Khitabat Shura Vol 3

Khitabat Shura Vol 3

خطاباتِ شورٰی (جلد سوم۔ 1944ء تا 1961ء)

Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

حضرت مصلح موعودؓ نے 1922ء میں جماعت احمدیہ میں باقاعدہ مشاورت کا نظام شروع فرمایا اور شوریٰ کے افتتاحی خطاب میں تفصیل کے ساتھ شوریٰ کی غرض و غایت اور اہمیت پر زریں ہدایات دیں۔ نیز آپ ؓ 1922 سے 1960 تک مجلس شوریٰ کے اجلاسات میں بنفس نفیس شمولیت فرماتے رہے اور قدم قدم پر رہنمائی فرماکر اس باغ احمد کو سینچا۔ آپ ؓ کے ان خطابات کو جو نظام شوریٰ کی اہمیت اور جماعتی ترقی و تربیت کے لئے مشعل راہ ہیں، ان کو اس مجموعہ کی شکل میں شائع کیا گیا ہے۔ اس مجموعہ کا مطالعہ مختلف مجالس شوریٰ کے مواقع پر حضرت مصلح موعود ؓ کی بے نظیر فراست و ذہانت اور حیرت انگیز قوت فیصلہ اور اولوالعزمی کا بھی پتہ دیتا ہے۔


Book Content

Page 1

خطابات شورای (۱۹۴۴ء تا ۱۹۶۱ء) جلد سوم

Page 2

نام کتاب فرمودات : خطابات شوری جلد سوم حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی طبع اول طبع اول انڈیا : اکتوبر 2015ء تعداد 1000: مقام اشاعت ناشر مطبع قادیان نظارت نشر و اشاعت صدر انجمن احمد یہ قادیان، ضلع گورداسپور ، پنجاب-143516.انڈیا : فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان Khitabat-e-Shura (Vol III) Sermons Delivered by Hadrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad رضی اللہ تعالیٰ عنہ Khalifatul Masih II ISBN: 978-93-82882-64-9

Page 3

بسم الله الرحمن الرحيم عرض ناشر شوریٰ کا نظام ارشاد باری تعالیٰ شَاوِرُهُمْ فِي الْأَمْرِ یعنی اہم معاملات میں ان سے مشورہ کر لیا کر کے مطابق آنحضرت مالی ایلام کے زمانہ میں جاری ہوا.اللہ تعالیٰ نے ایک مثالی دینی معاشرہ اور دین کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے شوری کو ضروری قرار دیا ہے.حضور ملی تھا یہ تم کا مبارک طریق تھا کہ اہم دینی اور امور مملکت کے معاملات میں اپنے صحابہ کرام سے ضرور مشورہ لیا کرتے تھے.اس کی اتباع میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ اسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی احباب جماعت سے انفرادی و اجتماعی صورت میں مشورے لیتے رہے.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے باقاعدہ مشاورت کا قیام سن 1922ء میں فرمایا اور شورٹی کے افتتاحی خطاب میں تفصیل کے ساتھ شوری کی غرض و غایت اور اہمیت پر زریں ہدایات دیں.نیز حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ 1922 ء تا 1960 ء تک مجلس شوری میں بنفس نفیس شمولیت فرماتے رہے اور قدم قدم پر احباب جماعت کی رہنمائی فرمائی.آپ کے ان خطابات کو جو نظام شوری کی اہمیت اور جماعتی ترقی و تربیت کے لئے مشعل راہ ہیں فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ نے خطابات شوری کے نام سے مرتب کر کے سید نا حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری سے شائع کیا ہے.اس کی ترتیب و تیاری میں جن احباب نے خدمات سرانجام دی ہیں اللہ تعالیٰ انہیں محض اپنے فضل سے جزائے خیر عطا فرمائے.آمین.یہ خطابات احباب جماعت کی تعلیمی، تربیتی ، روحانی اور جسمانی ترقی کے لئے بے حد مفید اور بابرکت ہیں.

Page 4

سید نا حضرت امیر المومنین خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد پر نظارت نشر واشاعت قادیان خطابات شوری کی ان جلدوں کی قادیان سے پہلی بار شائع کرنے کی سعادت حاصل کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ اسے ہر لحاظ سے با برکت فرمائے اور احباب جماعت کو ان ارشادات و ہدایات کو پڑھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق دے.آمین خاکسار حافظ مخدوم شریف ناظر نشر و اشاعت قادیان

Page 5

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ پیش لفظ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و احسان ہے کہ فضل عمر فاؤنڈیشن کو سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعودؓ کے حقائق و معارف سے پُر خطابات بر موقع مجالس شورای الموسوم خطابات شورای“ کی تیسری جلد احباب جماعت کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت مل رہی ہے.جلد ھذا 1944ء تا 1961ء کی مجالس شورای کے خطابات پر مشتمل ہے.جلد ھذا کے مسودہ کے ایک حصہ کا ابتدائی کام مکرم چوہدری رشیدالدین صاحب مربی سلسلہ نے سرانجام دیا.فَجَزَاهُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب کا بھی خاکسار تہہ دل سے ممنون ہے جنہوں نے ہماری درخواست پر مجالس مشاورت کی تمام رپورٹس کو پڑھا ، بعض ضروری امور کی نشان دہی کی اور قیمتی مشوروں سے نوازا.فَجَزَاهُ اللَّهُ أَحْسَنَ الْجَزَاءِ - محترم سید عبدالحئی شاہ صاحب ناظر اشاعت و نائب صدر فضل عمر فاؤنڈیشن نے بھی خطابات شورای“ کی تیاری کے سلسلہ میں جہاں کہیں ضرورت محسوس ہوئی انہوں نے کمال بشاشت سے متعلقہ عبارتوں کو پڑھ کر بعض بنیادی امور میں ہماری راہنمائی فرمائی.اللہ تعالیٰ انہیں بہترین جزاء دے.جلد ھذا کی اشاعت سے قبل ہی محترم سید عبدالحئی صاحب ناظر اشاعت وفات پا کر اپنے مولی حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے.اِنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.ان کی وفات کے بعد محترم ملک مسعود احمد صاحب خالد کا تقرر بطور ناظر اشاعت اور ڈائریکٹر فضل عمر فاؤنڈیشن حضور انور نے منظور فرمایا ہے.محترم ملک صاحب نے بھی اپنے پیش رو کی روایت کو آگے

Page 6

بڑھاتے ہوئے 1956 ء تا 1961 ء کا سارا مواد ملاحظہ فرما کر بعض غلطیوں کی اصلاح کے ساتھ ساتھ نہایت قیمتی مشوروں سے بھی نوازا.خاکسار ان کا بھی دلی شکریہ ادا کرتا ہے.فَجَزَاهُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ - جلد لھذا میں 1944 ء تا 1960 ء تک حضور کے خطابات شامل اشاعت کئے جار ہے ہیں.1961ء میں حضور کا پیغام حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے پڑھ کر سنایا وہ بھی اس جلد کی زینت ہے.بعد میں 1962ء تا 1965ء حضرت مصلح موعودؓ ا پنی علالت کی وجہ سے مجلس مشاورت میں شمولیت نہیں فرما سکے.1962ء ، 1963 ء میں حضور کے ارشاد پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور 1964 ء ،1965ء میں حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ ضلع فیصل آباد صدارت کے فرائض سرانجام دیتے رہے.مکرم عبدالرشید اٹھوال صاحب، مکرم حبیب اللہ باجوہ صاحب ، مکرم فضل احمد شاہد صاحب، مکرم عبد الشکور باجوہ صاحب، مکرم عدیل احمد گوندل صاحب اور مکرم ظہور احمد مقبول صاحب مربیان سلسلہ کا بھی خاکسار خصوصی شکریہ ادا کرتا ہے کہ اس جلد کی تدوین واشاعت کے مختلف مراحل مسودات کی ترتیب و تصحیح ، پروف ریڈنگ اور حوالہ جات کی تلاش ،Rechecking اور اعراب کی درستی کے سلسلہ میں ان سب نے نہایت محنت لگن ، خلوص اور دلی بشاشت سے کام کیا اور اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا.فَجَزَاهُمُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ - مکرم بشارت احمد صابر صاحب کارکن دفتر فضل عمر فاؤنڈیشن بھی شکریہ کے مستحق ہیں جنہوں نے اس جلد کی تیاری میں معاونت کی.فَجَزَاهُمُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ - اللہ تعالیٰ ہماری اس علمی کاوش کو قبول فرمادے اور ہم سب کو اپنی ذمہ داریاں احسن رنگ میں بجالانے کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 7

بسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ پیشگوئی مصلح موعود ط اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا.وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا.وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.وہ کلمہ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا.اور وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا (اس کے معنی سمجھ میں نہیں آئے ) دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ.فرزند ولید گرامی ارجمند مظهرُ الأَول وَالآخِرِ مَظْهَرُ الْحَقِ وَالْعَلَاءِ كَأَنَّ اللهَ نَزَلَ منَ السَّمَاءِ - جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا.ٹور آتا ہے ٹور.جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا.ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قو میں اس سے برکت پائیں گی.تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا.وَكَانَ أَمْرُ القضيا " (اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء)

Page 8

MAKHZAN-E- TASAWEER © 2006 یان لمصلح الموعود حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفه اسبح الثاني منى الشحن

Page 9

خطابات شوری جلد سوم (i) فهرست عناوین عناوین مجلس مشاورت اپریل ۱۹۴۴ء افتتاحی تقریر صحابہ سے ملنے کے معنے ہماری زندگی کا اولین مقصد فہرست مضامین صفحہ نمبر شمار 3 ۱۷ غیر احمدی لڑکیوں سے رشتہ ناطہ کی بابت ۲۷ حفاظت خاص وقف اولاد کی اہمیت ۲۹ ۳۴ عناوین کالج کے اجراء کا مقصد وقف زندگی امداد گندم اسلامی تعلیم اور اعلیٰ تربیت کے حصول کا کامیاب طریق نمایاں کام کرنے والوں کے قائمقام پیدا کرنے کی ضرورت و اہمیت چندہ جلسہ سالانہ کی شرح دس فیصد ریز روفنڈ ۳۷ ۴۰ زندہ قوم کی علامت مسلمانوں کے تنزل اور ادبار کا بڑا سبب پانچ ہزار مبلغین کی ضرورت ۴۳ ۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء { ۴۶ افتتاحی تقریر زندگی کا یادگار واقعہ پہلی قوموں کی دین کیلئے عظیم الشان قربانیاں ۵۲ ۹۷ ۹۷ رد شده تجاویز کی وجوہ بیان کی جائیں ۱۰۵ ہسپتال کے لئے زمین کی خرید بجٹ اخراجات کے سلسلہ میں ہدایات ۵۹ آمد بڑھانے کے لئے نئے ذرائع لا اختیار کیے جائیں سال میں دو دفعہ مجلس شورای اختتامی تقریر وقف جائیداد وقف آمد ۶۹ ۶۹ ۷۵ دیہاتی مبلغین کی سکیم تبلیغ دوحصوں میں تفسیر کبیر کی اشاعت کالج میں تعلیم کے لئے لڑکے بھجوائیں ۷۷ لائبریری کے متعلق تجاویز پر تبصرہ 112 ۱۲۲ ۱۱۲۹

Page 10

فهرست عناوین عناوین صفحه قیمتی نصائح ۱۱۸۸ ۱۸۹ ۱۹۲ ١٩٦ ۱۹۶ ۱۹۹ (ii) صفحہ نمبر شمار ۱۳۵ خطابات شوری جلد سوم عناوین حسابات کا ہر روز معائنہ ہونا چاہئے دار الشیوخ میں صرف مستحق افراد کو داخل جماعتی کاموں کے اصول اسلام کے زریں اصول امراء کے اختیارات اختتامی تقریر تقویٰ کی اہمیت بغداد کی تباہی کا سبب صراط مستقیم کی دعا خطرناک زمانہ میں جماعت کی ذمہ داری ۲۰۲ خلیفہ وقت پر تقدم جائز نہیں ۲۱۰ ۲۱۱ ۲۱۴ ۱۲۱۶ ۲۱۹ ۱۲۲۱ ۲۲۶ ۲۲۷ ۱۲۲۹ افریقہ سے مبلغین کا مطالبہ تجارتی کاموں میں تعاون تحریک جدید کا دفتر دوم مرکز سے تعلق کی اہمیت ہر شخص قربانی کا عزم صمیم کرے جامعہ احمدیہ کے بارہ میں ہدایات ۱۴۳ ۱۴۸ ۱۴۹ ۱۵۳ ۱۵۴ ۱۵۹ å F ۱۶۱ ۱۶۱ ۱۶۴ ۱۶۸ 121 121 ۱۷۲ کیا جائے خلیفہ وقت کے فیصلہ کی تعمیل لازمی ہے ایک انتباہ اختتامی اجلاس افضال الہیہ پر سجدہ شکر مجلس مشاورت ۱۹۴۶ء افتتاحی تقریر مذہب کے دوحصے جماعتی کاموں میں وسعت تبلیغی منصو بہ اور مال کی ضرورت وظائف برائے طلباء جامعہ علماء تیار کرنے کی سکیم عورتوں کی تعلیم مغربی افریقہ کے لئے تعلیمی سکیم اقتصادی حالت کی بہتری کی سکیم ۱۷۳ ۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء صنعت و حرفت کی اہمیت ۱۷۵ IZA افتتاحی تقریر ہمارا نصب العین اور ترقی بیعت کے وقت کی کیفیت کانٹوں پر چلے بغیر ہم منزل مقصود کو حاصل نہیں کر سکتے ۱۸۰ جماعتی کارخانوں کا مال خریدیں ہر احمدی سال میں کم از کم ایک احمدی بنانے کا عہد کرے احباب جماعت اور امراء کو نہایت

Page 11

خطابات عناوین (!!!) صفحہ نمبر شمار فهرست عناوین عناوین صفحہ اپنے دلوں اور فکروں میں تبدیلی پیدا کر یں ۲۳۰ ۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء جماعت کی تعداد کوار بوں تک پہنچایا جائے نازک دور کے مطابق ذمہ داریاں نبھانے کی تلقین بجٹ کے متعلق ہدایات واقفین اور گذارہ الا ونس کثرت ازدواج کی اہمیت رشتہ ناطہ کے بارہ میں ضروری ہدایات صدرانجمن احمدیہ سے اظہار ناراضگی قربانیاں کرنے والوں کا ذکر ۲۳۵ ۲۴۴ ۲۴۷ ۲۴۸ افتتاحی تقریر ردشدہ تجاویز کی وجوہ بھی بتانی چاہئیں جس جماعت کا اوسط چندہ ماہوار کم از کم ۵۰۰ روپیہ ہو وہ مدرسہ احمدیہ میں تعلیم دلوانے کے لئے ایک طالب علم لازمی بھیجے تعلیم القرآن کلاس میں نمائندگان بھیجوانے اور مستورات کی شمولیت کی بابت ۲۵۹ بجٹ کے دو حصے ۲۶۰ چندوں کا معیار بڑھائیں ۳۱۸ تعلیم کے اخراجات کم کر کے تبلیغ پر زور دیں (۲۶۹ حفاظت قادیان حفاظت مرکز کے متعلق جماعت سے چندہ میں سستی کرنے والوں کی بابت نصائح ۳۲۳ مالی قربانیوں کا مطالبہ ۲۷۸ مجھے سفارش پسند نہیں دوست اپناروپیہ بطور امانت قادیان بھجوائیں ۲۸۱ کامیابی کے لئے ایک قسم کی دیوانگی کی وقف جائیداد کی تحریک ۲۸۳ ۲۸۷ ضرورت ہے عورتوں کا چندہ ۳۲۹ ۱۳۳۲ ہر احمدی وصیت کرے قادیان میں زمین فروخت کرنے والے نصف منافع جماعت کو دیں اختتامی تقریر ہر جمعرات کو نفلی روزہ کی تحریک بعض سوالوں کے جواب جامع نصائح ۲۹۳ ۲۹۷ ۲۹۹ ۲۹۹ قابل نو جوانوں کو زندگی وقف کرنے کی تحریک ۳۳۲ ۳۳۴ ماہرین فن اساتذہ تیار کئے جائیں رسول اللہ ﷺ ایک عظیم حساب دان ۳۳۸ سیکرٹریان زکوۃ مقرر کرنے کی تحریک ۳۴۴ بچوں کی تعلیم کے سلسلہ کو جاری رکھنے کی تحریک ۱۳۴۴

Page 12

خطابات (iv) فهرست عناوین عناوین قربانیوں کا پھل کبھی رائیگاں نہیں جاتا صفحہ نمبر شمار ۳۴۶ عناوین صفحہ جہاد اور جنگ کی اہمیت بندہ کی پیدائش کا مقصد خدا کا مثل بننا ہے ۳۴۹ پٹھانوں کی بہادری کی تعریف عظیم الشان تاریخی عہد مجلس مشاورت ۱۹۴۹ء افتتاحی تقریر قادیان کی حفاظت کے لئے رقم ریز رو رکھنے کی ضرورت ۳۵۲ ۳۵۴ ۳۵۵ ایک رویا فوجی ٹریننگ جہاد سنت اللہ میں داخل ہے جہاد بالسیف کی صورت اسمبلی کے انتخابات میں جماعت احمدیہ ربوہ میں عمارتوں کی تعمیر کے لئے رقم ریز رو کی پالیسی رکھنے کی ضرورت ۳۵۹ چندہ جات میں دیانت داری کی تلقین ۳۶۲ چندہ بڑھانے کی تجاویز مجلس شورای کی ممبری کے لئے وصیت ضروری نہیں اختتامی تقریر وصیت کی اہمیت اولادکو جنت کا حقدار بنائیں مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء ۳۶۵ ۳۷۵ ۱۳۷۵ ۳۷۵ جلسہ سالانہ کی تواریخ کی بابت جماعت احمدیہ اور سالانہ جلسہ احمدیہ علیمی کانفرنس کی تجویز ۱۳۸۸ ۱۳۹۴ ۱۳۹۷ ۳۹۸ ۴۰۱ ۴۰۶ ۴۱۱ ۴۱۲ ۱۴۱۳ غیر احمدی لڑکیوں سے شادی دوستوں کا فرض ہے کہ وہ مرکز کو ہمیشہ صحیح حالات سے باخبر رکھیں بیرونی ممالک کے لئے کانسٹی ٹیوشن کی اشد ضرورت ۴۱۷ ۴۲۵ کتب حضرت مسیح موعود کی اشاعت کی اہمیت ۴۴۶ افتتاحی تقریر نمائندگان اور زائرین کے بیٹھنے کیلئے کرسییوں کا انتظام کیا جائے کارکنوں کے لئے بیج کی ہدایت احمد یوں کو فوج میں بھرتی کی تحریک ۳۷۹ ۳۸۰ ٣٨٣ آمد بڑھانے کی ضرورت ہمارا اصل مرکز قادیان ہی ہے ۴۲۶ ایک سوال کا جواب قابل گرفت غلطی ۴۳۸ مالی حالت درست کرنے کا ایک طریق ۴۳۹

Page 13

خطابات (v) فهرست عناوین عناوین عناوین صفحہ نمبر شمار صنعت و حرفت کی طرف توجہ کی ضرورت ۴۴۰ انڈونیشیا میں احمدیت کا آغاز نشر و اشاعت کی ذمہ داری نئی تعمیرات کے متعلق ہدایات اختتامی خطاب مجلس مشاورت ۱۹۵۱ء افتتاحی تقریر دعا کی ضرورت بجٹ بر وقت تیار ہو تالیف و تصنیف کی اہمیت تحریک جدید کے کام کی اہمیت نوجوانوں کی تربیت اور تبلیغ کی طرف ۴۴۲ ۴۴۴ ۴۵۱ ۴۵۳ ۴۵۴ ۴۵۵ ۴۵۶ ۴۵۷ امور عامہ کے فرائض صوبہ داری کا نظام نظارت تعلیم کا کام محکمہ تصنیف و اشاعت کا کام تحریک جدید کے بجٹ کے متعلق زراعت محاسبہ کی ضرورت نائب ناظر تیار کیے جائیں غلبہ اسلام کی لئے سکیم کی ضرورت مصارف کی نگرانی ۴۸۴ ۴۸۵ ۱۴۸۷ MAL ۴۸۹ ۴۹۳ ۴۹۹ ۵۰۱ ۵۰۲ توجہ دی جائے مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء افتتاحی تقریر ۴۵۹ ۴۶۷ بجٹ کی بعض مدات کے متعلق ہدایات ۴۶۷ پنشنرز اپنی خدمات پیش کریں ناظر اور وکلاء نائین کو کام سکھائیں ۵۰۴ تمام محلے اپی حکیم جماعت کے سامنے لائیں ۵۰۵ تبلیغ کی طرف توجہ کی ضرورت ۵۰۶ خلافت لائبریری لائبریری کی اہمیت لائبریری کی کتب میں اضافہ کی تلقین لائبریرین کے فرائض ہر شخص کی لائبریری ہونی چاہئے ۴۶۹ ۴۶۹ ۴۷۲ بیرونی ممالک میں تعمیر مساجد کی اہمیت ۴۷۹ منصوبہ بندی کی ضرورت ۴۸۱ وقف کی شرائط ۵۰۷ اخراجات میں تقدم و تا خرکوملحوظ رکھا جائے ۵۰۹ مجلس مشاورت میں صحابہ کی نمائندگی جماعتی کاموں کو ترقی دینے کے لئے زریں ہدایات کارکنوں کی تنخواہیں رسول اکرم ﷺ کا طریق حکومت ۵۱۰ ۵۱۲ ۵۱۳ ۵۱۶

Page 14

خطابات (vi) فهرست عناوین صفحہ عناوین صفحہ نمبر شمار عناوین مجلس شورا ی کا حال ربوہ کی عمارات کی تاریخ زكوة بیوت الذکر کے لئے چندہ کی تحریک ۵۱۷ ۵۱۸ ۵۱۹ ۵۲۱ اپنے آپ کو گلتی طور پر خدا کے حوالہ کرو ایک ریزولیوشن پر تبصرہ اپنی آمد میں گزارہ کریں وقف کے فوائد اشاعت لٹریچر کے متعلق ایک خصوصی ہدایت ۵۲۶ بچوں کو وقف کی تحریک کرو احمدیہ لٹریچر کے اثرات اپنے اپنے طبقہ میں تبلیغ کرو ۵۲۷ ۵۲۹ عورتوں کو ان کے حقوق دو شوری چاردن صاحب پوزیشن لوگوں کو تبلیغ ۵۳۴ ۱۱ مجلس مشاورت ۱۹۵۵ء ۵۶۴ ۵۷۰ ۵۷۱ ۵۷۴ ۵۷ ہر مومن اپنے آپ کو ساری دنیا کا مبلغ سمجھے ایمان کی قدر کریں ۵۳۷ ۵۳۹ مجلس مشاورت ۱۹۵۵ء کے موقع پر احباب جماعت کے نام حضور کا پیغام ۵۷۹ کن امور کے لئے دعا کرنی چاہئے ۵۸۳ موصی کی جائدادو ہی شمار ہوگی جو وفات کے ۱۲ مجلس مشاورت ۱۹۵۶ء وقت ثابت ہو ۵۳۹ بہشتی مقبرہ میں قبر کے لئے جگہ ریز رو کروانا ۵۴۱ جائداد کی تقسیم اختتامی تقریر مجلس شوری ۱۹۵۴ء نمائندگان مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء سے خطاب مخالفت اور ہماری ذمہ داری خلیفہ وقت کی حفاظت رسول کریم ﷺ کی الہی حفاظت اسلام ذہنیت بدلنے کا نام ہے صحابہ کا کردار ۵۴۳ ۵۴۷ ۵۵۳ ۵۵۴ ۵۶۲ افتتاحی تقریر احمدیت کی ترقی کی رو قرآن مجید کا دیگر زبانوں میں ترجمہ نہایت اہم کام ہے تراجم قرآن کی اہمیت خلافت اور تنظیم کی برکات ۵۸۹ ۱۵۹۱ ۵۹۱ ۵۹۶ ۵۹۷ ۶۰۰ جماعتی مشاورت میں حصہ لینا بڑے اعزاز کا کام ہے ۶۰۱ سلسلہ کی میٹنگز میں حاضری کی اہمیت ۶۰۲

Page 15

خطابات شوری جلد سوم (vii) فهرست عناوین مبر شمار عناوین صفحہ نمبر شمار عناوین صفحہ خدمت سلسلہ کا اعزاز ۶۰۳ افتتاحی تقریر ۱۶۶۰ ۶۶۱ ۶۶۳ ۱۶۷۳ ۶۷۵ 727 ۶۷۹ ۶۸۱ ۶۸۳ ۶۸۵ مربیان کی تیاری اور ان سے کام لینے کے سلسلہ میں ہدایات ۶۰۴ انتخاب خلافت کے ریزولیوشن پر تبصرہ خلافت کی غرض تحریک وقف زندگی اور والدین کی ذمہ داری ناظر اعلیٰ کے فرائض محکمہ زراعت کے متعلق ہدایات نظارت تعلیم کو ہدایات وصیت کے لئے عورت کی اصل جائداد اس کا مہر ہے ورثہ میں لڑکیوں کا حصہ غیر شادی شدہ عورتوں کی وصیت بیویوں کے حقوق وصیت کی آمد کا 70 حصہ مقبرہ بہشتی کی سجاوٹ پر خرچ کیا جائے یوم جمہوریہ پاکستان کے موقع پر قراردادِ مبارکباد یوم آزادی منانے کا جماعتی طریق مقامی جماعتوں کو ضرورت کے مطابق ۶۱۱ ۶۱۳ ۶۱۹ ۶۲۰ ۶۲۱ ۶۲۴ ۶۲۶ ۶۳۲ } ۶۳۴ ۶۳۸ رپورٹ دورہ جات ناظر صاحبان احمدی زمیندار محنت اور دعاؤں سے کام لے کر پیداوار بڑھا ئیں اپنے اندر ایمان پیدا کریں دعاؤں کی برکت اہلِ یورپ کی محنت ہر مبلغ کو کوئی نہ کوئی فن آنا چاہئے زراعتی کمیٹیاں ایک رویا نو جوانوں کو جامعہ احمدیہ میں داخل ہونے کی تحریک اختتامی تقریر ۱۳ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء انتخاب خلافت کے متعلق ایک ریزولیوشن ۶۴۳ گرانٹ دی جایا کرے، فیصدی والا مجلس انتخاب خلافت کے اراکین میں سسٹم نقصان دہ ہے تحریک جدید کے دور ثانی کے لئے نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کی تحریک ۲۹۰ بیرونی مشنوں کی ترقی خوشکن.۶۹۱ ۶۵۱ ۶۵۲ اضافه مجلس انتخاب خلافت کا دستور العمل بنیادی قانون

Page 16

خطابات شوری جلد سوم عناوین احمدیت مشرقی افریقہ میں بجٹ اخراجات اور دو نئے مشن فلپائن (viii) صفحہ نمبر شمار ۶۹۴ عناوین دفتر دوم کے چندہ کے متعلق تحریک اختتامی تقریر ۶۹۷ ۱۶ مجلس مشاورت ۱۹۶۰ء فهرست عناوین صفحہ ۷۳۳ ۷۳۴ ۷۳۷ ۷۳۸ ۷۳۸ ۱۷۴۲ اور نبی کھولنے کی تجویز بیرونی مشنوں کے لئے ہدایات ڈچ گی آنا میں احمدیت کی ترقی کم خرچ سے زیادہ کام کریں ۶۹۷ ۶۹۸ ۶۹۹ تحریک جدید کے وکلاء کو مشورہ کی ہدایت ۷۰۲ ۱۷ مجلس مشاورت ۱۹۶۱ء ایک رویا اختتامی تقریر ۱۴ مجلس مشاورت ۱۹۵۸ء افتتاحی تقریر تو کل کے ثمرات صحابہ کا اخلاص و فدائیت 41° ۷۱۳ ۷۱۵ 212 احمدیت کی ترقی کے لئے دعاؤں کی ضرورت ۷۲۱ ضرورت کے مطابق مناسب اور ستا لٹریچر دعا اور افتتاحی کلمات اختتامی تقریر تقویٰ کے حصول کی کوشش کرو تحریری پیغام برائے افتتاحی اجلاس مجلس مشاورت ۱۹۶۱ء احتیاط اور غور وفکر سے مشورہ دیں بجٹ بڑھانے کا طریق ۷۲۲ شائع کریں ہم اپنے غیر ملکی بھائیوں کے حقوق ادا کرتے ہیں اختتامی تقریر ۱۵ مجلس مشاورت ۱۹۵۹ء افتتاحی تقریر ۷۲۳ ۷۲۴ ۷۳۱ یورپ میں مساجد کی تعمیر کا پروگرام ۷۳۲

Page 17

خطابات شورای (۱۹۴۴ء تا ۱۹۶۱ء)

Page 18

Page 19

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء منعقدہ ۷ تا ۹ را پریل ۱۹۴۴ء.بمقام قادیان) پہلا دن جماعت احمدیہ کی چوبیسویں مجلس مشاورت تعلیم الاسلام کالج قادیان کے ہال میں ۷ تا ۹ را پریل ۱۹۴۴ء منعقد ہوئی.افتتاحی اجلاس ۷ اپریل کو نماز ظہر وعصر کے بعد پانچ بجے شروع ہوا.تلاوت قرآن کریم کے بعد حضور نے فرمایا : - اب میں دعا کر دیتا ہوں سب دوست میرے ساتھ دعا میں شریک ہوں جیسا کہ میں نے بار بار ان دنوں میں اعلان کرایا ہے قرآن کریم کی بعض دعائیں ایسی ہیں جو رسولوں کے صحابہ اور ان کے زمانہ کے لوگوں کے لئے خصوصیت کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں کیونکہ اِن دعاؤں میں مشکلات کی دُوری اور حصول امداد کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے اُن سب کا تفصیلاً ذکر کیا گیا ہے.پس وہ دعا ئیں اس لحاظ سے بہترین دعائیں ہیں کہ ان میں تمام ایسی باتوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ التجا کی گئی ہے جو قوموں کی ترقی کے لئے ضروری ہیں اور اُن تمام روکوں کو دور کرنے کی استدعا کی گئی ہے جو انبیاء کی جماعتوں کی ترقی میں حائل ہوتی ہیں.پس بجائے خاموش دعا کرنے کے میں وہ دعائیں بلند آواز پڑھتا جاتا ہوں تا کہ دوست میرے ساتھ ان دعاؤں میں شریک ہوں.“ اس کے بعد حضور نے حسب ذیل قرآنی دعائیں نہایت رفت اور سوز کے ساتھ بآواز بلند پڑھیں اور ایک ایک دعا کو بار بار دہرایا.حضور کے ساتھ تمام مجمع بھی یہ دعائیں

Page 20

خطابات شوری جلد سوم پوری رقت اور سوز سے دُہرا تا گیا.مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء ا رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنزَلَتَ وَاتَّبَعُنَا الرَّسُولَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ.رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا اَنزَلَتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُولَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ.رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنزَلَتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُولَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ.۲ : رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْراً وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ.:٣ رَّبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِياً يُنَادِى لِلاِ يُمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَامَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرُ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرُ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ : رَبَّنَا اغْفِرُ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ.رَبَّنَا اغْفِرُ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرُ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ.۵ : رَبَّنَا وَاتِنَا مَا وَعَدْتَنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ.رَبِّ لَا تَذَرُنِي فَرْدًا وَاَنْتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ.رَبِّ لَا تَذَرُنِي فَرْدًا وَأَنتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ.رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَأَنتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ.بِرَحْمَتِكَ نَسْتَغِيُتْ يَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ بِرَحْمَتِكَ نَسْتَغِيُتْ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ بِرَحْمَتِكَ نَسْتَغِيْتْ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ.افتتاحی تقریر دُعا کے بعد حضور نے افتتاحی تقریر کا آغاز کرتے ہوئے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کی اور فرمایا:- مومن کا ہر ایک کام ہی غیر معمولی ہوتا اور اپنے اندر ایک بیج کی سی کیفیت رکھتا ہے لیکن بعض کام اپنی ذات میں خاص طور پر اہمیت رکھتے ہیں اور بہت بڑے نتائج پیدا کرنے کا موجب بن جاتے ہیں.میں سمجھتا ہوں ہمارا آج کا اجلاس بھی اسی قسم کا ایک رنگ رکھتا ہے کیونکہ یہ پہلا اجلاس ہے جو اللہ تعالیٰ کے اس انکشاف کے بعد منعقد ہو رہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وہ پیشگوئیاں جو اُن کے ایک بیٹے کے زمانہ میں اسلام اور احمدیت کی فتوحات کے ساتھ تعلق رکھتی تھیں وہ آج خدا نے میرے ساتھ وابستہ فرمائی ہیں.ہزاروں لوگ ہماری جماعت میں ایسے تھے جن کے دلوں میں یہ خواہش پیدا ہوتی تھی

Page 21

خطابات شوری جلد سوم مشاورت ۱۹۴۴ء کہ کاش ! وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ہوتے اور اُن کو آپ سے ملنے اور باتیں کرنے کا موقع ملتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں مجھے چونکہ خدا نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بروز قرار دیا ہے اس لئے ع صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا وہ شخص جس نے مجھ کو پالیا اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایسے سامان پیدا کر دے گا کہ وہ صحابہ سے جا ملے گا.صحابہ سے ملنے کے معنے میں گزشتہ ایام میں اپنے ایک خطبہ کے ذریعہ واضح کر چکا ہوں کہ صحابہ سے ملنے کے معنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے نہیں ہیں بلکہ صحابیت کا مقام حاصل کرنے میں خود انسان کے اعمال کا بہت بڑا دخل ہوتا ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آنے والوں میں سے کئی ایسے لوگ ہیں جو گو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں دیکھ سکے تھے مگر انہوں نے ایسے رنگ میں اعمال کئے جن سے اُن کی اس کو تا ہی کا کفارہ ہو گیا اور باوجود اس کے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وہ جسمانی طور پر نہیں ملے تھے خدا تعالیٰ نے روحانی طور پر آپ سے ملا دیا اور اس طرح آپ کے صحابہ میں وہ شامل ہو گئے.اس کے مقابلہ میں کئی لوگ ایسے تھے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں تھے اور وہ آپ سے ملتے بھی رہتے تھے مگر ان کے دلوں میں چونکہ ایسی تبدیلی پیدا نہ ہوئی جوان کو اللہ تعالیٰ کے قرب میں بڑھا دیتی اس لئے با وجو د رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت میں بیٹھنے کے اور باوجو د رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلام سننے کے وہ صحابی نہیں کہلائے بلکہ منافق کہلائے.صحابی ایک ایسا لفظ ہے جو صرف کسی نبی کی محبت میں بیٹھنے والے پر اطلاق نہیں پاتا بلکہ اس میں یہ حقیقت بھی مضمر ہوتی ہے کہ اس شخص کے اندر ایمان اور اخلاص اور ایثار کے لحاظ سے ایسی تبدیلی پیدا ہو جو اُسے اپنے متبوع کا مصاحب بننے کے قابل بنا دے.دیکھو بادشاہ کے دربار میں بیٹھنے کا اُن لوگوں کو اتنا موقع نہیں ملتا جتنا ملازموں اور خادموں کو ملتا ہے مگر ملازموں کو مصاحب نہیں کہتے حالانکہ جہاں تک بادشاہ کے دربار میں آنے جانے کا سوال ہے یہ موقع ملازموں کو زیادہ حاصل ہوتا ہے مگر نہ تو

Page 22

خطابات شوری جلد سوم مشاورت ۱۹۴۴ء یورپین اصطلاح میں ان کو کور ٹیر (COURTIER) کہا جاتا ہے اور نہ ہماری زبان میں ان کو مصاحب کہا جاتا ہے.گویا وہ جن کو ملنے کا کم موقع ملتا ہے اُن کو تو مصاحب کہا جاتا ہے مگر جنہیں اکثر آنے جانے کا موقع ملتا ہے انہیں مصاحب نہیں کہا جاتا.کیونکہ مصاحب میں صرف اسی بات کا پایا جانا ضروری نہیں کہ وہ اپنے آقا کے پاس ہو بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ایسی صورت میں پاس ہو کہ اُس کے نقش کو قبول کر لے.پس مصاحبت آقا سے اشتراک چاہتی ہے ایسا اشتراک جو عقائد میں بھی ہو، اعمال میں بھی ہو اور اخلاق میں بھی ہو.جب تک عقائد اور اعمال اور اخلاق میں یہ اشتراک پیدا نہ ہو اُس وقت تک صرف پاس بیٹھ رہنے سے مصاحبت کا شرف حاصل نہیں ہو سکتا.چنانچہ جہاں یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت میں بیٹھنے والوں میں سے ہزاروں ایسے تھے جو صحابی کہلائے ، وہاں یہ بھی درست ہے کہ امت محمدیہ میں ایسے لوگ بھی گزرے ہیں کہ گو انہوں نے جسمانی طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں دیکھا مگر صحابیت کا مقام اُنہوں نے حاصل کر لیا کیونکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق میں ایسے گداز ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے قرب میں ایسے جوش اور اخلاص کے ساتھ بڑھے کہ زمانہ کے بعد کے باوجود انہوں نے وہ مقام حاصل کر لیا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ نے حاصل کیا تھا.فرق یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں صرف ابوبکر، عمر ، عثمان اور علی ہی صحابی نہیں کہلائے بلکہ ہر وہ شخص جو اپنے اندر ذرا بھی اخلاص اور محبت رکھتا تھا صحابی کہلانے کا مستحق بن گیا لیکن بعد میں آنے والوں کو اس غرض کے لئے بہت بڑی جد و جہد اور قربانی کرنی پڑی.چنانچہ دیکھ لو بعض ایسے لوگ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں صحابی کہلائے جو صرف اتنا بیان کرتے ہیں کہ ہم چھوٹے بچے تھے کہ ہماری ماں ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اُٹھا کر لے گئی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے منہ پر پانی کی گلی کی.اس کے مقابلہ میں وہ شخص جس نے تلواروں کے سایہ کے نیچے شہادت کا مرتبہ حاصل کیا اُسے بھی ہم صحابی ہی کہتے ہیں حالانکہ ایک وہ تھا جس نے پانی کی گلی کا مزہ چکھا اور دوسرا وہ تھا جس نے تلوار کی دھار کا مزہ چکھا لیکن باوجود اس کے یہ بھی صحابی کہلایا اور وہ بھی صحابی کہلایا.تو رؤیت کی وجہ سے

Page 23

خطابات شوری جلد سو مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں صحابیت کے درجہ کا حصول نہایت آسان تھا اور ادنیٰ سے ادنی شخص بھی صحابی کہلا سکتا تھا مگر وہ لوگ جن کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رؤیت کا موقع نہیں ملا اُن میں سے صرف وہی صحابیت کا مقام حاصل کر سکے جنہوں نے اپنے دل کی آنکھ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا اور انتہائی قربانیوں سے اپنے آپ کو اس مقام کا مستحق ثابت کیا.موعود غرض اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں بہت سے لوگوں کے لئے جن کے دلوں میں خواہش تھی کہ کاش وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھتے اور اس طرح صحابیت کا مقام حاصل کر سکتے یہ رستہ کھول دیا کہ اُس نے میری زبان پر یہ الہام جاری فرما دیا کہ انا الْمَسِيحُ الْمَوْعُودُ مَثِيْلُهُ وَخَلِیفَتُهُ مَیں بھی مسیح موعود ہوں اور مسیح موعود کا مثیل اور اُس کا خلیفہ ہوں.مَشِیلہ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے جہاں اس امر کا اظہار فرما دیا کہ مصلح مو سے تعلق رکھنے والی پیشگوئیاں میری ہی ذات سے وابستہ ہیں وہاں تم میں سے اُن لوگوں کے لئے جن کے دلوں میں صحابیت کا مقام حاصل کرنے کی تڑپ تھی اللہ تعالیٰ نے ایک اور دروازہ کھول دیا.جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ مبارک وہ جو اب ایمان لایا صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا اسی طرح وہ لوگ جن کا میرے ساتھ محبت اور اخلاص کا تعلق ہے اور جن کو اللہ تعالیٰ نے مختلف خدمات میں میرا ہاتھ بٹانے کی توفیق عطا فرمائی ہے اُن کے متعلق بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے جب مجھ کو پالیا تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ سے جا ملے.ہزاروں ہزار اور لاکھوں لاکھ افراد جو اس وسیع دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اُن کے متعلق خدا نے یہ دیکھتے ہوئے کہ اس زمانہ میں تلوار سے اسلام نہیں پھیل رہا بلکہ دلائل اور براہین کے ذریعہ پھیل رہا ہے اور دلائل اور براہین کے ذریعہ ہمیشہ آہستہ آہستہ لوگ سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ نے صحابیت کے حل اور اس کے سایہ کو لمبا کر دیا ہے تا کہ ایک عرصہ دراز تک دنیا اس نعمت سے مستفیض ہوتی رہے.اور صحابیت کے فیض سے مستفیض ہونے والے لاکھوں افراد دنیا میں اسلام اور احمدیت کو پھیلاتے رہیں.پس اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے یہ ایک نیا باب کھول کر اپنی عظیم الشان رحمتوں سے ہمیں نوازا ہے، مگر اس کے ساتھ ہی

Page 24

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء اُس نے اپنی بعض حکمتوں سے ہمیں بعض ابتلاؤں میں بھی ڈال دیا.اور جیسا کہ میں بارہا بیان کر چکا ہوں ترقی ایمان کے لئے ابتلاؤں کا آنا نہایت ضروری ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ ابتلاؤں کے ذریعہ بعض دفعہ اپنے بندوں کو کئی قسم کے بندھنوں سے آزاد کرنا چاہتا ہے تا کہ وہ اس کے دین کی خدمت پوری خوش اسلوبی سے سرانجام دے سکیں.اور بعض دفعہ ابتلاؤں کے ذریعے وہ قدرت نمائی بھی کرنا چاہتا ہے اور یہ دکھانا چاہتا ہے کہ کام کرنے والا میں ہوں، میر اسلسلہ کسی بندے کی مدد کا محتاج نہیں ہے.یہ انکشاف مجھ کو غالباً 8 اور 9 جنوری کے درمیان ہوا جب کہ اُمّم طاہر شدید بیمار تھیں.میں اس دوران میں ایک دو دفعہ قادیان میں بھی آیا لیکن اُن کی بیماری کی وجہ سے مجھے اکثر لا ہور میں ہی ٹھہر نا پڑا اور وہیں ان کی وفات ہوئی جو ذاتی طور پر میرے لئے ایک ابتلاء تھا مگر میں نے سمجھا کہ اللہ تعالیٰ یہ ابتلاء مجھ پر اس لئے لایا ہے تاکہ میں ہر قسم کے بندھنوں سے آزاد ہو کر اُس کے آستانہ پر اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کر دوں.اس وفات کے ۱۲ دن بعد میر محمد اسحاق صاحب فوت ہو گئے.اُن کے کام کی وسعت ایسی تھی کہ وہ ایک ہی وقت میں مدرسہ احمدیہ کے بھی ہیڈ ماسٹر تھے ، مہمان خانہ کے بھی افسر تھے ، درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری رکھتے تھے اور غرباء کی ضروریات کا بھی خاص طور پر خیال رکھتے تھے.ان کی وفات کے بعد کئی لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اب کیا ہو گا.حالانکہ الہی کاموں کے متعلق یہ سوال کبھی پیدا نہیں ہوتا کہ اب کیا ہو جائے گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب وفات پاگئے اور صحابہ اس صدمہ کو برداشت نہ کرتے ہوئے یہ خیال کرنے لگے کہ اب نہ معلوم کیا ہو گا، یہاں تک کہ حضرت عمرؓ جیسے جلیل القدر انسان نے کہا کہ جو شخص کہے گا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوت ہو گئے ہیں میں تلوار سے اُس کی گردن اُڑا دوں گا یا اُس وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ منبر پر کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے بڑے زور سے تمام لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اے لوگو ! مَنْ كَانَ مِنْكُمُ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدُمَاتَ.تم میں سے جو شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عبادت کیا کرتا تھا وہ سُن لے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوت ہو چکے ہیں.وَمَنْ كَانَ مِنْكُمُ يَعْبُدُ اللهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَقٌّ لَا يَمُوتُ ! مگر جو شخص

Page 25

خطابات شوری جلد سوم مشاورت ۱۹۴۴ء اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کرتا تھا اُسے معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارا خدا زندہ ہے اور وہ کبھی نہیں مرے گا.تو خدا اپنے مومن بندوں کو کئی قسم کے ابتلاؤں میں سے گزارتا ہے وہ چاہتا ہے کہ اُن کے ایمان کا امتحان لے، اُن کے عشق کا نمونہ دنیا پر ظاہر کرے اور ابتلاؤں اور آفات پر ثابت قدم رہنے کے نتیجہ میں اُن پر انعامات کی بارش نازل کرے اسی لئے وہ اُن کو ایسے نازک حالات میں ڈالتا ہے کہ بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے اُن کے لئے موت کا فیصلہ صادر ہو چکا ہے مگر مومن کی حالت یہ ہوتی ہے کہ جہاں اُس کا دل ان صدمات کی وجہ سے خون بہا رہا ہوتا ہے وہاں اُس کا قدم دلیری سے عشق و وفا کے میدان میں آگے بڑھ رہا ہوتا ہے.وہ اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ اس کے قلب کی کیا کیفیت ہے اور کس طرح اُس کا دل صدمات کی وجہ سے ٹکڑے ٹکڑے ہو رہا ہے.وہ ایک ہی بات جانتا ہے کہ میں نے آگے بڑھ کر اپنے رب کے آستانہ پر قربان ہو جانا ہے.آخر ہمیں غور کرنا چاہئے کہ اگر واقعہ میں دنیا کے صدمات اور رنج ہمارے دلوں کا احاطہ کئے ہوئے ہیں تو ان صدمات اور غموں.آزاد ہونے کا اس سے بڑھ کر اور کونسا طریق ہو سکتا ہے کہ اسلام اور احمدیت کی راہ میں ہم اپنے نفوس کو قربان کر دیں اور اس عارضی حیات کو ابدی اور دائمی حیات میں تبدیل کر لیں.میرے پاس ایک دفعہ ایک شخص آیا اور وہ مجھے کہنے لگا دنیا کتنے بڑے غموں اور ابتلاؤں کی جگہ ہے اور خدا نے ہمیں اس دنیا میں پیدا کر کے کتنی بڑی مصیبت میں ڈال دیا ہے کہ ہر طرف رنج اور بلائیں اور مصیبتیں اور دکھ ہی دکھ ہیں اور عذاب ہی عذاب چاروں طرف نظر آتا ہے.کوئی چیز بھی تو ایسی نہیں جو حقیقی سکھ اور راحت کا موجب ہو اور جب حالت یہ ہے تو خدا نے ہمیں اس دنیا میں کیوں پید کیا ؟ میں نے اُسے بار بار سمجھایا کہ تمہارا یہ نظریہ درست نہیں.دنیا محض مصائب اور آلام کی جگہ نہیں بلکہ ترقی کا ایک زینہ ہے جو ہمارے سامنے رکھا گیا ہے مگر وہ اتنا بھرا بیٹھا تھا کہ میرے اس توجہ دلانے کا اس پر کوئی اثر نہ ہوا اور وہ بار بار یہی کہتا چلا گیا کہ آخر خدا کو یہ کیا ضرورت پیش آئی تھی کہ وہ مجھے اس دنیا میں بھیجتا.میں مانتا ہوں کہ دنیا میں کچھ راحت اور آرام کے سامان بھی ہیں مگر اس راحت اور آرام کے باوجود میں اس دنیا کے مصائب سے تنگ ہوں اور میں حیران ہوتا ہوں کہ خدا مجھے اس دنیا میں کیوں لایا.جب میں نے اُس کی یہ دماغی کیفیت دیکھی تو میں نے کہا میں

Page 26

خطابات شوری جلد سوم مشاورت ۱۹۴۴ء آپ کو اس تکلیف کے رفع کرنے کا ایک آسان رستہ بتا دیتا ہوں اُس پر عمل کرنے سے آپ کا یہ غم اور دکھ فوراً دُور ہو جائے گا.میرے سامنے اُس وقت چنار کا ایک درخت کھڑا تھا اور چنار کی لمبی شاخیں ہوتی ہیں میں نے کہا جب آپ دنیا سے ایسے ہی دل برداشتہ ہو چکے ہیں تو گھبراتے کیوں ہیں.دُنیا کے غموں سے نجات حاصل کرنے کا آسان ترین طریق یہ ہے کہ آپ اس چنار کے درخت کی شاخ کا چھلکا اُتار کر اپنے گلے میں ڈال لیں اور اس درخت کی کسی موٹی سی ٹہنی سے لٹک کر مر جائیں، دنیا کے تمام دکھوں اور غموں سے آپ فوراً آزاد ہو جائیں گے.میں یہ نہیں کہتا کہ آپ چند پیسوں کا سنکھیا خرید کر کھا لیں کیونکہ ممکن ہے آپ کہہ دیں میں غریب آدمی ہوں میرے پاس تو کوئی پیسہ نہیں میں سنکھیا کہاں سے خریدوں اور کس طرح دنیا کے مصائب سے نجات حاصل کروں.میں یہ نہیں کہتا کہ آپ آگ میں گر کر اپنے آپ کو ہلاک کر دیں کیونکہ ممکن ہے آپ کہہ دیں میرے پاس اتنی طاقت بھی نہیں کہ میں دیا سلائی خریدوں ، لکڑیوں کا انبار جلانا تو دور کی بات ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ آپ جائیں اور کسی دریا میں گود کر دنیا کے دُکھوں سے نجات پا جائیں کیونکہ مکن ہے آپ کہہ دیں میں کمزور آدمی ہوں مجھ میں اتنی طاقت نہیں کہ میں دریا تک چل کر جا سکوں.آپ کے سامنے بالکل قریب پانچ سات قدم کے فاصلہ پر چنار کا درخت کھڑا ہے آپ اس کا چھلکا گلے میں ڈال کر اور اسی کی موٹی شاخ سے لٹک کر مر جائیں.آپ دنیا کے تمام افکار اور تمام ہموم سے جنہوں نے آپ کی زندگی کو تلخ بنا رکھا ہے اور جن کی وجہ سے آپ خدا تعالیٰ کے فعل پر معترض ہو رہے ہیں آزاد ہو جائیں گے اور ہمیشہ کی راحت آپ کو حاصل ہو جائے گی.میری یہ بات سن کر اس کا چہرہ غصہ سے سُرخ ہو گیا اور وہ کہنے لگا آپ تو مجھے گالیاں دیتے ہیں.میں نے کہا میں نے کوئی گالی نہیں دی میں نے تو آپ پر یہ حقیقت واضح کی ہے کہ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ میں دنیا کے مصائب سے تنگ آ گیا ہوں تو آپ غلط بیانی سے کام لیتے ہیں.دنیا آپ کو بھی پیاری ہے اور آپ بھی نہیں چاہتے کہ اس دنیا سے نجات حاصل کریں.اگر حقیقت میں دنیا ایک مصیبت ہوتی ، ایک آفت اور ایک بلاء ہوتی تو آپ ایک منٹ کے لئے بھی اس دنیا میں رہنا برداشت نہ کر سکتے مگر آپ کا اس دنیا میں رہنا اور اس دنیا سے نکلنے کے لئے کوشش نہ کرنا بلکہ اگر اس دنیا سے نکلنے کا آپ کو

Page 27

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء کوئی راستہ بتایا جائے تو آپ کا اسے اپنی ہتک سمجھنا بتا رہا ہے کہ آپ بھی اس دنیا کو راحت اور آرام کا موجب سمجھتے ہیں.اور گومنہ سے یہی کہتے ہیں کہ خدا نے بڑا ظلم کیا کہ آپ کو اس دنیا میں اُس نے بھیج دیا لیکن حقیقت اس کے خلاف ہے.آپ کا دل محسوس کرتا ہے کہ میری زبان جو کچھ کہہ رہی ہے وہ غلط ہے کیونکہ میں اس ظلم سے بچنے کی کوئی کوشش نہیں کر رہا حالانکہ میرے سامنے ایسے راستے موجود ہیں جن پر چل کر میں اپنے آپ کو اس ظلم کا مورد بننے سے محفوظ رکھ سکتا ہوں.گزشتہ دنوں جب میں لاہور میں تھا تو ایک ایم.اے کا سٹوڈنٹ مجھ سے ملنے کے لئے آیا اور اس نے بھی میرے سامنے اسی بات کو پیش کیا کہ دنیا بڑے مصائب کا مقام ہے اور میں نہیں سمجھ سکا کہ خدا نے ایسے مقام میں ہمیں کیوں بھیج دیا؟ میں نے اُسے یہی قصہ سنایا اور بتایا کہ میں نے ایک شخص کو جو یہی اعتراض لے کر آیا تھا یہ علاج بتایا تھا مگر وہ اُلٹا ناراض ہو گیا اور کہنے لگا آپ مجھے گالیاں دے رہے ہیں حالانکہ اگر واقع میں دنیا مصائب کا مقام ہے تو وجہ کیا ہے کہ اس دنیا سے نجات حاصل کرنے کا طریق اختیار نہیں کیا جاتا.یہ طالب علم پہلے سے زیادہ ہوشیار تھا.کہنے لگا اُس کا ناراض ہونا تو درست نہیں تھا لیکن آپ مجھے بتا ئیں اگر میں خود کشی کرلوں تو کیا آپ مان لیں گے کہ یہ دنیا مصائب و آلام کی جگہ ہے؟ میں نے کہا صرف تمہاری خود کشی سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا کیونکہ دنیا میں بعض لوگ پاگل بھی ہوتے ہیں اور عقل مند اُن کے پیچھے چلا نہیں کرتے.اکثریت ہی ہے جس کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ عقل سے کام لے رہی ہے.پس اگر دنیا کی اکثریت خود کشی کر لے تو پھر بے شک میں مان لوں گا کہ دنیا میں غم ہی غم ہے، دکھ ہی دُکھ ہے، تکلیف ہی تکلیف ہے اور رنج ہی رنج ہے لیکن اگر اکثریت دنیا میں رہنے پر خوش ہے، اگر اکثریت دنیا میں رہنا اپنے لئے کسی عذاب کا موجب نہیں سمجھتی تو استثنائی طور پر اگر کوئی شخص اپنی دماغی خرابی کی وجہ سے دنیا کو مصیبت کی جگہ سمجھتا ہے اور اس خیال کے غالب آجانے کی وجہ سے وہ خود کشی بھی کر لیتا ہے تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ اُس نے جس مقصد کے لئے خود کشی کی تھی وہ صحیح اور درست تھا.ہاں اگر ساٹھ فی صدی لوگ خود کشی کر لیں تو پھر بے شک میں مان لوں گا کہ دنیا مصیبت کی جگہ ہے کیونکہ اکثریت نے اپنے عمل سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ اس دنیا میں

Page 28

خطابات شوری جلد سوم رہنا پسند نہیں کرتی.مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء غرض دنیا اگر ہمیں تکلیف کی چیز نظر آتی ہے تو پھر آگے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان دے دینا ہمارے لئے بالکل آسان ہو جاتا ہے.بالخصوص وہ قوم جو سمجھتی ہے کہ اُس کے لئے دنیا میں مشکلات ہی مشکلات ہیں اور جس کے سروں پر ہر وقت مصائب کے بادل چھائے رہتے ہیں اور جس کی حالت ساری دنیا کے مقابلہ میں ایسی ہی ہے جیسے بتیس دانتوں میں زبان ہوتی ہے میں اُس کے افراد سے کہتا ہوں کہ وہ ان مشکلات اور مصائب کی موجودگی میں کیوں اپنا قدم آگے نہیں بڑھاتے اور کیوں اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے آستانہ پر قربانی کے لئے پیش نہیں کر دیتے.مومن وہ ہوتا ہے کہ جب وہ کوئی ابتلاء دیکھتا ہے تو پرواہ نہیں کرتا بلکہ سمجھتا ہے کہ اگر مجھ سے پہلے لوگ قربانی کے راستہ پر چل کر اللہ تعالیٰ کے قرب اور اس کی محبت کو حاصل کر گئے تو اب میرے لئے بھی صحیح راستہ یہی ہے کہ میں اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چل کر خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان کو قربان کر دوں اور در حقیقت جب بھی کسی شخص کے دل میں خدا تعالیٰ کا سچا عشق ہو گا وہ اپنی جان کو ہر وقت ہتھیلی پر لے کر پھرتا رہے گا اور موقع ملنے پر خدا تعالیٰ کے سامنے اپنی اس حقیر قربانی کو پیش کر کے اپنے فرض سے سبکدوش ہو جائے گا.احد کی جنگ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق یہ خبر مشہور ہو گئی کہ آپ شہید ہو گئے ہیں چونکہ اس جنگ کی ابتداء میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہو چکی تھی اور اس امر کا کوئی خیال نہیں تھا کہ کفار پہاڑ کے پیچھے سے دوبارہ حملہ کر دیں گے اس لئے اکثر صحابہ اس خیال سے کہ وہ میدان تو اب جیت چکے ہیں اِدھر اُدھر پھیل گئے تھے.صرف چند صحابہؓ ایسے تھے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارد گر دموجود تھے.اسی دوران میں دشمن نے شدید حملہ کیا اور اس نے اپنے حملے کا تمام زور اس جگہ پر صرف کر دیا جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کھڑے تھے.تیروں کی بوچھاڑ کی وجہ سے یکے بعد دیگرے صحابہ زخمی ہو ہو کر گرنے شروع ہوئے یہاں تک کہ آخر میں زخموں سے نڈھال ہو کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ایک گڑھے میں گر گئے اور لوگوں میں یہ مشہور ہو گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہید ہو گئے ہیں.حضرت عمر نے جب یہ خبر سنی تو وہ ایک ٹیلے پر بیٹھ کر رونے

Page 29

خطابات شوری جلد سوم ۱۳ مشاورت ۱۹۴۴ء لگ گئے.اسی دوران میں حضرت انس بن مالک کے چچا وہاں سے گزرے.انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ فتح کے بعد پھر شکست کی ایک صورت پیدا ہو چکی ہے.انہوں نے جب حضرت عمرؓ کو سر نیچے ڈال کر روتے ہوئے دیکھا تو حیرت سے کہا عمر ! یہ بھلا کونسا رونے کا مقام ہے.معلوم ہوتا ہے تمہاری عقل ماری گئی ہے، یہ خوشی کا وقت ہے، یہ اُچھلنے اور گودنے کی گھڑیاں ہیں کہ اسلام کو فتح حاصل ہوئی مگر تم ہو کہ سب سے الگ بیٹھ کر عورتوں کی طرح رو رہے ہو.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا مالک ! معلوم ہوتا ہے تمہیں پتہ نہیں کہ کیا ہو گیا ہے؟ انہوں نے کہا پتہ کیوں نہیں اسلام کو فتح حاصل ہوئی ہے اور کفار شکست کھا گئے ہیں.حضرت عمرؓ نے فرمایا یہ تو پہلا واقعہ ہے تمہیں معلوم نہیں بعد میں کیا ہوا.اس فتح کے بعد جب مسلمان مالِ غنیمت جمع کرنے میں مشغول تھے تو کفار نے میدان خالی پا کر پہاڑ کے پیچھے سے حملہ کر دیا.صرف چند آدمی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارد گرد تھے اُنہوں نے خوب مقابلہ کیا مگر وہ مارے گئے اور آخر یہ نتیجہ ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی ان کے حملہ سے شہید ہو گئے.جب مالک نے یہ بات سنی تو اُس وقت ان کے ہاتھ میں ایک کھجور تھی.پانچ دس کھجور میں اُنہیں کہیں سے ملی تھیں اور وہ بھوک کی شدت میں اُن کو کھا رہے تھے.جب حضرت عمر نے اُن سے یہ بات کہی تو اُس وقت آخری کھجور اُن کے ہاتھ میں تھی.اُنہوں نے اُس کھجور کو اُٹھایا اور کہا میری جنت اور میرے محبوب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان سوائے اس کھجور کے اور روک ہی کیا ہے.یہ کہہ کر وہ حضرت عمرؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمانے لگے.عمر! اگر یہ بات ہے تو پھر بھی رونے کا کوئی مقام نہیں جہاں ہمارا پیارا گیا ہے وہیں ہمیں بھی جانا چاہئے.یہ کہہ کر انہوں نے کھجور اپنے ہاتھ سے پھینک دی ، تلوار اُٹھائی اور اکیلے ہی دشمن کے لشکر پر ٹوٹ پڑے اور اس شدت سے لڑائی کی کہ کفار کی صفوں میں تہلکہ مچا دیا مگر آخر ایک آدمی لشکر کا کہاں مقابلہ کر سکتا تھا، دشمن نے اُن کو شہید کر دیا.جب جنگ کے بعد شہید ہونے والے صحابہ کی نعشیں اکٹھی کی گئیں تو اُن میں مالک کی لاش کا کہیں پتہ نہیں چلتا تھا.آخر سارے مُردے گئے گئے تو معلوم ہوا کہ ایک لاش ایسی ہے جس کے ستر ٹکڑے ہو چکے ہیں اور وہ پہچانی نہیں جاتی تھی کہ کس کی لاش ہے.تب مالک کی بہن آگے بڑھیں اور اُنہوں نے ایک انگلی کے

Page 30

خطابات شوری جلد سوم ۱۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء نشان سے اُنہیں پہچان لیا اور کہا یہ میرے بھائی مالک کی لاش ہے.سے تو اگر واقع میں ہم محبت کی حقیقت کو سمجھیں ، اگر ہم قطعی طور پر اس نتیجہ پر پہنچ جائیں کہ یہ دنیا کفر کی دنیا ہے، یہ ابتلاؤں کی دنیا ہے، یہ آزمائش کی دنیا ہے تو خدا کے لئے موت کو قبول کرنا ہمارے لئے بالکل آسان ہو جاتا ہے اور بڑی سے بڑی قربانی بھی ہماری نگاہوں میں بیچ ہو جاتی ہے.اُس وقت یہ خیال ایک مومن کے دل میں نہیں آتا اور نہیں آنا چاہئے کہ میری قربانیوں کا کیا نتیجہ نکلا کیونکہ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ہماری قربانیوں کا کوئی نتیجہ نکلتا ہے یا نہیں.ہمارے سامنے صرف ایک ہی مقصد ہونا چاہئے کہ ہم نے اسلام کے اعلاء اور خدا تعالیٰ کی محبت اور اُس کی رضا کے حصول کے لئے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دینا ہے.دیکھو! اگر ایک کفر کا قلعہ ہو اور مومنوں کی فوج کو یہ حکم دیا گیا ہو کہ جاؤ اور اس قلعہ کی دیوار کو پھاند کر اندر داخل ہو جاؤ.تو پھر وہ مومن جو اس قلعہ کی دیوار کے ساتھ اپنی جان دے گا وہ اسلام کی فتح کے لئے ایک بنیا د ر کھنے والا قرار پائے گا کیونکہ وہ ایک سیڑھی بن جائے گا جس سے اُس قلعہ کی دیوار تک پہنچنا آسان ہو جائے گا.اگر ایک مسلمان اُس دیوار کے پاس مرجاتا ہے تو دوسرا مسلمان اُس کے سینہ پر پاؤں رکھ کر قلعہ کی دیوار سے دوفٹ قریب ہو سکتا ہے.پھر اگر ایک اور مسلمان اس پر گر کر مر جاتا ہے تو مسلمان چارفٹ اور اونچے ہو جائیں گے.اسی طرح اگر آٹھ دس مسلمان یکے بعد دیگرے مرتے چلے جاتے ہیں تو اُس قلعہ کو فتح کرنا فوج کے لئے بالکل آسان ہو جائے گا کیونکہ وہ ان مرنے والوں کے سینہ پر چڑھ کر قلعہ کی دیوار کو پھاند کر اندر داخل ہوسکیں گے.پس گو وہ مرنے والے آدمی بظاہر بے وقت مرے ہوں گے مگر انہوں نے اپنی موت سے کفر کے قلعہ کو فتح کرنے کے لئے ایک راستہ تیار کر دیا ہو گا.پس ہمیں اس بات کی کیا پرواہ ہوسکتی ہے کہ ہم میں سے بعض وجود وفات پا کر ہم سے الگ ہو گئے ہیں.اگر ہمارا اصل مقصد اسلام کی فتح اور احمدیت کی کامیابی ہے تو یکے بعد دیگرے ہم میں سے بعض لوگوں کا مرتے چلے جانا ہر گز کوئی ایسی چیز نہیں جس پر ہمیں ایسا غم محسوس ہو جو ہمارے کاموں میں رُکاوٹ کا باعث بن جائے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑا اور کون ہوسکتا ہے مگر دیکھو خدا تعالیٰ کس استغناء سے

Page 31

خطابات شوری جلد سوم ۱۵ مشاورت ۱۹۴۴ء آپ کی وفات کا ذکر کرتا ہے.فرماتا ہے مَا مُحمد إِلَّا رَسُوْلُ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ آفَائِن مات أقيل انقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ " ارے محمد کیا ہیں؟ میرے ہی ایک رسول تو ہیں.اگر وہ مر جائیں یا مار دیئے جائیں تو کیا تم یہ سمجھنے لگ جاؤ گے کہ اب اسلام کی فتح نہیں ہو سکتی.یہ کام کسی انسان کا نہیں میرا ہے.اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑے ہیں تو محض اس لئے کہ اُنہوں نے دوسروں سے زیادہ دین کی خدمت کی اور دوسروں سے زیادہ قربانی اور ایثار سے کام لیا لیکن اگر یہ مر جائیں تو تمہیں گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں، خدا تعالیٰ ان کے خادموں میں اور آدمی کھڑے کر دے گا جو دینِ اسلام کی مدد کریں گے.دیکھو! محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کتنے عظیم الشان انسان ہیں.اگلوں اور پچھلوں تمام لوگوں کے آپ سردار ہیں ، نہ صرف عام لوگوں کے بلکہ تمام گزشتہ انبیاء اور بعد میں آنے والے انبیاء کے بھی آپ سردار ہیں مگر کس استغناء سے اللہ تعالیٰ ذکر فرماتا ہے.که آفائِن مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِکُم.اگر یہ مر جائیں یا مار دئیے جائیں تو کیا تم ان کی موت پر کمزوری کا اظہار کرنے لگ جاؤ گے اور کہو گے کہ ہائے یہ کیا ہو گیایا آئندہ کیا ہو گا.ہونا کیا ہے ہم خود دینِ اسلام کے محافظ اور نگران ہیں، کسی انسان کی موت خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت میں روک نہیں بن سکتی.مجھے ایک نہایت ہی پیارا واقعہ بار بار یاد آیا کرتا ہے.معلوم نہیں وہ آدمی جس کا ذکر کیا جاتا ہے متقی بھی تھا یا نہیں ، مگر بہر حال اُس نے قربانی کا ایک شاندار نمونہ دکھایا.اور نمونہ ایک ایسی چیز ہے جو ہر جگہ کام دے سکتا ہے.دنیا کا نمونہ دین میں کام آجاتا ہے اور دین کا نمونہ دنیا میں کام آجاتا ہے.یونان کی جب جنگ ہوئی تو پہاڑ کی چوٹی پر دشمن کا ایک قلعہ تھا جس کو فتح کرنا ترکوں کے لئے بڑا مشکل ہو گیا.آخر اُس قلعہ کو سر کرنے کا کام ایک کرنیل کے سپرد کیا گیا.وہ اپنی فوج سے انتہاء درجہ کی محبت اور پیار کا سلوک کرنے والا تھا اور سپاہی بھی اُس سے ایسی محبت رکھتے تھے کہ اُس کے پسینے کی جگہ خون بہانے کے لئے تیار رہتے تھے.وہ کر نیل اپنے سپاہیوں کو لے کر اُس قلعہ کو فتح کرنے کے لئے آگے بڑھا مگر چونکہ وہ قلعہ چوٹی پر تھا اور فوج کو نیچے سے اوپر کی طرف چڑھنا پڑتا تھا اس لئے جب فوج

Page 32

خطابات شوری جلد سوم ۱۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء کے سپاہی قلعہ کو سر کرنے کے لئے پہاڑ پر چڑھنے لگتے تو اوپر سے دشمن گولیوں کا مینہہ برسانا شروع کر دیتا.ان کا نیچے ہونے کی وجہ سے نشانہ ٹھیک نہیں بیٹھتا تھا لیکن دشمن کی تمام گولیاں بوجہ اوپر ہونے کے عین نشانہ پر لگتیں.پھر وہ چوٹی ایسی تھی جو بالکل سیدھی تھی اور جس پر سپاہیوں کو گھٹنوں کے بل چڑھنا پڑتا تھا.غرض ان کی تو یہ حالت تھی کہ یہ بڑی آہستگی سے گھٹنوں کے بل اوپر کی طرف چڑھتے مگر دشمن آسانی سے ان کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنا لیتا.نتیجہ یہ ہوا کہ یکے بعد دیگرے سپاہی ہلاک ہونے لگ گئے مگر انہوں نے پھر بھی ہمت نہ ہاری جو زنده زندہ رہے وہ گرتے اور گر کر پھر سنبھلتے اور چڑھنے کی کوشش کرتے یہاں تک کہ اس کوشش میں کئی سپاہیوں کے ناخن تک اُتر گئے اور اُن کے گھٹنے بالکل لہولہان ہو گئے.اُس وقت سپاہیوں نے اپنے افسر سے کہا کہ ہمیں اجازت دیں کہ اس وقت اپنے بُوٹ اُتار دیں مگر اس افسر نے کہا بُوٹ اُتارنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی کیونکہ بُوٹ اُتارنا فوج کے قانون کے خلاف ہے آخر سپاہی اسی حالت میں اوپر کی طرف چڑھنے کی کوشش کرتے رہے.سینکڑوں مر گئے اور جو باقی بچے وہ اپنی کوشش میں مشغول رہے، یہاں تک کہ وہ نصف سے زیادہ فاصلہ طے کر گئے.جب وہ نصف سے زیادہ فاصلہ طے کر چکے تو یکدم ایک گولی آئی اور اُس کرنیل کے سینہ میں لگی اور گولی لگتے ہی وہ گر پڑا.یہ حالت دیکھتے ہی سپاہی اپنے افسر کی طرف دوڑے کیونکہ وہ بڑی محبت اور شفقت کرنے والا افسر تھا اور ان کے لئے یہ بالکل نا قابل برداشت تھا کہ وہ افسر جس پر وہ اپنی جان تک فدا کرنے کے لئے تیار رہتے تھے اُن کے سامنے دم توڑ رہا ہو.وہ اُسی وقت اُس کی طرف گئے تا کہ وہ اس کو اٹھا کر کسی محفوظ مقام پر لے جائیں اور اُس کی زندگی کی آخری گھڑیوں کو آرام دہ بنا دیں.جب وہ سپاہی اُس کے قریب پہنچے اور انہوں نے اپنے افسر کو اٹھانا چاہا تو وہ افسر اُن سے کہنے لگا میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کہ تم میرے جسم کو ہاتھ مت لگاؤ.تم میری لاش کو کتوں اور چیلوں کے لئے چھوڑ دو کہ وہ آئیں اور میرے گوشت کو نوچ نوچ کر کھا جائیں.ہاں اگر تم مجھے دفن کرنے کا شوق رکھتے ہو تو پھر میں چاہتا ہوں کہ تم مجھے اس قلعہ کے اندر دفن کرو اگر تم مجھے اس قلعہ کے اندر دفن کرنے میں کامیاب ہو جاؤ تب تو بے شک میرے جسم کو ہاتھ لگا لینا ورنہ کتوں اور چیلوں کے لئے چھوڑ دینا.اُن سپاہیوں کو اپنے افسر سے جس قسم کی

Page 33

خطابات شوری جلد سوم مشاورت ۱۹۴۴ء محبت تھی گو وہ دیسی محبت نہیں ہو سکتی تھی جیسے انبیاء اور ان کے خلفاء کے ساتھ لوگوں کو ہوتی ہے لیکن بہر حال وہ ایک والہانہ محبت تھی.اس افسر کے یہ الفاظ اپنی زبان سے نکالنا تھا کہ اُن کو یہ یاد ہی نہ رہا کہ وہ انسان ہیں یا جانور ہیں یا اوپر سے دشمن گولیوں کا مینہ برسا رہا ہے.وہ چیچنیں مارتے ہوئے بے تحاشا آگے کی طرف بڑھے اور دو گھنٹہ کی مجنونانہ جد وجہد کے بعد انہوں نے اس قلعہ کو فتح کر لیا اور اپنے افسر کو نہایت عزت اور احترام کے ساتھ اُس قلعہ کے اندر دفن کیا.تو جس جگہ پر اعلیٰ درجہ کی محبت اور اُلفت ہوتی ہے وہ ادنیٰ درجہ کی محبتوں کو بالکل مٹا دیتی ہے اور انسان ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے پوری بشاشت اور صدق نیت سے تیار ہو جاتا ہے.ہماری زندگی کا اولین مقصد ہمارے سامنے بھی ایک بہت بڑا مقصد ہے، بہت بڑی ذمہ داری ہے جو ہم پر عائد ہوتی ہے، خدا کے نام کو دنیا میں بلند کرنا اور اس کی توحید کو دنیا کے کونہ کونہ بلکہ انسانی قلب کے گوشہ گوشہ میں قائم کر دینا ہماری زندگی کا اولین مقصد ہے.اور اس توحید کے جیسے غلام ہم ہیں ویسے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تھے ، ویسے ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے اور ویسے ہی حضرت موسی ، حضرت عیسی اور خدا تعالیٰ کے دوسرے انبیاء خدا تعالیٰ کی توحید کے غلام تھے.ازلی ابدی ہستی کے سامنے ایک انسان ہستی ہی کیا رکھتا ہے کہ وہ اس کی غلامی سے باہر رہ سکے.اسی وجہ سے دنیا میں جس قدر چیزیں ہیں خواہ وہ ہمیں کس قدر خوبصورت نظر آئیں اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں ایسی ہی ہیں جیسے ایک سمندر کے مقابلہ میں بلبلہ ہوتا ہے بلکہ اس سے بھی کمتر.پس خدا تعالیٰ نے ہمارے سپر د ایک عظیم الشان کام کیا ہے اور جیسا کہ اُس کی سنت ہے مومنوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کئی قسم کی آزمائشیں بھی آتی ہیں اور خدا تعالیٰ ان آزمائشوں کے ذریعہ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ مومن کتنے پانی میں ہیں، وہ مجھ پر کتنا یقین رکھتے ہیں اور کتنی محبت اور اخلاص میرے ساتھ رکھتے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ فطرت انسانی اپنے پیاروں سے جُدا ہونے پر غم محسوس کرتی ہے مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں که رنج والم کی گھڑیوں میں اپنے آقا کی رضا پر راضی رہنا اور اپنے آپ کو ہنسی خوشی اُس کی طرف سے آئی ہوئی تلخ قاش کے کھانے پر آمادہ کر لینا یہ بھی ایک بہت بڑے ایمان کی

Page 34

خطابات شوری جلد سوم ۱۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء علامت ہوتی ہے.مثنوی رومی والوں نے حضرت لقمان کا ایک قصہ لکھا ہے کہ انہیں بچپن میں ہی ڈاکوؤں نے پکڑ کر فروخت کر دیا تھا.جس شخص کے پاس وہ تھے چونکہ ہمیشہ دیانتداری اور محنت کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے وہ اُن سے بہت محبت رکھتا تھا ایک دفعہ ان کے آقا کے پاس کسی نے بے موسم کا خربوزہ تحفہ بھجوا دیا.اس خربوزہ کی ظاہری شکل بہت اچھی تھی اور خیال کیا جاتا تھا کہ وہ اندر سے بہت میٹھا ہو گا.حضرت لقمان چونکہ اپنے آقا کے بہت محبوب تھے اس لئے اُس نے خربوزہ کی قاش کاٹ کر سب سے پہلے حضرت لقمان کو کھانے کے لئے دی.انہوں نے قاش لی اور ایسے مزے لے لے کر کھایا کہ آقا کو یہ خیال گزرا کہ یہ خربوزہ بہت ہی اعلیٰ درجہ کا معلوم ہوتا ہے کیونکہ لقمان اسے بڑے مزے سے کھا رہا ہے.چنانچہ ایک کے بعد دوسری قاش اُس نے کائی اور وہ بھی حضرت لقمان کو دے دی.انہوں نے پھر اسے اسی شوق اور اسی لطف کے ساتھ کھایا جس شوق اور لطف کے ساتھ انہوں نے پہلی قاش کھائی تھی.یہ دیکھ کر اس نے تیسری قاش بھی حضرت لقمان کو دے دی اور پھر اس خیال سے کہ میں بھی تو چکھوں کہ یہ کیسا خربوزہ ہے ایک قاش کاٹ کر اپنے منہ میں ڈال لی.اُس قاش کا منہ میں ڈالنا تھا کہ اُسے سخت متلی معلوم ہوئی کیونکہ وہ سخت بد مزہ اور کڑوی قاش تھی ، اتنی کڑوی اور اتنی بدبودار کہ اس کے کھانے سے گئے آتی تھی.یہ دیکھ کر آقا لقمان کی طرف متوجہ ہوا اور ان سے کہا کہ لقمان ! تو نے مجھے بڑا دھوکا دیا.میں تو بار بار خربوزہ کی قاشیں تجھے اس لئے دیتا رہا کہ میں نے سمجھا یہ بڑی میٹھی قاشیں ہیں اور تو خود بھی ان قاشوں کو ایسے مزے لے لے کر کھاتا رہا کہ جس کی وجہ سے مجھے اس دھو کے کا لگ جانا بالکل طبعی امر تھا مگر جب میں نے ایک قاش اپنے منہ میں ڈالی تو اتنی بدمزہ نکلی کہ جس کی کوئی حد نہیں.تم تو میرے عزیز اور پیارے ہو مجھے بہت ہی افسوس ہے کہ میں دھوکا کی وجہ سے تمہیں بار بار دُکھ دیتا رہا اور یکے بعد دیگرے ایسی قاشیں کھلاتا رہا جو سخت کڑوی اور بدمزہ تھیں.حضرت لقمان کہنے لگے میرے آقا! آپ کے ہاتھ سے کتنی ہی میٹھی قاشیں میں نے آج تک کھائی ہیں.پھر اگر اسی ہاتھ سے ایک کڑوی قاش میری طرف آ گئی تو مجھ سے زیادہ بے مہر اور بے مروت اور کون ہو سکتا تھا اگر میں اس کڑوی قاش کو ر ڈ کر دیتا اور آپ

Page 35

خطابات شوری جلد سوم ۱۹ کا شکوہ کرنے لگ جاتا کہ آپ نے مجھے کیوں کڑوی قاش دی ہے..مشاورت ۱۹۴۴ء حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں پر اس قدر احسان ہوتا ہے، اس قدر احسان ہوتا ہے کہ اس کے بعد اگر وہ اپنے بندے سے کسی قربانی کا مطالبہ کرے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی حقیقی بندہ اس قربانی کو اپنے لئے تکلیف کا موجب سمجھے بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ وہ اس قربانی کو بھی احسان سمجھتا ہے.یہ خیال اپنے دل میں نہیں لاتا کہ خدا نے مجھے دکھ میں ڈال دیا ہے.باقی رہا کسی مصیبت کے پہنچنے پر طبعی رنج سو اس کے اظہار سے شریعت نے منع نہیں کیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک نواسہ فوت ہو گیا.اُس کی آخری گھڑیوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی موجود تھے.آپ کی آنکھوں میں اُس کی تکلیف کی حالت دیکھ کر آنسو ڈبڈبا آئے.حضرت عبدالرحمن بن عوف بھی آپ کے ساتھ تھے.اُنہوں نے آپ کی آنکھ سے آنسوؤں کو بہتے دیکھا تو عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا آپ بھی روتے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں میری آنکھوں سے آنسو جاری ہیں ، دل غمگین ہے مگر میں اپنی زبان سے وہی کچھ کہتا ہوں جس کو میرا رب پسند کرتا ہے تو کسی رنج کے پہنچنے پر فطرت انسانی کا طبعی تقاضا بالکل اور چیز ہے.بے شک اُس وقت رستا ہوا دل خون کے قطرات ٹپکاتا ہے مگر وہ خون کسی قربانی میں روک نہیں بن سکتا ، وہ رنج خدا تعالیٰ کے کلمہ کے اعلاء اور اُس کے دین کی اشاعت کی کوششوں میں قطعاً حائل نہیں ہوسکتا بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ جب انسان اپنے رنج کو بھول کر خدا تعالیٰ کے دین کے کام میں مصروف ہو جاتا ہے تو وہ خدا کو اور بھی پیارا معلوم ہونے لگتا ہے.جس طرح لقمان نے کڑوی قاش کھا کر منہ نہیں بنایا تھا بلکہ وہ اپنے آقا کی مہربانی کی تعریف کرتا چلا گیا تھا.اسی طرح اگر کوئی شخص خون ٹپکاتے ہوئے دل کے ساتھ خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کرتا ہے تو ایسی حالت میں جو مروڑ اور پیچ اس کے قلب میں پیدا ہوتا ہے وہ خدا تعالیٰ کو بہت ہی محبوب نظر آتا ہے، کیونکہ خدا تعالیٰ کہتا ہے دیکھو میرا بندہ اس وقت بھی دین کی خدمت کر رہا ہے جب بہت سے لوگ ہمت ہار کر بیٹھ جاتے ہیں.دیکھو غموں کی وجہ سے اس کی کمر خم ہے، اس کی آنکھیں نمناک ہیں، اس کا دل جذبات کا ایک تلاطم اپنے اندر لئے ہوئے ہے مگر وہ میری خاطر ، میرے دین کی خاطر، میری رضا کی خاطر اپنی جھکی ہوئی کمر سیدھی کر رہا ہے.

Page 36

خطابات شوری جلد سوم مشاورت ۱۹۴۴ء اپنے آنسوؤں کو پونچھ رہا ہے اپنے چہرہ کو بشاش بنا رہا ہے.اس کے افکار پریشان ہیں اور ہم اور غم اس کے دل پر چھایا ہوا ہے مگر وہ اپنے ہم اور اپنے غم اور اپنے افکار کو ظاہر نہیں کرتا بلکہ اپنے جذبات کو دبا کر دین کی خدمت کرتا چلا جاتا ہے.پس بے شک دنیا میں مشکلات اور تکالیف آتی ہیں اور آتی چلی جائیں گی مگر جو سچا مومن ہوتا ہے وہ ان مشکلات اور تکالیف کی پرواہ کئے بغیر اپنے رب کی طرف محبت اور جوش سے بڑھتا چلا جاتا ہے اور جب خدا کی آواز اُس کے کانوں میں پڑتی ہے وہ یہ نہیں کہتا کہ ٹھہرو اور مجھے صبر کرنے دو، ٹھہرو اور مجھے پینے گھر کی مصیبتوں سے تھوڑی دیر کے لئے نپٹنے دو، ٹھہرو اور مجھے اپنے بچوں اور عزیزوں کے کاموں کی طرف تھوڑی دیر کے لئے متوجہ ہونے دو بلکہ وہ خواہ کیسے ہی رنج میں ہو، کیسی ہی مصیبت میں ہو، کیسے ہی دکھ میں ہو جب خدا تعالیٰ کی آواز اس کے کان میں پڑتی ہے وہ لَبَّيْكَ اللهُمَّ لَبَّیک کہتے ہوئے اس کی طرف دوڑ پڑتا ہے کہ اے میرے رب! میں حاضر ہوں.اے میرے رب ! میں حاضر ہوں.احزاب کی جنگ میں جب دشمن بڑا طاقتور تھا اور مسلمانوں کی حالت نہایت غربت اور بیکسی کی تھی ، شدید سردی کا موسم تھا اور غریب مسلمانوں کے پاس اپنا تن ڈھانکنے کے لئے بھی کپڑا نہیں تھا ایک رات اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر دی کہ اے محمد ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم نے تیرے دشمن کو بھگا دیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس الہام کے نازل ہونے کے بعد صحابہ کو آواز دی اور فرمایا کہ کوئی ہے؟ ایک صحابی کہتے ہیں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آواز دی اُس وقت میں جاگ رہا تھا مگر میری زبان یخ ہو رہی تھی اور میرا جسم بھی یخ ہو رہا تھا کیونکہ میرے پاس کپڑے کافی نہ تھے اور موسم نہایت شدید سر د تھا، چنانچہ باوجود اس کے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز کان میں پڑ رہی تھی ، ہم جو آپ پر جانیں قربان کرنے کے لئے تیار رہتے تھے اُس وقت ہماری زبان سے کوئی بات تک نہیں نکلتی تھی.میں نے چاہا کہ بولوں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات کا جواب دوں مگر میری زبان میں اتنی طاقت نہ تھی کہ میں جواب دے سکتا لیکن ایک اور صحابی بول اُٹھا اور اس نے کہا یا رسول اللہ ! میں حاضر ہوں.آپ نے اس کے جواب کو سنا مگر خاموش رہے.تھوڑی دیر کے بعد آپ نے

Page 37

خطابات شوری جلد سوم مشاورت ۱۹۴۴ء پھر فرمایا کہ کوئی ہے؟ تب پھر وہی صحابی کہتے ہیں کہ میں اُس وقت بھی جاگ رہا تھا مگر مجھ میں اتنی ہمت نہ تھی کہ بول سکتا ، سردی کی شدت نے میری قوت گویائی کو سلب کر دیا اور با وجود انتہائی خواہش رکھنے کے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات کا جواب دوں حسرت اور افسوس کے ساتھ خاموش رہا کیونکہ میری زبان نے میرے دل کے جذبات کا ساتھ نہ دیا.اس پر پھر وہی صحابی جنہوں نے پہلے کہا تھا کہ یا رسول اللہ ! میں حاضر ہوں بول پڑے اور کہنے لگے یا رسول اللہ ! میں حاضر ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم نہیں کوئی اور بولے مگر کسی اور صحابی کو اُس وقت بولنے کی ہمت نہ پڑی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر خاموش ہو گئے اور تھوڑی دیر کے بعد آپ نے سہ بارہ فرمایا کہ کوئی ہے؟ اس پر بھی دوسرے صحابہ بول نہ سکے مگر وہ صحابی جنہوں نے دو دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات کا جواب دیا تھا اس دفعہ بھی بول اُٹھے کہ یا رسول اللہ میں حاضر ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرائے اور آپ نے فرما یا باہر جاؤ اور دیکھو کہ دشمن کا کیا حال ہے؟ وہ گئے اور واپس آکر کہنے لگے کہ یا رسول اللہ ! میدان بالکل خالی پڑا ہے اور دشمن کا کوئی خیمہ وہاں نظر نہیں آتا.آپ نے فرمایا میں نے اسی لئے تم کو باہر بھجوایا تھا کیونکہ مجھے اللہ تعالیٰ نے خبر دی تھی کہ دشمن کو بھگا دیا گیا ہے.لے تو دیکھو یہ عشق کی کیفیت ہوتی ہے کہ باوجود اس کے کہ شدید سردی تھی ، باوجود اس کے کہ سردی کی وجہ سے زبان تک یخ ہو رہی تھی ، باوجود اس کے کہ تن پر کپڑے بھی کافی نہیں تھے پھر بھی وہ صحابی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز پر "یارسول اللہ! میں حاضر ہوں“ کہنے کی توفیق پا رہا تھا.یہی روح ہے جو مردوں کو زندہ کرتی ہے، یہی روح ہے جو اللہ تعالیٰ کی بادشاہت زمین پر قائم کرتی ہے، یہی روح ہے جو انبیاء کی جماعتوں کو احیاء بخشتی ہے، یہی روح ہے جو قوموں کو ابدی زندگی عطا کرتی ہے.جب تک یہ روح زندہ رہے دنیا مر نہیں سکتی اور جس دن یہ روح مرگئی اس دن کے بعد دنیا زندہ نہیں رہ سکتی.مومن کے دل میں ایک جوش ہوتا ہے، ایک جنون ہوتا ہے، ایک تڑپ ہوتی ہے کہ میں ساری دنیا کو خدا تعالیٰ کے آستانہ کی طرف کھینچ لاؤں اور اس جوش اور جنون کی حالت میں جب بھی خدا کی آواز اس کے کان میں آتی ہے کہ کوئی ہے جو میری آواز کو سنے؟ تو وہ لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّیک کہتے ہوئے

Page 38

خطابات شوری جلد سوم ۲۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء اس کی طرف دوڑ پڑتا ہے.اسی کام کے لئے خدا تعالیٰ نے آپ کو کھڑا کیا ہے، اسی کام کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئے ، اسی کام کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے اور اسی کام کے لئے میرے کمزور کندھوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بوجھ رکھا گیا ہے.میں جانتا ہوں کہ آسمان یا زمین سے خدا تعالیٰ اُن لوگوں کو کھڑا کر دے گا جو میری آواز پر لبیک کہنے والے ہوں گے اور جو اپنی جان اور اپنی عزت اور اپنی دولت اور اپنا وطن اور اپنی ہر چیز اس راستہ میں خوشی سے قربان کر دیں گے کیونکہ وہ مجھ کمزور اور نا تواں انسان کی آواز نہیں سنیں گے بلکہ اس آواز کے پیچھے انہیں خدا کی آواز بلند ہوتی نظر آئے گی.پس مجھے یہ فکر نہیں کہ یہ کام کس طرح ہو گا.جب خدا نے ایک کام میرے سپرد کیا ہے تو یقیناً وہ کام ہو کر رہے گا، خواہ وہ میری زندگی میں ہو اور خواہ میری موت کے بعد ہو، خواہ تمہارے ذریعہ سے ہو خواہ تمہاری نسلوں کے ذریعے سے ہو، بہر حال یہ ناممکن اور بالکل ناممکن ہے کہ جو کام خدا نے میرے سپرد کیا ہے وہ نہ ہو.زمین اور آسمان ٹل سکتے ہیں مگر توحید کا قیام، خدائے واحد کے کلمہ کا اعلاء اور اُس کے دین کا دنیا کے گوشہ گوشہ میں پھیلنا کبھی رُک نہیں سکتا.یورپ کا فلسفہ، یورپ کی سیاست اور یورپ کا تمدن اب اس کے رستہ میں حائل نہیں رہ سکتا.خدا کے فرشتے اس کی دیواروں پر اپنی تو ہیں داغنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں اور قریب ہے کہ خدا کا حکم جاری ہو جائے.پھر وہ عمارتیں اسلام اور احمدیت کے مقابلہ میں اس طرح منہدم ہو جائیں گی جس طرح ایک چھوٹی سے چھوٹی اور کمزور سے کمزور دیواروں والی عمارت منہدم ہو جاتی ہے.پس ان حالات کے ماتحت ان کمیٹیوں میں جو ابھی بنائی جائیں گی آپ لوگوں کو غور کرنا چاہئے اور یاد رکھنا چاہئے کہ مومن کے اندر اگر ایک طرف عقل پائی جاتی ہے تو دوسری طرف اس میں جنون پایا جاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ آج تک کوئی نبی ایسا نہیں آیا جس کی قوم کو دنیا نے بہترین عقلمند نہیں کہا اور کوئی نبی دنیا میں ایسا نہیں آیا جس کی قوم کو دنیا نے مجنون نہیں کہا.انبیاء کے ماننے والوں کی خوبی ہی اس بات میں ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں پاگل بھی ہوتے ہیں اور عقلمند بھی ہوتے ہیں.وہ عظمند ہوتے ہیں کیونکہ وہ کوئی بات ایسی نہیں کرتے جو عقل کے خلاف ہولیکن دوسری طرف جب قربانی کا سوال ہو تو وہ کوئی شرط پیش نہیں کرتے کسی فکر اور تر ڈد کا اظہار نہیں کرتے بلکہ وہ

Page 39

خطابات شوری جلد سو ۲۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء ہر قسم کی قربانی پیش کرنے کے لئے خدا کی آواز پر اس طرح گرتے چلے جاتے ہیں جس طرح پروانہ شمع پر گرتا ہے.لوگ جب اُن کے عقل کے کاموں کو دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ان لوگوں سے بڑھ کر دنیا میں اور کوئی عقل مند نہیں مگر جب وہ اس بات کو دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ ہر قسم کے خوف سے نڈر ہو کر اور ہر قسم کے انجام سے بے نیاز ہو کر قربانیوں پر قربانیاں کرتے چلے جاتے ہیں اور اپنی طاقت اور وسعت سے بھی بڑھ کر قربانیاں کر رہے ہیں تو وہ حیران ہو کر کہتے ہیں کہ ان لوگوں سے بڑھ کر اور کوئی پاگل نہیں.یہی مجموعہ قوم جو ایک ہی وقت میں عالم بھی ہوتا ہے اور پاگل بھی ہوتا ہے، عارف بھی ہوتا ہے اور مجنون بھی ہوتا ہے، ایک ایسا مجموعہ ہے جو ہمیشہ دنیا کو فتح کرتا آیا اور یہی وہ مجموعہ قوم ہے جس پر کہ آئندہ دنیا کی تمام ترقی اور فتوحات کا انحصار ہے.اس وقت ہمارے سامنے جو تجاویز پیش ہیں وہ جماعت کے دوستوں کی طرف سے پرانے اصول پر ہی پیش کی گئی ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں اب ہمارے کام کئی قسم کے تغیرات کے مستحق ہیں اور میرے نزدیک اب وقت آ گیا ہے جب کہ جماعت کے بہترین دماغوں کو عض اس لئے فارغ رکھا جائے کہ وہ اعلیٰ مسائل کے متعلق غور وخوض کر سکیں اور جماعت کو اپنے مفید مشوروں سے آگاہ کریں.میں نے ایک عرصہ تک جماعت کے جذبات اور اُس کے احساسات کا خیال رکھا اور باوجود دوستوں کی ناتجربہ کاری، ان کی سیاست سے نا واقفیت اور دینی جماعتوں کے اصول سے لاعلم ہونے کے ہمیشہ اُن کے مشوروں کو قبول کیا اور اگر اپنی کوتاہ نظری سے گر دو پیش کے حالات سے غلط طور پر متاثر ہو کر انہوں نے بعض مشورے دیئے تو میں نے اُن کو بھی رد نہیں کیا مگر اب وقت آ گیا ہے کہ میں ایسے مشوروں کو قبول نہ کروں اور دوستوں کے جذبات اور ان کے احساسات کا خیال رکھے بغیر اُن کو کُھلے طور پر رڈ کر دوں.میں جانتا ہوں کہ در حقیقت بات یہی ہے کہ اب جو کچھ میں کہوں گا اُسی پر جماعت کا چلنا مفید اور بابرکت ہوگا نہ اُس راہ پر چلنا جس کو وہ خود اپنے لئے تجویز کرے.اگر خدا نے مجھ پر یہ انکشاف کیا ہے کہ میں حسن واحسان میں حضرت مسیح موعود الصلوۃ والسلام کا نظیر ہوں تو درحقیقت اس کے یہی معنی ہیں کہ اب تمہاری ذمہ داری بحیثیت ایک شخص کے ہے، بحیثیت جماعت جو ذمہ داری سمجھی جاتی تھی وہ ختم ہوگئی ہے.

Page 40

۲۴ مشاورت ۱۹۴۴ء خطابات شوری جلد سوم اب میں خدا تعالیٰ کے سامنے اُس کے دین کی اشاعت اور اسلام کے احیاء کے لئے ذاتی طور پر ذمہ وار ہوں اس لئے اب مجھے جماعت کے مشوروں کی زیادہ پرواہ نہیں ہوگی.اگر کسی معاملہ میں جماعت کی شدید رائے کو بھی رڈ کرنا پڑا تو میں اُسے کھلے طور پر رڈ کر دوں گا اور اس بات کی ذرا بھی پرواہ نہیں کروں گا کہ یہ وہ مشورہ ہے جو جماعت نے متفقہ طور پر دیا ہے.اب خدا کے سامنے میں صرف اپنے آپ کو ذمہ وار سمجھتا ہوں اور میں اللہ تعالیٰ کے الہامات اور اس کی تائید کی روشنی میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا منشاء تھا یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کسی تعلیم کو لے کر دنیا میں مبعوث ہوئے.پس آئندہ میں صرف اُس آواز کوشنوں گا جو خدا تعالیٰ کی ہوگی دوسرا کوئی لفظ میرے کان برداشت نہیں کر سکتے.میرا فرض ہے کہ اب میں اُس کی طرف بڑھتا چلا جاؤں اور خواہ میرے سامنے کوئی بات کیسی ہی خوبصورت شکل میں پیش کی جائے اس کی پرواہ نہ کروں جبکہ میرا دل یہ گواہی دے رہا ہو کہ میں وہی کام کر رہا ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کام تھا اور میں وہی کام کر رہا ہوں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کام تھا.درحقیقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو میری زبان پر تصرف دینے کے معنے ہی یہی تھے کہ تم اس آواز کو سنو جو براہ راست رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہیں کہیں اور تم اس آواز کو سنو جو براہ راست حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تمہیں کہیں.کوئی شخص اس کے یہ معنے نہ سمجھے کہ باوجود خدا تعالیٰ کے کلام اور اس کی نصوص صریحہ کے میں کوئی ایسا کام بھی کر سکتا ہوں جو اُس کی تعلیم کے خلاف ہو.میرے اس بیان کے یہ معنی نہیں ہیں بلکہ میرے قول کا مفہوم یہ ہے کہ تمام نصوص صریحہ سچائی کی طرف جاتی ہیں اور غلطی کی طرف وہ بات جاتی ہے جو خدا اور اس کے رسول کے احکام کے خلاف ہوتی ہے.پس یہ نہیں کہ جو کچھ میں کہوں گا وہ خدا اور اس کے رسول کے منشاء کے خلاف ہوسکتا ہے بلکہ جو کچھ میں کہوں گا وہی خدا اور اس کے رسول کے منشاء کے مطابق ہوگا اور میرے مقابلہ میں جو کچھ دوسرا سمجھے گا وہ خدا اور اس کے رسول کے منشاء کے خلاف ہو گا مگر یہ چیزیں ساری کی ساری قیاسی اور وہمی ہیں.اللہ تعالیٰ اپنی پاک جماعت کو ہمیشہ ایسی ٹھوکروں سے بچالیتا ہے

Page 41

خطابات شوری جلد سوم ۲۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء جو اُس کے ایمان کو ضائع کرنے والی ہوں.جب میں یقین رکھتا ہوں کہ آپ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہیں اور اس زمانہ کے لوگ ہیں جن کو خدا تباہ نہیں کیا کرتا.اور جبکہ میں یقین رکھتا ہوں کہ باوجود اپنی ساری کمزوریوں اور نالائقیوں کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی لائی ہوئی تعلیم کی اشاعت کی ذمہ واری میرے کمزور کندھوں پر ڈالی گئی ہے تو میں یہ بھی یقین رکھتا ہوں کہ وہ مجھ سے کوئی بات ایسی نہیں کہلوائے گا جو خدا اور اُس کے رسول کے منشاء کے خلاف ہو.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تم سے بھی کبھی اس بات کا انکار نہیں کرائے گا جو خدا اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق ہو.آخر میں بھی اُس کے قبضہ میں ہوں اور آپ لوگ بھی اُسی کے قبضہ میں ہیں.پس آپ لوگ جو مشورہ دیں اُس میں اس امر کوملحوظ رکھیں کہ عقل کا دامن اپنے ہاتھ سے کبھی نہ چھوڑ دیں مگر دوسری طرف یہ امر بھی مد نظر رکھیں کہ مومن مجنون ہوتا ہے اور وہ دین کے لئے بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا.پس ہمیں عظیم الشان کاموں کو محض اس لئے نہیں چھوڑ دینا چاہئے کہ ہمارے پاس سرمایہ نہیں ہے.اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اپنا مال خدا کے راستہ میں پیش کر دے اور اس راہ میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ سے کام نہ لے.حضرت مسیح ناصری کے زمانہ میں ایسے کئی لوگ موجود تھے جنہوں نے اپنی تمام جائدادیں دین کے لئے دے دیں اور خدا کے لئے تلاش اور مفلس بن گئے.ان لوگوں کو فقیر کہا جاتا تھا کیونکہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنا تمام مال خدا کے لئے لگا دیا.انجیل میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح ناصری کے پاس ایک دفعہ ایک مال دار شخص آیا اور آکر کہنے لگا اے نیک استاد! میں تیری جماعت میں شامل ہونا چاہتا ہوں.حضرت مسیح ناصری نے اسے دیکھا اور کہا اونٹ کا سُوئی کے نا کہ میں سے نکل جانا آسان ہے مگر دولت مند کا خدا کی بادشاہت میں داخل ہونا مشکل ہے، اگر تم سچے دل سے خدا کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہو تو جاؤ اور پہلے اپنی تمام دولت خدا کے لئے قربان کر دو یک تو سچی بات یہی ہے کہ ایک زمانہ ایسا آتا ہے جب جماعت کے افراد سے انتہائی قربانیوں کا مطالبہ کیا جاتا ہے.اور اگر مطالبہ نہ کیا جائے تو ہر فرد کو اس غرض کے لئے تیار ضرور کیا جاتا ہے کہ وہ اشارہ پاتے ہی

Page 42

خطابات شوری جلد سوم ۲۶ مشاورت ۱۹۴۴ء اپنی ساری دولت پھینک دے گا اور اس کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرے گا.یہ کیفیت ہے جو امیر اور غریب دونوں کے دلوں میں پیدا ہونی چاہئے.بے شک ایک امیر آدمی کے پاس دولت ہوتی ہے اور غریب اس دولت سے محروم ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا کے راستے امیر اور غریب دونوں کے لئے کھلے رکھے ہیں.دولت مند اگر اپنے اموال کی قربانی سے خدا تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرتا ہے تو ایک غریب شخص صرف ارادہ کے ساتھ اُس کی برکتوں کو جمع کر لیتا ہے.جب تک ہمارے کام اس بنیاد پر نہیں ہوں گے ہم اپنے فرائض کی ادائیگی میں کامیاب نہیں ہو سکتے.ہمیں یہ امر ہر وقت اپنے مد نظر رکھنا چاہئے کہ جس کام کو ہم نے سرانجام دینا ہے وہ اتنا عظیم الشان اور اس قدر اہم ہے کہ اس کے لئے ہمیں کسی قربانی کی بھی پروا نہیں ہوسکتی.خواہ ہمارے کپڑے پک جائیں، ہمارے گھر فروخت ہو جائیں ، ہماری جائدادیں جاتی رہیں، ہماری عزت اور ہمارا ناموس قربان ہو جائے ، ہمیں دوسروں کی غلامی کرنی پڑے تب بھی ہم اپنے مقصد کو حاصل کر کے رہیں گے اور ہم یہ خیال بھی اپنے دل میں نہیں لائیں گے کہ ہم نے کوئی کام کیا ہے.خدا کا دین دنیا میں پھیلانا اور اس کے نام کو بلند کرنا ہمارا مقصد ہے.اس مقصد میں اگر ہم اپنے آپ کو بیچ کر بھی کامیاب ہو سکتے ہیں، اگر ہم اپنی بیویوں اور اپنے بچوں کو قربان کر کے بھی کامیاب ہو سکتے ہیں تو ہمیں اس میں کوئی دریغ نہیں ہونا چاہئے ، یہ عزم ہے جو ہمارے اندر پیدا ہونا چاہئے اور یہ دلیری کی روح ہے جو ہم میں سے ہر شخص کو پیدا کرنی چاہئے.جب تک ہم اپنے اندر یہ دلیری پیدا نہیں کر لیتے اُس وقت تک ہم اس کام کے اہل نہیں بن سکتے اور نہ اس کام کو کسی صورت میں سرانجام دے سکتے ہیں.میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ ہمارے بجٹ میں اس سال بعض غلطیاں رہ گئی ہیں مثلاً کالج کے قیام کا اعلان کر دیا گیا ہے مگر اس کے اخراجات کا بجٹ میں کوئی ذکر نہیں حالانکہ یہ اخراجات ایسے ضروری ہیں کہ کالج کا اعلان ہو جانے کے بعد ان کو کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.اسی طرح بجٹ کمیٹی کو یہ امر بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ میرے نزد یک نظارتوں کا عملہ اس قسم کا نہیں جو تمام کام کو سنبھال سکے.وہ عملہ صرف اتنا کام کر سکتا ہے

Page 43

خطابات شوری جلد سوم مشاورت ۱۹۴۴ء کہ چٹھیوں وغیرہ کا جواب دے دے مگر اس سے بڑھ کر کوئی اور کام کرنے کی اس میں اہلیت نہیں.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ناظروں کو چھوٹے چھوٹے دفتری کاموں میں بھی حصہ لینا پڑتا ہے.اس نقص کو دُور کرنے کے لئے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ بعض نائب ناظر مقرر کئے جائیں.یہ نائب ناظر گریجوایٹ یا ایم اے ہوں گے اور اُن کا کام یہ ہوگا کہ دفتری کام کا تجربہ حاصل کریں اور رفتہ رفتہ اس کام کو سنبھال لیں جو ناظران سلسلہ کر رہے ہیں.میری غرض اس سکیم سے یہ ہے کہ ان نائب ناظروں کے تقرر کے نتیجہ میں ناظر بالکل فارغ کر دیے جائیں تا کہ وہ سلسلہ کی ترقی کے لئے اصولی اور بنیادی امور پر غور کر سکیں اور ایسی سکیمیں تیار کریں جو ترقی کے لئے مفید ہوں.اس مقصد کے لئے بجٹ میں چار رقمیں تجویز ہونی چاہئیں تا کہ شروع سال سے اس سکیم کے مطابق کام کیا جاسکے.پھر یہ امر بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ میں دیہاتی مبلغین کو آجکل تعلیم دے رہا ہوں.یہ لوگ مدرس بھی ہوں گے اور مبلغ بھی.چھ مہینہ تک یہ لوگ فارغ ہو جائیں گے، پندرہ ، ہیں ان کی تعداد ہے، ان دیہاتی مبلغین کو بھی ہم نے بڑے بڑے قصبات میں تبلیغ اور درس و تدریس کے لئے مقرر کرنا ہے اور میرا ارادہ ہے کہ ایک ایک مبلغ کے سپرد پندرہ پندرہ ہیں ہیں گاؤں کر دیئے جائیں تا وہ ان کی نگرانی رکھے اور ان میں تبلیغ اور تعلیم کا سلسلہ جاری کرے.ان کے لئے بھی بجٹ میں گنجائش رکھنی چاہئے کیونکہ جب یہ لوگ نکلیں گے انہیں صدر انجمن احمدیہ کے سپرد ہی کرنا پڑے گا.اس کے ساتھ ہی یہ امر بھی نظر میں رکھنا چاہئے کہ ہم نے بجٹ کا توازن ایسا رکھنا ہے کہ پانچ چھ سال کے اندر اندر ہم پچیس لاکھ روپیہ کا ریز روفنڈ قائم کر سکیں تا کہ اگر کسی وقت ہماری مالی حالت کمزور ہو جائے یا یکدم کوئی زیادہ خرچ آجائے تو اس ریز روفنڈ سے مدد لی جا سکے.یہ باتیں ہیں جن کو مدنظر رکھ کر بجٹ پر غور کرنا چاہئے.“ دوسرا دن غیر احمدی لڑکیوں سے رشتہ ناطہ کی بابت نظارت امور عامہ کی طرف سے ایک یہ تجویز تھی کہ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء

Page 44

خطابات شوری جلد سوم ۲۸ مشاورت ۱۹۴۴ء میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ آئندہ تین سال تک بغیر منظوری مرکز غیر احمدی لڑکی سے شادی نہ کی جائے.اس کے بعد اس فیصلہ میں ہر تین سال کے بعد توسیع ہوتی رہی.اب آخری فیصلہ کا تیسرا سال گزر رہا ہے.لہذا اس معاملہ کو مزید فیصلہ کے لئے پیش کیا جاتا ہے.“ حضور نے فرمایا.”جو دوست اس کے متعلق کچھ کہنا چاہیں وہ اپنے نام لکھوا دیں.“ اس پر چند ممبران نے اپنے نام لکھوائے اور اپنی آراء پیش کیں.اس کے بعد حضور نے فرمایا: - اس کے متعلق تین ترامیم پیش ہوئی ہیں.ایک یہ کہ ہر سال اس کے متعلق فیصلہ ہوا کرے.دوسرے یہ کہ تین سال کے بعد.اور تیسرے یہ کہ پانچ سال کے بعد.تین سال کے بعد پیش ہونے کا تو پہلے قاعدہ ہے ہی.دو ترامیم رہ جاتی ہیں.دوستوں نے مختلف قسم کے خیالات سُن لئے ہیں.یہ مسئلہ بار بار جماعت کے سامنے آتا رہا ہے.اور اس کے فوائد اور نقائص اچھی طرح سامنے آچکے ہیں.فائدہ اس کا یہ بیان کیا گیا ہے کہ غیر احمدیوں کے ہاں شادی کرنے سے نئے خاندانوں سے تعلقات قائم ہوتے ہیں اور تبلیغ کا رستہ کھل جاتا ہے.نقصان یہ ہے کہ احمدی لڑکوں کے غیر احمدیوں کے ہاں رشتے ہو جانے سے احمدی لڑکیوں کے لئے رشتے ملنے مشکل ہو جاتے ہیں.یہ دونوں نقطہ ہائے نگاہ ہیں جو جماعت کے سامنے ہیں.جماعت نے کثرت رائے سے فیصلہ کیا تھا کہ یہ پابندی لگا دی جائے کہ تین سال تک بغیر اجازت غیر احمدی لڑکی سے شادی نہ کی جائے.اب ایک دوست نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ تیسرے سال یہ سوال اٹھانا درست نہیں بلکہ اس پابندی کو دس سال تک ممتد کر دیا جائے.بعض مجبوریاں بھی پیش آسکتی ہیں.مثلاً احمدیت میں داخل ہونے سے قبل کے بعض رشتے کئے ہوئے ہوتے ہیں اُن کو چھوڑ دینے سے لوگوں پر بُرا اثر پڑتا ہے اور بلا وجہ لوگوں پر بُرا اثر نہ ڈالنا چاہئے.پھر ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ اگر کسی با اثر خاندان میں شادی کر لی جائے تو آہستہ آہستہ وہ لوگ قریب آجاتے ہیں اور تبلیغ کا رستہ گھل جاتا ہے اس لئے اجازت لے کر شادی کر لینے کا رستہ کھلا رہنا چاہئے.عام اجازت اس لئے نہیں ہونی چاہئے

Page 45

خطابات شوری جلد سوم ۲۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء کہ اس طرح احمدی لڑکیوں کے لئے رشتوں کا ملنا مشکل ہو جاتا ہے.جو دوست چاہتے ہیں کہ یہ پابندی قائم رہے.جسے ضرورت پیش آئے وہ اجازت لے کر کرے اور دس سال تک یہ پابندی مسلسل رہے وہ کھڑے ہو جائیں.“ اس پر ۱۰ا دوست کھڑے ہوئے.پانچ سال کے لئے یہ پابندی لگانے کے حق میں ۱۷ اور ہر سال اس کے پیش ہونے کے حق میں صرف ۶ دوستوں نے رائے دی.اور موجودہ قاعدہ یعنی تین سال کے بعد اسے دوبارہ پیش کرنے کے حق میں ۱۹۴ دوستوں نے رائے دی.حضور نے فرمایا : - آخری تجویز یعنی موجودہ قاعدہ کے حق میں ۱۹۴ دوست ہیں.یہ تعداد پہلی تین تجاویز کے حق میں آراء کے مجموعہ سے بھی زیادہ ہے.وہ گل ۱۳۳ ہیں اور یہ ۱۹۴.اس لئے میں کثرتِ رائے کے حق میں فیصلہ کرتا ہوں.“ نظارت امور عامہ کی دوسری تجویز حفاظت خاص سے متعلق تھی.سب کمیٹی حفاظت خاص نے تجویز کی تھی کہ حضرت خلیفہ اسیح کی حفاظت کے لئے کم از کم تین ہزار روپیہ ماہوار خرچ منظور کیا جائے.اور تفصیلی انتظام محکمہ متعلقہ پر چھوڑ دیا جائے.“ یہ تجویز چونکہ حضور کی ذات سے متعلق تھی اس لئے آپ نے فرمایا کہ:- اس پر گفتگو کے دوران میں میں مجلس میں موجود نہیں رہنا چاہتا.66 قبل میں چلا جاؤں گا اور جماعت جو فیصلہ چاہے اس بارہ میں کر دے.“ اس پر ایک دوست نے عرض کیا کہ یہ حضور کا ذاتی سوال نہیں کہلا سکتا کیونکہ یہ خلیفہ کی حفاظت کے بارہ میں ہے.حضور نے فرمایا : - در گو یہ سوال اس رنگ میں ذاتی نہیں مگر پھر بھی اس کا تعلق میری ذات سے ہے.اور میں شرم محسوس کرتا ہوں کہ جس مجلس میں اس پر گفتگو ہو اس میں میں موجود ہوں.دراصل بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ انہیں ذات سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا.اس ضمن میں مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کا ایک واقعہ یاد آیا ہے.ماسٹر فقیر اللہ صاحب جو پہلے غیر مبایعین میں سے تھے اب خدا کے فضل سے بیعت کر چکے ہیں.حساب اچھا جانتے تھے

Page 46

خطابات شوری جلد سوم مشاورت ۱۹۴۴ء اور مدرسہ میں حساب کے استاد تھے.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے شکایت کی کہ یہ حساب میں بہت کمزور ہے اور پھر حساب کی گھنٹیوں میں اکثر غیر حاضر بھی رہتا ہے.میری صحت اُس وقت ایسی ہی تھی کہ میں زیادہ توجہ بھی نہ کر سکتا تھا اور آنکھیں بھی کمزور تھیں.بورڈ کی طرف زیادہ دیر تک نہ دیکھ سکتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ شکایت سن کر فرمایا کہ ہم نے اس سے کوئی وکالت تو کروانی نہیں آپ پڑھا دیا کریں جتنا آ جائے گا اتنا ہی سہی.یہ بات سن کر میں نے حساب کی گھنٹیوں میں جانا ہی بند کر دیا.اس کے بعد مولوی یار محمد صاحب حساب کے ماسٹر مقرر ہوئے.وہ سکول کے وقت کے علاوہ میرے پاس آجاتے اور کہتے تمہاری آنکھیں دُکھتی ہیں تم نہ دیکھو میں زبانی حساب پڑھاتا ہوں.اسی طرح انہوں نے مجھے کچھ حساب سکھا دیا.ان مولوی صاحب کے دماغ میں کچھ نقص تھا.وہ خیال کرنے لگے کہ محمدی بیگم میں ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب مسجد میں نماز کے لئے تشریف لاتے تو وہ حضور کے دائیں بائیں ، آگے پیچھے کوشش کر کے کھڑے ہو جاتے.اور جیسے میاں بیوی میں محبت و پیار کا اظہار ہوتا ہے حضور کے کبھی پیر کو کبھی ہاتھ کو پکڑتے.حضور علیہ السلام کو اس سے تکلیف ہوتی تھی اور نماز میں بھی خلل آتا تھا.آپ نے بہت انہیں روکا مگر وہ نہ رُکے.آخر آپ نے بعض دوستوں سے بیان کیا.اُن دنوں سید ناصر شاہ صاحب مرحوم اور بعض اور دوست یہاں آئے ہوئے تھے.انہوں نے باہم فیصلہ کیا کہ ہم پہرہ دیا کریں گے اور مولوی صاحب کو حضور کے پاس نہ آنے دیں گے.لیکن جس شخص کے دماغ میں نقص ہو اس کا مقابلہ کرنا مشکل ہوتا ہے.یہ لوگ اگر بارہ گھنٹے بیٹھتے تو مولوی صاحب چودہ گھنٹے.اور اگر یہ ہیں گھنٹے بیٹھیں تو وہ چوبیس گھنٹے بیٹھے رہتے.آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں حکم دیا کہ قادیان سے چلے جائیں اور حکم لکھ کر مجھے ہی دیا کہ ان کو پہنچا دوں.چنانچہ میں یہ حکم لے کر ان کے پاس گیا.انہوں نے پڑھ کر جواب میں لکھا کہ میں مرزا غلام احمد ابن مرزا غلام مرتضی کو نہیں جانتا اور نہ میں نے ان کی بیعت کی ہوئی ہے.میں نے بیعت مسیح موعود کی کی ہوئی ہے اور ان کے حکم کو مان سکتا ہوں.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں لکھا کہ میں مسیح موعود کی حیثیت سے آپ کو حکم دیتا ہوں کہ یہاں سے چلے جائیں.آخر وہ چلے گئے.یہاں سے وہ شاید جالندھر گئے

Page 47

خطابات شوری جلد سوم ۳۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء وہاں سے لاہور پہنچے.لاہور سے لدھیانہ اور پھر ہوشیار پور گئے اور ۴۸ یا ۷۲ گھنٹہ میں یہ تمام سفر کر کے پھر واپس یہاں پہنچ گئے.اور کہا کہ میں تو بہ کرتا ہوں آئندہ میں کوئی ایسی حرکت نہ کروں گا لیکن میں قادیان سے باہر نہیں رہ سکتا.اب دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پہرہ کا حکم کر سکتے تھے مگر آپ نے جماعت کو ایسا حکم نہیں دیا.کیونکہ بوجہ اس سے آپ کی ذات کا تعلق ہونے کے آپ نے شرم محسوس کی.گو یہ حفاظت کا سوال ایک حیثیت - ذاتی نہیں بھی مگر پھر بھی میری فطرت ایسی ہے کہ میں شرم محسوس کرتا ہوں کہ میری موجودگی میں اس پر گفتگو ہو.اس لئے میں نے کہا ہے کہ یہ میرے چلے جانے کے بعد پیش ہو.“ چنانچہ حضور انور کے تشریف لے جانے کے بعد حفاظتِ خاص کی تجویز کی بابت درج ذیل کا رروائی ہوئی.ناظر صاحب امور عامہ:.سب کمیٹی کی رپورٹ ہے کہ حضرت خلیفۃ امسیح کی حفاظت کے لئے بالمقطع ۳۰۰۰ روپیہ منظور کیا جائے.تفصیلی انتظامات نظارت امور عامہ پر چھوڑ دیئے جائیں.اس وقت دو کارکنوں کی منظوری ہے ایک کے لئے ۱۵ روپیہ کی اور دوسرے کے لئے ۲۰ روپیہ کی گنجائش ہے.نظارت نے مقامی طور پر اور اخبارات میں اعلان کئے.اس پر صرف ایک کارکن ملا جس کو ۱۵ روپیہ ماہانہ پر رکھ لیا گیا.بوجہ کم تنخواہ کے دوسرا کا رکن مہیا نہیں ہوا.اس محافظ کا فرض ہے کہ وہ سفر میں اور حضر میں ہر وقت حضور کی معیت میں رہے.اس کے علاوہ ایک مستقل محافظ ہے جو پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کے ماتحت ہے.۲ نیشنل لیگ کور کے ماتحت ایک آنریری انتظام بھی ہے جب حضور باہر تشریف لے جار ہے ہوں تو کور والوں کو اطلاع کر دی جاتی ہے..اس کے علاوہ قادیان کے محلہ جات سے باری باری لوگ آتے ہیں جو دن رات مسجد مبارک میں حفاظت کا انتظام کرتے ہیں.۴.کار خاص کا انتظام بھی ہے.ان کا بھی فرض ہے کہ حضور جب باہر تشریف لے جائیں تو ایسے موقعوں پر ڈیوٹی پر رہیں.۵.مجھے ابھی بتایا گیا ہے کہ خدام الاحمدیہ کے ماتحت بھی حفاظت کا انتظام ہے جو

Page 48

خطابات شوری جلد سوم ۳۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء نہایت تندہی سے اسے سرانجام دیتے ہیں.مگر پھر بھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ حضور کی حفاظت کا خاطر خواہ انتظام نہیں.اس اہم خدمت کے لئے قابل آدمی کم تنخواہ پر مہیا نہیں ہوتے.اس کے بعد بعض نمائندگان نے اپنی آراء پیش کیں.آخر پر چوہدری سر محمد ظفر اللہ خانصاحب صدر مجلس نے فرمایا : - تجویزیں اتنی ہی ہیں جتنے احباب اس وقت بولے ہیں.ہر ایک پر رائے لینا مشکل بلکه شاید ناممکن ہو.اس لئے میں ان میں سے اصولی تجاویز بیان کر دیتا ہوں.ان کے متعلق پھر رائے لے لی جائے گی.پہلی تجویز یہ ہے کہ یہ مسئلہ چونکہ جلدی میں فیصلہ کرنے کا نہیں اس لئے اسے ایک کمیٹی کے سپرد کر دیا جائے جو حضور کی حفاظت کے متعلق تمام تفاصیل طے کرے.مگر اس میں ایک مشکل ہے.مجلس مشاورت کل ختم ہو جاوے گی.کمیٹی کل تک یہ کام نہیں کر سکتی.نتیجہ یہ ہوگا کہ کمیٹی اگلے سال مجلس مشاورت میں اپنی تجاویز پیش کر سکے گی.اس لئے میں اس کی وضاحت کر دیتا ہوں کہ حضور سے درخواست کی جائے کہ ایک کمیٹی مقرر فرما دیں ایسے احباب کی جو تجربہ رکھتے ہوں.یہ کمیٹی جلد سے جلد فیصلہ کرے کہ حضور کی حفاظت کا کیا انتظام ہو.کس صیغہ سے متعلق ہو.نظارت امور عامہ سے یا پرائیویٹ سیکرٹری سے (جیسا کہ بعض احباب نے کہا ہے ) پہرے کا کونسا حصہ والٹیر ز کے سپرد ہو اور کونسا تنخواہ داروں کے.خرچ کے لئے کتنا بجٹ رکھا جائے.یہ کمیٹی حضور کی خدمت میں رپورٹ کرے.اس رپورٹ کا مالی پہلو اس کمیٹی میں پیش ہو جو بجٹ پر غور کرنے کے لئے حضور بنا ئیں.ہماری طرف سے حضور کی خدمت میں یہ سفارش ہو کہ اس کمیٹی اور مالی کمیٹی کی رپورٹوں پر حضور خود فیصلہ فرماویں.دوسری تجویز یہ ہے کہ اس کے متعلق ہم خود فیصلہ کریں کہ حضور کی حفاظت کا کیا انتظام ہونا چاہئے.اس کے متعلق جو تجاویز اس وقت دوستوں نے بیان کی ہیں انہیں ایک ایک کر کے میں پیش کرتا چلا جاؤں گا.

Page 49

خطابات شوری جلد سوم ۳۳ مشاورت ۱۹۴۴ء ایک تجویز یہ ہے کہ حضور کی حفاظت کے لئے دوست زندگی وقف کریں.تحریک جدید کے اصول کے مطابق انہیں گزارہ دیا جائے.دوسری تجویز یہ ہے کہ اس بات پر غور کیا جائے کہ حضور کی حفاظت کے لئے پہرے کا انتظام کس محکمہ کے سپرد ہو؟ نظارت امور عامہ یا پرائیویٹ سیکرٹری کے؟ تیسری تجویز یہ ہے کہ اس بات پر غور کیا جائے کہ اس غرض کے لے ۷۲۰ روپیہ کی رقم منظور کیا جائے یا ۶۰۰۰ یا ۳۰۰۰.جو دوست پہلی تجویز کے حق میں ہوں کہ حضور کی خدمت میں سفارش کی جائے کہ حضور ماہر اصحاب کی ایک کمیٹی مقرر فرما دیں جو حضور کی خدمت میں رپورٹ پیش کرے.اس کا مالی حصّہ بجٹ کمیٹی میں پیش کر دیا جائے.حضور دونوں رپورٹوں کے بعد اس کے متعلق خود فیصلہ فرماویں.ایسے دوست کھڑے ہو جائیں.رائے شماری کے بعد چوہدری صاحب نے فرمایا: ''اکثریت اس تجویز کے حق میں ہے.نوٹ : مورخہ ۹ را پریل کو اجلاس شروع ہونے سے پہلے چوہدری صاحب موصوف نے اعلان کیا کہ حضور نے ناظر صاحب امور عامہ، چوہدری فتح محمد صاحب، حضرت میاں بشیر احمد صاحب اور شیخ نیاز احمد صاحب پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی ہے جو ۱۵ دن کے اندر حضور کی خدمت میں رپورٹ پیش کرے.“ نشر واشاعت کا بجٹ پانچ ہزار مشاورت کے دوسرے دن ۱۸ اپریل کو سب کمیٹی نظارت دعوۃ وتبلیغ کی رپورٹ پیش ہوئی.نئے سے پندرہ ہزار کئے جانے کی تجویز مبلغین اور ان کے لئے تمہیں ہزار روپے بجٹ میں رکھنے کی تجویز کے بعد سب کمیٹی کی ایک تجویز یہ تھی کہ نشر واشاعت کے موجودہ بجٹ کو پانچ ہزار سے بڑھا کر پندرہ ہزار کر دیا جائے.اس کی بابت حضور نے فرمایا : - اس کا بھی شوری سے تعلق نہیں یہ کوئی مستقل چندہ نہیں بلکہ طوعی چندہ ہے.یہ کہنا

Page 50

خطابات شوری جلد سوم ۳۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء کہ مجھے اجازت دی جائے کہ میں جماعت سے پندرہ ہزار روپیہ مانگوں یہ بے معنی بات ہے.طوعی چنده نظارت پندرہ ہزار چھوڑ پندرہ لاکھ لے لے کسی کو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے.میں یہ امید نہیں کرتا کہ دوست خوش ہوں گے کہ وہ تہیں ہزار کے بوجھ سے بچ گئے.جنہوں نے مخالفت کی اس وجہ سے نہیں کی کہ جماعت زائد بوجھ سے بچ جائے بلکہ اس وجہ سے کی کہ ابھی اس بوجھ کے اُٹھانے کا موقع نہیں، کیونکہ مبلغ میسر نہیں.بعض دوست خوش ہوتے ہیں کہ ناظر صاحب شرمندہ ہوئے اور وہ مبلغ پیش نہیں کر سکے مگر یاد رکھنا چاہئے کہ ناظر کوئی ایسی مرغی نہیں کہ جو انڈے دے کر مبلغ پیدا کر دے.اگر وہ نام پیش نہیں کر سکے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ آپ لوگ ناکام رہے ہیں کہ اپنی ذمہ واری کو ادا کر سکیں اور آج جب کہ ہر طرف سے اسلام کی تبلیغ کے لئے آوازیں آ رہی ہیں آپ کی تیاری کا یہ حال ہے کہ اب تک تمیں مبلغ بھی تیار نہیں کر سکے.وقف اولاد کی اہمیت کئی سال ہوئے میں نے وقف اولاد کی تحریک کی تھی اگر آپ لوگ اس پر توجہ کرتے تو آج یہ حالت نہ ہوتی.جب آپ لوگ ہنس رہے تھے کہ ناظر صاحب پھنس گئے تو فرشتے آسمان پر ہے کہ آپ لوگوں نے خود اپنے خلاف ڈگری دے دی.کوئی ایک انسان اس ضرورت کو کبھی پورا نہیں کر سکتا.ہر ایک پر ذمہ واری ہے اور ہر ایک اپنی ذمہ واری کے لئے خدا تعالیٰ کے حضور جواب دہ ہے.آپ بھی جواب دہ ہیں اور میں بھی.مگر میں نہیں بھی ہوں اس لئے کہ میں نے اپنا ہر ایک بچہ خدا تعالیٰ کے دین کے لئے وقف کر رکھا ہے.میاں ناصر احمد وقف ہیں اور دین کا کام کر رہے ہیں.چھوٹا بھی وقف ہے اور میں سوچ رہا ہوں کہ اسے کس طرح دین کے کام پر لگایا جائے.اس سے چھوٹا ڈاکٹر ہے وہ امتحان پاس کر چکا ہے اور اب ٹرینگ حاصل کر رہا ہے تا سلسلہ کی خدمت کر سکے ( اس عرصہ میں دوسرے دونوں سلسلہ کے کام پر لگ چکے ہیں.الْحَمْدُ لِلَّهِ) باقی چھوٹے پڑھ رہے ہیں اور وہ سب بھی دین کے لئے پڑھ رہے ہیں.میرے تیرہ لڑکے ہیں اور تیرہ کے تیرہ دین کے لئے وقف ہیں مگر آپ لوگ سوچیں کہ آپ نے کیا کیا ہے؟ دوست خوش ہیں کہ ہماری جماعت ایک تبلیغی جماعت ہے مگر ایک تبلیغی جماعت

Page 51

خطابات شوری جلد سوم ۳۵ مشاورت ۱۹۴۴ء کے لئے تمہیں مبلغین کا بھی پیدا نہ کر سکنا کتنے افسوس کی بات ہے.ہمارے ذمہ تمام دنیا میں تبلیغ کرنا ہے اور اس کام کے لئے تھیں کیا تمہیں ہزار مبلغ بھی کافی نہیں.کیا جوں جوں ضرورت پڑے گی ہر قدم پر میں ناظر سے پوچھا کروں گا کہ کون سے آدمی آپ کے پاس ہیں اور وہ اس طرح جواب میں خاموش ہو جایا کرے گا؟ یا درکھیں کہ ہر دفعہ ناظر کا خاموش ہونا آپ کے لئے تازیانہ غیرت ہے.مبلغ ناظر نے نہیں بلکہ آپ نے پیدا کرنے ہیں، یہ اس کا کام نہیں بلکہ آپ کا ہے.چاہئے کہ ہر وقت دو تین ہزار مبلغ تیار کھڑے ہوں تا جب بھی آواز آئے فوراً بھیجے جاسکیں مگر یہ نہیں ہو سکتا جب تک آپ لوگ اپنے فرض کو ادا نہ کریں.آپ لوگ سوچیں کہ کتنے کھاتے پیتے لوگ ہیں جو اپنے بچوں کو مدرسہ احمدیہ میں پڑھاتے ہیں.اس سکول میں پڑھنے والے اکثر طالب علم وہ ہیں جو اگر یہاں نہ پڑھتے تو بھیک مانگتے.ان کا اس سکول میں پڑھنے کے لئے آنا سلسلہ پر احسان نہیں بلکہ ان کو پڑھانا سلسلہ کا احسان ہے.ان پر اور ان کے ماں باپ پر کہ ان کے بچے بھیک مانگنے کے بجائے تعلیم پاتے ہیں.کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ میرا بچہ بھیک مانگنے کے لئے تیار تھا یا چپڑاسی بننے کے لئے تیار تھا مگر میں نے اسے مدرسہ احمدیہ میں داخل کرا دیا کہ وہ دین کی خدمت کر سکے؟ غرض یہ بہت بڑا حرف جماعت پر ہے کہ آج وہ تیں مبلغ بھی پیش نہیں کر سکتی.میں نے بار بار دوستوں کو توجہ دلائی ہے کہ وہ اپنی زندگیوں کو وقف کریں.جماعت اخلاص اور جوش تو دین کے لئے بہت ظاہر کرتی ہے، مگر عملی حالت جو ہے اس سے ظاہر ہے کہ ہمارے پاس تیں مبلغ بھی نہیں جن کو کام پر لگایا جا سکے.یہ تو وہی بات ہے کہ سو گز واروں ایک گز نہ پھاڑوں.میں جانتا ہوں کہ دوسری کوئی قربانی نہیں جس سے جماعت نے دریغ کیا ہو.مالی لحاظ سے جماعت کی قربانیاں شاندار ہیں اور اگر اب بھی میں اس تھیں ہزار کی منظوری دے دیتا تو مجھے یقین ہے کہ جماعت یہ بھی پورا کر دیتی ، مگر جب مصرف ہی نہیں تو میں کیوں لوں.بعض مخالف کہتے ہیں کہ میں چندوں کا روپیہ کھا لیتا ہوں مگر میں تو جب تک سلسلہ کو ضرورت نہ ہو انجمن کو چندہ کی اجازت دینے کو تیار نہیں ہوں.ہاں اگر مبلغ ہوں، وہ باہر جائیں تو ان کے لئے اور ان کے بیوی بچوں کے لئے روپیہ کی ضرورت ہو سکتی ہے مگر جب ہمارے پاس مبلغ ہی نہیں ہیں تو روپیہ کی کیا ضرورت ہے.

