Khuda Ki Qasam

Khuda Ki Qasam

خدا کی قسم

از تصنیفات حضرت میرزا غلام احمد صاحب قادیانی، مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام
Author: Other Authors

Language: UR

UR
حضرت مسیح موعود و مہدی معہود ؑ

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنے دعاوی اور دلائل کو عوام الناس کے سامنے پیش کرکے اپنی تصنیفات میں متعدد مواقع پر اللہ جل شانہ و اسمہ کا نام لیکر قسمیں کھائیں ہیں ، حلفاً بیان کیا ہے اور خدا ئے واحد کو گواہ بنا کر لکھا ہے کہ میں اپنے دعویٰ میں سچا ہوں اور میرا خدا میرے ساتھ ہے۔ یقینا جہاں یہ امر آپ کے من جانب اللہ ہونے اور عدم افتراء پر دلالت کرتا ہے وہاں سعید الفطرت لوگوں کے لئے دعوت فکر بھی ہے کہ آپؑ  کا پیغام اس پہلو سے بھی موجب ہدائیت ہے کہ آپ نے خدا تعالیٰ کو شاہد بنا کر اپنا دعویٰ بیان کیا ہے اور گزشتہ ایک صدی سے ہر دن آپ کا مشن ایک نئے افق کو چھو رہا ہے اور ہر نوع کی مخالفت اور دشمنی کی آندھیاں آپ کی قائم کردہ جماعت کو مٹانے میں ناکام رہی ہیں۔ اس مفید کتابچہ کے اب تک متدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ 40 صفحات پر مشتمل زیر نظر ٹائپ شدہ ایڈیشن کو فضل عمر پریس قادیان سے طبع کروایا گیا ہے۔


Book Content

Page 1

خدا کی قسم صاف دل کو کثرت اعجاز کی حاجت نہیں اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہے خوف کردگار خدا کی قسم از تصنیفات حضرت میرزاغلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی معہو دعلیہ السلام مرتبہ بشیر الدین الہ دین مطبع فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان

Page 2

خدا کی قسم نام کتاب مرتب اشاعت باراول خدا کی قسم ( از تصنیفات حضرت میرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام ) بشیر الدین الہ دین 30 رنومبر 1988ء کمپوز ڈایڈیشن باراول جنوری 2015ء اشاعت بار دوم ستمبر 2015ء حالیہ اشاعت ستمبر 2016ء ناشر تعداد راشد محمد الہ دین 1000 مطبع پرنٹ ویل پریس امرتسر 143001.پنجاب.انڈیا Khuda Ki Qasam Extractions from the writings of Hazrat Mirza Ghulam Ahmad Sahib The Promised Messiah and Imam Mahdias

Page 3

خدا کی قسم 3 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نحمده و نصلی علی رسوله الکریم گذارش و على عبده المسيح الموعود الحمد للہ کہ خاکسار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان قسموں کو جو آپ نے اللہ جل شانہ کے نام سے کھائی ہیں، آپ ہی کی تصنیفات سے ایک جگہ جمع کر کے شائع کر رہا ہے.تا کہ وہ لوگ جن کے دلوں میں خدا کا خوف ہے اسکو پڑھ کر آپکی صداقت کو معلوم کر سکیں.عاجز محترم ڈاکٹرمحمد حسین صاحب ساجد اور محترم را شد محمد الہ دین صاحب کا بہت ہی مشکور وممنون ہے کہ ان کے گراں قدر تعاون کی وجہ سے اس کتاب کو اللہ تعالیٰ نے شائع کرنے کی توفیق دی.جزاکم اللہ احسن الجزاء.افسوس اس بات کا ہے کہ اس کتاب کے شائع ہونے سے قبل ہی ڈاکٹر محمد حسین صاحب ساجد کا انتقال ۲۵ مئی ۱۹۸۸ء کو ہو گیا.انا للہ وانا الیہ راجعون، اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے انکے درجات کو بہت بہت بلند فرمائے اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قرب میں جگہ عطا فرمائے.آمین ! اللہ تعالی انکی اہلیہ صدیقہ بیگم صاحبہ ( بنت سیٹھ علی محمد اللہ دین صاحب ) اور چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کا حافظ و ناصر ہو اور سب کو اپنی امان اور حفاظت میں رکھے.آمین! ڈاکٹر صاحب مرحوم کی شدید خواہش کی بنا پر میں اس کتاب کو ڈاکٹر خلیل احمد صاحب ناصر مرحوم کی طرف سے معنون کرتا ہوں جن کو یہ عاجز بھی اپنے طالب علمی کے زمانے سے جانتا ہے جو بہت ہی نیک اور اسلام واحمدیت کے شیدائی تھے.اللہ تعالیٰ ہر دو مرحومین کی مغفرت فرمائے اور انکے درجات کو بہت بہت بلند فرمائے.آمین! آخر میں عاجز اپنے لئے دعا کی درخواست کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس حقیر کوشش کو قبول فرمائے

Page 4

خدا کی قسم اور مزید خدمت دین کی توفیق دے اور انجام بخیر فرمائے.آمین! عاجز ناظر صاحب دعوت وتبلیغ قادیان کا بھی ممنون و مشکور ہے کہ انہوں نے اس کا پیش لفظ تحریر فرمایا اور اس کتاب کا نام بھی تجویز فرمایا اور شائع کرنے کی اجازت عطا فرمائی.جزاکم اللہ واحسن الجزاء طالب دعا بشیر الدین الہ دین سیکریٹری تبلیغ و تربیت جماعت احمد یہ سکندر آباد احمدیہ ۳۰/ نومبر ۱۹۸۸ء

Page 5

خدا کی قسم پیش لفظ 5 LO مسلمانوں کا عام عقیدہ یہ ہے کہ اس آخری زمانے میں حضرت عیسی ابن مریم آسمان سے بجسده العنصر می نازل ہوں گے اور امت محمدیہ میں حضرت امام مہدی علیہ السلام ظاہر ہونگے اور دونوں شخصیتوں مل کر دین اسلام کی اشاعت کریں گے.گو یا عام مسلمان اس آخری زمانہ میں دو روحانی شی کے ظہور کے منتظر ہیں.مگر قرآن مجید اور احادیث صحاح ستہ سے یہ بات ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام جو رَسُولًا إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ “ (سورت آل عمران ) تھے وہ قریباً دو ہزار سال قبل دیگر انبیاء علیہم السلام کی طرح وفات پاچکے ہیں.نہ وہ اس جسم خاکی سے آسمان پر گئے اور نہ ہی وہاں زندہ ہیں اور نہ ہی وہ اس جسدِ خاکی کے ساتھ اس زمانہ میں دنیا میں نازل ہوں گے.ہاں البتہ احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ تجدید دین اور اصلاح امت کے لئے امت محمدیہ میں ہی ایک شخص ظاہر ہوگا جسے اسلامی اصطلاح میں الامام المہدی کہا جاتا ہے.اور وہی روحانی اعتبار سے حضرت مسیح بن مریم کا مثیل ہوگا.چنانچہ احادیث نبویہ میں آیا ہے: الف- وَلَا الْمَهْدِئُ إِلَّا عِيسَى ابْنِ مَرْيَم (سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب شدت الزمان صفحہ 458 حدیث نمبر 4039 جلد سوم.ناشر اعتقاد پبلشنگ ہاؤس نئی دلی مترجم مولانا وحید الزمان صاحب) ب - يُوشِكُ مَنْ عَاشَ مِنْكُمْ أَنْ يَلْقَى عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ إِمَامًا مَهْدِيًا حَكَمًا وَ عَدْلًا ( مسند احمد بن حنبل کتاب باقی مسند المکثرین اور کنز العمال جلد 14 صفحہ 263 حدیث نمبر 38656.ناشر مؤسسة الرسالة بیروت 1989ء) ج- كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ حوالہ صحیح البخاري کتاب احادیث الانبیاء باب نزول عیسی بن مریم ) یعنی عیسی بن مریم ہی امام مہدی ہوں گے.اور حکم عدل ہوں گے.اور تمہارے امام تم میں سے ہی یعنی امت محمدیہ میں سے ہوں گے.ان احادیث نبویہ سے معلوم ہوا کہ آنے والا موعود ایک ہی شخصیت ہے.اور وہ امام مہدی ہے اور عیسی بن مریم کا بروز و مثیل ہے.کیونکہ جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے.عیسی بن مریم بنی اسرائیل

Page 6

خدا کی قسم 6 کے رسول تھے وہ وفات پاچکے ہیں.ان کے دوبارہ اس دنیا میں آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.2 کسی مرسل من اللہ کے دعوے کی صداقت کے لئے جہاں اور دلائل و شواہد ہوتے ہیں.ان میں سے ایک دلیل یہ بھی ہے کہ وہ اپنے دعوے میں پورے یقین و وثوق کے ساتھ خدا تعالیٰ کو شاہد کرتے ہوئے پیش کرتا ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ صادق اور کاذب کو جانتا ہے.جھوٹا اور مفتری کبھی بھی خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کو نہیں پاتا.اور حسب ارشاد ربانی قَدْ خَابَ مَنِ افْتَرَى (سورة طه آیت (62) خدائی تائید ونصرت سے محروم اور ناکام و نامراد ہی نہیں رہتا بلکہ خدا تعالیٰ کی سزا کا حسب آیت قرآنی وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ O لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ O ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ (سورة الحاقة آيت 45 تا 47) کا مستوجب بنتا ہے.3- حدیث نبوی میں وارد ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص مدینہ منورہ آیا اور اس نے صحابہ کرام کی موجودگی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ اپنے دعوئی رسالت کو خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر بیان فرما دیں.اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دعوے کو حلفیہ بیان فرمایا تو اسی پر وہ آپ پر ایمان لے آیا.چنانچہ بخاری شریف کی یہ حدیث مع ترجمہ درج ذیل ہے.عَنْ أَنَسَ بْنَ مَالِكِ يَقُولُ بَيْنَمَا نَحْنُ جُلُوسٌ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ دَخَلَ رَجُلٌ عَلَى جَمَلٍ فَأَنَاخَهُ فِي الْمَسْجِدِ ثُمَ عَقَلَهُ ثُمَّ قَالَ لَهُمْ أَيُّكُمْ مُحَمَّدٌ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَكِى بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ فَقُلْنَا هَذَا الرَّجُلُ الْأَبْيَضُ الْمُتَكِيُّ فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ يَا ابْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَجَبْتَكَ فَقَالَ الرَّجُلُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي سَائِلُكَ فَمُشَدَدْ عَلَيْكَ فِي الْمَسْأَلَةِ فَلَا تَجِدُ عَلَيَّ فِي نَفْسِك فَقَالَ سَلْ عَمَّا بَدَا لَكَ فَقَالَ أَسْأَلُكَ بِرَبَّكَ وَرَبِّ مَنْ قَبْلَكَ اللَّهُ أَرْسَلَكَ إِلَى النَّاسِ كُلِّهِمْ فَقَالَ اللَّهُمَّ نَعَمْ قَالَ أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ أَ اللَّهَ أَمَرَكَ أَنْ نُصَلِّيَ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ قَالَ اللَّهُمَّ نَعَمْ قَالَ أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ اللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ نَصُومَ هَذَا الشَّهْرَ مِنْ السَّنَةِ قَالَ اللَّهُمَّ نَعَمْ قَالَ أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ أَ اللَّهُ أَمَرَك أَنْ تَأْخُذَ هَذِهِ الصَّدَقَةَ مِنْ أَغْنِيَائِنَا فَتَقْسِمَهَا عَلَى فَقَرَائِنَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهُمَّ نَعَمْ فَقَالَ الرَّجُلُ آمَنْتُ بِمَا

