی سہولت اور میسر سے دی گئی وہ سب صداقتیں مدلل اور مبرہن کر کے قرآن شریف نے بیان کی ہیں اور نہایت سہل الفاظ میں جو میرے خیال میں چار ہزار سے زیادہ لغت نہیں.پھر پہنچانے والا ایسی طاقت اور تاثیر رکھتا ہے کہ باید و شاید.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وبَارِك وَسَلّمْ یعنی محمد بن عبد اللہ اور بن آمنہ کسی طرح کا وہ معلم اور ہادی ہے اور کس طرح سے اس کی پاک تاثیروں نے ایک تبدیلی کی؟ وہ اسی ایک واقعہ سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ اس نے حیرت انگیز آئینہ نمائع اپنی قوم پر جو عرب تھی حاصل کی اور ایسی فتح کہ ایک بھی مخالف نہ رہا اور پھر یہ کس قدر تعجب انگیز کہو یا آیت مبینہ اثر ہے کہ تیرہ سو برس پہلے مکہ اور مدینہ میں جس قسم کے فیوض اور برکات آپ کے پاک انفاس سے پہنچے اور آپ کی تعلیم و تربیت نے جو اثر اس وقت پیدا کیا آج تیرہ سو برس کے بعد بھی اسی کی تعلیم و تربیت کے نیچے اس کا غلام موجود ہے.(غلام احمد علیہ الصلوۃ والسلام) اور پھر کیا بلحاظ اس انعام اور فضل کے جو ہم پر اللہ تعالیٰ نے کیا کہ تیرہ سو برس سے جس کے دیکھنے کو ہزاروں لاکھوں، کروڑوں مخلوق کی آنکھیں ترستی گئی ہیں اور امت کے صلحا اور اولیاء اور علماء ربانی جس کو سلام کہتے گئے ، ہم نے اس کا زمانہ پالیا.اور پھر جس سے اکثر لوگوں کی بد بختی نے انہیں محروم رکھا ہمیں اس کی غلامی کا شرف عطا فرمایا اور اس طرح پر ہم پر وہ انعام کیا کہ جیسے اولین میں ایک نبی اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھا، آخرین میں بھی اسی طرح آپ کا تابع نبی صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہے.اس لئے جب ہم پر یہ انعام یہ فضل ہوئے ہیں تو اور بھی زیادہ ہمیں ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد کریں.نَسْتَعِينُه لیکن انسان چونکہ ایک کمزور اور ضعیف ہستی ہے اس لئے ہر آن اور ہر حالت میں اسی رب العالمین اور تمام صفات کاملہ سے موصوف اور تمام نقائص اور بدیوں سے منزہ ذات اللہ تعالیٰ سے استمداد کی ضرورت ہے.انسان کا فانی جسم ہر آن تغیرات کے نیچے ہے اور کمزور روح علوم میں اس فانی اور کمزور جسم کی محتاج ہے.کیونکہ وہ اس جسم اور ذرات کے بغیر کوئی راحت یا علم و صداقت حاصل نہیں کر سکتی اور سارے علوم اور صداقتیں زبان کان، آنکھ، ناک اور ٹولنے کی حس کے ذریعہ سے پہنچتی ہیں.مگر یہ جسم فانی ہے اور ہر آن تنزل کی حالت پیدا کرتا ہے.فضلے پیدا ہو کر جسم سے نکلتے رہتے

Page 112

103 ہیں.ایسی حالت میں صاف ظاہر ہے کہ روح کا ذریعہ فانی اور کمزور ہے.پھر کیسے ترقی کرے، جب تک اللہ تعالیٰ کی مدد ساتھ نہ ہو.اسی محسن نے کیسی پاک راہ بتائی اور کچے اور حقیقی محسن اللہ کی بتائی ہوئی بتائی کہ اللہ کے فضل اور احسان کے بغیر ایک آن گزارہ نہیں ہو سکتا.اسی لئے ہم اس کی ہی مدد چاہتے ہیں.وَنَسْتَغْفِرُه پھر ایک اور تعلیم دی اور وہ استغفار کی تعلیم ہے.اللہ تعالیٰ کے وسیع قانون اور زبردست حکم اس قسم کے ہیں کہ انسان بعض بدیوں اور کمزوریوں کی وجہ سے بڑے بڑے فضلوں سے محروم رہ جاتا ہے.جب انسان کوئی غلطی کرتا اور خدا تعالیٰ کے کسی قانون اور حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ غلطی اور کمزوری اس کی راہ میں ایک روک ہو جاتی ہے اور یہ عظیم الشان فضل اور انعام سے محروم کیا جاتا ہے.اس لئے اس محرومی سے بچانے کے لئے یہ تعلیم دی کہ استغفار کرو.یہ تعلیم بھی اللہ تعالیٰ کا محض فضل ہے.استغفار کیا ہے؟ پچھلی کمزوریوں کو جو خواہ عمد ا ہوں یا سہواً اور نسیان اور خطا سے.غرض مَا قَدَّمَ وَاَخَرَ جو نہ کرنے کا کام آگے کیا اور جو نیک کام کرنے سے رہ گیا ہے، اپنی تمام کمزوریوں اور اللہ تعالیٰ کی ساری نارضامندیوں کو اَعْلَمُ وَلا اَعْلَمُ کے نیچے رکھ کر یہ دعا کرے کہ میری غلطیوں کے بدنتائج اور بد اثر سے مجھے محفوظ رکھ اور آئندہ کے لئے ان غلط کاریوں سے محفوظ فرما.یہ ہیں استغفار کے مختصر سے معنے.بارہا ہمارے امام علیہ الصلوۃ و السلام لوگوں کو استغفار بتاتے ہیں.میں نے دیکھا ہے کہ وہ اکثر مجھ سے آکر پوچھتے ہیں کہ استغفار کی کتنی تنبیجیں کریں اور آپ کے یہاں کونسا استغفار معمول ہے.اس لئے میں نے بتایا ہے کہ سچا استغفار یہی ہے کہ انسان اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کو یاد کر کے جناب الہی میں یہ طلب کرے کہ ان کمزوریوں کے برے نتائج سے محفوظ رکھ اور آئندہ کے لئے ان کمزوریوں سے محفوظ فرما.وَنُؤْمِنُ بِہ اور ہم پھر اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں کہ وہ جمیع صفات کاملہ سے موصوف اور تمام بدیوں سے منزہ ہے.وہ اپنی ذات میں اپنی صفات میں اسماء اور محامد اور افعال میں واحد لا شریک ہے.وہ اپنی ذات میں یکتا، صفات میں بے ہمتا اور افعال میں لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَیءُ (الشوری:۱۲) اور بے نظیر ہے.اور اس بات پر بھی ایمان لاتے ہیں کہ وہ ہمیشہ اپنی رضامندی اور ناراضی کی راہوں کو ظاہر کرتا رہا ہے اور ملائکہ کے ذریعہ اپنا کلام پاک اپنے نبیوں اور رسولوں کو پہنچاتا رہا ہے اور اس کی بھیجی ہوئی کتابوں میں آخری کتاب قرآن شریف ہے جس کا نام شفاء فضل، رحمت اور نور ہے اور آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ

Page 113

104 وسلم ہیں جو خاتم النبین ہیں.اور اب کوئی نبی اور رسول آپ کے سوا نہیں ہو سکتا.اس وقت بھی جو آیا وہ اس کا غلام ہی ہو کر آیا ہے.اور پھر یہ تعلیم دی کہ نَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ یہ بات ہم میں پیدا ہو کہ اللہ تعالٰی نے جو چیزیں جس مطلب اور غرض کے لئے بنائی ہیں وہ اپنے نتائج اور ثمرات اپنے ساتھ ضرور رکھتے ہیں.اس لئے اس پر ایمان ہونا چاہئے کہ لابد ایمان کے ثمرات اور نتائج ضرور حاصل ہوں گے اور کفر اپنے بد نتائج دیئے بغیر نہ رہے گا.انسان بڑی غلطی کرتا اور دھوکا کھا جاتا ہے، جب وہ اس اصل کو بھول جاتا ہے.اعمال اور اس کے نتائج کو ہرگز ہرگز ہرگز بھولنا نہیں چاہئے.سعی اور کوشش کو ترک کرنا نہیں چاہئے.اور پھر یہ تعلیم دی وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّاتِ اَعْمَالِنَا.انسان اپنی کمزوریوں پر پوری اطلاع نہیں رکھتا اور بعض وقت نقد کو ادھار پر پسند کرتا اور ترجیح دیتا ہے.پیش پا افتادہ اور زیر دست چیزیں مقبول نگاہ ہوتی ہیں.اس لئے الہی احکام کو اپنی غلطی سے بھول جاتا ہے یا ان کے ثمرات اور نتائج کو اپنی غلطی اور نادانی سے ادھار اور دوسرے ہی جہان پر منحصر سمجھ کر سستی اور لاپروائی کرتا ہے اور اس طرح پر اصل مقصد سے دور جاپڑتا ہے.اس غلطی کو دور کرنے اور اس کے برے نتائج سے محفوظ رہنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ دعا سکھائی کہ نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيَأْتِ اَعْمَالِنَا کہ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آجائیں.کیونکہ بڑی پناہ اور معاذ اللہ تعالی ہی کی پناہ ہے جو ساری قدرتوں اور قوتوں کا مالک اور مولیٰ ہے اور ہر نقص سے پاک ہر کامل صفت سے موصوف.پہلے ضروری ہے کہ شُرُورِ أَنْفُسِنَا سے پناہ مانگیں.انسان کی اندورنی بدیاں اور شرارتیں اکثر اس کو ہلاک کر دیتی ہیں.مثلاً شہوت کے مقابلہ میں زیر ہو جاتا اور عفت کو ترک کرتا ہے.بد نظری اور زنا کا ارتکاب کرتا ہے.علم کو چھوڑتا ہے اور غضب کو اختیار کرتا ہے اور کبھی قاعت کو جو بچی خوشحالی کا ایک بڑا ذریعہ ہے، چھوڑ کر حرص و طمع کا پابند ہو جاتا اور کبھی ہمت بلند اور استقلال نہیں رہتا بلکہ پست ہمتی اور غیر مستقل مزاجی میں پھنس جاتا ہے.سعی اور مجاہدہ کو ترک کرتا اور کسل میں مبتلا ہوتا ہے.یہ نفسانی شرور ہیں.اس لئے ان تمام شرارتوں اور ان کے برے نتائج سے بچنے کے لئے اللہ تعالی ہی کی پناہ لینی چاہئے اور پھر بد اعمال کے بدنتائج ہیں.ان سے بھی محفوظ نہیں رہ سکتا جب تک اللہ تعالٰی کی پناہ میں نہ ہو.غرض اصل تو یہ ہے مَنْ يُهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَ مَنْ يُضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ الله کے سوا کوئی بادی نہیں جس کے پاس گمراہی کاڈر نہیں اور جس کو اللہ ہلاک کرے اس کو کوئی با مراد نہیں کر سکتا.

Page 114

105 وَنَشْهَدُ اَنْ لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ.پھر عظیم الشان اصولوں میں سے یہ اصل بتائی گئی ہے کہ اللہ کے سوا کسی کو اپنا معبود محبوب اور مطاع نہ بناؤ.اللہ وہ ذات کامل ہے جو ہر نقص سے منزہ اور خوبی سے موصوف ہے.اللہ تعالیٰ کو اپنا معبود محبوب مطاع بنانا اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کیا آنکھ سے بد نظری کرتا ہے یا نہیں ؟ کان سے حرص و ہوا کی باتیں سنتا ہے یا نہیں؟ ناک کے خیال سے تکبر اور فضول خرچیاں کرتا ہے یا نہیں؟ پھر زبان، غرض کل اعضاء فرمانبرداری میں لگے ہوئے ہیں یا نہیں؟ مختصر یہ کہ کوئی خوف اور امید اگر مخلوق سے ہے تو سمجھ لو کہ لا اله الا الله کے معنوں سے بے خبری ہے یا بے پروائی ہے.لا إله إلا الله کو ماننے والا کسی کے آگے ہاتھ باندھ کر کھڑا نہیں ہو سکتا اور نہ رکوع سجود کر سکتا ہے.ایسا ہی مخلوق کے لئے نہ قربانی دے سکتا ہے اور نہ اپنے مال کا ایک مقرر حصہ مخلوق میں سے کسی کے لئے الگ کر سکتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے لئے الگ کرنے کا حکم ہے بلکہ ساری باتوں میں وہ اپنا معبود مسجود اللہ ہی کو مارتا ہے اور اپنی امید و نیم کو اسی سے وابستہ کرتا ہے.ہر ایک کام اس کی رضا کے لئے کرتا یہاں تک کہ کھانا اس لئے کھاتا ہے کہ "كُلُوا" کا حکم ہے.اور پیتا اس لئے کہ "اشْرِبُوا" کا حکم ہے.بیوی سے معاشرت کرے نہ اس لئے کہ طبعی تقاضا ہے بلکہ اس لئے کہ بِالْمَعْرُوفِ (النساء:۳۰) کا حکم ہے اور اس لئے کہ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللهُ لَكُمْ (البقرۃ:۱۸۸) کا ارشاد ہے.اس سے نیکی کے کاموں میں پہلا جزو پیدا ہو گا، جس کو اخلاص کہتے ہیں.پھر ان سارے کاموں میں صواب ہو اور یہ تب حاصل ہو سکتا ہے کہ ساری الہی رضامندیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع اور حکم کے نیچے ہوں.کیونکہ وہ کامل انسان اللہ تعالیٰ کا سچا پر ستار بندہ تھا اور ہماری اصلاح کے لئے اللہ تعالی نے آپ کو مبعوث فرمایا.ان کے سوا الی رضا ہم معلوم نہیں کر سکتے اور اسی لئے فرمایا قُلْ إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله (ال عمران:۳۲.جس طرح پر اس نے اپنے غیب اور اپنی رضا کی راہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ظاہر کی ہیں اسی طرح پر اب بھی اس کی غلامی میں وہ ان تمام امور کو ظاہر فرماتا ہے.اگر کوئی انسان اس وقت ہمارے درمیان آدم نوح، ابراہیم موسیٰ عیسی ، داؤد محمد احمد ہے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ذریعہ سے ہے اور آپ ہی کی چادر کے نیچے ہو کر ہے.کوئی راہ اگر اس وقت کھلتی ہے اور کھلی ہے تو وہ آپ میں ہو کر.ورنہ یقینا یقینا سب راہیں بند ہیں.کوئی شخص براہ راست اللہ تعالیٰ سے فیضان حاصل نہیں کر سکتا.اگر کوئی اس وقت یہ کہے کہ ”من چہ پروائے مصطفے دارم" اور پھر وہ ہمارا مقتدا اور امام اور مطاع بنتا چاہے تو یاد رکھو کہ وہ ہمارا امام اور مقتدا

Page 115

106 ہرگز نہیں ہو سکتا.ہمارا مقتدا اور امام وہی ہو سکتا ہے جو ”و لیکن میفزائے ہر مصطفے " پر عمل کرنے کی ہدایت کرتا ہو اور غلام احمد ہو.غرض ہر ایک نیکی نیکی تب ہی ہو سکتی ہے جب وہ اولیٰ اللہ تعالی ہی کے لئے ہو اور پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے نیچے ہو.يُأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ (النساء:۲).یہ ایک آیت شریف ہے جس سے ایک سورۃ کا ابتداء ہوتا ہے اور ایسے خطبوں کے وقت اس کا پڑھا جانا مسلمانوں میں مروج ہے.وہ اس آیت کو ضرور پڑھتے ہیں.وجہ یہ ہے کہ ساری سورۃ کی طرف گویا متوجہ کیا گیا ہے جس میں میاں بیوی کے متعلق حقوق کو بیان کیا گیا ہے اور تفاول کے طور پر اس کی ابتداء کو پڑھتے ہیں تاکہ سعادت مند لوگ ایسے تعلقات پیدا کرنے سے پہلے اور بعد ان امور پر نگاہ کر لیا کریں جو اس سورۃ میں بیان ہوئے ہیں.وہ تعلق جو میاں بیوی میں پیدا ہوتا ہے بظاہر وہ ایک آن کی بات ہوتی ہے.ایک شخص کہتا ہے کہ میں نے اپنی لڑکی دی اور دوسرا کہتا ہے کہ میں نے لی.بظاہر یہ ایک سیکنڈ کی بات ہے.مگر اس ایک بات سے ساری عمر کے لئے تعلقات کو وابستہ کیا جاتا ہے اور عظیم الشان ذمہ داریوں اور جواب دہیوں کا جوا میاں بیوی کی گردن پر رکھا جاتا ہے.اس لئے اس سورۃ کو نايُّهَا النَّاسُ سے شروع کیا ہے.کوئی اس میں مخصوص نہیں.ساری مخلوق کو مخاطب کیا ہے.مومن ، مقرب، مخلص، اصحاب الیمین، غرض کوئی ہو کسی کو الگ نہیں کیا بلکہ يايُّهَا النَّاسُ فرمایا.الناس جو انس سے تعلق رکھتا ہے وہ انسان ہے.انسان جب انس سے تعلق رکھتا ہے تو سارے انسوں کا سرچشمہ میاں بیوی کا تعلق اور نکاح کا انس ہے.اس کے ساتھ اگر ایک اجنبی لڑکی پر فرائض کا بوجھ رکھا گیا ہے تو اجنبی لڑکے پر بھی اس کی ذمہ داریوں کا ایک بوجھ رکھا گیا ہے.اس لئے اس تعلق میں ہاں نازک تعلق میں جو بہت سی نئی ذمہ داریوں اور فرائض کو پیدا کرتا ہے ، کامل انس کی ضرورت ہے جس کے بغیر اس بوجھ کا اٹھانا بہت ہی ناگوار اور تلخ ہو جاتا ہے.لیکن جب وہ کامل انس ہو تو رحمت اور فضل انسان کے شامل حال ہو سکتے ہیں اور ہوتے ہیں.غرض اس تعلق کی ابتدا انس سے ہونی چاہئے تاکہ دو اجنبی وجود مُتَّحِدُ فِي الْإِرَادَتْ ہو جائیں.اس لئے يايُّهَا النَّاسُ کہہ کر اس کو شروع فرمایا.اور دوسرے یہ آیت يُأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ سے شروع ہوتی ہے.یعنی لوگو! تقویٰ اختیار کرو.تقویٰ عظیم الشان نعمت اور فضل ہے جسے ملے.انسان اپنی ضروریات زندگی میں کیسا مضطرب اور بے قرار ہوتا ہے.خصوصاً رزق کے معاملہ میں.لیکن متقی ایسی جگہ سے رزق پاتا ہے کہ کسی کو تو کیا

Page 116

107 معلوم ہوتا ہے خود اس کے بھی وہم گمان میں نہیں ہوتا.يَرزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ (الطلاق:)) پھر انسان بسا اوقات بہت قسم کی تنگیوں میں مبتلا ہوتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ متقی کو ہر تنگی سے نجات دیتا ہے جیسے فرمایا.مَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا (الطلاق:٣) انسان کی سعادت اور نجات کا انحصار علوم الیہ پر ہے.کیونکہ جب تک کتاب اللہ کا علم ہی نہ ہو وہ نیکی اور بدی اور احکام رب العالمین سے آگاہی اور اطلاع کیو نکر پا سکتا ہے.مگر تقویٰ ایک ایسی کلید ہے کہ کتاب اللہ کے علوم کے دروازے اس سے کھلتے ہیں اور خود اللہ تعالیٰ متقی کا معلم ہو جاتا ہے.وَاتَّقُوا اللَّهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللهُ (البقرة:۳۸۳) انسان اپنے دشمنوں سے کس قدر حیران ہوتا اور ان سے گھبراتا ہے.لیکن متقی کو کیا خوف؟ اس کے دشمن ہلاک ہو جاتے ہیں.إِنْ تَتَّقُوا اللهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا (الانفال:۳۰).اللہ تعالیٰ سے دوری اور بعد ساری نامرادیوں کی جڑ اور ناکامیوں کی اصل ہے.مگر متقی کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہوتا ہے إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَ الَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ (النجل (۳).تقویٰ ایسی چیز ہے جو انسان کو اپنے مولی کا محبوب بناتی ہے إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ (ال عمران : تقویٰ کے باعث اللہ تعالیٰ متقی کے لئے منتفی ہو جاتا ہے اور اس سے ولایت ملتی ہے وَالله وَلِيُّ الْمُتَّقِينَ (الحانية :- پھر تقویٰ ایسی چیز ہے کہ دعاؤں کو قبولیت کے لائق بنا رہتا ہے إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ (المائدة:۲۸) بلکہ اس کے ہر فعل میں قبولیت ہوتی ہے.غرض تقویٰ جیسی چیز کی طرف توجہ دلائی ہے اور تقویٰ نام ہے اعتقادات صحیحہ ، اقوال صادقہ اعمال صالحہ علوم حقہ اخلاق فاضلہ ہمت بلند ، شجاعت، استقلال ، عفت، حلم، قناعت، صبر کا حسن ظن بالله ، تواضع، صادقوں کے ساتھ ہونے کا.پھر یہ تقویٰ اپنے رب کا اختیار کرو."رَبَّكُمْ" میں بتایا ہے کہ وہ تمہیں کمالات بخشنے والا ہے.ادتی حالت سے اعلیٰ حالت تک پہنچانے والا ہے.اس کے متقی بنو.مخلوق کی نظر کا متقی نہیں.اگر انسان مخلوق کی نظر میں متقی بنتا ہے لیکن آسمان پر اس کا نام متقی نہیں تو یاد رکھو اس کے لئے اللہ تعالیٰ کا فتویٰ ہے مَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ (البقرة:1).ایک غلط خیال عام لوگوں میں پھیلا ہوا ہے.میں چاہتا ہوں کہ اس کو بھی دور کروں اور وہ یہ ہے کہ لوگوں نے سمجھ رکھا ہے کہ دین پر عمل درآمد کرنا انسان کی مقدرت سے باہر ہے اور یہ شریعت گویا کہنے کی ہے کرنے کی نہیں.اس پر عمل نہیں ہو سکتا.یہ بدی عام پھیلی ہوئی ہے اور اس نے بہت حصہ مخلوق کا تباہ کیا ہے.در اصل اس قسم کے خیلے شریروں نے اپنی بدیوں کو چھپانے کے لئے تراشے ہوئے

Page 117

108 ہیں.مگر میں یقینا کہتا ہوں کہ یہ بدی اور بد خیالی اللہ تعالیٰ پر سوء ظن سے پیدا ہوئی ہے کہ انسان کہلائے اور کہے کہ شریعت پر پابندی نہیں کر سکتے اور فرائض اور سنن ادا نہیں ہو سکتے.یہ بڑی بد قسمتی ہے.اسی ایک بدی نے قوم کو تباہ کر دیا اور اس نے شریعت کو نعوذ باللہ لعنت کہہ دیا.یعنی عیسائیوں کی قوم نے شریعت کو بالکل الگ رکھ دیا.یہ شیطانی وسوسہ تھا اور شیطان ان پر غالب آیا.پس ایسی باتوں اور خیالوں سے پر ہیز کرو.میں نے ایک ایسے ہی خطبہ میں (یعنی نکاح کے خطبہ میں جو اگلے روز مجھے پڑھنا پڑا اور اسی طرح پر صادق امام کے حضور میں پڑھا) اس امر پر زور دیا تھا اور یہ میرا ایمان ہے.میرا دل چاہتا ہے کہ اسی طرح ہو اور میں خدا تعالیٰ کے فضل اور تائید سے ایسا کرنا چاہتا ہوں) کہ لوگ اپنے امام کی سچی اتباع کریں اور اس کے احکام کی تعمیل کو اپنی خواہشوں پر مقدم کرلیں.بعض بد قسمتوں نے میری ان باتوں کو سن کر یہی نتیجہ نکالا کہ یہ صرف کہنے کی باتیں ہیں.ان پر عمل کرنا مشکل ہے.میں کھول کر کہتا ہوں کہ یہ خطرناک بدظنی ہے جو ایک مومن کی نسبت کی جاوے.اس کا محاسبہ اللہ تعالیٰ کے حضور دینا پڑے گا.ہی پھر فرمایا.خَلَقَكُمْ مِنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ (النساء) اللہ تعالیٰ نے تم کو ایک جی سے بنایا اور اسی جنس سے تمہاری بیوی بنائی اور پھر دونوں سے بہت مرد اور عورتیں پیدا کیں.قرآن شریف سے عمدہ اور نیک اولاد کا پیدا ہونا اللہ تعالیٰ کی رضا کا منطوق معلوم ہوتا ہے.ابراہیم علیہ السلام کی دعا کو دیکھو کہ خدا نے اسے کیسا برومند کیا جس میں صدہا نبی اور رسول آئے ، حتی کہ خاتم الرسل بھی اسی میں ہوئے.مگر یہ طیب اور مبارک اولاد کس طرح سے حاصل ہو ؟ اس کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ تقویٰ ہے.تقویٰ کے حصول کا یہ ذریعہ ہے کہ انسان اپنے عقائد اور اعمال کا محاسبہ کرے اور اس امر کو ہمیشہ مد نظر رکھے.إِنَّ اللهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا (النساء:۲) جب تم یہ یاد رکھو گے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے حال کا نگران ہے تو ہر قسم کی بے حیائی اور بدکاری کی راہ سے جو تقویٰ سے دور پھینک دیتی ہے، بچ سکو گے.دیکھو کسی عظیم الشان انسان کے سامنے انسان بدی کے ارتکاب کا حوصلہ نہیں کر سکتا.ہر ایک بدی کرنے والا اپنی اس بدی کو مخفی رکھنا چاہتا ہے.پھر جب خدا تعالیٰ کو رقیب اور بصیر مانے گا اور اس پر سچا ایمان لائے گا تو ایسے ارتکاب سے بچ جائے گا.غرض تقویٰ ایسی نعمت ہے کہ متقی ذریت طیبہ بھی پالیتا ہے.پھر ارشاد ہوا ہے يُأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلاً سَدِيدًا (الاحزاب) یہ ایک دوسری آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ ایسے تعلقات اور عقد کے وقت یہ نصیحت فرماتا ہے.تقویٰ اللہ اختیار کرو اور پکی باتیں کہو.کی باتیں حاصل ہوتی ہیں کتاب اللہ کو غور کے ساتھ پڑھنے سے سفن اور تعامل کے

Page 118

109 مطالعہ سے احادیث صحیحہ کے یاد رکھنے سے.یہ باتیں ہیں علوم حقہ کے حاصل کرنے کی.مجھے اس موقعہ پر یہ بھی کہنا ہے کہ بعض لوگ تم میں سے اپنی غلط فہمی سے احادیث کو طالمود کہتے ہیں.یہ ان کی سخت غلطی ہے.انہوں نے ہرگز ہرگز امام کے مطلب کو نہیں سمجھا.کیا ان کو معلوم نہیں کہ حضرت امام اپنی عظیم الشان پیشگوئیاں احادیث سے لیتے ہیں اور اپنے دعاوی پر احادیث سے تمسک کرتے ہیں؟ آپ کا مطلب یہ ہے کہ جو حدیث قرآن شریف کے معارض ہو وہ قابل اعتبار نہیں.کیونکہ یہ قاعدہ مسلم ہے کہ راج کا مقابلہ مرجوح سے نہیں کر سکتے.اس کو آگے بڑھانا اور یہاں تک پہنچانا جہالت ہے.اگر میری بات پر توجہ نہ ہو تو تم خود دریافت کر سکتے ہو.احادیث سے انکار کرنا بڑی بد قسمتی ہے.حضرت امام علیہ السلام نے بارہا فرمایا ہے کہ ہمارے لئے تین چیزیں ہیں.قرآن سنت اور حدیث.قرآن اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھ کر سنایا تو سنت کے ذریعہ اس پر عمل کر کے دکھا دیا اور پھر حدیث نے اس تعامل کو محفوظ رکھا ہے.غرض حدیث کو کبھی نہیں چھوڑنا چاہئے جب تک وہ صریح قرآن شریف کے معارض اور مخالف واقع نہ ہوئی ہو.بھلا دیکھو تو اسی نکاح کے متعلق غور کرو کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب آدمی نکاح کرتا ہے تو کیا کیا امور مد نظر رکھتا ہے.گا ہے عورت بیا ہی جاتی ہے کہ وہ مالدار ہے اور گاہے یہ کہ حسین ہے یا کسی عالی خاندان کی ہے اور بعض اوقات مقابلہ مد نظر ہو تا ہے.مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ عَلَيْكَ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ (بخاري تاکہ تقویٰ بڑھے.ایک سے زیادہ نکاح بھی اگر کرو تو اس لئے کہ كتاب النکاح باب اكفاء في الدين تقویٰ بڑھے.جب تقویٰ مد نظر نہ ہو تو وہ نکاح مفید اور مبارک نہیں ہوتا.غرض خدا تعالیٰ فرماتا ہے اور مومنوں کو مخاطب کر کے فرماتا ہے يُأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلاً سَدِيدًا (الاحزاب) انسان کی زبان بھی ایک عجیب چیز ہے جو گاہے مومن اور گاہے کافر بنا دیتی ہے.معتبر بھی بنا دیتی ہے اور بے اعتبار بھی کر دیتی ہے اس لئے مولیٰ کریم فرماتا ہے کہ اپنے قول کو مضبوطی سے نکالو.خصوصاً نکاحوں کے معاملہ میں اس کا فائدہ ہوتا ہے.يُصْلِحْ لَكُمْ (الاحزاب:۷۲) تاکہ تمہارے سارے کام اصلاح پذیر ہو جاویں.صد ہا لوگ ان معاملات نکاح میں تقویٰ اور خدا ترسی سے کام نہیں لیتے اور الہی حکم کی قدر و عظمت ان کو مد نظر نہیں ہوتی بلکہ وہ اس تراش خراش میں رہتے ہیں کہ یہ مقابلہ ہو یا شہوات کو مقدم کرتے ہیں.لیکن جب تقویٰ ہو تو اعمال کی اصلاح کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ ہو جاتا ہے اور اگر نافرمانی ہو تو وہ معاف کر دیتا ہے.

Page 119

110 بات یہ ہے جو اللہ رسول کا مطیع ہوتا ہے وہ بڑا کامیاب ہے.اس لئے یہ بات ہر ایک کو مد نظر رکھنی چاہئے.پھر فرمایا:.يُأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ (الحشر:۹) پھر تقویٰ کی تاکید اس تیسری آیت میں بھی ہے کہ تقویٰ اللہ اختیار کرو اور ہر ایک جی کو چاہئے کہ بڑی توجہ سے دیکھ لے کہ کل کے لئے کیا کیا.جو کام ہم کرتے ہیں، ان کے نتائج ہماری مقدرت سے باہر چلے جاتے ہیں.اس لئے جو کام اللہ کے لئے نہ ہو گاتو وہ سخت نقصان کا باعث ہو گا.لیکن جو اللہ کے لئے ہے تو وہ ہمہ قدرت اور غیب دان خدا جو ہر قسم کی طاقت اور قدرت رکھتا ہے اس کو مفید اور مثمر ثمرات حسنہ بنا دیتا ہے.غرض مختصر یہ ہے کہ متقی بنو اور اللہ کا خوف کرو.تمہارے اعمال میں تکبر کذب اور دوسرے کو ایذا نہ ہو.ان شرائط کی پوری پابندی کرو جو بیعت کے لئے بیان کی گئی ہیں اور پھر کثرت سے درود شریف پڑھا کرو اور استغفار کرتے رہو اور لاحول پڑھ کر دوسری قوموں کے لئے نمونہ بنو.اس کے بعد میں اللہ کے فضل و کرم پر بھروسہ کر کے اس ایجاب و قبول کا اقرار کراتا ہوں.میاں بشیر احمد صاحب جو اللہ تعالیٰ کے پیغام اور اطلاع کے موافق دنیا میں آئے ہیں، ان کا نکاح مولوی غلام حسین صاحب کی لڑکی سے جن کا نام سرور سلطان ہے (اللہ اس کے نام میں بڑی برکت نازل کرے آمین.ایک ہزار مہر کے قرار پایا ہے اور میں دعا کرتا ہوں اور میری دعاؤں سے بڑھ کر ہمارے امام کی دعائیں اس کے حق میں ہوں کہ جب اس کی ساس نور کے بچے جننے والی ہوئی ہے ایسے ہی اور برکت کا وہ باعث ہو.حضور خصوصیت سے اس وقت دعا کریں کہ ہمارے گھروں کی عورتوں میں مخصوصیت اصلاح ہو.گوان کی بد قسمتی ہے کہ ان میں سے ان کی جنس سے کوئی نبی یا رسول نہیں آیا اور ہم میں باہم اتحاد اور محبت ہو اور وہ بات پیدا ہو جو حضور چاہتے ہیں.خدا آپ کی دعائیں ہمارے حق میں منظور کرے.آمین.له (الحکم جلد نمبر ۳۳-۰-۱۷/ ستمبر ۱۹۰۲ء صفحه ۱۰ تا ۱۲) الحکم جلد نمبر ۳۹-۰-۳۱/اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحه ۱۵٬۱۴) الحکم جلد ۶ نمبر۴۱ --- ۱۷/ نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۱۳) سم ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 120

جنوری ۱۹۰۳ء 111 خطبہ جمعۃ الوداع (ایڈیٹر "الحلم" کے الفاظ میں) وَ مَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ وَ لَقَدِ اصْطَفَيْنَهُ فِي الدُّنْيَا وَ إِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّلِحِينَ (البقرة:۱۳۱) ان آیتوں میں، ان کلمات شریفہ میں اللہ تعالیٰ ایک شخص کی راہ پر چلنے کی ہدایت فرماتا ہے اور وہ انسان اس قسم کا ہے جس کو ہر مذہب و ملت کے لوگ عموماً یا غالبا عظمت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.وہ کون؟ ابوالانبیاء حنفاء کا باپ ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام.یہ ابراہیم وہ ہے جس کی نسبت اس سے پہلے فرمایا.وَإِذَ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمْتِ فَأَتَمَّهُنَّ (البقرة :۳۵) کہ جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں کے بدلے انعام دینا چاہا تو اس نے ان کو پورا کر دکھایا.اللہ تعالیٰ جب انسان کو بچے علوم عطا کرتا ہے اور اس کا ان علوم کے مطابق عملد رآمد ہو پھر اس میں قوت مقناطیسی پیدا ہو جاتی ہے اور نیکیوں کا نمونہ ہو کر دوسروں کو اپنی طرف کھینچتا ہے.یہ درجہ اس کو تب ملتا ہے جب وہ اللہ تعالیٰ کا وفادار بندہ ہو اور اس کی فرمانبرداری میں ایسا ثابت قدم اور مستقل مزاج

Page 121

112 ہو کہ رنج میں، راحت میں، عسر میں یسر میں ، باساء میں، ضراء میں، غرض ہر حالت میں قدم آگے بڑھانے والا ہو اور اللہ جل شانہ کی وفاداری میں چست ہو.اس کو حاجتیں پیش آتی ہیں مگر وہ اس کے ایمان کو ہر حال میں بڑھانے والی ہوتی ہیں کیونکہ بعض وقت حاجت پیش آتی ہے تو دعا کا دروازہ اس پر کھلتا ہے اور توجہ الی اللہ اور تضرع الی اللہ کے دروازے اس پر کھلتے ہیں اور اس طرح پر وہ حاجتیں مال و جان کی ہوں، عزت و آبرو کی ہوں، غرض دنیا کی ہوں یا دین کی اس کے تقرب الی اللہ کا باعث ہو جاتی ہیں.کیونکہ جب وہ دعائیں کرتا ہے اور ایک سوز و رقت اور دلگد از طبیعت سے باب اللہ پر گرتا ہے اور اس کے نتیجہ میں کامیاب ہو جاتا ہے تو باب شکر اس پر کھلتا ہے اور پھر وہ سجدات شکر بجالا کر ازدیاد نعمت کا وارث ہوتا ہے جو ثمرات شکر میں ہیں.اور اگر کسی وقت بظاہر ناکامی ہوتی ہے تو پھر صبر کے دروازے اس پر کھلتے ہیں اور رضا بِالْقَضَاءِ کے ثمرات لینے کو تیار ہوتا ہے.اسی طرح یہ حاجتیں جب کسی بد بخت انسان کو آتی ہیں اور وہ مالی جانی یا اور مشکلات میں مبتلا ہوتا ہے تو یہ حاجتیں اور بھی اس کی دوری اور مہجوری کا باعث ہو جاتی ہیں.کیونکہ وہ بے قرار مضطرب ہو کر قلق کرتا اور نا امید اور مایوس ہو کر مخلوق کے دروازہ پر گرتا ہے.اس وقت اللہ تعالیٰ سے ایسا بیگانہ اور نا آشنا ہوتا ہے کہ ہر قسم کے فریب و دعا سے کام لینا چاہتا ہے.اگر کبھی کامیاب ہو جائے تو اس کو اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کے ذکر اور اس کی حمد وستائش کا موقع نہیں ملتا.بلکہ وہ اپنی کرتوتوں اور فریب و دغا اور چالبازیوں کی تعریف کرتا اور شیخی اور تکبر میں ترقی کرتا اور اپنی حیل و تجاویز پر عجب و ناز کرتا ہے.اگر ناکام ہوتا ہے تو رضًا بِالْقَضَاءِ کے بدلے اس کی مقادیر کو کوستا اور بری نگاہ سے دیکھتا اور اپنے رب کا شکوہ کرتا ہے.غرض یہ حاجتیں تو سب کو ہیں اور انبیاء اولیاء و صدیقوں اور تمام منعم علیہ گروہ کے لئے بھی مقدر ہوتی ہیں مگر سعید الفطرت کے لئے وہ تقرب الی اللہ کا باعث ہو جاتی اور اس کو مزید انعامات کا وارث بنا دیتی ہیں اور شقی مضطرب ہو کر قلق کرتا ہے اور ناکام ہو کر سُخط عَلَی اللہ کر بیٹھتا ہے.کامیابی پر وہ مبتلافی الشرک ہو جاتا ہے اور ناکامی پر مایوس.مشکلات اور حوائج کیوں آتے ہیں؟ ان میں بار یک دربار یک مصالح الیہ ہوتے ہیں.کیونکہ مشکلات میں وسائط کا مہیا کرنا تو ضروری ہوتا ہے.اس سے پتہ لگ سکتا ہے کہ مَنْ يَّشْفَعُ شَفَاعَةً حَسَنَةٌ (النساء:۸۴) کا ثواب لینا بھی کیسی نعمت الہی ہے اور پھر ان میں یہ حکمت ہوتی ہے کہ ان خدمات کے ثمرات، مساعی جمیلہ ان کی فکر اور محنت پر اللہ تعالیٰ کو انعام دینا منظور ہوتا ہے اور اس طرح پر نہ سنن النی باطل ہوتے ہیں اور نہ سلسلہ علم ظاہری کا باطل ہوتا ہے.

Page 122

113 غرض سچا اور پکا مومن وہ ہوتا ہے جیسا کہ حضرت امام نے شرائط بیعت میں لکھا ہے کہ رنج میں، راحت میں، عسر میں یسر میں قدم آگے بڑھا وے.اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ان امور کا پیش آنا ضروری ہے تو ہر ایک حالت میں فرمانبردار انسان کو چاہئے کہ ترقی کرتار ہے اور دعاؤں کی طرف توجہ کرے تا کامیابی کی راہیں اسے مل جائیں.اور یہ ساری باتیں ابراہیمی ملت کے اختیار کرنے سے پیدا ہوتی ہیں.ابراہیمی ملت کیا ہے؟ یہی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کہا اسلیم تو فرمانبردار ہو جا.انہوں نے کچھ نہیں پوچھا یہی کہا أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ (البقرة:۳۳) اسلام کسی دعوے کا نام نہیں.بلکہ اسلام یہ ہے کہ اپنی اصلاح کر کے سچا نمونہ ہو.صلح و آشتی سے کام لے.فرمانبردار ہو.سارے اعضا قلب ، زبان ، وارح اعمال و اموال انقیاد الہی میں لگ جائیں.منہ سے مسلمان کہلا لینا آسان ہے.شرک، حرص، طمع اور جھوٹ سے گریز نہیں.زنا، چوری، غفلت کنبہ پروری اور ایذا رسانی سے دریغ نہیں.پھر کہتا ہے میں فرمانبردار ہوں.یہ دعویٰ غلط ہے.کیسا عجیب زمانہ تھا جب یہ دعویٰ کہ نَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ (البقرة: (۱) نَحْنُ لَهُ عَابِدُونَ (البقرة:۱۳۹) علی رؤس الاشہاد کئے جاتے تھے.ایسے پاک مدعیوں کی طرح مومن بننا چاہئے جن کی تصدیق میں خدا نے بھی فرمایا کہ ہاں، سچ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے مخلص عابد ہیں.مومن کو اسلیم کہنے کے ساتھ ہی أسْلَمْتُ کہنے کے لئے تیار رہنا چاہئے.یہی نکتہ معرفت کا ہے جو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے اور اسی کے نہ سمجھنے کی وجہ سے فَرِحُوا بِمَا عِنْدَهُمْ مِنَ الْعِلْمِ (المومن: (۸۴) کے مصداق ہو جاتے ہیں..ت سے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم مدارج تحقیقات پر پہنچے ہوئے ہیں.اس غلط خیال نے بہت بڑا نقصان کے بچایا ہے.اسی سے مشرکوں نے استدلال کر لیا بَلْ نَتَّبِعُ مَا الْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا (البقرہ).غرض ایک راستباز کی شناخت کے لئے کبھی کوئی مشکل یہود یا نصاری یا منکرین امام پر نہ آتی اگر وہ سمجھتے کہ پاک رسول نے کیا دعوی کیا.قُلْ مَا كُنْتُ بِدُعَا مِنَ الرُّسُل (الاحقاف (1) ان کو کہہ دو کہ میں نے کوئی نیا دعویٰ نہیں کیا.نئے رسول کے لئے مشکلات ہوتی ہیں لیکن جس سے پہلے اور رسول اور نواب اور ملوک اور راست بازگزار چکے ہیں اس کو کوئی مشکلات نہیں ہوتیں.جن ذرائع سے پہلے راستبازوں کو شناخت کیا ہے وہی ذریعے اس کی شناخت کے لئے کافی اور حجت ہیں.تعلیم میں مقابلہ کرلے.اس کا چال چلن دیکھ لے کہ پہلے راستبازوں جیسا ہے یا نہیں.دشمن کو دیکھ لے کہ اسی رنگ کے ہیں یا نہیں.آدمی کو ایک آسان راستہ

Page 123

114 نظر آتا ہے.مگر خدا کے فضل سے مجھے محض اللہ ہی کے فضل سے اس آیت قُلْ مَا كُنْتُ بِدُعَا مِنَ الرسل (الاحقاف) کے بعد راستباز کی شناخت میں کوئی مشکل نہیں پڑی.مگر بات یہ ہے کہ تعلیم الہی کے بغیر یہ سمجھ میں نہیں آسکتی اور تعلیم الہی کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ قانون ٹھہرا دیا ہے.وَاتَّقُوا اللَّهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللهُ (البقره:۳۸۳) میں پھر کہتا ہوں کہ ملت ابراہیم بڑی عجیب راحت بخش چیز ہے.وہ ملت وہ سیرت کیا ہے؟ اسلم فرمانبردار ہو کر چلو.قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ العَالَمِينَ پھر اس ملت اور سیرت کو چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے شفابخش، رحمت اور نور پایا تھا اس لئے نہ صرف اپنے ہی لئے اس کو پسند کیا بلکہ وصی بِهَا إِبْرَاهِيمُ (البقرة: ۳۳) اسی سیرت اور ملت کی ابراہیم نے اپنی اولاد کو وصیت کی.ایک دانا انسان اولاد کے لئے کوئی ضرر رساں چیز نہیں چاہتا.مکانوں میں ان کے لئے مضبوطی، خوبصورتی اور دیگر لوازم کی کیسی سعی کرتا ہے اور کیوں؟ اولاد کی بہتری کے خیال سے یہ انسانی فطرت میں ہے کہ وہ اولاد کی بہتری چاہتا ہے.پھر ابراہیم جیسا اولوالعزم انسان جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا.الَّذِي وَفَّى (النجم:۳۸) اس نے اپنی اولاد کے لئے کیا خواہش کی ہوگی ؟ اور وہ خواہش اس وصیت ابراہیمی سے ملتی ہے اور اس دعا سے اس کا پتہ ملتا ہے جو انہوں نے کی رَبَّنَا وَ ابْعَثُ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمْ (البقرة:۳۰).اس وصیت پر غور کر کے ہمیں اندازہ کرنا چاہئے کہ ہم اپنی اولاد کے لئے کیا خواہش کرتے اور کیا ارادہ رکھتے ہیں؟ الغرض یہی باتیں تھیں یعنی اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار ہونا اور اس کے احکام پر کار بند ہونا.اسی کی وصیت اپنی اولاد کو کی اور اس کے پوتے کے بیٹے کریم ابن کریم یوسف بن یعقوب بن اسحاق کی بھی یہی ملت تھی.اب تم سب اپنے اندر ہی اندر سوچو کہ کیا خواہش اور ارادے ہیں.میں نے ایک شخص کو کہا کہ قرآن پڑھا کرو.اس نے کہا کہ میری شان کے موافق کوئی قرآن مجھے دیدو.میری سمجھ میں نہ آیا کہ کیوں اس نے قرآن پر خرچ کرنے سے مضائقہ کیا.علی العموم لوگ یہی چاہتے ہیں کہ قرآن مفت مل جاوے اور دیگر اخراجات میں خواہ کسی قدر بھی روپیہ خرچ کریں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی طرف توجہ ہی نہیں.دیکھو ہمارے امام کو الہام ہو چکا ہے اور میں اس پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں جیسا کہ سورج کے ہوتے سورج کے وجود پر.وہ کہتا ہے کہ جن کی خواہش اور محبت قرآن کریم سے نہ ہو گی ان کی اولاد گندہ خراب وختہ ہو گی.اب تم سب اپنی اپنی جگہ دیکھو کہ بیاہ شادی اور معاشرت کے وقت کیا کیا خواہشیں ہوتی ہیں.ایک طرف ان کو رکھو اور دوسری طرف اس

Page 124

115 پیغام الہی پر غور کرو جو امام کی معرفت ملا ہے.پھر ابراہیم کا پوتا یعقوب اپنی اولاد کو مخاطب کر کے کہتا ہے يُبَنِي إِنَّ اللهَ اصْطَفى لَكُمُ الدِّينَ (البقره:۳۳) اے میری اولاد اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ایک دین برگزیدہ کیا ہے.فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ (البقرة (۳۳) پس تم کو تاکید کرتا ہوں کہ تمہاری موت نہ آوے مگر ایسے رنگ میں کہ تم مسلمان ہو.اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار بندے ہو.انسان کو موت کا وقت معلوم نہیں اور پتہ نہیں اس وقت حواس درست ہوں یا نہ ہوں اور پھر یہ امر اختیاری نہیں ، اس لئے یہ عقدہ کس طرح حل ہو؟ ایک صحیح حدیث نے اس مسئلہ میں میری رہنمائی کی ہے.اور اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان جب عمل کرتا ہے تو فرشتے اس کے اعمال کو لکھتے جاتے ہیں، سعادت کے اعمال بھی اور شقاوت کے اعمال بھی اور موت کے قریب ان کی میزان کی جاتی ہے اور پھر وہ مقادیر اللہ سبقت کرتی ہیں.اگر وہ لوگوں کی نظر میں نیک تھا پر اللہ سے معالمہ صاف نہیں یا اللہ سے معاملہ صاف ہے مگر لوگوں کی نگاہ میں نہیں تو وہ کتاب باعث ہوتی ہے کہ اس کا خاتمہ اللہ کی رضایا سخط پر جیسی صورت ہو، ہو.پس ہر روز اپنے اعمال کا محاسبہ چاہئے.ایک صحابی نے ہماری سرکار صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا کہ جاہلیت میں میں نے کچھ صدقات کئے تھے.کیا وہ بابرکات ہوں گے؟ ارشاد ہوا کہ أَسْلَمْتَ مَا اسْلَفْتَ یہ اسلام ان کی ہی برکت سے تجھے نصیب ہوا ہے.موت علی الاسلام اس طرح نصیب ہو سکتی ہے کہ انسان ہر روز محاسبہ کرتا رہے اور اللہ تعالیٰ سے اپنا معاملہ صاف کرے.اگر تعلقات صحیحہ نہ ہوں تو تو بہ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں.اَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاءَ (البقره: ۱۳۳) تم تو موجود تھے.تمہارے اسلاف گواہی دیتے ہیں کہ یعقوب نے آخر وقت کیا ارشاد کیا کس کی اطاعت کرو گے؟ انہوں نے کہا نَعْبُدُ الْهَكَ (البقره: ۱۳۴) ہم اللہ کے فرمانبردار ہوں گے جو تمہارا اور اسحاق اور ابراہیم کا معبود تھا اور وہ ایک ہی تھا.وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (البقرہ:۱۳۳) ہم ہمیشہ اس کے فرمانبردار رہیں گے.پس یہ حق وصیت کا ہے اور تمام و عظوں کا عطر اور اصل مقصد یہی ہے جو تمہارے سامنے پیش کیا ہے اور یہ وصیت ہے اس شخص کی جو ابو الانبیاء اور ابو الحنفاء ہے.اور اسی کی وصیت کو میں نے تمہارے سامنے پیش کیا ہے.پس تم اپنے کھانے پینے ، لباس، دوستی محبت رنج راحت عسر یسر ، افلاس، دولتمندی، صحت اور مرض ، مقدمات و صلح میں اس اصول کو مد نظر رکھو کہ اللہ کی فرمانبرداری سے کوئی قدم باہر نہ ہو.پس یہ وصیت تمام وصیتوں کی ماں ہے.اللہ تعالی تمہیں توفیق دے کہ ہر حال میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری مد نظر ہو.اور یہ ہو نہیں سکتی جب اللہ تعالیٰ سے بغاوت ہو.اور یہ بھی بغاوت ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک کو بڑا بناتا ہے اور اس کو برگزیدہ کرتا

Page 125

116 ہے مگر یہ اس کی مخالفت کرتا اور اس سے انکار کرتا ہے.برہموؤں نے اسی قسم کا دعویٰ کیا ہے جو وہ رسالت و نبوت کے منکر ہیں.یہ بغاوت ہے.اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ مطاع ہو اور وہ گویا ارادہ الہی کا دشمن اور باغی ہے.پس اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (الفاتحه) کی دعا کرو.علوم پر ناز اور گھمنڈ نہ کرو.رنج میں، راحت میں اور عسر یسر میں قدم آگے بڑھاؤ.خطبہ ثانی إنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَابْنَاى ذِي الْقُرْنِي وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِو الْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (النحل:9) اس آیت میں بڑے حکم ہیں.پہلا حکم عدل کا ہے.ایک عدل و انصاف بندوں کے ساتھ ہے.دیکھو ہم نہیں چاہتے کہ کوئی ہم سے دعا فریب کرے یا ہمارا نو کر ہو تو وہ ہماری خلاف ورزی کرے.پس ہم کو بھی لازم ہے کہ اگر ہم کسی کے ساتھ خادمانہ تعلق رکھتے ہیں تو اپنے مخدوم و محسن کی خلاف ورزی نہ کریں.اپنے فرائض منصبی کو ادا کریں اور کسی سے کسی قسم کا مکرو فریب اور دغا نہ کریں.یہی عدل ہے.ہرچہ بر خود نه پسندی بر دیگران مپسند.یہ عدل باہم مخلوق کے ساتھ ہے.اور پھر جیسے ہم اپنے محسنوں کے ساتھ تعلقات رکھتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو محسنوں کا محسن اور مربوں کا مربی اور رب العالمین ہے اس کے ساتھ معاملہ کرنے میں عدل کو ملحوظ رکھیں.اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور اس کا یذ اور مقابل تجویز نہ کریں.اس کے بعد دوسرا حکم احسان کا ہے.مخلوق کے ساتھ یہ کہ نیکی کے بدلے نیکی کرتے ہیں اس سے بڑھ کر سلوک کریں.اللہ تعالیٰ کے ساتھ احسان یہ ہے کہ عبادت کے وقت ہماری یہ حالت ہو کہ ہم گویا اللہ تعالیٰ کو دیکھتے ہیں اور اگر اس مقام تک نہ پہنچے تو یقین ہو کہ وہ ہم کو دیکھتا ہے.پھر تیسرا حکم ایتاء ذی القربیٰ کا ہے.ذی القربی کے ساتھ تعلق اور سلوک انسان کا فطری کام ہے جیسے ماں باپ بھائی بہن کے لئے اپنے دل میں جوش پاتا ہے اسی طرح اللہ کی فرمانبرداری میں متوالا ہو.کوئی غرض مد نظر نہ ہو.گویا محبت ذاتی کے طور پر اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری ہو.

Page 126

117 پھر چوتھا حکم یہ ہے کہ اللہ تعالی منع کرتا ہے ہر قسم کی بے حیائیوں، نافرمانیوں اور دوسرے کو دکھ دینے والی باتوں سے اور ان بغاوتوں سے جو اللہ جل شانہ یا حکام یا بزرگوں سے ہوں اور آخر میں یہ ہے يعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ اللہ تعالی تمہیں وعظ کرتا ہے.غرض اور مشاء الی یہ ہے کہ تم اس کو یاد رکھو.دو قسم کے واعظ ہوتے ہیں اور دو ہی قسم کے سننے والے.واعظ کی دو قسمیں تو یہ ہیں کہ کچھ پیسے مل جاویں اور یا مدح سرائی ہو کہ عمدہ بولنے والا ہے.خدا کا شکر ہے کہ تمہارے وعظ میں یہ دونوں باتیں نہیں بلکہ وہ محض نصح کے لئے کہتا ہے جو کہتا ہے.اور سننے والوں میں سے ایک قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جن کو اس وقت کچھ مزہ آتا ہے اور پھر یاد کچھ نہیں رہتا.دوسرے بالکل کورے کارے ہوتے ہیں.پس تم اس قسم کے سننے والے نہ بنو بلکہ وعظ کی اس غرض کو ملحوظ رکھو لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ - الله تعالى ہم سب کو توفیق دے.آمین الحکم جلدے نمبر ۲----- ۷ ار جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۱ تا۱۳)

Page 127

جنوری ۱۹۰۳ء 118 خطبہ عید الفطر لا إكراه في الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ (البقرة ٢٥٠) دین کے معاملہ میں جبر نہیں، وہ کھلی چیز ہے.رُشد اور غنی الگ الگ چیزیں ہیں.رُشد کے اختیار کرنے اور غنی کے چھوڑنے میں کسی اکراہ کی ضرورت نہیں.اس آیت میں تین لفظ ہیں "دین"."رشد ".اور "فی".الدین اللہ تعالی نے اپنی پاک کتاب میں جو "دین" کی توضیح اور تغییر فرمائی ہے وہ یہ ہے إِن الدِّينَ عِندَ الله الإسلام (ال عمران (۳۰) اللہ تعالیٰ کے حضور "دین" کی حقیقت اور ماہیت کیا ہے ؟ الاسلام! اپنی ساری قوتوں اور طاقتوں کے ساتھ اللہ کا فرمانبردار ہو جائے.اللہ تعالیٰ کے فرمان کو لے اور اس پر روح اور راستی سے عمل درآمد کرے.دین کے متعلق جبرائیل علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور سوال کیا ہے اور آپ نے صحابہ کرام کو بلکہ ہم کو آگاہ کیا ہے کہ یہ جبرائیل تھا.آناكُمْ

Page 128

119 لِيُعَلِّمَكُمْ دِينَكُمُ (صحیح مسلم کتاب الایمان).پس دین کی حقیقت اور اس کا صحیح اور سچا مفہوم وہ ہو گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت بیان فرمایا.الاسلام کے معنی یہ ہیں سر رکھ دینا.جان سے دل سے اعضاء سے مال سے غرض ہر پہلو اور ہر حالت میں اللہ تعالٰی ہی کی فرمانبرداری کرنا.دین کے لئے اللہ تعالیٰ نے بہت سی چیزیں عطا فرمائی ہیں جن کے ذریعہ ہم اس کی کامل اطاعت فرمان پذیری اور وفاداری کا اظہار کر سکتے ہیں اور پھر ان کے وراء الورٹی اندر ہی اندر قومی پر حکمرانی کر سکتے ہیں اور ان کو الہی فرمانبرداری میں لگا سکتے ہیں.غرض دین کی اصل حقیقت جو قرآن شریف نے بتائی ہے وہ مختصر الفاظ میں کامل وفاداری، بچی اطاعت اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری ہے.دین کا پہلا رکن ایمان پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل کے توسط سے جو کچھ صحابہ کو اور ہم کو سکھایا ہے وہ ان سوالات میں بیان ہوا ہے جو صحابہ کی موجودگی میں جبرائیل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کئے اور جن کی اصل غرض لِيُعَلِّمَكُمْ دِينَكُمْ تھی.ان میں سے پہلا یہ ہے.مَا الْإِيْمَانُ؟ یا رسول الله ! ایمان کس چیز کا نام ہے؟ فرمایا.اَنْ تُؤْمِنَ بِالله ایمان کی عظیم الشان اور پہلی جزو ایمان باللہ ہے.اور یہ بالکل سچی بات ہے کہ ایمان کا سرچشمہ اور اس کی ابتدا اللہ پر یقین کرنے سے شروع ہوتی ہے.ایمان باللہ کیا چیز ہے؟ اللہ تعالیٰ کو جمیع صفات کاملہ سے موصوف اور تمام محامد اور اسماء حسنیٰ کا مجموعہ اور مسمی اور تمام بدیوں اور نقائص سے منزہ یقین کرنا اور اس کے سوا کسی شے سے کوئی امید وہیم نہ رکھنا اور کسی کو اس کا نڈ اور شریک نہ ماننا یہ ایمان باللہ ہے.جب انسان اللہ تعالٰی کو ان صفات سے موصوف یقین کرتا ہے تو ایسے خدا سے وہی قرب اور تعلق پیدا کر سکتا ہے جو خوبیوں سے موصوف اور بدیوں سے پاک ہو گا.پس جس جس قدر انسان فضائل کو حاصل کرتا اور رزائل کو ترک کرتا ہے اسی قدر وہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے قرب کے مدارج اور مراتب کو بڑھاتا اور اللہ تعالیٰ کی ولایت میں آتا جاتا ہے کیونکہ پاک کو گندے کے ساتھ قرب کی نسبت نہیں ہو سکتی اور جوں جوں رزائل کی طرف جھکتا اور فضائل سے ہٹتا ہے اسی قدر اللہ تعالیٰ کے قرب سے محروم ہو کر اس کے فیضان ولایت سے دور اور مجور ہوتا جاتا ہے.

Page 129

120 حصول قرب الہی کا ذریعہ یہ ایک قابل غور اصل ہے اور اس کو کبھی بھی ہاتھ سے دینا نہیں چاہئے.صفات الہی پر غور کرو اور وہی صفات اپنے اندر پیدا کرو.نتیجہ یہ ہو گا کہ قرب الہی کی راہ قریب ہوتی جائے گی.اور اس کی قدوسیت اور سبحانیت تمہاری پاکیزگی اور طہارت کو اپنی طرف جذب کرے گی.بہت سے لوگ اس قسم کے ہیں جو خود ناپاک اور گندی زیست رکھتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ کیوں ہم کو قرب الہی حاصل نہیں ہو تا؟ وہ نادان نہیں جانتے کہ ایسے لوگوں کو قرب الی کیونکر حاصل ہو جو اپنے اندر پاکیزگی اور طہارت پیدا نہیں کرتے.قدوس خدا ایک ناپاک انسان سے کیسے تعلق پیدا کرے؟ ایمان بالملائکہ کی فلاسفی ایمان باللہ کے بعد دوسری جزو ایمان کی ایمان بالملائکہ ہے.ایمان بالملائکہ کے متعلق مجھے اللہ تعالیٰ نے یوں سمجھ دی ہے کہ انسان کے دل پر ہر وقت ملک اور شیطان نظر رکھتے ہیں.اور یہ امر ایسا واضح اور صاف ہے کہ اگر غور کرنے والی فطرت اور طبیعت رکھنے والا انسان ہو تو بہت جلد اس کو سمجھ لیتا ہے.بلکہ موٹی عقل کے آدمی بھی معلوم کر سکتے ہیں اور وہ اس طرح پر کہ بعض وقت یکایک بیٹھے بٹھائے انسان کے دل میں نیکی کی تحریک ہوتی ہے یہاں تک کہ ایسے وقت بھی تحریک ہو جاتی ہے جبکہ وہ کسی بڑی بدی اور بدکاری میں مصروف ہو.میں نے ان امور پر مدتوں غور کی اور سوچا ہے اور ہر ایک شخص اپنے دل کی مختلف کیفیتوں اور حالتوں سے آگاہ ہے.وہ دیکھتا ہے کہ کبھی اندر ہی اندر کسی خطرناک بدی کی تحریک ہو رہی ہے اور پھر محسوس کرتا ہے کہ معادل میں رقت اور نیکی کی تحریک کا اثر پاتا ہے.یہ تحریکات نیک یا بد جو ہوتی ہیں بدوں کسی محرک کے تو ہو نہیں سکتی ہیں.پس یہ وہی بات ہے جو میں نے ابھی کمی ہے کہ انسان کے دل کی طرف ملائکہ اور شیاطین نظر رکھتے ہیں.پس ایمان بالملائکہ کی اصل غرض یہ ہے کہ ہر نیکی کی تحریک پر جو ملائکہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے کبھی کسل و کاہلی سے کام نہ لے اور فوراً اس پر عمل کرنے کو تیار ہو جائے اور توجہ کرے.اگر ایسا نہ کرے گا تو وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ (الانفال (۲۵) کا مصداق ہو کر پھر نیکی کی توفیق سے بتدریج محروم ہو جائے گا.

Page 130

121 قرب الہی کا دوسرا ذریعہ یہ پکی بات ہے کہ جب انسان نیکی کی تحریکوں کو ضائع کرتا ہے تو پھر وہ طاقت وقت فرصت اور موقع نہیں ملتا.اگر انسان اس وقت متوجہ ہو جاوے تو معا نیک خیال کی تحریک ہوتی ہے.چونکہ اس خواہش کا محرک محض فضل الہی سے ملک ہوتا ہے جب انسان اس کی تحریک پر کار بند ہوتا ہے تو پھر اس فرشتہ اور اس کی جماعت کا تعلق بڑھتا ہے اور پھر اس جماعت سے اعلیٰ ملائکہ کا تعلق بڑھنے لگتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو جاتا ہے.ایک حدیث میں صاف آیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی سے پیار کرتا ہے تو جبرائیل کو آگاہ کرتا ہے تو وہ جبرائیل اور اس کی جماعت کا محبوب ہوتا ہے.اسی طرح پر درجہ بدرجہ وہ محبوب اور مقبول ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ زمین میں مقبول ہو جاتا ہے.یہ حدیث اسی اصل اور راز کی حل کرنے والی ہے جو میں نے بیان کیا ہے.ایمان بالملائکہ کی حقیقت پر غور نہیں کی گئی اور اس کو ایک معمولی بات سمجھ لیا جاتا ہے.یاد رکھو کہ ملائکہ کی پاک تحریکوں پر کاربند ہونے سے نیکیوں میں ترقی ہوتی ہے یہاں تک کہ انسان اللہ تعالیٰ کا قرب اور دنیا میں قبول حاصل کرتا ہے.اسی طرح پر جیسے نیکیوں کی تحریک ہوتی ہے میں نے کہا ہے کہ بدیوں کی بھی تحریک ہوتی ہے.اگر انسان اس وقت تعوذ و استغفار سے کام نہ لے دعائیں نہ مانگے ، لاحول نہ پڑھے تو بدی کی تحریک اپنا اثر کرتی ہے اور بدیوں میں مبتلا ہو جاتا ہے.پس جیسے یہ ضروری ہے کہ ہر نیک تحریک کے ہوتے ہی اس پر کار بند ہونے کی سعی کرے اور سستی اور کاہلی سے کام نہ لے یہ بھی ضروری ہے کہ ہر بد تحریک پر فی الفور استغفار کرے لاحول پڑھے.درود شریف اور سورۃ فاتحہ پڑھے اور دعائیں مانگے.یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ایمان باللہ کے بعد ایمان بالملائکہ کو کیوں رکھا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ ساری سچائیوں اور پاکیزگیوں کا سرچشمہ تو جناب الہی ہی ہے.مگر اللہ تعالیٰ کے پاک ارادے ملائکہ پر جلوہ گری کرتے ہیں اور ملائکہ سے پاک تحریکیں ہوتی ہیں.نیکی کی ان تحریکوں کا ذریعہ دوسرے درجہ پر چونکہ ملائکہ ہیں اس لئے ایمان باللہ کے بعد اس کو رکھا.ملائکہ کے وجود پر زیادہ بحث کی اس وقت حاجت نہیں.یہ تحریکیں ہی ملائکہ کے وجود کو ثابت کر رہی ہیں.اس کے علاوہ لاکھوں لاکھ مخلوق الہی ایسی ہے جس کا ہم کو علم بھی نہیں اور نہ ان پر ایمان لانے کا ہم کو حکم ہے.

Page 131

122 اس کے بعد تیسرا جزو ایمان کا ایمان بالکتب ہے.براہ راست مکالمہ اول فضل ہے پھر ملائکہ کی تحریک پر عمل کرنا اس کے قرب کو بڑھاتا ہے.ان کے بعد کتاب اللہ کے ماننے کا مرتبہ ہے.کتاب اللہ پر ایمان بھی اللہ کے فضل اور ملائکہ ہی کی تحریک سے ہوتا ہے.اللہ کی کتاب پر عمل در آمد جو بچے ایمان کا مفہوم اصلی ہے، چاہتا ہے محنت اور جہاد.چنانچہ فرمایا.وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:۷۰) یعنی جو لوگ ہم میں ہو کر مجاہدہ اور سعی کرتے ہیں ہم ان پر اپنی راہیں کھول دیتے ہیں.یہ کیسی کچی اور صاف بات ہے.میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیوں اختلاف کے وقت انسان مجاہدات سے کام نہیں لیتا.کیوں ایسے وقت انسان دبدھا اور تردد میں پڑتا ہے اور جب یہ دیکھتا ہے کہ ایک کچھ فتویٰ دیتا ہے اور دوسرا کچھ تو وہ گھبرا جاتا اور کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا.کاش وہ جَاهَدُوا فِيْنَا کا پابند ہوتا تو اس پر سچائی کی اصل حقیقت کھل جاتی.مجاہدہ کے ساتھ ایک اور شرط بھی ہے، وہ تقویٰ کی شرط ہے.تقویٰ کلام اللہ کے لئے معلم کا کام دیتا ہے وَاتَّقُوا اللَّهَ وَيُعَلِّمُكُمُ الله (البقرہ: ۳۸۳).اللہ کی تعلیم تقویٰ پر منحصر ہے اور اس کی راہ کا حصول جہاد پر.جہاد سے مراد اللہ تعالیٰ کی راہ میں سعی اور کوشش ہے.اللہ تعالیٰ کی راہ میں سعی اور جہاد اور تقویٰ اللہ سے روکنے والی ایک خطرناک غلطی ہے جس میں اکثر لوگ مبتلا ہو جاتے ہیں اور وہ یہ ہے فَرِحُوْابِمَا عِنْدَهُمْ مِنَ الْعِلْمِ (المومن (۸۳).کسی قسم کا علم جو انسان کو ہو وہ اس پر ناز کرنے اس کو اپنے لئے کافی اور راحت بخش سمجھے تو وہ بچے علوم اور ان کے نتائج سے محروم رہ جاتا ہے.خواہ کسی قسم کا علم ہو، وجدان کا سائنس کا صرف و نحو یا کلام یا اور علوم غرض کچھ ہی ہو انسان جب ان کو اپنے لئے کافی سمجھ لیتا ہے تو ترقیوں کی پیاس مٹ جاتی ہے اور محروم رہتا ہے.راستباز انسان کی پیاس سچائی سے کبھی نہیں بجھ سکتی بلکہ ہر وقت بڑھتی ہے.اس کا ثبوت اس سے بڑھ کر کیا ہو گا کہ ایک کامل انسان اَعْلَمُ بِاللهِ اتَّقَى لِلَّهِ - أَخْشَى لِلَّهِ جس کا نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے وہ اللہ تعالیٰ کے بچے علوم معرفت بچے بیان اور عمل درآمد میں کامل تھا.اس سے بڑھ کر اعلم اچھی اور اخشی کوئی نہیں.پھر بھی اس امام المتقین اور امام العالمین کو یہ حکم ہوتا ہے قُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا - (:) اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ سچائی کے لئے اور اللہ تعالیٰ کی معرفت اور یقین کی راہوں اور علوم حقہ کے لئے اسی قدر پیاس انسان میں بڑھے گی جس قدر وہ نیکیوں اور تقویٰ میں ترقی کرے گا.جو انسان اپنے اندر اس پیاس کو بجھا ہوا محسوس کرے اور فَرِحُوا بِمَا عِنْدَهُمْ مِنَ الْعِلْمِ (المومن:۸۴) کے آثار پائے اس کو استغفار اور دعا کرنی چاہئے کہ وہ خطرناک مرض میں مبتلا ہے جو اس

Page 132

123 کے لئے یقین اور معرفت کی راہوں کو روکنے والی ہے.چونکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی راہیں بے انت اور اس کے مراتب و درجات بے انتہا ہیں پھر مومن کیونکر مستغنی ہو سکتا ہے.اس لئے اسے واجب ہے کہ اللہ کے فضل کا طالب اور ملائکہ کی پاک تحریکوں کا متبع ہو کر کتاب اللہ کے سمجھنے میں چست و چالاک ہو.اور سعی اور مجاہدہ کرے.تقویٰ اختیار کرے تا کچے علوم کے دروازے اس پر کھلیں.غرض کتاب اللہ پر ایمان تب پیدا ہو گا جب اس کا علم ہو گا اور علم منحصر ہے مجاہدہ اور تقویٰ پر اور فَرِحُوْا بِمَا عِنْدَهُمْ مِنَ الْعِلْمِ (المومن: ۸۴) سے الگ ہونے پر.ایمان بالرسالت اس کے بعد چوتھار کن ایمان کا ایمان بالرسول ہے.بہت سے لوگ ایسے موجود ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ڈھیروں ڈھیر کتا بیں ہیں.پرانے لوگوں کی یادداشتیں ہیں.ہم نیکی اور بدی کو سمجھتے ہیں.کسی مامورو مرسل کی کیا ضرورت ہے؟ یہ لوگ اپنے مخازن علوم کو کافی سمجھتے ہیں اور خطرناک جرم کے مرتکب ہوتے ہیں کیونکہ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کے حضور باغی ٹھہرائے جاتے ہیں اور یہ سچ بھی ہے.اللہ تعالیٰ ہی سے تو وہ مقابلہ کرتے ہیں.جب اللہ تعالیٰ ایک انسان کو معظم و مکرم اور مطاع بنانا چاہتا ہے تو ہر ایک کا فرض ہے کہ رضاء الہی کو مقدم کرے اور اس کو اپنا مطاع سمجھے.ارادہ الہی کو کوئی چیز روک نہیں سکتی.اس کے مقابلہ میں تو جو آئے گا وہ ہلاک ہو جائے گا.پس جو خلاف ورزی کرتا ہے یا یہ سمجھتا ہے کہ میرے علوم کے سامنے اس کی احتیاج نہیں وہ اس تعظیم کرمت، اعزاز میں جو اس مطاع اکرم و معظم کے متبعین کو ملتا ہے حصہ دار نہیں ہو تا بلکہ محروم رہ جاتا ہے.خواہ ایسا انسان اپنے طور پر کتنی ہی نیکیاں کرتا ہو مگر ایک انسان کی مخالفت اور خلاف ورزی سے اس کے اعمال حبط ہو جاتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے عظیم الشان منشاء کے خلاف کرتا ہے.اس پر بغاوت کا الزام ہے.دنیوی گورنمنٹوں کے نظام میں بھی یہی قانون ہے.ایک بھلا مانس آدمی جو کبھی بد معاملگی نہیں کرتا.چوری اور رہزنی اس کا کام نہیں.تاجر ہے تو چونگی کا محصول اور دوسرے ضروری محاصل کے ادا کرنے میں سستی نہیں کرتا.زمیندار ہے تو وقت پر لگان ادا کرتا ہے.لیکن اگر وہ یہ کہے کہ بادشاہ کی ضرورت نہیں اور اس کے اعزاز و اکرام میں کمی کرے تو یہ شریر اور باغی قرار دیا جاوے گا.

Page 133

124 اسی طرح پر ماموروں کی مخالفت خطر ناک گناہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے حضور ہو سکتا ہے.ابلیس نے یہی گناہ کیا تھا.انبیاء علیہم السلام کے حضور شیاطین بہت دھو کے دیتے ہیں.میرے نزدیک وہ لوگ بڑے ہی بد بخت ہیں جو اللہ تعالیٰ کے منشاء کے خلاف کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ذرہ ذرہ اس پر لعنت بھیجتا ہے.جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ معزز و مکرم اور مطاع ہو تو اس کی مخالفت کرنے والا تباہ نہ ہو تو کیا ہو.یہی سر ہے جو انبیاء و مرسل اور مامورین کے مخالف ہمیشہ تباہ ہوئے ہیں.وہ جرم بغاوت کے مجرم ہوتے ہیں.پس کتابوں کے بعد رسولوں پر ایمان لانا ضروری ہے ورنہ انسان متکبر ہو جاتا ہے اور پہلا گناہ دین میں خلیفتہ اللہ کے مقابل یہی تھا آبی وَاسْتَكْبَرَ (البقرة :(۳۵).اس میں شک نہیں کہ سنت اللہ اسی طرح پر ہے کہ ماموروں پر اعتراض ہوتے ہیں.اچھے بھی کرتے ہیں اور برے بھی، مگر اچھوں کو رجوع کرنا پڑتا ہے اور برے نہیں کرتے.مگر مبارک وہی ہیں جو اعتراض سے بچتے ہیں کیونکہ نیکیوں کو بھی آخر مامور کے حضور رجوع اور سجدہ کرنا ہی پڑا ہے.پس اگر یہ ملک کی طرح بھی ہو پھر بھی اعتراض سے بچے کیونکہ خدا تو سجدہ کرائے بغیر نہ چھوڑے گا ورنہ لعنت کا طوق گلے میں پڑے گا.جزا و سزا اس کے بعد پانچواں رکن ایمان کا جزا و سزا پر ایمان ہے.یہ ایک فطرتی اصل ہے اور انسان کی بناوٹ میں داخل ہے کہ جزا اور بدلے کے لئے ہو شیار اور سزا سے مضائقہ کرتا ہے.یہ ایک فطرتی مسئلہ ہے اور اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا.ایک بچہ بھی جب دیکھتا ہے کہ یہاں سے دکھ پہنچے گا وہاں سے ہٹتا ہے اور جہاں راحت پہنچتی ہے وہاں خوشی سے جاتا ہے.چلا چلا کر بھی جزا لینے کو تیار رہتا ہے یہاں تک کہ فاسق و فاجر کی فطرت میں بھی یہ امر ہے.ایک آدمی کبھی پسند نہیں کرتا کہ دوسرے کے سامنے ذلیل و خوار ہو.ہر ایک چاہتا ہے کہ معزز ہو.میں نے دیکھا ہے کہ فیل ہونے سے ایک بچہ کو کیسی ذلت پہنچتی ہے.بعض اوقات ان ناکامیوں نے خود کشیاں کرادی ہیں اور پاس ہونے سے کیسی خوشی ہوتی ہے.زمینداروں کو دیکھا جب بروقت بارش نہ ہو ، پھل کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو کیسا رنج ہوتا ہے لیکن اگر غلہ گھر لے آئے تو کیسا خوش ہوتا ہے.اسی طرح ہر حرفہ صنعت والا دوکاندار غرض کوئی نہیں چاہتا کہ محنت کا بدلہ نہ ملے اور بچاؤ کا سامان نہ ہو.پس جب یہ فطرتی امر ہے تو اس کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایمان کا جزو رکھا ہے کہ جزا و سزا پر ایمان لاؤ.وہ

Page 134

125 مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ (الفاتحة) ہے.روز روشن کی طرح اس کی جزائیں سزائیں ہیں اور وہ مخفی نہ ہوں گی اور مالکانہ رنگ میں آئیں گی جیسے مالک اچھے کام پر انعام اور برے کام پر سزا دیتا ہے.اس حصہ پر ایمان لا کر انسان کامیاب ہو جاتا ہے مگر اس میں سستی اور غفلت کرنے سے ناکام رہتا ہے اور قرب الہی کی راہوں سے دور چلا جاتا ہے.دوسرا سوال پھر دوسرا سوال جو جبرائیل نے تعلیم الدین کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا اور آپ نے اس کا جواب دیا وہ ہے مَا الْإِسْلام؟ اس کا جواب جو پاک انسان خاتم الانبیاء و خاتم الاولیاء خاتم الکمالات کی زبان سے نکلا وہ یہ ہے.اَنْ تَشْهَدَ اَنْ لا إِلهَ إِلَّا الله (بخاری کتاب الایمان).جو بات انسان کے دل سے اٹھتی ہے ضرور ہے کہ اس کا اثر اس کے اعضاء جوارح اور مال پر پڑے.کون نہیں سمجھتا کہ شجاعت اگر اندر ہو تو وہ اپنے ہاتھ بازو اور اعضا سے محل و موقع پر اس کا ثبوت نہ دے گا.اگر وہ موقع پر بھاگ جاتا اور بزدلی ظاہر کرتا ہے تو کوئی اس کو شجاع نہیں کہہ سکتا.اسی طرح سخاوت ایک عمدہ جو ہر ہے لیکن اگر اس کا اثر مال پر نہیں پڑتا تو وہ سخاوت نہیں، بخل ہے.ایسا ہی عفت ایک عمدہ صفت ہے.ضرور ہے کہ جس میں یہ صفت ہو وہ بد نظری اور بے حیائی سے بچے اور تمام فواحش اور ناپاک کاموں سے پر ہیز کرے.اسی طرح جس کے اندر قناعت ہو ضروری ہو گا کہ وہ دوسروں کے مال پر بے جا تصرف سے پر ہیز کرے گا.غرض یہ ضروری بات ہے کہ جب اندر کوئی بات ہو تو اس کا اثر جوارح اور مال پر ضرور ہوتا ہے.پس اگر سچی نیازمندی فرمانبرداری، تحریک ملائکہ کتابوں، ماموروں خلفاء اور مصلحوں کی اطاعت میں ہو اور دل میں یہ بات ہو تو زبان پر ضرور آئے گی اور وہ اظہار کرے گا.اگر سچائی سے کسی انسان کو مانا ہوا ہو اور اس کے اظہار سے مضائقہ ہو تو یاد رکھو دل کمزور ہے.اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر اللہ کے اسماء پر کامل یقین ہو اور اس کے رسولوں پر ملائکہ پر اور کتابوں اور انبیاء پر یقین ہو اور ایسا ہی اس یقین میں ان کا ثواب اور اللہ کا قرب داخل ہو تو اس یقین کا اثر زبان پر آتا ہے اور وہ ایک لذت کے ساتھ کہہ اٹھتا ہے اَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ - بے ریب سید الاولین والآخرین، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کامل صفات والا انسان کل سچائیوں اور علوم حقہ کالانے والا ہے.جب یہ اقرار اور وہ ایمان ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ کچی نیازمندی

Page 135

126 کے ساتھ جناب الہی کے حضور پیش ہو اور یہی نماز ہے.نماز ظاہری پاکیزگی ہاتھ منہ دھونے اور ناک صاف کرنے اور شرمگاہوں کو پاک کرنے کے ساتھ یہ تعلیم دیتی ہے کہ جیسے میں اس ظاہری پاکیزگی کو ملحوظ رکھتا ہوں اندرونی صفائی اور پاکیزگی اور کچی طہارت عطا کر اور پھر اللہ تعالیٰ کے حضور سبحانیت قدوسیت، مجدیت، پھر ربوبیت رحمانیت، رحیمیت اور اس کے ملک ملک میں تصرفات اور اپنی ذمہ واریوں کو یاد کر کے کہ اس قلب کے ساتھ ماننے کو تیار ہوں، سینہ پر ہاتھ رکھ کر تیرے حضور کھڑا ہوتا ہوں.اس قسم کی نماز جب پڑھتا ہے تو پھر اس کی وہ خاصیت اور اثر پیدا ہوتا ہے جو إِنَّ الصَّلوةَ تنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ «النحل) میں بیان ہوا ہے.پھر پاک کتاب کا کچھ حصہ پڑھے اور رکوع کرے اور غور کرے کہ میری عبودیت اور نیازمندی کی انتہا بجز سجدہ کے اور کوئی نہیں.جب اس قسم کی نماز پڑھے تو وہ نیاز مندی اور سچائی جب اعضاء اور جوارح پر اپنا اثر کر چکی تو اور جوش مار کر ترقی کرے گی اور اس کا اثر مال پر پڑے گا اور ایک مقررہ حصہ اپنے مال کا دے گا.جیسے آج کے دن بھی صدقۃ الفطر ہر شخص پر غنی ہو، تر ہو یا عبد، غرض سب پر واجب ہے کہ صدقہ دے تاکہ روزوں کے لئے طہر کا کام دے اور نماز سے پہلے ایک مقام پر جمع کرے.وحدت کی ضرورت اس بات کی بڑی ضرورت ہے کہ وحدت پیدا ہو.اسلام کے ہر امر میں وحدت کی روح پھونکی گئی ہے.جب تک وحدت نہ ہو اس پر اللہ کا ہاتھ نہیں ہوتا جو جماعت پر ہوتا ہے.میں درختوں کو دیکھ کر سوچتا ہوں کہ اگر ایک ایک پتہ کہے کہ میں ہاتھ پھیلائے ہوئے ہوں اور اپنے رب سے مانگتا ہوں وہ مجھے سرسبز کر دے گا.کیا وہ الگ ہو کر سرسبز رہ سکتا ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ وہ مرجھا جائے گا اور ادنیٰ سے جھونکے سے گر جائے گا.اس لئے ضروری ہے کہ ایک شاخ سے اس کا تعلق ہو اور پھر اس شاخ کا کسی بڑی شاخ سے اور اس کا کسی بڑے تنے سے تعلق ہو جو جڑ اور اس کی رگوں سے اپنی خوراک کو جذب کرے.یہ کچی مثال ہے.جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کا بیج لگاتا ہے تو جو شاخ اس سے الگ ہو کر بار آور اور شمردار ہونا چاہے وہ نہیں رہ سکتی خواہ اسے کتنے ہی پانی میں رکھو.وہ پانی اس کی سرسبزی اور شادابی کی بجائے اس کے سڑنے کا موجب اور باعث ہو گا.پس وحدت کی ضرورت ہے اسی لئے صدقۃ الفطر بھی ایک ہی جگہ جمع ہونا چاہئے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عید سے پہلے یہ صدقہ جمع ہو جاتا اور ایسے ہی زکوۃ کے اموال بڑی احتیاط سے اکٹھے کئے جاتے یہاں تک کہ منکرین کے لئے قتل کا

Page 136

127 فتوی دیا گیا.مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے بھائیوں میں ابھی یہ وحدت پیدا نہیں ہوئی یا ہوتی ہے تو بہت - کمزور ہے.تم پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل اور احسان ہے کہ تم نے اس کو کامل صفات سے موصوف مانا ہے اور یہاں تک تم نے توحید سے حظ اٹھایا ہے کہ اگر کوئی غلطی سے مخلوق میں سے کسی کو ان صفات سے موصوف مانتا تھا تم نے اس کو بھی اس امام کے طفیل سے چھوڑا اور اب تم پاک ہو گئے کہ مسیح کو خالق اور باری، محلل، محرم اور محی اور میت اور عالم الغیب سمجھو.تو جیسے یہ امتیاز حاصل کیا تھا اب کیسی ضرورت تھی کہ پھر صحابہ کی طرح تمہارے سارے تعلقات اس شجر طیبہ کے ساتھ ہوتے جس کے ساتھ پیوند ہو کر وہ تمام پھل لانے والے تم ہو سکتے تھے.مجھے ہمیشہ تعجب ہوتا ہے جب میں کسی کو ایسے تعلقات ہے باہر دیکھتا ہوں.دیکھو تمہارے تعلقات، تمہارے چال چلن ، شادی و غمی، حسن معاشرت، تمدن سلطنت کے ساتھ تعلقات، غرض ہر قول و فعل آئندہ نسلوں کے لئے ایک نمونہ ہو گا.پھر کیا تم چاہتے ہو کہ رحمت اور فضل کا نمونہ تم بنو یا لعنت کا.پس دعائیں کرو کہ تم جو اس پاک چشمہ پر پہنچے ہو اللہ تعالیٰ تمہیں اس سے سیراب کرے اور عظیم الشان فضل اور خیر کے حاصل کرنے کی تمہیں توفیق ملے.اور یہ سب توفیقیں اس وقت ملیں گی جب تمہارے سب معاملات ایک درخت سے وابستہ ہوں.پس ان سارے چندوں اور اغراض میں ایک ہی تنا اور جڑ ہو.پھر ایسی وحدت ہو کہ تمام دغا اور فریب، کپٹ سے بری ہو جاؤ.شائد تم نے سمجھا ہو کہ کسی کتاب کا نام کشتی نوح ہے.نہیں، کچھ اغراض و مقاصد ہیں، کچھ عقائد اور اعمال ہیں.اس پر وہی سوار ہو سکتا ہے جو اپنے آپ کو اس کی تعلیم کے موافق بناتا ہے.پھر ان سب کے بعد تقویٰ کی وہ راہ ہے جس کا نام روزہ ہے.جس میں انسان شخصی اور نوعی ضرورتوں کو اللہ تعالیٰ کے لئے ایک وقت معین تک چھوڑتا ہے.اب دیکھ لو کہ جب ضروری چیزوں کو ایک وقت ترک کرتا ہے تو غیر ضروری کا استعمال کیوں کرے گا.روزہ کی غرض اور غایت یہی ہے کہ غیر ضروری چیزوں میں اللہ کو ناراض نہ کرے.اس لئے فرمایا لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقره:۱۸۴) پھر جیسے پنجگانہ نمازیں ہر محلے میں باجماعت پڑھتے ہیں اور پھر جمعہ کی نماز سارے شہر والے اسی طرح ارد گرد کے دیہات والے اور کل شہر کے باشندے جمع ہو کر عید کی نماز ایک جگہ پڑھتے ہیں.اس میں بھی وہی وحدت کی تعلیم مقصود ہے.غرض اسلام نے ہر رکن میں ایک وحدت کو قائم کیا ہے پھر اس کو قائم رکھنے کے لئے خاص حکم بھی دیا لا تَنَازَعُوا (الانفال (۴۷) باہم کش مکش نہ کرو.کیونکہ جب ایک

Page 137

128 کھچا کچھی کرتا ہے تو دوسرا بھی اس میں جتلا ہو جاتا ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہوا بگڑ جاتی ہے.جب یہ خود دوسرے کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو چونکہ وہ بھی کبر الہی کا مظہر ہے اس لئے تکبر کرتا اور وحدت اٹھ جاتی ہے.اسی لئے حکم دیا کہ نزاع نہ کیا کرو ورنہ پھل جاؤ گے اور فرمایا صبر کرو.ایسا صبر نہیں کہ کوئی ایک گال پر طمانچہ مارے تو دوسری پھیر دو بلکہ ایسا صبر کرو اور عفو ہو کہ جس میں اصلاح مقصود ہو.سچے مومن بننا چاہتے ہو تو یاد رکھو لا يُؤْمِنُ اَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِه (بخاری کتاب الایمان).اسی وحدت کے قائم رکھنے کے لئے نمازوں میں یک جہتی تھی.مکہ کا وجود تھا.اور اب اس وقت خدا کا کیسا فضل ہے اور کیسی مبارکی کا یہ زمانہ ہے کہ سب سامان موجود مکالمہ الہی ہوتا ہے.ایک مطاع مکرم معظم موجود ہے جو اپنے عام چال چلن مخلوق کے ساتھ ہیں.تعلقات، معاشرت اور گورنمنٹ کے ساتھ اپنے معاملات کا نمونہ دکھانے سے قوم بنا رہا ہے.اس لئے اب کوئی عذر باقی نہیں رہ سکتا.بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ کہنے کی باتیں ہیں، کرنے کی نہیں.یہ ان کی غلطی ہے.اللہ تعالیٰ نے کوئی امر و نہی ایسا نہیں دیا ہے جو انسان کی طاقت سے باہر ہو ورنہ اس کی حکیم کتاب قرآن مجید کا یہ ارشاد کہ لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقره: ۳۸۷) باطل ہو گا اور وہ باطل نہیں ہے.متقی اور خدا سے ڈرنے والا ایسی بات منہ سے نہیں نکال سکتا.یہ صرف خبیث روح کی تحریکیں ہیں.الاحسان اس کے بعد تیسری بات جبرائیل نے پوچھی ہے جس سے دین کی تکمیل ہوتی ہے اور وہ یہ ہے.مَا الْإِحْسَانُ؟ (بخاری کتاب الایمان) احسان کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں ایسا اخلاص اور ایسا انتساب ہو کہ تو گویا اس کو دیکھتا ہے اور اگر اس درجہ تک نہ پہنچے تو کم از کم اپنے آپ کو اس کی نگرانی میں سمجھے.جب تک ایسا بندہ نہ ہو وہ دین کے مراتب کو نہیں سمجھ سکتا.پس ایسا دین کوئی سلیم الفطرت کہہ سکتا ہے کہ اس میں اکراہ کی ضرورت ہے؟ ہرگز نہیں.لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيّ (البقرة: ۲۵۷).اس وقت بھی ویسا ہی وقت ہے جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں تھا.ہدایت کی راہیں کھلی ہوئی ہیں.تجربے، مشاہدہ سائنس، قومی کانشو و نما وجدان، صحیح فطری قومی رشد اور غی میں امتیاز کرنے کو موجود ہیں.رُشد کو اقتصاد بھی کہتے ہیں جو افراط اور تفریط کے درمیان کی راہ ہے.بہت سے لوگ ہیں جو خاص

Page 138

129 خاص مذاق میں بڑھے ہوئے ہیں.بعض ایسے ہیں کہ ان کو کھانے ہی کی ایک دھت ہوتی اور اب وہ اس میں بہت ترقی کر گئے ہیں اور کرتے جاتے ہیں.بعض کو دیکھا ہے کہ بچپن میں یہ عادت ہوئی اور پھر بڑھتے بڑھتے بہت سی بد اطواریوں کا باعث بن گئی.ایسا ہی لباس میں افراط کرنے والے مکانات میں افراط سے کام لینے والوں کا حال ہے.ایسا ہی بعض جمع اموال میں بعض فضول خرچیوں میں بڑھتے ہیں.جب ایک کی عادت ڈال لیتے ہیں تو پھر وہ ہر روز بڑھتی ہے.غرض افراط اور تفریط دونوں مذموم چیزیں ہیں.عمدہ اور پسندیدہ اقتصاد یا رشد ہے.یہی حال اقوال اور افعال میں ہے.اس طرح پر ترقی کرتے کرتے ہم عقائد تک پہنچتے ہیں.بعض نے تو سوسائٹی کے اصول رسم و رواج سب کو اختیار کر لیا اور مذہب کا جزو قرار دے لیا اور بعض ایسے ہیں کہ ساری انجمنوں کو لغو قرار دیتے ہیں.غرض دنیا عجیب قسم کی افراط اور تفریط میں پڑی ہوئی ہے.رشد اور اقتصاد کی صراط مستقیم صرف اسلام لے کر آیا ہے.بعض نادانوں نے اعتراض کیا ہے کہ اسلام تو رشد اور اقتصاد سکھاتا ہے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقابلہ کیوں کیا؟ مگر افسوس ہے کہ ان کو معلوم نہیں.انہوں نے تو تیرہ سال تک صبر کر کے دکھایا اور پھر آخر آپ چونکہ کل دنیا کے لئے ہادی تھے تو بادشاہوں اور تاجداروں کے لئے بھی کوئی قانون چاہئے تھا یا نہیں؟ اب دیکھ لو کہ غیر قوموں کی لڑائیوں میں کیا ہوتا ہے.جب دشمن سے مقابلہ ہوتا ہے تو بعض اوقات عورتیں، بچے ، مویشی، کھیت سب تباہ ہو جاتے ہیں.ایسا کیوں ہوتا ہے؟ صرف اس لئے کہ مذہب نے ملک داری کا کوئی نمونہ اور قانون پیش نہیں کیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ضرورت کی خود تکمیل کی ہے اور اسی لئے خانہ داری کے اصولوں پر الگ بحث کی ہے.ان لوگوں کو جو حیض و نفاس کے مسائل پر اعتراض کرتے ہیں غور کرنا چاہئے کہ معاشرت کا یہ بھی ایک جزو ہے..غرض ہماری شریعت جامع شریعت ہے جس میں انسان کے فطری حوائج کھانے پینے سے لے کر معاشرت ، تمدن، تجارت ، زراعت، حرفت، ملک داری اور پھر ان سب سے بڑھ کر خداشناسی اور روحانی مدارج کی تکمیل کی یکساں تعلیم موجود ہے.یہی وجہ ہے کہ آپ خاتم الانبیاء ہیں.یہی باعث ہے کہ اسلام مکمل دین ہے.یہ ایک نیا قصہ ہے کہ اسلام ہر شعبہ اور ہر حصہ میں کیا تعلیم دیتا ہے.چونکہ اس وقت کتاب اللہ موجود ہے اور اس کا معلم بھی خدا کے فضل سے موجود ہے اور اس کا نمونہ تم دیکھ سکتے ہو.میں صرف یہی کہوں گا.قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَى (البقرۃ:۲۵۷) اس کی راہ رشد کی راہ ہے اور اس کے خلاف خواہ افراط کی راہ ہو یا تفریط کی اس کا نام غی ہے.رشد والوں کو مومن، متقی سعید کہا -

Page 139

130 گیا اور غنی والوں کو کافر ،منافق، شقى - فَمَنْ يَكْفُرُ بِالطَّاغُوتِ (البقرة: ۲۵۷) جو لوگ الی حد بندیوں کو توڑ کر چلے گئے ہیں ان کو طاغوت کہا ہے.اللہ تعالیٰ کی راہیں جن کو قرآن نے واضح کیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھایا ان میں تو فہم نہیں ہے.(ادنی درجہ قسم ہے اس سے بڑھے تو فصم پھر اس سے بھی بڑھے تو فضم) اللہ وہ اللہ ہے جو تمہاری دعاؤں کو سنتا اور تمہارے اعمال کو جانتا ہے.الغرض یہ دین ہے اور اس کا نتیجہ ہے قرب الہی.جب انسان اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا ہے تو چونکہ الله نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ (النور (۳۲) ہے اس لئے یہ ظلمت سے نکلنے لگتا ہے اور اس میں امتیازی طاقت پیدا ہوتی جاتی ہے.ظلمت کئی قسم کی ہوتی ہے.ایک جہالت کی ظلمت ہے.پھر رسومات عادات عدم استقلال کی ظلمت ہوتی ہے.جس قدر ظلمت میں پڑتا ہے اسی قدر اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اور جس قدر قرب حاصل ہو تا اسی قدر امتیازی قوت پیدا ہوتی ہے.نزول و صعود پس اگر کسی صحبت میں رہ کر ظلمت بڑھتی ہے تو صاف ظاہر ہے کہ وہ قرب الہی کا موجب نہیں بلکہ بعد و حرمان کا باعث ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے تو جسقدر انسان قریب ہو گا اسی قدر اس کو ظلمت سے رہائی اور نور سے حصہ ملتا جاوے گا.اسی لئے ضروری ہے کہ ہر فعل اور قول میں اپنا محاسبہ کرو.نیچے اور اوپر کے دو لفظ ہیں جو سائنس والوں کی اصطلاح میں بھی بولے جاتے ہیں اور مذہب کی اصطلاح میں بھی ہیں.میں نے نیچے اور اوپر جانے والے چیزوں پر غور کی ہے.ڈول جوں جوں نیچے جاتا ہے اس کی قوت میں تیزی ہوتی جاتی ہے اور اسی طرح پتنگ جب اوپر جاتا ہے پہلے اس کا اوپر چڑھانا مشکل معلوم ہوتا ہے لیکن آخر وہ بڑے زور سے اوپر کو چڑھتا ہے.یہی اصل ترقی اور تنزل کی جان ہے یا صعود اور نزول کے اندار ہے.انسان جب بدی کی طرف جھکتا ہے اس کی رفتار بہت سست اور دھیمی ہوتی ہے لیکن پھر اس میں اس قدر ترقی ہوتی ہے کہ خاتمہ جہنم میں جا کر ہوتا ہے.یہ نزول ہے.اور جب نیکیوں میں ترقی کرنے لگتا اور قرب الی اللہ کی راہ پر چلتا ہے تو ابتدا میں مشکلات ہوتی ہیں اور ظالِم لِنَفْسِهِ ہونا پڑتا ہے مگر آخر جب وہ اس میدان میں چل نکلتا ہے تو اس کی قوتوں میں پر زور ترقی ہوتی ہے اور وہ اس قدر صعود کرتا ہے کہ سابق بِالْخَيْرَاتِ ہو جاتا ہے.جو لوگ اس اصل پر غور کرتے ہیں اور اپنا محاسبہ کرتے ہیں کہ ہم ترقی کی طرف جا رہے ہیں یا تنزل کی طرف وہ ضرور اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں.

Page 140

131 غرض وعظ کا اصل تو مختصر سا تھا مگر مضمون لمبا ہو گیا ہے اس لئے پھر میں مختصر الفاظ میں کہتا ہوں کہ اصل غرض اور منشاء دین کا سعادت اور شقاوت کی راہوں کا بیان کرنا ہے.ایمان باللہ ایمان بالملائکہ اللہ کے رسولوں اور اس کی کتابوں پر ایمان جزا و سزا پر ایمان ہو اور پھر اس ایمان کے موافق عمل در آمد ہو اور ہر روز اپنے نفس کا محاسبہ کرو.آخر میں ایک بات اور کہنا چاہتا ہوں اور یہ وصیت کرتا ہوں کہ تمہارا اعتصام حبل اللہ کے ساتھ ہو.قرآن تمہارا دستور العمل ہو.باہم کوئی تنازع نہ ہو کیونکہ تنازع فیضان الہی کو روکتا ہے.موسیٰ علیہ السلام کی قوم جنگل میں اسی نقص کی وجہ سے ہلاک ہوئی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قوم نے احتیاط کی اور وہ کامیاب ہو گئے.اب تیسری مرتبہ تمہاری باری آئی ہے.اس لئے چاہئے کہ تمہاری حالت اپنے امام کے ہاتھ میں ایسی ہو جیسے میت غسال کے ہاتھ میں ہوتی ہے.تمہارے تمام ارادے اور خواہشیں مردہ ہوں اور تم اپنے آپ کو امام کے ساتھ ایسا وابستہ کرو جیسے گاڑیاں انجن کے ساتھ.اور پھر ہر روز دیکھو کہ ظلمت سے نکلتے ہو یا نہیں.استغفار کثرت سے کرو اور دعاؤں میں لگے رہو.وحدت کو ہاتھ سے نہ دو.دوسرے کے ساتھ نیکی اور خوش معاملگی میں کو تاہی نہ کرو.تیرہ سو برس کے بعد یہ زمانہ ملا ہے اور آئندہ یہ زمانہ قیامت تک نہیں آسکتا.پس اس نعمت کا شکر کرو.کیونکہ شکر کرنے پر ازدیاد نعمت ہوتا ہے.لَئِنْ شَكَرْتُمْ لازِيدَنَّكُمْ (ابراهیم) لیکن جو شکر نہیں کرتا وہ یاد رکھے إِنَّ عَذَابِی لَشَدِيدٌ (ابراهیم:۸) اب میں ایک تحریک کر کے ختم کرتا ہوں.دیکھو یہاں کئی قسم کے چندے اور ضرور تیں ہیں.بعض کہتے ہیں کہ چندوں کی کیا ضرورت ہے وہ غلطی کرتے ہیں.انْفِقُوْا فِي سَبِيلِ اللَّهِ (البقرة) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے.اگر تم اس پر عمل نہیں کرتے تو ہلاک ہو جاؤ گے.کئی قسم کی ضرورتیں در پیش ہیں.حضرت امام کی تعلیم کی اشاعت اور تبلیغ مہمانوں کی خبر گیری مکانات کی توسیع کی ضرورت مدرسہ کی ضروریات غرباء و مساکین رہتے ہیں ان کا انتظام مدرسہ میں غریب طالب علم ہیں ان کے خرچ کا کوئی خاص طور پر متکفل نہیں اور مستقل انتظام نہیں.اس کے علاوہ اور بہت سی ضروریات ہیں.اسی مسجد کا خادم ایک بڑھا ہے اور حضرت اقدس کا ایک سچا خادم حافظ معین الدین ہے.ایسے لوگوں کی خبر گیری کی ضرورت ہے.غرض یہاں کی ضروریات کو مد نظر رکھ کر ہر شخص کو جو کچھ اس سے ہو سکے اپنے مال سے کپڑے سے الگ کرنا چاہئے.یہ مت خیال کرو کہ بہت ہی ہو ، کچھ ہو خواہ ایک پائی ہی کیوں نہ ہو.ہر قسم کا کپڑا یہاں کام آسکتا ہے.پس یہاں کی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر ان میں دینے

Page 141

132 کے لئے کوشش کرو.صحابہ کی سوانح پڑھو تا تمہیں معلوم ہو کہ کیا کرنا پڑا تھا.تم جو ان سے ملنا چاہتے ہو وہی راہ اور رنگ اختیار کرو.اللہ تعالیٰ ہم تم سب کو اس امر کی توفیق دے کہ ہم سچے مسلمان بنیں اور امام کے متبع ہوں.آمین.می ل الحکم جلدے نمبر ۲ - ۱۷ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۴-۱۵) (احکم جلدے نمبر ۳ - ۲۴ جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۱۴-۱۵) و احکم جلدے نمبر ۴-۳۱ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۶-۷)

Page 142

ار مارچ ۱۹۰۳ء دار الامان قادیان 133 خطبہ عید اضحی (عید الضحی دار الامان میں المارچ ۱۹۰۳ء بروز بدھ ہوئی.اس سے پہلی رات کو اور اس دن قادیان دار الامان میں خوب بارش ہوئی.راستے خراب ہو گئے.اس لئے نماز عید دو جگہ ادا ہوئی.مسجد اقصیٰ میں حسب معمول سابق حضرت حکیم الامت نے پڑھائی اور بعد نماز سورۃ کوثر پر خطبہ پڑھا جو ہم ناظرین کے فائدہ کے لئے درج کرتے ہیں.(ایڈیٹر) إِنَّا أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَ - فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ - إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ (الكوثر : ۲ تا ۳) یہ ایک سورۃ شریف ہے بہت ہی مختصر لفظ اتنے کم کہ سننے والے کو کوئی ملال طوالت کا نہیں.یہاں تک کہ ایک چھوٹا سا بچہ بھی ایک دن میں اسے یاد کر لے.مگر ان کے مطالب اور معافی کو دیکھو تو حیرت انگیز.

Page 143

134 واعظوں اور سامعین کی اقسام ان کو بیان کرنے سے پہلے نیں ایک ضروری بات سنانی چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جہاں تک میں غور کرتا ہوں واعظوں اور سننے والوں کی دو قسم پاتا ہوں.ایک وہ واعظ ہیں جو دنیا کے لئے وعظ کرتے ہیں.دنیا کا وعظ کرنے والے بھی پھر دو قسم کے ہیں.ایک وہ جو اپنے وعظ سے اپنی ذات کا فائدہ چاہتے ہیں یعنی کچھ روپیہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ایک وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی یہ غرض تو نہیں ہوتی کہ خود کوئی روپیہ حاصل کریں مگر یہ مطلب ضرور ہوتا ہے کہ سننے والوں کو ایسے طریقے اور اسباب بتائیں جن سے وہ روپیہ کما سکیں.مادی ترقی کرنے والے بنیں.دنیا کے لئے وعظ کرنے والوں میں اس قسم کے واعظوں کی اغراض ہمیشہ مختلف ہوتی ہیں.کوئی فوجوں کو جوش دلاتا ہے، ان میں مستعدی اور ہوشیاری پیدا کرنے کے لئے تحریک کرتا ہے کہ وہ دشمن کے مقابلہ کے لئے چست و چالاک ہو جائیں.کوئی امور خانہ داری کے متعلق کوئی تجارت اور حرفہ کے لئے.مختصر یہ کہ ان کی غرض انتظامی امور یا عامہ اصلاح ہوتی ہے جو دو سرے الفاظ میں سیاسی یا پولٹیکل ، تمدنی یا سوشل اصلاح ہے.اور وہ لوگ جو دین کے لئے وعظ کرنے کو کھڑے ہوتے ہیں ان کی بھی دو ہی حالتیں ہوتی ہیں.ایک وہ جو محض اس لئے کھڑے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کریں اور امر بالمعروف کا جو فرض ان کو ملا ہے اس کو ادا کریں.بنی نوع انسان کی بھلائی کا جو حکم ہے اس کی تعمیل کریں اور اپنے آپ کو اس خیر امت میں داخل ہونے کی فکر ہوتی ہے جس کا ذکر یوں فرمایا گیا ہے.كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ للنَّاسِ (ال عمران ) تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے مبعوث ہوئے ہو.امر بالمعروف کرتے ہو اور نہی عن المنکر اور ایک وہ ہوتے ہیں جن کی غرض دنیا کمانا بھی نہیں ہوتی مگر (مذکورہ بالا) یہ غرض بھی نہیں ہوتی بلکہ وہ صرف حاضرین کو خوش کرنا چاہتے ہیں یا ان کی واہ واہ کے خواہش مند کہ کیسا خوش تقریر یا مؤثر واعظ ہے.دینی واعظوں میں سے پہلی قسم کے واعظ بھی فتوحات ہی کا ارادہ کرتے ہیں مگر ملکی فتوحات سے ان کی فتوحات نرالی ہوتی ہیں.ان کی فتوحات یہ ہوتی ہیں کہ برائیوں پر فتح حاصل کریں.نیکی کی حکومت کو وسیع کریں.جیسی واعظوں کی دو قسم میں ایسی ہی سننے والوں کی بھی دو حالتیں ہیں.ایک وہ جو محض اللہ کے لئے

Page 144

135 سنتے ہیں کہ اس کو سن کر اپنی اصلاح کریں اور دوسرے جو اس لحاظ سے سنتے ہیں کہ واعظ ان کا دوست ہے یا کوئی ایسے ہی تعلق رکھتا ہے یعنی واعظ کی خاطر داری سے.اب تم دیکھ لو کہ تمہارا واعظ کیسا ہے اور تم سننے والے کیسے ؟ تمہارا دل تمہارے ساتھ ہے؟ اس کا فیصلہ تم کر لو.جس نیت اور غرض سے کھڑا ہوا ہوں وہ میں خوب جانتا ہوں اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ درد دل کے ساتھ خدا ہی کے لئے کھڑا ہوا ہوں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک تقسیم فرمائی ہے کہ واعظ یا مامور ہوتا ہے یا امیر یا متکبر.امیر وہ ہوتا ہے جس کو براہ راست اس کام کے لئے مقرر کیا جاوے اور مامور وہ ہوتا ہے جس کو امیر کے کہ تم لوگوں کو وعظ سنا دو اور متکبر وہ جو محض ذاتی بڑائی اور نمود کے لئے کھڑا ہوتا ہے.یہ اقسام واعظوں کی ہیں.اب میں پھر تمہیں کہتا ہوں کہ اس بات پر غور کرو کہ تمہیں وعظ کرنے والا کیسا ہے اور تم کیسا دل لے کر بیٹھے ہو ؟ میرا دل اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ناظر ہے.جو بات میری سمجھ میں مضبوط آئی ہے اسے سنانا چاہتا ہوں اور خدا کے لئے.پھر مجھے حکم ہوا ہے تم مسجد میں جا کر نماز پڑھا دو.اس حکم کی تعمیل کے لئے کھڑا ہوتا ہوں اور سناتا ہوں.میں دنیا پرست واعظوں کا دشمن ہوں کیونکہ ان کی اغراض محدود ان کے حوصلے چھوٹے خیالات پست ہوتے ہیں.جس واعظ کی اغراض نہ ہوں وہ ایک ایسی زبر دست اور مضبوط چٹان پر کھڑا ہوتا ہے کہ دنیوی وعظ سب اس کے اندر آجاتے ہیں کیونکہ وہ ایک امر بالمعروف کرتا ہے.ہر بھلی بات کا حکم دینے والا ہوتا ہے اور ہر بری بات سے روکنے والا ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف کو اللہ تعالیٰ نے مُهيمن فرمایا.یہ جامع کتاب ہے جس میں جیسے ایک ملٹری (فوجی) واعظ کو فتوحات کے طریقوں اور قواعد جنگ کی ہدایت ہے ویسے ہی نظام مملکت اور سیاست مدن کے اصول اعلیٰ درجہ کے بتائے گئے ہیں.غرض ہر رنگ اور ہر طرز کی اصلاح اور بہتری کے اصول یہ بتاتا ہے.پس میں قرآن کریم جیسی کتاب کا واعظ ہوں جو تمام خوبیوں کی جامع کتاب ہے اور جو سکھ اور تمام کامیابی کی راہوں کی بیان کرنے والی ہے اور اسی کتاب میں سے یہ چھوٹی سی سورۃ میں نے پڑھی ہے.قرآن کا طرز بیان ہم " اور "میں" میں اس سورۃ کے مطالب بیان کرنے سے پہلے یہ بات بھی تمہارے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں کہ

Page 145

136 قرآن شریف کا طرز بیان دو طرح پر واقع ہوا ہے.بعض جگہ تو اللہ تعالیٰ ایک فعل کو واحد متکلم یعنی "میں" کے لفظ کے ساتھ بیان فرماتا ہے اور بعض جگہ جمع متکلم یعنی "ہم" کے ساتھ.ان دونوں الفاظ کے بیان کا یہ سر ہے کہ جہاں میں" کا لفظ ہوتا ہے وہاں کسی دوسرے کا تعلق ضروری نہیں ہوتا.لیکن جہاں "ہم" ہوتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کی ذات اس کے فرشتے اور مخلوق بھی اس کام میں لگے ہوئے ہوتے ہیں.پس اس بات کو یاد رکھو.یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّا اَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ بے ریب ہم نے تجھ کو دیا ہے الكَوْثَرُ ، ہر ایک چیز میں بہت کچھ.یہاں اللہ تعالیٰ نے ”ہم کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایسا کام ہے جیسے اس میں آپ فضل کیا ہے، فرشتوں اور مخلوق کو بھی لگایا ہے."بہت کچھ " کے معنی مختلف حالتوں میں e اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے بہت کچھ " عطا فرمایا ہے.اب غور طلب امر یہ ہے کہ اس ”بہت کچھ کی کیا مقدار ہے؟ تم میں سے بہت سے لوگ شہروں کے رہنے والے ہیں جنہوں نے امیروں کو دیکھا ہے.بہت سے دیہات کے رہنے والے ہیں جنہوں نے غریبوں کو دیکھا ہے.خدا تعالیٰ نے مجھے محض اپنے فضل سے ایسا موقع دیا ہے کہ میں نے غریبوں امیروں کے علاوہ بادشاہوں کو بھی دیکھا ہے اور ان تینوں میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے.ان کی ہر چیز میں، ہر بات میں علی قدر مراتب امتیاز ہوتا ہے.مثلاً ایک کسی غریب کے گھر جا کر سوال کرے تو وہ اس کو ایک روٹی کا ٹکڑا دیدیتا ہے.اس کی طاقت اتنی ہی ہے.لیکن جب ایک امیر کے گھر جاتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ اس کو ”کچھ دیدو تو اس کی ”کچھ“ سے مراد تین چار روٹیاں ہوتی ہیں اور میں نے دیکھا ہے کہ جب بادشاہ کہتا ہے کہ ”کچھ " دیدو تو اس کے "کچھ" سے مراد دس ہیں ہزار روپیہ ہوتا ہے.اس سے عجیب بات پیدا ہوتی ہے.جس قدر کسی کا حوصلہ ہوتا ہے اس کے موافق اس کی عطا ہوتی ہے.اب اس پر قیاس کر لو.یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے ”بہت کچھ " دیا ہے.اللہ تعالیٰ کی ذات کی کبریائی، اس کی عظمت و جبروت پر نگاہ کرو اور پھر اس کے عطیہ کا تصور.دیکھو ایک چھوٹی سی شمع سورج اس نے بنائی ہے.اس کی روشنی کیسی عالمگیر ہے.ایک چھوٹی سی لالٹین چاند ہے.اس کی روشنی کو دیکھو کس قدر ہے.کنووں سے پانی نکالنے میں کس قدر جد و جہد کرنی پڑتی ہے مگر اللہ تعالیٰ کی عطا پر دیکھو کہ جب وہ بارش برساتا ہے تو پھر کس قدر دیتا ہے.غرض یہ سیدھی سادھی بات ہے اور ایک مضبوط اصل ہے.جس قدر کسی کا حوصلہ ہو اسی قدر وہ

Page 146

137 دیتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کی عظمت کے لحاظ سے اب اس لفظ کے معنی پر غور کرو کہ ہم نے "بہت کچھ دیا ہے.خدا کا بہت کچھ " وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا اور پھر اس کا اندازہ میری کھوپڑی کرے! یہ احمقانہ حرکت ہو گی اور یہ ایسی ہی بات ہے جیسے اس وقت کوئی کوشش کرے کہ وہ پانی کے ان قطرات کو شمار کرنے لگے جو آسمان سے برس رہے ہیں (جس وقت آپ یہ خطبہ پڑھ رہے تھے آسمان سے نزول باران رحمت ہو رہا تھا.ایک بھرا.ہاں یہ بیشک انسانی طاقت کے اندر ہرگز نہیں ہے کہ جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا ہے اس کو سمجھ سکے.چونکہ مجھے اللہ تعالیٰ کے محض فضل سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے اور آپ کی عظمت کا علم بھی مجھے دیا گیا ہے اس لئے میں اندازہ تو ان عطیات کا نہیں کر سکتا لیکن ان کو یوں سمجھ سکتا ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے کہ باپ انتقال کر گیا اور چلنے ہی لگے تھے کہ ماں کا انتقال ہوا.کوئی حقیقی بھائی آپ کا تھا ہی نہیں.چنانچہ اسی کے متعلق فرمایا اَلَمْ يَجِدُكَ يَتِيما (الضحی) ہم نے تجھے یتیم پایا تھا.اس یتیم کو جسے خدا تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے بہت کچھ دے دیا خاتم الانبیاء خاتم الرسل ، سارے علوم کا مالک ساری سلطنتوں کا بادشاہ بنا دیا.آپ کی عادت شریف تھی کہ کبھی جو بے انتہا روپیہ مالیہ کا آیا ہے تو مسجد ہی میں خرچ کر دیا.غرض غور کرو کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے بہت کچھ دیا.کس قدر خیر کثیر آپ کو دی گئی ہے.آپ کا دامن نبوت دیکھو تو وہ قیامت تک وسیع ہے کہ اب کوئی نبی نیا ہو یا پرانا آہی نہیں سکتا.کسی دوسرے نبی کو اس قدر وسیع وقت نہیں ملا.یہ کثرت تو بلحاظ زمان کے ہوئی.اور بلحاظ مکان یہ کثرت کہ انٹی رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيْعًا (الاعراف (109) میں فرمایا کہ میں سارے جہان کا رسول ہوں.یہ کو ثر بلحاظ مکان کے عطا ہوئی.کوئی آدمی نہیں جو یہ کہہ دے کہ مجھے احکام الہی میں اتباع رسالت پناہی کی ضرورت نہیں.کوئی صوفی کوئی بالغ مرد بالغہ عورت کوئی ہو اس سے مستثنیٰ نہیں ہو سکتے.اب کوئی وہ خضر نہیں ہو سکتا جو لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا (الكف (6) بول اٹھے.یہ وہ موسیٰ ہے جس سے کوئی الگ نہیں ہو سکتا.کوئی آدمی مقرب نہیں ہو سکتا، جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اتباع نہ کرے.تعلیم اور کتاب میں وہ کاملیت اور جامعیت اور کثرت عطا فرمائی کہ فِيْهَا كُتُبُ قَيِّمَةٌ (البينه:٢) کل دنیا کی مضبوط کتابیں اور ساری صداقتیں اور سچائیاں اس میں موجود ہیں.ترقی مدارج میں وہ کو ثر.جب کہ یہ سچی بات ہے الدَّالُ عَلَى الْخَيْرِ كَفَاعِلِهِ پھر دنیا بھر کے نیک

Page 147

138 اعمال پر نگاہ کرو جب کہ ان کے الدَّال محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تو ان کی جزائے نیک آپ کے اعمال میں شامل ہو کر کیسی ترقی مدارج کا موجب ہو رہی ہے.اعمال میں دیکھو اتباع ، فتوحات، عادات علوم اخلاق میں کس کس قسم کی کوثریں عطا فرمائی ہیں.آدمی وہ بخشے جن کے نام لیکر عقل حیران ہوتی ہے.ابو بکر، عمر، عثمان، علی رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسے لوگ عباسیوں اور مردانیوں جیسے.کیا انتخاب سے ایسے آدمی مل سکتے ہیں کہ جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پانی گرانے کا حکم دیں خون گرانے کے لئے تیار ہو جائیں ؟ جگہ وہ بخشی که ایران ، توران مصر شام ہند تمہارا ہی ہے.وہ ہیبت اور جبروت آپ کو عطا فرمائی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی طرف کا ارادہ کرتے تو ایک مہینہ کی دور راہ کے بادشاہوں کے دل کانپ جاتے.اللہ جب دیتا ہے تو اس طرح دیتا ہے.یہ بڑا لمبا مضمون ہے جو اس تھوڑے وقت میں بیان نہیں ہو سکتا.مختلف شاخوں اور شعبوں میں جو کوثر آپ کو عطا ہوئی ایک مستقل کتاب اس پر لکھی جاسکتی ہے.باطنی دولت کا یہ حال ہے کہ تیرہ سو برس کی تو میں جانتا نہیں، اپنی بات بتاتا ہوں.جس قدر مذاہب ہیں میں نے ان کو مولا ہے.ان کو پرکھ پر کھ کر دیکھا ہے.قرآن کریم کے تین تین لفظوں سے میں ان کو رد کرنے کی طاقت رکھتا ہوں.کوئی باطل مذہب اسلام کا مقابلہ نہیں کر سکتا.میں نے تجربہ کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کتاب اور طرز انسان کے پاس ہو تو باطل مذاہب خواہ وہ اندرونی ہوں یا بیرونی ، وہ ٹھہر نہیں سکتے.پھر استحکام و حفاظت مذہب کے لئے دیکھو.جس قدر مذہب دنیا میں موجود ہیں یعنی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ہیں، ان کی حفاظت کا ذمہ وار اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو ٹھرایا ہے مگر قرآن کریم کی تعلیم کے لئے فرمایا إِنَّالَهُ لَحَافِظُونَ (الحجر: یہ کیا کوثر ہے! اللہ تعالیٰ خود اس دین کی نصرت اور تائید اور حفاظت فرماتا اور اپنے مخلص بندوں کو دنیا میں بھیجتا ہے جو اپنے کمالات اور تعلقات الہیہ میں ایک نمونہ ہوتے ہیں.ان کو دیکھ کر معلوم ہو جاتا ہے کہ ایک انسان کیونکر خدا تعالیٰ کو اپنا بنا لیتا ہے.ہر صدی کے سر پر وہ ایک مجدد آتا ہے جو ایک خاص جماعت قائم کرتا ہے.میرا اعتقاد تو یہ ہے کہ ہر ۵۰٬۴۵ اور سو برس پر آتا ہے.اس سے بڑھ کر اور کیا کوثر ہو گا؟ پھر سارے مذہب میں دعا کو مانتے ہیں اور اعتقاد رکھتے ہیں کہ جب بندہ اپنے مولیٰ سے کچھ مانگتا ہے تو اسے کچھ نہ کچھ ضرور ملتا ہے.گو مانگنے کے مختلف طریق ہیں مگر مشترک طور پر یہ سب مانتے ہیں کہ جو

Page 148

139 مانگتا ہے وہ پاتا ہے.اس اصل کو لیکر میں نے غور کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اس پہلو سے بھی کیا کچھ ملا ہے.تیرہ سو برس سے برابر امت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ کے لئے اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ کہہ کر دعائیں کر رہی ہے اور پھر اللہ اور اللہ کے فرشتے بھی اس درود شریف کے پڑھنے میں شریک ہیں اور ہر وقت یہ دعا ہو رہی ہے کیونکہ دنیا پر کسی نہ کسی نماز کا وقت موجود رہتا ہے اور علاوہ نماز کے پڑھنے والے بھی بے انتہا ہیں.اب سوچو کہ اس تیرہ سو برس کے اندر کس قدر روحوں نے کس سوز اور تڑپ کے ساتھ اپنے محبوب آقا کی کامیابیوں اور آپ کے مدارج عالیہ کی ترقی کے لئے اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ کہہ کر دعائیں مانگی ہوں گی.پھر ان دعاؤں کے شمرہ میں جو کچھ آپ کو ملا کیا اس کی کوئی حد ہو سکتی ہے؟ اگر دعا کوئی چیز ہے اور ضرور ہے تو پھر اس پہلو سے آپ کے مدارج اور مراتب کی نظیر پیش کرو.کیا دنیا میں کوئی قوم اور امت ایسی ہے جس نے اپنے نبی اور رسول کے لئے یہ التزام دعا کا کیا ہو.کوئی بھی نہیں.کوئی عیسائی مسیح کے لئے یہودی موسی کے لئے، سناتنی شنکر اچارج کے لئے دعائیں مانگنے والا نہیں ہے.اس دنیا کے مدارج کو تو ان امور پر قیاس کرو اور آگے جو کچھ آپ کو ملا ہے وہ وہاں چل کر معلوم ہو جاوے گا.مگر اس کا اندازہ اسی بہت کچھ سے ہو سکتا ہے کہ برزخ میں حشر میں، صراط پر بہشت میں غرض کو ثر ہی کو ثر ہو گا.اس عاجز انسان اور اس کی ہستی کو دیکھو کہ کیسی ضعیف اور ناتوان ہے لیکن جب اللہ تعالی اس کے بنانے پر آتا ہے تو اس عاجز انسان کو اپنا بنا کر دکھا دیتا ہے اور ایک اجڑی بستی کو آباد کرتا ہے.کیا تعجب انگیز نظارہ ہے.بڑے بڑے شہروں اور بڑے اکثر باز مدبروں کو محروم کر دیتا ہے حالانکہ وہاں ہر قسم کی ترقی کے اسباب موجود ہوتے ہیں اور علم و واقفیت کے ذرائع وسیع.مثلاً اس وقت دیکھو کہ کسی بستی کو اس نے برگزیدہ کیا؟ جہاں نہ ترقی کے اسباب نہ معلومات کی توسیع کے وسائل نہ علمی چرچے نہ مذہبی تذکرے نہ کوئی دار العلوم، نہ کوئی کتب خانہ ! صرف خدائی ہاتھ ہے جس نے اپنے بندہ کی خود تربیت کی اور عظیم الشان نشان دکھایا.غور کرو کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ثابت کرتا ہے کہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو کوثر عطا فرمایا.لیکن غافل انسان نہیں سوچتا.افسوس تو یہ ہے کہ ج اور لوگوں نے غفلت کی ، ویسی ہی غفلت کا شکار مسلمان ہوئے.آہ! اگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عالی مدارج پر خیال کرتے اور خود بھی ان سے حصہ لینے کے آرزو مند ہوتے تو اللہ تعالیٰ ان کو بھی

Page 149

140 کوثر عطا فرماتا.میں دیکھتا ہوں کہ جھوٹ بولنے میں دلیر، فریب و دعا میں بیباک ہو رہے ہیں.نمازوں میں ستی قرآن کے سمجھنے میں سستی اور غفلت سے کام لیا جاتا ہے اور سب سے بد تر ستی یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چال چلن کی خبر نہیں.میں دیکھتا ہوں کہ عیسائی اور آریہ آپ کے چال چلن کو تلاش کرتے ہیں اگر چہ اعتراض کرنے کے لئے ، مگر کرتے تو ہیں.مسلمانوں میں اس قدر سستی ہے کہ وہ کبھی دیکھتے ہی نہیں.اس وقت جتنے یہاں موجود ہیں ان کو اگر پوچھا جاوے تو شاید ایک بھی ایسا نہ ملے جو یہ بنا سکے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی معاشرت کیسی تھی.آپ کا سونا کیسا تھا جاگنا کیسا.مصائب اور مشکلات میں کیسے استقلال اور علو ہمتی سے کام لیا اور رزم میں کیسی شجاعت اور ہمت دکھائی.میں یقیناً کہتا ہوں کہ ایک بھی ایسا نہیں جو تفصیل کے ساتھ آپ کے واقعات زندگی پر اطلاع رکھتا ہو.حالا نکہ یہ ضروری بات تھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے حالات زندگی پر پوری اطلاع حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی.کیونکہ جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ آپ دن رات میں کیا کیا عمل کرتے تھے اس وقت تک ان اعمال کی طرف تحریک اور ترغیب نہیں ہو سکتی.خدا تعالیٰ کی محبت یا اس کے محبوب بننے کا ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اتباع ہے.پھر یہ اتباع کیسے کامل طور پر ہو سکتی ہے جب معلوم ہی نہ ہو کہ آپ کیا کیا کرتے تھے ؟ اس پہلو میں بھی مسلمانوں نے جس قدر اس وقت سستی اور غفلت سے کام لیا ہے وہ بہت کچھ ان کی ذلت اور ضعف کا باعث ٹھہرا.اس ضروری کام کو تو چھوڑا پر مصروفیت کس کام میں اختیار کی؟ نفسانی خواہشوں کے پورا کرنے میں.چائے پی لی.حقہ پی لیا.پان کھا لیا.غرض ہر پہلو اور ہر حالت سے دنیوی امور میں ہی مستغرق ہو گئے.مگر پھر بھی آرام اور سکھ نہیں ملتا.ساری کوششیں اور ساری تگ و دو دنیا کے لئے ہی ہوتی ہے اور اس میں بھی راحت نہیں.لیکن جو خدا تعالیٰ کے ہو جاتے ہیں ان کو وہ دیتا ہے تو پھر کس قدر دیتا ہے اور ساری راحتوں کا مالک اور وارث بنا دیتا ہے.میں نے پہلے بتا دیا ہے کہ جتنا چھوٹا ہوتا ہے اس کا اتنا ہی دینا ہوتا ہے.اور جس قدر بڑا اسی قدر اس کی دہش ہوتی ہے.جس قدر کبریائی اللہ تعالیٰ رکھتا ہے اسی کے موافق اس کی عطا ہے اور اس کی عطا کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوتا.میں نے ایک دنیا دار کو دیکھا ہے.وہ میرا دوست بھی ہے.میں کلکتہ میں اس کے مکان پر تھا.اس نے مجھے دکھایا کہ وہ ایک ایک دن میں چار چار پانچ پانچ سو روپیہ کیسے کما لیتا ہے.مگر تھوڑا ہی عرصہ گزرا

Page 150

141 کہ میں نے اس کو اور تو کچھ نہ کہا.صرف یہ پو چھا کہ بناؤ کیا حال ہے؟ اس نے کہا کہ یہ حالت ہو گئی ہے کہ رہنے کو جگہ نہیں، کھانے کو روٹی نہیں.اس وقت یہاں آیا ہوں کہ فلاں شخص کو پندرہ ہزار روپیہ دیا تھا مگر اب وہ بھی جواب دیتا ہے.میں نے اس کی اس حالت کو دیکھ کر یہ سبق حاصل کیا کہ چالاکی سے انسان کیا کما سکتا ہے؟ ادھر بالمقابل دیکھئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اتباع نے کیا کمایا؟ میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے کہ وعظ کرتے ہیں.چالاکیاں کرتے ہیں.لیکن ذرا پیٹ میں درد ہو تو بول اٹھتے ہیں کہ ہم گئے.پس تم وہ چیز بنو جس کا نسخہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کے اتباع پر تجربہ کر کے دکھایا ہے کہ جب وہ دیتا ہے تو اس کا کوئی بھی مقابلہ نہیں کر سکتا.یہ لمبی کہانی ہے کہ کس کس طرح پر خدا تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندوں کی نصرت کی ہے.اسی شہر میں دیکھو (مرزا غلام احمد ایدہ اللہ الاحد) ایک شخص ہے.کیا قد میں امام الدین اس سے چھوٹا ہے یا اس کی ڈاڑھی چھوٹی ہے.اس کا مکان دیکھو تو حضرت اقدس کے مکانوں سے مکان بھی بڑا ہے.ڈاڑھی دیکھو تو وہ بھی بڑی لمبی ہے.کوشش بھی ہے کہ مجھے کچھ ملے.مگر دیکھتے ہو خدا کے دینے میں کیا فرق ہے.میں یہ باتیں کسی کی اہانت کے لئے نہیں کہتا.میں ایسے نمونوں کو ضروری سمجھتا ہوں اور ہر جگہ یہ نمونے موجود ہیں.میں خود ایک نمونہ ہوں.جتنا میں بولتا کہتا اور لوگوں کو سناتا ہوں اس کا بیسواں حصہ بھی مرزا صاحب نہیں بولتے اور سناتے.کیونکہ تم دیکھتے ہو وہ خاص وقتوں میں باہر تشریف لاتے ہیں.اور میں سارا دن باہر رہتا ہوں.لیکن ہم پر تو بد ظنی بھی ہو جاتی ہے.لیکن اس کی باتوں پر کیسا عمل ہے.بات یہی ہے کہ اللہ کا دین الگ ہے اور وہ موقوف ہے ایمان پر.منصوبہ بازی چالاکیوں سے کام لینے والے بامراد نہیں ہو سکتے.وہ اپنی تدابیر اور مکائد پر بھروسہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم یوں کر لیں گے مگر اللہ تعالیٰ ان کو دکھاتا ہے کہ کوئی تدبیر کارگر نہیں ہو سکتی.غرض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دینے کے منتظر بنو.اور یہ عطا منحصری ایمان پر ہے.اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو جو ملا وہ سب سے بڑھ کر ملا.شرط یہ ہے.فَصَلِّ لِرَبِّكَ اللہ تعالیٰ کی تعظیم میں لگو.نماز سنوار کر پڑھو.نماز مومن کی الگ اور دنیادار کی الگ اور منافق کی الگ ہوتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا پاک نام ابراہیم بھی تھا جس کی تعریف اللہ تعالی فرماتا ہے.إِبْرَاهِيم الذِي وَفَّى اور وہی ابراہیم جو جَاءَ بِقَلْبِ سَلِيمٍ (الصافات: ۸۵) کا مصداق تھا اس نے سچی تعظیم امر الہی کی کر کے دکھائی.اس کا نتیجہ کیا دیکھا.دنیا کا امام ٹھہرا.اسی طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم ہوتا ہے کہ

Page 151

142 تعظیم لامر اللہ کے لئے تو فَصَلِّ لِرَبِّكَ کا حکم ہے مگر شفقت علی خلق اللہ اور تحمیل تعظیم امرالہی کے لئے وَانْحَرُ (قربانی بھی کرو).قربانی کرنا بڑا ہی مشکل کام ہے.جب یہ شروع ہوئی اس وقت دیکھو کیسے مشکلات تھے اور اب بھی دیکھو.ابراہیم علیہ السلام بہت بوڑھے اور ضعیف تھے.99 برس کی عمر تھی.خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق اولاد صالح عنایت کی.اسمعیل جیسی اولاد عطا کی.جب اسمعیل جوان ہوئے تو حکم ہوا کہ ان کو قربانی میں دیدو.اب ابراہیم علیہ السلام کی قربانی دیکھو.زمانہ اور عمروہ کہ ۹۹ تک پہنچ گئی.اس بڑھاپے میں آئندہ اولاد کے ہونے کی کیا توقع اور وہ طاقتیں کہاں؟ مگر اس حکم پر ابراہیم نے اپنی ساری طاقتیں ساری امیدیں اور تمام ارادے قربان کر دیے.ایک طرف حکم ہوا اور معابیٹے کو قربان کرنے کا ارادہ کر لیا.پھر بیٹا بھی ایسا سعید بیٹا تھا کہ جب ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا بیٹا! إِنِّي أَرَى فِي الْمَنَامِ أَنِّي اذْبَحُكَ الصَّفت (۳۳) تو وہ بلا چون و چرا یونی بولا کہ اِفْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّبِرِينَ (الصفت (۳) ابا! جلدی کرو.ورنہ وہ کہہ سکتے تھے کہ یہ خواب کی بات ہے، اس کی تعبیر ہو سکتی ہے.مگر نہیں.کہا پھر کر ہی لیجئے.غرض باپ بیٹے نے فرمانبرداری دکھائی کہ کوئی عزت کوئی آرام کوئی دولت اور کوئی امید باقی نہ رکھی.یہ آج ہماری قربانیاں اسی پاک قربانی کا نمونہ ہیں.مگر دیکھو کہ اس میں اور ان میں کیا فرق ہے.اللہ تعالیٰ نے ابراہیم اور اس کے بیٹے کو کیا جزا دی؟ اولاد میں ہزاروں بادشاہ اور انبیاء پیدا کئے.وہ زمانہ عطا کیا جس کی انتہا نہیں.خلفا ہوں تو وہ بھی ملت ابراہیمی میں.سارے نواب اور خلفاء الہی دین کے قیامت تک اسی گھرانے میں ہونے والے ہیں.پس اگر قربانی کرتے ہو تو ابراہیمی قربانی کرو.زبان سے إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ (الانعام: ۸۰) کہتے ہو تو روح بھی اس کے ساتھ متفق ہو.إِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِي وَ مَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الانعام ۱۳) کہتے ہو تو کر کے بھی دکھلاؤ.غرض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اس کی فرمانبرداری اور تعمیل حکم کے لئے جو اسلام کا سچا مفہوم اور منشا ہے.کوشش کرو مگر میں دیکھتا ہوں کہ ہزاروں وسوسے اور دنیا کی اینجا بیچی ہوتی ہے.خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے کل قومی اور خواہشوں کو قربان کر ڈالو اور رضاء الہی میں لگا دو تو پھر نتیجہ یہ ہوگا إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ (تیرے دشمن ابتر ہوں گے).انسان کی خوشحالی اس سے بڑھ کر کیا ہوگی کہ خود اس کو راحتیں اور نفرتیں ملیں اور اس کے دشمن

Page 152

143 تباہ اور ہلاک ہوں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز اور اپنی قربانیوں میں دکھا دیا کہ وہ ہمارا ہے.ہم نے اپنی نصرتوں اور تائیدوں سے بتا دیا کہ ہم اس کے ہیں اور اس کے دشمنوں کا نام و نشان تک مٹا دیا.آج ابو جہل کو کون جانتا ہے.ماں باپ نے تو اس کا نام ابو الحکم رکھا تھا مگر آخر ابو جہل ٹھہرا.وہ سید الوادی کہلا تا مگر بد تر مخلوق ٹھہرا.وہ بلال جس کو ذلیل کرتے، ناک میں نکیل ڈالتے اس نے اللہ تعالیٰ کو مانا.اسی کے سامنے ان کو ہلاک کر کے دکھا دیا.غرض خدا کے ہو جاؤ وہ تمہارا ہو جائے گا مَنْ كَانَ لِلَّهِ كَانَ اللهُ لَہ.میں دیکھتا ہوں کہ ہزاروں ہزار اعتراض مرزا صاحب پر کرتے ہیں.مگر وہ وہی اعتراض ہیں جو پہلے برگزیدوں پر ہوئے.انجام بتادے گا کہ راستباز کامیاب ہوتا ہے اور اس کے دشمن تباہ ہوتے ہیں.خلاصہ کلام یہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کا بنتا ہے وہی کامیاب ہوتا ہے ورنہ نامراد مرتا ہے.پس ایسے بنو کہ موت آوے خواہ وہ کسی وقت آوے مگر تم کو اللہ تعالی کا فرمانبردار پاوے.یاد رکھو کہ مرکز اور مرتے ہوئے بھی اللہ کے ہونے والے نہیں مرتے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اعمال صالحہ کی توفیق دے.جو اپنی اصلاح نہیں کرتا اور اپنا مطالعہ نہیں کرتا وہ پتھر ہے.اور دنیا کے ایچ بیچے کام نہیں آتے.کام آنے والی چیز نیکی اور اعمال صالحہ ہیں.خدا سب کو توفیق عطا کرے.آمین خطبہ ثانیہ میں اتنا ہی فرمایا کہ قربانیاں دو جو بیمار نہ ہوں ، دہلی نہ ہوں، بے آنکھ کی نہ ہوں“ کان چری نہ ہوں، عیب دار نہ ہوں، لنگڑی نہ ہوں.اس میں اشارہ ہے کہ جب تک کامل طور پر قومی قربان نہ کرو گے ساری نیکیاں تمہاری ذات پر جلوہ گر نہ ہوں گی.اصل منشا قربانی کا یہ ہے.پھر جس کو مناسب سمجھتا ہووے.کہ له (الحکم جلدے نمبر ۱۰-۱۷۰۰ار مارچ ۱۹۰۳ء صفحه ۱۴ تا ۱۶) الحکام جلدے نمبر....۲۴ مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۳ تا ۵)

Page 153

۲۱ دسمبر ۱۹۰۳ء / 144 خطبہ عید الفطر اَشْهَدُ اَنْ لا إِلهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ وَ اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ - امَّا بَعْدُ يَسْتَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَ الْحَج وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا البيوت مِنْ ظُهُورِهَا وَ لَكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى وَآتُوا البيوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (البقره: ١٩٠) یہ رکوع جس کا میں نے ابتداء پڑھا ہے، اس رکوع کے بعد ہے جس میں رمضان اور روزہ کا تذکرہ ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کو نیک اعمال کے بجالانے کی کیسی محبت تھی اور کلام اور اس کی اصلی بات پر آگاہی پانے کا کس قدر شوق تھا.روزہ کی حقیقت یہ ہے کہ اس سے نفس پر قابو حاصل ہوتا ہے اور انسان متقی بن جاتا ہے.رکوع میں رمضان شریف کے متعلق یہ بات مذکور ہے کہ انسان کو جو ضرورتیں پیش آتی ہیں ان میں سے بعض تو شخصی ہوتی ہیں اور بعض نوعی.اور بقائے نسل کی مخصی ضرورتوں میں جیسے کھانا پینا ہے اور نوعی ضرورت جیسے نسل کے لئے بیوی سے تعلق.ان دونوں قسم کی طبعی ضرورتوں پر قدرت حاصل کرنے کی

Page 154

145 راہ روزہ سکھاتا ہے اور اس کی حقیقت یہی ہے کہ انسان متقی بننا سیکھ لیوے.آجکل تو دن چھوٹے ہیں.سردی کا موسم ہے اور ماہ رمضان بہت آسانی سے گذرا.مگر گرمی میں جو لوگ روزہ رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ بھوک پیاس کا کیا حال ہوتا ہے اور جوانوں کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ ان کو بیوی کی کس قدر ضرورت پیش آتی ہے.جب گرمی کے موسم میں انسان کو پیاس لگتی ہے.ہونٹ خشک ہوتے ہیں.گھر میں دودھ ، برف، مزہ دار شربت موجود ہیں مگر ایک روزہ دار ان کو نہیں پیتا.کیوں؟ اس لئے کہ اس کے مولا کریم کی اجازت نہیں کہ ان کو استعمال کرے.بھوک لگتی ہے.ہر ایک قسم کی نعمت زردہ پلاؤ قلیہ ، قورمہ، فرنی وغیرہ گھر میں موجود ہیں.اگر نہ ہوں تو ایک آن میں اشارہ سے طیار ہو سکتے ہیں مگر روزہ دار ان کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتا.کیوں؟ صرف اس لئے کہ اس کے موٹی کریم کی اجازت نہیں.شہوت کے زور سے بیٹھے پھٹے جاتے ہیں اور اس کی طبیعت میں سخت اضطراب جماع کا ہوتا ہے.بیوی بھی حسین نوجوان اور صحیح القومی موجود ہے.مگر روزہ دار اس کے نزدیک نہیں جاتا.کیوں؟ صرف اس لئے کہ وہ مانتا ہے کہ اگر جاؤں گا تو خدا تعالیٰ ناراض ہو گا.اس کی عدول حکمی ہو گی.ان باتوں سے روزہ کی حقیقت ظاہر ہے کہ جب انسان اپنے نفس پر یہ تسلط پیدا کر لیتا ہے کہ گھر میں اس کی ضرورت اور استعمال کی چیزیں موجود ہیں مگر اپنے مولا کی رضا کے لئے وہ حسب تقاضائے نفس ان کو استعمال نہیں کرتا تو جو اشیاء اس کو میسر نہیں ان کی طرف نفس کو کیوں راغب ہونے دے گا؟ رمضان شریف کے مہینہ کی بڑی بھاری تعلیم یہ ہے کہ کیسی ہی شدید ضرورتیں کیوں نہ ہوں مگر خدا کا ماننے والا خدا ہی کی رضامندی کے لئے ان سب پر پانی پھیر دیتا ہے اور ان کی پروا نہیں کرتا.قرآن شریف روزہ کی حقیقت اور فلاسفی کی طرف خود اشارہ فرماتا ہے.کہتا ہے.یايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصَّيَامَ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقره: ۱۸۴) روزہ تمہارے لئے اس واسطے ہے کہ تقویٰ سیکھنے کی تم کو عادت پڑ جاوے.ایک روزہ دار خدا کے لئے ان تمام چیزوں کو ایک وقت ترک کرتا ہے جن کو شریعت نے حلال قرار دیا ہے اور ان کے کھانے پینے کی اجازت دی ہے.صرف اس لئے کہ اس وقت میرے مولا کی اجازت نہیں.تو یہ کیسے ممکن ہے کہ پھر وہی شخص ان چیزوں کے حاصل کرنے کی کوشش کرے جن کی شریعت نے مطلق اجازت نہیں دی اور وہ حرام کھاوے، پیوے اور بد کاری میں شہوت کو پورا کرے.تقویٰ کے لئے ایک جزو ایمان یہ ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کا مال مت کھایا کرو.

Page 155

حرام خوری کے اقسام 146 حرام خوری اور مال بالباطل کا کھانا کئی قسم کا ہوتا ہے.ایک نو کر اپنے آقا سے پوری تنخواہ لیتا ہے.مگر وہ اپنا کام سستی یا غفلت سے آقا کی منشاء کے موافق نہیں کرتا تو وہ حرام کھاتا ہے.ایک دوکاندار یا پیشہ ور خریدار کو دھوکا دیتا ہے.اسے چیز کم یا کھوئی حوالہ کرتا ہے اور مول پورا لیتا ہے.تو وہ اپنے نفس میں غور کرے کہ اگر کوئی اسی طرح کا معاملہ اس سے کرے اور اسے معلوم بھی ہو کہ میرے ساتھ دھوکا ہوا تو کیا وہ اسے پسند کرے گا؟ ہرگز نہیں.جب وہ اس دھو کا کو اپنے خریدار کے لئے پسند کرتا ہے تو وہ مال بالباطل کھاتا ہے.اس کے کاروبار میں ہر گز برکت نہ ہوگی.پھر ایک شخص محنت اور مشقت سے مال کماتا ہے مگر دوسرا ظلم (یعنی رشوت، دھوکا، فریب) سے اس سے لینا چاہتا ہے تو یہ مال بھی مال بالباطل لیتا ہے.ایک طبیب ہے.اس کے پاس مریض آتا ہے اور محنت اور مشقت سے جو اس نے کمائی کی ہے اس میں سے بطور نذرانہ کے طبیب کو دیتا ہے یا ایک عطار سے وہ دوا خریدتا ہے تو اگر طبیب اس کی طرف توجہ نہیں کرتا اور تشخیص کے لئے اس کا دل نہیں تڑپتا اور عطار عمدہ دوا نہیں دیتا اور جو کچھ اسے نقد مل گیا اسے نقیمت خیال کرتا ہے یا پرانی دوائیں دیتا ہے کہ جن کی تاثیرات زائل ہو گئی ہیں تو یہ سب مال بالباطل کھانے والے ہیں.غرضیکہ سب پیشہ ور حتی کہ چوڑھے چمار بھی سوچیں کہ کیا وہ اس امر کو پسند کرتے ہیں کہ ان کی ضرورتوں پر ان کو دھوکا دیا جائے.اگر وہ پسند نہیں کرتے تو پھر دوسرے کے ساتھ خود وہی ناجائز حرکت کیوں کرتے ہیں.روزہ ایک ایسی شے ہے جو ان تمام بری عادتوں اور خیالوں سے انسان کو روکنے کی تعلیم دیتا ہے اور تقویٰ حاصل کرنے کی مشق سکھاتا ہے.جو شخص کسی کا مال لیتا ہے وہ مال دینے والے کی اغراض کو ہمیشہ مد نظر رکھ کر مال لیوے اور اسی کے مطابق اسے شے دیوے.روزہ سے قرب الہی حاصل ہوتا ہے.روزہ جیسے تقویٰ سیکھنے کا ایک ذریعہ ہے ویسے ہی قرب الہی حاصل کرنے کا بھی ذریعہ ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ماہ رمضان کا ذکر فرماتے ہوئے ساتھ ہی یہ بھی بیان کیا ہے.وَ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقرہ:۱۸۷).

Page 156

147 یہ ماہ رمضان کی ہی شان میں فرمایا گیا ہے اور اس سے اس ماہ کی عظمت اور سرالہی کا پتہ لگتا ہے کہ اگر وہ اس ماہ میں دعائیں مانگیں تو میں قبول کروں گا لیکن ان کو چاہئے کہ میری باتوں کو قبول کریں اور مجھے مانیں.انسان جس قدر خدا کی باتیں مانے میں قوی ہوتا ہے خدا بھی ویسے ہی اس کی باتیں مانتا ہے.لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ماہ کو رشد سے بھی خاص تعلق ہے اور اس کا ذریعہ خدا پر ایمان اس کے احکام کی اتباع اور دعا کو قرار دیا ہے.اور بھی باتیں ہیں جن سے قرب الہی حاصل ہو تا ہے.آیت کا شان نزول ย جب صحابہ نے دیکھا کہ ایک ماہ رمضان کی یہ عظمت اور شان ہے اور اس قرب الہی کے حصول کے بڑے ذرائع موجود ہیں تو ان کے دل میں خیال گزرا کہ ممکن ہے کہ دوسرے چاندوں و مہینوں میں بھی کوئی ایسے ہی اسرار مخفیہ اور قرب الہی کے ذرائع موجود ہوں.وہ معلوم ہو جاویں اور ہر ایک ماہ کے الگ الگ احکام کا حکم ہو جاوے.اس لئے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ دوسرے چاندوں کے احکام اور عبادات خاصہ بھی بتا دیئے جاویں.ہلال اور قمر کا فرق یہاں لفظ اهلة کا استعمال ہوا ہے جو کہ ہلان کی جمع ہے.بعض کے نزدیک تو پہلی، دوسری اور تیسری کے چاند کو اور بعض کے نزدیک ساتویں کے چاند کو ہلال کہتے ہیں اور پھر اس کے بعد قمر کا لفظ اطلاق پاتا ہے.احادیث میں جو مہدی کی علامات آئی ہیں ان میں سے مہدی کی علامت ایک یہ بھی ہے کہ ایک ہی ماہ رمضان میں چاند اور سورج کو گرہن لگے گا.وہاں چاند کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قمر کا لفظ استعمال کیا ہے اور اعلی درجہ کا قمر ۱۳۱۳ ۱۵ تاریخ کو ہوتا ہے اور اس کے گرہن کی بھی یہی تاریخیں مقرر ہیں.اس سے کم زیادہ نہیں ہو سکتا.اور ایسے ہی سورج گرہن کے لئے بھی ۲۷ ۲۹٬۲۸ تاریخ ماہ قمری کی مقرر ہے.غرضیکہ قمر کا لفظ اپنے حقیقی معنوں کی رو سے مہدی کی علامت تھی.لیکن لوگوں نے تصرف کر کے وہاں قمر کی بجائے ہلال کا لفظ ڈال دیا ہے اور یہ ان کی غلطی ہے.ہر ایک نیا چاند انسانی زندگی کی مثال میں ایک سبق دیتا ہے

Page 157

148 صحابہ کرام کے اس سوال پر کہ اور چاندوں کے برکات و انوار سے ان کو اطلاع دی جاوے اللہ جل شانہ نے یہ جواب دیا.قُلْ هِيَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَج یعنی جیسے ماہ رمضان تقویٰ سکھانے کی ایک شے ہے ویسے ہر ایک مہینہ جو چڑھتا ہے وہ انسان کی بہتری کے لئے ہی آتا ہے.انسان کو چاہئے کہ نے چاند کو دیکھ کر اپنی عمر رفتہ پر نظر ڈالے اور دیکھے کہ میری عمر میں سے ایک ماہ اور کم ہو گیا ہے اور نہیں معلوم کہ آئندہ چاند تک میری زندگی ہے کہ نہیں.پس جس قدر ہو سکے وہ خیر و نیکی کے بجالانے میں اور اعمال صالحہ کرنے میں دل و جان سے کوشش کرے اور سمجھے کہ میری زندگی کی مثال برف کی تجارت کی مانند ہے.برف چونکہ پگھلتی رہتی ہے اور اس کا وزن کم ہو تا رہتا ہے اس لئے اس کے تاجر کو بڑی ہوشیاری سے کام کرنا پڑتا ہے اور اس کی حفاظت کا وہ خاص اہتمام کرتا ہے.ایسے ہی انسان کی زندگی کا حال ہے جو برف کی مثال ہے کہ اس میں سے ہر وقت کچھ نہ کچھ کم ہوتا ہی رہتا ہے اور اس کا تاجر یعنی انسان ہر وقت خسارہ میں ہے.چونسٹھ.پینسٹھ سال جب گزر گئے اور اس نے نیکی کا سرمایہ کچھ بھی نہ بنایا تو وہ گویا سب کے سب گھاٹے میں گئے.ہزاروں نظارے تو آنکھ سے دیکھتے ہو.اپنے بیگانے مرتے ہیں.اپنے ہاتھوں سے تم ان کو دفن کر کے آتے ہو اور یہ ایک کافی عبرت تمہارے واسطے وقت کی شناخت کرنے کی ہے.اور نیا چاند تمہیں سمجھاتا ہے کہ وقت گزر گیا ہے اور تھوڑا پاتی ہے.اب بھی کچھ کر لو.لمبی لمبی تقریریں اور وعظ کرنے کا ایک رواج ہو گیا ہے ورنہ سمجھنے اور عمل کرنے کے لئے ایک لفظ ہی کافی ہے.کسی نے اسی کی طرف اشارہ کر کے کہا ہے.مجلس وعظ رفتنت ہوس است مرگ ہمسایہ واعظ تو بس است پس ان روزانہ موت کے نظاروں سے جو تمہاری آنکھوں کے سامنے اور تمہارے ہاتھوں میں ہوتے ہیں، عبرت پکڑو اور خدا تعالیٰ سے مدد چاہو اور کاہلی اور مستی میں وقت کو ضائع مت کرو.مطالعہ کرو اور خوب کرو کہ بچہ سے لے کے جوان اور بوڑھے تک اور بھیڑ بکری اونٹ وغیرہ جس قدر جاندار چیزیں ہیں، سب مرتے ہیں اور تم نے بھی ایک دن مرنا ہے.پس وہ کیا بد قسمت انسان ہے جو اپنے وقت کو ضائع کرتا ہے.صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وقت کی کیسی قدر کرتے تھے کہ جب ان کو ماہ رمضان کے فضائل معلوم ہوئے تو معا دوسرے مہینوں کے لئے سوال کیا کہ قرب الہی کے اگر اور ذرائع بھی ہوں تو معلوم ہو جاویں.

Page 158

149 روح کا علاج ضروری ہے اور اس کا ایک ہی نسخہ ہے میرے پاس بیمار آتے ہیں.ان کی اور اپنی حالت پر حیران ہوا کرتا ہوں کہ جس جسم کے آرام کے لئے یہ اس قدر تکلیف برداشت کر کے اور اخراجات اور مصائب سفر کے زیر بار ہو کر میرے پاس آتے ہیں اسے یہ آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں ضرور چھوڑ دیں گے.لیکن پھر بھی ذرا سے دکھ سے آرام پانے کے لئے ترک وطن کرتے ہیں.عزیز و اقارب کو چھوڑتے ہیں.اور ان کی بڑی آرزو یہ ہوتی ہے کہ جس طرح ہو آپ جلدی ٹوٹ جاوے لیکن روح کی بیماری کی کسی کو فکر نہیں ہے.اس کے واسطے نہ کوئی تڑپ نہ رنج والم.حالانکہ جانتے ہیں کہ مرنے کے بعد اعمال کے جوابدہ ہوں گے اور یہاں بھی برابر ہوتے رہتے ہیں.آتشک والے مریض کو اس کے اعمال کی جو پاداش ملتی ہے وہی اسے خوب جانتا ہے.اسی طرح بد نظری اور بدکاری کی عادتیں جو پڑتی ہیں پھر انسان ہزار جتن کرے ان کا دور ہونا بغیر خاص فضل الہی کے بہت مشکل ہوتا ہے اور اس کے بڑے بڑے دکھ دینے والے نتیجے اسے برداشت کرنے پڑتے ہیں.جب یہ حال ہے اور جسم کی اوٹی اوٹی سی ایڈا کی تم کو فکر ہے تو روح کا کیوں فکر نہیں کرتے.روح کی بیماریوں کے علاج کا ایک ہی نسخہ ہے جس کا نام قرآن شریف ہے.اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بدکار لوگ کہیں گے لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ (الملك) کہ اگر ہم خدا کے فرستادوں کی باتوں کو کان دھر کر سنتے اور عقل سے کام لیتے تو آج ہم دوزخیوں میں سے نہ ہوتے.یہ حسرت ان کو کیوں ہو گی ؟ صرف اس لئے کہ وقت ان کے ہاتھ سے نکل گیا اور اب پھر ہاتھ نہیں آسکتا.پس روح کی بیماری کا بھی علاج ہے کہ وقت کو ہاتھ سے نہ گنواوے اور اس نور اور شفا کتاب قرآن شریف پر عملدرآمد کرے.اپنے حال اور قال اور حرکت اور سکون میں اسے دستور العمل بنا دے.عبرت پکڑنے کے میں دو مرحلے اوپر بیان کر آیا ہوں.تیسرا مرحلہ یہ ہے کہ واعظ کا وعظ انسان کی ہدایت کے لئے کافی نہیں ہوتا.آج سے کئی سو برس پیشتر ایک تجربہ کار کہتا ہے.مشکل دارم ز دانشمند مجلس باز پرس تو بہ فرمایاں چرا خود تو به کمتر می کنند میری طرح بہت سے واعظ کھڑے ہوتے ہیں.بہت سے ان میں سے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی نیت

Page 159

150 روپیہ بٹورنے کی ہوتی ہے.بہت سے ایسے کہ لوگ ان کے وعظ اور تقریر کی تعریف کریں اور بعض ایسے بھی ہوتے ہوں گے جو کہ محض خدا کے واسطے وعظ کرتے ہوں.اسی طرح سننے والوں کا حال ہے.میں طبیب ہوں اس لئے بعض لوگ صرف اسی لحاظ سے وعظ سنتے ہوں گے کہ ان کا علاج بھی اچھی طرح کروں اور کسی کی کچھ اور کسی کی کچھ غرض ہو گی اور بعض ایسے بھی ہوں گے کہ محض خدا کے لئے سنتے ہوں.غرض وعظوں کے سننے اور سنانے والے مختلف اغراض لئے ہوتے ہیں.جو خدا کے لئے سنتے اور سناتے ہیں ان کو چھوڑ کر باقیوں کے لئے یہ علم بڑی مشکلات کا موجب ہوتا ہے اور وبال جان ہوتا ہے.کیونکہ اس کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی حجت ان پر پوری ہوتی ہے اور انسان سن یا سنا کر خود ہی اس میں پھنس جاتا ہے.عالموں سے قیامت کے دن سوال ہو گا کہ تم خود اپنے علم پر عامل تھے کہ نہیں ؟ تم تکبر کا وعظ کرتے تھے لیکن خود تکبر سے خالی نہ تھے.تم بغض اور کینہ سے بچنے کی نصیحت لوگوں کو کرتے تھے مگر خود نہیں بچتے تھے.تم ریا کاری سے لوگوں کو روکتے تھے مگر خود نہیں رکھتے تھے.یہ روحانی بیماریاں ہیں جن کا علاج انسان کے لئے ضروری ہے.چاہئے کہ علم کے مطابق تمہارا عمل ہو.ایک مزکی النفس انسان سے مستفید ہونے کی راہ لوگوں کے اندر کمزوریاں بھی ہوتی ہیں.اس لئے خدا کی رحمت کا یہ بھی تقاضا ہوتا ہے کہ وہ ان کے لئے ایک مزکی نفس انسان پیدا کرتا ہے جو کہ اپنے نفس اور خواہش سے کچھ نہیں کرتا.خدا کے بلائے بولتا ہے.اس کی زبان خدا کی زبان ہوتی ہے.اس کی آنکھیں خدا کی آنکھیں یا خدا کی آنکھیں اس کی آنکھیں ہوتی ہیں.اس کے ہاتھ خدا کے ہاتھ یا خدا کے ہاتھ اس کے ہاتھ ہوتے ہیں.وہ خدا کی طرف سے آتا ہے اور ایک مقناطیسی قوت اپنے ساتھ رکھتا ہے تاکہ لوگ اس کے ساتھ تعلق پیدا کر کے اپنے اپنے نفوس کا تزکیہ کریں اور یہ تعلق ایسا مضبوط ہو جیسے ایک درخت کی شاخ پورے طور پر اپنے تنے سے پیوستہ ہوتی ہے.ایسا ہی یہ بھی صدق و صفا اور اخلاص اور پوری اطاعت کے ساتھ اس کے ساتھ پیوستہ ہو تو تزکیہ کی اس روح سے جو مزکی کے اندر ہوتی ہے فائدہ اٹھا سکے گا.ورنہ اس کا نشو و نما ہرگز ممکن نہیں.

Page 160

151 ماہ شوال نبوت کا چاند ہے پس وقت کی قدر کرو اور ہر ایک چاند جو تمہاری روح کے لئے ایک وقت اور فرصت لاتا ہے اس سے نصیحت سیکھو.جو چاند تم نے کل دیکھا ہے وہ گویا نبوت کے اول سال کا چاند ہے.کیونکہ قرآن شریف کا نزول اسی ماہ شوال کے ماقبل رمضان میں شروع ہوا.اس لئے یہ چاند اور اس کے پہلے کا چاند ہر ایک مومن کے لئے خیر و برکت کا موجب ہے.حدیث شریف میں دعا آتی ہے کہ انسان چاند دیکھے تو کہے.اللهم اهله عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيْمَانِ وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ رَبِّي وَرَبُّكَ اللهُ هِلَالُ رُشْد و عَيْرٍ (ترمذی کتاب الدعوات، پس چاہئے کہ روحانی پرورش کے لئے ہم سچا تعلق مزکی کے ساتھ پیدا کریں.وہ اب موجود ہے جس کی انتظار تیرہ سو برس سے ہو رہی تھی.حقیقت حج و جماعت پھر فرمایا وَ الْحَج.کہ چاند حج کے وقت کی بھی خبر دیتا ہے جو اسلام کا ایک اعلیٰ رکن ہے.باوجود اس کے کہ نوش اور اشتہاروں کی کثرت ہو رہی ہے اور ہر جگہ مجلسیں اور سوسائٹیاں جوش و خروش سے قائم ہو رہی ہیں مگر پھر بھی دنیا میں کوئی مجلس ایسی دید و شنید میں نہیں آئی، جس کے ممبر پانچ وقت جمع ہوتے ہوں.مگر جناب الہی نے اطاعت اور طہارت کے ساتھ پانچ وقت جمع ہونا اور مل کر اس کی عظمت و جبروت کو بیان کرنا مسلمانوں پر فرض کر دیا ہے.کوئی شہر اور قصبہ نہ دیکھو گے جس کے ہر محلہ میں اسلام کی یہ پنجگانہ کمیٹی نہ ہوتی ہو.لیکن اس روزانہ پانچ وقت کے اجتماع میں اگر تمام باشندگان شہر کو اکٹھا ہونے کا حکم دیا جاتا تو یہ ایک تکلیف مالا يطاق ہوتی.اس لئے تمام شہر کے رہنے والے مسلمانوں کے اجتماع کے لئے ہفتہ میں ایک دن جمعہ کا مقرر ہوا.پھر اسی طرح قصبات اور دیہات کے لوگوں کے اجتماع کے لئے عید کی نماز تجویز ہوئی.اور چونکہ یہ ایک بڑا اجتماع تھا اس لئے عید کا جلسہ شہر کے باہر میدان میں تجویز ہوا.لیکن اس سے پھر بھی کل دنیا کے مسلمان میل ملاپ سے محروم رہتے تھے.اس لئے کل اہل اسلام کے اجتماع کے لئے ایک بڑے صدر مقام کی ضرورت تھی تاکہ مختلف بلاد کے بھائی اسلامی رشتہ کے سلسلہ میں یکتا باہم مل جاویں.لیکن اس کے لئے چونکہ ہر فرد بشر مسلمان اور امیر اور فقیر کا شامل ہونا محال تھا اس لئے صرف صاحب استطاعت منتخب ہوئے تاکہ تمام دنیا کے مسلمان ایک جگہ جمع ہو کر تبادلہ خیالات کریں اور مختلف خیالات و دماغوں کا ایک اجتماع ہو اور سب کے سب مل کر

Page 161

152 خدا تعالیٰ کی عظمت و جبروت کو بیان کریں.حج میں ایک کلمہ کہا جاتا ہے لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَ النِّعْمَةَ لَكَ وَ الْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ (بخارى كتاب الحج باب التلبیہ) جس کا مطلب یہ ہے کہ اے مولا! تیرے حکموں کی اطاعت کے لئے اور تیری کامل فرمانبرداری کے لئے میں تیرے دروازے پر حاضر ہوں.تیرے احکام اور تیری تعظیم میں کسی کو شریک نہیں کرتا.غرضیکہ یہ حقیقت ہے مذہب اسلام کی جس کو مختصر الفاظ میں بیان کیا گیا ہے.پھر دن میں پانچ دفعہ کل مسلمانوں کو ”اللہ اکبر" کے الفاظ سے بلایا جاتا ہے.کوئی نادان اسلام پر کیسے ہی اعتراض کرے کہ ان کا خدا ایسا ہے ویسا ہے مگر وہ خدا تعالیٰ کے لئے اکبر سے بڑھ کر لفظ وضع نہیں کر سکتا.نماز کے لئے بلاتے ہیں تو اللہ اکبر" سے شروع کرتے اور ختم کرتے ہیں تو رَحْمَةُ الله پر.حج کے برکات میں سے ایک یہ تعلیم ہے جو کہ اس کے ارکان سے حاصل ہوتی ہے کہ انسان سادگی اختیار کرے اور تکلفات کو چھوڑ دے.اس کے ارکان کبر و بڑائی کے بڑے دشمن ہیں.سستی اور نفس پروری کا استیصال ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر ایک بات یہ ہے کہ ہزاروں ہزار سال سے ایک معاہدہ چلا آتا ہے.وہ یہ کہ جناب الہی کے حضور حاضر ہو کر تحمید کرتا ہے اور بہت سی دعائیں مانگتا ہے.محدود عقل اور خواہش کے محدود نتائج وَلَيْسَ الْبِرَّ " انسان کو ایک زبر دست طاقت کا خیال ہمیشہ رہتا ہے اور یہ انسانی فطرت کا خاصہ ہے کہ ہر ایک مذہب میں جناب الہی کی عظمت و جبروت کو ضرور مانا جاتا ہے.جو لوگ اس سے منکر ہیں وہ بھی مانتے ہیں کہ ایک عظیم الشان طاقت ضرور ہے جس کے ذریعہ سے یہ نظام عالم قائم ہے.اس کے قرب کے حاصل کرنے والے تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں.بعض کی غرض تو یہ ہوتی ہے کہ جسمانی سامان حاصل کر کے جسمانی آرام حاصل کیا جاوے.جیسے ایک دوکاندار کی بڑی غرض و آرزو یہ ہوتی ہے کہ اس کا گاہک واپس نہ جاوے.ایک اہل کسب ایک دو روپیہ کما کر پھولا نہیں سماتا.لیکن ایسے لوگ انجام کار کوئی خوشحالی نہیں پاتے.وجہ یہ ہے کہ ان کی خواہش محدود ہوتی ہے.اس لئے محدود فائدہ اٹھاتے ہیں اور محدود خیالات کا نتیجہ پاتے ہیں.بعض اس سے زیادہ کوشش کرتے ہیں اور ان پر خواب اور کشف کا دروازہ کھلتا ہے.اس قسم کے لوگوں میں بھلائی اور اخلاق سے پیش آنے کا خیال وارادہ بھی ہوتا ہے.مگر چونکہ ان کی عقل بھی محدود ہوتی ہے اس لئے ان کی راہ بھی محدود ہوتی ہے.ایک حد کے اندر اندر رہتے ہیں اور ان کو مشیر بھی محدود الفطرت ملتے ہیں.تیسری قسم کے لوگ کہ کوئی بھلائی ان کی

Page 162

153 نظر میں بھلی اور برائی بدی کسی محدود خیال سے نہیں ہوتی بلکہ ان کی نظر وسیع اور اس بات پر ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وراء الورا ہے.کوئی عقل اور علم اسے محیط نہیں.بلکہ کل دنیا اس کی محاط ہے.اس کی رضامندی کی راہوں کو کوئی نہیں جان سکتا بجز اس کے کہ وہ خود کسی پر ظاہر کرے.یہ نظر انبیاء اور رسل اور ان کے خلفاء راشدین کی ہوتی ہے.وہ نہ خود تجویز کرتے ہیں اور نہ دوسرے کی تراشیدہ تجاویز مانتے ہیں بلکہ خدا کی بتلائی ہوئی راہوں پر چلتے ہیں.عرب کے نادانوں کا خیال تھا کہ جب وہ گھر سے حج کے لئے نکلیں اور پھر کسی ضرورت کے لئے ان کو واپس گھر آنا پڑے تو گھروں کے دروازہ میں داخل ہونا وہ معصیت خیال کرتے تھے اور پیچھے سے چھتوں پر سے ٹاپ کر آیا کرتے تھے اور اسے ان لوگوں نے نیکی خیال کر رکھا تھا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ باتیں نیکی میں داخل نہیں بلکہ نیکی کا وارث تو متقی ہے.تم اپنے گھروں میں دروازہ کی راہ سے داخل ہوا کرو اور تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم فلاح پاؤ.اس روح کو ابدالاباد ضرورتیں ہیں جن کی کسی کو خبر نہیں.اور مرکز جس ملک میں لوگ جاتے ہیں وہاں سے آج تک کوئی نہیں آیا جو یہ بتلاوے کہ وہاں کے لئے کس قسم کے سامان کی ضرورت ہے.کھانے پینے لباس اور آسائش کے واسطے کیا کیا انسان ساتھ لے جاوے.گزشتہ زمانہ کی نسبت تو لوگوں کے بڑے بڑے دعوے ہیں اور بعض مذاہب اپنی قدامت پر بڑا فخرو ناز کرتے ہیں.آریہ کہتے ہیں کہ ہم ہزا ر ہا برس سے ہیں اور جین مت والے ان سے بھی زیادہ قدامت میں قدم مار رہے ہیں اور زردشت کے ماننے والوں نے تو حد ہی کر دی کہ مہاسنکھ کے پہلے سترہ صفر بڑھا دیئے.غرضیکہ گزشتہ تاریخ کے دیکھنے میں انسانوں نے بڑے دعوے کئے ہیں.ایسے ہی اسٹرالوجی (Astrology) علم نجوم میں دور دور کے ستاروں کی تحقیق کی گئی ہے اور عجیب عجیب خواص اور ہیئت ان کی دریافت کی ہے.قدامت میں وہاں تک اور دور بینی میں یہاں تک نوبت پہنچائی ہے.نیچے کی طرف جیالوجی والوں نے زمین کے اندر بڑے بڑے غوطے لگائے مگر ایک سیکنڈ کے بعد کیا ہونے والا ہے کوئی نہیں بتاتا اور جب ایک سیکنڈ کے بعد کی خبر نہیں بتلائی جاتی تو مر کر کیا ہونا ہے اور کیا مرحلے پیش آتے ہیں، اس کی خبر کون دے؟ صرف خدا کی ہی ایک ذات ہے جو اس کی خبر دے سکتی ہے اور کوئی نہیں.وہی بتلاتا ہے کہ مرنے کے بعد تم کو فلاں فلاں امور کی ضرورت ہے اور تم کو اس ولایت میں بود وباش کے لئے فلاں قسم کا سامان درکار ہے.یہ خبر انبیاء ان کے خلیفہ اور ماموروں کے ذریعہ ملتی ہے اور جو کچھ وہ بتلاتے ہیں وہ خدا سے خبر پا کر بتلاتے ہیں ورنہ بذات خود غیب کی کنجی نہیں ہوتے.

Page 163

154 رضاء الہی کی وہی راہ ہوتی ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدوں کی معرفت بیان کرے اور خوش قسمتی سے ہمارا امام ان سب سے واقف ہے اور وہ بتلا سکتا ہے کہ تم کس طرح خدا کا قرب حاصل کر سکتے ہو.لیکن جو شخص اپنی طرف سے کوئی راہ تجویز کرتا ہے اور بلا کسی الہی سند کے کہتا ہے کہ اس سے خدا راضی ہو گا، وہ نفس دھوکا دیتا ہے.خدا کی راہوں کا علم انسان کو تقویٰ کے ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے.وَاتَّقُوا اللَّهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللهُ (البقره: ۳۸۳) تم تقویٰ اختیار کرو.اللہ تم کو علم عطا کرے گا جس سے تم اس کی رضامندی کی راہ پر چل سکو گے.تقویٰ ہی ہے کہ انسان بالکل خدا کا ہو جاوے.اس کا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، کھانا پینا ہر ایک حرکت و سکون خدا کے لئے ہو.جب وہ ہمہ تن اپنے وجود اور ارادوں کو خدا کے لئے بنا دے گا تو پھر خدا بھی اس کا بن جاوے گا.مَنْ كَانَ لِلَّهِ كَانَ الله له یہ وقت قابل قدر ہے میں نے اوپر ذکر کیا تھا کہ چاندوں کے ذریعہ سے انسان کو وقت کی قدر معلوم ہوتی ہے اور یہ اس کی گذشتہ اور آئندہ عمر کا سبق دیتے ہیں.اسی طرح ہر ایک بات کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے.وہ جب ہاتھ سے نکل جاتا ہے تو پھر ہاتھ نہیں آیا کرتا.دیکھو کل شام تک ایک وقت تھا کہ اس دن میں تندرست اور مقیم کے لئے کھانا پینا حرام تھا.لیکن جب وہ وقت ختم ہو گیا تو اس کے احکام اور برکات بھی ختم ہو گئے.آج ایک وقت ہے کہ اس کا حکم کل سے بالکل متضاد ہے.اگر کل تندرست اور مقیم کے لئے کھانا پینا دن میں حرام تھا تو آج اس کے واسطے نہ کھانا حرام ہے، نہ پینا.ہماری آنکھ کان ناک دست و پا سب کچھ وہی ہیں جو کل تھے.لیکن تقومی اطاعت اور حکم برداری کے لحاظ سے کل اور آج میں کس قدر تفرقہ ہے.اسی طرح خدا نے حج عید نماز کھانے اپنے سونے جاگنے وغیرہ کے وقت مقرر کئے ہیں اور جب وقت پر ایک کام حسب رضاء الہی بجالایا جاتا ہے تو وہ فضل اور برکات کا موجب ہوتا ہے.کل روزہ رکھنے کا ثواب تھا اور آج عذاب ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عبادت دراصل اطاعت کا نام ہے.اگر اس میں احکام الہی کی اطاعت نہ ہو تو وہی عبادت حرام اور قبیح ہو جاتی ہے.اس سے ایک سبق حاصل ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جیسے ہر ایک بات کے لئے ایک وقت ہوتا ہے ایسے ہی کامل متقی بننے کے لئے ایک وقت ہوتا ہے اور وہ وہ وقت ہوتا ہے جب خدا کی طرف سے کوئی اس کا خلیفہ دنیا میں آیا ہو.سو یہ بھی وہی وقت ہے.جب وقت ہاتھ سے نکل گیا تو پھر ہاتھ نہیں آتا.موت کا دروازہ تو کسی انسان

Page 164

155 کے لئے بند نہیں ہے.حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سید الرسل، خاتم الانبیاء ہیں.جن لوگوں نے آپ کا زمانہ پایا وہ آپ پر ایمان لائے اور متقی ہے.لیکن آخر آپ فوت ہوئے اور ہمیشہ کے لئے ان لوگوں میں نہ رہے.ہاں آپ کے انفاس طیبہ دیر تک رہے اور رہیں گے اور یہ ہر ایک نبی اور مامور کے ساتھ خدا کا فضل ہوتا ہے کہ کسی کے انفاس طیبہ بہت دیر تک رہتے ہیں، کسی کے تھوڑی دیر تک.لیکن وہ بذات خود ان میں نہیں رہتے.دیکھو جس مسیح کو دو ہزار برس سے زندہ کہتے تھے آخر وہ بھی مردہ ثابت ہوا.اس کے پجاریوں نے اسے آسمان پر زندہ کہا مگر زمین نے مردہ ثابت کیا اور اس کے انفاس بھی مرگئے.تعلیم کا یہ حال ہوا کہ خدا کا بیٹا بنایا گیا.اسی لئے ہماری تعلیم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ عَبدُهُ وَرَسُولُهُ" کا لفظ ایزاد ہوا کہ کہیں سابقہ قوموں کی طرح گمراہ ہو کر متبوع کو خدا نہ بنا بیٹھیں اور جب خدا کی توحید کا بیان کریں تو ساتھ ہی ساتھ آپ کی عبودیت کا بھی ذکر کیا جاوے.اگر ایسی تعلیم عیسائیوں کے ہاتھ ہوتی تو وہ گمراہ نہ ہوتے.میں وقت کا ذکر کر رہا تھا.پس تم کو چاہئے کہ وقت کا خیال رکھو.یہ آج عید الفطر ہے.پھر جو زندہ رہے تو دوسرے سال اسے پاوے گا.امام کے ماننے کا بھی یہی وقت ہے جبکہ وہ زندہ موجود ہے.اگر اس وقت نہ مانا تو پھر پچھتاؤ گے.مومنوں پر تین وقت ہر ایک مامور کے ماننے والوں پر تین وقت ہوا کرتے ہیں اور صحابہ پر بھی وہ وقت تھے.ایک تو مکہ کا جبکہ آنحضرت کو ہر طرف سے دکھ دیا جاتا تھا.جان کے لالے پڑے ہوئے تھے اور اس وقت آپ کو بعض لوگوں نے مانا.دوسرا وہ جبکہ آنحضرت مدینہ میں پہلے آئے اور بعض لوگ آپ پر ایمان لائے.تیسرا وہ وقت جبکہ صحابہ دنیا کے فاتح ہو رہے تھے اور ملک پر ملک آپ کے قبضہ میں آرہا تھا.اب سوچ لو کہ ان تین وقتوں میں جن جن لوگوں نے مانا اور خرچ کیا، کیا وہ برابر ہو سکتے ہیں؟ فتح مکہ سے اول جن لوگوں نے خرچ کیا تھا ان کی نسبت خود آنحضرت نے فرمایا کہ اب جو لوگ احد کے پہاڑ کے برابر سونا خرچ کریں تو ان کی وہ قدر نہیں ہو سکتی جو فتح مکہ سے اول ایک جو کی مٹھی کی ہو سکتی ہے.خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے مقام اور ان کا وقت خالد بن ولید جیسے فاتح کے سامنے یہ فقرہ کہا تھا کہ تمہاری خدمات اور فتوحات ان لوگوں کے ہم پلہ

Page 165

156 ہرگز نہیں ہو سکتیں جو کہ فتح مکہ سے پیشتر ایمان لائے اور نہ ان کی ان کے سامنے کچھ قدر ہے.پس یاد رکھو کہ امام کے ماننے کا ایک وقت ہوتا ہے.اسے ہاتھ سے کھونانادانی ہے اور اس کے ساتھ ہو کر خرچ کرنے میں بڑی برکات ہوتی ہیں اور اس خرچ کا یہی وقت ہے.اگر تم کرو گے تو خدا اس کا اجر اپنے ذمہ نہ رکھے گا.اس کے لئے خدا نے ہر ایک سلیم فطرت میں ایک نظیر رکھ دی ہے کہ جب کوئی کسی سے سلوک کرے یا نیکی کرے تو ایک سلیم الفطرت انسان کبھی گوارا نہیں کرتا کہ اسے بدلہ نہ دیا جاوے اور دل میں اس کی عظمت گھر نہ کرے.تو اب سوچ لو جس نے فطرت میں یہ بات رکھ دی ہے وہ آپ کیسے گوارا کرے گا کہ کسی کی نیکی کا بدلہ نہ دے.وہ بڑا غنی ہے.اس کی راہ میں اس کی رضامندی کے لئے جو کچھ خرچ کیا جاتا ہے وہ ضرور بدلہ دیتا ہے.لمبے لمبے وعظ و نصیحت میں کیا کروں.میں مجدد ملہم مامور یا مسیح نہیں ہوں.جو ہے اس نے کشتی نوح بنا کر تمہارے آگے رکھ دی ہے.وہ جدھر بلانا چاہتا ہے ادھر جانا تو درکنار ہمارا تو رخ بھی ابھی اس طرف نہیں.وہ کہتا ہے کہ مجھ کو بڑے بڑے خاردار جنگل جس میں لوہے کے کانٹے ہیں اور دشوار گزار راہیں طے کرنی ہیں.نازک پاؤں والے میرے ساتھ نہیں چل سکتے.پھر میں نے اسے یہ بھی کہتے سنا ہے کہ جس چشمہ سے میں تم کو پلانا چاہتا ہوں اس میں سے ابھی کسی نے پانی نہیں پیا.اور اس نے یہ بھی کہا ہے کہ بہت سی باتیں کہنے کے لائق ہیں مگر میں تم میں ان کی قبولیت اور برداشت کا مادہ نہیں پاتا اس لئے نہیں کہتا.پس اگر یہ سب باتیں تمہاے کام نہیں آتیں اور تم کو نفع نہیں بخشتیں تو میرا کو را بیان کیا فائدہ دے سکتا ہے؟ اس لئے تمہارے لئے ضروری ہے کہ اس وقت کی قدر کرو.اگر یہ ہاتھ سے نکل گیا تو پھر ہزاروں برس کے انتظار کے بعد بھی نہ ملے گا.خرچ کرنے کا اور نفس کے تزکیہ حاصل کرنے کا یہی وقت ہے.نفس کا تزکیہ امام کے ساتھ ہو کر مال خرچ کرنے سے بھی ہوا کرتا ہے.وہ اب موجود ہے اور اس سے پیوند ہونے کا موقع ہے.اگر یہ چلا گیا تو میرے جیسے واعظوں کا کیا ہے.۱۳۰۰ برس سے وعظ ہوتے ہی آئے ہیں.دعا کرو اور وقت کا مطالعہ کرو اور خدا سے قوت طلب کرو کہ وہ ان باتوں کی توفیق عطا کرے.مثلاً خرچ کرنے کے یہاں بڑے موقعے ہیں.مہمان خانہ ہے.لنگر خانہ ہے.مدرسہ ہے.پھر بعض لوگ آتے ہیں لیکن وہ بے خرچ ہوتے ہیں.ان کو خرچ کی ضرورت پڑتی ہے.اور بعض دولتمند بھی آتے ہیں اور میں نے اکثر دفعہ لوگوں کو کہا ہے کہ وہ آکر اپنا سامان وغیرہ میرے حوالہ کر کے رسید لے لیا کریں کہ تم نہ ہوا کرے.مگر وہ ایسا نہیں کرتے.اور ان کا سامان گم ہو جاتا ہے اور امداد کی ضرورت ان کو آپڑتی ہے اور بعض ایسے ہیں کہ محض ابْتَغَاء لِوَجهِ الله یہاں رہتے ہیں.پھر دو اخبار بھی ہیں.

Page 166

157 اگر چہ ان کے متم اپنے فرائض کو کما حقہ بجا نہیں لاتے مگر تاہم ان کا ہونا غنیمت ہے.خدا تعالی فرمات ہے فَإِنْ لَّمْ يُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلُّ (البقره:۳۲.تو ان سب اخراجات کو مد نظر رکھنا اور ان موقعوں پر خرچ کرنا چاہئے.جو اہم امور ہیں وہاں اہم اور جو اس سے کم ہیں وہاں کم.درجہ بدرجہ ہر ایک کا خیال رکھو.اس وقت اور خرچ کی یہ مثال ہے جیسے ایک کسان تھوڑے سے دانے ہو کر اور کھیت کو خدا کے سپرد کر کے چلا آتا ہے اور اگر چہ ان میں سے کچھ ضائع ہوتے ہیں.پرندے کھاتے ہیں.لیکن پھر بھی منوں غلہ ان سے پیدا ہوتا ہے.مگر بے وقت بونے سے وہ پیداوار محال ہے جو وقت پر بیج بونے سے حاصل ہو سکتی ہے.غرضیکہ ہر ایک چاند کو غنیمت جانو اور اپنی بہتری کنبہ کی بہتری، خلق اللہ کی بہتری کو ہر وقت مد نظر رکھو اور نیک سلوک سے سب سے پیش آؤ.اس وقت جو مراتب تم کو مل سکتے ہیں پھر نہیں ملیں گے.اب ایک پیسہ سے جو کام نکلتا ہے وہ پھر ہزاروں کے خرچ سے نہ نکلے گا.خدا سے قوت مانگو کہ وہ نیکی کرنے کی اور بدی کو ترک کرنے کی توفیق دیوے.جس قدر بچے یہاں بورڈنگ میں رہتے ہیں وہ سب ہمارے بچے ہیں.ان کے لئے دعا کرتا ہوں کہ وہ بچے علوم میں ترقی کریں اور نیک بنیں.آمین.بدر جلد ۳ نمبر --- یکم جنوری ۱۹۰۴ء صفحه ۲ تا۶) ا حکم جلد ۸ نمبر ۳--- ۲۴/ جنوری ۱۹۰۴ء صفحه ۱۲ تا ۱۴)

Page 167

۲۲ جنوری ۱۹۰۴ء مسجد اقصیٰ قادیان 158 خطبہ جمعہ اَشْهَدُ أن لا إلهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ وَ اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ - أَمَّا بَعْدُ.إِلَهُكُمْ إِلَهُ وَاحِدٌ لا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ (البقره: ۱۲۳) لَا إِلَهَ إِلَّا الله یہ ایک چھوٹا سا فقرہ ہے جسے ہر ایک طبقہ کے مسلمان خواہ مرد ہوں خواہ عورت، بچہ ہو یا بوڑھا بداطرار ہو یا نیک اطوار اعلیٰ ہو یا ادنی غرض کہ سب جانتے ہیں اور میں نے دیکھا ہے کہ دو برس اور ڈیڑھ برس کا بچہ بھی لا اله الا الله جانتا ہے.اگر کسی سے سوال ہو کہ میاں تم مسلمان ہو؟ تو وہ جھٹ لا اله الا اللہ پڑھ کر اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت دے دیتا ہے.اب غور کرو اور سوچو کہ اس اقرار اور اس کے تکرار کرنے میں کیا سر ہے؟ کیا یہ ایک چھوٹی سی بات ہے جو کہ اہل اسلام کو بتلائی گئی تھی.نہیں، ہرگز نہیں.اس چھوٹے سے فقرے میں دو باتیں ہیں.اول حصہ میں تو انکار اور دوسرے میں اقرار ہے.اور ان چند ایک چھوٹے حرفوں میں اس قدر قوت اور زور ہے کہ اگر ایک شخص سو برس تک کافر رہے اور کفر کے کام بھی کرتا رہے لیکن اگر وہ اپنے آخر وقت میں لَا إِلَهَ إِلَّا اللہ کہہ دے تو وہ

Page 168

159 کافروں سے الگ اور مسلمانوں میں شمار ہونے لگ جاتا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفتیں اور جنگیں اور بڑی بڑی خونریزیاں اور جانفشانیاں انہی دو حرفوں پر تھیں.انہی حرفوں کے ذریعہ سے اجنبی لوگ دور دور سے آکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے بن جایا کرتے تھے.کیا تمہارے خیال میں یہ کوئی منتر جنتر ہے؟ نہیں.یہ کوئی منتر جنتر نہیں ہے کہ بے معنے منہ سے کہہ دینے سے کوئی شعبدہ نظر آجاتا ہے.جب یہ بات ہے تو کیا ہر ایک مسلمان کا فرض نہیں ہے کہ وہ کم از کم غور تو کرلے کہ یہ ہے کیا؟ کہ جس کے ذریعے سے سو برس کا شریر النفس دشمن معتبر دوست بن جاتا ہے اور سو برس کا دوست اس کے انکار سے دشمن بن جاتا ہے.پیدائش کے بعد کچھ خواہشیں ہوتی ہیں جو کہ انسان کو لگی ہوئی ہوتی ہیں.بھوک چاہتی ہے کہ غذا ملے اور حکم میری ہو.پیاس چاہتی ہے کہ ٹھنڈا پانی ملے.آنکھ چاہتی ہے کہ کوئی خوش منظر نے سامنے موجود ہو.کان چاہتے ہیں کہ سریلی اور میٹھی آواز ان میں پہنچے.اسی طرح ہر ایک قوت الگ الگ اپنا تقاضا وقتاً فوقتاً کرتی ہے.لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ انسان بعض وقت ایسے کام بھی کرتا ہے جن کو اس کا جی نہیں پسند کرتا.بعض تو ان میں سے ایسے ہیں کہ قوم اپنے بیگانے برادری اور اہل محلہ اور شہر والوں کی مجبوری سے کرتا ہے اور بعض کام حاکموں کے ڈر سے کرنے پڑتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان میں کسی نہ کسی کی بات کے ماننے کا بھی مادہ موجود ہوتا ہے.انسان تو درکنار حیوانوں میں بھی ہم ایک اطاعت کا مادہ پاتے ہیں.بندروں کو دیکھو کہ کس طرح سے ایک شخص کی بات مانتے چلے جاتے ہیں اور اسی طرح سے سرکس میں کتے گھوڑے ، شیر ہاتھی وغیرہ بھی اپنے مالک کا کہا مانتے ہیں.پس انسان کو حیوانوں سے متمیز ہونے کے لئے ان سے کہیں بڑھ چڑھ کر اپنے آقا اور مولا کی اطاعت کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چھوٹے سے کلمہ میں اول تو ہر ایک کو اپنے بیگانے یار دوست خویش ، ہمسائے اور نفس و خواہش کی فرماں برداری سے منع فرمایا ہے اور اس کلمہ کا اول حصہ لا إله ہے.لیکن اگر کسی کا بھی کہا نہ مانا جاوے تو زندگی محال ہوتی ہے.انسان نہ کہیں اٹھ سکتا ہے نہ بیٹھ سکتا ہے.نہ کسی سے مل جل سکتا ہے نہ صلاح مشورہ لے سکتا ہے.نہ کوئی کسب وغیرہ کر سکتا ہے اور اپنی ضروریات مثل بھوک، پیاس، لباس اور معاشرت وغیرہ سب سے اسے محروم رہنا پڑتا ہے.اس لئے آگے الا اللہ کہہ کر ان سب باتوں کا گر بتلا دیا ہے کہ تم سب کچھ کرو لیکن اللہ کے فرماں بردار بن کر کرو.پھر دیکھو کہ دنیا تمہاری بنتی ہے کہ نہیں.کھانا کھاؤ.کیوں؟ صرف اس لئے کہ خدا کا حکم كُلُوا ہے.پانی پیو.کیوں؟ صرف اس لئے کہ اِشْرِبُوا خدا کا حکم ہے.اپنی بیبیوں -

Page 169

160.معاشرت کرو.کیوں؟ صرف اس لئے کہ عَاشِرُوهُنَّ کا حکم ہے.غرضیکہ اسی طرح سے اپنے بیگانے ماں باپ اور حکام وقت کی اطاعت وغیرہ سب کاموں کو خدا کے حکم اور اطاعت کے موافق بجالاؤ.یہ معنے ہیں الا الله کے کہ میں حالت عسر اور یسر میں صرف خدا کا فرماں بردار ہوں.اب انسان کو غور کرنا چاہئے کہ صبح سے لے کر شام تک اور شام سے لے کر صبح تک جس قدر حرکت و سکون وہ کرتا ہے اگر وہ خدا کے حکم سے اور فرمان کے بموجب کرتا ہے تو وہ اس کلمہ میں سچا ہے ورنہ وہ اسے کہنے کا کیونکر مستحق ہے.میں یہاں کس لئے آیا ہوں.دیکھو بھیرہ میں میرا مکان پختہ ہے اور یہاں میں نے کچے مکان بنوا لئے اور ہر طرح کی آسائش مجھے یہاں سے زیادہ وہاں مل سکتی تھی.مگر میں نے دیکھا کہ میں بیمار ہوں اور بہت بیمار ہوں.محتاج ہوں اور بہت محتاج ہوں.لاچار ہوں اور بہت ہی لاچار ہوں.پس میں اپنے ان دکھوں کے دور ہونے کے لئے یہاں ہوں.اگر کوئی شخص قادیان اس لئے آتا ہے کہ وہ میرا نمونہ دیکھے یا یہاں آکر یا کچھ عرصہ رہ کر یہاں کے لوگوں کی شکایتیں کرے تو یہ اس کی غلطی ہے اور اس کی نظر دھوکا کھاتی ہے کہ وہ بیماروں کو تندرست خیال کر کے ان کا امتحان لیتا ہے.یہاں کی دوستی اور تعلقات یہاں کا آنا اور یہاں سے جانا اور یہاں کی بود وباش سب کچھ لا الہ الا اللہ کے ماتحت ہونی چاہئے ورنہ اگر روٹیوں اور چارپائیوں وغیرہ کے لئے آتے ہو تو بابا! تم میں سے اکثروں کے گھر میں یہاں سے اچھی روٹیاں وغیرہ موجود ہیں پھر یہاں آنے کی ضرورت کیا ؟ تم اس اقرار کے قائل ٹھیک ٹھیک اسی وقت ہو سکتے ہو جب تمہارے سب کام خدا کے لئے ہوں.اگر کوئی تمہارا دشمن ہے تو اس سے خوف مت کرو.خدا تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلَ لَهُمُ الرَّحْمَنُ وُدًّا ایمان داروں اور نیک عمل کرنے والوں کے لئے ہم خود دوست مہیا کر دیں گے.بڑی ضروری بات یہ ہے کہ تمہارا ایمان لا اله الا اللہ پر کامل ہو.مطالعہ کرو کہ ایک چھوٹے سے کلمے کی اطاعت کی جو ایک انگلی کے ناخن پر کھلا لکھا جا سکتا ہے کس قدر تاکید ہے.اس لئے اپنے ہر ایک کام اور عزت اور آبرو کے معاملہ میں اور سکھ اور دکھ میں جناب الہی سے صلح کرو.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ سوائے خدا کے سایہ کے اور کوئی سایہ نہ ہو گا.یہ واقعہ دنیا میں بھی پیش آتا ہے.بیٹھے بٹھائے انسان کے پیٹ میں سخت درد شروع ہو جاتی ہے اور انسان ماہی بے آب کی طرح لوٹنے لگ جاتا ہے.بیوی سے بڑھ کر غمگساری اور ماں سے بڑھ کر محبت میں اور کوئی نہیں ہوتا.لیکن دونوں میں سے ایک بھی اس کے دکھ کو دور نہیں کر سکتی جب (مریم:۹۷) کہ

Page 170

161 تک خدا کا فضل نہ ہو.پس لا اله الا اللہ کا مطالعہ کرو اس پر کاربند ہو اور خدا کے سوا کسی اور کے فرمانبردار نہ بنو.اسی سے تم کو عزت آبرو اور دوست وغیرہ سب حاصل ہوں گے.تجربہ اور فہم کے لحاظ سے ہم جانتے ہیں کہ اس وقت خدا کا فشا ہے کہ لا الہ الا اللہ کا راج ہو.پس تم اس دعوئی میں بچے بن کر دکھلاؤ.( بدر جلد ۳ نمبر۵ --- یکم فروری ۱۹۰۴ء صفحه ۵٬۴) ☆

Page 171

۲ / دسمبر ۱۹۰۴ء 162 خطبہ جمعہ يَايُّهَا الْمُدَّثِرُ - قُمْ فَانْذِرُ - وَرَبَّكَ فَكَبِّرُ (المدثر: ۲تا۴) کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں نے یہ آیت اس لئے انتخاب کی ہے کہ تمہیں بتلاؤں کہ کیا کرنا چاہئے اور اس کے لئے ہمیں کیسی تحریکیں اور تنبیہیں دی جاتی ہیں.پر ہم ایسے غافل ہیں کہ کانوں پر جوں نہیں رینگتی اور ہم کانوں سے غفلت کی روئی نہیں نکالتے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلی وحی کے بعد جو دوسری وحی ہوئی وہ یہی آیت ہے.یايُّهَا الْمُدَّثِرُ قہ مرسل کو جب وحی ہوتی ہے تو اس پر خدا کے کلام اور اس کی ہیبت کا ایک لرزہ آتا ہے.کیونکہ مومن حقیقت میں خدا تعالیٰ کا ڈر اور خشیت اور خوف رکھتا ہے.جس طرح کوئی بادشاہ ایک بازار یا سڑک پر سے گزرتا ہے اس سڑک میں ایک زمیندار جاہل جو بادشاہ سے بالکل ناواقف ہے کھڑا ہے.دو سرا وہ شخص ہے جو زمیندار ہے، پر صرف اس قدر جانتا ہے کہ یہ کوئی بڑا آدمی ہے یا شاید حاکم وقت ہو میرا وہ شخص کھڑا ہے کہ وہ منجملہ اہالیان ریاست ہے اور خوب جانتا ہے کہ یہ بادشاہ ہے اور ہمارا حاکم ہے.اور چوتھا وہ شخص کھڑا ہے جو بادشاہ کا درباری یا وزیر ہے.اس کے آداب و قواعد آئین و انتظام ، رعب و داب رنج اور خوشی کے سب قواعد کا واقف اور جاننے والا ہے.پس تم جان سکتے

Page 172

163 ہو کہ چاروں اشخاص پر بادشاہ کی سواری کا کیا اثر ہوا ہو گا.پہلے شخص نے تو شاید اس کی طرف دیکھا بھی نہ ہو.دوسرے نے کچھ توجہ اس کی طرف کی ہوگی اور تیسرے نے ضرور اس کو سلام بھی کیا ہو گا اور اس کا ادب بھی کیا ہو گا.پر چوتھے شخص پر اس کے رعب و جلال کا اس قدر اثر ہوا ہو گا کہ وہ کانپ گیا ہو گا کہ میرا بادشاہ آیا ہے.کوئی حرکت مجھ سے ایسی نہ ہو جاوے جس سے یہ ناراض ہو جاوے.غرض کہ اس پر از حد اثر ہوا ہو گا.پس یہی حال ہوتا ہے انبیاء اور مرسل علیہم السلام کا.کیونکہ خوف اور لرزہ معرفت پر ہوتا ہے.جس قدر معرفت زیادہ ہو گی اسی قدر اس کو خوف اور ڈر زیادہ ہو گا اور وہ معرفت اس کو خوف میں ڈالتی ہے اور اس لرزہ کے واسطے ان کو ظاہری سامان بھی کرنا پڑتا ہے.یعنی موٹے اور گرم کپڑے پہننے پڑتے ہیں جو لرزہ میں مدد دیں.جب وہ الہام کی حالت جاتی رہی تو ان کے اعضاء اور اندام بلکہ بال بال پر ایک خاص خوبصورتی آجاتی ہے.پس اسی حالت میں بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ مخاطب فرما کر کہتا ہے کہ اے کپڑا اوڑھنے والے اور لرزہ کے واسطے سامان اکٹھا کرنے والے! کھڑا ہو جا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سست مومن اللہ تعالیٰ کو پیارا نہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو پہلا حکم یہی ملا.پس یہی وجہ ہے کہ آج تک مسلمان واعظ جب احکام الہی سنانے کے واسطے کھڑے ہوتے ہیں تو کھڑے ہو کر سناتے ہیں.یہ اسی قسم کی تعمیل ہوتی اور اس میں نبی کریم کی اتباع کی جاتی ہے.بعض لوگ غافل اور سست نہ تو سامان بہم پہنچاتے اور نہ ان سامان سے کام لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں فرصت نہیں.پر یہ ساری ضرورتیں جو ہم کو ہیں نبی کریم کو بھی تھیں.بیوی بچے اہل و عیال وغیرہ وغیرہ.پر جب اس قسم کا حکم آیا فوراً کھڑے ہو گئے اس لئے کہ بادشاہ رب العالمین، احکم الحاکمین کا حکم تھا.پھر کام کیا سپرد ہوا.انذِرُ..لوگ دو باتوں میں گرفتار تھے اور ہیں.وہ خدا کی عظمت کو چھوڑ بیٹھے تھے اور کھانے پینے عیش و آرام اور آسائش میں مصروف ہو گئے تھے.دوسرا باہمی محبت اخلاص، پیار نام کو نہیں رہا تھا.دوسروں کے اموال دھو کہ بازی سے کھا جاتے.مثلاً ہمارے پیشہ کی طرف ہی توجہ کرو.گندے سے گندے نسخے بڑی بڑی گراں قیمتوں سے فروخت کئے جاتے اور دھو کہ بازی سے لوگوں کا مال کھایا جاتا ہے.دوسروں کی عزت مال جان پر بڑے بے باک تھے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ کسی نابینا کی لکڑی ہنسی سے اٹھا لینا کہ وہ حیران و سرگرداں ہو ، سخت گناہ ہے.پر ہنسی ٹھٹھاپر کچھ پروا نہیں.بد نظری بدی بد کاری سے پر ہیز نہیں.کوئی شخص نہیں چاہتا کہ میرا نو کر میرے کام میں سست ہو.پر جس کا یہ نوکر ہے کیا اس کے کام میں سستی نہیں کرتا؟ دوکاندار ہے.

Page 173

164 طبیب ہے وغیرہ وغیرہ.جب پیسہ دینے والے کے دل میں یہ ہے کہ مجھے ایسا مال اس قیمت کے بدلہ میں ملنا چاہئے ، اگر اس کو اس نے نتیجہ تک نہیں پہنچایا تو ضرور حرام خوری کرتا ہے اور یہ سب باتیں اس وقت موجود نہیں.خدا کی پرستش میں ایسے سست تھے کہ حقیقی خدا کو چھوڑ کر پتھر، حیوانات وغیرہ مخلوقات کی پرستش شروع کی ہوئی تھی.اس قوم کی بت پرستی کی نظیریں اب موجود ہیں.ابھی ایک بی بی ہمارے گھر میں آئی تھی اور میرے پاس بیان کیا گیا کہ بہت نیک بخت اور خدارسیدہ ہے.میں نے اس سے پوچھا کہ کیا وظیفہ کرتی ہو؟ کہا مشکل کے وقت اپنے پیروں کو پکارتی ہوں.پس مجھے خیال ہوا کہ یہ پہلی سیڑھی پر ہی خطا پر ہے یعنی خدا کو چھوڑ کر شرک میں مبتلا ہے.پس رسول کریم کے زمانہ میں ایک طرف خدا کی بڑائی ، دوسری طرف مخلوق سے شفقت چھوٹ گئی تھی اور خدا کی جگہ مخلوق کو خدا بنایا گیا تھا اور مخلوق کو سکھ پہنچانے کے بدلے لاکھوں تکالیف پہنچائی جاتی تھیں.اس لئے فرمایا.انذِرُ ڈرانے کی خبر سنادے.جب مرسل اور مامور آتے ہیں تو پہلے یہی حقوق ان کو سمجھائے جاتے ہیں.پس ایسے وقت میں امراض طاعون وغیرہ آتے ہیں.جنگ و قتال ہوتے ہیں.یہ ضرورت نہیں کہ اس مامور کی اطلاع پہلے دی جاوے یا ان لوگوں کو مامور کا علم ہو.کیونکہ لوگ تو پہلے خدا ہی کو چھوڑ بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں.پھر کھڑا ہو کر کیا کرو ؟ وَرَبَّكَ فَكَتِر خدا کی بزرگی بیان کر.اکبر سے آگے بڑائی کا کوئی لفظ نہیں اور اس کے معنی ہی یہی ہیں کہ ایک وقت آقا کہتا ہے کہ میرا فلاں کام کرو.دوسری طرف ایک شخص پکارتا ہے اللہ اکبر آؤ نماز پڑھو.خدا سے بڑا آقا کوئی نہیں.ایک طرف بی بی عید کا سامان مانگتی ہے.دوسری طرف خدا کہتا ہے کہ فضولی نہ کر.اب یہ کدھر جاتا ہے.نیک معاشرت‘ نیک سلوک بی بی کی رضا جوئی اور خوش رکھنے کا حکم ہے اور مال جمع کرنے کی ضرورت ہے.دوسری طرف حکم ہے کہ ناجائز مال مت کھاؤ.ایک طرف عفت اور عصمت کا حکم ہے، دوسری طرف بی بی موجود نہیں، ناصح کوئی نہیں اور نفس چاہتا ہے کہ عمدہ گوشت، گھی ، انڈے، زعفرانی، متنجن کباب کھانے کے واسطے ہوں.پھر رمضان میں اس سے بھی کچھ زیادہ ہوں.اب بی بی تو ہے نہیں.علم اور عمدہ خیالات نہیں.پس اگر خدا کے حکم کے خلاف کرتا ہے اور نفس کی خواہش کے مطابق عمدہ اغذیہ کھاتا ہے تو لواطت ،جلق زنا بد نظری میں مبتلا ہو گا.اسی لئے تو اصفیا نے لکھا ہے کہ انسان ریاضت میں سادہ غذا کھاوے.