Page 52

خطابات شوری جلد سوم ۳۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء پس میں دوستوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کافی مہلت دی ہے.اب وہ ترقی کا فیصلہ کر چکا ہے.اب وہ شاید زیادہ مہلت نہیں دے گا اس لئے جماعت کو چاہئے که فرض شناسی سے کام کرے.ضلعوں کے ضلعے ایسے ہیں کہ جہاں سے کسی کھاتے پیتے زمیندار، تاجر یا دوسرے ایسے لوگوں کے لڑکے جو اپنے دو تین یا زیادہ بچوں میں سے ایک کو بڑی آسانی سے دین کے لئے وقف کر سکتے ہیں، احمد یہ سکول میں داخل نہیں.میرا اندازہ ہے کہ تین ، ساڑھے تین لاکھ جماعت ہندوستان میں ہے.عورتیں، بچے اور نا کارہ کو اگر نکال دیا جائے تو چالیس پچاس ہزار کی تعداد رہ جاتی ہے.ان میں سے اگر پانچ ہزار بھی کھاتے پیتے سمجھ لئے جائیں اور وہ اپنا ایک ایک لڑکا بھی دین کے لئے پیش کریں تو پانچ ہزار مبلغ مل سکتا ہے.ایک بچہ کو دین کے لئے وقف کرنے میں کوئی مشکل نہیں.دوسروں کو کہا جا سکتا ہے کہ ہم نے تمہیں اعلیٰ تعلیم دلوائی یا دوسرے اچھے کاموں پر لگایا اب یہ گویا ایک ٹیکس تمہارے ذمہ ہے کہ اپنے اس بھائی کو خرچ دیتے رہو اس طرح اُن کے اپنے رزق میں بھی برکت ہوگی.حضرت ابو ہریرۃ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آئے اور دھرنا مار کر بیٹھ گئے جتنی کہ مسجد سے نکلنا بھی بند کر دیا.اُن کا ایک اور بھائی تھا جس کے کام میں یہ پہلے مدد دیا کرتے تھے.ایک دفعہ اُن کا بھائی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہا کہ یا رسول اللہ ! میرا بھائی تو اب میرے لئے گویا ایک چھٹی ہے دو چار ماہ بعد آتا ہوں تو اُسے کچھ خرچ دے جاتا ہوں اور یہ پہلے کام میں جو مجھے مدد دیتا تھا اُس سے محروم ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہیں کیا معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں بھی رزق اس کے طفیل دیتا ہے.^ میر محمد الحق صاحب مرحوم کو جب حضرت خلیفہ اول نے دینی علوم کی تعلیم دینی شروع کی تو ایک دن حضرت نانا جان مرحوم نے کہا کہ میرے دل پر یہ بوجھ ہے کہ یہ کھائے گا کیا ؟ اسے کوئی فن بھی سکھا دیا جائے.اس پر حضرت خلیفہ اول نے فرمایا اس کے بڑے بھائی کو اللہ تعالیٰ اسی کے لئے تو رزق دے گا تا وہ اس کی خدمت کرے اور دین کی خدمت کے ثواب میں شریک ہو.تو دین کے لئے بیٹوں کو وقف کرنا اہم ذمہ واری ہے.جس میں اب تک جماعت نے اپنی ذمہ واری کو ادا کیا ہوتا تو آج ناظر صاحب سے جب پوچھا گیا تھا

Page 53

خطابات شوری جلد سو ۳۷ مشاورت ۱۹۴۴ء کہ تمہیں مبلغوں کے نام بتائیں تو وہ کھسیانے ہو کر یہ نہ کہتے کہ میں نے سوچا نہیں.واقع یہ ہے کہ مبلغ ہیں ہی نہیں.ناظر صاحب کے نام نہ پیش کرنے پر بعض لوگ ہنسے لیکن جن لوگوں نے خود اپنی ذمہ واری کو ادا نہ کیا اُنہیں ہننے کا کیا حق ہے.ہاں جس نے اپنے بیٹوں میں سے کم سے کم ایک کو اچھی تعلیم دلا کر دین کے لئے وقف کر دیا اور باقی بیٹوں پر فرض کر دیا کہ وہ اسے خرچ دیں، وہ بے شک ہنسے.مگر ایسا تو شاید سو دوسو میں سے ایک ہوگا باقی سب وہ ہیں جنہوں نے اپنی ذمہ واری کو ادا نہیں کیا.ایسے لوگوں کے لئے یہ استغفار کا موقع تھا اور انہیں اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہئے تھی.پس میں بار بار جماعت کو توجہ دلا چکا ہوں اور اب پھر توجہ دلاتا ہوں کہ اپنے بچوں کو دین کے لئے وقف کرو.اگر کسی کے زیادہ بچے ہیں تو وہ ایک کو وقف کرے اور اُس کے بھائیوں کے ذمہ لگائے کہ اسے خرچ دیتے رہیں اور انہیں کہے کہ یہ دین کا کام کرتا ہے اس لئے تمہارا فرض ہے کہ اپنی آمد کا اتنا حصہ اس کو دیتے رہو اور یا پھر وہ اپنی جائداد کا کچھ حصہ اُس کے لئے وقف کر سکتا ہے.وصیت تو زیادہ سے زیادہ تیسرے حصہ کی جائز ہے اور یہ اسی لئے ہے کہ تا انسان چاہے تو دوسرے کاموں کے لئے بھی وقف کر سکے.پس چاہئے کہ جائداد کا کچھ حصہ اس رنگ میں وقف کر دیا جائے کہ جو تبلیغ کرے گا یہ اُسے ملے گا.پس وہ قربانی کرو جو سچے مومن کے شایانِ شان ہے اور اپنے بچوں کو مدرسہ احمدیہ میں تعلیم کے لئے بھیجو.بالخصوص کھاتے پیتے لوگوں کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے.“ چندہ جلسہ سالانہ کی شرح دس فیصد سب کمیٹی بیت المال کی ایک تجویز تھی کہ دس فیصدی مقرر کی جائے.“ چندہ جلسہ سالانہ کی شرح سال حال کے مطابق اس کی بابت بعض نمائندگان کی آراء کے بعد حضور نے فرمایا :- گزشتہ سال ناظر صاحب نے چندہ جلسہ سالانہ پندرہ فیصدی تجویز کیا تھا مگر میں نے دس فیصدی رکھا.اب فہرست شائع ہو گئی ہے اس میں قریباً ۱۸۴ جماتیں ہیں جنہوں نے ایک فیصدی چندہ بھی نہیں دیا.یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اتنی بڑی تعداد جماعتوں کی

Page 54

خطابات شوری جلد سوم ۳۸ مشاورت ۱۹۴۴ء ایسی ہے جس نے جلسہ سالانہ کا چندہ نہیں دیا.ایسی جماعتیں یقیناً اس قابل ہیں کہ انہیں سرزنش کی جائے.۳۰ ، ۳۵ جماعتیں ایسی ہیں جنہوں نے ۲۵ فیصدی سے کم دیا ہے.اور اتنی ہی تعداد ایسی ہے جس نے پچاس فیصدی سے کم دیا ہے.یہ اتنی بڑی غفلت ہے جو ذہن میں بھی نہیں آ سکتی.اگر شرح چندہ پندرہ فیصدی ہوتی تو اس کا اثر یہی ہوتا کہ ان مخلصین پر جو باقاعدہ چندہ دیتے ہیں اور زیادہ بار پڑتا اور نہ دینے والے اسی طرح ہنستے پس اس لئے میں یہ ہدایت کرتا ہوں کہ آئندہ جو شرح مقرر ہو اُس سے دو فیصدی زیادہ ان جماعتوں کے لئے ہو جنہوں نے غفلت کی ہے اور چندہ دیا نہیں.اور جنہوں نے پچاس فیصدی سے کم دیا ہے اُن کے لئے دوسروں سے ایک فیصدی زیادہ رکھی جائے.اب جو دوست اس بات کے حق میں ہوں کہ چندہ جلسہ سالانہ کی شرح دس فیصدی سے زائد نہ ہو 66 وہ کھڑے ہو جائیں.“ اس پر ۳۵۰ دوست کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا :- دو میں کثرت رائے کے حق میں فیصلہ دیتا ہوں.“ تیسرا دن بفضل خدا ہماری آمد بڑھ رہی ہے مجلس مشاورت کے تیسرے دن سب کمیٹی بیت المال کی طرف سے صدر انجمن احمدیہ کا بجٹ آمد پیش ہوا.اس پر بعض ممبران نے اپنے خیالات کا اظہار کیا.اس کے بعد حضور نے جماعتی چندوں کی وصولی کے سلسلہ میں اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا :- اس وقت دوستوں کے سامنے صدر انجمن احمدیہ کا تجویز کردہ اور سب کمیٹی مشاورت کا تصدیق کردہ بجٹ آمد پیش ہے.بعض دوستوں نے بوجہ اس کے کہ بجٹ آمد و اخراجات اکٹھا ہے بجائے آمد کے متعلق بحث کرنے کے اخراجات کا سوال اُٹھا دیا ہے حالانکہ اخراجات کا بجٹ بعد میں پیش ہو گا.ابھی صرف آمد کا بجٹ پیش ہے اور اس کے متعلق

Page 55

خطابات شوری جلد سوم ۳۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء دوستوں کے سامنے یہ سوال ہے کہ آیا اسے منظور کیا جائے یا نہ کیا جائے.جہاں تک آمد کا سوال ہے اللہ تعالیٰ کا فضل اور اُس کا احسان ہے کہ ہماری آمد میں گزشتہ سالوں کے مقابلہ میں زیادتی ہو رہی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاں آجکل جنگ کی وجہ سے دنیا پر ایک مصیبت اور بلاء آئی ہوئی ہے وہاں میری تحریک پر ہماری جماعت کے ہزاروں نوجوان فوج میں بھرتی ہوئے اور اُن کے چندوں کی وجہ سے ہماری آمد میں اضافہ ہو گیا.اسی طرح بعض اور سامان بھی جنگ کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے ایسے پیدا فرما دیے کہ جن کی وجہ سے ہماری آمد میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا.میں محکمہ بیت المال سے امید رکھتا ہوں کہ وہ آئندہ اس سے بھی بڑھ کر اپنی آمد میں زیادتی کی کوشش کرے گا تا کہ ہم جلد سے جلد ایک ریز روفنڈ قائم کر سکیں.اس بجٹ میں جو آمد دکھائی گئی ہے میرے نزدیک وہ کم ہے.درحقیقت پچھلے سالوں میں ڈیڑھ لاکھ کی زیادتی ہوتی رہی ہے اور جب گزشتہ سالوں میں یہ نسبت رہی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اگر محکمہ صحیح طور پر کوشش کرے تو اب یہ زیادتی ڈیڑھ لاکھ سے دو تین لاکھ روپیہ تک نہ پہنچ جائے.بجٹ میں دس ماہ کی آمد ۵,۶۹,۵۶۰ روپیہ دکھائی گئی ہے.جس میں گزشتہ سال کی دس ماہ کی آمد کے مقابلہ میں ۷۲۰۴۷ دا روپیہ کی زیادتی ہے.کیونکہ یکم مئی ۱۹۴۲ء سے ۲۸ فروری ۱۹۴۳ء تک جو آمد دس ماہ میں ہوئی وہ صرف ۳٫۹۷٫۵۱۳ روپی تھی مگر جلسہ سالانہ کا چندہ اس میں بہت کم دکھایا گیا ہے یعنی جلسہ سالانہ کے چندہ کی آمد ۳۴۱۷۶ روپیہ دکھائی گئی ہے.حالانکہ اگر صحیح طور پر کوشش کی جاتی تو چندہ عام، حصہ آمد اور چندہ مستورات پر جس کی مجموعی آمد ۴,۷۲,۳۰۰ روپیہ ہے چندہ جلسہ سالانہ کی آمد صرف دس فیصدی شرح کے حساب سے ہی ۴۷ ہزار روپیہ ہو سکتی تھی اور اگر زیادہ کوشش کی جاتی تو پچاس ساٹھ ہزار روپیہ تک بھی یہ آمد پہنچ سکتی تھی.بہر حال میں سمجھتا ہوں عملی رنگ میں ہمارے چندوں میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب زیادتی ہوتی چلی آئی ہے.اگر محکمہ پوری تندہی سے کام لے تو بجائے ۷٫۴۰,۱۱۴ روپیہ آمد کے ساڑھے آٹھ لاکھ روپیہ آمد کا انداز ہوسکتا ہے.اس میں تجارتی صیغہ جات کی آمد شامل کی جائے تو یہ ۹٫۸۲٫۴۸۷ روپیہ تک جا پہنچتی ہے.اور اگر اضافہ بجٹ کے اخراجات شامل کر لئے جائیں تو گیارہ لاکھ پچاس ہزار روپیہ کے قریب بن جاتا ہے.اس صورت میں ہمارے لئے ممکن ہو سکتا ہے کہ ہم قریب ترین

Page 56

خطابات شوری جلد سوم مشاورت ۱۹۴۴ء عرصہ میں ایک مضبوط ریز رو فنڈ قائم کر سکیں.در حقیقت آمد کی زیادتی کے ساتھ ہی ریز روفنڈ کے قیام کا تعلق ہے اور اس کا قائم ہونا بہت ضروری ہے.ریز روفنڈ میں نے اپنی آخری تقریر کے لئے جو نوٹ لکھے ہوئے ہیں ، اُن میں سے ایک نوٹ یہ بھی ہے کہ جماعت کو جلد سے جلد ایک مضبوط ریز روفنڈ قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.اصل بات یہ ہے کہ بعض اخراجات ایسے لازمی ہوتے ہیں جو عادتاً ہر سال پورے کرنے پڑتے ہیں.ایسے اخراجات کے لئے بجائے اس کے کہ ماہوار چندوں پر بوجھ ڈالا جائے ضروری ہے کہ ہم ایک ریز روفنڈ قائم کر دیں جس کی آمد سے یہ اخراجات پورے ہوتے رہیں.جیسے تعلیمی اخراجات ہیں یا ہسپتال کے اخراجات ہیں اور جو ماہوار چندوں کے ذریعہ آمد ہو وہ تبلیغی اخراجات پر خرچ ہوتی رہے.یہی طریق ہے جس سے ہم اپنے تبلیغی نظام کو وسیع کر سکتے ہیں اور یہی طریق ہے جو ہماری مالی حالت کو ہمیشہ کے لئے مضبوط بنا سکتا ہے.میں نے پہلے بھی کچھ عرصہ ہوا ۲۵ لاکھ ریز روفنڈ قائم کرنے کی جماعت کو تحریک کی تھی مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جماعت نے اس طرف بہت ہی کم توجہ کی.بعض نے کہا تھا کہ ہم اس میں لاکھ لاکھ روپیہ چندہ جمع کر کے دیں گے مگر بعد میں اُنہیں ایک ہزار روپیہ دینا بھی نصیب نہ ہوا.اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے بعض اور لوگوں کے دلوں میں یہ نیک تحریک پیدا کر دی کہ وہ لوگوں سے ریزرو فنڈ کے لئے چندہ جمع کریں.چنانچہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس سلسلہ میں ڈیڑھ لاکھ روپیہ کے قریب جمع ہو چکا ہے.اگر ریز رو فنڈ کو بڑھانے کی کوشش کی جائے اور دوسری طرف چندوں میں مستقل اضافہ کی جدوجہد برابر جاری رکھی جائے تو کوئی تعجب نہیں کہ ہم دو لاکھ روپیہ اور ریز رو فنڈ میں جمع کرسکیں.اور اس طرح چار پانچ سال کے عرصہ میں اتنا روپیہ ہمارے پاس جمع ہو جائے جسے ۲۵ لاکھ ریز روفنڈ کے لئے پہلا قدم قرار دیا جاسکے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جماعت نے اس عرصہ میں ایک اور ریز روفنڈ قائم کرنے کی بہت کوشش کی ہے جو تحریک جدید کا ہے اور امید کی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دو تین سال میں جائداد کی صورت میں ۲۵ لاکھ روپیہ کا ریز روفنڈ اس طرح قائم ہو جائے گالیکن صدر انجمن احمدیہ کا ریز رو فنڈ بہت کمزور ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ جماعت

Page 57

خطابات شوری جلد سوم ۴۱ مشاورت ۱۹۴۴ء اپنی کوششوں کو تیز کرے اور اپنے قدم کو سُست نہ ہونے دے.ہمارے پچھلے دو سال تو صدر انجمن احمدیہ کا قرض اُتارنے کی جدو جہد میں ہی صرف ہو گئے.اب خدا کے فضل سے صدر انجمن احمدیہ پر بہت کم بار رہ گیا ہے.ورنہ پہلے قرض کی کثرت کی وجہ سے ہمارے تمام کام درہم برہم ہو رہے تھے اور صدر انجمن احمدیہ کی حالت ایسی ہی تھی جیسے کوئی شخص بھیک مانگ رہا ہو.جو شخص بھیک مانگنے پر مجبور ہو جائے وہ کوئی سکیم نہیں بنا سکتا، کوئی معین مقصود اپنے سامنے نہیں رکھ سکتا، کوئی اعلیٰ پروگرام اپنے لئے تیار نہیں کر سکتا ، کوئی ایسا قدم نہیں اُٹھا سکتا جو اُس کے خاندان کو یا اُس کی قوم کو یا اس کے ملک کو ترقی کی طرف لے جانے والا ہو.اُس کا کام صرف اتنا ہی ہوتا ہے کہ بھیک مانگے اور گزارہ کر لے.اسے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ شام کو مجھے روٹی میسر آئے گی یا نہیں.وہ ہر وقت اسی فکر اور اسی اضطراب میں رہتا ہے اور اسی اضطراب میں اپنی زندگی گزار دیتا ہے.یہی حالت صدرانجمن احمدیہ پر ایک لمبے عرصہ تک رہی ، یا یوں سمجھ لو کہ وہ سالہا سال ایسے رنگ میں رہی ہے جو کا بوس کے مریض کا ہوتا ہے.سوتے ہوئے اُسے مرض کا دورہ ہوتا ہے، وہ دوڑنا چاہتا ہے مگر دوڑ نہیں سکتا، اُٹھنا چاہتا ہے مگر اُٹھ نہیں سکتا، دیکھتا ہے کہ چور اُس کے گھر میں آگیا ہے یا آگ اُس کے مکان کو لگ گئی ہے وہ قدم اُٹھانا چاہتا ہے مگر اُس کی ٹانگیں جواب دے رہی ہوتی ہیں، یہ چور کو پکڑنا چاہتا ہے مگر ہاتھوں میں سکت نہیں ہوتی ، دوڑنا چاہتا ہے مگر اس میں رینگنے کی ہمت بھی نہیں ہوتی.یہ حالت بعض لوگوں پر اتنی شدت سے طاری ہوتی ہے کہ بعض دفعہ ایک ہی رات میں اُن کے سر کے بال سفید ہو جاتے ہیں اور وہ اپنی جوانی میں ہی بوڑھے ہو جاتے ہیں.اسی قسم کی حالت صدر انجمن احمد یہ پر رہی.اس حرص کی وجہ سے کہ محکمے چلتے رہیں وہ سائز کو کاٹ کاٹ کر اپنے اخراجات کو پورا کرتی رہی حالانکہ سائز کے بغیر کوئی کام کس طرح چل سکتا ہے.گویا ہماری مثال بالکل اُس فوج کی طرح تھی جو ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد میدانِ جنگ میں تو چلی جائے مگر گولہ و بارود اور تو ہیں اور رائفلیں اور اور ہزاروں قسم کا سامان اُس کے پاس موجود نہ ہو.وہ فوج اپنے افسروں کو کہے کہ ہمیں سامانِ جنگ دو اور افسر حکومت کے بالا نمائندوں اور وزراء وغیرہ کو لکھیں تو وہ جواب دے دیں کہ ہم کیا کریں، ملک کی حالت اس قابل نہیں کہ تمہارے لئے کوئی

Page 58

خطابات شوری جلد سوم ۴۲ مشاورت ۱۹۴۴ء ہتھیار مہیا کیا جا سکے.ہمارے پاس تو نہ تو ہیں ہیں نہ تلواریں ہیں، نہ نیزے ہیں نہ بندوقیں، نہ موٹریں ہیں نہ ہوائی جہاز ہیں، نہ گولہ اور بارود ہے تم جس طرح چاہو دشمن کا مقابلہ کرو، ظاہر ہے کہ ایسی فوج دشمن کے مقابلہ میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی.جب اس کے پاس سواریاں نہیں ہوں گی ، جب اُس کے پاس تو ہیں اور بندوقیں اور تلوار میں نہیں ہوں گی ، جب اُس کے پاس گولہ اور بارود نہیں ہوگا تو اُس نے مقابلہ کیا کرنا ہے.محض آدمیوں سے تو مقابلہ نہیں ہوسکتا.مقابلہ کے لئے سامان کی ضرورت ہوتی ہے.جب تک سامان نہ ہو کوئی اعلیٰ سے اعلیٰ تربیت یافتہ فوج بھی اپنے کارنامے نہیں دکھا سکتی.یہی حال صدر انجمن احمدیہ کا تھا.کام کرنے والے موجود تھے مگر ان کے پاس کام کے سامان مفقود تھے.ظاہر یہ ہوتا تھا کہ وہ کام کر رہے ہیں لیکن حقیقتا صرف انفرادی جدو جہد کے ماتحت ایک مخلص آدمی جس قدر کام کر سکتا ہے اُسی قدر کام ہمارے شعبوں میں ہو رہا تھا.ورنہ سامان اور روپیہ کے فقدان کی وجہ ہمارے کاموں میں ایک تعطل سا پیدا ہو چکا تھا.غرض ہم پر ایک بہت بڑی مصیبت کا زمانہ گزرا ہے مگر اب اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے موجودہ دور میں ہماری مشکلات کو دور کرنے کے سامان پیدا فرما دیئے ہیں.چنانچہ قرض جو صدر انجمن احمدیہ پر دیر سے چلا آ رہا تھا قریباً قریباً اُتر چکا ہے صرف تھوڑا سا باقی ہے جس کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ جماعت کے دوست تعاون سے کام لیں اور اپنی مستیوں کو ترک کر کے چندوں کی با شرح ادائیگی میں اعلیٰ نمونہ دکھا ئیں.ابھی بہت سا حصہ ہماری جماعت میں ایسے لوگوں کا موجود ہے جو چندہ نہیں دیتے، بہت سا حصہ ایسے لوگوں کا موجود ہے جو پورا چندہ نہیں دیتے، بہت سا حصہ ایسے لوگوں کا موجود ہے جو اپنے بقالوں کو ادا کرنے کی کوشش نہیں کرتے ، بہت سا حصہ ایسے لوگوں کا موجود ہے جو چندہ جلسہ سالانہ تو ادا کرتے ہیں مگر شرح کے مطابق ادا نہیں کرتے.پھر بہت ساحصّہ ایسے لوگوں کا بھی موجود ہے جو اپنی قربانیوں میں ترقی نہیں کر رہا حالانکہ سلسلہ کے کام روز بروز بڑھ رہے ہیں.پس تمام دوستوں کو چاہئے کہ وہ ایسے لوگوں پر گرفت کریں اور اُن کو سلسلہ کی ضروریات کی طرف توجہ دلائیں.جو لوگ چندہ نہیں دیتے اُن کو چندہ دینے پر مجبور کریں.جو لوگ چندہ تو دیتے ہیں مگر پوری شرح سے نہیں دیتے اُن کو با شرح چندہ ادا کرنے پر مجبور

Page 59

خطابات شوری جلد سوم ۴۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء کریں.جولوگ با شرح چندہ ادا کرتے ہیں اُن کو اخلاص سے اپیل کریں کہ وہ اپنی قربانی اور اپنے ایثار کا اور بھی نمونہ دکھا ئیں اور سلسلہ کے لئے موجودہ حالت سے بڑھ کر قربانی کریں.اسی طرح جن لوگوں نے ریزروفنڈ میں حصہ نہیں لیا اُن سے ریزرو فنڈ کے لئے روپیہ طلب کریں اور اپنی کوششوں کو جاری رکھیں یہاں تک کہ ہم ۲۵ لاکھ روپیہ کا ریز روفنڈ قائم کرنے میں خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہو جائیں.اور یہ ۲۵ لاکھ کا ریز روفنڈ تو ہمارا ابتدائی قدم ہے ورنہ تبلیغی کاموں کی وسعت کے مقابلہ میں یہ ۲۵ لاکھ بھی کچھ چیز نہیں.پانچ ہزار مبلغین کی ضرورت میں نے اندازہ لگایا ہے کہ میں اپی تبلیغی ضروریات کے لئے پانچ ہزار مبلغ رکھنے چاہئیں اور یہ بھی پہلا قدم ہے جو تبلیغ کے لئے ہمیں اُٹھانا چاہئے.یہ پانچ ہزار مبلغ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اُس رؤیا کے مطابق ہوں گے.جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو بتایا گیا تھا.کہ تمہیں " پانچ ہزار سپاہی دیا جائے گا..میں سمجھتا ہوں اس سے ایک یہ بھی مراد ہے کہ سلسلہ کی تبلیغی ضروریات پوری نہیں ہو سکتیں جب تک پانچ ہزار مبلغ نہ رکھا جائے مگر یہ بھی ابتدائی قدم ہے کیونکہ جب کوئی نبی کام شروع کرتا ہے اُسے ابتداء میں کام کے مناسب حال فوج دی جاتی ہے.پھر جوں جوں کام وسیع ہوتا ہے فوج میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے.پس درحقیقت یہ پانچ ہزار سپاہی ابتداء کے لئے ہیں ورنہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کشفی حالت میں خود مطالبہ کیا ایک لاکھ سپاہیوں کی ہمیں ضرورت ہے.پس ہم اپنی تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کا ابتدائی کام صحیح پیمانہ پر اُس وقت تک شروع نہیں کر سکتے جب تک ہم پانچ ہزار مبلغ نہیں رکھتے.مگر ابھی چونکہ ہم میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ ہم پانچ ہزار مبلغ رکھ سکیں ، میں نے اس رؤیا کو پورا کرنے کے لئے تحریک جدید کا اجراء کیا جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے پانچ ہزار چندہ دینے والے سپاہی مہیا فرما دیے اور انہوں نے ہر سال اپنی قربانی کا شاندار مظاہرہ کیا مگر بہر حال یہ اس رؤیا کے پورا ہونے کا پہلا قدم ہے.دوسرا قدم یہ ہوگا کہ ہم پانچ ہزار مبلغ رکھیں گے جن کے خرچ کا اندازہ دو کروڑ روپیہ سالانہ ہے.ہمیں اپنی موجودہ حالت

Page 60

خطابات شوری جلد سوم ۴۴ ३ مشاورت ۱۹۴۴ء کے لحاظ سے یہ کام بہت بڑا دکھائی دیتا ہے لیکن اگر ہم ۲۵ لاکھ روپیہ کا پہلا ریز رو فنڈ قائم کر دیں، اس کے بعد دوسرا ریز رو فنڈ پچاس لاکھ روپیہ کا قائم کر دیں، پھر تیسرا ریز روفنڈ ۷۵ لاکھ کا قائم کر دیں تو چوتھا ریز روفنڈ ایک کروڑ روپیہ کا قائم ہو جائے گا.اس کے ساتھ ہی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مالی وسعت کے بعض اور سامان بھی پیدا کر دے گا اور اس طرح جلد ہی یہ آمد دو کروڑ روپیہ تک پہنچ جائے گی اور ہم پانچ ہزار مبلغ رکھ کر اُن کے اخراجات کو آسانی سے پورا کر سکیں گے.عیسائیوں کو دیکھو وہ شرک کی اشاعت کے لئے پانچ کروڑ پونڈ سالانہ مشنری سوسائٹیوں پر خرچ کرتے ہیں.پانچ کروڑ پونڈ کے معنے ہیں ۷۵ کروڑ روپیہ سالانہ.اگر وہ ایک جھوٹے خدا کومنوانے کے لئے ۷۵ کروڑ روپیہ سالانہ خرچ کر سکتے ہیں تو کیا ہم سچے خدا کے نام کو بلند کرنے اور اس کے دین کو پھیلانے کے لئے دو کروڑ روپیہ سے پہلا تبلیغی قدم نہیں اُٹھا سکتے ؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عیسائی بہت مالدار ہیں اور حکومتیں ان کے قبضہ میں ہیں لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ روپیہ سے زیادہ نفس کی قربانی کام دیا کرتی ہے مال تو کوئی چیز ہی نہیں.جب انسان اپنے نفس کی قربانی خوشی سے پیش کرنے کے لئے تیار ہو جائے تو مال کی قربانی اُس پر ذرا بھی گراں نہیں گزرتی.لیکن وہ جو نفس کی قربانی میں کمزور ہوتے ہیں قربانی کا وقت آنے پر کچا دھاگا ثابت ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی ناراضگی کے مورد بن جاتے ہیں.حسین کامی جب قادیان میں آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ملا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُس سے یہی فرمایا کہ ترکی گورنمنٹ کے شیرازہ میں بعض ایسے کچے دھاگے ہیں جو وقت پر ٹوٹنے والے اور غداری کی سرشت ظاہر کرنے والے ہیں.چنانچہ بعد کے واقعات نے ثابت کر دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کچھ فرمایا تھا وہ بالکل صحیح اور درست تھا.حقیقت یہ ہے کہ کسی قوم کے مستقبل کو خراب کرنے والے اور اُسے تباہی و بربادی کے گڑھے میں گرانے والے یہی قوم کے کچے دھاگے ہوتے ہیں جو وقت پر ٹوٹ کر نفاق اور غداری کی سرشت کو ظاہر کر دیتے ہیں.اگر اس قسم کے منافق اور بُزدل اور کمزور ہمت لوگ جو غداری کا مادہ اپنے اندر رکھتے ہوں قوم میں

Page 61

خطابات شوری جلد سوم مشاورت ۱۹۴۴ء موجود نہ ہوں تو وہ قوم خواہ تعداد کے لحاظ سے کس قدر چھوٹی ہو دنیا پر غالب آ جاتی ہے اور بڑی سے بڑی قربانی بھی اُس کی نگاہ میں بالکل حقیر ہوتی ہے.دیکھو میں نے پانچ ہزار مبلغین کا خرچ دو کروڑ روپیہ سالانہ بتایا ہے اور یہ اتنا بڑا خرچ ہے جو ہماری موجودہ حالت کے لحاظ سے بالکل نا قابل برداشت ہے.لیکن ایک اور نکتہ نگاہ سے اگر دیکھو تو ہماری جماعت اس وقت چار پانچ لاکھ کے قریب ہے.اس میں سے ہندوستان کی جماعت اڑھائی تین لاکھ سے کسی طرح کم نہیں.اگر اس اندازہ کو صحیح سمجھ لیا جائے تو کم از کم بیس ہزار بالغ مرد ہماری ہندوستان کی جماعت میں ہی موجود ہیں.ان میں ہزار میں سے پانچ ہزار مبلغین کا ملنا کونسی مشکل بات ہے.اگر ہر شخص دین کی اہمیت کو سمجھ جائے ، اگر ہر شخص خدا تعالیٰ کے لئے قربانی کرنا اپنی سب سے بڑی سعادت اور کامیابی سمجھے اور اگر وہ سلسلہ سے ایک پیسہ لئے بغیر خدا تعالیٰ کے جلال اور اس کے کلمہ کو بلند کرنے کے لئے دنیا میں نکل کھڑا ہو تو پانچ ہزار مبلغین جن کا اس وقت مہیا ہونا ہمیں سخت مشکل دکھائی دیتا ہے نہایت آسانی اور سہولت کے ساتھ میدان میں نکل آئیں اور دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیل جائیں اور کفر پر اس طرح چھا جائیں کہ اسلام کے مقابلہ میں اُسے سر اُٹھانے کی تاب نہ رہے.ضرروت اس امر کی ہے کہ ہر شخص اپنے ایمان کا جائزہ لے اور دیکھے کہ کیا وہ صحیح معنوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ اپنے اندر لئے ہوئے ہے اور کیا وہ کہ سکتا ہے کہ جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام کی اشاعت کی اُسی طرح میں اسلام کی اشاعت کرنے کے لئے تیار ہوں.اگر یہ ایمان جماعت کے ہر فرد میں پیدا ہو جائے تو یہ سوال ہی باقی نہ رہے کہ روپیہ کہاں سے آئے گا.آخر یہ بھی تو سوچنا چاہئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا تنخواہ لے کر کام کیا کرتے تھے؟ یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کسی انجمن سے روپیہ لے کر تبلیغ کا کام شروع کیا تھا؟ آپ کو کسی انجمن کی طرف سے وظیفہ نہیں ملتا تھا ، کوئی ماہوار تنخواہ مقرر نہیں تھی لیکن پھر بھی آپ دین کی خدمت کے لئے کھڑے ہو گئے اور آپ نے فیصلہ کیا کہ اب دین کی خدمت کرنا ہی میرا کام ہو گا.میں دن کو بھی خدمت کروں گا اور رات کو بھی اور اُس وقت تک آرام نہیں کروں گا جب تک اس تاریک دنیا کو خدا تعالیٰ کے نور سے منوّر

Page 62

خطابات شوری جلد سوم ۴۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء نہ کرلوں.یہ روح ہے جو ہم میں سے ہر فرد کو اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے.اور یہی وہ روح ہے جس کے پیدا ہونے کے بعد یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ ہمیں اپنے کاموں کے لئے ایک کروڑ روپیہ کی ضرورت ہے یا دو کروڑ روپیہ کی.صرف نیت اور ارادہ کی دیر ہے.اگر نیت درست ہو، اگر ارادہ میں پختگی ہو، اگر ایمان میں مضبوطی ہو تو کوئی روک مقابل میں نہیں آسکتی.ہاں اگر ایمان ہی نہ ہو یا ارادے ہی کوتاہ ہوں تو پھر بے شک کروڑوں روپیہ کی ضرورت ہو گی.مگر سچی بات یہ ہے کہ کروڑوں روپیہ بھی اُس وقت تک کام نہیں دے سکتا جب تک ایمان کی چنگاری انسانی روح کو گرما نہ رہی ہو اور جب تک ایمان کی حرارت اُس کے قلب کو زندہ نہ رکھ رہی ہو.میں سمجھتا ہوں پانچ ہزار مبلغین کا رکھنا گو بظاہر بڑا مشکل نظر آتا ہے لیکن میرے نزدیک ہمارے پاس پانچ ہزار مبلغین سے بھی زیادہ مبلغ رکھنے کے سامان موجود ہیں صرف نیت اور ارادہ کی ضرورت ہے.اگر سچی نیت کر لی جائے اور خدا تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اُس کے دین کی خدمت کا کام شروع کیا جائے تو اللہ تعالیٰ غیب سے برکتوں کے دروازے کھول دیتا ہے اور ایسی ایسی جگہوں سے کامیابی کے سامان مہیا کرتا ہے جو انسانی واہمہ اور خیال میں بھی نہیں ہوتیں.یہ ہماری کمزوری ہوتی ہے کہ ہم قربانی کرنے سے پہلے سوچتے ہیں کہ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا.گویا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کام ہماری کوششوں سے ہوگا حالانکہ جو کچھ کرنا ہے خدا نے کرنا ہے بندوں کو تو وہ محض ثواب دینے کے لئے شمولیت کا موقع عطا فرما دیتا ہے.زندگی کا یادگار واقعہ مجھے اپنی زندگی کے چند نہایت ہی پسند یدہ خیالوں میں سے جن کو میں اپنی ہزاروں نمازوں اور ہزاروں روزوں اور ہزاروں قربانیوں اور ہزاروں چندوں سے بڑھ کر سمجھتا ہوں اپنا وہ واقعہ ہمیشہ یاد رہتا ہے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا انتقال ہوا اور جماعت کے ایک حصہ نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اب نہ معلوم کیا ہوگا.میری عمر اُس وقت اٹھارہ سال کی تھی.جب میں نے بعض لوگوں کی زبان سے اس قسم کے فقرات سنے تو میں اُس کمرہ میں گیا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جسد اطہر چار پائی پر پڑا تھا اور میں نے آپ کے سرہانے

Page 63

خطابات شوری جلد سوم ۴۷ مشاورت ۱۹۴۴ء کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کیا کہ اے خدا! میں تیرے مسیح کی نعش کے پاس کھڑے ہو کر یہ اقرار کرتا ہوں کہ اگر ساری جماعت بھی اس سلسلہ سے منحرف ہو جائے تب بھی میں اکیلا اس کام کو جاری رکھوں گا جس کام کے لئے تُو نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا تھا.اُس موقع کے لحاظ سے اور اس مصیبت عظمی کے لحاظ سے جو جماعت پر اُس وقت آئی میرا اس قسم کا عہد کرنا ایک ایسا واقعہ ہے جو مجھے اپنی زندگی کے نہایت ہی شاندار کارناموں میں سے ایک سنہری کارنامہ نظر آتا ہے اور میں خدا تعالیٰ کا بے انتہا شکر ادا کرتا ہوں کہ اُس نے اپنے فضل سے مجھے ہمیشہ اس عہد کو نباہنے کی توفیق عطا فرمائی.اسی سے ملتا جلتا واقعہ ایک صحابی کا بھی ہے جو مجھے نہایت پیارا معلوم ہوتا ہے اور جسے میں بار بار اپنی تقریروں اور خطبات میں بیان کر چکا ہوں.جب بدر کی جنگ ہوئی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس غرض کے لئے مدینہ سے باہر نکلے تو اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت آپ نے صحابہ کو یہ بتایا نہیں تھا کہ ہم ایک جنگ پر جا رہے ہیں.صحابہ کا خیال یہ تھا کہ صرف شام سے آنے والے قافلہ کو روکا جائے گا مگر جب عین بدر کے مقام پر پہنچے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو اکٹھا کیا کہ الہی منشاء یہ ہے کہ ہماری اس مقام پر کفار سے جنگ ہو اس لئے بتاؤ اب تمہاری کیا رائے ہے؟ ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا مہاجر اُٹھنا شروع ہوا اور اُس نے کہا یا رسول اللہ ! ہم ہر قربانی کے لئے تیار ہیں ہمیں جنگ کرنے میں ہر گز کوئی عذر نہیں مگر جب بھی کوئی مہاجر مشورہ دے کر بیٹھ جاتا آپ فرماتے اے لوگو! مجھے مشورہ دو.آخر جب آپ نے بار بار یہ بات کہی تو ایک انصاری کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے کہا یا رسول اللہ ! آپ کی مراد شاید ہم انصار سے ہے کہ ہم اس موقع پر اپنی رائے کا اظہار کریں کیونکہ مشورہ تو آپ کو مل رہا ہے اور ایک کے بعد دوسرا مہاجر کہہ رہا ہے کہ ہم جنگ کے لئے تیار ہیں لیکن اس کے باوجود آپ کا یہ بار بار فرمانا کہ اے لوگو! مجھے مشورہ دو بتاتا ہے کہ آپ کی مراد ہم انصار سے ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں درست ہے.اس پر اُس صحابی نے کہا یا رسول اللہ ! ہم تو اس لئے چُپ تھے کہ جن سے لڑائی ہونی ہے وہ ان مہاجرین کے رشتہ دار ہیں.اگر ہم نے کہا کہ ہم اُن کا سر پھوڑنے کے لئے تیار ہیں تو مہاجرین کے دلوں کو تکلیف ہو گی کہ دیکھو!

Page 64

خطابات شوری جلد سوم مشاورت ۱۹۴۴ء یہ انصار ہمارے بھائیوں اور بھتیجوں اور دوستوں اور رشتہ داروں کا گلا کاٹنے کے لئے تیار ہورہے ہیں مگر اب جبکہ آپ ہم سے مشورہ پوچھتے ہیں تو یا رسول اللہ ! ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے ، آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن اُس وقت تک آپ کے پاس نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے.پھر اس نے کہا یا رسول اللہ ! آپ کا اشارہ شاید اُس معاہدہ کی طرف ہے جو آپ کی مدینہ میں تشریف آوری کے موقع پر ہم نے کیا تھا کہ اگر مدینہ پر حملہ ہوا تو ہم آپ کا ساتھ دیں گے لیکن اگر مدینہ سے باہر جنگ ہوئی تو ہم ساتھ نہیں دیں گے.یا رسول اللہ ! یہ اُس وقت کی باتیں ہیں جب ہم پر آپ کی حقیقت پوری طرح نہیں کھلی تھی مگر اب جبکہ ہمیں پتہ لگ چکا ہے کہ ایمان کیا چیز ہے اور آپ کسی عظمت اور شان کے رسول ہیں تو اب کسی شرط کا سوال نہیں.سامنے سمندر تھا اُس کی طرف اشارہ کر کے وہ صحابی کہنے لگے یا رسول اللہ ! آپ اگر ہمیں حکم دیں تو ہم اس سمندر میں اپنے گھوڑے ڈالنے کے لئے تیار ہیں اور ہر اُس خدمت کے لئے تیار ہیں جس کا آپ کی طرف سے ہمیں حکم ملے یا ایک دوسرے صحابی کہتے ہیں.میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کئی جنگوں میں شامل ہوا مگر میری ہمیشہ یہ خواہش رہتی ہے کہ کاش میں ان جنگوں میں شامل نہ ہوتا اور یہ فقرہ میرے منہ سے نکل جاتا ہے اب دیکھو با وجود اس کے کہ اس فقرہ کے کہنے میں بظاہر اُس صحابی کو کوئی قربانی نہیں کرنی پڑی ، کوئی تکلیف نہیں اٹھانی پڑی.ایک اور شخص کہہ سکتا ہے کہ محض جذباتی رنگ میں ایک بات کہہ دی گئی ہے مگر جس ایمان اور اخلاص اور محبت اور ایثار اور قربانی کی روح کے ساتھ یہ الفاظ اُس صحابی کی زبان سے نکلے تھے وہ ہزاروں اعمال سے زیادہ وزنی، وہ ہزاروں اعمال سے زیادہ شاندار تھی، وہ ہزاروں اعمال سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اُس کی برکت کو جذب کرنے والی تھی اُن اعمال سے جن میں محنت زیادہ کرنی پڑتی ہے، تکلیف زیادہ اُٹھانی پڑتی ہے، قربانی زیادہ کرنی پڑتی ہے.تو اصل چیز جس سے روحانی کام سرانجام پاتے ہیں نیت اور ارادہ کی درستی ہے.یہی وہ حکمت ہے جس کے ماتحت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.الأَعْمَالُ بالنِّيَّاتِ ١٢ عمل چیز ہی کیا ہیں تم پکی نیت کر سکو تو عمل آپ ہی آپ پیدا ہونے شروع

Page 65

خطابات شوری جلد سوم ۴۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء ہو جائیں گے.اس حدیث کے مختلف لوگ مختلف معنے کرتے ہیں مگر اصل معنے اس کے یہی ہیں کہ اعمال تابع ہیں انسانی نیات کے.جب کوئی قوم ایک کام کی نیت کر لیتی ہے تو پھر اس قوم کے افراد اُس کام کو بہر حال کر لیتے ہیں.یہ نہیں ہوسکتا کہ سچی نیت اور ارادہ کے باوجود کوئی کام نہ ہو.وہ نیت ہزاروں اعمال کا موجب ہوتی ہے اس لئے کہ وہ نیک نیت خدا کی نیت سے مل جاتی ہے اور جب خدا اور بندے دونوں کی نیتیں مل جائیں تو کام رُک نہیں سکتا.یہ وہی بات ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس شعر میں بیان فرمائی کہ ے جس بات کو کہے کہ کروں گا میں یہ ضرور ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی فرماتے ہیں کہ بندہ نوافل کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا اس قدر قرب حاصل کر لیتا ہے کہ خدا اُس کے ہاتھ ہو جاتا ہے جن سے وہ پکڑتا ہے، اُس کے پاؤں ہو جاتا ہے جن سے وہ چلتا ہے، اس کی زبان ہو جاتا ہے جس سے وہ بولتا ہے، اُس کے کان ہو جاتا ہے جن سے وہ سُنتا ہے یا غرض جب مومن سچی نیت کرلے تو کوئی چیز دنیا کی ایسی نہیں ہو سکتی جو اس کام کو ٹلا سکے کیونکہ اُس کی زبان خدا کی زبان اور اس کی نیت خدا کی نیت ہوتی ہے اور جو بات خدا کی زبان سے نکل جائے وہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ھے ملتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے کبھی ٹل نہیں سکتی.پس اصل بات یہ ہے کہ پانچ ہزار مبلغین کا مہیا ہونا ہمارے لئے ہرگز کوئی مشکل امر نہیں مگر اس کے لئے جماعت کو وہی راستہ اختیار کرنا چاہئے جس راستہ کو اختیار کرنے کی ہدایت حضرت مسیح موعود علیہ السلام دے چکے ہیں.اگر اسی قسم کے لوگ ہمارے سلسلہ میں پیدا ہو جائیں جن کو مد نظر رکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ : - اگر ہماری جماعت میں چالیس آدمی بھی ایسے مضبوط رشتہ کے ہوں جو رنج و راحت، عسر وئیر میں خدا تعالیٰ کی رضا کو مقدم کریں تو ہم جان لیں کہ ہم جس مطلب کے لئے آئے تھے وہ پورا ہو چکا اور جو کچھ

Page 66

خطابات شوری جلد سوم کرنا تھا وہ کر لیا.مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء تو ہماری فتح یقینی اور قطعی ہے کیونکہ اُس وقت یہ سوال ہی نہیں ہو گا کہ اُن کو سلسلہ کی طرف سے ملتا کیا ہے بلکہ وہ خدا کے دین کی اشاعت کے لئے دیوانہ وار نکل کھڑے ہوں گے اور ہر قربانی کے لئے شرح صدر سے تیار ہوں گے.انہیں اگر پہاڑوں کی چوٹی سے اپنے آپ کو گرانے کے لئے کہا جائے گا تو وہ ہر پہاڑ سے گرنے کے لئے تیار ہوں گے، انہیں اگر سمندر میں چھلانگ لگانے کے لئے کہا جائے گا تو وہ سمندر میں چھلانگ لگانے کے لئے تیار ہوں گے، انہیں اگر اپنے آپ کو جلتی ہوئی آگ میں جھونکنے کے لئے کہا جائے گا تو وہ ہر جلتی آگ میں اپنے آپ کو بھسم کرنے کے لئے تیار ہوں گے.ایسے لوگ اگر پانچ ہزار ہماری جماعت میں پیدا ہو جائیں تو فتح کا سوال ایک آن میں حل ہو جائے اور کفر کی شوکت دیکھتے ہی دیکھتے خاک میں مل جائے مگر چونکہ ابھی تک جماعت کے لوگ اس بلند معیار تک نہیں آئے اس لئے واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں کہنا چاہئے کہ پانچ ہزار سپاہی اگر اُن سامانوں کے ساتھ آگے آئیں جن سے ادنی درجہ کی تبلیغ ساری دنیا میں کی جاسکتی ہے تو اس کے لئے دو کروڑ روپیہ سالانہ کی ضرورت ہوگی مگر یہ اتنی بڑی مالی قربانی ہے جو جماعت کی موجودہ حالت کے لحاظ سے ایک لمبے وقت کا مطالبہ کرتی ہے لیکن وقت کے لمبا ہونے کے یہ معنے نہیں ہیں کہ اس کام کو شروع بھی نہ کیا جائے.اگر ہم اعلی پیمانہ پر اس کام کو جاری نہیں رکھ سکتے تو ادنی پیمانہ پر تو اس کام کو شروع کر سکتے ہیں.اگر ہم اس کام کو شروع کر دیں اور ادنی ادنیٰ قربانیوں میں دلی شوق کے ساتھ حصہ لیں تو یقینا اللہ تعالیٰ ایک دن ہمیں بڑی قربانیوں میں حصہ لینے کی بھی توفیق عطا فرما دے گا.ایک قربانی دوسری قربانی کی محرک ہوتی ہے میں بار بار بتا چکا ہوں کہ ایک قربانی دوسری قربانی کی محرک ہوتی ہے.یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے جس کے خلاف تم کبھی کوئی مثال پیش نہیں کر سکتے کہ جب ایک نیکی کی جاتی ہے تو وہ دوسری نیکی کی محرک بن جاتی ہے.پس اگر ہم سچے دل کے ساتھ ادنی درجہ کی مالی قربانیوں میں حصہ لیں گے تو اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو توفیق عطا فرما دے گا کہ وہ اعلیٰ درجہ کی مالی قربانیوں میں بھی حصہ لے اور اُن ذمہ واریوں کو پورا کرے جو اللہ تعالیٰ کی

Page 67

خطابات شوری جلد سوم ۵۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء طرف سے اُس پر عائد ہوتی ہیں.ہمارا کام یہ ہے کہ ہم قربانی کے لئے جماعت کو بُلاتے چلے جائیں تا کہ ہر قربانی کے بعد اُس سے بڑی قربانی کی ہماری جماعت کو توفیق ملے.بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اگر انتہائی قربانی سے کام لیا گیا تو جماعت کی کمر ہمت ٹوٹ جائے گی مگر میں سمجھتا ہوں یہ بات بالکل غلط ہے.جب بھی ٹوٹے گا منافق ہی ٹوٹے گا، مومن کبھی قربانیوں سے ٹوٹ نہیں سکتا.جو شخص قربانیاں کرتے وقت اپنے دائیں اور اپنے بائیں دیکھتا ہے اور سوچتا ہے کہ آیا فلاں بھی قربانی کر رہا ہے یا نہیں؟ فلاں نے بھی حصہ لیا ہے یا میں ہی حصہ لے رہا ہوں؟ وہ کبھی قربانیوں کے میدان میں ثابت قدم نہیں رہ سکتا.لیکن وہ جو خدا کے لئے محض اس کی رضا کے لئے دنیا کے لئے نہیں بلکہ دین کے لئے اپنا انتہائی زور بغیر دائیں بائیں دیکھنے کے صرف کر دیتا ہے وہ ٹوٹا نہیں کرتا بلکہ پہلے.زیادہ مضبوط ہو جایا کرتا ہے.گارڈر کے اوپر جب لکڑیاں ڈالی جاتی ہیں تو وہ ٹوٹا نہیں کرتیں، خواہ اُن پر چھت کی مٹی کا کس قدر بوجھ ہو کیونکہ شہتیر اُن کو سنبھالنے کے لئے موجود ہوتا ہے.اسی طرح مومن کی کمر ہمت ہمیشہ مضبوط رہتی ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میرا خدا میرے ساتھ ہے.یہ ہو نہیں سکتا کہ میں اُس کے دین کے لئے قربانیاں کروں اور تباہ و برباد ނ ہو جاؤں.صحابہ نے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! جہاد فی سبیل اللہ کے کیا معنے ہیں؟ آپ نے فرمایا جہاد مختلف نیتیوں سے کئے جاتے ہیں.کوئی شخص دوسری قوم کے بغض کی وجہ سے جو اس کے دل میں مخفی ہوتا ہے جنگ میں شامل ہوتا ہے اور..کوئی حَمِيَّةُ الْجَاهِلِيَّه کی وجہ سے جنگ کرتا ہے، کوئی محض نام و نمود اور شہرت کے لئے جنگ کرتا ہے لیکن اصل مجاہد وہ ہے جو صرف خدا کی رضاء جوئی کے لئے جہاد میں شامل ہوتا ہے.پس قربانی وہی ہے جو خدا تعالیٰ کے لئے کی جائے اور جو شخص خدا کے لئے قربانی کرتا ہے وہ کبھی ٹوٹ نہیں سکتا.پس ہمیں اُس وقت کے آنے سے پہلے جبکہ وہ پانچ ہزار مبلغ آویں جنہیں ہم تبلیغ کے لئے دنیا میں پھیلا سکیں بغیر کسی اور طرف نظر ڈالنے کے قربانیوں کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دینا چاہئے.تا کہ خدا ہماری اِن حقیر قربانیوں کو قبول فرماتے ہوئے ہمیں توفیق عطا کرئے کہ جب بڑی قربانیوں کا مطالبہ ہو تو اُس وقت ہم خوشی

Page 68

خطابات شوری جلد سوم ۵۲ مشاورت ۱۹۴۴ء اپنی ہر چیز خدا تعالیٰ کے آستانہ پر قربان کرنے کے لئے پیش کر دیں.ہماری مثال اس وقت بالکل اُس شخص کی سی ہے جو اپنے مکان کی چھت کے لئے گارڈر کی تلاش کرتا ہے اور جب اُسے گارڈر نہیں ملتا تو وہ بانس کے چھوٹے چھوٹے ٹکروں سے ہی کام لے لیتا ہے.اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ اب اُسے گارڈروں کی ضرورت نہیں رہی.وہ گارڈروں کی ضرورت کو اُس وقت بھی تسلیم کرتا ہے جب اُس کے مکان کی چھت پر بانس کی لکڑیاں پڑی ہوتی ہیں مگر چونکہ گارڈر اُسے ملتے نہیں اس لئے وہ معمولی اور ادنیٰ درجہ کی چیزوں سے کام لینے کی کوشش کرتا ہے.اسی طرح جب تک ہمیں وہ پانچ ہزار مبلغ نہیں ملتے جو دنیا کے ایک معتد بہ حصہ میں تبلیغ اسلام کا فرض سرانجام دیں اُس وقت تک ضروری ہے کہ تبلیغ اسلام کے لئے ادنیٰ اور معمولی درجہ کے اُن سامانوں کو اختیار کریں جو اِس وقت ہمارے امکان میں ہیں اور اگر پانچ ہزار مبلغ نہیں ملتے تو پانچ دس پچاس یا سو مبلغوں سے ہی اس کام کی ابتداء کر دیں لیکن بہر حال یہ ایک عارضی عمارت ہو گی.اس عمارت پر ہم اسلام کی آئندہ تعمیر کا کلیتہ انحصار نہیں رکھ سکتے کیونکہ عمارت جس قدر بلند ہو اُسی قدر اُس عمارت کی بنیادوں کا مضبوط ہونا ضروری ہوتا ہے.جب ہمارا مقصد ساری دنیا میں اسلام اور قرآن اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی اشاعت ہے تو اس کے لئے ہمارا یہ خیال کر لینا کہ ہم اپنی موجودہ کوششوں سے ہی کامیاب ہوسکیں گے اول درجہ کی غلطی اور نادانی ہے.ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے کاموں کو بڑھاتے چلے جائیں یہاں تک کہ وہ وقت آ جائے جب ہم انتہائی قربانیوں سے کام لیتے ہوئے پانچ ہزار مبلغین کے اخراجات آسانی سے برداشت کر سکیں اور اُن کو ساری دنیا میں احمدیت کی اشاعت کے لئے پھیلا دیں.پہلی قوموں کی دین کیلئے عظیم الشان قربانیاں دیکھو ہم سے پہلے جوتو میں دنیا میں گزر چکی ہیں انہوں نے دین کے لئے ایسی عظیم الشان قربانیاں کی ہیں کہ اُن کے واقعات پڑھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے.وہ واقعات ایسے ہیں کہ آج بھی ہمارے لئے اپنے اندر بیسیوں سبق پنہاں رکھتے ہیں اور ہمیں اس حقیقت کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ خدا کے لئے قربانی کرنے والے دنیا میں کبھی

Page 69

خطابات شوری جلد سوم ۵۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء ضائع نہیں کئے جاتے.حضرت بدھ علیہ السلام کے حالات جو بدھ مذہب کی کتابوں میں آج تک لکھے ہوئے نظر آتے ہیں ایسے پاکیزہ اور اتنے اعلیٰ درجہ کے ہیں کہ اگر انسان کے دل میں تعصب کا مادہ نہ ہو تو وہ اُن واقعات کو پڑھ کر بغیر کسی تردد اور ہچکچاہٹ کے کہہ سکتا ہے کہ یہ شخص یقیناً نبی تھا.حضرت بدھ علیہ السلام نے جب شہزادگی کو چھوڑ کر خدا تعالیٰ کی عبادت اور مذہب کی تبلیغ میں اپنے تمام اوقات کو صرف کرنا شروع کر دیا تو اُن کا معمول تھا کہ جب انہیں بھوک لگتی وہ لوگوں کے گھروں سے بھیک مانگ لیتے بلکہ اب تک بدھ مذہب کے بھکشو اسی طریق پر کار بند ہیں.بدھ مذہب کے مبلغین کو یہ اجازت نہیں کہ وہ اپنی روزی کمانے کے لئے کوئی ہنر یا پیشہ اختیار کریں.اُنہیں یہی حکم ہوتا ہے کہ دنیا میں نکل جاؤ در تبلیغ کرو اور جب تمہیں بھوک لگے تو لوگوں سے بھیک مانگ لو.اگر وہ تمہیں کھانا دیں تو کھا لو اور اگر نہ دیں تو اُن کو چھوڑ کر دوسرے گاؤں میں چلے جاؤ اور وہاں کے رہنے والوں سے کھانا مانگو.خود حضرت بدھ علیہ السلام بھی لوگوں سے بھیک مانگ کر گزارہ کیا کرتے تھے جس کا اُن کے باپ کو سخت قلق تھا.ایک دفعہ وہ اسی طرح تبلیغ کرتے کرتے اپنے علاقہ میں آئے تو اُن کا باپ اُن کے پاس آیا اور کہنے لگا بیٹا ! تم نے تو میرا ناک کاٹ دیا ہے.انہوں نے کہا میں نے حضور کا ناک کس طرح کاٹ دیا ہے؟ باپ نے کہا تم بھیک مانگتے ہو اور بھیک مانگ کر گزارہ کرتے ہو.حضرت بدھ نے کہا مہاراج! میں وہی کام کرتا ہوں جو میرے باپ دادا کیا کرتے تھے.باپ نے یہ بات سنی تو وہ کہنے لگا نہ میں نے کبھی لوگوں سے بھیک مانگی ہے نہ تمہارے دادا نے لوگوں سے کبھی مانگی تھی.بدھ نے کہا مہاراج! یہ بات سچ ہے مگر میرے باپ دادا وہ سابق انبیاء ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ہدایت کے لئے بھیجا.اُنہیں خدا کے نام کو پھیلانے کے لئے لوگوں سے بھیک مانگنے میں کوئی عار نہیں تھا اور یہی وہ کام ہے جو میں کر رہا ہوں.چنانچہ حضرت عیسی علیہ السلام نے بھی اپنے حواریوں کو یہی نصیحت کی کہ :- نہ سونا اپنے کمر بند میں رکھنا نہ چاندی نہ پیسے.راستہ کے لئے نہ جھولی لینا نہ دو دو کرتے.نہ جُوتیاں نہ لاٹھی کیونکہ مزدور اپنی خوراک کا

Page 70

خطابات شوری جلد سوم ۵۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء حقدار ہے.اور جس شہر یا گاؤں میں داخل ہو دریافت کرو کہ اس میں کون لائق ہے.اور جب تک وہاں سے روانہ نہ ہو اُسی کے ہاں رہو.اور گھر میں داخل ہوتے وقت اُسے دعائے خیر دو.اور اگر وہ گھر لائق ہو تو تمہارا سلام اُسے پہنچے.اور اگر لائق نہ ہو تو تمہارا سلام تم پر پھر آئے.اور اگر کوئی تمہیں قبول نہ کرے اور تمہاری باتیں نہ سُنے تو اُس گھر یا اُس شہر سے باہر نکلتے وقت اپنے پاؤں کی گرد جھاڑ دو.‘۱۵ اس میں حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنے حواریوں کو یہ نصیحت کی ہے کہ جب تم تبلیغ کے لئے جاؤ تو تمہیں اس بات کی ضرورت نہیں کہ اپنی جیب میں پیسہ رکھو یا کھانے کا فکر کرو.تمہارا کام صرف اتنا ہے کہ تم یہ دعا کرتے رہو کہ:.”اے خدا ہماری روز کی روٹی آج ہمیں دے.چنانچہ جس شہر یا گاؤں میں جاؤ، وہاں کے رہنے والوں سے اپنے لئے روٹی مانگو.اگر وہ دے دیں تو خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے کھالو اور اگر وہ انکار کریں تو اپنے پاؤں کی گرد جھاڑ کر وہاں سے نکل جاؤ اور اپنی زبان پر شکوہ کا کوئی حرف مت لاؤ.اگر اس طرح کام کرنے والے ہمیں بھی میسر آ جائیں تو پھر پانچ ہزار مبلغوں کا بھی سوال نہیں، دو لاکھ مبلغ اس وقت ہمیں اپنی جماعت میں سے حاصل ہوسکتا ہے.ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اندر وہی روح پیدا کریں جو پہلے لوگوں نے پیدا کی.اگر ہماری جماعت کا ہر فرد قربانی اور ایثار کے اس معیار پر آ جائے جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے تو پھر اس امر کا بھی کوئی سوال نہیں رہے گا کہ کوئی شخص بی.اے یا ایم.اے پاس ہے یا نہیں، یا مولوی فاضل ہے یا نہیں کیونکہ اُس وقت ڈگریوں کی کوئی ضرورت نہیں ہو گی.وہ مانگتے اور تبلیغ کرتے چلے جائیں گے.ایک مدرس ہوگا تو وہ بھی یہی طریق اختیار کرے گا ، ایک پر وفیسر ہو گا تو وہ بھی ایسا ہی کرے گا، پھر ہماری تمام مشکلات حل ہو سکتی ہیں اور تبلیغ کا سوال جو روپیہ کے نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے بعض دفعہ پریشان کن صورت اختیار کر لیتا ہے وہ دیکھتے ہی دیکھتے حل ہوسکتا ہے.در حقیقت بلند کاموں کی سرانجام دہی کے لئے ایک مستقل عزم اور ارادہ کی ضرورت

Page 71

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء ہوا کرتی ہے اور مستقل ارادہ اور عزم کے لئے ایسے آدمیوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے جو اپنے دلوں میں اخلاص اور ایمان رکھتے ہوں.اگر ایسے آدمی میسر آجائیں تو پھر روپیہ کی بھی ضرورت نہیں رہتی اخلاص خود بخود کام کے رستے تلاش کر لیا کرتا ہے.یہی وہ بات ہے جو تحریک جدید کے شروع میں میں نے کہی کہ اس تحریک کی بنیاد آدمیوں پر ہے روپیہ پر نہیں.رو پید اگر لیا جاتا ہے تو اس لئے کہ درمیانی وقفہ میں اُس روپیہ سے کام لیا جا سکے ورنہ درحقیقت ہمیں ضرورت اُن اخلاص و ایمان رکھنے والے مبلغین کی ہے جو دنیا میں نکل جائیں اور خدائے قدوس کا نام بلند کرنے کے لئے اپنی عمریں صرف کر دیں.یہ وہ مبلغ ہیں جن کی ہمیں ضرورت ہے اور یہی وہ مبلغ ہیں جو صحیح رنگ میں اسلام کے سپاہی کہلا سکتے ہیں.آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے صحابہ کرام پر جو حالات آئے اُن کو دیکھو اور غور کرو.وہ زمانہ ایسا تھا جس میں نہ ریل تھی ، نہ تا رتھی ، نہ آمد و رفت کی آسانیاں تھیں مگر اُس زمانہ میں تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ کئی صحابہ باہر نکل گئے اس ارادہ اور نیت کے ساتھ کہ ہم اسلام کو اب دنیا میں پھیلائیں گے.چنانچہ حضرت عثمان کی خلافت کے آخری سالوں میں ہی جب فتنہ و فساد کے آثار ظاہر ہونے شروع ہوئے ، بعض صحابہ چین کی طرف چلے گئے ، بعض ہندوستان کی طرف آگئے ، بعض دوسرے ممالک کی طرف چلے گئے اس طرح ہزاروں میل انہوں نے پیدل سفر طے کیا اور ایسے دشوار گزار علاقوں میں سے گزرے جہاں سوار یوں والے بھی جانے سے گھبراتے ہیں.در حقیقت تبلیغ کا سوال ایک مستقل عزم اور ارادہ کے بغیر حل ہی نہیں ہو سکتا.ایسا مستقل عزم جو ہر قسم کی روکوں کوخس و خاشاک کی طرح بہا دے اور ہر قربانی خواہ وہ کتنی بڑی ہو انسان کو آسان اور سہل نظر آنے لگے.لیکن جب تک یہ وقت نہیں آتا ہماری جماعت کے افراد کے لئے ضروری ہے کہ وہ چھوٹے پیمانے پر اپنی جان کو قربان کرنے کے لئے تیار رہیں، اپنے مال کو قربان کرنے کے لئے تیار رہیں تا کہ جن کا موں کی بنیا د رکھ دی گئی ہے اُن کو ہم زیادہ سے زیادہ وسیع کر سکیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تبلیغ کے لئے ہمیں موجودہ تعداد سے بہت زیادہ مبلغین کی ضرورت ہے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ روپیہ کا موجود ہونا بھی اپنی ذات میں نہایت ضروری ہے کیونکہ روپیہ سے تبلیغ کو زیادہ سے زیادہ وسیع کیا جا سکتا ہے.اگر ہم صرف

Page 72

خطابات شوری جلد سوم ۵۶ مشاورت ۱۹۴۴ء پانچ ہزار مبلغ رکھیں تو وہ ایک وقت میں پانچ ہزار افراد کو ہی تبلیغ کر سکتے ہیں لیکن اگر ہم کافی تعداد میں اُن کو لٹریچر اور اشتہارات وغیرہ مہیا کر دیں تو ایک ایک آدمی کی آواز ملک کے لاکھوں لوگوں تک پہنچ سکتی ہے.پس تبلیغ کو وسیع کرنے اور دنیا کے اکثر حصوں میں اسلام اور احمدیت کے نام پہنچانے کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے پاس روپیہ ہو اور ضروری ہے کہ ہمارے پاس آدمی ہوں تا کہ ہم ایک وقت میں ان دونوں چیزوں سے کام لے کر کفر کے مقابلہ کے لئے نکل سکیں.میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں سے کئی مخلصین ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں اسلام کی خدمت کے لئے وقف کی ہیں لیکن اُن کی تیاری اور پھر اُن کا بیرونی ممالک میں تبلیغ کے لئے بھجوایا جانا ابھی دُور کی بات ہے.میں تو جب ان حالات کو دیکھتا ہوں تو مجھے بعض دفعہ یہ مشل یاد آجاتی ہے.کہ تریاق از عراق آورده شود مارگزیده مرده شود “ جنگ نه معلوم کب ختم ہو.پھر اگر جنگ ختم ہو جائے اور ہماری تیاری ابھی نامکمل ہو تو پیشتر اس کے کہ ہم کوئی نئی عمارت کھڑی کریں کفر اس کی جگہ ایک اور عمارت کھڑی کر دے گا.اول تو پرانی عمارت کو توڑنا ہی آسان کام نہیں ، تین چار سو سال سے عیسائیوں نے مسلمانوں کو سیاسی اور صنعتی اور اقتصادی میدانوں میں شکست دے کر اُن کو اتنا کمزور کر دیا ہے اور عیسائیت دنیا پر اس قدر غالب آچکی ہے نہ صرف مذہب کے لحاظ سے بلکہ تمدن اور سیاست اور اقتصاد کے لحاظ سے بھی کہ کفر کی مضبوط اور پرانی عمارت کو توڑنا ہمارے لئے کوئی آسان بات نہیں.پھر ہمارا کام صرف یہی نہیں کہ ہم کفر کی عمارت کو توڑ دیں بلکہ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم اُس کی جگہ اسلام کی بلند و بالا عمارت کو اپنی پوری شان اور عظمت کے ساتھ کھڑا کریں.اگر جنگ کے بعد جبکہ پرانی عمارت الہی ہاتھوں سے ٹکڑے ٹکڑے ہو چکی ہو گی ہم نے جلد سے جلد اسلام کی عمارت کھڑی نہ کی تو دشمن اس وقفہ سے فائدہ اٹھا کر پھر کفر کی ایک عمارت کھڑی کر دے گا اور پھر ہمارا زور اُس عمارت کو توڑنے پر صرف ہونے لگ جائے گا اور اسلام کی عمارت کو از سر نو تعمیر کرنے کا کام اور زیادہ التواء میں پڑ جائے گا.اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس عزم مصم کو لے کر کھڑے ہو جائیں کہ ہم کفر کی قائم کردہ عمارت کو منہدم کر کے رکھ دیں گے، ہم اسلام کی مضبوط ترین عمارت دوبارہ دنیا میں

Page 73

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء کھڑی کریں گے اور اس غرض کے لئے ہمیں جس قربانی سے بھی کام لینا پڑا اُس سے دریغ نہیں کریں گے.اگر جانی قربانی کا سوال آیا تو ہم اپنی جان قربان کر دیں گے، اگر مالی قربانی کا سوال آیا تو ہم اپنا مال قربان کر دیں گے اور اس بات کی ذرا بھی پرواہ نہیں کریں گے کہ ہم پر اور ہمارے عیال پر کیا گزر رہی ہے.مگر چونکہ جماعت کے تمام افراد میں یکساں جوش اور اخلاص نہیں ہوتا بلکہ کوئی اپنے اخلاص کے لحاظ سے اول درجہ کے ہوتے ہیں تو کوئی دوسرے درجہ کے اور کوئی تیسرے درجے کے.اس لئے ضروری ہے کہ جماعت کے ہرفرد پر جانی اور مالی قربانی کی اہمیت کو پوری طرح واضح کیا جائے اور جب اکثریت اپنے اندر ایک تغیر پیدا کر لے تو ہر شخص اپنے ہمسایہ کی اصلاح کرے.ہر شخص جماعت کے شست اور غافل لوگوں کے پاس جائے اور خود اُسے کہے اے میرے بھائی ! اسلام پر ایک نازک وقت آیا ہوا ہے، ہمیں تو اس غرض کے لئے غیر سے بھی بھیک مانگنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرنی چاہئے مگر تم تو ہمارے بھائی ہو، تم سے نہ کہیں تو اور کس سے کہیں.تم چندہ میں کوتا ہی کرتے ہو، تم مالی مطالبات میں دلیری سے حصہ نہیں لیتے جس کا نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ سلسلہ کے کاموں کو نقصان پہنچ رہا ہے.میں تو امید کرتا تھا کہ سلسلہ اگر ایک روپیہ مانگے گا تو تم دو روپے دو گے، سلسلہ اگر دس روپے مانگے گا تو تم ہیں روپے دو گے مگر تم تو فرض چندوں کی ادائیگی میں بھی کوتاہی سے کام لے رہے ہو، پھر یہ کام کس طرح ہو گا؟ خدا کے لئے اپنی غفلت کو ترک کرو اور سلسلہ کے مالی مطالبات پر زیادہ سے زیادہ قربانی کا نمونہ دکھاؤ کہ یہی وہ چیز ہے جو تمہارے کام آئے گی ، یہی وہ نیکی ہے جو تمہاری نجات کا ذریعہ ہوگی.اگر اس طرح جماعت کا ہر فرد مجنونانہ رنگ میں کام کرنے کے لئے کھڑا ہو جائے تو ۲۵ لاکھ کا ریز روفنڈ نہایت آسانی کے ساتھ قلیل سے قلیل عرصہ میں قائم ہوسکتا ہے.میرے نزدیک اس امر کی یاد دہانی ناظر صاحب بیت المال کے ذمہ ہے.اُن کا فرض ہے کہ وہ جماعت کو بار بار توجہ دلائیں کہ وہ ریز رو فنڈ کی فراہمی میں حصہ لے.یہ ثواب حاصل کرنے کا کیسا اچھا موقع ہے جو اللہ تعالیٰ نے اُنکے لئے مہیا فرما دیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص دوسرے کو نیک تحریک کرتا ہے اس پر عمل کرنے کی وجہ سے جو ثواب عملِ صالح کرنے والے کو ملے گا ویسا ہی ثواب نیک تحریک

Page 74

خطابات شوری جلد سوم ۵۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کیا جائے گا.اس نقطہ نگاہ سے ناظر صاحب بیت المال اگر چاہیں تو بہت بڑا ثواب حاصل کر سکتے ہیں.اگر جماعت دس لاکھ روپیہ چندہ دیتی ہے تو دس لاکھ روپیہ چندہ دینے کی وجہ سے جو ثواب فرداً فرداً مختلف لوگوں کو ملے گا وہ تمام ثواب مجموعی طور پر ناظر صاحب بیت المال کو بھی ملے گا کیونکہ انہوں نے ہی یہ تحریک جماعت کے سامنے کی ہوگی اور اُنہی کی متواتر یاد دہانیوں کے نتیجہ میں یہ چندہ جمع ہوا ہو گا.حالانکہ دس لاکھ رو پیدا اگر کوئی ناظر اپنے طور پر چندہ میں دینا چاہے تو وہ ساری عمر میں بھی نہیں دے سکتا لیکن اس ذریعہ سے وہ بڑی آسانی سے دس لاکھ روپیہ چندہ دینے کا ثواب حاصل کر سکتا ہے.اسی طرح ہر انسپکٹر بیٹ المال جو اس سلسلہ میں کام کرتا ہے اگر وہ دیانت داری سے کام کرتا ہے، اگر وہ اخلاص سے کام کرتا ہے، اگر وہ محنت سے کام کرتا ہے اور سلسلہ کا چندہ دس ہزار روپیہ سے پندرہ ہزار روپیہ تک ترقی کر جاتا ہے تو جہاں پانچ ہزار روپیہ دینے کا ثواب اُن لوگوں کو ملے گا جنہوں نے اس چندہ میں حصہ لیا، وہاں پانچ ہزار روپیہ اللہ تعالیٰ کے حضور انسپکٹر بیت المال کے نام بھی لکھا جائے گا اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا یہ پانچ ہزار روپیہ فلاں انسپکٹر بیت المال نے بطور چندہ دیا ہے حالانکہ اگر وہ کوشش بھی کرے تو ساری عمر میں پانچ ہزار روپیہ چندہ نہیں دے سکتا.گویا ذراسی محنت اور ذرا سی کوشش سے وہ ایک دورہ میں ہی اتنا ثواب حاصل کر سکتا ہے جو اُسے ساری عمر انفرادی جدو جہد کے نتیجہ میں حاصل نہیں ہو سکتا.اسی طرح ہر سیکرٹری مال جو اس کوشش اور جد و جہد میں اپنے اوقات لگا دیتا ہے اُس کی اس کوشش اور سعی سے جتنا جتنا چندہ اکٹھا ہوتا ہے خدا تعالیٰ کے دفتر میں وہ سب اُس کے نام پر لکھا جاتا ہے کیونکہ ہمارا خدا جس طرح نیک عمل میں حصہ لینے والوں کو ثواب عطا کرتا ہے اُسی طرح وہ عملِ صالح کی تحریک کرنے والوں کو بھی ثواب دیتا ہے.پس ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثواب حاصل کرنے کے عظیم الشان مواقع ہیں.اگر ان عظیم الشان مواقع کے ہوتے ہوئے پھر بھی ہم غفلت سے کام لیں اور کوتاہی کا ارتکاب کریں تو یہ ہماری انتہائی بدقسمتی ہو گی ورنہ خدا نے ہمارے لئے ثواب کے مواقع بہم پہنچانے میں قطعاً نجل سے کام نہیں لیا.مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ چھپیں لاکھ روپیہ کا ریز روفنڈ صرف ہمارا ابتدائی قدم ہے ورنہ ہماری خواہش تو یہ ہونی چاہئے

Page 75

خطابات شوری جلد سوم ۵۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء کہ ہمارے پاس چھپیس کروڑ روپیہ کا ریز رو فنڈ ہو.پس کمریں کس لو اور اشاعت اسلام کی خاطر ایک مضبوط بنیاد قائم کرنے کی کوشش کرو.جب یہ پہلا قدم اُٹھا لو گے اور پچپیس لاکھ روپیہ کا ریز رو فنڈ قائم کر لو گے تب تم میں سے کئی لوگوں کو اللہ تعالیٰ اس بات کی بھی توفیق عطا فرما دے گا کہ وہ مرنے سے پہلے اپنی جانوں کو بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دیں اور اُس کی ابدی رضا اور دائمی جنت کے مستحق ہو جائیں.“ بجٹ اخراجات کے سلسلہ میں ہدایات حضور کے ارشاد پر کرم ناظر صاحب بیت المال نے صدر انجمن احمدیہ کے سالانہ اخراجات کا ނ بجٹ پیش کیا.جب چند ناظر صاحبان اپنے خیالات کا اظہار کر چکے تو حضور نے فرمایا : - اس دفعہ کے بجٹ میں پھر بعض نقائص رہ گئے ہیں.میں نے یہ تو تجویز کیا تھا کہ اس سال کا بجٹ ناظر صاحب بیت المال بنا ئیں کیونکہ گزشتہ سال انجمن نے بجٹ بنانے میں بہت دیر لگا دی تھی مگر ناظر صاحب نے بھی قریباً اتنی ہی دیر لگا دی اور پھر مزید نقص یہ ہوا کہ انجمن میں بھی بجٹ پیش نہ کیا گیا حالانکہ میرا مطلب یہ نہ تھا کہ انجمن میں بجٹ پیش ہی نہ ہو.بہر حال بجٹ بغیر انجمن میں پیش ہونے کے یہاں آ گیا اور چونکہ محکموں کی طرف.اضافہ کی جو ر قوم پیش کی گئی تھیں اُن کی وجوہ سب کمیٹی کو معلوم نہیں تھیں اس لئے سب کمیٹی کو وجوہ کے معلوم کرنے کے لئے بہت سا وقت یہاں صرف کرنا پڑا حالانکہ سب کمیٹی والوں کا فرض تھا کہ جب اُنہوں نے بجٹ پر غور کیا تھا تو اُسی وقت متعلقہ ناظروں کو پیغام بھجوا دیتے کہ آپ خود تشریف لے آئیں یا اپنا کوئی نمائندہ بھجوائیں جو اضافہ اخراجات کے دلائل بتلائے تا کہ فیصلہ کیا جا سکے کہ یہ رقوم رکھی جائیں یا اُن کو کاٹ دیا جائے.مگر چونکہ انہوں نے ایسا نہ کیا اس لئے جو کمیٹی کا کام تھا وہ ہم سب کو کرنا پڑا اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ دوست خاموش بیٹھے رہے کیونکہ ان سے رائے لینے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا.پھر ایک اور نقص یہ بھی واقعہ ہو گیا کہ سب کمیٹی کے تمام ممبر اکٹھے بیٹھے ہوئے نہیں تھے.اگر ا کٹھے بیٹھے ہوتے تو سب سے رائے لی جا سکتی تھی اور پھر اکثریت کے مشورہ کے مطابق فیصلہ ہوتا کہ فلاں رقم رہنے دی جائے یا اُس کو اُڑا دیا جائے مگر اب ممبران سب کمیٹی تو متفرق

Page 76

خطابات شوری جلد سوم مشاورت ۱۹۴۴ء جگہوں میں بیٹھے ہوئے تھے اور ناظر صاحب بیت المال بحیثیت سیکرٹری سب کمیٹی اور صدر ب سب کمیٹی بیت المال دونوں اپنی ذمہ واری پر فیصلہ کرتے رہے.یہ ایک نقص تھا جو واقعہ ہوا.اس کی طرف ایک ممبر نے توجہ بھی دلائی ہے کہ اگر سب ممبر ا کٹھے ہوں تو ممکن ہے وہ ناظران سلسلہ کے بیانات سُن کر اپنی رائے بدل لیں.پس آئندہ کے متعلق میری تجویز یہ ہے کہ سب کمیٹی بیت المال کے ممبران جب اضافہ بجٹ کی رقوم کے متعلق ناظران سلسلہ کے بیانات سن کر اپنی رائے بدلنا چاہیں تو وہ ایک چٹ بھجوا دیا کریں کہ اس بارہ میں فیصلہ سنانے سے قبل ہماری رائے بھی دریافت کر لی جائے.میری دوسری تجویز یہ ہے کہ جب سب کمیٹی بیت المال کی رپورٹ پیش ہو تو سارے ممبر اکٹھے ہو کر پاس پاس بیٹھ جائیں.اس صورت میں صدر سب کمیٹی اُن کے سامنے معاملات بہت جلد رکھ سکتا اور ان کی رائے معلوم کر سکتا ہے.پس آئندہ جب کسی محکمہ کے متعلق سب کمیٹی اپنی رپورٹ پیش کرے تو سب ممبر سٹیج کے پاس جمع ہو جایا کریں تا کہ اگر وہ اپنی رائے بدلنا چاہیں تو مشورہ دے سکیں.دوسرا امر یہ نوٹ کر لیا جائے کہ سب کمیٹی بیت المال کی طرف سے جب بجٹ پر غور ہو تو متعلقہ ناظروں کو وہ لکھ کر بھیجوا دیا کریں کہ چونکہ بجٹ میں آپ کے فلاں فلاں معاملات زیر بحث آئیں گے اس لئے آپ خود تشریف لے آئیں یا اپنا نمائندہ فلاں وقت تک بھجوا دیں تا کہ ہم آپ کے محکمہ کے دلائل سُن کر اس بارہ میں کوئی فیصلہ کر سکیں اور ہمیں معلوم ہو کہ زیادتی اخراجات کیوں اور کس غرض کے لئے کی گئی ہے.میں سمجھتا ہوں اگر اس طرح کام کیا جائے تو وہ مشکلات جو اس وقت پیدا ہوئی ہیں انشاء اللہ دُور ہو جائیں گی.بہر حال جو غلطی ہو چکی ہو چکی ، آئندہ کے لئے جو طریق مناسب ہے وہ میں نے بیان کر دیا ہے.یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بجٹ انجمن میں پیش ہو تو ہر ناظر اپنا اپنا نقطہ نگاہ پوری وضاحت سے پیش کر دے اور ناظر بیت المال اُن دلائل کو نوٹ کر لے.جب سب کمیٹی کے سامنے بجٹ پیش ہو تو وہ ان دلائل کو پورے زور سے کمیٹی کے سامنے ویسا ہی پیش کرے جیسے خود متعلقہ ناظر کمیٹی میں بیٹھا ہوا ہے.کمیٹی والے بے شک جرح کریں اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ

Page 77

خطابات شوری جلد سوم ۶۱ مشاورت ۱۹۴۴ء آخر فیصلہ کثرتِ رائے کے مطابق ہی ہو گا.بہر حال سب کمیٹی اضافہ اخراجات کے متعلق جو منظور یاں دے سکتی تھی وہ اُس نے دے دی ہیں.اب ناظروں کا اختیار نہیں کہ وہ رڈ شدہ تجاویز کو دوبارہ پیش کریں.ہاں ممبروں کو اختیار ہے کہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ بعض نظارتوں نے جو مطالبات کئے ہیں وہ درست ہیں مثلاً امور عامہ کا کلرک اُڑا دیا گیا ہے تو یہ غلطی ہے کلرک ضرور ہونا چاہئے.یا اسی قسم کے اور امور پیش کرنا چاہیں تو ممبروں کی طرف سے یہ امور زیر بحث آ سکتے ہیں وہ اس بارہ میں ترمیم پیش کر سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ فلاں مد میں زیادتی ہونی چاہئے جیسے وہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ فلاں مد میں اتنی کمی ہونی چاہئے.باقی رہا اُس سو روپیہ کا سوال جو نظارت دعوۃ و تبلیغ کی طرف سے کتب حوالجات خریدنے کے لئے بجٹ میں رکھا گیا ہے.میرے نزدیک یہ تو کوئی چیز ہی نہیں یہ اتنی معمولی رقم ہے کہ اس سے وہ مقصد ہرگز پورا نہیں ہو سکتا جس کے لئے یہ اضافہ کیا گیا ہے.میں متواتر ہیں سال سے جماعت کو توجہ دلا رہا ہوں کہ مخالفوں کا لٹریچر غائب کیا جا رہا ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کو اکٹھا کر کے اپنی لائبریریوں میں محفوظ کر لیں.اگر ہم نے اس لٹریچر کو مہیا نہ کیا تو کچھ دنوں کے بعد جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں میں لوگ ان کا ذکر پڑھیں گے اور انہیں دنیا میں وہ لٹریچر نظر نہیں آئے گا جو ہمارے خلاف شائع ہوا تو وہ سمجھیں گے کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے غلط لکھا ہے.اس بارہ میں میں نے مخالفوں کی ذہنیتیں یہاں تک گری ہوئی دیکھی ہیں کہ گزشتہ دنوں جب میں لاہور میں تھا ایک دن میڈیکل کالج کے کچھ طالب علم مجھے ملنے کے لئے آئے.اُن میں سوائے ایک لڑکے کے باقی سب لڑکیاں تھیں.لڑکا فورمن کرسچن کالج کا تھا اور لڑکیاں سب میڈیکل کالج میں پڑھتی تھیں.ان کے آنے سے پہلے جب میں نماز پڑھا رہا تھا، نماز کا آخری سجدہ تھا کہ یکدم مجھے الہام ہو ا عظمت کے ٹھو کے ہیں.اس سے پہلے بھی کوئی فقرہ تھا جو مجھے بھول گیا مگر وہ اسی قسم کا تھا.شہرت کے طالب ہیں.عظمت کے ٹھو کے ہیں میں حیران ہوا کہ نہ معلوم کون شخص آج مجھ سے ملنے والا ہے.تھوڑی دیر کے بعد میڈیکل کالج کے چند طالب علم آئے اور انہوں نے مجھ سے ملاقات کا وقت لیا.گفتگو کے دوران میں

Page 78

خطابات شوری جلد سوم ۶۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء اُنہوں نے کہا کہ مرزا صاحب کے آنے کی کیا ضرورت تھی؟ میں نے انہیں بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ یہ اصلاحات فرمائی ہیں، ان اصلاحات کے بغیر اسلام کبھی زندہ نہیں ہو سکتا تھا.مثال کے طور پر میں نے اُنہیں بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مسیح ناصری کی وفات کا مسئلہ پیش کیا حالانکہ سب مسلمان یہ تسلیم کرتے تھے کہ وہ آسمان پر زندہ بیٹھے ہیں.میری یہ بات سُن کر وہ نہایت ڈھٹائی کے ساتھ کہنے لگیں آپ عجیب بات کہتے ہیں، دنیا میں کون مسلمان ہے جو حیات مسیح کا قائل ہو.سب مانتے ہیں کہ حضرت مسیح مر چکے ہیں.اب جو شخص تمام مسلمات کے خلاف اس طرح کہہ دے اُسے کیا جواب دیا جا سکتا ہے.میں نے اُن کو کہا کہ آپ اپنے والدین کو خط لکھیں اور دریافت کریں کہ جو کچھ میں نے کہا ہے وہ درست ہے یا نہیں؟ آپ کے والدین تو ہمیشہ ہم سے اسی بات پر جھگڑتے رہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں اور تم انہیں وفات یافتہ تسلیم کرتی ہو.پرانی کتابیں موجود ہیں جن میں لوگوں نے تسلیم کیا ہے کہ حضرت مسیح زندہ ہیں.اس پر وہ کہنے لگیں وہ کتا بیں آپ کی اپنی لکھی ہوئی ہوں گی ہماری کتابوں میں تو ایسی کوئی بات نہیں ہو سکتی.جس قوم میں اس قسم کی ڈھٹائی پیدا ہو جائے اُس کے لئے اپنا لٹریچر بدل لینا کون سی بڑی بات ہے.گو وہ اس لٹریچر کے متعلق بھی جو ہم اکٹھا کریں غالباً یہی کہہ دیں گے کہ یہ تم نے خود چھپوا لیا ہو گا.مگر بہر حال سب سے مضبوط حجت تو وہ لٹریچر ہی ہوسکتا ہے.دوسری بات ناسخ و منسوخ کے متعلق میں نے پیش کی اور کہا کہ شیعہ تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن کریم کے بعض پارے بالکل غائب ہیں.میری یہ بات سنتے ہی وہ کہنے لگے آپ تو شیعوں پر اتہام لگاتے ہیں، وہ قرآن کریم کو بالکل مکمل مانتے ہیں.میں نے اُن کو پھر وضاحت سے سمجھایا تو اُن میں سے بعض نے اتنی دلیری سے جھوٹ بولا کہ میں حیران ہو گیا.اُنہوں نے کہا ہمارے بعض رشتہ دار خود شیعہ ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ شیعوں کا یہی عقیدہ ہے کہ قرآن بالکل محفوظ ہے.اس سے بڑھ کر ڈھٹائی اور کیا ہوسکتی ہے.پھر عیسائیوں کے متعلق میں نے کہا کہ وہ حضرت مسیح ناصری کو خدا کا بیٹا مانتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عیسائیت کے اس بنیادی مسئلہ کو بیخ وبن سے اکھیڑ

Page 79

خطابات شوری جلد سوم ۶۳ مشاورت ۱۹۴۴ء دیا ہے.اسے سُنتے ہی وہ لڑکا جو فورمن کرسچن کالج میں پڑھتا تھا بولا کہ تو بہ تو بہ یہ عیسائیوں پر بڑا اتہام ہے.میں عیسائی کالج میں پڑھتا ہوں ہمارے پروفیسر نے کبھی یہ نہیں کہا.جب اس قسم کی ڈھیٹ قوم سے ہمارا مقابلہ ہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اُن کے لٹریچر کو محفوظ رکھیں.اگر یہ لٹریچر محفوظ نہیں ہوگا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر آنے والی نسلوں کو اعتراض کا موقع ملے گا اور وہ نہیں سمجھ سکیں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ باتیں کیوں لکھیں.مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بظاہر نظر بعض سخت الفاظ لکھے ہیں.لوگ کہتے ہیں کہ آپ نے گالیاں دی ہیں.اب جب تک ہمارے پاس وہ لٹریچر نہ ہو جس میں دشمنوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دی ہیں، وہ اشتہارات نہ ہوں جن میں انہوں نے گالیاں دی ہیں ، وہ ٹریکٹ نہ ہوں جن میں انہوں نے گالیاں دی ہیں تو تھوڑے دنوں کے بعد یہی لوگ یہ کہنا شروع کر دیں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نعوذ باللہ سخت کلامی کی.پس ہمارے علماء اور مبلغین کا فرض ہے کہ وہ اس قسم کا لٹریچر جمع کریں اور اُسے لائبریریوں میں محفوظ کر دیں مگر بعض مبلغوں کی اپنی حالت یہ ہے کہ وہ لائبریری سے کوئی ایسا ٹریکٹ یا رسالہ پڑھنے کے لئے لے جاتے ہیں تو چند دنوں کے بعد ہنس کر کہہ دیتے ہیں وہ تو گُم ہو گیا حالانکہ وہ دو یا چار صفحہ کا ٹریکٹ ایک کروڑ روپیہ سے بھی زیادہ قیمتی ہوتا ہے.وہ ایک حربہ ہوتا ہے جس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر حملہ کرنے والے دشمن کو نا کام بنایا جا سکتا ہے.جب کوئی شخص اس حربہ کو ضائع کر دیتا ہے تو وہ سلسلہ کو اپنی معمولی سی غفلت سے بہت بڑا نقصان پہنچانے والا ثابت ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے مخاطب کر کے فرمایا ہے.لَا نُبْقِي لَكَ مِنَ الْمُخْزِيَا تِ ذِكْراً.ہم تیرے متعلق کوئی ایسی بات باقی نہیں رہنے دیں گے جو تیرے لئے ذلت اور رسوائی کا موجب ہو.ہم خود ان مخزیات کو مٹا دیں گے اور تیری عزت کو دنیا میں قائم کریں گے.دوسرے الفاظ میں اس الہام کے معنے یہ ہیں کہ ہم مومنوں کے دلوں میں خود تحریک کریں گے کہ وہ ان مخرزیات کا رد کریں.پس ہر شخص جو ان مخزیات کو رڈ کرنے میں حصہ لیتا ہے، ہر شخص جو اس لٹریچر کو اس لئے جمع کرتا ہے تا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر دشمنوں

Page 80

خطابات شوری جلد سوم ۶۴ مشاورت ۱۹۴۴ء کے مظالم کا اندازہ لگانے کا دنیا کو موقع مل سکے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت ظاہر ہو وہ اللہ تعالیٰ کے الہام لَا نُبقى لَكَ مِنَ الْمُخْزِيَاتِ ذِكُراً کو پورا کرنے والا ہے.وہ خدا کا ایک ہتھیار ہے اور بہت بڑے اجر اور ثواب کا مستحق ہے.پس یہ بہت بڑا کام ہے جو نظارت دعوۃ و تبلیغ کے ذمہ ہے اور اس میں کوتا ہی یقیناً ایک مجرمانہ فعل ہے مگر اس غرض کے لئے سو روپیہ کی رقم بہت ہی حقیر ہے.اور چونکہ یہ کام خاص اہمیت رکھتا ہے اس لئے میں اپنی طرف سے یہ پیشکش کرتا ہوں کہ سو نہیں اگر دو ہزار چار ہزار بلکہ دس ہزار روپیہ کی بھی انہیں ضرورت ہو تو یہ سارا روپیہ میں انہیں خود دوں گا وہ لٹریچر مہیا کریں اور روپیہ مجھے سے لیں.اب بجٹ اخراجات پیش ہے جو دوست کسی خرچ میں کمی یا زیادتی کرنے کے متعلق کچھ کہنا چاہتے ہوں وہ اپنا نام لکھوا دیں.“ اس پر کئی نمائندگان نے نام لکھوائے اور بجٹ اخراجات کی بابت ابھی چند احباب نے اپنی آراء کا اظہار کیا تھا اور بہت سے باقی تھے کہ حضور نے احباب کو وقت کی کمی سے مطلع کرتے ہوئے فرمایا :- اس وقت ساڑھے چار بجے ہیں بلکہ میری گھڑی پر چار بج کر ۳۵ منٹ ہو چکے ہیں اور ساڑھے چھ بجے یہاں سے گاڑی روانہ ہو جاتی ہے درمیانی وقفہ میں دوستوں نے اسباب وغیرہ لینا ہے اور جانے کے لئے تیاری کرنی ہے.اگر ایک گھنٹہ بھی جانے کی تیاری کے لئے رکھ لیا جائے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ اب ہمارے پاس صرف پچپن منٹ باقی ہیں لیکن دوسری طرف یہ حالت ہے کہ ابھی ۱۳ دوست باقی رہتے ہیں جنہوں نے اظہار خیالات کرنا ہے.آج کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ ایک ایک دوست نے ۵ منٹ سے لے کر دس دس منٹ تک تقریر کے لئے لئے ہیں.اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ان ۱۳ دوستوں کو اظہارِ خیالات کا موقع دیا جائے تو وہ ۱۳ دوست صرف تقریریں کر کے بیٹھ جائیں گے اور ہم جماعت سے یہ بھی مشورہ نہیں لے سکیں گے کہ سب کمیٹی کا تجویز کردہ بجٹ منظور کر لیا جائے یا نہ کیا جائے؟ اور اگر با قاعدہ آراء شماری ہو تو اس وقت تک بائیس تیئیس ترمیمیں آچکی ہیں.اگر ایک ترمیم کے لئے پانچ منٹ وقت بھی رکھا جائے تو پونے دو گھنٹے صرف ترمیموں کے متعلق

Page 81

خطابات شوری جلد سوم مشاورت ۱۹۴۴ء دوستوں کی آراء معلوم کرنے کے لئے چاہئیں.پچپن منٹ وہ ، اور پونے دو گھنٹے یہ.گویا پونے تین گھنٹے صرف دوستوں کی تقاریر اور ترمیموں کے متعلق آراء شماری کے لئے درکار ہیں.اس کے بعد اگر دس پندرہ منٹ دعا وغیرہ کے لئے رکھے جائیں اور میں اپنے خیالات کا اظہار نہ کروں تب بھی اس حساب سے ساڑھے سات بجے آپ لوگوں کو یہاں سے فراغت ہو سکتی ہے.میں سمجھتا ہوں جو دوست باہر سے آتے ہیں وہ اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ بجٹ کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کریں اور ہمیں اپنے مشوروں سے آگاہ کریں لیکن پھر بھی انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ بجٹ پر صدر انجمن احمد یہ بھی غور کرتی ہے اور پھر سب کمیٹی بھی کافی غور کرتی ہے.اس لئے إِلَّا مَا شَاءَ اللهُ عام طور پر کوئی ایسی بات بجٹ میں نہیں ہوتی جو قابلِ اعتراض ہو یا جس کا رکھا جانا غیر ضروری ہو.مگر میں نے دیکھا ہے بعض دفعہ دوستوں کی طرف سے ایسی ترمیمیں پیش ہو جاتی ہیں جو بالکل غیر ضروری ہوتی ہیں.دو چار یا دس روپوں کا سوال ہوتا ہے مگر اتنی سی بات پر اپنا اور دوسرے تمام لوگوں کا بہت بڑا وقت ضائع کر دیا جاتا ہے حالانکہ انہیں سوچنا چاہئے کہ آخر صدرانجمن احمدیہ کے افسروں اور سب کمیٹی کے افراد نے ان پانچ دس روپوں کے خرچ کو کسی مصلحت کے ماتحت ہی رکھا ہوگا اور انہوں نے سوچ بچار سے بھی کام لیا ہو گا یہ تو نہیں ہو سکتا کہ وہ بغیر سوچے سمجھے کوئی رقم رکھ دیں اور سلسلہ کے اموال کو ضائع کریں.جماعت کا مشورہ تو اصولی باتوں کے متعلق ہونا چاہئے نہ یہ کہ سارے ہندوستان کے لوگ اس لئے جمع ہوں کہ پانچ روپے موسمی اخراجات کی مد سے اُڑا دیئے جائیں اور دس فلاں محکمہ کی سٹیشنری کی مد سے اُڑا دیئے جائیں.میں یہ مانتا ہوں کہ جہاں غیر ضروری باتیں دوستوں کی طرف سے پیش ہو جاتی ہیں وہاں بہت سی ایسی باتیں بھی اُن کی طرف سے پیش ہوتی ہیں جو غور کے قابل ہوتی ہیں مگر جو غیر ضروری باتیں ہیں ان سے ہمیں ضرور بچنا چاہئے.آج سے آٹھ دس سال پہلے دوستوں کو اعتراضات کا موقع دیا جا تا تھا جو کئی سال تک جاری رہا.ناظرانِ سلسلہ کی طرف سے اُن اعتراضات کا جواب دیا جاتا تھا اور چونکہ اس ذریعہ سے بار بار جماعت کے سامنے اصل حالات آتے رہتے تھے اس لئے رفتہ رفتہ وہ سوالات سب غائب ہو گئے لیکن بعض سوالات کچھ عرصہ غائب رہنے کے بعد اس سال پھر

Page 82

خطابات شوری جلد سوم ۶۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء پیش کر دیئے گئے ہیں.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سات آٹھ سال کے بعد وہ دلائل دوستوں کو بھول گئے ہیں جن کی وجہ سے اُن کاموں کو اختیار کیا گیا تھا.بہر حال اب وقت اتنا قلیل رہ گیا ہے کہ میں تمام دوستوں کو تقاریر کا موقع دینا ، بائیس تئیس ترامیم کو پیش کرنا اور ایک ایک ترمیم کے متعلق دوستوں کی آراء معلوم کرنا، اس کے بعد میرا انصائع کرنا اور پھر دعا کر کے سامان ساتھ لے کر ٹھیک وقت پر گاڑی پر پہنچ جانا انسانی طاقت سے بالا ہے اور یہ بالکل ناممکن ہے کہ اگر اس کام کو جاری رکھا جائے تو وقت کے اندر اس کو ختم کیا جا سکے.اس لئے اب دو ہی صورتیں ہیں یا تو احباب فیصلہ کریں کہ وہ ایک دن اور یہاں ٹھہریں گے پھر بے شک اس طریق کو جاری رکھا جا سکتا ہے.اور یا پھر وہ یہ فیصلہ کریں کہ بحث کو درمیان میں ہی چھوڑ دیا جائے اور شوریٰ کے کام کو ختم کر دیا جائے.لیکن اس صورت میں شوری کا کام ختم کرنے کے یہ معنے ہوں گے کہ تین چار گھنٹے جو بحث پر صرف ہو چکے ہیں اُن کو ضائع کر دیا جائے اور یہ سمجھ لیا جائے کہ ہم نے وہ وقت رائیگاں کھو دیا.میں سمجھتا ہوں کہ ایک طرف تو یہ بات بھی درست ہے کہ بعض لوگ ایسی باتیں پیش کر دیتے ہیں جو غلط ہوتی ہیں اور بعض خواہ مخواہ اپنی بات کو طول دیتے چلے جاتے ہیں حالانکہ وہ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو یا تو غیر ضروری ہوتی ہیں اور یا پھر اور دوست اُن سے پہلے اُن باتوں کے متعلق اظہار خیالات کر چکے ہوتے ہیں.مگر وہ اس طرح بات میں سے بات اور پہلو میں سے پہلو نکالتے چلے جاتے ہیں کہ گویا یہاں ایک مناظرہ شروع ہے اور اُن کا فرض ہے کہ وہ دوسروں کی پیش کردہ باتوں کا رڈ کریں اور ایک ایک بات کے خلاف دلائل پیش کریں.لیکن جہاں یہ ایک نقص ہے جو دیکھنے میں آیا ہے وہاں اکثر باتیں ایسی بھی کہی گئی ہیں جو یقیناً قابل توجہ ہیں.اگر کام کو اس طرح ادھورا چھوڑ دیا جائے تو بجٹ پر پورا غور نہیں ہوسکتا حالانکہ ہمارا منشاء یہ ہوتا ہے کہ بجٹ پر پورا غور ہو اور اس کے کسی حصہ پر کوئی اعتراض نہ ہو سکتا ہو.ان وجوہ کی بناء پر میں سمجھتا ہوں کہ آئندہ مجلس شوری کا اجلاس منعقد ہو تو سب پہلے بجٹ پر ہی بحث کی جائے.اور اگر شوری میں تینوں دن بجٹ پر ہی بحث ہوتی رہے تو بے شک تینوں دن یہ بحث جاری رہے اور دوسرے مسائل ترک کر دیے جائیں.ان معاملات پر غور کرنے کے لئے جون جولائی یا اگست میں دوبارہ مجلس شوریٰ کا اجلاس

Page 83

خطابات شوری جلد سوم ۶۷ مشاورت ۱۹۴۴ء منعقد ہوا کرے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بار بار قادیان آنا اور اس گرانی کے زمانہ میں اخراجات برداشت کرنا بعض طبائع پر گراں گزرتا ہے مگر جوں جوں جماعت بڑھتی چلی جائے گی اِن امور کو برداشت کرنا پڑے گا.بلکہ ممکن ہے کہ آئندہ کسی وقت وہ زمانہ بھی آجائے جب بعض لوگوں کو شوری کے لئے اپنے اکثر اوقات فارغ کر کے مستقل طور پر قادیان میں ہی رہنا پڑے.جیسے پارلیمنٹوں کے ممبروں کو اپنے اوقات خرچ کرنے پڑتے ہیں کیونکہ اس کے بغیر سلسلہ کے اہم امور پر غور نہیں ہو سکے گا.بہر حال وہ وقت تو جب آئے گا دیکھا جائے گا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم ایسٹر کی تعطیلات کے دنوں میں جو مجلس شوری منعقد کرتے ہیں وہ بعض دفعہ تمسخر بن کر رہ جاتی ہے کیونکہ سلسلہ کے جتنے معاملات ہوتے ہیں اُن پر سنجیدگی اور عمدگی سے غور نہیں کیا جا سکتا.میں مانتا ہوں کہ کچھ وقت ضائع بھی ہو جاتا ہے اور جہاں ایسی خرابی ہو وہاں دوستوں کو روکنا ضروری ہوتا ہے لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض ضروری بحثوں کو تنگی وقت کی وجہ سے ترک کرنا پڑتا ہے اور بجٹ پر عمدگی کے ساتھ غور نہیں ہوسکتا.سال میں دو دفعہ مجلس شورای ان حالات میں میں فیصلہ کرتا ہوں کہ آئندہ سال میں دو دفعہ مجلس شوری منعقد ہوا کرے.ایک دفعہ تو انہی ایسٹر کی تعطیلات میں اور اس میں مقدم بجٹ کو رکھا جائے اور سب سے پہلے اسی پر غور ہو.اگر بجٹ پر غور کرنے کے بعد کوئی وقت بچے تو دوسرے امور کو بھی لے لیا جائے ور نہ نہیں.اور جب دوسرے معاملات ادھورے رہ جائیں یا بالکل ہی رہ جائیں تو جون، جولائی میں کسی وقت دوسری مجلس مشاورت منعقد کی جائے.یہ ضروری نہیں کہ وہ ایسے ایام ہوں جب سرکاری طور پر تعطیلات ہوا کرتی ہیں کیونکہ اس میں ہر جماعت کی طرف سے ایک ایک یا دو دو نمائندہ بھی آسکتے ہیں.اب تو بعض دفعہ ایک ایک جماعت کی طرف سے تین تین چار چار نمائندے آ جاتے ہیں اور اگر کوئی بڑا شہر ہو تو وہاں کے نمائندے اس سے بھی زیادہ ہوتے ہیں لیکن جون ، جولائی یا اگست کے ایام میں اگر سرکاری طور چھٹیاں نہ ہوں تو ہر جماعت کی طرف سے ایک ایک نمائندہ کا آنا بھی کافی ہوسکتا ہے، گورنمنٹ کے ملازم بھی ایسے موقع پر آسکتے ہیں.آخر ہر شخص کو حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ سال میں دس بیس روز کی

Page 84

خطابات شوری جلد سوم ۶۸ مشاورت ۱۹۴۴ء چھٹی لے سکے اس حق سے فائدہ اُٹھا کر مجلس مشاورت میں شامل ہونا اُن کے لئے کوئی بڑی بات نہیں پس آئندہ کے لئے تو میں یہ فیصلہ کرتا ہوں.اور موجودہ بجٹ کے متعلق یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ دوستوں کی طرف سے جس قدر ترمیمات پیش ہوئی ہیں وہ سب کمیٹی بجٹ کے سپر د کر دی جائیں.کمیٹی کسی آئندہ اجلاس میں ان ترمیمات پر غور کر کے مناسب فیصلہ کر دے گی.اس سب کمیٹی میں علاوہ ممبران تحقیقاتی کمیشن کے سب ناظران سلسلہ شامل ہوں گے.اسی طرح پیرا کبر علی صاحب ، خان بہا در چوہدری نعمت خان صاحب اور نواب محمد دین صاحب بھی اس کمیٹی میں شامل ہوں گے.میں اس کمیٹی کے لئے کوئی تاریخ مقرر کر دوں گا اُس وقت یہ تمام دوست جمع ہو جائیں گے اور ان ترمیموں پر غور کر لیں گے.فی الحال جہاں تک اس بجٹ کا سوال ہے جس پر سب کمیٹی نے کافی غور کر لیا ہے میں اُسی کو پیش کرتا ہوں.جو ترمیمیں ہیں اُن کے متعلق میں نے ایک سب کمیٹی تجویز کر دی ہے جو بعد میں اُن پر غور کرے گی.اس وقت ان ترمیموں کے علاوہ اصل بجٹ کا سوال ہے جس پر سب کمیٹی بیت المال کافی غور و خوض کر چکی ہے.میں وہ بجٹ دوستوں کے سامنے پیش کرتا ہوں.دوست مجھے رائے دیں کہ آیا اس بجٹ کو منظور کر لیا جائے یا نہیں ؟“ تمام دوست تائید میں کھڑے ہوئے اور حضور نے سب کمیٹی کے پیش کردہ بجٹ کو منظور کرنے کا اعلان فرمایا.اس کے بعد حضور نے فرمایا : - بجٹ میں جو جدید اخراجات ہیں اُن میں سے کچھ تو سب کمیٹی منظور کر چکی ہے اور کچھ اخراجات اُن کے علاوہ بھی میری ہدایت کے مطابق بجٹ میں شامل کئے جاچکے ہیں.جیسے کالج کا خرچ ہے یا نائب ناظروں کا خرچ ہے یا دیہاتی مبلغین کا خرچ ہے.میں سب کمیٹی کے اس مجوزہ بجٹ کو دوستوں کی رائے کے مطابق منظور کرتا ہوں.ایک سب کمیٹی مقرر کر دی گئی ہے جو اُن ترمیموں پر غور کرے گی جو اس وقت دوستوں کی طرف سے پیش ہوئی ہیں.اگر ان ترمیوں کو منظور کرنے کی وجہ سے بجٹ میں کوئی تغیر پیدا کرنا پڑا تو یہ جائز ہوگا اور اگر سب کمیٹی کسی اضافہ کو رڈ کرے گی تو اُس کو رڈ کر دیا جائے گا.بہر حال میں ہدایت کرتا ہوں کہ سوائے ترمیموں والے حصہ کے باقی بجٹ کو صدرانجمن احمد یہ فوراً جاری کر دے تا کہ یکم مئی سے اس پر عمل شروع ہو جائے.ترمیموں والا حصہ ریز رو ر ہے گا اور

Page 85

خطابات شوری جلد سوم ۶۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء اس کے متعلق بعد میں فیصلہ ہو گا.اب آخر میں کچھ اور باتیں کہہ کر اس اجلاس کو برخواست کرتا ہوں.اختتامی تقریر سب سے پہلے میں دوستوں کو پھر دوبارہ وقف جائیداد کی تحریک کی وقف جائیداد طرف توجہ دلاتا ہوں جس کی طرف میں اپنے دو گزشتہ خطبوں میں بھی توجہ دلا چکا ہوں.جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں میری تحریک پر خدا تعالیٰ کے فضل سے قادیان کی بہت بڑی اکثریت نے اپنی جائیدادوں کو دین کے لئے وقف کر دیا ہے.اسی طرح بیرونجات میں سے بھی سینکڑوں کی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے اپنی جائیدادوں اور آمدنیوں کو اس غرض کے لئے وقف کیا ہے لیکن لاکھوں کی جماعت میں سے سینکڑوں کا وقف قربانی کا وہ شاندار مظاہرہ نہیں جس کی جماعت سے توقع کی جاتی تھی.ابھی علاقوں کے علاقے ، گاؤں کے گاؤں ،تحصیلوں کی تحصیلیں اور ضلعوں کے ضلعے ایسے ہیں جن میں رہنے والے ہزاروں احمدیوں میں سے کسی ایک نے بھی اپنی جائیداد کو وقف نہیں کیا.یا بڑے بڑے وسیع علاقوں میں سے صرف ایک دو نے تحریک وقف میں حصہ لیا ہے، باقی لوگوں نے ابھی تک کوئی حصہ نہیں لیا.اس وقت تمام جماعتوں کے نمائندے یہاں موجود ہیں اس لئے میں ایک بار پھر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ ہمارا وعدہ جس کو ہم بار بار اپنی زبان سے دُہراتے رہتے ہیں یہ ہے کہ ہماری ہر چیز خدا تعالیٰ کے لئے قربان ہے ، ہمیں اپنی جانوں کی پرواہ نہیں، ہمیں اپنے مالوں کی پرواہ نہیں ، ہم مٹ جائیں گے مگر یہ برداشت نہیں کریں گے کہ دین کو کوئی ضعف پہنچے، یہ وعدہ ہے جو ہم منہ سے بار ہا دہراتے رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی اسی وعدہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کریم میں فرماتا ہے.ان اللہ اشترى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ الله تعالى نے مومنوں سے اُن کی جانیں بھی لے لیں اور اُن کے مال بھی لے لئے اس بات کے بدلہ میں کہ انہیں جنت عطا کی جائے گی.جب ہماری جانیں اور ہمارے اموال خدا نے ہم سے لے لئے اور ہم نے اس معاہدہ کو قبول کر لیا تو اس کے بعد ہمارا یہ کہنا کہ ہم جان کیوں

Page 86

خطابات شوری جلد سوم مشاورت ۱۹۴۴ء قربان کریں یا مال کا قلیل حصہ تو قربان کر سکتے ہیں مگر کثیر نہیں قطعی طور پر قرآن کریم کی اس آیت کے خلاف ہے.کیونکہ ہم سے اگر جانیں لی گئیں، ہم سے اگر مال لئے گئے تو اس لئے کہ ہمیں جنت ملے گی اور جنت وہ چیز ہے جس کا ہم میں سے ہر شخص خواہش مند ہے.میں نہیں سمجھ سکتا کہ ہم میں سے کوئی ایک شخص بھی ایسا ہو جو کھڑا ہو کر کہے کہ میں یہ خواہش نہیں رکھتا کہ اللہ تعالیٰ مجھے جنت عطا فرمائے.اگر کوئی شخص ایسا ہو تو وہ کہہ سکتا ہے کہ نہ میں نے جنت کا کبھی مطالبہ کیا نہ مجھے جنت ملنے کی کوئی امید ہے اس لئے میرے لئے جان اور مال کو قربان کرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.اگر اس وقت میں آپ لوگوں سے یہ سوال کروں کہ وہ لوگ کھڑے ہو جائیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں جنت کی کوئی ضرورت نہیں بے شک مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ ہمیں دوزخ میں ڈال دے تو میں سمجھتا ہوں آپ لوگوں میں سے ایک شخص بھی کھڑا نہ ہوگا بلکہ ہر شخص یہی کہے گا کہ میں تو چاہتا ہوں اللہ تعالیٰ مجھے جنت عطا کرے.اور جب آپ لوگ جنت کے طلب گار ہیں اور آپ لوگوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں جو یہ کہہ سکے کہ اُسے جنت کی ضرورت نہیں تو اس کے یہ معنے ہوئے کہ آپ لوگوں نے اس سودے کو منظور کر لیا ہے جس کا قرآن مجید میں ذکر آتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ ایک سودا ہے مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ہر شخص کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ چاہے تو اس کو رڈ کر دے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے کہ ہدایت اور گمراہی کی راہوں کو اختیار کرنا انسان کی اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق ہوتا ہے.خدا کسی کو مجبور نہیں کرتا کہ وہ ضرور ہدایت کا راستہ اختیار کرے اور خدا کسی کو مجبور نہیں کرتا کہ وہ ضرور گمراہی کا راستہ اختیار کرے.اسی طرح اللہ تعالیٰ مجبور نہیں کرتا کہ لوگ ضرور اپنی جانیں اور اپنے مال قربان کریں.وہ جنت پیش کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر تم چاہو تو دنیا اپنے پاس رہنے دو اور ہمارے پاس آکر دوزخ کو قبول کرلو.اور اگر چاہو تو اپنی جانیں اور اپنے اموال مجھے دے دو اور میرے پاس آکر مجھ سے جنت لے لو.یہ سودا ہے جو خدا اور اُس کے مومن بندوں کے درمیان ہوتا ہے.جو شخص اس سودے کو قبول کر لیتا ہے اُس کے لئے یہ سوال قطعاً باقی نہیں رہ سکتا کہ اب جان اُس کی جان ہے یا مال اُس کا مال ہے.اگر اس اقرار کے باوجود کسی شخص کے دل میں یہ خیال

Page 87

خطابات شوری جلد سوم مشاورت ۱۹۴۴ء موجود ہو کہ میری جان میری ہے، میرا مال میرا ہے تو یقیناً وہ ایک ایسی بات کا ارتکاب کرنے والا قرار پائے گا جسے کوئی مجنون ہی اپنے دل اور دماغ میں لا سکتا ہے.پھر میں کہتا ہوں احمدیوں کو بھی جانے دو، غیر احمد یوں ، ہندوؤں ،سکھوں ، عیسائیوں، یہودیوں اور پارسیوں وغیرہ میں سے کسی سے سوال کر کے پوچھو کہ آیا تم یہ پسند کرو گے کہ جنت میں داخل کئے جاؤ اور تمہارا ہر قدم ترقی کے میدان میں بڑھتا چلا جائے اور تم پر متواتر خدا تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوتی رہیں؟ یا تم یہ پسند کرو گے کہ تمہیں کسی دن جنت میں داخل کر دیا جائے، کسی دن دوزخ میں جھونک دیا جائے ، چند دن سایہ دار درختوں میں رکھا جائے اور چند دن کڑکتی دھوپ میں ویران اور سنسان جنگلوں میں پھینک دیا جائے؟ تو میں یقیناً سمجھتا ہوں کہ اُن میں سے ہر شخص یہی کہے گا کہ میں تو جنت کی آرزو رکھتا ہوں اور اسی لئے دنیا کی مشکلات مجھے بے حقیقت معلوم ہوتی ہیں.لیکن میں دیکھتا ہوں باوجود اس خواہش کے جو فطری طور پر انسان کے اندر پائی جاتی ہے پھر بھی اکثر لوگوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ ایک دن تو اُنہیں قربانیوں کا بے انتہا جوش ہوتا ہے مگر دوسرے دن ان کی طبیعت پر مُردنی چھائی ہوئی ہوتی ہے اور انہیں یوں معلوم ہوتا ہے کہ قربانیوں میں حصہ لینا اپنے اموال کو ضائع کرنا ہے.گویا وہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بھی اس کے مقابلہ میں اُن سے ایسا ہی سلوک کرے کہ کسی دن اُن کو جنت میں داخل کر دے اور کسی دن دوزخ کی گہرائیوں میں پھینک دے، ایک دن اُن کو سایہ دار درختوں اور ٹھنڈے اور شیریں پانیوں میں جگہ دی جائے اور دوسرے دن اُن کو جلتی ہوئی ریت پر لٹایا جائے.جنت دوزخ تو ایک تصویر ہے دنیا کے اعمال کی.اگر ہم ایسا کرتے ہیں کہ ایک وقت تو کہتے ہیں ہماری جان بھی قربان ، ہمارا مال بھی قربان.نماز پڑھتے ہیں تو بڑی گریہ وزاری سے، چندہ دیتے ہیں تو ایک ایک پیسہ دینے پر ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہماری روح بلندیوں میں اُڑتی ہوئی آستانہ الوہیت پر سجدہ شکرانہ بجالا رہی ہے کہ اس نے اپنے فضل سے دین کی خدمت کی توفیق دی، مگر چند دنوں کے بعد جب کوئی چندہ مانگنے کے لئے آتا ہے تو ہم کہتے ہیں یہ کیسی مصیبت ہے کہ ہر وقت ہم سے چندہ مانگا جاتا ہے.اگر ہم چندے ہی دیتے رہیں تو اپنے اخراجات کا کیا انتظام کریں؟ اپنے بچوں اور اپنے عیال کا کس طرح

Page 88

خطابات شوری جلد سوم ۷۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء گزارہ کریں؟ اگر ہم اسی طرح اپنے رنگ بدلتے چلے جاتے ہیں ، ایک دن سُست ہوتے ہیں دوسرے دن ہوشیار ہوتے ہیں.تیسرے دن پھر غافل ہو جاتے ہیں.چوتھے دن طاقت سے بڑھ کر چندہ دے دیتے ہیں.پانچویں دن چندہ مانگنے والوں پر اعتراض شروع کر دیتے ہیں.یا اگر اتنا نمایاں تغیر ہمارے اندر نہیں ہوتا تو کم سے کم یہ نظارہ ضرور نظر آتا ہے کہ ایک وقت چندے کی طرف دلی رغبت پائی جاتی ہے اور دوسرے وقت چندے کی طرف کوئی رغبت محسوس نہیں ہوتی.ایک دن نماز پڑھتے ہیں تو خوب گریہ وزاری سے کام لیتے ہیں مگر دوسرے دن نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں تو خیالات پراگندہ ہوتے ہیں.نہ نماز کے الفاظ کی طرف توجہ ہوتی ہے نہ اُس کی روح کی طرف توجہ ہوتی ہے.ایک دن ہمارے اندر قربانیوں پر بشاشت پیدا ہوتی ہے تو دوسرے دن انقباض اور بوجھ سا محسوس ہوتا ہے.اگر ہم اسی طرح اپنی زندگی بسر کر دیتے ہیں اور ساٹھ یا ستر سال کی زندگی ایک لیول پر بسر کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے تو ہم کس طرح یہ امید کر سکتے ہیں کہ خدا ہمیں ابدی حیات میں اپنی دائمی رضاء اور دائی جنت کا وارث بنائے.اگر ہم اپنی زندگی کے چالیس یا پچاس سالوں میں جو کام کے سال ہوتے ہیں اپنی ایک حالت نہیں رکھتے ، کبھی خدا کے دین سے محبت کرتے ہیں تو کبھی اُس سے اپنا منہ پھیر لیتے ہیں.کبھی اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار کھڑے ہوتے ہیں اور کبھی خیال کرنے لگتے ہیں کہ جان کون قربان کرے جان قربان کرنا تو بڑی مشکل بات ہے.کبھی ہمارے اعمال میں نیکیوں کا زور ہوتا ہے اور کبھی یوں معلوم ہوتا ہے کہ نیکی ہمارے قریب بھی نہیں پھٹکی ، کبھی ہم خدا کو یاد کرتے ہیں اور کبھی اُس کو بُھول جاتے ہیں.اگر ہم اپنی ساٹھ یا ستر یا اسی سالہ زندگی میں خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے متواتر اپنا قدم آگے بڑھانے کے لئے تیار نہیں تو ہم کس طرح یہ امید کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے وہ سلوک کرے جس میں متواتر انعامات اور متواتر برکات کا نزول ہو.اگر ہم صحیح رنگ میں کوشش نہیں کرتے ، اگر ہم ہمیشہ ترقی کی طرف اپنا قدم نہیں بڑھاتے تو ہمیں اللہ تعالیٰ سے بھی یہ امید نہیں رکھنی چاہئے کہ جنت کے اعلیٰ ترین انعامات یکے بعد دیگرے ہمیں حاصل ہوتے چلے جائیں گے.جنت ہمارے اعمال کے مطابق تیار ہو گی.تم اگر اپنے اعمال میں کبھی سست اور غافل ہو جاتے ہو اور کبھی ہوشیار تو تم اس بات کو ظاہر کرتے ہو

Page 89

خطابات شوری جلد سوم ۷۳ مشاورت ۱۹۴۴ء کہ تمہارا منشاء یہی ہے کہ خدا بھی کبھی تم پر انعام نازل کرے اور کبھی نازل نہ کرے.کبھی جنت کے انعامات دے اور کبھی اُن انعامات سے محروم کر دے.پس یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ تم سے اللہ تعالیٰ کا ویسا ہی معاملہ ہو گا جیسا تم اُس سے معاملہ کرو گے.میں نے تم سے مطالبہ کیا کہ تم اپنی جائیدادیں خدا تعالیٰ کے دین کے لئے وقف کر دو.اس میں یہ کوئی شرط نہیں تھی کہ تم ابھی اپنی تمام جائیداد میں فروخت کر کے ہمیں دے دو، یہ بھی کوئی شرط نہیں تھی کہ اُس کا نصف یا اُس کا چوتھائی ہمیں دے دو، صرف اتنا مطالبہ تھا کہ تم دین کے لئے اپنی جائیدادوں کو اب وقف کر دو مگر یہ جائیدادیں تمہارے پاس ہی رہیں گی.جب سلسلہ کے لئے ایسی قربانیوں کا وقت آیا جن کا بوجھ بیٹ المال برداشت نہ کر سکا یا جو ضروریات ہنگامی چندوں سے بھی پوری نہ ہوئیں تو اُس وقت بحصہ رسدی ہر صاحب جائیداد سے مطالبہ ہو گا کہ وہ اس کے مطابق اپنی جائیداد دے یا اتنی رقم سلسلہ کو مہیا کرے.ظاہر ہے کہ اس میں سر دست کوئی بوجھ جماعت پر نہیں ڈالا گیا تھا اور جس قربانی کا اُن سے مطالبہ کیا گیا تھا وہ وہی تھی جس کا وہ خدا سے اقرار کر چکے تھے مگر ابھی ایک فیصدی جائیدادیں بھی ہماری جماعت نے وقف نہیں کیں اور بہت بڑی اکثریت ایسی رہتی ہے جس نے اس تحریک کی طرف توجہ نہیں کی.منہ سے تو ہر شخص کہتا ہے کہ میں نے اپنی جان اور اپنا مال قربان کر دیا مگر جب مال مانگا گیا تو ایک فیصدی لوگ بھی ایسے کھڑے نہ ہوئے جو اپنی جائیدادیں وقف کرنے کے لئے تیار ہوں.اس نمونہ کے بعد ہم اپنی ترقی کی کیا امید کر سکتے ہیں.حالانکہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ ہم میں ایک شخص بھی ایسا نظر نہ آتا جس نے اپنی جائیداد یا اپنی آمد کو خدا تعالیٰ کے دین کے لئے وقف نہ کر دیا ہو.مگر مجھے افسوس ہے کہ بہت سے لوگوں کی حالت بالکل ویسی ہی ثابت ہوئی جیسے مشہور ہے کہ ایک پٹھان رئیس سے کسی بنیئے کی دوستی ہو گئی.ایک دن اُسے بہت ہی جوش پیدا ہوا اور اُس نے خاں صاحب سے یہ کہنا چاہا کہ خاں صاحب ہمارا مال آپ کا مال اور آپ کا مال ہمارا مال، ہم اب دو نہیں رہے بلکہ ایک ہی ہو گئے ہیں لیکن جب اُس نے اپنی زبان سے یہ بات کہنی چاہی تو اُس کے منہ سے صرف یہ نکلا.خان صاحب ! تمہارا مال سو ہمارا مال اور ہمارا مال سو ہیں ہیں ہیں ہیں.گویا اپنا مال دوسرے کو دینا تو الگ رہا وہ اپنے منہ سے یہ بھی نہ کہہ سکا

Page 90

خطابات شوری جلد سوم ۷۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء کہ ہمارا مال تمہارا مال.بلکہ ہمارا مال کہنے کے ساتھ ہی ہیں ہیں ہیں ہیں اُس کی زبان سے نکل گیا.اسی قسم کا نمونہ ہماری جماعت کے بہت سے لوگوں نے دکھایا کہ تمہارا مال ہمارا مال اور ہمارا مال میں ہیں ہیں ہیں.جب اپنے مال کا سوال آیا تو وہ خاموش ہو گئے حالانکہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک امتحان تھا جو ہماری جماعت کا ہوا مگر اس امتحان پر بہت سے لوگوں کے دل گھبرا گئے اور اُنہوں نے سمجھا کہ معلوم نہیں اب کیا ہو جائے گا.میں یہ نہیں کہتا کہ ساروں نے ایسا نمونہ دکھایا ہے.بہت سے مخلص ایسے بھی ہیں جنہوں نے اس آواز کے سُنتے ہی اپنی جائیدادیں وقف کر دیں بلکہ بعض عورتیں میرے پاس آئیں اور انہوں نے اصرار کیا کہ ہم سے زیوارت لے لئے جائیں.میں نے کہا ابھی ہم ایک پیسہ لینے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں.اس وقت صرف اس بات کا مطالبہ ہے کہ اپنی جائیدادوں کو وقف کرنے کا اقرار کیا جائے.یہ مطالبہ نہیں کہ اپنی جائیدادیں فروخت کر کے دے دی جائیں.بعض عورتوں نے یہ بھی کہا کہ ممکن ہے کسی اور ضرورت پر ہم سے یہ زیور فروخت ہو جائے اس لئے ابھی ہم سے لے لیا جائے مگر میں نے کہا اب ہم کسی سے کوئی روپیہ نہیں لے رہے.ایک اور عورت کا ذکر ہے وہ آئی اور اُس نے کہا میرا زیور لے لیا جائے مگر جب اُسے یہ جواب دیا گیا تو وہ میری ایک بیوی سے کہنے لگیں آپ میرا زیور اپنے پاس امانتا رکھیں اور جب مطالبہ ہو اُس وقت دے دیں میں اپنے پاس نہیں رکھتی ممکن ہے کسی اور ضرورت پر خرچ ہو جائے.تو کئی مردوں اور عورتوں نے اپنے اخلاص کا نہایت ہی اعلیٰ نمونہ دکھایا ہے اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں ایسے لوگوں کی تعداد سینکڑوں سے کم نہیں ہے مگر ہزاروں لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے ابھی تک اپنی جائیدادوں کو پیش نہیں کیا.میں سمجھتا ہوں اب وقت آ گیا ہے کہ جماعت اپنی ہر چیز خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہو جائے اور اس وسوسہ کو اپنے دل سے نکال دے کہ اگر میں نے اس میں حصہ لیا تو پتہ نہیں کیا ہو جائے گا.دنیا میں بہت سی قربانیوں میں حصہ لینے سے انسان اس لئے محروم رہتا ہے کہ وہ ڈرتا ہے اگر میں نے حصہ لیا تو معلوم نہیں کیا ہو جائے گا.لیکن اگر انسان اپنے دل میں یہ فیصلہ کر لے کہ کچھ بھی ہو میں اپنا مال سب کا سب قربان کر دوں گا تو پھر قربانی خواہ کسی شکل میں اُس کے سامنے آئے ، امتحان خواہ کوئی رنگ بدل کر آئے ، اُس کا

Page 91

خطابات شوری جلد سوم ۷۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء جواب ہر صورت اور ہر حالت میں ایک ہی ہوتا ہے کہ میرا مال حاضر ہے، اسے لے لیا جائے.وقف آمد پس ایک تو میں جماعت کو وقف جائیداد اور وقف آمد کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور تحریک کرتا ہوں کہ ہماری جماعت کے دوست اپنے دلوں میں یہ فیصلہ کر لیں کہ وہ سو فیصدی قربانی کرنے کے لئے تیار رہیں گے اور ہر قدم پر اپنے اخلاص کا پہلے سے زیادہ شاندار مظاہرہ کریں گے مگر میری ان باتوں سے تم یہ مت سمجھو کہ میں صرف نام کے طور پر تمہاری جائیدادوں کا وقف چاہتا ہوں.میں نہیں کہہ سکتا کہ شاید کل ہی وہ دن آجائے جب خدا کی آواز میرے ذریعہ سے یہ بلند ہو کہ آؤ اور اپنی ساری جائیدادیں دین کے لئے قربان کر دو.اگر خدا نے میرے دل میں یہی ڈالا کہ جماعت سے ساری جائیدادوں کا مطالبہ کیا جائے تو اُس وقت میں یقیناً ساری جائیدادوں کا مطالبہ کروں گا اور ہر وہ شخص جو اس مطالبہ پر اپنی جائیدادوں کو قربان نہیں کرے گا وہ منافق ہو گا.بالکل ممکن ہے کہ کل ہی اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدا کر دے جن میں مجھے یہ اعلان کرنا پڑے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک عرصہ تک اس بارہ میں کوئی بھی اعلان نہ ہو.یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کل میں تم سے صرف ایک فیصدی حصہ جائیداد کا مطالبہ کروں.اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ایک الہی تدبیر ہو.آج وہ میری زبان سے یہ کہلوا رہا ہو اور کل وہ یہ کہلوانا چاہتا ہو کہ اپنی جائیدادیں سب کی سب دین کے لئے قربان کر دو.یہ تمہارا اختیار ہے کہ تم اسے جو چاہو سمجھو.چاہو تو اسے خدا کی ایک تدبیر سمجھ لو اور چاہو تو یہ سمجھ لو کہ ابھی تم سے کوئی مطالبہ جائیداد کے بارہ میں نہیں ہوگا.بہر حال میں یہ جانتا ہوں کہ میں اس وقت صرف اپنے موجودہ خیالات کو ظاہر کر رہا ہوں.میں نہیں جانتا کہ کل کیا ہو گا.اگر کل خدا تعالیٰ کی طرف سے میری زبان پر یہ جاری ہوا کہ جماعت سے ساری جائیدادیں لے لو تو میں یقیناً ساری جائیدادوں کا مطالبہ کروں گا اور یقیناً جو شخص پیچھے رہے گا وہ اپنے ایمان کا ثبوت دینے والا نہیں ہوگا.پھر میں دوستوں کو اس بات کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ انہیں صرف جائیدادوں کے وقف میں ہی حصہ نہیں لینا چاہئے بلکہ اپنی آمد نیوں کو بھی اس غرض کے لئے وقف کرنا چاہئے.جو لوگ چاہیں وہ اپنی جائیداد اور اپنی آمد دونوں وقف کر سکتے ہیں اور جو لوگ چاہیں ا

Page 92

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء وہ ان میں سے کسی ایک کو بھی وقف کر سکتے ہیں لیکن وہ جن کے پاس جائیدادیں نہیں ہیں انہیں بہر حال اپنی آمدنیوں کو وقف کر کے اس تحریک میں شامل ہونا چاہئے.چندہ برائے کالج اس کے بعد میں کالج کے چندہ کی طرف جماعت کو توجہ دلاتا ہوں.سیکر ٹریانِ جماعت کو چاہئے کہ وہ لوگوں سے چندہ وصول کر کے قادیان میں بھجوائیں.ہم نے قرض لے کر اس کام کو شروع کر دیا ہے لیکن چونکہ قرض کو جلد ادا کرنا ضروری ہے اس لئے میں نے جماعت سے ڈیڑھ لاکھ روپیہ چندہ کا مطالبہ کیا ہے.میں سمجھتا ہوں موجودہ زمانہ میں ڈیڑھ لاکھ روپیہ مہیا کرنا ہماری جماعت کے لئے کوئی بڑی بات نہیں.اگر ڈیڑھ سو ایسے دوست کھڑے ہو جائیں جو ایک ایک ہزار روپیہ اس چندہ میں دے دیں تو یہ رقم فورا پوری ہو سکتی ہے بلکہ اور لوگوں کے چندوں کو ملا کر یہ رقم اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے.ہمارے گھر کا چندہ ہی اِس وقت تک ۱۵ ہزار سے اوپر ہو چکا ہے، اور ممکن ہے یہ سترہ اٹھارہ بلکہ بیس ہزار روپیہ تک پہنچ جائے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کو جو وسعت حاصل ہے اس کے لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ ہزار ہزار دو دو ہزار چندہ دینے والے کافی تعداد میں میسر آ سکتے ہیں.اگر صحیح طور پر کوشش کی جائے تو پانچ چھ سو ایسے افراد مہیا ہو سکتے ہیں.لیکن اگر اتنی بڑی تعداد مہیا نہ ہو تو بھی سو دو سو آسانی سے ایسے دوست مل سکتے ہیں جو اس بوجھ کو اٹھا لیں لیکن میں یہ نہیں چاہتا کہ اس چندہ میں وہی حصہ لے جو امیر ہو بلکہ میں چاہتا ہوں کہ ہر شخص اس چندہ میں حصہ لے.خواہ وہ ایک آنہ دے کر حصہ لے اور خواہ ایک پیسہ دے کر حصہ لے.بہر حال ہم میں سے کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ہونا چاہئے جس کا اس علم کی بنیاد رکھنے میں حصہ نہ ہو.اگر کوئی ایک پیسہ دینے کی توفیق رکھتا ہے تو وہ ایک پیسہ دے.اگر کوئی مٹھی بھر دانے دینے کی توفیق رکھتا ہے تو وہ مٹھی بھر دانے دے دے اور اگر کوئی روٹی دینا چاہتا ہے تو روٹی دے دے.ایک روٹی بھی ایک آنے کو پک سکتی ہے اور اس طرح وہ ثواب میں شریک ہو سکتا ہے.پس ہر گھر سے یہ چندہ وصول کرو اور ہر شخص کو اس میں شریک کرنے کی کوشش کرو.اگر کسی گھر سے تمہیں ایک پیسہ ملتا ہے تو تم ایک پیسہ لے لو.اگر روٹی ملتی ہے تو تم روٹی لے لو.اگر دھیلا یا دومری ملتا ہے تو دھیلا یا دمڑی لے لو.اگر اس طرح کوشش کی جائے

Page 93

خطابات شوری جلد سوم مشاورت ۱۹۴۴ء تو صرف وہی لوگ اس میں حصہ لینے سے محروم رہیں گے جن کے دلوں میں دینی کاموں کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی باقی تمام افراد اس میں شریک ہو جائیں گے.جس طرح صدقۃ الفطر میں ہر مرد اور ہر عورت اور ہر بچہ حصہ لیتا ہے اسی طرح جماعت کے افراد کو چاہئے کہ وہ اس تحریک کو اس قدر عام کریں اور اس قدر منظم طور پر افراد جماعت تک پہنچائیں کہ کوئی ایک شخص بھی اس ثواب میں حصہ لینے سے محروم نہ رہے.اگر کسی سے صرف ایک آنہ ملتا ہے تو ایک آنہ لے لو.اگر کوئی دھیلا دیتا ہے تو اُس دھیلے کو خوشی سے قبول کر لو.اس طرح ہر مرد اور ہر عورت سے چندہ وصول کر کے جلد سے جلد مرکز میں بھیجوانے کی کوشش کرو.اور جن لوگوں کے پاس روپیہ موجود نہ ہو اُن سے وعدے لے کر بھجوا دو اور پھر کوشش کرو کہ چار یا پانچ ماہ میں اُن کے وعدے پورے ہو جائیں.مگر اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ اگر کوئی شخص زیادہ دینا چاہے تو اُس سے زیادہ نہ لو.اگر کسی شخص کو خدا تعالیٰ نے زیادہ حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائی ہے تو اُس کا فرض ہے کہ وہ اپنی طاقت کے مطابق اس تحریک میں حصہ لے اور تھوڑے ثواب پر قناعت کرنے کی کوشش نہ کرے.کالج میں تعلیم کیلئے لڑکے بھجوائیں اس کے ساتھ ہی میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جہاں تک ہو سکے کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے باہر سے زیادہ سے زیادہ لڑکوں کو بھجوانے کی کوشش کریں.میرا اندازہ یہ ہے کہ ہماری جماعت کے کم سے کم پانچ چھ سولڑ کے پنجاب کے مختلف کالجوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں.اگر ان لڑکوں کا اکثر حصہ ہمارے کالج میں داخل ہو جائے تو اگلے سال یا اگلے سے اگلے سال ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس بات میں کامیاب ہو سکتے ہیں کہ بی اے کی کلاسز کھول دیں.حقیقت یہ ہے کہ بہت بڑا زہریلا اثر ہے جو بیرونی کالجوں کے ذریعہ نوجوانوں کے قلوب میں پیدا کیا جا رہا ہے.اگر ہماری جماعت کے دوست اس زہر کی اہمیت کا احساس کریں تو میں سمجھتا ہوں اُن کی کوششیں موجودہ حالت سے بہت بڑھ جائیں اور وہ پورے زور سے اس کالج میں اپنے لڑکوں کو بھجوانے کی کوشش کریں.ہزاروں قسم کے اعتراضات ہیں جو اسلام کے خلاف کئے جاتے ہیں.اور ان کی

Page 94

خطابات شوری جلد سوم ۷۸ مشاورت ۱۹۴۴ء بنیاد سائنس پر بتائی جاتی ہے حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ کسی سائنس پر اُن کی بنیاد نہیں ہوتی بلکہ تھیوریوں اور نظریوں پر ان اعتراضات کی بنیاد ہوتی ہے لیکن بتایا یہ جاتا ہے کہ مشاہدہ اسلامی تعلیم کو باطل ثابت کر رہا ہے.یہ ایک ایسا حربہ ہے جس کا نوجوانوں کے قلوب پر گہرا اثر ہوتا ہے اور وہ یہ خیال کرنے لگ جاتے ہیں کہ اسلام سائنس کے خلاف تعلیم دیتا ہے.یہ ایک زہر ہے جو اندر ہی اندر قلوب میں پھیلایا جا رہا ہے.ایک آگ ہے جو اسلام کے خلاف بھڑکائی جا رہی ہے اور ہر شخص جو اسلام کے دشمنوں کی صف میں کھڑا ہے وہ اپنے پنے علم کو لے کر اسلام پر حملہ آور ہو رہا ہے.کوئی اقتصادی اصول کے ماتحت اسلام پر حملہ کر رہا ہے، کوئی فلسفی اصول کے ماتحت اسلام پر حملہ کر رہا ہے، کوئی منطقی اصول کے ماتحت اسلام پر حملہ کر رہا ہے، کوئی علم النفس کے ماتحت اسلام پر حملہ کر رہا ہے، کوئی کیمسٹری کے اصول کے ماتحت اسلام پر حملہ کر رہا ہے حالانکہ کئی نقطہ ہائے نگاہ سے غور کرنا ضروری ہوتا ہے مگر وہ اُن مختلف نقطہ ہائے نگاہ کی بجائے صرف ایک دو نظریوں پر اکتفا کر لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ با قاعدہ تحقیق اور علمی معلومات کے نتیجہ کے طور پر انہوں نے ایک بات پیش کی ہے.گویا وہ ایک تھیوری کو حقیقت کی شکل دے دیتے ہیں اور سائنس کا نام لے کر قلوب کو مرعوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ ایک چیز کے متعلق دو یا تین یا چار نظریے بھی ہو سکتے ہیں.یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ایک ہی نظریہ ہو اور نظریہ بھی ایسا جو نا قابل انکار ہو.وہ لوگ چونکہ اسلام کے خلاف ہمیشہ اپنی کوششوں کو جاری رکھتے ہیں اس لئے کوئی نہ کوئی تھیوری ایسی پیدا کر لیتے ہیں جس سے بادی النظر میں اسلام پر زد واقع ہوتی ہے لیکن ہمارے پروفیسر کبھی اس بات کی جدو جہد نہیں کرتے کہ اُن امور پر اس نقطہ نگاہ سے غور کریں کہ وہ کہاں تک اسلامی تعلیم کے مطابق ہیں.اگر وہ کوشش کریں تو انہیں اسلام کی تائید میں اسی قسم کے بیسیوں نظریے مل سکتے ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر وہ حقیقی سائنس سے اسلامی اصول کی برتری اور اُن کی صداقت اور ان کی باریک در بار یک حکمت کو بھی پیش کر سکتے ہیں.کالج کے اجراء کا مقصد میرا مقصد اس کالج کے اجراء سے یہی ہے کہ ہمارے پروفیسر تازہ علوم پر اسلامی تعلیم کی روشنی میں غور کریں اور ایسی تحقیقات کریں جو سائنس کے علوم کے ماتحت اسلامی تعلیم کی برتری ثابت کرنے والی ہو.

Page 95

خطابات شوری جلد سوم ۷۹ مشاورت ۱۹۴۴ء یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ مشاہدات کو کس طرح بدلا جا سکتا ہے کیونکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ جن امور کو مشاہدہ قرار دیا جاتا ہے بالعموم وہ مشاہدہ نہیں ہوتا بلکہ نظر یہ ہوتا ہے.اگر سو واقعات وہ پیش کریں گے تو اُن میں سے نوے نظریے ہوں گے اور دس واقعات ہوں گئے اور جبکہ نوے فیصدی حملے محض نظریوں کی بناء پر ہوتے ہیں.تو جن دلائل سے وہ ایک نتیجہ پر پہنچتے ہیں اگر اُن کے خلاف بعض اور دلائل مہیا کر دیے جائیں تو لازماً دوسرا نتیجہ پیدا ہو جائے گا.یہی وجہ ہے کہ تھیوریاں ہمیشہ بدلتی چلی جاتی ہیں.آج سے دس سال پہلے اور نظریے تھے اور آج اور نظریے ہیں لیکن یہ نظریے خواہ کس قدر غلط اور بے بنیاد ہوں جب ان کو بار بار پیش کیا جاتا ہے تو نوجوان ڈر جاتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ غالبا یہ نظریہ نہیں بلکہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے.اگر ہمارے آدمی بھی اسلامی مسائل کی روشنی میں غور کرتے اور وہ اسلام کی تائید میں مختلف نظریات پیش کرتے تو لوگوں کو دو آوازیں اُٹھتی سُنائی دیتیں.اور وہ کہتے بعض پروفیسروں کا یہ نظریہ ہے جو اسلام کے خلاف ہے اور بعض پروفیسروں کا وہ نظریہ ہے جو اسلام کی تائید میں ہے، تب نو جوانوں کو ایک راستہ نظر آ جاتا اور وہ سمجھتے کہ ڈر کی کوئی وجہ نہیں.ہم اسلام کے خلاف لوگوں کی پیدا کردہ مشکلات کا حل سوچ سکتے ہیں.ہم اسلام کو سچا ثابت کر سکتے ہیں کیونکہ اسلام کے خلاف محض ایک نظریہ پیش کیا جا رہا ہے جسے ایک دوسرا نظریہ رڈ بھی کر رہا ہے.واقعہ یہ ہے کہ اسلام کے خلاف دنیا کے اعتقادات سو فیصدی اُن بنیادوں پر قائم ہیں جو کسی مشاہدہ کا نتیجہ نہیں بلکہ نظریوں کا نتیجہ ہیں.مگر چونکہ تمام کالجوں میں سے ایک ہی قسم کی آوازیں اُٹھتی ہیں.دیال سنگھ کالج کے پروفیسر بھی یہی کہتے ہیں، میڈیکل کالج کے پروفیسر بھی یہی کہتے ہیں، گورنمنٹ کالج کے پروفیسر بھی یہی کہتے ہیں اس لئے لوگ سمجھتے ہیں کہ جب سارے پروفیسر فلاں بات کی تائید کر رہے ہیں تو وہ محض نظر یہ نہیں ہو سکتا بلکہ ثابت شُدہ واقعہ ہو گا.یہ چیز تبھی دُور ہو سکتی ہے جب ہمارا اپنا کالج ہو اور ہمارے پروفیسر ان علوم پر اِس رنگ میں غور کریں کہ یہ کہاں تک اسلام کی تائید میں پیش کئے جا سکتے ہیں.اُنہوں نے ان علوم کا استعمال اسلام کے خلاف کیا لیکن ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم ان علوم کو اسلام کی تائید اور اس کی صداقت میں پیش کر یں.اور چونکہ ہمارے پاس سچائی ہے

Page 96

خطابات شوری جلد سوم مشاورت ۱۹۴۴ء ہمیں یہ کامل یقین ہے کہ جب ہمارے پروفیسر اس نقطہ نگاہ سے مغربی علوم پر غور کریں گے تو وہ اُن مشاہدات کو پیش کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جو اسلام کا حسن دنیا پر ظاہر کرنے والے ہوں گے اور دیگر نظریوں کو شکست دے کر اُن کو اس میدان سے ہمیشہ کے لئے نکال دیں گے.اس کے بعد میں صدر انجمن احمدیہ کے ریزروفنڈ کی طرف جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ جہاں تک ہو سکے اس کی فراہمی میں اُسے حصّہ لینا چاہئے.اس وقت ریز رو فنڈ میں ہمارے پاس اتنا روپیہ نہیں ہے کہ ہم اپنے تبلیغی کاموں کو وسیع کر سکیں.اگر چار پانچ سال کے اندر اندر ہمارے پاس کافی رقم جمع ہو جائے تو یہ چھپیس لاکھ ریز روفنڈ کا ابتدائی قدم سمجھا جائے گا.ناظر صاحب بیت المال نے یقین دلایا ہے کہ وہ اس بات کی پوری کوشش کریں گے کہ جلد سے جلد اس فنڈ میں معتد بہ رقم جمع ہو جائے.اگر وہ صحیح طور پر کوشش کریں تو میں سمجھتا ہوں اگلے سال تک ہی وہ چار پانچ لاکھ روپیہ ریز روفنڈ میں جمع کر سکتے ہیں اور پھر بقیہ سالوں میں اس کو بڑھا کر ۲۵ لاکھ روپیہ تک پہنچایا جا سکتا ہے.بہر حال ضروری ہے کہ اس فنڈ کی طرف جماعت کے تمام افراد توجہ کریں کیونکہ بغیر اس قسم کے فنڈ کے کالج کے اخراجات کا انتظام اور تبلیغی کاموں کی وسعت بہت مشکل ہے.وقف زندگی وقف جائیداد اور وقت آمد کے علاوہ ایک تحریک وقف زندگی بھی ہے.ہمیں کالج کے لئے ، مرکزی دفاتر کے لئے تبلیغی ضروریات کے لئے اور سلسلہ کے بعض دوسرے کاموں کے لئے بہت سے ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو ایم.اے یا بی.اے کے امتحان میں اچھے نمبروں پر کامیاب ہوئے ہوں.اس وقت تک آٹھ درخواستیں آچکی ہیں میں امید کرتا ہوں کہ جو لوگ سلسلہ کی خدمت کا شوق رکھتے ہیں وہ اپنے آپ کو جلد سے جلد وقف کریں گے تاکہ میرے مدنظر جو پروگرام ہے وہ آسانی سے پورا ہوتا چلا جائے.میں سمجھتا ہوں کہ وقف زندگی ایک ایسا مطالبہ ہے جس پر لبیک کہنے کی ہر مخلص مومن کو کوشش کرنی چاہئے.وہ لوگ جنہوں نے میری زبان سے اس تحریک کو سُنا اور پھر وہ اپنے گھروں میں خاموش بیٹھے رہے میں اُن سے کہتا ہوں کہ وہ اپنے نفس کو ٹولیں اور اس امر پر غور کریں کہ خدا تعالیٰ کے دین کے لئے جس قدر قربانی کی ضرورت ہے کیا اُس قدر

Page 97

خطابات شوری جلد سوم ΔΙ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء قربانی اُن کی طرف سے ہو رہی ہے؟ اگر وہ اپنے فرض کو ادا نہیں کر رہے تو انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ اگلے انعامات کا حصول تو الگ رہا انہوں نے ابھی تک اپنے گزشتہ گنا ہوں کا کفارہ بھی ادا نہیں کیا.اگر وہ اس بات کی تمنا رکھتے ہیں کہ خدا اُن سے راضی ہو، وہ انہیں اپنی جنت کا وارث بنائے اور اپنے اعلیٰ انعامات سے ان کو حصہ دے تو اُن کا اِس قربانی سے پیچھے قدم ہٹانا کوئی معنے ہی نہیں رکھتا.اُنہیں تو چاہئے کہ وہ اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے آگے بڑھیں اور کہیں کہ ہماری جان بھی سلسلہ کے لئے حاضر ہے اور ہمارے اموال بھی سلسلہ کے لئے حاضر ہیں.بغیر اس نمونہ کے وہ اپنے دعوی بیعت میں سچے نہیں سمجھے جا سکتے.پس دوستوں کو چاہئے کہ اس تحریک میں حصہ لیں اور جو لوگ حصہ لے چکے ہیں وہ دوسروں کو اس میں حصہ لینے پر آمادہ کریں.ہم جن لوگوں کو اپنے کاموں کے لئے مفید سمجھیں گے لے لیں گے اور جن کی ضرورت نہیں ہو گی اُن کو اجازت دے دیں گے کہ وہ اپنے طور پر جو کام کرنا چاہیں کر لیں ہماری طرف سے اس میں کوئی روک نہیں ہوگی.سوائے اس کے کہ سلسلہ کو کسی اور وقت اُن کی ضرورت پیش آ جائے اُس وقت بے شک اُن کا فرض ہو گا کہ وہ اپنے کاموں کو چھوڑ کر مرکز کے مطالبہ پر حاضر ہو جائیں لیکن جب تک سلسلہ اُن کو نہ بلائے وہ مختار ہوں گے کہ جو کام چاہیں کریں.اس سلسلہ میں وہ طلباء بھی درخواستیں بھجوا سکتے ہیں جنہوں نے انٹرنس پاس کیا ہو.مولوی فاضل نوجوانوں کی درخواستیں خدا تعالیٰ کے فضل سے کافی تعداد میں آچکی ہیں.اسی طرح اور لوگوں نے بھی درخواستیں بھجوائی ہیں.میرے نزدیک وقف زندگی کے اعلان کے بعد اب تک ستر اشتی درخواستیں آچکی ہیں.ان میں سے جس قدر آدمیوں کی ہمیں ضرورت ہو گی ہم اُن کو منتخب کر لیں گے اور جس جس مقصد کے لئے اُن کو لیا گیا ہو گا اُس مقصد کے مطابق اُن کو تعلیم دلائی جائے گی.اور جیسا کہ میں اپنے ایک گزشتہ خطبہ میں بیان کر چکا ہوں ہمیں اس وقت شدید ترین ضرورت ایسے لوگوں کی بھی ہے جو زمیندارہ کام سے واقفیت رکھتے ہوں.ایسے لوگوں کی بھی ضرورت ہے جن کی معمولی تعلیم ہو اور وہ منشیوں وغیرہ کا کام کرسکیں.اور ایسے لوگوں کی بھی ضرورت ہے جو اعلیٰ درجہ کی زمیندارہ تعلیم حاصل کئے ہوئے ہوں تا کہ اُن کو مینجر وغیرہ بنایا جا سکے.اگر پندرہ ہیں ہمیں اعلیٰ درجہ کے مخلص نوجوان مل جائیں جو زمیندرہ کام

Page 98

خطابات شوری جلد سوم ۸۲ مشاورت ۱۹۴۴ء سے خوب واقفیت رکھتے ہوں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے تحریک جدید کی آمد کئی گنا سالا نہ بڑھ سکتی ہے اور اس آمد سے ۲۵ لاکھ روپیہ کا ریز رو فنڈ بھی آسانی کے ساتھ قائم کیا جاسکتا ہے.میں نے اندازہ لگایا ہے کہ اگر ہم پانچ ہزار مبلغ رکھیں تو ہمیں دو کروڑ روپیہ سالانہ کی ضرورت ہوگی اور اگر ہم دو سو مبلغ رکھیں تو لٹریچر وغیرہ کے اخراجات شامل کر کے دس لاکھ روپیہ سالانہ کی ضرورت ہو گی.مگر اتنا روپیہ ابھی ہمارے پاس نہیں لیکن بہر حال اگر آج نہیں تو آج سے چند سال بعد یہ بوجھ جماعت کو برداشت کرنا پڑے گا کیونکہ اس کے بغیر ساری دنیا میں کبھی تبلیغ اسلام نہیں ہو سکتی.اور جبکہ ہم نے ہی اس بوجھ کو اٹھانا ہے خواہ آج اٹھا ئیں یا آج سے چند سال بعد تو اس کی ایک ہی صورت ہو سکتی ہے کہ ہم اپنی زمینوں کی آمد کو بڑھانے کی کوشش کریں مگر سندھ میں یہ حالت ہے کہ اگر دوسرا زمیندار ایک روپیہ کماتا ہے تو تحریک جدید کے ماتحت کام کرنے والا دو آنے کماتا ہے.اس کی وجہ محض یہ ہے کہ سندھ میں ہمیں کام کرنے والے ابھی تک ایسے لوگ نہیں ملے جو اپنے فرض کو پوری محنت کے ساتھ سر انجام دینے والے ہوں.دوسرے زمیندار وقت پر ہل چلاتے ہیں، وقت پر پانی دیتے ہیں اور پھر فصل کی خوب نگرانی کرتے ہیں اور وقت پر کٹائی کرتے ہیں مگر سندھ میں ہماری جماعت کے بعض آدمیوں نے ایسا گندہ نمونہ دکھایا ہے جو نہایت ہی قابلِ افسوس ہے.وہ آپس کے لڑائی جھگڑوں میں ہی مصروف رہے اور سلسلہ کا ہزاروں روپیہ کا نقصان ہو گیا.پس ہمیں اس وقت شدید ترین ضرورت ایسے لوگوں کی ہے جو سلسلہ کے لئے اپنی جانیں وقف کریں اور اس ایمان اور یقین کے ساتھ سلسلہ کی زمینوں پر کام کریں کہ وہ شخص جو سلسلہ کی خاطر ہل چلاتا ہے، وہ شخص جو سلسلہ کی خاطر بیج ڈالتا ہے، وہ شخص جو سلسلہ کی وہ س خاطر کھیت کو پانی دیتا ہے، وہ شخص جو سلسلہ کی خاطر فصل کی نگرانی کرتا ہے، وہ شخص جو سلسلہ کی خاطر فصل کی بر وقت کٹائی کرتا ہے اور وہ شخص جو سلسلہ کی خاطر زیادہ سے زیادہ فصل پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے ہرگز اپنے درجہ کے لحاظ سے اُس مبلغ سے کم نہیں ہے جو امریکہ یا انگلستان میں بیٹھا تبلیغ اسلام کا فرض سرانجام دے رہا ہے کیونکہ اس کی قربانی سے سلسلہ کی آمد میں اضافہ ہوگا.اور سلسلہ کی آمد میں اضافہ ہونے سے تبلیغ کو وسیع کیا جا سکے گا اور اس طرح جس قدر مبلغ رکھیں جائیں گے اُن سب کے ثواب میں وہ حصہ دار اور شریک ہوگا.

Page 99

۸۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء خطابات شوری جلد سوم یہ وہ یقین اور ایمان ہے جس کے ماتحت کام کرنے والے کامیاب ہو سکتے ہیں اور اسی قسم کا ایمان رکھنے والے مخلص نوجوان ہمیں درکار ہیں.ضرورت اس امر کی ہے کہ زمیندارہ کام سے دلچپسی رکھنے والے نوجوان آگے بڑھیں اور اپنی زندگیاں سلسلہ کے مفاد کے لئے وقف کردیں.امداد گندم ان تحریکات کے علاوہ ایک اور تحریک میں ابھی کر دینا چاہتا ہوں جس کا تعلق جماعت کے غرباء کے ساتھ ہے.میں گزشتہ دوسال سے غرباء کے لئے غلہ جمع کرنے کی تحریک کرتا چلا آرہا ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ اس سال بھی ویسے ہی ضرورت ہے جیسا کہ گزشتہ سالوں میں تھی.اگر جماعتیں اپنے اوپر یہ فرض قرار دے لیں کہ ہر دو مربع زمین والا ایک من غلہ غرباء کے لئے دیا کرے گا تو میں سمجھتا ہوں یہ ایک ایسا ٹیکس ہے جس سے دو ہزار من غلہ بڑی آسانی سے جمع ہو سکتا ہے.ہماری جماعت کی بہت بڑی تعداد زمینداروں پر پرمشتمل ہے اور میرا اندازہ یہ ہے کہ پنجاب اور سندھ میں ہماری جماعت کے پاس دو ہزار مربع زمین ہو گی.اس دو ہزار مربع زمین کا اگر چوتھا حصہ بھی گندم کے لئے مخصوص کر لیں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ پنجاب اور سندھ میں ہماری جماعت کی طرف سے پانچ سو مربع زمین گندم کاشت کی جاتی ہے.پانچ سو مربع کے معنے ساڑھے بارہ ہزار ایکڑ کے ہیں.فی ایکڑ اگر بارہ من بھی ہم گندم کی پیدا وار سمجھ لیں تو ایک لاکھ پچاس ہزار من گندم ہو گئی.یہ اتنی بڑی مقدار ہے کہ اگر جماعت کے دوست چھپتر من پر بھی ایک من گندم دے دیں تب بھی دو ہزار من غلہ قادیان کے غرباء کے لئے بڑی سہولت سے جمع ہو سکتا ہے.میں تسلیم کرتا ہوں کہ سب لوگ اس تنظیم میں شامل نہیں ہو سکتے لیکن پھر بھی اگر دیانتداری اور محنت سے کام کیا جائے اور غرباء کی اعانت کا خیال رکھا جائے تو منٹگمری ، شیخوپورہ، سرگودھا ، لائل پور اور ملتان یہ پانچ اضلاع ہی آٹھ نو سو من غلہ بغیر کسی قسم کا بوجھ محسوس کرنے کے دے سکتے ہیں.اسی طرح سندھ کے احمدی اگر کوشش کریں تو وہ بھی اس تحریک میں نمایاں حصہ لے سکتے ہیں.سندھ میں ایک مشکل ہے جو پنجاب میں نہیں کہ وہاں بڑے بڑے زمیندارمل کر دوسروں سے کام کراتے ہیں اور اُن کی فصل کا ایک حصہ ہاریوں کومل جاتا ہے لیکن پھر بھی اگر وہ زیادہ حصہ نہ لے سکیں تو چار سو من غلہ آسانی سے دے

Page 100

خطابات شوری جلد سوم ۸۴ مشاورت ۱۹۴۴ء سکتے ہیں.یہ بارہ سو من غلہ ہو گیا.پنجاب کے باقی زمیندار اور شہروں کے رہنے والے احمدی اگر اسی طرح کوشش کریں تو چھ سات سو من غلہ وہ بھی دے سکتے ہیں.اس طرح دو ہزار من غلہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑی آسانی سے بغیر کوئی خاص بوجھ برداشت کرنے کے اکٹھا ہوسکتا ہے بلکہ تین سومن کے قریب غلہ تو قادیان سے بھی جمع ہو جاتا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ اس دفعہ بھی جماعتیں اس تحریک میں نمایاں طور پر حصہ لینے کی کوشش کریں گی اور تعہد سے غلہ فراہم کر کے مرکز میں ارسال کریں گی تا کہ غرباء کی تکالیف کا انسداد ہو اور انہیں بر وقت امداد دی جاسکے.میں امید کرتا ہوں کہ شہری اور دیہاتی جماعتیں بہت جلد اس طرف توجہ کریں گی.اللہ تعالیٰ انہیں اپنے کھانے کے ساتھ اپنے غریب بھائی کا خیال رکھنے کی توفیق بھی دے.ایک اور نصیحت بھی میں ابھی کر دینا چاہتا ہوں.شاید بعد میں اس کا موقع ملے یا نہ ملے کہ اس دفعہ فصلوں کی حالت سخت ناقص ہے اس لئے احمدی زمینداروں کو ساؤنی (خریف) کی طرف خاص طور پر توجہ کرنی چاہئے اور جوار اور مکئی اور باجرہ کی زیادہ سے زیادہ پیدا وار کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.اس دفعہ بارش ایسے موقع پر ہوئی ہے جب کہ فصل بالکل تیار کھڑی تھی اس لئے اس کا بہت سا حصہ ضائع ہو گیا ہے اور ملک میں قحط کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں.گورنمنٹ کی طرف سے بھی اس قسم کی تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُسے خطرہ ہے کہ پنجاب میں قحط پڑ جائے گا اور ڈر ہے کہ یہاں بھی ویسے ہی حالات پیدا نہ ہو جائیں جیسے بنگال میں پیدا ہوئے.ان حالات کے مقابلہ کے لئے ہماری جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ وہ ساؤنی کی فصل کی طرف خاص طور پر توجہ کریں تا کہ وہ اُن لوگوں کے لئے اپنی گندم کو فارغ کرسکیں جو مکئی یا باجرہ وغیرہ کھانے کے عادی نہیں ہوتے.یہ قربانی ہوگی جو ان کی طرف سے اپنے ہمسائیوں کے لئے کبھی جائے گی.زمیندار چونکہ خود جوار ، مکئی اور باجرہ کھانے کے عادی ہوتے ہیں اس لئے انہیں چاہئے کہ وہ ساؤنی کی فصل کو زیادہ مضبوط بنائیں تا کہ وہ گندم شہروں میں رہنے والے دوستوں کے لئے مہیا کر سکیں اور قحط کی تکلیف سے ہمارے صوبہ کے لوگ محفوظ رہیں.بنگال میں قحط کی تکلیف سے دس لاکھ آدمی مرے ہیں اور یہ اندازہ بھی گورنمنٹ کا ہے

Page 101

خطابات شوری جلد سوم ۸۵ مشاورت ۱۹۴۴ء ورنہ پبلک کا اندازہ اس سے بہت زیادہ ہے.ایسے ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ بعض لوگوں کو جو کئی کئی دن کے بھوکے تھے جب پینے کے لئے دودھ یا کھانے کے لئے چاول دیئے گئے تو دودھ کا ایک گھونٹ یا چاول کا ایک لقمہ اُن کے معدہ میں جاتے ہی ایسی زہریلی کیفیت پیدا ہو گئی کہ وہ اُسی وقت مر گئے.میرا اپنا ایک بھتیجا کلکتہ میں ہے.اُنہوں نے ایک لڑکی کو جو کئی دن سے بھوکی تھی دودھ دیا تو وہ اُس کے پیتے ہی مرگئی.ہندوؤں نے شور مچا دیا کہ اُسے زہر دی گئی ہے چنانچہ پولیس بھی آگئی مگر چونکہ پولیس کے علم میں اس قسم کے بیسیوں واقعات تھے اس لئے اُس نے ہندوؤں کو ڈانٹا کہ اس شخص نے تو احسان کیا تھا اور تم اُلٹا اس کو ملزم قرار دیتے ہو.واقعہ یہ ہے کہ بنگال میں اس قسم کے سینکڑوں واقعات ہوئے ہیں کہ ایک شخص کو جو کئی دن سے بھوکا تھا روٹی دی گئی تو لقمہ کھاتے ہی وہ مر گیا اور روٹی اس کے معدہ میں جا کر اس طرح چھی جس طرح کسی کو خنجر مار دیا گیا ہو کیونکہ کئی کئی دن بھوکا رہنے سے معدہ اتنا کمزور ہو جاتا ہے اور اس قسم کی زہر اُس کے اندر پیدا ہو جاتی ہے کہ دودھ یا روٹی کے ساتھ مل کر فوراً انسان کو ہلاک کر دیتی ہے.یہ واقعات ہیں جو بنگال میں رونما ہو رہے ہیں مگر ہمارے پنجاب میں روٹی الگ ضائع کی جاتی ہے اور بچے الگ آئے گھول گھول کر اس کے کھلونے وغیرہ بناتے رہتے ہیں.یہ کتنا ظلم ہے کہ ہمارے ہمسائے تو بھوکے مر رہے ہیں اور لوگ اپنے بچوں کو کھلونوں کے لئے آٹا دے دیتے ہیں اور اس طرح گندم کو ضائع کرتے ہیں.پس دوستوں کو چاہئے کہ اگر خدانخواستہ قحط زیادہ ہو تو وہ کوشش کریں کہ اُن کی ساؤنی کی فصل اچھی ہو جائے.مکئی تو شہری لوگ کھا سکتے ہیں مگر باجرہ نہیں کھا سکتے مگر زمیندار ان چیزوں کو آسانی سے کھا لیتے ہیں اس لئے وہ گندم دوسروں کو دے کر خود مکئی یا جوار یا باجرہ پر گزارہ کر سکتے ہیں اور یہ بات ان کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے.ایک اور بات جس کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ پیرا کبر علی صاحب مجھ سے اجازت لے کر مسٹر جناح سے ملے تھے اور اُن سے دریافت کیا تھا کہ کیا وہ کُھلے طور پر یہ اعلان کرنے کے لئے تیار ہیں کہ کسی شخص کو محض اس لئے مسلم لیگ سے محروم نہیں کیا جا سکتا کہ وہ احمدی ہے.چونکہ پہلی کمیٹی مسلم لیگ سے جماعت احمدیہ کو خارج قرار دے چکی تھی

Page 102

خطابات شوری جلد سوم ۸۶ مشاورت ۱۹۴۴ء اس لئے ضروری تھا کہ اس امر کی وضاحت کرائی جاتی.مسٹر جناح نے اُن سے کہا کہ صاف اعلان کرنا تو مشکل ہے کیونکہ اس طرح شورش پیدا ہو جائے گی مگر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ موجودہ کانسٹی ٹیوشن کے لحاظ سے مسلم لیگ میں شمولیت کے حق سے کسی شخص کو اس بناء پر محروم نہیں کیا جا سکتا کہ وہ احمدی ہے.پس چونکہ مسٹر جناح نے کہہ دیا ہے کہ احمدی بھی مسلم لیگ میں شریک ہو سکتے ہیں، پہلی کمیٹی جو اس کے خلاف فیصلہ کر چکی تھی اب اُس فیصلہ کو منسوخ کر دیا گیا ہے.اس لئے میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ پیرا کبر علی صاحب کے ساتھ مسٹر جناح کی جو گفتگو ہوئی ہے وہ کسی انگریزی اخبار میں شائع کرا دی جائے اور پھر اُس پر نشان لگا کر وہ پر چہ مسٹر جناح کو اس نوٹ کے ساتھ بھجوا دیا جائے کہ ہم آپ کو یہ اخبار بھیج رہے ہیں جس میں آپ کی وہ گفتگو درج ہے جو آپ نے مسلم لیگ میں احمدیوں کی شمولیت کے متعلق پیرا کبر علی صاحب سے کی ، اگر یہ گفتگو غلط شائع ہوئی ہے تو آپ اس کی تردید کر دیں اور اگر آپ نے تردید نہ کی تو ہم سمجھیں گے کہ جو کچھ اخبار میں آپ کے متعلق شائع کیا گیا ہے وہ درست ہے.اس کے بعد اگر مسلم لیگ نے کوئی خلاف ورزی کی تو اُس کی ذمہ واری آپ پر ہو گی.ہم اُس وقت اس نوٹ کو پیش کر دیں گے کہ ہمارے ساتھ فلاں عہد کیا گیا تھا مگر مسلم لیگ نے اس کی خلاف ورزی کی.بہر حال مسٹر جناح نے اگر اس گفتگو کو تسلیم کر لیا تو ہمیں انفرادی طور پر مسلم لیگ میں شمولیت کے متعلق احمدیوں کو اجازت دینے میں کوئی عذر نہیں ہو گا.میں سمجھتا ہوں کہ مسلمان اس وقت ایسے نازک دور میں سے گزر رہے ہیں کہ اگر آپس میں مل کر کام کرنے کی کوئی بھی صورت پیدا ہو تو ہمیں اُس سے دریغ نہیں کرنا چاہئے.اگر وہ صرف اتنی ہی معذرت کرتے ہیں کہ پچھلی کمیٹی سے میرا کوئی واسطہ نہ تھا اب نئی کمیٹی بنی ہے جس نے پہلے قانون کو منسوخ کرتے ہوئے تسلیم کر لیا ہے کہ احمدی بھی مسلم لیگ میں شامل ہو سکتے ہیں تو ہمیں اُن کی اتنی معذرت کو ہی قبول کر لینا چاہئے.اسلامی تعلیم اور اعلیٰ تربیت کے حصول کا کامیاب طریق ایک اور بات جس کی طرف میں دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جیسا کہ دوستوں کو اخبار کے ذریعہ معلوم

Page 103

خطابات شوری جلد سوم ۸۷ مشاورت ۱۹۴۴ء ہوتا رہتا ہے اب قریباً روزانہ میں باہر مجلس میں مغرب کی نماز کے بعد بیٹھتا ہوں اور دوست مجھ سے مختلف سوالات کرتے ہیں جن کے میں جوابات دیتا ہوں یا میرے ذہن میں کوئی بات آجائے تو میں خود ہی اُس کو بیان کر دیتا ہوں.گویا یہ ایک درس ہے جو جماعت کی علمی اور روحانی ترقی کے لئے روزانہ جاری رہتا ہے.اس درس سے فائدہ اُٹھانے کے لئے بیرونی جماعتوں کو بھی چاہئے کہ وہ ایک ایک شخص کو مختلف اوقات میں قادیان بھیجتے رہیں تا کہ وہ ہم سے مختلف باتیں سیکھ کر دوسروں تک پہنچائیں اور اس طرح فیوض کا ایک لمبا سلسلہ جاری رہے.میرے نزدیک مناسب صورت یہ ہے کہ بیرونی جماعتیں مختلف دوستوں کو مقرر کر دیں.جن میں سے کوئی یہاں جنوری میں آجائے ، کوئی فروری میں آجائے ، کوئی مارچ میں آ جائے ، کوئی اپریل میں آجائے ، اس طرح یکے بعد دیگرے جماعتیں مختلف آدمیوں کو بھجواتی رہیں تاکہ ساری جماعت کی تربیت ہوتی رہے اور ساری جماعت ان باتوں سے واقف رہے.بغیر اسلامی تعلیم سے کامل واقفیت پیدا کرنے کے کبھی کوئی نیک نتیجہ پیدا نہیں ہوسکتا.یہ جو جماعتوں میں شور رہتا ہے کہ ہمارے پاس مبلغ بھجوائے جائیں اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ جماعتیں اپنی علمی ترقی کے لئے کوشش نہیں کرتیں.ورنہ عام طور پر وہ مبلغین سے بے نیاز ہو جائیں اور خود ہی تمام تبلیغی ضروریات کو سر انجام دینے لگ جائیں.اعلیٰ تربیت کے حصول کا طریق قرآن کریم نے یہی بیان کیا ہے کہ لوگ اپنے روحانی مرکز میں آئیں اور فیوض و برکات حاصل کریں.یہی وجہ ہے کہ مدینہ میں ارد گرد سے لوگ ہمیشہ آتے رہتے تھے اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت میں رہ کر آپ سے خود بھی فائدہ اُٹھاتے اور دوسروں تک بھی وہ باتیں پہنچا دیتے.پس ہر بڑی جماعت کو چاہئے کہ وہ مختلف افراد کو قادیان میں بھجوانے کا انتظام کرے.کوئی مہینہ کے لئے آ جائے ، کسی کو پندرہ دن کی چھٹی ملے تو وہ پندرہ دن کے لئے آ جائے.اس طرح یکے بعد دیگرے مختلف دوست مختلف اوقات میں آتے رہیں اور جماعت کے دلوں میں جو عام طور پر سوالات پیدا ہوتے ہیں اُن کو لکھ کر لے آئیں.خواہ وہ جماعت کے نظام اور اس کی ترقی کے متعلق ہوں یا مذہب اور روحانیت کے متعلق ہوں اور پھر وہ سوالات مجلس میں میرے سامنے پیش کر کے اُن کے جوابات سنیں.اُن جوابات کو نوٹ کریں اور پھر واپس جا کر لوگوں کو بتا ئیں

Page 104

خطابات شوری جلد سوم ۸۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء کہ میں نے اُن کے سوالات کے کیا جوابات دیئے ہیں.حدیثوں سے پتہ لگتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں بعض لوگ آپ کے پاس آتے اور کہتے یا رسول اللہ ! ہم آپ سے سوال کرنا چاہتے ہیں مگر وہ سوال ہم اپنی طرف سے نہیں کریں گے بلکہ اپنی قوم کی طرف سے کریں گے.چنانچہ وہ سوال کرتے اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم اُس کا جواب بیان فرماتے.اسی طرح ہو سکتا ہے کہ مختلف جماعتوں کو اپنے اپنے حالات کے مطابق مختلف سوالات پیدا ہوتے ہوں جن کے جوابات معلوم کرنے کی اُن کے دلوں میں خواہش رہتی ہو.ایسی صورت میں ضروری ہے کہ جب جماعتوں کی طرف سے نمائندے آئیں تو وہ ان سوالات کو لکھ کر لے آئیں.خواہ وہ جماعت کے نظام سے تعلق رکھتے ہوں یا روحانیت کی ترقی کے ساتھ تعلق رکھتے ہوں یا علم الاخلاق کے ساتھ تعلق رکھتے ہوں یا غیر مذاہب کے ساتھ تعلق رکھتے ہوں یا فلسفہ اور اقتصاد کے ساتھ تعلق رکھتے ہوں اور پھر روزانہ ایک ایک دو دو کر کے وہ سوالات میرے سامنے پیش کرتے جائیں اور اُن کے جوابات نوٹ کرتے جائیں تا کہ واپس جا کر اپنی اپنی جماعتوں کو اُن جوابات سے آگاہ کرسکیں.یا درکھو! انسان پورا فائدہ تبھی اٹھا سکتا ہے جب وہ علمی اور روحانی اور مذہبی باتوں کو نہ صرف خود سُنے بلکہ دوسروں تک اُن کو پہنچانے کی کوشش کرے.صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ خوبی اپنے اندر ایسے رنگ میں پیدا کی تھی کہ آج تک اس کی مثال کسی اور قوم میں نظر نہیں آتی.اُن میں سے ہر شخص اپنے آپ کو روحانی خزانہ کی تقسیم کا ذمہ وار سمجھتا تھا.اور وہ اپنے فرائض میں سے اسے ایک اہم ترین فرض قرار دیتا تھا کہ جو کچھ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے اُسے دوسروں کے پاس بھی بیان کروں.پس اس غرض کے لئے جو دوست قادیان میں آئیں انہیں چاہئے کہ وہ باتوں کو نوٹ کیا کریں اور جب اپنی اپنی جماعتوں میں واپس جائیں تو لوگوں کو بتائیں کہ ہم نے یہ سوال کیا تھا یا فلاں شخص نے خلیفہ وقت سے یہ سوال کیا تھا اور اُنہوں نے اس کا یہ جواب دیا.اس طرح ہر شہر اور ہر گاؤں میں ان باتوں کو دُہرایا جائے اور اس قدر تو اتر اور تسلسل اور تکرار کے ساتھ بیان کیا جائے کہ ہماری جماعت کا کوئی ایک فرد بھی ایسا نہ رہے جس کے کانوں تک یہ تمام باتیں نہ پہنچ جائیں.

