Khutba Juma 23 04 2010

Khutba Juma 23 04 2010

خطبہ جمعہ ۲۳ اپریل ۲۰۱۰ء

اہم تربیتی نصائح
Author: Hazrat Mirza Masroor Ahmad

Language: UR

UR

دس شرائط بیعت پر عمل کریں، انٹرنیٹ اور ٹی وی کے بیہودہ پروگراموں سے بچیں، نظام جماعت کی پابندی ضروری ہے، عہدیداران ہمدردی اور خیر خواہی کا سلوک کریں


Book Content

Page 1

ہر خطبہ کا مخاطب ہر احمد کی ہوتا ہے چاہے وہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں رہتا ہو خطبہ جمعہ سیدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 23 را پریل 2010ء بمقام سوئٹزرلینڈ دس شرائط بیعت پر عمل کریں انٹرنیٹ اور ٹی وی کے بیہودہ پر گراموں سے بھیں نظام جماعت کی پابندی ضروری ہے عہد یداران ہمدردی اور خیر خواہی کا سلوک کریں نظارت اصلاح و ارشاد مرکزیہ

Page 2

بسم الله الرحمن الرحیم پیش لفظ حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 23 اپریل 2010ء کا خطبہ جمعہ سوئٹزرلینڈ میں ارشاد فرمایا.اس خطبہ میں دس شرائط بیعت کا خلاصہ ذکر کرتے ہوئے ان پر عملدرآمد کی نصیحت فرمائی.خطبہ کے شروع میں یہ اہم نصیحت فرمائی کہ ہر خطبہ کا مخاطب ہر احمدی ہوتا ہے چاہے وہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں رہتا ہوں“ پس ہم سب خلیفہ وقت کے ہر خطبہ کے مخاطب ہوتے ہیں.ہر خطبہ ہماری اصلاح اور روحانی ترقی کے لئے ہوتا ہے.اس لئے ہر خطبہ غور سے سننا چاہیے بلکہ فوری طور پر لبیک کہتے ہوئے اس پر عمل درآمد کرنا چاہیے.تمام برکتیں خلیفہ وقت کی اطاعت سے وابستہ ہیں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس خطبہ میں انٹرنیٹ اور ٹی وی کے بیہودہ پر گراموں سے بچنے کی بھی تلقین فرمائی ہے.فرمایا گھروں میں ٹیلی ویژن کے ذریعہ یا انٹرنیٹ کے ذریعہ سے ایسی ایسی بیہودہ اور پھر فلمیں اور پروگرام وغیرہ دکھائے جاتے ہیں جو انسان کو برائیوں میں دھکیل دیتے ہیں.پہلے تو روشن خیالی کے نام پر ان فلموں کو دیکھا جاتا ہے.پھر بعض بد قسمت گھر عملاً ان برائیوں میں جتلا ہو جاتے ہیں.اس لئے چاہئے کہ پہلے نظر رکھیں.بیہودہ پروگراموں کے دوران بچوں کو ٹی وی کے سامنے نہ بیٹھنے دیں اور انٹرنیٹ پر بھی نظر رکھیں.

Page 3

کے مطابق اسی طرح اس خطبہ میں نظام جماعت سے وابستگی کے متعلق فرمایا کہ نظام جماعت کی پابندی کی ضرورت ہے.جماعت احمدیہ کی خوبصورتی تو نظام جماعت ہی ہے...جماعتی نظام بھی خلافت کا بنایا ہوا نظام ہے.حضور انور ایدہ اللہ کے منظور شدہ فیصلہ جات مجلس انٹرنیٹ کے بداثرات سے بچنے اور نظام جماعت سے وابستگی کے بارہ میں کوشش کی جارہی ہے.اسی مقصد کے لئے حضور انور ایدہ اللہ کا یہ خطبہ شائع کیا جارہا ہے.تا کہ ہر احمدی 10 شرائط بیعت پر عمل کرنے والا ہو، نظام جماعت کی خوبصورت لڑی میں پروکر بنیان مرصوص کی مثال بن جائے اور دور جدید کی تمام ایجادات کو مفید طور پر استعمال کرتے ہوئے ان کو حصول علم اور اشاعت دین کا ذریعہ بنائے.آمین خاکسار

Page 4

خطبہ جمعہ سید نا حضرت مرزا مسروراحمدخلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 23 را پریل 2010 ء بمطابق 23 شہادت 1389 ہجری شمسی بمقام سوئٹزرلینڈ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيْمِ - بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ.میں اکثر جماعت کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنیں اور حقیقی شکر گزاری اسی صورت میں ادا ہو سکتی ہے جب ہمارے دل میں تقویٰ ہو، جب ہم اپنے مقصد پیدائش کو سمجھتے ہوئے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کریں.اور اس دورے کے دوران جو میں نے یورپ کے مختلف ممالک کا کیا ہے میں نے گزشتہ دو تین خطبات میں خاص طور پر اس طرف توجہ دلائی تھی.یہ باتیں دوہرانے کی مجھے اس وجہ سے بھی توجہ پیدا ہوئی کہ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں MTA کی سہولت سے نوازا ہوا ہے جس میں میرے خطبات با قاعدہ آتے ہیں اور دوسرے ایسے پروگرام بھی جاری رہتے ہیں جو ہماری روحانی ترقی کے لئے

Page 5

2 ضروری ہیں پھر بھی سو فیصد افرادِ جماعت اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور ایک خاصی تعداد مردوں، عورتوں اور نو جوانوں میں ایسے افراد کی ہے جو باقاعدگی سے خطبہ بھی نہیں سنتے.یاسن لیں تو یہ خیال کرتے ہیں کہ شاید جس جگہ خطبہ دیا جارہا ہے وہاں کے لوگوں کے لئے ہے.خطبہ کا مخاطب ہر احمدی ہوتا ہے چاہے وہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں رہتا ہو حالانکہ ہر خطبہ کا مخاطب ہر احمدی ہوتا ہے چاہے وہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں رہتا ہو.خاص طور پر جو پرانے احمدی ہیں ان میں یہ بڑی غلط رو پیدا ہوگئی ہے.نئے ہونے والے احمدیوں میں عربوں میں سے بھی لکھتے ہیں، یا جو نو مبائعین ہیں ملاقاتوں میں بتاتے ہیں کہ بعض خطبات میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ہمارے حالات کے متعلق آپ کہہ رہے ہیں.اب کچھ عرصہ سے رشین میں بھی باقاعدہ خطبہ کا ترجمہ MTA سے نشر کیا جاتا ہے اور روس کے مختلف ممالک سے احمدیوں کے جو وہاں کے مقامی احمدی ہیں خطوط بڑی کثرت سے آنے لگ گئے ہیں کہ خطبات نے ہم پر مثبت اثر کرنا شروع کر دیا ہے اور بعض اوقات تربیتی خطبات پر یوں لگتا ہے کہ جیسے خاص طور پر ہمارے حالات دیکھ کر ہمارے لئے دیئے جارہے ہیں.بلکہ شادی بیاہ کی رسوم پر جب میں نے خطبہ دیا تھا تو اس وقت بھی خط آئے کہ ان رسوم نے ہمیں بھی جکڑا ہوا ہے اور خطبہ نے ہمارے لئے بہت ساتر بیتی سامان مہیا فرمایا ہے.تو جو احمدی اس جستجو میں ہوتے ہیں کہ ہم نے خلیفہ وقت کی آواز کو سنتا ہے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی ہے، اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینی ہے وہ نہ صرف شوق سے خطبات سنتے ہیں بلکہ اپنے آپ کو ہی ان کا مخاطب سمجھتے ہیں لیکن جیسا کہ میں نے کہا ایک تعداد ایسی بھی ہے جو یا تو خطبات کو سنتی نہیں یا اپنے آپ کو اس کا مخاطب نہیں سمجھتی یا رسمی طور پر سن لیتی ہے.اس لئے میں بعض