Page 174

165 اس لئے ہمارے امام علیہ السلام نے میاں نجم الدین کو ایک روز تاکیدی حکم دیا کہ لوگ جو مہمان خانہ میں مجرد ہیں عام طور پر گوشت ان کو مت دو بلکہ دال بھی پہلی دو اور بعض نادان اس سر کو نہیں سمجھتے اور شور مچاتے ہیں.پس رسول کریم نے الله اكبر مکانوں اور چھتوں اور دیواروں اور منبروں پر چڑھ کر سنایا.پس شہوت اور غضب کے وقت بھی اس کو اکبر ہی سمجھو.ایک شخص کو کسی شخص نے کہا کہ تو جھوٹا ہے.وہ بہت سخت ناراض ہوا اور اس کی ناراضگی امام کے کان میں پہنچی.آپ ہنس پڑے اور فرمایا کاش کہ اس قدر غضب کو ترقی دینے کی بجائے اپنے کسی جھوٹ کو یاد کر کے اس کو کم کرتا.حرص آتی ہے اور اس کے واسطے روپیہ کی ضرورت ہوتی ہے اور ضرورت کے وقت حلال حرام کا ایک ہی چھرا چلا بیٹھتا ہے.ایسا نہیں چاہئے.ایک طرف عمدہ کھانا، دوسری طرف حکم کی خلاف ورزی ، سستی کرنا اور یہ دونوں آپس میں نقیض ہیں.اس سے عجز اور کسل پیدا ہوتا ہے.پس ایسی جگہ میں شہوت پر عفت اور حرص پر قناعت اختیار کرے اور مالی اندیشے کر لیا کرے.مال کی تحصیل میرے نزدیک سہل اور آسان امر ہے.ہاں حاصل کر کے عمدہ موقع پر خرچ کرنا مشکل امر ہے.پس ایک طرف خدا شناسی ہو اور دوسری طرف مخلوق پر شفقت ہو.الله اکبر کا حصول.چار دفعہ تم اذان کے شروع میں ہر نماز سے پہلے سنتے ہو اور سترہ دفعہ امام تم کو نماز میں سناتا ہے.پھر حج میں عید میں رسول کریم نے کیسی حکم الہی کی تعمیل کی ہے کہ ہر وقت اس کا اعادہ کرایا.اور یہ اس لئے کہ انسان جب ایک مسئلہ کو عمدہ سمجھ لیتا ہے تو علم بڑھتا ہے اور علم سے خدا کے ساتھ محبت بڑھتی ہے.پھر اَشْهَدُ اَنْ لا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللَّهِ کہا جاتا ہے.جس کے معنے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ہی معبود ہے اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں.پھر جس طرح خدا نے حکم دیا اس طرح اس کی کبریائی بیان کر.جس طرح اس نے حکم دیا اسی طرح نماز پڑھ.اسی طرح اس سے دعائیں مانگ.پھر یہ طریق کس طرح سیکھنے چاہئیں.وہ ایک محمد ہے صلی اللہ علیہ و سلم اور وہ خدا کا بھیجا ہوا ہے، اس سے جا کر سیکھو.پھر جب ان احکام کی تعمیل میں تو مستعد ہو جاوے تو حَتَّى عَلَى الصَّلوٰۃ.آنماز پڑھ کہ وہ تجھے بدی سے روکے.پھر نماز کے معانی سیکھنا کوئی بڑی بات نہیں.کو دن سے کو دن آدمی ایک ہفتہ میں یاد کر لیتا ہے.ایک امیر میرا مربی تھا.اس کے دروازہ پر ایک پوربی شخص صبح کے وقت پہرہ دیا کرتا تھا.ایک دن جو وہ صبح کی نماز کو نکلے تو وہ خوش الحانی سے گا رہا تھا.کہا تم یہاں کیوں کھڑے ہو ؟ جواب دیا کہ پہرہ دار ہوں.انہوں نے کہا.اچھا تمہارا پہرہ دن میں دو گھنٹہ کا ہوتا ہے، ہم تمہارا پہرہ پانچ وقت میں بدل دیتے

Page 175

166 ہیں.تم تھوڑی تھوڑی دیر کے واسطے آجایا کرو اور نماز کے وقت میں پانچوں وقت اس کے وقت کو تقسیم کر دیا اور اس وقت جاتے جاتے اس کو بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ کے معنے سکھا دیئے کہ میری واپسی پر یاد رکھنا.چنانچہ جب وہ نماز صبح پڑھ کر واپس آئے تو اس نے یاد کر لئے تھے.آکر اس کو رخصت دے دی.پھر الحمد شریف کے معنے بتا دیئے.غرض عشاء کی نماز تک الحمد اور قل کے معنے اس نے پورے یاد کر لئے.ایک دفعہ کچھ عرصہ کے بعد اس کا پہرہ پچھلی رات میرے مکان پر تھا.میں نے سنا کہ وہ بارھویں پارہ کو پڑھ رہا تھا.غرض دریافت پر کہا کہ تھوڑا تھوڑا کر کے بارہ پارہ ہاسنے یاد کرلئے ہیں.پس قرآن کا پڑھنا بہت آسان ہے.نماز گناہ سے روکتی اور گناہ سے رکنے کا علاج ہے مگر سنوار کر پڑھنے سے.غافل سوتے ہوئے اٹھ کر نجات کے طالب بنو اور اذان کی آواز پر دوڑو.وَثِيَابَكَ فَطَهِّرُ المدثر:۵) ہاں بلانے والا پہلے اپنا دامن پاک کرلے پھر کسی کو بلاوے.جب اذان سن لے تو درود پڑھے کہ یا اللہ ! ہمارے نبی نے کس جانفشانی اور محبت اور ہوشیاری سے خدا کی تکبیر سکھلائی اور ہم تک پہنچائی ہے، اس پر ہماری طرف سے کوئی خاص رحمت بھیج اور اس کو مقام محمود تک پہنچا.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو توفیق دے.ا حکم جلد ۸ نمبر ۴۴۴۴۳-۰-۲۴۴۱۷/ دسمبر ۱۹۰۴ء صفحه ۱۹) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 176

ورد کمبر ۱۹۰۴ء 167 خطبہ عید الفطر الله اكبر - الله اكبر الله اكبر - الله اكبر - لا إِلَهَ إِلَّا الله والله اكبر - الله اكبر و لِلَّهِ الْحَمْدُ.رَبَّنَا وَ ابْعَثُ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ إِيْتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (البقرہ:۳۰) کی تلاوت کے بعد فرمایا:.یہ ایک دعا ہے جو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جناب رب العزت اور رب العالمین اللہ جلشانہ کے حضور مانگی ہے.اس سے ظاہر ہے کہ اس دنیا میں اسلام کے آنے اور اس کے ثمرات کے ظہور کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل نے حضرت ابراہیم کے ذریعہ ایک دعا کی تقریب پیدا کر دی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ تو ہمارا رب اور مربی اور محسن ہے.تیری عالمگیر ربوبیت سے جیسے جسم کے قومی کی پرورش ہوتی ہے ، عمدہ اور اعلیٰ اخلاق سے انسان مزین ہوتا ہے، ویسے ہی ہماری روح کی بھی پرورش فرما اور اعتقادات کے اعلیٰ مدارج پر پہنچا.اے اللہ ! اپنی ربوبیت کی شان سے ایک رسول ان میں بھیجیو جو کہ مِنْهُمْ" یعنی انہی میں سے ہو اور اس کا کام یہ ہو کہ وہ صرف تیری (اپنی نہیں) باتیں پڑھے اور پڑھائے اور صرف

Page 177

168 یہی نہیں بلکہ ان کو سمجھا اور سکھلا بھی دے.پھر اس پر بس نہ کیجیو بلکہ ایسی طاقت جذب اور کشش بھی اسے دیجیو جس سے لوگ اس تعلیم پر کاربند ہو کر مزکی اور مطہر بن جاویں.تیرے نام کی اس سے عزت ہوتی ہے کیونکہ تو عزیز ہے اور تیری باتیں حق اور حکمت سے بھری ہوئی ہوتی ہیں.اس دعا کی قبولیت کس طرح سے ہوئی وہ تم لوگ جانتے ہو.اور یہ صرف اس دعا ہی کے ثمرات ہیں جس سے ہم فائدے اٹھاتے ہیں.دعا ایک بڑی عظیم الشان طاقت والی شے ہے.علاوہ ابراہیم علیہ السلام کے جب دوسرے نبیوں کی کامیابیوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کا باعث بھی صرف دعاہی کو پاتے ہیں.وہ دعا ہی تھی جس نے حضرت آدم کو کرب و بلا سے نجات دی.اور وہ دعا ہی تھی جس نے حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کو پار لگایا.قرآن شریف کے ابتداء میں بھی اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (الفاتحہ) اور انتہا بھی دعا ہی پر ہے یعنی اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ (الناس:۲).جب ہم نبی کریم علیہ السلام کی زندگی پر نظر کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے چلنے پھرنے اٹھنے بیٹھنے کھانے پینے ، نماز کے ادا کرنے، سودا سلف لانے‘ بات چیت کرنے ، غرضیکہ ہر ایک کی ابتداء دعا ہی سے ہے.پس خوب یاد رکھو کہ مضطر کی تسکین کا باعث اور کمزور طبائع کی ڈھارس یہی دعا ہے.جب انسان کسی غرض کی تکمیل کے لئے ظاہری سامان مہیا کرتا ہے تو اسے یہ علم ہرگز نہیں ہوتا کہ اس سے ضرور وہ غرض حاصل ہو جاوے گی.کیونکہ سامان کے بہم پہنچ جانے کے بعد اور مخفی در مخفی ایسے اسباب اور واقعات کی ضرورت ہوتی ہے جن پر اس کا علم ہرگز محیط نہیں ہوتا تو اس وقت صرف دعا ہی ایک ایسا ذریعہ ہوتا ہے جس سے وہ اپنی غرض مطلوبہ کے حاصل کرنے کے لئے امداد طلب کر سکتا ہے اور اسی سے وہ مخفی در مخفی اسباب میسر ہو جاتے ہیں جن سے اس غرض کی تکمیل ہوتی ہے.بعض کمزور طبائع جو کہ دعا کی اس خوبی سے نا وقف ہیں ان کو چاہئے اور لازم ہے کہ اسے ایک مجرب نسخہ مان کر استعمال کریں.کیونکہ یہ ہزارہا راستبازوں کا تجربہ کیا ہوا ہے.طبابت میں بھی عمدہ اور اعلیٰ نسخہ وہی ہوتا ہے جو کہ بہت سے بیماروں پر مفید ثابت ہوا ہو.اور اگر چہ ایک دو کو مضر بھی ہو لیکن فائدہ کی کثرت اس کے عمدہ ہونے پر کافی دلیل ہوتی ہے.یہی حال دعا کا ہے.ہر ایک کی طبیعت ایجاد نہیں کر سکتی.اس لئے عام اور کمزور طبائع کے لئے مجربات کا استعمال داناؤں نے بھی تجویز کیا ہے.اس لئے اس قسم کے لوگوں کو بھی پہلے فرضی طور پر اس کی خوبیوں کو مان کر اس پر عملد رآمد شروع کرنا چاہئے.جس قدر بڑے بڑے علوم ریاضی، ہندسہ ، جغرافیہ علم الافلاک، صرف و نحو وغیرہ ہیں ان سب کی ابتداء

Page 178

169 اول فرض پر ہے.پھر اس پر ہی انسان ترقی کر کے بڑے بڑے عظیم الشان نتائج پر پہنچ جاتا ہے.ایک پولیس مین کے کہنے پر فرضی طور پر ایک گھر کی تلاشی لی جاتی ہے.اگر چہ صرف ظنی امر ہوتا ہے مگر بسا اوقات مال بھی برآمد ہو جاتا ہے.پس مومن کو چاہئے کہ نبی کریم کی تعلیم سے اور سابقہ راستبازوں کے تجربہ کی بناء پر دعا کو ذریعہ بناوے اور اپنی کمزوری کی آگاہی کے لئے بھی دعا ہی کرے تو اسے معلوم ہو گا کہ دعا کیسی عجیب اور ضروری شے ہے.دعا کے ساتھ خدا تعالیٰ نے صبر کی بھی تعلیم دی ہے کیونکہ بعض وقت مصلحت الہی سے جب دعا کی قبولیت میں دیر ہوتی ہے تو انسان اللہ تعالیٰ پر سوء ظن کرنے لگتا ہے اور نفس دعا کی نسبت اسے شکوک اور شبہات پیدا ہو جاتے ہیں اس لئے استقلال اور جناب الہی پر حسن ظن رکھے.جو آیت میں نے پڑھی ہے وہ ثمرہ دعا ابراہیم ہے اور اس میں ظاہر فرمایا ہے کہ ایک رسول ہونا چاہئے جو کہ تیری آیات پڑھے اور پڑھائے اور لوگوں کو مزکی اور مطہر کرے.یہ تین باتیں ہیں جو کہ اس دعا کے ذریعہ چاہی گئی ہیں.اب ہم دیکھتے ہیں کہ اول دو باتیں تعلیم اور تعلم تو اب تک موجود ہیں.بچہ بچہ اور عورتیں اور مرد اور حفاظ قرآن کی تلاوت میں مصروف ہیں اور عالموں اور واعظوں کے ذریعہ سے لوگوں کو قرآن شریف کے اسرار و حقائق کا بھی کچھ نہ کچھ علم ہوتا ہے.اور دونوں سلسلوں نے اب تک جاری رہ کر اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا نے قبولیت کا شرف دو تہائی حصہ حاصل کر لیا ہے.لیکن کیسے افسوس کی بات ہو گی اگر ہم یہ مان لیں کہ اس دعا کی جزو اعظم، دوسروں کو مزکی و مطہر بنانے کا کوئی سلسلہ نبی کریم کی طرف سے موجود نہ ہو.رسول کی بعثت کی علت غائی اور دعا کا مغز اور لب لباب تو یہی تھا.اور پھر اگر یہی نہیں رہا تو دعا کی قبولیت کیا ہوئی.خدا تعالی کو چونکہ علم تھا کہ ایسے لوگ بھی ہوں گے جو کہ اس دعا کی قبولیت کی نفی کریں گے اس لئے اس نے اپنے پاک کلام میں وعدہ فرمایا.إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ.(الحجر) اور دوسری جگہ فر: وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ (النور (۵۲) یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین لوگوں کو مزکی اور مطہر بناتے رہیں گے.وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ (النور (۵۲) جس دین کو اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے اس میں طاقت پیدا کر دیں گے اور ایسی مقدرت عطا کریں گے جس سے نفوس کا تزکیہ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا (النور :۵۲) ان کو مشکلات بھی پیش آویں گے لیکن اللہ تعالیٰ ہو.ان کی پناہ ہو گا.

Page 179

170 مشکلات پیش آنے کا یہ باعث ہوا کرتا ہے کہ انسانی طبائع کسی کا محکوم ہونے میں مضائقہ کیا کرتے ہیں.چنانچہ خود خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہماری حکومت کو یہ لوگ طوعاً اور کہا مانتے ہیں.پس جب خدا کی حکومت کا یہ حال ہے تو پھر جب انبیاء علیم السلام کی حکومت ہوتی ہے اس وقت لوگوں کو اور بھی اعتراضات سوجھتے ہیں اور کہتے ہیں.لَوْ لَانْزِلَ هَذَا الْقُرْانُ عَلَى رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ (الزخرف:۳۲) کہ وحی کا مستحق فلاں رئیس یا عالم تھا.اس سے ظاہر ہے کہ لوگ رسول کی بعثت کے لئے خود بھی کچھ صفات اور اسباب تجویز کرتے ہیں جس سے ارادہ الہی بالکل لگا نہیں کھاتا.علیٰ ہذا القیاس.جب رسول کے خلیفہ کی حکومت ہو تب تو ان کو مضائقہ پر مضائقہ اور کراہت پر کراہت ہوتی ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا.اَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَعِيْشَتَهُمْ (الزخرف:۳۳) کہ کیا یہ لوگ الہی فضل کی خود تقسیم کرتے ہیں؟ حالانکہ دیکھتے ہیں کہ وجہ معاش میں ہم نے ان کو خود مختار نہیں رکھا اور خود ہم نے اس کی تقسیم کی ہے.پس جب ان کو علم ہے کہ خدا کے ارادہ سے سب کچھ ہوتا ہے تو پھر انبیاء اور ان کے خلفاء کا انتخاب بھی اس کے ارادہ سے ہونا چاہئے.سورۃ حجرات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللَّهِ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِّنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُمْ (الحجرات :) کہ تم میں محمد خدا کا رسول ہے.اگر تمہاری رائے پر چلے تو تمہیں مشکلوں اور دکھوں کا سامنا ہو.یہ خدا کا ہی انتخاب ہے جو کہ اپنا کام کئے جا رہا ہے.یہ اسی کا فعل ہے کہ امام بناوے خلیفہ بنادے.تمہاری سمجھ وہاں کام نہیں آسکتی.رموز سلطنت خویش خسرواں دانند."اگر اللہ تعالیٰ ایک شخص کو ہمارے کہنے سے مامور کر دے اور اس کے اخلاق ردی ثابت ہوں، ظالم، خود غرض کینہ پرور نکل آوے تو دیکھو کس قدر مشکل پڑے.اسی لئے لوگوں کو انجمنوں اور سماجوں میں اپنے منتخب کردہ پریذیڈ نٹوں کو منسوخ کرنا پڑتا ہے یا وہ لوگ خود الگ ہو جاتے ہیں.انسان جب سے پیدا ہوا ہے اپنے جسم کو چیر پھاڑ رہا ہے اور زمین کا ایک ایک روڑا الٹ دیا ہے.صرف اس لئے کہ اس کے بچاؤ کا سامان نکل آوے مگر دیکھ لو کہ کچھ پیش نہیں گئی.فن جراحی میں کمال کر دیا.ہر ایک مرض کے جرم معلوم ہو گئے ہیں مگر پھر بھی بیماریاں ہیں.موت کا بازار گرم ہے.اس نے زمانہ سے ۳ لاکھ سال پیشتر تک کا پتہ دیا ہے کہ یہ تھا.لیکن کل کیا ہو گایا چند منٹوں کے بعد کیا پیش آنے والا ہے؟ اس کا اسے علم نہیں.پھر کیسی نادانی ہے کہ اس قدر عظیم الشان کام کے انتخاب کو اپنے ذمہ لیتا ہے اور کہتا ہے کہ نبی اور مامور ہمارے کہنے سے ہو.پیس سوچنے کا مقام ہے کہ جب تلاوت اور تعلیم کا سلسلہ اس دعا کے مطابق ختم نہیں ہوا تو پھر

Page 180

171 تزکیہ نفس کا سلسلہ یعنی مامورین الہی کا وجود کیوں ختم ہو جاوے؟ اور جیسے رسولوں کی رسالت کسی کی رائے اور کہنے پر نہیں ہوتی تو خلافت کسی کے کہنے سے کیوں ہو ؟ جو مامور اور مرسل آتے ہیں وہ خدا ہی کے انتخاب سے آتے ہیں.مخالفت صرف اس لئے ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی قدرت نمائی ہو اور وہ بتلاوے کہ یہ ہمارا انتخاب اور ہمارے ہاتھ کا پودا ہے.اسی لئے ان لوگوں کے بیرونی اور اندرونی دشمن پیدا ہو جاتے ہیں جن کو یہ لوگ بڑے زور سے چیلنج دیتے ہیں.اِعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلٌ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَنْ تَكُونُ لَهُ عَاقِبَةُ الدَّارِ (الانعام:۳۲) کہ تم اپنی جگہ کوئی دقیقہ میری تباہی اور ناکامی کا ہرگز نہ چھوڑو اور کام کئے جاؤ اور میں بھی اپنا کام کر رہا ہوں.انجام کار خود پتہ لگ جاوے گا کہ مظفر و منصور کون ہے؟ عَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْتُ فَاجْمِعُوا أَمْرَكُمْ وَ شُرَكَانَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوا إِلَى وَلَا تُنْظِرُونِ (یونس (۷۲) کہ میرا بھروسہ خدا پر ہے.تم سب جمع ہو کر جو جیلہ چاہو کر لو اور ایسا کرو کہ تم کو اپنی کامیابی میں کوئی شک و شبہ نہ رہے اور کوئی مفر میرے لئے نہ رہنے دو.پھر دیکھ لو کہ تم ناکام اور میں بامراد ہوتا ہوں کہ نہیں.پس ایسے ایسے موقعوں پر خدا تعالٰی اپنے مرسلوں کے دشمنوں کو بیدست و پا کر کے بتلاتا ہے کہ دیکھو میں اس کا محافظ ہوں کہ نہیں اور یہ ہمارا مرسل ہے کہ نہیں.غرضیکہ انبیاء کی بعثت میں ایک سر ہوتا ہے کہ ان کے ذریعہ سے الہی تصرف اور اقتدار کا پتہ لگتا ہے.بیعت کے معنے اپنے آپ کو بیچ دینے کے ہیں اور جب انسان کسی کو دوسرے کے ہاتھ پر بیچ دیتا ہے تو اس کا اپنا کچھ نہیں رہتا.صحابہ کرام نے اپنے نفسوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں پر بیچ کر آپ کی اطاعت کو کہاں تک مد نظر رکھا ہوا تھا، اس کا حال دو حکایتوں سے معلوم ہوتا ہے جن کا ذکر میں کرتا ہوں.جمعہ کے روز خطبہ ہو رہا تھا اور لوگ کھڑے ہوئے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ بیٹھ جاؤ.عبد اللہ ابن مسعود ایک صحابی اس وقت مسجد کی گلی میں آرہے تھے.آپ کو بھی یہ آواز پہنچ گئی اور جہاں تھے وہیں بیٹھ گئے.لوگوں نے وجہ پوچھی تو کہا کہ میں نے سمجھا کہ خدا معلوم مسجد جانے تک جان ہوگی یا نہ.یہ حکم سنا ہے.اسی وقت اس کی تعمیل کرلوں.دوسرا واقعہ ایک صحابی کعب نامی کا ہے جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی اور دولتمند آدمی تعد آپ نے جب غزوہ تبوک کی تیاری کا حکم جماعت کو دیا تو ہر ایک شخص اپنی اپنی جگہ تیاری کرنے لگا اور کعب نے خیال کیا کہ چونکہ میں ایک امیر آدمی ہوں اس لئے جس وقت چاہوں گا ہر ایک سامان مہیا کروں گا.چونکہ بستی کوئی بڑی نہ تھی کہ افراط سے ہر ایک شے موجود ہوتی، اس لئے لوگ تو طیاری

Page 181

172 کرکے روانہ ہو گئے اور کعب پیچھے رہ گیا.جب وہ بازار میں گیا تو اسے کچھ بھی نہ ملا.اس کا ہلی اور سستی کا اور کیا نتیجہ ہوتا.آخر کار شمولیت سے محروم رہا.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم واپس تشریف لائے تو کعب ایک حدیث میں خود بیان کرتا ہے مجھے غم نے تنگ کیا اور میں جھوٹ بولنے کا ارادہ کرنے لگا اور سوچنے لگا کہ ایسی بات کہوں کہ آپ کے غصہ سے بچ جاؤں اور اپنی برادری کے ہر کمند سے اس میں اعانت کا طلبگار ہوا.جب خبر لگی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اس وقت مجھے سے یہ کذب دور ہو گیا اور میں نے جان لیا کہ آپ کے روبرو جھوٹ بولنے سے مجھے کبھی نجات نہ ہو گی.پس میں نے سچ بولنے کا پختہ ارادہ کر لیا.اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی الصباح مدینہ میں آ پہنچے.اور جب آپ سفر سے تشریف لایا کرتے تھے تو اول مسجد میں نزول فرمایا کرتے تھے.آپ نے مسجد میں دو رکعت نماز پڑھی اور لوگوں کی ملاقات کے لئے وہاں ہی بیٹھ گئے.پس مختلف لوگ آتے اور سوگند کھا کھا کر اپنے تخلف کے عذر آپ کے سامنے بیان کرتے تھے اور یہ لوگ اسی آدمی سے کچھ زیادہ تھے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا عذر قبول فرمایا اور ان سے بیعت لی اور ان کے لئے استغفار کیا اور ان کے باطن اللہ تعالیٰ کے سپرد فرمائے.جب میں خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے مجھے دیکھ کر غضبناک آدمی کی طرح تجسم فرمایا اور مجھے کہا آگے آ.میں سلام کہہ کر آپ کے آگے بیٹھ گیا.پھر آپ نے مجھے فرمایا کہ تو کس سبب پیچھے رہ گیا.کیا تو نے سواری خرید نہیں کی تھی؟ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم مجھے خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ اگر آج میں آپ کے سوا کسی دنیا دار آدمی کے روبرو ہوتا تو خدا تعالیٰ نے مجھے کلام میں ایسی فصاحت عطا کی ہے کہ آپ دیکھتے کہ میں عذر بیان کر کے اس کے غصہ سے صاف نکل جانک.لیکن میں جانتا ہوں کہ اگر میں آج جھوٹ بول کر آپ کو خوش بھی کر لوں گا تو عنقریب خدا تعالیٰ آپ کو مجھ پر غضبناک کر دے گا.مگر خدا تعالیٰ سے مجھے عافیت کی امید ہے.خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ مجھے کوئی عذر نہ تھا اور میں تخلف کے وقت پہلے سے بھی قوی اور خوش گذران تھا.(میری عرض سن کر) آپ نے فرمایا.بیشک اس نے سچ کہا اور مجھے فرمایا) اٹھ کھڑا ہو اور چلا جاتا کہ خدا تعالیٰ تیرے حق میں فیصلہ کرے (میں اٹھ کھڑا ہوا) اور بنی سلمہ میں سے کچھ آدمی میرے پیچھے ہو لئے اور مجھے کہتے تھے.خدا تعالیٰ کی قسم ہے، ہم نہیں جانتے کہ تو نے اس سے پہلے کوئی گناہ کیا ہو.آج تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو ایسے ہی عذر کیوں نہ کئے جیسے دوسرے متخلفوں نے کئے تھے.تیرے گناہ کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استغفار کافی تھا.مجھے خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ وہ لوگ ایسے میرے پیچھے ہوئے کہ ان کے کہنے سے میں نے بھی ارادہ کر لیا کہ لوٹ کر رسول اللہ

Page 182

173 صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی پہلی تقریر کی تکذیب کروں.پھر میں نے ان سے پوچھا کہ اس کام میں میرے ساتھ کوئی اور بھی ہے (یعنی کوئی اور بھی ایسا ہے جس نے میری جیسی تقریر کی ہو).انہوں نے کہا ہاں دو آدمیوں نے تیری جیسی تقریر کی ہے اور ان کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسا ہی فرمایا ہے جیسا تجھے فرمایا ہے.میں نے کہا وہ دونوں کون کون ہیں؟ لوگوں نے کہا ایک مرارہ بن ربیعہ عامری اور دوسرا ہلال بن امیہ واقفی.وہ کہتا ہے کہ لوگوں نے ایسے دو آدمی صالح کا نام لیا کہ جو بدر میں حاضر ہوئے تھے اور جن کا اقتدا کرنا چاہئے تھا.کہتا ہے جب انہوں نے میرے روبرو ان دونوں کا ذکر کیا تو میں چلا گیا اور لوٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہلی تقریر کی تکذیب کرنے نہ گیا.اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ متخلفین میں سے ان تین آدمی سے کوئی کلام نہ کرے.کہتا ہے کہ لوگ ہم سے اجتناب کر گئے یا کہا کہ لوگ ہم سے متغیر ہو گئے کہ وہ زمین بھی مجھے اوپری معلوم دینے لگی.گویا وہ زمین ہی نہ تھی جس کو میں پہچانتا تھا.پس ہم پچاس رات اسی حال میں مبتلا رہے.میرے ان دونوں یاروں نے عاجز ہو کر اپنے گھروں میں بیٹھ کر رونا شروع کیا.اور میں جوان دلیر تھا.بازاروں میں پھرتا تھا اور نماز میں حاضر ہوتا تھا.مگر مجھ سے کوئی کلام نہ کرتا تھا اور میں نماز کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آن کر سلام کہتا اور دیکھتا کہ سلام کے جواب میں آپ کے لب مبارک نے حرکت کی ہے کہ نہیں.پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کھڑا ہو کر نماز پڑھتا اور آنکھ چرا آپ کی طرف دیکھتا.جب میں نماز کی طرف متوجہ ہو تا تو آپ میری طرف نظر کرتے اور جب میں آپ کی طرف دیکھتا تو آپ منہ پھیر لیتے.جب مسلمانوں کی کڑائی مجھ پر بہت ہو گئی تو ایک دن میں ابو قتادہ کے باغ کی دیوار پھاند کر جو میرا چازاد بھائی تھا اور میری اس سے بہت محبت تھی باغ میں گیا.میں نے اس کو السلام علیکم کہا مگر اس نے سلام کا جواب نہ دیا.میں نے کہا.اے ابو قتادہ! میں تجھے اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ تجھے معلوم ہے کہ میں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہوں.وہ خاموش رہا اور مجھے کچھ جواب نہ دیا.میں نے پھر اس کو قسم دے کر کہا.وہ خاموش ہی رہا اور مجھے کچھ جواب نہ دیا.میں نے پھر تیسری دفعہ جب قسم دے کر کہا تو اس نے اس قدر کہا کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خوب جانتے ہیں.یہ سنتے ہی میرے اشک جاری ہو گئے اور اسی طرح سے دیوار پر سے ہو کر وہاں سے نکل آیا.میں بازار میں چلا جاتا تھا کہ ایک آدمی شام کے لوگوں میں سے جو مدینہ میں غلہ فروخت کرنے کو آئے تھے کہتا پھرتا تھا کہ کوئی مجھے کعب بن مالک کا پتہ بتلاوے.لوگوں نے میری طرف اشارہ کر

Page 183

174 دیا.اس نے مجھے غسان کے حاکم کا خط دیا اور چونکہ میں لکھا پڑا تھا میں نے وہ خط پڑھا.اس میں لکھا تھا.اما بعد ! ہم کو خبر پہنچی ہے کہ تیرے صاحب نے تجھ پر ظلم کیا اور خدا تعالٰی نے تجھے ذلیل و ضائع نہیں کیلک تو ہمارے پاس چلا آ ہم تیری پرورش کریں گے.خط پڑھ کر میں نے دل میں خیال کیا کہ یہ بھی ایک بلا آئی.(کفار کو ہماری طرف طمع ہو گئی) میں نے اس خط کو تنور میں جلا دیا.جب اس حال کو چالیس روز ہو گئے تو ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھیجا ہوا آیا اور مجھے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھے فرمایا ہے کہ تو اپنی عورت سے علیحدہ ہو جا.میں نے کہا کہ آپ نے طلاق دینے کو فرمایا ہے یا کیا؟ اس نے کہا طلاق کو نہیں فرمایا.مجامعت سے منع فرمایا ہے اور دوسرے دونوں میرے یاروں کو بھی یہی کہلا بھیجا ہے.میں نے اپنی عورت کو کہا کہ جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے فیصلہ کا حکم نہیں آتا تو اپنے ماں باپ کے گھر چلی جا.اور ہلال بن امیہ کی عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ یا رسول اللہ ! ہلال بن امیہ بوڑھا نا کارہ ہے.اس کا خادم کوئی نہیں.کیا آپ اس کی خدمت کرنے سے مجھے منع فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا نہیں، بلکہ وہ تجھ سے مقاربت نہ کرے.اس نے عرض کی کہ خدا تعالیٰ کی قسم ہے وہ اس کام کے لائق ہی نہیں.واللہ ! وہ جس روز سے اس حال میں مبتلا ہوا ہے آج تک دن رات روتا ہی رہا ہے.بعضے لوگوں نے مجھے کہا کہ تو بھی اپنی عورت کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کر جیسے ہلال کی عورت نے آپ سے اس کی خدمت کرنے کا اذن لے لیا ہے.میں نے کہا اگر میں اس امر میں آپ سے عرض کروں، معلوم نہیں آپ کیا جواب دیں اور میں جوان آدمی ہوں (یعنی عورت کے پاس ہوتے مجھے صبر کرنا مشکل ہے).یہاں تک کہ دس رات اور گذر گئیں اور ہمارے اس حال کو پچاس راتیں ہو گئیں.پچاسویں رات کی صبح کو میں فجر کی نماز اپنے گھروں میں سے ایک گھر کی چھت پر پڑھ کر اسی حالت میں بیٹھا تھا جیسے خدا تعالیٰ نے قرآن میں ہماری خبر دی ہے اور میرا دم بسبب غم کے بند ہو رہا تھا اور زمین باوجود کشائش کے مجھ پر تنگ ہو رہی تھی کہ میں نے ایک آدمی کی آواز سنی کہ پہاڑ سطح پر با آواز بلند کہہ رہا تھا کہ اے کعب بن مالک ! تجھے بشارت ہو.میں سنتا ہی سجدہ میں گر پڑا اور جان گیا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کشائش آئی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھتے ہی لوگوں کو ہماری توبہ کے قبول ہونے کی خبر کر دی.لوگ ہم کو بشارت دینے شروع ہو گئے اور دونوں میرے یاروں کے پاس بھی بشارت دینے والے پہنچے اور ایک گھوڑا دوڑا کر میری طرف آیا اور ایک آدمی نے بنی اسلم میں پہاڑ پر چڑھ کر آواز کی.آواز گھوڑے کے سوار سے پہلے پہنچی جب وہ شخص جس کی آواز میں نے سنی تھی میرے پاس آیا تو میں نے اپنے دونوں

Page 184

175 کپڑے اتار کر بشارت کے عوض میں اس کو پہنا دیے.مجھے اللہ تعالیٰ کی قسم ہے کہ اس روز میرے پاس وہی کپڑے تھے جو دے دیئے اور میں نے دو کپڑے عاریتاً لے کر پہن لئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہونے کا ارادہ کر کے چلا.راستہ میں لوگ مجھے ملتے تھے اور توبہ کی قبولیت کی تہنیت دیتے تھے اور کہتے تھے کہ تجھے مبارک ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تیری توبہ قبول فرمائی حتیٰ کہ میں مسجد میں پہنچا.وہاں لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد مجتمع تھے.طلح بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ مجھے دیکھ کر کھڑا ہو گیا اور دوڑ کر مجھ سے مصافحہ کیا اور تہنیت دی.واللہ ! مہاجرین میں سے اس سے سوا دوسرا میری خاطر کوئی کھڑا نہیں ہوا.کعب طلحہ کے اس کام کو ہمیشہ یاد کیا کرتا تھا.کعب کہتا ہے کہ جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اس وقت آپ کا چہرہ مبارک خوشی سے دمکتا تھا.آپ نے فرمایا.تجھے بشارت ہو ایسے دن کی جب نے تو ماں سے پیدا ہے اس دن سے بہتر کوئی دن تجھ پر نہیں آیا.میں نے گذارش کی کہ بشارت آپ کی طرف سے ہے یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے؟ فرمایا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے.اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا چہرہ مبارک خوشی کے وقت ایسا روشن ہو جایا کرتا تھا کہ گویا چاند کا ٹکڑا ہے.اور ہم اس حالت کو خوب جانتے تھے.میں نے آپ کے سامنے بیٹھ کر گذارش کی کہ یا رسول اللہ ! میری توبہ میں سے ہے کہ میں اپنا مال صدقہ کر دوں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ مال اپنے لئے رکھ لے کہ یہ تیرے حق میں بہتر ہے.میں نے عرض کی کہ خیبر کی غنیمت میں سے جو مجھے حصہ ملا تھا وہ میں اپنے لئے رکھتا ہوں.میں نے پھر عرض کی.یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ نے میرے صدق کے سبب مجھے نجات دی ہے.یہ بھی میری توبہ میں سے ہے کہ آئندہ میں اپنی زندگی میں بچ کے سوا کوئی بات نہ کروں گا.مجھے خدا تعالی کی قسم ہے کہ جس دن سے میں نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی ہے اس دن سے کسی مسلمان پر اللہ تعالیٰ نے ایسا انعام نہیں کیا جیسا صدق کے باعث مجھے انعام کیا ہے اور اس دن سے آج تک کبھی جھوٹ نہیں کہا.اور امید ہے کہ خدا تعالٰی آئندہ بھی مجھے جھوٹ سے محفوظ رکھے گا.اب دیکھو کہ فرمانبرداری اس کا نام ہے کہ جماعت سے ایک شخص الگ کیا جاتا ہے.بیوی کو بھی حکم دیا جاتا ہے کہ اس کے پاس نہ جاوے اور دشمن کی طرف سے دلداری اور امداد کا وعدہ ملتا ہے مگر سرمو فرق نہیں آتا.غرضیکہ فرمانبرداری میں اپنے آپ کو دیتے وقت یہ ضرور دیکھ لینا چاہئے کہ کسی شیطان کی بیعت تو نہیں کرتے.اس لئے کثرت سے استغفار اور لاحول کرنی چاہئے کہ کہیں سابقہ بدیاں اور غلطیاں ٹھوکر کا موجب نہ ہوں.یہ خدا ہی کا دست قدرت ہوتا ہے جو کہ ایک نبی کا قائمقام کسی کو بناتا ہے.ان

Page 185

176 پر مشکلات آتی ہیں مگر خدا بدلہ دیتا ہے.ان لوگوں میں تعظیم لامر اللہ اور شفقت علی خلق اللہ دونوں کمالات ہوتے ہیں.خدا کی کاملہ صفات کے یہ لوگ گرویدہ ہوتے ہیں اور مخلوق کی بے ثباتی اور لاشے ہونا ان کو ہلا تا ہے کہ خدا کا شریک کوئی نہیں ہے.اگر مزکی ہونا انسان کی اپنی طاقت کا کام ہو تا تو عقلمند اور مادی علوم کے محقق اعلیٰ درجہ کے پار سا ہوتے.مگر اسی قسم کے لوگ گمراہ خبث ہو کر خدا سے دور چلے جاتے ہیں.اس لئے مزکی ہونے کے لئے ضرورت ہوتی ہے کہ خدا کی طرف سے کوئی آدمی جس میں کشش اور جذب کی طاقت ہو، آوے.اس قسم کے انسان آتے ہیں لیکن لوگوں کے اندر جو غلط کاریاں ہوتی ہیں ان سے بعد ہو جاتا ہے.ان غلط کاریوں کی ایک بڑی اصل کبر ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کے اول تواریخی واقعہ میں کیا ہے أَبِي وَاسْتَكْبَرَ وَ كَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ (البقرہ:۳۵).اس سے ظاہر ہے کہ اول انکار اور کبر ہی ایک ایسی شے ہے جو کہ فیضان الہی کو روک دیتی ہے.طاعون کے گذشتہ دورہ میں جو الہام حضرت اقدس کو ہوا تھا اس میں بھی ایک شرط لگی ہوئی تھی کہ إِنِّي أَحَافِظُ كَلَّ مَنْ فِى الدَّارِ إِلَّا الَّذِيْنَ عَلَوْا بِاسْتِكْبَارٍ (تذکرہ).کبر تزکیہ نفس کی ضد ہے اور دونوں چیزیں ایک جا جمع نہیں ہو سکتیں.دوسری بات جو کہ انسانی ترقی کی سد راہ ہوتی ہے وہ اس کا نفاق ہے کہ جب کوئی دکھ ہوتا ہے تو خدا سے لمبے چوڑے وعدے کرتا ہے کہ اگر یہ دکھ مجھ سے دور ہو جاوے تو میں فلاں فلاں کام کروں گا.تیری عبادت کروں گا.صدقہ دوں گا.دین کی خدمت کروں گا.وغیرہ وغیرہ.اور ایسے مواقع لوگوں کو بے روزگاری، تنگی معاش کمی تنخواہ اپنی اور بال بچوں کی بیماری وغیرہ میں پیش آتے ہیں.لیکن جب مشکل کا پہاڑ ٹل جاتا ہے تو سب بھول جاتے ہیں.اس کا نتیجہ یہ کہ منافق ہو کر مرتے ہیں.اس کا ذکر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَاعْقَبَهُمْ نِفَاقًا (التوبه (۷۷) اباء ، استکبار، بد عهدی یعنی نفاق یہ تین باتیں ہوئیں.چوتھی جھوٹ کی عادت ہے جو کہ انسان کو فیض الہی سے محروم رکھتی ہے.پس چاہئے کہ ہمیشہ اپنا اند رونا ٹولتے رہو کہ ان عیبوں میں سے کوئی ہمارے اندر تو نہیں ہے.ایک طرف محرومی کے اسباب پر غور کرے.دوسری طرف توبہ و استغفار سے کام لے.ورنہ یاد رکھو کہ بڑے خطرہ کا مقام ہے.موسیٰ علیہ السلام کے ہمراہ ایک قوم نکلی تھی اور موسیٰ نے ان کو الہی ارادوں سے اطلاع بھی دے دی تھی کہ وہ تم پر انعام کرنا چاہتا ہے اور جنتلا دیا تھا کہ اگر تم حکم نہ مانو گے تو خائب و خاسر ہو گے مگر قوم نے عذر تراشے.نتیجہ یہ ہوا کہ چالیس سال جنگل میں بھٹکتے رہے اور ترقی کی رفتار روک دی گئی.اس سے ظاہر ہے کہ بعض وقت لوگوں کے اعمال ایک امور کو بھی مشکل میں ڈالتے ہیں.اس لئے تم لوگوں کو فکر چاہئے کہ

Page 186

177 ایک شخص مامور مرسل تم میں موجود ہے.تم نے اپنی برادری اور قوم اور خویش و اقارب کی پروانہ کر کے اس کے ہاتھ پر خود کو فروخت کر دیا ہے.اگر تم میں وہی بلائیں اور ظلمتیں موجود ہیں جو کہ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ والوں میں تھیں تو تم اس کے راستہ میں روک ڈالتے اور خود فیض سے محروم رہتے ہو.جو دنیا میں تو اسے قبول کر کے ناپسندیدہ بن گئے مگر اب خدا کے نزدیک نہ بنو.انسانی ترقی کا بڑا ذریعہ انسان کے ذاتی اخلاق ہوتے ہیں جن سے وہ واحد شخص خود اپنے نفس میں سکھ پاتا ہے اور امن اور آرام کی زندگی بسر کرتا ہے.مثلاً اگر وہ کسی کی نعمت دیکھ کر حسد نہیں کرتا تو اس سوزش اور جلن سے محفوظ رہتا ہے جو کہ حاسد کے دل کو ہوتی ہے.اگر کوئی دوسرے کو دیتا ہے تو یہ طمع نہیں کرتا تو اس عذاب سے بچا رہتا ہے جو کہ طمع کرنے سے ہوتا ہے.ایسے ہی جو لوگ اخلاق فاضلہ حاصل کرتے ہیں وہ جزع فزع شہوت اور غضب کے تمام دکھوں اور آفتوں سے محفوظ رہتے ہیں.اور اس سے ظاہر ہے کہ ذاتی سکھ کے ذرائع اخلاق فاضلہ ہیں.یہ بھی فضل کی ایک قسم ہے جو کہ انسان کو حاصل ہوتا ہے لیکن اس سے وہ نتائج مرتب نہیں ہوتے جو اکٹھا ہونے سے ہوتے ہیں.یاد رکھو کہ الہی فضل کی بہت قسمیں ہیں.اکیلے پر وہ فضل نہیں ہوتا جو کہ دو کے ملنے پر ہوتا ہے.اس کی ایک مثال دنیا میں موجود ہے کہ اگر مرد اور عورت الگ الگ ہوں اور وہ اس فضل کو حاصل کرنا چاہیں جو کہ اولاد کے رنگ میں ہوتا ہے تو وہ حاصل نہیں ہو سکتا جب تک کہ دونوں نہ ملیں اور ان تمام آداب کو بجانہ لاویں جو کہ حصول اولاد کے لئے ضروری ہیں.اسی طرح ایک بھاری جماعت پر جو فضل الہی ہوتا ہے وہ چند آدمیوں کی جماعت پر نہیں ہو سکتا.ایک گھر کی آسودگی اور آرام کا فضل اگر کوئی حاصل کرنا چاہے تو جب ہی ہو گا کہ اسے مامائیں، خدمتگار اور سونے کھانے پینے ، نہانے وغیرہ کے الگ الگ کمرہ اور ہر ایک کا الگ الگ اسباب ہونے کی مقدرت ہو.ایسے ہی اگر ترقی کرتے جاؤ تو بادشاہت اور سلطنت کے فضل کا اندازہ کر سکتے ہو.اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب تک تم لوگوں میں باوجود اختلاف کے ایک عام وحدت نہ ہو گی اور ہر ایک تم میں سے دوسرے کو فائدہ پہنچانے کی کوشش میں نہ لگا رہے گا تو تم خدا کے اس فضل عظیم کو حاصل نہ کر سکو گے جو ایک بھاری مجمع پر ہوتا ہے.وَالَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ انْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَّا الَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ الَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (الانفال: ۶۴) میں اسی کی طرف اشارہ ہے.وحدت کی روح کو جو کہ صحابہ کرام میں پھونکی گئی تھی اس کو خدا تعالی نے اپنے فضل سے تعبیر کیا ہے.اس وحدت کے پیدا ہونے کے لئے چاہئے کہ آپس میں صبر اور تحمل اور برداشت ہو.اگر یہ نہ ہو گا اور ذرا ذراسی بات پر روٹھو گے تو اس کا نتیجہ آپس کی پھوٹ ہو

Page 187

178 گا.اسی وحدت کی بنیاد کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا.اَطِيْعُوا اللَّهَ وَرَسُوْلَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَ تَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ (الانفال:۴۷) یعنی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو.اور ان کی اطاعت اسی حال میں کر سکو گے جبکہ تم میں تنازع نہ ہو.اگر تنازعات ہوں گے تو یاد رکھو کہ قوت کی بجائے تم میں بزدلی پیدا ہوگی.اور جو تمہاری ہوا بندھی ہوئی ہو گی وہ نکل جاوے گی.یہ بات تم کو صبر اور تحمل سے حاصل ہو سکتی ہے.ان کو اپنے اندر پیدا کرو.تب خدا کی معیت تمہارے شامل حال ہو کر وحدت کی روح پھونکے گی.پس اگر تم کوئی طاقت اپنے اندر پیدا کرنا چاہتے ہو اور مخلوق کو اپنے ماتحت رکھنا چاہتے ہو تو صبر اور تحمل سے کام لو اور تنازع مت کرو.اگر چشم پوشی سے با ہم کام لیا جاوے تو بہت کم نوبت فساد کی آتی ہے.مجھے افسوس ہے کہ لوگ جسمانی بیماریوں کے لئے تو علاج اور دوا تلاش کرتے ہیں لیکن روح کی بیماری کا فکر کسی کو بھی نہیں ہے.اس وقت مسلمانوں کی حالت کی مثال ایک جنم کے اندھے کی سی ہے کہ اس سے اگر بینائی کی خوبی اور لذت دریافت کی جائے تو وہ اسے جانتاہی نہیں ہے اور اسی لئے اس کے آگے بینائی کی قدر بھی نہیں کیونکہ اس نے اس لذت کو پایا نہیں.پس اس وقت کے موجودہ مسلمان بھی اس طاقت کی خوبی کو جو کہ قومی اتحاد اور وحدت سے پیدا ہوتی ہے نہیں پہچانتے.اس کی وجہ یہ ہے کہ سلطنت ان کے ہاتھ سے جاچکی ہے اور اسی لئے انہیں اس طرف توجہ بھی نہیں کہ دوسرے کو اپنے ماتحت کس طرح کیا کرتے ہیں.آج کل اگرچہ ریفار میشن کے مدعی تو سینکڑوں ہیں لیکن وہ کیا ریفار میشن کریں گے جبکہ خود ہی بغضوں اور کینوں میں گرفتار ہیں.دعوئی تو ہے مگر سمجھ نہیں کہ یہ خدا کے مامور ہی کا کام ہے جو کر سکتا ہے.پس اے عزیز و اور دوستو! اپنی کمزوری کے رفع کے لئے کثرت سے استغفار اور لاحول پڑھو اور رب کے نام سے دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ تمہاری ربوبیت یعنی پرورش کرے.تم کو مظفر و منصور کرے تاکہ تم آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے نیک نمونہ بن سکو.یہ نہ ہو کہ خدا نخواستہ لَعَنَتْ أُخْتَهَا (الاعراف: ۳۹) کے مصداق بنو (جب دوزخیوں کا ایک گروہ دوزخ میں داخل ہو گا تو جو اس میں اول موجود ہوں گے وہ ان پر لعنت کریں گے کہ ہم نے تو کچھ نہ کیا تم ہی کرتے تھے) جیسے آجکل کے رافضی ہیں.اس کا بچاؤ ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ کچی اتباع کرو.اپنے استنباط اور اپنے اجتہاد جس سے تم نفس کے دھو کہ میں آجاتے ہو، دور کرو.آپس میں خوش معاملگی اور احسن سلوک برتو.رنج، بخل، حسد کینہ سے بچو کہ خدا تعالیٰ کے وعدے کے موافق جو کہ اس نے اپنے مرسل کی جماعت سے کیا ہے اِنا لَتَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ امَنُوا فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيا (المومن (۵۲) پورا ہو کر رہے.مطلق انسان کی

Page 188

179 کوشش سے کامیابیاں حاصل نہیں ہوا کرتیں.کیونکہ یہ سارے علل اسباب سے آگاہ نہیں ہو سکتا.دیکھو ایک سال کی جانکاہ محنت سے زمیندار خرمن جمع کرتا ہے مگر جسے اتفاق کہتے ہیں اس سے آگ لگ کر سارے کا سارا خاک ہو جاتا ہے.اگر اسے کامل علم ہوتا اور کامل اسباب حفاظت پردہ احاطہ کر سکتا تو کیوں یہ بربادی دیکھتا.یہی حالت انسان کے اعمال کی ہے.اگرچہ وہ بڑے بڑے اعمال کرتا ہے لیکن ایک مخفی گند اندر ہوتا ہے جس سے وہ تمام برباد ہو جاتے ہیں.اس کا علاج وہی ہے جو کہ ذکر کیا کہ دعا اور استغفار اور لاحول سے کام لو.پاک لوگوں کی صحبت میں رہو.اپنی اصلاح کی فکر میں مضطر کی طرح لگے رہو کہ مضطر ہونے پر خدا رحم کرتا ہے اور دعا کو قبول کرتا ہے.دوسرے کی تحقیر مت کرو کہ اس سے خدا بہت ناراض ہوتا ہے اور دوسرے کو حقیر جاننے والے لوگ نہیں مرتے جب تک کہ اس گند میں خود نہ مبتلا ہوں جس کی وجہ سے دوسرے کو حقیر جانتے ہیں.(اس تقریر کے بعد حضرت حکیم الامت بیٹھ گئے اور پھر کھڑے ہو کر فرمایا) آج عید کا دن ہے اور رمضان شریف کا مہینہ گزر گیا ہے.یہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ایام تھے جبکہ اس نے اس ماہ مبارک میں قرآن شریف کا نزول فرمایا اور عامہ اہل اسلام کے لئے اس ماہ میں ہدایت مقدر فرمائی.راتوں کو اٹھنا اور قرآن شریف کی تلاوت اور کثرت سے خیرات و صدقہ اس مہینہ کی برکات میں سے ہے.آج کے دن ہر ایک کو لازم ہے کہ سارے کنبہ کی طرف سے محتاج لوگوں کی خبر گیری کرے.دو بک گیہوں کے یا چار جو کے ہر ایک نفس کی طرف سے صدقہ نماز سے پیشتر ضرور ادا کیا جاوے اور جن کو خدا نے موقع دیا ہے وہ زیادہ دیو ہیں.اس جگہ مختلف ضرور تیں ہیں کہ جن کے لئے لوگوں کے خیرات کے روپیہ کی ضرورت ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں اس قسم کا کل روپیہ ایک جگہ جمع ہو تا تھا اور پھر آپ اسے مختلف مدوں میں تقسیم کر دیا کرتے تھے.ایک یہاں مدرسہ ہے اور اس وقت اسے بڑی ضرورت امداد کی ہے.مہمانوں کو بھی مشکلات پیش آتی ہیں.بعض وقت دیکھا گیا ہے کہ ان بیچاروں کا سفر خرچ کسی گناہ کے باعث یا کسی مصلحت الہی سے جاتا رہتا ہے.مثلا کسی نے چرا لیا یا گر گیا وغیرہ.پھر غور کرو کہ مسافرت اور اجنبیت میں کس قدر تکلیف ہوتی ہے.ایسے ہی ایک گروہ مساکین کا رہتا ہے.تو ان سب کے لئے اخراجات کی ضرورت ہے.یہاں رہنے والے تین طرح کے لوگ ہیں.ایک تو وہ جو حصول ایمان کے لئے رہتے ہیں اور ان کو متواتر تجربہ سے علم ہو گیا ہے کہ ضرورت کے وقت اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے خبر گیری کرتا ہے.بعض لوگ ملازم ہیں اور ان کی معاش کی سبیل قائم ہے.اور ایک گروہ وہ ہے جو صرف محبت کی وجہ سے رہتا

Page 189

180 ہے مگر اپنی ضرورتوں کو رفع نہیں کر سکتا.پس میری رائے یہ ہے کہ تم میں سے ایک جماعت قائم ہو جو ان سب کی خبر گیری کیا کرے اور اس قسم کے صدقہ اور خیرات کے روپیوں کو مناسب مقام پر تقسیم کر دیا کرے.بعض طالب علم مدرسہ کے اور بعض ہمارے پاس بھی اس قسم کے ہوتے ہیں کہ ان کے لئے خبر گیری کی ضرورت ہوتی ہے.پس اگر جماعت قائم ہو تو وہ اس کی بھی خبر لے سکتی ہے.انسانی ہمدردی اور باہمی تعاون کے بہت برکات اور افضال ہیں اور اللہ تعالی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان پر وعدہ فرماتا ہے.اللهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ (احمد بن حنبل جلد۲ صفحه ۳۷۴).میں چونکہ یہاں رہتا ہوں اور پھر سارے دن باہر رہتا ہوں اس لئے مجھے ان ضرورتوں کا علم ہے اور میری نسبت دوسروں کو کم ہے.خدا ہی ان کا سرانجام دینے والا اور مجھے بھی وہی دیکھنے والا ہے.ایسے امور کے لئے آپ سعی کریں اور دوسرے بھائیوں تک بھی پہنچا دیو ہیں.جیسے ہمارے سردار صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور کوئی فوجی کمانڈر تھا.کوئی کاتب تھا.کوئی قرآن پڑھانے والا تھا.کوئی اخوت کی بہتری کی فکر کرنے والا تھا.کوئی بادشاہوں کے پاس خطوط پہنچاتا تھا.کوئی نیک تحریکیں کرنے والا تھا.ایسے ہی اگر مختلف مدیں مختلف لوگوں کے سپرد ہوں اور ایک کمیٹی قائم ہو کر ان سب امور کی ترتیب کیا کرے تو امید ہے کہ بہت کچھ انتظام ہو جاوے.خدا تعالیٰ مجھے اور آپ کو عملد رآمد کی توفیق عطا فرمادے.اس کے بعد حکیم صاحب موصوف نے حضرت اقدس علیہ السلام سے درخواست کی کہ حضور دعا فرما دیں کہ ہم سب کو نیکی اور عملدرآمد کی توفیق عطا ہو.خصوصاً مجھ کو کہ لوگوں کو تو سناتا ہوں، کہیں خود ہی اس پر عملدرآمد سے نہ رہ جاؤں.حضرت اقدس علیہ السلام نے دعا فرمائی.الحکم جلد نمبر ---۱۰۰/ جنوری ۱۹۰۵ء صفحہ ۱.۱۲) الحکم جلد نمبر ۲ --- ۷ار جنوری ۱۹۰۵ء صفحه ۱۱۹)

Page 190

۱۶, فروری ۱۹۰۵ء مسجد اقصی.قادیان خطبہ 181 عید الا خصبات نور اشْهَدُ أن لا إله إلا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُواً.اَنْ وَ مَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ وَ لَقَدِ اصْطَفَيْنَهُ فِي الدُّنْيَا وَ إِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِيْنَ - إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِيْنَ - وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيْهِ وَ يَعْقُوبُ يُبَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى نَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ (البقره: ۱۳۱ تا ۱۳۳) یہ ایک موقع ہے مسلمانوں کے اجتماع کا اور اس طرح کا موقع سال میں صرف دو دفعہ ہی آیا کرتا ہے.ایک تو یہی ہے اور دوسرا اس وقت ہوا کرتا ہے جب کہ لوگ رمضان شریف کے روزوں سے فارغ ہو کر ان انوار اور برکات سے متمتع ہو جاتے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ نے اس مبارک ماہ میں رکھے ہیں.اس کا نام عید الفطر ہے.اس میں خوشی کا موقع یہ ہے کہ اس ماہ میں تقویٰ کے مراتب طے کرنے کا اور

Page 191

182 قرب الہی کے حاصل کرنے کا پھر سحری کے وقت بذریعہ نوافل اور دعاؤں کے خدا کے فضل کو طلب کرنے کا موقع ملتا ہے.اس لئے اس خوشی میں لوگ صدقہ فطر کے ذریعہ غریب لوگوں کو خوش کیا کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اصل اسلام کے اجتماع کے مختلف اوقات مقرر کیے ہیں جن میں وہ باہمی ملاپ سے خدا تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کر سکتے ہیں اور ایک محلہ کی مسجد میں اس محلہ کے آدمی پانچ وقت جمع ہوتے ہیں.پھر ہر ہفتہ میں جمعہ کے روز شہر کے آدمی مل کر شہر کی کسی بڑی مسجد میں اس قومی اجتماع کو قائم کرتے ہیں.پھر یہ عیدین کے ایام ہیں کہ جن میں علاوہ شہر کے باہر کے آدمی بھی آجاتے ہیں جیسے کہ اس وقت بھی بعض دوست مختلف مقامات سے یہاں آئے ہوئے ہیں.چونکہ آج کی تقریب کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فعل سے ایک خاص مناسبت ہے اس لئے میں نے ان آیات کو پڑھا ہے جن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر ہے.حضرت ابراہیم ایک ایسا انسان گذرا ہے کہ جس نے خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلقات ہونے کی وجہ سے اپنی قوم اور قریبی اور بعیدی رشتہ داری کے تعلقات کی پرواہ نہ کی تھی اور اپنے اب " یعنی چچا سے بھی باوجود اس کے کہ ان کے تعلقات اس سے بہت تھے مباحثہ کیا تاکہ بد رسوم کا استیصال ہو.اس مقام پر ”اب“ کے معنوں میں محققین کا اختلاف ہے لیکن میرے نزدیک اس کے معنے اس جگہ حقیقی باپ کے ہر گز نہیں ہیں.ایسا ہی ابراہیم علیہ السلام نے بادشاہ وقت سے بھی مقابلہ کیا اور یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کی عظمت کے قائم کرنے کے لئے کیا گیا تھا.اس مباحثہ میں احیاء اور امانت کی بھی ایک بحث تھی جہاں ابراہیم علیہ السلام کا قول ربي الَّذِي يُحْيِ وَيُمِيتُ (البقرة:٢٥٩) درج ہے اور جو کہ توحید باری تعالیٰ کے متعلق ایک عجیب فقرہ ہے جس کو ہمارے زمانہ سے بڑا تعلق ہے.کیونکہ اگر حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی مردے زندہ کئے تھے تو پھر ابراہیم علیہ السلام کا یہ استدلال کوئی قابل وقعت شے نہیں ہو سکتا اور ان کا یہ کام اور کلام سب خاک میں مل جاتا ہے.ہاں ایک معنے کی رو سے انبیاء بھی احیاء کرتے ہیں مگر چونکہ خدا تعالیٰ نیسَ كَمِثْلِهِ شَی ٤ (الشوری:۱۳) ہے اس لئے اس کا احیاء بھی لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَی : ہی ہو گا اور انبیاء کا احیاء اس سے کوئی لگا نہ کھائے گا.یہ بالکل سچ ہے کہ احیاء موتی صرف ” رب " کا ہی کام ہے اور وہ بھی کسی اور عالم میں.انبیاء کے احیاء کے یہ معنے ہیں کہ بعض شریر لوگ جو کہ ان کی پاکیزہ مجالس میں آئے رہتے ہیں اور ان میں سے بعض اپنی کسی فطری سعادت کی وجہ سے جو کہ ان کے نطفہ میں آئی ہوتی ہے ہدایت پا جاتے ہیں ان کی کفر اور فسق کی حالت کا نام موت ہوتا ہے اور ہدایت پا

Page 192

183 جانے کو احیاء سے تعبیر کرتے ہیں.حضرت ابراہیم کے عملدرآمد اور ان کی تعلیم کا خلاصہ قرآن شریف نے ان آیات میں بیان فرمایا ہے کہ جیسا اس کے رب نے اسے کہا اسلیم کہ تو فرمانبردار ہو جاتو ابراہیم نے کوئی سوال کسی قسم کا نہیں کیا اور نہ کوئی کیفیت دریافت کی کہ میں کس امر میں فرمانبرداری اختیار کروں؟ بلکہ ہر ایک امر کے لئے خواہ وہ کسی رنگ میں دیا جاوے اپنی گردن کو آگے رکھ دیا اور جواب میں کہا أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ (البقرۃ:۱۳۲) کہ میں تو رب العالمین کا تابعدار ہو چکا.ابراہیم علیہ السلام کی یہی فرمانبرداری اپنے رب کے لئے تھی جس نے اسے خدا کی نظروں میں برگزیدہ بنا دیا.وہ لوگ جو ابراہیم کا دین یعنی ہر طرح اپنے آپ کو خدا کے سپرد کرنا اختیار نہیں کرتے ، غلطی کرتے ہیں اور اس لئے اللہ تعالیٰ ان کو سفیہ قرار دیتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اسے دنیا میں بھی برگزیدہ کیا.پس وہ لوگ جو کہ دنیا میں ترقی کرنا چاہتے ہیں وہ غور کریں کہ خدا کی فرمانبرداری سے وہ ابراہیمی مراتب حاصل کر سکتے ہیں.ہر ایک قسم کی عزت ابراہیم علیہ السلام کو حاصل ہے اور یہ سب کچھ اَسْلَمْتُ کا نتیجہ ہے.وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ (البقرة: ۱۳۳) ابراہیم علیہ السلام نے اولاد کو بھی یہی سکھایا کہ جب تک خدا تعالیٰ حکم دے تب تک ہی تم اس کی اطاعت کرتے رہو.وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے کلام کے منکر ہیں اور ان کا یہ خیال ہے کہ جو کچھ خدا تعالیٰ نے کرنا تھا کر چکا اس مقام پر سوچیں کہ اگر یہ سلسلہ بند ہو چکا تھا اور ابراہیم علیہ السلام کے بعد اور کوئی احکام ضرورت زمانہ کے لحاظ سے نازل نہ ہونے تھے تو پھر اسلم کی آواز کی اطاعت کے لئے کیوں ابراہیم نے اولاد کو تاکید کی.پھر صرف ابراہیم ہی نہیں بلکہ اس کا پوتا حضرت یعقوب علیہ السلام بھی اپنی اولاد کو یہی حکم دیتا ہے فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ (البقرۃ:۱۳۳) کہ اے میری اولاد! تمہارے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ دین (ابراہیمی) پسند فرمایا.کہ تم ہر وقت خدا کی فرمانبرداری میں رہو حتی کہ تمہاری موت بھی اس فرمانبرداری میں ہو.یہ فرمانبرداری جو کہ ہر ایک کامیابی اور ترقی کا چشمہ ہے انسان اس سے کس طرح محروم رہ جاتا ہے؟ اس کا باعث قرآن شریف میں تواریخی واقعات پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے.پہلا نا فرمان جس کی تاریخ ہمیں معلوم ہے ابلیس ہے.وہ کیوں نافرمان بن گیا؟ اس کی خبر بھی قرآن شریف نے بتلائی ہے کہ اس نے اباء اور استکبار کیا یعنی اس میں انکار اور تکبر تھا جس کی وجہ سے وہ اسلیم کی تعمیل نہ کر سکا.اس وقت بھی بہت لوگ ہیں کہ اس اباء اور استکبار کی وجہ سے اسلم کی تعمیل سے محروم ہیں.کسی کو عقل پر تکبر ہے، کسی کو علم پر کسی کو اپنے بزرگوں پر جو کہ ان کے نقصان کا باعث ہو رہا ہے اور جب کبھی خدا

Page 193

184 کے مامور آتے رہے ہیں کہیں اباء اور استکبار ان کی محرومی کا ذریعہ ہوتے رہے ہیں.انسان جب ایک دفعہ منہ سے ”نہ " کر بیٹھتا ہے تو پھر اسے دوبارہ ماننا مشکل ہو جاتا ہے اور لوگوں سے شرم کی وجہ سے وہ اپنی ہٹ پر قائم رہنا پسند کرتا ہے.اس کا نتیجہ پھر کھلم کھلا انکار اور آخر کار وَ كَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ (البقرة: ۳۵) کا مصداق بننا پڑتا ہے.چونکہ مامورین الہی کا سلسلہ تو برابر انسانوں اور زمانہ کی ضرورتوں کے موافق ہے اور اپنی قدیم سنت کے لحاظ سے خدا نے نبی اور رسول معبوث کرنے تھے اس لئے قرآن شریف کے اول رکوع میں ہی تعلیم دی ہے کہ انسان کو انکار کا پہلو حتی الوسع اختیار ہی نہ کرنا چاہئے.قرآن شریف کے اول رکوع میں ہی اس کا ذکر ہے.اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ (البقرة:- چونکہ وہ لوگ اول انکار کر چکے تھے اس لئے سخن پروری کے خیال نے ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلسوں میں بیٹھنے اور آپ کی باتوں پر غور کرنے نہ دیا اور انہوں نے آپ کے اندار اور عدم انذار کو برابر جانا.اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ لا يُؤْمِنُونَ یعنی ہمیشہ کے لئے ایمان جیسی راحت اور سرور بخش نعمت سے محروم ہو گئے.یہ ایک خطرناک مرض ہے کہ بعض لوگ مامورین کے انذار اور عدم انذار کی پروا نہیں کرتے.ان کو اپنے علم پر ناز اور تکبر ہوتا ہے اور کہتے ہیں کہ کتاب الہی ہمارے پاس بھی موجود ہے.ہم کو بھی نیکی بدی کا علم ہے.یہ کونسی نئی بات بتانے آیا ہے کہ ہم اس پر ایمان لاویں.ان کمبختوں کو یہ خیال نہیں آتا کہ یہود کے پاس بھی تو تو رات موجود تھی.اس پر وہ عمل درآمد بھی رکھتے تھے.پھر ان میں بڑے بڑے عالم ، زاہد اور عابد موجود تھے پھر وہ کیوں مردود ہو گئے ؟ اس کا باعث یہی تھا کہ تکبر کرتے تھے.اپنے علم پر نازاں تھے اور وہ اطاعت جو کہ خدا تعالی اسلیم کے لفظ سے چاہتا ہے ان میں نہ تھی.ابراہیم کی طرز اطاعت ترک کر دی.یہی بات تھی کہ جس نے ان کو مسیح علیہ السلام اور اس رحمہ للعالمین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے سے جس سے توحید کا چشمہ جاری ہے ماننے سے باز رکھا.لہ یہودیوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور وحی پر ایمان لانے سے جو چیز مانع ہوئی وہ یہی تكبر علم تھا.فَرِحُوا بِمَا عِنْدَهُمْ مِنَ الْعِلْمِ (المومن (۸۳) انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ ہمارے پاس ہدایت کا کافی ذریعہ ہے.صحف انبیاء اور صحف ابراہیم و موسی ہمارے پاس ہیں.ہم خدا تعالیٰ کی قوم کہلاتے ہیں.نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهُ وَاحِبَّاوة (المائدة») کہ کر انکار کر دیا کہ ہم عربی آوٹی کی کیا پروا کر سکتے ہیں.اس تکبر اور خود پسندی نے انہیں محروم کر دیا اور وہ اس رحمۃ للعالمین کے ماننے سے انکار کر

Page 194

185 بیٹھے جس سے حقیقی توحید کا مصفی اور شیریں چشمہ جاری ہوا.غرض محرومی کا سب سے پہلا اور بڑا ذریعہ اباء (انکار) ہے اور پھر تکبر ہے.آہ! اس سے بڑھ کر کسی شخص کی بد نصیبی اور کیا ہوگی کہ اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے ایک ہادی معلم اور مزکی کو معزز بنا کر بھیجتا ہے اور یہ اس کا ساتھ نہیں دے سکتا اور ان فیضانوں اور برکات سے جو اس کی معیت اور صحبت سے ملنے والے تھے محروم رہ جاتا ہے.فرمانبرداری ہاں خدا کی فرمانبرداری ایسی راحت بخش اور زندہ جاوید بنانے والی دولت ہے جس نے آج تک اور ابد الآباد تک ابراہیم کو زندہ رکھا.آج ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی یادگار تم ہر ایک گھر میں دیکھ سکتے ہو.ایک غریب سے غریب آدمی بھی قربانی کا گوشت کھاتا ہے جو اس کی یادگار کو تازہ رکھتا ہے.یہ قربانی بتاتی ہے کہ ابراہیم نے اپنی جان اور مال تک سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں دریغ نہیں کیا.پس جب تک انسان ابراہیمی رنگ اختیار نہیں کرتا اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے عزیز مال اور جان تک کو جو دراصل اس کا بھی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ ہی کا ہے، نثار کر دینے کے لئے شرح صدر سے تیار نہیں ہو جاتا، اس وقت تک وہ ان برکات اور فیضانوں کو پا نہیں سکتا جو ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کو لے.خدا تعالیٰ کے مامورین و مرسلین کا انکار سلب ایمان کا موجب ہوتا ہے.یہ انکار بہت ہی خطرناک چیز ہے اس لئے ہمیشہ اس سے بچو.اپنی عقل، اپنی تدبیر اور رائے اپنے علم و تجربہ کو خدا کے راستباز کے سامنے پیچ سمجھ لو اور بالکل خالی ہو جاؤ.تب وہ تم میں راستبازی اور حقیقی علوم کی روح نفخ کرے گا.یہ اباء مخفی رنگ میں انسان کے اندر ہوتا ہے.کبھی زبان سے اقرار کرتا ہے لیکن دل اس کے ساتھ متفق نہیں ہوتا جس کا نتیجہ نفاق ہوتا ہے اور یہ نفاق آخر کار کفر تک بھی لے جاتا ہے.اس لئے دل اور زبان کو ایک کرنے کے لئے کوشش کرو اور ہ: اتعالیٰ سے توفیق اور فضل چاہو.بعض لوگوں کے لئے ان کا مال و دولت خدمت گزاری اور نیکی کا خیال بھی اس امر سے روک دیا اور ان کے لئے سد راد ہو جاتا ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس کی کیا ضرورت ہے؟ اگر ضرورت نہ تھی تو خدا تعالیٰ نے اس کو نازل کیوں فرمایا ؟ وہ اس پر نہیں، خدا تعالیٰ کے فعل و فضل پر ہنسی کرتے اور اس کے پر حکمت فصل کو لغو ٹھہراتے ہیں (معاذ اللہ).اس لئے ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ وہ نفس اور شیطان کے اس دھوکا سے ہمیشہ بچیں.اپنی کسی بات پر تکبر نہ ہو.کیونکہ وہی تکبر پھر کسی اور رنگ و صورت میں انکار کا باعث ہو جاوے گا.یہ بہر حال زہر ہے.اس سے مطمئن ہو رہنا عظمندی نہیں ہے.بعض نادان ناحق شناس امور اور مرسلوں کے آنے پر یہ کہہ اٹھتے ہیں کہ لَنْ تُؤْمِنَ حَتَّى نُؤْتَى

Page 195

186 مِثْلَ مَا أُوتِيَ رُسُلُ الله (الانعام:۳۵) یعنی اس وقت تک ہم ایمان نہیں لائیں گے جب تک ہم کو بھی وہی فیض اور فضل نہ دیا جاوے جو رسولوں کو دیا گیا ہے.یہ بھی محرومی کا بڑا بھاری ذریعہ ہے.جو لوگ ایمان کو مشروط کرتے ہیں وہ محروم رہ جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی پروا نہیں کرتا.ہاں خدا تعالیٰ کسی کو خالی نہیں چھوڑتا.جو اس کی راہ میں صدق و ثبات سے قدم رکھتا ہے وہ بھی اس قسم کے انعامات سے بہرہ وافر لے لیتا ہے.جیسے فرمایا إِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَئِكَةُ حم السجدة) جن لوگوں نے اپنے قول و فعل سے بتایا کہ ہمارا رب اللہ تعالیٰ ہے، پھر انہوں نے اس پر استقامت دکھائی ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں.اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ نزول ملائکہ سے پہلے دو باتیں ضروری ہیں.رَبُّنَا اللہ کا اقرار اور اس پر صدق و ثبات اور اظہار استقامت.ایک نادان سنت اللہ سے ناواقف ان مراحل کو تو طے نہیں کرتا اور امید رکھتا ہے اس مقام پر پہنچنے کی جو ان کے بعد واقع ہے.یہ کیسی غلطی اور نادانی ہے.اس قسم کے شیطانی وسوسوں سے بھی الگ رہنا چاہئے.خدا تعالیٰ کی راہ میں استقامت اور عجز کے ساتھ قدم اٹھاؤ.قوئی سے کام لو.اس کی مدد طلب کرو.پھر یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے کہ تم بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے وارث ہو جاؤ اور حقیقی رؤیا اور الہام سے حصہ پاؤ.اللہ تعالی کے ہاں تو کسی بات کی کمی نہیں وانی من شَيِّ إِلَّا عِنْدَنَا خَزائِنُهُ وَمَا تُنزِلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ معلوم (الحجر: ۲۲).پھر سوال ہوتا ہے کہ اس قسم کے شیطانی اوہام اور وسوسوں سے بچنے کا کیا طریق ہے؟ سو اس کا طریق یہی ہے کہ کثرت کے ساتھ استغفار پڑھو.استغفار سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ طوطے کی طرح ایک لفظ رشتے رہو.بلکہ اصل غرض یہ ہے کہ استغفار کے مفہوم اور مطلب کو ملحوظ رکھ کر خدا تعالیٰ سے مدد چاہو اور وہ یہ ہے کہ جو انسانی کمزوریاں صادر ہو چکی ہیں اللہ تعالیٰ ان کے بد نتائج سے محفوظ رکھے اور آئندہ کے لئے ان کمزوریوں کو دور کرے اور ان جوشوں کو جو ہلاک کرنے والے ہوتے ہیں دبائے رکھے ، پھر لاحول پڑھے پھر دعاؤں سے کام لے اور جہاں تک ممکن ہو راستبازوں کی صحبت میں رہے.اگر اس نسخہ پر عمل کرو گے تو میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یقین رکھتا ہوں کہ وہ تمہیں محروم نہ کرے گا.کچھ محرومی کا ایک اور سبب بھی ہوتا ہے.وہ یہ ہے کہ بعض اوقات انسان مشکلات اور مصائب کے وقت اللہ تعالیٰ سے کوئی وعدہ کر لیتا ہے کہ یا اللہ ! اگر میرا فلاں کام ہو جاوے اور فلاں دکھ سے مجھے رہائی اور نجات ہو تو میں یہ فرمانبرداری کا کام کروں گا.اللہ تعالیٰ اسے ان مشکلات سے نجات دیتا ہے لیکن وہ

Page 196

187 اپنے وعدوں کو بھول جاتا ہے.اس کا نتیجہ پھر خطرناک ہوتا اور اسے محروم کر دیتا ہے.میرے نزدیک اللہ تعالیٰ سے وعدہ کرنے کے برابر ہی وہ معاہدہ ہے جو انسان اپنے امام و مرشد کے ہاتھ پر کرتا ہے.جیسا کہ ہم نے کیا ہے کہ ”دین کو دنیا پر مقدم کروں گا.کہنے کو یہ ایک چھوٹا سا فقرہ ہے لیکن اس کے معانی پر غور کرو کہ کس قدر وسیع ہیں.حتی علی الصلوة کی آواز آتی ہے اور یہ سنتا ہے لیکن دیکھتا ہے کہ بہت سے ضروری کام کرنے کو ہیں اور ان سے اگر ذراسی بھی لاپروائی کی تو حرج ہو گا.اس لئے فرض تنہا ہی میں ادا کرلوں گا.یہ خیالات دل میں ایک طرف ہیں.دوسری طرف حئی کا لفظ بتاتا ہے کہ جلدی کرو اور ادھر یہ معاہدہ کیا ہوا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.اب اگر اللہ تعالیٰ کی عبادت مقدم کرتا اور حَيَّ عَلَى الصَّلوة کی آواز پر مسجد کو چلتا ہے تو بیشک اس معاہدہ کو پورا کرنے والا ٹھرتا ہے لیکن اگر تساہل کرتا ہے تو اس معاہدہ کو توڑتا ہے.اسی طرح دنیا کے ہر کاروبار میں اس قسم کے امتحان اور مشکلات پیش آتے ہیں.ایک طرف بیوی بچوں کے لئے خرچ کی ضرورت ہے.ادھر قرآن کریم میں پڑھتا ہے لا تُسْرِفُوا (الاعراف:۳۲) اور إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ (بنی اسرائیل (۳۸) اور ایک طرف دین مال و عزت اور جان خرچ کرانی چاہتا ہے.اس وقت اپنے اندرونہ کا معائنہ کرے اور اپنے فعل سے دکھائے کہ کیا دین کو مقدم کرتا ہے یا دنیا کو.غرض ہر حکم الہی میں اس کو سوچنا پڑتا ہے کہ دین کو مقدم کرتا ہوں یا دنیا کو.کسی تقریر اور ما کام لے رہا ہوں یا کچے اخلاص سے.اپنے ہر قول اور فعل کی پڑتال کرے کہ کیا واقعی خدا تعالی کے لئے ہے یا دنیوی اغراض اور مقاصد پیش نظر ہیں.پس اپنے اس بڑے عظیم الشان معاہدہ کو اپنے پیش نظر رکھو.یہ معاہدہ تم نے معمولی انسان کے ہاتھ پر نہیں کیا.خدا تعالیٰ کے مرسل مسیح و مہدی کے ہاتھ پر کیا ہے.اور میں تو یقین سے کہتا ہوں کہ خدا کے مرسل ہی نہیں خدا کے ہاتھ پر کیا ہے کیونکہ يَدَ اللهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ (الفتح) آیا ہے.دیکھو اور اپنے حالات خود مطالعہ کرو کہ کیا جس قدر تڑپ کوشش اور اضطراب دنیوی اور ان ان ضروریات کے لئے دل میں ہے کم از کم اتناہی جوش دینی ضروریات کے لئے بھی ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں تو پھر دین کو دنیا پر تقدم تو کہاں برابری بھی نصیب نہ ہوئی.ایسی صورت میں وہ معاہدہ جو امام کے ہاتھ پر نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ پر کیا ہے کہاں پورا کیا.میں نے خود تجربہ کیا ہے.ہزاروں خطوط میرے پاس آتے ہیں جن میں ظاہری بیماریوں کے ہاتھ سے نالاں لوگوں نے جو جو اضطراب ظاہر کیا ہے میں اسے

Page 197

188 دیکھتا ہوں لیکن مجھے حیرانی ہوتی ہے کہ وہ ظاہری بیماریوں کے لئے تو اس قدر گھبراہٹ ظاہر کرتے ہیں مگر باطنی اور اندرونی بیماریوں کے لئے انہیں کوئی تڑپ نہیں.باطنی بیماریاں کیا ہوتی ہیں؟ یہی بدظنی منصوبہ بازی، تکبر، دوسرے کی تحقیر، غیبت اور اس قسم کی بدذاتیاں اور شرارتیں، شرک، ماموروں کا انکار وغیرہ.ان امراض کا وہ کچھ بھی فکر نہیں کرتے اور معالج کی تلاش انہیں نہیں ہوتی.میں جب ان بیماریوں کے خطوط پڑھتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ کیوں یہ اپنے روحانی امراض کا فکر نہیں کرتے.ہی.نفس کو کبھی تو کل اور صبر کے مسائل پیش کر دیتا ہے لیکن جب ظاہری بیماریاں آکر غلبہ کرتی ہیں تو پھر سب کچھ بھول جاتا ہے اور تردد کرتا ہے.لیکن جب روحانی بیماریوں کا ذکر ہو تو تو کل کا نام لے دیتا ہے.یہ کیسی غلطی اور فروگذاشت ہے.ان دونوں نظاموں کو مختلف پیمانوں اور نظروں سے دیکھتا ہے.یعنی باطنی اور روحانی امور میں تو کہہ دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہے اور ظاہری امور میں اس کا نام شدید البلش رکھا ہے.یہ نادانی اور غلطی ہے.خدا تعالی دونوں امور میں اپنی صفات کی یکساں جلوہ نمائی کرتا ہے.پس جو لوگ امور دنیا میں تو سر توڑ کوششیں کرتے ہیں اور اسی کو اپنی زندگی کا اصل مقصد اور غشاء اعظم سمجھتے ہیں اور دین کو بالکل چھوڑتے ہیں وہ غلطی کرتے ہیں.خدا تعالی کی عظمت اور اس کی صفات پر غور نہیں کرتے.اسلیم کے معنے تو یہ تھے کہ فرمانبردار ہو جا اور فرمانبردار ہی رہو.پھر وجہ کیا ہے کہ مامور کے ہاتھ پر جو خدا کا ہاتھ کہلاتا ہے یہ وعدہ کر کے کہ ”دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا اس وعدہ کا کچھ بھی پاس نہ ہو.ہمارے امام علیہ الصلوۃ والسلام کس قدر چھوٹے لفظ سے کام لیتے ہیں اور وہ کس قدر وسیع ہے.یہ زمانہ الفاظ کا ہے.چنانچہ بڑی بڑی لمبی تقریریں لوگ کرتے ہیں لیکن جب ان کے معافی اور مطالب پر نظر کرو تو بہت ہی چھوٹے اور تھوڑے.لیکن برخلاف اس کے ہمارے امام علیہ الصلوۃ والسلام نے بہت ہی مختصر الفاظ اختیار کئے مگر ان کا مفہوم اور منشاء بہت ہی وسیع اور محیط ہے.مثلاً الفاظ بیعت میں سے ایک یہ جملہ بھی ہے ”جہاں تک میری طاقت اور سمجھ ہے گناہوں سے بچتا رہوں گا.بظاہر یہ ایک موٹی اور چھوٹی سی بات ہے لیکن غور کرو اس کا مفہوم کس قدر وسیع ہے.ایسا اقرار کرنے والے کو یہ الفاظ کیسا محتاط بناتے ہیں کہ وہ اپنے ہر قول و فعل میں ، ہر حرکت و سکون میں اس امر کو مد نظر رکھے کہ کیا میرا یہ قول و فعل ، یہ حرکت و سکون اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کی خلاف ورزی تو نہیں ہے اور گناہ کے کسی شعبہ میں تو داخل نہیں؟ جب انسان ان امور پر نظر کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کی اطاعت اور رضا جوئی اپنا مقصد بنالیتا ہے تو خدا تعالیٰ خود اس کی مدد فرماتا ہے اور اس کی مشکلات کو آسان

Page 198

189 کر دیتا ہے.یقینا یاد رکھو فرمانبرداری بڑی دولت ہے.یہی دولت ابراھیم علیہ السلام کو ملی جس نے اس کو اسقدر معظم و مکرم بنا دیا.خدا تعالیٰ کے ہر قسم کے فیض اور فیضان اسی فرمانبرداری پر نازل ہوتے ہیں مگر تھوڑے ہیں جو اس راز کو سمجھتے ہیں.اس وقت خدا تعالیٰ پھر ایک قوم کو معز بنانا چاہتا ہے اور اس پر اپنا فضل کرنا چاہتا ہے لیکن اس کے لئے بھی وہی شرط اور امتحان ہے جو ابراہیم علیہ السلام کے لئے تھا.وہ کیا؟ کچی اطاعت اور پوری فرمانبرداری.اس کو اپنا شعار بناؤ اور خدا تعالیٰ کی رضا کو اپنی رضا پر مقدم کر لو.دین کو دنیا پر اپنے عمل اور چلن سے مقدم کر کے دکھاؤ.پھر خدا تعالیٰ کی نفرتیں تمہارے ساتھ ہوں گی.اس کے فضلوں کے وارث تم بنو گے.یاد رکھو خدا تعالیٰ کے فضل سے انسان کے محروم ہونے کی ایک یہ بھی وجہ ہوتی ہے کہ وہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ سے کچھ وعدے کرتا ہے لیکن جب ان وعدوں کے ایفاء کا وقت آتا ہے تو ایفاء نہیں کرتا.ایسا شخص منافق مرتا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے فَاعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِي قُلُوبِهِمْ إِلَى يَوْمِ يَلْقَوْنَهُ بِمَا اخْلَفُوا اللَّهَ مَا وَعَدُوهُ (التوبه ۷۷).اس سے ہمیشہ بچتے رہو.انسان مشکلات اور مصائب میں مبتلا ہوتا ہے.اس وقت وہ اللہ تعالیٰ ہی کو اپنا ملجاو مادی تصور کرتا ہے اور فی الحقیقت وہی حقیقی پناہ ہے.اس وقت وہ اس سے وعدے کرتا ہے.پس تم پر مشکلات آئیں گی اور آتی ہیں.تم بہت وعدے خدا تعالٰی سے نہ کرو اور کرو تو ایفاء کرو.ایسا نہ ہو کہ ایفاء نہ کرنے کا وبال تم پر آئے اور خاتمہ نفاق پر ہو (خدا ہم کو محفوظ رکھے.آمین) اور ہم کو بہت بڑا خطرہ ہے کیونکہ ہم سب ایک عظیم الشان وعدہ کر چکے ہیں کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے اور جہاں تک طاقت اور سمجھ ہے گناہوں سے بچتے رہیں گے.اس وعدہ کو ایفاء کرنے کی پوری کوشش کرو اور پھر خدا تعالیٰ ہی سے توفیق اور مدد چاہو.کیونکہ وہ مانگنے والوں کو ضائع نہیں کرتا بلکہ ان کی دعائیں سنتا ہے اور قبول کرتا ہے.پھر ایک اور عیب بتایا ہے جو منافق میں ہوتا ہے، وہ جھوٹ بولنا ہے.عام جھوٹ بولنا وہ بھی ہے جو ایک حدیث میں ہے كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا اَنْ تُحَدِّثَ بِكُلِّ مَاسَمِعَ (صحيح مسلم - باب النهي عن.الحديث بكل ما سمع) یعنی یہ بھی جھوٹ ہی ہے کہ انسان جو کچھ سنے بلا سوچے سمجھے اسے بیان کر دے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک ارشاد میں بڑی بڑی برائیوں سے روکنے کا نسخہ بتایا گیا ہے.خود

Page 199

190 داری سکھائی ہے اور سخن سازی سے بچایا ہے.یہ عام قاعدہ ہو رہا ہے کہ دو تین آدمی جب مل کر بیٹھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ آؤ ذرا مجلس گرم کریں.وہ مجلس گرم کرنا کیا ہوتا ہے؟ کسی کی تحقیر شروع کر دی.کسی کے لباس پر کسی کی زبان پر کسی کے قدو قامت پر کسی کے علم و عقل پر ، غرض مختلف پہلوؤں پر نکتہ چینی اور ہنسی اڑانا شروع کیا اور بڑھتے بڑھتے یہ ناپاک اور بے ہودہ کلام مذمت ، غیبت اور دروغ گوئی تک جا پہنچا.پس تمہیں مناسب ہے کہ ایسی مجلسوں کو ترک کر دو جہاں سے تم بغیر لعنت کے اور کچھ لے کر نہ اٹھو.خدا تعالیٰ نے اس لئے فرمایا ہے.كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ (التوبہ: صادقوں کے ساتھ رہو.کیونکہ وہاں تو بجز صدق کے اور کوئی بات ہی نہ ہو گی.ایسی تمام مجلسوں سے الگ ہو جاؤ جہاں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا ذکر نہیں ہے.اور یہ بھی یاد رکھو کہ سوء ظن بہت بری چیز ہے.اس سے بہت بڑی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں.غیبت اور دروغ گوئی یہ اسی سوء ظن سے پیدا ہوتی ہیں.اس واسطے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا - إِيَّاكَ وَ الظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ (بخاری.کتاب الوصایا)، سوء ظن سے انسان بہت جھوٹا ہو جاتا ہے اور ظنون بجائے خود بھی جھوٹے ہوتے ہیں.میں نے دیکھا ہے کہ اس جھوٹ اور بدظنی سے بڑی ٹھوکریں لگتی ہیں اور انسان ہلاک ہو جاتا ہے.اس سے بچو! پھر بچو!! اور پھر بچو!!! اس معاملہ میں عورتوں اور مردوں میں ایک تفاوت ہے اور ان کے مراتب مختلف ہیں.عام طور پر عورتیں نَاقِصَاتُ الْعَقْلِ والدین کہلاتی ہیں.ایک عظیم الشان عورت کے متعلق خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں ذکر کیا ہے، میں کھول کر بتا دوں.حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے متعلق بعض نے سوء ظنی کی.اس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ صدیقہ کی تطہیر فرمائی اور ان بدظنی کرنے والوں کے لئے حکم آیا.لَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ (النور) یعنی جب عائشہ صدیقہ کی نسبت کوئی بات تم نے سنی تھی تو کیوں تم نے سنتے ہی نہ کہا کہ یہ بات تو منہ سے نکالنے ہی کے قابل نہیں.بلکہ تم یہ کہتے.سُبْحَانَكَ (النور :(۱۷) پاک ذات تو اللہ تعالیٰ ہی کی ہے.مگر هَذَا بُهْتَانُ عَظِيمُ (النور: ۱۷) یہ تو بہت ہی بڑا بہتان ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَعِظُكُمْ (النور (۱۸) اللہ تعالیٰ تمہیں وعظ کرتا ہے کہ ایسا پھر نہ کرنا.یہ ابد کے لئے حکم ہے کہ جب کسی کی نسبت کوئی ایسی بات سنو تو کہو کہ بہتان ہے.بدظنی کرنی شروع نہ کر دو.پھر یہ بھی فرمایا ہے کہ جو لوگ اس قسم کی بلاؤں میں گرفتار ہوتے ہیں یعنی دوسرے کو متہم کرتے ہیں وہ ہرگز نہیں مرتے جب تک خود اس اتمام کا شکار نہ ہو لیں.اس لئے یہ بڑے ہی خوف اور خطرے کا مقام ہے.افسوس ہے لوگ ان باتوں کو معمولی سمجھتے ہیں حالانکہ یہ بہت ہی ضروری امور ہیں.

Page 200

191 جہاں تک تم سے ہو سکے سعی کرو اور خدا تعالیٰ سے توفیق مانگو کہ وہ تمہیں سوء ظنی سے محفوظ رکھے.پھر اس کے بدنتائج غیبت دروغ گوئی ، دوسرے کی تحقیر، بہتان وغیرہ سے بچائے.غرض خدا تعالیٰ کے ماموروں اور ان فیوضات و برکات سے محروم رکھنے کے اسباب مختصر طور پر یہ ہیں.اباء، تکبر، اللہ تعالیٰ کے ساتھ وعدہ اور پھر اس کی خلاف ورزی، پھر جھوٹ.دیکھو تم جو احمدی کہلاتے ہو تمہاری ذمہ داری بہت بڑھی ہوئی ہے.تم نے وعدہ کیا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.تمہیں ہر وقت یہ وعدہ نصب العین رہنا چاہئے.کیسی وعدہ خلافی ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا وعدہ ہوا اور پھر سنتے ہی سوء ظنی پیدا ہو.اس کی ذرا بھی پروا نہ ہو کہ إِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيْثِ.میں سچ کہتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل دستگیری نہ کرے تو ایسے لوگ جو سوء ظنی کے مرض میں گرفتار ہیں وہ خودان سوء ظنیوں کا نشانہ ہو کر مرتے ہیں.پس خدا سے ڈرو اور اپنے اس وعدہ کا لحاظ کرو جو تم نے خدا کے مامور کے ہاتھ پر کیا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم کروں گا.انسان چاہتا ہے کہ دنیا میں معزز اور محترم بنے لیکن حقیقی عزت اور کچی تکریم خدا تعالیٰ سے آتی ہے.وہی ہے جس کی یہ شان ہے تُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ (ال عمران (۲۷) اور پھر حقیقی عزت انبیاء ورسل اور ان کے بچے اتباع کو دی جاتی ہے.وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ (المنافقون») ساری کی ساری عزتیں اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہیں اور بچے مومنوں کے لئے ہیں.ابراہیم علیہ السلام اسلام کی وجہ سے دنیا میں معزز اور مکرم ہوئے.إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ (البقرة: ۳۲) پھر وہ ابراہیم الَّذِي وَفَى (النجم:۳۸) جس نے خدا تعالیٰ کے ساتھ صدق و وفا کا پورا نمونہ دکھایا.إِذْ جَاءَ رَبَّهُ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ (الصافات: ۸۵٬۸۴) پس اس سے نتیجہ نکال لو کہ اللہ تعالیٰ تم سے کیا چاہتا ہے.کچی فرمانبرداری، صدق و وفاداری اور قلب سلیم.ان باتوں کے ساتھ وہ راضی ہوتا ہے.یہی باتیں ہیں جو اسلام تم کو سکھاتا ہے.انہیں کے احیاء کے لئے اس وقت خدا تعالیٰ نے تم میں اپنا مہدی اور مسیح نازل کیا ہے.ایسے دین میں ہو کر محرومی کے اسباب سے بچو.ان اسباب کا علم قرآن مجید میں موجود ہے جو قرآن شریف پر تدبر کرنے سے آتا ہے اور اس کے ساتھ تقویٰ کی بھی شرط ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ یہ باتیں درس تدریس سے نہیں آتیں.یہ علوم جو قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں درس تدریس سے آہی نہیں سکتے بلکہ وہ تقویٰ اور محض تقویٰ سے ملتے ہیں.وَاتَّقُوا اللَّهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللهُ (البقره: ۳۸۳) اگر محض درس تدریس سے آسکتے تو پھر قرآن مجید میں مَثَلُ الَّذِينَ حُمِلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوْهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ (الجمعه) کیوں

Page 201

ہوتا.سم 192 اس بارہ میں میں خود تجربہ کار ہوں.کتابوں کو جمع کرنے اور ان کے پڑھنے کا شوق جنون کی حد تک پہنچا ہوا ہے.میرے مخلص احباب نے بسا اوقات میری حالت صحت کو دیکھ کر مجھے مطالعہ سے باز رہنے کے مشورے دئے مگر میں اس شوق کی وجہ سے ان کے دردمند مشوروں کو عملی طور پر اس بارہ میں مان نہیں سکا.میں نے دیکھا ہے کہ ہزاروں ہزار کتابیں پڑھ لینے کے بعد بھی وہ راہ جس سے مولیٰ کریم راضی ہو جاوے اس کے فضل اور مامور کی اطاعت کے بغیر نہیں ملتی.ان کتابوں کے پڑھ لینے اور ان پر ناز کر لینے کا آخری ڈپلومہ کیا ہو سکتا ہے.یہی کہ فَرِحُوا بِمَا عِنْدَهُمْ مِنَ الْعِلْمِ (المومن : ۸۴) میرے ایک شیخ تھے.وہ فرمایا کرتے تھے کہ غَايَةُ الْعِلْمِ حَيْرَةٌ.غرض وہ بات جو خدا تعالیٰ کو پسند ہے جس سے وہ راضی ہو تا اور اپنے فضلوں سے انسان کو بہرہ مند کرتا ہے وہ نہ بہت باتوں سے مل سکتی ہے نہ بہت کتابوں کے پڑھنے سے.بلکہ وہ بات تعلق رکھتی ہے دل سے.وہ اس کی ایک کیفیت ہے جس کو عام الفاظ میں وفاداری، اخلاص اور صدق کہہ سکتے ہیں.اور یہ کیفیت پیدا ہوتی ہے ماموروں کی اطاعت سے اور کچی پیروی ہے.قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (ال عمران:۳۳) خدا تعالیٰ نے خود فیصلہ کر دیا ہے.اس فیصلہ کے بعد اور کیا چاہتے ہو.فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ (یونس:۳۳) ابراہیم علیہ الصلوۃ و السلام جس کی نسل سے ہونے کا آج سب سلطنتیں فخر کرتی ہیں اس نے اس راہ کو اختیار کیا.اس نے صدق دل سے اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ (البقرۃ:۳۲) کہا اور اسی ایک امر کی اولاد کو وصیت کی.نتیجہ کیا ہوا؟ خدا تعالیٰ نے اسے ایسا معزز و مکرم بنایا کہ اس کی اولاد کی گنتی تک نہیں ہو سکتی.وہ بادشاہ جو اس کے مقابلہ میں اٹھا آج کوئی اس کا نام تک بھی نہیں جانتا.یقیناً سمجھو اللہ تعالیٰ کسی کا احسان اپنے ذمہ نہیں رکھتا.وہ اس سے ہزاروں لاکھوں گنا زیادہ دے دیتا ہے جس قدر کوئی خدا کے لئے دیتا ہے.دیکھو! ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مکہ میں ایک معمولی کوٹھا چھوڑا تھا لیکن خدا تعالیٰ نے اس کی کس قدر قدر کی.اس کے بدلہ میں اسے ایک سلطنت کا مالک بنا دیا.حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک اونٹ چرانے والے کو کس وسیع ملک کا خلیفہ بنایا.جناب علی نے خدمت کی.اس کی اولاد تک کو مخدوم بنا دیا.غرض میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے حضور صدق و اخلاص سے چھوٹی سے چھوٹی خدمت بھی ہزاروں گنا بدلہ پاتی ہے.وہ تھوڑی سی بات کا بہت بڑا اجر دے دیتا ہے.پھر جو اس کے ساتھ سچا رشتہ عبودیت قائم کرتا ہے، اس کے عظمت و جلال سے ڈر جاتا ہے دین کو دنیا پر مقدم

Page 202

193 کرتا ہے جیسا کہ تم نے اپنے مرشد و مولی مهدی و صحیح کے ہاتھ پر اقرار کیا ہے تو خدا تعالیٰ اس کی تائید اور نصرت میں ایسا لگ جاتا ہے کہ کے پر چوں مہربانی می کنی آسمانی می کنی زمینی از کا اسے سچا مصداق بنا دیتا ہے.اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ تم سچ سچ وہ نمونہ دکھاؤ جو ابراہیم علیہ السلام نے دکھایا.کہنے والوں کی آج کمی نہیں.تم سے تمہارا امام عمل چاہتا ہے.عملی حالت درست ہو گی تو خدا تعالیٰ کے بڑے بڑے انعام و اکرام تمہارے شامل حال ہو جائیں گے.وہ ہزاروں ہزار ابراہیم بنا سکتا ہے.تم ابراہیم "بنو بھی.خلاصہ کلام یہ ہے کہ ابراہیم اور اس کے خاندان نے یہ مجرب نسخہ بتایا کہ تمہاری موت ایسی حالت میں ہو کہ تم مسلمان ہو.موت کا کیا پتہ ہے کہ کب آجاوے.ہر عمر کے انسان مرتے ہیں.بچے، بوڑھے، جوان ، ادھیڑ.موسم میں جو تغیر ہو رہا ہے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے انذار ہے.شروع سال میں زمینداروں سے سنا تھا کہ وہ کہتے تھے کہ اس قدر غلہ ہو گا کہ سمانہ سکے گامگراب وہی زمیندار کہتے ہیں کہ سردی نے فصلوں کو تباہ کر دیا ہے.آئندہ کے لئے خطرات پیدا ہو رہے ہیں.اس لئے یہ وقت ہے کہ تم خدا تعالیٰ سے صلح کر لو اور اس ایک ہی مجرب نسخہ کو ہمیشہ مد نظر رکھو کہ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ (البقرة: ۱۳۳) موت کی کوئی خبر نہیں.اس لئے ضروری ہے کہ ہر وقت مسلمان بنے رہو.یہ مت سمجھو کہ چھوٹے سے چھوٹے عمل کی کیا ضرورت ہے اور وہ کیا کام آئے گا.نہیں، خدا تعالیٰ کسی کے عمل کو ضائع نہیں کرتا.فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهُ (الزلزال:۸) ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میں جب کافر تھا تو اللہ کی راہ میں خیرات کیا کرتا تھا.کیا اس خیرات کا بھی کوئی نفع مجھے ہو گا؟ فرمایا اَسْلَمْتَ عَلَى مَا أَسْلَفْتَ (مسلم کتاب الایمان) تیری وہی نیکی تو تیرے اس اسلام کا موجب ہوئی.خدا تعالیٰ پر سچا ایمان لاؤ اور اس کی کچی فرمانبرداری کے نمونے سے ثابت کرو.ٹھیک یاد رکھو کہ ہر نیک پیج کے پھل نیک ہوتے ہیں.برے بیج کا درخت برا پھل دے گا:.گندم از گندم بروید جو ز جو از مکافات عمل غافل مشو

Page 203

194 مسلمان بنو.اسلم کی آواز پر اَسْلَمْتُ کا جواب عمل سے دو.دوست احباب‘ رشتہ داروں اور عزیزوں کو نصیحت کرو کہ اسلام اپنے عمل سے دکھاؤ.تمہیں خدا تعالیٰ نے بہت عمدہ موقع دیا ہے کہ ایک شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے اپنے وقت پر آیا جو راست بازوں کا پورا نمونہ ہے اور تم میں موجود ہے.وہ تم سے بھی چاہتا ہے کہ تم دین کو دنیا پر مقدم کرو.اس پر عمل کرو گے تو نا کام نہ رہو گے.مومن کبھی ناشاد نہیں رہ سکتا بلکہ سرا ہی بہشت میں رہتا ہے.اس کو دو بہشت ملتے ہیں.دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی.اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ ان باتوں پر عمل کریں.کثرت کے ساتھ استغفار کرو اور لاحول پڑھو.دعاؤں میں مصروف رہو ، پھر خیرات دو.خیرات بھی ہدایت کا ایک بڑا ذریعہ ہے.قرآن شریف عمل کے لئے ہدایت نامہ ہے.نبی کریم کی سنت موجود ہے.امام خود نمونہ ہے.وہ حکم ہو کر آیا ہے پس اس کے حکم کو مانو کہ تمہارا بیڑا پار ہو.ان لوگوں کے لئے جو یہاں رہتے ہیں اور احتیاجیں رکھتے ہیں ، نظر کرو.ان کی مدد کرو.ان ضرورتوں کو جو سلسلہ کی ضرورتیں ہیں جن کو ”فتح اسلام میں حضرت امام نے ظاہر کیا ملحوظ رکھو.مختلف وقتی ضرورتیں بھی پیش آجاتی ہیں ان کا بھی خیال رکھنا چاہئے.میں آخر میں حضرت امام کے حضور درد دل سے عرض کرتا ہوں کہ وہ ہمارے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالٰی ہماری کمزوریوں کو دور کرے.سب سے زیادہ میں دعا کا حاجت مند ہوں.اس لئے کہ اکثر لوگوں کو سناتا رہتا ہوں.پس اگر میرا ہی نمونہ اچھا نہ ہوا تو بہتوں کو ٹھوکر لگ سکتی ہے.اس لئے میرے لئے مالئے میرے.خاص طور پر دعا فرما دیں.اس کے بعد حضرت اقدس نے دعا کی.خطبہ ثانیہ میں آپ نے قربانی کے متلق مختصر احکام بیان فرمائے.ہم ل (الحکم جلد نمبر۷ ۲۴۰۰۰۰ فروری ۱۹۰۵ء صفحه ۷) ۲ (احکم جلد نمبر ۱۲----۱۰ار اپریل ۱۹۰۵ء صفحه ۶) الحکم جلد نمبر ۱۶---- ۱۰ مئی ۱۹۰۵ء صفحه ۵) که احکم جلد ۹ نمبر۱۷---- ۷ار مئی ۱۹۰۵ء صفحه ۶)

Page 204

۱۲۱ مئی ۱۹۰۵ء 195 خطبہ نکاح حضرت حکیم نورالدین صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی موجودگی میں بعد نماز ظہر باغ میں مندرجہ ذیل تین نکاحوں کا اعلان فرمایا.سید محمد ابن سید حامد شاہ سید عبد الحمید ابن سید حامد شاہ سید عبد السلام ابن سید محمود شاہ.تشہد، تعوذ اور آیات مسنونہ کی تلاوت کے بعد آپ نے فرمایا:.سنی شیعہ مقلد غیر مقلد اسلام کے تمام فرقوں کے درمیان یہ ایک متفق علیہ امر ہے کہ خطبہ نکاح کے وقت الْحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَنَسْتَغْفِرُ پڑھا جاتا ہے.اس میں اول جناب الہی کی حمد ہے جس نے فسق و فجور، زناکاری بد کاری سے ہم کو بچایا.جس طرح مرد پیدا کئے اسی طرح عورتیں بھی پیدا کیں اور زن و شوئی کا تعلق ان کے درمیان رکھ دیا.جو لوگ نکاح نہیں کرتے وہ حقیقی طور پر عورتوں کی بلکہ تمام نسل انسانی کی خیر خواہی نہیں کرتے اور نہ کر سکتے ہیں.نکاح انسان کو بہت سی بدیوں سے بچاتا ہے.لیکن یہ نعمت بغیر فضل الہی کے حاصل نہیں ہو سکتی.اس واسطے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنا ضروری ہے.کیونکہ یہ امر استعانت حق کے سوا حاصل نہیں ہو سکتا.پھر ان معاملات میں انسان کو بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں.بعض دفعہ بیوی مرد کی مرضی کے مطابق نہیں ہوتی یا مرد ایسا ہوتا ہے کہ

Page 205

عقبات نور 196 یہ تعلق ہمیشہ کے واسطے بیوی کے لئے ایک دکھ اور تکلیف کا موجب بن جاتا ہے.اس واسطے اس موقع پر استغفار کا سبق دیا گیا ہے.بعض غلطیوں کے بد نتائج کے سبب وہ اغراض پورے نہیں ہوتے جن کے واسطے یہ تعلقات پیدا ہوئے ہیں.ان سب کا علاج استغفار ہے.جناب الہی میں استغفار کرنا تمام انبیاء کا ایک اجماعی مسئلہ ہے.استغفار تمام انبیاء کی تعلیم کا خلاصہ ہے اور اس کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ گزشتہ غلطیوں کے بد نتائج سے بچاوے اور آئندہ غلطیوں میں پڑنے سے بچائے.خدا تعالیٰ نے اس تعلق کی حفاظت کے لئے بڑی تاکید فرمائی ہے.نکاح کے تعلقات میں اگرچہ احباب نے حضرت امام علیہ السلام کے منشاء کے مطابق پورے طور پر کارروائی شروع نہیں کی پھر بھی بعض بہت ہی اخلاص رکھنے والے دوست ہیں جو چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد کے نکاح حضرت امام کی موجودگی میں اس جگہ قادیان میں پڑھے جائیں تاکہ آپ کی دعاء و برکت سے یہ تعلقات ثمرات خیر کا باعث ہوں.چنانچہ ایسے ہی مخلص دوستوں میں سید حامد شاہ صاحب اور ان کے والد حکیم حسام الدین صاحب اور سید خصیلت علی شاہ صاحب مرحوم ہیں جن کی اولاد کے نکاح اس وقت آپ صاحبان کے سامنے باندھے جاتے ہیں.سید حامد شاہ صاحب کے لڑکے محمد کا نکاح سید فصیلت علی شاہ صاحب مرحوم کی لڑکی رفعت نام کے ساتھ کیا گیا.لڑکے کی طرف سے مولوی عبد الکریم صاحب وکیل ہیں اور لڑکی کی طرف سے شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر.(۲) سید حامد شاہ صاحب کے لڑکے عبد الحمید کا نکاح سید خصیلت علی شاہ صاحب مرحوم کی لڑکی مریم کے ساتھ کیا گیا.لڑکے کی طرف سے وکیل مولوی عبد الکریم صاحب اور لڑکی کی طرف سے شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر ہیں.(۳) سید حکیم حسام الدین صاحب کے پوتے عبدالسلام پسر سید محمود شاہ صاحب مرحوم کا نکاح سید خصیلت علی شاہ صاحب مرحوم کی لڑکی فضیلت کے ساتھ کیا گیا.آپ دعا کریں کہ جس غرض سے یہ نکاح اس جگہ کئے گئے ہیں وہ حاصل ہو اور میاں بیوی کے تعلقات میں برکت ہو.نیک اولاد آگے ہو جس سے لاکھوں صلحا آگے پیدا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور دیگر احباب نے دعا کی اور پھر چھوہارے تقسیم کئے گئے.اس امر کا بیان کرنا فائدہ سے خالی نہ ہو گا کہ لڑکیاں اور لڑکے اور ان کے ولی بعض وجوہات سے خود قادیان میں حاضر نہیں ہو سکتے تھے لیکن ان کی دلی خواہش تھی کہ یہ نکاح قادیان میں ہو اور ایسے جلسہ میں ہو جس میں خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام موجود ہوں.چنانچہ یہ درخواست سیالکوٹ سے یہاں حضرت کی خدمت میں آئی.)

Page 206

197 حضرت اقدس نے فرمایا کہ یہ شرعی مسئلہ ہے.بذریعہ تحریر اجازت کے بعد اس جگہ نکاح ہو سکتا ہے.چنانچہ اس کے مطابق نکاح ہوا.حسن اتفاق سے مکرمی مخدومی شیخ رحمت اللہ صاحب بھی اس جگہ تشریف لائے ہوئے ہیں.شیخ صاحب موصوف کو سید فصیلت علی شاہ صاحب مرحوم کے ساتھ ایک خاص محبت و اخلاص کا تعلق تھا.خدا نے یہ عجیب اتفاق پیدا کر دیا کہ وہ ان کی لڑکیوں کی طرف سے وکیل بنے.( بدر جلد نمبر۷ ۱۸۰۰۰ تا ۲۴ / مئی ۱۹۰۵ء صفحه ۶)

Page 207

۲۷ اپریل ۱۹۰۶ء 198 خطبه جمعه تشهد تعوذ اور تسمیہ کے بعد آپ نے سورۃ آل عمران کی حسب ذیل آیات تلاوت فرمائیں.قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَ اللهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ قُلْ اَطِيْعُوا اللَّه وَالرَّسُوْلَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْكَفِرِينَ - إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَّالَ إِبْرَهِيْمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَلَمِيْنَ - ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ وَ اللهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ - إِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرُنَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنّى إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيْمُ - فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا أُنْثَى وَ اللهُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنْثَى وَ إِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ وَ إِنِّي أُعِيْدُهَا بِكَ وَ ذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّحِيمِ فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ وَّ أَنْبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَّ كَفَّلَهَا زَكَرِيَّا كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًا قَالَ يُمَرْيَمُ أَنَّى لَكِ هَذَا قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ (ال عمران: ۳۲ تا ۳۸).

Page 208

199 اے سامعین! قرآن مجید ایک ایسی زندہ کتاب ہے کہ اس کے برکات اور فیوض قیامت تک باقی رہیں گے اس لئے اس کی نسبت فرمایا گیا ہے.اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّالَهُ لَحَافِظُونَ (الحجر:).اور اس کی مثال اس طرح پر فرمائی گئی ہے ضَرَبَ اللهُ مَثَلاً كَلِمَةً طيبةً كَشَجَرَةٍ طيبة أَصْلُهَا نَابِتْ و فَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ تُؤْتِى أُكُلَهَا كُلَّ حِيْنِ بِإِذْنِ رَبِّهَا (ابراهیم:۲۵).پس سرا سر جھوٹے ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ دروازہ مکالمات الہیہ و الہامات ربانیہ کا امت محمدیہ پر بند کیا گیا ہے.خواہ آیات قرآن مجید کی الہام ہوں یا دوسری عبارات ہوں، ہرگز یہ دروازہ بند نہیں ہوا.وَلِلَّهِ الْحَمْدُ.ہمارا اعتقاد ہے کہ قرآن مجید زندہ کتاب ہے، دین اسلام زندہ مذہب ہے ، نبی کریم زندہ نبی ہیں اور جو قصص قرآن مجید میں بیان فرمائے گئے ہیں ان کے نظائر و امثال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بھی موجود ہوئے اور قیامت تک ان کے نظائر اسلامی دنیا میں واقع ہوتے رہیں گے.یعنی اللہ تعالیٰ کسی کو اتباع اپنے حبیب سے اپنا محبوب بنا لیتا ہے.کسی کو آدم صفت نوح صفت ابراہیم صفت اور انبیائے آل ابراہیم کی صفت، آل عمران یعنی مریم اور عیسیٰ کی صفت کر دیتا ہے اور کسی کو مثیل ذکریا گردانتا ہے حتی کہ جری اللَّهِ فِي حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ کا لقب عطا فرما دیتا ہے.اور یہ سب امور قرآن مجید کے احکام کی فرمانبرداری اور اتباع کامل نبی کریم سے حاصل ہوتے ہیں.وَنِعْمَ مَا قِيلَ بر کے چوں مہربانی میکنی از زمینی آسمانی میکنی لیکن بغیر اتباع کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا.فَإِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ (ال عمران: ۳۳) واضح ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت یہود بڑے بڑے دعاوی کرتے تھے حتی کہ کہتے تھے کہ نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَاحِبَّاوة (المائدة:1).ان کے حق میں یہ آیت زیر تفسیر نازل ہوئی ہے کہ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم! ان یہودیوں سے تم کہہ دو کہ اگر اللہ تعالیٰ کی محبت کا تم دعوی کرتے ہو تو تم میری پیروی کرو کہ اللہ بھی تم کو اپنا دوست کر لیوے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دیوے گا کیونکہ اللہ بخشنے والا اور مہربان ہے.فائدہ: اللہ تعالیٰ کی محبت اپنے بندہ متبع کے ساتھ یہ ہے کہ جو منافع دین و دنیا کے اس بندہ کے لئے ضروری ہوں یا اس کے لئے جو فوائد دارین کے مناسب ہوں ان کو پہنچاتا رہے اور جو لوگ اس کی اتباع میں حارج ہو کر طرح طرح کے ضرر پہنچانا چاہتے ہیں خود انہیں کو معرض مضار اور مورد ذلت اور

Page 209

200 رسوائی کا کر دیوے.چنانچہ جن صحابہ کرام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا اتباع کیا ان کے مخالفین ذلیل و رسوا ہو کر ہلاک اور تباہ ہو گئے اور متبعین کاملین حسب الحکم آیت مذکورہ دین اور دنیا کے مالک کہلائے گئے.چونکہ آیت ہذا میں جو پیشین گوئی مندرج ہے وہ پورے طور پر واقع ہوئی لہذا یہ آیت ایک نشان نبوت کا ہو گئی.اور یہی آیت حضرت مسیح موعود کو الہام ہوئی تھی جس کو مدت تخمینا چوبیں سال کی ہو گئی ہے.دیکھو اس وقت کو اور اس وقت کو کیسی کیسی نفرتیں اس کے شامل حال ہوئی ہیں اور ہوتی ہیں اور مخالف اس کے کیسے کیسے ذلیل وخوار ہوتے جاتے ہیں.ایک طرف تو نظارہ يُحْبِبْكُمُ اللهُ (ال عمران :۳۲) کا نظر آ رہا ہے اور دوسری طرف فَإِنَّ اللهَ لا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ (ال عمران:۳۳) کا نظارہ موجود ہے.رحمت الله این عمل عمل را در وفا لعنت الله آن عمل را قفا در بعض منافقین نے اس حکم تاکیدی اتباع پر یہ شبہ پیدا کیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنی اطاعت کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت قرار دیتے ہیں اور اپنی محبت کو اللہ تعالیٰ کی محبت کہتے ہیں.اس سے تو لازم آتا ہے کہ جس طرح نصاری نے حضرت عیسی کو خدا قرار دے رکھا ہے یہ بھی اپنے تئیں اللہ قرار دینا چاہتے ہیں.جواب یہ دیا گیا کہ اطاعت تو اللہ تعالیٰ ہی کی ہے.مگر اس کی اطاعت کیونکر ہو سکتی ہے؟ اس کا طریق یہ ہے کہ کوئی ایسا واسطہ موجود ہو کہ ایک لحاظ سے ہم جیسا بشر ہو اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کو ایسا قرب حاصل ہو کہ رسالت اس کے احکام کی کر سکے جس کو دوسرے لفظوں میں رسول کہتے ہیں.تو اس لئے ارشاد ہوتا ہے کہ ان سے کہہ دو کہ میری متابعت بحیثیت رسول ہونے کے ں ہونے کے تم پر واجب ہے نہ اس حیثیت سے جس طرح نصاریٰ حضرت عیسی کی نسبت کہتے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میں رسول ہوں.اس لئے واسطے اطاعت اللہ تعالیٰ کے میرا اتباع تم پر لازم ہے.اگر اس فہمائش اور ہدایت کو بھی نہ مانیں اور روگردانی کریں جو موجب کفر ہے تو بے شک اللہ تعالیٰ ایسے کافروں کو دوست نہیں رکھتا.چنانچہ اس عدم محبت کا نتیجہ یہ ہوا کہ تمام مکذبین اور کافرین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ہی یا تو تباہ اور ہلاک ہو گئے یا جن کی قسمت میں تھا اسلام میں داخل ہو گئے.علیٰ ہذا القیاس هَلُمَّ جَرا- مسیح موعود کے زمانہ تک کہ بحکم حدیث صحیح مسلم لَا يَحِلُّ لِكَافِرٍ أَنْ تَجِدَ رِيحَ نَفْسِهِ إِلَّا مات کے اس کے مکذبین اور کمفرین بھی رسوا اور تباہ ہو گئے اور ہو رہے ہیں.پس بلحاظ اس کے کہ یہ

Page 210

201 پیشین گوئی لطیف مندرجہ آیت پوری ہوئی، اب آگے اہل کتاب کا وہ استبعاد رفع کیا جاتا ہے جو ان کو حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بارہ میں تھا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے تمام جہان کے لوگوں پر آدم اور نوح اور خاندان ابراہیم اور خاندان عمران کو چن لیا ہے.کیونکہ یہ سب اولاد آدم کی ہیں کہ بعض ان کے بعض کی نسل سے ہیں اور اللہ ہی سب کچھ سننے والا اور جانے والا ہے.فائدہ.مراد یہ ہے کہ یہ امر تمہارے نزدیک مسلمات سے ہے کہ حضرت آدم جس طرح پر ابوالبشر ہیں اسی طرح ابو الانبیاء بھی ہیں.یعنی نور اصطفا کا اولا ان میں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اور چونکہ لائق اولاد اپنے باپ کی وارث ہوتی ہے اس لئے ضروری ہوا کہ نور نبوت کا ان کی اولاد لا ئق کو بھی پہنچے.چنانچہ ایسا ہی کچھ ہوا کہ آدم کی اولاد میں شیث سے لے کر حضرت ادریس تک وہ نور نبوت منتقل ہو تالا ئق اولاد میں چلا آیا.اور اصطفا سے ہم نے نور نبوت اس لئے مراد لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انٹی اصْطَفَيْتُكَ عَلَى النَّاسِ بر سلتی (الاعراف: ۱۳۵ یا حضرت ابراہیم اور اسحاق و یعقوب کے بارہ میں فرماتا ہے وَإِنَّهُمْ عِنْدَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفَيْنَ الْأَخْيَارِ (ص) (۳۸) پس مراد اصطفا سے وہی نور نبوت اور رسالت کا ہے جو آدم ثانی حضرت نوح کو بھی حاصل ہوا.حتی کہ حضرت نوح سے ابراہیم کو مرحمت ہوا.بعدہ حضرت ابراہیم کی اولاد میں حضرت اسمعیل و اسحاق کو ملا جو آل ابراہیم سے ہیں.حضرت اسحاق کی اولاد میں یعقوب ہوئے یعنی اسرائیل جس کی اولاد میں کثرت سے انبیاء پیدا ہوئے اور حضرت عیص بھی یعقوب کی اولاد میں ہیں جن کی ذریت میں کثرت سے بادشاہ ہوئے.بالاخر چونکہ عہد عقیق میں اللہ تعالیٰ نے حضرت اسمعیل اور اسحاق دونوں سے تو رات میں وعدہ کیا تھا لہذا وہ وعدہ پورا ہو تا ہو اپنی اسرائیل میں چلا آیا حتی کہ بالآخر بموجب وعد ہائے تو رات کے بنی اسمعیل میں سے حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم کو وہ نور نبوت تامہ اور نیز خلافت عامہ کا مرحمت ہوا اور کیونکر نہ ہوتا کہ حضرت اسمعیل بھی آل ابراہیم میں داخل ہیں اور آل ابراہیم کے لئے وعدہ ہو چکا ہے.پس اس دلیل.جو مسلمہ اہل کتاب ہے لازم آیا کہ بنی اسمعیل " میں بھی وہ وعدہ اصطفا اس شان سے پورا ہووے کہ تدارک مافات کا کر دیوے.اور مافات یہ ہے کہ جس طرح سے من ابتدائے حضرت یعقوب " تا عیسی کثرت سے انبیاء بنی اسرائیل میں ہوتے چلے آئے اور بنی اسمعیل میں کوئی نبی اولو العزم پیدا نہیں ہوا تو نی اسمعیل میں ایک ایسانی عظیم الشان سید المرسلین و خاتم النبین پیدا ہو وے جو سب انبیاء بنی اسرائیل پر فائق ہو جاوے.چنانچہ اس وعدہ کے پورا ہونے سے ان وعدوں مندرجہ تو رات کی تصدیق ہو گئی جو بڑے زور و شور سے تو رات میں اب تک موجود ہیں.یہ ایک بڑی حجت ہے آنحضرت کی تصدیق نبوت

Page 211

202 پر، جس کا جواب اہل کتاب سے ہرگز نہیں ہو سکتا ہے.قال الله تعالى رَبَّنَا وَابْعَثُ فِيهِمْ رَسُولاً مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (البقرة:١٣٠) سوال.اصطفائے آل عمران کو آخر میں بیان کرنے کی بظاہر کوئی ضرورت نہیں معلوم ہوتی کیونکہ آل عمران یعنی حضرت عیسی اور مریم بنی اسرئیل میں سے ہیں جو آل ابراہیم میں داخل ہو چکے ہیں.پھر آل عمران کو مکرر آخر میں کیوں بیان کیا گیا؟ جواب.اس تکرار میں ایک سریہ ہے کہ امت محمدیہ میں سے بھی آخر زمانہ میں ایک مثیل عیسی اور نیز مثیل مریم علم الہی میں پیدا ہونے والے تھے جس کو اللہ تعالیٰ نے بطور مثل کے مومنوں کے لئے سورہ تحریم میں اس طرح پر بیان فرمایا ہے.وَ مَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرُنَ الَّتِي اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِنْ رُوحِنَا وَ صَدَّقَتْ بِكَلِمْتِ رَبِّهَا وَ كُتُبِهِ وَكَانَتْ مِنَ الْقَانِتِينَ (التحریم:۳۳).چنانچہ اس زمانہ آخری میں عیسی اور مریم" کے نام سے ایک مجدد عظیم الشان پیدا ہوا.پس اس لئے آل عمران یعنی عیسی اور مریم کو باوجود داخل ہونے کے بنی اسرائیل میں دوبارہ جو آل ابراہیم سے ہیں آخر میں ذکر فرمایا گیا.اور اسی لئے حضرت مریم اور عیسی کی نسبت فرمایا گیا ہے کہ وَجَعَلْنَاهَا وَابْنَهَا آيَةً لِلْعَالَمِينَ (الانبیاء:۹۲).اس آیت میں اگر تھوڑا غور کیا جاوے تو معلوم ہو گا کہ حضرت عیسی اور مریم نہ اپنے زمانہ میں آيَةً لِلْعَالَمِيْنَ ہوئے اور نہ بعد اپنے زمانہ آيَةً لِلْعَالَمِينَ ہونا ان کا ظاہر ہوا ہاں البتہ ان کا ايَةً لِلْعَالَمِيْنَ ہونا اللہ تعالٰی کی طرف سے قرآن مجید میں نازل ہوا تھا.اس لئے کلام نبوت میں عیسی موعود کے نزول کی پیشگوئی آخر زمانہ کے لئے بیان فرمائی گئی اور اس زمانہ آخری میں اپنے وقت پر ایک مجدد بنام عیسی و مریم پیدا ہوا جس کے سبب سے حضرت عیسی اور مریم “ کا نام نامی تمام عوالم میں روشن ہو گیا اور جو شرک اور بدعت حضرت عیسی یا مریم" کے نام سے دنیا جہان میں پیدا ہو گیا تھا جس کے سبب ان کے آیت ہونے میں بھی شبہات پیدا ہوئے تھے اس عیسی موعود نے اس سب کا محو کر دینا چاہا ہے تاکہ عیسی و مریم جو بندگان مقبول الہی میں سے تھے آيَةً لِلْعَالَمِينَ ہو جاویں.پس یہ سر تھا آل عمران کو آخر میں مکرر ذکر فرمانے کا.وَهُذَا مَا الْهَمَنِي رَبِّي وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ.اور یہی معنی ہیں اس شعر کے جو کہا گیا ہے.ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو اس بہتر غلام احمد ہے

Page 212

203 مطلب یہ ہے کہ ایک مرد کامل امت محمدیہ کے طفیل سے حضرت عیسی کا نام دنیا جہان میں روشن ہو گیاور نہ اہل کتاب نے جو یہود و نصاری بد نام کنندہ نکونامے چند ہیں بسبب اپنے کفرو شرک کے اور اپنی بداعمالیوں کے سبب حضرت عیسی کا نام تو میٹنا ہی چاہا تھا بلکہ میٹ چکے تھے مگر ایک غلام احمد نے ان کے نام کو دنیا جہان میں روشن کر دیا.پس ایک فرد کامل امت محمدیہ میں سے ان کے نام کے ساتھ مبعوث ہوا اور اس سے امت محمدیہ کو کوئی فخر حاصل نہیں ہوا بلکہ حضرت عیسی کو اس بعثت مسیح موعود سے فخر حاصل ہوا ہے.وَالْحَمْدُ لِلَّهِ- قَالَ اللهُ تَعَالَى كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ (ال عمران ).اسی لئے آگے اس کے حضرت مریم کی ولادت اور دیگر فقص متعلق اس کے بیان فرمائے جاتے ہیں اور تاکیداً ارشاد ہوتا ہے کہ ان قصوں کو یاد کرتے رہو ایسا نہ ہو کہ بھول جاؤ کہ عمران کی زوجہ نے کہا کہ اے میرے پروردگار! میرے پیٹ میں جو بچہ ہے تیری نذر کیا.دنیا کے کاموں سے آزاد کیا گیا.پس اے پروردگار میرے! تو میری طرف سے یہ نذر قبول فرما.بے شک تو ہے سب کچھ سنتا.- سب کی نیتوں کو جانتا ہے.فائدہ: بنی اسرائیل میں یہ دستور تھا کہ ماں باپ اپنے بعض لڑکوں کو اپنی خدمتوں سے آزاد کر کر اللہ تعالیٰ کی نذر کر دیتے تھے اور تمام عمر دنیا کے کاموں میں نہیں لگایا کرتے تھے.ہمیشہ مسجد میں عبادت کے لئے یا مسجد کی خدمت کرنے کے لئے اور دینیات کے درس کرنے کے لئے چھوڑ دیتے تھے.عمران کی زوجہ حنا کو جب حمل ہوا تو اس نے حالت حمل ہی میں واسطے خالص رضامندی اللہ تعالٰی کے اول ہی سے یہ نذر کرلی تھی تاکہ مادر زاد ولی پیدا ہو مگر حالت حمل سے ہی شریعت اسلام میں یہ دستور تو نہیں ہے.لیکن اللہ تبارک و تعالی خود کسی شخص کو برگزیدہ کر کر خالص خدمت دین ہی کے لئے چن لیتا ہے اور اس کی فطرت اور جبلت ہی ایسی پیدا کرتا ہے کہ دنیا کے کاموں کی طرف اس کو رغبت ہی نہیں ہوتی جیسا کہ کلام نبوت میں وارد ہوا ہے.إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مِّنْ يُعَلَّدَ لَهَا دِينَها (سنن ابوداود کتاب الملاحم و الفتن) اور یہی مراد ہے مولانا روم کے اس شعر سے، اولیاء را کار عقبی اختیار اشقیاء انبیاء اشقیاء در را کار دنیا اختیار کار دنیا جبریند در کار عقی جبر مند

Page 213

204 حضرت مریم کی والدہ نے حالت حمل ہی میں یہ نذر کر کر یہ دعا کی کہ فَتَقَبَّلُ مِنی.اس میں سریہ تھا کہ ان کی تمنا دلی یہ تھی کہ وہ بچہ پیٹ ہی میں اللہ تعالیٰ کا مقبول اور محبوب ہو جاوے جس کو عرف میں مادر زاد ولی کہتے ہیں.اسی لئے انہوں نے دو صفتوں سمیع و علیم کا بیان کیا کہ جس اخلاص سے میں نے تیری جناب میں یہ دعا کی ہے تیرے سوا اور کوئی اس کا سننے والا نہیں اور جو میری تمنائے دلی ہے اس کا علیم و خبیر تیرے سوا اور کوئی نہیں ہے.یہ قصہ حضرت مریم کی والدہ کے نذر کرنے کا اس لئے یاد دلایا گیا کہ وہاں تو حضرت حنا کی دعا سے مریم کو پیدا کیا تھا اور امت محمدیہ میں حسب الحکم آیت سورہ تحریم کے ہم خود ایک ایسا غلام احمد پیدا کریں گے کہ مریم صفت ہو کر دین محمدی کا ایسا خادم ہو گا کہ دنیا کے کاموں سے بالکل آزاد اور محرر ہو گا اور اللہ تعالیٰ کا محبوب اور مقبول ہو گا.اس لئے الہامات میں اس مسیح موعود کا نام مریم بھی آیا ہے.معنی مریم کے کتب لغات میں خادم کے ہی لکھے ہیں.یعنی خادم احمد یا غلام احمد یہ دونوں جو قریب المعنی ہیں.اب فرمایا جاتا ہے کہ پس جبکہ جنا اس کو.کہا.اے رب میرے تحقیق میں نے جنا اس کو لڑکی اور اللہ کو بہتر معلوم ہے جو کچھ جنی.اور بیٹا نہیں ہے مانند اس بیٹی کے اور تحقیق میں نے نام رکھا اس کا مریم اور میں تیری پناہ میں دیتی ہوں اس کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے.فائدہ: حنا والدہ مریم کو یہ خیال تھا کہ میرے شکم میں لڑکا ہی ہے اور لڑکا ہی محرر کیا جاتا تھا جبکہ ان کے لڑکی پیدا ہوئی تو ان کو یہ خیال آیا کہ شاید میری نذر قبول نہ ہوئی کیونکہ لڑکی واسطے خدمت بیت المقدس کے یا دیگر خدمات دینیہ کے لئے محرر نہیں ہو سکتی.اس لئے جناب باری میں یہ عذر کیا یا بسبب حسرت کے یہ مقولہ کہا ہو.مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس کی قدر و عزت خوب جاننا ہے اور لڑکا اس لڑکی کی برابری نہیں کر سکتا.تفسیر کبیر وغیرہ میں اس کی دو تو جیہیں لکھی ہیں.اول تو یہ کہ تفضیل لڑکے کی لڑکی پر مراد الہی ہے.دوسرے یہ کہ تفضیل اس لڑکی کی لڑکے پر مقصود ہے.پس کلام الہی دونوں تو جیہوں کو متحمل ہے.یہ کلام جو زوالوجین فرمایا گیا اس میں سر یہ ہے کہ امت محمدیہ میں جو خیر الامم ہے ایک مجدد عظیم الشان بنام مریم علم الہی میں مذکر آنیوالا تھا جو دین محمدی کو زندہ کرے گا.لہذا ایسا کلام ذو الوجهین فرمایا گیا کہ دونوں وجہوں پر صادق آسکے.ہاں اس قدر فرق ہے کہ وہاں تو والدہ مریم نے ہی لڑکی کا مریم نام رکھا تھا اور یہاں پر اللہ تعالیٰ نے خود بذریعہ الہام کے اس مجدد عظیم الشان کا نام مریم رکھا اور چونکہ یہ مجدد ایک لڑکی کے ساتھ تو ام پیدا ہوا اور وہ لڑکی توام انہیں ایام میں وفات پاگئی لہذا اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فعل سے بھی یہ شہادت دی کہ اب دین عیسوی باقی نہ رہے گا.(جس میں محض مادہ اناث ہے کیونکہ عیسی صرف مریم کے مادہ ہی سے پیدا ہوئے تھے اور مرد کا اس میں

Page 214

205 کچھ دخل نہیں تھا بلکہ دین محمدی اس لڑکے سے زندہ کیا جاوے گا اور مادہ اناث فوت ہو جاوے گا.کیونکہ لَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنثى (ال عمران:۳۷) اور یہی مراد ہے اس شعر سے جو حضرت اقدس نے فرمایا ہے کہہ ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو اس بہتر غلام احمد ہے لیکن ہاں چونکہ حضرت اقدس بنی اسرائیل میں سے ہیں لہذا دعا حضرت حنا کی اس لڑکی کے حق میں بھی ، جس کا نام خود اللہ تعالیٰ نے مریم رکھا ہے، قبول فرمائی گئی اور کیونکر قبول نہ فرمائی جاتی کہ یہاں پر تو خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہی نام اس کا مریم رکھا ہے.معنی مریم کے خادمہ کے ہیں یعنی خادمہ دین اور پھر دیکھو دوسری قدرت اللہ تعالیٰ کی کہ والدین سے جو اس کا نام اللہ تعالیٰ نے رکھوایا وہ بھی ہم معنی مریم کے رکھوایا یعنی غلام احمد قادیانی جس میں اس کے سن بعثت کی تاریخ کا پتہ بھی بتلا دیا گیا.اور پھر اس مریم اور اس مریم میں ایک اور فرق بین ہے.پہلی مریم تو خادمہ مسجد ہی تھیں اور یہ مریم جو غلام احمد ہے خادم دین اللہ الاسلام اور مجدد دین احمد علیہ السلام ہے.وَشَتَّانِ بَيْنَهُمَا وَلَنِعْمَ مَا قِيلَ.حج زیارت کردن خانه بود حج البيت مردانه بود پہلی مریم تو صرف خانہ خدا کی خدمت کے لئے پیدا کی گئیں اس لئے وہ انٹی رہی اور دوسرے مریم جو غلام احمد ہے دین اللہ کی خدمت اور تائید اسلام کے لئے مبعوث ہوئے اس لئے وہ مردانہ ہوئے.پہلی مریم نے مسجد اقصیٰ کی بنیاد نہیں ڈالی تھی بلکہ صرف خادمہ تھیں.لیکن غلام احمد نے قادیان میں مسجد اقصی کی بنیاد قائم کی.پہلی مریم نے اپنی ذریت کے لئے مُخلِصالِلہ دعا کی تھی تب قبول ہوئی تھی اور غلام احمد کی ذریت کے انبات حسن" ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ نے خود الہاما اس کو اطلاع دی.چنانچہ فرمایا جاتا ہے.پس اس کے پروردگار نے مریم کو خوشی سے قبول فرمالیا اور اگایا اس کو اچھا اگانا" یعنی اس کی ذریت میں سے ایک فرزند کامل پیدا کیا.فائدہ:.یعنی وہاں پر حضرت عیسی کو پیدا کیا اور یہاں پر نفخ روح کر کر خدا نے اسی مریم کی ذات کو عیسیٰ كرديا وَجَعَلْنَاكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَریم اور پھر علاوہ اس پر اس کی اولاد میں سے ایک فرزند کامل مکمل

Page 215

206 پیدا کیا جس کی نسبت الہامات تمام دنیا میں شائع ہو چکے ہیں.تنبیہ: جس طرح پر کہ اولاد صالح سے دنیا میں نام نیک مشہور ہوتا ہے اسی طرح پر سنت الہی یہ ہے کہ کسی کامل مکمل کے نام پر کسی زمانہ آخری میں کسی شخص کو اللہ تعالیٰ مبعوث فرماتا ہے تاکہ دوبارہ اس کو زندگی بخشے اور اس پہلے شخص کا نام دنیا میں نیک نامی کے ساتھ مشہور اور روشن ہو جاوے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایک فرد کامل کو امت محمدیہ میں سے بنام مسیح و مریم اس آخر زمانہ میں مبعوث فرمایا تاکہ جس قدر شرک اور بدعات کفر جو ان کی طرف اقوام عیسائیاں یا دیگر اقوام منسوب کرتے ہیں ان سے ان کو تطہیر فرما دیا جاوے.کما قال الله تعالى يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَ جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ (ال عمران:۵۴).اور یہی سر تھا اس آیت کے الہام ہونے کا جو مدت سے براہین احمدیہ میں شائع ہو چکا ہے.وَلَنِعْمَ مَا قِيلَ نام نیک رفتگان ضائع مکن C بماند نام نیکت یادگار اور اب یہ الہام قرآنی ذیل کا بھی پورا ہو گیا کہ حضرت مریم اور حضرت عیسی کی نسبت جو فرمایا گیا ہے وَجَعَلْنَاهَا وَابْنَهَا آيَةً لِّلعَلَمِيْنَ (الانبياء:۹۲) - سبحان الله ! یہ کلام الہی کیسا صادق اور مصدوق ہوا ہے ورنہ کوئی مخالف ہی ہم کو بتا دے کہ حضرت عیسی باوجود اس کے کہ مدتہائے دراز سے ان کے نام کے ساتھ تمام دنیا میں شرک کیا جا رہا ہے، وہ کیونکر تمام عالموں کے لئے آیت اللہ ہو سکتے ہیں.آگے فرمایا جاتا ہے کہ حضرت زکریا کو مریم کا خبر گیر اور تربیت کنندہ کر دیا.جب ان پر زکریا محراب میں داخل ہوتے پاتے ان کے پاس رزق.کہتے کہ اے مریم کہاں سے آیا تیرے پاس یہ رزق؟ تو مریم کہتیں کہ یہ اللہ کے پاس سے آیا ہے.تحقیق اللہ رزق دیتا ہے جس کو چاہے بے حساب.فائدہ:.پس وہاں پر حضرت مریم حضرت زکریا کی کفالت میں کی گئیں.یہاں پر یہ مریم یعنی غلام احمد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت تربیت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کئے گئے.وگر استاد را نامے ندانم که خواندم در دبستان محمد فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ وَ تَعَلَّمَ.وہاں تو حسب روایات مفسرین کے غیر موسم کے میوہ جات ہی آتے تھے یہاں

Page 216

207 > پر علاوہ ان میوہ جات غیر موسمی کے میوہ جات غذائے روحانی اور ثمرات نورانی و فرقانی جن سے تمام حقائق اور معارف اسلام کے منکشف ہوتے چلے جاتے ہیں، متواتر آ رہے ہیں.وہاں تو اقلام احبار میں سے صرف زکریا کا قلم فائق رہنے سے حضرت مریم ہی حضرت ذکریا کی کفالت میں کی گئی تھی کہ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلَامَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ (ال عمران:۴۵)، اور یہاں پر اس کے اقلام کے ذریعہ سے وہ کلمات اللہ جن کی نسبت وارد ہے کہ وَلَوْاَنَّ مَا فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلَامُ وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمَتُ اللهِ (لقمان: ۲۸).کل دنیا میں سات سمندروں پار تک پہنچائے جاتے ہیں کیونکہ ظہور القلم اس کے لئے حدیث میں موجود ہے.وہاں پر مریم کے پاس اگر جسمانی رزق صرف مریم کے لئے بے حساب آتا تھا یہاں پر علاوہ اس رزق جسمانی بے حساب کے رزق روحانی و قرآنی بے حساب تمام عالم کو پہنچایا جاتا ہے کہ يَأْتِيكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيْنِ وَيَأْتُونَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ (براہین احمدیہ).اب خلاصة المقال یہ ہے کہ اگر یہ مسیح موعود بنام عیسی و باسم مریم اس آخر زمانہ میں مبعوث بنی اسرائیل میں سے نہ ہو تا تو اصطفا آل عمران کا جو بنی اسرائیل میں سے ہیں کل عالمین پر کیونکر ثابت ہوتا اور پھر اصطفانی اسمعیل کا جو آل ابراہیم سے ہیں اس وقت کل عالمین پر کیونکر واضح ہو تا.پس ثابت ہوا کہ اصطفا آل عمران کا حسب بیان مذکور مستلزم ہے اصطفا بنی اسمعیل و بنی اسرائیل کو.اور اصطفا دونوں کا مستلزم ہے اصطفا آل ابراہیم کا.نتیجہ یہ ہوا کہ یہ جملہ اصطفا مستلزم ہیں اصطفا محمد رسول اللہ ، خاتم النبین رحمۃ للعالمین کو.وھو المد علہ کرامت گرچه بے نام و نشان است بیا بنگر ز علمان محمد اللّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيْمَ وَ عَلَى الِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ.الحکم جلد ۱۰ نمبر۱۷ ---- ۷ار مئی ۱۹۰۶ء صفحہ ۸ تا ۱۰) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 217

۴ر مئی ۱۹۰۶ء 208 خطبه جمعه تشهد و تعوذ کے بعد آپ نے سورۃ آل عمران کی حسب ذیل آیات تلاوت فرمائیں.اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُنْ مِّنَ الْمُمْتَرِينَ - فَمَنْ حَاجَّكَ فِيْهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَ كَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاتَنَا وَ ابْنَا نَكُمْ وَنِسَآئِنَا وَنِسَائِكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَةَ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ - إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْقَصَصُ الْحَقُّ وَ مَا مِنْ إِلَهِ إِلَّا اللّهُ وَ اِنَّ اللّهَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ - فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ - قُلْ يُاَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَلا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَ لاَ يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ (ال عمران: ۶۱ تا ۶۵) اور پھر فرمایا :.پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس سورۃ مبارکہ کا نام آل عمران ہے.وجہ تسمیہ اس کی اس نام کے ساتھ

Page 218

209 یہی ہے کہ اس سورۃ متبرکہ میں آل عمران کا اصطفا قریب اسی آیتوں میں بیان فرمایا گیا ہے اور جو نزاع اور اختلاف در میان اہل کتاب یہود اور نصاری کے واقع تھے ان کا فیصلہ مسلمات اہل کتاب سے بدلائل بینہ کیا گیا.اور حق الامر کے دلائل دیتے ہوئے استدلال کا وہ اسلوب حسن اختیار کیا گیا ہے کہ آئندہ زمانوں میں قیامت تک جو نزاع درباره آل عمران یعنی حضرت عیسی اور ان کی والدہ کے واقع ہو اس کا فیصلہ بھی انہیں دلائل مندرجہ آیات سے بخوبی ہو سکتا ہے.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ.ان آیات سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی کی نسبت یہ وعدہ فرمایا ہے کہ تم کو صلیب کی موت سے جو بموجب حکم تو رات کے لعنتی موت ہے بچایا جاوے گا اور تمہاری موت توفی کی موت ہوگی جس میں تم کو رفع الی اللہ یعنی قرب الہی حاصل ہو گا اور منکرین کے الزامات بیجا سے تم کو پاک کیا جاوے گا اور تمہارے مخالفین کافرین کو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی عذاب شدید کے ساتھ معذب کیا جاوے گا اور تمہارے موافقین مومنین اور متبعین کو مانند تمہارے رفع اور فوقیت مخالفین کافرین پر عطا کی جاوے گی.جس طرح پر کہ حضرت آدم کو یہ مراتب بشری یا اصطفا کے ہماری طرف سے عنایت ہوئے تھے اسی طرح تم کو بھی حاصل ہوں گے وغیرہ وغیرہ جو اوپر کی آیات میں مفصل مذکور ہے.اب ان آیات میں فرمایا جاتا ہے کہ یہ سب ادلہ اور جملہ امور جو حضرت عیسی کے بارہ میں مذکور کئے گئے حق اور ثابت شدہ صداقتیں ہیں تیرے رب کی طرف سے جو تیری تربیت کا ذمہ دار اور تعلیم کنہ اشیاء کا متکفل ہے.اس لئے شک کرنے والوں میں سے نہ ہونا.سوال.انبیاء علیہم السلام کو وحی الہی میں کب شک ہوا کرتا ہے خصوصاً حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو شک کیونکر ہو سکتا ہے جس کی نہی فرمائی گئی ؟ الجواب.بادشاہ کا جو خطاب سپہ سالار فوج کو امریاضی ہوا کرتا ہے مراد اس خطاب سے غالبا اس سپہ سالار کی فوج اور لشکر ماتحت اس کا ہوتا ہے.اس طرح پر اگر چہ خطاب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو ہے مگر اس خطاب سے مراد آپ کی امت ہے اور ایسے خطاب میں ایک عجیب نکتہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ان امور مذکورہ میں شک کرنا مذموم اور محذور میں اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ جس شخص سے اس میں شک کرنے کا گمان بھی نہیں ہو سکتا اس کو بھی نہی فرمائی گئی چہ جائیکہ اس شخص کے جس کو شک کرنے کے لئے شیاطین الجن والانس سامان و اسباب شک کرنے کے مہیا کرتے رہتے ہوں.اور آنحضرت کی نسبت امکان شک کا نہ ہونا اس امر سے ظاہر ہے کہ باوجود یکہ اہل کتاب یہود و نصاری اناجیل اور طالمود سے طرح طرح کی روایات اپنے اپنے مذہب کی تائید میں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے روبرو پیش کرتے

Page 219

210 تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو امر حق پر اس قدر یقین کامل تھا کہ آپ مباہلہ کے لئے مستعد ہو گئے.جیسا کہ اس زمانہ آخری میں بھی مسیح موعود کے مخالفین پیچھے پڑے اور تکفیر نامے لکھے اور شور قیامت برپا کر کر ان کے روبرو احادیث موضوعہ اور روایات کاذبہ اپنے مذہب کی تائید میں پیش کی گئی ہیں.مگر نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ذرہ بھر شک پیدا ہوا اور نہ مسیح موعود کو کسی طرح کا شک وشبہ اپنے دعاوی میں پیدا ہوا.اسی لئے مسیح موعود نے بھی یہ آیت مباہلہ حسب درخواست مخالفین کے پیش کر دی ہے.اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بھی ایک عالم پر اس ا الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ کی حقیقت منکشف ہو گئی تھی اور اس زمانہ آخری میں بھی حقیقت ان دعاوی مسیح موعود کی جو مضمون آیات ما سبق کی موید اور مبین ہیں، ایک عالم پر واضح ہوتی چلی جاتی ہے لہذا یہ آیت بسبب وقوع اپنے مضمون کے ایک نشان نبوت کا بھی ہو گئی اَلْحَمْدُ لِلَّهِ.اور چونکہ تفسیر کبیر وغیرہ میں اس آیت کی ترکیب میں یہ بھی لکھا ہے وَقَالَ اخَرُونَ الْحَقُّ رَفَعَ بِأَضْمَارِ فِعْلٍ أَيْ جَاءَ كَ الْحَقُّ اندرین صورت یہ آیت ایک صریح پیشین گوئی ہو گئی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بھی واقع ہوئی اور اس زمانہ آخری میں بھی بڑے زور شور سے واقع ہو رہی ہے.اس لئے یہ آیت ہمہ وجوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے اثبات کے لئے ایک بڑا نشان ہے.اب بعد اتمام حجت کے جو دلائل علمیہ سے بیان فرمائے گئے اور دلائل علمیہ کا بیان انتہا درجہ کو پہنچ گیا تب بھی مخالفین نے تسلیم نہ کیا تو فرمایا جاتا ہے کہ جو شخص اس کے بعد عیسی کے بارہ میں کٹ حجتی کرتا رہے تو آخری فیصلہ یہ ہے کہ ان سے کہہ دو کہ آجاؤ.ہم اپنے بیٹوں کو بلاویں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ اور ہم اپنی عورتوں کو اور تم اپنی عورتوں کو اور ہم اپنے نفسوں کو شریک کریں اور تم اپنے نفسوں کو.پھر ہم سب مل کر تضرع اور زاری کے ساتھ دعا کریں.پس جھوٹوں پر خدا کی لعنت ڈالیں.فائدہ: یہ قصہ مباہلہ کا نصاریٰ نجران کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو پیش آیا تھا جن میں ساٹھ سواروں کا وفد مع لاٹ پادری سید اور عاقب کے جو بڑے ذی رائے تھے موجود تھا.جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مناظرہ فرما کر بخوبی ان پر اتمام حجت فرمایا تب بھی انہوں نے امر حق اور صداقت ثابت شدہ کو تسلیم نہ کیا.تب بالآخر مجبور ہو کر مباہلہ کی آیت پیش کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تیار ہوئے اور اپنے اہل بیت یعنی صاحبزادی حضرت فاطمہ الزہرا اور ہر دونوں بیٹوں حسنین کو اور حضرت علی داماد کو لے کر مباہلہ کے لئے موجود ہوئے کیونکہ نصاریٰ نجران نے حضرت کا بہت پیچھا کیا تھا.آغاز سورۃ آل عمران کا قریب اسی آیتوں کے اسی مناظرہ اور مباہلہ کے بیان میں نازل ہوا ہے.یہ مناظرہ

Page 220

211 ضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک بڑا عظیم الشان مناظرہ واقع ہوا تھا جس کی نوبت بالآخر مباہلہ تک پہنچی تھی مگر نصاریٰ نجران اس مباہلہ سے ایسے خوف زدہ ہو گئے کہ جو ان میں بشپ اور لاٹ پادری مسمی عاقب و سید وغیرہ موجود تھے انہوں نے اپنے ہمراہیوں سے کہا جن میں قریب ساٹھ سواروں کے بھی تھے کہ یا معشر النصاری! یہ تو وہی بچے نبی معلوم ہوتے ہیں جن کی نبوت کی خبر عہد عتیق اور عہد جدید میں موجود ہے اور جو دلائل انہوں نے پیش کئے ہیں وہ منقوض نہیں ہو سکتے.اندریں صورت اگر ہم مباہلہ کریں گے تو بالضرور ہم ہلاک اور تباہ ہو جاویں گے.اگر تم کو اپنے ہی دین کی محبت ہے تو لوٹ چلو اور ان سے کچھ تعرض مت کرو اور نہ ان سے لڑو.یہ دونوں پادری بڑے ذی رائے تھے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل بیت مذکورین سے فرما رہے تھے کہ جب میں دعا کروں تو تم آمین کہنا.اس وقت ان کے بشپ لاٹ پادری نے اپنے ہمراہیوں سے یہ بھی کہا کہ میں ان لوگوں کے چہرے ایسے دیکھتا ہوں کہ اگر یہ لوگ پنج تن کسی پہاڑ کا اپنی جگہ سے ٹلا دینا بھی اللہ تعالیٰ سے چاہیں گے تو وہ پہاڑ بھی ٹل جاوے گا.فَلَا تَبَا هَلُوا فَتَهْلِكُوا.غرضیکہ ان نصاریٰ نجران نے پھر تو نہ مباہلہ کرنا چاہا اور نہ لڑنا چاہا بلکہ بالآخر جزیہ دینا قبول کیا.سال بھر میں دو مرتبہ یعنی ماہ صفر میں ایک ہزار حلہ اور ماہ رجب میں ایک ہزار حلہ اور خالص لوہے کی عمدہ تھیں ذرہ.اگر چہ اس قوم نصاریٰ نجران سے مباہلہ واقع نہیں ہوا مگر یہ واقعہ جو اس آیت اور احادیث میں مذکور ہے آپ کی حقیت نبوت کے لئے مفسرین ایک بڑی دلیل مثبت لکھتے ہیں.روایات میں یہ بھی واقعہ ہوا ہے کہ حضرت نے فرمایا کہ اہل نجران نصابی سے عذاب بہت قریب ہو گیا تھا.اگر وہ مباہلہ کرتے تو ان پر عذاب نازل ہو جاتا.وَلَمَّا حَالَ الْحَوْلُ عَلَى النَّصَارَى كُلِّهِمْ حَتَّى يَهْلِكُوا (بخاری کتاب مناقب انصار).اور یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود جو حضرات عیسائیوں کو مدت دراز سے اسلام کی طرف دعوت کر رہے ہیں لیکن کوئی عیسائی صاحب خواہ بشپ ہو یا لاٹ پادری اس میدان لق و دق میں قدم رکھنا نہیں چاہتے کیونکہ جانتے ہیں کہ ہم اہل اسلام کے مقابلہ مباہلہ میں ہرگز ہرگز کامیاب نہ ہو دیں گے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے مذہب کی پردہ دری ہو جاوے گی.مگر اس امتناع کے لئے ایک عذر بار دیہ بنالیا ہے کہ ہمارے مذہب میں مباہلہ جائز نہیں ہے.ہاں یہ فیصلہ الہی ہے اور وہ صادق و کاذب کو خوب جانتا ہے اور خود آپ بڑا زبردست عزیز و حکیم اور علیم بالمفسدین ہے.وہ تو فیصلہ صادق ہی کے حق میں کرے گانہ کاذب کے حق میں.جیسا کہ اس نے ان آیات مباہلہ کے آگے ان صفات کا ذکر اسی لئے فرمایا ہے.

Page 221

212 سوال : اگر کہا جاوے کہ بعض کفار نے تو خود چاہا تھا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دعاوی میں حق پر ہیں تو ہم مکذبین پر یا اللہ ! عذاب نازل فرما تب بھی کوئی عذاب نازل نہیں ہوا تو پھر مبالہ پر کیونکر عذاب نازل ہوتا.كَما قال الله تعالى حكاتِنَا عَنْهُمْ اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِكَ فَأَمْطِرُ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاء أو الينا بِعَذَابٍ أَلِيم وَمَا كَانَ اللهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ (انفال:۳۴۲۳).پس ان دونوں آیتوں میں توفیق کیا ہو گی؟ الجواب: آیات مباہلہ اور ان آیات مندرجہ میں کچھ بھی منافات نہیں ہے کیونکہ ان آیات میں ایک خاص عذاب کے نزول کے لئے دعا کی گئی تھی یعنی آسمان سے مثل بارش کے پتھروں کا برسنا جس سے عام ہلاکت بلکہ استیصال عام متصور ہے.دوسرا عذاب اس عذاب سے بھی زیادہ تر مولم مانگا تھا.سو قدیم سے اللہ تعالیٰ کی یہ سنت نہیں ہے کہ قبل قیامت ایسے عذاب دنیا میں فوری نازل فرما دیوے کیونکہ ایسے عذابوں کے انزال میں خواہ کفار کی درخواست سے ہو دیں یا کسی فرضا مامور من اللہ کی دعا سے ہو دیں ایمان بالغیب کی حکمت باقی نہیں رہ سکتی اور مع ہذا ایسے عذاب کے انزال سے اجبار اور اکراہ اور الجا لازم آتا ہے جو دین اسلام میں ہرگز موجود نہیں ہے لا اكراة في الدِّينِ (البقرة: ۳۵۷).ہاں کسی کاذب پر لعنت کا پڑتا جس سے ذلت یا رسوائی ہو اور ایمان بالغیب کی حکمت تلف نہ ہو وے اور اکراہ والجا بھی لازم نہ آوے ہوا کرتا ہے.چنانچہ مخالفین انبیاء پر ایسے عذاب ذلت واقع ہوتے رہے ہیں اور ہو دیں گے.حتی کہ کاذب کی موت بھی مباہلہ میں شرط نہیں ہے کیونکہ منشا اہل مباہلہ کا صرف کاذب پر وقوع لعنت کا ہے خواہ کسی طرح سے ہو.یہ اس علیم وخبیر کے اختیار میں ہے کہ بقدر تکذیب و تشد د مخالفین کے وہ لعنت کسی عذاب مسلک سے ہی واقع ہو.موت ہو یا قتل وغیرہ.پس ایک خاص عذاب کذائی کی نفی اور لعنت الہی کے ثبوت میں کوئی منافات نہیں ہے کیونکہ ایمان بالغیب کی حکمت کے مانع نہیں اور اجبار بھی اس میں نہیں ہو سکتا.چنانچہ سرداران مکہ میں سے ایک شخص مسمی نفر بن حارث تھا اور نیز ابو جمل جس نے یہ دعا کی تھی کہ اللهُمَّ إِنْ كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقُّ (انفال:۳۳).تو دیکھو جنگ بدر میں ابو جہل تو عذاب قتل میں مبتلا ہوا بسبب اپنے تشدد کے اور نضر بن حارث باوجودیکہ قیدیوں میں قید ہو کر آیا تھا.دوسرے قیدی تو فدیہ لے کر چھوڑ دئے گئے تھے مگر نضر بن حارث بایں وجہ قتل کیا گیا کہ قرآن مجید کی شان میں بڑی بڑی گستاخیاں کیا کرتا تھا اور سخت معاند تھا.تو یہ دونوں منجملہ ستر مقتولوں کے عذاب قتل میں اس لئے جتلا ہوئے کہ یہ بھی اہل اسلام کے قتل کے درپے تھے ورنہ مسالہ

Page 222

213 خطبات اور میں کاذب کا قتل ہو جانا مر جانا شرط نہیں.صرف وقوع لعنت الہی کا ہی ہو خواہ کسی طرح ہو.اور عذاب قتل جو بموجب پیشین گوئی ملم ربانی کے واقع ہو جس میں دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کا قتل کرنا بطور ذب کے چاہتا ہے ایسا عذاب نہیں ہے جس میں ایمان بالغیب کی حکمت باقی نہ رہتی ہو یا اجبار لازم آوے.الحاصل مباہلہ میں کاذب پر لعنت کا وقوع ضروری ہے خواہ کسی رنگ میں ہو.مباہلہ میں ایسا عذاب جس میں مثل بارش کے آسمان سے پتھر برسنے لگیں یا اس سے بھی زیادہ مولم ہو جس میں کوئی متنفس نہ بچ سکے نازل نہیں ہوتا کہ سنت اللہ کے خلاف ہے.اسی لئے ان دونوں آیتوں کے آگے ہی دوسرے عذابوں کے ثبوت کے لئے اللہ تعالی فرماتا ہے کہ وَمَالَهُمْ أن لا يعلتهُمُ الله وَهُمْ يَصُدُّونَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ (انفال (۳۵) یعنی اور کیا ہے واسطے ان کے کہ نہ عذاب کرے گا ان کو اللہ اور وہ رد کتے ہیں مسجد حرام ہے.اور پھر اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے جو یہ قید لگائی کہ وَأَنْتَ فِيهِمْ وہ بھی ایسے ہی عذاب کذائی کے عدم نزول کی طرف اشارہ کر رہی ہے یعنی جبکہ ایسا عذاب نازل ہو دے گا تو پھر اس کا اثر تم کو بھی پہنچے گا.لہذا ایسے عذاب کا نازل کرنا ہماری سنت قدیمہ کے خلاف ہے.اس آیت مباہلہ کی مناسبت ساتھ زمانہ مسیح موعود کے عجیب و غریب اسلوب سے واقع ہوئی ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بھی یہ مسالہ حضرت عیسی ہی کے بارہ میں واقع ہوا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بعد اتمام حجت اور اتمام مناظرات کے یہ مباہلہ واقع ہوا تھا.یہاں پر بھی بعد مناظرات اور تمام حجت کے واقع ہوا.نصاریٰ نجران کے خوف زدہ ہو کر مہابلہ پر آمادہ نہ ہوئے یہاں پر بھی اوائل میں شیخ الکل معہ اپنی جماعت کے مباہلہ نہ کر سکے بلکہ مولوی محمد حسین صاحب بھی مباہلہ پر مستعد نہ ہو سکے.اور اگرچہ آیت ہذا مباہلہ کی نصرانیان نجران کے حق میں وارد ہوئی تھی مگر دیگر اقوام قریش مثل ابو جهل وغیرہ سے بھی آپ کا مباہلہ واقع ہوا.دیکھو کتب سیر کو.اسی طرح پر مسیح موعود کا مباہلہ بھی علاوہ طرفداران عیسی کے دیگر اقوام سے بھی حسب درخواست مخالفین کے واقع ہوا ہے جیسا کہ لیکھرام وغیرہ.اور جنہوں نے خود درخواست کر کر مباہلہ کیا وہ بقدر اپنے اپنے تشدد اور سختی کے لعنت الہی میں مبتلا ہوئے ، خواہ ذلت و رسوائی ہو یا ہلاکت ہو.جس طرح پر مفسرین نے اس مباہلہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اثبات کیا ہے اسی طرح پر ان مباہلوں سے مسیح موعود کے دعاوی کا اثبات ہوا کیونکہ نتیجہ ان مباہلوں کا حسب دعاوی مسیح موعود کے واقع ہوا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ.اور اگر کوئی مخالف ان مباہلوں کو بعد وقوع نتائج کے بھی نہ مانے تو وہ بتادے کہ پھر صادق اور کاذب میں کیا مابہ الامتیاز رہے گا اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے

Page 223

214 ثبوتوں میں سے ایک بڑا ثبوت، جس کو قرآن مجید میں بڑی عظمت شان سے بیان فرمایا گیا ہے، ضائع ہو جاوے گا بلکہ چند آیات کریمہ قرآن مجید کی متعلق مباہلہ کے نعوذ باللہ لغو ہو جاویں گی وَتَعَالٰی شَانُ كَلَامِهِ تَعَالَى عَنْ ذَلِكَ عُلُوًّا كَبِيرًا.اور ناظرین کو خوب معلوم رہے کہ ان مباہلوں کا نتیجہ یا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں واقع ہوا تھایا بعثت مسیح موعود کے زمانہ میں ہوا ہے.اس تیرہ سو برس میں کسی مجدد کے وقت میں ایسے مباہلات واقع نہیں ہوئے اور نہ اس کے نتائج.پس ان آیات کا نشانات واسطے نبوت خاتم النبیین کے ہونا بھی ثابت ہوا ثُمَّ الْحَمْدُ لِلَّهِ اب فرمایا جاتا ہے کہ جو دلائل اور مضامین اوپر مذکور ہوئے ، وہی اخبار اور قصص حقہ ہیں جو پے در پے بیان کئے گئے ہیں.اور سوائے اللہ کے اور کوئی معبود نہیں ہے اور بے شک اللہ ہی البتہ زبردست اور حکمت والا ہے.حال میں چراغ دین جموں پر بموجب پیشین گوئی مندرجہ ”دافع البلا" کے اس ابنا اور سنا یعنی دختر اور خود اس کے نفس پر پورا اثر واقع ہوا اور کوئی کلمہ آیت مباہلہ کا خالی نہ گیا.فائدہ ذکر کرنے صفت عزیز و حکیم کا یہ ہے کہ جو روایات اسرائیلی یا اکاذیب مخالف علم الہی ہیں ، وہ محض غلط ہیں ایہ اور عیسی میں کوئی صفت یا صفات مختصہ الہیہ میں سے موجود نہیں تھے کیونکہ پھر تو اللہ تعالیٰ کی عزت اور عزیز ہونے میں فرق آجاوے گا اور شان عیسوی ، حضرت ابو البشر اور خاتم النبین سے بھی بڑھ جاوے گی جو خلاف مقتضائے حکمت اس حکیم بر حق کے ہے.اب باوجود اس قدر اتمام حجت کے جس کی نوبت مباہلہ تک پہنچ گئی ہے اگر اب بھی اس حق کے قبول کرنے سے وہ لوگ اعراض کریں تو سمجھ لو کہ ان کی نیتوں میں فساد ہے.دوسروں کے عقائد حقہ کو بھی فاسد کو نا چاہتے ہیں.اندریں صورت اللہ سے بھاگ کر کہاں جاسکتے ہیں کیونکہ مفسدوں کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے یعنی ان کے فسادوں کی ضرور سزا دیوے گا.چنانچہ وہ سزا مفسدین کے لئے دنیا میں بھی واقع ہوئی جو نشان نبوت صادقہ کا ہے.اب چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ایمان لانے پر کمال درجہ کے حریص تھے باوجود یکہ تمام مدارج تبلیغ اور مناظرات کے مباہلہ تک ختم فرما چکے تھے تو بھی ان کی تبلیغ یا فمایش و ہدایت نہ کرنا آپ کا قلب مبارک گوارا نہ کر سکتا تھا.اس لئے اللہ تعالیٰ حسب خواہش آپ کے جو علیم بسرائر الضمائر ہے، ایک دوسرا طریق تبلیغ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتا ہے کہ اگر تم مباہلہ پر بھی آمادہ نہیں ہوتے تو اے اہل کتاب! آؤ ایسی بات کی طرف رجوع کرو جو ہمارے تمہارے درمیان میں برابر مسلم ہے.ایک تو یہ کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں.دوسرے یہ کہ کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہرا دیں.تیسرے یہ کہ خدا کے سوا بعض ہمارا بعض کو رب نہ قرار دیوے.پس اگر ایسی سیدھی کچی بات فریقین

Page 224

215 کی متفق علیہ سے بھی روگردانی کرو تو اے مسلمانو! تم کہہ دو کہ تم تو بالضرور دین اسلام سے جو دین اللہ ہے خارج ہو گئے.گواہ رہو کہ ہم تو مسلمان فرمانبردار ہیں تاکہ یہ گواہی تمہاری باعث ہماری نجات کا اور موجب تمہاری ہلاکت کا ہو جاوے.چنانچہ مسلمون بالآخر کامیاب ہو گئے اور یہ آیت بھی ایک نشان کامل نبوت کا ہو گئی.ان آیات میں بتدریج تمام عجیب طرح سے ارشاد و ہدایت میں مبالغہ فرمایا گیا ہے.اولاً حضرت عیسی کے حالات اور جو ان پر واردات واقع ہوئی تھی ان کو بیان فرمایا کیونکہ وہ تمام حالات منافی الوہیت کے ہیں.اور پھر توحید اسلامی پر دلائل قاطعہ بیان فرمائے گئے.لیکن طرف مخالف سے بجز عناد کے تسلیم و انقیاد کا کہیں نشان نہ پایا گیا.تب مباہلہ کی نوبت پہنچی لیکن انہوں نے مباہلہ سے بھی عاجز ہو کر جزیہ دینا قبول کیا.پھر بالآخر ایسے تین امور کی طرف دعوت کی گئی ہے کہ وہ تینوں امر متفق علیہ فریقین کے ہیں.تاہم ایسے مفید ہیں کہ اگر وہ تینوں امر قبول کر لئے جاویں تو تمام نزاعات رفع ہو سکتے ہیں.امر اول یہ ہے کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کسی غیر اللہ کی عبادت نہ کی جاوے جس کی طرف تورات وانا جیل اور قرآن مجید بالاتفاق ہدایت فرما رہے ہیں.یہ ایک ایسا امر ہے کہ اگر اس کو بصدق دل قبول کر لیا جاوے تو تمام اختلافات بیرونی و اندرونی کا اس سے فیصلہ ہوا جاتا ہے.دوسرا امر یہ ہے کہ اللہ کی ذات، صفات اور افعال میں غیر اللہ کو شریک نہ کیا جاوے.یہ امردوم بھی ایسا ایک کلیہ ہے کہ تمام جھگڑوں کا فیصلہ کرتا ہے اور چونکہ یہ تمام شرکیہ عقائد یا اعمال و اقوال بدعیہ جو دنیا میں جاری ہیں، ان کا بڑا سبب یہ ہے کہ اقوال علماء کے جو بدعیہ ہیں اور افعال احبار کے جو شرکیہ ہیں ان کے ساتھ تمسک کیا جاتا ہے، جس سے ایک خلقت گمراہ ہو گئی ہے لہذا تیسرا امر فیصلہ کن یہ ہے کہ علماء اور احبار کو اپنا رب نہ قرار دیا جاوے.اس طرح پر کہ ان کے اقوال اور اعمال اور روایات کا ذبہ کے تقلید واجب سمجھی جاوے.کیونکہ علماء اور احبار کے اقوال یا اعمال کی تقلید واجب سمجھنا بموجب حدیث ذیل عدی بن حاتم کے ان کو اپنا رب قرار دینا ہے.تفسیر ابو السعود وغیرہ تفاسیر اور کتب احادیث میں یہ حدیث لکھی ہوئی ہے کہ لَمَّا نَزَلَتِ اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّنْ دُونِ اللَّهِ قَالَ عَدِيُّ بْنُ حَاتَمَ مَا كُنَّا نَعْبُدُهُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ عَلَيْهِ السَّلَامُ أَلَيْسَ كَانُوا يُحِلُّونَ لَكُمْ وَيُحَرِّمُونَ فَتَاخُذُونَ بِقَوْلِهِمْ قَالَ نَعَمْ قَالَ عَلَيْهِ السَّلَامُ هُوَ ذَاكَ سُبْحَانَ اللَّهِ - يه مینوں کلمے جو ان آیات میں مذکور ہوئے ہیں، اگر کوئی انسان ان تینوں کو اپنا متمسک گردان کردستور العمل اپنا قرار دے لیوے تو تمام بدعات اور عقائد باطلہ شرکیہ اور اعمال بدعیہ سے نجات پا کر صراط مستقیم پر

Page 225

خطبات توب 216 لگ جاوے.اس مسیح موعود کے جو مخالفین ہیں، انہوں نے بھی ان کلیات سہ گانہ پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے.اس لئے فنی كُلِّ وَادٍيَّهِيمُونَ (الشعراء ۳۲۲) کے مصداق ہو رہے ہیں اور لطف یہ ہے کہ مسیح موعود کی دعوت اور تبلیغ بھی اسی ترتیب سے واقع ہوئی ہے جو سورۃ آل عمران میں واقع ہوئی ہے اور یہ بھی ایک شہوت ہے اس کے مریم اور عیسی موعود ہونے کا کیونکہ مریم اور عیسی آل عمران سے تھے، ان کی نسبت اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ وَجَعَلْنَاهَا وَ ابْنَهَا آيَةٌ لِلْعَالَمِينَ (الانبياء:۹۲).لیکن ظاہر ہے کہ یہ پیشین گوئی مندرجہ آیت کی کہ تمام عوالم کے لئے ان دونوں کا وجود ایک نشان ہو جاوے گا، پہلے زمانہ میں تو واقع نہیں ہوئی.اول تو ان دونوں کو یہود نے تہمت ناجائز کے ساتھ متم کیا اور نصاریٰ نے حضرت عیسی کو تین روز تک ملعون قرار دیا.پھر تمام عالم میں ان کے بارہ میں شرک شائع ہو گیا حتی کہ وہی شرک اہل اسلام میں بھی سرایت کر گیا.پھر وہ دونوں تمام عالموں کے لئے نشان الہی کیونکر ہو گئے.مگر علم الہی میں ضروری تھا کہ تمام عالموں کے لئے یہ ایک نشان ہو جاویں گے لہذا حسب وعدہ الہی ان کے نام کے ساتھ نامزد ہو کر امت محمدیہ میں سے ایک ایسا مجدد عظیم الشان آیات و نشانات کے ساتھ مبعوث فرمایا گیا کہ ان کے نام کو تمام دنیا میں اور ان کی عظمت اور کرامت کو مع توحید الہی اور تکریم حضرت رسالت پناہی کے روشن کر رہا ہے.صدق الله تَعَالَى وَجَعَلْنَاهَا وَابْنَهَا آيَةً العلمین.اور یہی سر ہے اس آخر زمانہ پر فتن میں ایک مجدد کے مبعوث ہونے کا بنام عیسی بن مریم.ورنہ مخالفین ہم کو اس آیت کے معنی بتادیں کہ حضرت مریم اور عیسی تمام عالموں کے لئے کیونکر آیت اللہ ہو سکتے ہیں.مگر ان کی قطعیت وفات ملحوظ رہے.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۱۶ ۱۰۰۰۰ مئی ۱۹۰۶ء صفحه ۹ تا ۱)

Page 226

ار مئی ۱۹۰۶ 217 خطبہ جمعہ تشهد و تعوذ کے بعد آپ نے سورۃ الاعراف کی حسب ذیل آیات تلاوت فرمائیں.واتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ الَّذِى اتَيْنُهُ ابْتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْهَا فَاتْبَعَهُ الشَّيْطَنُ فَكَانَ مِنَ الْغَوِيْنَ - وَ لَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَهُ بِهَا وَ لَكِنَّهُ أخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ َو اتَّبَعَ هَوَيهُ - فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِنْ تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَتْ أوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَثْ ذَلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِأَيْتِنَا فَاقْصُصٍ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ - سَاءَ مَثَلاً ب َالْقَوْمُ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِأَيْتِنَا وَأَنْفُسَهُمْ كَانُوا يَظْلِمُونَ - مَنْ يُهْدِ اللهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِى وَ مَنْ يُضْلِلْ فَأُولئِكَ هُمُ الخَسِرُونَ - (الاعراف: ۱۷۲ تا ۱۷۹) اور پھر فرمایا:.واضح ہو کہ تکذیب کے دو درجے ہیں.اول درجہ تکذیب کا تو یہ ہی ہے کہ انسان اپنی فطرت صحیحہ کو کھو بیٹھے جو عطیہ الہی ہے اور اس کو محض بیکار کر دیوے کیونکہ ہر ایک انسان ذوالعقل کی بناوٹ اللہ تعالی نے ایسی بنائی ہے کہ بغیر پہنچنے رسولوں کی رسالت کے حکم كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ

Page 227

218 خالق (بخاری.کتاب الجنائز) کے اللہ تعالیٰ کی توحید اور ربوبیت خالصہ کو سمجھ سکتا ہے.ورنہ اس کی کیا وجہ کہ فونوگراف کا بنانیوالا یہ تو یقیناً جانتا ہے کہ بغیر کاریگر کے فونوگراف خود بخود نہیں بن سکتا، پھر یہ کیوں کر ہو سکتا ہے کہ انسان حیوان ناطق، جس کو اپنے وجود اور تربیت میں ہر لحظہ اور ہر آن میں ایک اور رب کی سخت ضرورت ہے، وہ خود بخود موجود ہو گیا ہو اور خود بخود اس نے تمام مراتب تربیت انسانیت کے حاصل کر لئے ہوں؟ دیکھو جس وقت انسان محض نطفہ تھا، مع ہذا اس میں یہ تمام قومی ظاہری اور باطنی اور اعضائے جسمی موجود تھے جو اب پیدا ہو گئے ہیں.پس وہ نطفہ ہی بزبان حال گواہی دے رہا ہے کہ ایک خالق اور رب اس کا بالضرور ایسا موجود ہے جس نے اس نطفہ میں یہ تمام اعضائے جسمی اور قوائے ظاہری اور باطنی، ہاں اس میں مرکوز رکھے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلی آیت السْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوابلى (الاعراف: ۱۷۳) میں اس امر کو واضح طور پر بیان فرما دیا ہے.پس جبکہ فطرت انسانی ہی اس طرح کی واقع ہوئی ہے جو ابتدائی حالت نطفگی سے ایک خالق و رب کا وجود ضروری سمجھتی ہے تو اسی فطرت صحیحہ کی طرف رجوع نہ کرنا اور اس کی شہادت کو دوبارہ توحید اور ربوبیت خالصہ الہی کے قبول نہ کرنا یہ بھی تکذیب ہے اور اس تکذیب پر بھی کوئی عذر إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ (الاعراف:۱۷۳) کا مسموع نہ ہو وے گا اور نہ تقلید آباء و اجداد کی کہ إِنَّمَا أَشْرَكَ ابَاوِنَا مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِنْ بَعْدِهِمْ (الاعراف: ۷۴) عذر ہو سکے گا.دوسرے درجہ کی تکذیب جو اس سے قباحت میں بہت بڑھ کر ہے یہ ہے جو ان آیات مذکورہ میں بیان فرمائی گئی ہے کہ اے پیغمبر! ان لوگوں پر اس شخص کا حال بھی تلاوت کر کر سنا دو جس کو ہم نے اپنی آیات اور نشانات بھی دیئے تھے.پس وہ ان آیات سے جدا ہو گیا جیسا کہ مثلا بکرے سے کھال علیحدہ کرلی جاوے.پس شیطان اس کے پیچھے بانگا تو وہ سخت گمراہوں میں سے ہو گیا.مفسرین میں اس شخص کی نسبت بڑا اختلاف ہے کہ یہ کون شخص تھا؟ شاہ ولی اللہ صاحب لکھتے ہیں کہ و یعنی بلعم باعور که کتب الهی خوانده بود بعد ازاں باغوائے زن خود ایذائے حضرت موسیٰ قصد کرد و ملعون شد".تفسیر کبیر میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی بعثت کے وقت میں ایک شخص ام بن ابی الصلت تھا جس کو کتب سابقہ کے علم سے یہ بات معلوم ہو گئی تھی کہ اس وقت میں ایک رسول عظیم الشان مبعوث ہونے والا ہے اور اس کو یہ گمان بھی تھا کہ وہ رسول میں ہی ہوں گا جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوئی رسالت فرمایا تو اس کو بڑا رشک اور حسد پیدا ہو گیا اور کمبخت کافرہی مرا.یہ شخص وہی امیہ بن ابی الصلت ہے جو عرب میں بڑا مشہور شاعر تھا اور جس کی نسبت آنحضرت صلی اللہ امید

Page 228

219 علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ آمَنَ شِعرُهُ وَكَفَرَ قَلْبُهُ (صحیح مسلم کتاب الشعر العنی شعر تو اس کا ایمان لے آیا تھا مگر دل اس کا کافر ہی رہا.یہ اس لئے فرمایا کہ یہ شخص اپنے شعروں میں اللہ تعالیٰ کی توحید بیان کیا کرتا تھا اور توحید الہی کے دلائل بھی دیا کرتا تھا اور بیان اعمال صالحہ اور احوال آخرت یعنی جنت و نار کا ذکر بھی ان شعروں میں کیا کرتا تھا اور بعض مفسرین کا قول ہے کہ یہ آیت ابو عامر راہب کے حق میں نازل ہوئی ہے جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فاسق کا لقب دیا تھا.غرضیکہ اس آیت کا مصداق کوئی ہو، خواہ بلعم باعور ولی مستجاب الدعوات ہو یا امیہ بن ابی الصلت شاعر موحد ہو یا ابو عامر راہب ہو جس نے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے دنیا کو ترک کر دیا تھایا اور کوئی ہو بہرحال اس آیت سے صریح یہ امر معلوم ہوتا ہے کہ مامور من اللہ کی مخالفت میں سب مخالف مردود ہو جاتے ہیں.اس کے مقابلہ میں نہ کسی کی ایسی ولایت ہی مقبول ہوتی ہے جو مستجاب الدعوات کے مرتبہ پر پہنچ گئی ہو جیسا کہ بلعم باعور ولی حضرت موسیٰ کے وقت میں تھا یا کوئی شخص فصیح و بلیغ شاعر ہو جو توحید الہی کو اپنے قصائد اور اشعار میں نظم کرتا ہو ، مقبول ہو سکتا ہے اور نہ کوئی راہب اور زاہد مخالف مامور من اللہ کا اللہ تعالیٰ کے نزدیک سرسبز ہو سکتا ہے.بلکہ مامور من اللہ کا مکذب اور مخالف خائب و خاسر، نامراد اور مردود درگاہ الہی ہی ہو جاتا ہے جیسا کہ یہ تینوں شخص باوجود ہونے صاحب ولایت کاملہ کے اور باوجود ہونے موحد عابد زاہد کے مردود ہو گئے جیسا کہ آیت زیر تفسیر میں عبرت حاصل کرنے کے لئے ان کا قصہ ارشاد ہوا ہے.اور اگر غور کیا جائے تو وہ شخص جو صد ہا آیات و نشانات کی دنیا میں تبلیغ بھی کر چکا ہو بلکہ اپنی زبان اور قلم سے ان صد با نشانات کی دنیا میں تبلیغ بھی کر چکا ہو، اس کی تکذیب موجب عذاب ہونے میں سب سے زیادہ بڑھ کر ہو گی.دیکھو اہل کتاب کو جو حافظ اور مفسر تورات وغیرہ کے تھے انہیں کو أُولَئِكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ (البينه) فرمایا گیا ہے اور احادیث میں مولویان مکذبین مسیح موعود کے لئے عُلَمَاوِهُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ أدِيمِ السَّمَاءِ (مشكوة كتاب العلم) كلام نبوت میں وارد ہوا ہے.پھر آیت ہذا کے الفاظ پر غور کرو.اول تو لفظ انسلاخ کا فرمایا گیا ہے جس کا مفہوم ایک جاندار کی کھال کا ادھیڑا جاتا ہے.دیکھو جس ذی روح کو کہ مُتسلح کیا جاوے اس کو کس قدر تکلیف ہو گی اور وہ حیوان منسلخ کیسا مکروہ اور قبیح معلوم ہوتا ہے.اس جگہ انسلاخ اسی لئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ نشانات الہیہ کو دیکھ کر پھر بھی ان کا مکذب ہو جانا ایسا ہے جیسا کہ جاندار کی کھال ادھیڑی جاوے اور اس سے یہ بھی مفہوم ہوا کہ ایسا مکذب پھر مصدق بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ جبکہ کسی جانور کی کھال ادھیڑ لی

Page 229

220 جاوے تو پھر وہ کھال اس ذی جان کے جسم میں دوبارہ نہیں لگ سکتی اور یہ بھی مفہوم ہوا کہ قبل انسلاخ کے اس کھال کو اس جاندار کے ساتھ کمال اتصال تھا.مع ہذا پھر بعد انسلاخ کے مبائنت تامہ ہو گئی.پھر ایسا مکذب کیوں کر مصدق ہو سکتا ہے.الا مَنْ شَاءَ الله.دوسری مذمت ایسے مکذب کی یہ ارشاد فرمائی گئی کہ اب اس کے پیچھے شیطان ایسا لگ گیا کہ وہ خود شیطان بن جاوے گا کیونکہ ایک قرات میں فَاتَّبَعَهُ الشَّيْطَانُ باب افتعال سے بھی آیا ہے.یعنی شیطان اس کا منبع ہے اور وہ شیطان کا بھی باپ یعنی متبوع ہے.دیکھو اللہ تعالی کو ایسے مکذب کی کس قدر مذمت منظور ہے.پھر تیسری خدمت ایسے مکذب کی فرمائی گئی کہ وہ خومی اور عادی ہو چکا یعنی سخت گمراہ ضدی ہو گیا.کیونکہ غادی اس کو کہتے ہیں کہ جس کے ہدایت پانے کی امید نہ رہی ہو اور لفظ غوغا کا مادہ بھی یہیں غوایہ ہے جو جنگ و جدال اور شور و شر پر دال ہے بخلاف لفظ نبی کے کیونکہ اس کے مفہوم میں صرف سادگی اور بے وقوفی داخل ہے.لاغیر.دیکھو صراح صحاح وغیرہ کو.چوتھی مذمت ایسے مکذب کی یہ فرمائی گئی ہے کہ وہ زمین ہی میں لگ گیا یعنی دھنس گیا اور چپک گیا.تفسیر کبیر وغیرہ میں لکھا ہے کہ قال أَصْحَابُ الْعَزيةِ أَصْلُ الْإِعْلادِ اللُّرُوْمُ عَلَى الدَّوامِ وَكَأَنَّهُ قِيلَ لَزِمَ الْمَبْلُ إِلَى الْأَرْضِ وَ مِنْهُ يُقَالُ الدَ فَلَانُ بِالْمَكَانِ إِذَا لَزِمَ الْإقامة به.پانچے میں خدمت اس کی یہ فرمائی گئی ہے کہ کتنے کے ساتھ اس کو تشبیہ دی گئی جو اخس الحیوانات ہے.چھٹی قدمت ایسے مکذب کی یہ ارشاد ہوئی کہ کتے کی اس حالت کے ساتھ اس کی حالت مشابہ ہے جو بد ترین حالت ہے یعنی زبان نکال کر ہانپتے رہنا.وہ بھی ہر ایک حال میں خواہ اس کو کسی شکار کرنے کے لئے دوڑایا جاوے یا نہ دوڑایا جاوے مگر زبان نکال کر وہ ہانپتا ہی رہتا ہے.پھر خود ہی اللہ تبارک و تعالیٰ نے افعال زم کے ساتھ اس مثل کی خدمت فرمائی کہ یہ مثل ایسے مکذبین کی بہت ہی بری مثل ہے وغیرہ وغیرہ.اس بیان سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ انبیائے اولوالعزم کے وقت میں بھی ایسے مکذب گزرے ہوئے ہیں جو سب طرح کے نشانات دیکھ کر بلکہ خود ان نشانوں سے مامور من اللہ کی حقیقت کو ثابت کر کر تصدیق کر چکے تھے جس پر الفاظ اتيناه اياتنا (الاعراف (۱۷) دال ہیں پھر بھی وہ مکذب ہو گئے ہیں جن کی نسبت اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں اس قدر مذمت فرمائی ہے کہ اس سے بڑھ کر کسی اور مکذب کی شاید ہی فرمائی ہو اور یہ سنت اللہ قدیم سے جاری ہے.اب دریافت طلب یہ امر ہے کہ حضرت مسیح کے وقت میں موافق اسی سنت اللہ کے کوئی ایسا فرد کامل مذبوں کا بھی موجود ہے یا نہیں؟ جواب اس کا یہی ہے کہ کئی شخص موجود ہو گئے ہیں.دور کیوں جاتے

Page 230

221 ہو.دیکھو ایک تو وہ جس نے ریویو براہین احمدیہ کا لکھا اور تائید و تصدیق میں کوئی دقیقہ اس نے فروگذاشت نہیں کیا تھا.یہ شعر بھی اسی ریویو میں لکھا ہوا ہے کہ.سب مریضوں کی ہے تمہیں نگاه تم مسیحا بنو خدا کے لئے دوسرا شخص وہ ہے جس نے ایک بڑی تفسیر طول طویل لکھی تھی جس تفسیر میں کثرت سے آیات اللہ کو تائید و تصدیق مسیح موعود میں تحریر کیا تھا اور آتَيْنَاهُ ايَاتِنَا (الاعراف) کا مصداق تھا وہ بھی مکذب ہو چکا ہے جس کی تکذیب اخبار بدروغیرہ میں طبع ہو چکی.یہ مضمون میں نے اس لئے بیان کیا ہے کہ کوئی صاحب یہ و ہم اپنے دل میں نہ لاویں کہ ایسے لوگوں کا بدل جانا اس مسیح موعود سے اس کی صداقت اور حقیقت میں کچھ فرق پیدا کرتا ہے.حاشا و کلا.بلکہ یہ تو سنت اللہ ہے جو قدیم سے ہوتی چلی آتی ہے اور قیامت تک رہے گی.اس لئے یہاں پر لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ (الاعراف ۱۷۸) وغیرہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ لوگ ہمیشہ غور اور فکر کرتے رہیں کہ ایسی تکذیب سے صداقت اور حقیقت صادق میں کسی طرح کا فرق نہیں آسکتا بلکہ ایسے امور میں تفکر کرنے سے ایک طرح کی صداقت پیدا ہوتی ہے.کیونکہ جب حضرت موسیٰ کے وقت سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک تک ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے جیسا کہ احوال بلعم باعور اور امیہ بن ابی الصلت سے واضح ہو گیا تو کار خانہ نبوت میں ایسے مرتدین کا وجود واسطے ظہور نشانات کے بھی سنت اللہ میں داخل ہو گیا.وَلَنِعْمَ مَا قِيلَ.در کارخانه عشق از کفر ناگزیر است بسوزد دگر بولهب نباشد آتش کرا اور جو ایسا مکذب ہو جاوے وہ مامور من اللہ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا.بلکہ وَ انْفُسَهُمْ كَانُوا يُظْلِمُونَ (الاعراف (۱۷۸) کا مصداق ہو جاتا ہے.جو کوئی اس امر کا مشکر ہوا اپنا کچھ کھویا کسی کا کیا گیا اب فرمایا جاتا ہے اور اگر ہم چاہتے تو انہیں آیات کی تصدیق کی برکت سے اس کا مرتبہ بلند کرتے مگر

Page 231

222 اس نے دنیا کی ذلت اور پستی کو اپنے لازم حال کر لیا اور اپنی خواہش نفسانی کے پیچھے لگ گیا تو اس کی مثل کتے کی سی مثل ہے کہ اگر اس پر دوڑ نے جھپٹنے کا بار ڈالو تب بھی زبان کو باہر نکال کر ہانپتا رہتا ہے اور اگر اس کو اسی کے حال پر چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکائے ہوئے ہانپتا رہتا ہے.یہ ہے مثل ان لوگوں کی جنہوں نے ہماری آیتوں اور نشانوں کو جھٹلایا.تو اے پیغمبر! یہ قصے بیان کرتے رہو تاکہ یہ لوگ کچھ سمجھیں سوچیں.ان آیات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آیات الہی کی تصدیق کرنا اور ان کے بموجب عملدرآمد کرنا باعث رفع درجات کا ہے اور تکذیب آیات اللہ کی اور ان سے اعراض کرنا موجب ذلت اور پستی کا ہے.چونکہ انبیاء آیات اللہ کے مبلغ ہوتے ہیں تو ان کا رفع بطریق اولی ہوا کرتا ہے اور ان کے متبعین کا رفع به سبب اتباع مقتضی ان آیات کے ان کو حاصل ہوتا ہے اور ان کے مکذبین کو دنیا اور آخرت میں بجز عذاب شدید کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا.چنانچہ یہ تینوں امر اللہ تعالیٰ نے آیت يَا عِيسَى انى مُتَوَفِّيكَ (ال عمران (۵۲) میں بیان فرما دیئے ہیں.رفع عیسی کا فوقیت متبعین کی کافروں اور مکذبین کو عذاب شدید دنیا اور آخرت میں.آتَيْنَاهُ ايَاتِنَا سے معلوم ہوتا ہے کہ بالضرور علم آیات الہیہ اس کو دیا گیا تھا خواہ وہ آیات اللہ اور حج دربارہ توحید کے ہوں یا اسم اعظم یا الہامات یا اجابت دعا وغیرہ ہو جیسا کہ تفاسیر میں لکھا ہے.بہر حال علم الہیات کا بخوبی اس کو حاصل تھا پھر بھی ایک نبی کی مخالفت سے مردود درگاہ ہو گیا.قصہ آدم اور ابلیس کا جو متعدد جگہ پر قرآن شریف میں مختلف اسلوبوں سے بیان فرمایا ہے اس کا لب اور خلاصہ بھی یہی ہے.یہ آیات اہل علم کے لئے بلکہ ان لوگوں کے لئے جو ملہم بھی ہیں ، بڑی عبرت دلانے والی ہیں کہ مامور من اللہ کے مقابلہ اور مخالفت میں جو ان کے الہامات ہوں یا علمی شبہات ہوں، ان کا اتباع صرف اتباع ہوا کا ہے، لاغیر.کیونکہ ان کے الہامات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی حفاظت نہیں ہوتی ہے بلکہ شیطانی دخل ان الہامات میں اکثر ہو جاتا ہے جس کا نام اتباع ہوا ہے اور اس کا ازالہ نہیں کیا جاتا.بخلاف مامور من اللہ کے الہام کے کہ ان کے الہاموں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑی حفاظت کی جاتی ہے.كَمَا قَالَ اللهُ تَعَالَى فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ مِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا (الحن:۲۸) یعنی اللہ تعالیٰ چلاتا ہے مامور من اللہ کے الہامات کے پیچھے چوکیداروں کا پہرہ تاکہ اس میں شیطانی دخل نہ ہونے پاوے.اور اس مسئلہ الہامات کو ہم نے کتاب ايَاتُ الرَّحْمَنِ لِنَسْحَ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ میں ایسا بیان کر دیا ہے جس سے درمیان الهامات عوام غیر مامورین اور الہامات مامورین من اللہ کے ایک مابہ الامتیاز

Page 232

223 حاصل ہو جاوے.اور متکلمین کا یہ مسئلہ بڑاہی حق ہے کہ مطلقا المهام حجت شرعی نہیں ہے جب تک کہ اس کے ثبوت پر قطعی دلائل موجود نہ ہوویں اور نشانات آسمانی و زمینی اس کے ثبوت میں قائم نہ ہو لیویں اور سراس میں کہ غیر مامورین میں بھی استعداد الہامات اور رویاء کی اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے، یہ ہے کہ کارخانہ نبوت کی ایک نظیران میں موجود ہوتا کہ اس نظیر پر قیاس کر کر کارخانہ نبوت کی تصدیق کریں اور ان پر اتمام حجت ہو جاوے اور یہ عذر نہ کر سکیں کہ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ (الاعراف:۱۷۳) یعنی فِي أَصْلِ الْفِطْرَةِ فَلَمْ يُوكَّرْ فِينَا أَقْوَالُ الرُّسُل.اور پھر ایسا مذب جو بعد پہنچ جانے آیات اللہ کے تکذیب کرے اس کا ہدایت پر آنا معلوم نہیں ہوتا.کیونکہ ایسے شخص کے لئے اتباع اپنے ہوا و ہوس کا مانند طبعی امور کے ہو جاتا ہے جیسا کہ کتنے کی حالت ہوتی ہے کہ ہر حالت میں زبان نکال کر وہ ہانپتا رہتا ہے یعنی یہ ہانپنا کتے کا ایک طبعی امر اس کا ہے جو اس سے جدا نہیں ہو سکتا.سراس میں یہ ہے کہ سوائے کتے کے اور کسی جانور میں ایسی حالت نہیں پائی جاتی ہے.مگر ہاں بوقت وقوع مشقت اور تعب کے البتہ ایسی حالت اور حیوانات میں بھی پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ کتے کا قلب کچھ ایسا واقع ہوا ہے کہ اندر کی ہوائے گرم کو باہر نکالنے کی قوت اس میں بہت ضعیف ہے.علی ہذا القیاس باہر سے ہوائے بارد کے جذب کرنے کی قوت بھی اس میں بہت ضعیف ہے.اس لئے نہ تو ہوائے بارد کو باہر سے پوری طور پر جذب کر سکتا ہے اور نہ ہوائے گرم کو اندر سے باہر بکمال نکال سکتا ہے.اور جو شخص اپنی ہوا و ہوس کا اتباع باہر کرتا ہے اس کا بھی ایسا ہی حال ہو جاتا ہے کہ جو اس کے اندر مواد ہائے فاسدہ اور حادہ فضلات واجب الا خراج ہیں جو باعث پیدا ہونے اخلاق ردیہ کے ہیں، نہ ان کو بہ سبب اتباع اپنی ہوا کے باہر نکال سکتا ہے جس سے روح انسانی کو تفریح حاصل ہو اور نہ باہر سے اہل حق کے نصائح کو جو مثل ہوائے بارد کے محمد حیات روحانی ہیں، اخذ کر سکتا ہے.دیباچہ گلستان میں کیا عمدہ بات لکھی ہے کہ ”ہر نفسے کہ فرد میردو محمد حیات است و چون برمی آید مفرح ذات پس در هر نفے دو نعمت موجود است و بر هر نعمتی شکرے واجب".اسی لئے ایسا مکذب مامور من اللہ کا بہت جلد رسوا اور تباہ اور ہلاک ہو جاتا ہے.کیونکہ نہ اس کو تفریح روح انسانی کی حاصل ہوتی ہے اور نہ امداد حیات یابی کی میسر ہوتی ہے.اسی لئے تاکیداً آگے فرمایا جاتا ہے کہ کیسی بری مثل ہے ان لوگوں کی جنہوں نے ہمارے نشانوں کو جھٹلایا.وہ اپنے ہی اوپر ظلم کرتے رہے ہیں، نہ مامور من اللہ پر.ولنعم ما قبیل

Page 233

224 حملہ خود میکنی اے ساده مرد خود حمله کرد بچو آں تیرے کہ دیکھو چراغ دین کو اس نے اپنی تکذیب سے مامور من اللہ کا کیا بگاڑا.جو کچھ اس نے تکذیب کر کر ظلم کیا وہ اپنی ہی اولاد یعنی فرزندان و دختر اور اپنے نفس پر کیا.چراغ دین کے گھر کا بے چراغ ہو جانا بدی عبرت کا مقام تھا.جس پر بعض کو توجہ نہ ہوئی.تفسیر ابو السعود وغیرہ میں بلعم باعور کے حالات میں لکھا ہے کہ جب اس نے حضرت موسیٰ کی تکذیب کی اور ان پر واسطے بد دعا کرنے کے مشغول ہوا تو اس کو ایک قلبی مرض ایسا عارض ہو گیا کہ مثل کتنے کے اس کی زبان نکل آئی اور مثل کتنے کے ہانپتے ہانپتے ہی مر گیا.یہ مرض بعید نہ سمجھو کیونکہ امراض کا کیا ٹھکاتا ہے اور ان کو کون شمار میں محدود کر سکتا ہے.مولوی روم فرماتے ہیں..بازکن بخواں باب العلل بني لشکر تن را عمل جمله ذرات زمین آسماں لشکر حق اند گاه امتحاں خاک قاروں را چو فرمان در رسید تختش بقصر خود کشید با زر موج دریا چوں با هر حق ناخت اہل موسیٰ را ز قبطی را شناخت آتش چوں ابراہیم گزیده حق دنداں نزد بود چونش گزد ہور گرد مومناں خطے کشید نرم می شد ہاد کانجا می رسید

Page 234

225 اب آگے یہ فرمایا جاتا ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت دے وہی روبراہ ہوتا ہے اور جس کو وہ بھٹکا دیوے، وہی لوگ ہیں ٹوٹا پانے والے.مطلب صرف یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ہدایت لائے ہیں اس کے مضبوط پکڑنے سے ہی انسان رو براہ ہوتا ہے اور اپنے خیالات اور ہوا و ہوس کی اتباع سے منزل مقصود کو نہیں پہنچ سکتا کیونکہ اس نے اپنی ہوا و ہوس کو معبود قرار دے لیا نہ اللہ تعالیٰ کو.کما قال الله تعالى- أَفَرَعَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ (الجاثیه: ۲۴) بلکہ ایسے لوگوں کو بجز خَسِرَ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ کے اور کچھ حاصل نہیں ہو سکتا.اور چونکہ ذرائع ہدایت کے یعنی قرآن مجید اور رسول کریم خاتم النبین اور فطرت صحیحہ کو اللہ تعالیٰ ہی نے انسان کے لئے دنیا میں بھیجا ہے جس کی اتباع سے اهتدا حاصل ہوتا ہے اور نیز قوائے نفسانی و شہوانی و غضبانی بھی انسان میں اسی اللہ تبارک و تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں جن کی پیروی سے انسان گمراہ ہو جاتا ہے.یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان کو اپنے افعال اختیار یہ میں کچھ دخل ہی نہ ہو وے اور محض مجبور ہی ہو.حَاشَاوَ كَلَّا.ورنہ پھر انہیں آیات (یعنی سورہ اعراف کی آیات (۱۷۸۱۷۶ میں فَانْسَلَخَ - اَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا يَظْلِمُونَ وغيرها كا اسناد انسان کی طرف کیوں کیا گیا ہے؟ یعنی جبکہ انسان سے یہ امور فتیح وقوع میں آ جاتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اضلال یعنی منزل مقصود کو نہ پہنچانا ہی ظہور میں آتا ہے اور اگر بندہ اتباع ہدایات الہیہ میں سعی و کوشش کرتا ہے تو اس کے لئے انہیں آیات کے قبل یہ فرمایا گیا ہے كم وَالَّذِيْنَ يُمْسِكُونَ بِالْكِتَبِ وَأَقَامُوا الصَّلوةَ إِنَّا لَأَنْضِيعُ أَجْرَ الْمُصْلِحِينَ (الاعراف (1) ( بدر جلد ۲ نمبر۲۱ ---- ۲۴۰ / مئی ۱۹۰۶ء صفحه ۹ تا ۱۱)

Page 235

۱۹ اکتوبر ۱۹۰۶ ء 226 خطبہ جمعہ تشہد اور تعوذ کے بعد آپ نے سورۃ البقرہ کی حسب ذیل آیت تلاوت فرمائی.شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَ بَيِّنَتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَ مَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدَيكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (البقره: ١٨٦) تلاوت کے بعد آپ نے اس کا ترجمہ کرتے ہوئے فرمایا:.ماہ رمضان ایسا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے.در انحالیکہ تمام لوگوں کے لئے وہ بڑا ہدایت نامہ ہے اور روشن حجتیں ہیں.ہدایت اور حق و باطل میں تمیز کرنے والے دلائل ہیں.پس جو تم میں سے پاوے اس مہینہ کو تو اس کو چاہئے کہ اس میں روزے رکھے اور جو مریض یا مسافر ہو تو اور دنوں میں گن کر روزے رکھ لے.خدا تعالیٰ تمہارے لئے آسانی کا ارادہ کرتا ہے اور دشواری کو نہیں چاہتا

Page 236

227 اور تاکہ تم پوری کر لو گفتی قضا شدہ روزوں کی اور تاکہ بڑائی بیان کرو اللہ کی اس پر کہ تم کو ہدایت کی اور تا کہ تم شکر کرو.واضح ہو کہ یہ آیت دوسرے پارہ کے رکوع میں واقع ہے اور تمہ ہے ان آیات کا جو اس سے پہلے فضیلت صیام میں بیان فرمائی گئی ہیں.یايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ - أَيَّامًا مَّعْدُودَتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ منْ أَيَّامٍ أخر و عَلَى الَّذِيْنَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينِ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (البقره: ۱۸۳ ۱۸۵- احادیث میں فضائل روزہ رکھنے کے بہت کثرت سے مکتوب ہیں جن کو محب صادق کسی قدر بدر میں شائع فرما رہے ہیں.لہذا میں اس وقت بحولہ و قوتہ تعالیٰ صرف قرآن مجید ہی سے کچھ فضائل صیام و ماہ رمضان کے بیان کروں گا.الا ماشاء اللہ.لیکن واسطے تفقہ ان آیات کے اولا چند امور کا بیان کر دینا ضروری ہے امید کہ ان کو بتوجہ سنا جاوے گا.(۱).اس آیت سے پہلی آیات میں اگر میام سے مراد الہی رمضان شریف ہی کے روزے لئے جاویں تو تشبیه بلفظ كما بخوبی چسپاں نہیں ہوتی کیونکہ امم سابقہ پر رمضان شریف کے روزے فرض نہیں ہوئے تھے بلکہ مختلف ایام کے روزوں کا رکھنا بغیر کسی خاص تعین کے ثابت ہوتا ہے جیسا کہ قرآن مجید کے الفاظ ايا ما ممَّعْدُودَاتٍ بھی اسی کی طرف ناظر ہیں.دیکھو کتاب خروج کا باب ۳۴ اور کتاب دانیال کا باب دہم جس میں تین ہفتہ کے روزوں کا رکھنا حضرت دانیال کا ثابت ہوتا ہے اور کتاب سلاطین ۸:۱۹ چالیس دن کا روزہ رکھنا معلوم ہوتا ہے اور اعمال کے ۹:۲ سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسائی بھی یہ روزے ايا ما مَّعْدُودَاتٍ رکھا کرتے تھے.غرض کہ تعین ایک ماہ رمضان کا کتب بائیبل سے روزوں کے لئے نہیں پائی جاتی.ہاں صرف اَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ کے روزے بغیر تعین شہر رمضان کے معلوم ہوتے ہیں.اور اگر یہاں پر صرف ایک ادنی امر میں ایجاب میں ہی حرف كما تشبیہ کے لئے تسلیم کر لیا جاوے تو دوسرا امر یہ ہے کہ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْکین سے رمضان کے روزے رکھنے اور نہ رکھنے میں اختیار ثابت ہو گا.ہاں البتہ صرف ایک فضیلت ہی روزہ رکھنے کی ثابت ہو سکتی ہے.كما قال تعالى وَ اَنْ تُصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ.لیکن در صورتیکه مراد كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ سے رمضان کے ہنی روزے ہو نویں تو یہ مخالف ہے آگے کی آیت کے جو بصیغہ امر فَلْيَصُمْهُ وارد ہے اور نیز مخالف ہے وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ کے ، کیونکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ارادہ کرتا ہے کہ تم عدت صيام شهر رمضان کا اکمال کر لو نہ یہ کہ صیام اور فدیہ کے درمیان تم کو اختیار ہو.اور اگر

Page 237

228 يُطِيقُونَهُ کے پہلے لا مقدر مانا جاوے جیسا کہ بعض مفسرین نے لکھا ہے تو اس طرح سے محذوفات کے ماننے میں مخالف کو بڑی گنجائش مل جاوے گی کہ جس آیت کو اپنے خیال کے مطابق نہ پایا اس کو اپنے خیال کے مطابق کوئی کلمہ محذوفات کا مان کر بنا لیا.ہاں البتہ اس امر کا انکار نہیں ہو سکتا کہ قرائن سے جملہ کلاموں میں اور نیز قرآن مجید میں اکثر محذوفات مان لئے جاتے ہیں اور اگر ہمزہ باب افعال کا سلب کے لئے کہا جاوے تو اطاق يُطِيقُ کا محاورہ بمعنی عدم طاقت کے عرب عرباء سے ثابت کرنا ضروری ہو گا.مختار الصحاح میں تو لکھا ہے.وَالطَّوْقُ أَيْضًا الطَّاقَةُ وَأَطَاقَ الشَّي ءَاطَاقَةً وَهُوَ فِي طَوْقِهِ أَيْ فِي وشعہ.اور یہی محاورہ مشہورہ ہے.پس ہمزہ سلب کے لئے اس میں ماننا غیر مشہور ہے اور الفاظ قرآن مجید کے معانی حتی الوسع مشہور ہیں یعنی مناسب ہیں نہ غیر مشہور اور اگر یہ سب کچھ تسلیم بھی کر لیا جاوے تو أَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ اس کے منافی ہے کیونکہ اس کا مفہوم صرف روزے رکھنے کی فضیلت ہے نہ تروم روزوں کا.حالانکہ رمضان کے روزے فرض و لازم ہیں نہ غیر لازم یا اختیاری.جیسا کہ فلیصمہ اور وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ سے ثابت ہوتا ہے.اور اگر يُطِيقُونَہ کی ضمیر فدیہ کی طرف راجع کی جاوے تو بلاوجہ توجیہ کے اضمار قبل الذکر لازم آوے گا اور اگر پھر اضمار قبل الذکر بھی تسلیم کر لیا جاوے تو ضمیر مذ کر کی لفظ فدیہ کی طرف جو مونث ہے راجع ہوگی پھر اس میں تاویل در تاویل یہ کرنی پڑے گی کہ مراد فدیہ سے چونکہ طعام ہے اس لئے ضمیر مذکر لائی گئی اور یہ سب امور تکلفات سے خالی نہیں ہیں.تیسرا امر یہ ہے کہ مریض اور مسافر کا حکم پہلے ایک مرتبہ بیان ہو چکا ہے.پھر آیت شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ القران کے آگے اس کا مکرر لانا کسی فائدہ کے لئے ہے.اگر کہا جاوے کہ واسطے تاکید کے تو اس پر کہا جاوے گا کہ یہاں پر مقصود تاکید کب ہے.کیونکہ اول تو بین الفدیہ والصيام اجازت دی گئی ہے اور ثانیاً وَاَنْ تُصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ فرما کر صرف روزے کی فضیلت بیان فرمائی ہے نہ لزوم جس کی تاکید کے لئے فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ دوبارہ فرمایا جاتا.اندریں صورت تکرار بے سود لازم آتا ہے اور اگر مکرر ہی فرمانا تھا تو وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ کو بھی مکرر لایا جاتا.خلاصہ یہ کہ ایک جگہ تو فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ اُخَرَ کے آگے وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ بھی فرمایا گیا اور اَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ بھی ارشاد ہوا اور دوسری جگہ پر فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ اُخَرَ کے آگے وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ ارشاد ہوا.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات میں دو قسم کے روزے ہیں جن کا حکم علیحدہ علیحدہ ہے.یہ بیان تو اس صورت میں تھا کہ مراد الصیام سے صیام رمضان ہی ہووے.