Page 105

خطابات شوری جلد سوم ۸۹ مشاورت ۱۹۴۴ء یہ طریق ہے جس سے کام لے کر جماعت اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکتی ہے مگر مجھے افسوس ہے کہ ہمارے ملک کے لوگوں میں عام طور پر یہ نقص پایا جاتا ہے کہ وہ زبان کے چسکے کے عادی ہوتے ہیں.وہ باتیں سنتے ہیں سن کر جھومتے ہیں، کبھی کبھی سُبْحَانَ اللہ کے الفاظ بھی اُن کے منہ سے سنائی دیتے ہیں مگر جب مجلس سے اُٹھتے ہیں تو اُن کے دل اور دماغ پر کوئی ایک بات بھی نقش نہیں ہوتی اور اگر اُن سے کوئی بات پوچھی جائے تو کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں تو یاد نہیں رہا کہ کیا کہا گیا تھا.وفات مسیح پر اُن کے سامنے بیسیوں دلائل دیتے چلے جاؤ.یوں معلوم ہوگا کہ ایک ایک لفظ اُن کے دلوں میں گڑتا چلا جاتا ہے مگر جب اُن سے کہا جائے کہ دو دلیلیں ہی سنا دو تو کھسیانے ہو کر کہہ دیں گے کہ ہمیں تو یاد نہیں ہیں.حالانکہ کسی ایک دلیل یا کسی ایک بات کو یاد رکھنا زیادہ بہتر ہوتا ہے بہ نسبت اس بات کے کہ انسان ہزار باتیں سنے.کسی پر سُبحَانَ اللہ کہے، کسی پر سر مارنے لگ جائے اور جب اُٹھے تو ویسا ہی کو را ہو جیسے آتے وقت کو را تھا.مگر یہ نقص اُسی وقت دور ہوسکتا ہے جب لوگ یہاں بار بار آئیں، تمام باتوں کو نوٹ کریں اور پھر جماعتوں میں واپس جا کر درس کے طور پر اُن تمام لوگوں کے سامنے بیان کریں.جس طرح قرآن کا درس ہوتا ہے یا حدیث کا درس ہوتا ہے اسی طرح ضروری ہے کہ مجالس میں جو باتیں ہوتی ہیں اُن کا بھی جماعتوں میں باقاعدہ درس دیا جائے.حقیقت یہ ہے کہ قرآن اور حدیث کا جو علم اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمایا ہے، وہی موجودہ زمانہ کے مفاسد کا صحیح ترین علاج ہے، اگر ان باتوں کو چھوڑ کر کوئی شخص اسلام کی خدمت کرنا چاہے تو وہ کبھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتا.بے شک قرآن وہی ہے جو پہلے تھا، حدیث وہی ہے جو پہلے تھی، مگر اس زمانہ کے لحاظ سے جو کچھ علوم خدا تعالیٰ نے مجھے عطا فرمائے ہیں صرف وہی علوم اس زمانہ میں کام آسکتے ہیں ، وہی اعتراضات کا رڈ کر سکتے ہیں اور انہی کے ذریعہ اسلام کا حُسن پھر دنیا پر اپنی پوری شان کے ساتھ ظاہر ہوسکتا ہے.پس ضروری ہے کہ جماعتیں ان باتوں کا درس دیں اور پھر اس طرح بار بار ہر شخص کے سامنے دُہراتے رہیں جس طرح صحابہ رضی اللہ عنہم ہر شخص کے سامنے حدیثیں بیان کرتے تھے اور سنایا کرتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فلاں موقع پر

Page 106

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء یوں کہا ، فلاں موقع پر یوں کہا، یہاں تک کہ علاقوں کے علاقے ان باتوں سے واقف ہو جائیں اور انہیں مسائل سیکھنے کا اشتیاق ہر وقت بیدار اور ہوشیار رکھے.اگر گجرات کے لوگوں سے کوئی شخص پوچھے کہ زکوۃ کا فلاں مسئلہ کس طرح ہے؟ تو اُن کو معلوم ہو اور اگر معلوم نہ ہو تو وہ بتا سکیں کہ فلاں شخص جو جہلم کا رہنے والا ہے اُس نے ایک دفعہ ہمیں یہ مسئلہ خلیفہ وقت سے سن کر بتایا تھا تم اُس کے پاس جاؤ اور اُس سے یہ مسئلہ دریافت کرو اور وہ اس دُھن میں جہلم جائے اور اس سے مسئلہ دریافت کرے.یا جہلم میں کوئی شخص نماز کے متعلق کوئی مسئلہ دریافت کرے تو جہلم کے لوگوں کو معلوم ہو کہ اس کا کیا جواب ہے اور اگر ان کو خود جواب معلوم نہ ہو تو وہ کہہ سکیں کہ دہلی کا فلاں شخص ہمارے پاس آیا تھا اور اُس نے خلیفہ وقت سے سن کر ہمیں یہ مسئلہ بتایا تھا، تم اُس کے پاس جاؤ اور دریافت کرو.اِس پر وہ دہلی جائے اور اُس مسئلہ کے متعلق اطمینان حاصل کرے.یہ طریق ہے جس پر عمل کر کے جماعت کے قلوب میں دینی مسائل کی اہمیت کا صحیح احساس پیدا ہوسکتا ہے اور یہی وہ طریق ہے جس کے بعد عمل کی قوت میں بھی حرکت پیدا ہوتی ہے.جب انسان صرف تقریر میں اور لیکچر سنتا رہے تو احساس عمل اس کے اندر زیادہ زور سے پیدا نہیں ہوتا لیکن اگر مسئلہ دریافت کرنے کے لئے کسی کو دہلی تک جانا پڑتا ہے یا جہلم یا گجرات کا سفر اختیار کرنا پڑتا ہے تو وہ اس مسئلے کو ساری عمر بھی بھول نہیں سکتا.بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ ہم باتیں تو بہت سنتے ہیں مگر عمل کا جوش ہمارے اندر پیدا نہیں ہوتا.اس کی وجہ در حقیقت یہی ہے کہ اُن کے دلوں میں علم کی قدر نہیں ہوتی.اگر کوئی شخص نماز کے مسائل دریافت کرنے کے لئے دہلی جاتا ہے.وہاں سے اُسے پتہ لگتا ہے کہ بنارس میں کوئی شخص ان مسائل سے واقفیت رکھتا ہے اور وہ دہلی سے بنارس چلا جاتا ہے.یا اگر پشاور میں اُسے کسی عالم کا پتہ لگتا ہے تو وہ پشاور جانے کے لئے تیار ہو جاتا ہے تو اس کے بعد وہ کبھی بھی اُن مسائل کو نہیں بھول سکتا اور کبھی بھی عملی کو تاہی کا ارتکاب نہیں کر سکتا.در حقیقت یہ احساس کہ میں نے فلاں بات فلاں سے سُنی اور اس نے فلاں سے منی اور اُس نے مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سُنی یہ عمل کی قوت کو بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے اور مسائل کی اہمیت بھی واضح کر دیتا ہے.مثلاً نور الحق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی

Page 107

خطابات شوری جلد سوم ۹۱ مشاورت ۱۹۴۴ء ایک کتاب ہے.اگر کوئی شخص کہے کہ میں نے فلاں سے وہ کتاب پڑھی.اُس نے فلاں سے کتاب پڑھی تھی اور اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ کتاب پڑھی تھی تو اس کا اثر بالکل اور ہو گا لیکن اگر کوئی شخص اپنے طور پر کتاب پڑھ لے تو اس کا اثر اور ہوگا.پس یہ رنگ ہے جو ہماری جماعت کو اختیار کرنا چاہئے.جب یہ رنگ اختیار کرو گے تب صحیح علم پیدا ہوگا اور صحیح علم کے بعد صحیح معرفت پیدا ہوگی اور صحیح معرفت کے بعد صحیح عمل کی قوت پیدا ہوگی.سائنس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا قیام میں ہی بنا دینا چاہتا ہوں کہ میں نے جہاں کالج کی تجویز کی ہے وہاں ایک سائنس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بھی میں نے قائم کی ہے جو سائنس کے مسائل کے متعلق اپنی تحقیق کا سلسلہ جاری کرے گی.چوہدری عبدالاحد صاحب ایم ایس سی جو لائل پور میں تھے اُنہوں نے اپنی زندگی وقف کی ہے اور میں نے اس کام کی نگرانی اُن کے سپرد کی ہے.چار اور نو جوان بھی سائنس کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں.ایک نے تو بی ایس سی کا امتحان دے دیا ہے اور اب وہ ایم ایس سی میں داخل ہو گا.باقی تین نے ابھی ایف ایس سی پاس کیا ہے اور وہ بی ایس سی کے پہلے سال میں داخل ہیں.یہ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ جہاں ایک طرف علمی ترقی میں محمد ہوگی وہاں اس کی یہ بھی کوشش ہو گی کہ اسلام پر جن علوم کے ذریعہ اعتراضات کئے جاتے ہیں اُن کو سائنس کی تحقیقات کی روشنی میں اسلام کے لئے مُمد ثابت کیا جائے اور بتایا جائے کہ ان علوم کو اسلام کے خلاف پیش کرنا غلطی ہے یہ علوم تو خود اسلام کی صداقت ظاہر کرتے ہیں.اس کے ساتھ ہی اس سائنس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ذریعہ ایسی ایجادات کی بھی کوشش کی جائے گی جو تجارتی طور پر سلسلہ کے اموال کی مضبوطی کا باعث ہوں اور عملی طور پر جماعت کا رُعب اور وقار قائم کرنے والی ہوں.اگر یہ انسٹی ٹیوٹ خدا تعالیٰ کے فضل سے اپنے کام میں کامیاب ہو گئی تو مدراس، بمبئی، دہلی اور الہ آباد وغیرہ کے سائنس دان اور اعلی علمی پایہ رکھنے والے لوگ جو اب تک قادیان نہیں آئے شوق سے قادیان آئیں گے اور سمجھیں گے کہ یہ جماعت ایسا کام کر رہی ہے جو دنیا کی ترقی کے لئے بہت مفید ہے.اسی طرح جب صنعت و حرفت کے میدان میں بعض ایجادات پیش کی گئیں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے مالی لحاظ سے بھی بہت کچھ ترقی کی امید ہے.انہوں نے ایک تجویز بتائی ہے جو میرے

Page 108

خطابات شوری جلد سوم ۹۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء ذہن میں ہے اگر ہم اُس میں کامیاب ہو گئے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ہندوستان کے علمی طبقہ پر ہماری جماعت کا بہت گہرا اور نمایاں اثر ہوگا.اور وہ اس بات پر مجبور ہوگا کہ ہماری جماعت کے حالات پر غور کرے اور بار بار قادیان آتا رہے.یہ انسٹی ٹیوٹ تمام ہندوستان میں اس لحاظ سے بے مثال ہو گی کہ اب تک مسلمان اس پہلو سے بالکل غافل رہے ہیں اور کسی ایک جگہ بھی کوئی ایسا ادارہ قائم نہیں جو مسلمانوں کا ہو اور جس میں سائنس کی تحقیق اور اس کے تجربات کئے جاتے ہوں ، نئی ایجادات ملک کے سامنے پیش کی جاتی ہوں یا اسلام پر سائنس کی طرف سے جو اعتراضات کئے جاتے ہیں اُن کا سائنس کی روشنی میں ہی رڈ کیا جا تا ہو.بنگال میں ڈاکٹر بوس کی ایک انسٹیٹیوٹ ہے.اسی طرح الہ آباد یا بنارس یونیورسٹی کی طرف سے بھی کام ہو رہا ہے.بنگلور میں میسور گورنمنٹ کی طرف سے ایک بڑی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ہے، دہلی میں مرکزی گورنمنٹ کی انسٹی ٹیوٹ ہے مگر یہ سب ادارے یا گورنمنٹ کی طرف سے جاری ہیں یا یونیورسٹیوں کی طرف سے ہندوؤں کی طرف سے ہیں.مسلمانوں کی طرف سے کوئی ادارہ قائم نہیں تھا جس کی وجہ سے ہمیشہ ہی میرے دل میں خلش رہتی تھی آخر اللہ تعالیٰ نے ایک احمدی کو جو سائنس کی اعلیٰ تعلیم رکھتے ہیں اس بات کی توفیق عطا فرمائی کہ وہ اپنی زندگی خدمت دین کے لئے وقف کریں.چنانچہ اب اس کام کا آغاز کر دیا گیا ہے.بعض اور نوجوان بھی تیار کئے جا رہے ہیں جو دو تین سال تک انشاء اللہ تیار ہو جائیں گے.پہلے سال اس پر ۳۰،۲۵ ہزار روپیہ خرچ آئے گا جو تحریک جدید سے ہی لے لیا گیا ہے مگر آئندہ چونکہ اس کام کو وسیع کیا جائے گا اس لئے دس بارہ ایکٹر زمین بھی لے لی جائے گی جس میں کارخانے قائم کئے جائیں گے.ممکن ہے اُس وقت تک ہمیں آمد بھی شروع ہو جائے اور چندہ کی ضرورت نہ رہے.یا اگر آمد نہ ہو تو چندہ مانگنا پڑے لیکن اس سال چندہ کی ضرورت نہیں ہے.عمارت اور مشینری وغیرہ کے لئے تحریک جدید سے ہی روپیہ لے لیا گیا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ سائنس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ علمی اور سیاسی طبقہ پر بہت گہرا اثر پیدا کرے گی.اگر اس انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے بعض نئی ایجادات ہوئیں تو علمی طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ قادیان آنا جانا شروع کر دیں گے.گورنمنٹ کے بڑے بڑے عہدہ دار بھی آنے جانے لگ جائیں گے اور مختلف کالجوں کے پروفیسر وغیرہ بھی

Page 109

خطابات شوری جلد سوم ۹۳ مشاورت ۱۹۴۴ء آتے رہیں گے.اس طرح وہ ڈر جاتا رہے گا جو کہ آجکل بالعموم لوگوں کے دلوں میں قادیان کے متعلق پایا جاتا ہے اور جس کی بناء پر وہ یہاں آنے سے گھبراتے ہیں.نمایاں کام کرنے والوں کے قائمقام میں اس وقت یہ بات بھی کہنی چاہتا ہوں کہ جماعت کے بعض لوگوں کے دلوں میں گھبراہٹ پیدا کرنے کی ضرورت و اہمیت پائی جاتی ہے کہ میر محمد اسحاق صاحب فوت ہو گئے ، فلاں فوت ہو گیا ، اب کیا ہوگا ، ایسا نہ ہو کہ جماعت کے کاموں کو کوئی نقصان پہنچ جائے.یہ خیال جو بعض لوگوں کے دلوں میں پایا جاتا ہے ایسا ہے جسے جلد سے جلد اپنے دلوں سے دور کر دینا چاہئے اور سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اسی میں تھی کہ یہ وجود ہم سے جدا ہو جائے.میں ابھی لاہور میں تھا کہ موجودہ انکشاف کے چند دن بعد ہی میں نے رویا میں دیکھا کہ میں قادیان میں اپنے گھر میں ہوں اور نیند سے اُٹھا ہوں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نماز فجر کا وقت ہے اور نماز پڑھنے میں کچھ دیر ہو گئی ہے.میں جلدی سے اٹھتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ حوائج ضروریہ سے فارغ ہونے سے پہلے ہی نماز پڑھ لوں کیونکہ دیر ہو رہی ہے مگر جب دروازہ کھولا تو معلوم ہوا کہ ابھی اندھیرا ہے.اُس وقت میں نے کہا کہ پہلے حوائج سے فارغ ہولوں پھر اطمینان سے نماز پڑھوں گا.اسی حالت میں جب میں نے بیت الخلاء کی طرف جانے والا دروزاہ کھولا تو میں نے دیکھا کہ ساتھ کے کمرے میں ایک کٹہرہ کے سامنے میر محمد اسحاق صاحب نہایت صاف ستھرا لباس پہنے کھڑے ہیں.مجھے دیکھتے ہی وہ کہنے لگے حضور ! دلیری کس کو کہتے ہیں؟ میں نے اُن سے کہا دلیری اس بات کا نام ہے کہ خدا کے سوا انسان کسی سے نہ ڈرے.مگر معا میں نے کہا یہ تعریف مکمل نہیں اس لئے کہ حدیثوں میں آتا ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دفعہ گھر میں تشریف رکھتے تھے کہ آپ نے ایک شخص کی بُرائیاں بیان کرنی شروع کر دیں کہ وہ ایسا ہے، ایسا ہے.ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ وہی شخص آگیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلدی سے اُٹھے آپ نے اُسے احترام سے بٹھایا اور محبت سے اُس کے ساتھ باتیں کیں.جب وہ چلا گیا تو حضرت عائشہ فرماتی ہیں میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے

Page 110

خطابات شوری جلد سوم ۹۴ مشاورت ۱۹۴۴ء IA عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا آپ بھی ایسا کر لیتے ہیں کہ ایک طرف تو بعض لوگوں کے عیوب بیان کریں اور دوسری طرف جب وہ سامنے آجائیں تو اُن کی خاطر تواضع کریں؟ آپ نے فرمایا اے عائشہ ! بعض لوگوں کے شر سے ڈر کر میں ایسا کیا کرتا ہوں کے رویا میں میں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان الفاظ کا یہ مطلب نہیں تھا کہ میں ڈرتا ہوں کوئی شر مجھے نہ پہنچ جائے بلکہ مطلب یہ تھا کہ اگر میں ایسے لوگوں سے خاطر مدارات کے ساتھ پیش نہ آؤں تو میں ڈرتا ہوں کہ وہ اور زیادہ گمراہی میں نہ بڑھ جائیں اور اُن کی روحانیت کو مزید نقصان نہ پہنچ جائے.اسی طرح مجھے ایک اور مثال یاد آئی اور میں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا اے عائشہ ! کعبہ جب بنایا گیا ہے اُس وقت تیری قوم کے پاس سامان کم ہو گیا تھا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کعبہ کی چار دیواری جتنی وسیع ہونی چاہئے تھی اتنی نہیں بلکہ اُس سے کچھ کم ہے.میں چاہتا تھا کہ کعبہ کو اس کی اصل بنیادوں پر لے آؤں مگر میں ڈرتا ہوں کہ تیری قوم حدیث العہد پالا سلام ہے یعنی نئی نئی اسلام لائی ہے.اگر میں نے ایسا کیا تو اُس کے ایمان میں تزلزل واقع ہو جائے گا یہاں بھی آپ نے ڈرنے کا لفظ استعمال فرمایا مگر اس جگہ بھی اس کے یہی معنے ہیں کہ میں ڈرتا ہوں تیری قوم کے ایمان کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے.پس میں نے اُن سے کہا جو تعریف میں نے پہلے کی ہے وہ نامکمل ہے.اب میں اس کی مکمل تعریف یہ کرتا ہوں کہ دلیری یہ ہے که انسان خدا کے سوا کسی پر توکل نہ کرے.اسی طرح میر محمد اسحاق صاحب کی وفات سے پہلے جب میں قادیان آ کر دوبارہ لاہور گیا ہوا تھا تو میں نے ایک رؤیا دیکھا جو اُسی دن میں نے لاہور کے بعض دوستوں کو سُنا دیا.وہ بدھ کا دن تھا دوسرے دن جمعرات کو ہم واپس آگئے اور اُسی شام کو میر محمد اسحاق صاحب بیمار ہو کر دوسرے دن وفات پاگئے.اُس دن میں کھانا کھا کر لیٹا ہی تھا کہ نیم غنودگی کی سی کیفیت مجھ پر طاری ہو گئی.اور میں نے دیکھا کہ حضرت (اماں جان ) کہہ رہی ہیں:.,, تالے کیوں نہ کھول لئے“

Page 111

خطابات شوری جلد سوم اور میں اُن کو جواب دیتے ہوئے کہتا ہوں :- ۹۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء کس کی طاقت ہے کہ خدا کی اجازت کے بغیر تالے کھول سکے حضرت اماں جان ) کا یہ فرمانا کہ ” تالے کیوں نہ کھول لئے.بتاتا تھا کہ کوئی ایسا واقعہ ہوگا جس کا اُن کے ساتھ خاص طور پر تعلق ہوگا جس میں ہمیں ناکامی ہوگی.میں نے بھی یہی کہا کہ کس کی طاقت ہے کہ خدا کی اجازت کے بغیر تالے کھول سکے.“ 66 چنانچہ میرے لا ہور سے واپس آتے ہی میر صاحب بیمار ہو گئے اور دعاؤں اور علاج کے با وجود کوئی فائدہ نہ ہوا اور اُن کا انتقال ہو گیا.اس رؤیا کے ذریعہ بھی اللہ تعالیٰ نے یہی بتایا تھا کہ خدا کی مشیت اب ظاہر ہو کر رہے گی اور جب اُس کی طرف سے کوئی فیصلہ ہو جائے تو نہ دُنیوی تدابیر کام آتی ہیں اور نہ دینی تدابیر کوئی فائدہ پہنچاتی ہیں.بہر حال خدا تعالیٰ کی مشیت پوری ہوئی اور میر صاحب وفات پاگئے.اُن کے انتقال سے جماعت کو اس لحاظ سے شدید صدمہ پہنچا ہے کہ وہ سلسلہ کے لئے ایک نہایت مفید وجود تھے مگر یاد رکھو مومن بہادر ہوتا ہے اور بہادر انسان کا یہ کام نہیں ہوتا کہ جب کوئی ابتلاء آئے تو وہ رونے لگ جائے یا اُس پر افسوس کرنے بیٹھ جائے.بہادر آدمی کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ فوراً اپنی غلطی کو درست کرنا شروع کر دیتا ہے اور نقصان کو پورا کرنے میں مشغول ہو جاتا ہے.وہ شخص جو رونے لگ جاتا ہے مگر اپنی غلطی کی اصلاح نہیں کرتا وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا.کامیاب ہمیشہ وہی ہوتا ہے جو ابتلاء کے بعد اپنے آپ کو ایسے رنگ میں تیار کرنا شروع کر دیتا ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ مضبوط اور با ہمت ہو جاتا ہے.ہمارے لئے جو ابتلاء آئے ہیں یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک بہت بڑا تازیانہ ہیں کہ تم کیوں ایسی حالت میں بیٹھے ہوئے ہو کہ جب کوئی شخص چلا جاتا ہے تو تم کہتے ہو اب کیا ہو گا.تم کیوں اپنے آپ کو اس حالت میں تبدیل نہیں کر لیتے کہ جب کوئی شخص مشیتِ ایزدی کے ماتحت فوت ہو جائے تو تمہیں ذرا بھی یہ فکر محسوس نہ ہو کہ اب سلسلہ کا کام کس طرح چلے گا بلکہ تم میں سینکڑوں لوگ اُس جیسا کام کرنے والے موجود ہوں.ایک غریب شخص جس کے پاس ایک ہی کوٹ ہوا گر اُس کا کوٹ ضائع ہو جائے تو اُسے سخت صدمہ ہوتا ہے لیکن ایک امیر شخص جس کے پاس پچاس کوٹ ہوں اُس کا اگر ایک کوٹ

Page 112

خطابات شوری جلد سوم ۹۶ مشاورت ۱۹۴۴ء.ضائع بھی ہو جائے تو اُسے خاص صدمہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ جانتا ہے میرے پاس ۴۹ کوٹ اور موجود ہیں.اسی طرح ہماری جماعت اگر روحانی طور پر نہایت مال دار بن جائے تو اُسے کسی شخص کی موت پر کوئی گھبراہٹ لاحق نہیں ہو سکتی.تم اپنے آپ کو روحانی لحاظ سے مال دار بنانے کی کوشش کرو.تم میں سینکڑوں فقیہہ ہونے چاہئیں، تم میں سینکڑوں محدّث ہونے چاہئیں، تم میں سینکڑوں مفسر ہونے چاہئیں ، تم میں سینکڑوں علم کلام کے ماہر ہونے چاہئیں ، تم میں سینکڑوں علم اخلاق کے ماہر ہونے چاہئیں، تم میں سینکڑوں علم تصوف کے ماہر ہونے چاہئیں، تم میں سینکڑوں منطق اور فلسفہ اور فقہ اور لغت کے ماہر ہونے چاہئیں.تم میں سینکڑوں دنیا کے ہر علم کے ماہر ہونے چاہئیں تا کہ جب اُن سینکڑوں میں سے کوئی شخص فوت ہو جائے تو تمہارے پاس ہر علم اور ہر فن کے ۴۹۹ عالم موجود ہوں اور تمہاری توجہ اس طرف پھرنے ہی نہ پائے کہ اب کیا ہو گا.جو چیز ہر جگہ اور ہر زمانہ میں مل سکتی ہو اس کے کسی حصہ کے ضائع ہونے پر انسان کو صدمہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ایسی سینکڑوں چیزیں میرے پاس موجود ہیں.اسی طرح اگر ہم میں سے ہر شخص علوم وفنون کا ماہر ہو تو کسی کو خیال بھی نہیں آ سکتا کہ فلاں عالم تو مر گیا اب کیا ہوگا.یہ خیال اسی وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنے وجودوں کو نادر بنے دیتے ہیں اور اُن جیسے سینکڑوں نہیں ہزاروں وجود اور پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتے.اگر اُن کے نادر ہونے کا احساس جاتا رہے جس کی سوائے اس کے اور کوئی صورت نہیں ہو سکتی کہ اُن کے قائم مقام ہزاروں کی تعداد میں ہمارے اندر موجود ہوں تو کبھی بھی جماعت کو یہ خیال پیدا نہ ہو کہ فلاں شخص تو فوت ہو گیا اب کیا ہوگا.دیکھو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاسْتَبِقُوا الْخَيْراتِ " تم نیکی کے میدان میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو.اگر ہم قرآن کریم کے اس حکم کے مطابق یہ اشتیاق رکھتے کہ ہم دوسروں سے آگے بڑھ کر رہیں ، اگر ہم میں سے ہر شخص اشتیاق کی روح کو اپنے اندر قائم رکھتا تو آج ہم میں سے ہر شخص بڑے سے بڑا محدث ہوتا، بڑے سے بڑا مفتر قرآن ہوتا، بڑے سے بڑا عالم دین ہوتا اور کسی کے دل میں یہ احساس تک پیدا نہ ہوتا کہ اب جماعت کا کیا بنے گا.جب کثرت سے علماء قوم میں موجود ہوں، جب کثرت سے فقہاء قوم میں موجود ہوں، جب کثرت سے ادباء قوم میں موجود ہوں،.

Page 113

خطابات شوری جلد سوم ۹۷ مشاورت ۱۹۴۴ء جب کثرت سے قرآن اور حدیث کے ماہر قوم میں موجود ہوں تو کسی کی موت قوم کو متزلزل نہیں کر سکتی بلکہ کسی ایک شخص کی موت کی حیثیت ایسی ہی رہ جاتی ہے جیسے کسی کی جھولی میں بہت سے دانے موجود ہوں تو اُن میں سے کوئی ایک دانہ زمین پر گر جائے.جس طرح چنے چباتے وقت یا مکئی کے دانے کھاتے وقت کوئی ایک کھیل زمین پر گر جاتی ہے تو انسان پر واہ بھی نہیں کرتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ایسے سینکڑوں دانے میری جھولی میں موجود ہیں.اسی طرح جب قوم میں کثرت سے ایسے لوگ پیدا ہو جائیں جو علوم وفنون کے ماہر ا ہوں تو اُن میں سے کسی کی موت جماعت کے لئے پریشانی کا موجب نہیں ہوسکتی.زندہ قوم کی علامت در حقیقت زندہ قوم کی علامت ہی یہی ہے کہ اُس کے اندر اس قدر علماء کی کثرت ہوتی ہے کہ کسی ایک کے فوت ہونے پر اُسے ذرا بھی احساس نہیں ہوتا کہ آئندہ کام کس طرح چلے گا.بے شک شخصی لحاظ سے ایک شخص کی وفات دکھ اور رنج کا موجب ہوسکتی ہے اور ہمیشہ ہوتی ہے مگر بہر حال یہ ایک شخصی سوال ہوگا ، قومی سوال نہیں ہوگا.ایک شخص کا باپ مر جاتا ہے، ایک شخص کی ماں مرجاتی ہے تو اُس کا دل زخمی ہوتا ہے، اُس میں سے خون کے قطرے ٹپک رہے ہوتے ہیں مگر وہ یہ نہیں کہتا کہ اب قوم کا کیا حال ہوگا.وہ جانتا ہے کہ دنیا بس رہی ہے اور بستی چلی جائے گی.آج ایک مرتا ہے تو کل اور پیدا ہو جاتا ہے.کل دوسرا مرتا ہے تو پرسوں تیسرا پیدا ہو جاتا ہے.بہر حال کسی قوم کی زندگی کی یہ علامت ہے کہ اُس میں علم کی کثرت ہو، اُس میں علماء کی کثرت ہو، اُس میں ایسے نفوس کی کثرت ہو جو قوم کے سرکردہ افراد کے مرنے پر اُسی وقت اُن کی جگہ کو پُر کرنے کے لئے تیار ہوں.مسلمانوں کے تنزّل اور اُن کے ادبار مسلمانوں کے تنزّل اور ادبار کا بڑا سبب کا سب سے بڑا باعث یہی ہوا کہ جب ابوبکر فوت ہو گیا تو دوسرا ابوبکر پیدا نہ ہوا ، جب عمر فوت ہو گیا تو دوسرا عمر پیدا نہ ہوا ، ئب عثمان فوت ہو گیا تو دوسرا عثمان پیدا نہ ہوا ، جب علی فوت ہو گیا تو دوسرا علی پیدا نہ ہوا.اب ہم نے یہ تغیر پیدا کرنا ہے کہ جب ایک ابوبکر مرے تو اُسی وقت دوسرا اور پھر تیسرا ابوبکر پیدا ہو جائے.جب ایک عمر مرے تو اُسی وقت دوسرا اور تیسر ا عمر پیدا ہو جائے ، اور :

Page 114

خطابات شوری جلد سوم ۹۸ مشاورت ۱۹۴۴ء ایک عثمان مرے تو اُس کی جگہ اور عثمان کام کرنے والے موجود ہوں اور جب ایک علی میرے تو اُس کی جگہ اور علی کام کرنے کے لئے موجود ہوں.جو قوم اس مقام پر آ جائے وہ کبھی مر نہیں سکتی ، وہ کبھی مٹ نہیں سکتی، وہ کبھی فنا اور بر باد نہیں ہوسکتی.وہ زندہ رہتی ہے، وہ ابدی حیات پاتی ہے اور وہی قوم ہے جو خدا تعالیٰ کی نگاہ میں خاتم الاقوام کہلاتی ہے.جیسے محمد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب نبیوں سے افضل ہیں اسی طرح وہ قوم تمام اقوام سے افضل کہلائے گی اور دنیا کی قو میں مجبور ہوں گی کہ اُس کے طریق پر چلیں.جب تک یہ حالت کسی قوم کی نہ ہو اُس وقت تک وہ خطرہ سے باہر نہیں ہوسکتی، وہ اپنے تنزل کے خوف سے بے پرواہ نہیں ہوسکتی کیونکہ خوف سے وہی بے پرواہ ہوسکتا ہے جو ایمان کے کمال تک پہنچ چکا ہو.جیسے قرآن کریم نے کامل مومنوں کے متعلق بیان فرمایا کہ لاخوف عليهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُون لے میری طرف سے اب یہ کوشش کی جارہی ہے کہ جماعت میں ایسے لوگ پیدا ہوں جو اہم علوم کے ماہر ہوں.تا کہ ہم اپنی اس حقیر کوشش کے ذریعہ ایک ایسا بیج قائم کر دیں جو آئندہ ترقی کر کے جماعت کے لئے با برکت اور مفید ثابت ہو سکے.دیکھو صحابہ کرام میں علم کس قدر وسیع طور پر پھیلا ہوا تھا کہ ایک قوم کے چند افراد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا کہ ہمارے ساتھ کچھ مبلغ بھجوائے جائیں جو ہماری قوم کو اسلام کی تعلیم سے آگاہ کریں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کی درخواست کو منظور فرماتے ہوئے ستر (۷۰) قاری اُن کے ساتھ روانہ کر دیئے.اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صحابہ میں علم حاصل کرنے کا کس قدر اشتیاق تھا.آج تعلیم کا زمانہ ہے اور ہماری جماعت لاکھوں تک پہنچ چکی ہے مگر آج بھی اگر ہم کسی ایک مقام میں رہنے والوں کے لئے ستر قاری مہیا کرنا چاہیں تو مہیا نہیں کر سکتے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ستر قاری اُسی وقت بھجوا دیئے.اُس قوم کے بدمعاش افراد نے دھوکا بازی سے کام لے کر تمام کو شہید کر دیا جس کا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو طبعی طور پر سخت صدمہ ہوا مگر کوئی ایک حدیث بھی ایسی نہیں ملتی جس میں یہ ذکر آتا ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہو اب کیا ہو گا.اسی طرح کوئی ایسی

Page 115

خطابات شوری جلد سو ۹۹ مشاورت ۱۹۴۴ء حدیث نہیں ملتی جس میں صحابہ کا یہ قول درج ہو کہ اب کیا ہو گا.پھر ایسی ایسی جنگوں کا بھی تاریخ اسلام سے ثبوت ملتا ہے جن میں سے ایک ایک جنگ میں بعض دفعہ سو سو کے قریب صحابی کا نے یا اندھے ہو گئے.عیسائی اس طرح تاک کر نشانہ لگاتے کہ تیرسید ھے اُن کی آنکھوں میں آکر لگتے اور وہ اندھے یا کانے ہو جاتے.یہ قربانیاں ہیں جو صحابہ نے کیں مگر ان قربانیوں کے باوجود کسی ایک کی زبان سے بھی یہ فقرہ نہیں نکلا کہ اب کیا ہوگا.فلاں صحابی تو مر گیا ، فلاں صحابی تو نا کارہ ہو گیا.یہ روح ہے جو ہمیں اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے کیونکہ یہی روح ہے جو قوموں کو کامیاب بنایا کرتی ہے.ہمارے لئے یہ خطرہ کی بات نہیں ہے کہ حضرت خلیفہ اول بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہو گئے یا مولوی عبد الکریم صاحب بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہو گئے.یا مولوی برہان الدین صاحب بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہو گئے.یا حافظ روشن علی صاحب بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہو گئے.یا قاضی امیر حسین صاحب بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہو گئے.یا میر محمد اسحاق صاحب بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہو گئے بلکہ ہمارے لئے خطرہ کی بات یہ ہے کہ جماعت کسی وقت بحیثیت جماعت مرجائے اور ایک عالم کی جگہ دوسرا عالم ہمیں اپنی جماعت میں دکھائی نہ دے.پس اپنے آپ کو اس مقام پر لاؤ اور جلد جلد ترقی کی طرف اپنے قدموں کو بڑھاؤ.میں نہیں جانتا کہ جب خدا نے میرے متعلق یہ کہا ہے کہ میں جلد جلد بڑھوں گا تو اس کا یہ مطلب ہے کہ میری موت جلد آنے والی ہے یا یہ مطلب ہے کہ میں جلد جلد ترقی کی منازل طے کرتا چلا جاؤں گا.تم ان دو میں سے کوئی بھی پہلو لے لو.بہر حال اس امر کو اچھی طرح یا درکھو کہ اب جماعت میں سے وہی شخص اپنے ایمان کو سلامت رکھ سکے گا اور وہی با ایمان مرسکے گا جو خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت اور اس کے سلسلہ کی ترقی کے لئے جلد جلد قدم اُٹھائے گا.اگر تمہارا جرنیل دشمن کی فوج پر حملہ کر دے اور تم آرام سے اپنے گھروں میں بیٹھے رہو تو کون تمہیں وفادار کہہ سکتا ہے؟ کون تمہاری اطاعت کا قائل ہوسکتا ہے؟ کون تمہیں عزت کی نگاہ سے دیکھ سکتا ہے؟ جب خدا نے مجھے کہا کہ میں جلد جلد قدم بڑھاؤں گا اور جب خدا نے مجھے یہ نظارہ دکھایا کہ میں بھاگتا چلا جا رہا ہوں اور زمین میرے پاؤں کے نیچے سمٹتی چلی جارہی ہے تو درحقیقت خدا نے تم کو کہا کہ تم جلد جلد بڑھو اور

Page 116

خطابات شوری جلد سوم مشاورت ۱۹۴۴ء جلد زمینوں کو طے کرتے چلو.جب ایک شخص کو افسر مقرر کیا جاتا ہے تو اُس افسر کو حکم دینے کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ ماتحتوں کو اُس کے واسطہ سے حکم دیا جائے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ آدم کو سجدہ کرو.اور ڈانٹتا شیطان کو ہے کہ تم نے کیوں سجدہ نہ کیا.شیطان میں نفسانیت سہی ، ہزاروں گناہ سہی ، مگر اُس میں اتنی عقل ضرور تھی کہ اس نے یہ نہیں کہا کہ اے خدا! تو نے مجھے کب حکم دیا تھا، تو نے تو فرشتوں کو حکم دیا تھا مجھے تو حکم دیا ہی نہیں تھا.وہ جانتا تھا کہ فرشتوں کو جب حکم دیا گیا تو اس کے معنے یہی تھے کہ میں بھی اس کی اتباع کروں.پس وہ نادان جو کہتا ہے کہ یہ تو مصلح موعود کے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ جلد جلد بڑھے گا، میرے متعلق تو نہیں کہا گیا کہ میں بھی جلد جلد بڑھوں وہ شیطان سے بھی اپنے آپ کو زیادہ احمق قرار دیتا ہے.شیطان نے تو تسلیم کر لیا تھا کہ جب فرشتوں کو حکم دیا گیا تو درحقیقت اُن کے واسطہ سے مجھے بھی حکم دیا گیا مگر یہ تسلیم نہیں کرتا کہ مصلح موعود کو جو حکم دیا گیا ہے اُس کے ماتحت وہ خود بھی آتا ہے.پس ہر احمدی کو سمجھ لینا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ سے الہام پا کر میرے متعلق جو یہ خبر دی ہے کہ میں جلد جلد بڑھوں گا ، اس کے معنے یہ نہ تھے کہ دشمنوں کی صفوں کے بالمقابل میں اکیلا کھڑا ہوں گا بلکہ یہ تھے کہ کام کی اہمیت کے پیش نظر میرا فرض ہوگا کہ میں تیزی اور سُرعت کے ساتھ اپنے قدم کو بڑھاتا چلا جاؤں اور جب میں دشمن کے مقابلہ میں جلد جلد قدم بڑھاؤں گا تو خدا تعالیٰ اُن لوگوں کو بھی جو مجھ پر ایمان لائیں گے اس بات کی توفیق عطا فرما دے گا کہ وہ جلد جلد اپنے قدم بڑھائیں.اسی طرح جب خدا نے مجھے خبر دی کہ زمین میرے پاؤں کے نیچے سمٹتی چلی جا رہی ہے اور میں تیزی کے ساتھ بھاگتا جا رہا ہوں تو اس کے معنے بھی درحقیقت یہی تھے کہ جب میں تیزی کے ساتھ بھاگوں گا اور زمین میرے قدموں کے نیچے سمٹنی شروع ہوگی تو اللہ تعالیٰ ان سچے مخلصوں کو بھی جنہیں میرے ساتھ وابستگی حاصل ہوگی اس امر کی توفیق عطا فرما دے گا کہ وہ زمین کو جلد جلد طے کریں اور آناً فاناً دُور دراز فاصلوں کو طے کرتے ہوئے دنیا کے کناروں تک پہنچ جائیں.پس اپنے اندر ایک غیر معمولی تغیر پیدا کرو اور جلد سے جلد عظیم الشان قربانیوں کے لئے

Page 117

خطابات شوری جلد سوم 1+1 مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء تیار ہو جاؤ، اب تم زیادہ انتظار مت کرو.پیشگوئیوں سے پتہ لگتا ہے کہ وہ وقت اب آ گیا ہے جب زیادہ انتظار نہیں کیا جائے گا.جب تمہیں دیر تک منتظر رہنا نہیں پڑے گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں اور قیامت اس طرح اکٹھے ہیں جس طرح انگشت شہادت کے ساتھ دوسری اُنگلی ملی ہوئی ہوتی ہیں.پس بہت بڑے تغیرات ہیں جو دنیا میں رونما ہونے والے ہیں اور خدا تعالیٰ کے نزدیک یہ تغیرات بڑی بھاری اہمیت رکھتے ہیں.اللہ بہتر جانتا ہے کہ اب کیا ہو جائےگا مگر اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ کسی عظیم الشان تغیر یا بہت بڑے عظیم الشان تغیرات کی بنیاد میں جلد سے جلد رکھ دی جائیں گی اور وہ شخص جو ان مہمات میں میرا ساتھ نہیں دے گا ، وہ شخص جو جلد جلد قدم کو نہیں بڑھائے گا ، اُس کے دل پر زنگ لگ جائے گا اور وہ اِس خطرہ میں ہو گا کہ اپنے پہلے ایمان کو بھی کھو بیٹھے.اب میں دعا کر دیتا ہوں کیونکہ ساڑھے پانچ سے زیادہ وقت ہو چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فرائض کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں اپنے فضل سے اس رنگ میں کام کرنے کی ہمت بخشے کہ ہم اُس کے دین کی باتیں لوگوں تک پہنچائیں.اُن پر خود عمل کریں اور دوسروں سے بھی عمل کرائیں.اسی طرح اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اُن وعدوں کا اہل بنائے جو اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ اسلام کے دوبارہ احیاء کے متعلق کئے اور ہمارے ذریعہ سے وہ اسلام کا نور دنیا کے چاروں کونوں تک پھیلائے اور ہمیں ہر قسم کی کوتاہیوں اور ہر قسم کے گناہوں اور ہر قسم کی اخلاقی کمزوریوں سے محفوظ رکھے تا کہ قیامت کے دن جب آدم سے لے کر آخر وقت تک کے تمام بنی نوع انسان جمع ہوں گے اور ہمارے باپ دادا بھی اُن میں موجود ہوں گے ہم ذلیل و رسوا نہ ہوں بلکہ وہ ہمیں عزت کے مقام پر جگہ دے.اور ہم اپنے رب سے یہ کہہ سکیں کہ اے خدا! جو فرض تو نے ہمارے ذمہ لگایا تھا ہم اس کو پورا کر کے آئے ہیں اور تو اور تیرے فرشتے اس پر گواہ ہیں.“ (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء) اسد الغابہ جلد ۳ صفحه ۲۲۱ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي الا الله باب قول النبي..لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خليلاً

Page 118

خطابات شوری جلد سوم ۱۰۲ مشاورت ۱۹۴۴ء صحیح بخاری کتاب الجنائز باب الدخول على الميت بعد الموت.ال عمران: ۱۴۵ صحیح بخاری کتاب الجنائز باب قول النبي صلى الله عليه وسلم إِنَّا بِكَ لَمَحْزُونُون ل السيرة الحلبية جز دوم صفحه ۳۲۶ تا ۳۲۸ از علی برهان الدین الناشر المكتبة الاسلاميه بيروت.لبنان ک لوقا باب ۱۸ آیت ۲۵ ترمذى كتاب الزهد باب في التوكل على الله تذکرہ صفحہ ۱۷۷، ۱۷۸.ایڈیشن چہارم السيرة الحلبية جز دوم صفحه ۱۲۰ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء صحیح بخاری کتاب المغازى باب قصة غزوة بدر ۱۲ صحیح بخاری کتاب بدء الوحى باب كيف كان بدء الوحي الى رسول الله ۱۳ صحیح بخاری کتاب الرقاق باب التواضع ۱۴ الحکم ۳۰ جون ۱۹۰۳ء صفحه ۱۰ ۱۵ متی باب ۱۰ آیت ۹ تا ۱۴ ۱۶ متی باب ۶ آیت ۱۱ كا التوبة : ااا ترمذى ابواب البر والصلة باب ماجاء في المدارة 19 صحیح مسلم کتاب الحج باب نقض الكعبة ٢٠ المائدة : ۴۹ ۲۱ الاحقاف :۱۴

Page 119

خطابات شوری جلد سو ۱۰۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء منعقد ۳۰۰-۳۱ / مارچ و یکم اپریل ۱۹۴۵ء) پہلا دن سماعت احمدیہ کی پچیسویں مجلس مشاورت تھیں، اکتیس مارچ اور یکم اپریل ۱۹۴۵ء کو دعا تعلیم الاسلام کالج قادیان کے ہال میں منعقد ہوئی.صحت کی خرابی کی وجہ سے حضور نے مختصر افتتاحی تقریر فرمائی.تقریر سے قبل دُعا سے متعلق آپ نے فرمایا: - چونکہ اب مجلس مشاورت کی کارروائی شروع ہوتی ہے اس لئے میں چاہتا ہوں که سب دوست مل کر اللہ تعالیٰ سے دعا کر لیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رضا کی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، سچا اخلاص اور اپنی سچی محبت ہمارے دلوں میں پیدا فرمائے، ہمارے ارادوں میں محض اپنے فضل سے برکت ڈالے اور ہماری نیتوں کو درست فرمائے ، ہمارے خیالوں اور ہماری راؤں کی اپنے فضل سے خود راہنمائی کرے.ہرقسم کا کبر اور رعونت ہمارے دلوں سے نکال دے تا دین کا کام کرتے وقت ہم محض خدا تعالیٰ کا ہتھیار بن جائیں اور جو مشورے ہم دیں اُن میں اپنی بڑائی اور شان کے اظہار کا شائبہ بھی نہ ہو.ہمارے ذمہ جو کام لگایا ہے وہ اتنا بڑا اور اہم اور اتنا مشکل کام ہے کہ ہماری طاقت اور ہمت اس کام کے کرنے کی طاقت اور ہمت کا ہزاروں بلکہ لاکھواں حصہ بھی نہیں ہے.اللہ تعالیٰ نے ہی اسے کرنا ہے اور اُس کی نصرت اور مدد سے ہی وہ ہونا ہے.پس ہمیں اُسی سے اُس کی مدد اور نصرت طلب کرنی چاہئے تا ہماری اس مجلس مشاورت کے ایسے نتائج رونما ہوں جو خدا تعالیٰ کے منشاء کو پورا کرنے والے ہوں.تا اس کے ارادوں سے ہمارے ارادے مل جائیں اور اس کی تدبیروں سے ہماری تدبیریں مطابقت حاصل کر سکیں اور تا کوئی کونہ

Page 120

خطابات شوری جلد سوم ۱۰۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء ہمارے کام کا ایسا نہ رہ جائے جو خدا تعالیٰ کے منشاء کے مطابق نہ ہو.“ اس کے بعد حضور نے تمام حاضرین سمیت لمبی دعا کروائی.تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - " افتتاحی تقریر دنیا کے بعد اب میں مجلس شوری کا افتتاح کرتا ہوں اور جیسا کہ سابقہ طریق ہے میں اس وقت ان سب کمیٹیوں کا تقرر کروں گا جو ایجنڈا میں درج شدہ تجاویز کے متعلق صلاح مشورہ کر کے رپورٹ مرتب کریں گی اور کل ہم انشاء اللہ ان رپورٹوں پر اجلاس عام میں غور کریں گے.میرا عام طریق یہ ہے کہ میں اس موقع پر کچھ ہدایات دیا کرتا ہوں.مگر اس وقت تو مجھے بات کرتے ہوئے بھی ضعف محسوس ہو رہا ہے.اس وجہ سے میں پہلے طریق کے مطابق تقریر نہیں کرسکتا.صرف سب کمیٹیاں مقرر کر دیتا ہوں.نظارت بیت المال کی سب کمیٹی کے سپر د میں نظارت علیا کی کیڈر کی تجویز بھی کر دیتا ہوں اور نظارت تالیف و تصنیف کی تجویز بھی اور اس سب کمیٹی کے ۳۱ ممبر قرار دیتا ہوں.احباب مناسب آدمیوں کے نام پیش کریں.دوسری سب کمیٹی نظارت دعوۃ و تبلیغ کی ہوگی.جس کے سپر د نظارت تعلیم و تربیت اور نظارت علیا کی بقیہ تجاویز بھی کی جاتی ہیں.اس سب کمیٹی کے ۲۳ ممبر ہوں گے.“ سب کمیٹیوں کے تقرر کے بعد حضور نے فرمایا :- سب کمیٹیوں کو ہدایات کچھ سالوں سے تجربہ ہورہا ہے کہ سب کمیٹیاں جو ایجنڈا کی تجاویز پر غور و فکر کر کے رپورٹ پیش کرنے کے لئے مقرر کی جاتی ہیں وہ پوری محنت اور کوشش سے کام نہیں کرتیں اور بعض تو کام ختم کئے بغیر ہی چھوڑ دیتی ہیں.اب کے صرف دو سب کمیٹیاں بنائی گئی ہیں تا کہ پوری طرح کام کر سکیں.امید ہے کہ اب پوری محنت اور پورے غور سے کام کیا جائے گا اور اُس وقت تک اجلاس ختم نہ کئے جائیں گے جب تک کام ختم نہ ہو جائے اور کل مقررہ وقت پر رپورٹیں پیش کی جائیں گی.میں طبیعت کی خرابی کی وجہ سے وہ باتیں نہیں کہہ سکتا جو اس موقع پر مجھے کہنی چاہئیں تھیں مگر ایک بات کی طرف خصوصیت سے توجہ دلاتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جو سب کمیٹی بر

Page 121

خطابات شوری جلد سوم ۱۰۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء غور کرے وہ آمد بڑھانے کے ذرائع پر پوری طرح غور کرے.اب جنگ کے ختم ہونے کے آثار نظر آرہے ہیں اور جنگ کے خاتمہ پر آمد پر بہت اثر پڑے گا.اس سے پہلی جنگ کے متعلق ہمارا جو تجربہ ہے وہ یہ ہے کہ جنگ کے ختم ہونے کے معا بعد آمدنی کم ہوگئی اور یہ کمی برابر دس سال تک جاری رہی.پس اس وقت غور کرنا چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ آمدنی کس طرح بڑھائی جاسکتی ہے اور اس طرح زیادہ سے زیادہ ریز روفنڈ قائم کر لینا چاہئے.اس کے ساتھ ہی یہ بھی غور کرنا چاہئے کہ جس قدر خرچ گھٹایا جاسکے گھٹا دیا جائے.“ دوسرا دن رڈ شدہ تجاویز کی وجوہ بیان کی جائیں مجلس مشاورت کے دوسرے دن ۳۱ / مارچ ۱۹۴۵ء کو کارروائی شروع ہونے پر مکرم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے حسب قاعدہ رڈ شدہ تجاویز پڑھ کر سنائیں.اس موقع پر حضور نے احباب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :- جو ابتدائی کارروائی تھی وہ تو ختم ہو چکی ہے اب بجٹ کے متعلق سب کمیٹی کی رپورٹ دوستوں کے سامنے پیش کی جانے والی ہے.بعض باتیں میں رپورٹ سنائے جانے کے بعد کہوں گا مگر اس امر کی طرف میں رپورٹ سے پہلے ہی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جو تجاویز ابھی آپ لوگوں کے سامنے پڑھ کر سنائی گئی ہیں جس کو صدرانجمن احمدیہ نے رڈ کر دیا ہے مناسب یہ تھا کہ صدر انجمن احمد یہ اُن کو رڈ کرنے کی وجوہ بھی ساتھ ہی بیان کر دیتی تا کہ دلوں پر یہ اثر پیدا نہ ہوتا کہ صدرانجمن احمدیہ نے بعض نہایت ہی مفید تجاویز کو بغیر غور وفکر کرنے کے یونہی رڈ کر دیا ہے اور اگر اُن کے جواب کے بعد بھی کسی قسم کی کمزوری باقی رہ جاتی تو جماعت کو غور کرنے کا موقع مل جاتا اور صدر انجمن احمدیہ کو صحیح مشورہ حاصل ہو جاتا.ہسپتال کے لئے زمین کی خرید مثلاً جو تجاویز ابھی سنائی گئی ہیں اُن میں ایک تجویز یہ بھی تھی کہ ہسپتال کو باہر لے جایا جائے اور اس کے لئے کم سے کم چارا یکٹر زمین خریدی جائے.جہاں تک سلسلہ کے اداروں کا تعلق ہے یہ بات روز روشن کی طرح ظاہر اور واضح ہے کہ اُن کے لئے جگہ کی بہت ہی قلت پیدا ہو چکی ہے.

Page 122

خطابات شوری جلد سوم ۱۰۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء ہمارے ادارے جس وقت قائم ہوئے تھے اُس وقت خیال کیا جاتا تھا کہ ہم نے اسراف سے کام لیا ہے اور ضرورت سے بہت زیادہ جگہ لے لی ہے مگر واقعات نے ثابت کر دیا کہ اب جگہیں اتنی تنگ ہو چکی ہیں کہ اُن میں ہمارا گزارہ کرنا بالکل ناممکن ہو گیا ہے.یہی جگہ جو ہائی سکول کے لئے لی گئی تھی اس کو اتنا بڑا سمجھا گیا تھا کہ اس کے بعض ٹکڑے مکانات کے لئے فروخت کر دیئے گئے تھے.بعد میں اُن میں ہسپتال بھی بنا لیا گیا اور سمجھا گیا کہ باقی جگہ سکول کے لئے کافی ہو گی.مگر اب معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ ساری کی ساری زمین سکول کے لئے ہی رہتی تب بھی وہ سکول کی ضروریات کے لئے بمشکل کافی ہوتی.اور اب تو جگہ کی قلت کی وجہ سے سکول کی عمارت کا لج کو دے دی گئی ہے اور سکول کے لئے اسی زمین میں ایک نئی عمارت بنائی گئی ہے مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نہ کالج کے لئے کھیلنے کے لئے زمین باقی ہے اور نہ سکول کے لئے کافی زمین ہے.یہی حال ہسپتال کا ہے.ایک چھوٹی سی جگہ میں اُسے سمٹ سمٹا کر رکھا گیا ہے.جس طرح تھرڈ کلاس پینجرز اپنا اسباب تھوڑی سی جگہ میں اوپر نیچے رکھ لیتے ہیں.مگر اُن کو تو پھر بھی اطمینان ہوتا ہے کہ ہم دو تین گھنٹہ کے بعد گاڑی سے اُتر جائیں گے مگر ان کے لئے یہ بات بھی نہیں.اگر ہسپتال کے لئے کسی اور جگہ کا انتظام نہ کیا گیا تو ہسپتال میں کام کرنے والوں کی عمریں اسی تنگ جگہ میں گزر جائیں گی اور مریضوں کے صحیح علاج میں وہ کامیاب نہیں ہو سکیں گے.حقیقت تو یہ ہے کہ آج سے کئی سال پہلے صدر انجمن احمدیہ کو اپنے اداروں کے لئے زمین خریدنے کا فکر کرنا چاہئے تھا اور بڑھتے ہوئے کام کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کو ہوشیار ہو جانا چاہئے تھا کہ کہیں ہمارے لئے مشکلات پیدا نہ ہو جائیں مگر اب حالت یہ ہے کہ وہی قادیان جہاں باره بارہ تیرہ تیرہ روپیہ مرلہ زمین پکتی تھی اور لوگ کہتے تھے ہمیں لوٹا جاتا ہے.اسی قادیان میں ہزار ہزار روپیہ مرلہ پر بھی زمین خریدی گئی ہے اور سو روپیہ مرلہ زمین تو عام طور پر فروخت ہو رہی ہے.اسی طرح وہ علاقے جہاں پچاس پچاس ساٹھ ساٹھ روپیہ گھماؤں زمین مل جاتی تھی ، وہاں اس زمین کی قیمت ایک ہزار روپیدا یکٹر تک پہنچ گئی ہے.میں نے اندازہ لگایا ہے ہماری ادنی ضرورتیں جو دس بارہ سال کے قریب ترین عرصہ میں ہمیں پیش آسکتی ہیں اُن کے لئے ہمیں پانچ سو ایکٹر زمین کی ضرورت ہے.انجمن احمد یہ تو ہسپتال کے لئے.

Page 123

خطابات شوری جلد سوم - مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء چا را یکٹر زمین کی تجویز کو مستر د کر رہی ہے اور حالت یہ ہے کہ ہمیں کالج اور ہسپتال اور لائبریری اور دوسرے اداروں کے لئے پانچ سو ایکٹر مزید زمین کی ضرورت ہے.جس کے معنے یہ ہیں کہ وہی پانچ سو ایکڑ جو پہلے ۲۵ ۳۰ ہزار یا پچاس ہزار میں خریدا جا سکتا تھا آج پانچ لاکھ روپیہ میں خریدا جا سکتا ہے اور اگر انجمن اب بھی غفلت کرے گی تو پانچ لاکھ نہیں پچاس لاکھ میں یہ زمین ملے گی اور پھر بھی سلسلہ کی ضروریات پوری نہیں ہوں گی.انجمن کے سامنے نمونہ موجود ہے.اس نے گرلز سکول قائم کیا.یہ سکول جس دن سے قائم ہوا میں نے اُسی دن سے انجمن والوں سے کہنا شروع کر دیا کہ اس کے ارد گرد زمین لے لو ورنہ مشکلات بڑھ جائیں گی.اُس وقت دوسو روپیہ کنال زمین بکتی تھی مگر انہوں نے شستی کی اور سمجھا کہ ہم اتنا روپیہ کیوں ضائع کریں.اس کے بعد خدا تعالیٰ کی اس سنت کے مطابق جو ہمارے سلسلہ کے ساتھ ہے سکول نے بڑھنا شروع کیا اور جس طرح بچے کے کپڑے جو ان کے کام نہیں آسکتے اسی طرح سکول کے کمرے نا کافی ثابت ہوئے اور انجمن والے مجبور ہوئے کہ وہ سکول کے لئے اور زمین خریدیں.جب وہ مارکیٹ میں گئے تو انہوں نے دیکھا کہ لوگ پانچ سو سے ہزار روپیہ تک ایک کنال زمین کی قیمت مانگتے ہیں، انجمن والوں نے پھر بھی توجہ نہ کی اور انہوں نے سمجھا کہ لوگ ہمیں خواہ مخواہ دق کرتے ہیں اور وہ گراں قیمت پر ہمارے پاس فروخت کرنا چاہتے ہیں.ہم دیکھیں گے کہ اس قیمت پر کون اُن سے زمین خریدتا ہے.مگر اُن کی آنکھیں اُس وقت کھلیں جب دو ہزار روپیہ فی کنال اُن کو جماعت کے خزانہ میں سے دینا پڑا اور اب تو قادیان کی بعض زمینیں جن کا خریدنا سلسلہ کے لئے ضروری سمجھا جاتا ہے اتنی مہنگی ہو چکی ہیں کہ زمینوں والے بیس بیس ہزار روپیہ فی کنال مانگتے ہیں.حالانکہ یہی زمینیں دو دو سو روپیہ کنال پر مل سکتی تھیں.پس میں حیران ہوں کہ انجمن نے ہسپتال کے لئے چارا یکٹر زمین خریدنے کی تجویز کو کس بنیاد پر رڈ کیا ہے.اگر تو اس بنیاد پر یہ تجویز رڈ کی گئی ہے کہ اس کی ضرورت نہیں تو یہ بالکل خلاف عقل بات ہے.اگر وہ چار ایکڑ زمین اس وقت ایک ہزار روپیہ فی ایکٹر خریدنے پر تیار نہیں ہیں تو کل یہی زمین پچاس ہزار روپیہ فی ایکڑ وہ خریدنے پر مجبور ہوں گے.اور اگر اس تجویز کو رڈ کرتے وقت اُن کے مد نظر یہ تھا کہ اتنی تھوڑی زمین ہماری ضروریات کے لئے کافی نہیں، ہم نے

Page 124

خطابات شوری جلد سوم I+A مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء ایک بہت بڑا پروگرام بنایا ہوا ہے تو وہ پروگرام پیش کرنا چاہئے تھا جو اس وقت ہمارے سامنے نہیں ہے.پس نہیں کہا جا سکتا کہ کس بناء پر انہوں نے اس تجویز کو رڈ کیا ہے.بہر حال اُن کا تجاویز کو رڈ کر دینا ہی کافی نہیں بلکہ اُن کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اُن کو رڈ کرنے کی وجوہ بھی بیان کریں اور در حقیقت اگر وہ غور کریں تو اُن کا اپنا فائدہ اسی میں ہے.اگر وہ محض تجاویز پیش کر دیں اور اُن کو رڈ کرنے کے وجوہ بیان نہ کریں تو لوگ کہیں گے انجمن والے کیسے کم عقل ہیں کہ جن باتوں میں اُن کی اپنی عزت اور نیک نامی ہے، اُن کو بھی وہ رڈ کر رہے ہیں.پس انجمن کے ناظر اگر دنیا کی نگاہ میں کم عقل بننا نہیں چاہتے تو وہ تجاویز کو ر ڈ کرنے کے ساتھ ہی دلیل بھی دیا کریں تا کہ لوگ سمجھ سکیں کہ محض قلت تدبر سے نہیں بلکہ کسی معقولیت کی بناء پر ان کو رڈ کیا گیا ہے.جیسے میں نے بتایا ہے کہ ہسپتال کے متعلق جو تجویز آئی تھی اُس کو رڈ کرنے کی کوئی وجہ میری سمجھ میں بھی نہیں آتی اور یہ تو صرف ایک مثال ہے اور بھی کئی ایسی تجاویز ہیں جن کو رڈ کرنے کی بظاہر کوئی وجہ نظر نہیں آتی.اور چونکہ کوئی دلیل نہیں دی گئی اس لئے ہم نہیں سمجھ سکتے کہ اُن تجاویز کو کیوں رڈ کیا گیا ہے.بہر حال یہ بات جو خرید زمین کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اتنی اہم اور اتنی ضروری ہے کہ اگر فوری طور پر اس کی طرف توجہ نہ کی گئی تو ہمارا سارا ریز روفنڈ یہ زمین کھا جائے گی.تم خواہ چھپیس لاکھ ریز روفنڈ قائم کر لو اور سلسلہ کی ضروریات کے لئے زمینیں نہ خرید و وہ دن یقیناً آنے والے ہیں کہ پھر زمینیں خریدنے کے لئے ہمارا سارے کا سارا ریز رو فنڈ بھی کافی نہیں ہوگا.مثلاً لاہور میں ہی اگر بعض ادارے ہم وسیع کرنا چاہیں تو ایک کروڑ روپیہ کافی نہیں ہوسکتا.اس صورت میں ہمارا ریز روفنڈ بالکل لغو اور فضول ہو جائے گا اور وہ سلسلہ کی آمد کو وسیع کرنے یا مستقل اخراجات کو چلانے کے لئے نہیں بلکہ زمین خریدنے کے لئے بھی بمشکل کافی ہوگا اس لئے صدر انجمن احمدیہ کو چاہئے کہ وہ ابھی سے اِس طرف توجہ کرے اور پوری ہوشیاری اور بیداری کے ساتھ آنے والے حالات پر غور کر کے سلسلہ کی ضروریات کے لئے پانچ سو ایکڑ زمین خریدنے کا فکر کرے.مجھے شرم اور ندامت سے سر جُھکانا پڑتا ہے کہ باوجود اس باوقت انتباہ کے انجمن نے ایک سال گزر جانے پر بھی کچھ نہیں کیا.انجمن کا قریباً ہر مہر اپنی ذات

Page 125

خطابات شوری جلد سوم 109 مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء کے لئے زمین خرید رہا ہے اور اس کے بڑھانے کی فکر میں ہے.مگر اُسے نہیں فکر تو سلسلہ کی ضرورتوں کی.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ 66 آمد بڑھانے کیلئے نئے ذرائع اختیار کئے جائیں مکرم ناظر صاحب بیت المال نے سب کمیٹی مال کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے آمد بڑھانے کی کچھ تجاویز بیان کیں.اس کے بعد حضور نے فرمایا: - اس وقت جماعت کے سامنے سب سے پہلے بجٹ غور کے لئے پیش ہوگا ، اُس کی آمد بھی اور اُس کا خرچ بھی.اس وقت تک وقت کی کمی کی وجہ سے آمد پر بہت کم بحث کی جاتی تھی.زیادہ تر خرچ پر بحث کرنے میں ہی وقت کو صرف کر دیا جا تا تھا لیکن جہاں تک اقتصادیات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے خرچ سے آمد کا مسئلہ کم اہم نہیں ہوتا.بہت سی مدات ایسی ہوتی ہیں جن کے ذریعہ آمد نہیں بڑھائی جا سکتی ہیں اور قوموں نے بڑھائی ہیں.ہندوستان اپنی چالیس کروڑ آبادی کے ساتھ قبل از جنگ ایک ارب روپیہ کا بجٹ رکھتا تھا.جبکہ انگلستان صرف چار کروڑ آبادی کے ساتھ ستر کروڑ پاؤنڈ کا بجٹ رکھتا تھا.ستر کروڑ پونڈ کے معنے ہیں سوا نو ارب کا بجٹ.گویا دس فی صدی آبادی اپنا دس گنا زیادہ بجٹ بناتی تھی اور دس گنا زیادہ آبادی رکھنے والا ملک دس حقیہ کم بجٹ بنا تا تھا.جس کے معنے یہ ہیں کہ ہر ہندوستانی جتنی رقم دیتا ہے، اُس سے سو گنی رقم انگلستان کا آدمی دیتا ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ اُن ملکوں میں خرچ کی نسبت آمد پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ خرچ کی غلطی سے تو صرف چند روپوں کا فرق پڑے گا مگر آمدنی کی غلطی سے ہزاروں روپیہ کا فرق پڑ جائے گا.جب آمد پر صیح طور پر غور کیا جائے تو اُس کے بڑھانے کے وسائل بھی نئے سے نئے نکل آتے ہیں اور اُن پر غور کر کے انسان صحیح نتیجہ پر پہنچ جاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سال میں نے فیصلہ کیا تھا کہ بجائے اس کے کہ دوسرے مطالب کو پہلے لیا جائے ، سب سے پہلے بجٹ پر غور کیا جائے اور اگر بجٹ پر غور کرنے کی وجہ سے دوسرے مسائل زیر بحث نہ آسکیں تو اُن کے لئے سال میں مشاورت کا ایک دوسرا اجلاس منعقد کر لیا جائے.اس فیصلہ کے ماتحت آج سب سے پہلے آپ لوگوں کے سامنے بجٹ پیش کیا جا رہا ہے ،

Page 126

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے آپ لوگوں کے لئے موقع ہے کہ جب آپ کو وقت زیادہ مل گیا ہے تو آپ خرچ اور آمد پر بھی پوری طرح بحث کریں.اس وقت تک ہمارے سامنے آمد بڑھانے کا صرف ایک ہی ذریعہ رہا ہے کہ لوگوں سے چندہ وصول کر لیا جائے ، چنانچہ اِس وقت جو رپورٹ سنائی گئی ہے اُس میں بھی سارا زور اسی بات پر صرف کیا گیا ہے کہ چندہ بڑھا کر اپنی آمد میں زیادتی کی جائے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سب سے اہم چیز چندہ ہے.نہ صرف اس لئے کہ اس سے روپیہ جمع ہوتا ہے بلکہ اس لئے بھی کہ یہ جماعت کے اخلاص اور اس کے جوش کو قائم رکھنے والی چیز ہے.وہ شخص جو چندہ دینے میں مستی سے کام لیتا ہے اُس کا جوش اور اخلاص رفتہ رفتہ مرتا چلا جاتا ہے.چندہ کی وصولی کی اہمیت پس جماعت کے خزانوں کو بھرنے کے لئے نہیں، اپنے کاموں کو وسیع کرنے کے لئے نہیں بلکہ جماعت کے اخلاص اور اُس کے ایمان کو زندہ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم چندہ کی وصولی پر زور دیں اور دیتے چلے جائیں.جب کسی قوم میں قربانی کی روح کمزور ہو جاتی ہے ، اُس کا ایمان بھی کمزور ہو جاتا ہے اور وہ تنزل میں گر جاتی ہے.پس بے شک یہ بھی ایک اہم ذریعہ ہے اپنی آمد کو بڑھانے کا مگر یہ ضروری نہیں کہ باوجود سارے اخلاص کے جماعت ان ضرورتوں کو پورا کر سکے جو اس کے سامنے آئیں.مثلاً اس سال میں نے دیہاتی مبلغین کا ایک طریق جاری کیا ہے.پندرہ دیہاتی مبلغین پچھلے سال تیار کئے گئے تھے جو مختلف مقامات پر مقرر کر دیئے گئے ہیں.اُن کو ابھی کام پر لگے صرف ڈیڑھ مہینہ ہی ہوا ہے لیکن اُن کی جدو جہد کے جو نتائج نکل رہے ہیں وہ نہایت ہی خوشکن ہیں.نہ صرف اُن کے ذریعہ تبلیغ وسیع ہو رہی ہے بلکہ ارد گرد کی جماعتوں میں بھی بیداری پیدا ہو رہی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی ترقی میں نمایاں فرق نظر آتا ہے.گزشتہ سال سارے سال کی اندرون ہند کی بیعت پندرہ سو سے کچھ اوپر تھی لیکن اس سال صرف تین مہینہ کی بیعت ہی گیارہ سو سے اوپر ہے اور ابھی یہ رو ترقی کی طرف جا رہی ہے اور بیعت کی رفتار خدا تعالیٰ کے فضل سے تیز ہو رہی ہے.اگر یہ رفتار قائم رہے تو اس سال کی بیعت خدا تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ سالوں کی بیعت کے ریکارڈ کو توڑنے والی ثابت ہو گی.ہم نہیں جانتے

Page 127

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء کہ مستقبل میں کیا ہو گا.مگر اس وقت جو کچھ نظر آ رہا ہے وہ یہی ہے کہ جن جن جماعتوں میں ہمارے یہ مبلغ گئے ہیں اُن میں ایک بیداری پیدا ہو گئی ہے اور ارد گرد کے علاقوں پر بھی اس متواتر اور منظم تبلیغ کا ایسا خوشگوار اثر پڑا ہے کہ وہ لوگ ہماری باتیں سننے کے لئے تیار ہو گئے ہیں اور دیہات میں سے کئی لوگ بیعت میں شامل ہو گئے ہیں.جیسا کہ میں نے بار ہا بتایا ہے کہ میری سکیم یہ ہے کہ ہم ہندوستان میں اپنی تبلیغ کو اتنا وسیع کر دیں کہ ہر سات آٹھ گاؤں پر ہمارا ایک مبلغ ہو.ہندوستان میں اندازاً آٹھ لاکھ گاؤں ہیں، اگر آٹھ گاؤں پر ہمارا ایک مبلغ ہو تو اس کے معنے یہ ہیں کہ ہمیں صرف ہندوستان کے دیہات میں تبلیغ کرنے کے لئے ایک لاکھ مبلغین کی ضرورت ہے.ایک مبلغ کا کم سے کم خرچ جو در حقیقت بعض حالات میں نقصان دہ ہوتا ہے اور جس میں لٹریچر وغیرہ کے اخراجات بھی شامل ہیں اگر پچاس روپیہ فرض کیا جائے تو اندازاً پچاس لاکھ روپیہ ماہوار کی ہمیں ضرورت ہوگی.اب یا تو ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اس روپیہ کو اکٹھا کریں اور یا پھر ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں اور کہیں کہ اگر خدا کو منظور ہوا تو ایسا ہو جائے گا اور اگر خدا کو منظور نہ ہوا تو نہ ہوگا.مگر ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ کوئی معقول بات نہیں کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں اور کہیں کہ اگر خدا کو منظور ہوا تو ایسا ہو جائے گا ورنہ نہیں.اگر خدا تعالیٰ نے جبری قانون دنیا میں جاری کرنا ہوتا تو اُسے کسی مامور کو بھیجنے کی کیا ضرورت تھی.اُس کا اپنے ایک مامور کو دنیا میں بھیجنا ، لوگوں کو اُس پر ایمان لانے کی تحریک کرنا، قربانی اور ایثار کا سبق دینا ، کوشش اور جدوجہد کی ترغیب دینا اور لوگوں کی ہدایت کا کام اپنی جماعت کے سپر د کرنا بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ رہیں اور کہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کی مرضی ہوئی تو ہدایت پھیل جائے گی اور اگر خدا کی مرضی نہ ہوئی تو ہدایت نہیں پھیلے گی.اگر خدا تعالیٰ کے ایک مامور پر ایمان لانے کے بعد بھی ہم یہی کہتے ہیں تو ہماری مثال بالکل ایسی ہی ہو جاتی ہے جیسے عورتوں سے بعض دفعہ کسی بات کے متعلق پوچھا جائے کہ اس بارہ میں تمہاری کیا رائے ہے؟ تو وہ کہہ دیتی ہیں کہ جس طرح آپ کی مرضی.حالانکہ پوچھنے والے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس وقت میں اپنی مرضی نہیں بلکہ تمہاری مرضی دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ وہ کیا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ جب اپنا مامور دنیا کی اصلاح کے لئے

Page 128

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء بھیجتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب وہ ہماری مرضی پر اس کام کو چھوڑ رہا ہے.اُس وقت ہمارا یہ کہنا کہ جس طرح خدا کی مرضی ہے ہو جائے گا بالکل ویسا ہی ہوتا ہے جیسے ناواقف بچہ یا نا واقف عورت بعض دفعہ جواب دیتی ہے کہ جس طرح آپ کی مرضی.خدا تعالیٰ جب اپنے کسی مامور کو بھیجتا ہے تو اس کے بھیجنے سے اُس کا منشاء یہ ہوتا ہے کہ اب لوگ خود قربانی کریں اور میرے منشاء کو پورا کرنے کی کوشش کریں.ورنہ اگر اُس نے اپنی مرضی ہی چلانی ہوتی تو اُسے کسی مامور کو بھیجنے کی ضرورت نہیں تھی.وہ عرش پر بیٹھے بیٹھے تمام کام کر سکتا تھا.اُس کا لوگوں کی ہدایت کے لئے مامور کو بھیجنا بتاتا ہے کہ وہ اس وقت اپنی مرضی کے ساتھ بندوں کی جدوجہد کو شامل کر دیتا ہے.پس جب کہ ہم ایک مامور کی جماعت میں شامل ہیں، ہمیں یہ امر مد نظر رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ ہم اپنی عقل اور اپنی جد و جہد اور اپنی قربانی سے کام لیں اور اس طرح دین کی اشاعت کے کام کو سرانجام دیں.پس جو پروگرام بھی دین کی اشاعت کے لئے ضروری ہوگا اُس کے لئے سامان بہم پہنچانا اور اُس سامان کی فراہمی کے لئے ضروری تدابیر اختیار کرنا ہمارا اپنا فرض ہوگا جس سے ہم کسی طرح بھی غفلت اختیار نہیں کر سکتے.میں نے بتایا ہے کہ اگر صرف ہندوستان کی تبلیغ ہمارے سامنے ہو تو ہمیں ایک لاکھ دیہاتی مبلغوں کی ضرورت ہو گی.بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر ہم صحیح طور پر تبلیغ کرنا چاہیں تو ہمیں ہر گاؤں میں ایک ایک مبلغ رکھنا چاہئے بلکہ بعض گاؤں ایسے بھی ہو سکتے ہیں جن میں ایک ایک مبلغ کا رکھنا بھی ناکافی ہو اور وہاں زیادہ مبلغین کی ضرورت ہو.مثلاً قادیان جس کی چودہ ہزار آبادی ہے.اگر اتنی آبادی والا کوئی قصبہ ہو تو وہاں ایک مبلغ کافی نہیں ہو سکتا بکہ تبلیغ اور تعلیم و تربیت کے لئے چودہ پندرہ آدمیوں کی ضرورت ہوگی لیکن چونکہ کئی چھوٹے گاؤں بھی ہو سکتے ہیں اس لئے اُن کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر ہم قلیل ترین پروگرام یہ بنائیں کہ ہر گاؤں میں اپنا ایک ایک مبلغ رکھیں تب بھی اس کے لئے کروڑوں روپیہ کی ضرورت ہے مگر ہماری موجودہ حالت ایسی نہیں کہ ہم اتنا بوجھ برداشت کر سکیں یا اس پر فوری طور پر عمل کر سکیں.لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بات بالکل غلط ہے کہ جس راستہ پر ہم اب تک چلتے چلے آ رہے ہیں اُسی راستہ پر چلتے چلے جائیں.ہمیں جلد سے جلد ایسی تدابیر پر غور کرنا

Page 129

خطابات شوری جلد سوم.۱۱۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء چاہئے جن سے ہم اپنی آمد کو بڑھا سکیں.تا کہ اس پروگرام پر اگر ہم پورے طور پر عمل نہیں کر سکتے تو کم از کم اس کے ایک حصہ کو ہی جامیہ عمل پہنا سکیں.مثلاً صرف پنجاب کو لے لو، اس میں تھیں ضلعے ہیں، ہر ضلع میں اوسطاً چار تحصیلیں ہوتی ہیں اور ہر تحصیل میں اندازاً پانچ سو گاؤں ہوتے ہیں.اس طرح انداز اساٹھ ہزار گاؤں بلکہ اس سے بھی زیادہ صرف پنجاب میں ہیں.میرے نزدیک ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ پنجاب میں اسی نوے ہزار گاؤں ہیں کیونکہ بعض گاؤں بہت چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں بالخصوص پہاڑی گا ؤں تو صرف چند گھروں پر ہی مشتمل ہوتے ہیں.اگر ہم صرف پنجاب کے ان دیہات میں ہی تبلیغ کریں اور ہندوستان کے باقی صوبہ جات کو نظر انداز کر دیں، تب بھی ہمیں کم از کم پانچ ہزار مبلغوں کی ضرورت ہوگی.جن میں سے ایک ایک مبلغ پندرہ پندرہ سولہ سولہ گاؤں کے لئے.ا ہو گا مگر یہ سکیم بھی ایسی ہے جسے ہماری موجودہ مالی حالت برداشت نہیں کر سکتی.بہر حال ہم کوئی بھی سکیم بنائیں ، خواہ وہ لوکل ہو یا آل انڈیا یا تمام دنیا سے تعلق رکھتی ہو ہماری موجودہ آمدنی کسی طرح بھی کسی معقول عرصہ میں اس کو پورا نہیں کرسکتی اس لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی آمد کو بڑھانے کے اور ذرائع اختیار کریں.مثلاً انہی تدابیر میں سے ایک تدبیر یہ بھی ہے کہ ہم جو دیہاتی مبلغ رکھتے ہیں اُن کو جہاں سال بھر میں دینیات کی تعلیم دی جاتی ہے، وہاں انہیں طب بھی سکھائی جاتی ہے جس سے ہمارا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے گزارہ کے لئے آمد پیدا کر سکیں.اگر طب کے بغیر انہیں اپنے گزارہ کے لئے پچاس روپیہ کی ضرورت ہو تو اس ذریعہ سے وہ صرف چھپیں تھیں میں ہی گزارہ کر سکتے ہیں اور انہیں کوئی خاص پریشانی لاحق نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ طب جانتے ہوں گے اور آسانی سے اپنے لئے اور آمد پیدا کر سکیں گے.یہ ایک ایسی تدبیر ہے جس سے ہم اپنا تبلیغی خرچ نصف پر لے آتے ہیں لیکن اس صورت میں بھی اگر اُن کے اخراجات کو چھپیں پر لے آئیں تب بھی مزید پچیس روپے ہمیں اُن کے کرایوں اور لٹریچر وغیرہ کے لئے خرچ کرنا پڑے گا.گویا پچاس روپیہ ماہوار وہ قلیل ترین خرچ ہے جو ایک دیہاتی مبلغ کو دیا جا سکتا ہے اور یہ خرچ ایسا ہے جو آٹھ لاکھ یا ایک لاکھ بلکہ ایک ہزار مبلغین کے لئے بھی ہم موجودہ حالت میں برداشت نہیں کر سکتے.

Page 130

خطابات شوری جلد سوم ۱۱۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی آمد کو بڑھانے کے لئے بعض اور وسائل اختیار کریں.اسی حکمت کے ماتحت میں نے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کو قائم کیا ہے تا کہ وہ تجارت اور صنعت و حرفت کے میدان میں جماعت کی ترقی کے لئے نئے راستے کھول سکے.اور پھر اسی حکمت کے ماتحت میں نے ریز روفنڈ قائم کرنے اور جائیدادیں خریدنے کی سکیم تیار کی.یہ تمام تدابیر ایسی ہیں جو چندوں کے علاوہ ہیں.بیشک ایک دفعہ جماعت پر بوجھ ڈال کر زیادہ چندہ لے لیا جائے گا لیکن اگر ان تدابیر میں ہمیں کامیابی ہو گئی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے معقول آمد پیدا ہوتی رہے گی.حکومتوں کو دیکھ لو وہ بھی بعض دفعہ چھوٹی چھوٹی تدبیروں اور بعض چیزوں کی مونا پلی یعنی اُن کی گلی اجارہ داری سے لاکھوں روپیہ کما لیتی ہیں.مثلاً تیل کی مونا پلی ہے یا موٹروں کی ہے یا ریلوں کی ہے.ان چیزوں سے گورنمنٹ لاکھوں ہی نہیں کروڑوں اور اربوں روپیہ کماتی ہے.اس ملک میں ریلوے گورنمنٹ کے قبضہ میں ہے.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ گورنمنٹ کو جتنی آمد ٹیکسوں کے ذریعہ ہوتی ہے یا بعض دوسرے ذرائع سے ہوتی ہے اُتنی ہی آمد اُسے اس ذریعہ سے ہو جاتی ہے.ایک ارب روپیہ اگر اُسے ٹیکسوں وغیرہ کے ذریعہ حاصل ہوتا تھا تو ایک ارب روپیہ ریلوے کے ذریعہ اُسے حاصل ہونے لگ گیا ہے.غرض جس طرح حکومتیں اور قو میں مختلف تجارتوں اور صنعتوں پر غور کر کے اپنی آمد کو بڑھانے کی تدابیر اختیار کرتی ہیں ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم اُن تدابیر پر غور کریں جن سے سلسلہ کی آمد میں اضافہ ہو.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارا بجٹ خدا کے فضل سے کئی گنا بڑھ گیا ہے اور جماعت نے مالی لحاظ سے غیر معمولی ترقی کی ہے مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ہمیں اپنی آمد میں ابھی اور زیادہ ترقی کی ضرورت ہے.جلسہ سالانہ پر میں نے بتایا تھا کہ مولوی محمد علی صاحب نے ہمارا اور اپنا مقابلہ کرتے ہوئے یہ اعتراض کیا ہے کہ اُن کی آمدنی سال اوّل میں صرف سات ہزار تھی جو ترقی کر کے سوا چار لاکھ تک جا پہنچی ہے، جو سال اوّل سے ساٹھ گنا ہے اور ہماری جماعت دو لاکھ آمدنی سے ترقی کر کے صرف چھ لاکھ سالانہ آمد تک پہنچی ہے جو ابتدائی حالت سے لگنی ہے.کجا ساٹھ گنا ترقی اور گجا تین گنا ترقی.میں نے بتایا تھا کہ اُن کا یہ ادعا سراسر غلط اور واقعات کے خلاف ہے.اب میں نے گزشتہ سالوں کے اعداد و شمار

Page 131

خطابات شوری جلد سوم ۱۱۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء بھی نکلوائے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہمارے جس بجٹ کو دو لاکھ کا قرار دے رہے ہیں وہ در حقیقت ۷۳ ہزار کا بجٹ تھا.چنانچہ ۱۹۱۲ - ۱۹۱۳ء میں ۱۰۰۳۶۴ روپیہ کا بجٹ تھا.۱۹۱۳ء.۱۹۱۲ء میں ۱۱۹۶۳۷ روپیہ کا بجٹ تھا اور ۱۹۱۴ء.۱۹۱۳ء میں ۷۳۰۶۷ روپیہ کا بجٹ تھا.در حقیقت ۱۹۱۲ء.۱۹۱۱ء، ۱۹۱۳ء.۱۹۱۲ء اور ۱۹۱۴ء.۱۹۱۳ء میں جو زیادتی تھی اُس کی وجہ یہ تھی کہ بورڈنگ اور مدرسہ کی تعمیر ہو رہی تھی.اور گورنمنٹ کی طرف سے اس غرض کے لئے امداد مل رہی تھی.چنانچہ ۱۹۱۲ء.۱۹۱۱ء میں تعمیر کا ۳۴۵۱۲ روپیہ آیا.۱۹۱۳ء.۱۹۱۲ء میں تعمیر کا ۵۳۶۰۵ روپیہ آیا.اور ۱۹۱۴ ء.۱۹۱۳ء میں ۹۵۳۳ روپیہ آیا.اس سرکاری گرانٹ کو اگر نکال دیا جائے تو در حقیقت ۱۹۱۲ء.۱۹۱۱ء میں ۶۵۸۵۲ روپیہ کی آمد ہوئی.۱۹۱۳ء.۱۹۱۲ء میں ۶۶۰۳۲ روپیہ کی آمد ہوئی اور ۱۹۱۴ء.۱۹۱۳ء میں ۶۳۵۳۴ روپیہ کی آمد ہوئی.غیر مبائعین دعوی کرتے ہیں کہ پہلے سال اُن کا سات ہزار چندہ تھا.گویا اگر وہ ہمارے اندر شامل ہوتے تو ۱۹۱۴ء.۱۹۱۳ء میں ہمارا بجٹ ستّر ہزار روپیہ کا ہوتا مگر چونکہ وہ نکل گئے اس لئے ہمارا بجٹ ۶۳ ہزار روپیہ پر آ گیا.پس اُن کی یہ بات قطعاً غلط ہے کہ ۱۹۱۴ - ۱۹۱۳ء میں ہماری آمد دو لاکھ تھی.ہماری آمد اُس وقت ۶۳ ہزار روپیہ تھی لیکن اس سال ہمارا بجٹ ۹۲۱۳۹۰ روپیہ کا ہے.اس میں سے ۱۲۶۹۷۰ روپیہ جو مشروط به آمد ہے اُس کو اگر نکال دیا جائے تو ۷۹۴۴۲۰ روپیہ رہ جاتا ہے.تریسٹھ ہزار کے مقابل میں سات لاکھ ۹۴ ہزار کے معنے یہ ہیں کہ ہمارا بجٹ خدا کے فضل سے بارہ گنا بڑھ گیا ہے بلکہ حقیقتاً ہماری آمد اس سے بھی زیادہ ہے کیونکہ اس سال پانچ لاکھ اور چندہ اکٹھا ہوا ہے جو اس میں شامل نہیں.تین لاکھ چالیس ہزار تحریک جدید کا چندہ اکٹھا ہوا اور ڈیڑھ لاکھ کالج کا چندہ جمع ہوا.چار لاکھ نوے ہزار تو یہی ہو گیا.پچیس ہزار مسجد مبارک کے لئے اکٹھا ہوا تھا اس کو شامل کر لیا جائے تو تیرہ لاکھ روپیہ بن جاتا ہے.جس کے معنے یہ ہیں کہ ہمارا بجٹ ۱۹۱۴ء.۱۹۱۳ء سے ہیں گنا یا اکیس گنا بڑھ گیا ہے.اس کے مقابلہ میں غیر مبائعین جو اپنی آمد بتاتے ہیں وہ محض خیالی ہوتی ہے.مثلاً انہوں نے اپنے پہلے سال کی آمدسات ہزار روپیہ بتائی ہے.حالانکہ شیخ رحمت اللہ صاحب تین سو روپیہ ماہوار چندہ دیا کرتے تھے.صرف اُن کا چندہ ہی ۳۶۰۰ سو بن جاتا ہے.پھر ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب،

Page 132

خطابات شوری جلد سوم 117 مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء ڈاکٹر بشارت احمد صاحب یہ سب کے سب ایسے تھے جن کی آمد میں ہزار ہزار روپیہ ماہوار سے زیادہ تھیں.پھر لائل پور کے تاجر جو ملک التجار کہلاتے ہیں اُن کا چندہ اگر شامل کر لیا جائے تو وہ سات ہزار میں کسی طرح سما ہی نہیں سکتا بلکہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ انہیں بہت زیادہ آمد تھی.ہاں یہ ممکن ہے کہ کسی مصلحت اور کسی خاص خرچ کو چھپانے کے لئے وہ آمد حساب میں نہ لائی جاتی ہو.پھر اب جو وہ اپنی آمد بتاتے ہیں وہ بھی صحیح نہیں.میں نے تو اپنے بجٹ کا حساب کرتے وقت مشروط بہ آمد رقوم کو نکال دیا ہے.مگر اُن کا طریق یہ ہے کہ وہ خیالی رقوم لکھ دیتے ہیں مثلاً لکھ دیں گے متفرق چالیس ہزار یا پچاس ہزار.حالانکہ وہ آمد نہیں ہوتی بلکہ ایک خیالی چیز ہوتی ہے.پھر اُن کی آمد میں کتابوں کی فروخت سے جو نفع ہوتا ہے وہ بھی شامل ہوتا ہے، زمینوں کی آمد بھی شامل ہوتی ہے لیکن ہمارے بجٹ میں یہ چیزیں شامل نہیں ہوتیں.اگر اس قسم کی آمد نہیں ہم اپنے بجٹ میں شامل کریں تو ہیں بائیس لاکھ روپیہ تک ہمارا بجٹ جا پہنچتا ہے مگر ہمارا طریق یہ ہے کہ ہم اس قسم کی آمدنیوں کو بجٹ میں شامل نہیں کرتے.اگر اُن کے بجٹ میں سے اس قسم کی آمد نیوں کو نکال دیا جائے تو جیسا کہ مجھے بتایا گیا ہے اُن کا بجٹ خالص آمد کا پچاس ہزار روپیہ کے قریب رہ جاتا ہے.پس در حقیقت اُنہوں نے کوئی ترقی نہیں کی لیکن ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے کئی گنا ترقی کر چکے ہیں.باقی غیر مبائعین جس طرح چندہ جمع کرتے ہیں، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ مولوی محمد علی صاحب نے گیارہ لاکھ روپیہ جمع کرنے کی تحریک کی اور کہا جماعت اگر اس قدر روپیہ اکٹھا کر لے تو یہ ایک معجزہ ہوگا.اس کے بعد معجزہ یہ ہوا کہ بمبئی میں مولوی محمد علی صاحب کا ایک رشتہ دار اعلیٰ عہدہ پر مقرر ہوا.مولوی صاحب وہاں چلے گئے اور اس رشتہ دار نے وہاں کے بڑے بڑے تاجروں کو تحریک کر دی اور اُنہوں نے دُنیوی اغراض کے ماتحت بڑے بڑے چندے دے دیئے.بعض کہتے ہیں کہ اُنہوں نے ایک لاکھ روپیدا اکٹھا کیا.بعض کہتے ہیں انہیں پچاس ہزار روپے ملے اور بعض کہتے ہیں انہیں وہاں صرف ۲۵ ہزار وپے ملے.مختلف رپورٹیں ہیں.معلوم نہیں ان میں سے کونسی رپورٹ زیادہ صحیح ہے بہر حال یہ ۲۵ ہزار روپیہ ہو یا پچاس ہزار یا ایک لاکھ.یہ غیر احمدیوں کا چندہ ہے ان کا تو ہے ہی نہیں اگر گیارہ لاکھ روپیہ وہ اپنی جماعت سے اکٹھا کریں تو بیشک یہ اُن کی قربانی کی

Page 133

خطابات شوری جلد سوم ۱۱۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء علامت ہوگی لیکن اگر غیروں سے وہ گیارہ لاکھ رو پید اکٹھا کر لیتے ہیں تو یہ اُن کی قربانی کی علامت نہیں بلکہ اس مداہنت کا نتیجہ ہو گا جو اُنہوں نے اپنے اندر پیدا کی ہوئی ہے.دیہاتی مبلغین کی سیکیم غرض جہاں تک قربانی اور اخلاص کا سوال ہے غیر مبائعین نے ہماری جماعت کے مقابلہ میں کسی قسم کی ترقی نہیں کی.وہ تنزل میں تو بے شک گر گئے ہیں مگر یہ نہیں ہوا کہ پہلی حالت سے انہوں نے کوئی ترقی کی ہو.بہر حال دشمن کا اعتراض درست ہو یا غلط ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ اپنی آمد کو بڑھائیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری جماعت نے مالی لحاظ سے کئی گنا ترقی کی ہے مگر جو کام ہمارے سامنے ہے اُس کے مقابلہ میں یہ ترقی بالکل بیچ ہے.مثلاً میں نے بتایا ہے کہ ہم پندرہ مبلغ مختلف دیہات میں پھیلا چکے ہیں اور اب ہماری سکیم یہ ہے کہ مبلغین کے اس دائرہ کو وسیع کریں.اگر ہم فی ضلع پندرہ مبلغ بھی رکھیں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ سارے پنجاب میں ہمیں قریباً پانچ سو مبلغوں کی ضرورت ہوگی اور یہ سیدھی بات ہے کہ دو ہزار گاؤں میں پندرہ مبلغ کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے.ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ اُن سے سارے پنجاب میں ہر وقت شور پڑا رہے گا کیونکہ سو سوا سو گاؤں میں ہمارا ایک ایک مبلغ ہو گا اور چونکہ ایک ایک آدمی آٹھ آٹھ دس دس میل کے حلقہ میں چکر لگا سکتا ہے اس لئے پندرہ مبلغین سارے ضلع میں شور ڈال سکتے ہیں لیکن یہ پانچ سو مبلغ جو اقل ترین تعداد ہے اور جو پنجاب کی ضرورت کے لئے بھی صحیح طور پر کافی نہیں ہو سکتے اگر ہم رکھ لیں تو اس کے معنے یہ ہیں کہ ۲۵ ہزار ماہوار یا ۳ لاکھ روپیہ سالانہ کی ہمیں ان کے لئے ضرورت ہوگی اور گو اتنے روپیہ کا اُن کے لئے جمع ہونا بظاہر بڑا مشکل دکھائی دیتا ہے لیکن اگر یہ مبلغ اپنے اخراجات خود برداشت کر لیں تو پنجاب میں ہم آسانی کے ساتھ پانچ سو مبلغ پھیلا سکتے ہیں.میں نے جیسا کہ ابھی بتایا ہے اُن مبلغین کو جو مختلف دیہات میں مقرر کئے گئے ہیں یہ نصیحت کی ہے کہ وہ کوشش کریں کہ ایک سال کے اندر اندر اُن کا خرچ سلسلہ سے اُٹھ جائے تا کہ جو روپیہ اس وقت اُن پر خرچ ہو رہا ہے اُس سے ہم ایک نیا مبلغ رکھ سکیں.میں نے انہیں کہا ہے کہ تم جماعتوں کو منظم کرو.اُن کے چندوں کو بڑھانے کی کوشش کرو

Page 134

خطابات شوری جلد سوم ا ۱۱۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء یہاں تک کہ سال کے بعد جب اُن جماعتوں کا بجٹ آئے تو ہم اُس کو دیکھ کر یہ کہہ سکیں کہ ان جماعتوں کے چندہ میں کم از کم اتنی زیادتی ضرور ہو گئی ہے کہ ایک نیا مبلغ ہم آسانی کے ساتھ رکھ سکتے ہیں.اگر اس رنگ میں اُن کی طرف سے کوشش جاری رہے تو پانچ چھ سال کے اندر اندر ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے پانچ سو مبلغ پنجاب میں آسانی کے ساتھ پھیلا سکتے ہیں.یہ سکیم ہے جو میرے مدنظر ہے اور یہ سکیم ہے جس کے ماتحت میں نے حُسنِ ظنی کرتے ہوئے اپنے خدا پر اور مُحسن ظنی کرتے ہوئے اپنے نفس پر اور حسن ظنی کرتے ہوئے اپنی جماعت پر اور حسن ظنی کرتے ہوئے اُن مبلغین پر جن کو باہر بھجوایا گیا ہے، پچاس دیہاتی مبلغین کی ایک نئی کلاس کھولنے کا فیصلہ کیا ہے.۳۵ مبلغین کا تو انتخاب ہو چکا ہے اور کچھ نئی درخواستیں بھی آرہی ہیں جس سے امید ہے کہ یہ تعدا د انشاء اللہ پوری ہو جائے گی اور اگلے سال تک ہمیں پچاس اور ایسے مبلغ مل جائیں گے جن کو ہم مختلف مقامات پر پھیلا سکیں گے.اس کے بعد خدا تعالیٰ نے اگر ہماری جماعت میں بیداری کی رُوح کو قائم رکھا تو ہم کوشش کریں گے کہ اگلے سال سو مبلغین کی کلاس کھولی جائے.اس طرح چھ سال میں ہم پانچ سو دیہاتی مبلغین رکھ سکتے ہیں سردست میرا فیصلہ یہ ہے کہ ان میں سے دو تین سو پنجاب میں رکھے جائیں گے اور باقی سرحد، سندھ، یوپی، بنگال، اور بہار، وغیرہ میں پھیلا دیئے جائیں گے.میں سمجھتا ہوں کہ جو مبلغ جاتے ہیں اگر اُن میں یہ رُوح پیدا کی جائے کہ انہیں ایک سال کے اندر اندر اپنا بوجھ خود اٹھا لینا چاہئے جو ناممکن نہیں بلکہ ممکن ہے بلکہ میں سمجھتا ہوں مشکل بھی نہیں ہے تو پنجاب اور ہندوستان کے دوسرے صوبہ جات کے دیہات میں ہم آسانی کے ساتھ نہایت وسیع پیمانہ پر اپنے مبلغین مقرر کر سکتے ہیں.ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک طرف جماعت اپنی آمد کو بڑھائے اور دوسری طرف مبلغین جماعت کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے ، زیادہ سے زیادہ منظم کرنے اور زیادہ سے زیادہ اپنے اخراجات کو کم کرنے کی کوشش کریں تا کہ تبلیغ کو وسیع کیا جا سکے.یہ خوشخبری آپ لوگ سُن چکے ہیں کہ بائیس سال سے صدر انجمن احمد یہ پر جو قرض چلا آرہا تھا وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اُتر گیا ہے اور اس وقت چار لاکھ پندرہ ہزار ریز روفنڈ میں جمع ہے.ہم نے اس ریز روفنڈ کو پچیس لاکھ تک پہنچانا ہے.اگر ہم ۲۵ لاکھ کا ریز روفنڈ

Page 135

خطابات شوری جلد سوم ۱۱۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء قائم کر دیں تو اُس سے ایک لاکھ ۲۵ ہزار روپیہ کی آمد پیدا ہو جائے گی جس سے ہنگامی اخراجات کو پورا کیا جا سکے گا اور جن دنوں میں اس قسم کے اخراجات نہیں ہوں گے یہ آمد پھر ریز رو فنڈ میں جمع ہوتی رہے گی.اس طرح ہم اُمید کر سکتے ہیں کہ یہ ۲۵ لاکھ کا ریز روفنڈ کو دس سال میں اپنی آمد سے ہی ۵۰ لاکھ تک پہنچ جائے گا اور پچاس لاکھ روپیہ سے ہم اڑھائی لاکھ روپیہ سالانہ آمد پیدا کر سکیں گے جو خطرہ کے وقت سلسلہ کے کام آئے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہمارے تبلیغی کام میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ترقی ہو رہی ہے.چار مبلغ تحریک جدید کے ماتحت غیر ممالک میں جاچکے ہیں، ایک جانے کے لئے تیار ہے اور دس مبلغین کو پاسپورٹ مل گئے ہیں اور اُمید ہے کہ تین چار ماہ میں وہ روانہ ہوسکیں گے.میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ کالج کے متعلق جہاں اس سال کا بجٹ پیش ہے وہاں یہ امر ہمیں اپنے مد نظر رکھنا چاہئے کہ کالج کو صحیح طور پر چلانے کے لئے ہمیں دو لاکھ روپیہ کی اور ضرورت ہوگی.اس کے بغیر ہم بی.اے اور ایم.اے کلاسز نہیں کھول سکتے.گزشتہ سال میں نے کالج کے لئے دو لاکھ روپیہ چندہ کی تحریک کی تھی مگر بوجہ اس کے کہ اُن دنوں اور بھی بہت سی تحریکات جاری تھیں، جماعت اس کی طرف پورے طور پر توجہ نہ کر سکی.پھر بھی جماعت نے ایک لاکھ چھپن ہزار کے وعدے کئے جس میں سے ایک لاکھ چودہ ہزار روپیہ آچکا ہے اور بیالیس ہزار کی وصولی باقی ہے مگر اس کے باوجود ہمیں دو لاکھ روپیہ کی ضرورت ہوگی.اس سال کا لج والوں نے نئی جماعت کے سائنس کے اخراجات کے لئے پندرہ ہزار روپیہ مانگا ہے.اگر بی.اے کلاسز کھولی جائیں تو چھپیں تیس ہزار روپیہ کی ضرورت ہوگی اور بی.ایس سی کلاسز کے لئے کم سے کم ایک لاکھ روپیہ کی ضرورت ہوگی اور اگر میڈیکل کلاس کھولی جائے تو پچاس ہزار روپیہ اس کے لئے ضروری ہوگا.بہر حال کالج کے لئے ہمیں مزید دو لاکھ روپیہ کی ضرورت ہے.کچھ اس کی عمارت کے لئے ، کچھ سائنس کے سامانوں کے لئے اور کچھ نئی کلاسز کے اخراجات کو پورا کرنے کے لئے.اس صورت میں ہم بی.اے، بی ایس سی کھول سکیں گے.اس کے بعد ایم.اے، ایم.ایس.سی کا سوال رہ جائے گا.اسی طرح کالج کے متعلق ہمیں یہ امر بھی مد نظر رکھنا چاہئے کہ اُس کا دس لاکھ ریز روفنڈ قائم ہو تا کہ اُس سے پچاس ہزار روپیہ سالانہ کی آمد پیدا

Page 136

خطابات شوری جلد سوم ۱۲۰ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء ہو سکے بلکہ اگر ممکن ہو تو ساٹھ ستر ہزار آمد پیدا ہو جائے.عمدہ کالج کسی طرح بھی سوالاکھ روپیہ سالانہ کے خرچ سے کم میں نہیں چل سکتا.اگر کالج میں چھ سولڑ کا ہو اور اوسط فیس پانچ ہزار روپیہ ماہوار یا ساٹھ ہزار روپیہ سالانہ ہو اور پچھتر ہزار کے قریب ریز رو فنڈ سے آمد ہو تو بغیر جماعت پر بوجھ ڈالنے کے عمدگی سے ہم اس کا لج کو چلا سکتے ہیں.دوسرا پروگرام میرے مدنظر یہ ہے کہ ہم جلد سے جلد یہاں ایک میڈیکل سکول جاری کر دیں کیونکہ بعض ممالک میں ہم کامیاب طور پر تبلیغ نہیں کر سکتے جب تک کثرت سے ہماری جماعت میں ڈاکٹر نہ ہوں.دوسرے اس سکول کی ضرورت ہماری جماعت کو اس لئے بھی ہے کہ عورتوں کے لئے ڈاکٹری تعلیم کا حصول دوسرے کالجوں میں اب بہت مشکل ہو گیا ہے.گورنمنٹ کا رُجحان اب اس طرف ہو گیا ہے کہ ایم.بی.بی.الیس تک سب کو تعلیم دلائی جائے اور ایم.بی.بی.ایس تک تعلیم دینے کے لئے کالجوں میں مرد پروفیسر مقرر ہوتے ہیں.اسلامی شعار چونکہ پردہ کرنا ہے اس لئے آئندہ ہماری عورتوں کی میڈیکل تعلیم میں سخت مشکلات پیدا ہو جائیں گی.مجھے ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کی طرف سے بتایا گیا ہے گو مجھے یقین نہیں آتا کہ بیس ہزار روپیہ سالانہ کے خرچ سے ہم میڈیکل سکول قادیان میں جاری کر سکتے ہیں.اگر یہ درست ہو تو شاید میں لمبا انتظار بھی نہ کروں اور فوراً اس سکول کو جاری کر دوں.کیونکہ ایک تو ڈاکٹر عورتیں پیدا کرنا عورتوں میں ہمارے تبلیغی اثر کو بہت وسیع کر دے گا.دوسرے ہم اپنے مبلغین کو دینیات کے ساتھ ڈاکٹری کی تعلیم آسانی کے ساتھ دلا سکتے ہیں.مثلاً وہ لڑکے جو انٹرنس پاس ہوں اور اُنہیں بطور مبلغ ہم رکھنا چاہتے ہوں، اُن کے متعلق یہ ہو سکتا ہے کہ میڈیکل سکول میں داخل کر کے ہم اُن کو ڈاکٹری تعلیم دلا دیں اور دوسری طرف علیحدہ انہیں دینی تعلیم بھی دیتے رہیں.اس ذریعہ سے اچھوت اقوام میں اپنے تبلیغی اثر کو بہت وسیع کیا جا سکتا ہے.بالخصوص جنوبی ہند اور افریقہ میں اس سکیم کے ماتحت مبلغ اپنی روزی بھی کما سکتے ہیں اور اسلام اور احمدیت کی اشاعت بھی کر سکتے ہیں.تبلیغ دوحصوں میں میں یہ بھی بتا دینا چاہتاہوں کہ آئندہ تبلیغ کو میں نے دوحصوں میں منقسم کر دیا ہے.ہندوستان کی تبلیغ کو صدر انجمن احمدیہ کے ماتحت ا

Page 137

خطابات شوری جلد سوم ۱۲۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء کر دیا ہے اور بیرون ہند کی تبلیغ کو تحریک جدید کے ماتحت کر دیا ہے اور میں نے ہدایت دے دی ہے کہ صدر انجمن احمد یہ اپنے موجودہ بیرون ہند کے بجٹ تحریک جدید کے سپر د کر دے اور تحریک جدید اپنے ہندوستانی مبلغین اور اُن کے بجٹ کو صدر انجمن احمدیہ کے سپردکر دے.ساتھ ہی میں نے فیصلہ کیا ہے کہ بیرونی جماعتوں کے بجٹ سوائے ہندوستانی جماعتوں کے جیسے نیروبی ہے فارن مشنوں کو مضبوط کرنے کے لئے ہی استعمال کئے جائیں اور ہر ملک کا روپیہ اُسی ملک کی تبلیغ پر خرچ ہو، یہاں تک کہ بیرونی مشن خوب مضبوط ہو جائیں مگر تحریک جدید کے ماتحت وہاں کے مقامی لوگوں کو خود خرچ کر لینے کا اختیار نہ ہو.اگر وہ روپیہ اُن کی ضروریات سے بڑھ جائے گا تو بیشک صدر انجمن احمدیہ کو مل جائے گا مگر جب تک وہ مشن مضبوط نہیں ہوتے ، میرا فیصلہ یہی ہے کہ اُن کا چندہ اُنہی مشنوں پر خرچ ہوتا رہے.یہ چندے بہت تھوڑے ہیں اور غیر ملکی جماعتیں بھی زیادہ نہیں ہیں.صرف عرب مصر، انگلستان، یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ اور ویسٹ افریقہ یہی غیر ملکی جماعتیں کہلاتی ہیں اور اُن کا چندہ بہت تھوڑا ہوتا ہے.ان غیر ملکی جماعتوں کی طرف سے چندہ نہ آنے سے صدر انجمن احمدیہ کے بجٹ پر کوئی غیر معمولی اثر نہیں پڑسکتا لیکن اس کے مقابلہ میں اگر یہ روپیہ.انہی مشنوں پر خرچ کیا جائے تو اس سے ان کی ترقی میں بہت کچھ مددمل سکتی ہے اور ان لوگوں کے اندر یہ احساس پیدا کیا جاسکتا ہے کہ تمہارا روپیہ تمہارے ملک میں ہی تبلیغ اسلام پر خرچ کیا جا رہا ہے.تمہیں چاہئے کہ اپنے مشن کو اور زیادہ مضبوط کرنے کی کوشش کرو.میں اُمید کرتا ہوں کہ چند سالوں میں ہی اس طریق کے ماتحت بیرونی ممالک کے مشن انشاء اللہ مضبوط ہو جائیں گے اور جب اُن کی ضروریات سے چندہ بڑھ گیا تو وہ روپیہ پھر صدر انجمن احمدیہ کو ہی ملنا شروع ہو جائے گا.ترجمۃ القرآن انگریزی کے متعلق اسی جگہ تین سال ہوئے فیصلہ ہوا تھا کہ اُس کو جلد سے جلد شائع کر دیا جائے.کام کرنے والوں کے لحاظ سے گو بڑے زور سے جد و جہد کی گئی ہے مگر حالات کے لحاظ سے وہ جدو جہد نہایت ہی سُست ثابت ہوئی ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ تین سال کے بعد بھی ابھی وہ ترجمہ تیار نہیں ہوا.اس سال چھپنا شروع ہوا ہے اور ۲۸۰ صفحات تک چھپ چکا ہے.مطبع والے کہتے ہیں کہ چھ ماہ میں وہ اس کی پہلی جلد جو

Page 138

خطابات شوری جلد سو ۱۲۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء چودہ سو صفحات پر مشتمل ہوگی تیار کر کے دے دیں گے.تفسیر کبیر کی اشاعت تفسیر کبیر کے آخری پارہ کا مضمون ساڑھے سات سو صفحات تک تیار ہو چکا ہے.اب صرف آخری رُبع باقی ہے.مجلس شوری کے - بعد اپریل میں یا مئی کے مہینہ میں یہ رُبع بھی انشاء اللہ ہو جائے گا اور اس سال تفسیر کبیر کے آخری پارہ کی جلد انشاء اللہ چھپ جائے گی.پریس کی دقتوں کی وجہ سے اب تک صرف ۱۸۰ صفحات چھپ سکے ہیں.لیکن اب چونکہ پریس اپنا خرید لیا گیا ہے اس لئے آئندہ ان شاء اللہ مضمون ساتھ کا ساتھ چھپتا چلا جائے گا.تفسیر کا یہ آخری پارہ انشاء اللہ عنقریب شائع ہو جائے گا اور دس بارہ روپے اس کی قیمت ہوگی اور گو یہ صرف ایک پارہ کی تفسیر ہوگی مگر اندازاً ایک ہزار صفحہ کی جلد ہوگی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ تفسیر اس زمانہ کے لحاظ سے بہت مفید معلومات اپنے اندر رکھتی ہے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کی جماعت کے متعلق اس پارہ میں زبردست پیشگوئیاں پائی جاتی ہیں اور تبلیغ کے لئے یہ ایک بہت ہی مفید ہتھیار ثابت ہو گا.جماعت کو چاہئے کہ اس کی خریداری کا حلقہ وسیع کرنے کی کوشش کرے.جہاں تک مجھے معلوم ہے اب تک صرف سو دو سو آدمیوں نے خریداری کے لئے نام لکھوایا ہے.تفسیر کبیر کی پچھلی جلد تین ہزار چھپی تھی جس میں سے ۲۳ سو کتاب جماعت نے خریدی اور سات سو غیروں نے خریدی.اب یہ حالت ہے کہ وہی کتاب جو چھ چھ روپے کو فروخت کی گئی تھی قادیان میں اس کی ایک ایک جلد چھپیں چھپیں روپے پر بھی فروخت ہوئی ہے بلکہ پرسوں ہی میرے پاس عراق سے ایک خط آیا جسے پڑھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی.وہاں ایک احمدی ڈاکٹر ہیں انہوں نے کہا کہ مجھ سے تفسیر کبیر ایک غیر احمدی ڈاکٹر نے پڑھنے کے لئے لی تھی.کچھ عرصہ کے بعد اُن کا تبادلہ ہو گیا اور میں نے اپنی کتاب واپس لے لی.انہیں معلوم ہوا کہ ایک اور احمدی کے پاس یہ کتاب ہے.چنانچہ وہ غیر احمدی ڈاکٹر اُس کے پاس گئے اور ایک سو روپیہ میں انہوں نے یہ کتاب اُس سے خرید لی.گویا وہی کتاب جس کے لئے پانچ یا چھ روپے دینے بھی جماعت کو مشکل معلوم ہورہے تھے اور تین ہزار میں سے صرف ۲۳ سو جماعت نے خریدی ، سو سو روپیہ پرفروخت ہو رہی ہے.حالانکہ قرآن کریم کی تفسیر تو ایسی قیمتی چیز ہے کہ اگر یہ آٹھ دس ہزار کی تعداد میں چھپے تب

Page 139

خطابات شوری جلد سوم ۱۲۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء بھی ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو جانی چاہئے.اب آخری پارہ کی تفسیر شائع ہونے والی ہے جس طرح پچھلی تفسیر کے بعد میں ۵ کی بجائے ۲۵ روپے دینے پڑے اسی طرح اگر اب دوستوں نے اس کے لئے دس بارہ روپے خرچ نہ کئے تو بعد میں پچاس بلکہ ممکن ہے سو سو روپیہ بھی خرچ کرنا پڑے اور پھر بھی مشکل سے حاصل ہو.پس آج ہی تمام دوست اپنے اپنے دلوں میں اس کی خریداری کے متعلق فیصلہ کر لیں.یہ کتاب انشاء اللہ جلد شائع ہو جائے گی.تین ربع کی تفسیر ہو چکی ہے صرف ایک ربع کی تفسیر رہتی ہے اور چونکہ اب اپنا پریس قائم ہو چکا ہے اس لئے زور دینے کے بعد یہ کتاب انشاء اللہ جلد چھپ جائے گی.آج ڈاک میں ٹورا مشرقی افریقہ کی احمد یہ مسجد کی جو حال ہی میں تعمیر کی گئی ہے تصویر ملی ہے جو بہت ہی خوبصورت ہے.دوستوں کو دُور سے نظر تو نہیں آئے گی مگر میں دکھا دیتا ہوں.اٹالین آرٹ کی بنی ہوئی ہے.گورنمنٹ نے اس مسجد کی تعمیر کے لئے اٹلی کے قیدی 66 ہماری جماعت کو دیئے تھے.“ اس موقع پر حضور نے یہ تصویر دوستوں کو دکھائی اور فرمایا: - دوست ایک اور تصویر بھی مصر سے آئی ہے.یہ تصویر بظاہر معمولی معلوم ہوتی ہے مگر اس کے پیچھے ایک ایسی تحریر تھی کہ پہلے تو میں دینی ذوقی طور پر تصویر دیکھ رہا تھا پھر جو اچانک اُس تحریر پر نظر پڑی تو فوراً میری آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے.اس تصویر میں ایک طرف ایک مصری دوست بیٹھے ہیں، دوسری طرف ایک انگریز نو مسلم ہیں اور درمیان میں کوئی بچہ ہے پہلے تو میں نے اس تصویر کو دیکھا تو میں نے کہا یہ ہمارا تو مسلم انگریز بھائی ہے.یہ ہمارا مصری ہے اور درمیان میں ان میں سے کسی کا بچہ بیٹھا ہے.مگر میں نے پیچھے نظر ڈالی تو مجھے قرآن کریم کی یہ آیت لکھی ہوئی نظر آئی.جسے پڑھتے ہی فوراً میری آنکھوں میں آنسو آ گئے کہ واذكرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بنعمته إخوانا یا مصری لوگوں کو انگریزوں سے شدید دشمنی ہے.بظاہر اُن کی آپس میں صلح معلوم ہوتی ہے مگر در حقیقت مصریوں کی گھٹی میں انگریزوں کی دشمنی ہے.ہمارے مصر کے احمدی نوجوان زیادہ تر ایسی ہی جماعتوں میں سے آئے ہیں جو سیاسی تھیں اور انگریزوں سے شدید بغض رکھتی تھیں.اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے کہ کسی وقت میں

Page 140

خطابات شوری جلد سوم ۱۲۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء انگریز کا شدید دشمن تھا مگر آج احمدیت کی وجہ سے انگریز میرے پہلو میں بیٹھا ہوا ہے اور میں اُسے اپنا بھائی سمجھ رہا ہوں.وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاء فالف بين قُلُوْبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِه إخوانا.یہ خوشی کی خبریں ہیں اور ایسی ہی ہیں جیسے خدا تعالیٰ کی طرف سے نسیم صبا چلائی جاتی ہے.خدا تعالیٰ بھی ہمارے لئے خوشی کی ہوائیں چلا رہا ہے اور مختلف ملکوں سے اسلام کی ترقی کی خبریں آرہی ہیں.مگر اس کے ساتھ ہی بعض ایسی خبریں بھی آ رہی ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم اپنے قدم کو اور زیادہ تیز کر دیں اور تبلیغ کو زیادہ زور اور سرگرمی کے ساتھ پھیلائیں.عیسائیوں کا حملہ چنانچہ سیرالیون سے خبر آئی ہے کہ احمدیت کی ترقی کی وجہ سے وہاں عیسائیوں نے منظم طور پر حملہ شروع کر دیا ہے.اُس ملک میں زیادہ تر تبلیغ مدرسوں اور سکولوں کے ذریعہ ہوتی ہے اور مدرس چونکہ مسلمان نہیں ملتے اس لئے عیسائیوں کو ملازم رکھ لیا جاتا ہے.اب عیسائیوں نے آپس میں مشورہ کر کے عیسائی مدرسین کو ہدایت کی ہے کہ وہ احمدی مدارس میں یہ مطالبہ کریں کہ انہیں اتوار کی چھٹی دی جائے تا کہ وہ گر جا میں شامل ہوسکیں.اُن کی پالیسی یہ ہے کہ سرکاری گرانٹ کسی ایسے سکول کو نہیں مل سکتی جو ہفتہ میں چھ دن سے کم گھلا رہے.ہمارے مدارس میں چونکہ جمعہ کو چھٹی ہوتی ہے اور اسلامی احکام کے لحاظ سے ہونا بھی ایسا ہی چاہئے.اس لئے انہوں نے یہ مطالبہ شروع کر دیا ہے کہ ہمیں اتوار کو چھٹی دی جائے.اِس سے اُن کا مقصد یہ ہے کہ اگر اتوار کو بھی چھٹی دے دی گئی اور جمعہ کو پہلے ہی چھٹی ہوتی ہے تو ہفتہ میں صرف پانچ دن پڑھائی ہوگی اور سرکاری گرانٹ بند ہو جائے گی.عیسائیوں نے اپنے مدرسین سے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اگر احمد یہ مدارس سے اس مطالبہ کی بناء پر تمہیں علیحدہ کر دیا جائے تو ہم تمہارے لئے نئے سکول کھول دیں گے.وہ جانتے ہیں کہ اگر ان کو ہٹا دیا گیا تو انہیں اپنے سکول بند کرنے پڑیں گے اور اگر اُن کا مطالبہ مان لیا تو سرکاری گرانٹ سے محروم رہنا پڑے گا.یہ ایک نیا حملہ ہے جو سیرالیوں میں عیسائیوں کی طرف سے ہماری جماعت پر کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ دشمن کی اِن شرارتوں کے بداثرات کو دُور فرمائے اور اُسے اپنے ارادوں میں نا کام کرے.

Page 141

خطابات شوری جلد سوم ۱۲۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء اس مخالفت کا حقیقی علاج تو یہی ہے کہ ایسے مبلغ ہمارے پاس کثرت سے تیار ہوں جو اُس ملک میں مدرسوں کا کام کریں اور عیسائی مدرسین کی ہمیں ضرورت نہ رہے.لیکن اس کے ساتھ ہی دوسری تجویز میں نے یہ کی ہے کہ ایک نوجوان کو انگلستان بھجوانے کا فیصلہ کر دیا ہے وہ وہاں سے ایم.اے کی ڈگری حاصل کر کے ویسٹ افریقہ جائے گا.اور لنڈن میٹرک کے اصول کے مطابق وہاں ایک سکول جاری کرے گا.جس میں پڑھے ہوئے نو جوانوں کو گورنمنٹ کے قانون کے مطابق بطور مدرس رکھا جا سکے گا.اس موقع پر میں پھر جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہمیں فوری طور پر ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو اپنی زندگیاں وقف کریں تا کہ انہیں افریقہ میں تبلیغ کے لئے بھجوایا جا سکے.اگر ایک سو نوجوان ہمیں ایسے مل جائیں تو ہم مغربی افریقہ کی ضرورت کو ایک حد تک پورا کر سکتے ہیں.ابتداء میں بے شک کچھ خرچ ہو گا لیکن وہاں کی جماعتیں بہت جلد اُن کے اخراجات کو برداشت کرنے کا وعدہ کرتی ہیں.اس صورت میں مرکز پر اُن کا کوئی بوجھ نہیں رہے گا اور وہ مقامی جماعتوں کے خرچ پر مغربی افریقہ میں تبلیغ کو وسیع کرسکیں گے.“ آمد بڑھانے کی تجاویز حضور کے اس خطاب کے بعد کچھ ممبران نے سلسلہ کی آمد بڑھانے کے بارہ میں چند تجاویز پیش کیں.ان پر تبصرہ کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:- دوستوں نے عام اظہارِ خیالات آمدن کے متعلق کر لیا ہے.اس میں بعض اچھی تجویزیں بھی ہیں اور بعض ایسی ہیں جو در حقیقت نئی نہیں بلکہ انتظام کو درست بنانے کے متعلق ہیں.اُن کا زیادہ تعلق نظارت بیت المال سے ہے.اُن کو نظر انداز کرتے ہوئے جو تجاویز پیش کی گئی ہیں اُن میں سے دو تجویزیں ایسی ہیں جو درحقیقت میری ہی پیش کردہ ہیں.یعنی ہندوستان میں تاجروں کی تنظیم اور ریز رو فنڈ کا جمع کرنا.تاجروں کی تنظیم کے متعلق میں نے ایک خطبہ میں تفصیلی طور پر توجہ دلائی تھی مگر مجھے افسوس ہے کہ تاجروں کی جماعت پر میرے اس خطبہ کا اتنا اثر نہیں ہوا جتنا اثر میرے خطبات کا عام جماعت پر ہوا کرتا ہے.اب تک اس تنظیم کے ماتحت صرف ڈیڑھ سو تاجروں نے اپنے نام لکھوائے ہیں

Page 142

خطابات شوری جلد سوم ۱۲۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء حالانکہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں ہماری جماعت میں ہزار دو ہزار سے کم تا جر نہیں ہیں پس یہ تعداد بہت ہی کم ہے اور پھر جس رنگ میں انہوں نے دلچسپی لی ہے وہ اور بھی کم ہے اور عملی طور پر تو انہوں نے کوئی قدم نہیں اُٹھایا.اس غرض کے لئے جماعت کے تاجروں میں جو چندہ کی تحریک کی گئی تھی اُس میں بھی صرف ایک دوست چوہدری شاہ نواز صاحب آگرہ نے ایک ہزار روپیہ دیا ہے اور کسی نے جہاں تک مجھے علم ہے ایک پیسہ بھی نہیں دیا حالانکہ میں نے بتایا تھا کہ تنظیم کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے آدمی باہر پھریں، تاجروں سے خط و کتابت کریں اور انہیں ایک مرکز پر لانے کی کوشش کریں.اب تک پانچ چھ سو روپیہ ہمارا خرچ ہو چکا ہے اور ابھی اور بھی بہت کچھ خرچ ہوگا کیونکہ اس محکمہ کو قائم ہوئے ابھی صرف تین چار ماہ ہوئے ہیں اور جبکہ یہ محلہ محض تاجروں کے لئے قائم کیا گیا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ جن کے لئے یہ محکمہ قائم ہوا ہے اور جن کو قومی طور پر اس سے فائدہ پہنچ سکتا ہے وہ اس کی طرف توجہ نہ کریں.خصوصاً ایسی جماعت جو مالی لحاظ سے بھی دوسروں پر فوقیت رکھتی ہے.اب تک صرف چوہدری شاہ نواز صاحب نے ہی اس تحریک میں حصہ لیا ہے اور کسی نے اس طرف توجہ نہیں کی جو نہایت ہی قابلِ افسوس امر ہے.ایک دوست نے امانت فنڈ کی طرف توجہ دلائی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ طریق بھی بہت سی مشکلات کو دُور کرنے والا ہے اور اس سے بہت سی جائیداد میں خریدی گئی ہیں جن کا مرکز کی مضبوطی کے لئے خریدنا ہمارے لئے ضروری تھا مگر ان کی طرف سے جو مشکلات بیان کی گئی ہیں میں نہیں سمجھ سکا کہ وہ کوئی حقیقی مشکلات ہیں.موجودہ قاعدہ تو یہ ہے کہ لوگ جب چاہیں اپنی امانت کا روپیہ واپس لے سکتے ہیں.جس طرح لوگ بنگ میں رو پی جمع کراتے اور پھر اپنی مرضی پر نکلوا لیتے ہیں اسی طرح ہمارے ہاں قانون ہے کہ جب کسی کو کوئی ضرورت پیش آئے وہ اپنا روپیہ نکلوالے، اس میں کسی قسم کی روک نہیں ہے.اس وقت تک امانت فنڈ میں دو لاکھ سے اوپر روپیہ جمع ہوا ہے حالانکہ اگر جماعت پوری توجہ کرے تو آٹھ دس لاکھ روپیہ جمع ہو سکتا ہے.اس سے لوگوں کی وقتی ضرورتیں بھی پوری ہوسکتی ہیں اور نصف سے زیادہ روپیہ سلسلہ کی جائیدادوں کو بڑھانے کے کام آ سکتا ہے.ایک تجویز کی طرف بابوعبد الحمید صاحب آڈیٹر نے توجہ دلائی ہے جو درحقیقت میری ہی

Page 143

خطابات شوری جلد سوم ۱۲۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء ایک پہلی تجویز ہے کہ جب میں نے ریز رو فنڈ قائم کیا تھا کہ غیر احمدی دوستوں، رشتہ داروں اور دوسرے لوگوں سے اس بارہ میں چندہ لے لیا جائے کیونکہ جماعت کی ایک خاص رقم دوسروں پر خرچ ہوتی ہے اور اُن کی ترقی سے تعلق رکھنے والے کاموں میں ہم ہمیشہ حصہ لیتے رہتے ہیں.پس کوئی وجہ نہیں کہ اُن سے چندہ نہ لیا جائے.تعجب ہے کہ میری اس قدر واضح ہدایت کے باوجود جماعت نے ابھی تک اس طرف توجہ نہیں کی حالانکہ جس وقت یہ تجویز ہوئی تھی اُس وقت ایک دوست نے کھڑے ہو کر کہا تھا کہ ایک لاکھ روپیہ تو صرف میں ہی جمع کردوں گا ، مگر بعد میں اُن کی طرف سے ایک پیسہ بھی نہ آیا حالانکہ میں نے تشریح بھی کر دی تھی کہ یہ روپیہ اسی قسم کے کاموں پر خرچ کیا جائے گا جس قسم کے کاموں پر ریڈ کر اس سوسائٹیاں روپیہ خرچ کیا کرتی ہیں.مثلاً کہیں زلزلہ آ گیا تو احمدی والنٹیئروں کو وہاں بھجوا دیا یا قحط پڑا تو اس روپیہ سے لوگوں کی مدد کر دی گئی یا کہیں بیماری پھیلی تو یہ روپیہ لوگوں کے علاج پر صرف کر دیا گیا.غرض رفاہِ عام کے وہ کام جن سے اسلام کا اعزاز بڑھتا ہے، ہم اس روپیہ سے سرانجام دیں گے.اور میں نے بتایا تھا کہ جب ہم نے یہ روپیہ دوسرے لوگوں پر ہی خرچ کرنا ہے تو اُن سے چندہ مانگنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ ہماری جماعت کو دلیری کے ساتھ اُن سے یہ چندہ مانگنا چاہئے اور انہیں کہنا چاہئے کہ تمہارے ہاں تو ایسی کوئی سکیم نہیں جس سے غرباء اور مصیبت زدوں کی امداد کی جائے لیکن ہندوؤں اور عیسائیوں کے ہاں ایسے فنڈز موجود ہیں اور وہ مصیبت زدوں کی امداد کے لئے ہر جگہ فوراً پہنچ جاتے ہیں.تمہیں بھی اپنے اندر بیداری پیدا کرنی چاہئے اور رفاہ عام کے کاموں کے لئے روپیہ صرف کرنا چاہئے تاکہ مسلمانوں کا اعزاز قائم ہو اور لوگوں کو اسلام کی طرف توجہ پیدا ہو.اگر اس رنگ میں کام کیا جائے اور مسلمانوں کی غیرت کو بھڑ کا یا جائے تو اُن کے اندر بھی کام کرنے کی روح پیدا ہو جائے اور ہمیں بھی فائدہ پہنچ جائے.وہ رفاہِ عام کے کاموں کے لئے روپیہ صرف کر کے نہ صرف ثواب حاصل کر سکتے ہیں بلکہ قربانی کی عادت بھی اُن میں پیدا ہوسکتی ہے.اور قربانی کی روح ہی ہے جو کسی قوم کو کامیاب کیا کرتی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ آمد بڑھانے کی تجاویز کا ایک کافی مواد جمع ہو گیا ہے جس.نظارت بیت المال بہت کچھ فائدہ اُٹھا سکتی ہے.اسی طرح تاجر پیشہ لوگ اگر چاہیں تو وہ

Page 144

خطابات شوری جلد سو ۱۲۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء ترقی کی طرف اپنا قدم بڑھا سکتے ہیں.میں امید کرتا ہوں کہ ہماری جماعت کے تا جر نمائندے جو اس وقت یہاں موجود ہیں وہ اپنے اپنے مقامات پر واپس جا کر تاجروں کی لسٹیں ہمیں جلد سے جلد بھجوانے کی کوشش کریں گے تاکہ اُن کو منظم کیا جا سکے اور سلسلہ کا وہ حصہ جو تاجروں سے تعلق رکھتا ہے اُس کو بیدار کر کے اُس سے کام لیا جا سکے.“ ۳۱ / مارچ ۱۹۴۵ء کے دن مجلس مشاورت سب کمیٹی مال بجٹ میں تبدیلی کرسکتی ہے کے دوسرے اجلاس میں حضور نے ممبران کو موقع دیا کہ وہ بجٹ صدر انجمن میں اخراجات کم کرنے کے سلسلہ میں کوئی مفید تجویز پیش کرنا چاہتے ہوں تو پیش کریں.اس پر چند احباب نے اپنی تجاویز پیش کیں.ان پر تبصرہ کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:- ”میرے نزدیک اس وقت دوستوں سے یہ غلطی ہوئی ہے کہ جب اُنہیں یہ کہا گیا تھا کہ اخراجات کے متعلق اگر کسی نے کوئی تفصیلی رائے دینی ہو تو دے دیں اُس وقت تو انہوں نے کوئی رائے نہ دی اور اب اس کے متعلق رائے دی جا رہی ہے جبکہ اور سوال پیش ہے.جو تجاویز اس وقت دوستوں کی طرف سے پیش کی گئی ہیں وہ اخراجات میں کمی کرنے کے متعلق نہیں بلکہ زیادتی کے متعلق ہیں حالانکہ اصل سوال یہ پیش تھا کہ اگر کسی کے نزدیک کوئی خرچ ناجائز ہو یا کسی رقم میں کمی کرنی ضروری ہو تو وہ اپنی رائے کا اظہار کر دیں.یہ سوال نہیں تھا کہ وہ اخراجات کو بڑھانے کی تجاویز پیش کرنی شروع کر دیں.یہ غلطی ہے جو دوستوں سے اس دفعہ ہوئی ہے کہ جب اخراجات کے متعلق تفصیلی بحث کا وقت دیا گیا تھا اُس وقت تو وہ خاموش رہے اور اب جبکہ اور سوال پیش ہے وہ زیادتی کے متعلق اپنی آراء کا اظہار کرنے لگ گئے.بہر حال آئندہ کے متعلق میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ سب کمیٹی بیت المال کو ایسی تمام تجاویز پر غور کر لینا چاہئے جو اخراجات میں زیادتی کرنے کے متعلق اس کے سامنے پیش کی جائیں.مجھے بتایا گیا ہے کہ سب کمیٹی نے اس دفعہ کہا کہ ہمیں خرچ کو بڑھانے کا اختیار نہیں ہے مگر میرے نزدیک یہ درست نہیں.سب کمیٹی کو خرچ کے بڑھانے کا اختیار ہے اور آئندہ کے متعلق یہ میرا فیصلہ ہے کہ اسے ایسی تمام تجاویز پر غور کر لینا چاہئے

Page 145

خطابات شوری جلد سوم ۱۲۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء اور چونکہ سب کمیٹی میں آئندہ تمام نظارتوں کے نمائندے بھی شامل ہونگے اس لئے ہر نظارت کی رائے سب کمیٹی پر کلی طور پر واضح ہو جائے گی.بہر حال سب کمیٹی بیت المال اخراجات کو بڑھانے یا بجٹ میں تبدیلی کرنے کا اختیار رکھتی ہے.اور چونکہ آئندہ ایک خاصی تعداد انجمن کے نمائندوں کی اس سب کمیٹی میں شامل ہوگی مختلف نظارتوں کا نقطہ نگاہ اس پر آسانی سے واضح ہو سکے گا.یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر سب کمیٹی خود بعض اخراجات نہ بڑھانا چاہے تو مجلس شوریٰ میں ان معاملات کو پیش کر کے لوگوں کی رائے طلب کر لے.بہر حال ایسے امور سب کمیٹی میں ہی طے ہو سکتے ہیں.یہاں اگر بعض اخراجات میں زیادتی کی رائے پیش کی جائے تو اس پر پوری طرح غور نہیں ہوسکتا.کمی کے متعلق کسی خاص غور وفکر کی ضرورت نہیں ہوتی.پرانے اخراجات کے متعلق انسان کو تجربہ ہوتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ ان کو کس حد تک کم کیا جاسکتا ہے.مگر نئے اخراجات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ان پر پورا غور کر لیا جائے.اس لئے میں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ یہاں کسی خرچ میں اضافہ کرنے کے متعلق بحث کی جائے.اس قسم کی تجاویز کا دروازہ کھولنے سے راستہ بہت لمبا ہو جاتا ہے مگر چونکہ یہ پہلو ایسا ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.آئندہ کے متعلق سب کمیٹی کو میں نے اختیار دے دیا ہے اگر وہ کسی خرچ میں زیادتی مناسب سمجھے گی تو کر دے گی.دوستوں کو بھی یہ مد نظر رکھنا چاہئے کہ اگر ان کے نزدیک آئندہ کسی خرچ میں زیادتی ضروری ہو تو وہ اس معاملہ کو سب کمیٹی کے سامنے پیش کر دیا کریں.سب کمیٹی میں نظارتوں کے کافی نمائندے ہوں گے اور وہ اس پر پوری طرح غور کر کے مناسب رائے قائم کر سکیں گے.لائبریری کے متعلق تجاویز پر تبصرہ اس وقت جو تجاویز پیش کی گئی ہیں ان میں لائبریری کئی طور پر زیر بحث آگئی ہے.جہاں تک میں سمجھتا ہوں انجمن کے ذہن پر جو چیز حاوی رہی ہے اور جس کا مجھے صدر انجمن احمدیہ کے ممبران کے گفتگوؤں سے پتہ چلتا رہا ہے وہ یہ ہے کہ صدرانجمن احمد یہ اس لائبریری کو اپنی لائبریری نہیں سمجھتی.اس کی وجہ یہ ہے کہ لائبریری میں اسی فیصدی کتابیں حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کی ہیں اور انجمن ان کتابوں کی محض نگرانی کر رہی ہے.اُس کے پاس کوئی ایسی سند نہیں ہے جس سے وہ لائبریری کو اپنی ملکیت قرار دے سکے.اس وجہ سے ان کی طبیعت پر ہمیشہ یہ اثر

Page 146

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء رہتا ہے کہ ہم اس لائبریری کے اخراجات کیوں برداشت کریں.انجمن صرف ایسے ہی اخراجات برداشت کرتی ہے جن سے عارضی طور پر کام چلایا جا سکے.ایسے اخراجات جو کسی ملکیتی جائیداد کے متعلق ضروری ہوتے ہیں، انجمن ان کو برداشت نہیں کرتی.کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ یہ لائبریری انجمن کی ملکیت تو نہیں کہ اس کے اخراجات برداشت کئے جائیں.میرے نزدیک لائبریری کے متعلق بہت سے سوالات ہیں جن کا حل ہونا ضروری ہے اور جن کے متعلق صدر انجمن احمدیہ کا فرض ہے کہ وہ جلد سے جلد ان امور کا فیصلہ کرے.مثلاً اول اس بات کو خواہ نہ بھی طے کیا جائے کہ یہ لائبریری صدرانجمن احمدیہ کی ہے یا حضرت خلیفہ اول کے ورثاء کی ہے، سوال ہے کہ بعض کتابیں ایسی ہیں جن کے صرف ایک یا دو ایڈیشن نکلتے ہیں اور پھر اُس کتاب کا ملنا مشکل ہو جاتا ہے.اس قسم کی کتابیں لائبریری میں موجود ہیں اور انجمن اُن کے کسی تازہ ایڈیشن کے خریدنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی.اگر یہ لائبریری حضرت خلیفہ اول کے خاندان کی ہے اور درحقیقت جیسا کہ ہم بھی سمجھتے ہیں یہ حضرت خلیفہ اول کے خاندان کی ہی ملکیت ہے تو جس وقت اُنہوں نے یہ کتابیں واپس لے لیں ، انجمن کے لئے نئی کتابوں کا خرید نا سخت مشکل ہو جائے گا.نہ صرف اس لحاظ سے کہ ممکن ہے کہ اُس وقت تک ان کتابوں کا ایڈیشن ختم ہو چکا ہو بلکہ اس وجہ سے بھی کہ ہوسکتا ہے جو کتاب آج پانچ روپے کومل جاتی ہو وہ اس کے نایاب ہو جانے کی صورت میں پچاس پچاس ساٹھ ساٹھ بلکہ سو سو روپے کو ملے.اب تو صدر انجمن احمد یہ خاموشی سے بیٹھی ہے اور سمجھتی ہے کہ کتابیں لائبریری میں موجود ہیں اور کتابوں کے خریدنے کی کوئی ضرورت نہیں لیکن جب یہ کتابیں اپنی ملکیت کی وجہ سے حضرت خلیفہ اول کا خاندان لے لے گا تو اُس وقت صدر انجمن احمد یہ مجبور ہوگی کہ یا تو حضرت خلیفہ اول کے ورثاء سے اور یا پھر کسی اور جگہ سے وہ کتا بیں نہایت گراں قیمت پر خریدے اور اس طرح اپنی ضرورت کو پورا کرے.آج اگر وہ صفائی سے اس امر کا تصفیہ کر لیں تو کم سے کم اتنا فائدہ انجمن والوں کوضرور ہو جائے گا کہ جو کتابیں اُن کے نزدیک تبلیغی نقطہ نگاہ سے ضروری ہوں گی پیشتر اس کے کہ اُن کی طباعت ختم ہو یا گراں قیمت پر خریدنی پڑیں وہ آج ہی اُن کو خرید لے گی.دوسرا سوال یہ ہے کہ بعض کتب کی نوادر ہونے کے لحاظ سے تو بے شک بڑی اہمیت

Page 147

خطابات شوری جلد سوم ۱۳۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء ہوتی ہے مگر جہاں تک سلسلہ کی ضروریات کا تعلق ہے اُن کے لحاظ سے یا مطالعہ کے لحاظ سے انہیں کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں ہوتی.مثلاً بخاری اڑھائی روپے میں عام مل جاتی ہے اب جہاں تک دین کی اشاعت کے لئے بخاری کی ضرورت کا سوال ہے، اڑھائی روپے کی بخاری اتنا ہی کام دے جائے گی جتنا کام ایک پرانی قلمی بخاری جو پانچ سو سال کی لکھی ہوئی ہو دے سکتی ہے بلکہ پانچ سو سال کی پرانی قلمی بخاری کے خریدنے پر جتنا روپیہ صرف ہو سکتا ہے اتنے روپیہ سے شائع شدہ بخاری کی دس جلد میں خریدی جاسکتی ہیں.افراد بے شک بعض دفعہ اپنے ذاتی شوق کی وجہ سے اس قسم کی کتابیں خرید لیتے ہیں مگر جہاں تک سلسلہ کی ضروریات کا سوال ہے وہ کوئی اہمیت نہیں رکھتیں.ذاتی شوق کے لحاظ سے بعض لوگوں کو پرانے خطوط جمع کرنے کا شوق ہوتا ہے، بعض کو نیتریاں جمع کرنے کا شوق ہوتا ہے، بعض کو شوق ہوتا ہے کہ فلاں کتاب کا فلاں ایڈیشن مل جائے تو بڑی اچھی بات ہے، بعض کو پرانی قلمی کتابوں کے جمع کرنے کا شوق ہوتا ہے.بے شک جہاں تک کسی شخص کے ذاتی شوق کا سوال ہے، ہم اس کو برداشت کر لیں گے مگر جہاں تک ضروریات سلسلہ کا تعلق ہے ان چیزوں کی کوئی قیمت نہیں سمجھی جائے گی کیونکہ ہم نے تو دین کی اشاعت کے لئے ضروری کتابوں پر اپنا روپیہ خرچ کرنا ہے.ہمیں یہ ضرورت نہیں کہ وہ پانچ سو سال کی لکھی ہوئی ہو یا سات سو سال کی.ہمیں تو صرف حوالہ کے لئے اس کی ضرورت ہے اور حوالہ کے لئے قلمی نسخہ اتنا مفید نہیں ہوسکتا جتنا مطبع میں شائع شدہ نسخہ.قلمی نسخہ کے متعلق تو پھر یہ بحث آ جائے گی کہ یہ نسخہ صحیح بھی ہے یا نہیں لیکن مطبوعہ نسخہ کے متعلق اس قسم کی کوئی بحث نہیں اُٹھ سکتی اس لئے قلمی نسخوں کی بجائے مطبوعہ نسخہ جات تبلیغی نقطۂ نگاہ سے زیادہ مفید ہوتے ہیں اور وہ قلمی نسخوں سے بہت کم قیمت پر مل جاتے ہیں حضرت خلیفہ اول کی لائبریری میں ایسی کئی کتابیں موجود ہیں کیونکہ آپ کو پرانی قلمی کتا بیں جمع کرنے کا شوق تھا.ایسی کتابوں پر صرف خرچ ہی خرچ ہوتا ہے کیونکہ اُن کی خاص طور پر حفاظت کرنی پڑتی ہے لیکن جماعت کی ضروریات کے لحاظ سے وہ زیادہ مفید نہیں ہوتیں.مثلاً حضرت خلیفہ اول نے محلی ابن حزم کا رام پور سے قلمی نسخہ منگوایا تھا مگر اب یہ کتاب چھپ چکی ہے اور میرے پاس موجود ہے.ہاتھ کی لکھی ہوئی کتابوں کی حفاظت پر بھی

Page 148

خطابات شوری جلد سوم ۱۳۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء بہت کچھ خرچ ہوتا ہے.ان کی سیاہی کا بھی اور کاغذ کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے کیونکہ پرانی کتب کا کا غذ جلد کیڑے کا شکار ہو جاتا ہے.پس سات آنہ میں ایک چھپی ہوئی کتاب خرید کر لائبریری میں رکھ لی جائے تو اس کی حفاظت کا اتنا فکر نہیں ہو گا جتنا کہ ایک قلمی کتاب کا خواہ وہ کتنی قیمت پر آئی ہو.غرض لائبریری کے متعلق بہت سے سوالات ہیں جو غور کے قابل ہیں.میرے نزدیک جہاں تک تبلیغ کا سوال ہے لائبریری کی ساری کتب مفید نہیں ہیں اور نہ سلسلہ کو ان سب کی ضرورت ہو سکتی ہے مگر بہر حال اس بارہ میں صدر انجمن احمد یہ نے جو کچھ فیصلہ کرنا ہے حضرت خلیفہ اول کے ورثاء سے ہی کرنا ہے کہ ہمارے پاس یہ کتا بیں کس رنگ میں ہیں.اس کے بعد اگر ضرورت ہوگی تو سلسلہ جن کتابوں کا خرید ناتبلیغی نقطۂ نگاہ سے ضروری سمجھے گا خرید لے گا اور جن کتابوں کے متعلق سلسلہ سمجھے گا کہ یہ چھپ چکی ہیں ، ہمیں قلمی نسخوں کی ضرورت نہیں ہے.اُن کے متعلق وہ حضرت خلیفہ اول کے ورثاء سے کہہ سکتا ہے کہ آپ ان کتابوں کو اپنے پاس رکھ لیں یا جی چاہے تو فروخت کر دیں ، سلسلہ ان کی حفاظت کا خرچ برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے.حضرت خلیفہ اول کی لائبریری میں بہت سی کتابیں ایسی ہیں جو قلمی ہیں اور جن کی خاص طور پر حفاظت کرنی پڑتی ہے بلکہ مجھے پتہ لگا ہے کہ بعض قیمتی کتابیں ضائع بھی ہو گئی ہیں مگر پھر بھی اُن کتابوں میں سے بہت سی کتابیں اب چھپ چکی ہیں اور آسانی سے حاصل ہو سکتی ہیں.بہت سی کتابیں جو حضرت خلیفہ اول کی لائبریری میں ہیں ، میری لائبریری میں بھی موجود ہیں اور بہت سی کتابیں جو بعد میں چھپی ہیں ، میری لائبریری میں تو ہیں مگر حضرت خلیفہ اول کی لائبریری میں نہیں ہیں.پس انجمن اگر چاہے تو وہ بہت تھوڑے سے روپیہ پر اپنی تبلیغی ضروریات کو پورا کر سکتی ہے اور ان کتابوں کو منگوا سکتی ہے جن کی عام طور پر ضرورت پیش آتی رہتی ہے لیکن انجمن والے ایک ڈبدھا کی حالت میں لٹکے چلے جاتے ہیں.نہ وہ یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ لائبریری اُن کی ہے یا حضرت خلیفہ اوّل کے ورثاء کی ہے اور نہ وہ لائبریری کے لئے روپیہ خرچ کرتے ہیں انجمن والے سمجھتے ہیں کہ جب یہ لائبریری حضرت خلیفہ اول کے خاندان کی ملکیت ہے تو ہم اس پر بلا وجہ کیوں روپیہ خرچ کریں اور حضرت خلیفہ اول کے ورثاء یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنی کتابیں انجمن والوں کو

Page 149

خطابات شوری جلد سوم ۱۳۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء فائدہ کے لئے دی ہوئی ہیں مگر وہ اپنی غفلت سے اُن کو ضائع کر رہے ہیں.اس طرح دونوں طرف ایسا احساس پیدا ہو رہا ہے جو صحیح اور اچھے تعلقات کے لئے مضر ہے.وہ اِن پر احسان سمجھتے ہیں اور یہ اُن پر احسان سمجھتے ہیں اور برابرتمیں سال سے ایسا ہو رہا ہے.میرے نزدیک انجمن کو حضرت خلیفہ اول کے ورثاء سے گفتگو کر کے فیصلہ کرنا چاہئے کہ لائبریری کی کتابیں اُس کے پاس کس حیثیت سے ہیں.آیا انجمن صرف بطور محافظ کے ہے یا لائبریری کی کتابیں اُس کے پاس اُس کی ملکیت میں شامل ہیں؟ اس فیصلہ کے بعد انجمن والے صحیح طریق کار اختیار کر سکتے ہیں اور در حقیقت اس فیصلہ کے بعد ہی لائبریری کی صحیح معنوں میں داغ بیل پڑے گی.اگر انجمن والے یہ فیصلہ کر لیں تو اس کے بعد کوئی نہ کوئی رُخ ایسا ضرور نکل آئے گا جس سے نتائج پہلے سے زیادہ شاندار پیدا ہوں گے.دوسرا سوال حفاظت کا کیا گیا ہے.مجھے حفاظت کے محکمہ کو دیکھ کر ہمیشہ حضرت خلیفہ اوّل کا ایک لطیفہ یاد آیا کرتا ہے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ جموں میں ایک بڑا رئیس تھا جس نے پندرہ بیس ہزار روپیہ خرچ کر کے ولایت سے ایک ترکی گھوڑا منگوایا اور سائیس کو تاکید کر دی کہ اس کا خیال رکھنا.اُس وقت جموں میں تنخواہیں بہت کم ہوا کرتی تھیں.سائیس کی تنخواہ صرف پانچ چھ روپے ہوا کرتی تھی اور گو وہ سستا سماں تھا مگر پھر بھی پانچ چھ روپے میں مشکل سے گزارہ ہوا کرتا تھا.کچھ دنوں کے بعد رئیس نے دیکھا کہ گھوڑا دبلا ہونا شروع ہو گیا ہے.یہ دیکھ کر اسے سخت فکر ہوا اور اُس نے سمجھا یہ نالائق آدمی ہے گھوڑے کی نگرانی صحیح طور پر نہیں کرتا.چنانچہ اس نے پہلے سائیں کے اوپر ایک اور نگران مقرر کر دیا.اس پر گھوڑا اور زیادہ دبلا ہونے لگ گیا.رئیس نے یہ دیکھ کر دوسرا نگران مقرر کر دیا مگر وہ موٹا ہونے کی بجائے پہلے سے بھی دُبلا ہو گیا.آخر اس نے سب پر ایک اور نگران مقرر کر دیا مگر گھوڑا موٹا نہ ہوا.یہ دیکھ کر اُس نے حضرت خلیفہ اول کے پاس شکایت کی کہ میں نے اتنا قیمتی گھوڑا منگوایا تھا اور چار آدمی بھی مقرر کئے مگر گھوڑا ہے کہ دُبلا ہی ہوتا جا رہا ہے ،معلوم نہیں کیا وجہ ہے؟ حضرت خلیفہ اول نے بڑے نگران کو بلایا اور کہا کہ بتاؤ گھوڑا کیوں دُبلا ہو رہا ہے؟ وہ کہنے لگا بات یہ ہے کہ گھوڑے کے لئے پانچ سیر دانہ مقرر ہے اور چونکہ ہماری تنخواہ بہت تھوڑی ہے.اس لئے پہلے سائیس کو جب پانچ سیر دانہ گھوڑے کے لئے دیا جاتا تو وہ

Page 150

خطابات شوری جلد سوم ۱۳۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء اُس میں سے سوا سیر خود رکھ لیتا اور باقی دانہ گھوڑے کو کھلا دیتا.اس پر لازماً گھوڑے نے دبلا ہونا تھا کیونکہ اسے غذا کم ملتی تھی.اس پر دوسرا سائیں آیا تو اُس سے پوچھا کہ یہ ڈبلا کیوں ہو رہا ہے؟ اُس نے بتایا کہ بات یہ ہے کہ سو اسیر دانہ میں فروخت کر لیا کرتا ہوں.وہ کہنے لگا تو اچھا سو اسیر پھر میرے لئے بھی رکھ لیا کرنا ، اب اسے اور زیادہ تھوڑی غذا ملنے لگ گئی اور وہ پہلے سے بھی دُبلا ہو گیا.رئیس نے ایک تیسرا سائیں مقرر کر دیا.وہ آیا تو اُس نے بھی وجہ دریافت کر کے کہا کہ سوا سیر میرا حصّہ بھی رکھا لیا کرنا.اب صرف سو اسیر دانہ گھوڑے کے لئے رہ گیا.اتنے میں مجھے مقرر کر دیا گیا میں نے پوچھا کہ کیا جھگڑا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یہ قصہ ہے.میں نے کہا کہ اب گو صرف سو اسیر دانہ رہ گیا ہے مگر میں اپنا حق نہیں چھوڑ سکتا، میں تو بہر حال اپنا حصہ لے کر رہوں گا.گھوڑا خواہ مرے یا جئے.اس طرح میں دیکھتا ہوں جب ایک محافظ تھا تو وہ میرے آگے پیچھے زیادہ رہا کرتا تھا، جب دو ہوئے تو اُن کا آگے پیچھے رہنا کم ہو گیا، چار ہوئے تو اُن میں سے اکثر غائب رہنے لگ گئے ، اب آٹھ ہو جائیں گے تو غالباً کوئی بھی نہیں رہے گا.درحقیقت غلطی یہ ہے کہ کسی اصول کے ماتحت کام نہیں کیا جاتا.اگر ایک شخص زیادہ اخلاص کا اظہار کرتا تھا اور وہ چوبیں گھنٹے پہرے کے لئے تیار رہتا تھا تو بجائے اس کے کہ اس کو ڈانٹا جاتا اور اس کو کام سے علیحدہ کیا جاتا اُس کی قدر کرنی چاہئے تھی مگر اخلاص کی قدر کرنے کی بجائے آدمیوں کی تعداد پر کام کا انحصار رکھ لیا گیا ہے حالانکہ خواہ تم آٹھ پہرے دار کر و یا سولہ، بہیں کرو یا چالیس، کام ہمیشہ اخلاص کے نقطہ نگاہ سے ہی ہوگا.میں نے بتایا ہے کہ ایک پہرے دار میرے ارد گر د زیادہ رہتا تھا، دور کھے گئے تو اس میں کمی آگئی ، چار رکھے گئے تو وہ غائب رہنے لگ گئے.باقی لڑکیوں کے بورڈنگ کے متعلق جو سوال اُٹھایا گیا ہے اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ اس سال لڑکیوں کے لئے ہوسٹل بن جائے گا بلکہ میں نے یہ کہا تھا کہ اس سال لڑکیوں کے ہوسٹل کے متعلق کوشش کی جائے گی.اس سلسلہ میں پہلا سوال زمین کا ہے.عمارت کا سوال تو اس وقت پیدا ہی نہیں ہوتا.ہم نے مدرسہ ہائی کی عمارت بنانی شروع کی تھی مگر چھت پر آ کر عمارت رُک گئی کیونکہ سامان ہی نہیں ملتا.

