Language: UR
آنحضورﷺ کے خلق عظیم کے بے شمار شعبے اور پہلو ہیں ، زیر نظر کتاب میں مؤلف نے فتح خیبر اور فتح مکہ کے واقعات کے بیان میں آنحضور ﷺ کے غزوات میں ظاہر ہونے والے خلق عظیم کے مثالی پہلوؤں کی منظر کشی پیش کی ہے ۔یوں یہ مختصر کتاب سیرت و سوانح دونوں مقاصد پوری کر رہی ہے۔
غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خُلق عظیم فتح خیبر اور فتح مکه حافظ مظفر احمد
3 فتح خیبر
5 فتح خیبر کی پیشگوئی : فتح خیبر کا واقعہ ذو القعدہ سن ۶ ہجری کا ہے.جس کے صرف دو تین ماہ بعد ہی اواخر محرم ۷ھ میں خیبر کا غزوہ ہوا.قرآن شریف ان واقعات کا ذکر کرتے ہوئے اور فتح خیبر کو حدیبیہ کا نتیجہ اور انعام قرار دیتے ہوئے فرماتا ہے.لَقَدْ رَضِيَ الله عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْيُبَا يَعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَانْزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَ أَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا وَمَعَانِمَ كَثِيرَةٌ يَأْخُذُونَهَا وَكَانَ اللهُ عَزِيزًا حَكِيمًا وَعَدَكُمُ اللهُ مُغَانِمَ كَثِيرَةٌ تَأخُذُونَها فَعَجَلَ لَكُمْ هُذِهِ وَ كَفَّ أَيْدِيَ النَّاسِ عَنْكُمْ وَلِتَكُونَ أيَةً لِلْمُؤْمِنِينَ وَيَهْدِيَكُمْ صِرَاطًا تُستَقِيَّماه ( الفتح ۱۹ تا ۲۱) ترجمہ: اللہ مومنوں سے اس وقت بالکل خوش ہو گیا جب کہ وہ درخت کے نیچے تیری بیعت کر رہے تھے اور اس نے اس (ایمان) کو جو ان کے دلوں میں تھا خوب جان لیا.سو اس کے نتیجہ میں اس نے ان کے دلوں پر سکینت نازل کی اور ان کو ایک قریب میں آنے والی فتح بخشی (یعنی خیبر) اور بہت سے غنیمت کے مال بھی بخشے جن کو وہ قبضہ میں لا رہے تھے اور اللہ غالب اور حکمت والا ہے.اللہ نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کیا ہے جو تم اپنے قبضہ میں لاؤ گے اور یہ موجودہ مال غنیمت (خیبر) تم کو ان وعدوں میں سے جلدی سے عطا کر دیا ہے.اور لوگوں کے ہاتھوں کو ( صلح حدیبیہ کے ذریعہ) تم سے روک دیا ہے.تاکہ یہ (واقعات) مومنوں کیلئے ایک نشان بن جائیں اور وہ (اللہ) تم کو اس کے ذریعہ سے سیدھا راستہ دکھائے.
خلق فتح خیبر کے اس مضمون میں محض خیبر کے حالات بیان کرنا مقصود نہیں بلکہ اس فتح میں آنحضور میل کے ظاہر ہونے والے اخلاق کا ذکر خیر ہو گا.کیونکہ اللہ جل شانہ ہمارے نبی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے إِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عظيم (ن:۶) کہ تو ایک بزرگ خلق پر قائم ہے.یعنی اخلاق کی تمام قسمیں، سخاوت، شجاعت، عدل، رحم، احسان صدق، حوصلہ وغیرہ سب تجھ میں جمع ہیں.رسول کریم میں کی شریک حیات حضرت عائشہ کا یہ بے ساختہ بیان آپ کے اخلاق کی خوب الله شير عکاسی کرتا ہے کہ آپ کے اخلاق قرآن تھے..گویا رسول اللہ میں کی کتاب زندگی قرآن شریف کی عملی تفسیر ہے.جس کا ورق ورق اخلاق فاضلہ کے چمکتے ہوئے بے مثل موتیوں سے سجا ہوا ہے.فتوحات نبوی میں اخلاق رسول کا مضمون شروع کرتے ہوئے یہ ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا ارادہ اپنے انبیاء اور اولیاء کی نسبت یہ ہوتا ہے کہ ان سے ہر قسم کے اخلاق صادر ہوں.اس لئے ان پر تنگی اور مصیبت کے زمانہ کے بعد فتح اور اقبال کا زمانہ بھی آتا ہے.جہاں ان کے اخلاق خوب آزمائے جاتے ہیں اور ہمارے آقا و مولا حضرت محمد علی ایم کے اخلاق اس آزمائش پر سب سے بڑھ کر پورے اترے.پس ہمارے سید و مولا کے مکارم اخلاق کی عظمت یہ ہے کہ وہ حالات کی تبدیلی اور زمانہ کے انقلاب کے باوجود اپنے حسین جلوے دکھاتے نظر آتے ہیں.مشکلات کے پہاڑ اور مصائب کے طوفان اس کو ہ استقامت کو ہلا نہیں سکتے اور فتوحات اور کامرانیوں کے نظارے اس کوہ وقار میں ذرہ برابر جنبش پیدا نہیں کر سکتے.تکلف اور تصنع سے پاک مَا أَنَا مِنَ
الْمُتَكَلِّفِينَ (ص: ۸۰) کے مصداق ایسے کامل اور بچے اخلاق میں بلاشبہ (ص:۸۰) خدائی شان جلوہ گر نظر آتی ہے اور ہر صاحب بصیرت انسان بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ اے آقا تیرے روشن و تاباں چہرے میں ایسی شان اور عظمت ہے جو انسانی شمائل اور اخلاق سے کہیں بڑھ کر ہے.فتح خیبر کے مضمون کی طرف واپس آتے ہوئے یہ ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ صلح حدیبیہ خیبر کا پیش خیمہ ثابت ہوئی اور حدیبیہ کے بعد تین ماہ کی قلیل مدت میں ہی خیبر فتح ہو گیا.چنانچہ اللہ تعالٰی خیبر کو فتح قریب کے الفاظ سے یاد کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ حدیبیہ میں مسلمانوں کے صبرو استقامت اور جذبات کی قربانی کے مظاہرہ پر خوش ہو کر اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت جلد اپنے وقت سے بھی پہلے یہ فتح بطور انعام عطا فرمائی ہے.اس جگہ خیبر کے حالات کو سمجھنے کے لئے پس منظر اور دیباچہ کے طور پر یہود کے ساتھ بعض دوسرے غزوات اور غزوہ خیبر کے بعض واقعات کا بیان ناگزیر ہے.یہود مدینہ اور رسول اکرم :.آپ جانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ تشریف لانے کے بعد یہود کے تین قبائل بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ کے ساتھ امن و صلح سے رہنے کا معاہدہ کیا.یہود کے یہ تینوں قبیلے مدینہ کے جنوب مشرق میں چار پانچ میل کے اندر پھیلے ہوئے تھے.۶ ھ میں بدر میں مسلمانوں کی فتح کے بعد یہود کے تیور بدلنے شروع ہوئے اور انہوں نے مدینہ کے مشرکین اور منافقین سے مل کر مسلمانوں کے خلاف سازشیں اور ریشہ دوانیاں شروع کر دیں.یہود بنو قینقاع اس میں پیش پیش تھے.جب اس معاہدہ شکنی ، فساد اور بے حیائی کی ان سے پوچھ گچھ کی گئی تو وہ
قلعہ بند ہو کر مسلمانوں سے جنگ کے لئے تیار ہو گئے.اس کی سزا ان کی شریعت کے مطابق تو یہ تھی کہ ان کے جنگجو مردوں کو قتل اور عورتوں اور بچوں کو قید کر لیا جائے.(استثناء ۲۰/۱۳).لیکن یہ نبی کا احسان شفقت اور وسعت حوصلہ تھا کہ آپ نے ان کی جان بخشی فرما دی.لیکن چونکہ مدینہ میں ان کا رہنا خطرناک تھا اس لئے آپ میں نے بنو قینقاع کو مدینہ سے چلے جانے کا حکم دیا.۳ھ میں یہود کے سب سے بڑے قبیلے بنو نضیر کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف اہل مکہ سے ساز باز رکھنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقدام قتل کے منصوبہ کی صورت میں بد عہدی ظاہر ہوئی.(بخاری کتاب المغازی) جب ان سے مواخذہ کیا گیا تو وہ بھی قلعہ بند ہو کر مسلمانوں بر سر پیکار ہو گئے اور پندرہ دن بعد انہوں نے مال و اسباب سمیت مدینہ سے نکل جانے کی شرط پر قلعوں کے دروازے کھول دیئے.ابن هشام جلد ۳ صفحه ۲۴۱۴۲۴۰) آنحضرت ملی وی کا اصل مقصد چونکہ ان کی شرارتوں کا سد باب تھا اس لئے آپ نے یہ شرط مان لی.اور آٹھ میں بنو نضیر کے یہودی اپنے اہل و عیال ، تمام تر مال و اسباب اور سونے چاندی کے قیمتی زیورات وغیرہ ساتھ لیکر ڈھول باجے بجاتے اور قومی گیت گاتے ہوئے بڑی شان اور طمطراق کے ساتھ مدینہ سے نکلے.(۱- زرقانی جلد ۲ (۸) ii.حیات محمد صفحه ۲۶۳) یہود کے سردار سلام بن ابی الحقیق نے اپنا قیمتی خزانہ مسلمانوں کو دکھاتے ہوئے کہا ایسے نازک حالات کیلئے ہم نے یہ مال جمع کر رکھا تھا.یہودی جانتے تھے کہ رسول اللہ مالی عہد کے پابند ہیں وہ ہمارے مال و اسباب سے تعریض نہیں کریں گے اور ہمارے مال محفوظ ہیں اس لئے اعلانیہ مال دکھا دکھا
کرلے گئے.بنو نضیر کے سرداروں میں سے حیی بن اخطب کے ساتھ کنانہ بن ربیع اور سلام بن ابی الحقیق اپنے خاندان سمیت خیبر کے قلعہ بند شہر میں جا کر آباد ہو گئے اور ایک قلعہ کی سرداری حاصل کرلی.مدینہ سے یہود کے اخراج کے بارہ میں مسٹر منٹگمری واٹ جیسا معاند اسلام بھی تسلیم کرتا ہے کہ :."یہود کو ان کے مخالفانہ طرز عمل اور محمد ( م ) کے خلاف سازشیں کرنے کی وجہ سے مدینہ سے نکالا گیا." (محمد ایٹہ مدینہ صفی ۲۲) قبیلہ بنو نضیر اپنی اس جلاوطنی کی وجہ سے اسلام کا پہلے سے کہیں بڑھ کر دشمن ہو چکا تھا اسی انتقام کی آگ میں جلتا ہوا اس قبیلہ کا سردار حیی بن اخطب مسلسل قبائل عرب اور اہل مکہ کو آنحضور میں لیا اور اسلام کے خلاف اکساتا رہتا تھا.حیی بن اخطب کی اشتعال انگیزیوں کے نتیجہ میں ہی جنگ احزاب میں سارا عرب متحد ہو کر مسلمانوں پر حملہ آور ہوا تھا.(اور کمزور نہتے مسلمانوں نے شہر کے گرد خندق کھود کر اپنا دفاع کیا تھا، صرف یہی نہیں.بلکہ حیی بن اخطب نے مدینہ کے نواح میں بسنے والے آخری یہودی قبیلہ بنو قریظہ کو بھی مسلمانوں کے خلاف اکسا کر غداری پر آمادہ کر لیا.جس ، مسلمانان مدینہ کو اپنی جانوں کی حفاظت کا بہت بڑا خطرہ پیدا ہو گیا کیونکہ انہوں نے بنو قریظہ سے معاہدہ کی وجہ سے ان کی سمت کو محفوظ خیال کرتے ہوئے اس طرف خندق نہیں کھودی تھی.اللہ تعالیٰ نے ان لشکروں کو تو پسیا کرنے کے سامان کر دیئے لیکن اس طرح اس موقع پر یہود خیبر کی کھلم کھلا عداوت اور بنو قریظہ کی غداری اور بغاوت کھل کر سامنے آگئی.(ابن ہشام جلد ۳ صفحه (۲۶) احزاب کے بعد آنحضرت ملی اور بنو قریظہ کو ان کی غداری اور
10 محاربت پر گرفت کرنے نکلے تو وہ بھی قلعہ بند ہو گئے اور بالاخر انہوں نے رحمتہ اللعالمین میں ایم کیو ایم کی بجائے حضرت سعد بن معاذ انصاری کو (جو اسلام قبل ان کے حلیف رہ چکے تھے ) اپنا فیصلہ کرنے کیلئے حکم مانا اور حضرت سعد نے یہودی شریعت کے مطابق بنو قریظہ کے لڑنے والے مردوں کو قتل اور عورتوں کو قیدی بنانے کا فیصلہ دیا.(بخاری کتاب المغازی) بنو قریظہ اپنا فیصلہ رسول کریم ملی وی کے رحم و کرم پر چھوڑتے تو شاید وہ اس انجام کو نہ پہنچتے.شمال اور جنوب کے فتنے : مدینہ کے اندرونی خلفشار کے دور ہو جانے کے بعد بھی اس زمانہ میں اسلام کے خلاف دو بڑے فتنے اندر ہی اندر پنپ رہے تھے اور کسی بھی وقت شمال اور جنوب کی سمتوں سے سر اٹھانے کو تیار تھے.شمال کی جانب مدینہ سے صرف سو ڈیڑھ سو میل کے فاصلہ پر بڑا خطرہ خیبر اور اس کے ماحول میں بسنے والے یہود کی طرف سے تھا اور جنوب کی طرف سے پیش آنے والا خطرہ قریش مکہ کا تھا جو بعض جنگجو مشرک عرب قبائل کو ساتھ ملا کر مسلمانوں کے خلاف ایک فیصلہ کن حملہ کی تیاری کر رہے تھے.سنہ ۶ھ میں صلح حدیبیہ کے ذریعہ قریش مکہ کی طرف سے حملہ کا خطرہ وقتی طور پر ٹل گیا اور اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کو شمال کی طرف سے نمودار ہونے والے یہود خیبر کے خطرہ سے نبٹنے کیلئے فارغ کر دیا.فتح حدیبیہ سے واپسی پر آنحضرت مال کو فتح خیبر اور مال غنیمت کا وعدہ دیا گیا تھا.جس سے سرولیم میور نے کلام الہی کی پیشگوئیوں کو نہ سمجھنے اور ان کو عقل کے پیمانوں سے ناپنے کی وجہ سے دھوکا کھایا.وہ اپنی کتاب " لائف آف محمد" میں لکھتا ہے کہ حدیبیہ سے واپسی پر محمد متی ) نے اپنے (
11 ساتھیوں کو بہت زیادہ مال غنیمت کی امید دلائی تھی.غالبا خیبر کے یہودیوں یا ان کے حلیف بنو خطفان کی طرف سے کسی اشتعال انگیزی کا انتظار تھا.لیکن جب ایسی کوئی حرکت نہ ہوئی تو محمد نے بلاوجہ ان پر حملہ کر دیا." (لائف آف محمد صفحه ۳۸۸) یہود خیبر اور ان کے حلیفوں کی اشتعال انگیزی کی نشاندہی سے سرولیم میور کے دل کا چور تو پکڑا گیا ہے.اب تاریخی حقائق یہ فیصلہ کریں گے کہ خیبر پر حملہ حدیبیہ کی شکست کا بدلہ لینے اور حصول غنیمت کی خاطر تھا یا شمالی جانب سے یہود خیبر کے اچانک حملہ کے خطرہ سے محفوظ رہنے کیلئے مسلمانوں کا ایک دانشمندانہ اور دفاعی اقدام! جہاں تک حدیبیہ کے واقعہ کا تعلق ہے یہ مفروضہ مغربی مصنفین کا خود تراشیدہ ہے.قرآن شریف نے حدیبیہ کو فتح مبین" سے یاد کیا ہے اور بعد کے حالات نے بھی اسے عظیم الشان فتح ثابت کیا.پھر مسلمان اسے شکست کیونکر سمجھ سکتے ہیں.رہا خیبر کے مال غنیمت لوٹنے کا اعتراض تو قرآن شریف نے اس کا جواب پہلے ہی دے دیا ہے.چنانچہ یہ حیرت انگیز بات ہے کہ صرف خیبر ہی غزوہ ہے جس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے رسول کریم میں کو ہدایت فرمائی کہ اس غزوہ میں وہ بعض منافق بھی (جو عام طور پر جنگوں سے پیچھے رہتے ہیں) مال غنیمت کے لالچ میں ساتھا جانا چاہیں گے تم ان کو ساتھ نہ لے جانا.چنانچہ آنحضرت میں نے جب خیبر کی تیاری کا حکم دیا تو یہ اعلان فرمایا کہ.”ہمارے ساتھ کوئی شخص جہاد کے علاوہ غنیمت وغیرہ کے کسی ارادہ سے نہ نکلے" (سيرة الحلبيه جزم صفحه ۳۶) اور صرف یہ اعلان ہی نہیں کیا بلکہ اس کی تعمیل کیلئے عملی کار روائی یہ فرمائی کہ حدیبیہ میں شامل افراد ہی کو خیبر کی تیاری کا حکم فرمایا جو خلوص نیت سے حج اور
12 عمرہ کے ارادہ سے نکلے تھے.جنگی نقطہ نگاہ سے فوج کی تعداد پر ایسی پابندی بظاہر نامناسب معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس سے مسلمانوں کی سپاہ کی تعداد صرف حدیبیہ میں شامل ڈیڑھ ہزار مسلمانوں میں محدود ہو کر رہ جاتی ہے جب کہ خیبر میں دس ہزار کی قلعہ بند اور زبر دست مسلح یہودی فوج سے مقابلہ در پیش ہے.(سيرة الحلبيه جلد ۳ صفحه ۳۸) غنیمت تو فتح کا لازمی نتیجہ ہے.لیکن کیا جارحانہ اقدام کرنے والوں اور مال غنیمت لوٹنے والوں کا یہی طریق ہوا کرتا ہے کہ مختلف پابندیاں اور قیود لگا کر ساتھ نکلنے والے سیاہیوں کو روک دیا جائے؟ یہ حد بندیاں تو ہر گز مسلمانوں کے موافق نظر نہیں آتیں.لیکن علم و حکمت میں بے نظیر اس مدبر جرنیل کا یہ فیصلہ بھی ہمیشہ کی طرح اصولوں پر مبنی تھا.وہ تو ایک بااصول سالار تھے.آپ نے لالچ اور طمع سے بے نیاز مٹھی بھر پاکبازوں کی جماعت کو ساتھ لے لیا لیکن غنیمت کے لالچ میں ہمراہ ہونے والے ایک لشکر کو پیچھے چھوڑ دیا اور اسے ہمرکاب رکھنا تک گوارا نہ کیا.کیونکہ آپ کا بھروسہ اور توکل سپاہیوں اور تعداد پر نہیں بلکہ اپنے خدا پر ہوا کرتا تھا اور آپ کی لڑائی یا صلح مال غنیمت یا دنیوی جاہ و حشمت کی غرض سے نہیں بلکہ خدا کے نام کی عظمت اور بلندی کیلئے ہوا کرتی تھی.غزوہ خیبر کے اسباب : خیبر کی طرف رسول اکرم میں کی پیش قدمی کی وجوہات بھی اپنے جلو میں خلق عظیم کے کئی حسین نمونے رکھتی ہیں.خیبر میں یہود کی خود مختار ریاست قائم تھی اور بنو نضیر کے سرداروں نے مدینہ سے جلاوطنی کے بعد خیبر کے قلعہ بند شہر کو مسلمانوں کے خلاف سازشوں اور سرگرمیوں کا مرکز بنا لیا تھا.
13.مدینہ پر حملہ کی تیاری : بنو نضیر کا سردار حی بن اخطب جنگ قریظہ میں مارا گیا اور ابو رافع سلام بن الی الحقیق اس کا جانشین ہوا.دیگر یہودی سرداروں کے ساتھ مل کر اس نے غزوہ احزاب کے موقع پر قریش کو مدینہ پر حملہ کیلئے تیار کیا تھا.(زرقانی جلد ۲ صفحه ۱۶۵) اس نے ۶ھ میں عرب قبائل غطفان کو جو خیبر سے کچھ فاصلے پر جنوب مشرق میں آباد تھے اور ہمیشہ سے یہود کے حلیف تھے مال و دولت کا لالچ دے کر مسلمانوں کے خلاف مقابلہ کیلئے آمادہ کیا.یہاں تک کہ ایک بہت بڑی فوج لے کر مدینہ پر حملہ کی تیاریاں کیں.(دلائل النبوة جلد ۴ صفحه ۳۸) یہود کی سازش جنگ کھل کر سامنے آگئی اور خیبر کا یہودی شاعر سماک اعلانیہ کہنے لگا.فَإِنْ لَّا اَمَتْ نَأْتِكُمْ بِالْقَنَا وَكُلّ حُسَامٍ مَعًا مُرهف بِكَفِّ كَمِي بِهِ يَحْتَمِي مَتى يَلْقَ قَرْنَالَهُ يَتْلَفَ کہ اگر زندگی نے وفا کی تو اے مسلمانو! ہم تم پر تیز تلواریں اور نیزے لے کر حملہ آور ہوں گے جو ایسے بہادر لوگوں کے ہاتھ میں ہیں جو مد مقابل کو ہلاک کر کے ہی چھوڑتے ہیں.اور برملا کہا کہ وقت اور زمانہ مسلمانوں سے جو عادل و منصف بنے پھرتے ہیں بنو نضیر اور ان کے حلیفوں کے قتل کا انتقام لیں گے.(ابن ہشام جلد ۳ صفحه ۲۳۳٬۲۲۴)
14 ان تمام اشتعال انگیزیوں کے باوجود رسول کریم ملی کا ہی حوصلہ تھا کہ آپ نے خیبر کی طرف پیش قدمی نہیں فرمائی.دراصل تمام غزوات میں آپ کی یہ کریمانہ شان نظر آتی ہے کہ آپ خون خرابہ سے بچنے کی کوشش فرماتے تھے.چنانچہ یہود کی ہولناک سازشوں کا علم ہونے پر آپ نے خیبر پر حملہ کر کے انسانی جانیں تلف کرنے کے بجائے یہ مدافعانہ قدم اٹھانا پسند کیا کہ یہود کی اس مفسد قیادت کو ختم کر دیا جائے جو مسلمانوں کے خلاف محاذ آرائی چاہتی ہے.چنانچہ ۶ھ میں یہودی سردار ابو رافع آپ کے ایماء سے سوتا ہوا مارا گیا.(کتاب المغازی) ابو رافع کے بعد اسیر بن رزام یہود کی مسند ریاست پر بیٹھا اس نے یہود کو جمع کر کے کہا میرے پیش روؤں نے مسلمانوں کے مقابلہ میں صحیح قدم نہیں اٹھایا.اب ہم محمد (میلی ) کے دارالخلافہ پر براہ راست حملہ کریں گے اور اس کے لئے اس نے ایک لشکر بھی تیار کیا.(زرقانی جز ۲ صفحه ۱۷۰) آنحضرت علی نے حتی المقدور یہودی سازشوں کو جذبہ مصالحت سے دبانے کی کوشش کی.یہود کی ان سازشوں اور اشتعال انگیزیوں کو مسٹر منٹگمری واٹ جیسا معاند اسلام بھی تسلیم کرتے ہوئے لکھتا ہے."بنو نضیر میں سے بعض نے خیبر جا کر مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیاں شروع کر دی تھیں اور جنگ احزاب میں مسلمانوں کے خلاف عرب قبائل کو اکسانے میں اہم کردار ادا کیا تھا.پس چونکہ یہود خیبر نے عربوں کو محمد میں ایل ایلیا کے خلاف بھڑکایا تھا اس لئے محمد علی ایم کو ان پر حملہ کرنے کا سیدھا سادھا اور صاف جواز مل گیا.ee محمد ایٹ مدینہ صفحہ ۲۱۷٬۲۶) لیکن خیبر پر یہ حملہ اچانک نہیں کیا گیا بلکہ یہود کی طرف صلح کیلئے ہاتھ
15 بھی بڑھایا گیا اور مناسب تنبیہ بھی کی گئی اور جب یہ کوششیں بے نتیجہ ثابت ہو ئیں تو خیبر کی طرف پیش قدمی کی گئی.مصالحت کی کوشش :.چنانچہ آنحضرت ام کو جب یہودی سازشوں کی اطلاع ہوئی تو آپ نے پہلے مصالحت سے اس فتنہ کو دبانے کی کوشش کی.آپ نے یہود کو ایک خط میں لکھا کہ یہ خط موسیٰ علیہ السلام کے بھائی اور ان کی تعلیم کی تصدیق کرنے والے محمد می ای وی کی طرف سے یہود خیبر کے نام ہے.اے یہود کے گروہ! تمہاری کتاب تورات میں مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ (الفتح:۳۰) کی پیشگوئی موجود ہے.میں تمہیں اس خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے تم پر تورات اتاری، جس نے تمہارے آباؤ اجداد کو من و سلوئی عطا کیا اور سمندر خشک کر کے فرعون سے نجات بخشی.سچ سچ بتاؤ کیا تمہاری کتاب میں یہ لکھا ہوا موجود نہیں کہ تم محمد ملی پر ایمان لانا.اور یاد رکھو ہدایت و گمراہی کھل چکی ہے میں تمہیں اللہ اور رسول کی طرف بلاتا ہوں.(ابن ہشام جلد ۲ صفحہ ۲۷۱) کیسا واضح اور خوبصورت اس خط کا مضمون ہے جو اظہار محبت و تبشیر اور انذار و تنبیہ کے حسین امتزاج کا مرقع ہے.صلح کی آخری تجویز رسول اللہ علیم نے یہ کی کہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ کو خیبر بھیجا تا یہود کے سردار امیر کو اس شرط پر بلا کر لائیں کہ خیبر میں اس کی حکومت تسلیم کر کے اس سے معاہدہ صلح کر لیا جائے.امیر حضرت عبداللہ کے ساتھ روانہ ہوا راستہ میں اسے بد گمانی پیدا ہوئی اس نے حضرت عبداللہ کے ایک مسلمان ہمراہی کی تلوار چھیننا چاہی.حضرت عبداللہ نے اس کی بدنیتی پر اسے قتل کر
16 دیا اس پر فریقین میں تلوار چل گئی اور اسیر کے تمام ساتھی جو تمہیں کے قریب تھے مارے گئے.اس واقعہ سے مسلمانوں اور یہودیوں کی کشیدگی اور بڑھ گئی.( تاریخ الخمیس جلد ۲ صفحہ ۱۵) لیکن یہودی سازشوں کا باب یہیں ختم نہیں ہو تا بلکہ ان کی سازشوں کا ایک اور رخ یہ ہے کہ انہوں نے کرئی شاہ ایران کو رومی حکومت کی سرحد پر رہنے والے عیسائی عربوں اور عراق کے یہودیوں کے ذریعہ رسول اللہ مالی داریم کے خلاف اتنا جھوٹا پراپیگنڈا کیا کہ اس نے گور نریمن کو رسول کریم میم کی گرفتاری کے احکام جاری کر دیئے.چنانچہ سرولیم میور تسلیم کرتا ہے کہ:.کسری شاہ ایران کو رسول الله ملی ریلی کا تبلیغی خط پہنچنے سے پہلے آپ کی گرفتاری کے احکام کا اہم واقعہ ہو چکا تھا جس کا باعث محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ نبوت کے بارہ میں کسری کو ملنے والی عجیب و غریب خبریں تھیں." (لائف آف محمد صفحه ۳۸۲) یہ خبریں یہود خیبر نے عراق کے یہود کو رسول اللہ میم کے خلاف چٹھیاں لکھ کر پہنچائی تھیں جس سے کسری بھڑک اٹھا تھا.کسری کے قاصد جب رسول الله ملی و ویلی کی گرفتاری کیلئے مدینہ آئے تو رسول اللہ میم کو اپنے خدا کے وعدہ حفاظت پر ایسا غیر متزلزل ایمان تھا کہ آپ ان سے مرعوب نہیں ہوئے.کسی خوف یا ڈر کا اظہار نہیں کیا.بلکہ اگلی صبح جب ان قاصدوں کو جواب دیا تو وہ دم بخود ہو کر رہ گئے.آپ نے فرمایا آج رات میرے خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ اس نے تمہارے آقا کو ہلاک کر دیا ہے قاصد حیران و پریشان واپس لوٹے.الغرض یہود کی یہ سازش بھی ناکام ہو گئی تو انہوں نے مدینہ پر حملہ کا مصمم ارادہ کر لیا.