Page 7

7 جِئْتَ بِهِ وَأَنَا رَسُولُ مَنْ وَرَائِي مِنْ قَوْمِي وَأَنَا ضِمَامُ بْنُ ثَعْلَبَةَ أَخُو بَنِي سَعْدِ بْنِ بَكْرٍ ( صحیح بخاری شیف مترجم جلد اوّل صفحہ 135-134 اعتقاد پبلشنگ ہاؤس نئی دلی 110002.سن 1990ء) انس بن مالک سے عناوہ کہتے تھے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص اونٹ پر سوار ہو کر آیا.اور اسے مسجد ( کے احاطے ) میں بٹھلا دیا.پھر اسے (رضی سے ) باندھ دیا.اس کے بعد پوچھنے لگا تم میں سے محمد گون ہے؟ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے درمیان تکیہ لگائے بیٹھے تھے ، اس پر ہم نے کہا یہ صاحب سفید رنگ جو تکیہ لگائے ہوئے ہیں تو اس شخص نے کہا اے عبد المطلب کے بیٹے ! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں کہو ) میں جواب دوں گا اس پر اس نے کہا کہ میں آپ سے کچھ پوچھنے والا ہوں اور اپنے سوالات میں ذراشرت سے کام لوں گا.تو آپ میرے اوپر کچھ ناراض نہ ہوں.آپنے فرمایا پوچھو جو تمہاری سمجھ میں آئے وہ بولا کہ میں آپ کو اپنے رب کی ، اور آپ سے پہلے لوگوں کے رب کی قسم دیتا ہوں ( سیچ بتائے کیا اللہ نے آپ کو تمام لوگوں کی طرف اپنا پیغام پہنچانے کیلئے بھیجا ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ جانتا ہے کہ ہاں ( یہی بات ہے ) پھر اسنے کہا میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں ( بتائیے ) کیا اللہ نے آپ کو دن رات میں پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اللہ جانتا ہے کہ ہاں (یہی بات ہے) پھر وہ بولا میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں ( بتلائیے ) کیا اللہ نے سال میں اس ( رمضان ) کے مہینے کے روزے رکھنے کا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ جانتا ہے کہ ہاں (یہی بات ہے ، پھر وہ بولا میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں ، کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ ہمارے مالداروں سے صدقہ لے کر ہمارے غرباء کو تقسیم کر دیں؟ آپ نے فرمایا اللہ جانتا ہے کہ ہاں (یہی بات ہے ).اس پر اس شخص نے کہا کہ جو کچھ اللہ کی طرف سے احکام) آپ لے کر آئے ہیں، میں ان پر ایمان لایا اور میں اپنی قوم کا جو پیچھے رہ گئی ہے، ایلچی ہوں.میں ضام ہوں تثعلبہ کا لڑکا بنی سعد بن بکر کے بھائیوں میں سے ہوں.“ (صفحه ۶۲، ۱۳۲۱،۶۳، ۲۹،۷) بخ دوسری طرف حدیث نبوی میں یہ وعید بھی آئی ہے کہ الْيَمِينُ الْفَاجِرَةُ تَدَعَ الدَّيَارَ بلَاقِعَ(مسند الشهاب باب الیمین).کہ جھوٹی قسم علاقوں کو تباہ و برباد کر دیتی ہے یعنی جھوٹی قسم کھانے

Page 8

8 والا نہ صرف یہ کہ خدائی برکت سے محروم ہو جاتا ہے.بلکہ اس کی سزا کا بھی مستحق بنتا ہے.4.چودھویں صدی ہجری میں حضرت بانی جماعت احمدیہ مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے دعوی کیا کہ الف.” مجھے خدا کی پاک اور مطہر وحی سے اطلاع دی گئی ہے کہ میں اس کی طرف سے مسیح موعود اور مہدی معہود اور اندرونی اور بیرونی اختلافات کا حکم ہوں.یہ جو میرا نام مسیح اور مہدی رکھا گیا ان دونوں ناموں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مشرف فرمایا اور پھر خدا نے اپنے بلا واسطہ مکالمہ سے یہی میرا نام رکھا اور پھر زمانہ کی حالت موجودہ نے تقاضا کیا کہ یہی میرا نام ہو.غرض میرے ان ناموں پر یہ تین گواہ ہیں.میرا خدا جو آسمان اور زمین کا مالک ہے میں اُس کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ میں اُس کی طرف سے ہوں اور وہ اپنے نشانوں سے میری گواہی دیتا ہے.“ (روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 345) ب.بریلی کے ایک شخص نے حضرت بانی جماعت احمدیہ مرزا غلام احمد صاحب کی خدمت میں لکھا کہ کیا آپ وہی مسیح موعود ہیں جس کی نسبت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے احادیث میں خبر دی ہے اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر اس کا جواب لکھیں.اس پر حضور علیہ السلام نے اسے خلفاً تحریر فرمایا کہ میں نے پہلے بھی اس اقرار مفصل ذیل کو اپنی کتابوں میں قسم کے ساتھ لوگوں پر ظاہر کیا ہے.اور اب بھی اس پر چہ میں اس خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر لکھتا ہوں.جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ میں وہی مسیح موعود ہوں.جس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان احادیث صحیحہ میں دی ہے.جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم اور دوسری صحاح میں درج ہیں.وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا.“ الراقم مرزا غلام احمد عفا اللہ عنہ واید ۱۷ را گست ۱۸۹۹ء ( ملفوظات، جلد اول، صفحہ 218 مطبوعہ قادیان 2010ء) حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود نے اپنے دعاوی کے بارہ میں اپنی مختلف کتب و تحریرات میں جو خدا تعالیٰ کی قسمیں کھائی ہیں، ان کو ہمارے محترم دوست بشیر الدین الہ دین صاحب سیکریٹری تبلیغ جماعت احمد یہ سکندر آباد نے اس رسالہ میں جمع کیا ہے.اس

Page 9

9 روح اور نظریہ کے ماتحت کہ سعید الفطرت لوگ حضرت مرزا صاحب کے دعاوی پرسنجیدگی سے غور فرمائیں.اور دوسری طرف ان کی تائید ونصرت میں ان کے سلسلہ کی کامیابی و کامرانی کے خدائی سلوک کا مشاہدہ کریں تا کہ ان کو آپ کے دعویٰ مسیحیت و مہدویت کو قبول کرنے کی توفیق ملے.اور خدمت دین اور اشاعت اسلام کی سعادت و موقع نصیب ہو.فجزاہ اللہ تعالیٰ احسن الجزاء.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ محترم بشیر الدین الہ دین صاحب کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اس کے نیک اور خوشگوار نتائج ظاہر ہوں.شریف احمد امینی ایڈیشنل ناظر دعوت و تبلیغ قادیان

Page 10

10 بِسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ نحمده و نصلی علی رسوله الكريم و على عبده المسيح الموعود لا اله الا الله محمد رسول الله آزمائش کے لئے کوئی نہ آیا ہر چند ہر مخالف کو مقابل پر بلایا ہم نے حضرت امام جماعت احمدیہ کی طرف سے سارے علماء کو قسم اٹھانے کا چیلنج (در ثمین) ”علماء نے جماعت احمدیہ کے بارے میں جو مختلف ناجائز اور غیر حقیقی عقائد کا اظہار کرتے ہوئے مسلمانوں میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اس کے ایک قطعی حل کے لئے حضرت امام جماعت احمدیہ نے 6 مارچ 1987ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جماعت احمدیہ کو کیا نصیحت کی اور آپ کا کیا دین تھا اور کیا کلمہ تھا یہ آپ کے اپنے الفاظ میں سنیئے :.ہم مسلمان ہیں، خدائے واحد ولا شریک پر ایمان لاتے ہیں“.ہاں ایک اور نتیجہ انہوں نے اس کتاب سے یہ نکالا ہے کہ شریعت منسوخ ہو گئی ان کے نزدیک اور اب مرزا غلام احمد کا کلام ہی ان کی شریعت ہے.حیرت ہے ان کی فتنہ پردازیوں پر کوئی خدا کا ادنی سا بھی خوف نہیں کھاتے کیسے کیسے بڑے جھوٹ بولتے ہیں اور کس قدر بے باکی سے بولتے ہیں مگر اگر یہی بات ان کی سچی ہے تو پھر مرزا غلام احمد قادیانی نے جو شریعت ہمیں بتائی ہے وہ سن

Page 11

11 لیجئے ، پھر اس کو بھی مانیں کسی جگہ ٹھہریں تو سہی.اگر ہم سے وہی سلوک کرنا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں تعلیم دی ہے اور اس کو یہ ہماری شریعت ماننے پر آمادہ ہیں تو پھر وہ شریعت سن لیجئے وہ کیا ہے.وہ شریعت یہ ہے:.ہم مسلمان ہیں خدائے واحد ولا شریک پر ایمان لاتے ہیں اور کلمہ لا إلهَ إِلَّا اللہ کے قاتل ہیں اور خدا کی کتاب اور اس کے رسول محمد صلی آیتم کو جو خاتم الانبیاء ہے مانتے ہیں اور فرشتوں اور یوم البعث اور بہشت اور دوزخ پر ایمان رکھتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور روزہ رکھتے ہیں اور اہل قبلہ ہیں اور جو کچھ خدا اور رسول نے حرام کیا اس کو حرام سمجھتے ہیں اور جو کچھ حلال کیا اس کو حلال قرار دیتے ہیں اور ہم شریعت میں کچھ بڑھاتے اور نہ کم کرتے ہیں اور ایک ذرہ کی کمی بیشی نہیں کرتے اور جو کچھ رسول اللہ صلی یہی تم سے ہمیں پہنچا اس کو قبول کرتے ہیں چاہے ہم اس کو سمجھیں یا اس کے بھید کو سمجھ نہ سکیں اور اس کی حقیقت تک پہنچ نہ سکیں اور ہم اللہ کے فضل سے مومن موحد مسلم ہیں“.(روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 7) پس اگر ان کے نزدیک احمدیوں کی شریعت وہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائی تو پھر وہ شریعت تو یہ ہے.مگر جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے کبھی اس پاؤں پر کھڑا ہوتا ہے کبھی دوسرے پاؤں پر کھڑا ہوتا ہے.کوئی ایک بات تو واضح طور پر مانیں اور عہد کریں کہ ہاں ہم اس بات سے نہیں ملیں گے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.میں سچ کہتا ہوں اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اور میری جماعت مسلمان ہے اور وہ آنحضرت سلیم اور قرآن کریم پر اسی طرح ایمان لاتی ہے جس طرح پر ایک سچے مسلمان کو لانا چاہئے.(روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 260) اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ الزام تراشیاں اسی طرح جاری رہیں اور کہیں اور فرضی قصے جماعت احمدیہ کی طرف منسوب کرتے چلے جائیں اور ہمیں جواب دینے کی اجازت نہ ہو اور جماعت احمدیہ کی زبان پر بھی پابندی لگی ہو ایک ملک میں اور قلم پر بھی پابندی ہو اور وہ اپنی آواز پہنچانے کی کوشش کرے لیکن ظاہر بات ہے کہ راستے میں بہت سی روکیں ہوں گی، وقتیں ہوں گی

Page 12

12 اور جس کثرت سے ان کا گند مصنوعی اور افترا پردازیوں کا گند یہ پھیل رہا ہے اور جہاں جہاں تک یہ گند پہنچ رہا ہے ممکن نہیں ہے جماعت کے لئے اپنے محدود وسائل میں ان سب جگہوں تک اپنا جوابی پیغام پہنچا دے.تو اس کا کیا حل ہے؟ ایک ہی حل ہے اور میں تمام جماعت احمدیہ کی طرف سے ان سارے علماء کو خواہ وہ پاکستان میں بسنے والے ہوں یا باہر ہوں یہ چیلنج کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جس طرح خدا تعالیٰ کے پاک نام کی قسمیں کھا کر ہے اعلان کیا ہے کہ میراکلمہ وہی ہے جو سب مسلمانوں کا کلمہ ہے اور میرا رسول حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی ہی ہم ہیں اور میرا ان سب باتوں پر ایمان ہے جو اسلام لانے کے لئے جن باتوں پر ایمان لانا ضروری ہے.جس شوکت اور جس شان سے آپ نے قسم کھائی ہے اور لعنت ڈالی ہے جھوٹوں پر اس طرح اگر یہ اپنے دعوے میں بچے ہیں تو یہ قسم اٹھاویں اور سارے علماء مل کر یہ حلفیہ بیان پاکستان میں شائع کریں اور باہر دنیا میں اس کے ترجمے کرا کر شائع کرائیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر یہ یقین رکھتے ہوئے کہ جھوٹوں پر اس کی لعنت پڑتی ہے اور یہ دعا کرتے ہوئے کہ اگر ہم جھوٹے ہوں تو خدا ہم پر لعنت ڈالے اور ہمیں ذلیل ورسوا کرے اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور یہ اعلان کرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کا کلمہ فی الحقیقت اور ہے اور جب یہ کلمہ پڑھتی ہے، جب محمد رسول اللہ لا لا لی یہ کہتی ہے تو مراد مرزا غلام احمد قادیانی ہوتے ہیں اور ان کی شریعت اور ہے ان کا خدا اور ہے اور حضرت مرزا غلام احمد صاحب کو یہ لوگ نعوذ باللہ من ذالک آنحضرت صلی الا یہ تم سے افضل سمجھتے ہیں ہرشان میں افضل سمجھتے ہیں.غرضیکہ جتنی افترا پرداز یاں یہ کر رہے ہیں اگر ان میں کچھ بھی غیرت اور ایمان ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو یہ قسم پہلے سے کھا چکے ہیں یہ بھی آکر قسم اٹھا جا ئیں اور پھر دیکھیں خدا کی تقدیر کیا ظاہر کرتی ہے.بددعا تو میں روکتا ہوں کرنے سے مگر یہ لوگ ایسے ظالم ہیں ایسی سفا کی ان کے اندر پائی جاتی ہے، جھوٹ اور افترا پر ایسی جرات ہے کہ آپ کو چارہ نہیں رہا کہ سوائے اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس چیلنج کو جو اپنے اندر ایک مخفی چیلنج رکھتا ہے ان کی طرف پھینکوں اور