Page 151

خطابات شوری جلد سوم ۱۳۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء سائنس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی عمارت کا کام پچھلی مئی سے شروع ہے مگر ابھی تک اس کے لئے گارڈ نہیں ملے پس اس وقت عمارت کا کوئی سوال نہیں بلکہ سوال صرف زمین خرید نے کا ہے.ممکن ہے اس سال اللہ تعالیٰ حالات سازگار کر دے تو عمارت کے لئے بھی کوشش شروع کی جا سکے مگر اس وقت صرف زمین خریدنے کا سوال ہے تاکہ لڑکیوں کے بورڈنگ کی بنیاد قائم ہو جائے.سوئیں اپنے حکم اور اختیار خاص سے نصرت گرلز سکول کے ہوٹل کے لئے اس سال کے بجٹ میں پانچ ہزار روپیہ رکھتا ہوں.صدر انجمن احمدیہ کو چاہئے کہ وہ اس روپیہ کو بجٹ میں شامل کر لے تا کہ اس روپیہ سے زمین خریدنے کی کوشش کی جاسکے.اگر دورانِ سال میں عمارت کے سامان ملنے شروع ہو گئے تو میں اپنے اختیار خاص سے جتنی رقم کی ضرورت ہوگی اتنی رقم کی بورڈنگ کی عمارت کے لئے منظوری دے دوں گا.ابھی چونکہ عمارتی سامانوں کے ملنے کا امکان بہت کم ہے اس لئے میں صرف زمین کے لئے پانچ ہزار روپیہ کی منظوری دیتا ہوں.“ بجٹ پر بحث کے دوران میں نظارت دعوۃ و تبلیغ حسابات کا ہر روز معائنہ ہونا چاہئے کی یہ تجویز زیر غور آئی کہ محر ر حسابات کے لئے چوراسی روپے سالانہ ڈیوٹی الاؤنس منظور کیا جائے.اس بارہ میں کچھ احباب نے اپنی آراء پیش کیں.اس کے بعد حضور نے فرمایا:- ”میرے ذہن میں ہمیشہ یہ سوال رہا ہے اور میں نے کئی نقطہ نگاہ سے اس پر غور کیا ہے میری رائے ہمیشہ سے یہی رہی ہے کہ ہمیں دیکھنا چاہئے کہ یہ نقص جو پیدا ہوتا ہے یہ لازمی ہے یا غیر لازمی ، اور آیا اس نقص کو تسلیم کرنے کی وجہ سے ہم آئندہ کے لئے بددیانتی کا راستہ تو نہیں کھول دیتے ؟ جب ہم کہتے ہیں کہ یہ ڈیوٹی الاؤنس ہے اور یہ ڈیوٹی الاؤنس اس لئے ہے کہ کام کرنے والے سے غلطیاں ہو جاتی ہیں جن کی اس ذریعہ سے تلافی کی جاتی ہے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ غلطیاں ہونی ضروری ہیں اور جب کسی کے اندر یہ ذہنیت پیدا کر دی جائے تو اُس کی دیانت کا معیار گر جاتا ہے.مجھے یاد ہے ہم بچے تھے کہ ہم نے تفخیذ الا ذہان‘ نام سے ایک انجمن قائم کی.ایک دوست جو ہماری اس انجمن کے ممبر تھے بہت بڑی قربانی کر کے اور باہر کی ملازمت کو ترک

Page 152

خطابات شوری جلد سوم ۱۳۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء کر کے قادیان آئے اور اُنہوں نے بہت تھوڑے معاوضہ پر کام کرنا شروع کر دیا مگر ایک دفعہ جب حساب کو چیک کیا گیا تو معلوم ہوا کچھ رقم کی کمی ہے.اس پر تضحیذ الا ذہان کی مجلس میں یہ سوال پیش ہوا.کالج کے سٹوڈنٹس نے اس بات پر زور دینا شروع کر دیا کہ یہ سخت بد دیانتی ہے اور اس کی سزا دینی چاہئے.میری رائے یہ تھی کہ غلطی ضرور ہے اور بے احتیاطی سے کام لے کر سلسلہ کے اموال کو نقصان پہنچایا گیا ہے مگر جس قسم کی قربانی کر کے یہ شخص قادیان آیا ہے، اُس کو دیکھتے ہوئے اسے دیدہ دانستہ شرارت پر محمول نہیں کیا جا سکتا.بددیانتی تو ہے مگر غفلت اور نادانی کی وجہ سے ہے، شرارت کی وجہ سے یہ بد دیانتی نہیں کی گئی.اس پر ایک اور دوست کھڑے ہوئے اور کہنے لگے میری تو سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ یہ کیا بحث جاری ہے.تم یہ بتاؤ کہ روپیہ کس کا ہے؟ ہم نے کہا خدا کا.وہ کہنے لگے اب بتاؤ تشخیذ الا ذہان کی مجلس کو کس کام کے لئے مقرر کیا ہے؟ ہم نے کہا خدا کے کام کے لئے وہ کہنے لگے تو پھر اگر خدا کا بندہ خدا کا مال کھا گیا تو تم ہو کون جو اسے بد دیانت اور خائن قرار دو.میں نے انہیں بڑا سمجھایا مگر وہ یہی کہتے چلے گئے کہ آپ کی بات درست نہیں.مال بھی خدا کا اور بندہ بھی خدا کا، میری سمجھ میں تو اور کوئی بات آتی ہی نہیں.تو اس قسم کی ذہنتیں بھی بعض لوگوں کی ہوتی ہیں اور جن کی ذہنیتیں اس قسم کی ہوں اُن کی دیانت کا معیار جس قدر بھی گر جائے کم ہو گا.سندھ میں ایک اکا ؤنٹنٹ تھا جس نے بہت اچھا کام کیا اور بعض دفعہ انعام حاصل کیا.بعد میں اُس کی ایک بد دیانتی ثابت ہوئی، اُس پر مقدمہ چلا اور وہ قید ہو گیا مگر اس سے پہلے اُس کے اچھے کام پر انعام منظور ہوا.مقدمہ کے دوران میں ہی انعام کا بل منظور ہو کر وہاں پہنچا اور چونکہ اُس وقت اس اکا ؤنٹسٹ پر مقدمہ چل رہا تھا اور اُس کی جگہ ایک اور اکا ؤنٹنٹ کام کر رہا تھا، اس لئے اُس دوسرے اکا ؤنٹنٹ کو یہ روپے پہنچا دیئے گئے اور اُسے کہہ دیا گیا کہ یہ فلاں کو پہنچا دینا.کچھ عرصہ کے بعد چیکنگ میں وہ رقم جو بطور انعام بھجوائی گئی تھی دفتر سے غائب معلوم ہوئی.اس پر نئے اکا ؤنٹنٹ سے دریافت کیا گیا تو اُس نے کہا کہ یہ تو اکا ؤنٹنٹ کا انعام تھا چونکہ اُس کی جگہ میں کام کر رہا تھا اس لئے وہ روپے میں نے خرچ کر لئے.اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ روپے مجھے اپنی ذات پر خرچ نہیں کرنے چاہئے تھے

Page 153

خطابات شوری جلد سوم ۱۳۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء تو میں واپس دے دیتا ہوں.اس سے پتہ لگتا ہے کہ دیانتداری کا معیار بعض لوگوں کے نزد یک کتنا گر جاتا ہے کہ دوسرے کی چیز وہ اپنے استعمال میں لے آتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے جو کچھ کیا درست اور صحیح کیا ہے.ڈیوٹی الاؤنس بعض دفعہ انجمن کے زور دینے پر میں نے منظور بھی کیا ہے مگر میرانفس اس پر کبھی مطمئن نہیں ہوا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ گھروں میں روزانہ ہم سے حساب میں غلطیاں ہو جاتی ہیں.ہم بازار میں جاتے ہیں، سو دا خریدتے ہیں اور پھر گھر واپس آکر جب حساب کرتے ہیں تو بعض رقوم میں کمی بیشی معلوم ہوتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ وہ ہمارا ذاتی حساب ہوتا ہے اور یہاں اُس شخص کا سوال ہے جسے تنخواہ محض اس بات کی دی جاتی ہے کہ وہ با قاعدگی کے ساتھ حساب رکھے.اُس کا فرض ہے کہ شام کو دفتر میں سے اُس وقت تک جائے نہیں جب تک اپنے حساب کو درست نہ کر لے.اگر وہ اس میں غفلت سے کام لیتا ہے، اگر وہ روزانہ شام کے وقت اپنے حساب کو چیک نہیں کرتا تو اس کی ذمہ داری اُسی پر ہے.اگر ایک شخص حساب کرتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میری میزان ۵۰۰ روپیہ ہونی چاہئے تھی مگر ہوتی ۴۹۶ روپے ہے تو اُس کو فوراً فکر پیدا ہو جائے گا کہ باقی کے چار روپے کہاں گئے.اور وہ دماغ پر زور دے کر سوچے گا اور حساب کو درست کرنے کی کوشش کرے گا لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتا وہ روزانہ حساب کرنے کی بجائے کئی کئی دن یا کئی کئی ہفتہ کے بعد پڑتال کرتا ہے تو یہ اُس کی اپنی غلطی ہے اور اس غلطی کا خمیازہ اُسے بہر حال بھگتنا پڑے گا.نپیں بیشک جہاں تک غلطی کا سوال ہے ہر شخص کر سکتا ہے مگر یہاں اور سوال ہے، یہاں سوال یہ ہے کہ ایک شخص کا فرض مقرر کیا گیا ہے کہ وہ روزانہ اپنے حساب کی پڑتال کرے کا پھر کیوں وہ اپنے اس فرض کو ادا نہیں کرتا.اگر وہ روزانہ اپنی آمد اور خرچ کو ٹکرا تا نہیں، اگر وہ روزانہ اپنے حساب کی پڑتال نہیں کرتا، اگر وہ روزانہ گھر کو جانے سے پہلے اپنے دل میں یہ اطمینان نہیں پاتا کہ اُس کا حساب سو فیصدی درست ہے تو وہ بہر حال بددیانت ہے کیونکہ وہ قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور جب وہ بددیانت ہے تو اُس کی غلطی کا خمیازہ اسے خود ہی بھگتنا پڑے گا.آخر ایک شخص کے حساب میں دوسو یا چار سو یا پانچ سو کا فرق کیوں پڑ جاتا ہے؟ اسی لئے کہ وہ روزانہ حساب نہیں کرتا.وہ آمد اور خرچ کو ٹکرا تا نہیں ہے، اگر وہ

Page 154

خطابات شوری جلد سوم ۱۳۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء ہر روز ایسا کرے تو جس دن کوئی غلطی واقع ہو اُسی دن تحقیق ہو جائے کہ یہ غلطی معافی کے قابل ہے یا سزا کے قابل ہے.مگر اس بارہ میں ہمارے مرکزی دفاتر اس قدر غفلت اور کوتا ہی سے کام لیتے ہیں کہ تھوڑے ہی دن ہوئے میرے پاس ایک مسل آئی جو ایک شخص کے خلاف تھی اور جس پر الزام یہ تھا کہ اس کے ذمہ بہت سا روپیہ نکلتا تھا.اس معاملہ کی تحقیق کے دوران میں محاسب سے پوچھا گیا کہ اُس نے کیوں نگرانی نہیں کی جب کہ صدرانجمن احمدیہ کے قواعد میں محاسب کے فرائض میں یہ بات شامل کی گئی ہے کہ ” محاسب حساب کی کتابوں کو روزانہ پڑتال کر کے اُس پر دستخط کرے گا.‘ ( قاعدہ نمبر ۲۲۱ الف ) جب محاسب سے یہ بات پوچھی گئی تو اُس نے جواب یہ دیا کہ بے شک ایسا قانون ہے مگر ساری کاغذی باتیں ماننے والی تھوڑی ہوتی ہیں.جہاں اس قسم کی ذہنیت کام کر رہی ہو وہاں اگر ہم کسی محرر کو ڈیوٹی الاؤنس دیں گے تو یقیناً اُس کے جُرم کو اور بھی بڑھانے کا موجب ہوں گے.میرے نزدیک تمام غلطیوں کی وجہ یہ ہے کہ روپیہ کی آمد اور اُس کے خرچ کو روزانہ ٹکرایا نہیں جاتا، حساب کو باقاعدہ چیک نہیں کیا جاتا اور ہر روز شام کو یہ اطمینان نہیں کیا جاتا که حساب درست ہے، اُس میں کسی قسم کی غلطی نہیں، نہ ماتحت محرر یہ کام کرتے ہیں نہ افسران صیغہ ان کی نگرانی کرتے ہیں اور نہ آڈیٹر دفاتر کا با قاعدہ معائنہ کر کے حساب کو چیک کرنے کی کبھی کوشش کرتے ہیں.ہمارے ہاں آڈیٹروں کا وجود اور عدم وجود قطعی طور پر برابر ہے اور میں اب تک کسی ایک آڈیٹر کے متعلق بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اُس نے اپنے فرائض کو صحیح طور پر ادا کیا ہے.جہاں تک روپیہ جمع کرنے کا سوال ہے میں چوہدری برکت علی خاں صاحب کے کام پر بہت ہی خوش ہوں.انہوں نے تحریک جدید میں حیرت انگیز طور پر روپیہ جمع کرنے کا کام کیا ہے.مگر جہاں تک آڈیٹر کے کام کا تعلق ہے، اُن کا کام بھی صفر ہے اور باقی آڈیٹروں کا کام بھی صفر ہے.انہوں نے قطعاً اس ذمہ داری کو محسوس نہیں کیا جو اِس عہدہ پر قائم ہونے کے بعد اُن پر عائد ہوتی تھی.میرے نزدیک بجائے اس کے کہ کسی محر ر حسابات کو ڈیوٹی الاؤنس دیا جائے اور اس طرح اُسے ایک رنگ میں اس قسم کی غلطیوں پر جرات دلائی جائے

Page 155

خطابات شوری جلد سوم ۱۳۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء ضروری ہے کہ جب کسی سے اس رنگ کی کوئی غلطی ہو تو اُسے، اُس کے افسر اور آڈیٹر تینوں کو ذمہ دار قرار دیا جائے مگر اب یہ صورت ہے کہ جب کسی کا رکن سے غلطی ہو تو افسر اور آڈیٹر ہنس کر کہہ دیتے ہیں کہ اُس سے حساب میں کچھ گڑ بڑ ہو گئی ہے.حالانکہ جب اُن کا فرض تھا کہ وہ با قاعدہ حساب کو چیک کرتے اور جب کسی جگہ خرابی دیکھتے تو فوراً صد را مجمن احمدیہ میں اُس کی رپورٹ کرتے تو انہوں نے کیوں حساب چیک نہ کیا اور کیوں بد دیانتی کا موقع آنے دیا ؟ کتنی حیرت کی بات ہے کہ مولوی عبدالرحمن صاحب مصری جب یہاں سے گئے تو اُن کے جانے کے بعد جب حسابات کی چیکنگ ہوئی تو اُس وقت معلوم ہوا کہ کئی سال پہلے انجمن نے ایک رقم شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کو اس لئے دی تھی کہ وہ یہ رقم فلاں کو پہنچا دیں مگر اُنہوں نے عرصہ تک وہ رقم اپنے پاس رکھی اور اُس شخص کو نہ پہنچائی.ان کے جانے کے بعد ہمیں پتہ لگا کہ اِس اِس طرح ہوا ہے.اگر آڈیٹر حسابات با قاعدگی کے ساتھ چیک کرتا تو یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ اتنے عرصہ تک وہ ایک رقم اپنے پاس ہی رکھ لیتے اور جس شخص کو پہنچانے کے لئے دی گئی تھی اُس کو نہ پہنچاتے.ہمارے ہاں قاعدہ ہے کہ : - آڈیٹر کا فرض ہو گا کہ کم از کم ہر تیسرے ماہ تمام صیغہ جات و دفاتر صد را مجمن احمدیہ 66 کی مفصل پڑتال کر کے رپورٹ کرے.( قاعدہ نمبر ۲۳۶).“ مگر اس قاعدہ پر کبھی عمل نہیں کیا گیا.کبھی اس کے مطابق صیغہ جات و دفاتر کا معائنہ نہیں کیا گیا کبھی ہر تین ماہ کے بعد صدرانجمن کو اصل حالات سے آگاہ نہیں کیا گیا.پس میرے نزدیک ہمارے آڈیٹر قطعی طور پر کام نہیں کرتے حالانکہ اُن کا فرض ہے کہ وہ با قاعدگی سے تمام دفاتر کا معائنہ کریں اور حساب رکھنے والے محرر کا فرض ہے کہ وہ روزانہ اپنے کیش اور خرچ کو ٹکرائے اور دیکھے کہ کتنا خرچ ہوا اور کتنی رقم اس کے پاس موجود ہے.جب تک آڈیٹر اور افسر اپنی ذمہ داری کو محسوس نہیں کرتے اُس وقت تک ماتحت بھی اپنے کام میں ہوشیار نہیں ہو سکتے.بیشک جُرم ماتحت کا ہے مگر اسے دلیری افسر کے رویہ کے بعد ہوتی ہے.کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میرا افسر میرے حساب کا معائنہ نہیں کرے گا اس لئے مجھے بھی ضرورت نہیں کہ میں زیادہ فکر کروں.اسی طرح محاسب کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ آمد وخرچ کا حساب روزانہ مکمل کرائے اور حساب کی کتابوں کو پڑتال کر کے اُن پر

Page 156

خطابات شوری جلد سوم ۱۴۰ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء.دستخط کرے مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہمارے ہاں یہ حالت ہے کہ محاسب سے پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ بے شک ایسا لکھا ہے مگر ہر لکھی ہوئی بات پر کون عمل کرتا ہے؟ اگر یہ بات درست تسلیم کر لی جائے تو کیا اس کے بعد کوئی بھی قانون چل سکتا ہے اور کیا کسی محکمہ میں بھی امن رہ سکتا ہے؟ آڈیٹر اور محاسب دونوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں.حسابات کا باقاعدہ معائنہ کریں، آمد اور خرچ کے رجسٹروں کو غور سے دیکھیں.اُن کی میزان پر نظر ڈالیں، خزانہ میں جو کچھ موجود ہوا سے دیکھیں.جہاں جہاں خرچ ہو ا ہو اُس کو مدنظر رکھیں اور ایک پائی کی کمی کو بھی برداشت نہ کریں.اُن کا فرض ہے کہ جب کسی جگہ انہیں کوئی نقص معلوم ہو وہ اُس جگہ سے اُس وقت تک ہلیں نہیں جب تک اُس نقص کو دُور نہ کر لیں.یا جس نے نقص پیدا کیا ہے اُس کی رپورٹ افسرانِ بالا کے پاس نہ کر لیں مگر ہمارے آڈیٹر جس رنگ میں کام کرتے ہیں، اُس کا اِس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ میں نے ایک دفعہ گورنمنٹ پنشنر آڈیٹر کو زمیندارہ کے حساب چیکنگ کے لئے سندھ اپنی زمینوں پر بھجوایا.وہ معائنہ کے بعد ہنستے ہوئے میرے پاس پہنچے اور کہنے لگے لیجئے صاحب مبارک ہو، دس ہزار روپیہ نفع ہے.میں نے کہا دس ہزار روپیہ نفع نہیں یہ تو ہیں ہزار گھاٹا ہے کیونکہ ان زمینوں پر قرض کا اس اس قدر بار ہے جو ابھی قابل ادا ہے.وہ کہنے لگے ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ کون کون سا قرض قابل ادا ہے یا زمین پر کتنا بار ہے.ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ اتنی چیز فروخت ہوئی اور اس کے بدلہ میں اتنا روپیہ آ گیا.میں نے کہا آپ کو یہ بھی تو دیکھنا چاہئے کہ اس کے بعد کون کون سی رقوم قابل ادا رہتی ہیں تا کہ صحیح طور پر نفع نقصان کا اندازہ ہو سکے وہ کہنے لگے یہ ہماری آڈٹ کے اصول کے خلاف ہے.میں نے کہا تو پھر آپ جائیے، اس قسم کے آڈیٹروں کی ہمیں ضرورت نہیں ہے.آڈیٹر ایسا ہونا چاہئے جو تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد حسابات کا معائنہ کرتا رہے.اگر ایسا ہو تو فوراً پتہ لگ جائے گا کہ کس جگہ غفلت سے کام لیا گیا ہے.اگر افسر دستخط نہیں کرتا تو وہ پکڑا جائے گا اور اگر افسر دستخط کرتا ہے اور حسابات کا روزانہ معائنہ کرتا ہے تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی غلطی واقعہ ہو.اگر افسروں کی طرف سے حسابات کی باقاعدہ چیکنگ ہو، حسابات کے رجسٹرات پر اُن کے دستخط ہوں تو کوئی خرابی پیدا ہی نہیں ہوسکتی.اب جو چار چار، پانچ پانچ ، سات سات سال کے بعد

Page 157

خطابات شوری جلد سوم ۱۴۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء بعض لوگوں کے خلاف اس قسم کے کیس پیدا ہو جاتے ہیں کہ اُنہوں نے غبن کیا یا بددیانتی کی یا غلطی کی اس کی وجہ یہی ہے کہ افسر اپنی ذمہ داری کو محسوس نہیں کرتے.اگر سال میں چار دفعہ ہر صیغے کا معائنہ ہو جائے تو پھر کوئی غلطی نہیں ہو سکتی.حقیقت یہی ہے کہ آج تک جو بھی آڈیٹر آیا ہے اُس نے حسابات کو آؤٹ نہیں کیا.بلکہ اُس نے اپنا کام صرف اتنا ہی سمجھا ہے کہ بل دیکھے اور اُن کی پڑتال کر کے خزانہ میں بھجوا دیے.اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دفاتر کے لئے جس قسم کے آڈٹ کی ضرورت ہوتی ہے اس کے لئے زیادہ عملہ کا ہونا ضروری ہے مگر ہمارے ہاں آڈیٹر صرف ایک آدمی ہی رکھا جاتا ہے اور اُس کے پاس اتنا کام ہوتا ہے کہ وہ بمشکل تمام دفاتر کے پلوں کو ہی چیک کر سکتا ہے.اُس کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ دفاتر میں جائے اور حسابات کا معائنہ کرے.پس میں کثرت رائے کی تائید کرتا ہوا اس تجویز کو رڈ کرتا ہوں.“ اس کے بعد جناب ناظر صاحب بیت المال نے دارالتبلیغ لاہور.پشاور.دہلی.کراچی اور مدراس کے اخراجات برائے منظوری پیش کئے.حضور نے فرمایا.جو دوست اس بارہ میں کچھ کہنا چاہتے ہیں وہ اپنے نام لکھوا دیں مگر تمہیدی طور پر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ تجویز پرانی ہے لیکن اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ابھی ہمارے پاس سامانوں کی بہت قلت ہے.مثلاً بمبئی میں ایک انگریزی دان مبلغ کی ضرورت تھی مگر ہمارے پاس کوئی ایسا مبلغ نہیں تھا آخر ہم نے نیر صاحب کو جو ریٹائر ہو چکے ہیں یا شاید ہونے والے ہیں وہاں بھجوا دیا.وہ وہاں اور چھ ماہ یا سال تک کام کر سکتے ہیں اس کے بعد اُن میں کام کرنے کی طاقت نہیں رہے گی.اب اُن کی عمر پینسٹھ سال کے قریب ہے اور اس عمر میں انسان اُس رنگ میں تبلیغ نہیں کر سکتا جس رنگ میں جوانی کے دنوں میں تبلیغ کر سکتا ہے.یہ تو ہو سکتا ہے کہ وہ ہفتہ میں ایک دن کسی جگہ لیکچر دے دیں یا جو دوست ملنے کے لئے آئیں اُن سے تبلیغی گفتگو کر لیں مگر یہ کہ وہ لوگوں کے گھروں تک پہنچیں اور اُن کو تبلیغ کریں یہ کام اب اس عمر میں اُن سے نہیں ہوسکتا اور ہم جس قسم کے کام کا لوگوں سے مطالبہ کرتے ہیں وہ کام اس عمر میں ہو بھی نہیں سکتا مگر ہمارے پاس کوئی اور ایسا انگریزی دان اس وقت تیار نہیں ہے جسے بمبئی میں بھجوایا جا سکے.لاہور میں ہم ایسا مبلغ رکھ سکتے ہیں جو مولوی فاضل ہو،

Page 158

خطابات شوری جلد سوم ۱۴۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء دہلی میں بھی وہ کچھ کام دے جائے گا، مگر انگریزی دان مبلغ زیادہ مفید ہوسکتا ہے مگر کلکتہ.بمبئی.مدراس اور کراچی میں انگریزی دان مبلغ ہی کام دے سکتے ہیں.کراچی میں سندھی زبان جاننے والے زیادہ ہیں.اسی طرح اور لوگ ہیں جو انگریزی جانتے ہیں ، اردو کا رواج وہاں بہت کم ہے.اگر ہم اردو دان مبلغ بھجوا ئیں تو اُسے اتنی کامیابی نہیں ہوسکتی جتنی ایک انگریزی دان مبلغ کو ہو سکتی ہے.بمبئی میں اس سے بھی زیادہ مشکلات ہیں اور مدراس میں تو اور بھی مشکل ہے.کلکتہ میں اگر ہم کسی اُردو دان مبلغ کو بھجوائیں تو وہاں بھی وہ ایک محدود حلقہ میں ہی کام کر سکتا ہے ، مگر ہمارے پاس اس وقت انگریزی دان مبلغ ہیں ہی نہیں کہ ہم ان مقامات کی ضرورت کو پورا کر سکیں.پچھلے سال کے بجٹ میں بھی جب انگریزی دان مبلغوں کا رکھا جانا تجویز کیا گیا تھا تو میں نے ناظر صاحب سے کہا تھا کہ مہربانی کر کے مجھے وہ آدمی بتائیں جن کو وہ ان مقامات پر بھجوائیں گے مگر وہ کسی آدمی کا نام نہ بتلا سکے.اس بارہ میں میں کئی سال سے صدر انجمن احمدیہ کو توجہ دلا رہا ہوں کہ وہ انگریزی دان مبلغ تیار کرے مگر صدر انجمن احمدیہ نے اس طرف کوئی توجہ نہیں کی.اگر انگریزی دان مبلغوں کی تجویز کو اس وقت منظور بھی کر لیا جائے اور ایک رقم رکھ لی جائے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ انگریزی دان مبلغ ہمارے پاس ہیں ہی نہیں.تحریک جدید کے ماتحت جو مبلغ تیار ہو رہے ہیں وہ ابھی بیرون ہند کی ضرورت پورا کرنے کے لئے ہی تیار کئے جا رہے ہیں.جب بیرون ممالک کے لئے ہم اپنے مبلغ پوری طرح تیار کر لیں گے تب ہم اس قابل ہوں گے کہ صدرانجمن احمدیہ کو قرض کے طور پر اپنے وہ مبلغ کچھ عرصہ کے لئے دے دیں جو ولایت سے چھٹی پر آئیں مگر جب تک وہ دن نہیں آتا.انگریزی دان مبلغین کا تیار کرنا صدر انجمن احمدیہ کے ذمہ ہے.پس میں تو سمجھ ہی نہیں سکا کہ وہ کونسے آدمی ہیں جو ان مقامات پر رکھے جائیں گے.ناظر صاحب تبلیغ پہلے یہ بتا دیں کہ اُنہوں نے کونسے آدمی تجویز کئے ہیں تا کہ ہم یہ فیصلہ کر سکیں کہ اس خرچ کی یہ ضرورت پیش آگئی ہے.“ اس موقع پر حضرت مرزا شریف احمد صاحب ناظر تعلیم و تربیت نے عرض کیا کہ کوئی معتین آدمی نظارت کی نظر میں نہیں ہے.حضور نے فرمایا.

Page 159

خطابات شوری جلد سوم ۱۴۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء ناظر صاحب کہتے ہیں کہ کوئی معین آدمی میری نظر میں نہیں ہے.جس کے معنے یہ ہیں کہ مدراس اس صورت میں بہر حال خالی رہے گا.باقی جگہوں میں اُردو دان مبلغ سے ہی کچھ کچھ گزارہ چل سکتا ہے.مثلاً دہلی.لاہور.پشاور اور کراچی میں.لاہور اور پشاور میں تو خالص عربی دان مبلغ بھی کام کر سکتا ہے مگر کراچی اور دہلی میں کسی قدر رانگریزی جاننے کی بھی ضرورت ہے مگر مدراس میں ایسا شخص کوئی زیادہ کام نہیں دے سکتا.حقیقت یہ ہے کہ صدرانجمن احمد یہ کے پاس اب مولوی فاضل مبلغ بھی نہیں ہیں جن کو وہ بھجوا سکے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پچھلے سالوں میں نئے مبلغ تیار کرنے میں صدر انجمن احمدیہ نے سخت کو تا ہی سے کام لیا ہے.بہر حال مدراس میں دار التبلیغ کے قیام کا سوال سر دست ہم اُڑا دیتے ہیں.کلکتہ اور بمبئی کو ہم اپنا مرکز بنا چکے ہیں.اب سوال صرف دہلی ، لاہور ، پشاور اور کراچی کا ہے.میں یہ سوال دوستوں کی آراء کے لئے اُن کے سامنے پیش کرتا ہوں مگر اس موقع پر میں صدرا انجمن احمدیہ کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ جلد سے جلد تین چار انگریزی دان مبلغ تیار کرنے کی کوشش کرے تا کہ وہ ایسے شہروں میں تبلیغی کام کر سکیں جہاں انگریزی دان طبقہ زیادہ ہے.“ نمائندگان کی آراء اور رائے شماری کے بعد حضور نے فرمایا : - کثرت رائے کے مطابق میں فیصلہ کرتا ہوں کہ دہلی ، لاہور، پشاور اور کراچی میں تبلیغی مشن کھولے جائیں ان کے اخراجات کے لئے ۱۵۰۰.۹۰۰.۱۵۰۰ اور ۹۰۰ روپیہ حسب ترتیب منظور کیا جاتا ہے.کشمیر کے متعلق ایک دوست نے جو تجویز پیش کی ہے میرے نزدیک اُس کا خیال رکھنا بھی ہمارے لئے ضروری ہے میں چاہتا ہوں آئندہ سال کے پروگرام میں کشمیر کو بھی مدنظر رکھ لیا جائے وہ واقعہ میں مرکز ہے بہت سے راستوں کا اور ہم کشمیر میں اپنا مرکز قائم کر کے چین وغیرہ کی طرف اپنی تبلیغ کو پھیلا سکتے ہیں.“ دار الشیوخ میں صرف مستحق نظارت ضیافت کی طرف سے دارالشیوخ کے لئے ایک بڑی رقم کا مطالبہ مشاورت میں زیر بحث آیا.چند ممبران افراد کو داخل کیا جائے کی آراء کے بعد حضور نے فرمایا :-

Page 160

خطابات شوری جلد سوم وو ۱۴۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء یہ سوال بظاہر ایک عقدہ معلوم ہوتا ہے.جیسے سید ولی اللہ شاہ صاحب نے بھی اس کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ پہلے یہ رقم کہاں سے آتی تھی لیکن اس کا سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ جس شخص نے یہ کام شروع کیا تھا وہ جس طرح بھی ہوتا تھا یہ رقم مہیا کر لیتا تھا.کسی شخص سے متعلق یہ امید کرنا کہ وہ اُسی معیار کے مطابق کام کرے جس معیار کے مطابق پہلے نے کیا تھا، بسا اوقات اُس کے متعلق ایک غلط اندازہ ہوتا ہے.واقعہ یہ ہے کہ جب بھی میرے سامنے کا غذات آئے ہیں اور آٹھ دس دفعہ آچکے ہیں مجھے حیرت ہوئی ہے کہ میر صاحب ۲۴ ہزار سالانہ دار الشیوخ کے اخراجات کے لئے کہاں سے لاتے تھے.میں نے جرح بھی کی ، اخراجات پر کئی اعتراضات بھی کئے اور بہت کچھ مطالبات کم بھی کر دیئے مگر ہمیشہ ہیں ہزار کے لگ بھگ یہ رقم رہی ہے اور کہا گیا ہے کہ اس کے بغیر قطعاً کام نہیں چل سکتا.پس اصل بات تو یہ ہے کہ ایک شخص نے یہ کام شروع کیا اور اُسے کر کے دکھا دیا مگر دوسرا آدمی صاف طور پر کہہ رہا ہے کہ میں یہ روپیہ مہیا نہیں کر سکتا.ایسی صورت میں ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس کام کو جاری رکھنے کے لئے امداد کریں اور یہ نہ دیکھیں کہ پہلا شخص کہاں سے روپیہ جمع کر لیا کرتا تھا.یا تو ہمارے سامنے ایسا آدمی پیش کرنا چاہئے جو یہ سمجھتا ہو کہ میں میر صاحب کی طرح لوگوں سے روپیہ جمع کرلوں گا تب بیشک اس امداد کی ضرورت نہیں ہو سکتی لیکن اگر کوئی ایسا آدمی پیش نہیں کیا جا سکتا تو انجمن کے لئے ضروری ہے کہ وہ روپیہ منظور کرے.اگر انجمن کسی ایک ایسے شخص کا نام پیش نہیں کر سکتی جو میر صاحب کی طرح اس کام کو کرنے کے لئے تیار ہو اور دوسرے لوگ جو ان کی جگہ کام کر رہے ہیں وہ خود اپنی عدم قابلیت کا اعتراف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں نہیں معلوم وہ روپیہ کہاں سے لاتے تھے.تو بہر حال اُن کا نقطہ نگاہ ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے.کچھ یہ بھی وجہ ہے کہ آجکل اخراجات بہت زیادہ ہو گئے ہیں.یہ تغیر زیادہ تر ۱۹۴۴ء کے آخر میں ہوا ہے.میں سمجھتا ہوں ممکن ہے اگر میر صاحب مرحوم بھی زندہ ہوتے تو اُن کو یہ مشکلات پیش آ جاتیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اُن کو نیک نامی کے زمانہ میں ہی اُٹھا لیا اور اب دوسرے لوگ اس بوجھ کو اُٹھانے سے قاصر ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ جب تک انجمن ہماری مدد نہ کرے ہم اس بوجھ کو میر محمد الحق صاحب

Page 161

خطابات شوری جلد سوم اُٹھا نہیں سکتے.۱۴۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء ނ دوسرا سوال یہ اُٹھایا گیا ہے کہ جن لوگوں کی امداد کی جاتی ہے وہ سب کے سب امداد کے مستحق نہیں ہوتے بلکہ ایک حصہ ایسا بھی ہوتا ہے جو اپنا بوجھ آپ اُٹھا سکتا ہے مگر اس کا بار بھی سلسلہ پر ڈال دیا جاتا ہے.اس قسم کی مشکلات میر صاحب کے لئے اُن کی زندگی میں ہی پیدا ہو گئی تھیں.چنانچہ ایک دفعہ غلہ فنڈ میں سے اُنہوں نے امداد کا مطالبہ کیا.میں نے انہیں کہا کہ آپ کا یہ مطالبہ درست معلوم نہیں ہوتا.آپ لڑکوں کی فہرست بھجوا دیں تا کہ اُس کو دیکھ کر غور کیا جا سکے کہ کون کون سے واقعہ میں قابلِ امداد ہیں ، اور کون کون سے نہیں، انہوں نے جو فہرست بھجوائی اُس سے بھی مجھ پر یہی اثر تھا کہ جہاں تک یہ خیال ہے کہ غرباء کی پرورش کرنی چاہئے اُس حد تک تو اُن کا مطالبہ درست ہے مگر جہاں تک اس امر کا تعلق ہے کہ سلسلہ اپنی موجودہ مالی مشکلات میں کس کس قسم کے لوگوں کا خرچ برداشت کر سکتا ہے اور کس کس قسم کے لوگوں کا خرچ برداشت نہیں کر سکتا، اس کے لحاظ سے اس میں بعض خامیاں بھی تھیں اور مجھ پر یہ اثر تھا کہ ان طلباء میں سے کافی تعداد ایسے لڑکوں کی ہے کہ اگر وہ براہِ راست سلسلہ احمدیہ کے سامنے مدد کے لئے پیش ہوں تو اُن کا پورا بوجھ اُٹھانے کے لئے سلسلہ قطعاً تیار نہ ہو.پس جہاں تک چوہدری فتح محمد صاحب کے سوال کا تعلق ہے، میں ان سے پوری طرح متفق ہوں.میر صاحب مرحوم چونکہ مہمانوں کی خدمت اور اُن کی خاطر تواضع میں بڑے ماہر تھے اور لوگوں سے اُن کے بڑے وسیع تعلقات تھے ، لوگ اُن کی تحریک پر بڑی بڑی رقوم غرباء کی امداد کے لئے بھجوا دیتے تھے اور وہ بھی دلیری سے ایسے تمام اخراجات کو برداشت کرتے ہوئے غرباء کو جمع کرتے جاتے تھے لیکن عقلی طور پر یہ درست طریق نہیں.اور پھر بعض جگہ اس سے یہ نقصان بھی ہوا کہ بعض خاندان بجائے اس کے کہ اپنے پاؤں پر آپ کھڑا ہونے کی کوشش کرتے ، وہ اِس امداد کی وجہ سے اور بھی سست ہو گئے اور اُنہوں نے جدو جہد سے کام لینا بالکل ترک کر دیا.اگر ان لوگوں کو نکال دیا جائے تب بھی ایک گروہ ایسا رہ جاتا ہے جس کے اخراجات سلسلہ کو برداشت کرنے پڑیں گے.یتامیٰ کے متعلق تو میں نے فوری طور پر حکم دے دیا ہے کہ اُن سب کو مدرسہ احمدیہ میں داخل کر دیا جائے

Page 162

خطابات شوری جلد سوم ۱۴۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء اور اُن کے اخراجات انجمن ادا کرے.اسی طرح بیواؤں اور بوڑھوں میں سے بعض ایسے ہیں جن کے اخراجات پورے طور پر اور بعض ایسے ہیں جن کے اخراجات ایک حد تک سلسلہ کے ذمہ ہیں مگر ایک حصہ ایسے لڑکوں کا بھی ہے جو طالب علم کی حیثیت سے یہاں آئے، میر صاحب کی انہوں نے خوشامد کی اور چونکہ اُن کو روپیہ لوگوں سے مل جاتا تھا، انہوں نے ان لڑکوں کو دار الشیوخ میں داخل کر لیا.اس قسم کے لڑکوں میں سے بعض غیر احمدی بھی ہیں جو یہاں آئے اور انہوں نے اُن کو امداد دینی شروع کر دی حالانکہ اگر یہ طلباء براہ راست سلسلہ کے سامنے پیش ہوتے تو غالباً سلسلہ اُن کو وظائف کا مستحق قرار نہ دیتا.بہر حال جو داخل ہو چکے ہیں اُن کو جلدی نکالنا تو مشکل ہے.کم سے کم ہمیں اُن کو اس حد تک تعلیم دلا دینی چاہئے کہ اس کے بعد ہم اُن سے یہ کہ سکیں کہ اب تم اپنے گزارہ کے لئے کوئی کارروبار شروع کردو، سلسلہ تمہارا بوجھ اُٹھانے کے لئے تیار نہیں ہے.اس وقت ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور بغیر اس کے کہ ہمارا ضمیر ہم کو ملامت کرے، ہم اُن کو نکال نہیں سکتے.لیکن آئندہ کے لئے میں یہ قاعدہ مقرر کرتا ہوں کہ سوائے اُن یتامیٰ کے جو ہماری جماعت سے تعلق رکھتے ہوں اور جن کی پرورش اور امداد بہر حال ہمارے ذمہ ہے، اسی طرح اُن بیواؤں اور بوڑھوں اور نابینوں کے سوا جو کام نہیں کر سکتے اور جو مدد کے حقیقتاً محتاج ہوتے ہیں اس ادارہ میں اور کسی کو شامل نہ کیا جائے مگر ضروری ہوگا کہ ان میں سے ہر ایک کا معاملہ پوری چھان بین کے بعد صدر انجمن احمدیہ کے سامنے پیش ہو، اور صدرانجمن احمد یہ کی منظوری کے بعد اُن کا دارالشیوخ میں داخلہ ہو.ان کے علاوہ اگر کوئی ایسا طالب علم آئے جو یتیم نہ ہو بلکہ محض غربت کی وجہ سے امداد کا طالب ہو تو اُسے دارالشیوخ میں نہ لیا جائے بلکہ اُس کا معاملہ براہ راست انجمن کے سامنے پیش کیا جائے.اگر وظائف کی مد میں گنجائش ہو اور صدر انجمن احمد یہ اُس کو واقعی قابل امداد سمجھتی ہو تو وظائف کی مد سے اُس کو امداد دی جاسکتی ہے اور اگر گنجائش نہ ہو یا صدر انجمن احمدیہ کی نگاہ میں وہ وظیفہ کا مستحق نہ ہو تو وہ اُس کے معاملہ کو ر ڈ کر سکتی ہے.اس قانون کے بعد امید ہے کہ ایسے لوگ اس ادارہ میں شامل نہیں ہو سکیں گے جو امداد کے مستحق نہ ہوں اور جن پر روپیہ خرچ کرنا سلسلہ پر بار ہو مگر اس وقت جولڑ کے اُس میں داخل ہیں، اُن کو میرے نزدیک پرائمری تک تعلیم دلانے میں

Page 163

خطابات شوری جلد سوم ۱۴۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء مدد کرنی چاہئے.یتامیٰ اور نابینا تو بہر حال امداد کے مستحق ہیں، باقی لڑکوں کو پرائمری تک تعلیم دلا کر صنعت و حرفت کے کاموں پر لگا دیا جائے.قادیان میں ہی کئی کارخانے موجود ہیں وہ اگر چاہیں تو اُن میں کام کر کے اپنا گزارہ کر سکتے ہیں.گزشتہ عرصہ میں ہم نے پورا زور لگایا کہ یہ لڑکے کارخانوں میں جا کر کام کریں مگر چند دنوں کے بعد ہی بھاگ کر واپس آ جاتے اور کہتے کہ ہم سے کام نہیں ہو سکتا.اس کی وجہ یہی تھی کہ اُن کو مفت روٹی کھانے کی عادت ہو چکی تھی.بعض ایسے بھی تھے جو بڑے ہو گئے اور اُن کے متعلق یہ سمجھا گیا کہ اب سلسلہ اُن کی تعلیم کا بوجھ زیادہ نہیں اُٹھا سکتا چنانچہ انہیں گھروں میں ملازم کر دیا گیا مگر دس میں سے کولڑ کے بھاگ کر آگئے اور انہوں نے کام کرنا پسند نہ کیا.کارخانوں والے بھی یہی شکایت کرتے رہے کہ لڑکے محنت کے ساتھ کام نہیں کرتے اور چند دن کے بعد بھاگ جاتے ہیں.میں سمجھتا ہوں اس قسم کے نقائص کو دور کرنے کی صرف یہی صورت ہے کہ آئندہ کے لئے ایسے لڑکوں کا دارالشیوخ میں داخلہ روک دیا جائے.صرف یتامیٰ اور نابینا ہی لئے جائیں یا اُن بیواؤں اور بوڑھوں کو مستحق امداد سمجھا جائے جو کوئی کام نہیں کر سکتے اور امداد کے واقعہ میں مستحق ہوں، ان کے سوا جو طالب علم آئیں اُن کو شامل نہ کیا جائے.ہاں وہ براہ راست وظیفہ کے لئے صدر انجمن احمدیہ کے پاس درخواست کر سکتے ہیں اس میں کوئی روک نہیں.صدر انجمن احمد یہ اگر اُن کو مستحق امداد سمجھے گی تو وظیفہ دے دے گی اور اگر نہیں سمجھے گی تو نہیں دے گی.اسی طرح دار الشیوخ میں داخلہ سے پہلے بھی صدر انجمن احمدیہ کی.منظوری ضروری ہے تا کہ پورے غور کے بعد اس اہم معاملہ کا فیصلہ ہو.یہ قاعدہ تو آئندہ کے متعلق ہے اس وقت نظارت ضیافت کی طرف سے ۹۷۷۰ روپیہ کا مطالبہ پیش ہے.جو دوست اس بات کی تائید میں ہوں کہ ۹۷۷۰ روپیہ 66 نظارت ضیافت کے بجٹ میں منظور کیا جائے وہ کھڑے ہو جائیں.“ ۳۲۸ دوست کھڑے ہوئے.اکثریت کے فیصلہ کے مطابق یہ رقم منظور ہے.آئندہ انجمن موجودہ مساکین فیصلہ 66 دارالشیوخ کا فیصلہ کرے کہ ان میں سے کس کو رکھا جائے اور کس کو نہیں.“

Page 164

خطابات شوری جلد سوم ۱۴۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء تیسرا دن خلیفہ وقت کے فیصلہ کی تعمیل لازمی ہے ناظر صاحب بیت المال محترم خان صاحب مولوی فرزند علی خان صاحب کی طرف سے یہ تجویز پیش ہوئی کہ جو جماعتیں وقت پر اپنے چندہ کا بجٹ بنا کر نہ بھیجیں اُن سے باز پرس کی جائے.حضور نے اس سلسلہ میں ممبران کی آراء طلب فرمائیں.چند احباب نے اپنی آراء پیش کیں.اس کے بعد حضور نے فرمایا : - دوستوں کی آراء اور خانصاحب کا جواب میں نے سُن لیا ہے مگر خانصاحب دوستوں کی تقریروں کے وقت اپنے ماتحتوں سے گفتگو کرنے میں مصروف تھے اس لئے بعض سوالات کے جواب اُنہوں نے نہیں دیئے کیونکہ اُنہوں نے ننے ہی نہیں.مثلاً میاں عطاء اللہ صاحب نے تین باتیں کہی تھیں اور بیان کیا تھا کہ یہ جو بر وقت بجٹ آمد کی تشخیص نہیں ہو سکتی اس کی تین وجوہ ہو سکتے ہیں.ایک یہ کہ ایسی جماعتوں میں کوئی خرابی پیدا ہوگئی ہے اور اس کے متعلق کہا کہ اگر اس وجہ سے بجٹ فارم مرتب ہو کر نہیں آتے تو ان کے نام سنا دینا اور ان کے نمائندوں سے باز پرس کرنا اور خرابی پیدا کر دے گا اس لئے چاہئے یہ کہ ایسے ذرائع اختیار کئے جائیں جو مفید نتیجہ پیدا کر سکیں.یا پھر دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ ایسی جماعتیں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ ان میں کوئی شخص ایسا نہیں کہ فرصت نکال کر یہ کام جو بہت محنت اور وقت چاہتا ہے کر سکے اگر یہ وجہ ہے تو ایسی جماعت کی امداد کرنے کی صورت پیدا کرنی چاہئے.لیکن اگر یہ دونوں وجوہ نہیں تو ایک تیسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ بجٹ تشخیص کرانے والوں کی طرف سے تحریک کرنے اور توجہ دلانے میں کمی رہی.یہ صیغہ کا اپنا نقص ہوگا اس کی اصلاح کرنی چاہئے نہ کہ کوئی تعزیر جاری کرنی چاہئے.ان باتوں کا کوئی جواب نہیں دیا گیا.میں نے اُس وقت دیکھا کہ خانصاحب اپنے ماتحتوں سے گفتگو کر رہے تھے.اگر اسمبلی میں ایسا ہو تو شور پڑ جائے کہ ہماری باتوں کی طرف توجہ نہیں کی جاتی.ایک صاحب جن کا نام محمد دین ہے اُنہوں نے کہا کہ ان کی جماعت کو بجٹ فارم

Page 165

۱۴۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء خطابات شوری جلد سوم نہیں بھجوائے گئے.ان کا اور ایک اور صاحب کے سوال کا یہ جواب دیا گیا کہ ۱۹۴۵ء کے فارم بھیجے گئے تھے دوسرے نہیں.ایک سوال یہ تھا کہ جماعتوں کے پاس مقامی فنڈ تو ہوتا نہیں محصلین کے اخراجات کہاں سے ادا کریں.یہ بھی قابلِ توجہ بات تھی.بابو عبد الحمید صاحب نے سوال اٹھایا تھا کہ ایک گزشتہ مجلس مشاورت میں یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ محصلوں کا کام بجٹ تشخیص کرنا ہوگا.اس کا جواب مختلف پہلوؤں سے خانصاحب نے دینے کی کوشش کی ہے مگر حقیقی جواب کی طرف نہیں آئے.انہوں نے کہا ہے شہری جماعتیں خود بجٹ بنایا کریں مگر یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسی کل ناظر اعلیٰ نے ایک موقع پر کہی کہ ایک بات خلیفہ نے کہی تھی اور ایک ناظروں نے کہی اور جب ہم نے ناظروں کی بات مان لی تو خلیفہ کی کس طرح مان سکتے تھے.خانصاحب کو چاہئے تھا کہ یا تو میرے فیصلہ کو رڈ کرتے یا اس کا جواب دیتے.اگر خلیفہ کی بات واجب العمل ہے تو پھر زید و بکر کا اس کے خلاف خیال لغو ہے.ورنہ اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ ناظر صاحب جب چاہیں میرے فیصلہ کو رڈ کر دیں اور خود جو چاہیں جاری کر دیں.پس اگر میرے فیصلہ پر عمل کرنا لازمی ہے تو ضروری ہے کہ اگر کسی فیصلہ کے متعلق کوئی مشکل پیش آئے تو اُس میں ترمیم کی اجازت مجھ سے لی جائے.یہی فیصلہ جس میں یہ ذکر ہے کہ جماعتوں کے بجٹ محصل تشخیص کیا کریں اس پر شہروں میں عمل کرنا اگر ناممکن تھا تو اس میں ترمیم کرنے کی اجازت مجھ سے لے لیتے کہ شہروں کو مستثنیٰ کر دیا جائے مگر یہ طریق تو اختیار نہ کرنا اور یہ کہنا کہ میری یہ رائے ہے کہ اب اس فیصلہ پر عمل نہیں کیا جا سکتا، خلافت کے نظام کی دھجیاں اُڑانی ہیں.جس نظام پر چلنے کا حکم دیا جائے یا تو اُس پر عمل کرنا چاہئے یا پھر صفائی کے ساتھ انکار کر دینا چاہئے.مگر عملی طور پر تو پیغامیوں کا طریق اختیار کرنا اور منہ سے یہ کہنا کہ ہم خلیفہ کے احکام کی اطاعت کرتے ہیں، یہ درست اور مومنانہ طریق نہیں.اگر خلیفہ کا فیصلہ قابل عمل سمجھا جاتا ہے تو اس پر عمل کرنا چاہئے اور اگر نہیں سمجھا جاتا تو صاف طور پر کہہ دینا چاہئے تا کہ جماعت فیصلہ کرے.پچھلے دنوں نظارت دعوت و تبلیغ کی دعوت پر میں نے ایک تقریر کی تھی جس ایک انتباہ میں کہا تھا کہ تمام تاریخ صدر انجمن احمدیہ کی بتاتی ہے کہ یا تو خلیفہ کے فیصلہ کو توڑنے کی کوشش کی جاتی ہے یا پھر اس پر عمل کرنا ضروری نہیں سمجھا جاتا.میں نے اُس وقت

Page 166

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء کہا تھا کہ میں ایسا نظام قائم کرنا چاہتا ہوں کہ یہ مشکل دُور ہو جائے.جب ایک بات بالبداہت ثابت ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ خلیفہ کی سمجھ میں نہ آئے ورنہ یہ کہنا پڑے گا کہ نعوذ باللہ خدا تعالیٰ سب سے بڑے بے وقوف کو خلیفہ بناتا ہے اور بالفرض کوئی بات خلیفہ کی سمجھ میں نہ آئے.تو بھی خلیفہ کا ہی فیصلہ ماننا چاہئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہو سکتا ہے کہ میں کوئی ایسا فیصلہ کروں جو درست نہ ہو اور قرآن کریم کہتا ہے کہ ایسا ہوسکتا ہے کہ رسول کریم کا فیصلہ غلط ہو لیکن تم اگر اسے نہ مانو گے تو کافر ہو جاؤ گے.غرض غلطی کا امکان تو ہر جگہ موجود ہے.ہو سکتا ہے کہ خلیفہ کا کوئی فیصلہ غلط ہو.اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ خلیفہ میں عقل تو ہے لیکن فیصلہ غلط کیا گیا ہے تو بھی تمہارا فرض ہے کہ اس کی تعمیل کرو.اپنا صحیح فیصلہ اُس کے مقابلہ میں لاکر نظام کی جڑ کو نہیں کاٹنا چاہئے.مگر میں دیکھتا ہوں برابر یہ طریق انجمن کا چلا جاتا ہے کہ خلیفہ کے فیصلہ کی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی اور میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یا صدرانجمن کے موجودہ نظام میں تبدیلی کی ضرورت ہے یا بعض لوگوں میں منافقت پائی جاتی ہے.کیونکہ صدر انجمن اور ناظر خلافت کے فیصلوں کے لئے روک ثابت ہو رہے ہیں.وہ چاہتے ہیں کہ اپنی مرضی کریں اور خلافت کے فیصلے روک دیں.ایک ناظر کو سزا کے طور پر ہٹا دیا گیا ہے کیونکہ اُس نے بار بار میرے فیصلوں کو رڈ کیا اور جماعت کے اموال کو ضائع کیا.گواس کی عزت کی خاطر یہ کہا گیا ہے کہ وہ ریٹائر ہوا ہے.میں سمجھتا ہوں وقت آچکا ہے کہ اس خرابی کو دور کر دیا جائے.ایک ناظر کو تو میں نے ہٹا دیا ہے.اگر یہی بات جاری رہی تو دوسروں کی نسبت بھی فیصلہ کر دیا جائے گا اور کسی کی پرواہ نہ کی جائے گی.بعض لوگوں کو یہ غلطی لگتی ہے کہ چونکہ بہت کام کرتے ہیں اس لئے غلطیاں ہو جاتی ہیں اور اس سے کوئی حرج نہیں مگر یہ درست نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنگ کے دوران میں ایک شخص کے متعلق جو بہت زیادہ زور کے ساتھ جنگ کر رہا تھا فرمایا یہ جہنمی ہے.ایک صحابی کہتے ہیں میں نے سُنا بعض نے کہا رسول اللہ کی رائے درست نہیں معلوم ہوتی اس قدر جان تو ڑ کر لڑنے والا شخص جہنمی کس طرح ہوسکتا ہے.اس پر میں اس شخص کے ساتھ ہو لیا تا کہ اُس کا انجام دیکھوں.وہ اس زور کے ساتھ لڑتا تھا کہ مسلمانوں کے منہ سے مرحبا نکل جاتا تھا.آخر وہ زخمی ہوا اور مسلمان اُسے جنت کی مبارک دینے لگے.

Page 167

خطابات شوری جلد سوم ۱۵۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء تو اُس نے کہا میں خدا اور اُس کے رسول کے لئے نہیں لڑا بلکہ فلاں کا بدلا لینے کے لئے لڑ رہا تھا.پھر زخموں کی تکلیف برداشت نہ کرتا ہوا خود کشی کر کے مر گیا.یہ دیکھ کر وہ صحابی واپس لوٹے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا.اَشْهَدُ اَنْ لَّا إلهَ إِلَّا اللهُ وَاَشْهَدُ اَنَّكَ لَرَسُولُ اللهِ- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا بات ہے؟ صحابی نے کہا آپ نے ایک شخص کے متعلق فرمایا تھا کہ وہ جہنمی ہے مگر بعض نے کہا وہ تو بہت اخلاص سے لڑ رہا ہے وہ کیونکر جہنمی ہو سکتا ہے.اس پر میں اُس کے ساتھ ساتھ رہا.اب وہ خود کشی کر کے مرگیا ہے.یکے اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اَشْهَدُ انِي رَسُولُ اللہ میں شہادت دیتا ہوں کہ میں خدا کا رسول ہوں.تو اُس شخص کا خدمت کرنا اُسے بُری نہیں قرار دے گیا.بہر حال اگر کوئی شخص قانون شکنی کرتا ہے یا قانون شکنی کی روح پیدا کرتا ہے تو وہ مجرم ہے اور قابل گرفت ہے مگر نظارتوں میں دیکھا گیا ہے کہ بجائے یہ تسلیم کرنے کے کہ قانون شکنی کی گئی ہے کہا یہ جاتا ہے کہ اس پر عمل کرنا ہی ناممکن تھا.مثلاً یہی محصلین کے دورہ کا سوال تھا.اگر یہ کہا جاتا کہ ان کا دورہ کرنا بجٹ کی تشخیص کے لئے ضروری تھا مگر ایسا طوفان آ گیا کہ راستے بند ہو گئے تو اور بات تھی.یہ قانون شکنی نہ ہو گی مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ دورہ کرنا کیوں ناممکن تھا.پھر ناظر نے یہ جواب دیا ہے کہ میرے نزدیک شہری جماعتوں کو بجٹ خود تشخیص کرنا چاہئے.اسی طرح دیہاتی جماعتوں کے متعلق یہ جواب نہیں دیا کہ اتنے محصل نہیں کہ سب جماعتوں میں دورہ کر سکتے بلکہ یہ کہا ہے کہ دوسرے کاموں میں مصروف رہے.نظارت کا کام تھا کہ محصلوں کو اس کام پر لگا دیتی کہ فارم پُری کرائیں.پھر جتنا کام ہو سکتا اُن سے کرایا جاتا اور باقی کے لئے کہہ دیا جاتا کہ بقیہ کام میرے اختیار کا نہ تھا ، تو یہ درست ہوتا کہ جتنا کام ہو سکتا تھا اُتنا کرالیا گیا.۴ محصلین سے چار سو جماعتوں کے بجٹ کی تشخیص کرانا ممکن نہ تھا.اگر یوں کہا جا تا تو یہ معقول بات ہوتی لیکن اس کی بجائے یہ کہا گیا ہے کہ ۱۴ محصلین سے فلاں فلاں کام کرایا گیا اس لئے بجٹ کی تشخیص نہیں کر سکے.یہ صریح قانون شکنی ہے.ان کا اصل کام بجٹ تیار کرانا ہے نہ کہ دوسرے کام کرانا.اس کا جواب اظہار ندامت تھا.میں اس وقت پھر اعلان کرتا ہوں کہ محصلین کے متعلق

Page 168

خطابات شوری جلد سوم ۱۵۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء میرا وہ فیصلہ لفظاً لفظاً اب بھی قائم ہے اور اُس کی تعمیل کرنا ناظر پر فرض ہے اگر وہ میرے فیصلہ کی تعمیل کرتے تو درست ہوتا.ورنہ خواہ وہ مریخ اور زہرا کے ٹکڑے لے آئیں اور خزانے میں داخل کر دیں مگر حکم کی تعمیل نہ کریں تو وہ نا فرمان سمجھے جائیں گے.کہا گیا ہے کہ اُن جماعتوں کے نام شائع کئے گئے جنہوں نے فارم بھیجے مگر پھر بھی تعمیل نہ کی گئی.اس کا جواب وہ یہ دے سکتے ہیں کہ تم نے خلیفہ کا حکم نہ مانا ، ہم پر تمہارے حکم کا کیا اثر ہوسکتا تھا.حقیقت یہ ہے کہ جب تک ناظر اپنے رویہ کو نہ بدلیں گے، ان کی باتوں کا بھی کوئی اثر نہ ہوگا.ایک دفعہ کسی بزرگ کا گھوڑا چلنے سے اڑا.انہوں نے فرمایا میں نے ضرور خدا تعالیٰ کے کسی حکم کی نافرمانی کی ہوگی جس پر گھوڑے نے میری نافرمانی کی.جانے دو نیکی اور ایمان کو مگر کیا یہ درست نہیں کہ جو ماں باپ بچوں کے سامنے لڑتے ہیں، بچے اُن سے لڑتے رہتے ہیں؟ خربوزہ کو دیکھ کر خربوزہ رنگ بدلتا ہے.جو لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ فلاں نے قانون شکنی کی اور اُسے بُرا نہیں سمجھا گیا تو وہ بھی اس طریق کو اختیار کر کے نظام کو درہم برہم کر دیتے ہیں.اس وجہ سے قانون شکنی کی روح کو ہی چل دینا چاہئے.قانون شکنی خواہ ناظر کرے یا کوئی اور وہ برداشت نہیں کی جاسکتی.جب ناظر خلیفہ کے کسی فیصلہ کی خلاف ورزی کرتا ہے تو کیا کلرک نہیں دیکھتے کہ یہ فیصلہ لکھا ہے مگر ناظر اس پر عمل نہیں کرتے.پھر اسی طرح کلرک ناظر کے حکم کے متعلق کرتے ہیں اور وہی بات ہو جاتی ہے جو کسی برہمن کے متعلق بیان کی جاتی ہے.کہا جاتا ہے ایک برہمن دریا کی طرف سے آ رہا تھا.سردی کا موسم تھا اور غسل کرنا مشکل تھا.ایک دوسرے برہمن نے پوچھا غسل کر آئے ؟ اُس نے کہا میں نے تو دریا میں ایک کنکر پھینک کر کہہ دیا ” تو را شنان سوموراشنان.پوچھنے والے نے کہا پھر میں تم کو مخاطب کر کے کہہ دیتا ہوں کہ ” تو را شنان سوموراشنان“ اور یہ کہہ کر وہ بھی گھر لوٹ گیا.اسی طرح ایک کلرک جب دیکھتا ہے کہ خلیفہ کا ایک حکم لکھا ہوا موجود ہے مگر بجائے اس کے متعلق فیصلہ کرانے کے خود ہی ناظر کہہ دیتا ہے کہ اس پر عمل نہیں ہوسکتا تو وہ ناظر کے حکم پر کہتا ہے کہ اس پر عمل نہیں ہوسکتا.پھر جب وہ کوئی حکم دیتا ہے تو چپڑ اسی کہ دیتا ہے کہ اس پر عمل نہیں ہو سکتا.اس طرح تو جیہ کا دروازہ وسیع ہوتا جاتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ سب سے اول قیاس ابلیس نے کیا اور وہ تباہ ہو گیا.پس یا تو

Page 169

خطابات شوری جلد سوم ۱۵۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء جو قانون بن چکا ہو اُسے بدلوانا چاہئے یا پھر عمل کرتے ہوئے مرنا بھی پڑے تو مرجانا چاہئے.رائے شماری کے بعد حضور نے فرمایا : - ” جیسا کہ میں فیصلہ کر چکا ہوں کہ محصلین کو تشخیص بجٹ میں امداد دینے کے لئے لگانا چاہئے اور وقت پر تعاون کر کے جماعتوں سے فارم پُر کرانے چاہئیں میں اس تجویز کے حق میں فیصلہ کرتا ہوں.“ اختتامی اجلاس سفارش پیش کی : - پریل ۱۹۴۵ء کو مجلس مشاورت کے آخری اجلاس میں حضرت مرزا شریف احمد صاحب نے سب کمیٹی نظارت دعوت وتبلیغ کی حسب ذیل وقت آ گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منشاء کے ماتحت نظارت دعوۃ و تبلیغ کے زیر اہتمام قادیان میں ایک مذہبی کانفرنس کی جائے.تفصیلی قواعد بنانے کے لئے ایک سب کمیٹی بنا دی جائے.اس کا نفرنس کے اخراجات کے لئے مبلغ دو ہزار روپیہ اس بجٹ میں رکھا جائے.سب کمیٹی کی بحث کے دوران میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ مندرجہ اشتہار خطبہ الہامیہ پڑھ کر سنائے گئے.بالآخر میں ایک ضروری امر کی طرف اپنے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس مینارہ میں ہماری یہ بھی غرض ہے کہ مینارہ کے اندر یا جیسا کہ مناسب ہو ایک گول کمرہ یا کسی اور وضع کا کمرہ بنا دیا جائے جس میں کم سے کم ۱۰۰ آدمی بیٹھ سکے اور یہ کمرہ وعظ اور مذہبی تقریروں کے لئے کام آئے گا.کیونکہ ہمارا ارادہ ہے کہ سال میں ایک یا دو دفعہ قادیان میں مذہبی تقریروں کا جلسہ ہوا کرے اور اس جلسہ پر ہر ایک شخص مسلمانوں اور ہندوؤں اور آریوں اور عیسائیوں اور سکھوں میں سے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے مگر شرط یہ ہوگی کہ دوسرے مذہب پر کسی قسم کا حملہ نہ کرے.فقط اپنے مذہب اور اپنے مذہب کی تائید میں جو چاہے

Page 170

خطابات شوری جلد سوم تہذیب سے کہے.۱۵۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء افضال الہیہ پر سجدہ شکر حضرت مرزا شریف احمد صاحب یہ تجویز پڑھ ہی رہے تھے کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی اچانک کرسی سے اُٹھے اور پاس ہی فرش پر جو تھوڑی سی جگہ تھی وہاں سجدہ کیا.یہ دیکھتے ہی چُپ چاپ تمام حاضرین اپنی اپنی جگہ پر سجدہ میں گر گئے اور حضور کے اُٹھنے پر جب اللهُ اَكْبَر کہا گیا تو اُٹھے.اُس وقت حضور نے حسب ذیل تقریر فرمائی.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے اکثر لوگ خدا کے نشانوں سے اعراض کرتے ہوئے گزر جاتے ہیں ھے آج سے ۴۵ سال پہلے وہ شخص جس کی جوتیوں کا غلام ہونا بھی ہم اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں اُسے اُس وقت کی اپنی جماعت کی حالت دیکھتے ہوئے ایک بہت بڑا مقصد اور کام یہ نظر آیا کہ ایک ایسا کمرہ بنایا جائے جس میں سو آدمی بیٹھ سکے مگر آج ہم ایک ایسے کمرے میں بیٹھے ہیں جو اس غرض سے نہیں بنایا گیا تھا کہ مختلف مذاہب کے لوگ اس میں تقریریں کریں مگر اس میں پانچ سو کے قریب آدمی بیٹھے ہیں اور وہ بھی گرسیوں پر جو زیادہ جگہ گھیرتی ہیں.گویا اُس زمانہ میں جماعت کی طاقت اور وسعت کی یہ حالت تھی کہ سو آدمیوں کے بیٹھنے کا کمرہ بنایا جائے اور سو آدمیوں کو بٹھانے کے لئے جگہ بنانے کی غرض سے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اعلان کرنا پڑا اور اسے ایک بڑا کام سمجھا گیا اور خیال کیا گیا کہ سو آدمیوں کے بیٹھنے کے لئے کمرہ بنانا بھی مشکل ہوگا.مجھے منارة امسیح کی تعمیر کے وقت کی یہ بات یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام شہ نشین پر بیٹھے تھے اور میر حامد شاہ صاحب کے والد حکیم حسام الدین صاحب سامنے بیٹھے تھے.منارہ بنانے کی تجویز ہو رہی تھی.سات آٹھ ہزار جو جمع ہوا تھا وہ بنیا دوں میں ہی صرف ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس فکر میں تھے کہ اب کیا ہو گا.حکیم حسام الدین صاحب زور دے رہے تھے کہ حضور یہ بھی خرچ ہو گا ، وہ بھی ہوگا اور کئی ہزار روپیہ خرچ کا اندازہ پیش کر رہے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُن کی با تیں سن کر فرمایا حکیم صاحب کا منشاء یہ معلوم ہوتا ہے کہ منارہ کی تعمیر کو ملتوی کر دیا جائے.چنانچہ ملتوی کر دیا گیا.

Page 171

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء ایک تو وہ وقت تھا اور ایک آج ہے کہ مسجد مبارک کی توسیع کے لئے عصر کی نماز کے وقت میں نے مقتدیوں سے ذکر کیا اور عشاء کی نماز سے پہلے پہلے ۱۸ ہزار کے وعدے اور رقوم جمع ہو گئیں اور بیرونی احباب کو اس چندہ میں شریک ہونے کا موقع ہی نہ ملا.یہ نشان بھی نا بینا کو نظر نہ آئے مگر ہر بینا کو نظر آ رہا ہے کہ کس طرح خدا تعالیٰ اپنے فضل سے جماعت کو بڑھا رہا اور سامان پیدا کرتا جا رہا ہے کہ اُس وقت جو بات بڑی معلوم ہوتی تھی آج بہت ہی معمولی اور حقیر سی نظر آتی ہے اور آج جو چیز بہت بڑی معلوم ہوتی ہے وہ کل حقیر ہو جاتی ہے.خدا تعالیٰ کا یہی سلوک ہماری جماعت سے برابر چلا جا رہا ہے اور اس بات کا خیال کر کے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرح دل بھر آتا اور آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں کہ کاش! جماعت کی یہ ترقی حضرت مسیح موعود الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ہوتی تا آپ بھی اس دنیا میں اپنے کام کے خوش گن نتائج دیکھ لیتے “ یہ فرماتے فرماتے حضور پر بے حد رقت طاری ہو گئی.تھوڑی دیر توقف کے بعد فرمایا: اس تجویز کا اصل مقصد کا نفرنس منعقد کرنا ہے جس میں ہر مذہب کے نمائندے اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کریں.سب کمیٹی نے اس کے لئے دو ہزار روپے تجویز کئے ہیں.میں چاہتا ہوں کہ جو دوست اس کے متعلق کچھ کہنا چاہیں نام لکھا دیں.“ حضور کے اس ارشاد کے مطابق چند احباب نے اپنی آراء کا اظہار کیا.اسی دوران میں مخلصین جماعت جماعت نے مجوزہ ہال کے لئے حضور کی خدمت میں چندہ پیش کرنا شروع کر دیا.اس پر حضور نے فرمایا:- دوستوں نے چندہ دینا شروع کر دیا ہے اور اس بات کا انتظار نہیں کیا کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں.مجھ پر جو اس وقت وجد کی حالت طاری ہوئی اور میں سجدہ میں گر گیا اِس کی وجہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کے حالات اور بعد کے حالات کا فرق ہے.اس وقت دو ہزار روپیہ کا جو سوال ہے وہ تو ایک دوست نے پورا کر دیا ہے اور وہ کیا اس سے بہت زیادہ چندہ ہو سکتا ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس تجویز کے پیچھے جذبہ کیا کارفرما ہے.یہی کہ باہر سے کتنے آدمی آسکیں گے.چونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اب ہمیں چھپیں ہزار احمدی ہی جلسہ پر اکٹھے ہو جاتے ہیں ان حالات میں چاہئے کہ ہم ایک ایسا ہال بنا ئیں.

Page 172

خطابات شوری جلد سوم ۱۵۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء 66 جس میں ایسے جلسے ہوتے رہیں.یا شیڈ کے طور پر ایسی جگہ بنا ئیں جس میں کم از کم ایک لاکھ آدمیوں کے بیٹھنے کی جگہ ہو.حضرت مسیح موعود الصلوۃ والسلام نے اپنی اولاد کے لئے دعا فرمائی ہے کہ اک سے ہزار ہوویں اور نبی کی اولاد اس کی جماعت بھی ہوتی ہے، اس لئے ۱۰۰ کو ہزار سے ضرب دیں تو ایک لاکھ بنتا ہے ان کے بیٹھنے کے لئے جگہ بنانی چاہئے.گو ہم جانتے ہیں کہ کچھ ہی عرصہ کے بعد آنے والے کہیں گے کہ یہ بے وقوفی کی گئی.کم از کم دس لاکھ کے لئے تو جگہ بنانی چاہئے تھی.پھر اور آئیں گے جو کہیں گے یہ کیا بنا دیا، کروڑ کے لئے جگہ بنانی چاہئے تھی.اس لئے میری تجویز یہ ہے کہ پانچ سال میں دو لاکھ روپیہ ہم اس غرض کے لئے جمع کریں.پانچ سال کا عرصہ اس لئے میں نے رکھا ہے کہ اُس وقت تک جنگ کی وجہ سے جو گرانی ہے وہ دُور ہو جائے گی اور ہم ایسی عمارت بناسکیں گے.اس لئے فی الحال میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ آئندہ پانچ سال میں اس بات کو مدنظر رکھ کر دو لاکھ روپیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے جمع کریں.میں اس تجویز کو بھی منظور کرتا ہوں کہ بجٹ میں یہ رقم رکھنے اور مجلس شوریٰ میں پیش کرنے کی بجائے انفرادی طور پر جماعت سے لے لی جائے.دو ہزار روپیہ جو چوہدری اسد اللہ خاں صاحب نے دیا ہے اسی دو لاکھ کی رقم میں داخل کرتا ہوں.یہ رقم اعلان کر کے طوعی چندہ سے پوری کر لی جائے گی.سیٹھ اسماعیل آدم صاحب کہتے ہیں.میرا ایک خواب ہے وہ سنانا چاہتا ہوں.وہ کھڑے ہو کر خواب سنا دیں.“ اس پر حضرت سیٹھ صاحب نے حسب ذیل خواب سنایا: - اللہ تعالیٰ کی شان ہے جب وہ کسی اپنے برگزیدہ بندے کو بھیجتا ہے تو جو لوگ اُسے پہلے مانتے ہیں، اُن کو اُس کی صداقت کے نشانات بنا دیتا ہے.۱۹۰۰ء میں جب میں یہاں آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خطبہ الہامیہ سنایا تو اُس کے بعد میں پھر بمبئی چلا گیا.وہاں میں نے تہجد کی نماز کے وقت رؤیا دیکھا کہ حضرت مسیح موعود الصلوۃ والسلام ایک بہت بڑے ہال میں لیکچر دے رہے ہیں.بمبئی میں بڑے سے بڑا ہال دس ہزار آدمیوں کے بیٹھنے کا ہے مگر وہ اتنا بڑا ہال ہے کہ ایک لاکھ آدمی اُس میں آسکتے ہیں.مجھے اُس کے دروازہ

Page 173

خطابات شوری جلد سوم ۱۵۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء پر کھڑا کیا گیا اور کہا گیا کہ جو لوگ آئیں تم انہیں ریسیو(Receive) کرو اور اندر بھیجتے جاؤ.خدا تعالیٰ نے قریباً پچاس سال قبل یہ خوشخبری جو مجھے سنائی.اُسے پورا ہوتا آج اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں ، اس کی شہادت دیتا ہوں.“ اس وقت تک حضور کے آگے میز پر وعدوں کی تحریروں اور نقد رقوم بہت سی جمع ہو چکی تھیں.ان کے متعلق فرمایا :- یہ رقعے اور روپے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری والے اُٹھا لیں.میں اس بارہ میں بری ہوتا ہوں.خدا تعالیٰ کے حضور دفتر والے جواب دہ ہوں گے.“ یہ فرمانے پر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حضور جلسہ ختم ہی کرنے والے ہیں اور حضور نے رقوم پیش کرنے والوں کے نام سنانے کا ارشاد فرمایا اور اپنی طرف سے دس ہزار روپیہ اس فنڈ میں دینے کا ارشاد فرمایا.ابھی چند ہی نام سنائے گئے تھے کہ اس کثرت سے احباب نے اپنے نام پیش کرنے شروع کر دیئے کہ حضور نے فرمایا: - احباب باری باری بولیں تا ان کے نام لکھے جاسکیں اب تو اتنا شور ہے کہ لکھنا مشکل ہورہا ہے.“ حضور نے کئی اور اصحاب کو نام لکھنے پر مقرر کر دیا.کچھ ہی دیر بعد حضور نے فرمایا : - میں اپنی طرف سے، اپنے خاندان کی طرف سے نیز چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب اور ان کے دوستوں اور سیٹھ عبد اللہ بھائی صاحب کے خاندان اور جماعت احمدیہ کی طرف سے اس بات کا اعلان کرتا ہوں کہ بیرونی جماعتوں کو اس فنڈ میں شریک ہونے کا موقع دینے کے بعد دو لاکھ میں جو کمی رہے گی وہ ہم پوری کر دیں گے.“ لیکن ساری فہرست تیار ہونے کے بعد جب رقوم کی میزان کی گئی تو حضور نے اعلان 66 فرمایا کہ : - اس جلسہ میں شریک ہونے والوں نے اپنی طرف سے یا اپنے غیر حاضر دوستوں اور رشتہ داروں کی طرف سے جو چندے پیش کئے ہیں، اُن کی فہرست تیار کر لی گئی ہے.ممکن ہے جلدی میں ان رقوم کی میزان کرنے میں کچھ غلطی ہوگئی ہو لیکن اس وقت جس قدر چندہ ہو چکا ہے وہ دو لاکھ بائیس ہزار سات سو چونسٹھ روپے شمار کیا گیا ہے.“

Page 174

۱۵۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء خطابات شوری جلد سوم یہ فرمانے کے بعد حضور نے یہ کہتے ہوئے کہ یہ سجدہ شکر ہے، پھر سجدہ کیا اور تمام مجمع حضور کے ساتھ سجدہ میں گر گیا اور نہایت رقت سے دعائیں کیں.سجدہ سے اُٹھنے پر حضور نے فرمایا.و بعض مواقع پر بولنے سے خاموشی زیادہ اچھی ہوتی ہے اس لئے میں اس جلسہ کو اللہ کے نام پر ختم کرتا ہوں اور دوستوں کو واپسی کی اجازت دیتا ہوں.مجھے جو کچھ کہنا ہوگا ( رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء ) بعد میں خطبات میں کہوں گا.“ ال عمران : ۱۰۴ ابوداؤد كتاب القضاء باب فِي قَضاءِ الْقَاضِي إِذَا أَخْطَاً بخاری کتاب القدر باب الْعَمَلُ بِالْخَوَاتِيْمِ خطبہ الہامیہ.روحانی خزائن جلد ۶ اصفحہ ۳۰ ه وَ كَاتِنُ مِنْ آيَةٍ فِى السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ يَمُرُّونَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُون (يوسف : ١٠٦)

Page 175

خطابات شوری جلد سوم ۱۵۹ ت ۱۹۴۶ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ مجلس مشاورت ۱۹۴۶ء ( منعقده ۱۹ تا ۲۱ را پریل ۱۹۴۶ء) پہلا دن افتتاحی تقریر جماعت احمدیہ کی چھبیسویں مجلس مشاورت مؤرخہ ۱۹ تا ۲۱ اپریل ۱۹۴۶ء کو قادیان میں منعقد ہوئی.اس کا افتتاح کرتے ہوئے حضور نے ایک بصیرت افروز تقریر فرمائی جس میں آپ نے پیشگوئی مصلح موعود کے پس منظر میں جماعت پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کی طرف احباب جماعت کو نہایت مؤثر رنگ میں توجہ دلائی.تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا :- ۱۹۴۴ء کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی تھی کہ اُس پیشگوئی کے مطابق جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اسلام کے غلبہ اور اُس کے احیاء کے متعلق کی گئی تھی اور جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک نائب مقرر کیا گیا تھا جو لوگوں کی اصلاح کے لئے آنے والا تھا اور جس کا اپنوں اور بیگانوں میں ایک لمبے عرصہ تک انتظار کیا جاتا رہا وہ میں ہی ہوں اور مجھے خدا نے بتایا تھا کہ یہ پیشگوئی اپنی تمام تفاصیل کے ساتھ میرے ہی وجود میں پوری کی گئی ہے.ے جنوری ۱۹۴۴ء کو یہ انکشاف مجھ پر ہوا تھا اور اب دو سال تین ماہ کی مدت میرے دعوی مصلح موعود کے اعلان پر گزر چکی ہے.دوسال اور تین مہینے کی مدت کوئی معمولی مدت نہیں ہوتی.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک بچہ کی پیدائش اور اُس کے دودھ چھڑانے کی مدت تمیں مہینے ہے اس لحاظ سے ۲۷ بلکہ ۲۸ مہینے اس وقت تک اس واقعہ پر گزر چکے ہیں.

Page 176

خطابات شوری جلد سوم رت ۱۹۴۶ء ہمیں دیکھنا چاہئے کہ گزشتہ ۲۷ مہینوں میں ہم نے دُنیا میں کیا روحانی تغیر پیدا کیا ہے اور ہمیں غور کرنا چاہئے کہ گزشتہ ۲۷ مہینوں میں ہم نے آئندہ تغیرات کے لئے کس قسم کی بنیاد رکھ دی ہے.بڑے کاموں کے نتیجے کبھی فوراً نہیں نکلتے بلکہ جتنی بڑی کوئی چیز ہوتی ہے اُتنے ہی اُس کے حمل کے ایام بھی بڑے ہوتے ہیں اور جتنا درخت بڑا ہوتا ہے اُتنا ہی اُس کے پھل لانے کے اوقات بھی زیادہ سے زیادہ بعید ہوتے چلے جاتے ہیں پس جو کام ہمارے سپرد کیا گیا ہے اُس کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم یہ تو اُمید نہیں کر سکتے کہ تھیلی پر سرسوں جمانے میں ہم کامیاب ہو جائیں مگر اُس کے کچھ نہ کچھ آثار ضرور ظاہر ہونے چاہئیں تا کہ ہم بھی اور ہر غیر متعصب شخص بھی یہ سمجھ سکے کہ اب یہ لوگ کچھ کر کے رہیں گے.ہمیں دیکھنا چاہئے کہ کیا ہمارے کاموں میں اس قسم کی سنجیدگی اور خلوص اور حوصلہ مندی اور دلیری پیدا ہوگئی ہے کہ ہمارے دل بھی اس بات پر مطمئن ہوں کہ ہم خدا کے سامنے سرخرو ہو جائیں گے اور دوسرے لوگ بھی یہ اقرار کرنے پر مجبور ہو جائیں کہ اب یہ جماعت کسی قریب منزل پر نہیں ٹھہرے گی بلکہ اس کی منزل بہت دور ہے اور اس کا قدم بہت تیز ہے.دو سالہ ترقی کا جائزہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان دوسالوں میں ہمارے کاموں میں پہلے کی نسبت بہت کچھ تیزی پیدا ہوگئی ہے.ان دوسالوں میں ہی ہم نے کالج قائم کیا اور ان دو سالوں میں ہی ہم نے جامعہ احمدیہ اور مدرسہ احمدیہ میں ترقی کے آثار پیدا کئے.انہی دو سالوں کے اندر ہمارے تبلیغی مشن بیرونجات میں پھیلے اور دیہات کی تبلیغ کا انتظام بھی انہی دو سالوں میں ہوا.غرض بہت سے ایسے کام ہم نے جاری کئے ہیں جو آئندہ زمانہ میں اعلیٰ سے اعلیٰ نتائج پیدا کرنے ممکن ثابت کر رہے ہیں لیکن پھر سوال یہ ہے کہ ہم نے ساری دُنیا میں اسلام کو پھیلانا ہے ، ہم لوگ کسی سوسائٹی کے ممبر نہیں بلکہ ایک مذہب کے پیرو ہیں.اس زمانہ میں جبکہ دہریت اور اباحت بہت پھیل چکی ہے عام طور پر مذاہب کے پابند بھی اپنے آپ کو ایک سوسائٹی کا ممبر سمجھتے ہیں.وہ بھول جاتے ہیں اس بات کو کہ وہ کسی سوسائٹی کے ممبر نہیں بلکہ ایک مذہب کے پیرو ہیں.سوسائٹی کا ایک محدود مقصد ہوتا ہے اور وہ اپنے لئے کام تجویز کرتے وقت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ اُس نے صرف فلاں کام کرنا ہے لیکن مذہب کا مقصد محدود نہیں ہوتا.

Page 177

خطابات شوری جلد سوم 171 ت ۱۹۴۶ء مذہب کے دو حصے مذہب نام ہے تعلق باللہ اور شفقت علی خلق اللہ کا اور نہ تعلق باللہ کی کوئی حد بندی ہوسکتی ہے اور نہ شفقت علی خلق اللہ کی کوئی حد بندی ہوسکتی ہے.دُنیا کے جتنے پیشے، جتنے حرفے اور جتنے کام ہیں اور جتنی ذمہ داریاں اس دُنیا میں پائی جاتی ہیں وہ سب کی سب شفقت علی خلق اللہ کا ہی حصہ ہوتی ہیں.اس میں تعلیم بھی شامل ہے، اس میں تربیت بھی شامل ہے اس میں تجارت بھی شامل ہے، اس میں صنعت وحرفت بھی شامل ہے، اس میں علوم وفنون بھی شامل ہیں، اس میں اقتصادیات بھی شامل ہیں، اس میں قضاء بھی شامل ہے، غرض یہ سارے امور اور ان کی وہ سینکڑوں شاخیں جو چلتی چلی جاتی ہیں ب کی سب شفقت علی خلق اللہ میں شامل ہیں اور سوائے اُس کام کے جس کے نتیجہ میں دُنیا پر ظلم ہوتا ہو اور کوئی کام نہیں جو شفقت علی خلق اللہ میں شامل نہ ہو اس لئے مذہب کی حد بندی سے کوئی اچھی بات باہر نہیں ہوتی.پس یہ امر ہم میں سے ہر فرد کو اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ احمدیت کوئی تعلیمی انجمن نہیں، سیاسی انجمن نہیں، اقتصادی انجمن نہیں کہ کچھ حصہ کام کرنے کے بعد ہم دُنیا سے کہہ سکیں کہ ہماری ذمہ داری ختم ہو چکی ہے.ہم ایک مذہب کے پیرو ہیں اور ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس لئے پیدا کیا ہے کہ ہم اپنی بھی اصلاح کریں اور دُنیا کی بھی اصلاح کریں اور اس کی کوئی حد بندی نہیں جس طرح خدا تعالیٰ کی صفات کی کوئی حد بندی نہیں.ہاں ہر کام وقت سے تعلق رکھتا ہے.یہ کہنا کہ ہر چیز آج ہی ہو جائے بالکل غلط ہے مگر یہ کہنا کہ ہر چیز کسی آئندہ زمانہ میں ہی ہو سکتی ہے اس زمانہ میں کچھ نہیں ہو سکتا یہ بھی غلط ہے.ہمیں کچھ نہ کچھ ایسے آثار دکھانے پڑیں گے جن سے دُنیا کا ہر عقلمند انسان یہ قیاس کرنے پر مجبور ہو کہ اب اس جماعت کا مقابلہ کرنا کوئی آسان بات نہیں.جماعتی کاموں میں وسعت میرے نزدیک اب وقت آ گیا ہے کہ ہماری جماعت اپنے نقطہ نگاہ کو اور اونچا کرے اور یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنی جماعت کے کاموں کو وسعت دینے کی کوشش کی ہے.جہاں تک تعلیم کا سوال ہے جیسا کہ میں ابھی اشارہ کر چکا ہوں ہم مدارس کی حد سے نکل کر اب خدا تعالیٰ کے فضل سے کالج قائم کر چکے ہیں اور گو ہمارا کام یہ ہے کہ ہم دُنیا بھر میں تعلیم جاری کریں مگر ابھی

Page 178

خطابات شوری جلد سوم ۱۶۲ ت ۱۹۴۶ء ہمارے محدود ذرائع ہمیں اس کی اجازت نہیں دے سکتے.سر دست ہم نے قادیان میں اپنا کالج قائم کر دیا ہے.اس سال ہمارے کالج کے لڑکے ایف اے اور ایف ایس سی کا امتحان دیں گے.اس کے بعد جیسا کہ اعلان کیا جا چکا ہے بی اے اور بی ایس سی کی کلاسز انشاء اللہ کھولی جائیں گی اور جب یہ دو سال گزر جائیں گے تو پھر ایم.اے اور ایم.ایس سی کی کلاسز ہم کھول دیں گے تاکہ یہ کالج مکمل ہو جائے.اس کے ساتھ ہی میرا یہ بھی منشاء ہے کہ ایف ایس سی میڈیکل کی کلاسز بھی ہم کھول دیں.جب یہ ساری کلاسز گھل جائیں گی تو ہمارا کالج انشاء اللہ اپنی تکمیل کو پہنچ جائے گا.بی اے اور بی ایس سی کے لئے نئی عمارت شروع کر دی گئی ہے اور امید کی جاتی ہے کہ تمبر اکتو بر تک جب ان کلاسز کے گھلنے کا وقت آئے گا ہمارے پاس عمارت تیار ہو گی اور سامان بھی ہم حاصل کر چکے ہوں گے.اس میں کوئی مجبہ نہیں کہ ہمارے راستہ میں کئی قسم کی دکھتیں اور مشکلات حائل ہیں لیکن دکھتیں اور مشکلات کس کام میں نہیں ہوتیں.ہر قسم کی مشکلات کے ہوتے ہوئے اُن کو سر کرنا اور دقتوں کے ہوتے ہوئے اُن کو زیر کر کے کام کر جانا یہی بہادروں اور دلیروں کا نشان ہوتا ہے.اس کے بعد تعلیمی سلسلہ میں میرا پروگرام یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ہمیں اس کالج کو مکمل کرنے کی توفیق عطا فرما دے تو اس کے بعد دو اور کالج قائم کئے جائیں جن کا قائم کرنا ہمارے لئے نہایت ضروری ہے ایک تو انجینئر نگ کالج انشاء اللہ قائم کیا جائے گا اور ایک کامرس کالج قائم کیا جائے گا.صنعت و حرفت کا تعلق انجینئر نگ سے ہے اور تجارت کا تعلق کامرس سے ہے اور مسلمان اِن دونوں علوم میں بہت پیچھے ہیں.ہماری جماعت کو خدا تعالیٰ نے ایک منظم جماعت بنایا ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی جماعت کے لئے بھی اور دوسرے مسلمانوں کے لئے بھی زیادہ سے زیادہ سہولت کے راستے کھولیں.اسی طرح میرے ارادوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اگر خدا تعالیٰ توفیق عطا فرمائے تو ایک میڈیکل سکول یا میڈیکل کالج بھی کھولا جائے تا ہمارے مبلغین کے کام میں سہولت پیدا ہو.بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں خالی مبلغ کام نہیں کر سکتا بلکہ اُس کا ڈاکٹر ہونا بھی ضروری ہوتا ہے.خود ہندوستان میں ایسے کئی علاقے ہیں کہ اگر ہم وہاں ڈاکٹر بھیجیں تو بہت سے لوگ ہماری تبلیغ سننے لگ جائیں.خصوصاً جنوبی اور مشرقی ہند میں کثرت سے ایسے

Page 179

خطابات شوری جلد سوم ۱۶۳ ت ۱۹۴۶ء علاقے پائے جاتے ہیں اور اُن میں اِس قدر غربت ہے کہ خدا تعالیٰ کے لاکھوں لاکھ بندے جانوروں کی سی زندگی بسر کر رہے ہیں.اگر ڈاکٹروں کے ذریعہ انہیں سچائی کی طرف توجہ دلائی جائے تو یقیناً حق و صداقت کی طرف وہ جلدی آ سکتے ہیں.دینی تعلیم کے لحاظ سے مدرسہ احمدیہ پہلے سے قائم ہے، اسی طرح جامعہ احمدیہ بھی دیر سے قائم ہے مگر اب ہم مدرسہ احمدیہ اور جامعہ کو بھی بڑھا رہے ہیں.پہلے اس مدرسہ میں بہت ہی کم طلبہ آیا کرتے تھے مگر اب ہم نے طلباء کو بڑھانے کا خاص طور پر انتظام کیا ہے اور غرباء کے لئے وظائف بھی مقرر کئے ہیں تا کہ جولوگ اپنے بچوں کو اخراجات کی کمی کی وجہ سے تعلیم نہیں دلا سکتے وہ ان وظائف کے ذریعہ اپنے بچوں کو پڑھا سکیں.اس مد میں ہماری جماعت کے کچھ باہر کے دوست بھی حصہ لے رہے ہیں اور خود میں نے بھی ذاتی طور پر وعدہ کیا ہوا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق فرمائی تو میں پچاس طالب علموں کو اپنے خرچ پر تعلیم دلاؤں گا.میرا ارادہ ہے کہ میں ایک سال پانچ طالب علموں کو وظیفہ دوں.دوسرے سال پھر اور پانچ طالب علموں کو وظیفہ دوں اور اس طرح قدم بقدم پچاس طالب علموں کو اپنے خرچ پر سلسلہ کی آئندہ تبلیغ کے لئے تیار کروں اور چونکہ کورس آٹھ سال کا ہے اس لئے اٹھارہ سال میں یہ طالب علم تیار ہوسکیں گے.ان ۱۸ سال میں اُن کے وظائف پر چھیانوے ہزار روپیہ خرچ آئے گا.میں اس چھیانوے ہزار روپیہ میں سے پانچ ہزار روپیہ سالانہ کے حساب سے انشاء اللہ ادا کرتا رہوں گا یا اگر اللہ تعالیٰ نے تو فیق عطا فرمائی تو چھ ہزار سالانہ ادا کر دیا کروں گا تا کہ اٹھارہ سال کے بعد پچاس عالم مبلغ میرے خرچ پر پیدا ہو جائیں اور اسلام اور احمدیت کے لئے مفید خدمت سر انجام دے سکیں.(الفضل ۲۰ فروری ۱۹۶۲ء) تربیت کا جماعت کی ترقی کے ساتھ نہایت گہرا تعلق ہے اور جو قوم اس کو نظر انداز کر دیتی ہے وہ اپنی ہلاکت اور بربادی کا سامان آپ مہیا کرتی ہے.میں نے اس غرض کے لئے کہ جماعت کا تربیتی پہلو مضبوط ہو انصار اللہ ، خدام الاحمدیہ، اطفال الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ کی تنظیمیں قائم کی ہیں اگر ان تنظیموں کو مضبوط کر لیا جائے تو تربیت کا حصہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت حد تک مکمل ہو جاتا ہے.

Page 180

خطابات شوری جلد سوم ۱۶۴ ت ۱۹۴۶ء تبلیغی منصو بہ اور مال کی ضرورت آپ لوگوں کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ جنگ کے بعد سے اس وقت تک ہم دو درجن سے زیادہ مبلغ بیرونی ممالک میں بھجوا چکے ہیں.چنانچہ اس وقت انگلستان میں ۱۲، اٹلی میں ۳، شمالی امریکہ میں ۲ ، جنوبی امریکہ میں ایک، مغربی افریقہ میں ۱۲، ایسٹ افریقہ میں دو، فلسطین میں ۲ ، ایران میں ایک ، سماٹرا جاوا میں 4 اور ماریشس میں ایک مبلغ ہے یہ کل ۴۲ مبلغ ہوئے مگر یہ لوگ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں.میں نے بہت غور کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ہمیں کم سے کم بیرونی ممالک میں مندرجہ ذیل تعداد میں اپنے مبلغین رکھنے چاہئیں.۱.سیرالیون میں ۱۲ جن میں سے ۵ موجود ہیں.۲.گولڈ کوسٹ میں ۶ جن میں سے ۲ موجود ہیں.۳.نائیجریا میں ۱۳ جن میں سے ۲ موجود ہیں.۴.سوڈان میں ۲ کم سے کم ایک ضرور جانا چاہئے.۵ ایران میں ۴ جن میں سے ۲ موجود ہیں.فلسطین میں ۴ جن میں سے ۳ موجود ہیں اور ایک جانے کے لئے تیار ہے.ے.ایسے سینیا اور ار میتھر یا میں ۴.ٹانگا نیکا میں ۶.۹.نیروبی میں ۶.۱۰.یوگنڈا میں ۶.۱۱.سماٹرا میں ۶.۱۲.جاوا میں ۶.۱۳.بور نیو میں ۲.۱۴.ملا یا میں ۴ جن میں سے ایک موجود ہے.۱۵.برما میں ۴.۱۶.فجی میں ۲.۱۷.ٹرینیڈاڈ میں ۲.

Page 181

خطابات شوری جلد سوم ۱۸.انگلستان میں چھ جن میں سے تین جاچکے ہیں.۱۹.فرانس میں چار جن میں سے ۲ جاچکے ہیں.۲۰.سپین میں ۴ جن میں سے ۲ جا چکے ہیں.۲۱.جرمنی میں ۴ جن میں سے ۲ جا چکے ہیں.۲۲.ہالینڈ میں ۲ جن میں سے ایک جا چکا ہے.۲۳.اٹلی میں چارجن میں سے تین جاچکے ہیں.۲۴.شام میں ۲.۲۵.عراق میں ۲.۲۶.سیلون میں ٢.۲۷.ماریشس میں ۲.۲۸.یونائٹیڈ اسٹیٹس میں ۶.۲۹.برازیل میں ۳.۳۰.ارجنٹائن میں ۲ جن میں سے ایک موجود ہے.۳۱.دیگر جنوبی اسٹیٹس میں ۲.۲.میکسیکو میں ۲.۳۳.کینیڈا میں ۲.۳۴.سویڈن ناروے میں ۲.۳۵.یونان میں ۲.۳۶.البانیہ میں ۲.۳۷.فلپائن میں۲.۳۸.چین میں ۶.۳۹.عدن میں ایک.ماورت ۱۹۴۶ء یہ ساری تعداد ۱۵۲ ابنتی ہے.ان میں سے ۴۲ مبلغ باہر بھیجے جاچکے ہیں اور باقی مبلغ ابھی تیار ہونے والے ہیں ان تمام مبلغین کے لئے بہت زیادہ اخراجات کی ضرورت ہے.

Page 182

۱۶۶ ت ١٩٤٦ء خطابات شوری جلد سوم اسی طرح ہمیں اُن کارخانوں کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے جو جاری کئے گئے ہیں یا جاری کئے جانے والے ہیں.ان تجارتی اداروں کو پھیلانے کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے جو مختلف مقامات پر قائم کئے جانے والے ہیں.پھر تربیت کی نگرانی کے لئے بھی روپیہ کی ضرورت ہے اور تعلیمی کاموں کی وسعت کے لئے بھی بہت سے اخراجات کی ضرورت ہے.ان سارے کاموں کو مدنظر رکھتے ہوئے حوصلہ اور دلیری کے ساتھ منزلِ مقصود کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے جماعت کو ہمیشہ آگے ہی آگے اپنا قدم بڑھانا چاہئے ایسا نہ ہو کہ اس کا قدم سست ہو جائے اور وہ کامیابی کی منزل پر پہنچتے پہنچتے رہ جائے.ہماری جماعت کے وہ نمائندے جو سب کمیٹی بیت المال میں شامل ہیں اُن کو اس امر کی طرف خصوصیت سے توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ان تمام ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آمد و خرچ کا بجٹ تیار کریں.دوسری طرف میں جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ موجودہ بجٹ ہماری ضروریات کو پورا نہیں کر سکتا.ہمارا موجودہ بجٹ تیرہ لاکھ ساٹھ ہزار نو سو تین روپیہ کا ہے.اگر سندھ کی زمینوں اور سلسلہ کے کارخانوں کا بجٹ بھی شامل کر لیا جائے تو یہ پندرہ لاکھ کا بجٹ بن جاتا ہے.اگر تحریک جدید کے چندے اور تحریک جدید کے کارخانوں اور زمینوں کی آمد بھی شامل کر لی جائے تو وہ دس لاکھ تک پہنچ جاتی ہے.پندرہ لاکھ وہ اور دس لاکھ یہ ۲۵ لاکھ کا بجٹ ہوا.مگر میں نے جو سکیم بنانی ہے اس کے لئے ۲۵ لاکھ کا بجٹ کسی صورت میں بھی اکتفا نہیں کر سکتا.در حقیقت بچت دو تین لاکھ سے زیادہ نہیں باقی سب روپیہ لگا ہوا ہے اور دو تین لاکھ روپیہ کسی صورت میں بھی ہماری ضروریات کو پورا نہیں کر سکتا.ہمارے لئے ضروری ہے کہ قریب ترین عرصہ میں ہم انجمن کے بجٹ کو ۲۵ لاکھ تک پہنچا دیں اسی طرح تحریک جدید کے بجٹ کو بھی قلیل ترین عرصہ میں ۲۵ لاکھ تک پہنچا دیں.اگر صد را انجمن احمد یہ اور تحریک جدید دونوں کا مجموعی بجٹ ہم پچاس لاکھ تک پہنچا دیں تو وہ سکیم جو میں نے بیان کی ہے پوری ہو سکتی ہے اس کے بغیر اس سکیم کے پورا ہونے کی کوئی صورت نہیں.پس دوستوں کو خصوصیت سے اس طرف توجہ سے کام لینا چاہئے اور جلد سے جلد اس روپیہ کی فراہمی کی کوشش کرنی چاہئے.ایک سکیم دیہاتی مبلغین کی بھی ہے مگر اس کا بجٹ بھی نہیں رکھا گیا حالانکہ پچاس کے قریب

Page 183

خطابات شوری جلد سوم 172 ت ۱۹۴۶ء طالب علم پڑھ رہے ہیں اور پندرہ مبلغ اپنے کام پر لگے ہوئے ہیں.مگر وہ پندرہ مبلغ جو اپنے کام پر لگے ہوئے ہیں اُن کے اخراجات تو بجٹ میں شامل کر لئے گئے ہیں اور باقی پچاس جو پڑھ رہے ہیں اور عنقریب مختلف دیہات میں تبلیغ کے لئے مقرر کئے جانے والے ہیں اُن کا بجٹ صدر انجمن احمدیہ نے نہیں رکھا.اگر سو دیہاتی مبلغ ہمارے مدنظر ہوں اور فی کس تبلیغی لٹریچر اور گزارہ اور آمد و رفت کے اخراجات کو مدنظر رکھتے ہوئے ۷۵ روپیہ ماہوار خرچ رکھا جائے تو یہ ساڑھے سات ہزار روپیہ ماہوار یا ایک لاکھ روپیہ سالانہ بن جاتا ہے اگر سو کی بجائے پچاس پر ہی انحصار رکھا جائے تب بھی پچاس دیہاتی مبلغین کے لئے پچاس ہزار روپیہ سالانہ خرچ کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ تعداد بھی کچھ بھی نہیں ، ۶۵ مبلغ تین چار حلقوں میں بھی صحیح طور پر کام نہیں کر سکتے.میرے نزدیک اس سکیم کو بھی بڑھا کر دیہاتی مبلغین کو ایک ہزار تک پہنچانے کی ضرورت ہے لیکن اگر فی الحال اس کو جانے بھی دو اور ایک سو مبلغین کا اندازہ رکھو تب بھی ایک لاکھ روپیہ سالانہ کی دوتین سال کے اندر اندر ہمیں صرف دیہاتی مبلغین کے لئے ضرورت ہو گی.اسی طرح کا لج کی ترقی کے لئے جو سکیمیں زیر غور ہیں اگر اُن کو بھی مدنظر رکھا جائے تو ایک دو لاکھ اور رقم بڑھ جائے گی.پھر اگر دوسری سکیمیں جو میں نے بیان کی ہیں اُن کو مدنظر رکھا جائے تو تین چار سال میں ہمیں تین چار لاکھ روپیہ سالانہ کی اور ضرورت پیش آجائے گی اسی لئے میں نے ریز روفنڈ کی مضبوطی کی جماعت کو متعدد بار تاکید کی ہے اور صدر انجمن احمدیہ کو بھی اِس طرف بار بار توجہ دلائی ہے جو نقد روپیہ کی صورت میں ریزرو فنڈ جمع ہے وہ بہت کم ہے میں نے ہدایت کی تھی کہ ڈیڑھ لاکھ روپیہ سالانہ کے حساب سے ریز رو فنڈ جمع کیا جائے.چنانچہ اب تک اس فنڈ میں ۶ لاکھ سے زائد روپیہ جمع ہو چکا ہے.اس سال کے بجٹ میں میں نے ایک لاکھ اسی ہزار روپیہ ریز رو فنڈ میں رکھنے کی ہدایت کی ہے اگر صدر انجمن احمدیہ نے میری ہدایات کے مطابق کام کیا تو چند سال کے بعد اس روپیہ سے ہم بہت سے مفید کام خدا تعالیٰ کے فضل سے سرانجام دے سکیں گے لیکن جس شکل میں بجٹ بنایا گیا ہے میں کہتا ہوں کہ صدر انجمن احمد یہ غالباً اتنا رو پید ریز روفنڈ میں جمع نہیں کر سکے گی اس لئے ہمارے لئے سوائے اس کے اور کوئی صورت نہیں کہ ہم اپنی آمد کو بڑھانے کے ذرائع پر غور کریں.ناظر صاحب بیت المال

Page 184

خطابات شوری جلد سوم ۱۶۸ ت ۱۹۴۶ء نے بتایا ہے کہ ہماری آمد میں ساٹھ ہزار روپیہ سالانہ کا اضافہ ہوا ہے مگر چونکہ جنگ کے ختم ہو جانے کی وجہ سے اب آمد کم ہو جانے کا خطرہ ہے اور وہ ہزاروں آدمی جو فوج میں ملازم تھے اور جن کو سو سو روپیہ ماہوار ملتا تھا اب وہاں سے فارغ ہونے والے ہیں اور بعض تو ایسی صورت میں فارغ ہوں گے کہ اپنے ماں باپ پر بوجھ بن جائیں گے.اس لئے ہمیں خطرہ ہے کہ آئندہ ہم اپنی آمد کے معیار کو پوری طرح نہ قائم رکھ سکیں گے سوائے اس کے پر زور دیا جائے اور نئے لوگ جماعت میں شامل کئے جائیں.یا وہ جو چندہ نہیں دیتے اُنھیں تحریک کی جائے کہ وہ بھی چندہ دیں اس کے علاوہ ہمارے پاس آمد بڑھانے کا اور کوئی ذریعہ نہیں.اگر ان ذرائع سے کام لے کر ہماری آمد میں اضافہ ہو جائے اور ہم ۶۲ ۶۳ ہزار آمد پیدا کر لیں تو دوسری طرف ہمیں یہ بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ صدر انجمن احمدیہ کے مختلف صیغہ جات کی طرف سے ۷۴ ہزار روپیہ کا مختلف اخراجات کے لئے مطالبہ کیا جا رہا ہے اس طرح ایک لاکھ ۸۰ ہزار جو ریز رو فنڈ میں رکھا جانے والا تھا اس میں ۷۴ ہزار روپیہ کی کمی ہو جائے گی اور ایک لاکھ 4 ہزار روپیہ رہ جائے گا.اور چونکہ بجٹ میں بعض اور بھی زیادتیاں ہیں اگر ان کو بھی مدنظر رکھا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم ایک لاکھ تین ہزار روپیہ یا اس کے قریب قریب جمع کرسکیں گے اور یہ کوئی اچھی رفتار نہیں.عام طور پر قاعدہ ہے کہ صدر انجمن احمد یہ بعض دفعہ دورانِ سال ایک لاکھ تک کی زیادتیوں کا مطالبہ کر دیتی ہے اگر اگلے سال بھی ایسا ہی کیا گیا گو میں نے منع کیا ہے کہ ایسا نہ کیا جائے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ ہمیں فائدہ ہونے کی بجائے ۲۵، ۳۰ ہزار روپیہ کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا پس بجٹ پر بہت زیادہ غور اور فکر کی ضرورت ہے اگر سلسلہ کی آمد کو نہیں بڑھایا جاسکتا تو اخراجات کم کرنے چاہئیں.وظائف برائے طلباء جامعہ میں اس موقع پر ایک دفعہ پھر جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ جن دوستوں نے وظائف میں حصہ لیا ہے، ان کو چاہئے کہ صدقہ جاریہ کے اصول پر وہ اپنی رقم کو قائم رکھیں اور نہ صرف خود اس میں حصہ لیتے رہیں بلکہ دوسرے دوستوں کو بھی جو صاحب توفیق ہوں تحریک کریں کہ وہ اس میں حصہ لیں.اور اگر کوئی اکیلا شخص یہ بوجھ برداشت نہ کر سکتا ہو تو دو دو، چار چار

Page 185

خطابات شوری جلد سوم ۱۶۹ رت ۱۹۴۶ء مل کر ایک طالب علم کا بوجھ برداشت کرنے کی کوشش کریں تا کہ سالانہ ۲۵-۳۰ لڑ کے مدرسہ احمدیہ میں داخل ہونے شروع ہو جائیں اور آخر میں ۲۵ - ۳۰ مبلغ سالا سالانہ جماعت احمدیہ کو ملنے لگ جائیں.گو جیسا کہ میں بتا چکا ہوں یہ تعداد بھی ہماری ضروریات کے لئے کافی نہیں.اگر جامعہ احمدیہ کے ذریعہ سو مبلغ بھی سالانہ تیار ہو تو دس سال میں ایک ہزار مبلغ تیار ہوسکتا ہے.اور چونکہ آٹھ سال تک ہمیں تعلیم دلانی پڑے گی اس لئے اگر آج سولڑ کا مدرسہ احمدیہ میں داخل ہو اور پھر ہر سال سولڑ کے متواتر اس میں داخل ہوتے رہیں.تب ۱۸ سال کے بعد ہمیں ایک ہزار مبلغ مل سکتے ہیں اور ساری دُنیا کو اخلاقی اور روحانی لحاظ سے فتح کرنے کا ارادہ رکھنے والی قوم کے لئے ۱۸ سال کے بعد ایک ہزار مبلغ کا ملنا حقیقی خوشی کا موجب نہیں ہو سکتا.مگر ہر چیز کو قدم بقدم ہی چلانا پڑتا ہے.في انحال اگر ہمیں ۳۰،۲۵ یا ۳۳ مبلغ ہی جامعہ احمدیہ کے ذریعہ سالانہ ملنے شروع ہو جائیں تو ہم اسی کو غنیمت ا سمجھیں گے.اس وقت حالت یہ ہے کہ جامعہ احمدیہ کے درجہ رابعہ میں ایک بھی طالب علم نہیں.درجہ ثالثہ میں چار طالب علم ہیں، درجہ ثانیہ میں چھ طالب علم ہیں اور درجہ اولیٰ میں آٹھ طالب علم ہیں گویا جوں جوں نیچے اُترتے جائیں نمبر زیادہ ہوتا جاتا ہے اور جوں جوں اوپر جائیں نمبر کم ہوتا چلا جاتا ہے.مدرسہ احمدیہ کی پہلی جماعت میں گزشتہ سال میری تحریک پر بہت سے دوستوں نے اپنے لڑکوں کو داخل کیا تھا.جن کی تعداد ۳۱ ۳۲ تک پہنچ گئی تھی.سالانہ امتحان میں ان میں سے ۳۰ لڑکے خدا تعالیٰ کے فضل سے پاس ہو گئے ہیں.اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے تو آٹھ سال کے بعد ۳۲،۳۰ علماء سالا نہ ہماری جماعت کو ملنے شروع ہو جائیں گے مگر یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کافی تعداد میں لڑکوں کے لئے وظائف مقرر ہوں اور جولوگ غربت کی وجہ سے اپنے بچوں کو تعلیم دلانے سے معذور ہوں وہ اس وظیفہ سے ان کی تعلیمی ترقی کا انتظام کر سکتے ہوں.یہ لازمی بات ہے کہ اگر مدرسہ احمدیہ میں اپنے لڑ کے داخل کرانے والے زیادہ تر غرباء ہوں گے تو وہ اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات کے متحمل نہیں ہوسکیں گے.ان کے لئے یہی صورت ہوگی کہ جماعت کے دوست وظائف دیں اور وہ تعلیم حاصل کریں.

Page 186

خطابات شوری جلد سوم ۱۷۰ ت ۱۹۴۶ء پس جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ وہ اس چندہ میں جو ثواب حاصل کرنے کا ایک نہایت اعلیٰ درجہ کا ذریعہ ہے ایک دوسرے سے بڑھ کر حصہ لیں اور کوشش کریں کہ ان کے روپیہ کے ذریعہ سلسلہ کو عالم مبلغ مہیا ہو جائیں.میں اس موقع پر صدرا انجمن احمدیہ کو بھی توجہ دلاتا ہوں اور بجٹ کمیٹی کو بھی کہ وہ کم سے کم پانچ ہزار روپیہ سالانہ اس مد کے لئے مقرر کر دے تا کہ اصل ذمہ داری جو صدر انجمن احمدیہ پر اس بارہ میں عائد ہوتی ہے اس سے وہ عہدہ برآ ہو سکے.میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت تک جو روپیہ آ رہا ہے اُس کو مدنظر رکھتے ہوئے ۲۵ وظیفوں کی آسانی سے گنجائش نکل سکتی ہے لیکن اگر دوسرے دوست بھی جن کو خدا تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی ہے اس میں حصہ لینے کی کوشش کریں تو یہ وظائف کی رقم اس حد تک بڑھ سکتی ہے کہ موجودہ تعداد سے دو تین گنا زیادہ لڑکوں کو وظائف دیئے جاسکتے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں پانچ سو سے زیادہ تنخواہ لینے والے تین چار سو بلکہ اس سے بھی زیادہ لوگ ہوں گے.اگر ان میں سے ہر شخص کم سے کم ۵ روپے ماہوار وظیفہ دے تو پا ۲ ہزار روپیہ ماہوار آمد ہو سکتی ہے دوسرے الفاظ میں ہم ایک سو لڑکوں کو آسانی سے وظیفہ دے سکتے ہیں اور اس کا ہم پر کوئی خاص بوجھ بھی نہیں پڑتا.خدا تعالیٰ نے مومن کو خرچ کم کرنے کی بھی بڑی توفیق عطا فرمائی ہے اور اس نے مومن کو اپنی آمد بڑھانے کے لئے بھی بڑی عقل بخشی ہے.اگر خدا تعالیٰ نے ہمیں اپنی آمد بڑھانے کے لئے عقل عطا فرمائی ہے تو اس نے ہمیں اپنے اخراجات کو کم کرنے کے حوصلے بھی بخشے ہیں.پس یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کا برداشت کرنا ہماری جماعت کے لئے مشکل ہو.بے شک ایک کم حوصلہ انسان کے لئے یہ مشکل بات ہے مگر مومن کے لئے نہیں.پس اس خرچ کو ضرور رکھنا چاہئے اور جیسا کہ میں نے ہدایت دی ہے انجمن کو چاہئے کہ وہ اس غرض کے لئے ۵ ہزار روپیہ سالانہ کی اپنے بجٹ میں گنجائش رکھے.پانچ ہزار روپیہ سالانہ میں دے رہا ہوں اور چار ہزار کے قریب روپیہ دوسرے دوستوں کی طرف سے آ رہا ہے.ان کو چاہئے کہ وہ آئندہ بھی اِس سلسلہ کو جاری رکھیں اور جنہوں نے ابھی تک اس تحریک میں حصہ نہیں لیا وہ اس میں حصہ لینے کی کوشش کریں تا مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمد یہ دونوں کو مضبوط بنایا جا سکے.

Page 187

خطابات شوری جلد سوم رت ۱۹۴۶ء علماء تیار کرنے کی سکیم اس کے علاوہ میں نے خاص طور پر جماعت کے لئے علماء تیار کرنے کا کام بھی شروع کیا ہوا ہے اور میری سکیم یہ ہے کہ ایک طرف تو مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ میں طلباء کی تعداد کا اضافہ ہو اور دوسری طرف جونو جوان علماء ہمارے پاس تیار ہیں اُن کو مزید اعلیٰ تعلیم دلائی جا سکے چونکہ بعض علوم ایسے ہیں جو ہم میں اور غیر احمدیوں میں مشترک ہیں اس لئے میں نے بعض طلباء کو منطق ، فلسفہ، فقہ اور حدیث کی اعلیٰ تعلیم کے لئے باہر بھجوا دیا ہے اور کچھ طالب علم ایسے ہیں جو قادیان میں ہی دینی علوم کی تکمیل کر رہے ہیں.جیسے قرآن کریم کا علم ہے، یا تصوف کا علم ہے.اس طرح تین چار سال میں ہمارے پاس خدا تعالیٰ کے فضل سے سات آٹھ علماء ایسے تیار ہو جائیں گے جو تعلیم کے لحاظ سے ہندوستان میں چوٹی کے علماء سمجھے جانے کے قابل ہوں گے.پھر میرا منشاء ہے کہ ان کو مصر اور شام بھجوا دیا جائے تا کہ ان ممالک میں رہ کر ان کو مزید علمی ترقی حاصل ہو.جب یہ لوگ فارغ ہو جائیں گے تو ہمیں اس بات کا موقع میسر آسکے گا کہ ہم خود قادیان میں ہی زیادہ سے زیادہ ایسے علماء تیار کر سکیں.چنانچہ آئندہ جامعہ احمدیہ میں سے جو طلباء نکلیں گے ان میں سے جو ہوشیار طالب علم ہوں گے، جو دوسروں کو تعلیم دینے کے قابل ہوں گے، جو اعلیٰ اخلاق رکھنے والے ہوں گے اور جن کی طبیعت میں بچوں کی نگرانی کا ملکہ ہو گا اُن کو ایسے لوگوں کے سپر د کر دیا جائے گا جو بیرونی ممالک سے پڑھ کر آئیں گے تاکہ وہ ان سے مزید تعلیم حاصل کریں، اس طرح ۴،۳ سال کی تعلیم کے بعد وہ بھی چوٹی کے علماء سمجھے جائیں گے.عورتوں کی تعلیم دوسرا حصہ تعلیم نساء کا ہے.آپ لوگ جانتے ہیں کہ یہاں دوستم کی تعلیم میں نے جاری کی ہوئی ہے ایک تو لڑکیوں کا ہائی سکول ہے جو دیر سے جاری ہے اور ایک لڑکیوں کے لئے دینیات کالج ہے.انٹرنس کا امتحان دینے والی لڑکیاں اب خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت میں بہت کافی ہوتی جاتی ہیں اور ان کے نتائج بھی بہت اچھے نکلتے ہیں چنانچہ جہاں تک فیصدی کا سوال ہے لڑکیوں کے مدرسہ کے نتائج لڑکوں کے مدرسہ کے نتائج سے بہت اچھے رہتے ہیں، بلکہ اکثر سو فیصدی لڑکیاں پاس ہو جاتی ہیں.اس کے علاوہ دینی تعلیم کے لئے مدرسہ دینیات جاری ہے جس کی پڑھائی

Page 188

خطابات شوری جلد سوم ۱۷۲ ت ۱۹۴۶ء دینیات کے لحاظ سے ایم اے تک رکھی گئی ہے.چھ جماعتیں ایسی ہیں جن میں وہ اپنے علوم کے لحاظ سے بی.اے تک تعلیم حاصل کرتی ہیں.اس کے بعد اگر مزید ۲ سال وہ تعلیم حاصل کریں تو دینیات کے لحاظ سے ایم.اے کی تعلیم حاصل کر لیں گی، اس کے بعد پھر دو جماعتیں ایسی ہیں جن میں تعلیم حاصل کر کے وہ ڈاکٹر کے مقابلہ کی ڈگری حاصل کر لیں گی ، اس آخری ڈگری کا نام فقیہہ ہو گا.اس کلاس میں دینی علوم میں سے کسی ایک علم کو لے کر اس کی انہیں مکمل واقفیت پیدا کر دی جائے گی اور پاس ہونے پر اُنھیں جماعتی ڈگری ڈاکٹر کی دی جائے گی جس کا نام فقیہہ ہو گا.اس سال بی اے کی متوازی کلاس جس کا نام علیہ ہے امتحان دینے والی ہے جو ماہ جون میں ہو گا.میں نے تجویز کیا ہے کہ لڑکیوں کے لئے بھی وظائف مقرر کئے جائیں تا کہ ان میں تعلیم کا شوق پیدا ہو اور وہ دلی رغبت اور جوش کے ساتھ اس میں حصہ ے سکیں.جہاں تک میرا خیال ہے لڑکیوں کے وظائف کے متعلق بجٹ میں گنجائش نہیں رکھی گئی.میں اس موقع پر بجٹ کمیٹی کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس کام کے لئے بھی اسے کچھ رقم بجٹ میں رکھنی چاہئے تاکہ لڑکیوں کو وظائف دیئے جاسکیں.مغربی افریقہ کیلئے تعلیمی سکیم ہندوستان سے باہر سر دست مغربی افریقہ میں ہمارے سکول ہیں اور گو وہ سکول صرف پرائمری یا مڈل تک ہیں مگر بہر حال کثرت سے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ مغربی افریقہ میں ۱۵، ۱۶، یا ۲۰ کے قریب ہمارے سکول ہوں گے جو متفرق مقامات پر قائم ہیں.اب ہم نے یہ تجویز کی ہے کہ چونکہ مغربی افریقہ میں تمام اعلیٰ تعلیم عیسائیوں کے ہاتھ میں ہے اور اس وجہ سے عیسائیوں کو تو نوکری مل جاتی ہے مگر مسلمان اس میدان میں بہت پیچھے ہیں اس لئے مغربی افریقہ میں ایک لنڈن میٹرک سکول قائم کر دیا جائے اِس سکول کے قائم ہونے کے بعد جولڑ کے اس میں تعلیم حاصل کریں گے وہ آئندہ ڈاکٹری اور بیرسٹری کا بھی امتحان دے سکیں گے اور ملازمتوں کے حصول میں آجکل جو دتھیں درپیش ہیں ان کا بھی سد باب ہو جائے گا.لنڈن میٹرک، ہندوستانی یو نیورسٹیوں کے بی اے کے برابر لینا چاہئے کیونکہ لنڈن میٹرک میڈیکل کالج

Page 189

خطابات شوری جلد سو ۱۷۳ ت ۱۹۴۶ء اور انجینئر نگ کالج میں بھی داخل ہو سکتا ہے.بہر حال ہمارا ارادہ یہ ہے کہ مغربی افریقہ میں ایک لنڈن میٹرک سکول کھول دیا جائے.میں نے اس غرض کے لئے تحریک جدید کے ایک واقف کو لنڈن بھجوا دیا ہے جو تعلیم حاصل کر رہا ہے، تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسے افریقہ بھجوایا جائے گا جہاں وہ لنڈن میٹرک سکول کی انشاء اللہ بنیا د ر کھے گا.پھر قوم کی ذہنی اور مادی ترقی کے لئے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ اعلیٰ دنیوی تعلیم رکھنے والے انسان کسی قوم میں سے زیادہ سے زیادہ پائے جائیں چنانچہ اس سال جماعت کے تین آدمیوں کو اعلیٰ دنیوی تعلیم کے حصول کے لئے بیرونی ممالک میں بھجوایا جا رہا ہے دو اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ جائیں گے اور ایک کو انگلستان بھیجا جائے گا.ہماری جماعت کی طرف سے جو مبلغ اس وقت تک انگلستان پہنچ چکے ہیں ان میں سے بھی بعض وہاں کے کالجوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں تا کہ وہ وہاں کی اعلیٰ تعلیمی ڈگریاں حاصل کریں اور جو لوگ یورپ کی ڈگریوں کے شیدائی ہوتے ہیں وہ ان کی تبلیغ کو اچھی طرح سن سکیں.اقتصادی حالت کی بہتری کی سکیم تعلیم کے ساتھ جماعت کی اقتصادی حالت کی درستی کی بھی ضرورت ہوتی ہے اس کے لئے میں نے گزشتہ سال سے ایک تجارتی سکیم جاری کی ہے اور جماعت سے ایسے افراد کا مطالبہ کیا ہے جو اپنی زندگی اس غرض کے لئے وقف کریں کہ وہ سلسلہ کے نظام کے ماتحت مختلف جگہوں پر تجارتی کاروبار شروع کر دیں گے.اس تحریک کے ماتحت اس وقت تک صرف ایک سو ساٹھ نوجوانوں نے اپنی زندگی وقف کی ہے حالانکہ میری سکیم کے ماتحت ۵ ہزار افراد مختلف مقامات میں پھیلائے جائیں گے اس وقت تک ہم نے تحریک جدید کی ایک ایجنسی بمبئی میں قائم کی ہے جس میں ایک تو تحریک جدید کا واقف کام کر رہا ہے اور دوسرا ایسا شخص ہے جس نے تحریک جدید کے وقف کے ماتحت اپنے آپ کو اس خدمت کے لئے پیش کیا ہے.وہ فوج سے ریٹائرڈ ہو کر آیا تو اُس نے اپنے آپ کو وقف کر دیا.اس وقت وہ بمبئی میں کام کر رہا ہے لیکن قریب زمانہ میں میرا ارادہ اس سکیم کو اور زیادہ وسیع کرنے کا ہے اور میری تجویز یہ ہے کہ ہر مقام پر ایک ایک تحریک جدید کا واقف ہو اور ایک تجارتی واقف اور دونوں مل کر کام کریں.سر دست میں نے محکمہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ مدراس، کراچی ،

Page 190

خطابات شوری جلد سوم ۱۷۴ ت ۱۹۴۶ء کلکتہ، کوئٹہ، پشاور، لاہور، دہلی، ہیر نیگرہ ، ڈھاکہ، شیلانگ دار جیلنگ اور سیلون میں بھی کام شروع کر دے اور پھر رفتہ رفتہ سارے علاقوں میں اس کام کو وسیع کر دیا جائے.جیسا کہ میں نے کہا ہے ہمارا پہلا قدم یہ ہے کہ ہم پانچ ہزار افراد ہندوستان کے مختلف مقامات میں پھیلا دیں.جب ہم اس تعداد کو پورا کر لیں گے جس کے معنے یہ ہوں گے کہ ہم نے ہندوستان کے تمام بڑے بڑے شہروں اور قصبات میں تجارتی مرکز قائم کر دیئے ہیں تو ہمارا دوسرا قدم یہ ہوگا کہ ہم چھوٹے چھوٹے قصبات میں بھی اپنے آدمیوں کو پھیلا دیں اور اس کے لئے ہمیں ۲۵ ، ۳۰ ہزار آدمیوں کی ضرورت ہو گی.یوں تو ہندوستان کے بڑے شہر ۵ ہزار نہیں ہیں.میں نے پانچ ہزار افراد کی شرط اس لئے رکھی ہے کہ بعض اتنے بڑے شہر ہیں کہ ایک ایک شہر میں ہم دس دس پندرہ پندرہ ہیں ہیں آدمی بھی رکھ سکتے ہیں بلکہ یہ بھی اس شہر کے لحاظ سے کم ہی سمجھے جائیں گے.ویسٹ افریقہ میں اس وقت تک جو تبلیغ ہو رہی ہے وہ زیادہ تر مقامی جماعت کے چندہ سے ہوتی ہے.چنانچہ گولڈ کوسٹ کی جماعت چالیس ہزار روپیہ سالانہ چندہ دیتی ہے اس کے علاوہ اگر دوسری جماعتوں کا چندہ بھی ملا لیا جائے تو ویسٹ افریقہ کی جماعتیں ستر اسی ہزار روپیہ سالانہ خرچ کر رہی ہیں.اب چونکہ زیادہ تنظیم ہو رہی ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ قریب زمانہ میں ہمیں ویسٹ افریقہ کا بجٹ اڑھائی تین لاکھ روپیہ رکھنا پڑے گا اور چونکہ یہ بوجھ موجودہ حالت میں برداشت نہیں کیا جا سکتا اس لئے میں نے تجویز کیا ہے کہ مغربی افریقہ میں تجارت کے سلسلہ کو وسیع کیا جائے.اس وقت بھی ویسٹ افریقہ کی تمام تجارت یا ہندوستانیوں کے ہاتھ میں ہے یا شامیوں کے ہاتھ میں ہے مگر شامی ملکی باشندوں سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے.ہم نے جو سکیم تیار کی ہے اس کے ماتحت تجارت کرنے والوں کی ملکی باشندوں سے بھی دلچسپی قائم رہے گی.چنانچہ ہم نے اپنے کام کرنے والے دوستوں کو ہدایات دے دی ہیں کہ وہاں مشترکہ تجارتی ادارے قائم کریں تاکہ وہاں کی آبادی کو بھی فائدہ پہنچے اور جماعت کی مالی حالت بھی مضبوط ہو.ایسٹ افریقہ میں بھی اسی قسم کی ایک سکیم مد نظر ہے اور وہاں کی جماعت نے اس کے متعلق مشورہ کر لیا ہے.اُنہوں نے ہم سے اس غرض کے لئے آدمی مانگے ہیں مگر ہمیں

Page 191

خطابات شوری جلد سوم ۱۷۵ ت ۱۹۴۶ء اپنے آدمیوں کو بھجوانے میں بعض وقتیں ہیں جن کو دور کرنے کے لئے کوشش کی جا رہی ہے جب یہ وقتیں دور ہو جائیں گی تو ہم انشاء اللہ ایسٹ افریقہ میں بھی پہنچ کر تبلیغ کے علاوہ اپنی تجارتی سکیم کو بھی وسیع کریں گے اور نہ صرف تبلیغ کو وسیع کریں گے بلکہ تبلیغ کے اخراجات کا ایک حصہ بھی مقامی جماعت کے دوست برداشت کر سکیں گے.امریکہ میں بھی ایک سکیم زیر غور ہے اور خط و کتابت جاری ہے اگر وہ سکیم کامیاب ہوگئی تو امریکہ کے تبلیغی اخراجات کا ایک حصہ بھی اس میں سے نکل سکے گا.منعت و حرفت کی اہمیت صنعت و حرفت بھی کسی قوم کی مضبوطی اور اُس کی ترقی کے لئے نہایت ضروری چیز ہوتی ہے اور ہر وہ قوم جو دُنیا میں عزت اور نیک نامی کے ساتھ زندہ رہنا چاہتی ہے اُس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ صنعت و حرفت میں ترقی کرنے کی کوشش کرے.ہماری جماعت کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ جہاں اور کاموں میں حصہ لے وہاں صنعت و حرفت کے ذریعہ بھی جماعت کی عزت اور اس کے وقار کو بڑھانے کی کوشش کرے واقعہ یہ ہے کہ جس طرح تجارت تبلیغ کے میدان کو وسیع کرتی ہے اسی طرح صنعت و حرفت بھی تبلیغی میدان کو وسیع کرنے میں بہت بڑا دخل رکھتی ہے.صنعت و حرفت میں ترقی کرنے سے قوم کا نام مشہور ہوتا ہے اور یہ نام تبلیغی نقطہ نگاہ سے نہایت مفید نتائج پیدا کرنے کا موجب بن جاتا ہے.کچھ عرصہ ہوا میں لاہور گیا تو سائنس کے ایک پروفیسر مجھے ملنے کے لئے آئے انہوں نے باتوں باتوں میں ذکر کیا کہ میں تو قادیان کی صنعتی ترقی کو دیکھ کر حیران رہ گیا ہوں.میں نے قادیان کی بجلی کی بنی ہوئی ایسی چیزیں دیکھی ہیں کہ مجھے حیرت آ گئی.میں خیال کرتا تھا کہ یہ چیزیں ہندوستان میں بن ہی نہیں سکتیں مگر میری حیرت کی کوئی حد نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ قادیان کے کارخانوں میں یہ چیزیں آجکل تیار ہو رہی ہیں اور ہندوستان میں عام طور پر فروخت ہو رہی ہیں.اس کے بعد وہ مذہبی باتوں کی طرف آگئے اور دیر تک مختلف مسائل پر تبادلہ خیالات کرتے رہے اب دیکھو انھیں ہماری جماعت سے دلچسپی محض صنعت و حرفت کی ترقی دیکھ کر پیدا ہوئی انہوں نے جب دیکھا کہ قادیان کے کارخانے ایسا مال تیار کر رہے ہیں جو پہلے ولایت سے آیا کرتا تھا تو اُن کی طبیعت پر اس کا غیر معمولی اثر

Page 192

خطابات شوری جلد سوم مشاورت ۱۹۴۶ء پڑا اور اُنہوں نے سمجھا کہ یہ مسلمانوں میں سے ایک فعال جماعت ہے.جب صنعت و حرفت میں اس طرح ترقی کر رہی ہے تو ہمیں اس کے مذہبی مسائل کا بھی جائزہ لینا چاہئے اور غور کرنا چاہئے کہ وہ کس حد تک دُنیا کے لئے مفید ثابت ہو سکتے ہیں.بہر حال صنعت و حرفت ایک ایسی چیز ہے جس کا قدرتی طور پر دوسروں پر غیر معمولی اثر پڑتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ جو جماعت اس میدان میں اپنے قدم آگے بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے وہ دوسرے معاملات میں بھی دوسروں سے زیادہ سنجیدہ اور عقلمند ہوگی.چنانچہ بعض چیزیں جو اس جگہ کے کارخانوں میں تیار ہوتی ہیں وہ تو اس قدر مقبول ہوتی ہیں کہ سارے ہندوستان میں اسی جگہ سے جاتی ہیں مثلاً بیٹریاں آجکل قادیان سے ہی بن کر جاتی ہیں اور ہزاروں ہزار کی تعداد میں بمبئی ، کلکتہ اور مدراس وغیرہ میں فروخت ہوتی ہیں اور اس قسم کی منڈی اُنہوں نے پیدا کر لی ہے کہ خود بخو دلوگ ان چیزوں کی طرف جھکتے چلے جاتے ہیں اور وہ دوسرے سامانوں پر قادیان کے تیار کردہ سامان کو ترجیح دیتے ہیں.اسی طرح بجلی کے اور بھی سامان قادیان میں تیار ہوتے ہیں مثلاً لیمپ ہیں، پیٹر ہیں، استریاں ہیں، سیکھے ہیں، ٹیبل فین تو تیار ہو کر مارکیٹ میں آگئے ہیں اور چھت کے پنکھے بھی تیار کئے جا رہے ہیں اسی طرح اور کئی چیزیں ہیں جو قادیان کے کارخانوں میں تیار ہوتی ہیں یا ان کے تیار کرنے کی سکیم زیر غور ہے.اس دوران میں سلسلہ کی طرف سے بھی ۲ کارخانے قائم کئے گئے ہیں ایک کارخانہ آئرن میٹل ورکس ہے جس میں تالوں کا کام ہوتا ہے کا رخانہ والے پانچ سو تالے روزانہ بناتے ہیں اور ان کی سکیم یہ ہے کہ آہستہ آہستہ اپنے کام کو ایسا وسیع کریں کہ وہ پندرہ سو بلکہ دو ہزار تالا روزانہ بنانے لگ جائیں.اس کارخانہ کی بنی ہوئی چیزیں خدا تعالیٰ کے فضل سے مقبول ہو رہی ہیں اور کثرت کے ساتھ لوگوں میں فروخت ہوتی رہتی ہیں، آئندہ کا حال اللہ تعالیٰ جانتا ہے.اسی طرح تحریک جدید کی طرف سے ایشیا ٹک کارپٹ ملز جاری کی گئی ہیں جس میں قالینیں بنتی ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ کارخانہ ایسا کامیاب ہوا ہے کہ تیاری کے بعد مال کارخانہ میں نہیں رہتا بلکہ فوراً نکل جاتا ہے.پہلے کا رخانہ والے اپنا مال تیار کر کے امرتسر بھیجا کرتے تھے اب اُنہوں نے بمبئی میں بھیجنا شروع کر دیا ہے.اور ان کی

Page 193

خطابات شوری جلد سوم 122 ت ۱۹۴۶ء سکیم یہ ہے کہ آہستہ آہستہ غیر ملکوں سے براہ راست خط و کتابت کر کے انھیں مال بھجوانے کی کوشش کی جائے.اسی طرح سندھ میں ایک جینگ اور پرینگ فیکٹری کھلی ہوئی ہے اب تیل نکالنے کی ایک فیکٹری اور سیاہی بنانے کا ایک کارخانہ کھولنے کی تجویز ہورہی ہے.مشینوں کے لئے آرڈر جاچکے ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ دو تین ماہ تک جب مشینیں پہنچ جائیں گی تو یہ کارخانے جاری ہو جائیں گے.میں اس موقع پر جماعت کو بھی اور صدرانجمن احمدیہ کو بھی اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اسے اپنے ریزرو فنڈ کو مضبوط کرنے کی خاص طور پر کوشش کرنی چاہئے تا کہ جب صنعت و حرفت کی طرف توجہ کی جائے اور مختلف قسم کے کارخانے جماعت کی آئندہ ترقی اور بہبود کے لئے جاری کئے جائیں تو زائد روپیہ ان کارخانوں میں لگایا جا سکے.اسی طرح میں جماعت کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے اموال کو بجائے ایسی جگہ رکھنے کے جہاں اموال کا رکھنا کوئی نتیجہ خیز نہیں ہوتا ( جیسے بعض لوگوں کا روپیہ گھروں میں پڑا رہتا ہے یا بعض بنکوں میں رکھوا دیتے ہیں ) متفرق کاموں میں لگائے خصوصاً ان کارخانوں میں جو سلسلہ کی طرف سے جماعت کی ترقی کے لئے جاری کئے گئے ہیں اگر محض سلسلہ کا روپیہ ان کاموں پر لگایا جائے تو یہ کام بہت محدود دائرہ میں رہیں گے لیکن اگر ساری جماعت کا روپیہ ہو تو ان کارخانوں میں بہت کچھ ترقی ہو سکتی ہے.میں سمجھتا ہوں اب ہماری جماعت کی حالت ایسی ہے کہ اگر وہ ان کاموں سے دلچسپی لے تو کروڑوں روپیہ دے سکتی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ چار پانچ کروڑ رو پید اگر بنکوں کی بجائے کارخانوں میں لگایا جائے تو بہت جلد ترقی ہوسکتی ہے پھر علاوہ اس کے کہ جماعت کا روپیہ اس رنگ میں سلسلہ کے کارخانوں کی ترقی کا موجب ہو سکتا ہے دوسرا فائدہ اس کا یہ بھی ہے کہ بجائے زکوۃ میں روپیہ کا ایک حصہ صرف ہونے کے وہی روپیہ مزید نفع کا موجب بن سکتا ہے.بہت سے کمزور لوگ ایسے ہوتے ہیں جو روپیہ تو جمع کرتے جاتے ہیں مگر انھیں بھی زکوۃ کا خیال نہیں آتا.اگر اس قسم کے لوگ اپنا روپیہ کارخانوں میں لگا دیں تو یہ چیز انھیں ایک.بہت بڑے گناہ سے بچانے کا موجب بن سکتی ہے.بیرونجات میں بھی مختلف مقامات پر ہماری جماعت کے دوست تجارت کی طرف توجہ کر رہے ہیں.چنانچہ کراچی میں کئی نئے کام شروع کئے گئے ہیں، کوئٹہ میں ایک سوتی کپڑے کا

Page 194

خطابات شوری جلد سوم ۱۷۸ رت ۱۹۴۶ء کارخانہ بنایا گیا ہے اور ایک لاکھ روپیہ کا سرمایہ اس کے لئے جمع کیا گیا ہے، گو جو اطلاعات مجھے پہنچی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کے دوستوں کو اس قسم کے کارخانہ کی پوری واقفیت نہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ ایک لاکھ میں گزارہ ہو جائے گا یا ایک لاکھ نہ سہی تو ڈیڑھ لاکھ میں یہ کارخانہ چل نکلے گا لیکن ہمارا اندازہ یہ ہے کہ اس قسم کے کارخانہ کو کامیاب بنانے کے لئے ۱۵.۲۰ لاکھ روپیہ کی ضرورت ہے.اسی طرح صنعت و حرفت کے بنیادی اصول کے لئے ہم نے سائنس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قائم کی ہے اس میں اعلیٰ سے اعلیٰ سائنس کے مسائل کی تحقیقات کی جائے گی ، ایسے مسائل کی جو علمی بھی ہوں گے اور عملی بھی.صنعت و حرفت سے متعلق میں نے جماعت کو جو توجہ دلائی ہے اسی سلسلہ میں میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اس کام میں ہمیں دوستوں کے تعاون کی ضرورت ہے اگر ہمارے کارخانوں کا مال دوسرے لوگ فوراً لے لیتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہماری جماعت کے افراد اپنے کارخانوں کا تیار کیا ہوا مال نہ خریدیں.میں سمجھتا ہوں کہ سب سے پہلا حق ہماری جماعت جماعتی کارخانوں کا مال خریدیں کا ہے کہ وہ اپنے کارخانوں کا تیار کردہ مال خریدے اور اپنے استعمال میں لائے.یہاں اب تک پندرہ میں کارخانے جاری ہو چکے ہیں جن میں سے دو سلسلہ کے ہیں، ایک کارخانہ قالینوں کا ہے اور دوسرا تالوں کا.قالین ایسی چیز ہے جس کا خرید نا عام احمدیوں کی دسترس سے باہر ہے کیونکہ قالین زیادہ قیمتی ہوتے ہیں اور وہ اسی سو یا دو سو روپیہ گز تک فروخت ہوتے ہیں.انہوں نے کچھ سستا کام بھی شروع کر دیا ہے لیکن تالا ایک ایسی چیز ہے جو ہر احمدی کے استعمال میں آتا ہے اگر بمبئی مدراس اور کراچی کی بڑی بڑی فر میں ان تالوں کو خریدتی ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ احمدی ان تالوں کو خریدنے سے گریز کریں اور یہ خیال کریں کہ شاید ہمارے کارخانہ والوں کا مال اچھا نہیں ہو گا.جب ماہرینِ تجارت ان چیزوں کو خریدتے اور اس کی ایجنسیاں لینے کی کوشش کرتے ہیں اور بڑی بڑی فر میں اس مال کو پسند کرتی اور اسے شوق سے خریدتی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ہماری جماعت کے دوست اس طرف توجہ نہ کریں.میں سمجھتا ہوں کہ جہاں دوسرے لوگ اس کارخانہ کی بنی ہوئی اشیاء کو خریدتے رہے ہیں وہاں ہماری جماعت کے

Page 195

خطابات شوری جلد سوم 129 ت ۱۹۴۶ء دوستوں کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنا قدم بڑھائیں اور اس کا رخانہ کے تالوں کو فروغ دینے کی کوشش کریں.یہ ایک ایسی چیز ہے جو جماعت کی مضبوطی اور اس کی ترقی کے ساتھ بہت گہرا تعلق رکھتی ہے.ہماری جماعت کی تعداد اس وقت لاکھوں تک پہنچی ہوئی ہے اگر لاکھوں آدمی اس کارخانہ کے بنے ہوئے تالے خریدنے لگیں تو یہ کارخانہ ہمیں تھوڑے عرصہ میں ہی موجودہ حالت سے دوگنا تین گنا بلکہ چار گنا کرنا پڑے گا میں سمجھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں کم سے کم ایک لاکھ تالا سالانہ ضرور استعمال ہوتا ہے اگر پانچ سو روزانہ کے حساب سے بھی آئرن میٹل ورکس والے تالے بنا ئیں تو وہ سال بھر میں ایک لاکھ اسی ہزار تالا بنا سکتے ہیں اور ان تالوں کا قریباً دو تہائی حصہ اپنی جماعت میں ہی خرچ ہوسکتا ہے بغیر اس کے کہ ہمارے دوست ایک پیسہ کا بھی زائد خرچ برداشت کریں صرف انہیں اتنا کرنا پڑے گا کہ وہی روپیہ جو وہ تالوں کو خریدنے کے لئے دوسرے دکانداروں کو دیتے ہیں وہ اپنے کارخانہ والوں کو دے دیا کریں.اس طرح ہزاروں ہزار روپیہ بغیر ایک پیسہ کے بوجھ کے سلسلہ کے پاس آ سکتا ہے اور اس سے تبلیغ اسلام کو موجودہ حالت سے کئی گنا زیادہ وسیع کیا جا سکتا ہے.آجکل پانچ آنے کا تالا تو مل نہیں سکتا بارہ آنہ روپیہ یا دو روپیہ کا ایک تالا آتا ہے اور احمدی اپنی ذاتی ضروریات یا اپنے گھر کی ضروریات کے لئے تالا خریدنے پر مجبور ہوتا ہے.اگر امریکہ یا بمبئی یا کلکتہ کی کسی فرم کا بنا ہوا وہ کوئی تالا خریدیں گے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ روپیہ اور لوگوں کے ہاتھ میں جائے گا خصوصاً ایسے لوگوں کے ہاتھ میں جو اسلام کے مخالف ہیں.اگر ان کے دلوں میں کبھی صدقہ و خیرات کا خیال بھی آیا تو بہر حال وہ روپیہ عیسائیت کی تقویت میں خرچ ہو گا لیکن اگر ہماری جماعت کے دوست احمد یہ کارخانہ کے بنے ہوئے تالے خریدیں گے تو یہ سارا روپیہ خدائے واحد کے نام کی اشاعت اور اس کے کلمہ کے اعلاء کے لئے خرچ ہوگا اور سلسلہ کے کاموں کو زیادہ سے زیادہ وسیع کیا جا سکے گا.پس میں جماعت کے دوستوں کو خصوصیت سے توجہ دلاتا ہوں کہ انہیں نہ صرف اپنی ذاتی ضروریات کے لئے ہمیشہ آئرن میٹل ورکس کے بنے ہوئے تالے استعمال کرنے چاہئیں بلکہ ہر گاؤں اور ہر شہر میں اس کی ایجنسیاں قائم کرنی چاہئیں اور اس طرح اپنی جماعت میں خصوصاً اور دوسروں میں عموماً اس کا رخانہ کی بنی ہوئی چیزوں کو پھیلانے کی

Page 196

خطابات شوری جلد سو ۱۸۰ ماورت ۱۹۴۶ء کوشش کرنی چاہئے.(الفضل ۳۰ مئی ، ۶ جون ۱۹۶۲ء) دوسرا دن.ہر احمدی سال میں کم از کم مجلس مشاورت کے دوسرے روز ۲۰ اپریل ۱۹۳۶ء کو سب کمیٹی دعوۃ و تبلیغ کی تجویز پر اظہار خیال ایک احمدی بنانے کا عہد کرے کرتے ہوئے ممبران نے تبلیغ کو وسعت دینے پر زور دیا.اس موقع پر نمائندگان سے خطاب کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:- دوستوں نے تبلیغ کے متعلق بہت زور دیا ہے مگر یہ کہنا کہ تبلیغ کرنی چاہئے اور چیز ہے اور تبلیغ کرنا اور چیز ہے.ہماری جماعت میں بہت تھوڑے دوست ایسے ہیں جو باقاعدگی سے تبلیغ کرتے ہیں اور اس ایک حصہ کی تبلیغ کا یہ نتیجہ ہے کہ دو تین ہزار آدمی سالانہ ہندوستان میں احمدیت میں داخل ہوتا ہے لیکن اس رفتار سے تو ہمیں صرف ہندوستان کو احمدی بنانے کے لئے ہی کئی سو سال لگ جائیں گے.جب یہ رفتار ہماری ان لوگوں کے متعلق ہے جو دن رات ہمارے پاس رہتے ہیں تو باقی دُنیا کو احمدی بنانے کے لئے ہمیں کتنا عرصہ درکار ہو گا.کیا جماعت کی تبلیغ کا یہی نتیجہ ہونا چاہئے کہ بیعت کرنے والوں کی تعداد دو تین ہزار پر آکر رک جائے ؟ میں دیکھتا ہوں کہ دوست اس مجلس میں آکر لمبی لمبی تقریریں کرتے ہیں کہ تبلیغ کرنی چاہئے لیکن کہنا اور بات ہے اور کرنا اور بات ہے.انسان کا فرض ہے کہ جس بات کے لئے وہ دوسروں سے کہے اس پر خود بھی عمل کر کے دکھائے.بعض لوگوں میں یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ خود ایک کمزوری میں مبتلا ہوتے ہیں لیکن دوسروں پر زور دیتے چلے جاتے ہیں کہ تم یہ نہیں کرتے اور وہ نہیں کرتے.دو تین سال ہوئے یہاں مجلس مشاورت میں ایک دوست نے چندہ کی ادائیگی کے متعلق ایک لمبی تقریر کی جب وہ تقریر کر چکے تو وہاں کے کسی عہدہ دار نے بتایا کہ یہ خود دو سال سے چندہ نہیں دے رہے.یہ طریق ایمان کو کمزور کر دیتا ہے، مومن کو اس سے اجتناب کرنا چاہئے.تبلیغ کی وسعت کے پیش نظر ہم نے ہر ایک احمدی کا یہ فرض قرار دیا ہے کہ وہ سال

Page 197

خطابات شوری جلد سوم ۱۸۱ رت ۱۹۴۶ء میں کم از کم ایک احمدی ضرور بنائے.یہ مطالبہ ہم نے اس لئے کیا ہے تا جماعت بحیثیت مجموعی تبلیغ کی طرف متوجہ ہو اور اپنے فرض کا احساس کرے.ورنہ اس کے یہ معنے ہر گز نہیں کہ آپ لوگوں سے جبراً بیعت کرائیں.میں سمجھتا ہوں اگر سنجیدگی سے کوشش کی جائے تو سال بھر میں ایک احمدی بنانا کوئی مشکل بات نہیں.لیکن میرے اس خطبہ کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب تک آٹھ سو جماعتوں میں سے صرف ۷۸ جماعتوں نے وعدے بھجوائے ہیں باقی سب جماعتوں نے خاموشی اختیار کر لی ہے.اور ان ۷۸ جماعتوں کی طرف سے بھی ۱۱۹۲.افراد نے صرف ۱۴۰۰ آدمیوں کو احمدی بنانے کے وعدے کئے ہیں.غرض جماعت نے اس معاملہ میں اس قدرستی سے کام لیا ہے کہ اس سے قبل اتنی شستی اس نے کسی معاملہ میں نہیں دکھائی.پس میں جماعتوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ انہیں اپنی اصلاح کرنی چاہئے اور جلد سے جلد اپنے وعدے بھجوانے چاہئیں.ہماری جماعت ہندوستان میں چار پانچ لاکھ کے قریب ہے.ابھی جو الیکشن ہوا ہے اس نے یقینی طور بتا دیا ہے کہ ہماری تعداد ہندوستان میں چار پانچ لاکھ کے قریب ہے.ہماری جماعت کے ووٹر چالیس اور پچاس ہزار کے درمیان تھے اور چونکہ عام طور پر آبادی کا دس فی صدی حصہ ووٹر ہوتا ہے اس لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان میں چار پانچ لاکھ کے قریب ہماری جماعت کے افراد ہیں.تین لاکھ کے قریب تو پنجاب میں ہی ہیں.اس کے علاوہ سندھ، سرحد میں، بہار میں، بنگال میں اور دوسرے صوبوں میں کسی جگہ دس ہزار، کسی جگہ پندرہ ہزار، کسی جگہ میں ہزار، اڑیسہ کے متعلق میرا خیال تھا کہ وہاں بہت کم احمدی ہیں لیکن بعض دوستوں نے بتایا ہے کہ وہاں بھی چار ہزار کے قریب احمدی ہیں ، حالانکہ اڑیسہ بہت چھوٹا سا صوبہ ہے.چونکہ ہماری جماعت میں باقی جماعتوں کی نسبت تعلیم زیادہ ہے اس لئے ہم اس اندازے کو اگر کسی قدر کم کر دیں یعنی پانچ لاکھ کی بجائے چار لاکھ سمجھ لیں اور پھر اس چار لاکھ کا آدھا کریں تو دولاکھ ہوئے کیونکہ کچھ لوگ سُست اور غافل بھی ہوتے ہیں.اور اس دو لاکھ میں سے اگر فی خاندان پانچ آدمی سمجھے جائیں تو چالیس ہزار ایسے مرد ہوں گے جو اچھی طرح تبلیغ کر سکتے ہیں اور اگر ہر سال ایک آدمی ایک ہی احمدی بنائے تو اس لحاظ سے بھی چالیس ہزار آدمی ہر سال احمدی ہونا

Page 198

خطابات شوری جلد سوم ۱۸۲ رت ۱۹۴۶ء چاہئے.نئے احمدی ہونے والے بھی تبلیغ کریں تو چالیس ہزار آدمی اگر چالیس ہزار احمدی نہ بنا سکے تو نصف تو ضرور بنالے گا.اسی طرح اگلے سال ساٹھ ہزار آدمی احمدیت میں داخل ہوں گے.پھر وہ ساٹھ ہزار بھی تبلیغ کرے تو اگلے سال تک ایک لاکھ احمدی احمدیت میں داخل ہونے لگ جائے گا.یہی صورت ہے جس سے ہم احمدیت کا رُعب قائم کر سکتے ہیں.اور یہی صورت ہے جو دلوں کو صداقت کی طرف مائل کر سکتی ہے.پس اس وقت ضرورت ہے کہ احمدیت کی ایک زبر دست رو چلائی جائے.جب احمدیت کی رو چل جائے گی تو لوگوں کے دل خود بخود احمدیت کی طرف جھک جائیں گے اور ان پر یہ ظاہر ہو جائے گا کہ ان کی بیماریوں کا علاج صرف احمدیت ہے.اُس وقت تم ہر روز یہ خبریں سنو گے کہ آج فلاں گاؤں احمدی ہو گیا، آج فلاں قبیلہ احمدی ہو گیا، آج فلاں قوم احمدی ہو گئی.تم دیکھو گے کہ دوسری قومیں لوگوں کو احمدیت سے روکیں گی لیکن لوگ رکیں گے نہیں.پس میں دوستوں کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ یہ وقت جماعت کے بڑھنے کا ہے.اس کو ہاتھ سے مت جانے دو اور اس سے فائدہ اُٹھاؤ.اب حالات اس قسم کے پیدا ہور ہے ہیں کہ مسلمان اس بات کے سمجھنے پر مجبور ہوں گے کہ ان کے لئے احمدیت کے سوا بچنے کی کوئی جگہ نہیں.اب اس قسم کے مصائب آنے والے ہیں جو مسلمانوں کو مجبور کریں گے کہ وہ احمدیت کی طرف جھکیں اور ان کے لئے سوائے احمدیت کے رستہ کے اور کوئی رستہ مصائب سے نجات دلانے والا نہ ہو گا.اُس وقت مسلمان احمدیت کی طرف اس طرح گریں گے جس طرح برف کا تو وہ پہاڑ سے گرتا ہے لیکن اُس وقت کے آنے تک ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی انتہائی جد و جہد تبلیغ کے لئے صرف کریں.اس وقت جو نمونہ جماعت نے پیش کیا ہے وہ نہایت ناقص ہے یعنی آٹھ سو جماعتوں میں سے صرف ۷۸ جماعتوں نے ۱۴۰۰ آدمیوں کو احمدی بنانے کے وعدے بھجوائے ہیں.دوستوں کو چاہئے کہ وہ واپس جا کر جماعتوں کی غفلت اور سستی دور کریں اور اس اہم فریضہ کی ادائیگی کے لئے پورے اخلاص اور جوش کے ساتھ حصہ لیں.(الفضل قادیان ۱۷ رمئی ۱۹۴۶ء)

Page 199

خطابات شوری جلد سوم ۱۸۳ ماورت ۱۹۴۶ء تیسرا دن احباب جماعت اور امراء کو نہایت قیمتی نصائح مجلس مشاورت کے تیسرے روز ۲۱.اپریل ۱۹۴۶ء کو نظارت علیاء کی طرف سے یہ سوال زیر بحث آیا کہ مجلس عاملہ کے زائد ممبر مقرر کرنے کا اختیار امراء جماعت کو حاصل ہے یا وہ بھی مقامی جماعت کے ذریعہ منتخب کئے جائیں گے.سب کمیٹی نے یہ رائے قائم کی کہ "مجلس عاملہ کے زائد ممبر مقامی جماعت کے انتخاب سے ہونے چاہئیں ، بحث کے بعد نمائندگان کی اکثریت نے یہ سفارش کی کہ زائد ممبر منتخب کئے جائیں تاہم یہ انتخاب صرف مجلس عاملہ کرے.رائے شماری کے بعد حضور نے احباب جماعت اور امراء دونوں کو اپنی بیش قیمت نصائح سے نوازا.آپ نے فرمایا: - سر درد کی وجہ سے میں اس وقت زیادہ بات نہیں کر سکتا اسی لئے میں نے ابھی سر درد کی دوا کھائی ہے تا کہ میں اپنے خیالات کا کچھ نہ کچھ اظہار کر سکوں.میری طبیعت دراصل کل سے خراب ہے.کل مجھے بخار بھی رہا اور سر میں درد بھی ہوتا رہا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر آندھی چلے تو وہ میرے اندر انفلوائنزا کی کیفیت پیدا کر دیتی ہے.آندھی کی وجہ سے گردوغبار گلے اور ناک میں خراش پیدا کر دیتا ہے اور چونکہ میرے گلے اور ناک میں دیر سے خرابی ہے اس لئے گردو غبار کی وجہ سے پرانی بیماری میں حرکت پیدا ہو جاتی ہے اور بند نزلہ کی کیفیت ہو کر سر درد شروع ہو جاتا ہے اور بخار بھی ہو جاتا ہے.بہر حال وہ مسئلہ جو اس وقت در پیش ہے چونکہ اپنے اندر بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ مجھے تکلیف کے باوجود جماعت کی ہدایت اور راہ نمائی کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور کہنا چاہئے.در حقیقت یہ مسئلہ اپنے اندر کئی پہلو رکھتا ہے ایک پہلو کے لحاظ سے اس کے دو حصے ہیں ایک حصہ جماعت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور ایک حصہ خلافت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.امراء کا وجود اور ان کے اختیارات زیادہ تر شرعی مسائل پر مبنی ہیں اور جماعتوں کا حق رائے دہندگی اور اس قسم کے بہت سے مسائل موجودہ زمانہ کے رواج پر مبنی ہیں، گویا ایک حصہ ہی ایسا ہے جو درحقیقت شریعت سے تعلق رکھتا ہے لیکن سب سے بڑی چیز جو اس قسم کے مسائل کے متعلق در ا

Page 200

۱۸۴ ت ١٩٤٦ء خطابات شوری جلد سوم پیدا ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک قاعدہ کی صورت ہوتی ہے اور ایک عملی وقتیں ہوتی ہیں.جہاں تک قواعد کا سوال ہے اسلام ہماری راہ نمائی کرتا ہے لیکن جہاں تک عمل کا سوال ہے ہماری ذہنتیں اس میں بہت کچھ داخل ہو جاتی ہیں.مثلاً اسلام ہمیں کہتا ہے کہ نماز ٹھہر ٹھہر کر ادا کرو، جلدی نہ کرو.اب جلدی ادا نہ کرو کا مسئلہ اور ٹھہر ٹھہر کر ادا کرو کا مسئلہ جہاں تک لغت کے الفاظ کا سوال ہے اسلام نے اس کے متعلق ہماری راہ نمائی کر دی ہے.مگر جلدی اور ٹھہرنے کا جو مفہوم ہے اس میں ضرور انسانی اذہان اور افکار اور میلانات آجائیں گے.ایک حنفی بھی یہی کہے گا کہ نماز کو ٹھہر کر ادا کرنا ضروری ہے مگر وہ معنے بالکل اور کرے گا.ایک اہلحدیث بھی یہی کہے گا کہ نماز کو ٹھہر ٹھہر کر ادا کرنا ضروری ہے مگر وہ معنے اور لے گا.ایک وظیفہ خوار انسان بھی ٹھہر ٹھہر کر نماز ادا کرنے کے کوئی معنے لے گا مگر اس کا مفہوم دونوں سے جُدا ہو گا.صوفیاء میں سے بعض ایسے لوگ بھی گزرے ہیں جنہوں نے تہجد کی پہلی رکعت میں ہی ساری رات گزار دی اور اذان کے وقت جلدی جلدی دوسری رکعت پڑھ کر ۲ رکعت میں نماز تہجد ادا کی.جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے پہلی رکعت میں ساری رات اس لئے گزار دی کہ شریعت کہتی ہے کہ ٹھہر ٹھہر کر نماز ادا کرو.اور جب پوچھا گیا کہ دوسری رکعت آپ نے جلدی کیوں پڑھی؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ اس موقع پر شریعت کا دوسرا حکم ہمارے سامنے آ گیا کہ تہجد کی نماز صبح کی نماز سے پہلے ختم ہو جانی چاہئے چنانچہ جتنا وقت بھی ہمیں ملا ہم پابند تھے کہ اس وقت کے اندر اندر تہجد کو ختم کر دیں.پھر ایسے لوگ بھی امت محمدیہ میں پائے جاتے ہیں جن کے نزدیک ٹھہر ٹھہر کر نماز ادا کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ الفاظ کا مفہوم سمجھ میں آجائے اور اتنا فاصلہ ہر آیت یا ہر کلمہ کے درمیان ہو کہ جو مفہوم سمجھ میں آیا تھا وہ دل میں جذب ہو جائے.اُنہوں نے ٹھہر ٹھہر کر نماز ادا کرنے کا مفہوم یہ لیا ہے کہ چار رکعتیں مثلاً ۱۰ یا ۱۵ منٹ میں ادا کر لی جائیں لیکن بعض اور نے یہ کہا ہے کہ ٹھہر ٹھہر کر نماز ادا کرنے کا صرف اتنا مفہوم ہے کہ انسان کو یہ پتہ لگتا جائے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے، ورنہ زیادہ ٹھہرنے کا یہ نتیجہ ہو گا کہ خیالات پراگندہ ہو جائیں گے.اسی کے نتیجہ میں حنفی نماز پیدا ہوئی جو ذرا جلدی جلدی ہوتی تھی اور اسی کے نتیجہ میں آخر وہ نماز پیدا ہوئی جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ

Page 201

خطابات شوری جلد سوم ۱۸۵ ت ۱۹۴۶ء حنفی جب سجدہ کرتے ہیں تو یہ پتہ نہیں لگتا کہ مومن سجدہ کر رہا ہے یا مرغا دانے چن رہا ہے.اب لفظ وہی ہیں اور ان الفاظ کا کوئی انکار نہیں کرتا.مگر آگے تو جیہات میں فرق ہوتا جاتا ہے اور ذہن انسانی بڑے بڑے تغیرات پیدا کر دیتا ہے، چنانچہ باوجود قانون کی موجودگی کے جب انسان بحث میں پڑتا ہے تو ایسی ایسی باتیں نکال لیتا ہے جو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتیں.قصہ مشہور ہے کہ ایک سخت گیر آقا تھا اور وہ اپنے نوکروں سے ایسا سخت سلوک کرتا تھا کہ وہ تنگ آکر ملازمت ترک کر دیتے.جب وہ ملازمت چھوڑتے تو وہ ان کی تنخواہیں ضبط کر لیتا اور کہتا کہ چونکہ تم نے میری کامل اطاعت نہیں کی اس لئے گزشتہ تنخواہیں ادا نہیں کی جاسکتیں.ایک دفعہ اُس کے پاس ملازمت کے لئے ایک شخص آیا جو بہت ہوشیار تھا، اس نے آتے ہی کہا کہ مجھے آپ کی فرمانبرداری سے قطعاً انکار نہیں.میں ہر معاملہ میں آپ کی اطاعت کرنے کے لئے تیار ہوں لیکن دیکھئے میری عقل ناقص ہے، مجھے کیا پتہ کہ کون سا کام مجھے کرنا چاہئے اور کون سا کام مجھے نہیں کرنا چاہئے.آپ میرے فرائض کی ایک فہرست بنا دیجئے تا کہ مجھے اپنے کام یا در ہیں اور مجھ سے کسی قسم کی غفلت سرزد نہ ہو.اُس کے آقا نے ایک فہرست بنائی اور تمام کام جو اس کے ذہن میں آ سکتے تھے وہ اُس نے درج کر دیئے اور کہا کہ گھوڑوں کو دانہ ڈالنا، اُن کو پانی پلانا، اُن کو باہر پھرانا یہ سب تمہارے کام ہیں.اسی طرح تمہارا یہ بھی کام ہے کہ جب میں تھک کر آؤں تو تم مجھے دباؤ، جب میں سفر پر جاؤں تو تمہیں میرے ساتھ جانا ہوگا، کھانا پکانا بھی تمہارے ذمہ ہو گا.اس طرح ایک ایک کر کے اس نے مختلف کام گنائے اور کہا کہ یہ سب کام تمہارے فرائض میں شامل ہیں.نوکر نے کہا مجھے منظور ہیں.چنانچہ اُس نے کام شروع کر دیا.ایک دن وہ گھوڑے پر سوار ہو کر کہیں باہر جا رہا تھا کہ نوکر نے گھوڑے کو چھیڑنا شروع کر دیا گھوڑا بھاگ پڑا اور چونکہ آقا گھوڑے کی سواری کا عادی نہ تھا جب گھوڑا بھاگا تو وہ گر گیا اور اُس کا پاؤں رکاب میں پھنس گیا اُس نے نوکر کو آوازیں دینا شروع کر دیں کہ جلدی آنا اور مجھے بچانا.نوکر نے یہ سنا تو اُس نے جھٹ جیب میں سے شرائط کا کاغذ نکال لیا اور کہنے لگا حضور اس میں تو یہ کام میرے ذمہ نہیں لگایا گیا.دیکھ لیں سرکار اس میں شرط یہ کھی نہیں.