17 پہلی جنگی کارروائی : مسلمانوں کے خلاف پہلی جنگی کارروائی کا آغاز یہود کے حلیف قبائل غطفان کے ایک قبیلہ بنو فزارہ نے سندھ میں کر دیا.انہوں نے ذی قرد کی چراگاہ پر جس میں آنحضرت میں لایا اور ملک کے مویشی اونٹ وغیرہ چرا کرتے تھے حملہ کر دیا اور چند اونٹنیاں لوٹ کر لے گئے.لیکن ایک بہادر نوجوان صحابی سلمہ بن الاکوع نے ان کا تعاقب کر کے عین اس وقت جب وہ پانی کے ایک چشمہ پر محو استراحت تھے تیروں کی بوچھاڑ کر کے ان کو بھگا دیا اور اونٹنیاں واپس لے آئے.نبی کریم میں والوں کو اس اچانک حملہ کی خبر ہوئی تو آپ " صحابہ کے ساتھ تشریف لائے.بہادر سلمہ بن الاکوع نے آنحضرت تیم ملی کی خدمت میں دشمن کا مزید تعاقب کرنے کی درخواست کی اور کہا کہ میں نے انہیں چشمہ کا پانی نہیں پینے دیا تھا وہ سخت پیاسے ہیں اگلے چشمہ پر ضرور مل جائیں گے.ہمارے سید و مولا رحمتہ اللعالمین نے اس کا کیا خوبصورت جواب دیا.ایک فقرہ کہہ کر گویا دریا کو زے میں بند کر دیا.نہیں نہیں بلکہ رحمتوں کا سمند ر ایک فقرے سمو دیا.فرمایا اے سلمہ إِذَا مَلَكْتَ فَاسْجَحْ کہ جب دشمن پر قدرت حاصل ہو جائے تو پھر عفو سے کام لیا کرتے ہیں.(مسلم کتاب الجاد والسیر) اے رحمت مجسم " ! تجھ پر سلامتی ہو تجھ پر ہزاروں رحمتیں! ہم نے عفو کی تعلیم کے چرچے تو دنیا میں بہت سنے لیکن عفو و رحمت کے نمونے تیرے وجود باجود ہی سے دیکھے.ہاں ہاں تیرے ہی دم قدم سے عفو و کرم کے ایسے چشمے پھوٹے کہ اپنے تو اپنے بیگانے بھی اس سے فیضیاب ہوئے.یہود کے حلیف بنو فزارہ کا مسلمانوں کی چراگاہ پر حملہ یہود خیبر کی طرف سے گویا جنگ کا اعلان تھا.ان حالات میں مسلمانوں کا مدینہ میں خیبر کے بڑے
18 حملہ کا انتظار کرنا سخت نادانی تھی.خصوصاً جنگ خندق میں مسلمان محاصرہ کی تکالیف اور صعوبتوں کا تلخ تجربہ کر چکے تھے.اس لئے دانشمندی یہی تھی کہ آگے بڑھ کر خیبر والوں کی خبر لی جائے.خیبر کو کوچ : چنانچہ صحیح مسلم کی روایت کے مطابق اس واقعہ کے تین دن بعد آنحضرت مینی وی نے خیبر کی طرف پیش قدمی کیلئے حکم فرمایا.سولہ سو مسلمان سپاہی اس غزوہ کیلئے تیار ہوئے.جن میں سے دو سو گھوڑ سوار تھے اور باقی پیدل اور اونٹوں پر تھے.اس کے مقابل یهود خیبر مضبوط قلعوں کے علاوہ سامان حرب سے لیس تھے.دس ہزار سپاہی ان کے قلعوں میں موجود تھے اور پھر پھینکنے کی منجنیقیں بھی ان کے پاس تھیں اور وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ مسلمان ان کے محفوظ قلعوں پر حملہ آور ہو سکتے ہیں.مسلمانوں کی کمزوری اور یہود کی طاقت کا اندازہ اس واقعہ سے لگائیے کہ مسلمانوں کی روانگی سے پہلے عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین نے اہل خیبر کو مسلمانوں کی پیش قدمی کی اطلاع کرتے ہوئے یہ پیغام بھیجا کہ محمد ملی یا ایم تم پر حملہ کرنا چاہتے ہیں یہ مٹھی بھر آدمی ہیں جن کے پاس ہتھیار تک نہیں.اپنے اموال محفوظ کر کے تم قلعوں سے باہر نکل کر ان کا مقابلہ کرو تم انہیں باسانی شکست دے سکتے ہو.اہل خیبر نے یہ اطلاع ملتے اپنے سرداروں کا ایک وفد اپنے حلیف قبیلہ غطفان کے پاس مدد کیلئے بھیجا اور مسلمانوں پر فتح کی صورت میں خیبر کے باغات کے نصف پھل دینے کی پیشکش کی.( تاريخ الخميس جلد ۲ صفحہ ۴۳ سیرت الحلبيه جلد سوم ۳۸ - ۳۹ - ۴۳) ان حالات میں آنحضرت میایی یا ہم نے نہایت دانشمندی اور حسن تدبیر سے بڑی سرعت اور تیزی کے ساتھ خیبر کی طرف خاموش پیش قدمی کا پروگرام بنایا.یہ منصوبہ جتنا نازک تھا اتنا ہی مشکل اور کٹھن بھی تھا.بڑا مسئلہ
19 کسی محفوظ ترین غیر معروف چھوٹے راستے سے لشکر کو لے کر خیبر پہنچنا تھا.اس کیلئے آنحضرت میں نے جد وجہد فرما کر قبیلہ غطفان کی شاخ بنو اشجمع کے ان راستوں کے باہر ایک شخص حسبل کو راستہ کی راہنمائی کیلئے تیار کر لیا مگر کمال دور اندیشی سے محض غیر قوم کے ایک فرد پر انحصار نہیں کیا بلکہ از راہ احتیاط ایک اور رہنما بھی ساتھ رکھا.(تاریخ الخمیس جلد ۲ صفحہ ۴۵) جب سب انتظامات مکمل ہو گئے تو حضور میں تم نے حضرت سباع بن عرفطہ کو مدینہ میں امیر مقرر فرمایا اور محرم سندھ کی ایک رات کو اجتماعی دعا کے بعد خیبر کا قصد فرمایا.حضور ملی کی زوجہ مطہرہ حضرت ام سلمہ آپ کی شریک سفر ہو ئیں.حضرت انس بن مالک بطور خادم خاص حضور کے ہمراہ ہوئے.(سیرۃ الحلبيه جلد سوم صفحہ ۳۶-۳۷) وہ محسن اعظم مدینہ سے خیبر تک کے راستہ پر جہاں جہاں سے گزرے حسن و احسان کے پھول بکھیرتے چلے گے.آئیے خیبر کی ان راہوں پر سے ہم اپنے آقا کی سیرت کے وہ پھول چنتے جائیں جو قدم قدم پر بکھرے پڑے ہیں.واقعات سفر : مدینہ سے باہر نکل کر رسول خدا میں نے فوج کا جائزہ لیا.اس زمانہ میں رواج تھا کہ جنگ میں مردوں کا حوصلہ بڑھانے ، رنگ و طرب کی محفلیں سجانے اور دل بہلانے کیلئے عورتیں بھی شریک جنگ ہوتی تھیں لیکن رسول اللہ اسلام نے عورت کا جو تقدس اور احترام قائم فرمایا اس لحاظ سے آپ کو یہ طریق سخت ناپسند تھا.خیبر کے موقع پر آنحضرت میں یا ہم نے بطور خاص کچھ خواتین کو زخمیوں کی مرہم پٹی ، تیمارداری اور دیکھ بھال کیلئے ساتھ چلنے کی اجازت فرمائی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پاکیزہ خیال کو ایک فرانسیسی عیسائی سوانح نگار یوں بیان کرتا ہے کہ :.
20 "شاید تاریخ میں یہ پہلا موقعہ تھا کہ کسی لشکر کے ساتھ عورتیں نرسنگ کی خدمات اور زخمیوں کی دیکھ بھال کیلئے شامل ہو ئیں ورنہ اس سے پہلے جنگ میں عورت سے تحریض جنگ اور حظ نفس کے سوا کوئی کام نہیں لیا جاتا تھا.عورت سے درست اور جائز خدمات لینے کے بارہ میں اب تک کسی نے نہ سوچا تھا کہ میدان جنگ میں تیمارداری اور بیماروں کی دیکھ بھال کی بہترین خدمت عورت انجام دے سکتی ہے." حیات محمد تالیف امیل در منغم صفحه ۲۵۱٬۲۵۰) اب آنحضرت میر جلد از جلد خیبر کا یہ کٹھن سفر طے کرنا چاہتے تھے.آپ نے اپنے ساتھ مقدمہ الجیش میں تیز شتر سواروں کے دستہ کو چلنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ آج ہم تیز چلیں گے کوئی اڑیل اونٹ اس میں نہ ہو.پھر آپ نے ایک شاعر صحابی حضرت عامر کو فرمایا کیا تم ہمیں اپنے گیت نہیں سناؤ گے.عرب شتر سوار اونٹوں کو تیز چلانے کیلئے ایک خاص راگ میں شعر کاٹ کر تیز تیز پڑھتے تھے.جسے حدی کہتے ہیں.عامر یہ شعر پڑھنے لگے.اللَّهُمَّ لَوْلَا أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَا وَلَا تَصَّدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا فَاغْسِرُ فِدَاءً لَّكَ مَا أَبْقَيْنَا وَنَتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا لأولى قَدْ بَغَوْا عَلَيْنَا سَكِيْنَةٌ عَلَيْنَا فَالْقِينَ إذَا أَرَادُوا فِتْنَةً أَبَيْنَا وَنَحْنُ عَنْ فَضْلِكَ مَا اسْتَغَيْنَا (1- بخاری کتاب المغازی 11 تاریخ الخمیس جلد ۲ صفحه ۴۴)
21 یعنی اے اللہ اگر تو ہدایت نہ کرتا تو ہم ہدایت نہ پاتے نہ خیرات کرتے نہ نماز پڑھتے جب تک ہمارے دم میں دم ہے ہم تجھ پر خدا اور قربان ہیں.اے اللہ ! ہماری لغزشوں کو معاف فرما اور اگر دشمن سے ہمارا مقابلہ ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھ.دشمن نے ہم پر زیادتی کی ہے تو ہمیں سکینت عطا فرما.جب دشمن فتنہ کا ارادہ کرنے ہم اس کا سختی سے مقابلہ کرتے ہیں.اے اللہ ! ہم تیرے فضل و عنایت کے محتاج ہیں..عقل محو حیرت ہے کہ عرب کے وہ بادیہ نشین اس پاک نبی کی صحبت سے صیقل ہو کر نور ایمان سے کیسے منور ہو گئے تھے کہ ان کی حدی کے اشعار میں بھی سچائی، پاکیزگی اور معنویت نظر آتی ہے.ان اشعار میں دشمن کی زیادتی اور ظلم کا بے ساختہ اظہار جہاں خیبر کی طرف پیش قدمی کی وجہ کو ظاہر کرتا ہے وہاں دشمن کے مقابل پر ڈٹ جانے اور سکینت و ثابت قدمی کی دعا مسلمانوں کے عزم و ہمت کی آئینہ دار ہے.کہتے ہیں کوئی بادشاہ تھا وہ کسی سے خوش ہو تا تو زہ کہا کرتا.اس کا وزیر اس شخص کو (جسے وہ زہ کہتا) اشرفیوں سے بھری تھیلی انعام دیتا تھا.مگر آج ہم آپ کو ایک روحانی بادشاہ کے دربار میں لے چلتے ہیں وہ شاہ دوسرا جسمں سے خوش ہوتا ہے اسے رحمہ اللہ کہہ کر رحمت کی دعا دیتا ہے اور روحانی عالم کا یہ بادشاہ محمد مصطفی میں دیا گیا اور جب یہ کلمہ کہتا ہے تو آسمانی بادشاہت کے درباری فرشتے ایسے شخص کے حق میں جنت کا فیصلہ کر دیتے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ انعام ایک مسلمان کیلئے دنیا و مافیہا سے بڑھ کر ہے.سفر خیبر میں حضرت عامر کے پاکیزہ مترنم نغموں سے خوش ہو کر اس محسن اعظم نے یہی دعا دی اور عامر کو خیبر میں شہادت کا عظیم الشان مرتبہ حاصل ہوا.الغرض اس طرح بسرعت منزلیں مارتے ہوئے رسول اللہ میر
22.نے دوسرا پڑاؤ خیبر سے تین میل ادہر صباء مقام پر کیا.یہاں نماز عصر کے بعد حضور نے کھانا طلب فرمایا اور اپنے سپاہیوں سے فرمایا کہ جس کے پاس جو زاد راہ ہے وہ لے آئے.ہم سب مل کر کھانا کھائیں گے.دستر خوان بچھائے گئے اور کھانا چنا گیا.میرے آقا کا وہ کھانا کیا تھا؟ جو کے ستو اور کچھ کھجوریں.جو آپ نے اپنے خدام کے ساتھ مل کر تناول فرمائیں.i- بخاری کتاب المغازی - تاریخ الخمیس جلد صفحه ۴۳) كُلُوا جَمِيْعًا کا یہ نظارہ کتنا دلکش ہے جس میں آقا اپنے غلاموں کے ساتھ کمال سادگی ، انکساری اور بے تکلفی سے ستو اور کھجور کا ماحضر تناول کرتا نظر آتا ہے.راستہ کا انتخاب : خیبر کے قریب پہنچ کر اس اچانک اور راز دارانه پیش قدمی میں زیادہ احتیاط کی ضرورت تھی.چنانچہ صہباء میں مغرب و عشاء کی نمازوں کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کے دونوں رہنماؤں کو بلا کر فرمایا کہ اب مجھے ایسے راستے سے خیبر پہنچا دو جو قبائل غطفان اور خیبر کے درمیان سے گزرے.رہنمائے سفر آپ کو ایک چوراہے پر لے آیا اور کہا یہ چاروں راستے خیبر جاتے ہیں.آنحضرت علی نے ان راستوں کے نام اور ان کے درمیان پڑنے والی آبادیوں کی تفصیل پوچھی.پہلے تینوں راستے جو اپنے ناموں احزن شائس وغیرہ کے معنی و مفہوم باعث بھی نیک شگون نہ تھے آپ نے اختیار نہیں فرمائے اور چوتھا راستہ جسے مرحب کہتے تھے پسند فرمایا.حضرت عمر نے اس موقع پر رسول اللہ می وی کی بصیرت کی خوب داد دی.اس رہنما سے کہنے لگے.تو نے یہ چوتھا راستہ سب سے پہلے کیوں نہ بتا دیا.تاريخ الخميس جلد ۲ صفحہ ۴۳ ۴۴)
23 مشرک رہنما جو ان راستوں کا بھیدی تھا رسول اللہ میم کی بصیرت پر حیران اور متعجب تو ضرور ہوا ہو گا.اس بے چارے کو کیا معلوم کہ یہ عظیم انسان تو خدا کے نور سے دیکھتا ہے.صراط مستقیم کی دعائیں کرنے والے اس حقیقی رہنما کو صرف روحانی راستوں کی ہی راہنمائی تو نہیں کی جاتی تھی بلکہ خدا داد نور بصیرت سے وہ دنیا کے راستوں پر بھی گہری نظر رکھتا تھا.الغرض اس راستے سے چل کر آنحضرت می رجمیع مقام پر پہنچے جو غطفان اور خیبر کے عین درمیان ہے.آپ کی یہ تدبیر بہت کارگر ثابت ہوئی اور آپ نے اپنی حیرت انگیز خدا داد فراست سے غطفان کے چار ہزار سپاہیوں کی امداد سے خیبر والوں کو محروم کر دیا جو اہل خیبر کی مدد کو نکل چکے تھے.اسلامی فوج کا یہ راستہ اختیار کرنے کی وجہ سے انہیں اندیشہ ہوا کہ کہیں مسلمان پلٹ کر ان پر حملہ آور نہ ہو جائیں.( تاریخ الخمیس جلد ۲ صفحہ ۴۳) خیبر میں پڑاؤ کرتے ہوئے بھی آپ نے اس امر کو ملحوظ رکھا کہ آپ اس طرح غطفانیوں اور خیبریوں کے درمیان حائل رہیں کہ غطفانی اہل خیبر کی امداد نہ کر سکیں.(سیرة الحلبيه جلد ۳ صفحه ۳۹) چنانچہ منٹگمری واٹ اس دانشمندانہ اقدام کو فتح خیبر کے عوامل میں سے ایک اہم سبب قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے.وہ عرب قبائل غطفان جن کو یہود نے رشوت دیکر ساتھ ملایا تھا وہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سیاسی بصیرت کے باعث ان سے الگ کر دیئے گئے." (محمد ایٹ مدینہ صفحہ ۲۱۹) پس یہ محمد مصطفی میت کی فراست کی پہلی فتح تھی کہ آپ نے ایسی راہ اختیار کی جس سے یہود کے حلیف ان سے کٹ کر رہ گئے.
24 خاموش پیش قدمی : سفر خیبر کو مخفی اور محفوظ رکھنے کیلئے آنحضرت ملی و یا لیلی نے ایک اور دانشمندانہ اور مدبرانہ قدم یہ اٹھایا کہ حضرت عباد بن بشر کی سرکردگی میں ایک ہر اول دستہ اپنے قافلہ سے آگے روانہ فرما دیا.حسن اتفاق سے اس دستہ نے ایک یہودی جاسوس کو پکڑ لیا اس سے پوچھ گچھ کی گئی پہلے تو اس نے کچھ بتانے سے انکار کیا.پھر جان کی امان مانگ کر بتایا کہ غطفان کا ایک سردار اپنی فوج لیکر خیبر کے قلعوں میں موجود ہے اور مزید امداد کیلئے یہودی سردار غطفانیوں کے پاس گئے ہوئے ہیں.اس نے مزید بتایا کہ عام یہودی آبادی مدینہ کے یہودی قبائل کا انجام دیکھ کر مسلمانوں سے مرعوب ہے.سرداروں نے عبد اللہ بن ابی کی طرف سے حملہ کی اطلاع ملنے پر مجھے جاسوسی کیلئے بھیجا ہے.حضرت عباد نے جب اسے آنحضرت ملی کے حضور پیش کر کے سب حالات عرض کئے تو حضرت عمرؓ نے کہا یہ جاسوس ہے اسے قتل کر دیا جائے.عباد نے کہا نہیں میں نے اسے امان دی ہے.عہدوں کو پورا کرنے والے اور امان کا پاس رکھنے والے میرے آقا و مولا نے اس یہودی کے حق میں فیصلہ دیا اور عباد سے فرمایا کہ خیبر پہنچنے تک اس کی حفاظت کی جائے یہاں تک کہ اس کا معاملہ کھل جائے.کہ واقعی اس نے سچ کہا ہے.خیبر پہنچ کر یہ یہودی جاسوس آنحضرت ململ کے کریمانہ اخلاق اور مسلمانوں کا حسن سلوک دیکھ کر مسلمان ہو گیا.تاریخ الخمیس جلد ۲ صفحه ۴۴) قریباً ڈیڑھ سو میل کا فاصلہ تین راتوں کے مسلسل تھکا دینے والے سفر میں طے کر کے آنحضرت میں عالمی یوم خیبر پہنچ گئے.علی الصبح جب وادی خرص سے میدان خیبر میں داخل ہونے لگے تو صحابہ کرام نے بخیر و عافیت تکمیل سفر
25 کی خوشی میں اللہ اکبر اور لا الہ الا اللہ کے نعرے بلند کرنے شروع کئے خاموش پیش قدمی میں نعروں کا یہ شور خلاف مصلحت تھا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو یہود خیبر کے پاس اچانک پہنچ کر انہیں حیران و ششدر اور مبہوت کرنا چاہتے تھے.آپ نے صحابہ کو ان نازک لمحات میں موقع محل کی مناسبت سے کام کر نیکی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا.ارْبَعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ إِنَّكُمْ لَا تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلَا غَائِبَ إِنَّكُمْ تَدْعُونَ سَمِيعًا قَرِيبًا وَهُوَ مَعَكُمْ (بخاری کتاب المغازی) کہ الله اكبر اور لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ تو ذکر الہی کے کلے ہیں.تم لوگ اپنے نفسوں پر رحم کرو اور آہستہ ذکر الہی کرو جس کو تم پکارتے ہو وہ نہ بہرہ ہے نہ غائب بلکہ وہ خوب سنتا ہے.وہ تمہارے قریب ہے اور تمہارے ساتھ ہے.یہ محمد مصطفی می دم کی فصاحت و بلاغت کا کمال تھا کہ اپنے دل کی بات کو ایسے خوبصورت انداز اور جامع الفاظ میں بیان کیا کہ کوئی تشنگی باقی نہ رہی.کسی کے دل میں اگر یہ خیال آسکتا تھا کہ دشمن کے خوف سے خدا کا نام بلند کرنے سے روک دیا گیا تو اس کا جواب بھی دے دیا کہ اپنے نفسوں پر رحم کرو اور خود ہلاکت کو دعوت نہ دو.اور دوسرے یہ کہ جس ذات کا تم ذکر کرتے ہو وہ تو آہستہ ذکر بھی اسی طرح سنتا ہے جس طرح بلند.اب مصلحت وقت کا تقاضا آہستہ ذکر کا ہے اور اس وقت یہی عمل صالح ہے.دعاؤں کے جلو میں : درنہ جہاں تک خدا کی یاد کا تعلق ہے محمد مصطفی من سے بڑھ کر کون اپنے رب کا عاشق ہو سکتا ہے.آپ تو اس کی یاد میں مست خیبر میں داخل ہو رہے تھے.حضرت ابو موسی اشعری کو آپ فرما رہے تھے کہ لَا حَولَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ اعَ الْعَظِيْمِ کا ورد کرو کہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک
26 خزانہ ہے.(بخاری کتاب المغازی باب فتح خیبر) لا حول ولا قوة کا ذکر یعنی بلند و بالا اور عظیم خدا کے سوا کسی کو کوئی قوت اور طاقت حاصل نہیں ، نبی کریم میں ان کی اس دلی کیفیت کا خوب آئینہ دار ہے جو فاتحین عالم کے غرور اور تکبر کے مقابلہ پر خیبر میں داخلہ کے وقت میرے آقا سے عجز و انکساری اپنی ناتوانی اور بے طاقتی کے اظہار سے عیاں ہو رہا ہے.اور یہ بھی ظاہر ہے کہ آپ کا بھروسہ اپنے اسی قادر و توانا خدا پر اور اس سے عاجزانہ دعائیں کرنے پر ہو تا تھا خادم رسول حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ میں نے اس سفر میں بہت دفعہ رسول اللہ صلی یم کو یہ دعا کرتے سنا.اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَمِّ وَالْحُزْنِ وَ اَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْكَشلِ وَاَعُوذُبِكَ مِنَ الْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَ اَعُوذُ بِكَ مِنْ غَلَبَةِ الدَّيْنِ وَقَهرِ الرِّجَالِ (ابو داؤد کتاب الهاد) کہ اے اللہ تعالیٰ میں پناہ مانگتا ہوں تیرے حضور مشکلات اور غم سے اور پناہ مانگتا ہوں تیرے حضور بے سروسامانی اور سامان سے کام نہ لینے سے اور میں پناہ مانگتا ہوں تیرے حضور بزدلی اور بخیلی سے اور پناہ مانگتا ہوں تیرے حضور قرض کی زیادتی سے اور لوگوں کے ذلیل کرنے سے.یہاں ذرا ٹھہر کر سوچئے تو سہی کہ اس شاہ دو عالم کو کس چیز کا غم ستا تا تھا جس سے بچنے کی وہ دعائیں کرتے تھے.تو قرآن شریف کی آیت لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ أَنْ لا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء: ۴) جواب دیتی ہے کہ اس رحمتہ اللعالمین کو ایک ہی تو غم تھا جو سب غموں سے سوا تھا اور جس سے آپ کو کسی پہلو چین نہ آتا تھا.یعنی دشمنان اسلام کی ایمان سے محرومی کا غم کہاں ہیں میرے آقا پر مال غنیمت کی خواہش کا اعتراض کرنے والے وہ ذرا قریب ہو کر اس رحمت مجسم کے دل سے اٹھنے والی سرگوشیاں
27 اور آہ و زاریاں تو سنیں تا انہیں معلوم ہو کہ یہاں تو رحمت کا اور ہی عالم آباد ہے.اور پھر اس سرکار دو عالم می میوں کی خاکساری اور اپنے آقا سے مانگنے کی خواہش کو تو دیکھو وہ انتہائی مستعد ہونے کے باوجود بجز و کسل سے پناہ مانگتے ہیں.وہ سخی اور شاہ دل ہو کر بخل سے امان چاہتے ہیں.وہ شجاع اور بہادر ہو کر بزدلی سے بچنے کی دعا کرتے ہیں.میں دیکھتا ہوں آپ کا وجود تو مجسم دعا تھا کوئی لمحہ دعا اور ذکر سے خالی نہ تھا.حتی کہ جب آپ خیبر کی بستیوں کے پاس اترے ہیں تو آپ کے دل میں خیبر کے باسیوں کی انسانی ہمدردی کا جوش اس دعا کا روپ دھار کر سامنے آتا ہے جو آپ نے اس موقع پر کی."اے آسمانوں اور آسمان کی چھت کے نیچے تمام مخلوق کے رب اور اے زمینوں اور جو کچھ ان کے اندر ہے اس کے پیدا کرنے والے! اے شیطانوں اور ان کے گمراہ کردہ انسانوں کے مالک! اور اے ہواؤں اور جو کچھ وہ اڑا کر لاتی ہیں ان کے خالق! ہم تجھ سے اس بستی کی خیر کی دعا کرتے ہیں.ہم اس بستی کے باشندوں کی بھلائی تجھ سے چاہتے ہیں اور جو کچھ اس بستی میں ہے سب کی خیر تجھ سے مانگتے ہیں اور ہم اس بستی اور اس کے رہنے والوں کے شر سے تیری پناہ میں آتے ہیں اور جو کچھ اس بستی کے اندر ہے اس سے بھی تیری پناہ طلب کرتے ہیں." (ابن ہشام جلد ۴ صفحه ۴۰) یہ ہے میرے آقا محمد مصطفی می یام کے دل کی حالت جو اپنے رب کریم کے واسطے دے کر اہل خیبر کی خیر و بھلائی کی دعا کرتا ہے اور نادان دشمن اسلام اس پر جارحانہ حملہ کا الزام لگاتا ہے.اے دشمنوں کے حق میں خیر و بھلائی کی دعائیں کرنے والے! میرے ماں باپ آپ پر قربان ! سوائے اس کے کیا کہوں.
28 اے دشمنوں کے حق میں خیر و بھلائی کی دعائیں کرنے والے! میرے ماں باپ آپ پر قربان ! سوائے اس کے کیا کہوں.محمد ہی نام اور محمد ہی کام عَلَيْكَ الصَّلوةُ عَلَيْكَ السَّلَامُ میدان خیبر میں پڑاؤ : حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ ہم رات کے وقت خیبر پہنچے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق تھا کہ کسی دشمن پر شب خون نہ مارتے تھے.خیبر میں بھی آپ نے رات کے اندھیرے اور دشمن کے غافل ہونے کا فائدہ نہیں اٹھایا.خیبر میں پڑاؤ کرتے ہوئے ایک اور حکمت عملی آنحضرت میں نے یہ اختیار فرمائی کہ لشکر کو پانچ حصوں (مقدمہ میمنہ میسرہ، قلب اور ساقہ) میں تقسیم کر کے قلعہ ہائے خیبر کے سامنے میدان میں اس طرح پھیلا دیا کہ وہ سرسری نگاہ میں ایک لشکر جرار نظر آتا تھا اور اس حکمت عملی میں جو دراصل شمن کو اچانک حیران و ششدر کر دینے سرپرائز (Surprise) دینے کا حصہ تھی.رسول اللہ یا کو حیرت انگیز کامیابی حاصل ہوئی., واقعہ یہ ہوا کہ صبح جب قلعوں کے دروازے کھلے اور یہودی اطمینان سے کھیتی باڑی اور کام کاج کیلئے کسیاں ، کدال ، ٹوکریاں لے کر باہر نکلنے لگے تو اچانک مسلمانوں کے لشکر کو دیکھ کر ان کے ہوش اڑ گئے.مدینہ سے منافقوں کے سردار عبد اللہ بن ابی نے تو انکو اطلاع دی تھی کہ مٹھی بھر مسلمان خیبر پر حملہ کرنے آ رہے ہیں اب یہ لشکر دیکھ کر وہ حیران و ششدر یہ کہتے ہوئے واپس قلعوں کی طرف دوڑے مُحَمَّدُ وَ الْحَمِيْسُ وَاللهِ مُحَمَّدُ وَالْخَمِيسُ ( بخاری کتاب المغازی باب غزوہ خیبر)
29 یعنی محمد اور اس کا پانچ دستوں والا لشکر.خدا کی قسم محمد اور پانچ دستوں والا لشکر ( آن پہنچا) رسول الله ملی زبر دست سرپرائز (Surprise) دیکر ایک اور فتح حاصل کر چکے تھے.اب نعرے لگانے اور خدا کا نام بلند کرنے کا وقت تھا اور اس عارفانہ نعرہ کے پہلے حقدار میرے آقائے نامدار نبیوں کے سردار محمد مصطفی میں تھے.سو آپ نے خیبر کی وادیوں میں باواز بلند یہ نعرہ لگایا.اللهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ خَرِبَتْ خَيْبَرُ ۖ إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمِ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْدَرِينَ (بخاری کتاب المغازی) اللہ سب سے بڑا ہے.خیبر ویران ہو گیا اور ہم جب کسی قوم کو تنبیہہ کرنے اور ہوشیار کر دینے کے بعد اس کے میدان میں اترتے ہیں تو اس کی صبح نا مبارک صبح ہوا کرتی ہے.یہاں پھر ذرا ٹھہریئے اور اس عربی رسول کی فصاحت و بلاغت کا کرشمہ دیکھئے کہ دو فقروں میں جنگ کی وجوہات سے لے کر اس کے انجام تک کا نقشہ کس خوبی سے کھینچ کر رکھ دیا ہے.اللہ اکبر کہہ کر خیبریوں کی اس پہلی پسپائی پر کسی فخر کا اظہار کرنے کی بجائے خدا کی عظمت کا اعلان کیا جو دراصل اپنی عاجزی کا اظہار بھی تھا." خربت خیبر " کہہ کر اس ابتدائی فتح کو بڑی فتح کا پیش خیمہ قرار دیا اور صحابہ کے حوصلے بڑھاتے ہوئے خیبر کے خراب و ویران ہونے اور شکست فاش کی یقینی اور قطعی پیشگوئی فرما دی.اور فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْدَرِينَ - یعنی جن لوگوں کو ہوشیار کر دینے کے بعد ہم اقدام کریں تو ایسے لوگوں کی صبح بہت بری ہوتی ہے کہہ کر یہ بھی بتا دیا کہ انذار و تنبیہ کے بعد ہم نے یہ قدم اٹھایا ہے.رسول اللہ کے اس واشگاف اعلان سے آپ کی یہ امتیازی شان ظاہر
30 ہے کہ آپ دشمن پر بغیر مناسب انتباه و انذار (وارننگ اور الٹی میٹم کے حملہ نہ کرتے تھے.بے شک آپ دشمن کو حالت جنگ میں جنگی حکمت عملی کے طور پر اچانک حملہ آور ہو کر سر پر ائز تو دیتے تھے لیکن شب خون سے نہ صرف منع فرماتے بلکہ آپ کا یہ خلق عظیم حیرت انگیز ہے کہ دشمن کے سر پر پہنچ کر بھی دن کی روشنی کا انتظار کرتے ہیں.خیبر کے قلعے تین حصوں میں تقسیم تھے ہر حصہ میں تین چار قلعے تھے.مسلمان نظام نامی قلعوں کے سلسلہ کے پاس اترے لیکن آنحضرت میں نے حضرت حباب بن المنذر کا مشورہ قبول فرماتے ہوئے اس سے بہتر پڑاؤ کی جگہ تلاش کروا کے قلعوں سے کچھ ہٹ کر پڑاؤ کیا.تاکہ دشمن کے تیروں کی زد سے محفوظ رہیں.(سيرة الحلبيه جلد ۳ صفحه ۳۹) مسلمانوں کے پڑاؤ کے بعد یہود خیبر قلعہ بند ہو کر لڑائی کے لئے تیار ہو گئے.مگر آنحضرت میں ادا کیا اور اب بھی صلح کی راہیں ڈھونڈتے اور کشت و خون سے بچنے کے راستے تلاش کرتے دکھائی دیتے ہیں.چنانچہ آنحضرت لیلی لیلی نے حملہ سے پہلے یہودی نخلستان سے قریباً چار سو درخت کٹوائے کہ شاید اس طرح یہودی ہراساں ہو کر صبح کی طرف مائل ہوں لیکن یہودی سردار بغض و عناد سے بھر پور اپنی طاقت کے نشہ میں چور اہل خیبر کو جنگ کے لئے تیار کر چکے تھے.تمام جنگجو مرد قلعہ نائم میں جمع ہو گئے اور عورتوں بچوں کو محفوظ و مضبوط مرکزی قلعہ قموص میں بھیج دیا اور جنگجو جوان قلعہ نطاہ میں جمع ہو گئے.(سیرۃ الحلبیہ جلد ۲ صفحہ ۳۹) جنگ کا آغاز : جب رسول اللہ مال کو یقین ہو گیا کہ یہودی مقابلہ پر ہی تلے ہوئے ہیں تو آپ نے صحابہ کرام کو وعظ و نصیحت فرماتے ہوئے جہاد کی ترغیب دلائی اور ہدایات دیں.
