Language: UR
خوبصورت یادیں (خاتون صالحه) آمنه صدیقه هاشمی
بار تعداد شائع کرده.اول ایک ہزار ظاہر کمپوزنگ سنٹر
خاتون صالحه 12 محترمه زینب بیگم صاحبہ بیگم ڈاکٹر غلام علی ہاشمی قریشی مرحوم لجنہ لاہور کی طرف سے صد سالہ جوہلی کے موقعہ پر لجنہ میں صف اول کی خدمت کرنے والی خواتین میں سے لجنہ لاہور کی ایک سرگرم عمل اور ہمہ تن پر جوش کام کرنے والی خاتون کا ذکر خیر"
خاتون صالح 3 لجنہ اماء اللہ لاہور پیش لفظ صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر لجنہ لاہور کی ایک کارکن کی حیثیت سے اپنی والدہ کے حالات زندگی لکھنے کی سعادت حاصل کر رہی ہوں تا والدہ صاحبہ کا نمونہ قارین کے لئے پہل تقلید ہو سکے.میری والدہ محترمه زینب بیگم صاحبہ لجنہ کے دیگر عہدوں کے علاوہ.ایک طویل مدت تک (۳۰) سال تقریباً) حلقہ جات میں صدر لجنہ کے عہدے کے فرائض ادا کرتے رہنے کی توفیق پانے والی ایک پر جوش خادمہ تھیں.ان کی وفات پر حضور خلیفہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالی نے اپنے تعزیتی خط میں لکھا "آپ کی مخلص والدہ زینب بیگم کی وفات کا بہت صدمہ ہے.ان کی خوبیوں سے واقف ہوں.سلسلہ سے محبت کرنے والی اور فدائی خاتون تھیں.مجھے بچپن کا واقعہ یاد ہے کہ قادیان میں لجنہ میں صف اول کی خدمت کرنے والی تھیں لجنہ کی کوئی ایسی تحریک نہ تھی.جس میں یہ نہ ہوتیں.اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے.درجات بلند کرے.ربوہ اور لاہور کے علاوہ ان کی نماز جنازہ.لندن میں حضور خلیفہ المسیح الرابع ایدہ اللہ نے پڑھائی.سلسلہ کی مخلص، فدائی اور لجنہ کی اک سرگرم رکن تھیں.آمنه صدیقہ ہاشمی
خاتون صالحه لجنہ اماء اللہ لاہور والدہ محترمہ زینب بیگم صاحبہ فروری ۱۹۰۰ء میں پیدا تعارف ہوئیں اور ۳۰ جنوری ۱۹۸۶ء کو وفات پاگئیں.آپ ۱/۳ حصہ جائداد کی موصیہ تھیں آپ حضرت میاں عبدالرزاق صاحب سیالکوٹی صحابی حضرت مسیح الموعود کی دختر تھیں.اور کمانڈر ڈاکٹر آغا عبد اللطیف صاحب کی منجھلی ہمشیرہ تھیں.نیز قریشی محمود احمد صاحب ہاشمی ایڈووکیٹ لاہور کے چچا مرحوم ڈاکٹر غلام علی کی اہلیہ اور ان کی خوشدامن بھی تھیں.اس مختصر تعارف کے بعد والدہ صاحبہ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گی.والدہ صاحبہ کی ساری مختصر خاکہ اور کردار زندگی کا علم زندگی خدمت دین کے لئے وقف نظر آتی تھی اور انسانی مقصد حيات وما خلقت الجن ولانس الا لیعبدون کی چلتی پھرتی تصویر تھیں.دینی کاموں کو اولیت دیتی تھیں پہلے قرآن مجید کی تعلیم بعد میں اسکول کی تعلیم کی حامی تھیں.اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے خدائی احکام مد نظر ر ہے.اور اپنی اولاد کو بھی هر آن تلقین کرتی رہتیں.جذبہ خدمت دین جنون کی حد تک تھا.اوائل عمر سے ہی اس جذبہ سے سرشار تھیں اور خاندان حضرت مسیح موعود سے حد درجہ عقیدت و مودت رکھتی تھیں سیالکوٹ میں احمد یہ گرلز ہائی سکول کے قیام میں والدہ صاحبہ کا معیاری کردار اس سکول کی ابتدا سیالکوٹ کی کبوتراں والے دار الذکر سے ملحقہ حصہ میں ہوئی تھی یہ سکول غالبا حضرت میر حامد شاہ صاحب کی سرپرستی
خاتون صالحه 5 لجنہ اماء الله لاهور میں قائم ہوا اور ارتقاء پذیر رہا.اس میں ابتدائی کام کرنے والی دیگر ستورات کے علاوہ محترمہ سیدہ فضیلت بیگم صاحبہ کا نام بھی قابل ذکر والدہ صاحبہ ان کے ہمراہ تمام امور میں تعاون کرتی رہیں اور ہے خصوصاً اسکول کے لئے چندوں کی وصولی کی ذمہ داری جب ان کے سپرد کی گئی تو آپ نے دن رات کی مسلسل کوشش کے بعد چند دنوں میں ہی کثیر رقم جمع کر کے پیش کر دی جو اس وقت کے لحاظ سے خوشکن اور حیران کن تھی چونکہ والدہ صاحبہ کو خدمت دین کے لئے دوسروں کو ابھارنے کا خاص ملکہ خدا نے عطا کیا ہوا تھا اس لئے جو ذمہ داری ان کو سونپی جاتی تھی اس کا نتیجہ معیاری ہی نظر آتا تھا اور یہ خدا کا خاص احسان تھا جس کی وہ ہمیشہ شکر گزار رہیں.شادی کے بعد والدہ صاحبہ کی خدمات بحیثیت صدر لجنہ اپنے شوہر ڈاکٹر غلام علی مرحوم کے ساتھ جہاں جہاں بھی گئیں.ہمیشہ بنہ کے ساتھ منسلک رہیں اور جہاں لجنہ نہ ہوتی وہاں قائم کر لیتیں.والد صاحب کی وفات کے بعد قادیان میں مستقل سکونت اختیار کرلی اور اپنی باقی زندگی کا نصب العین اپنی اولاد کو دینی تعلیم سے بہرہ ور کرنا اور خدمت دین میں لگے رہنا بنالیا آپ کو مختلف عہدوں پر کام کرنے کا موقع ملنے کے علاوہ حلقہ جات کی صدر کے طور پر کام کرنے کا تقریباً ۳۰ سال تک موقع ملا.دس سال قادیان میں محلہ دار الفضل کی لجنہ کی صدر کے فرائض ادا کرتی رہیں ان کے ہمراہ سیکرٹری لجنہ کے فرائض محترمہ امتہ الحفیظ صاحب آف جھنگ بیگم ڈاکٹر عبد السلام صاحبہ
خاتون صالحه لجنہ اماء اللہ لاہور تندہی سے ادا کرتی رہی تھیں اور پارٹیشن کے بعد تقریباً ۱۹/ ۲۰ سال تک حلقہ میکلوڈ روڈ لاہور جو معامل بلڈنگ.سیمنٹ بلڈنگ اور رتن باغ سول لائن پر مشتمل تھا کی صدر کے فرائض ادا کرتی رہیں.اور ان کے ہمراہ سیکرٹری کے فرائض محترمہ صالحہ درد صاحبه باوجود اپنی سروس کی مصروفیتوں کے احسن طور پر ادا کرنے کی توفیق پاتی رہیں اس کے علاوہ نصرت جہاں سکول دار الذکر لاہور میں جو پارٹیشن کے بعد قائم ہوا اس میں بھی والدہ صاحبہ کو اعزازی طور پر قرآن مجید اور دینی تعلیم دینے کا موقع ملا.جس کا ذکر اسکول کی سالانہ رپورٹ میں باقی اساتذہ کی لسٹ کے ساتھ درج ہے.نیز اس سکول کے لئے خاص معاونین کی چندہ دینے کی لسٹ میں حلقہ میکلوڈ روڈ لاہور کا ذکر بھی موجود ہے جس کی صدر والدہ صاحبہ تھیں والدہ صاحبہ کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی تھی کہ ہر قسم کے چندوں کی تحریک میں ہر ممبر حلقہ شامل ہو کر ثواب حاصل کر سکے.اور خصوصی چندہ جات کے لئے کمیٹی ڈالنے کی سکیم چلا کر حلقہ کی اکثر ممبرات کو دعائے خاص کی لسٹ اور نام کندگان میں شامل کرواتیں اس سے والدہ صاحبہ کی دو نسروں کو بھی خدمت دین میں شامل کرنے کی دلی تڑپ کا.اندازہ ہوتا ہے.والدہ صاحبہ نہایت اولوالعزم اور بہادر عورتوں میں اولوالعزمی سے تھیں وہ صحابیات رسول اکرم کی بہادری کے تھے بنا کر میرا بچہ اور قصے سنا کر ممبرات لجنہ اور اپنی اولاد میں بھی وہی روح پھونکنا چاہتی
خاتون مسالحہ 7 لاہور والده صاحبه نهایت بلند آواز اور خوش الحان تھیں نظم خوش الحانی اور قرآن کی تلاوت اجلاس میں نہایت خوش الحانی سے کیا کرتی تھیں.اپنی بلند آواز اور حسن انتظام کی وجہ سے جلسہ سالانہ قادیان میں اکثر منتظمہ جلسہ کے فرائض ادا کرنے کی توفیق پاتی رہتیں.والدہ صاحبہ ہمیشہ انکساری کا مجسمہ بنی خدمت دین منکسر المزاجی میں مصروف رہتیں جنہیں بعض اوقات اپنے جسم و جان کا بھی ہوش نہ رہتا جب تک مقرر کیا گیا دین کا کام مکمل نہ ہو تا وہ چین سے نہ بیٹھتیں اور دین کی خاطر ہر انداز سے قربانی پر آمادہ نظر آتیں.قادیان دارالامان کے قیام کے دوران حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی حفاظت کے لئے لجنہ کی طرف سے حلقہ وار باری مقرر کرنے پر دل و جان سے حاضر ہونا اور ان کی حفاظت کی خدمت میں شامل ہو کر خود کو پیش کر دینا دینی فریضہ تصور کرتی تھیں.والدہ صاحبہ کی منکسر المزاجی ان کے اس انداز سے بھی عیاں تھی کہ وہ ہمیشہ نیچی نگاہ کئے ہوئے مودبانہ انداز میں گفتگو کرتی تھیں اپنی اولاد کو بھی اس وصف کو اپنانے کی تلقین کیا کرتی تھیں اور انکساری کے متعلق ایک واقعہ بیان کیا کرتی تھیں.غالبا ۱۹۰۴ء میں جب جلسہ سیالکوٹ منعقد ہوا تو قابل تقلید واقعہ ان کے والد حضرت میاں عبد الرزاق صاحب سیالکوئی بھی اس جلسہ کے منتظمین اعلیٰ میں سے ایک تھے (جو حضرت مسیح
خاتون صالحہ 8 $ جنه لاہور موعود کی سیالکوٹ آمد پر منعقد ہوا تھا) اور رات گئے کام ختم کرنے کے بعد جب وہ مہمانوں والے کمرے میں داخل ہوئے جہاں لوگ سو رہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک بزرگ دروازے کے قریب ہی کمبل اوڑھے لیٹے تھے والد میاں عبد الرزاق کے کمرے میں داخل ہونے کی آہٹ سن کر انہوں نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ وہ بزرگ حضرت چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے والد محترم چوہدری نصر اللہ خاں صاحب تھے.انہوں نے دیکھتے ہی فرمایا (جنکے آپس میں قریبی دوستانہ تعلقات عبد الرزاق آگے جگہ نہیں ہے میرے کمبل میں میری بکل میں آجاؤ اور آرام کرلو" یہ تھا انکساری کا معراج جس کا ذکر کر کے والدہ صاحبہ ہمارے دلوں میں بھی یہ روح پیدا کرنا اور دیکھنا چاہتی تھیں اور فرماتی تھیں کہ یہ تھے وہ لوگ جو مسیح وقت کی خاطر خاکساری کو اپناتے ہوئے فدائی اور شیدائی بن کر خدا تعالیٰ کے انعاموں کے وارث ہوئے.والدہ صاحبہ کی دین کے لئے محبت قابل رشک دعاؤں کا طریق تھی حضرت رسول کریم ﷺ اور خاندان حضرت مسیح موعود سے حد درجہ عشق تھا نہایت درد کے ساتھ قدرے اونچی آواز میں دعائیں کیا کرتیں اور اونچی آواز میں دعائیں کرنے میں یہ مقصد بھی کار فرما رہا کہ بچے بھی دردمندانہ دعا کو سنیں اور ان کے دل میں بھی درد مندانہ دعاؤں کی تڑپ پیدا ہو.ہمیشہ مغرب کی نماز اپنے تمام بچوں کے ساتھ باجماعت ادا کرتیں اور رکوع کے بعد قیام کے
خاتون صالحہ 9 لجنہ اماء دوران خوش المانی سے قرآنی دعائیں پڑھا کرتی تھیں.جوانی کی عمر سے تہجد گزار تھیں رات کا بیشتر حصہ شب بیداری میں گزارتی تھیں اور جب خلیفہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالی پاکستان سے تشریف لے گئے تو ان کی کامیابی سے مراجعت کے لئے نہایت دردمندانہ انداز میں دعا میں مصروف رہیں.خوش قسمتی سے والدہ صاحبہ کو ایسی ذات کی رفیقہ رفیق حیات حیات بننے کا شرف حاصل ہوا جن کے تعلقات حضرت خلیفہ المسیح الثانی سے دوستانہ تھے.والد صاحب ڈاکٹر غلام علی صاحب ہاشمی مرحوم نے قادیان میں بورڈنگ ہاؤس میں رو کر میٹرک تک تعلیم حاصل کی تھی اور والد مرحوم حضرت خلیفہ المسیح الاول" کے ترجمتہ القرآن و تفسیر کے درسوں میں مکرم سید صاحبزادہ عبدالحی صاحب اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے ہمراہ شامل ہوا کرتے تھے.اس طرح والد صاحب کو حضرت خلیفہ المسیح الاول سے ترجمہ قرآن مجید اور تفسیر سمجھنے کی سعادت نصیب ہوئی اور بعد میں انہوں نے ہماری والدہ محترمہ زینب بیگم اور بچوں کو ترجمہ سکھانے کا سلسلہ جاری رکھا.حضرت خلیفہ المسیح الاول کے بشارتی کشف اور دعائے خاص کا تذکرہ والد صاحب ہم سے ان واقعات کا ذکر بھی کیا کرتے تھے جن کا حضرت خلیفہ المسیح الاول کے درسوں میں تذکرہ ہو تا تھا.وہ خد اتعالیٰ کے احسانوں کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفہ المسیح الاول کے ایک کشفی نظارہ کا بھی ذکر کیا کرتے تھے جس میں اس دن درس میں شامل افراد کے متعلق بہشتی ہونے کی خبر تھی.والد صاحب اس در یں اور دعائے خاص
10 میں خدا کے خاص فضل سے شامل تھے.اس کشف اور دعائے خاص کا ذکر ملک غلام فرید ایم اے نے بھی الفضل ۲۱ اگست ۱۹۴۸ء کے صفحہ ۲ پر اپنے مضمون میں کیا ہے.اور پارٹیشن کے بعد ملک غلام فرید صاحب ایم اے نے ہم سے بیان فرمایا کہ ”میں اور آپ کے ابا جان بورڈنگ ہاؤس میں ایک ہی کمرے میں رہائش رکھتے تھے.غرضیکہ والد صاحب کو خدا کے فضل سے حضرت خلیفہ المسیح الاول کی صحبت پاک اور شاگردی بھی نصیب ہوئی اور ساتھ ساتھ حضرت خلیفہ المسیح الثانی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سے دوستانہ تعلق پیدا ہونے کا موقع بھی ملا.اور پھر خادم کی حیثیت سے جذبہ خدمت گزاری اور عقیدت مندی بڑھتا چلا گیا.اس عقیدت و مودت کے نظارے کا کچھ حصہ قارئین کے لئے بغرض دعا تحریر کر رہی ہوں جو ہماری شادی کے موقع سے متعلق ہے تاکہ اس جانے والے کی یاد ابدی دعاؤں کا ذریعہ بن جائے.عاجزہ کی شادی کی تاریخ والد خاکسار کی شادی کا تذکرہ صاحب کی وفات (جو ۱۹۳۸ء میں کلکتہ میں ہوئی) کے جلد بعد ہی متعین کر دی گئی.ہم لوگ چونکہ والد.صاحب کی وفات کے بعد قادیان میں سکونت پذیر ہو گئے تھے اس لئے والدہ مرحومہ نے تاریخ مقرر ہونے پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت میں عریضہ لکھا کہ حضور کے علم میں ہے کہ آپ کے خادم ڈاکٹر غلام علی مرحوم وفات پاچکے ہیں ان کی بیٹی آمنہ بیگم کی بارات فلاں دن آنے والی ہے اور خاکسارہ کی تمنا ہے کہ حضور از راہ شفقت اپنے
خاتون صالحه II لجنہ اماء اللہ لاہور دست مبارک سے دولھا کو ہار پہنا کر بچی کو اپنی دعاؤں سے رخصت کر کے ممنون فرمائیں.چنانچہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی اپنی فراخدلانہ شفقت کا اظہار فرماتے ہوئے مقررہ دن بارات کی آمد سے کچھ پیشتر والدہ صاحبہ کے غریب خانہ واقعہ محلہ دار الفضل میں تشریف فرما ہوئے اور بارات کی آمد پر مکرم قریشی محمود احمد ہاشمی دولھا کو اپنے ہاتھ سے ہار پہناتے ہوئے ساتھ لیکر دالان میں تشریف لے آئے جہاں بارات کے بیٹھنے کا انتظام تھا.قریشی محمود احمد ہاشمی بیان کرتے ہیں کہ حضور نے مجھے ہار پہنانے کے بعد ایسی جگہ بٹھایا کہ جہاں ایک طرف آپ خود تشریف فرما تھے اور میری دوسری طرف حضرت چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب تشریف رکھتے تھے.اور حضور نے اپنے دست مبارک سے میرے لئے چائے بنائی اور کچھ وقت اس طرح دعوت خوردونوش کے بعد حضور نے ہماری رخصتی پر دلی دعاؤں سے نواز کر ہمیں سرفراز فرمایا اور اس طرح حضور کی حسن و احسان کی نہ مٹنے والی یادیں ہمارے لئے ایک قیمتی سرمایہ بن گئیں.حرمات محترمات والدہ صاحبہ کو ہمیشہ ہمشیرہ زینب یا بہن زینب کہہ کر پکارا کرتی تھیں یہ پیکر کوہ وقار ہستیاں کس قدر دو سرے کے وقار کو بھی خاطر رکھیں گویا حسن و احسان کی تصویریں تھیں اب نہ وہ وقت رہے نہ وہ ہستیاں صرف یادیں ہی یادیں ہیں جو صفحہ قرطاس پر بکھر رہی ہیں.