Page 202

خطابات شوری جلد سوم ۱۸۶ ت ۱۹۴۶ء اب بھلا کون سا آقا ایسا ہو سکتا تھا جو یہ بھی لکھ دیتا کہ اگر میں گھوڑے سے گر جاؤں اور رکاب میں میرا پاؤں پھنس جائے تو تمہارا فرض ہو گا کہ میری مدد کے لئے آؤ.غرض تو جیہات میں جب کوئی انسان پڑ جاتا ہے تو پھر اس کے لئے کوئی حد بندی نہیں ہوسکتی.حضرت خلیفہ اول یا میر ناصر نواب صاحب مرحوم ( مجھے اچھی طرح یاد نہیں ) سنایا کرتے تھے کہ مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کے پاس ایک دفعہ کچھ آدمی ایک شخص کو مباحثہ کے لئے لائے اور کہا کہ ہم آپ سے تقلید اور عدم تقلید کے مسئلہ پر مباحثہ کرنا چاہتے ہیں.مولوی عبداللہ صاحب غزنوی مباحث آدمی نہیں تھے ایک بزرگ انسان تھے جب اُن سے کہا گیا کہ آپ سے تبادلہ خیالات کے لئے فلاں مولوی صاحب آئے ہیں تو اُنہوں نے اپنا سر اُٹھایا اور کہا ہاں اگر نیت بخیر باشد اگر نیت صالح کے ساتھ بات کرنا چاہتے ہیں تو بے شک کر لیں.وہ مولوی صاحب بھی اپنے دل میں تقویٰ رکھتے تھے تھوڑی دیر اُنہوں نے غور کیا اور پھر کہا یہ بحث تو محض پارٹی بازی کے نتیجہ میں تھی اور یہ کہہ کر خاموشی کے ساتھ اُٹھے اور چلے گئے تو نیت بخیر باشد کے ساتھ تو سارے کام چل جاتے ہیں اور پتہ بھی نہیں لگتا کہ قواعد کی ضرورت کیا ہے لیکن جہاں محبت بازی ہوتی ہے وہاں کوئی قانون حد بندی نہیں کر سکتا وہاں یہی سوال آ جائے گا کہ دیکھ لیں سرکا ر اس میں شرط یہ کھی نہیں“ ہم نے دیکھا ہے جہاں میاں بیوی میں محبت ہوتی ہے وہاں بعض دفعہ سارا دن بیوی گدھے کی طرح کام کرتی رہتی ہے مگر پھر بھی اُسے کوئی شکوہ پیدا نہیں ہوتا اور کبھی اس کی زبان پر اپنے شوہر کے خلاف حرف شکایت نہیں آتا.اُس کے مقابلہ میں ایسے میاں بیوی بھی ہوتے ہیں کہ بیوی سارا دن چار پائی پر بیٹھی رہتی ہے، اس کا زمین پر پاؤں تک نہیں پڑتا، میاں آپ ہی روٹی پکاتا ہے، آپ ہی آگ جلاتا ہے، آپ ہی پھونکنی سے چولھا پھونکتا ہے، آپ ہی کھانا تیار کر کے بیوی کے سامنے رکھتا ہے اور جب اس کام سے فارغ ہوتا ہے اور بچہ ریں ریں کرنے لگتا ہے تو فوراً اسے گود میں اُٹھا لیتا اور سارا دن اسے کھلاتا رہتا ہے لیکن اس کے باوجود اگر چار پائی پر بیٹھے بیٹھے بیوی کہہ دیتی ہے کہ ذرا فلاں کام تو کر دیجئے تو وہ دوڑتے ہوئے آجاتا ہے اور کہتا ہے میں حاضر ہوں ابھی کام کئے دیتا ہوں افسوس ہے مجھے اس کام کا خیال ہی نہیں رہا تھا.مگر شکایت نہ وہاں پیدا ہوتی ہے نہ یہاں.

Page 203

خطابات شوری جلد سوم ۱۸۷ ت ١٩٤٦ء ایک جگہ تو یہ حالت ہوتی ہے کہ دھوپ اور گرمی میں کام کرتے کرتے بیوی کا چھڑہ جھلس جاتا ہے مگر پھر بھی جب میاں چار پائی پر لیٹتا ہے تو بیوی اُس کے پاس آجاتی ہے اور کہتی ہے آپ تھک گئے ہوں گے میں ذرا آپ کو دبا دوں.پھر کافی دیر تک دباتی چلی جاتی ہے اور اسے یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ میں سارا دن کام کرتی رہی ہوں تھکاوٹ تو مجھے ہونی چاہئے نہ کہ میاں کو.مگر اسے اپنی تکلیف بھول جاتی ہے اور میاں کو بیٹھ کر دبانے لگ جاتی ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ ان دونوں میں آپس میں محبت ہوتی ہے.چنانچہ جب بھی پوچھو کہ کیسا حال ہے؟ تو وہ یہی جواب دیتے ہیں کہ الْحَمدُ لِله زندگی بڑی اچھی گزر رہی ہے.اس کے مقابلہ میں وہ گھر جس میں بیوی کا قدم چار پائی سے نہیں اتر تا اس میں بھی یہی کیفیت ہوتی ہے اور میاں سے پوچھو تو وہ یہی کہتا ہے کہ الْحَمْدُ لِلہ بڑی اچھی بیوی ملی ہے.اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ یہی ہے کہ ان کی نیت بخیر ہوتی ہے اور نیت بخیر ہونے کی وجہ سے قانون کا کوئی سوال ہی نہیں ہوتا.وہ دونوں ایک ہو چکے ہوتے ہیں اور کسی قسم کی شرط وہ اپنے لئے جائز نہیں سمجھتے.اس کے مقابلہ میں جہاں جھگڑا ہو وہاں اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑا پیدا ہو جاتا ہے کہ حیرت آتی ہے.لنڈن ٹائمنر میں میں نے امریکہ کی طلاقوں کے متعلق ایک دفعہ عجیب مضمون پڑھا اس میں لکھا تھا کہ ایک عورت نے محض اس بناء پر عدالت کے ذریعہ اپنے خاوند سے طلاق حاصل کی کہ میرا خاوند جب گھر میں آتا ہے تو مجھے ہمیشہ پیار نہیں کرتا بلکہ بعض دفعہ بھول جاتا ہے.ایک عورت نے کہا کہ میں نے ایک ناول لکھا ہے جسے میں چھپوانا چاہتی ہوں مگر میرا خاوند اسے پسند نہیں کرتا مجھے اس سے طلاق دلائی جائے.چنانچہ اسی وجہ سے امریکہ میں طلاق کی اس قدر کثرت ہے کہ ایک عورت فوت ہوئی تو اس کے جنازہ میں اُس کے گیارہ زندہ خاوند شامل ہوئے جو مر گئے وہ تو مر گئے مگر گیارہ ایسے تھے جو زندہ تھے اور جو اپنے تعلق کے اظہار کے لئے اُس کے جنازہ میں شامل ہوئے.تو اصل چیز نیتیں ہوتی ہیں.میں یہ نہیں کہتا کہ قانون نہیں بنانا چاہئے مگر میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ بعض جماعتوں میں یه نقص نظر آتا ہے کہ وہ اخلاص کی بجائے قانون کی طرف متوجہ ہوگئی ہیں اور یہ کوئی اچھی بات نہیں.

Page 204

خطابات شوری جلد سوم ۱۸۸ ت ١٩٤٦ء جماعتی کاموں کے اصول کام ہمیشہ محبت اور پیار سے چلنے چاہئیں اور انسان کو یہ مدنظر رکھنا چاہئے کہ صحیح رویہ یہی ہے کہ تعاون سے کام کیا جائے اور اگر ایسا نہ ہو تو بجائے حد بندیوں کے اس انتظام کو تبدیل کر دینا چاہئے.میں جہاں تک سمجھتا ہوں اگر صحیح اسلامی طریق کے مطابق عمل کیا جائے تو کسی قسم کے جھگڑے پیدا ہی نہیں ہو سکتے.اسلامی نظام نے ان امور کی طرف خاص طور پر زور دیا ہے اوّل جمہوریت یعنی حکومت پبلک کی رائے کے ساتھ چلنی چاہئے.اس امر کو اسلام نے ایسا اصولی طور پر تسلیم کیا ہے کہ قرآن کریم نے خاص طور پر بنی نوع انسان کو نصیحت کرتے وئے فرمایا ہے کہ ان اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الأمنت إلى أهلها الله تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانت کو ان کے اہل کے سپرد کیا کرو یعنی مومنوں کی رائے کے ساتھ حکومت کا تصفیہ ہونا چاہئے.پھر فرماتا ہے آمُرُهُمْ شُوری بینٹم کے مومن کی علامت یہ ہے کہ وہ مشورہ لے کر کام کرتا ہے صرف ذاتی غور و فکر پر ہی انحصار نہیں رکھتا.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے شاوِرُهُمْ في الأمر سے جب کام کرو تو لوگوں سے مشورہ لے لیا کرو.دراصل فطرت انسانی اس قسم کی ہے کہ بعض دفعہ ایک بچہ کے منہ سے بھی ایسی بات نکل آتی ہے جو بڑے آدمی کو نہیں سوجھتی.اسی وجہ سے اسلام نے اس امر پر خاص طور پر زور دیا ہے کہ کوئی شخص اپنے دماغ پر ایسا بھروسہ نہ کرے کہ وہ دوسروں سے مشورہ لینے کی ضرورت ہی نہ سمجھے اُسے چاہئے کہ اپنے ہم جلیسوں اور اردگرد بیٹھنے والوں سے ہمیشہ مشورہ لیتا رہا کرے.میں نے دیکھا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بعض دفعہ مجلس میں کوئی بات کرتے یا گھر میں کوئی بات کرتے تو ملازمہ یا ایک چھوٹا لڑکا بھی جو اُس وقت موجود ہوتا اپنی رائے دینے لگ جاتا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اُسے روکنے کی بجائے یہی کہتے کہ رائے دے لو.یہ روح ہے جو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے اور جو شخص اس کو دباتا ہے وہ اسلامی اصول کے خلاف چلتا ہے.پس ہمیں نہ صرف یہ امر مد نظر رکھنا چاہئے کہ ہمارے لئے کام کی سہولت کس چیز میں ہے بلکہ ہمیں یہ بھی مد نظر رکھنا چاہئے کہ جماعت کے تمام افراد کی ٹرینینگ ہو جائے.ہمیں کیا معلوم کہ کل کس شخص کے کندھوں پر جماعت کے کاموں کا بوجھ پڑنے والا ہے.اگر چند

Page 205

خطابات شوری جلد سوم ۱۸۹ رت ۱۹۴۶ء محدود افراد اپنے کام میں ماہر رہیں گے اور وہ آئندہ نسلوں اور جماعت کے دوسرے افراد کو ذمہ داری کے کام سنبھالنے کا اہل نہیں بنائیں گے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک کے بعد دوسرا لیڈر پیدا نہیں ہوگا اور کام کو نقصان پہنچے گا.پس ہمیں اپنے موجودہ کاموں کی سہولت کو نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ جماعت کے افراد کے دماغوں کی زیادہ سے زیادہ تربیت ہوتی چلی جائے اور اس غرض کے لئے وہی مدارس کافی نہیں جو نام کے مدارس ہیں بلکہ وہ مدر سے بھی ضروری ہیں جن میں جماعت کے تمام افراد شامل ہوتے ہیں اور جہاں جماعتی کاموں پر افرادِ جماعت کو تنقید کرنے اور ان کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنانے کے متعلق اپنی تجاویز پیش کرنے کا موقع دیا جاتا ہے.ایک گزشتہ مجلس شوریٰ میں جب کثرتِ رائے سے یہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ جماعت کے تمام افراد کی بجائے مجلس منتخبہ کے سپر د انتخاب کا کام کیا جائے تو گو میں نے کثرت رائے کے حق میں فیصلہ کر دیا تھا مگر میری رائے چھپی ہوئی موجود ہے میں نے کہا تھا کہ مجھے اس تجویز پر اطمینان نہیں مگر چونکہ جماعت کہتی ہے کہ ایسا کیا جائے اس لئے میں اسے منظور کرتا ہوں.اب بھی جس تجویز کی تائید جماعت نے کثرت آراء سے کی ہے ویسی ہی ہے اور جماعت کو ایک حق دینے کی بجائے مجلس منتخبہ کو حق دے دیا گیا.میرا منشاء تھا کہ جماعت کا حق جماعت کے پاس ہی رہتا مگر چونکہ اب پھر خود جماعت نے اپنی کثرتِ رائے سے مجھے یہ مشورہ دیا ہے اس لئے میں کثرتِ رائے کا احترام کرتے ہوئے اسے منظور کرتا ہوں.اسلام کے زریں اصول لیکن میں جماعت کے دوستوں کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ اسلام نے کبھی ووٹنگ کو رم نہیں رکھا.آخر اس میں حرج کیا ہے کہ جب لوگ نماز کے لئے مسجد میں جمع ہوں تو ان کے سامنے مسئلہ پیش کر دیا جائے اور معلوم کر لیا جائے کہ ان کی کیا رائے ہے.یہ چیزیں جو آجکل دکھائی دیتی ہیں یہ تو بعض فتنوں سے بچنے کے لئے اختیار کی گئی ہیں ورنہ تمام اسلامی مسائل میں نہ ہمیں ووٹنگ کا پتہ چلتا ہے اور نہ کورم کا پتہ چلتا ہے.پس ایک تو یہ اصل ہے جسے کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.دوسرا اصل اسلام یہ پیش کرتا ہے کہ کام بہر حال ہونا چاہئے اگر اس کام میں کوئی روک بنتا ہے اقلیت روک بنتی ہے یا اکثریت روک بنتی ہے تو اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے.

Page 206

خطابات شوری جلد سوم ۱۹۰ ت ۱۹۴۶ء رائے کا موقع بے شک ہر ایک کو مل جائے لیکن اس کے بعد اگر کام کرنے میں روک پیدا ہو تو جس کے ہاتھ میں اُس کام کی کنجی ہو اُس کا فرض ہے کہ وہ کسی کی پرواہ نہ کرے اور جو کام اس کے سپرد کیا گیا ہے اسے کر گزرے.کام کے دوران میں اگر اس سے کوئی غلطی ہو جاتی ہے اور بعد میں اسے سزا ملتی ہے تو بے شک وہ سزا قبول کر لے مگر کام کو نقصان نہ پہنچنے دے.دنیا میں جس قدر عقلمند قو میں ہیں ان میں بعض قسم کی سزاؤں کو بُرا نہیں سمجھا جاتا ، بے شک بعض سزائیں ایسی ہیں جو بری سمجھی جاتی ہیں مثلاً چوری کی سزا کو بُرا سمجھا جاتا ہے یا ڈا کہ کی سزا کو بُراسمجھا جاتا ہے لیکن اگر کسی کو اس لئے سرزنش کی جاتی ہے کہ اس نے وقت پر غلط فیصلہ کیوں کیا تو یہ بُری بات نہیں، اس کے معنے یہ ہیں کہ اس نے قومی روح کو زندہ رکھا اور غلطی کی سزا جب اُسے ملی تو اُسے خوشی سے برداشت کر لیا.جب ایک جرنیل کسی جگہ لڑائی کرتا ہے تو بعض دفعہ اُس سے غلطی بھی ہو جاتی ہے جس کی اُسے سزا ملتی ہے مگر یہ سزا بالکل اور رنگ کی ہوتی ہے لیکن اگر وہ میدان چھوڑ دے اور یہ کہے کہ چونکہ مجھے احکام نہیں آئے اِس لئے میں لڑائی نہیں کر سکتا تو اس کو جو سزا ملے گی وہ ذلت ورسوائی والی ہوگی لیکن پہلی سزا قوم کے فکر کو بلند کرنے والی ہوگی.ایک میں وہ قربانی کا بکرا بنتے ہوئے سزا پائے گا مگر قوم کا خادم سمجھا جائے گا باغی نہیں سمجھا جائے گا اور دوسری سزا وہ ہو گی جس میں وہ باغی اور ملک کا غدار قرار دیا جائے گا.تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ اسلامی نقطہ نگاہ سے زبردستی کی لیڈری منع ہے چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صاف طور پر فرمایا ہے کہ ایسے امام پر فرشتے لعنت ڈالتے ہیں جسے جماعت پسند نہیں کرتی ہے اور گو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ارشاد ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا ہے مگر بہر حال ہم اس سے استنباط کرتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح ایک جماعت کی امامت میں اس امر کو مدنظر رکھنا ضروری ہوتا ہے کہ جماعت اپنے امام کے خلاف نہ ہو اسی طرح امارت اور دوسرے عہد وں میں بھی ہمیں اس اصول کو مدنظر رکھنا چاہئے.اگر ایک امیر جماعت کو اپنے ساتھ چلا نہیں سکتا تو اُسے واضح طور پر مرکز میں اپنا معاملہ پیش کرنا چاہئے اور کہنا چاہئے کہ میں جماعت کو اپنے ساتھ چلا نہیں سکتا میں نے

Page 207

خطابات شوری جلد سوم ۱۹۱ رت ۱۹۴۶ء بہت کوشش کی کہ جماعت میرے ساتھ چلے اور میں نے اپنا پورا زور لگا لیا مگر جماعت میرے ساتھ چلنے کے لئے تیار نہیں ہے اور چونکہ ہم امارت کے متعلق کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے ہمیشہ جماعت کی رائے دریافت کر لیا کرتے ہیں اور کثرتِ رائے جس کی تائید میں ہو اُسی کے حق میں فیصلہ کیا کرتے ہیں اس لئے جب ایسا معاملہ مرکز کے سامنے پیش ہوگا اور مرکز دیکھے گا کہ جماعت کی کثرت نے خود اس امیر کا انتخاب کیا تھا تو ہم اُس جماعت سے دریافت کر سکیں گے کہ جب تم نے خود فلاں شخص کا نام امارت کے لئے پیش کیا تھا اور تمہاری جماعت کی اکثریت نے اس کی تائید کی تھی تو اب تم کیوں اس کے ساتھ تعاون نہیں کر سکتے.اگر ہم دیکھیں گے کہ انتخاب تو بے شک جماعت نے کیا تھا مگر اس سے اپنے حق کا استعمال کرنے میں غلطی ہوگئی تھی تو ہم اسے کہ دیں گے کہ اب تم اپنے لئے اور امیر منتخب کر لو اور اس جھگڑے کو جانے دو.بہر حال دو صورتوں میں سے ایک صورت ضروری ہے یا تو امیر کو چاہئے کہ وہ جماعت کو اپنے ساتھ ملالے اور یا پھر جماعت کو چاہئے کہ وہ اپنی رائے کو قربان کر کے امیر کے ساتھ مل جائے.اگر کسی جماعت میں اختلاف واقع ہو جاتا ہے تو اس اختلاف کو رفع کرنے کی پہلی صورت یہ ہوتی ہے کہ امیر اُس جماعت کو اپنے ساتھ ملائے یا آپ اُس جماعت کے ساتھ ملنے کی کوشش کرے.اگر دیکھے کہ ہمارا جن باتوں میں اختلاف واقع ہو رہا ہے وہ بہت معمولی ہیں تو اُسے اپنی رائے کو قربان کر دینا چاہئے اور کہنا چاہئے کہ میں اپنی رائے پر کیوں زور دوں.جس طرح وہ غلطی کر سکتے ہیں اسی طرح میں بھی غلطی کر سکتا ہوں مجھے اس وقت اختلاف کو بڑھانا نہیں چاہئے بلکہ اتحاد کو قائم رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے.لیکن اگر وہ دیکھے کہ معاملات اہم ہیں اور جماعت کے کسی حصہ کی طرف سے فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو اُس کا دوسرا فرض یہ ہے کہ وہ جماعت کے افراد کی اصلاح کی کوشش کرے.اُنھیں نصیحت کرے سمجھائے اور بتائے کہ یہاں زید اور بکر کا سوال نہیں بلکہ سلسلہ کی عظمت اور اس کے وقار کا سوال ہے.تم اس اختلاف کو جانے دو اور اپنی اصلاح کی کوشش کرو لیکن اگر یہ دونوں صورتیں نہ چل سکیں ، امیر سمجھے کہ میں جماعت کے ساتھ موافقت نہیں کر سکتا اور جماعت سمجھے کہ وہ امیر کے ساتھ موافقت نہیں کر سکتی اور امیر اس یقین پر قائم ہو کہ میں نے اپنا سارا زور لگا لیا ہے مگر پھر بھی جماعت کی

Page 208

خطابات شوری جلد سوم ۱۹۲ رت ۱۹۴۶ء اصلاح نہیں ہوتی اب ان کا اور میرا اختلاف اس قدر بڑھ گیا ہے کہ نہ یہ لوگ میرے ساتھ تعاون کر سکتے ہیں اور نہ میں ان کی بات مان سکتا ہوں تو ایسی صورت میں مرکز میں اپنا معاملہ پیش کرنا چاہئے.مرکز کی طرف سے کوئی اور امیر مقرر ہو جائے گا اور جھگڑا ختم ہو جائے گا لیکن اگر دونوں صورتیں نہ ہوں نہ امیر پیچھے ہٹنے کے لئے تیار ہو اور نہ جماعت اپنی رائے بدلنے پر آمادہ ہو تو اس کا نتیجہ سوائے بے برکتی کے اور کچھ پیدا نہیں ہوسکتا.اور یہ ویسی ہی بات ہے جیسے کوئی امام نماز پڑھاتا چلا جائے اور جماعت اس سے نفرت رکھے.جس طرح وہ امامت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیصلہ کے مطابق جائز نہیں اسی طرح امارت بھی جوز بر دستی کی ہو اسلامی نقطہ نگاہ سے جائز نہیں سوائے اس کے کہ جب امیر کی طرف سے مرکز میں معاملہ پیش ہو تو مرکز سمجھے کہ گو اس اختلاف کو مٹانے کی کوئی صورت نہ ہو مگر امیر کا قائم رہنا ضروری ہے.ایسی حالت میں مرکز کا فرض ہے کہ وہ امیر کو قائم رکھے اور مجلس عاملہ تو ڑ کر ایک نئی مجلس عاملہ بنائے یا امیر کو کہے کہ وہ پہلی مجلس عاملہ کو توڑ دے اور نئی مجلس عاملہ کی تشکیل عمل میں لائے جو امیر کے ساتھ تعاون کرے.چوتھی بات اسلام یہ بتاتا ہے کہ امام وقت اپنے فیصلہ میں شریعت امراء کے اختیارات ماتحت سے بالا نہیں.اس صورت میں بھی ہمارے لئے ایک کے بڑی مشکل آسان ہو جاتی ہے جس طرح قانونِ شریعت بالا ہے اور امام وقت چاہے نبی ہو یا خلیفہ اس کے تابع ہے، اسی طرح امراء کو بھی سمجھنا چاہئے کہ جو قوانین بنائے گئے ہیں ان کے وہ تابع رہیں امراء کے اختیارات کے یہ معنے نہیں کہ وہ قوانین سے بالا ہو جاتے ہیں بلکہ اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ امراء کا فرض ہے کہ وہ شرعی قوانین کو بھی ملحوظ رکھیں اور جماعتی قوانین کو بھی ملحوظ رکھیں.سارے جھگڑے اسی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں کہ امراء کی طرف سے قوانین کی پوری پابندی نہیں کی جاتی.یہ تو پتہ لگتا ہے کہ بعض مقامات پر امراء نے جماعتوں سے اختلاف کیا ہے مگر کم سے کم ایک مثال بھی مجھے ایسی یاد نہیں کہ ان جھگڑوں کو ہمارے سامنے پیش کیا گیا ہو جس کے معنے یہ ہیں کہ امراء یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے مرکز میں اپنا معاملہ پیش کیا اور ہمارے خلاف فیصلہ ہو گیا تو ہماری ہتک ہو گی حالانکہ ہمارا قانون یہ ہے کہ جب کبھی امیر جماعت کی رائے سے اختلاف کرے اور جماعت

Page 209

خطابات شوری جلد سوم ۱۹۳ اورت ۱۹۴۶ء اس کے فیصلہ کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرے تو اُس کا فرض ہے کہ وہ مرکز میں اپنا معاملہ پیش کرے.ایک صورت تو یہ ہے کہ جماعت کے افراد کہیں ہم یوں فیصلہ چاہتے ہیں اور امیر کہے کہ نہیں یوں ہونا چاہئے اور جماعت کہہ دے کہ اچھا جس طرح آپ کی مرضی ہو کر لیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں.لیکن دوسری صورت یہ ہے کہ امراء اور جماعتوں میں اختلاف واقع ہو جائے اگر کسی جماعت میں ایسا اختلاف واقع ہو جاتا ہے تو جیسا کہ قاعدہ ہے امیر کو اپنی جماعت کا معاملہ مرکز میں پیش کرنا چاہئے مگر میرے سامنے اب تک ایک مثال بھی اس قسم کے جھگڑے کی نہیں آئی جس کے معنے یہ ہیں کہ کبھی بھی امراء نے جماعت کی رائے کو نہیں تو ڑا یا ایسی صورت میں نہیں توڑا کہ جماعت اپنی رائے پر مصر رہی ہو پھر شکایت کیسی.یا امراء جماعت کی رائے کو کبھی توڑتے ہی نہیں اس صورت میں بھی شکایت کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی.اور یا پھر امراء جماعت کی رائے کو توڑتے تو ہیں مگر مرکز کو اطلاع نہیں دیتے اس صورت میں وہ خود قانون شکنی کے مرتکب ہوتے ہیں.اور جب وہ اپنے لئے قانون کی پابندی ضروری نہیں سمجھتے تو قانون اُن کی کس طرح حفاظت کر سکتا ہے.یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ کوئی وجودشتی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی قانون سے بالا نہیں ہیں.اس لئے ہر امیر کو یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ وہ اپنے عہدہ کے لحاظ سے جماعت کے دیگر افراد سے بالا ہو پھر بھی جو قانون ہے اس کی پابندی اُس کے لئے ضروری ہے.اگر وہ قانون کی پوری پابندی کریں تو کوئی جھگڑا ہو ہی نہیں سکتا.جیسے میں نے بتایا ہے کہ اگر ہمارے سامنے کسی جماعت کی طرف سے ایسا جھگڑا آئے تو ہم اُس جماعت کے امیر کے سامنے یہ بات پیش کر دیں گے کہ یا تو تم جماعت کو اپنے ساتھ چلاؤ اور یا پھر جماعت کو اپنے ساتھ چلانے کی بجائے خود جماعت کے پیچھے چلو.اگر یہ دونوں باتیں نہ ہو سکیں تو ہم دیکھیں گے کہ اس امیر کے بغیر کام چل سکتا ہے یا نہیں.اگر چل سکتا ہو تو ہم اس کی بجائے کسی اور کو امیر مقرر کر دیں گے.اور اگر یہ دیکھیں گے کہ اس کے بغیر کام نہیں چل سکتا تو ہم مقامی مجلس عاملہ کو توڑ دیں گے اور یہ فیصلہ کریں گے کہ چونکہ جماعت روحانیت میں گر چکی ہے اور اپنے جھگڑے کو کسی صورت میں بھی ترک کرنے کے لئے تیار نہیں اس لئے ہم مجلس عاملہ کوتوڑ دیتے ہیں.

Page 210

۱۹۴ ت ۱۹۴۶ء خطابات شوری جلد سوم بہر حال اصل چیز یہ ہے کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ جماعت کے افراد کی رائے کا احترام کرنے اور انہیں زیادہ سے زیادہ مسائل پر غور کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے تاکہ جماعت کی ذہنی حالت ترقی کی طرف جائے.چونکہ اس وقت کثرتِ رائے نے ایک قاعدہ تجویز کیا ہے، اس لئے میں اس کی مخالفت تو نہیں کرتا لیکن جیسا کہ پہلے بھی میں نے کہا تھا میرے نزدیک جماعت کو ہی انتخاب کا موقع دینا چاہئے تھا بجائے اس کے مجلس عاملہ کو اس کا اختیار دیا جاتا.مگر چونکہ اب یہ قاعدہ کثرتِ آراء سے بن چکا ہے کہ مجلس عاملہ زائد ممبروں کا انتخاب کرے اس لئے میں اس کے خلاف فیصلہ نہیں دیتا لیکن میرا میلان اسی طرف ہے کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ جماعت کو ان امور میں حصہ لینے کا موقع دینا چاہئے تا کہ جماعت کی ٹریننگ ہو اور اس کے تمام افراد سلسلہ کے کاموں کی اہمیت کا صحیح احساس رکھ سکیں.میرے نزدیک اس میں کوئی دقت بھی نہیں ہوسکتی.ہماری شریعت نے جمعہ کا دن ایسا مقرر کیا ہے جس میں ایک گاؤں یا ایک شہر کی جماعت کے تمام افراد خود بخود ا کٹھے ہو جاتے ہیں.چونکہ اسلامی شریعت میں کورم کا کوئی سوال ہی نہیں اس لئے جو لوگ آجائیں گے اُن کی رائے کو وقعت حاصل ہو جائے گی اور جو نہیں آئیں گے وہ محروم رہ جائیں گے.اگر صلح اور آشتی سے جس طرح میاں بیوی میں محبت ہوتی ہے کام ہوں تو کوئی جھگڑا پیدا نہیں ہوتا کیونکہ ایسی صورت میں من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں دی والا معاملہ ہو جاتا ہے اور یہی روح ہر زندہ اور بڑھنے والی جماعت کے اندر کام کیا کرتی ہے.مجھے یاد ہے قادیان میں مولوی عبد الکریم صاحب اور پیر افتخار احمد صاحب دونوں قریب قریب مکانات میں رہتے تھے مولوی عبد الکریم صاحب جوشیلی طبیعت رکھتے تھے اور پیر صاحب کی طبیعت بہت نرم تھی.پیر صاحب کے چھوٹے چھوٹے بچے تھے جو اکثر ریں ریں کرتے رہتے اور پیر صاحب انہیں سارا دن تھپکاتے اور بہلاتے رہتے.اتفاق کی بات ہے کہ شہر میں تو پیر صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب ایک دوسرے کے ہمسائے تھے ہی، جب زلزلہ کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام باغ میں تشریف لے گئے تو وہاں بھی یہ دونوں پاس پاس رہنے لگ گئے.ایک دن پیر صاحب مسجد میں آئے تو مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم بڑے جوش سے کہنے لگے پیر صاحب! میری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ "

Page 211

خطابات شوری جلد سوم ۱۹۵ رت ۱۹۴۶ء آپ کس طرح کام کرتے ہیں.بچہ ریں ریں کر رہا ہوتا ہے آپ اُسے کندھے سے لگائے پھر رہے ہوتے ہیں اور پھر ساتھ ہی کام بھی کرتے چلے جاتے ہیں، میرا بچہ ہو تو اُسے دو تھپڑ رسید کر دوں.پیر صاحب سن کر بڑے اطمینان سے کہنے لگے مولوی صاحب ! بچے میرے ریں ریں کرتے ہیں، انہیں تھپکا تا میں ہوں آپ کو خواہ مخواہ کیوں تکلیف ہوتی ہے، میری سمجھ میں بھی یہ بات کبھی نہیں آئی.اب دیکھو دونوں کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ ہو کیا رہا ہے.پیر افتخار احمد صاحب کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ مولوی عبد الکریم صاحب کو میرے بچوں کے رونے سے کیوں تکلیف ہوتی ہے اور مولوی عبد الکریم صاحب کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ پیر صاحب کام کس طرح کرتے ہیں میرے جیسا آدمی تو انہیں فوراً دو تھپڑ رسید کر دے.تو جب آپس میں اتحاد ہو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اختلاف کس طرح ہو سکتا ہے اور جب اختلاف واقع ہو جائے تو پھر یہ مجھ میں نہیں آتا کہ سب قانون موجود ہیں مگر اختلاف مٹتا کیوں نہیں.پس اس فیصلہ کی میں تصدیق کرتا ہوں صرف اس قدر اضافہ کر دیتا ہوں کہ عارضی طور پر جس کی مدت چھ ماہ ہوگی ایک ممبر کا اضافہ امیر جماعت خود اپنے اختیارات سے کر سکتا ہے جس کے صرف اتنے معنے ہوں گے کہ چونکہ ایک اتفاقی ضرورت.پیش کی گئی تھی اس لئے امیر نے ایک زائد ممبر کا اپنے اختیارات سے اضافہ کر لیا.اصل واقعہ جو جھگڑے کی بناء ہے اور جس کی طرف سیٹھ اسماعیل آدم صاحب نے اپنی تقریر میں اشارہ بھی کیا ہے یہ ہے کہ بمبئی میں باہر سے ایک احمدی دوست آئے اور چونکہ وہ پہلے جماعت احمدیہ بمبئی کے امیر بھی رہ چکے تھے اُنہوں نے عارضی طور پر اُسے مجلس عاملہ میں شامل کر لیا، یہ ہرگز ایسی چیز نہیں تھی جس پر وہاں کی جماعت اگر اس میں اسلام کی حقیقی روح موجود ہوتی شور مچاتی اس قسم کی باتوں کے ازالہ کے لئے میں نے قانون میں اس شق کا اضافہ کیا ہے کہ امیر عارضی طور پر ایک ممبر کا اضافہ کر سکتا ہے جس کی مدت چھ ماہ ہوگی.چھ ماہ کے بعد وہ اس معاملہ کو مجلس عاملہ کے سپر د کر دے کہ وہ اس بارہ میں مناسب فیصلہ کرے.جب بعد میں بھی اُسے اختیار حاصل ہے کہ وہ مجلس عاملہ کے فیصلہ کو ر ڈ کر دے تو اس کے لئے گھبراہٹ کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی.سوال صرف اتنا ہے کہ اگر جماعتی مفاد تقاضا کرتا ہو کہ مجلس عاملہ کے فیصلہ کورڈ کیا جائے

Page 212

خطابات شوری جلد سوم ۱۹۶ رت ۱۹۴۶ء تو اس بارہ میں مرکز نے جو قوانین مقرر کئے ہیں اُن کی تعمیل ہونی چاہئے.اسی طرح مقامی جماعت کے افراد اگر اپنے امیر کے کسی فیصلہ یا حکم کے خلاف کوئی شکایت رکھتے ہوں تو اُنہیں بھی حق حاصل ہے کہ مرکز میں اپنی اپیل پیش کریں.اس طرح ہر قسم کا جھگڑا نہایت آسانی کے ساتھ نپٹایا جا سکتا ہے اور کسی قسم کا فتنہ جماعت میں رونما نہیں ہوسکتا.“ آخر میں حضور نے تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ:.۲٫۵ تک زائد ممبر مقرر کرنے کا مجلس عاملہ کو جو اختیار دیا گیا ہے یہ شق اس کے علاوہ ہے.یعنی ۲٫۵ تک زائد ممبر منتخب کرنے کے بعد امیر کو اختیار حاصل ہو گا کہ وہ کسی ضرورت کے محسوس ہونے پر عارضی طور پر ایک ممبر کا اضافہ کرلے جس کی میعاد چھ ماہ تک ہوگی.“ (الفضل ربوه ۲۷ جون ۱۹۶۲ء) اختتامی تقریر مجلس مشاورت کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد حضور نے احباب کو اپنے الوداعی خطاب سے نوازا.خدا داد بصیرت اور پیش بینی کے مطابق آپ نے آئندہ آنے والے خطرناک حالات اور نازک دور کی نشاندہی کی اور فرمایا کہ اب دین کی عظمت اور احیاء کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے کا دور آ رہا ہے اس لئے تمام احمدی ہر قسم کی قربانی کے لئے عزم صمیم کر لیں.آپ نے فرمایا : - تقوی کی اہمیت اب چونکہ شوری کی کارروائی ختم ہو چکی ہے اس لئے میں الوداعی طور پر دوستوں سے چند باتیں کہنا چاہتا ہوں.یہ امر یاد رکھو کہ دینی کام ہوں یا دنیوی وہ تقویٰ اور صلاحیت کی روح پر ہی چل سکتے ہیں.پس ہمیں قواعد اور ضوابط سے زیادہ تقویٰ اور صلاحیت کی روح کی طرف توجہ کرنی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک دفعہ کچھ اشعار لکھ رہے تھے کہ آپ نے ایک شعر کا پہلا مصرع یہ لکھا کہ : - ے ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقاء ہے اس پر معا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا دوسرا مصرع آپ پر الہاما نازل ہوا کہ : - اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے پس جب تک تم میں تقویٰ باقی رہے گا تمہیں کوئی زوال نہیں آ سکتا.قواعد چاہے

Page 213

خطابات شوری جلد سوم ۱۹۷ رت ۱۹۴۶ء غلط ہوں یا صحیح ہوں، درست ہوں یا نا درست ہوں تمہیں تمام مشکلات اور مصائب میں سے تقوی نکال کر لے جائے گا لیکن جب تقویٰ باقی نہ رہے تو قوانین اور ضوابط کچھ بھی نہیں کر سکتے.مُحبت اور دلیل بازی تو انسان کو اس حد تک لے جاتی ہے کہ کہنے والوں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ موسی کا کوئی وجود ہی نہیں تھا، ابراہیم ایک خیالی وجود ہے، کرشن“ اور رام چندر قصوں اور کہانیوں کے ہیرو ہیں ہیسٹی کی ذات محض ایک واہمہ ہے بلکہ کہنے والوں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ کائنات کا وجود محض ایک خیال اور وہم ہے اور تمام دنیا صرف وہموں کا شکار ہو رہی ہے.پس اگر ہم خیالات پر چلیں تقویٰ اور صلاحیت کی روح اُڑ جائے تو انسان کا واہمہ اسے کہیں کا کہیں لے جاتا ہے.حضرت خلیفہ اول اپنے ایک عزیز کے متعلق سنایا کرتے تھے کہ انہیں ایک دفعہ پیٹ میں تکلیف ہوئی اور وہ میرے پاس مشورہ کے لئے آئے.میں نے انہیں کہا کہ آپ ذرا لیٹ جائیں تا کہ میں ٹٹول کر اندازہ لگا سکوں کہ درد کس مقام پر ہے.وہ لیٹ گئے اور میں نے اُنگلیوں سے اُن کے پیٹ کو دبایا یہ دیکھنے کے لئے کہ اُن کے جگر کی کیا کیفیت ہے، معدہ اور امعاء کا کیا حال ہے مگر ابھی میں نے دبایا ہی تھا کہ وہ ہاہا کر کے شور مچاتے ہوئے اُٹھ بیٹھے اور گود کر پرے چلے گئے.میں نے کہا کیا ہوا میں تو پیٹ دیکھنے لگا تھا اور آپ شور مچا کر بھاگ پڑے وہ کہنے لگے مولوی صاحب! آپ نے تو غضب کر دیا.آپ کا دماغ بہت مضبوط ہے اور آپ کی توجہ میں بھی بڑی طاقت ہے اگر میرے پیٹ کو دباتے وقت آپ کی توجہ اس طرف مرکوز ہو جاتی کہ انگلیاں پیٹ میں گھس گئی ہیں تو کیسا غضب ہوتا.میرا پیٹ پھٹ جاتا اور انتڑیاں باہر نکل آتیں.اب دیکھو انسان کا وہم اُسے کہاں سے کہاں لے جاتا ہے اُن کا وہم اس طرف چلا گیا کہ حضرت خلیفہ اول چونکہ مضبوط دماغ کے آدمی ہیں اور ان کی توجہ بڑی زبردست ہے اگر پیٹ دباتے وقت ان کا خیال ادھر چلا گیا کہ میری انگلیاں پیٹ میں گھس گئی ہیں تو واقع میں ان کی انگلیاں پیٹ میں گھس جائیں گی اور میرا پیٹ پھٹ جائے گا، چنانچہ وہ فوراً شور مچاتے ہوئے الگ ہو گئے.تو انسانی خیالات اور افکار جب مقررہ حدود سے نکل جاتے ہیں تو اُس وقت وہ وہمیوں سے بھی بدتر ہو جاتا ہے اور اس کے کسی کام میں بھی برکت نہیں رہتی.وہ چیز جسے عام طور پر دُنیا میں عقل عامہ

Page 214

خطابات شوری جلد سوم ۱۹۸ ت ۱۹۴۶ء کہا جاتا ہے شریعت میں وہ اپنی خصوصیت کے لحاظ سے تقویٰ کہلاتی ہے جب دُنیاوی معاملات میں وہ چیز جاتی رہے جسے عقل عامہ کہتے ہیں یا شرعی امور میں انسان تقویٰ کے دائرہ سے نکل جائے تو کوئی قانون اُسے فائدہ نہیں پہنچا سکتا.پس انسان کو ہمیشہ اپنے کاموں کی بنیاد تقویٰ پر رکھنی چاہئے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا چاہیئے کہ وہ اسے صحیح راستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.نماز میں جو ہم کو لاھدنا الصراط الْمُسْتَقِيمَ کی دعا سکھلائی گئی ہے اس کے جہاں مختلف مواقع پر مختلف معانی ہوتے ہیں وہاں اس کے ایک مستقل معنے بھی ہیں.ایک غیر مسلم کے لئے تو اس کے یہ معنے ہیں کہ خدا مجھے سچا مذہب دکھاوے اور ایک مسلمان کے لئے جبکہ اسلام بگڑ چکا ہے اهْدِنَا الصّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کے معنے یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ اسلام کو دوبارہ دُنیا میں قائم کر دے.گویا دعا کا ایک مفہوم صرف اُن لوگوں سے تعلق رکھتا ہے جو مسلمان نہیں اور دوسرا مفہوم ان لوگوں سے تعلق رکھتا ہے جو مسلمانوں کے گھر میں اُس وقت پیدا ہوں جب اسلام میں تفرقہ اور شقاق پیدا ہو چکا ہو اور مسلمانوں میں روحانیت سے دُوری واقع ہو چکی ہو.مگر اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کے ایک اور معنے بھی ہیں جو ہمیشہ قائم رہتے ہیں اور ہر حالت میں ہر انسان کے کام آ سکتے ہیں اور وہ معنے یہ ہیں کہ خدا ہمیں اپنے کاموں میں تقویٰ سے کام لینے کی توفیق عطا فرمائے.ہم لفظی موشگافیوں اور خیالات اور اوہام یا ذاتی رنجشوں اور فسادات اور جھگڑوں کے پیچھے چل کر جماعت کے اندر فساد پیدا کرنے والے نہ ہوں، گھروں کے اندر فساد پیدا کرنے والے نہ ہوں، قبائل کے اندر فساد پیدا کرنے والے نہ ہوں، نظام کے اندر فساد پیدا کرنے والے نہ ہوں اور یہ خطرہ ایسا ہے جس میں انسان ہر وقت گھرا رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ پانچ نمازوں میں اور پھر ہر نماز کی ہر رکعت میں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا سکھلائی گئی ہے.چونکہ رات اور دن انسان نے ایسے کام کرنے تھے جو تقویٰ سے خالی ہونے کی وجہ سے لوگوں کے لئے تباہی کا باعث بن سکتے تھے اور چونکہ بعض دفعہ ایک چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی انسان کو کہیں کا کہیں لے جاتی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر نماز میں اور نماز کی ہر رکعت میں یہ دعا مانگنے کی ہدایت کی گئی کہ انھدنا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ -

Page 215

خطابات شوری جلد سوم ۱۹۹ رت ۱۹۴۶ء بغداد کی تباہی کا سبب پرانے زمانہ کا ایک واقعہ مشہور ہے جس پر حضرت خلیفہ اول بڑا زور دیا کرتے تھے اور بار بار اس واقعہ کا ذکر فرمایا کرتے تھے.میں تو سمجھتا ہوں شاید وہ کہانی ہی ہو مگر کہانیاں بھی بہت بڑے نکات کی طرف انسانی دماغ کو متوجہ کر دیا کرتی ہیں.آپ فرمایا کرتے تھے کہ بغداد کی تباہی کا موجب ایک بہت ہی چھوٹی سی بات تھی.ایک دفعہ دو بدمعاش بازار میں سے گزرے تو اُنہوں نے دیکھا کہ ایک دوکان پر کباب بک رہے ہیں.ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ کباب کھانے کو بہت دل چاہتا ہے مگر جیب میں کوئی پیسہ نہیں کوئی ایسی ترکیب نکالیں جس سے مفت کباب کھا سکیں.دوسرے نے کہا اس میں کون سی مشکل بات ہے آؤ ہم آپس میں لڑ پڑیں.میں تمہیں مارنے لگ جاتا ہوں تم مجھے مارنے لگ جاؤ.شورسن کر لوگ اکٹھے ہو جائیں گے کچھ میری طرف مائل ہو جائیں گے اور کچھ تمہاری طرف.جب اس طرح بہت سے لوگ آپس میں گتھم گتھا ہو جائیں گے تو ہم چپکے سے کھسک کر کباب والے کی دکان پر چلے جائیں گے اور کباب کھا لیں گے.چنانچہ اس تجویز کے مطابق اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ ہم میں سے ایک شیعہ بن جائے اور دوسراستی اور آپس میں لڑ پڑیں.اس سکیم کے مطابق وہ کباب والے کی دکان کے سامنے کھڑے ہو گئے اور اُنہوں نے آپس میں لڑنا شروع کر دیا.ایک نے دوسرے کا گلا پکڑ لیا کہ تم ابو بکر اور عمر کے متعلق یہ بات کرتے ہو.دوسرے نے کہا ہیں! تم پنج تن کے متعلق ایسی بات کہتے ہو.جب دونوں آپس میں لڑنے لگے تو کچھ ستی آئے جنہوں نے سنی کی تائید شروع کر دی، کچھ شیعہ آگئے جنہوں نے شیعہ کی تائید شروع کر دی اور آپس میں گالی گلوچ ہونے لگی.گالی گلوچ سے بڑھتے بڑھتے ہاتھا پائی تک کو بت پہنچی.کباب والے نے یہ نظارہ دیکھا تو وہ بھی دوڑتا ہوا آیا اور اس لڑائی میں شامل ہو گیا.جب اُنہوں نے دیکھا کہ کباب کی دکان خالی ہے تو وہ دونوں وہاں سے کھسکے اور انہوں نے آکر کباب کھانے شروع کر دیئے.باقی لوگ تو پنج تن اور خلفاء کے لئے لڑتے رہے اور یہ ادھر کباب اُڑاتے رہے.اسی دوران میں ایک آدمی قتل ہو گیا اور اتفاق ایسا ہوا کہ جو شخص لڑائی میں مارا گیا وہ سنی تھا.بغداد میں سُنیوں کا زور تھا.جب انہیں معلوم ہوا کہ ہمارا ایک سنی بھائی شیعوں نے مار ڈالا ہے تو انہوں نے شیعوں کو مارنا شروع کر دیا.

Page 216

خطابات شوری جلد سوم رت ۱۹۴۶ء وزیر اعظم شیعہ تھا اسے یہ خبر سن کر سخت دکھ ہوگا اور اس نے ہلا کو خاں کو لکھا کہ آپ بغداد پر حملہ کریں، ہم آپ کا ساتھ دیں گے.چنانچہ ہلاکو خاں نے حملہ کر دیا اور ایسی خطرناک جنگ ہوئی کہ ۱۸ لاکھ مسلمان ایک ہفتہ کے اندر اندر بغداد میں مارا گیا.اب دیکھو بغداد پر کتنی بڑی تباہی آئی مگر بات کیا تھی.بات صرف اتنی تھی کہ دو آدمیوں نے کہا کہ ہم نے کباب کھانے ہیں، آؤ کوئی ایسی تدبیر کریں جس سے ہم مفت کباب کھا سکیں.تو بہت چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں جن سے دلوں میں بغض پیدا ہوتا ہے اور وہ بغض پھر خاندانوں میں سرایت کر جاتا ہے.خاندانوں کا بغض محلوں میں ،محلوں کا بغض شہروں میں، شہروں کا بغض علاقوں میں اور علاقوں کا بغض ساری دُنیا میں پھیل جاتا ہے اور کروڑوں کروڑ لوگ اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں.یہ حالت اپنی ابتدائی شکل میں اس قدر غیر محسوس ہوتی ہے کہ بعض دفعہ کام کرنے والا بھی نہیں جانتا کہ میری اس حرکت کا کیا نتیجہ نکلے گا.وہ ایک بات کو معمولی سمجھ کر کر بیٹھتا ہے مگر اس کا نتیجہ نہایت خطرناک نکلتا ہے.صراط مستقیم کی دعا اس مشکل سے نجات حاصل کرنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ انسان پانچوں وقت گڑ گڑا گڑ گڑا کر اور عاجزانہ طور پر اللہ تعالیٰ.دعائیں کرتا رہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ - الہی ! میرا ہر قدم ایسا ہو سکتا ہے کہ میں ابلیس کا قائمقام بن جاؤں لیکن تیرے فضل سے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میں دُنیا میں ابلیس کی جڑیں کاٹنے میں کامیاب ہو جاؤں اور ابلیسی حکومت کو دُنیا سے حرف غلط کی طرح مٹا دوں.الہی ! جب دونوں امکانات موجود ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ میں بادشاہی کے تخت پر بیٹھ کر ہی لوگوں کے لئے فتنہ کا موجب بنوں جیسے وہ دو بدمعاش جنہوں نے مفت کباب کھانے کا ارادہ کیا تھا حکومت میں کوئی دخل نہیں رکھتے تھے بلکہ نہایت ہی ذلیل اور اوباش انسان تھے لیکن باوجود اس کے کہ وہ حد درجہ کے ذلیل انسان تھے اُن کے فعل کی وجہ سے ایک اسلامی حکومت تباہ ہوگئی تو ضروری نہیں کہ کوئی بڑا انسان ہی ہو.تو اُس سے فتنہ پیدا ہو سکتا ہے بعض دفعہ چھوٹے چھوٹے انسانوں کی حرکت سے بھی بڑے بڑے خطرناک فسادات پیدا ہو جاتے ہیں پھر وہ فتنے اور بڑے فتنے پیدا کرتے ہیں اور وہ بڑے فتنے پہلے سے بھی زیادہ بڑے فتنوں میں دُنیا کو مبتلا کر دیتے ہیں.

Page 217

خطابات شوری جلد سوم ت ۱۹۴۶ء در حقیقت انسانی اعمال کا ظہور بالکل ایسا ہی رنگ رکھتا ہے جیسے بچپن میں ہم اینٹوں کی کھیل کھیلا کرتے تھے.پچاس ساٹھ یا سو اینٹیں قریب قریب اتنے فاصلہ پر کھڑی کر دی جاتی تھیں کہ جب ایک اینٹ کو دھگا دیا جائے تو دوسری پر گرے اور دوسری تیسری پر اور تیسری چوتھی پر چنانچہ جب اینٹیں ایک قطار میں کھڑی کر لی جاتیں تو ہم ایک اینٹ کو ہاتھ کی اُنگلی سے ہلکا سا دھکا دے دیتے.اس وقت ایک عجیب نظارہ نظر آتا تھا کہ ٹھک ٹھک کر کے تمام اینٹیں ایک دوسری پر گرنی شروع ہو جاتیں اور کوئی ایک اینٹ بھی کھڑی نہ رہ سکتی.اسی طرح ایک انسان کی چھوٹی سی حرکت بعض دفعہ بہت بڑی تباہی کا موجب بن جاتی ہے خواہ وہ حرکت ایک ادنی انسان کی طرف سے ہو یا بڑے انسان کی طرف سے.بسا اوقات چوڑھوں میں پیدا شدہ حرکت بادشاہوں تک چلی جاتی ہے اور بادشاہوں کی حرکت بَيْنَ الْأَقْوَامِي جنگوں کی صورت اختیار کر لیتی ہے.انھدنا الصراطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ انْعَمْتَ علَيْهِمْ میں انسان یہی عرض کرتا ہے کہ الہی میں چھوٹا ہوں، ذلیل ہوں، کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتا مگر پھر بھی ہو سکتا ہے کہ میرے زریعہ کوئی ایسا فساد ہو جس سے ساری دُنیا تباہ ہو جائے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میں کسی ایسی نیکی کی بنیا د رکھ دوں جو ساری دُنیا کو درست کر دے.اس لئے اے خدا! تجھ سے میں درخواست کرتا ہوں کہ تو مجھے ایسے راستہ پر چلا جس کے نتیجہ میں میرے ذریعہ سے دُنیا میں نیکیوں کی بنیاد قائم ہو، بدیوں کی بنیاد قائم نہ ہو.جیسا کہ میں نے بتایا ہے ادنیٰ سے ادنی انسان سے بھی ایسے کام ہو سکتے ہیں جن سے دُنیا تباہ ہو جائے اور ایسے کام بھی ہو سکتے ہیں جن سے دُنیا سنور جائے.ہم ایک ایسے مقام پر ہیں کہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں دُنیا کی آئندہ روحانی تبدیلی ہماری تبدیلی سے وابستہ ہے.جس قدر ایمان کی مضبوطی ہمارے دلوں میں ہوگی، جس قدر تقوی ہمارے دلوں میں قائم ہو گا، دنیا اس کے پر تو اور عکس کو قبول کرے گی اس لئے ہمیں بہت زیادہ فکر اور اندیشہ سے اپنی دعاؤں میں اور اپنی نمازوں میں اور اپنے اذکار میں خدا تعالیٰ سے تقویٰ مانگنا چاہئے اور خود بھی اپنے اندر تقویٰ قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.جو شخص مانگتا ہے مگر خود اس مقصد کے حصول کے لئے کوئی کوشش نہیں کرتا وہ فریبی ہے اگر وہ تقویٰ مانگنے میں سچا ہوتا تو خود بھی اپنے نفس میں اس کو قائم کرنے کی کوشش کرتا.

Page 218

خطابات شوری جلد سوم رت ۱۹۴۶ء خطرناک زمانہ میں جماعت کی ذمہ داری دوسری بات جس کی طرف میں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ اب دُنیا کے لئے ایک خطرناک زمانہ آ رہا ہے.ایک پیشگوئی کے بعد دوسری پیشگوئی پوری ہو رہی ہے اور آخری اور خطرناک صورتیں اب دُنیا میں ظاہر ہونے والی ہیں.ان خطرناک اوقات میں اگر کوئی جماعت لوگوں کے لئے مفید کام کر سکتی ہے تو وہ جماعت احمد یہ ہی ہے.دوسری جماعتیں مذہب اور دیانت سے بہت دُور جا پڑی ہیں اُن کی اغراض محض ذاتی اور نفسانی ہیں.صرف ایک ہماری جماعت ہی ہے جس کا ایثار محض خدا کے لئے ہوتا ہے اور جس کے سامنے کوئی ذاتی مقصد نہیں جس کے لئے وہ دُنیا میں نیک تغیر پیدا کرنا چاہتی ہے بلکہ اس کا مقصد محض یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی حکومت دُنیا میں قائم ہو اور اُس کا جلال لوگوں پر ظاہر ہو ایسے وقت میں اگر ہم اپنے فرائض سے کوتا ہی کریں گے تو یہ امر دُنیا کی تباہی کا موجب ہوگا اور اگر ہم اپنے فرائض کو صحیح طور پر ادا کریں گے تو دُنیا کی آئندہ اصلاح کے ہم بانی ہوں گے اور جو عظیم الشان تغیر پیدا ہو گا اُس کے ثواب کے حقدار ہوں گے.اس وقت ہم ایک ایسے نازک مقام پر ہیں کہ ذراسی سستی اور غفلت کے ذریعہ ہم خدا تعالیٰ کو ناراض کرنے والوں میں بھی شامل ہو سکتے ہیں اور اپنے فرائض ادا کر کے ہم خدا تعالیٰ کی بہترین مخلوق بھی بن سکتے ہیں.ہم سے بہتر موقع شاید ہی آج تک کسی قوم کو ملا ہو.یہ وہ زمانہ ہے جس کے فتنوں کی تمام انبیاء نے خبر دی ہے.ایسے زمانہ میں کام کرنے والی قوم دُنیا میں معمولی قوم نہیں سمجھی جاسکتی بلکہ وہ ایک ایسی تاریخی یادگار کی حامل ہو گی کہ صرف دُنیا کی زندگی تک اُس کی شہرت قائم نہیں رہے گی بلکہ قیامت کے دن خدا تعالیٰ بھی اس یاد گار کو بے تو جہی سے نہیں دیکھے گا اور اس زمانہ میں کام کرنے والوں کو ایسا مقام دے گا کہ دُنیا حسد اور رشک کی نگاہوں سے اُسے دیکھے گی.پس یہ ایسا موقع نہیں جسے کوئی سمجھدار شخص گنوانے کے لئے تیار ہو.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دُنیا میں کمانے والے بھی ہوتے ہیں.پیشہ ور اور صاحب فنون بھی ہوتے ہیں اور اسلام ان کاموں میں حصہ لینے سے روکتا نہیں مگر ایسے موقع پر اگر کوئی شخص اپنی ساری توجہ ان مقاصد کے لئے ہی صرف کر دیتا ہے اور جس غرض کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا گیا تھا

Page 219

خطابات شوری جلد سوم ت ۱۹۴۶ء اس کی طرف توجہ نہیں کرتا تو وہ دُنیا کا ادنیٰ ترین انسان ہے، وہ جاہل سے جاہل انسان سے بھی بدتر ہے کیونکہ اس نے ایک ایسا قیمتی موقع کھو دیا جس کے لئے پاگل بھی تیار نہیں ہوسکتا.پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ آنے والے خطرات کے مقابلہ کے لئے قربانی اور ایثار کی روح اپنے اندر پیدا کرے.بے شک جب ہم جماعت کے افراد سے قربانی کا مطالبہ کرتے ہیں تو محدود مطالبہ کرتے ہیں مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ تم سے ہمیشہ اسی قسم کے مطالبات کا سلسلہ جاری رہے گا.میں نے بار بار کہا ہے اور مجھے بار بار کہنے کی ضرورت ہے کہ جب ایک چیز متواتر کسی انسان کے سامنے آتی ہے تو وہ اُس کی اہمیت سے غافل ہو جاتا ہے.ہمارے ملک میں قصہ مشہور ہے کہ ایک بچہ نے جو جنگل میں بکریاں چرا رہا تھا ایک دفعہ مذاق کے طور پر شور مچا دیا کہ شیر آیا شیر آیا دوڑنا !! یہ آواز سُن کر گاؤں کے لوگ لاٹھیاں اپنے ہاتھ میں لے کر دوڑ پڑے مگر جب وہاں پہنچے تو انہیں معلوم ہوا کہ لڑکے نے اُن سے مذاق کیا تھا، شیر کوئی نہیں تھا وہ لڑکے کو بُرا بھلا کہتے ہوئے واپس چلے گئے مگر چند دنوں کے بعد واقعہ میں شیر آ گیا اور اُس نے اپنی مدد کے لئے گاؤں والوں کو آواز دی تو کوئی شخص بھی اُس کی آواز پر نہ پہنچا اور شیر اُس لڑکے کو پھاڑ کر کھا گیا.یہ مثال اس غرض کے لئے بیان کی جاتی ہے کہ جھوٹ نہیں بولنا چاہئے کیونکہ جھوٹے آدمی کا اعتبار اُٹھ جاتا ہے.اس نے پہلی دفعہ جھوٹ بولا تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دوسری دفعہ جب وہ واقعہ میں سچ بول رہا تھا لوگوں نے یہی سمجھا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے.مگر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ واقعہ میں سچ بولا جا رہا ہوتا ہے مگر اس سچ کا مقصد لوگوں کا امتحان لینا ہوتا ہے.جب بھی کوئی بڑا امتحان آنے والا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ اُس کے متعلق لوگوں کو شروع سے خبر دینی شروع کر دیتا ہے گو اُس کا کامل ظہور ایک لمبے عرصہ کے بعد ہوتا ہے.درمیانی حصے جب ظاہر ہونے شروع ہوتے ہیں اور قدم بقدم دُنیا میں تغیر پیدا ہونے لگتا ہے تو بعض لوگوں کے دلوں میں ان درمیانی حصوں کو دیکھ کر یہ احساس پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ قربانی کا وہ عظیم الشان تصور جو ہمارے ذہنوں میں پیدا کیا گیا تھا وہ یہی ہے، تب اُن کا دل مطمئن ہو جاتا ہے اور وہ آنے والی قربانی کے لئے تیار نہیں ہو سکتے.

Page 220

خطابات شوری جلد سوم ۲۰۴ رت ۱۹۴۶ء ہم ہمیشہ اپنی جماعت کے افراد سے یہ مطالبہ کیا کرتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی یہ مطالبہ فرمایا کرتے تھے کہ خدا کے لئے اپنی جانوں اور مالوں کو.وقف کر دو لیکن ہر زمانہ میں یہ معیار بدلتا چلا گیا ہے پہلے دن جب لوگوں نے اس آواز کو سُنا تو وہ آگے آئے اور اُنہوں نے کہا ہماری جان اور ہمارا مال حاضر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کے جواب کو سُنا اور فرمایا تم نمازیں پڑھا کرو، روزے رکھا کرو، اسلام اور احمدیت کو پھیلایا کرو اور اپنے مالوں میں سے کچھ نہ کچھ دین کی خدمت کے لئے دے دیا کرو چاہے روپیہ میں سے دھیلہ ہی کیوں نہ ہو.لوگوں نے یہ سُنا تو ان کے دلوں میں حیرت پیدا ہوئی کہ کام تو بہت معمولی تھا پھر ہمیں یہ کیوں کہا گیا تھا کہ آؤ اور اپنی جانیں اور اپنے اموال قربان کر دو.کچھ وقت گزرا تو لوگوں کو پھر آواز دی گئی کہ جان اور مال کی قربانی کا وقت آگیا ہے ، لوگ پھر اپنی جانیں اور اموال لے کر حاضر ہوئے تو انہیں کہا گیا تم روپیہ میں ایک پیسہ چندہ دے دیا کرو.اس پر کچھ مدت گزری تو مرکز کی طرف سے پھر آواز بلند ہوئی کہ آؤ اپنی جانیں اور اپنے اموال دین کی خدمت کے لئے وقف کر دو.لوگ پھر آگے بڑھے تو اُنہیں کہا گیا کہ آئندہ پیسہ کی بجائے دو پیسہ روپیہ چندہ دیا کرو.یہ حالت اسی طرح بڑھتی چلی گئی دھیلے سے یہ آواز شروع ہوئی تھی ، پھر پیسہ پر پہنچی ، پھر وہ دو پیسہ پر پہنچی پھر کہا گیا اب دو پیسے کا بھی سوال نہیں تین پیسے دیا کرو.تین پیسے دیتے رہے تو کہا گیا اب چار پیسے دیا کرو.پھر وقت آیا تو کہا گیا کہ اپنی جائیدادوں اور اپنی آمدنیوں کی وصیت کرو اور اس وصیت میں بھی کم سے کم دسویں حصہ کا مطالبہ کیا گیا.پھر کہا گیا کہ دسواں حصہ بہت کم ہے تمہیں نواں حصہ دینے کی کوشش کرنی چاہئے اور جن کو خدا تعالیٰ توفیق عطا فرمائے وہ اس سے بھی بڑھ کر قربانی کریں.وہ لوگ جن کو خدا تعالیٰ نے سمجھنے والا دل اور غور کرنے والا دماغ دیا ہے وہ تو جانتے ہیں کہ ہم کو قدم بقدم اس مقصد کے قریب کیا جا رہا ہے جس کے بغیر تو میں کبھی زندہ نہیں رہ سکتیں لیکن بعض لوگ اپنی نادانی سے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ قربانی اور ایثار کے الفاظ جو متواتر استعمال کئے جاتے ہیں حقیقت سے بالکل خالی ہیں.قربانی اور ایثار کے مالی لحاظ سے صرف اتنے معنے ہیں کہ روپیہ میں سے آنہ دے دیا یا آنہ نہ دیا تو ڈیڑھ آنہ دے دیا.اور وقت کی قربانی کے لحاظ سے اس کے صرف اتنے معنے ہیں

Page 221

خطابات شوری جلد سوم ۲۰۵ ت ۱۹۴۶ء کہ چوبیس گھنٹہ میں گھنٹہ یا ڈیڑھ گھنٹہ دے دیا اور ان کی نظروں سے یہ بات بالکل اوجھل ہو جاتی ہے کہ کسی دن سچ سچ ہمیں اپنی جان اور اپنا مال قربان کرنے کے لئے آگے بڑھنا پڑے گا.میں سمجھتا ہوں کہ ہماری جماعت کے ایک طبقہ میں بھی یہ احساس پیدا ہو چکا ہے کہ وہ الفاظ جو جان اور مال کی قربانی کے متعلق ہماری جماعت میں عام طور پر استعمال کئے جاتے ہیں وہ اپنے اندر بہت چھوٹے معنے رکھتے ہیں.الفاظ بے شک بڑے ہیں لیکن ان کا مفہوم بہت معمولی ہے مگر یہ بات بالکل غلط ہے.ہماری جماعت کو یاد رکھنا چاہئے کہ اگر اس سے جان کا واقع میں مطالبہ نہیں کیا جاتا ، اگر اس سے سارا مال نہیں لیا جاتا تو اس کے یہ معنے نہیں کہ ان الفاظ کا مفہوم چھوٹا ہے یا ابھی وہ دن نہیں آیا کہ تم سے یہ مطالبات کئے جائیں بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ ابھی تمہارے دل چھوٹے ہیں اور تم پر یہ خدا تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ وہ اس زمانہ کو پیچھے کرتا چلا جا رہا ہے.ورنہ یہ ہو نہیں سکتا کہ بغیر مال اور جان کی قربانی پیش کرنے کے کوئی جماعت خدا کی جماعت کہلا سکے.پس غافل مت ہو جانا اور شیر آیا شیر آیا کی آواز سُنتے سنتے یہ خیال مت کر لینا کہ تم سے کوئی مذاق کیا جا رہا ہے.پہلے ایک آواز آئے گی اور تم میں سے سو فیصدی لوگ اُس آواز کی طرف دوڑ پڑیں گے پھر دوسری دفعہ آواز آئے گی تو تم میں سے ۹۹ فیصدی اُس آواز کی طرف جائیں گے اور ایک شخص کمزوری دکھا کر پیچھے رہ جائے گا اور وہ خیال کرے گا کہ یہ محض ایک دل لگی کی بات ہے ورنہ قربانی کیسی اور ایثار کیسا.پھر تیسری آواز اُٹھے گی تو اٹھا نوے اُس آواز پر لبیک کہیں گے اور دو پیچھے رہ جائیں گے.پھر چوتھی آواز بلند ہو گی تو ۹۷ جائیں گے اور پیچھے رہ جائیں گے.اس طرح ہوتے ہوتے اتنا لمبا عرصہ اس قربانی کے عملی ظہور پر گزر جائے گا کہ بالکل ممکن ہے آخر میں جب واقع میں شیر آجائے اور حقیقی اور سچی آواز خدا تعالیٰ کے نمائندہ کے منہ سے نکلے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ فیصلہ ہو جائے کہ وہ آواز جو آج سے ۶۰،۵۰ سال پہلے بلند کی جا رہی تھی اُس کا حقیقی ظہور ہو تو اُس غفلت کی بناء پر جو مرورِ زمانہ کی وجہ سے تم پر طاری ہو چکی ہو، تم میں سے بہت سے لوگ یہ گمان کرنے لگ جائیں گے کہ اب بھی جان اور مال کی قربانی کے معنے روپیہ پر ایک آنہ چندہ دینا یا ڈیڑھ آنہ چندہ دینا ہے

Page 222

خطابات شوری جلد سوم ۲۰۶ رت ۱۹۴۶ء.اور جان کی قربانی کے معنے ہفتہ یا مہینہ میں سے گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ وقت دے دینا ہے.حالانکہ وہ وقت ایک آنہ یا ڈیڑھ آنہ چندہ دینے کا نہیں ہو گا نہ اپنے اوقات میں سے گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ وقت دینے کا ہوگا بلکہ سارے کا سارا مال اور ساری کی ساری جان خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دینے کا وقت ہو گا.تب ممکن ہے کہ ۱۰۰ میں سے ۱۰ یا ۱۲ یا ۶ یا ۴ تو آگے بڑھیں اور باقی جماعت خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہنے سے محروم رہ جائے اور پھر بعد میں باوجود اس کے کہ وہ بہتیرا دروازہ کھٹکھٹائیں اور چلائیں اور شور مچائیں پھر بھی دروازہ اُن کے لئے نہ کھولا جائے اور وہ خدائی قلعہ میں داخل ہونے سے محروم ہو جائیں.جیسے حضرت مسیح نے کہا کہ جب میں دوبارہ دنیا میں آؤں گا تو میرے انتظار میں بہت سی کنواریاں اپنے ہاتھ میں شمعیں لے کر کھڑی ہوں گی.اُن میں سے کچھ تو ایسی ہوں گی جو تیل کا کافی ذخیرہ اپنے ساتھ لے کر جائیں گی کیونکہ وہ کہیں گی کہ ہمیں کیا معلوم آنے والا کب آتا ہے ہم صرف اتنا تیل اپنے ساتھ کیوں لے جائیں جو گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد ختم ہو جائے.ہم اپنے ساتھ کافی تیل لے جائیں گی تاکہ دولہا آنے میں دیر لگائے تو ہماری شمعیں بجھ نہ جائیں.تیل ہمارے پاس ہو اور ہم اس کے انتظار میں کھڑی رہ سکیں لیکن کچھ بے وقوف ہوں گی جو سمجھیں گی کہ آنے والا دس پندرہ منٹ تک آ جائے گا ۱۵ منٹ میں نہ آ سکا تو آدھ گھنٹہ تک آجائے گا، آدھ گھنٹہ میں نہ پہنچا تو ایک گھنٹہ میں پہنچ جائے گا، ایک گھنٹہ میں نہ آیا تو ڈیڑھ گھنٹہ میں آجائے گا اس سے زیادہ اس نے کیا دیر لگانی ہے.وہ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کا اندازہ کر کے تیل اپنے ساتھ لے جائیں گی اور آنے والے کا انتظار کریں گی مگر آنے والا نہیں آئے گا اور وہ اُس کے انتظار میں کھڑی رہیں گی یہاں تک کہ ان کا تیل ختم ہو جائے گا اور شمعیں بجھ جائیں گی تب وہ اپنی ساتھیوں سے کہیں گی کہ دولہا کے آنے میں بہت دیر ہوگئی ہے اور ہم جس قدر تیل اپنے ساتھ لائی تھیں ختم ہو چکا ہے اپنے تیل میں سے کچھ ہمیں بھی دو تا کہ ہم آنے والے دولہا کا انتظار کریں.وہ انہیں جواب دیں گی کہ ہم تمہیں کیوں تیل دیں اور کیوں اپنے آپ کو خطرہ میں ڈالیں؟ جاؤ اور بازار سے تیل لے آؤ.جب وہ بازار سے تیل لینے جائیں گی تو دولہا یعنی مسیح آجائے گا اور وہ اُس کے دیکھنے سے محروم رہ جائیں.دولہا اپنی دلہنوں کو لے کر قلعہ میں داخل ہو جائے گا اور اُس کا دروازہ بند کر لے گا

Page 223

خطابات شوری جلد سوم ۲۰۷ ت ١٩٤٦ء بعد میں دوسری عورتیں آئیں گی اور وہ شور مچاتے ہوئے کہیں گی کہ ہم بھی تیری دلہنیں ہیں ، ہم صرف تیل لینے گئی تھیں.اب ہم بازار سے تیل لے آئی ہیں قلعہ کا دروازہ کھول تا کہ ہم بھی اندر داخل ہوں.مسیح انہیں جواب دے گا کہ اب تمہارے لئے دروازہ نہیں کھولا جا سکتا.وہ جو دولہا کے انتظار میں بیٹھی رہیں وہی اس بات کی مستحق تھیں کہ دولہا کے ساتھ قلعہ میں داخل ہوتیں مگر وہ جو اس کا انتظار نہ کرسکیں ، وہ اس قابل نہیں کہ ان کے لئے دروازہ کھولا جائے ، جاؤ اور اس دروازہ سے ہٹ جاؤ کہ اب تمہارے لئے دروازہ نہیں کھولا جا سکتا.کے یہ مسیح نے اپنی آمد ثانی کے متعلق ایک تمثیل بیان فرمائی ہے اور یقیناً اس کے کوئی معنے ہیں.وہ معنے یہی ہیں کہ مسیح کے زمانہ میں حقیقی قربانیوں کو زیادہ سے زیادہ پیچھے ڈالا جائے گا یہاں تک کہ جب حقیقی دلہنیں بنے کا وقت آئے گا اُس وقت کچھ طبقہ یہ سمجھنے لگ جائے گا کہ حقیقی قربانیوں کے معنے ایک آنہ چندہ دینا یا ایک گھنٹہ وقت دینے کے سوا اور کچھ نہیں.چنانچہ جب کہا جائے گا کہ آ گیا وقت جان کی قربانی کا تو وہ سمجھیں گے آ گیا وقت گھنٹہ یا ڈیڑھ گھنٹہ دینے کا.اور جب کہا جائے گا آگیا وقت مال قربان کرنے کا تو وہ سمجھیں گے کہ آ گیا وقت ایک آنہ یا ڈیڑھ آنہ چندہ دینے کا.حالانکہ اُس وقت گھنٹہ یا ڈیڑھ گھنٹہ وقت دینے کا سوال نہیں ہو گا بلکہ اپنی جان کو قربان کرنے کا سوال ہوگا اور اُس وقت صرف آنہ ڈیڑھ آنہ چندہ دینے کا سوال نہیں ہوگا بلکہ اپنے سارے مال اور ساری جائیداد سے ایک لمحہ کے اندر اندر دست بردار ہو جانے کا سوال ہوگا.میں نے اسی لئے قدم بقدم جماعت میں ان قربانیوں کا احساس پیدا کرنے کے لئے وقف جائیداد کا طریق جاری کیا تھا.اس کے یہ معنے نہیں تھے کہ ہر شخص واقع میں اپنی جائیداد سلسلہ کو دے دے، اس کے معنے یہ بھی نہیں تھے کہ چھ ماہ کے بعد ان سے اُن کی جائیدادیں لے لی جائیں گی ، یہ معنے بھی نہیں تھے کہ مرنے کے بعد ان کی جائیدادیں لے لی جائیں گی.اس کے معنے صرف اتنے تھے کہ جماعت یہ ارادہ کرے کہ وہ اپنی جائیدادیں سلسلہ کو پیش کرنے کے لئے تیار ہے مگر اس تحریک پر تین سال گزر گئے اب تک جماعت کا ایک فیصدی حصہ بھی اس میں شامل نہیں ہوا حالانکہ یہاں کوئی جائیداد دینے کا بھی سوال نہیں.پوری دینے کا سوال نہیں، پونی دینے

Page 224

خطابات شوری جلد سوم ۲۰۸ ت ۱۹۴۶ء کا بھی سوال نہیں ، آدھی دینے کا بھی سوال نہیں ، پانچ یا دس فیصدی دینے کا بھی سوال نہیں، صرف ارادے کا سوال ہے مگر اس ارادے میں بھی ساری جماعت شامل نہیں ہوئی.اب بتاؤ جب قربانی کے صرف ارادہ میں جماعت کا ایک فیصدی حصہ بھی شامل نہ ہو تو جب حقیقی قربانیوں کا وقت آیا اس وقت کس طرح امید کی جاسکتی ہے کہ سو فیصدی تو الگ رہے ایک فیصدی لوگ بھی اس میں شامل ہونے کے لئے تیار ہو جائیں گے.میرا منشاء اس تحریک سے صرف اتنا تھا کہ میں جماعت کے ذہنوں کو آئندہ آنے والی قربانیوں کے لئے تیار کروں اور وہ اپنی تیاری کا ثبوت دینے کے لئے سلسلہ کو صرف اس قدر لکھ دیں کہ ہماری جائیدادیں اب ہماری نہیں رہیں بلکہ اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے وقف ہو چکی ہیں.مگر افسوس کہ ہماری جماعت کے بہت سے دوست یہ الفاظ لکھنے کے لئے بھی تیار نہیں ہوئے.ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب گوڑگانی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک مقرب صحابی تھے.صدر انجمن احمدیہ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو ممبر تجویز فرمائے تھے اُن میں آپ کا بھی نام تھا.مگر خواجہ صاحب نے بعد میں اُن کا اور بعض اور دوستوں کا نام نکلوا دیا.وہ سنایا کرتے تھے کہ گوڑ گاؤں میں ایک بنیا تھا جس کے ایک پٹھان رئیس سے بہت تعلقات تھے مگر تعلقات محبت کے باوجود اُس کی حالت یہ تھی کہ جب کبھی اُس نے خانصاحب سے ملنا تو اپنے تعلقات اور محبت کے اظہار کے لئے بڑے جوش سے کہنا ، خانصاحب خانصاحب ! " تمہارا مال سو ہمارا مال اور ہمارا مال سوئیں ہیں ہیں.“ یعنی خانصاحب آپ کا مال تو ہمارا مال ہوا.اور ہمارا مال.اُس کے متعلق آپ کیا پوچھتے ہیں اس کے بعد اُس نے ”ہیں ہیں ہیں“ کہہ کر بات ختم کر دینی.گویا دینا تو الگ رہا وہ منہ سے بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ میرا مال آپ کا مال ہے.بلکہ ہیں ہیں ہیں کہہ کر خاموش ہو جاتا تھا.یہی بات اگر ہماری جماعت کے بعض افراد میں بھی پیدا ہو جائے تو ہم اپنی جماعت کے کامیاب ہونے کی کس طرح امید رکھ سکتے ہیں.آئندہ خطرات کی نشاندہی ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری جماعت کے تمام افراد کم سے کم یہ احساس اپنے اندر پیدا کریں کہ ہم سے جب بھی کسی قربانی کا مطالبہ کیا جائے گا ہم اس کو پیش کر دیں گے اور اس بات کو اپنے دل

Page 225

خطابات شوری جلد سوم ۲۰۹ رت ۱۹۴۶ء میں سے نکال دیں کہ بار بار جانی اور مالی قربانیوں کا مطالبہ کرنے کے باوجود ابھی تک جان اور مال کو قربان کرنے کا وقت نہیں آیا.زمانہ اُس وقت کو قریب سے قریب تر لا رہا ہے.میں نہیں کہہ سکتا کہ آج سے دس سال بعد یا ہیں سال بعد یا پچاس سال بعد وہ زمانہ آنے والا ہے مگر بہر حال وہ منزل ہمارے قریب آ رہی ہے اور جب تک ہماری جماعت اس دروازہ میں سے نہیں گزرے گی وہ صحیح معنوں میں ایک مامور کی جماعت کہلانے کی بھی حق دار نہیں ہو سکتی.یہ قطعی اور یقینی اور لازمی بات ہے کہ ہم اسلام اور احمدیت کو پھیلاتے ہوئے خطروں کے طوفانوں سے گزریں گے.اسی طرح یہ قطعی اور یقینی اور لازمی بات ہے کہ ہمیں ایک دفعہ ہجرت کرنی پڑے اور اپنے مکانوں اور جائیدادوں سے محض خدا کے لئے دست بردار ہو جانا پڑے مگر ابھی تک ہم اس امتحان سے بھی نہیں گزرے.بہر حال یہ دن جلد یا بدیر آنے والا ہے اور ہماری جماعت کے افراد کو اس دن کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنا چاہئے.ہمیں کیا معلوم کہ وہ دن کب آنے والا ہے.ہم اُن بیوقوف کنواریوں کی طرح کیوں نہیں جو اپنے ساتھ تھوڑا سا تیل لے کر گئی تھیں اور جو تیل کے ختم ہو جانے پر اس بات پر مجبور ہوئی تھیں کہ بازار جائیں.ہمیں ان عقلمند کنواریوں کی طرح بننا چاہئے جو اپنے ساتھ کافی تیل لے کر گئی تھیں جو دولہا کے انتظار میں کھڑی رہیں یہاں تک کہ دولہا آیا اور وہ اس کے ساتھ قلعہ کے اندر داخل ہو گئیں.خلیفہ وقت پر تقدم جائز نہیں تقدم جائز نہیں میں اسی سلسلہ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری شریعت نے یہ حکم دیا ہے کہ تمہیں خدا کے رسول پر تقدم نہیں کرنا چاہئے اور یہ حکم محض خدا کے انبیاء سے مخصوص نہیں بلکہ جس طرح ایک رسول پر تقدم منع ہے اسی طرح اُس کے خلیفہ پر بھی تقدم منع ہے.پھر ایسا خلیفہ جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی پیشگوئیوں کے مطابق اسلام کی فتح کے لئے جرنیل مقرر کیا ہو اُس پر تقدم تو بہت ہی ناجائز بات ہے اور جماعت کا فرض ہے کہ وہ ہر معاملہ میں ڈر ڈر کر اور پھونک پھونک کر قدم رکھے.ایسا نہ ہو کہ وہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی کی مورد بن جائے.ہر قدم ہمارے لئے ایسا ہے کہ اس میں خدائی رہنمائی کی ضرورت ہے اور خدا کا میرے ساتھ یہ سلوک ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے فضل سے میری راہنمائی فرماتا ہے.بعض دفعہ الفاظ میں وہ مجھ پر وحی نازل

Page 226

خطابات شوری جلد سوم.۲۱۰ ت ۱۹۴۶ء کر دیتا ہے اور بعض دفعہ میرے قلب پر وہ اپنا فیصلہ نازل کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک میرے ساتھ اتنی کثرت اور اتنے تواتر سے ہوتا ہے کہ میں خود حیران رہ جاتا ہوں کہ میری زبان سے کیا نکل رہا ہے مگر ابھی چند دن نہیں گزرتے کہ جو کچھ میری زبان پر جاری ہوا ہوتا ہے وہ واقعات کی صورت میں دُنیا میں ظاہر ہونا شروع ہو جاتا ہے.بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ میں ایک بات کہتا ہوں اور خود مجھے اُس کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی مگر چند دنوں کے اندر اندر غیب سے اس کے لئے سامان پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں.کوئی افریقہ میں پیدا ہونے لگتا ہے، کوئی امریکہ میں پیدا ہونے لگتا ہے اور ان انقلابات کو دیکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ وہ الفاظ میرے نہیں تھے بلکہ خدا تعالیٰ کی وحی خفی سے میری زبان پر جاری ہوئے تھے.ان میں سے بعض ایسی باتیں ہوتی ہیں کہ کسی دوسرے کو اُن سے واقف نہیں کیا جا سکتا کیونکہ واقف ہونے سے اُس کی ساری قوت اور طاقت باطل ہو جاتی ہے.بہر حال ہمیں دُعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.میں نے کل اپنی تقریر میں جو باتیں بیان کی تھیں اُن کی طرف بھی میں ایک دفعہ پھر اپنی جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں بالخصوص اس امر کی طرف کہ جامعہ احمدیہ میں انہیں زیادہ سے زیادہ طلباء بھجوانے چاہئیں تا کہ ہم جلد سے جلد دُنیا میں اسلام کو پھیلا سکیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے ۲۵ سے ۵۰ تک ہر سال نئے لڑ کے جامعہ احمدیہ میں داخل ہونے چاہئیں اور پھر ضروری ہے کہ آہستہ آہستہ ہم اس تعداد کو سو تک پہنچا دیں تا ایک سو علماء سالانہ ہماری جماعت کو مہیا ہوتا رہے.یا اگر بعض نوجوان فیل ہو جائیں اور بعض پڑھائی چھوڑ دیں تب بھی ۷۰ ۸۰ علماء ہر سال ہماری جماعت کو ملنے لگ جائیں اور جلد سے جلد ہم دنیا کے تمام کونوں میں اپنے تبلیغی مشن پھیلا سکیں.اس وقت بعض جگہ آدمیوں کی کمی کی وجہ سے خطرناک حالات پیدا ہو چکے ہیں.افریقہ سے مبلغین کا مطالبہ ابھی ہمارے مبلغین کی طرف سے اطلاع آئی ہے کہ افریقہ کے ایک حبشی قبیلہ میں اسلام کی تائید میں ز بر دست رو چل رہی تھی اور وہ سارے کا سارا قبیلہ اس بات کے لئے تیار تھا کہ عیسائیت چھوڑ کر اسلام میں شامل ہو جائے.ان میں تبدیلی مذہب کے متعلق ایک ہیجان اور طوفان

Page 227

خطابات شوری جلد سوم ۲۱۱ ت ۱۹۴۶ء بپا تھا مگر اُس وقت وہاں ایک ہی مبلغ تھا جسے نیروبی کی جماعت کی اصلاح کے لئے بھیجنا پڑا.نتیجہ یہ ہوا کہ بعد میں مخالفین نے اُن کے دلوں میں ہمارے خلاف خطرناک جوش بھر دیا اور جب ہمارا آدمی واپس پہنچا تو اس نے دیکھا کہ بجائے اس کے کہ وہ لوگ اسلام قبول کرتے وہ اسلام کی عداوت اور دشمنی میں سخت ہو چکے تھے.ایسی روئیں ہمیشہ چلتی رہتی ہیں اور ان سے فائدہ اُٹھانا زندہ قوموں کے لئے ضروری ہوتا ہے مگر یہ فائدہ پوری طرح نہیں اُٹھایا جاسکتا جب تک مبلغین کی کثرت نہ ہو.اسی طرح بعض اور علاقے ہیں جہاں سے متواتر مانگ آ رہی ہے میں سمجھتا ہوں افریقہ میں ۱۳ ، ۱۴ علاقے ایسے ہیں جہاں کے رہنے والے ہم سے مبلغوں کا تقاضا کر رہے ہیں مگر ہمارے پاس مبلغ موجود نہیں.اور بعض تو چار چار پانچ پانچ سال سے آدمی مانگ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ہماری قوم اسلام لانے کے لئے تیار ہے آپ اپنے آدمی ہماری طرف بھجوائیں مگر ہم اُن کے مطالبہ کو پورا نہیں کر سکے.ایک رئیس نے تین چار سال تک ہم سے مبلغ کا مطالبہ کیا آخر اس نے لکھا کہ اگر میں اسی حالت میں مر گیا تو میرے دین کا کون ذمہ دار ہوگا ؟ ایک اور کے متعلق ہمارے مبلغوں نے لکھا ہے کہ وہ بار بار ہمیں خط لکھتا تھا مگر ہم اس کے پاس نہ پہنچ سکے.اب اطلاع ملی ہے کہ وہ مر گیا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ہی مجرم ہیں ورنہ وہ تو بار بار لکھ رہا تھا کہ بلغ بھیج مبلغ بھیجو یہ ہماری ہی غلطی ہے کہ ہم نے کوئی مبلغ نہ بھیجا اور وہ فوت ہو گیا.تجارتی کاموں میں تعاون چوتھے تجارتی کاموں میں تعاون نہایت ضروری چیز ہے.میں اس کے متعلق اپنی کل کی تقریر میں جماعت کو بہت کچھ نصیحت کر چکا ہوں اب پھر نصیحت کرتا ہوں کہ سلسلہ کی طرف سے جو کارخانے جاری ہیں جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ وہ ان کارخانوں کے بنے ہوئے مال کو دوسرے کارخانوں پر مقدم سمجھیں بلکہ مقدم کا ہی سوال نہیں میرے نزدیک ہر شخص جو احمدی کہلاتا ہے اُسے اپنے کارخانوں کی بنی ہوئی اشیاء کو خریدنا فرض سمجھنا چاہئے اور وہی چیز دوسروں سے خریدنی چاہئے جو سلسلہ کے کارخانوں سے نہ مل سکتی ہو.اب ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے اتنی ہے کہ اگر اس میں صحیح طور پر تعاون کی روح پیدا ہو جائے تو وہ ابتدائی نا کامیاں جو بالعموم کارخانوں میں ہوتی ہیں ان سے ہمارے کارخانے بالکل محفوظ

Page 228

خطابات شوری جلد سوم ۲۱۲ رت ۱۹۴۶ء ہو جائیں.میرے نزدیک ہر مقام کے احمدی تاجروں کو چاہئے کہ وہ اپنے کارخانوں سے مال منگوائیں اور یہ فیصلہ کر لیں کہ جو چیز ہماری جماعت کے کارخانوں میں تیار ہو رہی ہے وہ ہم دوسروں سے نہیں لیں گے.پانچویں چیز جس کی طرف ہماری جماعت کو خاص طور پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے وہ اسلام اور احمدیت کی اشاعت ہے میں بتا چکا ہوں کہ باوجود اس کے کہ میں نے ایک خطبہ کے ذریعہ جماعت کے تمام افراد سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ سال بھر میں کم از کم ایک شخص کو اسلامی انوار کا گرویدہ بنانے کا عہد کریں اب تک صرف ۷۸ جماعتوں کے۱۱۹۲.افراد نے اس سلسلے میں وعدے کئے ہیں.یہ تعداد اس قدر قلیل ہے کہ اسے دیکھتے ہوئے حیرت آتی ہے ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں تک پہنچ چکی ہے مگر اس عہد میں صرف ۱۱۹۲.افراد نے حصہ لیا ہے جو ثبوت ہے اِس بات کا کہ ابھی تک ہماری جماعت نے اس عہد کی اہمیت کو پوری طرح محسوس نہیں کیا.اب جبکہ نمائندگان جماعت یہاں سے فارغ ہو کر اپنی جماعت میں واپس جانے والے ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ واپس جا کر اپنی جماعت کے ہر فرد سے یہ عہد لیں.اگر ہماری جماعت کے کم از کم ایک لاکھ افراد ہی یہ عہد کر لیں اور ان میں سے آدھے بھی اپنی کوششوں میں کامیاب ہو جائیں تو پچاس ہزار سالانہ ہماری جماعت میں نئے لوگ داخل ہو سکتے ہیں اور یہ اتنی بڑی تعداد ہے کہ اگر اس نسبت سے ہر سال ہماری جماعت میں نئے لوگ داخل ہونے لگ جائیں تو چار پانچ سال میں ہی ہماری جماعت کو غیر معمولی ترقی حاصل ہو سکتی ہے.اس کے بعد جب وہ ہزاروں نئے داخل ہونے والے افراد بھی دوسروں کو باتیں بتائیں گے اور وہ افراد جو جماعت میں پہلے سے داخل ہیں وہ بھی اس عہد کو پورا کرتے چلے جائیں گے تو پھر ہزاروں کا بھی سوال نہیں رہے گا بلکہ ہماری جماعت میں نئے داخل ہونے والے افراد کی سالانہ تعداد لاکھوں اور کروڑوں تک پہنچ جائے گی.پس اس چیز کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے جماعت کے ہر فرد کو سال بھر میں کم از کم ایک شخص کو اسلامی انوار کا گرویدہ بنانے کا عہد کرنا چاہئے اور نمائندگان کو واپس جا کر اپنی جماعتوں سے یہ عہد لے کر مرکز میں اطلاع دینی چاہئے تا ہماری جماعت کا قدم غیر معمولی

Page 229

خطابات شوری جلد سوم ۲۱۳ رت ۱۹۴۶ء تیزی کے ساتھ بڑھنا شروع ہو جائے.چھٹے وقف زندگی کی تحریک ہے جس کی طرف میں نے بار ہا توجہ دلائی ہے.اس موقع پر میں پھر جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ ہمیں مولوی فاضلوں اور گریجوایٹوں کی فوری طور پر ضرورت ہے.جب جماعت کے نمائندے یہاں سے واپس جائیں تو وہ اپنی جماعتوں میں بار بار اس کا اعلان کریں.شاید کوئی مولوی فاضل ایسا چھپا ہوا موجود ہو جس نے زندگی وقف نہ کی ہو یا ممکن ہے بعض گریجوایٹ ایسے ہوں جنہوں نے ابھی تک اپنی زندگی وقف نہ کی ہو.گو بہت سے مولوی فاضل اور گریجوایٹ اپنی زندگیاں وقف کر چکے ہیں مگر پھر بھی ہو سکتا ہے کہ ابھی بعض لوگ رہتے ہوں اس لئے بار بار جماعتوں میں یہ اعلان کیا جائے کہ وقف زندگی کی تحریک میں سلسلہ کو مولوی فاضلوں اور نوجوانوں کی ضرورت ہے.جن نوجوانوں نے ابھی تک اپنے آپ کو وقف نہ کیا ہو وہ اب وقف کر کے سلسلہ کی ضرورت کو پورا کریں.ہمارے مبلغ جو باہر گئے ہوئے ہیں اُن میں سے یورپین ممالک میں 9 مختلف مقامات پر ہمارے مبلغ موجود ہیں.کسی ملک میں تین ہیں کسی میں چار اور کسی میں پانچ لیکن ابھی ۱۳ جگہیں خالی پڑی ہیں.اگر ہر جگہ دو مبلغ بھی بھجوائے جائیں تو فوری طور پر ہمیں ۲۶ گریجوایٹوں کی ضرورت ہے.۱۵.۲۰.ایسے گریجوایٹوں کی ضرورت ہے جو مرکزی دفاتر میں کام کر سکیں اور پھر ۲۶.ایسے مبلغ بھی ہونے چاہئیں جو ان مبلغوں کے قائم مقام بن سکیں تاکہ تین چار سال کے بعد جب ایک گروپ واپس آئے تو اُس کی جگہ دوسرے گروہ کو بھجوایا جا سکے.اگر سر دست قائم مقاموں کا سوال ترک بھی کر دیا جائے گو اس کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تب بھی ۴۶ گریجوایٹوں کی ہمیں فوری طور پر ضرورت ہے.۲۶ بیرونی ممالک کے لئے اور ۱۵.۲۰ مرکزی دفاتر کے لئے تا کہ آدمیوں کی کمی کی وجہ سے ہمارے محکموں کو کوئی نقصان نہ پہنچے.جماعت مرکزی دفاتر کے کاموں پر اعتراض تو کر دیا کرتی ہے مگر وہ سوچتی نہیں کہ ہمارے بعض ناظر اب اتنے ضعیف ہو چکے ہیں کہ کچھ عرصہ کے بعد انہیں ہاتھ سے پکڑ کر کرسی پر بٹھانا اور اُٹھانا پڑے گا اس لئے اُن سے اب کسی زیادہ کام کی توقع نہیں کی جاسکتی.وہ دماغی کام تو کر سکتے ہیں مگر دوڑ دھوپ والے کام نہیں کر سکتے.یہ کام نوجوان طبقہ سے وابستہ ہیں.انجمن نے اپنی غفلت سے

Page 230

خطابات شوری جلد سو ۲۱۴ ت ۱۹۴۶ء گزشتہ عرصہ میں نوجوانوں کو اپنے دفاتر میں بھرتی نہیں کیا جس کی سزا وہ اب بھگت رہی ہے لیکن بہر حال نوجوان اور سلسلہ کے خادم جماعت نے ہی مہیا کرنے ہیں، ناظروں میں یہ طاقت نہیں کہ وہ ایسے لوگ گھڑ کر تیار کر سکیں.پس ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں ۴۶ گریجوایٹ مل جائیں اور یا پھر ہمیں اُس وقت کا انتظار کرنا پڑے گا جب نئے مبلغ ہمارے ادارے تیار کر سکیں.تحریک جدید کا دفتر دوم تحریک جدید کے دفتر دوم کی طرف بھی میں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا.ہے کہ جماعتوں نے ابھی پوری توجہ نہیں کی.پچھلے سال دفتر دوم میں ۵۰ ہزار کے وعدے آئے تھے اور اس سال کے وعدے ستر ہزار کے قریب ہیں.کام کی تفصیلات جیسا کہ میں نے بار بار بیان کیا ہے اس بات کی متقاضی ہیں کہ تحریک جدید کے دفتر دوم کے وعدے بھی اڑھائی لاکھ تک پہنچ جائیں.جب تک اس حصہ کے وعدے بھی اڑھائی لاکھ تک نہ پہنچ جائیں، ہمارے کام صحیح طور پر چل نہیں سکتے اور ۷۰ ہزار سے تو کام کرنے کا خیال بھی نہیں کیا جا سکتا.پس ہر وہ شخص جس نے تحریک جدید کے دور اول میں حصہ نہیں لیا اُسے کوشش کرنی چاہئے کہ وہ دفتر دوم میں حصہ لے تا جب دور اول ختم ہو تو دور دوم کے مجاہد اس کی جگہ لینے کے لئے تیار ہوں.اگر دفتر دوم تیار نہ ہوا تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ ہم آسمان کی چوٹی پر پہنچ کر نیچے گریں گے اور ہم مجبور ہوں گے کہ بعض مشنوں کو بند کر دیں.گویا ہماری مثال بالکل ویسی ہی ہو گی جیسے ایک شخص تلوار لے کر لوگوں کو فنون دکھانے کے لئے سامنے آئے اور کہے آؤ اور میرے کمالات کو دیکھو مگر جب وہ اپنے فنون اور کمالات دکھانے لگے تو اچانک اُس کا پیر پھسل جائے وہ منہ کے بل زمین پر جا پڑے.اُس کا جسم اپنی تلوار سے زخمی ہو جائے اور لوگ اُسے چار پائی پر اُٹھا کر ہسپتال کی طرف لے جائیں.پس ساری جماعتوں کو زور لگا کر تحریک جدید کے دفتر دوم کے وعدوں کو بڑھانے اور اس میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شامل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.خصوصاً تحریک جدید کے سیکرٹریان کو میں اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ایک سال کے اندر اندر ایسی کوشش کریں کہ دفتر دوم کی آمد اڑھائی لاکھ سالانہ تک پہنچ جائے تا آج سے ساٹھ سال کے بعد

Page 231

خطابات شوری جلد سوم ۲۱۵ ت ۱۹۴۶ء جب دور اول ختم ہو تو اس وقت ایک مضبوط ریز روفنڈ بھی قائم ہو اور آئندہ دس گیارہ سال تک وہ اپنی آمد سے مشنوں کو بھی چلا سکے.بعض لوگ غلطی سے یہ خیال کرتے ہیں کہ ریز روفنڈ تو پہلے سے قائم ہے، یہ نیا ریز روفنڈ کیسا ہے.وہ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ ہم نے صرف موجودہ مشنوں کو ہی نہیں چلا نا بلکہ اپنے کاموں کو بڑھانا بھی ہے اور اس کے لئے بہت بڑے ریز روفنڈ کی ضرورت ہے.دفتر اول کاریز روفنڈ صرف اُن ملکوں میں تبلیغ پر خرچ کیا جائے گا جن ممالک میں اس وقت مشن قائم ہیں لیکن دفتر دوم کا ریز رو فنڈ اور ملکوں میں تبلیغ کرنے پر خرچ کیا جائے گا اسی طرح دفتر سوم کا ریز روفنڈ اور ممالک پر خرچ ہوگا.بعض لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ چونکہ ابھی دفتر دوم کے کام کرنے کا وقت نہیں اس لئے ہمیں اس کی طرف زیادہ توجہ کرنے کی ضرورت نہیں حالانکہ سوال یہ ہے کہ نئے دور کی جو ترقی ہوگی اس کے لئے ریز رو فنڈ بھی ضروری ہوگا اور ریز روفنڈ ا نہی آٹھ نو سالوں میں ہم نے جمع کرنا ہے.اگر ان سالوں میں کافی ریز رو فنڈ جمع نہ ہوا تو اس دور کا کام بہت ناقص رہے گا.جب دفتر دوم تمام کام سنبھال لے گا تو دفتر سوم کا اعلان کر دیا جائے گا اور اس کی آمد نو سال تک ریز روفنڈ کے طور پر جمع ہوتی رہے گی.اس طرح یہ سلسلہ انشاء اللہ وسیع تر ہوتا چلا جائے گا.اسی طرح بجٹ کی صحیح تشخیص اور چندوں کی باقاعدہ وصولی کی طرف بھی ہمیں خاص توجہ کی ضرورت ہے.میں نے بتایا ہے کہ ہمیں قریب زمانہ میں اپنے بجٹ کو ۲۵ لاکھ تک پہنچا دینا چاہئے اور یہ کوئی مشکل امر نہیں.دہلی کے متعلق ناظروں نے کہا ہے کہ وہاں سے تمیں ہزار روپیہ وصول ہو سکتا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں یہ اندازہ صحیح نہیں.میرے نزد یک اگر دہلی کی جماعت کی صحیح تشخیص کی جائے تو ساٹھ ہزار روپیہ چندہ وصول ہوسکتا ہے.اسی طرح لاہور کے متعلق وہاں کے امیر جماعت نے بتایا ہے کہ ہما را چندہ تمہیں ہزار روپیہ ہوتا ہے حالانکہ میرا اندازہ یہ ہے کہ اگر لاہور کے دوستوں کی آمد کی صحیح تشخیص کی جائے اور چندہ کی باقاعدہ وصولی کی جائے تو ایک لاکھ روپیہ سالا نہ صرف لاہور سے وصول ہوسکتا ہے ممکن ہے اس اندازہ میں تھوڑی بہت کمی بیشی ہو لیکن زیادہ کمی بیشی نہیں ہوسکتی.خدا تعالیٰ نے مجھے حساب کا ایک خاص ملکہ دیا ہے جس کی وجہ سے میں بہت جلد حساب کر لیتا ہوں.

Page 232

خطابات شوری جلد سوم ۲۱۶ رت ۱۹۴۶ء اُس لحاظ سے ممکن ہے ۱۵.۲۰ ہزار کا فرق ہو جائے مگر زیادہ فرق نہیں ہوسکتا.مثلاً ہوسکتا ہے کہ دہلی سے ساٹھ ہزار روپیہ وصول ہونے کی بجائے آٹھ دس ہزار روپیہ کم وصول ہو.اسی طرح لاہور کا چندہ اگر ایک لاکھ روپیہ تک نہ پہنچ سکے تو اسی ہزار تک آ جائے.بہر حال اس اندازہ میں زیادہ فرق نہیں ہوسکتا.اس لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ اگر سات آٹھ مرکزی شہروں کی آمد کو ہی بڑھایا جائے تو بجٹ میں دو تین لاکھ روپیہ سالانہ کی زیادتی ہو سکتی ہے پس میں نظارت بیت المال کو ہدایت کرتا ہوں کہ چندہ کی صحیح تشخیص کی جائے اور پھر اُس کی وصولی کی بھی پر زور کوشش کی جائے.پہلے مرکز کی جماعت کے چندہ کی صحیح تشخیص کی جائے اور پورا چندہ وصول کیا جائے.اس کے بعد لاہور کے چندہ کی صحیح تشخیص کی جائے ، دہلی کے چندہ کی صحیح تشخیص کی جائے ، کلکتہ کے چندہ کی صحیح تشخیص کی جائے ، پشاور کے چندہ کی صحیح تشخیص کی جائے ، اسی طرح بعض اور مرکزی شہروں کے چندہ کی صحیح تشخیص کی جائے جیسے حیدر آباد وغیرہ ہے.اگر صرف ان پانچ سات شہروں کے چندہ کی صحیح تشخیص کی جائے تو دو تین لاکھ روپیہ سالانہ کی زیادتی ہماری آمد میں ہوسکتی ہے.اس کے بعد اگر باقی جماعتوں کے چندہ کو بھی مدنظر رکھا جائے اور ان کی آمد کی بھی صحیح تشخیص کی جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ ہماری موجودہ جماعت ہی پانچ چھ لاکھ روپیہ سالانہ اور چندہ دے سکتی ہے اور پھر جماعت کی وسعت کے ساتھ اس چندہ میں بھی روز بروز اضافہ ہوسکتا ہے.سر دست اگر چار پانچ لاکھ روپیہ کی ہی زیادتی ہو جائے تو دیہاتی معلّم بجائے پچاس ساٹھ رکھنے کے ہم دو تین سو رکھ سکتے ہیں اور چونکہ دیہاتی معلمین کے ذریعہ بھی جماعت کی توسیع ہوگی اس لئے ہماری آمد خدا تعالیٰ کے فضل سے موجودہ زمانہ سے بہت بڑھ جائے گی.مرکز سے تعلق کی اہمیت میں آخر میں جماعت کو پھر اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ دنیا پر جو نازک دور آ رہا ہے اُس کے لحاظ سے ہماری جماعت کے دوستوں کو مرکز میں آنے کی رفتار بہت تیز کر دینی چاہئے.مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دوستوں کی یہاں آنے کی رفتار بہت کم ہے اتنی کم کہ وہ نہ ہونے کے برابر ہے.لوگ اپنے اوقات اِدھر اُدھر گزارنا زیادہ پسند کرتے ہیں مگر مرکز میں آنے کی اہمیت کو وہ محسوس نہیں کرتے حالانکہ دُنیا میں آئندہ جو کچھ ہونے والا ہے اُس کے لحاظ سے

Page 233

خطابات شوری جلد سوم ۲۱۷ مشاورت ۱۹۴۶ء ہماری جماعت کا مرکز سے ایسا ہی تعلق ہونا چاہئے جیسے ایک جانور رسہ سے بندھا ہوا ہوتا ہے یا جیسے ایک گھوڑا کیلے سے بندھا ہوا ہو تو جب وہ دور جاتا ہے رستہ اس کے گلے میں پھنسنے لگتا ہے اور وہ پھر اپنے کیلے کی طرف آنے پر مجبور ہوتا ہے.یہی حال ہراحمدی کا ہونا چاہئے اور اُسے بار بار مرکز میں آنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ جو اہم تغیرات دُنیا میں ہونے والے ہیں ان کا تقاضا ہے کہ جماعت زیادہ سے زیادہ اخلاص میں اور قربانی میں اور ایثار میں مضبوط ہو.ایسا نہ ہوا تو وقت پر بہت لوگ کچے دھاگے ثابت ہوں گے اور سلسلہ کو تقویت پہنچانے کی بجائے دوسروں کو گرانے اور ان کے قدم کو بھی متزلزل کرنے کا موجب ہوں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب مکہ فتح کیا تو نومسلموں میں سے بعض رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! اب جو طائف والوں سے جنگ ہونے والی ہے اس میں ہمیں بھی شامل ہونے کا موقع عنایت فرمائیں.پرانے صحابہ اپنے متعلق یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے بہادر ہیں حالانکہ جب آپ سے لڑائی تھی اُس وقت خدا ہمارے سامنے تھا اور ہم خدا تعالیٰ کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے.پس اگر ہم آپ کے مقابلہ میں بھاگے تو ہم کسی انسان کے ڈر سے نہیں بھاگے بلکہ خدا تعالیٰ کی طاقت کو دیکھ کر بھاگے اس لئے ہماری بہادری کا گزشتہ لڑائیوں پر قیاس نہیں کیا جا سکتا، ہماری جرأت اور ہماری بہادری کا آپ اُس جنگ سے قیاس کر سکیں گے جو ثقیف اور ہوازن والوں سے ہونے والی ہے اس لئے آپ ہمیں بھی شامل ہونے کی اجازت عطا فرمائیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بہت اچھا اجازت ہے دس ہزار مسلمانوں کا اور دو ہزار نو مسلموں کا لشکر تھا جو دشمن کے مقابلہ کے لئے روانہ ہوا.طائف کے قبائل بہت ہوشیار تھے چونکہ اسلامی لشکر نے تنگ راستوں میں سے گزرنا تھا اس لئے اُنہوں نے پانچ سو تیر انداز ایک طرف اور پانچ سو تیرانداز دوسری طرف کھڑے کر دیئے اُن کا اپنا لشکر کل چار ہزار کا تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ ہم اتنے تھوڑےلشکر سے مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے.اُنہوں نے اس کا علاج یہ سوچا کہ اپنے تیرانداز راستہ کے دونوں طرف کھڑے کر دیئے تا کہ راستہ میں ہی وہ اسلامی لشکر پر تیروں کی بوچھاڑ کر دیں

Page 234

خطابات شوری جلد سوم ۲۱۸ ت ۱۹۴۶ء اور اُسے آگے بڑھنے سے روک دیں.جب فوج اس تنگ درّہ میں پہنچتی تو ایک ہزار تیراندازوں نے اونچی جگہ سے تیروں کی بوچھاڑ شروع کر دی.جب ایک ہزار تیر متواتر گرنا شروع ہوا اور کچھ آدمیوں کو ، کچھ گھوڑوں کو اور کچھ اونٹوں کو لگے تو وہ ٹومسلم جوا کرتے ہوئے اسلامی لشکر کے آگے آگے جا رہے تھے اُنہوں نے بھاگنا شروع کر دیا.مسلمان جو پیچھے چلے آرہے تھے وہ بھی اپنی حفاظت نہ کر سکے اور نتیجہ یہ ہوا کہ بارہ ہزار کا بارہ ہزار لشکر میدان چھوڑ کر بھاگ گیا، صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے رگر د۱۲ آدمی رہ گئے.تب ابوسفیان بن الحارث آگے بڑھے اور اُنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھوڑے کی باگ پکڑ کر کہا یا رسول اللہ ! آپ کیا کرتے ہیں، اس وقت واپس لوٹیے ، ہم لشکر اسلامی کو اپنے ساتھ لے کر کفار پر پھر حملہ کریں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میرے گھوڑے کی باگ چھوڑ دو.پھر آپ نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور دشمن کی طرف یہ کہتے ہوئے بڑھنا شروع کر دیا کہ:.أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِب.أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ میں جھوٹا نہیں کہ میدان چھوڑ دوں.میں نبی ہوں پیچھے نہیں ہٹ سکتا.اُس وقت صحابہ کے دل تم سمجھ سکتے ہو کہ کس طرح اچھل رہے اور دھڑک رہے ہوں گے مگر ان کے لئے سوائے اس کے کیا چارہ تھا کہ آگے سے ہٹ جائیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارادہ میں حائل نہ ہوں.اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس سے کہا کہ ادھر آؤ اور اونچی آواز سے مسلمانوں کو آواز دو.چونکہ یہ شکست مکہ والوں کی بیوقوفی سے ہوئی تھی اس لئے مکہ والوں کے فعل پر ناراضگی کا اظہار کرنے کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ عباس! بلند آواز سے کہو کہ اے انصار! خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے.اُس وقت مہاجرین کا نام آپ نے نہیں لیا کیونکہ مہاجرین مکہ والوں کے رشتہ دار تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ والوں پر اپنی ناراضگی کا اظہار فرمانا چاہتے تھے.ایک انصاری کہتے ہیں اُس وقت ہماری حالت یہ تھی کہ ہم اپنے گھوڑوں کو پیچھے کو ٹاتے اور پورے زور سے اُن کی باگیں کھینچتے تھے یہاں تک کہ ہمارے ہاتھ زخمی ہو جاتے اور جانوروں کی گردن اُن کی پیٹھ سے جالگتی تھی مگر جب لگام ذرا ڈھیلی ہوتی

Page 235

خطابات شوری جلد سوم ۲۱۹ رت ۱۹۴۶ء اور ہم انہیں ایڈی مار کر پیچھے کی طرف واپس لانا چاہتے تو وہ پھر آگے کو بھاگ پڑتے.جب اس حالت میں ہمارے کانوں میں یہ آواز آئی کہ اے انصار ! خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے تو اس وقت ہمیں یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ عباس کی آواز بلند ہو رہی ہے بلکہ ہمیں یوں معلوم ہوتا تھا جیسے سب لوگ مر چکے ہیں قیامت کا دن ہے اور اسرافیل کی آواز لوگوں کے کانوں میں آرہی ہے.ہم نے ایک دفعہ پھر اپنے اونٹوں اور گھوڑوں کو واپس لوٹانے کے لئے اپنا پورا زور صرف کیا جو سواریاں مُڑ گئیں مُڑ گئیں اور جو نہ مریں ان میں سے بعض کے سوار گود پڑے اور پیدل دوڑتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے اور بعض نے اپنی میانوں میں سے تلواریں نکال کر سواریوں کی گردنیں کاٹ دیں اور خود لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ لَبَّیک کہتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف دوڑ پڑ.و ہر شخص قربانی کا عزم صمیم کرے اس واقعہ پر غور کرو اور دیکھو کہ کس طرح کمزور صمیم لوگ طاقتوروں کو بھی گھبراہٹ میں مبتلا کر دینے کا موجب بن جاتے ہیں.پس یہ دن ایسے نہیں ہیں کہ ہمارے اندر کوئی کمزور طبقہ ہو کیونکہ اگر کمزور طبقہ ہم میں موجود ہوا تو وہ بہادروں کو بھی گر ا دینے کا موجب بن جائے گا.آج ہمیں ہر شخص کا دل مضبوط کرنا چاہئے ، آج ہر شخص کو عزم صمیم کرنا چاہئے کہ وہ اسلام کی عظمت اور اس کے احیاء کے لئے ہر قسم کی قربانی پیش کرنے کے لئے تیار رہے گا.اگر ہم میں سے ہر شخص یہ ارادہ لے کر کھڑا ہو جائے تو جب وہ دن آئے گا جس میں خدا تعالیٰ کے لئے اپنی جانیں اور اپنے اموال قربان کرنا پڑیں گے، جب اسلام کی عظمت اور اُس کی شوکت کے قیام کے لئے مسلمانوں سے اُن کی جان کا مطالبہ کیا جائے گا، جب ایک طرف مَلَكُ الْمَوْت اُن کو بلا رہا ہوگا اور ایک طرف اسلام کی شوکت کا خوش نما منظر ان کو نظر آ رہا ہو گا ، تو اُس وقت جس کی قسمت میں ہو گا وہ اسلام کی شوکت دیکھ کر مرے گا اور جس کی قسمت میں شہادت مقدر ہو گی وہ شہادت حاصل کر کے اپنے رب کی گود میں چلا جائے گا اور یہ دونوں معمولی انسان نہیں ہوں گے فاتح بھی بابرکت ہوگا کیونکہ اس نے خدا تعالیٰ کے نشان کو دیکھا اور مفتوح بھی بابرکت ہوگا کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے شہید کبھی مرتا نہیں.

Page 236

خطابات شوری جلد سوم ورت ۱۹۴۶ء پس اُس دن کے آنے سے پہلے ہمیں اس کے لئے تیاری کرنی چاہئے اور تیاری کا بہترین ذریعہ یہی ہے کہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں مرکز کے قریب سمٹتے چلے آنا چاہئے.جب بادل گرجتے ہیں، جب بجلیاں کوندتی ہیں، جب آسمان سے بڑے زور سے بارش برستی ہے تو بچے اپنی ماں کے ارد گرد جمع ہو جاتے ہیں.جب شور کی آواز پیدا ہوتی ہے، جب چور چکار کی آواز میں لوگوں میں بلند ہونی شروع ہوتی ہیں، جب ڈا کہ کے متعلق مختلف قسم کی افواہیں لوگوں میں پھیلنے لگتی ہیں تو بچے اپنے باپ کے پاس جمع ہو جاتے ہیں.جب کسی گاؤں والوں کو کوئی خطرہ درپیش ہوتا ہے تو وہ دارہ میں نمبر دار یا سردار کے پاس جمع ہو جاتے ہیں تا کہ وہ اپنے اشتراک سے آنے والی بلا کو دور کر سکیں.جب قوموں پر بلائیں آتی ہیں تو ان کی نگاہیں حکومت اور فوج کی طرف اُٹھنے لگتی ہیں.ہمارے ملک میں بھی چونکہ فتنہ و فساد اور جنگ و جدل کا زمانہ قریب سے قریب تر آ رہا ہے.اس لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ ہماری جماعت زیادہ سے زیادہ تعداد میں مرکز کے قریب جمع ہو اور اُس روح کو اپنے اندر پیدا کرے جو روح کامیابی اور فتح کے قریب کرتی اور ناکامی کے خطرہ کو دور کر دیتی ہے.ان نصائح کے بعد میں جماعت کو رخصت کرتا ہوں.رات کو میری طبیعت سخت خراب رہی ہے اور اب بھی سر درد کی دوائی کھا کر میں تقریر کرنے کے قابل ہو ا ہوں.اب میں دعا کر دوں گا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فرائض کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور وہ برکتیں جو ہمیں معلوم ہیں یا معلوم نہیں اپنے فضل سے عطا کرے اور وہ بلائیں اور مصائب جو نظر آ رہی ہیں اور اسی طرح وہ بلائیں اور آفات جو نظر نہیں آرہیں اللہ تعالیٰ ان سب کو دور کرے اور ہمیں صحیح طور پر قربانیوں کی توفیق عطا فرمائے تا اگر اُس کی طرف سے کوئی خیر نہ پہنچے تو اس خیر کا نہ پہنچنا ہماری کو تا ہی عمل کی وجہ سے نہ ہو.اور یہ قیاس بھی نہیں کیا جا سکتا کہ قیامت کے دن خدا تعالیٰ کا ایک کمزور ترین بندہ اُسے یہ کہہ سکے کہ اے خدا! میرے پاس جو کچھ تھا وہ تو میں نے تجھے دے دیا تھا مگر چونکہ تیری طرف سے رحمت کا نزول نہ رہا اس لئے میں ہار گیا.یقیناً خدا تعالیٰ اس کو برداشت نہیں کر سکتا.اگر اس کے کمزور بندے اپنا سب کچھ دین کی خدمت کے لئے دے دیں گے تو خدا بھی اپنی ساری مخلوق ان کی خدمت کے لئے لگا دے گا.

Page 237

خطابات شوری جلد سوم ۲۲۱ رت ۱۹۴۶ء جامعہ احمدیہ کے متعلق چوہدری ظفر اللہ خان جامعہ احمدیہ کے بارہ میں ہدایات صاحب نے مجھے ایک چٹھی لکھی ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے بعض احباب سے اس امر کا ذکر کیا تھا کہ وہ اپنے بچوں کو جامعہ احمدیہ میں داخل کرائیں.میری اس تحریک پر وہ آمادہ تو ہو گئے ہیں مگر وہ اس امر کا خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ جامعہ احمدیہ میں مروجہ علوم کی تعلیم کا خاطر خواہ انتظام نہیں اور نہ طلباء میں وسعتِ نظر پیدا کی جاتی ہے.اسی طرح یہاں صفائی کو بھی پوری طرح ملحوظ نہیں رکھا جاتا.اگر اس کا ازالہ کر دیا جائے تو لوگ بغیر کسی فکر کے اپنے بچوں کو جامعہ احمد یہ میں داخل کرنے لگ جائیں گے.میرے نزدیک یہ امور ایسے ہیں جو صدر انجمن احمد یہ کو اپنے مدنظر رکھنے چاہئیں.جامعہ احمدیہ کا کورس ہمیں بہر حال قریب ترین عرصہ میں ایسا ہی رکھنا پڑے گا جس کے نتیجہ میں طلبہ کو تبلیغ کے کام پر لگایا جا سکے.دنیوی علوم اور ذرائع سے بھی حاصل کئے جا سکتے ہیں جیسے مولوی فاضل پاس کرنے کے بعد پرائیویٹ طور پر انگریزی کے امتحانات انسان دے سکتا ہے.اسی طرح صفائی کی طرف بھی صدر انجمن احمدیہ کو توجہ کرنی چاہئے.جہاں تک مجھے یاد ہے اس بارہ میں ایک تفصیلی سکیم جو میرے سامنے پیش کی گئی تھی میں نے دفتر میں اسی ہدایت کے ساتھ واپس کر دی تھی کہ اسے کسی دوسرے وقت میرے سامنے پیش کر کے ہدایات حاصل کی جائیں مگر پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو ابھی فرصت ہی نہیں ملی کہ وہ اس سکیم کو میرے سامنے پیش کریں.بہر حال انجمن کو ان باتوں کی طرف توجہ کرنی چاہئے.صفائی اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس کا انسانی صحت پر نہایت گہرا اثر پڑتا ہے.میں نے بار ہا اپنے خطبات میں اس طرف توجہ بھی دلائی ہے مگر میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ گو میں صفائی کو ضروری سمجھتا ہوں مگر میں اسے کوئی ایسی اہم روک نہیں سمجھ سکتا جس کی بناء پر لوگ اپنے بچوں کو یہاں بھجوانے سے رُک سکیں.ہم خواہ کس قدر بھی صفائی کریں پھر بھی جس قدر یورپ کے لوگ صفائی رکھتے ہیں ہم یہاں نہیں رکھ سکتے اور اگر اس رنگ کی صفائی میں مشغول ہو جائیں تو دین کا کام نہیں ہوسکتا.وہ لوگ جو دن رات انہی کاموں میں لگے رہتے ہیں وہ اپنے آپ کو خواہ مہذب سمجھتے ہوں

Page 238

خطابات شوری جلد سوم ۲۲۲ ت ۱۹۴۶ء ہم تو انہیں دین کا غدار ہی سمجھتے ہیں.انہی خیالات کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ بڑھتے بڑھتے داڑھیوں کا صفایا شروع کر دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ داڑھی رکھنا بڑی گندی چیز ہے، چہرے کو صاف رکھنا چاہئے.اسی طرح بُوٹ کی پالش ہے انگریزوں کے نزدیک جس کے بوٹ میلے ہوں وہ اس کو غیر مہذب سمجھتے ہیں لیکن میرے بوٹ ہمیشہ میلے رہتے ہیں لوگ بعض دفعہ خود ہی اٹھا کر لے جاتے ہیں اور ثواب حاصل کرنے کے لئے پالش کر دیتے ہیں لیکن پھر بھی جس حد تک صفائی رکھنا انسانی صحت کے لئے ضروری ہے اُس حد تک صفائی ضرور رکھنی چاہئے.اب تو یہ حالت ہے کہ بعض دفعہ رستوں میں پاخانہ پڑا ہوا ہوتا ہے.لوگ مرغے ذبح کرتے ہیں تو اُن کی انتڑیاں اور پر وغیرہ سڑکوں پر بکھیر دیتے ہیں.یہ چیز ایسی ہے جس سے طبائع میں انقباض پیدا ہوتا ہے اور صحت کے لئے بھی مُصر ہے.میں نے خود بعض دفعہ دیکھا ہے کہ مرغی ذبح کرنے والے نے مرغی ذبح کی تو اُس کی انتڑیاں وغیرہ اُسی جگہ پھینک دیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کہیں کوے ان انتڑیوں کو اٹھائے پھرتے ہیں کہیں پر پکھرے ہوئے ہوتے ہیں، کہیں خون پڑا ہوا ہوتا ہے اور یہ نظارہ دیکھ کر طبیعت پر بہت بوجھ محسوس ہوتا ہے.نظافت کی جس جو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں رکھی ہے اس کی غرض یہی ہے کہ ایسے امور کا سدِ باب کیا جائے.اسی طرح بعض اور بھی شکایتیں ہیں جو میرے پاس وقتاً فوقتاً آتی رہتی ہیں مثلاً ایک شکایت ان متفرق طالب علموں کے متعلق ہے جو یہاں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آتے ہیں مگر اُن کی طرف پوری توجہ نہیں کی جاتی.صدر انجمن احمدیہ کو ایک ایسا محکمہ بنانا چاہئے جوان متفرق طالب علموں کی ضرورتوں کو پورا کر سکے.یہ لڑ کے دس دس پندرہ پندرہ دن کے لئے یہاں آتے ہیں کوئی کہتا ہے مجھے پہلا پارہ پڑھا دیا جائے ، کوئی کہتا ہے مجھے آخری پارے کا ترجمہ نہیں آتا، کوئی اردو سیکھنا چاہتا ہے، کوئی عربی پڑھنا چاہتا ہے، اور چونکہ ان کی الگ الگ ضروریات ہوتی ہیں ان کی طرف پوری توجہ نہیں کی جاسکتی.میرے نزدیک صدر انجمن احمد یہ کو ایسی ضرورتوں کے لئے جماعت میں سے والٹیئر ز طلب کرنے چاہئیں جو ترجمہ پڑھا سکتے ہوں وہ ترجمہ پڑھا دیں.جو حدیثیں جانتے ہوں وہ حدیثیں سکھا دیں اور ، جو اسلامی مسائل سے واقفیت رکھتے ہوں وہ اُنہیں مسائل سے آگاہ کر دیا کریں.

Page 239

۲۲۳ رت ۱۹۴۶ء خطابات شوری جلد سوم اسی طرح مرکز میں علماء کا بڑھانا بھی ضروری ہے.تحریک جدید کے ماتحت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے نوجوان تیار ہو رہے ہیں.جب یہ لوگ تیار ہو جائیں گے تو ان کو مساجد میں ایک ایک گھنٹہ درس دینے کے لئے مقرر کر دیا جائے گا اور پھر ان کے ذریعے اور لوگ بھی تیار ہو سکتے ہیں مگر جب تک یہ لوگ تعلیم حاصل کر کے نہ آئیں اُس وقت تک ایسی ضروریات کو طوعی تحریک کے ذریعے پورا کرنا چاہئے اور جیسے اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے دوستوں سے وقت مانگا جاتا ہے اسی طرح تعلیم کے لئے بھی دوستوں سے وقت مانگنا چاہئے.اگر پندرہ ہیں ایسے لوگ نکل آئیں تو بعض کو فقہ پڑھانے پر، بعض کو قرآن پڑھانے پر اور بعض کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھانے پر مقرر کیا جا سکتا ہے.پس یہ ایک ضروری امر ہے جس کی طرف صدرانجمن احمدیہ کو توجہ کرنی چاہئے.اب میں دعا کر دیتا ہوں.سب دوست میرے ساتھ مل کر دعا کریں.“ الفضل ربوہ مورخه ۱۰،۳، ۲۴،۱۷ را پریل ۱۹۶۲ء) ا النساء : ۵۹ الشورى : ٣٩ ال عمران : ۱۶۰ ترمذی ابواب الصلواة باب مَا جَاءَ فِي مَنْ أَمَّ قَوماً وَهُمْ لَهُ كَرِهُوْنَ الفاتحة : ٦ که متنی باب ۲۵ آیت ۱ تا ۱۳ الفاتحة : ٧،٦ بخاری کتاب المغازی باب قول الله تعالى و يوم حنين اذا أعجبتكم كثرتكم السيرة النبوية لابن هشام جلد ۴ صفحہ ۷ ۸ مطبوعہ ۱۹۳۶ء

Page 240

Page 241

خطابات شوری جلد سو ۲۲۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء ( منعقده ۴ تا ۶ را پریل ۱۹۴۷ء ) پہلا دن جماعت احمدیہ کی ستائیسویں مجلس مشاورت ۴ تا ۶ / اپریل ۱۹۴۷ء تعلیم الاسلام کالج قادیان کے وسیع ہال میں منعقد ہوئی.کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو محترم حافظ صوفی غلام محمد صاحب نے کی.اس کے بعد حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے افتتاحی تقریر سے قبل دُعا سے متعلق فرمایا: آج ہم جس اہم کام کے لئے جمع ہوئے ہیں اُس کام کی اہمیت اور سلسلہ کی دعا مشکلات اور ضرورتوں کو دیکھتے ہوئے ہماری ذمہ داریاں ہم سے تقاضا کرتی ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ سے خصوصیت کے ساتھ یہ دُعا کریں کہ وہ ہماری صحیح راہنمائی فرمائے اور ہمیں ایسے طریق پر چلنے کی توفیق بخشے جس سے اُس کی رضا اور خوشنودی ہمیں حاصل ہو اور وہ مشکلات جو ہمارے رستہ میں حائل ہوں یا جن مشکلات میں سے گزرنا ہمارے لئے ضروری ہو اللہ تعالیٰ اُن تمام مشکلات کو اپنے فضل اور رحم کے ساتھ دُور فرماتے ہوئے ایسے سامان مہیا کرے کہ ہماری مشکلات ہماری کامیابیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوں اور ہمارا قدم ہمیشہ ترقیات کی طرف بڑھتا چلا جائے.ہم کوئی ایسا کام نہ کریں جو اُسکے منشاء کے خلاف ہواور کوئی ایسا کام نہ چھوڑیں جو اُسکی رضا کے حاصل کرنے کیلئے ضروری ہو.پس سب دوست میرے ساتھ مل کر دعا کر لیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری صحیح راہنمائی فرمائے.نہایت ہی نازک ایام ہیں جو آجکل دنیا پر آرہے ہیں اور ایک انتہائی نازک دور ہے جس میں سے ہم گزر رہے ہیں سوائے خدا کی مدد اور اسکی نصرت کے اور کوئی صورت ہمیں ان مشکلات پر غالب آنے کی

Page 242

خطابات شوری جلد سوم ۲۲۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء 66 نظر نہیں آتی.“ ان مختصر کلمات کے بعد حضور نے نمائندگان، مہمانان اور زائرین سمیت لمبی دُعا کروائی.تشهد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل افتتاحی تقریه افتتاحی تقریرفرمائی.ہمارا نصب العین اور ترقی " آج ہم یہاں اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ ہم اپنی قربانیوں اور اپنے گزشتہ اعمال اور کردار کا جائزہ لیتے ہوئے اس امر پر غور کریں کہ ہم نے اُن ذمہ داریوں کو کہاں تک ادا کیا ہے جو اشاعتِ اسلام اور اشاعتِ احمدیت کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہم پر عائد کی گئی ہیں.ہم یہاں رسماً اکٹھے نہیں ہوئے کسی کھیل اور تماشہ کے لئے اکٹھے نہیں ہوئے محض اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے لئے اکٹھے نہیں ہوئے.بلکہ ہم اس لئے اکٹھے ہوئے ہیں کہ زمین و آسمان کے خدا نے ہم پر ایک فرض عائد کیا ہے اور ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ آیا ہم نے اُس فرض کے ادا کرنے میں کسی کوتاہی یا سہل انگاری سے تو کام نہیں لیا ہمارے سلسلہ کو قائم ہوئے ایک لمبا عرصہ گزر چکا ہے.اتنا لمبا عرصہ کہ اس میں ایک بچہ بھی جوان ہو کر صاحب اولاد ہو جاتا ہے بلکہ وہ پوتوں اور پڑپوتوں والا بن جاتا ہے.پس ہمیں غور کرنا چاہیے کہ اس عرصہ میں ہم نے کتنی ترقی کی ہے اور پھر ہمیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ کیا ہماری ترقی ہمارے نصب العین کے مطابق ہے یا نہیں؟ دنیا میں ہر ذی حیات چیز حرکت تو ضرور کرتی ہے لیکن دیکھنے والی بات یہ ہوتی ہے کہ کیا اُس کی حرکت اُس کے نصب العین کے مطابق ہے یا نہیں.ایک بڑھا گھوڑا بھی اگر اُسے تھان سے چھوڑ دیا جائے تو کچھ نہ کچھ حرکت ضرور کرے گا.لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ گھوڑا ابھی کام کرنے کے قابل ہے جب گھوڑا اپنے اس مقصد کے مطابق دوڑتا ہو جس مقصد کے لئے کوئی گھوڑا رکھا جاتا ہے تب ہم کہیں گے کہ وہ ایک اچھا گھوڑا ہے.ورنہ ایک مریل گھوڑا بھی کچھ نہ کچھ دوڑ لیتا ہے.ایک ٹوٹی پھوٹی موٹر.ایک ٹوٹا پھوٹا انجن بھی اگر اُسے چلایا جائے تو کچھ نہ کچھ چل سکتا ہے.مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ جس غرض کے لئے وہ موٹر خریدی گئی تھی اُسے وہ پورا کر رہی ہے یا جس مقصد کے لئے ایک انجن خریدا گیا تھا اُسے وہ پورا کر رہا ہے.بیمار بچے بھی آخر کچھ نہ کچھ

Page 243

۲۲۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء خطابات شوری جلد سوم قد میں ترقی کر لیتے ہیں.بیمار درخت بھی کچھ نہ کچھ پھل پیدا کر دیتے ہیں.بیمار کھیتیاں بھی کچھ نہ کچھ غلہ اگا دیتی ہیں.کتنی ہی رڈی کھیتی کیوں نہ ہو اُس میں سے کچھ نہ کچھ گیہوں نکل آئے گا.کچھ نہ کچھ کپاس نکل آئے گی.کچھ نہ کچھ گنے نکل آئیں گے.مگر اُس گیہوں یا اُس کپاس یا اُن گنوں کو دیکھ کر ہم یہ تسلی نہیں پاسکیں گے کہ ہماری گندم اچھی ہے یا ہماری کپاس اچھی ہے یا ہمارا گنا اچھا ہے.یا ہمارا بچہ اچھا ہے.جب تک ان چیزوں کا نشو ونما اُس قانون قدرت کے مطابق نہیں ہوتا.جو خدا تعالیٰ نے اُن کے متعلق دنیا میں جاری کیا ہے اُس وقت تک ہم انہیں تندرست نہیں کہہ سکتے اور نہ اُن کے نشو ونما کو حقیقی نشو و نما کہہ سکتے ہیں.اسی طرح ہماری جماعت کے لئے خدا تعالیٰ نے ایک نصب العین مقرر کیا ہے اور ہمارے ذمہ اس نے کچھ فرائض عائد کئے ہیں ہمیں دیکھنا چاہیے کہ آیا اپنے فرائض کے مطابق ہم نے ترقی کر لی ہے یا وہ نصب العین جس کے حصول کے لئے ہم کھڑے ہوئے تھے اُس نصب العین کے لئے جس قدر جد و جہد کی ضرورت تھی وہ ہم نے سرانجام دے دی ہے یا جو فرائض اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے ذمہ عائد کئے گئے تھے وہ فرائض ہم نے پورے کر لئے ہیں یا کم سے کم اس جماعت میں داخل ہوتے وقت ہم نے جو وعدے کئے تھے اُن وعدوں کا پاس کرتے ہوئے ہم نے وہ قربانیاں پیش کر دی ہیں جن قربانیوں کے بغیر وہ وعدے پورے نہیں ہو سکتے.اگر خدا اور اس کے رسول کے مقرر کردہ معیار کے مطابق ابھی تک ہماری نگاہ بلند نہیں ہوئی، اگر خدا اور اُس کے رسول کے مقرر کردہ معیار کے مطابق ابھی ہم نے قربانیاں نہیں کیں، اگر خدا اور اُس کے رسول کے مقرر کردہ معیار کے مطابق ہم نے اشاعت اسلام اور اشاعت احمدیت کے لئے جد و جہد نہیں کی تو کم سے کم اس جماعت میں داخل ہوتے وقت جو ہمارے اپنے ولولے اور اپنے ارادے تھے ہمیں غور کرنا چاہیے کہ کیا اُن ولولوں اور اُن عزائم کے مطابق ہم نے اپنا قدم ترقی کے میدان میں بڑھا لیا ہے؟ بیعت کے وقت کی کیفیت ہر بیعت کرنے والا جس دن بیعت کرتا ہے اگر وہ منافق نہیں ہوتا تو خواہ وہ ایمان کے لحاظ سے کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو اُس کے دل میں نئے سے نئے ولولے پیدا ہونے لگ جاتے ہیں.اُس کے

Page 244

خطابات شوری جلد سو ۲۲۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء دل میں گدگدیاں سی ہونے لگتی ہیں اور وہ اپنے آپ کو ایک نئے عالم میں محسوس کرتا ہے.جب وہ ایک مُردہ حالت سے نکل کر زندگی کے میدان میں اپنا قدم رکھتا ہے جب وہ ایک ذہنی موت سے چھٹکارا پاتے ہوئے روحانی حیات کا مزہ چکھتا ہے جب اُس کا قلب نمایاں طور پر محسوس کرتا ہے کہ مجھے خدا نے ہلاکت سے نکال کر نجات کی طرف لے جانے کا فیصلہ کیا ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ خدا نے مجھے اُس دنیا کو نجات دینے والے لوگوں میں ایک ناجی کی صورت میں کھڑا کر دیا ہے تو خواہ وہ کتنا ہی کمزور ہو، کتنا ہی جاہل ہو، کتنا ہی اُمنگوں سے عاری ہو کچھ نہ کچھ گد گدیاں اُس کے دل میں ضرور پیدا ہوتی ہیں.کچھ نہ کچھ اُمنگیں اُس کے قلب میں ضرور موجزن ہوتی ہیں اور اُس کی آنکھیں ڈور فضا میں اپنی چہت کے مطابق ایک نصب العین دیکھتی ہیں اور وہ خوش ہو کر کہتا ہے آج میں بھی ایک جماعت میں داخل ہو گیا ہوں.آج میں بھی اپنے ایثار اور اپنی قربانی اور اپنی جدوجہد سے ایسے نیک تغیرات پیدا کروں گا جو ہمیشہ ہمیش کے لئے میرے لئے بقائے دوام کا باعث بنیں گے.ایک شخص بھی ایسا نہیں ہوتا جو ایسے جذبات لئے بغیر جماعت احمدیہ میں داخل ہو.کیونکہ جماعت احمدیہ میں ہر شخص یہ سوچ کر اور سمجھ کر داخل ہوتا ہے کہ میں خدا کے لئے اپنے نفس پر ایک موت وارد کروں گا.میں اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں سے محض خدا کی رضا کے حصول کے لئے جدائی اختیار کروں گا.یہ اُس کی زندگی کا ایک عظیم الشان واقعہ ہوتا ہے جو اُس کے نفس کی بنیادوں کو ہلا دیتا ہے اور اُس کے قلب پر ایک لرزہ طاری کر دیتا ہے جس طرح ایک درخت کو باغ میں سے نکال کر کہیں اور لگایا جائے تو اُسے ایک دھگا محسوس ہوتا ہے اسی طرح جب کوئی شخص ایک سلسلہ سے کٹ کر دوسرے سلسلہ میں داخل ہوتا ہے تو وہ بھی ایک نہایت ہی تزلزل پیدا کرنے والا واقعہ ہوتا ہے اور اُس وقت اُس کے خیالات اپنے سابق خیالات کی نسبت بہت کچھ بلند پروازی کر رہے ہوتے ہیں.اپنی حالت کے مطابق.اپنی حیثیت کے مطابق.مگر بہر حال کچھ نہ کچھ ضرور ہر شخص جو سلسلہ میں داخل ہوتا ہے ہر شخص جو بیعت کے لئے اپنا ہاتھ بڑھاتا ہے وہ پہلے سے اونچا بہت اونچا اور بہت ہی اونچا اُڑنا شروع کر دیتا ہے اور اُس کی بلند پروازی اُس کی اپنی نگاہوں میں بھی عجیب ہوتی ہے.