31 رض تاریخ الخمیس جلد ۲ صفحه ۴۵) جو اکثر غزوات میں دیتے تھے کہ بوڑھوں، بچوں، عورتوں اور راہبوں پر حملہ نه کردن صلح اور احسان کی راہ اختیار کرنا.اس روز خدا کا او الوالعزم رسول خود زرہ پہن کر میدان میں نکلا اور دشمن سے مقابلہ کیا.پیچھے لشکر گاہ میں محافظ و نگران مقرر ہوتے تھے اور لشکر قلعوں کے پاس جا کر یہود سے مقابلہ کرتا تھا.خیبر آنے کے دو تین روز بعد آنحضرت ملی اسلام کو درد شقیقہ کی تکلیف عود کر آئی جو پہلے بھی کبھی کبھی ہو جاتی تھی اور دو تین دن رہتی تھی.ان ایام میں آپ بزرگ صحابہ حضرت ابو بکر حضرت عمرؓ، حضرت محمود بن سلمہ ، حضرت محمد بن مسلمہ ، حضرت حباب بن المنذر کو امیر لشکر مقرر فرما کر دشمن سے مقابلہ کے لئے بھیجتے رہے.لشکر کا سیاہ رنگ کا بڑا جھنڈ ا عقاب جو اس غزوہ میں پہلی دفعہ حضرت عائشہ کی چادر سے تیار کیا گیا تھا امیر لشکر کے پاس ہو تا تھا.بعض چھوٹے لواء مختلف دستوں کے سرداروں کو دیئے جاتے تھے.ان ایام میں یہودیوں کی جنگ کا طریق یہ تھا کہ وہ کبھی تو قلعوں کے اندر سے پتھر اور تیر برسا کر مسلمانوں پر حملہ کرتے تھے اور کبھی قلعوں سے باہر نکل کر ان کے دروازوں کے سامنے میدان میں مقابلہ کرتے اور جب پسپا ہوتے تو دوڑ کر قلعوں میں داخل ہو جاتے اور قلعہ کے آدمی دروازہ بند کر لیتے.تاریخ الخمیس جلد ۲ صفحه ۴۸ سیرت الحلبیہ، جلد ۳ صفحه ۴۱ - ۴۳) پہلے سات دن اس طرح یہود سے مقابلہ ہوتا رہا.آنحضرت میں نے جنگ کے ان ہنگامی حالات میں مسلمان مجاہدوں کے لئے جو شعار (Code Word) مقرر فرمایا وہ آپ کی بامقصد زندگی کے اس روشن پہلو کو نمایاں کرتا ہے کہ آپ کے ہر فعل اور ہر عمل میں معنویت پائی جاتی تھی.کوڈ تھا - يَا مَنْصُورُ امت (ابن ہشام جلد ۴ صفحه ۴۱)
32 یعنی اے نصرت یافتہ ! مار ڈال.کیا حسین جرات مندانہ اور بامعنی پیغام ہے جو ایک جنگی کوڈ میں چھپا دیا ہے.جس میں ایک طرف اس خدائی نصرت و تائید سے مسلمان مجاہد کا حوصلہ بڑھایا ہے تو دوسری طرف اسے جنگ میں لڑائی کے لئے ابھارا ہے.اور پھر لطف یہ ہے کہ یہ ایسا کوڈ ہے جسے باسانی دشمن استعمال نہیں کر سکتا.بھلا دشمن کیسے مسلمان مجاہد کو نصرت یافتہ اور فاتح کہنا گوارا کر سکتا ہے اور پھر اسے مار ڈال" کی دعوت کیسے دے سکتا ہے.پس یہ رسول اللہ میں تعلیم کی فراست کی ایک خوبصورت اور لطیف مثال ہے.کچھ احوال جنگ : محاصرہ کے ان ابتدائی ایام میں بعض اہم لرقم واقعات ہوئے، جن میں سے ایک واقعہ حضرت محمود بن سلمہ کے قتل کا ہے غالبا یہ جنگ کا تیسرا روز تھا.محمود بن سلمہ اس دن خوب دلیری اور بہادری سے لڑے تھے.گرمی بہت تھی جب وہ تھک گئے اور ان کے ہتھیار ان کو بو جھل محسوس ہونے لگے تو قلعہ کی ایک دیوار کے سائے میں ستانے کے لئے چلے گئے.اس وقت لڑائی میں وقفہ ہو چکا تھا.آپ لیٹے ہوئے تھے کہ قلعہ کے اوپر سے مرحب اور کنانہ دو یہودی سرداروں نے چکی کا پاٹ گرا کر آپ کو قتل کرنا چاہا.اس شدید ضرب سے آپ کا لوہے کا خود ٹوٹ کر پیشانی میں دھنس گیا.آنکھیں ضائع ہو گئیں اور چہرہ کا حلیہ بگڑ گیا.مسلمان انہیں اٹھا کر رسول اللہ ملی یوی کے پاس لے گئے تو آپ نے خود اپنے دست مبارک سے ان کے چہرہ کی جلد اور گوشت کو درست کیا اور خود مرہم پٹی فرمائی.لیکن یہ زخم حضرت محمود کے لئے جان لیوا ثابت ہوا اور آپ نے جام شہادت نوش فرمایا.(تاریخ الخميس جلد ۲ صفحه ۴۶) محمود بن سلمہ کی شہادت کے بعد جب ان کے بھائی محمد بن مسلمہ رسول
33 کریم میں یہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ میرے بھائی محمود کو یہودیوں نے زیادتی سے قتل کیا ہے میں اس کا انتقام لے کر رہوں گا.کوئی اور جرنیل ہو تا تو دشمن کے خلاف اپنے سپاہی کے اس جوش و غیرت کو سراہتا مگر اس موقع پر بھی صبر و استقامت کے اس علمبردار نے اعتدال کا کیسا عمدہ سبق دیا.”دشمن سے مقابلہ کی خواہش نہیں کرنی چاہئے اور خدا سے عافیت مانگتے ہوئے ابتلا سے بچنا چاہئے اور جب دشمن سے مقابلہ ہو تو پھر دعا اور تدبیر کے ساتھ اس کا مقابلہ کرو اور یہ دعا کرو اللهُمَّ انْتَ رَبَّنَا وَ نَوامِينَا وَنَوَاصِيهِمْ بِيَدِكَ وَإِنَّمَا تَقْتُلَهُمْ أَنْتَ (سیرة الحلبيه جلد ۳ صفحه ۴۰) اے اللہ تو ہی ہمارا رب ہے! ہم اور ہمارے دشمن سب تیرے قبضہ قدرت میں ہیں.اب تو ہی ان کو مارے تو مارے.اگلے دن اسلامی لشکر کی کمان رسول اللہ علیم کے حدی خوان عامر کے ہاتھ میں تھی.وہ مرحب کی للکار کا جواب دیتے ہوئے میدان مقابل میں نکل کر لڑنے لگے مگر اپنی ہی تلوار سے ایک ایسا کاری زخم آیا جو جان لیوا ثابت ہوا.بعض لوگوں نے عامر کی شہادت کو جو ان کی اپنی تلوار سے ہوئی تھی خود کشی سے تعبیر کیا.عامر کے بھتیجے حضرت سلمہ بن الاکوع یہ سنکر بہت غمگین ہوئے وہ بیان کرتے ہیں اس حالت میں کیا دیکھتا ہوں.میرے آقا محمد علی کریم میرا ہاتھ پکڑ کر سہلاتے اور فرماتے ہیں کہ تمہیں کیا ہوا ہے ؟ میں نے عامر کے بارہ میں لوگوں کے خیال کا ذکر کیا.صادق و مصدوق محمد علی کریم نے فرمایا جس نے بھی یہ کہا غلط کہا ہے.پھر آپ نے اپنی دو انگلیاں ملا کر فرمایا عامر کیلئے دو ہرا اجر ہے وہ تو جہاد کرنیوالا ایک عظیم الشان مجاہد تھا.(بخاری کتاب المغازی) الله
34 مسلمانوں کو یہود کا مقابلہ کرتے ہوئے دن گزرتے چلے گئے.ان کے زاد راہ ختم ہونے کو آئے.لیکن جنگ کا کوئی واضح نتیجہ نہ نکلا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلمانوں کے راشن کی کمی کا پتہ چلا تو آپ نے دعا کی کہ اے اللہ ! تو ہمارے حال کو خوب جانتا ہے.میرے پاس ان کو دینے کیلئے کچھ بھی تو نہیں.ایسے حالات پیدا فرما کہ یہ بے چارے بھوکے تو نہ مریں.(سیرة الحلبيه جلد سوم) لیکن اس دعا کے قبول ہونے میں شاید ابھی کچھ وقت تھا کہ مسلمانوں کو آزمائش کا ایک سخت مرحلہ پیش آیا.شوق تبلیغ : خیبر کے ایک یہودی رئیس کا گلہ بان ایک حبشی غلام تھا.وہ جنگل سے بکریاں لے کر شہر کی طرف آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ باہر مسلمانوں کی فوج نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں.وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا.اس موقعہ پر ہمارے سید و مولا کا شوق تبلیغ دیکھنے کے لائق ہے.ابن ہشام نے لکھا ہے کہ تبلیغ کیلئے رسول اللہ لا لا لا لو ہم کسی کو حقیر نہ جانتے تھے.آپ اس حبشی غلام کو اسلام کی دعوت دینے لگے اس نے کہا کہ اگر میں مسلمان ہو جاؤں تو مجھے کیا ملے گا؟ حضور نے فرمایا جنت بشر طیکہ اسلام پر ثابت قدم بھی رہو.اس پر وہ مسلمان ہو گیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اب میں یہودیوں کے پاس تو جا نہیں سکتا اور یہ بکریاں میرے پاس ایک یہودی کی امانت ہیں میں ان کو کیا کروں؟ امانت کا کڑا امتحان : اس سوال کے جواب سے قبل ذرا ان فاقہ کش محاصرین پر بھی نظر کیجئے جن کی زاد
35 راہ ختم ہو نیکو تھی اور دشمن کی طرف سے پھینکی جانے والی کسی موہوم چیز پر بھی ٹوٹے پڑتے تھے جیسا کہ عبد اللہ بن مغفل بیان کرتے ہیں کہ محاصرہ خیبر کے دوران کسی شخص نے چربی سے بھرا ایک تھیلا ( قلعہ سے باہر پھینکا میں اسے لینے کیلئے لپکا ناگاہ میری نظر نبی کریم مسیر پر پڑی جو مجھے دیکھ رہے تھے اور مجھے سخت شرم محسوس ہوئی.(بخاری کتاب المغازی باب فتح خیبر) الغرض بھوک اور فاقے کے ان ایام میں یہ ایک کڑا امتحان تھا لیکن ہمارے آقا تو نہ صرف خود کٹھن امتحانوں میں پورا اترتے بلکہ اپنے ساتھیوں کو بھی ایسے ابتلاؤں سے نکال کر لایا کرتے تھے.چنانچہ آپ نے اپنے صحابہ کی بھوک اور فاقہ کی قربانی دینے اور امانت کی حفاظت کرنے کا فیصلہ فرمایا اور یہ خیال آپ کی امانت میں کوئی فرق پیدا نہ کر سکا.کہ یہ بکریاں تو غنیم کی مہینوں کی خوراک بن سکتی ہیں مگر آپ نے فرمایا کہ بکریوں کا منہ قلعے کی طرف کر کے ہانک دو.خدا تعالیٰ ان کو ان کے مالک کے پاس پہنچا دے گا.غلام نے ایسا ہی کیا اور بکریاں قلعے کے پاس پہنچ گئیں.جہاں سے قلعے والوں نے ان کو اندر داخل کر لیا.سبحان اللہ ! رسول الله ل ل ا ل و لیلی کسی شدت سے امانت کے اصول پر عمل کرتے اور کرواتے تھے.(ابن ہشام جلد ۴ صفحہ ۴۶) لڑنے والوں کے مال آج بھی میدان جنگ میں حلال سمجھے جاتے ہیں.کیا آج کل کے زمانہ میں جو مہذب زمانہ کہلاتا ہے کبھی ایسا واقعہ ہوا ہے کہ دوران جنگ دشمن کے جانور مال و اسباب ہاتھ آگئے ہوں اور ان کو دشمن فوج کی طرف سے واپس کر دیا گیا ہو.نہیں نہیں! بلکہ آج کی دنیا میں عام جالات میں بھی دشمن کے مال کی حفاظت تو در کنار اسے لوٹنا بھی جائز سمجھا جاتا ہے.مگر قربان جائیے دیانتداروں کے اس سردار پر کہ لڑنے والے دشمن کا مال جو فاقہ کش اور بھوک کے شکار مسلمانوں کی مہینوں کی غذا بن سکتا تھا اور
36 جس سے وہ اپنا محاصرہ لمبا کھینچ سکتے تھے دشمن کو دے دیا اور اس بات کی کوئی پرواہ نہ کی کہ یہ بکریاں محصور دشمن کے حوالے کرنے سے اس کی مہینوں کی غذا بن سکتی ہے.اس موقعہ پر کوئی اعتراض کر سکتا ہے کہ اس حبشی کے قبول اسلام کا باعث ایک بڑی فوج کا خوف یا طمع بھی ہو سکتا ہے مگر اس نو مسلم کا اپنا طرز عمل اس اعتراض کا جواب ہے چنانچہ جب اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تالیف قلب کی خاطر کچھ انعام دینا چاہا تو اس نے انگلی سے اپنی گردن کی طرف اشارہ کر کے کہا مال کے لئے نہیں میں تو شہادت اور جنت کے لئے مسلمان ہوا ہوں.اور آفرین ہے اس مرد حق پر کہ مسلمانوں کے لشکر میں شامل ہو کر اسی روز وہ جانثار شہید ہو گیا.مسلمان اس کی نعش اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس لائے تو رحمت دو عالم نے اس حبشی غلام کو کتنے پیارے لفظوں میں داد تحسین دی فرمایا.عَمِلَ قَلِيلاً وَ أجِرَ كَثِيرًا (بخاری کتاب الجهاد) یعنی کیا ہی خوش قسمت ہے یہ غلام کہ تھوڑا عمل کیا اور اجر بہت پایا.اسلام پر جبر کا الزام لگانے والوں سے پوچھنا چاہئے کہ وہ کیا مال غنیمت تھا جس کیلئے اس حبشی کو مسلمان کیا گیا؟ اور وہ کونسی تلوار تھی جس نے اس حبشی غلام کا دل جیتا؟ قلعہ ہائے خیبر : خیبر قلعے کو کہتے ہیں اور یہ دراصل محفوظ قلعوں کا ایک سلسلہ تھا.پہلا سلسلہ نطاہ کہلاتا تھا جس میں تین قلعے نائم صعب اور قتہ تھے.ان قلعوں کے چند روز اس کا محاصرہ کیا جس کے بعد یہ قلعہ فتح ہوا.اس قلعہ سے زینب بنت حیی بن اخطب قید ہوئیں جو بعد میں ام المومنین حضرت صفیہ کہلائیں.
37 وطیع اور سلالم کے آخری دو قلعوں کا محاصرہ چودہ روز تک جاری رہا.یہودی سردار صلح پر راضی ہو گئے.(سیرۃ الحلبیہ جلد ۳ صفحه ۴۸٬۴۷) محاصرہ کے بعد مسلمانوں کو ایک یہوری کے ذریعہ اہل قلعہ کی زمین دوز نہروں کا پتہ چلا جن کا پانی روک دینے کے نتیجہ میں اگلے روز یہود نے قلعوں سے باہر نکل کر زبردست لڑائی کی اور بالاخر حضرت علی کی قیادت میں یہ قلعہ فتح ہوا.انہی قلعوں میں سے ایک منجنیق بھی مسلمانوں کے ہاتھ آئی جو باقی قلعوں کی فتح میں کام آئی.قلعوں کا دوسرا سلسلہ شق نامی تھا جس میں سے ابی بری وغیرہ قلعے تھے.جو آسانی سے فتح ہوئے.قلعوں کا آخری سلسلہ کیتبہ کہلاتا تھا جس میں تین قلعہ قموص ، وصیح اور سلالم تھے یہودی پسپا ہو کر قلعہ قموص میں پناہ گزیں ہو گئے تھے جو خیبر کا سب سے بڑا قلعہ اور محفوظ ترین تھا.ہمیں روز تک مسلمانوں نے اس کا محاصرہ کیا جس کے بعد یہ قلعہ فتح ہوا اسی قلعہ سے زینب بنت حیی بن اخطب قید ہو ئیں جو بعد میں حضرت صفیہ کہلائیں اور ام المومنین کا بلند مرتبہ پایا.وضیع اور سلالم کے آخری دو قلعوں کا محاصرہ چودہ روز تک جاری رہا.بالاخر یہودی سردار صلح پر راضی ہو گئے.(سیرة الحلبيد جلد ۳ صفحه ۴۸٬۴۷) خیبر کے قلعوں میں سے دو قلعے بڑی جد و جہد سخت محاصرہ اور جنگ کے بعد فتح ہوئے ان میں سے ایک ناعم کا پہلا قلعہ ہے اور دوسرا قموص کا مرکزی اور آخری فتح ہو نیوالا قلعہ.نائم کا قلعہ وہ ہے جہاں یہود کی ساری طاقت جمع ہو کر آگئی تھی اور جو سب سے پہلے سات دن کے محاصرہ اور جنگ کے بعد فتح ہوا جب کہ قموص کا قلعہ ہیں دن کے محاصرہ کے بعد سب سے آخر میں فتح ہوا.اہل سیر و تاریخ نے ان دونوں قلعوں کی فتح کو خلط ملط کر دیا.بعض نے
38 سے پہلے فتح ہونے والے قلعہ ناعم کا فاتح حضرت علی کو قرار دیا ہے اور بعض نے قلعہ قموص کا فاتح حضرت علی کو بیان کیا ہے.تاریخی لحاظ سے پہلا قول زیاده درست معلوم ہوتا ہے.جسے طبری ابن ہشام صاحب الحلبیہ اور زرقانی کی تائید حاصل ہے.فتح خیبر کے ذکر کے ساتھ حضرت علی کا نام نامی زبان زد خلائق ہے اور بلاشبہ یہ ایک عظیم الشان سعادت ہے جو حضرت علی کے لئے مقدر تھی لیکن افسوس کہ شیر خدا حضرت علی کا یہ کارنامہ بعض لوگوں نے افراط و تفریط کی راہ اختیار کر کے مشتبہ کرنے کی کوشش کی ہے.بعض نے تو غلو کرتے ہوئے کہا کہ قلعہ خیبر جسے حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ بھی فتح نہ کر سکے.حضرت علی نے اس کا بہت بڑا دروازہ اکھیڑ کر بائیں ہاتھ میں بطور ڈھال کے پکڑ لیا اور لڑتے رہے.یہاں تک کہ فتح پائی.بعد میں ستر آدمی بھی اس دروازے کو ہلا نہیں سکے.ایک دوسرے گروہ نے در خیبر اکھاڑنے کی روایات بے اصل ، دروغ اور باطل قرار دی ہیں.(سیرة الحلبیہ جلد ۳ صفحه ۴۳٬۴۴) حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں کی آراء میں اعتدال نہیں.کتب سیرت کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ واقعہ بلا حقیقت نہیں اور تحقیق سے بالا خروہ سراغ مل جاتا ہے جو در خیبر (اکھاڑنے) کی پہیلی کا دلچسپ اور خوبصورت حل ہے.فتح خیبر کے ضمن میں یاد رکھنا چاہئے کہ خیبر کے مختلف قلعے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ مختلف جرنیلوں کے ہاتھ پر فتح ہوئے.ان میں سے ناعم کا قلعہ وہ تھا جو حضرت علی کے ہاتھ پر فتح ہوا اور جس سے خیبر کی مبارک فتح کا آغاز ہوا.یہ عام دستور ہے کہ سالار لشکر کے ماتحت کسی جرنیل کی فتح و شکست اس سپہ سالار کی ہی فتح و شکست ہوا کرتی ہے.اور حق یہ ہے کہ فتح خیبر میں
39 رسول اللہ میر کی نہ صرف دعا ئیں ، تدبیریں اور زبردست جنگی حکمت عملی کار فرما تھی.اور آپ نہ صرف بنفس نفیس اس لشکر میں موجود تھے.بلکہ خیبر کے پہلے ہی روز آپ نے دو زر ہیں اور حفاظتی خود پہنا اپنے ” طرب" نامی گھوڑے پر سوار ہو کر ہاتھ میں نیزہ اور ڈھال لئے میدان جنگ میں اترے اور زبردست جنگ کی اور ایک بہترین قائد حرب کے طور پر آئندہ دنوں میں اپنے صحابہ کو میدان جنگ میں لڑنے کا ایک شاندار نمونہ دیا.(سيرة الحلبيه جلد ۳ صفحه ۳۹ ۴۰) لہذا آپ کی موجودگی میں فتح کا سہرا کسی اور کے سر باندھنا کسی طرح بھی جائز نہیں.پس خیبر کی فتح کا خوبصورت تاج پوری شان سے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر سجا ہوا ہے کیونکہ یہ فتح آپ کی دعاؤں اور گریہ و زاریوں کی فتح تھی.یہ آپ کی دور اندیشی بصیرت، شجاعت و بہادری او العزمی اور ثابت قدمی ایسے خلق عظیم کی فتح تھی.فاتح خیبر حضرت علی : ہاں اس میں بھی شک نہیں کہ خیبر کی ایک جزوی فتح حضرت علی کے ذریعہ سے ہوئی لیکن یہ بات دلچسپ اور قابل ذکر ہے کہ اس فتح کے دیباچہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں اور تدبیروں کے ساتھ حضرت عمرہ کی ایک کامیاب کوشش کا بھی دخل ہے.واقعہ یوں ہے کہ خیبر کے محاصرے کی ساتویں رات مسلمانوں کے لشکر کے گرد حضرت عمرؓ ایک حفاظتی دستے کے ساتھ پہرہ پر مامور تھے.اسی اثناء میں آپ نے ایک یہودی کو لشکر گاہ کے قریب گھومتے ہوئے پکڑ لیا اور اسے نبی کریم میں ان کی ویلیو کے پاس لے آئے.آنحضرت میں اس وقت نماز تہجد میں مصروف تھے اور دعائیں کر رہے تھے.اس یہودی کو جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا تو اس نے قلعہ میں
በ موجود اپنے اہل و عیال کی امان کا وعدہ لے کر آپ کو کئی اہم جنگی راز بتا دیئے.اس نے بتایا کہ یہودی مسلسل جنگ سے تنگ آکر اس قلعہ کے فتح ہو جانے کے خوف سے اسے خالی کیا چاہتے ہیں.(سيرة الحلبیہ جلد سوم صفحه ۴۰-۴۱) اس یہودی سے ملنے والی اطلاعات کی روشنی میں اگلے روز کیلئے آنحضرت میں نے زبردست منصوبہ تیار کیا.پہلے چند دنوں کی جنگ سے متاثرہ اسلامی فوج کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے آپ نے اعلان فرمایا کہ کل میں لشکر کا علم اس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ پر خدا تعالیٰ فتح بخشے گا اور وہ بڑھ بڑھ کر حملے کرے گا اور پیچھے نہیں ہے گا.(سیرۃ الحلبیہ سوم صفحہ ۴۱) یہ رات بہت امید و بیم کی رات تھی.وہ صحابہ جنہوں نے عمر بھر امارت کی خواہش نہ کی تھی آج اس امید اور تمنا سے رات کی گھڑیاں گن گن کر کاٹ رہے تھے کہ شاید فتح خیبر کی یہ پیشگوئی اور تقدیر ان کے ذریعہ پوری ہو.( بخاری کتاب المغازی باب غزوہ خیبر) در اصل رسول اللہ علیہ کا تعلق محبت ہر صحابی سے ایسا گہرا تھا کہ ہر ایک کی نظر اس محبت پر تھی.ہر ایک آپ کے عشق میں سرشار منتظر تھا کہ کیا معلوم جو قرعہ فال اس کے نام پڑے.مگر یہ تو ایک الہی تقدیر تھی جو اگلے روز ظاہر ہوئی.صبح ہوئی تو رسول اللہ میں اور ہم نے حضرت علی کرم اللہ وجمعہ کو بلوایا دعا کروائی اور علم حضرت علی کے حوالے کر دیا.حضرت علی کو آشوب چشم کی تکلیف تھی.رسول اللہ علی نے ان کی آنکھوں پر اپنا مبارک لعاب دہن لا ل لگایا.خدا کے فضل سے ان کی آنکھیں اچھی ہو گئیں.(سیرة الحلبيه جلد سوم صفحه ۴۲) غزوہ خیبر کے دوران آنحضرت میم کے ذریعہ ظاہر ہونیوالے متعدد
41 اقتداری معجزات میں سے یہ ایک عظیم معجزہ تھا جس کے ساتھ کوئی دعا نہ تھی بلکہ ایک چھپی ہوئی طاقت اللی محفوظ تھی.حضرت علی سیاہ رنگ کا علم ہاتھ میں لے کر اسلامی فوج کی قیادت کرتے ہوئے نکلے تو رسول اللہ میں کیا اور ہم نے فرمایا کہ پہلے یہود کو اسلام کی دعوت دیتا اور اگر وہ اسلام قبول کرنا چاہیں تو ان سے جنگ نہ کرنا.اگر خدا تعالیٰ تیرے ذریعے سے ایک جان کو بھی ہدایت دے تو یہ تیرے لئے دنیوی مال و مثال حتی کہ سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہے.(بخاری کتاب المغازی باب غزوہ خیبر جلد (۳) آپ نے اپنے دست مبارک سے حضرت علی کی کمر میں تلوار حمائل کی اور الہی تائید کی خوشخبری سناتے ہوئے فرمایا.اے علی ! یہود کی کتابوں میں لکھا ہے کہ ایلیا نامی ایک شخص ان کو تباہ کرے گا.اس لئے تم جا کر پہلے انہیں اپنا نام بتانا اس سے ان کے حوصلے پست ہو جائیں گے.2 (بحار الانوار جلد ۶ صفحه (۷۴۸) حضرت علی نے جب خیبر کے قلعہ کے پاس جا کر جھنڈا گاڑا تو ایک یہودی نے پوچھا.اے صاحب علم ! تم کون ہو؟ اور تمہارا نام کیا ہے؟ آپ نے کہا.علی بن ابی طالب.اس نے مسلمانوں کو مخاطب ہو کر کہا.موسیٰ کی کتاب کی قسم آج تم غالب آؤ گے.(ابن ہشام جلد ۴ صفحہ ۴۲) عوام کے اس ہر اس اور بددلی کے باوجود سرداران خیبر ابھی بھی مرنے مارنے پر تلے ہوئے تھے.چنانچہ اس روز بھی مرحب للکارتا ہوا میدان میں آیا اور اعلان کیا کہ سرزمین خیبر کو معلوم ہے کہ میں ایک آزمودہ کار جرنیل مرحب ہوں.حضرت علی نے اس کی للکار کا جواب دیتے ہوئے فرمایا.