خاتون صالحه 12 لجنہ اماء اللہ لاہور ایک اور تاریخی واقعہ والدہ سے تعلق رکھتا ہے بعض دفعہ اللہ تعالٰی اپنے نیک پاک بندوں سے محبت رکھنے والوں کے لئے بھی اپنے لطف کا اظہار مختلف انداز میں کرتا ہے.جس واقعہ کا میں ذکر کرنے والی ہوں وہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا ایک کشف ہے جسے میں اختصار سے بیان کروں گی جو ے فروری ۱۹۴۵ء کے الفضل میں بھی چھپ چکا ہے.یہ کشف اگر چہ اپنے انبیاء اور خلفاء کی تائید کے لئے خدا کی قدرت کا ایک مظہر ہے مگر اس کا تعلق چونکہ ان کی بیٹی امتہ الحفیظ بیگم محمود احمد بھٹی آف کراچی.....کی شادی سے ہے اس لئے والدہ صاحبہ اس کشف کو اپنی خوش بختی تصور کیا کرتی تھیں.واقع یوں ہے کہ والدہ صاحبہ نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت میں خط تحریر کیا جس میں لکھا تھا کہ ان کی ہمشیرہ بیگم میجر ڈاکٹر شاہ نواز خاں صاحبہ نے اپنے بیٹے محمود احمد بھٹی کے لئے میری بیٹی امتہ الحفیظ کا رشتہ مانگا ہے حضور اس بارہ میں اپنی رائے سے مستفیض فرمائیں.اور دعا کے لئے بھی حضور سے درخواست کی تھی.یہ خط جس وقت حضور کی خدمت میں لے جایا گیا حضور اس وقت صبح کی نماز کے بعد تھوڑا سا آرام فرما کر جاگتے ہی تھے کہ نوکر نے بتایا کہ کوئی عورت آئی ہے.حضرت ام ناصر صاحبہ کمرے کے دروازے کی طرف دیکھنے گئیں اتنے میں حضور پر غنودگی طاری ہوئی.حضور کے الفاظ میں ہی مختصرا لکھ رہی ہوں.یہ ایک کشفی نظارہ تھا جو معا ہو بہو پورا
خاتون صالحه 13 لجنہ اماء لاہور فرمایا تفسیر شروع کرنے سے پہلے میں آج ایک عجیب واقعہ بیان کرنا چاہتا ہو کہ کس طرح اللہ تعالٰی بعض دفعہ اپنی قدرت کا نشان دکھا دیتا ہے میری عادت ہے کہ چونکہ مجھے رات کو دیر تک کام کرنا پڑتا ہے اس لئے صبح کی نماز کے بعد میں تھوڑی دیر کے لئے سو جاتا ہوں.آج صبح جب میں سو کر اٹھا تو ایک لڑکا جو ہمارے گھر میں خدمت کرتا ہے ام ناصر کے پاس آیا اور اپنے طریق کے مطابق جیسے جاہل اور ان پڑھ لوگوں کا قاعدہ ہوتا ہے کہنے لگا ایک بڑھی باہر کھڑی ہے چونکہ آجکل بعض ایسے واقعات ظاہر ہوئے ہیں جن کی بنا پر ہمیں گھر میں زیادہ احتیاط کرنی پڑتی ہے اس لئے ام ناصر نے اسے ڈانا کہ تمہیں کس نے کہا ہے کہ تم کسی عورت کو کمرے میں لے آؤ.اس کے بعد وہ باہر نکلیں دیکھنے کے لئے کہ کون عورت آئی ہے.جب باہر نکلیں تو یکدم مجھ پر غنودگی کی حالت طاری ہوئی اور میں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ میرے سرہانے ایک لڑکی کھڑی ہے جو ڈاکٹر غلام علی صاحب مرحوم کی ہے جن کا لڑکا عبد الکریم ہمارے زود نویسوں میں کام سیکھ رہا ہے.ممکن ہے اس لڑکی کو میں نے پہلے بھی دیکھا ہوا ہو.مگر میں علم کی بناء پر یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ ڈاکٹر غلام علی صاحب مرحوم کی لڑکی ہے میں اس کی بڑی بہن کو جانتا ہوں مگر اسے میں نے اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا.بہر حال کشفی حالت میں میں نے دیکھا کہ وہ لڑکی میرے سرہانے کی طرف کھڑی ہے اور جس طرف میرا مونہہ ہے اس کے بالمقابل محمود احمد جو ڈاکٹر شاہ نواز صاحب کا لڑکا ہے یعنی اس لڑکی کا خالہ زاد بھائی وہ
خاتون صالحه 14 لجنہ اماء اللہ لاہور کھڑا ہے اور کوئی شخص لڑکی کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے کہ اس لڑکی کا رشتہ محمود احمد کے لئے مانگ رہے ہیں.آپ کی اس بارہ میں کیا رائے ہے.میں ابھی اس بات کو جواب دینے نہیں پایا تھا کہ میری آنکھ کھل گئی.جب میری آنکھ کھلی تو اس وقت ام ناصر واپس آچکی تھیں انہوں نے ایک لفافہ میرے سرہانے رکھ دیا اور کہا کہ یہ زینب کا خط ہے میں نے کہا کون زینب وہ کہنے لگیں ڈاکٹر غلام علی صاحب کی بیوی میں نے کہا میں نے ابھی کشفی حالت میں دیکھا ہے.کہ ایک لڑکی میرے سرہانے کھڑی ہے.یہ سن کر وہ جلدی سے اٹھیں.اور کہا کہ ڈاکٹر غلام علی صاحب کی لڑکی ہی یہ خط لاتی ہے.میں ابھی اس کو بلاتی ہوں.چنانچہ وہ لڑکی کو اندر بلالا ئیں.اس کے آنے پر میں نے لفافہ کھولا.تو اس میں لکھا تھا کہ میری بہن جو ڈاکٹر شاہ نواز صاحب کے گھر میں اپنے لڑکے محمود احمد کے لئے میری لڑکی کا رشتہ مانگتی ہیں.آپ کی اس بارہ میں کیا رائے ہے.گویا فلق الصبح کی طرح اسی وقت جیسے کشف میں نظارہ دکھایا گیا تھا ویسے ہی پورا ہو گیا میں نے ان سے یہ کہا ہی تھا کہ ابھی میں نے ڈاکٹر غلام علی صاحب کی ایک لڑکی کو اپنے سرہانے کھڑے دیکھا ہے کہ ام ناصر دو ڈپڑیں اور کہنے لگیں ان کی لڑکی ہی یہ خط لائی ہے میں اس کو بلا لاتی ہوں.مگر اس سے پہلے جب تک میں نے یہ خواب نہ سنایا تھا.یہ نہیں کہا.کہ ڈاکٹر غلام علی صاحب کی لڑکی یہ خط لائی ہے.بلکہ پہلے انہوں نے اس لڑکی کی والدہ کا نام لیا اور کہا کہ یہ زینب کا رقعہ ہے میں نے کہا کون زینب تب انہوں نے ڈاکٹر غلام علی صاحب مرحوم کا نام لیا.اور اس لڑکی کے آنے پر خط کھولا گیا.اور بعینہ خواب والا مضمون نکلا.
خاتون صالحہ 15 لجنہ اماء الله لاجور اور خواب دو منٹ میں پوری ہو گئی.بعض لوگ نادانی سے خدا تعالیٰ کی قدرت کو نہ جانتے ہوئے حضرت مسیح موعود سے کہا کرتے تھے کہ ہم ایک خط لکھ کر صندوق میں رکھ دیتے ہیں.آپ اس کا مضمون بتادیں ان کا چیلنج بوجہ خدا تعالیٰ کا امتحان لینے کے ناقابل قبول ہو تا تھا.مگر دیکھو کہ خدا تعالیٰ کس طرح خط صندوق میں نہیں بلکہ ابھی فاصلہ پر ہی ہوتا ہے تو اس کا سارا مضمون بتا دیتا ہے.جیسا کہ میں لکھ چکی ہوں کہ یہ کشف خدا تعالیٰ کی قدرت کا اظہار انبیاء اور خلفاء کی تائید کا مظہر ہے مگر چونکہ والدہ صاحبہ کے لکھے ہوئے خط کے متعلق تھا اس لئے حضور نے والدہ صاحبہ کو بلوا بھیجا.دوسرے دن والدہ صاحبہ اپنی بیٹی امتہ الحفیظ کو جس کے رشتہ کے متعلق دریافت کیا تھا ہمراہ لے گئیں تو حضور نے دیکھتے ہی فرمایا تمہاری یہی بیٹی ہے جسے میں نے کشف میں اپنے سرہانے کھڑے دیکھا ہے حالانکہ اس سے پہلے اسے کبھی نہیں دیکھا تھا اور حضور نے کشف بیان کیا اور والدہ صاحبہ کو مبارکباد دی اور رشتہ کے بابرکت ہونے کے لئے دعا فرمائی.حضور کی خدمت میں جس لڑکی کے ذریعہ خط بھیجا گیا تھا وہ والدہ صاحبہ کی سب سے چھوٹی بیٹی عزیزہ امتہ الکریم تھی جو کہ حضور کی صاجزادی امتہ النصیر صاحبہ کی ہم جماعت اور سیلی بھی تھیں اور اکثر حضور کے گھر اسے ملنے جایا کرتی تھیں چنانچہ والدہ صاحبہ نے اس کے ہاتھ یہ خط بھیجوایا تھا.اور حضور اس کو اور خاکسارہ کو جانتے تھے مگر ہماری منجھلی بہن عزیزہ امتہ الحفیظ کو اس کشفی واقعہ سے پہلے حضور نے نہیں دیکھا تھا.