Page 13

13 ہے.ان سے کہو کہ تم بھی اگر جرات رکھتے ہو اور واقعہ تم متقی ہو اور خدا پر ایمان لاتے ہو تو تم اسی قسم کی جرات دکھاؤ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جس شان کے ساتھ اللہ کو گواہ اور حاضر ناظر جان کر عہد کیا ہے اور ایک اعلان کیا ہے تم بھی ایسا اعلان کر دو.مقابل کا کہ یہ لوگ جھوٹے اور بدکار اور فاسق اور فاجر اور آنحضرت صلی یتیم کے گستاخ اور دین اسلام سے ہٹے ہوئے اور بہائیوں کی طرح ایک نیا دین بنانے والے ہیں.یہ ساری باتیں جو الزام لگائے گئے ہیں.یہ اس پر اعلان کر دیں پھر دیکھیں خدا کی تقدیر کیا فیصلہ فرماتی - حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.بالآخر پھر میں عامہ ناس پر ظاہر کرتا ہوں کہ مجھے اللہ جل شانہ کی قسم ہے کہ میں کافر نہیں.لا الہ الا الله محمد رسول اللہ میرا عقیدہ ہے اور لَكِنْ رَسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ (الاحزاب : اے ) پر آنحضرت ملا ہیم کی نسبت میرا ایمان ہے.میں اپنے اس ایمان کی صحت پر اس قدر قسمیں کھاتا ہوں جس قدر خدا تعالیٰ کے پاک نام ہیں اور جس قدر قرآن کریم کے حرف ہیں اور جس قدر آنحضرت صلی ایام کے خدا تعالیٰ کے نزدیک کمالات ہیں.کوئی عقیدہ میرا اللہ اور رسول کے فرمودہ کے برخلاف نہیں اور جو کوئی ایسا خیال کرتا ہے خود اس کی غلط فہمی ہے اور جو شخص مجھے اب بھی کافر سمجھتا ہے اور تکفیر سے باز نہیں آتا یقینا یا در کھے کہ مرنے کے بعد اس کو پوچھا جائے گا“.(روحانی خزائن جلد 7 صفحه 67) جواب میں قوت ہے، شان ہے لیکن ساتھ ایک رحم کا پہلو بھی ہے مرنے کے بعد اس کو پوچھا جائے گا لیکن یہ لوگ اتنے بے باک ہو چکے ہیں کہ اب ان کو یہ کہنا چاہئے کہ اگر ہم جھوٹے ہیں تو خدا اس دنیا میں بھی ہمیں پوچھے.اب تو اس شخص کی نہج پر یہ چل پڑے ہیں جس نے یہ کہا تھا کہ اس دنیا میں بھی پھر ہم پر پتھراؤ ہو اور آسمان پتھر برسائے.اس لئے جب اس قدر بے با کی اختیار کر چکے ہیں تو پھر آگے بڑھیں اور یہ اعلان کریں خدا کی قسمیں کھا کے اگر ہم جھوٹے ہیں تو اللہ اس دنیا میں ہم پر لعنت ڈالے اور ہمیں برباد اور ذلیل ورسوا کر دے اگر ہم اس دعوی میں جھوٹے ہیں کہ احمدی محمد مصطفی سال مالی نام کا کلمہ نہیں پڑھتے بلکہ مرزا غلام احمد کا کلمہ پڑھتے ہیں، دین محمد کے قائل نہیں بلکہ ایک اور دین بنایا ہوا ہے ، قرآن کے قائل

Page 14

14 نہیں بلکہ ایک اور کتاب ہے جو قرآن کے برخلاف اور اس سے جدا ایک الگ کتاب بنا لی گئی ہے.ان کی شریعت بہائیوں کی طرح مختلف شریعت ہے ان کا خدا اور ہے ان کا رسول اور ہے بلکہ مرزا غلام احمدقادیانی کو نعوذ باللہ من ذالک یہ محمد رسول اللہ سے افضل ہی نہیں بلکہ خدا مانتے ہیں.یہ سب باتیں یہ سب بکو اس اسی کتاب میں موجود ہیں.تو پھر یہ کر لیں اور اگر یہ کر کے دکھا ئیں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ خدا کی قہری تحتی ضرور ظاہر ہوگی آپ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھیں گے کہ کس طرح خدا کی تقدیر ان کے پر خچے اڑا کے رکھ دے گی اور ذلیل و رسوا اور نا کام کر کے دکھائے گی.ناکامی تو بہر حال ان کے مقدر میں ہے لیکن ہم تو یہ منتیں کرتے ہیں اور اسی کی ہمیشہ خدا سے توقع رکھتے ہیں کہ ان کو خدا ہدایت دے، اللہ ان پر رحم فرمائے یہ اپنی بدیوں سے باز آجائیں اور یہ ہم اس لئے کرتے ہیں کہ ہم خدائی اپنے ہاتھ میں نہیں لیتے.آنحضرت ملا یہ کہ تم کو تو خدا نے خود روک دیا تھا لیکن ان میں سے کون سے ایسے ہیں جو قہر زدہ ہیں اور کون سے ایسے ہیں جو بیچ میں سے سعید روح رکھتے ہیں ہمیں علم نہیں.اس لئے دل آمادہ نہیں ہوتا کہ کلیہ ایسی لعنت ڈالی جائے لیکن اب میں جو پیشکش کر رہاہوں اس کا تو مطلب یہ ہے کہ اگر ان میں سے کوئی جرات مند ہے تو وہ خود آگے آئے ہم لعنت نہیں ڈالتے ،خود آگے آئے اور اپنے دعوئی کی تائید میں اپنے اوپر اگر جھوٹا ہے تو لعنت ڈالے.اس کی اگر ان میں جرات ہے تو آئیں اور آپ دیکھیں گے خدا کی تقدیر کس طرح ان کو ذلیل ورسوا کر کے دکھاتی ہے.( اقتباس خطبہ جمعہ فرموده 6 / مارچ 1987ء) ابن مریم مر گیا حق کی قسم داخل ہوا وہ محترم (در ثمین)

Page 15

15 بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نحمده و نصلی علی رسوله الکریم و على عبده المسيح الموعود خدا کے فضل ورحم کے ساتھ هو الناصر آئینہ کمالات اسلام قسم کھانے کی غرض قسم کے بارے میں خوب یادرکھنا چاہیئے کہ اللہ جل شانہ کی قسموں کا انسانوں کی قسموں پر قیاس کر لینا قیاس مع الفارق ہے خدا تعالیٰ نے جو انسان کو غیر اللہ کی قسم کھانے سے منع کیا ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ انسان جب قسم کھاتا ہے تو اس کا مدعا یہ ہوتا ہے کہ جس چیز کی قسم کھائی ہے اس کو ایک ایسے گواہ رویت کا قائم مقام ٹھہرا دے کہ جو اپنے ذاتی علم سے اس کے بیان کی تصدیق یا تکذیب کر سکتا ہے کیونکہ اگر سوچ کر دیکھو تو قسم کا اصل مفہوم شہادت ہی ہے.جب انسان معمولی شاہدوں کے پیش کرنے سے عاجز آ جاتا ہے تو پھر قسم کا محتاج ہوتا ہے تا اُس سے وہ فائدہ اٹھاوے جو ایک شاہد رویت کی شہادت سے اُٹھانا چاہئے لیکن یہ تجویز کرنا یا اعتقاد رکھنا کہ بجز خدا تعالیٰ کے اور بھی حاضر ناظر ہے اور تصدیق یا تکذیب یا سزا دہی یا کسی اور امر پر قادر ہے صریح کلمہ کفر ہے اس لئے خدا تعالیٰ کی تمام کتابوں میں انسان کیلئے یہی تعلیم ہے کہ غیر اللہ کی ہر گز قسم نہ کھاوے.اب ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی قسموں کا انسان کی قسموں کے ساتھ قیاس درست نہیں ہوسکتا کیونکہ خدا تعالیٰ کو انسان کی طرح کوئی ایسی مشکل پیش نہیں آتی کہ جو انسان کو قسم کے وقت پیش آتی ہے بلکہ اُس کا قسم کھانا ایک اور رنگ کا ہے جو اُس کی شان کے لائق اور اُس کے قانونِ قدرت کے مطابق ہے دلیرا (روحانی خزائن جلد 5 صفحه 95-96) تری یکتائی کی مجھ کو قسم تری

Page 16

کو تیری محبت میں بھلایا ہم نے 16 (روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 225) وَاللهِ إِنِّي قَدْ رَأَيْتُ جَمَالَهُ اللہ تعالیٰ کی قسم میں نے آپ کا جمال دیکھا ہے بِعُيونِ قاعدًا چشمی بِمَكَانِي اپنی جسمانی آنکھوں اپنے مکان میں (روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 593) حقیقة الوحی اس اُمت میں بعض لوگ ایسے پیدا ہوں گے جن کا نام یہو درکھا جائے گا ایسا ہی اِسی اُمت میں سے ایک شخص پیدا ہو گا جس کا نام عیسی اور مسیح موعود رکھا جائے گا کیا ضرورت ہے کہ حضرت عیسی کو آسمان سے اُتارا جائے اور اس کی مستقل نبوت کا جامہ اُتار کر امتی بنایا جائے.اگر کہو کہ یہ کارروائی بطور سزا کے ہوگی کیونکہ ان کی اُمت نے ان کو خدا بنایا تھا تو یہ جواب بھی بیہودہ ہے کیونکہ اس میں حضرت عیسیٰ کا کیا قصور ہے.میں یہ باتیں کسی قیاس اور ظن سے نہیں کہتا بلکہ میں خدا تعالیٰ سے وحی پا کر کہتا ہوں اور میں اُس کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اُسی نے مجھے یہ اطلاع دی ہے.وقت میری گواہی دیتا ہے.خدا کے نشان میری گواہی دیتے ہیں.“ (روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 33-32) میرے ہی زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں کسوف خسوف ہوا.میرے ہی زمانہ میں ملک پر موافق احادیث صحیحہ اور قرآن شریف اور پہلی کتابوں کے طاعون آئی.اور میرے ہی زمانہ میں نئی سواری یعنی ریل جاری ہوئی.اور میرے ہی زمانہ میں میری پیشگوئیوں کے مطابق خوفناک زلزلے آئے تو پھر کیا تقویٰ کا مقتضا نہ تھا کہ میری تکذیب پر دلیری نہ کی جاتی؟ دیکھو میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ہزاروں نشان میری تصدیق کے ظاہر ہوئے ہیں

Page 17

17 اور ہورہے ہیں اور آئندہ ہوں گے اگر یہ انسان کا منصوبہ ہوتا تو اس قدر تائید اور نصرت اس کی ہرگز نہ ہوتی اور یہ امر انصاف اور ایمان کے برخلاف ہے کہ ہزاروں نشانوں میں سے جو ظہور میں آچکے صرف ایک یا دوام لوگوں کو دھوکہ دینے کیلئے پیش کرنا کہ فلاں فلاں پیشگوئی پوری نہیں ہوئی.اے نادانو ! اور عقل کے اندھو! اور انصاف اور دیانت سے دور رہنے والو! ہزار ہا پیشگوئیوں میں سے اگر ایک یا دو پیشگوئیوں کا پورا ہونا تمہاری سمجھ میں نہیں آسکا تو کیا تم اس عذر سے خدا تعالیٰ کے سامنے معذور ٹھہر جاؤ گے.یہ تو بہ کرو کہ خدا کے دن نزدیک ہیں اور وہ نشان ظاہر ہونے والے ہیں جو زمین کو ہلا دیں گے.حاش (روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 48) یه اگر خدا تعالیٰ کے نشانوں کو جو میری تائید میں ظہور میں آچکے ہیں آج کے دن تک شمار کیا جائے تو وہ تین لاکھ سے بھی زیادہ ہوں گے پھر اگر اس قدر نشانوں میں سے دو تین نشان کسی مخالف کی نظر میں مشتبہ ہیں تو اُن کی نسبت شور مچانا اور اس قدر نشانوں سے فائدہ نہ اُٹھا نا کیا یہی ان لوگوں کا تقویٰ ہے کیا انبیاء کی پیشگوئیوں میں اس کی نظیر نہیں پائی جاتی.“ ”اب میں بموجب آیت کریمہ وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدَثُ اپنی نسبت بیان کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اُس تیسرے درجہ میں داخل کر کے وہ نعمت بخشی ہے کہ جو میری کوشش سے نہیں بلکہ شکم مادر میں ہی مجھے عطا کی گئی ہے میری تائید میں اُس نے وہ نشان ظاہر فرمائے ہیں کہ آج کی تاریخ سے جو ۱۶ جولائی ۱۹۰۶ ء ہے.اگر میں اُن کو فرڈ ا فرد ا شمار کروں تو میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ وہ تین لاکھ سے بھی زیادہ ہیں اور اگر کوئی میری قسم کا اعتبار نہ کرے تو میں اُس کو ثبوت دے سکتا ہوں.“ (روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 70) طاعون کے دنوں میں جبکہ قادیان میں طاعون زور پر تھا میرالڑ کا شریف احمد بیمار ہوا اور ایک