Page 238

229 شق دوم.اور اگر پہلی آیت سے علاوہ رمضان کے دوسرے روزے مراد لئے جاویں مثلاً ایام بیض کے روزے یاستہ شوال وغیرہ جن کی فضیلت بھی کتب معتبرہ احادیث میں لکھی ہوئی ہے اور علماء و فقہاء نے ان روزوں کی فضیلت میں یہاں تک لکھا ہے کہ جس نے رمضان اور ستہ شوال کے روزے رکھے اس نے گویا سال بھر کے روزے رکھ لئے اور اس کی وجہ یہ لکھتے ہیں کہ ہر ایک نیکی کا ثواب وہ اللہ رحمن در حیم دس گنا عطا فرماتا ہے.کما قال الله تعالى مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا (الانعام ) یعنی جو شخص ایک نیکی بجا لاوے گا تو اس کو اس نیکی کا دس گنا ثواب ملے گا.تو تمہیں روزوں کا ثواب تین سو روزوں کا ثواب ہوا اور چھ روزوں کا ثواب ساٹھ روزوں کا ثواب ہوا اور سال تمام کے قمری دن بھی تین سو ساٹھ (۳۶۰) ہی ہوتے ہیں.علیٰ ہذا القیاس اگر ایام بیض کے تین روزے دس ماہ کے لئے جاویں تو بھی تھیں روزے ہوتے ہیں جس کے تین سو ہوئے اور پھرستہ شوال بھی لیا جاوے جس کے ساتھ ہوئے تو بھی تین سو ساٹھ روزوں کا ثواب حاصل ہو گیا اور صیام فرض رمضان کے اس علاوہ رہتے ہیں.اور صرف دس ماہ ہی کے ایام بیض اس واسطے لئے گئے کہ ایک ماہ رمضان کا علیحدہ رہا اور چونکہ ستہ شوال کا بھی لے لیا گیا ہے لہذا اس حساب میں شوال کے ایام بیض بھی نہیں لئے گئے بلکہ صرف دس ماہ کے ایام بیض لے لئے گئے ہیں.الحاصل اندرین صورت چونکہ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصيام (البقره: ۱۸۴) سے ان کی فرضیت مفہوم ہوتی ہے حالانکہ یہ روزے ایام بیض وغیرہ کے لازم نہیں ہیں.اس لئے اس شق کی صورت میں مفسرین اس آیت کو دوسری آیت فَلْيَصُمْهُ اوریا و لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ سے منسوخ قرار دیتے ہیں.مگر ایک کلام کے سلسلہ میں ایسا ناسخ و مفسوخ ماننا عظمت شان کلام الہی کے بالکل منافی ہے.چہ جائیکہ بموجب مسلک ان مفسرین کے جو کسی آیت قرآنی کو منسوخ مانتے ہی نہیں.پھر ایک ایسے کلام کے سلسلہ میں جو متصل ہے ناسخ منسوخ کیونکر تسلیم کیا جا سکتا ہے.اب خلاصہ کلام یہ ہوا کہ کوئی ایسی توجیہ صرف نظم قرآن مجید سے ہی پیدا کرنی چاہئے جس سے نہ تو کوئی محذوف مانا پڑے، نہ اضمار قبل الذکر لازم آوے نہ ضمیر ذکر کی مونث کی طرف راجع ہو نہ ناسخ منسوخ کا مانا پڑے، نہ کسی قسم کا تخالف آیات مذکورہ کے مفہومات میں لازم آوے اور نہ عدم فرضیت روزوں رمضان کے مفہوم ہو وے کیونکہ عدم فرضیت صیام رمضان کی ادلہ شرعیہ کے محض خلاف ہے.اگر کسی توجیہ سے یہ تکلفات رفع ہو جاویں تو البتہ ثلج صدر ان آیات کے تفقہ میں حاصل ہو سکتا ہے.اب اس جلسہ خطبہ میں صرف ایک توجیہ بیان کی جاتی ہے.اگر اہل علم حاضرین جلسہ کے نزدیک یہ پسند آجاوے تو زہے عزو شرف ورنہ وہ خود بعد خطبہ کے بیان فرما دیں اور اگر بعد خطبہ کے کسی صاحب

Page 239

230 نے اہل علم میں سے کوئی تطبیق اور توجیہ دیگر بیان نہ فرمائی تو یہی ثابت ہو گا کہ یہ ہی تطبیق ان کو پسند ہے اور وہ تطبیق یہ ہے کہ اسلام میں دو قسم کے روزے ہیں جو کتاب و سنت سے ثابت ہیں.ایک لازم اور دوسرے غیر لازم.چونکہ روزہ جو بہ نسبت دیگر عبادات کے ایک عمدہ عبادت ہے جس سے مومن مقتبع انوار الٹی کو حاصل کر سکتا ہے اور مکالمات الہی کا بجلی گاہ ہو سکتا ہے جیسا کہ کلام نبوت میں وارد ہوا ہے که الصَّوْمُ لِي وَأَنَا أُخْرَى به (بخاری کتاب الصوم یعنی بصیغہ مجهول ترجمہ روزہ مومن کا خاص میرے ہی لئے ہوتا ہے جس میں ریا وغیرہ کو کچھ دخل نہیں اور اس کی جزا میں خود ہو جاتا ہوں.یا انا اجزی به بصیغه معروف کہ میں بلا وساطت غیرے خود اس کی جزا دیتا ہوں وغیرہ وغیرہ من الاحادیث الصحیحہ.یہ احادیث اس امر پر صریح دال ہیں اور سر اس میں یہی ہے کہ انسان روزے میں فجر سے لے کر شام تک تینوں خواہشوں کھانے پینے جماع سے رکا رہتا ہے اور پھر اس کے ساتھ اپنے آپ کو ذکر الهی، تلاوت نماز درود شریف کے پڑھنے میں مشغول رکھتا ہے تو پھر اس کی روح پر عالم غیب کے انوار کی تجلی اور ملاء اعلیٰ تک اس کی رسائی کیونکر نہ ہو گی.اور یہ جو احادیث میں وارد ہوا ہے کہ رمضان شریف میں شیطان زنجیروں میں بند کئے جاتے ہیں اور جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور ملہم غیبی آواز دیتا ہے کہ اے طالب نیکی کے! اس طرف کو آ اور اے برائی کے کرنے والے! کو تاہی کر.یہ سب ایسی احادیث اسی امر لطیف کی طرف اشارہ کر رہی ہیں.پس کوئی شبہ نہیں کہ ظلمات جسمانیہ کے دور کرنے کے لئے روزہ سے بہتر اور افضل کوئی عبادت نہیں اور انوار و مکالمات الہیہ کی تحصیل کے لئے روزہ سے بڑھ کر اور کوئی چیز نہیں.اور حضرت موسی نے جب کوہ طور پر تمہیں بلکہ چالیس روزے رکھے تب ہی ان کو تو رات ملی اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے غار حرا کے اعتکاف میں روزوں کا رکھنا ثابت ہے جس کے برکات سے نزول قرآن کا شروع ہوا اور خود قرآن مجید بھی اسی طرف ناظر ہے که شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ.اور مسیح موعود نے بھی چھ ماہ یا زیادہ مدت تک روز بے رکھے ہیں جن کی برکات سے ہزاروں الہامات کے وہ مورد ہو رہے ہیں.بدیں وجوہ موجہ قرآن اور اسلام نے جو جامع تمام صداقتوں اور معارف کا ہے دونوں قسم کے روزوں کو واسطے حاصل ہونے مزید تصفیہ قلب کے ثابت و برقرار رکھا.ہاں دونوں قسموں کے حکم جداگانہ فرما دیئے گئے.صیام غیر لازم کا حکم تو یوں فرمایا کہ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ اور صیام لازم کا حکم یوں ارشاد ہوا کہ فَلْيَصُمْهُ اور و لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ - آگے رہا لفظ كُتب، جس کے معنے مفسرین فرض لکھتے ہیں.اس کی نسبت یہ گزارش ہے کہ کچھ ضروری نہیں کہ اس کے معنی فرضیت ہی کے لئے جاویں بلکہ جو حکم شرعی لازم یا غیر لازم ہو

Page 240

231 اس کو کہہ سکتے ہیں کہ یہ شرع اسلام میں مکتوب یا لکھا ہوا ہے خواہ وہ حکم لازم ہو یا غیر لازم.یہ اصطلاح علماہی کی ہے نہ قرآن مجید کی اصطلاح کیونکہ لفظ کتاب یا اس کی مشتقات قرآن مجید میں صدہا جگہ آئے ہیں، تاہم وہاں پر مراد الی فرضیت نہیں ہے.کما قال تعالى وَلْيَكْتُبْ بَيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ (البقرة:۲۸۳) أَيْضًا يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ (البقره: ۸) وَغَيْرُ ذَلِكَ مِنَ الْآيَاتِ الْكَثِيرَةِ آگے رہا حکم شیخ فانی مرضعہ پیر ضعیف یا جوان نهایت لاغر و نحیف و غیر ہم کا جن پر روزہ رکھنا نہایت درجہ پر شاق معلوم ہوتا ہے.سو یہ سب لوگ بایں شرط مشقت حکم مریض میں داخل ہیں کیونکہ تعریف مریض کی ان پر صادق آتی ہے کہ ان کے جملہ قومی کے افعال اپنی حالت اصلی پر باقی نہیں رہے.اگر یہ لوگ فدیہ بھی دیویں تو مَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ پر قیاس کئے جاسکتے ہیں مگر فدیہ بھی اسی شخص پر ہے جو فدیہ دینے کی طاقت رکھتا ہو.ورنہ احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رمضان کا روزہ افطار کرنے والے نے خود الٹا ساٹھ مسکینوں کا طعام فدیتا لے لیا ہے کمافی المشکوۃ اور خود قرآن مجید ہی فرماتا ہے کہ يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ (البقر ) اور لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقره: ۲۸۷) وغیرہ وغیرہ من الآيات اس توجیہ سے وہ تکلفات جو مذکور ہوئے نہیں لازم آتے وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ.اب واضح ہو کہ جس قدر احکام شرع اسلام میں مقرر ہیں ان میں اسرار عجیبہ اور لطائف غریبہ غور کرنے سے معلوم ہو سکتے ہیں.مثلاً یہاں پر جو شَهْرُ رَمَضَانَ واسطے قیام کے اللہ تعالیٰ کے کلام میں مخصوص فرمایا گیا اس میں ایک عجیب سر یہ ہے کہ یہ مہینہ آغاز سنہ ہجری سے نواں (۹) مہینہ ہے.یعنی ا.محرم ۲.صفر -۳ ربیع الاول -۴- ربیع الثانی ۵ جمادی الاول - جمادی الثانی ۷ رجب -۸- شعبان ۹.رمضان اور ظاہر ہے کہ انسان کی تکمیل جسمانی شکم مادر میں نو ماہ میں ہی ہوتی ہے اور عدد نو کا فی نفسہ بھی ایک ایسا کامل عدد ہے کہ باقی اعداد اسی کے احاد سے مرکب ہوتے چلے جاتے ہیں، لاغیر.پس اس میں اشارہ اس امر کی طرف ہوا کہ انسان کی روحانی تکمیل بھی اسی نویں مہینے رمضان ہی میں ہونی چاہئے اور وہ بھی اس تدریج کے ساتھ کہ آغاز شہور ہجری سے ہر ایک ماہ میں ایام بیض وغیرہ کے روزے رکھنے سے بتدریج تصفیہ قلب حاصل ہو تا رہا.جیسا کہ شیخ نے کہا ہے کہ " صفائی تامل بتدریج حاصل کنی در آئینہ دل کنی حتی کہ نواں مہینہ رمضان شریف کا آگیا تو اس کے لئے یہ حکم ہوا کہ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ

Page 241

232 فَلْيَصُمْهُ (البقره: ۱۸).یہاں تک کہ مومن متبع کو روزے رکھتے رکھتے آخر عشرہ رمضان شریف کا بھی آگیا.پس اب تو ظلمات جسمانیہ اور تکدرات ہیولا نیہ سے پاک وصاف ہو گیا تو عالم ملکوت کی تجلیات بھی اس کو ہونے لگیں اور طاق تاریخوں میں مکالمات الہیہ کا مورد ہو گیا اور یہی حقیقت ہے لیلۃ القدر کی جو آخری عشرہ میں ہوتی ہے اور اس لئے شارع اسلام نے تعیین لیلۃ القدر کی ۲۷ شب مقرر فرما دی کیونکہ در صورت ۲۹ دن ہونے شہر رمضان کے وہی ۲۷ شب آخری طاق شب ہو جاتی ہے، جس میں تحمیل روحانی انسان تتبع کے حاصل ہو سکتی ہے.اس لئے یہ شب ۲۷ کی ایک عجیب مبارک شب ہے جس میں قرآن مجید بھی نازل ہوا.کما قال اللہ تعالٰی إِنَّا اَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَ مَا أَدْرِيكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ (القدر :٣-٣- ايضاً قال تعالى - إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ (الدخان:۴).اور چونکہ یہ شب مبارک اور لیلۃ القدر دونوں رمضان شریف ہی میں ہوتی ہیں لہذا ان تینوں آیتوں میں کوئی اختلاف بھی باقی نہیں رہا.اور اِنَّا اَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ میں ضمیر نہ کر غائب کا مرجع اس لئے مذکور نہیں ہوا ہے کہ جملہ اہل کتاب یہود و نصاریٰ حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے اشد درجہ منتظر تھے کیونکہ تمام کتب میں آپ کی بشارات اور صفات حمیدہ موجود تھیں اور اب تک موجود ہیں اور اللہ تعالیٰ کا کلام آپ کے منہ میں ڈالا جانا بھی بائیبل میں اب تک پایا جاتا ہے.اس لئے اس کلام الہی کے نزول کا بھی ان کو سخت انتظار تھا اور نیز مشرکین عرب اپنے باپ دادوں سے سنتے چلے آتے تھے کہ حضرت ابراہیم کی اولاد میں سے بنی اسمعیل میں ایک نبی عظیم الشان مبعوث ہونے والا ہے.لہذا جملہ اہل مذاہب اور اہل کتاب کو اس نبی آخر الزمان اور نزول کلام الہی کا انتظار تھا اور ان میں آپ کی بعثت کا ذکر خیر رہتا تھا جیسا کہ سورہ بینہ کی ہماری تفسیر سے واضح ہے.اس لئے اَنْزَلْنَاہ کے مرجع کے ذکر کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی بلکہ مرجع کے ذکر کرنے میں وہ نکتہ حاصل نہ ہو تا تھا جو اس کے عدم ذکر کرنے میں ایک لطیفہ حاصل ہوا.اس لئے مرجع ضمیر "انزلناہ" کا ذکر سابق میں نہیں کیا گیا.کیونکہ اس کا ذکر تو کل اہل کتاب اور مشرکین عرب میں موجود ہے.اسی طرح پر ا الهام إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ قَرِيبًا مِّنَ الْقَادِيَانِ ایم این احمدیہ حصہ چہارم صفحه ۲۹۸ حاشیہ در حاشیہ نمبر) میں بھی مرجع کا ذکر نہیں فرمایا گیا.چونکہ اب بھی کوئی فرقہ مذہبی اس قرن میں ایسا موجود نہیں ہے جو ایک مصلح کامل کا منتظر نہ ہو.اہل کتاب یہود و نصاری بھی مسیح اور الیاس کے نزول کے منتظر ہیں اور اہل اسلام بھی مہدی معہود اور مسیح موعود کے نزول کا انتظار کر رہے ہیں اور ہنود بھی کلنکی او تار کرشن علیہ السلام کی آمد کے لئے منتظر بیٹھے ہوئے ہیں اور تمام عقلاء اور علماء کی انجمنیں ایک مصلح کامل کو بلا

Page 242

233 رہی ہیں.اس لئے مرجع کے ذکر کرنے کی یہاں پر بھی ضرورت نہیں بلکہ ذکر کرنے مرجع میں کلام الہی عالی مقام بلاغت سے نیچے اتر جاتا ہے.واضح ہو کہ یہ پیشین گوئی براہین احمدیہ میں مندرج ہے جس کو مدت پچیس یا چھبیس سال کے منقضی ہو گئے ہیں اور اب اس الہام کا منجاب اللہ ہونا ایسا ثابت ہو گیا جس میں سخت معاند بھی کوئی اعتراض پیدا نہیں کر سکتا.کیوں کہ جس وقت میں یہ الہام ہوا ہے اس وقت میں کوئی کتاب متضمن معارف اور حقائق قرآن مجید کی قادیان سے دنیا میں بکثرت شائع نہیں ہوئی تھی.لیکن اگر اس وقت سے لے کر اس وقت تک نظر کی جاوے تو ہر ایک اہل بصیرت پر مشاہدہ ہو گا کہ ہزاروں معارف قرآن مجید کے من ابتدائے اشاعت براہین احمدیہ لغایت اشاعت حقیقۃ الوحی قادیان سے تمام دنیا میں شائع ہو چکے ہیں اور حقیقت قرآن مجید اور نبوت محمدیہ کی حجت جملہ اہل مذاہب پر خواہ یہود ہوں یا نصاری، آریہ ہوں یا سناتن دہرم، سکھ ہوں یا نیچری کل پر پوری کر دی گئی ہے اور کی جاتی ہے اور کی جاوے گی.انشاء اللہ تعالی.اگر اس پچتیں چھپیں برس کی کتابوں کو جمع کیا جاوے تو ایک بڑے مکان میں بھی وہ نہ سا سکیں گی.پس اگر یہ الہام منجانب اللہ نہیں تھا تو کیوں پورا ہو!؟ قادیان کوئی بڑی بستی نہیں تھی جس سے مانند مصر و یونان کے چشمے علم و حکمت کے جاری ہو جاتے اور علم و حکمت بھی وہ جو مصداق ہو يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِم (البقہ ۳۰:۵) کا.کیا اچھا کیا ہے حالی نے جو قادیان کے بھی حسب حال ہے.اب حالی صاحب کو بھی حال قادیان سے غیرت پکڑنا چاہئے.نه نہ واں مصر کی روشنی جلوہ گر تھی یونان کے علم و فن کی خبر تھی طبع بشر تھی وہی اپنی فطرت خدا کی زمیں بن جتی سر بر تھی مع ہذا.اگر یہ الہام من جانب اللہ نہ ہوتا تو پھر ایسی چھوٹی سی بستی سے یہ چشمے معارف قرآنی اور حقائق اسلامی کے تمام دنیا میں کیونکر جاری ہو سکتے تھے کہ جن کی نہریں تمام دنیا امریکہ.یورپ یعنی جرمن، فرانس.روس.جاپان وغیرہا میں جاری ہو چلی ہیں.دیکھو کارخانه ریویو آف ریلیجنز الحکم، ، تعلیم الاسلام اور تشخیز الاذہان وغیرہا کو.اور قریبا منَ الْقَادِيَانِ اس لئے فرمایا گیا ہے کہ وہ معارف اور حقائق قرآنی جو مصداق هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ (البقره: ۱۸۲) کے ہیں، ان میں اور قادیان کے لوگوں میں ایک پردہ غلیظ واقع ہو رہا ہے جس کی وجہ سے فِی الْقَادِيَانِ نہ فرمایا گیا.بدر

Page 243

234 اور فی الحقیقت عموماً حال یہ ہے کہ جو شخص مامور من اللہ ہو کر دنیا میں آتا ہے اس میں اور دوسرے لوگوں میں کسی نہ کسی قدر پردہ ضرور ہی ہوا کرتا ہے اور اس پردہ اور حجاب کے رفع کرنے میں سخت دشواریاں پیش آتی ہیں.کما قال الله تعالى وَجَعَلْنَا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَّ مِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَاغْشَيْنَهُمْ فَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ (نيس :.ہاں اگر کوئی طالب صادق ہوتا ہے اور ظلمات عناد اور تعصب سے دور ہو جاتا ہے تو پھر ان انوار معارف سے ایسا شخص منور اور بہرہ ور بھی ہو جاتا ہے.لہذا بلحاظ اس پرده و حجاب کے قريبا مِّنَ الْقَادِيَانِ فرمایا گیانہ فِی الْقَادِيَانِ.اور یہ امر تو ظاہر ہے کہ بہتی سے مراد بستی والے بھی ہوا کرتے ہیں.کیونکہ یہ ایک محاورہ ہے جو ہر ایک زبان میں جاری ہے.اور یہ بھی واضح ہو کہ شریعت اسلام میں تمام اوقات عبادات اور ازمنہ روحانیات کو ایک دور کے ساتھ قائم کیا ہے جس طرح پر جسمانیات اور زمانیات میں بھی یہ دور مشاہدہ ہو رہا ہے.دیکھو فصل بہار کو کہ ہر ایک سال دورہ کرتی رہتی ہے اور نظر کرد تمام شمار اور غلہ جات وغیرہ کو کہ اپنے اپنے وقت پیداوار پر دورہ کرتے رہے ہیں اور غذائے انسان و حیوانات ہوتے ہیں.اسی طرح پر نظام روحانی کا انتظام منجانب اللہ فرمایا گیا ہے.دیکھو ایک ہفتہ ہی کو کہ یوم جمعہ ہمیشہ دورہ کرتا رہتا ہے جس کی برکات سے مومنین کا ایمان تازہ ہوتا ہے اور ہفتہ بھر کی خطیئات کا کفارہ ہو جاتا ہے.پھر دیکھو رمضان شریف اور موسم حج کو اور لیلۃ القدر وغیرہ کو کہ ہر سال ایک مرتبہ ان کا دورہ ہو جاتا ہے.یہ کیوں؟ اسی لئے کہ مومنین کا ایمان ان کی برکات سے تازہ ہو تا رہے اور تجلیات الیہ کا ورود جن میں مکالمات الیہ ہیں، مومن منبع پر ہوتا رہے.اسی طرح پر ہر ایک صدی پر واسطے تجدید دین اسلام کے مجددین کا دورہ ہوتا رہتا ہے كَمَا فِي الْحَدِيثِ الصَّحِيحِ.چنانچہ اس چودہویں صدی میں دورہ مسیح موعود کا ہو رہا ہے.یہ مسیح موعود عند اللہ قمر بھی ہے اور ایک لحاظ سے شمس بھی ہے.كَمَا ثَبَتَ فِي مَحَلَّه.یہ شمس و قمر کا دورہ رمضان شریف کے ساتھ بڑی مناسبتیں رکھتا ہے.یعنی جس طرح پر رمضان شریف میں ایک قسم کی نفس کشی بسبب امساک کے اکل و شرب سے اور جماع سے کی جاتی ہے اسی طرح پر اس دور قمر میں مومنین متبعین کو کسی قدر صعوبتیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں برداشت کرنی پڑتی ہیں.بلکہ بعض متبعین کو ترک اکل و شرب و جماع کا بھی تائید اسلام اور تبلیغ دین حق کے لئے کرنا پڑا ہے کہ اکثر جگہ پر ازواج میں باہم تفریق واقع ہو گئی اور مخالفین اکثر مخلصین کے اکل و شرب میں بھی خارج ہوئی.دوسری مناسبت رمضان کو اس دور قمر کے ساتھ یہ ہے کہ جو معارف قرآنی بذریعہ اس شمس و قمر کے دنیا پر منکشف ہوئے وہ پچھلی صدیوں میں نازل نہیں ہوئے تھے اور رمضان کی خصوصیات سے ضروری ہے کہ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ

Page 244

235 بَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ (البقره ۱۸۲) کا نزول ضرور ہو.یہ تینوں امور نزول قرآن مجید کے لئے اس لئے ضروری ہیں کہ ایک تو ہدایت عام ہوتی ہے تمام آدمیوں کے لئے.دوسرے اس ہدایت کے دلائل قطعیہ اور شواہد یقینیہ کا ہونا بھی ضروری ہے.اس کا مصدق کسوف و خسوف ماہ رمضان ۱۳۱۱ھ اور دیگر بینات واقع ہوئے.تیسرے اس ہدایت عامہ کے لئے الفرقان ہونا چاہئے جیسا کہ واقعہ لیکھرام اور چراغ دین کے اس کے شواہد ہیں وغیرہ وغیرہ جو اس خطبہ میں مفصل بیان نہیں ہو سکتے.پس جب ان ہر سہ امور کا نزول اس دور شمس و قمر مین ہم کو مشاہد ہو رہا ہے تو پھر ہم کیونکر تسلیم نہ کریں کہ زمانہ بعثت اس مسیح موعود کو ساتھ شہر رمضان کے بالضرور ایک مناسبت قوی ہے کما قال اللہ تعالٰی شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ.پس اگر یہ زمانہ مسیح موعود کا شہر رمضان کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں رکھتا تو پھر یہ نزول قرآن یعنی رد شبهات تمام فرق باطلہ کا قرآن مجید سے کیوں ہو رہا ہے؟ ہر ایک اہل بصیرت سمجھ سکتا ہے کہ علت کے وجود سے معلول کا وجود سمجھا جاتا ہے اور معلول کے وجود سے علت کا وجود سمجھ میں آجاتا ہے اور جس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ بعثت کا ایک عظیم الشان لیلۃ القدر تھا کما قال اللہ تعالٰی وَمَا أَدْرِيكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ (القدر:٣) اسی طرح پر یہ آخری زمانہ یعنی دور شمس و قمر کا زمانہ ایک قسم کی لیلۃ القدر ہے کہ اس میں بھی اس مسیح موعود علیہ السلام پر نزول ملائکہ اور روح یعنی جبرائیل کا ہو رہا ہے جس کو کوئی مخالف نہیں ٹال سکتا کیونکہ بإِذْنِ رَبِّهِمْ (القدر:۵) ہے.اور اسی لئے یہ مسیح موعود سلامتی کا شہزادہ ہے کمافی الالھام و کما قال الله تعالى سَلْمٌ هِىَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ (القدر (۲).چونکہ معارف الہامات مسیح موعود کے بے نہایت ہیں، اس لئے میں اب اس خطبہ کو نہیں ختم کرتا ہوں.بَارَكَ اللَّهُ لَنَا وَلَكُمْ فِي الْقُرْآنِ الْعَظِيمِ وَنَفَعَنَا وَإِيَّاكُمْ بِالْآيَاتِ وَالذِّكْرِ الْحَكِيمِ إِنَّهُ تَعَالَى جَوَادٌ قَدِيمٌ كَرِيمٌ مَلِكٌ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ یہاں پر ایک رؤیا کا درج کرنا جو تاریخ ۱۳ / اکتوبر ۱۹۰۶ء کو بمقام امروہہ خاکسار کو ہوئی تھی بحکم تحدیث بالنعمۃ کے ضروری ہے.۱۲ / تاریخ کی شب کو میں نے دیکھا کہ میں کسی شہر میں ہوں اور ایک مکان میں ایک تخت پر بیٹھا ہوا ہوں.کچھ لوگ تخت سے نیچے بیٹھے ہیں اور کچھ لوگ تخت کے اوپر بھی ہیں اور میں بڑے زور و شور سے صرف إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحه:) کی تفسیر سے مسلک احمدیہ اور دعاوی حضرت مسیح موعود کو ثابت کر رہا ہوں.تمام مضمون کلام تفسیری مجھے کو یاد نہیں رہا مگر ما حصل اس مضمون کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو ہم کو یہ آیت تعلیم فرمائی ہے اس سے مقصود الہی

Page 245

236 یہ ہے کہ نماز ہائے پنجگانہ کی ہر ایک رکعت میں ہم بصدق دل اس آیت کا اقرار بجناب باری ادا کرتے ہیں اور خارج نماز سے مدام اس اقرار پر ہمارا عمل درآمد بھی رہے.تب یہ عبادت مقبول ہو گی اور ہماری استعانت پر اللہ تعالیٰ کی اعانت بھی ہم کو پہنچے گی.اب یہ تو ظاہر ہے جو شخص مامور من اللہ ہو کر دنیا میں مبعوث ہوتا ہے اس کے لئے بعد نماز ہائے پنجگانہ کے سب عبادات سے عظیم ترین عبادت تبلیغ مَا انْزَلَ اللهُ إِلَيْهِ ہوتی ہے كما قال تعالى بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (المائده:۲۸).اب اس چودہویں صدی میں ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ حسب وعده الهی مندرجہ قرآن مجید و بموجب حدیث صحیح کے کوئی مجدد اس سر صدی پر بھی پیدا ہوا ہے یا نہیں؟ تو مانند شمس نصف النہار کے بڑی شہرت کے ساتھ اس دعوی اور مدعی کو موجود پاتے ہیں کہ ایک شخص معظم یعنی حضرت اقدس مرزا غلام احمد اس عبادت تبلیغ کو بعد نماز ہائے پنجگانہ کے ایسی جان توڑ کوشش کے ساتھ ادا کر رہے ہیں کہ تمام اقطار ارض میں ان کی تبلیغ پہنچ گئی ہے اور ان کی تبلیغ سے نہ یورپ محروم اور نہ امریکہ نہ روس اور نہ جاپان.پھر ہم نظر ثانی کرتے ہیں کہ ان کی استعانت پر جناب باری سے ایسی اعانت بھی پہنچ رہی ہے کہ اس کی نظیر بصیغہ قلمی اور دعا کے ذریعہ اس مدت اسلامی تیرہ سو سال میں ہم کو نہیں ملتی.پس جبکہ یہ عبادت تبلیغ اور اعانت الہی کی اس شخص میں ہم مشاہد پاتے ہیں تو ثابت ہوا کہ یہ شخص بالضرور مامور من اللہ ہے اور جو اس کے دعاوی ہیں ، یہ سب صادق اور مصدوق الہی ہیں، ورنہ پھر مضمون إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کا صادق نہ رہے گا.ونعوذ باللہ منہ.کیونکہ اس آیت کا مضمون جو اس طرف صریح اشارہ کر رہا ہے کہ جو شخص مدعی ماموریت کا عبادت تبلیغ کی بجالا رہا ہے اور وہ جناب باری میں مقبول بھی ہو گئی ہے کیونکہ اس کی استعانت پر اعانت الہی برابر پہنچ رہی ہے تو وہ مدعی بالضرور صادق و مصدوق ہے خواہ اس دلیل کو دلیل لمی کے طور پر مانو یا بطور دلیل انی کے اس کو سمجھ لو.مدعا ہر حال میں ثابت ہے یعنی خواہ آفتاب کے وجود سے دن کا موجود ہونا سمجھ لو یا دن کے موجود ہونے سے آفتاب کا وجود تسلیم کرلو مطلب بہر حال حاصل ہے.هَذَا مَا الْهَمَنِي رَبِّى وَالْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهْنَا وَ مَا كُنَّا نَهْتَدِى لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللهُ الحکم جلد ۱۰ نمبر ۳۸ ----۱۰ار نومبر ۱۹۰۶ء صفحه ۳ تا ۵) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 246

۱۵/ نومبر ۱۹۰۶ء ۲۷ رمضان المبارک ۱۳۲۴ھ 237 خطبہ نکاح (جو حضرت مولوی نور الدین صاحب نے ۱۵/ نومبر ۱۹۰۶ء کو بعد نماز عصر صاحبزادہ میاں شریف احمد صاحب کے نکاح کے موقع پر پڑھا) الْحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَ نَسْتَعِيْنُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَ نُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيَأْتِ أَعْمَالِنَا مَن يَهْدِهِ اللهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَ مَنْ يُضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ وَ اَشْهَدُ اَنْ لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ وَ اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ - أَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ يُأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكُمْ مِنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَ لُونَ بِهِ وَ الْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا (النساء:۲).يُأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلاً سَدِيدًا - يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَ مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا (الاحزاب: ۷۲۴۷۱).

Page 247

238 يُأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (الحشر: ١٩) - خطبہ نکاح میں ان آیات کا پڑھنا مسنون ہے اور ہمیشہ سے مسلمانوں کا اس پر عملدرآمد چلا آیا ہے.ان آیات میں تقویٰ کا حکم ہے.تقویٰ سے مراد اول عقائد کی اصلاح ہے.اللہ تعالیٰ کا نہ اس کی ذات میں کوئی شریک ہے، نہ صفات میں کوئی شریک ہے اور نہ افعال میں کوئی شریک ہے.عبادت میں اس کا کوئی شریک بنانا ناجائز ہے.یہ عقائد میں مرتبہ اول ہے.دوم.ملائکہ پر ایمان لانا ہے.ملائکہ ہمارے دلوں پر نیکیوں کی تحریک کرتے ہیں.جو شخص اس تحریک کو قبول کرتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے اس کا تعلق ملائکہ کے ساتھ بڑھ جاتا ہے اور پھر ملائکہ زیادہ سے زیادہ نیک تحریکات کا سلسلہ اس کے دل کے ساتھ لگائے رکھتے ہیں.جو لوگ شیطان کی تحریک بد کو قبول کرتے ہیں ان کا تعلق شیطان کے ساتھ بڑھ جاتا ہے اور جو لوگ ملائکہ کی تحریک نیک پر عمل درآمد کرتے ہیں ان کا تعلق ملائکہ کے ساتھ بڑھ جاتا ہے.بیٹھے بیٹھے بغیر کسی بیرونی محرک کے جو انسان کے دل میں ایک نیک کام کرنے کا خیال پیدا ہو جاتا ہے اور اس طرف توجہ ہو جاتی ہے وہ فرشتے کی تحریک ہوتی ہے.اور جو بد خیال دل میں اچانک پیدا ہو جاتا ہے وہ شیطان کی تحریک ہوتی ہے.جس طرف انسان توجہ کرے اسی میں ترقی کر جاتا ہے.ملائکہ پر ایمان لانے کا مطلب یہی ہے کہ جب کسی کے دل میں نیک تحریک پیدا ہو تو فوراً اس نیکی پر عملدرآمد کرے.برخلاف اس کے جب بد خیال دل میں آئے تو لاحول پڑھنا اور اعوذ پڑھنا اور بائیں طرف تھوکنا شیطان کی شرارت سے بچانا ہے.کیونکہ شیطان طرف راست سے نہیں آتا.وہ راستی کا دشمن ہے.بلکہ ہمیشہ طرف چپ سے آتا ہے.جو لوگ خدا تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے اور ملائکہ کی نیک تحریکات سے فائدہ حاصل کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی کتاب کو تدبر کے ساتھ پڑھتے ہیں اور مرسلین کا نیک نمونہ اختیار کرتے ہیں ان کو خدا تعالیٰ صراط مستقیم پر قدم مارنے کی توفیق دیتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں ترقی کرتے ہوئے مکالمہ مخاطبہ الہیہ کی نعمت کے حصول تک پہنچ جاتے ہیں.خدا تعالیٰ کی توحید اور ملائکہ پر ایمان کے بعد تیسری بات ایمان بالآخرۃ ہے.جزاء و سزا کا عقیدہ انسان کے واسطے ترقی کا موجب ہے.اور اگر خدا تعالیٰ توفیق دے تو یہ ترقی بتدریج انسان حاصل کر سکتا ہے.اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے ترقی کے واسطے بہت سے سامان با آسانی مہیا کر دیئے ہیں.دیکھو خدا تعالیٰ کا مامور ہمارے سامنے موجود ہے اور خود اس مجلس میں موجود ہے.ہم اس کے چہرے کو دیکھ سکتے ہیں.

Page 248

239 یہ ایک ایسی نعمت ہے کہ ہزاروں ہزار ہم سے پہلے گزرے جن کی دلی خواہش تھی کہ وہ اس کے چہرہ کو دیکھ سکتے.پر انہیں یہ بات حاصل نہ ہوئی اور ہزاروں ہزار اس زمانہ کے بعد آئیں گے جو یہ خواہش کریں گے کہ کاش وہ مامور کا چہرہ دیکھتے پر ان کے واسطے یہ وقت پھر نہ آئے گا.یہ وہ زمانہ ہے کہ عجیب در عجیب تحریکیں دنیا میں زور شور کے ساتھ ہو رہی ہیں اور ایک ہل چل مچ رہی ہے.عربی زبان دنیا میں خاص طور پر ترقی کر رہی ہے.کتا بیں کثرت سے شائع ہو رہی ہیں.وہ عیسائیت کی عمارت جس کو ہاتھ لگانے سے خود ہمارے ابتدائی عمر کے زمانہ میں لوگ خوف کھاتے تھے آج خود عیسائی قومیں اس مذہب کے عقائد سے متنفر ہو کر اس کے برخلاف کوشش میں ایسی سرگرم ہیں کہ يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُمْ بِأَيْدِيهِمْ (الحشر:۳) کے مصداق بن رہے ہیں اور شرک کے ناپاک عقائد سے بھاگ کر ان پاک اصول کی طرف اپنا رخ کر رہے ہیں جن کے قائم کرنے کے واسطے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم دنیا میں مبعوث ہوئے تھے.یہ سب واقعات قرآن شریف کی اس پیشگوئی کی صداقت کو ظاہر کر رہے ہیں کہ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (الحجر) تحقیق ہم نے ہی یہ ذکر نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں جیسا کہ الفاظ کی حفاظت یاد کرنے والوں اور لکھنے والوں کے ذریعہ سے ہوئی اور ہو رہی ہے.یہ سب کچھ موجود ہے مگر خوش قسمت وہی ہے جو ان باتوں سے فائدہ اٹھائے.جذبات نفس پر قابو رکھ کر خدا تعالیٰ کے احکام پر عمل کرے.مساکین اور یتامیٰ کو مال دیوے.قسم قسم کے طریقوں سے رضاء جوئی اللہ تعالٰی کی کرے.ایک وقت کا عمل دوسرے وقت کے عمل سے بعض دفعہ اتنا فرق رکھتا ہے کہ اول مہاجرین نے جہاں ایک مٹھی جو کی دی تھی، بعد میں آنے والا کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا دیتا تھا تو اس کی برابری نہ کر سکتا تھا.سائل کو دو دکھی کو دو ذوی القربی کو دو.نماز سنوار کر پڑھو.مسنون تسبیح اور کلام شریف اور دعاؤں کے بعد اپنی زبان میں بھی عرض معروض کرو تاکہ دلوں پر رقت طاری ہو.غریبی میں امیری میں، مشکلات میں مقدمات میں، ہر حالت میں مستقل رہو اور صبر کو ہاتھ سے نہ دو.تقویٰ کا ابتداء دعا خیرات اور صدقہ سے ہے اور آخر ان لوگوں میں شامل ہونے سے ہے جن کی نسبت فرمایا ہے اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا (حم السجده (۳) جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر استقامت دکھلائی.تقویٰ کرنے کے متعلق حکم کے بعد یہ حکم ہے کہ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ.چاہے کہ ہر ایک نفس دیکھ لے کہ اس نے کل کے واسطے کیا تیاری کی ہے؟ انسان کے ساتھ ایک نفس لگا ہوا ہے جو ہر دقت مقبول ہے کیونکہ جسم انسانی ہر وقت تحلیل ہو رہا ہے.جب اس نفس کے واسطے جو ہر وقت

Page 249

240 تحلیل ہو رہا ہے اور اس کے ذرات جدا ہوتے جاتے ہیں اس قدر تیاریاں کی جاتی ہیں اور اس کی حفاظت کے واسطے سامان مہیا کئے جاتے ہیں تو پھر کس قدر تیاری اس نفس کے واسطے ہونی چاہئے جس کے ذمہ موت کے بعد کی جو ابد ہی لازم ہے.اس آنی فناوالے جسم کے واسطے جتنا فکر کیا جاتا ہے کاش کہ اتنا فکر اس کے نفس کے واسطے کیا جاوے جو کہ جواب دہی کرنے والا ہے.إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے آگاہ ہے.اس آگاہی کا لحاظ کرنے سے آخر کسی نہ کسی وقت فطرت انسانی جاگ کر اسے ملامت کرتی ہے اور گناہوں میں گرنے سے بچاتی ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم تقویٰ اختیار کرو اور سیدھی بات بولو تو خدا تعالیٰ تمہاری کمزوریوں کو معاف کرے گا اور تمہاری غلطیوں کی سنوار اور اصلاح ہو جائے گی.انسان کو چاہئے کہ ہر وقت اپنے اعمال کی اصلاح میں کوشش کرتا رہے.جب مرنے کا وقت قریب آتا ہے تو انسان کے حقیقی اعمال جو خدا تعالیٰ کے نزدیک پسند یا غیر پسند ہوں ، پیش ہوتے ہیں نہ کہ وہ اعمال جو لوگوں کے سامنے وہ دکھاتا اور ظاہر کرتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تقویٰ اختیار کرو اور خدا تعالیٰ کے اس احسان کو یاد کرو کہ اس نے آدم کو پیدا کیا اور اس سے بہت مخلوق پھیلائی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام و البرکات پر اس کا خاص فضل ہوا اور ابراہیم کو اس قدر اولاد دی گئی کہ اس کی قوم آج تک گئی نہیں جاتی.اور ہماری خوش قسمتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہمارے امام کو آدم کیا ہے اور بَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا کی آیت ظاہر کرتی ہے کہ اس آدم کی اولاد بھی دنیا میں اسی طرح پھیلنے والی ہے.میرا ایمان ہے کہ بڑے خوش قسمت وہ لوگ ہیں جن کے تعلقات اس آدم کے ساتھ پیدا ہوں.کیونکہ اس کی اولاد میں اس قسم کے رِجَال اور نساء پیدا ہونے والے ہیں جو خدا تعالیٰ کے حضور میں خاص طور پر منتخب ہو کر اس سے مکالمات سے مشرف ہوں گے.مبارک ہیں وہ لوگ.مگر یہ باتیں بھی پھر تقویٰ سے حاصل ہو سکتی ہیں اور تقویٰ ہی کے ذریعہ سے فائدہ پہنچا سکتی ہیں کیونکہ خدا کسی کا رشتہ دار نہیں ہے.مجھے سب سے بڑھ کر جوش اس بات کا ہے کہ میں مسیح موعود کے بیوی بچوں، متعلقین اور قادیان میں رہنے والوں کے واسطے دعائیں کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان کو رِجَالاً كَثِيراً اور تقویٰ اللہ والے کے مصداق بنائے.آج کی تقریب ایک خاص خوشی کا موقع ہے اور خاص خوشی خانصاحب نواب محمد علی خاں کے لئے ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان کی قسمت میں یہ بات کر دی کہ وہ اس تعلق میں شمولیت حاصل کریں.آج یہ تقریب ہے کہ ہمارے امام آدم وقت کے اس شریف لڑکے کا نکاح نواب صاحب کی

Page 250

241 اکلوتی بیٹی زینب کے ساتھ کیا جاتا ہے اور اس کا مہر وہی ایک ہزار روپیہ مقرر کیا جاتا ہے جو کہ حضرت کے دوسرے لڑکوں کا مقرر ہوا ہے.کیا آپ کو (نواب صاحب کی طرف توجہ کر کے) منظور ہے.(نواب صاحب نے کہا منظور ہے.پھر صاجزادہ شریف احمد سے پوچھا گیا انہوں نے بھی کہا منظور ہے).اس کے بعد حضرت نے بمعہ جماعت دعا کی.( بدر جلد ۲ نمبر ۱۳۵۰ار دسمبر ۱۹۰۶ء صفحه ۹۴۸)

Page 251

۱۴ جنوری ۱۹۰۷ء قادیان 242 خطبه کسوف ۱۴ جنوری ۱۹۰۷ ء کو مدینہ المسیح میں نماز کسوف پڑھی گئی.یہ وہ نماز ہے جس کی نسبت دیہات میں تو کسی کو بھی معلوم نہیں کہ پڑھنی سنت ہے یا نہیں بلکہ پڑھنے والے تو کہتے ہیں ہمارے دین سے نکل گیا.یہ بھی ہمارے بعض حنفی بھائیوں کی خاص مہربانیوں سے ہے جو وہ بعض سنن رسول مقبول کی نسبت کرتے رہتے ہیں.خیر یہ سلسلہ احمد یہ تو جاری ہی اسی لئے ہوا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو جاری کرے.اس لئے یہاں دارلامان میں کسوف شروع ہوتے ہی نماز کی تیاری شروع ہو گئی اور ساڑھے دس بجے کے قریب حکیم الامت سلمہ ربہ نے نماز باجماعت جہری قرات سے پڑھائی.پہلی رکعت میں سورۃ السجدہ پڑھ کر رکوع کیا اور رکوع سے سر اٹھا کر سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہہ کر سورۃ الاحقاف پڑھی اور پھر رکوع کیا.دوسری رکعت میں پہلے سورۃ محمد کو پڑھ کر رکوع کیا اور پھر رکوع سے سر اٹھا کر إِنَّا فَتَحْنَا (الفتح) پڑھی اور پھر رکوع کیا.غرض ہر

Page 252

243 رکعت میں دو دو رکوع کئے.اسی طرح زیادہ بھی رکوع کر سکتے ہیں.یہ نماز ایک گھنٹہ میں ختم ہوئی.حدیث شریف میں آیا ہے کہ بعض صحابہ کو اس نماز میں طوالت قرات کے سبب غشی ہو جاتی تھی.نماز ختم ہونے کے بعد مولوی صاحب مکرم نے خطبہ پڑھا جو نہایت ہی لطیف تھا.آپ نے فرمایا کہ :.دو کار خانے ہیں جسمانی اور روحانی.پہلے اپنی حالت کو دیکھو کہ دل سے بات اٹھتی ہے تو ہاتھ اس پر عمل کرتے ہیں جس سے روح و جسم کا تعلق معلوم ہوتا ہے.غم و خوشی ایک روحانی کیفیت کا نام ہے مگر اس کا اثر چہرہ پر بھی ظاہر ہوتا ہے.کسی سے محبت ہو تو حرکات و سکنات سے اس کا اثر معلوم ہو جاتا ہے.انبیاء علیہم السلام نے بھی اس نکتہ کو کئی پیرایوں میں بیان کیا.مثلاً حدیبیہ کے مقام پر جب سہیل آیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سهل الامر (بخاری کتاب الشروط في الجهاد والمصالحة) اب یہ معاملہ آسانی سے فیصل ہو جائے گا.دیکھو بات جسمانی تھی نتیجہ روحانی نکالا.اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی طرف خیال کرو کہ پاخانے جاتے وقت ایک دعا سکھائی.اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْحُبْثِ وَالْخَبَائِثِ (بخاری ـ کتاب الدعوات باب الدعاء عند الخلاء) یعنی جیسے پلیدی ظاہری نکالی اسی طرح باطنی نجاست کو بھی نکالنے کی توفیق دے.پھر جب مومن فارغ ہو جائے تو پڑھے غُفْرَانَكَ.اس میں بھی یہ اشارہ تھا کہ گناہ کی خباثت سے جب انسان بچتا ہے تو اسی طرح کا روحانی چین پاتا ہے.نماز روزہ، حج، زکوۃ سب ارکان اسلام میں جسمانیت کے ساتھ ساتھ روحانیت کا خیال رکھا ہے اور نادان اس پر اعتراض کرتے ہیں.مثلاً وضو ظاہری اعضاء کے دھونے کا نام ہے مگر ساتھ ہی دعا سکھلائی ہے اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَّوَّابِينَ وَاجْعَلْنِي مِنَ الْمُتَطَهِّرِينَ (سنن ترمذی ابواب الطهارة) کہ جیسے میں نے ظاہری طہارت کی ہے مجھے باطنی طہارت بھی عطاء کر.پھر قبلہ کی طرف منہ کرنے میں یہ تعلیم ہے کہ میں اللہ کے لئے سارے جہان کو پشت دیتا ہوں.یہی تعلیم رکوع و سجود میں ہے.وہ تعظیم جو دل میں اللہ تعالیٰ کی ہے وہ جسمانی اعضا سے ظاہر کی جارہی ہے.زکوۃ روحانی بادشاہ کے حضور ایک نذر ہے اور جان و مال کو فدا کرنے کا ایک ثبوت ہے جیسا کہ ظاہری بادشاہ کے لئے کیا جاتا ہے.اور حج کے افعال کو سمجھنے کے لئے اس مثال کو پیش نظر رکھئے کہ جیسے کوئی مجازی عاشق سن لیتا ہے کہ میرے محبوب کو فلاں مقام پر کسی نے دیکھا تو وہ مجنونانہ وار اپنے لباس وغیرہ سے بے خبر اٹھ کر دوڑتا ہے، ایسا ہی یہ اس محبوب ہ

Page 253

244 لم یزل کے حضور حاضر ہونے کی ایک تعلیم ہے.غرض جسمانی سلسلہ کے مقابل ایک روحانی سلسلہ بھی ضرور ہے اور اس کو نہ جاننے کے لئے بعض نادانوں نے اس سوال پر بڑی بحث کی ہے کہ مرکز قومی قلب ہے یا دماغ؟ اصل بات فیصلہ کن یہ ہے کہ جسمانی رنگ میں مرکز دماغ ہے.کیونکہ تمام جو اس کا تعلق دماغ سے ہے اور روحانی رنگ میں مرکز قلب ہے.انبیاء علیہم السلام چونکہ روحانیت کی طرف توجہ رکھتے ہیں اس لئے وہ ظاہری نظارہ سے روحانی نظارہ کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے سِرَاجًا منيرا (الاحزاب (۳۹) فرمایا ہے اور آپ سراج منیر کیوں نہ ہوتے جبکہ آپ نے دعا فرمائی اللَّهُمَّ اجْعَلُ فَوْقِى نُورًا وَّ شِمَالِى نُورًا وَّ اجْعَلْنِي نُورًا (بخاری کتاب الدعوات و ترمذی کتاب الدعوات) (یہ بڑی لمبی دعا ہے).خیر جب اس حقیقی سورج نے دیکھا کہ سورج کو گرہن لگ گیا یعنی کچھ ایسے اسباب پیش آگئے جن سے سورج کی روشنی سے اہل زمین مستفید نہیں ہو سکتے تو اس نظارہ سے آپ کا دل پھڑک اٹھا کہ کہیں میرا فیضان پہنچنے میں بھی کوئی ایسی ہی آسمانی روک نہ پیش آجائے.اس لئے آپ نے اس وقت تک صدقہ دعا استغفار، نماز کو نہ چھوڑا جب تک سورج کی روشنی با قاعدہ طور سے زمین پر پہنچنی شروع نہ ہو گئی.اب چونکہ ہر ایک مومن شخص بھی بقدر اتباع نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نور رکھتا ہے جیسے باپ بیٹے کا اثر.چنانچہ اس لئے فرمایا مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ (الاحزاب :(۳) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسمانی بیٹا نہیں تو روحانی بیٹے بے شمار ہیں.اس لئے ہر مومن بھی ایسے نظارہ پر گھبراتا ہے اور گھبرانا چاہئے کہ کہیں ایسے اسباب پیش نہ آجائیں جن سے ہمارا نور دوسروں تک پہنچنے میں روک ہو جائے.اس لئے وہ ان ذرائع سے کام لیتا ہے جو مصیبت کے انکشاف کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں یعنی صدقہ خیرات کرتا ہے، استغفار پڑھتا ہے اور نماز میں کھڑا ہو جاتا ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی مشکل کے وقت نماز میں کھڑے ہو جاتے.آخر اللہ تعالیٰ کا دریائے رحمت جوش میں آتا ہے اور جیسے وہاں حرکت و دور سے وہ اسباب ہٹ جاتے ہیں جن سے سورج کی روشنی باقاعدہ زمین پر پہنچنی شروع ہو جاتی ہے اسی طرح دعا و استغفار سے مومن کے فیضان پہنچنے میں جو روکیں پیش آجاتی ہیں دور ہو جاتی ہیں.شیشے پر سیاہی لگا کر یا برہنہ آنکھ سے اپنی آنکھوں کو نقصان پہنچانے کے لئے تماشے کے طور پر اس نظارہ کو دیکھنا مومن کی شان سے بعید ہے.تم سراج منیر کے بیٹے ہو.پس اپنے انوار کو دوسروں تک پہنچانے میں تمام مناسب ذرائع استعمال کرو.چونکہ آپ نے ان آیات پر وعظ شروع کیا تھا جن میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم

Page 254

245 کو سراج منیر کہا گیا ہے اس لئے اس ضمن میں بعض اور باتیں بھی بعض الفاظ کی تشریح میں آ گئی تھیں.ایک بات خصوصیت سے قابل ذکر ہے جو سَبَّحُوا (السجدة:) کی تفسیر میں فرمائی کہ مشرک لوگوں نے ظاہری سلسلہ پر نظر کر کے کہ بادشاہ کے پاس سوائے وسیلہ کے نہیں جاسکتے، اللہ تعالی تک اپنی عرض لے جانے کے لئے پیر پرستی شروع کر دی اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ گو مرچکے ہیں مگر ہماری عرضیں انہیں کی راہ سے اوپر پہنچتی ہیں.یہ خطرناک غلطی ہے.خدائے پاک کے حضور عرض کرنے کا وہی طریق ہے جو کتاب اللہ میں ہے.اس پر کاربند رہو.الحکم جلد نمبر ۴..۳۱ جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۷۶) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 255

کار جون کے ۱۹۰ء 246 خطبہ نکاح حضرت مولوی نور الدین صاحب نے مکرم مولوی غلام نبی صاحب کے نکاح کا اعلان فرمایا جو مولوی حبیب اللہ صاحب مدرس چینی گاڑہ کی بیٹی کے ساتھ ہوا.خطبہ مسنونہ کے بعد آپ نے فرمایا:.اس مسنونہ عجائبات و اغراض و منافع نکاح کا بیان ہے.الحمد للہ کہہ کر عسر یسر ہر حالت میں خدا تعالٰی کی رضا پر سر تسلیم خم کرنے کا تہ دل سے اقرار ہے.پھر چونکہ انسان میں ضعف ہے اور ذمہ داری اس کی بھاری، چنانچہ یہی نکاح کا معاملہ ہے.کوئی ہزار کوشش کرے پھر بھی کئی مشکلات پیش آجاتی ہیں.اپنی طرف سے لڑکا یا لڑکی اچھی تلاش کر کے پیوند کیا جاتا ہے مگر نتیجہ خلاف امید نکلتا ہے.اس لئے اس مشکل کے حل کے لئے خدا سے مدد مانگی جاتی ہے.اس کی توفیق سے سب کچھ ہو سکتا ہے.مہر میں کئی شرائط کی تو جاسکتی ہیں مگر ان کا پورا کرنا بھی خدا کے فضل سے ممکن ہے.مثلا یہی ہمارے مولوی صاحب کی شرط بھی اگو یا بنظر حالات ظاہری کہا جا سکتا ہے کہ ایسا ہی ہو گا) اسی قبیل سے ہے جس کے لئے خاص ذمہ داری نہیں ہو سکتی.دیکھو جب نوح علیہ السلام کو کہا گیا کہ جس کا علم نہ ہو اس کی نسبت سوال مت

Page 256

247 کر تو آپ نے عرض کیا رَبِّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ اسْتَلَكَ مَا لَيْسَ لِی بِهِ عِلْمٌ (هود: ۳۸).یہ نہیں کہا کہ میں نہیں کروں گا.پھر میں یہ کہتا ہوں کہ وعدہ خلافی کا نتیجہ بطور عقوبت نفاق ہوتا ہے جیسا کہ آیت سے ظاہر ہے فَاعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِي قُلُوبِهِمْ إِلَى يَوْمِ يَلْقَوْنَهُ بِمَا اَخْلَفُوا اللَّهَ مَا وَعَدُوهُ (التوبه (۷۷) پس ہم ایسی شرطوں سے ڈرتے ہیں.پھر چونکہ ارادوں میں ناکامیاں اپنی ہی کمزوریوں اور بد عملیوں کی وجہ سے ہوتی ہیں اس لئے اس خطبہ میں ہے کہ نَسْتَغْفِرُہ اور پھر اخیر میں نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ انْفُسِنَا.چونکہ تدبیر سے کام لے کر پھر اللہ پر توکل اور اپنا سب کچھ اللہ کے سپرد کر دینا چاہیئے اس لئے نُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ فرمایا.الحکم جلد نمبر ۲۲ ---- ۲۴ / جون ۱۹۰۷ء صفحہ ۶)

Page 257

۱۲۳ اگست ۱۹۰۷ء 248 خطبہ جمعہ تشہد و تعوذ کے بعد آپ نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:.يُأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُونَ - وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ فَاصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ ايْتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ - وَلَتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ إِلَى الْخَيْرِ وَ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ ُأولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ - وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِيْنَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوْا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنْتُ وَ أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (ال عمران: ۱۰۳ تا ۱۰۶).اور پھر فرمایا:.تم نے سنا ہو گا جب کبھی میں کوئی خطبہ پڑھتا ہوں وہ خطبہ جمعہ کا ہو یا عیدین کا مضمون ہو یا لیکچریا کوئی اور نصیحت ہو تو میری عادت ہے کہ اس کے شروع میں میں اَشْهَدُ اَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ

Page 258

249 لَهُ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ پڑھ لیتا ہوں.گو میری یہ عادت نہیں کہ اپنی ہر ایک حرکت اور بات کو بلند آواز سے ظاہر کروں مگر جب کوئی لمبی بات یا درد مند دل کی بات کرنی ہو تو میں اَشْهَدُ اَنْ لا إله إلا الله وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ.اس کے اول ضرور پڑھتا ہوں اور میری غرض اس سے یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگ جو میری نصیحت سنتے ہیں اس بات کے گواہ رہیں جو میں خدا کو واحد لا شریک اس کی ذات اور صفات میں مانتا ہوں اور میں حضور قلب سے یقین سے استقلال سے یہ بات کہتا ہوں کہ میں اس کی قدرتوں کو بیان کرتے ہوئے کبھی شرمندگی نہیں اٹھاتا.میں اسے اپنا محبوب مانتا ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو سب انبیاء کا سردار اور فخر رسل سمجھتا ہوں اور میں اللہ کریم کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے محض اپنے فضل سے اس کی امت سے مجھے بنایا.اس کے محبوں سے بنایا.اس کے دین کے محبوں سے بنایا.اس کے بعد میں یہ کہتا ہوں کہ تم نے دیکھا ہو گا کہ میں سخت بیمار ہو گیا تھا اور میں نے کئی دفعہ یقین کیا تھا کہ میں اب مرجاؤں گا.ایسی حالت میں بعض لوگوں نے میری بڑی بیمار پرسی کی.تمام رات جاگتے تھے.ان میں سے خاص کر ڈاکٹر ستار شاہ صاحب ہیں.بعضوں نے ساری ساری رات دبایا اور یہ سب خدا کی غفور رحیمیاں ہیں ، ستاریاں ہیں جو ان لوگوں نے بہت محبت اور اخلاص سے ہمدردی کی.اور یاد رکھو کہ اگر میں مرجاتا تو اسی ایمان پر مرتا کہ اللہ واحد لاشریک ہے اپنی ذات اور صفات میں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بچے رسول اور خاتم الانبیاء اور فخر رسل ہیں.اور یہ بھی میرا یقین ہے کہ حضرت مرزا صاحب مہدی ہیں، مسیح ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بچے غلام ہیں.بڑے راستباز اور بچے ہیں.گو مجھ سے ایسی خدمت ادا نہیں ہوئی جیسی کہ چاہئے تھی اور ذرہ بھی ادا نہیں ہوئی، میں آج اپنی زندگی کا ایک نیا دن سمجھتا ہوں.گو تم یہ بات نہیں سمجھ سکتے.مگر اب میں ایک نیا انسان ہوں اور ایک نئی مخلوق ہوں.میرے قومی پر میرے عادات پر میرے دماغ پر میرے وجود پر میرے اخلاق پر جو اس بیماری نے اثر کیا ہے میں کہہ سکتا ہوں کہ میں ایک نیا انسان ہوں.مجھے کسی کی پروا نہیں.میں ذرا کسی کی خوشامد نہیں کر سکتا میں بالکل الگ تھلگ ہوں.میں صرف اللہ کو اپنا معبود سمجھتا ہوں.وہی میرا رب ہے.بعضوں نے مجھے پوچھا بھی ہے اور میری بیمار پرسی بھی کی ہے اور میرے ساتھ ہمدردی بھی کی ہے.مگر کتنے ہیں جنہوں نے پوچھا تک نہیں اور بہت ہیں جو کہتے ہیں کہ مرتا ہے تو مر جائے، ہمیں کیا؟ کیونکہ میں خوب سمجھتا ہوں کہ آئندہ ہفتہ تک میری زندگی بھی ہے کہ نہیں.ایسا ایسا دکھ درد اور تکلیف مجھے پہنچی ہے کہ میں سمجھتا تھا کہ اب دوسرا سانس آئے گا کہ

Page 259

250 نہیں.اس لئے میں تم کو بتانا چاہتا ہوں کہ خدا فرماتا ہے تقویٰ اختیار کرو اور اپنے باطن کو ایسا پاک صاف کر لو جیسا کہ چاہئے.خدا بڑا پاک قدوس اور سب سے بڑھ کر مطہر ہے.اس کی جناب میں مقرب بھی وہی ہو سکتا ہے جو خود پاک ہے.گندا آدمی قبولیت حاصل نہیں کر سکتا.دیکھو ایک پاک صاف اور عمدہ لباس والا آدمی ایک پیشاب والی گندی جگہ پر نہیں بیٹھتا.اسی طرح ایک پاک اور قدوس خدا ایک گندے کو اپنا مقرب کس طرح بنا سکتا ہے؟ اسی واسطے اس نے سعیدوں کے واسطے بہشت اور شقیوں کے لئے دوزخ بنایا ہے.ایک ناپاک انسان تو بہشت کے قابل بھی نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ کے قرب کے لائق کب ہو سکتا ہے.تنہائی میں بیٹھ کر اگر ایک شخص کے دل میں یہ خیالات پیدا ہوتے ہیں کہ ایسا مکان ہو ایسا لباس ہو ایسا بسترہ ہو، ایسے ایسے عیش و عشرت کے سامان موجود ہوں، اس اس طرح کے خوشکن آواز میسر آ جاویں تو اس کی موت مسلمان کی موت نہیں ہو سکتی.مومن اور مسلمان انسان کی تو ایسی حالت ہو جانی چاہئے کہ مرتے وقت کوئی غم اور اندیشہ نہ ہو.اس واسطے فرمایا لَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ (ال عمران:۱۰۳) یعنی فرمانبردار ہو کر مریو.کسی کو خبر ہے کہ موت کے وقت اس کی ہوش بھی قائم ہوگی یا نہیں.کئی مرنے کے وقت خراٹے لیتے ہیں.رہی بلونے کی طرح آواز نکالتے ہیں اور طرح طرح کے سانس لیتے ہیں.کئی کتے کی طرح ہاہا کرتے ہیں.جب یہ حال ہے اور دوسری طرف خدا بھی کہتا ہے کہ مسلمان ہو کر مریو، ایسے ہی رسول نے بھی کہا.تو یہ کس کے اختیار میں ہے جو ایسی موت مرے جو مسلمان کی موت ہو، گھبراہٹ کی موت نہ ہو.اس کا ایک سر ہے کہ جب انسان سکھ میں اور عیش و عشرت اور ہر طرح کے آرام میں ہوتا ہے سب قومی اس میں موجود ہوتے ہیں.کوئی م نہیں ہوتی.اس وقت استطاعت اور مقدرت ہوتی ہے جو خدا کے حکم کی نافرمانی کر کے حظ نفس کو پورا کرے اور کچھ دیر کے لئے اپنے نفس کو آرام دے لے.پر اگر اس وقت خدا کے خوف سے بدی سے بچ جاوے اور اس کے احکام کو نگاہ رکھے تو اللہ ایسے شخص کو وہ موت دیتا ہے جو مسلمان کی موت ہوتی ہے.اگر وہ اس وقت مرے گا جب کہ مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ القارعه) یعنی جب اس کی ترازو زور والی ہو گی تو وہ بامراد ہو گا اور مسلمان کی موت مرے گا.ورنہ ہم نے دیکھا ہے کہ مرتے وقت عورتیں پوچھتی ہی رہتی ہیں کہ میں کون ہوں؟ دوسری کہتی ہے دس خاں میں کون ہاں؟ تیسری پوچھتی ہے دسو خاں جی میں کون ہاں اور اسی میں ان کی جان نکل جاتی ہے.اس کے بعد اللہ کریم فرماتا ہے وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا.ہر مدرسہ میں ایک رسہ ہوتا

Page 260

251 ہے.کچھ لڑکے ایک طرف سے پکڑتے ہیں اور کچھ دوسری طرف سے اور آپس میں کھیلتے ہیں.کبھی وہ فتح پالیتے ہیں اور کبھی وہ اور کبھی رسہ بھی ٹوٹ جاتا ہے.مگر اللہ کریم فرماتا ہے ہم نے بھی ایک رسہ بھیجا ہے مگر سب مل کر ایک ہی طرف کھینچو.تفرقہ ، بغض اور عداوت کو بالکل چھوڑ دو.ایسی کوئی بات تم میں نہ پائی جاتی ہو جس سے تفرقہ پیدا ہو.دیکھو تم طالب علموں میں سے کسی کا باپ اعلیٰ عہدہ پر ہے.کوئی خوبصورت ہے.کسی کے پاس مال و دولت بہت ہے.کوئی عظمندی کا دعوی کرنے والا ہے.کوئی طاقت والا ہے مگر ان پر ناز مت کرو اور بھول میں مت پڑو.یاد رکھو اللہ ایک دن میں تباہ کر دیا کرتا ہے.بڑے بڑے امیروں اور دولتمندوں کے بچوں کو میں نے بھیک مانگتے اور بھیک مانگ کر مرتے دیکھا ہے اور بعضوں کو میں نے اپنے والدین کو گالی نکالتے دیکھا ہے کہ انہوں نے یہ پختہ حویلیاں اور درو دیوار بنائے ہیں اور ایسے محل بنا کر مرگئے ہیں کہ ہم آسانی سے بیچ بھی نہیں سکتے.خدا کے فضل اور رحمت کے امیدوار ہو.دیکھو ہم کس قدر بیٹھے ہیں.ایک لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ الله کے چھوٹے سے کلمہ طیبہ نے ہم سب کو اکٹھے کر دیا ہے اور ایسے ملاپ کر دینے صرف اللہ کریم کا ہی کام ہے.انسانی کوشش سے یہ کام نہیں ہوا کرتے.خدا کے فضل سے ہی ہم اکٹھے ہو گئے ہیں اور اس طرح سے ہی بچ سکتے ہیں.کسی کی شکل پر حرکات پر غرض افعال اور اقوال پر کوئی چھیڑ چھاڑ کی بات نہ کرو اور یہ اچھی طرح سے یاد رکھو کہ جو چڑ بناتے ہیں اور تفرقہ ڈالتے ہیں وہ عذاب عظیم میں مبتلا ہوتے ہیں.یقیناً یاد رکھو کہ بدی کا انجام ہمیشہ بد ہوتا ہے اور سرخروئی اللہ کریم کی رحمت سے ہی حاصل ہوتی ہے.یہ خدا کی باتیں ہیں جو ہم نے تم کو پڑھ کر سنا دیں.اللہ ظلم نہیں چاہتا.اللہ کریم ہم سب کو عمل کی توفیق دے.اس پر حضرت حکیم الامت نے دوسرا مسنونہ خطبہ پڑھنا شروع کیا.شروع کرنا ہی تھا کہ ایک دو شخص شاید وضو کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور پھر انہیں کی دیکھا دیکھی بھیڑ چال کی طرح بیبیوں اور اٹھ کھڑے ہوئے.) اس پر حضرت حکیم الامت نے فرمایا کہ دو سرا خطبہ بھی نصیحت ہی ہوتی ہے.اس وقت اٹھ کھڑے ہونا درست نہیں اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایسا ہوا کرتا تھا کہ جب دوسرا خطبہ ہو تو ملنے جلنے لگ جاؤ.دیکھو میں تم سے کوئی مزدوری نہیں مانگتا إِنْ أَجْرِى إِلَّا عَلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ (الشعراء:) کوئی خوشامد نہیں.تمہارے سلام کی بھی ہمیں کوئی ضرورت نہیں.تمہاری دعاؤں کی بھی ہمیں کوئی ضرورت نہیں.کوئی نصیحت جو ہم کرتے ہیں تو محض اللہ کے لئے کرتے ہیں.

Page 261

252 میرے دل میں جوش تو بہت تھا اور چند نصائح بھی میں کہنی چاہتا تھا مگر اب موقع نہیں رہا.اتنا ہی یاد رکھو کہ دوسرے خطبہ میں بھی انتظار واجب ہوتا ہے اور تقویٰ تمام نیکیوں کی جڑ ہے.ا حکم جلد نمبر ۳۱-۳۱۰۰ اگست ۱۹۰۷ء صفحه ۱-۱۲) ✰✰✰✰

Page 262

۱۳ تمبر۱۹۰۷ء 253 خطبہ نکاح سید عبد الرحیم سیالکوٹی کا نکاح منشی عبد الرحمن صاحب کپور تھلوی کی دختر نیک اخترامہ اللہ نام سے یک صد روپیہ مر پر پڑھا گیا.اللہ تعالی اس نکاح کو مبارک کرے.تشهد و تعوذ اور آیات مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:..اسلامیوں کی ہر ایک کتاب ہر ایک سبق ہر ایک تصنیف اور خطوط وغیرہ میں ہمیشہ یہ بات مد نظر رکھی گئی ہے کہ اللہ جل شانہ کی بزرگی، عظمت، بڑائی اور کبریائی کا بیان ہو.ہر ایک تحریر اور تقریر سے پہلے اس کی صفات کا تذکرہ اور اسی کی حمد و ستائش کو مقدم رکھا گیا ہے.یہاں تک کہ ہر ایک سبق سے پہلے بھی بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ پڑھا جاتا ہے.غرض اس سے یہ ہوتی ہے کہ انسان کے اقوال ہوں یا افعال ہوں ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کی رضامندی کو مد نظر رکھنا چاہئے اور ہر ایک کام میں خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے ہوں، خدا کی عظمت کا خیال رکھا جاوے.یہاں تک کہ پاخانہ جانے کے لئے بھی دعائیں سکھائی ہیں.الہی! جیسے ظاہری طور پر گندگی دور کرنے کا مجھے تقاضا ہوا ہے ویسے ہی روحانی طور پر بھی گندگی دور کرنے کا تقاضا ہو اور جیسے یہ گندگی دور ہو گئی ہے ویسے ہی میری روحانی گندگی اور میل

Page 263

254 کچیل بھی دور ہو.ایسے ہی کھانا کھانے سے پہلے بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پڑھ کر کھانا شروع کرنا چاہئے اور ختم کرتے وقت الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِین میسی دعا سکھائی ہے.ایسے ہی بیوی کے ساتھ محبت کرنے کے لئے بھی دعائیں سکھائی ہیں اور پھر فراغت کے لئے بھی دعائیں بتائی ہیں.یہاں تک کہ بازاروں میں جانے کی بھی دعائیں ہیں اور واپس آنے کی بھی دعائیں ہیں.مسجدوں کے اندر داخل ہونے کی بھی دعائیں ہیں اور مسجدوں سے باہر نکلنے کی بھی دعائیں ہیں.اور مطلب ان کا یہی ہوتا ہے کہ اللہ کی عظمت و رضامندی کا خیال ہر دم کر لیا جاوے.اس کے انعاموں کو یاد کر کے اور فضلوں کا امیدوار بن کے ہر ایک کام کو کرنا چاہئے.بڑے بڑے کاموں میں سے نکاح بھی ایک کام ہے.اکثر لوگوں کا یہی خیال ہوتا ہے کہ بڑی قوم کا انسان ہو.حسب نسب میں اعلیٰ ہو.مال اس کے پاس بہت ہو.حکومت اور جلال ہو.خوبصورت اور جوان ہو.مگر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ کوشش کیا کرو کہ دیندار انسان مل جاوے.اور چونکہ حقیقی علم اخلاق عادات اور دینداری سے آگاہ ہونا مشکل کام ہے، جلدی سے پتہ نہیں لگ سکتا اس لئے فرمایا کہ استخارہ ضرور کر لیا کرو.اور صرف ناطہ کی رسم رکھی ہے اور نکاح کی نسبت اللہ کریم فرماتا ہے کہ اس سے غرض صرف مستی کا مٹانا ہی نہ ہو بلکہ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ (المائده) کو مد نظر رکھے اور ہر ایک بات میں اس خدا کے آگے جس کے ہاتھ میں مال جان اخلاق و عادات اور ہر ایک طرح کا آرام ہے بہت بہت استغفار کرے اور بے پرواہی سے کام نہ لے خواہ وہ انتخاب لڑکوں کا ہو یا لڑکیوں کا.کیونکہ بعد میں بڑے بڑے ابتلاؤں کا سامنا ہوا کرتا ہے اور ابتلا کئی طرح کے ہوا کرتے ہیں.ا.راستبازوں اور اولوالعزم نبیوں پر بھی ابتلا آتے ہیں جیسے وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ (البقره:۱۳۵) - ۲.بدذاتوں، بے ایمانوں کافروں اور مشرکوں پر بھی ابتلا آتے ہیں نَبْلُوهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ (الاعراف: ۱۶۴).۳.ان دونوں گروہوں کے درمیان ایک اور گروہ بھی ہے ان پر بھی آتے ہیں جیسے فرمایا وَ بَلَوْنَهُمْ بِالْحَسَنَتِ وَالسَّيِّاتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (الاعراف: ۱۲۹).اور کبھی ابتلا ترقی مدارج کے لئے بھی آتے ہیں.جیسے فرمایا وَلَتَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّبِرِينَ الَّذِيْنَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَتْ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ وَأُولئِكَ هُمُ

Page 264

255 الْمُهْتَدُونَ (البقره: ۱۵۲ ۱۵۸)- انسان کا نکاح اصل میں ایک نیا رشتہ ہوتا ہے.ایک اجنبی عورت سے تعلقات شروع ہو جاتے ہیں.بعض ملکوں میں تو عورت کو مرد کا یا مرد کو عورت کا پتہ تک بھی نہیں ہوتا اور ان کا آپس میں نکاح شروع کر دیتے ہیں.عور تیں حقیقت میں فطرتنا ناقص العقل اور ناقص الدین ہوتی ہیں اور پھر بد قسمتی سے ہمارے ملک میں تو عورتیں کچھ پڑھی لکھی بھی کم ہوتی ہیں.لوگوں کی غفلت سستی اور کاہلی کے سبب سے بہت ہی کم عورتیں تعلیم یافتہ ملیں گی.اور پھر بے پرواہی اور غفلت کے سبب سے عورتوں کی تعلیم میں بہت کم توجہ کی جاتی ہے اور ایسے ضروری کام میں بہت بے توجہی سے کام لیا جاتا ہے.مرد فطر تا چاہتا ہے کہ میری بیوی میرے رنگ میں رنگین ہو جاوے اور ہر طرح سے میرے مذاق کے مطابق بن جاوے.اس لئے بعض وقت خفا ہو کر اور غصہ میں آکر طعن اور تشفیع دیتا ہے.اتنا نہیں سوچتا کہ مجھے تو دنیا کے سرد و گرم کی واقفیت بڑے بڑے تجربہ کاروں کی صحبت کے اثر اور عمدہ عمدہ مجلسوں کی اعلیٰ اعلیٰ باتوں کے باعث ہے اور اس بیچاری کو اتنی خبر ہی کہاں ہے اور ایسا موقع ہی کب میسر آسکتا ہے.اور پھر عورت مرد کے تعلق کی آپس میں ایسی خطرناک ذمہ داری ہوتی ہے کہ بعض اوقات معمولی معمولی باتوں پر حسن و جمال کا خیال بھی نہیں رہتا اور عورتیں کسی نہ کسی نبج میں ناپسند ہو جاتی ہیں اور ان کے کسی فعل سے کراہت پیدا ہوتے ہوتے کچھ اور کا اور ہی بن جاتا ہے.اس لئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے و عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا (النساء:۲۰).پس عزیزو! تم دیکھو اگر تم کو اپنی بیوی کی کوئی بات نا پسند ہو تو تم اس کے ساتھ پھر بھی عمدہ سلوک ہی کرو.اللہ فرماتا ہے ہم اس میں عمدگی اور خوبی ڈال دیں گے.ہو سکتا ہے کہ ایک بات حقیقت میں عمدہ ہو اور تم کو بری معلوم ہوتی ہو.کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ مجھ پر حملہ کرتا ہے.میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں کسی کی طرف اشارہ نہیں کرتا.بلکہ مجھے شروع سے ایک دردمند دل دیا گیا ہے.پس چاہئے کہ اپنے اقوال اور افعال کا بہت مطالعہ کرو.اب میں وہ آیات پڑھتا ہوں جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اکثر اوقات نکاحوں کے وقت پڑھا کرتے تھے.يُأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَتِهِ (ال عمران :(۱۳) مومن کو چاہئے کہ تقویٰ کے لئے بیاہ

Page 265

256 کرے.بیاہ سے غرض صرف تقویٰ ہو.ہر ایک چیز کو دیکھ لینا چاہئے کہ اس کا فائدہ کیا ہو گا؟ اخلاق پر اس کا کیا اثر ہو گا؟ خدا اس سے راضی ہو گا کہ نہیں ہو گا.مخلوق کو کوئی نفع پہنچے گا کہ نہیں پہنچے گا يايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلاً سَدِيدًا يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَ مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا (الاحزاب (۷۲۴۷) نکاحوں کے معاملات میں بعض لوگ پہلے بڑے لمبے چوڑے وعدے دیا کرتے ہیں کہ ہم ایسا کریں گے اور تم کو اس طور پر خوش کرنے کی کوشش کریں گے اور یہ کریں گے وہ کریں گے مگر جب یہ نیا معاملہ پیش آجاتا ہے تو پھر بہت مشکلات پیش آجاتی ہیں اور بد عہدی کرنی پڑتی ہے.اسی والے اللہ کریم نے فرمایا ہے کہ پہلے ہر ایک بات کو اچھی طرح سے سوچ لو اور بڑا سوچ سمجھ کر نکاح کا معاملہ کیا کرو اور اس کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال میں تبدیلی اور اصلاح کرے گا.اور جو شخص اللہ کی اطاعت کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا کہا مانتا ہے عمل میں وہی اچھی طرح سے بامراد اور کامیاب ہوتا ہے.يَايُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا (النساء:۲) نکاح کے اصل اغراض یہ ہیں کہ انسان کو ایک قسم کا آرام حاصل ہو اور بہت سی حاجات رفع ہوں اور صالح اولاد حاصل ہو.جیسے دعا سکھائی رَبِّ هَبْ لِي مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّيَّةٌ طَيِّبَةً (ال عمران:۳۹) ایک دفعہ الحکم کے ایڈیٹر شیخ یعقوب علی نے اولاد کے حصول کے واسطے بڑے بڑے اشتہار مجھے دکھائے اور کہا کہ آپ کے اولاد نہیں ہوتی.دیکھو یہ کتنا بڑا دعویٰ کرتا ہے.آپ ضرور اس اشتہار پر عمل کریں.میں نے اسے یہی جواب دیا تھا کہ ایسی اولاد کی مجھے ضرورت ہی نہیں.نفس اولاد چیز کیا ہے؟ مجھے تو سعادت مند روح کی ضرورت ہے.اور رشد اور سعادت کا پتہ غالباً اٹھارہ برس کی عمر تک لگ ہی سکتا ہے.اگر اس طرح کی اولاد کا کوئی ٹھیکہ اٹھاوے تو ہم اس کے اشتہار پر عمل کر سکتے ہیں.تب اس نے جواب میں کہا کہ ایسا تو وہ نہیں کر سکتے.پھر میں نے جواب دیا کہ مجھے دس روپیہ والی اولاد کی ضرورت ہی نہیں.ایسی اولاد کا فائدہ ہی کیا ہے.نہ ہو تو بہتر ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بہت نکاح کرو تاکہ میری امت بڑھے.یہ تو نہیں کہا کہ انسان بہت سارے ہوں.یہی کہا ہے کہ میری امت بہت ہو.غرض مومن کو چاہئے کہ اپنی بیوی سے تعلقات میں اور اپنے اقوال اور افعال میں بھی تقوی کو مد نظر رکھے اور ہر فعل میں خدا کی رضامندی کا خواہاں رہے.خدا کرے کہ تمہارے تقویٰ میں ترقی ہو.آمین.(الحکم جلد نمبر ۳۴----۳۰۰ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۵-۶)

Page 266

۱۸ اکتوبر۷ ۱۹۰ء 257 خطبہ جمعہ تشہد اور تعوذ کے بعد آپ نے مندرجہ ذیل آیت تلاوت فرمائی:.يُأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَ لَا تَجَسَّسُوا وَ لا يَغْتَب بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ (الحجرات: ۱۳) اور پھر فرمایا :.بعض گناہ ہوتے ہیں کہ وہ اور بہت سے گناہوں کو بلانے والے ہوتے ہیں.اگر ان کو نہ چھوڑا جائے تو ان کی ایسی ہی مثال ہے کہ ایک شخص کے بتوں کو تو تو ڑا جائے مگر بت پرستی کو اس کے دل سے دور نہ کرایا جاوے.اگر ایک بت کو توڑ دیا تو اس کے عوض سینکڑوں اور تیار ہو سکتے ہیں.مثلاً صلیب ایک پیسہ کو آتی ہے.اگر کسی ایک کی صلیب کو توڑ ڈالیں تو لاکھوں اور بن سکتی ہیں.غرض جب تک

Page 267

258 شرارتوں اور گناہوں کی ماں اور جڑ دور نہ ہو تب تک کسی نیکی کی امید نہیں ہو سکتی اور تاوقتیکہ اصلی جڑ اور اصلی محرک بدی کا دور نہ ہو فروعی بدیاں بکلی دور نہیں ہو سکتیں.جب تک بدیوں کی جڑ نہ کائی جاوے تب تک وہ اور بدیوں کو اپنی طرف کھینچے گی اور دوسری بدیاں اپنا پیوند اس سے رکھیں گی.مثلاً شہوت بد ایک گناہ ہے.بد نظری، زنا، لواطت، حسن پرستی، سب اسی سے پیدا ہوتی ہیں.حرص اور طمع جب آتا ہے تو چوری، جعلسازی ڈاکہ زنی ناجائز طور سے دوسروں کے مال حاصل کرنے اور طرح طرح کی دھوکہ بازیاں سب اسی کی وجہ سے کرنی پڑتی ہیں.غرض یہ یاد رکھنے والی بات ہے کہ بعض باتیں اصل ہوتی ہیں اور بعض ان کی فروعات ہوتی ہیں.جو لوگ اللہ تعالیٰ کو نہیں مانتے وہ کوئی حقیقی اور سچی نیکی ہرگز نہیں کر سکتے اور وہ کسی کامل خلق کا نمونہ نہیں دکھا سکتے کیونکہ وہ کسی صحیح نتیجہ کے قائل نہیں ہوتے.میں نے بڑے بڑے دہریوں کو مل کر پوچھا ہے کہ کیا تم کسی بچے اخلاق کو ظاہر کر سکتے ہو اور کوئی حقیقی نیکی عمل میں لا سکتے ہو تو وہ لاجواب سے ہو کر رہ گئے ہیں.ہمارے زیر علاج بھی ایک دہریہ ہے.میں نے اس سے یہی سوال کیا تھا تو وہ ہنس کر خاموش ہو گیا تھا.ایسے ہی جو لوگ قیامت کے قائل نہیں ہوتے وہ بھی کسی حقیقی نیکی کو کامل طور پر عمل میں نہیں لا سکتے.نیکیوں کا آغاز جزا سزا کے مسئلہ سے ہی ہوتا ہے.جو شخص جزا سزا کا قائل نہیں ہوتا وہ نیکیوں کے کام بھی نہیں کر سکتا.ایسے ہی جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ دوسرے لوگوں کے اس قسم کے الفاظ سے مجھے رنج پہنچتا ہے وہ کسی کی نسبت ویسے الفاظ کیوں استعمال کرنے لگا.یا جو شخص اپنی لڑکی سے بد نظری اور بد کاری کروانا نہیں چاہتا اور اسے ایک برا کام سمجھتا ہے وہ دوسروں کی لڑکیوں سے بد نظری کرنا کب جائز سمجھتا ہے.ایسے ہی جو اپنی ہتک کو برا خیال کرتا ہے وہ دوسروں کی ہتک کبھی نہیں کرتا.بہر حال یہاں اللہ تعالٰی نے گناہوں سے بچنے کا ایک گر بتایا ہے.يُأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا من القلن إن بعض ان اہم ایماندارو! ظن سے بچنا چاہئے کیونکہ بہت سے گناہ اس سے پیدا ہوتے ہیں.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.اِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ (بخاری کتاب الوصایا).ایک شخص کسی کے آگے اپنی ضرورتوں کا اظہار کرتا ہے اور اپنے مطلب کو پیش کرتا ہے.لیکن اس کے گھر کی حالت اور اس کی حالت کو نہیں جانتا اور اس کی طاقت اور دولت سے بے خبر ہوتا ہے.اپنی حاجت براری ہوتے نہ دیکھ کر سمجھتا ہے کہ اس نے جان بوجھ کر شرارت کی اور میری دستگیری سے منہ موڑا.تب محض ظن کی بنا پر اس جگہ جہاں اس کی محبت بڑھنی چاہئے تھی، عداوت کا بیج بویا جاتا ہے اور آہستہ آہستہ ان گناہوں تک نوبت پہنچ جاتی ہے جو عداوت کا پھل ہیں.کئی

Page 268

259 لوگوں سے میں نے پوچھا ہے کہ جب تم نے میرا نام سنا تھا تو میری یہی تصویر اور موجودہ حالت کا ہی نقشہ آپ کے دل میں آیا تھا یا کچھ اور ہی سماں اپنے دل میں آپ نے باندھا ہوا تھا.تو انہوں نے یہی جواب دیا ہے کہ جو نقشہ ہمارے دل میں تھا اور جو کچھ ہم سمجھے بیٹھے تھے وہ نقشہ نہیں پایا.یاد رکھو بہت بدیوں کی اصل جڑ سوء ظن ہوتا ہے.میں نے اگر کبھی سوء ظن کیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے میری تعلیم فرما دی کہ بات اس کے خلاف نکلی.میں اس میں تجربہ کار ہوں اس لئے نصیحت کے طور پر کہتا ہوں کہ اکثر سوء ظنیوں سے بچو.اس سے سخن چینی اور عیب جوئی کی عادت بڑھتی ہے.اسی واسطے اللہ کریم فرماتا ہے وَلَا تَجَسَّسُوا نجس نہ کرو.تجس کی عادت بدظنی سے پیدا ہوتی ہے.جب انسان کسی کی نسبت سوء ظنی کی وجہ سے ایک خراب رائے قائم کر لیتا ہے تو پھر کوشش کرتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس کے کچھ عیب مل جاویں اور پھر عیب جوئی کی کوشش کرتا اور اسی جستجو میں مستغرق رہتا ہے اور یہ خیال کر کے کہ اس کی نسبت میں نے جو یہ خیال ظاہر کیا ہے اگر کوئی پوچھے تو پھر اس کا کیا جواب دوں گا اپنی بد نلنی کو پورا کرنے کے لئے جنس کرتا ہے.اور پھر تجس سے غیبت پیدا ہوتی ہے.جیسے فرمایا اللہ کریم نے وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا.غرض خوب یاد رکھو کہ سوء ظن سے نجس اور تجس سے غیبت کی عادت شروع ہوتی ہے.اور چونکہ آجکل ماہ رمضان ہے اور تم لوگوں میں سے بہتوں کے روزے ہوں گے اس لئے یہ بات میں نے روزہ پر بیان کی ہے.اگر ایک شخص روزہ بھی رکھتا ہے اور غیبت بھی کرتا ہے اور تجسس اور نکتہ چینیوں میں مشغول رہتا ہے تو وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاتا ہے جیسے فرمایا اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ.اب جو غیبت کرتا ہے وہ روزہ کیا رکھتا ہے وہ تو گوشت کے کباب کھاتا ہے اور کباب بھی اپنے مردہ بھائی کے گوشت کے.اور یہ بالکل سچی بات ہے کہ غیبت کرنے والا حقیقت میں ہی ایسا بد آدمی ہوتا ہے جو اپنے مردہ بھائی کے کباب کھاتا ہے.مگر یہ کباب ہر ایک آدمی نہیں دیکھ سکتا.ایک صوفی نے کشفی طور پر دیکھا کہ ایک شخص نے کسی کی غیبت کی.تب اس سے قے کرائی گئی تو اس کے اندر سے بوٹیاں نکلیں جن سے بو بھی آتی تھی.یاد رکھو یہ کہانیاں نہیں.یہ واقعات ہیں.جو لوگ بدظنیاں کرتے ہیں وہ نہیں مرتے جب تک اپنی نسبت بدظنیاں نہیں سن لیتے.اس لئے میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں اور درد دل سے کہتا ہوں کہ غیبتوں کو چھوڑ دو.بغض اور کینہ سے اجتناب اور بکلی پر ہیز کرو اور بالکل الگ تھلگ رہو.اس سے بڑا فائدہ ہو گا.میری نہ کوئی جاگیر مشترکہ ہے نہ کوئی مکان مشترکہ ہے.میرا کوئی معاملہ دنیا کا کسی سے مشترکہ

Page 269

260 نہیں.اسی طرح میں اوروں پر قیاس کرتا ہوں کہ وہ بھی یہاں آکر الگ تھلگ ہوں گے اور اگر کچھ معمولی سی شراکت ہو گی بھی تو کوشش کرنے سے بالکل الگ رہ سکتے ہیں.انسان خود بخود اپنے آپ کو پھندوں میں پھنسا لیتا ہے ورنہ بات سہل ہے.جو لڑکے دوسروں کی نکتہ چینیاں اور غیبتیں کرتے ہیں اللہ کریم ان کو پسند نہیں کرتا.اگر کسی میں کوئی غلطی دیکھو تو خدا تعالیٰ سے اس کے لئے دعا کرو کہ وہ اس کی غلطی نکال دیوے اور اپنے فضل سے اس کو راہ راست پر چلنے کی توفیق دیوے.یاد رکھو اللہ کریم تَوَّابٌ رَّحِيمٌ ہے.وہ معاف کر دیتا ہے.جب تک انسان اپنا نقصان نہ اٹھائے اور اپنے اوپر تکلیف گوارا نہ کرے کسی دوسرے کو سکھ نہیں پہنچا سکتا.بد صحبتوں سے بکلی کنارہ کش ہو جاؤ.خوب یاد رکھو کہ ایک چوہڑی یا لوہار کی بھٹی یا کسی عطار کی دوکان کے پاس بیٹھنے سے ایک جیسی حالت نہیں رہا کرتی.ظن کے اگر قریب بھی جانے لگو تو اس سے بچ جاؤ کیونکہ اس سے پھر تجسس پیدا ہو گا.اور اگر تجتس تک پہنچ چکے ہو تو پھر بھی رک جاؤ کہ اس سے غیبت تک پہنچ جاؤ گے.اور یہ ایک بہت بری بد اخلاقی ہے اور مردار کھانے کی مانند ہے.وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ (الحجرات:۱۳) تقویٰ اختیار کرو اور پورے پورے پر ہیز گار بن جاؤ.مگر یہ سب کچھ اللہ ہی توفیق دے تو حاصل ہوتا ہے.ہم تو انباروں کے انبار ہر روز معرفت کے پیش کرتے ہیں.گو فائدہ تو ہوتا ہے مگر ہم چاہتے ہیں کہ بہت فائدہ ہو اور بہتوں کو ہو.خدا تعالیٰ توفیق عنایت فرمادے.آمین.الحکم جلد نمبر ۳۹-۰-۳۱ اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحه ۸-۹) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 270

یکم نومبر۷ ۱۹۰ء 261 خطبہ جمعۃ الوداع مطبات نور تشہد و تعوذ کے بعد آپ نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی.شَهُرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَوَ لا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدْيكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ - وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيْبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيْبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ - أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ عليم اللهُ انَّكُمْ كُنتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ فَالْقُنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللهُ لَكُمْ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبيضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى الَّيْلِ وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَ اَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسْجِدِ تِلْكَ حُدُودُ اللهِ فَلَا تَقْرَبُوْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ ايْتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ - وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ ۖ كُمْ بِالْبَاطِنِ

Page 271

262 وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (البقر ) (۱۸) اور پھر فرمایا:.رمضان کے دن بڑے بابرکت دن ہیں.اب یہ گذرنے کو ہیں.یہ دن پھر ہم کو اسی رمضان میں نہیں آئیں گے.نہیں معلوم آئندہ رمضان تک کس کی حیاتی ہے اور کس کی نہیں.اللہ تعالیٰ نے اس مہینے میں خاص احکام دیتے ہیں اور ان پر عمل کرنے کی خاص تاکید کی ہے.جو لوگ مسافر ہیں یا بیمار ہیں ان کو تو سفر کے بعد اور بیماری سے صحت یاب ہو کر روزے رکھنے کا حکم ہے مگر دوسرے لوگوں کو دن کے وقت کھانا پینا اور بیوی سے جماع کرنا منع ہے.کھانا پینا بقائے شخص کے لئے نہایت ضروری ہے اور جماع کرنا بقائے نوع کے لئے سخت ضروری ہے.اس مہینہ میں خدا تعالیٰ نے دن کے وقت ایسی ضروری چیزوں سے رکے رہنے کا حکم دیا تھا.ان چیزوں سے بڑھ کر اور کوئی چیزیں ضروری نہیں.بے شک سانس لینا ایک نہایت ضروری چیز ہے مگر انسان اس کو چھوڑ نہیں سکتا.اللہ تعالیٰ نے یہ مہینہ اس واسطے بنایا ہے کہ جب انسان گیارہ مہینے سب کام کرتا ہے اور کھانے پینے، بیوی سے جماع کرنے میں مصروف رہتا ہے تو پھر ایسی ضروری چیزوں کو صرف دن کے وقت خدا تعالیٰ کے حکم سے ایک ماہ کے لئے ترک کر دے.اور پھر دیکھو جہاں ایک طرف ان ضروری اشیاء سے منع کیا ہے دوسری طرف تدارس قرآن ، قیام رمضان اور صدقہ وغیرہ کا حکم دیا ہے اور اس میں یہ بات سمجھائی ہے کہ جب ضروری چیزیں چھوڑ کر غیر ضروری چیزوں کو خدا کے حکم سے اختیار کیا جاتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے حکم کے برخلاف غیر ضروری چیزوں کو حاصل کیا جاتا ہے.رمضان کے مہینہ میں دعاؤں کی کثرت، تدارس قرآن، قیام رمضان کا ضرور خیال رکھنا چاہئے.حدیث شریف میں لکھا ہے مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَّ احْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ (بخارى كتاب الصوم باب فضل من قام رمضان) مگر افسوس کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ رمضان میں خرچ بڑھ جاتا ہے حالانکہ یہ بات غلط ہے.اصل بات یہ ہے کہ وہ لوگ روزہ کی حقیقت سے ناواقف ہوتے ہیں.سحرگی کے وقت اتنا پیٹ بھر کر کھاتے ہیں کہ دوپہر تک بد ہضمی کے ڈکار ہی آتے رہتے ہیں اور مشکل سے جو کھانا ہضم ہونے کے قریب پہنچا بھی تو پھر افطار کے وقت عمدہ عمدہ کھانے پکوا کے وہ اندھیر مارا اور ایسی شکم پری کی کہ وحشیوں کی طرح نیند پر نیند اور ستی پر ستی آنے لگی.اتنا خیال نہیں کرتے کہ روزہ تو نفس کے لئے ایک مجاہدہ تھا نہ یہ کہ آگے سے بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر خرچ کیا جاوے اور خوب پیٹ پر کر کے کھایا جاوے.

Page 272

263 یاد رکھو اسی مہینہ میں ہی قرآن مجید نازل ہونا شروع ہوا تھا اور قرآن مجید لوگوں کے لئے ہدایت اور نور ہے.اسی کی ہدایت کے بموجب عمل درآمد کرنا چاہئے.روزہ سے فارغ البالی پیدا ہوتی ہے اور دنیا کے کاموں میں سکھ حاصل کرنے کی راہیں حاصل ہوتی ہیں.آرام تو یا مرکز حاصل ہوتا ہے یا بدیوں سے بچ کر حاصل ہوتا ہے اس لئے روزہ سے بھی سکھ حاصل ہوتا ہے اور اس سے انسان قرب حاصل کر سکتا اور متقی بن سکتا ہے.اور اگر لوگ پوچھیں کہ روزہ سے کیسے قرب حاصل ہو سکتا ہے تو کہہ دے فانی قَرِيْبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ یعنی میں قریب ہوں اور اس مہینہ میں دعائیں کرنے والوں کی دعائیں سنتا ہوں.چاہئے کہ پہلے وہ ان احکام پر عمل کریں جن کا میں نے حکم دیا اور ایمان حاصل کریں تاکہ وہ مراد کو پہنچ سکیں.اور اس طرح سے بہت ترقی ہوگی.بہت لوگ اس مہینہ میں اپنی بیویوں سے صحبت کرنا جائز نہیں سمجھتے تھے مگر خدا تعالیٰ چونکہ جانتا تھا کہ قوی آدمی ایک مہینہ تک صبر نہیں کر سکتا اس لئے اس نے اجازت دے دی کہ رات کے وقت اپنی بیویوں سے تم لوگ صحبت کر سکتے ہو.بعض لوگ ایک مہینہ تک کب باز رہ سکتے ہیں اس لئے خدا نے صبح صادق تک بیوی سے جماع کرنے کی اجازت دے دی.بد نظری شہوت پرستی کینہ بغض ،غیبت اور دوسری بد باتوں سے خاص طور پر اس مہینہ میں بچے رہو.اور ساتھ ہی ایک اور حکم بھی دیا کہ رمضان میں اس سنت کو بھی پورا کرو کہ رمضان کی بیسویں صبح سے لے کر دس دن اعتکاف کیا کرو.ان دنوں میں زیادہ توجہ الی اللہ چاہئے.اور پھر رمضان کے بعد بطور نتیجہ کے فرمایا وَلا تَأكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوابها إلَى الْحُكّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ یعنی ناحق کسی کا مال لینا ایسا ضروری نہیں جیسے کہ اپنی بیوی سے جماع کرنا یا کھانا پینا.اس لئے خدا تعالٰی سکھاتا ہے کہ جب تم خدا کی خاطر کھانے پینے سے پر ہیز کر لیا کرتے ہو تو پھر ناحق کا مال اکٹھا نہ کرو بلکہ حلال اور طیب کما کر کھاؤ.اکثر لوگ یہی کہتے ہیں کہ جب تک رشوت نہ لی جاوے اور دعا فریب اور کئی طرح کی بددیانتیاں عمل میں نہ لائی جاویں روٹی نہیں ملتی.یہ ان کا سخت جھوٹ ہے.ہمیں بھی تو ضرورت ہے.کھانے پینے ، پہننے سب اشیا کی خواہش رکھتے ہیں.ہماری بھی اولاد ہے.ان کی خواہشوں کو بھی ہمیں پورا کرنا پڑتا ہے.اور پھر کتابوں کے خریدنے کی بھی ہمیں ایک دھت اور ایک فضولی ہمارے ساتھ لگی ہوئی ہے.گو اللہ کی کتاب ہمارے لئے کافی ہے اور دوسری کتابوں کا خرید کرنا اتنا ضروری نہیں مگر میرے نفس نے ان کا

Page 273

264 خرید کرنا ضروری سمجھا ہے اور گو میں اپنے نفس کو اس میں پوری طرح سے کامیاب نہیں ہونے دیتا مگر پھر بھی بہت سے روپے کتابوں پر بھی خرچ کرنے پڑتے ہیں.مگر دیکھو ہم بڑھے ہو کر تجربہ کار ہو کر کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ انسان کو اس کی ضرورت سے زیادہ دیتا ہے.بد سے بد پیشہ طبابت کا ہے جس میں سخت جھوٹ بولا جا سکتا ہے اور حد درجہ کا حرام مال بھی کمایا جا سکتا ہے.ایک راکھ کی پڑیا دیگر طبیب کہہ سکتا ہے کہ یہ سونے کا کشتہ ہے.فلانی چیز کے ساتھ اسے کھاؤ.اور ایسے ہی طرح طرح کے دھو کے دیئے جا سکتے ہیں.جس طبیب کو پوری فہم نہیں، پوری تشخیص نہیں اور دوائیں دے دے کر روپیہ کماتا ہے تو وہ بھی بطلان سے مال کماتا ہے.وہ مال طیب نہیں بلکہ حرام مال ہے.اسی طرح جتنے جعلساز ، جھوٹے اور فریبی لوگ ہوتے ہیں اور دھوکوں سے اپنا گزارہ چلاتے ہیں وہ بھی بطلان سے مال کھاتے ہیں.ایسا ہی طبیبوں کے ساتھ پنساری بھی ہوتے ہیں جو جھوٹی چیزیں دے کر کچی چیزوں کی قیمت وصول کرتے ہیں اور بے خبر لوگوں کو طرح طرح کے دھوکے دیتے ہیں اور پھر پیچھے سے کہتے ہیں کہ فلاں تھا تو دانا مگر ہم نے کیسا الو بنا دیا.ایسے لوگوں کا مال حلال مال نہیں ہو تا بلکہ وہ حرام ہوتا ہے اور بطلان کے ساتھ کھایا جاتا ہے.مومن کو ایک مثال سے باقی مثالیں خود سمجھ لینی چاہئیں.میں نے زیادہ مثالیں اس واسطے نہیں دی ہیں کہ کہیں کوئی نہ سمجھ لے کہ ہم پر بد ظنیاں کرتا ہے.اسی واسطے میں نے اپنے پیشہ کا ذکر کیا ہے.میں اسے کوئی بڑا علم نہیں سمجھتا.میں اسے ایک پیشہ سمجھتا ہوں.طبیبوں سے حکماء لوگ ڈرے ہیں اس لئے انہوں نے اس پیشہ کا نام صنعت رکھا ہے.یاد رکھو یہ بھی ایک کمینگی کا پیشہ ہے.اس میں حرامخوری کا بڑا موقع ملتا ہے.اور طب کے ساتھ پنساری کی دوکان بنانا اس میں بہت دھو کہ ہوتا ہے.نہ صحت کا اندازہ لوگوں کو ہوتا ہے، نہ مرض کی پوری تشخیص ہوتی ہے.اور پھر نہایت ہی معمولی سی جنگل کی سوکھی ہوئی ہوئی دے کر مال حاصل کر لیتے ہیں.یہ بھی سخت درجہ کا بطلان کے ساتھ مال کھانا ہے.وہ جو میں نے اپنے جنون کا ذکر کیا ہے، چند روز ہوئے ایک عمدہ کتاب بڑی خوشنما بڑی خوبصورت اور دل لبھانے والی اس کی جلد تھی جس پر رنگ لگا ہوا تھا اس کو جو کہیں رکھا تو اور چیزوں کو بھی اس سے رنگ چڑھ گیا جس سے ہمیں بہت دکھ پہنچا.پس جلد کرنے جلد کی جو قیمت لی ہے حقیقت میں وہ حلال مال نہیں بلکہ بطلان سے حاصل کیا ہوا ہے.اسی طرح اور بھی پیشے ہیں مگر ان کا ذکر میں اس واسطے نہیں کرتا کہ کسی کو رنج نہ پہنچے.اسی طرح خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ حکام تک مال نہ پہنچاؤ.بعض لوگ یونہی لوگوں کو وسوسے ڈالتے رہتے ہیں اور لوگوں کو ناجائز طور پر پھنسانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں.اس لئے بعض لوگ ان سے

Page 274

265 ڈر جاتے ہیں اور نقصان اٹھا لیتے ہیں.فرض روزہ جو رکھا جاتا ہے تو اس لئے کہ انسان منتقی بنا سکھے.ہمارے امام فرمایا کرتے ہیں کہ بڑا ہی بد قسمت ہے وہ انسان جس نے رمضان تو پایا مگر اپنے اندر کوئی تغیر نہ پایا.پانچ سات روزے باقی رہ گئے ہیں.ان میں بہت کوشش کرو اور بڑی دعائیں مانگو.بہت توجہ الی اللہ کرو اور استغفار اور لاحول کثرت سے پڑھو.قرآن مجید سن لو سمجھ لو سمجھا لو.جتنا ہو سکے صدقہ اور خیرات دے لو اور اپنے بچوں کو بھی تحریک کرتے رہو.اللہ تعالیٰ مجھے اور تمہیں توفیق دے.آمین.ا حکم جلد نمبر ۴ --- ۷ار نومبر۷ ۱۹۰ء صفحہ ۵-۶) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 275

۸ تو میرے ۱۹۰ء 266 خطبہ عید الفطر عید کے خطبہ میں آپ نے بعد کلمہ تشہد اور استعاذہ قرآن شریف کی آیت يَسْتَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ هي مواقيت لِلنَّاسِ وَالْحَج وَلَيْسَ البريان تاتو البيوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَ لَكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى وَ أتُوا البيوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (البقرة:1) پڑھ کر اس امر کی طرف اشارہ فرمایا کہ قرآن شریف کے ذریعہ سے مسلمانوں کو تقویٰ میں ایک ریاضت کرائی جاتی ہے کہ جب مباح چیزیں انسان خدا کی خاطر چھوڑتا ہے تو پھر حرام کو کیوں ہاتھ لگانے لگا.پھر فرمایا کہ ایک وقت تو خدا تعالیٰ کی صفت رحم اور درگذر کی کام کرتی ہے مگر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جب دنیا کے گناہ حد سے بڑھ جاتے ہیں تو خدا تعالیٰ کا غضب نازل ہوتا ہے.پھر بھی ایسے وقت میں ایک سمجھانے والا ضرور آتا ہے جیسا کہ آج ہمارے درمیان موجو ہے اور اس زمانہ میں بائیبل کی کثرت اشاعت جو ہوتی ہے باوجود یکہ عیسائی اپنے عقائد میں اس کو قابل عمل نہیں جانتے.پھر کروڑوں روپے اس پر خرچ کرتے ہیں.اس میں بھی یہی حکمت الہی ہے کہ توحید اور عبادت الہی اور اعمال صالح کا وعظ اس کے ذریعہ سے بھی تمام دنیا پر ہو رہا ہے.صحابہ نے اهلة کے متعلق جو سوال کیا وہ اس واسطے تھا کہ جب رمضان کی عبادت کے

Page 276

267 طلبات نور برکات انہوں نے دیکھے تو ان کو خواہش ہوئی کہ ایسا ہی دوسرے مہینوں کی عبادت کا ثواب بھی حاصل کریں.اس واسطے انہوں نے یہ سوال پیش کیا.فرمایا دو بڑے نشان آسمان پر دکھائے گئے.سورج گہن اور چاند گہن.ماہ رمضان میں ایسا ہی دو نشان زمین پر ہیں.قحط اور طاعون.فرمایا.حج کے متعلق حضرت ابراہیم کو خدا تعالیٰ نے حکم دیا تھا کہ اذِنْ فِي النَّاسِ (الحج ۲۸) تب سے آج تک یہ پیشگوئی پوری ہو رہی ہے.جس طرح کبوتر اپنے کا بک کو دوڑنے ہیں اس طرح لوگر چی کو جاتے ہیں.زمانہ جاہلیت عرب میں رسم تھی کہ سفر ہو جاتے ہوئے کوئی بات یاد آتی تو دروازے کے راہ سے گھر میں نہ آتے.اس سے خدا تعالٰی نے منع فرمایا اور اس میں ایک اشارہ اس امر کی طرف ہے کہ ہر ایک کام میں اس راہ سے جاؤ اور اس دروازے سے داخل ہو جو خدا نے مقرر کیا اور اس کے رسول نے دکھایا : در رسول کے خلفاء اور اس زمانہ کا امام بتلا رہا ہے.خدا چاہتا تو اپنے رسول کے واسطے اپنے خزانے کھول دیتا اور تم میں کچھ خرچ کرنے کی ضرورت نہ ہوتی مگر پھر تمہارے واسطے کوئی ثواب نہ ہوتا.جب خدا کسی قوم کو عزت دینا چاہتا ہے تو یہی سنت اللہ ہے کہ پہلے اس سے اللہ کی راہ میں مالی جانی بدنی خدمات لی جاتی ہیں.اس زمانہ میں غلام کے چھو ڑانے کا ثواب مقروض کے قرضہ کے ادا کرنے سے ہو سکتا ہے اور دو خاص مقروضوں کی طرف آپ نے اشارہ فرمایا جن کے واسطے چندہ کی ضرورت ہے.ان لوگوں کے واسطے بھی خرچ کرنا چاہئے جو دینی علوم کے حصول میں (طلباء) یا دینی خدمات میں مصروف ہونے کے سبب اُحْصِرُوا فِی سَبیل اللہ کے مصداق ہیں اور ایسے لوگوں کو بھی دینا چاہئے جو سوال کے عادی نہ ہونے کے سبب کسی ضابطہ کی پابندی میں نہیں آسکتے.خطبہ جمعہ : جمعہ کے خطبہ میں آپ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ جب تک انسان محنت مشقت نہ اٹھائے خدا کی راہ میں ابتلاؤں کی برداشت نہ کرے وہ انعام و اکرام نہیں پا سکتا.خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے کہ کیا لوگ خیال کرتے ہیں کہ وہ صرف اتنا منہ سے کہہ کر چھوٹ جائیں گے کہ ہم ایمان لائے.نہیں.بلکہ ان پر وہ ابتلا ضرور آئیں گے جو پہلوں پر آئے.یہ وقت ہے کہ جناب الہی کو راضی کرلو.(بدر جلد نمبر ۴۶.....۱۰/ نومبر نے ۱۹۰ء صفحہ ۱)

Page 277

۲۰ دسمبر۷ ۱۹۰ء 268 خطبہ جمعہ تشہد د تعوذ کے بعد آپ نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی.إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ امَنُوْا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَ جَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ (الحجرات:۱۲)- اور پھر فرمایا:.قرآن میں بہت جگہ پر اس قسم کا ذکر پایا جاتا ہے کہ اکثر لوگ اس قسم کے بھی ہوا کرتے ہیں کہ زبان سے تو وہ بڑے بڑے دعوے کیا کرتے ہیں مگر عملی طور پر کوئی کارروائی نہیں دکھاتے.زبان ، وہ ایسی ایسی باتیں بھی کہہ لیتے ہیں جن کو ان کے دل نہیں مانتے.چنانچہ قرآن کریم کے شروع میں ہی لکھا ہے وَ مِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ امَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَ مَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ (البقره) ایسے لوگ اللہ پر ایمان لانے اور آخرت پر ایمان لانے کے زبانی دعوے تو بہت کرتے ہیں مگر ان کے دل مومن نہیں ہوتے.اس لئے باوجود اس کے کہ وہ اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لانے کا دعوی کرتے ہیں مگر اللہ تعالی ایسے

Page 278

269 لوگوں کو مومنوں میں سے نہیں سمجھتا.وہ لوگ تو کہتے ہیں کہ ہم کو اللہ پر اور آخرت پر ایمان ہے مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ کہ وہ اللہ کے نزدیک مومن نہیں.ایسے ہی ایک اور جگہ قرآن کریم میں لکھا ہے.إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللهِ وَالله يَعْلَمُ اِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ (المنافقون:) کہ بہت سے آدمی اس قسم کے ہوتے ہیں کہ قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم ! تو ہمارا رسول ہے لیکن ہم قسم کھاتے ہیں کہ یہ لوگ جو اس قسم کے دعوے کرتے ہیں تو یہ صریح جھوٹے ہیں اور منافق ہیں کیونکہ ان کا عمل درآمد ان کے دلی ایمان کے خلاف ہے.اور جو باتیں یہ زبان سے کہتے ہیں ان کے دل ان باتوں کو نہیں مانتے.اسی واسطے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَ جَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللهِ أُولئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ کہ مومن وہی لوگ ہوتے ہیں جو ایمان لاتے ہیں اللہ پر اور ایمان لاتے ہیں اللہ کے رسول پر.اور اگر ان پر کچھ مشکلات آپڑیں تو کوئی شک و شبہ نہیں لاتے بلکہ جَاهَدُو بِاَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِیلِ اللهِ وہ اپنے مالوں اور جانوں سے خدا تعالیٰ کی راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں.لیکن وہ ایسا نہیں کرتے کہ کسی اور کی کمائی سے یا کسی اور کا مال حاصل کر کے خدا کی راہ میں خرچ کر دیں کیونکہ وہ سوچتے ہیں کہ پھر ان کو کہاں سے دوں گا؟ اس لئے وہ خود کما کر اپنے مالوں کو خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں.آج کل قحط کا زور ہوتا جاتا ہے.مومن کو چاہئے کہ اپنی روٹی کا ایک حصہ کسی ایسے شخص کو دے دیا کرے جس کے پاس روٹی نہیں.اگر اس میں سے نہیں دے سکتا تو کوئی پیسہ ہی سہی کہ وہ بیچارہ خرید کر کے ہی کھالے.مومن آدمی کو تو خدا کی راہ میں بیان دینے سے بھی دریغ نہیں ہوتا.دیکھو اجکل سردی کا موسم ہے کسی مفلس کو اوڑھنے کے لئے کپڑا دینے سے تم کو دریغ نہیں کرنا چاہئے.مومن کو جوں جوں ضرورتیں پیدا ہوتی رہیں سب میں شرکت لازمی ہے.اسی واسطے میں نے یہ آیات پڑھی ہیں کہ مومن وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں اللہ پر اور اللہ کے رسول پر ایمان ہوتا ہے اور وہ اپنے مال اور جانیں خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں کیونکہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہمارا خرچ کرنا ضائع نہیں جائے گا.اور ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جو خدا کے نزدیک بھی صادق اور بچے مومن ہوتے ہیں.اور پھر اس کے آگے فرمایا قُلْ اَتُعَلَّمُونَ اللَّهَ بِدِيْنِكُمْ (الحجرات:۷) کہ کیا تم لوگ زبانی دعوے

Page 279

270 کرنے سے اللہ تعالیٰ کو اپنی دینداری جتلانی چاہتے ہو؟ اللہ کے نزدیک تو تب ہی صادق ٹھہر سکو گے بڑب عملی طور پر دکھوں، دردوں اور مصیبتوں میں ثابت قدم رہو گے اور اپنے مالوں اور جانوں سے دوسروں کی غمخواری کرو گے اور محتاجوں اور غریبوں کی امداد کرو گے.یاد رکھو دوسروں کی غمخواری بہت ضروری ہے لیکن یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کی ہی توفیق سے ہو سکتا ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق دے.آمین.ایک اور ضروری بات جو اس زمانہ کے لئے نہایت ضروری ہے میں بیان کرنی چاہتا ہوں کہ حضرت صاحب نے ایک دفعہ بہت سے زمینداروں کو اکٹھا کر کے بتایا تھا کہ میں نے دیکھا ہے کہ اس ملک پنجاب میں سیاہ رنگ کے پودے لگائے گئے اور پودے لگانے والوں نے مجھے بتایا ہے کہ یہ طاعون کے پودے ہیں.آخر وہ پودے لگے اور لوگوں نے اس کے پھل بھی کھائے.اب حضرت صاحب نے پھر فرمایا ہے اور پے در پے الہامات ہوئے ہیں کہ عنقریب طرح طرح کی نئی نئی بلائیں وبائیں اور بیماریاں پھیل جائیں گی اور عالمگیر قحطوں اور زلزلوں سے دنیا پر سخت درجہ کی تباہی آئے گی اور شدت سے طاعون اور دوسری آفات دنیا کو گھیر لیں گی اور وہ وقت نہایت ہی قریب ہے جبکہ اس قسم کے خطرناک مصائب دنیا کو بدحواس اور دیوانہ سا بنا دیں گے.اب دیکھو چار بلاؤں کا مقابلہ دنیا کو کرنا پڑے گا.ایک تو خاص دبائیں.دوسرے شدت سے ایک نئی قسم کی طاعون.تیسرے سخت زلزلے.چوتھے قحط شدید.اوروں کو جانے دو ان میں سے ایک قحط کو ہی لو.گو بچے تو اس بات کو نہیں سمجھ سکتے مگروہ لوگ جن کے کنبے ہیں خوب سمجھتے ہیں کہ کن کن تکلیفات کا سامنا ہو رہا ہے.آگے ربیع کا موسم آیا ہے اس میں اور بھی مشکلات نظر آتے ہیں.اور پھر اس کے ساتھ ہی دبائیں ہیں طاعون ہے زلزلے ہیں.اس لئے چاہیے کہ استغفار اور لاحول اور احمد اور درود شریف بہت پڑھو اور صدقہ اور خیرات بہت دو اور دعاؤں میں کثرت سے لگے رہو.مگر افسوس کہ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ”او! کیا ہے.مرنا تو ہے.کیا تم نے نہیں مرنا؟ آخر سب نے ہی مرجانا ہے.بات ہی کیا ہے.مگر خوب یاد رکھو کہ جس کے گھر پر مصیبت آتی ہے وہی جانتا ہے کہ اس قسم کی باتیں کس موقع پر انسان منہ سے نکالا کرتا ہے.افسوس کہ اکثر لوگوں میں بدظنی کا مادہ بہت بڑھ گیا ہے.مگر وہ یاد رکھیں کہ ان کی بد ظنیوں سے کسی کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا مگر ان کو نقصان پہنچ گیا.میرا کام کہنا ہے سو وہ تو میں کسی نہ کسی صورت میں کہہ ہی دوں گا.اکثر آدمی کہہ دیتے ہیں کہ ”میاں! یہ سب باتیں کہنے کی ہوا کرتی ہیں.ان کو دیکھا ہوا ہے.ہمیشہ ایسی ہی باتیں کیا کرتے ہیں.کیا انہوں نے مرکر دیکھا ہوا ہے.اس قسم کے وعظ کرنے کی تو ان کی

Page 280

271 ایک عادت ہے.مگر ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ باتیں میں اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ قرآن کریم میں لکھا ہے.وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَى أُمَمٍ مِنْ قَبْلِكَ فَأَخَذْنَهُمْ بِالْبَاسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ.فَلَوْلَا إِذْ جَاءهُمْ بَاسُنَا تَضَرَّعُوا وَ لَكِنْ قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ - فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَى حَتَّى إِذَا فَرِحُوْا بِمَا أُوتُوا اَخَذْنَهُمْ بَغْتَةً فَإِذَا هُمْ مُّبْلِسُونَ - فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (الانعام: ۳۳ تا ۴) سو میں نہایت ہی درد بھرے دل سے کروڑوں دفعہ تاکید کے ساتھ کہتا ہوں کہ استغفار اور لاحول کثرت سے پڑھو اور صدقہ اور خیرات بہت کرو اور رو رو کر خدا سے دعائیں مانگو کہ رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةٌ لِلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ (یونس (۸۲).یہ نہایت ضروری باتیں ہیں جو میں تمہیں پہنچا دیتا ہوں.دیکھو چار بلائیں سامنے ہو رہی ہیں.قحط کو تو خود تم بھی محسوس کر رہے ہو.اگر انسان بڑی محنت بھی کرے گا تو کس قدر کمالے گا.عام لوگ تو آٹھ یا نو روپیہ ماہوار سے زیادہ نہیں کما سکتے.آجکل چھ سیر روپیہ کا آٹا بکتا ہے اور ہر ایک چیز گراں ہو گئی ہے.اس لئے میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ بد صحبتوں سے کنارہ کش رہو.بعض صحبتوں میں بیٹھ کر انسان پھر انھیں کے رنگ میں رنگین ہو جاتا ہے اور بعض طبعیتیں ہوتی ہیں کہ وہ دو سروں کا اثر جلدی قبول کرلیتی ہیں.کسی نے نظم سنائی تو اور اگر کسی نے نشر سنائی تو کسی نے نکتہ چینی کی تو اور اگر کسی نے غیبت شروع کر دی تو ایسی طبیعتوں کے لوگ سب کے شریک ہو جاتے ہیں.بقدر طاقت اور مقدرت کے انسان کو چاہئے کہ ایسی صحبتوں سے کنارہ کش رہے جن کا اس پر برا اثر پڑتا ہو.حقوق اللہ اور حقوق العباد کا بہت لحاظ رکھو.میں یہ اللہ کے لئے نصیحت کرتا ہوں.نمازوں میں بہت دعائیں کرو.میں خود بھی مانگتا ہوں اس لئے تمہیں بھی کہتا ہوں کہ تم بھی مانگو.خدا تعالیٰ ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عنایت کرے.آمین.الحکم جلد نمبر ۴۶-۲۴۰۰ دسمبر۷ ۱۹۰ء صفحہ ۱۱-۱۲) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 281

۵ار جنوری ۱۹۰۸ء 272 خطبہ عید الاضحیٰ لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَ وهَا وَ لكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ (الحج: ۳۸) اللہ تعالیٰ کی کتاب کو غور سے دیکھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تقویٰ بہت پسند ہے.اگر انسان اللہ کے ساتھ سچا معاملہ نہ کرے تو اس کے ظاہری اعمال کوئی حقیقت نہیں رکھتے.انسان فطرتا چاہتا ہے کہ کوئی اس کا پیارا ہو جو ہر صفت سے موصوف ہو.سو اللہ سے بڑھ کر ایسا کوئی نہیں ہو سکتا.یہ پیارے تو آخر جدا ہوں گے.ان کا تعلق ایک دن قطع ہونے والا ہے مگر اللہ کا تعلق ابد الآباد تک رہنے والا ہے.دنیا کی فانی چیزیں محبت کے قابل نہیں کیونکہ یہ سب فنا پذیر ہے.کیا دنیا میں کوئی ایسی چیز ہے جو بقار کھتی ہے؟ ہرگز نہیں.پس اس کی رحمت اور اس کے فضل کاسہارا پکڑو اور اسی کو اپنا پیارا بناؤ کہ وہ باقی ہے.متقی کے لئے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ (ال عمران (۷۷).جب ایک ادنی ساہوکار یا معمولی حاکم کسی سے محبت کرے تو انسان جامہ میں پھولا نہیں

Page 282

273 کماتا.جب تقویٰ کے سبب اللہ جلشانہ محبت کرتا ہے تو تقویٰ کیسی عظیم الشان چیز ہے جو خدا کا محبوب بنا دیتی ہے.یقینا سمجھو کہ سب ذرات عالم اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں.جس سے وہ پیار کرتا ہے تمام ذروں کو اس کے تابع کر دیتا ہے.جو معجزات کے منکر ہیں وہ مانتے ہیں کہ سب ذرے اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں.پس سارے معجزوں کا دارو مدار اللہ کی قدرت سے وابستہ ہے.جب وہ کسی سے پیار کرے تو ضرور ہے کہ اس کے لئے اپنی قدرت نمائیاں طرح طرح کے عجائبات کے رنگ میں کرے.چنانچہ اس نے ایسا کیا.انسان کو بہت ضرورت ہے اس بات کی کہ کھائے پیئے اور پہنے.اللہ تعالیٰ متقی کے لئے فرماتا ہے و مَن يَتَّقِ اللهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (الطلاق:۳۳) انسان جب متقی بن جائے تو اللہ تعالیٰ اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے کہ اس کے گمان میں بھی نہیں ہوتا.پس اگر کوئی رزق کا طالب ہے تو اس پر واضح ہو کہ رزق کے حصول کا ذریعہ بھی تقویٰ ہے.۲.انسان جب مصیبت میں حوادث زمانہ سے پھنس جاتا ہے اور اس کی بے علمی اسے آگاہ نہیں ہونے دیتی کہ کس سبب سے تمسک کر کے نجات حاصل کرے تو وہ خبیر جو ذرہ ذرہ کا آگاہ ہے فرماتا ہے متقی کو ہم جنگلی سے بچائیں گے.یر کو بھی انسان بہت پسند کرتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا (الطلاق:۵).گویا سکھ بھی متقی ہی کا حصہ ہے.تاریخ کے صفحوں کو الٹ جاؤ اور دیکھو کہ متقیوں کے مقابلہ میں بڑے بڑے بادشاہ باریک دربار یک تدبیریں کرنے والے مال خرچ کرنے والے، جتھوں والے آئے مگر وہ بھی ان متقیوں کے سامنے ذلیل و خوار ہوئے.فرعون کی نسبت قرآن مجید میں مفصل ذکر ہے.حضرت موسیٰ کے بارہ میں کہا وَهُوَ مَهِينٌ وَلا يَكَادُ يُبِينُ (الزخرف:۵۳) ایک ذلیل (اور ہینا) آدمی ہے.میرے سامنے بات بھی نہیں کر سکتا.اور اس کی قوم کو غلام بنا رکھا.مگر دیکھو آخر اس طاقتوں والے شان و شوکت والے جاہ و جلال والے فرعون کا کیا حال ہوا؟ أَغْرَقْنَا الَ فِرْعَوْنَ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ (البقره:(۵) تَنظُرُونَ میں ایک خاص لذت ہے.دشمن کو ہلاک تو کیا مگر آنکھوں کے سامنے.دشمن تو مرا ہی کرتے ہیں.مگر آنکھوں کے سامنے کسی دشمن کا ہلاک ہونا ایک لذیذ نظارہ ہے جو آخر اس متقی کو نصیب ہوا..اسی طرح متقی کو عجیب در عجیب حواس ملتے ہیں اور ذات پاک سے اس کے خاص تعلقات ہوتے ہیں.قرآن مجید میں أُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (البقره (1) بھی متقیوں کے لئے آیا ہے یعنی اگر

Page 283

274 مظفر و منصور فتح مند ہونا ہو تو بھی متقی بنو.یہ دن بھی ایک عظیم الشان متقی کی یادگار ہیں.اس کا نام ابراہیم تھا.اس کے پاس بہت سے مویشی تھے، بہت سے غلام تھے اور بڑھاپے کا ایک ہی بیٹا تھا فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يُبْنَى إِنِّي أَرَى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرى (الصافات:۱۰۳) سو برس کے قریب کا بڑھا ایک ہی بیٹا اپنی ساری عزت، ناموری، مال ، جاہ و جلال اور امیدیں اسی کے ساتھ وابستہ.دیکھو متقی کا کیا کام ہے.اس اچھے چلتے پھرتے جوان لڑکے سے کہا.میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تجھے ذبح کروں.بیٹا بھی کیسا فرمانبردار بیٹا ہے.قَالَ يَابَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّبِرِينَ (الصافات:۰۳) اباجی! وہ کام ضرور کرو جس کا حکم جناب الہی سے ہوا.میں ، مفضلہ تعالیٰ صبر کے ساتھ اسے برداشت کروں گا.یہ ہے تقویٰ کی حقیقت یہ ہے قربانی.قربانی بھی کیسی قربانی کہ اس ایک ہی قربانی میں سب ناموں امیدوں ناموریوں کی قربانی آگئی.جو اللہ کے لئے انشراح صدر سے ایسی قربانیاں کرتے ہیں اللہ بھی ان کے اجر کو ضایع نہیں کرتا.اس کے بدلے ابراہیم کو اتنی اولاد دی گئی کہ مردم شماریاں ہوتی ہیں مگر پھر بھی ابراہیم کی اولاد صحیح تعداد کی دریافت سے مستثنیٰ ہے.کیا کیا برکتیں اس مسلم پر ہوئیں.کیا کیا انعام الہی اس پر ہوئے کہ گننے میں نہیں آسکتے.ہماری سرکار خاتم الانبیاء سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی ابراہیم کی اولاد سے ہوئے.پھر اس کے دین کی حفاظت کے لئے خلفاء کا وعدہ کیا کہ انہیں طاقتیں بخشے گا اور ان کو مشکلات اور خوفوں میں امن عطا کرے گا.یہ کہانی کے طور پر نہیں.یہ زمانہ موجود یہ مکان موجود تم موجود قادیان کی بستی موجود ملک کی حالت موجود ہے.کس چیز نے ایسی سردی میں تمہیں دور دور سے یہاں اس مسجد میں جمع کر دیا؟ سنو! اسی دست قدرت نے جو متقیوں کو اعزاز دینے والا ہاتھ ہے.اس سے پہلے پچیس برس پر نگاہ کرو.تم سمجھ سکتے ہو کہ کون ایسی سخت سردیوں میں اس گاؤں کی طرف سفر کرنے کے لئے تیار تھا.پس تم میں سے ہر فرد بشر اس کی قدرت نمائی کا ایک نمونہ ہے.ایک ثبوت ہے کہ وہ متقی کے لئے وہ کچھ کرتا ہے جو کسی کے سان و گمان میں بھی نہیں ہوتا.یہ باتیں ہر کسی کو حاصل نہیں ہوتیں.یہ قربانیوں پر موقوف ہیں.انسان عجیب عجیب خواہیں اور کشوف دیکھ لیتا ہے.الہام بھی ہو جاتے ہیں.مگر یہ نصرت حاصل نہیں کر سکتا.جس آدمی کی یہ حالت ہو وہ خوب غور کر کے دیکھے کہ اس کی عملی زندگی کس قسم کی تھی؟ آیا وہ ان انعامات کے قابل ہے یا نہیں؟ یہ مبارک وجود نمونہ ہے.

Page 284

275 اسے جو کچھ ملا ان قربانیوں کا نتیجہ ہے جو اس نے خداوند کے حضور گزاریں.جو شخص قربانی نہیں کرتا جیسی کہ ابراہیم نے کی اور جو شخص اپنی خواہشوں کو خدا کی رضا کے لئے نہیں چھوڑتا تو خدا بھی اس کے لئے پسند نہیں کرتا جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں کیسے دشمن موجود تھے مگر وہ خدا جس نے انا لَتَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيا (المومن (٥٢) فرمایا اس نے سب پر فتح دی.صلح حدیبیہ میں ایک شخص نے آکر کہا تم اپنے بھائیوں کا جتھانہ چھوڑو.ایک ہی حملہ میں یہ سب تمہارے پاس بیٹھنے والے بھاگ جائیں گے.اس پر صحابہ سے ایک خطرناک آواز سنی اور وہ ہکا بکا رہ گیا.یہ حضرت نبی کریم کے اللہ کے حضور بار بار جان قربان کرنے کا نتیجہ تھا کہ ایسے جاں نثار مرید ملے.اور وہ جو باپ بنتے تھے جو تجربہ کار تھے ، ہر طرح کی تدبیریں جانتے تھے ، ان سب کے منصوبے غلط ہو گئے.اور وہ خدا کے حضور قربانی کرنے والا متقی نہ صرف خود کامیاب ہوا بلکہ خلفاء راشدین کے لئے بھی وعدہ لے لیا.چنانچہ فرمایا وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا (النور:۵۶).دنیا میں کئی نبی جن میں بعض کا ذکر قرآن مجید میں ہے اور بعض کا نہیں، اپنے ساتھ خارق عادت نشان لے کے دنیا میں آئے مگر ان محسنوں ان ہادیوں کے لئے کوئی دعا نہیں کرتا بلکہ انہیں معبود سمجھ کر دعا کا محتاج ہی نہیں سمجھتے.یہ شرف صرف ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے کہ رات دن کا کوئی وقت نہیں گزرتا جس میں مومنوں کی ایک جماعت درد دل سے اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ : پڑھ رہی ہو.زمین گول ہے اس لئے مغرب و عشاء، ظہر و عصر کا وقت یکے بعد دیگرے دن رات کے کسی نہ کسی حصہ میں کسی نہ کسی ملک پر ضرور رہتا ہے اور مسلمان بچے دل سے خاص رحمتوں کا نزول اپنے ہادی برحق کے لئے مانگتے ہیں.اسی کا نتیجہ ہے کہ اللہ آپ کے مدارج میں ہر آن ترقی دیتا ہے.آپ کو جو کتاب بخشی وہ کیسی محفوظ.پھر آپ کا دین کیسا محفوظ ہے کہ ہر صدی کے سر پر (یہ عام سنت جماعت کا مذہب ہے.بعض کے نزدیک ہر پچاس بلکہ تیس برس کے بعد ) اللہ تعالیٰ امت محمدیہ کو بچے راہوں کی طرف کھینچنے والے بھیجتا رہتا ہے تاکہ تم مخلص متقی بنو.اسلام دنیا سے اٹھ جائے گا اس بات کا مجھے کبھی خطرہ نہیں ہوا.کیونکہ اس دین کا بھیجنے والا "سلام" ہے.پھر مکہ دار السلام.پھر مدینہ دار السلام فتنہ دجال سے.نبی کریم کے لئے بھی يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (المائدہ:۲۸) آچکا ہے.اس

Page 285

276 دین کا نتیجہ بھی دار السلام.پس اسلام ہر طرح سلامت رہے گا.فکر ہے تو یہ کہ ہم لوگوں میں سے نکل کر اوروں میں نہ چلا جائے.اس کا طریق كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ (التوبه :) ہے یعنی راستبازوں کے حضور میں رہنا، متقیوں کی جماعت میں شامل ہونا.پھر ہر سال میں دیکھنا کہ جیسے ہم ایک جانور پر جو ہماری ملک اور قبضہ میں ہے جزوی مالکیت کے دعوے سے چھری چلاتے ہیں اسی طرح ہمیں بھی اپنے مولیٰ کے حضور جو ہمارا سچا خالق ہے اور ہم پر پوری اور حقیقی ملکیت رکھتا ہے اپنی تمام نفسانی خواہشبوں کو اس کے فرمانوں کے نیچے ذبح کر دینا چاہئے.قربانی کرنے سے یہ مراد نہیں کہ اس کا گوشت اللہ تعالیٰ کو پہنچتا ہے بلکہ اس سے ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کی فرمانبرداری کا نظارہ مقصود ہے تا تم بھی قربانی کے وقت اس بات کو نظر رکھو کہ تمہیں بھی اپنی تمام ضرورتوں اعزازوں، ناموریوں اور خواہشوں کو خدا کی فرمانبرداری کے نیچے قربان کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے.جس طرح ان جانوروں کا خون کراتے ہو ایسا ہی تم بھی خدا کی فرمانبرداری میں اپنے خون تک سے دریغ نہ کرو.انسان جب ایسا کرے تو وہ کوئی نقصان نہیں اٹھاتا.دیکھو! ابراہیم و اسماعیل کا نام دنیا سے نہیں اٹھا.ان کی عزت و اکرام میں فرق نہیں آیا.پس تمہاری کچی قربانی کا نتیجہ بھی بد نہیں نکلے گا.وَلكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى (الحج:۳۸) تقومی خدا کو لے لیتا ہے.جب خدا مل گیا تو پھر سب کچھ اسی کا ہو گیا.معجزوں کی حقیقت بھی یہی ہے.جب انسان خدا کا ہو جاتا ہے تو اس کو تمام ذرات عالم پر ایک تصرف ملتا ہے.اس کی صحبت میں ایک برکت رکھی جاتی ہے.اور یہ ایک فطرتی بات ہے کہ ایک انسان کے اخلاق کا اثر دوسرے کے اخلاق پر پڑتا ہے.بعض طبائع ایسی بھی ہیں جو نیکوں کی صحبت میں نیک اور بدوں کی صحبت میں بد ہو جاتی ہیں.قرآن کریم میں ایسی فطرتوں کا ذکر آیا ہے سَمْعُونَ لِلْكَذِبِ سَمْعُونَ لِقَوْمٍ اَخَرِينَ (المائدہ: ۴۲).بعض لوگ ایسے ہیں کہ ہمارے پاس بیٹھ کر ہماری باتوں کو پسند کرتے ہیں.جب دوسروں کے پاس جا بیٹھتے ہیں تو پھر ان کی باتیں قبول کر لیتے ہیں.ایسے لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ متقیوں کی صحبت میں رہیں اور وقت نہ ملے تو استغفار‘ لاحول اور دعا کریں.دعا کی حقیقت سے لوگ کیسے بے خبر ہیں.افسوس ہے میں تمہیں کیا سناؤں.سچ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ایمان ثریا پر چلا جائے گا.دو مولویوں کا ذکر سناتا ہوں.ایک مولوی میرے پاس بڑے اخلاص و محبت سے بہت دن رہا.آخر ایک دن مجھے کہا.معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے پاس کوئی تسخیر کا عمل ہے جو آسائش کی تمام راہیں

Page 286

277 آپ کے لئے کھلی ہیں اور اتنی مخلوق خدا آپ کے پاس آتی ہے.میں نے کہا عمل تسخیر کیا ہوتا ہے؟ خدا نے تو فرما دیا کہ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمَوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ لقمان (۳) سارا جہاں تمہارے لئے مسخر ہے.اس سے بڑھ کر اور کیا تسخیر ہو سکتی ہے.انسان کو چاہئے کہ دعا کرے.دعا کی عادت ڈالے.اس سے کامیابیوں کی تمام راہیں کھل جائیں گی.میری یہ بات سنکر وہ ہنس دیا اور کہا.یہ تو ہم پہلے ہی سے جانتے ہیں.کوئی عمل تسخیر بتلاؤ.ایک اور مولوی تھا.اس نے مجھ سے مباحثہ چاہا.میں نے اسے سمجھایا تم لوگوں کی تعلیم ابتدا ہی سے ایسی ہوتی ہے کہ ایک عبارت پڑھی اور پھر اس پر اعتراض.پھر اس اعتراض پر اعتراض.اسی طرح ایک لمبا سلسلہ چلا جاتا ہے.اس سے کچھ اس قسم کی عادت ہو جاتی ہے کہ کسی کے سمجھانے سے کچھ نہیں سمجھتے.میں تمہیں ایک راہ بتاتا ہوں.بڑے اضطراب سے خدا تعالیٰ کے حضور دعا کرو.اس نے بھی یہی کہا کہ یہ تو جانتے ہیں.غرض دعا سے لوگ غافل ہیں.حالانکہ دعا ہی تمام کامیابیوں کی جڑ ہے.دیکھو قرآن شریف کی دعا بھی دعا ہی سے ہوتی ہے.انسان بہت دعائیں کرنے سے منعم علیہ بن جاتا ہے.دکھی ہے تو شفا ہو جاتی ہے.غریب ہے تو دولتمند.مقدمات میں گرفتار ہے تو فتحیاب.بے اولاد ہے تو اولاد والا ہو جاتا ہے.نماز روزہ سے غافل ہو تو اسے ایسا دل دیا جاتا ہے کہ خدا کی محبت میں مستغرق رہے.اگر کسل ہے تو اسے وہ ہمت دی جاتی ہے جس سے بلند پروازی کر سکے.کاہلی سستی ہے تو اس سے یہ بھی دور ہو جاتی ہے.غرض ہر مرض کی دوا ہر مشکل کی مشکل کشا یہی دعا ہے.اسباب کو مہیا نہ کر سکنا یہ عجز ہے اور مہیا شدہ اسباب سے کام نہ لینا یہ کسل ہے.اس کے لئے دعا سکھلائی گئی اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِة الكسل (بخاری کتاب الدعوات).جب انسان منعم علیہ بن جائے اور اسے آسودگی ملے بلحاظ اپنے مال کے اپنی قوت کے اپنی اولاد کے اپنی عزت و جبروت کے اپنے علم و معرفت کے تو پھر کبھی کبھی اعمال بد کا نتیجہ یہ ہو جاتا ہے کہ غضب آجاتا ہے.وہ اپنی آسودگی کو اپنی تدابیر کا نتیجہ سمجھ کر انہی تدابیر کو معبود بنالیتا ہے اور برے عملوں میں پڑ جاتا ہے.اس لئے دعا سکھائی گئی کہ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ (الفاتح) میں منعم علیہ بن کر تیرا مغضوب نہ بنوں.مغضوب کی دو علامات ہیں.(۱) علم ہو عمل نہ کرے.(۲) کسی سے بے جاعداوت رکھے.ضالین وہ بھولا بھٹکا انسان جو کسی سے بے جا محبت کرے اور کچے علوم سے بے خبر ہو.پس انسان کو چاہئے کہ یہ دعا کرے کہ (اللہ اسے) اپنا منعم علیہ بنا لے مگر ان انعام کئے گیوں (میں) سے کہ جن پر نہ تیرا غضب کیا گیا ہو، نہ وہ بھولے بھٹکے ہوں.

Page 287

278 قرآن کی انتہا دعا پر ہے قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ (الناس :) - اول البشر آدم نے بھی دعا کی رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا (الاعراف: ۲۴) ہمارے نبی کا آخری کلام بھی دعا ہی ہے اللَّهُمَّ الْحِقْنِي بِالرَّفِيقِ الأعلى (بخاری کتاب المراضی باب مرض النبی و وفاته).جو لوگ دعا کے ہتھیار سے کام نہیں لیتے وہ بد قسمت ہیں.امام کی معرفت سے جو لوگ محروم ہیں وہ بھی دراصل دعاؤں سے بے خبر ہیں.آمَنُ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ (النمل: ۳) سے پتہ ملتا ہے کہ اگر یہ لوگ اضطراب سے، تڑپ سے حق طلبی کی نیت سے، تقویٰ کے ساتھ دعائیں کرتے کہ الہی! اس زمانہ میں کون شخص تیرا مامور ہے تو میں یقین نہیں کر سکتا کہ انہیں خدا تعالٰی ضائع کرتا.میں کبھی کسی مسئلہ اختلافی سے نہیں گھبرایا کہ میرے پاس دعا کا ہتھیار موجود ہے اور وہ دعا یہ ہے.اَللَّهُمَّ فَاطِرَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَ الشَّهَادَةِ أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِي مَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ (الزمر:۳۷) اور حدیث اهْدِنِي لَمَّا اخْتَلَفَ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ إِنَّكَ تَهْدِي مَنْ تَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (ترمذی کتاب الادب).سچا تقویٰ حاصل کرنے کے لئے بھی دعا ہی ایک عمدہ راہ ہے.پھر قرآن کریم کا مطالعہ.اس میں متقیوں کی صفات اور راستبازوں کی صفات موجود ہیں.اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق بخشے.فہم و فراست بخشے.یاد رکھو کہ پاک اخلاق ایک نعمت ہے.اس سے انسان کا اپنا دل خوش رہتا ہے.بی بی نیک ملے تو سارے گھر میں خوشی رہتی ہے.اولاد نیک ہو تو پیچھے بھی آرام رہتا ہے.یہ سب دعا سے ملتا ہے.قوم میں اخلاص و محبت سے پیش آؤ.حسن ظن سے کام لو.امِرُ بِالْمَعْرُوفِ اور نَاهِي عَنِ الْمُنْكَرِ ہو.دعا کرو کہ خدا راستبازوں کے ساتھ زندہ رکھے.انہی کے ساتھ ہمارا حشر کرے.اللہ تعالیٰ نے ہم پر جو اپنا انعام کیا، مسیح موعود اس کی اتباع فرمانبرداری اس کی موجودگی نعمت سمجھو.بہت سی مخلوق آئے گی جو پچھتائے گی کہ ہم کیوں اس کے زمانے میں اس کے فرمانبردار نہ ہوئے.اخلاص و محبت سے زندگی بسر کرو اور دعا کرتے رہو.یہ دعا کا ہتھیار دنیا کی تمام قوموں سے چھین لیا گیا ہے.یہ ہتھیار تمہارے قبضے میں ہے، اس سے مسلح ہو جاؤ.دوسرے سب اس سے محروم ہیں.دنیا چند روزہ جگہ ہے.ہمیشہ ساتھ نہیں رہے گی.دنیا کی صحت دنیا کی محبت دنیا کی عزت اس کے دشمن اور دوست سب یہیں رہ جائیں گے.صرف اللہ کی رضامندی اور عمل صالح تمہارے ساتھ جائیں گے.قربانی کے لئے نبی کریم کو وہ نر بکرے پسند تھے، جن کے منہ اور پاؤں میں سیاہی ہو.والا خصی کا ذبح بھی شرعاً جائز ہے.جس کا پیدائشی سینگ نہ ہو وہ بھی جائز ہے.ہاں جس کا سینگ آدھے سے زیادہ ٹوٹا ہوا ہو یا کان چیرا ہوا ہو وہ ممنوع ہے.علماء کا اختلاف ہے کہ دو برس سے کم کا بکرا اور ایک برس سے

Page 288

279 کم کا دنبہ جائز ہے یا نہیں؟ اہل حدیث تو اسے جائز نہیں رکھتے مگر فقہا کہتے ہیں کہ دو برس سے کم ایک برس کا بکرا بھی جائز ہے اور دنبہ چھ ماہ کا بھی.مومن اس اختلاف سے فائدہ اٹھا سکتا ہے.ضروری بات ہے تو یہ ہے کہ انسان ان سب باتوں میں تقویٰ کو مد نظر رکھے اور قربانی کی حقیقت سمجھے.دو چار روپے کا جانور ذبح کر دینا قربانی نہیں.قربانی تو یہ ہے کہ خود اپنے نفس کی اونٹنی کو خدا کی فرمانبرداری کے نیچے ذبح کردے.(بدر جلدے نمبر ۲۳۰۰۰۳ جنوری ۱۹۰۸ء صفحه ۸ تا ۱۰) *-*-

Page 289

کار فروری ۱۹۰۸ء مسجد اقصیٰ 280 ( خطبہ نکاح حضرت حکیم الامت نے صاحبزادی مبارکہ بیگم صاحبہ کا نکاح ۱۷ / فروری ۱۹۰۸ء کو ۵۶ ہزار (روپیہ) مہر پر نواب محمد علی خانصاحب رئیس مالیر کوٹلہ سے مسجد اقصی میں پڑھا.(ایڈیٹ الْحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَ نَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيَأْتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَ مَنْ يُضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ - أَشْهَدُ اَنْ لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ وَ اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ - أَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّحِيمِ - بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مسنونہ آیات کی تلاوت کے بعد فرمایا:.نکاح نام ہے اس تقریب کا جب کسی عورت یا لڑکی کا کسی مرد کے ساتھ رشتہ یا عقد کیا جاتا ہے.اس میں اولا اللہ تعالیٰ کی رضامندی دیکھ لی جاتی ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت ہے یا نہیں؟

Page 290

281 پھر یہ دیکھا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ضابطہ اور عملدرآمد کے موافق ہے یا نہیں؟ پھر لڑکیوں کے ولی کی رضامندی ضروری ہے.اگر ولی رضامند نہ ہوں اور پھر کوئی نکاح ہو تو ایسے نکاح بدیوں میں مل جاتے ہیں اور ان کے نتائج خراب اور ناگوار ہوتے ہیں.ایسا ہی لڑکوں اور لڑکیوں کی رضامندی بھی ضروری ہے.ان پانچ رضا مندیوں کے بعد گویا نکاح ہوتا ہے اور اگر ان میں کسی ایک کی بھی نارضامندی اور مخالفت ہو تو پھر اس میں مشکلات پیدا ہوتے ہیں.یہ پانچ رضامندیاں کیا ہیں؟ حق سبحانہ تعالیٰ کی اجازت.یعنی ان رشتوں میں (سے) نہ ہو جن کی ممانعت کی گئی ہے.صبط وحی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عملدرآمد.ولیوں اور طرفین کی رضامندی کے بعد جب ایک فریق منظور کرتا ہے اور دوسرا اس کو قبول کرتا ہے تو یہ نکاح ہوتا ہے.قسم قسم کی بدیوں اور شرارتوں کو روکنے کے لئے اعلان اور خطبہ نکاح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی.اعلان نکاح میں دوست دشمن کو خبر ہو جاتی ہے اور اس سے جہاں ایک دوسرے کی غلطیوں سے آگاہی ہو جاتی ہے وہاں و راشتوں اور جائدادوں کے جھگڑوں میں کوئی دقت پیدا نہیں ہوتی.اور خطبہ کے کئی اغراض ہیں.ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ عربی زبان کی حفاظت.سو یہ زبان ایسی زبان ہے جس کے ساتھ دین، رسول اور قوم رسول کا تعلق ہے.خدا تعالیٰ کی کتاب اسی زبان میں ہے.اس کتاب کی حفاظت کے مختلف سامان اور ذریعے ہیں.ان میں سے ایک اس زبان کی حفاظت بھی ہے.اس لئے اس کو مسلمانوں کے تمام عظیم الشان کاموں سے تعلق ہے.ان کے دینی عظیم الشان کام نماز اقرار باللسان، حج ، روزہ ، زکوۃ ہیں.سوشل معاملات میں نکاح سب سے بڑا کام ہے.ترنی امور میں تجارت، زراعت بھی اعلیٰ کام ہیں.ان سب امور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ، تابعین، تبع تابعین، ائمہ دین اولیاء امت سلف صالحین اور حضرت امام الزمان نے کچھ نہ کچھ الفاظ عربی زبان کے لازمی قرار دیئے ہیں.مثلاً اقرار السان میں لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَمْ وَاشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ امام صاحب جب بیعت لیتے ہیں تو بہت سے عربی الفاظ بیان فرماتے اور معاہدہ لیتے ہیں.عربی کے الفاظ کی سنت متوارثہ کو مجدد الوقت نے بیعت کے الفاظ اور معاہدات میں لازم رکھا ہے.عورتوں کی بیعت میں بھی میں نے سنا ہے ایسا ہی کرتے ہیں اور مردوں کی بیعت میں تو دیکھا ہے.اقرار باللسان کے بعد اعلیٰ شان کی چیز نماز ہے.اگر کسی نے ضائع کی تو اس نے اپنا دین ضائع کیا.اور سچ تو یہ ہے کہ کفر اور اسلام کا تفرقہ اس میں واقع ہوا ہے.اس کا سارا ہی حصہ دیکھ لو.سوائے اس نصہ

Page 291

282 کے جو انسانی ضرورتوں، حاجتوں اور مشکلات کے لئے دعاؤں کا ہے اس کے لئے امام نے اجازت دی ہے کہ اپنی زبان میں دعائیں مانگ لو.اور اس سے پہلے امام ابو حنیفہ نے بھی اجازت دی ہے.مگر پھر بھی اگر چہ ضرور تا اپنی زبان میں دعاؤں کی اجازت تو دی ہے لیکن مسنون دعاؤں کے ساتھ عربی کو ضائع نہیں کیا.یہ اجازت نہیں دی کہ نماز اپنی زبان میں پڑھو.ایسا ہی حج میں لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لك (بخارى كتاب الحج باب التلبیہ) وغیرہ کلمات عربی میں ہیں.جمعہ کے خطبے ، عیدین کے خطبے تم نے سنے ہیں.ایک حصہ عربی میں ہوتا ہے.اسی طرح روزہ کے متعلق جو دعائیں ہیں وہ عربی میں ہیں.اسی طرح ہر ایک کام میں یہاں تک کہ بول و براز کے وقت کے لئے بھی ایک حصہ عربی کا رکھا ہے.ایسا ہی خطبہ نکاح جو جوانوں، بڑھوں کے لئے لازمی ہے، اس میں بھی عربی کا ایک حصہ رکھا ہے.بنوامیہ نے عربی زبان کی وسعت اور حفاظت میں بڑی کوشش کی کہ انہوں نے اپنی سلطنت میں اس کو مادری زبان بنا دیا یہاں تک کہ الجزائر ، مراکش، فارس میں اس کو مادری زبان ہی بنا دیا.مشرق میں البتہ یہ وقت رہی کہ درباری زبان فارسی کو بڑھاتے بڑھاتے اصل زبان کا درس تدریس مشرق سے مفقود ہو گیا.میں نے بارہا کوشش کی ہے کہ اگر عام مسلمان اور خاص کر ہمارے امام کی جماعت روز مرہ کے کاموں کے عربی الفاظ کو یاد کرلے تو اسے قرآن شریف کا ایک حصہ یاد ہو جاوے.لیکن افسوس سے کہا جاتا ہے کہ اس طرف بہت کم توجہ ہے اور جو یہاں رہتے ہیں وہ بھی پوری توجہ نہیں کرتے.لغات القرآن جو یہاں چھپی ہے ایک مفید اور عمدہ کتاب ہے، جو بڑی محنت سے لکھی گئی ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ حضرت امام نے بھی اس کی تعریف کی ہے.لیکن اس کی طرف توجہ نہیں کی گئی.اس کتاب سے فائدہ اٹھایا جاوے تو قرآن شریف کے سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے.غرض قرآن مجید کی حفاظت کا ایک ذریعہ عربی زبان کی حفاظت بھی ہے اور اس کی طرف مسلمانوں کو توجہ کرنی چاہئے اور خصوصاً ہماری جماعت کو بہت متوجہ ہونا چاہئے.میں نے اس نکاح کی تقریب پر اسی سنت متوارث پر عمل کرنے کے لئے عربی زبان میں خطبہ پڑھا ہے.مگر طرفین ہی ایسے ہیں کہ نہ خطبہ سننے کی ضرورت نہ کہنے کا موقع.ایک طرف حضرت امام علیہ الصلوۃ والسلام ہیں.ان کو ہم سنانے نہیں آئے بلکہ ان سے سننے آئے ہیں.پس اگر میں تصریح کروں تو میرا نفس مجھے ملامت کرتا ہے.ہاں جو کچھ میں عرض کروں گا یا کہا ہے یہ محض حضرت امام کے حکم کی تعمیل ہے.عربی زبان کی تائید میں اس لئے کہا ہے کہ اس متوارث سنت کو تمہارے کانوں تک پہنچاؤں جس سے رسول کی زبان محفوظ رہے اور تم قرآن کریم کی ارفع اطیب زبان میں ترقی کرو.

Page 292

283 اب اس کے بعد میں ان کلمات کا آسان ترجمہ سناتا ہوں جو ابھی میں نے پڑھے ہیں.اللہ جلشانہ چونکہ رب ہے اور بے مانگے اس نے نعمتیں دی ہیں اور پھر مقدرت، قوت اور استطاعت بھی اس نے دی ہے اور اس امکان سے جو لَیمَكِّنَنَّ میں وعدہ دیا ہے اس قدرت سے جو پاک نتیجے مترتب ہوں اس کے فضل سے ہوتے ہیں.ہاں اسی کے فضل سے ہوتے ہیں.اس کی ربوبیت عامہ ، رحم ، فضل وسیع اور بلا مبادلہ ہے اور وہ رحم جو بالمبادلہ ہے وہ مالکیت چاہتی ہے.ان سب نوازشوں اور مہربانیوں پر نگاہ کر کے بے اختیار دل سے نکلتا ہے الْحَمْدُ لِلَّهِ یعنی سب تعریف اللہ تعالی ہی کے لئے ہے.مومن تو ہر وقت اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتا ہے.کیا بلحاظ اس کے کہ اس کو پیدا کیا ہے.اور یہ ایک عظیم الشان انعام انسان پر ہے کیونکہ ساری خوشیاں اور خوشحالیاں اس کے بعد ملتی ہیں کہ پیدا ہو.پھر پیدا بھی اپنے رب کے ہاتھ سے ہوا جو بتدریج کمالات تک پہنچاتا ہے.چونکہ وہ فی الواقعہ حمد کا مستحق ہے اس لئے ہم بھی نَحْمَدُۂ کہتے ہیں.یعنی ہم بھی ایسے رب کی حمد میں دلی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں.بہت سی وجوہات ہیں جو ہم پر حمد الہی کو فرض ٹھہراتے ہیں.منجملہ جناب الہی کی حمدوں کے یہ ہے کہ انسان کا حوصلہ ایسا وسیع نہیں کہ وہ ساری دنیا سے تعلق رکھے اور محبت کر سکے.نبیوں اور رسولوں کو بھی جب تباہ کار سیہ روزگار شریروں نے دکھ دیا تو آخر ان میں سے ایک بول اٹھا رَبِّ لَا تَذَرُ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا (نوح:۳۷).فی الحقیقت ان پر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ شریر نفوس کی حیاتی بھی پسند نہیں کرتے.اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان کا اتنا حوصلہ کہاں ہو سکتا ہے کہ سارے جہان سے اس کا مخلصانہ تعلق ہو.پس اس سلسلہ کو وسیع کرنے کے باوجود محدود کرنے کے لئے نکاح کا ایک طریق ہے جس سے ایک خاندان اور قوم میں ان تعلقات کی بناء پر رشتہ اخلاص اور محبت پیدا ہوتا ہے.نکاح میں جو تعلق خسر کو داماد سے ہوتا ہے یا فرزندانہ تعلقات داماد کو خسر سے ہوتے ہیں وہ دوسرے کو نہیں ہوتے.یہ سچی بات ہے کہ وہ تعلق جو صلبی اولاد اور داماد کے ساتھ ہو سکتا ہے اس میں سارا جہان کبھی شریک نہیں ہو سکتا.مگر اللہ تعالیٰ نے شعوب اور قبائل بنائے ہیں اور قوم در قوم بنا کر محبت کے تعلق اور سلسلہ کو وسیع کر دیا ہے.اسی لئے جو لوگ نکاح نہیں کرتے احادیث میں ان کو بطال کہا گیا ہے کیونکہ ان کے تعلقات نوع انسان کے ساتھ بچے تعلقات نہیں ہو سکتے.مگر جن کے تعلقات بچے اور اسلام پر مبنی ہیں وہ جانتے ہیں کہ رشتہ کے سبب سے مخفی در مخفی محبت کا تعلق بڑھتا جاتا ہے.اور پھر اولاد کی وجہ سے یہ تعلقات اور بھی بڑھتے ہیں اور اس طرح پر یہ دائرہ وسیع ہوتا جاتا ہے.ایسا ہی ریج

Page 293

284 مصیبت میں یار، غمگسار اور ایسے احباب کی ضرورت ہے جو اس میں شریک ہو کر اسے کم کریں.ان صورتوں میں اس قسم کے تعلقات اور روابط مفید ہیں.ان ساری باتوں پر جب ہم غور کرتے ہیں تو پھر بے اختیار نَحْمَدُہ کہتے ہیں.اس حمد کے بھی مختلف رنگ ہیں.یہاں ہی دیکھو کہ کچھ لڑکے ہیں.وہ صرف اسی لئے جمع ہیں کہ کچھ چھوہارے ملیں گے.ان کا اَلْحَمْدُ اپنے ہی رنگ کا ہے.یہ بھی ایک مرتبہ ہے اور عوام اور بچوں کا یہیں تک علم ہے.ایک وہ ہیں جنہوں نے الْحَمْدُ ہی سے نبوتوں کو ثابت کیا اور مذاہب باطلہ کا رد کیا ہے.تین مرتبہ میں نے حضرت صاحب کی تفسیر الْحَمْدُ پڑھی ہے.ایک براہین میں پھر کرامات میں اور پھر اعجاز المسیح میں.اسے پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ الْحَمْدُ کا اعلیٰ مقام وہ ہے جہاں یہ پہنچے ہیں.یہ بھی الحمد کے ایک معنے ہیں اور ایک متوسط لوگ ہیں.میں بھی ان میں ہی ہوں.یہ اپنے رنگ میں اَلْحَمْدُ کے معنے سمجھتے ہیں اور ان کی حمد اپنے رنگ کی ہے.یہاں ناطے رشتے ہوتے ہیں اور ان تقریبوں پر مجھے حضرت امام" کے حکم سے موقع ملتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کروں.اس لئے میں اس فضل پر ہی حمد الہی کرتا ہوں.میں یوں تو عجیب عجیب رنگوں میں حمد کرتا ہوں مگر اس وقت کے حسب حال یہی وجہ ہے جو میں نے بیان کی ہے اور یہ معمولی فضل نہیں ہے مگر یہ توفیق اور فضل اللہ ہی کی مدد سے ملتا ہے.اس لئے نَسْتَعِينُه ہم اس کی مدد چاہتے ہیں.خدا تعالی کی مدد ہی شامل حال ہو تو بات بنتی ہے ورنہ واعظ میں ریاء سمعت دنیا طلبی پیدا ہو سکتی ہے.اور وہ خدا تعالٰی کو چھوڑ کر عاجز مخلوق کو اپنا معبود اور محبوب بنا لیتا ہے جب اس کے دل میں مخلوق سے اپنے کلام اور وعظ کی داد کی خواہش پیدا ہو.واعظ کے لئے یہ امر سخت مہلک ہے.پس میں خدا کی حمد کرتا ہوں اور اس کے فضل سے حمد کرتا ہوں کہ اس نے محض اپنے فضل ، ہاں اپنے فضل ہی سے مجھے مخلوق سے مستغنی کر دیا ہے.یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی مدد کب ملتی ہے؟ یہ مدد اس وقت ملتی ہے جب انسان میں بدی نہ ہو.بد کار ایک وقت نیکی بھی کر سکتا ہے مگر نیکی اور بدی کی میزان اور ہر ایک کی کثرت اور قلت اسے نیک یا بد ٹھہراتی ہے.نیکیاں بہت ہوں تو نیک اور بدیاں زیادہ ہوں تو بد کار کہلاتا ہے.بدی چونکہ بدی ہے اور درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے اس لئے جب حمد الہی کی توفیق اور جوش پیدا نہ ہویا اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت نہ ملے تو ایسی حالت میں ڈرنا چاہئے اور سمجھ لینا چاہئے کہ بدیاں بڑھ گئی ہیں.اس کا علاج کرنا چاہئے اور وہ علاج کیا ہے؟ اِستغفار.اس لئے فرمایا نَسْتَغْفِرُهُ.اللہ تعالٰی کے وسیع

Page 294

285 قانون اور زبردست حکم اس قسم کے ہیں کہ انسان بعض بدیوں اور کمزوریوں کی وجہ سے بڑے بڑے فضلوں سے محروم رہ جاتا ہے.جب انسان کوئی غلطی کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کے کسی حکم اور قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ غلطی اور کمزوری اس کی راہ میں روک ہو جاتی ہے اور یہ عظیم الشان فضل اور انعام سے محروم کیا جاتا ہے.اس لئے اس محرومی سے بچانے کے لئے یہ تعلیم دی کہ استغفار کرو.استغفار انبیاء علیہم السلام کا اجماعی مسئلہ ہے.ہر نبی کی تعلیم کے ساتھ اِسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إلَيْهِ (هود:)) رکھا ہے.ہمارے امام کی تعلیمات میں جو ہم نے پڑھی ہیں استغفار کو اصل علاج رکھا ہے.استغفار کیا ہے؟ پچھلی کمزوریوں کو جو خواہ عمد آہوں یا سہواً غرض مَا قَدَّمَ وَمَا أَخَرَ جو نہ کرنے کا کام آگے کیا اور جو نیک کام کرنے سے رہ گیا ہے، اپنی تمام کمزوریوں اور اللہ تعالیٰ کی ساری نارضامندیوں کو مَا أَعْلَمُ وَمَا لَا أَعْلَمُ کے نیچے رکھ کر آئندہ کے لئے غلط کاریوں کے بدنتائج اور بداثر سے محفوظ رکھ اور آئندہ کے لئے ان بدیوں کے جوش سے محفوظ فرما.یہ ہیں مختصر معنی استغفار کے.پھر ایک اور بات بھی قابل غور ہے.حضرت امام نے اس زمانہ کو امن کے لحاظ سے نوح کا زمانہ کہا ہے.حضرت نوح نے جب اپنی قوم کو وعظ کیا اور خدا تعالیٰ کا پیغام اسے پہنچایا تو کیا کہا؟ اِسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا - يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا - وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَّكُمْ جَنَّتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهَارًا (نوح: تا ۱۳) - استغفار کے برکات اور نتائج ان آیات میں حضرت نوح علیہ السلام نے انسانی ضروریات کی جہت سے بیان فرمائے ہیں.غور کر کے دیکھ لو کیا انسان کو انہیں چیزوں کی ضرورت دنیا میں نہیں ہے؟ پھر ان کے حصول کا علاج استغفار ہے.امن کے زمانہ میں چیزوں میں گرانی ہوتی ہے اور یہ امن کے لئے لازمی امر ہے.نادان کہتا ہے ایک وقت روپیہ کا من بھر گیہوں ہو تا تھا اور پانچ سیر گھی.وہ نہیں سمجھتا کہ وہ امن کا زمانہ نہ تھا.اس لئے تبادلہ تجارت کے لئے لوگ گھر سے مال نکال نہ سکتے تھے.اور جب امن ہوتا ہے تو تبادلہ اشیاء کی وجہ سے اموال بڑھ جاتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی فضولیاں بھی بڑھتی ہیں.، غرض استغفار ایسی چیز ہے جو انسان کی تمام مشکلات کے حل کے لئے بطور کلید ہے.اس لئے خدا تعالیٰ کی حمد اور اس کی استعانت کے لئے استغفار کرو.مگر استغفار بھی اس وقت ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ پر ایمان ہو.اس لئے فرمایا.وَنُؤْمِنُ بِہ اور ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں کہ وہ جمیع صفات کاملہ سے موصوف اور تمام بدیوں سے منزہ ہے.وہ اپنی ذات میں اپنی صفات میں اسماء اور محامد اور افعال

Page 295

286 میں وحدہ لا شریک ہے.وہ اپنی ذات میں یکتا صفات میں بے ہمتا اور افعال میں لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَی (الشوری:۳) اور بے نظیر ہے.اور اس بات پر بھی ایمان لاتے ہیں کہ وہ ہمیشہ اپنی رضامندی اور نارضامندی کی راہوں کو ظاہر کرتا رہا ہے اور ملائکہ کے ذریعہ اپنا کلام پاک اپنے نبیوں اور رسولوں کو پہنچاتا رہا ہے.اور اس کی بھیجی ہوئی کتابوں میں آخری کتاب قرآن شریف ہے جس کا نام فضل شفاء رحمت اور نور ہے اور آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو خاتم النبین ہیں اور اب کوئی نبی اور رسول آپ کے سوا نہیں ہو سکتا.اس وقت بھی جو آیا وہ آپ کا خادم ہو کر آیا ہے.اللہ تعالیٰ پر ایمان کا یہ خلاصہ ہے.ایمان باللہ جب کامل ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہو اس لئے یہ تعلیم دی وَنَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ اور ہم اللہ تعالیٰ پر بھروسہ اور توکل کرتے ہیں.تو کل سے یہ مطلب ہے کہ ہم میں یہ بات پیدا ہو کہ اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں جس مطلب اور غرض کے لئے بنائی ہیں وہ اپنے نتائج اور ثمرات اپنے ساتھ ضرور رکھتی ہیں.اس لئے اس پر ایمان ہونا چاہئے کہ لابد ایمان کے ثمرات اور نتائج ضرور حاصل ہوں گے اور کفر اپنے بدنتائج دیئے بغیر نہ رہے گا.انسان بڑی غلطی اور دھوکا کھا جاتا ہے جب وہ اس اصل کو بھول جاتا ہے.اعمال اور اس کے نتائج کو ہرگز ہرگز بھولنا نہیں چاہئے.سعی اور کوشش کو ترک نہیں کرنا چاہئے.سب کچھ بھی ہو مگر اصل بات یہ ہے کہ انسان اپنی کمزوریوں پر پوری اطلاع نہیں رکھتا اور اندرونی بدیوں میں ایسا مبتلا ہو جاتا ہے جو حبط اعمال ہو جاتا ہے اور اصل مقصد سے دور جا پڑتا ہے.شیطان انسان کو عجیب عجیب راہوں سے گمراہ کرتا ہے اور نفس ایسے دھو کے دیتا ہے اس لئے یہ تعلیم دی نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّاتِ اَعْمَالِنَا (مسلم.ترمذی کتاب النکاح باب خطبة النكاح) یعنی ہم اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں.بڑی پناہ اور معاذ اللہ تعالیٰ ہی کی پناہ ہے جو ساری قوتوں اور قدرتوں کا مالک ہے اور ہر نقص سے پاک اور ہر کامل صفت سے موصوف ہے.کس بات سے پناہ چاہتے ہیں؟ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا انسان کی اندرونی بدیاں اور شرارتیں اس کو ہلاک کر دیتی ہیں.مثلاً شہوت کے مقابلہ میں زیر ہو جاتا ہے اور ترک عفت کرتا ہے.بد نظری اور بدکاری کا مرتکب ہو جاتا ہے.رحم کو چھوڑتا ہے اور غضب کو اختیار کرتا ہے اور کبھی قناعت کو جو سچی خوش حالی کا ایک بڑا ذریعہ ہے، چھوڑ کر حرص و طمع کا پابند ہوتا ہے.غرض یہ نفس کا شر عجب قسم کا شر ہے.اس کے پنجہ میں گرفتار ہو کر انسان بدی کو نیکی اور نیکی کو بدی بنالیتا ہے اور ہر شخص کو اس کے حسب حال دھوکا دیتا ہے.مولویوں کو ان کے

Page 296

287 رنگ میں اور میرے جیسے انسان کو اپنے رنگ میں.غرض عجیب عجیب امتحان ہوتے ہیں.تعوذ ایسا ضروری ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید کو تعوذ پر ختم فرمایا ہے.اس لئے کبھی اس سے غافل نہیں رہتا چاہئے.نفس کا شر اور اعمال کا شر اس کے بد نتائج ہوتے ہیں.اگر اللہ تعالیٰ کی پناہ میں انسان نہ آ جاوے تو وہ ہلاک ہو جاتا ہے اور پھر کوئی اسے بامراد نہیں کر سکتا اور نہ بچا سکتا ہے.اسی طرح اخلاص اور نیکی کے ثمرات نیک ہوتے ہیں.ایسے شخص کو جب وہ اللہ تعالی کی پناہ میں آجاتا ہے کوئی ہلاک نہیں کر سکتا.اس لئے فرمایا مَنْ يَّهْدِهِ اللهُ فَلا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ - ان سب باتوں کا خلاصہ یہ ہے.وَ نَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَنَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ - یہ خلاصہ اور اصل عظیم الشان اصل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اپنا معبود، محبوب اور مطاع نہ بناؤ.اور زبان، آنکھ، کان، ہاتھ ، پاؤں غرض کل جوارح اور اعضاء اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں لگے ہوئے ہوں.کوئی خوف اور امید مخلوق سے نہ ہو.اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار بنیں اور اس کے حکم کے مقابل کسی اور حکم کی پروا نہ کریں.فرمانبرداری کا اثر اور امتحان مقابلہ کے وقت ہوتا ہے.ایک طرف قوم اور رسم و رواج بلاتا ہے، دوسری طرف خدا تعالی کا حکم ہے.اگر قوم اور رسم و رواج کی پروا کرتا ہے تو پھر اس کا بندہ ہے.اور اگر خدا تعالی کی فرمانبرداری کرتا ہے اور کسی بات کی پروا نہیں کرتا تو پھر خدا تعالیٰ پر سچا ایمان رکھتا ہے اور اس کا فرمانبردار ہے اور یہی عبودیت ہے.قرآن مجید نے اسلام کی یہی تعریف کی ہے مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَ هُوَ محسن (البقره: ۱۳) کچی فرمانبرداری یہی ہے کہ انسان کا اپنا کچھ نہ رہے.اس کی آرزوئیں اور امیدیں، اس کے خیالات اور افعال سب کے سب اللہ تعالیٰ ہی کی رضا اور فرمانبرداری کے نیچے ہوں.میرا اپنا تو یہ ایمان ہے کہ اس کا کھانا پینا، چلنا پھرنا سب کچھ اللہ ہی کے لئے ہو تو مسلمان اور بندہ بنتا ہے.خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری اور رضامندی کی راہوں کو بتانے والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.چونکہ ہر شخص کو مکالمہ الہیہ کے ذریعہ الہی رضا مندیوں کی خبر نہیں ہوتی ، اگر کسی کو ہو بھی تو اس کی وہ حفاظت اور شان نہیں ہوتی جو خدا تعالیٰ کے ماموروں اور مرسلوں کی وحی کی ہوتی ہے اور خصوصاً سرور انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی کہ جس کے دائیں بائیں آگے پیچھے ہزاروں ہزار ملائکہ حفاظت کے لئے ہوتے ہیں.اس لئے کامل نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں اور وہی مقتدا اور مطاع ہیں.پس

Page 297

288 ہر ایک نیکی تب ہی ہو سکتی ہے کہ جب وہ اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہو اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے نیچے ہو.اس کے بعد میں نے کچھ آیتیں پڑھی ہیں.ان میں عام لوگوں کو نصیحت ہے کہ نکاح کیوں ہوتے ہیں اور نکاح کرنے والوں کو کن امور کا لحاظ رکھنا چاہیے؟ مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے معدوم سے بنایا ہے اور یہ شان ربوبیت ہے.نکاح بھی ربوبیت کا ایک مظہر ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ (النساء:۲).یہ ایک سورۃ کا ابتداء ہے.اس سورۃ میں معاشرت کے اصولوں اور میاں بیوی کے حقوق کو بیان کیا گیا ہے.یہ آئیتیں نکاح کے خطبوں میں پڑھی جاتی ہیں اور غرض یہی ہوتی ہے کہ تا ان حقوق کو مد نظر رکھا جاوے.اس سورۃ کو اللہ تعالیٰ نے يايُّهَا النَّاسُ سے شروع فرمایا ہے.النَّاسُ جو انس سے تعلق رکھتا ہے تو میاں بیوی کا تعلق اور نکاح کا تعلق بھی ایک انس ہی کو چاہتا ہے تا کہ دو اجنبی وجود متحد فی الا رادہ ہو جائیں.غرض فرمایا.لوگو! تقویٰ اختیار کرو.اپنے رب سے ڈرو.وہ رب جس نے تم کو ایک جیسے بنایا اور اسی جنس سے تمہاری بیوی بنائی اور پھر دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پیدا کیں.خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا سے یہ مراد ہے کہ اسی جنس کی بیوی بنائی.اس آیت میں اِتَّقُوا رَبَّكُمْ جو فرمایا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نکاح کی اصل غرض " تقوی" ہونی چاہئے اور قرآن مجید سے یہی بات ثابت ہے.نکاح تو اس لئے ہے کہ ”احصان“ اور ”عفت" کی برکات کو حاصل کرے.مگر عام طور پر لوگ اس غرض کو مد نظر نہیں رکھتے بلکہ وہ دولتمندی حسن و جمال اور جاہ و جلال کو دیکھتے ہیں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عَلَيْكَ بِذَاتِ الدِّينِ (بخاری كتاب النکاح باب الاكفاء فی الدین).بہت سے لوگ خدو خال میں محو ہوتے ہیں جن میں جلد تر تغیر واقع ہو جاتا ہے.ڈاکٹروں کے قول کے موافق تو سات سال کے بعد وہ گوشت پوست ہی نہیں رہتا.مگر عام طور پر لوگ جانتے ہیں کہ عمر اور حوادث کے ماتحت خدو خال میں تغیر ہو تا رہتا ہے اس لئے یہ ایسی چیز نہیں جس میں انسان محو ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کی اصل غرض تقوی بیان فرمائی.دیندار ماں باپ کی اولاد ہو.دیندار ہو.پس تقویٰ کرو اور رحم کے فرائض کو پورا کرو.میں تمہارے لئے نصیحتیں کرتا ہوں.یہ تعلق بڑی ذمہ داری کا تعلق ہے.میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے نکاح جو اغراض حب پر ہوتے ہیں ان سے جو اولاد ہوتی ہے وہ ایسی نہیں ہوتی جو اس کی روح اور زندگی کو بہشت کر کے

Page 298

289 دکھائے.ان ساری خوشیوں کے حصول کی جڑ تقویٰ ہے اور تقویٰ کے حصول کے لئے یہ گر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رقیب ہونے پر ایمان ہو.چنانچہ فرمایا.اِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا (النساء:۴) جب تم یہ یاد رکھو گے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے حال کا نگران ہے تو ہر قسم کی بے حیائی اور بدکاری کی راہ سے جو تقویٰ سے دور پھینک دیتی ہے بچو گے.دوسری آیت یہ ہے.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (الاحزاب).اس میں بھی اللہ تعالیٰ تقویٰ کی ہدایت فرماتا ہے اور ساتھ ہی حکم دیتا ہے کہ پکی باتیں کہو.انسان کی زبان بھی ایک عجیب چیز ہے جو گا ہے مومن اور گا ہے کافر بنا دیتی ہے.معتبر بھی بنا دیتی ہے اور بے اعتبار بھی کر دیتی ہے.اس لئے حکم ہوتا ہے کہ اپنے قول کو مضبوطی سے نکالو خصوصاً نکاحوں کے معاملہ میں.اس معاملہ میں پوری سوچ بچار اور استخاروں سے کام لو اور پھر مضبوطی سے اسے عمل میں لاؤ.جب تم پوری کوشش کرو گے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ (الاحزاب (۷۲) تمہارے سارے کام اصلاح پذیر ہو جائیں گے.تمہاری غلطی کو جناب الہی معاف کر دیں گے.کیونکہ جب تقویٰ ہو تو اعمال کی اصلاح کا ذمہ وار اللہ تعالیٰ ہو جاتا ہے.اور اگر نافرمانی ہو تو وہ معاف کر دیتا ہے.ان معاملات نکاح میں عجیب در عجیب کہانیاں سنائی جاتی ہیں اور دھوکا دیا جاتا ہے.خدا تعالیٰ ہی کا فضل ہو تو کچھ آرام ملتا ہے.ورنہ چالاکی سے کام کیا ہو اور دنیا میں بہشت نہ ہو.لہ پھر فرمایا ہے.بہت لوگ پاس ہونے کے لئے تڑپتے ہیں.وہ یاد رکھیں کہ اصل بات تو یہ ہے کہ جو اللہ اور رسول کا مطیع ہوتا ہے وہ ہی حقیقی با مراد ہوتا اور یہی حقیقی پاس ہے.پھر اس معاملہ میں تیسری آیت یہ ہے.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ (الحشر:19).اس تیسری آیت میں بھی تقویٰ کی تاکید ہے کہ تقویٰ اللہ اختیار کرو اور ہر ایک جی کو چاہئے کہ بڑی توجہ سے دیکھ لے کہ کل کے لئے کیا کیا؟ جو کام ہم کرتے ہیں ان کے نتائج ہماری مقدرت سے باہر چلے جاتے ہیں.اس لئے جو کام اللہ کے لئے نہ ہو گا تو وہ سخت نقصان کا باعث ہو گا.لیکن جو اللہ کے لئے ہے تو وہ ہمہ قدرت اور غیب دان خدا جو ہر قسم کی طاقت اور قدرت رکھتا ہے اس کو مفید اور مثمر ثمراتِ حسنہ بنا دیتا ہے.یہ سب باتیں تقویٰ سے حاصل ہوتی ہیں.ل نقل مطابق اصل 19.

Page 299

290 اس وقت جو مجمع ہے میں اس کی خوشی کا اظہار کروں تو بعض نادان بدظنی کریں گے مگر بد ظنیاں تو ہوتی ہی ہیں مجھے ان کی پروا نہیں اور میں کسی رنگ میں مخلوق کی پروا کرنا اپنے ایمان کے خلاف یقین کرتا ہوں.یہ امرا خلاص اور اسلام کے خلاف ہے.پس میں صاف طور پر کہتا ہوں کہ اس تقریب کی وجہ سے مجھے بہت ہی خوشی ہے اور کئی رنگوں میں خوشی ہے.نواب محمد علی خاں میرے دوست ہیں.یہ نہ سمجھو کہ اس وجہ سے دوست ہیں کہ وہ خاصاحب یا نواب صاحب یا رئیس ہیں.میں نے کسی دنیوی غرض کے لئے ایک سیکنڈ سے بھی کم وقفہ کے لئے کبھی ان سے دوستی نہیں کی.وہ خوب جانتے ہیں اور موجود ہیں.مجھے ان کے ساتھ جس قدر محبت ہے محض خدا کے لئے ہے.کبھی بھی نہ ظاہری طور پر اور نہ باطنی طور پر ان کی محبت میں کوئی غرض نہیں آئی.ایک زمانہ ہوا میں نے ان سے معاہدہ کیا تھا کہ آپ کے دکھ کو دکھ اور سکھ کو سکھ سمجھوں گا اور اب تک کوئی غرض اس معاہدہ کے متعلق میرے واہمہ میں نہیں گزری.ان کا یہ رشتہ کا تعلق حضرت امام علیہ السلام سے ہوتا ہے.یہ سعادت اور فخر ان کی خوش قسمتی اور بیدار بختی کا موجب ہے.ان کے ایک بزرگ تھے شیخ صدر جہاں (علیہ الرحمۃ ) ایک دنیادار نے ان کو نیک سمجھ کر اپنی لڑکی دی تھی.مگر یہ خدا تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ ہے اور اس کی نکتہ نوازی ہے کہ آج محمد علی خاں کو سلطان دین نے اپنی لڑکی دی ہے.یہ اس بزرگ مورث سے زیادہ خوش قسمت ہیں.یہ میرا علم میرا دین اور ایمان بتاتا ہے کہ حضرت صدرجہاں سے زیادہ خوش قسمت ہیں.میں نہیں جانتا کہ میری قوم کیا ہے؟ مگر میرا علم بتاتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اولاد ہوں.حضرت عمر میرے جد امجد بڑے مہروں کو پسند نہیں کرتے تھے.مگر ایک مرتبہ جب ایک عورت نے کہا.اَلْقَنَاطِيرِ الْمُقَنْطَرَةِ (ال عمران (۱۵) بھی مہر ہو.خدا نہیں روکتا تو عمر کون روکنے والا ہے.اس پر حضرت عمر نے فرمایا کہ عمر سے تو مدینہ کی عورتیں بھی افقہ ہیں.پس ایک فاروقی کے منہ سے اس وقت ۵۶ ہزار کے مہر کو خفیف سمجھنا ضرور قابل غور ہے.کیا میرے جیسے آدمی کا مراتنا باندھا جا سکتا ہے جس نے آیا تو کھالیا، کپڑا مل گیا تو پہن لیا.اس کا مہر تو اسی حیثیت کا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر ایک صحابی کو کہا کہ تیرے پاس کچھ ہے؟ اس نے جواب دیا نہیں.پھر آپ نے فرمایا کہ اچھا! لوہے کی انگوٹھی ہی لے آ.جب اس نے اس سے بھی انکار کیا اور کہا کہ صرف تہ بند ہے تو اس کا م بِمَا مَعَكَ مِنَ الْقُرانِ (بخاری کتاب النکاح باب السلطان ولی) فرمایا.فقہاء نے اس پر اختلاف کیا ہے.بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ تیری قرآن دانی کے بدلے اور بعض کہتے ہیں کہ قرآن کی

Page 300

291 تعلیم دینے کے لئے.بہر حال مہروں کا اندازہ انسان کے حالات پر ہوتا ہے.چار سو درہم یا دو سو درہم یا پانچ سو ن کا سلطانی یہ کوئی شرعی حدود یا قیود نہیں ہیں.پس جو لوگ کل کی بات کو غور سے سوچتے ہیں ان کو اور بھی مشکلات ہوتے ہیں.بہر حال حضرت صاحب نے تمام امور کو مد نظر رکھ کر ۵۶ ہزار تجویز فرمایا ہے اور میری اپنی سمجھ میں یہ صر ان حالات کے ماتحت جو خوانین کے ہاں پیش آتے ہیں کچھ بھی نہیں اور بہت تھوڑی رقم ہے.تاہم حضرت صاحب نے بڑی رضامندی سے اس مہر پر مبارکہ بیگم کا نکاح کر دینا قبول فرمایا.اس سے یہ اجتہاد نہیں ہو سکتا کہ نور دین جیسے کا بھی کی مہر ہو.مہر حالات کے لحاظ سے ہوتا ہے.اس کے بعد ایجاب و قبول ہوا اور حضرت اقدس نے دعا فرمائی.ا حکم جلد ۱۲ نمبر۱۵-۲۶۰۰ فروری ۱۹۰۸ء صفحه ۱تا۵) ( بدر جلدے نمبر۹ --- ٫۵ مارچ ۱۹۰۸ء صفحه ۳ (۶)

Page 301

۱۶ مارچ ۱۹۰۸ء 292 خطبہ جمعہ تشهد تعوذ اور مسنون دعاؤں کے بعد فرمایا:.یہ اذان جو اس وقت تم نے سنی ہے یہی جناب الہی کی طرف سے ایک فرشتہ کے ذریعہ اسلام کو سکھائی گئی ہے اور یہ ایسے پاک کلمات ہیں کہ سارے اسلام کا نچوڑ ہیں.جس طرح سے عبادت الہی نماز روزہ اور حج وغیرہ کے طریق ہمیں بڑی حفاظت اور تواتر سے پہنچائے گئے ہیں.ان سے کہیں بڑھ چڑھ کر تواتر سے ہمیں اذان کے الفاظ پہنچے ہیں.بڑے بڑے بلند مقامات پر مناروں پر چڑھ کر بلند آواز سے پورے زور اور طاقت سے پانچ وقت ان الفاظ سے اسلام کی منادی ہوتی چلی آئی ہے.جہاں تک میری سمجھ ، علم اور طاقت پہنچ سکتی ہے میں جانتا ہوں کہ اس اذان میں بڑے اسرار ہیں.ایک انگریز جس کے ذریعہ سے میں نے عیسائیت کے متعلق اس قدر معلومات پیدا کیں کیونکہ وہ عیسائیت کی بہت ی کتابیں مجھے بھیجا کرتا تھا اس نے ایک دفعہ مجھے کہا کہ بڑی ترقی کا زمانہ ہے.امریکہ اور یورپ بہت ترقی کے معراج پر پہنچ گئے ہیں.میں نے اس سے کہا کہ یورپ اور امریکہ بے چارہ کیا دینی ترقی کرے گا

Page 302

293 اور کیا ترقی اس نے کی ہے.۱۹۰۰ برس گزر گئے.ہر اتوار کے دن گھنٹوں اور گھڑیالوں کی شور و پکار ہوتی ہے.نہیں معلوم کیوں اور کس غرض کے لئے یہ بجائے جاتے ہیں.کسی کو بلانے کے واسطے بجائے جاتے ہیں یا کہ شوقیہ.اگر بلانے کو بجائے جاتے ہیں تو کس مطلب کس غرض و غایت کے واسطے بلایا جاتا ہے؟ اس بلانے میں کوئی حقیقت نہیں.اس میں دنیا کو کوئی وعظ نہیں، تبلیغ نہیں.برخلاف اس کے اسلام کی منادی کو دیکھو کس طرح جرات اور دلیری سے اپنے پاک اصولوں کی پنج وقتہ تبلیغ کرتے ہیں.کس بلند آوازی سے اور کیسے بلند مقامات پر سے اور کیسی حقیقت ان الفاظ میں بھری ہے.اول اپنے مذہب کے اصل الاصول بیان کیے جاتے ہیں پھر بلانے کی غرض و غایت.اور پھر آنا بے فائدہ نہیں، کسی کھیل تماشے کے واسطے نہیں کوئی لہو و لعب کوئی خدا سے غافل کرنے والا یا بے حقیقت بچوں کا کھیل نہیں بلکہ اس کا نتیجہ فلاح ہے.بھلا اس طرز دعوت اور اپنے طرز دعوت کا مقابلہ تو کر کے دیکھو پھر کہنا کہ ترقی کس نے کی ہے.اسلامی اذان میں سارا اسلام کوٹ کوٹ کر بھرا ہے.غور کرنے والا غور کرے اور سوچنے والا دل گہری سوچ کے بعد بتائے کہ بھلا اپنے مذہب کی تبلیغ اور خدا کے جلال اور اس کی عظمت اور جبروت کے اظہار کی اس سے بہتر بھی کوئی تجویز ہو سکتی ہے؟ ہرگز نہیں.یہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے دلی جوش ان کے بچے ارادوں اور ولولوں کا ایک سچا فوٹو ہے جس کو اللہ تعالٰی نے الفاظ اذان میں بیان کیا اور ان الفاظ کی تہ میں گویا صحابہ کرام کے سارے اغراض و مقاصد کا سچا نقشہ جناب الہی سے فرشتہ کی معرفت بھیج کر بتایا گیا ہے.یہ قاعدہ کی بات ہے اور انسانی فطرت میں یہ امر مرکوز ہے کہ انسان اپنے سے بڑے کی بات کو مان لیتا ہے.آج کل کا کوئی نادان لڑکا اپنی بے ہودگی کی وجہ سے اپنے بڑے بزرگوں کی نہ مانے تو یہ اس کی بے ہودگی ہے.انسانی صحیح فطرت میں روز ازل سے میں رکھا گیا ہے.بڑے علم والوں، تاجروں فلاسفروں ، تجربہ کاروں سے پوچھ کر دیکھ لو کہ سب اپنے سے بڑوں کی اطاعت و فرمانبرداری کرتے ہیں اور کرد یمی سلیم فطرت کا تقاضا ہے.اگر کسی کی فطرت مسخ ہو گئی ہے تو اس کا ہم ذکر نہیں کرتے.چنانچہ اذان میں بھی اول اللہ کے نام سے ابتدا کی ہے.سارے محامد سے متصف ساری صفات کاملہ رکھنے والا اور سارے نقائص اور عیوب سے مبرا و منزہ ذات اس کا نام اللہ ہے اور اس سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے اور پھر وہ اکبر ہے.جامع جمیع صفات کاملہ اور ہر قسم کے نقائص سے منزہ ہونے کے ساتھ وہ اکبر بھی ہے یعنی بہت بڑا.اس کے یہ معنی ہوئے کہ اب اپنے کاروبار یاروں دوستوں غرض ہر ایک کو

Page 303

294 چھوڑ کر اللہ کی طرف آجاؤ.اور چونکہ وہ سب سے ہر رنگ میں بڑا ہے اب اس کا حکم آنے پر دوسروں کے احکام کی پرواہ مت کرو.ایک طرف خدا کا بلاوا آجاوے، دوسری طرف کوئی یار دوست آشنا بلاویں یا کوئی دنیا کا کام بلاوے تو اللہ کے مقابلہ میں ان کو ترک کر دو.کیونکہ اللہ اکبر اللہ سب سے بڑا ہے اور سب سے بڑے کی بات کو مان لینا تمہاری فطرت میں رکھا گیا.حتی کہ ماں باپ جن کی اطاعت اور فرمانبرداری کی خدا نے سخت تاکید فرمائی ہے خدا کے مقابلہ میں اگر وہ کچھ کہیں تو ہر گز نہ مانو.فرمانبرداری کا پتہ مقابلے کے وقت لگتا ہے کہ آیا فرمانبردار اللہ کا ہے یا کہ مخلوق کا.ماں باپ کی فرمانبرداری کا خدا نے اعلیٰ مقام رکھا ہے اور بڑے بڑے تاکیدی الفاظ میں یہ حکم دیا ہے.ان کے کفر و اسلام اور فسق و فجور یا دشمن اسلام وغیرہ ہونے کی کوئی قید نہیں لگائی اور ہر حالت میں ان کی فرماں برداری کا تاکیدی حکم دیا ہے مگر ہر مقابلہ کے وقت ان کے متعلق یہی فرما دیا کہ ان جَاهَدُكَ لِتُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا (العنکبوت) اگر خدا کے مقابلہ میں آجاویں تو خدا کو مقدم کرو ان کی ہر گز نہ مانو.اولى الأمر حاکم وقت کی فرماں برداری کا بھی بہت تاکیدی حکم ہے.فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ وَالرَّسُولِ (النساء:۲) کہہ کر بتا دیا کہ اللہ اور اس کے رسول کے پیش کرو.پھر جیسا کہ حکم ہو کرو.غرض نفس ہو یا دوست ہوں ، رسم ہو یا رواج ہو ، قوم ہو یا ملک ہو ماں باپ ہوں یا حاکم ہوں جب وہ خدا کے مقابلہ میں آجاویں یعنی خدا ایک طرف بلاتا ہے اور یہ سب ایک طرف تو خدا کو مقدم رکھو.یہاں اس وقت ہمیں ایک اعتراض یاد آیا ہے.ایک ہمارے دوست نے ہم سے یہ اعتراض بیان کیا کہ چار شہادتوں کا مہیا ہو نا صرف زنا کے بارہ میں ہی آیا ہے ورنہ اور کسی امر میں چار گواہیاں نہیں.اس وقت اذان کے الفاظ سے ہی یہ بھی حل ہوا ہے کہ اذان میں بھی اللہ اکبر کے بعد کلمات شہادت کے متعلق بھی چار بار بیان کرنے کی روایات ہیں جس کا نام اذان ترجیع رکھا ہے.غرض موذن بھی ہمیشہ چار ہی شہادت دیتا ہے.اور یہ حد کمال شہادت ہے.الله اکبر کی شہادت اپنی کامل حد تک ادا کر چکنے کے بعد موذن لا اله الا اللہ کی شہادت دیتا ہے یعنی کوئی بھی بجز اللہ تعالی قابل عبادت اور واجب الاطاعت وجود نہیں ہے.پس خدا کے مقابلہ میں کسی دوسرے کی فرمانبرداری کرنا سجدہ کرنا، رکوع کرنا، دعا کرنا کسی پر بھروسہ رکھنا اللہ کے سوا بالکل جائز نہیں ہے.

Page 304

295 بعض لوگ جو کم فرصتی کی شکایت کر کے اذان کی چنداں پرواہ نہیں کرتے وہ بھی اسی ذیل میں ہیں جو ایمان کی حقیقت اور اذان کے بچے معنوں سے ناواقف ہیں.پھر چونکہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور اطاعت کے واسطے اس کے احکام اوامر و نواہی کا ہونا بھی ضروری ہے پس جس انسان کے ذریعہ سے وہ احکام اوامر و نواہی ہمیں پہنچے ہیں وہ ہمارے سید و مولا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.چونکہ لَا إِلهَ إِلَّا اللہ کی حقیقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی وابستہ ہے اور بغیر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتانے کے ہمیں اللہ کے اوامر و نواہی کی اطلاع نہیں ہو سکتی.اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر اتم ہیں اور آپ ہی کے ذریعہ سے ہمیں اللہ تعالیٰ کی ذات کا یقین ہوا ہے اور آپ کا وجود خدا نما وجود ہے اس واسطے اَشْهَدُ أن لا إله إلا الله کے ساتھ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ لازم ملزوم کر دیا.پھر چونکہ شکریہ کا کامل ذریعہ عبادت کا کامل ذریعہ اپنے مطالب کے حصول کا کامل ذریعہ حق سبحانہ تعالی کی تعظیم کا اعلیٰ مقام انسانی ترقیات کا انتہائی نتیجہ جس کا نام معراج ہے، گناہ اور گندوں سے پاک ہونے کی کچی راہ صرف صرف نماز ہی ہے اس واسطے بلانے کی وجہ بتائی کہ نماز کی طرف بلاوا ہے.پھر نماز میں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کیسا پاک کلمہ ہے.نبی ، شہید ، صدیق اور صالحین جیسے عظیم الشان محسنوں کی راہ جن کے احسانات کی کوئی قیمت ہی نہیں بجز اس کے کہ کوئی جان ہی خدا کر دے ان کی راہ پر چلنے کی درخواست کرتا ہے اور ان کے رنگ میں رنگین ہونے کی خواہش کرتا ہے اور ان کے واسطے دعائیں کرتا ہے، سلام بھیجتا ہے.پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو سردار انبیاء ہیں عجیب طرح سے گداز ہو ہو کر درد دل سے ان کے واسطے کہتا ہے اور دل میں محبت کا ایسا جوش پیدا کرتا ہے کہ گویا ان ا کے احسانات کے باعث ان کو اپنے تصور میں سامنے لے آتا ہے اور کہتا ہے اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ غرض اذان ایک اعلیٰ قسم کا کامل و اکمل طرز دعوت ہے جس میں خلاصہ اسلام بیان کر دیا ہے.دعوت کیوجہ بیان فرمائی گئی ہے اور پھر نتیجہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ.فلاح کے معنے ہیں کامیاب ہو جاتا.دشمنوں کے مقابلہ میں مظفر و منصور ہو جانا.اسی واسطے حکم ہے که إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ (العنكبوت ۴۴) نماز تمام بدیوں اور بدکاریوں سے بچا لیتی ہے اور پھر اس کا نتیجہ فلاح ہے.پھر بعد اذان کے جوش میں آکر کہتا ہے اور دعوت کو ختم کرتا ہے.لا اله الا اللہ فرمایا کہ اذان کے

Page 305

296 معنی سوچو اور ان پر غور کرو.خطبہ ثانیہ فرمایا اَلْحَمْدُ لِلَّهِ ایسا پاک کلمہ ہے اور اس میں ایسے سمندر حکمت الہی کے بھرے ہوئے ہیں کہ جن کا خاتمہ ہی نہیں.میں بعض اوقات نماز میں اَلْحَمْدُ لِلہ پڑھنے کے بعد ٹھر جاتا ہوں.اس کی وجہ یہی ہے کہ میں ان کے معانی میں غور و خوض کرتا ہوا غرق ہو جاتا ہوں.دیکھو بعض وقت مجھے بھی سخت سے سخت مشکلات اور تکلیف پہنچی ہیں کہ ان سے جان جانے کا بھی اندیشہ ہوا ہے.مگر میں نے جب قرآن شریف کو شروع کیا ہے اور اس میں اول ہی اول الْحَمْدُ لِلَّهِ سے شروع ہوا ہے اور میں نے اس آیت پر غور کیا ہے تو دل میں بسا اوقات جوش آیا ہے کہ بتاؤ تو سی اب الْحَمْدُ اللہ کا کیا مقام ہے؟ ان مصائب اور دکھوں کے سمندر میں کس طرح سے الْحَمْدُ لِلَّهِ کہو گے.اور ممکن ہے کہ کسی دوسرے مومن کے دل میں بھی آیا ہو.کیونکہ میرے دل میں ایسا با رہا آیا ہے.تو اس کے واسطے میں نے غور سے دیکھا ہے کہ مصائب اور مشکلات میں واقعی اللہ تعالیٰ کی ذات سات طرح سے الحمد للہ کہے جانے کے لائق ذات ہے.ہر بلا کیں قوم را زیر اں گنج کرم ご داده است بنهاده است (۱).اول تو اس لئے کہ مصائب اور شدائد کفارہ گناہ ہوتے ہیں.سو یہ بھی اس کا فضل ہے.ورنہ قیامت میں خدا جانے ان کی سزا کیا ہے.اس دنیا ہی میں بھگت کر نپٹ لیا.(۲).اس لئے کہ ہر مصیبت سے بڑھ کر مصیبت ممکن ہے.اس کا فضل ہے کہ اعلیٰ اور سخت مصیبت سے بچالیا.(۳).مصائب دو قسم کے ہوتے ہیں دینی اور دنیوی.ممکن ہے کہ گناہ کی سزا میں انسان کی اولاد مرتد ہو جاوے یا یہ خود ہی مرتد ہو جاوے.سو اس کا فضل ہے کہ اس نے دینی مصائب سے بچالیا اور دنیوی مشکلات ہی پر اکتفا کر دیا.(۴).مصائب شدائد پر صبر کرنے والوں کو اجر ملتے ہیں چنانچہ حدیث شریف میں آیا کہ ہر مصیبت پر إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنِ پڑھ کر یہ دعا مانگو.اَللَّهُمَّ أَجِرْنِي فِي مُصِيبَتِي وَأَخْلِفْنِي خَيْرًا مِّنْهَا

Page 306

(مسلم و ابن ماجه کتاب الجنائز) 297 خطبات فور اور قرآن شریف میں مشکلات اور مصائب پر صبر کرنے والوں کے واسطے تین طرح کے اجر کا وعدہ ہے.وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ الَّذِيْنَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلوتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ (البقرد (DALED) یعنی مصائب پر صبر کرنے والوں اور انا للہ کہنے والوں کو تین طرح کے انعامات ملتے ہیں.(۵).صلوات ہوتے ہیں ان پر اللہ کے.(۲).رحمت ہوتی ہے ان پر اللہ کی.(۷).اور آخر کار ہدایت یافتہ ہو کر ان کا خاتمہ بالخیر ہو جاتا ہے.اب غور کرو جن مصائب کے وقت صبر کرنے والے انسانوں کو ان انعامات کا تصور آجاوے جو اس کو اللہ کی طرف سے عطا ہونے کا وعدہ ہے تو بھلا پھر وہ مصیبت مصیبت رہ سکتی ہے اور غم غم رہتا ہے؟ ہرگز نہیں.پس کیسا پاک کلمہ ہے الْحَمْدُ اللهِ اور کیسی پاک تعلیم ہے وہ جو مسلمانوں کو سکھائی گئی ہے.یہ نہایت ہی لطیف نکتہ معرفت ہے اور دل کو موہ لینے والی بات.یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف اسی آیت سے شروع ہوا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام خطبات کا ابتدا بھی اسی سے ہوا ہے.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۸ ۱۰۰۰۰۰ مارچ ۱۹۰۸ء صفحه ۱-۲)

Page 307

۱۳ مارچ ۱۹۰۸ء مسجد اقصیٰ 298 خطبہ جمعہ تشہد اور تعوذ کے بعد آپ نے الْحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيَأْتِ اَعْمَالِنَا التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَ عَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِيْنَ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَ عَلَى الِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ پڑھا اور پھر فرمایا :- یہ وہ فقرات ہیں جو ہر مسلمان ہر دو رکعت کے بعد پڑھتا ہے.جو شخص دن رات میں چالیس رکعت نماز ادا کرتا ہے وہ ان فقرات کو میں مرتبہ پڑھتا ہے.تین رکعت والی نماز میں بھی یہ کلمات دو مرتبہ پڑھے جاتے ہیں.فرائض سفن اور نوافل سب میں ان کا پڑھا جانا ضروری ہے.قرآن شریف میں اور احادیث میں بھی نماز کو سنوار کر اور سمجھ کر پڑھنے کی سخت تاکید کی گئی ہے حتی کہ سوچ سمجھ کر نہ پڑھنے والوں کی نماز نماز ہی نہیں کہلاتی اور نہ اس کو قبولیت کا درجہ عطا کیا جاتا ہے.