42 انَا الَّذِي سَمَّتْنِي حَيْدَرَة ر غَامُ أَجَامٍ وَ لَيْنَّ قَسْوَرَهُ (تاریخ الخميس جلد ۲ صفحه ۵۰) میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام شیر رکھا ہے.میں میدان میں سخت حملہ اور شیر ببر کی طرح ہوں." حضرت علی نے مرحب سے مقابلہ کر کے اسے مار گرایا.مرحب کے بعد اس کا بھائی یا سر مقابلہ کیلئے نکلا.جو زبردست شہسوار تھا اس نے بھی بهادرانہ نعرہ بلند کیا کہ سرزمین خیبر جانتی ہے کہ میں یا سر ہوں اسلحہ سے لیس ایک بہادر جواں مرد) رسول اللہ ملی یا یا اللہ نے حضرت زہیر کو اس کا مقابلہ کرنے کیلئے ارشاد فرمایا اور حضرت زبیر نے آگے بڑھ کر اس کا سر تن سے جدا کر دیا.یہود کے حوصلے تو پہلے ہی پست ہو چکے تھے اپنے سردار کے قتل سے وہ بالکل ہی ہمت ہار بیٹھے.قریب تھا کہ وہ قلعہ میں داخل ہو کر دروازے بند کر لیتے اور نتیجہ مسلمانوں کو ہر روز کی طرح ہزیمت اٹھانا پڑتی.مگر آج تو فتح کا دن تھا.اللہ تعالٰی نے حضرت علی کو ایسی غیر معمولی فراست، ہمت اور جرات بخشی کہ انہوں نے عزم کر لیا کہ وہ آج پسپا ہوتے ہوئے یہودی دشمنوں کو قلعہ کا دروازہ بند نہیں کرنے دیں گے.چنانچہ وہ تیزی سے آگے بڑھے.بائیں ہاتھ سے ڈھال پھینک دی اور دروازے کا ایک پٹ پوری قوت سے پکڑ لیا.یهودی دروازہ بند کرنے کے لئے آپ پر حملہ کرتے تھے اور آپ دروازہ کے پیچھے ہو کر اور اسے ڈھال بنا کر ان کا مقابلہ کرتے رہے.اتنے میں مسلمانوں کا ایک دستہ آپ کی مدد کیلئے پہنچ گیا اور مسلمان لڑتے ہوئے قلعہ کے اندر داخل ہو گئے.(ابن ہشام جلد ۴ صفحه ۴۳ و سیرة الحلبيه جلد ۳ صفحه ۴۶)
43 یہ ہے فتح خیبر کا عظیم الشان آغاز جو شیر خدا حضرت علیؓ کے حصہ میں آیا اور جس سے آپ کی فراست و بصیرت ، عزم و ہمت اور جوانمردی ظاہر وباہر ہے جس کے سبق انہوں نے محمد مصطفی ملی لی ایم کے خلق عظیم سے سیکھے تھے.خیبر کے قلعوں میں سے پہلے قلعہ کی فتح سے گویا فتح خیبر کا دروازہ کھل گیا.مسلمانوں کو مال غنیمت اور سامان رسد ہاتھ آیا اور یوں باقی قلعے دوسرے مسلمان جرنیلوں کے ہاتھوں فتح ہوتے چلے گئے.واضح ہو کہ فتح خیبر کا یہی وہ معقول اور قابل فہم حل ہے جسے تاریخ و سیرت کے بنیادی ماخذ کی تائید حاصل ہے.چنانچہ ابن ہشام تاریخ الخمیس سيرة الحلبیہ اور اہل تشیع کی مستند کتاب بحار الانوار میں لکھا ہے تناول عَلِيُّ الْبَاب وَ تَتَرَسَ بِهِ يَزِ اجْتَذَبَ أَحَدَ الْأَبْوَابِ کے الفاظ بھی ہیں.یعنی حضرت علی نے آہنی گیٹ کا ایک دروازہ پکڑ لیا اور بطور ڈھال خود اس کی آڑ لی اور اسے پوری قوت سے اپنی طرف کھینچے رکھا اور یوں دشمن کو وہ دروازہ بند نہ کرنے دیا.(1) ابن ہشام جلد ۴ صفحه 1 تاریخ المیس جلد ۲ صفحه ۵ ill- سیرت حلبیہ جلد ۳ صفحه ۴۳) i بعد میں یار لوگوں نے اس قصہ کو حاشیہ آرائی سے یوں بیان کیا کہ حضرت علی نے اکھیڑ کر وہ بھاری بھر کم آہنی دروازہ ہاتھ میں اٹھا لیا.یہ کتنی بے معنی اور بے مقصد روایت ہے جس کا فتح سے کوئی تعلق ہی نہیں بنتا.ایسی لغو روایت حضرت علی کی طرف منسوب کرنا بھی آپ کی شان کے خلاف اور بے ادبی کی بات ہے.iii شان خلق عظیم : فاتحین عالم کے حالات پڑھ کر دیکھئے کہیں آپ کو آبادیاں ویران اور قلعے مسمار ہوتے نظر آئیں گے تو کہیں انسانی کھوپڑیوں کے مینار دکھائی دیں گے.مگر فتح خیبر میں تو مجھے
44 رسول اللہ میں میا و ریمیک کی عظمت اخلاق کا حسین، روشن اور بلند و بالا مینار نظر آتا ہے کہ جسے سر اٹھا کر دیکھیں تو پگڑیاں گرتی ہیں.ہاں! فتح خیبر میں فاتحین عالم کے بر خلاف مجھے محمد مصطفی میں اسلام کے خلق کی وہ عظیم الشان فتح نظر آتی ہے جو مفتوح قوم کے ساتھ حسن سلوک، عفو اور رحم اور احسان سے عبارت ہے.فتح کے بعد قلعہ نائم کے ایک یہودی سردار نے آنحضرت میں کی خدمت میں حاضر ہو کر بعض مسلمانوں کی شکایت کی کہ وہ ہمارے جانور ذبح کر کے کھا رہے ہیں.ہمارے پھل اجاڑ رہے ہیں اور عورتوں پر بھی سختی کی جا رہی ہے.یہ یہودی دشمن ہونے کے باوجود بھی اس منصف مزاج رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے انصاف کی توقع لے کر آیا تھا اور آنحضرت میں سے اس یہودی کی یہ کچی توقع پوری ہوئی اور رسول اللہ علی نے حضرت عبد الرحمن بن عوف سے فرمایا کہ آپ گھوڑے پر سوار ہو کر مسلمانوں میں یہ اعلان کریں کہ جنت صرف مومنوں کو ہی ملے گی نیز سب کو نماز کیلئے بلانے کا ارشاد فرمایا.جب صحابہ اکٹھے ہو گئے تو نماز کے بعد آنحضرت علی نے تقریر فرمائی.آپ نے فرمایا کہ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں جو کچھ حرام کر دیا ہے اس کے علاوہ کوئی چیز حرام نہیں.مگر یاد رکھو اس کے علاوہ بھی اوامر و نواہی مجھے دیئے گئے ہیں.سنو! اللہ تعالیٰ تمہیں بلا اجازت اہل کتاب کے گھروں میں داخل ہونے اور ان کے پھل کھانے کی اجازت نہیں دیتا.جب کہ وہ اپنا وہ حق ادا کر رہے ہوں جو ان کے ذمہ ہے.(زرقانی جلد ۲ صفحه ۱۲۲۶ تاریخ میں جلد ۲ صفحه ۴۷) آنحضرت میں کو معلوم ہوا کہ بعض لوگوں نے یہ نصیحت کی تقسیم
45 سے قبل خیبر کے کچھ جانور پکڑ کر ذبح کر لئے ہیں اور ان کا گوشت پک رہا ہے آپ نے فور آوہ ہانڈیاں توڑ دینے اور گوشت گرانے کا حکم دیا..(بخاری کتاب المغازی) اس طرح آپ نے مسلمانوں کے جذبات ان کی بھوک اور فاقہ کی قربانی تو دے دی لیکن امانت اور دیانت کے اصول قربان کرنا گوارا نہ کیا.آنحضرت میت کو خوب جانتے تھے کہ جب فتوحات کے دروازے کھلتے ہیں تو ان نازک لمحات میں برے اخلاق اور بد عادات بھی چور دروازوں سے داخل ہو جایا کرتے ہیں ، حتی کہ حلال و حرام کی تمیز بھی باقی نہیں رہتی.اس مصلحت کے پیش نظر فتح خیبر کے موقع پر حلت و حرمت کے احکام کا اعلان کر کے آنحضرت علی نے مسلمانوں کیلئے کچھ پابندیاں لگا دیں.میں پوچھتا ہوں کیا لوٹ کھسوٹ کرنے والے ایسی حد بندیاں قائم کیا کرتے ہیں ؟ فتح کے دوران تو رات کے بعض پرانے نسخے بھی مسلمانوں کو ملے جن کے بارے میں خیال تھا کہ تحریف سے پاک ہیں.یہودی آنحضرت میر کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ ہماری کتاب مقدس ہمیں واپس کی جائے اور رسول کریم ملایا اور ہم نے صحابہ کو حکم دیا کہ یہود کی مذہبی کتابیں ان کو واپس کر دو.مذہبی رواداری کی یہ کتنی عظیم الشان مثال ہے.(سيرة الحلبيه جلد ۳ صفحه ۴۹) سوچنے کا مقام ہے کہ اس زمانہ کی یہودی تورات کا کوئی نسخہ آج مسلمانوں کے پاس محفوظ ہوتا تو تحقیق تحریف کے میدان میں اس کی کتنی قیمت ہوتی اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا.لیکن اس رحمتہ للعالمین نے یہ بھی گوارا نہ کیا کہ یہودیوں کی کتاب کا ایک نسخہ بھی رکھ کر ان کو جذباتی تکلیف پہنچے خواہ اس کے مقابل مسلمانوں کو کتنا ہی فائدہ نہ ہوتا ہو.
46 الغرض فتح خیبر کا دروازہ کھل گیا تو باقی قلعے بھی آہستہ آہستہ معمولی محاصرہ اور جنگ کے بعد فتح ہوتے چلے گئے.یہاں تک کہ قموص کا مضبوط قلعہ جہاں یہود کی طاقت پھر جمع ہو گئی تھی ہیں دن کے سخت محاصرہ کے بعد فتح ہوا.اب صرف دو قلعے وصیح اور سلالم باقی رہ گئے تھے جن میں بنو نضیر کا خاندان آباد تھا.خیبر کے دس قلعوں کی فتح حاصل کر لینے کے بعد ان قلعوں کی فتح چنداں مشکل نہ تھی لیکن صلح و آشتی کے اس شہزادے کو تو دیکھو کہ جب ان دونوں قلعوں کے یہود تنگ آکر صلح کی درخواست کرتے ہیں تو آپ بلا توقف صلح کی طرف جھک جاتے اور جنگ پر صلح کو ترجیح دیتے ہیں اس صلح کی شرائط میں یہ بات بھی شامل تھی کہ ان دونوں قلعوں کے یہود کا تمام مال مسلمانوں کے حق میں ضبط ہو گا اور جو شخص اس معاملہ میں جھوٹ یا قریب سے کام لے گا اور کوئی مال اور جنس چھپا کے رکھے گاوہ اس معاہدہ صلح کی حفاظت میں نہیں آئے گا اور غداری کی سزا کا حق دار ہو گا.آنحضرت میام کو یہود کی بد عہدیوں کا تلخ تجربہ تھا.آپ نے اس معاہدہ صلح پر حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے علاوہ دس معتبر یہود کے بھی دستخط کروالئے.(تاریخ الخمیس جلد دوم صفحہ ۴۶) اس کے باوجود ان قلعوں کے سردار کنانہ بن ربیع نے (جو حیی بن اخطب کا داماد تھا) معاہدہ شکنی کرتے ہوئے اپنا خزانہ کہیں کھنڈرات میں دفن کر دیا.اس معاہدہ شکنی کے علاوہ کنانہ کا ایک اور جرم قتل بھی تھا کہ اس نے مرحب کے ساتھ مل کر جنگ میں وقفہ کے دوران محمد بن مسلمہ کے بھائی محمود بن مسلمہ پر چکی کا پاٹ گرا کر سخت ظالمانہ اور اذیت ناک طور پر قتل کیا تھا.چنانچہ اس کے قصاص میں وہ قتل ہوا.اور اس کے اہل و عیال بھی اس معاہدہ کی حفاظت میں نہ رہے اور قید ہوئے.جن میں کنانہ کی نو بیاہتا بیوی زینب
47 بھی تھیں جو بنو نضیر کے سردار معاند اسلام حسی بن اخطب کی بیٹی تھیں.جن کو بعد میں کمال شفقت اور احسان فرماتے ہوئے آنحضرت میں ہم نے اپنے عقد میں لے لیا تو صفیہ کے نام سے مشہور ہو ئیں.(سیرۃ الحلبیہ، جلد سوم صفحہ ۵۰) ہر چند کہ یہودی سردار کنانہ کا جرم قتل کے قصاص میں مارا جانا اور اپنی مبینہ غداری اور معاہدہ شکنی کی قرار واقعی سزا پانا عین انصاف تھا اس کے باوجود عیسائی مستشرقین کا یہ اعتراض کہ کنانہ کی بیوی سے شادی کرنے کیلئے اور اس کا مال حاصل کرنے کیلئے آنحضرت میں میں نے اسے قتل کروا دیا سخت بے ہودہ اور بے حقیقت نظر آتا ہے اور مستشرقین کے اسلام کے ساتھ بغض و عناد اور ان کے شدید علمی ومذہبی تعصب کو ظاہر کرتا ہے جو خاص انہیں کا ہے.تقسیم غنائم اور قیام عدل و احسان : فتح غیر کے بعد جب مال غنیمت کی تقسیم کا وقت آیا تو دنیا نے اس حق پرست اور منصف و محسن انسان سے ادائیگی حقوق کا شاندار نظارہ دیکھا.عیسائی مؤرخین خیبر کے حملہ کو مال غنیمت کے حصول کا ذریعہ قرار دیتے ہیں.کاش وہ دیکھیں کہ میرے آقا کے سامنے مال کی کوئی قیمت اور حقیقت نہیں.وہ تو بے دریغ مال غنیمت تقسیم کرتے نظر آتے ہیں.خیبر میں شامل ہونے والے پیدل مجاہدوں کو ایک حصہ اور گھوڑ سواروں کو تین حصے دیئے جاتے ہیں.ان عورتوں کو بھی حصہ دیا جاتا ہے جو جنگ میں شریک تو نہ تھیں لیکن زخمیوں کی دیکھ بھال پر مامور تھیں.ان مہاجرین حبشہ کا بھی خیال رکھا جاتا ہے جو عرصہ دس سال کی غریب الوطنی کے بعد حبشہ سے واپس لوٹے تھے.یمن کے ان نو مسلموں کو بھی مال عطا کیا جاتا ہے جو حضرت ابو ہریرہ کے ساتھ آئے تھے.(بخاری کتاب المغازی باب غزوہ خیبر)
48 مال کی یہ بے دریغ تقسیم دیکھ کر مجھے اپنے آقا کا وہ فقرہ یاد آتا ہے إِنَّمَا أَنَا قَاسِم وَاللهُ الْمُعْطِئ میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں عطا کرنے والا تو خدا ہے.(بخاری کتاب العلم باب من سرد الله به خیرا) امر واقعہ یہ ہے کہ ہمارے آقا و مولا محمد مصطفی ملی پر بے شمار خزانوں کے دروازے کھولے گئے مگر آپ نے اپنے پاک ہاتھوں سے دنیا کو ذرا آلودہ نہ کیا اور وہ سب اموال خدا کی راہ میں خرچ کر دیئے.مفتوح قوم پر احسان مزید : فتح خیبر کے بعد یہود کا ایک وفد آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ آپ ہمیں خیبر سے بے دخل نہ کریں بلکہ خیبر کی زمینوں پر کام کرنے دیں.ہم نصف پیداوار آپ کے حوالے کریں گے.آپ نے یہودیوں پر احسان فرماتے ہوئے ان کی یہ درخواست بھی قبول کرلی اور خیبر کی زمینیں ان کو نصف پیداوار لینے کی شرط پر بٹائی پر دیدیں.(بخاری کتاب المغازی و کتاب الشروط) زہر سے قتل کرنیکی سازش : مگر احسان پر احسان دیکھ کر بھی یہودی قوم کی بد عہدیاں ختم نہیں ہوئیں.انہوں نے رسول اللہ میں ان کو زہر دے کر قتل کرنے کا منصوبہ بنایا اور ایک سریع الاثر زہر بہت بڑی مقدار میں بکری کی ران کے گوشت میں پکا کر حضور کی خدمت میں سلام بن مشکم کی بیوی زینب کے ذریعہ تحفہ بھیجوایا گیا.آنحضرت کو یہ کھانا پیش کیا گیا.آپ نے پہلا نوالہ منہ میں ڈالا ہی تھا کہ زہر کا احساس ہو گیا.ایک صحابی حضرت بشیر نے لقمہ نگل لیا جو کچھ عرصہ بعد اس زہر کے مہلک اثرات سے جانبر نہ ہو سکے اور اللہ کو پیارے
49 ہو گئے.رسول اللہ میں نے اس عورت اور دوسرے یہودیوں کو بلایا اور چھا کہ اے یہود! سچ سچ بتاؤ تم نے اس گوشت میں زہر کیوں ڈالا ؟ وہ عورت کہنے لگی ہم نے سوچا کہ اگر آپ بچے نہیں تو آپ سے نجات مل جائے گی اور اگر بچے ہیں تو زہر آپ پر اثر نہیں کرے گا.اب مجھ پر کھل گیا ہے کہ آپ بچے ہیں اور میں یہاں موجود سب لوگوں کو گواہ ٹھہرا کر کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوتی ہوں.رسول کریم میں ان کی ہیلی نے اسے بھی معاف فرما دیا.البتہ بعض روایات کے مطابق ایک سال بعد حضرت بشیر اس زہر کے اثر سے جانبر نہ ہو سکے تو ان کے قصاص میں اسے سزائے موت ملی.(بخاری کتاب الطب و تاریخ الخميس جلد دوم صفحه ۵۲) مگر آپ نے اپنی ذات کیلئے کوئی انتقام لینا پسند نہ فرمایا حالانکہ آخری عمر تک اس زہر کے اثر سے تکلیف محسوس فرماتے رہے.چنانچہ جب آپ آخری بیماری میں آخری سانس لے رہے تھے تو حضرت عائشہ سے فرمانے لگے اے عائشہ! میں اب تک اس زہر کی اذیت محسوس کرتا رہا ہوں جو خیبر میں یہودیوں نے مجھے دیا تھا.اور اب بھی میرے بدن میں اس زہر کے اثر سے تکلیف اور جلن کی کیفیت ہے.(بخاری کتاب المغازی) نبی کریم میں نے یہود پر مزید احسان کرتے ہوئے ان کے رفع غم کی تدبیریں کیں اور ان کو اپنے اعتماد میں لینے کی کوششیں فرماتے رہے.حضرت صفیہ جو بنو نضیر کے سردار کی بیٹی اور بنو قریظہ کے سردار کی بیوی ہونے کے لحاظ سے دو قبیلوں کی سردار تھیں.جب ایک صحابی حضرت وحید نے ان کو آنحضور میں ولی کی اجازت سے لونڈی کے طور پر لے لیا تو بعض صحابہ کے اصرار پر یہود کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہوئے آنحضور میں نے یہود کی
50 ملکہ کو ایک عام صحابی سے لے کر نہ صرف آزاد کیا بلکہ صفیہ کو اجازت دی کہ چاہیں تو اپنے عزیزوں کے پاس جا سکتی ہیں اور چاہیں تو حضور میلیا کے پاس بیوی بن کر رہیں.حضرت صفیہ نے عرض کیا کہ میرے دل میں تو اسلام کی صداقت بیٹھ چکی ہے میں مسلمان ہوتی ہوں اور مجھے آپ کے ساتھ رہنا پسند ہے.( تاریخ الخمیس جلد ۲ صفحہ) شادی کے بعد انہوں نے حضور میں کو اپنی ایک پرانی خواب بھی سنائی کہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ چاند میری جھولی میں آپڑا ہے.میں نے اپنے خاوند کو یہ خواب سنائی اس نے کہا تمہارا باپ عالم آدمی ہے اسے یہ خواب سنانی چاہئے.چنانچہ اپنے باپ کو جب میں نے یہ خواب سنائی تو اس نے زور سے میرے منہ پر تھپڑ مارا اور کہا.نالائق حجاز کے نئے بادشاہ سے شادی کرنا چاہتی ہے.جو نبی ہونے کا دعوی کرتا ہے.(ابن ہشام جلد ۴ صفحہ ۴۳) یہ اس نے اس لئے کہا کہ عرب کا قومی نشان چاند تھا.یہ خواب جہاں رسول اللہ میں تعلیم کی صداقت کا نشان ہے وہاں حضرت صفیہ کے صدق و صفا کی بھی مظہر ہے.کہ اس خواب نے جس طرح صفیہ کے باپ کے دل میں بغض پیدا کیا تھا.جب صفیہ نے اس کی تعبیر سنی ہو گی تو ان کے دل میں رسول اللہ علیہ کی محبت کی پہلی کو نیل ضرور پھوٹی ہوگی.سرولیم میور لائف آف محمد میں یہ خواب (جو حضرت صفیہ نے خود آنحضرت میم کو سنائی بیان کرنے کے بعد کھسیانا اور حواس باختہ ہو کر اپنے تعصب میں جلتا ہوا ایک عجیب مضحکہ خیز بات کرتا ہے وہ لکھتا ہے کہ :.صفیہ بہت جلد محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف مائل ہو گئیں اور اپنی یہ خواب حضور کو سنانے لگیں لیکن خیبر کی ساری عورتیں ایسی بے وفا نہ تھیں بلکہ قومی جذبہ رکھنے والی ان عورتوں میں ایک دوسری
51 زینب بھی تھی جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کو بڑی جرات سے زہر دیا تھا.2 ملاحظہ کیجئے صفیہ کے والد اور اس کے تیرہ سو سال بعد پیدا ہونے والے معاند اسلام سرولیم میور پر حضرت صفیہ کے خواب پر معاندانہ رد عمل آپس کتنا مشابہ ہے کہ وہ دونوں حضرت صفیہ کے خواب کو سن کر برافروختہ میں ہوتے ہیں اور حضرت صفیہ جب تعبیر سے لاعلمی کے باعث کمال سادگی اور سچائی سے اپنی خواب والد کو سناتی ہیں تو وہ تعبیر کر کے تھپڑ مارتا ہے کہ گویا یہ خواب کیوں دیکھی؟ اور سرولیم میور اس کچی خواب کو سن کر اور بعد میں پورا ہوتی دیکھ کر اور بھی غصے میں آجاتا ہے اور حضرت صفیہ کو بے وفائی کا الزام دینے لگتا ہے اور اس سے زیادہ آخر وہ کر بھی کیا سکتا تھا.لیکن اس واقعہ سے ایک بات صاف ظاہر ہے کہ صفیہ جن کا باپ خاوند اور عزیز و اقارب رسول اللہ میں دیوی کے ہاتھوں مارے گئے ان کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کوئی معمولی بات نہیں بلکہ حیرت انگیز امر ہے اور یہ حیرت ہمیں چودہ سو سال کے فاصلہ کی وجہ سے پیدا نہیں ہو رہی.بلکہ جب یہ واقعہ رونما ہو رہا تھا تو اس وقت اس سے کہیں زیادہ حیرت و استعجاب کے ساتھ کچھ خوف اور اندیشے بھی نمایاں تھے.جس کا اظہار اس واقعہ سے خوب ہوتا ہے.جو غزوہ خیبر سے واپسی پر پیش آیا.ابو ایوب انصاری کی فدائیت : حضرت صفیہ " کے رخصتانہ کی رات کا ذکر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز پڑھانے کے لئے اپنے خیمہ سے باہر نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ابو ایوب انصاری تلوار سونتے مستعد کھڑے ہیں.سرکار دو عالم نے پوچھا ابو ایوب کیا بات ہے؟ عرض کیا.جان سے عزیز آقا! صفیہ کے
52 عزیز اور رشتہ دار ہمارے ہاتھوں قتل ہوئے تھے.اس وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے خیال سے میرے دل میں کئی اندیشے اور وسوسے اٹھتے تھے.اس لئے میں آج ساری رات حضور میں ان کے خیمہ کا پہرہ دیتا رہا ہوں.یقینا رسول اللہ مال کے یہ عاشق صادق، فدائی اور جاں نثار صحابی ابو ایوب آفرین کے لائق ہیں.لیکن ان کو کیا معلوم تھا کہ صفیہ تو خود رسول الله علی دیوی کی محبت کی تلوار سے گھائل ہو چکی ہیں.پھر قربان جائیں اس محسن اعظم میل پر جو کسی کا احسان اپنے سر نہ رکھتے تھے.اسی وقت دعا کی."اے اللہ ! ابو ایوب کو ہمیشہ اپنی حفاظت میں رکھنا جس طرح رات بھر یہ میری حفاظت پر مستعد رہے ہیں." (ابن ہشام جلد نهم صفحه ۴۵) اور ہمارے آقا کی یہ دعا قبول ہوئی.ابوایوب نے بہت لمبی عمر پائی اور پھر آپ کے مزار کو گردش زمانہ آج تک مٹا نہیں سکی بلکہ وہ آج بھی قسطنطنیہ میں محفوظ ہے اور مرجع خلائق ہے.(سیرۃ الحلبیہ جلد سوم صفحہ ۵۲) راقم الحروف کو بھی استنبول میں ان کے مزار پر حاضری اور دعا کی توفیق ملی.حق یہ ہے کہ حضرت صفیہ کے اخلاص و فدائیت کے محرک دراصل آنحضرت می ای ریلی کے اخلاق عظیمہ ہی تھے.چنانچہ جب حضرت صفیہ پہلی بار خیبر میں حضور کی خدمت میں دوسرے قیدیوں کے ساتھ پیش ہو ئیں تو بلال ان کو یہودیوں کی بعض لاشوں میں سے لے کر گزرے تاکہ ان پر ہیبت طاری ہو جائے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال سے فرمایا.”اے بلال! کیا تیرے دل سے رحم مٹ گیا ہے جو تو عورت ذات کو ان کے مقتولوں کی لاشوں کے پاس سے لے کر آئے ہو." حضرت بلال نے
.53 ایسا کرنے پر معذرت چاہی.حضرت صفیہ جن کے دل میں اپنے خواب کی وجہ سے پہلے ہی رسول اللہ علیہ کی عظمت بیٹھ چکی تھی.اب آپ کی رحمت کا یہ پہلا نمونہ دیکھ کر ان کی محبت میں یقیناً اضافہ ہوا ہو گا.(ابن ہشام جلد ۴ صفحه ۴۳) پھر سوچنا چاہئے کہ اس وقت شہزادی صفیہ کے دل پر کیا گزری ہوگی جب ایک عام صحابی نے انہیں اپنی لونڈی بنا لیا.مگر محمد مصطفی میں دی ہم نے صفیہ پر ایک اور احسان کرتے ہوئے اور ان کے جذبات اور شاہانہ مرتبہ کا خیال کرتے ہوئے انہیں اپنے عقد میں لے لیا.صرف یہی نہیں بلکہ حضرت صفیہ کا بیان ہے کہ شادی کے بعد آنحضرت میں تم نے مجھ سے اس قدر نرمی اور محبت کا سلوک فرمایا کہ میرا دل صاف ہو گیا.اور سب کدورتیں مٹ گئیں.آپ " مجھے جنگ کی تفاصیل بیان کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ تمہارا باپ جنگ احزاب میں سارے عرب کو میرے خلاف بھڑکا کر کھینچ لایا تھا اور اس نے یہ یہ ظلم کئے.تمہاری قوم نے یہ یہ زیادتیاں کیں جس کا انجام بالا خر انکو دیکھنا پڑا.حضرت صفیہ فرماتی ہیں.اس وقت تک حضور مجھ سے محبت بھری باتیں فرماتے رہے کہ میری سب کدورتیں دھل گئیں اور سینہ صاف ہو گیا.مجھے لگا جیسے دنیا میں میرے سب سے زیادہ محبوب وجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.شاید یہ وجہ بھی ہوگی کہ رسول اللہ میں نے آپ کا نام صفیہ رکھا جس کے معنی صفائی دل کے بھی ہو سکتے ہیں.حضرت صفیہ فرماتی ہیں.مَا رَأَيْتُ قَطُّ اَحْسَنَ خُلُقًا مِنْ رَّسُولِ اللهِ کہ میں نے رسول اللہ
54 سے زیادہ خوبصورت اخلاق والا انسان کبھی نہیں دیکھا.(سيرة الحلبيه جلد ۳ صفحه ۵۲-۵۱) خیبر سے واپسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت صفیہ کو خود اپنا گھٹنا بچھا کر اونٹ پر سوار کراتے تھے.(بخاری کتاب المغازی) بعد میں ایک دفعہ کسی زوجہ مطہرہ نے حضرت صفیہ کو یہودی ہونے کا طعنہ دیا تو وہ رونے لگیں.آنحضرت امین و ام ایم کو پتہ چلا تو فرمایا.اے صفیہ ! تم نے یہ کیوں نہ کہا کہ میرا باپ ہارون" "میرا چچا موسیٰ اور میرے شوہر محمد ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مرض الموت میں صفیہ آپ سے کہنے لگیں یا رسول اللہ ! خدا کی قسم میں چاہتی ہوں کہ آپ کی بیماری مجھے مل جائے اور آپ اچھے ہو جائیں.اس پر بعض ازواج مطہرات نے باہم آنکھ کا اشارہ کیا جسے نبی کریم نے دیکھ لیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو صفیہ کے قلب صافی سے واقف تھے فرمانے لگے.بخدا! یہ اپنی بات میں کچی ہے.(زرقانی جز ۲ صفحه ۲۲۳) سوچنے کا مقام ہے کہ صفیہ کا باپ تو رسول اللہ میم کے خون کا پیاسا تھا اور بیٹی آپ پر جان چھڑکتی ہے.سادگی کی شان خیبر سے واپسی پر صہبا مقام پر آنحضور نے - حضرت صفیہ کا ولیمہ کیا.اس فاتح خیبر اور شاہ دو جہاں کا ولیمہ کیا تھا؟ دنیا کی شان و شوکتیں اور دعوتوں کی رونقیں اس ایک سادگی پر قربان جو سادگی ہمیں فاتح خیبر کے ولیمہ میں نظر آتی ہے.شاہ مدینہ میدان صہبا میں دسترخوان بچھواتے ہیں اور حضرت بلال ان پر کھجوریں اور پنیر سجا دیتے ہیں.(بخاری کتاب المغازی) پس یہی ہمارے آقا کا ولیمہ تھا.آج دعوتوں اور ولیموں میں تکلف اور
55 اسراف کرنے والوں کیلئے سید الانبیاء محمد مصطفی میں ریلی کا یہ اسوہ سادگی اور بے تکلفی کا کتنا حسین سبق ہے.خلق وفا : اب مدینہ واپسی ہوتی ہے.مدینہ کے قریب پہنچ کر رسول اللہ علیم کی نگاہیں جب احد پہاڑ پر پڑیں تو بے ساختہ کہہ اٹھے کہ جبل احد ہم سے محبت کرتا ہے اور ہمیں اس سے محبت ہے.میں نے سوچا کہ اس وقت میرے آقا کو احد کے وہ شہید یاد آئے ہوں گے جنہوں نے اسلام اور محمد رسول اللہ ایم کیو ایم کی حفاظت میں اپنی جانیں قربان کی تھیں.اے دنیا والو! اس شاہ مدنی کی وفا تو دیکھو.وہ فتح کی خوشی میں احد میں اپنے شہید ہونے والے غلاموں کی قربانیوں کو نہیں بھولا.اور اس کی وفائیں محبت میں ڈھل کر کہتی ہے کہ اے احد کے شہیدو تم پر سلام ہو.خدا اور اس کے رسول میں یا ای میل کی خاطر بہائے گئے تمہارے خون رنگ لائے ہیں اور آج تمہارا آقا ایک عظیم الشان فتح سے واپس لوٹتے ہوئے تمہیں اپنی محبت کا تحفہ پیش کرتا ہے.قارئین کرام! کیا آپ جانتے ہیں کہ خیبر کے حصن حصین کو توڑنے والا عظیم فاتح جب اپنے شہر مدینہ میں داخل ہوتا ہے تو اس کی زبان پر کیا الفاظ انہوں نے کوئی فخریہ نعرے نہیں لگائے.فتح کا کوئی جشن نہیں منایا بلکہ عاجزی اور خاکساری کا ایسا نمونہ دکھایا کہ آسمان کے فرشتے بھی آفرین کہتے ہوں گے.مدینہ پر نظر پڑتے ہی یہ دعا آپ کے ورد زبان بن گئی.ائِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ (بخاری کتاب المغازی) کہ ہم اپنے رب کے حضور رجوع کرتے ہوئے واپس لوٹتے ہیں.ہم
56 ادنی غلام اور عاجز بندے اپنے اس خالق و مالک کی حمد کے ترانے گاتے ہوئے مدینہ میں داخل ہوتے ہیں.اے سید الانبیاء! یہ وہ تواضع اور خاکساری ہی تو تھی جس کا حسین لباس پہن کر تو سات آسمانوں کی رفعتیں بھی پیچھے چھوڑ گیا.اے معلم اخلاق تجھ پر ہزاروں درود تو نے اپنے عملی نمونہ سے خلق عظیم کا درس دیا.اے صاحب خلق عظیم! تیری عظمتوں کو سلام کہ تجھ جیسا کوئی تھا ہے نہ ہوگا.ز ہے خلق کامل زہے حسن نام عَلَيْكَ الصَّلوةُ عَلَيْكَ السَّلَامُ
57 فتح مکہ
59 خلق عظیم کی چمکار:.اللہ جل شانہ نے قرآن شریف میں ہمارے سید و مولا حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے ایسے اعلیٰ درجہ کی تعریف کی ہے جس سے بڑھ کر ممکن نہیں.فرماتا ہے إِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيم که تمام اخلاق فاضلہ اور شمائل حسنہ جو ایک انسان کو حاصل ہو سکتے ہیں وہ سب کے سب آپ کے اندر جمع ہیں.حق یہ ہے کہ مکارم اخلاق کی ہر چوٹی محمد میں لی نے سر کی.غزوات میں بھی آپ کے خلق عظیم کی چمکار تلواروں اور نیزوں کی چمک سے کہیں زیادہ روشن اور درخشندہ و تاباں ہے.قارئین کرام! آج سے قریباً ۱۴۰۰ برس پہلے کا واقعہ ہے.رمضان المبارک کا مہینہ تھا.سوموار کا دن اور چاشت کا وقت.جب ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم فاتحانہ شان کے ساتھ اپنے وطن مکہ میں داخل ہوئے جہاں سے آٹھ سال قبل نہایت بے سروسامانی کے عالم میں نکلے تھے.اس وقت آپ خدا کے وعدوں کو پورا ہوتے دیکھ کر گہرے جذبات تشکر سے لبریز ایک عجب سوز اور خوش الحانی کے ساتھ سورہ فتح کی وہ آیات تلاوت فرما رہے تھے جو ایک سال پیشتر حدیبیہ سے واپسی پر نازل ہوئی تھیں اور جن میں حدیبیہ کو فتح مبین کا نام دیتے ہوئے اسے کئی فتوحات کا پیش خیمہ قرار دیا گیا تھا.آج اس موعود فتح کے موقع پر ہمارے آقا و مولا کا سر خدا کے حضور جھکتے جھکتے اونٹنی کے پالان کو چھو رہا تھا اور اپنی زندگی کی اس عظیم فتح پر آپ سجدہ شکر بجا لا رہے تھے.مگر اس شاندار فتح کے سفر پر روانہ ہونے اور اس کی تفاصیل بیان کرنے سے پہلے اس کا پس منظر اور اس میں ظاہر ہونے والے آنحضرت م کے اخلاق فاضلہ کا تذکرہ نہایت ضروری ہے.