Page 245

خطابات شوری جلد سوم ۲۲۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء کانٹوں پر چلے بغیر ہم منزل مقصود کو حاصل نہیں کر سکتے پس اگر ہم نے خدا اور اُس کے رسول کے مقرر کردہ معیار کے مطابق ترقی نہیں کی تو ہمیں کم سے کم یہ غور کرنا چاہیے کہ اگر خدا کے فیصلہ کے مطابق ہم نے ترقی نہیں کی تو کیا وہ ارادے جو ہمارے دلوں میں پیدا ہوئے تھے، کیا وہ اُمنگیں جو ہمارے قلوب میں اُس وقت موجزن ہوئی تھیں جب ہم جماعت احمدیہ میں داخل ہوئے تھے یا جماعت احمدیہ میں پیدا ہو کر جب ہم جوانی کو پہنچے تو جذبات کی تلاطم خیز موجوں نے ہمارے اندر جو تغیر پیدا کر دیا تھا جن کے نتیجہ میں ہم فضائے روحانی میں بلند پروازی کرنے لگ گئے تھے کیا اُن ارادوں اُن اُمنگوں اور اُن بلند پروازوں کے مطابق ہم نے ترقی کر لی ہے؟ اور اگر خدا کی اُمید کو ہم نے پورا نہیں کیا تو کیا ہم نے اپنے نفس کی اُن امیدوں کو پورا کر لیا ہے جو ہمارے دلوں میں پیدا ہوئی تھیں اگر اس سوال کا جواب اثبات میں ہو تو کم سے کم ہم اپنے نفس میں تسلی پاسکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا نفس جس قدر بلند ہو ا تھا ہم اس حد تک جا پہنچے یا وہ منزل جو ہمارے دل نے مقرر کی تھی وہ منزل ہم نے طے کر لی.لیکن اگر ایسا نہیں، اگر ہم نے نہ خدا کی اُمیدوں کو ابھی تک پورا کیا ہے نہ اپنی ذاتی بلند پروازیوں کی انتہا کو ہم پہنچے ہیں تو ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہم نے کیا کرنا تھا اور کیا کیا.جہاں تک میں سمجھتا ہوں دنیا کی نگاہوں میں ہمارے کام بے شک عجیب ہیں مگر یہ کام ہمارے اُن ارادوں اور اُن امنگوں کے پاسنگ بھی نہیں جو ہمارے دلوں میں پیدا ہوئے تھے اور نہ یہ کام اُن خوابوں سے کوئی دور کی بھی نسبت رکھتے ہیں جو اس سلسلہ میں داخل ہوتے وقت ہم میں سے ہر شخص نے اپنی روحانی آنکھوں سے دیکھیں.اسی طرح ہمارے یہ کام اُن ارادوں کے بھی پاسنگ نہیں جو اس سلسلہ میں پیدا ہونے کے بعد جوانی کے قریب پہنچ کر ہمارے قلوب میں موجزن ہوئے.ابھی ہماری خوا ہیں تعبیر طلب ہیں.ہمارے ارادے تشنہ تکمیل ہیں.ہماری اُمنگیں گلدستۂ طاق نسیاں بنی ہوئی ہیں.اور ابھی وہ جد و جہد متشکل نہیں ہوئی جس میں جدو جہد کا ارادہ کر کے ہم دنیا میں کھڑے ہوئے تھے اور جس عزم صمیم کا اِس سلسلہ میں داخل ہوتے وقت ہم نے اظہار کیا تھا یا کم سے کم ہم سمجھتے تھے

Page 246

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء کہ ہمارے دل میں ایک غیر معمولی عزم، غیر معمولی بلندی اور غیر معمولی علو ہمتی پیدا ہو چکی ہے.دن گزرتے چلے جاتے ہیں اور جو وقت منزلِ مقصود تک پہنچنے کا ہمارے لئے مقرر کیا گیا ہے وہ روز بروز چھوٹا ہوتا چلا جاتا ہے.ہماری ذمہ داریاں پہلے سے بہت بڑھ گئی ہیں اور ہماری مشکلات بھی زیادہ سے زیادہ بڑھتی چلی جارہی ہیں کیونکہ جوں جوں ہماری جماعت مختلف جہات اور مختلف اطراف میں پھیل رہی ہے اور جوں جوں مختلف اقوام اور مختلف ممالک اور مختلف حکومتوں سے اُس کا تعلق بڑھ رہا ہے ہمارے دشمن بھی نئے سے نئے پیدا ہور ہے ہیں اور نئی سے نئی مشکلات ہیں جو ہمارے لئے رونما ہورہی ہیں.ان حالات میں جس قسم کی قربانی، جس قسم کی فدائیت اور جس قسم کا ایثار ضروری ہے وہ ابھی ہم میں پیدا نہیں ہوا.لیکن اس کا پیدا کرنا ضروری ہے جلد یا بدیر ہمیں اس راستہ پر چلنا پڑے گا.یہ وادی سخت پُر خار ہے مگر کانٹوں پر چلے بغیر ہم اپنی منزلِ مقصود کو کبھی حاصل نہیں کر سکتے.ہم جتنی جلدی اپنے اندر قربانی اور ایثار کی روح پیدا کریں گے ہم جتنی جلدی اپنے اندر فدائیت کا رنگ رونما کریں گے اُتنی ہی جلدی ہماری مشکلات دور ہونگی اور اتنی ہی جلدی اسلام اور احمدیت کو ترقی حاصل ہوگی.اپنے دلوں اور فکروں میں تبدیلی پیدا کریں.پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ زیادہ سے زیادہ اپنے دلوں میں تبدیلی پیدا کریں ، زیادہ سے زیادہ اپنے فکروں میں تبدیلی پیدا کریں ، زیادہ سے زیادہ اپنے ارادوں میں تبدیلی پیدا کریں.اسی طرح اپنے اردگرد بیٹھنے والوں اور اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کے ارادوں اور اُن کے حوصلوں اور اُمنگوں میں بھی تبدیلی پیدا کریں بغیر اپنے حوصلوں کو بڑھانے اور اپنے ارادوں میں حیرت انگیز تبدیلی پیدا کرنے کے تم وہ کام ہرگز نہیں کر سکتے جو تمہارے سپرد کیا گیا ہے.ایک کے بعد ایک کر کے وہ لوگ جو اس اسلامی عمارت کی بنیاد رکھنے والوں میں شامل تھے اس دنیا سے گزرتے چلے جار ہے ہیں اور اُن کی جگہ وہ لوگ آرہے ہیں جنہوں نے ابتدائی زمانہ کی ایمانی لذت حاصل نہیں کی.وہ زمانہ جب کہ احمدیت کا نام لینے والا دنیا میں بہت کم ،شاذ و نادر کے طور پر کوئی شخص نظر آتا تھا اور جبکہ قادیان میں، اُس قادیان میں جس میں خدا نے ہمیں بعد میں غیر معمولی

Page 247

خطابات شوری جلد سوم ۲۳۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء طاقت اور شوکت عطا فرمائی صرف چند افراد احمدی کہلانے والے تھے جو بسا اوقات اپنی کمزوری اور ناتوانی کی وجہ سے ادنیٰ سے ادنی تکلیف کو بھی انتہا درجہ کی بلا اور مصیبت سمجھتے تھے.مجھے یاد ہے میاں صدر الدین صاحب جو ابتداء میں گدھوں پر مٹی لاد کر بھرتی ڈالا کرتے تھے اور جنہوں نے بعد میں آٹے کی تجارت شروع کر دی اُن کے متعلق ایک دفعہ اطلاع ملی کہ وہ بازار میں سے گزر رہے تھے کہ کسی مخالف نے کوئی شرارت کی.میں نے اُن کو بلایا اور چاہا کہ اگر یہ اطلاع درست ہو تو اُس شرارت کا تدارک کیا جائے.جب وہ آئے اور میں نے اُن سے اس واقعہ کا ذکر کیا تو اُنہوں نے سمجھا کہ شاید میں یہ سُن کر ڈر گیا ہوں کہ اب لوگ ہماری مخالفت کرنے لگ گئے ہیں اور اُنہوں نے بجائے میرے سوال کا جواب دینے کے مجھے تسلی دینی شروع کر دی اور کہنے لگے بے شک ایک شخص نے کچھ شرارت کی تھی مگر یہ مصیبت اُن مصیبتوں کے مقابلہ میں کیا حقیقت رکھتی ہے جو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں برداشت کی ہیں.جب اُنہوں نے یہ بات کی تو قدرتی طور پر میری توجہ اس طرف مبذول ہوئی کہ میں بھی سنوں کہ وہ کیا مشکلات تھیں جو اُن کو پیش آئیں اور میں نے اُن سے کہا مجھے بھی اُس زمانہ کا کوئی واقعہ سنا ئیں.وہ کہنے لگے ایک دفعہ میں ڈھاب میں سے مٹی کھودرہا تھا کہ کسی نے مرزا نظام الدین صاحب کو جا کر اطلاع دے دی کہ ڈھاب میں سے مٹی کھودی جارہی ہے.مرزا نظام الدین صاحب بڑے جوش کی حالت میں وہاں پہنچ گئے.میں نے اُنہیں دیکھا تو ایک زاویہ جو مٹی کھودنے کی وجہ سے ڈھاب میں بن چکا تھا اُس کے پیچھے چھپ گیا اور میں نے کہا اے خدا! جیسے تیرے رسول پر غار ثور میں ایک مصیبت کا وقت آیا تھا وہی مصیبت کا وقت اب مجھ پر آگیا ہے تو میری حفاظت فرما اور مجھے اس تکلیف سے نجات دے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے میری ایسی حفاظت فرمائی کہ مرزا نظام الدین صاحب اندھے ہو گئے انہیں نظر ہی نہ آیا.وہ گالیاں دیتے ہوئے واپس چلے گئے اور میں خدا کا شکر کرتے ہوئے باہر نکل آیا.اب دیکھو یہ کتنی چھوٹی سی چیز تھی جو اپنے زمانہ کے لحاظ سے انہیں بڑی نظر آئی اتنی بڑی کہ مرزا نظام الدین صاحب کے ایک دو تھپڑوں کو اُنہوں نے غار ثور کے واقعہ کے مشابہ قرار دیا.مگر یہ حالت کیوں پیدا ہوئی ؟ اس لئے کہ قادیان میں احمدیوں کی حیثیت اتنی حقیر سمجھی جاتی تھی کہ ہر شخص

Page 248

خطابات شوری جلد سوم ۲۳۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء خواہ وہ کیسی ہی ادنیٰ حیثیت رکھنے والا ہو اُن کے کچلے جانے اور دُنیا سے ان کے مٹائے جانے کے متعلق کامل یقین رکھتا تھا.مجھے یاد ہے احمدی اپنے گھروں کے لئے مٹی کھودتے تو لوگ اُن کے خلاف شور مچا دیتے حالانکہ وہ مٹی اپنی چھتوں کی لپائی کے لئے یا ایسی ہی اور اغراض کے لئے کھود رہے ہوتے تھے.مگر وہ مقام جہاں احمدیوں کو اپنے مکانوں کی چھتوں پر لپائی کرنے کے لئے بھی مٹی کھودنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی آج اُسی مقام اور اُسی جگہ پر وہ بلند و بالا اور عظیم الشان عمارتیں کھڑی ہیں جو احمدیت کے عظیم الشان کا رہائے نمایاں پر دلالت کرتی ہیں اور لاکھوں لوگ اس جماعت سے وابستہ ہیں.اب غور کرو کہ گجا تو وہ حال تھا کہ قادیان میں صرف چند آدمی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ تھے اور وہ بھی معمولی معمولی لوگوں کا تختہ مشق بنے ہوئے تھے اور کجا یہ حالت ہے کہ ہمارے کارناموں کو دیکھ دیکھ کر دشمن کا دل اک یقین اور وثوق سے زیادہ سے زیادہ لبریز ہوتا چلا جارہا ہے کہ یہ ایک طاقتور اور منظم جماعت ہے.اور غیر ممالک میں بھی یہی احساس پایا جاتا ہے.ابھی چند دن ہوئے انگلستان کے ایک اخبار میں شائع ہوا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا تھا کہ جماعت احمد یہ بہت بڑی مال دار جماعت ہے مگر اب ہمیں یہ نئی بات معلوم ہوئی ہے کہ اصل میں اس جماعت کی ترقی روپیہ کی وجہ سے نہیں بلکہ اس جماعت کے افراد کی قربانی کی وجہ سے ہے.جماعت کی تعداد کو اربوں تک پہنچایا جائے گویا یورپ کے لوگ بھی ہمیں بہت بڑا مال دار سمجھتے تھے مگر یہ ہیبت اور یہ رعب جو ہمیں آج حاصل ہے اُس زمانہ میں کہاں تھا جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس دنیا میں موجود تھے.ہمارے متعلق دشمن کے اس اندازہ میں خواہ کتنی بڑی غلطی ہو بہرحال اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کچھ نہ کچھ کام کرنے کی اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے فضل سے ضرور توفیق عطا فرمائی ہے جس سے دشمن بھی مرعوب نظر آتا ہے ورنہ بلا وجہ لوگ دوسروں کا رُعب قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے.مگر سوال یہ ہے کہ بے شک خدا نے ہمیں کچھ کام کرنے کی توفیق دی ہے اور بے شک دشمن بھی ہم سے مرعوب دکھائی دیتا ہے مگر

Page 249

خطابات شوری جلد سوم ۲۳۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء کیا جس کام کے لئے ہم کھڑے ہوئے تھے اُس کام کے ہم قریب پہنچ گئے ہیں؟ سالہا سال سے ہماری یہ حالت ہے کہ جب لوگ ہم سے یہ پوچھتے ہیں کہ بتاؤ کہ تمہاری تعداد کتنی ہے؟ تو ہماری جماعت کے افراد یہ جواب دیتے ہیں کہ ہماری جماعت کی تعداد دس لاکھ ہے.مگر سالہا سال گزر گئے دس لاکھ سے ہماری تعداد بڑھتی ہی نہیں اور ہمیں ہر سال یہی کہنا پڑتا ہے کہ ہماری تعداد دس لاکھ ہے.یہ تو ظاہر ہے کہ ہم ترقی کر رہے ہیں اور ہمارے سلسلہ پر کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں گزرتا جس میں کوئی نہ کوئی نیا آدمی ہم میں شامل نہ ہو مگر اس کے باوجود یہ کہ ہماری تعداد دس لاکھ سے نہیں بڑھتی ! اس کی وجہ در حقیقت یہ ہے کہ وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارد گر د تھے اُنہوں نے آپ کے کانوں میں یہ بات ڈالی کہ ہماری جماعت دس لاکھ ہے اور چونکہ آپ کے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں تھا جس سے جماعت احمدیہ کی تعداد یقینی طور پر معلوم کی جاسکتی اور کام کرنے والوں میں سے بعض لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ ہماری جماعت کی تعداد دس لاکھ تک پہنچ چکی ہے آپ نے بھی دس لاکھ تعداد لکھ دی اور جماعت کے دوستوں نے بھی کہنا شروع کر دیا کہ ہم دس لاکھ تک پہنچ گئے ہیں.مگر اب سالہا سال گزر چکے ہیں اور پھر بھی ہماری تعداد دس لاکھ ہی ہے اس سے بڑھتی نہیں.کیونکہ جب دس لاکھ کا ہی کوئی ثبوت نہیں ملتا تو جماعت اس سے آگے کیا بڑھے.جس شخص سے یہ غلطی ہوئی تھی اُس کی وجہ سے ایک طرف تو جماعت مطمئن ہو گئی اور اُس نے سمجھ لیا کہ ہماری تعداد بہت کافی ہوگئی ہے ہمیں کسی خاص جد و جہد کی ضرورت نہیں اور دوسری طرف جماعت نے ترقی بھی کی تو چونکہ وہ دس لاکھ سے بہر حال کم تھی.لوگوں نے یہی سمجھا کہ جماعت پر ایک جمود کی حالت طاری ہے اور وہ کوئی ترقی نہیں کر رہی.گزشتہ جنگِ عظیم میں ملک فیروز خاں صاحب نون ولایت گئے تو اُنہوں نے ہندوستان کی قربانی کا نعرہ وہاں اس طرح لگایا کہ ہندوستان سے بیس لاکھ آدمی فوج میں بھرتی ہو چکا ہے حالانکہ اُس وقت تک بھرتی ابھی دس لاکھ تک بھی نہیں پہنچی تھی نتیجہ یہ ہوا کہ انگریزوں نے جب ہیں لاکھ فوج کی بھرتی کی خبر سنی تو اُنہوں نے ان الفاظ کو خوب اُچھالا اور دنیا کے کونے کونے میں مشہور کیا گیا کہ ہندوستان کتنی بڑی قربانی کر رہا ہے اُس نے اپنا

Page 250

خطابات شوری جلد سوم ۲۳۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء ہیں لاکھ آدمی فوج میں بھرتی کرا دیا ہے.مگر اس کا کیا انجام ہوا؟ انجام یہ ہوا کہ باوجود اس کے کہ اس اعلان کے بعد بھی چار سال تک بھرتی جاری رہی پھر بھی بیس لاکھ تک تعداد نہ پہنچی.مجھ سے جب لوگ پوچھتے ہیں کے آپ کی جماعت کی ترقی کے متعلق کیا اندازہ ہے؟ تو میں اُنہیں یہی کہا کرتا ہوں کہ میرا اندازہ یہ ہے کہ پنجاب میں اڑھائی لاکھ احمدی ہیں.اور اگر باقی ہندوستان اور غیر ممالک کے احمدیوں کو ملا لیا جائے تو یہ تعداد تین ساڑھے تین لاکھ تک پہنچ جاتی ہے.میں اب بھی یہی سمجھتا ہوں کہ ہماری تعداد دس لاکھ نہیں گجا یہ کہ آج سے ہیں یا چالیس سال پہلے دس لاکھ ہوتی.حقیقت یہ ہے کہ اُس زمانہ سے اس زمانہ میں ہم نے بہت بڑی ترقی کی ہے اور بہت بڑی شوکت ہے جو ہماری جماعت کو حاصل ہوئی ہے مگر جب کہنے والوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہماری جماعت کی تعداد دس لاکھ ہے تو وہ ترقی جو بعد میں حاصل ہوئی وہ لوگوں کو نظر نہ آئی کیونکہ اُن پر اثر تب ہوتا جب وہ سمجھتے کہ جماعت دس سے بیس لاکھ ہوگئی ہے یا بیس سے تیس لاکھ ہوگئی ہے.جب پہلے ہی دس لاکھ تعداد بتادی گئی تو بعد میں جو ہزاروں ہزار افراد ہماری جماعت میں شامل ہوئے تھے وہ کسی شمار میں نہ آسکے اور لوگوں پر ہماری جماعت کی ترقی مشتبہ ہوگئی.اگر کہا جائے کہ یہ دس لاکھ تعداد اُن لوگوں کی تھی جو جماعت احمدیہ سے ہمدردی رکھتے تھے تو پھر دس لاکھ کی کیا شرط ہے میں کہتا ہوں ایسی ہمدردی رکھنے والے اُس زمانہ میں بیس لاکھ بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی روشن شخصیت اُس وقت موجود تھی اور لاکھوں لاکھ آپ سے دلی عقیدت اور اخلاص رکھتے تھے گو وہ جماعت احمد یہ میں شامل نہیں تھے.ایسے افراد دس نہیں ہیں لاکھ بھی ہو سکتے ہیں مگر حقیقتا اُس وقت ہماری جماعت کی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی مگر ایک نفسی کمزوری کی وجہ سے بعض لوگوں نے اس کو دس لاکھ بتا دیا اور بعض دفعہ اُنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی یقین دلایا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہماری جماعت کی اتنی ہی تعداد ہے.نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری جماعت سالها سال اسی خیال میں مگن رہی کہ ہم دس لاکھ تک پہنچ چکے ہیں اور اُس نے ترقی کی طرف اپنا قدم نہ اُٹھایا.آخر میں نے جماعت کو بار بار توجہ دلائی کہ وہ تبلیغ کرے اور اپنی

Page 251

خطابات شوری جلد سوم ۲۳۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء : اس سستی اور غفلت کا ازالہ کرے اور یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ میرے توجہ دلانے پر جماعت تبلیغ کی طرف متوجہ ہوگئی اور ہماری جماعت پہلے سے کئی گنا بڑھ گئی مگر اس کوشش اور جدوجہد کے باوجود اب تک بھی ہم ہندوستان اور غیر ممالک میں دس لاکھ تک نہیں پہنچے.اگر ووٹوں کی تعداد کے لحاظ سے جماعت کی تعداد کا اندازہ لگایا جائے تو میں کہتا ہوں کہ ہماری جماعت ہندوستان میں چار لاکھ کے قریب ہے مگر اس کے باوجود ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہم ایک طاقتور جماعت ہیں.ابھی تک ہماری جماعت نازک دور کے مطابق ذمہ داریاں نبھانے کی تلقین اسی میں ہاری اتنا کمزور کمزور اور بے انتہا ہے اور ہمارا فرض ہے کہ اس کمزوری کو جلد سے جلد دور کریں اور لاکھوں سے کروڑوں اور کروڑوں سے اربوں تک اپنی جماعت کی تعداد کو پہنچا ئیں.اس وقت ساری دنیا کی آبادی دو اڑھائی ارب ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ان سب کو اسلام کے جھنڈے کے نیچے لائیں اور اُنہیں ایمان اور اسلام کی دولت سے مالا مال کریں اس کام کے لئے ضروری ہے کہ ہم جلد سے جلد اپنے آپ کو لاکھوں سے کروڑوں میں تبدیل کریں اور پھر کروڑوں سے اربوں تک پہنچنے کی کوشش کریں.مگر لاکھوں سے کروڑوں تک پہنچنا کوئی آسان کام نہیں.اس کے لئے بہت بڑی جدو جہد بہت بڑی کوشش اور بہت بڑی قربانیوں اور ایثار کی ضرورت ہے.ہماری جماعت کی حالت اس وقت ایسی ہے جیسے ایک تھکا ماندہ انسان شدید گرمی کے موسم میں جب کہ پیاس سے اُس کے ہونٹ خشک ہورہے ہوں اور دو قدم چلنا بھی اُس پر گراں گزرتا ہو.اپنی منزل مقصود کی طرف بڑھ رہا ہو کہ راستہ میں ایک ٹیلہ آ جائے جس پر چڑھنا اس کے لئے ضروری ہو.جس طرح وہ تھکا مانده انسان شدید گرمی اور شدت پیاس کی حالت میں ٹیلے پر چڑھتے وقت قدم قدم پر ہانپنے لگ جاتا ہے.گز گز بھر چل کر اُس کے قدم لڑکھڑانے لگ جاتے ہیں، وہ اُٹھتا ہے اور دو قدم چل کر سانس لینے کے لئے بیٹھ جاتا ہے، پھر چلتا ہے اور بیٹھتا ہے اور ایک ایک قدم اُٹھا نا اُسے سخت دشوار نظر آتا ہے بالکل ویسی ہی حالت اس وقت ہماری جماعت کے بعض افراد کی ہو رہی ہے.ہماری منزل مقصود

Page 252

خطابات شوری جلد سوم ۲۳۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء ابھی بہت دور ہے ، ہماری مشکلات دن بدن بڑھتی جارہی ہیں اور جوں جوں ہم اپنا قدم آگے بڑھاتے چلے جارہے ہیں دشمن ہماری عظمت اور ہماری شوکت اور ہماری بڑھنے والی طاقت سے آگاہ ہو کر زیادہ سے زیادہ ہوشیار اور زیادہ سے زیادہ ہمارا مخالف ہوتا چلا جاتا ہے مگر ہماری جماعت کے افراد ہیں کہ وہ آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں.دنیا میں دو طرح کی عظمت ہوتی ہے جو پیدا شدہ ہوتی ہے.بسا اوقات پیدا کردہ عظمت بڑی نظر آتی ہے حالانکہ پیدا کردہ عظمت چھوٹی ہوتی ہے اور پیدا شدہ عظمت زیادہ ہوتی ہے.ایک گڈریا جب اپنی بکریاں چرانے کے لئے جنگل میں جاتا اور اپنی لاٹھی سے پتے گرا گرا کر اپنی بکریوں کے آگے ڈالتا ہے تو اُس وقت جب کوئی شخص اُس بکریاں چرانے والے کے پاس سے گزرتا ہے تو وہ کہتا ہے یہ کتنا مضبوط اور طاقتور نوجوان ہے.مگر جب اس گڈریا کے چھوٹے چھوٹے بچے جب اُس کی جھونپڑی میں ریں ریں کر رہے ہوتے ہیں اور کوئی شخص وہاں سے گزرتا ہے تو وہ اس کے نحیف وزار اور کمزور و نا تواں بچوں کو ریں ریں کرتے اور جھونپڑی میں ان کی خستہ حالی کو دیکھتے ہوئے کہہ اُٹھتا ہے.یہ کتنا غریب ہے، کیسا مسکین اور ناتواں ہے، رہنے کے لئے اس کے پاس جھونپڑی کے سوا کچھ نہیں اور بچے ہیں کہ وہ سارا دن ریں ریں کرتے رہتے ہیں اور اس کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہوتی جو انہیں کھلائے.وہ گڈریا کی بے کسی اور اسکے بچوں کی ناتوانی پر اپنے دل میں رحم کے جذبات اُبھر تے محسوس کرتا ہے.حالانکہ تاریخ کے ورق اس بات پر شاہد ہیں کہ کئی گڈریوں کے بیٹے بادشاہ ہوئے اور اُنہوں نے بڑے بڑے مملکوں کو تہہ و بالا کر دیا.نادرشاہ جو ایران سے اُٹھا اور ہندوستان پر حملہ آور ہوا ایک گڈریے کا ہی بیٹا تھا.وہ گڈریے کا بیٹا ایک دن اس شان کو پہنچا کہ اُس نے سابق تاجدار ایران کو قتل کر دیا اور خود تمام ایران پر قابض ہو گیا.اسی طرح چین میں مانچو خاندان جس نے صدیوں تک حکومت کی اُس کی ابتداء بھی اسی طرح ہوئی.مانچو ایک گڈریے کا بیٹا تھا.جب وہ بچہ تھا اُس کے اندر اُس کی پیدا شدہ طاقت تھی اور جو طاقت اُس کے باپ کے اندر تھی وہ اُس کی پیدا کی ہوئی طاقت تھی.گویا باپ میں وہ طاقت تھی جو ظاہر ہو چکی تھی اور بچے میں وہ طاقت تھی جو ابھی ظاہر نہیں ہوئی تھی.اگر اس بچہ کی وہ طاقت جو ابھی ظاہر نہیں ہوئی تھی اگر اُس کا علم

Page 253

خطابات شوری جلد سوم ۲۳۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء چین کے بادشاہ کو ہو جاتا اور وہ ان آنے والے واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا کہ اس گڈریے کا بیٹا اس کی حکومت کو چھین رہا ہے تو کیا تم سمجھتے ہو وہ اس بچے کو زندہ رہنے دیتا؟ وہ فوراً اُس کا گلا گھونٹ کر مروا دیتا اور بچہ وہیں ختم ہو کر رہ جاتا.یا اگر نادر شاہ کے متعلق ایران کے بادشاہ کو علم ہوتا کہ یہ کسی دن اُس کو قتل کر کے خود ایران پر قابض ہو جائے گا تو کیا تم سمجھتے ہو کہ وہ نادر کو زندہ رہنے دیتا؟ وہ ایک سپاہی بھیج کر بڑی آسانی سے اُس کا گلا کٹوا سکتا تھا لیکن باوجود اس کے کہ بچہ ایک زمانہ میں حکومت کو تہ و بالا کرنے والا تھا اور اُس کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتا تھا پھر بھی اُس گڈریے کو مارنا آسان نہیں تھا جتنا آسان اُس بچے کو مارنا تھا حالانکہ باپ کی اپنے بچہ کے مقابلہ میں وہ حیثیت بھی نہیں تھی ا جو ایک مکھی کی ہاتھی کے مقابلہ میں ہوتی ہے.باپ مکھی کی حیثیت رکھتا تھا اور بیٹا ہاتھی کی حیثیت رکھتا تھا.باپ گڈریا تھا اور گڈریا رہ کر ہی مرجانے والا تھا مگر بچہ گو ایک گڈریے کا تھا مگر مقدر یوں تھا کہ وہ ایک دن ملک کا بادشاہ بن جائے.پس بیٹا ہاتھی بننے والا تھا اور باپ ایک مکھی کی حیثیت رکھتا تھا.مگر دوسری طرف مکھی کی حیثیت رکھنے والے باپ پر اگر بادشاہ حملہ کرتا تو ممکن تھا وہ جنگلوں میں بھاگ کر اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوسکتا لیکن ہاتھی کی حیثیت رکھنے والے بچہ پر اگر اُس وقت کوئی شخص حملہ کر دیتا تو گو وہ ہاتھی کی حیثیت رکھتا تھا مگر اپنی جان کو اُس طرح نہ بچا سکتا جس طرح مکھی کی حیثیت رکھنے والا باپ اپنی جان کو بچا لیتا.کیا تم سمجھتے ہو اگر چین کے بادشاہ کو معلوم ہو جا تا کہ مانچو میرے خاندان کی بادشاہت ختم کرنے والا ہے اور ایک دو سال نہیں بلکہ کئی سو سال تک یہ اور اس کا خاندان ہی چین پر حکمران رہے گا تو وہ اسے زندہ چھوڑ دیتا؟ باوجود اس کے کہ مستقبل میں وہ ہاتھی بننے والا تھا اُس وقت ایک مکھی کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتا تھا اور بادشاہ بڑی آسانی سے اسے ہلاک کر سکتا تھا.مگر چونکہ اسے علم نہ ہوا کہ اُس کے اندر کون سی عظمت مخفی ہے وہ اس کی مستقبل کی ترقی کو نہ دیکھ سکا.پس دشمن کا اس بات سے آگاہ ہو جانا کہ میرا مد مقابل ضرور کچھ بننے والا ہے خطرات کو بڑھا دیتا ہے اور ذمہ داریوں میں بہت اضافہ کر دیتا ہے.اس وقت ہماری جماعت بھی ایک ایسے ہی دور میں سے گزر رہی ہے کہ دشمنوں کی آنکھیں ہماری ترقی کو دیکھ کر حیران ہیں.

Page 254

خطابات شوری جلد سوم ۲۳۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء وہ پھٹی ہوئی آنکھوں سے ہمیں دیکھ رہا ہے اور وہ بھی اس حقیقت کو اب بھانپ گیا ہے کہ یہ جماعت بڑھنے والی جماعت ہے.یہ جماعت ترقی کرنے والی جماعت ہے یہ جماعت دنیا پر چھا جانے والی جماعت ہے یہ احساس جو دشمن کے قلب میں پیدا ہو چکا ہے اور یہ بیداری جو اُس میں پائی جاتی ہے یہ پہلے زمانہ میں نہیں تھی.پہلے زمانہ میں اگر کوئی شخص ہماری جماعت کی مخالفت بھی کرتا تو وہ سمجھتا کہ یہ لوگ کیا چیز ہیں میں چٹکیوں میں ان کو مسل دوں گا میں اُنگلیوں میں ان کو ریزہ ریزہ کر دوں گا.چنانچہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے بھی کہہ دیا کہ میں نے ہی مرزا صاحب کو بڑھایا تھا اور میں ہی انہیں نیچے گراؤں گا لے مگر آج جو شوکت اور طاقت ہمیں حاصل ہے اور جو عظمت اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں عطا فرمائی ہے وہ ایسی نمایاں ہے کہ دشمن ہمیں کن اکھیوں سے دیکھنے لگ گیا ہے.اس کی غیظ آلود اور ترچھی نگاہیں ہم پر پڑنی شروع ہو گئی ہیں اور اُس کے دل میں بھی یہ احساس پیدا ہونے لگ گیا ہے کہ یہ جماعت اب کچھ کر کے رہے گی اس کو مٹانے کے لئے زیادہ قوتِ عمل اور زیادہ تنظیم اور زیادہ فکر سے کام لینا چاہیے.گویا ہماری پیدا شدہ طاقت کو اب خدا تعالیٰ ظاہر کر رہا ہے.دشمن پہلے سے بہت زیادہ ہوشیار ہو رہا ہے.پس ہمارا فرض ہے کہ ہم اس نہایت ہی نازک دور میں اپنے قدم پوری مضبوطی سے میدانِ عمل میں بڑھاتے چلے جائیں اور اس امر کی کوئی پرواہ نہ کریں کہ اس کا کیا انجام ہوگا.آج خدا نے ہماری طاقتوں کو ہمارے دشمن پر ظاہر کر دیا ہے اس لئے پہلے سے بہت زیادہ ہوشیاری ، بہت زیادہ قربانی اور بہت زیادہ بیداری کی ضرورت ہے.پہلے زمانہ میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دنیا کے سامنے یہ اعلان کیا کہ: دنیا میں ایک نذیر آیا پر دُنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خُدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی کو ظاہر کر دے گا تو دشمن نے ہنس کر کہا یہ پاگل ہو گیا ہے، اس بے چارے کی عقل ماری گئی ہے، اس کے حواس ٹھکانے نہیں رہے، کیا بہکی بہکی باتیں ہیں جو یہ کر رہا ہے مگر آج با وجود اس کے کہ

Page 255

خطابات شوری جلد سوم ہم میں وہ شخص موجود نہیں جس نے یہ کہا تھا: ۲۳۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء دنیا میں ایک نذیر آیا پر دُنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خُدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی کو ظاہر کر دے گا.بلکہ اُس سے ادنیٰ اور مجھ جیسے کمزور شاگرد دنیا میں پائے جاتے ہیں جن میں سے بعض ایسے بھی ہیں جن کے قدم حوادث میں ڈگمگا جاتے ہیں پھر بھی خدا کی وہ آواز جو مرزا غلام احمد کی زبان سے بلند ہوئی تھی وہ اب زیادہ سے زیادہ دنیا میں گونج پیدا کرتی چلی جارہی ہے اور دشمن بھی محسوس کر رہا ہے کہ یہ الفاظ رائیگاں جانے والے نہیں.خدا تعالیٰ کے زور آور حملے بڑے زور سے ظاہر ہوئے اور اس رنگ میں ظاہر ہوئے کہ ہماری حالت پر ہنسنے والا دشمن بھی مرعوب ہوتا چلا جا رہا ہے.اُسے خدا کی آواز جو ایک گمنام بستی سے بلند ہوئی تھی.دنیا کے کناروں تک پھیلتی ہوئی سنائی دے رہی ہے.وہ پھٹی ہوئی آنکھوں اور اُترے ہوئے چہرہ کے ساتھ ہمیں دیکھ رہا ہے اور محسوس کر رہا ہے کہ یہ آواز اپنے اندر الہی ہیبت رکھتی ہے.مگر یہ نور اُسے رکن چہروں سے نظر آیا ؟ اُن چہروں سے جو مرزا غلام احمد جیسی نورانیت اپنے اندر نہیں رکھتے ، اُن لوگوں سے جو مرزا غلام احمد جیسی طاقت اپنے اندر نہیں رکھتے.پس آج کا دشمن پہلے دشمن سے بہت زیادہ ہوشیار ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ان حالات کو اپنے سامنے رکھ کر اُن کے مطابق اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں.غرض ہمارے کام کی نوعیت اس کی اہمیت اور ہمارے راستہ میں پیش آنے والی مشکلات کی فراوانی اور زیادتی بلکہ بے انتہاء فراوانی اور زیادتی ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ ہم بڑے غور اور فکر اور سنجیدگی کے ساتھ ان مسائل پر غور کریں اور ایک مخلص، دیانتدار اور قربانی و ایثار کی روح رکھنے والے انسان کی طرح ہم میں سے ہر شخص یہ فیصلہ کرے کہ سلسلہ کی اشاعت کے لئے اگر مجھے اپنی جان بھی قربان کرنا پڑے تو مجھے اس کی قربانی سے دریغ نہیں ہوگا.ایسے دل اور ایسے عزم کے ساتھ ہماری جماعت کے افراد کو آگے بڑھنا چاہیے کیونکہ اس کے بغیر ہم کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے.“ اخبار بدر قادیان ۱۵ تا ۲۲ دسمبر ۱۹۶۰ء)

Page 256

خطابات شوری جلد سوم ۲۴۰ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء بجٹ کے متعلق ہدایت افتتاحی تقریر کے بعد حضور نے ۴ سب کمیٹیاں مقرر فرمائیں اور بجٹ کے متعلق فرمایا : - میں ایک بات بجٹ کے متعلق سب کمیٹی کے اجلاس سے پہلے ہی کہہ دینا چاہتا ہوں تا کہ وہ حصہ کمیٹی کے لئے کسی تشویش کا موجب نہ بنے.بجٹ ممکن ہے دوستوں نے ابھی پورے طور پر نہ دیکھا ہو.مجھے خود یہ بجٹ آج گیارہ بجے ملا ہے.مگر پھر بھی جن دوستوں نے بجٹ کو سرسری طور پر بھی دیکھا ہوگا اُنہیں معلوم ہو چکا ہوگا کہ اس دفعہ کے بجٹ کی کیا حالت ہے.ایک رقم تو اس میں درج نہیں حالانکہ وہ رقم بجٹ میں ضرور شامل کرنی چاہئے تھی یعنی وہ رقم جو حفاظت قادیان کے متعلق ہے.اس غرض کے لئے دولاکھ روپیہ چندہ کی جماعت میں تحریک کی جاچکی ہے مگر یہ رقم بجٹ میں درج نہیں.بہر حال وہ رقم تو ہم نے ضرور پوری کرنی ہے.اس کے علاوہ اُن کی یہ تجویز ہے کہ اس دفعہ./۳۸۸۲۷۹ روپیہ چندہ خاص جمع کیا جائے.گویا حفاظت مرکز کی رقم کو شامل کر کے یہ روپیہ./۵۸۸۲۷۹ ہو گیا.پھر انہوں نے آمد بذریعہ چندہ تعلیم الاسلام کالج کے ماتحت./۱۴۶۳۱۳ کی رقم رکھی ہے.گویا سات لاکھ چونتیس ہزار پانچ سو بانوے روپیہ علاوہ تحریک جدید اور دوسرے فرضی چندوں کے اس سال اکٹھا کرنا جماعت کے ذمہ لگایا گیا ہے.اس لئے گل آمد.۱۶۹۳۹۴۲ تجویز کی گئی ہے.اگر اس میں سے چندہ خاص.۳۸۸۲۷۹ اور آمد بذریعہ چندہ تعلیم الاسلام کالج - ۱۴۶۳۱۳ جن کی مجموعی میزان - ۵۳۴۵۹۲۷ بنتی ہے، نکال دی جائے تو باقی /۱۱۵۹۳۵۰ رہ جاتے ہیں.گویا اس سال جو زیادتی کی گئی ہے وہ علاوہ حفاظت قادیان کے چندہ کے پچاس فیصدی ہے.“ اس موقع پر جناب ناظر صاحب بیت المال نے بتایا کہ مطبوعہ بجٹ کے صفحہ 9 پر ایک لاکھ پچھہتر ہزار روپے حفاظت مرکز و بہار ریلیف فنڈ کے عنوان کے ماتحت درج ہے اور یہ رقم بھی بجٹ میں شامل کر لی گئی ہے.حضور نے فرمایا:.تب بھی جو زیادتی کی گئی ہے وہ پچاس فیصدی ہے یعنی ہماری آمد -/۱۱۵۹۳۵۰ ہے اور ہمارا خرچ اس سال.۱۶۹۳۹۴۲ ہوگا.اس کے لئے.۳۸۸۲۷۹ روپیہ یہ ہمیں ایک طرف اکٹھا کرنا پڑیگا اور دوسری طرف./۱۴۶۳۱۳ روپیہ تعلیم الاسلام کالج کیلئے جمع

Page 257

خطابات شوری جلد سوم ۲۴۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء کرنا پڑیگا.یہ زائد چندہ جس کا اس سال جماعت پر بار پڑیگا.۵۳۴۵۹۲ روپیہ ہے.گویا پچاس فیصدی زیادتی اس سال کی گئی ہے اور پچاس فیصدی زیادتی کوئی معمولی زیادتی نہیں ہوتی اور نہ اس کو پورا کرنے کے لئے کوئی معمولی جدوجہد کافی سمجھی جاسکتی ہے.میرے خیال میں اگر غور کیا جاتا تو ایک طرف بچت کی بہت سی صورتیں پیدا کی جاسکتی تھیں اور دوسری طرف آمد کی کئی صورتیں نکالی جاسکتی تھیں.بہر حال یہ کام تو بجٹ کمیٹی کا ہے اور اس کا فرض ہے کہ وہ ایسی تدابیر نکالے جن سے یہ زیادتی پوری ہو سکے.البتہ ایک چیز ہے جسے آسانی سے وہ بجٹ میں سے کاٹ سکتے ہیں اور اسطرح یہ بوجھ کسی قدر کم ہوسکتا ہے.انہوں نے خرچ کے ماتحت ریز روفنڈ میں دو لاکھ روپیہ رکھا ہوا ہے.ریز روفنڈ کی غرض یہ ہوتی ہے کہ سلسلہ کے مفاد کے لئے اگر کسی جائیداد کا خرید ناضروری ہوتو وہ اس روپیہ سے خرید لی جائے یا اسے کسی نفع بخش کام پر لگا دیا جائے تاکہ اس کی آمد سلسلہ کو مستقل طور پر حاصل ہوتی رہے مگر اس سال بجٹ میں.۸۴۰۰۰ ہزار روپیہ کی ایک رقم بعض تجارتی کارخانوں میں حصہ لینے کیلئے رکھی گئی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ یہ ریز روفنڈ کا ہی خرچ ہے کیونکہ سلسلہ کے پاس جب کوئی زائد رقم جمع ہو جاتی ہے تو اسے بعض اور کاموں میں لگا دیا جاتا ہے تا کہ اس سے نفع حاصل ہوتا رہے.اسی طرح.۴۲۵۰۰ روپیہ زمین کی خرید کیلئے رکھا گیا ہے.یہ بھی آمد پیدا کرنے والی چیز ہے.صرف بار نہیں جو جماعت پر پڑ رہا ہو کیونکہ وہ جائیداد جو اس روپیہ سے خریدی جائیگی آج سے دس سال بعد پانچ چھ لاکھ روپیہ کی ہو جائیگی.پس ۸۲۰۰۰ ہزار روپیہ وہ اور ۴۲۵۰۰ روپیہ یہ ایک لاکھ ۲۶ ہزار پانچ سو روپیہ ہو گیا.اسی طرح مجوزہ غیر معمولی اخراجات میں چالیس ہزار روپیہ ریتی چھلہ میں دکانیں بنانے کے لئے رکھا گیا ہے.اگر یہ روپیہ بھی شامل کر لیا جائے تو ایک لاکھ چھیاسٹھ ہزار پانچ سو روپیہ بن جاتا ہے اور ریز روفنڈ میں دولاکھ روپیہ رکھا گیا ہے گویاریز روفنڈ والی رقم کے قریب قریب یہ اخراجات ہیں اور چونکہ یہ روپیہ یا تو سلسلہ کے لئے بعض جائیدادیں خریدنے پر صرف ہوگا یا بعض تجارتی کمپنیوں میں اس سے حصہ لیا جائے گا.اور یہی ریز روفنڈ کی غرض ہوتی ہے، اس لئے میرے نزدیک اگر اس سال ریز روفنڈ کو اُڑا دیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہوگا کیونکہ بہر حال یہ دونوں چیزیں متوازی ہیں اور ان کو الگ الگ رکھنے کی کوئی

Page 258

خطابات شوری جلد سوم ۲۴۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء وجہ نہیں.دونوں ایک ہی غرض اور ایک ہی مقصد رکھتی ہیں اگر جائیداد میں وغیرہ خرید لی گئیں تو اس رنگ میں ریز روفنڈ قائم ہو جائیگا اور اگر نہ خریدی گئیں تو روپیہ بچ جائے گا.پس میرے نزدیک بڑی آسانی کے ساتھ اس سال ریز روفنڈ کو اڑایا جاسکتا ہے.لفظ بیشک قائم رہے مگر آگے یہ لکھ دیا جائے کہ اس سال ہم یہ روپیہ فلاں فلاں اغراض کیلئے خرچ کر رہے ہیں اس خرچ کو الگ دکھانے کی ضرورت نہیں.اس طرح ہمارا بوجھ نسبتاً ہلکا ہو جائیگا.جیسا کہ میں بتا چکا ہوں اس سال.۵۳۴۵۹۲۷ روپیہ کا زائد بوجھ ہماری جماعت پر ہے اگر اس میں سے زمینوں اور دکانوں وغیرہ کا روپیہ اور ادائیگی حصص کارخانہ دی یحیی آتلز کا روپیه پیہ جسکی مجموعی میزان ایک لاکھ چھیاسٹھ ہزار پانچ سو روپیہ بنتی ہے نکال دیا جائے تو باقی ۳۶۸۰۹۲ روپے رہ جاتے ہیں جو اس سال ہماری جماعت کو علاوہ اور چندوں کے ادا کرنے پڑینگے اور چونکہ یہ بہت بڑا بوجھ ہے اس لئے ہمیں کوئی نہ کوئی ایسی تجویز کرنی پڑیگی س سے یہ رقم پوری ہو جائے.سب کمیٹی اس بارہ میں اپنا نقطہ نگاہ پیش کریگی.میں بھی غور کر رہا ہوں اور جب سب کمیٹی اپنی تجاویز پیش کریگی تو انشاء اللہ بعض تجاویز اس سلسلہ میں بیان کرونگا.میرے نزدیک بجٹ میں بعض کمیاں بھی ہوسکتی ہیں اور بعض اور ذرائع آمد بھی ایسے ہو سکتے ہیں جن سے چندوں میں تخفیف ہو جائے.میں اُمید کرتا ہوں کہ بجٹ کمیٹی اس پر پورا غور کرے گی ، اسی طرح دوسرے دوست بھی غور کرینگے تا ہمارا یہ سال ایسی شکل اختیار نہ کر لے جو ہماری آئندہ ترقی کے راستہ میں روک بن جائے اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو ہماری تمام سکیمیں پراگندہ ہو جائینگی اور اُن کے پورا ہونے کی کوئی صورت نہیں رہے گی.میں اُمید کرتا ہوں کہ دوست کل وقتِ مقررہ پر آجا ئینگے تا کہ کام کو جلد شروع کیا جا سکے.اب اسکے بعد اس وقت کا اجلاس برخاست کیا جاتا ہے.مغرب اور عشاء کی نمازیں انشاء اللہ جمع ہونگی.ضیافت والوں کو چاہیئے کہ وہ دوستوں کو جلد کھانا کھلا دیں تا کہ سب کمیٹیاں آٹھ بجے اپنا اپنا کام شروع کرسکیں.“ 66 دوسرا دن مجلس مشاورت کے دوسرے دن مؤرخہ ۱٫۵ پریل ۱۹۴۷ء کو پہلا اجلاس شروع ہوا تو

Page 259

خطابات شوری جلد سوم ۲۴۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء حضور کے ارشاد پر ناظر صاحب اعلیٰ نے گزشتہ فیصلہ جات کی تعمیل جبکہ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے اضافہ بجٹ سے متعلق رپورٹ پیش کی.نیز پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے رد شدہ تجاویز پڑھ کر سنائیں.اس کے بعد حضور نے فرمایا :- ” ناظر صاحب اعلیٰ نے گزشتہ شوری کے فیصلہ جات کے متعلق جو ر پورٹ سُنائی ہے اُس کا ایک حصہ نامکمل معلوم ہوتا ہے جس کے متعلق میں ہدایت دینا چاہتا ہوں.رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے کہ اس سال جو تجاویز مختلف صیغہ جات کی طرف سے مشاورت میں پیش ہونے کے لئے آئی تھیں اُن کے متعلق صدر انجمن احمدیہ نے بعد غور قابل منظوری تجاویز کو اپنے الفاظ میں ڈھال دیا تھا اور بعض کو رڈ کر کے واپس کر دیا تھا.میرے نزدیک جہاں تک محکموں کی تجاویز کا تعلق ہے اُن کو تو اپنے الفاظ میں ڈھال کر پیش کیا جاسکتا ہے لیکن جو تجاویز باہر سے موصول ہوں اُن کو اصل الفاظ میں ہی لکھنا چاہیے کیونکہ وہ لوگ صدرانجمن احمدیہ کا حصہ نہیں.نظارت امور عامہ کی طرف سے تجار کمیٹی کے انعقاد کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ اس کے کاغذات مجھے بھجوائے گئے ہیں.اگر وہ میرے سندھ کے سفر کے دوران بھجوائے گئے ہیں تو وہ فی الحال بند ہونگے اور اگر اس سے پہلے بھجوائے گئے ہیں تو اس قسم کا کوئی کاغذ میرے پاس نہیں آیا.وضو کے متعلق جو میری ہدایت تھی اُس کی تعمیل میں یہ کہا گیا ہے کہ ہم نے وضو کے لئے مسجد مبارک کے سامنے ملکہ لگا دیا ہے لیکن مجھے اس ملکہ کے لگانے پر اعتراض ہے.وہ نلکہ ایسی جگہ لگایا گیا ہے جو کہ صدر انجمن کی زمین نہیں اور پھر وہ مالکوں سے پوچھے بغیر ہی لگا دیا گیا ہے.شرعی طور پر اس طرح پن پوچھے کسی کی ملکیت میں دخل دینا منع ہے.اگر کوئی اپنی ساری جائیداد دیدے تو یہ اُس کی مرضی ہے لیکن ان کی مرضی کے بغیر ایک پیسہ لینا بھی جائز نہیں اور پھر وہ نلکہ عین گلی کے وسط میں لگایا گیا ہے.جس سے عورتوں کو گزرنے میں خاص طور پر بہت تکلیف ہوتی ہے.ملکہ لگا کر نصف سے زیادہ گلی پاٹ دی گئی ہے.وہ گلی ہماری مشترکہ ہے لیکن ہم میں سے کسی سے بھی پوچھا تک نہیں گیا اس طرح بغیر پوچھے کسی کی ملکیت میں تصرف کرنا نا جائز ہے اور آئندہ ظلم و تعدی کی بنیاد ڈالنا ہے.

Page 260

خطابات شوری جلد سوم ۲۴۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء فیصلہ جات کی تعمیل میں یہ بتایا گیا ہے کہ میں نے ۹۶۰ روپے کی بجائے ۱۹۲۰ روپے کی جامعہ نصرت کے لئے منظوری دی لیکن بجٹ اس کے خلاف کہتا ہے.بجٹ صفحہ ۱۷ پر ۱۹۲۰ کی رقم نصرت گرلز کی مد میں دکھائی گئی ہے.میں نے یہ رقم جامعہ نصرت یعنی دینیات کی کلاسز کے لئے منظور کی تھی لیکن یہ رقم انگریزی حصہ پر خرچ کر دی گئی ہے.یہ خرچ میرے حکم کی تعمیل نہیں بلکہ میرے حکم کی صریح خلاف ورزی ہے.میں نے جامعہ نصرت کے لئے اس رقم کی منظوری دی تھی لیکن یہ رقم خرچ نصرت گرلز سکول پر ہوئی ہے.اخبار الفضل کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ میں نے اس کی قیمت بڑھانے کی اجازت دی تھی اور اس کے مطابق اب قیمت بڑھا دی گئی ہے.مجھے حیرت آتی ہے کہ اخبار کا حجم پہلے کی نسبت کم کر دیا گیا ہے اور قیمت بڑھا دی گئی ہے.میں نے کہا تھا کہ اس کا حجم بھی بڑھایا جائے لیکن آدھے حصہ کی تعمیل کی گئی ہے اور آدھے حصہ کی تعمیل نہیں کی گئی.پچھلے دنوں تو الفضل صرف دو دو صفحے کا نکلتا رہا ہے اور عام حالات میں بھی اس کا حجم دوسرے اخباروں سے کم ہے.نوائے وقت اور انقلاب ان دونوں کے صفحات الفضل سے ڈبل ہیں.الفضل آٹھ صفحے کا چھپتا ہے اور وہ بارہ بارہ سولہ سولہ صفحے کے چھپتے ہیں.الفضل کی مشکلات کی وجہ یہی ہے کہ اس نے وقت پر کوٹا منظور نہیں کرایا اور اب اس کی سز ا سلسلہ کو دی جارہی ہے.باہر کے اخباروں کی خریداری بڑھنے کے باوجود اُنہیں کاغذ کی دقت پیش نہیں آتی.دہلی کے بعض اخبار جو باوجود اپنی خریداری کے بڑھ جانے کے اپنا کاغذ دوسروں کے پاس فروخت کرتے رہتے ہیں لیکن الفضل نے وقت پر اپنا کوٹہ بہت کم منظور کرایا اور اپنی آئندہ کی خریداری کو مدنظر نہ رکھا اور اب وہ اس سے زیادہ شائع نہیں کر سکتے.انجمن کو آئندہ ایسے نقائص دور کرنے چاہئیں.واقفین اور گزارہ الاؤنس کے فارغ التحصیل طلباء کے متعلق گریڈوں کا جو سوال اُٹھا ہے اس کی وجہ درحقیقت مبلغین اور جامعہ احمدیہ یہ ہے کہ صدر انجمن نے اس سے پہلے واقفین کے لینے سے انکار کر دیا تھا.آج سے دس سال پہلے میں نے صدر انجمن کے سامنے یہ سکیم رکھی تھی کہ صدر انجمن احمد یہ میں واقفین لئے جائیں لیکن صدر انجمن نے اس وقت کہا کہ ہمیں واقفین کی ضرورت نہیں.میں نے کہا تھا

Page 261

خطابات شوری جلد سوم ۲۴۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء کہ ہم تحریک جدید کے لئے واقفین لیتے ہیں تم بھی صدر انجمن کے لئے واقفین لینا شروع کر دو.اُس وقت صدر انجمن احمدیہ نے میری بات کی طرف توجہ نہ کی نتیجہ یہ ہوا کہ آج صدر انجمن اس کا خمیازہ بھگت رہی ہے اور صدرانجمن میں کارکنوں کی اکثر کمی رہتی ہے.نہ ناظر ملتے ہیں نہ نائب ناظر ملتے ہیں صدر انجمن کے کام کو چلانے کے لئے میں نے تحریک جدید سے سات آٹھ آدمی دیئے ہیں.مجھے یاد ہے کہ ۱۹۳۸ء میں میں نے یہ تجویز پیش کی تھی لیکن بجٹ کمیٹی نے کہہ دیا کہ ہمیں ضرورت نہیں لیکن اب سخت پریشانی کا سامنا ہو رہا ہے.اس میں شک نہیں کہ مہنگائی بہت زیادہ ہے لیکن معقول تنخواہوں کے باوجود مطالبات پیش کرتے جانا بتلاتا ہے کہ مبلغین میں دنیا طلبی کی روح کام کر رہی ہے.بعض دفعہ مطالبات ایسا رنگ اختیار کر جاتے ہیں کہ ان کا پورا کرنا مشکل ہو جاتا ہے.مثلاً پٹواریوں نے گورنمنٹ سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ ہمیں سو روپیہ ماہوار تنخواہ دی جائے.گورنمنٹ نے غور و خوض کے بعد جو نتیجہ نکالا وہ یہ ہے کہ اگر اس مطالبہ کو منظور کیا جائے تو گورنمنٹ کا نصف بجٹ پٹواریوں پر ہی خرچ ہو جائے گا اس لئے گورنمنٹ اُن کو سو روپیہ ماہوار تنخواہ نہیں دے سکتی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس میں ایک حد تک گورنمنٹ کا بھی قصور ہے کہ اُس نے پٹواری کے کام کے لئے میٹرک پاس ہونا ضروری کر دیا حالانکہ اس کی ضرورت نہ تھی.اس سے پیشتر اکثر پرائمری پاس اور مڈل پاس پٹواری اس کام کو کرتے تھے لیکن چونکہ گورنمنٹ نے معیار بلند کر دیا اس لئے اُسے یہ مشکلات پیش آرہی ہیں.کیونکہ میٹرک والوں میں اپنی زیادتی تعلیم کا بھی احساس ہوتا ہے اور وہ زیادہ تنخواہ کا مطالبہ کرتے ہیں.بہر حال ہمارے کاموں میں سے سب سے زیادہ اہم فرض تبلیغ ہے اور اس کے لئے ہمیں زیادہ سے زیادہ مبلغین کی ضرورت ہے.اگر ہم بہت بڑے گریڈز مقرر کر دیں تو ہم اس کام کو زیادہ وسیع نہیں کر سکتے.مبلغین کے مقابلہ میں ہمیں مدرسین کی بہت کم ضرورت پیش آتی ہے.اس وقت ہمارے پاس گل پچاس ساٹھ مدرس کام کر رہے ہیں.اسی طرح ہمیں کلرکوں کی بھی کم ضرورت پیش آتی ہے سب سے زیادہ ضرورت ہمیں مبلغین کی پیش آتی ہے.اس لئے ہم بہت بڑے گریڈ مقرر کر کے اس کام کو وسیع نہیں کر سکتے.تحریک جدید میں جتنے مبلغین ہیں سب کے سب واقفین ہیں اور تبلیغ کا کام ہی ایسا ہے کہ اس میں تنخواہ کا سوال ہی

Page 262

خطابات شوری جلد سوم ۲۴۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء نہیں ہونا چاہیے.اس کے لئے یہ شرائط پیش کرنا کہ اتنا گریڈ دیں گے تو کام کریں گے اگر نہیں دیں گے تو کام نہیں کریں گے یہ تبلیغ کے کام کی ہتک ہے.اصل بات یہ ہے کہ تبلیغ تنخواہ سے ہو ہی نہیں سکتی بلکہ تبلیغ تو ایک تڑپ اور دیوانگی کو چاہتی ہے اور جس شخص میں یہ چیزیں ہوں اُس کے لئے گریڈ کا سوال ہی نہیں وہ تو ہر حالت میں کام کرتا چلا جائے گا اور جو کچھ اُسے ملے گا وہ اُسے ایک انعام سمجھے گا.کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ہاں ۵۶ سالوں میں ہی گریڈوں کا سوال پیدا ہو گیا ہے.لیکن پادریوں میں جن کے مذہب پر اُنہیں سو سال گزر چکے ہیں ابھی تک گریڈوں کا سوال پیدا نہیں ہؤا.حالانکہ وہ لوگ شرک میں مبتلا ہیں.دین سے کوسوں دُور ہیں اور ظلم و تعدی اور لوگوں کے مالوں کو لو ٹنا جائز سمجھتے ہیں اور اُن کا مذہب خالص دنیا داری بن گیا ہے لیکن اس کے باوجود وہ اپنے اخراجات پیش نہیں کرتے.جو مرض عیسائیوں میں اُنیس سو سال تک نہیں آیا وہ ہماری جماعت میں ۵۶ سال میں آگیا گویا تبلیغ بھی ایک تجارتی کام ہے.نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ذَلِكَ ! پس یہ طریق مجھے سخت نا پسند ہے ہم تو آئندہ بھی کہیں گے کہ نام پیش کرو اور قربانی کر کے تبلیغ کر دو یہ اور بات ہے کہ ہم کسی کے اخراجات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے گزارہ کے لئے کوئی رقم مقرر کر دیں لیکن اس سے ہم کوئی معاہدہ نہیں کریں گے.تحریک جدید میں بہت اچھی اچھی لیاقت کے آدمی موجود ہیں.سب کو اُن کے گزارہ کے مطابق الاؤنس دیتے ہیں.بعض افسر ہیں اور ستر روپے لے رہے ہیں اور ایک ماتحت سو یا ایک سو چھپیں روپے لے رہا ہے.کیونکہ افسر کا گزارہ ستر روپے میں ہو جاتا ہے اور ماتحت زیادہ عیال دار ہے اس لئے اُسے ہم سو روپیہ دے دیتے ہیں.ہم نے اُن کو کھانے کے لئے دینا ہے جمع کرنے کے لئے نہیں دینا اور اس کے ساتھ ساتھ ہم اپنی آمد کو بھی مدنظر رکھتے ہیں.آج ہمارے پاس اتنی آمد ہے کہ ہم انہیں ساٹھ یا ستر روپے دے سکتے ہیں کل اگر خدانخواستہ ہماری آمد کم ہو جائے تو ہم انہیں بھی کم گزارے دینا شروع کر دیں گے کیونکہ اُن سے ہمارا کوئی معاہدہ نہیں.پس انجمن کو چاہیے کہ اپنے تبلیغی کاموں کو چلانے کے لئے وہ آئندہ واقفین لیا کرے اور جو لوگ مقررہ گریڈوں پر ہی کام کرنا چاہیں اُن کو جلد سے جلد فارغ کر دے.تبلیغ میں گریڈوں کا رکھنا سلسلہ کی جڑ پر تبر رکھنا ہے اور اس طریق کو جلد سے جلد

Page 263

خطابات شوری جلد سوم ۲۴۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء دور کرنا چاہیے.ذرا غور تو کرو یہ کتنا بھیا نک نظارہ ہوسکتا ہے کہ کسی دن مبلغین اس وجہ سے سٹرائیک کر دیں کہ اُن کے گریڈ بڑھائے جائیں.میں تو اس کے تصور سے ہی کانپ جاتا ہوں پس اس قسم کے مقدس کام کے لئے گریڈوں کا سوال قطعاً نہیں ہونا چاہیے.کثرت ازدواج کی اہمیت شادی بیاہ کے متعلق ایک تجویز نظارت امور عامہ کی طرف سے پیش کی گئی تھی جسے رڈ کر دیا گیا ہے مگر میرے نزدیک یہ تجویز قابل توجہ ہے کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں یہ مرض ترقی کرتا جارہا ہے.ایک طرف تو ہم زور دیتے ہیں کہ ایک سے زیادہ شادیوں کی اسلام نے اجازت دی ہے اور بعض اوقات ایک سے زائد شادیاں تقویٰ کے قیام کے لئے ضروری ہوتی ہیں لیکن اب یہ صورت ہے کہ ایک شخص کی بیوی فوت ہو جاتی ہے اور اُس کے تقویٰ کے لئے بھی اور جماعتی ترقی کے لئے بھی اُس کا دوسری شادی کرنا لازمی ہوتا ہے لیکن جب رشتہ کی تحریک کی جاتی ہے تو جواب آتا ہے کہ اس کے بچے ہیں.بتاؤ اب وہ بچوں کو کہاں پھینک دے.آخر بچے تو اُس کے پاس ہی رہیں گے اور کہاں جائیں گے.مجھے حیرت آتی ہے کہ باوجود عقل مند اور سمجھ دار ہونے کے لوگ یہی عذر پیش کرتے چلے جاتے ہیں.میں ایسے لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ اگر اُن کی یہی حالت ہو جائے تو وہ کیا کریں گے؟ اگر جماعت میں یہ احساس زیادہ دیر تک اسی طرح قائم رہا تو جماعت کے لئے یہ احساس بہت مصر ثابت ہوگا.اسی طرح بعض لوگوں کو بوجہ پہلی بیوی کے بیمار ہو جانے کے دوسری بیوی کی ضرورت ہوتی ہے اور مرد اس قابل ہوتا ہے کہ وہ اولاد پیدا کر سکے لیکن ایسے آدمی کے لئے رشتہ کی بہت مشکلات پیش آتی ہیں.ہر طرف سے یہی جواب آتا ہے کہ اس کی پہلی بیوی موجود ہے حالانکہ یہ تو حقیقی ضرورت ہے.بعض اوقات قوموں کو اقلیت سے اکثریت میں تبدیل کرنے کے لئے بھی کثرت ازدواج پر زور دینا پڑتا ہے.ہندوستان کے مسلمانوں کو آج یہ مصیبت لاحق نہ ہوتی اگر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان پر عمل کرتے کہ تَزَوَّجُوا الْوَلُودَ الْوَدُودَ بچے پیدا کرنے والی اور محبت کرنے والی عورتوں سے شادی کرو.اگر مسلمان اس پر عمل کرتے تو آج ہندوستان میں ان کی اکثریت ہوتی.اگر ہماری جماعت ہی اس پر عمل کرتی تو آج ہندوستان میں ان کی اکثریت ہوتی.میں نے بہار والوں کو علاوہ اور

Page 264

خطابات شوری جلد سوم ۲۴۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء علاجوں کے ایک علاج یہ بھی بتایا تھا کہ کثرت کے ساتھ شادیاں کرو.مگر باوجود اس کے کہ مردوں کو قتل کر دیا گیا.عورتوں کی عصمت دری کی گئی ، عورتوں کے پستان کاٹے گئے ، اُن کی شرم گاہوں میں نیزے مارے گئے پھر بھی وہ یہی کہتے ہیں کہ ہم مغربیت نہیں چھوڑیں گے ہم کثرت ازدواج پر عمل نہ خود کریں گے اور نہ کسی دوسرے کو عمل کرنے دیں گے.وہ اتنا نہیں سوچتے کہ جو شخص خود اندھا ہے وہ دوسرے شخص کو کس طرح رستہ دکھا سکتا ہے.مغرب والے تو اندھے ہی ہیں ہم کیوں اندھے بن جائیں.ہمارے لئے تو اسلام نے ضرورت کے موقع پر کثرت ازدواج پر زور دیا ہے کجا یہ کہ ایک شخص کی بیوی مر جائے اور اُسے رشتہ نہ دیا جائے.میں نے دیکھا ہے لوگ رشتہ کے معاملہ رشتہ ناطہ کے بارہ میں ضروری ہدایات میں مالی حالت پر زیادہ نظر رکھتے ہیں اور بعض دفعہ ایسا گندہ رشتہ ملتا ہے کہ عمر بھر کی مصیبت گلے پڑ جاتی ہے.بعض لوگوں کی نظریں چونکہ بہت زیادہ بلند ہوتی ہیں اس لئے ان کو اپنی منشاء کے مطابق رشتہ نہیں ملتا اور لڑکیوں کی عمر میں چالیس سال سے بھی تجاوز کر جاتی ہیں.یہ حالات بہت پریشان کن ہیں.ان کے ازالہ کی جلد فکر کرنی چاہیے.میرے نزدیک شادیوں کے معاملہ میں بہت زیادہ چھان بین ٹھیک نہیں ہوتی اور لڑکیوں کو زیادہ عرصہ تک گھر بٹھائے رکھنا مناسب نہیں ہوتا.خدا تعالیٰ کے قانون کو تم بدل نہیں سکتے.انسان کو ایک حد تک چھان بین کرنی چاہیے.اس کے بعد معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپر د کر دینا چاہیے.بعض لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ میں تین چار سو روپیہ لے رہا ہوں اور لڑکا بھی تین چار سو روپیہ ماہوار لینے والا ہونا چاہیے اور کم از کم وہ بھی میری پوزیشن کا ہونا چاہیے.وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ چارسو روپیہ ۳۵ سال کی ملازمت کے بعد لے رہے ہیں.جب وہ لڑکا اُن کی عمر کو پہنچے گا تو وہ بھی تین چار سو روپیہ لینے والا ہو جائے گا اور اگر چار سو روپیہ ہی سٹینڈرڈ مقرر کر دیا جائے تو پھر سوائے آئی سی.ایس.کے باقی نوجوان شادی کے قابل ہی نہ رہیں یہ باتیں ایسی نامعقول ہیں کہ مجھے حیرت آتی ہے کہ ان لوگوں کے دماغ کہاں گئے ہیں.اس قسم کی سب باتیں میرے نزدیک لغو اور فضول ہیں.پھر بعض لوگ اس سے بھی تجاوز کر کے شرائط مقرر کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ کپڑا اتنا ہو، ا

Page 265

خطابات شوری جلد سوم ۲۴۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء اس قسم کا ہو، زیور اتنا ہو، میں اس بے حیائی کو دیر سے روکتا آرہا ہوں لیکن جماعت میں برابر یہ شرائط چلتی آرہی ہیں.ان شرائط سے تنگ آکر میں یہ اعلان کر چکا ہوں کہ میں کوئی ایسا نکاح نہیں پڑھوں گا جس میں شرائط لگائی گئی ہوں.اگر باقی جماعت میں بھی یہ احساس پیدا ہو جائے تو یہ بدرسوم بہت جلد دور ہو جائیں.اگر تمہیں یہ معلوم ہو جائے کہ لڑکے والوں نے یالڑکی والوں نے کوئی مطالبہ کیا ہے تو تم کہہ دو کہ ہم نکاح میں شامل نہیں ہونگے.مجھے افسوس ہے کہ جماعت نے میری طرف دیکھ کر بھی ان رسوم کو دور کرنے کے لئے پوری کوشش نہیں کی.یاد رکھو جب تک تم ان رسوم کو دور نہیں کرتے اُس وقت تک تمہاری شادیوں میں محبت کی روح پیدا نہیں ہو سکتی اور اُس وقت تک تم دنیا کے سامنے نیک نمونہ پیش نہیں کر سکتے.اگر لڑکی والے لڑکے والوں کو مجبور کرتے ہیں کہ دس ہزار مہر ہو ، بندے اور گلے کا ہار ضرور ہو اور اتنے جوڑے کپڑے ضرور ہوں تو میرے نز دیک وہ سودا کرتے ہیں گویا وہ ایک گھوڑا یا گائے ہے جس کا سودا کیا جارہا ہے اور جب سو دا ہو جائے تو خریدنے والے کو حق ہوتا ہے کہ جیسا چاہے اس سے سلوک کرے.جو شخص بکرے کا سودا کرتا ہے اُسے بکرا ذبح کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے.گویا اس قسم کے سو دے کر کے تم ظلم و تعدی کو روا رکھتے ہو.پھر بعض علاقوں میں لڑکی والوں سے پوچھا جاتا ہے کہ ساتھ کیا دو گے اور بعض خاوند بھی ایسے گر جاتے ہیں کہ وہ بیوی سے کہہ دیتے ہیں کہ تو لائی کیا تھی؟ گویا ان کے نزدیک کپڑا اور زیور انسان سے زیادہ قیمتی ہیں.جو مرد اس قسم کے مطالبات کرتے ہیں وہ بے حیائی اور بے شرمی کے مرتکب ہوتے ہیں اور جو عورتیں ناجائز مطالبات منواتی ہیں وہ بھی بے حیائی کی مرتکب ہوئی ہیں.ہماری جماعت کو اس قسم کے گندوں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اپنی شادیوں کی بنیاد میں اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام پر رکھنی چاہئیں اور سادگی اور محبت کو مد نظر رکھنا چاہیے.اگر کسی جگہ اس قسم کے مطالبات پیش ہوں تو جماعت کے مخلصین کا فرض ہے کہ وہ اس شادی میں شامل نہ ہوں.خواہ ان کے بھائی یا بہن کی ہی شادی کیوں نہ ہو.اگر پختہ ایمانوں والے لوگ اس قسم کا اظہار نفرت کریں تو باقی لوگ بھی بچنے کی کوشش کریں گے.موجودہ شادیوں میں یہ مرض

Page 266

خطابات شوری جلد سوم ۲۵۰ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء عام نظر آتا ہے لوگ کہتے ہیں کہ فلاں نے اس طرح کیا تھا ہم کیوں نہ کریں اتنا نہیں سمجھتے کہ اگر اس نے گناہ کیا تو کیا تمہارے لئے وہ گناہ کرنا جائز ہو گیا ہے.یہ شادی بیاہ کے معاملات ایسے ہیں کہ ذراسی غفلت سے قو میں کہیں کی کہیں جا پہنچتی ہیں اس لئے ان میں کسی قسم کا غیر شرعی طریق جاری نہیں رکھا جاسکتا.رپورٹ سب کمیٹی بیت المال نمبر ۲ محترم عبد الباری صاحب سیکرٹری سب کمیٹی بیت المال نمبر ۲ کی طرف سے رپورٹ پیش ہونے پر حضور نے فرمایا :.دوستوں نے سب کمیٹی کی رپورٹ سن لی ہے.ناظر صاحب بیت المال کی طرف سے زمینداروں کے تشخیص بجٹ کے لئے یہ تجویز تھی کہ ہر زمیندار کی تین سال کی اصل آمد سال وار معین کر کے اوسط بشر ح ۱/۳ نکالی جائے اور اس اوسط پر چندہ لگایا جائے.خواہ کسی سال میں اس اوسط سے زمیندار کی آمد بڑھ جائے یا گھٹ جائے.یہ تین سال ہر سال پہلے سال کے اخراج اور اگلے سال کے ادخال سے بدلتے رہیں گے لیکن سب کمیٹی نے کہا ہے کہ یہ کام مشکل اور پیچیدہ ہے.ہر جماعت میں ایسے آدمی نہیں مل سکتے جو بخوبی یہ کام کر سکیں اور پھر فارم کی خانہ پُری تو اُن کے لئے اور بھی مشکل ہوگی پھر بعض جماعتیں ایسی ہوتی ہیں جہاں پڑھے لکھے نہیں ہوتے اس لئے ناظر صاحب بیت المال کی تجویز پر عمل کرنا مشکل ہے.اس کی بجائے سب کمیٹی نے یہ تجویز دی ہے کہ بجٹ کے اندازہ کے لئے گزشتہ سال کی اصل آمد لی جائے لیکن وصولی اسی سال کی اصل آمد کے مطابق ہو جس میں وہ آمد ہوئی ہے.فرض کرو پچھلے سال کسی کو دوسو روپے کی آمد ہوئی ہے تو تشخیص بجٹ کے وقت ہم دوسو کا اندازہ لگائیں گے لیکن وصولی ہم اُس کی اصل آمد کے لحاظ سے کریں گے.جو دوست اس کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتے ہوں وہ اپنے نام لکھوا دیں.“ حضور کے اس ارشاد پر چند ممبران نے اپنے رائے کا اظہار کر چکے تو حضور کھڑے ہوئے اور فرمایا :.66 ام لکھوائے.جب دوست اپنی اپنی سب کمیٹی نمبر ۲ نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ بجٹ کے اندازہ کے لئے گزشتہ سال کی آمد مد نظر رکھی جائے اور وصولی اور تشخیص اسی سالی کی اصل آمد کے مطابق ہو.جس میں وہ

Page 267

خطابات شوری جلد سوم 1ō ۲۵۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء آمد ہوئی.اب میں سب کمیٹی نمبر ۲ کی تجویز کے متعلق رائے لیتا ہوں.جو دوست اس بات کے حق میں ہوں کہ بجٹ کے اندازہ کے لئے گزشتہ سال کی آمد لی جائے اور تشخیص اور وصولی اس سال کی اصل آمد کے مطابق ہو جس میں وہ آمد ہوئی.وہ کھڑے ہو جائیں.“ اس پر ۳۰۵ دوست سب کمیٹی نمبر۲ کی تجویز کے حق میں کھڑے ہوئے ایک ووٹ مخالف تھا.حضور نے فرمایا:.فیصلہ میں کثرت رائے کے حق میں فیصلہ کرتا ہوں کہ بجٹ کے اندازہ کے لئے گزشتہ سال کی آمد لی جائے لیکن تشخیص اور وصولی اُسی سال کی اصل آمد کے مطابق ہو جس میں وہ آمد ہوئی.” دوسری تجویز یہ تھی کہ تاجروں اور صناعوں اور پیشہ وروں کی آمدنی کے تعین کے لئے ہر بڑے شہر میں (جس کا فیصلہ نظارت بیت المال کے اختیار میں ہوگا ).حسب ہدایت ناظر بیت المال ایک بورڈ مقرر ہوا کرے جس کا ایک ممبر نظارت بیت المال کا مقرر کردہ نمائندہ ہوگا اور وہی اس بورڈ کا صدر ہوگا اور باقی دو ممبر مقامی امیر یا پریذیڈنٹ کے نامزد کردہ ہونگے.اس بورڈ کے سامنے چندے کی تعیین کے لئے تمام وہ کیس پیش ہونگے جو نظارت بیت المال اُس بورڈ کے سامنے پیش کرنا چاہے اور پھر اُس بورڈ کے اتفاق رائے کے فیصلے فریقین کے لئے واجب التعمیل ہوں گے.مگر وہ فیصلے جو کثرتِ رائے سے کئے جائیں گے اُس میں ہر فریق کو جو اس فیصلہ کے خلاف اپیل کرنا چاہے ناظر بیت المال کے سامنے اپیل کرنے کا حق ہوگا.حضور نے فرمایا:.سب کمیٹی نمبر ۲ نے اس ترمیم کے ساتھ اس تجویز کو پیش کرنا منظور کیا ہے کہ ’ تاجروں اور صناعوں اور پیشہ وروں کی آمد کی تعیین کے لئے جہاں ناظر صاحب بیت المال مناسب سمجھیں بورڈ مقرر کریں جس کا ایک ممبر نظارت بیت المال کا مقرر کردہ ہو اور باقی دوممبران مقامی جماعت کی طرف سے منتخب شدہ ہوں ( مقامی جماعت کے متعلق حضور نے سیکرٹری صاحب سب کمیٹی نمبر ۲ سے دریافت فرمایا کہ مقامی جماعت سے مراد ساری مقامی جماعت ہے یا صرف تاجروں اور صناعوں کی جماعت ؟ سیکرٹری صاحب نے

Page 268

خطابات شوری جلد سوم ۲۵۲ جواب دیا کہ ساری مقامی جماعت مراد ہے.) مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء اس بورڈ کا حق ہوگا کہ اپنے ممبران میں سے جس کو چاہے صدر مقرر کرے اور اُس کے سامنے چندہ کی تعیین کے لئے تمام وہ کیس پیش ہوا کریں گے جو نظارت بیت المال اُس سال بورڈ کے سامنے پیش کرنا چاہے اور پھر اُس بورڈ کے اتفاق رائے کے فیصلے فریقین کے لئے واجب التعمیل ہوں گے مگر وہ فیصلے جو کثرتِ رائے سے کئے جائیں گے اُس میں ہر 66 فریق کو جو اُس فیصلہ کی خلاف ورزی کرے گا ، اپیل کرنے کا حق ہو گا.“ حضور نے ” خلاف ورزی کے الفاظ کے متعلق فرمایا : - اس سے سیکرٹری صاحب کی مراد یہ ہے کہ جو شخص اس فیصلہ سے اختلاف رکھتا ہوگا اُسے اپیل کا حق ہوگا.چونکہ سیکرٹری صاحب نا تجربہ کار ہیں اس لئے اُنہوں نے یہ الفاظ غلطی سے لکھ دیئے ہیں جو صدرانجمن احمدیہ کے مقرر کردہ کسی فرد یا افراد ماسوا ناظر صاحب بیت المال کے سامنے سماعت ہوگی.جو دوست اس کے متعلق خیالات کا اظہار کرنا چاہتے ہوں وہ اپنا نام لکھوادیں.‘“ اس پر ملک عبدالرحمن صاحب خادم امیر جماعت احمد یہ گجرات نے ایک ترمیم پیش کی.حضور نے فرمایا : - دو ملک عبدالرحمن صاحب نے ایک ترمیم پیش کی ہے ، اس کو بھی دوست مد نظر رکھیں وہ ترمیم یہ ہے کہ ایسی تمام جماعتوں میں جن میں ناظر صاحب بیت المال مناسب سمجھیں ایک بجٹ کمیٹی مقرر کی جائے جس کے تین ممبران ہوں گے جن کا انتخاب مقامی جماعت کرے گی.یہ بجٹ کمیٹی جملہ ممبران جماعت مقامی کی آمدنی کی (اُن کی سابقہ سال کی آمدنی کو مد نظر رکھ کر ) تشخیص کرے اگر کسی فرد کو کمیٹی کی تشخیص پر اعتراض ہو تو وہ ناظر صاحب بیت المال کے پاس اس کے خلاف اپیل کر سکتا ہے“.اس ترمیم کے متعلق بھی جو دوست اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتے ہوں وہ اپنے نام لکھوا دیں.نام لکھوائے جانے کے بعد حضور نے فرمایا :.ایک تیسری ترمیم غلام جیلانی صاحب کی طرف سے آئی ہے وہ کہتے ہیں کہ کمیٹی کے تین ممبران میں سے ایک ناظر صاحب بیت المال کا نمائندہ ہو اور ایک مقامی جماعت کا

Page 269

خطابات شوری جلد سوم ۲۵۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء نمائندہ ہو اور تیسرا شخص غیر جانب دار ہو جو کسی قریبی جماعت سے لیا جائے اگر کوئی دوست اس کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتے ہوں تو وہ بھی اپنے نام لکھوا دیں.“ بعض نمائندگان شورای کے اظہارِ خیالات کے بعد حضور نے فرمایا:.ایک تو سب کمیٹی نمبر ۲ کی طرف سے ترمیم پیش کی گئی ہے اور ایک خادم صاحب کی طرف سے اور ایک غلام جیلانی صاحب کی طرف سے.اب رائے شماری کے لئے میں پہلے غلام جیلانی صاحب کی ترمیم کو لیتا ہوں کہ ایک نمائندہ ناظر صاحب کا ہو اور ایک مقامی جماعت کا نمائندہ ہو اور ایک قریبی جماعت سے لیا جائے ، جو دوست ان کی ترمیم کے حق میں ہوں وہ کھڑے ہو جائیں.“ صرف دو، دوست اس ترمیم کے حق میں کھڑے ہوئے.اسکے بعد خادم صاحب کی یہ ترمیم پیش ہوئی کہ ایک بجٹ کمیٹی مقرر کی جائے جس کے تین ممبر ہوں اور تینوں مقامی جماعت کے ہوں اس ترمیم کے حق میں ۲۹ ووٹ تھے.آخر میں سب کمیٹی نمبر ۲ کی ترمیم کو پیش کیا گیا کہ ایک ممبر ناظر صاحب بیت المال کا نمائندہ ہو اور باقی دو ممبر مقامی جماعت کی طرف سے منتخب شدہ ہوں.حضور نے فرمایا:- جو دوست اس تجویز کے حق میں ہوں وہ کھڑے ہو جائیں.“ اس پر ۲۵۳ دوست کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا: - فیصلہ میں کثرتِ رائے کے حق میں فیصلہ کرتا ہوں کہ تاجروں اور صناعوں اور پیشہ وروں کی آمد کی تعیین کے لئے جہاں ناظر صاحب بیت المال مناسب سمجھیں بورڈ مقرر کریں جس کا ایک ممبر نظارت بیت المال کا مقرر کردہ ہو اور باقی دو ممبران مقامی جماعت کی طرف سے منتخب شدہ ہوں.اس بورڈ کا حق ہو گا کہ اپنے ممبران میں سے جس کو چاہے صدر مقرر کرے.اُس کے سامنے چندہ کے تعین کے لئے تمام وہ کیس پیش ہوا کریں گے جو نظارت بیت المال اُس سال بورڈ کے سامنے پیش کرنا چاہے اور پھر اُس بورڈ کے اتفاق رائے سے فیصلے فریقین کے لئے واجب التعمیل ہوں گے.وہ فیصلے جو کثرتِ رائے سے کئے جائیں گے اُن میں ہر فریق کو جو اُس فیصلہ سے اختلاف رکھتا ہو اپیل کرنے کا حق ہو گا جو صدرانجمن کے مقرر کردہ کسی فرد یا افراد ماسوائے ناظر صاحب بیت المال کے سامنے

Page 270

خطابات شوری جلد سوم سماعت ہوگی“.۲۵۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء فرمایا: - نماز ظہر و عصر کی ادائیگی کے بعد دوسرے اجلاس کی کارروائی شروع ہوئی تو حضور نے نظارت بیت المال کی تجویز کا تیسرا حصہ یہ ہے کہ جو چندہ دہندہ بورڈ مجوزہ فقرہ نمبر ۲ (ایجنڈا) کے سوالات کا جواب دینے کے لئے تیار ہو یا ایسے جواب دے جو بورڈ کے نزد یک پوری حقیقت کو ظاہر کرنے والے نہ ہوں تو ایسے شخص کے متعلق ناظر صاحب بیت المال کو بورڈ کی رپورٹ پر از خود چندہ معین کرنے کا حق ہوگا مگر ناظر صاحب بیت المال کے ایسے فیصلہ کے خلاف چندہ دہندہ کو ناظر اعلیٰ کے پاس اپیل کرنے کا اختیار ہوگا.اس بارہ میں سب کمیٹی نے یہ تجویز کیا کہ اگر کوئی چندہ دہندہ بورڈ مندرجہ فقرہ نمبر ۲ کو جواب دینے سے انکاری ہو یا ایسے جوابات دے جو بورڈ کے نزدیک پوری حقیقت ظاہر کرنے والے نہ ہوں تو ایسے اصحاب کے متعلق وہی بورڈ از خود فیصلہ کر دے اور اس کی اپیل بھی اسی طرز پر ہوگی جس طرح فقرہ نمبر ۲ میں درج کی گئی ہو گویا سب کمیٹی نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ بورڈ ہی ایسے لوگوں کے چندہ کی تشخیص کر دے اور اگر بورڈ کا فیصلہ صحیح نہ ہو تو ناظر صاحب اس کے متعلق اپیل کر سکتے ہیں جیسا کہ اس تجویز کے دوسرے حصہ میں فیصلہ کیا جا چکا ہے اس قاعدہ کے متعلق اگر کسی دوست نے کوئی ترمیم پیش کرنی ہو تو ابھی پیش کر دیں اور اگر کسی صاحب نے کچھ کہنا ہو تو اپنے نام لکھا دیں.“ نہ تو کسی دوست نے ترمیم پیش کی اور نہ ہی زبانی کچھ کہنا چاہا.حضور نے فرمایا:.چونکہ کوئی دوست کھڑے نہیں ہوئے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ دوست اس کے متعلق کچھ کہنا نہیں چاہتے ہاں اگر کوئی دوست ترمیم لکھ رہے ہوں تو بتا دیں تا کہ مشورہ کے لئے پیش کر دی جائے.“ اسی دوران میں حضور نے فرمایا:.ایک دوست نے شکایت کی ہے کہ مشاورت کے ایام میں جمعہ کی نماز ختم ہوتے ہی مسجد نور میں سے سائبان اُتار لئے جاتے ہیں اور چٹائیاں بھی اُٹھالی جاتی ہیں اور چونکہ آجکل گرمی کے دن ہیں اس لئے سیمنٹ کا فرش سخت گرم ہو جاتا ہے اور نمازیوں کو

Page 271

خطابات شوری جلد سوم ۲۵۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء سخت تکلیف ہوتی ہے.اس کے متعلق میں ناظر صاحب اعلیٰ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس شکایت کا انسداد کریں اور مناسب انتظام مسجد کے اندر کرا دیں.میں نے اس کے متعلق خود بھی کئی بار منتظمین کو توجہ دلائی ہے مگر ابھی تک عمل نہیں کیا گیا جو نہایت افسوس ناک امر ہے.میرے نزدیک مسجد نور میں مشاورت کے تینوں ایام میں سائبانوں اور چٹائیوں کا انتظام ہونا ضروری ہے اور آئندہ اس قسم کی کوئی شکایت پیدا نہیں ہونی چاہیے.“ اس کے بعد حضور نے فرمایا:.چونکہ کوئی دوست اس تجویز کے متعلق کچھ کہنا نہیں چاہتے اس لئے جو دوست اس کے حق میں ہوں وہ کھڑے ہو جائیں.“ ۳۱۰ دوست کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا :.فیصلہ میں کثرتِ رائے کے حق میں فیصلہ کرتا ہوں کہ اگر کوئی چندہ دہندہ بورڈ مندرجہ فقرہ نمبر ۲ کو جواب دینے سے انکاری ہو یا ایسے جوابات دے جو بورڈ کے نزدیک پوری حقیقت ظاہر کرنے والے نہ ہوں تو ایسے اصحاب کے متعلق وہی بورڈ از خود فیصلہ کر دے اور اس کی اپیل بھی اسی طرز پر ہوگی جس طرح فقرہ نمبر ۲ میں درج کی گئی ہے.بجٹ کمیٹی نمبرا کی رپورٹ اور فیصلہ بجٹ کمیٹی نمبر 1 کی رپورٹ پیش ہونے پر حضور نے فرمایا:.تجویز یہ ہے کہ پانچ کلرک صوبہ جات سرحد،سندھ ،اڑیسہ، بنگال اور بہار کے امراء کو دئے جائیں تا کہ وہ اچھی طرح کام کر سکیں.اس کے لئے مجوزہ سالانہ رقم ۳۲۴۰ روپیہ ہے اور سب کمیٹی نے اس خرچ کی تائید کی ہے اس تجویز کے متعلق اگر کوئی دوست ترمیم پیش کرنا چاہیں تو لکھ کر دے دیں اور اگر کوئی دوست زبانی اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہیں تو وہ اپنے نام لکھا دیں دوست پہلے تو بیٹھے رہتے ہیں اور بعد میں کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے بھی ترمیم پیش کرنی تھی یہ طریق ٹھیک نہیں جس دوست نے ترمیم پیش کرنی ہو وہ ابھی پیش کر دے اور جن دوستوں نے زبانی اپنے خیالات کا اظہار کرنا ہو وہ بھی ابھی اپنا نام لکھا دیں.“ حضور کے اس ارشاد پر صرف ایک صاحب نے رائے کا اظہار کیا.اس پر حضور نے

Page 272

خطابات شوری جلد سوم ۲۵۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء فرمایا:.چونکہ اور کوئی دوست اس کے متعلق کچھ کہنا نہیں چاہتے اس لئے میں یہ تجویز دوستوں کے سامنے رکھتا ہوں کہ سب کمیٹی کی تجویز ہے کہ ۳۲۴۰ روپیہ کی سالانہ رقم صوبہ جات سرحد، سندھ ، اڑیسہ، بنگال اور بہار کے امراء کے کلرکوں کی تنخواہ قحط الاؤنس اور سٹیشنری وغیرہ کے اخراجات کے لئے منظور کی جائے جو دوست اس تجویز کے حق میں ہوں وہ کھڑے ہو جائیں.“ فرمایا:.اس پر ۳۳۷ دوست متذکرة الصدر تجویز کے حق میں کھڑے ہوئے.حضور نے میں احباب کی تجویز کے مطابق کثرت رائے کے حق میں فیصلہ دیتا ہوں کہ صوبہ جات سرحد ،سندھ ، اڑیسہ، بنگال اور بہار کے امراء کے لئے جو پانچ کلرک رکھے جانے تجویز ہوئے ہیں اُن کے لئے اخراجات تنخواہ قحط الاؤنس اور سٹیشنری وغیرہ کے لئے ۳۲۴۰ روپیہ کی سالانہ رقم منظور ہے“.تجویز نظارت تعلیم و تربیت دوسری تجویز نظارت تعلیم وتربیت کی طرف سے یہ تھی کہ مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ اور ان ہر دو کے ہوسٹلوں کے واسطے جدید عمارت کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے اس کے لئے فی الحال مناسب اراضی حاصل کرنے کے واسطے پچیس ہزار روپیہ کی رقم منظور ہونی چاہیے تا کہ اس سال مناسب قطعہ اراضی خریدا جا سکے ورنہ بعد میں مناسب اراضی کے حصول میں مشکلات پیش آنے کا اندیشہ ہے عمارت کی تجویز بعد میں کی جائے گی اور اراضی کے متعلق ضروری تفاصیل مشاورت میں پیش کر دی جائیں گی معہ تجویز نظارت علیاء کہ اس تجویز کے منظور ہونے کے ساتھ صدر انجمن احمدیہ کو یہ سہولت بھی ہو جائے گی کہ مدرسہ احمدیہ کی موجودہ جگہ کو انجمن دفاتر کے لئے استعمال کر سکے گی کیونکہ مسجد اقصیٰ کی تنگی کے پیش نظر دفاتر کی موجودہ جگہ جلد بدلنی پڑے گی“.اس کے متعلق بجٹ کمیٹی نمبر 1 نے یہ رائے پیش کی کہ مدرسہ احمدیہ و جامعہ احمدیہ اور

Page 273

خطابات شوری جلد سوم ۲۵۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء ان ہر دو کے ہوٹلوں کی جدید عمارت کے واسطے اس سال چھپیس ہزار روپیہ کی رقم منظور کی جائے لیکن یہ رقم اس دو لاکھ روپے کی رقم میں سے جو بجٹ میں ریزروفنڈ کے طور پر رکھی گئی ہے خرچ کی جائے.اس کے متعلق اگر کسی دوست نے ترمیم پیش کرنی ہو تو لکھ کر دے دے اور اگر زبانی اپنے خیالات کا اظہار کرنا ہو تو اپنا نام لکھا دے.“ اس پر مولوی ابو العطاء صاحب جالندھری نے یہ ترمیم پیش کی کہ مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ اور ان ہر دو کے ہوسٹلوں کے لئے زمین خریدنے کے لئے پچپچیس ہزار روپیہ ریز روفنڈ سے نہ لیا جائے بلکہ بجٹ 48-1947 ء میں اس کے لئے الگ رقم رکھی جائے اور یہ رقم بجٹ میں اضافہ کر کے دی جائے.جب چند نمائندگان نے اپنے خیالات کا اظہار کیا تو حضور نے فرمایا:.میں اب مولوی ابوالعطاء صاحب کی ترمیم دوستوں کے سامنے پیش کرتا ہوں ترمیم یہ ہے کہ مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ اور ان ہر دو ہوسٹلوں کے لئے زمین خریدنے کے لئے ہیں ہزار روپیہ ریز رو فنڈ سے نہ لیا جائے بلکہ بجٹ 48-1947ء میں اس کے لئے الگ رقم رکھی جائے.جو دوست مولوی ابو العطاء صاحب کی اس ترمیم کے حق میں ہوں وہ کھڑے ہو جائیں.‘“ صرف آٹھ دوست کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا :.جو دوست سب کمیٹی کی اس تجویز کے حق میں ہوں کہ یہ پچیس ہزار روپے کی رقم ریز روفنڈ کے دو لاکھ میں سے خرچ کی جائے وہ کھڑے ہو جائیں.“ اس پر ۳۰۴ دوست کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا :.تین سو چار دوست اس بات کی تائید میں ہیں کہ مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمد یہ اور ان ہر دو کے ہوٹلوں کے لئے زمین خریدنے کے لئے پچیس ہزار روپیہ کی رقم ریز رو فنڈ سے دی جائے مگر میں اس کے متعلق اپنا فیصلہ محفوظ رکھتا ہوں.“

Page 274

خطابات شوری جلد سوم ۲۵۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء نظارت دعوۃ و تبلیغ کی تجویز تیسری تجویز نظارت دعوۃ و تبلیغ کی طرف سے یہ پیش کی گئی تھی کہ : ”قادیان یعنی مرکز سلسلہ کے ماحول میں تبلیغی مہم کو زیادہ مضبوط اور وسیع کرنے کے لئے ضلع گورداسپور کے مندرجہ ذیل مقامات میں تبلیغی مراکز قائم کرنے ضروری ہیں جس کے لئے ان مقامات میں سلسلہ کے اپنے مکانات کا ہونا نہایت مفید ہوسکتا ہے یعنی سری گوبند پور، ڈیرہ بابا نانک، فتح گڑھ، چوڑیاں، بٹالہ، گورداسپور ، کاہنوان ، دھار یوال اور کلانور ان جگہوں پر ایک تو مناسب اراضی خریدنے کے لئے (علاوہ بٹالہ اور گورداسپور جس کے لئے علیحدہ تجویز ہوگی) دس ہزار روپیہ کی رقم منظور ہونی چاہیے اور دوسرے فی الحال مناسب مکانات کرایہ پر لینے کے لئے پندرہ سو روپیہ سالانہ کی رقم منظور کی جائے“.سب کمیٹی کی اس بارہ میں یہ رائے تھی کہ اس سال دس ہزار روپیہ کی رقم جو مناسب اراضی خریدنے کے لئے رکھی گئی ہے اس کو منظور نہ کیا جائے کیونکہ اراضی کی قیمت باہر دیہات میں گرنے کی امید ہے لیکن کرایہ کے لئے پندرہ سو روپیہ کی رقم منظور کی جائے.“ اس تجویز کی بابت چند نمائندگان کے اظہارِ خیالات پر حضور نے فرمایا:.چوہدری فتح محمد صاحب کی تجویز دوستوں کے سامنے پیش ہے وہ کہتے ہیں کہ قادیان کے مضافات میں تبلیغی مراکز قائم ہونے نہایت ضروری ہیں اور ان کا فائدہ تبلیغ کے علاوہ یہ بھی ہوگا کہ ہمارا مرکز مضبوط ہو جائے گا جو دوست چوہدری صاحب کی اس تجویز کے حق میں ہوں وہ کھڑے ہو جائیں.“ اس پر ۳۲۶ دوست کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا:.۳۲۶ دوست اس تجویز کے حق میں ہیں اور اٹھارہ آراء اس کے مخالف ہیں اس لئے سب کمیٹی کی تجویز گر جاتی ہے میں اس کے متعلق بھی اپنا فیصلہ محفوظ رکھتا ہوں“ بجٹ پر پوری بحث ہو چکنے کے بعد میں اس کے متعلق فیصلہ کروں گا.“ اس کے بعد بجٹ آمد وخرچ کے متعلق سب کمیٹی نے اپنی رائے کا تفصیلی بجٹ آمد و خرچ طور پر اظہار کیا سب کمیٹی نے سوائے تخمینہ اور جلسہ سالانہ کے باقی

Page 275

خطابات شوری جلد سوم ۲۵۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء تمام تخمینہ جات بجٹ آمد سے اتفاق ظاہر کیا تھا البتہ آمد جلسہ سالانہ کے متعلق سب کمیٹی کی یہ رائے تھی کہ جلسہ سالانہ کا تخمینہ آمد بروئے بجٹ ۸۳۵۳۹ روپیہ ہے اور یہی منظور ہونا چاہیے.حضور نے فرمایا:.اصل آمد اس مد کی گل ۴۵۰۰۰ روپیہ ہے پچھلے سال اس مد کی آمد ۴۳۸۳۷ روپیہ تھی یعنی پچھلے سال عملاً ۴۴۰۰۰ روپیہ کی آمد ہوئی اور اس سال ۴۵۰۰۰ روپیہ کی آمد ہوئی ہے اب اگر کچھ اور وصولی بھی ہوگئی تو ۴۶۰۰۰ روپیہ ہو جائے گی اس لئے جہاں تک عمل کا سوال ہے ساٹھ ہزار کی رقم بھی اس مد میں پوری ہوتی نظر نہیں آتی لیکن سب کمیٹی کی رائے میں بجائے ساٹھ ہزار کے ۸۳۵۳۹ روپیہ پورا وصول ہونا لازمی ہے اس کے علاوہ سب کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ الفضل نے اپنے حسابات کی کوئی تفصیل پیش نہیں کی اور نہ ہی الفضل کا کوئی نمائندہ موجود تھا جس سے معلوم ہو سکے کہ آمد کیا ہوئی اور خرچ کیا ہؤا اور کن کن مدات میں ہو ا صرف ۲۷۰۰۰ روپیہ کی رقم مہم طور پر دکھائی گئی ہے جس کے ساتھ کوئی تفصیل نہیں اور ساتھ ہی ۶۶۰۰ روپیہ بقایا بھی قابل وصول دکھایا گیا ہے.اگر یہ رقم بھی ملا لی جائے تو ۳۳۶۰۰ روپیہ بن جاتی ہے.سب کمیٹی نے یہ بھی کہا ہے کہ الفضل نے گزشتہ سال (سال رواں) اپنے بجٹ میں ۱۵۱۷۶ روپیہ ریز رو فنڈ بھی دکھایا تھا لیکن اس کے برعکس اس نے ۶۵۰۰ روپیہ قرضہ اپنے ضروری اخراجات کے لئے اُٹھایا ہے.اسی طرح ریویو آف ریلیجنز انگریزی اور اردو اور بک ڈپو کی بھی کوئی تفصیل پیش نہیں کی گئی بک ڈپو کا حساب اتنا چھوٹا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا بجٹ اتنا خفیف اور اتنا ضعیف ہے کہ اسے دیکھ کر شرم محسوس ہوتی ہے یہی حال ریویو اردو اور ریویو انگریزی کا ہے ریویو اردو کی آمد ۲۲۷ روپیہ ہے اور ریویو انگریزی کی آمد ۳۰۰ روپیہ اور اس ۵۲۷ روپیہ کی وصولی کے لئے دو کلرک رکھے گئے ہیں حالانکہ اتنی چھوٹی سی رقم میرے خیال میں ایک دفتر ی بھی وصول کر سکتا ہے.صدرانجمن احمدیہ سے اظہار ناراضگی الفضل کے حسابات میں بھی سخت گڑ بڑ ہے اور اُسے دیکھتے ہوئے ظاہر ہوتا ہے کہ یا تو عملہ نے بددیانتی سے کام لیا ہے اور یا وصولی میں کوئی نقص ہے میں برا بر دو سال سے

Page 276

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء ناظر صاحب اعلیٰ کو توجہ دلا رہا ہوں کہ الفضل کے اندر بد دیانتی اور دھوکا بازی ہو رہی ہے لیکن کسی نے اس طرف توجہ نہیں کی میں دیکھتا ہوں کہ صدر انجمن احمد یہ ہمیشہ لحاظ داری سے کام لیتی ہے اور جب بھی بعض مجرموں کو پکڑا جاتا ہے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ غلطی ہوگئی آئندہ احتیاط کی جائے گی.اس طرح بجائے اس کے کہ اُن کی غلطی کی انہیں سزا دی جائے اور آئندہ کے لئے اس قسم کی غلطیوں کا سدِ باب کیا جائے اُنہیں صرف اتنا کہنے پر کہ غلطی ہوگئی ، چھوڑ دیا جاتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ غلطی جو سزا کے بغیر معاف کر دی جاتی ہے بڑھتی ہے اور غلطی کرنے والا اور بھی زیادہ دلیر ہو جاتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اگر میں غلطی کروں گا تو میرے صرف اتنا کہہ دینے پر کہ غلطی ہوگئی میری گلو خلاصی ہو جائے گی.اگر ایسے آدمیوں کو سزادی جائے تو اس قسم کی غلطیاں ہمیشہ کے لئے رک سکتی ہیں لیکن صدر انجمن احمدیہ نے اس قسم کے مجرموں کو بغیر سزا کے چھوڑ چھوڑ کر دلیر بنا دیا ہے اور غلطیاں کرنے والے دن بدن بڑھ رہے ہیں.گزشتہ سال سفر سندھ پر جب میرے ساتھ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب گئے تو میں نے ان کی غلطیوں کی ایک لمبی فہرست تیار کی اور پھر وہ فہرست صدر انجمن احمد یہ میں بھجوا دی تا کہ آئندہ اس قسم کی غلطیاں نہ ہوں.قربانیاں کرنے والوں کا ذکر اس دفعہ جب پھر سفر سندھ کا موقع آیا تو مجھے یقین دلایا گیا کہ اس دفعہ نہایت اچھا انتظام کیا گیا ہے مگر میں نے دیکھا کہ سارے سفر میں پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے کسی ایک سٹیشن پر بھی مجھ سے دوستوں کی ملاقات نہیں کرائی صرف پہرہ دار ہرسٹیشن پر میرے پاس پہنچ جاتے اور گاڑی کا دروازہ کھٹکھٹا کر مجھے بتاتے کہ فلاں فلاں دوست یا فلاں فلاں جماعتیں ملنے کے لئے آئی ہوئی ہیں اس کے متعلق جب پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے پوچھا گیا تو انہوں نے آگے سے وہی جواب دیا جو ایک نوکر نے اپنے آقا کو دیا تھا کہ :- دیکھئے سرکار اس میں شرط یہ لکھی نہیں اس سفر میں بعض لوگ ایسے بھی تھے جو سو سو میل پیدل سفر کر کے صرف ملاقات کے لئے بعض سٹیشنوں پر آئے ہوئے تھے ایسے مخلص لوگوں کے نام اخبار میں آنے چاہئیے تھے

Page 277

خطابات شوری جلد سوم ۲۶۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء کہ فلاں فلاں دوست نے اتنی قربانی کی کہ وہ سو سو میل پیدل چل کر ملاقات کے لئے آئے.آخر ایسے لوگوں کی قربانیاں کس طرح بعد میں آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ رہ سکتی ہیں اس کا صرف یہی ذریعہ ہے کہ یہ باتیں ہمارے لٹریچر میں آجائیں.صحابہ کی قربانیاں بھی اسی طرح آج تک محفوظ چلی آئی ہیں اگر اُن کے حالات قلم بند نہ کئے جاتے اور اُن کی قربانیوں کو محفوظ نہ رکھا جاتا تو ہمیں آج کس طرح معلوم ہوسکتا کہ فلاں صحابہ نے یہ قربانی کی اور فلاں صحابہ نے وہ قربانی کی.اس قسم کی باتیں تبھی آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ رہ سکتی ہیں جب ان کو لٹریچر میں محفوظ کر دیا جائے.اس سفر میں لوگوں کے اخلاص کا یہ عالم تھا کہ مردوں کے علاوہ بعض عورتیں بھی اپنے بچے گودوں میں اُٹھائے ہوئے دُور دُور سے چل کر نماز میں شامل ہونے کے لئے پہنچ جاتی تھیں مگر الفضل میں ان باتوں کا ذکر تک نہیں کیا گیا جو نہایت افسوس ناک امر ہے.جب میں نے ناظر صاحب کو ان باتوں کی طرف توجہ دلائی تو انہوں نے کہہ دیا حضور غلطی ہو گئی آئندہ ان ہدایات پر عمل کیا جائے گا اور کارکنان کو تنبیہ کر دی گئی ہے.جب تک صدرانجمن احمدیہ کی یہ ذہنیت نہیں بدلے گی کوئی کام صحیح نہیں ہوسکتا.مجھے یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ صدرانجمن احمد یہ اپنے ماتحت کارکنوں کی غلطیوں پر ہمیشہ پردہ ڈالنے کی کوشش کرتی ہے الفضل کے اندر غبن اور بددیانتیاں ہوتی ہیں مگر اُن کو روکنے کی طرف کوئی توجہ نہیں کی جاتی.کئی لوگوں کو یہ شکایت ہے کہ اُن کو متواتر دو دو ماہ تک اخبار نہیں ملتا اور جب اس کے متعلق اخبار والوں سے پوچھا جاتا ہے تو وہ کہہ دیتے ہیں کوتا ہی ہو گئی آئندہ خیال رکھا جائے گا الفضل کے متعلق ناظر صاحب بیت المال کے نوٹ موجود ہیں کہ ان سے الفضل کے حسابات کی تفصیل مانگی گئی اور بار بار مانگی گئی مگر کسی نے توجہ ہی نہ کی.ریویو اُردو و انگریزی اور مصباح کا بھی یہی حال ہے.مصباح کے متعلق بجٹ صفحہ نمبر ۸ دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی آمد سال گزشتہ یعنی ۴۶.۱۹۴۵ء میں ۸۹۶ روپے تھی اور سال رواں کے پہلے چھ مہینوں میں از یکم مئی تا ۳۱ اکتوبر ۱۹۴۶ء اصل آمد ۶۹۵ روپے ہوئی لیکن ریکارڈ خزانہ کے مطابق نو ماہ میں گل ۲۲۸ روپیہ آمد ہوئی ہے یہ ایک عجیب سی بات ہے کہ صیغہ کی اطلاع کے پہلے چھ مہینوں میں ۶۹۰ روپیہ آمد ہوتی ہے اور خزانہ کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ پہلے چھ مہینوں کے ساتھ پچھلے تین ماہ ملا کر گل نو ماہ کی آمد صرف

Page 278

خطابات شوری جلد سوم ۲۶۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء ۲۲۸ روپے ہے اصل بات یہ ہے کہ آمد کو خزانہ میں با قاعدہ طور پر داخل نہیں کیا جاتا اور اُسے خرچ کر لیا جاتا ہے حالانکہ قاعدہ یہ ہے کہ بلوں کے ذریعہ تمام رقوم خزانہ سے برآمد کرائی جائیں مگر نہ تو ناظر اس پر عمل کرتے ہیں اور نہ ہی افسران صیغہ جات.اور اس طرح آمد کچھ ہوتی ہے اور خزانہ میں کچھ اور رقم داخل ہوتی ہے اسی طرح ریویو اُردو کی آمد سال گزشتہ ۴۶.۱۹۴۵ء میں ۱۳۲ روپیہ ہوئی اور صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے ۱۴۰۰ روپے گرانٹ بھی دی گئی یہ کل ۲۵۳۲ روپے کی آمد بنتی ہے مگر اس سال پہلے چھ مہینوں میں صرف ۱۳۶۱ روپیہ آمد ہوئی اور پچھلے تین مہینوں میں ۴۰۳ روپے.اگر گرانٹ کو نکال دیا جائے تو رسالہ کی اصل آمد پہلے چھ ماہ میں ۳۱۱ روپے ہوئی اور پچھلے تین ماہ میں ۱۰۳ روپے یعنی سارے سال میں رسالہ کی اپنی آمد ۲۱۴ روپے ہوئی مگر بجٹ میں یہ دکھایا گیا ہے کہ اگلے سال یہ آمد یکدم ۲۶۰۰ روپیہ ہو جائے گی.میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اگلے سال اتنا اضافہ یکدم کس طرح ہوسکتا ہے.یہی حال ریویو انگریزی کا ہے ۷۲۵ اروپیہ آمد ہوئی مگر خزانہ میں صرف ۳۳۶ جمع ہوئے باقی رقم اُڑ گئی ہے پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگلے سال کا تخمینہ آمد ۲۱۰۰ روپیہ ہو گا.یہ سارے حالات اس قسم کے ہیں کہ صدر انجمن احمد یہ شدید الزامات کے نیچے آتی ہے ہمارا یہ قاعدہ سالہا سال سے چلا آتا ہے کہ کوئی شخص خود بخود روپیہ کو خرچ کرنے کا مجاز نہیں.جب ہمارے گھروں میں ہمارے کسی ملازم کو یہ اجازت نہیں ہوتی کہ وہ آپ ہی آپ روپیہ کو خرچ کرتا پھرے تو صدرانجمن کے ملازمین کو یہ حق کہاں سے پہنچتا ہے کہ وہ خود ہی روپیہ کو خرچ کرنا شروع کر دیں.اب میں دوستوں کے سامنے اصل بجٹ ۴۸.۱۹۴۷ء پیش کرتا ہوں سب کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ خرچ خرید زمین برائے ہسپتال ہائی سکول وغیرہ کے لئے ۴۲۵۰۰ روپیہ اور ادائیگی حصص دی سندھ ویجی ٹیبل آئل اینڈ ایلائیز کمپنی کے لئے ۸۴۰۰ روپیہ اور ریتی چھلہ میں دُکانات کی تعمیر کے لئے ۴۰۰۰۰ روپیہ یہ گل ۱۲۶۵۰۰ رو پی ریز روفنڈ کی رقم میں جذب ہونا چاہیے اصل میں ۸۴۰۰ روپیہ صرف سندھ کی ویجی ٹیبل آئل کمپنی کے لئے ہے اور اسی کے متعلق میں نے کہا تھا کہ یہ رقم رکھی جائے.بہر حال اس وقت جو بجٹ دوستوں کے سامنے ہے اس میں * کی زیادتی منظور کی جانے والی ہے اس کے متعلق دوست اگر ترامیم پیش کرنا نوٹ :.معین رقم معلوم نہیں ہوسکی

Page 279

خطابات شوری جلد سوم ۲۶۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء 66 چاہیں تو کر دیں اور اگر زبانی اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہیں تو اپنے نام لکھوا دیں.“ اس پر بعض اصحاب نے اپنے نام لکھوائے اور جب تمام دوست اظہار خیال کر چکے تو حضور نے فرمایا:.آمد کو بڑھانے کے متعلق بعض دوستوں نے جو تجاویز پیش کی ہیں وہ میں دوستوں کے سامنے رکھتا ہوں ، مولوی ابو العطاء صاحب جالندھری کی تجاویز یہ ہیں :.ا.جن موصی صاحبان نے ۱۰را کی وصیت کی ہوئی ہے وہ اسے بڑھا کر ۹ را کر دیں.۲.چندہ عام بجائے ایک آنہ فی روپیہ کے ڈیڑھ آنہ فی روپیہ مقرر کیا جائے اسی طرح میاں عطاء اللہ صاحب پلیڈر کی تجویز یہ ہے کہ :.۲۵۰ روپیہ ماہوار آمد تک شرح چندہ بدستور رہے ۲۵۰ روپیہ سے لے کر ۵۰۰ روپیہ تک چھ پیسے کر دی جائے اور ۵۰۰ روپے سے ۱۰۰۰ روپے تک کی آمدنی والوں کے لئے شرح چندہ دو آنے اور ۱۰۰۰ روپے سے اُو پر آمدنی والوں کے لئے چار آنے ہو.ان تجاویز کے متعلق میں دوستوں سے رائے لینا چاہتا ہوں لیکن مولوی ابو العطاء صاحب کی تجویز کو منظور کرنے کے معنی یہ ہونگے کہ آئندہ یہ قانون بن جائے گا کہ ہر شخص ضرورہ ارا کی بجائے ۹ / ا حصہ کی وصیت کرے گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ۱۰ را حصہ وصیت کرنے کی جماعت کو جو اجازت فرمائی ہوئی ہے یہ قانون اسے منسوخ کر دے گا جو دوست مولوی ابو العطاء صاحب کی اس تجویز کے حق میں ہوں کہ وصیت کے لئے ۱۰ را کی بجائے ۹ را کی حد بندی کر دی جائے وہ کھڑے ہو جائیں.“ اس تجویز کے حق میں کوئی دوست کھڑے نہ ہوئے.حضور نے فرمایا:.کوئی دوست اس تجویز کے حق میں نہیں ہیں اور میرے نز دیک بھی دوستوں کی رائے بالکل درست ہے یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بنایا ہوا قانون ہے اس لئے ہم اس قانون کو نہ تو بدل سکتے ہیں اور نہ منسوخ کر سکتے ہیں یوں اگر اس کے متعلق وعظ ونصیحت سے کام لیا جائے اور کہا جائے کہ وصیت کرنے والے سلسلہ کی ضروریات کے پیش نظر زیادہ سے زیادہ قربانی کریں اور ۱۰ را سے بڑھا کر ۱/۹ یا ۱/۸ یا ۱٫۷ یا ۶ ۱ یا ۱٫۵ یا ۴ ۱٫ یا ۱٫۳ کی وصیت کریں تو یہ جائز ہو گا لیکن یہ ہرگز جائز نہیں ہوسکتا کہ ۱/۱۰ کو منسوخ کر کے ہم

Page 280

۲۶۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء خطابات شوری جلد سوم ۹ را حصہ کی وصیت کرنے کا قانون بنا دیں.مثلاً یہ تو ہم لوگوں سے کہہ سکتے ہیں کہ ہر روز پچاس یا سونفل پڑھا کرو لیکن ہم فرض نمازوں کی چار رکعت بڑھا کر ساڑھے چار نہیں کر سکتے پس میں کثرت رائے کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے اس تجویز کو کہ ہر شخص ضرور ۱٫۹ کی وصیت کرے ر ڈ کرتا ہوں.اب میں دوستوں کے سامنے دوسری تجویز رکھتا ہوں میاں عطاء اللہ صاحب پلیڈر کی تجویز یہ ہے کہ ۲۵۰ روپے تک شرح چندہ بدستور رہے لیکن ۲۵۰ روپیہ سے اوپر آمدنی والوں کیلئے شرح چندہ بڑھا کر چھ پیسے فی روپیہ کر دی جائے.جو دوست اس تجویز کے حق میں ہوں کہ ۲۵۰ روپیہ تک ماہوار آمدنی والوں کے لئے شرح چندہ نہ بڑھائی جائے یعنی ان کو قانونا مجبور نہ کیا جائے کہ وہ ضرور ایک آنہ کی بجائے چھ پیسے ہی دیں.وہ کھڑے ہو جا ئیں.“ اس پر ۳۱۷ دوست کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا :.۳۱۷ دوستوں یعنی اکثریت کی رائے یہی ہے کہ ۲۵۰ روپیہ تک شرح چندہ نہ بڑھائی جائے میں اسی کے حق میں فیصلہ کرتا ہوں.دوسری تجویز میاں عطاء اللہ صاحب کی یہ ہے کہ ۲۵۰ روپیہ سے اوپر ۵۰۰ روپیہ تک ماہوار آمدنی والوں کے لئے شرح چندہ چھ پیسے کر دی جائے ۲۵۰ روپے سے اوپر آمدنی والوں کے لئے شرح چندہ بڑھانے کی دو شقیں ہیں ایک تو یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی مرضی سے ایک آنہ کی بجائے چھ پیسے کی شرح سے چندہ دے اور دوسرے یہ قانون بنا دیا جائے کہ ایسے لوگوں سے ضرور چھ پیسے کے حساب سے چندہ وصول کیا جائے جو دوست اس تجویز کے حق میں ہوں کہ ۲۵۰ روپے سے زیادہ ماہوار آمدن والوں کے لئے شرح چندہ بڑھا دی جائے وہ کھڑے ہو جائیں.“ اس تجویز کے حق میں کوئی دوست کھڑے نہ ہوئے.حضور نے فرمایا:.66 جو دوست اس تجویز کے خلاف ہوں وہ کھڑے ہو جائیں.“ اس پر ۳۵۸ دوست کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا:.۳۵۸ دوستوں کی رائے یہ ہے کہ شرح چندہ میں کوئی اضافہ نہ کیا جائے بلکہ اس کو طوعی

Page 281

خطابات شوری جلد سوم ۲۶۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء رکھا جائے اس لئے میں کثرت رائے کے حق میں فیصلہ دیتا ہوں کہ شرح چندہ میں کوئی اضافہ نہ کیا جائے.“ نیز فرمایا:.”میاں عبدالمنان صاحب عمر نے کہا ہے کہ انگریزی ترجمۃ القرآن جس کی ایک جلد انشاء اللہ اسی سال شائع ہو جائے گی اس کی آمد بجٹ میں شامل کی جائے.اس میں طبہ نہیں کہ بجٹ میں یہ آمد صحیح طور پر درج نہیں مگر اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ اگر یہ آمد درج ہوئی تو ہماری آمد کا بجٹ بڑھ جائے گا.اس وقت تک اس مد میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب خرچ ہو چکا ہے اور یہ سب خرچ قرض لے کر کیا گیا ہے اس لئے کچھ عرصہ تک اس روپیہ سے قرض ادا ہوگا اور پھر جو ر تم بیچ رہی وہ اگلے حصہ کی طباعت پر خرچ ہوگی مطبوعہ بجٹ میں صرف ۱۳۲۶۶ آمد دکھائی گئی ہے حالانکہ چالیس ہزار دکھائی جانی چاہیے تھی کیونکہ انگریزی ترجمۃ القرآن کی دو ہزار جلدیں شائع ہوں گی اور فی جلد میں روپیہ قیمت رکھی جائے گی بعض دوست چاہتے ہیں کہ اس کی قیمت پچیس روپے رکھی جائے لیکن یہ فیصلہ تو بعد میں ہوگا میری خواہش یہی ہے کہ اس کی قیمت ہیں روپیہ ہوتا کہ اس کی اشاعت زیادہ ہو سکے اگر ہمیں روپیہ اس کی قیمت رکھی جائے تو یہ آمد چالیس ہزار روپے ہو سکتی ہے اور بجٹ میں صرف ۱۳۲۶۶ روپے درج کی گئی ہے یہ صرف ایک حسابی غلطی ہے بیت المال والوں کو چاہیے کہ وہ اسے درست کر دیں اور چالیس ہزار آمد اور اتنا ہی خرچ رکھ لیا جائے“.اس کے بعد حضور نے ارشا د فرمایا کہ بجٹ اخراجات کے متعلق اگر کوئی دوست اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہیں تو نام لکھوا دیں مگر کسی دوست نے اپنا نام نہ لکھوا یا صرف ملک عبد الرحمن صاحب خادم نے حفاظت مرکز کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا.اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ اب جو دوست اخراجات کے بارہ میں کوئی ترمیم پیش کرنا چاہتے ہوں وہ پیش کر دیں.حضور کے اس ارشاد پر پہلی ترمیم محمد شریف صاحب کانپور کی طرف سے یہ پیش ہوئی کہ ریویو اردو اور انگریزی کو گرانٹ نہ دی جائے بلکہ اس صیغہ کو چاہیے کہ خود اپنے اخراجات برداشت کرے.

Page 282

خطابات شوری جلد سوم ۲۶۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء ۲.دوسری ترمیم مولوی ابو العطاء صاحب کی طرف سے پیش ہوئی کہ ہوسٹل جامعہ احمدیہ کے لئے ٹیوٹر حسب تجویز صدر انجمن منظور کیا جائے جس کے لئے ۲۴۰ روپیہ کی رقم بجٹ میں رکھی گئی ہے.۳.تیسری ترمیم مولوی عبد الرحیم صاحب درد ایم اے ناظر تعلیم و تربیت کی طرف سے یہ پیش ہوئی کہ مبلغ تمیں ہزار روپیہ جو صدرانجمن احمدیہ نے تعمیر کے لئے رکھا تھا وہ محکمہ تعلیم کی ناگزیر ضروریات کے لئے بجٹ میں منظور کیا جائے.حضور نے فرمایا:.جو دوست محمد شریف صاحب کی اس ترمیم کے حق میں ہوں کہ ریویو اردو اور انگریزی کو گرانٹ نہ دی جائے وہ کھڑے ہو جائیں.“ صرف دس دوست کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا:.فیصلہ اس کے حق میں صرف دس ووٹ ہیں اس لئے ظاہر ہے کہ اس ترمیم کے خلاف اکثریت ہے میں بھی اس ترمیم کے خلاف فیصلہ کرتا ہوں کیونکہ اگر ہم ریویو اردو و انگریزی کی گرانٹ بند کر دیں گے تو اس کے معنی سوائے اس کے اور کیا ہو سکتے ہیں کہ یہ رسالے بند ہو جائیں یہ مثال تو بالکل ویسی ہی ہوگی جیسے ایک بچہ گر پڑے اور وہ روتا چیختا اپنی ماں کے پاس پہنچے تو ماں اُس کو دو تھپڑ رسید کر دے.بچہ تو پہلے ہی چوٹ لگنے کی وجہ سے رو رہا ہو گا جب ماں بھی اسے دو تھپڑ رسید کر دے گی تو نتیجہ ظاہر ہے کہ وہ اور بھی زیادہ روئے گا یہی حالت اس وقت ریویو کی ہے وہ تو پہلے ہی رور ہے ہیں اگر وہ فریاد لے کر ہمارے پاس مدد کے لئے آئیں تو کیا ہم مدد کرنے کی بجائے اُن کو تھپڑ مار دیں؟ پس ہمیں چاہیے کہ ہم ان کی گرانٹ کو ابھی بند نہ کریں تا کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکیں.دوسری تجویز یہ ہے کہ ہوٹل جامعہ احمدیہ کے لئے صدرانجمن احمدیہ کی تجویز کے مطابق ایک ٹیوٹر منظور کیا جائے جس کے لئے بجٹ میں ۲۴۰ روپے کی رقم رکھی گئی ہے بشرطیکہ طلباء کی تعداد کم از کم پچاس ہو.جو دوست اس کی تائید میں ہوں کہ پچاس طلباء کی صورت میں ٹیوٹر رکھ لیا جانا چاہیے وہ کھڑے ہو جائیں.“

Page 283

خطابات شوری جلد سوم ۲۶۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء ۲۹۶ دوست کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا:.۲۹۶ آراء اس تجویز کے حق میں ہیں اس لئے میں بھی کثرت رائے کے حق میں فیصلہ کرتا ہوں کہ ہوٹل جامعہ احمدیہ کے لئے ٹیوٹر کے لئے ۲۴۰ روپیہ بجٹ میں رکھا جائے بشر طیکہ طلباء کی تعداد کم از کم پچاس ہو.تیسری تجویز یہ ہے کہ عمارات صدر انجمن احمدیہ کے لئے ۳۰۰۰۰ روپے کی رقم منظور کی جائے.جو دوست اس کے حق میں ہوں وہ کھڑے ہو جائیں.“ اس پر ۱۴۴ دوست کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا:.” جو دوست سب کمیٹی کی تجویز سے متفق ہیں کہ یہ رقم خرچ نہ کی جائے وہ کھڑے ہو جائیں.“ فیصلہ اس پر ۱۶۷ دوست کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا:.۱۴۴ دوست اس تجویز کے حق میں ہیں اور ۱۶۷ آراء اس کے خلاف ہیں اس لئے میں کثرتِ رائے کے حق میں فیصلہ دیتا ہوں کہ عمارات صدرانجمن احمد یہ کے لئے ۳۰۰۰۰ روپیہ کی رقم نامنظور کی جاتی ہے.“ اس کے بعد حضور نے فرمایا:.جہاں تک بجٹ کا سوال ہے میں آخر میں اس کے متعلق مفصل بیان کروں گا سر دست میں جماعت سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے ملک کے طول و عرض میں جگہ جگہ فسادات ہورہے ہیں اور ان فسادات میں لاکھوں روپے کی عمارتیں تباہ ہوتی چلی جارہی ہیں ہم اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں تو کرتے ہیں کہ وہ اپنے خاص فضل اور کرم سے قادیان کو ان فسادات کی لپیٹ میں آنے سے محفوظ رکھے لیکن فرض کرو دشمن خدا نخواستہ قادیان پر حملہ کر دے تو ہمارے لئے پہلی عمارتوں کو ہی بچانا دشوار ہو جائے گا چہ جائیکہ ہم ان حالات کی موجودگی میں نئی تعمیرات شروع کر دیں گویا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم جان بوجھ کر اپنے سرمایہ کو تعمیرات میں لگا کر تباہ کر دیں.کام کرنے والے لوگ یہ نہیں دیکھا کرتے کہ ان کے بیٹھنے کے لئے جو مکان ہے اُس کی بلڈنگ اعلیٰ ہے یا نہیں اور سجا سجایا ہے یا نہیں اُن کو تو اپنے کام سے غرض ہوتی ہے اور وہ گھاس پھوس کے چھپروں کے نیچے بیٹھ کر بھی اپنے کام کو

Page 284

خطابات شوری جلد سوم ۲۶۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء سرانجام دیتے رہتے ہیں اور خواہ ان کو کرسیوں اور میزوں کی بجائے کھجور کے پتوں کی بنی ہوئی چٹائیاں ہی اپنے استعمال میں لانی پڑیں وہ اپنے مقاصد اور عزائم کے پیش نظر ان پر بیٹھ کر کام کرنے میں کوئی ہتک محسوس نہیں کرتے.ناظر صاحب جو میرا نام لے کر جامعہ نصرت کے لئے لوگوں کے سامنے چندہ کی اپیل کرتے ہیں جہاں تک میرا حافظہ کام کرتا ہے اُنہوں نے اس سے پہلے بھی کئی دفعہ جامعہ کے نام پر مجھ سے روپیہ لیا ہے مگر وہ روپیہ ہمیشہ دوسرے کا موں پر صرف کر دیا گیا اور جامعہ جیسا تھا ویسے کا ویسا ہی رہا چونکہ ناظر صاحب کو معلوم ہے کہ مجھے جامعہ نصرت سے محبت ہے اور جامعہ نصرت کے نام پر روپیہ مانگنے پر ہمیں ضرور کچھ نہ کچھ مل جائے گا اس لئے جامعہ نصرت کا نام لے کر مجھ سے مانگنا شروع کر دیتے ہیں مگر روپیہ اپنی محبوبہ پر خرچ کر لیتے ہیں اور میری محبوبہ پھر ویسی کی ویسی بیٹھی رہتی ہے.روپیہ وصول کرنے کا یہ اچھا ڈھنگ اِن کو ہاتھ آیا ہے جب ضرورت ہوئی جامعہ نصرت کو پیش کر دیا اور جب روپیہ ہاتھ آ گیا تو جامعہ بے چاری دور سے دیکھتی رہ گئی.میرے نزدیک مغربی تعلیم عورتوں کے لئے کچھ بھی ضروری نہیں اور اس پر روپیہ خرچ کرنا اسے ضائع کرنے کے مترادف ہے.مردوں کے متعلق تو کہا جاسکتا ہے کہ اُنہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے ملازمتوں میں جانا ہوتا ہے اور پھر ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوان کثرت کے ساتھ اپنی زندگیاں دین کے لئے وقف کرتے ہیں اور ان کی اعلیٰ تعلیم سلسلہ کے لئے مفید ثابت ہوتی ہے کیونکہ اعلیٰ تعلیم کے بغیر غیرممالک میں تبلیغ نہیں ہو سکتی اس لئے مردانہ سکولوں میں اعلیٰ تعلیم کے لئے ہمیں اگر غیر معمولی اخراجات بھی برداشت کرنے پڑیں تو ہم کرتے ہیں لیکن زنانہ سکولوں میں اعلیٰ تعلیم کے لئے غیر معمولی اخراجات برداشت کرنے میں ہمیں ضرور انقباض محسوس ہوتا ہے.کیونکہ ہمارے یہ اخراجات سلسلہ کے لئے کچھ زیادہ مفید نہیں ہو سکتے.اب جیسا کہ برطانیہ کی طرف سے اعلان ہو چکا ہے انگریز ہندوستان سے جارہے ہیں اس لئے انگریزی زبان کی وہ قیمت اور وقعت یہاں نہیں رہے گی جو اس سے پہلے تھی.بے شک موجودہ نسل کے لوگ جنہوں نے انگریزوں کی ملازمتیں حاصل کرنے کے لئے اعلیٰ تعلیمات حاصل کی تھیں انگریزی بولنے کے عادی رہیں گے لیکن آنے والی نسل کے وقت چونکہ انگریز

Page 285

خطابات شوری جلد سوم ۲۶۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء نہ ہوں گے اس لئے طبعاً ان کو انگریزی سے چنداں دلچسپی نہ ہوگی اور وہ انگریزی میں گفتگو کرنا پسند نہیں کریں گے بلکہ وہ لوگ بھی جنہوں نے انگریز کی غلامی کی وجہ سے انگریزی کو اپنا یا ہو ا تھا اور ملکی زبان سے نفرت رکھتے تھے اس کو چھوڑنے کی کوشش کریں گے اب تک تو یہ حال تھا کہ ہر شخص اپنے روز مرہ کے مشاہدہ سے یہ جان چکا تھا کہ انگریز کے بنگلہ پر پہنچ کر لوگ سلام کرتے ہیں اس لئے قدرتی طور پر ہر شخص اس سے متاثر ہوتا تھا.لیکن جب انگریز چلے گئے تو لوگوں کو یہ احساس ہوگا کہ اب ہم کیوں انگریزی بولیں لوگ چاہیں گے کہ ہم جس زبان کو ہر روز اور ہر وقت اپنے گھروں میں بولتے ہیں اُسی کو استعمال میں لائیں.پھر یہ بھی ایک مسلمہ امر ہے کہ جب تک ہندوستان کے اندر ہندوستانیوں کی مادری زبان رائج نہیں ہو جاتی ہمارا ملک ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا اگر اس وقت تک ہندوستانیوں نے انگریزی کو اپنائے رکھا تو اُن کا یہ فعل بعض اغراض کے ماتحت تھا اور اس زبان کو اب تک اس لئے بھی برتری اور فوقیت حاصل رہی کہ یہ حاکموں کی زبان تھی اور ہر قسم کے لوگ انگریزوں کی نقل میں ہی اپنے لئے فخر محسوس کرتے تھے.اس کے علاوہ خدا تعالیٰ نے ہندوستانیوں کے لئے ایک بہت بڑا فائدہ مقدر کر رکھا تھا اور وہ فائدہ وابستہ تھا انگریزی زبان کے ساتھ.جب تک ہندوستانی انگریزی زبان نہ سیکھتے وہ اس فائدہ سے محروم رہتے وہ فائدہ یہ تھا کہ ہم نے فلسفہ، سائنس اور حساب وغیرہ کے علوم جدیدہ اس قوم سے سیکھنے تھے اور یہ علوم صرف اسی صورت میں حاصل ہو سکتے تھے کہ ہم انگریزی زبان کو سیکھتے اب جب کہ ہم وہ فوائد حاصل کر چکے ہیں ہمارے لئے انگریزی کی اعلیٰ تعلیم کچھ زیادہ مفید نہیں رہی اور جب انگریز ہندوستان سے چلے جائیں گے اُس وقت انگریزی زبان کی کچھ بھی اہمیت نہیں رہ جائے گی بہر حال ہندوستان کی آئندہ زبان کوئی اور ہو گی خواہ وہ اُردو ہو یا کوئی اور.تعلیم کے اخراجات کم کر کے تبلیغ پر زور دیں میں نے اندازہ لگایا ہے کہ اس وقت ہماری تعلیم پر بہت زیادہ اخراجات ہورہے ہیں اتنے زیادہ کہ اس کے مقابلہ میں تبلیغ کے اخراجات بھی کم ہیں تعلیم کے اخراجات کا یہ غیر معمولی بوجھ ایسا ہے جو تبلیغ میں كَمَا حَقُّہ کامیابی حاصل کرنے کے

Page 286

خطابات شوری جلد سوم ۲۷۰ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء رستہ میں ہمارے لئے روک بن رہا ہے ہمارے لئے ضروری ہے کہ جہاں تک ممکن ہو تعلیم کے اخراجات کو کم کر کے تبلیغ پر زور دیں اور تعلیم کے صرف ایسے اخراجات ہی ضروری سمجھے جائیں جن کے بغیر گزارہ نہ ہو سکتا ہو پرانے زمانہ کے علماء شاندار عمارتوں میں بیٹھ کر نہیں پڑھاتے تھے ان کے پاس میزیں اور کرسیاں اور دوسرا فرنیچر نہیں ہوتا تھا وہ درختوں کے سایہ میں چٹائیاں بچھا کر ہی بیٹھ جایا کرتے تھے اور کام بھی آجکل کے علماء سے زیادہ کرتے تھے مجھے یاد ہے حضرت خلیفہ اول ہمیشہ ہمیں چٹائیوں پر بٹھا کر پڑھایا کرتے تھے اس میں نہ آپ اپنی ہتک محسوس کرتے تھے اور نہ ہم اپنی ہتک سمجھتے تھے.پس تعلیم کے لئے یہ ضروری نہیں کہ سکول کی بلڈنگ اعلیٰ قسم کی ہو یا میزیں اور کرسیاں اعلیٰ درجہ کی ہوں بلکہ تعلیم کے لئے صرف معلمین اور متعلمین کے دلوں میں عزم کی ضرورت ہے اُستاد سمجھ لیں کہ ہم نے اپنے شاگردوں کو پڑھانا ہے اپنے سلسلہ اور قوم کی زندگی کے لئے اور شاگرد سمجھ لیں کہ ہم نے پڑھنا ہے صرف اس لئے کہ ہم تعلیم حاصل کر کے سلسلہ کے لئے مفید وجود بنیں گے جب یہ دونوں ان باتوں کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیں گے تو میں امید کرتا ہوں کہ ہم تعلیم کے زائد اور غیر ضروری اخراجات سے بچ جائیں گے اور موجودہ بوجھ یقیناً کم ہو جائے گا البتہ گورنمنٹ کی طرف سے اگر ان باتوں پر زور دیا جائے کہ عمارت اس قسم کی ہونی چاہیے اور ساز و سامان اس قسم کا ہو تو اس صورت میں گورنمنٹ - کا مطالبہ کرنا چاہیے.جب تک گورنمنٹ ہمیں ان کاموں کے لئے امداد نہیں دیتی ہم کیوں اپنا روپیہ ضائع کریں اور ایسے وقت میں کریں جبکہ ایک طرف ہمارا مقدس مقام چاروں طرف سے خطرات میں گھرا ہوا ہے اور دوسری طرف ہمارے دین پر ہر طرف سے حملے را اور ہورہے ہیں.اس وقت تو ہمیں چاہیے کہ جہاں تک ہم سے ہو سکے ہم اپنے زائد اخراجات کو کم کرنے کے علاوہ ایسے اخراجات بھی کم کر دیں جن کے کم کرنے سے ہمیں تھوڑی بہت تکلیف برداشت کرنی پڑے اور اپنی ساری توجہ اپنے مقدس مقامات کی حفاظت اور دین کی اشاعت کی طرف مبذول کر دیں اور اگر ہم اس قسم کے خیالات رکھنے لگ جائیں کہ ہمارے کالج کی عمارت اگر یوں نہ بنی تو ہماری ناک کٹ جائے گی یا ہمارا ہوٹل اعلیٰ پایہ کا نہ ہوا تو دنیا ہمیں طعنے دے گی تو میرے نزدیک اس قسم کی باتوں اور طعنوں سے اگر ہماری

Page 287

خطابات شوری جلد سوم ۲۷۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء ناک کٹتی ہے تو ایک دفعہ چھوڑ سو دفعہ کئے.ہم ایسی باتوں کی پرواہ نہیں کرتے.میں تو یہاں تک خیال کرتا ہوں کہ اگر کسی وقت نوبت یہاں تک پہنچے کہ ہمیں تعلیمی اداروں کو بند کر کے ان کے اخراجات بھی تبلیغ پر صرف کرنے پڑیں تو ہم اس سے بھی دریغ نہیں کریں گے اور اُس وقت یہ کوئی معیوب بات نہیں ہوگی.اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا اصل مقصد اور مدعا تبلیغ ہے ہاں ان موجودہ مخدوش اور پُرفتن ایام کے خیریت کے ساتھ گزر جانے کے بعد ہم ایسے کاموں کی طرف توجہ کر سکتے ہیں پس جب تک ہم ان ہولناک ایام میں سے صحیح سلامت گزرنہیں جاتے ہمیں اپنے پیسے کی قدر کرنی چاہیے اور اپنا ایک ایک پیسہ صرف کرنے سے پیشتر ہمیں سوچنا چاہیے کہ آیا وہ کام جس کے لئے ہم یہ خرچ کرنا چاہتے ہیں اب ایسا ہے کہ اس کے بغیر ہم گزارہ کر سکتے ہیں یا نہیں.اگر وہ کام ایسا ہے کہ اُس پر خرچ کئے بغیر ہم گزارہ کرسکیں تو خواہ ہمیں اس کے لئے تھوڑی بہت تکلیف بھی کیوں نہ برداشت کرنی پڑے ہمیں اس کے لئے خزانہ سے پیسہ نکالتے وقت تامل ہونا چاہیے.نازک ایام میں ہمارا فرض پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اخراجات کے بارہ میں اپنا ہر قدم پھونک پھونک کر رکھیں اور جہاں تک ممکن ہوزائد اخراجات کو کم کرنے کی کوشش کریں.موجودہ ایام میں اگر ہم نے اس طرف زیادہ توجہ کی کہ سلسلہ کے دفاتر اور تعلیمی اداروں کے لئے زیادہ اعلیٰ عمارتیں ہوں تو ممکن ہے دشمن کے حملہ کی صورت میں ہمیں زیادہ نقصان اُٹھانا پڑے اور وہ نقصان ایسا ہو جس سے ہماری کمریں خم ہو جائیں.پس دوستوں کو چاہیے کہ خدا تعالیٰ کے حضور گڑ گڑا، گڑ گڑا کر دعائیں کریں اور ساتھ ہی فتنہ انگیزوں کو اُن کی فتنہ انگیزیوں سے باز رکھنے کی کوشش کریں اور اُن کو اس قسم کے فسادات کے بدنتائج سے باخبر کریں اور ان کی ہدایت کے لئے خدا تعالیٰ سے دعائیں کریں ایسے مفسدوں اور فتنہ پردازوں کو نصیحت کرتے رہنا آخر فائدہ مند ثابت ہو گا قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَذَكَّرُ إِنْ نَفَعَتِ الذِكْرَى اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بالکل سچ اور صحیح ہے.یہ ہو نہیں سکتا کہ جن لوگوں کو بار بار نصیحت کی جائے وہ راہ راست پر نہ آجائیں خواہ وہ ہندو اور سکھ ہی کیوں نہ ہوں.نصیحت بہر حال فائدہ پہنچاتی ہے بشرطیکہ صحیح طور پر کی جائے.