Page 6

معاملات کی طرف ہر ملک میں بار بار اپنے خطبات میں توجہ دلاتا ہوں کیونکہ دورے کی وجہ سے احمدیوں کی ایک بڑی تعداد جمعہ پر حاضر ہو جاتی ہے.ہر احمدی کے اندر ایک نیکی کا بیچ تو ہے.خلافت سے ایک تعلق تو ہے جس کی وجہ سے باوجود عمومی کمزوریوں کے جب سنتے ہیں کہ خلیفہ وقت کا دورہ ہے اور خطبہ ہے، جلسہ ہے تو ایک خاص شوق اور جذبے سے اس پروگرام میں شامل ہوتے ہیں چاہے خطبہ ہو یا کوئی اور پروگرام ہو.خدا تعالی کے شکر گزار بندے بنیں پس آج اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں سوئٹزرلینڈ کے احمدیوں کو بھی بعض امور کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں اور سب سے پہلی بات تو یہی ہے جو شروع میں میں نے کہی کہ عبد شکور بنیں، شکر گزار بندے بنیں.خاص طور پر یورپ کے ممالک میں آنے والے احمدی آپ لوگ جن کو خدا تعالیٰ نے سوئٹزرلینڈ میں آ کر رہنے اور مالی سکون و کشائش عطا فرمائے ، ان کو بہت زیادہ شکر گزار ہونا چاہئے.اللہ تعالیٰ نے شکر گزاری کے مضمون کو قرآنِ کریم میں مختلف جگہوں پر بیان فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَا زِيْدَنَّكُمْ (ابراہیم:8) اور جب تمہارے رب نے یہ اعلان کیا کہ لوگو! اگر تم شکر گزار بنے تو میں تمہیں اور بھی زیادہ دوں گا.پس یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضلوں کی شکر گزاری کی طرف توجہ دلائی ہے یا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے اظہار کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی شکر گزاری اور اس کا اظہار کیا ہے؟ اس کی شکر گزاری کا اظہار اس کی کامل فرمانبرداری ہے.اس کے

Page 7

4 حکموں کی پابندی ہے.جن باتوں کے کرنے کا اس نے حکم دیا ہے انہیں پوری توجہ سے سرانجام دینا ہے اور جن باتوں سے اس نے روکا ہے ان سے کامل فرمانبرداری کا نمونہ دکھاتے ہوئے رُک جانا ہے.پس اگر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بننا ہے تو ایک حقیقی مومن کا کام ہے کہ اپنی زندگی عبد شکور بن کر گزارے اور عید شکور بننے کے لئے اپنے دل و دماغ میں اٹھتے بیٹھتے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو یا در کھے.اپنی زبان کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو یادر کھتے ہوئے اس کے ذکر سے کررکھے.اللہ تعالیٰ نے جن انعامات سے نوازا ہے انہیں یا در کھے اور انہیں یا در کھتے ہوئے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی حمد کا اظہار ہو.اللہ تعالیٰ کی حمد زبان پر جاری رہے اور صرف زبان پر نہ جاری ہو بلکہ ایک حقیقی مومن کا اظہار اس کے ہر عضو سے ہوتا ہو، اس کی ہر حرکت وسکون سے ہوتا ہو.اللہ تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ بنے کی کوشش ہو.یہ عاجزی اس وقت ہو سکتی ہے جب حقیقت میں تمام نعمتوں کا دینے والا خدا تعالیٰ کی ذات کو سمجھا جائے.اللہ تعالیٰ کا پیار دل میں ہو.جو نعمتیں اس نے دی ہیں ان کا استعمال اس کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق ہو.صحت مند جسم دیا ہے تو عبادت اور اس کے راستے میں اس کے دین کی خدمت کر کے اس کا شکر ادا کریں.اگر کشائش عطا فرمائی ہے تو کسی قسم کی رعونت، تکبر اور فخر کے بغیر اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے کی طرف توجہ کریں.اگر اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی صلاحیتوں اور استعدادوں اور مال اور اولاد کے صحیح مصارف خدا تعالیٰ کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق ہیں تو طبعی شکر گزاری بھی ہے اور پھر خدا تعالیٰ جو اپنے بندے پر بہت رحم کرنے والا ہے اور ایک کے بدلے کئی گنا دینے والا ہے.وہ استعداد میں بھی بڑھاتا ہے صحت بھی دیتا ہے، کشائش بھی دیتا ہے، ایک عابد بندے کو اپنے قرب سے بھی نوازتا ہے.اس کا جو مقصد پیدائش ہے اس کے حصول کی بھی توفیق دیتا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر انسان اپنے زور بازو سے عبادت یعنی مقبول عبادت بھی نہیں