Page 18

18 سخت تپ محرقہ کے رنگ میں چڑھا جس سے لڑکا بالکل بیہوش ہو گیا اور بیہوشی میں دونوں ہاتھ مارتا تھا.مجھے خیال آیا کہ اگر چہ انسان کو موت سے گریز نہیں مگر اگر لڑکا ان دنوں میں جو طاعون کا زور ہے فوت ہو گیا تو تمام دشمن اس تپ کو طاعون ٹھہرائیں گے اور خدا تعالیٰ کی اُس پاک وحی کی تکذیب کریں گے کہ جو اُس نے فرمایا ہے انی احافظ کل من فی الدار یعنی میں ہر ایک کو جو تیرے گھر کی چار دیوار کے اندر ہے طاعون سے بچاؤ نگا.اس خیال سے میرے دل پر وہ صدمہ وارد ہوا کہ میں بیان نہیں کر سکتا.قریبا رات کے بارہ بجے کا وقت تھا کہ جب لڑکے کی حالت ابتر ہو گئی اور دل میں خوف پیدا ہوا کہ یہ معمولی تپ نہیں یہ اور ہی بلا ہے تب میں کیا بیان کروں کہ میرے دل کی کیا حالت تھی کہ خدانخواستہ اگر لڑ کا فوت ہو گیا تو ظالم طبع لوگوں کو حق پوشی کے لئے بہت کچھ سامان ہاتھ آجائے گا.اسی حالت میں میں نے وضو کیا اور نماز کے لئے کھڑا ہو گیا اور معا کھڑا ہونے کے ساتھ ہی مجھے وہ حالت میٹر آگئی جو استجابت دعا کے لئے ایک کھلی کھلی نشانی ہے اور میں اُس کھا کر کہتا ہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ ابھی میں شاید تین رکعت پڑھ چکا تھا کہ میرے پر کشفی حالت طاری ہو گئی اور میں نے کشفی نظر سے دیکھا کہ لڑکا بالکل تندرست ہے تب وہ کشفی حالت جاتی رہی اور میں نے دیکھا کہ لڑکا ہوش کے ساتھ چار پائی پر بیٹھا ہے اور پانی مانگتا ہے اور میں چار رکعت پوری کر چکا تھا.فی الفور اس کو پانی دیا اور بدن پر ہاتھ لگا کر دیکھا کہ تپ کا نام ونشان نہیں“ (روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 87-88) ۲۱.اکیسواں نشان.یہ کہ عرصہ تخمیناً تیس برس کا ہوا ہے کہ جب میرے والد صاحب خدا اُن کو غریق رحمت کرے اپنی آخری عمر میں بیمار ہوئے تو جس روز اُن کی وفات مقدر تھی دو پہر کے وقت مجھ کو الہام ہوا.وَ السَّماءِ وَ الطَّارق اور ساتھ ہی دل میں ڈالا گیا کہ یہ اُن کی وفات کی طرف اشارہ ہے اور اس کے یہ معنی ہیں کہ قسم ہے آسمان کی اور قسم ہے اُس حادثہ کی جو آفتاب کے غروب کے بعد پڑے گا.اور یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندہ کو عزا پر سی تھی.تب میں نے سمجھ لیا کہ میرے والد صاحب غروب آفتاب کے بعد فوت ہو جائیں گے اور کئی اور لوگوں کو اس الہام کی خبر دی گئی اور مجھے قسم ہے اللہ تعالیٰ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور جس پر جھوٹ بولنا

Page 19

19 ایک شیطان اور عنتی کا کام ہے کہ ایسا ہی ظہور میں آیا“ (روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 218) تب اُسی وقت غنودگی ہوکر یہ دوسرا الہام ہوا الیس الله بکاف عبدہ یعنی کیا خدا اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ہے.اس الہام الہی کے ساتھ ایسا دل قوی ہو گیا کہ جیسے ایک سخت دردناک زخم کسی مرہم سے ایک دم میں اچھا ہو جاتا ہے.درحقیقت یہ امر بار با آزمایا گیا ہے کہ وہ الہی میں دلی تسلی دینے کے لئے ایک ذاتی خاصیت ہے اور جڑھ اس خاصیت کی وہ یقین ہے جو وحی الہی پر ہو جاتا ہے.افسوس ان لوگوں کے کیسے الہام ہیں کہ باوجود دعوی الہام کے یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ ہمارے الہام طنی امور ہیں نہ معلوم یہ شیطانی ہیں یا رحمانی ایسے الہاموں کا ضرر اُن کے نفع سے زیادہ ہے مگر میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اِن الہامات پر اُسی طرح ایمان لاتا ہوں جیسا کہ قرآن شریف پر اور خدا کی دوسری کتابوں پر اور جس طرح میں قرآن شریف کو یقینی اور قطعی طور پر خدا کا کلام جانتا ہوں اُسی طرح اس کلام کو بھی جو میرے پر نازل ہوتا ہے خدا کا کلام یقین کرتا ہوں.“ (روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 219-220) ۱۰۵.ایک سو پانچواں نشان.ایک دفعہ میرے بھائی مرز اغلام قادر صاحب مرحوم کی نسبت مجھے خواب میں دکھلایا گیا کہ ان کی زندگی کے تھوڑے دن رہ گئے ہیں جو زیادہ سے زیادہ پندرہ دن ہیں بعد میں وہ یک دفعہ سخت بیمار ہو گئے یہاں تک کہ صرف استخوان باقی رہ گئیں اور اس قدر ڈبلے ہو گئے کہ چار پائی پر بیٹھے ہوئے نہیں معلوم ہوتے تھے کہ کوئی اس پر بیٹھا ہوا ہے یا خالی چار پائی ہے پاخانہ اور پیشاب او پر ہی نکل جاتا تھا اور بیہوشی کا عالم رہتا تھا.میرے والد صاحب میرزا غلام مرتضیٰ مرحوم بڑے حاذق طبیب تھے انہوں نے کہہ دیا کہ اب یہ حالت پاس اور نومیدی کی ہے صرف چند روز کی بات ہے مجھ میں اس وقت جوانی کی قوت موجود تھی اور مجاہدات کی طاقت تھی اور میری فطرت ایسی واقع ہے کہ میں ہر ایک بات پر خدا کو قادر جانتا ہوں اور درحقیقت اس کی قدرتوں کا کون انتہا پاسکتا ہے اور اُس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں بجز ان امور کے جو اس کے وعدہ کے برخلاف یا اُس کی پاک شان کے منافی اور اُس کی توحید کی ضد ہیں.اسلئے میں نے اس حالت میں بھی اُن کے لئے دعا کرنی شروع کی اور میں نے دل میں یہ مقرر کر لیا کہ اس دُعا

Page 20

20 20 میں میں تین باتوں میں اپنی معرفت زیادہ کرنا چاہتا ہوں.ایک یہ کہ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ کیا میں حضرت عزت میں اس لائق ہوں کہ میری دعا قبول ہو جائے دوسری یہ کہ کیا خواب اور الہام جو وعید کے رنگ میں آتے ہیں اُن کی تاخیر بھی ہو سکتی ہے یا نہیں.تیسری یہ کہ کیا اس درجہ کا بیمار جس کے صرف استخوان باقی ہیں دعا کے ذریعہ سے اچھا ہو سکتا ہے یا نہیں.غرض میں نے اس بناء پر دعا کرنی شروع کی پس قسم ہے مجھے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ دعا کے ساتھ ہی تغیر شروع ہو گیا اور اس اثنا میں ایک دوسرے خواب میں میں نے دیکھا کہ وہ گویا اپنے دالان میں اپنے قدموں سے چل رہے ہیں اور حالت یہ تھی کہ دوسرا شخص کروٹ بدلتا تھا جب دعا کرتے کرتے پندرہ دن گزرے تو اُن میں صحت کے ایک ظاہری آثار پیدا ہو گئے اور انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ میرا دل چاہتا ہے کہ چند قدم چلوں چنانچہ وہ کسی قدر سہارے سے اُٹھے اور سوٹے کے سہارے سے چلنا شروع کیا اور پھر سوٹا بھی چھوڑ دیا چند روز تک پورے تندرست ہو گئے اور بعد اس کے پندرہ برس تک زندہ رہے اور پھر فوت ہو گئے“ (روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 265-266) ۱۳۵ نشان - ایک دفعہ باعث مرض ذیا بیطس جو قریباً بیس ۲۰ سال سے مجھے دامن گیر ہے آنکھوں کی بصارت کی نسبت بہت اندیشہ ہوا کیونکہ ایسے امراض میں نزول الماء کا سخت خطرہ ہوتا ہے تب خدا تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے مجھے اپنی اس وحی سے تسلی اور اطمینان اور سکینت بخشی اور وہ وحی یہ ہے نزلت الرحمة على ثلث العين وعلى الأخريين یعنی تین اعضاء پر رحمت نازل کی گئی.ایک آنکھیں اور دو اور عضو اور اُن کی تصریح نہیں کی.اور میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جیسا کہ پندرہ ہیں ۲۰ برس کی عمر میں میری بینائی تھی ایسی ہی اس عمر میں بھی کہ قریباً ستر ۷۰ برس تک پہنچ گئی ہے وہی بینائی ہے سو یہ وہی رحمت ہے جس کا وعدہ خدا تعالیٰ کی وحی میں دیا گیا تھا.“ (روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 319) ۱۳۸ نشان.یادر ہے کہ خدا کے بندوں کی مقبولیت پہچاننے کے لئے دعا کا قبول ہونا بھی ایک بڑا نشان ہوتا ہے بلکہ استجابت دعا کی مانند اور کوئی بھی نشان نہیں کیونکہ استجابت دعا سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک بندہ کو جناب الہی میں قدر اور عزت ہے.اگر چہ دعا کا قبول ہو جانا ہر جگہ لازمی امر نہیں کبھی