Page 288

خطابات شوری جلد سوم ۲۷۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء اب بجٹ کی بعض باتوں کے متعلق میں دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.ا.بجٹ کے صفحہ ۱۶ پر لکھا ہے کہ گھٹیالیاں سکول کو ۳۸۹۲ روپیہ مدد دی جائے گی اور اس کے ساتھ نوٹ یہ ہے کہ معاہدہ یہ ہے کہ فیسوں اور سرکاری گرانٹ کی آمد کو وضع کر کے باقی اخراجات کا نصف مقامی جماعت برداشت کرے گی اور نصف صدر انجمن احمدیہ.گویا ۱۹۴۶ روپیہ مقامی جماعت کی طرف سے داخل خزانہ ہونے پر ۳۸۹۲ رو پیدا نہیں مل سکیں گے اب اس کو بجٹ کے صفحہ ۶ پر آمد میں دیکھیں تو وہاں امداد از جماعت گھٹیالیاں برائے نصف اخراجات ۱۲۸۶ روپے کی رقم درج ہے.میرے نزدیک یہ غلط ہے ۳۸۹۲ روپے کا نصف ۱۹۴۶ روپے ہونا چاہیے نہ کہ ۲۸۶ ۱ روپے.اسی طرح ۶۶۰ روپیہ کی رقم ہماری آمد میں سے کم ہو جائے گی.۲.زود نویسی کے محکمہ میں چار زود نویسوں کا خرچ رکھا گیا ہے مگر کام صرف تین زودنو لیس کر رہے ہیں چوتھا ز ودنو لیں اب تک محکمہ کو ملا ہی نہیں گویا ایک زود نویس کا خرچ محض زائد طور پر دکھایا گیا ہے..بجٹ میں ایک اور شقم یہ ہے کہ ایک صیغہ کے اخراجات دوسرے صیغہ میں دکھائے گئے ہیں مثلاً ناظر صاحب اعلیٰ کی تنخواہ نظارت تألیف و تصنیف میں رکھی گئی ہے جو ہر گز درست نہیں.اگر انجمن نے کسی صیغہ سے کوئی شخص اپنی ضرورت کے لئے لے لیا ہے تو اُس کا خرچ بھی اُسی صیغہ میں پڑنا چاہیے جس نے لیا ہے نہ کہ وہ صیغہ برداشت کرتا رہے جس سے لیا گیا ہے.اسی طرح ریویو میں ایک آدمی دعوت وتبلیغ سے لیا گیا ہے مگر خرچ بجائے ریویو کے اب تک دعوۃ و تبلیغ پر پڑ رہا ہے جو میرے نزدیک ہرگز درست نہیں آئندہ ان باتوں کی اصلاح ہونی چاہیے.کیونکہ یہ طریق کہ ایک صیغہ کا خرچ دوسرے صیغہ کو برداشت کرنا پڑے درست نہیں.صدر انجمن احمدیہ کے کارکنان کے مہنگائی الاونس کے متعلق سب کمیٹی نے لکھا ہے کہ بجٹ دیباچہ میں صدر انجمن احمدیہ نے کارکنان کے گرانی الاؤنس کے اضافہ کے لئے ۲۷۰۰۰ روپیہ کے مزید خرچ کا جو ذکر کیا ہے وہ ضرور قابل غور ہے اور اس خرچ کو بجٹ میں شامل کر کے منظور کرنا چاہیے.مگر میرے نزدیک یہ معاملہ اس وقت پیش نہیں ہو سکتا

Page 289

خطابات شوری جلد سوم ۲۷۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء کیونکہ صدر انجمن احمدیہ نے کارکنان کے مہنگائی الاؤنس کو بڑھانے کے لئے کوئی تجویز بجٹ میں نہیں رکھی بلکہ اس کے الفاظ یہ ہیں کہ کارکنان کے گرانی الاؤنس میں اضافہ کی تجویز صدرانجمن احمدیہ کے زیر غور ہے اور اشیاء کی گرانی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ گرانی کے الاؤنس میں اضافہ کرنا صدرانجمن احمد یہ مناسب سمجھتی ہے اگر یہ اضافہ منظور کیا گیا تو خرچ میں تقریباً ۲۷ ہزار کا مزید اضافہ ہوگا مگر فی الحال یہ اضافہ بجٹ میں جو آب پیش کیا جا رہا ہے شامل نہیں کیا گیا گویا یہ معاملہ صدرانجمن احمدیہ کے ابھی زیر غور ہے اور اس نے یہ معاملہ فیصلہ کے لئے پیش نہیں کیا پس کارکنان کے مہنگائی الاؤنس میں اضافہ کا معاملہ اس وقت پیش نہیں ہو سکتا.۵.بجٹ میں مبلغین کی تعداد بہت زیادہ دکھائی گئی ہے جس چیز کی میں نے اجازت دی تھی وہ یہ تھی کے سولہ مبلغین پچھلے سال مقرر کئے گئے تھے اور پچاس اس سال یہ کل چھیاسٹھ بنتے ہیں اور میں نے کہا تھا کہ ساٹھ اور رکھ لئے جائیں یہ کل تعداد ایک سو چھیں نتی ہے لیکن موجودہ بجٹ اس سے بہت زیادہ تعداد ظاہر کر رہا ہے بجٹ میں ۷۴۷۶ ( بجٹ اخراجات جدید ) بیلنس دکھائے گئے ہیں اور اس ۷۴ کی تفصیل یوں بیان کی گئی ہے کہ کشمیر کے لئے دو دیہاتی مبلغین زیر تعلیم باسٹھ اور دیہاتی مبلغین عارضی دس اب سوال یہ ہے کہ کشمیر کے لئے جو دو مبلغ رکھے گئے ہیں ان کے رکھنے کی میں نے کب اجازت دی تھی اسی طرح جو دس زائد دیہاتی مبلغین عارضی دکھائے گئے ہیں ان کی منظوری بھی مجھ سے نہیں لی گئی یہ چوبیس کی زیادتی بغیر میری اجازت اور ہدایت کے کی گئی ہے.“ اس موقع پر حضور کے استفسار پر جناب میرزا بشیر احمد بیگ صاحب نائب ناظر دعوت و تبلیغ نے بتایا کہ اُنہوں نے بجٹ میں یہ گنجائش کیوں رکھی تھی.سلسلہ تقریر جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا :.احمدیت کی طرف بڑھتا ہوا رجحان ”جہاں تک تبلیغ کا سوال ہے اس کے متعلق میری سکیم بہت وسیع ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس محکمہ میں ہمیں ابھی کئی گنا زیادتی کرنی پڑے گی.میں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں بھی

Page 290

خطابات شوری جلد سوم ۲۷۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء بیداری کے آثار پائے جاتے ہیں اور لوگ تبلیغ کرنے کی طرف پہلے سے زیادہ توجہ دے رہے ہیں میرا ارادہ ہے کہ دو تین سالوں میں مبلغین کی تعداد پانچ سو تک پہنچا دی جائے اور جوں جوں ضرورت بڑھتی جائے ہم اس تعداد میں زیادتی کرتے چلے جائیں اور یہ تعداد کئی ہزار تک پہنچ جائے.تبلیغ کے متعلق جہاں تک میں نے تجربہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے اکثر نو جوان جو تبلیغ کے لئے غیر ممالک میں گئے ہوئے ہیں وہ اکثر جگہوں میں کامیاب ہوئے ہیں اور اُن کی تبلیغ کے نتائج نہایت خوشگن ثابت ہو رہے ہیں مثلاً امریکہ میں ہی جوں جوں ہم اپنی تبلیغ کو وسیع کرتے جارہے ہیں مبلغین کی مانگ بھی بڑھتی چلی جارہی ہے.بعض دوستوں کی تو یہاں تک رائے ہے کہ اگر کچھ عرصہ تک ان علاقوں میں ہوشیاری اور محنت اور اخلاص کے ساتھ کام کیا جائے تو میں چھپیں بلکہ تمیں ہزار سالانہ نیا آدمی جماعت میں داخل ہونا کچھ بھی مشکل نہیں.اگر وہاں کے پچپیں تھیں ہزار آدمی سالانہ نئے جماعت میں داخل ہوں تو آمدنی بھی بڑھ جائے گی اور مبلغین کے اخراجات بھی وہاں کی جماعتیں نہایت آسانی سے برداشت کرنے کے قابل ہو جائیں گی اب بھی وہاں کی جماعت کو تھوڑی ہے مگر ہزاروں ہزار روپیہ اُن کی طرف سے آرہا ہے اور اگر آئندہ ہم اپنی تبلیغ کو بڑھائیں گے تو یقیناً یہ ہمارے لئے مفید ہوگا.مبلغ کا وجود در حقیقت برف کے پانی کی طرح ہوتا ہے کہ جوں جوں پیتے جائیں پیاس زیادہ لگتی ہے اسی طرح ایک مبلغ کے بعد دوسرے مبلغ کی ضرورت پڑتی ہے اگر ہم تبلیغ کے خوش گن نتائج اور موجودہ ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے تین سو دیہاتی مبلغین کا اضافہ کریں تو ہمار اخرچ تین لاکھ سالانہ بڑھ جائے گا اور اگر یہ تعداد ایک ہزار تک پہنچا دی جائے تو سات آٹھ لاکھ روپیہ سالانہ بجٹ بڑھ جائے گا ہم ان حالات کی موجودگی میں جو اس وقت ہمیں نظر آرہے ہیں انشراح صدر کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اب ہندوستان کے اندر کیا اور غیر ممالک میں کیا لوگوں کی طبائع کے اندراحمدیت کی طرف توجہ کرنے کا احساس پایا جاتا ہے.ہمارے دو مبلغ کراچی میں کام کر رہے ہیں اور کراچی کے مضافات میں بھی احمدیت کا بہت چرچا ہے چنانچہ اس دفعہ جب ایگزیکٹو میں سندھ گیا تو ایک ایگز یکٹو انجینئر صاحب اور ایک کیپٹن صاحب بیعت کے لئے

Page 291

خطابات شوری جلد سوم ۲۷۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء میرے پاس آئے اور اس سفر سندھ میں ٠ے کے قریب سندھی بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوئے.اور بعض علاقوں میں تو احمدیت کا اتنا چرچا ہے کہ ایک شخص سو میل کا پیدل سفر کر کے مجھے ملنے آیا.یہ سب حالات بتاتے ہیں کہ اب لوگوں کے دلوں میں احمدیت کے متعلق تحقیقات کرنے کا شوق ہونے لگا ہے اور یہ دلچسپی دن بدن بڑھتی جارہی ہے اس لئے ابھی ہم کو قربانیوں کے میدان میں اس طرح اپنے آپ پر جبر کر کے چلنا پڑے گا جیسے گھوڑا لگام کو اپنے منہ میں دبا کر چلتا ہے ورنہ ہمارالٹریچر، ہماری تقریر میں اور تمام گزشتہ کوششیں بریکار جائیں گی.میں نے اِس سفر سندھ میں لوگوں کے احمدیت کی طرف بڑھتے ہوئے رحجان اور اشتیاق کو دیکھا ہے جس سے میں اندازہ لگا تا ہوں کہ ہندوستان کے مسلمان آخر ہر طرف سے ٹھوکریں کھا کر احمدیت ہی کے مضبوط قلعہ کے اندرآ کر پناہ گزیں ہوں گے.اب مسلمانوں کے اندر کچھ کچھ بیداری کے آثار پائے جانے لگے ہیں اور وہ اس کشمکش کے زمانہ میں ایڑیاں اُٹھا اُٹھا کر احمدیت کے جھنڈے کی طرف دیکھ رہے ہیں.میں نے گزشتہ سفر میں دیکھا کہ ملتان یا منٹگمری کے سٹیشن پر ایک شخص عین اُس وقت میری ملاقات کے لئے پہنچا جب کہ ریل چل پڑی تھی مگر وہ پھر بھی ریل کے ساتھ ساتھ دوڑتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا کہ میں نے کسی دوست سے لے کر آپ کی تفسیر پڑھی ہے جس نے میرے سینے میں ایک تلاطم پیدا کر دیا ہے مگر مجھ میں خریدنے کی استطاعت نہیں.اُس کے اندر اتنا جوش تھا کہ ریل کے ساتھ ساتھ دوڑتا آیا یہاں تک کہ پلیٹ فارم بھی ختم ہو گیا مگر میں نے دیکھا کہ وہ پھر بھی دوڑ رہا تھا اور باوجود یکہ ریل کے شور میں اُس کی آواز دب رہی تھی اُس کے ہونٹ ہلتے ہوئے نظر آ رہے تھے.پس عوام الناس کی طبائع میں یہ جوش ظاہر کرتا ہے کہ ایک دنیا احمدیت کے روحانی پانی کی پیاسی ہورہی ہے مگر ہمیں افسوس ہے کہ ہم اُن کی پیاس بجھانے کے لئے گو تڑپ رہے ہیں لیکن وسیع پیمانہ پر کام نہیں کر سکتے.بے شک احمدیت روحانی ٹھنڈے اور میٹھے پانی کا ایک بہت بڑا چشمہ ہے لیکن جب تک اس چشمہ میں سے لئے اپنے مشکیزے پانی سے بھر بھر کر پیاسوں تک گھر گھر نہ لے جائیں گے، ان کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے.ہمارے مبلغین کی مثال سقوں کی سی ہے جو اس روحانی چشمے سے اپنے اپنے مشکیزے بھر کر اور کمر پر اُٹھا کر دور و نزدیک کے پیاسوں کی پیاس بجھا رہے ہیں

Page 292

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء مگر اب جب کہ پیاسوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے ہمیں بھی ان کی پیاس بجھانے کے زیادہ سامان کرنے چاہئیں.اس میں شبہ نہیں کہ ہماری جماعت نے اس کام کو سرانجام دینے کے لئے بہت زیادہ قربانیوں سے کام لیا ہے ایسی قربانیوں سے کہ موجودہ زمانہ میں اُن کی مثال ملنی مشکل ہے مگر جوں جوں ہم نئے علاقوں کی طرف رجوع کر رہے ہیں ہمارا کام بھی بڑھتا جا رہا ہے اور ہماری ذمہ داریاں بھی بیش از پیش ہیں.اگر ہم یہ سمجھ کر کہ ہم نے کافی قربانیاں کرلی ہیں تھک کر بیٹھ جائیں تو یہ جوانمردی کے خلاف ہوگا جوانمردی اس کا نام نہیں کہ ایک کام کو ادھورا چھوڑ دیا جائے بلکہ جوانمر داور جواں ہمت وہ شخص ہے جو اپنے عہد کو مرتے دم تک نبھائے.- احمد یہ دار التبلیغ کشمیر کے لئے ۲۵ روپیہ ماہوار کی بجائے ۱۰۰ روپیہ ماہوار کیوں کر دیا گیا ہے حالانکہ وہاں ہر چیز سستی مل سکتی ہے یہ رقم کم ہونی چاہیے.ے.کولمبو میں دار التبلیغ کے لئے ۱۵۰۰ روپیہ کی رقم رکھی گئی ہے حالانکہ وہاں کوئی مبلغ نہیں یہ رقم بھی کم ہونی چاہیے.۸ تعلیم و تربیت کا سفر خرچ بھی بہت زیادہ رکھا گیا ہے اس کو بھی کم کرنا چاہیے.یہ بعض اخراجات جن کے متعلق میں نے توجہ دلائی ہے ایسے ہیں جو ضرور کم ہونے چاہئیں اور جو تمہیں بلا ضرورت ہیں وہ اُڑا دینی چاہئیں.اب میں جماعت کے سامنے سب کمیٹی کا تجویز کردہ بجٹ آمد پیش کرتا ہوں جو دوست اس کے حق میں ہوں کہ سب کمیٹی کا تجویز کردہ بجٹ منظور کیا جائے.وہ کھڑے ہو جائیں“ اس پر ۳۳۰ نمائندگان کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا :.۳۳۰ دوستوں کی رائے ہے کہ اس بجٹ کو منظور کیا جائے میں اس کے متعلق اپنی 66 رائے محفوظ رکھتا ہوں.“ پھر فرمایا:.بجٹ آمد ” اب آمد کے متعلق دوست سوچ لیں کیونکہ اخراجات کا جو بجٹ منظور کیا گیا ہے وہ آمد سے زیادہ ہے اس کے متعلق سب کمیٹی کی رائے یہ ہے کہ ہر احمدی

Page 293

خطابات شوری جلد سوم ۲۷۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء اپنی ماہوار آمد کا پچاس فیصدی بطور چندہ خاص ان ہنگامی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے دے.اب جو بجٹ آپ لوگوں نے آمد کا منظور کیا ہے وہ ۶۲۳۵۹۸ اروپے کا ہے اس آمد میں غیر معمولی چندہ ۳۸۰۰۰۰ روپے سے کچھ اوپر ہے.پچاس فیصدی زیادتی کرنے سے ۳۸۰۰۰۰ روپے آمد ہوگی.یہ بات بھی یا درکھنے کے قابل ہے کہ چندہ کالج کے لئے متواتر زور لگانے کے باوجود اس وقت تک گل ۷۷۰۰۰روپے کی آمد ہوئی ہے میں بطور فخر نہیں بلکہ اظہارِ حقیقت کے لئے بتانا چاہتا ہوں کہ اس میں ۱۰۰۰۰ روپیہ چندہ صرف میری طرف سے ہے گویا ساری جماعت کا چندہ مجھ اکیلے سے چھ گنا ہے.اس وقت ہمارے سامنے سب سے بڑی اور ضروری چیز یہ ہے کہ ہم حفاظت مرکز کے لئے بڑھ چڑھ کر قربانیاں پیش کریں.اس وقت تک اس مد میں گل ۴۴۰۰۰ روپے کی رقم آئی ہے اوّل تو اس کے لئے ایک لاکھ پچہتر ہزار روپے کا جو اندازہ لگایا گیا ہے وہ میرے نزدیک بالکل نا کافی ہے اس کے لئے کم از کم پانچ لاکھ روپیہ درکار ہے لیکن اس وقت تک گل آمدن ۴۴۰۰۰ روپے ہوئی ہے اور اگر سال یا ڈیڑھ سال تک زور لگانے کے بعد ۱۷۵۰۰۰ روپیہ وصول بھی ہو گیا تو کیا ہوا کیونکہ یہ رقم اس ضرورت کو پورا نہیں کر سکتی اس مد میں گل ۴۴۰۰۰ روپے کی رقم کا آنا بتا تا ہے کہ یا تو جماعت میں تھکاوٹ پیدا ہوگئی ہے یا اس تحریک کو صحیح طور پر لوگوں تک پہنچایا نہیں گیا اور لوگوں پر اس کی اہمیت واضح نہیں کی گئی.میرے نزدیک یہ سوال کہ یہ رقم کس طرح پوری کی جائے کوئی خاص تجویز چاہتا ہے اور اُس کے لئے کوئی ایسی صورت ہونی چاہیے جو تجربہ کامیاب ہو.اب مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع ہوں گی نمازوں کے بعد پھر اجلاس ہوگا دوست یہاں سے جا کر اپنے اپنے ذہن میں اس کے متعلق تجاویز سوچیں اور مغرب وعشاء کی نماز کے بعد جو اجلاس ہو اُس میں بتائیں کہ یہ رقم کس طرح 66 جمع کی جائے.“ اس کے بعد حضور مغرب و عشاء کی نمازوں کے لئے مسجد نور میں تشریف لے گئے.نمازوں کے بعد جب تیسرا اجلاس شروع ہوا تو حضور نے فرمایا:.چونکہ صورت حال اس سے بہت زیادہ خطرناک ہے جو ہم نے پہلے سمجھی تھی اس لئے اب اندازہ لگایا گیا ہے کہ حفاظت مرکز کے لئے کم از کم پانچ لاکھ روپیہ کی ضرورت

Page 294

خطابات شوری جلد سوم ۲۷۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء ہوگی.بجٹ کے عام اخراجات تو سال کے دوران میں پورے ہوتے رہیں گے لیکن حفاظت قادیان کے لئے ہم سال بھر انتظار نہیں کر سکتے.میں تو جتنا سوچتا ہوں اُتنا ہی معاملہ اُلجھا ہوا نظر آتا ہے.آپ لوگ ذرا غور کریں کہ اگر کسی شخص کا لڑکا بیمار ہو جائے تو وہ سینکڑوں روپیہ اُس کی دواؤں وغیرہ پر خرچ کر دیتا ہے بلکہ میں نے غرباء کو دیکھا ہے کہ وہ بھی سو دو سو روپیہ خرچ کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں کئی دفعہ بعض غریب آدمی میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سو روپیہ تو ہم نے جمع کر لیا ہے ایک سو روپیہ آپ دے دیں تو ہم فلاں جگہ اپنے بچے کو لے جا کر اُس کا علاج کرائیں لیکن حفاظت مرکز کے لئے اس وقت تک گل چھتیس ہزار روپیہ آیا ہے.حالانکہ آپ لوگوں کے سامنے امرتسر اور لاہور کے واقعات ہیں کہ اُن کو جلایا گیا اور بہت سا جانی نقصان ہوا ان واقعات کو دیکھتے ہوئے یہ چندہ بالکل تمسخر معلوم ہوتا ہے اور میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اگر یہی حالات رہے تو آپ لوگ کس طرح مرکز کی حفاظت کریں گے اور کس طرح پانچ لاکھ روپیہ پورا کریں گے.پس مجھے بتایا جائے کہ جو روپیہ دیا گیا ہے وہ جماعت نے کیا سمجھ کر دیا ہے اور باقی روپیہ آپ لوگ کس طرح پورا کریں گے.“ اس پر چند ممبران نے اپنے نام لکھوائے اور آراء پیش کیں.اس پر حضور نے فرمایا :.د اگر یہ سلسلہ حفاظت مرکز کے متعلق جماعت سے مالی قربانیوں کا مطالبہ انسانی ہاتھوں کا بنایا ہو ا ہوتا تو میں سمجھتا کہ جماعت کی اس معاملہ میں عدم توجہی حقیقی کمزوری اور کمی ایمان کا نتیجہ ہے لیکن یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں کا بنایا ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ نے خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو فرمایا کہ میں تیرا محافظ ہوں اور تیرے بچے اور حقیقی محبتوں کا گروہ بڑھاتا چلا جاؤں گا.پس میں یہ خیال بھی نہیں کر سکتا کہ جماعت کی عدم توجہ حقیقی کمزوری کی وجہ سے ہے بلکہ میں سمجھتا ہوں یہ سستی اور غفلت حقیقی سستی اور غفلت کی وجہ سے نہیں بلکہ حالات کا صحیح اندازہ نہ لگانے کی وجہ سے ہے اور آج میری غرض بھی یہی تھی کہ میں جماعت کو توجہ دلاؤں کہ وہ نادانی سے غفلت اور سستی کی مرتکب نہ ہو ورنہ حقیقت وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور جس کے متعلق میں نے آپ لوگوں کو قبل از وقت متنبہ

Page 295

خطابات شوری جلد سوم ۲۷۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء کر دیا تھا.وہ تنبیہ کسی قیاس کی بناء پر نہ تھی بلکہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ علم کے ماتحت تھی اور اللہ تعالیٰ کی باتیں ہمیشہ سچی ہوتی ہیں، کوئی ہستی ان کو جھوٹا ثابت نہیں کر سکتی.مجھے آج ایک دوست کا رُقعہ ملا جس میں اُنہوں نے لکھا ہے کہ وہ لاہور گئے تھے وہاں سلسلہ کے ایک سخت مخالف سے اُن کی بات چیت ہوئی تو انہوں نے محسوس کیا کہ اس کی حالت بالکل بدلی ہوئی ہے.اُس مخالف شخص نے میرا نام لے کر کہا کہ ان کی خواب کا آدھا حصہ تو پورا ہو گیا ہے اور خدا کرے کہ دوسرا حصہ بھی پورا ہو جائے اور ہم لوگ مصیبت سے بچ جائیں.میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی باتیں ایک ایک کر کے پوری ہو رہی ہیں اور بدلنے والے حالات بہت سُرعت کے ساتھ بدل رہے ہیں.میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ مسلم لیگ پر وائسرائے ہاؤس میں کانگرس نے حملہ کیا ہے یہ خواب کس طرح لفظ بہ لفظ پورا ہوا.پنڈت جواہر لعل نہرو صاحب نے وائسرائے پر زور دیا کہ مسلمانوں کو انٹرم کے گورنمنٹ سے نکال دیا جائے پھر جس طرح میں نے دیکھا تھا که مسلمان اُڑتے ہیں اور اونچی اونچی چھلانگیں لگاتے ہیں بالکل اسی طرح ہو امسلم لیگ کے ممبران ہوائی جہازوں میں بیٹھ کر انگلستان گئے اور وہاں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی جس کا ہندو اخبارات نے بھی اعتراف کیا.اسی طرح فسادات کے متعلق یہ کتنی واضح خواب ہے کہ میں نے دیکھا ہمارا ایک عزیز ایک مکان میں غائب ہو گیا ہے اور اس مکان کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ یہاں ہندو مسلمانوں کو قتل کر دیتے ہیں اور میں اس کو تلاش کرنے کے لئے اِدھر اُدھر پھرتا ہوں.میری اس خواب کے شائع ہونے پر ایک شخص نے گورنمنٹ کو درخواست دی کہ اس میں احمدیوں کو ہندؤوں پر حملہ کرنے کے لئے اُکسایا گیا ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ نے مجھے قبل از وقت ان حالات کا علم دیا اور میں نے ایسے وقت میں ان باتوں کے متعلق جماعت کو آگاہ کیا جبکہ دنیا ان کے متعلق کچھ نہ جانتی تھی.ابھی ایک رویا شائع نہیں ہوئی میں نے رویا میں دیکھا تھا کہ فوجوں میں بغاوت کے آثار پائے جاتے ہیں چنانچہ جالندھر کے ایک فوجی افسر نے مجھ سے ذکر کیا کہ واقعہ میں بعض مقامات پر فوجوں میں بغاوت کے آثار نمودار ہوئے لیکن گورنمنٹ نے اس خبر کو دبا دیا

Page 296

۲۸۰ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء خطابات شوری جلد سوم اور ابھی ہم نہیں جانتے کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے.ہندؤوں اور مسلمانوں کے یہ فرقہ وارانہ فسادات ابھی شروع بھی نہیں ہوئے تھے کہ مجھے ہند و مسلم لڑائی کے متعلق بتایا گیا چنانچہ پہلے بنگال میں فسادات ہوئے پھر بہار میں ہوئے اور پھر اس کے بعد یہ آگ پنجاب میں آپہنچی.اس سے پہلے ۱۹۱۵ء میں میں نے ایک نظارہ دیکھا تھا کہ دریا میں طغیانی آگئی ہے اور شہر غرق ہوتے جارہے ہیں.میں بھی دریا میں بہتا جا رہا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ یا اللہ ! سندھ میں تو میرے پیر لگ جائیں.اس کے ایک معنی تو یہ تھے کہ وہاں احمدیوں کو زمینیں اور جائیدادیں مل جائیں گی اور اس کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ سندھ ہماری مضبوطی کا موجب ہوگا اور ہمیں وہاں قیام کرنے کے لئے جگہ ملے گی اور اس کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ پنجاب کو اشد ضرورت کے وقت سندھ سے مدد ملے گی.میں جماعت کو یہ بتا نا چاہتا ہوں کہ ہمارے سوا دنیا میں ہر قوم کے لئے آزادی ہے مسلمانوں کا کعبہ اور ہندؤوں کی تیرتھ گا ہیں محفوظ ہیں کیونکہ یہ لوگ اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ اگر کوئی دشمن حملہ کرنا چاہے تو اُسے پہلے سوچنا پڑتا ہے لیکن ہم بہت تھوڑے ہیں.نہ ہماری تعداد زیادہ ہے اور نہ ہمارے پاس طاقت ہے کہ جس سے ہم اپنی حفاظت کر سکیں اور ہم جہاں رہتے ہیں اُس کو چھوڑ بھی نہیں سکتے کیونکہ ہمارے یہاں مقدس مقامات ہیں اور مقدس مقامات کو چھوڑا نہیں جاسکتا.بیسیوں چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو اپنی ذات میں کوئی خاص عظمت نہیں رکھتیں لیکن آئندہ تبلیغ کے لئے اُن کا وجود ضروری ہوتا ہے مثلاً خواہ کتنا ہی عظیم الشان مکان ہو وہ ہر ایک انسان سے ادنیٰ ہوتا ہے اور ایک ادنیٰ سے ادنی مومن بہر حال اینٹوں اور پتھروں کی عمارت سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے.مکہ کے ہزاروں ہزار پتھر ایک ادنیٰ سے ادنی مومن کے مقابلہ میں کوئی بھی حقیقت نہیں رکھتے لیکن خانہ کعبہ کو بچانے کے لئے اگر دس کروڑ کیا دس ارب مومن بھی قربان کر دیئے جائیں تو اس کے سامنے کچھ حقیقت نہیں رکھتے.اُس وقت یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ یہ پتھر ہیں اور انسان کا وجود زیادہ قیمتی ہے بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ اس کا انہدام اسلام پر کیا اثر رکھتا ہے.چونکہ اسلام اور مسلمانوں کی عظمت اور ان کی عقیدت کی وابستگی بیت اللہ کے ساتھ ہے اور شعائر اللہ میں داخل ہے اس لئے بیت اللہ کی حفاظت کے لئے اربوں ارب مسلمان بھی نہایت آسانی سے قربان کیا جاسکتا ہے.پس دوسرے لوگوں

Page 297

خطابات شوری جلد سوم ۲۸۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء کی حالت اور رنگ کی ہے اور ہماری اور رنگ کی.ان حالات میں میرا فرض تھا کہ میں آپ لوگوں کے مونہوں سے یہ کہلواؤں کہ آپ سے غلطی ہوئی ہے تا کہ آپ کے اندر بیداری پیدا ہو اور آپ کو اپنا فرض سر انجام دینے کی ہر وقت فکر رہے ورنہ میں جانتا ہوں کہ آسمانی ارادہ یہی ہے کہ یہ جماعت کامیاب ہو.اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ہماری چھوٹی سی جماعت اتنی بڑی قربانیاں کر رہی ہے کہ دنیوی جماعتوں میں اس کی مثال نہ مل سکے گی پس یہ غرض تو پوری ہو گئی اب سوال یہ ہے کہ یہ رقم کس طرح پوری کی جائے.وہ تجاویز جو اس وقت دوستوں نے پیش کی ہیں اُن سے یہ کام نہیں ہوسکتا.پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمیں چندہ جمع کرتے کرتے بہت دیر لگ جائے اور ضرورت فوری طور پر سامنے آجائے.کہتے ہیں تا تریاق آورده شود.مارگزیده مُرده شود دوست اپناروپیہ بطور امانت قادیان بھجوائیں ممکن ہے کہ وقت ہمارے ہاتھوں سے نکل جائے اور ممکن ہے کہ پانچ دس دن تک ہی ہمیں اس روپیہ کی ضرورت پیش آ جائے اس لئے ہمیں فوری طور پر ایسا طریق اختیار کرنے کی ضرورت ہے جس سے ہماری فوری ضروریات پوری ہوسکیں.اس کے لئے میں نے طریق سوچا ہے کہ دوستوں کا جس قدر روپیہ اپنی ضرورت سے زائد دوسرے بینکوں میں جمع ہے وہ امانت کے طور پر فوراً قادیان بھجوا دیں اور یہ ادنیٰ سے ادنیٰ قربانی ہے جس کا اُن سے مطالبہ کیا گیا ہے اس طرح اُمید ہے کہ ہمیں فوری طور پر پانچ چھ لاکھ روپیل جائے گا اور ایک دو سال کے بعد ہم اسے واپس کر دیں گے.میرا خیال ہے کہ اس وقت باہر ہماری جماعت کا پچاس ساٹھ لاکھ روپیہ جمع ہو گا اس لحاظ سے پانچ چھ لاکھ روپیہ کا فوراً جمع ہو جانا کوئی مشکل نظر نہیں آتا ، اگر ہماری یہ فوری ضرورت پوری ہو جائے تو ہم سانس لینے کے قابل ہو سکتے ہیں پس اس کے لئے میں تحریک کرتا ہوں کہ ہر احمدی اپنا جمع کردہ روپیہ بطور امانت قادیان بھجوا دے.جب آپ لوگ جان اور مال کی قربانی کرنے کو تیار ہیں تو پھر امانتوں کا کچھ عرصے کے لئے یہاں جمع کرانا کونسی مشکل بات ہے.اگر تمام احمدی اپنا بنک کا روپیہ بطور امانت یہاں بھیج دیں تو ہماری ضرورت بھی آسانی سے پوری ہو جائے گی اور ان کا امتحان بھی ہو جائے گا کہ آیا ان کے دلوں میں ایمان ہے یا نہیں.

Page 298

خطابات شوری جلد سوم ۲۸۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء اگر دل میں ایمان ہے تو ہر احمدی اِس بات پر مطمئن ہوگا کہ میرا جو روپیہ قادیان میں ہوگا وہ ضائع نہیں ہوگا بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے قلعہ میں محفوظ ہوگا اور اللہ تعالیٰ خود اس کی حفاظت کرے گا.اور جس کے دل میں ایمان نہیں ہوگا اُس کے دل میں شکوک وشبہات پیدا ہوں گے کہ پتہ نہیں مجھے روپیہ واپس ملے.پس اس طرح صرف مرکز کی حفاظت ہی نہیں ہوگی بلکہ آپ لوگوں کے ایمانوں کی آزمائش بھی ہو جائے گی اب دوست اپنے وعدے لکھوائیں کہ وہ کتنا ر و پیر امانت کے طور پر یہاں جمع کرا سکتے ہیں.“ اس کے بعد دوستوں نے وعدے لکھوانے شروع کر دیے.جب دوست وعدے لکھوا چکے تو حضور نے فرمایا :.اس وقت جن دوستوں نے وعدے لکھوائے ہیں اُن کو چاہیے کہ وہ جلد سے جلد اپنی رقوم امانت میں جمع کرا دیں کیونکہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہمیں کب ضرورت پیش آ جائے.تین لاکھ اکہتر ہزار روپے کے وعدے اس وقت تک آئے ہیں اور بعض دوستوں کے وعدے ابھی غیر معین ہیں اور کئی دوست ابھی سوچ رہے ہوں گے اور بعض دوستوں نے رقم جمع کرانے کی نیت تو کی ہوگی لیکن اپنا نام ظاہر نہ کرنا چاہتے ہوں گے اور ہزاروں ہزار دوست ابھی ایسے باقی ہیں جن کو اس تحریک کی اطلاع ہی نہیں جب اُن کو اطلاع ہوگی تو میں امید کرتا ہوں کہ وہ اپنے ایمانوں اور اخلاص میں دوسروں سے پیچھے نہیں رہیں گے.ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ آپ لوگ واپس جاکر اپنے فرض منصبی کو سمجھیں اور دوسرے دوستوں کو پورے طور پر یہ پیغام پہنچا دیں اگر یہ کام صحیح طور پر کیا جائے تو میں امید کرتا ہوں کہ یہ رقم مطالبہ سے کئی گنا زیادہ ہو جائے گی.بدر کی جنگ میں صحابہ کی تعداد ۳۱۳ تھی اور دشمن کی تعداد ایک ہزار گویا ۳۱۳ صحابہ ایک ہزار سپاہیوں کے نرفعے میں گھر گئے صحابہؓ نے سمجھا کہ ہوسکتا ہے کہ ہم لوگ اپنی کمزوریوں کی وجہ سے عہدہ برآ نہ ہو سکیں اور اللہ تعالیٰ کا منشاء کوئی اور ہو.کیونکہ مومن جہاں اللہ تعالیٰ پر کامل یقین رکھتا ہے وہاں اُسے اپنی کمزوریوں کا بھی احساس ہوتا ہے اور وہ اپنی کمزوریوں کو دیکھ کر ڈرتا ہے کہ کہیں میری کمزوریاں میری کامیابی کے راستہ میں روک نہ بن جائیں یا شائد اللہ تعالیٰ کا وعدہ کسی اور رنگ میں پورا ہونا ہو اس لئے صحابہؓ نے

Page 299

خطابات شوری جلد سو ۲۸۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ایک مچان بنادیا اور آپ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ اس پر تشریف رکھیں اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی انہوں نے آپ کے پاس بیٹھنے کے لئے عرض کیا پھر دوسب سے تیز رفتار اونٹنیاں انہوں نے چنیں اور آپ کے پاس باندھ دیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا تم یہ کیا کر رہے ہو؟ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم کمزور ہیں اور دشمن بہت زیادہ طاقتور ہے ہمیں اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ ہماری کمزوریاں ابتلاء کا موجب بن جائیں.يَا رَسُولَ اللہ ! ہم نے بہادر ترین انسان کو آپ کی حفاظت کے لئے مقرر کر دیا ہے اور دو تیز سے تیز اونٹنیاں آپ کے پاس باندھ دی ہیں یا رسول اللہ ! ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کچھ اور ہو اور ہماری کمزوریاں اسلام کی فتح کے رستہ میں حائل ہو جا ئیں یا رَسُول اللہ ! اگر آپ ہمارا انجام خطرناک دیکھیں تو آپ ان اونٹنیوں پر سوار ہو کر مدینہ تشریف لے جائیں وہاں ہمارے کچھ بھائی موجود ہیں جو ایمان اور اخلاص میں ہم سے کم نہیں لیکن اُنہوں نے خطرے کی اہمیت کو نہیں جانا.يَا رَسُول اللہ ! جب آپ اُن میں جائیں گے تو آپ اُن میں ہمارے جیسا ہی جوش پائیں گے.2.اسی طرح مجھے بھی یقین ہے کہ ابھی بہت بڑی تعداد مخلصین کی باقی ہے جب آپ لوگ سچے دل سے ان حالات کو اُن کے سامنے بیان کریں گے تو وہ بھی آپ کی طرح بلکہ بہت سے آپ سے بھی بڑھ کر اخلاص کا نمونہ پیش کریں گے.بہر حال جب شہروں میں پورے طور پر اس تحریک امانت کو بیان کیا جائے گا تو مجھے یقین ہے کہ مطلوبہ رقم سے بہت زیادہ رقم فوری طور پر جمع ہو جائے گی.دوسری چیز وقف جائیداد ہے کہتے ہیں نہ نمک لگے نہ پھٹکری وقف جائیداد کی تحریک اور رنگ آئے چوکھا ! اب تک تو دوستوں کو مفت کا ثواب مل رہا تھا اور صرف نیت کر لینے کی وجہ سے وہ ثواب لے رہے تھے جس وقت میں نے اس تحریک کو شروع کیا تھا اُس وقت میرے مدنظر یہی تھا کہ ہنگامی طور پر جب کبھی اخراجات کی ضرورت پیش آئے گی تو ہم وقف جائیداد والوں سے پانچ دس دن کے اندر اندر روپیہ وصول کر لیں گے اور لوگوں سے عام چندے کی تحریک کرنے کی ضرورت نہ ہوگی.ان مقاصد کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے مجھے اس تحریک کے

Page 300

خطابات شوری جلد سو ۲۸۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء چلانے کی توفیق عطا فرمائی اور آج ہم اس کا بہت بڑا نمایاں فائدہ دیکھتے ہیں.اکثر دوستوں نے یہ رقم جمع کرنے کے لئے واقفین جائیداد سے کچھ حصہ حاصل کرنے کا مشورہ دیا ہے اور ان کا مشورہ درست ہے لیکن جس چیز سے مجھے تکلیف ہوئی وہ یہ ہے کہ بعض دوست جنہوں نے یہ مشورہ دیا وہ خود واقف جائیداد نہ تھے.کہتے ہیں حلوائی کی دکان اور دادا جی کی فاتحہ.جن لوگوں نے جائیداد میں وقف کی ہیں ہمیں اُن کے متعلق یقین ہے کہ وہ انشاء اللہ اپنا حصہ ادا کریں گے لیکن جائیداد وقف کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے ساری جماعت میں سے صرف دو ہزار افراد نے اپنی جائیدادیں وقف کی ہیں.حالانکہ ہماری جماعت لاکھوں کی تعداد میں ہے اور لاکھوں کی جماعت میں سے ہزار دو ہزار کا جائیداد وقف کرنا کوئی نیک نام پیدا نہیں کرتا.لاکھوں کی جماعت میں سے لاکھوں ہی قربانی کرنے والے ہوں تب ہی کچھ فائدہ ہو سکتا ہے اور پھر ان ہزار دو ہزار واقفین جائیداد میں سے بعض ایسے ہیں جن کی جائیداد لا کھ دو لاکھ کی ہے لیکن اُنہوں نے وقف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ میرا فلاں کچا مکان وقف ہے.اس قسم کا وقف، وقف نہیں کہلا سکتا لیکن ہم نے اُن کی اس ادنیٰ قربانی کو بھی قبول کر لیا کہ شاید آئندہ اللہ تعالیٰ اس تھوڑی قربانی کے نتیجہ میں اُن کے دلوں میں زیادہ ایمان پیدا کر دے.مگر واقفین جائیداد میں سے بیشتر حصہ ایسا ہے جس نے سنجیدگی کے ساتھ جائیداد وقف کی ہے اور اس وقت تک ۱,۴۰٫۹۵۰۷۴ روپے کی جائیداد اور آمد وقف ہو چکی ہے.اب میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ آپ لوگوں میں سے کتنے دوستوں نے جائیداد وقف کی ہے ایسے تمام نمائندے جنہوں نے جائیداد وقف کی ہو اور اُس کے ساتھ کسی قسم کی کوئی شرط نہ لگائی ہو کھڑے ہو جائیں.“ اس پر ۱۶۷ دوست کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا :.اسی نسبت سے باقی جماعت کے متعلق قیاس کیا جاسکتا ہے.۴۵۵ نمائندوں میں سے ۱۶۷ نمائندوں نے جائیداد وقف کی ہوئی ہے یہ نسبت قریباً چالیس فیصدی بنتی ہے.جب آپ لوگ یہ پیش کرتے ہیں کہ واقفین جائیداد سے جائیداد کا حصہ طلب کیا جائے اور یہی سب سے آسان رستہ ہے تو آپ لوگ بتائیں کہ آپ خود کیوں پیچھے رہے.اس وقت جو دوست جائیداد وقف کرنا چاہتے ہوں وہ کھڑے ہو جائیں.“

Page 301

خطابات شوری جلد سوم ۲۸۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء اس پر بقیہ نمائندے کھڑے ہو گئے.حضور نے فرمایا:.اب آپ خود بھی جائیداد وقف کریں اور باقی جماعت کو بھی اس تحریک پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کرتے رہیں.وقف کی تحریک کو جاری ہوئے تین سال گزر چکے ہیں لیکن اب آکر قربانی کرنے کا موقع آیا ہے.اگر ہماری جماعت اپنے فرض کو سمجھے تو پانچ دس لاکھ روپیہ کا جمع کرنا نہایت معمولی بات ہے ہماری جماعت کے پاس کم از کم دو ہزار مربعے ہیں اور ادنی اور اعلیٰ مربعوں کو ملا کر اگر فی مربع ۱۵ ہزار روپیہ اوسط لگائی جائے تو تین کروڑ کی جائیداد تو یہی بن جاتی ہے اگر اس کا ایک فیصدی لیا جائے تو صرف مربعوں والوں سے ہی تین لاکھ روپیہ مل سکتا ہے.اور اگر دو فیصدی لیا جائے تو چھ لاکھ بنتا ہے.پچھلے دنوں گورنمنٹ لوگوں سے لڑائی کے لئے بہت بھاری چندے وصول کرتی رہی ہے اور لوگ اُن چندوں کو ادا کرتے رہے ہیں پھر کوئی وجہ نہیں کہ ایک مومن اسلام کی حفاظت کے لئے چندہ دینے سے گریز کرے.شہروں کے مکانات بہت زیادہ قیمتی ہوتے ہیں اور وہ مربعوں سے بہت زیادہ قیمت رکھتے ہیں.میرے نزدیک کم سے کم اندازہ بھی اگر ہماری جماعت کی جائیدادوں کا لگایا جائے تو وہ پچاس کروڑ سے کم نہیں ہوگا سوواں حصہ لیں تو پچاس لاکھ روپیہ بنتا ہے اور اگر ہم اس کا ہزارواں حصہ لیں تو بھی پانچ لاکھ روپیہ بہت آسانی سے جمع ہو سکتا ہے.لیکن مشکل یہ ہے کہ ساری جماعت وقف جائیداد میں شامل نہیں ہوئی اس لئے زیادہ بوجھ واقفین پر ہی پڑتا ہے.مگر خطرہ کو محسوس کرتے ہوئے زیادہ لمبی میعاد حصہ ادا کرنے کے لئے نہیں دی جاسکتی.اگر کوئی شخص قسط وار ادا کرنا چاہے تو اُسے چاہیے کہ چھ ماہ کے اندر اندر اپنی وقف شدہ جائیداد کا سوواں حصہ خزانہ میں داخل کر دے.چونکہ پہلے کی نسبت ہماری قادیان کی جائیدادوں کی قیمت بڑھ چکی ہے اس لئے میں اپنی طرف سے بیس ہزار روپیہ دوں گا.دس ہزار روپیہ میں پہلے دے چکا ہوں ، دس ہزار اور دوں گا دفتر میں جو ریکارڈ ہے اُس کا ایک فیصدی کے حساب سے اٹھاون ہزار روپیہ بنتا ہے اور دس ہزار روپیہ میری طرف سے ہے یہ اڑسٹھ ہزار روپیہ ہو گیا اور اگر دوست اپنی ایک ایک ماہ کی آمد ادا کریں تو دو لاکھ روپیہ اس طرح وصول ہوسکتا ہے.گویا پہلے وقف کے نتیجہ میں ہی ہمیں ۲۶۸۰۰۰ روپے کے قریب روپیہ وصول ہو سکے گا اور اگر اس وقت.

Page 302

خطابات شوری جلد سوم ۲۸۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء کے وعدے بھی ملائے جائیں تو تین لاکھ روپیہ بن جاتا ہے.لیکن آپ لوگ اپنے نفسوں میں غور کریں کہ آپ نے بیعت کے وقت کیا عہد کیا تھا؟.کیا آپ کی یہ قربانی اُس عہد کو پورا کر رہی ہے؟ پس کوشش کرو کہ اس امتحان میں فیل نہ ہو جاؤ اور دوسرے لوگوں کو بھی ہوشیار کرنے کی کوشش کرو اور اپنی جائیدادوں کا ایک فیصدی جلد سے جلد مرکز میں بھیج دو خواہ قرض لے کر بھیجنا پڑے خواہ جائیداد کا کوئی حصہ فروخت کرنا پڑے.اگر ساری جماعت اللہ تعالیٰ سے باندھے ہوئے عہد کو مدنظر رکھے اور اپنی جائیدادوں کا صرف ایک فیصدی دے تو ہم پچاس لاکھ روپیہ آسانی سے جمع کر سکتے ہیں اور اس روپے کے ساتھ کفر پر بہت بڑا دھاوا بول سکتے ہیں اور اپنے تبلیغی پروگرام کو بہت زیادہ وسیع کر سکتے ہیں.اگر ایک فیصدی کی بجائے ۱/۲ فیصدی بھی وصول کریں تو بھی پچیس لاکھ روپیہ وصول ہوسکتا ہے.اور اگر ہم ۴ ۱٫ فیصدی وصول کریں تو بھی ہم را ۱۲ لاکھ روپیہ جمع کر سکتے ہیں اور ۱٫۴ فیصدی کی قربانی تو نہایت حقیر قربانی ہے.بہار کے لوگوں کے حالات کو تم نے سن لیا ہے ان لوگوں نے ایک یا دو فیصدی مال دینے سے بخل سے کام لیا اور آخر تمام جائیدادوں اور جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا.پس اگر آپ لوگ ایک فیصدی دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی جان کو اور اپنے مال کو محفوظ کرتے ہیں.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا کہ بتاؤ تمہیں اپنا مال اچھا لگتا ہے یا دوسرے شخص کا مال اچھا لگتا ہے یا وہ مال اچھا لگتا ہے جو ضائع ہو گیا؟ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اس کا جواب تو بالکل صاف ہے کہ جو مال غیر کا ہے وہ غیر کا ہے اور جو مال ضائع ہو گیا وہ بھی ہاتھ سے نکل گیا انسان کو اپنا مال ہی اچھا لگتا ہے.آپ نے فرمایا تو جو مال تم نے کھا لیا وہ ضائع ہو گیا اور جو مال تم نے رکھا ہوا ہے وہ جب تم مرو گے تو غیر لے جائیں گے تمہارا مال وہی ہے جو تم نے اللہ تعالیٰ کے رستہ میں خرچ کیا ہے یا اگر اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے جماعت قربانی کے لئے تیار ہو جائے تو پچاس لاکھ روپیہ جمع کرنا کوئی مشکل بات نہیں ہے.اپنی اپنی جماعتوں میں پہنچتے ہی اس تحریک کو جاری کرو اور کسی شخص کو اس تحریک سے باہر نہ رہنے دو.یہ تو وصیت سے بھی سستا سودا ہے ہم ساری جائیداد تو مانگ نہیں سکتے کیونکہ ان تمام جائیدادوں کی قیمت کون دے گا.ہمیں

Page 303

خطابات شوری جلد سوم ۲۸۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء سلسلہ کے کاموں کے لئے جتنی جتنی ضرورت پیش آئے گی اُتنا حصہ جائیداد کا مانگ لیا جائے گا ، ساری جائیداد کا یک دم مانگنا تو عقل کے بھی خلاف ہے ہم جب بھی مانگیں گے اُس کا ایک حصہ ہی مانگیں گے اور وہ کمی پھر ایک دو سالوں میں انسان پوری کر لیتا ہے اصل بات یہ ہے کہ تم جس قدر قربانی کی رفتار تیز کرو گے اُتنا ہی جلد منزلِ مقصود کے قریب ہوتے جاؤ گے یہ ایک سستا سودا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ تمہارے لئے جنت کا دروازہ کھول دیا ہے.کوشش کرو کہ کوئی شخص اس تحریک میں شامل ہونے سے رہ نہ جائے اور جولوگ وقف میں شامل نہ ہونا چاہیں اُن سے اُن کی جائیداد کا نصف فیصدی لیا جائے.آمد بھی نصف ماہ کی لی جائے میرا خیال ہے اس طرح پانچ لاکھ روپیہ آسانی سے جمع ہو جائے گا.ہر احمدی وصیت کرے دوسری تجویز وصیتیوں کو بڑھانے کی ہے.وصیت کے متعلق بھی جماعت میں تحریک کرنی چاہیے.ہماری جماعت اڑھائی تین لاکھ کے قریب ہے لیکن اس میں سے صرف آٹھ دس ہزار لوگوں نے وصیت کی ہے تین لاکھ میں سے اگر نصف بچے سمجھ لئے جائیں تو بھی ابھی صرف بارہویں حصہ نے وصیت کی ہے اور اس بارہویں حصے کا چندہ وصیت تین لاکھ پچیس ہزار روپیہ ہے.اگر ہم چھٹے حصے کی وصیت کرا دیں تو یہ چندہ چھ لاکھ پچاس ہزار روپے تک پہنچ جائے گا اور اگر ہم جماعت کے تیسرے حصے کی وصیت کرا دیں تو یہ چندہ تیرہ چودہ لاکھ تک پہنچ جائے گا اور یہ کام کوئی ایسا مشکل نہیں جس کے کرنے میں بہت سی مشکلات درپیش ہوں.اگر تیرہ چودہ لاکھ روپیہ سالانہ حصہ آمد میں سے آنا شروع ہو جائے تو اس سے جماعت کے لئے ترقی کے بہت.راستے کھل سکتے ہیں.پس کوشش کرو کہ ہر ایک احمدی وصیت کرے گو یہ طوعی چیز ہے فرض نہیں لیکن اسلام پر جو مصیبت آئی ہوئی ہے وہ اُس وقت تک دور نہیں ہو سکتی جب تک ہم میں سے اکثر آدمی وصیت کے حکم کے نیچے نہیں آجاتے جب تک ہم وصیت نہیں کرتے اُس وقت تک صحیح معنوں میں قربانی کی طرف قدم اُٹھا ہی نہیں سکتے.اگر ہمیں وصیت سے تیرہ چودہ لاکھ کی آمد ہو جائے تو ہم ایک ہزار دیہاتی مبلغین آسانی سے رکھ سکتے ہیں.پانچ اور دس سال میں جماعت کہیں سے کہیں پہنچ سکتی ہے.اب میں دوبارہ دوستوں کے لئے اس تحریک کو

Page 304

خطابات شوری جلد سوم دہرا دیتا ہوں.۲۸۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء اوّل یہ کہ تمام دوست اپنی امانتیں جو کہ دوسرے بینکوں میں ہیں مرکز میں بھجوا دیں اور دوسروں کو بھی اس کی تحریک کریں.دوسری بات وقف جائیداد ہے کچھ دوست تو پہلے سے جائیدادیں وقف کر چکے ہیں جن دوستوں نے ابھی تک جائیداد میں وقف نہیں کیں وہ اب کریں اور جائیداد وقف کرنے والے اپنی جائیداد کا ایک فیصدی چھ ماہ کے اندر اندر ادا کریں اور جو لوگ صاحب جائیداد نہیں ہیں وہ اپنی ایک ماہ کی آمد وقف کریں اور چھ ماہ کے اندر اندر ادا کریں.اور جولوگ وقف جائیداد میں شامل نہ ہونا چاہتے ہوں ان سے جائیداد کی قیمت کا ۱٫۲ فیصدی لیا جائے اور آمد والے بھی نصف ماہ کی آمد ادا کریں.تیسری تجویز یہ ہے کہ وصیت کو بڑھانے کی کوشش کی جائے.اگر تمام احمدی وصیت کرنا شروع کر دیں تو ہماری ضروریات بہت حد تک آپ ہی آپ پوری ہوتی رہیں.اگر جماعت اخلاص کا ثبوت پیش کرے تو چودہ پندرہ لاکھ روپیہ وصیت کے ذریعہ آ سکتا ہے.گویا ہماری موجودہ آمد سے سات لاکھ روپیہ زیادہ آسکتا ہے اور چھ لاکھ روپیہ میں ایک ہزار دیہاتی مبلغ رکھا جاسکتا ہے اور ایک ہزار آدمیوں کے ذریعہ ہم تبلیغی میدان میں ایک زبردست طوفان برپا کر سکتے ہیں.ہمارے مقابلہ میں کوئی قوم ٹھہر نہیں سکے گی اور کوئی قوم مالی لحاظ سے بھی ہمارے مقابلہ میں قربانی کی ایسی مثال پیش نہیں کر سکے گی.چوتھی تجویز وصیت کی زیادتی ہے تمام ایسے دوست جن کے حالات ایسے ہیں کہ وہ تھوڑے روپیہ میں گزارہ کر سکتے ہیں مثلاً ابھی اُن کی شادیاں نہیں ہوئیں یا بچے تھوڑے ہیں ایسے لوگ اپنی وصیت ۱۰ارا کی بجائے ۹/ ۱ یا ۱/۸ کر دیں اس سے بھی جماعت کو بہت بڑی آمد ہو سکتی ہے.اس کے علاوہ ایک اور صورت آمد کی میرے ذہن میں آئی ہے، بے شک بعض لوگوں کو وہ بُری معلوم ہوگی لیکن اس کا سب سے زیادہ اثر ہم پر پڑتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ سلسلہ کا جائز حق ہے.اس لئے میں اُس کا اعلان کئے دیتا ہوں وہ یہ ہے کہ آئندہ قادیان میں جو زمینیں فروخت کی جائیں اُن کے نفع کا نصف حصہ خزانہ صدر انجمن احمدیہ میں داخل

Page 305

خطابات شوری جلد سوم ۲۸۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء " کیا جائے.میں یہ قانون مقرر کرتا ہوں کہ آئندہ قادیان میں کوئی زمین امور عامہ کو اطلاع دیئے بغیر فروخت نہیں ہو سکتی.جو لوگ اس سے پہلے سو دے کر چکے ہیں اُن کو صرف دس فیصدی دینا ہوگا.لیکن آج کے بعد جو زمین قادیان میں فروخت ہو اُس کے متعلق یہ قانون ہوگا کہ فروخت کرنے والا نفع کا پچاس فیصدی خزانہ صدرانجمن احمد یہ میں داخل کرے.میں سمجھتا ہوں کہ قادیان میں زمینوں کے سو دے دو تین لاکھ روپیہ سالانہ کے ہوتے ہیں اگر اس قانون پر عمل کیا گیا تو چالیس پچاس ہزار روپیہ سالانہ اس رنگ میں بھی خزانہ صدر انجمن احمد یہ میں آجائے گا.پس آ ج کے بعد قادیان میں جتنے سودے ہوں وہ امور عامہ کی معرفت ہوں براہ راست کوئی سودا نہ کیا جائے اور خرچ وغیرہ نکالنے کے بعد جتنا نفع ہو اُس کا پچاس فیصدی سلسلہ کو دیا جائے کیونکہ قادیان کی ترقی اللہ تعالیٰ کی پیش گوئیوں کے ماتحت ہے.“ میرا ارادہ ہے کہ میں اس کے متعلق مزید غور کروں اور کچھ اصول اور قواعد ایسے مقرر کر دوں جن کے نتیجہ میں قادیان میں زمینوں کی قیمت زیادہ نہ چڑھے اب بھی جس حد تک قیمتیں چڑھ چکی ہیں وہ اتنی زیادہ ہیں کہ غرباء اس بھاؤ پر زمین خرید کر مکان نہیں بنا سکتے گو موجودہ قیمتوں کو گرانا مشکل ہے لیکن پھر بھی ہماری کوشش یہ ہے کہ غریبوں کے لئے آسانی پیدا کی جائے اور آئندہ زمینوں کی قیمتیں نہ بڑھیں.میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح بے تحاشا طور پر قیمتیں بڑھانا اللہ تعالیٰ کے الہام کے رستہ میں روک بن کر کھڑا ہونا ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے الہام کے رستہ میں روک بنے گا وہ اس کے عذاب سے بچ نہیں سکے گا.مجھے حیرت آتی ہے کہ لوگ کیوں حرام کا روپیہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیوں حلال اور جائز طریق سے روپیہ نہیں کماتے.ہم سے شروع میں غلطی ہوئی ہے کہ ہم نے لوگوں سے معاہدے نہ کرائے کہ وہ فلاں حد تک نفع لے سکیں گے اس سے زیادہ نہیں لیکن یہ غلطی تو ہو چکی ہے میں نے دیکھا ہے کہ بعض لوگوں نے ہم سے خرید کردہ جائیدادیں سو سو دو دو سو گنا زیادہ قیمتوں پر فروخت کی ہیں اور گو گزشتہ غفلت کا کوئی علاج نہیں ہو سکتا لیکن آئندہ سلسلہ کے قوانین کے ذریعہ ان باتوں پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے یہ قواعد جو میں نے مقرر کئے ہیں ان سے قادیان کی آبادی میں بھی

Page 306

خطابات شوری جلد سوم ۲۹۰ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء مدد ملے گی اور چالیس پچاس ہزار روپیہ بھی سلسلہ کو سالا نہ مل جائے گا.اس وقت زندگی اور موت کا سوال ہے اس وقت غفلت کرنا موت سے کم نہیں ان رقموں کی فراہمی کے لئے گل مدت چھ ماہ ہوگی جن لوگوں نے جائیداد میں وقف کی ہیں وہ چھ ماہ کے اندر اپنا حصہ ادا کر دیں اور جن لوگوں نے آمد نیاں وقف کی ہیں وہ چھ ماہ کے اندر ایک ایک ماہ کی آمد بھجوا دیں.جو اس وقف میں شامل نہیں ہونا چاہتے اُن سے جائیداد کی قیمت کا ۱/۲ فیصدی یا نصف ماہ کی آمد وصول کی جائے اور جو شخص بالکل شامل نہیں ہوگا و مخلصین کی صف میں سے نکل جائے گا.اگر کسی کو کوئی حقیقی موانع ہو تو اُسے اپنی وجوہات پیش کرنی چاہئیں اور ہم سے منظوری لینی چاہیے لیکن اگر کوئی شخص بلا وجہ شامل نہیں ہوگا تو ہم اُسے آئندہ ایسی تحریکوں میں شامل نہیں کریں گے قرآن کریم بھی ایسے لوگوں کے متعلق یہی فرماتا ہے کہ تم ہمارے ساتھ جہاد میں مت شامل ہو ہم تمہیں اپنے ساتھ نہیں لے جانا چاہتے اسی طرح اگر کوئی شخص بخل سے کام لیتے ہوئے ان تحریکوں میں شامل نہیں ہوگا تو آئندہ ہم اسے کہہ دیں گے کہ تم اپنے ناپاک مال کو لے جاؤ ہمیں اس کی ضرورت نہیں.ہم اس کا بائیکاٹ نہیں کریں گے لیکن اس کو آئندہ ایسی تحریکوں میں شامل نہیں کریں گے.باقی رہا یہ سوال کہ اگر جماعت باوجود اپنی کوشش کے اس رقم کو پورا نہ کر سکے تو پھر کیا ہوگا ؟ اس کے متعلق میں یہ تجویز پیش کرتا ہوں کہ میری کوٹھی دارالحمد جس کی قیمت پانچ لاکھ روپیہ بنتی ہے اُس کو بیچ لیا جائے اور اس سے یہ رقم پوری کر لی جائے.کوٹھی کے ساتھ سو کنال زمین ہے اور وہاں موجودہ قیمت پانچ ہزار روپیہ فی کنال ہے اس طرح وہ پانچ لاکھ روپے کی بنتی ہے جماعت کی کوشش کے بعد جو کمی رہ جائے وہ بے شک اس سے پوری کر لی جائے ایسی صورت میں میں ہر احمدی سے یہی کہوں گا کہ وہ میری زمین خریدے اور یہ رقم پوری کردے.“ اپنے پیارے آقا کی قربانی کا یہ فقید المثال جذ بہ دیکھ کر ہر مومن نے یہی سمجھا کہ جس طرح اپنے پیارے امام کے مقابلہ میں ہماری جانوں کی کوئی قیمت نہیں اسی طرح اُس کی جائیداد کے مقابلہ میں ہماری جائیدادوں کی کوئی حیثیت نہیں ہر طرف سے اس قسم کی صدائیں آنے لگیں یہ نہیں ہوگا بلکہ پہلے ہماری جائیدادیں فروخت ہوں گی پہلے ہمار

Page 307

خطابات شوری جلد سوم سب کچھ قربان ہوگا.اس پر حضور نے فرمایا.وو ۲۹۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ساری جائیدادوں کو قربان کرنے کا مطالبہ ہوگا تو انسان کو کپڑے جھاڑ کر ایک طرف ہو جانا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کا مال اُس کے سپرد کر دینا چاہیے.بلکہ میرے نزدیک تو کپڑے جھاڑ کر بھی نہیں بلکہ کپڑے اُتا رکر ایک طرف ہو جانا چاہیے ہمیں حقیقی مسرت تبھی حاصل ہو سکتی ہے جب کہ ہماری جماعت کی اکثریت میں یہ روح کام کرنے لگ جائے.ہماری جماعت میں سے صرف چند آدمیوں کا قربانی کرنا اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب نہیں کر سکتا اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ ہر شخص قربانی کرنے کے لئے تیار ہو.یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں کمی نہیں صرف ہمارا نخل ہی ہے جو ہمیں اُس کے فضلوں سے محروم کرتا ہے پس جماعت کو چاہیے کہ بحیثیت جماعت قربانی کرے اور جماعت کے تمام افراد میں قربانی کی روح کام کرتی نظر آئے.چند افراد تو عیسائیوں میں بھی ایسے پائے جاتے ہیں جو اپنے دین کے لئے قربانیاں کرتے ہیں مومن جماعت اور غیر مومن جماعتوں میں یہ فرق ہوتا ہے کہ مومن جماعت کے تمام افراد میں اخلاص اور ایثار کا جذبہ موجزن ہوتا ہے اور اُس کے مقابل پر غیر مومن جماعتوں میں سے صرف چند افراد قربانی کرنے والے نظر آتے ہیں پس دوسو یا چارسو آدمیوں کا قربانی کرنا نجات کا موجب نہیں بن سکتا.یہ اخلاص تب ہی نجات کا موجب بن سکتا ہے جب کہ آپ اپنی جماعتوں سے یہ کہلوالیں کہ ہماری جائیدادیں سلسلہ کے لئے وقف ہیں اور ہم مرنے کے لئے ہر وقت تیار ہیں.یہ قربانی ہے جو شاندار نتائج پیدا کر سکتی ہے.ایک استفسار پر حضور نے فرمایا:.وقف جائیداد کے وعدے لکھوانے کی مہلت پنجاب والوں کے لئے ڈیڑھ ماہ ہے 66 اور پنجاب سے باہر والوں کے لئے دو ماہ اور غیر ممالک والوں کے لئے تین ماہ ہے.“

Page 308

خطابات شوری جلد سوم ۲۹۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء تیسرا دن ۶ را پریل ۱۹۴۷ء جماعت احمدیہ کی ستائیسویں مجلس مشاورت کے تیسرے دن کی کارروائی پونے گیارہ بجے تعلیم الاسلام کالج کے ہال میں شروع ہوئی.حلاوت قرآن کریم کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے فرمایا:.”اب دوست میرے ساتھ مل کر دُعا کر لیں بارہ بجنے میں صرف ایک گھنٹہ باقی ہے اور دعا چونکہ میں نے بارہ بجے مجلس کی کارروائی ختم کرنی ہے اس لئے صرف ایک گھنٹہ میں ہی جس قدر کام ہو سکا ہم کر سکیں گے اور اس کے نتیجہ میں لازمی طور پر بہت سے کام باقی رہ جائیں گے مگر پھر بھی جتنا وقت ہے اُس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی جائے گی پہلے دوست میرے ساتھ مل کر دعا کر لیں اس کے بعد کارروائی شروع کی جائے گی.“ دعا کے بعد حضور نے فرمایا:.بجٹ آمد ا بھی بجٹ کا سوال پیش تھا.میں نے بجٹ کے متعلق پورا فیصلہ نہیں کیا تھا.آمد کے متعلق تو کل اعلان کر دیا گیا تھا اُمید ہے کہ احباب اُس کے مطابق جلد سے جلد عمل کرنے کی کوشش کریں گے.دوستوں کو یا د رکھنا چاہیے کہ آمد کا جو بجٹ سب کمیٹی نے پیش کیا ہے اُس کو منظور کر لیا گیا ہے اور جو اس میں کمیاں ہیں اُن کو دور کرنے کے لئے یہ تجویز کی گئی ہے کہ جتنے واقفین جائیداد ہیں یعنی وہ جو ساری جائیداد کے واقف ہیں اور جن کی آمد نیاں اُس جائیداد پر منحصر ہیں مثلاً وہ تجارتی جائیداد ہے یا زرعی جائیداد ہے اور اُس جائیداد سے اُن کو آمد بھی ہوتی ہے وہ اپنی تمام جائیداد کی قیمت کا ایک فیصدی چھ ماہ کے اندر اندر اس کمی کو پورا کرنے کے لئے صدر انجمن احمد یہ کے خزانہ میں اس شرط کے ساتھ کہ صدر انجمن احمدیہ کے دوسرے چندوں اور تحریک جدید کے وعدوں پر کوئی اثر نہ پڑے ، داخل کر دیں.اور وہ لوگ جو واقفین آمد ہیں یعنی انہوں نے ایک ایک یا دو دو ماہ کی آمدنیاں سلسلہ کے لئے وقف کی ہوئی ہیں وہ اپنی ایک ماہ کی آمد چھ ماہ کے اندر خزانه صدرانجمن احمدیہ میں داخل کرا دیں.ان کے علاوہ جن لوگوں نے اس وقت تک

Page 309

خطابات شوری جلد سوم ۲۹۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء اپنی جائیداد یا آمد وقف نہیں کی ان کے متعلق میں نے بتایا ہے کہ انہیں تحریک وقف میں حصہ لینے کی تلقین کی جائے.اگر وہ اپنی جائیداد یا آمد کو دوسرے واقفین کی طرح سلسلہ کے لئے وقف کر دیں تو اُن پر بھی وہی قانون حاوی ہوگا جو اوپر بیان ہو چکا ہے لیکن جو لوگ تحریک کے باوجود اس میں حصہ نہ لیں وہ قربانی کرنے والوں کی صف اول میں شریک نہیں ہو سکتے اُن سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنی جائیداد کی مالیت کا ۱/۲ فیصدی یا ماہوار آمد کا نصف اس غرض کے لئے پیش کر دیں مثلاً ایک شخص کے پاس ایک مربع زمین ہے اور اُس نے سلسلہ کے لئے اُسے وقف کیا ہوا ہے اب اگر اُس کی ۲۵ ہزار روپیہ قیمت ہے تو ایک فیصدی کے لحاظ سے اڑھائی سو روپیہ اور ۱/۲ فیصدی کے لحاظ سے سو اسو روپیہا سے خزانہ صدر انجمن احمدیہ میں داخل کرنا پڑے گا اسی طرح اگر کسی کی دوسو روپیہ تنخواہ ہے اور اس نے ایک ماہ کی آمد وقف کی ہوئی ہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ دوسو رو پید ادا کرے.اور اگر اس نے آمد وقف نہیں کی تو وہ سو روپیہ ادا کرے.ساتھ ہی میں نے ہدایت کی ہے کہ ہر احمدی کے پاس جاؤ اور اُس سے جائیداد یا آمد وقف کراؤ کیونکہ اس کے بغیر ہمارے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں جس سے مصیبت کے وقت ہم اپنے فوری اخراجات کو مہیا کر سکیں.دوسری تجویز میں نے یہ بتائی ہے کہ وصیت پر زور دو اور جہاں جہاں جاؤ اس کے لئے پورا زور صرف کر دو یہاں تک کہ کوئی احمدی مرد اور عورت ایسا نظر نہ آئے جس نے وصیت نہ کی ہو.قادیان میں زمین فروخت کرنے تیسری چیز میں نے یہ بتائی تھی کہ آئندہ کے لئے یہ قانون بنایا جاتا ہے کہ جولوگ قادیان والے نصف منافع جماعت کو دیں میں کوئی زمین خریدیں اور پھرکسی دوسرے کے پاس اُسے فروخت کریں وہ اخراجات نکالنے کے بعد جو نفع بچے اُس کا نصف خزانہ صدرانجمن احمد یہ میں داخل کریں کیونکہ قادیان کی ترقی خدا تعالیٰ کی پیشگوئیوں کے ماتحت ہے اور جو لوگ یہاں زمینیں فروخت کر کے نفع کماتے ہیں اُن کے نفع میں خدا تعالیٰ کے سلسلہ کا بھی حق ہے.کل جب سے میں نے یہ اعلان کیا ہے اس کے بعد ہر سو دے پر نفع کا پچاس فیصدی

Page 310

خطابات شوری جلد سو ۲۹۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء بعد منہائی اخراجات لازماً ہر شخص کو خزانہ صدر انجمن احمد یہ میں داخل کرنا پڑے گا لیکن میرے اس موجودہ اعلان اور اُس پہلے اعلان کے درمیانی عرصہ میں، جس میں فروخت کنندہ کو صرف دس فیصدی رقم خزانہ صدر انجمن احمدیہ میں داخل کرنے کا قانون پاس کیا گیا تھا، اگر کوئی سو دے ہو چکے ہوں تو اُن سے قیمت کا صرف دس فیصدی لیا جائے گا.اس قانون کے ماتحت قادیان میں زمینوں کی قیمتیں بھی کم رہیں گی اور ہماری یہ مذہبی غرض کہ قادیان کی آبادی میں ترقی ہو یہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے پوری ہوتی چلی جائے گی اور خالص تجارتی لوگ زمین کی قیمتوں کو خراب نہیں کر سکیں گے.میں سمجھتا ہوں کہ قادیان میں زمینوں کی قیمتیں بڑی آسانی سے اس قدر مل جاتی ہیں کہ بیچنے والے کو دس فیصدی نفع حاصل ہو جاتا ہے اور دس فیصدی نفع عام تجارتوں میں کہاں حاصل ہوتا ہے.مجھ سے ایک دوست نے جو تاجر ہیں ایک دفعہ بیان کیا کہ اگر مستقل کام ہو بہت بڑی رقم تجارت پر لگائی گئی ہو اور تین فیصدی نفع حاصل ہو تو ہم اس کو بھی بہت بڑا نفع سمجھتے ہیں.مگر قادیان میں زمینوں کی فروخت سے لوگوں کو دس فیصدی بلکہ اس سے بھی زیادہ نفع حاصل ہوسکتا ہے.بیشک میرا یہ اعلان بعض لوگوں کی طبائع پر گراں گزرے گا کیونکہ پہلے وہ خود سارا نفع کھاتے تھے اور اب اُنہیں نصف خزانہ صد را انجمن احمد یہ میں داخل کرنا پڑے گا مگر ہمارا فرض ہے کہ جو شخص محض دین کے لئے قادیان آتا ہے اُسے ستی سے ستی زمین لے کر دیں اور جو شخص نفع حاصل کرے وہ نصف منافع مرکز کی حفاظت اور خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت کے لئے پیش کرے کیونکہ اُسے جو بھی منافع حاصل ہوا ہے محض اس لئے ہوا ہے کہ آنے والے لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں کے ماتحت آئے اور اُنہوں نے زمین خریدی پس اُس کے منافع میں خدا تعالیٰ کا قائم کردہ سلسلہ بھی شریک ہے.چوتھی بات میں نے یہ بیان کی تھی کہ جب تک یہ روپیہ اکٹھا نہیں ہوتا تمام دوستوں کا فرض ہے کہ ان میں سے جس جس کے پاس کوئی روپیہ جمع ہو خواہ گھر میں جمع ہو یا کسی بینک میں وہ فوراً اس روپیہ کو نکلوا کر قادیان خزانه صدرانجمن احمد یہ میں امانت کے طور پر جمع کرا دیں.کل میں نے دوستوں سے وعدے لئے تو وہ تین لاکھ اسی ہزار تک پہنچ گئے تھے اور ابھی اور بھی بعض دوستوں نے وعدے کئے تھے جو اس تین لاکھ اسی ہزار میں شامل نہیں

Page 311

خطابات شوری جلد سوم ۲۹۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء کیونکہ بعد میں جب اور کاغذات میرے سامنے پیش ہوئے تو اُن میں بھی دوستوں کے وعدے درج تھے.اب آپ لوگوں کا فرض ہے کہ واپس جا کر جماعتوں میں تحریک کریں اور دوستوں کو نصیحت کریں کہ اُن کے پاس جس قدر زائد روپیہ ہے وہ فوراً خزانہ صدرانجمن احمد یہ میں یہ مدامانت جمع کرا دیں.اگر پوری کوشش کی جائے اور تندہی سے افراد جماعت تک یہ تحریک پہنچائی جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ دس پندرہ لاکھ روپیہ چند ہفتوں میں بڑی آسانی سے جمع ہو سکتا ہے مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے فرضِ منصبی کو پورے طور پر ادا کیا جائے.ایک صاحب نے پوچھا ہے کہ جائیداد کو وقف کرتے وقت اُس کی جو قیمت تھی اُس کا ایک فیصدی ادا کرنا ہے یا موجودہ قیمت کا ایک فیصدی ادا کرنا ہے؟ اس کا جواب تو واضح ہے لازماً وہی قیمت لی جائے گی جو اس وقت ہے اگر کسی جائیداد کی قیمت بڑھ گئی ہے تو موجودہ قیمت کے لحاظ سے ایک فیصدی چندہ ادا کرنا ضروری ہے اور اگر کسی جائیداد کی قیمت گرگئی ہے مثلاً بعض دوستوں کی جائیدادیں ہندؤوں کے محلہ میں تھیں موجودہ فسادات کے نتیجہ میں اُن کی قیمتیں ہندو محلہ میں بالکل گر گئی ہیں تو ایسی جائیدادوں پر بھی موجودہ قیمت کے لحاظ سے ایک فیصدی چندہ لیا جائے گا اور اگر پہلے وہ زیادہ قیمت لکھوا چکا ہے تو زائد رقم قیمت گر جانے کی وجہ سے اُڑ جائے گی.ان ہدایات کے ساتھ صدر انجمن احمدیہ کا پیش کردہ بجٹ آمد پاس کیا جاتا ہے.بجٹ اخراجات اس کے بعد بجٹ اخراجات کا سوال ہے چونکہ خرچ کی مدات میں بعد میں بھی تبدیلیاں کی جاسکتی ہیں اس لئے میں بحیث اخراجات کو اس شرط کے ساتھ پاس کرتا ہوں کہ صدرا نجمین احمد یہ اُسے جاری کرنے سے قبل مجھ سے دوبارہ مشورہ لے میں اس سال بجٹ میں بعض تخفیفیں کرنا چاہتا ہوں تا کہ خرچ زیادہ سے زیادہ حد بندیوں کے ساتھ ہو میں اس بارہ میں جذباتی اپیلوں سے متاثر ہونے کے لئے قطعاً تیار نہیں اور نہ اس قسم کی اہلیں میرے دل پر ایک رائی برابر بھی اثر ڈال سکتی ہیں کہ اگر فلاں کام نہ کیا گیا تو سلسلہ کے وقار کو صدمہ پہنچے گا یا اگر فلاں خرچ منظور نہ کیا گیا تو جماعت کے متعلق لوگ کیا کہیں گے کہ اُن کا قدم ترقی کی بجائے تنزل کی طرف جارہا ہے.میں سلسلہ کے

Page 312

خطابات شوری جلد سوم ۲۹۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء وقار کوصرف اُس وقت خطرہ میں سمجھتا ہوں جب تبلیغ کے کام میں کوئی روک واقع ہو جائے اور اگر تبلیغ کے کام میں زیادہ سے زیادہ وسعت مد نظر ہو تو میں اس میں بھی کوئی حرج نہیں سمجھتا کہ اگر ہمیں کالج بند کرنا پڑے تو کالج کو بند کر دیا جائے اور اگر سکول بند کرنا پڑے تو سکول کو بند کر دیا جائے.اگر تبلیغ کے کام میں زیادہ سے زیادہ روپیہ خرچ کرنے کے لئے ہمیں کسی وقت کالج اور سکول کو بھی بند کرنا پڑتا ہے تو مجھے اُن کے بند کرنے میں کوئی دریغ نہیں ہوگا.آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کون سے کالج ہوا کرتے تھے یا کون سے سکول تھے جن میں صحابہ تعلیم پاتے تھے ، وہ ان سامانوں کی عدم موجودگی میں بھی تبلیغ کرتے اور ویسے ہی جوش و خروش سے کام کرتے تھے جیسے ہم کام کرتے ہیں بلکہ ہم سے بھی بڑھ کر.پس میں ان جذباتی اپیلوں پر کان رکھنے کے لئے ہر گز تیار نہیں کہ اگر سکول میں فلاں کمرہ نہ بنایا گیا تو ہماری ناک کٹ جائے گی یا فلاں عمارت اس وقت تیار نہ کی گئی تو سلسلہ کے وقار کو صدمہ پہنچے گا، یہ ساری چیزیں بیشک رُک جائیں ان کی کوئی پرواہ نہیں کی جاسکتی صرف ایک ہی چیز ہمارے مد نظر ہے اور رہے گی اور وہ یہ کہ سلسلہ کی تبلیغ اور سلسلہ کی تعلیم اور سلسلہ کی تربیت میں کوئی حرج واقع نہ ہو اور یہ کام پیہم اور مسلسل ہوتا چلا جائے.پس اخراجات کے بارے میں جذباتی اپیلیں مجھے متاثر نہیں کر سکتیں میں صرف اس امر کو دیکھتا ہوں کہ ہم نے ایک بہت بڑا کام کرنا ہے اگر اس کے لئے ہمیں اپنے اخراجات بہت حد تک کم کرنے پڑیں تب بھی ہم ان کو کم کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے.پس میں بجٹ اخراجات پر بعض قیود عائد کرنا چاہتا ہوں اور ان قیود کے ساتھ اس بجٹ کو منظور کرتا ہوں مگر یہ شرط ہو گی کہ اس بجٹ پر عمل درآمد اُس وقت ہو جب اس بجٹ کی آخری منظوری مجھ سے مل جائے.صدرانجمن احمدیہ کو بجٹ کی آخری منظوری مجھ سے حاصل کرنی چاہیے.اس کے بعد یہ بجٹ نئے سال کے لئے نافذ ہوگا.ایک صاحب پوچھتے ہیں کہ ایک شخص کا گزارہ جائیداد پر نہیں محض ایک رہائشی مکان ہے جو اُس نے وقف کیا ہوا ہے مگر ساتھ ہی اُس نے آمد بھی وقف کی ہوئی ہے وہ اس تحریک میں آیا وقف آمد کے حساب سے حصہ لے یا وقف جائیداد کے لحاظ سے؟ اس سوال کے بارہ میں اگر اخلاص کی حقیقی روح پوچھی جائے تو وہ یہ ہے کہ اگر

Page 313

خطابات شوری جلد سوم ۲۹۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء جائیداد کی ایک فیصدی قیمت زیادہ ہو تو وہ دی جائے اور اگر مہینہ کی آمد زیادہ ہو تو وہ دی جائے.اصل روح یہی ہے باقی عذرات کی کئی صورتیں انسان اپنے لئے پیدا کر لیتا ہے.اب رہ گئیں دوسب کمیٹیاں ! ایک سب کمیٹی نظارت علیاء اور ایک سب کمیٹی نظارت تعلیم و تربیت و امور عامہ.میں سمجھتا ہوں کہ اب ہمارے پاس اتنا وقت نہیں کہ اِن سب کمیٹیوں کی رپورٹ پر غور و خوض کیا جا سکے ، اس لئے میرے نزدیک اگر ان امور کو ہم اگلے سال پر ملتوی کر دیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہوگا.ہم ٹھیک بارہ بجے مجلس کی کارروائی کو ختم کرنا چاہتے ہیں کیونکہ پونے تین بجے کی گاڑی پر دوستوں نے واپس جانا ہے اور پھر دوستوں نے ابھی کھانا بھی کھانا ہوگا اور نماز بھی پڑھنی ہوگی اس لئے میرا فیصلہ یہی ہے کہ نظارت علیاء، نظارت تعلیم و تربیت اور نظارت امور عامہ کی تجاویز کو اگلے سال پر ملتوی کیا جاتا ہے.یہ تجاویز ایسی اہم نہیں کہ ان کے متعلق اسی سال کوئی فیصلہ کرنا ضروری ہو.جس طرح پہلے عمل ہوتا رہا ہے اُسی طرح دوران سال میں بھی عمل ہوتا رہے، اگر درمیان میں ضرورت محسوس ہوئی تو دوبارہ مجلس شوریٰ بلالی جائے گی اور اس میں علاوہ اور امور کے ان باتوں پر بھی غور کر لیا جائے گا.پس بجٹ پر ہی میں مجلس کی کارروائی کو ختم کرتا ہوں.“ مجلس مشاورت کی کارروائی مکمل ہونے پر حضور نے آنے والے نازک اختتامی تقریر ایام کا ذکر کرتے ہوئے دُعاؤں اور قربانیوں سے کام لینے اور جماعت کو اُس کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:.” دوستوں کو میں اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ یہ دن نہایت ہی نازک ہیں، ان دنوں کی نزاکت کا احساس جہاں تک میں سمجھتا ہوں قریباً ہر احمدی کے دل میں پایا جاتا ہے.چنانچہ کل ہی کسی دوست نے کہا تھا کہ ہمیں گزشتہ فسادات کے دنوں میں جب ڈاک اور تار کا سلسلہ بند ہو جانے کی وجہ سے مرکز سے کوئی اطلاعات نہ پہنچیں تو سخت تشویش رہی اور جماعتوں نے نہایت اضطراب میں یہ ایام بسر کئے ، یہ درست ہے اور چونکہ میں بھی اُن دنوں قادیان سے باہر تھا اس لئے قدرتی طور پر مجھے بھی تشویش ہونی چاہئے تھی اور چونکہ میرا دل نہایت حساس واقع ہوا ہے اس لئے بسا اوقات ایک معمولی سی بات بھی مجھے

Page 314

خطابات شوری جلد سوم ۲۹۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء پریشان کر دینے کے لئے کافی ہوتی ہے.لیکن اس دفعہ کے فسادات کی خبر جب مجھے ملی تو میرے دل میں اس کے متعلق قطعاً کوئی جس پیدا نہ ہوئی حالانکہ ان واقعات سے ہزاروں حصہ کم واقعات بھی بسا اوقات میری تشویش اور اضطراب کا موجب بنتے رہے ہیں.بات یہ ہے کہ جس وقت مجھے ان فسادات کی خبر ملی تو معا میرے دل میں یہ خیال آیا کہ میرے پیچھے ان واقعات کا ہونا دوصورتوں میں سے ایک صورت ضرور رکھتا ہے، یا تو کوئی لڑائی ہونی ہی نہیں کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ " امام ڈھال ہوتا ہے اور لڑائی ہمیشہ امام کے پیچھے ہو کر کی جاتی ہے اور چونکہ خدا نے مجھے جماعت کا امام بنایا ہے اور میں اس وقت مرکز سے باہر ہوں اس لئے میری عدم موجودگی میں وہاں کوئی لڑائی نہیں ہوسکتی اور جب کوئی لڑائی نہیں ہو سکتی تو مجھے کسی تشویش کی کیا ضرورت ہے.اور یا پھر دوسری صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور بعض حوادث اور ابتلاء مقدر ہیں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ان حوادث سے بچا کر الگ کر لیا ہے اس صورت میں بھی میرے لئے گھبراہٹ کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی.پس با وجود اس کے کہ اس سے ہزاروں حصہ کم واقعات پر بھی میرے دل میں انتہائی تشویش اور بے چینی پیدا ہو جایا کرتی ہے ان فسادات پر میرے دل میں کوئی بے چینی نہیں تھی ، میں سمجھتا تھا کہ اگر الہی مصلحت یہی ہے کہ میں باہر رہوں تب بھی میرے لئے کوئی پریشانی کی وجہ نہیں ہو سکتی اور اگر یہ درست ہے کہ الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ امام ایک ڈھال کی طرح ہوتا ہے اور لڑائی ہمیشہ امام کے پیچھے ہو کر کی جاتی ہے تو جب تک میں وہاں نہیں ہوں گا قادیان میں کوئی فساد نہیں ہوگا.ان وجوہ کی بناء پر میرے اندر کوئی گھبراہٹ نہیں تھی لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ باوجود ہماری تمام کوششوں کے کہ ہندؤوں اور مسلمانوں میں صلح ہو جائے تمام اقوام کے لوگ آپس میں بھائی بھائی بن کر رہیں اور آپس کے جھگڑوں کو محبت اور پیار کے ساتھ سلجھانے کی کوشش کریں، ملک کی فضاء ابھی تک درست نہیں ہوئی.جوں جوں ہم نے کوشش کی کہ لوگوں کو اپنے قریب کریں اور انہیں محبت اور پیار سے رہنے اور ایک دوسرے کے ساتھ نیک برتاؤ کرنے کی نصیحت کی ہماری ان کوششوں میں روکیں پیدا ہوتی چلی گئیں.شاید اللہ تعالیٰ کی ان فسادات میں ایک یہ بھی حکمت ہو کہ یہ آزمائش اور ابتلاء ایسے مقام پر پہنچ جائیں کہ

Page 315

خطابات شوری جلد سوم ۲۹۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء ان کے نتیجہ میں بنی نوع انسان کے قلوب صاف ہو جائیں.اگر ایسی حالت میں صلح ہو جائے جب کہ دل صاف نہ ہوں تو وہ صلح دیر پا نہیں ہوتی مگر جھگڑے اور فسادات جب انتہاء کو پہنچ جاتے ہیں تو قلوب میں بھی تبدیلی پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے اور وہ تبدیلی زیادہ بہتر نتائج پیدا کرنے کا موجب بنتی ہے.ہر جمعرات کو نفلی روزہ کی تحریک بہر حال جماعت کا فرض ہے کہ ان نہایت ہی نازک ایام میں بیداری اور ہوشیاری کے ساتھ اپنے دن گزارے اور دعاؤں سے خصوصیت کے ساتھ کام لیا جائے اسی لئے میں نے ہر جمعرات کو روزہ رکھنے اور دعائیں کرنے کی جماعت میں تحریک کی ہے.میں چونکہ روزوں کا اعلان کرنے کے معاً بعد سندھ چلا گیا اور خطبہ جلدی شائع نہ ہوا اس لئے میں نے اعلان کر دیا تھا کہ روزے ۲۰ مارچ سے شروع ہوں گے مگر بعض نے میرے پہلے اعلان کی بناء پر ۱۳ / مارچ کو بھی روزہ رکھ لیا اس طرح اُن کے آٹھ روزے ہو جائیں گے اور وہ ایک زائد روزہ کے ثواب کے مستحق ہوں گے.بہر حال پہلا روزہ ۲۰ / مارچ کو رکھا گیا تھا ، دوسرا روزه ۲۷ / مارچ کو رکھا گیا ، تیسرا روزہ ۳ اپریل کو رکھا گیا، چوتھا روزہ ۱۰ اپریل کو رکھا جائے گا ، پانچواں روزہ ۱۷ را پریل کو رکھا جائے گا، چھٹا روز ہ۲۴ / اپریل کو رکھا جائے گا اور ساتواں روزہ یکم مئی کو رکھا جائے گا.جماعت کے دوستوں کو چاہیئے کہ وہ تعہد کے ساتھ یہ روزے رکھیں اور نہ صرف خود روزے رکھیں بلکہ دوسروں کو بھی روزے رکھنے کی تاکید کریں اور اپنی عورتوں اور اپنے بچوں کو بھی روزے رکھا ئیں جو روزے رکھنے کے قابل ہیں.اور سب کے سب مل کر خدا تعالیٰ سے دعائیں کریں کیونکہ اجتماعی دُعا جس میں چھوٹے اور بڑے سب شریک ہو جاتے ہیں خدا تعالیٰ کے فضلوں کو خاص خاص لوگوں کی دُعاؤں سے بھی زیادہ جذب کرتی ہے.“ بعض سوالوں کے جواب اس موقع پر ایک دوست نے سوال کیا کہ کیا سفر میں روزہ رکھا جاسکتا ہے؟ حضور نے فرمایا:.سفر میں فرض روزہ منع ہے نفلی نہیں.بسا اوقات بظاہر ضائع ہونے والی قربانی بظاہر قبول ہونے والی قربانی سے زیادہ قیمتی ہوتی ہے اور ہر مومن کا فرض ہوتا ہے کہ وہ کسی مرحلہ

Page 316

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء پر بھی اپنے قدموں میں جنبش پیدا نہ ہونے دے اور اپنے دل کو اُستوار رکھے.اس مسئلہ کو اپنے مد نظر رکھتے ہوئے دعائیں کرو اور روزے رکھو.دعائیں کراؤ اور روزے رکھواؤ اور مرکز کی حفاظت کے لئے جلد سے جلد دس پندرہ لاکھ روپیہ اپنی ذاتی امانت کے ماتحت خزانہ صدرانجمن احمد یہ میں جمع کرا دو.یہ روپیہ چونکہ حفاظت مرکز کے کام کے لئے استعمال کیا جائے گا اس لئے اس کی واپسی فوراً نہیں ہوگی ، سوائے اس کے کہ کسی کو کوئی اشد ضرورت پیش آجائے.بے شک یہ سارا روپیہ امانت کے طور پر محفوظ رہے گا اور سلسلہ اس کو واپس کرنے کا ذمہ دار ہوگا مگر بہر حال اس کی واپسی میں کچھ وقفہ ضرور ہوگا تا کہ چندہ اکٹھا ہونے تک اس روپیہ سے کام لیا جا سکے.اسی طرح دوسری تحریکات جو میں نے اس وقت کی ہیں نمائندگان جماعت کا فرض ہے کہ واپس اپنی جماعتوں میں جا کر اُن پر عمل کرائیں اور دوستوں پر ان تحریکات کی اہمیت واضح کریں.میں نے کہا ہے کہ ہر وہ شخص جس نے خدمتِ سلسلہ کے لئے اپنی جائیداد وقف کی ہوئی ہے وہ اپنی جائیداد کی قیمت کا ایک فیصدی خزانہ صدرانجمن احمدیہ میں داخل کرے اور وہ لوگ جنہوں نے اپنی آمد وقف کی ہوئی ہے وہ ایک مہینے کی تنخواہ دیں اور وہ لوگ جو واقفین جائیداد یا واقفین آمد میں شامل نہیں اُن کو تحریک کی جائے کہ وہ ان میں سے کسی وقف میں یا اگر اللہ تعالیٰ نے انہیں تو فیق دی ہے تو دونوں تحریکوں میں شامل ہو جائیں ، اس کے بعد اُن پر بھی اُسی قانون کا اطلاق ہوگا جو پہلے واقفین کے لئے تجویز کیا گیا ہے یعنی اُن سے بھی جائیداد کی قیمت کا ایک فیصدی یا ایک ماہ کی تنخواہ لی جائے گی اور وہ لوگ جو تحریک کے باوجود اپنی جائیداد یا آمد کو وقف نہیں کریں گے اُن سے جائیداد کی قیمت کا ۱/۲ فیصدی یا اُن کی سالانہ آمدن کا چوبیسواں حصہ یعنی مہینہ کی آدھی تنخواہ لی جائے گی.ایک صاحب پوچھتے ہیں کہ اس تحریک میں اگر کسی نے پہلے کچھ چندہ لکھوایا ہو ا ہو تو وہ الگ شمار ہوگا یا اسی تحریک میں شمار کیا جائے گا؟ اس کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ وہ چندہ اسی چندہ میں شامل ہوگا یعنی اگر کسی نے موجودہ تحریک کے ماتحت ایک سو روپیہ دینا ہے اور پچاس روپے وہ دے چکا ہے تو اب اس کے ذمہ صرف پچاس روپے ہوں گے یا اگر پچاس کا اُس نے وعدہ کیا ہوا تھا تو اب مزید صرف پچاس کا وعدہ کر کے وہ اپنے حصہ کو

Page 317

خطابات شوری جلد سوم ادا کر سکتا ہے.“ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء ایک صاحب نے سوال کیا کہ ایک دوست نے اپنی آمد وقف کی تھی مگر اب وہ بریکار ہے ، وہ اس تحریک میں کس طرح شامل ہوسکتا ہے؟ حضور نے فرمایا :.اُسے نیت کا ثواب مل جائے گا ، اُس نے کرنا کیا ہے.“ ایک اور سوال کے جواب میں فرمایا کہ:- جن لوگوں نے میری پہلی تحریک پر صرف مجروی وعدے کئے تھے پورا وقف نہیں کیا تھا اُن کو چاہیئے کہ یا تو اپنی جائیداد اور آمد کو وقف کریں یا پھر غیر واقف کی طرح رقم ادا کریں.ہم نے بے شک اُن سے وعدے لے لئے ہم سمجھتے تھے کہ اُنہوں نے وقف نہیں کیا وہ اب اپنی جائیداد یا آمد وقف کریں اور یا پھر اسی طرح چندہ دیں جس طرح غیر واقف دیں گے.66 ایک اور صاحب کے سوال کے جواب میں حضور نے فرمایا :.مظلومین بہار کی اعانت کے لئے جو چندہ کی تحریک کی گئی ہے یہ بھی درحقیقت اپنی حفاظت کی ہی ایک شاخ ہے کیونکہ جو شخص دوسرے کی حفاظت کے لئے قربانی کرتا ہے وہ اپنی جان کی حفاظت کے لئے اپنے مال اور جان کو قربان کرنے سے کس طرح پیچھے رہ سکتا ہے ، اس لئے یہ تحریک بھی گو صدقہ کا رنگ رکھتی ہے مگر ایک رنگ میں اس کا تعلق اپنی حفاظت کے ساتھ بھی ہے.دشمن یہ سمجھنے پر مجبور ہوتا ہے کہ جو لوگ دوسروں کے لئے مال خرچ کر رہے ہیں وہ اپنی حفاظت کے لئے کسی بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں 66 کریں گے.“ ایک اور سوال کے جواب میں حضور نے فرمایا :.تقویٰ کا طریق یہی ہے کہ اگر کسی کی آمد زیادہ ہو تو وہ آمد ادا کرے اور اگر حصہ جائیداد زیادہ ہو تو حصہ جائیداد ادا کرے.“ ایک اور سوال کے جواب میں حضور نے فرمایا :.وہ لوگ جو اس تحریک میں شامل نہ ہوں جماعتوں کو اُن کے نام نوٹ کر لینے چاہئیں ، ایسے لوگوں کو جب بھی کوئی ثواب کا موقع آئے گا آئندہ اس میں شامل نہیں کیا

Page 318

خطابات شوری جلد سوم جائے گا.“ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء ایک دوست نے عرض کیا کہ حضور نے تو فرمایا تھا کہ ہم اُن کے مال کو حرام سمجھیں گے.حضور نے فرمایا:.اس سے مراد یہی تھی کہ اس قسم کی تحریکات میں اُن کو شامل نہیں کیا جائے گا صرف چندہ عام اُن سے لے لیا جائے گا.“ اسی سلسلہ میں حضور نے یہ بھی فرمایا کہ:- وہ لوگ جنہوں نے ابھی تک اپنی جائیداد یا آمد وقف نہیں کی وہ ڈیڑھ ماہ کے اندر اندر اس وقف میں شامل ہو سکتے ہیں.“ سوالات کے بعد حضور نے پھر سلسلہء تقریر کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا:.جامع نصائح ”اب میں جماعت کو چند آخری نصائح کر کے اس مجلس کو برخاست کرتا ہوں، میں نے جماعت کو بارہا توجہ دلائی ہے کہ تبلیغ پر خاص زور دو اور پچھلے دنوں تو خصوصیت کے ساتھ میں نے اِس طرف توجہ دلائی تھی مگر ابھی تک بہت ہی کم جماعتوں نے اس فریضہ کی ادائیگی کی طرف توجہ کی ہے.لاکھوں کی جماعت میں سے اب تک صرف ۱۸۸۵ افراد نے دو ہزار بیعتوں کے وعدے کئے ہیں جو نہایت افسوس ناک امر ہے.دوستوں کو یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہیئے کہ جب تک تبلیغ کی طرف خاص طور پر توجہ نہیں کی جائے گی جماعت کبھی ترقی نہیں کر سکتی.ہر شخص جو اس سلسلہ میں داخل ہوتا ہے اُسے یہ پختہ عہد کر لینا چاہیئے کہ وہ سالانہ کم از کم ایک شخص کو احمدیت میں داخل کرنے کی کوشش کرے گا اور اگر وہ ایسا عہد نہیں کرتا تو اُسے سمجھ لینا چاہیئے کہ روحانی رنگ میں اُس پر موت وارد ہو رہی ہے.قادیان کی جماعت کو بھی میں نے گزشتہ دنوں اس طرف توجہ دلائی جس پر کئی لوگوں نے تبلیغ کے لئے اپنے اوقات کو وقف کیا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے امید کی جاتی ہے کہ اگر وہ اپنے عہد پر قائم رہتے ہوئے سرگرمی سے تبلیغی جد و جہد کو جاری رکھیں گے تو اس کے نہایت خوش کن نتائج برآمد ہوں گے.باہر کی جماعتوں کو بھی میں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے افراد کو تبلیغ کے لئے اوقات وقف کرنے کی تحریک کریں اور پھر تنظیم کے ماتحت اُن سے کام لیا جائے.کبھی کبھی کسی گاؤں میں تبلیغ کے لئے چلے جانا اور پھر مہینوں

Page 319

خطابات شوری جلد سوم ٣٠٣ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء اُس طرف کا رُخ بھی نہ کرنا کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کرتا.ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہر گاؤں میں خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا دو دو چار چار آدمی احمدی ہو جائیں ، بہت دفعہ دیکھا گیا ہے کہ اگر کسی جگہ پچاس ساٹھ احمدی ہو گئے ہیں تو اُن کی ترقی رُک گئی ہے لیکن جہاں دو دو چار چار احمدی تھے وہاں ترقی ہوتی رہی.اس کی وجہ در حقیقت یہی ہوتی ہے کہ نئی نئی جگہوں پر نئی نئی جماعتیں قائم کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی اور جماعت کی ترقی کے جو قدرتی ذرائع ہوتے ہیں وہ مفقود ہوتے چلے جاتے ہیں.جہاں دہوتے چلے جاتے ہیں.جہاں ایک ایک دو دو احمدی ہوں یا نئی جماعتیں قائم ہوں وہاں لوگوں کا دباؤ ، اُن کی مخالفت اور شرارت اور پھر رشتہ داروں کا تناؤ اور کھچاؤ انسان کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ جد و جہد کرے اور مخالفت کرنے والوں کو اپنے ساتھ ملائے اور جب وہ جد و جہد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُسے کامیابی بھی عطا فرما دیتا ہے اور ایک سے دو اور دو سے چار اور چار سے دس بننا شروع ہو جاتے ہیں لیکن جہاں زیادہ احمدی ہو جائیں وہاں چونکہ مخالفت کم ہو جاتی ہے اس لئے لوگوں کی توجہ بھی تبلیغ کی طرف سے ہٹ جاتی ہے گویا چھوٹی جماعتیں جہاں اپنے چھوٹا ہونے کی وجہ سے اور مخالفین کے مظالم کا تختہ مشق بننے کی وجہ سے جلد جلد ترقی کرتی ہیں وہاں بڑی جماعتیں بسا اوقات اپنی کثرت کی وجہ سے غفلت اور کوتاہی کا شکار ہو جاتی ہیں.پس کوشش کرنی چاہیے کہ نئی نئی جگہ جماعتیں بنائی جائیں اور ہر گاؤں اور ہر شہر میں سے دو دو تین تین لوگوں کو احمدیت میں شامل کر لیا جائے.اگر ہماری جماعت یہ طریق اختیار کرلے تو دس سال میں ہی وہ ہندوستان پر غالب آ سکتی ہے ، مگر افسوس ہے کہ اس طرف صحیح طور پر توجہ نہیں کی جاتی.پس میں جماعتوں کو ایک دفعہ پھر اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ہر شخص سے سال میں کم از کم ایک احمدی بنانے کا عہد لیا جائے اور لسٹوں کو مکمل کر کے دفتر بیعت میں بھجوا دیا جائے اور پھر اس عہد کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے.میں نے بتایا ہے کہ تبلیغ کا بہترین طریق یہ ہے کہ نئی نئی جگہوں میں ایک ایک دو دو احمدی بنانے شروع کر دیئے جائیں.لاہور اور دہلی میں بھی میں نے دوستوں سے کہا تھا کہ دیکھو فلاں فلاں محلوں میں کوئی احمدی نہیں تم کوشش کرو کہ اُن محلوں میں احمدیت پھیلے اور کوئی ایک محلہ بھی ایسا نہ رہے جس میں ہماری جماعت کا کوئی فرد نہ ہو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہر جگہ نئی مخالفت شروع ہو جائے گی.لوگوں کی طبائع میں تحقیق و جستجو کا

Page 320

۳۰۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء خطابات شوری جلد سوم مادہ پیدا ہوگا اور اُن میں سے کئی سعید الفطرت لوگ احمدیت کو قبول کر لیں گے.لاہور اور دہلی میں درجنوں محلے ایسے ہیں جن میں کوئی احمدی نہیں حالانکہ سب محلوں میں دو دو چار چار احمدی ضرور ہونے چاہئیں اور اگر ایسا ہو تو احمدیت بہت جلد بڑھ سکتی ہے.پس گاؤں والوں کو نئے نئے گاؤں میں احمدیت پھیلانی چاہیے اور شہر والوں کو نئے نئے محلوں میں احمدیت پھیلانی چاہیے یہاں تک کہ کوئی گاؤں ، کوئی شہر اور کوئی محلہ ایسا نہ ہو جس میں ہماری جماعت با قاعدہ قائم نہ ہو اور جہاں تبلیغی جلسے وغیرہ نہ ہوتے ہوں.باقی جلسہ سالانہ پر میں نے جماعت کو جو نصائح کی تھیں اُن کی طرف بھی ہمارے دوستوں کو توجہ رکھنی چاہیے بالخصوص نماز با جماعت کی پابندی اور لجنہ اماءاللہ کا قیام یہ نہایت ضروری باتیں ہیں.اسی طرح محنت کی عادت اور سچائی کو اپنا شعار بنانا.ان امور کی طرف بھی ہمیشہ توجہ رکھنی چاہیے.اب میں اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ اس نہایت ہی نازک زمانہ میں ہمیں اپنے فرائض پوری خوش اسلوبی سے سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم پر ایسا فضل نازل کرے کہ جب ہم اس خطرہ کی حالت سے باہر نکلیں تو ہماری حالتیں پہلے سے بہت زیادہ اچھی ہوں.ہماری شوکت پہلے سے بڑھی ہوئی ہو.ہماری عظمت پہلے سے بدرجہا بڑھ کر ہو.ہماری تعداد پہلے سے کئی گنا زیادہ ہو.ہماری اقتصادی حالت پہلے سے بہت بڑھ چڑھ کر ہو.ہماری علمی حالت پہلے سے بہت زیادہ ترقی یافتہ ہو، تا کہ جب آفات و مصائب کا بادل چھٹے تو دنیا یہ کہنے پر مجبور ہو کہ جو چیز دنیا کے لئے عذاب بن کر آئی تھی وہ جماعت احمدیہ پر رحمت کی بارش بن کر برسی.وَآخِرُ دَعُونَا آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء) لى اشاعة السنة جلد ۳ انمبر اصفحه ۴،۳.مطبوعہ ۱۸۹۰ء کے تذکرہ صفحہ ۱۹۸ ایڈیشن چہارم نسائی کتاب النکاح باب كراهية تزويج العقيم الاعلى : ١٠

Page 321

خطابات شوری جلد سوم ۵ تذکرہ صفحه ۸۲ ایڈیشن چهارم تذکرہ صفحه ۱۴۱ ایڈیشن چہارم ۳۰۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۷ء کے اینٹرم (ANTRIM) : شمالی آئر لینڈ میں صوبہ السٹر ایک بحری ضلع ، صدر مقام بلغاسٹ ہے جو مشہور بندرگاہ اور آئر لینڈ کا بڑا صنعتی مرکز ہے.یہ علاقہ زیادہ تر زراعتی ہے اور ماہی گیری و مویشی پروری بھی ہوتی ہے.(اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد اصفحه ۱۸۰ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ء) مچان: وہ تختہ یا لکڑیاں جو دیوار میں اسباب وغیرہ رکھنے کے لئے اونچی جگہ لگا دیتے ہیں.سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۲۷۲ ۲۷۳ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء نسائی کتاب الوصايا باب الكراهية في تأخير الوصية بخارى كتاب الجهاد باب يُقَاتَلُ مِنْ وَرَاءِ الْإِمَامِ (الخ)

Page 322

Page 323

خطابات شوری جلد سو ۳۰۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ بلس مشاورت ۱۹۴۸ء منعقده ۲۶، ۲۷ مارچ ۱۹۴۸ء بمقام رتن باغ لاہور ) پہلا دن جماعت احمدیہ کی اٹھائیسویں مجلس مشاورت مؤرخہ ۲۶ اور ۲۷ مارچ ۱۹۴۸ء کو بمقام رتن باغ لاہور منعقد ہوئی دعا کے بعد حضور نے مختصر سا افتتاحی خطاب فرمایا.تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد فرمایا:.افتتاحی خطاب نمائندگان کو یہ بات مدنظر رکھنی چاہئیے کہ اب کام کا وقت ہے باتوں کا وقت نہیں ہے وہ زمانہ گذر چکا جب ہم اپنا کچھ وقت باتوں میں بھی صرف کر دیا کرتے تھے اب ہم میں سے وہی شخص جماعت کا ایک مفید جزو بن سکتا ہے جو اپنے اوقات کو پوری طرح خدا تعالیٰ اور اسلام کی خدمت میں لگا دیتا ہے.ہم میں سے جو لوگ اپنے اوقات کو اپنے نفس کے لئے خرچ کرنا چاہتے ہیں انہیں یا درہے کہ اب وہ دن آ رہے ہیں جب کہ واقعات خود انہیں مجبور کر دیں گے کہ وہ جماعت سے الگ ہو جا ئیں اور اپنی بد عملی کی وجہ سے جماعت کی بدنامی کا موجب نہ بنیں.“ دوسرا دن مجلس مشاورت کے دوسرے دن ۲۷ مارچ ۱۹۴۸ء کو مکرم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے جب وہ تجاویز سنائیں جو مجلس مشاورت میں پیش کرنے کے لئے آئی تھیں لیکن صدرانجمن نے اُن کو رڈ کر دیا تو حضور نے فرمایا:-

Page 324

خطابات شوری جلد سوم ۳۰۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء رڈ شدہ تجاویز کی وجوہ بھی بتانی چاہئیں جن تجاویز کو صدرانجمن احمدیہ نے مجلس مشاورت میں پیش کرنے سے روکا ہے اس میں کوئی محبہ نہیں کہ اُن کا روک دینا ہی مناسب تھا.لیکن محض یہ کہہ دینا کہ صدر انجمن احمدیہ کی رائے میں اُن کا تعلق مجلس شوریٰ سے نہیں ، کافی نہیں تھا ،صدر انجمن احمدیہ کو بتانا چاہیے تھا کہ اُس نے کن وجوہ کی بناء پر ان تجاویز کو رڈ کیا ہے مثلاً اگر یہ کہا جاتا کہ چونکہ ایجنڈا بہت لمبا ہے اور وقت کم.اس لئے اُن کو اگلی مجلس مشاورت میں پیش کیا جائے گا تو ایک معقول بات تھی.صرف یہ کہہ دینا کہ ان کا صدرانجمن احمدیہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، دلوں کو تسلی نہیں دے سکتا سوال یہ ہے کہ وہ ضرورت جو پیش کی گئی تھی.ضرورت حلقہ تھی یا نہیں.پھر اگر تو اس کا تعلق صدر انجمن احمدیہ کے ساتھ تھا تو اُس کا اعلان کر دینا چاہیے تھا کہ معاملہ محکمہ متعلقہ کے سپر د کر دیا گیا ہے اور وہ اس کے علاج کے لئے تیار ہو اور اگر اُس کا مشاورت کے ساتھ تعلق تھا تو اُسے کہنا چاہیے تھا کہ اُس نے ان امور کو شوری کے سامنے رکھ دیا ہے اور اگر بے تعلق تھا تو اُس کی بے تعلقی کے وجوہ کو بیان کرنا چاہیے تھا.درحقیقت وہ تمام امور جو ہماری جماعت کے ساتھ تعلق رکھنے والے سمجھے جاتے ہیں چار قسم کے ہیں:.اول : وہ جن کا ہماری جماعت کے ساتھ حقیقتاً کوئی تعلق نہیں ہوتا.اس صورت میں بے تعلقی کی وجہ بیان ہونی چاہیے.دوم : وہ جن کا تعلق مجلس شوری کے ساتھ ہوتا ہے.ایسے معاملات شوری کے سامنے پیش کرنے چاہیے.سوئم : ایسے معاملات جن کا تعلق صدر انجمن احمدیہ کے ساتھ ہو.ایسے معاملات کا صدرانجمن احمدیہ کو فیصلہ کرنا چاہیے.چہارم : ایسے معاملات جو نہ تو صدرانجمن احمد یہ سے تعلق رکھتے ہیں ، نہ شوری سے، بلکہ صرف خلافت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.ایسی صورت میں صدر انجمن احمدیہ کو بتانا چاہیے کہ وہ معاملہ خلیفہ اسیح کے سامنے رکھا گیا ہے.غرض ہر رنگ میں صدرا انجمن احمدیہ کو اپنا رویہ الگ الگ ظاہر کرنا چاہیے اگر جماعت کے ساتھ کسی معاملہ کا تعلق نہیں.مثلاً کوئی سیاسی مسئلہ ہو تو اُسے بیان کرنا چاہیے کہ اس کا جماعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.اور اگر کسی

Page 325

خطابات شوری جلد سوم ۳۰۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء چیز کا تعلق گلی طور پر خلافت کے ساتھ ہے تو پھر صدرانجمن احمدیہ کو بیان کرنا چاہیے کہ س کا تعلق براہ راست خلیفہ سے ہے اس لئے ہم نے وہ سوال خلیفہ وقت کو بھجوا دیا ہے.تیسری صورت یہ ہے کہ وہ امر صدر انجمن احمدیہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہو.ایسی صورت میں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ ہم اس کو پیش کرنے کی اجازت نہیں دیتے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ہم نے معاملہ متعلقہ محکمہ کے سپر د کر دیا ہے اور وہ خود اس کا فیصلہ کرے گا.چوتھی صورت یہ ہے کہ اُس کا تعلق شوری کے ساتھ تو ہو مگر ایجنڈا لمبا ہو اور وقت کم اس لئے فیصلہ کیا جائے کہ آئندہ سال اس کو پیش کیا جائے.ان چار صورتوں میں سے کوئی نہ کوئی صورت چونکہ ضرور ہوتی ہے اس لئے یہ نہیں کہنا چاہیے کہ ان تجاویز کو ہم نے پیش کرنے کی اجازت نہیں دی بلکہ تصریح کے ساتھ بتانا چاہیے کہ ان چار صورتوں میں سے کون سی صورت تھی اور کیا رویہ اختیار کیا گیا.اس طرح سے تجویز پیش کرنے والا شخص یا ادارہ تسلی پا جائے گا اور وہ سمجھے گا کہ میری تجویز کو بلا وجہ رڈ نہیں کیا گیا بلکہ جو مناسب طریق تھا وہ اختیار کیا گیا ہے.“ جس جماعت کا اوسط چندہ ماہوار کم از کم ۵۰۰ روپیه هووه نظارت تعلیم وتربیت کی طرف سے ایک تجویز یہ پیش کی گئی مدرسہ احمدیہ میں تعلیم دلوانے کے لئے ایک طالبعلم لازمی بھیجے تھی کہ :- ہر جماعت جس کا اوسط چندہ ماہوار کم سے کم پانچ سو روپیہ ہے لازمی طور پر مدرسہ احمدیہ کے لئے ایک طالب علم پڑھنے کے لئے قادیان بھیجے یا ایک طالب علم کا ماہوار خرچ جو اوسطاً ہیں روپیہ ماہوار ہے ادا کرے“.سب کمیٹی نظارت تعلیم و تربیت میں یہ ترمیم پیش ہوئی کہ اس تجویز کو مندرجہ ذیل صورت میں پیش کیا جائے :- ’ہر جماعت جس کا اوسط چندہ ماہوار کم از کم ۲۵۰ روپیہ ہے لازمی طور پر مدرسہ احمدیہ کے لئے ایک طالب علم اپنے خرچ پر پڑھنے کے لئے قادیان بھیجے یا ایک طالب علم کا ماہوار خرچ جو اوسطاً ہمیں روپیہ ہے ادا کرے گویا اس لحاظ سے ہر ایسی جماعت کی طرف سے ایک

Page 326

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء طالب علم ہر وقت مدرسہ احمدیہ میں تعلیم پارہا ہو گا ایسی جماعتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے گل ۲۷ طلباء مدرسہ احمدیہ کے لئے مہیا ہو سکتے ہیں.مندرجہ بالا ترمیم کے حق میں دس آراء تھیں لیکن تین ممبران سب کمیٹی کی یہ رائے تھی کہ -۲۵۰۱ روپیہ کی بجائے - ۵۰۰۱ روپیہ ماہوار کا معیار رکھنا ہی مناسب ہوگا.(اس صورت میں گل طلباء کی تعداد دس گیارہ ہوگی ) ایک ممبر کی رائے یہ تھی کہ چندہ کے معیار کو ۱۰۰۰ روپیہ ماہوار تک کر دیا جائے.کثرتِ رائے سے فیصلہ ہوا کہ مندرجہ بالا ترمیم کے منظور کئے جانے کے بارہ میں سفارش کی جائے.کمیٹی کی یہ تجویز جب مجلس مشاورت میں پیش ہوئی تو مکرم ملک عبدالرحمن صاحب خادم نے سب کمیٹی کی تجویز سے اختلاف کرتے ہوئے یہ ترمیم پیش کی کہ :- در جس جماعت کا اوسط چندہ پانچ صد روپیہ ماہوار ہو وہ ایک طالب علم اور اُس کا خرچ دے اور اگر اُس کے پاس طالب علم نہ ہو تو اُس کا خرچ دے اور اُس کے اُوپر فی پانچ صد روپیہ چندہ ایک طالب علم یا اُس کے خرچ کے حساب سے ذمہ داری ڈالی جائے“.حضور نے فرمایا: - چونکہ ترمیم کا پہلے پیش ہونا ضروری ہوتا ہے اس لئے سب کمیٹی کی تجویز پیش کرنے سے پہلے میں اس ترمیم کے متعلق دوستوں سے رائے دریافت کرنا چاہتا ہوں جن دوستوں کی یہ رائے ہو کہ پانچ سو روپیہ ماہوار یا اس سے زیادہ چندہ دینے والی جماعتوں پر یہ پابندی عائد ہونی چاہیے کہ وہ مدرسہ احمدیہ کے لئے ایک طالب علم اپنے خرچ پر پڑھنے کے لئے بھیجیں اور اگر طالب علم موجود نہ ہو تو ایک طالب علم کا ماہوار خرچ برداشت کریں وہ کھڑے ہو جائیں.“ ۲۸۲ دوست کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا: - اب وہ دوست جو اس بات کی تائید میں ہوں کہ اڑھائی سو روپیہ ماہوار یا اس سے 66 زیادہ چندہ دینے والی جماعتوں پر یہ پابندی عائد ہونی چاہیے وہ کھڑے ہو جائیں.“ صرف ۳۲ دوست کھڑے ہوئے.فرمایا : -

Page 327

خطابات شوری جلد سوم فیصلہ ۳۱۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء میں کثرتِ رائے کے حق میں فیصلہ کرتا ہوں کہ ہر جماعت جس کا اوسط چندہ ماہوار کم از کم ۵۰۰ روپیہ ہے وہ لازمی طور پر مدرسہ احمدیہ میں تعلیم دلوانے کے لئے ایک طالب علم بھیجے اور اُس کے اخراجات خود برداشت کرے اور اگر طالب علم اُس کے پاس نہ ہو تو ایک طالب علم کا ماہوار خرچ ادا کرے اور تمام جماعتوں پر فی پانچ صدر و پیہ 66 چندہ ایک طالب علم یا اُس کے خرچ کے حساب سے ذمہ داری ڈالی جائے.“ حضور نے مزید فرمایا: - میں سمجھتا ہوں اصل طریق یہی ہے کہ تدریجی طور پر جماعت کو کسی کام کی عادت ڈالی جائے اس طرح بشاشت قائم رہتی ہے اور کام کرنے کی روح ترقی کرتی ہے پس میں جماعت کی کثرتِ رائے کے مشورہ کو منظور کرتے ہوئے اس تجویز کو جاری کرنے کی ہدایت صدرانجمن احمدیہ کو دیتا ہوں مگر ماہوار خرچ کی اوسط جو ۲۰ روپیہ مقرر کی گئی ہے یہ درست نہیں اوسط خرچ کم سے کم ۲۵ روپیہ ماہوار ہونا چاہیے.القرآن کلاس میں نمائندگان بھجوانے نظارت تعلیم و تربیت کی دوسری تجویز یہ تھی که تعلیم القرآن کلاس کے فائدہ کو وسیع 66 اور مستورات کی شمولیت کی بابت کرنے کے لئے تاکہ زیادہ سے زیادہ احباب ان ایام میں تشریف لا کر شمولیت کرسکیں جماعتیں یہ ذمہ داری لیں کہ ہر جماعت جس کے بالغ افراد کی تعداد ایک سو یا اس سے زیادہ ہے وہ اپنی مقامی جماعت میں تحریک کر کے اس کلاس کی شرکت کے لئے کم از کم تین نمائندے بھجوائے“.سب کمیٹی نے مندرجہ بالا تجویز حسب ذیل ترمیم کے ساتھ متفقہ طور پر منظور کی تعلیم القرآن کلاس کے لئے جماعتیں یہ ذمہ داری لیں کہ ہر جماعت تحریک کر کے اس کلاس میں شرکت کے لئے مندرجہ ذیل نسبت سے نمائندے بھجوائے.ا.۵۰ افراد تک ایک نمائندہ ۲ ۱۰۰ افراد تک دو نمائندے.۱۰۰ سے اوپر کی جماعت کے لئے تین نمائندے

Page 328

خطابات شوری جلد سوم ۳۱۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء اگر کسی جماعت میں مرکز کی طرف سے کوئی مبلغ موجود ہوتو وہ ان ایام میں اپنے ہاں تعلیم القرآن کلاس کا انتظام کر کے نظارت تعلیم و تربیت سے اجازت حاصل کر لیں“.بعض دوستوں کے دریافت کرنے پر حضور نے فرمایا کہ: ۵۰ ،۱۰۰ یا ۱۰۰ سے او پر افراد کی تعین کی گئی ہے اس سے مراد صرف چندہ دہندہ افراد نہیں بلکہ تمام افراد مراد ہیں اور ان میں عورتیں بچے جوان اور بوڑھے سب شامل ہیں.“ اس کے بعد نمائندگان جماعت سے مشورہ لیا تو ۲۶۸ دوستوں نے اس کے حق میں اور ۹ دوستوں نے اس کے خلاف رائے دی.فرمایا: - فیصلہ ” میرے خیال میں تو پچاس افراد تک ایک نمائندہ ، سو افراد تک دونمائندے اور سو سے اوپر تعداد رکھنے والی جماعتوں کی طرف سے تین نمائندوں کو بھجوایا جانا ایک ایسی تجویز ہے جس میں دور کی جماعتوں کے لئے بہت سی مشکلات پیش آسکتی ہیں جیسے بنگال وغیرہ کی جماعتیں اور پھر اگر غور سے کام لیا جائے تو پچاس فیصدی تو بچے نکل جائیں گے اور ۲۵ فیصدی عورتیں نکل جائیں گی صرف ۲۵ فیصدی مرد باقی رہ جائیں گے جن پر اس قانون کا اطلاق ہوگا اور اُن ۲۵ فیصدی میں سے دو نمائندوں کا آنا درحقیقت یہ معنی رکھتا ہے کہ ہم اُن سے دو فیصدی کا نہیں بلکہ آٹھ فیصدی کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن بہر حال چونکہ جماعت کی اکثریت نے یہی مشورہ دیا ہے کہ اس قانون کو منظور کر لیا جائے اس لئے میں اُن کے مشورہ کو قبول کرتے ہوئے اس کی منظوری کا اعلان کرتا ہوں لیکن یہ وضاحت کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ قانون صرف مغربی پنجاب کی جماعتوں کے لئے ہوگا مغربی پنجاب سے باہر کی جو جماعتیں ہیں اُن کے لئے اس سے نصف تعداد بھجوانا کافی ہوگی اور چونکہ لجنہ نے تجویز کیا ہے کہ ان دنوں عورتوں کے لئے بھی ایک تعلیم القرآن کلاس کھولی جائے کیونکہ قرآن صرف مردوں کے لئے نازل نہیں ہوا بلکہ عورتوں کے لئے بھی نازل ہوا ہے اس لئے لجنہ اماء اللہ کی تعلیم القرآن کلاس میں شامل ہونے کے لئے اگر کسی جماعت کی طرف سے کوئی عورت آئے گی تو وہ بھی اس دو فیصدی میں شامل سمجھی جائے گی اس طرح عورتوں میں بھی اُمید ہے کہ دین کا چرچا پہلے سے زیادہ ہو جائے گا.“

Page 329

خطابات شوری جلد سوم ۳۱۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء مجلس مشاورت کے دوسرے دن اختتامی اجلاس میں تلاوت قرآن کریم معركة الأراء تقرير کے بعد حضور نے ایک معرکۃ الآراء تقریر فرمائی.آپ نے فرمایا:.بجٹ کی بحث کے دوران میں اختر صاحب نے کہا ہے کہ اضافہ بجٹ اضافہ بجٹ کے وقت اُن اضافوں کو مد نظر نہیں رکھا گیا جو میری تحریک کی بناء پر بعض مخلص نو جوان اپنے چندوں میں کر رہے ہیں.نائب ناظر صاحب بیت المال نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ ایسے بہت کم لوگ ہیں اور جن لوگوں نے اپنے چندوں میں اضافہ بھی کیا ہے انہوں نے تفصیلی طور پر اپنی آمد اور چندہ کی نسبت ظاہر نہیں کی اس لئے ہم پورے طور پر اس اندازہ کو شامل نہیں کر سکے.جہاں تک اضافہ کا سوال ہے ہمیں یہ عمل نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ جہاں بعض لوگوں نے اضافہ کیا ہے وہاں ہزاروں ہزار افراد جماعت کے ایسے بھی ہیں جن کی آمد نہیں اس سال تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں اور وہ لوگ اپنی جائدادوں سے بے دخل ہو کر مغربی پنجاب میں آگئے ہیں یا سندھ اور بہاولپور وغیرہ میں چلے گئے ہیں اور اس وقت اُن کے گزاروں کی کوئی صورت نہیں.میرا اندازہ ہے کہ مشرقی پنجاب سے آنے والے احمدیوں کی تعداد ایک لاکھ کے قریب ہے اور یہ ایک لاکھ اپنے گھروں سے بے گھر اور اپنی آمدنیوں سے محروم ہے مغربی پنجاب میں اس کے متعلق جو کوشش کی گئی ہے وہ میرے نزدیک بہت حد تک اُن حالات میں جن حالات میں سے حکومت اُس وقت گزر رہی تھی قابل قدر تھی.جو لوگ شکوہ کرتے ہیں کہ حکومت نے کوتا ہی سے کام لیا وہ میرے نزدیک غلطی کرتے ہیں لیکن جہاں تک بسانے کا سوال ہے اُس میں میرے نزدیک بہت سی غلطیاں ہوئیں.اول بسانے کا فیصلہ علاقہ وار نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے واپس جانے کے وقت لوگ آسانی سے واپس نہیں لیجائے جاسکیں گے.دوسرے ان فیصلوں میں طرفین کے حقوق کو نگاہ میں نہیں رکھا گیا.پھر فیصلہ کا انڈین یونین کے آدمیوں کو حق دیدیا گیا ہے اور پاکستان کے لوگوں کے حقوق نظر انداز کر دیئے گئے ہیں آخر یہ تو نہیں کہ اس میں ان لوگوں کا کوئی فائدہ تھا.ظاہر ہے کہ بوجہ نا تجربہ کاری کے سلسلہ کی پیچیدگیوں پر اُن کی نظر نہیں پڑی.اور جلدی سے ایک ایسا فیصلہ کر دیا گیا کہ جس میں نادانستہ طور پر وہ دشمن کے ہاتھ میں پڑ گئے.جس رنگ میں زمینیں تقسیم ہوئی ہیں جلسہ سالانہ کے موقع پر میں بتا چکا ہوں کہ وہ طریق بھی سخت ناقص تھاز میں موجود ہے اور بہت زیادہ موجود ہے.

Page 330

خطابات شوری جلد سوم ۳۱۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء یہاں تک کہ سب لوگوں کو تقسیم کر کے بھی زمین بچ سکتی ہے مگر اس میں بے انتہا غلطیاں اور کو تا ہیاں ہوئی ہیں جن کا خمیازہ نامعلوم پندرہ سال تک یا نہیں سال تک یا کتنے سالوں تک پاکستان کو بھگتنا پڑے گا پھر جن لوگوں کو بسایا گیا ہے اُن کے ساتھ معاملہ بھی ناتسلی بخش ہے نام انصاف رکھا جاتا ہے حقیقتا نا انصافی ہورہی ہے.بعض غیر زمیندار تھے جنہیں زمینیں مل گئیں.اور بعض جن کے پاس زمینیں کم تھیں اُن کے پاس زیادہ چلی گئیں جو ہوشیار تھے اور بغیر جائداد کے تھے انہیں جائدادیں مل گئیں اور جو ہوشیار نہیں تھے لیکن صاحب جائداد تھے وہ محروم رہ گئے.اسی طرح دکانوں کے معاملہ میں بھی ہؤ ا د کا نہیں اور فیکٹریاں سکھ اور ہندو بہت چھوڑ گئے تھے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اُن کی جتنی صنعت و حرفت اس علاقہ میں تھی اُتنی صنعت وحرفت مسلمانوں کی مشرقی پنجاب میں ہر گز نہیں تھی ، امرتسر کو لاہور سے کوئی نسبت نہیں، جالندھر کو راولپنڈی سے کوئی نسبت نہیں، لدھیانہ کو لائل پور سے کوئی نسبت نہیں، انبالہ کو ملتان اور منٹگمری سے کوئی نسبت نہیں ، اسی طرح اور بہت سے ایسے شہر پائے جاتے ہیں.جہاں ہندوؤں اور سکھوں کی بڑی بڑی فیکٹریاں اور دکانیں تھیں مگر اُن کے مقابلہ میں دوسرے علاقہ میں ایسی کوئی فیکٹریاں اور دکانیں نہیں.اگر ان تمام فیکٹریوں اور دکانوں کو ملا یا جاوے تو مسلمانوں کی جس قدر تجارت تھی سکھ اور ہندو اس سے دس گنا تجارت چھوڑ کر گئے ہیں مگر حالت یہ ہے کہ مسلمان ابھی تک آوارہ پھر رہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تقسیم صحیح طور پر نہیں ہوئی اور اس کے لئے جو اصول وضع کئے گئے وہ غلط تھے.میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر بھی ہوشیار کیا تھا کہ اس ہنگامہ اور افراتفری کے وقت لوگ اصول کے فیصلہ میں لگ گئے ہیں جن کے لئے امن کا وقت درکار ہوتا ہے.پچپن لاکھ انسان مشرقی پنجاب سے اُجڑ کر مغربی پنجاب میں آگیا ہے اور چالیس لاکھ ہند ومغربی پنجاب سے مشرقی پنجاب کی طرف چلا گیا ہے یہ حالت انتہائی گھبراہٹ پیدا کرنے والی اور دماغ کو پریشان کرنے والی تھی مگر بجائے اس کے کہ ان اُجڑ کر آنے والوں کے متعلق فیصلہ کیا جاتا لوگ ان بحثوں میں مشغول ہو گئے کہ ملک کی صنعت و حرفت کارخانہ داروں کے پاس ہوگی ، مزدوروں کے پاس ہوگی ، حکومت کے پاس ہوگی ، یا مشترک ہوگی.اس سیال حالت میں جو کمیونسٹ تھا وہ اپنے کمیونسٹ خیالات پھیلانے میں مشغول ہو گیا.جو سوشلسٹ تھا وہ اپنے سوشلسٹ خیالات پھیلانے میں مشغول ہو گیا اور ہر ایک نے اپنے اپنے عقائد پھیلانے

Page 331

خطابات شوری جلد سوم ۳۱۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء کے لئے اس غیر درست وقت کو چنا جو در حقیقت ماتم کا وقت تھا.نتیجہ یہ ہوا کہ نہ یہ عقیدہ چلا نہ وہ اور جو ہوشیار تھے وہ جائدادوں کو لوٹ کر لے گئے اور یہ آپس میں ہی لڑتے رہ گئے.ان وجوہ سے ملک کو بہت نقصان پہنچا اور ہماری جماعت کے افراد میں سے بھی بہت سے بیکار ہو گئے اس لئے جہاں یہ درست ہے کہ بعض نے اپنی آمد نہیں بڑھائیں وہاں یہ بھی درست ہے کہ جماعت کا ۲۵.۳۰ فیصد حصہ ایسا ہے جس کی طرف سے چندے آنے بند ہو گئے یا تقریباً بند ہو گئے اور جو آئندہ تین چار ماہ تک ایک محدود حد تک چندہ دینے کے قابل ہوں گے ورنہ در حقیقت وہ پورے طور پر ایک سال یا دو سال کے بعد تیار ہوں گے پس جہاں بعض لوگوں کی وجہ سے ہمارے چندوں میں اضافہ ہو ا وہاں کمی بھی ہوئی اور کمی بہت زیادہ ہوئی یہ اضافہ بھی جیسا کہ نائب ناظر صاحب نے بتایا ہے ، ایسا نہیں ہے جسے جماعت کی قربانی کے لحاظ سے خوش گن سمجھا جا سکے جن لوگوں کی تفصیلات میرے پاس آئی ہیں اُن کو مدنظر رکھتے ہوئے میں کہہ سکتا ہوں کہ ۱۰۰ میں سے ۴۳ ایسے ہیں جنہوں نے اضافہ کیا باقی ۹۵ - ۹۶ فیصدی لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اپنے چندے میں کوئی اضافہ نہیں کیا اول تو یہ اضافہ اُسی وقت مفید نتیجہ پیدا کر سکتا ہے جب ساری جماعت اس طرف توجہ کرے.جیسا کہ بتایا گیا ہے ہمارا بجٹ آمد در حقیقت خیالی ہے اور سب کمیٹی نے بھی اس طرف توجہ دلائی ہے کہ یہ آمد صحیح نہیں اتنی آمد کی ہم اُمید نہیں کر سکتے اور ابھی پچھلے قرضے بھی باقی ہیں جو ہم نے ادا کرنے ہیں.موجودہ حالات میں ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ہماری آمدنی چھ سات لاکھ روپیہ ہوگی اور ہمارا خرچ موجودہ اخراجات کے لحاظ سے بارہ لاکھ روپیہ ہوگا جب انجمن نے آٹھ لاکھ کا خرچ بتایا ہے تو درحقیقت اس کا مطلب یہ ہے کہ اُس نے بہت سے اخراجات زبر دستی کاٹ ڈالے ہیں اور ابھی تھوڑے دن ہی گزریں گے کہ ناظر صاحب اعلیٰ صدرانجمن احمدیہ کا ریزولیشن پاس کروا کے مجھے بھجوا دیں گے کہ فلاں مد میں اتنا اضافہ منظور ہونا چاہیے اور فلاں مد میں اتنا اضافہ منظور ہونا چاہیے گویا نیک نامی اُنہوں نے آپ لے لی کہ خرچ بہت کم دکھایا گیا ، اور بدنامی مجھ پر ڈال دی گئی کہ خلیفتہ المسیح نے اتنا بجٹ بڑھا دیا.ادھر موجودہ بجٹ کی منظوری کا میں اعلان کروں گا اور اُدھر اُن کی طرف سے درخواست آجائے گی کہ روپیہ نہ ہونے کی وجہ سے ڈاک بند ہے.فرمائیے ہم خطوط کا جواب دیں یا نہ دیں؟ یہ یقینی بات ہے کہ میں بھی کہوں گا کہ جواب دو.اس پر وہ کہیں گے

Page 332

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء کہ اچھا ہزار روپیہ ڈاک کی مد میں بڑھا دیں پھر کہیں گے کہ فلاں محکمہ میں رجسٹر نہیں ہم حساب بند کر دیں یا جاری رکھیں؟ یہ لازمی بات ہے کہ میں بھی کہوں گا کہ جاری رکھو.وہ کہیں گے کہ اچھا ہزار روپیہ رجسٹروں کے لئے منظور فرمائیں.پھر کہیں گے فلاں فلاں لڑکے تعلیم پانے والے تھے مگر ان کے لئے مدرس نہیں ملتا تھا اب مدرس آ گیا ہے بتائیے ہم لڑکوں کو واپس کر دیں یا مدرس کو رکھ لیا جائے ؟ میں یہی کہوں گا کہ رکھو.وہ کہیں گے کہ اچھا ۱۵۰۰ روپیہ مدرس کے لئے منظور فرما دیں.اس طرح آٹھ لاکھ کا بجٹ سال کے آخر میں دس بارہ لاکھ تک پہنچ جائے گا فرق صرف یہ ہے کہ اس وقت انہوں نے آپ لوگوں سے تعریف حاصل کر لی ہے کہ سُبْحَانَ اللہ کیا قربانی سے کام لیا گیا ہے آٹھ لاکھ میں سلسلہ کا تمام کام چلا لیا جائے گا.پھر میرے ہاتھ سے آٹھ لاکھ کو بارہ لاکھ کروائیں گے.بجٹ کے دو حصے غرض بجٹ کے دو حصے ہوتے ہیں آمد اور خرچ.آمدن پوری طور پر آپ کے ہاتھ میں ہے اور خرچ پورے طور پر صدرانجمن احمدیہ کے ہاتھ میں ہے.چندہ دینے والا اور چندہ لینے والا دونوں الگ الگ مقامات میں پھیلے ہوئے ہیں.اور جتنی جلدی خرچ بڑھ سکتا ہے اتنی جلدی آمد پیدا نہیں ہوتی.آمد بڑھانے کے لئے پہلے ہم انسپکٹر بھیجتے ہیں انسپکٹروں کے بعد خط بھیجتے ہیں.جب خطوں کا جواب نہیں آتا تو یاددہانی کی چٹھیاں لکھتے ہیں اس پر بہت لوگ جواب دیتے ہیں کہ چونکہ انجمن کا کوئی دفتر نہیں آپ کا خط پڑھ کر ہم نے کہیں رکھا اور وہ گم ہو گیا اب یاد نہیں کہ اُس کا مفہوم کیا تھا.بعض لوگ یہ جواب دے دیتے ہیں کہ خط تو سنا دیا تھا مگر جماعت نے توجہ نہیں کی اب پھر موقع ملا تو جماعت کو سنائیں گے اور تحریک کریں گے کہ وہ اپنا چندہ بڑھائے اس طرح آمدن آٹھ لاکھ کی ہی رہی ہے اور خرچ ۱۲ لاکھ کو جا پہنچا ہے ان حالات کی درستی کے لئے ضروری ہے کہ جماعت اپنی ذہنیت بدلے یہ سمجھے کہ جب وہ ایک بجٹ بنا کر تیار کرتی ہے تو اُسے اُس بجٹ کی تو شرم ہونی چاہیے.بسا اوقات کئی لوگ ابھی رستے میں ہی ہوتے ہیں کہ انجمن کی طرف سے درخواست آجاتی ہے کہ فلاں مد میں ۵۰۰۰ کی زیادتی کی جاوے یا اتنے استاد غلطی سے نہیں رکھے گئے یا اتنے مبلغ غلطی سے نہیں رکھے گئے.اب اُن کے اخراجات کا اضافہ ناگزیر ہے اور ابھی آپ اپنے گھروں میں بھی نہیں پہنچتے کہ بجٹ میں زیادتی شروع ہو جاتی ہے.یہ چیزیں ایسی ہیں کہ جن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ

Page 333

خطابات شوری جلد سوم ۳۱۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء ہماری آمد بھی غلط ہے اور ہمارا خرچ بھی غلط ہے ہماری آمد یقیناً کم ہوگی نائب ناظر صاحب چونکہ نو جوان اور ناتجربہ کار ہیں وہ تین چار ہفتوں کی آمد پر بنیا درکھ کر یہ قیاس کر رہے ہیں کہ ہماری اس قدر سالانہ آمد ہوگی اس میں کچھ شبہ نہیں کہ پچھلے چار پانچ ہفتوں کی آمد یکدم زیادہ ہوگئی ہے پہلے دو دو سو روپیہ آمد ہوا کرتی تھی پھر اس آمد میں ترقی ہوئی تو پانچ ہزار سے دس ہزار تک جا پہنچی گویا اوسط سات آٹھ ہزار روپیہ رہنے لگی.اس کے معنی یہ تھے کہ اگر دوسری آمد میں ملا لی جائیں تو ۵۵ ہزار روپیہ ماہوار یا ساڑھے چھ لاکھ روپیہ سالانہ ہماری آمد ہوتی لیکن پچھلے پانچ ہفتوں میں ہر ہفتہ ۱۵ ہزار ۲۰۰ ہزار بلکہ ۲۸ ہزار تک بھی ہماری آمد پہنچ گئی ہے اگر اس کی اوسط نکالی جائے تو ۲۱ ہزار اوسط بنتی ہے اور ۲۱ ہزار ہفتہ وار کے معنی اا لاکھ سالانہ آمدن کے ہیں.نائب ناظر صاحب نا تجربہ کاری کی وجہ سے سمجھ رہے ہیں کہ اتنی آمد یقیناً ہوگی اور میں نے بڑی چالا کی کی ہے جو میں نے نو لاکھ روپے آمد دکھائی ہے.دراصل میں نے دو لاکھ روپیہ بچالیا ہے مگر حقیقتا یہ درست نہیں جو آمد بڑھی ہے اس میں کافی حصہ اُن رقوم کا ہے جو اگست ستمبر اور اکتوبر میں لوگوں نے بھجوائیں مگر فسادات کی وجہ سے اُن کی رقوم ابھی رُکی پڑی تھیں یا اُنہوں نے چیک بھجوائے مگر وہ چیک ابھی draw نہیں ہوئے تھے یا منی آرڈر بھجوائے اور وہ بٹالہ ، قادیان اور گورداسپور میں ڑکے ہوئے ہیں اس طرح ڈیڑھ لاکھ کے قریب رقم تھی جو ہمیں ادا نہیں ہوئی تھی.اس میں سے نصف کے قریب رقم ہمیں واپس مل گئی اور ۷۲ ہزار کے قریب رقم اب بھی ایسی ہے جو بنکوں میں پڑی ہے اور ہمیں ابھی تک نہیں ملی کیونکہ کچھ چیک جماعتوں کو واپس بھجوائے گئے ہیں تاوہ نئے بنا کر بھیجیں اس لئے جب تک نئے چیک نہ آجائیں ہمیں بنکوں سے وہ رقم واپس نہیں مل سکتی.پس زیادتی آمد میں بڑا حصہ اُن رقوم کا ہے جو درحقیقت اگست اور ستمبر اور اکتوبر کی آمد نہیں ہیں مگر وہ سمجھتے ہیں کہ یہ رقم ہمیں ہمیشہ ملتی رہے گی.ہم کہتے ہیں پچاس کیا ہو کیا اور ہزار کیا جو کچھ آئے گا ، سلسلہ کے پاس ہی آئے گا لیکن عقلی طور پر جب ہم کوئی بنیاد رکھیں تو ہمیں اُس کی اُونچ نیچ پوری طرح دیکھ لینی چاہیے.اگر ہر قسم کی رکاوٹیں دور ہو جائیں تو موجودہ صورت میں ہم اپنی اوسط آمدن اور آمدنوں کو ملا کر اگر لگا ئیں تو صرف ۱۵ ہزار فی ہفتہ لگانی چاہیے اور پندرہ ہزار ہفتہ وار آمد کے معنی پونے آٹھ لاکھ روپے سال کے ہیں اور اگر خدانخواستہ روکیں رہیں تو اس سے بھی کم آمد کی توقع ہوگی اور وہ زیادہ سے زیادہ

Page 334

خطابات شوری جلد سوم ۳۱۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء چھ سات لاکھ روپیہ ہو سکتی ہے ہاں اگر جماعت میں بیداری پیدا ہو جائے اور وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھنے لگے اور اخلاص اور قربانی سے کام لے تو پھر آمد کی کمی کوئی معنی نہیں رکھتی.پچھلی دفعه حفاظت مرکز کے لئے جب میں نے جائداد پر ایک فیصدی چندہ دینے یا ایک مہینہ کی آمد دینے کی تحریک کی تھی اور باہر سے جائدادوں کی لسٹیں آئی تھیں تو ہمارا اندازہ یہ تھا کہ جماعت احمدیہ کی ماہوار آمد ۲۵ لاکھ روپیہ ہے اور ابھی بہت سے وعدے ناقص تھے اور بہت سے لوگ ایسے تھے جنہوں نے اپنی ماہوار آمد کا وعدہ نہیں کیا تھا اور بہت سے لوگ ایسے تھے جنہوں نے اپنا وعدہ ہی نہیں بھیجا تھا اور بعض کمزور بھی ہوتے ہیں جو اپنی جائدادوں کو کم کر کے دکھاتے ہیں بہر حال ساڑھے تیرہ لاکھ کے وعدے آچکے تھے اگر یہ تحریک جاری رہتی تو سولہ 4 لاکھ تک بہر حال پہنچ جاتی.نادہندوں کو ملا کر اور ناقص چندہ دینے والوں کو ملا کر یا جن سے مصلحتاً چندہ نہیں لینا چاہیے جیسے ہندوستان کے باہر کے لوگ ہیں یہ رقم ۲۴ لاکھ تک پہنچ جاتی ہے اگر وصیت کے اصول پر دس فیصدی چندہ لیا جائے اور ۲۴ لاکھ سال کا چندہ شمار کیا جائے اور پھر تحریک جدید وغیرہ کے چندے بھی ملا دیئے جائیں تو یہ ۳۰ لاکھ روپیہ تک رقم جا پہنچی ہے اور اگر ۲۵ یا ۳۰ یا ۵۰ فیصدی کے حساب سے یہ چندہ لیا جائے تو ساٹھ ستر لاکھ روپیہ سالانہ تک ہماری آمد ہو سکتی ہے حقیقتا اگر اس معیار پر ہمارا چندہ آ جائے تو ہما را چندہ معمولی چندوں کے معیار کے لحاظ سے آسانی سے اٹھارہ بیس لاکھ تک پہنچ جاتا ہے لیکن ارادہ کرنا اور خواہش کرنا اور چیز ہے اور عمل کرنا اور چیز ہے ہم ارادہ کرتے ہیں لیکن اگر غیر ارادہ نہیں کرتا تو محض ہمارے ارادے سے کیا بن جاتا ہے ہم ایک چیز کی خواہش کرتے ہیں لیکن اگر ہمارا بھائی اُس کا شریک نہیں ہوگا تو ہماری خواہش سے کیا نتیجہ پیدا ہو سکتا ہے.پس ہمیں دیکھنا یہ چاہیے کہ پچھلے تجربہ کی بناء پر ہمارے لئے کتنی آمد ممکن ہے اس لحاظ سے میرے نزدیک موجودہ بجٹ کو پورا کرنے کے لئے بھی جماعت کو پوری جد و جہد کرنی پڑے گی چندوں کا معیار بڑھائیں اور اس کے لئے بہترین طریق جیسا کہ میں بتا چکا ہوں یہی ہے کہ ہمیں چندوں کا معیار بڑھانا چاہیے اس عرصہ میں پرانی جماعتیں انشاء اللہ کس جائیں گی یا نٹے کام اُن کے لئے نکل آئیں گے اور جب

Page 335

خطابات شوری جلد سوم ۳۱۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء ایک لاکھ آدمی کام پر لگ جائے گا تو اگلے سال تک انشاء اللہ ایسی حالت ہو جائے گی کہ موجودہ خطرے کی صورت دُور ہو جائے گی اس وقت درحقیقت ہم پر قرض ہے یہ کہنا کہ ہیں ہزار قرضہ ہے، غلط ہے قرض ہے اور بہت بڑا ہے مگر نظر نہیں آرہا جب قادیان سے ہماری جماعت نکلی تو اُس وقت ہر چیز اپنے مرکز سے ہل گئی اور ایسی نازک حالت ہوگئی کہ ایک ایک ہفتہ میں بعض دفعہ صرف دوسوروپیہ کی آمد ہوتی تھی دوسورو پیہ ہفتہ کی آمد کے یہ معنے ہیں کہ سال میں صرف دس ہزار روپیہ ہماری آمد کی توقع ہوسکتی تھی اُس وقت میں نے یہ حکم دے دیا کہ جو بھی خرچ صدر انجمن احمدیہ کا ہو وہ حفاظت مرکز کی مد سے لے لیا جائے اس لئے جب وہ حساب ہوگا تو لاکھ ڈیڑھ لاکھ قرض اور آ پڑے گا سوائے اس کے کہ اس خرچ کو کسی الگ تحریک کے ذریعہ پورا کیا جائے مگر اس کے لئے پھر آپ لوگوں کو ہی چندہ دینا پڑے گا.پس اصل میں ہیں ہزار نہیں بلکہ دو تین لاکھ روپیہ قرض ہے.اس کے ساتھ ایک اور بھی بات ہے اور وہ یہ کہ ہمارا آٹھ لاکھ روپیہ جمع بھی ہے جو گزشتہ سالوں کی زائد آمد کو پس انداز کر کے اکٹھا کیا گیا تھا مگر اس میں سے بہت سا روپیہ قادیان کی جائدادوں پر لگا ہوا ہے اور وہ ہمارے قبضہ میں نہیں بلکہ سکھوں اور ہندوؤں کے قبضہ میں ہیں اس لئے وہ آٹھ لاکھ تقریباً چار لاکھ رہ گیا ہے اور قرضہ میں ہزار نہیں بلکہ تین لاکھ ہے اور اگر ریز روفنڈ سے قرض ادا کیا گیا تو ہمارا ریز روفنڈ صرف لاکھ ڈیڑھ لاکھ روپیہ کا رہ جائے گا.چار مہینوں کی آمد کا جو بجٹ دکھایا گیا ہے وہ دو لاکھ دس ہزار روپیہ کا ہے اور خرچ کا بجٹ چار لاکھ بارہ ہزار روپیہ کا ہے.اس دو لاکھ روپیہ کو بھی اگر مدنظر رکھا جائے تو گویا ہمارا سارا ریز روفنڈ اس ابتلاء میں خرچ ہو جائے گا اور لاکھ روپیہ ابھی انجمن پر قرض ہوگا گویا سلسلہ کو اس فتنہ میں علاوہ جائدادوں کے نو لاکھ روپیہ کا نقصان بنتا ہے پس بجٹ کی حالت اتنی تسلی بخش نہیں جتنی عبد الباری صاحب نے پیش کی ہے اور نہ اتنی تسلی بخش ہے جتنی سب کمیٹی نے پیش کی ہے.حقیقت یہ ہے کہ اپریل تک انجمن کے تمام ذخائر ختم ہو چکے ہیں آئندہ اگر آمد وخرچ برابر نہ ہوئے تو اگلے سال انجمن مقروض ہوگی.اگر آمدن کچھ زیادہ ہوئی تو دو لاکھ کی بجائے ایک لاکھ کا قرض ہوگا.بہر حال سال کے آخر میں اگر یہی صورت جاری رہی تو ہماری حالت مقروضوں کی سی ہوگی.