خاتون صالحہ 16 لجنہ اماء اللہ لاہور ہماری اس ہمشیرہ امتہ الکریم پر بھی خدا کا خاص فضل و احسان رہا اور حضور کی خاص شفقت اور پر خلوص دعاؤں سے ہمیشہ تعلیمی میدان میں اعلیٰ پوزیشن حاصل کرتی رہیں دل سے لے کر ایم اے تک ہمیشہ بورڈ اور پنجاب یونیورسٹی سے وظائف حاصل کرتی رہیں اور ایم اے کے بعد بھی.P.H.D کرنے کے لئے سکالر شپ کی مستحق قرار پائیں.سکالر شپ پر P.H.D کرنے کے لئے جرمن بھجوائی گئیں جہاں سے خدا کے فضل سے Bonti یونیورسٹی سے.P.H.D کی ڈگری حاصل کرلی انہوں نے چار پانچ چھوٹی کتب مختلف موضوعات پر لکھیں اور اس کے علاوہ انہوں نے حیدر آباد سندھ کے سکولوں کے عربی نصاب کے لئے چند کتابیں بھی لکھیں.جو اسکولوں میں شامل نصاب ہو گئیں.اس طرح عزیزہ امتہ الکریم کے جرمن پروفیسر اس کی مذہبی اصولوں پر سختی سے پابند رہنے سے بھی بے حد متاثر تھے.چنانچہ اس کی تعلیم کے دوران جب ایک پروفیسر اپنے کسی دورے پر پاکستان آرہے تھے تو عزیزہ امتہ الکریم سے کہہ کر والدہ کے نام ایک تعارفی خط ساتھ لیکر آئے اور کہا کہ میں آپ کی والدہ سے ملنا چاہتا ہوں جس ماں نے تمہاری ایسی اچھی تربیت کی ہے.چنانچہ وہ پاکستان آئے اور خط لے کر ہمارے ہاں پہنچے اور والدہ صاحبہ سے ملے اور مبارکباد دی اور ان کے لئے نہایت اچھے انداز میں تعریفی کلمات استعمال کئے اور امتہ الکریم کے متعلق جہاں اس کی دنیاوی تعلیم میں محنت اور دلجمعی سے کام کرنے کی تعریف کی وہاں اس کی
خاتون صالحه 17 الماء اللہ لاہور پابندی نماز کا بھی ذکر کیا کہ وہ یو نیورسٹی میں باقاعدگی سے نماز کے اوقات ر ایک کا کام چھوڑ کر علیحدہ اپنا ریسرچ کا کام چھوڑ کر علیحدہ کمرے میں نماز ادا کرنے چلی جاتی خدا کا شکر اور احسان ہے کہ ہماری بہن کو بیرون ملک تعلیم کے دوران حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی ان ہدایات پر عمل کرنے کی بھی توفیق ملی جو کہ باہر جانے سے پہلے حضور نے فرمائی تھیں.جن میں مردوں سے ہاتھ نہ ملانا ” غیر مردوں کے ساتھ اکیلے نہ جانا " اور ہمیشہ گاؤن اور سکارف یونیورسٹی میں پہنے رکھنا اور ملک سے باہر اسلامی پردے پر قائم رہنا قابل ذکر ہیں اور ان پر عمل پیرا ہونے کے گواہ وہاں کے مشنری انچارج ہیں.مشن ہاؤس سے عزیزہ نے ہمیشہ رابطہ رکھا.ہیگ کی مسجد کے افتتاح پر جب پاکستانی طالبہ کی حیثیت سے عزیزہ کو شامل ہونے کا موقعہ ملا تو عزیزہ نے مشن ہاؤس ہی میں قیام کیا اور حضرت چوہدری سر ظفر اللہ خاں صاحب سے جب تعارف ہوا تو آپ از رام شفقت والد صاحب مرحوم ڈاکٹر غلام علی کے دوستانہ تعلق کے ناطے سے، عزیزہ امتہ الکریم کو ہیک کی عدالت عالیہ دیکھنے کے لئے ہمراہ لے کر گئے اور سیر کروائی یہ سب شفقتیں جو اب ہماری حسین یادیں ہیں یہ سب ہماری والد اور والدہ صاحبہ کی دینی ہستیوں سے قرابت کا تعلق رکھنے اور ہر حال میں دین کو دنیا پر مقدم رکھنے اور دینی تعلیمات دینے کا ثمر ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے آمین والدہ صاحبہ صابر شاکر خاتون تھیں دوسروں کے کام کرنے اور کروانے میں نہایت مدد گار ثابت ہوتی تھیں.وہ دلائل سے قائل
خاتون سالحہ 18 لجنہ اماء اللہ لاہور کرنے کا ملکہ رکھتی تھیں اور حسن اخلاق اور اپنی خوش طبعی.دوسروں کو گرویدہ بنالیتی تھیں خدا نے انہیں دینی یا دنیا کے کاموں میں لینے کے لئے ابھارنے کا ملکہ بھی خوب عطا کیا تھا قرون اولیٰ کی صحابیات کے کارنامے اور اولوالعزمی کے واقعات اس انداز سے سنایا کرتی تھیں کہ سننے والے اثر قبول کئے بغیر نہ اٹھتے تھے.یہ رسول پاک ہے اور ان کے لائے ہوئے دین اسلام کی شیدائی، ان کے مسیح وقت اور خلفاء کی دل و جان سے فدائی.اور تابعدار اور دین سیکھنے اور سکھانے کا جنونی جذبہ رکھنے والی خاتون جس کی زندگی کا ماحصل ہی یہی تھا اپنی اولاد کے لئے ایک تقلیدی نمونہ چھوڑتے ہوئے ۸۵/۸۶ برس کی عمر میں اچانک ہم سب کو الوداع کہہ گئیں.انا للہ وانا اليه راجعون حضرت خلیفہ المسیح الرابع کے والدہ صاحبہ کے بارے میں ذاتی تاثرات حضرت خلیفہ المسیح الرابع نے والدہ صاحبہ کے نام لکھے گئے خطوط میں اور پھر ان کی وفات پر تعزیتی خطوط میں ان کی دینی خدمات کے سلسلے میں جن خیالات کا اظہار فرمایا ہے وہ ہمارے لئے باعث عزت و فخر ہے اور خلفاء وقت کی نظر میں والدہ صاحبہ نے جو مقام پایا وہ ہمارے لئے دلی مسرت کا باعث اور لجنہ اماء اللہ کے لئے ایک مثالی نمونہ ہے.حضور رابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہماری بہن عزیزہ امتہ الحفیظ کو جو تعزیتی خط لکھا وہ پیش خدمت ہے.حضور فرماتے ہیں " آپ کی مخلص والدہ محترمہ زینب بیگم صاحبہ کی وفات کا بہت غم ہے انا لله وانا اليه راجعون اللہ تعالی انہیں اعلیٰ علیین میں مقام عطا کرے اور آپ سب کو
خاتون صالحہ 19 ان کی نیکیوں کو قائم رکھنے اور ان کی دعاؤں کو جذب کرنے کی توفیق دے اور اپنے فضلوں سے نوازے اور آپ سب کو صبر جمیل کی توفیق دے نیز میں تو ان کی نماز جنازہ غائب پڑھا چکا ہوں میں انکی خوبیوں سے واقف ہوں.سلسلہ سے محبت کرنے والی اور فدائی خاتون تھیں مجھے بچپن کا یاد ہے کہ قادیان میں لجنہ میں صف اول کی خدمت کرنے والی تھیں لجنہ کی کوئی ایسی تقریب نہ تھی جس میں یہ نہ ہو تیں اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند فرمائے.حضرت مسیح موعود کے خاندان سے عشق کی حد تک محبت و احترام خاندان حضرت مسیح موعود ----- سے والدہ صاحبہ کو بے انتہاء تھی ان کی زندگی ان ہستیوں کے گرد گھومتی تھی.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب قمر الانبیاء اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب ان سب سے مشوروں اور درخواست دعا بذریعہ خط و کتابت کا لامتناہی سلسلہ زندگی بھر جاری رہا.نیز خواتین مبارکہ حضرت ام المومنین حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہ اور حرمات خلیفتہ المسیح الثانی یعنی حضرت ام ناصر بیگم صاحبہ حضرت سیدہ ام طاہر بیگم صاحبہ بیگم حضرت مرزا شریف احمد صاحب حضرت زینب بیگم صاحبہ کی خدمت میں والدہ صاحبہ کسی نہ کسی بہانے کبھی لجنہ کے کاموں کے سلسلہ میں اور کبھی ذاتی دعا کے لئے عرض کرنے کے سلسلہ میں حاضر ہوتی رہتیں اور والدہ صاحبہ کی اس محبت کو ان ہستیوں نے بھی محسوس کیا اور انہوں نے بھی والدہ صاحبہ کو اپنے دل کے گوشوں میں جگہ دی جو ان ہستیوں کے حسن و احسان اور شفقت کا ایک نمایاں پہلو ہے.اس
خاتون صالحه 20 اسماء الله لاہور متعلق چند نظارے بھی قابل ذکر ہیں جن کو بیان کرنے سے نہ صرف ہم خود محظوظ ہونگے بلکہ ہماری نسلیں بھی تقلید کر کے اپنی زندگیوں کو نورانیت اور شیدائیت کے جذبہ سے سرشار رکھنے کی کوشش کریں گی.انشاء الله - والدہ صاحبہ کی حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ سے بے انتہاء محبت اور انکی طرف سے والدہ صاحبہ پر ذرہ نوازی کے متعلق حسین یادیں جن سے والدہ صاحبہ کی اولاد بھی حصہ پاتی رہی ان میں سے چند ایک کا ذکر کر رہی ہوں.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ جب بھی ربوہ سے لاہور تشریف لائیں اگر والدہ صاحبہ کو جلد علم نہ ہو تا تو آپ خود کسی کے ذریعہ والدہ صاحبہ کو پیغام بھجواتیں.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اپنی بیٹی محترمہ آصفہ بیگم صاحبہ بیگم بریگیڈیر ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب (جو کہ اس وقت C.M.Hلاہور کینٹ میں پوسٹڈ تھے.) کے پاس ٹھری ہوئی تھیں جب ہمیں آپ کی آمد کی اطلاع ہوئی تو والدہ صاحبہ اور خاکسارہ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے.آپ کی خدمت میں جب اطلاع ہوئی تو آپ نے اپنے بیڈ روم میں ہی بلوالیا.ہم دونوں پاس ہی پلنگ پر بیٹھ گئیں اور باتیں ہوتی رہیں کافی دیر ہم بیٹھے رہے تو حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ والدہ صاحبہ کو مخاطب کر کے فرمانے لگیں کہ " آپ تھک جائیں گی آپ ساتھ والے بیڈ روم میں جاکر لیٹ کر کچھ آرام کرلیں آمنہ بیٹھی مجھ سے باتیں کرتی ہے" چنانچہ والدہ صاحبہ ساتھ والے بیڈ روم میں آرام کرنے چلی گئیں.اور عاجزہ حضرت آپا
خاتون صالحہ 21 لجنہ اماء اللہ لاہور جان صاحبہ سے باتیں کرتی رہی.اسی دوران محترمه آصفه بیگم صاحبه بھی کمرے میں آتے جاتے گفتگو میں شریک ہوتی رہیں.اس دوران خاکسار کو یہ موقع بھی نصیب ہوا کہ برکت حاصل کرنے کے لئے آپا جان کی پنڈلیوں کو سہلاتی رہوں.لیکن جلد ہی حضرت ابا جان نے نہایت ہی پیار کے انداز میں یہ فرماتے ہوئے اپنی ٹانگ ایک طرف سرکالی.آمنہ آپ چھوڑ دیں کہیں محمود کہیں گے کہ میری بیگم سے پاؤں " ربوائے تھے".میں آپ کے اس انداز شفقت اور اس پیکر کوہ وقار کی ذہنی فکر پر ششدر رہ گئی.اللہ اللہ یہ کیاہی روح پرور.حسن و احسان کی تصویریں تھیں جن کا تاثر ہمارے دل و دماغ میں نقش ہو کر سرمدی سردر عطا کرنے کا موجب بنا نیز جب والدہ صاحبہ اور خاکسار اٹھ کر آنے لگیں تو نے فرمایا کہ ”جب میں لاہور آؤں تو آپ دونوں جلدی جلدی ملنے آیا کریں " والدہ صاحبہ کی محبت بھی عشق کی حد تک تھی.اس لئے وہ بھی ایسے موقعہ کی تلاش میں رہتی تھیں کہ ایسی صورت پیدا ہو کہ انہیں حضرت آپا جان صاحبہ کی خدمت میں اپنے غریبخانہ میں بابرکت قدم رنجہ فرمانے کی درخواست کا موقعہ ملے اور یہ سعادت بھی والدہ صاحبہ کو حاصل ہوتی رہی جو محض خدا تعالٰی کے فضل اور ان برگزیده ہستیوں کی شفقت اور حسن و احسان کی مرہون منت ہے ورنہ ہم کہ ہماری ہستی کیا.حضرت محترم آپا جان صاحبہ والدہ صاحبہ کی درخواست پر کئی بار ہمارے غریب خانہ پر تشریف لا کر سرفراز فرماتی رہیں.ایک بار ایسا ہوا
خاتون صالح 22 لجنہ اماء الله لا ہور کہ حضرت آپا جان صاحبہ نے اپنی بیٹی آصفہ بیگم اور داماد ڈاکٹر بریگیڈیر مبشر احمد صاحب کے ہمراہ ہمارے غریب خانه ۵۹ بنارس روڈ پر دعوت طعام پر تشریف لا کر ہمیں اپنی برکتوں اور دعاؤں سے سرفراز فرمایا ! اور اسی طرح آپ قیام پام دیو لاہور کے دوران بھی والدہ صاحبہ کی درخواست پر پورا دن ہمارے غریب خانہ واقعہ کینٹ میں تشریف فرما رہیں.اور ہمیں حضرت مسیح موعود کے زمانہ کے واقعات بیان کر کے نصائح فرماتی رہیں اور اپنی محبت بھری دعاؤں سے بھی نواز کر ہمیں سرفراز فرمایا الحمد لله - والدہ صاحبہ کی اس عقیدت کی بدولت ان کی اولاد بھی ان ہستیوں کے وجود سے برکت حاصل کرنے کی توفیق پاتی رہی ہے.جیسے کہ ایک بار حضرت آپا جان صاحبہ اپنی چھوٹی بیٹی آصفہ بیگم، بیگم کرنل ڈاکٹر مبشر احمد صاحب کے ہاں چند دن کے لئے ربوہ سے لاہور تشریف لا ئیں.مگر میرے علم میں آخری شام کو آیا کہ حضرت آپا جان علی الصبح اگلے دن واپس تشریف لے جارہی ہیں.چنانچہ اگلے دن صبح ہی قائد صاحب خاکسار کو C.M.A کالونی میں کرنل صاحب کے ہاں چھوڑ گئے.جب میں وہاں پہنچی تو حضرت آپا جان ناشتہ نوش فرماری تھیں.مجھے اپنے پاس ہی بٹھا لیا اور میں نے عرض کی کہ مجھے کل رات کو ہی پتہ چلا تھا کہ آپ تشریف لائی ہیں اور صبح واپس جارہی ہیں.اس لئے میں صبح ہی ملنے حاضر ہو گئی ہوں.آپ فرمانے لگیں کہ میں پہلے ہی سوچ رہی تھی کہ آمنہ کو میرے آنے کا علم نہیں ہوا ہو گا.پھر فرمانے لگیں کہ کیا وکیل صاحب کو ناشتہ بھی کروایا ہے یا ایسے ہی آگئی ہو " تو
خاتون صالحہ 23 میں نے عرض کی کہ ان کو تو ناشتہ کروا دیا تھا تو فرمانے لگیں کیا تم نے ناشتہ کیا ہے میں نے عرض کی کہ مجھے یہاں ملاقات کے لئے جلدی تھی جاکر کرلوں گی.آپ نے فرمایا کہ نہیں میرے ساتھ ناشتہ کرلو.اور اسی وقت کسی بچی کو آواز دے کر چائے کے لئے دوسری پیالی منگوائی اور خود اپنے ہاتھ سے چائے کی پیالی بنا کر عاجزہ کو دی اور ساتھ ہی اپنے ہاتھ سے دو ٹوشوں پر مکھن لگا کر دیا اور ساتھ ساتھ آپ محبت بھری باتوں سے نوازتی بھی رہیں اور کچھ پیغامات و کیل صاحب محترم قریشی محمود احمد صاحب کے لئے بھی دیئے.اور پھر خاکسارہ کو دعاؤں کے ساتھ اجازت دی.یہ وہ یادیں تھیں جو ذہن میں نقش ہو کر رہ گئیں ہیں.اسی طرح ہماری چھوٹی ہمشیرہ امتہ الحفیظ اہلیہ محمود احمد بھٹی نے بھی بیان کیا کہ ایک دفعہ جب حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کراچی تشریف لائیں تو محترم مسعود خورشید صاحب کے گھر پر لجنہ کا کوئی جلسہ تھا.حضرت آپا جان صاحبہ بھی وہاں تشریف فرما تھیں جب مستورات کی ملاقات کے درمیان میری ملاقات کی باری آئی اور میں نے اپنی امی جان زینب اہلیہ ڈاکٹر غلام علی کے حوالے سے اپنا تعارف کروایا اور ہاتھ ملایا تو آپ نے از راہ شفقت میرا ہاتھ پکڑے رکھا اور فرمانے لگیں کہ تمہاری بہن آمنہ صدیقہ سے تو اکثر لاہور میں ملاقات ہوتی رہتی ہے مگر تمہیں بہت عرصہ بعد دیکھا ہے پھر فرمانے لگیں کہ تمہارا گھر کہاں ہے".آپ کے اس طرح گھر کے متعلق استفسار کرنے پر میرا حوصلہ پڑھا اور میں نے خواہش کا اظہار کیا کہ خاکسارہ آپ کی خدمت میں اپنے غریب خانہ میں تشریف لاکر برکت حاصل کرنے کی درخواست