Page 8

5 کر سکتا.اگر عبادت کرتا بھی ہے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اگر وہ قابل قبول نہیں تو ایسی عبادت بھی بے فائدہ ہے.پس یہ شکر گزاری کا مضمون ہے جو نیکیوں میں بڑھنے کی بھی توفیق دیتا ہے.تقویٰ میں بڑھنے کی توفیق دیتا ہے.کیونکہ انسان اپنے ہر قول وفعل کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا نتیجہ قرار دے کر اس کی طرف جھکتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی ایسے شکر گزار بندوں کی طرف توجہ کرتا ہے.اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے کہ وَمَا يَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ يُكْفَرُوْهُ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالْمُتَّقِينَ (آل عمران: 116) اور جو نیکی بھی وہ کریں اس کی ناقدری نہیں کی جائے گی اور اللہ متقیوں کو خوب جانتا ہے.پس تقویٰ بھی شکر گزاری سے بڑھتا ہے کیونکہ شکر گزاری بھی ایک نیکی ہے.اور حقیقی نیکیوں کی توفیق بھی اپنے تمام تر وجود، مال، صلاحیتوں اور نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی طرف منسوب کرنے سے ملتی ہے اور ایسے نیکیوں میں بڑھنے والے اور شکر گزار مومنوں کے لئے خدا تعالیٰ خود کس طرح اپنے شکور ہونے کا ثبوت دیتا ہے، اس کی مزید وضاحت کے لئے اس طرح بیان فرمایا که لِيُوَفِيَهُمْ أَجُورَهُمْ وَيَزِيدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ إِنَّهُ غَفُورٌ شَكُورٌ (فاطر: 31) یعنی تا کہ وہ انہیں ان کے اعمال کے پورے پورے اجر دے اور ان کو اپنے فضل سے اور بھی زیادہ بڑھا دے یقیناً وہ بہت بخشنے والا اور بہت قدردان ہے.خدا اپنی طرف آنے والے ہر قدم کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے جب اللہ تعالیٰ اپنے لئے شکور کا لفظ استعمال کرتا ہے تو بندوں والی عاجزی اور شکر گزاری نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ جو تمام طاقتوں اور قدرتوں کا مالک ہے وہ جب شکور بنتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کی عاجزی اور شکر گزاری اور نیکیوں میں آگے

Page 9

بڑھنے کو پسند کیا ہے اور خالص ہو کر اس کی خاطر کی گئی عبادتیں اور تمام نیکیاں اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرتی ہیں.اس لئے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے غفور کے لفظ کے ساتھ شکور کا لفظ استعمال فرمایا کہ وہ بخشنے والا ہے اور قدردان ہے.انسان جو کمزور ہے جب اس کو احساس ہو جائے کہ میں نے ہر نیکی خدا تعالیٰ کی خاطر بجالانی ہے اور اس کا شکر گزار بندہ بنا ہے اور خالص ہو کر اس کی طرف جھکنا ہے تو اللہ تعالیٰ جو بہت بخشنے والا ہے، جس کی رحمت بہت وسیع ہے وہ اپنی مغفرت کی چادر میں اپنے بندے کو ڈھانپ لیتا ہے.اس کے گناہوں اور کمزوریوں کی پردہ پوشی فرماتا ہے اور اپنی طرف بڑھنے والے اپنے بندے کے ہر قدم کو بڑی قدر کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس کے انعامات میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے.پس یہ ہمارا خدا ہے جو ہر لحاظ سے اپنے بندے کو نوازتا ہے.اسے دنیا بھی ملتی ہے اور اس کو نیکیوں کے اجر بھی ملتے ہیں.اگر ایسے مہربان اور قدردان خدا کو چھوڑ کر بندہ اور طرف جائے تو ایسے شخص کو بیوقوف اور بدقسمت کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے؟ پس آپ لوگ جو اس ملک میں آ کر آباد ہوئے ہیں، اپنے جائزے لیں.آپ اپنے ماضی کو دیکھیں اور اس پر نظر رکھیں تو آپ میں سے اکثر یہی جواب پائیں گے کہ خدا تعالیٰ نے ہم پر اپنا فضل فرمایا ہے.اپنے وطن سے بے وطنی کوئی بلا وجہ اختیار نہیں کرتا.یا تو ظالموں کی طرف سے زبردستی نکالا جاتا ہے یا ظلموں سے تنگ آ کر خود انسان نکلتا ہے، یا معاش کی تلاش میں نکلتا ہے.اگر احمدی اپنے جائزے لیں تو صاف نظر آئے گا کہ جو صورتیں میں نے بیان کی ہیں ان میں سے اگر پہلی صورت مکمل طور پر نہیں تو دوسری دو صورتیں بہر حال ہیں.ظلموں سے تنگ آ کر نکلنا بھی جیسا کہ میں نے کہا ذہنی سکون اور معاش کی تلاش کی وجہ سے ہی ہے.اور ان ملکوں کی حکومتوں نے آپ کے حالات کو حقیقی سمجھ کر آپ لوگوں کو یہاں ٹھہرنے کی

Page 10

اجازت دی ہوئی ہے.پس اللہ تعالیٰ نے یہ سب فضل ہم پر احمدیت کی وجہ سے کئے ہیں.پس یہ پھر اس طرف توجہ دلانے والی چیز ہے کہ احمدیت کے ساتھ اس طرح چمٹ جائیں جو ایک مثال ہو تو پھر یہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی شکر گزاری ہوگی.جماعت کی قدر کریں اگر جماعت کی قدر نہیں کریں گے اگر خلیفہ وقت کی باتوں پر کان نہیں دھریں گے تو آہستہ آہستہ نہ صرف اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے فضلوں سے دور کر رہے ہوں گے بلکہ اپنی نسلوں کو بھی دین سے دور کرتے چلے جائیں گے.پس غور کریں، سوچیں کہ اگر یہ دنیا آپ کو دین سے دور لے جارہی ہے تو یہ انعام نہیں ہلاکت ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی بے قدری ہے.ہمیں ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ ہم نے اس زمانے کے امام کی بیعت کی ہے جس کے آنے کی ہر قوم منتظر ہے.جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے پیار کے الفاظ استعمال کئے ہیں.جس کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام بھیجا ہے.(النجم الاوسط جلد 3 من اسمہ عیسی حدیث نمبر 4898 صفحہ 384-383 - دار الفکر، عمان - اردن طبع اول 1999 ء امین بھی دل 1908 ) تو کیا ایسے شخص کی طرف منسوب ہونا کوئی معمولی چیز ہے؟ یقینا یہ بہت بڑا اعزاز ہے جو ایک احمدی کو ملا ہے.پس اس اعزاز کی قدر کرنا ہر احمدی کا فرض ہے.یہ قدر پھر ایک حقیقی احمدی کو عید شکور بنائے گی اور پھر وہ خدا تعالی کے فضلوں کو پہلے سے بڑھ کر اترتے دیکھے گا.