Page 21

21 کبھی خدائے عزوجل اپنی مرضی بھی اختیار کرتا ہے.لیکن اس میں کچھ بھی شک نہیں کہ مقبولین حضرت عزت کے لئے یہ بھی ایک نشانی ہے کہ بہ نسبت دوسروں کے کثرت سے اُن کی دُعائیں قبول ہوتی ہیں اور کوئی استجابت دعا کے مرتبہ میں اُن کا مقابلہ نہیں کر سکتا.اور میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ ہزار ہا میری دعائیں قبول ہوئی ہیں.اگر میں سب کو لکھوں تو ایک بڑی کتاب ہو جائے.“ (روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 334) میں اُس کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اُسی نے مجھے بھیجا ہے اور اُسی نے میرا نام نبی رکھا ہے اور اُسی نے مجھے مسیح موعود کے نام سے پکارا ہے اور اُس نے میری تصدیق کے لئے بڑے بڑے نشان ظاہر کئے ہیں جو تین لاکھ تک پہنچتے ہیں جن میں سے بطور نمونہ کسی قدر اس کتاب میں بھی لکھے گئے ہیں.“ (روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 503) ڈاکٹر جان الیگزنڈر ڈوئی امریکہ کا جھوٹا نبی میری پیشگوئی کے مطابق مرگیا“ نشان نمبر ۱۹۶.واضح ہو کہ یہ شخص جس کا نام عنوان میں درج ہے اسلام کا سخت درجہ پر دشمن تھا اور علاوہ اس کے اُس نے جھوٹا دعویٰ پیغمبری کا کیا اور حضرت سيّد النبيين واصدق الصادقين وخير المرسلين وامام الطيبين جناب تقدس مآب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو کا ذب اور مفتری خیال کرتا تھا اور اپنی خباثت سے گندی گالیاں اور مخش کلمات سے آنجناب کو یاد کرتا تھا.غرض بغض دینِ متین کی وجہ سے اُس کے اندر سخت نا پاک خصلتیں موجود تھیں اور جیسا کہ خنزیروں کے آگے موتیوں کا کچھ قدر نہیں ایسا ہی وہ توحید اسلام کو بہت ہی حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا اور اس کا استیصال چاہتا تھا.اور حضرت عیسی کو خدا جانتا تھا اور تثلیث کو تمام دنیا میں پھیلانے کے لئے اتنا جوش رکھتا تھا کہ میں نے باوجود اس کے کہ صد با کتا ہیں پادریوں کی دیکھیں مگر ایسا جوش کسی میں نہ پایا.“ (روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 505-504) چونکہ میرا اصل کام کسر صلیب ہے سو اُس کے مرنے سے ایک بڑا حصہ صلیب کا ٹوٹ گیا.کیونکہ وہ تمام دنیا سے اول درجہ پر حامی صلیب تھا جو پیغمبر ہونے کا دعویٰ کرتا تھا اور کہتا تھا کہ میری دعا سے تمام مسلمان ہلاک ہو جائیں گے اور اسلام نابود ہو جائے گا اور خانہ کعبہ ویران ہو جائے گا.سو

Page 22

22 خدا تعالیٰ نے میرے ہاتھ پر اُس کو ہلاک کیا.میں جانتا ہوں کہ اُس کی موت سے پیشگوئی قتل خنزیر والی بڑی صفائی سے پوری ہو گئی.کیونکہ ایسے شخص سے زیادہ خطر ناک کون ہو سکتا ہے کہ جس نے جھوٹے طور پر پیغمبری کا دعوی کیا اور خنزیر کی طرح جھوٹ کی نجاست کھائی.اور جیسا کہ وہ خود لکھتا ہے اُس کے ساتھ ایک لاکھ کے قریب ایسے لوگ ہو گئے تھے جو بڑے مالدار تھے بلکہ سچ یہ ہے کہ مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی کا وجود اس کے مقابل پر کچھ بھی چیز نہ تھا.نہ اس کی طرح شہرت اُن کی تھی اور نہ اس کی طرح کروڑ ہا روپیہ کے وہ مالک تھے پس میں قسم کھا سکتا ہوں کہ یہ وہی خنزیر تھا جس کے قتل کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ مسیح موعود کے ہاتھ پر مارا جائے گا.“ (روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 513) اشتہار انعامی تین ہزار بمرتبہ سوئم آتھم کے تعلق سے آپ فرماتے ہیں کہ:.وہ عام مجمع میں ہماری حاضری کے وقت ان صاف اور صریح لفظوں میں قسم کھا جاویں کہ میں نے میعاد پیشگوئی میں اسلام کی طرف ایک ذرہ رجوع نہیں کیا اور نہ اسلامی صداقت اور عظمت نے میرے دل پر کوئی ہولناک اثر ڈالا اور نہ اسلامی پیشگوئی کی روحانی ہیبت نے ایک ذرہ بھی میرے دل کو پکڑا بلکہ میں مسیح کی الوہیت اور ابنیت اور کفارہ پر پورا اور کامل یقین رکھتا رہا.اور اگر میں خلاف واقع کہتا ہوں اور حقیقت کو چھپاتا ہوں تو اے قادر خدا مجھے ایک سال کے اندر ایسی موت کے عذاب سے نابود کر جو جھوٹوں پر نازل ہونا چاہیئے.یہ قسم ہے جس کا ہم ان سے مطالبہ کرتے ہیں اور جس کے لئے ہم اشتہار شائع کرتے کرتے آج تین ہزار تک پہنچے ہیں.ہم قسمیہ کہتے ہیں کہ ہم باضابطہ تحریر لے کر یعنی حسب شرائط اشتہار نہم تمبر ۱۸۹۴ ء تمسک لکھوا کر یہ تین ہزار روپے قسم کھانے سے پہلے دے دیں گے اور بعد میں قسم لیں گے.....کیا کسی کو امید ہے کہ اب وہ قسم کھانے کیلئے میدان میں آئیں گے ہرگز نہیں ہرگز نہیں.وہ تو جھوٹ کی موت سے مر گئے اب قبر سے کیونکر نکلیں.“ " مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 68-67 مطبوعہ الشركة الاسلامیہ ربوہ 1972ء)

Page 23

23 23 تجلیات الهیه یہ ہیں ہمارے مخالف مولویوں کے اعتراض جنہوں نے علم قرآن اور حدیث کا پڑھ کر ڈبو دیا.اب تک انہیں معلوم نہیں کہ وعید کی پیشگوئی اور وعدہ کی پیشگوئی میں فرق کیا ہے؟ آتھم کے واقعہ کے بعد جو پیشگوئی لیکھرام کی نسبت کی گئی تھی جس کے ساتھ کوئی بھی شرط نہ تھی اور جس میں صاف طور پر وقت اور قسم موت بتلائی گئی تھی اسی پر غور کرتے کہ کیسی صفائی سے وہ پوری ہوئی.مگر کون غور کرے جب تعصب سے دل اندھے ہو گئے.اور اگر ایک ذرہ دلوں میں انصاف ہوتا تو ایک نہایت سہل طریق اُن کے لئے مہیا تھا کہ جن پیشگوئیوں کے نہ پورے ہونے پر اُن کو اعتراض ہے وہ لکھ کر میرے سامنے پیش کرتے کہ وہ کس قدر ہیں اور پھر مجھ سے اس بات کا ثبوت لیتے کہ وہ پیشگوئیاں جو پوری ہو گئیں وہ کس قدر ہیں تو اس امتحان سے اُن کے تمام پردے کھل جاتے اور میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ محل اعتراض اُن کے پاس صرف ایک دو وعید کی پیشگوئیاں ہیں جن کے ساتھ شرط بھی تھی جن میں خوف اور ڈرنے کی وجہ سے تاخیر ہوگئی.اور جن کی نسبت خدا تعالیٰ کا قدیم قانون ہے کہ وہ تو بہ استغفار اور صدقہ اور دُعا سے مل سکتی ہیں.“ (روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 408-406) ”میرے نادان مخالفوں کو خدا روز بروز انواع و اقسام کے نشان دکھلانے سے ذلیل کرتا جاتا ہے.اور میں اُسی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جیسا کہ اُس نے ابراہیم سے مکالمہ مخاطبہ کیا اور پھر الحق سے اور اسمعیل سے اور یعقوب سے اور یوسف سے اور موسیٰ“ سے اور مسیح ابن مریم سے اور سب کے بعد ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہمکلام ہوا کہ آپ پر سب سے زیادہ روشن اور پاک وحی نازل کی ایسا ہی اُس نے مجھے بھی اپنے مکالمہ مخاطبہ کا شرف بخشا.مگر یہ شرف مجھے محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے حاصل ہوا.اگر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت نہ ہوتا اور آپ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی میں کبھی یہ شرف مکالمه مخاطبہ ہرگز نہ پاتا کیونکہ اب بجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے مگر وہی جو پہلے امتی ہو.“ (روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 412-411)

Page 24

24 سراج منیر ”ہمارے دل کی اس وقت عجیب حالت ہے.درد بھی ہے اور خوشی بھی.درد اس لئے کہ اگر لیکھرام رجوع کرتا زیادہ نہیں تو اتنا ہی کرتا کہ وہ بدزبانیوں سے باز آ جا تا تو مجھے اللہ تعالیٰ کی قسم ہے کہ میں اس کیلئے دعا کرتا.اور میں امید رکھتا تھا کہ اگر وہ ٹکڑے ٹکڑے بھی کیا جاتا تب بھی زندہ ہوجا تا.وہ خدا جس کو میں جانتا ہوں اس سے کوئی بات انہونی نہیں اور خوشی اس بات کی ہے کہ پیشگوئی نہایت صفائی سے پوری ہوئی.“ (روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 28) ’بارھویں پیشگوئی جو براہین احمدیہ کے صفحہ ۲۳۸ اور ۲۳۹ میں لکھی ہے علم قرآن ہے اس پیشگوئی کا ماحصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تجھ کو علم قرآن دیا گیا ہے ایسا علم جو باطل کو نیست کرے گا.اور اسی پیشگوئی میں فرمایا کہ دو ۲ انسان ہیں جن کو بہت ہی برکت دی گئی.ایک وہ معلم جس کا نام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور ایک یہ متعلم یعنی اس کتاب کا لکھنے والا.اور یہ اس آیت کی طرف بھی اشارہ ہے جو قرآن شریف میں اللہ جل شانہ فرماتا ہے وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ یعنی اس نبی کے اور شاگرد بھی ہیں جو ہنوز ظاہر نہیں ہوئے اور آخری زمانہ میں ان کا ظہور ہوگا.یہ آیت اسی عاجز کی طرف اشارہ تھا کیونکہ جیسا کہ ابھی الہام میں ذکر ہو چکا ہے یہ عاجز روحانی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شاگردوں میں سے ہے.اور یہ پیشگوئی جو قرآنی تعلیم کی طرف اشارہ فرماتی ہے اس کی تصدیق کیلئے کتاب کرامات الصادقین لکھی گئی تھی جس کی طرف کسی مخالف نے رخ نہیں کیا.اور مجھے اس ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ مجھے قرآن کے حقائق اور معارف کے سمجھنے میں ہر ایک روح پر غلبہ دیا گیا ہے.اور اگر کوئی مولوی مخالف میرے مقابل پر آتا جیسا کہ میں نے قرآنی تفسیر کے لئے بار بار ان کو بلایا تو خدا اس کو ذلیل اور شرمندہ کرتا.سو فہم قرآن جو مجھ کو عطا کیا گیا یہ اللہ جل شانہ کا ایک نشان ہے.“ (روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 41-40) براہین احمدیہ کے صفحہ ۲۲۷ میں ایک آریہ کے متعلق ایک پیشگوئی ہے جس کا نام ملا وامل ہے

Page 25

25 وہ ابھی تک بقید حیات ہے یہ شخص دق کے مرض میں مبتلا ہو گیا تھا ایک دن وہ میرے پاس آ کر اور اپنی زندگی سے نا امید ہو کر بہت بے قراری سے رویا مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس نے اس روز متوحش خواب بھی دیکھا تھا جہاں تک مجھے یاد ہے خواب یہ تھا کہ اس کو ایک زہریلے سانپ نے کاٹا ہے اور تمام بدن میں زہر سرایت کر گیا ہے اس خواب نے اس کو نہایت غمگین کر دیا تھا اور پہلے سے ایک نرم تپ نے جو کھانے کے بعد تیز ہو جاتی تھی سخت گھبراہٹ میں اس کو ڈالا ہوا تھا اس لئے وہ بیقراری اور قریب قریب مایوسی کی حالت میں تھا اور وہ میرے پاس آکر رویا اس لئے میرا دل اس کی حالت پر نرم ہوا اور میں نے حضرت احدیت میں اس آریہ کے حق میں دعا کی جیسا کہ اس پہلے آریہ کے حق میں دعا کی تھی جس کا نام شرمپت ہے تب مجھے یہ الہام ہوا جو براہین کے صفحہ ۲۲۷ میں موجود ہے قُلنَا يَا نَارُ كُونِی بَرْدًا وَ سَلَامًا یعنی ہم نے تپ کی آگ کو کہا کہ سرد اور سلامتی ہو چنانچہ اسی وقت اس کو جو موجود تھا اس الہام سے خبر دی گئی اور کئی اور لوگوں کو اطلاع دی گئی کہ وہ ضرور میری دعا کی برکت سے صحت پا جائے گا چنانچہ بعد اس کے ایک ہفتہ نہیں گذرا ہوگا کہ وہ آریہ خدا کے فضل سے صحت پا گیا.....میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ واقعہ سراسر صحیح ہے اور ایک ذرہ اس میں آمیزش مبالغہ نہیں، (روحانی خزائن جلد 12 صفحه 62) ”ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلہ نبوت میں سے اعلیٰ درجہ کا جوانمرد نبی اور زندہ نبی اور خدا کا اعلیٰ درجہ کا پیارا نبی تصرف ایک مرد کو جانتے ہیں یعنی وہی نبیوں کا سردار رسولوں کا فخر تمام مرسلوں کا سرتاج جس کا نام محمد مصطفی و احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کے زیر سایہ دس ۱۰ دن چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جو پہلے اس سے ہزار برس تک نہیں مل سکتی تھی وہ کیسی کتابیں ہیں جو ہمیں بھی اگر ہم ان کے تابع ہوں مردود اور مخذول اور سیاہ دل کرنا چاہتی ہیں کیا ان کو زندہ نبوت کہنا چاہئے جن کے سایہ سے ہم خود مردہ ہو جاتے ہیں یقیناً سمجھو کہ یہ سب مردے ہیں کیا مردہ کو مرده روشنی بخش سکتا ہے یسوع کی پرستش کرنا صرف ایک بت کی پرستش کرنا ہے.مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر وہ میرے زمانہ میں ہوتا تو اس کو انکسار کے ساتھ