خاتون صالح 24 لجنہ اماء اللہ لاہور کرتی ہے.آپ نے فرمایا کہ میں انشاء اللہ ضرور آؤں گی.پھر میں نے عرض کی کہ میں غیر از جماعت اپنی دوست مستورات کو بھی آپ سے ملوانا چاہتی ہوں.آپ نے فرمایا کہ یہ تو اور بھی اچھی بات ہے چنانچہ ہیں بچیں مستورات جن میں سات آٹھ غیر از جماعت تھیں ان کو یہ تا کر پارٹی پر مدعو کیا گیا کہ حضرت آپا جان صاحبه دختر پاک حضرت مسیح موعود میرے ہاں تشریف لا رہی ہیں.چنانچہ جب وقت پر حضرت آپا جان تشریف لائیں تو غیر از جماعت خواتین نے نہایت عزت و احترام سے مصافحہ کیا اور چونکہ ان میں سے بعض عورتیں لکھنو اور دہلی سے تعلق رکھتی تھیں اس لئے حضرت آپا جان کے ننھیال کے خاندان کا بھی ذکر آیا.غرضیکہ یہ ملاقات خدا کے فضل سے نہایت موثر ثابت ہوئی اور حضرت آپا جان نے بھی نہایت خوشی کا اظہار فرمایا.میں نے واپسی سے پہلے آپ کی تشریف آوری کا شکریہ ادا کیا تو فرمانے لگیں میں نے اسی لئے تمہارے گھر کے متعلق استفسار کیا تھا کیونکہ میں جانتی تھی کہ تم زینب کی بیٹی ہو اور تمہارا دل کیا چاہتا ہے "اللہ اللہ کس قدر دل کی گہرائیوں تک پہنچنے والی یہ ہستیاں تھیں ان کو اندازہ تھا کہ یہ اس ماں کی بچی ہے جسے ہر وقت یہ شوق دامنگیر رہتا تھا کہ میری اولاد با برکت ہستیوں کے سائے اور صحبت سے زیادہ سے زیادہ مستفیض ہو.پھر یہ بھی حضرت آپا جان محترمہ کی نظر کرم تھی کہ جب کبھی ربوہ میں ان کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع ملتا تو آپ فرماتیں کہ " مجھے تمہارے گھر جانا یاد ہے اور تمہارے خاوند محمود احمد بھٹی بھی مجھے اچھی طرح یاد ہیں انہوں نے کار نہایت احتیاط سے آہستہ آہستہ چلائی تھی اور مجھے کوئی
خاتون صالحہ 25 لجنہ اماء الله ناصور تکلیف نہیں ہوئی" یہ خدا کا احسان ہے کہ ہم گنہگاروں کو بھی ان بزرگ ہستیوں کے لطف و کرم سے فیض یاب ہونے کا موقع نصیب ہوا.الحمد لله اسی طرح حضرت نواب امته الحفیظ بیگم صاحبہ کے متعلق بھی میری ہمشیرہ امتہ الحفیظ نے بتایا کہ ایک دفعہ جب حضرت آپا جان کراچی تشریف لائیں تو خاکسار ان کو ملنے گئی اس وقت میرے بڑے بیٹے منصور احمد بھٹی کی شادی کو ابھی دو تین ماہ گذرے تھے تو دوران ملاقات میں نے خواہش ظاہر کی کہ خاکسارہ آپ کے بابرکت وجود سے اپنے گھر کو بھی برکت دینے کی متمنی ہے تو آپ نے فرمایا کہ میں ضرور آؤں گی میں نے تمہاری بہو کو شادی کے بعد نہیں دیکھا.چنانچہ میں نے عرض کی کہ آپ شادی کی خوشی میں کھانا ہمارے غریب خانہ پر تناول فرمائیں جس کو آپ نے از راہ شفقت قبول فرمایا.اس دعوت میں کراچی میں رہنے والی مستورات خاندان بھی شامل تھیں.حضرت آپا جان بخوشی تشریف لا ئیں میں نے اپنی بہو کو جو کہ میری آپا آمنہ بیگم قریشی محمود ہاشمی کی بیٹی تھیں عروسی جوڑا پہنایا ہوا تھا.حضرت آپا جان دلھن کے کمرے میں تشریف لے گئیں.بچی کو سلامی دی اور کمرے کو سجا ہوا دیکھ کر فرمانے لگیں کہ ایسے لگتا ہے کہ جیسے ابھی شادی ہوئی ہے پھر آپ نے بھی دعا کروائی اور دو تین گھنٹے گھر میں تشریف فرما ر ہیں.ایک دوسرے موقعہ پر بھی جب افریقہ سے ایک افریقن لڑکی دینی حاصل کرنے ربوہ جانے کے لئے آئی تو حضرت آپا جان جو اس وقت کراچی میں تمھیں خاکسارہ کی درخواست پر میرے گھر تشریف
خاتون صالحہ 26 لجنہ اماء الله ہور لائیں.اور اس پارٹی میں افریقن بچی اور غیر از جماعت مستورات کو مدعو کیا گیا.حضرت آپا جان سے ان سب کا تعارف کروایا گیا.حضرت آیا جان بے حد محظوظ ہو ئیں اور خوشی کا اظہار بھی فرمایا.پھر حضرت آپا جان کی نظر عنایت نے میرے لئے انتہائی خوشی کا ایک اور موقعہ بھی پیدا فرما دیا کہ ایک دن صبح دس بجے کے قریب اپنی ایک چھوٹی خادمہ بچی کو ساتھ لے کر اچانک میرے غریب خانہ پر تشریف لے آئیں میں آپ کو دیکھ کر مبہوت رہ گئی آپ آتے ہی شفقت سے فرمانے لگیں کہ حفیظ میرا دل چاہتا تھا کہ میں پیدل چلوں اور تھوڑی سیر کروں.سو میں نے سوچا کہ پیدل جا کر حفیظ سے بھی مل لیتی ہوں (حضرت آپا جان اپنی بیٹی زکیہ بیگم کے ہاں کراچی میں تشریف فرما تھیں اور سوسائٹی میں ہمارا گھر ان کے گھر کے قریب تھا) آپ کی اچانک تشریف آوری پر خوشی سے میرے جذبات کی عجیب کیفیت تھی.کیونکہ وہ بابرکت ہستی جس کو خدا نے اس کی پیدائش سے پہلے ہی دختگرام کے لقب سے نوازا تھا اس کے لطف و کرم کا زندہ ثبوت میرے سامنے تھا.وہ یقینا قابل تکریم ہستی اور قابل تکریم خاندان کی اور خاندان کی تکریم میں اضافہ کرنے والا وجود تھیں اس وقت والدہ صاحبہ بھی یاد آئیں.جنہوں نے خود دین سے محبت کر کے اور خاندان حضرت مسیح موعود اور خلفاء وقت اور مستورات مبارکہ سے عشق کی حد تک محبت کر کے اپنے اعمال اور کردار سے جان نچھاور کر کے اپنی اولادوں کے دلوں میں بھی اس محبت کی چاشنی گھول دی اور یہ اولاد بھی خدا کے فضل سے ان قابل رشک ہستیوں کی شفقت اور برکت سے حصہ پاتی
خاتون صالحه 27 لجنہ اماء اللہ لاہور رہی.اسی طرح خاکسارہ کی بہن.امتہ الحفيظ حضرت نواب امتہ الحفیظ صاحبہ کے لطف و کرم کا ایک واقعہ اور بھی بیان کرتی ہیں کہ جب حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ بہت بیمار تھیں تو مجھے ربوہ جانے کا موقعہ ملا میں سب سے پہلے محترمہ آپا جان حضرت نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ سے ملنے گئی.جب میں واپسی کے لئے اٹھنے لگی تو آپ نے فرمایا که حضرت نواب مبارکه بیگم صاحبہ بہت بیمار ہیں بے ہوش ہیں کیا ان کو دیکھنے کا موقع مل سکا ہے میں نے عرض کی کہ ان کی اس قدر بیماری کی خبر سن کر میں کیونکر ان کو دیکھنے کے لئے درخواست کرنے کی جرات کر سکتی ہوں تو آپ نے فرمایا میں تمہارے ساتھ خادمہ بھیجتی ہوں.وہ میری طرف سے اندر اطلاع کروادے گی تو تم تھوڑی سی جھلک دیکھ لینا.چنانچہ میں اپنی خوش بختی پر ناز کرتے ہوئے خادمہ کے ساتھ چل پڑی.خادمہ نے ادھر جا کر حضرت نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کا پیغام پہنچایا.جس کمرہ میں حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ تھیں وہاں دو تین افراد خاندان مرد اور حضرت نواب منصورہ بیگم صاحبہ تشریف فرما تھیں.تھوڑی دیر میں مجھے اندر بلا لیا گیا مرد دو سرے کمرے میں تشریف لے گئے اور خاکسارہ نے نواب منصورہ بیگم صاحبہ سے حال دریافت کیا اور حضرت نواب مبارکه بیگم صاحبہ جیسی بابرکت ہستی کے وجود باجود پر دل بھر کر نظر ڈالی جو کہ اس وقت آکسیجن اور غذا کی نالیوں کے درمیان سفید دودھ جیسی ایک حسین تصویر دکھائی دے رہی تھیں.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا یہ آخری دیدار حضرت نواب امتہ الحفیظ بیگم
خاتون صالحہ 28 لجنہ اماء اللہ لاہور صاحبہ کی اس عنایت کا ہی مرہون منت تھا جو انہوں نے اس ناچیز بندی کو عطا کی.اب نہ یہ عظیم ہستیاں ہیں اور نہ ہی ان پر فدا ہونے والی والدہ جس کے توسط سے ان بزرگ ہستیوں کے لطف و کرم سے ہمیں حصہ ملتا رہا.اے خدا تو ان ہستیوں کو اپنے قرب میں اعلیٰ مقام عطا فرما اور ہم جیسے گنہگاروں کو ان ہستیوں سے حاصل کی ہوئی برکات کے فیوض سے مستفیض ہونے کی توفیق عطا فرما آمین.واقعہ حضرت ایک واقعہ جو یاد گار حیثیت کا حامل ہے نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ سے ایک ایسی یادگار ملاقات کا واقع ہے جو دل و دماغ سے کبھی محو نہ ہو سکے گا.لاہور ہوا یوں کہ ایک دفعہ حضرت نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ ربوہ سے راپنے بڑے بیٹے محترم نواب عباس احمد صاحب کی کوٹھی واقعہ ۵ پام ویو ڈیوس روڈ میں تشریف لائی ہوئی تھیں.تو چند دن بعد میرے علم میں آیا کہ حضرت آپا جان لاہور تشریف لائی ہیں چنانچہ اگلے دن صبح کے وقت میں اور والدہ صاحبہ دونوں ہی محترم قریشی محمود احمد صاحب ایڈووکیٹ کے ہائی کورٹ جانے کے وقت ان کے ساتھ ہی حضرت محترمہ آپا جان کو ملنے پام ویو چل پڑیں.وکیل صاحب محترم ہمیں پام ویو چھوڑ کر ہائی کورٹ چلے گئے اور ہم نے اندر اطلاع بھجوائی اطلاع ملنے حضرت آپا جان نے فورا ہی اپنے بیڈ روم میں بلوایا.اور دیکھتے ہی فرمانے لگیں.
خاتون صالحہ 29 لجنہ اماء اللہ لاہور " آمنہ کیا تمہیں پتہ نہیں لگا تھا کہ میں کئی دن سے آئی ہوئی ہوں" میں نے عرض کیا کہ آپا جان آپ کی آمد کا مجھے کل ہی علم ہوا ہے تو آج میں صبح ہی حاضر خدمت ہو گئی ہوں.پھر آپ نے خادمہ سے دو کرسیاں اپنی چارپائی کے قریب بچھوا ئیں اور فرمایا کہ بیٹھ جائیں.اور باتوں کا سلسلہ ایسا چلا کے کہ ہمیں اندازہ ہی نہ ہوا کہ ایک بج چکا ہے.اس پر میں نے عرض کیا کہ بہت دیر ہو گئی ہے وکیل صاحب محترم اڑھائی بجے تک گھر پہنچ جاتے ہیں.اس لئے اب آپ سے اجازت چاہتی ہوں.حضرت آپا جان فرمانے لگیں کہ اس وقت کھانے کا وقت ہے کھانا کھائے بغیر جانے نہیں دوں گی.والدہ صاحبہ پس و پیش کرتی رہیں اور اتنے میں محترمہ امتہ الباری صاحبہ کمرے میں تشریف لائیں اور بتایا کہ کھانا ٹیبل پر لگ چکا ہے.کھانے پر تشریف لے آئیں مگر حضرت آپا جان نے فرمایا کہ ہم تینوں کا کھانا ٹرالی میں لگا کر یہیں لے آئیں.جب ہم نے کھانا شروع کیا تو والدہ صاحبہ کی طرف دیکھ کر حضرت آپا جان نے فرمایا کہ کھانا اچھی طرح سے کھائیں کیا باقی گھر جاکر کھانا ہے.میں سیر ہو کر کھانا کھائے بغیر جانے نہ دوں گی پھر ہماری طرف مخاطب ہو کر آپ نے فرمایا.کہ بعض خاندانوں کے ساتھ برابری کے سلوک سے چلنا ہوتا ہے.اور قریب سے تعلقات رکھے ہوئے ہیں".اللہ اللہ - حضرت آیا جان کا حسن سلوک ربوہ ہو یا لاہور ہر جگہ سدا عیاں ہو تا رہا لیکن اس بار عملی اظہار کے ساتھ ساتھ حضرت آپا جان کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے جملے جو ہم ناچیزوں کی نہ صرف عزت
خاتون صالح 30 ہ اماء اللہ لاہور افزائی کا موجب ہی تھے بلکہ ہمارے دل و دماغ کے نہاں خانوں میں اس پیکر کوہ وقار کے حسن و احسان کی جو تصویر قائم کر گئے اس نے ہمیں ان قابل احترام ہستیوں کا گرویدہ بنا دیا یہ ہستیاں اب کہاں سے لائیں جو ہر چیز سے بے نیاز ایک عطا ہی عطا نظر آتی رہیں جو ہر آن جاری و ساری رہتی ہے.پھر جس وقت ہم روانہ ہونے لگے تو آپ نے محترمہ بوامتہ الباری صاحبہ سے فرمایا کہ ڈرائیور کو کہیں کہ ان کو گھر چھوڑ آئے.اور رخصت کے وقت فرمایا کہ آپ لوگ جلدی جلدی ملنے آیا کریں.سبحان اللہ.حضرت آپا جان کے اوصاف حمیدہ سے جب غیروں نے اتنا حصہ پایا تو آپ کی اولاد پر ان صفات کا پر تو پڑنا ایک یقینی امر ہے اور خدا کے فضل سے ہمیں ان کی صاحبزادیوں میں خوبیاں ایک دوسرے سے بڑھ کر نظر آتی ہیں.عزت و تکریم قدر دانی.مہمان نوازی اور حسن اخلاق اور حسن گفتار کی قابل تقلید نمونہ نظر آتی ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو قائم و دائم رکھے اور اپنے فرائض منصبی کو ادا کرنے کی توفیق آمین حضرت نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی خوش طبعی کا واقعہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ خاکسارہ اور قائد صاحب قریشی محمود احمد ایڈووکیٹ بچوں کو کراچی سیر کے لئے لے کر گئے اور وہاں ہمشیرہ امتہ الحفیظ بیگم محمود احمد بھٹی صاحب کے گھر ٹھرے.اتفاق سے انہی دنوں حضرت صاحبزادی نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبه
خاتون صالح 31 لاہور اپنی بیٹی ذکیہ بیگم صاحبہ بیگم کرنل مرزا داؤ د احمد صاحب کے ہاں ڈیفنس سوسائٹی میں تشریف لائی ہوئی تھیں.ہمیں جب علم ہوا تو ہم اگلے روز ہی آپ سے ملاقات کے لئے کرنل صاحب کی کوٹھی پہنچ گئے.حضرت بیگم صاحبہ اس وقت اوپر کی منزل کے برآمدے میں تشریف فرما تھیں.ہمیں دیکھ کر بشاشت کا اظہار فرمایا اور ساتھ ہی پڑی ہوئی کرسیوں پر بیٹھنے کے لئے کہا.اور ساتھ ہی فرمانے لگیں ”دیکھو نا آمنہ کراچی کی آب وہوا.میرے بازو جسم کیسے پہلے نظر آنے لگ گئے ہیں " میں نے عرض کیا کہ آپا جان ! یہاں کی آب و ہوا ہی ایسی ہے.اس پر اپنی بیٹی ہو ذکیہ بیگم کو مخاطب کر کے اور ساتھ میری طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمانے لگیں ذکیہ ادھر دیکھو ہمارا لاہور پنجاب کو اور میری ہمشیرہ امتہ الحفیظ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا اور ادھر دیکھو اپنی کراچی کو " کیا ہی خوبصورت دو جملوں میں پر مزاح انداز میں اپنا مافی الضمیر ادا کر گئیں.جن سے ان کی مراد یہ تھی کہ پنجاب میں رہنے والوں کی صحتیں اور رنگ سفید اور کھلے ہوئے ہوتے ہیں اور کراچی کی آب و ہوا سے صحت اور رنگت خراب ہو جاتی ہے.تاہم یہ فقرات اس قدر برجستہ انداز میں کئے گئے کہ سب کو ہنسی آگئی اور کافی وقت وہاں بیٹھے ہوئے اور گھر جا کر بھی ہم سب محظوظ ہوتے رہے.اور اس جملے کو دہراتے رہے کہ یہ ہے ہمارا لا ہور اور وہ ہے تمہارا کراچی"." والدہ صاحبہ اپنی والدہ صاحبہ کا جذبه مهمان نوازی دوسری خوبیوں کے علاوہ مہمان نوازی میں بھی ایک بلند معیار کی مالک تھیں.ہم نے والد