60 قیام امن کیلئے قربانی و صبر: ہمارے سید و مولا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق عظیم کا ہمیشہ یہ طرہ امتیاز رہا کہ آپ ہر امکانی حد تک فساد سے بچتے اور ہمیشہ امن کی راہیں اختیار کرتے تھے.مکے کا ۱۳سالہ دور ابتلا گواہ ہے کہ آپ اور آپ کے صحابہ نے سخت اذیتیں اور تکالیف اٹھائیں لیکن صبر پر صبر کیا.جانی اور مالی نقصان ہوئے پر برداشت کئے اور مقابلہ نہ کیا.اپنے مظلوم ساتھیوں سے بھی یہی کہا کہ ماریں کھاؤ اور صبر کرو گالیاں سنو اور دعائیں دو پھر جب.شمن نے شہر مکہ میں جینا دو بھر کر دیا.آپ کے قتل کے منصوبے بنائے تو آپ اور آپ کے ساتھیوں نے عزیز و اقارب اور مال و جائیداد کی قربانیاں دے کر دکھی دل کے ساتھ وطن کو بھی خیر باد کہہ دیا اور مدینے پناہ لی.دشمن نے وہاں بھی چین کا سانس نہ لینے دیا.قریش مکہ کے لشکر بدر اور احد میں مدینے کے گنتی کے کمزور اور نہتے مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے.پھر جنگ احزاب میں تو سارا عرب مسلمانان مدینہ پر چڑھ آیا اور اہل مدینہ نے شہر کے گرد خندق کھود کر اور اس میں محصور ہو کر جانیں بچائیں.آپ ہمیشہ دفاع ہی کرتے رہے.خانہ کعبہ کے حقیقی متولی مسلمانوں کو یہ اجازت بھی نہ تھی کہ وہ خدا کے گھر کا طواف ہی کر سکیں.فتح مکہ کا پس منظر: رسول خدا ملی لی ایک رؤیاء کی بنا پر سنہ۵۶۷ میں عمرہ کرنے کے گئے تو حدیبیہ مقام پر روک دیئے گئے یہاں بھی امن کی خاطر صلح کے اس شہزادے نے بظاہر دب کر کٹھن شرائط پر صلح منظور کرلی.یوں اس سفر سے آپ بغیر عمرہ کئے واپس لوٹے اور اپنی قربانیاں خانہ کعبہ کی بجائے حدیبیہ کے میدان میں ہی ذبح کر دیں.واپسی پر سورہ فتح کی وہ آیات نازل ہوئیں جن میں اس صلح کو فتح قرار دے کر آئندہ
61 فتوحات کی خبر دی گئی.چنانچہ یہ اس صلح کی ہی برکت تھی کہ مسلمان جنوب کی طرف سے قریش مکہ کے حملہ سے مطمئن ہو کر شمال کی جانب سے یہود خیبر کے حملہ کے خطرہ سے نبٹنے کے قابل ہوئے.اور فتح حدیبیہ کے چند ماہ بعد ہی سنہ ۷ ھ انہوں نے کمال حکمت عملی سے خیبر فتح کر لیا.اسی صلح کے زمانہ میں تبلیغ اسلام کی وسعت کے نتیجہ میں ہزاروں لوگ اسلام میں داخل ہونے لگے.ادھر قریش مسلمانوں کی ترقی دیکھ کر غیض و غضب کی آگ میں جل رہے تھے.بدر میں اپنے سرداروں کی ہلاکت کے بعد انہوں نے ابو سفیان کو اپنا سردار بنایا تھا.جس پر ابو جہل کا بیٹا عکرمہ بعض اور سرداروں کو ساتھ ملا کر اس کا مخالف ہو گیا اور قریش عملاً دو گروہوں میں بٹ گئے.صلح حدیبیہ کے وقت عکرمہ ہی کے ایک ساتھی سہیل بن عمرو نے مسلمانوں کے ساتھ آئندہ دس سال کے لئے معاہدہ امن طے کیا تھا.جس کے مطابق بنو بکر قریش کے حلیف بنے تھے اور بنو خزاعہ مسلمانوں کے.خزاعہ کی مظلومیت اور امداد طلبی:.صلح کے زمانے میں مسلمانوں کی غیر معمولی کامیابیاں دیکھ کر قریش نے معاہدہ امن تو ڑنا چاہا اور عکرمہ کے تشدد پسند گروہ نے اپنے حلیف بنو بکر سے ساز باز کر کے ایک اندھیری رات میں مسلمانوں کے حلیف بنو خزاعہ پر حملہ کر دیا.خزاعہ نے حرم کعبہ میں پناہ لی.لیکن پھر بھی ان کے ۲۳ آدمی نہایت بے دردی سے قتل کر دیئے گئے.ابو سفیان کو اس واقعہ کا چلا تو اس نے کہا یہ سراسر شر انگیزی ہے.اب محمد ہم پر ضرور حملہ کریں گے.ادھر اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ملی الم کو اس واقعہ کی اطلاع اسی صبح کر دی اور آپ نے حضرت عائشہ کو یہ واقعہ بتا
62 کر فرمایا کہ منشا الہی یہی معلوم ہوتا ہے کہ قریش کی اس بد عہدی کا ہمارے حق میں کوئی بہتر نتیجہ ظاہر ہو.پھر تین روز بعد قبیلہ خزاعہ کا چالیس شتر سواروں کا ایک وفد “ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ بنو بکر اور قریش نے مل کر بد عہدی کرتے ہوئے شب خون مار کر ہمار اقتل عام کیا ہے.اب آپ کا فرض ہے کہ معاہدہ کی رو سے ہماری مدد کریں.خزاعہ قبیلہ کے نمائندہ عمرو بن سالم نے اپنا حال زار بیان کر کے خدا کی ذات کا واسطہ دیگر ایفائے عہد کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا.يَا رَبِّ أَنْعَى نَاشِدًا مُحَمَّدًا حَلْفٌ اَبِيْنَا وَ أَبِيهِ الْاَ تُلَدًا خزاعہ کی مظلومیت کا حال سن کر رحمتہ العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا دل : آیا.آپ کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے اور آپ نے ایفائے عہد کے جذبہ سے سرشار ہو کر فرمایا.یقیناً یقینا تمہاری مدد کی جائے گی.اگر میں تمہاری مدد نہ کروں تو خدا میری مدد نہ کرے.نہیں نہیں تم محمد میر کو باوفا پاؤ گے.تم دیکھو گے کہ جس طرح میں اپنی جان اور بیوی بچوں کی حفاظت کرتا ہوں اسی طرح تمہاری حفاظت کروں گا.(ابن ہشام جلد ۴ صفحہ ۸۶) اس صورت حال میں سرولیم میور کا یہ خیال کس قدر بودا دکھائی دیتا ہے کہ فتح مکہ کیلئے یہ واقعہ محض ایک بہانہ تھا.حالانکہ وہ خود تسلیم کرتا ہے کہ قریش مکہ کے کچھ سرداروں نے بھیس بدل کر بنو خزاعہ پر شب خون مارنے میں بنو بکر کی مدد کی تھی اور ان کے کئی آدمی قتل کر دیئے کیا اس کے بعد بھی کوئی دانا اسے بہانا قرار دے سکتا ہے.(لائف آف محمد صفحہ ۴۱۴) نبی کریم کی شان فراست: ادھر ابو سفیان اس معاہدہ شکنی کے نتیجے سے بچنے کیلئے بہت جلد اس
63 یقین کے ساتھ مدینے پہنچا کہ محمد ملی یا ام ایم کو اس بد عہدی کی خبر نہ ہوگی.اس نے بڑی ہوشیاری سے آنحضرت میا سے بات کی کہ صلح حدیبیہ کے وقت میں جو اصل سردار قریش ہوں موجود ہی نہیں تھا.اس لئے آپ میرے ساتھ اس معاہدہ کی تجدید کر لیں.آنحضرت میں ایم نے کمال حکمت عملی سے پوچھا کہ کیا کوئی فریق معاہدہ توڑ بیٹھا ہے.ابو سفیان گھبرا کر کہنے لگا ایسی تو کوئی بات نہیں ہوئی.رسول کریم میں یا کہ ہم نے جواب دیا تو پھر ہم سابقہ معاہدے پر قائم ہیں.نئے معاہدے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ نے ابو سفیان کی واضح غلط بیانی دیکھ کر بھی اس کا جھوٹ ظاہر کر کے اسے شرمندہ کرنا پسند نہ فرمایا.ابوسفیان نے بزرگ صحابہ سے سفارش کرانا چاہی لیکن ہر ایک نے یہی جواب دیا کہ ہمارے آقا میں اور جب کسی بات کا فیصلہ فرمالیں تو ہم اس میں دخل دینے کی جرات نہیں کر سکتے.(سیرت الحلبیہ جز ۳ صفحه ۸۳ تا ۸۵) صحابہ" جانتے تھے کہ ان کے آقا می ہمیشہ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ پر عمل کرتے ہیں.ابو سفیان کہنے لگا بخدا! میں نے تم ب کو یکجان پایا ہے.ابو سفیان کی یہ گواہی کتنی زبردست ہے کہ صحابہ رسول أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ کا سچا نمونہ تھے اور کفار کے مقابل پر کتنے سخت تھے.اور دراصل یہ رسول اللہ کی تربیت کا ہی نتیجہ تھا.امن کا شہزادہ: یہاں رسول کریم میں لی لی ایم کے خلق عظیم کے بارے میں اس سوال کا جواب بھی ضروری ہے کہ آپ نے ابوسفیان کی مصالحانہ کوششوں کو کیوں رد کر دیا اور بقول سرولیم میور کیا کے پر اس طرح حملہ کر دیا جیسے پہلے سے حملہ کیلئے بہانے ڈھونڈھ رہے ہوں؟ امن و آشتی کے اس شہزادے پر الزام لگانے والوں سے میں پوچھتا ہوں کہ کیا ابوسفیان واقعی سفیر امن بن کر آیا تھا؟ نہیں نہیں وہ تو دھوکہ دہی
64 ے معاہدہ شکنی پر پردہ ڈالنے آیا تھا.رسول اللہ میں جانتے تھے کہ به مهدی تو عکرمہ اور اس کے ساتھیوں نے کی ہے.جنہوں نے معاہدہ کیا تھا.اس لئے ابو سفیان سے مصالحت کا کوئی سوال ہی نہ تھا.(سیرت الحلبیہ جز ۳ صفحه ۸۶٬۸۶) دستور اور قانون کے لحاظ سے اب مسلمان ان بد عہدوں کے خلاف سخت سے سخت اقدام کا حق رکھتے تھے.لیکن خلق عظیم پر فائز اس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ملاحظہ ہو.آپ پھر بھی قریش سے صلح کی طرح ڈالتے نظر آتے ہیں.چنانچہ پہلے تو آپ نے معاہدہ شکنی کرنے والوں کی طرف اپنا سفیر بھیجا اور تین شرائط میں سے کسی ایک شرط پر صلح کی پیشکش کی کہ ہمارے حلیف خزاعہ کے مقتولوں کا خون بہا ادا کر دو یا بنو بکر کی طرف داری سے الگ ہو جاؤ یا حدیبیہ کی صلح توڑنے کا اعلان کر دو.اور جب مسلمانوں کے اس سفیر کو جواب ملا کہ ہم حدیبیہ کی صلح توڑتے ہیں.(زرقانی جلد ۲ صفحہ ۲۹۲) مشاورت اور صحابہ کی آراء: تو اب آنحضرت مایا ای پر لازم ہو گیا کہ آپ " اپنے مظلوم حلیف خزاعہ کی امداد اور قریش کی معاہدہ شکنی پر قرار واقعی گرفت فرمائیں.لیکن اس جگہ رسول اکرم میں یا اللہ کا ایک اور اعلیٰ خلق ظاہر ہوتا ہے.آپ" کوئی اہم کام مشورہ کے بغیر نہیں فرماتے تھے بلکہ ہمیشہ شا و رهم في کے حکم پر عمل فرماتے.چنانچہ آپ نے اس موقعہ پر بھی حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ سے مشورہ فرمایا.حضرت ابو بکر نے عرض کیا یا رسول اللہ ملی یم آپ کی اپنی قوم ہے کیا اس پر حملہ کریں گے.لیکن حضرت عمر نے کہا کہ قریش کفر کی جڑ ہیں انہوں نے حضور میں ایم کے ساتھ دشمنی کی حد کر دی ہے اس بد عہدی پر ضرور گرفت ہونی چاہئے.
65.سول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال عدل اور گہری بصیرت سے ان آراء کا جو تجزیہ فرمایا اس سے آپ کا اپنے ساتھیوں سے گہرا تعلق اور ان کا وسیع نفسیاتی مطالعہ ظاہر ہوتا ہے.آپ نے فرمایا ابوبکر تو ابراہیم علیہ السلام کی طرح بے حد نرم دل ہے اور عمر نوح علیہ السلام کی طرح اللہ کی راہ میں چٹان کی طرح مضبوط.اور موقع کی مناسبت سے عمر کی رائے زیادہ وزنی ہے.اس مشورے کے بعد حضور نے بصیغہ راز سفر جہاد کی تیاری شروع فرما دی.رازداری کی حکمت عملی اور تدبیرو دعا: راز داری کی حکمت عملی کا مقصد قریش مکہ کو تیاری کا موقع نہ دیکر انہیں کشت و خون سے بچانا تھا.چنانچہ آنحضرت مینی و ایریا نے کمال حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے نواح مدینہ میں یہ یغام بھجوایا کہ اس دفعہ کا رمضان مدینہ میں گزاریں اور اہل مدینہ کو سفر کی تیاری کی ہدایت فرمائی.لیکن یہ ظاہر نہ فرمایا کہ کہاں کا قصد ہے ایک لشکر جرار کی تیاری اور نقل و حرکت رازداری میں رکھنا بظاہر ایک ناممکن امر تھا.لیکن رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہر کٹھن مرحلہ کیلئے دعا اور تدبیر کو کام میں لاتے تھے.آپ نے اپنے رب کے حضور دعا لَى اللَّهُمَّ خُذِ الْعُيُونَ وَالْأَحْبَارَ عن قریش کہ اے اللہ قریش کے جاسوسوں کو روک رکھ اور ہماری خبریں ان تک نہ پہنچیں اور تدبیر یہ فرمائی کہ مدینے سے مکے جانیوالے راستوں پر پہرے بٹھا دیئے.(سیرت الحلبیہ جلد ۳ صفحه ۸۶٬۸۵) ره سکا.سرولیم میور جیسا معاند بھی اس کمال رازداری کی داد دیئے بغیر نہیں لائف آف محمد صفحہ ۴۱۶ ۴۱۷)
66 افشائے راز کا خطرہ:.لشکر اسلام کی اس خاموش تیاری کے دوران ایک عجیب واقعہ پیش آیا جس سے کے پر چڑھائی کا راز کھل جانے کا سخت خطرہ پیدا ہو گیا.ہوا یوں کہ ایک صحابی حاطب بن ابی بلتعہ نے کے جانیوالی ایک عورت کے ذریعے قریش کو خط لکھ کر یہ اطلاع بھیجوا دی کہ آنحضرت میں دیور کا لشکر تیار ہے یہ معلوم نہیں کہاں کا قصد ہے مگر تم اپنا بچاؤ کر لو اور میرا مقصد اس خط سے تم پر ایک احسان کرنا ہے.ادھر اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی رسول الله ملی علوم کو اس مخبری کی اطلاع کر دی آپ نے گھوڑ سواروں کا ایک دستہ حضرت علی کے ساتھ اس عورت کے تعاقب میں بھیجا اور وہ یہ خط واپس لے آئے.اب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حاطب کو بلا کر پوچھا تم نے یہ کیا کیا؟ حاطب نے سچ سچ کہہ دیا کہ یا رسول الله ملی علوم میں قریش میں سے نہیں ہوں مگر اس خط کے ذریعے میں قریش پر احسان کرنا چاہتا تھا تاکہ وہ مکے میں میرے گھر بار کی حفاظت کریں.حضرت عمرؓ اس مجلس میں موجود ہیں وہ کہتے ہیں.یا رسول اللہ ملی ! مجھے اجازت دیجئے کہ اس منافق کی گردن اڑا دوں.مگر جانتے ہو وہ رحیم و کریم رسول میں کیا جواب دیتے ہیں.فرماتے ہیں نہیں نہیں حاطب سچ کہتا ہے اسے کچھ نہ کہو.حضرت عمررؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ملی اور اس نے مومنوں کے ساتھ خیانت کی ہے مجھے اس کی گردن مارنے دیجئے.شفقت بے پایاں :.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک طرف عمر کی سختی پر تحمل سے کام لیا تو دوسری طرف حاطب کی معافی کا اعلان کر دیا اور فرمایا عمر ا تم جانتے نہیں یہ شخص جنگ بدر میں شامل ہوا تھا اور عرش کا خدا جو اصحاب بدر کے حالات سے خوب
67 واقف ہے ان کے حق میں فرماتا ہے اِعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ وَجَبَتْ لَكُمُ الْجَنَّة کہ جو چاہو کرو تمہارے لئے جنت واجب ہے.یعنی اللہ تعالیٰ نے بدریوں کے دلوں میں گناہ کی ایسی نفرت ڈال دی ہے کہ بالا رادہ ان سے کوئی گناہ نہیں ہو سکتا.(بخاری کتاب المغازی) اس رؤف و رحیم رسول ملی یوم کی شفقت بے پایاں کا یہ حیرت انگیز نظارہ دیکھ کر حضرت عمر بے اختیا رونے لگے.ان کی حیرانی بجا تھی کہ اپنی زندگی کے اہم نازک ترین اور تاریخ ساز موڑ پر تو کوئی بھی فاتح اپنے مقصد کی راہ میں حائل ہونے والی کسی بھی روک کو قطعاً برداشت نہیں کیا کرتا.ایسے مواقع پر تو سابقہ خدمات کی بھی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی اور آئندہ خطرے سے بچنے کیلئے کم از کم احتیاط یہ سمجھی جاتی ہے کہ ایسے قومی مجرم کو زیر حراست رکھا جائے لیکن دیکھو اس دربار عفو و کرم کی شان تو دیکھو جس سے حاطب کے لئے بھی مکمل معافی کا اعلان جاری ہوا.قدوسیوں کا سفر:.جب لشکر تیار ہو گیا تو رمضان المبارک کے شروع میں ہی آنحضرت میں اپنے سات ہزار خدام کے جلو میں مدینہ سے نکلے.جن میں ایک ہزار گھوڑ سوار کچھ شتر سوار اور باقی پیدل تھے.اس خاموش اور مخفی پیش قدمی میں آپ کے جانیوالے معروف راستوں سے ہٹ کر اس طرح جنوب کی سمت آگے بڑھے کہ آخری پڑاؤ تک لشکر اسلام کے کسی ایک سپاہی کو بھی علم نہ تھا کہ آپ " حنین یا طائف جاتے ہیں یا سکے کا عزم ہے.راستے میں دوسرے مسلمان قبائل بھی شامل ہوتے گئے اور جب لشکر فاران کے جنگل میں داخل ہوا تو مسلمانوں کی تعداد دس ہزار ہو گئی.(سیرت الحلبیہ جلد ۳ صفحه ۸۹٬۸۸) اور اس طرح رسول اللہ میر کے حق میں تو رات میں حضرت موسیٰ
68 علیہ السلام کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ وہ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ فاران کی چوٹیوں سے جلوہ گر ہو گا.ایک شدید دشمن سے عفو : جمعہ مقام پر رسول کریم یا نور کا چچا (ابوسفیان) ابن حارث عفو کا طالب ہو کر آیا.یہ حضور کے بچپن کا ہم عمر ساتھی تھا.مگر دعوی نبوت کے بعد آپ کا سخت دشمن ہو گیا.اور آپ کو بہت اذیتیں دیں اور کہا کہ میں تو اس وقت ایمان لاؤں گا جب میرے سامنے سیڑھی لگا کر آسمان پر جاؤ اور فرشتوں کے جلو میں کوئی صحیفہ اتار لاؤ جو اس پر گواہ ہوں.یہ آنحضور می یار کے خلاف ہیں برس گندے اشعار بھی کہتا رہا.حضرت ام سلمہ نے رسول اکرم میں لیوری کی خدمت میں ان کی معافی کی سفارش کی پہلے تو حضور می یم نے اعراض کیا مگر جب ابن الحارث کا یہ پیغام پہنچا کہ وہ بھوکا پیاسا رہ کر اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالے گا تو آپ کا دل بھر آیا اور اس سے اس کے بیٹے کو ملاقات کی اجازت دی اور انہیں معاف فرما دیا.اس موقع پر ابو سفیان بن حارث نے کچھ اشعار کے ایک شعر یہ بھی تھا کہ.هَدَانِي هَادٍ غَيْرُ نَفْسِي وَ نَالَنِي مَعَ اللهِ مَنْ طَرَدْتُ كُلَّ مُطَرَّدٍ اللہ نے مجھے اس پاک وجود کے ذریعہ ہدایت نصیب فرمائی جسے میں نے دھتکار کر رد کر دیا تھا اور دشمنی میں اس کا پیچھا کیا تھا.رسول اکرم میں نے اس کے سینے پر ہاتھ مارا اور بڑے درد سے فرمایا:.” تم نے ہی مجھے دھتکارا تھا نا اور پچپن کی دوستی کا بھی خیال نہیں کیا تھا." (ابن ہشام جلد ۴ صفحہ ۸۸-۸۹) حضور ملی الم کے چچا حضرت عباس جن کی ذمہ داری سقایہ الحاج یعنی
69 الله ليل حاجیوں کو پانی پلانے پر تھی اور مسلمان ہونے کے باوجود بعض مصالح کے تحت ابھی تک حضور کی اجازت سے مکہ میں ٹھہرے ہوئے تھے وہ بھی اس سفر میں مجفہ کے مقام پر حضور میل سے آن ملے اور آپ کے ہم رکاب ہو گئے.حضور نے اس موقع پر انہیں فرمایا کہ "آپ کی ہجرت آخری ہجرت ہے جس طرح میری نبوت آخری نبوت ہے." (سیرۃ الحلبیہ جلد ۳ صفحہ ۹۰) مر الظہران میں عشق و وفا کے نظارے:.الغرض منزل پر منزل طے کرتے ہوئے سفر کے آٹھویں دن دس ہزار قدوسیوں کا یہ لشکر مکہ سے صرف ایک دن کے فاصلے پر مو الظہران میں خیمہ زن ہوتا ہے اور رسول کریم کی کمال حکمت عملی سے اہل مکہ کو اس کی کانوں کان خبر نہیں ہو پاتی.(سیرت الحلبیہ جلد ۳ صفحه ۹۰) کدید مقام تک حضور می یم اور آپ کے صحابہ سفر میں بھی رمضان کے روزے رکھتے رہے لیکن اس کے بعد آنحضور میں نے محسوس فرمایا کہ بعض لوگ آپ کی پیروی کے شوق میں مشقت سفر کے باوجود روزے رکھتے چلے جا رہے ہیں.تو آپ نے مو الظہران میں عصر کے وقت صحابہ کو افطار کا حکم دیا.بلکہ تمام صحابہ کے سامنے پانی کا پیالہ منگوا کر پیا اور ان کی سہولت کی خاطر اپنے روزے کی قربانی دے کر بھی انہیں دین میں آسانی کا نمونہ دیا.اور اس کے بعد کے سفر میں روزہ نہیں رکھا.(بخاری کتاب المغازی باب غزوہ الفتح) عالم جنگ کے ان ہنگامی حالات میں بھی مر الظہران کے جنگل نے آقا کی غلاموں کے ساتھ بے تکلفی کے ایسے پیارے نظارے دیکھے کہ آج کی مہذب دنیا سالار فوج کی اپنے سپاہیوں کے ساتھ ایسی بے تکلفی کا تصور ہی
70 نہیں کر سکتی.صحابہ کرام درختوں سے پیلوا تار کر کھانے لگے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو پیار سے فرماتے دیکھو کالی کالی پیلو تو ڑ نا وہ زیادہ میٹھی ہوتی ہیں." صحابہ نے عرض کی کہ حضور میں آپ کو کیسے پتہ ہے کیا آپ نے بھی کبھی جنگل میں بکریاں چرائی ہیں؟ فرمایا ”ہاں میں نے بکریاں بھی چرائی ہیں اور نبی بھی تو چرواہے ہی ہوتے ہیں." حضرت عبد اللہ بن مسعود اپنے چھریرے بدن اور پیلی ٹانگوں کی وجہ سے پھرتی سے درختوں پر چڑھ جاتے اور پیلوا تار لاتے.بعض صحابہ ان کی دبلی پتلی ٹانگوں کا مذاق اڑانے لگے جب آپ نے دیکھا کہ مذاق استہزاء کا رنگ اختیار کرنے لگا ہے.تو اپنے اس صحابی کے لئے آپ کو غیرت آئی فرمایا اس کی سوکھی ہوئی ٹانگوں کو حقارت سے مت دیکھو اللہ کے نزدیک یہ بہت وزنی ہیں.عبداللہ بن مسعود پکی ہوئی کالی کالی پیلو اپنے آقا کی خدمت میں پیش کرتے.(طبقات ابن سعد جز ۳ صفحه ۱۵۵) اب دس ہزار سپاہ پر مشتمل لشکر اسلام حیرت انگیز تیزی سے منزلیں مارتا ہوا عین قریش کے سر پر پہنچ چکا تھا.اور ان کو خبر تک نہ تھی.اس خاموش مخفی اور اچانک پیش قدمی کی جنگی حکمت علمی میں بھی رحمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پہلو غالب تھا کہ کس طرح انسانی جانیں ضائع ہونے سے بچ جائیں.حرم پاک کشت و خون سے محفوظ رہے اور قریش کو مزاحمت کیلئے تیاری جنگ کا کوئی موقع ملنے نہ پائے.اب جب کہ مکہ محض ایک منزل پر تھا.وقت آگیا کہ کے پر لشکر اسلام کے اچانک چڑھ آنے سے قریش کو حیران و پریشان اور صبوت و ششدر (Surprize) کر دیا جائے.سر ولیم میور بھی تسلیم کرتا ہے.کہ فتح مکہ کا سفراتنی برق رفتاری سے طے کیا گیا و"
71 کہ ساتویں یا آٹھویں روز اسلامی فوج کے دستے مکہ سے صرف ایک منزل کے فاصلہ پر مر الظہران پہنچ گئے." (لائف آف محمد صفحہ ۴۱۶) چنانچہ رسول کریم میں تم نے خداداد فراست کو کام میں لاتے ہوئے جنگی حکمت عملی کا ایک حیرت انگیز منصوبہ بنایا آپ نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ مختلف ٹیلوں پر بکھر جائیں اور ہر شخص آگ کا ایک الاؤ روشن کرے اس طرح اس رات دس ہزار آگیں روشن ہو کر مر الظہران کے ٹیلوں پر ایک پر شکوہ اور ہیبت ناک منظر پیش کرنے لگیں.(بخاری کتاب المغازی غزوہ الفتح) سرولیم میور لکھتا ہے:.31 مر الظہران میں دس ہزار آگیں روشن کرنے کا مقصد اہل مکہ میں یاس د نا امیدی پیدا کرنا تھا." (لائف آف محمد صفحہ ۱۴۷) پھر لکھتا ہے کہ :.ایک طرف ابوسفیان نے مکہ والوں کو جاکر اطلاع کی کہ محمد ہمارے سروں پر چڑھ آیا ہے اور ایسی فوج لایا ہے جس کا مقابلہ ممکن نہیں.دوسری طرف اہل مکہ کے لئے امان کے اعلان سے نتیجہ یہ نکلا کہ مکہ کسی قسم کے خون بہنے سے محفوظ ہو گیا." لائف آف محمد صفحه ۴۱۹-۴۲۰) ابو سفیان کو معافی:.ادھر ابو سفیان اور اس کے ساتھی سردار رات کو شہر مکہ کی گشت پر نکلے تو یہ ان گنت روشنیاں دیکھ کر واقعی حیران و ششدر رہ گئے.ابو سفیان کہنے لگا خدا کی قسم میں نے آج تک اتنا بڑا لشکر اور آگیں نہیں دیکھیں.وہ ابھی یہ اندازے ہی لگا رہے تھے کہ اتنا بڑا لشکر کس قبیلے کا ہو سکتا ہے ؟ کہ حضرت عمرؓ کی سرکردگی میں مسلمانوں کے گشتی دستے نے ان کو پکڑ لیا اور آنحضرت علی کی خدمت میں پیش کیا.