Page 308

299 طوطے کی طرح الفاظ کا رشتے رہنا اور حقیقت سے بے خبر ہو نا مفید نہیں ہے اور نہ ہی یہ خدا اور اس کے رسول کا منشاء ہے.متوالوں کو جو حالت نشہ میں ہوں مسجد میں آنے سے بھی منع کیا گیا ہے.غرض قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل وقول میں غور کرنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ نمازی کے واسطے نماز کے مطالب خوب اچھی طرح سے ذہن نشین ہونے لازمی رکھے گئے ہیں.پس ہر انسان کو لازمی ہے کہ نماز کے مطالب اور معافی کے سمجھنے کی کوشش کرے.تحیہ.عربی میں کسی کی تعریف مدح ، ستائش بڑائی اور اس کی مہربانیوں اور انعامات کے بیان کرنے میں اور اس کی شکر گزاری کے واسطے اس کے حسن و احسان کو یاد کر کے اس کے گرویدہ ہونے کے بیان کرنے کو کہتے ہیں اور بعض نے قولی عبادت بھی اس کا ترجمہ کیا ہے.عبادت فرمانبرداری اور تعظیم کا نام ہے.اس واسطے زبان سے جو کچھ عبادت اور فرمانبرداری کا اظہار کیا جاتا ہے اس کا نام تحیہ ہے.چونکہ کل انعامات اور فیوض کا سچا اور حقیقی سرچشمہ اللہ تعالیٰ ہی ہے اور بجز اس کے خاص فضل کے ہم دنیا و مافیہا کے کل سامان آرام و آسائش سے متمتع نہیں ہو سکتے اس لئے صرف اسی کی حمد و ستائش کے گیت گانے اور اس کی فرمانبرداری کو سب پر مقدم کرنا چاہئے.دیکھو! اگر کوئی ہمارا محسن ہمیں ایک اعلیٰ درجہ کی عمدہ اور نفیس گرم پوشاک دے مگر اللہ کا فضل شامل حال نہ ہو اور ہمیں سخت محرقہ تپ ہو تو وہ لباس ہمارے کسی کام آ سکتا ہے اور اگر ہمارے سامنے اعلیٰ سے اعلیٰ مرغن کھانے قسم قسم رکھے جاویں مگر ہم کو قے کا مرض لاحق حال ہو تو ہم ان کھانوں کی لذت کیسے اٹھا سکتے ہیں؟ غرض غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آسائش و آرام کے کل سامانوں کے مادے پیدا کرنا بھی جس طرح اللہ ہی کا کام ہے اسی طرح سے ان سے متمتع اور بارور ہونا بھی محض اللہ کے فضل پر موقوف ہے.صحت عطا کرنا، قوت ذائقہ بخشا، قوت ہاضمہ کا بحال رکھنا سب اللہ کے فضل پر موقوف ہے.اس لئے حکم ہے کہ وَامَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ (الضحى:٣)- تحدیث نعمت کرنا اور خدا کے انعامات کا شکر ادا کرنا ازدیاد انعامات کا باعث ہوتا ہے.لَئِنْ شَكَرْتُمْ لازِيدَنَّكُمْ (ابراهیم:۸).پس اس طرح سے تحدیث نعماء اور عطایا الہی اور شکر کا اظہار زبان سے کرنے کا نام ہے تحیہ.صلوۃ اس تعظیم اور عبادت کا نام ہے جو زبان دل اور اعضاء کے اتفاق سے ادا کی جاوے.کیونکہ ایک منافق کی نماز جو کہ ریا اور دکھلاوے کی غرض سے ادا کی گئی ہو نماز نہیں ہے.نماز بھی ایک تعظیم ہے جس کا تعلق بدن سے ہے.بدن کا بڑا حصہ دل اور دماغ ہیں.چونکہ زبان نماز کے الفاظ ادا کرنے میں اور دل و دماغ اس کے مطالب و معانی میں غور کر کے توجہ الی اللہ کرنے میں اور ظاہری اعضاء ہاتھ

Page 309

300 پاؤں وغیرہ ظاہری حرکات تعظیم کے ادا کرنے میں شریک ہوتے ہیں اور ان سب کے مجموعہ کا نام بدن یا جسم ہے اس لئے بدنی عبادت کا نام صلوۃ ہے.دل و دماغ خدا کی بزرگی اور حق سبحانہ کی عظمت کا جوش پیدا کرتے ہیں بذریعہ اس کے انعامات اور حسن و احسان میں غور کرنے کے.اور پھر اس جوش کا اثر زبان پر یوں ظاہر ہوتا ہے کہ زبان کلمات تعریف و ستائش کہنے شروع کر دیتی ہے اور پھر اس کا اثر اعضا اور ظاہری جوارح پر پڑتا ہے اور ادب و تعظیم کے لئے کمر بستہ ہونا، رکوع کرنا سجود کرنا وغیرہ ظاہری حرکات تعظیم بجالاتے ہیں.پھر یہ اثر اسی جگہ محدود نہیں رہتا بلکہ انسان کے مال پر بھی پڑتا ہے اور اس طرح سے انسان اپنے عزیز اور طیب مالوں کو خدا کی رضا جوئی اور خوشنودی کے واسطے بے دریغ خرچ کرتا ہے اور اپنے مال کو بھی اپنے دل و دماغ، زبان اور ظاہری اعضا کے ساتھ شامل و متفق کر کے عبادت الہی میں لگا دیتا ہے تو اس کا نام ہے الطيبات جس کو بالفاظ دیگر یوں بیان کیا گیا ہے.مالی عبادات اور یہ بھی صرف اللہ جل شانہ ہی کا حق ہے.غرض التَّحِيَّات - الصَّلَوَات - الطَّيِّبات - تینوں طرح کی عبادت فقط اللہ جل شانہ ہی کا حق ہے.کسی قسم کی عبادت میں اس کا کوئی شریک نہیں.اللہ تعالیٰ اس بات سے غنی ہے کہ کوئی اس کا شریک اور سانجھی ہو.السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه- قاعدہ کی بات ہے کہ ہر محسن اور مربی کی محبت کا جوش انسان کے دل میں فطرتا پیدا ہوتا ہے.اور ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم پر کیسے کیسے احسان ہیں.وہی ہیں جن کے ذریعے ہم نے خدا کو جانا مانا اور پہچانا.وہی ہیں جن کے ذریعہ سے ہمیں خدا کے اوامر و نواہی اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی راہیں بذریعہ قرآن شریف معلوم ہوئیں.وہی ہیں جن کے ذریعہ سے خدا کی عبادت کا اعلیٰ سے اعلیٰ طریقہ اذان اور نماز ہمیں میسر ہوا اور وہی ہیں جن کے ذریعہ سے ہم اعلیٰ سے اعلیٰ مدارج تک ترقی کر سکتے ہیں حتی کہ خدا سے مکالمہ و مخاطبہ ہو سکتا ہے.وہی ہیں جن کے ذریعہ سے لا الہ الا اللہ کی پوری حقیقت ہم پر منکشف ہوئی اور وہی ہیں جو خدا نمائی کا اعلیٰ ذریعہ ہیں.غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم پر اتنے احسانات اور انعامات ہیں کہ ممکن تھا کہ جس طرح سے اور قومیں اپنے محسنوں اور نبیوں کو بوجہ ان کے انعامات کثیرہ کے غلطی سے بجائے اس کے کہ ان کو خدا نمائی اور خداشناسی کا ایک آلہ سمجھتے انہی کو خدا بنا لیا اور توحید سکھانے والے لوگوں کو واحد دیگانہ مان لیا اور ان کی تعلیمات کو جو کہ نہایت خاکساری اور عبودیت سے بھری

Page 310

301 ہر ہوئی تھیں بھول کر ترک کر دیا اور ان ہی کو معبود یقین کر لیا.ہم مسلمان بھی، ممکن تھا کہ ایسا کر بیٹھتے مگر اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے اور اس امت مرحومہ پر رحم کرنے اور ایسے خطرناک ابتلا سے بچانے کی غرض سے مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ کا فقرہ ہمیشہ کے واسطے توحید الی لا اله الا الله کا جزو بنا کر مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے شرک سے بچالیا.بلکہ اسی باریک حکمت کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر بھی مدینہ منورہ میں بنوائی مکہ معظمہ میں نہیں رکھی.کیونکہ اگر مکہ معظمہ میں آپ کی قبر ہوتی تو ممکن تھا کہ کسی کے دل میں خیال پرستش آجاتا یا کم از کم دشمن اور مخالف ہی اس بات کا اعتراض کرتے.مگر اب مدینہ میں قبر ہونے سے جو لوگ مکہ معظمہ میں جانب شمال سے جانب جنوب منہ کر کے نماز ادا کرتے ہیں تو ان کی پیٹھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی طرف ہوتی ہے.اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لئے یہ ایک راہ آپ کی قبر کے نہ پوجا جانے اور مسلمانوں کے شرک میں مبتلا نہ ہونے کے واسطے بنا دی.غرض اسی طرح سے جن باتوں میں اس بات کا وہم و گمان بھی ہو سکتا تھا کہ کوئی انسان آپ کو خدا بنا لے گا یا آپ کے شریک فی الذات یا صفات ہونے کا گمان بھی جن باتوں سے ممکن تھا ان کا خود اللہ تعالیٰ نے اسلام کی کچی اور پاک تعلیم میں ایسا بند و بست کر دیا کہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی مسلمان اس امر کا مرتکب ہو.مگر چونکہ محسن سے محبت کرنا اور گرویدہ احسان ہونا انسانی فطرت کا تقاضا تھا اس واسطے ایک راہ کھول دی کہ ہم آپ کے لئے دعا کیا کریں اور اس طرح سے آنحضرت کے مدارج میں ترقی ہوا کرے.چنانچہ مسلمان نماز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَ بَرَكَاتُه کاپاک تحیہ پیش کرتا ہے اور درد دل سے گداز ہو ہو کر گویا کہ آپ کے احسانات اور مہربانیوں کے خیال سے آپ کی ایسی محبت پیدا کر لیتا ہے جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سامنے موجود ہیں.آپ کے حسن و احسانات کے نقش اور مہربانیوں سے آپ کاوجود حاضر کی طرح سامنے لا کر مخاطب کے رنگ میں دعا کرتا ہے اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ پر کہ عربی میں تالاب کو کہتے ہیں.اس نشیب کا نام ہے جہاں ادھر ادھر کا پانی جمع ہو جاتا ہے.مبارك بھی اسی سے نکلا ہے اور برکت بھی اسی میں سے ہے.مطلب یہ کہ آنحضرت کی امت میں ہمیشہ کچھ ایسے پاک لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جو آنحضرت کے اصلی اور حقیقی مذہب اور تعلیم توحید کو قائم کرتے اور شرک و بدعات کا جو کبھی امتداد زمانہ کی وجہ سے اسلام میں راہ پا جاویں ان کا قلع قمع کرتے رہیں

Page 311

302 گے.اور یہ ضروری ہے کہ آپ کی سچی تعلیم و تربیت کا نمونہ ہمیشہ بعض ایسے لوگوں کے ذریعہ ظاہر ہوتا رہے جو امت مرحومہ میں ہر زمانہ میں موجود ہوا کریں.چنانچہ قرآن شریف میں بھی بڑی صراحت سے اس بات کو الفاظ ذیل میں بیان کیا گیا ہے.وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمَنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ اللَّهِ ذلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (النور (٥٢).اسی طرح سے اَلسَّلَامُ عَلَيْنَا وَ عَلَى عِبَادِ (۵۲).الصَّالِحِينَ کہنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے دین کے بچے خادموں جو صحابہ اولیاء اصفیاء اتقیاء اور ابدال کے رنگ میں آئے اور قیامت تک آتے رہیں گے ان کے واسطے بھی بوجہ ان کے حسن خدمات کے جن کی وجہ سے انہوں نے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہم پر بہت بڑے بھاری احسانات اور انعامات کئے ان کے واسطے بھی دعا کرے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو کوئی اس گروہ پاک کی مخالفت کرے گا اور اس کو نظر عزت سے نہ دیکھے گا اور ان کے احکام اور فیصلوں کی پرواہ نہ کرے گا تو وہ فاسق ہو گا.بلکہ وہاں تک جہاں تک تعظیم الہی اور تعظیم کتاب اللہ اور تعظیم رسول اللہ اجازت دیتی ہو اس گروہ کا ادب و عزت کرنی اور اس خیل پاک کے حق میں دعائیں کرنے کا حکم قرآن شریف ے ثابت ہے.چنانچہ آیت ذیل میں اس مضمون کو یوں ادا کیا گیا ہے کہ وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لَاخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَثُوفٌ رَّحِيمٌ (الحشر :- غرض اپنے پہلے بزرگوں اور خادمان اسلام و شریعت محمدیہ کے واسطے دعائیں کرنا اور ان کی طرف سے کوئی بغض و کینہ ، غل و غش دل میں نہ رکھنا، یہ بھی ایم رایمان کی سلامتی کا ایک نشان ہے.پس انسان کو مریج و مرنجان ہونا چاہئے اور خدا کی باریک در باریک حکمتوں اور قدرتوں پر ایمان لانا چاہئے اور کسی سے بھی بغض و کینہ دل میں نہ رکھنا چاہئے.خدا کی شان ستاری سے ہمیشہ فائدہ اٹھاتے رہنا چاہئے.کیونکہ ممکن ہے کہ جن کو تمہاری نظریں برا اور بد خیال کرتی ہیں اسے توبہ کی توفیق مل جاوے.اللَّهُ اَفْرَحُ بِتَوْبَةِ الْعَبْدِ خدا اپنے بندوں کی توبہ سے بہت خوش ہوتا ہے اس سے بھی بڑھ کر جس کا کسی ویران اور بھیانک وسیع جنگل میں سامان خور و نوش ختم ہو جاوے اور اس لئے اسے ہلاکت کا اندیشہ ہو مگر پھر اسے سامان میسر آجاوے.جس طرح وہ شخص خوش ہو گا اس سے بھی کہیں بڑھ کر خدا اپنے بندوں کی توبہ سے خوش ہوتا ہے.پس کسی کو حقارت کی نظر سے مت دیکھو.خدا نکتہ نواز بھی ہے اور نکتہ گیر بھی.ممکن ہے کہ جسے تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو اسے

Page 312

303 توبہ کی توفیق مل جاوے اور دوسرا اپنے کبر کی وجہ سے راندہ درگاہ اور ہلاک ہو جاوے.بعض بدیاں حبط اعمال کا موجب ہو جاتی ہیں او بعض اعمال جہنم میں لے جاتے ہیں.تمام صالحین کے واسطے دعائیں کرتے رہنا چاہئے.ان کے احسانات اسلام اور مسلمانوں پر بہت کثرت سے ہیں.غور کا مقام ہے کہ انہوں نے یہ دین اور یہ کتاب یہ سنت یہ نماز و روزہ ہم تک پہنچانے کے واسطے کس طرح اپنی جانیں خرچ کر دیں.خون پانی کی طرح بہا دیئے.اپنے نفسوں پر آرام اور نیند حرام کرلی.کتنے بڑے بڑے سفر پا پیادہ اس مشکلات کے زمانہ میں کئے.ایک ایک حدیث کی تحقیقات اور اس کے راوی کے منہ سے سننے کے واسطے سینکڑوں کوسوں کے ناقابل گزر اور دشوار گزار سفر انہوں نے کئے.پس ان کے احسانات ان کی مساعی جمیلہ کوششوں محنتوں اور جانفشانیوں کو نظر کے سامنے رکھ کر ان کے واسطے دردمند دل سے تڑپ تڑپ کر دعائیں کرو.اگر ان کی ایسی محنتیں اور کوششیں نہ ہو تیں اور وہ بھی ہماری طرح سست اور کاہل ہوتے تو غور کرو کہ کیا اسلام موجودہ حالت میں ہو سکتا تھا اور ہم مسلمان کہلانے کے مستحق ہو سکتے تھے؟ ہرگز نہیں.پس ان کے واسطے دعائیں کرنا اور نماز میں ان کے حقوق ادا کرنے کا جزو ہونا بھی لازمی اور ضروری تھا بلکہ از بس ضروری تھا.کیونکہ مَن لَّمْ يَشْكُرِ النَّاسَ لَمْ يَشْكُرِ اللَّهَ کتاب الادب).خلاصہ یہ کہ حق تعالیٰ سبحانہ کی عبادت کرنے والا اور اس کے مقابلہ میں کسی دوسرے کی پرواہ نہ کرنے والا ہونا اور پھر نبوت اور کتب پر ایمان لانے والا بننا چاہئے.خطبہ ثانیہ (ابودائود.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَ عَلَى الِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ - اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ - یہ الفاظ جو ہم نماز میں پڑھتے ہیں ان کا نام ہے درود.واقع میں اگر ہم اللہ کے پورے بندے اور عابد اور تعظیم کرنے والے ہیں اور مخلوق پر شفقت اور رحم کرنے والے علوم اور عقائد سے خوشحال ہوں تو سب فیضان اور احسان حقیقت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا ہے.آپ کے دل کے درد اور جوش نہ ہوتے تو قرآن کریم جیسی پاک کتاب کا نزول کیسے ہوتا.آپ کی مہربانیاں اور توجہات اور محنتیں اور تکالیف شاقہ نہ ہوتے تو یہ پاک دین ہم تک کیسے پہنچ سکتا.آپ نے یہ دین ہم تک پہنچانے کی غرض سے خون کی ندیاں بہا دیں اور ہمدردی خلق کے لئے اپنی جان کو جو کھوں میں ڈالا.تو پھر غور کا مقام ہے

Page 313

304 کہ جب ادنی اونی محسنوں سے ہمیں محبت پیدا ہو جانا ہماری فطرت سلیم کا تقاضا ہے تو پھر آنحضرت کی محبت کا جوش کیوں مسلمان کے دل میں موجزن نہ ہو گا.درود بھی درد سے ہی نکلا ہوا ہے یعنی خاص درد سوز و گداز اور رقت سے خدا کے حضور التجا کرنی کہ اے مولا ! تو ہی ہماری طرف سے خاص خاص انعامات اور مدارج آنحضرت کو عطا کر.ہم کرہی کیا سکتے ہیں اور کس طرح سے آپ کے احسانات کا بدلہ دے سکتے ہیں بجز اس کے کہ تیرے ہی حضور میں التجا کریں کہ تو ہی آپ کو ان سچی محنتوں اور جانفشانیوں کا سچا بدلہ جو تو نے آپ کے واسطے مقرر فرما رکھا ہے اور وعدہ کر رکھا ہے، وہ آپ کو عطا فرما.انسان جب اس خاص رقت اور حضور قلب اور تڑپ سے گداز ہو ہو کر آپ کے واسطے دعائیں کرتا ہے تو آنحضرت کے مدارج میں ترقی ہوتی ہے اور خاص رحمت کا نزول ہوتا ہے اور پھر اس دعا گو درود خواں کے واسطے بھی اوپر سے رحمت کا نزول ہوتا ہے اور ایک درود کے بدلے دس گنا اجر اسے دیا جاتا ہے.کیونکہ آنحضرت کی روح اس درود خواں اور آپ کی ترقی مدارج کے خواہاں سے خوش ہوتی ہے اور اس خوشی کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ اس کو دس گنا اجر عطا کیا جاتا ہے.انبیاء کسی کا احسان اپنے ذمے نہیں رکھتے.فقط.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۴-۰-۱۲ اپریل ۱۹۰۸ء صفحه ۳-۴) ⭑-⭑-⭑-⭑.

Page 314

۲۰ مارچ ۱۹۰۸ء 305 خطبہ جمعہ تشہد و تعوذ کے بعد آپ نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی.ياَيُّهَا الَّذِيْنَ امَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ - وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَ لَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَاصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (ال عمران:۱۰۳ - ۱۰۳)- اور پھر فرمایا:.قرآن کریم کی ان آیات میں اصل الاصول اس آخری فیضان کا جو آخری حد اور کمال پر پہنچا ہوا ہو بیان کیا گیا ہے.نیکی کا نتیجہ خدا کا فیضان ہوتا ہے.سو ان آیات میں نیکی اور پھر اس کے فیضان کے اصل الاصول کا بیان ہے.اللہ تعالیٰ ایمان کے بابرکت بنانے کے واسطے انسان کو یوں خطاب کرتا ہے کہ تقویٰ کرو اور تقویٰ بھی

Page 315

306 ایسا کہ جو حق تقوی ہو اور مومن منتہی بن جاؤ.ایمان اور تقویٰ کی کچی بنا اور اصلی جڑ عقائد صحیحہ ہیں.سو انسان کا فرض ہے کہ تکمیل ایمان اور تقویٰ کے لئے ان عقائد صحیحہ کی تلاش اور جستجو کرے اور وہ بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کی ایک آیت میں بیان فرما دیئے ہیں جہاں فرمایا ہے لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ (البقرة:۱۷۸) تقویٰ کی جڑ اور بنیاد بچے عقائد ہیں.اور ان کی جڑ کی بھی جڑ کیا ہے آمَنَ بِاللَّهِ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا کہ وہ ہر بدی سے منزہ اور کل صفات کاملہ کا مالک اور حقیقتاً وہی معبود، مقصود اور مطلوب ہے.اس کے اسماء افعال اور صفات پر کامل ایمان لانا.اور کہ وہ نیکی سے خوش اور بدی سے ناراض ہو کر نیکی کے عوض انعامات اور بدیوں پر سزا دینے والا اور قادر مقتدر ہستی ہے.وہ رب ہے رحمن ہے، رحیم ہے، مالک یوم الدین ہے.غرض انسان اس طرح سے جب حقیقی طور سے اللہ کی صفات سے آگاہی حاصل کر کے ان پر کامل ایمان لاتا ہے تو پھر ہر بدی سے بچنے کے واسطے اس کو جناب الہی سے ایک راہ عطا کی جاتی ہے جس سے بدیوں سے بچ جاتا ہے.فطرت انسانی میں یہ امر روز ازل سے ودیعت کر دیا گیا ہے کہ انسان جس چیز کو اپنے واسطے یقیناً مضر جانتا ہے اس کے نزدیک تک نہیں جاتا.بھلا کبھی کسی نے کسی سلیم الفطرت انسان کو کبھی جان بوجھ کر آگ میں ہاتھ ڈالتے یا آگ کے انگارے کھاتے ہوئے دیکھا ہے.یا کوئی شخص اس حالت میں کہ اس کو اس امر کا وہم ہی ہو کہ اس کے کھانے میں زہر کی آمیزش ہے، اس کھانے کو کھاتے دیکھا ہے؟ یا کبھی کسی نے ایک کالے سانپ کو حالا نکہ وہ جانتا ہو کہ اس کے دانت نہیں توڑے گئے اور اس میں زہر اور کاٹنے کی طاقت موجود ہے، کسی کو ہاتھ میں بے خوف پکڑنے کی جرات کرتے دیکھا ہے؟ یاد رکھو کہ اس کا جواب نفی میں ہی دیا جائے گا.کیونکہ یہ امر فطرت انسانی میں مرکوز ہے کہ جس چیز کو یہ ضرر رساں یقین کرتا ہے اس کے نزدیک نہیں جاتا اور حتی الوسع اس سے بچتا رہتا ہے.تو پھر غور کا مقام ہے کہ جب انسان خدا پر کامل یقین رکھتا ہو اور اس کی صفات سے خوب آگاہ ہو اور یہ بھی یقین رکھتا ہو کہ خدا نیکی سے خوش اور بدی سے ناراض ہوتا ہے اور سخت سے سخت سزا دینے پر قادر ہے اور سزا دیتا ہے اور یہ کہ گناہ حقیقت میں ایک زہر ہے اور خدا کی نافرمانی ایک بھسم کر دینے والی آگ ہے اور اس کو آگ کے جلانے پر اور زہر کے ہلاک کر دینے پر اور سانپ کے کاٹنے سے مرجانے پر جیسا ایمان ہے اگر ایسا ہی ایمان خدا کی نافرمانی اور گناہ کرنے پر خطرناک عذاب اور ہلاکت و عذاب کا یقین ہو تو کیونکر گناہ سرزد ہو سکتا ہے اور کیونکر خدا کی نافرمانی کے انگارے کھائے جا سکتے ہیں.دیکھو انسان اپنے مربی دوست یار آشنا اور کسی طاقتور با

Page 316

307.اختیار حاکم کے سامنے کسی بدی اور گناہ کا ارتکاب نہیں کر سکتا اور گناہ کرتا ہے تو چھپ کر کرتا ہے، کسی کے سامنے نہیں کرتا.تو پھر اگر اس کو خدا پر اتنا ایمان ہو کہ وہ غیب در غیب اور پوشیده در پوشیدہ انسانی اندرونہ اور وسوسوں کو بھی جانتا ہے اور یہ کہ کوئی بدی خواہ کسی اندھیری سے اندھیری کوٹھڑی میں جا کر کی جاوے اس سے پوشیدہ نہیں ہے اور یہ کہ وہ انسان کا بڑا مربی، رب، محسن اور احکم الحاکمین ہے تو پھر انسان کیوں گناہ کی جگر سوز آگ میں پڑ سکتا ہے.پس ان باتوں میں غور کرنے سے نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ انسان کو خدا اور اس کی صفات اور افعال اور علیم و خبیر اور ہر بات سے واقف ہونے اور قادر مقتدر اور منتقم ،شدید البطش ہونے پر ایمان نہیں.ہر بدی خدا کی صفات سے غافل ہونے کی وجہ سے آتی ہے.صفات الہی پر ایمان لانے کی کوشش کرو.انسان اگر خدا کے علیم خبیر اور احکم الحاکمین ہونے پر ہی ایمان لادے اور یقین جانے کہ میں اس کی نظر سے کسی وقت اور کسی جگہ بھی غائب نہیں ہو سکتا تو پھر بدی کہاں اور کیسے ممکن ہے کہ سرزد ہو.غفلت کو چھوڑ دو کیونکہ غفلت گناہوں کی جڑ ہے.ورنہ اگر غفلت اور خدا کی صفات سے بے علمی اور بے ایمانی نہیں تو کیا وجہ ہے کہ خدا کو قادر مقتدر اور احکم الحاکمین ، علیم و خبیر اور اخذ شدید والا مان کر اور اور یقین کر کے بھی اس سے گناہ سرزد ہوتے ہیں.حالانکہ اپنے معمولی دوستوں، آشناؤں، حاکموں اور شرفا کے سامنے جن کا نہ علم ایسا وسیع اور نہ ان کی طاقت اور حکومت خدا کے برابر ان کے سامنے بدی کا ارتکاب کرتے ہوئے رکتا ہے اور خدا سے لا پرواہ ہے اور اس کے سامنے گناہ کئے جاتا ہے.اس کی اصل وجہ صرف ایمان کی کمی اور صفات الہی سے غفلت اور لاعلمی ہے.پس یقین جانو کہ اللہ اور اس کے اسماء اور صفات پر ایمان لانے سے بہت بدیاں دور ہو جاتی ہیں.پھر انسان کی فطرت میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ انسان اپنی ہتک اور بے عزتی سے ڈرتا ہے اور جن باتوں میں اسے اپنی بے عزتی کا اندیشہ ہوتا ہے ان سے کنارہ کش ہو جاتا ہے.پس غور کرنا چاہئے کہ دنیا میں اس کا دائرہ بہت تنگ ہے.زیادہ سے زیادہ اپنے گھر میں یا محلے میں یا گاؤں یا شہر میں یا اگر بہت ہی مشہور اور بہت بڑا آدمی ہے تو ملک میں بدنام ہو سکتا ہے.مگر قیامت کے دن جہاں اولین و آخرین خدا کے کل انبیاء اولیا، صحابہ اور تابعین اور کل صالح اور متقی مسلمان بزرگ باپ دادا و پڑدادا وغیرہ اور ماں، بہن، بیوی بچے غرض کل اقرباء اور پھر خود ہمارے سرکار حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم موجود ہوں تو ذرا اس نظارے کو آنکھوں کے سامنے رکھ کر اس ہتک اور بے عزتی کا خیال تو کرو اور اس نظارے کو

Page 317

308 ہمیشہ آنکھ کے سامنے رکھو اور پھر دیکھو تو سہی کیا گناہ ہونا ممکن ہے؟ جب انسان ذرا سی بے عزتی اور معدودے چند آدمیوں میں ہتک کے باعث ہونے والے کاموں سے پر ہیز کرتا ہے اور ڈرتا رہتا ہے کہ کہیں میری ہتک نہ ہو جاوے تو پھر جس کو اس نظارے کا ایمان اور یقین ہو جس کا نام یوم الآخرۃ ہے تو بھلا اس سے بدی کہاں سرزد ہو سکتی ہے ؟ پس یوم الآخرۃ پر ایمان لانا بھی بدیوں سے بچاتا ہے.تیسرا بڑا ذریعہ نیکی کے حصول و توفیق اور بدی سے بچنے کا ایمان بالملائکہ ہے.ہر نیکی کی تحریک ایک ملک کی طرف سے ہوتی ہے.اس تحریک کو مان لینے سے اس ملک کو اس ماننے والے سے انس اور محبت پیدا ہو جاتی ہے اور آہستہ آہستہ یہ تعلق گہرا ہو جاتا ہے اور اس طرح سے ملائکہ کے نزول تک نوبت پہنچ جاتی ہے.پس چاہئے کہ انسان کے دل میں جب کوئی نیکی کی تحریک پیدا ہو تو فوراً اس کو مان لے اور اس کے مطابق عمل درآمد کرے اور اس پر اچھی طرح سے کاربند ہو جاوے.ورنہ اگر اس موقع کو ہاتھ سے دے دے گا تو پچھتانا بے سود ہو گا.بعض لوگ پچھتاتے ہیں کہ فلاں وقت اور موقع کیسا اچھا تھا.یہ کام ہم نے کیوں اس وقت نہ کر لیا.پس نیکی کی تحریک کا موقع فرصت اور وقت مناسب اور نیک فال سمجھ کر فوراً مان لینا چاہئے.اس طرح سے نیکی کی توفیق بڑھتی جاتی ہے اور انسان بدیوں سے دور ہوتا جاتا ہے.پھر اس بات کا اعتقاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی کامل رضامندی اور خوشنودی کے حصول کا ذریعہ صرف کتب الہی اور انبیاء ہیں.خدا کے مقدس رسولوں کی پاک تعلیم اور کتب الہیہ کی کچی پیروی کے سوا خدا کی رضامندی ممکن ہی نہیں.خدا کی پہچان اور اس کی ذات، صفات اور اسماء کا پتہ خدا کی کتابوں اور اس کے رسولوں کے بغیر لگ ہی نہیں سکتا.خدا کے اوامر و نواہی اور عبادت و فرمانبرداری کے احکام معلوم کرنے کا ذریعہ کتب الہیہ ہی ہیں جو خدا کے پاک رسولوں کے ذریعہ ہم تک پہنچی ہیں.غرض انسان کے عقائد درست ہوں تو فروعات خود بخود ٹھیک ہو جاتے ہیں.انسان کو لازم ہے کہ اصل الاصول پر توجہ کرے.فروعات تو ضمنی امور ہیں.اور اصول کے ماتحت غور کر کے دیکھو کہ جس انجمن ، جس کمیٹی اور سوسائٹی نے صرف فروعات میں کوشش کی ہے وہ کبھی کامیاب نہیں ہوئی.دیکھو اگر جڑ ہی خشک ہو تو پتوں کو پانی میں تر کرنے سے کیا فائدہ.جڑ سیراب ہونی چاہئے درخت مع اپنے تمام شاخوں اور پتوں کے خود بخود سرسبز و شادات ہو جاوے گا اور ہرا بھرا نظر آنے لگے گا.ورنہ اگر جڑ ہی قائم نہیں تو پتوں اور شاخوں کو خواہ پانی میں ہی کیوں نہ رکھو وہ ہرگز ہرگز ہری بھری نہ ہوں گی بلکہ دن بدن خشک ہوتی جاویں گی.

Page 318

309 پس تم عقائد کی طرف توجہ کرو.دیکھو امام صاحب کے دل میں جماعت کی خیر خواہی اور بہتری کے ہزاروں ہزار خیالات بھرے ہیں.ساٹھ یا ستر کے قریب کتب موجود ہیں مگر سامنے جو بات پیش کی ہے وہ صرف ایک مختصر اور پر معانی چھوٹی سی بات ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.حضرت امام علیہ السلام نے بھی اسی قرآنی اصول کو ہاتھ میں رکھ کر یہ مختصر سا فقرہ تمہارے سامنے رکھا ہے.اگر اصل قوی ہاتھ میں آجاوے تو فروعات خود سنور جاتے ہیں اور انسان ہر قسم کی نادانی، جہالت، گناہ اور بدکاری سے مضائقہ کرنے لگ جاتا ہے.ہر کام میں سوچے گا کہ آیا میں دین کو مقدم کر رہا ہوں یا دنیا کو.حکام کے سامنے مقدمات میں بڑے بڑے گھبرا دینے والے مصائب ہیں، شادی میں، غم میں، رسم میں رواج میں خویش و اقارب میں، دوستی میں، دشمنی میں ، لین میں، دین میں غرض اپنے کل کاموں میں دیکھنا پڑے گا کہ آیا میں دنیا کو دین پر تو مقدم نہیں کر رہا؟ تو اس طرح سے ہر بدی دور ہو جاوے گی اور دین مقدم ہو جاوے گا جو سراسر رشد اور سرتاپا نور ہے.دیکھو اگر کسی کے چہرے پر ذرا سانشان پھلبہری کا نمودار ہو جائے تو اس کے والدین خویش اقارب یا دوستوں کو کیسے کیسے فکر لگ جاتے ہیں.علاج کے واسطے کہاں سے کہاں تک پہنچتے ہیں.کتنا روپیہ خرچ کرنے کو تیار ہوتے ہیں.خرچ برداشت کرتے ہیں.وقت صرف کرتے ہیں.مشکل سے مشکل تکالیف برداشت کرتے ہیں.مگر کیوں؟ صرف اس لئے کہ تا اس چند روزه دنیوی زندگی میں تکلیف نہ ہو.لیکن اگر فکر نہیں اور بے فکری اور لاپرواہی ہے تو کس بات کی؟ صرف دین کی.نہیں خرچ کرتے تو کس کے لئے؟ دین کے لئے.مرتد ہو جاوے نماز نہ پڑھے خدا سے غافل نہ ہو منکر ہو اس کی پر واہ نہیں.چند روزہ زندگی کے واسطے تو اتنی فکر ہے.فکر نہیں تو کس کا؟ لازوال اور ابد الآباد زندگی کا.پس یہ زمانہ بلحاظ اپنی پرفتن حالت کے اس امر کا متقاضی تھا کہ کوئی مرد خدا ایسا آتا جو دین کو مقدم کرنے کا عہد لیتا.اس مرض کی یہ دوا تھی اور اس وقت کے مناسب حال یہی تعلیم.میں نے ایک شخص کو نصیحت کی کہ تم قرآن شریف بھی پڑھا کرو آخر وہ بھی خدا کی ایک چٹھی ہے.تو جواب میں بلا تامل یوں کہا کہ پھر کوئی نہایت اعلیٰ قسم کی عمدہ اور میری شان کے شایان حمائل عطا کر دیجئے.جائے غور ہے کہ آخر اپنی دیگر ضروریات دنیوی کے واسطے بھی تو ہزاروں روپے خرچ کرتا تھا اگر ایک یا دو روپے خرچ نہیں کر سکتا تھا تو کس کے لئے ؟ دین کے لئے.غرض دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا ایک اصل ہے جو حضرت امام نے ہمارے ہاتھ میں دیا ہے.کام میں کاج میں، سونے میں، جاگنے میں، کھانے میں، پینے میں لباس میں، پوشاک میں گھر میں باہر میں

Page 319

310 عادات میں ، رسم و رواج میں ، شغل میں اور بے کاری میں شادی میں، غم میں ، لین دین میں غرض اپنے کل کاروبار میں اسی اصل کو نصب العین رکھو اور جانچتے رہو کہ دنیا مقدم ہے یا کہ دین.پھر ولایت کا کونسا درجہ ہے جس کو تم حاصل نہیں کر سکتے.دیکھو تم جو اس وقت اس جگہ موجود ہو عمروں میں مختلف ہو.بلحاظ قوم کے آپس میں بڑے بڑے اختلاف ہیں.رسوم و رواج، عادات، تعلیم و تربیت، خیالات، امنگیں بالکل مختلف ہیں.عزت اور مرتبوں کے لحاظ سے مختلف ہیں.پھر باوجود ان اختلافات کے گرمی ہے اور پھر قحط کی مصیبت ہے.ان مشکلات کے ہوتے ہوئے پھر ایک بگل بجنے سے تم کیسے یکدم جمع ہو گئے ہو.ذرا اس میں غور تو کرو.اسی طرح سے وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا اللہ تعالیٰ کی طرف جانے کے واسطے بھی اس طرح یکجا کوشش کرو.دعا کرو کہ باوجود ہر قسم کے اختلاف کے وحدت کی روح پھونکی جاوے اور بغض، کینے ، عداوتیں سب دور ہو کر باہمی محبت اور ملاپ پیدا ہو جاوے.تکلیف میں صبر اور استقلال نصیب ہو جاوے.سوء ظنی آپس میں اور خدا کی ذات پر دور ہو جاوے.مصائب اور شدائد میں خدا کے ساتھ صلح ہو جاوے.غرض دعاؤں سے کام لو اور وحدت مانگو تا وحدت کے فیوض سے بھی مستفید ہو سکو.وَاذْكُرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ دیکھو قادیان کی زبان، یہاں کا لباس، یہاں کا کوئی منظر یا کوئی فضا اس نواح کے لوگوں کے اخلاق و عادات یا رسم و رواج کچھ بھی ایسا دلچسپ ہے جس سے لوگ اس طرح اس کے گرویدہ ہو کر اور دور سے اس طرح سمٹ آتے جیسے پروانے شمع پر ؟ ہر گز نہیں.بلکہ میرے خیال میں تو یہ بھی ایک وادی غیر ذی زرع ہے.اس وادی غیر ذی زرع میں زبان کا کمال تو تھا مگر یہاں تو وہ بھی نہیں.وہاں جتھا تھا جو ایک خوبی ہے، یہاں یہ بھی تو نہیں.صرف ایک آواز ہے جو خدا کے ایک برگزیدہ انسان نے خدا سے نصرت اور تائید کے الہام پا کر دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی دلکش دلآویز اور سریلی راگنی گائی اور تم نے اس کو سن کر قبول کیا.پس اسی طرح اپنی آخرت کے واسطے بھی زاد راہ تیار کرنے میں سر توڑ کوششیں کرو.اور اس کے واسطے دعاؤں اور ہاں دردمندانہ دعاؤں سے سامان مہیا ہوں گے اور توفیق عطا کی جاوے گی.دیکھو قاعدہ کی بات ہے کہ انسان جب کسی امام سے یا پیرو مرشد سے تعلق کرتا ہے تو سوچتا ہے کہ مجھے اس سے کیا فائدہ ہوا؟ اور اس کو مجھ سے کیا نفع ہوا؟ سو اگر ان لوگوں کے ساتھ جو خدا کی طرف سے مامور ہو کر آتے ہیں اگر اول ہی اول بڑے بڑے لوگ شامل ہو جاویں تو وہ جب غور کریں کہ اس سے ہمیں کیا فائدہ پہنچا تو معا ان کے دلوں میں یہ خیال آجاتا ہے کہ ہمیں تو جو فائدہ ہوا سو ہوا مگر اس پر

Page 320

311 ہمارے بڑے بڑے احسان ہیں.ہماری وجہ سے اس کو عزت ملی ہمارے مالوں سے اس کے سارے کام نکلے ہماری وجہ سے اس کو شہرت نصیب ہوئی.غرض اس طرح سے وہ سلسلہ پر اپنا احسان رکھتے ہیں.اس واسطے خدا جو کہ قادر مقتدر ہستی اور رب العالمین ہے اس نے یہ قاعدہ بنا دیا ہے کہ مامورین اور مرسلوں کے ساتھ ابتداء میں معمولی اور غریب لوگ ہی شامل ہوا کرتے ہیں اور جتنے اکابر اور بڑے بڑے مدبر کہلانے والے ہوتے ہیں وہ ان کے مقابل میں کھڑے کر دیئے جاتے ہیں تاکہ وہ اپنی سفلی کوششیں ان کے نابود کر دینے میں صرف کر لیں اور اپنے سارے زوروں سے ان مرسلوں کی بیخ کنی کے منصوبے کرلیں.پھر ان کو ذلیل اور پست کر دیا جاتا ہے اور خدا کے بندوں کی فتح اور نصرت ہوتی ہے اور وہی آخر کار کامیاب اور مظفر و منصور ہوتے ہیں.اور یہ سب کچھ اس لئے ہوتا ہے کہ کوئی خدائی سلسلہ پر احسان نہ رکھے.بلکہ خدا کی قدرت نمائی اور ذرہ نوازی کا ایک بین ثبوت ہو کر ان مومن ضعفاء کے دنوں میں ایمانی ترقی ہو اور ان کے دلوں میں خدا کے عطایا اس کی قدرتوں اور کرموں کے گن گانے کے جوش پیدا ہوں.پس تم اس خیال کو کبھی بھی دل میں جگہ نہ دو کہ اکابر اور بڑے بڑے مالدار اور رؤساء عظام تمہارے ساتھ نہیں ہیں.اگر تم ذلیل ہو تو تم سے پہلے بھی کئی گروہ تمہاری طرح کے ذلیل گزرے ہیں مگر آخر کار کامیابی کا تمغہ ایسے پاک اور مومن ذلیلوں ہی کو عطا کیا جایا کرتا ہے.دیکھو موسی کے مقابلہ میں فرعون کیسا زبردست اور جبروت والا بادشاہ تھا مگر خدا نے اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ فرمایا وَنُرِيدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَى الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ (القصص) کس طرح سے ان ضعیف اور کمزور لوگوں کو اپنے احسان سے امام اور بادشاہ بنا دیا.دیکھو یہ باتیں صرف کہنے ہی کی نہیں بلکہ عمل کرنے کی ہیں.عمل کے اصول کے واسطے کہنے والے پر حسن ظن ہونا ضروری اور لازمی امر ہے.اگر دل میں ہو کہ کہنے والا مرتد فاسق و فاجر ہے، منافق ہے تو پھر نصیحت سے فائدہ اٹھانا معلوم اور عمل کرنا ظاہر.بعض اوقات شیطان اس طرح سے بھی حملہ کرتا ہے اور نصیحت سے فائدہ اٹھانے سے محروم کر دیتا ہے کہ دل میں نصیحت کرنے والے کے متعلق بدظنی پیدا کر دیتا ہے.پس اس سے بچنے کے واسطے بھی وہی ہتھیار ہے جس کا نام دعا دردمند دل کی اور سچی تڑپ سے نکلی ہوئی دعا ہے.عقائد صحیحہ کے ساتھ مال کا اتفاق بھی ضروری ہے.خیرات کرنا، قریبوں، رشتہ داروں پر.یتیم بچوں کو دینا.مسکینوں اور مسافروں کو دینا.سوالیوں کو اور غلام آزاد کرنے میں خرچ کرنا.اعلاء کلمۃ اللہ کے

Page 321

312 لئے مال عزیز خرچ کرنا.نمازیں باقاعدہ اخلاص اور ثواب کے ماتحت ادا کرنی اور ایک مقررہ حصہ اپنے مال میں سے الگ کرنا جس کا نام زکوۃ ہے.رنج میں، مصائب میں شدائد میں مقدمات میں غربت میں صبر اور استقلال سے قدم رکھنے والے یہی خدا کو پیارے ہیں.انہی کا نام خدا نے صادق رکھا ہے.اور یہی متقی ہیں.ایک ہو جاؤ اور وحدت کا رنگ چڑھ جاوے.یہاں آنیوالوں کے واسطے نہایت ضروری ہے کہ ایک دوسرے سے میل ملاپ کریں.پتہ مقام دریافت کریں.نام و نشان پوچھیں اور آپس میں تعارف حاصل کریں.یہ بھی ایک راہ ہے وحدت کے پیدا ہونے کی.اور اگر کوئی کہے چلو جی! ہمیں کیا ہم تو ہیں پنجاب کے اور یہ ہیں ہندوستان کے اس سرے کے ہم تو آپس میں ملیں بیٹھیں ، اوروں سے کیا غرض و غایت؟ تو وہ نادان نہیں سمجھتا کہ یہ امر وحدت کے متضاد ہے.بلکہ چاہئے کہ ہر ایک یہاں کے آنیوالے کے نام و نشان سے بخوبی واقفیت اور آگاہی ہو.اور ایک دوسرے کے حالات پوچھے جاویں.اسی طرح سے تعلق ہو جاتے ہیں.خدا کی طرف سے آنیوالے وحدت چاہتے ہیں.اخوان کے معنے اور مفہوم بھی یہی ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو جاننے پہچاننے والے ہوں.تعارف کو بڑھانا چاہئے.خدا تمہاری محنتوں ، محبتوں، جانفشانیوں کو رحم سے دیکھے اور قبول کرے اور آخر تک استحکام اور استقلال بخشے.یہاں تک کہ کوچ کا وقت آجاوے اور تم اپنے اقرار کے پورے پکے رہنے والے ہو اور اللہ کی رضا کے حاصل کرنے والے اور مقدم کرنے والے بنو.آمین.خطبہ ثانیہ بات کا موقع تو کم ہے.آپ لوگوں کے آج یہاں پر آجانے کا تو ہمیں وہم و گمان بھی نہ تھا.اللہ ہی نے یہ ایک موقع نکال دیا ہے اور یہ اس کی خاص حکمت ہے.میں فروعات کے جھگڑوں کو پسند نہیں کرتا.مجھے ایک بات آپ سے کہنی ہے اور وہ یہ ہے کہ سننے والے اس وقت میرے سامنے کچھ بچے ہیں، کچھ جوان کچھ ادھیڑ ہیں اور کچھ بوڑھے ہیں.سب کو یہ بات سناتا ہوں کہ میرا بھی تجربہ ہے اور محبت اور بھلائی کی خاطر اور بہتری کی امید سے میں نے مناسب سمجھا کہ سنادوں.یاد رکھو کہ ابتدا کی عادات لڑکپن اور جوانی کی بد عادتیں ایسی طبیعت ثانی بن جاتی ہیں کہ آخر ان کا نکلنا دشوار ہو جاتا ہے.پس ابتداء میں دعا کی عادت ڈالو اور اس ہتھیار سے کام لو کہ کوئی بد عادت بچپن

Page 322

313 میں نہ پڑ جاوے.بڑے بڑھے اپنی اولاد کے واسطے دعائیں کریں اور لڑکے اور جوان اپنے واسطے آپ کریں کہ ابتدا میں عادات نیک ان کو نصیب ہوں.بعض وقت دیکھا ہے کہ بڑے بڑے عباد‘ زہاد اور صلحاء کے ساتھ ساتھ وہ بچپن کی عادات چلی جاتی ہیں.دیکھو! جھوٹ بولنا، چوری کرنا بد نظری کرنا بے جاہنسی مذاق اور ٹھٹھا کرنا غرض کل بد عادتیں ان سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے اور دعا سے کام لینا چاہئے.جوں جوں عمر پختہ ہوتی جاتی ہے توں توں بد عادات بھی راسخ ہوتی جاتی ہیں.بعض اوقات دل میں ایک شیطانی وسوسہ آجاتا ہے کہ چلو جی جہاں اور اتنی نیکیاں ہیں ایک بدی بھی سہی.خبردار اور ہوشیار ہو جاؤ کہ یہ شیطان کا دھوکہ ہے.اس کے فریب میں مت آنا اور ابتدا ہی سے ان بدیوں کے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش اور سرتوڑ سعی کرتے رہنا چاہئے اور ان باتوں کے واسطے عمدہ علاج دعاء استغفار لاحول اور الحمد شریف کا پڑھنا اور صحبت صالحین ہے.ا حکم جلد ۱۲ نمبر ۲۲----۲۹ ۱ مارچ ۱۹۰۸ء صفحه ۵ تا ۷ ) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 323

۲۵ مارچ ۱۹۰۸ء مسجد اقصیٰ قادیان 314 خطبہ مسنونہ کی آیات پڑھنے کے بعد فرمایا: خطبہ نکاح یہ چند آیتیں اس غرض کے لئے پڑھی گئی ہیں کہ ان کا پڑھا جانا خطبہ نکاح کے موقع پر ایک سنت متوارثہ ہے.میں نے بارہا اس امر کا ذکر بوضاحت کیا ہے کہ ہر مسلمان کا عربی زبان کے ساتھ کسی قدر تعلق نہایت ضروری اور لازمی ہے.دیکھو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جو کتاب تمام دنیا کی ہدایت کے واسطے لائے وہ بھی عربی میں ہے.یعنی خدائی احکام اور ہمارے مولا کی چٹھی جس میں اس نے ہمارے کل دینی اور دنیوی امور کا مفصل ذکر فرما دیا ہے اور اپنی خوشنودی اور رضا کی راہیں بھی اس میں درج فرمائی ہیں وہ بھی عربی میں ہے.پھر وہ آواز جس کے ذریعہ سے ہمیں نماز کی طرف بلایا جاتا ہے یعنی اذان وہ بھی عربی میں ہے.نماز جو کہ عبادت الہی کا ایک مکمل اور بے نظیر طریقہ ہے اور جس میں شفقت علیٰ خلق اللہ کا پورا سبق موجود ہے اور گویا کہ وہ معراج المومنین ہے اس کا بھی بڑا حصہ عربی زبان میں ہی ہے.اگر چہ ماثورہ دعاؤں کے بعد اور دعاؤں کے واسطے ہر زبان میں اجازت ہے.الحمد شریف کا پڑھا جانا ہر نماز میں نہایت ضروری اور لازمی لکھا گیا ہے اور وہ بھی عربی زبان میں ہے.خطبہ نکاح میں بھی چند

Page 324

315 آیات اور فقرے عربی زبان کے لازمی طور سے رکھے گئے ہیں.تو ان باتوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ رسول اکرم کے دل میں جہاں وحدت کی روح پھونکنے کے واسطے اور ذرائع کا استعمال کرنا تھا وہاں منجملہ ان ذرائع کے تعلیم عربی بھی تھی.بہت سے اختلاف صرف عربی زبان کے نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا.ہوتے ہیں.غرض وحدت قومی کے پیدا کرنے کا ایک بڑا بھاری ذریعہ زبان عربی سے واقفیت حاصل کرنا بھی ہے.میں نے دیکھا ہے کہ اگر انسان صرف اتنے حصہ زبان کے الفاظ کو ہی اچھی طرح سمجھ لے جو مسلمانوں میں روز مرہ کے بول چال میں مروج ہیں تو بھی ایک حصہ قرآن شریف کا جو ذکر کے متعلق ہے اس کے لئے آسان ہو جاتا ہے.مگر خدا جانے کیا وجہ ہے کہ کیوں لوگ اس طرف توجہ نہیں کرتے؟ انگریزی جیسی دور دراز ملک کی زبان اور پشتو جیسی جو شیلی زبان پنجابی جیسی مشکل اور کشمیری جیسی نرم زبان سے کہہ لیتے ہیں مگر نہیں سیکھنے کی کوشش کرتے اور نہیں دلچسپی پیدا کرتے تو کس زبان سے؟ قرآن اور رسول پاک کی پیاری اور دلربا زبان سے.اب چونکہ نماز ظہر کا وقت ہے اور نیز بارہا ایسے مضامین سننے کا آپ لوگوں کو موقع ملتا رہا ہے اس واسطے اسی پر اکتفا کیا جاتا ہے.نکاح کی اجازت بابو غلام حسن صاحب نے جو کہ لڑکی کے والد اور ولی ہیں مجھے بذریعہ ایک خط کے دی ہے جس میں انہوں نے لڑکی کی طرف سے بھی قبولیت بذریعہ تحریر بھیجی ہے.اس طرح کی تحریر سے ان کے اس شوق کا اظہار ہوتا ہے جو ان کو اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کے واسطے ہے.چوہدری حاکم علی صاحب بھی اور بابو غلام حسن صاحب بھی، جہاں تک میرا علم ہے، دونوں حضرت اقدس کے بہت بڑے مخلص اور خادم ہیں.مبارک ہیں وہ نکاح جو حضرت مسیح کے حضور پڑھے جاویں اور جن کی بہتری اور بابرکت ہونے کے واسطے مسیح موعود کے ہاتھ خدا کے حضور میں التجا کے واسطے پھیلیں.ایجاب و قبول اور دعا کی گئی.ا حکم جلد ۱۲ نمبر ۲۳----۳۰ / مارچ ۱۹۰۸ء صفحه ۲)

Page 325

۱۳ اپریل ۱۹۰۸ء مسجد اقصی قادیان 316 خطبہ جمعہ أشْهَدُ أَنْ لا إلهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ وَاشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ.اللَّهُمَّ اِنّى اَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَمَ وَالْحُزْنِ وَ اَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْكَسْلِ وَاَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْبُخْلِ وَالْحُبْنِ وَ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ غَلَبَةِ الدَّيْنِ وَ قَهْرِ الرِّجَالِ اللَّهُمَّ اكْفِنِي بِحَلَالِكَ عَنْ حَرَامِكَ وَ اغْنِنِي بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِوَاكَ (ترمذى كتاب الدعوات)- متواتر کئی جمعوں سے میں یہ بات سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ انسان کو نماز کس طرح سے سنوار کر پڑھنی چاہئے.چنانچہ آج بھی نماز کے آخر میں جو دعا ہے اس کا ذکر کرتا ہوں.حدیث شریف سے ثابت ہے کہ درود شریف کے بعد یہ دعا بھی نماز میں پڑھی جایا کرے.نماز کے پہلے مراتب اذان سے لے کر اس دعا سے پہلے تک پیشتر کے جمعوں میں بیان کیے جاچکے ہیں.بعض ائمہ ایسے بھی گزرے ہیں کہ جنہوں نے اس دعا کا پڑھا جانا مستحب یا مسنون کے درجہ سے بڑھ کر واجب قرار دیا ہے اور اسی پر

Page 326

317 ان کا عمل ہے.انسان بہت بڑے بڑے ارادے کرتا ہے.بچپنے سے نکل کر جب جوانی کے دن آتے ہیں اور جوں جوں اس کے اعضا نشو و نما پا کر پھیلتے ہیں اور قومی مضبوط ہوتے ہیں اس کے ارادے بھی وسیع ہوتے جاتے ہیں.ایک بچہ رونے اور ضد کرنے کے وقت ماں کی گود میں چلے جانے یا دودھ پی لینے سے یا تھوڑی سی شیرینی یا کسی تماشے کھیل سے خوش ہو سکتا ہے اور اس کے بہلانے کے واسطے بہت تھوڑی سی تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے یا یوں کہو کہ ایک بچے کی خوشی اور خواہشات کا منزل مقصود بہت محدود ہوتا ہے.مگر جوں جوں وہ ترقی کرتا اور اس کے قومی مضبوط ہوتے جاتے ہیں توں توں اس کے ارادوں اور خواہشات کا میدان بھی وسیع ہوتا چلا جاتا ہے.حتی کہ قرآن شریف کی اس آیت اَوَلَمْ نُعَمِّرُكُمْ مَّا يَتَذَكَّرُ فِيْهِ مَنْ تَذَكَّرَ وَ جَاءَ كُمُ النَّذِيرُ (فاضر (۳۸) کا مصداق بن جاتا ہے.اس دور کا پہلا درجہ اٹھارہ سال کی عمر ہوتی ہے.اس وقت انسان میں عجیب عجیب قسم کی امنگیں پیدا ہوتی ہیں.ایسے وقت میں جبکہ انسان کے قومی بھی مضبوطی اور استوئی کی حد تک پہنچ جاتے ہیں اور اس کے ارادے بھی بہت وسیع ہو جاتے ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر نمازی کو جن میں یہ لڑکا بھی داخل ہے طول امل اور ہموم و تموم سے پناہ مانگنے کے واسطے حکم دیا ہے.ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چار کونہ شکل بنائی اور اس کے وسط میں ایک نقطہ بنا کر فرمایا کہ یہ نقطہ انسان ہے اور دائرہ سے مراد اجل ہے یعنی انسان کو اجل احاطہ کیے ہوئے ہے.اور پھر انسانی امانی اور آرزوئیں اس سے بھی باہر ہیں.یہ کچی بات ہے کہ انسان بڑے بڑے لمبے ارادے کرتا ہے جو سینکڑوں برسوں میں بھی پورے نہیں ہو سکتے مگر اس کی اجل اسے ان ارادوں تک پہنچنے سے پہلے ہی دبا لیتی ہے.غرض انسان چونکہ بہت لمبے ارادے کر لیتا ہے اور پھر ان میں کامیاب نہیں ہو تا تو اس ناکامی کی وجہ سے انسان میں ”ہم یعنی غم پیدا ہو جاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ انسان کو لمبے ارادے کرنے سے منع کیا گیا ہے اور اَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَمَ کے یہی معنے ہیں کہ اے خدا ! میں ان موجبات سے ہی تیری پناہ مانگتا ہوں جو "ہم" کا باعث ہوتے ہیں.پھر بعض اوقات انسان ناکامی کے وجوہات تلاش کرتے کرتے گزشتہ امور میں غور کرنے لگ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر میں آج سے دو سال پہلے یا چار سال پیشتر اس طرح سے عمل در آمد کرتا تو آج مجھے اس ناکامی کامنہ نہ دیکھنا پڑتا.اگر ایسا ہوتا تو میں کامیاب ہو جاتا.اس طرح کے غم کا نام جو گزشتہ غلطیوں اور

Page 327

318 کو تاہیوں کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے شریعت نے حزن رکھا ہے اور اس سے پناہ مانگنے کی تاکید فرمائی ہے.حدیث شریف میں وارد ہے بِئْسَ الْمَطِيْئَةُ لَو لَو اگر ایسا ہوتا تو ایسا ہو جاتا اور یوں ہوتا تو یوں ہو جاتا) بہت بری چیز اور نقصان رساں لفظ ہے.اس طرح اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَمِّ وَ الحزن کے یہ معنی ہوئے کہ یا الہی! میں تیری پناہ مانگتا ہوں ان بواعث اور موجبات سے جن کا نتیجہ "ہم" اور حزن ہوتا ہے.یعنی نہ تو مجھے میں بے جا اور لمبے لمبے ارادے پیدا ہوں اور نہ میں ”کاش" اور ”لو کا استعمال کروں.مطلب یہ کہ نہ مجھے موجودہ ناکامی کی وجہ سے کوئی غم ہو اور نہ گذشتہ کسی تکلیف کا خیال مجھے رنجیدہ اور ستانے کا باعث ہو سکے.اس دعا کے سکھانے سے غرض اور انسان کے واسطے سبق یہ مد نظر ہے کہ انسان بہت طول امل سے پر ہیز کرتا رہے اور گزشتہ مصائب کو یاد کر کے اپنے آپ کو تکلیف میں نہ ڈالے.کیونکہ جب انسان ہم اور حزن میں ڈوب جاتا ہے تو آئندہ ترقیوں کی راہیں بھی اس کے واسطے بند و مسدود ہو جاتی ہیں.ہم اور حزن سے فرصت ملے نہ یہ حصول خیر اور دفع شر کے لئے کوئی تجویز سوچے.پس اسی لئے انسان کو پھر یہ دعا سکھائی گئی کہ اَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِ وَ الْكَسْلِ- عجز کہتے ہیں اسباب کامہیا نہ کرنا.جو سامان اللہ تعالیٰ نے کسی حصول مطلب اور دفع شر کے واسطے بنائے ہیں ان کا مہیا نہ کرنا اور ہاتھ پاؤں تو ڑ کر رہ جانے کو بجز کہتے ہیں.بقدر طاقت بقدر امکان بقدر فہم اور علم کوشش ہی نہ کرنا اور تدبیر ہی نہ کرنا یہی عجز ہے.تو کل اسے نہیں کہتے.دیکھو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جو کہ أَعْلَمُ النَّاسِ أَخْشَى لِلهِ اور انقَى النَّاسِ تھے، ان سے بڑھ کر بھی بھلا کوئی انسان ہو سکتا ہے.تو ان کو بھر یہ حکم ہوتا ہے کہ شَاوِرُهُمْ فِي الْأَمْرِ (ال عمران:۱۱۰) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پاک اور بے لوث زندگی جو ہمارے واسطے قرآن شریف اور اس کے کل احکام کا ایک عملی اور زندہ نمونہ موجود ہے.اس میں غور کرنے سے ہرگز ہرگز ایسا کبھی ثابت نہیں ہو گا کہ آپ نے بھی کبھی تو کل کے یہ معنے کئے ہوں جو آج کل بد قسمتی سے سمجھے گئے ہیں.تو کل کے غلط معنوں کی وجہ سے ہی تو مسلمانوں میں سستی اور کاہلی گھر کر گئی.اور ان میں سے بعض ہاتھ پاؤں تو ڑ کر لوگوں کا محنت اور جانفشانی سے کمایا ہوا مال کھانے کی تدابیر سوچنے لگے.ہندوستان میں بارہ ریاستیں ہمارے دیکھتے دیکھتے تباہ ہو گئی ہیں.کئی معزز گھرانے مرتد اور بے دین ہو گئے ہیں.اسلام پر اعتراضات کا آرا چلتا ہے مگر کسی کو گھبرا نہیں.اس کی کیا وجہ ہے؟ یہی کہ لوگ اپنے اپنے نفسانی ہم و حزن میں مبتلا ہیں اور بچے اسباب اور ذرائع ترقی کی تلاش سے محروم و بے نصیب ہیں.

Page 328

319 پس دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالی عجز سے بچاوے اور بقدر فہم و فراست تکیہ اسباب کرنا ضروری ہے.اور پھر اس کے ساتھ مشورہ کرنا چاہئے.قرآن شریف کا حکم ہے کہ اَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ (الشوری:۳۹).مشورہ کرنا ایسا پاک اصول ہے کہ اس کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف سے نصرت اور برکت عطا ہوتی ہے اور انسان کو ندامت نہیں ہوتی.مگر خود پسندی اور کبر ایسی امراض ہیں کہ انہوں نے شیطان اور انسان دونوں کو ہلاک کر دیا ہے.دیکھو ہر انسان ایسی پختہ عقل اور فہم رسا کہاں رکھتا ہے کہ خود بخود اپنی عقل سے ہی ساری تدابیر کرلے اور کامیاب ہو جاوے.یہ ہر ایک انسان کا کام نہیں.اسی واسطے مشورہ کرنا ضروری رکھا گیا.نا تجربہ کار تو نا تجربہ کار ہی ہے مگر اکثر اوقات بڑے بڑے تجربہ کار بھی مشورہ نہ کرنے کی وجہ سے سخت سے سخت ناکامیوں میں مبتلا ہو کر بڑی بڑی ندامتیں برداشت کرتے ہیں.پس خود کو موجودہ ناکامیوں کے بہت فکروں میں ہلاک نہ ہونے دو اور نہ گذشتہ کاہلیوں اور فرو گذاشتوں کے خیال سے اپنے آپ کو عذاب میں ڈالو بلکہ بچے اسباب کی تلاش کرو اور مشوروں سے کام لو.الكسل - کسل عربی میں کہتے ہیں کہ اسباب موجود ہوں مگر ان سے کام نہ لیا جاوے.سامان مہیا ہیں مگر ان سے فائدہ نہ اٹھایا جاوے.مثلا کتاب موجود ہے.مدرس اور مولوی پڑھانے کے لئے موجود ہیں مگر علم کا حاصل نہ کرنا کسل ہے.یا مثلاً اگر علم ہو پر عمل نہ کیا جاوے.آنکھ خدا نے دی ہے مگر حق کی بینا نہیں، نہ اس سے کتاب اللہ کو پڑھے اور نہ نظر عبرت سے عبرت خیز نظاروں کو دیکھے.کان دیئے ہیں مگر وہ حق کے شنوا نہیں.زبان خدا نے دی ہے مگر وہ حق کی گویا نہیں.غرض بجز تو کہتے ہیں اسباب کا مہیا ہی نہ کرنا.اور کسل کے معنے ہیں کہ مہیا شدہ اسباب سے کام نہ لینا.اور یہ دونوں قسم کے اخلاق رذیلہ اور کمزوریاں نتیجہ ہوتی ہیں ہم اور حزن کا.کیونکہ جب انسان ہم و حزن میں ڈوب جاتا ہے تو اسے پھر نہ تو آئندہ کسی ترقی اور خوشی کے حصول کے اسباب مہیا کرنے اور شر سے بچنے کی کوشش کرنے کی توفیق اور وقت و فرصت ملتی ہے اور نہ ہی وہ کسی قسم کے خوشی وراحت کے اسباب سے کام لے کر نتیجہ اور پھل کا وارث بن سکتا ہے.ای واسطه شریعت اسلام جو کہ عین فطرت انسانی کے مطابق خالق فطرت خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہے اس میں اس دعا کے ذریعہ سے ان رزائل سے بچنے کی کوشش کرنے اور پناہ مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے اور سکھایا گیا ہے کہ کسی ایک ناکامی سے ایسا متاثر ہونا اور اسی کے ہم وحزن میں مبتلا اور قید ہو کر ایسا رہ جانا کہ آئندہ کوئی ترقی ہی نہ کر سکے نہ اسلام کا منشاء ہے اور نہ مسلمانوں کی راہ.بلکہ مسلمان ایسی

Page 329

320 بودی روکوں اور کچی رکاوٹوں کی پرواہ نہ کر کے الْخَيْرُ فِي مَا وَقَعَ کے پاک مقولہ کی یاد سے شاد ہوتا ہوا آئندہ ترقیوں کی تدابیر میں بڑی بلند پروازی اور اطمینان سے کوشاں ہو جاتا ہے.اور مومن ایسا ہوشیار ہوتا ہے کہ کامیابی کے کل وسائل اور پاک اصول کو وہ خود مہیا کرتا اور پھر ان سے کام لینے کا کوئی بھی دقیقہ اور کسر باقی نہیں رہنے دیتا.غرض اس دعا کی تہ میں ایک باریک قسم کی تعلیم ہے جو مسلمانوں کو حد درجہ کا ہوشیار، چالاک اور شجاع بناتی اور سستی اور کاہلی سے نفرت دلاتی ہے.میں ان لوگوں کو جو حضرت اقدس علیہ السلام کی اتباع میں ہمارے ساتھ شامل ہیں خصوصیت سے تاکید کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ تم لوگوں نے اپنا ملک چھوڑا وطن چھوڑے، خویش و اقارب یار دوست چھوڑے، قوم سے الگ ہوئے اور ان کے سخت سے سخت فتووں کے نیچے آئے بے دین کافر مرتد ضال مضل کہلائے ہو.اگر تم بھی علم میں اور پھر عمل میں دین میں اور ایمان میں اپنا اعلیٰ نمونہ نہ دکھاؤ اور بین ثبوت نہ دو کہ واقعی تم نے خدا کی طرف قدم اٹھائے ہیں، بے نظیر ترقی کی ہے اور تمہارے افعال، تمہارے اقوال، تمہارے ظاہر تمہارے باطن، تمہاری زندگی کی موجودہ روش، لباس پوشاک خوراک اس امر کی پکار کر گواہی نہ دے اٹھیں کہ واقعی تم نے دین کو دنیا پر مقدم کیا ہے اور تمہارے اعمال کی حالت پاکیزگی تمہارے ایمان کے نہایت مضبوط اور غیر متزلزل ہونے اور تمہارے معتقدات کے صحیح ہونے پر شاہد ناطق نہ ہو اور تم میں اور تمہارے غیروں میں ایک نور اور مابہ الامتیاز پیدا نہ ہو جاوے تو بڑے ہی افسوس اور شرم کا مقام ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ اعلم الناس تھے ان کو حکم ہوتا ہے کہ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا (طہ:۵) کی دعا کیا کرو.تو پھر کون امتی ایسا ہے جو دعویٰ کرے کہ مجھے علم کی عمل کی مشورہ کی سیکھنے کی سنے کی اور صحبت پاک کی ضرورت نہیں ہے.یاد رکھو کہ یہ غلط راہ ہے اور بالکل غلط طریق ہے.اس سے پر ہیز کرنا چاہئے.وَ اَعُوذُ بِكَ مِنَ الْبُخْلِ وَالْجُبن.ظاہر ہے کہ جب انسان اپنی مصیبتوں کے رونے روتا رہے اور نہ کام کرے نہ کاج نہ کوشش کرے، نہ سامان مہیا کرے اور نہ ان سے کام لے بلکہ ہاتھ پاؤں توڑ لنگڑے لولوں کی طرح بے دست و پا نکھٹووں، سست اور کاہلوں کی زندگی بسر کرنے کا عادی ہو جاوے تو آسودگی، خوشحالی اور مال و دولت جو کہ کمانے سے محنت اور کوشش کرنے سے انسان کو ملتی ہیں اس کے پاس کہاں سے آجاوے گی.اور یہ صاف بات ہے کہ جو آگ کھاوے گا انگار ہے گا.جیسا کرے گا ویسا

Page 330

321 پاوے گا.جو بوئے گا سو کاٹے گا.ایسا انسان جو کچھ کرتا ہی نہیں، روپیہ کمانے اور روپیہ آنے اور امیر بنے کی جو راہیں خدا نے بنائی ہیں ان کا علم ہی حاصل نہیں کرتا اور ان کی پرواہ ہی نہیں کرتا تو اس کے پاس روپیہ اور مال و دولت کہاں سے آوے گا.ظاہر ہے کہ وہ مفلس اور محتاج ہو گا اور افلاس اور احتیاج کا نتیجہ اسے بھگتنا پڑے گا جو کہ لازماً بخل اور جبن ہوتا ہے.یاد رکھو کہ ہم اور حزن کا نتیجہ بجز اور کسل ہوتا ہے.اور عجز اور کسل کا نتیجہ افلاس اور احتیاج کی معرفت بخل اور جین ہوا کرتا ہے.پس کیسی عجیب راہ مسلمانوں کو بتائی گئی ہے کہ اللہ کے حضور دعا کیا کریں اور قبولیت دعا اور جذب فیضان کے واسطے چونکہ انسان کو خود بھی حتی المقدور کوشش اور سعی کرنا اور خدا کی بتائی ہوئی راہوں پر کاربند ہونالازمی ہے لہذا خود بھی ان رزائل سے بچنے کی حتی الوسع کوشش کرے اور پھر نتیجہ کے واسطے خدا کے حضور التجا کرے.بخل سے مراد مالی بخل ، خیالات پاکیزہ کے اظہار کا بخل، علم و عمل کا بخل، غرض کسی کو نفع نہ پہنچانا خواہ وہ کسی ہی رنگ میں ہو بخل کہلاتا ہے.جبن.بزدلی جو کہ انسان میں فطرتا کسی نہ کسی قسم کی کمزوری یا نقص ہونے کی وجہ سے پائی جاتی ہے.آج اس زمانہ میں علاوہ مالی بخل اور جین کے اظہار خیالات کے مادہ اور طاقت کا نہ ہونا، علم جو کہ ایک طاقت اور جرأت کا بڑا بھاری باعث اور موجب ہوتا ہے اس کا نہ ہونا مؤثر پیرایوں میں اپنے عندیہ کو مدلل اور مبرہن نہ کر سکنا، قوت بیانی کا نہ ہونا، ان سب کا نام ہے بخل.اور پھر ان کے عدم کی وجہ سے انسانی حالت جو کہ فطرتا اس کمی اور کمزوری کی وجہ سے اپنے اندر ہی اندر ایک قسم کا ضعف محسوس کرتی ہے اور مخالف خیالات کے لوگوں سے مقابلہ کرنے سے پر ہیز کرتی ہے، اس حالت کا نام جبن یعنی بزدلی ہے.ورنہ اب کوئی تیر و تلوار کی لڑائی تو ہے نہیں.اور ان جنگوں کے واسطے بھی جس جرات اور بہادری اور دلیری کی ضرورت ہوتی ہے وہ بھی انہی صفات کے ماتحت ہوتی ہے.وہاں بھی علم کی ضرورت ہے جو کہ ایک طاقت ہے.غرض ہم نے تو بارہا اس نقص کے رفع کرنے کے واسطے کوششیں کی ہیں.بلکہ انجمن تشحید الاذہان میں اس قسم کے طلباء کے واسطے انعامات بھی مقرر کیے ہیں تاکہ ہمارے نوجوانوں کو بولنے کی عادت ہو 21

Page 331

322 اور ان میں ایک ایسا ملکہ پیدا ہو جاوے جس سے وہ آزادی اور صفائی سے اپنا عندیہ اور خیالات کا اظہار دوسروں پر کر سکیں اور ان کو حق کے پہنچانے اور تبلیغ دین کے لئے مؤثر پیرایوں سے طاقت بیانیہ حاصل ہو جاوے اور خاص مضمون پر لیکچر دینے اور اس کے حدود کے اندر تقریر کرنے کی طاقت ہو جاوے مگر بہت کم توجہ کی جاتی ہے.یاد رکھو کہ یہ زمانہ ایسا ہے کہ اس وقت تیر و تفنگ اور بندوق توپ اور قواعد جنگ و فنون حرب سے واقفیت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں.اس زمانہ کے مناسب حال ہتھیار یہی ہے کہ کامل اور صحیح علم کی زبردست طاقت اور تقریر اور قوت بیان اور عجیب در عجیب پیرایوں سے اپنے خیالات کو مدلل اور مبرہن کر کے اپنے دشمنوں پر حجت پوری کرنے کے زبر دست اور تیز ہتھیاروں کی ضرورت ہے.فَتَدَبَّرُوا - وَ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ غَلَبَةِ الدَّيْن وَ قَهْرِ الرِّجَالِ صاف بات ہے کہ جب انسان میں افلاس ہو گا ضرورتیں مجبور کریں گی.قحط گرانی اشیاء کپڑا غلہ دال گوشت ، دودھ ، تعلیم، سب چیزیں گراں ہوں گی تو انسان جس کا گزارہ ان کے سوا ہو نہیں سکتا مجبور ہو گا کہ کسی سے قرض لے اور طرح طرح کی تدابیر حصول قرض کے واسطے اسے عمل میں لانی پڑیں گی اور اس طرح سے وہ قرض کی مصیبت میں مبتلا ہو جاوے گا.پھر چونکہ آمدنی کے ذرائع تو محدود ہیں اور آمد خرچ سے کم ہے قرض کے ادا کرنے کی کوئی صورت نظر نہ آوے گی.قرض خواہ لوگ تنگ کریں گے.سختی کریں گے.مقدمات کریں گے.ڈگریاں کرائیں گے.قرقیاں ہوں گی.لوگ گلے میں کپڑا ڈالیں گے.غرض اس طرح سے حالت بہت خطرناک اور نازک ہو جاوے گی.اس واسطے دعا کرنی چاہئے کہ خدا ان سب باتوں سے بچاوے اور ہم و حزن سے محفوظ رکھے.بچے اسباب مہیا کرنے اور پھر ان سے کام لینے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ بخل اور جبن اور پھر ان کے بد نتائج قرض اور قہر الرجال سے حفاظت میں رکھے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مومن متقی کی مثال اس پرند کی ہے کہ تَغْدُو حِمَاسًا وَ تَرُوحُ بِطَانًا اپنے گھونسلے میں دانہ جمع نہیں رکھتا.مگر وہ بیکار اور بے دست و پا ہو کر بھی اپنے ہاتھ پاؤں تو ڑ کر نہیں بیٹھ رہتا.باہر جاتا ہے اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آشیاں میں آتا ہے.پس مومن کے واسطے بھی اس میں ایک سبق رکھا ہے اور توکل کے معنے بتائے گئے ہیں.جس طرح سے پرندہ کے گھر میں دانہ جمع نہیں ہے مگر وہ ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ بھی نہیں رہتا بلکہ گھونسلے سے باہر جاتا ہے، محنت مشقت کرتا ہے اسی طرح انسان کو بھی محنت کرنی چاہئے تاکہ اس کی ضرورتیں اس کے واسطے بھی مہیا کی جاویں.

Page 332

323 وہ کاہل اور سست انسان جو کہ توکل کے جھوٹے معنے گھڑ کر تو کل کی آڑ میں ایسا کرتے ہیں سوچیں اور غور کریں.پس ایسے انسان جبکہ ان کی ضرورتیں ان کو مجبور کرتی ہیں، مکان ، لباس ، خوراک اور بیوی بچوں کی ضروریات ان کو مجبور کرتی ہیں تو وہ اس فکر میں لگ جاتے ہیں کہ کوئی الو مل جاوے اور ان کا کام ہو جاوے.کسی کی کمائی ان کو مفت میں مل جاوے.غرض اس طرح سے ناجائز طریق سے کوشش کر کے قرض لیتے اور پھر جب ادا ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تو کسی کے کان کاٹ کر بلی کے اور بلی کے کاٹ کر کتی کے لگاتے پھرتے ہیں اور لوگوں کو دھوکا دیتے اور ایک سے لے کر دوسرے کو اور دوسرے سے لے کر تیسرے کو دیتے ہیں.ایسی ایسی چالاکیاں ان کو کرنی پڑتی ہیں.غرض یہ بہت خطرناک حالت ہے.پس تم کوشش کرو.حق پہنچاؤ اور ضرور پہنچاؤ.ہم وحزن سے کچھ نہیں ہو تا.کوشش سے کچھ ہوتا ہے، کوشش کرو اور خدا سے دعائیں کرتے رہو.اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے اور فضل کرے.آمین.خطبہ ثانیہ اللہ تعالیٰ کو جتنا جتنا تم یاد کرو گے وہ بھی تمہیں یاد کرے گا اور تمہاری عزت اور بزرگی بڑھائے گا.اگر تم اعلاء کلمۃ اللہ میں دل و جان سے کوشش کرو گے، خدا کی باتیں لوگوں کو پہنچاؤ گے تو یہ قاعدہ کی بات ہے کہ حق گو اور حق کے پہنچانے والوں کے لوگ دشمن ہو جایا کرتے ہیں.قسما قسم کی تہمتیں اور الزام لگائے جاتے ہیں.اصل میں یہ سب اس واسطے ہوتا ہے کہ شیطان کو فکر پڑ جاتی ہے کہ اس طرح میرا کام بگڑ جائے گا.انڈا وہ سر توڑ کوشش کرتا ہے اور حق گو کے مقابلے کے واسطے اپنے پورے ہتھیاروں سے آموجود ہوتا ہے تاکہ حق ظاہر نہ ہو.مگر آخر کار حق غالب آجاتا ہے اور سچائی کی فتح ہوتی ہے اور شیطان ہلاک اور ذلیل ہو جاتا ہے.پس تم بھی کوشش کرو کہ حق کے پہنچانے والے بنو اور پھر ان مشکلات پر صبر کرنیوالے ہو جاؤ جو حق کے پہنچانے میں لازمی ہوتے ہیں.اللَّهُمَّ اكْفِنِي بِحَلَالِكَ عَنْ حَرَامِكَ وَأَغْنِنِي بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِوَاكَ - مالی مشکلات کے وقت انسان کیا کچھ نہیں کرتا.حلال و حرام کی تمیز اٹھ جاتی ہے اور انسان پروا نہیں کرتا کہ آیا میں جائز ذریعہ سے پیٹ بھر رہا ہوں کہ ناجائز طریق ہے.غرض فقر و فاقہ ایک ایسی مصیبت ہوتی ہے کہ انسان کو

Page 333

324 حلال و حرام میں فرق بھی نہیں کرنے دیتی.حدیث میں آیا ہے کہ حرام کھانے والے کی دعا کبھی قبول نہیں ہوتی.حدیث شریف میں آیا ہے کہ انسان پر اگر ایک بڑے پہاڑ کے برابر بھی قرض ہو جاوے تو اللہ تعالیٰ اس دعا کے ذریعہ سے اس کے ادا کرنے کے سامان مہیا کر دیتا ہے اور اس طرح سے انسان قرض سے سبکدوش ہو جاتا ہے.پس اگر انسان سے خطا پر خطا اور چوک پر چوک ہی ہوتی گئی ہے اور یہ ابتدائی مشکلات سے اپنے آپ کو نہیں بچا سکا اور ہم وحزن کے نتائج کا خمیازہ اٹھا کر عجز و کسل میں اور عجز و کسل کے نتائج بد بھگتنے کے لئے بخل اور جبن اور آخر کار قرض کی مصیبت میں مبتلا ہو ہی گیا ہے تو بھی اس کے واسطے ایک ذریعہ بچاؤ کا اور ہے اور وہ دعا ہے.اگر انسان کو دعا اپنے تمام لوازم اور شرائط کے ساتھ نصیب ہو جاوے تو انسان کی خوش قسمتی ہے اور مصائب سے نجات پا جانے کی ایک یقینی راہ ہے.نیز موجودہ زمانے میں دنیا طلبی اور دنیا کمانے کی کچھ ایسی ہوا چلی ہے کہ جس کو دیکھو اسی دھن میں لگا ہے اور جسے ٹولو اسی فکر میں حیران و سرگردان ہے.کوئی محکمہ کوئی سوسائٹی ادنی سے لے کر اعلیٰ تک، ماتحت سے افسر تک حاکم سے بادشاہ تک جسے دیکھو دنیا کی فکر میں لگا ہے.ضروریات کے وقت جائز وناجائز کی بھی پروا نہیں کی جاتی بلکہ بلا امتیاز حلال و حرام اکٹھا کرنے کی کوشش اور فکر کی جارہی ہے.یہی وجہ ہے کہ اس زمانہ میں ہمارے حضرت امام علیہ الصلوۃ و السلام نے بھی اس امر کو محسوس کر کے اس زمانہ کے مناسب حال اقرار لیا کہ میں دین کو دنیا پر مقدم کروں گا.پس آخر کار ان مشکلات کے واسطے اس دعا میں ہی یہ راہ بتائی کہ دعا کرے اور بات بھی یہی حق ہے کہ دعا ہی سے بیڑا پار ہوتا ہے.قرآن شریف سنو اور عمل کی غرض سے سنو.نفس کا دخل مت دو اور خدا سے دعائیں کرتے رہو.اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے اعمال صالحات کی اور شر اور گناہ سے بچنے کی.آمین.الحکم جلد ۱۳ نمبر ۲۶-۱۰۰۰ار اپریل ۱۹۰۸ء صفحه ۵ تا ۸) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 334

ار اپریل ۱۹۰۸ء 325 خطبه جمعه تشہد ، تعوذ اور تسمیہ کے بعد آپ نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی.قُلْ يَأَيُّهَا الْكَافِرُونَ - لَا اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ - وَلَا اَنْتُمْ عَبدُونَ مَا أَعْبُدُ وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدتُّمْ - وَلَا أَنْتُمْ عَبِدُونَ مَا أَعْبُدُ لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِينِ - (الكافرون: ۲ تا ۷ ) اور پھر فرمایا:.نماز کے اختتام پر سلام پھیر کر معاہی حکم ہے کہ انسان کم از کم تین بار استغفار پڑھے.اور حدیث میں تو یوں بھی آیا ہے کہ نماز کے بعد ۳۳ بار سبحان اللہ ۳۳۰ بار الحمد للہ اور ۳۴ بار اللہ اکبر پڑھے.یہ بھی نماز کے بعد کے وظائف میں سے ایک ضروری وظیفہ ہے.مگر اس کا ہم انشاء اللہ توفیق ہوئی تو آئندہ کبھی اس کے موقع پر بیان کریں گے.سلام پھیرتے ہی معا تین بار اَسْتَغْفِرُ اللهَ اسْتَغْفِرُ اللهَ اسْتَغْفِرُ الله (ترمذی کتاب الدعوات) کہنے کا جو حکم ہے اس میں بھید کیا ہے؟ اور اس کی وجہ کیا؟ اصل بات یہ ہے کہ انسان بڑا کمزور ناتواں اور سست ہے.علم حقیقی سے بہت دور ہے.آہستگی سے ترقی کر

Page 335

326 سکتا ہے.ہم تم تو چیز ہی کیا ہیں؟ اس عظیم الشان انسان علیہ الف الف صلوۃ والسلام کی بھی یہ دعا تھی رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا (طه) - تو جب خاتم الانبیاء افضل البشر کو بھی علمی ترقی کی ضرورت ہے جو اتقی النَّاسِ - اَخْشَى النَّاسِ اَعْلَمُ النَّاسِ ہیں اور ان کے متعلق الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ (الرحمن:۳۲) وارد ہو جانے کے باوجود بھی ان کو ترقی علم کی ضرورت ہے تو ماوشما حقیقت ہی کیا رکھتے ہیں کہ ہم علمی ترقی نہ کریں.اگر میں کہہ دوں کہ مجھے کتابوں کا بہت شوق ہے اور میرے پاس اللہ کے فضل سے کتابوں کا ذخیرہ بھی تم سب سے بڑھ کر موجود ہے اور پھر یہ بھی اللہ کا خاص فضل ہے کہ میں نے ان سب کو پڑھا ہے اور خوب پڑھا ہے اور مجھے ایک طرح کا حق بھی حاصل ہے کہ ایسا کہہ سکوں.مگر بائیں (وجہ) میں نہیں کہہ سکتا کہ مجھے علم کی ضرورت نہیں بلکہ مجھے بھی ترقی علم کی ضرورت ہے اور سخت ضرورت ہے.علم سے میری مراد کوئی دنیوی علم اور اہل.ایل.بی یا ایل.ایل.ڈی کی ڈگریوں کا حصول نہیں ہے.لَا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِاللهِ.بلکہ ایسا تو کبھی میرے وہم و گمان میں بھی نہیں آیا اور نہ ہی ایسی میری کبھی اپنی ذات یا اپنی اولاد کے واسطے خواہش ہوئی ہے.عام طور پر لوگوں کے دلوں میں آج کل علم سے بھی ظاہری علم مراد لیا گیا ہے اور ہزارہا انسان ایسے موجود ہیں کہ جن کو دن رات یہی تڑپ اور لگن لگی ہوئی ہے کہ کسی طرح وہ بی.اے یا ایم.اے یا ایل.ایل.بی کی ڈگریاں حاصل کر لیں.ان لوگوں نے اصل میں ان علوم کی دھن ہی چھوڑ دی ہے جن پر بچے طور پر علم کا لفظ صادق آ سکتا ہے.پس ہماری مراد ترقی علوم سے خدا کی رضامندی کے علوم اور اخلاق فاضلہ سیکھنے کے علوم وہ علوم جن سے خدا کی عظمت اور جبروت اور قدرت کا علم ہو اور اس کے صفات اس کے حسن و احسان کا علم ؟ جاوے.غرض وہ کل علوم جن سے تعظیم لامر اللہ اور شفقت علی خلق اللہ کا علم آ جاوے‘ مراد ہیں.انسان چونکہ کمزور ہوتا ہے اور اس کا علم اپنے کمال تک نہیں پہنچا ہو تا اور بعض اوقات اپنی کمزوریوں اور سستیوں کی وجہ سے نماز کو کبھی وقت سے بے وقت کبھی بے توجہی سے پڑھتا ہے اور کبھی نمازوں میں اس کا خیال کہیں کا کہیں چلا جاتا اور پورا حضور قلب اور خضوع جو نماز کے ضروری ارکان ہیں ان کے ادا کرنے میں سستی ہو جاتی ہے یا نماز تدبر سے نہیں پڑھی جاتی یا کبھی اصلی لذت اور سرور سے محروم رہ جاتا ہے اور باریک در باریک وجوہ کے باعث نماز میں کوئی نہ کوئی کمی یا نقص رہ جاتا ہے.اس واسطے حکم ہے کہ نماز کا سلام پھیرنے کے ساتھ ہی معاً استغفار پڑھ کر اپنی کمزوریوں اور نماز میں اگر کوئی نقص رہ گیا ہے تو اس کی تلافی خدا سے چاہے اور عرض کرے کہ یا الہی! اگر میری نماز کسی بار یک دربار یک کمی یا نقص کی وجہ سے قابل قبول نہیں تو میری کمزوریوں پر پردہ ڈال کر بخشش فرما اور

Page 336

327 میری عبادت کو قبول فرمالے.ہم تیرے عاجز بندے ہیں.ہم تیری اس کبریائی ، عظمت اور جلال کو جو تیری ذات پاک کے شایاں اور مناسب حال ہے کہاں جان سکتے ہیں.اس واسطے ان کمیوں پر چشم پوشی فرما اور عفو کر.گزشتہ غلطیوں کو معاف فرما اور آئندہ کے واسطے توفیق عطا فرما کہ ہم تیری عبادت بطریق احسن اور ابلغ کرنے کے لائق ہوں.نماز کی کمی اور نقائص کی تلافی کے واسطے ماثورہ اور اد کے علاوہ ایک ایک مقررہ تعداد رکعات سنن کی بھی ضروری ہے جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھنے کا حکم دیا ہے.فرائض کی تکمیل کے واسطے سنن کا پڑھنا نہایت ہی ضروری ہے.جو لوگ سنتوں کے ادا کرنے میں سستی یا کاہلی کرتے ہیں ان کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے.میں ہمیشہ اس بات سے ڈرتا رہتا ہوں کہ حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے اس عمل سے کہ آپ نماز فرائض کے بعد فوراً اندر تشریف لے جاتے ہیں کوئی ٹھو کر کھائے اور خود بھی فرائض کے بعد فوراً مسجد سے باہر بھاگنے کی کوشش کرے اور ادعیہ ماثورہ اور سنن کی پرواہ نہ کرے.یاد رکھو کہ حضرت القدس ان سب باتوں کے پورے پابند ہیں اور اکثر گھر میں نوافل میں بھی لگے رہتے ہیں.بلکہ بعض اوقات آپ سنن مسجد میں بھی ادا کر لیتے ہیں.غالبا یہی خیال آجاتا ہو گا کہ کوئی ٹھو کر نہ کھائے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ نماز سے گھر بابرکت ہو جاتے ہیں.چنانچہ میرا خود بھی اسی پر عمل ہے.اکثر سنن اور نوافل گھر میں ادا کرتا ہوں مگر اسی خیال سے کہ کسی بیمار دل کو ٹھوکر نہ لگے بعض اوقات مسجد میں بھی ادا کر لیتا ہوں اور خدا سے یہ دعا عرض کر دیتا ہوں کہ گھر میں تو ہی برکت دے دیجیو.رسول اکرم کا عمل بھی اسی طرح پر ہے.شام کے نوافل کے متعلق آنحضرت کا مسجد میں ادا کرنے کا بھی ایک اثر موجود ہے.غرض یہ ہے کہ سنن کی پابندی نہایت ضروری ہے خواہ گھر میں ہوں اور خواہ مسجد میں.قرآن شریف کی بعض چھوٹی چھوٹی سورتیں جن میں چاروں قل بھی ہیں نماز میں بھی اور نماز کے بعد کے اور اد ماثورہ میں بھی داخل ہیں.لہذا ان کے متعلق بھی کسی قدر بیان کر دینا ضروری ہے.مسلمان انسان میں غیرت اور حمیت ہونی چاہئے اور ہر حالت میں لازمی ہے کہ ایماندار انسان بے غیرت ہونے کی حد تک ذلیل نہ ہو جاوے.دیکھو حضرت نبی کریم کی ابتدائی تیرہ سالہ مکہ کی زندگی کیسی مشکلات اور مصائب کی زندگی ہے مگر بایں کہ آپ بالکل تنہا اور کمزور ہیں خدا تعالیٰ آپ کی زبان سے اہل مکہ کے بڑے بڑے اکابر قریش اور سرداران قوم کو جو اپنے برابر کسی کو دنیا میں سمجھتے ہی نہ تھے یوں خطاب کراتا

Page 337

328 ہے قُلْ يَايُّهَا الْكَافِرُونَ.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کمزوری کی حالت میں بھی خدائی تائید اور نصرت کی وجہ سے جو آپ کے شامل حال تھی اور اس کامل اور بچے علم کی وجہ سے جو آپ کو خدا کے وعدوں پر تھا، آپ میں ایسی قوت اور غیرت و حمیت موجود تھی کہ آپ تبلیغ احکام الہی میں ان کے سامنے ہرگز ہرگز ذلیل نہ تھے بلکہ آپ کے ساتھ خدا کی خاص نصرت اور حق کا رعب اور جلال ہوا کرتا تھا.پس اس سے مسلمانوں کو یہ سبق لینا چاہئے کہ حق کے پہنچانے میں ہرگز ہر گز کمزوری نہ دکھائیں اور دینی معاملات میں ایک خاص غیرت اور جوش اور صداقت کے پہنچانے میں کچی حمیت رکھیں.کافر کا لفظ عرب کے محاورے میں ایسا نہیں تھا جیسا کہ ہمارے ملک میں کسی کو کافر کہنا گویا آگ لگا دینا ہے.وہ لوگ چونکہ اہل زبان تھے خوب جانتے تھے کہ کسی کی بات کا نہ ماننے والا اس کا کافر ہوتا ہے اور ہم چونکہ آپ کی بات نہیں مانتے اس واسطے آپ ہمیں اس رنگ میں خطاب کرتے ہیں.قرآن شریف میں خود مسلمانوں کی صفت بھی کفر بیان ہوئی ہے جہاں فرمایا ہے يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ (البقره: ۲۵۷).معلوم ہوا کہ کفر مسلمان کی بھی ایک صفت ہے مگر آج کل ہمارے ملک میں غلط سے غلط بلکہ خطرناک سے خطرناک استعمال میں آیا ہے.کسی نے کسی کو کافر کہا اور وہ دست و گریبان ہوا.اصل میں کافر کا لفظ دل دکھانے کے واسطے نہیں تھا بلکہ یہ تو ایک واقعہ کا اظہار و بیان تھا.وہ لوگ تو اس لفظ اور خطاب کو خوشی سے قبول کرتے تھے.قُلْ يَايُّهَا الْكَافِرُونَ کے معنی ہوئے کہ وے اے کا فرو! ہوشیار ہو کر اور توجہ سے میری بات کو من لو لا أعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ میں ان بتوں کی ان خیالات کی، ان رسوم و رواج کی اور ان ظنوں کی فرمانبرداری نہیں کرتا جن کی تم کرتے ہو.ان لوگوں میں اکثر لوگ تو ایسے ہی تھے جو رسم و رواج عادات اور بتوں کی اور ظنوں اور وہموں کی پوجا میں غرق تھے.ہاں بعض ایسے بھی تھے کہ جو دہریہ تھے مگر زیادہ حصہ ان میں سے اول الذکر لوگوں میں سے تھے.خدا کو بڑا خدا جانتے تھے اور خدا سے انکار نہ کرتے تھے.بعض ایسے بھی کافر تھے جو خدا کو بھی مانتے تھے اور بتوں سے بھی الگ تھے.رسم و رواج میں بھی نہ پڑے تھے.آنحضرت کے پاس آنے کو اور آپ کی فرمانبرداری کرنے میں اپنی سرداری کی ہتک جانتے تھے اور ان کے واسطے ان کا کبر اور بڑائی ہی حجاب اور باعث کفر ہو رہی تھی.وَلَا أَنْتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ اور نہ ہی تم میرے معبود کی عبادت کرتے نظر آتے ہو.وَلَا انا عَابِدٌ مَّا عَبَدُتُم اور نہ ہی میں کبھی تمہاری طرز عبادت میں آؤں گا.

Page 338

329 وَلَا انْتُمْ عَابِدُونَ مَا اعْبُدُ اور نہ ہی تم اپنے رسم و رواج، جتھے اور خیالات، اپنے بتوں اور مہنتوں کو چھوڑتے نظر آتے ہو.تو اچھا پھر ہمارا تمہارا یوں فیصلہ ہوگا کہ لَكُمْ دِينَكُمْ وَلِيَ دِينِ میرے اعمال اور عقائد کا نتیجہ میں پاؤں گا اور تمہارے بد کردار اور عقائد فاسدہ کی سزا تم کو ملے گی.پھر اس وقت پتہ لگ جاوے گا کہ کون صادق اور کون کا ذب ہے ؟ اس کا جو نتیجہ نکلا وہ دنیا جانتی ہے.ہر ایک نے سن لیا ہو گا کہ آنحضرت دنیا سے کس حالت میں اٹھائے گئے اور آپ کے اتباع کو دنیا میں کیا کچھ اعزاز اور کامیابی نصیب ہوئی اور آپ کے وہ دشمن کہاں گئے اور ان کا کیا حشر ہوا؟ کسی کو ان کے ناموں سے بھی واقفیت نہیں.پس یہی نمونہ اور مابہ الامتیاز ہمیشہ کے واسطے صادق اور کاذب میں خدا کی طرف سے مقرر ہے.فقط.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۸-۰-۱۸/ اپریل ۱۹۰۸ء صفحه ۱۴-۱۵)

Page 339

۷ار اپریل ۱۹۰۸ء مسجد اقصیٰ قادیان 330 خطبه جمعه تشد ، تعوذ اور تسمیہ کی تلاوت کے بعد آپ نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:.الله اَحَدٌ - اللهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ - وَ لَمْ يَكُنْ لَّهُ كُفُوًا اَحَدٌ.هُوَ (الاخلاص : ۲-۵) تمام تر نماز کے بعد جو وظائف مقرر ہیں ان میں سے چاروں قل ، آیت الکرسی ، اور تسبیح ، تحمید اور تکبیر کے اذکار بھی ہیں.قُلْ يَأَيُّهَا الْكَافِرُونَ (الكافرون) کے متعلق پچھلے جمعہ کے خطبہ میں ہم بیان کر چکے ہیں.آج اس مختصر سورۃ کے معانی سنائے جاتے ہیں.اس سورۃ کے فضائل میں سے ایک یہ بھی حدیث صحیح سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ سورۃ ثواب میں قرآن شریف کے تیسرے حصہ کے برابر ہے.یہ بات بالکل کچی اور بہت ہی کچی ہے.اس واسطے کہ قرآن شریف مشتمل ہے اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کے مضامین، دنیوی امور یعنی اخلاقی، معاشرتی، تمدنی اور پھر بعد الموت یعنی قیامت کے متعلقہ مضامین پر.اس سورۃ میں چونکہ اللہ تعالیٰ کے صفات اور اس کی ذات کے متعلق ہی ذکر ہے اس

Page 340

331 طرح سے بلحاظ تقسیم مضامین یہ سورۃ قرآن شریف کے ایک تہائی کے برابر ہے.یعنی قرآن کریم کے تین اہم اور ضروری مضامین میں سے ایک مضمون کا ذکر اس سورۃ میں کیا گیا ہے.دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب سورۃ فاتحہ سے جو کہ قرآن شریف کی کلید اور اُمُّ الْكِتَابِ ہے شروع ہوئی ہے اور یہ اُمُّ الْكِتَابِ، ضَالِینَ پر ختم ہوتی ہے.ضال کہتے ہیں کسی سے محبت بے جا کرنے کو یا جہالت سے کام لینے اور بچے علوم سے نفرت اور لاپرواہی کرنے کو.صرف دو شخص ہی ضال کہلاتے ہیں.ایک تو وہ جو کسی سے بیجا محبت کرے.دوسرا وہ جو بچے علوم کے حصول سے مضائقہ کرے.انسان ہر روز علم کا محتاج ہے.سچائی انسان کے قلب پر علم کے ذریعہ سے ہی اثر کرتی ہے.پس جو علم نہیں سیکھتا اس پر جہالت آتی ہے اور دل سیاہ ہو جاتا ہے جس سے انسان اچھے اور برے مفید اور مضر نیک اور بد حق و باطل میں تمیز نہیں کر سکتا.حدیث میں آیا ہے کہ ضال نصاری ہیں.دیکھ لو انہوں نے اپنی آسمانی کتاب کو کس طرح اپنے تصرف میں لا کر ترجمہ در ترجمہ.ترجمہ در ترجمہ کیا ہے کہ اب اصل زبان کا پتہ ہی نہیں لگتا.صاف بات ہے کہ ترجمہ تو خیال ہے مترجم کا.غرض علوم الہی اور کتب سماوی میں انہوں نے ایسا تصرف کیا اور جہالت کا کام کیا ہے کہ وہ اصل الفاظ اب ملنے ہی محال ہیں.دوسری طرف حضرت مسیح کی محبت میں اتنا غلو کیا ہے کہ ان کو خدا ہی بنالیا.اور اس سورۃ میں اس قوم نصاری کا ذکر ہے اور یہ سورۃ قرآن شریف کے آخر میں ہے.اور یہ ضال کی تفسیر ہے اور ضال کا لفظ ام الکتاب کے آخر میں ہے.پس اس طرح سے ام الکتاب کے آخر کو قرآن کے آخر سے بھی ایک طرح کی مناسبت ہے.ایک صحابی " جو کہ میرا اپنا خیال ہے کہ غالبا وہ عیسائیوں کے پڑوس میں رہتا ہو گا وہ اس سورت کا ہر ہے.نماز میں التزام کیا کرتا تھا.بلکہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی طرف توجہ دلائی.چنانچہ آپ صبح کی سنتوں میں غالبا زیادہ تر قُلْ يَاتُهَا الْكَافِرُونَ اور قُلْ هُوَ اللَّهُ اَحَدٌ ہی پڑھا کرتے تھے.مغرب کی نماز (جو کہ جہری نماز ہے) میں بھی اول رکعت میں قُلْ يَايُّهَا الْكَافِرُونَ اور دوسری رکعت میں قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ اکثر پڑھا کرتے تھے.وتروں میں بھی آنحضرت کا یہی طریق تھا.چنانچہ پہلی رکعت میں سبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى، دوسری میں قُلْ يَايُّهَا الْكَافِرُونَ اور تیسری میں قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ بہت پڑھا کرتے تھے.غرض نماز کے اندر اور نماز کے علاوہ اور اد میں اس سورۃ شریفہ کی بڑی فضیلت آئی ہے.

Page 341

332 قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ تو کہہ دے (وہ جو اس کا کہنے والا ہے) اللہ ہے اور وہ احد ہے.ساری ہی صفات کاملہ سے موصوف اور ساری بدیوں سے منزہ ذات بابرکات ہے.یہ پاک نام اور اس کے رکھنے کا فخر صرف صرف عربوں ہی کو ہے.اللہ کا لفظ انہوں نے خالص کر کے صرف صرف خدا کے واسطے خاص رکھا ہے.اور ان کے کسی معبود بت دیوی دیوتا پر انہوں نے یہ نام کبھی بھی استعمال نہیں کیا.مشرک عربوں نے بھی اور شاعر عربوں نے بھی بجز خدا کی ذات کے اس لفظ کا استعمال کسی دوسرے کے حق میں نہیں کیا خواہ وہ کتنا ہی بڑا اور واجب التعظیم ان کا کیوں نہ ہو.یہ فخر بجز عرب کے اور کسی ملک اور قوم کو میسر نہیں.زبان انگریزی سے میں خود تو واقف ہوں نہیں مگر لوگوں سے سنا ہے کہ اس زبان میں بھی کوئی مفرد لفظ خاص کر کے خَالِصًا لله نہیں ہے.ہر لفظ جو وہ خدا کے واسطے بولتے ہیں وہ ان کی زبان کے محاورے میں اوروں پر بھی بولا جاتا ہے.سنسکرت میں تو میں علی وجہ البصیرت کہہ سکتا ہوں کہ اول ہی اول جو ان کی کتابوں میں خدا کا نام رکھا گیا ہے وہ اگنی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ اگنی آگ پر بھی بولا جاتا ہے.علی ہذا القیاس اور اور جو نام بھی ویدوں میں پر میشر پر بولے ہیں وہ سارے کے سارے ایسے ہی ہیں کہ جن کی خصوصیت خدا کے واسطے نہیں بلکہ وہ سب کے سب اور دیوی دیوتاؤں وغیرہ پر بھی بولے جاتے ہیں.یہ فخر صرف اسلام ہی کو ہے کہ خدا کا ایسا نام رکھا گیا ہے کہ جو کسی معبود وغیرہ کے واسطے نہیں بولا جاتا.اَحَدٌ وہ اللہ ایک ہے.نہ کوئی اس کے سوا معبود اور نہ اس کے سوا کوئی تمہارے نفع و ضرر کا حقیقی مالک ہے.کاملہ صفات سے موصوف اور ہر بدی سے منزہ اور ممتاز و پاک ذات ہے.اللهُ الصَّمَدُ الله محمد ہے.صمد کہتے ہیں جس کی طرف ان کی احتیاج ہو اور خود نہ محتاج ہو.صمد سردار کو کہتے ہیں.صمد اس کو کہتے ہیں کہ جس کے اندر سے نہ کچھ نکلے اور نہ اس میں کچھ گھے.یہ ایسا پاک نام ہے کہ انسان کو اگر اللہ تعالٰی کے اس نام پر کامل ایمان ہو تو اس کی ساری حاجتوں کے لئے کام کافی اور سارے دکھوں سے نجات کے سامان ہو جاتے ہیں.میں خود تجربتا کہتا ہوں اور اس امر کی عملی شہادت دیتا ہوں کہ جب صرف اللہ ہی کو محتاج الیہ بنا لیا جاتا ہے تو بہت سے ناجائز ذرائع اور اعمال مثلا کھانے پینے مکان مہمانداری، بیوی بچوں کی تمام ضروری حاجات سے انسان بچ جاتا ہے اور انسان ایسی تنگی سے بچ جاتا ہے جو اس کو ناجائز وسائل سے ان مشکلات کا علاج کرنے کی ترغیب دیتی ہے.جوں جوں دنیا خدا سے دور ہو کر آمدنی کے وسائل سوچتی ہے اور دنیوی آمد میں ترقی کرتی جاتی ہے توں توں

Page 342

333 قدرت اور منشاء الہی ان آمدنیوں کو ایک خرچ کا کیڑا بھی لگا دیتا ہے.گھر کی مستورات سے ہی لو اور پھر غور کرو کہ اس قوم نے کس طرح محنت کرنا اور کاروبار خانگی سے دست برداری اختیار کی ہے.چرخہ کاتنا یا چکی ہیں کر گھر کی ضرورت کو پورا کرنا تو گویا اس زمانہ میں گناہ بلکہ کفر کی حد تک پہنچ گیا ہے.کام کاج (جو کہ دراصل ایک مفید ورزش تھی جس سے مستورات کی صحت قائم رہتی اور دودھ صاف ہو کر اولاد کی پرورش اور عمدہ صحت کا باعث ہوتا تھا) تو یوں چھوٹا.اخراجات میں ایسی ترقی ہو گئی کہ آجکل کے لباس کو دیکھ کر مجھے تو بارہا تعجب آتا ہے.ایسا کما لباس ہے کہ دس پندرہ دن کے بعد وہ نکما محض ہو کر خادمہ یا چوہڑی کے کام کا ہو جاتا ہے اور خدا کی قدرت کہ پھر وہ چوہڑی بھی اس سے بہت عرصہ تک مستفید نہیں ہو سکتی.وہ کپڑے کیا ہوتے ہیں؟ وہ تو ایک قسم کا مکڑی کا جالا ہوتا ہے جس میں بیٹھ کر وہ شکار کرتی ہے.پھر اس کے ساتھ ساتھ ایک اور خطرناک گھن لگا ہوا ہے.وہ یہ کہ اشیاء خوردنی کا نرخ بھی گراں ہو رہا ہے.ہر چیز میں گرانی ہے.اگر آمدنی کی ترقی ہوئی تو کیا فائدہ ہوا؟ دوسری طرف خرچ کا بڑھاؤ ہو گیا.بات تو وہیں رہی.ہمارے شہر کا ذکر ہے کہ ایک قوم دو آنے روز کے حساب سے ایک زمانہ میں مزدوری کیا کرتی تھی.ایک دفعہ انہوں نے مل کر یہ منصوبہ کیا کہ بجائے ۸ دن کے ۵ دن میں روپیہ لیا کریں اور جو شخص ہم میں سے اس کی خلاف ورزی کرے اس کی سزا یہ ہے کہ اس کی عورت کو طلاق.مگر خدا کی قدرت وہ کام نہ چل سکا اور آخر مجبوراً ان کو فتوئی لینا پڑا کہ اب کیا کریں.ملاں کے پاس گئے تو اس نے کہہ دیا کہ ہماری مسجد میں چند روز مفت کام کرو.جواز کی راہ نکال دیں گے.غرض ایک تو وہ وقت تھا اور ایک اب ہے کہ وہ روپیہ روز یا بعض سوا روپیہ روزانہ کماتے ہیں.اور عجیب بات یہ ہے کہ کام بھی اس وقت کے برابر عمدہ اور مضبوط نہیں اور مقدار میں بھی اس وقت سے کم ہے.اس وقت وہی لوگ اسی مزدوری میں انجینئرنگ اور نقشہ کشی کرتے تھے اور وہی عمارت کا کام کرتے تھے مگر اب ان کاموں کے واسطے الگ ایک معقول تنخواہ کا ملازم درکار ہے.میرے والد صاحب ایک قسم کی لنگی (کھیں) پہنا کرتے تھے اور وہ کپڑا گھر کا بنایا ہوا ہو تا تھا.اس میں لا ضرور ہو تا تھا.ہماری بہنوں کو فخر ہوا کرتا تھا کہ ہم اپنے والد صاحب کے پہننے کی لنگی اپنے ہاتھوں سے تیار کرتی ہیں.غرض ایک وہ وقت تھا کہ آمدنیاں اگرچہ کم تھیں مگر بوجہ کسب حلال ہونے کے بابرکت تھیں.اور

Page 343

334 ایک یہ زمانہ ہے کہ در اصل اگر غور کیا جاوے تو آمدنیاں کم مگر خرچ زیادہ ہیں.آمدنی بڑھی تو خرچ بھی ساتھ ہی ترقی کر گئے.کیونکہ بوجہ زیادتی اخراجات کے لوگ اکثر ادھر ادھر سے آمدنی کے بڑھانے کے واسطے بہت قسم کے ناجائز و سائل اختیار کرتے ہیں.اکثر یہی کوشش دیکھی گئی ہے کہ روپیہ آجاوے.اس بات کی پروا نہیں کہ وہ حلال ہے یا حرام.یہی وجہ ہے کہ وہ بے برکت ہوتا ہے.تعلیم کا حال دیکھ لو کیسی گراں ہو گئی ہے.حتیٰ کہ گورنمنٹ جو ترقی تعلیم کی از بس مشتاق اور حریص تھی اسے مشکلات آگئے کہ اب وہ لڑکوں کے پاس کرنے میں مضائقہ کرتی ہے اور اس فکر میں ہے کہ کسی طرح یہ سلسلہ کمی پر آجاوے.اور وہ اپنے ارادوں میں کامیاب ہوگی اور ضرور ہوگی.کیونکہ خدا کو جب تک ان کی سلطنت منظور ہے تب تک ان کی نصرت بھی کرے گا.غرض یہ کہ اگر اپنی چالا کی اور ناجائز تدابیر اور ناجائز ذرائع سے مالوں کو بڑھانے کی کوشش کرو گے تو دوسری طرف خدا اس کو خاک میں ملاتا جاوے گا.اس وقت ایک واقعہ مجھے یاد آگیا ہے کہ ایک شخص نہایت خوبصورت صندوق جس میں مختلف قسم کے رنگارنگ کوئی سرخ کوئی سفید کوئی زرد قسم کے ٹکڑے کانچ کے تھے ایک رئیس کے پاس لایا اور پیش کیا کہ آپ اس کو خرید لیں.مگر وہ رئیس بڑا عقل مند تھا.اگر چہ مشرک تھا اور مشرک عقل مند نہیں ہوتا مگر ایک قسم کی جزوی عقل تھی.وہ بات کو سمجھ گیا اور کہا کہ یہ شخص شریر تو نہیں ہے اس کو دھو کہ لگا ہے.اگر شریر ہو تا تو اس کو میرے پاس آنے کی اس طرح جرات نہ ہوتی.یہ سوچ کر اس سے کہا کہ میں ان کو خریدنے کی طاقت نہیں رکھتا.البتہ یہ ایک ہزار روپیہ تم کو دیا جاتا ہے اس بات کے بدلے کہ تم نے ایسی نایاب چیز ہمیں دکھائی.وہ شخص بہت خوش ہو گیا.رئیس نے اس سے یہ بھی کہہ دیا کہ تم چند روز یہیں ٹھہر جاؤ.پھر ایک دو دن بعد بلوا کر پوچھا کہ تم نے یہ صندوق کہاں سے لیا.اس نے سارا ماجرا کہہ دیا کہ جب دلی کے غدر کے موقع پر افرا تفری پڑی تو میں نے سنا ہوا تھا کہ بادشاہ اپنے پاس اس قسم کا ایک مختصر صندوقچہ رکھا کرتے ہیں کہ وقت ضرورت کام آوے.تو میں سب سے پہلے قلعہ میں کودا اور یہ صندو قیر لے بھاگ رئیس کو یقین آ گیا کہ واقعی یہی بات ہے.مگر اس شخص کے ساتھ کہیں دھوکا کیا گیا ہے.اس نے پوچھا تو پھر سارا ماجرا بیان کرو کہ یہاں آنے تک اور کیا کیا باتیں پیش آئیں.تو اس پر اس شخص نے بیان کیا کہ رستے میں ایک اور شخص بھی میرا ہم سفر ہوا اور اس کے پاس بھی ایک صندوق تھا اور وہ یہی تھا.اثنائے راہ میں وہ گاہ گاہ مجھے کھول کر اپنا صندوقچہ دکھایا بھی کرتا تھا اور ذکر کرتا تھا کہ میں نے بھی دلی کی افرا تفری میں حاصل کیا ہے.مگر چونکہ اس کا صندوقچہ میرے سے عمدہ تھا اور اس کا مال بھی میرے مال سے اچھا تھا اور

Page 344

335 پھر وہ گاہ گاہ میرے حوالہ کر کے چلا بھی جاتا تھا اور میرا اعتبار کرتا تھا، میں اس کا اعتبار نہ کرتا اور نہ ہی صندوقچہ اسے کھول کر بتاتا.آخر ہوتے ہوتے مجھے اس کا صندوقچہ پسند آیا.میں نے موقع پا کر اپنا تو پڑا رہنے دیا اور اس کا صند و قیچہ لے بھاگا جو میرے خیال میں میرے والے بکس سے عمدہ اور عمدہ مال والا تھا.اور یہ وہی صندوقچہ ہے جو میں نے اس شخص کا حاصل کیا اور اپنا اس کے واسطے چھوڑا.یہ سارا واقعہ سننے کے بعد اس رئیس نے اس سے کہا کہ اب وہ ہزار روپیہ تو ہم تمہیں دے چکے اور وہ تمہاری محنت کا پھل تھا جو تمہیں مل گیا.مگر اصل بات یہ ہے کہ یہ معمولی جھاڑ فانوس کے ٹکڑے ہیں چاہو ان کو رکھو اور چاہو پھینک دو یہ کسی کام کے نہیں ہیں.اور روشنی کے داروغہ کو بلوا کر اسے ویسے ہزاروں ٹکڑے بتا دیے.یہ دیکھ کر اس بے چارے کی آنکھیں کھلیں اور اپنے کئے پر پچھتایا.رئیس نے کہا کہ خدا رحیم کریم ہے.اس نے تمہاری محنت بالکل ضائع بھی نہ کی اور سزا بھی دے دی کہ تم نے چالاکی سے عمدہ مال حاصل کرنا چاہا تھا.الٹا اس حرص سے ایک گناہ بھی کیا اور اصل مال بھی برباد کیا.اس کا جو حال ہوا ہو گا اس کا ہمیں علم نہیں.غرض انسان چاہتا ہے کہ میں چالا کی اور دھوکہ سے کامیاب ہو جاؤں مگر خدا اس کو عین اسی رنگ میں سزا دیتا ہے اور نا کام کرتا ہے جس رنگ میں خدا کو ناراض کر کے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے.یہ قصہ کہانی نہیں بلکہ ایک واقعہ کا بیان کیا گیا اور عقل مند اس سے عبرت پکڑتے ہیں.میں نے یہ ایک بات کہی ہے.تم اس سے اصل حقیقت کی طرف چلے جاؤ.اللهُ الصَّمَدُ حقیقت میں وہی محتاج الیہ ہے.لَمْ يَلِدْ اس کا کوئی بچہ نہیں کیونکہ وہ صمد ہے اور بچہ لینے کے واسطے بیوی کی حاجت ہوتی ہے.پس وہ لم یلد ہے کیونکہ وہ صمد ہے.خدا کا ولد ماننے میں نہ تو خدا کی صفت صمد ہی رہتی ہے اور نہ صفت احد ہی قائم رہ سکتی ہے.کیونکہ بچے کے واسطے بیوی کی حاجت لازمی ہے اور پھر بیوی اسی جنس اور کفو کی چاہئے تو احد بھی نہ رہا.غرض یہ بالکل سچ ہے کہ لَمْ يَلِدُ ہے وہ ذات پاک.وَلَمْ يُولَدُ اور وہ خود بھی کسی کا بیٹا نہیں.کیونکہ اس میں بھی والدین کی احتیاج لازمی اور کفو ضروری ہے.پس وہ احد ہے.صمد ہے.لَمْ يَلِدْ ہے اور لَمْ يُولَدْ اور لَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا اَحَدٌ ذات ہے.دیکھو میں پھر کہتا ہوں اور درد دل سے نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ صمد ہے.اس کو اپنا محتاج الیہ بنائے رکھو.کھانے پینے ، پہننے ، عزت اکرام ، صحت ، عمر ، علم ، بیوی، بچے اور ان کی تمام ضروریات کے واسطے

Page 345

336 اسی کی طرف جھکو.میں اللہ کے نام کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جب انسان خدا کو اپنا محتاج الیہ یقین کر لیتا ہے اور اس کا کامل ایمان ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی انسان کو کسی انسان کا محتاج نہیں کرتا.میں اپنا ہر روزہ تجربہ بیان کرتا ہوں کہ اللہ محمد ہے.اس پر ناز کرو.خدا کو چھوڑ کر اگر مخلوق پر بھروسہ کرو گے تو بجز ہلاکت کچھ حاصل نہ ہو گا.میں نصیحت کے طور پر تم کو یہ باتیں درد دل سے اور کچی تڑپ سے کہتا ہوں کہ وہ سب کچھ کر سکتا ہے اور ہر ایک ذرہ اس کے اختیار اور تصرف میں ہے.لَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا اَحَدٌ کوئی رسول ہو خواہ نبی ولی ہو یا کوئی غوث و قطب کوئی بھی اس کے لگے کا نہیں.کوئی بھی اس کی برابری نہیں کر سکتا.سب اسی کے محتاج ہیں اور اسی کے نور سے روشنی حاصل کرنے والے ہیں اور اسی سے فیض پا کر دنیا کو پہنچاتے رہتے ہیں.وہی ان سب کے کمال و فضل اور حسن و احسان کے انوار کا منبع اصلی ہے.پس جب ایسا خدا موجود ہے تو پھر ایک مومن انسان کو کیا غم ہے اور کونسی خوشی اس کی باقی رہ گئی ہے؟ حضرت اقدس فرمایا کرتے ہیں کہ کسی کو اپنے مال پر خوشی ہوتی ہے کسی کو یار دوستوں پر مگر مجھے یہ خوشی کافی ہے کہ میرا خدا قادر خدا ہے.مگر یہ باتیں ایمان ، یقین ، فکر اور تدبیر کو چاہتی ہیں اور اس بات کو چاہتی ہیں کہ انسان ہمیشہ رہنے کے واسطے نہیں بنایا گیا.کسی کو کیا علم ہے کہ میں کل رہوں گا یا نہیں.اس واسطے میں جب کبھی وعظ کرنے کھڑا ہوتا ہوں تو ہمیشہ آخری وعظ سمجھ کر کرتا ہوں.خدا جانے پھر کہنے کا موقع ملے گا یا نہیں.اللہ تعالیٰ توفیق دے عمل کی.آمین.خطبه ثانیه ایک دوست نے کل پوچھا تھا کہ صلوٰۃ اور برکات تو سمجھے مگر یہ جو قرآن شریف میں آیا ہے کہ سَلِّمُوا تَسْلِيمًا (الاحزاب :۵۷) سلام اور تسلیم کیا ہوا؟ اس کے واسطے یاد رکھنا چاہئے کہ آنحضرت ایک دین لائے تھے جس کا نام اسلام ہے اور وہ حقیقی خوشی راحت اور خوشحالی کی جڑ اور سرچشمہ ہے.اس کی تعلیم پر چلنے سے انسان ہر دکھ سے نجات پاتا اور ہر سکھ اسے میسر ہوتا ہے.دیکھو میں بہت بڑی عمر پا چکا ہوں اور اب بڑھا ہو گیا ہوں اس لئے میری شہادت اس امر میں کافی ہے.قاعدہ ہے کہ ہر انسان کو ضرور تیں ہوتی ہیں اور کچھ اس کے ارادے اور خواہشات ہوتی ہیں.کبھی کبھی انسان کو ان کے پورا کرنے کی کوششوں میں غلط کار روائی کی وجہ سے تکلیف اٹھانی پڑتی ہیں اور

Page 346

337 بجائے نفع کے نقصان بھگتنا پڑتا ہے.جتنی جتنی کوئی چیز نازک اور عظیم الشان ہوتی ہے اتنا ہی اسے نقصان کا زیادہ اندیشہ ہوتا ہے.دیکھو اسلام بڑا نازک اور عظیم الشان مذہب ہے اس لئے اسے نقصان کا اندیشہ بھی زیادہ ہے.خود قوم کی حالت اور نمونے کا اس پر اثر ہوتا ہے.افراد کی حالت سے قیاس کرلیا جاتا ہے.مسلمان کیسے ذلیل، مفلس اور محتاج ہیں.پھر بائیں کیسے کیسے منصوبے کرتے ہیں.ان میں حد درجے کی کمزوریاں اور ستیاں اور کاہلی موجود ہے.فاسق فاجر اور بدمعاش اچھکے ان میں بھرے پڑے ہیں.جیل ان سے بھرے ہوئے ہیں.پھر بھی جھوٹا فخر، تکبر، بڑائی اور شیخی ایسی کی جاتی ہے کہ گویا تمھیں مارخان یہی ہیں.ذرا سی بات میں وحشی بن جاتے ہیں اور جھوٹے فخر کرتے ہیں کہ تمام دنیا نے جو کچھ سیکھا ہے اسلام سے سیکھا ہے.اچھا اگر دنیا نے اسلام سے سیکھ لیا تو تم نے کیوں نہ سیکھا؟ غرض ان بد اخلاقیوں اور افراد کے رزائل اور ردی حالت سے خود اسلام پر اعتراض اور دھبہ آتا ہے اور دشمنوں کے حملے ہوتے ہیں اور اور قوموں کو ایسے برے نمونے سے نفرت پیدا ہوتی ہے.اسی واسطے مسلمان کو حکم ہے کہ آپ کے واسطے تسلیم مانگے کہ آپ کا دین آپ کے ارادے اور آپ کی تمام آرزوئیں ہر طرح سے محفوظ و ممنون رہیں اور کبھی کسی میں کوئی نقص یا کمزوری اور دھبہ نہ آوے.آمین.ا حکم جلد ۱۲ نمبر ۲۹ ۰۰۰ ۲۲ر اپریل ۱۹۰۸ء صفحه ۵ تا ۷) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 347

۲۴ اپریل ۱۹۰۸ء 338 خطبہ جمعہ تشہد، تعوذ اور تسمیہ کے بعد آپ نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:.قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ - مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ - وَ مِنْ شَرِ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ - وَ مِنْ شَرِ النَّقْتَتِ فِي الْعُقَدِ - وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ (الفلق : ۲ تا۲).اور پھر فرمایا:.چار قل جو نماز میں اور نماز کے بعد پڑھے جاتے ہیں ان میں سے یہ تیسرا قل ہے.قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ - قرآن شریف میں فلق کا لفظ تین طرح پر استعمال ہوا ہے.فَالِقُ الْإِصْبَاحِ (الانعام:۹۷) فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوَى (الانعام (۲) پس خدا فَالِقُ الْإِصْبَاحٌ فَالِقُ الْحَبِّ اور فَالِيُّ النَّوَى ہے.دیکھو رات کے وقت خلقت کیسی ظلمت اور غفلت میں ہوتی ہے.بجز موذی جانوروں کے عام طور سے چرند پرند بھی اس وقت آرام اور ایک طرح کی غفلت میں ہوتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے

Page 348

339 نہایت تاکیدی حکم دیا ہے کہ رات کے وقت گھروں کے دروازے بند کر لیا کرو.کھانے پینے کے برتنوں کو ڈھانک کر رکھا کرو خصوصاً جب اندھیرے کا ابتدا ہو.ا.بچوں کو ایسے اوقات میں باہر نہ جانے دو کیونکہ وہ وقت شیاطین کے زور کا ہوتا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی تصدیق جو کہ آج سے تیرہ سو برس پیشتر ایک امی بیابان عرب کے ریگستانوں کے رہنے والے کے منہ سے نکلا تھا آج اس روشنی اور علمی ترقی کے زمانہ میں بھی نہایت باریک در بار یک محنتوں اور کوششوں کی تحقیقات کے بعد بھی ہو رہی ہے.جو کچھ آپ نے آج سے تیرہ سو برس پیشتر فرمایا تھا آج بڑی سرزنی اور ہزار کوشش کے بعد بھی کوئی سچا علم یا سائنس اسے جھوٹا نہیں کر سکا.اس نئی تحقیقات سے جو کچھ ثابت ہوا ہے وہ بھی یہی ہے کہ کل موذی اجرام اندھیرے میں اور خصوصاً ابتداء اندھیرے میں جوش مارتے ہیں مگر لوگ بباعث غفلت ان امور کی قدر نہیں کرتے.رات کی ظلمت میں عاشق اور معشوق، قیدی اور قید کننده ، بادشاہ اور فقیر، ظالم اور مظلوم سب ایک رنگ میں ہوتے ہیں اور سب پر غفلت طاری ہوتی ہے.ادھر صبح ہوئی اور جانور بھی پھڑ پھڑانے لگے.مرغ بھی آواز میں دینے لگے.بعض خوش الحان آنے والی صبح کی خوشی میں اپنی پیاری راگنیاں گانے لگے.غرض انسان، حیوان، چرند پرند سب پر خود بخود ایک قسم کا اثر ہو جاتا ہے اور جوں جوں روشنی زور پکڑتی جاتی ہے توں توں سب ہوش میں آتے جاتے ہیں.گلی کوچے بازار دوکانیں ، جنگل ویرانے“ سب جو کہ رات کو بھیانک اور سنسان پڑے تھے ان میں چہل پہل اور رونق شروع ہو جاتی ہے.گویا یہ بھی ایک قسم کا قیامت اور حشر کا نظارہ ہوتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَالِقُ الْإِصْبَاحِ میں ہوں.حب.گیہوں، جو چاول وغیرہ اناج کے دانوں کو کہتے ہیں.دیکھو کسان لوگ بھی کس طرح سے اپنے گھروں میں سے نکال کر باہر جنگلوں میں اور زمین میں پھینک آتے ہیں.وہاں ان کو اندھیرے اور گرمی میں ایک کیڑا لگ جاتا ہے اور دانے کو مٹی کر دیتا ہے.پھر وہ نشو و نما پاتا، پھیلتا پھولتا ہے اور کس طرح ایک ایک دانہ کا ہزار درہزار بن جاتا ہے.اسی طرح ایک گٹک (گٹھلی) کیسی رہی اور ناکارہ چیز جانی گئی ہے.لوگ آم کا رس چوس لیتے ہیں، گٹھلی پھینک دیتے ہیں.عام طور سے غور کر کے دیکھ لو کہ گٹھلی کو ایک ردی اور بے فائدہ چیز جانا گیا ہے.مختلف پھلوں میں جو چیز کھانے کے قابل ہوتی ہے وہ کھائی جاتی ہے اور گٹھلی پھینک دی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں فَالِقُ الْحَب وَالنَّوَى (الانعام ۹۲) ہوں.اس چیز کو جسے تم لوگ ایک ردی سمجھ کر پھینک دیتے ہو اس سے کیسے کیسے درخت پیدا کرتا ہوں کہ انسان، حیوان، چرند پرند سب اس

Page 349

340 سے مستفید ہوتے ہیں.ان کے سائے میں آرام پاتے ہیں.ان کے پھلوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں.میوے، شربت غذا ئیں دوائیں اور مقوی اشیاء خوردنی ان سے مہیا ہوتی ہیں.ان کے پتوں اور ان کی لکڑی سے بھی فائدہ اٹھاتے ہو.گٹھلی کیسی ایک حقیر اور ذلیل چیز ہوتی ہے مگر جب وہ خدائی تصرف میں آکر خدا کی ربوبیت کے نیچے آجاتی ہے تو اس سے کیا کا کیا بن جاتا ہے.غرض اس چھوٹی سی سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے لفظ فلق کے نیچے باریک دربار یک عمتیں رکھی ہیں اور انسان کو ترقی کی راہ بتائی ہے کہ دیکھو جب کوئی چیز میرے قبضہ قدرت اور ربوبیت کے ماتحت آجاتی ہے تو پھر وہ کس طرح ادنیٰ اور ارذل حالت سے اعلیٰ بن جاتی ہے.پس انسان کو لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ان صفات کو مد نظر رکھ کر اور اس کی کامل قدرت کا یقین کر کے اور اس کے اسماء اور صفات کاملہ کو پیش نظر رکھ کر اس سے دعا کرے تو اللہ تعالٰی ضرور اسے بڑھاتا اور ترقی دیتا ہے.مجھے ایک دفعہ ایک نہایت مشکل امر کے واسطے اس دعا سے کام لینے سے کامیابی نصیب ہوئی تھی.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں لاہور گیا.میرے آشنا نے مجھے ایک جگہ لے جانے کے واسطے کہا اور میں اس کے ساتھ ہو لیا.مگر نہیں معلوم کہ کہاں لے جاتا ہے اور کیا کام ہے؟ اس طرح کی بے علمی میں وہ مجھے ایک مسجد میں لے گیا جہاں بہت لوگ جمع تھے.قرائن سے مجھے معلوم ہوا کہ یہ کسی مباحثہ کی تیاری ہے.میری چونکہ نماز عشا باقی تھی میں نے ان سے کہا کہ مجھے نماز پڑھ لینے دو.یہ مجھے ایک موقع مل گیا کہ میں دعا کر لوں.خدا کی قدرت! اس وقت میں نے اس سورۃ کو بطور دعا پڑھا اور باریک در بار یک رنگ میں اس دعا کو وسیع کر دیا اور دعا کی کہ اے خدائے قادر و توانا! تیرا نام فَالِقُ الْإِصْبَاحِ فَالقُ الْحَبِّ وَالنَّوَى ہے.میں ظلمات میں ہوں، میری تمام ظلمتیں دور کر دے اور مجھے ایک نور عطا کر جس سے میں ہر ایک ظلمت کے شر سے تیری پناہ میں آجاؤں.تو مجھے ہر امر میں ایک حجت نیرہ اور برہان قاطعہ اور فرقان عطا فرما.میں اگر اندھیروں میں ہوں اور کوئی علم مجھ میں نہیں ہے تو تو ان ظلمات کو مجھ سے دور کر کے وہ علوم مجھے عطا فرما اور اگر میں ایک دانے یا گٹھلی کی طرح کمزور اور ردی چیز ہوں تو تو مجھے اپنے قبضہ قدرت اور ربوبیت میں لے کر اپنی قدرت کا کرشمہ دکھا.غرض اس وقت میں نے اس رنگ میں دعا کی اور اس کو وسیع کیا جتنا کہ کر سکتا تھا.بعدہ میں نماز سے فارغ ہو کر ان لوگوں کی طرف مخاطب ہوا.خدا کی قدرت کہ اس وقت جو مولوی میرے ساتھ مباحثہ کرنے کے واسطے تیار کیا گیا تھا وہ بخاری لے کر میرے سامنے بڑے ادب سے شاگردوں کی طرح بیٹھ گیا اور کہا یہ مجھے آپ پڑھادیں.وہ صلح حدیبیہ کی ایک حدیث تھی.حضرت مرزا صاحب کے متعلق اس میں کوئی ذکر نہ تھا.

Page 350

341 لوگ حیران تھے اور میں خدا تعالٰی کے تصرف اور قدرت کاملہ پر خدا کے جلال کا خیال کرتا تھا.آخر لوگوں نے اس سے کہا کہ یہاں تو مباحثہ کے واسطے ہم لائے تھے ، تم ان سے پڑھنے بیٹھ گئے ہو.اگر پڑھنا مقصود ہے تو ہم مولوی صاحب کی خدمت میں عرض کر دیتے.ان کے ساتھ جموں چلے جاؤ اور روٹی بھی مل جایا کرے گی.ہی وہی شخص ایک بار پھر مجھے ملا اور کہا کہ میں اپنی خطا معاف کرانے آیا ہوں کہ میں نے کیوں آپ کی بے ادبی کی؟ میں حیران تھا کہ اس نے میری کیا بے ادبی کی؟ حالانکہ اس وقت بھی اس نے میری کوئی بے ادبی نہ کی تھی.غرض یاد رکھو کہ خدا تعالی بڑا قادر خدا ہے اور اس کے تصرفات بہت یقینی ہیں.اس وقت تم لوگوں کے سامنے ایک زندہ نمونہ رَبُّ الْفَلَقِ کے ثبوت میں کھڑا ہے.اپنے ایمان تازہ کرو اور یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ سچی تڑپ اور درد دل کی دعا کو ہرگز ہر گز ضائع نہیں کرتا.مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ مخلوق الہی میں بعض چیزیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ بعض اوقات انسان کے واسطے مضر ہو جاتی ہیں.ان سے بھی اللہ تعالی ہی بچا سکتا ہے کیونکہ وہ بھی خدا ہی کے قبضہ قدرت میں ہیں.وَ مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ اور اندھیرے کے شرسے جب وہ بہت اندھیرا کر دیوے.ہر اندھیرا ایک تمیز کو اٹھاتا ہے.جتنے بھی موذی جانور ہیں مثلاً مچھر، پسو، کھٹمل ، جوں، ادنیٰ سے اعلیٰ اقسام تک کل موذی جانوروں کا قاعدہ ہے کہ وہ اندھیرے میں جوش مارتے ہیں اور اندھیرے کے وقت ان کا ایک خاص زور ہوتا ہے.ظلمت بھی بہت قسم کی ہے.ایک ظلمت فطرت ہوتی ہے.جب انسان میں ظلمت فطرت ہوتی ہے تو اس کو ہزار دلائل سے سمجھاؤ اور لاکھ نشان اس کے سامنے پیش کرو وہ اس کی سمجھ میں ہی نہیں آ سکتے.ایک ظلمت جہالت ہوتی ہے.ایک ظلمت عادت، ظلمت رسم ظلمت صحبت، ظلمت معاصی غرض یہ سب اندھیرے ہیں.دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان سب سے محفوظ رکھے.وَ مِنْ شَرِّ النَّقْتَتِ فِي الْعُقَدِ اس قسم کے شریر لوگ بہت خطرناک ہوتے ہیں.میں نے اس قسم کے لوگوں کی بہت تحقیقات کی ہے اور اس میں مشغول رہا ہوں اور طب کی وجہ سے ایسے لوگوں سے مجھے واسطہ بھی بہت پڑا ہے کیونکہ اس علم کی وجہ سے ایسے لوگوں کو بھی میرے پاس آنے کی ضرورت پڑتی ہے اور میں نے ان لوگوں سے دریافت کیا ہے.ان لوگوں کو خطرناک قسما قسم کے زہر یاد ہوتے ہیں جن کے ذریعہ سے بعض امراض انسان کے لاحق حال ہو جاتی ہیں.وہ زہر یہ لوگ بار یک دربار یک تدابیر

Page 351

342 سے خادماؤں یا چوہڑیوں کے ذریعہ سے لوگوں کے گھروں میں دفن کرا دیتے ہیں.آخر کار ان کے اثر سے لوگ بیمار ہو جاتے ہیں.پھر ان کے چھوڑے ہوئے لوگ مرد اور عورتیں ان بیماروں کو کہتی ہیں کہ کسی نے تم پر جادو کیا ہے، کسی نے تم پر سحر کیا ہے.لہذا اس کا علاج فلاں شخص کے پاس ہے.آخر مرتا کیا نہ کرتا.لوگ ان کی طرف رجوع کرتے ہیں.اور یہ لوگ اپنی مستورات کے ذریعہ سے چونکہ ان کو علم ہوتا ہے کہ وہ زہر کہاں مدفون ہے اور ان کے پاس ایک باقاعدہ فہرست ہوتی ہے، وہ زہر مدفون نکال کر ان کو بتاتے ہیں اور اس طرح سے ان بیماروں کا اعتقاد اور بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے.پھر ان لوگوں کو چونکہ ان زہروں کے تریاق بھی یاد ہوتے ہیں ان کے استعمال سے بعض اوقات تعویذ کے رنگ میں لکھ کر پلوانے سے یا کسی اور ترکیب سے ان کا استعمال کراتے ہیں اور ان سے ہزاروں روپیہ عاصل کرتے ہیں.اس طرح سے بعض کو کامیاب اور بعض کو ہلاک کرتے ہیں.ایک تو یہ لوگ ہیں جو لوگوں کو اپنے فائدے کی غرض سے قسما قسم کی ایذائیں پہنچاتے ہیں.دوسری قسم کے وہ شریر لوگ ہیں جو مومنوں کے کاروبار میں اپنی بد تدابیر سے روک اور حرج پیدا کرتے ہیں اور اس طرح سے پھر مومنوں کی کامیابی میں مشکلات پیدا ہو جاتے ہیں.مگر آخر کار وہ ناکام رہ جاتے ہیں اور مومنین کا گروہ مظفر و منصور اور بامراد ہو جاتا ہے.وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ کسی کی عزت بھلائی بڑائی بہتری اکرام اور جاہ و جلال کو دیکھ کر جلنے والے لوگ بھی بڑے خطرناک ہوتے ہیں.کیونکہ وہ بھی انسانی ارادوں میں بوجہ اپنے حسد کے روک پیدا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں.غرض یہ سورۃ مشتمل ہے ایک جامع دعا پر.رسول اکرم نے اس سورۃ کے نزول کے بعد بہت سی تعوذ کی دعائیں ترک کر دی تھیں اور اسی کا ورد کیا کرتے تھے.حتی کہ بیماری کی حالت میں بھی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا اس سورۃ کو آپ کے دست مبارک پر پڑھ پڑھ کر آپ کے منہ اور بدن پر ملتی تھیں.مگر افسوس کہ مسلمانوں نے عام طور سے اب ان عجیب پر تاثیر اور اد کو قریباً ترک ہی کر دیا ہے.انسان جب ایک گناہ کرتا ہے تو اسے دوسرے کے واسطے بھی تیار رہنا چاہئے.کیونکہ ایک گناہ دوسرے کو بلاتا ہے.اور اسی طرح ایک نیکی دوسری نیکی کو بلاتی ہے.دیکھو بد نظری ایک گناہ ہے.جب انسان اس کا ارتکاب کرتا ہے تو دوسرے گناہ کا بھی اسے ارتکاب کرنا پڑتا ہے اور زبان کو بھی اس طرح شامل کرتا ہے کہ کسی سے دریافت کرتا ہے کہ یہ عورت کون ہے کس جگہ رہتی ہے وغیرہ وغیرہ.اب زبان بھی ملوث ہوئی اور ایک دوسرا شخص بھی اور جواب سننے کی وجہ سے کان بھی شریک گناہ ہو

Page 352

343 گئے.اس کے بعد اس کے مال اور روپیہ پر اثر پڑتا ہے اور اس گناہ کے حصول کے واسطے روپیہ بھی خرچ کرنا پڑتا ہے.غرض ایک گناہ دوسرے کا باعث ہوتا ہے.پس مسلمان انسان کو چاہئے کہ ایسے ارادوں کے ارتکاب سے بھی بچتا رہے اور خیالات فاسدہ کو دل میں ہی جگہ نہ پکڑنے دے اور ہمیشہ دعاؤں میں لگا رہے.انسان اپنی حالت کا خود اندازہ لگا سکتا ہے.اپنے دوستوں اور ہم نشینوں کو دیکھتا رہے کہ کیسے لوگوں سے قطع تعلق کیا ہے اور کیسے لوگوں کی صحبت اختیار کی ہے.اگر اس کے یار آشنا اچھے ہیں اور جن کو اس نے چھوڑا ہے ان سے بہتر ا سے مل گئے ہیں جب تو خوشی کا مقام ہے ورنہ بصورت دیگر خسارہ میں.دیکھنا چاہئے کہ جو کام چھوڑا ہے اور جو اختیار کیا ہے ان میں سے اچھا کون سا ہے.اگر برا چھوڑ کر اچھا کام اختیار کیا ہے تو مبارک درنہ خوف کا مقام ہے.کیونکہ ہر نیکی دوسری نیکی کو اور ہر بدی دوسری بدی کو بلاتی ہے.اللہ تعالیٰ تم لوگوں کو توفیق دے کہ تم اپنے نفع اور نقصان کو سمجھ سکو اور نیکی کے قبول کرنے اور بدی کے چھوڑنے کی توفیق عطا ہو.الحکم جلد ۱۲ نمبر۳۷-۰-۱۶ جون ۱۹۰۸ء صفحه ۳-۴) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 353

་ ། ་ ་། །།

Page 354

345 بعد از خلافت

Page 355

Page 356

هار جون ۱۹۰۸ء 347 خطبه جمعه تشهد و تعوذ کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الاول ایدہ اللہ تعالی نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:.يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اسْتَعِيْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلُوةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِيْنِ وَلَا تَقُوْلُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ اَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاء وَ لَكِنْ لا تَشْعُرُونَ - وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَ الْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ الَّذِيْنَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنِ - أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوْتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ (البقرة: ۱۵۳تا ۱۵۸)- اور پھر فرمایا:.اللہ تعالیٰ کے یہ کلمات جو میں نے تم کو اس وقت سنائے ہیں معمولی وعظ نہیں ہے اور نہ ہی ان کے متعلق کچھ بیان کرنا آج میرا مقصد تھا.یہ ایک علم ہے اور الہی علم ہے جو تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں.کلام خدا کا ہے، انسان کا کلام نہیں.خدا کی پاک اور مجید کتاب کی کچی تعلیم ہے، وہی کتاب جس

Page 357

348 کے واسطے اب اور پہلے بھی تم سب نے امام صاحب کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور وہ کامل کتاب ہے.چنانچہ خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَوْلَمْ يَكْفِهِمْ إِنَّا اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ يُتْلَى عَلَيْهِمْ (العنكبوت:۵۳) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے وقت قلم دوات منگائی اور چاہا کہ میں تم کو ایسی بات لکھ دوں کہ لَنْ تَضِلُّوا (بخاری کتاب المرضی) کہ تم میرے بعد کبھی گمراہ نہ ہو.جن لوگوں کی عقل باریک اور سمجھ مضبوط اور علم کامل تھا وہ سمجھ گئے کہ انہوں نے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے پاک کلام کی طرف متوجہ کیا.اور جس کی زبان پر حق چلتا تھا اس نے اس بات کا یقین کر لیا کہ آپ جو بات بھی لکھتا چاہتے تھے وہ یہی پاک کتاب تھی.چنانچہ اس نے صاف کہا کہ حَسْبُنَا كِتَابُ اللهِ.یہ ایک نکتہ معرفت ہے جو ایک زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کھولا تھا.آنحضرت کی زبان سے یہ الفاظ نکلے ہیں کہ میں ایسی بات لکھ دوں کہ لَنْ تَضِلُّوا.پس تطابق سے صاف یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن ایک کافی کتاب ہے.آج یہ جو دو آیات میں نے تمہارے سامنے پڑھی ہیں یہ میرے کسی خاص ارادے، غور و فکر کا نتیجہ نہیں اور نہ میں نے کوئی تیاری قبل از وقت اس مضمون اور ان آیات کے متعلق آج خطبہ جمعہ میں سنانے کی کی تھی.وعظ کا بیشک میں عادی ہوں مگر یہ آیتیں محض اللہ تعالی کی ہی طرف سے دل میں ڈالی گئیں.اس کا مطلب سمجھنے کے واسطے میں پہلے تمہیں تاکید کرتا ہوں.توجہ سے سنو اور یاد رکھو.جب تمہیں کوئی وسوسہ پیدا ہو تو پہلے دائیں طرف تھوک دو پھر لاحول پڑھو اور ان باتوں کو کثرت سے استعمال کرو.دعا کرو.پھر تاکید سے کہتا ہوں کہ اب تمہارا کام یہ ہے کہ ہتھیار بند ہو جاؤ.کمریں کس لو اور مضبوط ہو جاؤ.وہ ہتھیار کیا ہیں؟ یہی کہ دعائیں کرو.استغفار لاحول، درود اور الحمد شریف کا ورد کثرت سے کرو.ان ہتھیاروں کو اپنے قبضہ میں لو اور ان کو کثرت سے استعمال کرو.میں ایک تجربہ کار انسان کی حیثیت سے اور پھر اس حیثیت سے کہ تم نے مجھ سے معاہدہ کیا ہے اور میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے تم کو بڑے زور سے اور تاکیدی حکم سے کہتا ہوں کہ سرسے پاؤں تک ہتھیاروں میں محفوظ ہو جاؤ اور ایسے بن جاؤ کہ کوئی موقع دشمن کے وار کے واسطے باقی نہ رہنے دو.بائیں طرف تھوکنا ااحول کا پڑھنا، استغفار، درود اور الحمد شریف کا کثرت سے وظیفہ کرنا ان ہتھیاروں سے مسلح ہو کر ان آیات کا مضمون سن لو.تم نے سنا ہو گا اور مخالفوں نے بھی محض اللہ کے فضل سے اس بات کی گواہی دی ہے اور تم میں سے

Page 358

349 بعض نے اپنی آنکھ سے بھی دیکھا ہو گا کہ حدیث شریف میں آیا.الْمَبْطُونُ شَهِيدٌ (بخاری کتاب الجہاد) وہ جو دستوں کی مرض سے وفات پاوے وہ شہید ہوتا ہے.مبطون کہتے ہیں جس کا پیٹ چلتا ہو یعنی دست جاری ہو جاویں.اب جائے غور ہے کہ آپ کی وفات اسی مرض دستوں سے ہی واقع ہوئی ہے.اب خواہ اسی پرانے مرض کی وجہ سے جو مدت سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور ایک نشان کے آپ کے شامل حال تھا یا بقول دشمن وہ دست ہیضہ کے تھے ، بہر حال جو کچھ بھی ہو یہ امر قطعی اور یقینی ہے کہ آپ کی وفات بصورت مہلون ہونے کے واقع ہوئی ہے.پس آپ بموجب حدیث صحیح کہ مبطون جو مرض دست سے خواہ کسی بھی رنگ میں کہو وفات پانے والا شہید ہوتا ہے.پس اس طرح سے خود دشمنوں کے منہ سے بھی آپ کی شہادت کا اقرار خدا نے کرا دیا.يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللہ سے مراد لڑائی اور جنگ ہوتی ہے.لڑائی اور جنگ ہی میں صلح ہوتی ہے.خدا نے آپ کو پیغام صلح دینے کے بعد اٹھایا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب جنگ کا خاتمہ ہونے کو ہے کیونکہ اب صلح کا پیغام ڈالا گیا ہے.مگر خدا کی حکمت اس میں یہی تھی کہ آپ کو حالت جنگ ہی میں بلا لے تا آپ کا اجر جہاد فی سبیل اللہ کا جاری اور آپ کو رتبہ شہادت عطا کیا جاوے.یہی وجہ ہے کہ عملی طور پر اس صلح کی کارروائی کے انجام پذیر ہونے سے پہلے جبکہ ابھی زمانہ زمانہ جنگ ہی کہلاتا تھا اٹھالیا.عجیب بات یہ ہے کہ آپ نے اس سے کئی سال پہلے ایک دفعہ کل شہر کو بلا کر شیخ میراں بخش کی کو ٹھی میں جو کہ عین شہر کے وسط میں واقع ہے ایک فیصلہ سنایا اور اس کا نام آپ نے فیصلہ آسمانی رکھا.عزیز عبد الکریم مرحوم کو کچھ تو اس خیال سے کہ ان کی آواز اونچی اور دلربا بھی تھی، شاید ان کو خود ان کی اپنی آواز پر بھی کچھ خیال ہو گا اور کچھ اس جوش سے جو عموماً ایسے موقعوں پر ہوا کرتا تھا اس امر کی درخواست کی کہ میں یہ مضمون سناؤں.مگر آپ نے بڑے جوش اور غضب سے کہا کہ اس مضمون کا سنانا بھی میرا ہی فرض ہے.غرض ہزاروں ہزار مخلوق کے مجمع میں ایک مضمون آپ نے بیان کیا اور آپ نے دعاوی کو لوگوں کے سامنے پیش کیا.پھر اس کے بعد دوسرے موقع جلسہ اعظم مذاہب میں آپ کے بے نظیر اور پر حقایق لیکچر کے سنائے جانے سے دنیا پر حجت قائم ہو گئی.پھر آپ نے میلہ رام کے مکان پر ایک پر زور لیکچر تحریری اور تقریری دیا.پھر اس کے بعد آپ نے ہم لوگوں کو حکم دیا کہ آریہ قوم پر بھی حجت قائم کر دی جاوے اور اس غرض کے پورا کرنے کے واسطے آپ نے ایک مضمون دیا جو کہ شہادت کے طور پر سنایا گیا اور جس میں آپ کا حقیقی مذہب اور سچا اعتقاد دلی آرزو سچی تڑپ اور خواہش تھی.وہ دے کر ہمیں بھیجا اور ہمارے آنے

Page 359

350 جانے کے کثیر اخراجات کو برداشت کیا.غرض اس طرح سے بھی آپ نے لاہور جیسے دارالحکومت میں لوگوں پر اپنی حجت ملزمہ قائم کر دی.پھر اس کے بعد آخری سفر میں بھی تمام امراء کو دعوت دیکر ان کو اپنے دعاوی، دلائل اعتقاد اور مذہب پہنچا دیا.آپ نے اپنے پیغام رسالت کو جس شان اور دھوم سے دارالسلطنت میں بار بار پہنچایا، میں نہیں سمجھ سکتا کہ اب بھی کوئی یہ کہہ دے کہ آپ جس کام کے واسطے آئے تھے وہ ابھی پورا نہیں ہوا یا نا تمام رہ گیا.اب آخر کار اس گرمی کے موسم میں حالت سفر میں اور جنگ میں آپ نے پیغام صلح دیا.مگر قبل اس کے کہ وہ صلح اپنا عملی رنگ پکڑے خدا نے آپ کو اٹھا لیا تا آپ حالت جنگ میں وفات پانے کا غیر منقطع اجر پاویں.اب اللہ تعالی کہتا ہے تأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلوة إِنَّ اللهَ مَعَ الصَّبِرِينَ وَ لَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاء وَلَكِنْ لا تَشْعُرُونَ ہم سناتے ہیں.ذرا غور سے توجہ سے اور خبردار ہو کر سن لو.اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! کیا کہتے ہیں؟ یہی کہ تم ان لوگوں کے حق میں یہ کبھی بھی مت کیو.جو خدا کی راہ میں جان خرچ کر گئے ہیں اور خدا کی راہ میں شہید ہوئے ہیں کیامت کیو؟ یہ مت کہیو کہ وہ مر گئے ہیں.وہ مرے نہیں بلکہ وہ زندہ ہیں.آپ نے خدا کی راہ میں تبلیغ احکام الہیہ میں خدا کی راہ میں حالت سفر میں وفات پائی ہے.پس یہ خدا کا حکم ہے اور کوئی بھی اس بات کا مجاز نہیں کہ آپ کو مردہ کہے.آپ مردہ نہیں، آپ ہلاک شدہ نہیں، بَلْ أَحْيَاءُ بلکہ زندہ ہیں.یاد رکھو کہ یہ نہی الہی ہے.ہم وجوہات نہیں جانتے کہ ایسا کیوں حکم دیا گیا بلکہ اس جگہ ایک اور نکتہ بھی قابل یاد ہے اور وہ یہ ہے کہ اور جگہ جہاں شہداء کا ذکر کیا ہے وہاں أَحْيَاء عِنْدَ رَبِّهِمْ کا لفظ بھی بولا ہے مگر اس مقام پر عِندَ ربھم کا لفظ چھوڑ دیا ہے.دیکھو انسان جب مرتا ہے تو اس کے اجزا متفرق ہو جاتے ہیں.مگر یہ خدا کا خاص فضل ہے کہ اس نے حضرت مرزا صاحب کی جماعت کو جو بمنزلہ آپ کے اعضاء کے اور اجزا کے تھی اس تفرقہ سے بچالیا اور اتفاق اور اتحاد اور وحدت کے اعلیٰ مقام پر کھڑا کر کے آپ کی زندگی اور حیات ابدی کا پہلا زندہ ثبوت دنیا میں ظاہر کر دیا.صرف تخم ریزی ہی نہیں کی بلکہ دشمن کے منہ پر خاک ڈال کر وحدت کو قائم کر دیا.دیکھو! یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے الْمَبْطُونَ شَهِيدٌ.اور دوسری طرف قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں جھنجوڑ کر کہا ہے کہ مردہ مت کہو بلکہ یہ کہو کہ احیاء.یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی.ہم نے خود دم نکلتے دیکھا.غسل دیا، کفن دیا اور اپنے ہاتھوں سے گاڑ دیا اور خدا کے سپرد کیا.

Page 360

351 پھر یہ کیسے ہو کہ مرے نہیں بلکہ زندہ ہیں.مگر دیکھو اللہ فرماتا ہے کہ تمہارا شعور غلطی کرتا ہے.میں یہ مسئلہ اپنے بھائیوں کے سامنے پیش کرتا ہوں کہ وہ اپنے اندر غیرت پیدا کریں اور بچے جوش جو حق اور راستی کے قبول کرنے سے ان میں موجود ہو گئے ہیں ان کا اظہار کریں اور ہمیں دکھا دیں کہ واقعی ان میں ایک غیرت اور حمیت ہے اور ان مخالفوں سے پوچھیں کہ دشمن جو کہتا ہے کہ ہیضہ سے مرے ہیں.اچھا مان لیا کہ دشمن سچ کہتا ہے.پھر ہیضہ سے مرنا شہادت نہیں ہے؟ پیغام صلح جنگ کو ثابت کرتا ہے اور دشمن بھی اس بات کو تسلیم کرنے گا کہ واقعی آپ کی وفات عین جہاد فی سبیل اللہ میں واقع ہوئی ہے.دشمن نے خود بھی ہر طرح سے مورچہ بندی کی ہوئی تھی اور اپنے پورے ہتھیاروں سے اپنی حفاظت کے سامان کرنے کی فکر میں لگ رہا تھا.اراکین اور امراء کو دعوت دیکر آپ نے اپنے تمام دعاوی پیش کئے تھے یا کہ نہیں ؟ پس ان سب لوازم کے ہوتے ہوئے بھی اگر دشمن آپ کے احیاء کے قائل نہیں تو جانور ہیں..مانا کہ یہ رنگ ہمارے واسطے ایک ابتلائی رنگ ہے.صاحبزادہ میاں مبارک احمد کی وفات اور پھر خود حضرت اقدس علیہ الصلوۃ و السلام کا کوچ کرنا واقعی اپنے اندر ضرور ابتلاء کا رنگ رکھتے ہیں مگر اس سے خدا ہم کو انعام دینا چاہتا ہے.انعام الہی پانے کے واسطے ضروری ہوتا ہے کہ کچھ خوف بھی ہو.خوف کس کا؟ خوف اللہ کا خوف دشمن کا خوف بعض نادان ضعیف الایمان لوگوں کے ارتداد کا مگر وہ بہت تھوڑا ہو گا.یہ ایک پیشگوئی ہے اور اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ خدا فرماتا ہے کہ میری راہ میں کچھ خوف آوے گا، کچھ جوع ہو گی.جوع یا تو روزہ رکھنے سے ہوتی ہے.مطلب یہ ہے کہ کچھ روزے رکھو اور یا اس رنگ میں جوع اپنے اوپر اختیار کرو کہ صدقہ خیرات اس قدر نکالو کہ بعض اوقات خود تم کو فاقہ تک نوبت پہنچ جاوے.اپنے مالوں کو خدا کی راہ میں اتنا خرچ کرو کہ وہ کم ہو جاویں.اور جانوں کو بھی اسی کی راہ میں خرچ کرو.علیٰ ہذا پھلوں کو بھی خدا کی راہ میں خرچ کرو.وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اور ایسے لوگوں کو جو مصائب اور شدائد کے وقت ثابت قدم رہتے ہیں اور نیکی پر ثبات رکھتے ہیں خدا کو نہیں چھوڑتے اور کہتے ہیں کہ ہم سب الہی رضا کے واسطے ہی پیدا ہوئے ہیں.جس طرح وہ راضی ہو اس راہ سے ہم اس کے حضور اس کو خوش کرنے کے واسطے حاضر و تیار اور کمر بستہ ہیں.ہم نے اس کے حضور حاضر ہونا ہے.پس جس کے حضور انسان نے ایک نہ ایک دن حاضر ہونا ہے وہ اگر اس سے خوش نہیں تو پھر اس ملاقات کے دن سرخروئی کیسے ہو

Page 361

352 گی؟ پس تم خود ہی پیشتر اس کے کہ خدا کی طرف سے تم پر خوف جوع اور نقص اموال اور ثمرات کا ابتلا آوے خود اپنے اوپر ان باتوں کو اپنی طرف سے خدا کی خوشنودی کے حصول کے واسطے وارد کر لو تاکہ دوہرا اجر پاؤ اور یہ قدم خدا کے لئے اٹھاؤ تاکہ اس کا بہتر بدلہ خدا سے پاؤ اور یہ مصائب دینی نہیں بلکہ صرف معمولی اور دنیوی ہوں گے.زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ دشمن برا بھلا کہہ لے گا.کوئی گندہ گالیوں کا بھرا اشتہار دید ینگ یا خفگی اور ناراضگی کے لجہ میں کوئی بودا سا اعتراض کر دے گا مگر اللہ تعالی فرماتا ہے که لَنْ يَضُرُّوكُمْ إِلا أَذًى (ال عمران ) یہ تکلیف ایک معمولی سی ہو گی کوئی بڑی بھاری تکلیف نہ ہو گی.دیکھو خدا نے ہم کو بڑی مصیبت سے بچا لیا کہ تفرقہ سے بچالیا.اگر تم میں تفرقہ ہو جاتا اور موجودہ رنگ میں تم وحدت کی رسی میں پروئے نہ جاتے اور تم تر بتر ہو جاتے تو واقعی بڑی بھاری مصیبت تھی اور خطرناک ابتلا.مگر یہ خدا کا خاص فضل ہے.اگر کچھ تھوڑی سی تکلیف ہم کو ہوگی بھی تو میں ہو گی.اس کا مابعد الموت سے کوئی واسطہ یا تعلق نہیں بلکہ مابعد الموت کو باعث اجر اور رحمت الہی ہوگی.اور اس تھوڑی سی مشکل پر صبر کرنے اور مستقل رہنے اور کچے دل سے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کہنے کا بہتر سے بہتر بدلہ دینے کی قدرت اور طاقت رکھنے والا تمہارا خدا موجود ہے.وہ خاص رحمتیں جو کہ ورثہ انبیاء اور شہداء ہوتی ہیں وہ بھی تمہیں عطا کرے گا اور عام رحمتیں تمہارے شامل حال کرے گا اور آئندہ ہدایت کی راہیں اور ہر مشکل سے نجات پانے کی ہر دکھ سے نکلنے، ہر سکھ اور کامیابی کے حصول کی راہیں تم پر کھول دے گا.دیکھو میں یہ اپنی طرف سے نہیں کہتا.بلکہ بلوح خدا ہمیں است.خدا کے اپنے وعدہ سے ہیں اور خدا اپنے وعدے کا سچا ہے.آج کا مضمون اور اس کی تحریک محض خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے دل میں ڈالی گئی ہے ورنہ میں نے نہ اس کا ارادہ کیا تھا اور نہ اس کے واسطے کوئی تیاری کی تھی.پس یہ خدا کی بات ہے میں تم کو پہنچاتا ہوں در تاکید کرتا ہوں کہ ایسے اوقات میں تم کثرت دعا استغفار، درود لاحول الحمد شریف کا ورد کیا کرو.میں بھی دعا کرتا ہوں.اور اللہ تعالٰی فرماتا ہے لَوْ انْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيْعًا مَّا الَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبهمْ (الانفال:۲۴).دیکھو دو کو ایک کرنا سخت سے سخت مشکل کام ہے.تو پھر ہزاروں کا ایک راہ پر جمع کرنا اور ان میں وحدت اور الفت کا پیدا کر دینا خدا کے فضل کے سوا کہاں ممکن ہے؟ دیکھو تم خدا کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے ہو.اس نعمت کی قدر کرو اور اس کی حقیقت کو پہچانو اور اخلاص اور ثبات کو اپنا شیوہ بناؤ.

Page 362

اله 353 خطبہ ثانیہ میں فرمایا:.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ ایک تو خدا کی حمد کیا کرو.وہ اشارہ الحمد شریف کی طرف ہے، اس کا کثرت سے ورد کرو.استعانت بھی اسی سے چاہو.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحه :) کی طرف اشارہ ہے.استغفار کی الگ بار بار تم کو تاکید کر دی گئی ہے.ایمان اَشْهَدُ اَنْ لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ وَ اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ کے بچے مفہوم اور حقیقت پر کار بند ہونے کا نام ہے.اسی پر توکل کرو اور ہمیشہ پچھلے گناہوں کے بد نتائج سے بچنے کے واسطے دعاؤں میں مصروف رہو.جمعہ کے دن کثرت درود اور درد دل سے درود پڑھنا اللہ کی جناب میں اکسیر کا کام کرتا ہے.اللہ کو یاد کرو.جتنا جتنا تم خدا کو یاد کرو گے اتنا ہی وہ بھی تم کو یاد کرے گا اور تمہاری دعاؤں کو قبول فرمائے گا.فقط.ا حکم جلد ۱۲ نمبر ۳۸ ----- ۱۱۴ جون ۱۹۰۸ء صفحه ۷-۸) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 363

۴ ستمبر ۱۹۰۸ء 354 خطبہ جمعہ (خلاصه) حضرت خلیفۃ المہدی والمسیح نے خطبہ کے شروع میں مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی.كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللهِ وَ كُنتُمْ اَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ - هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّهُنَّ سَبْعَ سَمُوتٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ (البقرة: ۳۰٬۲۹) اور پھر فرمایا:.اللہ تعالیٰ ان آیات میں اپنے احسانات یاد دلاتا ہے کیونکہ انسان کی فطرت ہے کہ اپنے احسان کرنے والے کا شکر گزار ہوتا ہے اور اس کی فرمانبرداری کرتا ہے اور اس کو خوش رکھنا اپنا فرض جانتا ہے.پس اللہ تعالیٰ انسان کو کہتا ہے کہ تم خدا کے ناشکرے کس طرح بنتے ہو.اپنا حال تو دیکھو.تم مردہ تھے.بے جان ذرات تھے.تمہارا نام و نشان نہ تھا.خدا نے تمہیں زندہ جاندار بنایا.پھر تم مرجاؤ گے.پھر زندہ

Page 364

355 کئے جاؤ گے اور خدا کی طرف پھیرے جاؤ گے.پھر احسان الہی کو یاد کرو کہ اس نے زمین کی تمام اشیاء تمہارے فائدہ کے واسطے بنائیں.پھر تم زمین سے لے کر آسمان تک بلکہ عرش تک نگاہ ڈالو.ہرامر میں خدا تعالیٰ کے تمام کاموں کو حق و حکمت سے پر پاؤ گے.کوئی بات ایسی نہیں ہے جس میں کوئی کمزوری یا خرابی نگاہ میں آسکے.اور خدا سب باتوں کا علیم ہے.وہ تمہارے افعال کو دیکھ رہا ہے اور ان سے باخبر ہے.اس خطبہ میں حضرت موصوف نے بالخصوص طلباء مدرسہ کو اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ خدا نے ان کو نیکی کے حاصل کرنے میں اور تقویٰ کی راہوں پر اپنے آپ کو مستقل کرنے کے لئے عمدہ موقع عطا کیا ہے.آگے چل کر کالجوں میں ان کے واسطے بہت مشکلات ہوں گے کیونکہ وہاں ایسی نیک صحبت اور دیندار استادوں کا ملنا مشکل ہو گا.جس نے ایسے وقت میں اصلاح نہ کرلی وہ آگے کیا کرے گا.فرمایا.استادوں کو بھی چاہئے کہ ان بچوں کے واسطے درد مند دل کے ساتھ دعائیں مانگیں کہ خدا تعالی ان کی اصلاح کرے.اگر ایک آدمی بھی تمہارے ذریعہ سے ہدایت پا جائے تو تمہارے واسطے ایک بڑی نعمت ہے.( بدر جلدے نمبر ۳۵ ----۱۷ ستمبر ۱۹۰۸ء صفحہ ۲) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 365

ار تمبر ۱۹۰۸ء 356 خطبہ جمعہ حضرت امیرالمومنین نے وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ پر خطبہ پڑھا.پہلے آپ نے پچھلے رکوعوں سے ربط کے سلسلہ میں فرمایا.سورۃ الحمد میں دو گروہوں کا ذکر ہے.منعم علیم ، مغضوب علیہم.منعم علیہم کو متقین فرمایا اور بتایا کہ وہ غیب پر ایمان لاتے ہیں.نماز پڑھتے اپنے مال و جان کو خدا کی راہ میں خرچ کرتے اور یقین رکھتے ہیں کہ وحی کا سلسلہ ابتدائے خلق آدم سے تاقیامت جاری ہے.یہ لوگ ہدایت کے گھوڑوں پر سوار ہیں اور مظفر و منصور ہوں گے.دوم وہ لوگ ہیں جن کے لئے سنانا نہ سنانا برا بر ہے اور جو شرارت سے انکار کرتے ہیں.علیم ہیں، ایسے ہی منافق.سوم وہ جو غلطی سے گمراہ ہیں یا بد عہدیوں کی وجہ سے ، مغضوب یہ ضال ہیں.اب ایک منعم علیہ کی مثال دے کر سمجھاتا ہے.اللہ نے فرشتوں سے مشورہ نہیں کیا بلکہ انہیں اطلاع دی ( یہ اطلاع دینا خدا کا خاص فضل ہے جو بعض خواص پر ہوتا ہے) کہ میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں.خلیفہ کہتے ہیں گذشتہ قوم کے جانشین کو یا جو اپنے پیچھے کسی کو چھوڑے.بادشاہ کو.(گویا یہ لفظ)

Page 366

357 ظاہری و باطنی سلطنت کو شامل ہے.یہ ملائکہ وہ تھے جن کے متعلق عناصر کی زمینی خدمات ہوتی ہیں اور یہ ثابت ہے اس آیت سے اسْتَكْبَرتَ أمْ كُنْتَ مِنَ الْعَالِينَ (ص) جس سے معلوم ہوا کہ عالین اس حکم کے مکلف نہیں تھے.صوفیوں نے لکھا ہے تمام عناصر کا مجموعہ انسان ہے.ہر عصر پر ایک فرشتہ ہوتا ہے.وہ اپنی اپنی متعلقہ شے کی ماہیت کو جانتے تھے.وہ سمجھے کہ یہ تمام عناصر جب ملیں گے ضرور ان میں اختلاف ہو گا مگر انہیں معلوم نہ تھا.خدا انسان کو مجموعہ کمالات بنانا چاہتا ہے.واقعی ہماری غذا بھی عجیب ہے.کچھ اس میں پتھر (نمک) ہے، کچھ نباتات کچھ حیوانات.پس وہ بول اٹھے کہ وہ فساد کرے گا اور خونریزی مگر ہم تیری تسبیح و تقدیس کرتے ہیں.تیری ذات کو اس بات سے منزہ سمجھتے ہیں کہ تیرا کوئی کام حکمت اور نیک نتیجہ سے خالی ہو.فرشتے جو اعتراض کر رہے تھے دراصل وہی ان پر وارد ہو تا تھا کہ وہ بنی آدم کی پیدائش اور اس کی نسل کی نسبت چاہتے تھے کہ نہ ہو.گویا سفک دماء کرتے تھے اور یہ بھی فساد تھا.ایک دفعہ کسی شخص نے مجھے کہا.بہت علماء تمہارے مرزا صاحب کو خلیفہ اللہ نہیں مانتے.میں نے کہا یہ تعجب نہیں.خلفاء پر فرشتوں نے اعتراض کئے ہیں.یہ علماء فرشتوں سے بڑھ کر نہیں مگر فرشتوں اور دوسرے لوگوں کے اعتراض میں فرق تھا.فرشتوں نے نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ اور سُبْحْنَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا کہہ کر اپنے اعتراض واپس لے لئے.حضرت صاحب کی خدمت میں کسی نے خط لکھا کہ اب تو خدا بھی آئے تو میں یہ بات نہ مانوں.فرمایا دیکھو یہ کیسے متکبر اور بے پرواہ لوگ ہیں.شعیب نبی کو جب لوگوں نے کہا اَوْلَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا (الاعراف:۸۹) تو انہوں نے جواب دیا.وَمَا يَكُونُ لَنَا اَنْ نَّعُوْدَفِيْهَا إِلَّا انْ يَّشَاءَ اللهُ رَبُّنَا (الاعراف) یعنی ہم تو کبھی تمہارے مذہب میں نہ آئیں گے.پھر فرمایا ہاں اگر خدا چاہے تو کیونکہ اس کا ارادہ زبردست ہے.یہ پاس ادب ہے جو آج کل کے گستاخوں سے جاچکا ہے.دیکھو ایک ناممکن بات پر پیغمبر نے خدا کی عظمت اور جبروت و جلال کا ادب کیا ہے تو افسوس اس انسان پر جو بلا سوچے سمجھے کہتا ہے کہ یہ کام یوں ہو جائے گا اور میں یوں نہ کروں گا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی بادل آتا تو مضطربانہ اندر باہر پھرنے لگتے.حضرت عائشہ نے عرض کی.عرب کا ملک تو ابر دیکھ کر خوش ہوتا ہے.آپ نے فرمایا عائشہ کیا معلوم کہ اس بادل میں کوئی خدا کا عذاب ہو.بدر کی جنگ میں باوجود وعدہ نصرت الہی کے آپ نے ایک جھونپڑی ڈال لی اور اس قدر عاجزی سے دعا کی کہ آپ کی چادر گر گئی.اس پر ابو بکر بول اٹھے کہ بس کیجئے.خدا کا وعدہ ہے کہ میں فتح دوں گا.اس پر صوفیوں نے لکھا ہے کہ ابو بکر کو خدا کی نسبت اتنا علم نہ تھا جتن نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم

Page 367

358 کو تھا.وہ خدا کی غناء ذاتی کو جانتے تھے.فرشتوں کے سوال سے انسان کو عبرت پکڑنی چاہئے ، جسے نہ تو خدا کی صفات کا علم ہے نہ صفات سے پیدا شدہ فعل کا.بلکہ فعل کا اثر کچھ دیکھا ہے.پس وہ کس بات پر بڑھ بڑھ کر اعتراض کرتا ہے.مامور من اللہ کی نسبت کہتا ہے یہ نہیں چاہئے تھا وہ چاہئے تھا.⭑-⭑-⭑-⭑ ( بدر جلد نمبر ۳۶- ۲۴ ستمبر ۱۹۰۸ء صفحه ۲)

Page 368

۱۸ ستمبر ۱۹۰۸ء 359 خطبہ جمعہ حضرت امیر المومنین نے آیت قرآنی وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا (البقره:۳۲) پر خطبہ ارشاد فرمایا جو درج ذیل ہے.الله تعالى لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْء (الشوری:۲) ہے.اس کی ذات وصفات کی ماہیت کی دریافت انسان نہیں کر سکتا.صفات سے جو افعال پیدا ہوتے ہیں ان کا بھی حقیقی علم نہیں.ہاں افعال کا نتیجہ ہم نے دیکھا.مَا اَشْهَدْتُهُمْ خَلْقَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ (الكهف (۵۲).اس صورت میں اشیاء کے ذوات کا علم بھی بغیر تعلیم الہی نہیں ہو سکتا.اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو مختلف کاموں کے لئے بنایا ہے اور ہر ایک کو ایک خدمت سپرد کی ہے.بس اس کی نسبت اس کو علم ہے.چنانچہ مذکور ہے کہ حضرت ابراہیم کو جب آگ میں ڈالا گیا تو فرشتے نے کہا کہ میں امداد کروں؟ فرمایا اَمَّا إِلَيْكَ فَلا یہ توحید کا اعلیٰ درجہ ہے.ایسا ی جب ہماری سرکار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم طائف گئے تو وہاں کے بد معاشوں نے مخالفت کی اور شرارت سے پتھر پھینکے جن سے آپ کے جسم مبارک کو لہولہان کر دیا.بارہ میل آپ دوڑتے آئے.انگور کا ایک باغیچہ تھا وہاں ٹھر گئے.مالک نے نوکر کے ہاتھ چند انگور بھیج دیئے اور اسے کہا دیکھو! تم

Page 369

360 اس کی باتیں نہ سننا.آپ نے انگور کھانے سے پہلے بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پڑھی.وہ متعجب ہوا کہ بت پرستوں کے شہر کا رہنے والا توحید کے اس درجہ پر ہو.ملک الجبال آپ کے پاس آیا.عرض کیا کہ اگر آپ فرما دیں تو پہاڑ ان پر گرا دوں.فرمایا.نہیں، میں امید کرتا ہوں کہ اللہ ان کی مدد سے صالح پیدا کرے گا.غرض ہر کام کے لئے ایک فرشتہ مقرر ہے.چنانچہ جہنم کے لئے الگ فرشتے ہیں عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ (المدثر (۳) جنت کے لئے رضوان.ایک ہاروت ماروت جو بابل کے نبیوں پر کلام لائے.ان تمام عناصر کا مجموعہ انسان ہے.گویا انسان ان تمام علوم کا جامع ہے اور اسی حقیقت کو اس آیت میں بتایا گیا ہے.اعتراض کیا جاتا ہے کہ جب آدم کو پہلے تعلیم دی گئی تو پھر فرشتوں پر فوقیت کیا ہوئی.نادانوں نے یہ نہیں سمجھا کہ ثابت صرف یہ کرنا تھا کہ اللہ جسے علم دیتا ہے اس کو آتا ہے.چنانچہ اس نے آدم کو پڑھا دیا.اسے جامع علوم (ذوات الاشیاء) بنادیا اور فرشتوں کو اس ڈھب کا نہ بنایا.دوسرے خطبہ کی نسبت فرمایا عِبَادَ اللهِ رَحِمَكُمُ اللهُ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيْتَاى ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَ الْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ اذْكُرُوا اللهَ كُرْكُمْ وَادْعُوهُ يَسْتَجِبْ لَكُمْ وَلَذِكْرُ اللَّهِ اَكْبَرُ - یہ عمر بن عبدالعزیز نے ذاتی معلومات کی بجائے بڑھایا جس کی مقبولیت ہو گئی.مجھے بھی پسند ہے.ایک تو اللہ کا کلام ہے.دوم صالح آدمی نے قائم کیا.اچھے لوگ ہمیشہ بدی کو دور کرنے کے لئے ایسی پاک تدبیریں کیا کرتے ہیں.جھگڑوں میں نہیں پڑتے.(بدر جلدے نمبر۷ ۳ یکم اکتوبر ۱۹۰۸ء صفحه ۲) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 370

۲۵ ستمبر ۱۹۰۸ء 361 خطبه جمعه حضرت امیرالمومنین نے سورۃ البقرہ کی آیات ۳۶ تا ۴۰ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.خدا تعالیٰ آدم علیہ السلام کا ذکر کر کے ان کی اولاد کو سناتا ہے کہ اے آدم! تو اور تیری عورت اس جگہ رہو اور اس درخت سے کچھ نہ کھانا.درخت کے معنوں میں بڑا اختلاف کیا ہے.چونکہ خدا تعالیٰ نے اس کا نام نہیں لیا اس واسطے میں اس کی تشریح غیر ضروری خیال کرتا ہوں.صرف حکم ہے کہ اس کا پھل نہ کھاؤ.میں طبیب ہوں.بعض لوگوں کو آم کھانے سے روکتا ہوں، بعض کو امرود سے بعض کو دوسرے پھلوں سے.خدا تعالیٰ نے ایسے ہی آدم کو منع کیا کہ اس پھل کو نہ کھاؤ.یہ دکھ دینے والی چیز ہے.کیونکہ وہ علیم و حکیم خدا اس کے مضرات کو جانتا ہے.خدا تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کرنا اپنے آپ کو تکلیف اور دکھ میں ڈالنا ہے.تکالیف کے اسباب میں سے گناہ بھی ایک سبب ہے، تم اس سے بچو.گو خدا تعالیٰ نے وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ (المائدة:) کہا ہے.مگر نَبلُوهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ (الاعراف:۲۴) اور بَلَوْنَهُمْ بِالْحَسَنَاتِ وَ السيات (الاعراف (1) اور ابراہیم علیہ السلام کے قصہ میں لکھا ہے إِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ

Page 371

362 فَأَتَمَّهُنَّ (البقرة:۳۵).ابراہیم علیہ السلام نے نہایت اعلیٰ نمونہ دکھایا.ہم کو بھی حکم ہے كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ (ال عمران: آدم علیہ السلام کو بتایا یہ احکام ہیں اور یہ نواہی.اوامر کو بجالاؤ اور نواہی سے باز آؤ.فَازَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا شیطان نے ان کو پھلانے کی کوشش کی.اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ ببَعْضٍ عَدُوٌّ بعض لوگ آپس میں لڑا دینے کے لئے مختلف راہیں اختیار کرتے ہیں.کبھی کہتے ہیں کہ یہ تو آپ ہی تھے جو ایسی باتیں سنتے رہے، ہم سے تو برداشت نہیں ہو سکتی.کہتے ہیں کہ آپ نے اتنی باتیں سن کر ہم کو بے عزت کر دیا کیونکہ آپ کے دوست تھے.فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَّبِّهِ كَلِمْت خدا تعالیٰ نے آدم کو کچھ کلمات دعائیں سکھلائیں.فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِى هُدًى جو لوگ ہدایت پانے کی کوشش کرتے ہیں خدا ان کا معاون ہوتا ہے.ہمارے آدم سید نا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بعض درختوں سے منع کیا.مثلاً شراب عرب میں مشرکوں کا مذہب یہود، مجوس ، نصاری کا مذہب.یہ مذہب خطرہ میں ہیں سوائے صحابہ کے مذہب کے.مسلمان چار طرح کے نظر آتے ہیں.(۱) دنیا کی عزت آبرو کے لئے ہی زندہ رہنا چاہتے ہیں جیسا کہ رومی تھے.(۲) بعض مجوس کی طرح کہ ہم فلاں کی اولاد ہیں.(۳) بعض رسومات کی طرح مذہب کو مان لیتے ہیں.(۴) بعض مذہب سے ہنسی ٹھٹھا کرتے ہیں.خدا تمہارے اندر وحدت کی روح پھونک دے.میرا دل دردمند بنایا گیا ہے.میں تمہاری بہتری اپنی اس آخری عمر میں دیکھنا چاہتا ہوں.ورنہ مجھ کو تم سے کوئی ظاہری دنیاوی امید نہیں.میرا قادر مالک خدا ہے جو ہر طرح سے میری مدد کرتا ہے اور میں خدا کے فضل سے تم میں سے کسی کا محتاج نہیں.قوم میں وحدت پیدا ہونا سوائے خدا کے فضل کے ہو نہیں سکتا.لَوْ انْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَّا الَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ (الانفال (۱۳) خدا فضل کرنے کے لئے تیار ہے.تم اس کا فضل لینے کے لئے تیار ہو جاؤ.مجھے اس بات کا فکر نہیں کہ اسلام دنیا سے اٹھ جائے گا.اگر ہے تو یہ کہ بعض گھروں سے.( بدر جلدے نمبر ۳۸-۱۸ اکتوبر ۱۹۰۸ء صفحه ۲) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 372

یکم اکتوبر ۱۹۰۸ء 363 خطبه جمعه خطرات نور حضور نے آیت قرآنی ببَنِي إِسْرَاءِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِي الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُوا بِعَهْدِى أَوْفِ بِعَهِدِكُمْ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونَ (البقرۃ:۳) کی تلاوت کے بعد فرمایا:.قرآن سنانے والوں کو یہودیوں عیسائیوں میں قرآن سنانے کا کم موقع ملتا ہے.پس جہاں یہ ذکر ہے وہاں مسلمانوں کو متنبہ کرنا مقصود ہے.پس مسلمان کو چاہئے کہ جن ناپسند کاموں کی وجہ سے یہود کیا عیسائی عذاب پانیوالے ہوئے ان سے بچے اور جن پسندیدہ کاموں کے سبب انعام پائے وہ کرے.اس قوم کے مورث اعلیٰ کا نام نہیں لیا بلکہ لقب بیان کیا ہے.اس سے ان کو شرم اور جوش دلانا مقصود تھا.عربی زبان میں اسرائیل کے معنے ہیں خدا کا بہادر سپاہی.اس نام سے یہ غیرت دلائی کہ تم بھی اللہ کے بہادر بنو.ہماری سرکار سید الابرار سے بڑھ کر اور کون اللہ کا پہلوان ہے.پس اتنے بڑے انسان کی امت اور اولاد ہو کر ہم نفس و شیطان کے مقابلہ میں بزدلی دکھائیں تو ہم پر افسوس ہے.مگر افسوس کہ بعض مسلمانوں کی بہادری اس پر رہ گئی ہے کہ جب کسی عورت سے زنا کر لیا تو پھر اپنے ہم جولیوں

Page 373

364 میں لگے شیخیاں بگھارنے کہ دیکھو! ہم نے فلاں قلعہ مار لیا ہے.لعنت ہے ایسی شجاعت پر.نِعْمَتِي الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وہ نعمت کیا تھی؟ دوسری جگہ فرمایا کہ تم میں سے انبیاء و ملوک بنائے اور وہ کچھ دیا جو دوسروں کو نہ دیا گیا.اب اے مسلمانو! تم اپنی حالت پر غور کرو کہ تم پر بھی یہ انعام ہو چکے ہیں.اس کتاب پر ایمان لاؤ کیونکہ اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ تمام نصائح کی جامع ہے.اگر کسی انگلی کتاب میں تحریف ہو چکی ہے تو یہ اسے صاف کرتی ہے.اول نمبر کے کافر نہ بنو یا پہلا برا نمونہ تم نہ بنو کہ دوسرے اس سے متاثر ہوں گے اور سب کا گناہ تمہارے ذمہ ہو گا.کلام الہی کی بے ادبی نہ کرو.جس شخص نے بہار دانش لکھی ہے اس سے کسی نے پوچھا کہ کیا کر رہے ہو ؟ جواب دیا.إِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيمٌ (يوسف:۲۹) کی تفسیر کر رہا ہوں.راگ والی کتاب کسی نے بنائی اور اوپر لکھ دیا يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ (الزمر:19).یہ سب تَشْتَرُوا بِاتِتِي ثَمَنًا قَلِيلاً (البقرة: ۳۲) کی خلاف ورزی ہے.ý بدر جلد ۸ نمبر ۱۲۶۰۰۰۳ نومبر ۱۹۰۸ء صفحه (۳) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 374

۱۸ اکتوبر ۱۹۰۸ ء 365 خطبہ جمعہ حصور نے آیت قرآنی وَ لَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (البقرة (٣٣) کی تلاوت کے بعد فرمایا:.دنیا میں ایک فرقہ ایسا بھی ہے کہ راستبازی ان کی فطرت میں داخل ہوتی ہے.ایک فرقہ وہ ہے جو حق کو باطل کے ساتھ ملا دیتا ہے اور پھر اپنے تئیں سچا ثابت کرنے کے لئے حق کو چھپا دیتا ہے.بچے کا حال بیچ کی مانند ہے کہ تم اچھا ہو' پر زمین اچھی نہ ہو.زمین اچھی ہو تو آبپاشی نہ ہو.آپاشی ہو تو حفاظت نہ ہو.پس خوش قسمت انسان کو نیک ماں باپ نیک ہم نشین، عمدہ تربیت و نگرانی حاصل ہوتی ہے.اَقِيْمُوا الصَّلوةَ (البقرة: ۴۳) نماز کو قائم کرو.بعض کام روز مرہ کی عادت بن جاتے ہیں پھراں کا لطف نہیں رہتا.دیکھا گیا ہے کہ زبان سے اللهُمَّ صَلَّ عَلَى ہو رہا ہے مگر قلب کی توجہ کام کی طرف ہے.پس نماز کو سنوار کر پڑھو اور جو معاہدہ نماز میں کرتے ہو عملی زندگی میں اس کا اثر دیکھو.زبان سے

Page 375

366 کہتے ہو إِيَّاكَ نَعْبُدُ (الفاتحہ:۵) ہم تیرے فرمانبردار ہیں مگر کیا فرمانبرداری پر ثابت قدم ہو؟ پھر واعظوں کو ڈانٹا ہے کہ تم دوسروں کو نیکی کی نسبت کہتے ہو اور اپنے تئیں بھلاتے ہو.پس تم دونوں سنانے والے اور سننے والے ثابت قدمی سے کام لو اور دعا کرو.نماز پڑھو کہ یہ دونوں کام خَاشِعِينَ پر گراں نہیں.جب مذکر و مؤنث دونوں جمع ہوں تو عربی قواعد کے لحاظ سے ضمیر مؤنث کی طرف جاتی ہے.انگریزی میں بھی مرد و عورت میں سے عورت کو پہلے مخاطب کرتے ہیں.جن کو اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کا یقین ہو وہی حقیقی خشوع کر سکتے ہیں.بد ر جلد ۸ نمبر ۵-۱۰۰۰ر دسمبر ۱۹۰۸ء صفحه ۲) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 376

۲۵ دسمبر ۱۹۰۸ء 367 خطبہ جمعہ خطبات نو أُولئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الْحَيُوةَ الدُّنْيا بِالْآخِرَةِ فَلَايُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَاهُمْ يُنْصَرُونَ - وَ لَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَ اَيَّدْنُهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ افَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولٌ بِمَا لَاتَهْوَى أَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ (البقرة: ۸۸٬۸۷) فرمایا :.یہ آیات اس سلسلہ درس قرآن سے ہیں جو میں ہر جمعہ یہاں سنایا کرتا ہوں..پس میں اس وقت کوئی ایسا وعظ نہیں کروں گا جو اس اجتماع ' کی خصوصیت سے وابستہ ہے.اس کے لئے خدا کے فضل و توفیق سے کل کا دن ہے.اللہ تعالی قرآن مجید میں نصیحت کرتا ہے بایں طور کہ جو اگلی قوموں کی برائیاں اور خوبیاں ہیں ان کا بیان کرتا ہے تاکہ مسلمان ان برائیوں سے بچیں.اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ وہ ان عذابوں سے محفوظ رہیں لہ اجتماع سے مراد جماعت احمدیہ کا سالانہ جلسہ ہے جو ۲۶ دسمبر سے شروع ہوتا ہے.

Page 377

368 گے جو ان برائیوں کی وجہ سے ان پر نازل ہوئے اور ان خوبیوں کو اختیار کریں جن کی برکت سے ان پر طرح طرح کے انعام ہوئے.ان آیات میں یہودیوں کے متعلق فرمایا کہ بہت سے لوگ ورلی زندگی کو پسند کرتے ہیں.وہ چاہتے ہیں کہ موجودہ حالت اچھی رہے.پس وہ اس آواز کی طرف رغبت کرتے ہیں جو چند منٹ کے لئے لطف دے اور وہ نظارہ ان کے مرغوب خاطر ہوتا ہے جو عارضی ہو.لیکن اس بچے سرور کی پروا نہیں کرتے جو دائی ہے اور جس پر کبھی فنا نہیں ہوتی.ایسے لوگوں کے لئے بھی دنیا کو دین پر مقدم کرنا ایک عذاب ہو جاتا ہے اور وہ ہر لحظہ ہر گھڑی ان کو ، دکھ دیتا رہتا ہے اور کسی وقت بھی کم نہیں ہوتا.چونکہ عاقبت انہوں نے پسند نہیں کی وہ خدا سے بعد میں ہوتے ہیں جو عذاب ہے.وہ اس سے معذب ہوتے ہیں.لیکن اس قسم کے عذابوں کے وعدے ہر مذہب میں نہیں.یہ اسلام کی خصوصیت ہے کہ جس عذاب کا وعدہ دیا جاتا ہے اس کا نمونہ دنیا میں بھی دکھا دیا جاتا ہے تاکہ یہ عذاب اس آنے والے عذاب کے لئے ایک ثبوت ہو.دیکھو! وہ قوم جس میں آج اچھے لڑکے نہیں ان پر کبھی وہ وقت بھی آجاتا ہے کہ ان میں اچھے لڑکے پیدا ہوں.وہ قوم جن میں زور آور نہیں ایک وقت ان پر آتا ہے کہ ان میں زور آور پیدا ہوں.اگر ان کے پاس آج سلطنت نہیں تو اس زمانہ کی امید کی جاسکتی ہے جب ان میں بھی امارت آجائے.ہندوؤں کی حالت گزشتہ و موجودہ پر غور کرو.جب ہم بچے تھے تو یہ ہندو اتنے تعلیم یافتہ نہ تھے کہ معلم بن سکیں اسی لئے اکثر مسلمان معلمین نظر آتے تھے.پھر ہمارے دیکھتے دیکھتے یہ تعلیم میں اس قدر ترقی کر گئے ہیں کہ اب معلم ہیں تو ان میں سے افسر ہیں تو ان میں سے.وہ اپنی طاقت پر اب یہاں تک بھروسہ رکھتے ہیں کہ ہم کو اس ملک سے نکال دینے یا گورنمنٹ پر دباؤ ڈال دینے پر تلے بیٹھے ہیں.اس بات کا ذکر میں نے صرف اس لئے کیا ہے کہ قوموں میں جہالت کے بعد علم آجاتا ہے.زوال کے بعد ترقی ہو سکتی ہے اور ایسا ہوتا رہتا ہے.مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے ایک قوم ہے (یہود) جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقابلہ کیا تھا.ہم نے ان کو یہ سزا دی کہ اور قوموں میں تو تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں مگر ان میں کوئی تبدیلی نہ ہو گی اور ان کا کوئی ناصر و مددگار نہ ہو گا.چنانچہ یہودیوں کی کوئی مقتدرانہ سلطنت روئے زمین پر نہیں.چپہ بھر زمین پر بھی ان کا تسلط نہیں.اگر ان کو تکلیف دی جاوے تو کوئی نہیں جو ان کی حامی بھرے.تیرہ سو برس سے خدا کا یہ کلام سچا ثابت ہو رہا ہے.پس ہمیں اس سے یہ سبق لینا چاہئے کہ خدا کے خلاف جنگ نہ کریں اور ہرگز ہرگز والی زندگی کو

Page 378

369 مقدم نہ کرلیں ورنہ لايُنصَرُونَ کی سزا موجود ہے.میرا حال اب دیکھتے ہو.صحت ٹھیک نہیں، عمر کے انتہائی درجے کو پہنچ چکا ہوں.پس میں جو کچھ کہتا ہوں خلوص دل سے کہتا ہوں اور یہ کسی قیاس سے نہیں بلکہ اس کلام الہی کی بنا پر جس کی تہ تک پہنچ کر میں نے یقین کر لیا کہ دنیا کی زندگی اختیار کرنا اپنے پر عذاب وارد کرنا ہے.یہ مضمون بہت لمبا ہے اور بعض ضروری امور خطبہ کو مختصر کرنے کے متقاضی ہیں.آگے فرمایا وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ ہم نے تو ان لوگوں کی بہتری کے لئے موسیٰ کو کتاب دی پھر اور رسول بھیجے.اخیر میں عیسی بن مریم کو کھلے نشانات کے ساتھ مبعوث کیا اور اسے اپنے کلام پاک سے مؤید کیا.پھر بھی اکثر لوگوں کی عادت ہے کہ جب کوئی رسول آیا اور اس نے ان کی خواہشوں کے خلاف کہا تو یہ اکر بیٹھے.پھر بعض کی تکذیب کی اور بعض کے قتل کے منصوبے کرنے لگے.مگر اس کا انجام ان کے حق میں اچھا نہیں ہوا.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو فہم عطا کرے.عاقبت اندیشی دے.یہ دنیا چند روزہ ہے.سب یا رو آشنا الگ ہونے والے ہیں.ہاں کچھ دوست ایسے ہیں جو دنیا و آخرت میں ساتھ ہیں.ان کی نسبت فرمایا الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ (الزخرف:۶۸).پس تمہارے دوست ہوں مگر وہ جن کو اللہ نے متقی فرمایا.اگر وہ تم سے پہلے مر گئے تو تمہارے شفیع ہوں گے اور اگر ہم ان سے پہلے وفات پاگئے تو ان کی دعائیں تمہارے کام آئیں گی.( بدر جلد ۸ نمبر۷ ۹۸۰---- ۲۴-۳۱ دسمبر ۱۹۰۸ء صفحه ۲) ⭑-⭑-⭑-⭑ 24.

Page 379

یکم جنوری ۱۹۰۹ء 370 خطبہ جمعہ وَ قَالُوا قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَلْ لَّعَنَهُمُ اللهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِيْلًا مَّا يُؤْمِنُونَ - وَ لَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِّنْ عِنْدِ اللهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَ هُمْ مَّا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِينَ (البقرة:٨٩ - ٩٠) - فرمایا:.بہت سے لوگ فَرِحُوا بِمَا عِنْدَهُمْ مِنَ الْعِلْمِ (المومن: (۸۴) پر نازاں ہوتے ہیں اور نئی ہدایت کے ماننے سے پس و پیش کرتے ہیں.وہ کہتے ہیں قُلُوبُنَا غُلف یعنی ہمارے دل نا مختون ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے یہ بات نہیں بلکہ کفر کے سبب ان پر لعنت پڑ گئی ہے.انبیاء کے ماننے میں پچھلوں کے لئے تو بہت آسانی ہے کیونکہ ان کے پاس نمونہ موجود ہے مگر پہلوں کے لئے بہت مشکل تھی.دیکھو! جس قدر مشکل حضرت آدم و نوح علیہما السلام کے وقت میں تھی وہ

Page 380

371 نبی کریم کے وقت میں ہر گز نہ تھی کیونکہ یہود دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارے انبیاء جو لائے ہیں، نبی کریم ان کے خلاف کچھ نہیں فرماتے.تعظیم لامر اللہ.شفقت علی خلق اللہ.یہی تمام انبیاء کے دین کا خلاصہ ہے.پھر ہمارے لئے مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے میں تو بہت ہی آسانیاں ہیں.اولیاء میں جو کچھ بطور امر مشترک موجود تھاوہ ہمارے امام میں بھی تھا.آپ جو تعلیم لائے اس میں بھی کوئی نئی بات نہیں.کلمہ شہادت ہے.اب اس کے ماننے میں کسے عذر ہو سکتا ہے؟ پھر یہ اقرار کس شرع اسلام کے خلاف ہے کہ میں تمام گناہوں سے توبہ کرتا ہوں اور دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا اور امر معروف میں بقدر امکان کوشش کروں گا؟ آپ کے کل وظیفے کسی کو معلوم نہیں مگر سبحان اللہ سبحان اللہ تو ان کی زبان سے سننے والے ہم میں بھی موجود ہیں.پھر مسیح کی وفات ہے، یہ بھی کوئی نیا مسئلہ نہیں.جتنے رسول آئے سب ہی فوت ہوئے.کسی نے اپنے سے پہلے نبی کی حیات کا دعوئی نہیں کیا.نبی کریم کی وفات پر یہ مسئلہ پیش آیا تو وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ (ال عمران:۱۳۵) سے ابو بکر کی مشکل آسان ہو گئی.باوجود اس صاف اور سیدھی تعلیم کے پھر بھی کوئی نہ مانے اور کہے کہ ہم نے جو کچھ سمجھنا تھا سمجھ لیا تو یہ لعنت کا نشان ہے.سب سے پہلے آدم کے زمانہ میں مسئلہ خلافت پر بحث ہوئی.پھر داؤد کو خلیفہ بنایا گیا.پھر نبی کریم کے زمانہ میں یہی مسئلہ پیش آیا.مگر ہمیشہ خدا کا انتخاب غالب رہتا ہے.یہ عیب چینی کی راہ بہت ہی خطرناک راہ ہے.عیسائیوں نے اس راہ پر قدم مارا نقصان اٹھایا.ایک نبی کی معصومیت کے ثبوت کے لئے سب کو گنہگار قرار دیا.پھر آریہ نے یہی طریق اختیار کیا.وہ بھی دوسرے مذاہب کو گالیاں دینا جانتے ہیں.پھر شیعہ ہیں وہ بھی خلفائے راشدین پر تبرا بھیجنے کے گناہ میں پڑ گئے.ایک دفعہ امرتسر میں میں نے ایک شخص کو قرآن کی بہت ہی باتیں سنائیں.میرا ازار بند اتفاق سے ڈھیلا ہو گیا.آخر اس نے مجھ پر یہ اعتراض کیا کہ تمہارا پا جلسہ مخنوں سے کیوں نیچا ہے ؟ میں نے کہا.اتنے عرصہ سے جو تم میرے ساتھ ہو تمہیں کوئی بھلائی مجھ میں نظر نہیں آئی سوائے اس عیب کے اور یہ عیب جو تم نے نکالا یہ بھی ٹھیک نہیں کیونکہ حدیث میں جَرَّ ثَوْبَهُ خُيَلَاءَ (بخاری کتاب فضائل الصحابه) آیا ہے اور یہاں اس بات کا وہم تک نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصَارَى عَلَى شَئ وَقَالَتِ النَّصَارَى لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَى شَئ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ كَذلِكَ قَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ (البقرة: ۱۳) گویا اس طرح کہنا لا یعلم" لوگوں کا دستور ہے.عیب شماری کی طرف ہر وقت متوجہ رہنا ٹھیک نہیں.کچھ اپنی اصلاح

Page 381

372 بھی چاہئے.ہمیشہ کسی دوسرے کی عیب چینی سے پہلے اپنی گذشتہ عمر پر نگاہ ڈالو کہ ہم نے اتباع رسول پر کہاں تک قدم مارا اور اپنی زندگی میں کتنی تبدیلی کی ہے.ایک عیب کی وجہ سے ہم کسی شخص کو برا کہہ رہے ہیں.کیا ہم میں بھی کوئی عیب ہے یا نہیں؟ اور اگر اس کی بجائے ہم میں یہ عیب ہو تا اور ہماری کوئی اس طرح پر غیبت کرتا تو ہمیں برا معلوم ہو تا یا نہیں؟ حضرت صاحب کے زمانہ میں کسی نے ایک شخص کو جھوٹا کہہ دیا.اس پر وہ بہت جھنجھلایا کہ اوہ! ہم جھوٹے ہیں؟ فرمایا کیا اس شخص نے کبھی جھوٹ نہیں بولا جو اتنا ناراض ہو رہا ہے.اسے چاہئے تھا کہ اپنی پچھلی عمر کا مطالعہ کرتا اور دیکھتا کہ آخر کبھی تو میں نے جھوٹ بولا اور خدا نے ہمیشہ ستاری کی ہے.پس اب کسی کے کہنے پر میں کیوں اتنا ناراض ہو رہا ہوں.لوگ من گھڑت اصول بنا لیتے ہیں اور پھر ان پر کسی کی صداقت کو پرکھتے ہیں.مثلا یہ کہ ہم فلاں شخص کی پیٹھ کے پیچھے ہو کر درود پڑھیں گے.اگر وہی ہوا تو ضرور اپنی پیٹھ پھیر بیٹھے گل.حالانکہ یہ ان کی صریح غلطی ہے.اس طرح تو کوئی ولی امام صلوٰۃ نہیں بن سکتا بلکہ صف اول میں کھڑا نہیں ہو سکتا کیونکہ لوگ اس کی پیٹھ کے پیچھے درود پڑھیں گے.میں نے ریل میں کسی کو نکتہ معرفت سنایا مگر اس نے توجہ نہ کی بلکہ کہا کہ آپ کو قرآن شریف نہیں آتا.مطلب یہ تھا کہ علم تجوید و قرات کے مطابق آیت کو نہیں پڑھا.پس میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ معائب کی طرف خیال نہ کرو بلکہ خوبیوں کو دیکھو.ہمارے بیانوں کا قرآن مہیمن ہے.اس کے اخیر میں قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ (الفلق :)) ہے کہ ایسا نہ ہو کسی طرح ابتلاء آجائے اور کوئی بات ہمیں بے ایمان کر دے.فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ (النحل) سے بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید کے ختم کے بعد معوذتین پڑھ لینی چاہئے اور بعض کہتے ہیں ابتداء میں پڑھنی چاہئے.بہر حال مقصد حاصل ہے جو یہ ہے کہ قرآن کے پڑھتے وقت اگر ہم نے کوئی غلطی کی یا بے سمجھی، تو اس سے یا ایسی لغزش کے آئندہ واقع ہونے سے ہمیں بچالے اور کلمۃ الحکمت سے مستفید کر.(۲) اللہ کو بہت یاد کرو.ہر وقت دعا میں لگے رہو اور اپنی حالت میں تبدیلی کرنے کی کوشش کرو.تم اس وقت دوسری قوموں کے لئے نمونہ ہو.پس اپنے تئیں نیک نمونہ بناؤ.امام ابو حنیفہ ایک دفعہ کہیں جا رہے تھے.ایک لڑکے کو دیکھا جو کیچڑ میں دوڑا جا رہا ہے.آپ نے اسے فرمایا کہ دیکھو میاں لڑکے کہیں پھسلتے ہو.لڑکے نے کہا آپ اپنا خیال رکھیے.کیونکہ میں پھسل گیا تو خیر صرف مجھے تکلیف پہنچے

Page 382

373 گی مگر آپ کے پھسلنے سے ایک جہان پھیلے گا.امام ابو حنیفہ کہتے ہیں اس سے بہتر کسی کی نصیحت نے مجھ پر اثر نہیں کیا.اور یہ ہے بھی سچ إِذَا فَسَدَ الْعَالِمُ فَسَدَ العَالَمُ.اسی طرح تمہاری لغزش کا اثر صرف تمہیں تک محدود نہیں بلکہ دور تک جاتا ہے.پس سوچ سوچ کر قدم اٹھاؤ.حضرت صاحب کے زمانہ میں آپ کے سامنے کسی نے کہا کہ فلاں آدمی میں یہ یہ عیب ہے.فرمایا کیا تو نے اس کے لئے چالیس روز رو رو کر دعا کر لی ہے جو مجھ سے شکائت کرتا ہے.میرا دوست اگر ملے اور اس نے شراب بھی پی ہو تو میں اسے خود اٹھا کر کسی محفوظ مکان میں لے جاؤں پھر آہستہ آہستہ اس کی اصلاح کروں.عیب شماری سے کوئی نیک نتیجہ نہیں نکل سکتا.کسی کا عیب بیان کیا اور اس نے سن لیا، وہ بغض و کینہ میں اور بھی بڑھ گیا.پس کیا فائدہ ہوا ؟ بعض لوگ بہت نیک ہوتے ہیں اور نیکی کے جوش میں سخت گیر ہو جاتے ہیں اور امر بالمعروف ایسی طرز میں کرتے ہیں کہ گناہ کرنے والا پہلے تو گناہ کو گناہ سمجھ کر کرتا تھا پھر جھنجھلا کر کہہ دیتا ہے کہ جاؤ ہم یونہی کریں گے.امر بالمعروف کرتے ہوئے کسی نے ایک بادشاہ کا مقابلہ کیا.بادشاہ نے اس کے قتل کا حکم دیا.اس پر ایک بزرگ نے کہا کہ امر بالمعروف کا مقابلہ گناہ تھا مگر ایک مومن کا قتل اس سے بھی بڑھ کر سخت گناہ ہے.واعظ کو چاہئے کہ اُدْعُ إِلَى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ (النحل (۳) پر عمل کرے اور ایسی طرز میں کلمہ حکمت گوش گذار کرے کہ کسی کو برا معلوم نہ ہو.تم لوگ جو یہاں باہر سے آئے ہو اگر کوئی نیک بات یہاں والوں میں دیکھتے ہو یا یہاں سے سنتے ہو تو اس کی باہر اشاعت کرو اور اگر کوئی بری بات دیکھی ہے تو اس کے لئے درد دل سے دعائیں کرو کہ الہی! اب لکھوکھا روپے خرچ ہو کر یہ ایک قوم بن چکی ہے اور یہ قوم کے امام بھی بن گئے ہیں، پس تو ان میں اصلاح پیدا کر دے.بدر جلد ۸ نمبر ۱۴---۲۸ / جنوری ۱۹۰۹ء صفحہ۹-۱۰) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 383

۳/ جنوری ۱۹۰۹ء 374 خطبہ عید اضحی تكبيرات الله اكبر الله اكبرُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ وَ لِلَّهِ الْحَمْدُ اور کلمہ شہادت کے بعد آپ نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی.وَ مَنْ تَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ وَ لَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا وَ إِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِيْنَ اِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمُ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ (البقرة : ۱۳۱- ۱۳۲) اور پھر فرمایا:.آج کا دن عید کا دن ہے.یہ قربانیوں کا دن ہے.قربانیوں کی لمبی تاریخیں ہیں.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم کے وقت سے یہ سلسلہ جاری ہے.چنانچہ ایک مقام پر ذکر ہے وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَا ابْنَ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُتِلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْأَخَرِ قَالَ لَاقْتُلَنَّكَ قَالَ إِنَّمَا

Page 384

375 يَتَقَبَّلُ اللهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ (المائدہ:۲۸) جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاد آدم (یہاں اس امر سے بحث نہیں کہ کتنے آدم گزرے ہیں بہر حال ایک آدم کی اولاد) نے قربانی کی.قربانی" کہتے ہیں اللہ کے قرب کے حصول اور اس میں کوشش کرنے کو.میرا ایک دوست تھا.اسے کبوتروں کا بہت شوق تھا.شاہجہانپور سے تین سو روپے کا جوڑا منگوایا.اسے اڑا کر تماشا کر رہا تھا کہ ایک بحری نے اس پر حملہ کیا اور اسے کاٹ دیا.میں نے کہا کہ دیکھو یہ بھی قربانی ہے.باز ایک جانور ہے، اس کی زندگی بہت سی قربانیوں پر موقوف ہے.اسی طرح شیر ہے، اس کی زندگی کا انحصار کئی دوسرے جانوروں پر ہے.بلی ہے اس پر چوہے قربان ہوتے ہیں.پھر پانی میں ہم دیکھتے ہیں کہ مچھلیوں میں بھی یہ طریق قربانی جاری ہے.ویل مچھلی پر ہزاروں مچھلیوں کو قربان ہونا پڑتا ہے.اسی طرح اثر دہا ہے کہ جس پر مرغا قربان ہوتا ہے.غرض اعلیٰ ہستی کے لئے ادنی ہستی قربان ہوتی رہتی ہے.اسی طرح انسان کی خدمت میں کس قدر جانور لگے ہوئے ہیں.کوئی ہل کے لئے کوئی بگھیوں کے لئے کوئی لذیذ غذا بننے کے لئے.پھر اس سے اوپر بھی ایک سلسلہ چلتا ہے، وہ یہ کہ ایک آدمی دوسروں کے لئے اپنے مال یا اپنے وقت یا اپنی جان کو قربان کرتا ہے.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ لڑائیوں میں ادنیٰ اعلیٰ پر قربان ہوتے ہیں.سپاہی قربان ہوتے جائیں مگر افسر بیچ رہے.پھر افسر قربان ہوتے جائیں مگر کمانڈر انچیف کی جان سلامت رہے.پھر کئی کمانڈر انچیف بھی ہلاک ہو جاویں مگر بادشاہ بیچ رہے.غرض قربانی کا سلسلہ دور تک چلتا ہے.اس پر بعض ہندو جو ذبیح اور قربانی پر معترض ہیں ان سے ہم نے خود دیکھا کہ جب کسی کے ناک میں کیڑے پڑ جاویں تو پھر ان کو جان سے مارنا کچھ عیب نہیں سمجھتے بلکہ ان کیڑوں کے مارنے والے کا شکریہ ادا کرتے ہیں.شکریہ کے علاوہ مالی خدمت بھی کرتے ہیں.پھر اس سلسلہ کائنات سے آگے اگلے جہان کے لئے بھی قربانیاں ہوتی رہتی ہیں.اگلے زمانہ میں دستور تھا کہ جب کوئی بادشاہ مرتا تو اس کے ساتھ بہت سے معززین کو قتل کر دیا جاتا تا اگلے جہان میں اس کی خدمت کر سکیں.حضرت ابراہیم علیہ السلام جس ملک میں تھے شام اس کا نام تھا.وہاں آدمی کی قربانی کا بہت رواج تھا.اللہ نے انہیں ہادی کر کے بھیجا اور اللہ نے ان کو حقیقت سے آگاہ کیا.حضرت ابراہیم نے رویاء میں دیکھا جبکہ ان کی ننانوے سال عمر تھی کہ میں بچہ کو قربان کروں.ایک ہی بیٹا تھا.دوسری طرف اللہ کا وعدہ تھا کہ کبھی مردم شماری کے نیچے تیری قوم نہ آئے گی.ادھر عمر کا یہ حال ہے اور بچہ چلنے کے پہیل ایک ہی ہے، اسے حکم ہوتا ہے کہ ذبح کر دو.رویاء کا عام مسئلہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے بیٹے کو ذبح کرتے ہوئے دیکھے تو اس کی بجائے کوئی بکرا و غیرہ ذبح کر دے.اسی طرح یہاں لوگوں کو کہا کہ میں بیٹے کو

Page 385

376 ذبح کرتا ہوں مگر وحی الہی سے حقیقت معلوم ہوئی کہ دنبہ ذبح کرنا چاہئے.پس لوگوں کو سمجھایا کہ اے لوگو! تمہارے بزرگوں نے جو کچھ دیکھ کر یہ قربانی انسانی شروع کی اس کی حقیقت بھی یہی ہے کہ آدمی کی قربانی چھوڑ کر جانور کی قربانی کی طرف توجہ کرو.اس کی برکت یہ ہوئی کہ ہزاروں بچے ہلاک ہونے سے بچ گئے.کیونکہ انہیں ادنی کو اعلیٰ پر قربان کرنے کا سبق پڑھا دیا گیا.یہ قربانی کا سلسلہ پرندوں چرندوں درندوں میں بھی پایا جاتا ہے.پھر دنیوی سلطنتوں میں بھی، پھر دینی سلطنتوں میں بھی.حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے امن کا وعظ شروع کیا.رَبَّكَ فَكَبِّرُ (المدثر:) اور رَبُّكَ الْأَكْرَمُ (العلق) سے اس کی ابتدا ہوئی.پھر لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ کی تعلیم بھی وَالرُّجْزَ فَاهْجُز (المدثر ) سے مشتق ہے.یہ سیدھی اور صاف تعلیم تھی اور ساتھ ساتھ کہا جاتا تھا.يُوتِكُمْ أجُورَكُمْ وَلَا يَسْتَلُكُمْ أَمْوَالَكُمْ (محمد:۳۷) یعنی ہمیں تمہارے مال نہیں چاہئیں بلکہ ہم خود بدلہ دیں گے.اسی واسطے نبی کریم نے بھی فرمایا لَا اَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا (الشوری:۲۴).ہاں کیا مانگتا ہوں؟ إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى (الشوری: ۳۴) یعنی نیکیوں میں یا باہم جو رشتے ہیں ان میں محبت قائم کرو.ابتدائی تعلیم میں بھی مالوں کا کہیں ذکر نہیں.پھر اس تعلیم میں جب ترقی ہوئی تو فرمایا.حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيْمَانَ وَ زَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ (الحجرات:۸) لَوْ انْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيْعًا مَّا الَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ (الانفال: ٢٣) وَكَرَّة إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ (الحجرات:۸).پھر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا سبق دیا.پھر یہ رحم کیا کہ صحابہ کرام میں الفت کا بیج بو دیا.اور یہ باہمی محبت حاصل نہ ہو سکتی تھی خواہ تمام زمین کے خزانے اس پر خرچ کر دیتے.اس آیت کی رو سے مجھے یقین ہے کہ کم از کم اس آیت کے نزول تک جس قدر صحابہ تھے وہ آپس میں بھائی بھائی تھے.اور یہ شیعہ کے خلاف نص صریح ہے.پھر ان کی تعلیم جب یہاں تک پہنچ گئی تو پھر ان سے مال کی قربانی طلب ہوئی.پھر مال سے ترقی کر کے جانوں کی قربانی شروع ہوئی اور یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ ہر قوم میں اس کی نظیریں موجود ہیں.قرآن کریم فرماتا ہے لِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكَّاهُمْ نَاسِكُوهُ (الحج:٢٨)- میرا ایک دوست ہے.اسے مجھ سے بہت محبت ہے.محبت کے دنوں میں وہ مجھے دیکھتا کہ میں اکثر وقت اپنا حدیث کے پڑھانے میں خرچ کرتا ہوں.وہ چونکہ مجھے زیادہ خوشحال دیکھنا چاہتا تھا اس لئے اس نے مجھے کہا کہ جتنا وقت آپ حدیث پڑھاتے ہیں اگر طب میں اس کا اکثر حصہ لگاؤ تو آرام پاؤ.اس وقت میں نے سوچا کہ دو محبوبوں کا مقابلہ ہے.ایک جس کا کلام حدیث میں پڑھاتا ہوں اور ایک یہ جو حدیث سے منع کرتا ہے.میں نے اسے کہا تم سمجھتے ہوگے میں مان جاؤں گا.دیکھو! ہم قربانی کا مسئلہ ย

Page 386

377 پڑھے ہوئے ہیں اس لئے تمہاری محبت کو اس محبوب کی محبت پر قربان کرتے ہیں.اونی محبوبوں کو اعلیٰ محبوبوں پر قربان کرنے کا نظارہ ہر سال دیکھتا ہوں اس لئے ادنی محبت کو اعلیٰ محبت پر قربان کرتا ہوں.مثلاً سڑک ہے جہاں درخت بڑھنے کا منشاء ہوتا ہے وہاں نیچے کی شاخوں کو کاٹ دیتے ہیں.پھر درخت پر پھول آتا ہے اور وہ درخت متحمل نہیں ہو سکتا تو عمدہ حصے کے لئے ادنی کو کاٹ دیتے ہیں.میرے پاس ایک شخص سردہ لایا اور ساتھ ہی شکایت کی کہ اس کا پھل خراب نکلا.میں نے کہا کہ قربانی نہیں ہوئی.چنانچہ دوسرے سال جب اس نے زیادہ پھولوں اور خراب پودوں کو کاٹ دیا تو اچھا پھل آیا.لوگ جسمانی چیزوں کے لئے تو اس قانون پر چلتے ہیں مگر روحانی عالم میں اس کا لحاظ نہیں کرتے اور اصل غرض کو نہیں دیکھتے.علم کی اصل غرض کیا ہے؟ خشیت الله إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ (فاطر:۲۹).علم پڑھو اس غرض کے لئے کہ لوگوں کو خشیت اللہ سکھاؤ.مگر علم کی اصل غرض خشیت، تہذیب النفس تو مفقود ہو گئی.ادھر کتابوں کے حواشی پڑھنے میں سارا وقت خرچ کیا جا رہا ہے مگر ان کتابوں کے مضمون کا نفس پر اثر ہو اس کی ضرورت نہیں.میں رام پور میں پڑھتا تھا.وہاں دیکھتا کہ لوگ مسجد کے ایک کونے میں صبح کی نماز پڑھ لیتے اور مسجد کے ملاں کو نہ جگاتے کہ رات بھر مطالعہ کرتے رہے ہیں، انہیں جگانے سے تکلیف ہو گی.علم تہذیب نفس کے لئے تھا مگر لوگوں نے اسے تخریب نفس کا ہلی اور ستی میں لگا دیا.دوسروں کی اصلاح کے دعویدار ہیں مگر خود اپنی اصلاح سے بے خبر.بات کرتے جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہیں مگر ساتھ ہی جھوٹوں پر لعنت بھی بھیجتے جاتے ہیں.ایک اشتہار دیتے ہیں کہ دیکھو اشتہار والوں نے لوٹ لیا.پر ہم جو کچھ کہتے ہیں یہ سب سچ ہے اور پھر اس پیرایہ میں لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں.پھر واعظوں کا بھی یہی حال ہے.میں اپنے اندر بھی ایک مصیبت دیکھتا ہوں.میرے لئے بھی دعا کرو.اپنے لئے بھی اگر کسی بھائی کا کوئی عیب دیکھتے ہو تو تھوڑی سی قربانی کرو.چالیس دن دعاؤں میں لگاؤ پھر کسی سے شکایت کرو.خدا تعالیٰ نے صریحاً فرما دیا.لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا (الحج:۳۸) قربانی کے سلسلہ میں خدا گوشت کا بھوکا نہیں بلکہ خدا کو پانے کے لئے تقویٰ ہے.وہ ہمیں اپنے تک پہنچنے کا ایک طریق سکھاتا ہے کہ ادنی کو اعلیٰ پر قربان کر دو.تقویٰ جبھی حاصل ہوتا ہے کہ مدح و ثناء میں غلو کو چھوڑ

Page 387

روح 378 علم کو حاصل کرو مگر عمل کو مقدم رکھو.میں صرف طالب علموں کو نہیں کہتا بلکہ یہاں جتنے آئے ہیں وہ سب طالبعلم ہیں.یہ خطبہ ہی ایک تعلیم ہے.دیکھو خدا نے ابراہیم کو بطور نمونہ پیش کیا ہے اور فرماتا ہے کہ ابراہیم کے دین کو کوئی نہیں چھوڑ سکتا مگر وہی جو سفیہ ہو.ابراہیم کو خدا نے برگزیدہ کیا.یہ سنوار والے لوگوں میں سے تھا.تمام محبتوں، عداوتوں اور تمام افعال میں ادنیٰ کو اعلیٰ پر قربان کرنے کالحاظ رکھو پھر تمہیں ابراہیم سا انعام دیں گے.فرمانبرداروں کی راہ اختیار کرو.میں تو حضرت صاحب کی مجلس میں بھی قربانی ہی سیکھتا رہتا تھا.جب وہ کچھ فرماتے تو میں یہ دیکھتا تھا کہ آیا یہ عیب مجھ میں تو نہیں.جناب الہی میں محبوب بننے کے لئے اتباع رسول کی سخت ضرورت ہے.اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (ال عمران :۳۲.ساری دنیا کو قربان کر دو.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اتباع پر دیکھو.حضرت ابراہیم نے کیسی قربانی کی اور آخر اسی قربانی کے وسیلے سے وہ اس وجاہت پر پہنچا کہ خدا کے محبوبوں میں ایک ممتاز محبوب نظر آیا.جو قربانی کرتا ہے اللہ اس پر خاص فضل کرتا ہے.اللہ اس کا ولی بن جاتا ہے.پھر اسے محبت کا مظہر بناتا ہے.پھر اللہ انہیں عبودیت بخشتا ہے.یہ وہ مقام ہے جس میں لا محدود ترقیاں ہو سکتی ہیں.چنانچہ حضرت ابراہیم کو بھی کہا گیا.اسلم تو انہوں نے فوراً کہا اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ (البقرة :۳۳)- خير جب یہ عبودیت کا تعلق مستحکم ہو جاتا ہے تو پھر اس میں عصمت پیدا ہوتی ہے اور خدا اسے تبلیغ کا موقع دیتا ہے پھر اس کو ایک قسم کی دھت ہو جاتی ہے.خواہ کوئی مانے یا نہ مانے اس میں ایک ہمدردی پیدا ہوتی ہے اور وہ قول موجہ سے لوگوں کو امر بالمعروف کرتا ہے.پھر وقت آتا ہے جب حکم ہوتا ہے کہ لوگوں سے یوں کہو.جوں جوں ترقی کرتا جاتا ہے خدا کا فضل اور درجات بڑھتے جاتے ہیں.قربانی کا نظارہ عقلمند انسان کے لئے بہت مفید ہے.اپنے اعمال کا مطالعہ کرو.اپنے فعلوں میں باتوں میں خوشیوں میں ملنساریوں میں اخلاق میں غور کرو کہ ادنی کو اعلیٰ کے لئے ترک کرتے ہو یا نہیں؟ اگر کرتے ہو تو مبارک ہے تمہارا وجود.عیب دار قربانیاں چھوڑ دو.تمہاری قربانیوں میں کوئی عیب نہ ہو نه سینگ کٹے ہوئے، نہ کان کٹے ہوئے.قربانی کے لئے تین راہیں ہیں.(۱) استغفار (۲) دعا (۳) صحبت صلحاء.انسان کو صحبت سے بڑے بڑے فوائد پہنچتے ہیں.صحبت صالحین حاصل کرو.قربانی کے لئے تین دن ہیں.پر روحانی قربانی والے جانتے ہیں کہ سب ان کے لئے یکساں ہیں.میں تمہیں وعظ تو ہر روز سناتا ہوں، خدا عمل کی توفیق دیوے.( بدر جلد ۸ نمبر ۰۱۳-۲۱ / جنوری ۱۹۰۹ء صفحہ ۷-۸)

Page 388

۵ار جنوری ۱۹۰۹ء 379 خطبہ جمعہ حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:.قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَ هُدًى وَ بُشْرَى لِلْمُؤْمِنِيْنَ - مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِلَّهِ وَ مَلَئِكَتِهِ وَ رُسُلِهِ وَ جِبْرِيلَ وَ مِنْكُلَ فَإِنَّ اللَّهَ عدُو لِلْكَافِرِينَ - وَ لَقَدْ أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ وَمَا يَكْفُرُبهَا إِلا الْفَاسِقُونَ - أو كُلَّما عَهَدُوا عَهْدًا نَّبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ - وَ لَمَّا جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِّنْ عِنْدِ اللهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِيقٌ مِّنَ الَّذِينَ أوتُوا الْكِتَابَ كِتَابَ اللهِ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ كَأَنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ - وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُوا الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَنَ وَ مَا كَفَرَ سُلَيْمَنُ وَ لكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السّحْرَ وَمَا اُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ وَ مَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ وَ مَاهُمْ بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا

Page 389

380 يَضُرُّهُمْ وَلا يَنْفَعُهُمْ وَ لَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَريهُ مَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنْفُسَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ.(البقرة:۹۸ تا ۱۰۳) اور پھر فرمایا:.میں نے بارہا سنایا کہ ملائکہ پر ایمان لانے کا منشاء کیا ہے؟ صرف وجود کا ماننا تو غیر ضروری ہے.اس طرح تو پھر ستاروں، آسمانوں، شیطانوں کا ماننا بھی ضروری ہو گا.پس ملائکہ پر ایمان لانے سے یہ مراد ہے کہ بیٹھے بیٹھے جو کبھی نیکی کا خیال پیدا ہوتا ہے اس کا محرک فرشتہ سمجھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے.کیونکہ جب وہ تحریک ہوتی ہے تو وہ موقع ہوتا ہے نیکی کرنے کا.اگر انسان اس وقت نیکی نہ کرے تو ملك اس شخص سے محبت کم کر دیتا ہے پھر نیکی کی تحریک بہت کم کرتا ہے اور جوں جوں انسان بے پرواہ ہوتا جائے وہ اپنی تحریکات کو کم کرتا جاتا ہے اور اگر وہ اس تحریک پر عمل کرے تو پھر ملک اور بھی زیادہ تحریکیں کرتا ہے اور آہستہ آہستہ اس شخص سے تعلقات محبت قائم ہوتے جاتے ہیں بلکہ اور فرشتوں سے بھی یہی تعلق پیدا ہو کر تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ (حم السجدۃ:۳) کا وقت آجاتا ہے.یہاں خدا تعالیٰ نے خصوصیت سے دو فرشتوں کا ذکر کیا ہے.ان میں ایک کا نام جبرائیل ہے.دوسرے مقام پر اس کے بارے میں فرمایا ہے.اِنَّهُ لَقَولُ رَسُوْلِ كَرِيْمٍ ذِى قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينِ - مُّطَاع ثُمَّ آمِين (التکویر ۲۰ تا۳۲) یعنی وہ رسول ہے اعلیٰ درجہ کی عزت والا طاقتوں والا رتبے والا اور ملائکہ اس کے ماتحت چلتے ہیں.اللہ کی رحمتوں کے خزانہ کا امین ہے.پس جب یہ امر مسلم ہے کہ تمام دنیا میں ملائکہ کی تحریک سے کوئی نیکی ہو سکتی ہے اور ملائکہ کی فرمانبرداری مومن کا فرض ہے تو پھر ملائکہ کے اس سردار کی تحریک اور بات تو ضرور مان لینی چاہئے.چونکہ یہ تمام محکموں کا افسر ہے اس کی باتیں بھی جامع ہیں.پس ہر ایک ہدایت کی جڑ یہی جبرائیل ہے جس کی شان میں ہے فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قلبك یعنی اس کی تمام تحریکوں کا بڑا مرکز حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قلب ہے.پس ہمہ تن اس کے احکام کے تابع ہو جاؤ کیونکہ یہ جامع تحریکات جمیع ملائکہ ہے اور اسی لحاظ سے قرآن شریف جامع کتاب ہے.جیسا کہ فرماتا ہے فِيهَا كُتُبُ قَيِّمَةٌ (البينه:۴).تو گویا جو جبرائیل کا منکر ہے وہ اللہ کا دشمن ہے.پھر اللہ کے کلام کا کافر ہے پھر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا مخالف ہے.پھر ایک اور ملک کا ذکر فرمایا ہے.جہاں تک میں نے سوچا ہے حضرت ابراہیم کی دعا رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرة:٢٠٢) سے یہ مسئلہ حل ہوتا ہے کہ انسان

Page 390

.381 کو دو ضرورتیں ہیں.ایک جسمانی جیسے عزت اولاد ان کے اخراجات کھانے کے لئے چیزیں.ایک روحانی.جبرائیل کے بعد ایسی تحریکوں کا مرکز میکائیل ہے.اللہ نے دین بنایا، دنیا بھی بنائی.یہ جہان بھی بنایا وہ جہان بھی.دونوں تحریکوں کا مرکز ہمارے نبی کریم کا قلب مبارک تھا.اسی لئے فرمایا أُوتِيتُ جَوَامِعَ الكَلِم (بخاری کتاب التعبير - مسلم کتاب المساجد).قرآن شریف میں دنیا و دین دونوں کے متعلق ہدایتیں ہیں.بہت سے لوگ ہیں کہ جب فرشتوں کی تحریک ہوتی ہے تو وہ اس تحریک کو پیچھے ڈال دیتے ہیں اور اللہ کی پاک آیات کو واہیات بتاتے ہیں.بڑے تعجب کی بات ہے کہ جب قبض وغیرہ ہو تو انسان میکائیلی تحریکوں کے ماننے کو تیار ہو جاتا ہے مگر جب روحانی قبض ہو تو پھر کہتے ہیں کہ خیر اللہ غفور رحیم ہے.اس کی جڑ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات کو مقدم کر لیتا ہے.حضرت سلیمان کے عہد میں جب لوگوں کو امن حاصل ہوا اور مال ثروت کی فراوانی ہوئی تو ان میں نئی نئی تحریکیں ہونے لگیں.آسمانی کتب کا جو مجموعہ ان کے پاس تھا اس سے طبیعت اکتا گئی تو کسی اور تعلیم کی خواہش ہوئی مگر وہ تعلیم ایسی تھی جو خدا پھینکنے والی تھی.نقش سلیمانی وغیرہ اسی تعلیم کی یادگار بعض مسلمانوں میں مروج ہے.بنی اسرائیل نے جب خدا کی کتاب سے دل اٹھایا تو ان لغو باتوں میں پڑ گئے جو بعض شیطانی اثروں کے لحاظ سے دلربا باتیں بن گئیں.خدا تعالیٰ نے فرمایا.یہ سب اس زمانہ کے شریروں کی کارروائی ہے.سلیمان علیہ السلام نے ان کو یہ تعلیم نہیں دی بلکہ از خود یہ باتیں انہوں نے گھڑ لیں اور ایسی دلربا باتوں کی اشاعت کی.سے دور (پدر جلد ۸ نمبر ۱۵-۴۰ فروری ۱۹۰۹ء صفحه) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 391

۲۲ جنوری ۱۹۰۹ء 382 خطبہ جمعہ حضرت امیر المومنین نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:.وَ مَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ وَ مَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُوْلَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ وَ مَاهُمْ بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ اَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَرِيهُ مَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنْفُسَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُوْنَ (البقرة: ١٠٣).اور پھر فرمایا:.انسان میں عجیب در عجیب خواہشیں پیدا ہوتی رہتی ہیں.جب وہ بچہ ہوتا ہے، پھر جب ہوش سنبھالتا ہے، پھر جب جوان ہوتا ہے، پھر جب بری صحبتوں میں پھنستا ہے ، جب اچھی صحبتوں میں آتا ہے، جب

Page 392

383 کامیاب زندگی بسر کرتا ہے، جب ناکام ہوتا ہے تو اس کے حالات میں تغیر پیش آتے رہتے ہیں.میں نے ایک خطرناک ڈاکو سے پوچھا کہ کبھی تمہارے دل نے ملامت کی ہے؟ تو وہ کہنے لگا کہ تنہائی میں تو ضرور ضمیر ملامت کرتا ہے مگر جب ہماری چار یاری اکٹھی ہوتی ہے تو پھر کچھ یاد نہیں رہتا اور نہ یہ افعال برے لگتے ہیں.یہ سب صحبت بد کا اثر ہے.قرآن کریم میں کُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ (التوبه:) کا اسی واسطے حکم آیا ہے تاکہ انسان کی قوتیں نیکی کی طرف متوجہ رہیں اور نیک حالات میں نشو و نما پاتی رہیں.غرض انسان کے دکھوں میں اور خیالات ہوتے ہیں، سکھوں میں اور.کامیاب ہو تو اور طریق ہوتا ہے، ناکام ہو تو اور طرز.طرح طرح کے منصوبے دل میں اٹھتے ہیں اور پھر ان کو پورا کرنے کے لئے وہ کسی کو محرم راز بناتے ہیں اور جب بہت سے ایسے محرم راز ہوتے ہیں تو پھر انجمنیں بن جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس سے روکا تو نہیں مگر یہ حکم ضرور دیا.یايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَنَاجَيْتُمْ فَلَاتَتَنَاجَوْا بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَ مَعْصِيَتِ الرَّسُولِ وَ تَنَاجَوْا بِالْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ إِنَّمَا النَّجْوَى مِنَ الشَّيْطَانِ لِيَحْزُنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَ لَيْسَ بِضَارِهِمْ شَيْئًا إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ (المجادله:اتا) ایمان والو! ہم جانتے ہیں کہ تم کوئی منصوبہ کرتے ہو، انجمنیں بناتے ہو.مگر یاد رہے کہ جب کوئی انجمن بناؤ تو گناہ سرکشی اور رسول کی نافرمانبرداری کے بارے میں نہ ہو بلکہ نیکی اور تقویٰ کا مشورہ ہو.بنی اسرائیل جب مصر کی طرف گئے تو پہلے پہل ان کو یوسف علیہ السلام کی وجہ سے آرام ملا.پھر جب شرارت پر کمر باندھی تو فراعنہ کی نظر میں بہت ذلیل ہوئے مگر آخر خدا نے رحم کیا اور موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ سے ان کو نجات ملی یہاں تک کہ وہ فاتح ہو گئے اور وہ اپنے تئیں نَحْنُ ابْنَاءُ اللَّهِ وَاحِبَّاوة (المائدة: سمجھنے لگے.لیکن جب پھر ان کی حالت تبدیل ہو گئی ، ان میں بہت ہی حرامکاری شرک اور بدذاتیاں پھیل گئیں تو ایک زبر دست قوم کو اللہ تعالیٰ نے ان پر مسلط کیا.فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ (بنی أولُهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَا أُولِى بَاسٍ شَدِيدٍ فَجَاسُوا خِلَالَ الدِّيَارِ وَكَانَ وَعْدًا مَّفْعُولاً اسرائیل (۲).ستر برس وہ اس بلاء میں مبتلا رہے.آخر جب بابل میں دکھوں کا زمانہ بہت ہو گیا اور ان میں سے بہت صلحاء ہو گئے حتی کہ دانیال عزرا ، حزقیل ارمیا ، ایسے برگزیدہ بندگان خدا پیدا ہوئے اور انہوں نے جناب الہی میں ہی خشوع خضوع سے دعائیں مانگیں تو ان کو الہام ہوا کہ وہ نسل جس نے گناہ کیا تھا وہ تو ہلاک ہو چکی اب ہم ان کی خبر گیری کرتے ہیں.