خاتون صالحہ 32 لجنہ اماء اہور صاحب مرحوم کے زمانہ سے ہی والدہ صاحبہ کو بے حد فراخدلانہ انداز میں مہمان نوازی کرتے دیکھا بڑی خندہ پیشانی سے ہر مہمان کی تعظیم کرنا فرض اولین تصور کرتی تھیں اور ان کی خاطر تواضع کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھنا ان کی فطرت کا خاصہ تھا.ان میں لوگوں سے تعلقات بڑھانے کا خاص ملکہ تھا.اور ان کا دوستی کا حلقہ نہایت وسیع تھا مگر اس دوستی اور تعلقات بڑھانے کی تہہ میں ایک خاص جذبہ نظر آتا رہا اور وہ جذبہ اسلام کی تعلیم کو دوسروں کے دلوں میں بٹھا دینا اور اس کی تعلیم سے روشناس کرانا تھا ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ جب ایران میں برٹش کونسلیٹ میں ہمارے والد ڈاکٹر غلام علی صاحب مرحوم کو ہسپتال کے انچارج کی حیثیت سے متعین کیا گیا اور اس زمانے میں جبکہ ایران میں ڈاکٹروں کی کمی تھی تو والد صاحب کو بڑے بڑے رؤساء کے گھروں میں بغرض علاج جانا پڑتا تھا.اس طرح والدہ صاحبہ کو بھی اپنے تعلقات وزراء ایرانی اور ہندوستانی برٹش اور سکھ مستورات سے استوار کرنے کا موقع ملتا رہا.اور ذاتی تعلقات کی بناء پر آمدو رفت کے سلسلہ کو اپنی مهمان داری کے وصف سے مضبوط سے مضبوط تر بنا لیا چونکہ والدہ صاحبہ اور والد صاحب ہمیشہ ایسے موقع کی تلاش میں رہتے تھے کہ تبلیغ کا سلسلہ چل نکلے چنانچہ ہماری چھوٹی بہن امتہ الکریم کی پیدائش پر جو کہ ایران میں ہوئی اور جو والدہ صاحبہ کی تیسری بیٹی تھی.اور لوگ مبارک دینے کی بجائے ہمدردی جتاتے تھے والدہ صاحبہ نے اسلام کی تعلیم کو اجاگر کرنے کے لئے اس موقع کو بھی تبلیغ کا بہانہ بنا لیا.وہ اس طرح سے کہ والدہ صاحبہ اور والد صاحب نے اس تیسری بچی کی پیدائش کے
خاتون صالحہ 33 لجنہ اماء الله لاہور موقعہ پر اپنی خوشی کا اظہار کرنے کے لئے تمام مذاہب کے لوگوں کو الگ الگ گروپوں کی صورت میں کافی تعداد میں اپنے گھر دعوت پر مدعو کیا.اور کسی کو بچی کی پیدائش کا حوالہ نہ دیا گیا.بلکہ محض دعوت طعام کی دعوت دی گئی.چنانچہ گھر تشریف لانے پر ان کو بتایا گیا کہ خدا نے تیسری بیٹی بھی عطا کی ہے.اور ہم خوش نصیب ہیں کہ رسول کریم اللا تا کی حدیث پر پورے اترنے کا ہمیں خداتعالی نے موقع عطا فرمایا ہے.کیونکہ اسلام کی تعلیم یہ ہے لڑکی اور لڑکے کو ایک دوسرے پر کوئی خاص برتری حاصل نہیں اور ہمارے رسول محمد اللی نے فرمایا ہے کہ جس کو خدا تین بیٹیاں دے اور وہ ان کی اچھی طرح سے پرورش کرے تو وہ جنت میں قیامت کے دن میرے ساتھ اس طرح ہونگے جیسے کہ دو انگلیاں ایک دوسرے کے ساتھ پیوست ہیں خدا کے فضل سے لوگوں اسلام کی اس تعلیم کا بہت اچھا اثر ہوا اور دوستوں اور مستورات نے شکوہ کیا کہ آپ لوگوں نے بچی کی پیدائش کے بارے میں پہلے نہیں بتایا.ورنہ ہم تھے لے کر آتے.تاہم اس وقت بھی روساء کی بیگمات نے اپنے گلے کے پونڈوں کے ہار اتار اتار کر تحفہ میں دیئے اور بعض نے تمن کی صورت میں بھی جو کہ وہاں کا سکہ ہے یہ صرف ایک واقعہ ہے جو پیش کر رہی ہوں ورنہ ہماری والدہ کی زندگی کا ہر لحہ واقعات کی لمبی زنجیر ہے.والدہ صاحبہ جب بھی کسی کو ملنے جاتیں تو ہمیشہ کسی نہ کسی بہانے تحفہ ضرور لے کر جاتیں چاہے وہ تھوڑا سا فروٹ یا مٹھائی یا کسی اور صورت میں ہو کیونکہ آپ فرماتی تھیں کہ حضرت محمد ال فرماتے ہیں
خاتون صالحہ 34 لجنہ اماء اللہ لاہور کہ تحفہ دینے سے محبت بڑھتی ہے پھر اگر کسی کی مدد کرنے کا موقعہ پیش آتا تو اس کی عزت نفس کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی نہ کسی بہانے سے اس طرح مدد کرتیں کہ دوسرا سبکی محسوس نہ کرتا.وہ ایسے مواقع کی تلاش میں رہتیں کہ تحائف دینے کا موقعہ ملتا رہے اور خصوصاً ان لوگوں کو جن کو وہ سمجھتی تھیں کہ ضرورت مند بھی ہیں.وہ ہمیشہ کبھی عید کے موقعہ پر رمضان میں دعا کی درخواست کی غرض ظاہر کر کے اور کبھی اپنے خاندان کی کسی بھی موقع پر خوشی میں شامل کرنے کے بہانے سے غرضیکہ کسی ایسے بہانہ سے مدد کرتیں کہ وہ مدد بھی ہو جاتی اور عزت نفس پر حرف بھی نہ آتا اور ان کی خوشی کا باعث بھی ہوتا.والدہ صاحبہ کا یہ جذبہ مہمانداری دینی موقعہ ہو یا دنیاوی ہر جگہ ہی کار فرما نظر آتا تھا آپ کی ہمیشہ یہ خواہش رہتی تھی کہ دینی اجتماع اجلاسوں کی صورت میں پارٹیوں کی صورت ان کے غریب خانہ پر منعقد ہوں تاکہ ان کو مہمانوں کی خدمت کا موقعہ بھی نصیب ہوتا رہے.اور انہیں اکثر توفیق بھی ملتی رہی وہ دن بھی یاد ہیں کہ جب حضرت مرزا ناصر احمد صاحب رتن باغ لاہور سے ربوہ شفٹ ہوئے تو حضرت نواب منصورہ بیگم صاحبہ کو بچہ مرکز یہ لاہور نے الوداعی پارٹی دی.اور تحفہ پیش کیا اور اس پارٹی میں حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور دوسری مستورات خاندان بھی شامل ہو ئیں.اس پارٹی کا اہتمام ہماری کو ٹھی ہ میکلوڈ روڈ میں ہوا جس کا انتظام والدہ صاحبہ کی نگرانی میں ہوا.اس طرح ان کی دلی خواہش پوری ہونے کے ساماں ہو جاتے.وسطی چھاؤنی لاہور اور کیولری گراؤنڈ لاہور لجنہ کا اجراء و افتتاح
35 ثناء اللہ لاہور ہم جب ۴ میکلوڈ روڈ لاہور سے وسطی کینٹ لاہور میں شفٹ ہوئے تو اس وقت لجنہ قائم نہ تھی.البتہ شمالی حصہ میں قائم تھی.چنانچہ والدہ صاحبہ سے میں نے اس وسطی جگہ میں بھی لجنہ قائم کرنے کے خیال کا اظہار کیا تو والدہ صاحبہ فوراً فرمانے لگیں کہ یہ بہت اچھا خیال ہے جلدی اس کے قیام کا بندوبست کرو.تاکہ ہم حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ سے اس کا افتتاح کروائیں جو جلد ہی لاہور سے ربوہ شفٹ ہونے والی تھیں.چنانچہ خاکسارہ نے اس وقت کے امیر جماعت چوہدری اسد اللہ خاں صاحب بیرسٹر ایٹ لاء (جو کہ کینٹ میں ہی رہائش پذیر تھے) کی خدمت میں لکھ کر عرض کیا کہ وسطی چھاؤنی میں لجنہ کے قیام کا فلاں دن ارادہ ہے اور آپ کی اجازت اور تعاون کی بھی ضرورت ہے اگر آپ اس حلقہ چھاؤنی کے گھروں میں بذریعہ خدام اطلاع پہنچا سکیں تو مہربانی ہوگی.چنانچہ آپ نے بذریعہ خدام ۲۴ گھنٹوں کے اندر گھر میں اطلاع کروا کر خاکسارہ کو لکھ کر جواب بھیجا کہ اطلاع لجنہ کے قیام کے سلسلہ میں بھجوادی گئی ہے.انشاء اللہ وقت مقررہ پر مستورات آپ کی کو ٹھی ۵۹ بنارس روڈ پہنچ جائیں گی.نیز خوشی کا اظہار بھی کیا.چنانچہ یہ اطلاع ملتے ہی والدہ صاحبہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی خدمت میں حاضر ہو ئیں اور ان سے حلقہ کی لجنہ کے افتتاح کے لئے تشریف لانے کی درخواست کی.حضرت آپا جان نواب مبارکہ بیگم صاحبہ فراخ دلی سے درخواست قبول فرماتے ہوئے گھر تشریف لائیں جہاں پر لجنہ کے نئے حلقہ کے افتتاح کا انتظام کیا گیا تھا.اور افتتاح کی تقریب کے بعد
خاتون صالحہ 36 لجنہ اماء اللہ لاہور عہدیداران کا انتخاب بھی حضرت آپا جان کی موجودگی میں ان کے مشورہ سے عمل میں آیا.اسی اجلاس میں یہ فیصلہ بھی ہوا کہ ایک ہی گھر میں اجلاس منعقد کرنے کی بجائے باری باری ہر ممبر کے گھر ایک ایک ماہ اجلاس رکھے جائیں جو مہینہ میں دو بار ہونے مقرر ہوئے.اور بعد دعا وسطی چھاؤنی کے اس افتتاحی اجلاس میں شمالی چھاؤنی اور جنوبی چھاؤنی یعنی کیولری گراؤنڈ کی تمام ممبرات بھی مدعو تھیں جن کی تعداد خدا کے فضل سے ستر کے لگ بھگ تھی اس اجلاس میں محترمہ صاحبزادی امتہ العزیز بیگم صاحبہ بیگم مرزا حمید احمد صاحب بھی شامل تھیں جو کہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے ربوہ شفٹ ہو جانے کے بعد صد راجنہ اماء اللہ لاہور کے عہدہ پر فائز ہوئیں.خدا کے فضل سے تقریباً اب ۲۹ برس سے یہ حلقہ کامیابی سے چل رہا ہے اور قابل تقلید حلقوں میں شمار ہوتا ہے اور حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی بنفس نفیس شمولیت کے نتیجے میں خصوصی دعا ئیں اور برکت حاصل کر کے ایک یاد گیر حلقہ کا مستحق قرار پایا.- والدہ صاحبہ کا دعاؤں پر یقین محکم جیسے کہ پہلے ذکر ہے کہ والدہ صاحبہ ایک ایسی ذات کی رفیقہ حیات تھیں جن کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی سے تعلیم کے ابتدائی ایام سے ہی قربت اور دلی تعلقات کا نادر موقع ملا تھا اور خود والدہ صاحبہ بھی خاندان حضرت مسیح موعود اور خلفاء وقت سے دعاؤں کے سلسلہ میں ذاتی رابطہ قائم رکھنے کی عادی تھیں
خاتون صالحہ 37 لجنہ اماء الله حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی شفقت کے اظہار کا ایک نظارہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ والد صاحب ڈاکٹر غلام علی مدراس کی چھاؤنی میں متعین تھے.جو کہ شہر سے دور تھی اور اس جگہ مشن ہاؤس قائم نہ تھا.والد صاحب اور والدہ صاحبہ ذاتی طور پر سلسلہ کے کاموں کی طرف توجہ رکھتے تھے چنانچہ ایک دفعہ والد صاحب بیمار ہو گئے.بیماری طول پکڑتی گئی.علاج کارگر نظر نہ آیا.والد صاحب نے گھر آکر والدہ صاحبہ کو فرمایا کہ میرے بھائی کو اطلاع کردیں نیز حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں حالات لکھ کر دعا کے لئے عرض کریں.چنانچہ والدہ صاحبہ نے اسی وقت نہایت ہی بے قراری کی حالت میں ابا جان کی بیماری کی حالت لکھ کر دعا کی استدعا کے لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں خط ڈال دیا والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ خط ابھی راستے میں ہی ہو گا کہ خدا تعالیٰ کے حضور اور خلیفہ وقت کے دربار میں لکھی گئی درخواست دعا خدا کے حضور قبول ہوئی اور والد صاحب کی اتنی زیادہ بگڑتی ہوئی حالت سنبھلنے لگی کہ خود حیرت میں رہ گئی.پھر دیکھتی ہوں کہ دو دن بعد ہی علی الصبح مدراس کے کسی قریبی علاقہ کے مشن ہاؤس سے تین افراد ہماری چھاؤنی میں ڈاکٹر صاحب کی حالت معلوم کرنے پہنچ گئے.انہوں نے بتایا کہ انہیں مرکز سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی تار موصول ہوئی ہے کہ ڈاکٹر غلام علی جو مدراس کی چھاؤنی میں متعین ہیں وہ بیمار ہیں اور ان کی بیوی بھی اکیلی ہے وہاں دوسرا کوئی احمدی نہیں ہے اس لئے فور اوہاں پہنچو.چنانچہ تار ملتے ہی ہم آپ کی خدمت میں پہنچ گئے ہیں.والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ میں
خاتون مصالحہ 38 لجنہ اماء اللہ لاہور سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ خلیفتہ المسیح الثانی اس قدر تیزی، توجہ اور شفقت کا اظہار فرمائیں گے کہ ہماری تسلی کے لئے اس طرح مشن ہاؤس سے ایک وفد بھیجوائیں گے خدا کی عنایت اور حضور کی اس زرہ نوازی پر جہاں ہمارے دل خدا کے حضور شکر سے لبریز ہوئے وہاں یہ بھی اندازہ ہوا کہ حضور کی شفقت اور محبت دور دراز جگہ پر رہنے والے ایک خادم پر کس قدر تھی.الحمد للہ یہ تھی دعا کہ حقیقت پر یقین کی انتہا جو والد اور والدہ صاحبہ کے دل میں ایمان و یقین محکم کی طرح ہر دم جاگزیں رہتی.منکرین نشان مانگتے ہیں مسیح وقت اور خلفاء کی سچائی پر جو روز روشن کی طرح اس واقع سے عیاں ہے.قبولیت دعا کا معجزہ والدہ صاحبہ خود بھی دعا گو خاتون تھیں اور بزرگوں کی خدمت میں ہردم دعاؤں کی درخواست لئے حاضر ہوا کرتی تھیں بچپن سے آخر تک ان کو نماز تہجد کے لئے شب بیداری کرتے ہم نے دیکھا کبھی ناغہ نہ ہونے دیا اور یہ عادت اور شوق ان کو سیالکوٹ میں اپنے بچپن کے زمانہ سے حضرت مای سعیدہ بیگم صاحبہ (غالباً ہمشیرہ محترم حضرت میر حامد شاہ صاحب کی صحبت میں رہنے سے پیدا ہوا.جو ایک صاحب الہام - دعا گو اور بزرگ خاتون تھیں جن کی قبولیت دعا کا کرشمہ رقم کرتی ہوں.والدہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ جب ان کی شادی ہوئی تو ہمارے والد صاحب ڈاکٹری کے آخری سال میں پڑھتے تھے.سالانہ امتحان میں ان کا ایک پرچہ خراب ہو گیا بہت فکر دامنگیر ہوئی، ابھی زبانی امتحان باقی تھا
خاتون صالحہ 39 لجنہ اماء اللہ لاہور.اس لئے والد صاحب نے والدہ صاحبہ کو کہا کہ میرا ایک پرچہ خراب ہو گیا ہے اسکا زبانی حصہ ابھی باقی ہے محترمہ سعیدہ بیگم صاحبہ سے میری کامیابی کے لئے دعا کی درخواست خاص کریں والدہ صاحبہ نے بتایا کہ خط ملنے پر بھی سخت پریشانی ہوئی اور ماسی سعیدہ بیگم صاحبہ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور ڈاکٹر صاحب کا خط پڑھ کر سنایا تو جلدی سے فرمانے لگیں.کہ ہر ہفتہ اور اتوار کو غلام علی بیوی کے پاس سیالکوٹ بھاگ آتا تھا.تو اب پاس ہونے کی فکر ہو گئی ہے اس حال میں کیا پاس ہونا ہے.والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کی کہ خالہ جی آپ دعا تو کریں.اللہ تعالیٰ اپنا فضل نازل فرمادے گا." اگلے دن جب والده صاحبه های سعیدہ بیگم صاحبہ کے ہاں گئیں تو وہ والدہ صاحبہ کو دیکھتے ہی فرمانے لگیں کہ زینب تو بہت فکر مندی اور ملال میں تھی.میں نے غلام علی کے لئے خدا کے حضور دعا شروع کی تو خدا تعالیٰ نے غلام علی کے لئے خوشخبری دی ہے اور فرمایا ” پنجابی میں الہام ہوا.غلام علی ٹاپو و نگر ٹپ جائے گا" یعنی غلام علی ایک ہی چھلانگ میں پار ہو جائے گا.والدہ صاحبہ نے اسی خوشخبری کی اطلاع فورا والد صاحب کو کردی والد صاحب جب امتحان ختم کر کے واپس سیالکوٹ آئے تو انہوں نے امتحان کے واقع کو یوں بیان کیا کہ زبانی امتحان کے لئے ہم سب لڑکے قطار دار کھڑے تھے اس وقت انگریز ممتحن نے ایک زبانی سوال کرتے وقت ایک ایسا سوال پوچھا جو سر اور کنپٹوں کی شریانوں سے تعلق رکھتا تھا مگر اس سوال کا تسلی بخش جواب کوئی لڑکا نہ دے سکا.اور ممتحنوں کے چہرے سے ناپسندیدگی کے نشان ظاہر ہونے