Page 11

8 حضرت مسیح موعود سے منسوب ہونا ایک عہد بیعت ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے منسوب ہونا صرف زبانی اعلان نہیں ہے بلکہ ایک عہد بیعت ہے جو ہم نے آپ سے کیا ہے اور آپ کے بعد آپ کے نام پر خلیفہ وقت سے وہ عہد کیا ہے.اس بیعت کے مضمون کو سمجھنے کی بھی ہر احمدی کو ضرورت ہے.بیعت بیچ دینے کا نام ہے.یعنی اپنی خواہشات، تمام تر خواہشات اور جذبات کو خدا تعالیٰ کے حکموں پر قربان کرنے اور ان کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کا ایک عہد ہے.اپنی مرضی کو بالکل ختم کرنے کا نام ہے جو خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر کیا جاتا ہے اور اگر اس دن پر یقین ہو جو خدا تعالیٰ سے ملنے کا دن ہے، جس دن ہر عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا تو انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود نے کن کن باتوں پر ہم سے عہد لیا ہے.ان کو میں مختصر آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں.ہر ایک اپنے جائزے خود لے کہ کیا اس کی زندگی اس کے مطابق گزر رہی ہے یا گزارنے کی کوشش ہے.اگر نہیں تو اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو سامنے رکھ کر کہ وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا ( بنی اسرائیل: 35) اور اپنے عہد کو پورا کرو، ہر عہد کے متعلق یقیناً جواب طلبی ہوگی ، ہمیں اپنی عاقبت کی فکر کرنی چاہئے کہ اس عارضی زندگی کے بعد ایک اخروی اور ہمیشہ کی زندگی کا دور شروع ہوتا ہے.

Page 12

شرائط بیعت کا مختصر ذکر 1.ہر قسم کے شرک سے دور رہو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہم سے کیا عہد لیا ہے؟ اس کو میں مختصر بیان کرتا ہوں.آپ نے فرمایا کہ سچے دل سے ہر قسم کے شرک سے دور رہنے کا عہد کرو.اور شرک کے بارے میں آپ نے بڑی وضاحت سے ایک دوسری جگہ فرمایا ہے کہ شرک صرف ظاہری بتوں اور پتھروں کا شرک نہیں ہے بلکہ ایک مخفی شرک بھی ہوتا ہے.اپنے کاموں کی خاطر اپنی نمازوں کو قربان کرنا یہ بھی شرک ہے.نمازوں سے بے تو جمہگی دوہرا گناہ ہے.ایک تو اپنے مقصدِ پیدائش سے دُوری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جنوں اور انسانوں کو عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے.دوسرے یہ ہے کہ دنیا کو اُس پر مقدم کرنا ہے.گویا کہ رازق خدا تعالیٰ نہیں بلکہ آپ کی کوششیں ہیں اور آپ کے کاروبار یا ملازمتیں ہیں.بعض دفعہ اولا د بھی خدا تعالیٰ کے حکموں کے مقابلے پر کھڑی ہو جاتی ہے.وہ بھی ایک شرک کی قسم ہے.اللہ تعالیٰ کے واضح حکم کا انکار کر کے اولاد کی بات ماننا بھی ایک قسم کا مخفی شرک ہے.بلکہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی یاد کو یہ چیزیں بھلا دیتی ہیں.کئی لوگ ہیں جو احمدیت سے دور ہے ہیں تو اولاد کی وجہ سے.اولاد کے بے جالاڈ پیار نے اور اولاد کی آزادی نے اولا دکو جب دین سے ہٹایا تو خود ماں باپ بھی دین سے ہٹ گئے.اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں ایک جگہ فرماتا ہے.کہ يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ (المنافقون: 10) کہ اے مومنو! تمہیں تمہارے مال اور اولادیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کر دیں.پس جب بھی اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کوئی دوسری چیز اہمیت حاصل کرے گی تو

Page 13

10 اللہ تعالیٰ کے ذکر ، اس کی یاد، اس کی عبادت سے غافل کرے گی اور یہی مخفی شرک ہے کہ خدا تعالیٰ کے مقابلے پر دوسری چیزوں کو ترجیح دی جارہی ہو.یہ غفلت معمولی غفلت نہیں ہے بلکہ ہلاکت کی طرف لے جانے والی غفلت ہے.پس اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو یہ تنبیہ فرمائی ہے کہ یہ نہ سمجھنا کہ ہمارا عہد بیعت کر لینا ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہو جانا کافی ہے بلکہ ہرلحہ تمہیں خدا تعالیٰ کی یاد سے اپنے دل و دماغ کو تازہ رکھنے کی ضرورت ہے تا کہ ہر قسم کے شرک سے انتہائی دُوری پیدا ہو جائے.2.برائیوں سے بچیں پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک احمدی سے توقع رکھی ہے کہ ہر قسم کے جھوٹ ، زنا، بدنظری ، لڑائی جھگڑا، ظلم ، خیانت، فساد، بغاوت سے ہر صورت میں بچنا ہے.ہر وقت اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ میں ان برائیوں سے بیچ رہا ہوں؟ بعض لوگ ان باتوں کو چھوٹی اور معمولی چیز سمجھتے ہیں.اپنے کاروبار میں ،اپنے معاملات میں جھوٹ بول جاتے ہیں.ان کے نزدیک جھوٹ بھی معمولی چیز ہے.حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بھی شرک کے برابر ٹھہرایا ہے.ٹیلی ویژن یا انٹرنیٹ کے بیہودہ پروگراموں سے بچیں زنا ہے، بدنظری وغیرہ ہے.یہ برائیاں آج کل میڈیا کی وجہ سے عام ہوگئی ہیں.گھروں میں ٹیلی ویژن کے ذریعہ یا انٹرنیٹ کے ذریعہ سے ایسی ایسی بیہودہ اور لچر فلمیں اور پروگرام وغیرہ دکھائے جاتے ہیں جو انسان کو برائیوں میں دھکیل دیتے ہیں.خاص طور پر نوجوان لڑکے لڑکیاں بعض احمدی گھرانوں میں بھی اس برائی میں مبتلا ہو جاتے ہیں.پہلے تو