Page 26

26 26 میری گواہی دینی پڑتی کوئی اس کو قبول کرے یا نہ کرے مگر یہی سچ ہے اور سچ میں برکت ہے کہ آخر اس کی روشنی دنیا پر پڑتی ہے.“ (روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 82) بركات الدعا اس وقت میں محض اللہ اپنی ذاتی شہادت سید صاحب کی خدمت میں پیش کرتا ہوں شاید خدا تعالیٰ اُن پر فضل کرے.سواے عزیز سید! مجھے اس جل شانہ کی قسم ہے کہ یہ بات واقعی صحیح ہے کہ وحی آسمان سے دل پر ایسی گرتی ہے جیسے کہ آفتاب کی شعاع دیوار پر.میں ہر روز دیکھتا ہوں کہ جب مکالمہ الہیہ کا وقت آتا ہے تو اول یک دفعہ مجھ پر ایک ربودگی طاری ہوتی ہے تب میں ایک تبدیل یافتہ چیز کی مانند ہو جاتا ہوں اور میری حس اور میرا ادراک اور ہوش گوبگفتن باقی ہوتا ہے مگر اُس وقت میں پاتا ہوں کہ گویا ایک وجود شدید الطاقت نے میرے تمام وجود کو اپنی مٹھی میں لے لیا ہے اور اُس وقت احساس کرتا ہوں کہ میری ہستی کی تمام رگیں اُس کے ہاتھ میں ہیں اور جو کچھ میرا ہے اب وہ میرا نہیں بلکہ اُسکا ہے.“ (روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 22) بالآخر میں ہر ایک مسلمان کی خدمت میں نصیحتا کہتا ہوں کہ اسلام کے لئے جاگو کہ اسلام سخت فتنہ میں پڑا ہے اس کی مدد کرو کہ اب یہ غریب ہے اور میں اسی لئے آیا ہوں اور مجھے خدا تعالیٰ نے علم قرآن بخشا ہے اور حقائق معارف اپنی کتاب کے میرے پر کھولے ہیں اور خوارق مجھے عطا کئے ہیں سو میری طرف آؤ تا اس نعمت سے تم بھی حصہ پاؤ.مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں کیا ضرور نہ تھا کہ ایسی عظیم الفتن صدی کے سر پر جس کی کھلی کھلی آفات ہیں ایک مجدد کھلے کھلے دعوئی کے ساتھ آتا سو عنقریب میرے کاموں کے ساتھ تم مجھے شناخت کرو گے“ (روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 36 ) واقع البلاء اگر مولوی احمد حسن اس اشتہار کے شائع ہونے کے بعد جس کو وہ قسم کے ساتھ شائع کرے گا امروہہ کو طاعون سے بچا سکا اور کم سے کم تین جاڑے امن سے گزر گئے تو میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں.پس اس سے بڑھ کر اور کیا فیصلہ ہوگا.اور میں بھی خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں

Page 27

27 27 مسیح موعود ہوں اور وہی ہوں جس کا نبیوں نے وعدہ دیا ہے اور میری نسبت اور میرے زمانہ کی نسبت توریت اور انجیل اور قرآن شریف میں خبر موجود ہے کہ اس وقت آسمان پر خسوف کسوف ہو گا اور زمین پر سخت طاعون پڑے گی اور میرا یہی نشان ہے.“ سناتن دھرم (روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 238) میں کھا کر کہتا ہوں کہ یہی سچ بات ہے کہ خدا کا کلام سمجھنے کے لئے اول دل کو ایک نفسانی جوش سے پاک بنانا چاہئے تب خدا کی طرف سے دل پر روشنی اُترے گی.بغیر اندرونی روشنی کے اصل حقیقت نظر نہیں آتی.جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ یعنی یہ پاک کا کلام ہے.جب تک کوئی پاک نہ ہو جائے وہ اس کے بھیدوں تک نہیں پہنچے گا.“ در حاشیه اربعین (روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 474-473) افسوس کهہ علمی نشان کے مقابلہ میں نادان لوگوں نے پیر مہر علی شاہ گولڑوی کی نسبت ناحق جھوٹی فتح کا نقارہ بجا دیا اور مجھے گندی گالیاں دیں اور مجھے اس کے مقابلہ پر جاہل اور نادان قرار دیا.گویا میں اس نابغہ وقت اور سحبان زمان کے رعب کے نیچے آکر ڈر گیا ورنہ وہ حضرت تو سچے دل سے بالمقابل عربی تفسیر لکھنے کے لئے طیار ہو گئے تھے اور اسی نیت سے لاہور تشریف لائے تھے.پر میں آپ کی جلالت شان اور علمی شوکت کو دیکھ کر بھاگ گیا اے آسمان جھوٹوں پر لعنت کر آمین.پیارے ناظرین کا ذب کے رسوا کرنے کے لئے اسی وقت جو ۷ / دسمبر ۱۹۰۰ بو روز جمعہ ہے خدا نے میرے دل میں ایک بات ڈالی ہے اور میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کا جہنم جھوٹوں کے لئے بھڑک رہا ہے کہ میں نے سخت تکذیب کو دیکھ کر خود اس فوق العادت مقابلہ کے لئے درخواست کی تھی.اور اگر پیر مہر علی شاہ صاحب مباحثہ منقولی اور اس کے ساتھ بیعت کی شرط پیش نہ کرتے جس سے میرا مدعا بکلی کالعدم ہو گیا تھا تو اگر لاہور اور قادیاں میں برف کے پہاڑ بھی ہوتے اور جاڑے کے دن ہوتے تو میں تب بھی لاہور پہنچتا اور ان کو دکھلاتا کہ آسمانی نشان اس کو کہتے ہیں.“ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 449-448)

Page 28

28 ضمیمہ رسالہ انجام آتھم سو ایک تقوی شعار آدمی کیلئے یہ کافی تھا کہ خدا نے مجھے مفتریوں کی طرح ہلاک نہیں کیا بلکہ میرے ظاہر اور میرے باطن اور میرے جسم اور میری روح پر وہ احسان کئے جن کو میں شمار نہیں کر سکتا.میں جوان تھا جب خدا کی وحی اور الہام کا دعویٰ کیا اور اب میں بوڑھا ہو گیا اور ابتداء دعوئی پر بیس ۲۰ برس سے بھی زیادہ عرصہ گزر گیا.بہت سے میرا دوست اور عزیز جو مجھ سے چھوٹے تھے فوت ہو گئے اور مجھے اس نے عمر در از بخشی اور ہر یک مشکل میں میرا متکفل اور متوتی رہا.پس کیا ان لوگوں کے یہی نشان ہوا کرتے ہیں کہ جو خدا تعالیٰ پر افترا باندھتے ہیں.اب بھی اگر مولوی صاحبان مجھے مفتری سمجھتے ہیں تو اس سے بڑھ کر ایک اور فیصلہ ہے.اور وہ یہ کہ میں ان الہامات کو ہاتھ میں لے کر جن کو میں شائع کر چکا ہوں مولوی صاحبان سے مباہلہ کروں.اس طرح پر کہ میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر بیان کروں کہ میں در حقیقت اس کے شرف مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف ہوں اور در حقیقت اس نے مجھے چہار دہم صدی کے سر پر بھیجا ہے کہ تا میں اس فتنہ کو فرو کروں کہ جو اسلام کے مخالف سب سے زیادہ فتنہ ہے اور اسی نے میرا نام عیسی رکھا ہے.اور کسر صلیب کے لئے مجھے مامور کیا ہے لیکن نہ کسی جسمانی حربہ سے.“ (روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 51-50) پس یہ خدا کی رحمت اور خدا کا فضل ہے جو اس نے ہمیں ان تکالیف سے بچایا.جن میں ہمارے مخالف گرفتار ہیں.میں اس واحد لاشریک کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ اگر چہ مباہلہ سے پہلے بھی وہ ہمیشہ میرا متکفل رہا مگر مباہلہ کے بعد کچھ ایسے برکات روحانی اور جسمانی نازل ہوئے کہ پہلی زندگی میں میں ان کی نظیر نہیں دیکھتا.“ (روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 314) دوششم اور اگر ان باتوں میں سے کوئی بھی نہ کریں تو مجھ سے اور میری جماعت سے سات سال تک اس طور سے صلح کر لیں کہ تکفیر اور تکذیب اور بد زبانی سے منہ بند رکھیں.اور ہر ایک کو محبت اور اخلاق سے ملیں اور قہر الہی سے ڈر کر ملاقاتوں میں مسلمانوں کی عادت کے طور پر پیش آویں.ہر ایک قسم کی شرارت اور خباثت کو چھوڑ دیں.پس اگر ان سات سال میں میری طرف سے خدا

Page 29

29 29 تعالیٰ کی تائید سے اسلام کی خدمت میں نمایاں اثر ظاہر نہ ہوں اور جیسا کہ مسیح کے ہاتھ سے ادیان باطلہ کا مرجانا ضروری ہے یہ موت جھوٹے دینوں پر میرے ذریعہ سے ظہور میں نہ آوے یعنی خدا تعالیٰ میرے ہاتھ سے وہ نشان ظاہر نہ کرے جن سے اسلام کا بول بالا ہو اور جس سے ہر ایک طرف سے اسلام میں داخل ہونا شروع ہو جائے.اور عیسائیت کا باطل معبود فنا ہو جائے اور دنیا اور رنگ نہ پکڑ جائے تو میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اپنے تئیں کا ذب خیال کرلوں گا.اور خدا جانتا ہے کہ میں ہرگز کاذب نہیں.“ (روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 319311) لہذا مناسب ہے کہ عبدالحق غزنوی اور عبد الجبار جو اپنی شرارت اور خباثت سے تکفیر اور گالیوں پر زور دے رہے ہیں.اپنے فوت شدہ بزرگ کے کلمات کی تحقیق ضرور کرلیں.ایسا نہ ہو کہ ان کی وصیت کی نافرمانی کر کے ان کے عاق بھی ٹھہر جائیں.اس بزرگ مولوی عبد اللہ نے اپنی زندگی کے زمانہ میں میرے نام بھی دو خط بھیجے تھے اور ان خطوں میں قرآنی آیتوں کے الہام کے ساتھ مجھے خوشخبری دی تھی کہ تم کفار پر غالب رہو گے اور پھر وفات کے بعد میرے پر ظاہر کیا تھا کہ میں آپ کے دعوی کا مصدق ہوں.چنانچہ میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ انہوں نے میرے دعویٰ کو سن کر تصدیق کی اور صاف لفظوں میں مجھے کہا کہ ”جب میں دنیا میں تھا.تو میں امید رکھتا تھا کہ ایسا شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہو گا.یہ ان کے الفاظ ہیں.ولعنة اللہ علی الکاذبین.“ (روحانی خزائن جلد 11 صفحه 343) رساله آسمانی فیصلہ سو واضح ہو کہ میاں نذیر حسین نے تقویٰ اور دیانت کے طریق کو بکلی چھوڑ دیا میں نے دہلی میں تین اشتہار جاری کئے اور اپنے اشتہارات میں بار بار ظاہر کیا کہ میں مسلمان ہوں اور عقیدہ اسلام رکھتا ہوں بلکہ میں نے اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر پیغام پہنچایا کہ میری کسی تحریر یا تقریر میں کوئی ایسا امر نہیں ہے جو نعوذ باللہ عقیدہ اسلام کے مخالف ہو صرف معترضین کی اپنی ہی غلط فہمی ہے ورنہ میں تمام عقائد اسلام پر بدل و جان ایمان رکھتا ہوں اور مخالف عقیدہ اسلام سے بیزار ہوں.“ (روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 312)