خاتون صالحہ 40 امناء اللہ لاہور لگے چنانچہ سوال جب مجھ سے بھی پوچھا گیا عاجز خدا کے فضل سے تمام تفصیل دماغ کے حصوں کے بارے میں بتاتا چلا گیا اس وقت ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی الہی مدد میرے دماغ اور سوچ پر حاوی ہو کر کام خود بخود کرتی جارہی ہے.جب میں نے جواب ختم کیا تو اس انگریز ممتحن نے دوسرے اپنے ساتھی انگریز سے کہا کہ ”ویری ویل، ویل ڈن" تو اس طرح خدا کی مدد نے میرے شامل حال ہو کر محترمہ خالہ سعیدہ بیگم صاحبہ کے الہام کے مطابق شاپور کی طرح پا دیا ہے الحمد للہ.سو یہ وہ بزرگ ہستیاں تھیں جو حقیقی خدا کی حقیقتوں پر دل و جان سے ایمان رکھنے والی اور دین خدا پر ایک فدایانہ انداز لئے نظر آتی تھیں انہیں میں سے ہم نے اپنے والد اور والدہ محترمہ زینب بیگم صاحبہ کو بھی باہر نہیں پایا جو انتہائی شیریں زبان میں ادب و احترام کا التزام بغیر کسی تفریق کے ہر ایک سے حسن سلوک کرتی تھیں دلائل سے قائل کر کے قابل تحسین حد تک تاثر چھوڑنے والا وجود تھیں عاجزہ نے بغرض دعا ان کی زندگی کی بعض مختصر عادات و خصائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے اے خدا تو ہماری مجسم اخلاص و انکسار، برائی کے جواب میں سدا خاموشی اختیار کرنے والی ہر میدان میں نیکی کی طرف قدم بڑھانے والی والدہ کو اپنی جوار رحمت میں اعلیٰ علیین میں مقام عطا فرما اور ان کی اولاد کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرما آمین.لیکن اے خدا انسان کمزور ہے گہنگار ہے خدائے ذوالجلال کے فضل و کرم کا ہر دم محتاج ہے ہم بہت ہی مدد و رحمت کے طلب گار ہیں اور یہی سبق والدہ نے ہمیں دیا ہے تو ہم سب کو اپنی رحمت کے سایہ تلے
خاتون صالحه 41 ڈھانپ کے سائل کی دعا قبول فرما.امین والدہ صاحبہ اور والد صاحب کا جذبہ تبلیغ دین خدا کے فضل سے والدہ صاحبہ اور والد صاحب دونوں ہی تبلیغ کے جذبہ سے سرشار تھے.ہر ایک سے گفتگو کرتے وقت یا کہیں بھی آتے جاتے ایسے موقع کی تلاش میں رہتے تھے کہ اسلام احمدیت کی تعلیم دوسروں تک پہنچ سکے.حتی کہ زیل کے سفر میں بھی والدہ صاحبہ موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتی تھیں ان کا مواقع پیدا کرنے کا انداز بھی عجیب تھا.مثلاً اگر سیٹ پر جگہ کی تنگی ہے تو فورا اٹھ کھڑی ہو تیں اور دوسری بہنوں کو جگہ دے دیتیں اور کوئی نہ کوئی حدیث بیان کر کے تبلیغ کرنے کا جواز پیدا کر لیتیں.کبھی کسی کے بیمار بچے کو گود میں لے کر شفقت محبت دے کر لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لیتیں.اور آواز بھی چونکہ بلند پائی تھی اس لئے پورا ڈبہ کی مستورات آپ کی طرف متوجہ ہو جاتیں اور یہ سلسلہ گھنٹوں جاری رہتا اور باوجود ان کو رکنے کا اشارہ کرنے کے وہ اپنا پیغام دے کر چھوڑتیں تاکہ احمدیت کا پیغام لوگوں تک پہنچ جائے اور وہ خدا تعالٰی اور امام وقت کی تابعداری میں سرخرو ہو سکیں.اسی طرح محترم والد صاحب کی زندگی میں بھی یہی جذبہ تبلیغ کار فرما نظر آتا ہے اکثر ہی نئی چھاؤنی میں تبدیل ہونے پر وہ دو چار لوگ چند ہی ماہ میں احمدی بنا لیتے اور چھوٹی سی جماعت قائم کر کے حضرت خلیفہ ثانی سے رابطہ قائم رکھتے ہوئے یہ سلسلہ جاری رکھتے اور جماعت کے افراد جو چند لوگ ہوتے تھے انہیں روزانہ علی الصبح فجر کی نماز کے بعد گھر پر
خاتون صالحہ 42 لجنہ اماء اللہ لاہور قرآن مجید کا ترجمہ پڑھاتے اور درس دیتے جس میں والدہ صاحبہ اور افراد خانہ بھی شامل ہوتے.دہلی چھاؤنی میں قیام کے دوران بھی تین چار افراد کو والد صاحب تبلیغ سے احمدیت قبول کرنے کی توفیق علی جو کہ اسی طرح روزانه با قاعدگی سے صبح کی نماز میں شامل ہونے کے لئے ہمارے گھر پر تشریف لاتے بعد ازاں قرآن مجید کا ترجمہ سیکھتے اور دریں سے استفادہ حاصل کرتے اور جمعہ کی نماز بھی ہمارے ہاں ہی ادا کرتے کیونکہ والد صاحب نے اپنے گھر میں ہی سینٹر بنایا ہوا تھا.اور حضور کی طرف سے مرکز سے ہر قسم کی اطلاعات و ہدایات اسی سینٹر میں موصول ہوا کرتی تھیں ان دنوں سائیکل سوار سیاح قریشی عبد اللطیف بنگال کا دورہ کرتے ہوئے واپسی پر ہمارے اسی سینٹر میں چند دن قیام پذیر ہوئے ۱۹۴۰ء میں پھر محترم قریشی عبداللطیف صاحب میری شادی کے بعد قائد صاحب کی قیادت کے زمانہ میں کسی حلقہ کے خدام الاحمدیہ کے جلسے میں شریک ہوئے وہاں تذکرہ ہوا کہ قائد کی بیگم کا شکوہ سنا نہیں گیا کہ قائد صاحب صبح بھی دفتر جانے سے پہلے ایک دو حلقوں کا دورہ کرنے چلے جاتے ہیں اور شام کو بھی رات گئے تک حلقہ جات میں مصروف رہتے ہیں جس پر محترم سیاح صاحب نے فرمایا کہ یہ خدمت کرنے والے باپ کی بیٹی ہے اس کا کردار ایسا ہی ہونا تھا قائد صاحب قریشی محمود احمد صاحب نے گھر آکر اس کا تذکرہ عاجزہ سے کیا دہلی میں والد صاحب کے ذریعہ احمدی ہونے والے افراد میں سے ایک محترم مکرم فہیم اللہ صاحب ہیں جنہوں نے (غالبا ریٹائر ہونے کے بعد) پارٹیشن کے بعد مرکز قادیان میں رہائش
صالح 43 لجنہ اماء اللہ لاہور اختیار کرلی تھی ان کا ایک خط بھی ہمارے پاس موجود ہے جو والدہ صاحبہ کے دعا کے لئے لکھے گئے خط کے جواب میں آیا تھا کہ میں آپ کے اور آپ کے بچوں کے لئے دعائیں کرتا رہتا ہوں اور مجھے استاد مکرم ڈاکٹر صاحب (یعنی ہمارے والد صاحب) بھی یاد ہیں.اسی طرح والد صاحب جب کلکتہ میں بارک پور چھاؤنی میں پوسٹ ہوئے (جو انکی زندگی کا آخری سٹیشن ثابت ہوا تو وہاں پہنچتے ہی اپنے حلقہ احباب میں تبلیغ کا سلسلہ قائم کرلیا.اور جب والد صاحب نے محسوس کیا کہ ملٹری کی ملازمت کی وجہ سے نمایاں طور پر مباحثہ میں حصہ نہیں لے سکتا تو انہوں نے حضور کی خدمت میں لکھا کہ چند مولوی صاحبان کا قابل جید علماء پر مشتمل ایک گروپ کلکتہ بھیجوایا جائے تاکہ وقت مقرر کردہ پر پہنچ کر مباحثہ میں حصہ لے سکیں.چنانچہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے محترم مولوی یار محمد صاحب کے ہمراہ چند افراد بھیجوا دیئے.محترم مولوی صاحب نے کلکتہ پہنچ کر والد صاحب سے ملاقات کی اور پروگرام سیٹ کر کے جائے رہائش تشریف لے گئے.اتفاق کی بات ہے کہ والد صاحب کے پیٹ میں اسی رات Cpeadea کی درد اٹھی اور اپریشن ہوا اور اگلے روز بے احتیاطی کے نتیجہ میں انکی وفات ہو گئی.کیونکہ ہم گھر والے سب قادیان تھے اس لئے علم نہ ہو سکا.لیکن ہم تک جو باتیں پہنچی ہیں وہ یہ تھیں کہ وفات سے کچھ دیر پہلے ان کے پاس سرہانے کھڑے ہوئے ایک دوست یا کولیگ نے والد صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب
خاتون صالحه 44 لجنہ اماء اللہ لاہور آپ کیا دیکھ رہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ میں خدا کی قدرت دیکھ رہا ہوں.پھر اٹھتے ہی والد صاحب فرمانے لگے کہ جو خدا کے نیک بندے ہوتے ہیں وہ تبلیغ کو کبھی چھوڑا نہیں کرتے".والد صاحب نے تین بار یہ جملہ دہرایا.اور یہ کہتے ہوئے اپنی جان خدا کے سپرد کر دی.اناللہ وانا الیہ راجعون اور جو گروپ مباحثہ کے لئے والد صاحب نے بلوایا تھا انہوں نے آپ کی نماز جنازہ میں شرکت فرمائی.خدا کی قدرت کا عجیب نظارہ تھا جو ظہور میں آیا.والد صاحب کی وفات کا حضور ایدہ اللہ تعالٰی کو بے حد دکھ ہوا.جس کا ذکر محترمہ صاحبزادی امتہ الرشید بیگم صاحبہ نے خاکسارہ سے اس انداز میں کیا کہ جب آپ کے والد صاحب کی وفات کی اطلاع ابا جان (یعنی حضور) کو پہنچی تو ان کو اس خبر سے سخت صدمہ ہوا آپ نہایت بے قراری سے اپنے گھر کے دالان میں پھرتے رہے اور فرمایا کہ "آج ایک اچھا دوست چلا گیا اور ایک اچھا دوست ہم سے جدا ہو گیا".غرض اس مفہوم کے فقرات کا ذکر محترمہ صاحبزادی صاحبہ ہمارے والد صاحب کا ذکر آنے پر کئی مرتبہ فرماتی رہی ہیں.کتنے خوش نصیب تھے ہمارے والدین جن کو خلیفہ وقت اپنی ذاتی توجہ سے سرفراز فرمایا کرتے تھے.یہ دونوں میاں بیوی ایسے دو دیوانے تھے جو دین پر فدا ہونا مقصد حیات سمجھتے تھے جو دین کو دنیا پر مقدم کر کے دکھا گئے.حضور کے فرمائے ہوئے اس مصرعے مل جائیں اگر دیوانے دو" کے مصداق بنتے نظر آتے رہے.
خاتور 45 لجنہ اماء الله لاہور حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے فیوض سے نہ صرف ہمارے والدین فیض یاب ہوتے رہے بلکہ ان کی اولادیں بھی حصہ پا رہی ہیں.چنانچہ جب محترم وکیل صاحب قائد قریشی محمود احمد ہاشمی (ایڈووکیٹ سپریم کوٹ پاکستان) نے جب B.A کا امتحان پاس کیا تو امی جان نتیجہ نکلنے کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں مٹھائی کا ڈبہ پیش کرنے کے لئے قصر خلافت میں حرم محترم کی خدمت میں علی الصبح جا پہنچیں.اس وقت حضور ناشتہ فرما رہے تھے پوچھنے پر کہ یہ مٹھائی کیسی ہے تو امی جان نے عرض کیا کہ محمود احمد کے بی.اے میں (B.A) پاس ہونے کی ہے تو حضور امی جان سے مخاطب ہو کر فورا فرمانے لگے کہ علم میں آیا کہ آج B.A کے رزلٹ نکلنے کا ریڈیو پر اعلان ہو رہا ہے (کیونکہ ان دنوں ریزلٹ کا اعلان ریڈیو سے ہوا کرتا تھا تو میں نے ریزلٹ سننے کے لئے ریڈیو کھولا کہ اپنے محمود نے بھی B.A کا امتحان دیا ہوا ہے نتیجہ سن لوں سو جب محمود احمد کا رول نمبر بولا گیا تو پھر میں اٹھ گیا پھر امی کو مخاطب ہو کر فرمانے لگے کہ آپ کو بہت مبارک ہو محمود کے پاس ہونے کی.قائد صاحب ہاشمی کی والدہ ہماری پنچھی لگتی تھیں قائد صاحب کے والد محترم حافظ حکیم محمد الدین ہاشمی مرحوم صحابی جو ابتدائی مومیان میں سے تھے ابتداء سے ہی حضرت مسیح موعود ------ حضرت خلیفہ المسیح اول اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی سے قریبی ذاتی تعلقات کے ساتھ ساتھ عقید تمندی کے جذبہ سے سرشار تھے اور پھوپھی جان محترمہ رابعہ بی بی صاحبہ فرمایا کرتی تھیں کہ جلسہ سالانہ کے ایام میں حضرت
خاتون صالحہ 46 لجنہ اماء اللہ لاہور مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے گھر میں نچلے حصے میں ٹھرا کرتے تھے.زبان پر آیا تو ان کی حضرت ام طاہر احمد صاحب کا نام یادیں بھی ذہن میں گھومنے لگیں کہ کس طرح والدہ صاحبہ کے ہمراہ عاجزہ کو بھی حضور کی خدمت میں ملاقات یا مشورہ کے لئے ملنا ہوتا تو ہم علی الصبح جایا کرتے تھے تا حضور سے ناشتہ پر ہی ملاقات حاصل کرلیں ناشتہ کی باری خواہ حضرت امی جان ام ناصر احمد صاحب کے گھر پر ہوتی یا حضرت ام طاہر احمد صاحب کے گھر - اندر اطلاع ملنے پر آپا جان والدہ صاحبہ کو ناشتہ کے دوران ہی بلوالیتیں.اور حضور از راہ شفقت آنے کا مقصد دریافت فرمالیا کرتے.حضور کے دفتر تشریف لے جانے پر اکثر حضرت ام طاہر احمد صاحب والدہ صاحبہ کو لجنہ کے کام کے سلسلہ میں یا ویسے ہی مزید ٹھہرنے کو فرماتیں اور ان کی خوش طبعی کی وجہ سے سلسلہ گفتگو چلتا رہتا.جلسہ سالانہ اول جو پارٹیشن کے بعد پہلا جلسہ رتن باغ لاہور کے بالمقابل سیمنٹ بلڈنگ کے ساتھ میدان (جو میکلوڈ روڈ تک پھیلا ہوا تھا) میں منعقد ہوا تھا اس جلسہ کے انتظامات کے انچارج قائد صاحب محترم قریشی محمود احمد ہاشمی ایڈووکیٹ تھے اور اس وقت کے امیر جماعت جسٹس شیخ بشیر احمد صاحب تھے جلسہ سالانہ کا پنڈال تیار ہونے پر حضور کی خدمت میں ملاحظہ کے لئے درخواست کی گئی حضور تشریف لائے اور خوشی کا اظہار فرمایا اور از راہ تفنن فرمانے لگے." محمود یہ تم نے کیا کیا کہ اتنا بڑا پنڈال بنوادیا اب بھرنا اس میں لوگ قائد صاحب نے