Page 14

11 روشن خیالی کے نام پر ان فلموں کو دیکھا جاتا ہے.پھر بعض بد قسمت گھر عملاً ان برائیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں.تو یہ جو زنا جو ہے یہ دماغ کا اور آنکھ کا زنا بھی ہوتا ہے اور پھر یہی زنا بڑھتے بڑھتے حقیقی برائیوں میں مبتلا کر دیتا ہے.ماں باپ شروع میں احتیاط نہیں کرتے اور جب پانی سرسے اونچا ہو جاتا ہے تو پھر افسوس کرتے اور روتے ہیں کہ ہماری نسل بگڑ گئی، ہماری اولادیں برباد ہوگئی ہیں.اس لئے چاہئے کہ پہلے نظر رکھیں.بیہودہ پروگراموں کے دوران بچوں کو ٹی وی کے سامنے نہ بیٹھنے دیں اور انٹرنیٹ پر بھی نظر رکھیں.نو جوانوں کو جماعتی نظام کے ساتھ جوڑیں بعض ماں باپ زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں.جماعتی نظام کا کام ہے کہ ان کو اس بارے میں آگاہ کریں.اسی طرح انصار اللہ ہے ، لجنہ ہے، خدام الاحمدیہ ہے یہ نظمیں اپنی اپنی تنظیموں کے ماتحت بھی ان برائیوں سے بچنے کے پروگرام بنا ئیں.نوجوان لڑکوں لڑکیوں کو جماعتی نظام سے اس طرح جوڑیں، اپنی تنظیموں کے ساتھ اس طرح جوڑیں کہ دین ان کو ہمیشہ مقدم رہے اور اس بارے میں ماں باپ کو بھی جماعتی نظام سے یا ذیلی تنظیموں سے بھر پور تعاون کرنا چاہئے.اگر ماں باپ کسی قسم کی کمزوری دکھائیں گے تو اپنے بچوں کی ہلاکت کا سامان کر رہے ہوں گے.خاص طور پر گھر کے جو نگران مرد ہیں یعنی ان کا سب سے زیادہ یہ فرض ہے اور ذمہ داری نوجوان لڑکوں لڑکیوں کو جماعتی نظام سے اس طرح جوڑیں، اپنی ہے کہ اپنی تنظیموں کے ساتھ اس طرح جوڑیں کہ دین ان کو ہمیشہ مقدم رہے کو اس آگ میں گرنے سے بچائیں جس آگ کے عذاب سے خدا تعالیٰ نے آپ کو یا آپ کے اولا دوں بڑوں کو بچایا ہے اور اپنے فضل سے زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے.

Page 15

12 امام الزمان کی بیعت اور خلافت سے وابستگی بہت بڑا فضل ہے دنیا خاص طور پر دوسرے مسلمان شدید بے چینی میں مبتلا ہیں کہ ان کو کوئی ایسی لیڈر شپ ملے جو ان کی رہنمائی کرے.لیکن آپ پر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا ہوا ہے کہ زمانے کے امام کی بیعت میں آ کر رہنمائی مل رہی ہے.خلافت کے ساتھ وابستہ رہنے سے نیکیوں پر قائم رہنے کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے.پس اللہ تعالیٰ کے یہ سب فضل تقاضا کرتے ہیں کہ توجہ دلانے پر ہر برائی سے بچنے کا عہد کرتے ہوئے لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھیں.نیکیوں پر خود بھی قدم ماریں اور اولاد کو بھی اس پر چلنے کی تلقین کریں اور اس کے لئے کوشش کریں.خدا تعالیٰ کے اس ارشاد اور انذار کو ہمیشہ سامنے رکھیں کہ يَا يُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا قُوْا أَنْفُسَكُمْ وَ أَهْلِيكُمْ نَارًا (سورة التحريم: 7) اے مومنو! اپنے آپ کو بھی اور اپنی اولاد کو بھی آگ سے بچاؤ.آج کل کی لہو و احب ہماری زندگی کا مقصد نہیں آج کل تو دنیا کی چمک دمک اور لہو ولعب، مختلف قسم کی برائیاں جو مغربی معاشرے میں برائیاں نہیں کہلا تیں لیکن اسلامی تعلیم میں وہ برائیاں ہیں ، اخلاق سے دو لے جانے والی ہیں، منہ پھاڑے کھڑی ہیں جو ہر ایک کو اپنی لپیٹ میں لینے کی کوشش کرتی ہیں.جیسا کہ میں نے کہا پہلے روشن خیالی کے نام پر بعض غلط کام کئے جاتے ہیں اور پھر وہ برائیوں کی طرف دھکیلتے چلے جاتے ہیں.تو یہ نہ ہی تفریح ہے، نہ آزادی بلکہ تفریح اور آزادی کے نام پر آگ کے گڑھے ہیں.اس لئے خدا تعالیٰ نے جو اپنے بندوں پر انتہائی مہربان ہے، مومنوں کو کھول کر بتا دیا کہ یہ آگ ہے، یہ آگ ہے اس سے اپنے آپ کو بھی

Page 16

13 بچاؤ اور اپنی اولادوں کو بھی بچاؤ.نوجوان لڑکے لڑکیاں جو اس معاشرے میں رہ رہے ہیں ان کو بھی میں کہتا ہوں کہ یہ تمہاری زندگی کا مقصد نہیں ہے.یہ نہ سمجھو کہ یہی ہماری زندگی کا مقصد ہے کہ اس لہو و لعب میں پڑا جائے ، یہی ہمارے لئے سب کچھ ہے.ایک احمدی ہونے کی حیثیت سے تمہارے میں اور غیر میں فرق ہونا چاہئے.اسی طرح ہر احمدی کو ہر قسم کے ظلم سے بچنے کی ضرورت ہے.آپس میں محبت اور نظام جماعت کی پابندی آپس میں محبت و پیار اور بھائی چارے کی بہت زیادہ ضرورت ہے.ہر قسم کے دھوکے سے اپنے آپ کو بچانے کی ضرورت ہے.نظامِ جماعت کی پابندی کی ضرورت ہے.جماعت احمدیہ کی خوبصورتی تو نظامِ جماعت ہی ہے.اگر اس خوبصورتی سے دور ہٹ گئے تو ہمارے میں اور غیر میں کیا فرق رہ جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ تم نمازیں فرمایا ہے کہ جماعت احمدیہ کی خوبصورتی تو نظام جماعت ہی ہے بھی نمازیں پڑھتے ہو وہ پڑھتے ہیں.تم روزے رکھتے ہو دوسرے مسلمان بھی روزے رکھتے ہیں.تم حج پر جاتے ہو دوسرے بھی حج پر جاتے ہیں.یا بعض صدقات بھی دیتے ہیں تو کوئی فرق ہونا چاہئے.ایک بڑا واضح فرق نظام جماعت ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ خلافت سے تو ہمارا وفا کا تعلق ہے لیکن جماعتی نظام سے اختلاف ہے.جماعتی نظام بھی خلافت کا بنایا ہوا نظام ہے.اگر کسی عہدیدار سے شکایت ہے تو خلیفہ وقت کولکھا جاسکتا ہے.اس کی شکایت کی جا سکتی ہے.لیکن نظام جماعت کی اطاعت سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی.