Page 30

30 30 آپ نے اس روحانی مقابلہ کے لئے تمام صوفیوں پیرزادوں اور سجادہ نشینوں اور تمام علماء کو بھی جنہوں نے آپ پر کفر کا فتویٰ لگایا تھا، مقابلہ کی دعوت دی اور فرمایا: میں اقرار کرتا ہوں اور اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر میں اس مقابلہ میں مغلوب ہو گیا تو اپنے ناحق پر ہونے کا خود اقرار شائع کر دوں گا....اور اسی جلسے میں اقرار بھی کر دوں گا کہ میں خدائے تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوں اور میرے تمام دعاوی باطل ہیں اور بخدا میں یقین رکھتا ہوں اور دیکھ رہا ہوں کہ میرا خدا ہر گز ایسا نہیں کرے گا اور کبھی مجھے ضائع ہونے نہیں دے گا.“ (روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 330) حمامة البشرى و إن إمامي سيد الرسل أحمد اور بے شک میرا پیشوا تمام رسولوں کا سردار احمد ہے.رضيناه متبوعا وربي ينظُرُ میں راضی ہوں اس کی فرمانبرداری پر اور میرا خدا دیکھتا ہے.و والله إني قد تبعت محمدًا قسم ہے مجھ کو اللہ کی میں محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانبردار ہوں.وفي كل آن مِن سناه أَنورُ اور ہر آن اس سے نور حاصل کرتا ہوں.“ سرمه چشمه آریہ (روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 332-331) ”ہم سچ سچ کہتے ہیں اور زیادہ باتوں میں وقت کھونا نہیں چاہتے کہ جو کچھ قرآن شریف کے دس ورق سے توحید کے معارف آفتاب عالمتاب کی طرح ظاہر ہوتے ہیں اگر کوئی شخص وید کے ہزار ورق سے بھی نکال کر دکھلاوے تو ہم پھر بھی مان جائیں کہ ہاں وید میں توحید ہے اور جو چاہے

Page 31

31 حسب استطاعت ہم سے شرط کے طور پر مقرر بھی کرا لے ہم قسمیہ بیان کرتے ہیں اور خدائے واحد لاشریک کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم بہر حال ادائے شرط مقررہ پر جس طور سے فیصلہ کرنا چاہیں حاضر ہیں لیکن ناظرین خوب یا درکھیں اور اے آریہ کے نو عمرونو گرفتار و! تم بھی یا درکھو کہ وید میں ہرگز تو حید محض نہیں ہے وہ جابجا مشر کا نہ تعلیم سے مخلوط ہے ضرور مخلوط ہے کوئی اس کو بری نہیں کر سکتا اور زمانہ آتا جاتا ہے کہ اُس کے سارے پر دے کھل جائیں سو تم لوگ اس خدا سے ڈرو جس کی عدالت سے کسی ڈھب روپوش نہیں ہو سکتے.“ (روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 216) بعد حمد وصلوۃ میں عبداللہ الاحد الصمد احمد ولد میرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم (جو مؤلف کتاب براھین احمدیہ ہوں ) حضرت خداوند کریم جل شانہ وعزاسمہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے اکثر حصہ اپنی عمر عزیز کا تحقیق دین میں خرچ کر کے ثابت کر لیا ہے کہ دنیا میں سچا اور منجانب اللہ مذہب دین اسلام ہے اور حضرت سیدنا و مولنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم خدائے تعالیٰ کے رسول اور افضل الرسل ہیں اور قرآن شریف اللہ جل شانہ کا پاک و کامل کلام ہے جو تمام پاک صداقتوں اور سچائیوں پر مشتمل.پر مشتمل ہے اور جو کچھ اس کلام مقدس میں ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وجوب ذاتی اور قدامت ہستی اور قدرت کا ملہ اور اپنے دوسرے جمیع صفات میں واحد لاشریک ہے اور سب مخلوقات کا خالق اور سب ارواح اور اجسام کا پیدا کنندہ ہے اور صادق اور وفادار ایمانداروں کو ہمیشہ کے لئے نجات دے گا اور وہ رحمان اور رحیم اور توبہ قبول کرنے والا ہے ایسا ہی دوسری صفاتِ الہیہ و دیگر تعلیمات جو قرآن شریف میں لکھی ہیں یہ سب صحیح اور درست ہیں اور میں دلی یقین.ان سب امور کو سچ جانتا ہوں اور دل و جان سے ان پر یقین رکھتا ہوں.“ چشمه مسیحی روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 303-302) " مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں اپنے خدائے پاک کے یقینی اور قطعی مکالمہ سے مشرف ہوں اور قریباً ہر روز مشرف ہوتا ہوں اور وہ خدا جس کو یسوع مسیح کہتا ہے کہ تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا.میں دیکھتا ہوں کہ اُس نے مجھے نہیں چھوڑا.“ (روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 353)

Page 32

32 نسیم دعوت ے حضرات! مسلمانوں کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ عرش کوئی جسمانی اور مخلوق چیز ہے جس پر خدا بیٹھا ہوا ہے.تمام قرآن شریف کو اوّل سے آخر تک پڑھو اس میں ہرگز نہیں پاؤ گے کہ عرش بھی کوئی چیز محدود اور مخلوق ہے.خدا نے بار بار قرآن شریف میں فرمایا ہے کہ ہر ایک چیز جو کوئی وجود رکھتی ہے اس کا میں ہی پیدا کرنے والا ہوں.میں ہی زمین و آسمان اور روحوں اور ان کی تمام قوتوں کا خالق ہوں.میں اپنی ذات میں آپ قائم ہوں اور ہر ایک چیز میرے ساتھ قائم ہے.ہر ایک ذرہ اور ہر ایک چیز جو موجود ہے وہ میری ہی پیدائش ہے.مگر کہیں نہیں فرمایا کہ عرش بھی کوئی جسمانی چیز ہے جس کا میں پیدا کرنے والا ہوں.اگر کوئی آریہ قرآن شریف میں سے نکال دے کہ عرش کوئی جسمانی اور مخلوق چیز ہے تو میں اس کو قبل اس کے جو قادیان سے باہر جائے ایک ہزار روپیہ انعام دوں گا.میں اُس کھاتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتی کا کام ہے کہ میں قرآن شریف کی وہ آیت دکھاتے ہی ہزار روپیہ حوالہ کروں گا.ورنہ میں بادب کہتا ہوں کہ ایسا شخص خود لعنت کا محل ہو گا جو خدا پر جھوٹ بولتا ہے.“ نزول المسیح (روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 454-453) چونکہ ہر ایک چیز کا خدا مالک ہے اس لئے وہ یہ بھی اختیار رکھتا ہے کہ کوئی عمدہ فقرہ کسی کتاب کا یا کوئی عمدہ شعر کسی دیوان کا بطور وحی میرے دل پر نازل کرے.یہ تو زبان عربی کے متعلق بیان ہے مگر اس سے زیادہ تر تعجب کی یہ بات ہے کہ بعض الہامات مجھے ان زبانوں میں بھی ہوتے ہیں جن سے مجھے کچھ بھی واقفیت نہیں جیسے انگریزی یا سنسکرت یا عبرانی وغیرہ جیسا کہ براہین احمدیہ میں کچھ نمونہ اُن کا لکھا گیا ہے اور مجھے اُس ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ یہی عادت اللہ میرے ساتھ ہے اور یہ نشانوں کی قسم میں سے ایک نشان ہے جو مجھے دیا گیا ہے.“ (روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 435) میں نے پہلے بھی اس اقرار مفصل ذیل کو اپنی کتابوں میں قسم کے ساتھ لوگوں پر ظاہر کیا ہے اور اب خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر لکھتا ہوں جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ میں وہی مسیح موعود ہوں جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان احادیث میں خبر دی ہے جو صحیح بخاری اور مسلم اور دوسری

Page 33

33 صحاح میں درج ہیں.وَكَفَى بِاللهِ شَهِيدًا الراقم میرزا غلام احمد عفا اللہ عنہ وایده 17 اگست 1899ء) (منقول از عقائد وتعلیمات صفحه 137 مطبوعه نظارت دعوت وتبلیغ قادیان اکتوبر 1955ء) مجھے اس ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور جس پر افترا کرن لعنتیوں کا کام ہے کہ اس نے مسیح موعود بنا کر مجھے بھیجا ہے اور میں جیسا کہ قرآن شریف کی آیات پر ایمان رکھتا ہوں ایسا ہی بغیر فرق ایک ذرہ کے خدا کی اس کھلی کھلی وحی پر ایمان لاتا ہوں جو مجھے ہوئی جس کی سچائی اس کے متواتر نشانوں سے مجھ پر کھل گئی ہے اور میں بیت اللہ میں کھڑے ہو کر یہ قسم کھا سکتا ہوں کہ وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے وہ اسی خدا کا کلام ہے جس نے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنا کلام نازل کیا تھا.“ کرامات الصادقین (روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 210) ” مجھے اللہ جل شانہ کی قسم کہ میں کا فرنہیں لا الہ الا اللَّهُ مُحَمَّدْ رسول اللہ میرا عقیدہ ہے.اور وَلَكِنْ رَسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت میرا ایمان ہے میں اپنے اس بیان کی صحت پر اس قدر قسمیں کھاتا ہوں جس قدر خدا تعالیٰ کے پاک نام ہیں اور جس قدر قرآن کریم کے حرف ہیں اور جس قدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا تعالیٰ کے نزدیک کمالات ہیں کوئی عقیدہ میرا اللہ اور رسول کے فرمودہ کے برخلاف نہیں.اور جو کوئی ایسا خیال کرتا ہے خود اسکی غلط فہمی ہے اور جو شخص مجھے اب بھی کافر سمجھتا ہے اور تکفیر سے باز نہیں آتا وہ یقینا یا در کھے کہ مرنے کے بعد اُس سے پوچھا جائیگا میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرا خدا اور رسول پر وہ یقین ہے کہ اگر اس زمانہ کے تمام ایمانوں کو ترازو کے ایک پلہ میں رکھا جائے اور میرا ایمان دوسرے پلہ میں تو بفضلہ تعالیٰ یہی پلہ بھاری ہوگا.“ تریاق القلوب (روحانی خزائن جلد 7 صفحه 67) " مجھے اُس ہے جس نے مجھے بھیجا ہے کہ اگر کوئی سخت دل عیسائی یا ہندو یا آریہ

Page 34

34 میرے اُن گذشتہ نشانوں سے جو روز روشن کی طرح نمایاں ہیں انکار بھی کر دے اور مسلمان ہونے کے لئے کوئی نشان چاہے اور اس بارے میں بغیر کسی بیہودہ حجت بازی کے جس میں بد نیتی کی بو پائی جائے سادہ طور پر یہ اقرار بذریعہ کسی اخبار کے شائع کر دے کہ وہ کسی نشان کے دیکھنے سے گو کوئی نشان ہو لیکن انسانی طاقتوں سے باہر ہو اسلام کو قبول کرے گا تو میں اُمید رکھتا ہوں کہ ابھی ایک سال پورا نہ ہو گا کہ وہ نشان کو دیکھ لے گا کیونکہ میں اُس زندگی میں سے نور لیتا ہوں جو میرے نبی متبوع کو ملی ہے.کوئی نہیں جو اس کا مقابلہ کر سکے.“ (روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 140) دنیا میں صرف دو زندگیں قابل تعریف ہیں.(۱) ایک وہ زندگی جوخود خدائے حی قیوم مبدء فیض کی زندگی ہے.(۲) دوسری وہ زندگی جو فیض بخش اور خدا نما ہو.سو آؤ ہم دکھاتے ہیں کہ وہ زندگی صرف ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہے.جس پر ہر ایک زمانہ میں آسمان گواہی دیتا رہا ہے اور اب بھی دیتا ہے.اور یا درکھو کہ جس میں فیاضانہ زندگی نہیں وہ مردہ ہے نہ زندہ.اور میں اُس کھا کر کہتا ہوں جس کا نام لے کر جھوٹ بولنا سخت بدذاتی ہے کہ خدا نے مجھے میرے بزرگ واجب الاطاعت سیدنا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی دائمی زندگی اور پورے جلال اور کمال کا یہ ثبوت دیا ہے کہ میں نے اُس کی پیروی سے اور اس کی محبت سے آسمانی نشانوں کو اپنے اوپر اُترتے ہوئے اور دل کو یقین کے نور سے پُر ہوتے ہوئے پایا اور اس قدر نشان غیبی دیکھے.کہ اُن کھلے کھلے نوروں کے ذریعہ سے میں نے اپنے خدا کو دیکھ لیا ہے.“ تحفہ گولڑویہ صفحہ 54 (روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 140) مجھے اس ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اُس نے میری تصدیق کے لئے آسمان پر یہ نشان ظاہر کیا ہے اور اُس وقت ظاہر کیا ہے جبکہ مولویوں نے میرا نام دجال اور کذاب اور کافر بلکہ اکفر رکھا تھا.یہ وہی نشان ہے جس کی نسبت آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں بطور پیشگوئی وعدہ دیا گیا تھا اور وہ یہ ہے.قُلْ عِنْدِئَ شَهَادَةً مِنَ اللَّهِ فَهَلْ أَنْتُمْ مُؤْمِنُوْنَ.قُلْ عِنْدِئَ شَهَادَةً مِنَ اللَّهِ فَهَلْ أَنْتُمْ