72 الله الله اس موقع پر حضرت عمر نے دشمن اسلام ابوسفیان کو قتل کرنا چاہا لیکن آنحضرت میمی لی لی لی لی لی تو اس کے لئے پہلے سے امن کا اعلان کر چکے تھے کہ ابو سفیان بن حرب کسی کو ملے تو اسے کچھ نہ کہا جائے.یہ گویا آپ کی طرف سے ابو سفیان کی ان مصالحانہ کوشش کا احترام تھا جو اس نے معاہدہ شکنی کے خوف سے مدینے آکر چالا کی سے کی تھیں اور ان کی کوئی قیمت نہ تھی.لیکن آپ کی رحمت بھی تو بہانے ڈھونڈھتی تھی.(ابن ہشام جلد ۴ صفحہ ۹۰) صبح جب ابو سیفان دوبارہ آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا.ابو سفیان! کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم گواہی دو اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں." تب ابو سفیان نے بے ساختہ یہ گواہی دی کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ نہایت حلیم، شریف اور صلہ رحمی کرنے والے ہیں.اگر خدا کے سوا کوئی اور معبود ہوتا تو وہ ضرور ہماری مدد کرتا.البتہ آپ کی رسالت کے قبول کرنے میں ابھی کچھ تامل ہے.حضرت عباس کو جو ابو سفیان کو اپنی حفاظت میں لئے ہوئے تھے ارشاد رسول ہوا کہ جب اسلامی لشکر مکے کی جانب روانہ ہو تو ابو سفیان کو کسی بلند جگہ سے لشکر کی شان و شوکت کا نظارہ کرایا جائے.اور یوں یہ دنیا دار شخص شاید اس سے مرعوب ہو کر حق قبول کرلے.دس ہزار قدوسیوں کا لشکر چلا ہر امیر فوج جھنڈا بلند کئے اپنے دستہ سے آگے آگے تھا.جب سعد بن عبادہ انصار مدینہ کے سردار اپنے مسلح دستہ کو لیکر ابو سفیان کے پاس سے گزرے تو جوش میں کہہ گئے.الْيَوْمَ يَوْمُ الْمَلْحَمَةِ آج جنگ و جدال کا دن ہے الْيَوْمَ تُسْتَحَلُّ الكَعْبَة آج کعبہ کی عظمت قائم کرنے کا دن ہے.(بخاری کتاب المغازی) نبی کریم میں نے اس کمانڈر کو معزول کر دیا کہ اس نے ایک ناردا
73 بات کہہ کر ابو سفیان کا دل دکھایا ہے.ہاں ! اس دشمن ابو سفیان کا جو مفتوح ہو کر بھی آپ کی رسالت قبول کرنے میں متامل تھا.اے دنیا والو! دیکھو اس عظیم رسول می ی ی ی ی ی ی یمن کے حوصلے کو دیکھو.کہ عین حالت جنگ میں جرنیلوں کی معزولی کے تمام خطروں سے آگاہ ہوتے ہوئے یہ فیصلہ سناتے ہیں کہ سعد سے اسلامی جھنڈا واپس لیا جائے.(ابن ہشام جلد ۴ صفحہ ۹) رض اور ہاں اس محسن اعظم کے احسان پر بھی تو نظر کرو کہ غیرت اسلام کے جوش میں سرشار ایسا نعرہ بلند کرنے والے جرنیل سعد کا بھی آپ کس قدر لحاظ رکھتے ہیں.اور ساتھ ہی دوسرا حکم یہ صادر فرماتے ہیں کہ سعد کی بجائے کمانڈر ان کے بیٹے قیس کو مقرر کیا جاتا ہے.(سیرت الحلبیہ جلد ۳ صفحہ ۹۰ تا ۹۵) کیا جنگوں کی ہنگامہ خیزیوں میں بھی کبھی اپنے خدام کے جذبات کا ایسا خیال رکھا گیا ہے؟ نہیں نہیں یہ صرف اس رحمتہ العالمین کا ہی خلق عظیم تھا جو سزا میں بھی رحمت و شفت اور احسان کا پہلو نکال لیتے تھے.عظمت اخلاق کا بلند ترین مینار : حضرات! آپ " فاتحین عالم کے اس دستور سے واقف ہوں گے جس کا نقشہ قرآن شریف میں یوں بیان ہے إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَّةٌ وَكَذَلِكَ يَفْعَلُونَ (النمل: ۳۵) کہ شہروں میں داخلے کے وقت آبادیوں کو ویران اور ان کے معزز مکینوں کو بے عزت اور ذلیل کر دیا جاتا ہے لیکن رحمتہ العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی عظیم ترین فتح کو بھی تو دیکھو جہاں آپ کی عظمت اخلاق کا سب سے بلند اور روشن ترین مینار ایستادہ ہے.جب دس ہزار قدوسیوں کا لشکر مکہ کے چاروں اطراف سے شہر میں داخل ہوا تو قتل و غارت کا بازار گرم ہوا نہ قتل عام کی گرم بازاری بلکہ امن و
74 سلامتی کے شہنشاہ کی طرف سے جو فرمان شاہی جاری ہوا وہ یہ تھا کہ آج مسجد حرام میں داخل ہو نیوالے ہر شخص کو امان دی جاتی ہے.امان دی جاتی ہے ہر اس شخص کو جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائے یا اپنے ہتھیار پھینک دے اپنا دروازہ بند کر لے اور ہاں جو شخص بلال حبشی کے جھنڈے کے نیچے آ جائے اسے بھی امان دی جاتی ہے.(سیرت الحلبیہ جلد ۳ صفحه ۹۷ ابن ہشام جلد ۴ صفحه ۹۰-۹۱) اس اعلان کے ذریعہ سے جہاں خانہ کعبہ کی حرمت قائم کی گئی وہاں دشمن اسلام ابوسفیان کی دلداری کا بھی کیسا خیال رکھا گیا یہی وہ اعلیٰ اخلاق تھے جن سے بالا خر ابو سفیان کا دل اسلام کیلئے جیت لیا گیا اور اسے نبی کریم کی رسالت پر ایمان اور تالیف قلب نصیب ہوا.اس طرح آنحضرت ملی یم کا بلال کے جھنڈے کو امن کا نشان قرار دینا علم النفس کے لحاظ سے آپ کے اخلاق فاضلہ کی زبر دست مثال ہے کوئی وقت تھا جب مکے کے لوگ بلال کو سخت اذیتیں دیا کرتے تھے اور مکے کی گلیاں بلال کے لئے ظلم و تشدد کی آماجگاہ تھیں.رسول کریم میں نے سوچا آج بلال کا دل انتقام کی طرف مائل ہو تا ہو گا اس وفادار ساتھی کا انتقام لینا بھی ضروری ہے.لیکن ہمارا انتقام بھی اسلام کی شان کے مطابق ہونا چاہئے پس آپ نے گردنیں کاٹ کر بلال کا انتقام نہیں لیا بلکہ بلال جو کبھی مکے کی گلیوں میں ذلت اور اذیت کا نشان رہ چکا تھا آج نبی کریم میں نے اسے اہل مکہ کے لئے امن کی علامت بنا دیا.بلال الله کے دشمنوں کو بھی معاف کر دیا اور بلال کے جذبات کا بھی خیال رکھا.آج میں سوچتا ہوں وہ کیا عجیب منظر ہو گا جب بلال یہ منادی کرتا ہو گا کہ اے مکہ والو! بلالی جھنڈے کے نیچے آجاؤ تمہیں امن دیا جائے گا اور یہ کتنا بڑا فخر ہے جو آنحضرت میں نے اس غلام کو بخشا کہ اس پر ظلم کرنیوالے اس پر
75 کی پناہ میں آنے سے بخشے جائیں گے.یہ پاک نمونہ بلاشبہ شرف انسانی کے قیام کی زبردست علمی شہادت ہے.آنحضرت میں نے مکے میں داخل ہوتے وقت اپنے جرنیلوں کو بھی حکم دیا کہ کسی پر حملے میں پہل نہیں کرنی اور اس وقت تک جنگ شروع نہیں کرنی جب تک تم پر لڑائی مسلط نہ کر دی جائے.آپ خود مکے کی بالائی جانب اس مقام سے شہر میں داخل ہوئے جہاں حضرت ابو طالب اور حضرت خدیجہ اللہ کی قبریں ہیں اور یوں فتح کے موقع مصیبت کے زمانہ کے مددگاروں کو یاد رکھا اور اپنے کہنہ مشق جرنیل خالد بن ولید کو مکے کی زیریں شمالی جانب سے داخلے کا ارشاد فرمایا جہاں عکرمہ بن ابی جہل اور اس کے ساتھیوں نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا اس مزاحمت میں مسلمانوں کے دو آدمی شہید ہو گئے.(بخاری کتاب المغازی) اور قریش کے جو آدمی مارے گئے ان کی تعداد دس سے اٹھائیس تک بیان کی جاتی ہے.اگر کفار کی طرف سے مزاحمت نہ ہوتی تو یہ خون بھی نہ بہتا.(سیرت الحلبیہ جلد ۳ صفحه ۹۷-۱۹۸ " سرولیم میور نے بھی لکھا ہے کہ محمد نے لشکر کو چار حصوں میں تقسیم کر کے مختلف راستوں سے شہر میں داخلہ کا حکم دیا اور سختی سے ہدایت کی کہ سوائے انتہائی مجبوری اور خود حفاظتی کے جنگ نہیں کرنی." اس جگہ سرولیم میور ہمارے آقا و مولا کی خداداد فراست و بصیرت اور قائدانہ صلاحیتوں کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکا وہ لکھتا ہے:.مکہ میں داخلہ کے وقت اسلامی دستوں کی ترتیب بڑی دانشمندی سے اس طرح کی گئی تھی کہ اگر مکہ والے فوج کے کسی ایک حصہ پر بھی حملہ آور ہوتے تو دوسرا دستہ ان کی مدد کیلئے فوری طور پر پہنچ سکتا تھا.(لائف آف محمد صفحه (۴۲)
76 اسی طرح خالد بن ولید کے دستہ پر حملہ آور ہونے والے قریش مکہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ :."خالد کے دستہ سے مزاحمت کرنے کے لئے رسول کریم میم کے خطرناک دشمن اور بنو خزاعہ پر شب خون مارنے والے تیار ہو کر دفاعی پوزیشن لے چکے تھے وہ سرداران قریش صفوان بن امیه ، سهیل بن عمرو اور عکرمہ بن ابی جہل کی رہنمائی میں یہ سب کچھ کر رہے تھے.جونہی خالد کا دستہ سامنے آیا اس پر تیروں کی بوچھاڑ کر دی گئی.خالد جوابی کارروائی کے لئے تیار تھے انہوں نے جلد ہی دشمن کو پسپا ہونے مجبور کر دیا." (لائف آف محمد صفحہ ۴۲۱) مگر اتنی بڑی فتح پر اتنے کم جانی نقصان ہو جانے کا بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت افسوس تھا.(ابن ہشام جلد ۴ صفحہ ۹۲) آپ نے اپنے جرنیل خالد بن ولید کو بلا کر اس کی جواب طلبی فرمائی کہ حتی الامکان از خود حملہ نہ کرنے کی ہدایت کے باوجود پھر یہ خون کیوں ہوا اور جب آپ کو حقیقت حال کا علم ہوا تو ہمیشہ کی طرح یہ کہہ کر راضی برضا ہوئے کہ منشا الہی یہی تھا.(سیرة الحلبيه جلد ۳ صفحه (۹۷) فاتح اعظم کے شہر میں داخلے کا عجیب منظر :.ہمارے سید و مولا کے شہر میں داخل ہونے کا منظر بھی دیکھنے کے لائق تھا.شہر کا شہر اس عظیم فاتح کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے منتظر تھا اہل شہر سوچتے ہونگے کہ شاید فاتح مکہ آج فخر سے سر اونچائے شہر میں داخل ہو گا لیکن جب محمد مصطفی ملی ایم کی شاہی سواری آئی تو وہاں کچھ اور ہی منظر تھا.
77 رب جلیل کا یہ پہلوان حفاظتی خود کے اوپر سیاہ رنگ کا عمامہ پہنے اپنی اونٹنی قصواء پر سوار تھا اور سرخ رنگ کی یمنی چادر پہلو پر تھی.سواری پر پیچھے اپنے وفادار غلام زید کے بیٹے اسامہ کو بٹھایا ہوا تھا.دائیں جانب ایک وفادار ساتھی حضرت ابو بکر تھے اور بائیں جانب حضرت بلال.(بخاری کتاب المغازی) اور اسید بن حضیر انصاری سردار تھے.فتح مکہ کے دن امن کے اعلان عام کی خاطر رسول خدا نے سفید جھنڈا لہرایا جب کہ بالعموم آپ کا جھنڈا سیاہ رنگ کا ہوا کرتا تھا.اس وقت آپ سورہ فتح کی آیات تلاوت فرما رہے تھے اور آپ کی سواری شہر کی طرف بڑھ رہی تھی.جب وہ موڑ آیا جس سے کلے میں داخل ہوتے ہیں وہی موڑ جہاں آٹھ سال پہلے مکے سے نکلتے ہوئے آپ نے وطن عزیز پر آخری نگاہ کرتے ہوئے اسے اس طرح الوداع کہا تھا کہ :.”اے مکہ اتو میرا پیارا وطن تھا اگر تیری قوم مجھے نہ نکالتی تو میں ہر گز نہ نکلتا " سرولیم میور لکھتا ہے کہ :." خدشہ تھا کہ شاید اس جگہ نبی کریم کو مکہ میں داخلہ سے روکنے کیلئے مزاحمت ہو مگر اللہ کی شان کہ خدا کا رسول آج نہایت امن سے اپنے شہر میں داخل ہو رہا تھا." (لائف آف محمد صفحہ ۴۲۶) اس وقت مفتوح قوم نے ایک عجیب نظارہ دیکھا کہ اپنی زندگی کی سب سے بڑی فتح کے دن غرور اور تکبر کے کسی اظہار کی بجائے خدا کے وعدوں کو پورا ہوتے دیکھ کر اس عظیم فاتح کا سر عجز و انکسار اور شکر کے ساتھ جھک رہا تھا حتی کہ جھکتے جھکتے وہ اونٹی کے پالان کو چھونے لگا دراصل آپ سجدہ شکر بجالا رہے تھے اور یہ فقرہ زبان پر تھا.اللَّهُمَّ لَا عَيْشَ إِلَّا عَيْشُ الْآخِرَةِ كم
78 اے اللہ ! اصل زندگی تو آخرت کی ہے.دنیا کی فتوحات کی کیا حقیقت ہے.(ابن هشام جلد ۴ صفحه ۹۱) اللہ اللہ امحمد مصطفی میں ان کی استقامت کتنی حیرت انگیز ہے اور آپ " کی بے نفسی کا بھی کیا عجیب عالم ہے اپنی زندگی کے سب سے بڑے ابتلا پر جنگ احزاب میں بھی آپ یہی فقرہ دہراتے تھے.اللهم لا عيش الا عيش الاخرہ کہ یہ دکھ تو عارضی ہیں اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے اور اپنی زندگی کی عظیم ترین فتح کے موقع پر بھی آپ "کمال شان استقامت سے وہی نعرہ بلند کرتے اللهم لا عيش الاعـيش الاخره سبحان اللہ ! کیسا کوہ وقار انسان ہے کہ ابتلاء ہو یا فتح تنگی ہو یا آسائش اس کے قدم صدق میں کوئی لغزش نہیں آتی.آئیے! اس فقرہ کی سچائی جاننے کیلئے اس عظیم فاتح کے جشن فتح کا نظارہ کریں.فتح کے دن کی دعوت بے مثال : دو پر کا وقت ہوا چاہتا ہے کھانے کا وقت ہے فاتحین عالم کے جشن کے نظارے یاد کرتے ہوئے آؤ دیکھیں کہ یہ عظیم فاتح کیا جشن مناتا ہے؟ اور کیا لذیذ کھانے اڑائے جاتے ہیں؟ وہ مقدس وجود جس کی خاطر یہ کائنات بنائی گئی.جس کے طفیل ہم اس کے ادنی غلام بھی قسم قسم کی نعمتوں سے حصہ پاتے ہیں آؤ اس کی عظیم ترین فتح کے دن دیکھیں تو سہی کہ کتنے جانوروں کے کاٹنے کا حکم ہوتا ہے ؟ اور کیا پکوان پکائے جاتے ہیں؟ اللهم لا عيش الا عيش الآخرہ کہنے والے کے جشن فتح کا نظارہ کچھ اس طرح ہے.آپ اپنی چچا زاد بہن ام ہانی کے گھر تشریف لے جاتے ہیں اور فرماتے ہیں بہن کچھ کھانے کو ہے؟ بہن شرمندہ ہے کہ گھر میں فی الفور اس
79 شهر دو عالم کیلئے چند خشک ٹکڑوں کے سوا کچھ نہیں.آپ فرماتے ہیں وہ ٹکڑے ہی لے تو آؤ پھر آپ پانی منگوا کر وہ خشک ٹکڑے بھگو لیتے ہیں.تھوڑا رہ سا نمک اوپر ڈالتے ہیں اور پوچھتے ہیں کچھ سالن ہے ؟ ام ہانی عرض کرتی ہیں سالن تو نہیں سرکے کی کچھ تلچھٹ پڑی ہے اور خدا کا پیارا رسول میری بچا کھچا سر کہ ان گیلے نمکین ٹکڑوں پر ڈال کر مزے مزے سے کھانے لگتا ہے اور ساتھ الحمد للہ الحمد للہ کہتے جاتے ہیں.یہ میرے آقا کا اپنی عظیم فتح کے دن کا کھانا ہے.(مجمع الزوائد جلد ۸ صفحہ ۱۷۶) ہم بسا اوقات اعلیٰ کھانے کھا کر بھی خدا کا شکر کرنا بھول جاتے ہیں.آؤ ہم اپنے آقا سے سبق سیکھیں.خدا کا وہ شکر گزار بندہ اس سادہ کھانے پر بھی خدا کا کتنا شکر ادا کرتا ہے.بہن سے فرماتے ہیں ام ہانی ! سرکہ بھی کتنا اچھا سالن ہوتا ہے.اس واقعے سے رسول اللہ علی کی قناعت بے نفسی اور مقام رضا کا بھی خوب اندازہ ہوتا ہے.آپ ہر حال میں خوش رہنا جانتے تھے اور یہی آپ کی خوشگوار زندگی کا راز تھا.بیت اللہ کی طرف روانگی:.اب ہمارے آقا اپنی او تخنی قصواء پر سوار صحابہ کے جلو میں بیت اللہ شریف کی طرف روانہ ہوتے ہیں یہ وہی قصواء ہے جسے دو سال قبل حدیبیہ مقام پر مکے میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا.ہاں! آپ خدا کے اسی گھر کا طواف کرنے آ رہے تھے جس سے آٹھ سال تک آپ کو روکا گیا.اس وقت آپ کے جذبات کی کیا کیفیت ہوگی ؟ اس کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جسے اس گھر سے روکا گیا ہو.پھر خود ہی بتاؤ کہ وہ جو اس گھر کا مقصود تھا.ہاں اس گھر کا دولہا جب قدوسیوں کی بارات لیکر اس پاک گھر کے طواف کے لئے آرہا ہو گا تو اس کے
80 A جذبات میں کیا تلاطم ہو گا؟ خدائے واحد کا گھر جو ابراہیم خلیل اللہ نے ان دعاؤں کے ساتھ تعمیر کیا تھا.رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَ أَمِنَّا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ تَعْبُدُ الْأَصْنَامَ (ابراہیم : ۳۶) کہ خدایا مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی پرستش سے بچانا.اب اس گھر کو ۳۶۰ جھوٹے خداؤں نے گھیر رکھا تھا.لیکن ابراہیمی دعاؤں کی بدولت اس ظلم اور جھوٹ کے مٹنے کا وقت آچکا تھا اور خانہ کعبہ تشریف لا کر سب سے پہلے اس مقدس رسول نے خدا کے گھر کو بتوں سے پاک کیا.حق آیا اور باطل بھاگ گیا :.ابھی کے میں داخلے کے وقت کمال انکساری کا ایک منظر آپ نے دیکھا تھا.جب اپنی ذات کا معاملہ تھا تو اس فخر انسانیت نے اپنا وجود کتنا مٹا دیا اور اپنا سر کتنا جھکا دیا تھا لیکن جب رب جلیل کی عظمت و وحدانیت کی غیرت کے اظہار کا وقت آیا تو اس نبیوں کے سردار نے ایک ایک بت کے پاس جا کر پوری قوت سے اس پر اپنی کمان ماری اور گراتے چلے گئے اور بڑے جلال سے یہ آیت پڑھتے تھے جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا (بنی اسرائیل : ۸۲) کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور وہ ہے ہی مٹنے والا (بخاری کتاب المغازی) چند لمحوں میں ضرب مصطفوی سے لات و منات کے بت ریزہ ریزہ ہو گئے.عزئی ٹوٹ کر پارہ پارہ ہو گیا اور حبل پاش پاش ہو کر بکھر گیا.آج تعمیر بیت اللہ کا مقصد پورا ہوا کہ اس میں صرف اور صرف خدائے واحد کی پرستش کی جائے یہ محمد مصطفی میں دل کی مرادوں اور تمناؤں کے پورا ہونیکا دن تھا.یہ خدا کی بڑائی ظاہر کرنے اور عظمت قائم کرنے کا دن تھا.(ابن ہشام جلد ۴ صفحه ۹۳)
81 اس کیفیت میں جب رسول الله ملی و بیت اللہ کے پاس تشریف لائے اور حجر اسود کا بوسہ لیا تو وفور جذبات سے آپ نے باد از بلند اللہ اکبر کا نعرہ بلند (بخاری کتاب المغازی) کیا.صحابہ نے بھی جواب میں اللہ اکبر اللہ اکبر کے نعرے لگائے اور اس زور سے لگائے کہ سر زمین مکہ نعرہ ہائے تکبیر سے گونج اٹھی مگر نعرے تھے کہ تھمنے کا نام نہ لیتے تھے تب رسول اللہ میں نے ہاتھ کے اشارے سے صحابہ کو خاموش کرایا.(زرقانی جلد ۲ صفحہ ۳۳۴) الله لا پس اے محمد مصطفی میں نیم کے نیچے غلامو! نبیوں کے اس سردار پر درود اور سلام بھیجو جس نے اپنی عظیم الشان فتح کے دن بھی اپنے نام کے نہیں خدائے واحد لا شریک کی عظمت کے نعرے بلند کئے.بیت اللہ میں عبادت مگر یہ نعرہ ہائے تکبیر یا اونٹنی کے پالان پر سجدہ تشکر تو دراصل آپ کے قلبی جذبات کا ایک ادنی سا علامتی اظہار تھا کہ توحید الہی اور اپنے موٹی کی کبریائی کی کتنی غیرت اور جوش آپ کے دل میں موجزن ہے.مگر کسے معلوم کہ ابھی تو کتنے ہی بے پناہ ان گنت بے قرار سجدے آپ کی پیشانی میں تڑپ رہے تھے کہ جو بیت اللہ کی زینت بنے والے تھے.انہی سجدوں سے آج بیت اللہ سجنے والا تھا.وہی پاکیزہ پر خلوص اور عاجزی سے بھرے ہوئے سجدے جن کی خاطر یہ پہلا گھر بنایا گیا اور جن کی بیت اللہ کو بھی انتظار ہو گی.اب ان سجدوں کی ادائیگی کا وقت آچکا تھا.نبی کریم ملی ویلا و لیلی نے بیت اللہ میں آکر پہلا کام یہی کیا کہ کہ اس کے اندر تشریف لے گئے اور بطور شکرانہ فتح نفل نماز ادا کی.اس وقت حضرت اسامہ اور حضرت بلال آپ کے ساتھ تھے اور کافی دیر خانہ کعبہ میں عبادت کرتے (بخاری کتاب المغازی) رہے.رض
82 پہلے آپ نے دو ستونوں کے درمیان دو نفل ادا فرمائے اور باہر تشریف لا کر بیت اللہ کے اندر کے دروازے اور حجر اسود کے درمیان دو نفل ادا کئے پھر اندر تشریف لے گئے اور کافی دیر کھڑے دعا کرتے رہے حتی کہ خانہ کعبہ کے ہر کونے میں کھڑے ہو کر آپ نے دعا کی.(سیرت الحلبیہ جلد ۳ صفحه (۱۰۱) حضرت ابو بکڑ سے تعلق وفا:.نماز کی ادائیگی کے بعد صحن کعبہ میں تشریف فرما ہوئے تو حضرت ابو بکر اپنے نابینا بوڑھے باپ ابو قحافہ کو ہمراہ لئے رسول اللہ مال کی خدمت میں حاضر ہوئے.نبی کریم ملی داری کا اپنے رفقاء سے سلوک احسان اور کمال بجز و انکسار ملاحظہ ہو.اپنے دیر بینہ جانی رفیق حضرت ابو بکر کے والد جو ابھی مسلمان بھی نہیں ہوئے تھے کو دیکھ کر فرمانے لگے.”اپنے بزرگ اور بوڑھے باپ کو آپ گھر میں ہی رہنے دیتے اور مجھے موقع دیتے کہ میں خودان کی خدمت میں حاضر ہوتا." حضرت ابو بکر اس شفقت پر وارے جاتے ہیں کمال ادب سے عرض کیا اے خدا کے رسول مینی یا یہ ان کا زیادہ حق بنتا تھا کہ چل کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں بجائے اس کے کہ حضور بنفس نفیس تشریف لے جاتے.نبی کریم میں نے اپنے سامنے بٹھا کر ابو قحافہ کے سینے پر ہاتھ پھیرا اور فرمانے لگے کہ اب اسلام قبول کر لیجئے.ان کا دل تو محبت بھری باتوں سے آپ پہلے ہی جیت چکے تھے.ابو قحافہ کو انکار کا یارا کہاں تھا انہوں نے فور اُسر تسلیم خم کیا.اور حضور می ی لی لی اور پھر ان سے دل لگی کی باتیں کرنے لگے ان کے بالوں میں سفیدی دیکھی تو فرمایا کہ خضاب وغیرہ لگا کر ان کے بالوں کا رنگ تو بدلو.(ابن ہشام جلد ۴ صفحه ۹۱)
83 دلوں کی فتح :.وہ رحمت العالمین اہل مکہ کیلئے امان کا اعلان کرتے ہوئے خانہ کعبہ پہنچتے ہیں اور بعض بد بخت یہ منصوبے بنا رہے ہیں کہ اگر آج اس عظیم فاتح کو قتل کر دیا جائے تو مسلمانوں کی فتح کو شکست میں بدلا جا عمیر ا ہے.طواف کے وقت ایک شخص فضالہ بن آنحضرت مالی وی کو قتل کرنے کے ارادہ سے آپ کے قریب آیا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کے ناپاک منصوبے کی اطلاع کر دی.آپ نے نام لے کر بلایا تو وہ گھبرا گیا.آپ نے پوچھا کس ارادہ سے آئے ہو ؟ تو وہ جھوٹ بول گیا.آپ مسکرائے اور اسے اپنے قریب کر کے پیار سے اس کے سینے پر اپنا ہاتھ رکھ دیا.فضالہ بعد میں کہا کرتا تھا کہ جب آنحضرت ملی تم نے میرے سینے پر ہاتھ رکھا تو میری تمام نفرت دور ہو گئی اور مجھے ایسے لگا کہ دنیا میں سب سے پیارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.فضالہ نے اس حسن سلوک سے متاثر ہو کر اسی وقت اسلام قبول کر لیا.یہ تھی دلوں کی فتح جو ہمارے آقا و مولا کو فتح مکہ کے دن حاصل ہوئی.(زرقانی جلد ۲ صفحہ ۳۳۳) طواف کے بعد آنحضرت میں نے عثمان بن طلحہ سے انتقام : کلید بردار کعبہ عثمان بن طلحہ سے بیت اللہ کی چابیاں منگوائیں.جب حضور کمکے میں تھے تو سوموار اور جمعرات کے دن خانہ کعبہ کا دروازہ کھولا جاتا تھا اور لوگ اندر جاتے تھے.ایک دفعہ آنحضرت میں دل کے اندر جانے لگے تو اسی عثمان نے اس پاک رسول کو خدا کے اس گھر میں داخل ہونے سے روک دیا جس کے لئے یہ گھر بنایا گیا تھا.رسول خدا می دیار کریم نے اس وقت عثمان کو کہا اس خانہ خدا کی چابیاں ایک دن میرے پاس آئیں گی اور پھر جسے میں چاہوں گا دوں گا اور آج وہ دن آچکا تھا اور عثمان بن طلحہ لرزتے ہوئے ہاتھوں سے چابیاں خدا کے رسول میر کو
84 پیش کر رہا تھا.(بخاری کتاب المغازی) اب دنیا منتظر تھی کہ عثمان بن طلحہ سے بطور انتقام چابیاں واپس لے لی جائیں گی اور کسی اور کے سپرد ہونگی.حضرت علی رسول اللہ میم کی خدمت میں عرض بھی کر چکے تھے کہ آج سے کعبہ کی دربانی کی خدمت بنو ہاشم کو عطا کی جائے ادھر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ میں نماز پڑھ کر باہر تشریف لائے تو عثمان بن طلحہ سے ایک عجیب تاریخ ساز انتقام لیا.آپ نے چابیاں اس کے حوالے کر دیں اور فرمایا آج کا دن احسان اور وفا کا دن ہے اور اے عثمان میں یہ چابیاں ہمیشہ کیلئے تمہیں اور تمہارے خاندان کے حوالے کرتا ہوں اور کوئی بھی تم سے یہ چابیاں واپس نہیں لے گا سوائے ظالم کے.یہ احسان دیکھ کر مشرک عثمان بن طلحہ کا سر جھک گیا اور اس کا دل محمد مصطفیٰ کے قدموں میں تھا اس نے اسی وقت اعلان کیا میں گواہی دیتا ہوں اللہ کے سوا کوئی معبو نہیں اور بے شک محمد اس کا رسول ہے.(سیرۃ الحلبیہ، مجمع الزوائد جلد 4 صفحه ۱۷۷ ابن ہشام جلد ۴ صفحه ۹۲ تا ۹۴) یہ تھا انتقام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور کتنا حسین ہے یہ انتقام!! کوئی ہے جو اس کی نظیر پیش کرے؟ تاریخی خطبہ : حضور ملی یا طواف سے فارغ ہو کر جب باب کعبہ کے پاس تشریف لائے تو آپ " کے تمام جانی دشمن آپ کے سامنے تھے.آپ نے اس جگہ وہ عظیم الشان تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا جس میں اپنے خونی دشمنوں کے لئے معافی کا اعلان تھا.مساوات انسانی کا اعلان تھا کسی غرور کی بجائے فخر و مباہات کالعدم کرنیکا اعلان تھا.الغرض یہ معرکہ آراء خطبہ بھی دراصل آپ کے خلق عظیم کا زبردست شاہکار ہے.آپ نے فرمایا :.