Page 17

14 عہد یدار سچی ہمدردی اور خیر خواہی کا سلوک کریں اسی طرح عہدیداروں کا بھی کام ہے کہ لوگوں کے لئے ابتلا کا سامان نہ بنیں.لوگوں کو ابتلا میں نہ ڈالیں اور سچی ہمدردی اور خیر خواہی سے ہر ایک سے سلوک کریں.-3 میرے سے منسوب ہونے کے لئے نمازیں شرط ہیں پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی شرائط بیعت میں نمازوں کی طرف توجہ دلائی ہے کہ میرے سے منسوب ہونے کے لئے نماز میں شرط ہیں.( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 159 جدید ایڈیشن مطبوعہ (ربوہ) اس بارے میں پہلے بھی بتا چکا ہوں.لیکن اس مضمون کو آپ نے نمازوں کے ساتھ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد کرو اور اس کے احسانوں کو ہمیشہ یا درکھو.4.نفسانی جوش کے تحت کسی کو تکلیف نہیں دینی پھر چوتھی شرط بیعت آپ نے بیان فرمائی کہ نفسانی جوش کے تحت نہ زبان سے نہ ہاتھ سے کسی کو تکلیف نہیں دینی.( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 159 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) 5- کسی حالت میں خدا تعالیٰ سے بے وفائی نہیں کرنی پھر آپ نے فرمایا کہ ہر حالت میں ہنگی کے حالات ہوں یا آسائش کے خدا تعالیٰ سے بے وفائی نہیں کرنی بلکہ اللہ تعالیٰ سے تعلق میں قدم آگے بڑھانا ہے.(مجموعہ اشتہارات جلد

Page 18

15 اول صفحہ 159 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ) جیسا کہ میں بیان کر آیا ہوں کشائش جو اللہ تعالیٰ نے اس ملک میں آنے کی وجہ سے آپ کو عطا فرمائی ہے اس کے حقیقی شکر گزار بندے بنیں.بعض لوگ آج کل کے معاشی حالات کی وجہ سے جو دنیا میں گزشتہ تقریباً دو سال سے عمومی طور پر چل رہے ہیں پریشانی کا شکار بھی ہیں.لیکن اس پریشانی میں بھی خدا تعالیٰ کا دامن نہیں چھوڑنا.یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کھول کر بیان فرمایا ہے.6 دنیا کی رسموں سے اپنے آپ کو بچائیں پھر ایک شرط یہ آپ نے رکھی کہ دنیا کی رسموں اور ہوا و ہوس سے اپنے آپ کو بچانا ہے.اور اللہ اور اس کے رسول کی کامل اطاعت کرنی ہے.( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 159 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) اب اللہ اور اس کے رسول کی کامل اطاعت کرنے کے لئے قرآنِ کریم کو پڑھنے کی ضرورت ہے.اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے تا کہ قرآن کریم میں اس کے جو حکم ہیں ان کو سمجھ کر ان پر عمل کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو.7.تکبر چھوڑ کر عاجزی اختیار کریں پھر ایک شرط یہ فرمائی کہ ہر قسم کا تکبر چھوڑ نا ہوگا اور عاجزی اختیار کرنی ہوگی.( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه 159 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) 8.دین کی عزت ہر عزیز سے زیادہ عزیز سمجھیں پھر آٹھویں شرط میں آپ فرماتے ہیں کہ اور دین اور دین کی عزت اور ہمدردی اسلام کو اپنی جان، مال اور عزت اور اولاد اور ہر ایک عزیز سے زیادہ عزیز سمجھ لیں.( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 160 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ) پس یہ ایک بہت اہم شرط ہے.ہر احمدی کو یا درکھنا

Page 19

16 چاہئے کہ وہ احمدی ہونے کے ناطے احمدیت کا نمائندہ ہے.اور ( دین حق کی حقیقی تصویر بننے کی اس نے کوشش کرنی ہے.غیر احمدی مسلمانوں کی نظریں بھی ہم پر ہیں اور غیر مسلموں کی نظریں بھی ہم پر ہیں.ہم یہ دعوی کر کے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں کہ ہم ( دین حق ) کی حقیقی تصویر ہیں.جب ہم ( دین حق ) کی حقیقی تصویر ہیں تو اسلام کی عزت کو قائم رکھنے کی ذمہ داری بھی ہمارے سپرد ہے.ہم نے ایک نمونہ بنا ہے.اور جب ہمارے نمونے ہوں گے تو تبھی ہم (دعوت الی اللہ ) کے میدان میں بھی ترقی کر سکتے ہیں.دین کی عزت اور اسلام کی ہمدردی ہم سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ اس عزت کو دنیا میں قائم کریں.میناروں کا ایشو ہر وقت زندہ رکھیں آج جب کہ ہر طرف اسلام کے خلاف محاذ کھڑے کئے گئے ہیں آپ اسلام کی حقیقی تصویر دنیا کے سامنے پیش کریں.اسلام مخالف لوگوں نے یہاں اس ملک میں بھی اسلام کو بدنام کرنے کا ایک طریق اختیار کیا ہے کہ مسلمانوں کی مسجدوں کے مینارے نہ بننے دیئے جائیں.اگر یہ مینارے ختم ہو گئے تو مسلمانوں کے جرائم اور ان کی دنیا میں فساد پیدا کرنے کی جوساری activities ہیں وہ بقول ان کے ختم ہو جائیں گی.بے شک یہ میناروں کا فیصلہ تو ہو چکا ہے.لیکن اس ایشو کو ہر وقت زندہ رکھیں.وقتاً فوقتاً اخباروں میں لکھیں سیمینار کریں یا اور مختلف طریقوں سے اس طرف لوگوں کی توجہ کراتے رہیں.جس طرح توجہ سے انہوں نے ریفرینڈم کروا کر یہ قانون پاس کروایا ہے اسی طرح ریفرینڈم سے قانون ختم بھی ہو سکتا ہے.بے شک میناروں کی اپنی کوئی اہمیت نہیں ہے.یہ تو بہت بعد میں بننے شروع ہوئے ہیں لیکن یہاں اسلام کی عزت کا سوال ہے کہ اسلام کو میناروں کے نام پر بدنام کیا جارہا ہے.اس لئے