Page 393

384 سلطنت اللہ کے کام دو طرح کے ہوتے ہیں.ایک تو ایسے کہ ان میں انسان کو مطلق دخل نہیں.مثلاً اب سردی ہے اور آفتاب ہم سے دور چلا گیا ہے.پھر گرمی ہو جائے گی اور آفتاب قریب آجائے گا.یہ کام اپنے ہی بندوں کی معرفت کرایا اور ان لوگوں کو سمجھایا کہ یہ بادشاہ اب ہلاک ہونے والا ہے.پس تم مید وفارس کے بادشاہوں سے تعلق پیدا کرو کیونکہ عنقریب یہ دکھ دینے والی قوم اور ان کی - ہلاک ہو جائے گی.پس اللہ نے دو فرشتے ہاروت ماروت نازل کئے.ہرت کہتے ہیں زمین کو مصفا کرنے کو اور مرت زمین کو بالکل چٹیل میدان بنا دینا.گویا یہ امران فرشتوں کے فرض میں داخل تھا کہ یہ لوگ برباد ہو جائیں اور بنی اسرئیل نجات پا کے اپنے ملک میں جائیں.پس وہ ہاروت ماروت نبیوں کی معرفت ایسی باتیں سکھاتے تھے اور ساتھ ہی یہ ہدایت کرتے تھے کہ ان تجاویز کو یہاں تک مخفی رکھو کہ اپنی بیٹیوں کو بھی نہ بتاؤ کیونکہ عورتیں کمزور مزاج کی ہوتی ہیں اور ممکن بلکہ اغلب ہے کہ وہ کسی دوسرے سے کہہ دیں.پس اس تعلیم کو پوشیدہ رکھنے کے لحاظ سے میاں بی بی میں بھی افتراق ہو جاتا تھا یعنی میاں اپنی بی بی کو اس راز سے مطلع نہ کرتا تھا.اور پھر یہ بات جب پختہ ہو گئی تو مید و فارس کے ذریعہ بائل تباہ ہو گیا اور خدا نے بنی اسرائیل کو بچالیا مگر جتنا ضرر دشمنوں کو پہنچایا گیا چونکہ اللہ کے اذن سے تھا اسی واسطے وہ اس میں کامیاب ہو گئے.اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ طیبہ میں تشریف لائے تو مکہ والوں کو بڑا غیظ و غضب پیدا ہوا.پس انہوں نے یہودیوں سے دوستی گانٹھی اور یہودی وہی پرانا نسخہ استعمال کرنے لگے کہ آؤ کسی بادشاہ سے ملکر اس محمدی سلطنت کا استیصال کریں.اسی واسطے ایرانیوں سے توسل پیدا کیا.یہ ایک لمبی کہانی ہے.ایرانیوں کے گورنر عرب کے بعض مضافات میں بھی تھے.انہوں نے اپنے بعض آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتار کرنے کے لئے بھی بھجوائے مگر کچھ کامیابی نہ ہوئی.اس کی وجہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آگے تو تم اے یہودیو! خدا کے حکم سے ایسے منصوبوں میں کامیاب ہوئے تھے.اب تم چونکہ یہ نسخہ اللہ کے رسول کے مقابلہ میں استعمال کرتے ہو اس لئے ہر گز کامیاب نہ ہو گے.چنانچہ چند آدمی شاہ فارس کی طرف سے گرفتار کرنے آئے.آپ نے ان کو فرمایا میں کل جواب دوں گا.صبح آپ نے فرمایا کہ جس نے تمہیں میری طرف بھیجا ہے اس کے بیٹے نے اسے قتل کر دیا ہے.وہ یہ بات سن کر بہت حیران ہوئے (ہات میں بات آگئی ہے.ہر چند کہ وہ ایسی عظیم الشان نہیں ہے.وہ یہ کہ جب وہ ایلچی نبی کریم کے حضور آئے تو صبح صبح داڑھیاں منڈوا کر آئے.آپ نے فرمایا یہ تم کیا کرتے ہو.ہم اس امر کو کراہت کے ساتھ دیکھتے ہیں.جہاں اوپر کا قصہ لکھا ہے وہاں یہ بات بھی ہے.

Page 394

385 خیرا اور خائب و خاسر واپس پھرے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اب یہ یہودی ایسی باتیں سیکھتے ہیں جو ان کو ضرر دیتی ہیں.ان کے حق میں بالکل مفید نہیں ہیں.جواب یہ کرتے ہیں آخرت میں ان کے لئے کوئی حصہ نہیں.ہاروت ماروت نے جو سکھایا تھا وہ چونکہ نبیوں کے حکموں کے ماتحت تھا اس لئے کامیابی کامہ جب ہوا.ٹیلین اب چونکہ نبی کی نافرمانی میں وہ ہتھیار چلتا ہے اس لئے کچھ کام نہ دے گا.لیا اچھا : و تا کہ وہ ایسی بری شے کے بدلے میں اپنی جانوں کو نہ بیچتے بلکہ اب تو یہ ان کے لئے بہتر ہے کہ ایمان نہیں.متقی بن بہ میں تو اللہ کے ہاں بہت اجر پائیں.بدر مجله ۸ بر ۱۵ ۴۰ فروری ۱۹۰۹ء صفحه ۳-۴)

Page 395

۲۹ جنوری ۱۹۰۹ء 386 خطبہ جمعہ يُأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوا وَ لِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ مَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوا مِنْ اَهْلِ الْكِتَابِ وَ لَا الْمُشْرِكِينَ أَنْ تُنَزَّلَ عَلَيْكُمْ مِنْ خَيْرٍ مِنْ رَّبِّكُمْ وَ اللَّهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ وَ اللهُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِيْمِ مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمُ أَنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ - أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَ مَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِي وَّلَا نَصِيرٍ - أَمْ تُرِيدُونَ اَنْ تَسْتَلُوا رَسُوْلَكُمْ كَمَا سُئِلَ مُوسَى مِنْ قَبْلُ وَ مَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيْمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ - وَدَّ كَثِيرٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُمْ مِّنْ بَعْدِ إِيْمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلّ شَيْءٍ قَدِيرُ - وَ اَقِيْمُوا الصَّلوةَ وَاتُوا الزَّكَوةَ وَ مَا تُقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ مِنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرُ (البقرة :۱۰۵ تا ۱)

Page 396

387 اللہ جل شانہ نے ان آیات میں چند باتیں بطور نصیحت فرمائی ہیں.پہلی بات:.بہت سے لوگ جن کے دلوں میں کینہ اور عداوت ہوتی ہے تو اپنے حریف کو ایسے الفاظ سے مخاطب کرتے ہیں جن میں ایک پہلو بدی کا بھی ہوتا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ڈرپوک ہوتے ہیں.کھل کر کسی کو برا نہیں کہہ سکتے.راعِنَا.ایک لفظ ہے.اس کے کئی معنے ہیں.یہ رعونت، بڑائی خود پسندی، حماقت کے معنوں میں بھی آتا ہے اور اس کے یہ معنے بھی ہیں کہ آپ ہماری رعایت کریں.اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو یہ سکھایا ہے کہ ایسا لفظ اپنے کلام میں اختیار نہ کرو جو ذو معنی ہو بلکہ ایسے موقعہ پر انظرنا کہا کرو.اس میں بدی کا پہلو نہیں ہے.ایک شخص نے مجھ سے اصلاح کا ثبوت قرآن مجید سے پوچھا.میں نے یہی آیت پڑھ دی.اللہ تعالیٰ یہ نصیحت فرما کر متنبہ کرتا ہے کہ جو لوگ انکار پر کمر باندھے ہیں اور حق کا مقابلہ کرتے ہیں وہ دکھ درد میں مبتلا رہتے ہیں.اس سے آگے عام کافروں کا رویہ بتایا ہے کہ یہ اہل کتاب اور مشرکین تمہارے کسی سکھ کو محض از روئے حسد دیکھ نہیں سکتے.اس حسد سے ان کو کچھ فائدہ سوا اس کے کہ جل جل کر کباب ہوتے رہیں نہیں پہنچ سکتا.یہ حسد بڑا خطرناک مرض ہے، اس سے بچو.اللہ تعالیٰ کے علیم و حکیم ہونے پر ایمان ہو تو یہ مرض جاتا رہتا ہے.دیکھو ململ کا کپڑا ہے.کوئی اسے سر پر باندھتا ہے.کوئی اس کا قمیص بناتا ہے.کوئی زخموں کے لئے پٹی.سب جگہ وہ کام دیتا ہے اور سبھی جگہ واقعہ میں اس کی ضرورت ہے.اسی طرح اگر انسان سمجھ لے کہ خدا تعالیٰ کے عجائبات قدرت سے جو کام ہو رہے ہیں وہ بلا ضرورت و حکمت کے نہیں تو معترض کیوں ہو؟ اگر خدا تعالیٰ نے ایک قوم کو اپنی رحمت خاصہ کے لئے چن لیا ہے تو یہ کیوں جلتے ہیں.یہ تو عام قانون قدرت ہے کہ آج ایک درخت بغیر پھول اور پھل پتوں کے بالکل سوختنی ہیئت میں کھڑا ہے.اب بہار کا موسم آیا تو اس میں پتے لگنے شروع ہوئے.پھر پھول پھر پھل.اسی طرح قوموں کا نشوونما ہے.ایک وقت ایک قوم برگزیدہ ہوتی ہے لیکن جب وہ انعامات کے قابل نہیں رہتی تو خدا تعالیٰ دوسری قوم کو چن لیتا ہے اور وہ پہلی قوم ایسی مٹ جاتی ہے کہ بالکل بھلا دی جاتی ہے یا اس کی حالت تبدیل ہو جاتی ہے.غرض اس جہان میں اس طرح بہت تغیر ہوتے رہتے ہیں.ایک شریعت دی جاتی ہے پھر اس کی بجائے دوسری.اس بناء پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم کوئی نشان قدرت نہیں بدلتے اور نہ اسے ترک کرتے ہیں مگر کہ اس کی مثل یا اس سے اچھا لاتے ہیں.کیا تم کو یہ خبر نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز

Page 397

388 پر قادر ہے.اسی کا راج آسمانوں اور زمینوں میں ہے.وہ حق و حکمت سے ایسی تبدیلیاں کرتا رہتا ہے.اس پر پر کسی کا بس نہیں چلتا.اس کے سوا کسی کو مددگار اور کار ساز نہ پاؤ گے.بدر جلد ۸ نمبر ۱۶---۱۱ار فروری ۱۹۰۹ء صفحه ۲) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 398

۱۲ فروری ۱۹۰۹ء 389 خطبہ جمعہ حضرت امیر المومنین نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:.وَ مَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ اَنْ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَ سَعَى فِي خَرَابِهَا أُولَئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَنْ يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ لَهُمْ فِى الدُّنْيَا خِزْيٌّ وَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ وَ لِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلَّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ - وَ قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا سُبْحْنَهُ بَلْ لَّهُ مَا فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ كُلٌّ لَّهُ قَانِتُوْنَ - بَدِيعُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَإِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونَ (البقرة : ۱۵ تا ۱۸) اور پھر فرمایا:.اس سے پہلے رکوع میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ کسی دوسرے کو حقارت سے نہ دیکھو بلکہ مناسب یہ ہے کہ اگر کسی کو اللہ نے علم طاقت اور آبرو دی ہے تو اس کے شکریہ میں اس کی جو اس نعمت سے متمتع نہیں ، مدد کرے نہ یہ کہ اس پر تمسخر اڑائے ، یہ منع ہے.چنانچہ اس نے فرمایا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ (الحجرات: مگر افسوس کہ لوگ اگر ذرا بھی آسودگی پاتے ہیں تو ۱۲).

Page 399

390 مخلوق الہی کو حقارت سے دیکھتے ہیں.اس کا انجام خطر ناک ہے.ان لوگوں میں تحقیر کا مادہ یہاں تک بڑھ جاتا ہے کہ اگر کسی کی طاقت مسجد کے متعلق ہے تو وہ ان لوگوں کو جو اس کے ہم خیال نہیں مسجد سے روک دیتا ہے اور یہ نہیں سمجھتا کہ آخر وہ بھی خدا ہی کا نام لیتا ہے.ایسا کر کے وہ اس مسجد کو آباد نہیں بلکہ ویران کرنا چاہتا ہے.بارہویں صدی تک اسلام کی مسجدیں الگ نہ تھیں بلکہ اس کے بعد سنی اور شیعہ کی مساجد الگ ہوئیں.پھر وہابیوں اور غیر وہابیوں کی اور اب تو کوئی حساب ہی نہیں.ان لوگوں کو یہ شرم نہ آئی کہ مکہ کی مسجد تو ایک ہی ہے اور مدینہ کی بھی ایک ہی.قرآن بھی ایک نبی بھی ایک اللہ بھی ایک پھر ہم کیوں ایسا تفرقہ ڈالتے ہیں؟ ان کو چاہئے کہ مسجدوں میں خوف الہی سے بھرے داخل ہوتے.صرف اسی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب مسجد میں آئے اور جماعت ہو رہی ہو تو وقار اور سکینت سے آئے اور ادب کرے جیسا کہ کسی شہنشاہ کے دربار میں داخل ہوتا ہے.لیکن وہ اگر خوف الہی سے کام نہیں لیتے اور مسجدوں میں نماز پڑھنے سے روکتے ہیں ان کے لئے دنیا میں بھی ذلت ہے اور آخرت میں بھی بڑا عذاب ہے.یاد رکھو کسی کو مسجد سے روکنا بڑا بھاری ظلم ہے.اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل کو دیکھو کہ نصرانیوں کو اپنی مسجد مبارک میں گرجہ کرنے کی اجازت دے دی.(اللہ تعالی) صحابہ کرام کو تسلی دیتا ہے کہ اگر (کوئی) تمہیں مسجد میں داخل ہونے سے روکتا ہے تو کچھ غم نہ کرو، میں تمہارا حامی ہوں.جس طرف تم گھوڑوں کی باگیں اٹھاؤ گے اور منہ کرو گے اسی طرف میری بھی توجہ ہے.چنانچہ جدھر صحابہ نے رخ کیا فتح و ظفر استقبال کو آئی.یہ بڑا اعلیٰ نسخہ ہے کہ کسی کو عبادت گاہ سے نہ روکو اور کسی مخلوق کی تحقیر نہ کرو.مگر اس سے یہ مطلب نہیں کہ دنیا میں امر بالمعروف نہ کرو.ہرگز نہیں.بلکہ صرف حسن سلوک اور سلامت روی سے پیش آؤ.جو کسی کی غلطی ہو اس کی فوراً تردید کرو.مثلاً عیسائی ہیں.جب وہ کہیں کہ خدا کا بیٹا ہے تو ان کو کہو خدا تعالیٰ اس قسم کی احتیاج سے پاک ہے.جب آسمان و زمین میں سب کچھ اسی کا ہے اور سب اس کے فرمانبردار ہیں تو اس کو بیٹے کی کیا ضرورت ہے؟ بدر جلد ۸ نمبر۱۷-۱۸۰۰, فروری ۱۹۰۹ء صفحه ۲) ☆-⭑-⭑-⭑.

Page 400

۵ مارچ ۱۹۰۹ء 391 خطبہ جمعہ حضرت امیر المومنین نے وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ (البقرة)۳) کی تلاوت کے بعد فرمایا:.رشک ( غبطه ) تمام انسانی ترقیات کی جڑ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر رشک کرتا ہے تو ابراہیم سے کرو.دیکھو! اس نے اپنے اخلاص و وفا کے ذریعے کیسے کیسے اعلیٰ مدارج پائے.ابراہیم کی ملت سے کون بے رغبت ہو سکتا ہے مگر وہی جس کی دینی دنیوی عقل کم ہو.اس کی ملت کیا تھی؟ بس حنیف ہونا.حنیف کہتے ہیں ہر امر میں وسطی راہ اختیار کرنے والے کو.عربی زبان میں جس کی ٹانگیں ٹیڑھی ہوں اسے احنف کہتے ہیں.اس واسطے حنیف کے معنے میں بعض لوگوں کو دھوکہ ہوا ہے.حالانکہ ایسے شخص کو احنف بطور دعا و فال نیک کہتے ہیں.ہمارے ملک میں هرچه گیرد علتی شود" کے مریض سیدھے کے معنے بھی الٹے ہی لیتے ہیں.جس آدمی کو سیدھا کیا جاوے گویا اس کے یہ معنے ہیں کہ تم بڑے بیوقوف ہو.

Page 401

392 ابراہیم کی راہ یہ ہے کہ افراط تفریط سے بچے رہنا.کسی کی طرف بالکل ہی نہ جھکنا بلکہ دین و دنیا دونوں کو اپنے اپنے درجے کے مطابق رکھنا.چنانچہ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَ قِنَا عَذَابَ النَّار (البقرۃ:۲۰۲) ایک ہی دعا ہے.رابعہ بصری ایک عورت گذری ہے.ایک دن کسی شخص نے ان کے سامنے دنیا کی بہت ہی مذمت کی.آپ نے توجہ نہ فرمائی لیکن جب دوسرے دن پھر تیسرے دن بھی یونہی کہا تو آپ نے فرمایا.اس کو ہماری مجلس سے نکال دو کیونکہ یہ مجھے کوئی بڑا دنیا پرست معلوم ہوتا ہے جبھی تو اس کا بار بار ذکر کرتا ہے.پس ایک وسطی راہ اختیار کرنا جس میں افراط و تفریط نہ ہو ابراہیمی ملت ہے.مومن کو یہی راہ اختیار کرنی چاہئے اور میں خدا کی قسم کھا کر شہادت دیتا ہوں کہ ابراہیم کی چال اختیار کرنے سے نہ تو غریب الوطنی ستاتی ہے، نہ کوئی اور حاجت.نہ انسان دنیا میں ذلیل ہوتا ہے، نہ آخرت میں.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا وَ إِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ (البقرة :١٣٤) وه دنيا میں بھی برگریدہ لوگوں سے تھا اور آخرت میں بھی.بعض لوگوں کا خیال ہے کہ دنیا میں خواہ کیسی ذلت ہو ، آخرت میں عزت ہو.اور بعض آخرت میں کسی عزت کے طالب نہیں یا تھوڑی چیز پر اپنا خوش ہو جانا بیان کرتے ہیں.چنانچہ ایک دفعہ میں نے ایک کتاب میں پڑھا کہ کوئی بزرگ لکھتے ہیں کہ ہمیں تو بہشت میں پھونس کا مکان کافی ہے اور دنیا کے متعلق لکھا ہے کہ یہاں کفار کو ٹھیوں میں رہتے ہیں.مسلمانوں کے لئے کچے مکانوں میں رہنا اسلامیوں کی ہتک ہے.اب میں پوچھتا ہوں کہ جب اس دنیا میں وہ اپنی ہتک پسند نہیں کرتا تو اس عالم میں اپنا ذلیل حالت میں رہنا اسے کس طرح پسند ہے؟ یہ خیال ابراہیمی چال کے خلاف ہے.ابراہیم نے جن باتوں سے یہ انعام پایا کہ دنیا و آخرت میں برگزیدہ اور اعلیٰ درجہ کا معزز انسان ہوا وہ بہت لمبی ہیں.مگر اللہ تعالیٰ نے ایک ہی لفظ میں سب کو بیان فرما دیا کہ إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمُ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ (البقرۃ:۱۳۲).پھر انسان کو اپنی بہتری کے ساتھ اپنی اولاد کا بھی فکر ہوتا ہے.مسلمانوں میں کئی قسم کے لوگ گزرے ہیں.بعض کو اپنی اولاد کا اتنا فکر ہوتا ہے کہ دن رات ان کے فکر میں مرتے ہیں اور بعض ایسے کہ اولاد کے متعلق اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھتے ہیں.قاری کے متعلق یہ قصہ مشہور ہے کہ آپ پڑھا رہے تھے.گھر سے غلام نے آکر کہا کہ آپ کا بیٹا مر گیا.آپ نے فرمایا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (البقرة: ۱۵۷).اچھا فلاں کو کہہ دو کہ قبر نکلوا کر اسے دفن

Page 402

393 کرا دے.اس کے بعد آپ پڑھانے میں مشغول ہو گئے.خیر ابراہیم نے اپنی اولاد کی بہتری چاہی تو اس کے لئے ایک وصیت کی بنی ان الله اصطفى لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ (البقرة:۳۳) اے میرے بچو! اللہ نے تمہارے لئے ایک دین پسند فرمایا.پس تم فرمانبرداری کی حالت میں مرو.کئی لوگ ایسے ہیں جو گناہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پھر توبہ کر لیں گے.مگر یہ غلطی ہے کیونکہ عمر کا کچھ بھروسہ نہیں.خطبہ ثانیہ وَنَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا.میں تمہیں ایک عام شر کی طرف توجہ دلاتا ہوں، وہ بد ظنی ہے.جن لوگوں نے اس مرض کے علاج بتائے ہیں ان میں ایک امام حسن بصری بھی ہیں.آپ حضرت عمر کی خلافت میں پیدا ہوئے تھے.آپ کے اجداد عیسائی تھے.یہ لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ میں دجلہ کے کنارے پر گیا.کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نوجوان بیٹھا ہے اور اس کے ساتھ ایک عورت ہے بڑی حسین.ان کے درمیان شراب کا مشکیزہ پڑا ہے.وہ اسے پی رہے ہیں اور بعض وقت عورت اس نوجوان کو چوم بھی لیتی ہے.میں نے اس وقت کہا کہ یہ لوگ کیسے بدکار ہیں.باہر سرمیدان بد ذاتی کر رہے ہیں.اتنے میں ایک حادثہ ہو گیا.ایک کشتی آرہی تھی وہ ڈوب گئی.عورت نے اشارہ کیا تو وہ نوجوان کودا اور چھ آدمیوں کو باہر نکال لایا.پھر آواز دی کہ او حسن! ادھر آ.تو بھی ایک کو تو نکال.نادان! یہ تو میری ماں ہے اور مشکیزہ میں دریا کا مصفی پانی ہے.ہم بھی تیری آزمائش کو یہاں بیٹھے تھے کہ دیکھیں تم میں سوء ظنی کا مرض گیا ہے یا نہیں ؟ امام حسن بصری فرماتے ہیں اس دن سے میں ایسا شرمندہ ہوا کہ کبھی سوء ظن نہیں کیا.سو تم بھی اس سے بچو.( بدر جلد ۸ نمبر ۲۴ - ۲۵ ---۸ - ۵ار اپریل ۱۹۰۹ء صفحه ۲) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 403

۱۴ مئی ۱۹۰۹ء 394 خطبہ جمعہ لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَ لَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ وَ الْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَ النَّبِيِّنَ وَ اتَّى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَ الْيَتمى وَالْمَسَاكِيْنَ وَ ابْنَ السَّبِيْلِ وَ السَّائِلِينَ وَ فِي الرِّقَابِ وَ أَقَامَ الصَّلوةَ وَ اتَّى الزكوة (البقرة: ۱۷۸) کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.- لوگوں کی عجیب عادت ہے کہ وہ بڑی باتوں کا ذکر نہیں کرتے اور چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے لڑائی کرتے ہیں.یہ ایک مرض ہے.میں نے اس مرض کا تماشا دو جگہ دیکھا.ایک بڑا عہدیدار ہمارے ڈیرے پر آگیا.اس نے جو شلوار پہنی ہوئی تھی وہ ٹخنوں سے نیچی تھی.میں وہاں موجود نہیں تھا.ایک میرے داماد تھے.انہوں نے چھوٹی سی چھڑی جو ان کے ہاتھ میں تھی اس رئیس کے ٹخنے پر لگا کر کہا ما اَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ فِي النَّارِ (بخاری کتاب اللباس) یہ بہت بری بات ہے.وہ اس سلوک سے آگ ہی تو ہو گیا.اس نے کہا نالائق انسان! تجھے تو یہ بھی خبر نہیں کہ مذہب اسلام کو بھی مانتا ہوں یا نہیں.میرا

Page 404

395 طریق کیا ہے.یہ حدیث بھی صحیح ہے یا نہیں.اگر میں تمہارا مقابلہ کروں تو تجھے ایسا ذلیل کروں کہ پھر کبھی ایسا کرنے کا نام نہ لے.اسی طرح میں ایک دفعہ امر تسر تھا.صبح کی نماز میں ایک صاحب آگئے اور وہ میرے ساتھ دس بجے تک پھرتے رہے.میں نے قرآن شریف کی بہت سی باتیں سنائیں.اتفاق سے میرا پاجامہ نیچا ہو گیا تو اس نے جھٹ اعتراض کر دیا.میں نے کہا بد بخت! تجھے میری خوبی تو کوئی نظر نہ آئی.کہا میں تو عیب چینی کی نیت سے ہی ساتھ شامل ہوا تھا.اسی طرح میں ریل میں تھا.ایک امیر شخص کی خاطر میں نے اسے ایک دو نکات قرآنی سنائے.اس نے کہا کوئی طبابت کی بات کیجئے.قرآن تو آپ کو آتا نہیں.میں نے کہا یہ آپ کو کس طرح معلوم ہوا؟ کیا آپ نے آیت علم قرات کے مطابق نہیں پڑھی.میں نے یہ بات اس لئے تمہیں سنائی تا تمہیں معلوم ہو کہ لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کو تو پکڑتے ہیں مگر بڑی باتوں کی کچھ پروا نہیں کرتے.گھر میں آئے ہیں.بی بی نماز کی سست ہے.شرک میں گرفتار ہے.اس سے کوئی پر خاش نہیں کوئی لڑائی نہیں لیکن اگر ہانڈی میں تھوڑا سا نمک بھی زیادہ پڑ گیا تو گھر والوں کی شامت آگئی.دیکھو یہ کیسا ظلم ہے.اسی طرح میں نے گاؤں میں دیکھا.لوگ نماز نہیں پڑھتے مگر رفع یدین اور آمین پر ڈانگوں سے لڑتے ہیں.میں نے ایسے لوگوں سے کہا کہ تم میں سے کئی ہیں جو نمازوں کے سست ہیں تو وہ کہنے لگے نماز کیا ہوتی ہے؟ اس کے نہ پڑھنے سے تو گنہگار ہی ہوتے ہیں مگر رفع یدین اور آمین میں تو ایمان کے جانے کا خطرہ ہے.غرض لوگ آپس میں عجیب عجیب طور سے چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑتے ہیں اور بڑے نقصانوں کا کچھ خیال نہیں کرتے.جب میں بہت ہی چھوٹا تھا تو ہمارے شہر میں غالبا صرف دو ہندؤوں کے گھر تھے جن کا زمیندارہ تھا.باقی سارے شہر کا زمیندارہ مسلمانوں کے قبضے میں تھا جو تعداد میں بارہ ہزار ہوں گے اور ہندو چھ ہزار.ہندؤوں کو حقارت سے کراڑ کہتے تھے مگر آج وہی کراڑ ہیں کہ مسلمانوں کی تقریباً ساری زمینوں کے مالک ہیں.بجائے اس کے کہ مسلمان انہیں کراڑ کہیں اب شاہ جی کہتے ہیں جو اس سے پہلے سیدوں کو کہتے تھے.پھر مسلمانوں میں باہمی اس قدر عناد ہے کہ میونسپلٹی میں جب رائے لی گئی تو مسلمانوں نے بھی ہندؤوں کے حق میں رائے دی.یہ حالت کیوں ہوئی؟ میں نے دیکھا جو شخص آسودہ ہو وہ خود پسند اور خود رائے ہو جاتا ہے.کسی کو مانتا نہیں.جو کچھ دل میں آتا ہے وہی سچ سمجھتا ہے.تکبر کا یہ حال ہے کہ جسے چند روز صحت یا جتھا مل جاوے یا مقدمہ میں کامیاب ہو جائے اور تدبیریں مفید پڑ جائیں

Page 405

نطبات نور 396 وہ خدائی کا دعوی کرنے کو تیار ہو جاتا ہے.دیکھو! عرب کے لوگوں میں قریشی سادات کہلائے.ان کا بچہ بچہ سید کہلاتا.قریش ایک جانور کا نام ہے جو کئی جانوروں کو کھا جاتا ہے.چونکہ یہ ساری دنیا کو کھا گئے اس لئے قریش ان کا نام ہوا.مگر جب ان میں آسودگی آئی تو یہ ایسے بگڑے کہ جس قدر بد کاریاں، بدعتیں ، بدمعاشیاں، نماز روزہ کی ستیاں، قرآن سے بے توجہیاں ہیں ان کی جڑ انہی گھروں میں ہے.پھر میں نے دیکھا ہے کہ تھوڑا سا رزق ملتا ہے تو اکر باز بن جاتے ہیں.حالانکہ غور کرو تو وہ اتنا سامان ہوتا ہے کہ جس سے بمشکل قحط کے دنوں میں پیٹ کا دوزخ بھرا جا سکے.مگر کہتا ہے او ہم فلانے کو کیا سمجھتا ہے.نہ تو مسلمانوں میں باہمی ہمدردی ہے نہ قومی جوش ہے، نہ خلوص ہے.یہ تو دنیا کا حال ہے.دین کے معاملات میں بھی اتفاق نہیں.سنی شیعہ کی مسجدیں کچھ مدت سے الگ ہوئی ہیں.مقلدوں اور غیر مقلدوں کی مسجدیں میرے دیکھتے دیکھتے الگ ہو گئیں.اب مرزائیوں کا تسلط ہو جائے تو وہ غیر مرزائیوں کو نماز نہ پڑھنے دیں تو یہ بات مجھے پسند نہیں.دیکھو یہاں نہ تو کوئی ہندو ہے نہ سکھ نہ آریہ.میں تمہیں سناتا ہوں اور تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ میں نے بھیرہ کی بات کوئی اپنا وطن سمجھ کر نہیں سنائی.مدت ہوئی میں بھیرہ کا خیال بھی چھوڑ چکا.اب نہ میری زبان وہاں کی ہے نہ لباس نہ میرے بچوں کا وہ طرز ہے.میں نے صرف تمہیں ایک واقعہ سنایا تا تم عبرت پکڑو.تمہاری خود آرائیاں ، خود پسندیاں، دوسروں کی پروا نہ کرنا صبر کو اختیار نہ کرنا یہ مجھے پسند نہیں.میں تمہیں کھول کر سناتا ہوں کہ جب تک پاک نمونہ نہ بنو گے کامیاب نہ ہو سکو گے.میں ایک جگہ مدرس تھا.میرے ایک مہمان آیا.اس شہر کا پانی کھاری تھا.عورتیں صبح دریا سے بھر لاتی تھیں.دریا کا راستہ مدرسہ کے مشرق کی طرف تھا.مجھے اس نے بلایا ذرا باہر آؤ.جب میں گیا تو مجھے کہا دیکھو مسلمان عورتیں گھڑوں پر کاہی جسم رہی ہے ، میل سے ایسے بھرے ہیں کہ دیکھ کر گھن آتی ہے.ہوا چل رہی تھی.کہا دیکھو یہ مسلمان عورتیں نہ بند باندھے ہوئے ہیں اور کیسی بے پرد ہو رہی ہیں.ان کے بعد ہندو عورتیں گزریں.گلبدن کے پاجامے پہنے ہوئے سروں پر گاگریں جو مانجھ مانجھ کر ایسی شفاف بنائی ہوئیں کہ نظر نہ ٹھر سکتی تھی.مجھے کہنے لگا کہ تم مسلمانی لئے پھرتے ہو.اب اگر کوئی اجنبی یہاں آئے تو اسے کونسامذ ہب اختیار کرنے کی تحریک ہو سکتی ہے.کیا یہ پچھلیاں ان اگلی عورتوں کا نمونہ دیکھ کر مسلمان ہو سکتی ہیں ؟ افسوس تم لوگ عملی حالت اچھی نہیں بناتے.رنڈیوں کے بازاروں کو دیکھو.سب مسلمانوں سے بھرے پڑے ہیں.پوچھو کہ مسلمان ہیں، تو کہیں گے شکر الْحَمْدُ لِلَّهِ محب اہل بیت ہیں.لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ.ہر قسم کے شہدے، گنڈے، جعلساز ، جھوٹی

Page 406

397 خطبات و قسم کھانے والے مسلمانوں میں موجود ہیں.اب تم بتاؤ کہ آریہ عیسائی کیا دیکھ کر مسلمان ہوں.کیا قیامت کو ؟ قیامت تو مر کر دیکھیں گے.تم مرنے سے پہلے بھی انہیں کچھ دکھاؤ.دیکھو صحابہ کرام نے کیا پاک نمونہ دکھایا.ہمت‘ استقلال جان شاری توحید کے لئے مال جان وطن چھوڑ دیا.اپنے آقا کی اطاعت میں محویت پاکبازی تھی.ان میں خود پسندی، خود رائی نہ تھی.وہ حرام خور نہ تھے.حلال طیب کھاتے تھے.اس رکوع کے ابتداء میں فرماتا ہے.تم مشرق مغرب کو فتح کر رہے ہو یہ نیکی نہیں.نیکی تو اس وقت ہو گی جب اس فتمندی کے ساتھ اللہ پر تمہارا ایمان ہو گا.اگر اللہ پر ایمان نہیں تو پھر تمہاری ہستی کیا ہے.پھر یوم آخرت پر ایمان ہو.جو لوگ کہتے ہیں ”دنیا کھائیے مکر سے روٹی کھائیے شکر سے" وہ بے ایمان ہیں.دیکھو جب تک خشیت اللہ نہ ہو ، آخرت پر ایمان نہ ہو حرامخوری سے نہیں رک سکتے.میں نے ریاستوں میں رہ کر دیکھا، وہاں نوشیروانی ہوا کرتی تھی.ایک شخص عرضیاں سنایا کرتا تھا.ایک اہل غرض نے اس عرضیاں سنانے والے کو سو روپیہ دیا کہ تم یہ عرضی اس ترتیب سے سنا دینا.چنانچہ اس نے عرضی بڑی عمدگی سے سنائی اور کہا حضور ! بڑی قابل توجہ ہے اور ساتھ سو روپیہ رکھ دیا کہ اس نے مجھے رشوت کا دیا ہے.رئیس کے دل میں عظمت بیٹھ گئی کہ یہ کیسا ایماندار آدمی ہے.میں اسے جانتا تھا کہ وہ بڑا حرامخور ہے.میں نے کہا یہ کیا؟ کہا موادی صاحب آپ نہیں جانتے.یہ سو روپیہ ظاہر کر دیا.اس سے پچھلا تو ہضم ہو جائے گا اور آئندہ کے لئے راہ کھل جائے گا.یہ راجہ لوگ تو الو ہوتے ہیں.ہم نے اس حیلہ سے اپنا الو سیدھا کر لیا.دیکھو میرے جیسا شخص اگر خائن ہو جائے تو ہزاروں روپے کما سکتا ہے.مگر آخرت پر ایمان ہے جو اس بات کا وہم تک بھی آنے نہیں دیتا.مسلمانوں کو سمجھاتا ہے کہ فاتح ہونے میں بڑائی نہیں بلکہ ایمان باللہ و ایمان بالیوم الآخر میں بڑائی ہے.پھر ملائکہ پر ایمان ہو جو تمام نیک تحریکوں کے مرکز ہیں.پھر اللہ کی کتابوں پر اور اللہ کے نبیوں پر ایمان ہو.پھر خدا کی راہ میں کچھ دے.میں نے تجربہ سے آزمایا ہے جو کنجوس ہو وہ حق پر نہیں پہنچتا.بعض دفعہ سخاوت والے انسان کے لئے کسی محتاج کے دل سے دعا نکلتی ہے.”جا تیرا دونوں جہان میں بھلا اور پھر وہ عرش تک پہنچتی ہے اور اسے جنت نصیب ہو جاتا ہے.ایک یہودی تھا، وہ بارش کے دنوں میں چڑیوں کو چو گاڈالا کرتا.بزرگ ملاں تھا اس نے حقارت سے دیکھا.اور یہ ملاں بڑی بد بخت قوم ہوتی ہے ایسا ہی گدی نشین.ملا نمبردار کے ماتحت ہوتا ہے اور گدی نشین کو تو سب کچھ حلال ہے.رنڈیاں ان کے دربار کی زینت ہیں.نماز روزہ کو جواب دے رکھا ہے.بزرگوں کے نام سے کھاتے ہیں.خیر! ایک وقت آیا کہ وہ یہودی مسلمان ہوا.وہ حج کو گیا.وہاں

Page 407

398 ملاں بھی حج کر رہا تھا.اپنا روپیہ کب خرچ کیا ہو گا.کرایہ کا ٹو بنکر گیا ہو گا.یہودی نے کہا.دیکھا وہ چوگا ڈالنا ضائع نہ گیا.ایک واقعہ رسول کریم کے زمانے میں بھی ایسا ہوا کہ کسی نے سو اونٹ دیئے تھے.پوچھا کیا وہ اکارت گئے؟ فرمایا نہیں.اَسْلَمْتَ عَلَى مَا أَسْلَفْتَ (صحيح مسلم.کتاب الایمان) اسی سے تو تمہیں اسلام کی توفیق ملی.پس فرماتا ہے کہ مال دو باوجود مال کی محبت کے.غیروں کو دیتے ہیں مگر رشتہ داروں کو دیتے میں مضائقہ ہوتا ہے.فرمایا ان کو بھی دو اور یہ نہ کہو کہ اس کے باپ کے دادا کو ہمارے چچا کے نانا سے یہ دشمنی تھی.پھر فرمایا یتیموں کو مسکینوں کو مسافروں کو اللہ کے نیک کاموں اسلام کی اشاعت میں خرچ کرو.مشکلات کے تین وقت آتے ہیں.ایک قرض ، سو اس میں بھی امداد کرو.ایک غریبی جس میں انسان بہت سی بدیوں کا ارتکاب کر گزرتا ہے.ایک بیماری.فرمایا ان سب میں استقلال سے کام لو.اللہ تعالیٰ تمہیں توفیق دیوے.( بدر جلد ۸ نمبر۴۰-۱۲۹۰ جولائی ۱۹۰۹ء صفحه ۲) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 408

۱۴ جون ۱۹۰۹ء 399 خطبہ جمعہ حضور نے سورۃ بقرہ کی مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:.وَ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ - أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ عَلِمَ اللهُ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ فَالْفِنَ بَاشِرُوهُنَّ وَ ابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللهُ لَكُمْ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبيضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى الَّيْلِ وَ لا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَقْرَبُوْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللهُ ابْتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُوْنَ - وَلَا تَاكُلُوا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (البقرة : ۱۸۷ تا ۱۸۹).اور پھر فرمایا :.

Page 409

400 روزہ ایک عظیم الشان عبادت ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.الصَّوْمُ لِی (بخاری کتاب الصوم باب روزہ میرے لئے ہے کیونکہ روزے میں خدا تعالیٰ کی صفات کا رنگ ہے.جس طرح خد اتعالیٰ نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے نہ اس کی کوئی عورت ہے.ایسا ہی روزہ دار بھی تھوڑے وقت کے واسطے محض خدا کی خاطر بنتا ہے.اِسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ (البقرة ۳) میں بھی صبر کے معنے روزے کے کئے گئے ہیں.روزے کے ساتھ دعا قبول ہوتی ہے.اللہ تعالی فرماتا ہے کہ عورتیں تمہار الیاس ہیں اور تم ان کا لباس ہو.جیسا کہ لباس میں سکون آرام گرمی سردی سے بچاؤ زینت ، قسما قسم کے دکھ سے بچاؤ ہے ایسا ہی اس جوڑے میں ہے.جیسا کہ لباس میں پردہ پوشی ایسا ہی مردوں اور عورتوں کو چاہئے کہ اپنے جوڑے کی پردہ پوشی کیا کریں.اس کے حالات کو دوسروں پر ظاہر نہ کریں.اس کا نتیجہ رضائے الہی اور نیک اولاد ہے.عورتوں کے ساتھ حسن سلوک چاہئے اور ان کے حقوق کو ادا کرنا چاہئے.اس زمانہ میں ایک بڑا عیب ہے کہ عورتوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ نہیں کی جاتی.مجھے ایک شخص کے خط سے نہایت دکھ پہنچا.جس نے کہا کہ ”پنجاب، ہندوستان کے مرد تو بڑے بے غیرت ہیں.عورت کی اصلاح کیا مشکل ہے.اگر موافق طبیعت نہ ہوئی تو گلا دبا دیا.میں تو آپ کا مرید ہوں.جو آپ فرما دیں گے وہی کروں گا.مگر طریق اصلاح یہی ہے".یہ حال مسلمانوں کا ہو رہا ہے.خدا رحم کرے.نبی کریم اور صحابہ تو عورتوں کو جنگوں میں بھی اپنے ساتھ رکھتے تھے.اور اب لوگوں کا یہ حال ہے کہ عورتوں کو ساتھ نہیں رکھتے اور ایسے لکھتے عذر کر دیتے ہیں کہ ہماری آمدنی کم ہے مگر جھوٹے ہیں.دراصل احکام الہی کی عزت اور منزلت ان کے دلوں میں نہیں.قرآن شریف کو نہیں پڑھا جاتا ہے.ایک دیوار کسی کی ٹوٹتی ہو تو ہزار فکر کرتا ہے.مگر قیامت کا پہاڑ جو ٹوٹنے والا ہے اس کا فکر کسی کو نہیں.قیامت میں نبی کریم کا بھی اظہار ہو گا کہ اس قوم نے قرآن مجید کو چھوڑ دیا.اللہ تعالیٰ رحم کرے اور نیکیوں کی توفیق دیوے.آمین.( بدر جلد ۸ نمبر ۳۴٬۳۳-۰-۷ار جون ۱۹۰۹ء صفحه ۲) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 410

۲۵ جون ۱۹۰۹ء 401 خطبہ جمعہ حضور نے قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِكِ النَّاسِ إِلَهِ النَّاسِ مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ (الناس:۲ تا ۷) کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اس سورۃ کو اخیر میں لانے میں یہ حکمت ہے کہ قرآن کو ختم کر کے اور شروع کرتے ہوئے اَعُوذُ پڑھنا چاہئے.چونکہ یہ طریق مسنون ہے کہ قرآن کریم ختم کرتے ہی شروع کر دینا چاہئے اس لئے نہایت عمدہ موقع پر یہ سورۃ ہے.بخاری صاحب نے اپنی کتاب کو إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ شروع کیا ہے تاکہ سامعین لوگ اور معلم اور متعلم اپنی اپنی نیتوں پر غور کر لیں.یاد رکھو جہاں خزانہ ہوتا ہے وہیں چور کا ڈر ہے.قرآن مجید ایک بے بہا خزانہ ہے.اس کے لئے خطرہ شیطانی عظیم الشان ہے.قرآن کی ابتدا میں يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا (البقرة:۳۷) پڑھ کر دل کانپ جاتا ہے.اپنی رسومات کے ادا کرنے کے لئے تو مکان بلکہ زمین تک بیچنے سے بھی نہیں ڈرتے مگر خدا کے لئے ایک پیسہ نکالنا بھی دوبھر ہے.ایک قرآن پر عمل کرنے سے پہلو تہی ہے اور خود وضع داری و تکلف و رسوم کے ماتحت جو کچھ

Page 411

4.02 کرتے ہیں اس کی کتاب بنائی جاوے تو قرآن سے دس گنا حجم میں ضخیم ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ غفور رحیم ہے.اس کو ہماری عبادت کی ضرورت کیا ہے؟ حالانکہ وہ دیکھتے ہیں کہ دنیا میں بھی بد پر ہیزیوں سے اور حکام کی خلاف ورزی سے دکھ ضرور پہنچتا ہے.پس گناہ سے اور احکم الحاکمین کی خلاف ورزی سے کیوں سزا نہ ملے گی.ان تمام اقسام کے وسوسوں اور غلط فہمیوں سے جو اضلال کا موجب ہیں بچنے کے لئے یہ سورۃ سکھائی گئی ہے.عوذ ان چھوٹے پودوں کو کہتے ہیں جو بڑے درختوں کی جڑ کے قریب پیدا ہوتے ہیں.ہر آدمی کو ایک رب کی ضرورت ہے.دیکھو انسان غذا کو گڑ بڑ کر کے پیٹ میں پہنچا لیتا ہے.اب اسے دماغ میں ، دل میں ، اعضاء رئیسہ میں بحصہ رسدی پہنچانا یہ رب کا کام ہے.اسی طرح بادشاہ کی ضرورت ہے.گاؤں میں نمبردار نہ ہو تو اس گاؤں کا انتظام ٹھیک نہیں.اسی طرح تھانیدار، تحصیلدار نہ ہو تو اس تحصیل کا ڈپٹی کمشنر نہ ہو تو ضلع کا کمشنر نہ ہو تو کمشنری کا اسی طرح بادشاہ نہ ہو تو اس ملک کا انتظام درست نہیں رہ سکتا.پس انسان کہ عالم صغیر ہے اس کی مملکت کے انتظام کے لئے بھی ایک ملک کی حاجت ہے.پھر انسان اپنی حاجتوں کے لئے کسی حاجت روا کا محتاج ہے.ان تینوں صفتوں کا حقیقی مستحق اللہ ہے.اس کی پناہ میں مومن کو آنا چاہئے تا چھپے چھپے ، پیچھے لے جانے والے، مانع ترقی وسوسوں سے امن میں رہے.اسلام کی حالت اس وقت بہت ردی ہے.ہر مسلمان میں ایک قسم کی خود پسندی اور خود رائی ہے.وہ اپنے اوقات کو اپنے مال کو خدا کی ہدایت کے مطابق خرچ نہیں کرتا.اللہ نے انسان کو آزاد بنایا پر کچھ پابندیاں بھی فرمائیں بالخصوص مال کے معاملہ میں.پس مالوں کے خرچ میں بہت احتیاط کرو.اس زمانہ میں بعض لوگ سود لینا دینا جائز سمجھتے ہیں.یہ بالکل غلط ہے.حدیث میں آیا ہے.سود کا لینے والا دینے والا بلکہ لکھنے والا اور گواہ سب خدا کی لعنت کے نیچے ہیں.میں اپنی طرف سے حق تبلیغ ادا کر کے تم سے سبکدوش ہوتا ہوں.میں تمہاری ایک ذرہ بھی پروا نہیں رکھتا.میں تو چاہتا ہوں کہ تم خدا کے ہو جاؤ.تم اپنی حالتوں کو سنوارو.خدا تمہیں عمل کی توفیق دے.آمین.بد ر جلد ۸ نمبر ۳۹ -- ۲۲ جولائی ۱۹۰۹ء صفحه ۲) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 412

۳۰, جولائی ۱۹۰۹ء 403 خطبہ جمعہ إن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (ال عمران:۳۲) کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو اور اس سے بچے تعلقات محبت پیدا کرنے کے خواہشمند ہو تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت کرو.اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اللہ کے محبوب بن جاؤ گے.اس اصل سے صحابہ نے جو فائدہ اٹھایا ہے ان کے سوانح پر غور کرنے سے معلوم ہو سکتا ہے.آج میں تمہیں خلاف معمول حدیث کا خطبہ سناتا ہوں.چند احادیث بطور اصول ہیں.ย (1) - لايُؤْمِنُ اَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ.(صحیح بخاری کتاب الایمان) حدیث عظیم الشان تعلیم کا رکن ہے.کوئی بھی تم میں سے مومن نہیں ہو سکتا جب تک دوسرے بھائی کے لئے وہ بات پسند نہ کرے جو اپنی جان کے لئے پسند کرتا ہے.اس کا ترجمہ کسی فارسی مصنف نے کیا ہے:.آنچه بر خود مسندی بر دیگران مپسند اب اس پر تم اپنے ایمان کو پر کھو.کیا تمہارے معاملات دو سروں سے ایسے ہی ہیں جیسے تم اپنے ساتھ

Page 413

404 کسی دوسرے سے چاہتے ہو؟ دیکھو کوئی نہیں چاہتا کہ میرے ساتھ دھو کہ کرے یا مجھے فریب دے یا میرا مال کھائے یا میری ہتک کرے یا میرا لڑکا بد صحبت میں بیٹھے.پس دوسروں کے لئے یہ بات کیوں پسند کی جائے.(۲) - مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ.(ترمذى كتاب الزهد) انسان دیکھے کہ جو کام میں نے صبح سے شام تک کیا ہے کیا اپنے مولیٰ کو بھی راضی کیا ہے؟ کیا ایسی خواہشیں تو اس میں نہیں جو قابل توجہ نہیں ؟ اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے کہ آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ جو بات قابل توجہ نہیں اسے چھوڑ دے.(۳) - الرَّاحِمُونَ يَرْحَمُهُمُ الرَّحْمَنُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى - (ترمذى كتاب البر) یہ حدیث میرے عنایت فرما استاد نے مجھے اولیت کے رنگ میں سنائی اور اس کا سلسلہ اولیت رسول کریم سے برابر چلا آتا ہے.جو رحم کرنے والے ہیں ان پر رحمن رحم کرتا ہے جو بہت برکتوں والا بلند شان والا ہے.تم سب پر رحم کرو.ماں باپ کے لئے بھی رحم کا ذکر ہے ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيْنِي صَغِيرًا (بني اسرائیل :۲۵).بی بی کے لئے بھی مَوَدَّةً وَرَحْمَةٌ (الروم:۳۳) ارْحَمُوا مَنْ فِي الْأَرْضِ يَرْحَمُكُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ (ترمذى كتاب (البر) اس حدیث کی تفصیل ہے.تم اپنی جان پر بھی رحم کرو.جو گناہ کرتا ہے اپنی جان پر ظلم کرتا ہے.ڈاکہ مارنے جھوٹ بولنے ، چوری کرنے کے لئے اور لوگ تھوڑے ہیں! تم ہی کم از کم خدا کے لئے ہو جاؤ.(۴) - إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِى مَّا نَوَى (صحیح بخاری باب کیف بدء الوحی) ہے.یہ امر تو واقعی ہے کہ جو افعال مقدرت انسانی کے نیچے ہیں وہ تمہاری نیست و دلی قصد کے تابع ہیں.پس جیسے جیسے اعمال میں نیات ہیں ویسے ویسے پھل ملتے ہیں.اپنے اعمال میں اخلاص پیدا کرو اور خدا کے ہو جاؤ پھر یہ دنیا بھی تمہاری ہے.مَنْ كَانَ لِلَّهِ كَانَ اللَّهُ لَهُ جے توں اس دا ہو رہیں سب جگ تیرا ہو ⭑-⭑-⭑-⭑ بدر جلد ۸ نمبر۴۱-۵۰ / اگست ۱۹۰۹ء صفحه ۲)

Page 414

۱۳/ اگست ۱۹۰۹ء 405 خطبه جمعه بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الله اكبر الله أكبر الله اكبر الله اكبر أشْهَدُ أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا إِلَهَ إِلَّا اللهُ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللهِ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ حَيَّ عَلَى الصَّلوةِ حَيَّ عَلَى الصَّلوةِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ اللَّهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ لَا إِلَهَ إِلَّا الله - فرمایا:.اذان میں اسلام کی پاک تعلیم کا خلاصہ ہے.مگر افسوس کہ دن رات باوجود پانچ بار یہ ندا سننے کے پھر بھی عام مسلمانوں کو تو جانے دیجئے ان کے لیڈروں کی یہ حالت ہو رہی ہے.گدی نشینوں کو دیکھو.خواہ کسی مذہب کا آدمی ہو اور اس کے اعمال کیسے خراب ہوں لیکن اگر ان کے آگے نذرانہ رکھ دے تو بس یہ ان کا عزیز فرزند ہے.علماء ہیں تو ان میں مطلق تقویٰ و خدا ترسی نہیں رہی حتیٰ کہ ان کے درس میں بھی کوئی کتاب خشیت اللہ کے متعلق نہیں رہی.امراء ہیں تو ان کے نزدیک مذہب محض ملانوں کے

Page 415

406 لئے ہے.وہ بالکل اباحت کے رنگ میں آگئے ہیں.اس کی وجہ زیادہ تر یہ ہے کہ ان کے ہادی خود ان کے محتاج ہیں.اس کے بعد آپ نے اذان کا ترجمہ سنایا کہ اللہ اکبر چار بار کہا جاتا ہے گواہی کی حدود تک.ہاں، زنا کے ثبوت کے لئے چار کی ضرورت ہے.پس یہ شہادت کس قدر قوی ہے کہ خدا مستجمع جمع صفات کا ملہ تمام قسم کے نقصوں ، عیبوں سے مزہ ذات سب سے بڑی ہے.اب ہم کو دیکھنا چاہئے کہ ہم کہاں تک خدا کی آواز مخلوق کی آواز پر مقدم کرتے ہیں.پھر حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رسالت کی شہادت ہے کہ ہمارے کام اس کی گورنمنٹ کی ہدایت کے مطابق ہوں گے.پھر نماز کے لئے آنے کی تاکید ہے.افسوس کہ مسلمان بہت کم اس کی پروا کرتے ہیں.اول تو نماز پڑھتے ہی نہیں اور جو پڑھتے ہیں تو باجماعت کی پابندی نہیں.حالانکہ رسول کریم نے فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ جب نماز قائم ہو جاوے تو جماعت میں شامل نہ ہونے والوں کے گھر جلادوں.امیر وضع کی پابندی پر مرتے ہیں.مسجد میں آنا ہتک سمجھتے ہیں.شاہ عبد العزیز کی مجلس میں ایک شخص داڑھی منڈا بیٹھا تھا.کسی نے پوچھا کہ شاہ صاحب کے وعظ کا کچھ اثر نہیں ہوا؟ کہا ہوا ہے مگر وضع داری اجازت نہیں دیتی.نماز پر آنا فلاح پر آنا یعنی تم مظفر و منصور ہو گے.بدر جلد ۹ نمبر ۸ ---- ۱۶/ دسمبر ۱۹۰۹ء صفحه ۳)

Page 416

۲۰ اگست ۱۹۰۹ء 407 تشہد اور تعوذ کے بعد فرمایا:.خطبہ جمعہ میں اپنے پیشہ طبابت میں دیکھتا ہوں.ایک شخص آتا ہے کہ آپ کی دوانے بہت فائدہ پہنچایا.دوسرا آ کے کہتا ہے کہ بہت ہی نقصان پہنچایا.پس میں نہ پہلی بات پر خوش ہو تا ہوں نہ دوسری پر غمناک بلکہ میں یہی سمجھتا ہوں کہ میرا کام ہمدردی ہے.دوائیں خدا کی پیدا کی ہوئی ہیں.پس میں ان کو دیتا ہوں.جس کے لئے وہ چاہتا ہے نافع بنا دیتا ہے اور جن کے لئے وہ چاہتا ہے مضر.ایک خطرناک قریب المرگ مریض کو دو دن میں اچھا کر دیتا ہے اور ایک معمولی مریض کو ایک دو دن میں خلاف امید مار دیتا ہے اور میں الگ رہتا ہوں.اس نکتہ نے مجھے روحانی طبابت میں بھی حوصلہ اور صبر دیا ہے.میں نے سلسلہ درس کو قطع کر کے ان چند بیماریوں کے متعلق جو تم لوگوں میں دیکھیں خصوصیت سے وعظ کیا.اب جن کو خدا نے فائدہ پہنچاتا تھا ان کو پہنچا دیا.جن کو نہیں پہنچانا تھا یعنی جنہوں نے فضل الہی کے جذب کے لئے اپنے آپ کو تیار نہیں کیا اور بد پرہیزی نہیں چھوڑی، نسخہ استعمال نہیں کیا، ان کو فائدہ نہیں ہوا.

Page 417

408 خطبات نوبه پھر آپ نے يَسْتَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ (البقرة) پڑھ کر فرمایا کہ صحابہ نے رمضان کے مہینے کی برکات سن کر دوسرے چاندون کی نسبت بھی پوچھا.اصل میں تمام عبادتیں چاند سے متعلق ہیں اور دنیاداروں کی تاریخیں سورج سے.اس میں یہ نکتہ ہے کہ چاند کے حساب پر عبادت کرنے کی وجہ سے سورج کی کوئی تاریخ خالی نہیں رہتی جس میں امت محمدیہ کے افراد نے روزہ نہ رکھا ہو یا زکوۃ نہ دی ہو یا حج نہ کیا ہو.کیونکہ قریباً گیارہ روز کا ہر سال فرق پڑتا ہے اور ۳۶ سال کے بعد وہی دن پھر آجاتا ہے.پھر قَاتِلُوا فِي سَبِیلِ اللهِ (البقرة :) کی تفسیر میں فرمایا کہ اسلام کے دشمن اسلام کے خلاف کوشش کرتے رہتے ہیں.مسلمانوں میں نہ تعلیم ہے، نہ روپیہ نہ وحدت نہ اتفاق نہ وحدت کے فوائد سے آگاہ نہ بجھتی کی روح نہ اپنی حالت کا علم.ملاں کی ذلیل حالت دیکھ کر مسجدوں میں جاتا تک چھوڑ دیا.تم سنبھلو اور ان کوششوں کے خلاف دشمن کا مقابلہ کرو مگر حد سے نہ بڑھو.اپنے مومن بھائیوں سے حسن ظنی کرو.ایک نے مجھے کہا تھا حسن ظنی کر کے کیا کریں.اس میں سراسر نقصان ہے.میں نے کہا کم از کم اپنی والدہ کے معاملہ میں تو تم کو بھی حسن ظنی سے کام لینا پڑے گا ورنہ تمہارے پاس اپنے باپ کے نطفہ سے ہونے کا کیا ثبوت ہے؟ اسلام پر قائم رہو.یہ وہ مذہب ہے جس کا ماننے والا کسی کے آگے شرمندہ نہیں ہوتا.اس کا اللہ تمام خوبیوں کا جامع ہے.( بدر جلد ۸ نمبر ۴۵-۲۰/ ستمبر ۱۹۰۹ء صفحه) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 418

۱۰ ستمبر ۱۹۰۹ء 409 خطبہ جمعہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے آیت قرآنی سَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَمْ آتَيْنَهُمْ مِنْ ايةٍ بَيِّنَةٍ وَ مَنْ تُبَدِّل نِعْمَةَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ.(البقرة : ۳۱۳) کی تلاوت کے بعد فرمایا:.بنی اسرائیل کو کس قدر کھلے کھلے نشان دیئے.ان کے دشمن کو ان کے سامنے اسی بحر میں جس سے وہ صحیح سلامت نکل آئے ان کے دیکھتے دیکھتے ہلاک کیا.ان کے املاک کا وارث کیا اور پھر یہ کہ بنی اسرائیل سب کے سب غلام تھے.حضرت موسی خود فرماتے ہیں وَتِلْكَ نِعْمَةٌ تَمُنُّهَا عَلَيَّ اَنْ عَبَدتَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ (الشعراء:۲۳).خدا نے ان پر یہاں تک فضل کیا کہ غلامی سے بادشاہی دی نبوت دی.تمام جہان کے لوگوں پر فضیلت دی.چنانچہ فرماتا ہے اِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ أَنْبِيَاءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكًا واتَكُمْ مَا لَمْ يُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِينَ (المائدة (۳).لیکن جب بنی اسرائیل نے ان انعامات الہی کی کچھ قدر نہیں کی تو بَاءُ وَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللهِ (البقرة:٣) اور ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِلَّةُ وَ

Page 419

410.الْمَسْكَنَةُ (البقرة: ٣٣) كا فتویٰ ان پر چل گیا.وہی یہود جو تمام جہان کے لوگوں پر فضیلت رکھتے تھے دنیا میں ان کے رہنے کے لئے کوئی اپنی سلطنت نہیں.جدھر جاتے ہیں بندروں کی طرح دھتکارے جاتے ہیں.یہ کیوں؟ وَ مَنْ تُبَدِّلُ نِعْمَتَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ اب یہاں بنی اسرئیل نہیں بیٹھے.سب مسلمان ہی ہیں.مسلمانوں پر خدا نے بنی اسرائیل سے بڑھ کر انعامات کئے.ان کو نہ صرف بنی اسرائیل کے ملکوں کا وارث کیا بلکہ جبل الطارق پر یہی حکمران تھے.مشرق میں کاشغر، بخارا سے چائنا تک پہنچے.لیکن جب مسلمانوں نے خدا کی نعمتوں کی قدر نہ کی تو جبل الطارق جبرالٹر بن گیا.کاشغر وغیرہ پر روس کی حکومت ہو گئی.گنگا کا کنارا اور سندھ انگریزوں کے قبضہ میں آیا.ایسا کیوں ہوا؟ جو بنی اسرائیل نے کیا وہی مسلمانوں نے کیا.خدا نے ان کو ایسا دین دیا جو کل دینوں سے بڑھ کر ہے.سے بڑھ کر ہے.ایسی کتاب دی جو کل کتب الہیہ کی جامع ہے.ایسا نبی دیا جو تمام انبیاء کا سردار ہے (احمدیوں کو تو وہ امام دیا جو تمام اولیاء کا سردار ہے).بنی اسرائیل کے فرعون کو تو سمندر میں غرق کیا مگر ہمارے نبی کریم کے فرعون (ابو جہل) کو باوجودیکہ ہم کتابوں میں یہی پڑھتے آتے تھے اِمَّا اَنْ لا يَكُونَ فِي الْبَحْرِ اِمَّا اَنْ يَّغْرِقَ ، خشکی میں غرق کر کے دکھا دیا.کس قدر افسوس ہے کہ مسلمان ان نعمتوں کی بے قدری کر رہے ہیں.اس کتاب کی جس کو ذلِكَ الْكِتَابُ فرمایا یعنی اگر کوئی کتاب ہے تو کی ہے، کچھ پروا نہیں کی جاتی.اس میں اس قدر علوم ہیں کہ شاہ عبد العزیز فرماتے ہیں کتابیں جمع کرنے کے لئے تین کروڑ روپیہ چاہیے.یہ ان کے زمانے کا ذکر ہے.اب تو اس قدر کتابیں ہیں کہ کئی کروڑ روپے بھی کافی نہ ہوں.لیکن کئی مسلمان ہیں جو اس کے معمولی معنے بھی نہیں جانتے.پھر خود پسندی خود رائی کا یہ حال ہے کہ نہ قرآن سے واقف نہ حدیث سے آگاہ.نہ حفظ نفس، حفظ مال حفظ اعراض کے اصول سے باخبر.مگر اپنی رائے کو کلام الہی پر ترجیح دینے کو تیار.قرآن کو امام و مطاع نہیں بناتے.تم لوگوں نے دین کے لئے اپنے گھربار اپنے خویش و اقارب اپنے احباب وغیرہ کو چھوڑا ہے.اگر تم بھی قرآن کی تعلیم حاصل نہ کرو تو افسوس ہے.(چونکہ بارش شروع ہو گئی تھی اس لئے خطبہ میں ختم کرنا پڑا.(بدر جلد ۹۸ نمبر ۴۶-۴۷-۹۰/ ۱۶۴ ستمبر ۱۹۰۹ء صفحه ۱) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 420

۵ار اکتوبر ۱۹۰۹ء 411 خطبہ عید الفطر حضرت امیرالمومنین نے کلمہ شہادت کے بعد سورۃ فاتحہ پڑھی اور پھر فرمایا:.قبل اس کے کہ میں تمہیں اس کی تفسیر سناؤں چند ضروری باتیں سنانا چاہتا ہوں.وہ یہ کہ جنہوں نے روزہ رکھا ہے ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ صدقۃ الفطر دیں.یہ حکم قرآن مجید میں ہے.چنانچہ فرمایا.وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِين (البقرة :۱۸۵) اور جو لوگ اس فدیہ کی طاقت رکھتے ہیں وہ طعام مسکین دیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین رنگوں میں اس کی تفسیر فرمائی ہے.اول یہ کہ انسان عید سے پہلے صدقۃ الفطر دے.دوم جو روزہ نہ رکھے وہ بدلے میں طعام مسکین دے.دائم المرض ہو یا بہت بوڑھا یا حاملہ یا مرضعہ ان سب کے لئے یہ حکم ہے.سوم یہ کہ یہ الہی ضیافت کا دن ہے.پس مومن کو چاہئے کہ کھانے میں توسیع کر دے اور غرباء کی خبر گیری کرے.ہر قوم میں کوئی نہ کوئی دن ایسا ضرور ہوتا ہے جس میں عام طور سے خوشی منائی جاتی ہے.بہت عمدہ لباس پہنا جاتا ہے اور عمدہ کھانا کھاتے ہیں.چنانچہ حدیث میں بھی ہے لِكُلِّ قَوْمٍ عِیدُ فَهَذَا عِيْدُنَا (بخارى كتاب العيدين) ہر قوم کی ایک عید ہے ہماری بھی ایک عید ہو تو مناسب ہے.

Page 421

وعظ کی دقتیں 412 دوسری بات جس کے لئے کئی وقت میں گھبراتا رہا ہوں یہ ہے کہ مجھے دن میں پانچ وقت وعظ کرنا پڑتا ہے.وعظ کے متعلق بڑی دقتیں ہوتی ہیں.ایک واعظ کو ایک اسے جسے وعظ کیا جائے.واعظ کی دقتیں سات قسم کی ہیں.(۱).حدیث میں آیا ہے قیامت کے دن بعض آدمیوں کو دوزخ میں لے جائیں گے اور انہیں کے سامنے بعض کو بہشت میں.بہشت میں جانے والے تعجب کریں گے اور کہیں گے کہ ہم تو انہی دوزخ میں جانے والوں کے وعظ سننے کے سبب اور اس پر عمل کرنے کے ذریعہ سے بہشت میں جاتے ہیں، پھر یہ کیا معاملہ ہے ؟ وہ کہیں گے کہ ہم عمل نہیں کرتے تھے.دیکھو واعظ کے لئے کس قدر اشکال ہیں.(۲) - پھر واعظ کے لئے یہ وقت ہے کہ بعض واعظ پہلے بڑی بڑی مشاقی کرتے ہیں.عجیب عجیب لفظ سوچے جاتے ہیں.بعض کو داد کے لئے مقرر کرتے ہیں.گویا یہ وعظ ریاء کے لئے ہوتا ہے.اس کی نسبت آتا ہے.يُرَاءُونَ النَّاسَ (النساء:۱۴۳)- (۳).پھر وعظ سمعہ کے لئے بھی کیا جاتا ہے.یعنی وعظ محض اس ارادے سے کیا جاوے کہ لوگ سنیں اور کہا جائے کہ فلاں بڑا مقرر ہے.بڑا بولنے والا ہے.(۴).واعظ کے لئے وہی مشکل ہے جو شاعر کے لئے بھی ہے.اگر اور کوئی شعر پچھلا سنا دیا تو یہ کہا جاتا ہے یہ تو پہلے بھی سنا چکے ہو.(ب) مضمون کسی سے مل جائے تو پھر کہا جاتا ہے فلاں کا چرایا ہوا ہے.(ج) مذاق کے مطابق نہ ہو تو کہہ دیا پھیکا ہے.(د) اور اگر پسند بھی آگیا تو سوائے اس کے کہ معمولی ہا ہا ہو گئی نتیجہ کچھ بھی نہیں.اول تو جدت کا آنا ہی مشکل ہے کیونکہ جس واعظ کو ہر روز ایک تنگ دائرے میں کھڑے ہو کر وعظ کرنا پڑے اس میں جدت کہاں سے آئے.(۵).پانچواں اشکال سنت کی اتباع کے متعلق ہے کہ صحابہ کرام فرماتے تھے روز وعظ نہیں کرنا چاہئے تا بات معمولی نہ سمجھی جاوے.(۶).اس سے بڑھ کر ایک اور بات ہے.کل ہی ایک سجادہ نشین نے مجھے خط لکھا ہے کہ مرزا صاحب کی طرف بلانے کا تو ہی واسطہ تھا.اب ان سے گمراہ کرنے والا بھی تو ہی ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض لوگوں کو کان رس ہوتا ہے ، بعضوں کو آنکھ رس.وہ واعظ کے وعظ اپنے خیالات پر کستے رہتے ہیں.اگر ذرا بھی اپنے ذوق کے خلاف پائیں تو بگڑ بیٹھتے ہیں.میں نے اسے لکھا کہ تمہارا خط میری انتہائی راحت کا

Page 422

413 موجب ہوا کیونکہ قرآن شریف کی صفت میں بھی یہی آیا ہے يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَ يَهْدِي بِهِ كَثِيرًا (البقرۃ:۲۷).پس اگر میں اور قرآن وعظ میں ایک مقام پر ہو گئے تو پھر اس دنیا میں مجھ سا خوش نصیب اور کامیاب کوئی نہیں.(۷).ایک اور مشکل جو واعظ کے ساتھ لگی ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ بعض بہادر اس کی طرف ہمیشہ حمتہ چینی کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اس کی نگرانی ہوتی رہتی ہے.اگر چہ انہوں نے "نوشت است پند بر دیوار" و غیره کهه کر بہت کچھ اپنے تئیں چھڑایا ہے مگر معترضین نے پیچھا نہیں چھوڑا.وہ جو معرفت کے خزانے اگلتا ہے اس کی طرف مطلق توجہ نہیں کرتے اور نکتہ چینی کرنے پر تلے رہتے ہیں.غرض اس قسم کے چھپن دکھ ہیں.جن میں سے میں نے بہت کم تم لوگوں کو سنائے ہیں کیونکہ یہ بھی آیا ہے.مَاسَلِمَ الْمِكْتَارُ بہت بولنے والا غلطی سے محفوظ نہیں رہتا.اسی طرح سننے والوں کو بھی مصیبتیں ہیں.میں نے ایک لڑکے سے پوچھا کہ آج قرآن شریف کا درس کہاں سے ہو گا؟ تو اس نے کہا.میں گو دس برس سے سنتا ہوں مگر مجھے کوئی دلچسپی نہیں اس لئے مجھے معلوم نہیں.دوسرا جو پاس بیٹھا تھا جب اس سے پوچھا تو وہ بھی کہنے لگا کہ وعلی ہذا القیاس.مجھے خوشی بھی ہوئی اور رنج بھی ہوا.خوشی اس لئے کہ بہت سی مخلوق ایسی بھی ہوتی ہے جو يَنْظُرُونَ إِلَيْكَ وَهُمْ لا يُبْصِرُونَ (الاعراف (199) اور قَالُوا سَمِعْنَا وَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ (الانفال:۳۲) کی مصداق ہے.غرض بعض تو ایسے ہیں جو سن کر بھی نہیں سنتے اور بعض سامعین ایسے ہیں کہ انہیں مجلس وعظ میں محض کسی کی دوستی یا کوئی ذاتی غرض لاتی ہے.بعض نکتہ چینی کے لئے جاتے ہیں.ان کا خیال واعظ کی زبان کی طرف رہتا ہے.بس جو نہی کوئی انگریزی یا سنسکرت یا عربی لفظ اس کے منہ سے غلط نکل گیا تو یہ ا مسکرائے.بس ان کے سننے کا ما حصل صرف یہی ہے کہ وہ گھر میں آکر واعظ کی نقل لگایا کریں.پھر ایک اور مشکل ہے.وہ یہ کہ چور کی داڑھی میں تنکا.واعظ ایک بات کتاب اللہ سے پیش کرتا ہے.اب اگر سننے والے میں بھی وہی عیب ہے جو اس واعظ نے بتایا تو یہ سمجھتا ہے کہ مجھ کو سنا سنا کر یہ باتیں کرتا ہے اور گویا مجھے طعنے دے رہا ہے حالانکہ واعظ کے وہم میں بھی یہ بات نہیں ہوتی.غرض دو طرفہ مشکلات ہیں.ایک طرف واعظ کو اور ایک طرف سامعین کو.فطرت کا خالق چونکہ اس بھید کو سمجھتا ہے اس لئے اس نے فرمایا.يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَّ يَهْدِي بِهِ كَثِيرًا (البقرة:۳۷)

Page 423

414 الفاظ کے گرے ہوئے معانی عجیب عجیب غلط فہمیاں الفاظ سے پھیلتی ہیں اور جب کسی قوم میں ادبار آتا ہے تو اس کی اصطلاحات بھی بدل جاتی ہیں.دیکھو مغل، ترک، قریشی ، پٹھان یہ چار قومیں باہر سے آئیں.یہ فاتح بھی تھے لیکن جب ادبار کا وقت آیا اور ان میں بدی پھیلی تو قلعہ فتح کرنا آہ! پنجاب میں نہایت برے معنوں میں لیا جانے لگا.جب کسی عورت سے ناجائز تعلق ہوا اور وہ ان کے قابو آئی تو یہ بول اٹھے کہ اے لو! فتح ہو گیا.اسی طرح علم کا لفظ ہے.إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ (فاطر:۹) اس کی شان میں آیا.مگر علم کے ذریعہ لوگ اکٹر ہاز ہو جاتے ہیں اور یہ تجاب اکبر بن گیا.میں نے ایک شخص کو ریل میں معرفت کا ایک نہایت اعلیٰ نکتہ سنایا مگر اس نے مجھے کہا کہ تم کوئی طب کی بات کرو.قرآن شریف تمہیں نہیں آتا.میں حیران ہوا.آخر اس کی وجہ معلوم ہوئی کہ وہ علم قرات پڑھا ہوا تھا.چونکہ میں نے لفظ قرآن کو اس ترتیل و تجوید کے اصول کے مطابق ادا نہ کیا اس لئے وہ بگڑ گیا اور وہ نکتہ نہ سن سکا.اس طرح پر اس کا علم بجائے خشیت کے تکبر کا موجب ہو گیا.اسی طرح غنیمت کا لفظ ہے.عرب میں ایک بچہ کو بھی رخصت کرتے ہیں تو ماں باپ کہتے ہیں سر سَالِمًا غَائِمًا - جا! اللہ تجھے سلامتی کے ساتھ واپس لاوے.حدیث میں ہے لَهُ غَنَمُهُ وَعَلَيْهِ غَرَمُهُ (ابودائود باب اللقطه:) جس سے ثابت ہے کہ غنیمت کے معنے ہیں مفاد کا حصول.مگر ہماری زبان میں اس کا ترجمہ کیا گیا لوٹ".اب چونکہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غنیمت کا مال حاصل کیا اس لئے ان کا نام (نعوذ باللہ ) لٹیرا رکھ دیا.یہ غلطی کیوں ہوئی ؟ محض الفاظ کے غلط معنی کرنے سے.اس لئے ضرورت ہے کہ لفظوں کے بولنے اور سمجھنے میں احتیاط سے کام لیا جاوے اور ان لوگوں کی بات مان لی جاوے جن کو خدا نے اپنے فضل و کرم سے فہم عطا کیا ہے اور یہ عطیہ الہی ہے.چنانچہ فرمایا فَفَهَّمْنْهَا سُلَيْمَانَ (الانبیاء:) ہم نے سلیمان کو فہم عطا کیا.سورۃ فاتحہ اس قدر تمہید کے بعد میں سورۃ فاتحہ کی طرف تم لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں تین فرقوں کا ذکر کیا ہے.ایک اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (۲) ایک مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ (۳) ایک ضَالِّينَ.میرا اعتقاد ہے کہ تمام قرآن سورۃ الحمد کی تفسیر ہے اور اس میں ایک خاص ترتیب سے انہی تینوں

Page 424

415 گروہوں کا ذکر ہے.چنانچہ سورۃ بقرہ ہی کو لو کہ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (البقرۃ:۳) میں منعم علیہم کا ذکر ہے.إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا (البقرة:6) میں مغضوب علیم کا اور أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَى (البقرۃ:۱۷) میں ضالین کا.خاتمه قرآن یہ ابتداء کا حال ہے.اب جہاں قرآن ختم ہوتا ہے وہاں سورۃ نصر إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ (النصر) میں منعم علیم کا بیان ہے اور تَبَّتْ يَدَا بِي لَهَبٍ (اللهب:) میں مغضوب علیہم کا اور هُوَ الله احد NLOADلصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدُ (الاخلاص : (تام) میں ضالین کی تردید ہے.اس واسطے ہم کو چاہئے کہ بہت فکر کریں اور اپنا آپ محاسبہ کریں.اپنے اعمال کو دیکھیں کہ ہم کس فریق کے کام کر رہے ہیں.آیا منعم علیم کے یا مغضوب علیہم کے یا ضالین کے؟ کچھ اپنی حالت کا ذکر میں جو کچھ تمہیں کہتا ہوں صاف صاف کہتا ہوں.میں منافق نہیں.جو کچھ میری عمر ہے وہ آجکل کی عمروں کے مطابق انتہائی زمانہ ہے.ستر برس سے تجاوز ہے.اب اتنی عمر مجھے اور پانے کی امید نہیں اور اگر ہو بھی تو يُرَدُّ اِلَی اَرْذَلِ الْعُمُرِ (النحل) کی مصداق ہے.پھر وہ قویٰ نہیں مل سکتے جو پہلے تھے.پھر میری اولاد ایسی نہیں جو میری خدمت کرے اور مجھے بھی اس بات کی فکر نہیں کہ میری اولاد میرے بعد کس طرح گزارہ کرے گی.کیونکہ جب میں نے اپنے باپ دادا کے مال سے پرورش نہیں پائی تو میں بڑا مشرک ہوں اگر اپنی اولاد کی نسبت میں یہ خیال کروں کہ ان کا گزارہ میرے مال پر موقوف ہے.حالانکہ اللہ تعالیٰ بھی فرماتا ہے وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلادَكُمْ مِنْ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمُ الامام علي جب رزق دینے کا خدا وعدہ کرتا ہے تو مجھے کیا فکر ہے.پس اگر مجھے فکر ہے تو یہ کہ قبر اور قیامت میں میرے ساتھ جانے والا کوئی نہیں.پس میں تم کو وعظ کرتا ہوں تو کیا اپنے تئیں بھلا دوں؟ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا.منعم علیم تم ان تین گروہوں کے اوصاف پر غور کرو.منعم علیہم گروہ کے لئے سب سے پہلی صفت بیان کرتا

Page 425

416 ہے کہ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ (البقرۃ:۳).ایمان بالغیب ایسا ضروری ہے کہ دنیا کا کوئی کام اس کے بغیر نہیں ہوتا.پہاڑے، مساحت، اقلیدس، طبعیات، سب کے لئے فرضی بنیاد پر کام ہوتا ہے یہاں تک کہ پولیس بھی ایک بدمعاش کے کہنے پر بعض مکانوں کی تلاش شروع کر دیتی ہے.تو کیا وجہ کہ انبیاء کے کہنے پر کوئی کام نہ کیا جائے جس کا تجربہ بارہا کئی جماعتیں کر چکی ہیں.پھر فرمایا.يُقِيمُونَ الصَّلوةَ (البقرة: دعاؤں میں، نمازوں میں قائم رہتے ہیں.وہ مالوں کو خرچ کرتے ہیں.بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ (البقرة:۵) اور مِنْ قَبْلِكَ (البقرة:۵) اور آخرت پر ان کا ایمان ہوتا ہے.مغضوب اور ضالین پھر دوسرے گروہ کی صفات بیان کیں کہ ان کے لئے تذکیر و عدم تذکیر مساوات کا رنگ رکھتی ہے.وہ سنتے ہوئے نہیں سنتے.ان میں عاقبت اندیشی نہیں ہوتی.صُمٌّ بُكْم (البقرة:9) ہوتے ہیں.پھر انہی کی نسبت اخیر قرآن میں فرمایا کہ ایسے لوگوں کو مَا كَسَبَ یعنی جتھا اور مال دونوں پر بڑا گھمنڈ ہوتا ہے مگر خدا تعالیٰ دونوں کو غارت کر دیتا ہے.پھر تیسرے گروہ ”ضالین " کا ذکر فرمایا کہ ان کو صفات الہی کا صحیح علم نہیں ہوتا اور ان میں نہ تو قوت فیصلہ ہوتی ہے نہ تاب مقابلہ.قرآن شریف کے ابتدا کو آخر سے ایک نسبت ہے.پہلے اَلْمُفْلِحُونَ (البقرة :) فرمایا ہے تو إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ (النصر:)) میں اس کی تفسیر کر دی اور مغضوب علیم کی تَبَّتْ يَدَا بِي لَهَبٍ (الله :) میں اور ضالین کارد قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ (الاخلاص:۲) میں کر دیا ہے.غرض عجیب ترتیب سے ان تینوں گروہوں کا ذکر کیا ہے.ان سب کی صفات بیان کر کے میں تمہیں مکرر نصیحت کرتا ہوں کہ تم سوچو منعم علیہم میں سے ہویا مغضوب علیہم میں یا ان لوگوں میں جن کو ضالین کہا گیا ہے؟ خاتمہ بالخیر کی امید میں نے تمہیں بہت کچھ کہہ دیا ہے اور گول بات ہر گز نہیں کی.میں مومن ہو کر مرنا چاہتا ہوں.میں اللہ سے اس کی رحمت کا امیدوار ہوں.جیسے اس نے اس عمر تک میری تربیت کی اور میری ہدایت کا موجب ہوا اسی طرح میں امید رکھتا ہوں کہ وہ میرا خاتمہ بھی بالخیر کرے گا اور میری موت قرآن اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کی حالت میں کرے گا.

Page 426

417 ضرورت وحدت بن میں اس سے بھی کھول کر تم کو سنانا چاہتا ہوں کہ کوئی قوم سوائے وحدت کے نہیں بن سکتی بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ کوئی انسان سوائے وحدت کے انسان نہیں بن سکتا.کوئی محلہ سوائے وحدت کے محلہ نہیں بن سکتا اور کوئی گاؤں سوائے وحدت کے گاؤں نہیں بن سکتا اور کوئی ملک سوائے وحدت کے ملک نہیں سکتا اور کوئی سلطنت سوائے وحدت کے سلطنت نہیں بن سکتی.دیکھو میری آنکھ تو کہتی ہے کہ یہ زہر ہے.اب ہاتھ کے کہ مجھے آنکھ کی پروا نہیں اور وہ اٹھا کر وہ زہر کھالیتا ہے تو اس کا نتیجہ ہلاکت ہے.اسی طرح گھر کی بات ہے کہ اگر بچہ اپنے مربی اپنے باپ اپنی ماں کی بات نہیں سنتا تو اس کی تعلیم و تربیت کا ستیاناس ہو جائے.اسی طرح محلہ ملک اور سلطنت کا حال ہے.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی تفسیر میں میں نے مرزا صاحب سے سنا ہے کہ اِهْدِنَا میں نا اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ سوائے جماعت کے اللہ تعالیٰ سے بعض خاص فضل کوئی انسان نہیں لے سکتا.جماعت کی بڑی ضرورت ہے یہاں تک کہ اگر جمع نہ ہو تو خدا کے اس فضل کے جاذب نہیں ہو سکتے.حسن معاشرت اسی جماعت میں سے چند عورتیں اجڑ کر ہمارے پاس آئیں.ہم نے ان کے خاوندوں سے خط و کتابت کی.بعض تو ہمارے سمجھانے میں آگئے اور بعض نے پرواہ نہ کی یہاں تک کہ رجسٹرڈ خطوط کی رسید نہ دی.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے ظالم طبع لوگ بھی ہماری جماعت میں ہیں مگر الحمد للہ کہ اکثر سمجھانے سے سمجھ جاتے ہیں.ایک عورت کے خاوند نے مجھے لکھا ہے کہ ہندوستان پنجاب تو سب دیوثوں کا بنا ہوا ہے.جو کچھ میری عورت کہتی ہے اگر مجھے موقع ملے تو گلا ہی گھونٹ دوں.میں نے اسے لکھا کہ پہلا دیوث تو نعوذ باللہ وہ ہوا جس پر تم ایمان لائے اور جس نے یہ احکام دیئے کہ عورت سے معاشرت میں نرمی کرو.خیر وہ سعید تھا سمجھانے سے سمجھ گیا اور توبہ نامہ بھیج دیا.خیر میں پھر کہتا ہوں کہ جب تک وحدت نہ ہو گی تم کوئی ترقی نہیں کر سکتے.چودہ سو سے کئی لاکھ حضرت صاحب کے زمانے میں میں نے چودہ سو کارڈ چھپوائے تھے کہ چودہ سو آدمیوں کی جماعت ہو کر 2°

Page 427

418 ہم حضرت صاحب سے بیعت کریں گے اور اس فضل سے حصہ لیں گے جو جماعت سے منتقل ہے.خدا نے خلوص نیت کو نوازا اور چودہ سو سے کئی لاکھ اس جماعت کو بنا دیا.اب ضرورت ہے اس جماعت میں اتفاق اتحاد اور وحدت کی اور وہ موقوف ہے خلیفہ کی فرمانبرداری پر.خلفاء کا مقام ایک خلیفہ آدم تھا.اس کی نسبت فرمایا ہے اپنی جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةٌ (البقرۃ:۳).اب خود ہی اس کے بارے میں ارشاد ہے عَضى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوى (طه:۳۲) لیکن جب فرشتوں نے کہا مَنْ تُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسبّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ (البقرة (۳) تو ان کو ڈانٹ پلائی کہ تم کون ہوتے ہو ایسا کہنے والے؟ پس فَاسْجُدُوا لِأدَمَ (البقرۃ:۳۵) تم آدم کو سجدہ کرو.چنانچہ ان کو ایسا کرنا پڑا.دیکھو خود عاصی اور غوی تک کہہ لیا مگر فرشتوں نے چوں کی تو اس کو ناپسند فرمایا.میں نے کسی زمانے میں تحقیقات کی ہے کہ نبی کے لئے لازم نہیں کہ اس کے لئے پیشگوئی ہو اور خلیفہ کے لئے تو بالکل ہی لازمی نہیں.دیکھو! آدم ، پھر داؤد کے لئے کیا کیا مشکلات پیش آئے.میں اس قسم کا قصہ گو واعظ نہیں کہ تمہیں عجیب عجیب قصے ان کے متعلق سناؤں مگر فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّرَاكِعًا وَّانَابَ.(ص:۲۵) سے یہ تو پایا جاتا ہے کہ کچھ نہ کچھ تو تھا جس کے لئے یہ الفاظ آئے.تیسرا خلیفہ ابوبکر ہے.اس کے مقابلہ میں شیعہ جو کچھ اعتراض کرتے ہیں وہ اتنے ہیں کہ تیرہ سو برس گزر گئے مگر وہ اعتراض ختم ہونے میں نہیں آئے.ابھی ایک کتاب میں نے منگوائی ہے جس کے سات سو چالیس صفحات میرے پاس پہنچے ہیں.اس میں صرف اتنی بات پر بحث ہے کہ مولیٰ علی رضی اللہ عنہ بہتر ہے یا ابو بکر ؟ پھر شیعہ کہتے ہیں کہ ان کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ پیشگوئی نہیں فرمائی.چوتھا خلیفہ تم سب ہو.چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ثُمَّ جَعَلْنَكُمْ خَلِيفَ فِي الْأَرْضِ (یونس :۵) اگلی قوموں کو ہلاک کے تم کو ان کا خلیفہ بنا دیا.لِنَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ (یونس :۱۵) اب دیکھتے ہیں کہ تم کیسے عمل کرتے ہیں.چار کا ذکر تو ہو چکا.اب میں تمہارا خلیفہ ہوں.اگر کوئی کہے کہ الوصیت میں حضرت صاحب نے نورالدین کا ذکر نہیں کیا تو ہم کہتے ہیں ایسا ہی آدم اور ابوبکر کا ذکر بھی پہلی پیشگوئیوں میں نہیں.

Page 428

الوصیت کی تفہیم 419 حضرت صاحب کی تصنیف میں معرفت کا ایک نکتہ ہے وہ میں تمہیں کھول کر سناتا ہوں.جس کو خلیفہ بنانا تھا اس کا معاملہ تو خدا کے سپرد کر دیا اور ادھر چودہ اشخاص کو فرمایا کہ تم بہیئت مجموعی خلیفۃ المسیح ہو.تمہارا فیصلہ قطعی فیصلہ ہے اور گورنمنٹ کے نزدیک بھی وہی قطعی ہے.پھر ان چودہ کے چودہ کو باندھ کر ایک شخص کے ہاتھ پر بیعت کرا دی کہ اسے اپنا خلیفہ مانو اور اس طرح تمہیں اکٹھا کر دیا.پھر نہ صرف چودہ کا بلکہ تمام قوم کا میری خلافت پر اجماع ہو گیا.اب جو اجماع کا خلاف کرنے والا ہے وہ خدا کا مخالف ہے.چنانچہ فرمایا وَ يَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهُ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا (النساء:۱۲)- میں نے الوصیت کو خوب پڑھا ہے.واقعی چودہ آدمیوں کو خلیفہ المسیح قرار دیا ہے اور ان کی کثرت رائے کے فیصلہ کو قطعی فرمایا.اب دیکھو کہ انہی متقیوں نے جن کو حضرت صاحب نے اپنی خلافت کے لئے منتخب فرمایا اپنی تقویی کی رائے سے اپنی اجتماعی رائے سے ایک شخص کو اپنا خلیفہ و امیر مقرر کیا اور پھر نہ صرف خود بلکہ ہزا رہا ہزار لوگوں کو اسی کشتی پر چڑھایا جس پر خود سوار ہوئے.تو کیا خداتعالی ساری قوم کا بیڑا غرق کر دے گا؟ ہرگز نہیں.پس تم کان کھول کر سنو.اگر اب اس معاہدہ کے خلاف کرو گے تو فَاعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِي قُلُوبِهِمْ (التوبه (۷۷) کے مصداق بنو گے.میں نے تمہیں یہ کیوں سنایا؟ اس لئے کہ تم میں بعض نافہم ہیں جو بار بار کمزوریاں دکھاتے ہیں.میں نہیں سمجھتا کہ وہ مجھے سے بڑھ کر جانتے ہیں.خدا پر بھروسہ خدا نے جس کام پر مجھے مقرر کیا ہے میں بڑے زور سے خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اب میں اس کرتے کو ہرگز نہیں اتار سکتا.اگر سارا جہان بھی اور تم بھی میرے مخالف ہو جاؤ تو میں تمہاری بالکل پرواہ نہیں کرتا اور نہ کروں گا.خدا کے مامور کا وعدہ ہے اور اس کا مشاہدہ ہے کہ وہ اس جماعت کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا.اس کے عجائبات قدرت بہت عجیب ہیں اور اس کی نظر بہت وسیع ہے.تم معاہدہ کا حق پورا کرو پھر دیکھو کس قدر ترقی کرتے ہو اور کیسے کامیاب ہوتے ہو.میرا ایک دوست مجھے کہتا تھا کہ تم آگوں کو دباتے ہو بجھاتے نہیں.میں نے کہا کہ جلد باز بھلا میرا

Page 429

420 وزیر ہو سکتا ہے؟ ہم نے آگوں کو دبا کر بھی بجھاتے دیکھا ہے.میری ماں دھکتے ہوئے کوئلے ایک گڑھے میں ڈال کر بند کر دیتی تھی.تھوڑی دیر میں سب بجھ جاتے.دیکھو! میں نے پانی کے لحاظ سے تو وعظ کیا ہے اور دبانے کے لئے کوشش میں ہوں.ہم اور تم سب مر جائیں گے.اگر کچھ نقار ہم میں باقی ہیں تو چھلی قوموں میں تفرقہ پڑ جائے گا اور وہ ہم پر لعنتیں کریں گی.مجھے کہیں گے کہ کس خبیث نے یہ گندا بیج بو دیا.دیکھو تم میرے حق کو بجالاؤ.میں نے کبھی اپنی بڑائی نہیں کی.مجھے ضرور تا کچھ کہنا پڑا ہے.اس کا میرے ساتھ وعدہ ہے کہ میں تمہارا ساتھ دوں گا.مجھے دوبارہ بیعت لینے کی ضرورت نہیں.تم اپنے پہلے معاہدہ پر قائم رہو ایسا نہ ہو کہ نفاق میں مبتلا ہو جاؤ.اگر تم مجھ میں کوئی اعوجاج دیکھو تو اس کی استقامت کی دعا سے کوشش کرو مگر یہ گمان نہ کرو کہ تم مجھے بڑھے کو آیت یا حدیث یا مرزا صاحب کے کسی قول کے معنے سمجھا لو گے.اگر میں گندہ ہوں تو یوں دعا مانگو کہ خدا مجھے دنیا سے اٹھالے.پھر دیکھو کہ دعا کس پر الٹی پڑتی ہے.توبہ کرو تو بہ کرو اور دعا کرو اور پھر دعا کرو.میں فروری گویا نو ماہ سے اس دکھ میں مبتلا ہوں.اب تم اس بڑھے کو تکلیف میں نہ ڈالو.اس پر رحم کرو.اگر میں نے کسی کا مال کھایا تو میں دس گنا دینے کی طاقت رکھتا ہوں.اگر میں نے کسی سے طمع کیا ہے تو میں لعنت کر کے کہوں گا کہ ایسا آدمی ضرور بول اٹھے.میں اپنے آپ کو لعنتی سمجھوں گا اگر میں نے تمہارے مالوں میں کچھ لینے کا خیال کیا ہو.اللہ تعالیٰ نے ہمارے خاندان سے پہلوں کو بھی امیر بنایا ہے.حضرت مجدد الف ثانی ، شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی، فرید الدین شکر تشنج میرے خاندان کے لوگ ہیں.اور اب پھر بھی اس نے وعدہ کیا ہے کہ میں تیری اولاد پر فضل کروں گا.طاعت در معروف ایک اور غلطی ہے وہ طاعت در معروف کے سمجھنے میں ہے کہ جن کاموں کو ہم معروف نہیں سمجھتے اس میں طاعت نہ کریں گے.یہ لفظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی آیا ہے وَلَا يَعْصِيْنَكَ فِي مَعْرُوف (الممتحنہ:۳).اب کیا ایسے لوگوں نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عیوب کی بھی کوئی فہرست بنالی ہے.اسی طرح حضرت صاحب نے بھی شرائط بیعت میں طاعت در معروف لکھا

Page 430

421 ہے.اس میں ایک سر ہے.میں تم میں سے کسی پر ہر گز بدظن نہیں.میں نے اس لئے ان باتوں کو کھولا تا تم میں سے کسی کو اندر ہی اندر دھو کہ نہ لگ جائے.وجه اختلاط پھر مجھے کہتے ہیں کہ لوگوں سے اختلاط کرتا ہے.اس کا جواب تمہارے لئے جو میرے مرید ہیں یہی کافی ہے کہ تم میرے آمر نہیں بلکہ مامور ہو.کیا مجھ پر بال بچے کی پرورش فرض نہیں.بیشک وہ مجھے مخفی طور پر رزق دیتا ہے مگر اس ستار نے پردہ پوشی کا رنگ بھی رکھا ہے.میں اس کی شان کو ضائع نہیں کرنا چاہتا.ستاری کہتے ہیں امام حسن بصری اور حبیب عجمی ایک دفعہ سیر کو نکلے.راستہ میں دریا آگیا.حبیب نے کہا چلو.حسن نے جواب دیا ٹھہرو، وہ کشتی آئے.اس پر حبیب نے کہا حسن! ابھی تک تم مشرک ہی ہو.یہ کہہ کر وہ تو چلتے ہوئے.اس زمانے کے نیچری تو نہیں مانتے مگر میں مانتا ہوں کہ وہ کنارے پہنچ گئے.ادھر حسن ” جب کشتی آئی تو پیسہ دے کر سوار ہوئے اور دیر کے بعد پہنچے تو حبیب بولے.ترا کشتی آورد مارا خدا.حسن نے فرمایا.سنو! دونو کو خدا ہی لایا.کشتی کو خدا تعالیٰ چاہتا تو غرق کر دیتا.تو نے صرف اپنا بچاؤ ڈھونڈا مگر میرے ساتھ کئی اور آدمی بھی آئے.تیرا ایمان ناقص ہے.تو خدا کی صفت ستاری کا عالم پس میں تم کو نصیحت کرتا ہوں.پھر نصیحت کرتا ہوں.پھر نصیحت کرتا ہوں.پھر نصیحت کرتا ہوں.پھر نصیحت کرتا ہوں.پھر کرتا ہوں.پھر کرتا ہوں.پھر کرتا ہوں.پھر پھر پھر کرتا ہوں کہ آپس کے تباغض و تحاسد کو دور کر دو.یہ مجتہدانہ رنگ چھوڑ دو.جو مجھے نصیحت کرنے میں وقت خرچ کرنا ہے وہ دعا میں خرچ کرو اور اللہ سے اس کا فضل چاہو.تمہارے وعظوں کا اثر مجھے بڑھے پر نہیں ہو گا.ادب کو ملحوظ رکھ کر ہر ایک کام کو کرو اور یہ میں اپنی بڑائی کے لئے نہیں کہتا بلکہ تمہارے ہی بھلے کے لئے کہتا ہوں.جس طرح دکاندار صبح اپنی دکان کو کھولتا ہے اسی طرح میں بھی اپنی دکان کھولتا ہوں اور بیماروں کو

Page 431

422 دیکھتا ہوں.میں تمہارے ابتلاء سے بہت ڈرتا ہوں.اس لئے مجھے کمانے کا زیادہ فکر ہوتا ہے.بمب کے گولے اور زلزلے سے بھی زیادہ خوفناک یہ بات ہے کہ تم میں وحدت نہ ہو.جلد بازی سے کوئی فقرہ منہ سے نکالنا بہت آسان ہے مگر اس کا نگلنا بہت مشکل ہے.بعض لوگ کہتے ہیں ہم تمہاری نسبت نہیں بلکہ اگلے خلیفے کے اختیارات کی نسبت بحث کرتے ہیں.مگر تمہیں کیا معلوم کہ وہ ابو بکر اور مرزا صاحب سے بھی بڑھ کر آئے.میں تم پر بڑا حسن ظن رکھتا ہوں.میں نے لا الهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِہ کبھی تمہارے محرروں سے بھی دریافت نہیں کیا کہ تم لوگ کس طرح کام کرتے ہو.مجھے یقین ہے کہ تم تقویٰ سے کام کرتے ہو.باقی رہا میں سو میری نسبت تحقیق کر لو.جس طرح چاہو نگرانی کر لو.مخفی در مخفی راہوں سے کر لو.مجھے ایک دفعہ شیخ صاحب نے کہا تھا کہ اب میں نے یہاں سکونت اختیار کرلی ہے.میں تمہاری نگرانی کروں گا.تو میں نے کہا تھا بسم اللہ.دو فرشتے میرے نگہبان پہلے ہی سے مقرر ہیں.ایک تم آگئے.میں آج کے دن ایک اور کام کرنے والا تھا مگر خدا تعالیٰ نے مجھے روک دیا ہے اور میں اس کی مصلحتوں پر قربان ہوں.تم میں جو نقص ہیں ان کی اصلاح کرو.عورتوں سے جن کا سلوک اچھا نہیں، قرآن کے خلاف ہے، وہ خصوصیت سے توجہ کریں.میں ایسے لوگوں کو اپنی جماعت سے الگ نہیں کرتا کہ شاید وہ سمجھیں ، پھر سمجھ جائیں، پھر سمجھ جائیں.ایسا نہ ہو کہ میں ان کی ٹھوکر کا باعث بنوں.میں اخیر میں پھر کہتا ہوں کہ آپس میں تباغض و تحاسد کا رنگ چھوڑ دو.کوئی امرا من یا خوف کا پیش آجاوے عوام کو نہ سناؤ.ہاں جب کوئی امرطے ہو جائے تو پھر بیشک اشاعت کرو.اب میں تمہیں کہتا ہوں کہ یہ باتیں تمہیں ماننی پڑیں گی، طوعاً و کرہا اور آخر کہنا پڑے گا آتَيْنَا طَائِعِينَ (لحم السجدة:1).جو کچھ میں کہتا ہوں تمہارے بھلے کی کہتا ہوں.اللہ تعالیٰ مجھے اور تمہیں راہ ہدایت پر قائم رکھے اور خاتمہ بالخیر کرے.آمین.( بدر جلد ۸ نمبر ۵۲-۰-۲۱ اکتوبر ۱۹۰۹ء صفحه ۹ تا ۱۲) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 432

۲۹ اکتوبر ۱۹۰۹ء 423 خطبہ جمعہ حضرت امیر المومنین نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:.إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِيْنَ هَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيْلِ اللَّهِ أُولَئِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللهِ وَ اللهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ - يَسْتَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَيْسِرِ قُلْ فِيْهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا وَيَسْئَلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ كَذَلِكَ يُبينُ اللَّهُ لَكُمُ الْأيْتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ - فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَيَسْتَلُونَكَ عَنِ الْيَتَمَى قُلْ إِصْلَاحُ لَّهُمْ خَيْرٌ وَ اِنْ تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لا عنتَكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكَتِ حَتَّى يُؤْمِنَّ وَلَامَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِنْ مُّشْرِكَةٍ وَلَوْ ابْنَكُمْ وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا وَ لَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِك وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ أُولَئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ وَاللهُ يَدْعُوا إِلَى الْحَثْةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ

Page 433

424 وَيُبَيِّنُ ايَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ (البقرة : ۲۱۹ تا۲۲۲ ) - اور پھر فرمایا:.ان چار آیتوں میں جو پہلی آیت ہے اس میں ایک غلطی کی اصلاح ہے جو نہ صرف چھوٹوں میں پائی جاتی ہے بلکہ بڑوں میں بھی اور وہ یہ ہے کہ " مستحق کرامت گناہ گارانند “ کا مصرعہ زبان پر رہتا ہے جس نے بہت لوگوں کو بے باکی کا سبق دیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے أُولئِكَ يَرْجُونَ رَحْمَةَ اللَّهِ رحمت الہی کے مستحق تو وہ لوگ ہیں جن میں یہ اوصاف ہوں.اول ایمان باللہ یعنی یہ یقین ہو کہ تمام خوبیوں سے موصوف اور تمام نقصوں سے منزہ ذات اللہ کی ہے.پھر ملائکہ پر ایمان ہو یعنی ان کی تحریک پر عمل کیا جاوے.پھر کتب اللہ پر ایمان ہو.نبیوں پر ایمان ہو.یوم آخرت پر ایمان ہو.صرف عَذَابُ الْقَبْرِ حَقٌّ ہی نہ کے بلکہ رَحْمَةُ الْقَبْرِ حَقٌّ بھی.تقدیر (یعنی ہر چیز کے اندازے اللہ تعالیٰ نے بنارکھے ہیں) پر ایمان ہو.پھر اس ایمان کے مطابق عملدرآمد بھی ہو.عیسائیوں نے دھو کہ دیا ہے اور وہ یہ سوال کرتے ہیں کہ نجات فضل سے یا ایمان سے یا عمل سے؟ ہمارا جواب یہ ہے کہ نجات فضل سے ہے کیونکہ قرآن شریف میں ہے اَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَةِ مِنْ فَضْلِهِ (فاطر ۳۶).مگر اس فضل کا جاذب ایمان ہے اور جیسا کسی کا ایمان مضبوط ہے اسی کے مطابق اس کے عمل ہوتے ہیں.اسی واسطے یہاں امَنُوا کا ذکر فرما دیا کیونکہ اعمال ایمان کے ساتھ لازم ملزوم ہیں.چنانچہ اس ایمان کا ایک نشان ظاہر کیا ہے کہ تمام مقدمات کی بناء تو زمین ہے مگر جب انسان ایمان میں کامل ہو جاتا ہے تو پھر وہ خدا کے لئے اس زمین کو بھی چھوڑ دیتا ہے یعنی ہجرت.کیونکہ کسی چیز کو اللہ کے لئے چھوڑ دینا بہت بڑا عمل صالح ہے.پھر فرمایا.ایمان کا مقتضی اس سے بھی بڑھ کر ہے وہ کیا؟ جَاهِدُوا فِي اللهِ (الحج:9) یعنی اس کا دن اس کی رات اس کا علم اس کا فہم اس کی محبت اس کی عداوت اس کا سونا اور اس کا جاگنا، غرض کردار گفتار رفتار سارے کے سارے اس کوشش میں ہوں کہ میرا مولیٰ مجھ سے راضی ہو جاوے.یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ قدوس ہے.اس کا مقرب نہیں بن سکتا مگر وہی جو پاک ہو.انسان بے شک کمزور ہے اس لئے وہ غلطیوں کو بخشنے والا ہے مگر اپنی طرف سے کوشش ضروری ہے.مومن میں استقلال و ہمت ضرورنی ہے.یہ غلط خیال ہے کہ نبیوں نے اس وقت مقابلہ کیا جب ان کا جتھا ہو گیا.حضرت نوح کے جتھے کا کیا حال تھا؟ مَا آمَنَ مَعَهُ إِلَّا قَلِيلٌ (هود (۳) جب آپ کو مقابلہ کی ضرورت پڑی تو ایک جملہ سے وہ کام لیا جو کل دنیا کی فوج نہیں کر سکتی.یعنی لَا تَذَرُ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا (نوح:۳۷).حضرت

Page 434

425 موسیٰ کیسی حالت میں تھے ، فرعون نے کہا هُوَ مَهِينٌ وَلَا يَكَادُ يُبينُ (الزخرف:۵۳).ان کی تمام قوم غلام تھی مگر ایک آواز سے سب کام کروالیا.وَاشْدُدْ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوا حَتَّى يَرَوُا الْعَذَابَ الأليم البونس اور نبیوں کو خدا کے پاک لوگوں کو جسموں کی کیا پروا ہے.انبیاء کے نزدیک ایسا خیال شرک ہے.میں تمہیں دعاؤں کی طرف متوجہ کرتا ہوں.تم یوں سمجھو کہ دعاؤں کے لئے پیدا کئے گئے ہو اور یہی دعائیں تمہارے سب کام سنواریں گی.بدر جلد ۹ نمبر ---۴/ نومبر ۱۹۰۹ء صفحه ۱)

Page 435

۱۲/ نومبر ۱۹۰۹ء 426 خطبہ جمعہ حضرت امیرالمومنین نے آیت قرآنی بايُّهَا الذين امنوا لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءُ مِنْ نِّسَاء (الحجرات:٢) کی تلاوت کے بعد فرمایا:.جب بعض آدمیوں کو آرام ملتا ہے ، فکر معاش سے گونہ بے فکری حاصل ہوتی ہے تو وہ لکھتے بیٹھنے لگتے ہیں.اب اور کوئی مشغلہ ہے نہیں.تمسخر کی خو ڈال لیتے ہیں.یہ تمسخر کبھی زبان سے ہوتا ہے، کبھی اعضاء سے کبھی تعریف ہے.اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اس تمسخر کا نتیجہ بہت برا ہے.وحدت باطل ہو جاتی ہے.پھر وحدت جس قوم میں نہ ہو وہ بجائے ترقی کے ہلاک ہو جاتی ہے.حدیث میں آیا ہے کہ ایک عورت کو مار رہے تھے یہاں تک کہ اسے کہا جاتا کہ زَنَيْتِ سَرَقْتِ (بخاری کتاب الانبیاء.مسلم کتاب الحدود) تو نے زنا کیا تو نے چوری کی.ایک سننے والی پر اس کا اثر ہوا اور اس نے دعا کی کہ الہی! میری اولاد ہی نہ ہو.گود میں لڑکا بول اٹھا کہ الہی! مجھے ایسا ہی بنائیو کیونکہ اس عورت پر بدظنی کی جارہی ہے.یہ واقعہ میں بہت اچھی ہے.اسی طرح ایک اور کا ذکر ہے کہ ماں نے دعا

Page 436

427 کی الی! میرا بچہ ایسا ہی ہو.مگر بچہ نے کہا.الہی! میں ایسا نہ بنوں.غرض کسی کو کسی کے حالات کی کیا خبر ہو سکتی ہے.ہر ایک معاملہ خدا کے ساتھ ہے.ممکن ہے کہ ایک شخص ایسا نہ ہو جیسا اسے سمجھا جاتا ہے.لوگوں کی نگاہ میں حقیر ہو مگر خدا کے نزدیک مقرب ہو.مگر الْأَعْمَالُ بِالْحَوَاتِيمِ (بخاری کتاب القدر) کے مطابق ممکن ہے جس سے تمسخر کیا جاتا ہے اس کا انجام اچھا ہو.وَلَا نِسَاءُ مِنْ نِسَاءٍ آیت میں آیا ہے.یہاں عورتیں بیٹھی ہوئی نہیں مگر آدمی کا نفس بھی مونث ہے.ہر ایک اس کو مراد رکھ سکتا ہے.دوم، اپنے اپنے گھروں میں جا کر یہ بات پہنچا دو کہ کوئی عورت کسی دوسری عورت کی تحقیر نہ کرے اور اس سے ٹھٹھا نہ کرے.تم ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نام نہ رکھو.تم کسی کا برا نام رکھو گے تو تمہارا نام اس سے پہلے فاسق ہو چکا.مومن ہونے کے بعد فاسق نام رکھانا بہت ہی بری بات ہے.یہ تمسخر کہاں سے پیدا ہوتا ہے؟ بدظنی ہے.اس لئے فرماتا ہے اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِ (الحجرات:۱۳) بدگمانیوں سے بچو.حدیث میں بھی آیا ہے.اِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَ الْحَدِيثِ (بخاری کتاب الوصايا).اس بد ظنی سے بڑا بڑا نقصان پہنچتا ہے.میں نے ایک کتاب منگوائی.وہ بہت بے نظیر تھی.میں نے مجلس میں اس کی اکثر تعریف کی.کچھ دنوں بعد وہ کتاب کم ہو گئی.مجھے کسی خاص پر تو خیال نہ آیا مگر یہ خیال ضرور آیا کہ کسی نے اٹھالی ہے.پھر جب کچھ عرصہ نہ ملی تو یقین ہو گیا کہ کسی نے چرالی.ایک دن جب میں نے اپنے مکان سے الماریاں اٹھوائیں تو کیا دیکھتا ہوں الماری کے پیچھے بیچوں بیچ کتاب بڑی ہے.جس سے معلوم ہوا کہ کتاب میں نے رکھی ہے اور وہ پیچھے جاپڑی.اس وقت مجھے پر دو معرفت کے نکتے کھلے.ایک تو مجھے علامت ہوئی کہ میں نے دوسرے پر بد گمانی کیوں کی؟ دوم، میں نے صدمہ کیوں اٹھایا؟ خدا کی کتاب اس سے بھی زیادہ عزیز اور عمدہ میرے پاس موجود تھی.اسی طرح میرا ایک بستر تھا جس کی کوئی آٹھ نہیں ہوں گی.ایک نہایت عمدہ ٹوپی مجھے کسی نے بھیجی جس پر طلائی کام ہوا تھا.ایک عورت اجنبی ہمارے گھر میں تھی.اسے اس کام کا بہت شوق تھا.اس نے اس کے دیکھنے میں بہت دلچسپی لی.تھوڑی دیر بعد وہ ٹوپی گم ہو گئی.مجھے اس کے گم ہونے کا کوئی صدمہ تو نہ ہوا کیونکہ نہ میرے سر پر پوری آتی تھی نہ میرے بچوں کے سر پر.مگر میرے نفس نے اس طرف توجہ کی کہ اس عورت کو پسند آگئی ہوگی.مدت گزر گئی.اس عورت کے چلے جانے کے بعد جب بستر کو

Page 437

428 جھاڑنے کے لئے کھولا گیا تو اس کی ایک تہ میں سے نکل آئی.دیکھو بدظن کیسا خطرناک ہے.اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو سکھاتا ہے جیسا کہ اس نے محض اپنے فضل سے میری رہنمائی کی.اور لوگوں سے بھی ایسے معاملات ہوتے ہوں گے مگر تم نصیحت نہیں پکڑتے.اس بد سابدظنی کی جڑ ہے "کرید " خواہ مخواہ کسی کے حالات کی جستجو اور تاڑ بازی.اس لئے فرماتا ہے وَ لا تَجَسَّسُوا (الحجرات:۱۳) اور پھر اس تجس سے غیبت کا مرض پیدا ہوتا ہے.ان آیات میں تم کو یہ بھی سمجھایا گیا ہے کہ گناہ شروع میں بہت چھوٹا ہوتا ہے مگر آخر میں بہت بڑا ہو جاتا ہے.جیسے بڑ کا پیج دیکھنے میں کتنا چھوٹا ہے لیکن پھر بعض بڑیں ایک ایک میل تک چلی گئی ہیں.میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے رہو اور بدی کو اس کی ابتداء میں چھوڑ دو.( بدر جلد نمبر ۰۰۳-۱۸/ نومبر ۶۱۹۰۹ صفحه ۱)

Page 438

۲۴ دسمبر ۱۹۰۹ء 429 خطبہ عید الاضحیٰ ۲۴ دسمبر ۱۹۰۹ء بروز جمعہ ہم نے عید الاضحیٰی 10 بجے کے قریب پڑھی.حضرت امیرالمومنین نے نماز عید پڑھانے کے بعد تشہد ، تعوذ بسم اللہ اور تکبیر کے بعد فرمایا.ہر قوم میں میلوں کا دستور ہر ایک قوم میں کچھ دستور رسمیں اور عادات ہوتے ہیں.منجملہ ان کے میلے بھی ہیں جن کا متمدن اور غیر متمدن دونوں قوموں میں رواج ہے.میلے کے دن خوراک لباس، میل و ملاقات میں خاص اور نمایاں تبدیلی ہوتی ہے.یہ فطرتی چیز تھی مگر اس میں بڑھتے بڑھتے ہوا و ہوس کو بہت دخل ہو گیا.بہت سے میلے تجارت کی بنیاد پر قائم ہیں.میں نے ہندوستان میں تجارت کے ایسے میلے دیکھے ہیں.چنانچہ ہر ہفتے کسی نہ کسی گاؤں میں میلہ ہوتا ہے اور اسے گزری کہتے ہیں.وہاں دس دس بارہ بارہ کوس کی چیزیں جمع کر لیتے ہیں.بعض میلوں میں جانوروں کو جمع کرتے ہیں جسے منڈی کہتے ہیں.بعض ان میلوں کی تہ میں عجیب عجیب مقاصد کام کر رہے ہیں.

Page 439

430 بعض تو اپنے گزارے کے لئے میلہ لگاتے ہیں.بعض خاص چندے یا نذر و نیاز کے حصول کے لئے اور بعض محض اپنی عظمت و جبروت کے اظہار کے لئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ایک احسان ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے جہاں بڑے بڑے احسانات ہیں ان میں میلوں کی اصلاح بھی ہے.چونکہ یہ ایک فطرتی بات تھی اس لئے ان کو ضائع نہیں کیا، صرف اصلاح کر دی.اور وہ یوں کہ جہاں ہر رسم و رواج کو اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور شفقت علی خلق اللہ کے نیچے رکھ لیا وہاں ان میلوں میں بھی یہی بات پیدا کر دی.عیدین میں تعظیم لامر اللہ اور شفقت على خلق الله مثلاً عید کامیلہ ہے.آپ نے اس میں اول تو تکبیر کو لازم ٹھہرایا اور خدا کی تعظیم کے اظہار کے لئے وہ لفظ مقرر کیا جس سے بڑھ کر کوئی لفظ نہیں.صفات میں اکبر سے بڑھ کر کوئی لفظ نہیں اور جامع جمیع صفات کاملہ ہونے کے لحاظ سے اللہ سے بڑھ کر اس مفہوم کو کوئی ظاہر نہیں کر سکتا.مخلوق پر شفقت کرنے کے لئے رمضان کی عید میں صدقۃ الفطر کو لازم ٹھہرایا.یہاں تک کہ نماز میں جب جاوے تو اس کو ادا کر لے اور پھر یہ صدقہ خاص جگہ جمع کرے تاکہ مساکین کو یقین ہو جائے کہ ہمارے حقوق کی حفاظت کی جائے گی.پھر یہ عید ہے.اس میں مساکین وغیر ہم کے لئے سيّدُ الطَّعَامِ لَحْمُ (ابن ماجه - كتاب الاطعمة) یعنی گوشت کی مہمانی کی ہے.پس کیا ہی مستحق ہے صلوۃ و سلام کا وہ رسول جس نے ہمیں ایسی عمدہ راہ دکھائی.یہ چیزیں صرف اسی بات کے لئے تھیں کہ اللہ کی نسبت فرائض جو انسان کے ہیں اور جو فرائض مخلوق کی نسبت ہیں ان کو پورا کریں.مگر دنیا کے کسی میلے کو دیکھ لو ان میں یہ حق و حکمت کی باتیں نہیں جو عیدین میں ہیں.عیدین کی حکمت عید میں تنگی نہیں کی بلکہ فرمایا کہ اگر جمعہ وعید اکٹھے ہو جائیں تو گاؤں کے لوگوں کو جو باہر سے شریک ہوئے ہیں جمعہ کے لئے انتظار کی تکلیف نہ دی جائے.وحدت کا مسئلہ بھی خوب سکھایا ہے.پہلے تو ہر

Page 440

431 : محلے کے لوگوں کو پانچ بار مسجد میں اکٹھے ہو کر دعا مانگنے کا حکم دیا.پھر ہفتہ میں ایک دفعہ تمام گاؤں کے لوگوں کو جمع ہو کر دعا کرنے کا ارشاد کیا.پھر سال میں عیدین ہیں جن میں مومنوں کا اجتماع لازم ٹھہرایا.پھر ساری دنیا کے لئے مکہ مقرر فرمایا جہاں کل جہان کے اہل استطاعت مسلمان مل کر دعا کریں.قربانی کی فلاسفی قربانی جو عید اضحی کے دن کی جاتی ہے اس میں بھی ایک پاک تعلیم ہے اگر اس میں مد نظر وہی امر رہے جو جناب الہی نے قرآن شریف میں فرمایا.لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاوِهَا وَلَكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ (الحج:۳۸).قربانی کیا ہے ؟ یہ ایک تصویری زبان میں تعلیم ہے جسے جاہل اور عالم پڑھ سکتے ہیں.خدا کسی کے خون اور گوشت کا بھوکا نہیں.وہ يُطْعِمُ وَلا يُطْعَمُ (الانعام:10) ہے.ایسا پاک اور عظیم الشان بادشاہ نہ تو کھانوں کا محتاج ہے، نہ گوشت کے چڑھاوے اور لہو کا بلکہ وہ تمہیں سکھانا چاہتا ہے کہ تم بھی خدا کے حضور اسی طرح قربان ہو جاؤ جیسے ادنی اعلیٰ کے لئے قربان ہوتا ہے.کل دنیا میں قربانی کا رواج ہے اور قوموں کی تاریخ پر نظر کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ادنی چیز اعلیٰ کے بدلے میں قربان کی جاتی ہے.یہ سلسلہ چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی چیزوں میں پایا جاتا ہے.(1).ہم بچے تھے تو یہ بات سنی تھی کہ کسی کو سانپ زہریلا کائے تو وہ انگلی کاٹ دی جاوے تاکہ کل جسم زہریلے اثر سے محفوظ رہے.گویا انگلی کی قربانی تمام جسم کے بچاؤ کے لئے کی گئی.(۲) اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا کوئی دوست آجاوے تو جو کچھ ہمارے پاس ہو اس کی خوشی کے لئے قربان کرنا پڑتا ہے.گھی ؛ آنا گوشت وغیرہ قیمتی اشیاء اس پیارے کے سامنے کوئی ہستی نہیں رکھتیں.(۳).اس سے زیادہ عزیز ہو تو مرغے مرغیاں حتی کہ بھیڑیں اور بکرے قربان کئے جاتے ہیں.اس سے بڑھ کر گائے اور اونٹ تک بھی عزیز مہمان کے لئے قربان کر دئے جاتے ہیں.(۴).میں نے اپنی طب میں دیکھا ہے کہ وہ قومیں جو جائز نہیں سمجھتیں کہ کوئی جاندار قتل ہو وہ بھی اپنے زخموں کے کئی سینکڑوں کیڑوں کو مار کر اپنی جان پر قربان کر دیتی ہیں.(۵).اس سے اوپر چلیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ادنیٰ لوگوں کو اعلیٰ کے لئے قربان کیا جاتا ہے.مثلاً چوہڑے ہیں.آج عید کا دن ہے مگر ان کے سپر د وہی کام ہے بلکہ صفائی کی زیادہ تاکید ہے.گویا ادنی کی خوشی اعلیٰ کی خوشی پر قربان ہوئی.

Page 441

432 -(<) (۲).ہندو گئو رکھشا بڑے جوش سے کرتے ہیں.لداخ کے ملک میں تو دودھ تک نہیں پیتے کیونکہ یہ بچھڑوں کا حق ہے اور یہاں کے ہندو تو دھوکہ دے کر دودھ لیتے ہیں مگر پھر بھی اس سے اور اس کی اولاد سے سخت کام لیتے ہیں یہاں تک کہ اپنے کاموں کے لئے انہیں مار مار کر درست کرتے ہیں.یہ بھی ایک قسم کی قربانی ہے.(۷).اونی سپاہی اپنے افسر کے لئے اور وہ افسر اعلیٰ افسر کے لئے اور اعلیٰ افسر بادشاہ کے بدلے میں قربان ہوتا ہے.پس خدا تعالیٰ نے اس فطرتی مسئلہ کو برقرار رکھا اور اس قربانی میں تعلیم دی کہ ادنی اعلیٰ کے لئے قربان کیا جاوے.(۸).محبت میں انسان بے اختیار ہوتا ہے.مگر اس میں بھی قربانیوں کا ایک سلسلہ ہے.چنانچہ محب بھی بتدریج محبوبوں کے مراتب رکھ کر ایک کو دوسرے پر قربان کرتا رہتا ہے.اپنا پیسہ یا جان محبوب ہے مگر دو سرے محبوب پر اسے قربان کر دینے میں عذر نہیں.انسان کو مال کی محبت ہے بی بی کی محبت ہے ، بچوں کی محبت ہے یارو آشنا کی امن و چین کی محبت ہے.اللہ کی کتابوں اللہ کے رسولوں سے محبت ہے.کچے علوم سے بھی محبت ہے.ان تمام محبتوں کے مراتب ہیں اور ادنی کو اعلیٰ پر قربان کیا جاتا ہے.بات لمبی ہو گئی.الحمد میں قربانی کی تعلیم میں نے جو آیات پڑھی ہیں ان میں اللہ کا نام ہے.رحمن کا نام ہے اور رحیم کا نام ہے.اللہ تعالیٰ نے اس "بسم اللہ الرحمن الرحیم" کو ایک سو چودہ دفعہ قرآن شریف میں بیان کیا ہے.ہر مسلمان کو اس کلمہ کی طرف توجہ کرنی چاہئے.ایک بار اللہ رحمن رحیم فرما کر پھر تفصیل کے لئے اللہ کے ساتھ رب اور رحمن رحیم کے ساتھ مالک بڑھا دیا ہے جس پر غور کرنے سے معلوم ہوا ہے کہ اللہ ان قربانیوں کی طرف اشارہ فرما رہا ہے.اللہ کا لفظ معبود کے لئے ہے.معبود عبادت کو چاہتا ہے.اور عبادت کیا ہے؟ پرلے درجے کی محبت پرلے درجے کا تذلل ، پرلے درجہ کی اطاعت اور ان باتوں کا پتہ مقابلہ میں لگتا ہے.ایک شخص ایک طرف حکم کرتا ہے اور دوسری طرف خدا تو اب جو شخص خدا کے حکم کی طرف سبقت کرے کا اس نے گویا خدا کی اطاعت پر دوسروں کی اطاعت کو قربان کر دیا.انسان محتاج ہے کھانے پینے کا مکان کا غرض ذرے ذرے میں خدا کے حضور اس کی احتیاج ہے.

Page 442

433 چنانچہ اس نے فرمایا کہ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِى (فاطر ) حقیقی غنی اللہ کی ذات ہے اور سراپا احتیاج انسان.جو احتیاج میں ہے اس کے برابر کوئی ذلیل نہیں.اسی لئے اسے حکم ہے خدا کے حضور تذلل کا.پھر انسان اپنے وجود میں اپنے بقاء میں وفع امراض میں ، رنج و راحت، عسر ونیر، فرض ہر حالت میں اللہ کا محتاج ہے.اللہ کے لفظ میں قربانی کی تعلیم ، پس اللہ کا نام انسان کو یہ سمجھاتا ہے کہ حقیقی معبود حقیقی مطاع، حقیقی غنی وہی ذات ہے اور حقیقتاً محتاج حقیقتاً ذلیل ، حقیقتاً مطیع وہ انسان ہے جس کو اللہ نے پیدا کیا اور جو اپنی بقا میں ہر آن اس کے فضل کا محتاج ہے.اس فضل کے جذب کے لئے اطاعت فرض ہے.اب اس کی اطاعت کی راہیں معلوم کرنے کے واسطے نبی کی ضرورت ہے.کیونکہ جب ایک انسان دوسرے انسان کی رضامندی کی راہیں معلوم نہیں کر سکتا تو اس وراء الوراء ذات کی رضامندی کی راہیں کیونکر معلوم ہو سکتی ہیں سوا اس کے کہ وہ خود ہی بتائے.چنانچہ اس نے نبوت کا سلسلہ قائم کیا جس کے لمبے کارخانے ہیں.اس میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ جیسے عام مخلوق کی محبت انبیاء کی محبت پر قربان کی جاتی ہے اسی طرح انبیاء کی محبت اللہ کی محبت پر قربان کرنی پڑتی ہے.تمام انبیاء نے الوہیت کے مسئلہ پر بڑا زور دیا ہے مگر میں نے اکثر واعظوں کو دیکھا ہے کہ وہ خدا کی عظمت اور جبروت کے اظہار کے لئے وعظ نہیں کرتے بلکہ ان میں سے بعض کا منشاء تو یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو رلا دیں.بعض اس بات میں اپنا کمال سمجھتے ہیں کہ ایک روایت سے رلائیں اور دوسری سے ہنساویں.ابتدائی زمانے میں ایک کتاب میرے پاس تھی جس کا نام تھا ”بحر ظرافت".ایک مولوی واعظ ہمارے ہاں آئے.انہوں نے مجھے کہا یہ کتاب مجھے دیدو.میں نے کہا اسے آپ کیا کریں گے؟ اس میں تو محض تمسخر ہے.آپ نے کہا کہ وعظ میں ایک کمال ہنسانے کا ہے جو اس کے ذریعے پورا ہو جائے گا.بعض وعظ کا کمال اس میں سمجھتے ہیں کہ ان کے وعظ کے اخیر میں کوئی شخص اپنا آبائی مذہب چھوڑ کر ان کے مذہب میں شامل ہو جائے.مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَتْلُوا عَلَيْهِمْ ايْتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ (ال عمران:۱۶۵).وعظ میں عبودیت کا رنگ ہو اللہ کی کتاب پڑھی جاوے، اس کی حقیقت بنائی جاوے اور پھر اس کی تعلیم سے دل اس قسم کے پیدا ہوں جو اس تعلیم کے ساتھ مطہرو پاک ہو جاویں.ایک بھی ہزار لوگوں میں سے ایسا پیدا ہو جاوے تو غنیمت ہے بلکہ اکسیر احمر ہے..IN

Page 443

434 بہت سے لوگ ہیں جو امیر ہیں.بہت سے لوگ اخلاص ظاہر کرتے ہیں.چندے بھی دیتے ہیں.بہت سے خوشامد کرتے ہیں اور ایسے ایسے بھاری لقب دیتے ہیں جو شاید ہماری نسل میں سے کسی کو نہ دیئے گئے ہوں.مگروہ آدمی جو فرمانبرداری میں غرق اور کسی بات کی پروا نہ کرے وہ ملے تو بے نظیر و اکسیر ہے.فرمانبرداری بڑی اعلیٰ صفت ہے.ہاں یہ سمجھ لے کہ جو حکم دیا گیا ہے وہ مال عزت دین کو نقصان پہنچانے والا تو نہیں.یا قرب الہی سے دور کرنے والا تو نہیں.ایسے شخص کے پاس بھی ہرگز نہ بیٹھنا چاہئے.ہمارے بزرگوں میں سے ایک شعر پڑھا کرتے تھے.با ہر که نشستی و نشد جمع دلت و از تو نه رپید صحبت آب و گلت زنبار زصحبتش گریزان می باش یعنی جس کی صحبت میں بیٹھ کر جمعیت تامہ اور کچی طمانیت حاصل نہ ہو اور اعلیٰ اغراض کے لئے ادنیٰ اغراض کی قربانیوں کی توفیق نہ ملے تو اس کی صحبت کی اجازت نہیں.چنانچہ کہا ہے.ربوبیت ورنه نه کند روح عزیزان بحلت اسی طرح اس سے آگے ربوبیت کا درجہ ہے.ہم نہ تھے.اس نے ہمیں وجود بخشا زندگی دی ، بیان سکھایا، قومی دیئے.میں اپنے قومی پر خود ہی حیران ہوں اور میرا دل رقص میں آجاتا ہے کہ اس نے مجھے کان کیسے دیئے ہیں.آنکھیں کیسی کیسی عطا کی ہیں.زبان کیسی دی ہے.دماغ کیسا دیا.دل کیسا دیا ہے کہ ساری دنیا قربان ہو جاوے پر میرے مولیٰ کی بڑائی ہو جاوے.رسول اللہ سے ایسی محبت بخشی ہے کہ میرے کسی گوشہ میں آپ کی تعلیم ، آپ کی اولاد آپ کی آل سے ذرا بھی بغض نہیں رہا.میں نے اتنی تاریخیں پڑھی ہیں خارجی، شیعہ رافضی کی مگر پھر بھی کسی صحابی سے مجھے رنج نہیں.نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیوی سے نہ کسی آل و اولاد سے رنج ہے اور یہ خدا کا فضل ہے اور اسی کی ربوبیت کی شان سے ہے.حضرت صاحب یعنی ہمارے مرزا صاحب فرمانے لگے کہ ایک دفعہ میں نے چاہا جیسے اور صوفیوں نے

Page 444

435 کتابیں لکھی ہیں میں بھی لکھوں.ان میں سے بہت بڑی کتاب امام شعرانی کی ہے.بڑی دلچسپ کتاب ہے.اس کا ترجمہ اختصاری رنگ میں اپنے مذاق کے لحاظ سے نواب صدیق حسن خان صاحب نے بھی کیا ہے.چنانچہ میں نے ایک کتاب لکھنے کا ارادہ کیا مگر خدا کے انعامات کی اتنی برسات میں نے دیکھی کہ شرم سے میرا قلم رک گیا.فرمایا کہ اگر برسات کے قطروں کو گن سکتا ہے تو خدا کے احسانات کو بھی گن سکے گا.چنانچہ خدا نے فرمایا إِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا (ابراهیم ۳۵).ان احسانات میں سے ایک وحدت بھی ہے جس کی نسبت فرماتا ہے کہ اگر ساری زمین سونے چاندی کی بھر کر دے دو تو بھی یہ وحدت پیدا نہیں ہو سکتی.اس کا میں نے بھی تجربہ کیا ہے.ایک زمانہ میں میرے پاس بڑا روپیہ آتا تھا اور مجھے روپے کی محبت ہر گز نہیں.میں اپنی تعریف نہیں کرتا بلکہ اس کے فضل کا اظہار.یہ لوگ جو بطور شاگر د میرے پاس رہتے ہیں اگر چہ بعض لوگ ان کو حقارت سے دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کے ارد گرد بیٹھے رہتے ہیں اور احداث میں خلا ملا رکھتا ہے، ان سے پوچھ لو کہ مال میں میرا مولیٰ کیسا متکفل ہے اور میں اس معاملہ میں اس کی ربوبیت کے بہت سے عجائبات دیکھ چکا ہوں.اسی ربوبیت کے چٹھے کا فیضان ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جیسا نبی ہم میں آیا.پھر وہ مذہب ملا جس کی حمایت و نصرت کے لئے ہر صدی میں یقیناً امام آئے جن کی تعلیم دیکھ کر ہم حیران رہ جاتے ہیں کہ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کیسے قدم بہ قدم چلایا ہے.اماموں کے متعلق ایک مذہب ہے کہ پچاس برس کے بعد ایک امام آتا ہے.دوسرا مذ ہب ہے کہ پچیس برس کے بعد وہ تعلیم رسالت پناہ کو محفوظ رکھتا ہے.خیر یہ بھی اسی کی ربوبیت کا تقاضا ہے.غرض اس نے ہمیں عدم سے وجود بخشا، وجود سے بقا پھر عقل و فہم و ذکا پھر اعضاء صحیحہ عطاکئے.پھر ہمیں توفیق دی کہ ہم مسلمان ہوئے.میں نے بڑے بڑے ذہین اور ہوشیار آدمی اسلام سے متنفر دیکھے ہیں جن کو میں نے عجیب عجیب طور سے قائل کیا ہے مگر اسلام کی توفیق نہیں ملی.پس توفیق بھی نعمت ہے جناب اللہی سے.ہم نے دیکھا ہے بعض کو دین کا شوق نہیں اور اگر ہے تو ذہن اس قابل نہیں یا ذہن تو ہے مگر سامان نہیں، سامان ہے تو صحت نہیں ، صحت تو ہے کوئی اور مشکل ہے.مثلاً دنیوی علائق کی وجہ سے فرصت نہیں ، جو فرصت ہے تو پھر یہ وقت ہے کہ کتابیں بچی نہیں ملیں.بعض کو توفیق ملتی ہے مگر ارادے میں ثبات نہیں.آج نماز کا شوق چرایا ہے، زندگی وقف کرنے پر تلے بیٹھے ہیں مگر تھوڑے دن بعد کچھ بھی نہیں.حالانکہ قول بلا عمل کیا ہستی رکھتا ہے.غرض سب باتیں موقوف ہیں فضل الہی پر جو ربوبیت کی صفت سے فیض لینے پر حاصل ہوتی ہیں.

Page 445

مختصر نصیحت 436 میں تمہیں مختصر نصیحت کرتا ہوں.بعض لوگ ہیں جو نماز میں کسل کرتے ہیں اور یہ کئی قسم ہے.(۱) وقت پر نہیں پہنچتے.(۲) جماعت کے ساتھ نہیں پڑھتے.(۳) سنن و رواتب کا خیال نہیں کرتے.کان کھول کر سنو! جو نماز کا مضیع ہے اس کا کوئی کام دنیا میں ٹھیک نہیں.زکوۃ.بعض لوگ زکوۃ کے حکم کی تعمیل میں کسل کرتے ہیں.وہ اس بات کی تہ کو نہیں پہنچتے کہ صلوۃ کے ساتھ ہی زکوۃ کا ذکر بھی قرآن مجید میں کیوں ہے؟ دراصل تعظیم لامر اللہ کے ساتھ شفقت علی خلق بھی ضروری ہے.اگر کسی کے پاس بھی ہوتی ہے تو کیا حرج ہے کہ وہ پرانی جوتی کسی مسکین کو دیدے.یہ کہنا کہ پرانی کیچڑ کے لئے رکھ لی ہے، حد درجے کی سفیہانہ بات ہے.اسی طرح میں نے پرانے کپڑوں پرانے لحافوں کی نسبت بارہا توجہ دلائی ہے.یہی حکم علم کا ہے کہ اگر خدا نے تمہیں علم بخشا ہے تو اس کی زکوۃ ہے کہ دوسروں کو پڑھا دیں.مگر میں دیکھتا ہوں کہ بہت لوگ اس زکوٰۃ میں مضائقہ کرتے ہیں.ایک شخص کو میں نے پڑھانے کی نسبت کہا.اس نے بڑی جلدی اور شوق سے منظور کر لیا مگر ساتھ ہی بتا دیا کہ ڈیوٹیوں کا حساب آپ جانتے ہوں گے.یہ زکوۃ کا طرز نہیں.میرے نزدیک ہر شخص پر زکوٰۃ فرض ہے.یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف میں نصاب کا ذکر نہیں.امام حسن بصری سے کسی نے زکوٰۃ کا مسئلہ پوچھا.آپ نے فرمایا ہمارے ہاں تو زکوۃ یہ ہے کہ کسی کے پاس چالیس ہوں تو وہ اکتالیس بھر دے اور علماء کی زکوۃ یہ ہے کہ چالیس ہوں تو ایک دے.غرض ہر ایک کو زکوۃ دیتے رہنا چاہئے مگر یہ موقوف ہے توفیق پر جس کے حصول کا گر دعا ہے.میرے بھائی سلطان احمد تھے.انہوں نے مجھے خط لکھا کہ "سَوفَ سَوف" نہ کریو کیونکہ موت کا وقت آجاتا ہے اور کام پورے نہیں ہوتے.اس لئے جب توفیق ملے اسی وقت وہ نیک کام کر دے.یہ میرا اپنا صحیح تجربہ ہے.شریعت اجازت نہیں دیتی کہ کام کو دوسرے وقت پر ڈالا جاوے.يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وقلبه (الانفال:۲۵) کے علماء نے یہی معنے لکھے ہیں کہ جب وقت ملے اسی وقت کام کرے ورنہ روک پیدا ہو جاتی ہے.میں تمہیں بہت کچھ سنانا چاہتا تھا مگر جمعہ بھی ہے اور اس میں بھی میں نے ہی بولنا ہے (ناظرین اس فقرہ سے سمجھ گئے ہوں گے جو مضمون اللہ اور رب کے اسماء کی تفسیر اور اس میں قربانی کی تعلیم پر چل رہا

Page 446

437 ا تھا بوجہ تنگی وقت و دیگر مصالح وہیں مختصر بات پر روک دیا گیا.ایڈیٹر اس لئے اسی مختصر بات کے ساتھ کچھ اور نصائح ایزاد کرتا ہوں کہ تمہارے کاموں میں تعظیم لامر اللہ ہو اور شفقت علی خلق اللہ ہو کیونکہ فرمايا - أَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ (الرعد:).جو مصر وجود ہوتے ہیں وہ خود بھی سکھ نہیں پاتے، دوسروں کو بھی سکھ نہیں کر لینے دیتے.آپ بھی دوزخ میں رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی تکلیف پہنچاتے ہیں.پس تم مضر نہیں بلکہ نافع الناس وجود بنو.سب سے بھاری مسئلہ یہ ہے کہ وقتوں کی حفاظت کرو.دعا سے کام لو.صحبت صلحاء اختیار کرو.صحبت صلحاء بڑھاؤ.محبت کا اصول یہ ہے کہ جُبِلَتِ القُلوبُ عَلى حُبّ مَنْ اَحْسَنَ إِلَيْهَا.میری فطرت میں یہ بات ہے کہ جو کام کسی کو بتاؤں اور وہ نہ کرے تو میری اس کے ساتھ محبت نہیں رہ سکتی.خدا کی محبت کا بھی یہی حال ہے.وہ اپنی فرمانبرداری کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے.قربانی کے مسائل قربانی میں دو برس سے کم کوئی جانور نہیں چاہئے یہی میری تحقیق ہے.(۲) جس کے سینگ بالکل نہ ہوں وہ جائز ہے.(۳) خصی جائز ہے.(۴) مادہ بھی جائز ہے.نبی کریم میں اللہ ہمیشہ چھترا قربانی دیتے جس کا نہ آنکھیں ، پیٹ پاؤں سیاہ ہوتے.جو بالکل دبلا ہو وہ جائز نہیں.اگر جانور موٹا ہو، خواہ اسے خارش ہو تو بھی اسے جائز رکھا ہے.(۵) لنگڑا مناسب نہیں.تم قربانیاں کرو اس یقین کے ساتھ کہ ان میں تصویری زبان کے ذریعے تمہیں فرمانبرداری کی تعلیم ہے اور یہ کہ تم بھی ادنی کو اعلیٰ کے لئے قربان کرنا سیکھو.اللہ تمہیں توفیق بخشے.آمین.(بدر جلد ۹ نمبر ۳۰۰۰ دسمبر ۱۹۰۹ء صفحه ۱ تا ۳)

Page 447

۲۴ دسمبر ۱۹۰۹ء 438 عید کے جمعہ کا خطبہ حضرت امیر المومنین نے بأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلوة مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذكر الله (الجمعه) پڑھ کر فرمایا کہ ہر جمعہ میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ کوئی شخص تم کو وعظ سنائے اور اتنا وقت ہو کہ نماز سے پہلے سن لو.اس کے بعد نماز پڑھو.نماز کے بعد تم کو اختیار ہے کہ دنیوی کاموں میں لگ جاؤ.میں اس کے حکم کے مطابق تم کو نصیحت کرتا ہوں.اللہ نے ہم کو کچھ اعضاء دئے ہیں اور ان اعضاء پر حکومت بخشی ہے اور پھر انسان کو اپنی صفات کا مظہر بنایا.چونکہ خدا مالک ہے اس لئے انسان کو بھی مالک بنایا اور اس کو بہت بڑا لشکر دیا جن میں سے دو چار نوکروں کا میں ذکر کرتا ہوں.حضرت نبی کریم میل ل و ل ﷺ نے فرمایا كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ (بخاری کتاب التفسير سورة الجمعه) سب کے سب بادشاہ ہو اور تم سے اپنی رعایا کے متعلق سوال ہو گا.(۲) الْاِمَامُ رَاعٍ وَ هُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ - بخاری کتاب التفسير سورة الجمعه) امام بھی راعی ہوتا ہے اور اس سے رسول کی رعایا کی نسبت سوال ہو گا.(۳) عورت کے بارے میں بھی فرمایا کہ عَنْ بَيْتِ زَوْجِهَا (بخاری کتاب الاحکام).میں ان بادشاہوں کا ذکر نہیں کرتا جو ملکوں پر حکمرانی کرتے ہیں بلکہ ان کا ذکر کرتا

Page 448

439 ہوں جو تم سب اپنے اپنے اعضاء پر حکمران ہو.ان سب میں سے بڑی چیز دل ہے جس کے کچھ فرائض ہیں کچھ محرمات کچھ مکروہات کچھ مباحات.دل کے فرائض بتاتا ہوں.(11) اس کا عظیم الشان فرض ہے کہ لَا إِلَهَ إِلَّا الله محمد رسول الله پر ایمان لائے.جب تک دل اس فرض کو ادا کرنے والا نہ ہو ہلاکت میں ہے.يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُوْنَ أَبْنَاءَهُمْ (البقرة:۳۷) اور جَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنْفُسُهُم (النمل:۱۵) سے پتہ لگتا ہے کہ دل یقین کر چکے ہیں.پس اس یقین کے ساتھ عملی رنگ بھی ضروری ہے.(۲) اس کے بعد فرض ہے حضرت محمد رسول اللہ علی کو اللہ کا رسول یقین کرنا.جب اللہ معبود ہوا اور محمد رسول اللہ یا رسول تو اللہ کے بالمقابل اب اور کسی کا حکم نہیں اور رسول کی اطاعت کے بالمقابل کوئی اطاعت نہیں.یہ واجبات سے ہے.دل کے محرمات میں سے ہے.(1) اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانا (۲) کبر و نخوت (۳) بغض و حسد (۴) ریاء و سمعة (۵) نفاق کرنا.شرک کی نسبت تو اللہ فرماتا ہے کہ معاف کروں گا.اور کبر وہ فعل ہے جس کا نتیجہ شیطان اب تک لعنت اٹھا رہا ہے.اور ریا کہتے ہیں اس عمل کو جو دکھاوے کے لئے کیا جاوے.اور نفاق یہ ہے کہ دل سے نہ مانے اور اوپر سے اقرار کرے.اس کے کچھ اور شعبے بھی ہیں.(1) جب بات کرے جھوٹ بولے.(۲) امانت میں خیانت کرے.(۳) معاہدہ میں غداری کرے.(۴) سخت فحش گالیاں دے.دل کے فرائض سے نیچے یہ بات ہے کہ دل کو اللہ کی یاد سے طمانیت بخشے.آدمی پر مصائب کا پہاڑ گر پڑتا ہے.کسی کی صحبت خطرے میں ہے، کسی کی عزت کسی کی مالی حالت.کسی کو بیوی کے تعلقات میں مشکلات ہیں، کسی کو اولاد کی تعلیم میں.ان تمام مشکلات کے وقت خدا کی فرمانبرداری کو نہ بھولے.ایک شخص دہلی میں ہیں جو ہمارے خیالات کے سخت مخالف ہیں.انہوں نے ایک کتاب الحقوق والفرائض " لکھی ہے.میں نے اسے بہت پسند کیا ہے.حق بات کسی کے منہ سے نکلے ، مجھے بہت پیاری لگتی ہے.دوسرے کے منہ سے نکلے تو پھر اور کیا چاہئے.حقوق و فرائض کا ہر وقت نگاہ میں رکھنا مومن کے لئے مستحب کام ہے.مصائب میں اللہ پر ایسا بھروسہ ہو کہ ان مصائب کی کچھ حقیقت نہ سمجھے.اس کی تہ کے اندر جو حکمتیں، رحمتیں، فضل ہیں ان تک اِنَّا لِلہ کے ذریعے پہنچے.ایک دفعہ میں جوانی میں الحمد پڑھنے لگا.ان دنوں مجھ پر سخت ابتلاء تھا اس لئے مجھے جہراً پڑھنے میں تامل ہوا کیونکہ جب دل پورے طور پر اس کلمہ کے زبان سے نکالنے پر راضی نہیں تھا تو یہ ایک قسم کا

Page 449

440 نفاق تھا.اللہ تعالیٰ نے میری دستگیری کی اور معا مجھے خیال آیا کہ جو إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (البقرہ:۵۷) اور اللهُمَّ أَجِرْنِي فِي مُصِيبَتِي (مسلم کتاب الجنائز) پڑھتا ہے ہم اس کی مصیبت کو راحت سے بدل دیتے ہیں.انسان پر جو مصیبت آتی ہے کبھی گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے.اس لئے انسان شکر کرہے کہ قیامت کو مواخذہ نہ ہو گا.دوم.ممکن تھا اس سے بڑھ کر مصیبت میں گرفتار ہو تا.سوم.مالی نقصان کی بجائے ممکن تھا جانی نقصان ہو تا جو نا قابل برداشت ہے.چہارم.یہ بھی شکر کا مقام ہے کہ خود زندہ رہے کیونکہ خود زندہ نہیں تو پھر تمام مال و اسباب وغیرہ کی فکر لغو ہے.یہ سب مضمون جب میرے دل میں آیا تو بڑے زور سے الحمد للہ پڑھا.قرآن میں کہیں نہیں آیا کہ مومن کو خوف و حزن ہوتا ہے وہ تو لَا يَخَافُ وَلَا يَحْزَنُ ہوتا ہے.زبان کے فرائض زبان کا سب سے بھاری فرض ہے.(۱) کلمہ توحید پڑھنا.(۲) نماز میں الحمد بھی فرض ہے.تو گویا اتنا قرآن پڑھنا بھی فرض ہوا.(۳) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی زبان کا ایک رکن ہے.اس کے محرمات ہیں.غیبت، تحقیر، جھوٹ، افتراء.اس زبان کے ذریعے عام تلاوت قرآن و تلاوت احادیث کرے اور عام طور پر جو معرفت کے خزانے اللہ و رسول کی کتابوں میں ہیں پوچھ کر یا بتا کر ان کی تہ تک پہنچے.معمولی باتیں مباح ہیں.پسندیدہ باتیں اپنی عام باتوں میں استحباب کا رنگ رکھتی ہیں.کان کے فرائض لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ (الملك :) اگر ہم حق کے شنوا ہوتے تو دوزخ میں کیوں جاتے؟ اس سے ثابت ہوا کہ حق کا سنا فرض ہے اور غیبت کا سننا حرام ہے.سماع کے متعلق صوفیاء میں بحث ہے.میرے نزدیک سماع قرآن و حدیث ضروری ہے.مگر ایک شیطانی سماع ہے کہ راگنی کی باریکیوں پر اطلاع ہو یہ ناجائز ہے.

Page 450

ناک کے فرائض 441 ہمیں حکم ہے کہ جس پانی کی بو خراب ہو اس سے وضو نہ کریں.اس واسطے پانی کا سونگھنا اس وقت فرض ہو گیا خصوصاً جب نجاست کا احتمال ہو.عید کے دن عطر لگانا مستحبات میں داخل ہے.ہاں اجنبی عورت کے کپڑوں اور بالوں کی خوشبو کا سونگھنا حرام ہے.اسی طرح آنکھ اور دوسرے اعضاء کے فرائض ہیں.خطبہ ثانیہ اذْكُرُوا اللهَ يَذْكُرُكُمْ زبان کے فرائض میں سے شکر بھی ہے.ناشکری کا مرض مسلمانوں میں بہت بڑھ گیا ہے.کسی کو نعمت دیتا ہے تو وہ حقارت کرتا ہے.اس سے نعمت بڑھتی نہیں.اگر انسان شکر کرے تو نعمت بڑھتی ہے.مال کی حرص بھی بہت بڑھ گئی ہے.جس کی پانچ تنخواہ ہے وہ چاہتا ہے دس ہو جائے اور جس کی سو ہے وہ دو سو کے لئے تڑپ رہا ہے.طالب علموں میں بھی یہ مرض ہے.اگر کوئی ان میں سے پاس ہو گیا تو پوچھنے پر شکر نہیں کرے گا بلکہ یہی کہے گا کہ خاک پاس ہوئے ہیں.ہم چاہتے تھے کہ فسٹ ڈویژن میں نکلتے وظیفہ لیتے.کسل و کاہلی بھی ایک گندی صفت ہے جو مسلمانوں میں بڑھ رہی ہے.آنحضرت امام نے ایک دعا فرمائی ہے، جس کو تشہد میں بعض ائمہ نے فرض لکھا ہے.اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُبِكَ مِنَ الْعَجْزِ وَ الكسل (بخاری کتاب الدعوات) اسباب کو مہیا نہ کرنا اور کسل اسباب مہیا شدہ سے کام نہ لینا.رسول اللہ کی جماعت تھی کہ ان میں سے کئی لکڑیاں جنگل سے لا کر بیچتے اور اس میں سے چندے دے دیتے اور رات کو قرآن شریف یاد کرتے.معاملہ کی صفائی بھی بہت کم رہ گئی ہے.روپیہ کسی کے قبضے میں آجاوے تو اس کا دل نہیں چاہتا کہ واپس دوں.تم میں یہ بری باتیں نہ رہیں.اللہ تعالیٰ تمہیں نیکیوں کی توفیق دے.آمین.(بدر جلد نمبر ۱۰....۳۰ دسمبر ۱۹۰۹ء صفحہ ۴۴۳) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 451

۳۱ دسمبر ۱۹۰۹ء 442 خطبہ جمعہ حضور نے آیت قرآنی إِنَّ الشَّرُكَ لَظُلْمٌ عَظِیم (لقمان: ۳) کی تلاوت کے بعد فرمایا:.تین بار مجھ سے یہ سوال پوچھا گیا ہے کہ شرک کیا چیز ہے؟ اس سوال سے مجھے رنج بھی ہوا، تعجب بھی افسوس بھی.قرآن کریم سارا اسی کے رو سے بھرا ہوا ہے.پھر شرک کے سب سے بڑے دشمن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت سے شرک کا پتہ لگ سکتا ہے.شرک وہ بری چیز ہے کہ اس کی نسبت خدا نے فرما دیا ہے إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذلِكَ (النساء:۲۹).سب سے پہلا کلام جو انسان کے کان میں بوقت پیدائش و بلوغ ڈالا جاتا ہے وہ شرک کی تردید میں لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ ہے.یہ ایک بحث ہے کہ کان بہتر ہیں یا آنکھیں ؟ مولود کے کان میں اذان کہنے کی سنت سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے.اگر یہ لغو فعل ہو تا تو کبھی رسول کی سنت موکدہ نہ بنتا.یقظہ نومی جو بیماری ہے اس کے عجائبات سے بھی اس کی علمتیں معلوم ہو

Page 452

سکتی ہیں.443 غرض پہلا حکم کانوں کے لئے نازل ہوا اور انبیاء بھی اس لا اله الا اللہ کی اشاعت کے لئے آئے اور خدا کی آخری کتاب نے بھی اسی کلمہ کی اشاعت کی اور جس کتاب سے میں نے دینی امور کی طرف خصوصیت سے توجہ کی اس میں بھی اسی پر زیادہ تر بحث ہے.چونکہ بعض لوگ حکیموں کی بات کو بہت پسند کرتے ہیں اور ان کے کلمہ کا ان کی طبیعت پر خاص اثر ہوتا ہے اس لئے یہاں ایک حکیم کی نصیحت کو بیان کیا ہے.اور یہ بھی مسلم ہے کہ آدمی اپنی اولاد کو وہی بات بتاتا ہے جو بہت مفید ہو اور مضر نہ ہو.شرک عربی زبان میں کہتے ہیں سانجھ کرنے کو کسی کو کسی کے ساتھ ملانے کو.تو مطلب یہ ہوا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو جوڑی نہ بناؤ.ایک مقام پر فرمایا ہے ثُمَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ (الانعام:) کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے برابر اس کی ذات میں کسی دوسرے کو بھی مانتا ہو، یہ شرک میں نے کسی سے نہیں سنا.ثنوی ایک فرقہ ہے جو کہتے ہیں کہ دنیا کے دو خالق ہیں.ایک ظلمت کا ایک نور کا.مگر برابر وہ بھی نہیں کہتے.خدا نے فرمایا کہ مَنْ خَلَقَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ (لقمان (٣٩) تو کفار مکہ جو بڑے مشرک تھے انہوں نے بھی کہا.اللہ.اسی طرح ان کے جاہلیت کے شعروں میں اللہ کالفظ کسی اور پر نہیں بولا گیا.پھر شرک کیا ہے جس کے واسطے قرآن شریف نازل ہوا ؟ سنو! دوسرا مرتبہ صفات کا ہے.اللہ تعالیٰ ازلی ابدی ہے.سب چیزوں کا خالق ہے.وہ غیر مخلوق ہے.پس یہ صفات کسی غیر کے لئے بنانا شرک ہے.آریہ قوم نے پانچ ازلی مانے ہیں.(۱) اللہ قدیم ازلی ہے.(۲) روح ازلی ہے.(۳) مادہ ازلی ہے.(۴) زمانہ ازلی ہے.(۵) فضا ازلی ہے جس میں یہ سب چیزیں رکھی ہیں.اس واسطے یہ قوم مشرک ہے.عیسائی قوم نے کہا ہے کہ بیٹا ازلی ہے.باپ ازلی ہے.روح القدس ازلی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ (المائدة: ۷۳) ایک قوم ہے جو اللہ تعالیٰ کے علم میں اور تصرف میں کسی مخلوق کو بھی شریک بناتی ہے.بد بختی سے مسلمانوں میں بھی ایسا فرقہ ہے جو کہ پیر پرست ہے.حالانکہ رسول کریم" سے بڑھ کر کوئی نہیں اور وہ فرماتا ہے.لَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ (الانعام ) اور لَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَ مَا مَسَّنِيَ السُّوءُ (الاعراف: ۱۸۹).پس کسی اور ولی کو کبھی یہ قدرت حاصل ہو سکتی ہے کہ اسے جانی جان کہا

Page 453

خطرات نور 444 جاوے اور یہ سمجھا جاوے کہ وہ حاضر و غائب ہماری پکار سنتے ہیں؟ یہ جواب جو دیا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان کو علم غیب یا تصرف دے دیا ہے، صحیح نہیں.کیونکہ شرک کے معنے ہیں سا جبھی بنانا.خود بن جاوے یا دینے سے بنے.یاد رکھو اللہ کا علم ایسا وسیع ہے کہ بشر اس کے مساوی ہو ہی نہیں سکتا.جو نشان اللہ تعالیٰ نے اپنی الوہیت کے لئے بطور نشان رکھے ہیں وہ کسی اور میں نہیں بنانے چاہئیں.بڑا نشان تذلل کا ہے سجدہ اس سے بڑھ کر اور کوئی عاجزی نہیں.زمین پر گر پڑے.اب آگے اور کہاں کدھر جاویں؟ فرماتا ہے لا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَ لَا لِلْقَمَرِ وَ اسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ أَحْم السجدۃ:۳۸).پس جو غیر کو سجدہ کرے وہ مشرک ہے.ہاتھ باندھ کر بہیت صلوۃ کسی کے سامنے کھڑے ہونا اور امید و بیم کے لحاظ سے اس کی وہ تعریفیں، جو خدا تعالیٰ کی کی جاتی ہیں، کرنا بھی شرک ہے اور کسی سے سوائے اللہ کے دعا مانگنا بھی.ہاں دعا کروانا شرک نہیں ہے.زکوۃ :.بھی عبودیت کا ایک نشان ہے.پس مال خرچ کرنا کسی غیر کے نام پر بامید و خوف، نفع و ضرر بھی شرک ہوا.صوم :.ایک محبت الہی کا بڑا نشان ہے روزہ.آدمی کسی کی محبت میں سرشار ہو کر کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے اور بیوی کے تعلقات اسے بھول جاتے ہیں.یہ روزہ اسی حالت کا اظہار ہے.یہ بھی غیر اللہ کے لئے جائز نہیں.- عاشق جب سنتا ہے کہ میرا محبوب فلاں شخص کو نظر آیا اور فلاں مقام پر ملا تو وہ دیوانہ وار اس کی طرف دوڑتا ہے اور اسے تن بدن کا کچھ ہوش نہیں رہتا.نہ کرتے کی خبر ہے نہ پاجامہ کی.پھر وہاں جا کر دیوانہ وار مکانوں میں گھومتا ہے.بعینہ یہ عبادت حج کا نظارہ ہے.یہ بھی کسی غیر کے لئے جائز نہیں.ایک شخص نے مجھے کہا وہاں مکہ میں جا کر کیا لینا ہے؟ علی گڑھ حمایت الاسلام کا جلسہ کافی ہے.اس کو معلوم نہیں تھا کہ خدا کیا ہے؟ قربانی ایک اور نشان عبودیت ہے اور وہ قربانی ہے.اس میں یہ تعلیم ہے کہ جس طرح انسان کے سامنے جانور خاموش ہو کر اپنی جان دیتا ہے، اسی طرح خدا کے حضور میں مومن قربان ہو جاوے.محبت الهی : قرآن شریف نے ایک اور شرک کی طرف بھی توجہ دلائی ہے وہ یہ ہے کہ يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ وَالَّذِيْنَ امَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ البقرة ٢) یعنی جیسا پیار اللہ سے کرتے ہو یہ کسی اور سے کرنا خدا کا شریک بناتا ہے.وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا (البقرة: ند بنتا

Page 454

445 یوں ہے کہ مثلاً ایک طرف آواز آ رہی ہے حَيَّ عَلَى الفلاح اور دوسری طرف کوئی اپنا مشغلہ جس کو نہ چھوڑا تو یہ بھی شرک ہے.ریاء : اسی سلسلہ میں آخری شرک کا نام لیتا ہوں اور وہ ریاء ہے.اس سے بچنا چاہئے.حضرت صاحب سے مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے پوچھا تو آپ نے فرمایا.جیسا تم لوگوں کو کسی گھوڑی وغیرہ کے سامنے ریاء نہیں آسکتا اسی طرح ماموران الہی کو لوگوں کے سامنے ریاء نہیں آتا.ان تمام شرکوں کا رد اسی کلمہ طیبہ میں ہے جو بہت چھوٹا ہے مگر ہے بہت عظیم.اور میرا ایمان ہے کہ أَفْضَلُ الذِّكْرِ لَا إِلَهَ إِلَّا الله (ابن ماجه کتاب الادب) اور اس لَا إِلَهَ إِلَّا الله کے ساتھ توحید کامل نہ ہوتی اگر اس کے ساتھ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ نہ ہوتا.کیونکہ دنیا نے ہادیوں کو خدا کہنا بھی شروع کر دیا.چنانچہ حضرت عیسی جیسے عاجز اور خاکسار انسان کو خدا بنایا گیا.کرشن جیسے خدا کے محب کو بھی ایسا ہی سمجھا گیا.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جہاں ہم پر اور احسان کئے وہاں یہ بھی کیا کہ لَا إِلَهَ إِلا الله کے ساتھ عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ رکھ دیا تا کہ آپ کی امت کبھی اس ابتلاء میں نہ پڑے اور جب آپ بندے تھے تو آپ کے خلفاء و نواب پر کب خدائی کا گمان ہو سکتا ہے.اللہ تعالیٰ تمہیں نیک عملوں کی توفیق دے.آمین.( بدر جلد ۹ نمبر ۰۱۲-۱۳ / جنوری ۱۹۱۰ء صفحه ۲) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 455

جنوری ۱۹۱۰ء 446 خطبہ نکاح حضرت امیر المومنین نے فرمایا کہ خطبہ نکاح میں یہ تین آیات ضرور پڑھی جاتی ہیں:.يُأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَّ خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَ الْاَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا (النساء:۹۲) - يُأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (الحشر: ١٩) - ياَيُّهَا الَّذِينَ امَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُولُوا قَوْلاً سَدِيدًا (الاحزاب:1) - ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا اصل الاصول تقویٰ ہے.کہیں رہو.جنگل میں یا شہر میں.گھر میں یا سفر میں.جو کچھ بھی کرو دکان داری یا کوئی حرفت یا ملازمت، متقی بنے رہو.جس قدر احکام شریعت میں ہیں ان کا نتیجہ بھی یہی ہے کہ تقویٰ حاصل ہو.اسی واسطے جو چیزیں تقویٰ بگاڑنے والی ہیں،

Page 456

.447 ان سے منع کیا.شراب، قمار بازی اسی لئے منع ہے.نکاح بھی تقویٰ کے حصول کے لئے ہے.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ میاں بی بی دونوں کو ناول خوانی نے ڈبو دیا ہے.خدا تو فرماتا ہے لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا (الروم:۳۳) اور مَوَدَّةً وَرَحْمَةٌ (الروم:۳۳) مگر مسلمانوں کی بد قسمتی سے ان کے گھر اضطراب، دشمنی اور غضب کے مظہر بن رہے ہیں.جس کی وجہ مجھ سے پوچھو تو یہی ہے فَنَسُوا حَظًّا مِمَّاذُكَرُوا بِهِ فَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ (المائدہ:۵).قرآن کی تعلیم کو مسلمانوں نے چھوڑا تو آرام بھی ان کے گھروں سے رخصت ہو گیا.خدا تو فرماتا ہے.لا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ (الطلاق:۲) اور وَلا يَخْرُجُنَ (الطلاق:۲) کہ طلاق کے بعد بیبیوں کو نہ نکالو اور نہ وہ نکلیں.مگر نہ میاں اس پر عمل کرتا ہے نہ بی بی.نکاح میں جلد بازی سے کام لیا جاتا ہے پھر طلاق میں اس سے بھی زیادہ جلدی.مگر خدا نے فرمایا وَ لتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ (الحشر ) پہلے تم یہ تو دیکھ لو کہ کل کیا ہو گا اور ہمارے اس فعل کا انجام کیا ہو گا؟ پس قُولُوا قَوْلاً سَدِيدًا (الاحزاب (۷) تم جو بات کرو اور پھر نکاح کے معاملہ میں پختہ بات کرو اس سے تمہارے اعمال متنور ہو جائیں گے.تمہاری کمزوریاں دور ہو جائیں گی.چنانچہ دیکھ لو.مسلمانوں میں پالیٹکس کی کوئی کتاب نہیں جس سے ثابت ہے کہ اسلام کو پالیٹکس سے کوئی تعلق نہیں.بعض کتا ہیں جو امن قائم رکھنے کے لئے اور باہمی تعلقات کی عمدگی کے لئے ہیں ان کو سیاست کی سمجھ لیا گیا ہے.یہ بھی ثبوت ہے اس بات کا کہ مسلمانوں میں پالیٹکس نہیں کیونکہ وہ اس کی تعریف نہیں جانتے.( بدر جلد ۹ نمبر۰۱۳-۲۰۰۰ جنوری ۱۹۱۰ء صفحه ۲)

Page 457

! ۱۴ جنوری ۱۹۱۰ء 448 خطبہ جمعہ حضرت امیرالمومنین نے کمال مہربانی سے جناب اکمل صاحب کی درخواست کو شرف قبولیت عطا فرما کر جمعہ کے خطبہ میں تصوف پر تقریر فرمائی جو ناظرین کے فائدہ کے واسطے درج ذیل ہے.حضور نے آیات قرآنى الركِتُبُ أَنْزَلْنَهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَى صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ اللَّهِ الَّذِي لَهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَوَيْلٌ لِلْكَافِرِينَ مِنْ عَذَابٍ شَدِيدٍ (ابراهیم:۲-۳) کی تلاوت کے بعد فرمایا:.تصوف کیا چیز ہے؟ یہ آیت میں نے اسی نقطہ خیال پر پڑھی ہے.یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ظلمات سے نور کی طرف نکالنے والا فرمایا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک وقت انسان پر ایسا گزرتا ہے کہ اس کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وعظ موجب بنتا ہے ظلمات سے نکال کرا نور کی طرف لے جانے کا.مگر ایک اور جگہ پر فرمایا ہے اللهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنْ الظُّلُمتِ إِلَى النُّورِ (البقرۃ:۲۵۸).گویا وہی نسبت جو پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف فرمائی پھر اللہ نے وہی کام اپنی طرف منسوب فرمایا.یہ بات قابل غور ہے.

Page 458

2: 449 حضرت جبرائیل نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں لوگوں کو دین سکھانے کے لئے آئے اور پہلا سوال یہی کیا کہ يَا مُحَمَّدُ اَخْبِرْنِي عَنِ الْإِسْلامِ (بخاری کتاب الایمان).اسلام نام ہے فرمانبرداری کا.سارے جہان کو تو موقع نہیں کہ اللہ کی باتیں سنے.اس لئے پہلے نبی سنتا ہے پھر اوروں کو سناتا ہے.سو پہلا مرتبہ یہی ہے کہ نبی کی صحبت میں رہے اور اس سے فرمانبرداری کی راہیں سنے اور سیکھے.چنانچہ اس بناء پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ سمجھایا کہ إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْيِيكُمُ الله (ال عمران (۳۲) یعنی سردست تم میرے تابع ہو جاؤ.اس کی تعمیل میں اسلام لانے والوں نے جیسا انہیں نبی کریم نے سمجھایا کیا کلمہ سکھایا، کلمہ پڑھ لیا.نماز سکھائی تو نماز پڑھ لی.روزہ، حج، زکوۃ جس طرح فرمایا اسی طرح ادا کیا.یہ اسلام ہے.چنانچہ جبرائیل کے سوال کے جواب میں فرماتے ہیں.الْإِسْلَامُ اَنْ تَشْهَدَ أَنْ لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللَّهِ وَ تُقِيمَ الصَّلوةَ وَ تُؤْتِي الزَّكَوةَ وَتَصُوْمَ رَمَضَانَ وَ تَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلاً (بخاری کتاب الايمان - باب سوال جبريل النبي عن الايمان و الاسلام مگر چونکہ منافق لوگ بھی ایسی باتوں میں شریک ہو سکتے ہیں اس لئے اس سے اوپر ایک اور مرتبہ ہے.وہ یوں کہ جب انسان یہ اعمال کرتا ہے اور ان کے فوائد و ثمرات مرتب ہوتے ہیں تو پھر عقائد اس کے دل میں گڑ جاتے ہیں.یہ ایمان کا مرتبہ ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لوگ آتے تو آپکی باتیں سنتے اور آہستہ آہستہ وہی باتیں دل کے اندر گڑ جاتیں اور اس طرح پر انکو اسلام سے ایمان کا رتبہ ملتا اور وہ کئی ظلمات سے نکل کر نور میں آ جاتے.پہلی ظلمت تو کفار کی مجلس تھی جس کو چھوڑ کر وہ حضور نبوی میں آئے.صلی اللہ علیہ و آلہ و سامرا میں نے کئی ڈاکوؤں سے پوچھا ہے کہ تمہیں کبھی رحم نہیں آتا.تم کیسے حیرت انگیز بے رحمی کے کام کرتے ہو؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں رحم آتا ہے مگر تنہائی میں.لیکن جب ہم اپنے ہمجولیوں میں بیٹھتے ہیں تو پھر سب کچھ بھول جاتا ہے.یہ ان کی صحبت کی ظلمت کا اثر ہے.مواعیظ نبوی آہستہ آہستہ اثر کرتے رہے.پھر اللہ کے احکام کی تعمیل کا شوق پیدا ہوتا ہے اور چونکہ احکام الہی کے مظہر اول ملائکہ ہوتے ہیں اس لئے ان پر ایمان لاتا ہے جو اس کے دل میں پاک تحریکیں کرتے ہیں تو یہ ان کی تحریکات کی فرمانبرداری کرتا ہے.پھر اس کے بعد چونکہ ملائکہ کا تعلق شدید نبی سے ہوتا ہے اس لئے اس کی باتوں پر

Page 459

450 ایمان لاتا ہے اور ان کی تعمیل کرتا ہے.وہ نبی کو تو پہلے بھی دیکھتا تھا مگروہ دیکھنادر اصل نہ دیکھنا تھا.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے يَنْظُرُونَ إِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ (الاعراف (1).اس کے بعد اس کی معرفت بڑھتی ہے اور وہ نبی کو اس کی نبوت کی حیثیت سے پہچانتا ہے تو اس کی کتاب کو پڑھتا ہے.پھر جزا و سزا کے مسئلہ پر ایمان لاتا ہے اور اس طرح اس کا ایمان آہستہ آہستہ بڑھتا ہے.چنانچہ جبرائیل کے سوال ما الْإِيْمَانُ کے جواب میں نبی کریم نے فرمایا.اَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدْرِ خَيْرِهِ وَشَرِه (بخاری کتاب الایمان).غرض جب مومن کفرو شرک کی ظلمات سے قوم کے رسوم ، قوم کے تعلقات، بزرگوں کی یادداشتوں کی ظلمات سے صحبت نبوی کی برکات کے ذریعے نکلتا ہے اور اس کے دل سے حُبِّ لِغَيْرِ اللهِ اٹھتی جاتی ہے تو پھر وہ اللہ جل شانہ کے سارے احکام کو شرح صدر سے مانتا ہے.اس کے لئے تمام ماسوی اللہ کے تعلقات کو توڑ دیتا ہے اور محض اللہ ہی کا ہو جاتا ہے تو یہ تیسرا درجہ ہے جسے احسان کہتے ہیں.اور یہ مومن کی اس حالت کا نام ہے جب اسے ہر حال میں اپنا مولی گویا نظر آنے لگتا ہے اور وہ مولیٰ کی نظر عنایت کے نیچے آ جاتا ہے اور وہ غالبا اس کی رضامندی کے خلاف کوئی حرکت و سکون نہیں کرتا.چنانچہ جبرائیل کے سوال اَخْبِرْنِي عَنِ الْإِحْسَانِ کے جواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں اَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَّمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ (بخاری کتاب الایمان) تو اللہ کی فرمانبرداری ایسی کرے گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو نہیں دیکھتا تو یہ سمجھے کہ وہ تو تجھے دیکھ رہا ہے.مثال کے طور پر یہ دیکھ لو.جب انسان کسی امیر یا بادشاہ کو اپنا محسن و مربی سمجھے تو پھر اس کے سامنے اور سب کچھ بھول جاتا ہے اور اس کے مقابل میں کسی چیز کی پروا نہیں کرنا یا مثلا بعض لوگ مکان بناتے ہیں تو اس کی تعمیر کی فکر میں ایسے مبہوت ہو جاتے ہیں کہ گویا مکان میں فنا ہو گئے ہیں.مومن کو چاہئے کہ اس طرح پر اللہ تعالیٰ کی محبت میں فنا ہو جاوے یہاں تک کہ اس کے بغیر اسے کوئی خیال نہ رہے.اس درجہ احسان کو دوسرے لفظوں میں تصوف کہتے ہیں اور ان کا نام صوفی ہے.لِصَفَاءِ أَسْرَارِهِمْ وَنَقَاءِ أَحْفَارِهِمْ ان کے دلی خیالات صاف ہوتے ہیں.ان کے اعمال میں کوئی کدورت نہیں ہوتی.ان کا معاملہ اللہ کے ساتھ صاف ہوتا ہے.وہ خدا کے حضور احکام کی تعمیل کے لئے اول صف میں کھڑے ہونے والے ہوتے ہیں.وہ اس دار الغرور میں دل نہیں لگاتے.چنانچہ تصوف کی تعریف میں فرمایا - اَلتَّحَافِى مِنْ دَارِ الْغُرُورِ وَالْإِنَابَةُ إِلَى دَارِ الْخُلُودِ صوفی موت کی تیاری کرتا ہے قبل اس کے کہ موت نازل ہو.ظاہری و باطنی طور پر پاکیزہ رہتا ہے یہاں تک کہ تجارت و بیع

Page 460

451 اس کو اللہ تعالیٰ سے غافل نہیں کرتی رِجَالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَابَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ (النور:۳۸) اصحاب صفہ انہی لوگوں میں سے تھے.یہ لوگ دن بھر محنت و مشقت کرتے، اس سے اپنا گزارہ کرتے اور اپنے بھائیوں کو بھی کھلاتے اور پھر رات بھر وہ تھے اور قرآن شریف کا مشغلہ.یہ قوم کس طرح تیار ہوئی؟ صحابہ میں تین گروہ تھے.بعض ایسے کہ حضور نبوی میں آئے کچھ کلمات سنے، کچھ مسائل پوچھے پھر چلے گئے اور بس.نماز پڑھ لی ، زکوۃ دی روزہ رکھا، بشرط استطاعت حج کیا اور معروف امور کے کرنے اور نواہی سے رکنے میں حسب مقدور کوشاں رہے.اور بعض ایسے جو اکثر صحبت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں بیٹھے رہتے.اس مخلوق کے اندر ایمان رچا ہوا تھا.سخت سے سخت تکلیف، مصیبت اور دکھ اور اعلیٰ درجہ کی راحت، آرام اور سکھ میں ان کا قدم یکساں خدا کی طرف بڑھتا تھا.گیا: انہی لوگوں میں سے ایسے خواص تیار ہو گئے کہ خدا ان کا متولی ہو گیا.مجھے اس موقع پر ایک شعر یاد آ قَوْمٌ هُمُوْمُهُمْ بِاللَّهِ قَدْ عَلِقَتْ وہ ایسے لوگ ہیں کہ سارا خیال ان کو اللہ کا رہ جاتا ہے اور اس کے بغیر کسی کے ساتھ حقیقی تعلق نہیں رکھتے.نبی کی اتباع وہ کرتے ہیں مگر اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا.بادشاہ کی اطاعت کرتے ہیں تو اسی لئے کہ اللہ نے حکم دیا.بیوی بچوں سے نیک سلوک بھی اسی لئے کرتے ہیں.وہ دنیا کے کاروبار کرتے ہیں ، چھوڑ نہیں بیٹھتے مگر یہ سب باتیں ، یہ سب کام ان کے اللہ ہوتے ہیں.چنانچہ فرمایا.فَمَطْلَبُ الْقَوْمِ مَوْلَاهُمْ وَ سَيِّدُهُمْ بِأَحْسَنِ مَطْلَبِهِمْ لِلْوَاحِدِ الصَّمَدِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح تصوف کی طرف توجہ دلاتے تھے ؟ سو اس بارے میں میں بتا چکا ہوں کہ پہلے اسلام سکھاتے تھے، پھر ایمان بڑھتا جاتا تھا اور اخیر میں احسان کا درجہ تھا.چنانچہ فرماتا ہے يَتْلُوا عَلَيْهِمْ ايْتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ

Page 461

452 (ال عمران:۱۲۵) یعنی پہلے لوگوں کو احکام الہی سنائے جاویں.ان کو کتاب و حکمت سکھائی جاوے.پھر ان کا تزکیہ ہو.تین مرتبے ہیں.يَتْلُوا- يُعَلِّمُهُمْ - يُزَكِّيهِمْ - حدیث میں ان کو اسلام ایمان احسان سے تعبیر فرمایا گیا ہے.تزکیہ کس رنگ میں فرماتے ؟ رسول کریم جب اپنا فرمانبردار کسی کو دیکھتے تو پھر اس کے لئے دعائیں کرتے اور اسی طرح پر اللہ کا فضل خصوصیت سے اس پر نازل ہو تا اور خدا تعالی خود اس کا متولی ہو جاتا.صحابہ میں بھی تین قسم کے لوگ تھے.ایک معلم ، چنانچہ ابو ہریرہ.عبد اللہ بن عمر".انس بن مالک.یہ جس قدر لوگ ہیں احکام رض سناتے رہے.صحابہ میں سے بعض خواص ایسے تھے جو بہت کم احادیث سناتے جیسے خلفاء راشدین بالخصوص حضرت ابوبکر مگر جو حدیثیں انہوں نے سنائیں وہ ایسی جامع ہیں کہ ان سے بہت سے احکام نکل سکتے ہیں.بعد اس کے جب لوگوں میں کمی آگئی تو صحابہ کے آخری اور تابعین کے ابتدائی زمانے میں بادشاہ الگ ہو گئے اور معلم لوگ الگ.جو معلم اسلام کے تھے وہ فقہاء کہلائے.گویا ایک طرف بادشاہ تھے اور ایک طرف فقہاء جن کے ذمے تعلیم کتاب اور تزکیہ یا احسان کا کام تھا.یہی اہل اللہ تھے.چونکہ ایک وقت میں دو خلفاء بیعت نہیں لے سکتے اس لئے ان لوگوں نے بجائے بیعت کے کچھ نشان اپنی خدمت گزاری کے مقرر کرلئے.مشہور پیر قافلہ جنید بغدادی ایک دفعہ بچے ہی تھے کہ مکہ معظمہ اولیاء کرام کی صحبت میں چلے گئے جہاں محبت الہی پر مکالمہ ہو رہا تھا.ان لوگوں نے کہا.کیوں میاں لڑکے! تم بھی کچھ بولو گے ؟ تو انہوں نے بڑی جرأت سے کہا.کیوں نہیں.اس پر انہوں نے کہا.لَهُ عَهْدٌ ذَاهِبٌ عَنْ نَفْسِهِ مُتَّصِلٌ بِذِكْرِ رَبِّهِ قَائِمٌ بِأَدَاءِ حَقِّهِ إِنْ تُكَلِّمْ فَبِاللَّهِ وَفِي اللَّهِ وَإِنْ تُحَرِك فَبِأَمْرِ اللَّهِ وَإِنْ سَكَنَ فَمَعَ اللهِ (تذکرة الاولياء فارسی فی ذکر جنید بغدادی جس کے مختصر معنی یہ ہیں کہ صوفی وہ ہے جو اپنا ارادہ سب چھوڑ دے.کام کرے مگر خدا کے حکم سے.ہر وقت خدا کی یاد سے اس کا تعلق وابستہ رہے.وہ بیوی سے صحبت کرے مگر اس لئے کہ عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ (النساء:٢٠) کا حکم ہے.کھانا کھائے مگر اس لئے کہ کُلُوا خدا کا حکم ہے.یہ بڑا سخت مجاہدہ ہے.میں نے خود تجربہ کر کے دیکھا ہے.آٹھ پہر میں انسان اس میں کئی بار فیل ہو جاتا ہے إِلَّا مَنْ عَصِمَهُ اللهُ

Page 462

453 خطیات نور غرض وہ شخص اللہ کے تمام احکام ادا کرتا ہے.جب بولتا ہے تو خدا کی تعلیم کے مطابق.ہلتا ہے تو اللہ کے حکم سے.ٹھہرتا ہے تو اللہ کے ارشاد سے.یہ سن کر سب شیخ اٹھے کہ یہ عراقی لڑکا تاج العارفین نظر آتا ہے.ان کے اتباع بہت لوگ نظر آتے ہیں.غرض معلمین میں سے ایک گروہ تو فقہاء کا تھا.چنانچہ امام ابو حنیفہ شافعی، مالک احمد بن حنبل، داؤد امام بخاری، اسحاق بن راہویہ رَحِمَهُمُ اللهُ یہ سب لوگ حامی اسلام گزرے ہیں.انہوں نے بادشاہوں کا ہاتھ خوب بٹایا.دو سرا گروہ متکلمین کا ہے.جن میں امام ابو المنصور الماتریدی‘ الامام ابوالحسن الاشعری، ابن حزم امام غزالی امام رازی، شیخ تیمیہ، شیخ ابن قیم رَحِمَهُمُ الله ہیں.تیسرا گروہ جنہوں نے احسان کو بیان کیا ہے.ان میں سید عبدالقادر جیلانی "بڑا عظیم الشان انسان گزرا ہے.ان کی دو کتابیں بہت مفید ہیں.ایک فتح الربانی دوم فتوح الغیب.دوسرا مرد خدا شیخ شهاب الدین سہروردی ہے جنہوں نے عوارف لکھ کر مخلوق پر احسان کیا ہے.تیسرا آدمی جس کے بارے میں بعض علماء نے جھگڑا کیا ہے مگر میں تو اچھا سمجھتا ہوں، شیخ محی الدین ابن عربی ہے.پھر ان سے اتر کر امام شعرانی گزرے ہیں.پھر محمد انصاری ہیں.ہزار سال کے بعد شاہ ولی اللہ صاحب ہیں، مجدد الف ثانی ہیں.ان لوگوں نے اپنی تصنیف پر زور دیا ہے مگر صرف روحانیت سے.ہندوستان میں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کا نام سکھایا ہے ان میں حضرت معین الدین چشتی ہیں، حضرت قطب الدین بختیار کاکی ہیں، حضرت فرید الدین شکر گنج ہیں، حضرت نظام الدین محبوب الہی ہیں، حضرت نصیر الدین چراغ دہلی رَحِمَهُمُ اللَّهُ ہیں.یہ سب کے سب خدا کے خاص بندے تھے.ان کی تصانیف سے پتہ لگتا ہے کہ ان کو قرآن شریف و احادیث سے کیا محبت تھی.نبی کریم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیساتھ کیا تعلق تھا.یہ بے نظیر مخلوقات تھیں.بڑا بد بخت ہے وہ جو ان میں سے کسی کے ساتھ نقار رکھتا ہو.یہ باتیں میں نے علی وجہ البصیرت کسی ہیں.ایک نکتہ قابل یاد سنائے دیتا ہوں کہ جس کے اظہار سے میں باوجود کوشش کے رک نہیں سکا.وہ یہ کہ میں نے حضرت خواجہ سلیمان رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا.ان کو قرآن شریف سے بڑا تعلق تھا.ان کے ساتھ مجھے بہت محبت ہے.اٹھتر برس تک انہوں نے خلافت کی.بائیس برس کی عمر میں وہ خلیفہ ہوئے تھے.یہ بات یاد رکھو کہ میں نے کسی خاص مصلحت اور خالص بھلائی کے لئے کسی ہے.(بدر جلد ۹ نمبر ۱۴-۲۷ / جنوری ۱۹۱۰ء صفحه ۸-۹)

Page 463

۲۱ جنوری ۱۹۱۰ء 454 خطبہ جمعہ حضور نے وَالْعَصْرِ - إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ - إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (العصر: نام) کی تلاوت کے بعد فرمایا:.دو صحابی آپس میں ملتے تھے تو کم از کم اتنا شغل کر لیتے تھے کہ اس سورۃ کو باہم سنادیں.سو اس نیت سے کہ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ (التوبة..) کے ماتحت رضامندی کا حصہ مجھے بھی مل جاوے میں بھی تمہیں یہ سورۃ سناتا ہوں.دو ” عصر " کہتے ہیں زمانہ کو جو ہر آن گھٹتا جاتا ہے.دیکھو میں کھڑا ہوں.جو فقرہ بولا اب اس کے لئے پھر وہ وقت کہاں ہے؟ قسم ہمیشہ شاہد کے رنگ میں ہوتی ہے.گویا بد بیات سے نظریات کے لئے ایک گواہ ہوتا ہے.تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان کی عمر گھٹ رہی ہے جیسے کہ زمانہ کوچ کر رہا ہے.عصر کی شہادت میں ایک یہ نکتہ معرفت بھی ہے.زمانہ کو گالیاں نہیں دینی چاہئیں جیسا کہ بعض قوموں کا قاعدہ ہے.فارسی لٹریچر میں خصوصیت سے یہ برائی پائی جاتی ہے.اس لئے حدیث شریف میں آیا ہے لا تَسُبُّوا الدَّهْرَ (مسند احمد بن حنبل).خدا جس کو گواہی میں پیش کرے وہ ضرور عادل ہے.زمانہ برا

Page 464

455 نہیں.ہمارے افعال برے ہیں جن کا خمیازہ زمانہ میں ہم کو اٹھانا پڑتا ہے."عصر " سے مراد نماز عصر بھی ہے.اس میں یہ بات سمجھائی ہے کہ جیسے شریعت اسلام میں نماز عصر کے بعد کوئی فرض ادا کرنے کا وقت نہیں اسی طرح ہر زمانہ عصر کے بعد کا وقت ہے جو پھر نہیں ملے گا.اس کی قدر کرو.دو عصر " کے معنے نچوڑنے کے بھی ہیں.گویا تمام خلاصہ اس صورت میں بطور نچوڑ کے رکھ دیا ہے.غرض عصر کو گواہ کر کے انسان کو سمجھایا گیا ہے کہ وہ ایک برف کا تاجر ہے.جو بات لڑکپن میں ہے وہ جوانی میں نہیں.جو جوانی میں ہے وہ بڑھاپے میں نہیں.پس وقت کو غنیمت سمجھو.ائمہ نے بحث کی ہے کہ جو نماز عمداً ترک کی جاوے اس کی تلافی کی کیا صورت ہے ؟ سوسچی بات یہی ہے کہ اس کی کوئی صورت سوائے استغفار کے نہیں.اسی واسطے اللہ تعالیٰ اس "خسر" کی تلافی کے لئے فرماتا ہے کہ ایک تو ایمان ہو جس کا اصل الاصول ہے لا إِلهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ - ای واسطے میری آرزو ہے کہ ہمارے واعظ اذان کے واعظ ہوں کہ وہ اسلام کا خلاصہ ہے.ایمان کیا ہے؟ اللہ کو ذات میں بے ہمتا صفات میں یکتا، افعال میں لَيْسَ كَمِثْلِهِ (الشوری:۲) یقین کیا جاوے.چونکہ اس کے ارادوں کے پہلے مظہر ملائکہ ہیں اس لئے ان کی تحریک کو تسلیم کیا جاوے.برہمو جو قوم ہے یہ بڑے بری زبان کے لوگ ہیں.اسلام کے سخت دشمن ہیں.میں حیران ہو تا ہوں جب لوگ کہتے ہیں کہ یہ بڑے اچھے ہوتے ہیں.یہ تو تمام انبیاء کو مفتری قرار دیتے ہیں.اس سے بڑھ کر اور کوئی گالی کیا ہو سکتی ہے کہ خدا کے راستبازوں کو مفتری سمجھا جاوے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے و مَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرى عَلَى اللهِ كَذِبًا (الانعام (۲).ایک برہمو سے میں نے انبیاء کے دعواے وحی حق کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا."دروغ مصلحت آمیز " جس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اس قوم کو انبیاء کی نسبت کیسا گندہ خیال ہے.یہ لوگ اللہ کی صفات میں سے ایک صفت يُرْسِلَ رَسُولاً (الشوری:۵۲) اور اس کے متکلم ہونے کے قائل نہیں اور ملائکہ مانا شرک ٹھہراتے ہیں.حالانکہ خدا نے انہیں عِبَادُ مُكْرَمُونَ (الانبیاء: ۲۷) فرمایا ہے.اور جن پر وہ نازل ہوتے ہیں ان کی نسبت فرمایا مَنْ تُطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ (النساء:۸).پھر جزا سزا کا ایمان ہے جو بہت سی نیکیوں کا سرچشمہ ہے.ایک شخص نے مجھے کہا کہ آپ تو ابد الآباد غیر منقطع عذاب کے قائل نہیں.اس کا مطلب یہ تھا کہ آخر ہم بھی تمہارے ساتھ آملیں گے.بازار میں جا رہے تھے.میں نے کہا کہ روپے لو اور دو جوت کھالو.نہ مجھے کوئی جانتا ہے نہ تمہیں.اس نے

Page 465

456 قبول نہ کیا کہ میری ہتک ہوتی ہے.میں نے کہا پھر جہاں اولین آخرین جمع ہوں گے وہاں یہ بے عزتی کیسے گوارا کر سکو گے؟ پھر ایمان بالقدر تمام انسانی بلند پروازیوں کی جڑ ہے.کیونکہ جب یہ یقین ہو کہ ہر کام کوئی نتیجہ رکھتا ہے تو انسان سوچ سمجھ کر عاقبت اندیشی سے کام کرتا ہے.دیکھو اِمَاطَةُ الْأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ (مسلم کتاب الایمان) بھی ایمان کا ایک شعبہ ہے اور اس سے انگریز قوم نے خصوصیت سے فائدہ اٹھایا ہے.پشاور سے کلکتہ تک رستہ صاف کیا تو کیا کچھ پایا.مسلمان اگر مسئلہ قدر پر ایمان مستحکم رکھتے تو ہمیشہ خوشحال رہتے.پھر جیسا ایمان ہو اسی کے مطابق اس کے اعمال صالحہ ہوں گے.نماز، زکوۃ، روزہ ، حج اخلاق فاضلہ بدیوں سے بچنا یہ سب ایمان کے نتائج ہیں.پھر اسی پر مومن سبکدوش نہیں بلکہ اس کا فرض ہے کہ جو حق پایا ہے اسے دوسروں کو بھی پہنچائے اور اس حق پہنچانے میں جو تکلیف پہنچے اس پر صبر کرے اور صبر کی تعلیم دے.صوفیاء میں ایک ملامتی فرقہ ہے.وہ بظاہر ایسے کام کرتا ہے جس سے لوگ ملامت کریں.رنڈیوں کے گھروں میں کسی دوست کے سامنے چلے جائیں گے.وہاں جا کر پڑھیں گے قرآن شریف اور نماز مگر رات وہیں بسر کریں گے.حضرت صاحب نے مجھے فرمایا کہ آمر بالمعروف اور ناہی عن المنکر خود ملامتی فرقہ ہوتا ہے.جب مومن کسی کو بری رسوم و عادات کی ظلمت سے روکے گا تو تاریکی کے فرزندوں سے ملامت سنے گا.میرا حال دیکھ لو.کیا ملامتی فرقے والے مجھ سے زیادہ بدنام ہو سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں.پس مومن کو کسی فرقے میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ وہ حق کا مبلغ اور اس پر مستقل مزاجی اور استقامت سے قائم رہے.پھر وہ ہر قسم کے دنیا و آخرت کے خسران سے محفوظ رہے گا.بد ر جلد ۹ نمبر ۱۵-۳۰ / فروری ۱۹۱۰ء صفحه ۱-۲)

Page 466

۵ فروری ۱۹۱۰ء 457 خطبہ نکاح گذشتہ یوم الاحد کو علی الصبح بعد نماز فجر حضرت ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کی دختر نیک اختر مسمات مہر النساء بیگم کے عقد نکاح حضرت مولوی محمد علی صاحب ایم.اے کے ساتھ کا اعلان ہوا.حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ نے خطبہ پڑھا.عورتوں کے حقوق کی ادائیگی اور ان کے ساتھ حسن معاشرت کی تائید کرتے ہوئے فرمایا کہ:.جیسا کہ میں مردوں کو بار بار تاکید کرتا ہوں کہ اپنی عورتوں کے ساتھ نیک سلوک کیا کریں ایسا ہی میں عورتوں کو بھی خاوندوں کے حقوق کے متعلق وعظ کیا کرتا ہوں.عورت اور مرد کے درمیان بہت محبت کے تعلقات ہونے چاہئیں جن سے مومنوں کے گھر نمونہ بہشت بن جائیں.خدا تعالیٰ نے میرے اندر محبت کی بہت خاصیت رکھی ہے جس کا اظہار میں کم کرتا ہوں.میرے دل میں کسی کے واسطے بغض اور عداوت ہر گز نہیں.اگر کسی پر میں ناراض ہو تا ہوں تو وہ ایک وقتی بات اور تھوڑی سی بات ہوتی ہے جسے دوسرے کی خیر خواہی کے واسطے درد دل کے ساتھ ظاہر کرنا پڑتا ہے ورنہ

Page 467

458 عموماً میں اپنے دل میں محبت کا ایک جوش پاتا ہوں.مہر ایک ہزار روپے مقرر ہوا.بعد اعلان دعا کی گئی.) بدر جلد نمبر ۱۹ ---- ۱۰ / فروری ۱۹۱۰ء صفحہ ۷ )

Page 468

۱۸, فروری ۱۹۱۰ء 459 خطبہ جمعہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :- انسان کو اپنے خالق و رازق و محسن سے محبت ہوتی ہے مگر محبت کا نشان بھی ہونا چاہئے.اس لئے فرمایا ہے قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (ال عمران:۳۳) یعنی کہہ دے اگر تمہیں اپنے مولی سے محبت کا دعواے ہے تو اس کی پہچان یہ ہے کہ میری اتباع کرو.پھر تم محب کیا اللہ کے محبوب بن جاؤ گے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اتباع کے لئے آپ کے کچھ حالات جو قبل از دعوی نبوت تھے اور ان کی محرم راز بی بی نے بیان کئے ہیں.مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ بھی اپنے سید و مولی کی عادات کی پیروی کریں کیونکہ ان خصائل والا ذلیل نہیں ہوتا اور دنیا میں کون ہے جو عزت نہیں چاہتا.ذلت کے کئی اسباب ہیں (۱).ایسی بد نما شکل ہو کہ لوگ حقارت سے دیکھیں (۲).محتاج ہو، سائل بن کر جانا پڑے (۳).اولاد پر کوئی صدمہ گزرے (۴).نگ و ناموس پر حملہ کیا جاوے.غرض ایسی تمام ذلتوں سے بچنے کا یہی گر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حالات سے واضح ہوتا ہے.