85 و هرم لا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ نَصَرَ عَبْدَهُ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ اے لوگوں! خدا ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں.اس نے فتح کے جو وعدے اس عاجز بندے سے کئے تھے وہ آج پورے کر دکھائے ہیں اور اس خدائے وحدہ لا شریک نے اپنے اس کمزور بندے کی مدد کر کے اس کے مقابل پر تمام جتھوں کو توڑ کر رکھ دیا ہے.آج تمام گذشتہ ترجیحات اور مفاخر اور تمام انتقام اور خون بہا میرے قدموں کے نیچے ہیں.میں ان سب کو کالعدم قرار دیتا ہوں.اے قوم قریش! اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کا غرور اور نام و نسب کی بڑائی ختم کر دی ہے.تمام لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنا تھا.پھر آپ نے یہ آیت پڑھی بايُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنثى وَجَعَلْنَكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَكُم کہ اے لوگو! میں نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہارے قبیلے اور خاندان بنائے تاکہ آپ اس میں ایک دوسرے کی پہچان کرو.یقینا خدا کے نزدیک سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے.پھر آپ نے فرمایا.اے سکے والو! اب تم خود ہی بتاؤ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں.یہاں اک ذرا ٹھہریئے اور دیکھئے آپ کن لوگوں سے مخاطب تھے ؟ ان خون کے پیاسوں سے جن کے ہاتھ گزشتہ میں سال سے مسلمانوں کے خون سے آلودہ تھے.ہاں! مسلمان غلاموں کو مکہ کی گلیوں میں گھسیٹنے والے مسلمان عورتوں کو بیدردی سے ہلاک کرنے والے مسلمانوں کو اپنے گھروں سے نکالنے والے اور خود ہمارے آقا و مولا کو تین سال تک ایک گھاٹی میں قید کر کے اذیتیں دینے والے! لیکن جب ان سے
86 پوچھا جاتا ہے کہ تمہیں کس سلوک کی توقع ہے تو وہ کہتے ہیں."آپ جو چاہیں کر سکتے ہیں مگر آپ جیسے کریم انسان سے ہمیں نیک سلوک کی ہی امید ہے اس سلوک کی جو حضرت یوسف نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا." * سچا عفو : حضرات لوگ مکہ میں رسول اللہ کے داخلہ کو فتح قرار ! دیتے ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ حضرت محمد مصطفی میں ایم کی حقیقی فتح آپ کے خلق عظیم کی فتح تھی جس کا دشمن بھی اعتراف کر رہا تھا کہ اب تک جس وجود سے صرف اور صرف رحمت ہی ظاہر ہوئی آج بھی اس سے رحمت کی امید کیوں نہ رکھیں؟ لیکن رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی توقعات سے کہیں بڑھکر ان سے حسن سلوک کیا.آپ نے فرمایا اِذْهَبُوا أَنْتُمُ الطَّلَقَاء لا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللَّهُ لَكُمْ کہ جاؤ تم سب آزاد ہو اور صرف میں خود تمہیں معاف نہیں کرتا ہوں بلکہ اپنے رب سے تمہارے لئے عفو کا طلب گار ہوں.(ابن ہشام جلد ۴ صفحہ ۹۴) یہ وہ سچا عفو تھا جس کے چشمے میرے آقا کے دل سے پھوٹے اور مبارک ہونٹوں سے جاری ہوئے.اس رحمت عام اور عفو تام کو دیکھ کر دنیا انگشت بدنداں ہے.مستشرقین بھی اس حیرت انگیز معافی کو دیکھ کر اپنا سر جھکا لیتے ہیں اور اس عظیم رسول مینی و هال لول کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں.بطور نمونہ مشہور مستشرق شین لے لین پول کا فتح مکہ کے بارہ میں تاثر بیان کرتا ہوں وہ سادہ لکھتا ہے.اب وقت تھا کہ پیغمبر می خونخوار فطرت کا اظہار کرتے.آپ کے قدیم ایذاء د بندے آپ کے قدموں میں آن پڑے ہیں.کیا آپ"
87 اس وقت بے رحمی اور بیدردی سے ان کو پامال کریں گے؟ سخت عذاب میں گرفتار کریں گے یا ان سے انتقام لیں گے؟؟ یہ وقت اس شخص کے اپنے اصلی روپ میں ظاہر ہونے کا ہے.اس وقت ہم ایسے مظالم کے پیش آنے کی توقع کر سکتے ہیں جن کے سننے سے رونگٹے کھڑے ہو جائیں اور جن کا خیال کر کے اگر ہم پہلے سے نفرین و ملامت کا شور مچائیں تو بجا ہے ؟ مگر یہ کیا ماجرا ہے؟ کیا بازاروں میں کوئی خونریزی نہیں ہوئی؟ ہزاروں مقتولوں کی لاشیں کہاں ہیں؟ واقعات سخت بیدرد ہوتے ہیں (کسی کی رعایت نہیں کرتے) اور یہ ایک واقعی بات ہے کہ جس دن محمد (میلی ) کو اپنے دشمنوں پر فتح حاصل ہوئی وہی دن آپ کی اپنے نفس پر فتح حاصل کرنے کا دن تھا.قریش نے سال ہا سال تک جو کچھ رنج اور صدمے دیئے تھے اور بے رحمانہ تحقیر و تذلیل کی مصیبت آپ پر ڈالی تھی.آپ نے کشادہ دلی کے ساتھ ان تمام باتوں سے درگذر کی اور مکہ کے تمام باشندوں کو ایک عام معافی نامہ دے دیا." (انتخاب قرآن) لیا ظلم کا عفو انتقام علیک الصلوه علیک السلام مکہ میں قیام کیلئے جگہ کا انتخاب:.اب نبی کریم میں مکہ کے بادشاہ ہیں سرزمین مکہ کا سب کچھ آپ کی ملکیت اور قبضہ و اقتدار میں آچکا ہے ایسے میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آپ قیام کہاں پسند فرمائیں گے ؟ حضرت اسامہ عرض کرتے ہیں یا رسول اللہ ما ل ا ل ل لا لیا کیا آپ اپنے آبائی گھر میں ٹھہریں گے (جہان بچپن اور جوانی کی یادیں وابستہ ہیں) تو فرمانے لگے ہمارے چچا زاد عقیل بن ابی طالب
88 نے کہاں وہ گھر ہمارے لئے باقی چھوڑے ہیں وہ تو کب کے فروخت کر کے کھا.چکے.(بخاری کتاب المغازی) فتح کے نشہ میں سرشار کوئی فاتح اقتدار پا کر بھی ایسا جواب دیا کرتا ہے.ہر گز نہیں یہ ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی میل کے اخلاق فاضلہ کی ہی شان ہے جو ہر جگہ نرالی نظر آتی ہے.آپ نے اپنے قیام کے لئے کوئی جگہ پسند بھی فرمائی تو جون کا مقام.جس سے آپ کی زمانہ مظلومیت کی یادیں وابستہ تھیں.وہی مقام جہاں آپ کے خاندان بنی ہاشم کے خلاف قریش نے قطع تعلق (بائیکاٹ) کرنے پر حلف اٹھا کر فیصلے کئے تھے.چنانچہ اسی مقام پر حضور ملی دی او لیول کا خیمہ نصب کیا گیا اور یہیں آپ نے پڑاؤ فرمایا کہ یہ خاندان بنی ہاشم کی جگہ تھی گویا آپ کے مکہ والوں سے کوئی مال غنیمت لینے کا تو کیا ذکر پڑاؤ بھی اپنی جگہ پر کرنا پسند فرمایا.(بخاری کتاب المغازی).ہر چند کہ یہ مقام کے سے ایک جانب واقع تھا اور مسجد الحرام سے فاصلہ پر تھا.مگر نبی کریم مکہ میں سہ روزہ مختصر قیام کے دوران حجون سے نمازوں کی ادائیگی کے لئے بیت اللہ تشریف لاتے رہے.(سيرة الحلبيه جلد ۳ صفحه ۱۹۹۹۸
89 فتح کا نقارہ :.فتح مکہ کے دن نبی کریم میں نے مکہ کی گھاٹیوں اور فضاؤں میں توحید خالق کے نعرے بلند کرنے کیلئے بھی اسی کو چنا جس نے مظلومیت کے زمانہ میں دکھ اٹھا کر اور ماریں کھا کر بھی احد احد کی صدا بلند کی تھی اور یہ ایک اور خوبصورت انتقام تھا جو بلال" کی خاطر لیا گیا.فتح کے روز حضرت بلال حبشی کو حکم ہوا کہ ظہر کی نماز کی اذان خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کر دیں.وہ کیا عجیب نظارہ ہو گا جب حضرت بلال کی اذان کی آواز مکہ کی فضاؤں میں گونج رہی ہوگی ہاں ان گلیوں اور کوچوں میں بھی جہاں بلال نے ندائے توحید بلند کرتے ہوئے قدم قدم پر قربانیاں دی ہوئی تھیں.کعبہ میں حضرت بلال کی آواز سن کر قریش کے سردار عتاب بن اسید اور حارث بن ہشام سخت برافروختہ ہوئے اور عتاب کہنے لگا شکر ہے میرے باپ اسید کو آج کے دن کی ذلت دیکھنے سے پہلے موت آگئی.کیا اس کالے کوے کے سوا محمد کو اذان دینے کیلئے اور کوئی نہ ملا.خدا کی قسم یہ ایک عظیم حادثہ ہے.بنی صبح کا ایک غلام خانہ کعبہ پر چڑھ کر اذان کہتا ہے.ابو سفیان کہنے لگا میں تو کچھ نہیں کہتا ورنہ یہ سنگ ریزے ہی محمد کو اس کی خبر کر دیں گے.اتنے میں نبی کریم ملی هلال و العلم ان سرداران قریش کے پاس تشریف لائے اور فرمایا.جو باتیں تم کر رہے تھے مجھے اس کا علم عطا کیا گیا ہے مگر پھر بھی ان پر کوئی گرفت نہ فرمائی.وہ سردار حیران و ششدر یہ کہہ اٹھے کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ خدا کے رسول ہیں کیونکہ ان باتوں کے وقت کوئی ہمارے پاس موجود نہ تھا.پس رسول اللہ مال و علم و عمل کا یہ احسان اور بلال کی اذان آج ان سردار ان کے قبول اسلام کا موجب بن گئے جو کل تک بلال کی زبان سے کلمہ توحید سننے کے بھی روادار نہ تھے.
90 بلال کی اذان نے امراء قریش کے دلوں میں یوں ہلچل مچائی تھی تو دوسری طرف عوام الناس میں سے کچھ لوگ غصے اور استہزاء سے بلال کی اذان کی نقلیں اتارنے لگے.ان میں ایک نوجوان ابو محذورہ بھی تھا.رسول اللہ میں اللہ کے حکم پر ان کو آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا انہیں اندیشہ تھا کہ توحید و رسالت سے اس استہزاء کے جرم میں انہیں کسی سخت سزا کا سامنا کرنا ہو گا مگر یہاں تو عجیب نظارہ تھا جب یہ مجرم سر جھکائے حاضر ہوئے تو نبی کریم" نے ابو محذورہ کی پیشانی اور سینے پر ہاتھ پھیر اوہ کہتے ہیں میرا دل جیسے ایمان اور یقین سے بھر گیا.پھر نبی کریم میں ہم نے اسے اذان سکھائی اور مکہ کا موذن مقرر فرما دیا.یوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ اور شفقت و احسان کے نتیجہ میں ایک اور روح کو نجات ملی.(سیرت الحلبیہ جلد ۳ صفحہ ۱۱۷۱۱۶) حرم بیت اللہ کی حرمت کا قیام:.احکام الہی کی حرمت کے ساتھ نبی کریم میں نے فتح مکہ کے موقع پر حرم کا احترام و تقدس بھی بحال کیا.جو آپ کی بعثت کا ایک اہم مقصد تھا.فتح مکہ کے دوسرے دن بنو خزاعہ نے بنو ہذیل کے ایک مشرک کو حرم میں قتل کر دیا.آپ اس پر سخت ناراض ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا جس کا خلاصہ یہ تھا.”اے لوگو! یاد رکھو اس حرم کی عزت کو کسی انسان نے نہیں خدا نے قائم کیا ہے.اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ خدا نے اصحاب الفیل کے حملہ اپنے اس گھر کو بچالیا تھا اور مسلمانوں کو اس پر مسلط کر دیا ہے.کسی شخص کیلئے جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے جائز نہیں کہ وہ اس میں خونریزی وغیرہ کرے.یہ حرم مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال
91 نہیں ہوا اور نہ میرے بعد کسی کے لئے حلال ہو گا.میرے لئے صرف اسی وقت اور اسی لمحے لوگوں پر خدا کے غضب کے سبب حلال ہوا ہے اور اب پھر اس کی حرمت بدستور برقرار رہے گی.تم میں سے جو لوگ حاضر ہیں وہ غیر حاضر لوگوں تک یہ بات پہنچا دیں جو شخص تم سے کہے کہ اللہ کے رسول نے مکہ میں جنگ کی ہے تو یاد رکھو اللہ نے اسے اپنے رسول کے لئے حلال کر دیا تھا لیکن (اے بنی خزاعہ) تمہارے لئے حلال نہیں کیا.اور مجھے بھی صرف ایک گھڑی کیلئے یہ اجازت دی گئی تھی." (بخاری کتاب المغازی) اس کے بعد آپ نے بنو خزاعہ کے قاتلوں کو قصاص دینے یا خون بہا قبول کرنے کا پابند کیا اور یوں عملا عدل و انصاف کو قائم فرمایا.فتح انصار مدینہ سے وفا اور دلداری:.جب مکہ کی عظیم الشان شبح سے خدا کا رسول اور جماعت مومنین خوش ہو رہے تھے عین اس وقت ایک عجیب جذباتی نظارہ دیکھنے میں آیا.ہوا یوں کہ کچھ عشاق رسول انصار مدینہ کے دلوں میں یہ وسوسے جنم لے رہے تھے اور ان کے دل اس وہم سے بیٹھے جا رہے تھے کہ ہمارے آقا و رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی فتح کے بعد کہیں اپنے اس وطن مالوف میں ہی مستقل قیام نہ فرمالیں.جب یہ وساوس قلب و دماغ سے نکل کر زبانوں پر آنے لگے کہ نبی کریم میں لیا ہم نے اہل مکہ سے جس محبت و رافت کا سلوک فرمایا ہے اس سے وطن کے ساتھ آپ کی محبت بھی ظاہر ہے اگر یہ محبت غالب آگئی اور آپ نہیں رہ گئے تو ہمارا کیا ٹھکانہ ہو گا.کہتے ہیں عشق است ہزار بد گمانی.دراصل یہ وسوسے انصار مدینہ کے عشق صادق کے آئینہ دار تھے.کمزوری اور مظلومی کے زمانہ کے ان ساتھیوں کے ٹوٹے دلوں
92 کی ڈھارس بھی ضروری تھی.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت میں کو بذریعہ وحی انصار کی ان قلبی کیفیات سے اطلاع فرمائی.آپ نے انصار مدینہ کا ایک الگ اجتماع کوہ صفا پر طلب فرمایا اور ان سے مخاطب ہوئے کہ کیا تم لوگ یہ باتیں کر رہے ہو کہ محمد پر اپنے وطن اور قبیلے کی محبت غالب آگئی ہے؟ انصار نے سچ سچ اپنے خدشات بلکہ کم و کاست عرض کر دیئے.تب خدا کے رسول" نے انہیں اطمینان دلاتے ہوئے بڑے جلال سے فرمایا کہ اگر میں ایسا کروں تو دنیا مجھے کیا نام دے گی ؟ میں پوچھتا ہوں مجھے جاؤ تو سہی کہ بھلا دنیا مجھے کسی اچھے نام سے یاد کرے گی ؟ اور میرا نام تو محمد ہے یعنی ہمیشہ کیلئے تعریف کیا گیا.تم مجھے کبھی بے وفا نہیں پاؤ گے.بے شک میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں.وطن جو میں نے خدا کی خاطر چھوڑا تھا اب میں لوٹ کر کبھی اس میں واپس نہیں آسکتا ہوں.میں تمہارا جیون مرن کا ساتھی بن چکا ہوں.میرے یہاں رہ جانے کا کیا سوال؟ اب تو مجھے سوائے موت کے کوئی اور چیز تم جیسے وفاداروں اور پیاروں سے جدا نہیں کر سکتی.تب انصار مدینہ جو جذبات عشق سے مغلوب ہر کر ان وساوس میں مبتلا ہوئے تھے سخت نادم اور افسردہ ہوئے کہ ہم نے ناحق اپنے آقا کی وفا کے بارے میں بدظنی سے کام لیا اور آپ کا دل دکھایا.پھر کیا تھا وہ ڈھائیں مار مار کر رونے لگے اور روتے روتے ان کی ہچکیاں بندھ گئیں اور انہوں نے عرض کیا کہ خدا کی قسم ہم نے جو یہ بات کی تو محض خدا اور اس کے رسول کے ساتھ پیار کی وجہ سے کی تھی کہ اس سے جدائی ہمیں گوارا نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ان وفادار ساتھیوں کو دلاسا دیا اور فرمایا اللہ اور رسول تمہارے اس عذر کو قبول کرتے ہیں اور تمہیں مخلص اور سچا قرار دیتے (مسلم کتاب الجہاد باب فتح مکہ)
93 محمد تھے.اے محمد ! اے ہمارے آقا! بے شک آپ کا نام بھی محمد تھا اور کام بھی محمد ہی نام اور محمد ہی کام علیک الصلوه علیک السلام عضو عام اور رحمت تام کا روشن مینار : قاضین عالم کی فتوحات کی یادیں ان کی ہلاکت خیزیوں اور کھوپڑیوں سے تعمیر کئے جانیوالے میناروں سے وابستہ تی ہیں مگر ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی فتح تو آپ کے عفو عام اور رحمت تام کا وہ روشن مینار ہے جس کی کل عالم میں کوئی نظیر نہیں.سوائے چند مجرموں کے جو اپنے جرائم کی بنا پر واجب القتل تھے.نبی کریم میں اللہ کے دربار سے عام معافی کا اعلان دراصل آپ کی وہ اخلاقی فتح تھی جس نے آپ کے اہل وطن کے دل جیت لئے.ان دس واجب القتل مجرموں میں سے بھی صرف چار اپنے جرائم پر اصرار کرنے اور معافی نہ مانگنے کی وجہ سے مارے گئے ورنہ اس دربار سے تو عفو کا کوئی بھی سوالی خالی ہاتھ لوٹا نہ معافی سے محروم ہوا.پہلام مجرم : ان مجرموں سے ایک بد بخت عبد اللہ بن خطل تھا.جس کا اصل نام عبد العزی تھا.مسلمان ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام عبد اللہ رکھا اور اسے زکوۃ وصول کرنے پر مامور فرمایا اور ایک انصاری کو بطور خدمت گار ساتھ روانہ کیا.ایک منزل پر قیام کے دوران محض بروقت کھانا تیار نہ کرنے پر اس انصاری نوجوان کو قتل کر ڈالا.اس قتل ناحق کے باعث وہ سزائے موت کا مستحق تو قرار پاہی چکا تھا لیکن مستزاد یہ کہ اس قتل کے بعد مرتد ہو کر مشرکین مکہ سے جاملا اور اسلام اس پر
94 اور بانی اسلام کے خلاف ایک محاذ کھول لیا یہ خود شاعر تھا.نبی کریم میٹی کے خلاف گندے اور فخش اشعار کہتا.مجالس میں ترنم سے پڑھوا تا تھا.فتح مکہ کے موقع پر بھی ابن خطل معافی کا خواستگار ہونے کے بجائے زرہ بند اور مسلح ہو کر گھوڑے پر سوار ہوا اور قسمیں کھا کھا کر یہ اعلان کرتا پھرا کہ محمد کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا.پھر جب حضور ملی یا مکہ میں داخل ہو گئے تو بھی بجائے آپ کے دربار عفو میں حاضر ہونے کے خانہ کعبہ کے پردوں سے جا کر لپٹ گیا تا اس حیلہ سے جان بچالے.چنانچہ حسب فیصلہ یہ قتل ہو کر کیفر کردار کو پہنچا.(سیرۃ الحلبیہ، جلد ۳ صفحه ۱۰۵و بخاری کتاب المغازی) دوسری مجرم:.ابن خطل کی دو مغنیہ (گانے والی عورتیں تھیں جو اعلانیہ اس کی کمی ہوئی ہجو گایا کرتیں اور اشاعت فاحشہ کی مرتکب ہوتیں.اس لئے اس کے ساتھ اس کی دونوں مغنیات بھی سزائے موت کی سزاوار قرار پائیں.ان دونوں میں سے ایک تو قتل ہو گئی.دوسری سارہ نامی کہیں بھاگ گئی اور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے لئے معافی و امان طلب کی گئی تو آپ نے اسے بھی معاف فرما دیا اور اس نے اسلام قبول کر لیا.(سیرت الحلبیہ جلد ۳ صفحه ۱۰۷) " تیسرا شخص حویرث بن نقیذ بن وھب تھا جو نبی کریم کا تیسرا مجرم :- جانی دشمن تھا اور سکے میں آپ کو سخت ایذا ئیں دیتا اور آپ کے خلاف سخت بکو اس کرتا اور ہجو کہتا تھا مگر اس کا اصل جرم جسکی بناء پر یہ واجب القتل ٹھہرا نبی کریم میل ل ل ل لیلی کی صاحبزادی پر قاتلانہ حملہ تھا.چنانچہ رسول اللہ علی وسلم کی ہجرت مدینہ کے بعد جب آپ کے چچا حضرت عباس"
95 نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیوں حضرت فاطمہ الہا اور حضرت ام كلثوم ان کو مکہ سے مدینہ بھیجوانے کیلئے اونٹ پر سوار کروا کے روانہ کیا تو اس بدبخت نے چھپ کر قاتلانہ حملہ کر کے ان کو اونٹ سے گرا دیا.حضرت علی نے اسے فتح مکہ کے موقع پر حسب فیصلہ اس کے جرائم کی پاداش میں قتل کیا.(سیرت الحلبیہ جلد ۳ صفحه (۱۰۵) چوتھا مجرم : چوتھا شخص مقیس بن منابہ تھا اسے اس لئے واجب القتل قرار دیا گیا تھا کہ اس نے مدینہ میں ایک انصاری کو قتل کیا تھا جس کے بعد وہ مرتد ہو کر قریش سے جا ملا.(ابن ہشام جز ۴ صفحہ ۹۲) دراصل مقیس نے مسلمان ہوا اور اپنے بھائی ہشام بن ضبابہ کی دیت کا تقاضا کیا جسے ایک انصاری نے غزوہ قرد میں دشمن کا آدمی سمجھ کر غلطی سے قتل کر دیا تھا.حضور ملی یوی کی دیوی نے اس کے بھائی کی دیت اسے ادا فرمائی.دیت وصول کر لینے کے بعد اس نے پھر اس انصاری کو قتل کیا اور مرتد ہو کر دشمن اسلام اہل مکہ سے جا ملا.اسے بھی انصاری کے قتل کے قصاص میں فتح مکہ کے موقع پر قتل کیا گیا.(سیرت الحلبیہ جلد ۳ صفحه ۱۰۵-۱۰۶) ان چار مجرموں کے علاوہ باقی تمام وہ مجرم جو واجب القتل قرار دیئے گئے جب معافی کے طالب ہوئے اور امان چاہی تو رحمتہ العالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں معاف فرما دیا.ایک مرتد کی معافی: عبد الله بن سعد بن ابی سرح بھی انسی لوگوں میں سے تھا جو حضور میل کا کاتب وجی تھا.اس نے کلام الہی میں تحریف اور خیانت کے جرم کا ارتکاب کیا جب اس کی یہ چوری پکڑی گئی تو بغاوت اور ارتداد اختیار کرتے ہوئے مسلمانوں
رق 96 کے حریف قریش مکہ سے جاملا اور وہاں جا کر اس جھوٹے الزام کی کھلم کھلا اشاعت کی کہ جو میں کہتا تھا اس کے مطابق وحی بنا کر لکھ لی جاتی تھی.اسکی محاربانہ سرگرمیوں کے باعث اسے واجب القتل قرار دیا گیا.اور بعض مسلمانوں نے نذر مانی کہ وہ اس دشمن خدا و رسول کو قتل کریں گے.مگر یہ اپنے رضاعی بھائی حضرت عثمان غنی کی پناہ میں آکر معافی کا طالب ہوا.آنحضرت میں ایم کیو ایم نے پہلے تو اعراض فرمایا مگر حضرت عثمان کی بار بار درخواست پر کہ میں اسے امان دے چکا ہوں حضور نے اسے معاف کر دیا اور اس کی بیعت قبول فرمائی.بعد میں حضور میلیا میں نے اپنے صحابہ سے (جن میں عبد اللہ کے قتل کی نذر مانے والے صحابی بھی شامل تھے) امتحان کی خاطر پوچھا کہ جب تک میں نے معافی اور بیعت منظور نہیں کی تھی اس دوران عبد اللہ کو قتل کر کے اپنی نذر پوری نہیں کی اس کا کیا سبب ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا آپ کا ادب مانع تھا.اگر فیصلہ کوئی دوسرا تھا تو آپ ادنی سا اشارہ ہی فرما دیتے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آنکھ کے مخفی اشارے کی خیانت بھی نبی کی شان سے بعید ہے.اس طرح کلام پاک میں خیانت کے اس مجرم کے ساتھ بھی نبی کریم میل و یا لیلی نے یہ سلوک روا رکھنا گوارانہ فرمایا کہ اسے خاموشی سے قتل کروا دیا جائے.اور غالبا صحابہ کو یہی سبق دینے کیلئے آپ نے ان سے یہ مسلمان سوال پوچھا تھا ورنہ وہ رسول امین جس نے یہ فیصلہ سنایا کہ ایک عورت نے بھی جسے امان دی وہ ہماری امان شمار ہوگی تو حضرت عثمان جیسے جلیل القدر صحابی کی امان کے باوجود نبی کریم ملی دیوی کی موجودگی میں کوئی کیسے جرات کر سکتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی واضح فیصلہ سے قبل ایسا اقدام کرے.بیعت کی قبولیت کے بعد عبد اللہ اپنے جرائم کے باعث حیاء کی وجہ سے نبی کریم ملی دلیل مل کے سامنے آنے سے کتراتا تھا تب اس رحیم و کریم
97 اور عالی ظرف رسول نے اسے محبت بھرا پیغام بھجوایا کہ اسلام اس سے پہلے کے گناہ معاف کر دیتا ہے.i ابوداؤد کتاب الجھاد ii.ابن ہشام جز ۴ صفحه ۹۲ iii.سیرت الحلبیہ جلد ۳ صفحه ۱۰۳- ۱۰۴) ھبار کی معافی:.اپنی واجب القتل مجرموں میں ایک شخص حبار بن الاسود بھی تھا.جس نے رسول اللہ میں ایم کی صاحبزادی حضرت زینب " پر مکہ سے مدینہ ہجرت کے وقت نیزے سے قاتلانہ حملہ کیا جس سے وہ اونٹ پر سے ایک پتھریلی چٹان پر گریں.آپ اس وقت حاملہ تھیں.اس حادثہ کی نتیجہ میں ان کا حمل ضائع ہو گیا اور بالاخر یہی بیماری انکے لئے جان لیوا ثابت ہوئی.اس جرم کی بناء پر حضور میں ہم نے اس کے قتل کا فیصلہ فرمایا تھا.فتح مکہ کے موقع پر تو یہ بھاگ کر کہیں چلا گیا.بعد میں جب نبی کریم میں لایا اور واپس مدینہ تشریف لائے تو صبار حضور ملی ایم کی خدمت میں حاضر ہوا اور رحم کی بھیک مانگتے ہوئے عرض کیا کہ پہلے تو میں آپ" کے ڈر سے فرار ہو گیا تھا مگر پھر آپ کے عفو و رحم کا خیال مجھے آپ کے پاس واپس لایا ہے.اے خدا کے نبی! ہم جاہلیت اور شرک میں تھے خدا نے ہمیں آپ کے ذریعہ ہدایت دی اور ہلاکت سے بچایا.پس میری جہالت سے صرف نظر فرمائیں بے شک میں اپنے قصوروں اور زیادتیوں کا اقراری اور معترف ہوں.عفو و کرم کے اس پیکر نے اپنی صاحبزادی کے اس قاتل کو بخش دیا اور فرمایا جا اے ھبارا میں نے تجھے معاف کیا اور اللہ کا یہ احسان ہے کہ اس نے تمہیں قبول اسلام کی توفیق دی اور پھر اسے بھی تسلی دی کہ اسلام پہلے گناہوں کا ازالہ کر دیتا ہے.(سیرت الحلبیہ جلد ۳ صفحہ ۱۰۶) ابو جہل کے بیٹے سے عفو: واجب القتل مجرموں میں دشمن
98 الله شد اسلام ابو جہل کا بیٹا اور مشرکین مکہ کا سردار عکرمہ بھی تھا جس نے ساری عمر اسلام کی مخالفت اور عداوت میں گزار دی.مسلمانوں اور بانی اسلام کو وطن سے بے وطن کیا پھر مدینے میں بھی چین سے بیٹھنے نہ دیا ان پر جنگیں مسلط کیں اور ان کے خلاف لشکر کھینچ کر لے گیا.حدیبیہ مقام پر مسلمانوں کو عمرہ کرنے سے روکا اور پھر اس موقع پر جو معاہدہ کیا اسے توڑنے اور پامال کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ فتح مکہ کے موقع پر امن کے اعلان عام کے مطابق ہتھیار نہ ڈالے بلکہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ خالد بن ولید کے دستے پر حملہ کر کے حرم میں خونریزی کا موجب بنا اپنے ان شنیع جرائم کی معافی کی کوئی صورت نہ دیکھ کر فتح مکہ کے بعد عکرمہ یمن کی طرف بھاگ کھڑا ہوا.اس کی بیوی ام حکیم مسلمان ہو گئی اور رسول کریم ملی لی کے دربار عفو سے اپنے خاوند کی معافی اور امان کی طالب ہوئی.حضور میں نے اس جانی دشمن کے لئے بھی امان نامہ عطا فرما دیا.اس کی بیوی تلاش میں اس کے پیچھے گئی، اور اسے جالیا اور کہا میں اس عظیم انسان کے پاس سے آئی ہوں جو بہت ہی صلہ رحمی کرنیوالا اور حسن سلوک کرنیوالا ہے تم اپنے آپ کو ہلاک مت کرو میں تمہارے لئے پروانہ امان لیکر آئی ہوں.عکرمہ کو اپنے جرائم کے خیال سے معافی کا یقین تو نہ آتا تھا مگر اپنی بیوی پر اعتماد کرتے ہوئے واپس لوٹ آیا اور جب رسول اللہ صلی اللہ کے دربار میں حاضر ہوا تو آپ نے کمال شفقت و محبت کا سلوک کیا اپنے اس جانی دشمن کو خوش آمدید کہا اور دشمن قوم کے اس سردار کے اعزاز کیلئے کھڑے ہو گئے.(موطا کتاب النکاح) اور اپنی چادر اس کی طرف پھینک دی جو امان عطا کرنے کے علاوہ احسان کا اظہار بھی تھا پھر آپ فرط مسرت سے ان کی طرف آگے بڑھے.عکرمہ نے عرض کیا میری بیوی کہتی ہے آپ نے مجھے معاف فرما دیا ہے.آپ نے فرمایا ہاں یہ.