Page 20

17 مسلسل کوشش ہوتی رہنی چاہئے.جماعت احمدیہ کی مثال دنیا کے سامنے پیش کریں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے 195 ممالک میں جماعت قائم ہے.کسی ایک جگہ بھی مثال دو، یہاں سوئٹزر لینڈ میں ہی مثال دو کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے کبھی کوئی قانون شکنی کی گئی ہو یا کسی بھی فساد میں جماعت نے حصہ لیا ہو، یا حکومت کے خلاف کسی بغاوت میں شامل ہوئے ہوں.بلکہ قوانین کی مکمل پابندی کی جاتی ہے.ہم ہیں جو ( دین حق ) کی حقیقی تصویر پیش کرنے والے ہیں.ذاتی رابطوں سے اپنے تعلقات کو بھی وسیع کریں.اپنے گھروں میں بیٹھ کر اپنے ماحول میں نہ بیٹھے رہیں.جن کو زبان آتی ہے، جن کے اردگرد ماحول میں شرفاء ہیں وہ اس ماحول میں رابطے کریں.تبلیغی میدان کو وسیع کریں.جن کو صحیح طرح زبان نہیں آتی وہ کوئی لٹریچر لے کر تقسیم کرنا شروع کر دیں.بہر حال پوری جماعت کے ہر فرد کو اس بات میں اپنے آپ کو ڈالنا ہوگا.تبھی آپ کی تھوڑی تعداد بھی جو ہے وہ مؤثر کردارادا کرسکتی ہے.کیونکہ اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنا اور تبلیغ کی مہم میں اسلام کی اور دین کی عزت اور عظمت قائم کرنا ضروری ہے.جب تک ہم ایک مسلسل جدوجہد کے ساتھ اپنی تعداد میں اضافے کی کوشش نہیں کرتے ہم دین کی عزت قائم کرنے اور اسلام کی ہمدردی کا حق ادا نہیں کر سکتے یا حق ادا کرنے کی کوشش کرنے والے نہیں کہلا سکتے.پر دو عورت کی عزت کے لئے ہے اسی طرح آج کل یورپ میں اسلام کو بدنام کرنے کا ایک ایشو پر دے کا بھی اٹھا ہوا ہے.ہماری بچیاں جو ہیں اور عورتیں جو ہیں ان کا کام ہے کہ اس بارے میں ایک مہم کی صورت میں اخباروں میں مضامین اور خطوط لکھیں.انگلستان میں یا جرمنی وغیرہ میں بچیوں نے اس

Page 21

18 بارے میں بڑا اچھا کام کیا ہے کہ پردہ عورت کی عزت کے لئے ہے اور یہ تصور ہے جو مذہب دیتا ہے، ہر مذہب نے دیا ہے کہ عورت کی عزت قائم کی جائے.بعضوں نے تو پھر بعد میں اس کی صورت بگاڑ لی.عیسائیت میں تو ماضی میں زیادہ دور کا عرصہ بھی نہیں ہوا جب عورت کے حقوق نہیں ملتے تھے اور اس کو پابند کیا جاتا تھا، بعض پابندیوں میں جکڑا ہوا تھا.تو بہر حال یہ عورت کی عزت کے لئے ہے.عورت کی یہ فطرت ہے کہ وہ اپنی عزت چاہتی ہے اور ہر شخص چاہتا ہے لیکن عورت کا ایک اپنا وقار ہے جس وقار کو وہ قائم رکھنا چاہتی ہے اور رکھنا چاہئے.اور اسلام عورت کی عزت اور احترام اور حقوق کا سب سے بڑا علمبر دار ہے.پس یہ کوئی جبر نہیں ہے کہ عورت کو پردہ پہنایا جاتا ہے یا حجاب کا کہا جاتا ہے.بلکہ عورت کو اس کی انفرادیت قائم کرنے اور مقام دلوانے کے لئے یہ سب کوشش ہے.احمدی بچیوں کو نصیحت کہ فیشن کی رو میں نہ بہہ جائیں اس کے ساتھ ہی میں ان احمدی لڑکیوں کو بھی کہتا ہوں جو کسی قسم کے complex میں مبتلا ہیں کہ اگر دنیا کی باتوں سے گھبرا کر یا فیشن کی رو میں بہہ کر انہوں نے اپنے حجاب اور پر دے اتار دیئے تو پھر آپ کی عزتوں کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہوگی.آپ کی عزت دین کی عزت کے ساتھ ہے.میں پہلے بھی ایک مرتبہ ایک واقعہ کا ذکر کر چکا ہوں.اس طرح کے کئی واقعات ہیں.ایک احمدی بچی کو اس کے باس (Boss) نے نوٹس دیا کہ اگر تم حجاب لے کر دفتر آئی تو تمہیں کام سے فارغ کر دیا جائے گا اور ایک مہینہ کا نوٹس ہے.اس بچی نے دعا کی کہ اے اللہ ! میں تو تیرے حکم کے مطابق یہ کام کر رہی ہوں اور تیرے دین پر عمل کرتے ہوئے یہ پردہ کر رہی ہوں.کوئی صورت نکال.اور اگر ملازمت میرے لئے اچھی نہیں

Page 22

19 تو ٹھیک ہے پھر کوئی اور بہتر انتظام کر دے.تو بہر حال ایک مہینہ تک وہ افسر اس بچی کو تنگ کرتا رہا کہ بس اتنے دن رہ گئے ہیں اس کے بعد تمہیں فارغ کر دیا جائے گا.اور یہ بچی دعا کرتی رہی.آخر ایک ماہ کے بعد یہ بچی تو اپنی کام پر قائم رہی لیکن اس افسر کو اس کے بالا افسر نے اس کی کسی غلطی کی وجہ سے فارغ کر دیا یا دوسری جگہ بھجوا دیا اور اس طرح اس کی جان چھوٹی.اگر نیت نیک ہو تو اللہ تعالیٰ اسباب پیدا فرما دیتا ہے.اگر اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے تو خدا تعالیٰ ایسے طریق سے مدد فرماتا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے اور بے اختیار اللہ تعالیٰ کی حمد کے الفاظ دل سے نکلتے ہیں.9.خلق اللہ سے ہمدری پھر نویں شرط میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خلق اللہ سے ہمدری اور بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچانے کا لکھا ہے.( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 160 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ) یہ بھی حقیقی رنگ میں اس وقت ہو سکتا ہے جب خالص ہمدردی کے جذبے کے تحت دنیا کو خدا تعالی کے قریب کرنے کی کوشش کریں اور انہیں کامل اور مکمل دین کے بارے میں بتا ئیں.اور یہ اس وقت ہوگا جب پیغام پہنچانے والے کے اپنے عمل بھی اس تعلیم کے مطابق ہوں گے.اور پھر ایک درد کے ساتھ ماحول میں پیغام پہنچانے کی کوشش کریں گے.10.مجھ سے اطاعت اور تعلق سب دنیا وی رشتوں سے زیادہ ہو شرائط بیعت کی آخری شرط میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ مجھ سے اطاعت اور تعلق سب دنیاوی رشتوں سے زیادہ ہو.(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 160 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ) پس ہر ایک کو جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ ہمارے رشتے ، ہماری