Page 469

460 آپ کی بی بی فرماتی ہیں.إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ (بخارى كيف كان بدء الوحی).پہلی بات تو تم میں یہ ہے کہ جہاں ماں کا تعلق ہو یا بی بی کا اس کا تو بہت لحاظ رکھتا ہے.ماں کے سبب سے بھائیوں سے محبت ہوتی ہے، دادی کے سبب بچوں کے ساتھ.جو لوگ رحم کا لحاظ رکھتے ہیں اور صلہ رحمی کرتے ہیں ان کو اللہ ذلت سے بچاتا ہے.(۲).وَتَحْمِلُ الْكَلَّ کسی بیچارے کے دکھ کو برداشت کر لیتا ہے.کسی کے دکھ درد میں شریک ہوتا اور اس کا بوجھ ہلکا کرتا ہے.(۳).وَتَقْرِى الضَّيْفَ نووارد کی مہمان نوازی کرتا ہے (۴).وَتُعِيْنُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ اور جو ضرورتیں وقتاً فوقتاً قوم و دین کے لئے پیش آئیں تو ان ضرورتوں کے لئے جان مال سے مدد کرتا ہے.(۵).وَتَصْدُقُ الْحَدِيثَ جو بات منہ سے نکالتا ہے وہ سچ ہوتی ہے.افسوس کہ آجکل لوگ معاہدات کا خلاف کرتے ہیں اور جھوٹ بولنا معمولی بات سمجھتے ہیں اور امانت میں خیانت کرتے ہیں.(۲).وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ جو پاک فضیلتیں اور سچائیاں معدوم ہو گئی ہیں ان کو تو از سرنو رواج دیتا ہے.مومن کو چاہئے کہ ایسی صحبتوں کو حاصل کرے جن میں بیٹھ کر اس کی اصلاح ہو.تم بھی یہ نیکیاں حاصل کرو.یاد رکھو کہ ہر ایک نیکی و بدی بمنزلہ بیج کے ہے اور ابتداء میں نیک یا بد کام بہت خفیف ہوتا ہے مگر بڑھتے بڑھتے بڑا عظیم الشان ہو جاتا ہے.بد نظری ایک خفیف بات معلوم ہوتی ہے مگر یہی بڑھتے بڑھتے زنا تک پہنچتی ہے.پس تم اپنے اعمال کا محاسبہ کرو کہ بدی کو ابتداء میں روکو اور چھوٹی سے چھوٹی نیکی کے حاصل کرنے میں بھی دیر نہ لگاؤ.اللہ تعالیٰ تمہیں توفیق دیوے.آمین.( بدر جلد ۹ نمبر ۸ - ۲۴ فروری ۱۹۱۰ء صفحه ۲) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 470

۲۵ فروری ۱۹۱۰ء 461 خطبہ جمعہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:.اَلتَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَ الطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَ رَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَ عَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِيْنَ (جامع الصغير) ہر دو رکعت کے بعد پڑھا جاتا ہے.جس قدر کوئی احسان کرے اسی قدر اس سے محبت بڑھتی ہے اور ایثار پیدا ہوتا ہے.نبی کریم نے فرمایا جُبِلَتِ القُلُوبُ عَلى حُبِّ مَنْ اَحْسَنَ إِلَيْهَا (جامع الصغير) اللہ نے ہم پر کیا کیا احسان کئے ہیں.معدوم تھے وجو د دیا، پھر وجود بھی انسانی دیا.پھر مسلمان پیدا کیا اور مسلمانوں میں بھی اس مذہب پر چلایا جو کسی صحابی کو برا نہیں کہتا.میں نے تاریخ کی بڑی بڑی کتابیں پڑھی ہیں، تَشْيدُ الْمَطَاعِن بھی.مگر ان کے مطالعہ کے بعد بھی میرے دل میں صحابہ کی محبت کے سوا کچھ نہیں.پھر ہم مسلمانوں کے اس فرقے سے ہیں جو اہل بیت سے سچی محبت رکھتے ہیں.پھر اس نے مجھے پر تو یہ غریب نوازی بھی کی کہ میں وہ گروہ جو اہل اللہ ، صوفیاء اور اولیاء کا ہے ان کے اقوال کو محبت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں.سہروردی، چشتی قادری، نقشبندی، حضرت خواجہ عثمان خواجہ معین الدین ، حضرت فرید الدین شکر گنج حضرت

Page 471

462 نظام الدین اولیاء حضرت چراغ دہلوی، حضرت بہاؤ الدین زکریا ، حضرت نقشبند خواجہ باقی باللہ حضرت مجدد سرہندی، حضرت سید عبد القادر جیلانی ، حضرت ابوالحسن شاذلی حضرت احمد رفاعی یہ تمام گروہ ہی مجھے محبوب نظر آتا ہے.پھر اس موٹی نے یہ احسان کیا کہ مجھے کسی کا محتاج نہیں کیا اور ہر ضرورت کے موقع پر میری دستگیری کی.ایک دفعہ ایک امیر کے لئے میں نے عظیم الشان تحفہ تیار کیا اور اس کے پیش کیا.مگر اس نے میری روٹی بھی نہ پوچھی.ایک ہتھیار میں نے ایک امیر کے پیش کیا.دیکھ کر کہنے لگا پسندیدہ ہے.آپ ہی رکھیئے.پس کیا ہی محسن ہے میرا مولیٰ جو بلا مانگے مجھ پر اتنے احسان کرتا ہے.التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ کے یہ معنے ہیں کہ زبان سے اگر ہم تعریف کریں ، ثناء کریں ،غرض تمام شکر گزاریاں جو زبان کے ذریعہ سے ادا ہو سکتی ہیں وہ خدا ہی کے لئے ہیں اور اسی کے لئے ہونی چاہئیں.اسی طرح بدن کے ذریعہ کوئی شکریہ ادا کیا جاتا ہے اور جو عبادت بدن ادا کرتا ہے مثل سجدہ، حج ، روزہ ، نماز تو وہ بھی اللہ ہی کے لئے ہے.اسی طرح کل مالی عبادتیں بھی اسی اللہ کے لئے ہیں.رزق ہماری ضرورت سے پہلے پیدا ہوتا ہے.ہم ابھی ماں کے پیٹ سے باہر نہ آئے تھے کہ چھائیوں میں دودھ آیا.جو نمک ہم آج سالن میں کھاتے ہیں وہ مدت ہوئی کہ کان سے نکل چکا ہے، پھر وہاں سے بڑے شہر میں پہنچا، پھر اس گاؤں کی دکانوں میں آیا ، پھر ہمارے حصہ کا الگ ہو کر گھر آیا ، پھر ہانڈی میں سب کے لئے تھا تو لقمہ کے ساتھ لگ کر میرے منہ میں آیا.اسی طرح کپڑے کا حال ہے.غرض کیا کیا احسان ہیں اس مولی کے.پس مالی شکریہ بھی اسی کے لئے ہونا چاہئے.یہ غلط ہے کہ خدا نے کسی کو مال دینے میں بخل کیا بلکہ اس نے تو فرما دیا ہے وَآتَاكُمْ مِنْ كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ (ابراهیم:۳۵).پھر اس کے غلط استعمال یا اپنی شامت اعمال نے لا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ اَمْوَالَكُمْ (النساء)) کے ماتحت کسی کے لئے اس میں تنگی پیدا کر دی.پھر دوسرے درجہ پر محسن ہے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم.کیا کیا تڑپ تڑپ کر دعائیں مانگی ہوں گی.کیا سوز دل سے التجائیں کی ہوں گی تب یہ دین اسلام ہم تک پہنچا.پس السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ میں ہم اس کے لئے سلامتی کی دعا مانگتے ہیں کہ دین اسلام سلامت رہے.قیامت کے دن اس کی عزت میں فرق نہ آئے.وہ سید الاولین والآخرین ثابت ہو.پھر اس چشمہ کو السَّلَامُ عَلَيْنَا وَ عَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ میں اور بھی بڑھایا ہے.جس قدر مخلوق میں اولیاء ہیں، خلفاء ہیں، نواب ہیں ، مبلغین ہیں ان سب کے لئے سلامتی چاہی ہے.میں نے دیکھا کہ ایسی دعا سے بعض وقت آسمان میں شور پڑ جاتا (بدر جلد ۹ نمبر ۱۹ --- ۳ / مارچ ۱۹۱۰ء صفحه ۲) ہے.

Page 472

۲۵ مارچ ۱۹۱۰ء 463 خطبه جمعه خطرات نور تشہد ، تعوذ تسمیہ اور سورۃ العصر کی تلاوت کے بعد فرمایا:.تمام خطبے جو دنیا میں پڑھے جاتے ہیں رسول اللہ کے زمانہ سے اس زمانہ تک ان سب کی ابتداء کلمہ شہادت سے ہوتی رہی ہے.پہلا جملہ ALI AND الا اللہ ہے.اس کے تین فائدے ہیں.(۱).پہلا فائدہ.جو شخص بآواز بلند اَشْهَدُ اَنْ لا إِلهَ إِلَّا الله کہہ لیتا ہے ہم اس کو مسلمان سمجھتے ہیں.(۲).دوسرا فائدہ اس کا یہ ہے کہ جب اس کو حقیقی طور پر ایمان آتا ہے تو دنیا کے تمام ذرائع واسباب میں، جو حصول مقاصد کے لئے مفید و بابرکت ہو سکتے ہیں، یقین کرتا ہے کہ سب تاثیر میرے مولیٰ کی ہے.(۳).تیسرا فائدہ اس کا یہ ہے جس کی شہادت کے لئے تمام انبیاء اولیاء یک زبان ہیں کہ جب اس کی کثرت کی جاوے اور بار بار اس کو دہرایا جاوے تو خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے لئے جتنے پر دے ہیں بتدریج سب کے سب اٹھ جاتے ہیں.

Page 473

464 اس کلمہ کے دو حصے ہیں.ایک میں لا الہ دوسرے میں الا اللہ ہے.پہلا حصہ انسان کے گناہوں کے دور کرنے کا اور دوسرا حصہ نیکیوں کے حاصل کرنے کا ذریعہ ہے.اس کلمہ کے ساتھ حضرت نبی کریم ملی ہم نے اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ کا جملہ اس لئے لگایا کہ زمانہ گزشتہ میں آپ نے دیکھ لیا تھا کہ پہلے بادیوں کو لوگوں نے معبود بنا لیا تھا اس لئے رسول اللہ ملی تو ہم نے اس توحید کی تکمیل کے لئے کہ خدا کی معبودیت میں کوئی دوسرا شریک نہ کیا جاوے بلکہ مجھے عبد سمجھیں ، یہ کلمہ بڑھا دیا تا میری قوم وہ نہ کرے جو پہلی قوموں نے کیا.میں اس جزو کو اس توحید کا متم یقین کرتا ہوں اور یہ سچ ہے کہ اس جزو کے سوا حقیقت میں مومن کامل نہیں بن سکتا.جب اللہ تعالیٰ پر انسان ایمان لاتا ہے جو لا اله الا اللہ کا منشاء ہے تو اسماء الہی کا مطالعہ کرنے سے ملائکہ انبیاء تقدیر حشر نشر پل صراط جنت و نار پر ایمان لانا لازم ہو جاتا ہے کیونکہ یہ خدا کی صفات ہیں کہ تقدیر اس نے بنائی.جنت و نار کو بنایا.پس جو کوئی لا ال DAWATAN ANLAND پر ایمان لاتا ہے اس کے لئے لابد ہے کہ خدا کے اسماء وصفات پر ایمان لائے.تب اس کو انبیاء حشر و نشر ملائکہ کتب پر ایمان لانا ضروری ہو جاتا ہے.قرآن کریم سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَالَّذِينَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْآخِرَةِ يُؤْمِنُوْنَ بِهِ وَهُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ (الانعام:۹۳).انسان جب اللہ پر ایمان لاتا ہے تو آخرت پر ایمان لے آتا ہے اور جزا و سزا کے اعتقاد کے بعد ضرور ہے کہ قرآن اور رسول کریم صلی اللہ پر ایمان لائے جس کے ساتھ ملائکہ وکتب کا ایمان بھی آگیا اور پھر مومن نماز کا پابند ہو جاتا ہے.پس جو لا اله الا الله کا دعویٰ کرے بایں ہمہ نماز کا تارک رہے اور قرآن شریف کی اتباع میں ستی کرنے حقیقت میں لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کے دعوئی میں سچا نہیں جیسا کہ یہ آیت ایؤمنونہ یہ ظاہر کرتی ہے کیونکہ حضرت نبی کریم کا تذکرہ اس کلمہ میں موجود ہے.ضرورت پڑی کہ ہم کوئی ایسا لفظ کہیں کہ رسول اللہ مال لال لال میں کس درجہ کا انسان تھا.رسول اللہ مال کے درجہ کا پتہ لگانا اس کے واسطے یہ آیتیں سامنے رکھنی چاہئیں.(۱) إِنَّكَ لَعَلَى صلی علیہ ودم خُلُقٍ عَظِيمٍ (القلم:۵) اور دوسری میں فرماتا ہے.وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا (النساء:۴) اللہ تعالیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق کو عظیم فرماتا ہے اور ان پر جو فضل ہوا اسے بھی عظیم فرمایا.اب خیال کرو کہ جس کو خدا تعالیٰ نے عظیم کہا وہ کس قدر عظیم ہو گا.اب جو رسول اس

Page 474

465 mj شان کا ہے اس کے بغیر ہم کو کسی اور کے مقتد ا بنانے کی ریج بھی کیا ہوئی.جو کتاب اللہ جلشانہ نے اس کامل انسان پر نازل کی ہے اس کے لئے دو گواہیاں ہیں.(1) إِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (الحجر:) اور (۲) لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ السجدة: ۴۳) اس کتاب کا محافظ حضرت حق سبحانہ ہے جس کے لئے آئندہ پیشگوئی ہے کہ اس کتاب کی باطل کرنے والی آئندہ بھی کوئی چیز نہیں بھیجیں گے.تو پھر ہم کو سائنس یا بیرونی خطرناک دشمن سے گھبرانے کی کیا ضرورت ہے جب کہ ہم کو ایسی کتاب دی گئی ہے کہ جس کا خدا حافظ ہے اور جس کی باطل کرنے والی کوئی چیز فطرت کے خالق نے پیدا ہی نہیں کی.پس جیسا ہمارا رسول کامل ہے ویسے ہی ہماری کتاب کامل ہے.یہ کتاب تو قیامت تک رہے گی مگر ایسی کامل کتاب ہمارے گھروں سے نکل کر دوسرے گھروں میں چلی گئی تو ہمارے بزرگوں کی روح کو کیا خوشی ہو گی.پس خوف ہے تو یہ کہ ہمارے گھروں سے یہ کتاب نہ نکلے اور ہم اس کی اتباع سے محروم نہ رہیں.اور میں دیکھتا ہوں کچھ امراء ہیں ، کچھ سجادہ نشین اور کچھ وہ لوگ ہیں جو قوم کے لئے آئندہ کالجوں میں تعلیم پانے کی تیاریاں کر رہے ہیں.یہ لوگ اگر سست ہوں تو عوام مخلوقات کا کیا حال ہو سکتا ہے.اس واسطے میں نے یہ سورۃ عصر پڑھی تھی.میرا مقصد اس کے پڑھنے سے یہ بتانے کا ہے کہ زمانہ جس طرح کی تیزی سے گزر رہا ہے اسی طرح ہماری عمریں بھی گزر رہی ہیں.یعنی عصر کا آنا فانا گزرنا ہماری عمروں پر اثر ڈال رہا ہے.اللہ نے اس کا یہ علاج بتایا ہے کہ تمہیں زمانہ کی پروا نہ ہو ، اگر ہمارا حکم مان لو.وہ حکم یہ ہے کہ مومن بنو اور عمل صالحہ کرو.دوسروں کو مومن بناؤ اور حق کی وصیت کرو اور پھر حق پہچانے میں تکالیف سے نہ ڈرو.یہ وہ سورۃ ہے کہ صحابہ کرام جب باہم ملتے تو اس سورۃ کو پڑھ لیا کرتے.تم اور ہم بھی آج ملے ہیں اس لئے اسی سنت کریمہ کے مطابق میں نے بھی اس کو پڑھا ہے.اور میں تمہیں یقین دلاتا ہوں تم میرے دل کو چیر کر نہیں دیکھ سکتے نہ اس کا لکھا پڑھ سکتے ہو.البتہ میری زبان کے اقرار سے پوچھے جاؤ گے اور اس سے اگر نفع اٹھاؤ تو تمہارا بھلا ہو گا.میں جس ایمان پر قائم ہوں وہ وہی ہے جس کا ذکر میں نے لا اله الا اللہ میں کیا ہے.میں اللہ کو اپنی ذات میں واحد صفات میں یکتا اور افعال میں لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ (الشوری: ۳) اور حقیقی معبود سمجھتا ہوں.میں اللہ تعالی کے ملائکہ پر ایمان لاتا ہوں جو اللہ نے پیدا کئے ہیں.اور تمام ان رسولوں اور

Page 475

466 کتابوں پر جو اللہ تعالی نے بھیجیں ایمان رکھتا ہوں.میرا یقین ہے کہ تمام انبیاء تمام اولیاء اور تمام انسانی کمالات کے جامع لوگوں میں ایک ہی ہے جس کا نام محمد برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے.میرے واہمہ کے واہمہ میں بھی نہیں آتا کہ کوئی اور ہو.حضرت صاحب کا ایک شعر یاد آگیا.اے در انکار و شی از شاہ دیں خادمان و چاکرانش را ہیں ہم جب دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرام کیسے پاک گروہ تھے اور مجدد کیسے.یہ تو قصے کہانی بات ہو جاتی.لیکن تمہارا وجود اس گاؤں میں گواہی ہے کہ احمد کا غلام بننے سے کیا فضل آتا ہے.میں تم کو اب اس بات کی طرف متوجہ کرتا ہوں کہ میرے پھر تقریر کرنے تک تمہیں کوئی بات سنائے یا تقریر کرے تو یاد رکھو ہمارا معیار یہ ہو گا کہ ان مذکورہ بالا عقائد کے موافق کوئی بات ہو یا اس کی تفصیل ہو تو ہماری طرف سے ہے اور اگر اس کے خلاف کسی کے منہ سے نکلے تو وہ ہمارے عقائد کے مطابق نہیں.اسلام چونکہ حق کے اظہار کے لئے آیا ہے جیسا کہ اس سورۃ شریف سے ظاہر ہے اس لئے جہاں دین کی بہت سی باتیں پہنچانی پڑتی ہیں وہاں ہم تم کو دنیا کے متعلق بھی ایک مختصر سی بات سناتے ہیں.اور وہ بھی دراصل دین ہی کی بات ہے وہ یہ ہے کہ دنیا کا کام امن پر موقوف ہے اور اگر امن دنیا میں قائم نہ رہے تو کوئی کام نہیں ہو سکتا.جس قدر امن ہو گا اسی قدر اسلام ترقی کرے گا.اس لئے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امن کے ہمیشہ حامی رہے.آپ نے طوائف الملو کی میں جو مکہ معظمہ میں تھی اور عیسائی سلطنت کے تحت جو حبشہ میں تھی ہم کو یہ تعلیم دی کہ غیر مسلم سلطنت کے ماتحت کس طرح زندگی بسر کرنی چاہئے.اس زندگی کے فرائض سے امن ہے.اگر امن نہ ہو تو کسی طرح کا کوئی کام دین و دنیا کا ہم عمدگی سے نہیں کر سکتے.اس واسطے میں تاکید کرتا ہوں امن بڑھانے کی کوشش کرو.اور امن کے لئے طاقت کی ضرورت ہے وہ گورنمنٹ کے پاس ہے.میں خوشامد سے نہیں بلکہ حق پہنچانے کی نیت سے کہتا ہوں کہ تم امن پسند جماعت بنو تا تمہاری ترقی ہو اور تم چین سے زندگی بسر کرو.اس کا بدلہ مخلوق سے مت مانگو.اللہ سے اس کا بدلہ مانگو.اور یاد رکھو کہ بلا امن کوئی مذہب نہیں پھیلتا اور نہ پھول سکتا ہے.میں اس کے ساتھ یہ بھی کہتا ہوں کہ حضرت صاحب کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ گورنمنٹ کے اس احسان کے بدلہ میں ہم اگر امن کے قائم کرنے میں کوشش کریں تو اللہ تعالیٰ اس کا نتیجہ ہم کو

Page 476

467 ضرور دے گا اور اگر ہم خلاف ورزی کریں گے تو اس کے بد نتیجے کا منتظر رہنا پڑے گا.دوسری بات جو سمجھاتا ہوں وہ یہ ہے کہ باہم محبت بڑھاؤ اور بغضوں کو دور کر دو اور یہ محبت بڑھ نہیں سکتی جب تک کسی قدر تم صبر سے کام نہ لو اور یاد رکھو صبر والے کے ساتھ خدا خود آپ ہوتا ہے.اس واسطے صبر کنندہ کو کوئی ذلت و تکلیف نہیں پہنچ سکتی.تیسری بات جو میں کہنی ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ حضرت صاحب نے "فتح اسلام" میں پانچ شاخوں کا ذکر کیا ہے اور ان پانچ شاخوں میں چندہ دینے کی تاکید کی.مثلاً آپ کی تصانیف کی اشاعت اشتہارات کی اشاعت، آپ کے لنگر خانہ کو مضبوط کرنے کی تاکید اور مہمان خانہ کی ترقی کی طرف توجہ اور آمد و رفت پر بعض وقت جو خرچ پڑتے ہیں.ان کے لئے مکان بنانے پڑتے ہیں.ان میں انفاق کرنے کی تاکید آپ نے فرمائی ہے.میں اس تاکید پر تاکید کرتا ہوں کہ ہمارا مہمان اور دینی مدرسه بهت کمزور رنگ میں ہے.ہمارے بھائیوں کو توجہ کرنی چاہئے کہ ان دونوں امور کی طرف بہت کوشش کریں اور انفاق سے کام لیں.پھر یہ بھی تاکید کرتا ہوں جو کتابیں بیچتے ہیں اور بہت اخلاص سے کام لیتے ہیں ان کی کتابوں میں دو آنہ چار آنہ کی امداد دینے سے دریغ نہ کریں.ایک ہمارے دوست مولوی حسن علی صاحب نے اخلاص سے تائید حق" نام لکھی ہے.حضرت صاحب کے زمانہ میں اس کو شائع کیا ہے لیکن اس کی کئی سو جلدیں یہاں پڑی ہیں وہ بھی خرید لیں.میں یہ باتیں اس لئے بتاتا ہوں کہ تم کو دین اور دنیا دونوں کا وعظ کروں.یہ نہیں کہ مجھے دنیا کی غرض ہے کیونکہ میری عمر کا بہت بڑا حصہ اللہ کے فضل سے گزرا ہے.یہ تھوڑے دن جو باقی ہیں، میں مخلوق سے سوال کرنے میں اپنی ہمت کو ضائع نہیں کرنا چاہتا.بد ر جلد ۹ نمبر ۲۳.....۳۱ مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۴.۵) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 477

۲۶ مارچ ۱۹۱۰ء 468 خطبہ نکاح حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۲۶ مارچ ۱۹۱۰ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پر ایک نکاح کا اعلان فرمایا.اس سلسلہ میں آپ نے جو خطبہ ارشاد فرمایا وہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے.میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ عورتوں کے حقوق کی خصوصیت سے نگہداشت کرو اور ان پر رحم کرو.ان کے قصوروں سے درگزر کرو کہ جس قدر گرم و سرد زمانہ تم نے دیکھا ہے انہوں نے کب دیکھا.جس قدر تبادلہ خیالات کا موقع تمہیں مل سکتا ہے ان کو کب ملتا ہے.آدم کا بیٹا آدم ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے یادَمُ اسْكُنُ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ (البقرة:۳۷).پس تم اپنی بیبیوں کے ساتھ ایسے شیر و شکر ہو کر رہو کہ تمہارا گھر جنت بن جاوے اور یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ آپس میں پیار و محبت، عفو درگذر ہو.چنانچہ تاکیداً فرماتا ہے وَلَا تَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ (البقرة:۳۲.شجرہ ، شجر سے دوسرے مقام پر ہے.حَتَّى يَحْكُمُوكَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ (النساء:۲۵) جس کے معنی جھگڑے کے ہیں.پس جھگڑے سے بچو ورنہ اپنے تیں سخت مصیبت میں ڈالنے والے ہو گے.

Page 478

469 بی بی کے نکاح کا مقصد ہے لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَ جَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً (الرو١٢٣:٠- اگر نکاح سے یہ باتیں حاصل نہیں تو حیف ہے تمہاری زندگی پر ! لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں عورت نا پسند ہے.میں کہتا ہوں کہ تم اس ناپسند و مکروہ کو خدا کے لئے پسند کر لو اللہ اس میں خیر کثیر کر دے گا اور اسی تعلق میں تمہارے لئے بہت سے سکھ بہم پہنچاوے گا.چنانچہ فرماتا ہے فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ (النساء:۳۰) فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ (البقرة :٢١٧)- اسی موقع پر میں تمہیں عربی زبان کے سیکھنے کی طرف توجہ دلاتا ہوں.نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عربی کی طرف بہت توجہ دلائی کیونکہ ہمارے دین کی کتاب عربی میں ہے.جمعہ کے خطبہ میں عربی نماز میں عربی ، گھر سے نکلتے وقت بازار میں جاتے حتی کہ پاخانہ سے نکلتے اور داخل ہونے کے واسطے بھی عربی دعائیں ہیں.روزہ کے افطار کے واسطے عربی (دعا) ہے.یہ سب چیزیں ایسی ہیں جن سے ہر مسلمان کو واسطہ پڑتا ہے اور دنیا کے کسی حصہ میں کوئی مسلمان ہو اسے کچھ نہ کچھ عربی بولنی ہی پڑتی ہے.پس تم عربی سیکھو.میں تمہیں اعلیٰ زبان دان ہونے کی سفارش نہیں کرتا کہ فیضی ابن سینا، متبنی ابو العلاء معری بڑے زبان دان تھے مگر لوگ ان پر ناراض ہیں.اس کے بعد آپ نے بیعت لی اور فرمایا کہ میں نے چار بزرگوں کی بیعت کی.ایک بزرگ تھے بخارا کے دوسرے عبد القیوم بھوپال کے رہنے والے، تیسرے شاہ عبد الغنی مہاجر اور چوتھے اس وقت کے امام مرزا غلام احمد صحیح مهدی.میں نے بقدر اپنی طاقت کے ان کی بچی فرمانبرداری میں کوشش کی.ان سب کی روحوں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بادل ہوں.تین وظیفے ہیں.استغفار لاحول، درود‘ الحمد للہ.قرآن پڑھو.مخلوق کو پہنچاؤ.اللہ تمہیں توفیق بخشے.بدر جلد نمبر ۲۴----۷ / اپریل ۱۹۱۰ء صفحہ ۶-۷ ) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 479

اپریل ۱۹۱۰ ء 470 خطبہ جمعہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بالوجود ضعف و نقاہت و علالت کے مسجد میں تشریف لائے اور خطبہ ارشاد فرمایا.تشہد و تعوذ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ (النحل:١٣٩) اور پھر فرمایا:.جب میں بچہ تھا میں نے اپنے شہر میں اس آیت کریمہ کا وعظ سنا تھا.تین چار مہینے اس کا وعظ ہوتا رہا - إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا متقیوں کے ساتھ اللہ ہوتا ہے.کسی کے ساتھ کسی کا باپ ہے.کسی کے ساتھ باپ اور ماں دونوں ہیں.کسی کے ساتھ اس کے بھائی ہیں.کسی کے ساتھ اس کے دوست.کسی کو اپنے جتھے پر ناز ہے.غرض معیت کے سوا انسان خوشحال نہیں ہو سکتا.میں نے دیکھا ہے بیوی ہو تب

Page 480

471 انسان خوش ہوتا ہے.حاکم ہو، فوج ہو ، مال و اسباب ہو جب جا کر خوشی حاصل ہوتی ہے.معیت کا انسان متوالا ہے.میری طبیعت میں محبت کا مادہ ہے.میں نے دیکھا ہے کہ محبت بھی معیت کو چاہتی ہے.بطال لوگوں میں محبت کا مادہ ہو تو وہ بھی معیت کے متوالے ہوتے ہیں.صوفیوں میں ان بطال لوگوں کے متعلق بحث یہی ہے.مگر اس سے انکار نہیں کہ معیت کی تڑپ سب میں ہے.انسان جب سرد ملکوں میں جاوے تو گرم کپڑوں کی معیت.ریل کا سفر کرے تو پیسوں کی معیت چاہیے.غرض انسان معیت کے بغیر کچھ بھی نہیں.مگر خدا کی معیت سے بڑھ کر کوئی بھی معیت نہیں ہو سکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر وقت موجود ہے.سوتے جاگتے.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم میری معیت چاہتے ہو تو تقویٰ اختیار کرو.تقوی میں تمام عقائد صحیحہ اور اعمال صالحہ آجاتے ہیں.چنانچہ اس کے ساتھ ہی ”محسنون" فرمایا اور احسان یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی ایسی عبادت کرنا کہ گویا تم اسے دیکھ رہے ہو یا کم از کم یہ کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے.میں اس وقت بڑی مشکل سے یہاں آیا ہوں.میرے سر میں ایسا درد ہے جیسا کوئی سر پر کلہاڑی چلاتا ہے.میں نے اس مرض میں اپنی اور تمہاری حالت کا بہت مطالعہ کیا ہے.بعض اوقات مجھ کو اپنی آنکھوں کا بھی ڈر ہوا ہے.بعض اوقات الْعَيْنُ حَقٌّ (بخاری کتاب الطب) کا بھی خیال آیا ہے.غرض عجیب عجیب خیالات گزرے ہیں.ان میں سے ایک بات تمہیں سناتا ہوں.میرا ارادہ تھا کہ میں صرف عربي اَشْهَدُ اَنْ لَا إِلَهَ إِلا الله کہہ کر بیٹھ جاؤں.مگر قدرت ہے جو مجھ کو بلاتی ہے.اس واسطے یوں ہی سمجھ لو کہ یہ میرا آخری کلمہ ہے.یوں بھی سمجھ لو کہ یہ آخری دن ہے.تم لوگ بھی یہاں اکٹھے ہوئے تھے.گورو کل انجمن حمایت الاسلام علی گڑھ والے بھی اکٹھے ہوئے ہیں.وہاں بھی رپورٹیں پڑھی گئی ہیں، یہاں بھی.ہمارے رپورٹر نے بھی رپورٹ پڑھ دی کہ اتنا روپیہ آیا اتنا خرچ ہوا.پر میں سوچتا رہا ہوں کہ یہ لوگ یہاں کیوں آئے.یہ روپیہ تو بذریعہ منی آرڈر بھی بھیج سکتے تھے اور رپورٹ چھپ کر ان کے پاس پہنچ سکتی تھی.میرے اندازہ میں جو آدمی یہاں آئے تین ہزار سے زیادہ نہ تھے.پھر جو لوگ عمائد تھے وہ اگر مجھ سے علیحدہ ملتے تو میں ان کے لئے دعائیں کرتا، انہیں کچھ نصیحتیں دیتا.لیکن افسوس کہ اکثر لوگ اس وقت آئے کہ لو جی! سلام علیکم یکہ تیار ہے.تم یاد رکھو میں ایسے میلوں سے سخت متنفر ہوں.میں ایسے مجمعوں کو جن میں روحانی تذکرہ نہ ہو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہوں.یہ روپیہ تو وہ منی آرڈر کر کے بھیج سکتے تھے بلکہ اس طرح بہت سا خرچ جو مہمانداری پر ہوا وہ بھی محفوظ رہتا.یہاں کے دکانداروں نے بھی افسوس! دنیا کی طرف توجہ کی اور کہا کہ جلسہ باہر نہ ہو ، شہر میں ہو ، ہماری چیزیں

Page 481

472 بک جاویں.میں ایسے اجتماع اور ایسے روپے کو جو دنیا کے لئے ہو ، حقارت کی نظر سے دیکھتا ہوں.جو سن رہا ہے وہ یاد رکھے اور دوسروں تک یہ بات پہنچاوے.میں اسی غم میں پگھل کر بیمار بھی ہو گیا.کیا اچھا ہو تا کہ تم میں سے جو تمہاری باہر کی جماعتوں کے سکرٹری و عمائد آئے تھے وہ مجھ سے علیحدہ ملتے.میں ان کو بڑی نیکیاں سکھاتا اور بڑی اچھی باتیں بتاتا.لیکن افسوس کہ ہماری صدر انجمن نے بھی ان کو یہ بات نہ بتائی.اس لئے مجھے کو ان سے بھی رنج ہے.کیا آیا ، کتنے روپے جمع ہوئے، ہم کو اس سے کچھ بھی غرض نہیں.ہم کو تو صرف خدا چاہئے مجھ کو نہیں معلوم کہ کیا جمع ہوا کیا آیا؟ مجھ کو اس کی مطلق پروا نہیں.پھر میں کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کو مقدم کرو.ہماری کوششیں اللہ کے لئے ہوں.اگر یہ نہ ہو تو ہائی سکول کیا حقیقت رکھتا ہے اور اس کی عمارتیں کیا حقیقت رکھتی ہیں.ہمیں تو ہمارا مولیٰ چاہیئے.اپنے احباب کو خط لکھو اور ان کو تنبیہہ کرو.میں تو لاہور اور امرتسر کے لوگوں کا بھی منتظر رہا کہ وہ مجھ سے کیا سیکھتے ہیں لیکن ان میں سے بھی کوئی نہ آیا.میں چاہتا تھا کہ لوگ میری زندگی میں متقی اور پر ہیز گاری بنیں اور دنیا اور اس کی رسموں کی طرف کم توجہ کریں.( بدر جلد ۹ نمبر ۲۶٬۲۵٬۲۴ --- ۷ ۲۱٬۱۴۴ / اپریل ۱۹۱۰ء صفحہ ۲)

Page 482

۲۹ / اپریل ۱۹۱۰ء 473 خطبه جمعه حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ (الحشر:۹) کی تلاوت کے بعد فرمایا:.آج کل لوگوں کے یہ بات ذہن نشین کی جاتی ہے کہ آدمی آزاد ہے مگر جب پوچھا جاوے کہ کیا چور بھی آزاد ہے؟ زانی بھی آزاد ہے؟ تو حیرت زدہ ہو کر عجیب عجیب طور پر جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر اپنے طور پر کچھ حد بندیاں کرنے لگتے ہیں.گویا اپنے قول کی آپ ہی تردید کر لیتے ہیں.میں نے آج کل کے تعلیم یافتوں سے پوچھا ہے کہ جیسے تم آزاد بنتے ہو اگر تمہارے ماں باپ بھی اسی قسم کی آزادی اختیار کر لیں تو تم کیسی مشکلات میں پڑتے.ماں پرورش ہی نہ کرتی اور یوں کہتی کہ چلو مجھے کیا پڑی ہے اس کا بول براز سنبھالوں اور یہ سوئے اور میں راتوں جاگوں، یتیمارداری میں جان تک ہلکان کر دوں.باپ کے چلو ہمیں کیا ضرورت ہے خواہ مخواہ اسے خرچ دیں.غرض سب کے دماغ میں آزادی کی ہوا سما جائے تو یہ کارخانہ دم میں تباہ ہو جائے.

Page 483

474 ایسے ہی ایک دہر یہ خیالات سے، جس کا قول تھا کہ اسلام کے اس قدر احکام کی پابندی مشکل ہے میں نے پوچھا کیا تم میونسپلٹی کے قانون کی متابعت نہیں کرتے؟ پولیس کے قانون کو نہیں مانتے؟ ضابطہ فوجداری کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتے؟ سوسائٹی کے رول کی قدر نہیں کرتے؟ کیا تم طبی قوانین کا لحاظ نہیں رکھتے؟ اور کیا ان کا مجموعہ قرآن مجید سے بہت بڑا نہیں ہے؟ تو وہ بہت نادم ہوا.عیسائیوں کے دماغ میں آزادی سمائی تو شریعت کو لعنت قرار دیا مگر ان کی سوسائٹی کے رول اس قدر ہیں کہ ایک ضخیم کتاب تیار ہو سکتی ہے.ایک عالم کے منہ سے ایک بات نکلی جو میرے لئے نکتہ معرفت ہو گئی.پہلے تو میں اللہ سے ڈرتا تھا مگر جوں جوں علم بڑھتا گیا تو یہ خشیت کم ہوتی گئی.یہ اس لئے کہ ایسی کتابیں نہیں پڑھائی جاتیں جن سے خشیت بڑھے.مدارس کے بارے میں تو یہ بحث پیش آگئی کہ کس مذہب کی کتاب پڑھائی جاوے.میں کہتا ہوں انجیل کا ابتداء اور انتہاء اور قرآن مجید کا ابتدء اور انتہاء ہی دیکھ لو اور ان کا مقابلہ کرو.ایک میں الحمد ایسی جامع دعا ہے کہ دنیا اس کی مثل سے عاجز ہے اور اخیر تمام دکھوں سے بچنے کی راہ بتائی.دوسری میں ایک نسب نامہ ہے جو اخلاق و روح کے لئے کچھ مفید نہیں اور اخیر میں یہ لکھا ہے کہ وہ پھانسی دے دیا گیا.غرض علماء میں تو خشیت نہیں اور عوام کالانعام ان کے تابع ہوئے.گدی نشینوں کی حالت اس سے ناگفتہ بہ.امراء اپنی دولت میں مست.پھر اخبار نویس ہیں وہ دوسروں کی اصلاح پر تو تیار ہیں مگر اپنی اصلاح کے لئے کوئی کہہ دے تو لڑنے کو تیار ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ جب تم کسی ناصح کی نصیحت کی قدر نہیں کرتے تو تمہارا کیا حق ہے کہ اپنی نصیحت کو منواؤ.پس میں تمہیں تاکید کرتا ہوں کہ الہی حد بندیوں کو نگاہ رکھو اور ہر وقت نفس کا محاسبہ کرتے رہو کہ کل کے واسطے تم نے کیا تیاری کی ہے؟ ( بدر جلد نمبر۲۷-۲۸-۵۰۰ / مئی ۱۹۱۰ء صفحه ۱)

Page 484

یکم جولائی ۱۹۱۰ء 475 خطبہ جمعہ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے وَيَقُولُ الْإِنْسَانُ ءَ إِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا (مریم:۶۷) کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اگر کامل یقین ہو کہ فلاں بات کا یہ نتیجہ ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ انسان فکر مند نہ ہو.برسات آنے والی ہو تو سب کو لپائیوں کا فکر پیدا ہو جاتا ہے.پھر لوگ بیج بونے کی تیاریاں، باوجود ان خوفوں کے کہ کھیتی شاید ہو یا نہ ہو یا پھر اس کے بعد اٹھانی یا کھانی نصیب ہو یا نہ ہو کر لیتے ہیں.امتحان قریب ہو تو لائق سے لائق لڑکا کچھ نہ کچھ تیاری کر لیتا ہے.یہ اس لئے کہ اسے یقین ہوتا ہے کل امتحان ضرور ہو گا.تو پھر اگر قیامت کا یقین پیدا ہو تو انسان کیوں گناہ اور لوگوں کی حق تلفیاں اور اکل مال بالباطل کرے.ایسے ایسے برے کام کر کے وہ زبان حال سے جتاتا ہے کہ اسے یوم الحساب کا یقین نہیں.اگر یقین ہو تو اس کے متعلق تیاری بھی کرے.اس کے بعد ایک دلیل بیان کرتا ہے کہ انسان کچھ نہ تھا.ہم نے اسے اپنی صفت ربوبیت کے ماتحت بتدریج اس حالت میں پہنچایا.یہ پورا ثبوت ہے اس بات کا کہ ہم اسے پھر اٹھائیں گے اور حسب اعمال جنت یا دوزخ میں پہنچائیں گے.اس کی تفصیل فرماتا ہے کہ متقیوں کو بچائیں گے اور ظالموں کو دوزخ میں بھجوائیں گے.اس وقت معلوم ہو گا کہ یہ ظاہری دکھلاوے کاساز و سامان کہاں تک کسی کے کام آنے والا ہے.یہاں تک کہ اس دنیا میں بھی یہ چیزیں ان کو حقیقی عزت نہیں دے سکیں.

Page 485

476 ایک شخص نے مجھ پر اعتراض کیا کہ آپ کے قرآن میں نمرود ، حضرت ابراہیم کے مقابل کا ذکر ہے حالانکہ وہ کوئی شخص نہیں ہوا.میں نے کہا یہی تو اعجاز قرآنی ہے کہ اس مد مقابل کا نام نہیں لیا.گویا بتلا دیا کہ یہ ایسا بے نشان کیا جاوے گا کہ ایک زمانہ میں اس کی ہستی سے بھی انکار کیا جائے گا.اس کے خلاف حضرت ابراہیم کو دیکھو کہ مجوس ، عیسائی، یہودی مسلمان سب ہی اس کا نام عزت سے لیتے ہیں اور اس کی اولاد تمام روئے زمین پر موجود ہے.حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نام نامی پانچ بار تو چھتوں پر با آواز بلند پکارا جاتا ہے اور پھر کس عزت کے ساتھ.مگر کیا کوئی عتبہ ربیعہ شیبہ ابو جہل اور پھر حسین " کے مقابل یزید کی اولاد ہونے کی طرف بھی اپنے تئیں منسوب کرتا ہے.امام یاد رکھو آرام کی زندگی کے لئے یہ چالاکیاں، یہ سازو سامان کی حرص مفید نہیں بلکہ قرآن مجید کی کچی فرمانبرداری کرو.میرا تو اعتقاد ہے کہ اس کتاب کا ایک رکوع انسان کو بادشاہ سے بڑھ کر خوش قسمت بنا دیتا ہے.جس باغ میں میں رہتا ہوں اگر لوگوں کو خبر ہو جاوے تو مجھے بعض دفعہ خیال گزرتا ہے کہ میرے گھر سے قرآن نکال کر لے جاویں.مسلمانوں کے پاس ایسی مقدس کتاب ہو اور پھر وہ تکالیف میں اور مشکلات میں پھنسے ہوں، ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا.بد ر جلد ۹ نمبر۳۷....۷ / جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 486

۲۶ / اگست ۱۹۱۰ء قادیان فرمایا:.477 خطبہ نکاح حضور نے ۲۶ اگست ۱۹۱۰ ء بعد نماز مغرب اپنی نواسی کے نکاح کا جو ڈاکٹر محمد اقبال صاحب ے ۵۰۰ روپیہ مہر پر ہوا اعلان فرمایا.باوجود ضعف اور ممانعت کلام کے آپ نے خود خطبہ پڑھا.یہ پہلا موقع تھا اور خود حضور نے فرمایا کہ ساری عمر میں یہ پہلا موقع ہے کہ میں بیٹھ کر خطبہ پڑھ رہا ہوں.خطبہ کا آغاز آپ نے کھڑے ہو کر فرمایا لیکن ابھی چند الفاظ ہی فرمائے تھے کہ ضعف نے کھڑے نہ رہنے دیا اس لئے بیٹھ گئے.مگر تھوڑی دیر کے بعد جوش تبلیغ سے اٹھے اور قریباً پون گھنٹہ تک کھڑے ہو کر خطبہ دیا.اس خطبہ کا نہایت ضروری حصہ اپنے الفاظ میں دیا جاتا ہے.(ایڈیٹر) میں بیمار ہوں اور طبی طور پر مجھے بولنے کی ممانعت ہے.مگر میں نہیں جانتا کہ مجھے کس وقت موت آجاوے اس لئے میں اس حق کو جو میرے پاس ہے تمہیں پہنچانا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ میں اس کے ادا کے بوجھ سے سبکدوش ہو جاؤں.

Page 487

478 ? بیاہ کے معاملہ میں ایک بڑی غلطی ہو رہی ہے.اور مجھے افسوس ہے کہ یہ میرے گھر میں بھی ہوئی ہے اس لئے کہ مجھ سے مشورہ نہیں کیا گیا اور وہ یہ ہے کہ اس کے لئے ضروری امر یہ ہے کہ بہت استخارہ کئے جاویں اور خدا تعالیٰ سے مدد طلب کی جاوے.ہم انجام سے بے خبر ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ تو عالم الغیب ہے.اس لئے اول خوب استخارہ کرو اور خدا سے مدد چاہو.اور پھر اس کو یاد رکھو کہ کوئی نکاح بدوں ولی کے نہیں ہو سکتا.میں نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بلاواسطہ خود پوچھا ہے اور آپ نے اس کو سخت ناپسند فرمایا کہ بدوں ولی کوئی نکاح کیا جاوے.میں نے خود ایک نکاح کرنا چاہا تھا اور بعض علماء مثل مولوی نذیر حسین اور محمد حسین صاحب وغیرہ سے دریافت کیا اور مجھے بعض نے اجازت دی.مگر میں ترساں تھا.آخر اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے اس مسئلہ کو حل کر دیا.میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رویا میں دیکھا.اور آپ نے مجھے بتا دیا کہ بدوں ولی نکاح نہیں ہوتا اور آپ نے سخت ناپسندگی کا اظہار کیا بلکہ یہاں تک مجھ پر ظاہر ہوا کہ جو شخص ایسی جرات کرتا ہے.وہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ریش مبارک اور آپ کی مونچھ مونڈ ڈالتا ہے.پس یہ بڑی خطرناک بات ہے اس کو خوب یاد رکھو کہ بدوں ولی نکاح کبھی نہ ہو.پھر ایک اور غلطی ہوتی ہے کہ نکاح کے معاملہ کو عورتوں کے سپرد کر دیا جاتا ہے.عورتوں کو ولی مت بناؤ.یہ مردوں کا کام ہے.قرآن مجید میں الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ آیا ہے.اس لئے کبھی ایسی جرات نہ کرو جس سے قرآن مجید کی اس آیت کی ہتک لازم آوے.خدا سے ڈرو اور توبہ کرو.میں پھر کہتا ہوں.عورتوں کو ولی نہ بناؤ.عورتوں کو ولی نہ بناؤ.عورتوں کو ولی نہ بناؤ.اس کے بعد آپ نے حسب معمول عورتوں کے حقوق پر وعظ فرمایا اور شادی کی خصوصیتوں کو جو اسلام نے رکھی ہیں بیان کیا کہ محض تقویٰ کے لئے ہو اور کوئی غرض شادی کی نہیں.یہ خطبہ آپ نے نہایت رقت اور جوش اور درد دل سے پڑھا.میں نے اس سے پہلے متعدد مرتبہ اس امر کے متعلق بحث کی ہے کہ رشتہ اور ناطوں کے معاملات کلیتاً حضرت خلیفۃ المسیح کے ہاتھ میں دے دینے چاہئیں اس لئے کہ آپ سے بڑھ کر کون ہمدرد اور سچا خیر خواہ ہو گا.اس خطبہ میں ایک موقعہ پر آپ نے فرمایا کہ خلیفہ بن کر مجھ پر بہت بڑا بوجھ پڑا ہے اگر خدا تعالیٰ ہی کا فضل نہ ہوتا اور اس کی غریب نوازی میری دستگیری نہ کرتی تو میں اس بوجھ کے اٹھانے کے قابل نہ تھا.مگر اس نے اپنے فضل سے مجھے قوت دی جس کا ایک بیٹا بیمار ہو اس کی حالت کا اندازہ مشکل ہوتا ہے پھر جس کے لاکھوں بیٹے ہوں اور مختلف حاجتوں اور بوجھوں سے ان کی حالت اس کے لئے درد کا باعث ہو.اندازہ بھی نہیں ہو سکتا کہ اسے

Page 488

479 کس قدر تکلیف ہو سکتی ہے مگر اللہ ہی کا فضل ہے جو میں دل کے باغ میں رہتا ہوں.پس اس قسم کی ہمدردی کا احساس کرنے والا دل پہلو میں رکھنے والا انسان دنیا کو خدا کے فضل کے بدوں میسر نہیں آتا اس لئے عاقبت اندیشی اور اپنی اولاد کی خیر خواہی اور اس کے اس بوجھ سے سبکدوشی اسی میں ہے کہ اس کے سپرد کریں.اور اگر اس ضرورت کی طرف توجہ نہ کی گئی تو آخر پچھتانا پڑے گا.الحکم جلد ۱۴ نمبر ۳۱ ۱۲۸۰۰۰۰ اگست ۱۹۱۰ء صفحه ۱۴) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 489

٫۵ اکتوبر ۱۹۱۰ء قادیان 480 خطبہ عید الفطر حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ سَبِّح اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى پر جو خطبہ ارشاد فرمایا وہ درج ذیل ہے.آدمی کو اللہ نے بنایا ہے اور اس کے لئے دو قسم کی چیزیں ضروری ہیں.ایک جسم جو ہمیں نظر آتا ہے.اس کے لئے ہوا کی ضرورت ہے.کھانے پینے ، پہننے مکان کی ضرورت ہے.کوئی اس کا یار و غمگسار ہو ، اس کی ضرورت ہے.دور دراز ملکوں کی دریاؤں کے اس پار اس پار جانے کی ضرورت ہے.زمیندار کو کھیت کی ضرورت ہے.کیا زمین انسان بنا سکتا ہے؟ پھر ہل کے لئے لکڑیاں چاہئیں.مضبوط درخت ہو تب جا کر ہل بنتے ہیں.ہل کے لئے لوہے کی بھی ضرورت ہے.پھر اوزار بھی لوہے کے ہوتے ہیں.لوہے کا بھی عجیب کارخانہ ہے.لوہا کانوں سے آتا ہے جس کے لئے کتنے ہی مزدوروں کی ضرورت ہے.پھر اور کئی قسم کی محنتوں اور مردوں کے بعد ہل بنتا ہے.مگر یہ ہل بھی بے کار ہے جب تک جانور نہ ہوں.پھر جانوروں کے لئے گھاس چارہ وغیرہ کی ضرورت ہے.پھر اس ہل چلانے میں علم، فہم اور

Page 490

481 عاقبت اندیشی کی ضرورت ہے.چنانچہ انہی کی مدد سے چھوٹے چھوٹے جتنے پیسے بنتے ہیں وہ عالی شان بنتے ہیں.مثلاً چکی پینا ایک ذلیل کسب تھا.علم کے ذریعے ایک اعلیٰ پیشہ ہو گیا.یہ جو بڑے بڑے ملوں کے کارخانے والے ہیں دراصل چکی پینے کا ہی کسب ہے اور کیا ہے.ایسا ہی گاڑی چلانا کیا معمولی کسب تھا.گاڑی چلانے والا ہندوستان میں لنگوٹ باندھے ہو تا تھا.اب گاڑی چلانے والے کیسے عظیم الشان لوگ ہیں.یہ بھی علم ہی کی برکت ہے.حجام کا پیشہ کیسا ادنی سمجھا جاتا ہے.یہی لوگ مرہم پٹی کرتے اور ہڈیاں بھی درست کر دیتے ہیں.اسی پیشے کو علم کے ذریعے ترقی دیتے دیتے سرجری تک نوبت پہنچ گئی ہے اور سرجن بڑی عزت سے دیکھا جاتا ہے.میں نے تاجروں پر وہ وقت بھی دیکھا ہے کہ سر پر بوجھ اٹھائے دیمہ بدیعہ پھر رہے ہیں.رات کسی مسجد میں کاٹ رہے ہیں مگر اب تو تجارت والوں کے علیحدہ جہاز چلتے ہیں.وہ حکومت بھی دیکھی ہے کہ دس روپے لینے ہیں اور ایک زمیندار سے دھینگا مشتی ہو رہی ہے.یا اب منی آرڈر کے ذریعے مالیہ ادا کر دیتے ہیں.سنسان ویران جنگلوں کو آباد کر دیا گیا ہے.یہ بھی علم ہی کی برکت ہے کہ اس سے ادنی چیز اعلیٰ ہو جاتی ہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے اس جسم کے علاوہ کچھ اور بھی عطا کیا ہے.یہ آنکھیں نہیں دیکھتیں جب تک اندر آنکھ نہ ہو.زبان نہیں بولتی جب تک اندر زبان نہ ہو.کان نہیں سنتے جب تک اندر کان نہ ہوں.مگر یہ تو کافر کو بھی حاصل ہے.اس کے علاوہ ایک اور آنکھ و زبان و کان بھی ہیں جو مومن کو دیئے جاتے ہیں.یہ وہ آنکھ ہے جس سے انسان حق و باطل میں تمیز کر سکتا ہے.حق و باطل کا شنوا ہو سکتا ہے.حق و باطل کا اظہار کر سکتا ہے.اگر انسان حق کا گویا وشنوا و بینا نہ ہو تو صُمٌّ بُكْمٌ عُمْى (البقرة:) کا فتویٰ لگتا ہے.اللہ جل شانہ جس کو آنکھ دیتا ہے وہ ایسی آنکھ ہوتی ہے کہ اس سے خدا کی رضا کی راہوں کو دیکھ لیتا ہے.پھر ایک آنکھ اس سے بھی تیز ہے جس سے مومن اللہ کی راہ پر علی بصیرت چلتے ہیں.پھر اس سے بھی زیادہ تیز آنکھ ہے جو اولوالعزم رسولوں کو دی جاتی ہے.ان حواس کے متعلق اللہ اپنے پاک کلام میں وعظ کرتا ہے.دیکھو آج لوگوں نے کچھ نہ کچھ اہتمام ضرور کیا ہے.غسل کیا ہے.لباس حتی المقدور عمدہ دنیا پہنا ہے.خوشبو لگائی ہے.پگڑی سنوار کر باندھی ہے.یہ سب کچھ کیوں کیا؟ صرف اس لئے کہ ہم باہر بے عیب ہو کر نکلیں.بہت سے گھر ایسے ہوں گے جہاں بیوی بچوں میں اسی لئے جھگڑا بھی پڑا ہو گا اور اس جھگڑے کی اصل بناء یہی ہے کہ بے عیب بن کر باہر نکلیں.3'

Page 491

482 جس طرح فطرت کا یہ تقاضا ہے اور انسان اسے بہر حال پورا کرتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہارا مربی، میں تمہارا محسن ہوں.جیسے تم نے اپنے جسم کو مصفی و مطہر، بے عیب بنا کر نکلنے کی کوشش کی ہے ویسے ہی تم اپنے رب کے نام کی بھی تسبیح کرتے ہوئے نکلو اور دنیا والوں پر اس کا بے عیب ہونا ظاہر کرو.اونی مرتبہ تو یہ ہے کہ مومن اپنی زبان سے کے سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ (بخاری کتاب الدعوات).پھر وہ کلمات جن سے میں نے اپنے خطبہ کی ابتداء کی.الله اكبر الله اكبرُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَكْبَرُ وَ لِلَّهِ الْحَمْدُ ان میں بھی اس کی کبریائی کا بیان ہے.پھر اس سے ایک اعلیٰ مرتبہ ہے.وہ یہ کہ یہ تسبیح دل سے ہو کیونکہ یہ جناب الہی کے قرب کا موجب ہے.كَلِمَتَانِ خَفِيفَتَانِ عَلَى اللَّسَانِ ثَقِيْلَتَانِ فِي الْمِيزَانِ حَبِيبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ سُبْحَانَ اللَّهِ وَ بِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ (بخاری کتاب الدعوات).اور فرماتا ہے کہ وَلَكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمُ (الحج:۳۸).پس ضرور ہے کہ یہ تسبیح جو کریں تو دل کو مصفا کر کے کریں.تیسرا درجہ یہ ہے کہ اللہ کے فعل پر ناراض نہ ہوں اور یہ یقین کریں کہ جو کچھ خدا کرتا ہے بھلا ہی کرتا ہے اور جو کچھ کرے گاوہ بھی ہماری بھلائی و بہتری کے لئے کرے گا.ہمارے مربی و محسن پر اللہ رحم فرمائے کہ اس نے میرے کانوں میں اچھی آواز پہنچائی اور مجھے مشق کے لئے یہ شعر لکھ کر دیا.سر نوشت ما ز خود نوشت خوشنویس است نخواهد بد نوشت پس ہمیں چاہئے کہ اس اللہ کو جس کی ذات اعلیٰ اور تمام قسم کے نقصوں و عیبوں سے بالا تر ہے رنج و راحت، عسرویسر میں بے عیب یقین کریں اور یہ یقین رکھیں اَلشَّرُّ لَيْسَ إِلَيْكَ وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِى يَدَيْكَ - میں دیکھتا ہوں کہ ایک جمعہ میں میں نے اپنی طرف سے الوداعی خطبہ پڑھا کیونکہ میری حالت ایسی تھی کہ تھوک کے ساتھ بہت خون آتا.اندر ایسا جل گیا تھا کہ خاکستری دست آتے اور میں رات کو جب سوتا تو یہی سمجھتا کہ بس اب رخصت أَسْلَمْتُ نَفْسِي إِلَيْكَ (بخاری کتاب الوضوء) گھر والے بعض وقت ہمدردی سے مجھے ملامت کرتے کہ تم پر ہیز کرتے.بہت وعظ کرتے ہو ، سبق بدستور پڑھائے جاتے ہو.تو میں کہتا بے شک جس قدر نقص و عیب ہیں میری طرف منسوب کر لو.میرا موٹی تو جو کچھ کرتا ہے بھلا ہی کرتا ہے.8 ہے وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِي يَدَيْكَ

Page 492

483 خطرات نور غرض تم زبان سے سبحان اللہ کا ورد کرو تو اس کے ساتھ دل سے بھی ایسا اعتقاد کرو اور اپنے دل کو تمام قسم کے گندے خیالات سے پاک کر دو.اگر کوئی تکلیف پہنچے تو سمجھو کہ مالک ہماری اصلاح کے لئے ایسا کرتا ہے.پھر اس سے آگے اللہ توفیق دے تو اللہ کے اسماء پر اللہ کے صفات و افعال پر اللہ کی کتاب پر اللہ کے رسول پر جو لوگ اعتراض کرتے اور عیب لگاتے ہیں ان کو دور کرو اور ان کا پاک ہونا بیان کرو.ہمارے ملک میں اس قسم کے اعتراضوں کی آزادی حضرت جلال الدین اکبر بادشاہ کے عہد میں شروع ہوئی ہے کیونکہ اس کے دربار میں وسعت خیالات والے لوگ پیدا ہو گئے.اس آزادی سے لوگوں نے ناجائز فائدہ اٹھایا اور مطاعن کا دروازہ کھول دیا.ان اعتراضوں کو دور کرنے کے لئے ہمارے بزرگوں نے بہت کوشش کی ہے.چنانچہ شیخ المشائخ حضرت شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بہت کوشش کی ہے.جلال الدین اکبر نے جب صدر جہان کو لکھا کہ چار عالم بھیجیں جو ہمارے سامنے ان اعتراضوں کے جواب دیا کریں تو یہ بات حضرت مجدد صاحب کے کان میں بھی پہنچی.انہوں نے صدر کو خط لکھا کہ آپ مہربانی سے کوشش کریں کہ بادشاہ کے حضور صرف ایک ہی عالم جائے چار نہ ہوں.خواہ کسی مذہب کا ہو مگر ہو ایک ہی.کیونکہ اگر چہار جائیں گے تو ہر ایک چاہے گا کہ میں بادشا کا قرب حاصل کروں اور باقی تین کو ذلیل کرنے کی کوشش کرے گا.اگر چاروں گئے تو بجائے اس کے کہ دین کا تذکرہ ہو ایک دوسرے کو رد کر کے چاروں ذلیل ہو جاویں گے اور یہ لوگ اپنی بات کی بیچ میں بادشاہ کو ملحد کر دیں گے.یہ تو اس وقت کا ذکر ہے جب اسلام کی سلطنت تھی.اسلام کے متوالے دنیا میں موجود تھے.اس وقت کا بیج بویا ہوا اب تین سو برس کے بعد ایک درخت بن گیا ہے.کیسے دکھ کا زمانہ ہے کہ نبی کریم کے سوانگ ڈراموں میں بنائے جاتے ہیں.عجیب عجیب رنگوں میں لوگ دھوکہ دیتے ہیں جس سے متاثر ہو کر بعض لڑکوں نے غنیمت کی آیت پر لکھ دیا.محمد لٹیرا تھا.اگرچہ اس کا جواب مجھے دیا گیا کہ نقل اعتراض تھا، مگر یہ داغ مٹتا نہیں.اور میں سربان القضاء کا مسئلہ خوب جانتا ہوں.اسی کی ماتحت اس کو لا کر اس کا ذکر کرتا ہوں.پس میری سمجھ میں یہ وقت ہے کہ جہاں تک تم میں کسی سے ہو سکے اللہ کے اسماء صفات افعال اللہ کی کتاب اللہ کے رسول اللہ کے رسول کے نواب و خلفاء کی پاکیزگی بیان کرے اور ان پر جو اعتراض ہوتے ہیں انہیں بقدر اپنی طاقت کے سلامت روی و امن پسندی کے ساتھ دور کرنے کی

Page 493

484 کوشش کرے.یہ مت گمان کرو کہ ہم ادنی ہیں.وہ طاقت رکھتا ہے کہ تمہیں ادنیٰ سے اعلیٰ بنادے.چنانچہ وہ فرماتا ہے خَلَقَ فَسَوَّى وَالَّذِى قَدَّرَ فَهَدَى الاعلى: ۴۳).جو ان پڑھ ہیں انہیں کم از کم یہی چاہئے کہ وہ اپنے چال چلن سے خدا کی تنزیمہ کریں.یعنی اپنے طرز عمل زندگی سے دکھائیں کہ قدوس خدا کے بندے، پاک کتاب کے ماننے والے، پاک رسول کے متبع اور اس کے خلفاء اور پھر خصوصاً اس عظیم الشان مجدد کے پیرو ایسے پاک ہوتے ہیں.ضعف بہت ہے اور مجھے زیادہ بولنے سے تکلیف بڑھ جانے کا احتمال ہے اس لئے اسی پر بس کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ تمہیں خدا تعالیٰ کی تسبیح کی زبان و دل و قلم سے توفیق دے.( بدر جلد ۹ نمبر ۴۸-۰۴۹-۱۳۰ر اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحه ۸-۹)

Page 494

۱۸ نومبر ۱۹۱۰ء 485 خطبه جمعه حضرت امیر المومنین ایده الله تعالی نے إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْنِي وَ يَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ (النحل») پر تقریر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ عدل ایسی ضروری چیز ہے کہ شیعہ نے بھی باوجود اللہ کی تمام صفات سے بے پرواہی کرنے کے اسے ارکان اربعہ (توحید عدل نبوت امامت میں شمار کیا ہے.عدل کیسا اچھا ہے، اس کا اندازہ شاید تم لوگ نہ کر سکو کیونکہ تم میں سے کم ہیں جنہوں نے وہ زمانہ دیکھا جب کہ حکام کو بھی ننگ و ناموس کا خیال نہ تھا.رعیت کے کسی فرد کو یہ معلوم نہ تھا کہ میں کس چیز کا مستحق ہوں اور بادشاہ کس کا؟ باپ کا بدلہ نہ صرف بیٹوں سے بلکہ ملک والوں سے بھی لیا جاتا تھا مگر اب امن کا راج ہے اور عدل ہو رہا ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ کا شکر چاہئے.ہر شخص اپنے نفس پر غور کرے کہ وہ نہیں چاہتا کہ میرے بیٹے یا بیٹی کو کوئی دکھ دے یا ان کے ساتھ بے جا سختی کرے.پس وہ آپ بھی کیوں کسی کے بیٹے یا بیٹی کو دکھ دے یا اکل مال بالباطل کرے یا کسی کی حق تلفی کا مرتکب ہو.نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا.لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ

Page 495

486 لأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ (بخاری کتاب الایمان) کہ مومن ہی نہیں ہو تا جب تک اپنے بھائی کے لئے بھی وہی پسند نہیں کرتا جو اپنے لئے کرتا ہے.ہم اپنے نظام سے جیسا کام لینا چاہتے ہیں مناسب ہے کہ ہم بھی جس کے نوکر ہیں ویساری کام کریں.میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے تمام تعلقات میں مخلوق سے ہوں یا خدا سے عدل مد نظر رکھو اور میری آرزو ہے کہ میں تم میں سے ایسی جماعت دیکھوں جو اللہ تعالیٰ کی محب ہو.اللہ تعالیٰ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قبع ہو.قرآن سمجھنے والی ہو.میرے مولا نے مجھ پر بلا امتحان اور بغیر میری محنت کے بڑے بڑے فضل کئے ہیں اور بغیر میرے مانگنے کے بھی مجھے عجیب عجیب انعامات دیئے ہیں جن کو میں گن بھی نہیں سکتا.وہ ہمیشہ میری ضرورتوں کا آپ ہی کفیل ہوا ہے.وہ مجھے کھانا کھلاتا ہے اور آپ ہی کھلاتا ہے.وہ مجھے کپڑا پہناتا ہے اور آپ ہی پہناتا ہے.وہ مجھے آرام دیتا ہے اور آپ ہی آرام دیتا ہے.اس نے مجھے بہت سے مکانات دیئے ، بیوی بچے دیئے ، مخلص اور کچے دوست دیئے.اتنی کتابیں دیں اتنی کتابیں دیں کہ دوسرے کی عقل دیکھ کر ہی چکر کھا جائے.پھر مطالعہ کے لئے وقت صحت، علم اور سامان دیا.اب میری آرزو ہے اور میں اپنے مولیٰ پر بڑی بڑی امیدیں رکھتا ہوں کہ وہ یہ آرزو بھی پوری کرے گا کہ تم میں سے اللہ کی محبت رکھنے والے اللہ کے کلام سے پیار کرنے والے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے محبت رکھنے والے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کلام سے محبت رکھنے والے اللہ کے فرمانبردار اور اس کے خاتم النبیین کے بچے متبع ہوں اور تم میں سے ایک جماعت ہو جو قرآن مجید اور سنت نبوی پر چلنے والی ہو اور میں دنیا سے رخصت ہوں تو میری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور میرا دل ٹھنڈا ہو.دیکھو ! میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا نہ تمہارے نذرونیاز کا محتاج ہوں.میں تو اس بات کا امیدوار بھی نہیں کہ کوئی تم میں سے مجھے سلام کرے.اگر چاہتا ہوں تو صرف یہی کہ تم اللہ کے فرمانبردار بن جاؤ.اس کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قیع ہو کر دنیا کے تمام گوشوں میں بقدر اپنی طاقت و قسم کے امن و آشتی کے ساتھ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ پہنچاؤ.( بدر جلد ۱۰ نمبر ۵ --- یکم دسمبر ۱۹۱۰ء صفحه ۱)

Page 496

کار فروری ۱۹ء فرمایا :- 487 خطبہ جمعہ میں نے بہت عرصہ پہلے خواب میں دیکھا کہ خدا کا غضب بھڑک اٹھا ہے اور زمین تاریک ہو چلی ہے.پہلے طاعون پھیلا ہے پھر اس کے بعد ہیضہ پڑا ہے.چند خاص دوستوں کو میں نے یہ خواب سنا بھی دیا اور دعا شروع کی کہ الہی! تو اپنے فضل و کرم سے احمدی جماعت پھر خصوصیت سے قادیان کی جماعت پر اپنا رحم فرما.پھر چند روز ہوئے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ملک میں خطرناک طاعون ہے اور ایک عظیم الشان محل ہے جس میں ہم لوگ ہیں.گویا خدا تعالٰی نے فرمایا کہ ہم پہلے ہی وعدہ کر چکے ہیں کہ إِنِّي أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ.اب صرف اتنی بات ہے کہ ہم اپنے تئیں اس محل میں رہنے کے اہل ثابت کریں.پھر کچھ دن ہوئے میں نے دیکھا کہ انہی ہماری دوکانوں پر شیر حملہ کر رہا ہے.پس میں ڈر گیا اور بہت دعا کی اور بارگاہ الہی میں عرض کیا کہ طریق نجات کیا ہے؟ تو مجھ پر کھولا گیا کہ خدا کے حضور کھڑے رہنا اور دعائیں.طوفان میں ایک کشتی ہے جو ٹوٹی ہوئی ہے مگر دعاؤں سے جڑ سکتی ہے.پھر میں اس بات پر غور کر رہا تھا کہ ملک میں وہا کیوں پھیلتی ہے تو ایک ملک نے ابھی رستے میں آتے ہوئے مجھے تحریک کی کہ ما خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ الذريت:۵۷).ہر شخص فائدے کے لئے کوئی چیز بناتا ہے.مثلاً باغبان درخت لگاتا ہے.اب جب تک وہ چیز مثلا درخت فائدہ دے اسے نہیں اکھیڑا جاتا لیکن جب وہ غرض جس کے لئے وہ شے بنائی گئی پوری نہ کرے تو پھر اس شے کو توڑ دیا جاتا ہے.ادنی سے

Page 497

488 ادنی عقل کا زمیندار بھی اسی اصل پر عمل پیرا ہے.پس خدا جو حکموں میں سے بڑا حکیم ہے وہ بے فائدہ کسی چیز کو کیوں رکھے.جب انسان اس اصلی غرض کو پورا نہیں کرتا یعنی عبادت جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا تو پھر لا محالہ تباہ ہوتا ہے.ایسا ہی جو اپنے نمونہ سے یا دیگر حالات سے دوسروں کو خدا کی عبادت سے روکتا ہے اسے بھی ہلاک کیا جاتا ہے.خدا کے مامور دنیا میں بھلائی پھیلانے کے لئے آتے ہیں.وہ غافلوں کو بیدار کرتے ہیں مگر شریر لوگ بہر صورت اعتراض کرتے ہیں.اگر کوئی نئی بات سنائے تو کہتے ہیں یہ وہ باتیں سناتا ہے جو پہلوں نے نہیں سنائیں اور اگر وہی اگلی باتیں سنائے تو کہتے ہیں کوئی نئی بات نہیں پیش کرتا.نادان یہ نہیں سمجھتے کہ جب بدیاں بار بار کی جاتی ہیں اور شیطان اپنا وعظ ہر وقت کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ خود انسان کے اندر اس کے نفس کو بطور سفیر چھوڑ رکھا ہے تو کیا خدا اپنی طرف سے کوئی واعظ بار بار وہی نیکیاں سمجھانے کے لئے پیدا نہ کرے؟ تیرہ سو برس سے تو قرآن مجید کا وعظ ہو رہا ہے اور اس سے پہلے بھی کئی نبی آئے اور سب نے توحید کا وعظ کیا تو کیا ساری دنیا توحید پر قائم ہو گئی؟ پس ضرور ہے کہ توحید کا ذکر بار بار کیا جاوے.یاد رکھو خدا نے حضرت ابراہیم" سے فرمایا تھا کہ اگر لوط کی قوم میں سے پانچ چھ بھی نیک ہوں تو میں ان پر سے عذر اب ہٹالوں گا.مگر جب اس اندازے پر بھی نیک نہیں رہے تو پھر عذاب الہی آتا ہے.تم لوگ احمدی ہو اور احمدیت جہاں عذابوں سے بچاتی ہے وہاں سب سے پہلے ملزم بھی ہمیں ہی گردانتی ہے کیونکہ ہم لوگوں نے ایک مامور کو مانا.اس کے ہاتھ پر خدا و رسول کی اطاعت کا عہد کیا.اب اس کو توڑیں گے تو سب سے پہلے عذاب کے مستحق، أَعَاذَنَا اللَّهُ مِنْهَا، ہم ہیں.پس تم خدا کی طرف متوجہ ہو اور عبادت میں لگے رہو اور دعائیں کرتے رہو کیونکہ دعا عبادت کا مغز ہے.جب مغز عبادت تم حاصل کرو گے تو پھر تم بلاؤں سے محفوظ رہو گے.ایک باغبان بھی پھل والی شاخ کو نہیں کاٹتا.پس تمہارا خدا جو ارحم الراحمین ہے تمہیں ہلاک نہیں کرے گا.یونس کی قوم کافر تھی.صرف گڑ گڑانے سے ان پر سے عذاب ٹل گیا.تو کیا تم جو ایک نبی ایک مامور کے ماننے والے ہو تمہاری دعاؤں میں اتنا بھی اثر نہ ہو گا کہ عذاب الہی ہٹا لیا جائے؟ یونس تو چند ایک بستیوں کی طرف رسول ہو کر آئے تھے مگر تمہارے نبی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں تمام جہان کی طرف مامور ہو کر آئے تھے.پس تم اس کے پیرو ہو.دعاؤں سے کام لو صدقہ دو استغفار کرو اور خدا کی تسبیح و تقدیس کرو.اپنے دلوں کو پاک بناؤ کہ جب ایک شریف آدمی اروڑی پر نہیں بیٹھتا تو خدا تمہارے دلوں میں کس طرح نزول فرما ہو سکتا ہے جبکہ ان میں طرح طرح کے گند بھرے ہوئے ہوں.اپنی

Page 498

489 اصلاح کر لو اور عذاب کے نازل ہونے سے پہلے خدا کے حضور گڑ گڑاؤ.عذاب کے وقت تو فرعون بھی چلا اٹھا تھا مگر اس چلانے نے فائدہ نہ دیا.میں نے اپنا فرض تبلیغ ادا کر دیا.اب تمہارا فرض ہے کہ اپنی اصلاح کر لو اور راتوں کو خداتعالی کے سامنے کھڑے ہو ہو کر گڑ گڑاؤ تا بچائے جاؤ.اللہ تعالی تمہیں توفیق رے.( بدر جلد ۱۰نمبر ۱۸-۱۲۰ مارچ ۱۹۱۱ء صفحه ۲) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 499

وار مئی ۱۹۱۸ء 490 پہلا خطبہ بعد علالت ، تعوذ اور تسمیہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَ لتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (الحشر: 18) اور پھر فرمایا:.چھ مہینے گزر گئے ہیں.چھ ماہ کے بعد ساتواں شروع ہے جو مجھے کچا یہ موقع ملا ہے.ان چھ ماہ میں میں نے خوب تجربہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی کسی کے کام نہیں آتا.میرے دوستوں نے میرے لئے زور لگائے ، محنتیں اور خدمتیں کی ہیں.مگر میں نے دیکھا ہے کہ اللہ تعالی کا فضل نہ ہو تو کچھ بھی نہیں ہوتا.یہ زخم ہے.(ہاتھ لگا کر دکھایا.ایڈیٹر بارہا آواز آئی کہ اب دو دن میں اچھا ہو جائے گا.چار دن میں یا چھ دن میں اچھا ہو جاوے گا مگر چلتا ہی ہے.میں نے بہت ہی غور کیا ہے.خدا کے فضل کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا.اور یہ میں اپنے یقین اور تجربہ کی بنا پر کہتا ہوں کہ اللہ کو اپنا بناؤ.جب وہ ہمارا ہو جائے گاتو

Page 500

491 خطرات نور سب ہمارا ہی ہے.اور وہ تقویٰ اور صرف تقویٰ سے اپنا بنتا ہے.اس لئے اگر چاہتے ہو کہ اللہ تمہارا ہو جاوے تو ثم تقویٰ اختیار کرو.تقویٰ ایسی دولت ہے کہ اس سے بڑی بڑی مرادیں حاصل ہوتی ہیں.ہر شخص کی فطرت میں ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ کوئی اس کے ساتھ ہو اور وہ عظیم الشان ہو.متقی کے لئے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اِنَّ اللهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ (البقرة :۱۹۵) پس اللہ کی معیت سے بڑھ کر اور کیا چاہئے؟ پھر ہر شخص کی فطرت میں ہے کہ کوئی عظیم الشان اس سے محبت کرے.اور اللہ تعالی منتقلی سے آپ محبت کرتا ہے جیسا کہ فرمایا يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ (ال عمران (۷۷) جو اللہ تعالیٰ کا محبوب ہو جاوے اسے کسی اور کی حاجت کیا؟ پھر ہر شخص کو ضرورت ہے کہ اسے رزق ملے اور وہ کھانے پینے دوا علاج اور تیماردار، غرض بہت کی ضروریات کا محتاج ہے.مگر اللہ تعالیٰ متقی کو بشارت دیتا ہے يَرْزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (الطلاق: متقی کو ایسے طریق پر رزق ملتا ہے جو اسے وہم و گمان بھی نہیں ہو تا.پھر انسان مشکلات میں پھنستا ہے اور ان سے نجات اور رہائی چاہتا ہے.متقی کو ایسی مشکلات سے وہ آپ نجات دیتا ہے يَجْعَلْ لَّهُ مَخْرَجًا (الطلاق:۳) ہر قسم کی تنگی سے وہ آپ نجات دیتا ہے.یہ متقی کی شان ہے.پھر اللہ تعالیٰ متقی کو آپ پڑھا دیتا ہے.اگرچہ ہمارے ایک دوست ان معنوں کو پسند نہیں کرتے مگر میں نے غور کیا ہے تو یہ بالکل درست ہے وَاتَّقُوا اللهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللهُ (البقرة: ۲۸۳).پھر ہر قسم کے دکھوں کو سکھوں سے تقویٰ ہی بدل دیتا ہے يَجْعَل لَّهُ مِنْ اَمْرِهِ يُسْرًا (الطلاق:٥).پھر جب متقی انسان ان ثمرات کو پاتا ہے تو میرے دوستو! سب کو تقویٰ اختیار کرنا چاہئے.رزق کے لئے ، تنگی سے نجات کے لئے تقومی کرو.سکھ کی ضرورت ہے تقویٰ کرو.محبت چاہتے ہو تقویٰ کرو.سچا علم چاہتے ہو تقویٰ کرو.میں پھر کہتا ہوں تقویٰ کرو.تقویٰ سے خدا کی محبت ملتی ہے.وہ اللہ کا محبوب بنا دیتا ہے.دکھوں سے نکال کر سکھوں کا وارث بنا دیتا ہے.علوم صحیحہ اس کے ذریعہ ملتے ہیں.میں نے اس بیماری میں بڑے تجربے کئے ہیں اور ان سب تجربوں کے بعد کہتا ہوں.اللہ کے ہو جاؤ.اللہ کے سوا کوئی کسی کا نہیں.یہ میری وصیت ہے.پس تقویٰ کرو.وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ مومن کو چاہئے کہ جو کام کرے اس کے انجام کو پہلے سوچ لے کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا؟ انسان غضب کے وقت قتل کر دینا چاہتا ہے.گالی نکالتا ہے مگر وہ سوچے کہ اس کا انجام کیا ہو گا؟ اس اصل کو مد نظر رکھے تو تقویٰ کے طریق پر قدم مارنے کی توفیق ملے گی.نتائج کا خیال کیو نکر پیدا ہو.اس لئے اس بات پر ایمان رکھے کہ وَاللهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ جو کام

Page 501

492 ،، تم کرتے ہو اللہ تعالی کو اس کی خبر ہے.انسان اگر یہ یقین کرلے کہ کوئی خبیر علیم بادشاہ ہے جو ہر قسم کی بدکاری، دعا فریب، سستی اور کاہلی کو دیکھتا ہے اور اس کا بدلہ دے گا تو وہ بچ سکتا ہے.ایسا ایمان پیدا کرو.بہت سے لوگ ہیں جو اپنے فرائض نوکری حرفہ مزدوری وغیرہ میں سستی کرتے ہیں.ایسا کرنے سے رزق حلال نہیں رہتا.اللہ تعالیٰ سب کو تقویٰ کی توفیق دے.اب میں اس سے زیادہ کھڑا نہیں ہو سکتا.دوسرے خطبہ میں مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا کے متعلق فرمایا کہ انسان کو دکھ اور مصیبتیں آتی ہیں، اس کی اپنی ہی خطاؤں کا نتیجہ ہوتی ہیں.الحکم جلد ۱۵ نمبر ۲۰۱۹ --- ۲۸٬۲۱ مئی ۱۹۱۱ء صفحه ۲۵-۲۶)

Page 502

۲۶ مئی ۱۹۱۱ء 493 حضرت خلیفۃ المسیح کا دوسرا خطبہ بعد علالت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اس قدر جوش حضرت امیر المومنین کے دل میں ہے کہ باوجود اس قدر شدید گرمی اور ضعف کے آپ ۲۶ منی کے جمعہ میں جامع مسجد میں تشریف لے گئے اور مندرجہ ذیل خطبہ پڑھا.(ایڈیٹر) لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ وَ الْمَلائِكَةِ وَ الْكِتَابِ وَ النَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُتِهِ ذَوِي الْقُرْنِي وَ الْيَتَمَى وَ الْمَسْكِيْنَ وَ ابْنَ السَّبِيلِ وَ السَّائِلِينَ وَ فِى الرِّقَابِ وَ أَقَامَ الصَّلوةَ وَ آتَى الزَّكُوةَ وَ الْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا وَ الصَّابِرِينَ فِى الْبَاسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَ حِيْنَ الْبَأْسِ أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَ أُولئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ (البقره:۱۷۸)- انسان پر جناب الہی نے بڑے بڑے کرم ، غریب نوازیاں اور رحم کئے ہیں.اس کے سرسے لے کر پاؤں تک اس قدر ضرورتیں ہیں کہ یہ شمار نہیں کر سکتا.اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ

Page 503

494 اللهِ لا تُحْصُوهَا (ابراهیم (۳۵) اگر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور غریب نوازیوں کا مطالعہ کرو تو کیا گن سکتے ہو؟ ایک بال جو ان کا سفید ہو جائے تو گھبرا اٹھتا ہے اور حجام بلا کر نوچ ڈالتا ہے.اس وقت معلوم ہوتا ہے کہ یہ کیسی نعمت ہے.پھر کھانے پینے میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک کھانا غریب سے غریب آدمی کے سامنے بھی جو آتا ہے تو دیکھو کہ وہ پانی فلہ نمک کہاں کہاں سے آیا ہے اور اگر دال گوشت ، چاول بھی میز پر آجاوے تو دیکھو کہاں کہاں کی نعمت ہے اور ہر ایک کا جدا جدا مزا ہے.پھر ہوا روشنی وغیرہ کوئی ایک خت ہو تو اس کا شمار اور ذکر ہو.کسی نے مختصر ترجمہ کیا ہے.ابر و باد مه و خورشید هم در کار اند تا تو نانے کیف آری و غفلت نکنی سورج چاند کو دیکھتے ہیں.بادل اور ہوا کو دیکھتے ہیں.یہ سب تیری روٹی کے فکر میں ہیں.پھر جس کا کھائیں اور حکم نہ مانیں تو یہ نمک حرامی ہوئی یا کچھ اور ؟ کوئی کسی کا نوکر ہو ، اگر وہ آقا کی فرمانبرداری نہیں کرتا تو وہ نمک حرام کہلاتا ہے.پھر کس قدر افسوس ہے انسان پر کہ اللہ تعالیٰ کے لاانتہا انعام واکرام اس پر ہوں اور وہ غفلت کی زندگی بسر کرے.دو قسم کے لوگ دنیا میں ہیں.ایک کامیاب ہوتے ہیں، فاتح اور ملکوں کے بادشاہ ہوتے ہیں.صحابہ پر بھی وہ وقت آیا.اس لئے فرمایا لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ - آجکل جو مشرق و مغرب کی طرف منہ کر رہے ہو جدھر توجہ کرتے ہو جناب الہی دستگیری کر رہا ہے اور خدا کی توجہ بھی اسی طرف ہے.پس یاد رکھو ہماری مہربانیوں سے آرام پاتے ہو اگر وہ باتیں جو ہم بیان کرتے ہیں تو تمہارا فاتح ہونا اور دلدار ہونا کچھ کام نہیں آئے ال وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ نیک تو وہ شخص ہے یا نیکی تو اس شخص کی ہے جس کا اللہ تعالیٰ پر ایمان ہو.ایمان کیا چیز ہے؟ اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس کی کامل صفات کو مان لینا.پھر جب انسان کامل طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور جھک جاتا ہے اور اپنے آپ کو اس کے قبضہ قدرت میں یقین کرتا ہے تو پھر اللہ تعالٰی بھی اسی کا ہو جاتا ہے.مَنْ كَانَ لِلَّهِ كَانَ اللهُ لَهُ.کسی چیز پر ایمان وہ بری ہو یا بھلی اس کی پہچان کیا ہے؟ بھلی چیز پر ایمان ہو تو اس کے لینے میں مضائقہ نہیں کرتا.مثلا کھانا آتا ہے اور بھوک ہو تو اس کے لینے کے لئے ہاتھ بڑھاتا ہے.لیکن اگر بجائے کھانے کے آگ سامنے رکھ دی جاوے تو ہر چند بھوک ہو مگر چونکہ جانتا ہے کہ یہ آگ ہے، ہاتھ اس کی طرف اٹھتا ہی نہیں.میرے جیسی فطرت تو آگ کو تاپنا له نقل مطابق اصل

Page 504

495 بھی پسند نہیں کرتی.بارہا میں نے سنایا ہے کہ اگر پانچ سو اونٹ کی قطار ہو تو ایک لڑکا بھی ان کی تکمیل پکڑ کر لئے جاتا ہے.لیکن اگر اسے کنوئیں میں دھکیلنا چاہو تو پانچ سو آدمی بھی ایک اونٹ کو پکڑ کر کھینچیں تو وہ آگے نہیں بڑھتا.پس اسی طرح پر اگر انسان کو یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کیسی قادر، رحیم، علیم، خبیر رب رحمان رحیم اور مالک یوم الدین اور وہ شہنشاہ احکم الحاکمین ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہر وقت یہ خواہش نہ ہو کہ اسے راضی کیا جاوے.پھر اس نے اپنے رسولوں کی معرفت بتا دیا ہے کہ وہ کسی بدی پر راضی نہیں.میں سمجھ ہی نہیں سکتا کہ ایک شخص ایمان حقیقی رکھ کر سب نبیوں کی مشترکہ تعلیم کی خلاف ورزی کیوں کرتا ہے؟ کیا کسی بھی نبی کی تعلیم ہے کہ جھوٹ بولیں، دنیا کے حریص ہوں، کاہل بد معاشوں سے تعلق پیدا کریں؟ خدا تعالیٰ اس کو کبھی پسند نہیں کرتا اور ان تمام بدیوں سے بچنے کی ایک ہی راہ ہے کہ اللہ پر ایمان ہو.پس جو شخص مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ کا مصداق ہو وہ تمام نیکیوں کا گرویدہ اور بھلائیوں کا پسند کرنے والا ہو گا.اگر اس طرح یہ سمجھ نہیں آتا تو ایک اور راہ ہے جس پر چل کر انسان بدیوں سے بچ سکتا ہے.و الْيَوْمِ الْآخِرِ يوم آخرت پر ایمان ہو کہ بدیوں کی سزا ملے گی اور نیکیوں کا بدلہ نیک ملے گا.اگر انسان جزائے اعمال کو مانتا ہو اور اسے ایمان ہو تو وہ بدیوں سے بچ جاتا ہے.ایک شریف الطبع انسان کو کہہ دیں کہ دو روپیہ دیتے ہیں، بازار میں دو جوتے لگا لینے دو وہ کبھی پسند نہیں کرے گا.پھر یوم آخرت میں کب کوئی گوارا کر سکتا ہے.پس اس پر ایمان لا کر بدی نہیں کر سکتا.میں جانتا ہوں کہ ایک نوکر اپنے فرض منصبی میں سستی کر کے تنخواہ پا سکتا ہے.ایک اہل حرفہ دھوکہ دے کر قیمت وصول کر سکتا ہے.ایک شخص دوست کو دھوکہ دے کر آؤ بھگت کر سکتا ہے.یہ ممکن ہے لیکن اگر آخرت پر ایمان ہو کہ اللہ تعالیٰ کے حضور جا کر ان اعمال کی جوابدہی کرتا ہے تو ایسا عاقبت اندیش بدی کا ارتکاب نہیں کر سکتا.ایک لڑکا جو قلاقند کھاتا ہے اور باپ کو کہتا ہے کہ نب لئے تھے یا کاپی لی تھی، وہ سوچ لے کہ اس کا انجام کیا ہو گا؟ ایسا ہی جو لڑکا اپنے ہاتھوں سے اپنے قوائے شہوانی کو تحریک دیتا ہے، اس کا نتیجہ لازمی ہے کہ آنکھ اور دماغ خراب ہو جاوے.ہر ایک کام کے انجام کو سوچو ! پھر نیکی کی تحریک کے لئے ملائک بڑی نعمت ہیں.وہ انسان کے دل میں نیکی تحریک کرتے ہیں.اگر کوئی ان کے کہنے کو مان لے تو اس طبقہ کے جو ملائکہ ہیں، وہ سب اس کے دوست ہو جاتے ہیں.قرآن مجید میں فرمایا.نَحْنُ أَوْلَيْعُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا (حم السجدہ:۳۲) ایسی پاک مخلوق کسی کی دوست ہو اور کیا خواہش ہو سکتی ہے؟ پھر ایمان بالکتاب ہے اللہ کے فرمان اور حکم نامہ سے بڑھ کر کیا حکم

Page 505

496 نامہ ہو گا.بہت سے افعال ہیں جن کی بابت لوگ کہہ دیتے ہیں کہ یہ قانون قاعدہ اور تحریر کے خلاف ہے.یہاں سے کیسی نصیحت ملتی ہے کہ جب قوم، برادری اور ملکی قوانین کی خلاف ورزی اچھے نتائج انہیں کرتی تو اللہ تعالی کی کتاب اس کے قوانین اور قواعد کے خلاف کر کے انسان کب سر خرو ہو سکتا ہے؟ یہ تمام امور انسان کے عقائد کے متعلق ہیں.جب عقائد کی اصلاح ہو جاوے تو انسان کی عملی حالت پر اس کا اثر پڑتا ہے.فرمایا وَاتَّى الْمَالَ عَلى حُبّه (البقرة:۱۷۸) مال کو دے کہ اس کو محبت ہے یا خدا کی محبت کے لئے رشتہ داروں کو دے.رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کرنا بڑے بہادروں اور پاک بندوں کا کام ہے.کہیں شادی غمی، ناطہ رشتہ اور سلوک بدسلوک میں رنج پیدا ہو جاتا ہے.پھر بہت سے مشکلات پیدا ہو جاتے ہیں.اس واسطے ان سے سلوک بڑا بھاری کام ہے.پھر یتامیٰ سے سلوک کرو.مساکین جو بے دست و پا ہیں ان کی خبر گیری کرے.ایک جلد ساز ہے اس کے پاس تراش نہیں یا اور ضروری سامان نہیں.موچی کے پاس چھڑا نہیں.لوہار کے پاس ہتھوڑا نہیں.یہ سب مساکین میں داخل ہیں.وَابْنَ السَّبِيلِ مسافروں کو دو.پھر سَائِلِینَ کو دو.کیا خبر ہے ان کے پاس ہے یا نہیں، تم انہیں دو.وَفِي الرِّقَابِ غلاموں کے آزاد کرنے میں خرچ کرو.دیوانی کے مقدمات میں قیدی ہو جاتے ہیں، ان کو چھوڑانے میں خرچ کرو.اس کے بعد اَقَامَ الصَّلوةَ اور آتَى الزَّكَوةَ ہے.نماز مومن کا معراج ہے.نماز اللہ کی تسبیح و تحمید ہے.اللہ کے حضور دعا ہے.اس کے حضور جھک کر عرض کرنا ہے.اپنے محسن مربی خصوصاً خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اتباع کے لئے دعا ہے.پھر زکوۃ ہے.پھر وہ جو اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں.پہلا اقرار تو قَالُوا بَلی (الاعراف:۱۷۳) میں ہوا ہے.جب اللہ تعالیٰ کو اپنا رب مانتا ہے تو چوری کیوں کرتا ہے؟ بدذاتی کیوں کرتا ہے؟ جاہل ہے، پھر مسلمان کہلا کر اسلام کے دعویٰ سے تمام نیکیوں کا اقرار کرتا ہے.الْبَاسَاء انسان کو بیماری میں مشکلات آتے ہیں.مجھ پر تو اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہوا ہے.مجھے تو پتہ بھی نہیں لگا.گویا سویا ہوا تھا بیدار ہو گیا.مومن اور نیک مرد وہی ہیں جو بیماری غریبی میں نافرمان نہیں ہوتے.مقدمات میں سچائی کو ہاتھ سے نہیں دیتے.یہی لوگ راستباز اور متقی ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ تمہیں متقی کرے.جس قدر مجلس میں بیٹھے ہیں خدا ان سے راضی ہو اور ناراض نہ ہو.تم بھی خدا تعالیٰ سے راضی ہو اور وہ دستگیری کرے.کبھی اس کا شکوہ نہ کرو.

Page 506

3 با 497 خطبہ ثانیہ إن الله يأمر بالعدل والْإِحْسَانِ انصاف کرو یہ اللہ کا حکم ہے.دیکھو اگر تم کسی کو روپیہ دو اور وہ دھوکہ دے کر لے کیا تم پسند کرتے ہو کہ کوئی تمہارے ساتھ دھو کہ کرے؟ تم کسی کو ملازم رکھو اور وہ ستی سے کام کرے تو کیا تم پسند کرتے ہو؟ اگر نہیں تو پھر تم دوسروں کے ساتھ کیوں بدی کرتے ہو ؟ میں نے دیکھا ہے سردی کا موسم ہے اور سرد ہوا چل رہی ہے.بوندا بوندی ہو رہی ہے.ایک مزدور چوکیدار کہتا ہے.خبردار ہوشیار.وہ باہر پھرتا ہے.پھر کیسی افسوس اور تعجب کی بات ہے کہ وہ چند پیسوں کے لئے اتنا محتاط اور اپنے فرض کو ادا کرتا ہے اور ہم خدا کے بے انتہا فضلوں کو لے کر بھی تہجد کے لئے نہ اٹھیں.پھر کوئی ہمیں گالی دے، بہتان باندھے تو ناپسند کرتے ہیں.پھر دوسروں پر کیوں بہتان باندھیں.دوسروں کے گھر کی فحش باتیں کیوں سنتے ہو ؟ پھر تاکید ہے اِبْتَدَى ذِي الْقُرْنِی.بھائی ہے بہن ہے، چاہے ماں باپ اور بیوی کے رشتہ دار.يَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ جو بدیاں تمہاری ذات میں ہیں یا دوسروں پر اثر کرتی ہیں، ان سے رکو.پھر بغاوت سے منع کیا.بادشاہوں اور حکام کی مخالفت نہ کرو.یہ باتیں کیوں سکھاتا ہے؟ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقره:۳۳).تم جانتے ہو کہ میں کس تکلیف سے آیا ہوں.صرف تمہاری بھلائی چاہتا ہوں.تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا.جس کے لئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتا ہوں وہی بہتر بدلہ دینے والا ہے.اللہ تعالیٰ نے میری طبیعت تو ایسی بنائی ہے کہ تمہارے اٹھنے اور سلام کا بھی روادار نہیں ہوں.اللہ تعالیٰ تمہیں توفیق دے کہ تم متقی بنو.آمین الحکم جلد ۱۵ نمبر ۲۱ ۲۲.....۷ ۱۴۴ / جون ۱۹۱۱ء صفحہ ۶) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 507

19 جون ۱۹۱۱ء 498 خطبہ جمعہ اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَ إِيْتَايِ ذِي الْقُرْنِي وَ يَنْهَى عَنْ الْفَحْشَاءِ وَ الْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (النحل :(9) میں بڑے ارادہ سے آیا ہوں.بڑے اخلاص کے ساتھ درد مند دل لے کے یہاں کھڑا ہوں.ایک طرف پاؤں مضبوطی سے کھڑا نہیں ہوتا، دوسری طرف بات کہنے کو جی چاہتا ہے.بیماری میں ساتواں مہینہ ختم ہونے کو ہے مگر اللہ تعالیٰ نے زبان کو محفوظ رکھا ہے.بہکی بہکی باتیں کبھی نہیں کیں.ڈاکٹروں سے پوچھا ہے.انہوں نے شہادت دی ہے کہ کلوروفارم سونگھنے کی حالت میں بھی کوئی بہکی بات میرے منہ سے نہیں نکلی.پس اس وقت بقائمی ہوش و حواس تمہیں چند باتیں کہتا ہوں جو تم میں سے مان لے گا اس کا بھلا ہو گا اور جو نہ مانے گا اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے.إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انصاف کرو.تم میں سے کوئی بھی ایسا ہے جو چاہتا ہے یا پسند کرتا ہے کہ مجھے کوئی گالی دے یا میری کوئی ہتک کرے یا میرے ننگ و ناموس میں فرق ڈالے یا نقصان کرے یا بدی سے پیش آئے یا تحقیر کرے؟ میرا ملازم سستی سے کام لے ؟ جب تم نہیں چاہتے تو

Page 508

499 کیا یہ انصاف ہے کہ تم کسی کا مال ضائع کردیا کسی کو نقصان پہنچاؤ یا کسی کے لڑکے یا لڑکی کو بد نظری سے دیکھو ؟ تم عدل سے کام لو اور وہ سلوک کسی سے نہ کرو جو خود اپنے آپ سے نہیں چاہتے.اسی طرح جس سے پانچ دس روپے تنخواہ لیتے ہو اس کی فرمانبرداری کرتے ہو.پس جس نے آنکھیں دیں جن سے ہم دیکھتے ہیں ، کان دیئے جن سے ہم سنتے ہیں، زبان دی جس سے ہم بولتے ہیں، ناک دیا، پاؤں دیئے جن سے ہم چلتے ہیں ، عقل، فہم، فراست دی، اتنے بڑے محسن اتنے بڑے مربی اتنے بڑے خالق رزاق کی نافرمانی کریں تو کیا یہ عدل ہے؟ بس میں تمہیں بھی چھوٹا سا فقرہ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْل سنانے آیا ہوں اور میں تمہیں دوسری دفعہ ، تیسری دفعہ چوتھی دفعہ تاکید کرتا ہوں کہ خدا کے معاملہ میں اپنے معاملہ میں، غیروں کے معاملہ میں عدل سے کام لو.پھر اس سے ترقی کرو اور مخلوق الہی سے احسان کرو.اللہ تعالیٰ کے احسانوں کا مطالعہ کر کے اس کی فرمانبرداری میں بڑھو.حلال روزی کماؤ.حرام خوری سے نیکی کی توفیق نہیں ملتی.شاہ عبد القادر صاحب اپنا جو تا مسجد کے باہر اتارا کرتے اور شاہ رفیع الدین اندر لے جاتے پھر بھی ضائع ہو جاتا.شاہ عبد القادر صاحب نے بتایا کہ ہم باہر جو تا اتار کر یہ نیت کر لیتے ہیں کہ جو لے جائے اس کے لئے حلال.چونکہ چور کمبخت کے نصیب نه میں رزق حلال نہیں اس لئے اس کو اسے اٹھانے کا موقع ہی نہیں ملتا.غرض أكُل مَال بِالْبَاطِل کردو اور بیویوں کے ساتھ احسان کے ساتھ پیش آؤ.بیوی ، بچوں کے جننے اور پالنے میں سخت تکلیف اٹھاتی ہے.مرد کو اس کا ہزارواں حصہ بھی اس بارے میں تکلیف نہیں.ان کے حقوق کی نگہداشت کرو.وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ (البقرة :۱۲۹).ان کے قصوروں سے چشم پوشی کرو.اللہ تعالیٰ بہتر سے بہتر بدلہ دے گا.خطبہ ثانیہ دوسرے خطبہ میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بے حیائیوں سے اور ان امور سے جن سے دوسروں کو تکلیف پہنچے اور وہ منع کرے یا شریعت منع کرے اور بغاوت کی راہوں پر چلنے سے منع کرنا چاہتا ہے.وہ سننا کس کام کا جس کے ساتھ عمل نہ ہو.سنو! دل کو اس کے ساتھ حاضر کرو.اَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ.پھر عمل کرو.اگر عمل نہیں تو کوئی نیکی کوئی ایمانداری کوئی وعظ کسی کام نہیں.اس الحکم جلد ۱۵ نمبر ۱۴۴۷۰۰۰۲۴۴۲۳ جولائی ۱۹۱۱ء صفحہ ۳)

Page 509

۲۳ جون ۱۹۱۱ء 500 خطبہ جمعہ فرمایا.میری حالت یہ ہے کہ پانچ وقت کی نماز بیٹھ کر پڑھتا ہوں.سجدہ زمین پر کرنا مشکل ہے.التحیات میں پاؤں کی حالت بدلانی پڑتی ہے.باوجود اس ضعف کے چونکہ دردمند دل رکھتا ہوں اس لئے تمہیں کچھ سنانا چاہتا ہوں.زمانہ میں آزادی کی ہوا چل رہی ہے.اکثر انگریزی خوان اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء کی بھی ضرورت میں کچھ متامل ہیں اور کچھ ہنسی اور پرانی جہالت یقین کرتے ہیں.پس ایسے وقت نصیحت کرنا مشکل امر ہے.تاہم درد مند دل والا کیا کرے گا.وہ تو کہے گا اور جس کو کہنے کی دھت ہے وہ رک نہیں سکتا.کہے گا کہ شاید کسی کو فائدہ پہنچے.پس تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تقویٰ اختیار کرو.تقویٰ کی راہوں پر چلتے چلتے اس حد تک پہنچ جاؤ گے کہ تمہاری موت فرمانبرداروں کی موت ہو.اور یہ حالت اسی وقت پیدا ہو سکتی ہے کہ انسان پہلے ہی تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرے.اس وقت سب سے بڑا مرض جو اسلامیوں میں ہے وہ باہمی تفرقہ ہے.ہماری آوازیں مختلف ہیں، لباس مختلف کام مختلف کھانا پینا مختلف.باوجود اس اختلاف کے ہم میں وحدت کی ایک بات ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم سب مل کر خدا کی خادم جماعت بن جائیں.سو لوگوں کا اس طرف تو کچھ خیال نہیں اور

Page 510

501 بیہودہ بخشیں لے بیتے ہیں جن سے سوائے اس کے کچھ فائدہ نہیں کہ تفرقہ بڑھے.میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تفرقہ ڈالنے اور تفرقہ بڑھانے والی باتیں چھوڑ دیں.ایسی لغو بحثوں سے جن سے نہ دین کا فائدہ نہ دنیا کا منہ موڑ لو اور سب سے مل کر وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيْعًا ان (۱۰۴) حبل اللہ ، قرآن مجید کو محکم پکڑو.دیکھو! لڑکوں میں ایک رسے کا کھیل ہے.اگر ایک طرف کے لوگ اور باتوں میں لگ جاویں تو وہ رسے میں کس طرح جیت سکتے ہیں.اسی طرح اگر تم اور بحثوں میں لگ جاؤ گے تو قرآن مجید تمہارے ہاتھوں سے جاتا رہے گا.بعض آدمی ایسی باتوں میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں کہ مثلاً مسیح کا باپ تھا یا نہ تھا.ایسی بحثوں سے کوئی دینی دنیوی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا.ایسا ہی بعض لوگ صدر انجمن احمدیہ کے انتظامات پر اعتراض کرنے کے پیچھے پڑے رہتے ہیں.سو تم سن لو کہ میرے اور صد را مجمن کے تعلقات دوستانہ اور پیری مریدی کے رنگ میں ہیں.میں ان کا پیر ہوں اور وہ میرے مرید ہیں.وہ محبت اور اخلاص کے ساتھ میرے فرمانبردار ہیں.ہم ان پر حکمران ہیں، جو چاہیں منوا لیتے ہیں.جو لوگ اس بارے میں کچھ بحث کرتے ہیں وہ اپنا وقت ضائع کرتے ہیں.انہیں چاہئے کہ ان باتوں کو چھوڑ دیں کیونکہ ان کے واسطے یہ بحث فائدہ مند نہیں بلکہ نقصان دینے والی ہے.کیا انجمن تمہاری مرید ہے اور کیا اس تدبیر سے وہ تمہارے فرمانبردار ہو جاویں گے؟ نیز سن رکھو.دین اسلام میں بہت توسیع ہے.صحابہ کرام " آمین بالجہر بھی کہہ لیتے.آمین بالاخفاء بھی کر لیتے.سینہ پر بھی ہاتھ باندھتے اور ناف کے نیچے بھی.بسم اللہ جرا" بھی پڑھتے اور سرا" بھی اور بعض تابعین ہاتھ چھوڑ کر بھی نماز پڑھتے رہے.ایسے اختلافات پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں.صرف ان مباحث سے بے ہودہ تفرقہ پیدا ہوتا ہے.دل اللہ سے ڈرنے والا مانگو.بہت بولنے کی عادت کم کرو کہ بہت بولنے سے دل مرجاتا ہے.اور سب کے سب مل کر اتحاد و اتفاق سے کام کرو.خدا کا شکر کرو کہ اللہ تعالیٰ کا ایک بندہ آیا اور اس نے مختلف مذاہب والوں کو اختلاف کی آگ سے نکال کر بھائی بھائی بنادیا.( بدر جلد ۱۰ نمبر ۳۵-۲۹۰۰ / جون ۱۹۱۱ء صفحه ۲) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 511

۲۱ جولائی ۱۹۱۱ء 502 خطبہ جمعہ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی.انا اَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَ مَا أَدْرِيكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ - لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ - تَنَزَّلُ الْمَلَئِكَةُ وَالرُّوحُ فِيْهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ اَمْرٍ - سَلْمٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ - (القدر : تا ۶) اور پھر فرمایا :.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لائے تو اس وقت ان کی بعثت کی بڑی ضرورت تھی.لوگ نہ اسماء الہی کو جانتے تھے ، نہ صفات الہی کو.نہ افعال سے آگاہ تھے نہ جزا و سزا کے مسئلہ کو مانتے تھے.انسان کی بد بختی اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتی ہے کہ اپنے مالک اپنے خالق کے نہ اسماء کو جانے نہ صفات کو.غرض لوگ اس کی رضامندی سے آگاہ تھے نہ اس کے غضب سے.ایسا ہی انسانی حقوق سے بے خبر.

Page 512

503 سب سے بڑا مسئلہ جو انسان کو نیکیوں کی طرف توجہ دلاتا ہے وہ جزا و سزا کا مسئلہ ہے.اگر شریف الطبع انسان کو معلوم ہو کہ اس کام کے کرنے سے میری بہتک ہو گی یا مجھے نقصان پہنچے گا تو وہ کبھی اس کے قریب نہیں پھٹکتا بلکہ ہر فعل میں نگرانی کرتا ہے.مختلف طبائع کے لوگ اپنے مالک کے اسماء صفات کے علم اور جزاء سزا کے مسئلہ پر یقین کرنے سے نیکیوں کی طرف توجہ کرتے اور بد اعمالیوں سے رکتے ہیں.چنانچہ ملک عرب میں شراب کثرت سے پی جاتی اور اَلْخَمْرُ حَمَاءُ الْإِثْمِ صحیح بات ہے.پھر فرمایا النِّسَاءُ حَبَائِلُ الشَّيْطَانِ.سوم ملک میں کوئی قانون نہیں تھا.ایسا اندھیر پڑا ہوا تھا.جن سعادتمندوں نے نبی کریم میں اللہ کے ارشاد پر عمل کیا وہ پہلے بے خانماں تھے پھر بادشاہ ہو گئے.خشن پوش تھے حریر پوش بن سکتے.نہ مفتوح تھے نہ فاتح اگر اس اطاعت کی بدولت دنیا میں فاتح قوموں کے امام خلفائے راشدین اور اعلیٰ مرتبت سلاطین کہلائے.یہ سب اس کتاب کی برکت تھی جسے اللہ نے ایسی اندھیری رات میں جسے لیلۃ القدر سے تعبیر کیا گیا ہے اپنے بندے پر نازل کیا.جیسا کہ خدا تعالیٰ نے ایسے ہی حالات میں ہم میں ایک مجدد کو بھیجا.نبی کریم ملی کے زمانہ میں شرک کا زور تھا.سو اس کی تردید میں آپ نے پوری کوشش فرمائی.قرآن مجید کا کوئی رکوع شرک کی تردید سے خالی نہیں.اس زمانے میں لوگوں میں یہ مرض عام تھا کہ دنیا پر ستی غالب ہے، دین کی پروا نہیں.اس لئے آپ نے بیعت میں یہ عہد لینا شروع کیا کہ میں دین کو دنیا پر مقدم کروں گا.کیونکہ دنیا پرستی کا یہ حال ہے کہ جیسے چوہڑے کا چھرا حلال حرام جانور دونوں پر یکساں چلتا ہے، اسی طرح لوگوں کی فکر اور عقل حرام حلال کمائی کے حصول پر ہر وقت لگی رہتی ہے.فریب سے ملے، دعا سے ملے، چوری سے ملے، سینہ زوری سے ملے، کسی طرح روپیہ ملے سہی.ملازم ایک دوسرے سے تنخواہ کا سوال نہیں کرتے بلکہ پوچھتے ہیں بالائی آمدنی کیا ہے؟.گویا اصل تنخواہ آمد میں داخل نہیں.مسلمانوں پر ایک تو وہ وقت تھا کہ اپنی ولادت موت تک کی تاریخیں یاد اور لکھنے کا رواج تھا.یا اب یہ حال ہے کہ لین دین شراکت تجارت ہے مگر تحریر کوئی نہیں.اگر کوئی تحریر ہے تو ایسی بے جکم جس کا کوئی سر پیر نہیں.نہ اختلاف کا فیصلہ ہو سکتا ہے، نہ اصل بات سمجھ آسکتی ہے.ہمارے بھائیوں کو چاہئے کہ وہ امام کے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں ”دین کو دنیا پر مقدم کروں گا.پس وہ دنیا میں ایسے منہمک نہ ہوں کہ خدا بھول جاوے.

Page 513

504 پھر فرمایا کہ جھوٹے قصے اپنے وعظوں میں ہرگز روایت نہ کرو نہ سنو.مخلوق الہی کو قرآن مجید سناؤ.ہدایت کے لئے کافی ہے.سلیمان کی انگشتری اور بھٹیاری کا بھٹ جھونکنے کا قصہ بالکل لغو اور جھوٹ ہے.اگر ایک پتھر میں جو جمادات سے ہے اتنا کمال ہے تو کیا ایک برگزیدہ انسان میں جو اشرف المخلوقات ہے یہ کمال نہیں ہو سکتا؟ انبیاء کی ذات میں کمال ہوتے ہیں.اسی واسطے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ (الانعام: ۱۳۵) پس تم خوب یاد رکھو کہ انبیاء دنیا میں کبھی ذلیل نہیں ہوتے جیسے کہ سلیمان کی نسبت شیاطین نے دنیا میں مشہور کیا.اگر دنیا میں کوئی کسی کی شکل بن سکتا ہے تو امان ہی اٹھ جائے.مثلاً ایک نبی وعظ کرنے لگے.اب کسی کو کیا معلوم کہ یہ نبی ہے یا نعوذ باللہ کوئی برا آدمی ہے؟ خدا نے ایسی باتوں کا رد فرما دیا ہے كم مَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا (البقرة : ۱۲۳).تم ایسی باتوں سے توبہ کر لو.اگر کوئی ایسا وعظ سنائے تو صاف کہہ دو کہ انبیاء کی ذات جامع کمالات ایسے افتراؤں سے پاک ہے.( بدر جلد ۱۰ نمبر ۳۹ ----۲۷ / جولائی ۱۹۱۱ء صفحہ ۲)

Page 514

۲۵ ستمبر ۱۹۱۱ء 505 (خطبہ عید الفطر کے بعد وعظ ) رمایا :- میاں صاحب (صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد) نے آج عید کا خطبہ پڑھا ہے اور گزشتہ جمعہ کے دن بھی انہوں نے لطیف سے لطیف وعظ تمہیں سنایا تھا اور اگر تم لوگ غور کرتے تو وہ بہت ہی الطف بات ہوتی.میں نے اس خطبہ کی بہت قدر کی ہے اور اب بھی کرتا ہوں.وہ اپنے اندر نکات معرفت رکھتا تھا.میں امید کرتا ہوں کہ بہت سے شریف الطبع لوگوں نے اس سے فائدہ اٹھایا ہو گا.مگر بعض بلید الطبع گندے نابکار اور پلید طبع لوگ ہوتے ہیں.میں ہنوز اس خطبہ کی لذت میں تھا اور اس سے مجھے فرصت حاصل نہیں ہوئی تھی کہ میرے سامنے ایک خبیث طبع شخص نے ایک لمبا شکایتی رفعہ کسی کی غیبت میں پیش کر دیا.آہ! ان معرفت کے نکتوں نے اسے کوئی فائدہ نہ دیا.خدا کے کلام کی عجیب در عجیب باتوں سے بھی ایسے لوگ کچھ حاصل نہیں کرتے تو ہم انہیں کیا کہیں.یہ گندے بیمار ہیں.لطیف غذا بھی ان کے منہ میں جاکر گندی ہو جاتی ہے.

Page 515

506 عورت میں نے تم سے معاہدہ لیا ہے کہ شرک نہ کروب شرک کی باریک در باریک راہیں ہیں.بعض لوگ دعا کے واسطے مجھے اس طرح سے کہتے ہیں کہ گویا میں خدا کا ایجنٹ ہوں اور بہر حال ان کا کام کرا دوں گا.خوب یاد رکھو.میں ایجنٹ نہیں ہوں.میں اللہ کا ایک عاجز بندہ ہوں.میری ماں اعوان قوم کی ایک رت تھی.خدا کے فضل نے اسے علم عطا کیا تھا.میرا باپ ایک غریب محنتی آدمی تھا جو مختصری تجارت سے اپنا گزارا کر لیتا تھا.میں ایجنٹ نہیں ہوں.ہاں اللہ تعالیٰ کے آگے عاجزی کرنا میرا کام ہے.خدا نے عجیب در عجیب رنگوں میں دعا کرنا مجھے سکھایا ہے.دعاؤں میں تڑپنا اور قسم قسم کے الفاظ میں دعا کرنا مجھے بتایا گیا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے یہ تعلیم دی ہے.میں ان دعاؤں میں کبھی کبھی قبولیت کے اثر بھی دیکھتا ہوں.مگر جماعت کے بعض لوگ دعا کرانے کی درخواست میں بھی شرک کی حد تک پہنچ جاتے ہیں.یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں.کوئی تمہارا کارساز نہیں.میں علم غیب نہیں جانتا.نہ میں فرشتہ ہوں اور نہ میرے اندر فرشتہ بولتا ہے.اللہ ہی تمہارا معبود ہے.اسی کے تم ہم سب محتاج ہیں کیا مخفی اور کیا ظاہر رنگ میں.اس کی طاقت بہت وسیع ہے اور اس کا تصرف بہت بڑا ہے.وہ جو چاہتا ہے کر دیتا ہے.اس کا ایک نظارہ اس امر میں دیکھو کہ تم بھی مرزا کے مرید ہو اور میں بھی مرزا کا مرید ہوں.مگر اس نے تمہیں پکڑ کر میرے آگے جھکا دیا.اس میں نہ میری خواہش تھی اور نہ مجھ پر کسی انسان کا احسان ہے.میرے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی اور نہ یہ تمہاری کوششوں کا نتیجہ ہے.دیکھو میں بیمار ہوا.ڈاکٹروں نے کہا کہ اس کے بچنے کی امید نہیں.مگر میں زندہ بولتا موجود ہوں.خدا ہی کا علم کامل ہے، اس کا تصرف کامل ہے.اسی کے آگے سجدہ کرو اسی سے دعا مانگو.روزہ نماز دعا‘ وظیفہ طواف، سجدہ قربانی اللہ کے سوا دوسرے کے لئے جائز نہیں.بے ایمان شریروں نے لوگوں کے اندر شرک کی باتیں گھسادی ہیں.کہتے ہیں قبروں پر جاؤ اور قبروالے سے کہو کہ تو ہمارے لئے خدا کے آگے عرض کر.اسلام نے ہم کو اس طرح کی دعا نہیں سکھائی.سو تم شرک کو چھوڑ دو اور چوری نہ کرو.جو شخص نوکر ہے اور اپنے فرائض منصبی کو ادا نہیں کرتا وہ چور ہے.جو شخص تجارت کرتا ہے اور اپنے لین دین کا حساب صاف نہیں رکھتا اور اس کا معاملہ صاف نہیں، وہ چور ہے.اس کے مال میں چوری کا حصہ شامل ہو جاتا ہے.تم شراکتیں کرتے ہو.بعد میں تمہارے درمیان جوت چلتے ہیں.اس کا سبب کیا ہے؟ یہی کہ حلال کھانے کی طرف توجہ کم ہے.کسب والا جو اپنے کسب میں شرارت کرتا ہے، جعل ساز ، ٹھگ یہ سب چور ہیں.کیونکہ وہ اکل بالباطل کرتے ہیں.

Page 516

507 تم شرک نہ کرو ، چوری نہ کرو بد کاری نہ کرو.بد کاری آنکھ کی بھی ہوتی ہے ، بد کاری کان کی بھی ہوتی ہے اور بد کاری زبان کی بھی ہوتی ہے.کسی بدکاری کے بھی نزدیک نہ جاؤ.کسی پر بہتان نہ باند ھو.ابو داؤد میں ایک حدیث آئی ہے.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وبارک وسلم نے فرمایا کہ تمہاری طبائع ، خواہشات ، چال چلن، لباس، خوراک، تربیت، پرورش سب ایک دوسرے سے مختلف ہیں اس لئے تم لوگوں میں اختلافات ہوتے ہیں.تم ایسے اختلافات کو مجھ تک نہ پہنچایا کرو.ان سے میرا دل دکھی ہوتا ہے.پس تم کو میں بھی اسی طرح کہتا ہوں کہ ایسی باتیں مجھ تک نہ پہنچاؤ.مگر تم پہنچاتے ہو اور میرا دل دکھاتے ہو.تم میں بعض شریر گندے اور ناپاک لوگ ہیں وہ تمہیں آپس میں لڑانا چاہتے ہیں.ان میں بغض اور کینہ کا مرض ہے.وہ بد قسمت ہیں.وہ بہت بد قسمت ہیں.انہیں چاہئے کہ توبہ کریں اور جلد توبہ کریں.تم لوگ تفرقہ کو چھوڑ دو اور جھگڑے سے منہ موڑ لو.کوئی تمہارا اختلافی مسئلہ نہیں جس کا اللہ تعالیٰ کے محض فضل و کرم اور اس کی تعلیم سے میں فیصلہ نہیں کر سکتا.تم اکثر جاہل ہو.خدا نے مجھے علم دیا ہے.اللہ تعالیٰ نے مجھے نیکی کی راہ پر آگہی دی ہے.تم میں گندے باہم لڑانے والے بھی ہیں اور وہ سخت گندے ہیں.وہ اس حکم الہی سے غافل ہیں جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تَنَازَعُوا (الانفال:۴۷) اور آپس میں جھگڑا نہ کر.فَتَفْشَلُوا (الانفال (۳۷) پس بودے ہو جاؤ گے.وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ (الانفال:۴۷) اور تمہاری ہوا جاتی رہے گی.تم نے مجھے دکھ دیا ہے.تمہاری تحریریں میں نے پڑھی ہیں اور ان سے مجھے سخت رنج پہنچا ہے.تم میں سے بعض چھوٹے چھوٹے لڑکے مجھ بڑھے کو سکھانے کی کوشش کرتے ہیں.ان سے خبردار رہو.اور وہ آپ خود بخود بلا اجازت مخلوق کے واعظ بنتے ہیں اور جوش بھرے کلمات منہ سے نکالتے ہیں.ان سے میرا دل بہت رنجیدہ ہے کیونکہ انہوں نے مجھے بہت دکھ دیا ہے.غرض آپس میں لڑائیاں چھوڑ دو.کینے چھوڑ دو.اگر دوسرا کوئی تمہیں کچھ کہے تو اس کی باتوں پر صبر کرو.ایسا نہ کرو کہ وہ تمہیں ایک ورق لکھے تو تم اس کے جواب میں چار ورق لکھو.صبر کے سوائے کبھی لڑائی ختم نہیں ہوتی.میں نہیں جانتا کہ میرا مرید کون ہے.میرا مرید وہی ہے جو ان معاہدات پر عمل کرتا ہے جو اس نے میرے ساتھ کئے ہیں.میرا مرید وہی ہے جو ان باتوں پر عمل کرے جو حضرت صاحب نے حکم دیئے تھے.بعض لوگ صرف تماشا کے طور پر باتیں سنتے ہیں وہ بد قسمت ہیں.مجھے کوئی غیب کا علم نہیں.میرا زخم باجرے کے دانہ کے برابر ہے.میرے گیارہ دوست ڈاکٹروں نے بڑے بڑے زور سے علاج کیا ہے مگر وہ اب تک اچھا نہیں ہوا.میں بچپن سے شرک سے بیزار لا إله إلا الله کا بدل معتقد اور زبان سے قائل ہوں.اللہ تعالیٰ اس خاندان پر رحم کرے جس سے میں

Page 517

508 نے یہ پاک تعلیم پائی.مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ کا اعتقاد لَا إِلَهَ إِلَّا الله کا متمم جزو ہے.اس کو بھی میں نے ابتدا سے پایا ہے وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن.کوئی میری باتوں کو پسندیدگی سے لے یا نا پسندیدگی سے ، مجھے نہ اس کی پرواہ ہے نہ اس کی.میرا کام اس وقت تبلیغ ہے.ہاں میرے دل میں ایک جوش ہے.میں چاہتا ہوں کہ تمہارے درمیان جو تنازعات ہیں وہ دور ہو جائیں.تم ان جھگڑوں کو چھوڑ دو.ورنہ یاد رکھو کہ تم دنیا سے نہیں جاؤ گے جب تک کہ دکھ نہ پالو.لڑائی تنازع نہ کرو.تو بہ کرو.جو حاضر ہے وہ سن لے.جو نہیں اس کو حاضرین سنادیں.جو تم میں ان باتوں پر عمل کرنے والا ہے اس کا بھلا ہو گا اور جو نہیں مانتا اس کو میں اللہ کے حوالہ کرتا ہوں.والسلام علیکم.( بدر جلد ۱۰ نمبر ۰۴۵٬۴۴-۱۵ اکتوبر ۱۹۱ء صفحه ۷۶) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 518

۲۷ اکتوبر ۱۹۱۱ء مسجد اقصیٰ قادیان 509 خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے مسجد اقصیٰ میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور نماز پڑھائی.خطبہ میں آپ نے فرمایا.انسان کی فطرت ہے کہ اپنے سے زیادہ طاقت والے کی ہمیشہ اطاعت کرتا ہے.عقلمندوں کا یہی کام ہے.اور جو ایسا نہ کرے لوگ اسے ملامت کرتے ہیں.اسی فطرت انسانی کو نگاہ رکھ کر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ (انس :) بہت برکت والا وہ رب ہے جس کے ہاتھ میں سب بادشاہی ہے.سارا جہان اسی کے قبضہ قدرت میں ہے.وہ جسے چاہتا ہے بڑا بناتا ہے اور جس گھرانے کو چاہتا ہے بڑھاتا ہے.اسی طرح وہ ملکوں کو بڑھاتا ہے پھر انہیں زوال دیتا ہے.سب راج جس کے ہاتھ میں ہے وہ اللہ ہے.اگر تمہارا دل چاہتا ہے کہ کسی طاقتور کے ساتھ تمہارا تعلق ہو اگر تمہاری خواہش ہے کہ کسی حکومت والے کے ساتھ تمہاری دوستی ہو ، اگر تم پسند کرتے ہو کہ کوئی دولت والا تمہارا اپنا ہو تو یاد رکھو ہم بڑھے ہیں.معلوم نہیں کس وقت موت آجائے.ہماری بات یاد رکھو.اگر خدا کے ساتھ تمہارا 1

Page 519

510 تعلق ہے تو سب کچھ تمہیں حاصل ہے ورنہ کچھ بھی نہیں.میں نے بڑی بڑی ظاہری طاقتوں والے دیکھے کہ ان کے نام و نشان مٹ گئے.اللہ تعالیٰ کے برابر کوئی بابرکت نہیں.وہ مٹی سے انسان کو بناتا ہے اور وہ بڑوں کو خاک میں ملا دیتا ہے.سب کچھ اس کے اختیار میں ہے.یہ ایک نکتہ معرفت ہے.خدا کے سوا کسی پر بھروسہ نہ کرنا.بعض لوگ یہی تجویز میں کرتے رہتے ہیں کہ ہم کس سے اور کس طرح روپیہ حاصل کریں اور پھر اسی میں مرجاتے ہیں.اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی محبت اور اپنی کتاب کی محبت اور اپنے رسول کی محبت عطا کرے.سن رکھو کہ مجھے اللہ نے تین محبوب بخشے ہیں.سب سے پہلا میرا محبوب اللہ ہے.پھر اس کی کتاب ہے.پھر میرا محبوب وہ جامع کمالات انسانی ہے جس کے ذریعہ سے ان دو کا پتہ ملا.وہ خاتم الرسل ہے.اور میری دعا ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ ہمارا انجام کرے.آمین ( بدر جلد نمبر۰۱-۲۰/ نومبر ۱۹۱۱ء صفحہ ۲) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 520

ار نومبر ۱۹۱۱ء 511 خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا.قرآن شریف اللہ تعالیٰ کا کلام ہے.جس طرح خدا تعالیٰ کی کوئی حد وبسط نہیں، اسی طرح اس کے کلام کی بھی کوئی حدوبسط نہیں.لہذا کلام الہی کی تفسیر کو ہم کسی خاص معنی میں محدود نہیں کر سکتے.قرآن شریف اللہ تعالی کا کلام ہے.بظاہر چاہئے تھا کہ خدا ہی اس کی کوئی تفسیر کر دیتا مگر خداتعالی نے اپنی کتاب کی کوئی تفسیر نازل نہیں فرمائی.پھر نبی کریم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی قرآن شریف کی کوئی تفسیر نہیں کی.ان کے بعد خلفائے راشدین کا حق تھا انہوں نے بھی کوئی تفسیر نہیں کی.پھر فقہ کے ائمہ اربعہ گزرے ہیں.حضرت امام ابو حنیفہ ۸۴ ہجری میں ہوئے.بہت قریب وقت میں تھے.صحابہ کو دیکھا مگر کوئی تفسیر قرآن شریف کی نہ لکھی.پھر امام شافعی ہوئے.امام مالک ہوئے.امام احمد ضبل ہوئے.مگر کسی نے قرآن شریف کی تفسیر نہ لکھی.پھر محد ثین بخاری، ترمذی، ابوداؤد بڑے شاندار لوگ گزرے ہیں.پر انہوں نے بھی کوئی تفسیر نہیں لکھی.صوفیائے کرام میں خواجہ معین الدین

Page 521

512 شهاب الدین سهروردی، حضرت مجدد شاہ نقشبند حضرت سید عبدالقادر جیلانی بڑے عظیم الشان لوگ ہوئے.علم ظاہر کے ساتھ علم باطن بھی رکھتے تھے.مگر کسی نے کوئی تفسیر نہیں لکھی.حضرت شیخ شہاب الدین کی ایک تفسیر ہے.مگر اس میں انہوں نے اپنی کوئی تحقیقات نہیں لکھی.میں نے بھی ایک تفسیر لکھی تھی اور لوگوں نے اصرار کیا کہ جلد چھپواؤ.مگر میں نے سوچا کہ میری تفسیر کو دیکھ کر بعد میں آنے والے لوگ ان معنوں پر حصر کرنے لگیں گے کہ یہی معنے ہیں اور بس.اور اس طرح قرآن شریف کے حقائق و معارف کا دروازہ آئندہ کے لئے اپنے اوپر بند کریں گے.یہ مولا کریم کی کتاب ہے.ہر زمانہ کے مباحثات کا اس میں جواب ہے.اور ہر زمانہ کے لئے شِفَاء لِمَا فِي الصُّدُورِ ہے.اس کو محدود نہیں کر دینا چاہئے.ہاں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ تفسیر میں لغت عرب سے باہر نہ نکلیں.اللہ تعالیٰ کے اسماء جو قرآن شریف میں ہیں، ان سے باہر نہ جائیں.چودہ ضروریات 1- !ام ہیں.کلمہ شہادت ، نماز ، روزہ ، زکوۃ، حج ، امر بالمعروف نہی عن المنکر یہ سات ہوئے.ایسا ہی سات عقائد ہیں.اللہ تعالیٰ پر ایمان فرشتوں پر کتب اللیہ پر انبیاء پر تقدیر پر جزاء وسزا پر جن میں جنت و نار شامل ہیں.یہ کل چودہ باتیں ہیں جو تمام مسلمانوں میں مشترکہ ہیں اور ان کا منکر اسلام سے باہر ہے.یہ چودہ علوم ہیں.ان کے خلاف نہ کسی کا قول نہ کسی کا فعل جائز ہے.کوئی تفسیر ان کے خلاف نہ ہو.سوم تعامل کے برخلاف جو بات کوئی پیش کرے وہ ماننے کے قابل نہیں.تفسیر کے وقت ان باتوں کو نگاہ میں ) رکھنا چاہئے اور اس کے بعد جس طرح خدا کے عجائبات بے انتہاء ہیں اسی طرح اس کے کلام کے معارف بھی بے انتہاء ہیں.قرآن شریف ایک سمند رہے.(بدر جلد نمبر ۵۴.......۱۶/ نومبر ۱۹۱۱ء صفحہ ۲) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 522

33 ۸ دسمبر ۱۹۱۱ء 513 خطبه جمعه تشهد و تعوذ کے بعد آپ نے فرمایا:.وَ مَنْ يَّرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ وَ لَقَدِ اصْطَفَيْنَهُ فِي الدُّنْيَا وَ إِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّلِحِيْنَ - إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِيْنَ - وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيْهِ وَ يَعْقُوبُ - يُبَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلَاتَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُونَ - أَمْ كُنْتُمْ شَهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيْهِ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِى قَالُوا نَعْبُدُ الْهَكَ وَإِلَهَ ابَآئِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَعِيلَ وَإِسْحَقَ الْهَا وَاحِدًا وَّنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (البقره: ۱۳۱ تا ۱۳۴) دنیا کی بڑی بڑی قومیں اہل اسلام تمام عیسائی، تمام یہودی، سارا یورپ سارا امریکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بڑی تعظیم سے یاد کرتے ہیں اور سب ابراہیم علیہ السلام کے عظیم الشان انسان ہونے کے

Page 523

514 معتقد ہیں.ابراہیم علیہ السلام میں اس قدر خوبیاں اور برکتیں تھیں کہ ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اے ابراہیم! اگر تمام آسمان کے ستارے اور زمین کے ذرات گن سکتا ہے تو گن.اسی قدر تیری اولاد ہو گی.مکہ معظمہ میں جہاں جہاں حضرت ابراہیم کھڑے ہوئے، جہاں جہاں چلے پھرے اور جہاں جہاں دوڑے ہیں یہ سب حرکات اللہ تعالیٰ نے عبادات میں داخل کر دیں.اخیر عمر میں ایک شہزادی بھی آپ کے نکاح میں آئی.ننانوے سال کی عمر میں اللہ تعالیٰ نے ایک صالح اور نیک لڑکا عطا فرمایا.مال مویشی کثرت سے تھے اور بیبیاں اور بچے بھی تھے.دنیوی دلجمعی کے اسباب بھی سارے مہیا تھے.جب مهمان آیا تو معأ عجل حَنيذ بھنا ہوا گوشت مہمان کے سامنے لا حاضر کیا.اگر اسباب مہیانہ ہوتے تو معاً یہ تیاری ناممکن تھی.وہ گر جس کے سبب سے اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کو یہ دین و دنیا کی برکتیں عطاء کی تھیں وہ کیا تھا؟ جو سارے پیغمبر موسی داؤد عیسی ساروں کو ابرہیم کی ہی برکت سے حصہ ملا تھا اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ اور كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ میں بھی ای مماثلت کی دعا سکھلائی ہے.جڑان برکتوں کی اور گران تمام نعمتوں کا کیا تھا؟ بس یہی ایک گر تھا اِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمُ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ جب کہا اس کو اس کے رب نے کہ تو فرماں بردار ہو جا.عرض کیا کہ میں فرمانبردار ہو چکا.تو تو رب العالمین ہے.تیری فرمانبرداری سے کون اعراض کرے سوائے اس کے جو کہ بے وقوف ہو.اللہ اللہ ! رب العالمین اور اس کی کچی فرمانبرداری! اس سے بڑھ کر اور کیا چاہئے.یہ گر دینی و دنیوی برکتوں کا نہ صرف اپنے ہی لئے ابراہیم علیہ السلام نے تجویز کیا بلکہ اپنے بیٹوں کے لئے اور ان بیٹوں نے ابراہیم کے پوتوں کے لئے بھی یہی اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ (البقرة:۳۲) سے سبق حاصل کر کے استحضار موت کے وقت و صیتیں کیں.وَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيْهِ وَيَعْقُوبُ يَابَنِيَّ إِنَّ اللهَ اصْطَفى لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ - أَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيْهِ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِى قَالُوا نَعْبُدُ الْهَكَ وَإِلَهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَعِيلَ وَ إسْحَقَ الْهَا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ.میں بھی تم کو تمام خوشحالیوں کا گر بتاتا ہوں کہ تم بھی رب العالمین کے فرمانبردار بن جاؤ.کسی میں تکبر فرمانبردار بن جانے میں حجاب ہو تا ہے.کسی میں کسل فرمانبرداری کے لئے حجاب ہوتا ہے.کسل کو دور کرو اور اتباع نبوی کا التزام رکھو.اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے.قُلْ اِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله (ال عمران:۳۲).دوسری جگہ فرمایا ہے

Page 524

515 (البقرة:۳۹).مگر إمَّا يَأْتِينَّكُمْ مِنّى هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ مشکل یہ ہے کہ یا تو کسل ہوتا ہے یا اپنی ہی انکل سے کاموں کے وقت اپنا ایک مذہب بنالیتے ہیں.اللہ تعالی تمہیں توفیق دے کہ متبع ہو جاؤ اور فرمانبردار بن جاؤ.آمین بدر جلد نمبر ۰۱۱-۱۴ دسمبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 525

۱۵ دسمبر ۱۹۱۱ء 516 خطبہ جمعہ إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ - فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ - إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ (الکوثر:۲ تا ۴) کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.میں اس بات میں خوش ہوں کہ ہر روز مجھے دن میں چار مرتبہ روحانی غذا پہنچتی ہے.صبح مستورات میں درس قرآن شریف سناتا ہوں.دوپہر کو حدیث شریف باہر پڑھاتا ہوں.سہ پہر کو بھی درس تدریس ہی رہتا ہے.شام کو مغرب سے پہلے پھر درس قرآن شریف ہوتا ہے.ان چھوٹے دنوں میں روح کی ان بار بار کی غذاؤں کا میں بھی محتاج ہوں.کوثر کے معنی خیر کثیر کے ہیں.پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دنیا میں تنہا تھے.بعد میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو کیا کچھ خیر کثیر دیا اور دیتا جا رہا ہے.سکھوں کا مذہب صرف اتنا ہی ہے کہ اللہ کو ایک مان لو اور دعا کر لو.کوئی زیادہ قیدیں اس مذہب میں نہیں.مگر باوجود اس آسانی کے پھر بھی اس مذہب میں کوئی ترقی نہیں.بخلاف اسلام کے کہ اس میں بہت ساری پابندیاں ہیں.نماز کی روزہ کی حج کی زکوۃ کی اور دیگر

Page 526

517 عبادات کی معاملات کی ، مگر باوجود ان تمام پابندیوں کے اسلام میں روز بروز ترقی ہے.یہ کیسا خیر کثیر ہے جو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو عطا ہو رہا ہے.ایک ملا تو کہے گا کہ اعطینا صیغہ ماضی کا بمعنی مضارع ہے.آخرت میں آپ کو حوض کوثر عطا ہو گا.اَسْلَمْنَا.اس میں کلام نہیں کہ آخرت میں حوض کوثر آپ کو عطا ہو گا.مگر اس میں کیا شک ہے کہ دنیا میں جس کثرت سے آپ پر عطیات الہی ہوئے وہ احد و بے مثل ہیں.کوثر کا لفظ کثیر سے مشتق ہے.پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ایک بے ایک صحابی ہیں ، چالیسں بلکہ ساتھ پر فاتح ہوا.خود پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مقام مقبلا نہ ایسا تھا کہ جس کی نظیر نہیں.پنجوقت نماز آپ خود پڑھاتے تھے.سارے قضایا آپ خود ہی فیصلہ کرتے تھے.بیویاں جس قدر آپ کی تھیں ان کی خاطر داری اس قدر تھی کہ سب آپ سے خوش تھیں.لوگ کہتے ہیں کہ اس زمانہ کی عورتوں کی پوزیشن ہی کچھ ایسی تھی کہ زیادہ تکلفات نہ تھے.مگر عورتوں کی جبلت کا بیان یوں فرمایا ہے کہ مرد کی عقل کو چرخ دینے والی عورتوں سے بڑھ کر اور کوئی مخلوق میں نے نہیں دیکھی کہ عقلمند مرد کی عقل کو کھو دیتی ہیں.عورتوں پر ہر بات میں تشدد مت کرو.لڑکوں کو بھی مارنے اور سزا دینے کا میں سخت مخالف ہوں.حضرت صاحب بھی لڑکوں کو مارنے سے بہت منع کیا کرتے تھے.میں تو انگریزی پڑھا نہیں.سنا ہے کہ یونیورسٹی کی بھی یہی ہدایت ہے کہ استاد طلباء کو نہ مارا کریں.باوجود ان تاکیدوں کے لوگ بچوں کے مارنے سے باز نہیں آتے اور سمجھتے ہیں کہ یہ تو ہمارا فرض منصبی ہے.وہ جھوٹ کہتے ہیں.بہت لوگ ہیں کہ وعظ کرنا تو سیکھ لیتے ہیں مگر خود عمل درآمد نہیں سیکھتے.تمہارے ہاتھوں میں اب سلطنت نہیں رہی.اگر تم اچھے ہوتے تو سلطنتیں تم سے نہ چھینی جاتیں.(پدر جلد نمبر ۱۲-۲۱۰۰۰ دسمبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 527

۲۵ دسمبر ۱۹۱۱ء قبل دو پہر.قادیان 518 خطبہ نکاح حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ نے مفتی فضل احمد صاحب کا نکاح میاں اللہ دتا ساکن جموں کی دختر نیک اختر سے پڑھا.اس موقع پر حضور نے جو خطبہ ارشاد فرمایا اس کا خلاصہ ایڈیٹر کے الفاظ میں درج ذیل ہے.نکاح ایک ایسا معاملہ ہے کہ جس میں انسان کا تعلق ایک اور وجود کے ساتھ ہوتا ہے اور انسان اپنی کم علمی کی وجہ سے نہیں جان سکتا کہ یہ تعلق مفید اور بابرکت ہو گا یا نہیں.بعض اوقات بڑے بڑے مشکلات پیش آجاتے ہیں یہاں تک کہ انسان کی زندگی تلخ ہو جاتی ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑا ہی احسان فرمایا ہے کہ ہم کو ایسی راہ بتائی ہے کہ ہم اگر اس پر عمل کریں تو انشاء اللہ نکاح ضرور سکھ کا موجب ہو گا اور جو غرض اور مقصود قرآن مجید میں نکاح سے بتایا گیا ہے کہ وہ تسکین اور مودۃ کا باعث ہو وہ پیدا ہوتی ہے.سب سے پہلی تدبیر یہ بتائی کہ نکاح کی غرض ذَاتَ الدِّينِ ہو.حسن و جمال کی فریفتگی یا مال و دولت کا حصول یا محض اعلیٰ حسب و نسب اس کے محرکات نہ ہوں.پہلے نیت نیک ہو.پھر اس کے بعد دوسرا

Page 528

519 کام یہ ہے کہ نکاح سے پہلے بہت استخارہ کرو اور دعائیں کرو.دعاؤں اور استخاروں کے بعد جب نکاح کا موقع آتا ہے تو جو خطبہ اس وقت پڑھا جاتا ہے وہ یہ ہے.الْحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيَاتِ اَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَ مَنْ يُضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ وَ اَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ - يُأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُونَ (ال عمران: يُأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا) (النساء:۲)- يُأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُولُوا قَوْلاً سَدِيدًا - يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَ مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَ رَسُوْلَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا (الاحزاب: ۷۲۷۱) ترجمہ :.سب تعریفیں واسطے اللہ کے.ہم حمد کرتے ہیں اور ہم مدد چاہتے ہیں اور ہم استغفار کرتے ہیں اور پناہ مانگتے ہیں اپنے نفسوں کے شر سے اور اپنے اعمال کی برائیوں سے.جس کو اللہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے اللہ گمراہ قرار دے اسے ہدایت کرنے والا کون؟ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد " اس کا بندہ اور رسول ہے.اے ایماندارو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جیسا کہ اس کا تقویٰ کرنے کا حق ہے.اور تم ایسے محتاط رہو کہ تمہاری موت فرمانبرداری کی حالت میں ہو.اے لوگو! اپنے رب کا تقویٰ کرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کی قسم سے اس کا زوج پیدا کیا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں.اور جس کا آپس میں واسطہ دیتے ہو.اور ناطے والوں کے حقوق کی محافظت کرو.اللہ تم پر نگہبان ہے.اے ایماندارو! اللہ سے ڈرو اور سچی بات کہو.سنوار دے تمہارے کام اور بخش دے تمہارے گناہ.اور جو اطاعت کرے اللہ کی اور اس کے رسول کی پس وہ بڑا کامیاب ہوا.اس خطبہ میں بھی اس امر کی طرف متوجہ کیا ہے کہ ان دعاؤں سے کام لے اور اپنے اعمال و افعال کے انجام کو سوچے اور غور کرے.پھر نکاح کی مبارکباد کے موقع پر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا سکھائی بَاركَ اللهُ لَكَ وَبَارَكَ عَلَيْكَ وَ جَمَعَ بَيْنَكُمَا فِي خَيْرٍ (جامع ترمذی کتاب النکاح باب ما جاء للمتزوج) یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے اور تم دونوں پر برکت نازل کرے اور تم دونوں کو نیکی پر

Page 529

520 جمع کرے.پھر مباشرت کے وقت بھی دعا سکھائی.ایسے وقت میں کہ انسان جوش میں بے خود ہوتا ہے اس وقت میں بھی دعا کی طرف متوجہ کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کمال کی دلیل ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ سے کتنا عظیم تعلق ہے.یہ بات ہر شخص نہیں سمجھ سکتا.اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طہارت قلب اور باخدا زندگی کا پتہ لگتا ہے.ایسے وقت میں کہ انسان کی شہوانی قوتیں ہیجان میں ہوں اسے خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کرنا معمولی امر نہیں ہو سکتا.مگر آپ نے حکم دیا کہ اس وقت انسان دعا کرے بِسْمِ اللهِ اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ وَجَيْبِ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا (بخاری کتاب الدعوت باب ما یقول اذا اتی اهله الله کے نام سے یا اللہ ! ہم کو شیطان سے دور رکھ اور اس وجود کو بھی شیطان سے بچائیو جو تو نے ہم کو عطا کیا.یعنی اس تعلق سے جو اولاد پیدا ہو اس کو بھی شیطان سے محفوظ رکھیو.اس دعا میں عجیب فلسفہ ہے.موجودہ دنیا میں یہ طبی انکشاف ہوا ہے کہ جماع کے وقت بلکہ اس سے بھی پہلے ایک سال تک کے خیالات کا اثر بچے پر ہوتا ہے.مگر دیکھو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر کیسی دور تک گئی ہے.آپ نے نکاح کے پاک تعلق سے بھی پہلے ایسی تربیت شروع کی کہ دعاؤں میں انسان نشو و نما پائے.اب جس شخص نے دعاؤں اور استخاروں کے بعد نکاح کیا اس کے خیالات اور ارادوں کی کیفیت معلوم ہو سکتی ہے.پھر جب جماع کے وقت وہ شیطان سے محفوظ رہنے کی دعا کرے گا تو تم سوچو کہ بچے میں ان کا کیسا پاک اثر پڑے گا.اور پھر جس تربیت کے نیچے بچے کو آئندہ رکھا جاتا ہے وہ جدا امر ہے.غرض انسان دعاؤں سے بہت کام لے.اگر کسی شخص سے یہ کو تاہی ہو گئی ہو کہ کوئی اس طریق پر نکاح نہ کر سکا ہو اور اسے دعاؤں کا یہ موقع نہ رہا ہو تو پھر بھی گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے.اس کے لئے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک احسان ہم پر کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ایسے لوگ بچے دل سے یہ پڑھیں اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ اللَّهُمَّ أَجِرْنِي فِي مُصِيبَتِي وَاخْلُفْ لِي خَيْرًا مِنْهَا (جامع مسلم کتاب الجنائز).میرا ایمان ہے اگر کوئی شخص بچے دل سے یہ دعا پڑھے اور استغفار کرے تو اللہ تعالیٰ ان غلطیوں کے برے نتائج سے اسے محفوظ رکھے گا.غرض نکاح میں ان امور کو مد نظر رکھو اور ضرور رکھو.ان باتوں کو دوسرے لوگوں تک پہنچا دو.ا حکم جلد ۱۶ نمبر --- ۷ / جنوری ۱۹۱۲ء صفحہ ۹) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 530

۱۹ر اپریل ۱۹۱۲ء 521 خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح نے اس جمعہ کے خطبہ میں قوم کو اپنے عہد پر جو ان کے دست مبارک پر کیا ہے ثابت قدم رہنے اور اپنے میں نیک نمونہ بنانے کی تاکید فرمائی کیونکہ عہد شکنی کا نتیجہ نفاق ہے.فَاعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِي قُلُوبِهِمْ إِلَى يَوْمِ يَلْقَوْنَهُ بِمَا أَخْلَفُوا اللَّهَ مَا وَعَدُوْهُ وَ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ (التوبة:) اور فرمایا کہ:.بدظنی سے اور بدنام ہونے سے بچو.خدا تعالیٰ کا اٹل قانون ہے وَاللهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ (البقرة: ۷۳) جو کچھ تم چھپاتے ہو اللہ اسے ظاہر کرنے والا ہے.جو شخص ایک انسان کے سامنے تو بدی کرنے سے جھجکتا ہے مگر خدا کو حاضر ناظر جان کر پھر بدی کرتا ہے، اس نے خدا کو نہیں پہچانا.اللہ تعالیٰ تمہیں نیک اعمال کی توفیق بخشے.الحکم جلد ۱۶ نمبر ۱۶۴۱۵---- ۲۸٬۲۱ / اپریل ۱۹۱۲ء صفحه ۹) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 531

۲۷ ستمبر ۱۹۱۲ء مسجد اقصی قادیان 522 خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ میں سورۃ نَوَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ مَا أَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونِ (القلم:۳۲) کی تلاوت کے بعد فرمایا:.دنیا میں انسان ایک عجب معجون ہے.اس نے زمین کو پھاڑا.پہاڑوں کو چیرا.سمندر کی تہ سے موتی نکالے.ہوا سمندر روشنی پر حکومت کرتا ہے.باوجود اس کمال کے کسی اور کے نمونہ کو اختیار کرنا چاہتا ہے.تاجر کسی بڑے تاجر ، سپاہی کسی بڑے کمان افسر کی طرح بننا چاہتا ہے.راولپنڈی کے ایک دربار میں پرنس آف ویلز کی شان و شوکت دیکھ کر ایک احمق نے مضمون لکھا کہ کاش میں ہی پرنس ہو تا.ایک میرا دوست مرض جذام میں گرفتار یہاں آیا.مجھے کہنے لگا عقل مند نہیں معلوم ہوتے.آپ مجھے اجازت دیں میں کوشش کروں.فوراً آپ کو زمین کے بڑے مربعے دلا سکتا ہوں.آپ بادشاہ بن جائیں گے.میں نے اسے کہا تم نہیں جانتے.خوشی اور شے ہے.تم مجھے زمین دلواتے ہو.خود تو بڑے زمیندار ہو.مگر دیکھو تم میں ایسی بیماری ہے کہ تمہارے رشتہ دار بھی تم سے نفرت کرتے ہیں.پھر وہ زمین کس کام.غرض ہر شخص کسی نمونہ کو سمجھنے کا خواہشمند ہے.کوئی حسن و جمال کا شیدا کوئی ناموری چاہتا کوئی

Page 532

523 حکومت کو پسند کرتا کوئی کسی اور بڑائی کا حریص ہے.اس واسطے اللہ تعالیٰ ان کے واسطے ایک نمونہ پیش کرتا ہے.دوات اور قلم ہو اور اس سے جو کچھ لکھا جا سکتا ہے.سیاسی لوگ سیاست پر کتب لکھتے ناولسٹ ناول لکھتے اور مختلف لکھنے والے مختلف اشیاء پر لکھتے.اور ان کی تحریریں جمع کرو.یہ ثابت ہو گا کہ محمد رسول مجنون نہیں تھا.اس نے جو کچھ خلقت کے سامنے پیش کیا وہ حق و حکمت سے پر اور اس نے جو تحریر پیش کی ہے اس کا مقابلہ کوئی تحریر دنیا بھر کی نہیں کر سکتی.تمام تعلیمات جن پر عمل کر کے انسان خدا تک پہنچ سکتا ہے وہ سب اس کتاب میں جمع ہیں.دلیل یہ ہے کہ مجنون کے نہ رونے کی کسی کو پرواہ ہے.نہ اس کے بننے کی کسی کو خواہش ہے.نہ اس کی طاقت کی قدر ہو سکتی ہے.وہ سارا دن سوئے جاگے ، بیٹھے.سردی میں ننگا گرمی میں لحاف لئے.اس کی محنت کا بدلہ نہیں.لیکن اے نبی! تیری محنتوں کا ثمرہ غیر ممنون ہے.اس کا خاتمہ نہیں.ہم نے خود تجربہ کیا ہے.آنحضرت کے ہر کام کا پھل ہمیشہ قائم ہے.پھر مجنون کے اخلاق نہیں ہوتے.وہ دوست کو دشمن اور دشمن کو دوست بنالیتا ہے.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بڑے اخلاق اعلیٰ رکھتے تھے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ قرآن لائف آف محمد ہے خُلُقُهُ الْقُرْآنُ - پھر فرمایا.دیکھو اے مخالفو! اس کے مقابلہ میں کسی کا زور نہ چلے گا.یہ بھی دیکھے گا اور تم بھی دیکھو گے کہ کون فتمند ہوتا ہے؟ عرب اور عجم کوئی اس کے بالمقابل کامیاب نہ ہو سکے گا.یہ اس کی صداقت کی دلیل ہے.اگر تم کوئی نمونہ اعلیٰ چاہتے ہو اور وعدہ خداوندی فَمَنْ تَبعَ هُدَای سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو یاد رکھو کہ علم کیلئے قرآن شریف اور عملی زندگی کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عملد رآمد بس ہے.آج سمت ۱۹۰۹ ہے.اس سے پیچھے جاؤ تو میری یادداشت میں سمت ۱۹۰۲ کی باتیں موجود.سمت ۱۹۰۳ میں مجھے خوب یاد ہے کہ ایک ڈا کو پکڑا گیا تھا اور سکھوں نے اس کا سرکاٹ کر بھیرہ کے دروازہ چٹی پلی پر لٹکا دیا تھا.مجھے خوب یاد ہے.غرض اس وقت سے لے کر آج تک جس نسخہ کو بہت آزمایا اور سچا پایا ہے وہ یہی کہ فتح اور نصرت اور کامیابی کے حصول کا ایک ہی نسخہ قرآن شریف ہے.(پدر جلد ۱۲ نمبر ۱۵-۱۰۰ر اکتوبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 533

ار اکتوبر ۱۹۱۲ء 524 خطبہ جمعہ تشہد، تعوز اور تسمیہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی.يايُّهَا الْمُدَثِرُ - قُمْ فَانْذِرُ - وَرَبَّكَ فَكَبِّرُ (المدثر: (تام) - اور پھر فرمایا:.یہ سورۃ المدثر کا ابتدا ہے.یہاں فرمایا ہے.کس نے فرمایا ہے ؟ تمہارے رب، محسن، مربی، منعم اور بڑے بادشاہ نے فرمایا ہے.اس مولا نے جس نے تم کو ہاتھ ناک کان دیئے.ایسا محسن، مربی اپنی پاک کتاب میں فرماتا ہے.بايُّهَا الْمُدَیر.ہوا اور کھانے پینے کے بغیر کسی کا گزارہ نہیں ہو تا مگر اب بھی ایسی قومیں ہیں کہ وہ کپڑے وغیرہ کا استعمال نہیں جانتیں.بنارس میں ایک سادھو تھا.وہ ننگا رہا کرتا تھا.لوگ اس کی بڑی قدر کرتے تھے.افریقہ میں بھی ایسے لوگ ہیں کہ بیویوں سے بھی تعلق رکھتے ہیں مگر ان میں وحشت ہے اور ننگے رہتے ہیں.خدا تعالیٰ اپنے رسول کو فرماتا ہے کہ ہم نے تجھ کو لباس پہنایا.قم فَانْذِرُ اس لئے کھڑا ہو جا اور کھڑے ہو کر جو لوگ بدکار ہیں، نافرمان ہیں اور خدا تعالیٰ کے حکموں کی پرواہ نہیں کرتے ان کو ڈراؤ.میرا خیال ہے کہ جو حکم کوئی بادشاہ کسی جرنیل یا بڑے حاکم کو دیتا ہے، اس کی تعمیل اس کی سپاہ اور رعایا پر بھی فرض ہو جاتی ہے.یہ حکم حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے اس لئے یہ ہم پر بھی فرض ہے.بہت سارے لوگ ایماندار بھی بنتے ہیں اور پھر شرک

Page 534

525 بھی کرتے ہیں.اکثر لوگوں کا اگر تم حکم مانو گے تو وہ تم کو گمراہ کر دیں گے.خدا کا حکم مانو.بادشاہ اور بڑے بڑے حکام لوگوں کی اصلاح کے لئے کیسے کیسے قانون بناتے ہیں اور دو تین برس اس کی نگرانی کرتے اور پھر اس کو جاری کرتے ہیں.پھر اس پر نظر ثانی کر کے اصلاح کرتے ہیں.پھر اس کو شائع کرتے ہیں.غرض مقنن اور تجربہ کار لوگ کیسی کیسی تکلیفیں لوگوں کی بھلائی کے لئے برداشت کرتے ہیں.لیکن لوگ اس کی بھی نافرمانی کرتے ہیں.دیکھو! پولیس کیسی کوشش لوگوں کے امن و امان کے لئے کرتی ہے.اگرچہ پولیس میں بھی بعض بد کار پیدا ہو جاتے ہیں.لیکن تاہم وہ لوگوں سے چوری بدکاری چھڑانے میں کوشاں رہتی ہے.لیکن جس قدر نئے نئے قانون وضع ہوتے ہیں اسی قدر شریر لوگ شرارت کی راہیں نکال لیتے ہیں.اس لئے ہر ایک شخص کو تم میں سے چاہئے کہ وہ اٹھ کر ہر روز لوگوں کو سمجھائے.اگر کوئی کسی کی بات نہیں مانتا تو اس کا کوئی مضائقہ نہیں.لوگ بادشاہوں، حکام اور دیگر اپنے بہی خواہوں کی نافرمانی کرتے ہیں، اس لئے خدا کا حکم ہے کہ تمہارا کام سمجھانا اور ڈرانا ہے.تم اپنا کام کئے جاؤ.لوگوں کو سمجھاتے جاؤ اور ڈراتے جاؤ.اور اس ڈرانے میں یہ کوشش کرو کہ وَرَبَّكَ فَكَبِّرُ وَ ثِيَابَكَ فَطَهِّرْ یعنی خدا تعالیٰ کی عظمت جبروت کا ذکر ہو اور اپنی غلطیوں کی بھی اصلاح کرو.چوری ، بد نظری بد کرداری اور دیگر تمام بدیوں کو پہلے خود چھوڑ دو.اور یہ وعظ اس لئے نہ ہو کہ بس آپ کھڑے ہوئے یہ کہو کہ میرے لئے کچھ پیسے جمع کرو.بلکہ محض اللہ کے لئے کرو.میں سَالَ سَائِل کے لئے پکا تھا.مگر معلوم ہوتا ہے کہ ارادہ الہی کچھ اسی طرح تھا.یہ بڑا معرفت کا نکتہ ہے جو میں نے تمہیں سنایا ہے.دوسروں کو ضرور ہر روز نصیحت کرو.اس سے تین فائدے ہوتے ہیں.اول خدا کے منکر نہی عن المنکر کی تعمیل ہوئی ہے.دوسرے ممکن ہے کہ جس کو نصیحت کی جائے اس کو نیک کاموں کی توفیق ملے.تیسرے جب انسان اپنے نفس کو مخاطب کرتا ہے تو اس کو شرم آتی ہے اور اس کی بھی اصلاح ہوتی ہے.تمہارے بیان میں خدا کی عظمت اور اس کی قدرت و تصرف کا ذکر ہو.اس کا تین طرح دنیا میں مقابلہ ہوتا ہے.بعض لوگ تو منہ پر کہہ دیتے ہیں کہ نہ ہم مانتے ہیں اور نہ ہم سنا چاہتے ہیں.اور بعض سنتے ہیں مگر عمل کرنے کی پرواہ نہیں کرتے.اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ قسم قسم کے وجوہات نکال کر واعظ میں نکتہ چینی کرتے ہیں مگر واعظ کو چاہئے کہ اللہ کے لئے صبر کرے اور اپنا کام کرتا چلا جائے.(بدر جلد ۱۲ نمبر ۱۸....۳۱ اکتوبر ۱۹۱۲ء صفحہ ۳)

Page 535

۱۸ اکتوبر ۱۹۱۲ ء 526 خطبه جمعه تشہد، تعوذ اور تسمیہ کے بعد حضرت خلیفہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی.يُأَيُّهَا الْمُزَمِّلُ - قُمِ الَّيْلَ إِلَّا قَلِيلاً - نِصْفَةَ اَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيْلًا - اَوْزِدْ عَلَيْهِ وَ رَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلاً - إِنَّا سَنُلْقِى عَلَيْكَ قَوْلاً ثَقِيلاً - إِنَّ نَاشِئَةَ الَّيْلِ هِيَ اَشَدُّ وَطَاءً وَّ أَقْوَمُ قِيْلًا - إِنَّ لَكَ فِي النَّهَارِ سَبْحًا طَوِيلاً - وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلا - رَبُّ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيلاً - وَ اصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَ اهْجُرْهُمْ هَجْرًا جميلاً - (المزمل: ۲ تا ۱) اور پھر فرمایا:.ہماری سرکار حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم وحی الہی کی عظمت اور جبروت کو دیکھ کر بہت گھبرائے.بدن پر لرزہ تھا.گھر میں تشریف لائے اور اپنی بی بی سے کہا دیرونی (بخاری باب تفسیر سورۃ المدثر) کہ میرے بدن پر کپڑا ڈھانک دو.انہوں نے اوڑھائے.اس حالت کا نقشہ کھینچ کے

Page 536

527 جناب الہی فرماتے ہیں کہ تمہارا کام سونے کا نہیں.اٹھو اور نافرمان لوگوں کو ڈراؤ اور اس بات کا خیال رکھو کہ تمہارے بیان میں خدا کی عظمت اور جبروت کا ذکر ہو.اور قبل اس کے کہ دوسروں کو سمجھاؤ اپنے آپ کو بھی پاک و صاف بناؤ.اس سورۃ میں یوں فرمایا کہ رات کو اٹھ مگر کچھ حصہ رات میں آرام بھی کرو.رات کو قرآن شریف بڑے آرام سے پڑھو.میری اپنی فطرت گواہی دیتی ہے کہ جب کسی عظیم الشان انسان کو کوئی حکم آجاتا ہے اور اس میں کوئی خصوصیت بھی نہ ہو تو چھوٹے لوگ بطریق اولی اس حکم کے محکوم ہو جاتے ہیں.دنیا میں ایک وہ لوگ ہیں جو خود کپڑا پہننا نہیں جانتے.وہ دوسروں کو لباس تقویٰ کیا پہنائیں گے.پہلے لباس تو پہننا سیکھو.جب شرم گاہوں کو ڈھانک لو گے تو تم پر رتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلاً کا حکم جاری ہو گا.عام طور پر مسلمانوں کو یہ موقع ملا ہوا تو ہے مگر وہ اس کو ضائع کر دیتے ہیں.مسلمان عشاء کے وقت تو سوتے ہی نہیں.مگر اس کو بھی ضائع ہی کر دیتے ہیں.اگر توبہ واستغفار کریں تو اچھا موقع ہے.پھر اگر عشاء کے بعد ہی سو جائیں تو چار بجے ان کو تہجد اور توبہ کا موقع مل جائے.بڑے بڑے حکم الہی آتے ہیں.مگر مزا ان میں تبھی آتا ہے جب ان پر عمل درآمد بھی ہو.انگریزی خوان تو تین تین بجے تک بھی نہیں سوتے.پھر بھلا صبح کی نماز کے لئے کس طرح اٹھ سکتے ہیں.او کپڑے پہننے والو! تم اتنا کام تو ہمارے لئے کرو کہ ہماری کتاب کے لئے کوئی وقت نکالو.میرے بچے نے کہا کہ ہم کو لمپ لے دو.ہم رات کو پڑھا کریں گے.میں نے اس کو بھی کہا کہ رات کولمپ کے سامنے پڑھنے کی ضرورت نہیں.اس کے لیے دن ہی کافی ہوتا ہے.رات کو قرآن شریف پڑھا کرو.رات کو اگر تم جناب الہی کو یاد کیا کرو تو تمہاری روح کو جناب الہی سے بڑا تعلق ہو جائے.مومن اگر ذرا بھی توجہ کرے تو سب مشکلات آسانی سے دور ہو جائیں.وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلاً اللہ تعالیٰ کا نام لو اور رات کو جہان سے منقطع ہو جاؤ.مومن کو حضرت یوسف کے بیان میں پتہ لگ سکتا ہے کہ جس شخص کا کسی چیز سے محبت و تعلق بڑھ جاتا ہے تو وہ اپنے محبوب کا کسی نہ کسی رنگ میں ذکر کر ہی دیتا ہے.میں جن جن شہروں میں رہا ہوں اپنی مجلس میں مجھے ان کی محبت سے کبھی نہ کبھی ذکر کرنا پڑتا ہے.حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس مجلس میں دو شخص آئے اور کہا کہ ہم نے ایک خواب دیکھی ہے.اس کی تعبیر بتلا دو.آپ نے فرمایا.کھانے کے وقت سے پہلے ہم آپ کو تعبیر بتلا دیں گے.پھر بتلا

Page 537

528 آپ نے کہا کہ دیکھو ہم کو علم تعبیر کیوں آتا ہے، تم کو کیوں نہیں آتا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے شرک کو چھوڑا.تم بھی چھوڑ دو.دیکھو دو گھروں کا ملازم ہمیشہ مصیبت میں رہتا ہے.کام کے وقت ہر ایک یہ کہتا ہے کہ کیا تو ہمارا ملازم نہیں.لیکن تنخواہ دینے کے وقت کہتے ہیں کہ کیا دوسرے کا کام نہیں کیا؟ اس لطیف طریقہ سے حضرت یوسف علیہ السلام نے شرک کی برائیاں بیان کیں اور پھر یہ بھی کہا کہ انبیاء پر ایمان لانا اور خدائے واحد کو ماننا ضروری ہے.رہے.اِنَّ لَكَ فِي النَّهَارِ سَبْحًا طَوِیلا - کے یہی معنے ہیں کہ انسان دن میں ذکر الہی سے غافل نہ وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ رات کو علیحدگی میں اپنے مالک کو یاد کرو.اگر تم کو یہ خیال پیدا ہو علیحدہ رہنے سے کیا فائدہ ہو گا تو یاد رکھو کہ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيلاً پس یاد رکھو کہ جس پاک ذات نے تجھ کو علیحدگی اختیار کرنے کو کہا ہے وہ مشرق اور مغرب کا مالک ہے.اس کو اپنا کارساز سمجھو وہ تم کو سب کچھ دے گا.پس میرے بھائیو! غور کرو.تم نے دن میں بہت کام کیا ہے.رات ہو گئی.سونا اور مرنا برابر ہے.ایسے وقت میں سوچو کہ تم نے جناب الہی کی کس قدر یاد کی ہے.⭑-⭑-⭑-⭑ پدر جلد ۱۲ نمبر ۲۲--- ۲۸/ نومبر ۱۹۱۲ء)

Page 538

۲۵ اکتوبر ۱۹۱۲ء 529 خطبہ جمعہ حضرت خلیفہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ نوح کی ابتدائی آیات پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:.استغفار اور توجہ الی اللہ سے کام لو.نوح نے اپنی قوم کو عذاب سے پہلے ڈرایا تھا.میں بھی تمہیں ڈراتا ہوں.اپنی اصلاح کرو.نوح کی قوم نے اس دعوت الی الحق کی قدر نہیں کی تو اس کا نتیجہ جو ہوا وہ سب کو معلوم ہے.ایسا نہ ہو اس دعوت کو بے پروائی سے سنے کا بدلہ تم کو بھگتنا پڑے.چونکہ اول مخاطب آپ کی قادیان کی جماعت تھی اور ہے اس لئے انہیں ان کی کمزوریوں سے مطلع کیا اور جو جو فرو گذاشتیں مہاجرین قادیان سے ہوتی تھیں ان پر انہیں متنبہ کر کے ترقی کرنے کی ہدایت فرمائی.ا حکم جلد ۱۲ نمبر ۳۳...۱۲۸ اکتوبر ۱۹۱۲ء صفحه ۱۰) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 539

۱۲۸ اکتوبر ۱۹۱۳ دو مسجد اقصیٰ.قادیان 530 خطبہ نکاح سید شاہ امیر صاحب نائب تحصیلدار کا نکاح سید امیر حیدر صاحب کی لڑکی سے مورخہ ۲۸ / اکتوبر ۱۹۱۲ء کو بعد از درس مسجد اقصیٰ میں پڑھا گیا.تشہد اور مسنونہ آیات کی تلاوت کے بعد آپ نے فرمایا:.یہ بات میں نے کئی مرتبہ سنائی ہے کہ ہمارے رسول، قرآن اور عقل کا منشاء ہے کہ ہر مسلمان کچھ عربی بھی سیکھے.نماز ہماری عربی میں ہے.تمام دعائیں ہماری عربی میں ہیں.پھر اگر ہم عربی نہیں جانتے تو ہم نے نماز ہی کو کیا سمجھا.ہماری ملاقات کا ذریعہ السَّلَامُ عَلَيْكُم بھی عربی میں ہے.اسی طرح نکاح میں، غمی میں بچہ کی پیدائش کے وقت کان میں اذان دینے میں.غرضیکہ ہمارے ہر کام میں عربی کو دخل ہے.پس معلوم ہوا کہ ہر مسلمان کو عربی کا سیکھنا ضروری ہے.نکاح ایک مدرسہ ہے جس میں نوجوان ایک نئی تعلیم کے لئے داخل ہوتا ہے.اگر وہ کہیں پردیس میں چلا جاتا تو کسی کے دکھ سکھ میں شریک نہ ہوتا.نکاح کے بعد ایک عورت جس نے کبھی چڑیا کا بچہ بھی

Page 540

531 نہ دیکھا ہو وہ ایک اجنبی سے مختلی بالطبع ہو جاتی ہے.پھر وہ دونو ایک دوسرے کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں باوجود یکہ ایک دوسرے کے اخلاق سے اطلاع نہیں ہوتی.جناب الہی نے نکاح کے سات اغراض رکھے ہیں.لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا (الروم:۳۲) بیاہ کے بعد اگر خدا چاہے تو انسان کو آرام ملتا ہے.انسان کی آنکھ، ناک، کان وغیرہ بدی کی طرف راغب نہیں ہوتے.سکون قلب حاصل ہو جاتا ہے.نکاح آرام کے لیے ہوتا ہے، بے آرامی کے لیے نہیں ہوتا.میں نے خود کئی بیاہ کئے.ہر بیاہ میں مجھے بڑا آرام ملا.وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةٌ (الروم:۳۳) عورتوں کو ہمارے ملک میں کوئی تعلیم نہیں دیتا.مناظر قدرت میں ان کو جانے کی اجازت نہیں.میرے نزدیک یہ گندا طریق ہے.انسان اگر غور سے دیکھے اس قدر موقع تعلیم کا اس کو حاصل ہے، عورتوں کو کہاں ہے.مگر بعض نادان چاہتے ہیں کہ ہمارے ہی جیسی عادات و عقل رکھنے والی عورتیں ہوں.بھلا بلا تعلیم کیسے ممکن ہو سکتا ہے.وہ اعضاء میں بہت نازک ہوتی ہیں.دماغ ان کا بہت چھوٹا ہوتا ہے اس لئے جو بہت نازک چیز ہوتی ہے اس کے محفوظ رکھنے کے لئے بھی رحمت کے علم اور دعاو احتیاط کی نہایت ضرورت ہے.وَعَاشِرُوا هُنَّ بِالْمَعْرُوفِ (النساء:۳۰) تم عورتوں کے ساتھ مہربانی اور محبت کا برتاؤ کرو.فَانْ كَرِهْتُمُوهُنَّ (النساء:۲۰) اور اگر تمہیں ان کی کوئی بات نا پسند ہو تو تم ہماری سفارش کو مان لو اور یاد رکھو کہ ہم ہر ایک امر پر قادر ہیں.ہم تمہیں بہتر سے بہتر بدلہ دیں گے.ایک لڑکے کی نسبت میں نے سنا کہ وہ اپنی بیوی سے بد اخلاقی سے پیش آتا ہے.میرے سسرال کا گھر ہمارے شہر میں ہمارے گھر سے دور تھا.بیوی تو میرے گھر ہی ہوتی تھی مگر میں اکثر اپنے سسرال میں جایا کرتا تھا.راستہ میں وہ لڑکا مجھے مل گیا.میں نے اسے کہا میں نے ایک نسخہ لکھا ہے.وہ میں تم کو بتانا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَ يَجْعَلَ الله فِيهِ خَيْرًا كَثِيرا.(النساء:۲۰).اس کے دل پر ہماری اس نصیحت کا بجلی کی طرح سے اثر ہوا.میں تاڑ گیا کہ اس پر خوب اثر ہوا ہے.مجھے کہنے لگا مجھے ایک کام ہے.اجازت دیجئے.وہاں سے سیدھابی بی کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ دیکھے! تجھے معلوم ہے کہ میں تیرا کیسا دشمن ہوں.اس نے کہا ہاں مجھے معلوم ہے.اس لڑکے نے کہا کہ میں آج نورالدین کی نصیحت کو آزمانے کے لئے تیرے ساتھ کچی محبت کرتا ہوں.پھر اس نے اس سے جماع کیا.ایک بڑا خوبصورت لڑکا پیدا ہوا، پھر اور پیدا ہوا، پھر اور پیدا ہوا، پھر اور پیدا ہوا.

Page 541

532 وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ (البقرۃ:۲۳۹) عورتوں کے ذمہ بھی کچھ حقوق ہیں.تم میں سے اچھا وہی ہے جو اپنے اہل سے اچھا ہے.عورت پسلی کی طرح ہے.اس سے اسی طرح سے فائدہ اٹھانا چاہئے.اگر سیدھی کرنے کی کوشش کرو گے تو ٹوٹ جائے گی.وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ (النساء:3) شادی کے بعد لڑکی کے تمام رشتہ دار تمہارے اور تمہارے رشتہ دار لڑکی کے ہو گئے.آج ہی ”بخاری" کے سبق میں میں نے یہ بھی بتایا تھا کہ کسی ملک کی زبان پڑھانے کے لیے اس ملک کا جغرافیہ بھی ضرور معلوم ہونا چاہئے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خیبر کو فتح کیا تو آپ نے فرمایا کہ صفیہ (جو اس فریق کے سردار کی بیٹی تھی) سے میرا نکاح کر دو.مسٹر میور (MUIR) نے اعتراض کیا.مگر وہ جانتا نہ تھا کہ ملک عرب میں دستور تھا کہ مفتوحہ ملک کے سردار کی بیٹی یا بیوی سے ملک میں امن و امان قائم کرنے اور اس ملک کے مقتدر لوگوں سے محبت پیدا کرنے کے لیے شادیاں کیا کرتے تھے.تمام رعایا اور شاہی کنبہ والے مطمئن ہو جایا کرتے تھے کہ اب کوئی کھٹکا نہیں.چنانچہ خیبر کی فتح کے بعد تمام یہود نے وہیں رہنا پسند کیا.اسی طرح مالک بن نویرہ کی بی بی سے جب خالد بن ولید نے نکاح کیا تو وہ تمام لوگ مطمئن ہو گئے.شاہ امیر ایک شخص ہیں.ہمارے سید محمد حسین شاہ صاحب کے بھائی.ان کا نکاح میر حیدر کی لڑکی مسماۃ شہزادی سے ایک ہزار مہر کے عوض کرتا ہوں.(بدر حصہ دوم.کلام امیر ---۵/ دسمبر ۱۹۱۲ء صفحه ۸۹-۹۰) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 542

یکم نومبر ۱۹۱۲ء 533 خطبہ جمعہ تشہد، تعوذ اور تسمیہ کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی.لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ - وَ لَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ التَّوَّامَةِ - اَ يَحْسَبُ الْإِنْسَانُ أَنْ لَنْ نَّجْمَعَ عِظَامَهُ - بَلْى قَادِرِينَ عَلَى اَنْ نُسَوّى بَنَانَهُ - بَلْ يُرِيدُ الْإِنْسَانُ لِيَفْجُرَ أَمَامَهُ - يَسْتَلُ أَيَّانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ - فَإِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ - وَخَسَفَ الْقَمَرُ - وَ جُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ - يَقُولُ الْإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍ أَيْنَ الْمَفَرُ - كَلَّا لَاَوَزَرَ - إِلَى رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ نِ الْمُسْتَقَرُّ - يُنَبِّو الْإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَ أَخَّرَ - بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيْرَةٌ - وَلَوْ الْقَى مَعَاذِيْرَهُ - اور پھر فرمایا.(القیامه: ۲ تا ۱۶) اس سورۃ شریف میں اللہ تعالیٰ ایک فطرت کی طرف لوگوں کو توجہ دلاتا ہے.قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ

Page 543

534 نے ذکر فرمایا ہے.مطلب یہ کہ تمہاری فطرت میں سب قسم کی نیکیوں کے بیج بو دیئے تھے.ان کو یاد دلانے اور ان کی نشو و نما کے لئے قرآن کریم کو نازل کیا.وہ جو فطرتوں کا خالق ہے اس نے قرآن کریم کو نازل فرمایا ہے.مسیحی لوگوں کو ایک غلطی لگی ہے.پولوس کے خط میں ہے کہ یہ شریعت اس وجہ سے نازل ہوئی ہے کہ وہ ثابت کرے کہ تم شریعت کی پابندی نہیں بجالا سکتے.گویا شریعت کو نازل کر کے انسان کی کمزوری کا اس پر اظہار کرنا تھا.اس لئے پلید تعلیم دی گئی کہ نجات کی راہ شریعت کو نہ مانو بلکہ کسی اور شے کو مانو.میں نے بعض مشنریوں سے پوچھا ہے کہ جب شریعت کی پابندی تم سے نہیں ہو سکتی تو تمہارے جو اور قوانین ہیں ان کی پابندی تم کیسے کرتے ہو؟ ہر ایک انسان جب بدی کرتا ہے تو اس بدی کے بعد اس کا دل اس کو ملامت کرتا ہے کہ تو نے یہ کام اچھا نہیں کیا.میں نے لوگوں سے اور اپنے نفس سے بھی پوچھا ہے.چنانچہ جواب اثبات میں ملا.چور کو چوری کے بعد ایسی ملامت ہوتی ہے کہ وہ چوری کے اسباب کو اپنے گھر میں نہیں رکھ سکتا.اسی طرح ڈاکہ ڈالنے والے اور قاتل دونوں ارتکاب جرم کے بعد کہیں بھاگنا چاہتے ہیں.اسی طرح جھوٹا آدمی جھوٹ بولتا ہے تو جھوٹ کے بعد اس کو ملامت ہوتی ہے کہ یہ بات ہم نے جھوٹ کہی.غرض ہر بدی کے بعد ایک ملامت ہوتی ہے.جس بدی کو انسان کرتا ہے اس بدی کے متعلق اگر اس سے تفتیش کی جائے تو ایک حصہ میں چل کر وہ منکر ہو جاتا ہے.میں نے بعض چوروں سے پوچھا کہ اعلیٰ درجہ کی چوری میں مال پر ہاتھ تو مشکل سے پہنچتا ہے.پھر کسی کے ہاتھ سے نکلواتے ہو، کسی کے سر پر رکھتے ہو، کسی سنار کو دیتے ہو کہ وہ زیورات وغیرہ کی شکل و ہیئت کو تبدیل کر دے.اس نے کہا کہ ایسا ہوتا ہے کہ ہم سنار کو سو روپے کی چیزیں پچھتر روپے میں دیتے ہیں.میں نے کہا کہ اگر وہ سو روپے کی چیز ساٹھ روپے میں رکھ لے تو پھر تم کیا کرو.تو مجھے جواب دیا کہ ایسے حرامزادے، بے ایمان کو ہم اپنی جماعت سے نکال دیں گے.میں نے کہا کہ وہ بے ایمان بھلا کیسے ہو؟ کہنے لگا کہ چوری ہم کریں، مصیبت ہم اٹھائیں اور مال وہ کھا جائے تو پھر بھی اگر بے ایمان نہ ہوا تو اور کیا ہو گا.میں نے کہا اچھا! وہ سنار تو صرف تمہاری اتنی ہی سی مشقت برداشت کی ہوئی دولت کو غبن کر کے بے ایمان اور حرامزادہ ہو گیا، مگر تم جو اوروں کی برسوں تک مصیبت اٹھا اٹھا کر جمع کی ہوئی دولت کو چرا لاتے ہو بے ایمان اور حرامزادے نہیں؟ اس کا جواب مجھے کسی نے کچھ نہیں دیا.اسی طرح میں نے ایک کنچن سے پوچھا کہ تم اس پیشے کو برا نہیں سمجھتے.کہا کہ نہیں.میں نے کہا کہ

Page 544

535 اپنی بیوی سے زنا کر سکتے ہو.کہا کہ غیر کی لڑکی کو خراب کرنا اچھا نہیں.میں نے کہا کہ تم نے خراب کا لفظ بولا ہے.بھلا یہ تو بتاؤ جو لوگ تمہارے یہاں زنا کرنے کے لئے آتے ہیں کیا ان کے نزدیک وہ غیر کی لڑکی نہیں ہوتی؟ قیامت کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ (القيامة:٣).اگر جزاء سزا نہ ہوتی تو نفس لوامہ تم کو ملامت ہی کیوں کرتا؟ نفس لوامہ قیامت کا ثبوت ہے.کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم ہڈیوں کو جمع نہیں کر سکتے ؟ اور ہڈیاں تو الگ رہیں ہم تو پوروں کی ہڈیوں کو بھی جمع کر دیں گے بَلَى قَادِرِينَ عَلَى اَنْ نُّسَوِيَ بَنَانَهُ.ہر ایک آدمی جب بدی کرتا ہے تو وہ اس کو بدی سمجھتا ہے تب ہی تو اس کو غالنا چھپ کر کرتا ہے.ایک شہر میں ایک بڑا آدمی تھا.مجھ سے اس کی عداوت تھی.مجھے خیال آیا میں اس کے پاس گیا.وہاں لوگ جمع تھے.جوں جوں لوگ کم ہوتے جاتے میں آگے بڑھتا جاتا تھا.جب سب لوگ چلے گئے اور دو آدمی ایک اس کا منشی اور ایک شخص جو کہ میرے دوست تھے، رہ گئے تو اس نے میری طرف دیکھا اور کہا آج آپ کیسے آگئے ؟ میں نے کہا کہ میں اس لئے آیا ہوں کہ آپ لوگوں کو نصیحت کرنے والا کوئی نہیں.کوئی ناصح تو آپ کو نصیحت نہیں کر سکتا کیونکہ آپ بڑے آدمی ہیں.مگر ہر ایک بڑے آدمی کے لئے اس کے شہر میں کھنڈرات اس کے لئے ناصح ہوتے ہیں.کیا آپ کے پاس کوئی ایسی یادگار نہیں.اس نے کہا کہ مولوی صاحب! میرے آگے آئیے.میں بہت آگے بڑھا.وہ مجھ کو اس کھڑکی کے بالکل پاس لے گیا جس میں بیٹھا کرتا تھا.مجھے کہنے لگا کہ اور آگے ہو جائیے.میں اور آگے بڑھا.اس نے پھر کہا کہ اور آگے ہو جائیے.اور آگے تو کیا ہوتا.میں نے اس کھڑکی میں اپنے سر کو بہت قریب کر دیا.اس نے کہا کہ یہ جو آپ کے سامنے ایک محراب دار دروازہ نظر آتا ہے اس کا مالک میری قوم کا آدمی تھا اور وہ اتنا بڑا شخص تھا کہ ایک قسم کی سرخ چھتری جب وہ گھوڑے پر سوار ہو کر چلا کرتا تھا تو اس کے اوپر لگا کرتی تھی اور میں سیاہ بھی نہیں لگا سکتا.اب اس کی بیوی میرے گھر میں برتن مانجھنے پر ملازمہ ہے.یہ بھی سن لیجئے کہ میں اپنے اس تخت کو چھوڑ کر جو آپ کے سامنے پڑا ہوا ہے، ہمیشہ اس کھڑکی میں بیٹھا کرتا ہوں.مگر اس تخت کو چھوڑنے اور اس کھڑکی میں بیٹھنے کی حقیقت مجھے آج ہی معلوم ہوئی ہے.پھر جب کچہری کا وقت ہو گیا میں اسی جوش میں کچری گیا.رئیس شہرا کیلا تھا.میں نے وہی بات کہی تو رئیس نے مجھے ایک قلعہ دکھلایا اور کہا کہ یہ اس شہر کے اصل مالک کا ہے جواب کسی ذریعہ سے ہمارے قبضہ میں آگیا ہے.پھر اس نے کہا کہ یہ پہاڑ جو آپ کے سامنے موجود ہے اس کا نام دھارا نگر ہے.اس پر اتنا

Page 545

536 بڑا شہر آباد تھا کہ ہمارے شہر کی اس کے سامنے کوئی حقیقت نہ تھی.یہ مجلس بھی میرے لئے ہر وقت نصیحت ہے اور جہاں ہم راج تلک لیتے ہیں وہاں تمام ارد گرد کچے مکانات اصل مالکوں کے ہیں اور یہ تین ناصح ہر وقت نصیحت کے لئے میرے سامنے موجود رہتے ہیں.میں نے کہا کہ آپ خوب سمجھے.جب خدا پکڑتا ہے تو پھر کوئی نہیں بچا سکتا.یاد رکھو جیسے گناہ کرتے ہو ان کی سزا پانے والے تمہاری آنکھ کے سامنے ہوتے ہیں، پھر بھی تم نہیں سمجھتے.ہمارے یہاں تمہارے جھگڑے فیصلہ نہیں پاتے.کچھ لوگوں نے عذر کیا ہے اور کچھ ابھی باقی ہیں.(بدرحصہ دوم.کلام امیر ۲۸ / نومبر ۱۹۱۲ء صفحه ۸۵ تا ۸۷) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 546

۱۸ نومبر ۱۹۱۲ء 537 خطبه جمعه تشہد ، تعوذ اور تسمیہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی.الْحَاقَّةُ - مَا الْحَاقَّةُ وَ مَا أَدْرَيكَ مَا الْحَاقَهُ - كَذَّبَتْ ثَمُودُ وَ عَادٌ بِالْقَارِعَةِ - (الحاقة: ۲تا۵) اور پھر فرمایا.سارا جہان یہاں تک کہ درخت بھی قانون الہی کے سب پابند ہیں.گائے بھینس ، بیل، بکری وغیرہ کو دیکھو کہ وہ گھاس کو جھٹ پٹ اپنے دانتوں سے کاٹ کر نگل جاتے ہیں.پھر آرام سے بیٹھ کر اس کو اپنے پیٹ سے نکال کر چباتے اور پھر نگلتے ہیں اور اسی طرح سے وہ جگالی کرتے ہیں اور اسی طرح آرام کر کے پیشاب اور گوبر کرتے ہیں.یہ ان کے ساتھ ایک سنت ہے.اگر اس کے خلاف کوئی جانور کھاتا ہی چلا جائے اور جگالی اور آرام وغیرہ بالکل نہ کرے تو وہ بہت جلد ہلاک ہو جائے گا.اسی طرح بچوں کی حالت ہے.اگر بچہ اور بچے کی ماں کوئی بد پرہیزی کریں تو دونوں کو تکلیف ہوتی

Page 547

538 ہے.اگر کوئی شخص کھانا کھانے کی بجائے روٹی کانوں میں ٹھونسنے لگے تو کیا وہ بچ جائے گا؟ اسی طرح بہت سے قانون ہیں.جو ان کی خلاف ورزی کرتے ہیں وہ ذلیل ہو جاتے ہیں.جھوٹے جھوٹ بولتے ہیں مگر ایک زمانہ کے بعد اگر وہ کبھی سچ بھی بولیں تب بھی کوئی ان کا اعتبار نہیں کرتا یہاں تک کہ اگر وہ قسمیں کھا کر بھی کوئی بات کہیں تو تب بھی کوئی یقین نہیں کرتا.اسی طرح سست آدمی اپنی آبائی جائیداد تک بھی فروخت کر کے کھا جاتا ہے.الْحَاقَّةُ مَا الْحَاقَّةُ تم جانتے ہو کہ ہونے والی باتیں ہو کر رہتی ہیں.اور کس طرح ہو کر رہتی ہیں؟ مثل کی طرح سنو.كَذَّبَتْ ثَمُودُ جن لوگوں نے حق کی مخالفت کی ان کو خدا نے ہلاک کر دیا.ثمود قوم نے تکذیب کی.اس کا انجام کیا ہوا ؟ ہمارے ملک میں سلاطین مغل، پٹھان ، سکھ وغیرہ تھے.جب انہوں نے نافرمانی کی تو خدا نے ان کو ٹھونک ٹھونک کر ٹھیک کر دیا.پیارو! اگر تم بدی کرو گے تو تم کو بدی کا ضرور نتیجہ بھی بھگتنا پڑے گا.یاد رکھو بدی کے بدلہ میں کچھ سکھ نہیں مل سکتا.عاد قوم بڑی زبردست تھی.اس کو اللہ تعالیٰ نے ہوا سے تباہ کر دیا.سات رات اور آٹھ دن متواتر ہوا چلی.سب کا نام و نشان تک اڑا دیا.بڑے بڑے عمائد قوم گرے جس طرح کھوکھلا درخت ہوا سے گر جاتا ہے.بتاؤ تو سہی اب کہاں ہے رنجیت سنگھ اور ان کی اولاد ان کے بیٹے پوتے اور پڑپوتے؟ اس کا بیٹا ایک ہوٹل میں ایسی کس مپرسی کی حالت میں مرا کہ کسی نے یہ بھی نہ پوچھا کہ کون تھا؟ وَجَاءَ فِرْعَوْنُ وَ مَنْ قَبْلَهُ (الحاقة فرعون اور اس کی بستیوں کو الٹ کر پھینک دیا.ایک میرے بڑے دوست شہزادہ تھے.وہ بچارے خود کپڑاسی کر گزارہ کیا کرتے تھے.اور ایک اور میرے دوست تھے.وہ ان کو سینے کے لیے کپڑے لا دیا کرتے تھے اور خود دے آیا کرتے تھے.انہوں نے ہی مجھے کہا کہ تم اس سے کپڑے سلوایا کرو.خود دار بھی وہ ایسے تھے کہ کسی کو اس کی خبر تک ہونا گوارا نہیں کرتے تھے.خود کبھی کسی سے کپڑا نہیں لیتے تھے اور اس عالم میں بھی ان کی مزاج سے وہ شاہانہ بو دور نہیں ہوئی تھی.خمرے رکھا کرتے تھے.کوئی اپنے حسن پر مغرور ہے.کوئی اپنے علم پر اتراتا ہے.کوئی اپنی طب پر اکڑتا ہے.حالانکہ یہ سب غلط ہے.جب تک خدا کا فضل نہ ہو کچھ بھی نہیں ہو سکتا.سچ مچ یہ بات ہے کہ جیسا کروگے ویسا بھرو گے.خدار تم کرے میری ماں پر.وہ کہا کرتی تھی کہ جو آگ کھائے گا وہ انگار مجھے گل ثمود نے ہمارے رسولوں کا انکار کیا.ہم نے بھی ایسا پکڑا کہ کہیں نہ جانے دیا.جانتے ہو کہ نوح کی قوم کو کس طرح غرق کیا؟ تم کو چاہئے تھا کہ اس سے عبرت حاصل کرتے.دار السلام میں سولہ لاکھ آدمی

Page 548

اطبات نور 539 قتل کر دیئے.وہ جو بادشاہ تھا اس نے اپنی بیوی کا نام نسیم سحر" رکھا ہوا تھا.جس طرح صبح کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں سے آدمی کو نیند آتی ہے اسی طرح اس کو اپنی بیوی کی صحبت خوشگوار معلوم ہوتی تھی.جب اس "نسیم سحر کو قتل کیا تو کسی گلی کے کتے ہی چاہتے تھے.کسی نے کفن تک نہ دیا.جب بادشاہ نے قید میں پانی مانگا تو فاتح بادشاہ نے سپاہ کو حکم دیا کہ اس کے محل میں سے تمام لعل و جواہرات لوٹ لاؤ.وہ وحشی لوگ فور آ گئے اور تمام محل کی آرائش کو لوٹ کھسوٹ کر لے آئے تو اس کے سامنے ایک تھالی میں نہایت قیمتی قیمتی جواہرات بھر کر بادشاہ بغداد کے سامنے پیش کئے گئے کہ لو! ان کو پیو.اور پھر گالی دے کر کہا کہ بد ذات! تو فوج کو تنخواہ نہ دیتا تھا اور تیرے گھر میں اس قدر مال تھا.یہ کہہ کر اس کا سرا ڑا دیا گیا.تم اپنی جان پر رحم کرو.یاد رکھو کہ کسی کا حسن نہ کام آئے گا اور نہ کسی کا مال کام آئے گا نہ جاہ و جلال نہ علم نہ ہنر.( بدر حصہ دوم.کلام امیر --۷ / نومبر ۱۹۱۲ء صفحه ۵۸-۵۹) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 549

ار نومبر ۱۹۱۲ء آیات مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.540 خطبہ نکاح یہ آیتیں میں نے تم کو بہت دفعہ سنائی ہیں.وقت اجازت نہیں دیتا کہ اب کچھ سناؤں.تاہم کچھ سناتا ہوں.جس کام کے لئے اب میں کھڑا ہوا ہوں وہ بیوہ کا نکاح ہے.بیوہ کا نکاح کرنا بڑا ثواب کا کام ہے.مگر لوگوں نے ناممی کی وجہ سے اس کو برا سمجھا.سیدوں کو دیکھو کہ ان کی نانی جان پہلے دو خاوند کر چکی تھیں اور تیرے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم تھے.مغلوں میں نورجہاں بیگم کیسی عظیم الشان عورت تھی.اس نے دوبارہ نکاح کیا.لوگوں نے مسلمان بادشاہوں سے نفرت دلانے کے لئے جہانگیر پر یہ اتمام لگائے کہ وہ نور جہاں پر عاشق تھا اور اس نے نورجہاں کے خاوند کو مروا کر اس سے نکاح کر لیا.اگر جہانگیر نے اس کے میاں کو مروایا ہو تا تو چونکہ وہ بادشاہ تھا اس کو چاہئے تھا کہ فوراًہی نکاح کر لیتا.اس نے چھ سال کے بعد اس کو بیوہ سمجھ کر نکاح کر لیا.اکبر خاں کی ایک لڑکی بیوہ ہے.آج میں اس کا نکاح مدد خاں صاحب سے کرتا ہوں.یہ آدمی اچھے.

Page 550

541 معلوم ہوتے ہیں.کیونکہ پہلے دو عورتوں سے ان کا سلوک ہم اچھا دیکھتے رہے ہیں.سب لوگ دعا کریں.خدا خیر و برکت سے انجام کو پہنچائے.( بدر حصہ دوم.کلام امیر- ۵/ دسمبر ۱۹۱۲ء صفحه ۹۴- ۹۵) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 551

۱۵ر نومبر ۱۹۱۳ء 542 خطبہ جمعہ تشہد، تعوذ اور تسمیہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی.هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ حِيْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئًا مَّذْكُورًا - إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ أَمْشَاجِ نَبْتَلِيْهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا - إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيْلَ إِمَّا شَاكِرًا وَّ إِمَّا كَفُورًا - إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ سَلَاسِلاً وَ أَغْلَالاً وَسَعِيرًا - إِنَّ الْأَبْرَارَ يَشْرَبُونَ مِنْ كأس كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورًا - عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللَّهِ يُفَجِّرُونَهَا تَفْجِيْرًا - اور پھر فرمایا.(الدهر : ۲ تا۷).ہر آدمی غور کرے کہ یہ دنیا میں نہ تھا اور اس کو کوئی نہیں جانتا تھا.ضرور ایک وقت انسان پر ایسا گزرا ہے کہ اس کو کوئی نہیں جانتا تھا.اللہ تعالیٰ نے عناصر پیدا کئے.اگر وہ ہم کو پتھر بنا دیتا یا حیوانات میں ہی پیدا کرتا مگر کتا یا سور بنا دیتا.پھر اگر انسان ہی بناتا پر چوہڑوں یا چماروں میں پیدا کر دیتا.پھر اگر وہ

Page 552

543 ایسے گھر میں پیدا کر دیتا جہاں قرآن دانی کا چر چانہ ہوتا.پھر اگر کسی اچھے گھر میں پیدا ہونے پر جوانی میں مر جاتے تو آج تم کو قرآن سنانے کا کہاں موقع ملتا.اس نے کیسے کیسے فضل کیے.فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بصِيرًا ہم نے اپنے فضل سے اس نطفہ کو جس میں ہزاروں چیزیں ملی ہوئی تھیں ، سننے والا اور دیکھنے والا بنا دیا.اب مسلمان کہتے ہیں کہ تجارت ہمارے ہاتھ میں نہیں.کبھی کہتے ہیں حکومت ہمارے ہاتھ میں نہیں.صرف سو برس کے اندر ہی اندر انہوں نے سب کچھ اپنا کھو دیا.شرک کا کوئی شعبہ نہیں جس میں مسلمان گرفتار نہیں.نماز روزے اعمال صالحہ میں، قرآن کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں نہایت ہی سست ہیں.کوئی ملاں ہو اور وہ خوب شعر سنائے تو کہتے ہیں کہ فلاں مولوی نے خوب وعظ کیا.کسی عورت نے مجھ سے پوچھا کہ فلاں عورت ایک عرس میں گئی تھی.وہ کہتی تھی کہ سبحان اللہ ! ہر طرف نور ہی نور برس رہا تھا.میں نے کہا وہ کیا تھا؟ کہنے لگی کہ وہ کہتی تھی کہ اندر بھی، باہر بھی مراثی ڈھولک بجا رہے تھے اور خوب خوش الحانی سے گارہے تھے.ریل میں مجھے ایک کنچنی ملی.میں نے اس سے کہا کہ تو کہاں گئی تھی؟ کہا کہ سبحان اللہ ! فلاں حضرت کے یہاں گئی تھی.انہوں نے مجھے دیکھتے ہی کہا کہ ہماری فقیرنی آگئی ہے اور اپنے خادم سے کہا اس کو تین سو روپیہ دے دو.میں تو ایک دم مالا مال ہو گئی.مسلمانوں میں تکبر بڑھ گیا.ستی ہے.فضول خرچی ہے اور فضول خرچی کے ساتھ تکبر بھی از حد بڑھ گیا ہے.اپنی قیمت بہت بڑھا رکھی ہے.سمجھتے ہیں کہ ہم تو اس قدر تنخواہ کے لائق ہیں.ہم نے انسان پر بڑے فضل کئے.فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا یہاں تک کہ انسان کو دیکھنے والا سننے والا بنایا.پھر قرآن کے ذریعہ سے اس پر ہدایت کی راہیں کھول دیں إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيْلَ.پر کسی نے قدر کی اور کسی نے نہ کی إِمَّا شَاكِرَ اوَّ إِمَّا كَفُورًا.کوئی مسلمان کہتا ہے کہ جھوٹ جائز ہے.کوئی مسلمان کہتا ہے کہ تکبر اور فضول اور قسم قسم کی بد کاریاں جائز ہیں.برائی سب جانتے ہیں مگر افسوس کہ قدر نہیں کرتے.دوسروں کو نصیحتیں کرتے ہیں مگر خود عمل نہیں کرتے.ایک عورت کا میاں شراب پیتا تھا.اس کو میں نے کہا کہ وہ تم سے محبت کرتا ہے.تم اس سے شراب چھڑا دو.اس نے کہا میں نے ایک روز اس کو کہا تھا تو اس نے مجھے جواب دیا کہ یہ تجھے نور الدین

Page 553

544 نے کہا ہو گا.جب میں اس کی عمر کا ہو جاؤں گا تو چھوڑ دوں گا.پھر اس کو میری عمر تک پہنچنا ہوا.پہلے ہی مر گیا.تم برے اعمال چھوڑ دو.لین دین میں لوگ بڑے سکتے ہو گئے ہیں.توبہ کرو استغفار کرو.اللہ تعالیٰ بڑے سخت لفظ استعمال فرماتا ہے کہ کوئی تو ہماری بتائی ہوئی ہدایت کا شکر گزار ہوتا ہے اور کوئی نہیں ہوتا.إِمَّا شَاكِرًا و إِمَّا كَفُورًا.إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ سَلَا سِلاً وَ أَغْلَالًا وَسَعِيرًا.ہم نے تو بے ایمانوں کے لئے بڑے بڑے عذاب تیار کر رکھے ہیں.ہم ان کو زنجیروں میں جکڑیں گے إنَّ الابرار اچھے لوگوں کو خدا تعالیٰ ایک شربت پلانا چاہتا ہے اور وہ ایسا شربت ہے کہ ان کو اپنی بدیوں کو دبانا پڑتا ہے.ابرار انسان تب بنتا ہے جب وہ اپنے اندر کی بدیوں کو دباتا ہے.نفس کے اوپر تم حکومت کرو.بہت سے لوگ ہیں جو اپنے نفس پر حکومت کرنے سے بے خبر ہیں.عَيْنًا يَّشْرَبُ بِهَا عِبَادُ الله اللہ کے بندے ایسے شربت پیتے ہیں، وہ ان کو بھاتے ہیں، دوسروں کو بھی پلانا چاہتے ہیں.میں نے تم کو بہت سا پلایا ہے.تم عمل کرو اور خدا تعالیٰ سے ڈرو.( بدر حصہ دوم.کلام امیر--- ۵/ دسمبر ۱۹۱۲ء - صفحه ۹۴۴۹۳) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 554

۲۰ نومبر ۱۹۱۲ء 545 خطبہ عید اضحی حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۲۰ / نومبر ۱۹۱۴ء کو نماز عید مسجد اقصیٰ قادیان میں پڑھائی اور خطبہ ارشاد فرمایا جس کا خلاصہ ایڈیٹر کے الفاظ میں درج ذیل ہے.آپ نے ایک نوجوان تعلیمیافتہ کا ذکر کیا کہ آپ اس کو قرآن مجید کے احکام کی طرف توجہ دلا رہے تھے اور سمجھا رہے تھے کہ مسلمانوں کی ترقی اور بحالی دین کی راہ سے ہو گی.وہ دین اسلام کے بچے متبع ہوں گے.اللہ تعالیٰ ان کی ہر قسم کی ذلتوں اور مصیبتوں کو دور کر دے گا.مگر اس جنٹلمین نے کہا کہ آپ ہم کو تیرہ سو برس پیچھے لے جا رہے ہیں.گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم نے جو اصول عملدرآمد کے تیرہ سو برس پہلے دیئے تھے اس کی نظر میں آج وہ نعوذ باللہ کار آمد نہیں ہیں اور ان پر عمل کرنا ترقی کی روکو تیرہ سو برس پیچھے ہٹانا ہے.آپ نے فرمایا کہ اس قسم کے خیالات ایک دو نہیں، بہتوں کے دلوں میں ہیں.پھر آپ نے بتایا کہ یہ تو قرآن مجید اور اسلام کے حدود و شرائع کو باطل کرنے کی ایک کوشش تھی.نمازوں کے ترک کے لئے پہلی کوشش یوں شروع ہوئی کہ وہ اپنی ہی زبان میں ادا کی جایا کرے.