خاتون صالحہ 47 لجنہ اماء اللہ لاہور گھر آکر ہمیں بتایا کہ میں نے عرض کیا کہ حضور آپ مطمئن رہیں کہ یہ پنڈال بھی کم ہو جائے گا اور جب پھر جلسہ سالانہ کا افتتاح ہو کر با قاعدہ اجلاس شروع ہوئے تو لوگ جوق در جوق سننے کے شوق میں بلکہ راہ گیر چلتے چلتے جلسہ سننے شامل ہوتے تھے اور جلسہ کے دونوں اطراف کی سڑکیں بھی شامل ہونے والوں سے پر نظر آنے لگیں اور جب جلسہ بخیر خوبی اختتام پذیر ہوا تو حضور قائد صاحب کو فرمانے لگے." محمود تمہارا اندازه درست نکلا.اسی طرح جب قائد صاحب کے بارے میں حضور ذکر فرماتے تو اپنے لاہور والے محمود " نام لیکر پکارا کرتے تھے یہ تھا حضور کا محترم والد صاحب اور والدہ صاحبہ کی اولاد سے بھی مشفقانہ سلوک جو ان کے حسن و احسان کی تصویر پیش کرتا ہے.الحمد لله حرم محترم حضرت مسیح موعود کی والدہ صاحبہ کے غریب خانہ پر تشریف آوری والدہ صاحبہ اپنے آپ کو اس لحاظ سے بے حد خوش قسمت سمجھتی تھیں کہ بابرکت وجود خاندان کبھی والدہ کی درخواست پر اور کبھی ذرہ نوازی سے بذات خود بھی غریب خانہ پر تشریف لا کر ہمارے لئے خوشی اور برکت حاصل کرنے کا موقعہ پیدا فرماتیں حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ حرم حضرت مسیح موعود ---- نہ صرف یہ کہ جہاں عاجزہ آمنہ صدیقہ کی شادی پر والدہ صاحبہ کی درخواست پر خاکسارہ کو اپنی دعاؤں سے رخصت کرنے تشریف لائیں بلکہ اس کے بعد بھی دو دفعہ اچانک بذات خود تشریف لے آئیں وہ اس طرح کہ کسی جگہ ایک دفعہ محلہ دار الفضل تشریف لا ئیں تو معلوم ہونے
خاتون صالحہ 48 لجنہ اماء الله لا ہو پر کہ زینب یعنی والدہ صاحبہ کا گھر قریب ہی ہے ایک خادمہ کے ساتھ ہمارے ہاں اچانک تشریف لے آئیں اور ہم خوشی اور حیرت میں ڈوب گئے.اور پھر ایک دفعہ خاکسارہ کا سب سے بڑا بیٹا مسعود اول جب ایک سال کی عمر کا تھا اور وہ سخت بیمار ہو گیا خاکسارہ اس کو لاہور سے قادیان والدہ کے پاس لے گئی اور تقریباً ایک ماہ قیام کیا اس دوران والدہ نے حضور کی خدمت میں دعا کی غرض سے لکھا ہوا تھا اور حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کی خدمت میں خود دعا کی غرض سے حاضر ہوئی تھیں تو ایک دن کیا دیکھتے ہیں کہ دوپہر کا وقت تھا.حرم حضرت مسیح موعود علیہ السلام محلہ دار الفضل میں کسی دعوت ولیمہ پر تشریف لائی ہوئی تھیں دعوت کے بعد اپنی خادمہ کو لے کر پیدل ہی چہل قدمی کرتی ہوئی تشریف لے آئیں اور فرمانے لگیں کہ میں قریب آئی ہوئی تھی تو میں نے سوچا کہ زینب کے نواسے آمنہ کے بیٹے کا حال معلوم کرلوں.اور پھر آپ نے حال معلوم کیا اور بچے کے جسم پر ہاتھ پھیرا اور دعا فرمائی.چند منٹ تشریف فرماتے ہوئے تسلی دینے کے بعد آپ واپس تشریف لے گئیں.یہ وہ حسین نظارے ہیں جو والدہ صاحبہ کی مستورات خاندان سے محبت اور عقیدت کی غمازی کرتے ہیں.الحمد للہ حرمات خلیفتہ المسیح الثانی بھی امی جان کی اس محبت کا جواب محبت کے رنگ میں ہی دیا کرتی تھیں.حضرت ام طاہر احمد صاحبہ اور حضرت صالحہ بیگم صاحبہ بیگم حضرت میر محمد اسحاق صاحب بھی اسی طرح ایک دو دفع اچانک تشریف لاتی رہیں جبکہ وہ کسی جگہ لجنہ کے کام کے سلسلہ میں تشریف لاتیں.لاہور میں
خاتون صالحہ 49 لجنه جب والدہ صاحبہ کا قیام پارٹیشن کے بعد رہا تو حضرت ام ناصر احمد صاحب والدہ صاحبہ کی درخواست پر دعوت طعام پر تشریف لائیں.اور دوپہر سے مغرب تک ہماری کو ٹھی پر تشریف فرما ہیں اور یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب حضور ربوہ شفٹ ہوئے تھے اور مستورات خاندان کبھی کبھی لاہور تشریف لایا کرتی تھیں.حضرت ام ناصر صاحبہ جب بھی لاہور تشریف لاتیں تو والدہ صاحبہ کو اپنے آنے کی اطلاع کسی ذریعہ سے بھیجوا دیا کرتیں جس پر امی جان ان سے ملاقات کے لئے فوراً حاضر ہو جاتیں.والدہ صاحبہ کی یہ محبت تمام حرمات خلیفہ المسیح کے لئے تھی جیسے یہ بزرگ ہستیاں اس جہاں سے رخصت ہوتی گئیں تو والدہ کی محبت ان کی اولادوں کی طرف منتقل ہوتی چلی گئی.حضرت چھوٹی آپا صاحبہ اور حضرت مر آپا صاحبہ کی خدمت میں ملنے کے لئے حاضر ہوا کرتی تھیں حضرت ام ناصر اور حضرت ام طاہر صاحبہ کے ساتھ تو بہت بے تکلفی تھی اور اسی بے تکلفی کی وجہ سے ان کی اولاد بھی والدہ صاحبہ کے لئے محبت کے جذبات رکھتی تھیں.حضرت محترمہ آیا ناصرہ بیگم صاحبہ حضرت محترم آیا نصیرہ بیگم صاحبہ صاحبزادی امتہ الباسط صاحبہ اور صاحبزادی امتہ الحکیم صاحبہ سے بہت پیار تھا.والدہ صاحبہ کا حضرت ام طاہر صاحب کے گھر زیادہ آنا جانا تھا جو کہ حضرت خلیفہ امسیح الرابع کے ذہن میں بھی محفوظ تھا جن کا ذکر انہوں نے اپنے خطوط میں بھی کیا ہے.صاحبزادی امتہ الرشید صاحبہ بیگم میاں عبدالرحیم اور صاحبزادی امتہ العزیز صاحبہ بیگم مرزا حمید احمد صاحب
خاتون صالحہ 50 لجنہ اماء الله لام اور آپا امتہ السلام صاحبہ بیگم مرزا رشید احمد صاحب ان سب ہستیوں کا ذکر والدہ صاحبہ گھر میں نہایت محبت سے کیا کرتی تھیں.والدہ صاحبہ اپنی بیماری کے آخری ایام میں حضرت چھوٹی آپا وفات جان حضرت نواب امتہ الحفیظ بیگم اور محترمہ آپا ناصرہ بیگم صاحبہ بیگم مرزا منصور احمد صاحب سے ملنے کی بہت تڑپ رکھتی تھی.لیکن کولھے کی ہڈی کے فریکچر کی وجہ سے وہ ربوہ نہیں جاسکیں اور اسی دوران ان کی اچانک وفات ہو گئی اور اپنی اس محبت و چاہت کو دل میں لئے ہوئے سفر آخرت کو سدھار گئیں اور اپنی اولاد کو اس چاہت پر قربان ہونے کا سبق دے گئیں.خدا تعالی ان کی اولاد کو ان کی خوبیاں اپنانے کی توفیق عطا کرے آمین ثم آمین والدہ صاحبہ کا چندہ کی ادائیگی کا طریق کار والدہ صاحبہ کا حضرت رسول کریم میں ایم کیو ایم اور حضرت مسیح موعود.....اور خاندان سے جو دلی خلوص اور محبت کا رشتہ قائم تھا اس کا عکس ان کے چندوں کی ادائیگی سے ظاہر ہوتا ہے ان کا چندوں کی ادائیگی کا انداز بھی عمر بھر قابل تقلید رہا.خلیفہ وقت کی ہر تحریک میں خواہ لجنہ کی ہو یا جماعتی حصہ لینے میں پیش پیش رہتیں اور مختلف انداز کے چندوں کی ادائیگی کا طریق کار جو ان کے کاغذات میں سے یاد داشت کے طور پر محفوظ رکھے تھے ملے ہیں خدا کرے والدہ صاحبہ کی یہ بے لوث جانفشانیاں خدا کے حضور مقبولیت حاصل کریں اور انکی درجات کی بلندی کا موجب بنیں اور والدہ صاحبہ کی اولاد کو ان کے نمونے پر چلنے کی توفیق ملے.(امین) عام و خاص چندوں میں حصہ لینے کی انکی اکثر رسیدیں
خاتون صالحه 51 اہور محفوظ ہیں قادیان کے مینارہ المسیح میں نام کند و گان میں والد صاحب ڈاکٹر غلام علی اور والدہ صاحبہ زینب بیگم کا نام موجود ہے وقف جدید - تحریک -جدید - تحریک خاص لجنہ سائنس بلاک - نصرت جہاں ریزو فنڈ - خدمت درویشاں.صد سالہ جوبلی ہر تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.چندہ وصیت ۱/۳ حصہ جائداد کی موصیہ تھیں اور دیگر عام و خاص چندوں کی تادم حیات ادائیگی کرتے رہنے کی توفیق پاتی رہیں.حضور خلیفہ رابع ایدہ اللہ تعالٰی نے بھی والدہ صاحبہ کے چندوں کی ادائیگی کے طریق پر خوشنودی کا اظہار فرماتے ہوئے ان کے اور ان کی اولاد کے لئے دلی دعاؤں کا اظہار فرمایا ہے.والدہ صاحبہ کے اوصاف حمیدہ عزیزوں کی نگاہ میں ایک خط پیاری آپا آمنہ آیا حفیظ و باجی کریم السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ چند دن ہوئے عزیزم مسعود کی زبانی اطلاع ملی کہ ہماری پیاری خالہ جان فوت ہو گئی ہیں.انا للہ وانا الیہ راجعون خالہ جان کی اچانک وفات کا سن کر بہت صدمہ ہوا یہ ان کی بیماری کا تیسرا حملہ تھا غالبا کمزوری اتنی ہو چکی تھی کہ مقابلہ کی سکت باقی نہ رہی اور اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوئے.خالہ جان ایک عظیم خاتون تھیں.بہت سی خوبیوں کی مالک تھیں.بزرگوں کی عظمت کا اندازہ اس وقت لگتا ہے جب انسان بچوں کا باپ بنتا ہے انسان اپنے بچوں کے صرف اخراجات کو ہی پورا کرے تو اس کی ساری زندگی اس کام میں صرف
خاتون صالحه 52 ہو جاتی ہے.اور پھر بھی یہ فریضہ پورا ہونے کو نہیں آتا.خالہ جان کی عظمت اور کردار کی پختگی کا اندازہ اس بات سے لگتا ہے کہ اس کا سہارا ان کی جوانی میں ہی سر سے اٹھ گیا تھا لیکن اس کے باوجود بھی ہم نے بچپن سے یہ دیکھا ہے اور دوسرے لوگوں سے سنا ہے کہ یہ عظیم اور شاکر و صابر عورت ہر وقت اسی پریشانی میں ہوتی کہ کسی طرح سے اس کا مفید وجود بیواوں.قیموں.محتاجوں.غریبوں اور مریضوں کے کام آجائے.اس نیک خواہش کو پورا کرنے کے لئے یہ عظیم خاتون اکثر و بیشتر اپنے محلہ اور دور دراز کے محلوں اور حلقوں میں ایک مجاہدہ کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ کا نام لے کر نکل جاتیں اور واپس کبھی بھی خالی ہاتھ نہ لوٹیں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہزاروں ضرورت مندوں نے خالہ جان کی سخاوت اور نیکیوں سے فیض یابی حاصل کی.آپ نہایت ہی مخلص - نیک اور ہمدرد خاتون تھیں.جماعت کی ذمہ داریوں کو بھی بخوبی نبھایا اور خدمت کرتے وقت محض خلوص اور سلسلہ سے گہری وابستگی کا اظہار نمایاں ہوتا اور دوسروں کو بھی خلوص.نیکی اور ہمدردی اور خدمت کا انعام انکی زندگی میں دیا.ماشاء اللہ اولاد در اولاد کو اپنی آنکھوں کے سامنے ایک لمبے عرصہ تک پھلتے پھولتے دیکھا اور خدا نے نهایت ہی مخلص ہمدرد اور خدمتگار اولاد سے نوازا.اللہ تعالٰی خالہ جان کو جنت میں اعلیٰ درجات سے نوازے اور انکی اولاد در اولاد کو اخلاص - ہمدردی.کردار اور دین ودنیا کی بقاء نوازے رکھے اور ہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق بخشے (آمین) ہور
خاتون صالحہ 53 امتہ السمیع آپ سب سے اور باقی افراد خاندان سے گہری تعزیت کا اظہار کرتی ہیں.خدا تعالیٰ آپ سب کا حافظ و ناصر رہے.تدفین و سلام دعا گو حمید احمد بھٹی والدہ صاحبہ کی وفات کے بعد جمعہ ۳۱ جنوری ۱۹۸۶ء کی صبح ان کی رہائش گاہ ۱۸۳ نیو آفیسرز کالونی لاہور کینٹ سے میت کو تدفین کے لئے ربوہ لے جایا گیا.جہاں محترم مولوی سلطان محمود انور صاحب نے بعد نماز جمعہ.نماز جنازہ پڑھائی.اور اس طرح کثیر تعداد جماعت کی دعا میں شریک ہوئی اسی شام بہشتی مقبرہ قطعہ نمبر ۱۷ کے شروع میں مدفون ہو ئیں.كل من عليها فان ويبقى وجه ربك ذو الجلال والاكرام جیسے ہی ربوہ کی مستورات کو والدہ صاحبہ کی وفات کا علم ہوادہ کثیر تعداد میں ان کی تعزیت اور چہرہ دیکھنے کے لئے ہمارے پاس دار الضیافت تشریف لاتی رہیں مستورات خاندان حضرت مسیح موعود نے بھی تشریف لا کر ہماری دلجوئی فرمائی اور محترمہ حضرت چھوٹی آپا جان صاحبہ نے از راہ شفقت چہرہ پر ہاتھ پھیر کر دعا فرمائی اور اس طرح ہم سب سوگواروں کو اپنی محبت سے نوازتے ہوئے تسلی دی جس کے لئے ہم سب بے حد ممنون ہیں.والدہ صاحبہ نے اپنی یادگار تین بیٹے اور تین بیٹیاں چھوڑی ہیں اور آٹھ ہوتے چار پوتیاں چار نواسے دو نواسیاں تین پڑپوتے اور ایک پڑپوتی تین پڑ نواسیاں.دو پڑ نوا سے اپنی یادگار چھوڑے ہیں.اہور
خاتون صالحہ 54 تمام جماعت کے افراد اور لجنہ کی ممبرات سے درخواست دعا ہے اللہ تعالیٰ ان کی نسل کو تمام خوبیوں کا وارث بنائے.اگر والدہ صاحبہ کی زندگی کی تمام روایات بیان کرنے لگوں تو ایک ضخیم کتاب بن جائے.اس لئے اختصار کو ملحوظ رکھنے کی کوشش میں ہوں ان کی ۸۶ سالہ زندگی خدمت دین کے جذبہ سے سرشار اور سلسلہ کی تاریخ سے منسلک نظر آتی ہے.جو ہم بہن بھائیوں کے لئے قاتل تقلید ہے اللہ تعالی ان کے نقش قدم پر ہمیں چلنے کی توفیق عطا فرمائے کہ ان کی خواہشات کے مصداق بن سکیں.اب آخر میں خلفاء وقت اور خاندان مسیح موعود......کی طرف سے ملنے والے تبرکات اور والدہ صاحبہ کی اپنی اولاد کی وصیت والے خط کی کاپی بھی منسلک ہے.تبركات والد صاحب ڈاکٹر غلام علی صاحب مرحوم ۱۹۲۲ مصر میں بصرہ میں پہلی جنگ عظیم کے بعد متعین تھے دو سال رہنے کے بعد واپسی پر حج کی سعادت حاصل کرنے کا موقع ملا.اور خانہ کعبہ کے غلاف کا ٹکڑا حاصل کرنے کی توفیق بھی پائی حضرت مسیح موعود......کی پگڑی کا کپڑا ہے جو کہ والد صاحب کے بڑے بھائی حافظ محمد الدین ہاشمی صاحب کے ذریعہ والدہ صاحبہ کو ملا.- حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ حرم حضرت مسیح لاہور
خاتون صالحه 55 اماء اللہ لاہور موعود ------ کے کپڑوں کے تبرکات -۴ حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے ململ کے کرتے کا تیرک پورا کرتا محفوظ ہے والدہ صاحبہ نے مذکورہ تبرکات کے ذکر والے خط میں اپنی اولاد کو ان الفاظ میں وصیت کی ہے کہ " یہ سب تبرکات ہیں اس لئے ان ہستیوں کی شروع سے آخر تک ان کی زندگیوں پر غور کرو.قرآن کریم کی تعلیم اپنے اندر اپنانے کے لئے انہوں نے دن رات اپنے خدا کو پانے کے لئے ہر قسم کی مشکلات کا مقابلہ کیا.اس لئے اخلاق اعلیٰ سے دنیا کو فتح کرنے اور آنحضرت اور حضرت مسیح موعود.....کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے میں لگے رہے.خداتعالی آپ سب کا حافظ و ناصر ہو".آمین و ستخط دعا گو آپ کی والدہ زینب المیہ ڈاکٹر غلام علی مرحوم یہ مندرجہ بالا وصیت نامہ اور تبرکات ایک کپڑے میں بند ان کی وفات کے بعد کھولے گئے.والدہ صاحبہ کی وفات کے بعد ان کے کاغذات میں سے چند سطور کا مجموعہ جو انہوں نے بڑے نواسے کیپٹن مسعود احمد ہاشمی کے بارے میں اس کی وفات پر جو اوکاڑہ بارڈر پر واقعہ ہوئی تھی اپنے غم کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے لکھے وہ قارئین کے لئے درج ذیل کر رہی ہوں تاکہ تانی اور نواسے کے لئے پڑھنے والوں کے دلوں میں دعاؤں کا سر چشمہ بن جائیں.