Page 23

20 20 عزیز داریاں، ہمارے تعلقات، ہماری قرابت داریاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تعلق میں حائل تو نہیں ہور ہے اور اس کے معیار کا علم ہمیں اس وقت ہوگا جب ہم آپ کی تعلیم ( جو اسلام کی حقیقی تعلیم ہے ) کا جو مکمل طور پر اپنے گلے میں ڈالنے والے ہوں گے یا اس کے لئے کوشش کرنے والے ہوں گے.آپ نے اپنے بعد جس قدرتِ ثانیہ کے آنے کی خوشخبری دی تھی جو دائی ہو گی اس قدرت ثانیہ یعنی خلافت کے ساتھ کامل اطاعت اور وفا کا نمونہ بھی آپ دکھا ئیں گے.اگر ہر ایک حقیقی تعلق کو قائم رکھنے کا عہد کرے گا تو وہ حقیقت میں آپ کی جماعت میں شمار ہوگا ورنہ احمدیت کا صرف لیبل ہے.یہ نہ ہو کہ بعد میں آنے والے احمدی آگے نکل کر ان برکات سے فیض پالیں اور پرانے احمدی جن کے باپ دادا نے قربانیاں دے کر احمدیت کے چشمے اپنے گھروں میں جاری کئے تھے وہ اس چشمے سے محروم ہو جائیں.پس بہت دعاؤں اور توجہ کی ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ”یقینا سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ لوگ پیارے نہیں ہیں جن کی پوشاکیں عمدہ ہیں اور وہ بڑے دولت مند اور خوش خور ہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ پیارے ہیں جو دین کو دنیا پر مقدم کر لیتے ہیں اور خالص خدا کے لئے ہی ہو جاتے ہیں.پس تم اس امر کی طرف توجہ کرو، نہ پہلے امر کی طرف.پھر آپ فرماتے ہیں.” وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ- یعنی اور وہ لوگ جنہوں نے تیری پیروی کی ان لوگوں پر جنہوں نے تیرا انکار کیا قیامت تک غالب رکھوں گا“.یہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دو تین دفعہ ہوا.قرآن کریم کی آیت بھی ہے.اور 1883ء میں شاید اس وقت پہلی دفعہ ہوا جب آپ کی جماعت کی ابھی بنیاد بھی نہیں پڑی تھی.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس ضمن میں

Page 24

21 21 پھر فرماتے ہیں کہ وہ میرے متبعین کو میرے منکروں اور مخالفوں پر غلبہ دے گا لیکن غور بات یہ ہے کہ متبعین میں سے ہر شخص میرے ہاتھ پر بیعت کرنے سے داخل نہیں ہوسکتا.جب تک اپنے اندر وہ اتباع کی پوری کیفیت پیدا نہیں کرتا متبعین میں داخل نہیں ہوسکتا.ایسی پیروی کہ گویا اطاعت میں فنا ہو جاوے اور نقشِ قدم پر چلے.اس وقت تک اتباع کا لفظ صادق نہیں آتا.فرماتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایسی جماعت میرے لئے مقدر کی ہے جو میری اطاعت میں فنا ہو اور پورے طور پر میری اتباع کرنے والی ہو.“ فرمایا ” یہ ضروری امر ہے کہ میں تمہیں توجہ دلاؤں کہ تم خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق پیدا کرو اور اس کو مقدم کر لو اور اپنے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک جماعت کو ایک نمونہ سمجھو.ان کے نقش قدم پر چلو.( ملفوظات جلد 4 صفحہ 597-596 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہمارے سے یہ توقعات ہیں.اگر ہم حقیقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تعلق جوڑنا چاہتے ہیں تو ہمیں آپ کی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے.حقیقی متبع بننے کے لئے اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے.بوڑھوں ،عورتوں، نو جوانوں کو اپنے جائزے لینے ہوں گے.والدین پیار سے بچوں کی نگرانی کریں والدین کو اپنے گھروں کی نگرانی کرنی ہوگی.بچوں کے اٹھنے بیٹھنے اور نقل و حرکت پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے.پیار سے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم سے آگاہ کریں.یہ ماؤں کا بھی کام ہے، باپوں کا بھی کام ہے.ایک احمدی مسلمان اور ایک غیر

Page 25

22 22 احمدی مسلمان کے فرق کو واضح کرنے کی ضرورت ہے.جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ کیا فرق ہے.اگر ہمارے اندر کوئی واضح فرق نظر نہیں آتا.علاوہ ایک نظام کے ہمارے عمل میں بھی ایک واضح فرق ہونا چاہئے.اسی طرح جیسا کہ میں نے کہا کہ جماعتی نظام اور تمام ذیلی تنظیموں کو اپنے دائرے میں فعال تربیتی پروگرام بنانے کی ضرورت ہے.اگر صرف دولت کمانے اور دنیاوی آسائشوں اور چمک دمک کے حصول میں زندگیاں گزار دیں تو یہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکر گزاری ہے.جن میں سے سب سے بڑی نعمت جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی ہے وہ حضرت مسیح موعود کو قبول کرنا ہے، ان کی بیعت میں آنا ہے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو حقیقی احمدی بننے کی توفیق عطا فرمائے اور وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے حصہ لیتار ہے.آمین خطبہ جمعہ 23 اپریل 2010ء)

Page 26

نظام جماعت کی پابندی " آپس میں محبت و پیار اور بھائی چارے کی بہت زیادہ ضرورت ہے.نظام جماعت کی پابندی کی ضرورت ہے.جماعت احمدیہ کی خوبصورتی تو نظام جماعت ہی ہے.اگر اس خوبصورتی سے دور ہٹ گئے تو ہمارے میں اور غیر میں کیا فرق رہ جائے گا.ایک بڑا واضح فرق نظام جماعت ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ خلافت سے تو ہمارا وفا کا تعلق ہے لیکن جماعتی نظام سے اختلاف ہے.جماعتی نظام بھی خلافت کا بنایا ہوا نظام ہے.اگر کسی عہد یدار سے شکایت ہے تو خلیفہ وقت کو لکھا جا سکتا ہے.اس کی شکایت کی جاسکتی ہے.لیکن نظام جماعت کی اطاعت سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی.عہد یدار سچی ہمدردی اور خیر خواہی کا سلوک کریں اسی طرح عہدیداروں کا بھی کام ہے کہ لوگوں کے لئے ابتلا کا سامان نہ بنیں.لوگوں کو ابتلا میں نہ ڈالیں اور سچی ہمدردی اور خیر خواہی سے ہر ایک سے سلوک کریں.“

Page 26