Page 555

546 قرآن مجید کا پنجابی ترجمہ اس میں پڑھا جایا کرے.ایسا ہی دوسری زبانوں میں اصل قرآن نہ پڑھا جاوے.مجھ سے جس شخص نے ذکر کیا میں نے اس کو کہا کہ پھر نثر سے نظم میں ہو گا.پھر وہ نظم کسی نعمری کی شکل اختیار کرے گی اور رفتہ رفتہ اس کے ساتھ ڈھولک وغیرہ ساز ہوں گے اور یہ اچھا خاصہ تماشا ہو وے گا اور مسلمانوں میں جو چیز مشترک تھی (عربی زبان اور قرآن) وہ جاتی رہے گی اور نہ نماز کی حقیقت پیدا ہو گی.پھر اس پر ترقی ہوئی تو میرے کانوں میں آوازیں آئیں کہ کرسیوں پر بیٹھ کر سامنے بیچ یا میز ہوں اور نماز کے لئے لوگ جمع ہو جایا کریں تو خدا تعالیٰ کی حمد میں کوئی گیت گائے.جہاں کسی کے دل میں جوش پیدا ہووے وہ اس مقام پر یعنی میز پر ذرا سر جھکا دیا کرے.اس قسم کی آوازیں میرے کانوں میں ترک نماز کے لئے آئیں.پھر روزہ کے متعلق کہا کہ بھوکا رہنا بالکل بے فائدہ ہے.اگر روزہ رکھنا ہی ہو تو اس میں اخروٹ ، میوہ جات کھالئے جایا کریں.یہ تو تعلیم یافتہ لوگوں کی توضیح تھی.بعض دوسرے لوگوں نے کہہ دیا کہ جو غریب ہو وہ روزہ رکھ لے اور امراء صرف فدیہ دے دیا کریں.پھر حج کے لئے کہا گیا کہ قومی کانفرنس علی گڑھ میں شمولیت سے یہ فرض ادا ہو جاتا ہے اور کافی ہے کہ لوگ وہاں شامل ہو جایا کریں اور زکوۃ کے بدلے قومی کاموں میں چندہ دے دیا.اب میرے کانوں میں قربانی کے روکنے کی آواز میں آتی ہیں.یہ تمام باتیں مسلمانوں کی بد قسمتی کی ہیں.ان کو چھوڑ کر یہ ترقی نہیں کر سکتے.اگر اسلام ہی ان کے ہاتھ میں نہ رہا تو یہ کچھ بھی نہ ہوں گے.پھر آپ نے قربانی کے متعلق اس کی حقیقت اور فلسفہ پر مختصری تقریر فرمائی اور بتایا کہ کس طرح پر قدرت نے قربانی کا سلسلہ جاری کیا ہوا ہے.آپ قربانی کی حقیقت بتا رہے تھے کہ ضعف غالب ہو گیا اور تقریر کا سلسلہ بند کرنا پڑا.اس لئے دعا پر خطبہ کو ختم کر دیا.(بدر جلد ۱۲ نمبر ۲۲-۲۸ نومبر ۱۹۱۲ء صفحہ ۷ ).⭑-⭑-⭑-⭑

Page 556

۶ دسمبر ۱۹۱۲ء 547 خطبہ جمعہ تشہد ، تعوذ اور تسمیہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی.وَ الْفَجْرِ وَلَيَالٍ عَشْرٍ - وَ الشَّفْعِ وَالْوَتْرِ وَالَّيْلِ إِذَا يَسْرِ ۖ هَلْ فِي ذَلِكَ قَسَمٌ لِذِي حِجْرٍ - أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ - إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ- الَّتِي لَمْ يُخْلَقُ مِثْلُهَا فِي الْبِلَادِ - وَ ثَمُودَ الَّذِينَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ وَ فِرْعَوْنَ ذِي الْأَوْتَادِ - الَّذِيْنَ طَغَوْا فِي الْبِلَادِ فَأَكْثَرُوا فِيهَا الْفَسَادَ - فَصَبَّ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذَابٍ.إِنَّ رَبَّكَ لبِالْمِرْصَادِ - فَأَمَّا الْإِنْسَانُ إِذَا مَا ابْتَلُهُ رَبُّهُ فَاَكَرَمَهُ وَ نَعَمَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَكْرَمَنِ - وَأَمَّا إِذَا مَا ابْتَلُهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ - فَيَقُولُ رَبِّي أَهَانَن كَلَّا بَلْ لَا تُكْرِمُونَ الْيَتِيمَ - وَ لا تَحْضُّونَ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِ - (الفجر: ۲ تا ۱۹) اور پھر فرمایا.قرآن کریم میں کوئی بہت بڑا عظیم الشان مضمون جیسے اللہ جل شانہ کی ہستی کا ثبوت‘ اللہ تعالیٰ کے

Page 557

548 اسماء حسنی اللہ تعالیٰ کے افعال اللہ تعالیٰ کی عبادتیں، یہ چار باتیں جناب الہی کے متعلق ہوتی ہیں.ملائکہ اللہ تعالیٰ کے اسماء اللہ تعالیٰ کے رسول اللہ تعالیٰ کے رسولوں پر جو لوگ اعتراض کرتے ہیں ان کو روکنا جزا و سزا کتب الہی پر ایمان یہ بڑے مسائل ہیں جو اللہ تعالیٰ کی کتابوں میں آتے ہیں.ان دلائل میں سے بڑی عظیم الشان بات اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ کریمہ میں فرمائی ہے کہ ہر ملک میں کوئی نہ کوئی قوم بڑی سخت ہوتی ہے.جس شہر میں میرا پرانا گھر تھا وہاں پر ایک سید کی زیارت ہے.اس شہر میں ان کی قبر پر جا کر قسم کھانا بڑی قسم ہے.اسی طرح بعض زمیندار جھوٹی قسم کھا لیتے ہیں مگر دودھ پوت کی قسم نہیں کھاتے.اسی طرح ہندو گائے کی دم پکڑ کر قسم نہیں کھاسکتے.غرضیکہ ہر قوم اپنے ثبوت کے لئے کسی نہ کسی عظیم الشان قسم کو جڑھ بنائے بیٹھی ہے.عرب کے لوگ ہر ایک جرم کا ارتکاب کر لیتے تھے لیکن مکہ معظمہ کی تعظیم ان کے رگ وریشہ میں بسی ہوئی تھی یہاں تک کہ جن ایام میں مکہ معظمہ میں آمد و رفت ہوتی تھی.کیا مطلب! ذی قعد ذی الحج اور رجب میں وہ اگر اپنے باپ کے قاتل پر بھی موقع پاتے تھے تو اس کو بھی قتل نہیں کرتے تھے.تم جانتے ہو کہ جب شکاری آدمی کے سامنے شکار آجاتا ہے تو اس کے ہوش و حواس اڑ جاتے ہیں.لیکن عرب میں جب حدود حرم کے اندر شکار آجاتا تھا تو اس کو نہیں چھیڑتے تھے.پھر دس راتیں حج کے دنوں کی بڑے چین و امن کا زمانہ ہوتا تھا.ان دنوں میں بدمعاش لوگ بھی فساد اور شرارتیں نہیں کرتے تھے.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو یاد دلاتا ہے کہ ان امن کے دنوں میں تم اپنے باپ اور بھائی کے قاتل کو بھی باوجود قابو یافتہ ہونے کے قتل نہیں کرتے تھے.تم اللہ تعالیٰ کو یاد کرو کہ اب تم لوگ اللہ کے رسول کی مخالفت کو ان دنوں میں بھی نہیں چھوڑتے.اور کیا تم کو خبر نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رسول جو عرب سے باہر آئے ہیں مثلاً مصر کے ملک میں فرعون تھا اس کے پاس رسول آیا یعنی فرعون کو سزا دی ، جو خدا کے رسول موسیٰ" کے مقابلہ میں تھا.پھر ہم نے عاد اور ثمود کی اقوام کو سزائیں دیں جو ہمارے رسولوں کے مقابل کھڑی ہوئیں.اور تم تو مکہ میں اور پھر حج کے دنوں میں بھی شرارت کرتے ہو اور نہیں رکتے تو تمہیں انصاف سے کہو کہ آیا تم سب سے زیادہ سزا کے مستحق ہو کہ نہیں؟ نیکی ہو یا بدی بلحاظ زمان و مکان کے اس میں فرق آجاتا ہے.ایک شخص کا گرمی کے موسم میں کسی کو جنگل ریگستان میں ایک گلاس پانی کا دینا جبکہ وہ شدت پیاس سے دم بہ لب ہو چکا ہو، ایک شان رکھتا ہے.مگر بارش کے دنوں میں دریا کے کنارے پر کسی کو پانی کا ایک گلاس دینا وہ شان نہیں رکھتا.یہ بات

Page 558

549 میں نے تم کو کیوں کی ؟ تم میں کوئی رسول کریم کے صحابہ مکہ میں تو بیٹھے ہوئے ہیں ہی نہیں.میں تم کو سمجھانے کے لئے کھڑا ہو گیا.یاد رکھو جو امن اور اصلاح کے زمانے میں فساد اور شرات کرتا ہے، وہ سزا کا بہت ہی بڑا مستحق ہے.میرا اعتقاد ہے.جہاں کوئی پاک تعلیم لاتا ہے، جہاں لوگ سفر کر کے جاتے ہیں، وہاں مکانوں کی تنگی کھانا سادہ ملتا ہے یا نہیں ملتا.ایسی مصیبتیں جو لوگ اٹھا کر یہاں آئے ہیں اور وہ دن رات قرآن سیکھتے ہیں، یہاں اگر کوئی فساد کرے تو وہ اصلاح کا کیسا خطرناک دشمن ہے.فَأَكْثَرُوْا فِيْهَا الْفَسَادَ فَصَبَّ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذَاب.مجھ کو یقین ہے کہ جہاں بڑے بڑے لوگ ہیں وہاں بڑے بڑے سامان بہت سے مل سکتے ہیں.ان مکانوں کو چھوڑ کر جب کوئی یہاں آتا ہے تو وہ ہم کو بطور نمونہ کے دیکھتا ہے.ابھی ایک شخص بنگالہ سے یہاں آئے تھے.اتفاق سے ان کو مہمان خانہ میں کوئی داڑھی منڈا موچھڑیالہ شخص مل گیا.انہوں نے مجھ سے شکایت کی کہ ہم تو خیال کرتے تھے کہ قادیان میں فرشتے ہی رہتے ہیں.یہاں تو ایسے لوگ بھی ہیں.تھوڑی دیر کے بعد وہ شخص بھی آگیا جس کی شکل سے مجھ کو بھی شبہ ہوا کہ یہ مسلمان ہے یا ہندو.میں نے اس سے پوچھا کہ آپ کیسے آئے ہیں؟ کہنے لگا کہ میں بیمار ہوں.علاج کرانے کے لئے یہاں آیا ہوں.الغرض جب لوگ یہاں آتے ہیں تو تم کو بہت دیکھتے ہیں.اب تم کو سوچنا چاہئے کہ اگر تم اصلاح کے لئے آئے ہو تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جہاں امن اور اصلاح ہو وہاں فساد اور شرارت بری بات ہے.جہاں کوئی مصلح آیا ہو وہاں فساد کیسا؟ اب تم ہی بتاؤ کہ اگر تم یہاں فساد کرو تو فَصَبَّ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذَابِ کے سب سے بڑھ کر مستحق ہو یا نہیں؟ میں تمہارے سامنے یہ بطور اپیل کے پیش کرتا ہوں.جناب الہی مکہ والوں کو فرماتے ہیں کہ تمہیں انصاف کرو.هَلْ فِي ذَلِكَ قَسَمْ لِذِي حِجْرِ کیا کوئی عقلمند ہے جو ہماری بات کو سمجھ جائے اور تہ کو پہنچ جائے ؟ باہر تم گند کرو تو اس قدر نقصان نہیں پہنچا سکتے جس قدر یہاں پہنچا سکتے ہو.جناب الہی فرماتے ہیں فَلَمَّا الْإِنْسَانُ إِذَا مَا ابْتَلُهُ رَبُّهُ فَأَكْرَمَهُ وَنَعَمَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَكْرَمَن بعض کو آسودگی سے ابتلا میں ڈالتے ہیں.وہ جناب الہی کے فضل کی طرف دیکھ کر کہتے ہیں رَبِّي أَكْر مَن.جب تکلیف پہنچتی ہے تو کہتے ہیں رَبِّي أَهَانَن کہ ہماری بڑی اہانت ہوئی.میں تم کو اور اپنے آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ اگر کسی کو یہ تعلیم نا پسند ہے اور یہاں تم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا تو تمہارے یہاں سے چلے جانے میں کوئی ہرج نہیں.گلا بَلْ لَّا تُكْرِمُونَ الْيَتِيمَ وَلَا تَحْضُّونَ عَلَى طَعَامِ الْمِسْکین قیموں کا تم لحاظ کرو وہ میرے پاس آتے ہیں.میرے میں اتنی گنجائش نہیں.

Page 559

550 میری اتنی آمدنی نہیں کہ سب کا خرچ برداشت کر سکوں.مسکینوں کے کھانے کی فکر کرو.یہاں مدرسہ میں ایک طالب علم آیا تھا.ایک دن مجھ سے کہنے لگا کہ یہاں جھوٹ بڑا بولتے ہیں.لنگر خانہ میں تو پچاس ساٹھ روپیہ ماہوار خرچ کرتے ہوں گے.مگر باہر سے ہزاروں روپیہ منگاتے ہیں.میں نے اس سے پوچھا کہ تمہارا مدرسہ میں کس قدر خرچ ہوتا ہے؟ کیا دس روپیہ ماہوار اکیلے کا خرچ ہے.آخر وہ یہاں سے چلا گیا.تم نیک نمونہ انو.اگر غلطیاں ہوتی ہیں تو لَا إِلَهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ انتي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ (الانبياء:۸۸) پڑھو.جناب الہی رحم فرمائیں گے.(بدر جلد ۱۲ نمبر۲۶---۱۲۶ دسمبر ۱۹۱۲ء صفحه ۴-۵) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 560

۱۳ دسمبر ۱۹۱۲ء 551 خطبہ جمعہ تشهد تعوذ اور تسمیہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:.وَ الْمُرْسَلَتِ عُرْفًا فَالْعُصِفْتِ عَصْفًا - وَ النَّشِرْتِ نَشْرًا.فَالْفَرِقْتِ فَرْقًا.فَالْمُلْقِيْتِ ذِكْرًا - عُدْرًا اَوْ نُذُرًا - إِنَّمَا تُوعَدُونَ لَوَاقِعٌ - فَإِذَا النُّجُومُ طُمِسَتْ - وَإِذَا السَّمَاءُ فُرِجَتْ.وَ إِذَا الْجِبَالُ نُسِفَتْ وَ إِذَا الرُّسُلُ أُقِّتَتْ لِأَيِّ يَوْمٍ أُحِلَتْ لِيَوْمِ الْفَصْلِ - وَ مَا أَدْرِيكَ مَا يَوْمُ الْفَصْلِ - وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِيْنَ (المرسلات: ۲ تا۱۲)- اور پھر فرمایا:.اللہ تعالیٰ اس سورۃ شریف میں ایک عجیب نظارہ دکھلاتا ہے اور فرماتا ہے کہ سوچو! بہار کی لطیف ہوا کیسی فرحت بخش ہوتی ہے.ایک نوجوان اس وقت سڑک پر چلتا ہو تو اس کی زبان سے بھی ایک فقرہ ضرور نکل جاتا ہے.وَالْمُرْسَلَتِ عُرْفًا.وہ ہوائیں جو دل کو خوش کرنے والی ہوتی ہیں تم جانتے ہو کہ بعض وقت ہوا کا ایک لطیف جھونکا چلتا ہے کہ اس لطیف جھونکے سے دل خوش ہو جاتا ہے.پھر وہی ہوا آہستہ آہستہ چلتی اور روح و رواں کو خوش کرنے والی یکدم ایسی بڑھ جاتی ہے کہ ایک تیز آندھی بن

Page 561

552 جاتی ہے.میں نے ایسی آندھیاں دیکھی ہیں کہ ہاتھ کو ہاتھ سو جھائی نہیں دیتا.بہت سے جانور دریاؤں میں گر جاتے ہیں.بہت سے پرند درختوں سے گر جاتے ہیں اور دریا وغیرہ کے درخت جو سرو کی قسم سے ہیں ، اس طرح گرتے اور اڑتے ہیں کہ نیچے بیٹھے ہوئے آدمی کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہتا.وَ النَّشِرَاتِ نَشْرًا.ایسی بھی ہوائیں ہوتی ہیں کہ پانی کو اٹھاتی ہیں، بادل لاتی ہیں.پھر ایسی ہوائیں بھی ہوتی ہیں کہ وَالْفُرِقْتِ فَرْقًا وہ فرق کر دیتی ہیں.بادلوں کو اس طرح اڑا کر لے جاتی ہیں جیسے روٹی کا خدا تعالیٰ کا کلام بھی انسان کے کان میں ہوا ہی کے ذریعہ سے پہنچتا ہے.ہوا کی لہریں بھی دماغ کے پردوں کو متحرک کر دیتی ہیں.وہ ہوائیں المرسلت ہوتی ہیں اور وہی آوازمیں بھی کان میں پہنچاتی ہیں.اور وہ آوازیں کبھی خوشی کی ہوتی ہیں، کبھی رنج کی ہوتی ہیں جو عاصفات کا رنگ پیدا کر دیتی ہیں.مومن کی شان میں ایک ایسا لطیف فقرہ ہے.دنیا میں کوئی دکھ کو پسند نہیں کرتا.قرآن شریف میں ہے فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقر۱۳۹۵.اگر تم مومن ہو اور سکھ چاہتے ہو تو اس کتاب کی اتباع کرو.اب دور دراز سے خبریں آتی ہیں کہ مسلمانوں کو یوں شکست ہوئی ، یوں تباہ ہوئے.ایک شخص کا میرے پاس خط آیا.وہ لکھتا ہے کہ مجھ کو دہریہ نام کا مسلمان ملا.وہ کہنے لگا خدا تعالیٰ تو اب مسلمانوں کا دشمن ہو گیا ہے.لہذا ہم اسلام سے ڈرتے ہیں کہ کہیں خدا ہمارے پیچھے بھی نہ پڑ جائے.اس لئے ہم تو اسلام کو چھوڑتے ہیں.بھلا اس سے کوئی پوچھے کہ اس نے مسلمانوں جیسے کتنے کام کیے.مسلمان اپنے اعمال کو ٹھیک کرتے اور پھر دیکھتے.فَالْمُلْقِيْتِ ذِکرا.ہواؤں میں وہ ہوائیں بھی ہیں کہ تم کو یاد دلانے کے لیے چلاتے ہیں.یعنی لوگوں کے منہ سے تم کو سنواتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرو.ایک بڑا حصہ مسلمانوں کا ایسا ہے کہ اس کو اسلام کی خبر بھی نہیں اور اگر خبر ہے تو عامل نہیں.میں تم کو بہت مرتبہ قرآن سناتا ہوں.بعض کہتے ہیں کہ ہزاروں مرتبہ تو سن چکے ہیں کہاں تک سنیں.عُذْرا اونُذرا.ہم تو اس واسطے تم کو قرآن سناتے ہیں کہ کوئی عذر باقی نہ رہے اور تم میں سے کوئی تو ڈرے.زمینداروں، دکانداروں کو فرصت کہاں! میں نے صرف ایک شہر ایسا دیکھا ہے کہ جمعہ کے دن

Page 562

553 بازاروں کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور سب جمعہ میں حاضر ہوتے ہیں.کوئی مسلمان بازار میں نہیں پھر سکتا اور وہ شہر مدینہ ہے.مکہ میں بھی ایسا نہیں.یہ بھی چالیس پچاس برس کی بات ہے.اب کی کیا خبر ہے؟ دکاندار حرفہ والے ملازم اپنے کاموں کی وجہ سے رہ جاتے ہیں.عورتیں اور بچے جاتے ہی نہیں.آج کل لوگوں نے کتابیں لکھی ہیں کہ جمعہ کوئی ضروری چیز نہیں.عالمگیر نے ایک ایسی کتاب لکھوائی تھی.اس میں عجیب عجیب ڈھکونسلے ادھر ادھر کے بھر دیئے ہیں.اس کے سبب لوگوں میں سستی ہوئی اور اب تو صاف صاف جمعہ کی مخالفت میں کتابیں چھپنے لگیں.کوئی لکھتا ہے کہ قربانی کی ضرورت نہیں.ایک اخبار نے لکھا تھا کہ حج میں روپے خرچ کرنے کی بجائے کسی انجمن میں چندہ دے دے.ایک شخص نے قرآن مجید کا ترجمہ کیا ہے اور روزوں کے بارے میں لکھا ہے کہ اگر امیر ہو تو کھانا دے دے.غریب کو تو ویسے بھی معاف ہی ہے.ایک شخص لکھتا ہے کہ وَذَرُوا البيع الجمعة) ہر قسم کا بیچ چھوڑ دو.پس ہر قسم کی بیچ ہونی چاہئے.جہاں ہر قسم کی بیچ نہ ہو وہاں جمعہ ضروری نہیں.میں نے کہا کہ ہر قسم کی بیع تو لنڈن میں بھی نہیں ہوتی.إِذَا النُّجُومُ علماء یوں تباہ ہو رہے ہیں.قرآن کے حقائق یوں کھل جائیں گے اور بڑی بڑی سلطنتیں بھی قائم ہو جائیں گی.ہمارے بعض دوست کہتے ہیں کہ ہم نے قرآن سمجھ لیا ہے.دیکھو خوشی کی خبریں غم سے یوں مبدل ہو جاتی ہیں جیسے " مرسلات "" عاصفات " سے.نفس کو اس کا مطالعہ کراؤ.شیخ ابن عربی لکھتے ہیں کہ ایک صوفی تھے.وہ حافظ تھے اور قرآن شریف کو دیکھ کر بڑے غور سے پڑھتے.ہر حرف پر انگلی رکھتے جاتے اور اتنی اونچی آواز سے پڑھتے کہ دوسرا آدمی سن سکے.ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ آپ کو تو قرآن شریف خوب آتا ہے.پھر آپ کیوں اس اہتمام سے پڑھتے ہیں؟ فرمایا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ میری زبان کان، آنکھ ہاتھ سب خدا کی کتاب کی خدمت کریں.ایک حضرت شاہ فضل الرحمن صاحب گنج مراد آبادی گزرے ہیں.ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ بہشت میں جائیں گے تو کیا کام کریں گے؟ فرمایا ہم نے دیکھا ہے کہ ہمارے پاس حوریں آئیں.ہم نے ان سے کہا جاؤ بیبیو! قرآن پڑھو.قرآن خدا کی کلام اور اس کی کتاب ہے.جس قدر کوئی اللہ تعالٰی سے تعلق رکھے گا اسی قدر جناب الہی اس کو پکارے گا تو اس کی بات فور اسنی جائے گی.(بدر حصہ دوم.کلام امیر۹ جنوری ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۰۱ تا ۱۰۳)

Page 563

۲۷ دسمبر ۱۹۱۲ء مسجد نور قادیان 554 خطبہ جمعہ جو حضرت خلیفۃ المسیح نے ایام جلسہ کے جمعہ میں مسجد نور میں پڑھا.تشہد ، تعوذ اور تسمیہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی.وَ الْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ - إِلَّا الَّذِيْنَ امَنُوْا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ - (العصر ۲ تا ۴).اور پھر فرمایا.بہت سے ہمارے دوست آج غالبا رخصت ہوں گے.اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار ہو گا جو ہم آئندہ سال ملیں گے.اب کے تیسرا برس ہے.میں اپنے حالات کو نگاہ کرتا ہوں.ہمیشہ رات کو یقین نہیں ہوتا کہ صبح کو اٹھوں گا.خدا تعالیٰ کے فضل سے تم ہم اکٹھے ہو گئے ہیں اس لئے تم سب کو السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کہتا ہوں اور سب کے لئے جو رخصت ہوں گے دعا کرتا ہوں.اَسْتَودِعُ اللَّهَ دِينَكُمْ وَ إيْمَانَكُمْ وَخَوَاتِيمَ عَمَلِكُمْ وَزَوَّدَكُمُ اللهُ التَّقْوَى وَغَفَرَ ذَتْتِكُمْ وَ شَكَرَ سَعْيَكُمْ وَاللَّهُ مَعَكُمْ

Page 564

555 أَيْنَمَا كُنتُمْ وَ أَوْصِيْكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَقَدْ فَازَ الْمُتَّقُونَ - إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِيْنَ هُمْ مُحْسِنُونَ.اس دعا کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے دین کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں.وہ اپنی امانتوں کو ضائع نہیں کرتا.تمہارے دین کو ایمان کو تمہارے خاتمہ کو سب کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں.پھر میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں.وَزَوَّدَكُمُ اللهُ التَّقْوَى - اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ میں متقیوں کے ساتھ رہوں گا.متقی خدا تعالیٰ کا محبوب ہوتا ہے.متقی کو علم دیا جاتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.متقی کو رزق دوں گا.متقی کو ہر تنگی سے نجات ملتی ہے.میں تم سب کے لئے دعا کرتا ہوں.تم متقی جماعت بنو.پھر میں تم سب کے لئے دعا کرتا ہوں.خدا تعالیٰ تمہارے قصوروں کو معاف کر دے.تم جہاں جہاں رہو اللہ تعالیٰ تمہارا حامی و مددگار رہے.پھر میں خوشی کی خبر سناتا ہوں کہ ابھی تار آیا ہے.ہمارے میاں صاحب ۲۵ دسمبر کو جدہ سے جہاز پر سوار ہو گئے ہیں.یہ مبارک خبر ہے.میں بہت خوش ہوں.تم اس خبر سے خوش ہو گے.ہمارے میاں صاحب جس جہاز پر سوار ہوئے ہیں اس کا نام منصورہ ہے.نصرت ان کے شامل حال ہو.دوسری بات یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ مجھے پسند ہیں کیونکہ آدمی کھڑے کھڑے پڑھ سکتا اور نفع اٹھا لیتا ہے اور معلوم نہیں کہ کب کس پر اثر ہو جائے.مگر چھوٹے چھوٹے رسالوں.کہ سبب حضرت مسیح موعود کی کتابوں کی خریداری کم ہو گئی ہے.ان میں جو درد ہے وہ اوروں میں ملنا مشکل ہے.میں اس قرضہ سے یوں سبکدوش ہوں.میں نے کوئی کتاب تصنیف نہیں کی.اگر میں کوئی کتاب لکھتا تو تم لوگ اسی کو خریدتے اور میں نے نہیں چاہا کہ اس طرح حضرت صاحب کی کتابوں کی اشاعت پر اثر پڑے.یہ سورۃ (العصر) میں نے بارہ لوگوں کو سنائی ہے.چھوٹی سے چھوٹی سورۃ جو ہر شخص کے لئے بابرکت ہو خدا تعالیٰ کی کتاب میں میرے خیال میں اس کے سوا اور نہیں آئی.قرآن کریم کے ہر ایک فقرہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل اور محض فضل سے سارے جہان کی تعلیم و تربیت اور پاک تعلیم و تربیت حاصل اور ضرور حاصل ہو سکتی ہے.مگر صحابہ کرام رضوان علیہم اجمعین کی عادت تھی کہ جب آپس میں ملتے تھے تو اس سورۃ کو پڑھ لیتے تھے.ممکن ہے کہ میری آواز سب لوگوں کے کان میں نہ پہنچے کیونکہ میں بیمار صبح سے اب تک خطوط پڑھتا تھا.تھک گیا ہوں اور بوڑھا بھی ہوں.جو لوگ دور ہیں اور ان کے کانوں میں میری آواز نہیں پہنچ سکتی ان کے کانوں میں وہ لوگ جو سنتے ہیں پہنچا دیں اور کوشش کریں کہ سب کے کانوں تک اس سورۃ کی آواز ضرور پہنچ جائے.جو سنتے ہیں وہ اس شکریہ میں دوسروں تک

Page 565

پہنچائیں.556 یہ بڑی مختصر سورۃ ہے.پہلی بات اس سورۃ شریفہ میں یہ ہے کہ وَالْعَصْرِ - عصر ایک زمانہ کو کہتے ہیں.ہر آن میں پہلا زمانہ فنا اور نیا پیدا ہوتا جاتا ہے.ہر وقت زمانہ کو فنا لگی ہوئی ہے.کل کا دن ۲۶ دسمبر ۱۹۱۲ ء اب کبھی نہیں آئے گا.۲۷ دسمبر ۱۹۲ آج کے بعد کبھی دنیا میں نہ آئے گا.آج کی صبح اب کبھی نہ آئے گی.یہ زمانہ بڑا بابرکت ہے.یہ جو آریہ لوگ کہا کرتے ہیں کہ زمانہ مخلوق نہیں اور جو قدیم ہے وہ فنا نہیں ہوتا، وَالْعَصْرِ کا لفظ ان کے لئے خوب رد ہے.میں جس زمانہ میں بولا وہ اب چلا بھی گیا اور جس میں آگے بولوں گا وہ ابھی پیدا بھی نہیں ہوا.زمانہ کو غیر مخلوق ماننے والوں کے لئے کیسا عمدہ رد ہے.زمانہ کو جہاں تک لئے جائیں ایک حصہ مرتا جاتا ہے، ایک حصہ پیدا ہوتا جاتا ہے.اس مرنے اور پیدا ہونے کے سوا اور کچھ بھی نہیں.ایک فائدہ عصر میں یہ ہے کہ ہر ایک وقت جو انسان پر گزرتا ہے اس کو فنالازم ہے.اسی طرح انسان کے اجزا بھی ہر آن میں فنا ہوتے ہیں اور ہر آن نئے اجزاء پیدا ہوتے ہیں.اس طرح ایک نئی مخلوق بن کر انسان اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہوتا ہے.جب میں جوان تھا میرے سب بال سیاہ تھے.آج کوئی بال سیاہ نہیں.جب ہم نئی حالت میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں تو ہر وقت اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں.ALA ALI AND A اللہ کے معنی ہیں کہ ہر آن میں تم ہمارے محتاج ہو.اگر میرا فضل و کرم نہ ہو تو تم کچھ بھی نہیں.ایک بات عصر میں یہ ہے کہ لوگ زمانہ کو برا کہتے ہیں.شاعروں نے تو یہ غضب کیا کہ دنیا کا ہر ایک دکھ اور مصیبت زمانہ کے سر تھوپ دیا.خدا تعالیٰ کا نام ہی درمیان سے نکال دیا.گردش روزگار کی اس قدر شکایت کی ہے کہ جس کی حد نہیں.گویا ان کا دار ومدار ان کا نافع اور ضار سب کچھ زمانہ ہی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے زمانہ کی شکایت نہ کرو.یہ بھی قابل قدر چیز ہے.عصر کے بعد پھر کوئی وقت نہیں ہو تا جو ہم فرض نماز ادا کریں.میرا یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد غرض ہے کہ اب قرآن شریف جیسی کتاب اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا رسول جس کے جانشین ہمیشہ ہوتے رہیں گے اب دنیا میں نہ آئے گا.عصر سے مراد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشینوں کا زمانہ ہے.اب اور کے لئے زمانہ نہیں رہا یہاں تک کہ دنیا کا زمانہ ختم ہو.إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِنی محشر جس طرح زمانہ گھانے میں ہے اسی طرح انسان.ایک شخص مجھ سے

Page 566

557 کہنے لگا کہ زمانہ قدیم ہے.میں نے کہا جب تم ماں کے پیٹ اور باپ کے نطفہ میں تھے وہ وقت اب ہے اور جب تم مرو گے وہ زمانہ اب موجود ہے؟ کہا.نہیں.میں نے کہ ایک موجود ہے وہ معدوم ہے.وہ موجود ہو گا.انسان کا جسم ایک برف کی تجارت ہے.اسی طرح زمانہ ہے.إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا گھاٹے میں تو سب ہیں مگر ایک شخص مستثنیٰ ہے.وہ کون؟ ایماندار کہ اس کو گھاٹا نہیں.ایمان کیا ہے؟ غیب الغیب ذات پر ایمان رکھنا.اس کو مقدم سمجھنا.اس کی نافرمانی سے ڈرنا اور یہ یقین کرنا کہ اگر ہم نافرمان ہوں تو اس پاک ذات کا قرب حاصل نہیں کر سکتے.نماز پڑھنا اور سنوار کر پڑھنا.لغو سے بچنا.زکوۃ دینا.اپنی شرمگاہوں کو محفوظ کرنا.اپنی امانتوں اور عہود کا لحاظ کرنا.اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ، صفات، افعال اسماء اس کے محامد اور اس کی عبادات میں کسی کو شریک نہ کرنا.ملائکہ کی نیک تحریک کو ماننا.انبیاء کی باتوں اور کتابوں کو ماننا.قرآن کریم تمام انبیاء کی پاک باتوں اور کتابوں کے مجموعہ کا خلاصہ ہے.فِيْهَا كُتُبُ قَيِّمَةٌ (البینه: ۳) قرآن کریم سب کتابوں کا محافظ ہے.اس میں دلائل کو اور زیادہ کر دیا ہے.اس کتاب (قرآن کریم) کو اپنا دستور العمل بنانا اس کو پڑھنا، سمجھنا اس پر عمل کرنا خدا تعالیٰ سے توفیق مانگنا کہ اس پر خاتمہ ہو ، جزا سزا پر یقین کرنا، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خاتم کمالات نبوت و رسالت اور خاتم کمالات انسانیہ یقین کرنا.دنیا میں جس قدر ہادی ان کے بعد آئیں گے سب انہیں کے فیض سے آئیں گے.ہمارے مسیح آئے مگر غلام احمد ہو کر آئے.وہ فرماتے ہیں.بعد از خدا بعشق محمد گر کفر این بود مخترم بخدا سخت کافرم یہ حضرت صاحب کا سچا دعویٰ ہے اور اسی پر عملدرآمد تھا.ایک نقطہ بھی دین اسلام سے علیحدہ ہونا ان کو پسند نہ تھا.تم خدا تعالیٰ کی تعظیم کرو.اس کی مخلوق کے ساتھ نیک سلوک کرو.مخلوق“ کا لفظ میں نے بولا ہے.تم ایسے بنو کہ درختوں ، پہاڑوں جانوروں سب پر تمہارے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کا فضل نازل ہو.، مخلوق الہی پر شفقت کرو.انسان پر جب تباہی آتی ہے تو اس کی وجہ سے سب پر تباہی نازل ہوتی ہے.ع از زنا افتد و با اندر جهات

Page 567

558 جناب الہی نے جس طرح حکم دیا اس پر عمل کرو.گھاٹ پر پاخانہ پھرنے سے درختوں کے نیچے اور راستوں پر پاخانہ پھرنے سے ہماری شریعت نے منع فرمایا ہے.ایمان کے ساتھ اعمال بھی نیک ہوں.جس میں بگاڑ ہے وہ خدائے تعالی کا پسندیدہ کام نہیں.پھر ان کچے علوم کو میری زبان سے تم نے کچھ سنا ہے.اپنے گزشتہ امام سے سنا ہے اور اس کی پاک تصانیف میں دیکھا ہے.وَتَوَاصَوابِ الْحَقِّ پاک تعلیم یعنی حق کو دوسری جگہ پہنچاؤ.بہت سے لوگ ہم سے ملنا چاہتے ہیں اور ہم سے محبت اور اخلاص چاہتے ہیں مگر ایمان کے حاصل کرنے اور ایمان کے مطابق سنوار کے کام کرنے اور پھر دوسروں تک پہنچانے میں متامل ہیں.بہت سے لوگ یہاں بھی آئے ہیں اور مجھ سے ملے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر آپ ہم سے بالکل مل جائیں تو ہم آپ کے ہو جاتے ہیں.میں نے کہا ہماری تعلیم پر عمل کرو گے ؟ تو کہتے ہیں تعلیم تو ہماری آپ کی ایک ہی ہے.میں نے کہا جب کہ تم ہماری تعلیم پر عمل کرنے سے جی چراتے ہو تو پھر ہم تم ایک کیسے ہو سکتے ہیں؟ یہ سن کر شرمندہ ہو کر رہ جاتے ہیں.یہ سب کے سب منافق طبع لوگ ہوتے ہیں.ایسے منافق بہت ہیں.یہ سب ہم کو دھوکا دینا چاہتے ہیں.تم حق کو پہنچاؤ اور حق کے پہنچانے میں علم و حکمت اور عاقبت اندیشی سے کام لو.جو عاقبت اندیشی سے کام نہیں لیتے وہ بعض اوقات ایسے الفاظ کہہ دیتے ہیں جن سے بڑا نقصان ہوتا ہے.کسی شخص نے مجھ کو خط لکھا کہ میں نے ایک شخص سے کہا کہ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں میرے لئے دعا کرنا.احمدی نے سن کر کہا کہ مکہ مدینہ کا کیا کوئی الگ خدا ہے؟ اس پر اس شخص کو بڑا ابتلا پیش آیا.اگر نرمی سے کہا جاتا تو نتیجہ خطرناک نہ ہوتا.اس طرح کہ ملکہ مدینہ بیشک قبولیت دعا کے مقام ہیں.پھر کہتا ہوں کہ خدا یہاں بھی ہے وہاں بھی ہے.تم دونوں جگہ دعا مانگو یعنی یہاں بھی دعا ضرور مانگو.خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرے خسر سے کہا تھا کہ میرے لئے عرفات میں دعا کرنا.میرے خسر کا بیٹا جو ان کے ہمراہ حج میں موجود تھا اب موجود ہے وہ کہتا ہے کہ ہمارے باپ نے عرفات میں دعا مانگی اور میں آمین آمین کہتا جاتا تھا.مگر انسان سے اس قسم کی غلطیاں ہو جاتی ہیں.ان غلطیوں کے دور کرنے کے لئے میں نے کہا تھا کہ میں تین مہینہ میں قرآن شریف پڑھا سکتا ہوں بشرطیکہ پانچ سات آدمیوں کی ایک جماعت ہو.قرآن کے لئے بھی دعا مانگنی چاہئے.وَاتَّقُوا اللهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللهُ (البقرة :۲۸۴) جو تقویٰ اختیار کرتا ہے اس کو خدا سکھاتا ہے.قرآن پڑھو.سیکھو.اس کے علم میں ترقی کرو.اس پر عمل کرو.قرآن سے تم کو محبت ہو.وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ حق کے پہنچانے میں کچھ تکلیف ضرور ہوتی ہے.اس تکلیف کو برداشت

Page 568

559 کرنے کے لئے دوسرے کو صبر سکھاؤ اور خود بھی صبر کرو.یہ سورۃ اگر تم نے سمجھ لی ہے تو دوسروں کو بھی سمجھاؤ اور برکت پر برکت حاصل کرو.میں چاہتا ہوں کہ تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرو.اس کے ملائکہ سے نبیوں اور رسولوں سے محبت کرو اور کسی کی بے ادبی نہ کرو.تم کو اللہ تعالیٰ نے بڑی نعمت عطا کی ہے.حضرت صاحب کا دنیا میں آنا معمولی بات نہیں.اس طرح یہاں بیٹھے ہو.یہ انہیں کی دعاؤں کا نتیجہ ہے.دعائیں بہت کرو.اللہ تعالیٰ تم کو دوسروں تک حق پہنچانے کے لئے توفیق دے.یہ مسجد میرے نام بنی ہے مگر میں دیکھتا ہوں یہ کس قدر تنگ ہے.اس مسجد نور کو بڑھاؤ.مگر نیکی کے لئے اس میں مدرسہ بناؤ مگر قرآن شریف کا.ایک مدرسہ یہاں ہے اس کی طرف تو ہمارے دوستوں کی بھی بہت توجہ ہے.گورنمنٹ بھی مدد دیتی ہے.اس کے لئے ہر قسم کا سامان اور مکان بھی اچھا ہے مگر مدرسہ احمدیہ کے لئے کوئی نگرانی تک بھی نہیں.کوئی اس طرف توجہ نہیں کرتا.لڑکوں کی کتابوں اور کپڑوں تک کی بھی پرواہ نہیں کرتا.مگر کچھ لوگ چلے آتے ہیں.وہ رات کے کپڑے، قرآن سب سے محروم رہتے ہیں.چند روز بھٹک کر تم کو بد دعائیں دیتے ہوئے چلے جاتے ہیں.میں نے چند آدمیوں سے ایک دن کہا تھا کہ اس قسم کے آوارہ لوگوں کے لئے کوئی تجویز کرو.انہوں نے ایک کمیٹی بنائی مگر صرف مجھ کو خبر پہنچانے کے لئے کہ ہم نے کمیٹی بنائی ہے، عمل کرنے کے لئے نہیں.دعا کرو کہ یہاں کے رہنے والوں کے دل دردمند ہوں.جو یہاں آئیں وہ ابتلاء میں نہ آئیں.یہاں تین قسم کے طالب علم آتے ہیں.اول مدرسہ انگریزی کے طالب علم.ان کے لئے مکان کتاب ہر قسم کا انتظام ہے.دوسرے مدرسہ احمدیہ کے لئے.ان کی تعداد مدرسہ انگریزی کے مقابلہ میں بہت کم ہے مگر ان کا انتظام کچھ نہیں.تیسرے سب سے کم وہ جو آوارگی کے لئے یہاں آجاتے ہیں.تم سے کہنے کا منشاء ان کی شکایت نہیں بلکہ مدعا یہ ہے کہ تم ہمت کرو گے تو کام نکلے گا.حضرت صاحب کی کتابوں کی اشاعت کرو.ایک شخص مکان بنانا چاہتا ہے.اس کے لئے بھی میں کہتا ہوں.خدا تعالیٰ کسی کا قرضہ نہیں رکھتا.وہ تمہارا محتاج نہیں.تم سے جو کام لیا جاتا ہے اس کا منشاء یہ ہے کہ تم کو نفع زیادہ حاصل ہو.صحابہ کرام نے جو کچھ خرچ کیا وہ اب تک واپس کیا جا رہا ہے اور قیامت تک واپس ہو تا رہے گا.میں تمہارے لئے دعائیں کر چکا ہوں اور کرتا رہتا ہوں.تم بھی دعاؤں کی بہت عادت ڈالو.دعائیں بہت کرو مگر خد اتعالیٰ کو آزمانے کے لئے دعائیں نہ کرو.خطبہ ثانیہ میں فرمایا.

Page 569

560 یہ ایک بڑا گر ہے.جس قدر تم اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور تعظیم کرو گے تمہاری تعظیم ہو گی.اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر رحم کرو گے تو وہ تم پر رحم کرے گا.دعائیں بہت کیا کرو وہ قبول کرے گا.اللہ تعالیٰ کی یاد بہت بڑی چیز ہے.تم اس کے ہو جاؤ وہ تمہارا ہو جائے گا..( بدر جلد ۱۲ نمبر۳۳٬۳۲٬۳۱.....۲۷/ فروری ۱۹۱۳ء صفحه ۳ تا ۵) ☆-⭑-⭑-⭑

Page 570

Fj یکم مارچ ۱۹۱۳ء 561 خطبہ جمعہ اشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ - إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَايِ ذِي الْقُرْبَى وَ يَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَ الْمُنكَرِ وَ الْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ - النحل ) اللہ تعالی جو حکم کرتا ہے وہ سب انصاف پر مبنی ہوتا ہے.وہ تم کو بھی کہتا ہے کہ صراط مستقیم پر چلو کیونکہ نہ اس میں زیادتی ہوتی ہے نہ کمی ہوتی ہے.کسی کو دیوانہ پاگل سٹری اس وقت کہتے ہیں جب کوئی حد سے تجاوز کر جائے.جو شخص سارا دن ہوتا چلا جائے یا نمازوں میں لگ جائے کہ صبح کی نماز شروع کی اور عصر کا وقت کر دیا تو ایسا شخص اگر چہ نماز پڑھتا ہے مگر دیوانہ ہے.اسی طرح ایک شخص کی پانچ روپیہ تنخواہ ہو اور اس میں وہ چاہے کہ بیوی کا زیور بھی بن جائے، مکان بھی تیار ہو جائے اور ہم کو کسی کی محتاجی بھی نہ کرنی پڑے تو ایسے شخص کو پاگل ہی کہا جائے گا.میں نے ایک چھوٹی لڑکی کو کسی بات پر خوش ہو کر ایک روپیہ دیا.اس نے کہا کہ ایک تو یہ ہو گیا.

Page 571

562 ایک اور ہو گا تو دو ہو جائیں گے.پھر اسی طرح اس نے پچاس تک حساب لگالیا.میری بیوی نے ہنس کر کہا کہ تم نے اس کو ایک ہی روپیہ دیا ہے اور وہ تو پچاس روپے کا خرچ سوچ بیٹھی ہے.میں نے کہا کہ یہ کنجوس ہے.کسی کو بھی کچھ نہیں دے سکتی.اگر کوئی اس سے کچھ مانگے گا تو یہ سوچے گی کہ میرے ایک روپیہ کا نقصان نہیں بلکہ پچاس کا ہوتا ہے.اپنی آمدنیوں کے مطابق اپنے اخراجات رکھو.کیا کوئی یہ چاہتا ہے کہ اس کی اولاد خراب ہو.کیا کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ کوئی شخص اس کے لڑکے یا لڑکی کو بدی سکھائے، خراب کرے بد کار بنائے.میرے بھی لڑکی ہے.اس وقت میں اپنے آپ کو مخاطب کر رہا ہوں.جب کوئی یہ نہیں چاہتا تو پھر دوسروں کی اولاد کو جو تمہارے سپرد ہے کیوں خراب ہونے کا موقع دیتے ہو.کیا کوئی یہ چاہتا ہے کہ اس کے ماتحت نافرمان ہوں.جب یہ نہیں چاہتا تو کیوں نافرمانی کرتے ہو ؟ یہ لڑکے جو اپنے آفیسروں استادوں کی نافرمانی کرتے ہیں اور طرح طرح کی بدعتیں کرتے ہیں، اگر یہ صاحب اولاد ہوں اور ان کی اولاد بدی، نافرمانی کرے تو ان کو معلوم ہو کہ کس قدر دکھ ہوتا ہے.جب ہم اپنے ماتحتوں کو اپنا فرمانبردار دیکھنا چاہتے ہیں تو ہم کو چاہئے کہ جس کے ہم ماتحت ہیں اس کے فرمانبردار ہوں.کیا کوئی چاہتا ہے کہ ہمارا مال کوئی شخص دھوکہ سے کھالے.ہم یہ ہرگز پسند نہیں کرتے کہ کوئی ہم کو دھوکہ دے یا ہم کسی کا دھو کہ کھائیں.اس لئے ہم کو بھی چاہئے کہ کسی کو دھوکہ نہ دیں.جہاں کسی کے دھو کہ کھانے کا موقع ہو وہاں اپنے آپ کو بچائیں.إنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَايِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ.اللہ تعالٰی عدل کا حکم دیتا ہے.جو بات تم اپنے لئے پسند نہیں کرتے دوسروں کے لئے کیوں پسند کرتے ہو؟ وہ تم کو برائیوں سے روکتا ہے اور ہر قسم کی بغاوت سے روکتا ہے.تم کو وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو.( بدر جلد ۱۳ نمبر ---۶ / مارچ ۱۹۱۳ء صفحه ۸) *-*-*-*

Page 572

۱۲۴ اپریل ۱۹۱۳ء 563 خطبہ نکاح مسنونہ آیات کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں تو باتیں سناتا ہوں اور درد سے سناتا ہوں.میں تم سے بعضوں پر اس لئے ناراض ہوں کہ میری ایسی ایسی درد بھری نصائح کو سن کر بھی تمہارے دل نہیں بھیجتے.مجھے کوئی راہ ایسی نظر نہیں آتی جس سے تم سمجھ جاؤ.دنیا کے ہر ایک کام میں عربی زبان کا تعلق پایا جاتا ہے.دیکھو جب کوئی کسی سے ملتا ہے تو السَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہتا ہے جس میں دوسرے کے لئے ایک نہایت لطیف دعا ہے اور اگلا آدمی بھی و عَلَيْكُمُ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه کہتا ہے.کسی چیز کا انکار کرنا ہو تو "لا حول" پڑھا جاتا ہے.کوئی عظمت کی بات نظر آتی ہے تو "سبحان اللہ " کہتے ہیں.غرض کہ روزہ، حج، زکوۃ اور انسان کے لئے نشست و برخاست، حرکات و سکنات اور چلنے پھرنے ، اٹھنے بیٹھنے ہر ایک کام میں عربی کا ایک حصہ مد نظر رکھنا ضروری ہے.مگر افسوس ہے کہ ایسی بہت سی مفید باتوں کو غالباً آٹھویں صدی سے مسلمانوں نے چھوڑ دیا ہے.پھر کس قدر مصیبت کی بات ہے.ہر ایک کام میں عربی زبان کا ایک حصہ ہے جس سے

Page 573

564 معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی مشترکہ زبان اگر کوئی ہے تو محض عربی ہے.خطبہ نکاح بھی عربی میں ہے.حدیث میں تم نے پڑھا تھا کہ شادی لوگ کیوں کرتے ہیں؟ بعض اس لئے کہ عالی خاندان لڑکی ملنے سے اس کے ساتھ بہت سا مال آئے گا اور بعض لوگ مال کی پرواہ نہیں کرتے.جمال پر لٹو ہوتے ہیں.بعض قومیت پر مرتے ہیں.ایک آدمی نے مجھ سے کہا کہ میری شادی کرا دیں.میں نے اس سے دریافت کیا کہ تم شادی کیوں کرتے ہو ؟ کہنے لگا گھر بند رہتا ہے.عورت گھر ہو گی تو دروازہ کھلا رہے گا.اسی طرح ایک اور سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ محض روٹی پکانے کی خاطر شادی کرنا چاہتا ہے.بعض کسی رنج پہنچنے سے رنج پہنچانے والے کی لڑکی سے شادی کر کے اپنا دل شاد کرنا چاہتے ہیں.بعض اپنی لڑکی اس لئے دو سروں کو دیتے ہیں کہ اپنی لڑکی کے ذریعہ دوسروں کو گزند پہنچائیں.غرض کہ بیسیوں قسم کے لوگ ہیں جو کسی خاص اپنے مطلب کو مد نظر رکھ کر شادی کرتے ہیں جن کو دینی اغراض سے بالکل ہی پرواہ نہیں ہوتی.حالانکہ رسول کریم اور قرآن مجید کا منشاء صرف یہ ہے کہ شادیاں دینی اغراض پر مبنی ہوں.شادی ہونے سے ایک مدرسہ کھل جاتا ہے.لڑکی لڑکے کو ایسے ایسے کام کرنے پڑتے ہیں جن کی ان کو قبل از شادی ہرگز بھی خبر و واقفیت نہیں ہوتی.پھر لڑکی کو تو ایسی جگہ جانا پڑتا ہے جہاں کے حالات سے وہ بالکل ناواقف ہوتی ہے.ہندوستان میں لوگ عورتوں کو فرائض شادی و نکاح کے علم نہیں سکھاتے.یہاں تک کہ حیض و نفاس تک کے امراض کی عورتوں کو خبر نہیں ہوتی کہ یہ کیا بلا ہے اور کس بلا کا نام ہے؟ تعلیم و تربیت عورتوں کی بہت کم رہ گئی ہے.مرد چاہتا ہے کہ جیسا میں نے ہومر اور شیکسپئر اور اور لوگوں کے ناول پڑھے ہیں، میری بیوی بھی ایسی ہی ہو اور ایسے ہی ناز و نخرے میری عورت کو بھی آتے ہوں جیسے کہ اکثر ناولوں میں پڑھ چکا ہوں.ہمارے مولا کو چونکہ یہ سب باتیں معلوم تھیں، اس لئے اس نے لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا (الروم:۳۳) فرمایا ہے یعنی شادی سے تم کو بڑا آرام ہو گا.اور چونکہ عورتیں بہت نازک ہوتی ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان سے ہمیشہ رحم و ترس سے کام لیا جائے اور ان سے خوش خلقی اور حلیمی برتی جائے.مجھے پنجاب اور ہند کی عورتوں پر خاص کر ترس آتا ہے کہ یہ بیچاری ہر ایک کام سے ناواقفیت رکھتی ہیں.عرب کی عورتیں بڑی آزاد ہوتی ہیں اور وہ اپنے حقوق طلب کرنے میں بڑی ہشیار ہوتی ہیں.پھر باوجود ان کے بہت ہی بے باک اور بے دھڑک ہونے کے کسی کو جرات نہیں کہ ان کو کوئی کچھ کہہ سکے یا ان پر کوئی حرف لا سکے.اور فرمایا کہ عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ (النساء:۲۰) جہاں تک ہو سکے ان سے بھلائی کرو.تم ان سے نیکی کرو پھر اللہ تعالیٰ تم کو اس کے عوض بہتر سے بہتر اجر دے گا.

Page 574

565 چونکہ میرا مطالعہ بہت ہے اور مرد عورتوں کو اکثر درس دینے کا مجھے موقع ملا ہے اس لئے مرد اور عورتوں کی طبائع کا مجھے خوب علم ہے اور ان کی فطرت سے خوب واقف ہوں.میرے خیال میں عورتیں چشم پوشی اور ترس کی مستحق ہیں.بیاہ کے سبب دو عظیم الشان جماعتوں میں ربط و اتحاد پیدا ہو جاتا ہے اور کئی بھائی بہنیں نئی پیدا ہو جاتی ہیں.میدان رشتہ داری وسیع ہو جاتا ہے.زیادہ کیا کہوں یہ کہانی بڑی دردناک ہے اور میرے دل میں اس قدر کام ہیں کہ دم بھر کی بھی فرصت بڑی مشکل سے ملتی ہے.میرے روز مرہ کے سارے کاموں کا پورا ہونا محض اللہ تعالیٰ کے فضل پر دارومدار رکھتا ہے.پھر طرفین کے لڑکے اور لڑکی اور ان کے سرپرستوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ڈاکٹر الہی بخش صاحب کی لڑکی مسماة جنت بی بی کا نکاح منشی عبدالرزاق صاحب کے لڑکے مسمی خلیل الرحمن کے ساتھ بھر ایک ہزار روپیہ قرار پایا ہے.آپ سب لوگ دعا کریں کہ یہ تعلق دونوں کے واسطے اللہ کریم بابرکت کرے.ہمارا دل یہ بھی چاہتا ہے کہ لڑکیاں بھی ایک طرف ہوا کریں مگر مسلمانوں نے ابھی تک ترقی نہیں کی اس لئے ہمارا دل یہ بات کہنے سے ڈرتا ہے.خدا تعالیٰ مسلمانوں کی حالت پر رحم فرمائے.آمین بدر جلد ۱۳ نمبر ۹....یکم مئی ۱۹۱۳ء صفحه ۹) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 575

۳ار جون ۱۹۱۳ء 566 خطبه جمعه هستی حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ بنی اسرائیل کی مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:.وَلا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ إِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطا كَبِيرًا - وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَى إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلا - وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ الله إلا بِالْحَقِّ وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيهِ سُلْطَنَا فَلَا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ إِنَّهُ كَانَ مَنْصُورًا - وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا - وَ اَوْفُوا الْكَيْلَ إِذَا كِلْتُمْ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَأْوِيلاً - وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُدَادَ كُلُّ أُولئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًاً - وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْأَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولاً - كُلُّ ذَلِكَ كَانَ سَيْتُهُ عِنْدَ رَبِّكَ مَكْرُوهًا - ذُلِكَ مِمَّا أَوْحَى إِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِ وَ لَا تَجْعَلْ مَعَ اللهِ الها اخر فَتُلْقَى فِي جَهَنَّمَ مَلُومًا مَدْحُورًا - (بنی اسرائیل: ۳۲ تا ۴۰)

Page 576

اور پھر فرمایا:.567 حق اللہ تعالیٰ کا حق ماں باپ کا حق ذوی القربیٰ کا حق مسکینوں کا حق مسافروں کا حق کل مخلوق کا جناب الہی بیان فرماتے ہوئے ارشاد کرتے ہیں کہ وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمُ اولاد کو قتل مت کرو.قتل میں نے بہت طرح سے دیکھا ہے.بعض عورتیں اس قسم کی دوا کھاتی ہیں کہ آئندہ اولاد نہ ہو.بعض کچھے حمل گروا دیتی ہیں.پھر میں نے دیکھا ہے کہ آپ بھی ساتھ ہی مرجاتی ہیں.بعض ایسے ہیں کہ لڑکی پیدا ہو تو اسے مار دیتے ہیں.بعض ان کا علاج نہیں کرتے.بعض اس کی تربیت خوب نہیں کرتے.بعض اپنی اولاد کے لیے پاک صحبت کا انتظام نہیں کرتے.یہ نہیں سوچتے کہ ان کے لئے کونسا علم نافع ہو گا اور ان کی اولاد کا میلان طبع کس طرف ہے؟ ہزاروں لاکھوں کتابیں بنی ہوئی ہیں.ہر ملک کے لوگ اپنے خیال کے مطابق پڑھانے چلے جاتے ہیں.نہ پڑھنے والے کی دلچسپی کا خیال کرتے نہ اخو ناقص اور اہم و مفید میں کوئی فرق کرتے ہیں.میری سمجھ میں یہ سب قتل اولاد کی قسم میں سے ہے.پھر ہم تمہیں نصیحت کرتے ہیں کہ بدکاریوں کے نزدیک بھی نہ جاؤ.نزدیکی کبھی آنکھ سے ہوتی ہے، کبھی کان سے کبھی زبان سے کبھی ہاتھ سے کبھی روپے ہے.غرض ابتدا انہی باتوں سے ہوتی ہے.تم ان سے بچو.گندی صحبتوں سے نفرت رکھو.اللہ تعالٰی فرماتا ہے.زنا کے قریب بھی نہ پھٹکو.یہ بڑی بے حیائی اور بد چلنی کا کام ہے.ناحق کسی کو قتل نہ کرو.مظلوم کو خدا تعالٰی ضرور مدد دیتا ہے.وہ بدلہ لینے میں خطا نہ کرے.یتیموں کے مال کے نزدیک بھی نہ جاؤ سوائے اس طریق کے جو ان کے حق میں بہتر ہو.اپنے عہدوں میں وفاداری کرو.ہم سے بھی تم نے عہد کئے ہیں.ماپنے اور تولنے میں سیدھا معالمہ کرو.انجام بخیر ہو گا.جس چیز کا علم نہ ہو اسے منہ سے مت بولو.اس کے در پے نہ ہو.کانوں اور آنکھوں اور قومی کے مرکزوں سے یہ باتیں اٹھتی ہیں.ان سب سے باز پرس ہو گی.اکڑ بازی سے ملک میں مت چلو.تم نہ زمین کو پھاڑ سکتے ہو نہ لمبائی میں پہاڑوں کو پہنچ سکتے ہو.خدا کو یہ باتیں ناپسند ہیں.ان کو چھوڑ دو.اللہ نے اس کتاب میں بڑی حکمت کی اور پکی باتیں بتائی ہیں.ان پر عمل کرو.اللہ کے سوا کسی کو معبود نہ بناؤ.مشرکوں کی سزا جہنم ہے.الفضل جلد نمبرا--- ۱۸/ جون ۱۹۱۳ء صفحه ۱) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 577

۲۰ جون ۱۹۱۳ء 568 خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرۃ کی آیات ۲۸۵ تا ۲۸۷ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اس سورۃ میں بہت سی باتیں خدا تعالیٰ نے لوگوں کو بتائی ہیں.پہلے یہ بتایا کہ یہ کتاب تمہارے لئے ہلاکت نہیں بلکہ ہدایت ہے.ایمان لاؤ.نماز میں ٹھیک کرو.اللہ کی راہ میں دو.منافق نہ بنو.خدا کے تم پر بہت احسان ہیں.اگر وہ ناراض ہو گا تو پھر تمہارا نہ کوئی سفارشی ہو گا نہ ناصر و مددگار.نہ جرمانہ دے کر چھوٹ سکو گے.پھر فرماتا ہے بہت سے لوگ ہیں جن پر ہم انعام کرتے ہیں مگر وہ اپنی بد عملیوں کی وجہ سے اپنے آپ کو بارگاہ ایزدی سے بہت دور لے جاتے ہیں.یہ بیان کر کے ایک اور گروہ کا ذکر کیا جو اللہ تعالیٰ کا بڑا فرمانبردار ہے.اس ضمن میں جناب الہی نے فرمایا کہ تم متوجہ الی اللہ رہو.پیکجہتی حاصل کرو.پھر حج کے احکام روزے کے احکام گھر کے معاملات کے متعلق ضروری مسئلے بتاتے ہوئے صدقہ خیرات کی طرف متوجہ کیا.لین و دین کے مسائل بیان کئے.بیاج اور سود سے منع کیا.پھر فرمایا تم سمجھتے بھی ہو زمین و آسمان میں ہماری سلطنت ہے.تم ہماری شریعت کی خلاف ورزی کر کے سکھ نہیں پاسکتے.

Page 578

569 دیکھو ہم جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اسے خوب جانتے ہیں اور اس کا حساب تم سے لیں گے.بہت سے لوگ ہیں جن کو روپیہ مل جائے وہ تمھیں مارخان بن بیٹھتے ہیں.ان کو واضح رہے کہ حساب ہو گا اور ضرور ہو گا.ذرا تم اپنے اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھو کہ اٹھارہ برس کے بعد ہی سے سی آج تک اپنے نفس کے عیش و آرام کے لیے کس قدر کوشش کی ہے اور اپنی بیوی بچوں کے لیے کیسے کیسے مصائب جھیلے ہیں اور خدا کو کہاں تک راضی کیا.سوچو! اپنے ذاتی و دنیاوی مقاصد کے حصول کے لئے کتنی کوششیں کرتے ہو اور اس کے مقابلہ میں الہی احکام کی نگہداشت کس حد تک کرتے ہو.ایک مخلص لڑکا پنکھا کر رہا تھا اسے فرمایا کہ چھوڑ دو.اس طرح سننے میں حرج ہوتا ہے.ایسی باتوں کا مجھے خیال تک نہیں ہوتا اور میں بارہا کہہ چکا ہوں کہ خدا کے فضل سے تمہارے سلام کا تمہاری نذرونیاز کا تمہاری تعظیم کا ہرگز محتاج نہیں.میری تو یہ حالت ہے کہ میں جمعہ کے لئے نہا رہا تھا.نفس کا محاسبہ کرنے لگا اور اس خیال میں ایسا محو ہوا کہ بہت وقت گزر گیا.آخر میری بیوی نے مجھے آواز دی کہ نماز کا وقت تنگ ہوتا جاتا ہے.وقت کا یہ حال اور ہم ہیں کہ تنگ دھڑنگ بیٹھے لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَ مَا فِي الارْضِ وَ إِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ الله (البقرة: ۳۸۵) کا مطالعہ کر رہے ہیں.اگر میری بیوی مجھے یاد نہ دلاتی تو ممکن تھا اسی حالت میں شام ہو جاتی.غرض تم لوگ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کی باتیں جانتا ہے اور ایک دن تمہارا حساب ہو گا.خود حساب دینا ہی ایک خطرناک معاملہ ہے.پاس کرنا اور ناکام رہنا تو دوسری بات ہے.جو تقویٰ کی راہ پر چلا اسے بخش دے گا اور جو گمراہ ہیں ان کو عذاب ہو گا.ہمارا رسول اور دوسرے مومن تو اس طریق پر چلتے ہیں کہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں.فرشتوں کی نیک تحریکیں مانتے ہیں اور ان میں تفرقہ نہیں کرتے.یعنی یوں نہیں کہ کسی کو مان لیا اور کسی کو نہ مانا.پھر ان کی گفتار ان کے کردار سے کیا نکلتا ہے؟ (قَالُوا کے معنے بتایا زبان سے یا اپنے کاموں سے) سَمِعْنَا وَ أَطَعْنَا ثابت کرتے ہیں.نہ صرف وہ اپنی زبان بلکہ اپنے اعمال سے دکھاتے ہیں کہ باتیں سنیں اور ہم فرمانبردار ہیں.تیری مغفرت طلب کرتے ہیں.تیرے حضور ہم نے جاتا ہے.اے مولا! تو ہی ہمیں طاقت عطا فرما اور ہمارے نسیان و خطا کا مواخذہ نہ کر.ہم پر وہ بوجھ نہ رکھ جو ہم سے برداشت نہ ہو سکیں.یہ دعا مومنوں کی ہے.تم یہی مانگا کرو.اللہ تعالیٰ قبول فرمائے گا.ہر وقت جناب الہی سے مغفرت طلب کرتے رہو اور اسی کو اپنا والی اور ناصر جانو.بعض آدمی ایسے ہیں کہ ان کو سمجھانے والے کے

Page 579

570 سمجھانے کی برداشت نہیں.وہ اپنے خیالات کے اندر ایسے منہمک ہوتے ہیں کہ کسی کی پرواہ نہیں کرتے.اسی قسم کی بے پرواہی اور تکبر کا نتیجہ ہے کہ کفار نے تمہاری سلطنتیں لے لیں.اگر تم پورے غور سے خدا کی بادشاہت اپنے اوپر مان لیتے اور مومن بنتے تو کفار کے قبضہ میں نہ آتے.اللہ بڑا بے پروا ہے.اسے فرمانبرداری پسند ہے.خد تعالی آسودگی بخشے تو متکبر نہ بنو.لوگوں کا حال تو یہ ہے کہ دوسروں کی بیٹیوں کے ساتھ نیک سلوک نہیں کرتے.حالانکہ ان کے اپنے گھروں میں بیٹیاں ہیں جو دوسرے گھروں میں جانے والی ہیں.جو سلوک تم نہیں چاہتے کہ ہم سے ہو وہ غیروں سے کیوں کرو.اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہو اور خدا کے فرمانبردار بننے کی کوشش کرو.اللہ تمہیں توفیق بخشے.الفضل جلد نمبر ۲ --- ۲۵/ جون ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 580

۲۷ جون ۱۹۱۳ء 571 خطبہ جمعہ حضرت خلیفة المسیح نے خطبہ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَايْتَأَي ذِي الْقُرْنِي (النحل) پر پڑھا.فرمایا عدل ایک صفت ہے اور بہت بڑی عجیب صفت ہے.عدل ہر شخص کو پیارا لگتا ہے اور بہت پیارا لگتا ہے.عادل ہر ایک شخص کو پسند ہے اور بہت پسند ہے.کان رس کے طور پر بھی عدل کا لفظ پیارا ہے.اپنی ذات کے متعلق بھی جب آدمی کو ضرورت پڑے اسے عدل بہت پیارا لگتا ہے.مگر نہایت تعجب ہے باوجود اس کے کہ عدل نہایت پسندیدہ چیز ہے جب دوسرے کے ساتھ معاملہ پڑے تو انسان عدل بھول جاتا ہے.عجائبات جو میں نے دنیا میں دیکھتے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعض لوگ اللہ کو بھی مانتے ہیں اور پھر تھر کے بت پانی کے دریا پیپل اور بڑ کے درخت، جانوروں میں سانپ اور گائے کی پرستش کرتے ہیں.مجھے بڑا تعجب آتا ہے کہ اتنی بڑی عظیم الشان ذات کو چھوڑ کر اونی چیز کو کیوں اختیار کرتے ہیں.اس طرح عدل کے معاملہ میں بھی کئی سو تعجب دنیا میں مجھے ہوا ہے.ایک تعجب ہے کہ انسان عدل کو اپنے لئے اپنے دوستوں کے لئے اپنے خویش و اقارب کے لئے بہت پسند کرتا ہے مگر جب دوسرے کے

Page 581

ڈ امہات اور 572 ساتھ معاملہ پیش آئے پھر عدل کوئی نہیں.کسی کا بھائی بادا یا بہن یا ماں یا بیٹی مقدمے میں گرفتار ہو جائے تو وہ کہتا ہے اس سے بڑھ کر میرا کون ہے.ان کے چھڑانے کی کوشش میں اگر میری جان بھی جائے تو کوئی بڑی بات نہیں.اس وقت بعض لوگ جھوٹی گواہی ، جعلسازی، رشوت دینے تک تیار ہو جاتے ہیں.گویا خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں کھڑے ہو کر یہ کام کرتے ہیں.مگر سوچو جس نے ایسا کیا اس نے عدل نہیں کیا.کیونکہ وہ ہمارا رحمن ہمارا رحیم ہمارا مالک ہمارا رازق ہمار استار العیوب ہے.اس کی صفات کو چھوڑ کر کہتا ہے کہ بس جو کچھ ہے میرا یہی بیٹا ہے یا یہ بیوی ہے یا ماں ہے.دیکھو وہی عدل جو بڑا پسند تھا اس وقت بھلا دیا.یہاں دو لڑکوں میں ایک گیند کا مقدمہ ہوا.دونوں مجھے عزیز تھے.اب میں حیران ہوا کہ کس کو دلاؤں؟ میرے پاس پیسے ہوتے تو میں مدعی کو گیند لے دیتا مگر قدرت کے عجائبات ہیں کہ بعض اوقات نہیں ہوتے.ایک نے گواہی دی کہ یہ گیند اس لڑکے کا ہے کیونکہ اس کے لئے ایک شخص نے میرے سامنے امرتسر کے اسٹیشن سے خریدا تھا.میں نے کہا سچ کہتے ہو.اس نے کہا مجھے جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے؟ تب میں نے گیند دوسرے لڑکے کو دلایا.تھوڑے دن گزرے تو گواہی دینے والا اس لڑکے کے ساتھ غالبا لڑ پڑا تو یہ راز ظاہر ہوا کہ اس نے جھوٹی گواہی دی تھی.دیکھو اس نے عدل نہ کیا اور ظاہرداری کے لیے خدا کو ناراض کر دیا.میں نے اس لڑکے کو دیکھا ہے.بڑا خوبصورت تھا.جان نکل گئی.بس یہ انجام ہوتا ہے.یاد رکھو ہر بدی کا انجام برا ہوتا ہے.جناب الہی کا حکم مان لو.فرماتے ہیں.عدل کرو.ہم تمہارے خالق ہم تمہارے مالک، رحمن، رحیم، تمہارے ستار، تمہارے غفار ہماری بات ماننے میں مضائقہ اور اپنے کسی پیارے کی بات ہو تو جان تک حاضر.یہ عدل نہیں.اسی طرح میں دیکھتا ہوں کہ ہر افسر اپنے ماتحت سے چاہتا ہے کہ جان توڑ کر خدمت کرے.میں جو تنخواہ دیتا ہوں تو یہ روپیہ ضائع نہ کرے.لیکن آپ جس کا نوکر ہے اس کی نوکری میں اگر جان توڑ کر محنت نہیں کرتا تو یہ عدل نہیں.اس وقت ایک بات یاد آگئی.کسی امیر کی چوری ہو گئی اور اس چوری کے برآمد کرانے والے کے لئے بڑا انعام مشتہر ہوا.افسر پولیس نے اپنے ماتحتوں کو بلایا اور کہا.لو بھئی اب تو عزت کا معاملہ ہے.ایک میرا رشتہ دار بھی اس کے ماتحت تھا.اس نے مجھے بتایا کہ میں نے ایسی شدید محنت کی کہ مال برآمد کرالیا.مجرموں سے اقرار بھی کروالیا.اس آفیسر نے سولہ روپے جیب سے نکال کر دیئے کہ لے بیٹا! تم یہ لو.وہ انعام تو خدا جانے کب ملے گا.پھر ایک مفصل رپورٹ لکھی جس میں دکھایا کہ کس طرح اس

Page 582

573 مقدمہ کی تفتیش میں نے محنت سے کی اور بعض اوقات اپنی جان کو خطرے میں ڈالا.غرض وہ ساری کارگزاری اس غریب کی اپنی کر کے دکھائی اور انعام خود ہضم کر لیا بلکہ ترقی کی درخواست دی.دیکھو ادھر عدل کے لئے کتنا زور دیا کہ میں نے ایسی محنت کی، مجھے ترقی ملے، وہ انعام ملے اور دوسری طرف کیسی بے انصافی کی کہ اپنے ماتحت کا حق خود ضبط کر لیا.رات دن میں یہ حال دیکھتا ہوں.ایک شخص کے گھر میں بو آتی ہے.وہ اسے نہایت حقیر سمجھتا ہے مگر اپنی لڑکی کے لئے ہر گز یہ گوارا نہیں کرتا کہ کوئی اسے میلی آنکھ سے بھی دیکھے.پہریداروں کو دیکھا گرم بستر گھر میں موجود سردی کے موسم میں سرد ہوا کی پروانہ کر کے وہ آدھی رات کو چند ملکوں کی خاطر خبردار! خبردار! پکارتا پھرتا ہے مگر جن کو خدا نے ہزاروں روپے دیئے اور عیش و عشرت کے سامان وہ اتنا نہیں کر سکتے کہ پچھلی رات اٹھ کر تجد تو در کنار استغفار ہی کریں.یہ عدل نہیں.پس میرے عزیزو! تم خدا کے معاملہ میں، مخلوق کے معاملہ میں عدل سے کام لو.ایک طرف جناب الہی ہیں، ایک طرف محمد رسول اللہ ہیں.محمد رسول اللہ کی دعائیں اپنے حق میں سنو.آپ کا چال و چلن سنو پھر یہ کہ آپ نے ہمارے لئے کیا کیا.اپنے تئیں جان جوکھوں میں ڈالا.ایسے مخلص مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری اپنے دوست کی فرمانبرداری کے برابر بھی نہ کرو تو کس قدر افسوس کی بات ہے.بعض تاجروں کو میں نے دیکھا ہے.وہ رستے میں چلتے ہیں اور حساب کرتے جاتے ہیں.معلوم ہوتا ہے اپنے فکر میں مست ہیں اور یہ خیال نہیں کہ جس نے یہ تمام نعمتیں دیں اس کا شکر بھی واجب ہے.دیکھو! اس وقت میں کھڑا ہوں اور محض خدا کے فضل سے کھڑا ہوں.پرسوں میری ایسی حالت تھی کہ میں سمجھا کہ میرا آخری دم ہے.اس کا فضل ہوا جو مجھے صحت ہوئی.اس نے مجھے عقل و فراست دی.اپنی کتاب کا علم دیا.رسولوں کی کتابوں کا قسم دیا.اگر یہ انعام نہ ہوتے تو جیسے اور بھنگی ہمارے شہر کے ہیں میں بھی ہو سکتا تھا.میں تمہیں کھول کر سناتا ہوں کہ عدل کرو.روپیہ جس آنکھ سے لائے ہو اسی سے ادا کرو.مزدور کو مزدوری پسینہ سوکھنے سے پہلے دو.خدا کے ساتھ معاملہ صاف رکھو.پھر اس سے بڑھ کر حکم دیتا ہے کہ عدل سے بڑھ کر احسان کرو.پھر فرماتا ہے احسان میں تو پھر احسان کا خیال آجاتا ہے.تم دوسروں سے ایسا سلوک کرو جیسے اپنے بچوں کے ساتھ بدوں خیال کسی بدلے کے کرتے ہیں.میرا منشا تمام رکوع کا تھا مگر ضعف غالب ہے اس لئے بیٹھتا ہوں.

Page 583

574 خطبہ ثانیہ فرمایا:.دعا کے سوا مجھے کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی جو بدیوں سے بچائے کامیابی دکھائے.ابھی ایک لڑکا تھا.اس کو ابھی ہوش نہ تھا کہ میرے پاس لایا گیا.بڑے بڑے رنگوں میں اس کے ساتھ میں نے سلوک کیا.مجھے بڑے بڑے خیال تھے.خدا اسے یہاں تک پہنچاوے.مگر آخر اسے عیسائیوں کا گھر پسند آیا.دل جو ہوتے ہیں ان کا نام قلب اسی لیے رکھا ہے کہ بدلتے رہتے ہیں.اس واسطے میری عرض ہے کہ تم دعاؤں میں لگے رہو.تمہارے بھلے کے لئے کہتا ہوں ورنہ میں تو تمہارے سلاموں، تمہارے مجلس میں تعظیم کے لیے اٹھنے کی خواہش نہیں رکھتا اور نہ یہ خواہش کہ مجھے کچھ دو.اگر میں تم سے اس بات کا امیدوار ہوں تو میرے جیسا کافر کوئی نہیں.اس بڑھاپے تک جس نے دیا اور امید سے زیادہ دیا وہ کیا اب چند روز کے لئے مجھے تمہارا محتاج کرے گا؟ سنو ! بچے کی شادی تھی.میری بیوی نے کہا.کچھ جمع ہے تو خیر ورنہ نام نہ لو.میں نے کہا خدا کے گھر میں سبھی کچھ ہے.آخر بہت جھگڑے کے بعد اس نے کہا اچھا پھر میں سامان بناتی ہوں.میں نے کہا میں تمہیں بھی خدا نہیں بناتا.میرے مولا کی قدرت دیکھو کہ شام تک جس قدر سامان کی ضرورت تھی مہیا ہو گیا.یہ میں نے کیوں سنایا تا تمہیں حرص پیدا ہو اور تم بھی اپنے مولا پر بھروسہ کرو.پھر میری بیوی نے کہا.عبد الحی کا مکان الگ بناتا ہے تو اس کے لئے بھی خدا نے ہی سامان کر دیا.ان فضلوں کے لیے عدل کا اقتضا ہے کہ میں سارا خدا کا ہی ہو جاؤں.قومی بھی اسی کے عزت و آبرو بھی اسی کی.میری پہلی شادی جہاں ہوئی وہ مفتی ہمارے شہر کے بڑے معظم و مکرم تھے.ایک دن میری بیوی کو کسی نے کہا."چہارے دی اٹ و ہنی وچہ جا لگی ایں مگر کہنے والے نے جھوٹ کہا.اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بڑے فضل کئے.پھر ہمیں ایسے موقع پر ناطہ دیا کہ تم تعجب کرو.جموں کا رئیس بیمار تھا.اس نے بہت دوائیں کیں.کچھ فائدہ نہ ہوا تو فقرا کی طرف متوجہ ہوا.جب ہند و فقراء سے فائدہ نہ ہوا تو مسلمان فقرا کی طرف توجہ کی اور ان سب فقرا کو بڑا روپیہ دیا.ایک میرا دوست جو اس روپے کے خرچ کا آفیسر تھا اس نے ذکر کیا کہ تین لاکھ تو خرچ ہو چکا.اب ایک فقیر سنا ہے جسے بلانے کے لئے آدمی گیا اور اس کے لئے اتنے ہزار روپے تھے مگر اس کا خط آیا.اس میں لکھا تھا میرا کام تو دعا کرنا ہے.دعا جیسی لدھیانہ میں و سکتی ہے ویسی کشمیر میں.دونوں جگہ کا خدا ایک ہے.وہاں آنے کی ضرورت نہیں.ہاں ایک بات ہے.اگر آپ کا رعایا سے اچھا سلوک نہیں تو اس کے افراد بد دعائیں دے رہے ہوں گے تو میں ایک دعا ہو

Page 584

575 کرنے والا کیا کر سکتا ہوں.باقی رہے روپے سو جب آپ نے فقیر سمجھا ہے تو پھر غنی نہیں ہو سکتا.اس آفیسر نے کہا کہ میں نے نہ ایسا آدمی ہندووں میں دیکھا ہے نہ مسلمانوں میں.میں نے کہا سردار صاحب! ایسے آدمیوں کے ساتھ رشتہ ہو تو پھر کیا بات ہے.سنو! عبدالحی کی ماں اسی بزرگ کی بیٹی ہے.خدا تعالیٰ میری خواہشیں تو یوں پوری کرتا ہے.اب میں غیر کا محتاج بنوں تو یہ عدل نہیں.میں نے نیکیوں سے اخلاص کے ساتھ تعلق چاہا تو خدا کو بھی پسند آیا.ہمارے گھر میں باغ لگا دیا.فرط دیئے.عقلمند بھی دیئے.اس واسطے میں تمہیں تاکید کرتا ہوں کہ تمہارا ہتھیار دعا ہو جائے.دعا بڑی نعمت ہے.الفضل جلد نمبر ۲۰۰۳ / جولائی ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵-۱۶)

Page 585

م ز جولائی ۱۹۱۳ ء 576 خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح نے سورۃ الفرقان کی آیات ۶۲ تا ۷۸ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میری نیت اس رکوع کے بنانے میں یہ ہے کہ کسی کو اس پر عمل نصیب ہو جائے اور وہ اسے اپنا دستور العمل بنائے.اس میں بتایا ہے کہ رحمن کے پیارے، رحمن کے پرستار کون ہیں؟ دیکھو اس وقت تم بیٹھے ہو.سب کی آوازوں میں اختلاف.لباسوں میں اختلاف.مکانوں میں اختلاف صحبتوں میں اختلاف.مذاقوں میں اختلاف، غرض اختلاف ایک فطری امر ہے.اب خدا ہی کا فضل ہے کہ تم ایک وحدت کے نیچے آ گئے.میں کبھی گھبرایا نہیں کرتا کہ فلاں شخص کو کیوں ہمارا خیال نہیں کیونکہ میرے مولیٰ کا ارشاد ہے و لا يزالُونَ مُخْتَلِفِينَ - إِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَ (هود: ۱۳۰) پس جس پر فضل ہوا وہ اختلاف سے نکل کر وحدت ارادی کے نیچے آجائے گا.اس رکوع میں اللہ نے ان باتوں کی طرف متوجہ کیا ہے جن پر چل کر انسان اختلاف سے بچ سکتا ہے.گالی کا جو اب گالی یہ جوانمردی کی بات نہیں.جو ایک گالی پر صبر نہیں کرتا اسے آخر پھر گالیوں پر صبر

Page 586

577 mi 3 کرنا پڑتا ہے.اختلاف تو بیشک ہوتے ہیں کیونکہ ہماری فطرتوں میں اختلاف ہے مگر عباد الرحمن کا طریق یہ ہے کہ وہ دنیا میں اپنی روش سکینت ، وقار کی رکھتے ہیں.تکبر و تجر و عصیان سے کام نہیں لیتے.بھاری بھر کم رہتے ہیں.وہ ہر معاملہ میں صبر عاقبت اندیشی سے کام لیتے ہیں.کیونکہ اختلافوں سے بچنے کی راہ ھون ہے.میرا ایک استاد تھا..اس نے مجھے نصیحت کی کہ دنیا میں سکھی رہنا چاہتے ہو تو اپنے تئیں ایسانہ بناؤ کہ اپنے خلاف ہونے سے گھبرا جاؤ اور دوسروں سے لڑنے لگو.رحمن کے پرستار ، رحمن کے پیارے وہ ہیں جو سخت بات سننے پر سلامتی کی راہ اختیار کر لیتے ہیں.دوم.وہ رات عبادت میں گزار دیتے ہیں.کبھی کھڑے ہو کر جناب الہی کو راضی کرتے ہیں، کبھی سجدہ میں پڑ کر.سوم.راتوں کو اٹھ اٹھ کر دعائیں مانگتے ہیں.اپنے مولیٰ کے آگے گڑ گڑاتے ہیں.چہارم.وہ ان لوگوں کی طرح نہیں جو روپیہ ہاتھ لگنے پر جھٹ ناجائز جگہ پر خرچ کر دیتے ہیں بلکہ سوچ سمجھ کر ضرورت حقہ پر درمیانی راہ اختیار کرتے ہیں.پنجم.وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں جانتے اور اپنے تئیں ہلاکت میں نہیں ڈالتے اور نہ قتل کرتے ہیں.نہ زنا کرتے ہیں کیونکہ جو ایسا کرتا ہے وہ سزا پاتا ہے.رحمن کے پیارے تو ایسے افعال شنیعہ سے بچتے رہتے ہیں اور سنوار والے کاموں میں اپنا وقت خرچ کرتے ہیں.دوسرے خطبہ میں فرمایا.خطبہ ثانیہ مسلمانوں سے حمد اٹھ گیا.وہ کبھی اپنی حالت پر راضی نہیں ہوتے اور نہ خدا کا شکر ادا کرتے ہیں.جب سے حمد و شکر اٹھا، خدا تعالیٰ کا انعام بھی اٹھ گیا.وہ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ (ابراهیم) کو نہیں سمجھے.تم اللہ تعالیٰ کی بہت حمد کیا کرو.ہماری کتاب بھی الحمد للہ سے شروع ہوتی ہے.ہمارے خطبے بھی الحمد سے شروع ہوتے ہیں.اس خطبہ میں دو بار الحمد ہے الْحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ.اور اس کے لئے اسی سے مدد طلب کرو اور اللہ کو ہر حال میں یاد رکھو.وہ تمہیں یاد رکھے گا.الفضل جلد نمبر ۴---۱۹ جولائی ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۵)

Page 587

ار جولائی ۱۹۱۳ء 578 خطبہ جمعہ حضرت امیر المومنین نے سورہ الفرقان کی آیات اے تا ۷۸ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.بعض لوگ تو بالکل کا فر ہوتے ہیں اور بعض منکرین نہیں ہوتے.اللہ پر اس کی کتابوں پر جزاء وسزا کے مسئلہ پر ایمان رکھتے ہیں مگر پھر بھی جرائم پیشہ ہوتے ہیں.جرائم پیشہ کئی قسم کے ہیں.ایک وہ جن پر پولیس کا قبضہ ہو سکتا ہے.ایک وہ جو پولیس کی نظر سے بچے رہتے ہیں.ان میں سے مدارس کے بعض لڑکے بھی ہیں جو شہوت سے اندھے ہو کر نا کر دنی حرکات کرتے ہیں.تاجروں اور حرفہ پیشوں میں بھی جرائم پیشہ ہیں.قسم قسم کے عناد جعل سازیاں اور دھو کے وہ دن رات سوچتے رہتے ہیں.پھر کچھ لوگ ایسے ہیں جو خود تو کوئی جرم نہیں کرتے مگر دو شخصوں کو آپس میں لڑوا دیتے ہیں.غرض بہت سی مخلوق جرائم پیشہ ہے.ان کے لئے یہ علاج فرمایا کہ وہ تو بہ کریں.اللہ پر ایمان لائیں.برے کام چھوڑ کر سنوار والے کام کریں.بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو ملانوں کے وعظ کے دھوکے میں آکر جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں.

Page 588

579 ایک دفعہ کا ذکر ہے ہم بالاخانہ پر رہتے تھے اور نیچے کے کمرے میں ہمارا کتب خانہ تھا.میرے بھائی صاحب کتب خانہ میں گئے.کیا دیکھتے ہیں کہ ایک ملاں کتابوں کی گٹھڑی باندھ رہا ہے.وہ حیران سے رہ گئے کیونکہ اس پر ان کا بہت نیک گمان تھا.اتنے میں وہ گٹھڑی چھوڑ کر بھاگ گیا.تھوڑی دیر کے بعد ایک کتاب لایا جس میں لکھا تھا.کوئی ہزار چوری کرے ، ڈاکے ڈالے قتل کر دے، زنا کا مرتکب ہو یہ کلام پڑھ لے تو سب کچھ معاف ہو جاتا ہے.اور اس کے نیچے لکھا تھا کہ ”ہر کہ دریں شک آرد کافر گردد".جو اس مسئلہ کے موافق ہونے میں شک کرے گا وہ کافر.ماں نے کہا بے شک میں آپ کی کتابوں کی گٹھڑی چوری لے چلا تھا اور اس سے پہلے بھی کئی کتابیں چرائی ہیں.مگر یہ کلام یہ دعا میں ہر روز کئی بار پڑھ لیا کرتا ہوں.اب اس میں میرا کیا قصور ہے؟ اسی طرح بعض لوگ جب خدا کی رحمت اور مغفرت کی بعض بے سروپا روائتیں سن لیتے ہیں تو دلیر ہو جاتے ہیں.مگر سب کا یہ حال نہیں.میں نے بڑے بڑے نیک لوگ دیکھے ہیں.ان میں سے ایک بزرگ کا ذکر ہے کہ وہ اپنے ہاتھ سے کاشت کرتے تھے.خدا رسیدہ تھے.جب کوئی حکام سے سفارش کے لئے کہتے تو اپنی سادگی سے جس حال میں ہوتے چل پڑتے.ایک دفعہ کسی غریب نے سفارش کے لئے عرض کیا.اس وقت کھیت کو پانی دے رہے تھے.اسی طرح کسی کندھے پر رکھے پاؤں گھٹنوں تک کیچڑ سے بھرے ہوئے کچہری میں چلے گئے.تحصیلدار جس کے پاس گئے تھے اس نے بدگمانی سے کام لیا.وہ سمجھا یہ مکار آدمی ہے.اس نے جھڑک دیا.آپ نے کہا اچھا! اب تم نے غصہ تو نکال لیا.سفارش قبول کر لو.تحصیلدار نے پرواہ نہ کی.بلکہ کہا جاؤ جی تم جیسے کئی دیکھے ہیں.آپ واپس چلے گئے.ایک مولوی صاحب پاس بیٹھے تھے.انہوں نے تحصیلدار کو یقین دلایا کہ یہ ایسا ویسا آدمی نہیں.اس کے کہنے سننے سے تحصیلدار نے کہا اچھا بلا لاؤ.وہ گئے اور عرض کیا.میاں صاحب! آپ کو پہچانا نہیں.فرمایا.اب تو یہ معالمہ عرش تک پہنچ گیا.اب وہاں سے موڑنا میرا کام نہیں.انہوں نے کہا پھر کیا ہو گا؟ کہنے لگے تیسرے دن دیکھ لو گے.آخر یوں ہوا کہ وہ ایک مقدمہ میں گرفتار ہو گیا.تین برس بامشقت قید کی سزا ہوئی.جیل خانہ سے تبدیل ہوئے.اونٹ پر سوار کرایا گیا.گرا اور ہڈیاں ٹوٹ گئیں.غرض نیکوں کو نیکی کی جزا اور بدوں کو بدی کی سزا ملتی ہے.جزاء وسزا کا مسئلہ برحق ہے.جو اللہ اور رسول کو مان کر پھر بھی جرائم پیشہ ہیں وہ تو بہ کر لیں تو اللہ ان پر اپنا فضل کرے گا.رحمن کے پیارے جھوٹ اور لغو باتوں سے شریفانہ گزر جاتے ہیں اور جب ان کو اللہ تعالیٰ کی آیتیں

Page 589

580 پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ اندھے بہرے ہو کر نہیں سنتے.میرا جی نہیں چاہتا کہ تم اندھے برے بنو.ہم تمہیں بہت قرآن مجید سناتے ہیں اور اللہ جانتا ہے تم سے کوئی اجر نہیں مانگتے.بلکہ ہم تو کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ہمیں تمہارے سلاموں کی، تمہاری تعظیم کی بھی ضرورت نہیں.ہمیں ہمارا موٹی بڑھ بڑھ کر رزق دیتا ہے اور ایسی جگہ سے دیتا ہے کہ تمہارے وہم و گمان میں بھی نہ ہو.اور یہ پیری مریدی کا روپیہ تو میں ایک کوڑی بھی اپنے پاس نہیں رکھتا تھا بلکہ فوراً مولوی محمد علی کو بھیج دیتا.مگر گزشتہ سے پیوستہ سال کا ذکر ہے.مجھے کسی نے کہا ہم تمہاری نگرانی کریں گے.تب میں نے کہا اچھا! لوگ کہاں تک اور کتنی نگرانی کر سکتے ہیں.ایک ہزار کسی نے دیا.میں نے گھر میں رکھ لیا.پھر ایک شخص نے پانچ سو دیا وہ بھی میں نے رکھ لیا اور خوب تحقیقات کی کہ آیا کسی کو معلوم ہے؟ ہرگز کسی کو کچھ پتہ نہ تھا.تب میں نے ایک شخص کو بتلایا کہ ڈیڑھ ہزار روپیہ میرے پاس ہے.وہ تم لے جاؤ.مگر کوئی تحقیق کر کے بتائے تو سی که روپیه روپیہ کس نے دیا اور کہاں سے آیا؟ مجھے خوب معلوم تھا دینے والا کبھی ذکر نہیں کرے گا.غرض اللہ ہی نگرانی کر سکتا ہے.رحمن کے پیارے دعاوں میں لگے رہتے ہیں اور اپنی بیوی اپنے بچوں کے لئے دعا کرتے ہیں.اور دعا کیوں نہ کریں.حکم ہوتا ہے.اگر تم دعاؤں سے کام نہ لو تو اللہ کو تمہاری کیا پروا ہے اور تم ہو ہی کیا 92 آج میرے نفس نے اجازت نہ دی کہ میں جمعہ پڑھانے آؤں کیونکہ مجھے تکلیف ہو گئی تھی.پھر میں نے سوچا کہ شاید یہی جمعہ آخر کا جمعہ ہو.اللہ تمہیں دعاؤں اور اعمال حسنہ کی توفیق دے.الفضل جلدا نمبر۵-۰-۱۶ جولائی ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵) ☆-⭑-⭑-☆

Page 590

۱۸ جولائی ۱۹۱۳ء 581 خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح نے سورۃ الاعلیٰ تلاوت فرمائی اور پھر فرمایا.ہر اس شخص پر جو قرآن پر ایمان لایا جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو مانا جو اللہ پر ایمان لایا اس کی کتابوں پر ایمان لایا فرض ہے کہ وہ کوشش کرے کہ خدا تعالیٰ کے کسی نام پر کوئی آدمی اعتراض نہ کرنے پائے.اگر کرے تو اس کا ذب کرے.اس لئے ارشاد ہوتا ہے سیخ جناب الہی کی تنزیہ کر.اس کی خوبیاں اس کے محامد بیان کر.تسبیح کے کیا معنے ہیں؟ میں نے بعض نادانوں کو دیکھا ہے.جب جناب الہی اپنی کامل حکمت و کمالیت سے اس کے قصور کے بدلے سزا دیتے ہیں، اور وہ سزا اسی کی شامت اعمال سے ہی ہوتی ہے جیسے فرمایا وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ (الشوری:۳)، تو وہ شکایت کرنے لگتے ہیں.مثلاً کسی کا کوئی پیارے

Page 591

.582 سے پیارا مر جائے تو اس ارحم الراحمین کو ظالم کہتے ہیں.بارش کم ہو تو زمیندار سخت لفظ بک دیتے ہیں اور اگر بارش زیادہ ہو تب بھی خدا تعالیٰ کی کامل حکمتوں کو نہ سمجھتے ہوئے برا بھلا کہتے ہیں.اس لئے ہر آدمی پر حکم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تنزیہ و تقدیس و تسبیح کرے.آپ کے کسی اسم پر کوئی حملہ کرے تو اس حملہ کا دفاع کرے.اب میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں کوئی برا کہے یا تمہارے ماں باپ یا بھائی بہن یا محبوب کو سخت سست کہہ دے تو تمہیں بڑا جوش پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ مرنے مارنے پر تیار ہو جاتے ہو.لیکن جس وقت اللہ کے کسی فعل پر کہ وہ بھی اس کے کسی اسم کا نتیجہ ہے کوئی نادان یا شریر اعتراض کرتا اللہ ہے تو تم کہتے ہو.جانے دو کافر ہے.بکتا ہے.اس وقت تمہیں یہ جوش نہیں آتا.حالانکہ جن کے لئے تم نے اتنا جوش دکھایا، ان میں تو کچھ نہ کچھ نقص یا عیب و قصور ضرور ہو گا.مگر اللہ تو ہر برائی سے منزہ ہر حمد سے محمود ہے.ہر وقت تمہاری ربوبیت کرتا ہے.اب جو اس کے اسماء کے لئے اپنے تئیں سینہ سپر نہیں کرتا وہ نمک حرام ہی ہے اور کیا؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم کوئی پڑھے ہوئے ہیں جو لوگوں سے مباحثے کرتے پھریں.تعجب کی بات ہے کہ اگر کوئی ان کے ماں باپ یا بھائی بہن کو یا کسی دوست کو یا خود ان کو برا کہہ دے تو وہ ناخواندگی یاد نہیں رہتی اور سنتے ہی آگ ہو جاتے ہیں اور پھر جس طریق سے ممکن ہو اس کا دفاع کرتے ہیں.مگر جناب الہی سے غافل ہیں.اسی طرح خدا کے برگزیدوں پر طعن کرنا دراصل خدا تعالیٰ کی برگزیدگی پر طعن رکھنا ہے.اس کے لئے بھی مومنوں کو غیرت چاہئے.بعض لوگوں کو میں نے دیکھا ہے شیعہ محلہ میں رہتے ہیں.ان کے تبرے سنتے سنتے کچھ ایسے بے غیرت ہو جاتے ہیں کہ کہنے لگتے ہیں صحابہ کو برا کہنا معمولی بات ہے.حالانکہ ان کی برائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ پر حملہ ہے جس نے ان کو تیار کیا.اسی طرح عیسائی مشنری بڑی بد اخلاق قوم ہے.عیسائی مشنریوں کے اخلاق! کوئی خلق ان میں ہے ہی نہیں.ایک شخص نے کہا ان کی تعلیم میں تو اخلاق ہے اور ایک نے کہا ان میں بڑا خلق ہے.ایسا کہنے والے نادان ہیں.ان کے ہاں ایک عقیدہ ہے نبی معصوم کا جس کے یہ معنے ہیں کہ ایک ہی شخص دنیا میں ہر عیب سے پاک ہے.باقی آدم سے لے کر اس وقت تک کے کل انسان گنہگار اور بد کار ہیں.ان لوگوں نے یہاں تک شوخی سے کام لیا ہے کہ حضرت آدم کے عیوب بیان کئے.پھر حضرت نوح کے حضرت ابراہیم کے ، حضرت موسیٰ“ کے.الغرض جس قدر انبیاء اور راستباز پاک انسان گزرے ہیں ان کے ذمہ چند عیوب لگائے ہیں.پھر ہماری سرکار ہے.احمد مختار صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تو ان کو خاص نقار ہے اور دھت ہے ان کو گالیاں دینے کی.باوجود اس گندہ دہنی کے پھر بھی ایسے لوگوں کو کوئی

Page 592

583 بڑے اخلاق والا کہتا ہے تو اس کی غیرت دینی پر افسوس.ایک شخص تمہارے پاس آتا ہے اور تم کو آکر کہتا ہے میاں! تم بڑے اچھے بڑے ایماندار آئے تشریف رکھئے.باپ تمہارا بڑا ڈوم بھڑوا کنجر بڑا حرامزادہ سور ڈاکو بد معاش تھا.تم بڑے اچھے آدمی ہو اور ساتھ ساتھ خاطرداری کرتا جائے تو کیا تم اس کے اخلاق کی تعریف کرو گے؟ تمام جہان کے ہادیوں کو جن کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار سے زیادہ بیان کی جاتی ہے اور میرا تو اعتقاد ہے، ان کو کوئی نہیں گن سکتا، بد کار گنگار کہنے والا ایک شخص کی مزورانہ خاطرداری سے خوش اخلاق کہلا سکتا ہے؟ اللہ تعالی کے برگزیدوں کی تو بہتک کرتے ہیں اور تم ان کی نرمی اور خوش اخلاقی کی تعریف کرو حد درجے کی بے غیرتی ہے.عیسائی خدا کی شریعت کو لعنت کہتے ہیں یہاں تک تو انہوں نے کہہ دیا کہ شریعت کی کتابیں لعنت ہیں، پرانی چادر ہیں.ان کتابوں کو جو حضرت رب العزت سے خلقت کی ہدایت کے لئے آئیں لعنت کہنا کسی خوش اخلاق کا کام ہو سکتا ہے؟ دیکھو گلتیوں کا خط کہ اس میں شریعت کو لعنت لکھا ہے.خدا تعالیٰ کے متعلق عقیدہ پھر خدا سے بھی نہیں ملے.کہتے ہیں اس کا بیٹا ہے تَكَادُ السَّمَوتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَ تَنْشَقُ الْاَرْضُ وَ تَخِرُ الْجِبَالُ هَذَا اَنْ دَعَوْ الِلرَّحْمَنِ وَلَدًا (مريم (۹۲).پھر اس بیٹے پر اس غضب کی توجہ کی ہے کہ اپنی دعائیں بھی اسی سے مانگتے ہیں.بیٹے پر ایمان لانے کے بدوں کسی کو نجات نہیں.خدا کسی کو علم نہیں بخش سکتا.یہ تو روح القدس کا کام ہے نہ اللہ تعالیٰ کا.عیسائی مشنریوں کے بد اخلاق غرض اس درجہ بد اخلاقی سے کام لینے والوں کو خوش خلق کہنا محض اس بنا پر کہ جب کوئی ان کے پاس گیا تو مشنری نے انجیل دے دی ، کسی کو روپیہ دے دیا، کسی کی دعوت کر دی، حد درجے کی بے غیرتی ہے.ان ظالموں نے ہمارے سب ہادیوں کو برا کہا.تمام کتب الہیہ کو برا کہا.جناب الہی کے اسماء وصفات کو برا کہا.اسے سمیع الدعاء علم دینے والا نہ سمجھا.پھر اخلاق والے بنے ہیں.توبہ توبہ.ان کے کفارہ کا

Page 593

584 الوہی سیدھا نہیں ہو تاجب تک یہ تمام جہان کے راستبازوں کو اور تمام انسانوں کو گنہگار بد کار اور لعنتی نہ کہہ لیں.ان میں خوش اخلاقی کہاں سے آگئی.مومن کا فرض اپنے رب کی تسبیح ہے ان حالات میں مومن کا فرض ہے کہ جناب الہی کی تسبیح کرے.اس کے اسماء کی تسبیح میں کوشاں رہے.اس کے انتخاب شدہ بندوں کی تسبیح کرے.ان پر جو الزام لگائے جاتے ہیں، جو عیوب ان کی طرف شریر منسوب کرتے ہیں ان کا دفاع و ذب کرے اور سمجھائے کہ جنہیں میرا رب برگزیدہ کرے وہ ید کار اور لعنتی نہیں ہوتے.ان کی تسبیح خدا کی تسبیح ہے.یہ سنتے ہیں سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى (الاعلی:۲) کے.الَّذِي خَلَقَ فَسَوَّى (الا على : ٣) تمہارا خدا تو ایسا ہے کہ اس کی مخلوقات سے اس کی تسبیح و تقدیس عیاں ہے.اس نے خلق کیا اور پھر تمہارے اندر نسل انسانی کو ایسا ٹھیک کیا کہ سب کچھ اس کے ماتحت کر دیا.آگ پانی ہو اسب عناصر کو تمہارے قابو میں کر دیا.وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدَى (الا على:٤) پھر چونکہ سارے جہان سے اس نے کام لینا تھا اس لئے ہر مخلوق کو ایک ضابطہ و قانون کے اندر رکھا تاکہ انسان اس سے فائدہ اٹھا سکے اور خدمت لے سکے.مثلاً یہ عصا ہے.میں اس سے ٹیک لگاتا ہوں.اگر بجائے ٹیک کا کام دینے کے یہ یکدم چھوٹا ہو جائے یا مجھے دبائے یا اپنی طرف کھینچ لے تو میرے کام نہیں آسکتا.پس اس نے اپنی حکمت بالغہ سے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کیا.یعنی جس ترتیب سے وہ چیز مفید و بابرکت ہو سکتی ہے اس ترتیب سے اس نے بنا دیا اور پھر انسانوں کو اس سے کام لینا سکھایا.والذى اخرجَ الْمَرْعَى - فَجَعَلَهُ غُنَاء أحوى (الاعلى (٢٥) پھر ان چیزوں پر غور کریں تو ان کا ایک حصہ ردی اور پھینک دینے کے قابل بھی ہوتا ہے یا ہو جاتا ہے.مثلا کھیتی ہے.پہلے پھل دیتی ہے.لوگ مزے سے کھاتے ہیں.مگر اس کا ایک حصہ جلا دینے کے

Page 594

585 قابل ہوتا ہے.اسی طرح انسانوں میں سے جو اللہ کی نافرمانی کرتے ہیں اور انبیاء اور ان کی پاک تعلیم سے روگردانی کرتے ہیں وہ آگ میں جھونک دیئے جائیں گے.ہر ایک انسان کو خدا تعالیٰ پڑھاتا ہے اور وہ یاد رکھتا ہے.جس قدر اللہ چاہے اس میں سے بھول بھی جاتا ہے.غرض اس نے اپنی پاک راہوں کو دکھانے کے لئے اپنی تعلیم بھیج دی ہے اور بتا دیا ہے.إنَّهُ يُعْلَمُ الْجَهْرَ وَ مَا يَخْفى الاعلى ) نیکی سیکھنے اور اس پر چلنے کا طریق یہ ہے کہ اللہ کو دانائے آشکار و غیب جانے.دیکھو میں اس مقام پر کھڑا ہوں.یہ مقام چاہتا ہے کہ میں گند نہ بولوں.بدی کی راہ نہ بتاؤں.نیک باتیں جو مجھے آئیں تمہیں سنادوں.ہاں ایک امر مخفی بھی ہے وہ یہ کہ میں اللہ تعالیٰ کے لئے کھڑا ہوں یا ریاء و حرص کے لئے..جیسا کہ کشمیر میں واعظ کرتے ہیں.گھنٹوں منبر پر کھڑے رہتے ہیں.ایک شخص آکر کہتا ہے.حضرت! اب بس کرو.جمعہ کا وقت تنگ ہو گیا.وہ کہتے ہیں.بس کیا خاک کریں، ابھی تو دو آنے کے پیسے بھی نہیں ہوئے.تب ایک شخص اٹھتا ہے اور چندہ کرتا ہے اور اسی طرح اس سے رہائی حاصل کرتے ہیں.اسی طرح تم کو کیا خبر میرے دل میں کیا درد ہے اور کتنی تڑپ ہے.دوسری طرف تم یہاں جمعہ کا خطبہ سننے اور نماز جمعہ پڑھنے کے لئے آئے ہو مگر تمہارے دلوں کی کیا خبر کہ ان میں کیا ہے؟ کیونکہ آخر تمہیں میں سے ہیں جو میری مخالفتیں کرتے ہیں.میری ہی نہیں میرے گھر تک کی بھی.گو نادان ہیں جو ایسا کہتے ہیں.سنبھل کر کام کرو.ایسا نہ ہو کہ خدا ناراض ہو جائے.ایک جگہ اخفی کو سر کے مقابلہ میں رکھا ہے.چنانچہ فرماتا ہے يَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفى (طه:۸).وہاں منشاء باری تعالیٰ یہ ہے کہ میں ان خیالات کو بھی جانتا ہوں جو آج سے سال یا دو سال یا اس سے زیادہ مدت بعد تمہارے اندر پیدا ہوں گے اور اب خود تمہیں بھی معلوم نہیں.ایسے نگران علیم و خبیر لطیف و بصیر خدا سے ڈر جاؤ اور نافرمانی نہ کرو.فَذَكِّرْ إِنْ نُفَعَتِ الذِّكْرَى (الاعلى ہم تمہیں نصیحت کرتے ہیں.اور اللہ فرماتا ہے کہ نصیحت کرتے رہو.نصیحت ضرور سودمند ہوتی ہے.میرا جی چاہتا ہے کہ تم باہر والوں کے لئے نمونہ بنو.تمہارا لین دین تمہاری گفتار، رفتار، تمہارا چال و چلن تمهارا سر و علن) تمہارا اٹھنا بیٹھنا، تمہارا کھانا پینا ایسا ہو کہ دوسرے لوگ بطور اسوہ حسنہ اسے قرار دیں.میں افسوس کرتا ہوں کہ یہاں بد معاملگی بھی ہوتی ہے.بد زبانی بھی ہوتی ہے.بدلگامی

Page 595

586 بھی ہوتی ہے اور اس سے مجھے رنج پہنچتا ہے.تم اللہ کو علیم و خبیر بصیر مان کر اپنے آپ کو بدیوں سے روکو.یہ بھی ایک قسم کی تسبیح ہے.جب تم ایسا کرو گے تو دوسرے لوگوں کا ایمان بھی بڑھے گا.اللہ توفیق دے.الفضل جلد نمبر ---- ۲۳ / جولائی ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۲.۱۳) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 596

۲۵ جولائی ۱۹۱۳ء 587' خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح نے سورۃ بقرہ کے پہلے رکوع کی تلاوت کی اور پھر فرمایا:.ایک دفعہ میں لاہور میں تھا.بڑی مدت کی بات ہے.وہاں ٹھنڈی سڑک پر ہم تین آدمی جا رہے تھے.ایک نے کہا.قرآن میں تو لکھا ہے کہ وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ (القمر) مگر قرآن تو بہت مشکل ہے.میں نے کہا یہ بہت سچا کلمہ ہے.قرآن کا دعویٰ ہے کہ جو کچھ بھی سچائیاں اور الہی صداقتیں، جن میں خدا تعالیٰ کی تعظیم اور مخلوق پر شفقت اور اس کے قوانین و اصول ہو سکتے ہیں، وہ سب قرآن میں موجود ہیں.اگر یہ تمام صداقتیں دیگر آسمانی کتب سے خود جمع کرنی پڑتیں تو کس قدر مشکل بات تھی اور پھر مزید برآں یہ کہ مدلل و مفصل موجود ہیں.چنانچہ دوسرے موقع پر فرماتا ہے.لَمْ يَكُنِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِيْنَ مُنْفَكِّيْنَ حَتَّى تَأْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ - رَسُولٌ مِّنَ اللهِ يَتْلُوا صُحُفًا مُطَهَّرَةً فِيْهَا كُتُبْ قَيِّمَةٌ (البينه: ۲ تام) ساری مضبوط تعلیمات اور ہدایات کی جامع کتاب حضرت قرآن ہے جس نے تمام اگلی صداقتوں کو بھی بہتر سے بہتر اور عمدہ سے عمدہ رنگ میں فرمایا ہے.

Page 597

خطبات نوب 588 اس قرآن کے بارے میں فرماتا ہے کہ سنو! میں اللہ علم والا ہوں.یہ وہ کتاب ہے جس میں ہلاکت کی راہ نہیں.کتاب کے لفظ پر علم اشتقاق میں بڑی بحث ہے.چھ لفظ جو اس مادہ سے مشتق ہیں ان میں جمعیت کے معنے پائے جاتے ہیں.کتیبه لشکر کو کہتے ہیں.پس یہ کتاب ہزا ر ہا شبہات کے مقابلہ کے لئے کافی ہے.کیا ہی پاک روح تھی وہ جس کے منہ سے نکلا حَسْبُنَا كِتَابُ اللَّهِ.اس فقرے پر ایک قوم رنجیدہ ہے.اس کے ایک فرد نے مجھ پر بھی اعتراض کیا تو میں نے اس سے پوچھا آپ حَسْبُنَا کے کیا معنی کرتے ہیں؟ اس نے کہا كَافِيكَ.میں نے کہا یہ تو قرآن مجید ہی کا قول ہے.وہ فرماتا ہے اَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ يُتْلَى عَلَيْهِمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَرَحْمَةً وَّ ذِكْرَى لِقَوْمٍ يُعْمِنُونَ (العنکبوت:۵۲) کیا ان کے لئے یہ کتاب کافی نہیں جو ہم نے ان پر اتاری.یہی حضرت عمر نے کہا.ذلِكَ الْكِتَابُ سے ظاہر ہے کہ یہی ایک کتاب ہے اور کوئی ہے ہی نہیں.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک ادب کیا ہے کہ اپنی آنکھ سے کوئی کتاب دیکھی ہی نہیں.ہاں ایک دفعہ موقع فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا (ال عمران:۹۴) سے نکلا تھا مگر تو رات بھی آپ کے سامنے کوئی نہ لایا.ریب کے معنے شک اور ہلاکت کے ہیں.ہلاکت کی کوئی تعلیم قرآن کریم میں نہیں جس سے انسان کا دین و دنیا تباہ ہو جائے.ایسا ہی شک کی کوئی بات نہیں.شک اگر ہو گا تو اس شخص کے دل میں ہو گا جو قرآن کا مخالف ہے.غرض قرآن میں کوئی شک نہیں.پھر اس کو اِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا (البقرة :۲۴) میں کھول دیا ہے.یہ کتاب ہر ایک قوم کے لئے جو متقی ہو چکی ہے یا ہو گی یا اس وقت ہے، ہدایت نامہ ہے.اس کے مبادی میں ایمان بالغیب شرط ہے.کیونکہ دنیا میں بھی جس قدر علم صحیح ہیں سب کا مدار فرض یا غیب پر.علم ہندسہ ہے.اس میں جمع اور تفریق ہی ہے کیونکہ ضرب کیا ہے؟ امثال کی جمع.تقسیم کیا ہے؟ امثال کی تفریق.اور اس جمع تفریق کی بنا فرض ہے.چار روپے دس آنہ.دو ہزار پانچ روپے دو پائی.غرض کوئی روپیہ ہو وہ اس وقت کہاں ہوتا ہے.فرضی طور پر جمع یا تفریق کیا جائے گا.اسی طرح علم مساحت، انجنیر نگ، ڈاکٹری، تجارت، زراعت میں پہلے ایمان بالغیب ہی ہوتا ہے.کاشتکار بیج کو زمین میں سپرد خاک کرتا ہے.اسے کیا معلوم کہ یہ بیج کیسا ہو گا اور کتنا پھل لائے گا؟ پولیس بھی ایماندار ہو تو اپنی کارروائی پہلے غیب پر شروع کرے گی پھر صحیح نتیجہ پر پہنچے گی.اسی طرح ایک مہندی پہلے اللہ پر ملائکہ پر کتب پر حشر و نشر پر ایمان بالغیب لائے گا پھر اس کتاب کے ذریعہ ہدایت پاکر وہ ان سب کا علم الیقین حاصل کر لے گا.مگر یہ ہدایت اسی کو نصیب ہوتی ہے جو دعامانگنے کا عادی ہو.صدقہ و خیرات ہے.

Page 598

کرتا ہو.589 صدقہ و خیرات کی ترغیب کے لئے کیا عمدہ فرمایا مِمَّا رَزَقْنَهُمْ (البقرۃ:۳) کہ جس چیز سے خرچ کے لیے کچھ ارشاد کرتے ہیں، وہ تمہاری نہیں بلکہ ہماری دی ہوئی ہے.پھر سب نہیں مانگتے بلکہ اس میں سے کچھ.پھر یہ رزق عام ہے ، صرف مال مراد نہیں.جو لوگ ان نیکیوں میں بڑھتے بڑھتے پہلی کتابوں پر ایمان لاتے ہیں اور جو کچھ تیرے پر نازل ہوا اسے مانتے ہیں اور اس کے بعد جو وحی ہو اس پر بھی ایمان لانے کو تیار ہیں وہ ہدایت پر گویا سوار ہیں.کفر گیرد کاملے ملت شود.دیکھو مکہ کی طرف سجدہ دین بن گیا کیونکہ یہ ایک کامل کا فعل ہے.برخلاف اس کے جو یکدم انکار ہی کر بیٹھے.اور ان کا حال جملہ معترضہ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ وَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ (البقرة (4) میں بتا دیا کہ ان کے لیے انذار اور عدم انذار مساوی ہے یعنی حق کی پرواہی نہیں.وہ نہ حق بات سنتے ہیں ، نہ حق دیکھتے ہیں، نہ اس پر غور کرتے ہیں.اسی سزا میں ان پر مہرلگادی گئی.”آپنے را که زنگ خورد از مصقله صاف نہ گردد.یہ فتویٰ لا يُؤْمِنُونَ (البقرة:6) سب کے حق میں نہیں.اس لئے یہ اعتراض صحیح نہیں کہ پھر بعض کافران میں سے مسلمان کیوں ہو گئے؟ چنانچہ سورۃ یس میں فرمایا.لَقَدْ حَقِّ الْقَوْلُ عَلَى أَكْثَرِهِمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ (يس:۸) یعنی اکثر پر ایسا فتوی لگتا ہے جس کی وجہ بھی بتادی کہ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ وَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ.ہدایت تو وہ پاتے ہیں جن میں ایمان بالغیب صدقہ و خیرات اور حق کی شنوائی حق کی بینائی ہو.إِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكْرَ وَ خَشِيَ الرَّحْمَنَ بِالْغَيْبِ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ (يس:) الفضل جلد نمبر۷ ۳۰۰۰۰۰ جولائی ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۵) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 599

یکم اگست ۱۹۱۱۳ء 590 خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ کے دوسرے رکوع کی تلاوت کے بعد فرمایا:.الحمدام القرآن ہے یہ ایک کچی اور پکی بات ہے.الحمد شریف کے اندر تمام قرآن اللہ نے درج فرمایا ہے.الحمد شریف گویا خلاصہ ہے قرآن مجید کا.اللہ تمام اسماء حسنیٰ کا جامع ہے جیسا کہ اللہ کے جس قدر نام ہیں اللہ کے ماتحت ہیں اللہ کا لفظ بیان فرما کر پھر صفات کاملہ کا بیان ہو تا ہے.اس واسطے اللہ کے معنوں کے نیچے ایک تو یہ بات ہے کہ وہ ساری خوبیوں کا جامع ہے.جہاں تنزیہ کا ذکر ہے وہاں اللہ کا ذکر لا کر نیہ ذکر کرتا ہے کہ ہر عیب سے پاک ہے.ان دو باتوں کے بعد فرماتا ہے لا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ - (حم السجدة:۳۸).چونکہ وہ

Page 600

591 سارے محامد کا جامع اور ہر قسم کے عیب و نقص سے منزہ ہے اس لئے اس کے سوا کسی کی عبادت جائز نہیں.پھر اللہ کی صفت صمد ہے.صمد کے معنے خود ہی دوسرے مقام پر کھول کر بتائے ہیں.انتُم الفقراء إلى الله واللهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ (فاطر (1) تم سب محتاج ہو.غیر محتاج صرف اللہ کی ذات ہے.غرض اللہ کے لفظ کے جو معنی ہیں کہ ساری خوبیوں والا اور ساری برائیوں سے منزہ اور پاک معبود حقیقی، اس کے سوا کسی دوسرے کی عبادت ناجائز ہے.یہ خلاصہ ہے تمام کلام الہی کا اور اسی کا ذکر ہر رکوع بلکہ ہر آیت میں ہے.بعض کتابوں میں اللہ کا ذکر تک نہیں ہوتا بخلاف اس کے دیگر کتابیں ہیں کہ ان کے صفحے کے صفحے پڑھ جاؤ ان میں خدا کا نام تک نہ نکلے گا.بائبل میں ایک کتاب ہے.اس میں اللہ کا ذکر ضمیر کے رنگ میں بھی نہیں حالانکہ اسے بھی کتب مقدسہ میں سے سمجھتے ہیں.مگر قرآن مجید میں تو کوئی رکوع ایسا نہیں جہاں عظمت الہی کا ذکر نہ ہو.الحمد میں تین قوموں کا ذکر الحمد میں تین قوموں کا ذکر فرمایا ہے.ایک منعم علیہم.دوم مغضوب علیہم.مغضوب کا فاعل نہیں بیان کیا.کیونکہ ان پر خالق بھی غضبناک ہے اور مخلوق بھی.سوم ضالین کا.اب اس کی تفصیل میں پہلے رکوع میں منعم علیہم کا بیان کہ وہ ایمان بالغیب رکھتے ہیں.مقیم الصلوۃ ہوتے ہیں.منفق فی سبیل اللہ ہوتے ہیں.مومن بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَ مِنْ قَبْلِكَ ہوتے ہیں اور مومن بالآخر.اس کے بعد مغضوبوں کا ذکر کیا کہ ان کے دل حق کے شنوا زبان حق کی گویا نہیں ہوتی اور بہرے اندھے تکالیف کے لحاظ سے عذاب میں ہوتے ہیں.اس لئے فرمایا وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ) (البقرۃ:۸).اب فرماتا ہے کہ ضال لوگ کس طرح ہوتے ہیں؟ یہ بیان دو رکوع میں ہے.چنانچہ اُولئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَى (البقرۃ:۱۷) فرما کر بتا دیا کہ یہ ضالین کا بیان ہے جنہوں نے ہدایت کے بدلے ضلالت کو مول لیا ہے.اور اس سے اگلے رکوع میں يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَّ يَهْدِي بِهِ كَثِيرًا وَّ مَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفُسِقِينَ (البقرة:۳۷) فرمایا کہ ضالین وہ ہیں جو بد عہد ہیں.غرض انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کا نام متقی ، مغضوب کا نام لا يُؤْمِنُ.ضالین کا ذکر ان دو رکوعوں میں ہے.اب ایک اور بات قابل سمجھنے کے ہے.بہت سے لوگ پڑھے ہوئے یا ان پڑھ ایسے ہیں کہ انہوں

Page 601

592 نے غضب ڈھایا ہے کہ وہ عمل کو جزو ایمان نہیں مانتے.وہ کہتے ہیں عمل ہو یا نہ ہو عقیدہ تو اچھا ہے.بعض لوگوں نے تو یہاں تک اس میں غلو کر لیا ہے کہ وہ دعوی ایمان بالله و بالآخرہ کا کرتے ہیں حالانکہ وہ مومن نہیں ہوتے."" کے بعد جو "ب" آئے تو معنے بالکل کے ہوتے ہیں.یعنی بالکل مومن نہیں.اب تم اپنی اپنی جگہ غور کرو کہ تمہارے اس دعوے کے ساتھ کہ ہم مومن ہیں، ہم احمدی ہیں ، ہم مرزائی ہیں، دلائل کیا ہیں؟ ایسا نہ ہو کہ تم کہو.امَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ (البقرة) اور خدا تعالیٰ فرمائے.وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ (القبرة:٩) - دیکھو! ایسے لوگوں کے لئے فرماتا ہے کہ ان کے افعال کو دیکھیں تو اللہ کو چھوڑ بیٹھے ہیں.کہیں مخلوق کا لحاظ ہے، کہیں رسم و عادت کا کہیں دم نقد فائدے کا.مگر انہوں نے اللہ کو کیا چھوڑنا ہے اپنے تئیں محروم کیا ہے.فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ (ال عمران (۹۸) اور اس کا وبال ان کی اپنی جان پر ہے.ہمارے نبی نے تو تصدیق کو بھی اعمال سے گنا ہے.فرمایا النَّفْسُ تَمَتَّى وَتَشْتَهِي وَالْفَرْجُ يُصَدِّقُ (بخاری.کتاب القدر) انسان کا نفس کچھ خواہشیں کرتا ہے جن کا علم کسی کو نہیں ہوتا اور شرمگاہ اس کی تصدیق کرتی ہے.گویا عمل کا نام بھی تصدیق ہے.غرض اعمال ایمان کا جزو ہیں.فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ صرف زبانی دعویٰ کرنے والوں کے دلوں میں، جنہیں نہ قوت فیصلہ نہ تاب مقابلہ مرض ہے.اللہ اس مرض کو بڑھائے گا اس طرح پر کہ جوں جوں اسلام کے مسئلے بڑھیں گے ان کے دل میں شبہات بڑھیں گے یا یہ عملی طور پر انکار کریں گے.پھر یہ چھوٹی سی جماعت کے مقابل میں گیدی ہیں تو بڑوں کے سامنے کیا کچھ بزدلی نہ دکھائیں گے یا تھوڑے مسائل کا فیصلہ نہیں کر سکتے تو بہت سے مسائل کا فیصلہ کیا کریں گے؟ چونکہ انہوں نے جھوٹا دعویٰ ایمان کا کیا اس لئے ان کو دکھ دینے والا عذاب ہے.ایسی مخلوق کو جب واعظ وعظ کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ جو کام تم کرتے ہو اس کا نتیجہ خطرناک ہے، تم دنیا میں فساد نہ کرو تو وہ کہتے ہیں کہ تو بہ ہم فسادی ہیں ؟ ہم تو با مسلمان اللہ اللہ با برہمن رام رام" کے اصل پر چل کر سب کے ساتھ اپنا تعلق رکھتے ہیں اور بڑی سنوار والے ہیں.اللہ فرماتا ہے أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ (البقرة: ۱۳) کہیں بڑے مفسد لوگ ہیں کہ دعوے زبان سے کچھ ہیں، ہاتھ سے کچھ کرتے ہیں.ایک نماز ایسی چیز ہے کہ کلمہ شہادت کے بعد کوئی عمل نماز کے برابر نہیں.حضرت نبی کریم نے فرمایا.میرا جی چاہتا ہے کہ جب تکبیر ہو جائے تو میں دیکھوں کون کون جماعت میں نہیں آیا اور ان کے

Page 602

انطبات نور 593 گھر جلادوں.مگر باوجود اس کے کئی لوگ جو نماز با جماعت نہیں پڑھتے تم ان میں سے نہ بنو.منافق اصل میں بڑا مفسد ہوتا ہے.اس میں شعور نہیں ہوتا.خدا تمہیں سمجھ دے.جو میں نے کہا ہے اسے سمجھو.الفضل جلد نمبر ۲۰۰۰۸ / اگست ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 603

۱۸ اگست ۱۹۱۳ء 594.خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ رکوع دوم کی تلاوت کے بعد فرمایا.ایک زمانہ ایسا بھی اسلام پر گذرا ہے جب علماء نے کہا کہ اب دو ہی قسم کے آدمی ہیں.کافریا مومن.منافق نہیں.اب اس زمانے کا حال دیکھ کر تعجب آتا ہے کیونکہ اس میں منافق طبع بہت ہیں.زبان سے تو کہتے ہیں کہ ہم مومن ہیں مگر مومن نہیں.کیونکہ ان کے عقائد سے ان کے اعمال کی مطابقت نہیں.عیسائیوں نے سوال کیا ہے کہ نجات کس طرح ہوتی ہے؟ اور میں نے جواب دیا ہے کہ نجات فضل سے ہے اور خدا کے اس فضل کو ایمان کھینچتا ہے.اس واسطے یہ بھی صحیح ہے کہ نجات ایمان سے ہے.پھر کہتے ہیں عمل کوئی چیز نہیں.حالانکہ کون دنیا میں ایسا ہے کہ آگ کو آگ مان کر پھر اس میں ہاتھ ڈالے.پانی کو پیاس بجھانے والا جان کر پھر پیاس لگنے پر اس سے پیاس نہ بجھائے.ہم تو یہی دیکھتے ہیں کہ جب ایمان ہے پانی پیاس بجھاتا ہے تو پیاس لگنے کے وقت اس پانی سے پیاس ضرور بجھائی جاتی ہے.پس کیا وجہ ہے کہ یہ ایمان ہو قرآن مجید خدا تعالیٰ کی کتاب ہے اور اعمال کی جزاء سزا ضروری ہے

Page 604

595 اور پھر اس پر عملدرآمد نہ ہو.بہت سے لوگ ہیں جو اپنے اوپر خدا کے بہت سے فضلوں کا اقرار کرتے ہیں اور اپنے مقابل میں دوسروں کا ایمان حقیر سمجھتے ہیں مگر عمل میں کچے ہیں.منہ سے بہت باتیں بناتے ہیں مگر عملد رآمد خاک بھی نہیں.ایسے لوگوں کو نصیحت کی جائے تو کہتے ہیں ہم تو مانتے ہیں.مگر اپنے شیاطین اپنے سرغنوں کے پاس جا کر کہتے ہیں کہ ہم تو ان مسلمانوں کو بناتے ہیں.ان کو حقیر سمجھتے ہیں.استہزا هزء سے نکلا ہے.ہلکی چیز کو چونکہ آسانی سے ہلایا جاسکتا ہے اس لئے استہزاء تحقیر کو کہتے ہیں.اللہ ان کو ہلاک کرے گا کسی کو جلد کسی کو دیر سے.اللہ تو تو بہ کے لئے ڈھیل دیتا ہے مگر اکثر لوگ خدا کی حد بندیوں کی پرواہ نہیں کرتے.حد بندی سے جوش نفس کے وقت یوں نکل جاتے ہیں جیسے دریا کا پانی جوش میں آکر کناروں سے باہر نکل جائے.ایسے لوگ ہدایت کو چھوڑ کر گمراہی لیتے ہیں.یہ تجارت جس میں ہدایت چھوڑی اور گمراہی اختیار کی ان کے لئے نافع نہیں.ان کے لئے پاک ہدایت ایسی ہے جیسے میں نے طب میں دیکھا ہے کہ بعض وقت نرم کھچڑی شدت صفرا کی وجہ سے نہایت تلخ معلوم ہوتی ہے.یہ لوگ ہدایت کی باتوں کی قدر اور حقیقت سے بوجہ اپنے مرض قلبی کے آگاہ نہیں.پس ایسے لوگ اگر ایمان کا اظہار بھی کرتے ہیں تو اپنے نفع کے لئے.جیسے کوئی آدمی جنگل میں آگ جلائے تو اس سے یہ فائدہ اٹھا لیتا ہے کہ شیر، چیتے اور ایسے درندے اس کے پاس نہیں پھٹکنے پاتے.اسی طرح منافق بظاہر اسلام کا اقرار کر کے مصائب سے عارضی طور پر بچاؤ کر لیتا ہے لیکن بعد میں بلائیں ، جفائیں اسے گھیر لیتی ہیں.اس کا نفاق کھل جاتا ہے.پھر کچھ سوجھ نہیں پڑتا.غرض اپنا ظاہر کچھ باطن کچھ بنانے والے ضرور نقصان اٹھاتے ہیں.میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ ایک دوسرے پر ٹھٹھا نہ کرو.بدظنی سے کام نہ لو.مسلمانوں میں بد ظنی بڑھتی جاتی ہے.واعظ بھی وعظ کرتا ہے تو کہتے ہیں باتیں بنا رہا ہے.ایسے لوگوں میں سے نہ بنو.یہ لوگ خطرناک راہ پر چل رہے ہیں.بہرے ہیں، کان رکھتے نہیں کہ کسی رہنما کی آواز سنیں.اندھے ہیں، آنکھیں رکھتے نہیں کہ خود نشیب و فراز دیکھ لیں.گونگے ہیں، زبان رکھتے نہیں کہ کسی سے رستہ پوچھ لیں.پس وہ کسی موذی چیز سے کیو کمر بچ سکتے ہیں؟ منافقوں کی مثال اس شخص کی مثال ہے جس پر مینہ برستا ہو گھٹاٹوپ اندھیرا چھا رہا ہو.جب ذرا میکلی چمکی تو آگے بڑھے ورنہ وہیں کھڑے کے کھڑے رہ گئے.جب کوئی فائدہ پہنچا تو اسلام کے معتقد بنے رہے.جب کوئی ابتلاء پیش آیا تو جھٹ انکار کر دیا.ایسے لوگ بیوقوف ہیں.جیسے بعض نادان بجلی کی

Page 605

596 کڑک سن کر پھر کانوں میں انگلیاں دیتے ہیں حالانکہ روشنی کی رفتار آواز سے تیز ہے اور بجلی اس کڑک سے پہلے اپنا کام کر چکتی ہے.تم بہت دعائیں کرو.بہت دعائیں کرو.تمام انبیاء کا اجماعی مسئلہ ہے.استغفار بہت کرو.بدظنی چھوڑ -3 تمسخر چھوڑ دو.مسلمانوں کی سلطنتیں آجکل برباد ہو رہی ہیں.انہیں چاہئے کہ بچے دل سے اللہ پر اور یوم آخر پر ایمان لائیں تاکہ اللہ کی نظر شفقت ان پر ہو.رو.الفضل جلد نمبر ۹---- ۱۳/ اگست ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 606

هار اگست ۱۹۱۳ء 597 خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ کی آیات ۲۲.۲۳ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.انسان کی فطرت میں اللہ نے ایک عجیب صفت رکھی ہے کہ جس وقت کوئی شخص اس سے نیکی کرتا ہے تو نیکی کرنے والے کی محبت اس کے دل میں ضرور ہو جاتی ہے.یہ بات انسان تو کیا، درندوں اور پرندوں میں بھی پائی جاتی ہے.میں نے باز کو دیکھا ہے کہ وہ میرباز کے ہاتھ سے اڑ کر اتنی دور تک اوپر چلا جاتا ہے جہاں کسی بادشاہ کسی وزیر کسی حاکم کی دسترس نہیں ہو سکتی مگروہ احسان کا گرویدہ ایسا ہوتا ہے کہ بلانے پر فوراً واپس چلا آتا ہے.جس وقت وہ شکار پر جھپٹتا ہے تو میں نے دیکھا ہے کہ اس کا پنجہ تو شکار پر ہوتا ہے مگر آنکھ مالک کی طرف ہوتی ہے کہ دیکھ میں نے کیسا کام کیا ہے.بیا کیا چھوٹا سا جانور ہے.جو لوگ ان کو سدھاتے ہیں، ان سے احسان کرتے ہیں، ان کے ایسے مطبع فرمان ہوتے ہیں کہ وہ دونی کنوئیں میں پھینکتے ہیں تو رستہ میں ہی سے جھپٹ کر واپس لے آتے ہیں.توپ کی آواز کیسی شدید ہوتی ہے.میں نے طوطے کو توپ چلاتے دیکھا ہے.چیتے اور شیر کو دیکھا ہے کہ وہ مالک کی آنکھ کے اشارے پر چلتے ہیں.سرکس میں تم لوگوں نے دیکھا ہو گا کہ جانور کس طرح دو

Page 607

598 اپنے مالک کے حکم کے ماتحت چلتے ہیں.حالانکہ اس مالک نے نہ جان دی ہے نہ وہ کھانے پینے کی چیزیں پیدا کی ہیں.جب ایک معمولی احسان سے اس کی اس قدر اطاعت کی جاتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ انسان اپنے موٹی کریم پر فدا نہ ہو، جس نے اسے حیات بخشی، رزق دیا، پھر قیام کا بندوبست کیا.اس لئے فرمایا کہ منافقو! تم معمولی فائدہ کے اٹھانے کے لئے جہان کا لحاظ کرتے ہو مگر کیوں اس بچے مربی کے فرمانبردار نہیں ہوتے جو تمام انعاموں کا سرچشمہ ہے؟ کم عقلو! اس نے تمہیں پیدا کیا.پھر تمہارے باپ دادا کو بھی پیدا کیا.پھر فرمانبرداری کرنے میں اللہ کا کچھ فائدہ نہیں بلکہ تم ہی دکھوں سے بچو گے اور سکھ پاؤ گے.دیکھو اس نے تم پر کیسے کیسے احسان کئے ہیں.تمہارے لئے زمین بنائی جو کیسی اچھی آرامگاہ ہے.پھل پھول اور طرح طرح کی نباتات پیدا کرتی ہے جسے تم کھاتے ہو.پھر آسمان کو بنایا جیسے ایک خیمہ ہے.وہ زمین کے ساتھ ساتھ چلتا ہے.پھر بادل سے پانی اتارا.اس سے رنگارنگ کے پھل اگائے.یہ فضل ہوں اور پھر تم اس کا ند بناؤ بڑے افسوس کی بات ہے.بنانا کیا ہے؟ سنو! یہ کہنا کہ دوست آگیا تھا، اس کی خاطر تواضع میں نماز رہ گئی.بچوں کے کپڑوں، بیوی کے زیوروں کی فکر تھی، نماز میں شامل نہ ہو سکا.رات کو ایک دوست سے باتیں کرتے کرتے دیر ہو گئی، اس لئے صبح کی نماز کا وقت نیند میں گزر گیا.غور کرو اس دوست یا اس شخص نے جس کے لئے تم نے خدا کے حکم کو ٹالا ویسے احسان تمہارے ساتھ کئے ہیں جیسے خدا تعالیٰ نے تم سے کئے؟ اسی طرح آج کل مجھے خط آ رہے ہیں کہ بارش ہو گئی ہے.تخم ریزی کا وقت ہے.اگر آپ اجازت دیں تو روزے پھر سرما میں رکھ لیں گے.یہ خدا تعالیٰ کے احکام کا استخفاف ہے.اس سے توبہ کر لو.یہ اپنے دنیاوی کاموں کو خدا کا ند بنانا ہے جو کفران نعمت ہے.ند اس کا سب سے بڑا انعام تم پر یہ ہے کہ قرآن ایسی کتاب دی.اگر تم کو یہ شک ہے کہ قرآن خدا کی کتاب نہیں ہے اور یہ بناوٹی ہے اور انسانی کلام ہے تو تم بھی کوئی ایسی کتاب لاؤ بلکہ اس کتاب کے ایک ٹکڑے جیسا ٹکڑا بنا کر دکھاؤ.ہمیں بھی بعض لوگوں نے کہا کہ یہ قرآن کو توڑ موڑ کر اپنے مطلب کا ترجمہ کر لیتا ہے.میں کہتا ہوں جیسا تمہارا سنانے والا ہے ایسا کوئی سنانے والا لاؤ.میں تمہیں کہتا ہوں جھوٹ نہ بولو.کیا تم کوئی ایسا مترجم لا سکتے ہو جو کہے کہ قرآن میں لکھا ہے کہ جھوٹ بولا کرو.میں کہتا ہوں پر معاملگی چھوڑ دو تو کیا کوئی ایسا متر تم آئے گا جو کے گا' بد معاملگی کیا کرو ؟ میں کہتا ہوں تم راستباز بنو.لڑائی چھوڑ دو.آپس کا فساد چھوڑ دو.تو کیا کوئی ایسا مترجم آئے گا جو کہے گالڑائی کیا کرو؟ فساد مچایا کرو؟ غرض نہ تو قرآن جیسی کتاب بنا کر لاتے ہو اور نہ اس سے بہتر بنا سکتے ہو تو پھر ڈرو اور بچاؤ اپنے آپ کو

Page 608

599 اس آگ سے جس کا ایندھن یہ شریر لوگ اور جس کے بھڑکنے کا موجب یہ معبودان باطل ہیں.جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے اعمال صالحہ کئے وہ باغوں میں ہوں گے.جن کے نیچے ندیاں بہتی ہیں.ایمان تو جنات کے رنگ میں متمثل ہو گا اور اعمال صالحہ اس کی نہریں ہیں.جو پاک تعلیم کے نیچے آتا ہے وہ ترقی کرتا ہے اور پاک آرام میں آتا ہے.ہر آن میں اسے یقین آتا ہے کہ کیا عظیم الشان اور کیا پاک اس کا کلام ہے.جس نے فسانہ عجائب لکھی ہے جہاں میں طب پڑھتا تھا وہ بھی پڑھتا تھا.میں نے اسے کہا فسانہ عجائب مجھے پڑھا دو.اس نے کہا اچھا.میں نے فسانہ عجائب آگے رکھ دیا اور اس نے سبق پڑھایا.اس میں ایک فقرہ یہ بھی آگیا کہ ادھر تو مولوی ظہور اللہ اور ملا مبین اور اُدھر قبلہ وکعبہ فلانے مجتہد صاحب.میں نے کہا کیا آپ سنی ہیں؟ اس نے کہا کیونکر؟ میں نے کہا اس ادھر ادھر سے معلوم ہو گیا.حیران ہو کر کہنے لگا یہ نیا نکتہ تم نے بتایا.اس نے مجھ سے حضرت شاہ عبد العزیز صاحب کی ملاقات کا ذکر کیا اور اس بات پر مجھے فخر ہے کہ شاہ صاحب کی باتیں مجھے ایک واسطے سے پہنچی ہیں.فرمایا قرآن پڑھو.حق ظاہر ہو گا.عرض کیا، عربی نہیں جانتا.فرمایا ہمارے بھائی رفیع الدین نے ترجمہ لفظی لکھ دیا.اگر کچھ شبہ ہو تو کسی مذہب کے عالم سے صرف اس لفظ کا ترجمہ پوچھ لو.پھر مذہب حقیقی کا پتہ لگ جائے گا.میں تو دور تک پہنچا.بس وہ سبق تو فسانہ عجائب کے دوسرے صفحہ تک رہ گیا اور ہمیں قرآن شریف کی بڑی محبت ہو گئی.پھر میں نے دیکھا کہ قرآن شریف میں دو باتیں مخالف و متضاد ہرگز نہیں.یعنی یہ نہیں کہ ایک جگہ کچھ کہتا ہو، دوسری جگہ کچھ ہو.میرے دوستو! قرآن مجید جیسی کوئی کتاب نہیں بلکہ اور کوئی کتاب ہی نہیں.اس کی اتباع کرو.خدا تعالیٰ تمہیں اپنی محبت بخشے.نیکیوں کی توفیق دے.قرآن مجید پر عمل کرو اور خاتمہ بالخیر.الفضل جلد نمبر ۱۰-۲۰۰۰/ اگست ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵) ⭑-⭑-✰✰

Page 609

۲۲ / اگست " ١٩١٣ء 600 فرمایا:- خطبه جمعه حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ کے تیسرے رکوع کی تلاوت کی اور پھر اللہ تعالیٰ کے کارخانے بڑے باریک در باریک ہیں اور جو ان کارخانوں کا مطالعہ کرتے ہیں وہ بڑے فائدے اٹھاتے ہیں.ہمارے ملک میں ہمارے گھروں میں کئی ردی چیزیں نکلتی ہیں مگر جو عقل مند ہیں ان کے نزدیک کوئی ردی چیز نہیں.میں دیکھتا ہوں کہ کھلونے ردی ٹکڑوں کے بنتے ہیں.پھر جنہوں نے اس نظارہ قدرت میں اور بھی غور کی ہے وہ جانتے ہیں کہ تین لاکھ کوس ایک سیکنڈ میں بجلی کی لہر جاتی ہے.اسے ذریعہ خبر رسانی کا بنالیا ہے.اسی طرح پانی اور ہوا کی لہروں سے کام لیا ہے.لاکھوں کروڑوں من اسباب ریلیں اٹھا کر لے جاتی ہیں.یہ صرف پانی اور آگ سے فائدہ اٹھایا گیا ہے.پھر دیکھو! ہم کس قدر بیٹھے ہیں اور ہر سال کتنا روپیہ مکان، خوراک پوشاک ، خط و کتابت پر خرچ کرتے ہیں اور یورپ بھیجتے ہیں.ایسا کیوں ہے؟ صرف اس لئے کہ یورپ والوں کو ایک علم ہے.جب ایک تھوڑے سے علم کی خاطر ہم ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو ایک مومن کی، جسے دینی علم دیا گیا ہے کس قدر قدر ہونی

Page 610

601 خطبات فور چاہیے.اللہ تعالیٰ نے مومن کو ایک نعمت بخشی تھی.تعجب ہے کہ مسلمانوں نے صرف منہ سے کہہ دینا کہ ہم تو مومن ہیں، کافی سمجھا ہے.ایک رنڈی بھی کہتی ہے کہ ہم مسلمان ہیں.کیا اسلام اسی کا نام ہے؟ غور کرو تم نے مسلمان کہلا کر جھوٹ سے اپنے آپ کو کس قدر بچایا.تکبر سے فضولی سے کتنی دوری اختیار کی.آج کل کی تعلیم پر کتنا روپیہ خرچ کرتے ہیں اور ایک موہوم کامیابی کی امید پر.اور اس کے مقابل میں دین پر کیا خرچ کرتے ہیں جس میں کامیابی یقینی ہے.میرے پاس ایک معزز پادری آئے.دیسی تھے.ان کو مشورہ طبی کی ضرورت تھی.بیٹا جوان تھا.جب میں نے نسخہ بتایا تو ساتھ ہی میں نے کہا کہ چونکہ آپ پادری ہیں اور ہر چیز کھا لیتے ہیں اس لئے کچھ پر ہیز بھی بتاتا ہوں.کہنے لگے آپ نے ہمیں سمجھا کیا ہے؟ میں نے کہا میں آپ کو جانتا ہوں کہ آپ عیسائی ہیں.اس پر وہ کہنے لگے ہم تو ہندو ہیں.ہمارے بچے بہت ہیں.ان کی تعلیم کا خرچ کہاں سے لائیں؟ اس لیے مصلحنا ہم سب کے سب عیسائی کہلاتے ہیں ورنہ ہم تو ماس بھی نہیں کھاتے.لڑکوں کے پڑھانے کے واسطے روپیہ مل جاتا ہے اس لئے پادری کہلاتے ہیں.میں نے کہا ان کے مذہب سے کچھ سروکار نہیں؟ کہا ہرگز نہیں.ان کی یہ بات سن کر مجھے حیرت ہوئی.ہماری پاک کتاب میں لکھا ہے کہ انسان اگر متقی بن جائے مومن ہو، فضولی نہ کرے، سنوار والے کام کرتا رہے تو اللہ وعدہ کرتا ہے کہ اسے اعلیٰ سے اعلیٰ مکان طیب سے طیب رزق دے گا.پس اس پادری کی طرح فریب و دغا کی کیا ضرورت تھی؟ دنیا کے آرام کے لئے بھی سچا مومن بن جانا کافی ہے.ان نعماء جنت کا بیان کر کے فرماتا ہے کہ دنیا کی نعمتوں کی مثال تو ان کے مقابل میں مچھر کی سی ہے.یعنی دنیا کی چیزوں کی بہشت کی نعمتوں کے سامنے ایک پیشہ کی برابر بھی حقیقت نہیں.ایسی مثالوں سے مومن حق کو پالیتا ہے.اور کافر کہتا ہے تمثیلوں سے کیا فائدہ.بہت سے لوگ گمراہ ہو جاتے ہیں مگر گمراہ وہی ہوتے ہیں جو فاسق ہوں.فاسق کس کو کہتے ہیں؟ جو اللہ کے حکموں کو جو بڑی مضبوطی سے دیے گئے تو ڑ دیتا ہے.جن سے خدا کہتا ہے تعلق کرو ان سے قطع کرتا ہے.اور جن سے کہتا ہے بے تعلق رہو، ان سے تعلق جوڑتا ہے.مسلمانوں میں بھی میں نے بہت دیکھے ہیں جو اپنے رشتہ داروں سے بے تعلق ، پڑوسیوں سے جھگڑتے ہیں مگر غیروں سے محبت رکھتے ہیں.اپنے اساتذہ اپنے بزرگوں سے قطع تعلق کر لیتے ہیں مگر ایک اجنبی شخص کو جس کا کوئی تعلق نہیں اپنی جان تک دینے کو حاضر رہتے ہیں.زمین میں فساد پھیلاتے ہیں.یہ لوگ خَاسِرُونَ ، گھاٹا پانے والے ہیں.

Page 611

602 میرے پیارو! مولا کا تم پر بڑا فضل ہوا.تم کچھ نہ تھے.موٹی کریم نے تم کو حیات دی.اس نے طاقت دی.اسی نے ایمان کی راہیں بتائیں.نبی کی اتباع کی توفیق دی.پھر تم زندہ ہو گئے.پھر موت آنے والی ہے.پھر زندگی ہوگی.پھر حضرت حق سبحانہ کے دربار میں حاضر ہو گے.اللہ نے تمہارے سکھ ، تمہارے آرام کے لئے ہر چیز پیدا کی.یہاں تک کہ جو کوڑا کرکٹ باہر پھینکتے ہو وہی جب زمین میں جاتا ہے تو کیا لہلہاتا ہوا کھیت بنا دیتا ہے.گھر میں جو ردی پھینکتے ہو ولایت والے اس سے بھی عجیب عجیب چیزیں بناتے ہیں اور نفع اٹھاتے ہیں.فرض جو کچھ زمین میں ہے ہمارے آرام کے لئے ہے.سب نعمتیں اللہ کی طرف سے ہیں جو اپنے تخت حکومت پر بے عیب قائم ہے.اس نے سات آسمان بنائے.سات کا عدد بڑا کامل عدد ہے.اس کے اجزا میں طاق بھی ہیں ، جفت بھی ہیں.پھر جو کمال انسان پیدا کرتا ہے چھ مراتب پورے کر کے حتی کہ آجکل کی تعلیم کے مراتب بھی چھ ہیں اور یہ لوگ منکر قرآن ہیں.مگر چونکہ کمال چھ مراتب کے بعد ہونا قانون قدرت ہے اس لئے انھوں نے بھی پرائمری ، ڈل، انٹرنس ایف اے بی اے ایم اے چھ درجے بنائے.پھر ساتواں درجہ وہ ہے جس کام میں انسان کمال پیدا کرے.زمین کو درست کرنا، پھر پانی دینا، پھر بیچ ڈالنا' اسی طرح چھ دن کے بعد اس کی کونپل نکلتی ہے.دنیا میں تمام قوموں نے بھی سات ہی دن بنائے ہیں باوجود اتنے بڑے مذہبی و قومی و ملکی اختلاف کے.پس اللہ نے سمجھایا کہ فلکی نظام بھی اپنے کمال کو پہنچا ہوا ہے.اس کا بنانے والا ہر چیز کا عالم ہے.اس کی کتاب کی اتباع کرو گے سکھ پاؤ گے.اسے ناراض کر کے دکھ اٹھاؤ گے.اس کو راضی کرنے کی یہ تدبیر ہے کہ ہر کام کے کرنے سے پہلے دیکھ لو کہ یہ اس کے حکم کے مطابق ہے یا نہیں؟ تم اس کی بادشاہت سے نکل کر کہیں جا نہیں سکتے.رہنا دریاواں وچ تے مگر مچھاں نال ویر “.جب ایک معمولی حکم کی مخالفت بھی عیش کو تلخ کر دیتی ہے تو اس احکم الحاکمین کی مخالفت میں ضعیف البنیان انسان کیونکر آرام پاسکتا ہے؟ اللہ تمہیں اپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق دے.ہم بہت قرآن بہت نکتے معرفت کے سناتے ہیں مگر بیمار کو تو عمدہ سے عمدہ کھانا بھی کڑوا لگتا ہے.اس لئے ایسے لوگ ہماری ان باتوں پر بھی اعتراض کر دیتے ہوں گے کہ یہ نقص ہے.اللہ نیکی اور عمل کی توفیق بخشے.دو

Page 612

603 خطبہ ثانیہ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُۂ.میں اللہ ہی کا شکر کرتا ہوں جس نے حق سنانے کے لئے اتنے آدمی جمع کر دیئے.اس کا منشاء نہ ہو تا تو میں جمع نہ کر سکتا تھا.باقی تم ہمارا کہنا مان لو اور اس کے مطابق عملدرآمد اللہ کی مدد سے ہو سکتا ہے.جو مشکلات در پیش ہوں وہ سب اپنے اعمال کا نتیجہ ہے.اس کا علاج تمام انبیاء نے استغفار بتایا ہے.وَنَسْتَغْفِرُهُ نفس کی شرارتوں سے اللہ ہی بچا سکتا ہے.جب اللہ کی راہوں پر چلو گے وہ دستگیری کرے گا اور اگر اس کا قانون توڑو گے تو کوئی رہنمائی نہیں کر سکتا.خلاصہ کلام یہ ہے کہ اللہ کو تم یاد کرو وہ تمہاری حفاظت کرے گا اُذْكُرُوا اللهَ يَذْكُرُكُمْ.اللہ سے بہت دعائیں مانگو.وہ دعائیں قبول کرتا ہے.ایک ہمارے دوست ہیں.دور دراز سفر کو جانے والے ، تم سب ان کے لئے دل سے دعا کرو.وہ دین کا خادم بنے.صحت و عافیت سے پہنچے.اس ملک میں دین کا کام کرے.دین کا خادم بنے اور دین کے خادم بنائے.کچھ ہمارے بہت پیارے مصر میں بھی گئے ہیں.ان کے لئے بھی دعا کرو.اللہ انہیں دین کا خادم بنائے.اللہ ان پر راضی ہو.وہ دین اسلام کے خیر خواہ ہوں.ان کے کلمات کو اللہ تعالی بابرکت بنائے.ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور بیش در بیش توفیق بخشے.قرآن کے خادم ہوں.محمد رسول اللہ کے خادم ہوں.اللہ کو راضی کرنے والے ہوں.کچھ پیارے مصر میں آگے بھی ہیں.ان کے لئے بھی دعا کرو.پھر تین چھ نو لنڈن میں بھی ہیں.ان کے لئے دعا کرو.ان کے وجودوں کو بابرکت بنائے.ان کے کلام میں برکت ڈالے.دین کی خدمت کریں.ان لوگوں میں سے کچھ پڑھتے ہیں، کچھ کام کرتے ہیں، کچھ تبلیغ کے لئے ہیں، سبھی مجھے پیارے ہیں.خواجہ کا نام تو تم جانتے ہو.فتح محمد ہے.نور احمد ہے.یہ تو ایک جماعت ہے.ملک عبدالرحمن ہے.ظفر اللہ ہے.عباد اللہ ہے.محمد اکبر ہے.ایک بزرگ دوست کی اولاد ہے.اللہ ان سب کو پسند کرے.دین کی جماعت بنائے.چائنا میں بھی ہمارے ایک دوست گئے ہیں.ان کے لئے بھی دعا کرو.(الفضل جلد نمبر ۲۷۰۰۰۰ / اگست ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 613

۱۱۲ تمبر ۶۱۹۱۳ 604 خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ السیح نے وَ إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً (البقرۃ:۳) کی تلاوت کے بعد فرمایا:.دنیا میں خلیفے پیدا ہوئے ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے.چار قسم کے آدمیوں پر تصریح کی ہے.جناب الہی نے ایک حضرت آدم کو فرمایا.اِنّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ہم نے آدم کو زمین میں خلیفہ بنایا.ایک حضرت داؤد کو فرمایا - يُدَاوُدُ إِنَّا جَعَلْنَكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ (ص:۳۷) اے داور! ہم نے تجھے خلیفہ بنایا.ایک سارے جہان کے آدمیوں کو خلیفہ کا لقب دیا.ثُمَّ جَعَلْنَكُمْ خَلَائِفَ فِي الْأَرْضِ مِنْ بَعْدِهِمْ لِتَنْظُرْ كَيْفَ تَعْمَلُونَ (یونس :(۵) ہر انسان کو فرماتا ہے تم کو خلیفہ بنایا.اور ہم دیکھتے ہیں کہ تمہارے اعمال کیسے ہوں گے؟ ایک دفعہ جب میرا بیٹا پیدا ہوا اگر وہ نہ ہوتا تو اس وقت ایک شخص تھا جس کا خیال تھا میں ہی وارث ہو جاؤں گا تو کسی نے اس شخص سے بھی ذکر کر دیا.اس کو بڑا رنج ہوا اور بے ساختہ اس کے منہ سے نکل گیا کہ یہ بد بخت کہاں سے پیدا ہو گیا.میری تو ساری امیدوں پر پانی پھر گیا.مگر آج میں دیکھتا ہوں کہ وہ بالکل لاولد ہے.نہ لڑکی نہ لڑکا اور پھر خدا کا ایسا فضل ہے کہ اک باغ لگا دیا.

Page 614

605 سو کسی قسم کا خلیفہ ہو اس کا بنانا جناب الہی کا کام ہے.آدم کو بنایا تو اس نے.داؤد کو بنایا تو اس نے.ہم سب کو بنایا تو اس نے.پھر حضرت نبی کریم کے جانشینوں کو ارشاد ہوتا ہے وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمَنَّا (النور %٥) - جو مومنوں میں سے خلیفے ہوتے ہیں ان کو بھی اللہ ہی بناتا ہے.ان کو خوف پیش آتا ہے مگر خدا تعالیٰ ان کو ممکنت عطا کرتا ہے.جب کسی قسم کی بدامنی پھیلے تو اللہ ان کے لئے امن کی راہیں نکال دیتا ہے.جو ان کا منکر ہو اس کی پہچان یہ ہے کہ اعمال صالحہ میں کمی ہوتی چلی جاتی ہے اور وہ دینی کاموں سے رہ جاتا ہے.جناب الہی نے ملائکہ کو فرمایا کہ میں خلیفہ بناؤں گا کیونکہ وہ اپنے مقربین کو کسی آئندہ معاملہ کی نسبت جب چاہے اطلاع دیتا ہے.ان کو اعتراض سوجھا جو ادب سے پیش کیا.ایک دفعہ ایک شخص نے مجھے کہا.حضرت صاحب نے دعوئی تو کیا ہے مگر بڑے بڑے علماء اس پر اعتراض کرتے ہیں.میں نے کہا وہ خواہ کتنے بڑے ہیں مگر فرشتوں سے بڑھ کر تو نہیں.اعتراض تو انہوں نے بھی کر دیا اور کہا اَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ تُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ (البقرة :(۳) کیا تو اسے خلیفہ بناتا ہے جو بڑا فساد ڈالے اور خونریزی کرے؟ یہ اعتراض ہے ، مگر مولی ! ہم تجھے پاک ذات سمجھتے ہیں.تیری حمد کرتے ہیں.تیری تقدیس کرتے ہیں.خدا کا انتخاب صحیح تھا مگر خدا کے انتخاب کو ان کی عقلیں کب پاسکتی تھیں.حضرت نبی کریم کے وقت بھی جھگڑا ہوا.مَا كَانَ لِي مِنْ عِلْمٍ بِالْمَلَا الْأَعْلَى إِذْ يَخْتَصِمُونَ (ص:۷۰).ادھر مکہ والوں نے کہا لَوْ لَا نُزِلَ هَذَا الْقُرْانُ عَلَى رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيم (الزخرف:۳۲) یہ دستار فضیلت کسی بڑے نمبردار کے سر پر بندھتی.اللہ نے اس کے رد میں ایک دلیل دی ہے.اَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ نَحْنُ قَسَمُنَا بَيْنَهُمْ مَعِيْشَتَهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيا - (الزخرف:۳۳) ان امیروں کو امیر کس نے بنایا؟ عظماء کو عظیم کس نے کیا؟ آخر کہو گے خدا نے.پس اسی طرح یہ کام بھی خدا نے اپنی مرضی و مصلحت سے کیا.پھر فرمایا.دو قسم کے غلام ہوتے ہیں.اَحَدُهُمَا أَبْكَمُ لَا يَقْدِرُ عَلَى شَيْءٍ وَهُوَ كَلٌّ عَلَى مَوْلَاهُ أَيْنَمَا يُوَجهُهُ لَا يَأْتِ بِخَيْرٍ (النحل:۷۷) گونگا کسی چیز پر قادر نہیں.جہاں جائے کوئی خیر نہ لائے.روم وہ جو يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَهُوَ عَلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (النحل ۷۷) عدل پر چلتا.عدل کا حکم کرتا ہے

Page 615

606 اور صراط مستقیم پر ہے.اب ان میں سے وہی پسند ہو گا جو مولیٰ کا خدمت گزار ہو گا.میں تم سے زیادہ علم رکھتا ہوں اور خوب جانتا ہوں کہ رسالت کے بار اٹھانے کے قابل کون ہے.الله اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ (الانعام: ۱۳۵).تم علم میں اور ہر امر میں ہمارے محتاج ہو.لَا يُسْتَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْتَلُونَ (الانبیاء:۲۳) تمہارا کوئی حق نہیں کہ ہمارے کاموں پر نکتہ گیری کرو.کیونکہ تمہیں علم نہیں اور مجھے علم ہے.اس کا ثبوت بھی لے لو.ہم آدم کو چند اسماء سکھا دیتے ہیں تم کو نہیں سکھاتے.دیکھیں کہ بغیر ہمارے بتانے اور سکھانے کے تم بھی وہ اسماء بتا سکو.فرشتوں نے عرض کیا.بیشک ہمیں کوئی ذاتی علم نہیں.علم وہی ہے جو آپ کسی کو بخشیں.معلوم ہوتا ہے ملائکۃ اللہ جو ہیں ان کو اپنی جماعت کے بھی اسماء معلوم نہ تھے.جب گھر کے ممبروں کی خبر نہیں تو دنیا کے کاموں میں دخل کیا دے سکیں گے.تم سب لوگ اپنے اندر مطالعہ کرو.میں تو عالم الغیب نہیں.تم سوچو.کیا تم میں سے کبھی کسی نے جھوٹ بولا ہے یا نہیں.کسی کو چکمہ دیا ہے یا نہیں.کسی نے کسی سے فریب یا دھو کہ کیا ہے یا نہیں.بد معاملگی کی ہے یا نہیں.بد نظری کی ہے یا نہیں کی.پھر خدا تو علیم و حکیم ہے.کیا وجہ ہے اس نے تو تم سے کہا.يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ (النور: ٣) كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ (التوبة: وَلَعْنَتُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ (ال عمران:٣) لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ.(البقرة: ۱۸۹) تم نے ان احکام کی کہاں تک تعمیل کی جو دوسروں کو کہتے ہو.تو کار زمیں کے نکو ساختی با آسماں پرداختی نیز اپنی حالت کو مطالعہ کرو.پچھلی حالت پر غور کر کے دیکھو.جہاں پر اعتراض کرتے ہو پہلے اپنے آپ کی تو خبر لے لو اور اصلاح کرو.میں تم سب کو السلام علیکم کہتا ہوں.عید کی نماز کے بعد میری ایسی حالت ہو گئی کہ اب تک مسجد میں نماز کے لئے نہیں آسکا.اب بھی میں جانتا ہوں کہ میری کیا حالت ہے.اپنے نفسوں کی اصلاح کرو.اپنے نامہ اعمال کو سیاہ ہونے سے بچاؤ.دوسرے کو جب کہو کہ پہلے خود الفضل جلد انمبر ۱۴-۷۰۰ار ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵) سیدھے ہو لو.⭑-⭑-⭑-⭑

Page 616

۱۹ ستمبر ۱۹۱۳ء 607 خطبه جمعه حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلئِكَةِ اسْجُدُوا لِأَدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَ كَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ (البقرۃ:۳۵) کی تلاوت کے بعد فرمایا:.بندے دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک بڑے زیرک باریک بات کو پہنچنے والے.دوسرے بالکل موٹی عقل کے اجڈ.وہ ان باریک بینوں اور سخن شناسوں کے متبع ہوتے ہیں.پھر یہ بھی دو قسم ہیں.ایک تو وہ جو دین کی باریک دربار یک باتیں جانتے ہیں.دوسرے وہ جو دنیا کی بار یک دربار یک باتیں جانتے ہیں.یہ دنیا کے باریک بین انگریز ہیں.کیا سلطنت کا طرز ہے.کیا تجارت صنعت اور حرفت میں کمال ہے.تم جس قدر بھی یہاں بیٹھے ہو کوئی تم میں ہے جس نے سال بھر میں انگریزوں کو کچھ نہ دیا ہو؟ ہرگز نہیں.آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ یہی کہ ان کو کمانے کا علم آتا ہے اور انہیں دنیا میں کمال حاصل ہے.دیکھو! سلطنت کی ہے تو کیسی زبردست.پھر کسی اور فن کی طرف متوجہ ہوئے ہیں تو اس میں بھی حد ہی کر دی ہے.

Page 617

608 میں ایک طبیب تھا.اس حالت میں میں نے عجیب عجیب تماشے دیکھے ہیں.ایک پنساری تھا جموں میں.وہ بڑے اخلاص سے بڑی محبت سے میرے لئے پتے لے آیا.میں تو اس وقت کتاب پڑھ رہا تھا.نکما بیٹھنے کی میری عادت نہیں اور مطالعہ کے وقت مجھے بہت استغراق ہو جاتا ہے.اس لئے میں بغیر دیکھنے کے وہ دانے کھاتا گیا حتی کہ چند دانے کھانے کے بعد آگ لگ گئی.جب میں نے دیکھا کہ پستوں میں جمال گوٹے کے دانے مل گئے ہیں تو مجھے بڑی تکلیف ہوئی.اس پنساری کو میں نے بلایا.وہ گھبرا گیا اور منت سماجت کرنے لگا.میں نے کہا.تسلی رکھ ، تجھے گرفتار نہیں کرواتا.مگر یہ سب نتیجہ غفلت کا ہے.ہمارے ہاں کوئی علم نہیں جس سے یہ معلوم ہو کہ فلاں دوائی، فلاں دوائی کے ساتھ ملا کر نہ رکھنی چاہئے بلکہ نزدیک بھی نہیں لے جانی چاہیے.مثلا مینگ اور افیون بینگ اور مشک اکٹھی ہوں تو دونوں کا ستیاناس ہو جاتا ہے.سرکہ اور شہد بھی ایک دوسرے کے پاس نہیں ہونے چاہئیں.مگر کیا کیا جائے.ہمارے ملک میں یہ علم نہیں، نہ کوئی پڑھتا ہے.جب حالت یہ ہو تو لوگ خاک ہماری خدمت کریں.اب دیکھو انگریزوں میں دواؤں کا کیسا انتظام ہے.ہر قسم کی دواؤں کے لئے مختلف رنگ کی شیشیاں ہیں.کسی کا بندھن کانچ کا ہے، کسی کا لکڑی کا.میں نے ایک دوائی منگوائی جو ربڑ کی شیشی میں تھی.میں نے تعجب کیا.ایک شخص نے مجھے کہا اگر آپ اسے کانچ یا چینی کی شیشی میں رکھیں تو سوراخ کر کے نکل جائے گی.پھر شیشیوں کے اوپر سرخ لیبل لگاتے ہیں اور کالے حرفوں سے لکھتے ہیں.زہر ہسپتال میں الگ رکھنے کا حکم ہے جس کی چابی آفیسر کے پاس رکھنے کا حکم ہے.دیکھو کیسی احتیاط ہے.اب ان اصفیٰ و اعلیٰ دواؤں کو چھوڑ کر کوئی ہماری دوائیں کیوں لے.میں نے سنگ بصری، گاؤ دنتی کافور ، بھیم سینی.ان دواؤں کو جب منگوایا نئی ہی نکلیں.بڑے بڑے طبیبوں سے میں نے کہا.وہ کہتے ہیں کون تحقیقات کرے اور اتنا روپیہ کون خرچ کرے؟ میری غرض اس تمام بیان سے یہ ہے کہ دنیا میں بڑے بڑے باریک علم ہیں.جو ان علوم کو حاصل کرتے ہیں وہ مرجع خلائق ہوتے ہیں.اسی طرح دین کے باریک علوم ہیں جو نبیوں کو آتے ہیں.انبیاء کے بڑے بڑے معجزے ہوئے.پہلی قوموں کے نبیوں کو ایسے معجزے دیئے گئے جن کو موٹی عقل والے سمجھ سکیں.پھر ہمارے بادشاہ کو سب کچھ دیا جس کا بھاری معجزہ قرآن ہے.یہ ایسا معجزہ ہے کہ جس قدر کسی کا بار یک فہم ہو اس سے نفع اٹھائے اور پھر موٹی عقل والا بھی برابر فائدہ اٹھا سکتا ہے.موسیٰ کے سانپ پر تو آجکل شبہ کرتے ہیں کہ وہ کس طرح بن گیا ؟ مگر ہماری سرکار کا معجزہ ایسا ہے کہ ہر زمانے میں اس کا معارضہ کسی سے نہیں ہو سکتا.

Page 618

609 جو آیت میں نے اس وقت پڑھی ہے اس پر غور کرو.کسی انسان کو کچھ سکھلایا.جب اسے سکھلایا تو پھر تمام لوگوں کو حکم دیا کہ اس کی فرمانبرداری کرو.یہ ہمارا تعلیم یافتہ ہے.یہاں تک کہ فرشتوں کو کہا کہ تم بھی فرمانبرداری کرو.وہ سعید الفطرت تھے ، تابع ہو گئے مگر ابلیس نہ ہوا.اس نے انکار و استکبار سے کام لیا.اور ہم نے آدم کو حکم دیا کہ تو اور تیرا ساتھی آرام سے رہو.پھر انہیں کسی چیز سے منع کر دیا جیسے ہماری سرکار کو بعض درختوں سے ممانعت تھی.ایک شخص رسول اللہ کے حضور ایک ٹوکری لایا جس میں لہسن پیاز و گند نا تھا.آپ نے فرمایا یہ کیا چیز ہے اسے اٹھالو.میں تو اسے نہیں کھاتا.اسی طرح ایک دن میں نے نماز پڑھی.میرے ساتھ ایک شخص ایسا کھڑا ہو گیا جو حقہ پی کر آیا تھا.میرا دل اس کی بدبو سے متلی کرنے لگا.نماز کے بعد میں نے اسے کہا کہ مہربانی فرما کر آپ ایسی حالت میں گھر نماز پڑھ لیا کریں.غرض آدم کو ایک درخت سے منع کیا.ایک موذی جانور ان کے پیچھے پڑ گیا.بحالت نسیان اس نے بد راہ کیا تو جس مزے میں تھا وہ مزا جاتا رہا.لوگ غلطیاں کرتے ہیں اور ہمیں کہتے ہیں معاف کر دو.حالا نکہ معاف کر دینے والا تو اللہ ہے.ایک شخص آتشک یا سوزاک لایا ہے.اب وہاں میری معافی کیا کر سکتی ہے.اللہ ہی فضل کرے تو شفا دے.جن لوگوں نے فضولیاں کر کے دکھ اٹھایا ہے وہ مجھے آ آ کر کہتے ہیں کہ معاف کر دو.معاف تو کر دیا مگر اس فضولی کا اثر تو جب جائے کہ وہ فضولی چھوڑ دیں.ابلیس اسے کہتے ہیں جو اپنی ذات میں شریر ہو اور جب اس کی شرارت دوسروں تک پہنچاتی ہو تو وہ شیطان کہلاتا ہے.اس نے پھلانا چاہا اور اللہ نے آدم و حوا کو اس حالت سے نکال کر دوسری میں کر دیا اور فرمایا کہ بعض تمہارے بعض کے دشمن ہیں.میں نے دیکھا ہے بعض کو بعض سے عداوت ضرور ہوتی ہے.نہ کے کیڑے کے پاس اگر کستوری رکھ دودہ مرجائے گا.اسی طرح بعض لوگ پاک تعلیم سے پاخانہ.چڑتے ہیں.میں یہاں کھڑا وعظ کر رہا تھا.ایک کہنے لگا جو نصیحت کرتے ہو اس پر کوئی عمل بھی کر سکتا ہے؟ پس نصیحت بیکار ہے.میں نے کہا.کیا قرآن بیکار ہے؟ مسلمان تھا ڈر گیا.اسی طرح ایک شخص نے مجھے کہا.کہ آپ کے درس میں اس لئے نہیں آتا کہ وہاں جن گناہوں کا لڑکوں کو علم نہیں ہو تا وہ بھی معلوم ہو جاتے ہیں.میں نے اسے بھی کہا کہ پہلا اعتراض تیرا قرآن پر ہے کیونکہ اس میں سب گناہوں کا ذکر ہے.غرض بعض بعض کے خلاف ہیں.اور یہ دشمنی کا بیج اس لئے ہے کہ بڑے ہوشیار ہو کر لوگ گزارہ کریں.آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمات سیکھے اور اس پر فضل ہوا.اور اللہ نے حکم دیا کہ اب جب کبھی ་་

Page 619

610 ہماری ہدایت پہنچے جو اس کے تابع ہو گا اس پر کسی قسم کا خوف و حزن طاری نہ ہو گا اور جو حکم کی خلاف ورزی کرے گا اسے نقصان پہنچے گا.تم سب دل میں سوچو.کیا تمہارا جی چاہتا ہے کہ تمہیں غم ہو خوف ہو.غموں سے خوفوں سے بچنے کا ایک ہی علاج ہے.وہ یہ کہ ہدایت کی اتباع کرو.اگر نہیں کرو گے تو دکھ اٹھاؤ گے.الفضل جلد نمبر۱۵--- ۱۲۴ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 620

۲۶ ستمبر ۱۹۱۳ء 611 خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کے پانچویں رکوع کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اس رکوع میں اللہ تعالیٰ نے حضرت یعقوب کی اولاد کو بنی اسرائیل کو بہادر سپاہی کے بیٹوں.خطاب کیا.مسلمانوں کو عبرت چاہئے کہ تم بھی کسی بہادر سپاہی کی قوم ہو.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تمہارا امام تھا.صحابہ کرام اور تابعین کی اولاد ہو.تمہیں یاد ہے کہ تم پر کیا کیا فضل ہوئے.پہلا فضل تو یہی ہے کہ تم کچھ نہ تھے، پیدا ہوئے ، پھر مسلمان ہوئے.قرآن جیسی کتاب تمہیں دی گئی.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جیسا خاتم النبیین رسول عطا فرمایا.تمہیں سمجھانے کے لئے متنبہ کرنے کے لئے دوسروں کے حالات سناتا ہے کہ ایک قوم کو ہم نے بڑی نعمتیں دیں.فَكَفَرَتْ بِانْعُم (۱۱۳: الله (النحل : ) اس قوم نے اللہ کی نعمتوں کی کچھ قدر نہ کی تو ہم نے ان کو بھوک کی موت مارا.بھوک کی موت بہت ذلت کی موت ہے دکھ کی موت ہوتی ہے.میں نے ان اپنی آنکھوں سے بھوک کی موت مرتے لوگ دیکھے ہیں.دودھ ان کے منہ میں ڈالیں تو بھی حلق سے نیچے نہیں اترتا.

Page 621

612 کشمیر میں خطرناک قحط پڑا.کافر تو سور بھی کھاتے ہیں.ان کے باورچی خانہ کے اردگرد لوگ جمع ہو جاتے کہ شائد کوئی چھچھڑا مل جائے.یہ حالت اضطراری تھی اس لئے مسلمان معذور تھے.پندرہ بڑے بڑے غربا خانے تھے اور رئیس چار سیر گیہوں خرید کر سولہ سیر کے حساب سے دیتا مگر پھر بھی خدا ہی دے تو بندہ کھائے.بندے کی کیا طاقت ہے کہ اتنی دنیا کی رزق رسانی کر سکے.غرض اللہ تعالیٰ ایک قوم کو نعمتیں یاد دلاتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے.أَوْفُوا بِعَهْدِى أَوْفِ بِعَهْدِكُمْ (البقرة (۳) مجھے سے جو عہد کیا تھا وہ پورا کرو تو میں وہ عہد پورا کروں گا جو تم سے کیا تھا.اس کا ذکر پہلے آپکا ہے.چنانچہ فرمایا فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنَى هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقرة 3 یعنی تم میری ہدایت کے پیرو بنو تو میں تمہیں لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَاهُمْ يَحْزَنُونَ زندگی دوں گا.اس وقت کیسی مصیبت کے دن ہیں.سات کروڑ کے قریب مسلمان کہلاتے ہیں.چھ کروڑ کے کان میں قرآن بھی نہیں گیا.ایک کروڑ ہو گا جو یہ سنتا ہے کہ قرآن ہے مگر اسے سمجھنے کا موقع نہیں.پھر چند ہزار ہیں جو قرآن مجید با ترجمہ پڑھتے ہیں.اب یہ دیکھو کہ عمل درآمد کے لئے کس قدر تیار ہیں.میں نے ایک بڑے عالم فاضل کو دیکھا جن کا میں بھی شاگرد تھا.وہ ایک پرانا عربی خطبہ پڑھ دیتے تھے.ساری عمر اس میں گزار دی اور قرآن مجید نہ سنایا.حالانکہ علم تھا، فہم تھا، ذہین و ذکی تھے ، نیک تھے ، دنیا سے شاید کچھ بھی تعلق نہ تھا.پھر ان کی اولاد کو بھی میں نے دیکھا.وہ بھی اسی خطبہ پر اکتفا کرتی.میں نے آنکھ سے روزانہ التزام درس کا کہیں نہیں دیکھا.ان بعض ملکوں میں یہ دیکھا ہے کہ کسی فقہ کی کتاب کی عبارت عشاء کے بعد سنا دیتے ہیں.پس میں تمہیں مخاطب کر کے سناتا ہوں.اللہ فرماتا ہے.ہمارے فضلوں کو یاد کرو اور میرے عہدوں کو پورا کرو.میں بھی اپنے عہد پورے کروں گا.کبھی ملونی کی بات نہ کیا کرو اور گول مول باتیں کرنا ٹھیک نہیں.حق کو چھپایا نہ کرو بحالیکہ تم جانتے ہو.قرآن شریف میں دو ہی مضمون ہیں.ایک تعظیم لامر الله لا إله إلا الله کے ساتھ مُحَمَّدٌ رَسُولَ اللهِ اس کلمہ توحید کی تکمیل کے لئے ہے.دوم.شفقت علی خلق اللہ.اس مضمون کو کھول کر بیان فرماتا ہے کہ خدا کی تعظیم کے واسطے نمازوں کو مضبوط کرو اور باجماعت پڑھو.آجکل تو یہ حال ہے کہ امراء مسجد میں آنا اپنی ہتک سمجھتے ہیں.حرفت پیشہ کو فرصت نہیں.زمیندار صبح سے پہلے اپنے گھروں سے نکلتے ہیں اور عشاء کے قریب واپس آتے ہیں.ایک وقت کی روٹی باہر کھاتے ہیں.پھر واعظوں اور قرآن سنانے والوں کو فرماتا ہے کہ لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول

Page 622

613 جاتے ہو.علماء، فقراء ، گدی نشین ، سب کو ارشاد فرماتا ہے کہ بہادروں کے بیٹے بنو.منافق نہ بنو.حق میں باطل نہ ملاؤ.وفادار بنو تاکہ بے خوف زندگی بسر کرو.دوسروں کو سمجھانے سے پہلے خود نمونہ بنو.اگر تبلیغ میں کوئی مشکل پیش آجائے تو استقلال سے کام لو.بدیوں سے بچو.نیکیوں پر جمے رہو.نمازیں پڑھ پڑھ کر دعائیں مانگتے رہو اور یہ یقین رکھو کہ آخر اللہ کے پاس جاتا ہے.زندگی کا کچھ بھروسہ نہیں.میں نے ایک شخص کو دیکھا.بادشاہ کے پاس قلم و کاغذ لے کر گیا.ادھر پیش کیا ادھر جان نکل گئی.ایک اور شخص تھا بڑے شوخ گھوڑے پر سوار.میری طرف مصافہ کے لئے ہاتھ بڑھایا.میں نے کہا آپ کا گھوڑا بڑا شوخ ہے.کہنے لگا ہاں ایسا ہی ہے.میں ادھر گھر پہنچا کہ مجھے اطلاع ملی کہ وہ مر گیا.غرض یہ دوست یہ احباب یہ آشنا یہ اقربا یہ مال، یہ دولت، یہ اسباب یہ دوکانیں، یہ سازو سامان سب یہیں رہ جائیں گے.آخر کار باخداوند ".اللہ تم پر رحم کرے.الفضل جلد نمبر۱۴۶- یکم اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 623

۳ اکتوبر ۱۹۱۳ء 614 خطبه جمعه حضرت امیر المومنین نے سورۃ بقرہ کے پانچویں رکوع (يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي اَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ (البقرۃ:۳۷) کی تلاوت کے بعد فرمایا.قرآن کریم عجیب عجیب پیرائے میں نصیحتیں فرماتا ہے.بہادر سپاہی کی اولاد! تم بھی غور کر لو.کوئی اپنے آپ کو سید سمجھتا ہے.وہ اپنے بڑوں کی بہادری پر کتنا فخر کرتا ہے.کوئی قریشی کہلاتا ہے وہ سیدوں کو اپنی جزء قرار دیتا ہے.اسی طرح کوئی مغل ہے کوئی پچھان کوئی شیخ فرض مخلوق کے تمام گروہ اپنے آپ کو کسی بڑے آدمی سے منسوب کرتے ہیں.مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ بڑا آدمی کیوں بنا؟ اپنے اعمال سے.پس اگر تم ان اعمال کے خلاف کرو گے تو کیا بڑے بن سکتے ہو ؟ ہرگز نہیں.جو بہادری انسان کو بڑا بنا سکتی ہے کیا اس بہادری کا ترک کر دینا انسان کو بزدل نہیں بنا سکتا.مجھے ہمیشہ بڑا تعجب آتا ہے کہ انسان بڑوں کی بڑائی پر فخر کرتا ہے مگر اپنی طرف غور نہیں کرتا کہ میں اپنے خاندان کو بڑا بنا رہا ہوں یا اس کے غرق کرنے کے درپے ہوں.ایک چھوٹا آدمی ہمارے شہر بھیرہ میں بڑا بن گیا اور بڑا ذلیل ہو گیا.وہ جو ذلیل ہو چکا تھا ایک دن اس بڑا بننے والے کی تحقیر کرنے لگا.میں نے اسے کہا.کیا تمہاری طاقت ہے کہ اس کے برابر بیٹھو یا جیسا گورنمنٹ میں اس کا اعزاز ہے اور وہ

Page 624

615 کرسی نشین ہے کیا تم بھی کسی حاکم کے سامنے جانے کے قابل ہو.وہ تم سے کئی درجے اچھا ہے.کیونکہ اس نے نابود کو بود بنا دیا اور تم نے بود کو نابود کیا.اب بتاؤ کہ تم بڑے ہو یا وہ ؟ پس میرے پیارو! اگر تم بڑوں کی اولاد ہو اور خدا نے تمہیں تیرہ سو برس سے عزت دی تو بڑوں کے کاموں کو نابود کرنے والے نہ بنو.تم خود ہی بتاؤ کہ وہ شرک کرتے جھوٹ بولتے دھوکا کرتے، دوسروں کو دکھ دیتے تھے ؟ ہرگز نہیں.تو کیا تم ان افعال کے مرتکب ہو کر بڑے بن سکتے ہو ؟ بنی اسرائیل کو تو خدا نے شام میں بڑائی دی تھی مگر اسلام نے یہاں تک معزز کیا کہ تمہیں سارے جہان میں عظیم الشان بنا دیا.اس نعمت کا شکر کرو.کیونکہ یہ آیت اُذْكُرُوا نِعْمَتِي الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَإِنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ (البقرة: ۴۸) تمہیں انعامات الہی یاد دلانے کے لئے نازل ہوئی ہے.اگر تم انعام الہی کی ناقدری کرو گے تو اس کا وعید تیار ہے.کیونکہ جس طرح نیکی کا پھل اعلیٰ درجے کا آرام ملتا ہے ایسا ہی بدی کا پھل بھی ذلت و ادبار کے سوا کچھ نہ ہو گا.یہود کو کفران نعمت کی سزا میں پہلے مدینہ سے نکالا گیا تو لَئِنْ أُخْرِجْتُمْ لَنَخْرُ جَنَّ مَعَكُمْ وَلَا نُطِيْعُ فِيكُمْ أَحَدًا اَبَدًا وَّ اِنْ قُوتِلْتُمْ لَنَنْصُرَنَّكُمْ (الحشر: ) کہنے والے کچھ کام نہ آئے.پھر جب مدینہ سے نکالے گئے تو ان کا کوئی مددگار نہ ہوا.اسی طرح مسلمانوں کے ساتھ بھی معاملہ ہوا.سپین سے ایک دن میں نکال دیئے گئے.لاکھوں لاکھ تھے جنہوں نے جانے سے ذرا چوں و چرا کی ان کو عیسائی بنالیا گیا.اب سیاحوں سے پوچھو.اسلام کا وہاں نام نشان تک نہیں.مسجدیں ہیں اور چند عدالت کے کمرے.تمہارے رلانے کے لئے رکھ چھوڑے ہیں.اسی طرح مراکش ہے.پھر طرابلس میں کئی لاکھ کا کتب خانہ تھا.بنوامیہ کی اتنی بڑی سلطنت تھی کہ ایک طرف چین اور ایک طرف فرانس سے اس کے حدود ملتے تھے.مگر اب یہ حال ہے کہ کوئی اپنے بیٹے کا نام یزید یا معاویہ نہیں رکھتا.یعنی جن کی مدح سرائی ہوتی تھی اب ان کا نام تک رکھنے کے روادار نہیں.پھر عباسیوں کی سلطنت تھی.ایک دفعہ محمود غزنوی سے ان کی کچھ رنجش ہو گئی.محمود غزنوی نے اس خلیفہ کو لکھا کہ میں ہندوستان کا فاتح ہوں اور میرے پاس اتنے ہاتھی ہیں.خلیفہ نے اس کے جواب میں الم الم نہایت خوبصورت لکھوا کر بھیج دیا.محمود کے دربار میں تو سب فارسی دان ہی تھے.چنانچہ اس زمانے کی یادگار صرف شاہنامہ ہی باقی ہے.وہ تو کچھ سمجھے نہیں.آخر محمود نے کہا کہ خلیفہ ن أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحَابِ الْفِيلِ (الفيل :٢) یاد دلائی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے پاس ہاتھی ہیں تو ہمار اوہ رب جو اصحاب فیل کو ہلاک کر چکا ہے.بہت ڈر گیا اور معذرت کی جس

Page 625

616 پر تعلقات درست ہو گئے.مگر پھر بغداد کا حال ہمیں معلوم ہے.وہ محمود غزنوی جو خلیفہ کی الم السم سے ڈر گیا تھا اسی پایہ تخت کو ہلا کو اور چنگیز نے تباہ کر دیا.ایک ہزار شخص جن پر سلطنت کے متعلق دعوئی کا گمان تھا ان سب کو دیوار میں چن دیا.وہ بی بی جس کا نام نسیم السحر رکھا تھا ایک گلی میں اس حالت میں دیکھی گئی کہ کتے اس کا لہو چاٹ رہے تھے.بے شک اللہ کے انعام بہت ہیں مگر اللہ کی پکڑ اس سے بھی زیادہ سخت ہے.بنی اسرائیل کو فرعونیوں کا ظلم اور پھر اس سے نجات پانا یاد دلاتا ہے اور فرماتا ہے کہ فرعونی تمہیں طرح طرح کے عذاب دیتے تھے.تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری عورتوں کو ذلت کے لئے زندہ رکھتے یا ان کا ننگ و ناموس تباہ کرتے.پھر ہم نے تمہارے لئے دریا کو جدا کیا اور تمہیں بچالیا مگر فرعونیوں کو غرق کر دیا.میرا استاد تھا پٹھان.قال اقول پڑھاتا.اس میں ایک جگہ آتا ہے کہ زید دریا میں غرق ہوا.اگر دریا نہ ہو تو غرق بھی نہ ہو.میں نے اپنی سمجھ کے موافق یہ اعتراض کیا تھا کہ ہمارا فرعون ابو جہل تو جنگل ہی میں غرق ہو گیا تھا.غرض اگر بنی اسرائیل کو یہ احسان یاد دلایا ہے تو مسلمانوں کے فرعون کو خشکی میں غرق کر کے اس کے بعد کئی انعامات ان پر کئے ہیں.اب اگر وہ ناشکری کریں گے تو سزا پائیں گے.جس طرح حضرت موسیٰ کو چالیس روز خلوت میں رکھا اسی طرح ہماری سرکار بھی غار حرا میں رہے.وَيَتَحَنَّثُ (يَتَعَيَّدُ) فِيْهَا لَيَالِي ذَوَاتِ الْعَدَدِ ہماری سرکار پر ایسے ایسے انعام ہوئے کہ ہمیں مالا مال کر دیا.بے شک اللہ کے بڑے بڑے احسان ہم پر ہیں مگر نبی کریم کے احسان بھی ہم پر بے شمار ہیں.صرف دعا ہی کو لو کہ کس کس موقع پر سکھائی.نکاحوں کے لئے استخارہ پھر بی بی کو گھر لانے پر ایک دعا ہے.پھر پاس جانے کی ایک دعا ہے.پھر بچوں کے پیدا ہونے کی ایک دعا ہے.غرض حد ہی کر دی ہے.حضرت موسیٰ کو کتاب اور فرقان عنایت فرمائی تو حضرت محمد رسول اللہ کو بھی ایک نور مبین، فِيْهَا كُتُبُ قَيِّمَةٌ (البينة:۳) کتاب عطا فرمائی.حضرت موسیٰ کو فرقان بخشا تو ہمارے سید بادشاہ کا فرقان بدر کی جنگ میں ظاہر ہوا.یہ اس لئے کہ ہدایت پاؤ.پس مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ غفلت کو چھوڑ دیں اور لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا إِيَّامًا مَّعْدُودَةً (البقرة) کہنے والے نہ بنیں کیونکہ خدا کسی قوم کا رشتہ دار نہیں.نیکی کرو گے تو نیک جزا پاؤ گے.الفضل جلد نمبر۱۷ ۸۰۰۰ / اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵)

Page 626

۰ار اکتوبر ۱۹۱۳ء 617 خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے آیت قرآنی وَإِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ اَنْفُسَكُمْ بِاتِّحَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوْبُوا إِلَى بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ عِنْدَ بَارِئِكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (البقرۃ:۵۵) کی تلاوت کے بعد فرمایا:.ہر شریف الطبع آدمی دوسرے کو کسی مصیبت میں مبتلا پا کر عبرت پکڑتا ہے.شریف مزاج لڑکوں کو جب ہم نصیحت کرتے ہیں تو کسی اور کا حوالہ دیتے ہیں کہ فلاں نے ایسا کام کیا تو یہ سزا پائی.اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ ہر ایک شریف انسان دوسرے سے عبرت پکڑتا ہے.ہم کس قدر دکھیاروں کو دیکھتے ہیں تو قرآن کریم کے مطابق مَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ (الشوری (۳) ہر ایک کو اپنے کئے ہوئے کی سزا ملتی ہے.جو کچھ تم کو مصیبت آئی، تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تم کو ملی.میں نے کبھی کسی مومن کو نمبر دس (۱۰) کا بد معاش نہیں دیکھا نہ ہی نیک اعمال والے کو آتشک کا شکار ہوتے دیکھا ہے.اسی طرح ہر قسم کی بیماریوں اور مصیبتوں کا یہی حال ہے.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میرے ایک استاد صاحب سے ایک جذامی علاج کروایا کرتا تھا.اس کی تنخواہ

Page 627

618 ماہوار تمیں ہزار روپے تھی.گویا ایک ہزار روپیہ یومیہ وہ پاتا تھا.ایک دن وہ استاد صاحب کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ حضور نے بیسن کی روٹی کھانے کے لئے فرمایا ہے وہ نگلنی مشکل ہے.اگر حکم ہو تو کچھ لقموں کے بعد ایک ڈلی مصری کی بھی کھالیا کروں.میرے استاد صاحب نے بڑے زور سے فرمایا کہ نہیں، ہرگز نہیں ہو سکتا.وہ آدمی بڑا مہمان نواز تھا.مگر اس وقت وہ روپیہ اس کے کام نہ آسکا.اسی طرح دیکھتے ہیں کہ مسلول و مدقوق کی حالت جب ترقی کر جاتی ہے تو دوسرے آدمی پاس بیٹھنے ، کھانے پینے وغیرہ سے مضائقہ کرتے ہیں.یہ جسمانی بیماری کا حال ہے.اسی طرح روحانی بیماری کا حال ہے.سننے والو! ظاہر کو باطن سے تعلق ہوتا ہے اور باطن کو ظاہر سے رشتہ ہے.غور کرو.میں دیکھتا ہوں.ایک دوست کو دیکھ کر میرے دل کو سرور ملتا ہے اور دیکھتے ہی دل خوش ہو جاتا ہے.اس کا دیکھنا جو ظاہری ہے اس نے باطن میں جاکر دخل پایا.اسی طرح ایک دشمن کو دیکھ کر میں خوش نہیں ہو تا بلکہ اس وقت میرے دل کی حالت کچھ اور ہوتی ہے.یہ اس باطن کی رنجیدگی سے ظاہر پر اثر ہوتا ہے اور اس کے آثار میرے چہرہ پر اور میرے ہر عضو پر بھی نمودار ہوتے ہیں.پھر غصہ میں آکر اسے کچھ نہ کچھ ناگوار لفظ بول دیتے ہیں.اس سے یہ قاعدہ نکلا کہ باطن کو ظاہر کے ساتھ اور ظاہر کو باطن کے ساتھ تعلق ضرور ہوتا ہے.تو یہ معاملہ صاف ہے کہ انسان کا اندرونہ اور بیرونہ کچھ عجائبات سے باہم پیوست ہوتا ہے.میں نے ایک کنچنی سے پوچھا کہ کیا تو زنا کو حلال جانتی ہے؟ تو کہا.ہاں.پھر میں نے پوچھا کہ کیا مسلمان ہے؟ کہنے لگی الحمد للہ مسلمان ہوں.اگر پوچھا جاوے کہ اسلام کے کوئی احکام جانتی ہو تو کہہ دیں گی کہ جی ہم جاہل ہیں، ہمیں کیا علم ہے.دنیا کے معاملات میں بندوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ بھی بیچ بول لیتے ہیں.ان کے شرفا میں بھی ایسے ہیں جو ڈا کہ چوری جھوٹ وغیرہ وغیرہ کا ارتکاب نہیں کرتے بلکہ اس کو برا لکھتے ہیں.ان میں خدا ترس بھی ہیں کہ لوگوں کے آرام کے لئے انہوں نے جنگلوں میں درخت کنویں اور بڑی بڑی عمارتیں بنوائی ہیں.لوگوں کے آرام کے واسطے نہیں بلکہ جانوروں کے آرام کے واسطے بھی ہزاروں ہزار روپیہ خرچ کر دیتے ہیں.برعکس اس کے جب کسی مسلمان سے سوال کرتے ہیں تو وہ اپنے اعمال کی شہادت اس قدر نہیں دے سکتے جتنا کہ ایک ہندو دے سکتا ہے.وہ لوگوں کے فائدہ کے لئے بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں.وہ قومی چندے دینے میں جان کا بھی دریغ نہیں کرتے.ہم تاریخ عرب یاغستان اور افغانستان کے متعلق بڑے بڑے عجائبات پاتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَلْحَجُّ اشْهُرُ مَعْلُومَاتٌ (البقرة: ۱۹۸) ہر سال میں چار مہینے ہیں اور یہ بڑے.متبرک مہینے ہیں.ذیقعد ذوالحجہ، محرم اور رجب.ان مہینوں کی زمانہ جاہلیت میں اتنی عزت ہوتی تھی کہ

Page 628

619 اگر باپ کا قاتل بیٹے کا قاتل یا کسی عزیز کا قاتل بھی ان مہینوں میں مل جاتا تو اسے علی العموم قتل نہ کرتے.لیکن اب وہ لوگ مسلمان کہلاتے ہیں جو حاجیوں کو ایام حج میں لوٹ مار کر کے قتل کر دیتے ہیں.مجھے میرے ایک دوست نے سنایا کہ میں ذرا الگ ہو کر پاخانہ کرنے گیا.ایک عرب نے جو دیکھا کہ یہ اکیلا ہے.وہ جھٹ آیا اور ایک سوٹا مار کر مجھے بیہوش کر دیا.اس نے چھٹتے ہی روپوں پر ہاتھ صاف کیا اور رفو چکر ہو گیا.یہ ہمارے عرب مسلمانوں کا حال ہے جو یہ اَربَعَةٌ حُرُم (التوبة:۳) کی عزت کرتے ہیں.اب ہمارے ہندوستان کے مسلمانوں کا حال سنئے.میں ایک دفعہ جیل خانہ کو دیکھنے گیا.ایک جیل کا افسر میرا بڑا دوست تھا.اس نے مجھے اپنے ساتھ لے کر تمام جیل کی سیر کروائی.میں نے دیکھا کہ وہاں کل تین سو پینتیس قیدی تھے جن میں سے تین سو بائیس مسلمان اور کل تیرہ ہندو جو مقدمات دیوانی میں مقید ہوئے تھے.باقی سب کے سب مسلمان تھے.یہ دیکھ کر میرے دل پر بڑا صدمہ ہوا اور مجھے بڑا قلق ہوا.یہ وہی بات ہے کہ ظاہر کا باطن پر اثر پڑتا ہے.مجھے اس سے محبت تو تھی ہی، میرا دوست جھٹ تاڑ گیا اور میری تسلی کے لئے کہنے لگا.حضور ! بات یہ ہے کہ یہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے.اس لئے مسلمان قیدی زیادہ ہیں.میں نے کہا آپ نے خوب فقرہ سنایا.میری ان باتوں سے تسلی نہیں ہو سکتی.اگر ضلع کے مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے تو بھیرہ میں ایک سکول ہے جہاں چودہ سولر کے تعلیم پاتے ہیں.میں نے مدرسہ کو دیکھا ہے جس میں صرف چودہ مسلمان لڑکے تعلیم پاتے ہیں.اگر آبادی کالحاظ تھا تو وہاں بھی مسلمان زیادہ چاہئیں تھے.مسلمان اپنے تنزل پر ہمیشہ قسم قسم کی باتیں بتلاتے ہیں.پردہ کا ہونا سود کا رواج نہ ہونا، انہی اسباب میں سے بتلائے جاتے ہیں.میں کہتا ہوں کہ اگر پردہ تنزل کا باعث ہے تو کنچنیاں، چوہڑے، چمار، یہ قومیں کیوں ترقی نہ کر گئیں، بلکہ عام زمیندار ہل چلانے والے ان میں بھی پردہ نہیں ہے.یہ کیوں نہ ترقی کر گئے.اور اگر سود کا رواج نہ ہونا تنزل کا باعث تھا تو ہندو سود خور زیادہ تباہ ہو رہے ہیں یا نہیں ؟ جو لوگ بنکوں میں روپیہ جمع کرواتے ہیں روپیہ بڑھنے کے لئے رکھتے ہیں مگر جب بنکوں کا دیوالیہ نکل جاتا ہے تو پھر ان کا کیا حال ہوتا ہے يَمْحَقُ اللَّهُ الرِبُو وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ (البقرة: ۲۷۷) خدا سود خوروں کو تباہ کرتا ہے.سود کھانے والے کبھی ترقی نہیں کر سکتے.بڑے تعجب کی بات ہے کہ لوگ شرارتیں کرتے ہیں لیکن سمجھتے نہیں.موسیٰ نے اپنی قوم کو کہا یا قَوْمِ الكُمْ ظَلَمْتُمُ انْفُسَكُمْ بِاتِّخَادِكُمُ الْعِجْلَ تم نے بچھڑے کو خدا بنا لیا اور اپنے اوپر ظلم کیا حالانکہ خدا کے تم پر بڑے بڑے احسان ہیں.فتُوبُوا إِلَی بَارِیكُمْ اپنے پروردگار کی طرف توجہ کرو.

Page 629

620 اور اللہ تعالیٰ نے انسان پر بڑے بڑے فضل و احسان کئے ہیں.اس کے قابو میں خدا نے ہر ایک چیز کر دی ہے.ہاتھی جیسا بڑا جانور انگوٹھے کے اشارہ پر چلتا ہے.اونٹ کو ایک نکیل کے اشارہ سے چلا لیتا ہے.اسی طرح پر ہزاروں کام جانوروں سے نکالتا ہے.طوطے سے توپ بندوق چلوا لیتا ہے.بعض لوگ اَحْسَنِ تَقْوِيْم (التین: ٥) کے یہ معنے کرتے ہیں کہ انسان کو خوبصورت بنایا مگر بعض انسان تو سیاہ رنگ اور بدصورت بھی ہوتے ہیں.بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ ہر چیز کو اس کے قابو میں کر دیا.سرکس میں کسی نے تماشہ دیکھا ہو گا کہ کیسے کیسے کام جانوروں سے لیتے ہیں.یہ سب اللہ کے احسان ہیں.ہر قوم میں غریب سے غریب اور امیر سے امیر لوگ موجود ہیں.لیکن امراء کو خیال تک نہیں آتا کہ ہم پر بڑا احسان ہوا ہے.اس زمانہ کا بڑا کچھڑا روپیہ ہے.جس کے پاس یہ ہوا اس کی بڑی عزت و توقیر ہوتی ہے.اگر وہی روپیہ والا انسان غریب ہو جاوے تو اسے پوچھتا بھی کوئی نہیں.روپے کے پیچھے خواہ نماز روزہ حج جائے مگر کوئی پرواہ نہیں.اس زمانہ میں نمازیوں کا نام ” قل اعوذی کھڑکنے “ وغیرہ وغیرہ برے لفظوں سے بلاتے ہیں.امام بننا جو ایک زمانہ میں بادشاہ کا کام ہو تا تھا آجکل جلا ہوں اور غریب قوم کے لوگوں کے سپرد کر رکھا ہے اور خود اس سے سبکدوش ہو گئے ہیں.پھر کہتے ہیں کہ ہم ان کے پیچھے نمازیں پڑھیں؟ یہ تو ان کی حالت ہے.موسیٰ نے اپنی قوم کو فرمایا کہ تمہارے حق میں یہی بہتر ہے کہ تم توبہ کر لو اور اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار بنو اور اس میں اللہ کے فرمانبردار بن کر داخل ہو اور کہو حِطَّةٌ بس ہمارے گناہ معاف کر دے.پچھلی بدیوں سے استغفار کر لو اور آئندہ بدیوں سے پر ہیز کرو.اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو.نَغْفِرْ لَكُمْ خَطَايَاكُمْ پھر وہ بدیاں معاف ہو جاویں گی.وَ سَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ اور ان نیکیوں کے بدلے بڑھ چڑھ کر احسان ہوں گے.جو آدمی تکبر کرتا ہے اور بغض اور کینہ میں بڑھتا رہتا ہے آخر پھر اس کو اللہ تعالیٰ سے بغض پیدا ہو جاتا ہے.پھر ایسوں پر عذاب نازل ہوتا ہے تو وہ تباہ ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ ا تمہیں محفوظ رکھے.الفضل جلدا نمبر۱۸-- ۱۵ر اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 630

کار اکتوبر ۱۹۱۳ء 621 خطبه جمعه حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرۃ کے ساتویں رکوع کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اس رکوع شریف میں ہم لوگوں کو آگاہ کیا گیا ہے کہ انسان دنیا میں کس طرح ذلیل ہوتے ہیں کس طرح مسکین بنتے ہیں اور کس طرح خدا تعالیٰ کے غضب کے نیچے آتے ہیں.کس طرح ابتدا اور انتہا ہوتی ہے.بہت سے لوگ دنیا میں ہیں.جب وہ بدی کرنا چاہتے ہیں تو اگر وہ نیکوں کے گھر میں پیدا ہوئے ہیں یا کسی نیکی کی کتاب پڑھتے اور مطالعہ کرتے ہیں تو پہلے پہل ان کو حیاء مانع ہوتا ہے اور وہ بدی کرنے میں مضائقہ کرتے ہیں.پہلے چپکے سے ایک چھوٹی سی بدی کر لی پھر اس بدی میں تکرار کرتے ہیں پھر بدی میں ترقی کرتے ہیں.رفتہ رفتہ بدیوں میں کمال پیدا کر لیتے ہیں.کل جہان میں دیکھو.بدی اسی طرح آتی ہے.کبھی یکدم نہیں آتی.حضرت موسیٰ اپنی قوم کو کہتے ہیں کہ جو ہم کہتے ہیں وہ مان لو.انہوں نے جواب دیا یہ تو ہم سے نہیں ہو سکتا.نافرمانی کا نتیجہ کیا ہوا؟ ذلیل اور مسکین ہو گئے.پہلے چھوٹی چھوٹی نافرمانیاں کیں ، پھر بڑی بڑی بدیوں تک نوبت پہنچ گئی.