Page 35

35 مُسْلِمُون.یعنی ان کو کہہ دے کہ میرے پاس خدا کی ایک گواہی ہے کیا تم اس کو مانو گے یا نہیں.پھر ان کو کہہ دے کہ میرے پاس خدا کی ایک گواہی ہے کیا تم اس کو قبول کرو گے یا نہیں.یادر ہے کہ اگرچہ میری تصدیق کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے بہت گواہیاں ہیں اور ایک سو سے زیادہ وہ پیشگوئی ہے جو پوری ہو چکی جن کے لاکھوں انسان گواہ ہیں.مگر اس الہام میں اس پیشگوئی کا ذکر محض تخصیص کے لئے ہے.یعنی مجھے ایسا نشان دیا گیا ہے جو آدم سے لے کر اس وقت تک کسی کو نہیں دیا گیا.غرض میں خانہ کعبہ میں کھڑا ہو کر قسم کھا سکتا ہوں کہ یہ نشان میری تصدیق کے لئے ہے نہ کسی ایسے شخص کی تصدیق کیلئے جس کی ابھی تکذیب نہیں ہوئی اور جس پر یہ شور تکفیر اور تکذیب اور تفسیق نہیں پڑا اور ایسا ہی میں خانہ کعبہ میں کھڑا ہو کر حلفا کہہ سکتا ہوں کہ اس نشان سے صدی کی تعیین ہوگئی ہے.“ ترجمه کتاب البريه (روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 143) محمد است امام و چراغ ہر دو جہاں محمد است فروزنده زمین و زماں خدا نه گویمش از ترس حق مگر بخدا خدا نماست وجودش برائے عالمیاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم دونوں جہانوں کے امام اور چراغ ہیں اور زمین و آسمان کو روشن کرنے والے ہیں.میں خدا تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے آپ کو خدا تو نہیں کہتا.مگر آپ کا وجود اہلِ جہاں کے لئے خدا نما ہے.(روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 157)

Page 36

36 36 حکم 31 مئی 1902ء میں حلفاً کہتا ہوں کہ میرے دل میں اصلی اور حقیقی جوش یہی ہے سو تمام محامد اور مناقب....اور تمام صفات جمیلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کروں.میری تمام تر خوشی اسی میں ہے اور میری بعثت کی اصلی غرض یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی توحید اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت دنیا میں قائم ہو.میں یقیناً جانتا ہوں کہ میری نسبت جس قدر تعریفی کلمات اور تجھیدی باتیں اللہ نے بیان فرمائی ہیں، یہ بھی در حقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرف راجع ہیں.اس لئے کہ میں آپ کا غلام ہوں اور آپ ہی کے مشکوۃ نبوت سے نور حاصل کرنے والا ہوں اور مستقل طور پر ہمارا کچھ بھی نہیں.اس سبب سے میرا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ اگر کوئی شخص آنحضرت صلعم کے بعد یہ دعوی کرے کہ میں مستقل طور پر بلا استفاضہ حضور صلعم سے مامور ہوں اور خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتا ہوں تو وہ مردود اور مخذول ہے.خدا تعالیٰ کی ابدی مہر لگ چکی ہے اس بات پر کہ کوئی شخص وصول الی اللہ کے دروازہ سے آنہیں سکتا بجز اتباع آنحضرت صلعم کے“ احمدیہ تعلیمی پاکٹ بک (حصہ اول) از قاضی محمد نذیر صاحب فاضل (الحلم 31 مئی 1902ء) اللہ تعالیٰ قرآن میں یہود کو مخاطب کر کے فرماتا ہے: قُلْ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ هَادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِيَاء لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِنْ كُنتُمْ صَادِقِينَ (الجمعة 7) ترجمہ : اے رسول کہہ دے اے لوگو ! جو یہودی ہوئے اگر تمہارا یہ دعویٰ ہے کہ تم اللہ کے پیارے ہو سوائے ان لوگوں کے (جو مسلمان ہیں ) تو تم موت کی تمنا کرو اگر تم صادق ہو.اس آیت سے ظاہر ہے کہ موت کی تمنا کرنے والا اگر اس تمنا کے بعد جلد ہلاک ہونے سے بیچ جائے تو یہ امر اس بات کی صداقت پر گواہ ہو گا.اگر کوئی غلط فہمی سے اپنے آپ کو خدا کا پیارا سمجھتا ہو

Page 37

37 اور موت کی تمنا کر بیٹھے تو پھر اس کی موت نشان بن جاتی ہے.جیسے ابو جہل نے جنگ بدر میں یہ تمنا کی کہ اے خدا جو ہم دونوں میں سے جھوٹا ہے اس کو اسی جگہ موت دے دے.چنانچہ وہ جنگ بدر میں مارا گیا اور اس کی موت اسلام کی صداقت کا نشان بن گئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جھوٹا سمجھتے ہوئے اور مقابلے میں اپنے آپ کو سچا سمجھتے ہوئے جن جن لوگوں نے آپ کیلئے بددعا کی اور آپ کے سچا ہونے کی صورت میں از خود اپنی موت چاہی وہ سب کے سب ہلاک ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لوگوں کو یہ یقین دلانے کیلئے کہ آپ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں، بارگاہ الہی میں یہ دعا کی بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ نحمده و نصلی علی رسوله الکریم رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفَاتِحِينَ اے قدیر و خالق ارض وسما اے رحیم و مهربان و رہنما اے کہ میداری تو بر دلہا نظر اے کہ از تو نیست چیزے مسنتر گر تو می بینی مرا پر فسق و شر گر تو دید استی کہ ہستم بد گہر پاره پاره کن من بدکار را شاد کن، ایس زمرہ اغیار را بر دل شاں ابر رحمت ہا ببار ہر مراد شاں بفضل خود برآر آتش افشان بر در و دیوار من دمنم باش و تبه کن کارمن مرا از بندگانت یافتی قبله من آستانت یافتی در دل من آن محبت دیده کز جہاں آں راز را پوشیده با من از روئے محبت کارکن اند کے افشاء آں اسرار کن (روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 434) در ترجمه اے قادر اور زمیں و آسمان کے پیدا کرنے والے.اے رحیم و مہربان اور رہنما.اے وہ کہ جو دلوں پر نظر رکھتا ہے.اے وہ ہستی

Page 38

کہ تجھ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں!.اگر تو مجھے نافرمانی اور شرارت سے بھرا ہوا دیکھتا ہے.اگر تو نے مجھے دیکھ لیا ہے کہ میں بداصل ہوں.تو مجھے بدکار کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈال.اور میرے مخالفوں کے گروہ کو خوش کر دے.ان کے دلوں پر اپنی رحمت کا بادل برسا.اور اپنے فضل سے ان کی ہر مراد پوری کر دے.اور میرے در و دیوار پر آگ برسا.میرا دشمن ہو جا اور میرا کاروبار تباہ کر دے.لیکن اگر تو نے مجھے اپنا فرمانبردار پایا ہے.اور میرے دل میں وہ محبت دیکھی ہے جس کا بھید تو نے دنیا سے پوشیدہ رکھا ہے.تو مجھ سے محبت کی رو سے پیش آ.اور ان اسرار کو تھوڑ اسا ظاہر کر دے 88 38 اس دعا کے بعد آپ کے ہاتھ پر کئی نشان ظاہر ہوئے اور خدا تعالیٰ نے آپ کو دنیا میں قبولیت بخشی اور آپ کی تباہی کی بجائے آپ کو ہر رنگ میں ترقی دے کر اپنی نصرت اور محبت کا ثبوت دے دیا.اسمیں سوچنے والوں کیلئے ایک بڑا نشان ہے.“ ( منقول از احمدیہ پاکٹ بک حصّہ اوّل صفحہ 210 تا 212 مرتبہ قاضی محمد نذیر صاحب فاضل مطبوعه نظارت عظیم الشان پیش گوئی اسلام کا شاندار مستقبل آخری اور کامل غلبہ کے دن حضرت اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں: اشاعت ربوہ جون 2012ء) ” خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا.اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا.اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی

Page 39

39 کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رُو سے سب کا منہ بند کر دیں گے.اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا.بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلا آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا.اور خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.سواے سُسکنے والو! ان باتوں کو یا درکھو.اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا.“ پھر فرماتے ہیں: (روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 409) اے تمام لو گوئن رکھو کہ یہ اُس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنا یا وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور برہان کے رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہو گا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامراد ر کھے گا.اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی......ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسی کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بو یا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اُس کو روک سکے.“ تحدی بر دعوی حقه (روحانی خزائن جلد 20 صفحه 67-66) ”اگر میرے مقابل پر تمام دنیا کی قو میں جمع ہو جائیں اور اس بات کا بالمقابل امتحان ہو کہ کس کو خدا غیب کی خبریں دیتا ہے اور کس کی دعائیں قبول کرتا ہے اور کس کی مدد کرتا ہے اور کس کے لئے بڑے بڑے نشان دکھاتا ہے تو میں کھا کر کہتا ہوں کہ میں ہی غالب رہوں گا.کیا

Page 40

40 کوئی ہے؟!! کہ اس امتحان میں میرے مقابل پر آوے.ہزار ہانشان خدا نے محض اس لئے مجھے دئے ہیں کہ تاد ثمن معلوم کرے کہ دین اسلام سچا ہے.میں اپنی کوئی عزت نہیں چاہتا بلکہ اُس کی عزت چاہتا ہوں جس کے لئے میں بھیجا گیا ہوں.“ کھلا چیلنج (روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 181) ” مجھے اس کے منہ کی قسم ہے کہ میں اب بھی اس کو دیکھ رہا ہوں.دنیا مجھ کو نہیں پہنچانتی لیکن وہ مجھے جانتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے.یہ ان لوگوں کی غلطی ہے اور سراسر بد قسمتی ہے کہ میری تباہی چاہتے ہیں.میں وہ درخت ہوں جس کو مالک حقیقی نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے جو شخص مجھے کائنا چاہتا ہے اس کا نتیجہ بجز اس کے کچھ نہیں کہ وہ قارون اور یہودا اسکر یوطی اور ابو جہل کے نصیب سے کچھ حصہ لینا چاہتا ہے.میں ہر روز اس بات کے لئے چشم پر آب ہوں کہ کوئی میدان میں نکلے اور منہاج نبوت پر مجھ سے فیصلہ کرنا چاہے.پھر دیکھے کہ خدا کس کے ساتھ ہے.مگر میدان میں نکلنا کسی محنت کا کام نہیں ہاں غلام دستگیر ہمارے ملک پنجاب میں کفر کے لشکر کا ایک سپاہی تھا جو کام آیا.اب ان لوگوں میں سے اس کے مثل بھی کوئی نکلنا محال اور غیر ممکن ہے.اے لوگو! تم یقینا سمجھ لو کہ میرے ساتھ وہ ہاتھ ہے جو اخیر وقت تک مجھ سے وفا کرے گا.اگر تمہارے مرد اور تمہاری عورتیں اور تمہارے جوان اور تمہارے بوڑھے اور تمہارے چھوٹے اور تمہارے بڑے سب مل کر میرے ہلاک کرنے کے لئے دعائیں کریں یہاں تک کہ سجدے کرتے کرتے ناک گل جائیں اور ہاتھ شل ہو جائیں تب بھی خدا ہر گز تمہاری دُعا نہیں سنے گا اور نہیں رکے گا جب تک وہ اپنے کام کو پورا نہ کر لے.اور اگر انسانوں میں سے ایک بھی میرے ساتھ نہ ہو تو خدا کے فرشتے میرے ساتھ ہوں گے اور اگر تم گواہی کو چھپاؤ تو قریب ہے کہ پتھر میرے لئے گواہی دیں.پس اپنی جانوں پر ظلم مت کرو کا ذبوں کے اور منہ ہوتے ہیں اور صادقوں کے اور.خدا کسی امر کو بغیر فیصلہ کے نہیں چھوڑتا.“ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 400-399)

Page 40