99 درست کہتی ہے.تب عکرمہ کا سینہ کھل گیا اور وہ بے اختیار کہہ اٹھا.اے محمدا واقعی آپ تو بہت ہی صلہ رحمی کرنیوالے اور بے حد حلیم اور بہت ہی کریم ہیں.میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدملی یا لیلی اللہ کے رسول ہیں.تب میرے آقا کی خوشی دیکھنے والی تھی کہ مشرکین کا سردار اپنے لشکر کا سالار مسلمان ہو رہا تھا آج ان کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا کہ آپ کے خوابوں کی تعبیریں پوری ہو رہی تھیں.آپ نے ایک دفعہ رویا میں ابو جہل کے ہاتھ میں جنتی پھل انگور کے خوشے دیکھے تھے آج ابو جہل کے بیٹے عکرمہ کے قبول اسلام سے اس کی تعبیر ظاہر ہوئی.یہی وجہ تھی کہ رسول اللہ میں لیا اور میں خوشی سے مسکرا رہے تھے صحابہ نے استفسار کیا تو فرمایا کہ میں خدا کی شان اور قدرت پر حیران ہو کر خوشی سے مسکراتا ہوں کہ بدر میں عکرمہ نے جس مسلمان صحابی کو قتل کیا تھا وہ شہید صحابی اور عکرمہ دونوں جنت میں ایک ہی درجے میں ہوں گے.بعد میں جنگ پر موک میں عکرمہ کی شہادت سے یہ بات مزید کھل کر ظاہر ہو گئی.عکرمہ پر مزید احسان: العرض نبی کریم میں نے عکرمہ کے اسلام سے خوش ہو کر فرمایا کہ اے عکرمہ! آج جو مانگنا ہے مجھ سے مانگ لو میں اپنی توفیق و استطاعت کے مطابق تمہیں عطا کرنیکا وعدہ کرتا ہوں.مگر اب وہ دنیا دار عکرمہ یکسر بدل چکا تھا توحید و رسالت کا صدق دل سے اقرار کر کے اور رسول اللہ مالی تعلیم کے حسن اخلاق سے متاثر ہو کر اس کی ہستی میں ایک انقلاب رونما ہو چکا تھا اس نے عرض کیا اے خدا کے رسول ! میرے لئے اپنے موٹی سے بخشش کی دعا کیجئے کہ جو دشمنی میں نے آج تک آپ سے کی وہ اللہ تعالیٰ مجھے معاف کر دے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت دعا کیلئے خدا کے حضور ہاتھ پھیلا دیئے اور
100 عرض کرنے لگے.موٹی اے میرے مولی! عکرمہ کی سب عداوتیں اور قصور معاف فرما دے اور خود آپ نے بھی صدق دل سے عکرمہ کو ایسا معاف کیا کہ.مسلمانوں کو بھی تاکید کی کہ دیکھو عکرمہ کے سامنے اس کے باپ ابو جہل کو برا بھلا نہ کہنا اس سے میرے ساتھی عکرمہ کی دلازاری ہوگی اور اسے تکلیف پہنچے گی.(ابن ہشام جلد ۴ جلد ۹۲) ھند سے حسن سلوک.ان مجرموں میں ابوسفیان کی بیوی ھند بنت عقبہ بھی تھی.جس نے اسلام کے خلاف جنگوں کے دوران کفار قریش کو اکسانے اور بھڑ کانے کا فریضہ خوب ادا کیا تھا اور رجزیہ اشعار پڑھ کر اپنے مردوں کو انگیخت کیا تھا کہ اگر فتح مند ہو کر لوٹو گے تو ہم تمہارا استقبال کریں گی ورنہ ہمیشہ کیلئے جدائی اختیار کرلیں گی.(ابن ہشام جلد ۳ صفحه ۱۵۱) اس طرح جنگ احد میں اسی ھند نے رسول اللہ میں عالم کے چچا حضرت حمزہ کی نعش کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا تھا ان کے ناک کان اور دیگر اعضاء کاٹ کر لاش کا حلیہ بگاڑا اور ان کا کلیجہ چبا کر آتش انتقام سرد کی تھی.فتح مکہ کے بعد جب رسول اللہ نے عورتوں کی بیعت لی تو یہ ھند بھی نقاب اوڑھ کر آگئی کیونکہ اسکے جرائم کی وجہ سے اسے بھی واجب القتل قرار دیا گیا تھا.بیعت کے دوران اس نے بعض شرائط بیعت کے بارہ میں استفسار کیا تو نبی کریم میں پہچان گئے کہ ایسی دیدہ دلیری ھند ہی کر سکتی ہے.آپ نے پوچھا کیا تم ابو سفیان کی بیوی ھند ہو! اس نے کہا یا رسول اللہ صلی ! اب تو میں دل سے مسلمان ہو چکی ہوں جو کچھ پہلے گزرچکا آپ بھی اس سے در گذر فرمائیں.اللہ تعالٰی آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک فرمائے گا.رسول کریم میں تیاریوں کا حوصلہ دیکھو کہ اپنے محبوب چا کا کلیجہ چبانے
101 والی ھند کو بھی معاف فرما کر ہمیشہ کیلئے اس کا دل جیت لیا.اس پر آپ کے عفو و کرم کا ایسا اثر ہوا کہ اس کی کایا ہی پلٹ گئی اس نے اپنا دل بھی شرک و بت پرستی سے پاک کیا اور گھر میں موجود تمام بت توڑ کر نکال باہر کئے.اسی شام ہند نے رسول اللہ میں یوم کے لئے ضیافت کے اہتمام کی خاطر دو بکرے ذبح کروا کے اور بھون کر حضور کی خدمت میں بھجوائے اور خادمہ کے ہاتھ پیغام بھجوایا کہ ھند بہت معذرت کرتی ہیں کہ آج کل جانور کم ہیں اس لئے یہ جو حقیر سا تحفہ پیش کرنے کی توفیق پا رہی ہوں قبول فرمائیں.ہمارے محسن آقاد مولا جو کسی کے احسان کا بوجھ اپنے اوپر نہ رکھتے تھے نے اسی وقت دعا کی کہ اے اللہ ان کے بکریوں کے ریوڑ میں بہت برکت ڈال دے.یہ دعا اس شان کے ساتھ قبول ہوئی کہ ھند سے بکریاں سنبھالی نہ جاتی تھیں.پھر تو ھند رسول خدا کی ایسی دیوانی ہوئی کہ خود کہا کرتی تھی کہ یا رسول الله لا لا لا لو وہ ایک وقت تھا جب آپ کا گھر میری نظر میں دنیا میں سب سے زیادہ ذلیل اور حقیر تھا مگر اب یہ حال ہے کہ روئے زمین پر تمام گھرانوں سے معزز اور عزیز مجھے آپ کا گھر ہے.(سیرت الحلبیہ جلد ۳ صفحہ ۱۱۸) وہ لوگ جو اسلام پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ اسکی اشاعت تلوار کے زور سے ہوئی.سوچیں اور غور کریں کہ وہ کونسی تلوار تھی جس نے ھند کا دل فتح کیا تھا.بلاشبہ وہ رسول اللہ کی بے پایاں رحمت ہی تھی.قاتل حمزہ سے در گذر :.ان واجب القتل مجرموں میں وحشی بن حرب بھی تھا جس نے اپنی غلامی سے آزادی کے لالچ میں غزوہ احد میں سامنے آکر مقابلہ کرنے کی بجائے چھپ کر اسلامی علمبردار حضرت حمزہ پر قاتلانہ حملہ کر کے انہیں شہید کیا تھا.فتح مکہ کے بعد یہ طائف کی طرف بھاگ گیا بعد میں جب مختلف علاقوں سے سفارتی وفود
102 نبی کریم میں لی کی خدمت میں حاضر ہونے لگے تو وحشی کو کسی نے مشورہ دیا کہ نبی کریم میں دیا اور یہ سفارتی نمائندوں کا بہت احترام کرتے ہیں اس لئے بجائے چھپ چھپ کر زندگی گزارنے کے تم بھی کسی وفد کے ساتھ دربار نبوی میں حاضر ہو کر عضو کی بھیک مانگ لو.چنانچہ وہ طائف کے سفارتی وفد کے ساتھ آیا اور حضور میں سے آپ کے چا کے قتل کی معافی چاہی.آپ نے دیکھ کر فرمایا کہ کیا تم وحشی ہو ؟ اس نے کہا جی حضور ! اب میں اسلام قبول کرتا ہوں.آپ نے فرمایا کیا حمزہ کو تم نے قتل کیا تھا.اس نے اثبات میں جواب دیا تو آپ نے اس واقعہ کی تفصیل پوچھی.اس نے بتایا کہ کس طرح تاک کر اور چھپ کر ان کو نیزا مارا اور شہید کیا.یہ سن کر رسول اللہ علی ایم کی اپنے محبوب چچا کی شہادت کی یاد ایک بار پھر تازہ ہو گئی صحابہ نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے.شاید اس وقت آپ کو حضرت حمزہ کے احسانات بھی یاد آئے ہوں گے جو ابوجہل کی ایذاؤں کے مقابل پر آپ کی سپر بن کر اسلام کی کمزوری کے زمانہ میں مسلمان ہوئے تھے اور آخر دم تک نبی کریم ملی الم کے دست و بازو بنے رہے.یہ سب کچھ دیکھ کر جذبات میں کس قدر تلاطم برپا ہو سکتا ہے اس کا اندازہ اہل دل ہی کر سکتے ہیں.مگر دوسری طرف وحشی قبول اسلام کا اعلان کر کے عفو کا طالب ہو چکا تھا.تب آپ نے کمال شفقت اور حوصلہ کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ جاؤ اے وحشی ! میں تمہیں معاف کرتا ہوں.کیا تم اتنا کر سکتے ہو کہ میری نظروں کے سامنے نہ آؤ ( تاکہ اپنے پیارے چا کی المناک شہادت کی دکھ بھری یاد مجھے بار بار ستاتی نہ رہے وحشی رسول اللہ کا یہ حیرت انگیز احسان دیکھ کر آپ " کے حسن خلق کا معترف ہو کر صدق دل سے مسلمان ہوا اور حضرت حمزہ کے قتل کا کفارہ ادا کرنے کی سوچ میں پڑ گیا.پھر اس نے اپنے دل میں یہ عہد کیا کہ
103 اب میں اسلام کے کسی بڑے دشمن کو قتل کر کے حضرت حمزہ کے قتل کا بدلہ چکاؤں گا.حضرت ابو بکر کے زمانہ میں مسلیمہ کذاب کے باغی اور مرتد ساتھیوں کے ساتھ جنگ یمامہ ہوئی تو مسلیمہ کذاب کو قتل کر کے کیفر کردار تک پہنچانے والا یہی وحشی تھا جس کا دل محمد مطصفی میلی یم نے محبت سے جیت لیا تھا.(سیرت الحلبیہ، جلد ۳ صفحه ۱۰۹ او تاریخ الخميس جلد ۲ صفحه ۹۴ دشمن اسلام صفوان پر احسان: صفوان بن امیہ مشرکین مکہ کے ان سرداروں میں سے تھا جو عمر بھر مسلمانوں سے نبرد آزما رہے اور فتح مکہ کے موقع پر عکرمہ کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے اعلان امن کے باوجود خالد بن ولید کے اسلامی دستے پر حملہ آور ہوئے تھے مگر اسکے باوجود نبی کریم نے صفوان کے لئے بطور خاص کسی سزا کا اعلان نہیں فرمایا.مکہ فتح ہونے کے بعد یہ خود سخت نادم اور شرمندہ ہو کر یمن کی طرف بھاگ کھڑا ہوا.کیونکہ اپنے جرائم سے خوب واقف تھا.اور اپنے خیال میں ان کی معافی کی کوئی صورت نہ پاتا تھا.اس کے چا عمیر بن وحب نے نبی کریم میں ایم کیو ایم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ نے تو ہر اسود و احمر کو امان دے دی ہے اپنے چچا زاد کا بھی خیال کیجئے اور اسے معاف فرمائیے.جب نبی کریم میں نے صفوان کو بھی معاف فرما دیا تو حضرت عمیرہ نے عرض کیا کہ مجھے اپنی امان کا کوئی نشان بھی عطا فرمائیں.حضور ملی تم نے اپنا وہ سیاہ عمامہ معافی کی علامت کے طور پر اتار کر دے دیا جو فتح مکہ کے روز آپ نے پہنا ہوا تھا.عمیر نے جا کر صفوان کو معافی کی خبر دی تو اسے یقین نہ آتا تھا کہ اسے بھی معافی ہو سکتی ہے.اس نے عمیر سے کہا کہ ”تو جھوٹا ہے.میری نظروں سے دور ہو جا میرے جیسے انسان کو کیسے معافی مل سکتی ہے.مجھے
104 اپنی جان کا خطرہ ہے." حضرت عمیر نے اسے سمجھایا کہ نبی کریم ملی ام تمہارے تصور نے بھی کہیں زیادہ بہت احسان کرنیوالے اور حلیم و کریم ہیں ان کی عزت تمہاری عزت اور ان کی حکومت تمہاری حکومت ہے.اس یقین دہانی پر صفوان نبی کریم میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور پہلا سوال یہی دریافت کیا کہ کیا آپ نے مجھے امان دی ہے ؟ رسول خدا امی نے فرمایا ہاں میں نے تمہیں امان دی ہے.صفوان نے عرض کیا کہ مجھے دو ماہ کی مہلت دے دیں (کہ اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے مکہ میں ٹھہروں) نبی کریم میں نے چار ماہ کی مہلت عطا فرمائی اور یوں اپنے بدترین دشمن سے بھی اعلیٰ درجہ کا حسن سلوک کر کے خلق عظیم کی شاندار مثال قائم فرما دی.(سیرت الحلبیہ جلد ۳ صفحه ۱۰۸ ابن هشام جز ۴ صفحه ۱۰۵) مگر بالا خر چند ہی دنوں میں آپ نے صفوان کا دل اپنے جود و سخا سے جیت لیا.محاصرہ طائف سے واپسی پر جب حضور ایک وادی کے پاس سے گزرے جہاں نبی کریم میں کے مال شمس وفیئی کے جانوروں کے ریوڑ چر رہے تھے تو صفوان حیران ہو کر طمع بھری آنکھوں سے ان کو دیکھنے لگا حضور صفوان کو دیکھ رہے تھے.پھر فرمایا اے صفوان! کیا یہ جانور تجھے بہت اچھے لگ رہے ہیں؟ اس نے کہا ہاں! آپ نے فرمایا جاؤ یہ سب جانور میں نے تمہیں بخش دیئے.صفوان بے اختیار یہ کہہ اٹھا کہ خدا کی قسم! اتنی بڑی عطا اتنی خوش دلی سے سوائے نبی کے کوئی نہیں کر سکتا اور یہ کہہ کر اس نے وہیں اسلام قبول کر لیا.( تاریخ الخمیس جلد ۲ صفحہ ۹۴) حارث اور زھیر کی معافی :.حارث بن ہشام اور زحیر بن امیہ بھی عکرمہ اور صفوان کے ساتھیوں میں سے تھے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ کی امان قبول کر نیکی بجائے مزاحمت کرنے
105 کا فیصلہ کیا تھا.فتح مکہ کے بعد پشیمان تھے کہ نامعلوم اب ان کے ساتھ کیا سلوک ہو.چنانچہ انہوں نے نبی کریم می مالی دیوی کی چا زاد بہن ام ہانی سے معافی کیلئے سفارش چاہی کیونکہ یہ دونوں ان کے سسرالی عزیز تھے.حضرت ام ہانی نے انہیں امان دے کر اپنے گھر میں ٹھہرایا اور پہلے اپنے بھائی حضرت علی سے ان کی معافی کیلئے بات کی.حضرت علی نے صاف جواب دیا کہ ایسے معاندین اسلام کو میں خود اپنے ہاتھ سے قتل کرونگا.تب ام ہانی نبی کریم میں کی خدمت میں حاضر ہوئیں.اب دو ظالم دشمنان اسلام کے لئے ایک ایسی خاتون کی امان جو ابھی خود بھی مسلمان نہیں ہوئی کیا حیثیت رکھتی ہے.مگر جب ام ہانی نے نبی کریم ملی الہ و سلم کی خدمت میں جا کر عرض کیا کہ میرا بھائی علی کہتا ہے کہ وہ اس " شخص کو جسے میں نے امان دی ہے مل کرے گا.نبی کریم ملی کو حوصلہ دیکھو.آپ نے فرمایا.اے ام ہانی جسے تم نے امان دی اسے ہم نے امان دی.چنانچہ ان دونوں دشمنان اسلام کو بھی معاف کر دیا گیا.(ابن ہشام جلد ۴ صفحه ۹۲) حارث بن ہشام کو جو قریش کے سرداروں میں سے تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سو اونٹوں کا تحفہ دیا.یہ غزوہ بر موک میں شامل ہوئے اور اسی میں شہید ہوئے.یہ وہی حارث ہیں جنہوں نے اپنے دوسرے دو زخمی مسلمان بھائیوں عکرمہ اور سہیل کو پیاسا دیکھ کر خود پانی پینے کی بجائے انہیں پلانے کا اشارہ کیا اور یوں ایثار کرتے ہوئے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر دی.(اسد الغابہ جلد اول صفحه ۳۵۱-۳۵۲) الله س حارث بن ہشام کا اپنا بیان ہے کہ جب ام ہانی نے مجھے پناہ دی کہ رسول اللہ میں لی لی لی لی نے ان کی پناہ قبول فرمالی تو کوئی بھی مجھ سے تعرض نہیں کرتا تھا.البتہ مجھے حضرت عمرؓ کا ڈر تھا لیکن وہ بھی ایک دفعہ میرے ہاں سے
106 گزرے میں بیٹھا ہوا تھا مگر انہوں نے بھی کوئی تعرض نہ کیا.اب مجھے صرف اس بات کی شرم تھی کہ میں رسول اللہ مل لیول کو کیا منہ دکھاؤں گا کیونکہ حضور کو دیکھنے سے مجھے وہ تمام باتیں اور اپنی وہ دشمنیاں یاد آجائیں گی، جو میں ہر موقعے پر حضور میلیا کے خلاف مشرکوں کے ساتھ مل کر کرتا رہا تھا لیکن جب میں حضور ملی اسی سے ملا اس وقت وہ مسجد میں داخل ہو رہے تھے.آپ کمال شفقت سے میری خاطر رک گئے اور خندہ پیشانی اور بشاشت سے میرے ساتھ ملاقات فرمائی.تب میں نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا اور حق کی گواہی دے دی.حضور میں نے اس موقعہ پر فرمایا کہ سب حمد اس اللہ کی ہے جس نے تمہیں ہدایت دی.تمہارے جیسا عظمند انسان اسلام سے کس طرح دور اور اس سے لا علم رہ سکتا تھا.(سیرت الحلبیہ جلد سوم صفحہ ۱۱۷) الغرض فتح مکہ کے موقع پر صرف چار مجرموں کو سزائے موت دیکر باقی سب کو معاف کر دینا تاریخ عالم کا منفرد واقعہ ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان بے نظیر احسانات کا نظارہ دیکھ کر مشہور مستشرق سرولیم میور بھی انگشت بدنداں ہے.چنانچہ وہ لکھتا ہے:.اشتہاریان قتل تعداد میں تھوڑے ہی تھے اور شاید وہ سارے ہی اپنے جرائم کی وجہ سے انصاف کے مطابق قتل کے لائق تھے (سوائے ایک مغنیہ کے قتل کے) باقی سب کا قتل سیاسی عناد کی بجائے ان کے جرائم کی بنیاد پر تھا.محمد کا یہ حیرت انگیز کردار بے مثال فیاضی اور اعتدال کا نمونہ تھا.لیکن محمد نے جلد ہی اس کا انعام بھی لے لیا اور وہ یوں کہ آپ " کے وطن کی ساری آبادی صدق دل سے آپ کے ساتھ ہو گئی.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم چند ہفتوں میں دو ہزار مکہ کے باسیوں کو
107 مسلمانوں کی طرف سے (حنین میں) لڑائی کرتے ہوئے دیکھتے ہیں." (لائف آف محمد صفحه ۴۲۵) پس فتح مکہ کا دن رسول اکرم میر کی ذات سے ہر تشدد کے الزام دور کرنے کا دن تھا جب مکہ کو پیغمبر اسلام کی شوکت و جلال نے ڈھانپ لیا تھا اور جب مسلمان فاتحین کے خوف سے عرب سرداروں کے جسم لرزاں تھے اور سینوں میں دل دھڑک رہے تھے.جب مکہ کی بستی ایک دھڑکتا ہوا دل بن گئی تھی تو یہ وقت تھا کہ تلوار کے زور سے لوگوں کو مسلمان بنایا جاتا اور جائیدادوں پر قبضہ کیا جاتا لیکن یہ دن گواہ ہے کہ کہیں ایسا نہیں ہوا اور فتح مکہ کا یہ دن ابد الآباد تک محمد مصطفی میر کی ذات سے جبرو تشدد کے الزام کی نفی کرتا رہے گا.حکومت مکہ اور عدل و انصاف کا قیام : فتح مکہ کے موقع پر قیام:.نی کریم می ای ایم نے جہاں اپنے اخلاق فاضلہ کے ذریعہ عدل کے درجہ سے بڑھ کر اپنی قوم سے احسان کا سلوک روا رکھا وہاں ان پر یہ بھی واضح کردیا کہ آئندہ ان کے درمیان اسلام کے جس آئین و قانون کی حکمرانی ہوگی اس کی بنیادی بات عدل و انصاف ہے.جسے کسی بھی صورت میں قربان نہیں کیا جا سکتا اور اس پہلو سے امیر غریب سب برابر ہیں.چنانچہ اس موقع پر قریش کے ایک معزز قبیلہ بنو مخزوم کی ایک خاتون فاطمہ نامی نے کچھ زیورات چوری کرلئے.اسلامی قانون کے مطابق اس کی سزا ہاتھ کاٹنا تھی.مگر بنی مخزوم کے لوگ اسے اپنی توہین سمجھتے تھے.چنانچہ انہوں نے نبی کریم ملی نیا و ریمیک کی عزیز ترین ہستی حضرت اسامہ کے ذریعہ آپ کی خدمت میں سفارش کروائی.مگر ان لوگوں کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب آنحضرت میں نے اپنے ایک پیارے کی ناحق سفارش بھی
108 سختی سے رد فرما دی.قیام احکام الہی کی غیرت اور غضب سے آپ کے چہرے کا رنگ سرخ ہو گیا اور حضرت اسامہ سے فرمایا.کیا تم اللہ کی حدود اور احکام کے برخلاف میرے پاس سفارش کرنا چاہتے ہو ؟ حضرت اسامہ کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے لئے دعائے بخشش کی درخواست کی.پھر اسی شام رسول اللہ میں ایل ایل نے قیام عدل کے بارہ میں ایک تقریر فرمائی.اس میں ارشاد فرمایا ”تم سے پہلے لوگ اس لئے ہلاک ہوئے کہ ان میں سے جب کوئی معزز کوئی جرم مثلاً چوری کرتا تھا تو وہ اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی کمزور جرم کرتا تو اسے سزا دی جاتی.اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر میری بیٹی فاطمہ بنت محمد سے بھی یہ جرم سرزد ہوتا اور وہ چوری کرتی تو میں اس کے ہاتھ بھی کاٹ دیتا.چنانچہ نبی کریم میں کے اس فیصلہ کے مطابق اس عورت پر حد قائم کی گئی." (بخاری کتاب المغازی) اس واقعہ سے نبی کریم میں ان کی ریلی کے اخلاق فاضلہ کے علاوہ خدا تعالیٰ سے آپ کے تعلق کا پتہ چلتا ہے کہ احکام ابھی کی بجا آوری کے لئے آپ دنیا کے کسی تعلق کی پرواہ نہیں کرتے تھے اور ہمیشہ خدا کی ذات کو مقدم رکھتے تھے.نو مسلموں سے احسان:.فتح مکہ کے سفر سے واپسی پر بھی نبی کریم کے اخلاق فاضلہ کے شاندار نمونے دیکھنے میں آئے.نو مسلموں کی تالیف قلبی کا یہ شاندار نظارہ بھی دیکھا گیا کہ مشرک سردار مکہ اسید کے ۲۱ سالہ جوان سال بیٹے عتاب کو مسلمان نے پر مکہ کا والی اور حاکم مقرر فرمایا.یہ وہی عتاب بن اسید تھے جنہوں نے
109 خانہ کعبہ میں بلال" کی پہلی اذان پر خفگی اور برہمی ظاہر کی تھی مگر فطرت میں سعادت تھی نبی کریم میں میں نے ان کے حق میں یہ مبشر رویا بھی دیکھی تھی کہ عتاب جنت کے دروازے پر آئے ہیں اور زنجیر ہلاتے ہیں اور زور سے ہلاتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ جنت کا دروازہ ان کے لئے کھول دیا جاتا ہے.چنانچہ ان کے مسلمان ہونے کے بعد نبی کریم میں نے باوجود جواں سالی کے آپ کو مکہ کا حاکم مقرر کرتے ہوئے نصیحت فرمائی کہ آپ کو علم ہے میں نے کن لوگوں پر آپ کو حاکم مقرر کیا ہے ؟ ان لوگوں پر جو خدا والے ہیں.پس ان کا خاص خیال رکھنا.حضور می یاد کر لی ہم نے از راہ تاکید تین بار یہ نصیحت دہرائی.نبی کریم می کریم نے اہل مکہ کی دینی و تربیتی ضروریات کیلئے حضرت معاذ رضی اللہ بن جبل انصاری کو مقرر فرمایا جو بطور مربی اہل مکہ یہ خدمات انجام دیتے رہے مگر نمازوں کی امامت وغیرہ کی یہ ذمہ داری امیر ہونے کے ناطے سے حضرت عتاب کے ہی سپرد تھی.حضرت عتاب نے اس انتخاب کا خوب حق ادا کیا اور مکہ کے کامیاب والی ثابت ہوئے.(سیرت الحلبیہ جلد ۳ صفحه ۱۲۰-۱۲۱)
110 المراجع والمصادر نوٹ : کتاب ہذا کے حوالہ جات میں اختصار کی خاطر متعلقہ کتاب کے اشاراتی مختصر نام پر اکتفا کیا گیا ہے.فہرست ہذا میں ان کتب کا مکمل تعارف کرادیا گیا ہے.نمبر شمار اشاره نام کتاب نام مصنف مطبع 1 القرآن کریم له بخاری جامع صحیح بخاری ابو عبد الله محمد من اسماعیل بخاری متوفی ۲۵۶ھ مسلم صحیح مسلم ابو الحسين مسلم بن الحجاج القشيرى.متوفی ۵۲۶۱ ابو عیسی محمد بن عیسی 4 ترندی سفن التر همه ی متوفی ۲۷۹ھ ابو داؤد سلیمان من 5 ابود اور سنن ابو داؤد الاشعث السجستاني ฟฟฟ 7 مسند احمد مسند الامام احمد بن خبل متوفی ۲۷۵ھ احمد منا ن حنبل وار لفكر العرفي متوفی ۵۲۴۱ میرات السيرة النبوية مع علامہ ابو محمد عبد الملک دار المعرفه پیروت و امن هشام الروض الانف من هشام متوفی ۵۲۱۳
111 ابن سعد الطبقات الكبرى زرقانی محمد بن سعد دار صادر پیروت متوفی ۵۲۳۰ شرح مواہب اللدنیہ علامہ محمد بن عبد الباقی از هریه مصر به طبعه للزرقانی الزرقانی المالکی اولی ۱۳۲۵ھ متوفی ۱۱۲۲ھ تاریخ الخمیس فی احوال امام شیخ حسین بن محمد موشلشه شعبان - النفس نفیس عن الحسن الديار بحرى المنظر والتواريخ متوفی ۹۶۶ھ بیروت انسان العيون في سيرة علامہ علی بن بربان محمد علی میدان من الامین والمهامون الدین حلبی الشافعی الازهر مصر ۱۹۳۵ المعروفه بسيرة الحلبيه متوفی ۵۱۰۴۴ 8 9 10 تاریخ الخمیس سیرت الحلبيه دلائل النيوه دلائل النبوة ابوبکر احمد بن حسين دار الكتب العلمية البيهقى (متوفی ۵۸ مو) بیر دست حياة محمد *at تالیف امیل در معلم دار احیاء الكتب ترجمه عربی عادل العربيه عیسی البانی زشر الحلبى مصر طبعه ثانیه اسد الغابه اسد الغابہ فی معرفتہ ابو الحسن علی بن محمد دار احیاء بحار الانوار الصحابة لئن الاثير الجزري الثرات العربي متوفی ۵۶۳۰ حار الانوار علامہ محمد باقر مجلسی متوفی ۱۱۱۰ھ میروت ایران انتخاب قرآن 11 12 13 14 15 16
112 Smith Elder & Sir Wiliam The Life Of Co.Spottis- Muir Mahomet.woode New Street Squair And Parlia- ment Street London.Oxford Univer- sity Press Kara- chi.At Mueid Pakages Kara- chi 1st Great Bri- tain in 1953.2nd in Pakistan in 1979.3rd in Pakistan 1993.W.Montgom- Muhammad ery Watt.at Mecca.لا نف آف محمد محمد ایٹ مکہ Oxford W.Montgom- Muhammad محمد ایٹ University ery Watt.at Medina ☑* Press.London.17 18 19