Page 631

622.مجھے تم سے محبت ہے.نہ میں تمہارے سلام کا محتاج نہ تمہارے اٹھنے بیٹھنے کا اور نہ تمہاری نذرو نیاز کا محتاج ہوں.میں تم سے کچھ نہیں چاہتا.صرف تمہاری بہتری چاہتا ہوں.تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ سوائے امام کے ترقی نہیں ہوتی.انگریزوں کی چھوٹی چھوٹی مجلسوں کے بھی پریذیڈنٹ ہوتے ہیں.مسلمان قوم آگاہ رہے کہ سوائے امام کے ترقی نہیں ہو سکتی.کسی نے کہا آجکل جہاد ہوتا ہے.میں نے کہا کہیں نہیں ہوتا.جہاد یہ ہے کہ ان کا امام ہو اور وہ حکم دے.اس کے ماتحت کام کریں.آجکل عام مسلمانوں میں کوئی امام نہیں.نہ ایران نہ چین نہ مرا کو نہ لڑکی نے ترقی کی.میں تم کو نصیحت کرتا ہوں.اللہ رسول، فرشتوں کو گواہ کر کے تمہاری بھلائی کے لئے کہتا ہوں.وہم بھی نہ کرنا.نہ کسی طمع و غرض کے لئے کہتا ہوں ورنہ گنہگار ہو جاؤ گے.یہاں کے بعض رہنے والے باہر کے آنے والوں کے کانوں میں باتیں بھرتے ہیں کہ ہماری جماعت میں اختلاف ہے.کوئی موجود خلیفہ کے بعد کسی کو تجویز کرتا ہے اور کوئی کسی کو.ان بے حیاؤں کو شرم نہیں آتی کہ ایسی باتیں کرتے ہیں.ان کو کیا خبر ہے کون خلیفہ ہو گا؟ ممکن ہے ہمارے بعد بہتر خلیفہ ہو.اللہ تعالیٰ اس کی کیسی کیسی تائید کرے.جب تم اس قدر بے علم ہو تو ایسی ایسی باتیں کیوں کیا کرتے ہو.کیا تمہارا انتخاب کردہ منتخب ہو گا؟ کیا موجودہ خلیفہ تمہارے انتخاب سے خلیفہ ہوا ہے کہ وہ تمہارے انتخاب سے ہو گا؟ یہ کام تمہارا نہیں.خدا کا کام خدا کے سپرد کرو.یونسی نفاق ڈالنے کے لئے کانوں میں کر کر کرتے ہو.میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ تم کو اس کا وبال نہ بھگتنا پڑے.تم میں ایک امام ہے.اس کا نام نورالدین ہے.کیا تم اس کی حیاتی کے ذمہ دار ہو ؟ پیش از مرگ واویلا کرتے ہو.اگر تم حیادار ہو تو ایسی باتیں کبھی نہ کرو.تم میں بدظنی ہے.خواجہ کمال الدین منافقانہ کام نہیں کرتا.صرف اللہ تعالیٰ کے لئے کرتا ہے.یہ میرا یقین اس کی نسبت ہے.ہاں معلوم نہیں غلطیاں کر سکتا ہے.میں اس کے کاموں سے خوش ہوں.اس کے کاموں میں برکت ہے.اس کی نسبت بدظنیاں پھیلانے والے منافق ہیں.میرے اور میاں صاحب کے درمیان کوئی نقار نہیں.جو ایسا کہتا ہے وہ بھی منافق ہے.وہ میرے بڑے فرمانبردار ہیں.انہوں نے مجھ کو فرمانبرداری کا بہتر سے بہتر نمونہ دکھایا ہے.وہ میرے سامنے اونچی آواز بھی نہیں نکال سکتے.انہوں نے فرمانبرداری میں کمال کیا ہے.میرے اور ان کے درمیان کوئی مخالفت نہیں.میں نے امام بننے کی کبھی خواہش تک نہیں کی.اللہ تعالیٰ نے تم سب کو گردنوں سے پکڑ کر میرے آگے جھکا دیا.دیر کی بات ہے میں نے ایک رویاء دیکھی تھی کہ میں کرشن بن گیا.اس کا نتیجہ اس وقت میری سمجھ میں نہیں آتا تھا.یہ مطلب ہے ذَالِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوا يَعْتَدُونَ (البقرة:٣) کا.پہلے انسان ادنی نافرمانی کرتا ہے پھر ترقی کرتا کر تا حد

Page 632

623 سے بڑھ جاتا ہے.تم میں سے بعض کہتے ہیں کہ فتح محمد کو کمال الدین کی جاسوسی کے لئے بھیجا ہے.یہ لوگ بالکل جھوٹے ہیں.حد سے مت بڑھو.حد سے بڑھ جاؤ گے تو ہماری آیتوں کے کافر بن جاؤ گے.پھر نبیوں کے قتل پر آمادہ ہو جاؤ گے.نہ تمہیں علم ہے نہ تمہیں عقل ہے.تم محتاج ہو.ہم محتاج ہیں.جو فرمانبردار ہو گزرے ہیں وہ ائمہ کا مقابلہ نہیں کرتے تھے.پہلے لوگوں میں یہ بات نہیں پھیلاتے تھے.اولا امیر کو بات پہنچاتے.وہ اس میں سے نیک نتیجہ نکال لیتا.اگر اللہ کا فضل نہ ہو تا تو تم میں سے بہت سے شیطان کے پنجہ میں گرفتار ہو کر گمراہ ہو جاتے.حضرت موسیٰ کی قوم باوجود کمزور ہونے کے پانی تک کے لئے اجازت مانگتی ہے.حضرت موسیٰ نے خدا سے دعا کی.حکم ہوا پہاڑ پر جاؤ.وہاں پانی بہتا ہے، پیو.ایک کھانے پر بس نہیں کی.کہنے لگے دعا کریں.ہم کھیتی باڑی کریں.ترکاری لکڑیاں لہسن مسور اور پیاز کھائیں.موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا.یہ بڑی غلطی ہے.یہ ادنی چیزیں ہیں.یہ تو تمہاری محنت سے مل سکتی ہیں.کم عقلو! چھوٹے کاموں میں لگ جاؤ گے تو حکومت کس طرح کرو گے؟ ان میں سے جو کمزور تھے ان کو حکم دیا.جاؤ کسی گاؤں میں جا کر آباد ہو.قوْمِهَا (البقرة: ٢٣) کا ترجمہ بعض نے گندم کیا ہے.یہ غلط ہے.میں کبھی نہ کروں گا.میں نے ایک کتاب دیکھی.اگر چہ وہ مجھے نا پسند آئی مگر میں نے اس کو خرید لیا.رات کو مجھے رویا ہوا کہ ایک بازار ہے.اس میں بہت خوبصورت پیاز اور لہسن خرید لیا.جب جاگ آئی تو زبان پر قومِهَا تھا تو سمجھ آئی کہ لہسن پر خوب ہاتھ مارا.فرمانبرداری کرو.اللہ تمہیں توفیق دے.الفضل جلد نمبر۱۹ --- ۲۲ اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 633

۳۱ اکتوبر ۱۹۱۳ء 624 خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرۃ کی آیت إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَ النَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقرۃ:۳) کی تلاوت کے بعد فرمایا: یہ ایک رکوع کا ٹکڑا ہے.میں بہت سوچ سوچ کر تھک جاتا ہوں کہ میں اپنی بات کن لفظوں میں کہوں جو دل میں اثر کرے.میں دیکھتا ہوں بہت لوگ ایسے ہیں گویا ہماری بات سنتے ہی نہیں اور ان کے کان حق سے کبھی آشنا نہیں ہوئے.میں نے ایک لڑکے سے پوچھا.سبق کہاں سے شروع ہو گا؟ اس نے کہا.دس برس ہوئے.میں درس میں آتا ہوں مگر کبھی سنا نہیں.اس کے پاس ایک اور بیٹھا تھا.اس سے پوچھا تو اس نے کہا وعلی ہذا القیاس.میں نے کہا خیر عربی تو تمہیں آتی ہے.تم تو شاید اس دور کو نہیں سمجھ سکتے مگر میں خوب سمجھتا ہوں.مگر کوئی باپ لڑکے کو دس برس تک نصیحت کرے اور وہ اس کے جواب میں ایک دن کہہ دے کہ میں نے آپ کی کوئی بات نہیں سنی.خیر

Page 634

625 میرا کام سنانا ہے.یہاں تین باتوں کا ذکر آیا ہے.ایک تو یہ کہ اسلام کے بعد دوسروں کے ساتھ تعلقات کیسے ہوں؟ دوم ایمان کے بعد ہمارا عملدرآمد کیسا ہو؟ سوم یہ کہ اگر کہا نہ مانو گے تو حال کیا ہو گا؟ فرماتا ہے جو لوگ کسی قسم کے ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں خواہ وہر یہ ہی ہوں، فرض پابند ہوں کسی چیز کے کسی اصل کے ، پھر وہ خواہ یہودی ہوں یا عیسائی ہوں یا صابی جو کوئی اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے.ان دو باتوں کا ذکر اس لئے کیا کہ ایمان کی جڑ اللہ پر ایمان ہے اور ایمان کا منتہی آخرت پر ایمان ہے.اور جو آخرت پر ایمان لاتا ہے اس کا نشان بھی بتا دیا کہ وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْأَخِرِةِ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَهُمُ عَلَى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ (الانعام:۹۳).وہ ایک تو تمام قرآن مجید پر ایمان لاتا ہے.دوم اپنی صلوٰۃ کی محافظت کرتا ہے.آج ہی ایک نوجوان سے میں نے پوچھا.نماز پڑھتے ہو؟ اس نے کہا.صبح کی نماز تو معاف کرو.(بھلا میرا بادا معاف کرنے والا ہے) باقی پڑھتا ہوں.یہ مومن کا طریق نہیں ہے.ایک مقام بر فرمایا اَفَتُومِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ (البقرة:۸۴).پس تمام کتاب پر ایمان و عمل موجب نجات ہے.اس آیت میں اللہ نے بتا دیا ہے کہ ایک ہندو ایک عیسائی ایک چوہڑا ایک چمار جب لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ پڑھ لیتا ہے اور یوم آخرت کا قائل ہو جاتا ہے تو وہ مسلمان بنتا ہے اور پھر تم سب ایک ہو جاتے ہو.یہ اخوت اسلام کے سوا کسی مذہب میں نہیں.میں نے دیکھا ہے کہ شرفاء حکماء غرباء ایک صف میں مل کر کھڑے ہوتے ہیں.اس فرمانبرداری کا نتیجہ بھی بتا دیا کہ وہ لا خَوْفٌ وَّلَا يَحْزَنُ زندگی بسر کرتا ہے.ایک پہاڑی پر جس کا نام حراء ہے ہماری سرکار ہے بھی اللہ نے کلام کیا.ایسا ہی حضرت موسیٰ سے بھی ایک پہاڑ پر کلام ہوا جس کا نام طور ہے.رَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ (البقرۃ:۳) کے معنے ہیں کہ اس کے دامن میں سب قوم کو کھڑا کیا.جیسے بولتے ہیں لاہور شہر راوی کے اوپر ہے.ایسا ہی ہجرت کی ایک حدیث میں ہے.فَرُفِعَ لَنَا الْجَبَلُ (جامع الصغیر) تو اس کے یہ معنے نہیں کہ مکہ پہاڑ اکھیڑ کر نبی کریم میر کے اوپر رکھ دیا گیا.خُذُوا مَا آتَيْنَاكُمْ بِقُوَّةٍ (البقرة: ٣) جیسے بنی اسرائیل کو تورات محکم پکڑنے کا حکم تھا ایسا ہی ہمیں قرآن مجید کے بارے میں حکم ہے.اگر مانو گے تو فائدہ ہو گا اور اگر نہ مانو گے تو گھاٹا ہی گھاٹا ہے.عورتوں کا بڑا حصہ تو قرآن سنتا ہی نہیں.امیر بھی بد بختی سے قرآن نہیں سن سکتے نہ باجماعت نماز پڑھ سکتے

Page 635

626 ہیں.زمینداروں کو فرصت نہیں.فصل خریف سے فراغت پا کر کماد پیڑ نے کا موسم آجائے گا.پھر ہم سے سوال کئے جاتے ہیں کہ سفر میں روزہ معاف ہے تو کٹائی کے موقع پر بھی کر دیجئے.حالانکہ میں ایسا مجتد نہیں.تمہیں دنیا میں خبر ہے یہود نے کیا کیا؟ انہوں نے سبت (خواہ ہفتہ میں ایک دن عبادت کا اس کے معنی کرو خواہ آرام کے معنی لو) میں بے اعتدالی کی.آرام میں آسودگی میں انسان اپنے مولیٰ اپنے حقیقی محسن کو بھول جاتا ہے.میں نے اپنی اولاد کے لئے بھی دولت کی دعا نہیں کی.اس اعتداء کی پاداش میں ان کو ایسا ذلیل کیا جیسے بندر کہ قلندر کے نچانے پر ناچتا ہے.یہی حال آج کل مسلمانوں کا ہے.ان کا اپنا کچھ بھی نہیں.انگریزوں کے نچانے پر ناچتے ہیں.جو لباس ان کا ہے وہی یہ اختیار کرتے ہیں.جو فیشن وہ نکالتے ہیں، جو ترقی کی راہ بتلاتے ہیں بلا سوچے سمجھے اس پر چل پڑتے ہیں.ایسی حالت میں کب لا خَوْفٌ وَلا يَحْزَنُ ہو سکتے ہیں.یہ حالت کیوں ہوئی؟ اس لئے کہ خدا کی کتاب کو چھوڑ دیا.میرے پیارو! تم خدا کی کتاب پڑھو.اس پر عمل کرو.اس سے زیادہ میں کھڑا نہیں ہو سکتا.بہت زور مارا ہے.الفضل جلد نمبر۲۱-۰-۵/ نومبر ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 636

ر نومبر ۱۹۱۳ء 627 خطبه جمعه حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً قَالُوا ا تَتَّخِذُنَا هُرُ وا قَالَ اَعُوْذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجهلِينَ (البقرہ:۱۸) کی تلاوت کے بعد فرمایا:.بعض لوگ ہمارے وعظ میں نہیں آتے حالانکہ یہاں رہتے ہیں.دریافت پر کہا.نور الدین ہماری نسبت ہمارے عیوب ظاہر کرتا ہے گو اشارہ سے ہو.ایک اور سے دریافت کیا کہ بھٹی کیوں نہیں آتے؟ کہنے لگا کہ جو گناہ ہمارے وہم میں بھی نہیں ہوتے وہ تم بتلاتے ہو اور ہم اپنے زیر نظر لڑکوں کو نہیں بھیجتے.اسی طرح ایک اور شخص سے پوچھا.کہنے لگا کہ تمہارے درس میں ہوتا ہی کیا ہے؟ جو کہتے ہو وہ ہم بھی جانتے ہیں.میں نے قرآن دیا کہ تم پڑھ کر ہی یہ مقام سنا دو.میں تم سے معنے نہیں پوچھتا.مگروہ پڑھ ہی نہ سکا.اسی طرح جب واعظ وعظ کرتا ہے کئی لوگ اس کی حقیقت کو پہنچ جاتے ہیں اور اس کے رنگ میں رنگین ہو جاتے ہیں.ہمارے نتھمال میں چوہڑے مصلی کہلاتے ہیں.نمازیں پڑھتے ہیں مسجد میں بناتے ہیں ، نام فضل دین عبد اللہ رکھتے ہیں.میں نے اپنے شہر میں دیکھا.کثرت آبادی مسلمانوں کی

Page 637

628 ہے.تین چوتھائی حصہ مسلمان ہیں.چوہڑے مشترک ہیں.نام مسلمانوں جیسے اور کچھ رسومات ہمارے اور کچھ ہندووں کے ادا کرتے ہیں.سکھوں کے علاقہ کے چوہڑے کیس رکھتے ہیں اور نام نتھا سنگھ رکھ لیتے ہیں.سنی، شیعہ ، ہندو، سکھ سب اکٹھے رہتے ہیں.مذہبی غیرت اٹھ گئی.لڑائی کہاں ہوئی تھی جب غیرت ہی نہ رہی.ایک میرا استاد ہندو پنڈت تھا.کہنے لگا کہ ہندو مسلمان تو دو مذہب ہوئے، مسیحی کہاں سے نکل آئے ؟ میں ہنس پڑا.انہوں نے کہا کہ کیوں ہنس پڑے ؟ میں نے کہا کہ مسلمان ، عیسائی تو ملتے جلتے ہیں.یہودی، مجوس قوم قدیم ہے.کہنے لگا کہ شاید یہ لوگ چھپے ہوئے ہوں گے کسی ملک میں.مذہب تو دوہی چلے آتے ہیں.اب یہ تیرے لوگ ہیں.گویا ان کے خیال میں مسیحی جدید قوم تھی.ان کو کوئی خبرنہ تھی.یہ ناواقفی کا سبب ہے.تھا تو میرا واقعی استاد اب بھی ان کو استاد کہتا ہوں.یہاں پر ہندو تو ہے ہی نہیں.خیر میں حیرت میں رہا اور جواب دے دیا.یہاں پر ذکر اس لئے کیا کہ فرعون جو تھا اس کے آباؤ اجداد گاؤ کی پرستش کرتے تھے.اسکندریہ میں ایک لائبریری تھی.اس کو بروچیم کہتے تھے.برو چیم بیل کا نام ہے.اس لائبریری کے آگے ایک بیل بنا ہوا تھالا ئبریری کی حفاظت کے لئے.مورخوں کا اس میں اختلاف ہے کہ بنی اسرائیل مصر میں ڈھائی سو سال رہے یا چار سو سال.خیر یہ تمہاری دلچسپی کی بات نہیں اور فرعون کے سر کا تاج بھی گئو موکھی کا تھا اور اس کا بڑا ثبوت قرآن سے یوں ملتا ہے کہ جب بنی اسرائیل وہاں سے آئے تو بار بن کر سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے زیر اثر تھے.سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے بعد انہوں نے بچھڑے کی پرستش شروع کر دی.گاؤ کو تو پہلے ہی مانتے تھے.میں نے ایک ہندو سے پوچھا کہ گئو ماتا کا تو اس قدر ادب کرتے ہو.اس کے خاوند (بیل) کی پرستش کیوں نہیں کرتے بلکہ بیل کو تو سارا دن جو تتے ہو.انبیاء کو تو شرک سے نفرت ہی ہوتی ہے.موسیٰ علیہ السلام کو بچھڑے کی پرستش بری لگی.اس کا ذکر کسی خطبہ میں ہو چکا ہے.یہاں مرض شرک کے علاج کا ذکر ہے.سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ گاؤ کی قربانی کرو.عادت بڑی بری بلا ہے.لگے ایچ بیچ بنانے.سیدھی بات تھی.گائے ذبح کر دیتے.ہمارے ایک شیخ المشائخ گزرے ہیں.ان کا نام شیخ احمد سرہندی رحمتہ اللہ علیہ تھا.سرہند ریاست پٹیالہ میں ہے.ہمارے ہم قوم تھے.وہیں پیدا ہوئے.وہیں وفات پائی.انہوں نے اپنی مکتوبات میں لکھا ہے کہ امراء و بادشاہ سب مل کر گائے کی قربانی کریں ورنہ مشکلات میں رہیں گے.اب دیکھو ہندو گائے کی قربانی بند کرانا چاہتے ہیں.ایسا کیوں ہوا؟ مسلمان بادشاہوں کی غفلت والا ہندو رسومات کا پابند نہیں.

Page 638

629 مثلاً جیسے گاؤ کا ذبح کرنا برا جائیں ایسا بکرے اور مرغ کو ذبح کرنا.موسی اتنا بڑا اولوالعزم نبی تھا.کتنے نشان دکھلائے.فرعون کی غلامی سے بچایا.ید بیضاء عصاء جراد وباء، قمل، طوفان، وغیرہ وغیرہ دکھائے.فرعون غرق ہوا.اسی دریا سے بنی اسرائیل بیچ کر نکل آئے.ان کے دل میں کوئی ادب معلوم نہیں ہوتا اور کہنے لگے کہ کیا آپ ہنسی کرتے ہیں؟ کہا اعوذ باللہ.یہ تو جاہلوں کا کام ہے.ہماری سرکار نے فرمایا ، صلی اللہ علیہ وسلم کہ میں تم سے بڑا عالم اور متقی ٹھٹھا یا محول کرنا عالم کا کام نہیں.مجھے یاد نہیں کہ کبھی درس میں یا طب میں ٹھٹھا کیا ہو.وہ بد معاش خوب سمجھتے تھے کہ سیدنا موسیٰ کی کیا غرض تھی مگر رسم کے خلاف کرنا بھی مشکل تھا.اس لئے خوئے بد را بہانہ ہا بسیار" کہتے ہیں کہ اُدْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَّنَا مَا هِيَ (البقرة).یہ تمسخر ہے.جو اب ملا.گائے ہے.نہ بچھیا ہے اور نہ بڑھیا ہے اور جوان ہے.جو حکم ہوا ہے اس کی تعمیل کرو.شریر پابند رسوم و عادات بھلا کیسے جلد سیدھا ہو.لگے پوچھنے کہ اس کا رنگ کیسا ہو؟ علاج تو یہ تھا کہ دو جوت لگا دیتے.مگر انبیاء رحیم کریم ہوتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ زرد رنگ اور شوخ ڈیڈھا رنگ ہے یعنی گوڑھا، گورا.خوش کرتی ہے دیکھنے والوں کو.کیا معنے ؟ درشنی گاؤ ہے.ہندو ایسی عمدہ گھروں میں رکھتے ہیں اور ان کو گندھا آٹا کھلاتے ہیں.اب یہ بد بختی پیچھا نہیں چھوڑتی.کہتے ہیں کہ حضور گائیں بہت ہیں.گوریاں بھی ہیں.ذرا تفصیل سے پوچھو ہم کو تو شبہ پڑ گیا ہے.پھر تاڑ گئے کہ یہ شرک کو تو پسند نہ کرے گا.اور فرمایا کہ وہ ذلیل نہیں ہے.وہ تو کھا کھا اتنی موٹی ہوئی ہے کہ وہ زمین پر کھر مارتی ہے.کبھی کھیتی میں نہیں لگائی گئی.اس میں کلا کوئی نہیں اور نہ داغ ہے.مجبور ہو گئے.آخر ذبح کرنی پڑی.آخر انبیاء علیہ السلام کے حضور کیا پیش جاتی.ایک اور بات سناتا ہوں کہ جب انسان کسی جگہ کو آگ لگاتا ہے تو پہلے دیا سلائی کو جلاتا ہے.پھر چیتھڑے اور کاغذ وغیرہ کو آگ لگاتا ہے.ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ بڑے بڑے کھنڈ تباہ کر دیں.اسی طرح قومی افساد کے لئے بعض لوگ ایک امر کو دینی اور مذہبی امر تجویز کر کے اس سے افساد شروع کرتے ہیں اور شاید ان کی اتنی عقل ہوتی ہے یا یہ ان کی بد عادت ہے.اس کو پورا کرنے کو ایک ایمانی امر تجویز کرتے ہیں.اس لئے میں اول اپنا ایمان ظاہر کرتا ہوں.ہمارے ایمان میں جو کچھ ہے یہ ہے کہ لَا إِله إِلا اللہ اور گواہ رہیں.قیامت کے دن پوچھے جاؤ گے کہ کوئی معبود برحق محبوب، مطلوب حقیقی جس کے آگے کامل اطاعت کریں، تذلل اختیار کریں اللہ ہے.اس کے مقابل میں کوئی نہیں.رب رحمن رحیم ، مالک یوم الدین اس کی صفتیں ہیں.لاکھوں فرشتے اس نے بنائے ہیں.یہ اس کے کارخانہ میں

Page 639

630 اس کے حکم کے تحت کارکن ہیں.ان کی معرفت حکم الہی آتا ہے اور بالواسطہ بھی آتا ہے اور جن کے پاس آتا ہے اگر وہ مامور ہوں تو وہ رسول کہلاتے ہیں اور سب کے سردار نبی کریم میں ہی ہیں.اس کے بعد دوزخ، جنت، پل صراط قیامت برحق ہیں.میں نے بہت سی کتابیں پڑھی ہیں اور خوب سمجھ کر پڑھی ہیں.مجھے قرآن کے برابر پیاری کوئی کتاب نہیں ملی.اس سے بڑھ کر کوئی کتاب پسند نہیں ہے.قرآن کافی کتاب ہے.اَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنْزَلْنَا (العنكبوت: ۵۲).ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور آتے ہیں اور آتے رہیں گے.میں نے اپنے زمانہ میں میرزا غلام احمد صاحب کو دیکھا ہے.سچا پایا اور بہت ہی راستباز تھا.جو بات اس کے دل میں نہیں ہوتی تھی وہ نہیں منوا تا تھا.اس نے بھی ہم کو یہی حکم دیا کہ قرآن پڑھو اور اس پر عمل کرو اور فرمایا کہ قرآن کے بعد اگر کوئی کتاب ہے تو بخاری ہے.اس نے تین دعوے کئے.اول حضرت عیسی " مر گئے.اس کے دلائل و اصول بتائے اور قرآن سے ثابت ہوئے کہ واقعی مرگئے جیسے فِيهَا تَحْيَوْنَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ وَمِنْهَا تُخْرَجُونَ (الاعراف (٣٢) أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ كِفَانًا اَحْيَاء وَ أمْوَانًا (النمرسلات (۲۷۲۹).دوئم ایک عیسی کی آمد ہے اور فرمایا کہ وہ میں ہوں.ہم نے اس کو نشانوں سے مانا اور میں خود بھی نشان ہوں اور میرا گھر بھی نشانوں سے بھرا پڑا ہے.تیسرا جو طبعی موت سے مر جاتے ہیں وہ پھر اس دنیا میں نہیں آتے.اس کو بھی ہم نے واضح طور سے اور بالکل قرآن کریم کے مطابق پایا.باقی مسئلہ کوئی ایسا نہ تھا.اگر کوئی ان سے مسئلہ پوچھتا تو اکثر میرے پاس بھیج دیتے کہ نورالدین سے پوچھ لو.ایک دفعہ میں نے حضرت علی مرتضیٰ کو خواب یا کشف میں دیکھا.میں نے آپ سے سوال کیا کہ حضرت ابو بکر اور آپ کی فضیلت کا مسئلہ دنیا میں بیچ دار ہو رہا ہے.اس کا اصل کیا ہے؟ فرمایا.انسان کی فضیلت موقوف ہے اس تعلق پر جو انسان کو اللہ تعالیٰ سے ہے.دلوں کے حالات کو عَلِیمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ (ال عمران : ۱۳۰) کے سوا کون جانتا ہے.اب ایک اور سوال ہے.خواجہ کمال الدین کون ہے اور نور الدین کون ہے؟ یہ عیار لوگوں کا کام ہے.نہ نماز سے مطلب نہ حج کا فکر نہ روزہ کا خیال.ایک نے سوال کیا ہے کہ آپ نے کہا ہے.چہ خوش بودے اگر ہر یک زامت کمال دیں بودے حالا نکہ یہ مصرعہ ہی غلط ہے.(اکبر شاہ خانصاحب کو استشہاد شاعری کے لئے کھڑا کیا.بتائیے یہ مصرعہ

Page 640

631 صحیح ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ بالکل غلط).میں بارہا کہہ چکا ہوں کہ تم فساد ڈلواتے ہو.کہتے ہیں کہ قاضی حبیب اللہ ہے.دو شخص اور ہیں.ہم نہیں جانتے.جب وہ ہمارے سامنے آتے ہیں تو وہ مخلص اور فرمانبردار ہی معلوم ہوتے ہیں.پھر وہ کہتا ہے کہ دیوث کہا ہے.وہ شریر النفس ہیں.وہ بار بار لکھتے ہیں کہ الفضل جھوٹ لکھتا ہے اور تم جھوٹ بولتے ہو.اور ہم کہتے ہیں کہ تم ہماری اصلاح کے لئے یہاں نہیں آئے.اگر تم کو ہماری مجلس بہت گند سکھاتی ہے تو مہربانی کر کے اپنے گھر تشریف لے جاؤ.اگر تم کو بلائیں تو جھوٹے.میں نے سوائے اس غرض کے کبھی قرآن شریف نہیں سنایا کہ تم اس سے کچھ فائدہ اٹھاؤ.سو اگر تم قرآن سیکھنے آئے ہو تو سیکھو.میں دنیا کا محتاج نہیں.میں نے مکان بیٹے کے لئے بنوایا.میں نے کسی سے نہیں کہا کہ دعا کرو یا روپیہ دو.نہ دل میں نہ ارادہ میں.میری ایک دکان ہے.خوب کماتا ہوں.اگر قرآن کے لئے آؤ تو قرآن سیکھو.میں لڑائی کو پسند نہیں کرتا.کمال دین اچھا ہے.وہ نیک کام میں ہے.اگر کوئی غلطی اس سے ہو تو قدوس تو خدا تعالیٰ ہی ہے.اس کے سوا کوئی پاک نہیں.وہی ہر عیب سے پاک کمزوریوں اور نقصوں سے منزہ ، مستجمع جمیع صفات ہے.وہ ایک نیک کام میں لگا ہوا ہے.تم میں سے کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر رہا.غلطی کو رہنے دو.نیکی کو لے لو.وہ بار بار مجھ کو مطاع مطاع" لکھتا ہے.پھر اگر ایک شریر النفس آدمی با وجود اتنی تصریح کے یقین نہیں کرتا تو میرا اور اس کا معاملہ خدا کے سپرد کرو.خود فیصلہ ہو جائے گا.باوجود ان باتوں کے لڑائی سے باز نہیں آتے.کمال دین اپنی ذاتی غرض سے وہاں نہیں گیا.اس کو اپنے بال بچوں تک کی پرواہ نہیں.کسی نے لکھا ہے کہ کمال الدین کی ڈاڑھی کا صفایا ہوا ہوا ہے.میں نے اگلے روز کمال الدین کی تصویر دیکھی ہے.ڈاڑھی موجود ہے.میرے نزدیک اگر ڈاڑھی منڈواتا بھی تو جس کام کے لئے گیا ہے اس کو تو اچھا کیوں گا.اگر کوئی غلطی ہے تو میں خود چشم پوشی کرتا ہوں.کوئی نہیں جس سے غلطی نہیں ہوتی.ہم آدم کی اولاد سے ہیں.اس کے لئے عَضى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَى ظة :۳۲) رکھا ہوا ہے.ہماری قوم روافض نہیں جنہوں نے اڑھائی مسلمان کو مان کر باقی صحابہ اور بیسیوں تک کو منافق کہا ہے.خوارج نے بھی حد کر دی ہے.گواہ رہو میں لا اله الا اللہ کہتا ہوں.مرزا صاحب کو دعوتی میں راستباز یقین کرتا ہوں.بعض مجھ کو منافق کہتے ہیں کہ لڑواتا ہے.میں منافق نہیں ہوں.منافق میں تین عیب ہوتے ہیں.اول نہ تاب مقابلہ رکھتا ہے، نہ قوت فیصلہ اور ڈرپوک ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے مجھے ان تینوں سے بہت محفوظ کیا ہے.قرآن کو کتاب اللہ سمجھتا ہوں.مسلمان اس پر عمل کریں.باقی جو

Page 641

632 چھوٹے چھوٹے معاملات ہیں، میں انہیں شیطان کا اغوا کہتا ہوں.اس میں فائدہ کیا ہے (اس کے بعد حضور بیٹھ گئے.ضعف طاری ہو گیا.پھر اٹھے اور فرمایا.کمال الدین جو کرتا ہے تم میں سے کوئی ہے؟ اس میں غلطی ہے تو کون سی بات ہے.وہ ہزاروں روپے کمانے والا آدمی ہے.ہم قرآن پڑھاتے ہیں.کئی نئے نکتہ معرفت سوجھتے ہیں تو کیا معلوم ہم نے بے ایمانی سے پڑھایا تھا.پہلے بھی نیک نیتی سے پڑھایا تھا اور اب بھی.الفضل جل را نمبر ۲۲ - ۱۲/ نومبر ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵) ✰✰✰

Page 642

۱۴ نومبر ۱۹۱۳ء 633 خطبہ جمعہ حضرت خلیفة السبح ایده الله تعالی نے وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَاتُرَة تُمْ فِيهَا وَ اللَّهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ (البقرة: ۷۳) کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں نے بچوں کو کھیلتے دیکھا ہے اور ان کی کھیلوں پر بڑا غور کیا ہے.بعض بچوں کو بڑی عمدہ چیز منگوا کر دی.وہ پہلے تو اسے اچھی طرح دیکھتا ہے اور اس سے کھیلتا ہے.پھر تھوڑی دیر کے بعد اس کو پتھر لے کر اچھی طرح کوڑتا ہے اور اسے کچل دیتا ہے.پھر اسے دیکھتا ہے.پھر دیکھتا ہے کہ ابھی اس کا مطلب حل نہیں ہوا تو اسے پھر پتھر سے کو ٹتا ہے اور اس کا اچھی طرح کچومر نکالتا ہے.میں جب نماز کو آرہا تھا تو میرے پاس دو شیشیاں تھیں جن میں الگ الگ دوائیں پڑی تھیں جن کا آپس میں ملانا بالکل ناجائز تھا.میرے بچے نے ان کو لے کر پہلے تو ان کا منہ کھولا پھر ان کو آپس میں ملانے لگا.میں نے کہا کیا کرتا ہے؟ مگروہ کہاں ملتے ہیں، چاہے چیز بگڑ جاوے.انسان یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ کیا بلا ہے؟

Page 643

634 اسی طرح بعض لوگ کتابیں لکھتے ہیں.پھر ان پر حاشیے چڑھاتے ہیں.پھر ان پر حاشیہ در حاشیه در حاشیہ اور ان کی شرحیں ہوتی ہیں.میری طالب علمی کا زمانہ بڑا دکھ کا زمانہ گزرا ہے.بڑا معرکتہ الآراء مسئلہ کہ بچہ کو کیسی تعلیم دینی چاہئے اس کا کوئی فکر نہیں.رامپور میں میں نے طلباء کو دیکھا جن کی عمر تمیں سال سے لے کر ساٹھ سال تک کی ہو گئی تھی.ایک ملتانی بوڑھا آدمی میری پنجابی سن کر مجھے ملنے کو آیا.ان دنوں میں ایک بہت ہی خبیث کتاب "ملا حسن " پڑھا کرتا تھا.اس سے میں نے دریافت کیا کہ تم کیا پڑھا کرتے ہو؟ اس نے کہا قاضی مبارک".وہ جب آیا تو میرا انشراح صدر ہو گیا.میں نے کہا کہ میں ” قاضی مبارک خوب جانتا ہوں.اس نے کہا مجھے پڑھا دو.اتفاق سے جس جگہ کو میں نے پڑھایا وہ مجھے خوب آتی تھی.اس کی عمر میرے خیال میں ستر برس کی تھی.میں نے اسے پنجابی میں وہ جگہ پڑھائی.وہ حیران ہو گیا اور کہنے لگا کہ آپ تو خوب جانتے ہیں.پھر اس نے کہا کہ مجھے قاضی پڑھا دو.میں نے کہا اس شرط پر کہ پہلے ایک سبق مشکوۃ کا پڑھ لیا کرو.اس نے ہاتھ کو کھڑا کر کے دیکھا اور کہا کہ ابھی تو مضبوط ہوں.( تم مجھے دیکھتے ہو.میں کیسا کمزور ہوں.وہ مجھ سے بھی زیادہ کمزور تھا، پہلے فلسفہ پڑھ لوں پھر مشکوۃ بھی پڑھ لوں گا.میں نے اس کو پڑھانے سے انکار کر دیا.یہ ایک دکھ ہے جو بڑا ہے.میں نے اس آیت پر غور کیا ہے.وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا (البقرۃ:۷۳) یہ ایک سیدھی آیت ہے.اس کے معنے تم نے ایک آدمی کو مار ڈالا.آدمی کو تو مارا ہی کرتے ہیں.یہ ترجمہ اس کا صحیح نہیں.اس کا ترجمہ یہ ہے کہ تم نے ایک جی (یا جان) کو مارا.پھر اپنے آپ سے ہٹانے لگے کہ تم نے نہیں مارا.معلوم ہوا کہ وہ جان ایسی نہ تھی جس کا وہ بہادری کا کام سمجھ کر اقرار کرتا.کعب بن اشرف مارا گیا.اس کے قاتل کا پتہ پوچھنے پر نبی کریم میم نے فرمایا.میں نے مارا ہے.ابو رافع مارا گیا.اس کے لئے بھی نبی کریم میں تیار کریم نے فرمایا کہ ہم نے اس کو مارا ہے.کشت و خون جیسا کہ آجکل سرحدیوں ، وزیریوں اور محسودیوں وغیرہ میں ہے ایسا ہی عرب میں تھا.سب کے نزدیک عورت کا مارنا بہت معیوب ہے.ابو سفیان نے کہا تھا کہ آپ اس لڑائی میں عورتوں کو بھی مقتول پائیں گے مگر میں نے یہ حکم نہیں دیا.میں ایک دفعہ ایک رئیس کے ساتھ جس کے ساتھ انگریز بھی تھے، سور کے شکار پر گیا.سامنے سے ایک سور آیا.اس کا گھوڑا اس سے ڈر گیا.وہ جھک کر گھوڑے کو ایک طرف دوڑا کرلے گیا.ایک مسخرا

Page 644

635 انگریز بھی ان میں تھا اس نے اس رئیس کو کہا کہ واہ آپ کا گھوڑا سؤر سے ڈر گیا.تو اس رئیس نے کہا کہ آپ نے دیکھا نہیں میں جھکا تھا.میں نے دیکھا کہ وہ سور کی مادہ سورنی تھی.ہم سپاہی مادہ کو نہیں مارا کرتے.تو اس انگریز نے دوسرے انگریزوں کو کہا.شکر ہے ہم نے اس کو نہیں مارا اور نہ ہماری تو بد نامی ہوتی.اس آیت میں جس نفس کا ذکر ہے، وہ عورت ہے.مرد کو اگر مارتے تو کچھ حرج نہ تھا.تحقیقات کرنے پر انہوں نے اس کو ایک دوسرے پر تھوپا.آخر نبی کریم میں تمیمی نے مدینے کے سارے بد معاشوں کو جمع کیا اور اس عورت کے آگے سب کو پیش کیا.وہ بول تو نہ سکتی تھی مگر قوت ممیزہ اس میں تھی.جب قاتل کو اس کے سامنے لایا گیا تو اس نے سر سے اشارہ کیا کہ یہی ہے.اس کو نبی کریم میں ہیر نے کئی بیچوں سے اس عورت پر پیش کیا مگر وہ اس کو پہچان لیتی.اس کا ذکر بخاری شریف میں ہے.اس بد معاش نے اس عورت کا سر دو پتھروں کے درمیان کچل دیا تھا.کچھ زیور کے لالچ سے.وَاللهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ (البقرۃ:۷۳) اللہ اس بات کو نکالنے والا تھا.آخر وہ بات نکل آئی.فَقُلْنَا اضْرِبُوهُ ببعضها (البقرة: تب ہم نے اس قاتل کو مارنے کا حکم دیا.اور یہ اس کے بعض کا بدلہ تھا.اس نے پہلے بھی کئی بد معاشیاں کیں اور آگے بھی وہ کرتا.اس لئے یہ سزا اس کے بعض کی ہے.اور جگہ فرمایا.وَلَكُمْ فِى الْقِصَاصِ حَيُوةٌ (البقرة :۱۸۰) بدلہ لینے میں تمہارے لئے حیات ہے.یحیی کا لفظ رکھا ہے.یہ ان کی بے حیائی ہے کہ عورت کو مارا.عورت کو مارنا کوئی بہادری نہیں.میں اس آیت کو سنا کر افسوس کرتا ہوں.مسلمانوں کو بتلایا تھا کہ تم ایسا کام نہ کرنا.مگر تم صدہا قتل کرتے ہو.ڈرتے نہیں.ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ (البقرة :۷۵) تمہارے دل سخت ہو گئے.بعض پتھروں سے نہریں چلتی ہیں اور ان سے نفع پہنچتا ہے.مگر تم تو ان پتھروں سے بھی بد تر ہو.تم جس قدر ہو تم میں سے ندیاں اور نہریں جاری ہوتیں.اور کچھ نہیں تو پانی نکلتا.میں تمہارا خیر خواہ ہوں.میں نے تمہیں سمندر کے سمندر سنائے مگر تم بھی بہادر ہو.بعض ہیں کہ ان کے کانوں پر جوں رینگتی ہی نہیں.قَسَتْ قُلُوبُكُمْ - خدا ساری قوم کو برا نہیں کہتا.بعض نیک بھی تو ہوتے ہیں جو إِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ (البقرة:۷۵) کے مصداق ہوتے ہیں.مِنْهَا میں جو ضمیر ہے اس میں اختلاف ہے.بعض پتھروں کی طرف پھیرتے ہیں، بعض قلوب کی طرف.جیسے موسیٰ کے بارے میں فرمایا.آنِ اقْذِ فِيْهِ فِي التَّابُوتِ فَاقْذِ فِيهِ فِي الْيَم (٣٠) موسیٰ کو صندوق میں ڈال دو اور صندوق کو دریا میں ڈال دو یا موسیٰ کو دریا

Page 645

میں ڈالو.636 غرض تمام ایسے نہیں.تم میں سے بعض میرے خیر خواہ اور فرمانبردار بھی ہیں.ایک آدمی کو میں نے دعا کرتے سنا کہ الہی! میرا وجود تو کوئی نافع نہیں.میری عمر نور الدین کو دے دے، اگر اس کی عمر پوری ہو گئی ہے کیونکہ یہ مفید انسان ہے.تم میں سے بعض ایسے ہیں کہ ان کے دل خشک ہیں.وہ خدا کاڈر نہیں کرتے جیسے غیر احمدی نہیں مانتے.ان کے پاس قرآن وحدیث کی کتابیں ہیں.وہ ان کو نہیں مانتے تو تمہارا کیوں ماننے لگے.الفضل جلد نمبر ۲۳-۰-۱۹/ نومبر ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵) ⭑-⭑-✰✰

Page 646

۲۱ نومبر ۱۹۱۳ء 637 خطبہ جمعہ تشهد و تعوذ کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی.وَ إِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَ إِذَا خَلَا بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ قَالُوْا اَ تُحَدِّثُوْنَهُمْ بِمَا فَتَحَ اللهُ عَلَيْكُمْ لِيُحَاجُوكُمْ بِهِ عِنْدَ رَبِّكُمْ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (البقرة:) - اور پھر فرمایا:.انسان کے ذمے تین طرح کے حقوق ہیں.اول اللہ تعالٰی کے.دوم اپنے نفس کے.سوم مخلوقات کے.ان حقوق کے متکفل قرآن کریم اور احادیث صحیحہ ہیں.جناب الہی کے حقوق کون بیان کر سکتا ہے.عقل میں تو نہیں آسکتے.جس طرح وہ وراء الوراء ہستی ہے، اس کے حقوق بھی ویسے ہی ہیں.جب انسان ایک دوسرے انسان کی رضامندی کے طریقے کو اچھی طرح نہیں جان سکتا تو خدا تعالیٰ کی رضامندی کے رستوں کو کب کوئی پاسکتا ہے.اور جب انسان کے حقوق کو نہیں سمجھ سکتے تو خدا کے حقوق کو کس طرح سمجھ سکتے ہیں.مثلاً میں یہاں کھڑا ہوں.تم میری رضامندی کی راہ کو نہیں جانتے تو وہ ذات جو لَیسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ (الشوری:) ہے اس کے حقوق کیونکر انسان سمجھ سکتا ہے.اسی طرح انسان کے حقوق بھی ہیں.انسان بہت کچھ غلطیاں کر جاتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے انسان کے لئے ایک قانون بنایا ہے.

Page 647

638 ایک صحابی دن کو روزے رکھتے اور رات کو عبادت کرتے تھے.وہ حضرت سلمان فارسی کے دوست بھی تھے.ایک دفعہ سلمان ان کے گھر تشریف لے گئے تو ان کی بیوی کالباس خراب تھا.انہوں نے ان کی بیوی سے پوچھا کہ بھاوجہ صاحبہ! آپ کی ایسی حالت کیوں ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میرے کپڑوں کی حالت کیونکر اچھی ہو.تمہارے بھائی کو تو بیوی سے کچھ غرض ہی نہیں.وہ تو دن بھر روزے اور رات کو عبادت میں مشغول رہتے ہیں.حضرت سلمان نے کھانا منگوایا اور اس دوست کو کہا کہ آؤ کھاؤ.انہوں نے جواب دیا کہ میں تو روزے دار ہوں.تو حضرت سلمان نے ناراضگی ظاہر کی.تو مجبوراً اس صحابی نے آپ کے ساتھ کھانا کھا لیا.پھر حضرت سلمان نے جب رات ہوئی تو چارپائی منگوا کر ان کو کہا کہ سو جاؤ.انہوں نے اس سے انکار کیا اور کہا کہ میں رات کو عبادت کیا کرتا ہوں.تو پھر حضرت سلمان نے ان کو زبردستی سلا دیا.صحابہ ایسے نہ تھے کہ إِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ اذَاعُوا بِه (النساء:۸۴) جب کوئی امن و خوف کی بات ہوتی تو اسے پھیلا دیتے تھے.تم میں سے اکثر ایسے ہیں جو بات سنی تو فوراً اس کو پھیلا دیتے ہیں.آخر ان کا معاملہ حضرت نبی کریم میں یہ کے پیش ہوا تو آپ نے اس صحابی کو فرمایا کہ تمہارے متعلق ہمیں یہ بات پہنچی ہے.تو انہوں نے یہ عرض کیا کہ بات تو جیسے حضور کو کسی نے پہنچائی ہے وہ صحیح ہے.تب نبی کریم صلی اللہ نے ان کو فرمایا.إِنَّ لِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَلِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقًّا.یہ بھی فرمایا.وَلِعَيْنَيْكَ عَلَيْكَ حَقًّا (بخاری کتاب الصوم) تیرے پر نفس کے بھی حقوق ہیں.تیری بیوی کے بھی حقوق ہیں.اس نے عرض کیا.یا رسول اللہ ! اس کی مراد اس سے یہ تھی کہ میں تو خوب مضبوط ہوں.آپ مجھے کچھ تو اجازت دیں.تو نبی کریم صلعم نے فرمایا کہ اچھا ایک مہینے میں تین روزے رکھ لیا کرو (چاند کی ۱۳ ۱۴ ۱۵).اس نے پھر کہا.یا رسول اللہ ! مطلب یہ تھا کہ میں بہت طاقتور ہوں.آپ مجھے اور زیادہ اجازت دیں تو نبی کریم ملی و یا لیلی نے فرمایا.اچھا دو دن افطار کر کے ایک دن روزہ رکھ لیا کرو.اس نے پھر عرض کیا.یا رسول اللہ ! تو نبی کریم می ﷺ نے فرمایا.اچھا سب سے بڑھ کر تو صوم داؤدی تھا (بخاری کتاب الانبیاء فی ذکر داود علیہ السلام).تم ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن افطار کر لیا کرو.پھر کہا یا رسول اللہ ! مطلب یہ تھا کہ مجھے قرآن کریم کے روزانہ ختم کرنے کی تو اجازت فرما دیں.تو نبی کریم ملی لی نے فرمایا کہ ہفتے میں ایک ختم کر لیا کرو.تو اس نے پھر عرض کیا یا رسول اللہ ! تو نبی کریم میل اللہ ﷺ نے فرمایا.اچھا قرآن کریم کا ختم تین دن میں کر لیا کرو.اس سے جلدی کی بالکل اجازت نہیں.جب وہ بوڑھے ہو گئے تو پھر ان کو اس سے تکلیف ہوئی اور اب نبی کریم میں یہ تو فوت ہو گئے ہوئے

Page 648

639 تھے.اب لگے رونے اور پچھتانے کہ میں نے نبی کریم کی اجازت کو اس وقت کیوں نہ مانا.جب ایسے ایسے صحابہ کو رضامندی کا پتہ نہیں لگ سکا تو تم کو کیونکر لگ سکتا ہے؟ ہم بیمار ہو جاتے ہیں یا ہمیں کوئی خوشی ہوتی ہے تو تم میں سے بعض ایسے ہیں جن کا ہم سے کوئی تعلق نہیں کہ وہ ہماری رنج و راحت میں بالکل شریک نہیں ہوتے اور ہمیں پوچھتے تک نہیں.وَإِذَا خَلَا بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ اور جب یہ آپس میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ دیکھو تم نے فلاں بات جو تم کو سمجھ آگئی وہ کیوں بتلائی ؟ اب وہ تم کو خدا کے روبرو لزم ٹھہرائے گا.او لا يَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ (البقرة:۷۸) کیا یہ نہیں جانتے کہ اللہ ان کے چھپے اور ظاہر اور ان کے سب بھیدوں کو جانتا ہے تو وہ پھر چھپاتے کس سے ہیں؟ میں تم کو قرآن پڑھاتا ہوں.میں نے عربی کی کتابیں پڑھی ہیں.مجھے تو کوئی سمجھ میں نہیں آیا کہ میں قرآن کریم کے سوا اور کس قسم کا وعظ کروں.جمعے کے خطبے ہوتے ہیں.اس میں کوئی بات کہہ دیتا ہوں.مجھے تو قرآن کریم سے بڑھ کر کوئی کتاب نظر نہیں آتی.میں نے کتابوں کو اس قدر پڑھا ہے، وہ کتابیں میرے پڑھنے کی خود گواہی دے سکتی ہیں کیونکہ ان پر میں نے بڑی محنت سے یادداشتیں لکھ دی ہوئی ہیں.تو مجھے تو قرآن کریم کے مقابلے میں کوئی کتاب پسند نہیں آئی.قرآن سے ہی وعظ و نصیحت کرتا جاتا ہوں.میں نے دکان کھولی ہوئی ہے.خدا تعالیٰ نے مجھے ایسا فسم دیا ہوا ہے کہ صرف قرآن کریم سے ہی میں علاج کرنا جانتا ہوں.پھر بھی میں دیکھتا ہوں کہ بعض کو ہماری تعلیم سے کچھ نفرت بھی ہے کیونکہ وہ ہمارے ساتھ کسی حالت میں بھی شریک نہیں ہوتے.یہ تو پڑھے ہوؤں کا حال ہے.بعض ان میں سے ان پڑھ بھی ہیں.ان کے پاس کوئی کتاب نہیں مگر انکل بازی سے کام لیتے ہیں.میرے خیال میں عیسائی مذہب بھی ایسا ہی ہے.وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ ہم کلام الہی کے خادم ہیں.کوئی گورمکھی کوئی اردو کوئی ہندی میں لکھ کر ان سب کو کلام الہی کہہ دیتے ہیں.لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَّعْدُودَةً (البقرہ) اس پر دعویٰ کہ ہم کو آگ نہ چھوٹے گی.وہ جھوٹ کہتے ہیں.ہم جناب الہی کا قاعدہ بتلاتے ہیں بَلَى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً وَّاَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ (البقرة: ۸۳) جنہوں نے بدیاں کیں اور ان کو ان کی بدیوں نے گھیر لیا تو وہی دوزخی ہیں.اور وَالَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ (البقرة:۸۳) جو لوگ ایمان لاتے اور عمل صالح کرتے ہیں ان کیلئے دنیا میں بھی جنت اور آخرت میں بھی جنت ہے.الفضل جلد نمبر ۲۴-۰-۲۶ نومبر ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵)

Page 649

۲۸ نومبر ۱۹۱۳ء 640 خطبہ جمعہ تشہد و تعوذ کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل آیت تلاوت فرمائی.وَ إِذْ اَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَّ ذِي الْقُرْبَى وَالْيَنمَى وَالْمَسْكِيْنِ وَ قُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَّ اَقِيْمُوا الصَّلوةَ وَاتُوا الزَّكَوةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنْكُمْ وَأَنْتُمْ مُعْرِضُونَ (البقرة: ۸۳) - اور پھر فرمایا:.خلاصہ دین انبیاء کیا ہے؟ تمام انبیاء کے دین کا خلاصہ یہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے وعدہ لیا ہے لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا الله - لا اله الا اللہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرنی.بس یہی خلاصہ ہے تمام دیوں کا اور میں لا الہ الا اللہ کے معنے ہیں.عبادت کسے کہتے ہیں؟ لوگوں کو اس کے معنی نہیں آتے.بعض اس کے معنی بندگی کرنے کے کرتے

Page 650

641 ہیں اور بعض پرستش اور پوجا کے کرتے ہیں.اس کے کئی ارکان ہیں.اللہ تعالیٰ کی بے نظیر تعظیم، اس کی تعظیم کرے اور کسی کی نہ کرے.مثلاً ہاتھ باندھنے.اس کے آگے جھکنا (رکوع).اس کے آگے سجدہ میں گر جانا.حج کرنا.روزے رکھنا.اپنے مال میں سے ایک حصہ اس کے لئے مقرر کر دینا.اٹھنے بیٹھنے میں اسی کا نام لینا.آپس میں ملتے وقت اس کا نام لینا جیسے السلام علیکم و رحمتہ اللہ اور اس کی تعظیم میں قطعا دوسرے کو شریک نہ کرنا.دو سرار کن.اس کی محبت کے مقابلہ میں کسی دوسرے سے محبت نہ کرنا.تیرار کن.اپنی نیازمندی اور عجز و انکساری کامل طور پر اس کے آگے ظاہر کرنا.چوتھا رکن یہ ہے کہ اس کی فرمانبرداری میں کمال کر دے.ماں باپ، محسن و مربی، بھائی بہن رسم ورواج اس کے مقابلہ میں کچھ نہ ہوں.لَا تَجْعَلُو اللَّهِ أَنْدَادًا (البقرة :٢٣) اَلا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ (هود:۳) اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں.بعض روپیہ سے محبت کرتے ہیں.جو لوگ چوری، جھوٹ دعا سے کماتے ہیں وہ اللہ سے نہیں بلکہ روپیہ سے محبت کرتے ہیں.کیونکہ اگر اس کے دل میں خدا کی محبت ہوتی تو وہ ایسا نہ کرتا.اس سے اتر کر ماں باپ کے ساتھ احسان ہے.بڑے ہی بد قسمت وہ لوگ ہیں جن کے ماں باپ دنیا سے خوش ہو کر نہیں گئے.باپ کی رضامندی کو میں نے دیکھا ہے.اللہ کی رضامندی کے نیچے ہے اور اس سے زیادہ کوئی نہیں.افلاطون نے غلطی کھائی ہے.وہ کہتا ہے ہماری روح جو اوپر اور منزہ تھی ہمارے باپ اسے نیچے گرا کر لے آئے.وہ جھوٹ بولتا ہے.وہ کیا سمجھتا ہے روح کیا ہے ؟ نبیوں نے بتلایا ہے کہ یہاں ہی باپ نطفہ تیار کرتا ہے پھر ماں اس نطفے کو لیتی ہے اور بڑی مصیبتوں سے اسے پالتی ہے.نور بینے پیٹ میں رکھتی ہے بڑی مشقت ہے.حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا (الاحقاف) اسے مشقت سے اٹھائے رکھتی ہے اور مشقت سے جنتی ہے.اس کے بعد وہ دو سال یا کم از کم پونے دو سال اسے بڑی تکلیف سے رکھتی ہے اور اسے پالتی ہے.رات کو اگر وہ پیشاب کر دے تو بسترے کی گیلی طرف اپنے نیچے کر لیتی ہے اور خشک طرف بچے کو کر دیتی ہے.انسان کو چاہئے کہ اپنے ماں باپ یہ بھی میں نے اپنے ملک کی زبان کے مطابق کہہ دیا ورنہ باپ کا حق اول ہے اس لئے باپ ماں کہنا چاہئے سے بہت ہی نیک سلوک کرے.تم میں سے جس کے ماں باپ زندہ ہیں وہ ان کی خدمت کرے اور جس کے ایک یا دونوں وفات پاگئے ہیں، وہ ان کے لئے دعا کرے.صدقہ دے اور خیرات کرے.4

Page 651

642 ہماری جماعت کے بعض لوگوں کو غلطی لگی ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ مردہ کو کوئی ثواب وغیرہ نہیں پہنچتا.وہ جھوٹے ہیں.ان کو غلطی لگی ہے.میرے نزدیک دعا استغفار، صدقہ خیرات بلکہ حج، زکوة روزے یہ سب کچھ پہنچتا ہے.میرا یہی عقیدہ ہے اور بڑا مضبوط عقیدہ ہے.ایک صحابی نبی کریم ملی امیہ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میری ماں کی جان اچانک نکل گئی ہے.اگر وہ بولتی تو ضرور صدقہ کرتی.اب اگر میں صدقہ کروں تو کیا اسے ثواب ملے گا؟ تو نبی کریم میں ہم نے فرمایا.ہاں.تو اس نے ایک باغ جو اس کے پاس تھا، صدقہ کر دیا.میری والدہ کی وفات کی تارجب مجھے ملی تو اس وقت میں بخاری پڑھا رہا تھا.وہ بخاری بڑی اعلیٰ درجہ کی تھی.میں نے اس وقت کہا.اے اللہ ! میرا باغ تو یہی ہے.تو میں نے پھر وہ بخاری وقف کر دی.فیروز پور میں فرزند علی کے پاس ہے.وَذِي الْقُرْبى پھر حسب مراتب قریبوں سے نیک سلوک کرو اور قیموں اور مسکینوں سے نیک سلوک کرو.قولُوا لِلنَّاسِ حُسنا قال کا لفظ عربی زبان میں فصل کے برابر لکھا ہے بلکہ اس سے وسیع لکھا ہے.اس سے کم ضَرَبَ کا لفظ لکھا ہے.لوگوں کو بھلی باتیں کہو.بد معاملگیاں چھوڑ دو.بد معاملگیوں سے باز آجاؤ.وَاقِيْمُوا الصَّلوةَ وَاتُوا الزَّكوة نمازیں پڑھو اور زکوۃ دیا کرو.ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ وَأَنْتُمْ مُعْرِضُونَ تم پھر جاتے ہو.باز نہیں آتے.اگر کسی کا روپیہ ہاتھ میں آگیا تو اسے شیر مادر سمجھ لیا اور اسے دینے میں آتے ہی نہیں.اللہ تم پر رحم کرے.الفضل جلد نمبر ۲۵---۱۳ دسمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 652

۵/ دسمبر ۱۹۱۳ء 643 خطبہ جمعہ تشهد و تعوذ کی تلاوت کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل آیت پڑھی.وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُونَ دِمَاءَ كُمْ وَلا تُخْرِجُونَ أَنْفُسَكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ ثُمَّ اَقْرَرْتُمْ وَأَنْتُمْ تَشْهَدُونَ (البقرة : ۸۵) - اور پھر فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے اپنے کامل احسان اور کامل فضل اور کامل رحمانیت سے مسلمانوں کو ایک کتاب دی ہے.اس کا نام قرآن ہے.میں نے اس کو سامنے رکھ کر بائیبل اور انجیل کو پڑھا ہے اور ژند اور اوستا کو پڑھا ہے اور دیدوں کو بھی پڑھا ہے.وہ اس کے سامنے کچھ ہستی نہیں رکھتے.قرآن بڑا آسان ہے.میں ایک دفعہ لاہور میں تھا.ایک بڑا انگریزی خوان اس کے ساتھ ایک اور بڑا انگریزی خوان نوجوان تھا.ہم ٹھنڈی سڑک پر چل رہے تھے.اس نے مجھے کہا کہ قرآن کریم میں آتا ہے وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ

Page 653

644 (القمر (۱۸) مگر قرآن کہاں آسان ہے؟ میں نے کہا آسان ہے.ہم دوسری کتابوں کو جمع کرتے اور ان کی زبانوں کو سیکھتے تو پہلے ہمیں ان کتابوں کا ملنا مشکل اور پھر ان زبانوں کا سیکھنا مشکل اور پھر ان کو ایک زبان میں کرنا مشکل.پھر اس کی تفسیر کون کرتا.قرآن کریم نے دعوی کیا ہے.فِيْهَا كُتُبْ قَيِّمَةٌ (البينة :) جو کتاب دنیا میں آئی اور جو اس میں نصیحتیں ہیں ان تمام کا جامع قرآن ہے.باوجود اس جامع ہونے کے ایک ایسی زبان میں ہے جو ہر ایک ملک میں بولی جاتی ہے.قرآن کریم میں اتنی خوبیاں ہیں.پہلی کتابوں کی غلطیوں کو الگ کر کے ان کے مفید حصہ کو عمدہ طور پر پیش کیا ہے اور جو ضروریات موجودہ زمانہ کی تھیں ان کو اعلیٰ رنگ میں پیش کیا.اس کے سوا جتنے مضامین ہیں اللہ کی ہستی ، قیامت ملائکہ کتب، جزاء سزا اور اخلاق میں جو پیچیدہ مسئلے ہیں، ان کو بیان کیا.جیسے کہ کوئی بد کار ہمارے مذہب پر ناپاک حملہ کرے تو اس کے مقابلے کے لئے فرمایا کہ ان کو گالیاں فَيَسُبُّوا اللهَ عَدُوا بِغَيْرِ عِلْمٍ (الانعام) پھروہ اللہ کو اپنی نادانی کے سبب گالیاں دیں گے.كَذَالِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ (الانعام) ہر ایک امت کے لئے وہ اعمال جو اس کے کرنے کے قابل تھے وہ اس کے سامنے خوبصورت کر کے پیش کئے گئے تھے.مگر پھر اندھوں کے لئے روشنی کا کیا فائدہ؟ میں نے اس کا مقابلہ دوسری کتابوں سے کیا ہے.انجیل کو دیکھو وہ تو اس سے شروع ہوتی ہے کہ فلاں بیٹا فلاں کا اور فلاں بیٹا فلاں کا.مگر قرآن کریم الحمد للہ سے شروع ہوتا ہے.اور انجیل کے اخیر میں لکھا ہے کہ پھر اس کو یہودیوں نے پھانسی دے دیا.ہماری کتاب کے آخر میں قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ ملِكِ النَّاسِ (الناس: ٣٢) لکھا ہے.بڑا افسوس ہے کہ مسلمانوں کے پاس ایک ایسی اعلیٰ کتاب ہے مگر وہ عملد رآمد کے لئے بڑے کچے ہیں.حدیث شریف میں آتا ہے کہ اگر کوئی کسی کی انگل بھر زمین ظلم سے لے لے گا تو قیامت کے دن سات زمینیں اس کے گلے کا طوق ہوں گی مگر اس پر کوئی عمل نہیں ہے.اس طرح معاملات میں دیکھا جاتا ہے کہ ایک آدمی رات بھر سوچتا رہتا ہے کہ کسی کے گھر روپیہ ہو تو اس سے کسی طریقہ سے لیا جاوے.پھر اگر کسی نہ کسی طریقہ سے لے لیتے ہیں تو پھر واپس دینے میں نہیں آتے.اسی طرح زنا لواطت، چوری، جھوٹ ، دعا فریب سے منع کیا گیا تھا مگر آجکل نوجوان اسی میں مبتلا ہیں.اسی طرح تکبر اور بے جاغرور سے منع فرمایا تھا.لیکن اس کے برخلاف میں دیکھتا ہوں کہ اگر کسی کو کوئی عمدہ بوٹ مل جاوے تو وہ اکڑتا ہے اور دوسروں کو پھر کہتا ہے او بلیک مین (!O, black man).دوسروں کی تحقیر

Page 654

645 کرتا ہے اور بڑا تکبر کرتا ہے.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ سے مدینہ کو تشریف لے گئے تو مکہ میں تو آپ کو بہت سی ہولتیں تھیں.مکہ میں آپ کے چھوٹے بڑے بوڑھے، ادھیڑر ہر قسم کے رشتہ دار بھی تھے اور آپ کے حمایتی بھی وہاں بہت تھے.مکہ میں آپ کے دوست غم خوار بھی تھے اور آپ دشمنوں کو خوب جانتے تھے اور ان کی منصوبہ بازی کا آپ کو خوب علم ہو جاتا تھا اور آپ ان کی چالاکیوں اور اپنے بچاؤ کے سامان کو جانتے تھے.تو جب آپ مدینہ شریف میں تشریف لائے تو آپ کو اس دشمن کی شرارت کا کچھ علم نہ ہوتا تھا اور پھر آپ کے یہاں اور بھی دشمن تھے.بنو قینقاع اور بنو قریظہ اور بنو تفسیر آپ کے دشمن تھے اور پھر جہاں آپ اترے تھے وہاں ابو عامر راہب جو بنی عمرو بن عوف میں سے تھا اس کا جتھا آپ کا دشمن تھا.یہود چاہتے تھے کہ ایران کے ساتھ مل کر ان سے آپ کو ہلاک کروا دیں اور عیسائی قیصر کے ساتھ ملنا چاہتے تھے اور انہوں نے اپنے ساتھ غطفان اور فزارہ کو بھی ملالیا تھا.یہ نو مشکلات آپ کو تھیں.اس سے بڑھ کر یہ کہ یہاں منافقوں کا ایک گروہ بھی پیدا ہو گیا تھا.ان منافقوں نے عجیب عجیب کارروائیاں کیں.وہ آپ کے پاس بھی آتے تھے اور آپ کے دشمنوں کے پاس بھی جاتے تھے.اور بارہویں بات جو اس سے بھی سخت تھی وہ یہ کہ مکہ والے ان پڑھ تھے اور وہ بے قانون تھے.ان کا مقابلہ صرف عقل سے ہی تھا.مگر یہاں تمام اہل کتاب پڑھے لکھے ہوئے تھے اور ان کے پاس بڑی بڑی کتابیں تھیں.تورات اور انجیل اور اس کے سوا اور بھی کتابیں ان کے پاس تھیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوچا کہ مدینہ میں مشکلات بہت ہیں اس لئے آپ نے عیسائیوں اور مشرکوں سے معاہدہ کروا لیا کہ لاتَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ آپس میں خونریزی نہ کرنا.وَلَا تُخْرِجُونَ أَنْفُسَكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ ایک دوسرے کو اپنے ملک سے نکالنا نہیں.ثُمَّ اَقْرَرْتُمْ تم نے اقرار تو کیا.وَانْتُمْ تَشْهَدُونَ اور تم گواہی دیتے ہو.جیسے تم نے ہمارے ہاتھ پر اقرار کیا.کہتا تو آسان تھا.مگر معاملات میں دین کو دنیا پر مقدم کر کے دکھلانا (شكل) ثُمَّ انْتُمْ هُؤلاء تَقْتُلُونَ انْفُسَكُمْ پھر تم ہی ہو کہ تم نے وعدہ تو کیا مگر ایفاء نہ کیا اور تم خونریزی کرتے ہو.وَتُخْرِجُونَ أَنْفُسَكُمْ اور تمہیں اس سے منع کیا تھا کہ کسی کو اپنے گھر سے نہ نکالنا مگر تم ان کو ان کے گھروں سے باہر نکالتے ہو.تَظَاهَرُونَ عَلَيْهِمْ ان کی پیٹھ بھرتے ہو ظلم اور زیادتی سے.کبھی کبھی کوئی نیک کام بھی کر لیتے ہو.وَاِنْ يَّأْتُوكُمْ أَسْرَى تُفَدُوهُمْ- اگر کوئی قیدی آ

Page 655

646 جائے تو اسے چھڑا دیتے ہو حالانکہ تمہیں اس سے منع کیا گیا تھا اَفَتُومِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَ تَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ کتاب کے بعض حصے پر تو ایمان لاتے ہو اور بعض سے انکار کرتے ہو.فَمَا جَزَاءُ مَنْ يَفْعَلُ ذَالِكَ مِنْكُمْ الاخرى تم تو دنیا کی عزت بڑھانے کے واسطے ایسا کرتے ہو مگر پھر ایسوں کی جزاء یہ ہے کہ وہ ذلیل ہوں گے.آخرت کی ذلت تو ہو گی ہی.وہ دنیا میں بھی ذلیل ہوں گے اور سخت ذلت اٹھائیں گے اور ان کو سخت سے سخت عذاب ملے گا اور آخرت میں بھی ان کو سخت عذاب میں دھکیلا جائے گا.گی.وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْلَمُوْنَ.اللہ تمہاری کرتوتوں سے غافل نہیں ہے.أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الْحَيَوةَ الدُّنْيَا ورلی زندگی کو آخرت میں پسند کرتے ہو.فَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ تم سے عذاب کی تخفیف نہ ہو گی اور تمہیں مدد الٹی بھی نہیں ملے غور کر لو.فکر کر لو.اپنی بہتری کے لئے سوچ لو.⭑-⭑-⭑-⭑ الفضل جلد نمبر۲۶-۱۰۰ر دسمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵)

Page 656

۱۲ دسمبر ۱۹۱۳ء 647 خطبہ جمعہ تشہد و تعوذ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی.وَ لَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ وَآتَيْنَا عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَ اَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ اَ فَكُلَّمَا جَاءَ كُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَى أَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ (البقرة: ۸۸).اور پھر فرمایا:.کیسا اللہ کا فضل اور اس کا رحم اور اس کی غریب نوازی ہے کہ ہمیشہ اپنا پاک کلام ہماری تہذیب کے لئے بھیجتا رہتا ہے.اگر کسی آدمی کے نام وائسرے یا حاکم یا کسی امیر کا خط آجائے تو وہ اس سے بڑا خوش ہوتا ہے اور اس کی تعمیل کو بہت ضروری سمجھتا ہے اور اس کی تعمیل کرتا ہے.مگر قرآن کریم جو رب العالمین اور تمام جہان کے مالک و خالق کا حکم نامہ ہے اس کی لوگ پرواہ نہیں کرتے اور ہمیشہ اس

Page 657

کی مخالفت کرتے ہیں.648 کوئی موسیٰ پر ہی مدار نہ تھا.وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ اس کے بعد بھی رسول آتے رہے.سلیمان داؤد بھی اس کے بعد ہی آئے.عیسی بن مریم کو بھی کھلے کھلے نشانات اور تعلیمیں جن پر کوئی اعتراض نہ آتا تھا دیئے.وہ اخلاقی تعلیم تھی مان لیتے تو کیا حرج تھا.پھر جب تعلیم آئی بِمَا لَا تَهْوَى أَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ تم اسے پسند نہیں کرتے اور اسے اپنے مناسب حال بناتے ہو.فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ ایک کو تو تم نے جھٹلایا وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ اور ایک کو اب بھی قتل کرنا چاہتے ہو.وَقَالُوا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ (البقرة: ۸۹).عربی زبان میں نامختون کو غلف کہتے ہیں اور عرب لوگ نامختون کو اچھا نہ جانتے تھے مگر انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ کے لئے اس لفظ کو بھی اپنے لئے پسند کیا اور کہا کہ ہمارے دل نا مختون ہیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا بَلْ لَّعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ (البقرة:۸۹) یہ تمہارے کفر کے سبب تم پر لعنت ہوئی.وَلَمَّا جَاءَ هُمْ كِتَبٌ مِّنْ عِنْدِ اللهِ (البقرة) جب ان کے پاس اللہ کی کتاب آئی جو اس کتاب کی اور پیشگوئیوں کی تصدیق کرتی ہے جو تمہارے پاس ہیں.تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد آمد کی خبر دے رہے تھے.جیسا میں نے اپنے زمانہ میں دیکھا کہ لوگ مہدی کے لئے رو رو کر دعائیں کرتے تھے مگروہ آیا بھی اور چلا بھی گیا مگر کسی کو خبر نہ ہوئی.اس کے مریدوں میں بھی طرح طرح کی بد معاملگیاں اور فریب دھو کہ بازی اور چالاکیاں ہیں.یہ کیا ایمان ہے؟ اصل بات یہ ہے فَلَمَّا جَاءَهُمْ مَّا عَرَفُوا كَفَرُوايه (البقرة:9).آئے پر انکار ہی ہوتا ہے.پھر دل لعنتی ہو جاتے ہیں.ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا.میں نے دیکھا ہے.دکاندار غلطیاں کرتے ہیں اور فریب کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے بیچ کیا اور اس کا نتیجہ عمدہ ہو گا اور ہمیں نفع ہو گا.مگر وہ ان کے لئے اچھا نہیں ہوتا اور وہ ان کے لئے فائدہ مند نہیں ہوتا.میرا جی چاہتا ہے کہ تم اب بھی توبہ کر لو مگر ایسی توبہ نہیں کہ اگر پھر کبھی ارغد عیش مل گیا تو پھر وہی خراب حالت کرلی اور کہا کہ پھر توبہ کرلیں گے.کسی نے خوب اس کے مناسب حال مصرع کہا ہے.ع معصیت را خنده می آید ز استغفار ما ہماری استغفار ایسی ہے کہ گناہ بھی اس سے بنتے ہیں.انگریزوں کی سالہا سال سے کمپنیاں چل رہی ہیں.

Page 658

649 وہ کیسے اتفاق سے کام کرتے ہیں.مگر تم میں سے دو آدمی بھی مل کر اتفاق سے دکان نہیں کر سکتے.اللہ کی مدد طلب کرنا اور استغفار بہت کرنا چاہئے.مگر استغفار کا مطلب تو یہ ہے کہ میں یہ کام پھر کبھی نہیں کروں گا.میں ابھی اور بولنا چاہتا تھا.مگر سرد ہو اسے کھانسی شروع ہو گئی ہے اور اب مجھے تکلیف ہوتی ہے.الفضل جلد نمبر۲۷-۷۰ار دسمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵) ⭑-⭑-⭑-⭑

Page 659

۱۹ دسمبر ۱۹۹۳ء 650 خطبہ جمعہ تشهد و تعوذ کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالٰی نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی.وَ لَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِنْ عِنْدِ اللهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِيْنَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُمْ مَّا عَرَفُوْا كَفَرُوا بِهِ فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِيْنَ (البقرة:1) اور پھر فرمایا:.انسان میں ایک مرض ہے جس میں یہ ہمیشہ اللہ کا باغی بن جاتا ہے اور اللہ کے رسول اور نبیوں اور اس کے اولوالعزموں اور ولیوں اور صدیقوں کو جھٹلاتا ہے.وہ مرض عادت، رسم و رواج اور دم نقد ضرورت یا کوئی خیالی ضرورت ہے.یہ چار چیزیں.میں نے دیکھا ہے چاہے کتنی نصیحتیں کرو جب وہ اپنی عادت کے خلاف کوئی بات دیکھے گا یا رسم کے خلاف یا ضرورت کے خلاف تو اس سے بچنے کے لئے کوئی نہ کوئی عذر تلاش کرے گا.

Page 660

651 میں نے کئی آدمیوں کو دیکھا ہے.ان کو کسی برائی یا بد عادت سے منع کیا جاوے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم کتنی نیکیاں کرتے رہتے ہیں.یہ بد عادت ہوئی تو کیا.معلوم ہوتا ہے وہ بدی ان کو بدی نہیں معلوم ہوتی.انبیاء اور خلفاء اور اولیاء اور ماموروں کی مخالفت کی یہی وجہ ہے.یہ قرآن کریم آیا اور اس نے ان کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہی پہلے لوگوں سے بیان کیا کرتے تھے.مگر جب قرآن شریف آیا كَفَرُوا بہ انہوں نے اس کا انکار کر دیا.فَلَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَافِرِينَ تو اللہ سے وہ بعید ہو گئے.ایک آدمی جب جھوٹ بولنے لگتا ہے تو پہلے تو مخاطب کو کہتا ہے کہ میری بات کو جھوٹا نہ سمجھنا.میں تمہیں سچ سچ بتاتا ہوں.میں تو جھوٹے کو لعنتی سمجھتا ہوں.مگر ہوتا در اصل وہ خود ہی جھوٹا ہے.بِئْسَمَا اشْتَرَوُوا بِهِ انْفُسَهُمْ (البقرة:1) یہ بہت بری بات ہے.وہ اللہ کا انکار کرتے ہیں صرف بغاوت کی وجہ سے.داؤد و سلیمان کا انکار کیا اور ان کی مخالفت کی اس وجہ سے ان پر لعنت پڑی اور وہ تتر بتر ہو گئے.ہسپانیہ میں اللہ کی مخالفت ہوئی.ان پر عذاب الہی نازل ہوا.مسلمانوں کو وہاں سے نکال دیا گیا.صرف عمدہ عمدہ کتابیں لے جانے کی اجازت دی گئی.مگر ان کتابوں کے تینوں جہاز جو انہوں نے بھرے تھے بمع آدمیوں کے غرق کر دیئے گئے.بغداد میں احکام الہی کا مقابلہ کیا گیا تو ان کا نام و نشان اٹھا دیا.لَهُمْ دَارُ السَّلَامِ عِنْدَرَبِّهِمْ (الانعام:۱۳۸) کے تفاول پر اس کا نام دار السلام رکھا گیا تھا.یہودیوں نے مسیح کی مخالفت کی.ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا اور ان پر غضب پر غضب نازل ہوا.ان کی کتاب میں لکھا تھا کہ اگر تم آخری نبی کو مان لو گے تو تم کو اجر ملے گا اور تم کو نجات دی جاوے گی.مگر انھوں نے نہ مانا اس لئے ان کو عذاب مہین ہو گا.وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا بِمَا أَنْزَلَ اللهُ (البقرة:۹۲) اور جب ان کو کہا جاوے کہ اس کتاب کو مانو جس کو اللہ نے اتارا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اس کو مانتے ہیں جو ہمارے اوپر اتاری گئی.حالانکہ وہ بھی ایک حق ہے.فرمایا اگر تم اس کو ماننے والے ہوتے تو تم نبیوں کا مقابلہ کیوں کرتے؟ وہ اگر کہیں کہ ہم ان کو نبی نہیں سمجھتے تو فرمایا کہ موسیٰ بھی تو توحید لائے تھے.تم نے ان کا کیوں انکار کیا اور ان کے پیچھے پیچھڑا بنا لیا.اور اگر وہ کہیں کہ موسیٰ چلے گئے تھے ، ہمیں غلطی لگ گئی تو فرمایا وَإِذْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ (البقرة: ۹۴) کہ ہم نے تم سے پکا عہد لیا تھا جس کو تم نے توڑ دیا.اچھا اگر تم عاقبت کو اپنے لئے سمجھتے ہو تو لڑائی میں اس کا پتہ لگ سکتا ہے.آؤ لڑائی کر کے دیکھ لو.

Page 661

652 یہ لڑائی کو کبھی پسند نہیں کریں گے کیونکہ یہ اپنی کرتوتیں جانتے ہیں اور یہ بہت لمبی لمبی عمریں چاہتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ ان کو ہزار ہزار سال کی عمریں دی جاویں.کشمیر میں میں نے دیکھا ہے کہ دعا دیتے وقت یک صد و بست سال زی" کہتے ہیں اور ایرانی ” ہزار سال بزی".اور پنجابیوں نے تو حد ہی کر دی.یہ کہتے ہیں ”رب کرے توں لکھ سو ورہیاں جیوندا رہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عمریں کس کام کی ہیں.لمبی عمر ہو جانے سے انسان دوزخ سے نہیں بچ سکتا.وَالله بَصِيرٌ بمَا تَعْمَلُونَ (البقرة: ۹۷) اللہ تو تمہارے اعمال کا واقف ہے.ان رسموں ، عادتوں اور ان دم نقد ضرورتوں اور خیالی ضرورتوں کو اللہ کے نام پر قربان کر دو.یہ کیا چیز ہیں ؟ شہوت والا کیا کر سکتا ہے؟ ہم نے طب میں دیکھا ہے.طب والوں نے اس کے لئے اوسط پچیس منٹ رکھی ہے.صرف پچیس منٹ کی خاطر خدا کو ناراض کر دینا! بد معاملگیاں ترک کر دو.وقت کو ضائع نہ کرو.اللہ تم پر رحم کرے.⭑-⭑-⭑-⭑ الفضل جلد نمبر ۰۲۸-۱۲۴ دسمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵)

Page 662

۲۶ دسمبر ۱۹۱۳ء ۲۶/ مسجد نور قادیان 653 خطبہ جمعہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ کے رکوع ۱۲ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.قرآن کریم میری غذا ہے.اس واسطے میں نے سوچا کہ ہر جمعہ کو میں ایک رکوع قرآن مجید کا سنادیا کروں اور اسی طرح پر ایک درس پورا ہو سکے.یہ رکوع جو میں نے آج پڑھا ہے اسی سلسلہ میں ہے.تم لوگ دور سے آئے ہو.دعوت تمہاری واجب تھی.اگر خدا نے تندرست رکھا اور بولنے کی طاقت بخشی تو کل اور پرسوں اس دعوت کا ارادہ ہے.فی الحال اس سے نفع اٹھالو.خدا تعالیٰ کے کارخانہ قدرت میں کئی کام ہیں.ان میں سے ایک رسولوں اور نبیوں کو ملائکہ کے ذریعہ پیغام پہنچاتا ہے.ان ملائکہ کے افسر کا نام جبریل ہے.ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی جبریل ہی اللہ کی کتاب لاتا رہا.اور رزق کے لئے جو ملائک مقرر ہیں ان کے آفیسر کا نام میکائیل ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.جبریل ہماری مخلوق ہے.وہ ہمارے حکم سے ہمارے پیغام پہنچاتا ہے.چنانچہ اے نبی! اس نے تجھ پر یہ قرآن اتارا ہے اور یہ قرآن ان عظیم الشان باتوں کی جو اگلے پیغمبر کہہ گئے ہیں، تصدیق

Page 663

654 کرتا ہے.ان باتوں کا اصل الاصول یہی ہے کہ اللہ کی تعظیم اور اللہ کی مخلوق پر شفقت.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے متعلق تمام انبیاء سے اللہ نے عہد لیا.چنانچہ انہوں نے آپ کے ظہور کی پیشگوئیاں کی ہیں.یہ پیشگوئیاں تصدیق طلب تھیں.رسول اللہ کے آنے سے ان کی تصدیق ہو گئی.پھر جو علوم الہیہ دنیا میں آئے تھے اور ان میں غلطیاں پڑ گئی تھیں، غلطی دور کر کے صحیح کو صحیح طور پر ہمیں پہنچا دیا.بلکہ کچھ اور نئی باتیں بھی ہیں اور وہ باتیں مدلل ہیں.غرض کھلی کھلی باتیں بتائیں.بد عمد ان باتوں کو ناپسند کرتے ہیں.دیکھو! تم لوگوں نے بھی اپنے اللہ سے بہت سے عمد کئے ہیں.سب سے بڑا عہد تو یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں.یعنی اے مولیٰ ! ہم تیرے فرمانبردار رہیں گے.ایک عہد کا ذکر الحمد میں آتا ہے جسے پڑھ کر میرے جیسا آدمی تو غش کھا جائے.وہ اقرار یہ ہے کہ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ.جس وقت تم یہ کلمہ منہ سے نکالتے ہو، ذرا اپنے دن رات کے اعمال پر نظر ثانی کرو کہ آیا ہمارے دن رات کا چال و چلن اس کے مطابق ہے؟ میرے منہ سے جب یہ کلمہ نکلتا ہے تو مجھے شرمندہ کر دیتا ہے.غرض عملی طور پر بہت لوگوں نے ان باتوں کو چھوڑ دیا ہے.جب خدا کا رسول آیا تو انہوں نے بجائے متنبہ ہونے کے اللہ کی کتاب کو ایسا پھینکا کہ خبر نہیں.مسلمان اپنی حالت پر غور کریں.کتنے ہیں جو قرآن سنتے ہیں.پھر کہتے ہیں جو سن کر سمجھتے بھی ہیں.پھر کتنے ہیں جو سمجھ کر عمل بھی کرتے ہیں.اللہ کی کتاب چھوڑنے کی وجہ کیا ہے؟ غیر اللہ سے محبت کہ اس کی محبت میں سب کچھ بھول کر پھر خدا کی کتاب تک نہیں سنتے اور دوسری عداوت.عداوت ہیں لگے ہوئے انسان کو فرصت نہیں ہوتی کہ اللہ کی کتاب سوچے سمجھے.سمجھے تو جب کہ اسے توجہ ہو اور توجہ جب ہو کہ فارغ البال ہو.بے جاعداوت، بے جا محبت میں گرفتار انسان کتاب اللہ کب سمجھ سکتا ہے.وہ تو اور ہی دلربا باتوں کے نیچے پڑا ہوا ہے.ایک طالبعلم سے مدرسے کا کورس ہی ختم نہیں ہوتا.وہ قرآن کس وقت پڑھے.اسی طرح مَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْن (البقرۃ:۱۳۳) یہ ایک علم تھا جس کے ذریعے بنی اسرائیل کو بابلیوں کے ظلم سے نجات دی تھی.دوستوں کو چاہئے کہ جس چیز سے محبت رکھیں ایک حد تک رکھیں اور جس سے عداوت رکھیں ایک ر تک رکھیں.خدا کی کتاب کو بھول نہ جائیں.الفضل جلد نمبر۲۹---۳۱؎ دسمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۲)

Page 664

انڈیکس مرتبہ جناب سید مبشر احمد ایاز پروفیسر جامعہ احمدیہ ۱ کلید مضامین.۲- تفسیر آیات قرآنیده..۳.احادیث ۴- اسماء ۵ مقامات.کتابیات...۱۹ M.....۳۳ ۴۱ ۴۵

Page 665

3 آرید کلید مضامین احیاء موتی آریہ مذہب کا خدا تعالیٰ کے ایک معنی کی رو سے انبیاء بھی احیاء بارے میں عقیدہ ۲۱ کرتے ہیں.۱۸۲ شادی بیاہ کے معاملات میں استخارہ کی اہمیت CLA نکاح سے پہلے استخارہ اور دعا کی اہمیت ۵۱۹ ۱۹۶ ۹۸ ΔΥ 119 ۱۲۵ ۲۰ ۱۲ ۲۰ ۲۵ آل عمران سورۃ کا نام رکھنے کی وجہ آل عمران تو دراصل آل ابراہیم ہی ہے تو الگ اور دوبارہ کیوں اس کا ذکر کیا گیا.سورۃ آل عمران میں اسکا جواب ابتلاء ۲۰۸ ۲۰۲ مشکلات اور حوائج کیوں آتے ہیں؟ ۱۱۲ ابتلاء کی اقسام اور حکمتیں ۲۵۴ ۳۳ اخلاق انسانی ترقی کا بڑا ذریعہ انسان کے ذاتی اخلاق ہوتے ہیں.اذان اذان کی اہمیت اور حکمت 166 ۲۹۲ اذان کی حکمت اہمیت و فضیلت ۴۰۵ اذان کی آواز پر دوڑ و ۱۶۶ بچہ کے کان میں اذان کی حکمت ۴۴۲ ارتداد نواح عرب میں ارتداد کا شور ارکان اسلام ارکان اسلام میں جسمانیت کے ابرار ابرار کون لوگ ہیں جن کے اعتقاد صحیح ہوں اثر ( صحابی یا کسی بزرگ کا قول) ایک اثر میں میں نے پڑھا ہے کہ ساتھ ساتھ روحانیت کا خیال رکھا نماز کی نسبت خطبہ چھوٹا ہو گیا ہے اور اس کی حکمت احسان کی تشریح جو آنحضرت نے فرمائی استاد احسان ۷۵ ۱۲۸ ۲۴۳ استغفار استغفار کی حکمت استغفار تمام نبیوں کی تعلیم کا خلاصہ ہے استغفار یا حفاظت الہی طلب کرنا ایک عظیم الشان سر ہے.شیطانی اوہام اور وسوسوں سے بچنے کا طریق' استغفار کس طرح کیا جائے.اسلام اسلام کی تشریح اسلام کیا ہے؟ اس کی تشریح اسلام کے اہم ترین امور اللہ کو ماننا اسلام سے بڑھ کر نعمت اور عزت و شرافت کا موجب اور کوئی چیز نہیں استادوں اور کتابوں کا اثر بہت احسان کا درجہ جس کو دوسرے آہستہ لیکن دیر پا ہوتا ہے.لفظوں میں احسان کہتے ہیں.۴۵۰ اللہ کریم کے احسانوں کا مطالعہ کرو ۶ اللہ تعالیٰ کے احسانات انسان پر ۲۹ استخاره نکاح سے پہلے استخارہ کی تعلیم اور حکمت ۶۹ ۲۵۴ باقی مذاہب اسلام کے بارے میں کچھ حقیقت نہیں رکھتے.اسلام کا لفظ چاہتا ہے کہ کچھ کر کے دکھاؤ اسلام کی حفاظت کا ذریعہ...دوسرے مذاہب سے ایک منفر د فضیلت اسلام کی حفاظت کا وعدہ

Page 666

4 اسلام کبھی دنیا سے نہیں اٹھے گا ۲۷۵ اسمائے الہی پر عذاب نازل ہو لیکن ایسا نہیں اللہ کی صفات اور ذات کی ہوا تو مباہلہ میں کیسے عذاب نازل دریافت انسان نہیں کر سکتا ۳۵۹ کامل ایمان یہی ہے کہ اسمائے الہی پر ایمان لاؤ ہوتا اور اس کا جواب ۲۱۲ اللہ تعالیٰ کے انسان پر احسانات ۲۹ اعتکاف یوں تو اللہ جل شانہ کا نزول ہر روز اطاعت.مامور کی اطاعت ان دنوں میں زیادہ توجہ الی اللہ چاہئے ۲۶۳ ہوتا ہے مگر جمعہ کے دن پانچ دفعہ اور عرفات کو نو دفعہ نزول ہوتا ہے ۲۰ اللہ کریم کے احسانوں کا مطالعہ کرو 1 ۱۲۰ تا میں نے دیکھا ہے کہ ہزاروں ہزار الفاظ کتابیں پڑھ لینے کے بعد بھی وہ بعض الفاظ اور انکے گرے ہوئے معانی ۴۱۴ قرب الہی کے ذرائع راہ جس سے مولیٰ کریم راضی ہو الله جائے اسکے فضل اور مامور کی اطاعت کے بغیر نہیں ملتی.صحابہ کی اطاعت.واقعات اطاعت در معروف ۱۹۲ ง 161 الہام یہ پاک نام اور اس کے رکھنے کا فخر سراسر جھوٹے ہیں وہ لوگ جو کہتے صرف عربوں ہی کو ہے ۳۳۲ ہیں کہ دروازہ الہامات ربانیہ کا اللہ کے لفظ میں قربانی کی تعلیم ہے ۴۳۳ امت محمدیہ پر بند کیا گیا ہے.ہستی باری تعالٰی کی دلیل ۲۱۸ مطلقاً الهام حجت شرعی نہیں اطاعت در معروف کا اصل مفہوم ۴۲۰ آریہ اور براہمو و غیرہ مذہب کا خدا مامورین من اللہ اور غیر مامورین اعتراض کے بارہ میں عقیدہ ۲۱ کے الہامات میں نابہ الامتیاز یہ کہنا کہ (شریعت پر عمل ) صرف کہنے عیسائیت کا عقیدہ.اللہ تعالیٰ کی پہلا الہام جو ہمارے سید و مولا کی باتیں ہیں انسان کر نہیں سکتا ۱۲۸ صفات کا انکار یہ کہنا کہ آنحضرت نے (جنگ) اللہ تمام اسمائے حسنیٰ کا جامع ہے مقابلہ کیوں کیا؟ سوال / اعتراض ۱۲۹ ۲۱ ۵۹۰ محمد مصطفیٰ کو ہوا وہ بھی رَبِّ زِدْنِي عِلْماً تھا.اللہ کو اپنا بناؤ اور وہ صرف تقویٰ الہام ( حضرت مسیح موعود ) سے بنتا ہے.۴۹۱ جن کی خواہش اور محبت قرآن ان الله اصطفى.....( ال عمران) کامل ایمان یہی ہے کہ اسمائے الہی سے نہ ہو گی ان کی اولاد گندہ خراب وختہ ہوگی آل عمران تو آل ابراہیم ہی ہیں تو پر ایمان لاؤ دوبارہ کیوں ذکر کیا گیا؟ اس کا جواب ۲۰۲ جو لوگ اللہ تعالیٰ کو نہیں مانتے وہ کوئی یا عیسی انی متوفیک...کیا وحی میں شک ہو سکتا ہے جو حقیقی اور بچی نیکی ہر گز نہیں کر سکتے.۲۵۸ جے توں اس دا ہور ہیں سب جگ فرمايا فلا تكن من الممترين، اور اس کا جواب یہ سوال کہ کفار نے چاہا تھا کہ اگر آنحضرت محق پر ہیں تو ان (کفار) اسلام میں ہر عمل سے پہلے خدا تعالیٰ کی صفات کا تذکرہ مقدم رکھا گیا ہے.۲۵۳ تیرا ہو یاتیک من كل فج عميق ۱۹۹ ۲۲۳ ۲۲۲ ۷۵ ۱۱۴ ۲۰۶ ۴۰۴ ۲۰۷ انی احافظ كل من في الدار ١٧٦

Page 667

5 انا انزلناه قريبا من القادیان کی پر معارف تفسیر وتشریح.براہین احمدیہ امام کے بغیر ترقی نہیں ہوتی ۲۳۲ ۶۲۲ • ایمان بڑھانے کے لئے خدا میں موقوف ہے ۴۸ ایمان کے دو اجزاء تعظیم لامر الله تعالیٰ کے انعامات پر غور کرنے سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں امام کے ماتحت اعمال میں زیادہ خدا تعالیٰ کے دلچسپ انعامات میں ثواب ہوتا ہے ۱۲ سے انبیاء اور رسل کا بھیجنا ہے تمہاری حالت امام کے ہاتھ میں ایسی انفاق فی سبیل اللہ ۱۲ 2 • اور شفقت علی خلق الله ایمان بڑھانے کے لئے خدا ہو جیسے میت غسال کے ہاتھ میں.۱۳۱ انفاق فی سبیل اللہ کی ضرورت ۳۱۱ تعالی کے انعامات پر غور کرنے سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں بادل اماموں کے متعلق ایک مذہب کہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے آنحضرت کا بادل دیکھ کر مضطرب پچاس برس یا پچیس برس بعد آتا ہے ۴۳۵ مقام اور ان کا وقت ۱۵۵ ۲۶ ۱۲ ہونا اور حضرت عائشہ کا استفسار ۳۵۷ انبیاء انگریز بدر مامورین کو شناخت کرنے کے تجارت اور سیاست میں کمال جنگ بدر کا فرقان طریق نیز دیکھیں مامور / نبی ۱۷ حاصل کرنے والی قوم ۶۰۷ اولاد اولاد کی تربیت کی اہمیت ۵۶۷ بد صحبت بد صحبتوں سے کنارہ کش رہو بدظنی ۲۷۱ ایک ایک قوم میں نبی اور رسول آنے کی حکمت خدا تعالی کے دلچسپ انعامات میں سے انبیاء اور رسل کا بھیجنا ہے ۷ انجمن انجمنوں کے قیام کے لئے ضروری ہدایات ۳۸۳ انجمن تشحید الا ذہان اس کے قیام کا ایک مقصد اس کا جلسہ ہونے کا اعلان انجمن حمایت اسلام انسان ۳۲۱ ۵۹ ۴۷۱ اولاد کے لئے ایسی تربیت کی ایک عام شر اور اس کا علاج کوشش کرو کہ ان میں باہم اخوت بدظنی اتحاد...شریفانہ آزادی پیدا ہو ۷۵ انسان کو ہلاک کرنے والی اولاد پر نمونے دکھاؤ جیسے اسماعیل جو لوگ بدظنیاں کرتے ہیں وہ نہیں نے دکھایا ۲۷ مرتے جب تک اپنی نسبت طبیب اور مبارک اولاد کیسے حاصل ہو! ۱۰۸ بدظنیاں نہیں سن لیتے ایمان حدیث کہ ظن سے بچو ۳۹۳ ۸۸ ۲۵۹ ΑΛ ایمان کی شرائط / ارکان ۴۹۴۸ بہت بری چیز ہے.غیبت اور ارکان ایمان کی تشریح اور ان کی دروغگوئی اسی سے پیدا ہوتے ہیں ۱۹۰ انسان عبث پیدا نہیں کیا ۴۲ ۷۴ حکمت و فلاسفی انسان پر اللہ تعالیٰ کے احسانات ۲۹ انسانی زندگی کو بہتر بنانے کے اصول ۱۵ انعامات ۱۱۹ تا ۱۲۵ بدکاری کامل ایمان یہی ہے کہ اسمائے الہی جہاں بدکاریاں کثرت سے ہوں پر ایمان لاؤ ایمان خدا کی ذات اسماء اور یاد ۴ وہاں غضب الہی نازل ہوتا ہے ۵۳ ہوتا

Page 668

6 پیشگوئی نبی کے لئے لازم نہیں کہ اس کے تصوف کے موضوع پر کسی دوست کی درخواست پر حضور کا ایک خطبہ ۴۴۸ نبی اکرم کس طرح تصوف کی لئے پیشگوئی ہو اور خلیفہ کے لئے تو بالکل ہی لازم نہیں ۴۱۸ طرف توجہ دلاتے تھے عیسی موعود کے نزول کی پیشگوئی قرآن تفسیر قرآن مجید میں اور حضرت مسیح موعود کی بعثت کلام الہی کی تفسیر کو ہم کسی خاص ۴۵۱ ۵۱۱ معنی میں محدود نہیں کر سکتے تقویٰ ۲۰۲ کی صورت میں اس کا پورا فرمانا تبلیغ ۲۱ ۶۸ ۴۵۵ ۳۸۳ براہمو سماج خدا تعالیٰ کی صفات سے منکر اس فرقہ کا نبوت سے انکار اور دوسرے نقائص اسلام کے سخت دشمن بنی اسرائیل مصر میں ان کو آرام اور بعد میں ذلت کی وجہ بنی اسرائیل میں لڑکوں کو خدمت نماز کے بعد سب سے عظیم تقویٰ کیا ہے عبادت تبلیغ ہے الہی کے لئے نذر کے طور پر آزاد کرنے کا دستور بورڈنگ جس قدر بچے یہاں بورڈنگ میں رہتے ہیں وہ سب ہمارے بچے ہیں بہو سے حسن سلوک بہو کو حقیر نظر سے دیکھنا اور اپنی بیٹی کے لیئے ایسا گوارا نہ کرنا بیت اللہ ۲۰۳ ۱۵۷ ۵۷۳ ۵۳ بیت اللہ کی عزت و حرمت کی دلیل دہریہ کے سامنے پیش کرنا ۵۳ بیعت بیعت کی فلاسفی بیوه ง 161 اسکا نکاح کرنا بڑا ثواب کا کام ہے ۵۴۰ ترقی ترقی اور تنزل کا فلسفہ انسان کی ترقی کا بڑا ذریعہ انسان ۲۳۶ ۱۳۰ کے ذاتی اختلاف ہوتے ہیں ۱۷۷ تیج تسبیح کے کیا معنی ہیں؟ تسبيحات نماز کے بعد تسبیحات تسخیر کا عمل ΟΛΙ ۳۲۵ عمل تسخیر کے لئے ایک مولوی صاحب کا حضرت خلیفہ اسح الاول کے پاس آتا ۲۷۷ التحیات اللہ کی تفسیر التحیات اللہ کی تشریح تصوف ۲۹۸ ۴۶۱ AY تقوی سے مراد عقائد کی اصلاح ۲۳۸ خدا کا وعدہ ہے کہ صلاح وتفومی کے اختیار کرنے والے کا وہ متوئی ہو جاتا ہے جس قدر اللہ تعالیٰ کی صفات کی حیا ہو اسی قدر تقوی اللہ کی راہوں پر چلنے کی توفیق ملتی ہے متقی کے لئے ضروری باتیں ۴۲ ۴۲ تقومی خدا کا محبوب بنادیتی ہے ۲۷۳ تقومی خدا کو لیتا ہے ۲۷۶ متقی کو حاصل ہونے والی نعمتیں ۸۶ تقویٰ کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ متقی با مراد ہوتا ہے علوم قرآن محض تدریس سے نہیں تقوی سے ملتے ہیں تکبر ہدایت سے محرومی کا ذریعہ توحید نیز دیکھیں ” حدث“ ۵۸ 191 ۱۸۴

Page 669

ML ۲۹۱ ۱۶ 7 توحید کی اہمیت اور برکات تہمت ۱۲۷ اگر اکٹھی ہوں تو جنگ جو لوگ دوسرے کو سہم کرتے ہیں وہ یہ اعتراض کہ آنحضرت نے ۴۳۰ ( جنگیں) مقابلہ کیوں کیا؟ ہرگز نہیں مرتے جب تک خود اس 190 ۲۲۵ جنگ بدر ۱۲۹ حسن معاشرت کی تلقین حق مہر حق مہر کی تعیین حقوق انسان کے ذمہ تین طرح کے جنگ بدر کے موقعہ پر آنحضرت حقوق ہیں.اللہ تعالیٰ نفس مخلوق کی مضطربانہ دعائیں اور حضرت خشیت ابوبکر کارد عمل اتہام کا شکار نہ ہوئیں جبر و اختیار انسان محض مجبور نہیں جدید زمانه جدید زمانہ میں بعض لوگوں کا یہ جہاد خیال کہ اسلامی ارکان عبادت پر جہاد کیلئے امام کا حکم ہونا ضروری ہے عمل پرانے زمانے کی باتیں ہیں ۵۴۵ چاند جزاوسزا ۳۵۷ ۶۲۲ نبی کریم نے فرمایا: نیکیاں کرتے ہوئے خوف کردو کہ خدا کے حضور کے لائق ہیں یا نہیں چاند دیکھنے کی دعا ایمان کا ایک رکن اور اس کی ہر ایک نیا چاند انسانی زندگی کی اہمیت جزا و سزا کے متعلق ایک شخص کا تبصرہ اور حضور کا جواب ۱۲۴ ۴۵۵ مثال میں ایک سبق دیتا ہے چندوں کی غرض اور اہمیت چنده کا مسئلہ انسان کو نیکیوں کی طرف یہ کہتا کہ چندوں کی کیا ضرورت ہے توجہ دلاتا ہے جغرافیہ کسی ملک کی زبان پڑھانے کے لئے اس ملک کا جغرافیہ بھی معلوم ۵۰۳ ۵۳۲ حقیقت حج و جماعت حرام خوری حرام خوری اور مال بالباطل سے کیا کیا مراد ہے ہونا چاہئے جماعت حسد جماعت کی فضیلت اور برکت ۱۷۷ جمعہ اور عید ۱۵۱ ۱۴۷ ۱۲۷ ۱۳۱ ۱۵۱ ۱۴۶ خطبہ ایک اثر میں میں نے پڑھا ہے کہ نماز کی نسبت خطبہ چھوٹا ہو.۷۵ حضرت خلیفہ اسح الاول کا بیماری کی وجہ سے بیٹھ کر خطبہ پڑھنا ۴۷۷ خطبه ثانیه حضرت عمر بن عبد العزیز نے یہ خطبہ ثانیہ بڑھایا خطبہ ثانیہ کے دوران بعض لوگوں کا اٹھنا اور اس پر حضور کا فرمانا کہ ایسا درست نہیں خطبه (خطبہ عید ) عید کا خطبہ پڑھنے کے واسطے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطرناک مرض ہے اس سے بچو ۳۸۷ جب ارادہ فرمایا تو لوگوں کو کہا کہ حسن معاشرت جس کی مرضی ہو بیٹھے جس کی ۲۵۱

Page 670

8 مرضی نہ ہو.....وہ بے شک چلا جاوے.خطبه کسوف ۶۰ ہرگز نہیں اتار سکتا.خلیفہ ۴۱۹ ہونیوالے ہیں خواب دیکھیں’رویا‘ خلافت کا بوجھ اور حضرت خلیفہ درس قرآن ۱۴ جنوری ۱۹۰۷ء کو نماز کسوف المسیح الاول کے دل میں جماعت حضرت خلیفۃ امسیح الاول اور کے وقت حضرت خلیفۃ المسیح کے لئے درد ۲۴۲ خلفاء کا مقام (خلیفہ خدا بناتا ہے) اگر خلیفہ بننا الاول کا خطبہ کسوف خطبہ نکاح خطبہ نکاح میں پڑھی جانے بہت کتابوں کے پڑھ لینے پر ہوتا تو ۴۷۸ ۴۱۸ ۷۲ چاہئے تھا کہ میں ہوتا...والی آیات مسنون اور ان کی تشریح و تغییر خطبہ نکاح کی تفسیر سنی شیعہ تمام فرقوں کا اتفاق ہے کہ نکاح کے خطبہ کے وقت الحمد اللہ محمدہ نستعینہ پڑھا جاتا ہے خلافت خلیفہ خدا بناتا ہے خلفائے..۲۳۸ ۵۱۹ ۱۹۵ خلیفہ دلائل آدمیوں کے انتخاب سے نہیں بلکہ خدا تعالی ہی کی تائید و نصرت سے بنیں گے خلفاء پر اعتراضات اور ان کا رد ۱۲ درس قرآن درود شریف ۱۴۲ ۵۱۶ درود شریف کی اہمیت اور برکات ۳۰۳ دعا امت مسلمہ اور دعا دعا کے آداب اور طریق حرام کھانے والے کی دعا کبھی قبول نہیں ہوتی (یہ کہ خلیفہ کے بارے میں دعا کی برکات پیشگوئی) خلیفہ (امام وقت) سے ملاقات کی اہمیت ۴۱۸ ۴۷۲ دعا تمام کامیابیوں کی جڑ ہے.دعا سے لوگ غافل ہیں.۱۳۸ ۵۰۶ ۳۲۴ ۲۷۷ قرآن کی ابتداء اور انتہاء دعا پر ہے ۲۷۸ ربانی کا انتخاب انسانی دانستوں کا تمہیں کیا معلوم (آئندہ ہونے تم یوں سمجھو کہ دعاؤں کے لئے نتیجہ نہیں ہوتا ۷۱ ۵۶ خلیفہ خدا بناتا ہے.مخالف لوگوں کا اعتراض اور جواب ۱۷۰ والا خلیفہ ابوبکر اور مرزا پیدا کئے گئے ہو اور یہی دعائیں صاحب سے بھی بڑھ کر آئے ۴۲۲ تمہارے سب کام سنواریں گی ۴۲۵ بعد میں آنے والے خلیفہ کے دعا ایک بڑی عظیم الشان طاقت والی شی ہے وہ دعا ہی تھی جس نے مامورمن اللہ اور منتخب بارگاہ الہی کو بارے میں......شناخت کیسے کیا جائے حضرت ابو بکر صدیق کی خلافت کی دلیل خلافت احمد یہ اور "الوصية" ۵۷ ۷۱ ۵۶ ۴۱۹ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کا اعلان ”اب میں اس کرتے کو ۶۲۲ خلفاء پر مطاعن ہوتے ہیں آدم حضرت آدم کو کرب و بلاء سے پر مطاعن کرنے والی خبیث روح کی ذریت اب تک موجود ہے ۲۴ سارے نواب اور خلفاء الہی دین کے قیامت تک اسی گھرانے میں نجات دی........دی..انسان خدا کے غضب سے بچنے کے لئے ہر وقت دعا کرتے رہے ۱۶۸.اهدنا الصراط المستقيم ۷۸

Page 671

9 ایک مباحثہ میں حضرت خلیفہ اُسیح الاول کی دعا سے کامیابی دعائیں مختلف وقتوں کی دعائیں اور ان کی حکمت.میاں بیوی کے تعلقات کے وقت دعا کا فلسفہ دل دل کے فرائض دل بدلتا رہتا ہے اس لئے ہمیشہ دعائیں کرتے رہنا چاہئے....دوست کی اصلاح حضرت مسیح موعود نے فرمایا: ۳۴۰ ۵۲۰ ۴۳۹ ۵۷۴ دین حنیف دین حنیف سے مراد ۳۹۱ رمضان کے فضائل رمضان کے فوائد اور فضائل سوم ۵۲ ہونے پر صحابہ کا جوش دین کو دنیا پر مقدم کروں گا.“ یہ وعدہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ پر کیا ہے اس کو خوب یا درکھو تجدید دین کا مفہوم اور ضرورت رات ۱۲ ۶۶ رمضان کا مہینہ اور ۹ نو کا عدد رمضان کے مہینہ اور زمانہ بعثت حضرت مسیح موعود کو ایک مناسبت ہے رات کو قرآن شریف پڑھا کرو ۵۲۷ روح رحمت الہی روح کا علاج ضروری ہے اور رحمت الہی کے مستحق کون لوگ ہیں ۴۲۴ اس کا نسخہ روح کیا ہے.اللہ تعالیٰ کی اصطلاح میں رزق روزه نیز دیکھیں "رمضان" روزہ کی اہمیت اور فضیلت چالیس روز رو رو کر دعا کرنے اور مال سے کیا مراد ہے؟ کے بعد شکایت.دہریہ ۳۷۳ رسالت ایمان بالرسالت کی اہمیت ایک دہریہ کے سامنے بیت اللہ کی رسول / مامور عظمت حرمت کو بطور دلیل حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا پیش کرنا دین ۵۳ کسی مامور د مرسل کی کیا ضرورت ہے؟ رسومات ۶۳ ۱۲۳ ۱۲۳ روزہ کی حقیقت روزہ کی غرض وغایت روزہ کی برکات اور اہمیت روزہ پہلی امتوں میں روزہ سے قرب الہی حاصل ہوتا ہے ظلمات جسمانیہ کے دور کرنے کے ۵۲ ۲۳۱ ۲۳۵ ۱۴۹ ۶۴۱ ۱۴۴ ۲۶۲ ۱۲۷ ۴۰۰ ۲۲۷ ۱۴۶ دین انبیاء کا خاصہ یہ ہے کہ اللہ رسوم کی پیروی ایک جبری عادت ۶۵۰ لئے روزہ سے بڑھ کر اور کوئی چیز نہیں ۲۳۰ ۶۴۰ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرنی تمام انبیاء کے دین کا خاصہ تعظیم لامر اللہ شفقت علی خلق الله دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی اہمیت دین کے متعلق جبرائیل کا حضور سے سوال اور آپ کا جواب یہ خیال که دین پر عمل درآمد کرنا انسان کی مقدرت سے باہر ہے ۳۷۱ ۳۰۹ ۱۱۸ 1.6 رشک تمام انسانی ترقیات کی جڑ ہے رفع ۳۹۱ حضرت موسیٰ" نے روزے رکھے تب ہی تو رات ملی....بڑا ہی بد قسمت ہے وہ انسان جس انبیاء اور ان کے متبعین کا رفع ہوتا نے رمضان تو پایا مگر اپنے اندر کوئی ہے.۲۲۲ تغیر نہ پایا رمضان نیز دیکھیں "روزہ" نفلی روزے رمضان کی فضیلت واہمیت جن کی فضیلت احادیث میں ہے ۲۳۰ 7)

Page 672

10 جیسے شوال کے روزے رویا / خواب ۲۲۹ زندگی کی مثال برف کی تجارت کی سود کھانے والے کبھی ترقی نہیں کر مانند ہے ۱۴۸ سکتے حضرت خلیفہ اسی الاول کا بیان انسانی زندگی کو بہتر بنانے کے اصول ۱۵ سورۃ اخلاص اور الکافرون فرمود و رویا آپ کا ایک رویا حضرت خلیفہ اسیح الاول کا ایک رؤیا جس میں بتایا گیا کہ بغیر ولی کے نکاح نہیں ہوتا حضرت خلیفہ اول کا ایک خواب رياء ریاء سے بچنا چاہئے زبان زبان کے فرئض ۲۳۵ ۶۲۳ ۶۷۸ ۴۸۷ ۴۴۵ ۴۴۰ س ستاری اللہ تعالیٰ کی صفت ستاری کا ایمان افروز تذکره سزا.بدنی لڑکوں کو مارنے اور سزا دینے میں سخت مخالف ہوں سلسلہ احمدیہ) ان ضرورتوں کو جو سلسلہ کی ضرورتیں ۴۲۱ ۵۱۷ ہیں جن کو دفتح اسلام میں حضرت زبان اندر ہی اندر انسان کے روحانی اور اخلاقی قومی پر ایک امام نے ظاہر کیا ملحوظ رکھو سماع ۶۹ زبر دست اثر کرتی ہے زكوة زکوۃ کی ادائیگی میں سستی نہ کرو ۴۳۶ ۱۹۴ آنحضرت کا صبح کی سنتوں اور ۶۱۹ وتروں میں ان سورتوں کا پڑھنا ۳۳۱ سورۃ ہود رسول کریم نے فرمایا کہ مجھے سورۃ ہود نے بوڑھا کر دیا ش (شجره ممنوعه )/ درخت حضرت آدم کو جس درخت سے منع کیا اس سے مراد شرک شرک کیا ہے؟ ۲۴ ۳۶۲ ۶۱ اللہ تعالیٰ کے سوا اس کے کسی اسم سماع کے متعلق صوفیوں کی بحث کسی فعل اور کسی عبادت میں غیر کو ۴۴۲ زکوۃ کے اموال میں احتیاط زمانه آریہ کا یہ نظریہ کہ زمانہ مخلوق نہیں اور قدیم ہے اس کا رد ۱۲۶ ۵۵۶ اور حضرت خلیفہ اول کی رائے ۴۴۰ سنت شریک کرنا شرک ہے مسلمانوں کا طرح طرح کے فرض نمازوں کے ساتھ سنت ادا شرک میں گرفتار ہونا کرنے کی حکمت ۳۲۷ میں بچپن سے شرک سے بیزار سوان تیرہ سو برس کے بعد یہ زمانہ ملا ہے آنحضرت کے سیرت و سوانح کا اور آئندہ یہ زمانہ قیامت تک نہیں جاننا بہت ضروری ہے آسکتا ۱۳۱ صحابہ (آنحضرت کی سوانح پڑھو ۱۴۰ ۱۳۲ ہوں شریعت شریعت اسلامیہ جامع شریعت ہے ۵۴۳ ۵۰۷ ۱۲۹ عیسائی شریعت کو لعنت کہتے ہیں ۵۸۳ زندگی سور

Page 673

b طاعون ۵۰۱ 11 خلیفه امسیح الاول صدقہ ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو حضور کا اس کی تشریح فرمانا ۲۰۳ ۲۰۲ صدقات مال کو پاک اور آفات کو حضرت مسیح موعود کے سیاہ رنگ شیطان روک دیتے ہیں ۵۹ ایک صحابی کا آنحضرت سے شیطان ایسا کبھی پاس میں نہیں ہوتا جیسے عرفات کے دن (حدیث) ایک شیعہ کو خلافت ابوبکر صدیق کی دلیل ۱۵۶ خلافت ابو بکر صدیق پر ایک شیعہ ۲۰ کا سوال اور اس کا جواب ۵۶ ۷۱ حضرت ابوبکر پر اعتراضات ΓΙΑ پوچھنا کہ جاہلیت میں کئے گئے کے پودوں کا دیکھنا جن سے مراد طاعون ہے ۲۷۰ طالبعلموں کو نصیحت صدقات با برکات ہوں گے؟ دا ایک شخص کا آنحضرت سے پوچھنا علم حاصل کرو مگر عمل کو مقدم رکھو ۳۷۸ کہ کفر کی حالت میں کی گئی خیرات کا نفع ہوگا تو فرمایا: اسـلـمـت ۱۹۳ ع عبادت عبادت کے معنی اور اس کے ارکان ۶۴۰ خداتعالی کو عبادت کی کیا ضرورت ہے ۴۰۲ تمام بھلے کام اللہ تعالیٰ ہی کی رضاء کیلئے کرے اس کا نام عبادت ہے کے على ما اسلفت(مسلم) صدقۃ الفطر نیز دیکھیں فطرانہ صدقۃ الفطر کا حکم قرآن کریم میں شہزادہ صدقۃ الفطر دینا لازم ہے ۴۱۱ ۴۳۰ ایک شہزادے کی تنگدستی کہ وہ صفات الہیہ کپڑے سی کر گزارہ کرتا تھا ۵۳۸ عدد عیسائیت میں بطلان پرستی اللہ کی رمضان کا مہینہ اور نو کا عدد صفات اور اسماء کے انکار کرنے کی وجہ سے پیدا ہوئی ۲۱ عربی صحابة آنحضرت کی اطاعت کی صحابہ صفات الہی پر ایمان لانے کی عربی زبان سیکھنے کی اہمیت اور توجہ ۵۳۰ زبان سیکھنے کی طرف توجہ کریں ۴۶۹ ۳۰۷ ۲۳۱ ۳۱۴ ۶۹ کی مثالیں صحابی 121 کوشش کرو اور اس کی اہمیت جس قدر اللہ تعالیٰ کی صفات کی حیا عربی زبان کے ساتھ کسی قدر تعلق ہو اسی قدر تقویٰ کی راہوں پر چلنے ضروری ہے ایک صحابی جو دن کو روزے رکھتے کی توفیق ملتی ہے اور رات کو عبادت کرتے اس پر حضرت سلمان فارسی کی نصیحت ۶۳۸ صدر انجمن احمدیہ ۴۷۲ صوفيا بعض صوفیا کا تذکرہ.جنہیں قران وحدیث اور آنحضرت سے محبت تھی ۴۲ اور یہ بے نظیر مخلوقات تھیں صدرانجمن احمدیہ اور حضرت ۴۵۳ عربی زبان چار قسم کی ہے.1.اللہ کی زبان - قرآن شریف ۲.رسول اللہ کی زبان صحابہ کی زبان ۴.شعراء جاہلیت کی زبان

Page 674

12 عرفات اللہ تعالیٰ کا نزول عرفات کے دن کو دفعہ ہوتا ہے شیطان ایسا کبھی پیاس میں نہیں ہوتا جیسے عرفات کے دن ۲۰ ۲۰ شرک کو چھوڑنے سے علم تعبیر کا عید کا خطبہ پڑھنے کے واسطے حصول ممکن ہے ۵۲۸ رسول اللہ نے جب ارادہ فرمایا تو دنیا کے باریک علوم نبیوں کو آتے ہیں ۶۰۸ لوگوں کو کہا کہ جس کی مرضی ہو عورت عورتوں کے حقوق کی نگہداشت ۴۹۹ ۲۶۸ عورتوں کے ساتھ حسن سلوک اور کرد رسول اللہ کی تعلیمات کا زمانہ عصر حقوق کی ادائیگی کی نصیحت سے مناسبت رکھتا ہے.جیسے ۴۰۰ عورتوں سے حسن سلوک کی قرآن کریم کے بعد کوئی کتاب نہیں عصر کے بعد کوئی نماز نہیں عقل ۴۶ نصیحت ۴۲۲ ۴۱۷ بیٹھے جس کی مرضی نہ ہو بیشک چلا جاوے.ایک یہودی کا حضرت عمرؓ سے کہنا کہ یہ آیت "اليوم اکملت لکم ، اگر ہماری کتاب میں ہوتی تو جس دن یہ اتری تھی ہم اس دن کو عید کا دن قرار د یتے.عورتوں کے حقوق اور فرائض کے نماز عید الاضحی قادیان میں دو جگہ متعلق نصائح ۴۵۷ پر ہوئی.( بارش ہونے کی وجہ سے ۶۰ ۱۹ عام طور پر نیکیوں کو سمجھنے کے واسطے عورتوں کی تعلیم کا بندوبست کرنا راستے خراب ہونے کے باعث) ۱۳۳ انسان کی عقل کفایت نہیں کر سکتی ۵۵ ضروری ہے عقیده ۵۳۱ عیسائی عورتیں چشم پوشی اور ترس کی مستحق ہیں ۵۶۵ عیسائیوں کا حضرت مسیح موعود کے ایمان اور تقویٰ کی اصلی جڑ عقائد ہندوستان کے لوگ عورتوں کو مقابل مباہلہ سے فرار ہونے کی وجہ ۲۱۱ صحیحہ ہیں علاج بالقرآن فرائضِ شادی و نکاح کی تعلیمات عیسائیت میں بطلان پرستی اللہ کی نہیں دیتے ۵۶۴ عورتوں کے بارے میں مردوں کا خدا تعالیٰ نے مجھے ایسا فہم دیا ہوا صفات اور اسماء کا انکار کرنے کی وجہ سے آئی ۲۱ ہے کہ صرف قرآن کریم سے ہی رویہ اچھا ہونا چاہئے اور عمدہ عیسائی مشنریوں کے بد اخلاق ۵۸۳ میں علاج کرنا جانتا ہوں علم کی اہمیت علم کی اصل غرض.خشیت اللہ علمی ترقی کی ضرورت علم تعبیر ۶۳۹ ۳۳۱ ۳۷۷ ۳۲۶ سلوک کی نصیحت عید عیدین کی حکمت ۲۵۵ ۴۳۰ ف فرائض تعظیم لامر اللہ اور شفقت علی جو اپنے فرائض منصبی کو ادا نہیں کرتا وہ چور ہے ۵۰۶ خلق اللہ کا مظاہرہ ۴۳۰ عید کے مسائل فرماں برداری ا عید الفطر ۱۸۲ فرماں برداری کا معیار کیا ہے؟ ۷۷ 66

Page 675

13 فضل خدا تعالیٰ کے فضل سے محرومی کی وجوہات قرآن پر عمل کرنے سے عرب قوم نے کس طرح ترقی کی قرآن کا طرز بیان.”ہم“ اور ۱۸۳ تا ۱۹۱ میں ۳۵ ۱۳۵ قربانی کے مسائل قربانیوں کے اجر کبھی ضائع نہیں ہوتے قربانیوں کی لمبی تاریخیں ہیں فطرانہ نیز دیکھیں ” صدقۃ الفطر" قرآن کریم میں تقریباً چار ہزار عرب کے لوگ قریشی سادات اور ۱۰۲ طرانہ کی ادائیگی کی تاکید اور اہمیت ۱۷۹ عربی مادہ استعمال ہوا ہے صدقۃ الفطر ایک ہی جگہ جمع ہونا قرآن کریم کی حفاظت کے ذرائع ، چاہئے.رسول اللہ کے زمانہ میں عید سے پہلے یہ صدقہ جمع ہو جاتا ۱۲۶ قاری ق ایک قاری کا قصہ جو پڑھا رہا تھا لفظ قریش کے معانی قصص قرآن کی حفاظت کا وعدہ ۱۵۴ ۱۳۸ ۱۹۹ پہلے نبیوں کے نقص بیان کرنے قرآن کریم سے بڑھ کر دنیا کیلئے کوئی میں حکمت نور شفا رحمت اور ہدایت نہیں.۴۵ زندہ کتاب جس کی برکات اور فیوض قیامت تک باقی رہیں گے ۱۹۹ اس کو دستور العمل بناؤ اور بیٹے کی وفات کی خبر کے باوجود اس نے پڑھانا نہیں چھوڑا قرآن مجید ۳۹۲ ایک صوفی کا محبت سے اونچی آواز میں قرآن پڑھنا تا کہ زبان آنکھ سب خدا کی کتاب کی خدمت میں قرآن مجید کی افضلیت باقی کتب پر ۴۷۴ مشغول ہوں راستبازوں کی تمام پاک تعلیموں کا مجموعہ تمام صداقتوں کا مجموعہ 1+1 قربانی قربانی کی تشریح اور فلسفہ ۴۹ ۵۵۳ ۳۷۵ قمر ہلال اور قمر کا فرق نیز چاند سورج کو گرہن لگنے والی حدیث میں قمر لفظ کے استعمال کی حکمت کافر ک ۴۳۷ ۲۷۴ ۳۷۴ ٣٩٦ ۸۵۰ ۱۴۷ لفظ کافر اور اس کا عربوں میں ۳۲۸ ۳۵ ۴۴۰ ۶۹ قرآن کریم کی کاملیت اور قربانی کا فلسفہ کہ خدا جو ہمارا مالک جامعیت کہ فرمایا : فيها كتب قيمة.قرآن شریف کی طرف اتنی توجہ ۱۳۷ استعمال کافور ہے وہ بھی پورا حق رکھتا ہے کہ ہم کافور کے خواص نفسانی خواہشوں کو ذبح کر دیں ۲۷۶ قربانی کی فلاسفی نہیں جتنی انگریزی کتابوں اور عید الاضحی پر کی جانے والی قربانی ناولوں کی خرید پر ہے ۶۹ کے جانور کیسے ہوں ۴۳۱ ۱۴۳ کان کان کے فرائض کتاب علوم قرآن محض تدریس سے نہیں قربانی کے جانور کی خصوصیات اور استادوں اور کتابوں کا اثر بہت آہستہ دیر پا ہوتا ہے ۲۷۸ شرائط ۱۹۱ تقوی سے ملتے ہیں

Page 676

مامور من اللہ کا وجود ایک حجۃ اللہ ہوتا ہے مامورین کو شناخت کرنے کے طریق ۱۷ مامورین کی صداقت اور سچائی کا نشان ۸۸ ۳۴۰ مامورین پر ہونے والے مختلف اعتراضات مباحثہ حضور کا لا ہور میں ایک مباحثہ مباہلہ ۱۵۸ ۳۴۹ ۲۳۲ ۲۳۵ 14 کتب حضرت مسیح موعود لا الہ الا الله ہزاروں معارف قرآن مجید کے شائع ہو چکے ہیں اہمیت اور ان کی خریداری کی کتب کی اشاعت کرو طرف توجہ ۲۳۳ ۵۵۹ لا الہ الا اللہ کی تشریح لیکچرز حضرت مسیح موعود کے لیکچرز لیلة القدر حضرت خلیفتہ امسیح الاول کو کتب آنحضرت کا زمانہ ایک عظیم الشان لیلۃ القدر کا زمانہ تھا مال اللہ تعالیٰ کی اصطلاح میں رزق مباہلہ میں کاذب کی موت شرط نہیں ۲۱۲ ۲۱۳ ۲۱۳ ۲۱۰ ۲۱۱ ۲۱۰ ۲۱۲ آنحضرت کے زمانہ اور حضرت ۶۳ اور مال سے کیا مراد ہے ۱۹۲ ۲۴۴ جمع کرنے اور مطالعہ کا شوق کسوف کسوف کے وقت صدقہ و خیرات میں حکمت کسوف و خسوف ماہ رمضان میں ہوا ، ۲۳۵ کشف مال کی تحصیل آسان ہے عمدہ مسیح موعود کے زمانہ میں مباہلہ کی موقعہ پر خرچ کرنا مشکل ہے مامورین (انبیاء) آپ کا حضرت علیؓ کو کشفا دیکھنا ۶۳۰ ۱۶۵ مامور کو شناخت کرنے کا طریق ۵۷ مناسبت اقوام قریش، ابو جہل وغیرہ سے بھی آپ کا مباہلہ واقع ہوا کلمہ شہادت لا الہ الا اللہ مامور من اللہ کی شناخت کا طریق ۸۴ آنحضرت کا نجران کے نصاریٰ کو کلمہ شہادت کے فائدے اور اہمیت ۴۶۳ گ گائے کی قربانی گائے کی قربانی اور بنی اسرائیل گناه ۶۲۹ مامورین و مرسلین کا انکار سلب مباہلہ کی دعوت دینا ایمان کا موجب ہوتا ہے مامور من اللہ کا مقابلہ اور مخالفت ۱۸۵ عیسائیوں کا حضرت مسیح موعود کی دعوت مباہلہ سے انکار اور فرار کی شیطان کی مداخلت کے باعث اصل وجہ ہوتا ہے مامور ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرنے گناہ سے بچنے کا ایک گر کہ ظن والا مہلت نہیں یا تا سے بچا جائے ۲۵۶ مامورین پر ہونے والے مختلف کبھی کسی گناہ کو چھونا اور حقیر نہ سمجھو - ۹۵ اعتراضات ل ۲۲۲ ۹۲ ΑΛ دعوت مباہلہ دینا حضرت مسیح موعود کا مخالفین کو یہ کہنا کہ کفار نے چاہا تھا کہ اگر آنحضرت حق پر ہیں تو ان پر عذاب نازل ہو لیکن ایسا نہ ہوا تو مامور کے زمانے کی حالت ۱۶۳ ۱۶۴ بھلا مباہلہ میں کیسے عذاب نازل مامور کی مخالفت خطر ناک گناہ ہے ۱۲۴ ہوتا.اس کا جواب

Page 677

15 کچھ مردے کو پہنچتا ہے مساجد کا احترام اور اس کے متقی کو ملنے والے انعامات اور فوائد ۲۷۳ مسجد مجدد ہر صدی پر مجددین کا آنا.ہر صدی کے سر پر مجدد آتا ہے....۲۳۴ ۶۴۲ پسند کرو جو اپنے لئے کرتے ہو مهدی مہدی کے بارے میں یہ تصور کہ آاب.....مسجد سے کسی کو نہ روکو ۳۹۰ وہ زرو مال تقسیم کرے گا.مسلمان میرا اعتقاد تو یہ ہے کہ ہر ۴۵.۵۰ مسلمانوں کی ابتر حالت ۶۱۸ ۶۱۹ ۱۳۸ میلہ آنحضرت کے احسانات میں سے ۱۲۸ ۶۳ ایک احسان کہ میلوں کی اصلاح فرمائی ۴۳۰ ۴۴۷ ۵۵ ۴۱۸ ۸۵ ۴۲۴ ۲۰۳ اور سو برس پر آتا ہے محاسبه چاہئے کہ انسان ہر روز محاسبہ کرتا ہے ۱۱۵ معجزه معجزوں کی حقیقت مفتری محبت الہی مفتری کو مہلت نہیں ملتی محبت الہی کیا ہے اس پر جنید ملائکہ بغدادی کا بیان ۴۵۲ ملائکہ پر ایمان لانے کی اہمیت مدرسہ احمدیہ ایمان بالملائکہ مدرسہ احمدیہ کی نگرانی کی طرف توجہ ۵۵۹ ملائکہ کا نظام مدرسہ احمدیہ کے طلباء کو نصیحت ۳۵۵ مذہب باقی مذاہب اسلام کے مقابلہ میں کچھ حقیقت نہیں رکھتے ۲۰ ملائکہ ایسی چیز ہے جس کی طرف سے تساہل کر کے نیکی سے محروم رہ جاتے ہیں منافقین ۲۷۶ ۹۲ ۳۸۰ ۴۹ ۶۵۳ ۴۹ ناول خوانی نبی مامور نبی کی ضرورت نبوت ثبوت اور ماموریت ایک باریک اور لطیف راز ہوتا ہے یہ کہنا کہ کامل کتاب کی موجودگی میں کسی کی کیا ضرورت ہے؟ نبی کے لئے لازم نہیں کہ اس کیلئے پیشگوئی ہو اور خلیفہ کیلئے تو بالکل ہی لازم نہیں پہلے نبیوں کے ققص بیان کرنے بعض منافقین کی باتیں اور حضور کی میں حکمت جس قدر مذاہب ہیں.قرآن کریم کے تین تین لفظوں نصائح سے میں ان کو رڈ کرنے کی منافقین کے اعتراضات ۶۲۲ ۶۳۰ نجات منافق کی پہچان منافقین کی مثال منافق دو قسم کا ہوتا ہے مومن ۶۳۱ ۵۹۵ ۸۲ نجات فضل سے ہے نذر بنی اسرائیل میں لڑکوں کو خدا تعالیٰ کی خدمت کیلئے آزاد کر کے نذر سچا مومن.اپنے بھائی کیلئے وہی ماننے کا دستور ۱۳۸ ۶۰۲ طاقت رکھتا ہوں مراتب سته مردے کو ثواب صدقات و خیرات استغفار یہ س

Page 678

194 ۴۶ ۲۸۲۰ ۲۴۲ 16 نزول نزول و صعود کا فلسفہ ۱۳۰ ۲۰ استغفار اور لاحول کثرت سے پڑھو ۲۷۱ نماز گناہ سے روکتی ہے مگر سنوار کر دوسروں کے عیوب کی طرف مت پڑھنے سے دیکھو بلکہ خوبیاں دیکھو ۳۷۲ نماز عصر حضرت خلیفہ ایچ الاول کی ایک نماز عصر کی تاکید.منافق کی تمیز کا دردمندانہ نصیحت اور خطبہ اللہ تعالیٰ کا نزول جمعہ کو پانچ دفعہ اور عرفات کو نو دفعہ ہوتا ہے نصائح دوسرے کی عزت و آبرو پر ہیز کریں ۴۲۱ نشان تمسخر بدظنی اور ہنسی ٹھٹھا سے نماز میں اپنی زبان میں دعا کی ۴۲۷ اجازت دوسرے کے آرام و چین کیلئے نماز اور زکوۃ کی ادائیگی میں ستی نماز کسوف ایسی ہی کوشش کرو جیسے اپنے لئے نہ کریں کرتے ہو ۲۳ نفاق تم سب سے بڑھ کر تقویٰ پیدا منافق اور اس کے عیب کرو تمہاری آنکھ میں وہ حیا ہو نکاح ۴۳۶ ۱۸۹ ۱۹۰۷ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے نماز کسوف پڑھائی کہ دیکھنے والا کہہ اٹھے کہ یہ آنکھ خدا کو دیکھتی ہے ۴۴ نکاح کی فلاسفی.یہ ایک مدرسہ ہے ۵۳۰ اپنی طاقتوں اور عمر کے ایام کو نکاح کی سات اغراض غنیمت سمجھو ۵۸ نکاح سے پہلے استخارہ اور دعا کی سخت ضرورت ہے اس امر کی کہ تم اہمیت اس شخص کے پاس بار بار آؤ جو دنیا نکاح کے اصل اغراض ۷۳ نکاح میں لڑکی اور ولی کی کی اصلاح کے واسطے آیا ہے متقی بنو....ان شرائط کی پوری رضامندی پابندی کرو جو بیعت کے لئے ولی کے بغیر نکاح نہیں ہو سکتا اور بیان کی گئی ہیں 11.اس ضمن میں حضور کا ایک رویا ۵۳۱ ۵۱۹ ۲۵۶ ۲۸۱ واعظ واعظوں اور سامعین کی اقسام واعظ کو چاہئے کہ ایسی طرز میں کلمہ حکمت گوش گزار کرے کہ کسی کو بُر ا معلوم نہ ہو واعظ اور جس کو وعظ کیا جائے اس کی دقتیں والدین والدین کے حقوق ادا کرنا اور حسنِ ۱۳۴ ۴۱۲ سلوک سے پیش آنے کی نصیحت ۶۴۱ بیوہ کا نکاح کرنا بڑا ثواب کا کام تمہاری حالت امام کے ہاتھ میں ایسی وحدت وحدت کی ضرورت آپس میں اتحاد اور وحدت کا نہ ہونا گولے اور زلزے سے زیادہ نقصان دہ ہے ۴۲۲ ۴۱۷ ۵۴۰ ۱۲۶ ۳۶۵ ہے ۱۳۱ ہو جیسے میت غسال کے ہاتھ میں تمہارا اعتصام حبل اللہ ہو.قرآن تمہارا دستور العمل ہو ۱۳۱ نماز نماز کی اہمیت اور اس کی تاثیر منصوبہ باز چالاکیوں سے کام نماز کو سنوار کر پڑھو نماز میں سستی نہ کرو ۱۴۱ لینے والے بامراد نہیں ہو سکتے

Page 679

17 وساوس شیطانی اوہام اور وسوسوں سے بچنے کا طریق.استغفار ۱۸۶ جواب یہودی ایک یہودی کا چڑیوں کو دانہ ۱۹۹ 69 وساوس کا علاج استغفار اور لاحول ڈالنا اور اس کا انجام بخیر ہونا ۳۹۷ پڑھنا وعده ۳۴۸ وعدہ خلافی کرنے والا منافق ہوتا ہے وقت وقت کی قدر کرنی چاہئے ۱۳ ۱۲ ایک وقت کا عمل بعض اوقات دوسرے وقت کے عمل سے بہت زیادہ فرق رکھتا ہے...ولی ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا اور عورتوں کو ولی مت بناؤ ۱۵۴ ۲۳۹ ۴۷۸ ہلال ہلال اور قمر کا فرق یا جوج ماجوج یا جوج ماجوج یہود یہود کا حسب و نسب پر فخر کہ ہم ابراہیم کے فرزند ہیں یہود کا دعویٰ کہ ہم خدا کے محبوب ہیں اور قرآن میں اس کا ۱۴۷ ۸۲ ۴۰

Page 680

19 تفسیر آیات قرآنیه سورتوں کی ترتیب سے يا آدم اسکن انت زوجک (۲۶) ۴۶۸ یابنی اسرائیل اذكروا نعمتی يضل به كثيرا......(۲۷) ۴۱۳۴۴۰۱ ۵۹۱ التی ( ۱ ۴۸۴) (۲۹)......۳۵۴ ۶۰۴ ۳۵۶ كيف تكفون بالله و کنتم امواتا اتجعل من يفسد فيها (۳۱) ۶۰۵ و اذ قال ربك للملائكة........انی جاعل في الارض خليفة (٣١) من يفسد فيها ويسفك الدماء (۳۱) ۴۱۸ (۳۱) وعلم ادم الاسم ۴۱۸ ۶۱۴۵ اغرقنا ال فرعون و أنتم تنظرون (۵۱) و اذ قال موسى القومه ياقوم ۲۷۳ انكم ظلمتم انفسكم (۵۵) ۶۱۷ باء وا بغضب من الله (۲۲) ۴۰۹ ذلک بــمــاعـصـوا و كانوا يعتدون (٦٢) ان الذين آمنوا والذين هادوا (۶۳) رفعنا فوقكم الطور (۶۴) ۶۲۲ ۶۲۴ ۶۲۵ ۴۱۴ ۱۲۵ ۵۹۰ ۲۹۶ ١١٨ ۲۷۷ ۴۱۶ الفاتحه سورہ فاتحہ کی تفسیر مالک یوم الدین (۴) الفاتح ام القرآن ہے الفاتحہ کی پر معارف تغییر الدین کی تشریح اهدنا الصراط المستقيم(٢) غير المغضوب عليهم و لا الضالين (۷) البقره يقيمون الصلوة......(۲) ۳۵۹.كلها (۳۲) ان الذين كفروا سواء عليهم و اذ قلنا للملائكة اسجدوا ا انذرتهم (۷) سواء عليهم أ انذرتهم (۷) ۱۸۴ لأدم (۳۵) ۶۰۷ ۴۱۸ ۵۸۹ ابی و استکبر و کان من و من الناس من يقول امنا بالله وماهم بمومنين (۹)۲۶۸۱۰۷ ومن الناس من يقول الكافرين (۳۵) ۱۸۴۰ ۱۷۶۱۲۴ ولا تقربا هذه الشجرة مستهزء ون (۹ تا ۱۵) کی تفسیر ۸۰ (۳۶) اذا لقوا الذين امنوا قالوا امنا (۱۵) ۸۳ صم بكم عمی (۱۹) ۴۸۱ لا تجعلوا لله اندادا (۲۳) وان کنتم في ريب مانزلنا على عبدنا (۲۴) فمن تبع هداى فلاخوف عليهم (۳۹) ΓΛ ۵۵۲ یا بنی اسرائیل اذكروا نعمتی (۲) ۳۶۳ اوفوا بعهدی اوف بعهدكم (۴۱) ۵۸۸ ۶۱۲ ولا تلبسوا الحق بالباطل (۴۳) ۳۶۵ واذ قال موسى القومه ان الله يامركم (۲۸) واذ قتلتم نفسا.....(۷۳) والله مخرج ما کنتم تكتمون (۷۳) ۶۲۷ ۶۳۳ ۵۲۱ ۶۳۵ ثم قست قلوبكم (۷۵) و اذا لقوا لذين آمنوا (۷۷) ۶۳۷ او لا يعلمون ان الله يعلم (۷۸) ۶۳۹ فويل للذين يكتبون..(۸۰) ۶۷ لن تمسنا النار الا اياما معدودات (۸۱) بلى من كسب سيئة و احاطت به خطیئته (۸۲) ۶۳۹ ۶۳۹

Page 681

واذ أخذنا ميثاق بـنـي اسرائیل (۸۴) واذ اخذنا ميثاقكم (۸۵) افتــــــومــــنــــون بــــ الكتاب (٨٦) اولئك الذين اشتروا ir.۶۴۳ ۶۲۵ 20 من أسلم وجهه لله و هو محسن (۱۱۳) و، قالت اليهود ليست ۲۸۷ نحن له عابدون (۱۳۹) نحن له مخلصون (۱۴۰) شهداء على الناس (۱۴۴) النصارى على شيء (۱۱۴) ۳۷۱ يعرفونه كما يعرفون ابناء هم و من أظلم ممن منع مساجد الله(۱۵ تا ۱۱۸) الحيوة الدنيا.....(۸۸۸۷) ۳۶۷ اذا بتلی ابراهیم ربــه ولقد اتينــــا الكتاب (۸۸) وقالوا قلوبنا غلف (۸۹) ولـمـا جـاء هم كتب من عند الله (۹۰) ۶۴۷ ۳۸۹ بكلمات (۱۲۵) ۲۵۴ ۲۶ ربنا و ابعث فيهم رسولا منهم (۱۳۰) ۲۰۲ ۱۶۷۱۱۴ و من يرغب عن ملة ابراهيم ۵۱۳ ۱۳۹۱۳۷۶۱۱۱۱۸۱۷۶ (۱۳۱) ولقد اصطفيناه في (۱۴۷) ۱۱۳ ۴۴ ۴۳۹ ياايها الذين امنوا استعينوا بالصبر و الصلوة.۳۴۷ (۱۵۸ ۱۵۴) الذين اذا اصـــــا مصيبة (۱۵۸۱۵۷).ولنبلونکم بشی من الخوف (۱۵۶ تا ۱۵۸) انــا لـــلـــه وانــا اليـــــه ۲۹۷ ۲۵۴ راجعون (۱۵۷) ۱۳۹۲ ۴۴۰ الهكم اله واحد لا اله بتسما اشتروا به انفسهم (۹۱) ۶۵۱ الدنيا ( ١٣١ ) واذا قيل لهم امنوا بما أنزل الله (۹۲) واذ أخذنا ميثاقكم ورفعنا ۳۹۲ ۷۷ (143) اذ قال لـــه ربــه أسـلـم (۱۳۲) ۶۵۱ 19122 أسلمت لرب العالمين ۱۵۸ و من الناس من يتخذ من دون الله (۱۶۶) ۴۴۴ يحبونهم كحب الله (۱۶۶) ۴۴۴ بل نتبع ما الفينا عليه ليس البر ان تولوا فوقكم الطور (۹۴) (۱۳۲) ۶۵۱ ۳۷۸ ۱۹۲۱۱۳ و الله بصير بما تعملون (۹۷) ۶۵۲ قل من كان عدو الجبريل ووصى بها ابراهيم بنیه (۱۳۳) ۱۸۳ ۱۱۴ آباء نا (۱۷۱) (۱۰۳۹۸) ۳۸۰ ماكفر سليمان ولكن يبني ان الله اصطفى لكم الدین (۱۳۳) ۳۹۳ ۱۱۵ الشيطان (۱۰۳) و ما أنزل على الملكين ببابل ۵۰۴ فلاتموتن إلا و انتم مسلمون (۱۳۳) حيوة ( ١٨٠ ) هاروت (۱۰۳) ۶۵۴ ۳۸۲ ۱۱۳ وجوهكم (۱۷۸) ۱۳۳ ۱۳۹۴ ۴۹۳ ولكم في القصاص ایک صحیح حدیث نے حضور کی اس ياايها الذين امنوا كتب عليكم يا ايها الذين آمنوا لا تقولوا آیت کی طرف راہنمائی کی.۶۳۵ الصيام......(۱۸۴) ۱۴۵۱۲۷ ۲۲۷ راعنا (۱۰۵ تا ۱۱۱) ۳۸۶ ۱۹۳ ۱۸۳۱۱۵ ۱۱۵ ام كنتم شهداء (۱۳۴) و على الذين يطيقونه (۱۸۵)

Page 682

شهر رمضان الذي انزل فيه 21 معدودات (۲۰۴) القرآن......(۱۸۶) ۲۶۲ ۲۲۶ هدى للناس و بينات من الهدى (۱۸۶) ۲۳۳ يــــريـــد الــلــــه بــكـــم سل بنی اسرائیل كم اتينهم من آية (۲۱۲) ان الذين آمنوا و الذين هاجروا و جاهدوا..اليسر (۱۸۶) (۲۲۲۲۲۱۹) ۲۳۱ واذا سالک عبادی عنى (IAL).....وابتغوا ما كتب الله لكم (۱۸۸) ۱۰۵ لا تأكلوا اموالكم بينكم بالباطل (۱۸۹) ۶۰۶ ۵۸ يسئلونك عن الاهلة (190) ۴۰۸ ۲۶۶۱۴۴٬۵۱ قل هي مواقيت للناس والحج (١٩٠ ) ۵۳ ۵۲ وقاتلوا فی سبیل ولهن مثل الذى عليهن (۲۲۹) لا اکراه فی الدین (۲۵۷) ۲۷ ۴۰۹ ۴۲۴ ۴۹۹ ۲۱۲ ۱۲۹۱۲۸۱۱۸ تعز من تشاء وتذل من تشاء(۲۷) 191 ان کنتم تحبون الله فاتبعونی (۳۲) ۱۹۲۱۰۵۶۵ ۵۱۲ ۴۵۹٬۴۴۹۴۴۰۳٬۳۷۸۱۹۸ وما كنت لديهم اذ يلقون اقلامهم (۴۵) يعيسی انی متوفیک و ۲۰۷ رافعک الی (۵۶) ۲۲۲ ،۲۰۶ ان مثل عيسى عند الله كمثل 21 الحق من ربك فلا تكن من الممترين......(۶۱ تا ۶۵) ۲۰۸ الله ولى الذين امنوا (۲۵۸) ۴۴۸ ادم (۲۰) ربـي الـذي يـحـي ويـمـيـت (۲۵۹) فان لم يصبها وابل فطل (۲۶۶) يمحق الله الربوا (۲۷۷) واتقوا الله ويعلمكم الله (۲۸۳) ۱۸۲ ولعنة الله على الكاذبين (۲۲) ۱۵۷ ۶۱۹ ۶۰۶ ان الله يحب المتقين (۷۷) ۴۹۱۲۷۲۰۱۰۷ فاتوا بالتورة (۹۴) الله (۱۹) ۴۰۸۵۸ ۵۵۸ ۴۹۱۱۹۱۱۵۴۱۱۴ ۱۰۷ ۹۵۸۶ واتقوا الله ان الله مع وليكتب بينكم كاتب فان الله غنى عن العالمين المتقين (۱۹۵) انفقوا في سبيل الله (۱۹۶) ۴۹۱۵۷ ۱۳۱ بالعدل (۲۸۳) (۹۸) ۲۳۱ ۵۹۲ لله ما في السموات وما في الحج أشهـر مـعـلـومــات الارض (۲۸۵) ۵۶۹ (۱۹۸) ۶۱۸ لا يكلف الله نفسا الا يايها الذين امنوا اتقوا الله حق تقاته......ولا تموتن الا و انتم مسلمون.(۱۰۳) فاذكروا الله كذكركم ۳۰۵ ۲۵۵٬۲۵۰٬۲۴۸ وسعها (۲۸۷) ۲۳۱۱۲۸ آبائكم (۲۰۱) ۲۷ واعتصموا بحبل اللــه آل عمران ربنا آتنا في الدنيا جميعا (۱۰۴) ۵۰۱ ۲۵۰ ان الدين عن له حسنة (۲۰۲) ۳۹۲ ۳۸۰ کنتم خير امة اخرجت الاسلام (۲۰) ۱۱۸ واذكرو الله في ايام للناس (1) ۳۶۲۲۰۳۱۳۴

Page 683

۱۹۲ ۵۱۲ ۴۲۵ ۶۴۱ ۹۱ ۴۲۴ ۲۴۷ ۲۴ فماذا بعد الحق الا الضلال (۳۳) شفاء لما في الصدور (۵۸) فعلى الله توكلت فاجمعوا(۷۲) و اشدد على قلوبهم (۸۹) هود الا تعبدوا الا الله (۳) ان تسخروا منا فانانسخر منكم كما تسخرون(۳۹) ما أمن معه الا قليل (۴۱) رب انی اعوذ بک ان اسئلک مالیس لی به علم (۴۰۸) فاستقم كما امرت (۱۱۳) 23 فيها تحيون و تموتون (۲۶) ۶۳۰ قالوا سمعنا وه لا تسرفوا (۳۲) لعنت اختها (۳۹) انی اصطفيتك على الناس IAL LA لا يسمعون (۲۲) ۴۱۳ يحول بين المرء و قلبه (۲۵) ۲۳۶۴۹ برسالتی (۱۴۵) انی رسول الله اليكم جميعا (۱۵۹) ۲۰۱ ان تتقوا الله يجعل لكم فرقانا (۳۰) 1.6 ۸۶٬۵۷ ۱۳۷ ۲۴۷ اللهم ان كان هذا هو الحق ۳۶۱ ۰۲۵۴ نیلوهم بما كانوا يفسقون (۱۷۴) بلونهم بالحسنات و ۲۵۴ اطيعوا الله و رسوله و لاتنازعوا (۴۷) IZA ۱۲۷ و الف بين قلوبهم لو انفقت من عندک (۳۲۳۳) ۲۱۲ و مالهم ان لا يعذبهم (۳۵) ۱۲۱۳ ما فى الارض جميعا....۳۷۶۳۵۲۱۷۷ (۶۴) التوبه ولا يزالون مختلفين ان الله يحب المتقين (۷) يعطوا بجزية عن يد (۲۹) ΔΥ (11-'119).......۵۷۶ ۸۹ والذين اتبعوهم باحسان رضي الله عنهم (۱۰۰) كونوا مع الصادقين (۱۱۹) يوسف ان كيدكن عظيم (۲۹) ۳۶۴ ۴۵۴ انه لايـــايـــس مـن روح الله (۸۸) ۷۴ ۶۰۶۳۸۳۲۷۶۱۹۰ الرعد فاعقبهم نفاقا في قلوبهم الى ان الله لا يغير ما بقوم (۱۲) ۷۹ يوم القيامة(۷) ۴۳۷ ۴۴۸ اما ما ينفع الناس فيمكث في الارض (۱۸) ابراهيم الر کتب انزلنه الیک (۲) ۵۲۱۲۴۷۲۱۹۱۸۹۱ يونس ثم جعلتكم خلائف في ۴۱۸ الارض (۱۵) ۲۲۵ ۲۲۳ ۲۱۸ السيئات (۱۶۹) والذين يمسكون بالكتب (۱۷۱) الست بربكم قالوا بلى.........انـــا كــنــــا عـن هـذا غافلین (۱۷۳) ۲۱۸۱۷۳ انما اشرک اباؤنا من قبل (۱۷۴) واتل عليهم نبا الذي اتينه ايتنا فانسلخ (۷۲) ۱ تا ۱۷۹) ۲۱۷ ۸۸ ۲۲۱ ۴۵۰ ولوشتنا لرفعته لها (۱۷۷) لعلهم يتفكرون (۱۷۸) لو كنت اعلم الغيب لاستكثرت (۱۸۹) ينظرون الیک و هم لا يبصرون (۱۹۹) ۴۱۳ الانفال

Page 684

24 لئن شكرتم لازيدنكم (۸) فکفرت بانعم الله (۱۱۳) ۲۹۹۱۳۱، ۷۷ ادع الى سبيل ربک ས་་ لن تستطيع معى صبرا (۷۶) ان نحن الا بشر مثلكم...ولكن الله يمن على من يشاء من عباده (۱۲) ۸۶ ضرب الله مثلا كلمة طيبة (۲۵) ۱۹۹ وأتاكم من كل ما سالتموه و الذين هم محسنون (۱۲۹) فاذا قرات القرآن فاستعذ ۴۷۰۰۱۰۷۸۶ بالحكمة (١٢٦) ۳۷۳ و ان عاقبتم (۱۲۷) ۸۸ ان الله مع الذين اتقوا و مریم ويقول الانسان أ اذا ما مت لسوف اخرج حيا (۶۷) تكاد السموات يتفطرن منه (۹۲٬۹۱) ان الذين امنوا و عملوا ۴۷۵ ۵۸۳ الـصــلــحـــت سـيـجـعـل لهـم ان تعدوا نعمت الله لا تحصوها (۳۵) ۴۹۴۴۴۳۵ ۲۴۲ بالله (۹۹) الرحمن ودا (۹۷) 140 بنی اسرائیل الحجر فاذا جاء وعد أولهما (٦) ۳۸۳ ان اقذفيه في التابوت (۴۰) ۶۳۵ انا نحن نزلنا الذكر و انا له ارحمهما كما ربینی ألا يرجع اليهم قولا (٩٠) ۴۹ لحافظون (۱۰) ۵۴ ۲۵ صغیر ا (۲۵) قل رب زدنی علما (۱۱۵) ۳۲۶ ،۳۲۰٬۸۳۷۵ عصی ادم ربه فغوی (۱۲۲) ۶۳۱ ۴۱۸ ۶۰۶ ۴۵۵ ۴۱۴ الانبياء لا يسئل عما يفعل (۲۴) عباد مکرمون (۲۷) نأتى الارض ننقصها من اطرافها (۴۵) ففهمنهما سليمان (۸۰) لا اله الا أنت سبحانك انى كنت من الظالمين (۸۸) وجـعـلـنـاهـا وابنها اية للعالمين (۹۲) ۲۱۶ ۲۰۶۲۰۲ ۱۸۷ ۵۶۶ ۶۲ ۵۹ ۲۵ ۲۶۵۲۳۹۹۱۹۹۰۱۶۹۱۳۸ و ان من شيء الا عندنا خزائنه (۲۲) ان المبذرين كانوا اخوان الشياطين (۲۸) ۱۱۸۶ ولاتقتلوا اولادكم خشية النحل املاق (۳۲) يرد الى ارذل العمر (۱) ۴۱۵ لا تقف مـاليـس لـک بــه علم (۳۷) احدهما ابكم لا يقدر على شی......هل يستوى هو و من يامر بالعدل و هو على ننزل من القرآن ما هو شفاء (۸۳) صراط مستقیم (۷۷) ۶۳ ان الله يامر بالعدل و الاحسان وايتاء ذى القربى وينهى عن الفحشاء والمنكر و البغى (۹۱) ٢٠٥ الكهف ۶۰۵ ۱۵۷۱ ۵۶۱٬۴۹۸٬۴۸۵۱۲۶۱۱۶۲۷ ما أشهدتهم خلق السموات و الارض (۵۲) قال انك لن تستطيع معی صبرا (۶۸) قال الم اقل لک انک

Page 685

25 ولقد كتبنا في الزبور من بعد الذكر (۱۰۲ تا ۱۰۸) ۴۰ قومهما لنا عبدون (۴۸) ان الذين هم من خشية ربهم مشفقون (۵۸) تا (۶۲) ۹۱ ان ربک لهو العزيز الرحيم (۹۳) ۲۳۱ ۱۴ ان أجرى الا على رب الحج لانكلف نفســـــــا الا العالمين (١١٠) ۲۵۱ اذن في الناس (۲۸) لن ينال الله لحومهما و لادماء هـا ولـكـن يــنــالــه التقوى منكم (۳۸) ۴۸۲ لكل امة جعلنا منبسكا (۲۸) ۳۷۶ جاهدوا في الله (۷۹) هم لا يظلمون (۲۳) افحسبتم أنـمـا خـلـقـنـا كـم و سعها (۶۳) ولدينا كتب ينطق بالحق و ۱۶ في كل واد يهيمون (۲۲۶) ۲۱۶ القصص وتريد ان نمن على الذين استضعفوا (۲) ۷۲ ما سمعنا بهذا في ابائنا ۹۰ عبثا ( ۶ ) ١ ) النور الاولين (۳۷) المؤمنون لولا اذ سمعتموه (۱۷) نور السموات و 190 ولقد ارسلنا نوحا الى الارض (۳۶) ۱۳۰ قومه (۲۴) ۸۴ رجال لاتلهيهم تجارة و فقال الملوا الذين كفروا من قومــــه مــاهـذا الا بشر مثلکم (۲۵) ۸۶ يريد ان يتفضل عليكم (۲۵) ۸۷ لوشـاء الله لأنزل ملئكة لابيع (۳۸) انما المومنون الذين آمنوا بالله (۶۳) ۴۵۱ العنكبوت ان جاهداک لتشرک بی مالیس لک به علم (۹) ان الصلوة تنهى عن الفحشاء والمنكر (۴۶) ۲۹۴ ۲۹۵ ۲۶۹ سبلنا (۷۰) وعد الله الذين امنوا منكم و عملوا......فاولئک هم و الذين جاهدوا فينا لنهدينهم اولم يكفهم انا انزلنا ۹۵ ۸۸ علیک الکتب (۵۲) (۲۵) الفسقون (۵۶) ۶۳۰ ۵۸۸٬۳۴۸ ان هو الا رجال به جنة (۲۲) ۹۱ فتر بصوا به حتی حین (۲۶) ۹۲ رب انصرنی بما كذبون(۲۷) ان اصنع الفلك باعيننا و ۹۴ وحينا (۲۸) يأكـل مـمـاتـأكـلـون منـه و يشرب مما تشربون (۳۴) ۹۴ ۸۷ ۲۰۵ ۳۰۲٬۲۷۵۱۶۹۲۵۶۲۳۹ لتسكنوا اليها وجعل بينكم مودة ورحمة ( ۲۲ ) الروم الفرقان لقد استكبروا في انفسهم و عتو عنوا كبيرا (۲۲) ۸۹ الشعراء و تلك نعمة تمنها (۲۳) ۴۰۹ ۵۳۱۴۶۹۴۰۴ ظهر الفساد في البر و ۵۶۴ ۹۷۴ ۹۷ البحر ( ۴۲) بما كسبت ايدى الناس (۴۲)

Page 686

ليذيقهم بعض الذي عملوا (۴۲) لقمان ۹۷ 26 أحــلــنــا دار الـمـقـامـة مـن فضله (۳۶) يس ان الشرك لظلم عظیم (۱۴) ۴۴۲ وجـعـلـنـا مـن بين ايديهم سخر لكم في السموات و سدا......(۱۰) ما في الارض (۲۱) وقال الذين كفروا للذين من خلق السموات و امنوا انطعم من لو نشاء الله الارض (۲۶) ۲۴۳ اطعمه (۴۸) ولو ان ما في الارض من الصفت شجرة اقلام......(۲۸) السجده سبحوا.......(١٦) الاحزاب سراجا منيرا (۲۹) ۲۰۷ ۲۴۵ ۲۴۴ جاء ربه بقلب سلیم (۸۵) ۴۲۴ ۲۳۴ ۳۸ اللهم فاطر السموات و الارض عالم الغيب (۴۷) المومن ان الله لا يهدى من هو مسرف کذاب (۲۹) فرحوا بما عندهم من العلم (۸۴) ۲۷۸ ۷۴ ۳۷۰ ۱۹۲۱۸۴۱۲۳۱۱۳ انا لتنصر رسلنا و الذين امنوا في الحيوة الدنيا (۵۲) ۱۷۸ ۲۷۵ ۱۹۱ فلما بلغ معه السعى (۱۰۳) ۲۷۴ انی ارى في المنام اني حم السجدة اتينا طائعين (۱۲) ان الذين قالوا ربنا الله ثم اذبحک (۱۰۳) ۱۴۲ ۲۶ استقاموا......(۳۱) ۱۸۶ ما كان محمد أبا أحد (۴۱) ۲۴۴ ص سلموا تسلیما (۵۷) ملعونين اينما ثقفوا اخذوا (۲۲) ۴۲۲ ۳۸۰ نحن أولياؤكم في الحيوة الدنيا (۳۲) لا تسجدوا للشمس و ۴۹۵ ۵۹۰ لاياتيه الباطل من بين يديه (۴۳) ۴۶۵ ٣٣٦ فاستغفر ربه و خر راکعا(۲۵) ۴۱۸ ۵۴ یا داؤد انا جعلنك خليفة في الارض (۲۷) لا للقمر (۳۸) يايها الذين امنوا اتقوا الله و قولوا قولا سديدا (۷۱) و انهم عندنا لمن ۳۴۶۲۸۹٬۲۵۶٬۱۰۹٬۱۰۸ يصلح لكم (۷۲) فاطر 1.9 انتم الفقراء الى الله (۱۷) ۴۳۳ ۵۹۱ انما يخشى الله من عباده العلماء (۲۹) ۱۳۷۷۹۵٬۶۹ ۴۱۴ ثم اورثنا الكتب الذين اصطفينا من عبادنا (۳۳) ۳۵ المصطفين الاخيار (۴۸) ۲۰۱ الشورى ما كان لي من علم (۷۰) استكبرت ام كنـت مـن ۶۰۵ ليس كمثله شيء (۱۲) ۶۳۷ ۴۵۵٬۳۵۹۱۸۲ العالين (۷۶) ۳۵۷ الزمر يستمعون القول فيتبعون لا أسئلكم عليه اجرا(۲۴) ما أصابكم من مصيبة فيما کسبت ایدیکم (۳۱) ۵۸۱ ۶۱۷ يرسل رسولا (۵۲) ۴۵۵ احسنه (۱۹)

Page 687

الزخرف لولانزل هذا القرآن على رجل من القريتين عظیم (۳۲) ۲۰۵ ۱۷۰٬۵۵ أهم يقسمون رحمت ربک (۳۳) الأخلاء يومئذ بعضهم لبعض (۲۸) ۶۹ هو مهین و لایکاد یبین (۵۳) ۴۲۵ ۲۷۳۹۱ الدخان انا انزلناه في ليلة مباركة (٤) الجاثية ۲۳۲ و الله ولى المتقين (۲۰) ۱۰۷۸۶ أفرأيت من اتخذ اله هواه (۲۴) الاحقاف ۲۲۵ قل ما كنت بدعا من الرسل (۱۰) حملته امه كرها (۱۲) محمد ۱۱۴ ۱۱۳٬۸۵٬۷۸٬۵۷ ۶۴۱ يوتكم اجوركم و لايسئلكم اموالکم (۳۷) الفتح یدالله فوق ايديهم ( ا )) الحجرات 27 الرحمن علم القرآن (۳۲) ۳۲۶ ان فيكم رسول الله لويطيعكم......حبب اليكم الايمان (۸) الواقعه لا يمسه الا المطهرون (۸۰) ۷۳ المجادله يايها الذين آمنوا لايسخر يايها الذين امنوا اذا قوم من قوم (۱۲) يايها الذين امنوا اجتنبوا كثيرا من الظن (۱۳) ۲۵۷ ۴۲۷ ۴۲۶۳۸۹ تناجيتم(١١٠ ١ ) ٣٨٣ الحشر ان اكرمكم عند الله يخربون بيوتهم بأيديهم اتقاكم ( ۱۴ ) (۳) ۲۲ ۲۳۹ انما المومنون الذين امنوا والذين جاء وا من بعدهم ۲۶۸ يقولون ربنا اغفرلنا و لاخواننا (١١) لئن اخرجتم لنخرجن بالله ( ۱۶ ) الذريت مـــاخــلــقــت الــجــن و معكم (۱۲) الانس (۵۷) ماضل صاحبکم و يايها الذين امنوا اتقوا الله ولتنظر نفس ما قدمت لغد ( ۱۹ ) ۴۷۳۴۴۶۲۸۹۱ ۱۰ ۱۸ ماغوی (۳) وابراهيم الذي وفي (۳۸) 191 ۱۴۱۱۴۲۶ ان ليس للانسان الا ما سعی (۴۰) القمر ولقد يسرنا القرآن للذكر ۶۳ فهل من مدكر (۱۸) ۵۸۷ ۲۴۴ ولا تكونوا كالذين نسوا.الله......لايستوى اصحاب النار واصحب الجنة (۲۱۲۰) الممتحنة ولایــعــصینک ف معروف (۱۳) الجمعة هو الذي بعث في الاميين الرحمن رسولا منهم يتلوا عليهم ٣٠٢ ۶۱۵ ۴۹۰ 1 ۴۲۰

Page 688

۵۲۶ ۵۲۴ ۳۲۶ ٣٦٠ ۵۳۳ ۵۴۲ ۵۵۱ ۶۳۰ ۴۵ ۳۲ 28 ایاته و یزکیهم(۳) مثل الذين حملوا ومريم ابنت عمران التي أحصنت (۱۳) یایها المزمل قم ۲۰۲ الليل ( ۲ تا ۱۱) التوراة (٦) 191 الملک المدثر يايها الذين امنوا اذا نودى تبارك الذي بيده يايها المدثر قم فانذر (۳۲) للصلوة من يوم الجمعة الملک (۲) ۱۵۰۹ فاسعوا الى ذكر الله وذروا لوكنا نسمع او نعقل ما كنا في ربک فکبر (۴) البيع.....(١٠) المنافقون اذا جاءك المنافقون قالوا ۵۵۳ ۴۳۸ اصخب السعير (۱۱) ۱۴۹ ۴۴۰ عليها تسعة عشر (۳۱) القلم القيامة ن و القلم وما يسطرون لا اقسم نشهد (۲) لئن رجعنا الى المدينة(۹) ولله العزة ولرسوله و للمومنين(۹) التغابن يسبح لله ما في السموات و ما في الارض (۲) وطيعوا الله و اطيعوا الرسول (۱۳) الطلاق ۲۶۹ (۳۱۲) ۵۴ انک لعلی خلق عظیم (۵) ۱۵۲۲ ۲۶۴ (۲ تا ۱۶) الدهر الحاقه ۱۹۱ ۲۱ الحاقة ما الحاقة و ما هل اتى على الانسان حين من الدهر......(۲تا۷) ادرک ما الحاقة( ۲ تا ۴) ٣٧م المرسلت وجاء فرعون و من قبله (۱۰) ۵۳۸ لوتقول علينا بعض و المرسلت عرفا (۲ تا ۱۷) ۴۸ الاقاویل ۴۵۰۰۰۰۰ تا ۴۸) نوح ۹۲ الم نجعل الارض كفاتا.(۲۷۲۶) استغفروا ربكم انه كان النباء وجعلنا النهار معاشا (۱۲) التكوير انه لقول رسول كريم........(۲۰ تا ۲۲) الاعلى سبح اسم ربک الاعلی(۲) ۵۸۴ ۱۲۸۵ ۴۲۴ ۲۲۲ غفارا......(۱۱تا۱۳ ) لاتذر على الارض من الكافرين ديارا (۲۷) الجن فانه يسلك من بين يديه و من خلفه رصدا (۲۸) المزمل من يتق الله يجعل لـــه مخرجا(۳) ۲۷۳ ۱۰۷۸۶۴۲ يرزقه من حيث لا يحتسب (۴) ۱۰۷ ۴۲ ومن يتق الله يجعل له من ۴۹۱ ۲۷۳ أمره يسرا (۵) التحريم

Page 689

29 خلق فسوى والذي قدر القارعة فهدی (۴۳) من ثقلت موازينه (۷) ۲۵۰ الفجر العصر والفجر وليال عشر.(۲ تا ۱۹) ۵۴۷ والعصر ان الانسان لفي خسر......(۴۲) ۴۵۴٬۴۵ ۵۵۴ الضحى الفيل الم يجدك يتيما (۷) و اما بنعمة ربك ۱۳۷ الم ترکیف فعل ربک با صحب الفيل (۲) ۶۱۵ فحدث (۱۲) التين أحسن تقويم (۵) العلق ربک الاکرم (۴) القدر انا انزلنه في ليلة القدر.مطلع الفجر ( ۲ تا ۶ ۲۳۲ البيئة ۲۹۹ ۶۲۰ ۵۰۲ الكوثر انا اعطيناك الكوثر.فصل لربک و انحر.ان شانئک هو الابتر ( ۲ تا ۴ ۱۳۳٬۲۴ ۵۱۶ الكافرون قل يايها الكافرون.......ولى دین (۲تا۷) النصر اذاجاء نصر الله والفتح لم يكن الذين كفروا..............انه كان توابا ۲ تا ۴) ۱۳۲۵ حتى تاتيهم البينة (٢) فيها كتب قيمة.......(۴) ۶۱۶۵۵۷٬۳۸۰۳۷۲۵۷ اولئک هم شر البرية (۷) الزلزال فمن يعمل مثقال ذرة خير یره (۸) ۲۴۴ ۲۱۹ ۱۹۳ ۴۱۵۰۹۶۸۹ اللهب تبت يدا أبي لهب و تب (۲) ۴۱۵ الاخلاص قل هو الله احد (۴۲) ۳۳۰ ۴۱۵) الفلق قل اعوذ برب الفلق (۲) الناس قل اعوذ برب الناس (۲) ۱۶۸

Page 690

31 احادیث آمن شعره و کفر قلبه(مسلم) والایمان.چاند دیکھنے کی دعا.بارک الله لک و بارک (ترمذی) ۱۵۱ علیک و جمع بینکما فی خیر ۵۱۹ امید بن ابی الصلت جس کے بارے میں فرمایا ۲۱۹ اتاكم ليعلمكم دينكم (مسلم) 119 ارحموا من في الأرض يرحمكم من في السماء ۴۰۴ أسـلـمـت عـلـى ما اسلفت (مسلم) ۳۹۸ ۱۹۳ افضل الذكر لا اله الا الله الاعمال بالخواتيم ۴۴۵ ۴۲۷ الامام راع و هو مسئول ۴۳۸ الدال على الخير كفاعله (ترمذی) ۲۵ اللهم انى اعوذ بك من بسم الله اللهم جنبنا الخبث والخبائث (بخاری) ۲۴۳ الشيطان.۵۲۰ اللهم اني اعوذ بك من العجز جبلت القلوب على حب و الكسل.(بخاری) ایک وہ جس کو بعض ائمہ نے تشہد میں فرض لکھا ہے.اللـهـم انــی اعوذ بک من العجز والكسل ۴۴۱ اللهم انى اعوذ بك من الهم و الحزن.....(ترمذی) کی تفسیر ۳۱۶ (جامع الصغير) جر ثوبه خيلاء سبقت رحمتی علی غضبی ۳۲ ۴۶۱ ۲۸٬۵ سهل الامر.....(بخاری) سيد الطعام لحم ۲۴۳ ۴۳۰ المبطون شهيد النفس تمنى و تشتهى.اماطة الأذى عن الطريق ۳۴۹ ۵۹۲ ۴۵۶ ۴۰۴ شهدت مع رسول الله العيد فلما قضى الصلاة..(سنن ابن ماجه) حاشیه ۶۰ علماؤهم شر من تحت أديم السماء (مشكوة ) ۲۱۹ الراحمون يرحمهم الرحمن ۴۰۴ الصوم لى و أنا أجزي به انما الاعمال بالنيات ان الله يبعث لهذه الامة (بخاری) العين حق ۴۰۰ ۲۳۰ الله في عون العبد ما كان العبد في عون أخيه (مسند احمد) اللـهـم اجـعـل فـوقـی نورا و شمالی نورا......(بخاری) اللهم الحقني بالرفيق الاعلى (بخاری) اللـهـم اهـلـه عـلينا بالامن ۱۸۰ ۲۴۴ ۲۷۸......عليك بذات الدين على رأس.......(ابوداؤد) انک لتصل الرحم.......۲۰۳ ان لنفسک علیک حق ۴۶۰ ۶۳۸ تربت یداک (بخاری) ۱۰۹ ۲۸۸ فرفع لنا الجبل كان خلقه القرآن ۶۲۵ ۱۸ اوتيت جوامع الكلم اياكم والظن فان الظن اكذب الحديث (بخاری) ۱۹۰٬۸۸، ۲۵۸ ۳۸۱ كفى بالمرء كذبا أن يحدث بكل ما سمع (مسلم) ۱۸۹ کلکم راع وكلكم مسئول ۴۳۸ بئس المطية لو.۳۱۸ کلمتان خفیفتان.۴۸۲ بارك الله في کل مولود يولد على بكورها (ترمذی) ۴۵ الفطرة.(بخارى) ۰۲۱۷

Page 691

32 لا تسبوا الدهر ۴۵۴ ان کی میزان کی جاتی ہے.....لايؤ من احدكم حتى يحب بعض لوگ جو غلط فہمی سے حدیث کو ۱۱۵ 1.9 رمضان کا روزہ افطار (توڑنے) کرنے والے نے خود الٹا ساتھ مسکینوں کا طعام فدیہ لے لیا ۲۳۱ لاخيه ما يحب لنفسه طالمود کہتے ہیں (بخاری) ۴۰۳۱۲۸٬۵۸، ۴۸۶ اگر اُحد کے پہاڑ کے برابر سونا کوئی انچ بھر بھی زمین نا حق لے گا لا يحل لكافر أن يجد ريح خرچ کرو تو بھی سابقین کے ایک تو قیامت کے دن سات زمینیں مٹھی جو کے برابر قدر نہیں ہو سکتی ۴۶ اس کے گلے کا طوق ہوں گی نفسه الامات ۲۰۰ لیک لبیک اللهم بعض قو میں صبح سے دوپہر تک ایک صحابی کا پوچھنا کہ کیا میں اپنی مزدور بنائے گئے اور بعض دو پہر والدہ کی طرف سے صدقہ کروں تو لبیک......(بخاری) ۱۵۲ لكل قوم عيد فهذا عيدنا ۴۱۱ سے عصر تک...لما نزلت اتخذوا احبارهم ۲۱۵ ۴۱۴ و رهبانهم اربابا له غنمه و علیه غرمه ما أسفل من الكعبين في النار.٣٩٤ حضرت جبریل کا آکر پوچھنا ما الاسلام- ما الايمان ۴۴۹ ۴۶ ۶۴۴ اسے ثواب ملے گا فرمایا: ہاں....۶۴۲ رسول کریم نے فرمایا کہ مجھے سورہ نماز سے گھر با برکت ہو جاتے ہیں ۳۲۷ ہود نے بوڑھا کر دیا ۲۴ انسان پر اگر ایک بڑے پہاڑ کے شیطان ایسا کبھی پاس میں نہیں ہوتا برابر بھی قرض ہو جائے تو دعا کے جیسے عرفات کے دن ذریعہ سے اس کے ادا کرنے کے حضرت عائشہؓ نے عرض کیا کہ سامان مہیا کر دیتا ہے بدیاں کرتے ہوئے خوف کریں؟ حرام کھانے والے کی دعا کبھی من حسن اسلام المرء تركه فرمایا نہیں نہیں.نیکیاں کرتے قبول نہیں ہوتی ما لا يعنيه ۴۰۴ ہوئے خوف کرو ۱۶ مومن کی مثال پرندے کی ہے من قام رمضان ایمانا کسی نابینا کی لکڑی انسی سے اٹھا لینا کہ تغدوا خماسا وتروح بطانا (بخاری) ۱۲۶۲ وہ حیران وسرگردان ہوسخت گناہ ہے ۱۶۳ رسول کریم نے ایک چار کو نہ شکل من لم يشكر الناس لم يشكر احادیث میں مہدی کی علامت بنائی اور اس کے وسط میں ایک نقطہ بنا الله (ابوداؤد) ٣٠٣ ۳۲۴ ۳۲۴ ۳۲۲ چاند سورج کا گرہن اور اس میں کر فرمایا کہ یہ نقطہ انسان ہے اور ۳۱۷ آنحضرت کا ایک صحابی کا مہر ولما حال الحول على النصارى چاند کے لئے لفظ قمر استعمال كلهم حتى يهلكوا (بخاری) ۲۱۱ کرنے میں حکمت ۱۴۷ قرآن کو قرار دینا ۲۹۰ آنحضرت سے پوچھنا کہ جاہلیت ایک عورت کو اس بات پر مارنا کہ اس جو نکاح نہیں کرتے وہ بطال ہیں ۲۸۳ میں میں نے صدقات کئے تھے کیا وہ بابرکات ہوں گے؟ ۱۱۵ نے زنا کیا بچہ بول اٹھا کہ الہی تم لوگوں میں اختلافات مجھے ایسا ہی بنا ئیو کیونکہ اس عورت پر ہوتے ہیں تم ایسے اختلافات کو انسان کے اعمال فرشتے لکھتے بدظنی کی جارہی ہے جاتے ہیں اور موت کے قریب ۴۲۶ مجھ تک نہ پہنچایا کرو...۵۰۷

Page 692

33 33 آدم 1 ۵۸۲ ۴۱۸۳۷۱۳۷۰ ۲۰۱۱۰۵٬۹۲٬۳۱ اسماء تم سچ سچ وہ نمونہ دکھاؤ جو ابراہیم آپکی خلافت کی سچائی کی علامت ۱۰ نے دکھایا ۱۹۳ آپکی فضیلت کے بارے میں آپکا آپ کے بیٹے (اسماعیل ) کا کشف میں حضرت علی سے پوچھنا ۶۳۰ قربانی کے لئے تیار ہو جانا ۲۶ آپ کا جنگ بدر میں آنحضرت حضرت آدم کے ذکر میں دراصل آپ کا اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کی مضطر بانہ کیفیت کو دیکھ کر رد عمل ۳۵۷ ۳۶۱ کے لئے تیار ہو جانا ۳۷۵ ۲۷۴ ان صحابہ میں سے تھے جو بہت کم ۴۵۶ بنی آدم بھی مراد ہیں.آدم کو ایک درخت سے منع کرنا ۶۰۹ آپ کے دین دین حنیف سے مراد ۳۹۲ حدیثیں سناتے تھے حضرت مسیح موعود کو آدم خدا نے کہا حضرت ابراہیم کے مقابل (نمرود ) ابوحنیفہ (امام) ۴۵۷٬۳۷۲ ۵۱۱ بڑے خوش قسمت وہ لوگ ہیں جن کا ذکر اور اس پر اعتراض کے تعلقات اس آدم کے ساتھ آپ کو ملنے والی برکت کا تذکرہ ۵۱۳ آپ کے عقد میں ایک شہزادی کا آنا ۵۱۴ پیدا ہوں ۲۴۰ ابراہیم ۱۰۵۴۹۵۳٬۳۱۲۶ ۱۱۵ مذکور ہے کہ جب حضرت ابراہیم کو آگ میں ڈالا گیا تو فرشتوں نے ۵۸۲ ۴۸۸۲۷۶۲۳۲۲۰۱۱۹۱ ۱ ۱۸۲ مختصر حالات و واقعات خدا تعالیٰ کا اس کو برگزیدہ بنانا LL امداد کا کہا اس پر آپ کا جواب ابن حزم ابن تیمیه (شیخ) ابنِ قیم ۳۵۹ ۴۵۳ ابوالحسن الاشعری (امام) ۴۵۳ ابو جہل ۶۱۶۴۷۶۲۱۲٬۶۵۳۳ ابو جہل کے ساتھ بھی مباہلہ واقع ہوا ۲۱۳ جس کا نام ابوالحکم تھا ابوداؤد (امام) ابورافع ابورافع کا قتل ابوسفیان ۱۴۳ ۵۱۱ ۶۳۴ ۶۳۴ ۶۳۴ ۶۴۵ ۲۱۹ ۱۷۳ ۴۵۲ 全 ۴۶۲ ۵۱۱ ابراہیم کی دعا کی قبولیت ابرا ہیم ابوالانبیاء ملت ابراہیم بڑی عجیب راحت بخش چیز ہے ۱۰۸ 州 ۱۱۴ ۴۵۳ ۴۵۳ ابو عامر راہب ابن عربی ( محی الدین شیخ) ۴۵۳ ۵۵۳ سارے نواب اور خلفاء الہی دین ابن سینا کے قیامت تک اسی گھرانے میں ابوالحسن شاذی حضرت ہونے والے ہیں ۱۴۲ ابوالعلا معری ابراہیم کو سکھائی جانے والی دعا اور ابوبکر (حضرت) اس کی قبولیت ربنا وابعث فيهم رسولا ۱۶۷ ۴۶۹ ۴۶۲ ابو قتاده ابو ہریرہ احمد سرہندی (شیخ) ۴۸۳ ۴۶۹ ۴۱۸ ،۳۷۱۱۳۸ ۹۲۴۶ احمد رفاعی احمد بن حنبل آپ کی خلافت کی دلیل ۵۶ ۷۱

Page 693

ادریس ارمیا اسامه اسحاق اسرائیل ۲۰۱ ۳۸۳ ۲۰۱ 1.34 34 امیر صاحب (سید شاہ ) آپ کا شریعت کی بابت نکتہ نظر ۵۳۴ ۵۳۰ ترندی (امام) ج - چ - ح - خ آپ کا اعلان نکاح امیر حیدر (سید) آپ کی بیٹی کا اعلان نکاح ۵۳۰ جبرائیل انس بن مالک ۴۵۶ ملائکہ کا افسر 110 ۳۸۰ ۶۵۳ اسرائیل کے معانی اور قرآن میں بنی اسرائیل کا لفظ استعمال کرنے میں حکمت اسماعیل ۳۶۳ ب.پ.ت باقی باللہ (حضرت نقشبند خواجہ ) بخاری (امام) ۴۶۲ ۵۱۱ جبرائیل کا حضور سے دین کے متعلق سوال کرنا اور حضور کا جواب ۱۱۸ آپ کا لوگوں کو دین سکھلانے کے لئے آنحضرت کے پاس آنا بشارت احمد صاحب (ڈاکٹر) یا محمد اخبرني عن الاسلام ۴۴۹ ۵۶۵ حضرت ابراہیم کو ۹۹ برس کی عمر میں آپ کی بیٹی کا اعلان نکاح مولوی اسماعیل جیسی اولا د عطا کی ۱۴۲ محمد علی صاحب کے ساتھ اقبال (ڈاکٹر محمد اقبال) جنت بی بی ۴۵۷ جنید بغدادی ۴۵۶ بشیر احمد صاحب (میاں) 11.اقبال کے نکاح کا اعلان اپنی نواسی جهانگیر ۵۴۰ بشیر احمد صاحب (حضرت کے ساتھ چراغ دین ۲۳۵ 1+1 اکبر شاہ خان صاحب ۶۳۰ صاحبزادہ مرزا) آپ کا خطبہ نکاح 1+1 اکبر ( جلال الدین) ۴۸۳ بشیر الدین محمود احمد (مرزا میاں) اکبر صاحب ( محمد ) ۶۰۳ چراغ دین (جمونی) ۲۱۴ جس نے حضرت مسیح موعودگی تکذیب کی ۲۲۴ چنگیز ۶۱۶ ۶۲۲ اللہ دتا میاں ( ساکن جموں) ۵۱۸ الہی بخش (ڈاکٹر) امام الدین صاحب (مرزا) ۱۴۱ امرء القيس ۲۱۸ وہ میرے بڑے فرمانبردار ہیں آپ کا خطبہ عید پڑھنا اور بعض لوگوں کی غیبت کا تذکرہ آپ کے سفر حج کا تذکرہ ۵۵۵ آپ کے اشعار اور ان پر اتمام حجت بلعم باعور قادیان کے حوالے سے حاکم علی صاحب ( چوہدری ) ۳۱۵ حالی ( مولانا الطاف حسین) ۲۳۳ بہاؤالدین زکریا (حضرت) ۴۶۲ حامد شاہ صاحب (سید) ۱۹۵ ۱۹۶ جس کا قصیدہ بیت اللہ کے دروازے پر آویزاں کیا گیا تھا ۶۴ پرنس آف ویلز حبیب اللہ صاحب ( قاضی) ۶۳۱ امۃ اللہ صاحبہ ۲۵۳ راولپنڈی میں آمد امیہ بن ابی الصلت ۲۱۸ پولوس ۵۲۲ حبیب اللہ صاحب (مولوی) ۲۴۶ حبیب عجمی ۴۲۱

Page 694

۶۳۸ آپ کے دوست صحابی جو دن کو روزے رکھتے اور رات کو عبادت کرتے..۴۵۳ 35 حسن بصری (امام) آپ کا بدظنی سے تو بہ کرنا ۱۳۹۳ ۴۲۱ رازی (امام) ربیعہ حسن علی صاحب (مولوی) رحمت اللہ صاحب ( تا جر شیخ) آپ کی کتاب " تائید حق حنين حسین (امام) ۴۶۷ ۲۱۰ رفعت صاحبہ روم مولانا حنا (زوجہ عمران) آپ کے اشعار حضرت مریم کی والدہ ۲۰۳ زکریا ، حضرت خالد بن ولید زید حضرت آپ سے یہ کہنا کہ تمہاری خدمات زید بن عمرو ان لوگوں کے ہم پلہ نہیں ہو سکتیں اعلیٰ درجہ کے خطیب جو فتح مکہ سے پیشتر ایمان لائے ۱۵۶ آپ کا مالک بن نویرہ کی بیوی سے نکاح خدا بخش صاحب (مرزا) ۵۳۲ ۱۹۷ ۱۹۶ ۱۹۶ ۲۰۳ ۲۲۴ ۲۰۳ ۲۰۶ 7 ۲۲ ۶۴ سلیمان آپ کی انگشتری وغیرہ کا قصہ بالکل لغو ہے سلیمان ، حضرت خواجہ آپ کا تذکرہ جنہوں نے ۷۸ برس خلافت کی.سہیل حدیبیہ کے موقع پر کفار کا نمائندہ سید زینب (حضرت بوزینب بیگم صاحبه ) وفد نجران (نصاری) میں شامل بنت نواب محمد علی خان صاحب سیش خصیلت علی شاہ صاحب (سید) ستار شاہ صاحب ، ڈاکٹر جنہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح 192 197 ۵۶۵ ۲۴۱ ۲۴۹ شافعی امام ۶۵۱ ۵۰۴ ۴۵۳ ۲۴۳ ۲۱۱ ۵۱۱ ۴۵۷ شریف احمد صاحب حضرت صاحبزادہ آپ کا خطبہ نکاح شعرانی امام شنکر اچارج ۲۳۷ ۴۵۳ ۴۳۵ ۱۳۹ الاول کی بہت خدمت کی سرور سلطان صاحبه اہلیہ صاحبہ صاحبزادہ مرزا بشیر احمد سرہندی ، حضرت مجدد سکندر (اعظم) سلطان احمد خلیفتہ امسیح الاول کے ایک بھائی سلمان فارسی ، حضرت 11.۱۴۶۲ شہاب الدین سهروردی ، شیخ ۴۵۳ ۵۱۲ شیکسپیر ص ض صدر یہاں شیخ ۴۷۶ ۳۳ ۲۰۱ ۵۶۴ ۴۸۳ ۲۹۰ صدیق حسن خان صاحب نواب ۴۳۵ ۳۸۳ ۲۲۷ خلیل الرحمن دانیال نبی (حضرت) آپ کا روزے رکھنا داؤد (حضرت) ۶۵۱۴۱۸۱۰۵۷۷۴۱ ۳۹۲ رز رابعہ بصری

Page 695

۱۹ ۲۹۰ ۲۰۱ ۳۶۰ 36 صفیہ حضرت آپ کے نکاح کا اعلان ۱۹۵ ۱۹۶ کہ یہ آیت الیوم اکملت لكم) اگر ہماری کتاب میں ہوتی تو آپ سے نکاح کی غرض اور حکمت ۵۳۲ عبد العزیز ، حضرت شاہ b-b طلحہ بن عبید الله ظفر اللہ محمد حضرت چوہدری ۱۷۵ Mor عبد الغنی مهاجر شاہ عبد القادر جیلانی - سید ۵۹۹۰۰۶ جس دن یہ اتری تھی اس دن کو ہم ۴۶۹ عید کا دن قرار دیتے آپ کا فرمانا کہ عمر سے تو مدینہ کی عورتیں بھی ( سمجھدار) ہیں...عمران خاندان عمران عمر بن عبد العزیز ، حضرت صالح آدمی.خطبہ ثانیہ ان کا اضافہ ہے......عیسی ، حضرت ۱۵۵ ۱۳۹۰۱۰۵۳۱ ۴۴۵ ۲۱۶٬۲۱۵ ۲۱۴۲۰۹۲۰۲٬۲۰۰ ۶۸ ۱۸۲ ۲۰۱ ۴۵۳ ۱۴۱ ظہور الله مولوی ع غ عائشہ ، حضرت ایک عظیم الشان عورت جس کی تطہیر اللہ تعالیٰ نے فرمائی...۵۹۹ ۱۹۰ عبدالقیوم ، بھوپال ۵۱۲ ۴۶۲٬۴۵۳ ۴۶۹ عبدالکریم سیالکوٹی حضرت مولوی عبد اللہ بن عمر آپ کا فرمانا کہ قرآن لائف آف عبد اللہ بن مسعود محمد ہے عاقب وفد نصاری نجران کا ایک ممبر ۵۲۳ ۴۵۲ آپ کا گلی میں آنحضور کی یہ آواز سننا کہ بیٹھ جاؤ تو آپ وہیں بیٹھ گئے ۱۷۱ عتبه ۲۱۱ عباداللہ صاحب عبدالحی Mot عثمان حضرت عثمان ، حضرت خواجہ حضرت خلیفہ اول کا صاحبزادہ ۵۷۵ عدی بن حاتم عبدالحمید سید ابن سید حامد شاہ صاحب آپ کے نکاح کا اعلان ۱۹۵ علی حضرت عزرا ۱۳۸ ۴۶۱ ۲۱۵ ۳۸۳ ۴۱۸ ۲۱۰۱۹۲۱۳۸ عبدالرحمن ، ملک عبدالرحمن ، منشی کپور تھلوی ۲۰۳ حضرت علی کا حضرت ابو بکر صدیق ۲۵۳ کی آخر کار بیعت کر لینا عبدالرحیم سیڈ سیالکوٹی آپ کا نکاح عبدالرزاق ، منشی صاحب عبد السلام سید ابن سید محمود شاہ ۱۲۵۳ ۵۶ مسیح کے آخری کلمات ایلی ایلی لما سبقتنی‘ سے پتہ چلتا ہے کہ عبرانی زبان تھی وفات مسیح ناصری کے دلائل حضرت مسیح کا مردے زندہ کرنا (کن معنوں میں تھا ) عیص ، حضرت غزالی، امام غلام احمد قادیانی حضرت میرزا آپ کا حضرت علی کو کشفا دیکھنا ۶۳۰ حضرت مسیح موعود کا مقام اور عمر حضرت ۱۳۸ ۱۹۲ ۳۹۳ دوسروں کے لئے نمونہ ایک یہودی کا حضرت عمر سے کہنا یہ ایک ایسی نعمت ہے کہ ہزاروں ہزار ہم سے پہلے گزرے جن کی دلی خواہش تھی کہ وہ اس کے چہرہ

Page 696

37 کو دیکھ سکتے..۲۳۹ کی اصلاح کے واسطے آیا ہے آپکا دنیا میں آنا معمولی بات نہیں ۵۵۹ آپ کا میاں نجم الدین صاحب کو ۷۳ غلام حسین صاحب ، مولوی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے سر ۱۱۰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنا کہ مہمان خانہ میں جو مجرد ہیں غلام نبی صاحب مولوی فیوض کی برکات ۱۰۲ انہیں گوشت کی بجائے دال دیا کرو آپ کا اعلان نکاح عیسی موعود کے نزول کی پیشگوئی اور اس میں حکمت قرآن مجید میں ۲۰۲ ۱۶۵ فق ایک شخص کا کسی کو جھوٹا کہنا اور اس پر فاطمۃ الزہراء حضرت آپ کی صداقت کی ایک دلیل ناراض ہونے والے کے بارے آپ کا مباہلہ کی دعوت دینا ہے سلامتی کا شہزادہ ۲۱۳ میں حضور کا فرمانا کہ اس قدر غضب فتح محمد صاحب ۲۳۵ کو ترقی دینے کی بجائے اپنے کسی فتح محمد ( صاحب سیال) حضرت یہ زمانہ تیرہ سو برس کے بعد ملا ہے اور جھوٹ کو یاد کر کے اس کو کم کرتا ۲۴۶ ۲۱۰ ۶۲۳ ۶۴۲ ۱۶۵ فرزند علی صاحب حضور فرماتے ہیں ہم میں ملہم ہے فرعون فرید الدین شکر گنج ۴۵۳٬۴۲۰ ۴۶۱ آئندہ بی زمانہ قیامت تک نہیں آسکتا ۱۳۱ آپ کا نام الہامات میں مریم ہم میں ہادی اور امام ہے آنے کی وجہ ۲۴ ۶۲۸ ۶۱۶۴۲۵۲۷۳ ۲۰۴ آپ کو آیت قل ان کنتم تحبون فضل احمد صاحب ، مفتی ۲۰۰ اللہ الہام ہونا اور اس کا نتیجہ حضرت مریم اور آپ کے ناموں آپ کا اعلان نکاح ۵۱۸ اور مریم کے نام سے ایک مجد و عظیم فضل الرحمن حضرت شاه گنج مراد آبادی ۵۵۳ اور کارناموں میں مشابہت اور چنانچہ اس زمانہ آخری میں عیسی احمد حضرت مسیح موعود افضلیت کا ذکر ۱۰۵ الشان پیدا ہوا ۲۰۲ فضیلت صاحبه محترمه آپ کے لیکچرز جو لاہور میں آپ کا چھ ماہ کے روزے رکھنا اور فیضی ہوئے ۳۴۹ اس کی برکات آپ کا سیاہ رنگ کے پودوں کا آپ قمر بھی ہیں اور شمس بھی ۲۳۴ آپ کی بعثت کے زمانہ اور شھر دیکھنا جو پنجاب میں لگائے گئے اور ان سے مراد طاعون آپ کی راستبازی کی شان ۲۷۰ قطب الدین بختیار کاکی کریگ رمضان میں مناسبت ۲۳۵ کعب بن اشرف ۶۳۰ آپ کا جوش تبلیغ ۲۳۶ اس کا قتل ۱۹۶ ۴۶۹ ۴۵۳ ۶۳۴ آپ کا بعض مسائل کے لئے آپ کی وفات پر دشمنوں کا کعب بن مالک ، حضرت لوگوں کو خلیفہ اول کے پاس بھیجنا ۱۳۰ اعتراض اور حضرت خلیفہ ایج آپ کا ایک کتاب لکھنے کا ارادہ ۴۳۵ الاول کا جواب ارادہ....سخت ضرورت ہے اس امر کی کہ تم غلام حسن صاحب ، بابو اس شخص کے پاس بار بار آؤ جو دنیا ۳۵۱ ۳۴۹ ۳۱۵ آپ کا غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانا اور آنحضور کے فیصلہ اطاعت کا نمونہ پر

Page 697

کمال الدین خواجہ ۶۳۱ ۶۳۰۶۲۳۶۲۲٬۶۰۳ ل من لوظ ، حضرت لیکھرام جس کے ساتھ مباہلہ ہوا مالک امام مالک بن نویرہ آپ کی بیوی سے خالد بن ولید کا نکاح مبارک احمد صاحب صاحبزادہ مرزا 38 حالت کا نقشہ آپ کی بعثت کا مقصد ۶۲ آپ کی بعثت سے قبل زمانے کی آپ کو دوسری وجی جو ہوئی وہ تھی يايها المدثر ۸۷ خدا تک پہنچانے کا ذریعہ پ کا زمانہ بعثت کا ایک آپ کے برگزیدہ اخلاق جس نے ۲۳۵ آپ کا ایک مقام کہ آپ واحد نبی آپ کی کچی اتباع سے کسی کو استثناء نہیں ۳۸۸ عظیم الشان لیلۃ القدر کا تھا ۲۳۵ صحابہ کو گرویدہ کر لیا ۲۱۳ ہیں جن کے لئے ہر لمحہ اللهم صل علی محمد کی دعا ہوتی ہے ۲۷۵ آپ کو ملنے والی کوثر 110 ۵۳۲ آپ کی وفات بھی ایک ابتلاء تھا ۳۵۱ مبارکہ بیگم صاحبہ (حضرت نواب) آپ کا خطبہ نکاح متنبي ۲۸۰ ۱۴۶۹ مجددالف ثانی حضرت ۴۲۰ ۲۵۳ ۱۶۲ " 14 ۲۵ ۲۶ ۲۴ آپ سفر سے واپس آتے تو اول آپ کا غار حراء میں اعتکاف اور مسجد میں نزول فرمایا کرتے آپ کو اللہ تعالیٰ نے جو کچھ دیا اس کا اجمالی بیان مجھے اللہ تعالٰی کے فضل سے رسول اللہ سے محبت ہے اور آپ کی عظمت کا علم بھی مجھے دیا گیا ہے آپ کے استغفار کی حکمت آپ کی صداقت کی ایک دلیل آیت مباہلہ Izr ۱۳۷ ۱۳۷ ۹۸ ۱۲۱۳ روزے آپ کی گرفتاری کیلئے شاہ فارس کے نمائندوں کا آنا آپ کا نام پانچ بار بآواز بلند روزانہ لیا جاتا ہے آپ کے خلاف اعتراضات آپ کا سفر طائف محمد ابن سید حامد شاہ صاحب سید ۲۳۰ ۳۸۴ ۵۸۲ ۳۵۹ مجددشاہ نقشبند حضرت ۵۱۲ آپ کی صداقت کی نشانی و ! ۶۴۵ آپ کی مدینہ میں مشکلات محمد صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ۱۰۲ ۹۲۹۰۶۵۶۶٬۶۴۳۱ ۲۲۱ ۲۰۱۱۹۹۱۶۲۱۵۵٬۱۲۵۱۰۵ آپ کے نکاح کا اعلان محمد انصاری آپ کا پاک نام ابراہیم بھی تھا ۱۴۱ محمد حسین بٹالوی) آپ کی کچی اطاعت سے تمام محمد حسین صاحب، مولوی جو مباہلہ کے لئے تیار ہوئے محمد حسین شاہ صاحب سید آنحضرت کی سیرت و سوانح جاننا نحوستیں اور حزن و ہموم دور ہو بہت ضروری ہے ۱۴۰ آپ کی آمد کے متعلق انبیاء سے عہد.۶۵۴ آپ کا انتظار یہود و نصاری اور مشرکین عرب کو بھی تھا ۲۳۲ جاتے ہیں ۴۲ آپ کو پہلا الہام رب زدنی محمد علی خان صاحب نواب علما ہوا کیا آپ کو وحی الہی میں شک تھا جو ۷۵ ۲۰۹ " فرمايا فلا تكن من الممترين ٢٠٩ رئیس مالیر کوٹلہ محمد علی صاحب مولوی ۱۹۵ ۴۵۳ ۴۷۸ ۲۱۲ ۵۳۲ ۲۹۰ ۲۸۰۲۴۰

Page 698

39 آپ کا اعلان نکاح محمود غزنوی مددخان مرارہ بن ربیعہ مریم ، حضرت ۴۵۷ آپ کی قوم کی ہلاکت کا باعث کسی کا اعتراض کہ نمرود کا قرآن ۶۱۵ ۵۴۰ ۱۷۳ ۲۱۶ ۲۰۲ حضرت مسیح موعود " کا نام مریم رکھنے کی حکمت حضرت مریم کی والدہ کا مریم کو ۲۰۴ باہمی تنازعہ تھا مہر النساء بیگم میراں بخش.شیخ آپ کی کوٹھی میں حضرت مسیح موعود ۱۳۱ نے ذکر کیا ہے حالانکہ وہ کوئی شخص ۳۵۷ نہیں تھا "نوح" ۹۴ ۹۲۵۶۳۱ ۵۸۲ ۵۲۹۴۲۴۲۸۵۲۴۶۲۰۱۱۰۵ آدم ثانی کا مضمون آسمانی فیصلہ سنایا جاتا ۳۴۹ میکائیل میله رام ۲۵۳ آپ کا قصہ اور اس میں پوشیدہ وقف کرنے کی تفصیلات اور حضرت آپ کے مکان پر حضور کا ایک تحریری اور ایک تقریری لیکچر مریم اور حضرت مسیح موعود کے نام و واقعات میں مشابہت کی تفسیر مریم صاحبہ ۲۰۴ آپکے نکاح کا اعلان حضور نے فرمایا ۱۹۷۶ اعتراض معاویه معین الدین صاحب حافظ معین الدین چشتی ، حضرت ملا مبین ۶۱۵ ۱۳۱ ۵۱۱ ۴۶۱۴۵۳ ووها موسی (حضرت نبی) ۱۰۵۷۷٬۴۸۳۱ ۱۳۹ ۴۲۵ ۴۰۹۳۸۳٬۲۷۳٬۲۲۱٬۲۱۸۱۷۶ ۶۲۸ ۶۲۵۶۲۳۶۱۹۶۱۶۶۰۸۵۸۲ ۲۳۰ آپ کا روزے رکھنا میور حضرت صفیہ کی شادی پر میور کا نجم الدین صاحب.میاں آپ کو حضرت مسیح موعود کا کہنا کہ ۱۳۴۹ ۱۵۳۲ مہمان خانہ میں مجر دلوگوں کو گوشت کی بجائے دال دو اور اس کی حکمت ۱۶۵ نذیر حسین (مولوی) نسیم السحر (ایک بادشاہ کی بیوی کا نام) ۱۴۷۸ ۵۳۹ صداقتیں نور احمد صاحب نورالدین حضرت مولانا خلیفه است اول آپ کا طالب علمی کا زمانہ آپ حضرت عمر کی اولاد سے تھے آپ کا ذکر حضرت مسیح موعود نے الوصیۃ“ میں کیا یہ گمان نہ کرو کہ تم مجھ بڑھے کو آیت یا حدیث یا مرزا صاحب کے کسی قول کے معنے سمجھا لو گے میں نے دیکھا ہے کہ ہزاروں ہزار کتابیں پڑھ لینے کے بعد بھی وہ راہ جس سے موٹی کریم راضی ہو بادشاہ کی بیوی اور اس کا عبرتناک جادے اس کے فضل اور مامور کی انجام 11 اطاعت کے بغیر نہیں ملتی نصیر الدین (چراغ دہلی ) حضرت ۴۵۳ میرے ایک شیخ تھے وہ فرمایا کرتے نضر بن حارث آپ کا تابوت میں ڈال کر دریا میں ڈالا جانا ۶۳۵ نظام الدین اولیا.حضرت آپ کے بالمقابل فرعون کی تباہی ۳۱۱ نمرود ۲۱۲ ۴۶۲ ۴۵۳ تھے کہ غاية العلم حيرة آپ کا ( قادیان ) میں دھونی رمانا اور اس کی دوسروں کو بھی نصیحت ۲۰۱ ۸۴ ۶۰۳ ۶۳۴ ۲۹۰ ۴۱۸ ۴۲۰ ۱۹۲ ۱۹۲ ۷۳

Page 699

۵۶۴ ہوم ۲۴۹ 40 (میرا) قادیان میں آنے کا کیا مجھے کسی کی پرواہ نہیں.میں ذرا کسی مقصد تھا.میں اپنے دکھوں کے کی خوشامد نہیں کر سکتا دور ہونے کے لئے یہاں ہوں ایک امیر کا حکمت کے ساتھ 17.آپ کا اپنی والدہ کی وفات کی خبر سن کر بخاری کو وقف کر دینا ۶۴۲ یعقوب ۵۱۵ ۴۷۶ ۶۱۱ ۲۰۱۱۸۳۱۱۵ پہریدار کو قرآن یاد کروانے کا واقعہ ۱۶۵ آپ کے بارے میں (منافقین) کا یعقوب علی صاحب ، شیخ ایڈیٹر الحکم کہنا کہ یہ ہمارے عیوب گنواتا ہے ۶۲۷ آپ کا ایک براہمولیکچرر کی تقریر کے جواب میں کہنا کہ خدا تک حضرت مسیح موعود کا بعض مسائل یوسف بن یعقوب بن اسحاق ۲۵۶ ۵۲۷ ۱۱۴۴ پہنچانے کا ذریعہ صرف اور صرف حضرت محمد ہی ہیں.11 کیلئے لوگوں کو آپ کے پاس بھیجنا ایسے اختلافات مجھ تک نہ آپ کا سورۃ آل عمران کی آیات پہنچاؤ وہ بہت بد قسمت ہیں نمبر ۳۲ تا ۳۸ کی تفسیر فرمانا اور آخر پر آپ کی بے نیازی یہ کہنا که " وهذا ما الهمني ربی ۲۰۲ آپ کا لاہور میں ایک مباحثہ جس قدر مذاہب ہیں قرآن اپنی حالت کا ذکر اور خاتمہ بالخیر کی کریم کے تین تین لفظوں سے میں امید ۶۳۰ ۵۰۷ ۵۶۹ ۳۴۰ ۴۱۶ ۴۱۵ ان کو رد کرنے کی طاقت رکھتا ہوں ۱۳۸ آپ کا ایک رؤیا جس میں آپ مجھے تفہیم ہوئی کہ جو خدا جواب ایاک نعبد...سے حضرت مسیح موعود ۲۳۵ نہ دے وہ کھڑے کا سا خدا ہوا ۴۸ ۴۹ کی صداقت ثابت فرماتے ہیں مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے رسول آپ کا کشفاً حضرت علی کو دیکھنا ۶۳۰ اللہ سے محبت ہے اور آپ کی آپ کا ایک رویا جس میں بتایا جانا عظمت کا علم بھی مجھے دیا گیا ہے ۱۳۷ کہ بغیر ولی کے نکاح نہیں ہوتا آپ کے طرز انتظام پر اعتراض نور جہاں اور حضور کا جواب ۴۱۹ آپ کا اپنے عقائد اور توکل کا اظہار ۲۴۹ جہانگیر کی بیوی آپ کا کسی اہم نصیحت سے قبل ولی اللہ شاہ تشہد پڑھنے کا طریق ۲۴۹ 0-9 مجھے شروع سے ایک دردمند دل دیا ہاروت و ماروت گیا ہے ۲۵۵ ہلا کو ہلال بن امیہ واقفی CZA ۵۴۰ ۲۵۳ ۴۲۰٬۲۱۸ ۳۸۴ MIY

Page 700

41 مقامات آذر کا آتشکده اسکندریہ اسکندریہ کی لائبریری افریقہ افغانستان الجزائر ۵۳ چھوڑ چکا ۳۹۶ دز دیکھو بھیرہ میں میرا پختہ مکان ہے اور یہاں میں نے کچے مکان بنوا دار السلام (ملک) لئے..میں اپنے ان دکھوں کے دھار یوال ۵۳۸ ۶۲۸ دور ہونے کے لئے یہاں آیا ہوں ۱۶۰ حضور نے جہاں ۲۷ جنوری ۹۹ء ۵۲۴ پراموں کا مندر (یونان) کو خطبہ دیا ۶۱۸ ۲۸۲ جہاں سکندر نذر دیتا تھا اور اپنے ر - ز آپ کو اس کا بیٹا منسوب کرتا تھا توران (جگہ) بایل ۵۳ جاپان جبل الطارق جده امرتسر ۴۷۲٬۳۹۵٬۳۷۱ ۵۷۲ پنجاب امروہہ ۲۳۵ امریکہ ۲۹۲٬۲۳۶۲۳۳ ۵۱۳ ایران ۱۳۸ ج - چ - ح - خ پرنس آف ویلز کے بارے میں کسی کا مضمون پڑھا جانا ۵۳ ۴۰۰ رامپور ۶۳۴ ۳۷۷ رالپنڈی ۱۳۸ راولپنڈی کے ایک دربار میں ۲۳۶ ۲۳۳ ۴۱۰ ۵۵۵ روس روما ۵۲۲ ۴۱۰ ۲۳۶۲۳۳ ۶۲۰ بابل میں بنی اسرائیل کی تنگدستی ۳۸۳ جرمنی بخارا بغداد بنارس بنگاله بھوپال بھیرہ ۴۶۹ ۴۱۰ 717 ۵۲۴ ۵۴۹ ۴۶۹ ۶۱۹ ۶۱۴۵۲۳ مدت ہوئی میں بھیرہ کا خیال بھی جموں ۲۳۳ ۲۰۸ بین س.ش ۶۱۵ سپین سے مسلمانوں کا انخلاء جموں کے ایک رئیس کا بیمار ہوتا اور مسلمان فقیر سے دعا کرانا ۵۷۴ سرہند چین (چائنا) ۶۱۵ ۶۰۳۴۶۰ ریاست پٹیالہ حراء (غار) ۶۱۶۲۳۰ ۶۲۵ سیالکوٹ خیر شام ۶۲۸ ۱۹۶ ۱۷۳ ۱۳۸۴۲۱۰ خیبر کی فتح پر حضرت صفیہ سے نکاح ۵۳۲ جہاں آدمی کی قربانی کا رواج تھا ۳۷۵ شاہجہانپور ۳۷۵

Page 701

42 طائف b ۵۵ جہاں سے علم و حکمت کے چشمے جاری ہوئے ۲۳۳ مکہ مدینہ بے شک قبولیت دعا کے مقام ہیں مرکز میں بار بار آنے کی اہمیت مدینہ میں ایک عورت کا قتل اور آنحضرت کا سفر طائف اور اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول کا آنحضرت کی تفتیش و تحقیق دشمنوں کا رویہ طرابلس ع غ ۳۵۹ ۶۱۵ ۶۱۸۶۲ عرب قوم کی ترقی کا راز.قرآن کریم پر عمل کرنا عربوں کی فصاحت و بلاغت نواح عرب میں ارتداد کا شور علی گڑھ غستان فق فارس ۳۵ ۶۴ 1.۱۵۴۶۴۷۱ ۱۷۴ ۳۸۴۲۸۲ اپنا نمونہ ۷۳ مراکش قادیان میں لوگوں کا آنا خدا کی مسجد اقصیٰ قدرت کا ایک نمونہ لوگوں کا قادیان میں آنے کا کیا مقصد ہونا چاہئے.ک مگ کار تفتح کاشغر ۲۷۴ 17.۵۳ ۴۱۰ ۶۵۲۶۱۲۵۷۴ ۱۴۰ کلکتہ ل من لاہور ۶۴۳ ۶۲۵۵۸۷۴۷۲ مسجد نور مسجد نور کی توسیع کی تحریک مصر ۵۵۸ ۶۳۵ ۶۱۵ ۲۸۲ ۲۰۵ ۵۵۹ ۲۳۳ ۱۳۸ مصر میں بنی اسرائیل کا قیام کتنی دیر تک رہا مصر میں بنی اسرائیل کو آرام اور پھر ان کی ذلت مصر میں جا کر رہنے والے احباب کے لئے دعا کی درخواست ۶۲۸ ٣٨٣ ۶۰۳ ۶۴ ۳۳ مکه معظمه ۶۴۵ ۵۵۳٬۳۸۴۱۹۲٬۹۳۶۵ شاہ فارس کے نمائندوں کا حضرت خلیفہ اسی الاول کا ایک مکہ کی تعظیم عرب کے لوگوں کے ۶۱۵ ۲۳۳ ۶۴۲ آنحضرت کی گرفتاری کیلئے آنا ۱۳۸۴ مباحثه فرانس حضرت مسیح موعود کے لیکچرز فیروز پور قادیان ۱۹۶ ۵۴۹۵۲۹٬۴۸ لدھیانه قادیان بھی ایک وادی غیر ذی زرع ہے.قادیان میں رہنے والے لوگ.اور ان کی خبر گیری کے لئے حضرت ۳۱۰ خلیفہ اسیح الاول کی تلقین ۱۷۹ ۱۸۰ لنڈن مدینہ ۳۴۰ ۳۵۰ ۳۴۹ دلوں میں راسخ تھی مکہ مدینہ بے شک قبولیت دعا کے مقام ہیں ۵۷۴ مکہ کی عظمت و حرمت کا وعدہ ۵۴۸ ۵۵۸ ۵۵ ۶۰۳۵۵۳ جس کا ایک نام دار السلام ہے ۲۷۵ مید و فارس ۶۱۵۵۵۳۱۷۳۱۷۲۵۴ ۶۴۵ نجران دار السلام.فتنہ دجال سے ۲۷۵ نجران کے نصاریٰ کا آنحضور سے ۳۸۴

Page 702

مناظرہ اور حضور کا میلہ کی دعوت دینا هی ہند (ہندوستان) ۲۸۶۲ ۶۱۵ ۵۶۴ ۴۲۹٬۴۰۰ ۱۳۸ ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت ۶۱۹ بزرگ جنہوں نے ہندوستان میں اللہ تعالیٰ کا نام سکھایا ہنی بال کا معبد باغستان یورپ یونان ۴۵۳ ۵۳ ۶۱۸ ۵۱۳ ۲۹۲۲۳۶۲۳۳ ۱۲۳۳ ۵۳ 43

Page 703

۴۵۳ ۴۵۳ ۴۵۷ ۵۹۹ ۶۳۴ ۲۲۳ ۶۳۴ ۲۳۳ ۲۲۱ ۲۳۳ ۶۳۱ ۲۳۳ ۲۳۳ ۲۳۳ ۲۲۱ عوارف (المعارف) از شیخ شهاب الدین سهروردی فتح الربانی فتوح الغيب 45 کتابیات BIBLOGRAPHY ۱۲۷ Mam قرآن کریم ۱۱۴ ۵۲۳ فتح اسلام ۶۵۳۶۴۳٬۶۳۹٬۶۲۵ تفاسیر القرآن تفسیر ابو السعود ۲۲۴ ۲۱۵ کشتی نوح الوصية کتب علماء سلسلہ تفسیر کبیر کتب احادیث ۲۱۸ تائید حق از مولوی حسن علی) ۴۶۷ فسانہ عجائب قاضی مبارک كتب مذاہب عالم گلستان (سعدی) بخاری (صحیح) ۱۳۸۱۲۵۵۸ ۶۴۲ انجیل / اناجیل ۲۱۵۲۰۹٬۶۸ ۶۴۳ ترندی جامع الصغير سنن ابن ماجه مسلم (صحیح) مسند احمد بن حنبل ۴۵ ۲۸۵ ۶۰ 119 ۱۸۰ ۱۸ مشكوة کتب حضرت مسیح موعود آسمانی فیصلہ براہین احمدیہ تذکره حقیقۃ الوحی وافع البلاء ۶۳۴ ۳۴۹ ۲۰۷ ۲۰۶ اوستا بائیبل تورات زبور ژند طالمود ۶۴۳ ۶۴۳ ۲۲۷۶۲ ۶۲۵ ۲۳۰ ۲۱۵ ۲۰۱ وید کتب علوم مختلفه بحر ظرافت تشييد المطاعن ۳۳۳ الحقوق والفرائض ۲۱۴ سبعہ معلقہ ۴۰ ۶۴۳ ۲۰۹۶۲ ۶۴۳۶۸ ۴۳۳ ۴۶۱ ۴۳۹ ۶۴ ملاحسن البدر الحكم اخبارات الفضل (روزنامه) رسائل تشحمید الا ذہان تعلیم الاسلام ریویو آف ریلیجنز ریویو براہین احمدیہ

Page 703