خاتون صالح 56 لجنہ اماء اللہ لاہور گو والدہ صاحبہ شاعر نہیں تھیں لیکن غم کے جذبات کا اظہار جس طور پر بھی انہوں نے کیا ہے پیش خدمت ہے.کیپٹن بیٹے مسعود احمد انجنیئر کے بوقت رخصتی بزبان نانی اماں زینب بیگم صاحبہ میرا تھا مجاہد مسعود احمد کیپٹن ربوہ ہے آیا کریہ فوج نے آکر اس کو اور مسعود بیٹے کو پھولوں کے سروں سے ہے سجایا تاج شهادت پہن کر ہے وہ آیا ہے دولھا بنایا خلیفہ ثالث نے بیٹے کا جنازہ ہے پڑھایا باڈر اوکاڑہ و لاہور سے جو تاج شہادت پہن کر ہے آیا میرا نتها مجاہد مسعود انجنیر ربوہ ہے آیا مجاہد بیٹا کیپٹن پہن کرتاج شہادت دوڑا دوڑا ہے وہ آیا فوج نے اس کو آکر بارات کے لئے ہے سجایا پھولوں سہروں سے ہے اس کا تاج ہے بنایا تاج شهادت ہے آج جو پہن کر وہ آیا میرا ننھا مجاہد بیٹا کیپٹن مسعود یوں ہے ربوہ آیا 期 غرض والدہ صاحبہ یوں اپنے گہرے غم کے جذبات کی تصویر مومنانہ مبر کے انداز میں پیش کر گئیں.دعا ہے اللہ تعالی اس فدائی نانی اور نواسے دونوں کو جنت فردوس میں اعلیٰ علیین میں جگہ دے اور درجات بلند سے بلند فرماتا رہے آمین ثم آمین.
خاتون صالحہ 57 لجنہ اماء الله لا ہو عاجزہ اپنے اس مضمون کو ایک تاریخی اہمیت کے واقع کے بیان کرنے پر ختم کرتی ہے جس کا ذکر اکثر والدہ صاحبہ نہایت ہی خوشی کے انداز میں کیا کرتی تھیں اور اسے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قارئین کو یہ اندازہ ہو سکے کہ قادیان میں رہنے والے اور حضرت خلیفتہ اصبح الثانی کی تربیت اور راہنمائی میں پروان چڑھنے والے کس طرح محبت و احترام اطاعت و تنظیم کے اعلیٰ معیار کو اپنائے ہوئے تھے اور خدا کے فضل سے قادیان سے تربیت یافتہ افراد کا جذبہ خدمت دین اب بھی نمایاں نظر آتا ہے اللہ تعالیٰ اس جذبہ کو عملی شکل میں اظہار کی توفیق عطا فرماتا رہے آمین ایک تاریخی واقعہ اور لجنہ اماءاللہ کا تنظیمی انداز والدہ صاحبہ فرماتی تھیں اور ہم نے خود بھی دیکھا تھا) کہ جب مکرم محترم فتح محمد سیال صاحب جماعت کی طرف سے الیکشن میں حصہ لینے کے لئے کھڑے کئے گئے دوسری بار جب پھر الیکشن کا موقعہ آیا تو حضور نے بنفس نفیس اس کی تیاری میں کافی حصہ لیا یہ اب جماعت کے وقار کا بھی سوال تھا.مکرم چوہدری صاحب کا ذاتی مسئلہ نہ رہا تھا.مستورات کی ووٹنگ کے سلسلہ میں حضور حضرت خلیفہ ثانی کی زیر نگرانی حضرت آپا جان محترمہ حضرت سیدہ ام طاہر احمد صاحبہ کا گھر (جو عالمی لجنہ کی تنظیم کی صدر ہونے کے علاوہ قادیان کی بجنات کی بھی مرکزی صدر تھیں الیکشن کی تیاری کا مرکز تھا الیکشن کی تیاریوں کے مد نظر تمام حلقہ جات کی صدریں سیکرٹریان اور ٹیچرز حضرت سیدہ آپا جان کے گھر پر اس سلسلہ میں تربیتی اور تنظیمی طور پر کام کرنے اور
58 نجنہ اماء اللہ لاہور ہدایات لینے تقریباً کئی ہفتہ پہلے ہی روزانہ جاتی تھیں اور پھر ووٹروں کی تربیت کے مطابق حلقہ وار لسٹوں کی تیاری اور مستورات کا ووٹ بھگتانے کے طریقہ وغیرہ کے سلسلہ میں حضور کی ہدایت کے مطابق ٹریننگ حاصل کر کے تمام صدریں اپنے اپنے حلقہ میں گھر گھر جاکر ووٹروں کو ووٹ ڈالنے کا طریق کار سمجھائیں اور جلسہ جات منعقد کر کے ریہرسل کروائیں.اور ساتھ ساتھ باوقار انداز سے تنظیم کے مطابق ووٹ بھگتانے کی تربیت دیتیں اور ایک ایک ووٹ کی اہمیت کا احساس دلواتیں چنانچہ مستورات کا جوش و خروش قابل دید وستائش تھا.پولنگ اسٹیشن ریتی چھلہ میں قائم کیا گیا تھا.حضور نے بنفس نفیس انتظامات دیکھنے کے لئے سینٹر کا دورہ فرمایا کہ پروگرام کے ماتحت تمام حلقہ جات کی ممبرات کو الیکشن سینٹر صبح و بجے پہنچنا تھا.تمام صدروں کو ہدایت تھی کہ وہ اپنے اپنے حلقہ کا جھنڈہ ہاتھ میں لے کر اور تمام نمبرات کو ایک قطار کی صورت میں تنظیم اور وقار کے ساتھ ایکشن سینٹر کی طرف لے کر آئیں کوئی بے ترتیبی نہ ہو تا مخالف یا مد مقابل کسی قسم کی بات نہ اچھال سکیں.غرضیکہ اس دن نظارہ دیکھنے والا تھا.برقعہ پوش عورتیں جھنڈے کی معیت میں قطاروں کی صورت میں گھروں سے نکل کر جب سڑکوں پر نمودار ہو ئیں تو مخالفین مستورات کا اس فوجی تنظیم کا نظارہ دیکھ کر کہہ اٹھے کہ آج تو قادیان والے جیت جائیں گے اور مد مقابل حریف بھی بو کھلا گئے کہ آج یہ برقعہ پوش عورتوں کی ڈار جینے نہیں دے گی.غرضیکہ انداز ا ایک ہی وقت میں چاروں طرف سے پہنچنا ایک عجیب نظارہ پیش کرتا تھا گویا کہ "ریتی چھلہ " ایک سورج کی طرح
خاتون صالحہ 59 لجنہ اماء اللہ لاہور تھا اور مستورات کی آمد چاروں طرف شعاؤں کی طرح پھیلی ہوئی تھی.یہ تنظیم الیکشن کے دن لوگوں کو دعوت نظارہ دے رہی تھی.جو قابل صد ستائش ہی نہیں بلکہ بہت بڑی کامیابی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی اور چوہدری فتح محمد سیال صاحب اسمبلی کے ممبر منتخب ہو گئے.الحمد للہ یہ ایک جماعتی کامیابی تھی جس کے لئے اللہ تعالی نے اپنے فضل سے اسباب مہیا فرما دیئے.اس وقت یہ تنظیم کا نظارہ دیکھتے ہوئے حضور کا یہ الہام بھی یاد آنے لگا.ہے اگر پچاس فیصد عورتوں کی اصلاح ہو جائے تو ہماری کامیابی یقینی والدہ صاحبہ اپنے ایک عمل کا ذکر بھی بے حد خوشی سے کیا کرتی تھیں جس کا تعلق تنظیم کے علاوہ جذبہ احترام سے تھا.والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ جب وہ محلہ دار الفضل سے اپنے حلقہ کی ممبرات کو قطار دار لئے ہوئے اور ہاتھ میں جھنڈا لئے ہوئے الیکشن سینٹر کی طرف جارہی تھیں تو "ریتی چھلہ " کے قریب انہوں نے دیکھا کہ حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ بیگم حضرت مرزا منصور احمد صاحب اپنی ممبرات کی قطار کے آگے آگے جھنڈا لئے تشریف لا رہی ہیں.جب وہ دونوں ایک دوسرے کے قریب پہنچیں تو والدہ صاحبہ نے بلند آواز سے اور ہاتھ کے اشارے سے اپنی مستورات کو رک جانے کے لئے کہا تا صاحبزادی صاحبہ اپنی قطار کو آگے لیکر نکل جائیں تو ان کے ہمراہ بعد میں اپنی قطار کو ملا کر چلیں.یہ دو حصہ ایک ہی حلقہ کے تھے جو بڑا حلقہ ہونے کی وجہ.سے دو حصوں میں تقسیم کیا ہوا تھا.چنانچہ جب صاحبزادی
خاتون صالح 60 صاحبہ آگے نکل گئیں تو والدہ صاحبہ نے اپنی قطار ساتھ ملالی.والدہ صاحبہ کے اس عمل سے تنظیم کے ساتھ ساتھ جذبہ احترام اور محبت کے مظاہرہ کا اظہار بھی ہوتا ہے جسے وہ مقدم سمجھتی تھیں کیونکہ حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحب حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی صاحبزادی ہیں اور جس بابرکت وجود کو خدا نے خلائق کی ہدایت کے لئے چنا تھا اس وجود کے باغ کا ثمر ہیں اور اپنی ظاہری اور باطنی خوبیوں کے ساتھ آج بھی وہ قابل تقلید نمونہ کی مظہر ہیں.اللہ تعالی انہیں لمبی صحت والی زندگی سے نوازے.آمین سو یہ تھے والدہ صاحبہ اور اس وقت کے ہمعصروں کے روز و شب اور گزر اوقات جو محبت و احترام اور اطاعت کے لبادے اوڑھے نظر آتے تھے کام ہی کام آرام بالکل نہیں.محبت ہی محبت نفرت کسی سے نہیں.یہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مضبوط نظر آتے تھے.اس ماحول کے پروردہ جن کی اولادیں آج بھی وہ وقت اور نظارے یاد کر کے نہ صرف محظوظ ہوتی ہیں اور فخر محسوس کرتی ہیں بلکہ وہ یادیں انہیں آئندہ نسلوں کے لئے اپنا عملی نمونہ پیش کرنے کی تحریک کرتی ہیں اور اپنے بزرگوں کے خدمت دین سے سرشار جذبات اور مصروفیات کو صفحہ قرطاس پر بکھیرنے کا مقصد یہی ہے کہ آئندہ نسلوں کے لئے مشعل راہ کا کام دیں.کن کن افراد کا تذکرہ ہو.حضرت ام طاہر احمد صاحبہ کو دیکھا کہ لجنات کے دوروں پر رواں دواں حضرت آپا صالحہ بیگم صاحبہ بیگم حضرت میر محمد اسحق صاحب کو دیکھا کہ تعلیم القرآن - درس تدریس کے لا ہو
خاتون صالحہ 61 لجنہ اماء الله لاہور فن میں کمال ہی کمال رکھتے ہوئے ہنوز تشنہ ہیں.لجنہ کے کاموں اور دوروں میں پیش پیش ہیں اس وقت کے افراد محترم کی اداؤں کا کیا ذکر کروں اور کیا چھوڑوں ایک لمبی تحریر بن جائے گی اس پر اکتفاء کرتے ہوئے لجنات عالمی جماعت احمدیہ کی خدمت میں درخواست دعا کرتی ہوں کہ والدہ صاحبہ کے لئے ہمارے کردار بلندی درجات کا باعث بنتے چلے جائیں اور ہم لوگ اپنے پیش روں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق پاتے رہیں.اولاد در اولاد ان کے کارنامے ہمارے لئے مشعل راہ بنتے رہیں اور ان کی تنظیمی سرگرمیوں کی یلغار ہمارے لئے باعث تقلید بنتی رہے.آمین ہماری والدہ صاحبہ کی وفات پر حضرت خلیفہ المسیح الرابع ایده الله نے اپنے ایک تعزیتی خط میں عاجزہ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ” آپ کی والدہ ماشاء اللہ مخلص اور سلسلہ سے بڑی محبت کرنے والی فدائی خاتون تھیں.اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور درجات بلند فرمائے اور آپ کو ان کی نیکیوں اور نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے فضل سے نوازے.تمام عزیزوں کو محبت بھرا سلام دیں.دستخط مرزا طاہر احمد صاحب خدا کرے کہ حضور کے یہ دعائیہ فقرات حقیقت کا رنگ اختیار کر لیں اور اللہ تعالٰی ہمیں اپنی رضا کی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور قادیان سے ہجرت کے بعد ربوہ اور لنڈن میں جو اسلام و احمدیت کی
خاتون صالحہ 62 امام اللہ لاہور تعلیم و تربیت و تبلیغ کا مرکز بنا ہے اس سے ہماری نسلوں کو فائدہ اٹھانے کی توفیق دے.آمین اس موقعہ پر محترم والد صاحب ڈاکٹر غلام علی ہاشمی مرحوم کے بارے میں ایک خواب کا ذکر بھی یاد آیا.کہ قادیان میں والد صاحب کی وفات کے بعد ان کے ایک دوست جو کہ ڈاکٹر تھے.انہوں نے ذکر کیا کہ خواب میں انہوں نے دیکھا کہ کوئی کہہ رہا ہے.کہ ڈاکٹر غلام علی کی جڑیں تمام دنیا میں پھیلی ہوتی ہیں" چنانچہ ان کی اہلیہ صاحبہ والدہ صاحبہ کے پاس آئیں اور خواب کا ذکر کر کے خواہش ظاہر کی کہ ان کی اور ان کے شوہر کی خواہش ہے کہ ڈاکٹر صاحب جیسے نیک انسان کے کسی بچہ سے ہمارے بچہ کا رشتہ جوڑا جائے.لیکن والدہ صاحبہ ان کی اس خواہش کا احترام اس لئے نہ کر سکیں کہ شادی کے قابل بچیوں کے رشتے طے ہو چکے تھے.بہر حال خواب کے باطنی پہلو کو تو اللہ تعالی ہی جانتا ہے مگر والد صاحب کے دوست نے والد صاحب کی دین کے لئے جذبہ فدائیت اور شیدائیت کے مد نظر اس خواب کے نتیجہ میں ظاہری تعلق جوڑنے کی خواہش کا اظہار کیا.لیکن اس وقت کس کو معلوم تھا کہ جماعت کو کن حالات میں مرکز قادیان سے ہجرت کر کے پاکستان اور پھر انگلستان میں اپنے مراکز بنانے پڑیں گے اور اس طرح جماعت کی جڑیں تمام دنیا میں پھیل کر مضبوط ہو جانے کے سامان پیدا ہو جائیں گے.اور ظاہری طور پر والد صاحب کے بچوں کو بھی بیرون ملک جاکر اپنے اور دین اسلام پھیلانے کی
خاتون صالحه 63 کوششوں میں حصہ لینے کی توفیق ملی.الحمد للہ خداتعالی انہیں اعلیٰ رنگ میں خدمت دین کی توفیق عطا فرمائے.اور اسلام ایک تن آور درخت کی صورت میں کل دنیا کو اپنے سایہ سے فائدہ پہنچا سکے.آمین ثم آمین خاکسار - طالب دعا آمنہ صدیقہ ہاشمی ( بنت زینب وڈاکٹر غلام علی ہاشمی) قارئین کرام سے محترم ڈاکٹر غلام علی ہاشمی مرحوم اور محترمہ زینب بیگم صاحبہ مرحومہ کے درجات کی بلندی کے لئے درخواست دعا ہے جن کی طرف سے اس کتاب کا کل خرچه محترمہ آمنہ صدیقہ ہاشمی صاحبہ نے ادا کیا.Shakoor Bhai Chashmay Way AHMADIA BOOK DEPU Gole Bazar, RABWA