Page 336

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء پھر صرف یہی بات نہیں بلکہ ہمیں ایک اور بات بھی مد نظر رکھنی چاہیے اور وہ یہ کہ ہم اُس دور میں سے گزر رہے ہیں جس میں ہر نیا تغیر ہر وقت آ سکتا ہے پہلے یہ خیال کیا جاسکتا تھا کہ دس یا بیس سال کے بعد کوئی نیا تغیر ہوگا مگر اب وہ زمانہ نہیں اب کسی وقت بھی ایک نیا تغیر رونما ہو سکتا ہے اور اُس کے لئے ہماری جماعت کو پوری طرح تیار رہنا چاہیے فرض کرو پاکستان اور ہندوستان کی لڑائی ہو جائے اور ہم دھکیلے جائیں تو جماعت کو جو خطرہ پیش آسکتا ہے یا ترقی کے جو مواقع اُس کے لئے پیدا ہو سکتے ہیں وہ اتنے اہم ہیں کہ اُن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا خدانخواستہ ہندوستان یونین کی فوجیں ذرا بھی آگے بڑھیں تو ہمارے سارے اندازے بے حقیقت ہو کر رہ جائیں گے اور اگر ہندوستان کو شکست ہوئی اور پاکستان آگے بڑھا تو جو ذمہ داریاں ہم پر اپنے کھوئے ہوئے وقار کو حاصل کرنے کے لئے عائد ہوں گی اُن کے لئے ہمیں لاکھوں روپیہ کی ضرورت ہوگی اگر ہم یہ روپیہ خرچ نہیں کریں گے تو ہم عظمت اور وقار کے حصول سے محروم رہ جائیں گے.اس لئے ہمیں اس نئے بجٹ کو اس نقطہ نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہیے جس طرح عام قائم دائم پرانے حالات کے ماتحت بجٹوں کو دیکھا جاتا ہے ہم ایک ایسے دور میں سے گزر رہے ہیں جو نہایت ہی نازک دور ہے اور اگلے سال دوخطروں میں سے ایک خطرہ ہمیں ضرور در پیش ہے یا تو ایک بہت بڑا نقصان ہمیں پہنچ جائے گا اور ہم اسلام اور احمدیت کو اُس کی عزت اور عظمت سے محروم کردیں گے اور یا ایک بہت بڑا فائدہ ہمارے سامنے آئے گا مگر ہم پھر بھی اسلام اور احمدیت کو اُس عزت سے محروم کر دیں گے ، اس لئے کہ ہم نے اپنا خزانہ خالی کر دیا ہوگا.پھر قادیان کی حفاظت کا سوال ہے کئی ہیں جنہوں نے حفاظت مرکز کے چندہ میں کوتا ہی شروع کر دی ہے اور اس خیال سے کو تا ہی شروع کر دی ہے کہ اب مرکز تو کوئی رہا نہیں پھر ہم چندہ کیوں دیں یہ بے وقوفی کی بات ہے مرکز آسمان پر نہیں چلا گیا، مرکز دُنیا کے کسی گوشے میں چھپا نہیں دیا گیا، مرکز موجود ہے اور سینکڑوں لوگ اُس میں رہ رہے ہیں اور اُن کے سب اخراجات جماعت کے ہی ذمہ ہیں.آخر بغیر کھانے پینے کے کوئی انسان کس طرح رہ سکتا ہے.اُن لوگوں کی یہ حالت ہے کہ نہ اُن کی نوکری کی کوئی صورت ہے اور نہ اُن کی زراعت کی کوئی صورت ہے.مکانوں پر حفاظت قادیان

Page 337

خطابات شوری جلد سوم ۳۲۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء سکھوں اور ہندوؤں نے قبضہ کیا ہوا ہے ، دکانوں پر سکھوں اور ہندوؤں نے قبضہ کیا ہوا ہے، زمینوں پر ہندوؤں اور سکھوں نے قبضہ کیا ہوا ہے اور جائدادوں پر سکھوں اور ہندوؤں نے قبضہ کیا ہوا ہے.اس لئے وہاں جو بھی رہے گا بہر حال سلسلہ ہی اُس کو کھلائے گا.پھر صرف وہاں رہنے سے قادیان واپس نہیں مل سکتا بلکہ اُس کے لئے پراپیگینڈے کی ضرورت ہے، کہیں امریکہ میں پراپیگنڈا کرنا پڑتا ہے، کہیں انگلستان میں پراپیگنڈا کرنا پڑتا ہے، کہیں ہندوستان میں پرا پیگینڈا کرنا پڑتا ہے، کہیں پاکستان میں پراپیگنڈا کرنا پڑتا ہے اس لئے بجائے اس کے کہ حفاظت مرکز کا کام بند ہو گیا ہو وہ بڑھ گیا ہے اگر پچھلے وعدوں کو مدنظر رکھا جائے تو تیرہ لاکھ کے وعدے تھے دو تین لاکھ تو اس طرح ختم ہو گیا کہ جائدادیں تباہ ہو گئیں.گو میں نے ایسے لوگوں کو نصیحت یہی کی ہے کہ تم نیت یہی رکھو کہ حالات اچھے ہونے پر ہم اپنا وعدہ پورا کریں گے لیکن بہر حال تین لاکھ کی رقم کسی طرح بھی اس سال ادا نہیں ہو سکتی إِلَّا مَا شَاءَ اللہ باقی دس لاکھ میں سے پانچ ،ساڑھے پانچ لاکھ خرچ بھی ہو چکا ہے اگر بقیہ پانچ لاکھ بھی مل جائے تو اگلا سال گزر جائے گا اور اُس میں کو تا ہی اور غفلت ہوئی تو اُس کے معنے یہ ہوں گے کہ ہمیں پھر حلا گے کہ ہمیں پھر مخلصین جماعت سے ہی مانگنا پڑے گا.لیکن یہ سال اگر گزر بھی جائے تب بھی آئندہ سالوں میں چار پانچ لاکھ روپیہ سالانہ ہمیں اس غرض کے لئے رکھنا پڑے گا جو حفاظت قادیان کے کام آئے اور یہ سلسلہ اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک قادیان ہمیں نہیں مل جاتا اس لئے یہ جو بجٹ ہے اس میں حفاظت قادیان کی ایک بہت بڑی رقم شامل نہیں.میں نے بتایا ہے کہ اگر دوستوں نے جو وعدے کئے ہیں اُن کو وہ پورا کریں تو اُمید ہے کہ اگلا سال گزر جائے گا اور اگر نہ کریں تو اُن کو مزید بوجھ برداشت کرنا پڑے گا.اس کے علاوہ اگر ہمیں قادیان مل جائے تب بھی کچھ خرچ کئے بغیر ہم قادیان کو اُس کی اصل حالت میں واپس نہیں لا سکتے.گھروں میں بیٹھ رہنا اور اُمید میں لگا لینا اور بات ہے اور واقعات اور چیز ہیں.واقعہ یہ ہے کہ سکھوں اور ہندوؤں نے مکانوں کے دروازے جلا دیئے ہیں، چھت اُکھیڑ دیئے ہیں اور کئی مکان توڑ پھوڑ دیئے ہیں.قادیان میں ہمارا ایک کروڑ روپیہ لگا ہوا ہے.اگر سکھ اور ہندو ہمارے مکان خالی بھی کر دیں تب بھی قادیان میں ٹوٹی ہوئی دیواریں ہی ملیں گی.ایسی حالت میں اگر ہم نے

Page 338

خطابات شوری جلد سوم ۳۲۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء ہے شہر بسانا ہے تو لازما لوگوں کو قربانی بھی دینی پڑے گی.آخر جنہوں نے اپنے گھر بار چھوڑے ہیں اپنی لائبریریاں چھوڑی ہیں.اپنے بچوں اور بیٹیوں کی شادیوں کے سامان چھوڑے، زیورات وغیرہ چھوڑے، اور باہر فقیروں کی طرح اپنی زندگی بسر کرنے لگے ، وہ واپس جا کر اپنے مکانوں کی مرمت کیسے کرا سکیں گے اُن کے لئے یہی صورت ہے کہ قرضہ حسنہ کے طور پر انہیں روپیہ دیا جائے جس سے وہ اپنے مکانوں کی از سر نو تعمیر کرسکیں.میرے نزد یک فوری طور پر قادیان کے ایک حصہ کو بسانے کے لئے ہمیں دس پندرہ لاکھ روپیہ کی ضرورت ہوگی.تب جا کر وہ رہنے کے قابل ہو سکے گا پس یہ خرچ بھی ہمیں مدنظر رکھنا.کیونکہ کسی شخص سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ ایسا کام کرے جو اُس کی طاقت سے باہر ہو.یا تو ہم یہ فیصلہ کر دیں کہ ہم نے قادیان کو نہیں بسانا اور یا ہمیں یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ ہم نے قادیان کو بسانا ہے.اور اگر ہم نے قادیان کو بسانا ہے تو ہمیں اُس کے لئے قربانیاں بھی کرنی پڑیں گی.لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ لوگ جو موجودہ ابتلاء سے بچے رہے وہی قربانی میں سب سے زیادہ سست ہیں زیادہ تر چندہ کی قربانی میں وہی لوگ زیادہ حصہ لے رہے ہیں جن کی جائدادوں کی مشرقی پنجاب اور ہندوستان میں تباہی ہوئی.مغربی پنجاب والے اس غرور میں بیٹھے ہیں کہ ہم بڑے نیک اور پارسا تھے اس لئے ہم پر عذاب نہیں آیا مجھے ڈر ہے کہ اُن کی یہ ذہنیت اُن کو اس سے بھی بڑے عذاب میں مبتلا نہ کر دے.حالانکہ خدا نے ایک دھکا دے کر اُن کو سبق دے دیا تھا اور وہ اگر چاہتے تو اپنے اندر تغیر پیدا کر سکتے تھے مگر بجائے تغیر پیدا کرنے کے وہ قربانیوں میں اور بھی سست ہو گئے.حالانکہ خدا نے اگر اُن کو بچایا تو اس لئے نہیں بچایا کہ وہ زیادہ نیک تھے بلکہ اس لئے بچایا کہ اسلام کے لئے کچھ تو جگہ رہ جائے جس میں آزادانہ طور پر نشو و نما پا سکے.پس اُن کی کوتا ہی بہت ہی افسوس ناک ہے آج ہی ناظر صاحب بیت المال نے کہا ہے کہ اعتراض کر لینا آسان ہے، لاہور کی جماعت ہی بتائے کہ اُس میں سے کتنے لوگوں نے ۲۵ سے ۵۰ فیصد تک چندہ دینے کا وعدہ کیا ہے.واقعہ یہ ہے کہ چھ ماہ ہو گئے لاہور کی جماعت نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے چندوں کی فہرست لکھ کر میرے سامنے پیش کریں گے مگر ابھی تک انہیں اپنے چندوں کی فہرست ہی پیش کرنے کی توفیق نہیں ملی.یوں کھڑے ہو کر کہہ دینا کہ

Page 339

خطابات شوری جلد سوم ۳۲۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء قربانی کرو کیا معنی رکھتا ہے جب واقعہ یہ ہو کہ اپنے اندر قربانی کرنے کی روح ہی نہ پائی جاتی ہو چھ مہینے گزر گئے لاہور کی جماعت ابھی تک اپنے چندہ کی فہرست ہی صحیح طور پر مرتب نہیں کرسکی ، اختر صاحب ہی بتائیں کہ لاہور میں کتنے لوگ ہیں جو ۲۵ سے ۵۰ فیصد تک چندہ دے رہے ہیں؟ لیکن ایک شخص جب وعدہ کرنے کے لئے اس کا اظہار کرتا ہے تو یہ ایک عیب بن جاتا ہے اور خیال گزرتا ہے کہ شاید وہ لوگوں کے سامنے اپنی قربانی پیش کرنا چاہتا ہے اور اُس کی خواہش ہے کہ لوگوں کے سامنے اُس کا نام آجائے اس کے مقابلہ میں کراچی کی جماعت کا نمونہ ہے جو دتی کی بھاگی ہوئی جماعت ہے مگر اُن میں درجنوں ایسے آدمی ہیں جنہوں نے ۲۵ سے ۵۰ فیصدی تک چندے دینے کا وعدہ کیا ہے.جب تک ہم عملی طور پر اپنی زندگی میں تغیر پیدا کرنے کے لئے تیار نہیں محض باتیں کرنے سے کیا فائدہ ہوسکتا ہے حقیقت یہ ہے کہ جماعت میں عملی طور پر مجھے کوئی تغیر نظر نہیں آتا اس لئے میں اس فکر اور سوچ میں ہوں کہ کوئی ایسا طریق جاری کرنا چاہیے جس سے ان لوگوں کی اصلاح ہو اور یا پھر ان لوگوں کو سلسلہ میں سے نکال دینا چاہیے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب لوگوں.سے بیعت لینی شروع کی تو اُس وقت صرف بارہ تیرہ آدمی آپ کے ساتھ تھے مگر پھر بھی یہ سلسلہ ترقی کرتا چلا گیا.پس ہمیں ضرورت کیا ہے کہ ہم اُن لوگوں کو اپنے ساتھ چمٹائے رکھیں جو منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم احمدی ہیں مگر کرتے کچھ نہیں اگر وہ الگ ہو جائیں گے تب بھی ہمارے سلسلہ کو کوئی نقصان نہیں ہوگا.یہ خدائی سلسلہ ہے انسانوں کا تیار کردہ نہیں میں رات اور دن اس مسئلہ کو سوچتا رہتا ہوں مگر ابھی تک خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے اس بارہ میں کوئی راہ نمائی حاصل نہیں ہوئی جس دن وہ راہنمائی حاصل ہو گئی اس دن میں اس بات کا فیصلہ کر دوں گا.اگر خدا بھی کہے گا کہ ان لوگوں کو رہنے دو میں خود ان کی اصلاح کا ذمہ دار ہوں تو میں رہنے دوں گا اور اگر فرمائے گا کہ ایسے لوگوں کو سلسلہ سے الگ کر دو تو پھر ایسے لوگوں کو جماعت سے الگ کر دوں گا.چندہ میں سستی کرنے والوں کی بابت نصائح اس سلسلہ میں کہا گیا ہے کہ چندہ لینے کے متعلق صدر انجمن احم

Page 340

خطابات شوری جلد ۳۲۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء بھر پور کوشش نہیں کرتی اور جو لوگ چندہ دینے میں سُست ہیں یا قطعی طور پر چندہ نہیں دیتے اُن کو کوئی سزا نہیں دی جاتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کھلے الفاظ میں ایسے لوگوں کے متعلق سزا مقرر فرمائی ہے اور جب ایک تعزیر اس کے لئے مقرر ہے تو ہم کیوں اس کا نفاذ نہیں کر سکتے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جو شخص تین مہینے تک چندہ نہیں دیتا اُسے جماعت سے خارج کر دیا جائے.اس سزا کے نفاذ میں مشکل ہی کون سی ہے اگر دو کروڑ نہیں ، دو ارب آدمی بھی ہمارے ساتھ ایسا شامل ہو جاتا ہے جو در حقیقت ہمارا انہیں تو اُن کے الگ ہونے سے ہمیں کیا صدمہ ہوسکتا ہے جماعت وہی ہے جو زندہ ہو جو زندہ نہیں وہ جماعت کہلانے کی مستحق نہیں.ایک جماعت نہایت مخلص کہلاتی ہے میں اُس کا نام نہیں لیتا اخباروں میں بعض دفعہ اُس کا نام خوب اچھلتا ہے کہ السَّابِقُونَ الاَوَّلُونَ میں شامل ہونے کا ثواب اس جماعت نے حاصل کر لیا ہے مگر ہوتا کیا تھا ہوتا یہ تھا کہ پہلے تو انہوں نے بڑھ چڑھ کر وعدے کر دینے مگر اس کے بعد سالہا سال ایک پیسہ بھی چندہ میں نہ دینا پھر کبھی خیال آتا تو ایک دن عہد یدار بیٹھ جاتے اور لکھتے حضور ہمیں آج معلوم ہوا ہے کہ پچھلے پانچ سال سے ہماری جماعت نے کوئی چندہ نہیں دیا.اس خبر کے معلوم ہونے پر جماعت کو بلایا گیا اور اُس کو خوب ڈانٹا گیا حضور وہ سب کے سب روئے اور چیخے اور چلائے.اور سب کے اندر سچی ندامت پیدا ہوگئی.اُس وقت ہم نے کہا پچھلا چندہ ہم تم کو معاف کر دیتے ہیں مگر دیکھنا آئندہ احتیاط سے کام لینا.چنانچہ اُنہوں نے خوب رو رو کر تو بہ کی اور اب اُن کا تو بہ نامہ حضور کی خدمت میں بجھوایا جارہا ہے اُمید ہے کہ حضور بھی پسند فرمائیں گے آئندہ جماعت چندہ دینے میں بالکل باقاعدہ رہے گی اس تو بہ نامہ کے بعد پھر پانچ سال تک وہ جماعت خاموش رہتی اور کوئی چندہ نہ دیتی چار پانچ سال کے بعد پھر اُس کی طرف سے خط آجاتا کہ حضور ہمیں آج معلوم ہوا ہے کہ جماعت نے پھر پچھلے چار پانچ سال سے کوئی چندہ نہیں دیا حضور ہم نے جماعت کو بلایا اور اُسے وعظ کیا اس کا جماعت پر بہت اثر ہوا کہ اُس کی چھینیں نکل گئیں اور سب روئے اور چلائے مگر حضور یہ دیکھ کر کہ پچھلا بقایا بہت زیادہ ہے اور اب اُس کے ادا کرنے کی جماعت میں طاقت نہیں ہم نے کہا لو تمہیں پچھلا چندہ ہم معاف کرتے ہیں اب آگے باقاعدہ چندہ

Page 341

خطابات شوری جلد سوم ۳۲۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء دیتے رہنا.۲۵ سال گزر گئے اُس جماعت کا یہی حال ہے کہ پچھلا معاف اور ا گلا صاف.بات یہ ہے کہ شرک انسان کو خراب کرتا ہے لوگ ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے فلاں کو سزا دی تو وہ جماعت سے نکل جائے گا اور اس سے کام خراب ہو جائے گا لیکن جو سچا خدا پرست ہو وہ ان باتوں کی پرواہ نہیں کرتا وہ جانتا ہے کہ خدا کا بندہ اکیلا آتا ہے اور اکیلا جاتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی کہا ہے کہ اگر لوگ تمہاری بات نہیں مانتے تو کپڑے جھاڑو اور ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کو چلے جاؤ.اس طرح جماعت میں شامل رہنے کے بعد اگر کچھ لوگ چندہ نہیں دیتے تو تم بے شک اُن کو الگ کر دو اُن کے ساتھ رہنے کا فائدہ ہی کیا ہے.سندھ جانے سے پہلے ایک جماعت کے متعلق جو بڑی بھاری جماعت ہے مجھے اطلاع ملی کہ اس کے افراد آپس میں لڑتے رہتے ہیں اور پانچ چھ مہینے کے بعد مرکز کو لکھ دیتے ہیں کہ ہماری طرف کوئی انسپکٹر بھجوائیں.انجمن انسپکٹر بھجوادیتی ہے مگر وہ پھر اپنے جھگڑوں سے باز نہیں آتے.اسی دوران میں ایک شخص کا خط آیا کہ پانچ سال سے اس جماعت نے چندہ نہیں دیا انجمن نے کہا ہم اس جماعت میں اپنا مبلغ بھیجتے ہیں تا وہ انہیں اصلاح کی طرف توجہ دلائے.میں نے کہا میرا حکم یہ ہے کہ مبلغ بے شک جائے مگر پہلے اُن سے یہ کہے کہ یا تو پچھلے پانچ سال کا چندہ دو اور یا تم سب کے سب جماعت سے الگ کر دیئے جاؤ گے.اس کے بعد میں سندھ چلا گیا اب مجھے اطلاع ملی ہے کہ اُس جماعت کی طرف سے ایک ہزار پچاس روپیہ چندہ آیا ہے حالانکہ پانچ سال سے اس نے ایک پیسہ نہیں دیا تھا.آخر ہر جماعت میں کچھ نہ کچھ مخلص بھی ہوتے ہیں انہیں جب معلوم ہوا کہ اگر اب بھی ہم نے اصلاح نہ کی تو ہمیں جماعت سے الگ کر دیا جائے گا تو اُنہوں نے چندہ دے دیا اس پر ہمارا فرض ہے کہ ہم مضبوط نگرانی رکھیں اور جو لوگ اپنی اصلاح کی طرف توجہ نہیں کرتے ان کے متعلق رپورٹ کی جائے تاکہ سلسلہ اُن کے جماعت سے الگ کرنے کا فیصلہ کرے.آخر جو بے کار وجود ہے اُسے ہم نے اپنے ساتھ لٹکا کر کیا کرنا ہے.پنجاب میں رواج ہے کہ چاولوں پر شکر ڈال کر کھاتے ہیں شکر بچ جاتی ہے تو وہ پڑیا باندھ کر رکھ دیتے ہیں تا کہ کسی اور وقت کام آئے اسی طرح صبح کا کھانا پکاتے ہیں.دو روٹیاں بچ جاتی ہیں تو

Page 342

خطابات شوری جلد سوم ۳۲۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء دسترخوان میں لپیٹ کر رکھ دیتے ہیں تا کہ شام کو کام آئیں.مگر کیا کبھی کسی نے یہ بھی کیا ہے کہ پاخانہ لپیٹ کر رکھ دے؟ تم کیوں ایسا نہیں کرتے.اس لئے کہ تم سمجھتے ہو کہ پاخانہ ایک بیکار اور گندی چیز ہے.اسی طرح وہ احمدی جو اپنے فرائض کو ادا نہیں کرتا ، جو اُن ذمہ داریوں کو ادا نہیں کرتا جو خدا کی طرف سے اُس پر عائد ہوتی ہیں.جو خدا کے ساتھ ایک وفادار بندے کی حیثیت سے نہیں رہتا وہ پاخانہ سے بھی بد تر اور ذلیل چیز ہے.تم کیوں اس کو اپنے ساتھ لٹکائے پھرتے ہو.میرے نزدیک اس بارہ میں گلی طور پر صدرانجمن احمد یہ اور ناظر صاحب بیت المال پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے.وہ مشرک ہیں وہ انسانوں پر بھروسہ رکھتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ہم انسانوں کے ساتھ جیتیں گے.حالانکہ ہم انسانوں کے ساتھ نہیں جیتیں گے ہم خدا کے ساتھ جیتیں گے.اگر کوئی انسان غلطی سے ہماری طرف آ گیا ہے اور درحقیقت وہ ہمارا نہیں تو ہم نے اس کو اپنے پاس رکھ کر کیا کرنا ہے.ڈاک بعض دفعہ غلط طور پر بھی تقسیم ہو جاتی ہے.مگر کیا ایسی صورت میں ہم دوسرے کا خط اپنے پاس رکھ لیتے ہیں.ہم دوسرے کی چٹھی اپنے پاس نہیں رکھتے بلکہ اسے واپس کر دیتے ہیں.اسی طرح اگر غلطی سے کوئی شخص ہمارے پاس آجاتا ہے فرشتوں نے اس کا نام ہماری جماعت میں نہیں لکھا تو تمہارا کام یہ ہے کہ تم اسے واپس کرو جب تم واپس کرو گے تو تمہاری چیز تمہیں مل جائے گی.پرانے بزرگوں کے واقعات میں ہمیں اس کی مثالیں ملتی ہیں.ایک بزرگ تھے وہ مجلس میں بیٹھے تھے ایک شخص اُن کے پاس آیا اُنہوں نے ۳۱ روپے ۱۰ آنے اُس سے بطور قرض لئے تھے اور اُس قرض کی ادائیگی میں دیر ہو گئی تھی مجلس میں آکر اُس شخص نے تقاضا کیا کہ میرا قرض مجھے ادا کیا جائے مجھے اس وقت روپے کی سخت ضرورت ہے.انہوں نے کہا ٹھیک ہے میں نے قرض لیا ہوا ہے اور میں انشاء اللہ جلدی ادا کرنے کی کوشش کروں گا.اُس نے کہا میں انشاء اللہ ، انشاء اللہ نہیں جانتا میں اُٹھوں گا نہیں جب تک آپ مجھے روپیہ نہ دے دیں اور پھر اُس نے بدگوئی شروع کر دی کہ یہ بزرگ بنا پھرتا ہے لیکن ایسا بے ایمان اور بددیانت ہے کہ روپیہ لیتا ہے اور پھر ادا کرنے کا نام ہی نہیں لیتا.وہ چپ کر کے بیٹھے رہے آخر غلطی اُنہی کی تھی اُنہوں نے قرض لیا تھا اس کو واپس کرنے کا بھی فکر کرنا چاہیے تھا

Page 343

خطابات شوری جلد سوم ۳۲۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء مگر ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ایک شخص آیا اور اُس نے کہا فلاں رئیس نے یہ رقم آپ کو تحفہ کے طور پر بھجوائی ہے اُنہوں نے گئی تو ۲۵ - ۲۶ روپے تھی اُنہوں نے وہ رقم لپیٹ کر اُسے واپس کر دی اور کہا کہ یہ میری نہیں ہوگی کسی اور کی ہوگی.اُس نے لیتے ہی کہا اوہو! مجھ سے غلطی ہوگئی آپ کی رقم تو اس جیب میں ہے اور جب اُس نے وہ رقم نکالی تو وہ آنوں سمیت اُتنی ہی تھی جتنی وہ شخص مانگتا تھا.اب دیکھو جب اُن کے پاس ایک غلط رقم پہنچی تو وہ اُنہوں نے رکھ نہیں لی وہ جانتے تھے کہ خدا تعالیٰ کو میرے متعلق غیرت ہے اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اب جبکہ مجھے مجلس میں ذلیل کیا گیا ہے خدا میرے متعلق اپنی غیرت ضرور دکھائے گا اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ میرا قرضہ ۳۱ روپے ۱۰ آنے ہے اس لئے جب اُن کو ۲۶ روپے ملے انہوں نے وہ رقم واپس کر دی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ میری رقم نہیں ہوسکتی اگر میری رقم ہوتی تو اس روپے ۱۰ آنے ہوتی جس کی مجھے ضرورت تھی جب اُنہوں نے ۲۶ روپے واپس کئے تو انہیں ۳۱ روپے ۱۰ آنے بھی مل گئے اور وہ جو ان کو ٹھگ اور بددیانت کہہ رہا تھا اُس کو بھی خدا نے ان کی بزرگی کا نشان دکھا دیا.اگر ۲۶ روپے وہ رکھ لیتے تو شاید قرض خواہ ۲۶ روپے لے کر چلا جا تا مگر ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ یہ ایک اتفاقی معاملہ ہے مگر اُنہوں نے ۲۶ روپے واپس کئے اور جب واپس کئے تو انہیں ۳۱ روپے ۱۰ آنے مل گئے اس لئے اگر جماعت میں کوئی ایسا شخص داخل ہوا ہے جو ہمارا نہیں تو اُسے واپس کر ولوگوں کا جو تا بدل جاتا ہے تو کوئی بے ایمان ہی ہوتا ہے جو کسی دوسرے کا اچھا جوتا پہن کر آ جاتا ہو ورنہ ہر شریف آدمی آواز دیتا ہے کہ میرا جو تا بدل گیا ہے جو شخص غلطی سے میرا جوتا لے گیا ہے وہ اپنی چیز لے جائے اور میری چیز دے جائے تم ایک جوتے کے بدلنے کی فکر کرتے ہو تم ایک بدلی ہوئی سوئی کو اپنے پاس رکھنے کو تیار نہیں ہوتے مگر انسان تمہارے پاس غلطی سے آجاتا ہے تو تم کہتے ہو رہنے دو اگر اُس میں وہ روح نہیں پائی جاتی جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھی تو وہ ہماری چیز نہیں وہ ہمارا آدمی نہیں تم اس عادت کو ترک کرو اور خالص خدا تعالیٰ کے بندے بن جاؤ اور یا درکھو کہ جو شخص خدا تعالیٰ کا ہو جاتا ہے اُسے ہر جگہ وہ اُس کی چیز ہی دیتا ہے.میرے ساتھ کئی ایسے واقعات گزرے ہیں بعض دفعہ مذاق میں میں نے ایک بات

Page 344

خطابات شوری جلد سوم ۳۲۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء کہی ہے تو خدا نے اُس مذاق کی بات کو بھی پورا کر دیا ہے بھائی عبدالرحیم صاحب جو آجکل پشاور رہتے ہیں وہ اور میں ایک دفعہ سارا دن شکار کے لئے پھرتے رہے مگر کوئی جانور نہ ملا واپسی پر ہم کشتی میں بیٹھے ہوئے تھے کہ مجھے ایک مذاق سُوجھا لوگ تو کہتے ہیں کہ خواجہ خضر پانی میں رہتے ہیں مگر میرا یہ عقیدہ ہے کہ خضر ایک فرشتہ ہے اور شاید پرانے بزرگوں کے خیال میں وہ دریاؤں کا فرشتہ ہی ہو بہر حال میں نے کہا خواجہ خضر! ہم سارا دن یہاں پھرتے رہے ہیں مگر ہمیں کوئی شکار نہیں ملا اب میں چاہتا ہوں کہ تم ہماری دعوت کرو.بھائی عبدالرحیم صاحب چونکہ میرے اُستاد تھے اُنہوں نے یہ سنا تو کہا یہ آپ نے کیا کہا ہے کہ خواجہ خضر ہماری دعوت کرو مگر اُنہوں نے ابھی یہ بات کہی ہی تھی کہ یکدم پانی کی ایک اہر اُٹھی اور ایک بہت بڑی مچھلی ہماری کشتی میں آگری میں نے کہا لو ! خواجہ خضر نے ہماری دعوت کر دی تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی نعمتوں سے ہمیشہ سرفراز کرتا ہے.مجھے سفارش پسند نہیں یہ سمجھنا کہ فلاں بندہ میرے کام آئے گا یہ شرک ہے اور یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہوگی اگر ہماری جماعت میں بھی یہ روح پائی جاتی ہو اس سلسلہ میں میں نے متواتر جماعت کو کہا ہے کہ تم اپنی ترقیات کا سفارشوں پرمت انحصار رکھو مگر بار بار سمجھانے کے باوجود ہمیشہ جماعت کے دوست لکھ دیتے ہیں کہ فلاں کے پاس ہماری سفارش کر دی جائے حالانکہ سفارش ایک سخت ذلیل چیز ہے اس میں کوئی مبہ نہیں کہ میں غیروں کے لئے سفارش کر دیتا ہوں بیسیوں غیر احمدی سفارش کے لئے میرے پاس آتے ہیں اور میں اُن کی سفارش کر دیتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ وہ میری جماعت کے افراد نہیں میری سفارش کے بعد جو کچھ اُن کو ملے گا اُس میں میرا کوئی حصہ نہیں ہوگا.اگر افسر بھی منفی ہو اور سفارش کا خواہش مند بھی منفی ہو اور میں نے منفی آدمی کے متعلق ایک منفی افسر کو توجہ دلا دی تو میرے لیے اس میں کوئی شرم کی بات نہیں لیکن اگر میں اپنی جماعت کے کسی آدمی کی سفارش کروں تو اس کے معنی یہ ہونگے کہ ایک چیز اپنی جیب سے نکال کر میری جیب میں ڈال دے.اس لئے جب کوئی احمدی مجھے یہ کہتا ہے کہ فلاں کے پاس میری سفارش کر دی جائے تو ہمیشہ مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ ہمیں بازار میں کھڑا کر کے جوتیاں مروانا چاہتا ہو.اس سے زیادہ ذلیل بات اور کیا ہوگی کہ جماعت کے

Page 345

خطابات شوری جلد سوم ۳۲۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء خلفاء اور ناظروں کو دنیوی امراء کے سامنے سفارش کے لئے پیش کیا جائے ، دوستانہ تعلقات ہونا اور بات ہے اور سفارش کرنا بالکل اور بات ہے.پھر بعض لوگ تو اصرار کرتے ہیں کہ آپ ظفر اللہ خان سے کہیں ظفر اللہ خان فلاں وزیر سے کہے وزیر اپنے سیکرٹری سے کہے سیکرٹری ڈائر یکٹر سے کہے ڈائریکٹر انسپکٹر سے کہے انسپکٹر سب انسپکٹر سے کہے سب انسپکٹر ہیڈ ماسٹر سے کہے اور ہیڈ ماسٹر فلاں چپڑاسی سے کہے کہ میرا فلاں کام کروا دو.حیرت آتی ہے کہ اُن کا دماغ کچھ بھی باقی رہ گیا ہے یا نہیں یہ سب مشرکانہ باتیں ہیں.نے کامیابی کے لئے ایک قسم کی دیوانگی کی ضرورت ہے میں نے بارہا توجہ دلائی ہے کہ تم کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتے جب تک تمہارے عقائد کی توحید پر بنیاد نہ ہو ہم نے تو آج تک نہیں دیکھا کہ قومی آفات کے وقت عقل مند لوگ کامیاب ہوئے ہوں ہم نے تو ہمیشہ دیوانوں کو ہی کام کرتے دیکھا ہے.مصلحتیں سوچنا عقل مندوں کا کام ہے.ہمیں خدا نے اس لئے کھڑا کیا ہے کہ ہم دیوانہ بنیں اور دین کا کام کریں.تین صدیاں خدا نے عقل مندوں کو دیں مگر وہ دین کے قائم کرنے میں ناکام رہے اب وہ دیوانوں سے یہ کام لینا چاہتا ہے.اگر تم بھی اپنی عقلیں سنبھال کر رکھنا چاہتے ہو تو تمہارا بھی وہی حشر ہوگا جو پچھلی تین صدیوں میں عقلمند کہلانے والوں کا ہوگا کامیاب وہی ہوں گے جو دیوانہ بنیں گے عیسی آئے تو لوگوں نے اُن کو پاگل کہا موسیٰ آئے تو لوگوں نے اُن کو پاگل کہا نوح آئے تو لوگوں نے اُن کو پاگل کہا قرآن اس ذکر سے بھرا ہوا ہے پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ آدم سے لے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک تو پاگلوں نے کام کیا ہے اور اب عقلمند یہ کام کر لیں جب تک تم دنیا کی نگاہ میں پاگل نہیں بن جاتے جب تک تم مجنوؤں کی طرح یہ فیصلہ نہیں کر لیتے کہ ہم نے کام کرنا ہے چاہے ہمارے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں اُس وقت تک تم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے تم بے شک سائنس پڑھو تم بے شک تجارت کرو مگر یہ ساری باتیں خدا تعالیٰ کے دیوانے بن کر کرو.ابو بکر تاجر تھے عمر بھی تاجر تھے عثمان بھی تاجر تھے علی بھی ایک حد تک تاجر تھے عبدالرحمن بن عوف تو بہت بڑے تاجر تھے وہ فوت ہو گئے تو ان کی اڑھائی کروڑ روپیہ کی جائداد ثابت ہوئی اور اڑھائی کروڑ کی ملکیت کے معنی اس زمانہ کے ایک ارب روپیہ سے

Page 346

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء کم نہیں مگر خرچ وہ چند روپے کرتے تھے یہ دیوانگی نہیں تو اور کیا ہے میں سندھ گیا وہاں میری بھی زمین ہے اور انجمن کی بھی زمینیں ہیں میں نے سندھی مزارعوں کو بلا کر نصیحت کی کہ یہ میرا ذاتی کام نہیں میں خود سلسلہ کا خادم ہوں یہ خدا کا مال ہے اور صرف تبلیغ اسلام پر خرچ ہوتا ہے اس لئے اس مال میں کسی قسم کی بد دیانتی جائز نہیں وہ میری باتیں سن سن کر سر مارتے اور سُبْحَانَ اللهِ سُبْحَانَ اللہ کہتے اس کے بعد میں نے کہا میں نے سنا ہے تم اپنے جانور فصلوں میں چھوڑ دیتے ہو اور پھر اس طرح فصلوں کا بہت کچھ نقصان ہو جاتا ہے وہ پہلے تو سُبْحَانَ اللهِ سُبْحَانَ اللهِ کہہ رہے تھے مگر جب میں نے یہ بات کی تو وہ حیرت سے میرا منہ دیکھنے لگے گو میں زمینوں کا مالک نہیں تھا مگر انجمن کے مال کا محافظ ہونے کی وجہ سے وہ مجھے ہی مالک سمجھتے تھے اور مالک کو سندھی لوگ دھنی کہتے ہیں جب میں نے یہ نصیحت کی تو وہ حیرت سے میری طرف دیکھ کر کہنے لگے دھنی جے مال ڈنگر نے نہیں کھانی تے بنی پوکھنی کیوں ؟ یعنی اگر جانور کھیت میں نہ پھریں تو پھر کھیتی کرنے کا فائدہ ہی کیا.غرض زمیندار کی یہ عام ذہنیت ہے کہ وہ سمجھتا ہے اگر میں نے نہیں کھانا تو پھر کھیتی باڑی کرنے کا فائدہ کیا ہے لیکن مومن اس لئے کھیتی باڑی کرتا ہے کہ وہ خدا کے دین کے لئے خرچ ہو اُس کا جنوں اس میں نہیں ہوتا کہ وہ کھیتی باڑی نہیں کرتا ، اس کا جنوں اس میں نہیں ہوتا کہ وہ تجارت نہیں کرتا، اس کا جنوں اس میں نہیں ہوتا کہ وہ صنعت و حرفت نہیں کرتا بلکہ اُس کا جنون اس میں ہوتا ہے کہ دنیا دار آدمی تو اس لئے تجارت کرتا یا صنعت و حرفت میں حصہ لیتا ہے کہ وہ آپ کھائے یا بیوی بچوں کو کھلائے مگر مومن ان کاموں میں اس لئے حصہ نہیں لیتا کہ وہ آپ کھائے یا اپنے بیوی بچوں کو کھلائے بلکہ وہ اس لئے حصہ لیتا ہے کہ خدا کو دے.پس میں تمہیں کام کرنے سے نہیں روکتا بلکہ میرے فرائض کا یہ حصہ ہے کہ میں تمہیں کہوں کہ تم کام کرو، میں جو کچھ کہتا ہوں وہ یہ ہے کہ تم کام اپنے لئے نہیں بلکہ خدا کے لئے کرو.تم کماؤ اور خوب کماؤ.محنت کرو اور خوب کر و صنعت و حرفت کرو تو ایسی کرو کہ کوئی شخص تمہارے مقابلہ میں صنعت و حرفت نہ کر سکے.ملازمتیں کرو تو چوٹی کی ملازمتیں کرو.مگر کماؤ اس لئے کہ خدا کے راستہ میں خرچ کرو.بناؤ اس لئے کہ خدا کے راستہ میں خرچ کرو.خریدو اس لئے کہ خدا کے راستہ میں خرچ کرو.بیچو اس لئے کہ خدا کے راستہ میں خرچ کرو.تمہارا جنون تمہارے عدم عمل میں نہ ہو

Page 347

خطابات شوری جلد سوم ۳۳۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء بلکہ تمہارا جنون تمہارے صحیح خرچ میں ہو.دنیا تم کو اس لئے پاگل نہ کہے کہ تم متجارت نہیں کرتے ، دنیا تم کو اس لئے پاگل نہ کہے کہ تم ملازمت نہیں کرتے.دنیا تم کو اس لئے پاگل نہ کہے کہ تم صنعت و حرفت نہیں کرتے بلکہ دنیا تم کو اس لئے پاگل کہے کہ تم صنعت وحرفت کرتے ہومگر اُس سے خود فائدہ نہیں اُٹھاتے ، تجارت کرتے ہومگر اُس سے خود فائدہ نہیں اُٹھاتے ، ملازمت کرتے ہو مگر اُس سے خود فائدہ نہیں اُٹھاتے.پس تم خدا پر توکل کرو اور اپنی زندگیوں کو ایسا بناؤ کہ تمہاری زندگیوں کا ماحصل صرف خدا اور اُس کا رسول ہو تم زندہ رہو تو خدا کے لئے اور مرو تو خدا کے لئے.جیسے تمہارے آقا اور سردار حضرت محمد رسول اللہ کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے "قُل اِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَ مماتي لله رب العلمین لے تو کہہ دے میری نماز بھی اور میری قربانیاں بھی میری زندگی بھی اور میری موت بھی سب خدا کے لئے ہیں.یہی ایمان ہے جس کا اسلام مطالبہ کرتا ہے ایمان اس کا نام نہیں کہ تم کمائی نہ کرو، ایمان اس کا نام نہیں کہ تم محنت نہ کرو.تم مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ تم محنت نہ کرو.اگر تم اپنی زندگی لغو کاموں میں ضائع کرتے ہو تو تم هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ “ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہو.اس لئے محنت تمہارے لئے ضروری ہے تجارت اور زراعت اور صنعت و حرفت سب تمہارے لئے ضروری ہیں اسلام جو کچھ کہتا ہے وہ یہ ہے کہ تم ان کاموں میں اپنے وقتوں کو بیشک خرچ کرو مگر اپنے لیے نہیں بلکہ خدا اور اُس کے رسول کے لئے اگر تم ایسا کرو تو وہ سارے وساوس دور ہو سکتے ہیں جو بولشوزم کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں دنیا وی ظلم دیکھ کر آنکھوں پر پٹی بندھ جاتی ہے جس پر مقدمہ ہو جاتا ہے اور اُس کی جان خطرے میں ہوتی ہے اُس شخص کو تم اگر سود کا مسئلہ سمجھاؤ تو وہ نہیں سمجھے گا لیکن اگر ہمسایہ کے متعلق سمجھاؤ تو سمجھ جائے گا.اسی طرح تم اگر دنیا کو مصیبت زدہ سمجھ کر اسلام کے مسائل سمجھاؤ تو وہ اُن مسائل کو نہیں مانے گی لیکن اگر تم دُنیا پر ثابت کر دو کہ تم خدا کے لئے جیتے ہو اور خدا کے لئے مرتے ہو اور اُسے کہو کہ میرے پاس جو کچھ تھا وہ میں نے تمہیں دے دیا اب میں بتا تا ہوں کہ اسلام اس طرح کہتا ہے تو وہ تمہاری بات سن لے گا لیکن وہ سمجھے گا کہ وہ خود غرضی سے ایسا نہیں کہہ رہا اور در حقیقت ایسی زندگی ہی حقیقی امن اور حقیقی خوشحالی پیدا کرتی ہے.

Page 348

خطابات شوری جلد سوم عورتوں کا چندہ ۳۳۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء ایک سوال مستورات کے چندہ کے متعلق اُٹھا یا گیا ہے کہ اس دفعہ بجٹ میں دکھایا نہیں گیا ، نائب ناظر صاحب نے اس کا جواب دیا ہے، مگر میرے نزدیک وہ نہایت لغو جواب ہے ، وہ جواب یہ ہے کہ عورتیں چونکہ بڑی قربانی کرتی ہیں اور وصیت کرتی ہیں اس وجہ سے اُن کے عام چندے کم ہو جاتے ہیں ،اس وجہ سے وہ الگ دکھائے نہیں گئے تا کہ اُن کی قربانی کو بٹہ نہ لگے.حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ عورتیں جو وصیت کرتی ہیں وہ بالعموم زیور اور مہر کی وصیت ہوتی ہے ماہوار آمدن کی وصیت نہیں کرتیں کہ اُن کے چندوں پر اُس کا اثر پڑ سکے ، پس یہ بات تو درست نہیں.دوسرے اگر عزت کا ہی سوال ہے تو پھر مردوں کی عزت کو کیوں صدمہ نہیں پہنچتا وہ بھی وصیت کرتے ہیں اور اُن کے عام چندے بھی اس طرح کم ہو جاتے ہیں ،اگر مردوں کی وصیت کے باوجود اُن کے چندے الگ دکھائے جاتے ہیں تو عورتوں کی وصیت کے باوجود اُن کے چندے کیوں نہیں الگ دکھائے جاتے.سیدھی بات تھی ، کہہ دیتے کہ غلطی ہوگئی ہے.یہ کیا جواب ہوا کہ ہم نے بڑے اخلاق فاضلہ سے کام لیا کہ عورتوں کا چندہ نہیں دکھایا تا کہ اُن کی قربانی کو بٹہ نہ لگے.خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب کی پنشن ایک سوال خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب کے متعلق کیا گیا ہے ،اصل بات یہ ہے کہ دنیا میں یہ اصول ہے کہ جو شخص خدمت کرتے ہوئے کسی بلا میں مبتلا ہوتا ہے اُس سے عام پنشنروں والا سلوک نہیں کیا جاتا ، خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب کی ستر ۷۰ سال سے زیادہ عمر تھی وہ سلسلہ کے کام کے لئے سخت گرمی کے موسم میں باہر گئے اور وہیں اُن پر فالج کا حملہ ہو گیا اس پر انجمن نے اپنی مرضی سے نہیں بلکہ میرے حکم کے ماتحت یہ فیصلہ کیا کہ جب تک وہ بیمار ہیں اُن کو یہ رقم دی جائے.قابل نوجوانوں کو زندگیاں وقف کرنے کی تحریک مولوی عبد القادر صاحب نے کالج کے متعلق بعض باتیں کہی ہیں جن کا پرنسپل صاحب نے جواب دیا، میں اس بات سے متفق ہوں کہ کالج کے پروفیسران کو زیادہ سے زیادہ لائق بنانے اور لائق پروفیسر رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور

Page 349

۳۳۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء خطابات شوری جلد سوم یہ بھی درست ہے جیسا کہ پرنسپل صاحب نے کہا کہ ہم مجبور ہیں کہ احمدی پروفیسر لائیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ لائق پروفیسر پانچ پانچ سو ، سات سات سو ، بلکہ ہزار ہزار روپیہ بھی ماہوار لے رہے ہیں اور ہم تو ڈیڑھ ڈیڑھ اور سوا سوا سو روپیہ تنخواہ دے کر بھی مقروض رہتے ہیں.یہ نقص اسی طرح دور ہو سکتا ہے کہ جماعت کے نوجوان قربانی کریں اور وہ اپنی زندگیاں سلسلہ کی خدمت کے لئے وقف کریں.جماعت میں درجنوں نوجوان ایسے ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں وقف کیں مگر کالج کے عملہ کے متعلق یہی سوال رہتا ہے کہ اُس کے لئے ہم کہاں سے پروفیسر لائیں ، مولوی عبد القادر صاحب نے کہا ہے کہ کچھ نو جوان آئے اور چلے گئے ، ہمیں دیکھنا چاہیے کہ وہ کیوں چلے گئے.میں سمجھتا ہوں کہ پروفیسر صاحب سے یہ غلطی ہوئی ہے کہ اُنہوں نے اس سوال کو چھیڑا کیوں کہ وہ نوجوان جن کا اشارہ ذکر کیا گیا ہے، گو اُن کو میں مخلص سمجھتا ہوں مگر اُن کے اخلاق کے متعلق اس کے جواب سے اچھا اثر نہیں پڑتا.حقیقت یہ ہے کہ جانے والوں نے بعض معاملات میں انجمن سے کشمکش شروع کی اور میرے پاس بھی اُنہوں نے شکایتیں کرنی شروع کیں کہ انجمن ہمارے حقوق ہمیں نہیں دیتی.میرا جیسا کہ دستور ہے، شروع شروع میں میں دخل نہیں دیا کرتا، صرف انجمن کو توجہ دلا دیا کرتا ہوں، میں نے انجمن کو لکھا کہ وہ اس معاملہ کی طرف توجہ کرے، بعد میں اُن نو جوانوں نے مجھے لکھا کہ ہماری سخت حق تلفی ہو رہی ہے اور آپ کے توجہ دلانے پر بھی کوئی توجہ نہیں کی گئی.اس پر میں نے کالج کمیٹی کو لکھا کہ اتنے دنوں میں میرے پاس اس کے متعلق مکمل رپورٹ کی جائے ، اس پر انہوں نے مکمل رپورٹ مرتب کی اور لکھا کہ یہ حالات ہیں اور ہم مسل آپ کو بھجوار ہے ہیں.میں نے وہ مسل پڑھی اور اُن تینوں نوجوانوں کو بلوایا ،صوبہ بڑا مخلص ہے مگر بدقسمتی سے یہ تینوں بہار کے تھے ، میں نے خود اُن کو بلایا ، اپنے سامنے بٹھایا اور کمیٹی کے ممبروں کو بھی بٹھایا.مسل سے یہ بات صراحتاً ثابت تھی اور اگر قادیان سے مسل بچ کر آگئی ہو تو اُس میں سے یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ان نوجوانوں نے سخت کلامی سے کام لیا پھر لطیفہ یہ ہے کہ کاغذات نکالے گئے تو ایک مقام پر انجمن نے کہا کہ ہم یہ معاملہ خلیفہ اسیح کے سامنے پیش کریں گے اور اُن کی طرف سے جواب آنے پر اس بارہ میں کچھ فیصلہ کیا جاسکے گا، اس پر تینوں نے نہیں بلکہ ایک نوجوان نے لکھا کہ خلیفتہ امیج کو اس سے کیا تعلق.

Page 350

خطابات شوری جلد سوم ۳۳۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء میں نوکر ہوں اور تم نوکر رکھنے والے ہو، خلیفتہ امسیح کا کیا واسطہ ہے کہ وہ بیچ میں دخل دیں.جب وہ میرے پاس آیا تو میں نے اُس کو کہا کہ اگر اس معاملہ میں میرا دخل نہیں تو تم مجھے چٹھیاں کیوں لکھتے رہے ہو اور تم نے یہ دو رخی اور منافقانہ چال کیوں چلی کہ جب تم کو مجھ سے فائدہ پہنچ سکتا تھا تو تم نے مجھے لکھا کہ میرے معاملات میں دخل دیا جائے اور جب تم نے دیکھا کہ مجھ سے تم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا تو تم نے لکھا کہ خلیفہ امسیح کو اس معاملہ میں دخل دینے کا کیا حق ہے.بجائے اس کے کہ وہ اس سے نصیحت حاصل کرتے ، مجلس سے اُٹھتے ہی اُنہوں نے استعفے پیش کر دئے.یہ حالات ہیں جن میں اُن نوجوانوں نے کالج کے کام کو چھوڑا اور میں خود اس معاملہ کی تحقیق کر چکا ہوں.حقیقت یہ ہے کہ جب تک نوجوان زندگیاں وقف نہیں کریں گے اُس وقت تک اس قسم کی مشکلات دور نہیں ہو سکیں گی.“ ماہرین فن اساتذہ تیار کئے جائیں تعلیم الاسلام تعلیم الاسلام کالج کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا: - اب تک اگر کالج کے لئے لائق پروفیسر تیار نہیں ہو سکے تو اس کی ذمہ داری میرے نزد یک گلی طور پر پرنسپل پر ہے.ایک شخص اگر پوری طرح اپنے فرائض کی ادائیگی میں Interest نہیں لیتا تو اس کا یقیناً اُس کو نقصان پہنچے گا.وہ میرا لڑکا ہے لیکن خدا اور اُس کے رسول کے مقابلہ میں اگر ہزار لڑ کا بھی قربان ہو جائے تو مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوسکتی.میں محسوس کرتا ہوں اور میں کھلے طور پر آج پبلک میں اس امر کا اظہار کرتا ہوں کہ میرے نزدیک وہ اپنے کام کی طرف اتنی توجہ نہیں کر رہا.جتنی توجہ اس کو کرنی چاہیے.میں جانتا ہوں کہ بعض لوگ اس بات پر بھی اعتراض کرتے ہیں کہ وہ ایک لمبا عرصہ قادیان میں رہا اور اس نے لڑکوں کی پڑھائی کی طرف توجہ نہیں کی.مگر یہ اعتراض منافقانہ ہے وہ ان دنوں سلسلہ کی حفاظت کے لئے رات اور دن کام کر رہا تھا اور جو شخص اپنی جان کو سلسلہ کے لئے قربان کر رہا ہو اور سلسلہ نے ہی اس کو اس کام پر مقرر کیا ہو اس پر اعتراض کرنا سوائے منافق کے اور کسی کا کام نہیں ہو سکتا.مگر اس کے علاوہ بھی میں دیکھتا ہوں کہ اسے اپنے کام کے متعلق پورا شغف نہیں.ڈاکٹر عبدالاحد صاحب ریسرچ کے افسر ہیں وہ بھی واقف زندگی ہیں اور ناصر احمد بھی واقف زندگی ہے مگر جب زندگی وقف کرنے والے آتے ہیں تو

Page 351

خطابات شوری جلد سوم ۳۳۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء ان میں سے اکثر وہ ریسرچ کے لئے لے جاتے ہیں.اگر ناصر احمد میں بھی وہی جذ بہ ہوتا تو وہ تحریک کو کہتا کہ مجھے بھی اتنے نوجوان دئے جائیں.میں ان کو کالج کے لئے تیار کرنا چاہتا ہوں گزشتہ چار سال میں ڈاکٹر عبدالاحد صاحب پانچ سات نئے نوجوان تیار کر چکے ہیں.مگر اتنے سالوں میں ناصر احمد نے ایک نوجوان بھی تیار نہیں کیا جتنے تیار کئے ہیں میں نے کئے ہیں در حقیقت اس کے معنی یہ ہیں کہ اسے اپنے کام سے اس قسم کا Interest نہیں.جو والنزعت غرقا و التشطت نَشَطاً ت کے مطابق ہر مومن کو ہونا چاہیے.ڈاکٹر عبدالاحد صاحب جب نئے آدمی مانگنے آتے ہیں تو میں بعض دفعہ چڑاتا بھی ہوں مگر پھر بھی وہ اپنی ضرورت کے مطابق آدمی لے ہی جاتے ہیں.ناصر احمد کو بھی کہنا چاہیے تھا کہ مجھے اس اس قسم کے پروفیسر چاہیں اور اگر تحریک اس سے تعاون نہ کرتی تو وہ مجھ سے کہتا ، بہر حال میرے نزدیک اُس نے اپنے فن سے اتنا شغف نہیں دکھایا جتنا اُسے دکھانا چاہیے تھا بلکہ اُس کے لئے یہ بھی ضروری تھا کہ وہ ہر فن کے پروفیسروں کا تحریک سے مطالبہ کرتا آخر جتنے مضامین دنیا میں پڑھائے جاتے ہیں وہ سارے کے سارے ہم نے بھی پڑھانے ہیں پس جس مضمون کا پروفیسر اُن کے پاس نہیں تھا اُسے تحریک سے مانگنا چاہیے تھا بلکہ یہ بھی کہنا چاہیے تھا کہ ہمارے لئے جرمن زبان کا بھی پروفیسر تیار کیا جائے روسی زبان کا بھی پروفیسر تیار کیا جائے اطالین زبان کا بھی پروفیسر تیار کیا جائے اور آہستہ آہستہ تحریک اس کام میں لگی رہتی.“ انسپکڑوں کی تعداد کم سے کم ہو بعض دوستوں نے تحریک کی تھی کہ جماعت کی تربیت کے لئے انسپکٹروں کی تعداد کو بڑھا دیا جائے.اس کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:- میں نے کئی دفعہ اس بات پر غور کیا ہے اور میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ پالیسی غلط ہے، اس لئے نہیں کہ نگران مقرر نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس لئے کہ ایک ایسے کام میں جس کے انواع بہت سے ہیں انفرادی طور پر نگرانی کرنی چاہیے نہ کہ ہر شعبہ کی نگرانی کے لئے الگ الگ انسپکٹر مقرر کرنا چاہیے مثلاً تربیت کے انسپکٹر ہی لے لو پہلے نمازوں کے لئے انسپکڑوں کی ضرورت ہوگی پھر روزوں کے لئے انسپکٹروں کی ضرورت ہو گی پھر زکوۃ کے لئے انسپکٹروں کی ضرورت ہوگی پھر حج کے لئے انسپکٹروں کی ضرورت ہوگی پھر تجارت اور لین دین سے تعلق

Page 352

خطابات شوری جلد سوم ۳۳۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء رکھنے والے معاملات کے لئے انسپکٹروں کی ضرورت ہوگی.ہائی کلاسز کے لئے انسپکٹروں کی ضرورت ہوگی.لوئر کلاسز کے لئے انسپکٹروں کی ضرورت ہوگی کالج کے لئے انسپکٹروں کی ضرورت ہوگی.پھر دھوبیوں کے لئے الگ انسپکٹر کی ضرورت ہوگی.نائیوں کے لئے الگ انسپکٹر کی ضرورت ہوگی.پیشہ وروں اور صناعوں کے لئے الگ انسپکٹر کی ضرورت ہوگی اگر اس طرح تقسیم ہوتی چلی جائے اور ہر شعبہ کے لئے الگ الگ انسپکٹر رکھے جائیں تو انسپکٹروں کا کوئی شمار ہی نہیں رہتا.ہمارے سامنے نمونہ موجود ہے اور نمونہ بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے انسان تھے مگر آپ جرنیل بھی تھے قاضی بھی تھے مفتی بھی تھے مقتن بھی تھے معلم بھی تھے امام بھی تھے اور عورتوں اور مردوں کی تربیت کرنے والے بھی تھے اسی طرح ہمیں بھی کوشش کرنی چاہیے کہ ہم بجائے انسپکٹروں کو زیادہ کرنے کے اپنے محصلوں اور پہلے انسپکٹروں سے ہی ہر قسم کا کام لیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کام کے لئے ایمان دار اور دیانت دار لوگوں کو لگائیں.میرے نزدیک صدرا انجمن احمدیہ کو چاہیے کہ آئندہ وہ ہر قسم کا کام اپنے محصلوں اور سابق انسپکٹروں سے ہی لے.ان کا کام چندہ لینا بھی ہو، ان کا کام تبلیغ کرنا بھی ہو اور ان کا کام تربیت کرنا بھی ہو.ان کو دن بے شک زیادہ مل جائیں اور حلقے چھوٹے کردئے جائیں آدمی تہجد گزار، راست باز اور محنتی ہوں، یہی طریق ہے جس پر چل کر ہم کامیاب ہو سکتے ہیں ورنہ اگر ہم نے ہر محکمہ کے الگ الگ انسپکٹر مقرر کرنے شروع کر دئے اور پھر ہر محکمہ کی الگ الگ شاخیں شروع ہو گئیں تو عجیب نتیجہ رونما ہو گا نماز والے کہہ رہے ہوں گے کہ چندے میں کیا رکھا ہے.اصل چیز تو نماز ہے اور چندے والے کہہ رہے ہوں گے کہ سارا کام تو چندوں سے ہی ہوتا ہے اور یہی اس زمانہ کی سب سے بڑی خدمت ہے نمازیں بھی فائدہ دیتی ہیں مگر اس زمانہ میں چندہ دینا بڑا اہم کام ہے.اس اختلاف کو روکنے کی یہی صورت ہے کہ سارے کام انفرادی صورت اختیار کر لیں.اُس کو کہو کہ وہ یہ بھی کرے اور وہ بھی کرے.میں دیکھتا ہوں کہ تحریک جدید اور صدرانجمن احمد یہ دونوں ایک دوسرے کی معاون ہیں مگر ناظر صاحب بیت المال کے اعلانات کو غور سے پڑھو تو ان میں ہلکی سی چوٹ تحریک جدید پر ضرور ہوتی ہے اور لکھا ہوا ہوتا ہے کہ اصل چندہ تو مستقل چندہ ہی ہے باقی چندے سب نفلی ہیں لوگوں کو فرضی چندے

Page 353

خطابات شوری جلد سو ۳۳۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء ادا کرنے کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہیے اور تحریک جدید والے لکھتے ہیں کہ جہاد کا وقت آگیا السَّابِقُونَ الاَوَّلُونَ میں شامل ہونے کی کوشش کرو گویا جو تحریک میں حصہ لیتا ہے یہ اُس کا جہاد ہو گیا اور صدرانجمن کے نزدیک یہ محض ایک نفلی چیز ہے.تحریک والے لکھتے ہیں کہ یہ چندہ ایسا ہے جیسا زندگی کے لئے سانس ہوتا ہے اور انجمن والے لکھتے ہیں کہ اصل چندہ تو انجمن کا ہے.یہ تو ایسا ہی ہے جیسے جوتی پر پالش ہوتی ہے.اگر اسی طرح انسپکٹر مقرر کرنے شروع کر دئے گئے تو لوگ ایک مصیبت میں پھنس جائیں گے اور جہاں چھوٹی جماعت ہوگی وہ تو اور بھی مخمصے میں مبتلا ہو جائے گی ، فرض کرو پہلے چندے والا انسپکٹر آگیا اور ان بیچاروں نے ادھر اُدھر سے آٹا جمع کر کے اُس کو چند دن کھلایا پلایا ، وہ گیا ہی تھا کہ نماز والا انسپکٹر پہنچ گیا اور اُن کو اُس کی خاطر تواضع کرنی پڑی وہ گیا تو روزے والا انسپکٹر آ گیا.اگر یہ طریق جاری کیا جائے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ ادھر انسپکٹر صاحب گاؤں میں داخل ہو رہے ہوں گے اور اُدھر گاؤں والے اپنے گاؤں سے نکل کر کسی اور گاؤں کو بھاگے جارہے ہوں گے.پس انسپکٹر بڑھانا بالکل بے معنی بات ہے.جو محصل رکھے جائیں وہ محنتی ہوں، دیانت دار ہوں، راست باز ہوں ، مختلف پیشوں سے واقف ہوں اور سارے کام اُنہی کے سپر د ہوں.مجھے انگریزوں کی یہ بات بڑی بھاتی ہے کہ وہ پادریوں کا بڑا ادب اور احترام کرتے ہیں یہاں تو وہ مبشر اور Preacher ہوتے ہیں اس لئے اُن کی عزت کرنا ضروری ہوتا ہے مگر یورپ میں اُن کی یہ حالت نہیں ہوتی پھر بھی یورپ میں کسی جگہ چلے جاؤ اگر کوئی دہر یہ بھی ہوگا تو پادری کو اپنا باپ سمجھے گا اور ہر مصیبت کے وقت اُس کے پاس دوڑا جائے گا اور اُس سے مشورہ لے گا.یہ روح اپنے اندر پیدا کرو اور سارے کام انسپکٹر کے سپرد کر دو بے شک اُس کا علاقہ چھوٹا کر دو مگر اس سے کام زیادہ لو اگر چندے کا سوال آئے تو اس کا ذمہ دار بھی وہی ہو اور اگر تربیت کی کمی کا سوال آئے تو اُس کا ذمہ دار بھی وہی ہو.کیا دُنیا میں کسی کے دس باپ بھی ہوا کرتے ہیں؟ ایک ہی باپ ہوتا ہے.مگر نماز بھی وہی ھاتا ہے، روزے بھی وہی رکھواتا ہے ، سچ بولنا بھی وہی سکھاتا ہے ، صناعی بھی وہی سکھاتا ، تعلیم بھی وہی دلاتا ہے.اسی طرح ماں بھی ایک ہی ہوتی ہے مگر کھانا پکانا بھی وہی سکھاتی ہے، جھاڑو دینا بھی وہی سکھاتی ہے، کپڑے دھونا بھی وہی سکھاتی ہے.یہی طریق ہمیں انسپکڑوں

Page 354

خطابات شوری جلد سوم ۳۳۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء کے بارے میں اختیار کرنا چاہئے.بے شک شہروں میں شہروں کے قابل اور دیہات میں دیہات کے قابل آدمی رکھے جائیں مگر بہر حال کام سب انہی سے لیا جائے.یہ کہنا کہ مولوی کو حساب نہیں آتا غلط ہے ہم مولوی اُس کو کہتے ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل فرمانبردار ہو.رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم، ایک عظیم حساب دان بے شک محمدرسول الہصلی اللہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہم حساب نہیں جانتے مگر اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم جھوٹا حساب نہیں جانتے ورنہ ورثہ کے احکام جو آپ نے دئے ہیں وہ معمولی جمع تفریق سے نہیں آسکتے ورثہ کی بنیا دریشو (Ratio) کے علم پر ہے اور اس علم کے لئے بہت بڑی حساب فہمی کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح زکوۃ کا علم بھی ا ہے جو حساب کے ساتھ گہراتعلق رکھتا ہے پس در حقیقت جب آپ نے کہا کہ ہم حساب نہیں جانتے تو اس کا مطلب یہ تھا کہ ہم جھوٹ اور فریب کا حساب نہیں جانتے یہ مطلب نہیں تھا کہ ہم واقعہ میں حساب نہیں جانتے.عملی نمونہ بہتر بنانے کی ضرورت ایک دوست نے توجہ دلائی ہے کہ ابھی تک جماعت کے نو جوانوں کو اپنی ظاہری شکل بھی اسلام کے مطابق بنانے کی توفیق نہیں ملی جو ایک بہت بڑا نقص ہے.یہ درست ہے، اور میں بھی دیکھتا ہوں کہ ابھی تک جماعت کے نوجوانوں کو اس طرف پوری رغبت نہیں مجھے تعجب آتا ہے کہ لوگ یہ تو شور مچائے جاتے ہیں کہ پاکستان میں اسلام کی حکومت ہونی چاہیے مگر جن امور میں اسلام کی حکومت ایک گھنٹہ میں قائم ہو سکتی ہے اُن کی طرف توجہ نہیں کی جاتی.ہر شخص چاہتا ہے کہ دوسرا تو کام کرے مگر میں نہ کروں اور یہ کوئی صحیح طریق نہیں.اصلاح تب ہوتی ہے جب انسان پہلے خود اپنی اصلاح کرے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب عمرہ کے لئے تشریف لے گئے جس میں صلح حدیبیہ ہوئی اُس وقت ایک ایسا واقعہ رونما ہو ا جو اس حقیقت کو اچھی طرح واضح کرتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دراصل خواب میں دیکھا تھا کہ آپ مکہ میں داخل ہوئے اور احرام باندھے ہوئے ہیں.آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ چلو ہم عمرہ کر آئیں ( کیونکہ حج کا وقت نہ تھا ) صحابہ کو بھی شوق تھا، اُنہوں نے دنبے ، بکریاں اور اونٹ قربانی کے لئے اپنے ساتھ لئے اور سج سجا کر بارات کی طرح

Page 355

خطابات شوری جلد سو ۳۳۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء مکہ کی طرف چل پڑے.جب مکہ کے قریب پہنچے تو کفار نے انہیں روک لیا ، اُنہوں نے بہتیرا سمجھایا کہ ہم خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے کے لئے یہاں آئے ہیں ہم میانوں سے تلواریں نہیں نکالیں گے بلکہ متواضع شہریوں کی طرح عمرہ کر کے چلے جائیں گے مگر اُنہوں نے کہا، خواہ کچھ ہو ہم تو اس کی اجازت نہیں دے سکتے آخر دنیا کو کیا پتہ ہے کہ تم عبادت کے لئے آئے تھے ، لوگ تو کہیں گے کہ عرب ڈر گئے اور اُنہوں نے مسلمانوں کو مکہ میں آنے کی اجازت دے دی ، اگلے سال بے شک عمرہ کر لینا ، ہم سال بھر ڈھنڈورا پیٹتے رہیں گے کہ ہم نے خود مسلمانوں کو عمرہ کرنے کی اجازت دی ہے اس طرح ہمارا رعب قائم رہے گا ، اس وقت ہم عمرہ کی اجازت نہیں دے سکتے.اس پر بڑا شور ہوا.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی بات مان لی اور آپ نے صحابہ کوحکم دیا کہ قربانیاں یہیں کر لو.اس بارہ میں اختلاف ہے، فقہاء میں سے بعض کہتے ہیں کہ جس مقام پر انہوں نے ڈیرے ڈالے تھے وہ حرم میں شامل تھا اور چونکہ وہ مقام حرم میں شامل تھے اس لئے اُن کے لئے قربانیاں کرنا جائز تھا اور بعض کہتے ہیں کہ وہ مقام تو حرم میں شامل نہیں تھا مگر شریعت کا مسئلہ یہ ہے کہ جب انسان حج یا عمرہ کے لئے جائے اور رستہ میں روکا جائے تو جس جگہ روکا جائے و ہیں قربانی کر دے بہر حال کوئی وجہ ہو ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قربانیاں کردو، صحابہ نے یہ بات سنی مگر وہ قربانیاں کرنے کے لئے نہ اُٹھے ، آپ نے ایک دفعہ کہا، دو دفعہ کہا ، تین دفعہ کہا ، مگر وہ خاموش رہے اُن کو دکھ تھا کہ آج اُن کی ناکیں کٹ گئیں، دو دوسو تین تین سو میل تک رہنے والے قبائل انہیں طعنہ دیں گے کہ تم نے کر لیا عمرہ ! انہیں غم تھا کہ ہم دنیا کو کیا منہ دکھائیں گے اور اُن کے سامنے اپنی عزت کس طرح قائم رکھ سکیں گے وہ اتنے دکھ میں تھے کہ باوجود اس کے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار فرمایا جاؤ اور قربانیاں کرو، جاؤ اور قربانیاں کرو ، وہ قربانیاں کرنے کے لئے نہ اُٹھے.آپ کو اس سے شدید ترین صدمہ پہنچا کہ اتنی بڑی قربانی کرنے والی قوم جو میرے ایک اشارہ پر اپنی جانیں قربان کر دیا کرتی تھی آج اپنے حواس اس طرح کھو بیٹھی ہے کہ میں ایک حکم دیتا ہوں اور وہ اُس کی تعمیل نہیں کرتی ، آپ اُسی حالت میں حضرت حفصہ کے پاس آئے اور فرمایا کہ حفصہ آج تمہاری قوم پر بڑی آفت آئی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جب عربوں

Page 356

خطابات شوری جلد سو ۳۴۰ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء میں نشوز کی کوئی بات دیکھتے تو آپ یہ نہ فرماتے کہ میری قوم نے ایسا کیا بلکہ مخاطب سے ذکر کرتے ہوئے کہتے کہ آج تیری قوم نے ایسا کیا ، یہی انداز رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس وقت اختیار کیا.حضرت حفصہ نے کہا یا رسول اللہ ! کیا ہوا ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، آج اس اس طرح ہوا ہے ، اُنہوں نے کہا یا رسول اللہ ! جانے بھی دیجئے ، اُن کو تو آپ سے اتنی محبت اور عشق ہے کہ اُس کی دنیا میں کوئی مثال ہی نہیں ملتی.اس وقت عمرہ سے روکے جانے کا اُن کو اتنا شدید صدمہ ہوا ہے کہ اُن کے حواس پراگندہ ہو گئے ہیں وہ بڑی بڑی اُمید میں لے کر آئے تھے مگر آج اُن کی اُمید میں سب رائیگاں چلی گئیں اس لئے ان کے دماغ پر ایک پردہ سا پڑ گیا ہے ورنہ یہ ہوسکتا ہے کہ وہ سمجھیں کہ خدا کا رسول ہمیں ایک حکم دیتا ہے اور پھر وہ اس کی تعمیل نہ کریں.انہوں نے کہا، یا رسول اللہ ! آپ چپ کر کے جائیے اور اپنی قربانی ذبح کرنی شروع کر دیجئے پھر دیکھئے کہ کیا ہوتا ہے.حدیثوں میں آتا ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نیزہ لیا اور آپ خاموشی سے قربانی کے پاس گئے اور اُس کی گردن پر نیزہ مار کر گرا دیا ، بات وہی تھی جو حضرت حفصہ نے کہی تھی ،صحابہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کام کے شیدائی اور عاشق زار تھے جو نہی اُنہوں نے دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اکیلے اپنی اونٹنی کو گرا لیا ہے، یکدم اُن کو ہوش آیا اور ایک صحابی کا بیان ہے کہ اُس کے بعد ہم اس طرح اپنی قربانیوں کی طرف دوڑے کہ اگر کوئی شخص ہمارے رستہ میں آتا تو ہمارا جی چاہتا تھا کہ ہم اُس کو قتل کر دیں.تو جب انسان خود عمل کر لیتا ہے تو دوسرے بھی اُس کے نمونے کو دیکھ کر عمل کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.اگر تم اس امید میں رہے کہ پہلے اسلامی احکام پر یہ عمل کرے یا وہ عمل کرے تب میں عمل کروں گا تو کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے ، ہمارا خدا اگر ہم سے اس بات کا مطالبہ کرتا ہے اور ہمارے بچے اور ہمارے عزیز ہمارا ساتھ نہیں دیتے تو کیا ہوا، خدا کے کئی نبی ایسے گزرے ہیں جن کے رشتہ داروں نے انہیں نہیں مانا.ابولہب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چا تھا مگر وہ آپ کا شدید ترین معاند تھا.حضرت ابراہیم کے باپ، جو دراصل آپ کے چچا تھے ،انہوں نے تو اس قدر دکھ دیا کہ آخر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا پس ہوا کیا اگر کوئی شخص تمہارا ساتھی نہیں بنتا، جب کوئی شخص اپنے دائیں اور بائیں نگاہ

Page 357

خطابات شوری جلد سوم ۳۴۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء دوڑاتا ہے تو اس کے یہ معنے ہیں کہ اُس کا ایمان کمزور ہے مومن اپنے ایمان کے مظاہرہ کے لئے کسی ساتھ کا محتاج نہیں ہوتا.جس شخص کے دل میں کسی سہارے کی احتیاج محسوس ہوتی ہوا سے یاد رکھنا چاہیے کہ اپنے کام میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا.دینی کام دینی روح کے ساتھ ہوتے ہیں ، جو شخص خدا کے کام کے لئے کھڑا ہوتا ہے وہ دائیں بائیں نہیں دیکھتا اُس کے بیوی بچے اُس کے ساتھ ہوں تو وہ خوش ہوتا ہے اور اگر نہ ہوں تو وہ سمجھتا ہے کہ خدا سے بڑھ کر میرا مطلوب اور کوئی نہیں میرا کام یہی ہے کہ میں خدا تعالیٰ کے احکام پر عمل کرتا چلا جاؤں خواہ کوئی اور شخص میرا ساتھ دیتا ہے یا نہیں دیتا.وصولی چندہ کے لئے وفود بھجوائے جائیں چوہدری عبداللہ خان صاحب نے کہا ہے کہ دیہات میں ہر چھ ماہ کے بعد وفد بجھوائے جائیں تا کہ جو چندہ وصول ہونے سے رہ گیا ہو وہ اس صورت میں وصول ہو جائے.یہ تجویز بہت معقول ہے بلکہ میرے نزدیک دیہات میں ہی نہیں شہروں میں بھی وقتاً فوقتاً ایسے وفد بجھواتے رہنا چاہئے.مگر لاہور والا وفد نہ ہو کہ چھ مہینے گزر گئے اور ابھی تک وہ چندوں کی لسٹ بھی مرتب کر کے نہیں دے سکا.موجودہ کارکنان کی تربیت کی ضرورت ہے بابوفیر علی صاحب نے کہا کہ محکمہ تربیت کو بڑھانا چاہیے.محکمہ تربیت کو بھی بڑھانے کی ضرورت ہے مگر موجودہ آدمیوں کی تربیت کی زیادہ ضرورت ہے اگر یہ ہو جائے تو کام خود بخو دٹھیک ہو جائے گا.الفضل“ کے معاملات الفضل کے متعلق میاں عبدالمنان صاحب نے جو کچھ کہا ہے، وہ میرے نزدیک بالکل درست ہے.نائب ناظر صاحب بیت المال مشورہ کے لئے کراچی آئے تھے ، اُس وقت بھی میں نے الفضل کے متعلق انہیں توجہ دلائی تھی کہ اس کے خرچ کی مدات درست نہیں ، آپ جائیں اور دوبارہ اس کا جائزہ لیں.مگر وہ میری بات کو سمجھے نہیں ، غالباً اس لئے کہ اُن کو تجربہ نہیں تھا.حقیقت یہ ہے کہ الفضل کے معاملہ میں بہت کچھ اُلجھنیں ڈالی گئی ہیں جن کو میں پوری طرح نیک نیتی پر محمول نہیں کرسکتا ، وہ کہتے ہیں کہ اخراجات کے سلسلہ میں ہم نے اخبار کے بارہ صفحے مدنظر رکھے

Page 358

خطابات شوری جلد سوم ۳۴۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء تھے.اب سوال یہ ہے کہ بارہ صفحات کا زائد خرچ اُنہوں نے الگ کیوں نہیں دکھایا تا کہ اگر چار صفحات زائد نہ کئے جاتے تو اتنا خرچ کا ٹا جا سکتا مثلاً ایک مدرس کی جگہ اگر دو مدرس رکھنے ہوں تو بجٹ کا کیا قاعدہ ہے.آیا یہ قاعدہ ہے کہ سو کی بجائے دوسو تنخواہ دکھا دیتے ہیں یا یہ قاعدہ ہے کہ زائد مدرس الگ دکھایا جاتا ہے.اگر اُن کے اندر نیک نیتی پائی جاتی تو اُن کو چاہیے تھا کہ اتنی رقم جو زائد خرچ ہو سکتی تھی اُس کی علیحدہ منظوری لیتے اور کہتے کہ اگر ہم نے اخبار کے بارہ صفحے کر دیئے تو اس کی اتنی کتابت اور اتنی طباعت بڑھ جائے گی اور اتنا کاغذ کا خرچ زائد ہو جائے گا ، مگر ایسا نہیں کیا گیا.بات یہ ہے کہ سمجھ لیا گیا ہے کہ یہ شور مچا کر کہ اخبار مقروض ہے ہمیں امدادل جائے گی اور اصل بات بیچ میں غائب ہو جائے گی اور اگر سستی سے ہم نے کچھ زائد خرچ بھی کر لیا تو وہ اس میں چُھپ جائے گا ، پس میرے نزدیک الفضل کا بجٹ بہت کچھ قابل اصلاح ہے میں اس بجٹ کے متعلق ایک سب کمیٹی مقرر کروں گا.تاکہ وہ چھان بین کر کے اخراجات کو کم کرے.میرے نزدیک اس کے اخراجات بہت زیادہ ہیں اور کسی صورت میں بھی وہ اخراجات اس حد تک نہیں پہنچ سکتے جس حد تک دکھائے گئے ہیں.کہہ دیا گیا ہے کہ جو زائد خرچ ہے وہ سلسلہ بطور امداد دے.مگر سوال یہ ہے کہ وہ امداد کتنی ہوگی.جو آمد بتائی گئی ہے دراصل وہ بھی زائد ہے ظاہر یہ کیا گیا ہے کہ ۷۶ ہزار روپے آمد ہوگی.مگر واقع یہ ہے کہ اگر آمد اور خرچ کو مدنظر رکھا جائے تو - ۶۳۰۰۰ روپے کی امداد ہمیں دینی پڑے گی اور تریسٹھ ہزار روپیہ اتنی بڑی رقم ہے کہ اس سے ایک کالج چلایا جا سکتا ہے.دراصل الفضل جس اصول پر چل رہا ہے وہ غلط ہے تجارتی اصول تو یہ ہوتا ہے کہ مثلاً ایک کارخانہ اگر سو چیز روزانہ بناتا ہے تو وہ جانتا ہے کہ اس پر مجھے اتنا نفع آئے گا ، فرض کرو وہ ایک روپیہ سینکڑہ نفع مقرر کرتا ہے تو یہ نفع اُس کا یقینی ہے دوسو بنائے گا تو دو روپیہ نفع مل جائے گا وہ پانچ سو بنائے گا تو پانچ روپیہ نفع مل جائے گا گویا جتنی پیداوار بڑھتی جائے اُتنا ہی نفع بڑھتا جائے گا لیکن الفضل کی موجودہ حالت کو اس طرح چیک نہیں کیا گیا بلکہ اگر اُس کی دس ہزار خریداری ہو تب بھی وہ گھاٹے میں ہی رہے گا حالانکہ کسی اخبار کے اگر تین ہزار خریدار ہوں تو نفع والا اخبار سمجھا جاتا ہے.میں نے خود ایڈیٹروں اور مینیجروں سے باتیں کی ہیں اور اُنہوں نے کہا ہے کہ تین ہزار خریدار پر اخبار

Page 359

خطابات شوری جلد سوم ۳۴۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء ضرور نفع دیتا ہے.ہمارے اخبار کے خریدار تین ہزار کے قریب قریب ہیں نفع نہ سہی تو دو تین ہزار روپیہ کا ہی گھاٹا ہو مگر ۶۳۰۰۰ روپیہ کا گھاٹا تو اتنی بڑی چیز ہے کہ دس ہزار خریدار کے بعد بھی پورا نہیں ہوسکتا جو فرق پڑے گا وہ صرف عملہ میں اور کتابت میں ہوگا باقی اخراجات اُسی نسبت سے بڑھتے چلے جائیں گے.اگر دس ہزار خریدار ہوں تو اس کے معنے یہ ہیں کہ تین لاکھ اسی ہزار روپیہ خرچ ہے اور اُنہوں نے اپنی موجودہ آمد ۶۰ ہزار روپیہ کھی ہے، ساٹھ کو سوا تین سے ضرب دیں تو سوا دو لاکھ روپیہ بن جاتا ہے.دنیا کا قاعدہ ہے کہ کارخانہ جتنا زیادہ بڑھتا چلا جاتا ہے نقصان کم ہوتا چلا جاتا ہے مگر الفضل کا یہ حال ہے کہ اس کی جتنی بکری بڑھتی جائے اتنا ہی نقصان زیادہ ہوتا جاتا ہے ، دوسرے اخبار اتنی خریداری پر پندرہ ہزار ماہوار کماتے ہیں اور ہم ایک لاکھ ۵۵۰ ہزار کا گھاٹا اُٹھاتے ہیں، اس اندازہ سے پچاس ہزار تک خریداری بڑھ جائے تب کہیں نفع کی امید ہو سکتی ہے حالانکہ ولایت میں پچاس ہزار خریداری پر ۷۰، ۸۰ ہزار روپیہ ماہوار آمدنی اخبار والوں کو ہوتی ہے.دراصل ایڈیٹر اور منیجر دونوں کا عملہ یہ سمجھ رہا ہے کہ ہم کو مفت میں تنخواہ مل جاتی ہے ہمیں محنت کرنے کی کیا ضرورت ہے میرے نزدیک کاغذ مہنگا خریدا جاتا ہے.میرے نزدیک چھپوائی میں ضرور کمی کی جاسکتی ہے میرے نزدیک سارا پرچہ فروخت نہیں ہوتا اور میرے نزدیک لکھوائی میں بھی ضرور فرق ہے میں اس کے متعلق ایک کمیٹی مقرر کروں گا جو ان تمام حالات پر غور کرے گی اور اس بات پر بھی غور کرے گی کہ موجودہ صورت میں خبریں رکھی جائیں یا نہ رکھی جائیں.موجودہ عملہ رکھا جائے یا نہ رکھا جائے.الفضل میں میرا خطبہ اور ڈائریاں اور ضروری مضامین بس اس قدر کافی ہیں اس کے لئے زیادہ ایڈیٹروں کی ضرورت نہیں صرف ایک ایڈیٹر کافی ہے ایک ڈائری نویس رکھ لیا جائے اور وہ دونوں مل کر کا پیاں اور پروف وغیرہ پڑھ لیا کریں اسی طرح مینجر اشتہارات کی بھی کوئی ضرورت نہیں جتنے اشتہارات ہوتے ہیں اُس سے زیادہ مینجر کے عملہ کا خرچ ہے.میں حیران ہوں کہ الفضل کے لئے جو رپورٹر مقرر کیا گیا ہے اُس نے میرے پاس شکایت کی ہے کہ میں انجمن سے پچاس روپیہ ماہوار چائے پلانے کے لئے مانگتا ہوں مگر انجمن -/ ۵۰ روپے چائے پلانے کے لئے مجھ کو نہیں دیتی یہ -/۵۰ روپیہ کی ماہوار چائے پلانے والا ر پورٹر ہم نے آج ہی دیکھا ہے میں نے تو دنیا میں ہر جگہ رپورٹرز کو چائے پیتے

Page 360

خطابات شوری جلد سوم ۳۴۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء ہی دیکھا ہے چائے پلاتے نہیں دیکھا لوگ کہتے ہیں کہ یہ پیالی پی لو اور اخبار میں ہمارا بھی ذکر کر دو، یہ کبھی نہیں ہوا کہ رپورٹر خود چائے پلایا کرے میں نے دوسرے ممالک بھی دیکھے ہیں میں شام بھی گیا ہوں، فلسطین بھی گیا ہوں ، مصر بھی گیا ہوں ، روم بھی گیا ہوں، انگلستان بھی گیا ہوں ان سارے ممالک میں میں نے رپورٹروں کو ہمیشہ چائے پیتے دیکھا ہے، چائے پلاتے نہیں دیکھا.ہمارے ملک میں بھی یہی ہوتا ہے کہ لوگ رپورٹروں کو چائے پر بلاتے ہیں مگر الفضل کا رپورٹر کہتا ہے کہ مجھے.۵۰۱ روپیہ ماہوار دو تا کہ میں لوگوں کو چائے پلایا کروں یہ نہایت ہی غلط طریق ہے اور اس سے اچھی ذہنیت کا مظاہرہ نہیں ہوتا میں نے دیہاتی مبلغین کو بھی دیکھا ہے کہ ان میں سے بھی بعض آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں -۳۰۰ روپیہ دلوایا جائے تا کہ ہم کرایہ دے دے کر معززین کو یہاں لاسکیں حالانکہ وہ معزز ہے کس بات کا جو تم سے کرایہ مانگنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے وہ خاک معزز ہے اُسے اگر آنے کا شوق ہے تو آپ آئے اور خود کرایہ خرچ کرے.جو شخص کرایہ کی خاطر ساتھ چل پڑتا ہے وہ تو نہایت ہی ذلیل انسان ہے پس اپنی ذہنیت کی اصلاح کرنی چاہیے اور شو (show) اور نمائش کی عادت کم کر کے صرف کام کرنا اپنے مد نظر رکھنا چاہیے.اُس کیلئے جن چیزوں کی اشد ضرورت ہو وہ دی جاسکتی ہیں مثلاً اُس نے سائیکل مانگا جس پر میں نے انجمن کو لکھا کہ اسے سائیکل ضرور لے دو مگر میری سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ وہ اخبار کا ر پورٹر ہے سمجھدار اور لکھا پڑھا آدمی ہے مگر کہتا ہے کہ مجھے چائے پلانے کے لئے-/۵۰ روپے ماہوار دیئے جائیں میں اُسے کہتا ہوں تیرا کام ہے کہ تو چائے پی تیرا یہ کا م نہیں کہ تو لوگوں کو چائے پلائے ، بہر حال الفضل کے لئے ایک کمیٹی مقرر کی جائے گی اور وہ رپورٹ کرے گی کہ الفضل کا کام تجارتی اصولوں پر کس طرح چلایا جائے یا تو اُسے خالص مذہبی پر چہ بنا دیا جائے اور خبریں اُڑا دی جائیں اس طرح پندرہ سولہ ہزار روپیہ بچ جائے گا کاغذ میں بھی پندرہ ہیں ہزار روپیہ بیچ سکتا ہے بلکہ میں سمجھتا ہوں اگر سختی سے نگرانی کی جائے تو کئی اور اخراجات بھی کم کئے جاسکتے ہیں.سیکر ٹریان زکوۃ مقرر کرنے کی تحریک میاں عطاء اللہ صاحب نے کہا ہے کہ سیکرٹری زکوۃ ہر جماعت میں مقرر ہونے چاہیں.یہ کہنا کہ سیکرٹری زکواۃ کے تقریر کی وجہ سے خرچ بڑھ جائے گا غلطی ہے اس سے خرچ

Page 361

خطابات شوری جلد سوم ۳۴۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء بڑھے گا نہیں بلکہ زکوۃ کی وصولی سے جو آمدن ہوگی وہ سلسلہ کے لئے بہت مفید ہوگی.میں سمجھتا ہوں کہ یہ سکیم بڑی اچھی ہے اور میں حیران ہوں کہ سب کمیٹی نے اس کو کیوں رڈ کر دیا.زکوۃ کی وصولی کے لئے ہر جماعت میں سیکرٹری زکوۃ مقرر کرنے چاہئیں بلکہ زکوۃ کی ادائیگی چونکہ عورتوں کے لئے بھی ضروری ہے اور زکوۃ کے معاملہ میں عورتیں بالعموم کوتا ہی سے کام لیا کرتی ہیں اس لئے میرے نزدیک لجنہ اماء اللہ کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ ہر جگہ ایک عورت کو سیکرٹری زکوۃ مقرر کرے.یہ جو کہا گیا ہے کہ ہر جگہ پڑھے لکھے آدمی نہیں مل سکتے اس لئے سیکرٹری زکوۃ مقرر کرنے میں دقت ہوگی اس کا جواب یہ ہے کہ کیا پہلی جماعتوں میں ایک ایک آدمی کے سپر د تین تین عہدے نہیں ہوا کرتے آخر تین عہدے ایک آدمی کے سپر د کیوں کئے جاتے ہیں اسی لئے کہ اُن عہدوں کے لئے الگ الگ موزوں آدمی نہیں ملتا.اگر ایک شخص کو تین عہدے دیئے جاسکتے ہیں تو اُس کو چار عہدے بھی دیئے جا سکتے ہیں تم اُس کا نام سیکرٹری تعلیم و تربیت بھی رکھ لو، اُس کو سیکرٹری مال بھی کہہ لو، اُس کو سیکرٹری امور عامہ بھی کہہ لو اور اُس کا نام سیکرٹری زکوۃ بھی رکھ دو اس میں کون سی وقت ہے میرے نزدیک ایسا ضرور ہونا چاہیے جہاں الگ الگ سیکرٹری زکوۃ مقرر کئے جاسکیں وہاں الگ الگ سیکرٹری زکوۃ مقرر کئے جائیں اور جہاں موزوں آدمیوں کی قلت کی وجہ سے الگ الگ سیکرٹری زکوۃ مقرر نہ کئے جاسکیں وہاں یہی کام کسی اور عہد یدار کے سپر د کر دیا جائے اور اُسے بھی سیکرٹری زکوۃ کا نام دے دیا جائے.بچوں کی تعلیم کے سلسلہ کو جاری رکھنے کی تحریک کالج کے لڑکوں کے متعلق پرنسپل صاحب نے شکایت کی ہے کہ اڑھائی سو سے سولر کا رہ گیا ہے.میں نہایت ہی افسوس کے ساتھ جماعت کو اس بارہ میں ملامت کرتا ہوں ، مصائب تو آتے ہی رہتے ہیں لیکن مصیبت کے وقت آئندہ نسل کو قربان کر دینے کے کیا معنی ہیں پھر ڈیڑھ سو میں سے بہت سے لڑکے ایسے ہیں جو اپنی اپنی جگہ کالجوں میں داخل ہو کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ماں باپ کو جس ہی نہیں کہ وہ اپنا روپیہ غیروں کو دے رہے ہیں اور سلسلہ پر بار بڑھ رہا ہے ، جب کالج میں لڑکے کم ہوں گے تو یہ لازمی بات ہے کہ آمدن پوری نہیں ہوگی اور جب آمدن پوری نہیں ہوگی تو ہمیں

Page 362

خطابات شوری جلد سوم وہ ۳۴۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء اپنے چندوں میں سے روپیہ دینا پڑے گا مگر جو شخص سلسلے کا وہ روپیہ بھی نہیں دے سکتا جو وہ غیروں کو دے رہا ہے اور جو بڑی آسانی سے وہ سلسلے کو دے سکتا ہے ، اُس سے یہ کیونکر توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ کالج کے لئے زائد اخراجات اپنے اوپر ڈالنے کے لئے تیار ہو جائے گا.پس میرے نزدیک یہ بہت بڑا جرم کیا گیا ہے اور جنہوں نے لڑکوں کی تعلیم ختم کرائی ہے اُنہوں نے تو اور بھی جرم کیا ہے ہم تو چاہتے ہیں کہ ہمارا ہر فرد مولوی فاضل ہو، وکیل ہو، ڈاکٹر ہو ، انجینئر ہو اور کسی نہ کسی اہم مقام پر فائز ہو.مشرقی پنجاب کے فسادات کی وجہ سے اگر کچھ عرصہ تعلیم چھوٹی بھی تھی تو اگر ہماری جماعت کی آنکھیں کھلی ہوتیں تو اُس کا فرض تھا کہ وہ تعلیمی لحاظ سے اور بھی اونچی ہو جاتی.اور ان مظالم کے ازالے کا طریق یہی تھا کہ ہ پہلے سے زیادہ بہتر مسلمان دنیا میں پیدا کرتی.آخر یہ کیا طریق ہے کہ چونکہ ہماری جائدادیں تباہ ہوگئی ہیں اس لئے ہم اپنے لڑکوں کو نہیں پڑھائیں گے.اگر تم اپنے لڑکوں کو نہیں پڑھاؤ گے تو تمہارے اندر جہالت زیادہ ہوگی اور تم پہلے سے بھی ادنیٰ حالت میں گر جاؤ گے تم کو چاہیے تھا کہ جولڑ کا تعلیم کے قابل تھا اُسے مجبور کرتے کہ وہ تعلیم حاصل کرے اور اگر وہ ایسا نہ کرتا تو اُس سے قطع تعلق کر لیتے.پس جن لوگوں نے تعلیم میں حصہ نہیں لیا اور اس بارہ میں اُنہوں نے غفلت کی ہے، میں اُن پر افسوس کا اظہار کرتا ہوں اور میں اُمید کرتا ہوں کہ اب جو نیا سال آرہا ہے اُس میں وہ زیادہ سے زیادہ اپنے لڑکوں کو تعلیم کے لئے بھجوائیں گے.سکول کا بھی یہی حال ہے ، ۱۲۰۰ لڑکا تھا مگر اب وہاں ۲۷۵ کے قریب لڑکے ہیں گویا ۰۷۵الڑکا احمدیہ تربیت سے محروم ہو چکا ہے اور ۱۰۷۵ کی فیس اس وقت غیروں کے پاس جارہی ہے اگر ہمارے پاس آتی تو کمی پوری ہو جاتی.پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے اندر نیک تبدیلی پیدا کر کے آئندہ نسل کی تعلیم کے سلسلہ کو جاری رکھیں بلکہ میرے نزدیک اگر ایک نسل اپنے لڑکوں کی تعلیم کی خاطر فاقے کر کر کے مر بھی جائے تو یہ زیادہ بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ اپنے لڑکوں کو تعلیم سے بے بہرہ رکھا جائے یہ تو سوال ہی نہیں کہ ہمارا کیا حال ہو گا.قربانیوں کا پھل کبھی رائیگاں نہیں جاتا مثل مشہور ہے کہ ایک بڑھا ایک ایسا درخت لگا رہا تھا جس کا پھل دس سال

Page 363

خطابات شوری جلد سوم ۳۴۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء کے بعد ہونا تھا وہ ابھی درخت لگا ہی رہا تھا کہ بادشاہ قریب سے گزرا اور اُس نے بڑھے کو وہ درخت لگاتے دیکھ کر کہا ،میاں بڑھے معلوم ہوتا ہے کہ تمہاری عقل ماری گئی ہے ، تم ۸۰۰۷۰ سال کی عمر کو پہنچ چکے ہو اور درخت وہ لگا رہے ہو جو پھل اُس وقت دے گا جب تم مرچکے ہو گے.بوڑھے نے کہا آپ نے یہ کیا بات کہی ہے اگر ہمارے باپ دادا بھی یہی سوچتے تو آپ اور ہم کہاں سے پھل کھاتے ، انہوں نے درخت لگائے اور ہم نے پھل کھائے.اب ہم درخت لگائیں گے اور ہماری آئندہ نسلیں پھل کھا ئیں گی.بادشاہ نے یہ بات سنی تو بے اختیار اس کی زبان سے نکلا زہ ، یعنی کیا ہی اچھی بات کہی ہے.اور بادشاہ کا حکم تھا کہ جب میں کسی کی بات پر زہ“ کہوں تو اُسے فوراً تین ہزار دینار انعام کے طور پر دے دیا جایا کرے.جب بادشاہ نے زہ" کہا تو وزیر نے فوراً ایک تھیلی تین ہزار دینار کی بڑھے کے سامنے رکھ دی.بڑھا اُس تھیلی کو دیکھ کر کہنے لگا بادشاہ سلامت آپ تو کہتے تھے کہ تو اس درخت کا پھل کس طرح کھائے گا ، دیکھئے لوگ درخت لگاتے ہیں تو کئی کئی سال کے بعد اُس کا پھل کھاتے ہیں مگر میں نے تو درخت لگاتے لگاتے اُس کا پھل کھا لیا، بادشاہ نے کہا’زہ اس پر وزیر نے جھٹ دوسری تھیلی بڑھے کے سامنے رکھ دی، بڑھا ہوشیار آدمی تھا اُس نے دوسری تحصیلی دیکھی تو پھر بادشاہ کی طرف متوجہ ہوا اور اُس نے کہا، بادشاہ سلامت آپ تو کہتے تھے کہ تو اس درخت کا پھل کس طرح کھائے گا ، دیکھئے اور لوگ تو جب درخت بڑا ہو اور پھل دینے لگے تو سال میں صرف ایک دفعہ اس کا پھل کھاتے ہیں مگر میں نے تو ایک گھنٹہ میں اس کا دو دفعہ پھل کھا لیا.بادشاہ نے کہا ”زہ اور وزیر نے جھٹ تیسری تحصیلی بھی بڑھے کے سامنے رکھ دی اُس پر بادشاہ اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا جلدی یہاں سے چلو ورنہ بڑھا تو ہمیں لوٹ لے گا.یہ ہے تو ایک لطیفہ لیکن اس میں ایک بہت بڑی حقیقت مخفی ہے اور وہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ہر قربانی کا پھل قربانی کرنے والا ہی کھائے دیکھو ابراہیم نے کتنی بڑی قربانی کی مگر کیا اُس کا پھل ابراہیم نے کھایا ، کیا اُس کا پھل اسماعیل نے کھایا ، کیا اُس کا پھل اسماعیل کے بیٹے نے کھایا ، کیا اُس کے بیٹے کے بیٹے نے اُس کا پھل کھایا.تاریخ بتاتی ہے کہ سالوں کے بعد سال گزرتے چلے گئے نسلوں کے بعد نسلیں پیدا ہوئیں اور فنا ہوئیں مگر اُنہوں نے ابراہیم کی

Page 364

خطابات شوری جلد سو ۳۴۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء قربانی سے کوئی فائدہ نہ اُٹھایا.آخر ایک مدت دراز کے بعد معمولی مدت نہیں بلکہ ۲۴۰۰ سال کے بعد جب کہ ابرہیم کی اولا د ایمان کو بھول چکی تھی ، جب وہ ابراہیم“ اور اسماعیل کی خصوصیتوں کو فراموش کر چکی تھی ، ابراہیم نے وہ پھل نہیں کھایا اسماعیل نے وہ پھل نہیں کھایا، اگر پھل کھایا تو ابو جہل کے بیٹے نے کھایا ، ولید کے بیٹے نے کھایا ،عاص کے بیٹے نے کھایا اسی طرح ابراہیم سے ہوتے ہوتے ہزاروں ہزار نہیں لاکھوں لاکھ انسانوں نے کھایا ، ولید جیسا شدید دشمن جو رات اور دن اسلام کے خلاف منصوبے کرتا رہتا تھا اُس کے بیٹے خالد نے اسلام قبول کر کے دنیا میں ایسی عزت حاصل کی کہ آج دنیا کے کناروں تک اُس کا نام عزت اور احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے ، غرض ولید کے بیٹے نے بھی وہ پھل کھایا ، عاص کے بیٹے نے بھی وہ پھل کھا لیا یہاں تک کہ وہ شدید دشمن جس کی ساری زندگی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب میں لگی ہوئی تھی اور جس کی ساری کوششیں اسلام کی تخریب کے لئے خرچ ہوتی تھیں اُس نے بھی وہ پھل کھایا اور ایسا کھایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں نظر آیا کہ فرشتے جنت کے انگور کا ایک خوشہ لائے ہیں اور آپ پوچھتے ہیں یہ جنتی انگور کا خوشہ تم کس کے لئے لائے ہو ، انہوں نے جواب دیا ابو جہل کے لئے ، آپ فرماتے ہیں میں یہ سن کر کہ ابو جہل کے لئے جنت کے انگوروں کا خوشہ آ رہا ہے، کانپا اور میری آنکھ کھل گئی.جب ابو جہل کا بیٹا عکرمہ مسلمان ہوا تب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا خواب پورا ہو گیا.ابو جہل کے لئے جو خوشہ آیا تھا وہ عکرمہ نے کھا لیا اس میں وہی حقیقت بیان کی گئی ہے جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ جنت سے ابو جہل کے لئے انگور کا خوشہ لایا گیا ہے اور جنت سے کیا مراد تھی، اس جنت سے یقیناً محمدی باغ مراد تھا اور یہی محمدی باغ تھا جس کا پھل ابو جہل نے کھایا مگر خود ابراہیم نے اس کا پھل نہیں کھایا ، خود اسماعیل نے جس کی ساری زندگی قربانیوں میں گزری اس کا پھل نہیں کھایا.پس کیوں خیال کرتے ہو کہ تمہاری قربانیوں کا آج نتیجہ نکلتا ہے یا نہیں.اگر تمہاری نسل کسی وقت بھی تمہاری قربانیوں سے فائدہ اُٹھالے، اگر تمہارے ہمسائے کی نسل کسی وقت بھی تمہاری قربانیوں سے فائدہ اُٹھالے بلکہ ہمسائے کی نسل کو جانے دو، اگر تمہاری قربانیوں سے کسی وقت تمہارے دشمن کی نسل فائدہ اُٹھالے تو یقیناً تمہاری قربانیوں کا پھل تمہیں

Page 365

خطابات شوری جلد سوم ۳۴۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء مل گیا کیونکہ خواہ وہ تمہارا دشمن تھا وہ خدا کا بندہ تھا تم کیوں اُس کو دشمن کی نسل کی نگاہ سے دیکھتے ہو تم کیوں اُس کو پوتے یا پڑپوتے کی نسل کی نگاہ سے دیکھتے ہو تم اس نقطہ نگاہ سے دیکھو کہ وہ خدا کا ایک پیدا کردہ بندہ ہے پس قربانیوں سے تم اس لئے مت ڈرو کہ تم آج اُس کا پھل نہیں کھا سکو گے.تم قربانیاں کرو اور کرتے چلے جاؤ.، ہم بچپن میں ایک کہانی سنا کرتے تھے جس میں یہ ایک فقرہ آتا تھا کہ ” نیکی کر اور دریا میں ڈال.ہزاروں ہزار نیکیاں دنیا میں ایسی نظر آتی ہیں جو نیکیوں کی سرتاج ہوتی ہیں بظاہر انسان اُن نیکیوں میں حصہ لیتا ہے جو چوٹی کی نیکیاں کہلاتی ہیں مگر اُن کے نتیجے میں نہ انسان کی جیب میں کوئی پیسہ آتا ہے نہ اُس کی بہنوں کے کان میں یا ناک میں کوئی زیور پڑتا ہے نہ اُس کے لڑکے کے تن کو کپڑے میسر آتے ہیں ، وہ دریا میں پھینکی جاتی ہیں ، وہ بظاہر ضائع اور برباد نظر آتی ہیں حالانکہ وہ اُن نیکیوں سے ہزار ہا گنا بڑی ہوتی ہیں جو تن کو ڈھانپتی اور پیٹ کو بھرتی ہیں پس اگر تم ایسا کرو گے تو دنیا کی طبائع تمہاری طرف خود بخود کھنچی چلی آئیں گی اور تم جنت اور دوزخ کو اپنے بالکل قریب دیکھو گے جیسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت اور دوزخ کو اپنے قریب دیکھا.آپ ایک دفعہ نماز پڑھا رہے تھے کہ آپ پیچھے ہٹے اور پھر آگے بڑھے، نماز کے بعد صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ ! نماز میں پیچھے کیوں ہٹے تھے اور پھر آگے کیوں بڑھے ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، نماز میں دوزخ میرے قریب کی گئی اور میں پیچھے ہٹا پھر جنت میرے قریب کی گئی اور میں اُس کی طرف آگے بڑھا.بندہ کی پیدائش کا مقصد خدا کا مثل بننا ہے تم بھی اپنی زندگیاں اس طرح سنوارو کہ تمہارے لئے مستقبل اور غائب کوئی چیز نہ رہے، جنت اور دوزخ دونوں غائب ہیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دونوں چیزیں اسی دنیا میں دکھا دی گئیں اور یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی خصوصیت نہیں ، بندہ اسی لئے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ خدا کا مثیل بنے اور خدا کے لئے ماضی اور مستقبل کوئی چیز نہیں ہر چیز اُس کے سامنے ہے خواہ وہ ماضی کے ساتھ تعلق رکھتی ہو یا ہمارے نقطہ نگاہ سے مستقبل سے تعلق رکھتی ہو میں اس کی مثال ہمیشہ اس رنگ میں دیا کرتا ہوں کہ ایک بہت بڑا چکر ہے اور اُس چکر کے وسط میں ایک گھوڑا کھڑا ہے چاروں طرف لوگ جمع ہیں اور

Page 366

خطابات شوری جلد سوم ۳۵۰ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء گھوڑ دوڑ کے میدان کی طرح ایک نظارہ نظر آرہا ہے اُس وقت جب گھوڑا دائرہ کے اندر دوڑے گا تو کچھ لوگ کہیں گے گھوڑا آگیا کچھ لوگ کہیں گے گھوڑا آ رہا ہے ، کچھ لوگ کہیں گے گھوڑا جاچکا ہے مگر جو دائرہ کے وسط میں کھڑا ہوگا اُس کے نزدیک گھوڑے کی سب حالتیں یکساں ہوں گی جب لوگ کہہ رہے ہوں گے گھوڑا آ رہا ہے اُس وقت بھی وہ اُس کے ساتھ ہوگا، جب لوگ کہہ رہے ہوں گے گھوڑا آ گیا اُس وقت بھی وہ اُس کے ساتھ ہوگا جب لوگ کہہ رہے ہوں گے گھوڑا جا چکا تو اُس وقت بھی وہ اُس کے ساتھ ہوگا.یہی طریق اس دنیا میں جاری ہے ، آدم آیا تو لوگوں نے کہا وہ آیا وہ آیا ، آدم اُن کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا وہ آگیا وہ آ گیا ، آدم چلا گیا تو انہوں نے کہا وہ گیا وہ گیا.نوح آیا تو لوگوں نے کہا وہ آ رہا ہے، نوح اُن کے قریب پہنچا تو انہوں نے کہا وہ آ گیا.نوح آگے گیا تو انہوں نے کہا وہ چلا گیا.گھوڑ دوڑ کے میدان کی طرح چاروں طرف لوگ قطار باندھے کھڑے ہوں لیکن اُس دائرہ کے عین وسط میں ایک ہستی کھڑی ہوئی ہو جو چاروں طرف دیکھ رہی ہو اُس کی آنکھیں دائیں بھی دیکھتی ہیں اور بائیں بھی آگے بھی دیکھتی ہیں اور پیچھے بھی اس کے لئے نہ ماضی ماضی ہے نہ مستقبل مستقبل.آدم کے وقت لوگوں نے کہا وہ آیا وہ آیا ، وہ گیا وہ گیا.پھر نوح آئے تو لوگوں نے کہا وہ آرہے ہیں وہ آرہے ہیں وہ چلے گئے ہیں وہ.ہیں وہ چلے گئے ہیں ، ابراہیم کا وقت آیا تو لوگوں نے چلا کر کہا وہ آ گیا وہ آ گیا ، وہ پہنچ گیا وہ پہنچ گیا ، وہ چلا گیا وہ چلا گیا.مگر جو بیچ میں کھڑا تھا اُس کے لئے نہ کوئی گیا اور نہ کوئی پہنچا ، اُس کے لئے کوئی جگہ نہیں بدلی کیونکہ گھوڑا اگر یہاں تھا تب وہ سامنے تھا اگر وہاں تھا تب بھی وہ سامنے تھا، اُس کے لئے کوئی جگہ نہیں بدلی اُس کے لئے کوئی مقام تبدیل نہیں ہوا.یہی حال اس عالم دنیوی میں مبعوث ہونے والے انبیاء اور رسل کا ہے ، دائرہ کے وسط میں کھڑا ہونے والا ہمارا خدا ہے اور اس دائرہ کے اندر چکر کاٹنے والے اللہ تعالیٰ کے انبیاء ہیں اور زمانہ کے لوگ کبھی اس کو آتے ہوئے دیکھتے ہیں اور کبھی اس کو جاتے ہوئے دیکھتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کی ہستی ایسی ہے کہ نہ اُس کے لئے ماضی ماضی ہے نہ مستقبل مستقبل ، ہمیں کہا گیا ہے کہ تم خدا کی طرح ہو اس لئے ہمیں بھی بھول جانا پڑے گا کہ ماضی کیا ہے اور مستقبل کیا ہے، ہمارے دماغوں میں اتنی روشنی ہونی چاہیے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو ماضی میں گزر

Page 367

خطابات شوری جلد سوم ۳۵۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء چکے ہیں وہ ہمارے لئے زمانہ ماضی میں نہ ہوں بلکہ وہ ہمارے سامنے کھڑے ہوں اسی طرح ہمیں بھول جانا چاہیے کہ ہمارا مستقبل کیا ہے بلکہ ہزاروں سال کے بعد بھی اگر ایک شخص پیدا ہوتا ہے اور اس لحاظ سے خواہ ہمارا اُس کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہو ، خدا کا عبد ہونے کے لحاظ سے ہمیں اُس کے ساتھ اتنی ہی دلچسپی ہونی چاہیے جتنی آج کے بچہ سے.ہم کس طرح خدا کے عبد کہلا سکتے ہیں اگر ہم خدا کی طرح نہیں، اگر ہم ہزاروں ہزار اور لاکھوں لاکھ سال کے بعد پیدا ہونے والے سے بھی اسی طرح اپنی دلچسپی کا اظہار نہیں کرتے جس طرح آج کے لوگوں سے دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں.پس اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو اور پھر دیکھو کے خدا تم سے کیسا معاملہ کرتا ہے.پھر تمہارے ساتھ ایسا معاملہ ہو گا کہ تم بازیچۂ اطفال نہیں بنو گے“." حضور نے سلسلہ تقریر جاری رکھتے ہوئے فرمایا : ہماری جماعت ایک تنظیمی جماعت ہے ہم تنظیم کے ساتھ اکٹھے رہنے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے لیکن اب چھ ماہ گذر چکے ہیں کہ ہماری تنظیم کا شیرازہ بکھر چکا ہے.ہماری مثال بالکل اس شخص کی طرح ہے جو انیس سو سال پہلے خدا کی طرف سے ایک شمع ہدایت لے کر آیا تھا اس نے بنی نوع انسان کی ہمدردی میں دن رات ایک کر دیا لیکن دنیا نے اس کے ساتھ ایسا سلوک کیا کہ اسے کہنا پڑا کہ جنگل کے درندوں کے لئے بھٹ اور پرندوں کے لئے گھونسلے ہیں لیکن ابن آدم کے لئے سر چھپانے کی جگہ نہیں.ہم نے بہت کوشش کی کہ جب تک ہمیں قادیان نہیں ملتا ہمیں مرکز کے لئے جگہ مل جائے لیکن اب تک نہیں مل سکی.بہر حال ہم کوشش کر رہے ہیں جب اللہ تعالیٰ چاہے گا جگہ مل جائے گی.جو احباب مرکز میں آباد ہونا چاہتے ہیں انہیں چاہئے کہ امور عامہ میں ابھی سے اپنے نام لکھوادیں تا کہ وقت آنے پر ہم ان کے لئے زمین وغیرہ کا انتظام کر سکیں“.اس ضمن میں حضور نے اعلان فرمایا کہ انڈین یونین کے سوا باقی تمام ممالک کے احمد یہ مراکز پاکستان کے مرکز کے ماتحت رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے.آخر میں حضور نے فرمایا : - اب ایسے حالات پیدا ہورہے ہیں کہ ہماری جماعت کو صرف چندوں پر اکتفا ہی نہیں کرنا ہوگا بلکہ جانی قربانی بھی دینی پڑے گی.پس اب احباب کو جانی قربانی کے لئے ہر وقت تیار رہنا چاہئے ،تبلیغ پر خاص زور دیا جائے اور نمازوں کو وقت پر باجماعت ادا کرنے کی سختی کے

Page 368

خطابات شوری جلد سوم ۳۵۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء ساتھ پابندی کی عادت ڈالنی چاہئیے.“ عظیم الشان تاریخی عہد اس مجلس مشاورت کا ایک اہم ترین واقعہ وہ عہد ہے جو حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے نہ صرف مجلس مشاورت کے تمام نمائندگان سے بلکہ تمام حاضر الوقت احمدی احباب سے لیا اور ارشاد فرمایا کہ جب تک ہمیں قادیان واپس نہیں مل جاتا جماعت کے ہر فرد کو یہ عہد کرنا چاہیے کہ : - میں خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے قادیان کو احمد یہ جماعت کا مرکز مقرر فرمایا ہے میں اُس کے اس حکم کو پورا کرنے کے لئے ہر قسم کی کوشش اور جدو جہد کرتا رہوں گا اور اس مقصد کو کبھی بھی اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دوں گا اور میں اپنے نفس کو اور اپنے بیوی بچوں کو اور اگر خدا کی مشیت یہی ہو تو اولاد کی اولاد کو ہمیشہ اس بات کے لئے تیار کرتا رہوں گا کہ وہ قادیان کے حصول کے لئے ہر چھوٹی اور بڑی قربانی کرنے کے لئے تیار رہیں اے خدا! مجھے اس عہد پر قائم رہنے اور اس کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرما.اللَّهُمَّ مِينَ “ 66 (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء.از دفتر پرائیویٹ سیکرٹری ربوہ ) الانعام : ١٦٣ المؤمنون :٣ النزعت :٣٢

Page 369

خطابات شوری جلد سو ۳۵۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۹ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ مجلس مشاورت ۱۹۴۹ء منعقدہ ۱۵./اپریل ۱۹۴۹ء.بعد نماز عشاء تارات ۱۲ بجے بمقام ربوہ ) پہلا دن ۶،۱۵ اراپریل ۱۹۴۹ء کی درمیانی شب نماز عشاء تا رات ۱۲ بجے زنانہ جلسہ گاہ ربوہ میں دعا مجلس مشاورت کا اجلاس منعقد ہوا.تلاوت قرآن کریم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے کی.اس کے بعد حضور نے اپنے کلمات طیبات سے اس اجلاس کا افتتاح کرتے ہوئے دُعا سے متعلق فرمایا: - آؤ ہم اپنے بجٹ پر غور کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں وہ ہمارے اندر حقیقی انقلاب پیدا کر دے.جلسہ کی کارروائی شروع کرنے سے پہلے جیسا کہ ہمارا طریق ہے میں دوستوں کے ساتھ مل کر دُعا کرنا چاہتا ہوں اور اُنہیں اِس بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ یہ ایام دعاؤں کے اور بھی زیادہ حقدار ہیں اور اُن کا ہم سے تقاضا کرتے ہیں.بعض جماعتیں ایسی ہوتی ہیں جو روپے والی ہوتی ہیں.اگر اُن کے افراد اپنی طاقت سے بہت کم چندہ دیں تب بھی اُن کے پاس اس بات کی گنجائش ہوتی ہے کہ ضرورت پر امراء خاص سے عطیہ لے کر اپنی حاجات کو پورا کر لیں لیکن ہماری جماعت غریبوں کی جماعت ہے.اکثر مخلصین اپنی حیثیت کے مطابق با قاعدہ چندہ دیتے ہیں اور جومخلصین نہیں اُن سے کسی قسم کی اپیل یا خواہش ہونا صدا بصحراء ہوتا ہے.پس جو دینے والے ہیں وہ پیسے ہی دیتے ہیں اور جو دینے والے نہیں اُن سے زیادہ مانگو تو بھی اور کم مانگو تو بھی وہ نہ دیتے ہیں اور نہ اس طرف متوجہ ہوتے ہیں.اُن کی مثال

Page 370

۳۵۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۹ء خطابات شوری جلد سوم در حقیقت اُس روایتی گتے کی سی ہوتی ہے جس کا قرآن کریم میں ان الفاظ میں ذکر آتا ہے کہ اگر اُس پر پتھر اٹھاؤ تب بھی وہ اپنی زبان نکال کر ہانپتا ہے اور اگر نہ اٹھاؤ تب بھی ہانپتا ہے.بہر حال وہ ایک مصیبت میں مبتلا رہتا ہے اسی طرح ایسے لوگوں سے چندہ مانگو تو بھی اور نہ مانگو تو بھی وہ اپنی حالت پر قائم رہتے ہیں اور کسی قسم کا تغیر پیدا کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے.ہماری جماعت آجکل جس قسم کے مصائب میں سے گزر رہی ہے وہ دوسروں سے بالکل مختلف ہیں اُن میں مقابلہ کی طاقت ہوتی ہے کیونکہ اُن کے بجٹ کی بنیاد حقیقی بنیاد پر نہیں بلکہ آمد کے سینکڑویں حصہ پر ہوتی ہے لیکن ہمارا بجٹ آمد کے متعدیہ حصہ پر ہوتا ہے پس ہمیں اگر اپنا بجٹ بڑھانے کی ضرورت پیش آئے تو اس کے لئے بہت بڑے حوصلہ اور ایمان کی ضرورت ہوتی ہے اور ایمان کی زیادتی انسان کے اپنے اختیار میں نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہوتی ہے.ایک شخص جو ہزار دو ہزار روپیہ ماہوار کماتا ہے مگر چندہ صرف دو چار روپے دیتا ہے اُس سے اگر ہم دس بیس روپے لینا چاہیں تو صرف اُس کے قومی جذبات کو ابھار دینا کافی ہوگا اس کے لئے یہ ضرورت نہیں ہوگی کہ اُس کے ایمان کو بڑھانے کی کوشش کی جائے لیکن جو شخص پہلے ہی دس پندرہ فیصدی چندہ ادا کر رہا ہے اُس سے اگر ہم اس سے بھی زیادہ چندے کا مطالبہ کرتے ہیں تو اس کو پورا کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہوتی صرف خدا ہی ہے جو انسان کو ایسی قربانیوں پر آمادہ کر سکتا ہے پس آؤ ہم اپنے بجٹ پر غور کرنے سے پہلے اپنے رب کے سامنے جھکیں اور اس سے دعا کریں کیونکہ دلوں کا مالک وہی ہے اور قلوب کی تبدیلی اس کے اختیار میں ہے.یوں بھی ہماری جماعت دنیا میں ایمان قائم کرنے کے لئے کھڑی ہوئی ہے اور ایمان ہی اُس کی حقیقی دولت ہے پس اس وقت سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ وہ ہمارے اندر ایسا ایمان پیدا کرے جس سے ہماری کشتی بھنور میں سے نکل جائے اور سلامتی کے ساتھ کنارے پر پہنچ جائے.افتتاحی تقریر تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: -

Page 371

خطابات شوری جلد سوم ۳۵۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۹ء شوری کی کارروائی شروع کرنے سے پہلے میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اس سال کے مخصوص حالات کے ماتحت مجلس شوریٰ جلسہ سالانہ کے ایام میں ہی منعقد کی جا رہی ہے اس وجہ سے شوری کے لئے کافی وقت نہیں نکالا جا سکتا پھر اس لئے بھی شوری کی کارروائی کو مختصر کرنے کی ضرورت ہے کہ لمبا وقت صرف کرنا کام کرنے والوں پر اتنا بوجھ ڈال دے گا کہ مہمانوں کے لئے کھانا تیار کرنے اور اسی طرح دوسرے کام سرانجام دینے کے لئے وہ وقت نہیں نکال سکیں گے اس لئے اس سال ان ضرورتوں کے ماتحت مختصر سے مختصر وقت میں کارروائی ختم کر دی جائے گی.قادیان کی حفاظت کیلئے رقم ریز رور کھنے کی ضرورت ہمارا بجٹ مدتوں سے بنتا چلا آ رہا ہے اور اس لحاظ سے موجودہ سال کے بجٹ میں کوئی خصوصیت نہیں وہی چیزیں ہیں جو بار بار دہرائی جاتی ہیں خصوصیت اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب آمد بڑھ جائے اور نئے محکمے بنانے پڑیں مگر ایک عرصہ سے نئے محکمے نہیں بنائے جا رہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم نئے محکمے بنا ئیں مگر اس کا یہ موقع نہیں ابھی ضرورت ہے کہ ہم اُس بڑے صدمے سے آزاد ہونے کی کوشش کریں جو قادیان چھوڑنے کی وجہ سے ہمیں پہنچا ہے قادیان چھوڑنے کی وجہ سے سلسلہ کی بہت سے جائیدادیں ضائع ہو گئیں اسی طرح لاکھوں ا لاکھ روپیہ جو رہن شدہ مکانوں پر لگا ہوا تھا وہ بھی ختم ہو گیا پھر کام چلانے کے لئے جن مکانات کی ضرورت تھی وہ بھی نہ رہے اب ربوہ میں ہم نے پھر اپنی ترقی کے لئے ایک متحدہ کوشش کرنی ہے اور سلسلہ کے لئے عمارتیں وغیرہ بنانی ہیں جن پر دس بارہ لاکھ روپیہ صرف ہو جائے گا پھر قادیان کی حفاظت کا کام بھی مستقل طور پر جاری ہے اور اس کے متعلق ہم اپنی جدو جہد اور کوششوں کو ڈھیلا نہیں کر سکتے.میں نے گزشتہ ایام میں ایک خطبہ اِس موضوع پر دیا ہے اور میں نے نظارت بیت المال کو توجہ دلائی تھی کہ اسے چھاپ کر تمام جماعتوں میں بھیجوا دیا جائے مگر غالباً ابھی تک اسے علیحدہ شائع نہیں کیا گیا یہ اس قسم کا جذباتی سوال ہے کہ میرے نزدیک بعض حقیقی ضرورتوں سے بھی اسے مقدم سمجھنا چاہیئے.

Page 372

خطابات شوری جلد سوم ۳۵۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۹ء جب قادیان کی حفاظت کا سوال پیدا ہوا تو اُس وقت میں نے دوستوں سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنی جائیدادوں کی قیمت کا ایک فیصدی یا ایک مہینہ کی آمد اس غرض کے لئے دے دیں میرے اس مطالبہ پر ساڑھے تیرہ لاکھ روپیہ کے وعدے آ گئے حالانکہ ابھی کئی جماعتیں ایسی تھیں جنہوں نے کوئی وعدہ نہیں بھیجوایا تھا اِس ساڑھے تیرہ لاکھ روپیہ میں سے سات لاکھ کے قریب وصولی ہوگئی جو قریباً سب کا سب خرچ ہو چکا ہے اب صرف آٹھ نو ہزار روپیہ اس مد میں باقی ہے لیکن اس کام پر جیسا کہ میں نے خطبہ میں بھی بیان کیا ہے پندرہ سولہ ہزار روپیہ ماہوار خرچ آ رہا ہے اگر ہم یہ روپیہ خرچ نہ کریں تو قادیان کی حفاظت کسی صورت میں بھی نہیں کر سکتے.اگر وہ لوگ جنہوں نے ابھی تک چندے ادا نہیں کئے ادا کر دیں تو ایک دو سال تک ہمارا گزارہ ہو جائے گا اور کسی نئی تحریک کی ضرورت پیدا نہیں ہوگی اوّل تو ایک دو سال تک اس قسم کی سہولتیں انشاء اللہ پیدا ہو جائیں گی کہ ہمارا خرچ کم ہو جائے گا اور اُتنا نہیں رہے گا جتنا اس وقت ہے دوسرے ہندوستان کی جماعتوں کی جو تنظیم ہم کر رہے ہیں اُس کے نتیجہ میں بھی وہاں کی جماتیں بہت سا بوجھ اُٹھا لیں گی مگر جب تک وہ وقت نہ آئے ایک بھاری رقم اس غرض کے لئے ہمیں ریزرو رکھنی چاہئے.میں نے گزشتہ ایام میں نظارت بیت المال کو توجہ دلائی تھی کہ وہ مختلف اضلاع کی لسٹیں تیار کر کے میرے سامنے پیش کرے تاکہ پتہ لگے کہ کون کون سی جماعتیں ایسی ہیں جنہوں نے حفاظت مرکز کا چندہ نہیں دیا یا بہت ہی کم دیا ہے.اُن لسٹوں کو دیکھنے پر میرے لئے یہ بات نہایت حیرت انگیز بلکہ آنکھیں کھولنے والی ثابت ہوئی کہ بعض اضلاع کی جماعتیں ایسی ہیں جنہوں نے اُس خطرناک مصیبت اور تباہی کی گھڑیوں میں بھی جبکہ چھپن لاکھ آدمی مشرقی پنجاب سے مغربی پنجاب اور مغربی پنجاب سے مشرقی پنجاب گیا.جبکہ ایک لاکھ سے زیادہ احمدی اپنی جائیدادیں چھوڑ کر آ گیا جب کہ قادیان کے محلوں میں خون بہہ رہا تھا اور جبکہ ایک محلہ سے دوسرے محلہ میں اگر کوئی احمدی جاتا تو اسے گولی مار کر ہلاک کر دیا جاتا اس خطرناک مصیبت اور تباہی کے وقت میں بھی صرف دس فیصدی وعدہ پورا کیا ہے توے فیصدی بقایا ابھی اُن کے ذمہ ہے.میں اپنی اُس محبت اور چشم پوشی کو جو باپ کو اپنے بیٹے کے متعلق ہوتی

Page 373

خطابات شوری جلد سوم ۳۵۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۹ء ہے کتنا بھی پھیلا کر دیکھوں مجھے وہ لوگ احمدی نظر نہیں آتے اور مجھے کوئی صورت ایسی نظر نہیں آتی جس کی بناء پر میں انہیں سچا مسلمان قرار دے سکوں.ان میں سے ایک ضلع ملتان ہے جس کی طرف سے ۳۶ ہزار روپیہ میں سے صرف چھ ہزار روپیہ وصول ہوا ہے حالانکہ ملتان کے ضلع کی آبادی غریب نہیں.یا تو وہ تاجر ہیں اور یا اس قسم کا کاروبار کرتے ہیں کہ اگر اُن کے اندر ایک ذرہ بھی قوم کی خدمت کا احساس ہوتا اگر اُن کے اندر ایک ذرہ بھر بھی جماعت کی محبت کا مادہ ہوتا بلکہ میں کہتا ہوں اگر احمدیت کے مرکز کی حفاظت کا انہیں اتنا بھی درد ہوتا جتنا چیونٹی کے کاٹنے سے ہوتا ہے تو وہ اتنا بُرا نمونہ نہ دکھاتے کہ ۳۶ ہزار کے وعدے میں سے صرف چھ ہزار روپیہ ادا کرتے.اس قسم کے نمونے بعض اور جماعتوں نے بھی دکھائے ہیں حالانکہ جب وعدے لئے گئے تھے اُس وقت لوگ اس طرح نعرے مار مار کر وعدے کرتے تھے کہ اُنہیں روکنا پڑتا تھا بہر حال بعض لوگوں نے تو اپنے وعدے پورے کر دیئے مگر بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے ابھی تک اپنے وعدے پورے نہیں کئے وہ اب یہ عذر کرتے ہیں کہ ہم مشرقی پنجاب سے کٹ لگا کر اس طرف آگئے ہیں اب ہم اپنے وعدے کو کس طرح پورا کریں حالانکہ اس وعدہ کی میعاد صرف چھ ماہ یا سال تھی جب ۱۹۴۷ء میں ہم مغربی پنجاب میں آئے تو اُس وقت تک وعدہ کی میعاد میں سے ایک بڑا وقت گزر چکا تھا.پھر ان وعدہ کرنے والوں میں کئی ایسے تھے جو پاکستان کے رہنے والے تھے اُن کی جائیداد میں نہ صرف گلی طور پر محفوظ رہی ہیں...قادیان کی عزت اور احترام اور سلسلہ کی عزت اور احترام کے لئے انہوں نے اپنی جائیداوں کی قیمت کا ایک فیصدی دینے کا وعدہ کیا مگر اِس وعدہ کو بھی انہوں نے اب تک پورا نہیں کیا.منہ سے کہتے جانا کہ ہماری جان اور مال حاضر ہے اور عمل ایسا ناقص پیش کرنا ہر گز کسی بچے مومن کا شیوہ نہیں ہو سکتا.بھلا اُس جان اور مال کو لے کر کسی نے کرنا کیا ہے جس کی ایک کوڑی بھی قیمت نہ ہو اور جس کے ساتھ صرف زبانی دعوی ہی شامل ہو.پس سب سے پہلے تو کوئی ایسی تدبیر کرنی چاہئے جس سے اس قسم کے نادہندوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنے وعدوں کو پورا کریں میں سمجھتا ہوں کہ اس میں کچھ کارکنوں کا اور کچھ ضلع کی انجمنوں کا بھی

Page 374

خطابات شوری جلد سوم ۳۵۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۹ء قصور ہے.زمینداروں میں چونکہ تعلیم کم ہوتی ہے اس لئے وہ پورے طور پر مطالبہ کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے اس وقت تک میرے پاس منٹگمری.لائکپور اور بعض دیگر اضلاع کے متعلق یہ رپورٹیں پہنچ چکی ہیں کہ انہوں نے ابھی تک اپنے وعدوں کو پورا نہیں کیا اور یہ بہت بڑے افسوس کا مقام ہے دوستوں کو چاہیئے کہ وہ اس غفلت کو دور کریں اور اپنے وعدوں کو جلد تر پورا کرنے کی کوشش کریں.میں نظارت بیت المال کو اس امر کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ گو بجٹ میں انہوں نے گنجائش نہیں رکھی مگر میرے نزدیک مرکز کے وعدوں میں سے چھ لاکھ روپیہ کی جو رقم باقی ہے اُس میں سے کم سے کم تین لاکھ روپیہ کی رقم ایسی ہے جو اس سال ضرور وصول ہو جانی چاہیئے اور اس کی بجٹ میں گنجائش رکھنی چاہیئے.اگر کوئی احمدی ایسا ہے جو ایسے خطرہ کے وقت میں بھی جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی اپنی جائیداد کی قیمت کا ایک فیصدی یا اپنی ایک ماہ کی آمد ادا کرنے کے لئے تیار نہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں ایسے شخص کو فوراً الگ کر دینا چاہیئے.شہری جماعتوں کی حالت بہت زیادہ افسوسناک ہے اور وہ اس لحاظ سے سخت غفلت کا ارتکاب کر رہی ہیں میں جب سے قادیان سے لاہور آ گیا ہوں تو تین ماہ کے بعد رپورٹیں طلب کرنے پر مجھے معلوم ہوا کہ لاہور کی جماعت نے حفاظت مرکز کے لئے پچاس ہزار کا وعدہ کیا تھا جس میں سے صرف پانچ ہزار روپیہ وصول ہوا ہے مگر یہ جماعت اس اطمینان کے ساتھ بیٹھی تھی کہ گویا قادیان تو گیا.اب اس چندے کی ضرورت ہی کیا ہے.اب بھی میں سمجھتا ہوں کہ ہزاروں کی رقم لاہور والوں کی طرف باقی ہوگی.یہی حال بعض دوسرے شہروں اور زمیندار جماعتوں کا ہے مگر یہ کسی صورت میں بھی قوم کی زندگی کی علامت نہیں بلکہ اُس کے مُردہ ہونے کی علامت ہے اور اگر جسم کا کوئی حصہ مر جائے تو تمام ڈاکٹروں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ اس حصہ کو کاٹ دینا چاہیئے ورنہ باقی حصہ بھی مردار ہو جائے گا اور انسانی جان ضائع چلی جائے گی پس ایک تو میں ناظر صاحب بیت المال سے کہوں گا کہ وہ تین لاکھ روپیہ کی رقم اس مد میں بڑھا دیں اوّل تو اُنہیں چھ لاکھ روپیہ پورے کا پورا وصول کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے جس کی مدت گزرے بھی دو سال ہو چکے ہیں لیکن اگر وہ چھ لاکھ روپیہ

Page 375

خطابات شوری جلد سوم ۳۵۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۹ء وصول نہ کر سکتے ہوں تو کم از کم تین لاکھ روپیہ تو اُنہیں ضرور وصول کرنا چاہیئے.حقیقت یہ ہے کہ کام نو جوانوں کے ہاتھ میں آ گیا ہے اور ہمارے تجربہ کار بوڑھے اپنی کمزوری اور ضعف کی وجہ سے میدان چھوڑ کر چلے گئے ہیں اور ایسے لوگوں کے ہاتھ میں کام آ گیا ہے جو نا تجربہ کار ہیں نتیجہ یہ ہوا ہے کہ کام اُس رفتار سے نہیں ہورہا جس رفتار سے ہونا چاہیئے.ربوہ میں عمارتوں کی تعمیر کیلئے رقم ریز اور کھنے کی ضرورت دوسرے میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں کچھ نہ کچھ رقم اور بھی رکھنی چاہیئے جو ربوہ میں عمارتوں کی تعمیر کے سلسلہ میں ہمارے کام آئے.ان عمارتوں پر جو مرکزی دفاتر اور سلسلہ کے اداروں سے تعلق رکھتی ہیں دس بارہ لاکھ روپیہ صرف ہوگا اور اس کے لئے کسی زائد چندہ کی اپیل نہیں کی گئی اس لئے ضروری ہے کہ ہم اس مقصد کے لئے بھی کچھ روپیہ رکھیں اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں ہماری جماعت کے مالی حالات یقیناً اس قسم کے ہیں کہ وہ آسانی سے اس بوجھ کو اٹھا سکتی ہیں.حفاظت مرکز کے لئے جب ہم نے چندہ کی تحریک کی تو باوجود اس کے کہ جائداد کی قیمت کے صرف ایک فیصدی پر یا ایک ماہ کی آمد پر ان وعدوں کی بنیاد رکھی گئی تھی پھر بھی ساڑھے تیرہ لاکھ روپیہ کے وعدے آگئے.اگر یہ تمام وعدے ایک ماہ کی آمد کے لحاظ سے ہی شمار کئے جائیں تب بھی ساڑھے تیرہ لاکھ روپیہ جماعت کی سالانہ آمد کا بارہواں حصہ بنتا ہے مگر اس کے ساتھ ہی میں نے یہ بھی تحریک کی ہوئی ہے کہ جماعت کا کوئی فردایسا نہ رہے جو موصی نہ ہو اور وصیت کا کم از کم معیار آمد کا دسواں حصہ ماہوار دینا ہے اس کے علاوہ میری طرف سے یہ بھی تحریک ہے کہ دوستوں کو ساڑھے سولہ سے تینتیس فیصدی تک اپنے چندوں کو بڑھانا چاہیئے اور سینکڑوں لوگ ایسے ہیں جو اس تحریک کے ماتحت چندے ادا کر رہے ہیں.کوئی ساڑھے سولہ فیصدی دے رہا ہے کوئی ۲۵ فیصدی دے رہا ہے.کوئی ۳۳ فیصدی دے رہا ہے اور کوئی پچاس فیصدی دے رہا ہے.ان تمام تحریکات کو مدنظر رکھتے ہوئے ساڑھے تیرہ لاکھ روپیہ کو اگر جماعت کی سالانہ آمد کا آٹھواں حصہ فرض کر لیا جائے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ ہماری جماعت کی طرف سے ماہوار چندہ ایک لاکھ ستر ہزار روپیہ

Page 376

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۴۹ء سے کم نہیں آنا چاہیے.دوسرے الفاظ میں اس کے معنے یہ ہیں کہ ہمیں لاکھ چالیس ہزار روپیہ ہمارا سالانه چندہ ہونا چاہیئے مگر ہمارا حصہ آمد اور چندہ عام اس وقت صرف سات لاکھ ۴۵ ہزار ۸۴۷ روپیہ ہے گویا جماعت کے افراد نے جو خود آمد نیں لکھوائی تھیں وہ نہیں جو ہماری طرف سے تجویز ہوئی ہوں.اُن کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی ہمارے چندہ عام میں تیرہ لاکھ روپیہ کی کمی ہے.حالانکہ میرے نزدیک صحیح طور پر جماعت کی آمدن کا اندازہ لگایا جائے تو ہیں لاکھ روپیہ سالانہ جمع ہونا چاہئے اور اگر وصیت پر زور دیا جائے اور پھر اس بات کو بھی دیکھا جائے کہ کئی ہیں جو تینتیس فیصدی کے حساب سے چندہ ادا کر رہے ہیں بلکہ بعض ایسے ہیں جو پچاس فیصدی کے حساب سے بھی چندہ دے رہے ہیں یہ اوسط بھی در حقیقت بہت کم رہ جاتی ہے.حقیقت یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی بارہا بیان کیا ہے جماعت کی آمد کا یہ اندازہ یقیناً غلط تھا مجھے یقینی طور پر ایسے لوگ معلوم ہیں جو اپنی بیان کردہ آمد سے پانچ پانچ چھ چھ سات سات گنے زیادہ آمد رکھتے ہیں اور اس لحاظ سے ہماری آمد بہت زیادہ ہونی چاہیئے لیکن اگر جماعت کی اپنی بیان کردہ آمد ہی لے لی جائے تب بھی ہیں لاکھ چالیس ہزار رو پیدا ایسا ہے جو ہر حالت میں ہمارے پاس آنا چاہیئے مگر اب ہمارے بجٹ کی بنیا دصرف ساڑھے سات لاکھ روپیہ کی آمد پر ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ اگر صحیح طور پر کام کیا جائے تو تیرہ لاکھ روپیہ ہم اور ضروریات پر خرچ کر سکتے ہیں اگر اس قدر رو پیدا کٹھا نہ ہو سکے تب بھی تین چار لاکھ روپیہ سالانہ ایسا ضرور نکل سکتا ہے جسے سلسلہ کی عمارتوں پر ہم خرچ کر سکتے ہیں اگر اس طرح دو تین سال تک کوشش کی جائے تو ربوہ کی تعمیر کا کام خدا تعالیٰ کے فضل سے مکمل ہو سکتا ہے لیکن سردست ہمیں کم سے کم ایک لاکھ روپیہ کا اضافہ تعمیر ربوہ کے لئے ضرور کرنا چاہیئے اور تین لاکھ روپیہ اُن وعدوں کے سلسلہ میں اکٹھا کرنا چاہیئے جو مئی ۱۹۴۷ء کے شروع میں کئے گئے تھے اوّل تو کوشش کرنی چاہیئے کہ پورا چھ لاکھ روپیہ وصول ہو جائے لیکن اگر چھ لاکھ روپیہ وصول نہ ہو سکے تو کم سے کم تین لاکھ روپیہ کی وصولی اس سال ضرور ہو جانی چاہیئے.میں سمجھتا ہوں اگر ہماری جماعت کے افراد خصوصاً زمیندار دوست توجہ کریں تو وہ آسانی سے ان وعدوں کو پورا کر سکتے ہیں آخر یہ واضح بات ہے کہ موجودہ زمانہ میں زمینداروں کی آمدنیاں پہلے سے بہت زیادہ ہو گئی ہیں پہلے

Page 377

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۴۹ء ڈیڑھ ڈیڑھ اور سو اسوار و پیہ من گندم پکا کرتی تھی لیکن اس جلسہ کے موقع پر جو گندم ہمیں ملی اور جس کا کچھ حصہ احمدیوں سے اور کچھ غیر احمدیوں سے خریدا گیا وہ سولہ روپیہ من کے حساب سے ملی ہے یعنی جو گندم آجکل ہم سلسلہ کے لئے استعمال کر رہے ہیں وہ سولہ روپے من کے حساب سے ہم نے خرید کی ہے جبکہ گندم کا کچھ حصہ مخلصین نے مفت بھی مہیا کیا ہے یا بہت معمولی قیمت پر دیا ہے ورنہ ممکن تھا کہ سترہ اٹھارہ روپیہ من اس کی قیمت جا پڑتی اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ زمینداروں کی آمد پہلے سے بارہ گنا بڑھ گئی ہے.یہی حال کپاس کا ہے کپاس پانچ پانچ ، چھ چھ روپے پر پکا کرتی تھی مگر اب اُس کی قیمت پچیس پچیس اور چھیں چھپیں روپے ہے گویا پانچ گنا قیمت بڑھ گئی ہے.اسی طرح گڑ دو روپیہ من فروخت ہوا کرتا تھا مگر اب چالیس چالیس روپیہ من پک رہا ہے جب جماعت کے دوستوں نے ان ذرائع سے اپنی آمدنیوں کو بڑھایا ہے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں پہلے سے زیادہ رزق عطا فرمایا ہے تو یہ کتنی قابل افسوس بات ہے کہ وہ اب تک حفاظت مرکز کے وعدوں کو پورا نہیں کر سکے حالانکہ ان وعدوں پر دو سال کا عرصہ گزر رہا ہے پس میں ہدایت کرتا ہوں کہ اس بجٹ میں دو زیادتیاں کی جائیں.اوّل تین لاکھ روپیہ حفاظت مرکز کے سلسلہ میں جماعت سے وصول کیا جائے اور یہ کم سے کم چندہ ہے جس کی وصولی کی بیت المال سے امید کی جاتی ہے ورنہ اگر صحیح طریق پر کام کرے تو پورا چھ لاکھ روپیہا اسے وصول کرنا چاہیئے.دوسرے کم سے کم ایک لاکھ روپیہ تعمیر ربوہ کی غرض سے چندہ کی آمد میں بڑھایا جائے اور یہ بھی کم سے کم روپیہ ہے ورنہ بیت المال اگر صحیح طور پر کام کرے تو موجودہ چندہ سے دو گنا چندہ لیا جا سکتا ہے اور سات آٹھ لاکھ روپیہ کی بچت ہوسکتی ہے.تیسری تجویز میری یہ ہے کہ ہمیں ایک لاکھ روپیہ ریز روفنڈ میں بھی بڑھانا چاہیئے اس طرح عام آمدن میں دو لاکھ کی زیادتی ہوگی اور حفاظت مرکز کے لئے تین لاکھ کی وصولی ہوگی اس سے بجٹ پر کوئی بُرا اثر نہیں پڑتا.اگر کمزور ایمان والوں اور منافقوں نے چندہ نہ دیا تو بہر حال حفاظت مرکز کا کام اُن کاموں میں سے ہے جنہیں کسی صورت میں بھی چھوڑا نہیں جا سکتا.اگر ہمیں اپنے مدر سے

Page 378

خطابات شوری جلد سوم ۳۶۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۹ء بند کرنے پڑے تو ہم بے شک بند کر دیں گے لیکن قادیان کا کام ایسا ہے جسے ہم کسی صورت میں بھی نہیں چھوڑ سکتے.اس کام کو جاری رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ نادہندوں سے چندہ وصول کیا جائے اور اگر انہوں نے اپنے وعدے پورے نہ کئے تو مجبوراً ہمیں نئی تحریک کرنی پڑے گی اور دوبارہ مخلصین سے وعدے لینے پڑیں گے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر نئی تحریک میں ماہوار آمد کا صرف ۴ را حصہ لیا جائے یا زمینداروں سے اُن کی جائیداد کے ایک فیصدی حصہ کی چوتھائی قیمت لی جائے تو یہ کمی پوری ہو سکتی ہے.مثلاً اگر کسی شخص کے پاس مربع زمین ہے اور اُس کی قیمت ۲۵ ہزار روپیہ ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ ایک فیصدی کے لحاظ سے ۲۵۰ روپے اور اس کے چوتھے حصے کے لحاظ سے صرف ساڑھے باسٹھ روپے اُسے ادا کرنے پڑیں گے اور یہ کوئی ایسا بوجھ نہیں جو برداشت کرنا مشکل ہو.لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں اگر آپ لوگ اپنے ساتھیوں پر زور دیں گے تو گزشتہ چھ لاکھ روپیہ وصول ہو جائے گا.اگر یہ چھ لاکھ روپیہ وصول ہو جائے تو دو سال تک ہمیں اس غرض کے لئے کسی مزید چندے کی ضرورت نہیں رہتی اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ایسے حالات پیدا ہو جائیں گے کہ اول تو ہمیں کسی نئی تحریک کی ضرورت نہیں پڑے گی اور اگر ضرورت ہوئی تو اُس وقت خرچ اتنا کم ہو جائے گا کہ جماعت پر اُس تحریک کا کوئی بوجھ نہیں ہوگا.اس دفعہ بجٹ پر غور کرنے کے لئے کوئی سب کمیٹی مقرر نہیں کی جائے گی بلکہ بجٹ دوستوں کو سنا دیا جائے گا کیونکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ کوئی خاص بجٹ نہیں عام بجٹ ہے جس پر ہم ہر سال غور کرتے چلے آئے ہیں.“ بجٹ کے متعلق تقریر حضور کی افتتاحی تقریر کے بعد محترم ناظر صاحب بیت المال آمد نے بجٹ کی بابت مختصر تقریر کی جس کے بعد حضور انور کے ارشاد پر بعض ممبران نے اپنی آراء پیش کیں.اس کے بعد حضور نے بجٹ کے متعلق خطاب کرتے ہوئے فرمایا : - چندہ جات میں دیانت داری کی تلقین ” بعض باتیں تو ایسی ہیں جو ریزولیوشن کی صورت میں احباب کے سامنے پیش کر کے

Page 379

خطابات شوری جلد سوم ۳۶۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۹ء اُن کی رائے لی جائے گی.مثلاً اختر صاحب کی تجویز ہے کہ آئندہ کے لئے مجلس مشاورت کی نمائندگی کے لئے موصی ہونے کی شرط لگا دی جائے.لیکن بعض تجاویز ایسی ہیں جن کے متعلق احباب کی رائے لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.احباب کی طرف سے اظہار ہو گیا ہے اور متعلقہ دفاتر اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں.اختر صاحب نے میرے سامنے ایک معمہ پیش کیا ہے جو انہوں نے بعد میں حل بھی کر دیا.اور پھر مجھ سے اس بارہ میں امداد بھی چاہی ہے.وہ معمہ یہ ہے کہ بعض تاجر ایسے ہیں کہ جن کی آمد زیادہ ہے اور چندے بہت کم ہیں.چندے دیتے ہوئے وہ اپنی آمد کم لکھواتے ہیں.انہیں ہر قسم کی تحریک کی گئی ہے لیکن ایسا کوئی ذریعہ نہیں نکل سکا جس سے یہ معمہ حل ہو سکے.اختر صاحب نے مجھ سے استمداد چاہی ہے.اور دریافت کیا ہے کہ آپ کوئی تجویز بتا ئیں.لیکن بعد میں وہ خود ہی کہہ گئے ہیں کہ اُن کے کھانے پینے کے اخراجات ہم سے زیادہ ہیں.گویا اختر صاحب نے خود ہی اس معمہ کو حل بھی کر دیا ہے.اب وہ خود ہی معلوم کر لیں کہ اُن کا گھی کتنے کا آتا ہے، آٹا کتنے کا آتا ہے اور پھر اندازہ لگائیں کہ اُن کی آمد کتنی ہے.اور اگر یہ صورت بھی ناکام رہے تو پھر میں دوستوں کو ایک واقعہ سُنا دیتا ہوں بعض آدمی ایسے ہوتے ہیں کہ وہ پکڑے نہیں جاتے.کوئی بزرگ تھے لوگ خیال کرتے تھے کہ وہ بزرگ سیدھے سادے ہیں.ایک شخص ان کے پاس گیا اور اُن سے کہا آپ کی جو زمین ہے اُسے کاشت کروایا جائے اور جو آمد آئے وہ ہم دونوں میں تقسیم ہو جایا کرے.اُس بزرگ نے کہا بہت اچھا اُس بزرگ نے کہا میں تیار ہوں لیکن پہلے یہ فیصلہ ہو جائے کہ اس آمد کو کس طرح تقسیم کیا جائے تا اختلاف کی کوئی صورت باقی نہ رہے.اُس شخص نے کہا فصل کا وزن کرنا تو بہت مشکل ہوتا ہے.(اُس کا خیال تھا کہ اُس بزرگ سے مفت میں کام لے لے ) میری تجویز ہے کہ جو فصل ہم بوئیں وہی تقسیم ہو جائے.چنانچہ اُس شخص نے تجویز پیش کی کہ جو فصل بھی ہم بوئیں اُس کا اوپر کا نصف میرا اور نیچے کا نصف آپ کا ہو.اُس کا خیال تھا کہ ہم گندم بوئیں گے اور اس طرح غلہ میرا ہوگا اور بُھوسہ اس بزرگ کو ملے گا.وہ بزرگ سیدھے سادے نہیں تھے بلکہ عقلمند بھی تھے انہوں نے گاجریں اور مولیاں بُو دیں اور پتے اُس شخص کے حوالے کر دیئے اور گاجریں اور مولیاں خود رکھ لیں.اُس شخص نے سمجھا کہ اس دفعہ مجھ سے دھوکا ہو گیا

Page 380

خطابات شوری جلد سوم ۳۶۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۹ء اگلی دفعہ ہی.چنانچہ اُس نے بزرگ سے کہا ایک دفعہ اور فصل ہوئیں اور دونوں شراکت کریں.اس دفعہ آپ اوپر کا حصہ لیں اور میں نیچے والا حصہ لوں گا.اُس بزرگ نے اب کے گندم بودی اور غلہ آپ رکھ لیا اور نیچے کا حصہ یعنی بھوسہ اُس شخص کے حوالہ کر دیا.اُس شخص نے خیال کیا کہ یہ بزرگ اب بھی قابو نہیں آیا چلو ایک دفعہ اور شراکت کریں اور کوئی فصل بوئیں اُس بوڑھے نے کہا بہت اچھا اُس شخص نے کہا اس دفعہ نیچے اور اوپر کا حصہ میں لوں گا اور آپ کو بیچ کا حصہ دوں گا.اُس بزرگ نے اس دفعہ مکئی بودی اور نیچے اور اوپر کا حصہ اُس شخص کے حوالے کر دیا اور خود درمیان کا حصہ لے لیا.غرض یہ لوگ تو وہ بزرگ ہیں ان تلوں میں تیل ہی نہیں.خدا تعالیٰ خود ہی ان کے دلوں میں ایمان پیدا کرے اور وہ سچی سچی بات کریں تو اُن کی اصلاح ہو سکتی ہے ورنہ ان کی اصلاح کی کوئی صورت نہیں.ایک دوست نے تجویز پیش کی ہے کہ گورنمنٹ نے آمد پر ٹیکس مقرر کیا ہے اُس ٹیکس کے حساب سے چندہ لیا جائے.لیکن ایسے لوگ ٹیکس بھی تو نہیں دیتے وہ جب دیکھتے ہیں کہ کوئی آدمی قابو میں نہیں آتا اور وہ اُن سے رسید مانگتا ہے تو فوراً کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں حساب نہیں آتا ہم نہ رسید لیتے ہیں اور نہ رسید دیتے ہیں.اور اگر سمجھ لیا کہ وہ گا ہک پھر بھی قابو میں نہیں آتا تو اُسے کچھ روپے بھی دے دیئے اور کہہ دیا کہ آدھا تم لے لو اور آدھا میں لے لیتا ہوں.نہ تم رسید مانگو اور نہ میں رسید دیتا ہوں.یہی اب تک ہو رہا ہے اور کروڑوں کروڑ کے حساب سے حکومت کو سینکڑواں حصہ بھی وصول نہیں ہو رہا.یہ ایک سیدھی سادی بات ہے کہ اس وقت سات کروڑ پاکستانی ہیں اگر اُن کی ضروریات زندگی دس روپیہ ماہوار کی ہی سمجھ لی جائیں تو پاکستان میں ستر کروڑ روپے کا سودا پک جاتا ہے اور ستر کروڑ کے اوپر دو پیسہ فی روپیہ کے حساب سے ۳۵ کروڑ آ نہ ٹیکس وصول ہونا چاہیئے یا دو کروڑ اٹھارہ لاکھ چھتر ہزار روپے وصول ہوتے ہیں.بعض صورتوں میں اگر منہائی بھی کر دی جائے تب بھی ایک کروڑ اور کچھ لاکھ روپیہ وصول ہو سکتا ہے.لیکن پچھلے سال تو حکومت بھی گھبرا گئی تھی.اس لئے کہ اُسے صوبوں کا حصہ جو آنا تھا.وہ بھی نہ آیا.غرض اس چیز کا ایمان کے ساتھ تعلق ہے اگر کسی شخص نے چندہ دینا ہو تو وہ دیتا ہے.ورنہ وہ ہزاروں قسم کے بہانے بنا لیتا ہے.ہم نے دیکھا ہے کہ دس دس روپے ماہوار آمدنی والے لوگ چندہ دیتے ہیں.حالانکہ انہیں اپنے.

Page 381

خطابات شوری جلد سوم ۳۶۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۹ء گھر کے دونوں وقت کے اخراجات برداشت کرنا بھی مشکل ہوتے ہیں.لیکن سو سو روپے ماہوار والے چندے نہیں دیتے.پھر دس دس روپے ماہوار والے لوگ اخلاص اور قربانی کی وجہ سے اپنی آمد کے دسویں حصہ کی وصیت کر دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ چلو خدا تعالیٰ کا گھر پورا ہو.اپنے اخراجات خواہ پورے ہوں یا نہ ہوں.لیکن وہ شخص جو دو دو، اڑھائی اڑھائی ہزار روپیہ ماہوار لیتا ہے وہ وصیت نہیں کرتا.اور کہہ دیتا ہے کہ میرے اخراجات بہت زیادہ ہیں اس لئے میں اتنا چندہ نہیں دے سکتا.عام طور پر تاجر لوگ ایسا کرتے ہیں.تاجر قربانی میں عموماً بہت پیچھے ہیں.میں نے بعض بجٹ دیکھے ہیں اور پھر اردگرد کے حالات بھی دیکھے ہیں.بعض تاجروں کی بکری اور نفع کا اندازہ سات آٹھ سو ماہوار یا ہزار روپیہ ماہوار ہوتا ہے لیکن بجٹ میں اُن کی ماہوار آمد ایک سو ، دوسو یا تین سو لکھی ہوئی ہوتی ہے.اور وہ اپنی طرف سے نہایت دیانتداری کے ساتھ کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے اپنی اتنی تنخواہ مقرر کی ہوئی ہے.آمدنی تو ایک ہزار ماہوار کی ہوتی ہے.مگر جو تنخواہ انہوں نے مقرر کی ہوئی ہوتی ہے وہ دوسو روپے ماہوار ہوتی ہے.جس میں سے چندہ دیا جاتا ہے.اس تنخواہ کے علاوہ وہ گھریلو اخراجات کے لئے دوسری آمدن میں سے خواہ کتنا غبن کر لیں وہ شمار میں نہیں آئے گا.اس تنخواہ کے علاوہ وہ دُکان سے جو روپیہ لے کر گھریلو اخراجات کو پورا کرنے کے لئے خرچ کریں گے وہ صریح غین ہوگا.غرض جب چندہ کا سوال آتا ہے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ میری آمد ایک سو ہے.لیکن جب گھر کے اخراجات کو دیکھا جائے تو خرچ پانچ سات سو سے کم نہیں ہوتا.مجھے اس بات پر تعجب ہوا کہ ایک جگہ سے دو بھائی ایک ہی قسم کی تجارت کرتے تھے.اُن میں سے ایک کا چندہ سو روپیہ تھا لیکن دوسرا بھائی جو اُسی قسم کی تجارت کرنے والا تھا وہ آٹھ سو ماہوار دیتا تھا.یہ کہنا کہ ملازمت والا شخص ایسا نہیں کر سکتا یہ بھی درست نہیں.میں نے کوئٹہ، راولپنڈی اور لاہور کے جماعت کے بجٹ دیکھے ہیں اور مجھے تعجب ہوتا ہے کہ نہایت ہی مخلص کارکنوں کی طرف سے بارہ چودہ مہینہ میں ایک پیسہ بھی وصول نہیں ہوا.چندہ بڑھانے کی تجاویز اختر صاحب نے ایک تجویز یہ بھی پیش کی ہے کہ جن لوگوں کو ربوہ میں زمین سستے نرخ پر یعنی ایک سو روپیہ فی کنال

Page 382

خطابات شوری جلد سوم ۳۶۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۹ء کے حساب سے مل گئی ہے وہ خوشی سے اور شکرانہ کے طور پر پندرہ پندرہ ہیں ہیں روپے فی کنال بطور چندہ پیش کریں.یہ کوئی تجویز نہیں.یہ ایک تحریک ہے اور اسے اختر صاحب لازمی نہیں کرتے.در حقیقت ایسے نرخ پر زمین کا اکثر حصہ ایسے لوگوں کے پاس گیا ہے جن کے قادیان میں مکانات تھے اور وہ اس بات کے مستحق تھے کہ اُن سے کچھ بھی نہ لیا جاتا.لیکن ہم نے اُن سے ایک سو روپیہ کنال کے حساب سے قیمت وصول کر لیں.اور کہہ دیا کہ چلو محتاجوں کو زمین مفت دیدی جائے گی اور ان سے ہم کچھ نہ کچھ وصول کر لیں.پھر یہ بھی صرف ایک تحریک ہے کہ جب تک قادیان ہمیں واپس نہیں ملتا ہم سال میں ایک ماہ کی آمد کے ٫۴ا حصہ بطور چندہ دے دیا کریں.جس دوست کے دل میں یہ خواہش پیدا ہو وہ بے شک دے اور ثواب حاصل کرے.ایک تجویز یہ ہے کہ دیہاتی جماعتوں کے اندر رقابت پیدا کی جائے.اصل رقابت تو وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے پیدا ہو.دراصل ہمیں اپنے نظام کو مظبوط کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے اور جماعت کے اندر ایمان پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے.جب ایک گل ٹھیک ہو جائے گی تو باقی چیزیں خود بخود ٹھیک ہو جائیں گی.پس تم ایمان پیدا کرنے کی کوشش کرو.جب ایمان پیدا ہو جائے گا تو آمد آپ ہی آپ بڑھ جائے گی.جب تک ایمان نہ ہو انسان قربانی کے لئے تیار نہیں ہوتا.اگر کوئی شخص سلسلہ کی موجودہ مشکلات کو دیکھتے ہوئے اور سمجھتے ہوئے بھی چندہ دینے میں سستی سے کام لیتا ہے تو وہ غافل اور بے ایمان ہے.لائکپور کے ایک تاجر دوست نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ سیل ٹیکس کا حساب کر کے تاجروں کی اصل آمد کا پتہ لیا جائے اور پھر اُس حساب سے چندہ لیا جائے.میں ڈرتا ہوں کہ اگر ایسا کیا گیا تو پھر کہیں چندہ صفر نہ رہ جائے.تاجر لوگ گورنمنٹ کو سیل ٹیکس بھی تو نہیں دیتے.ہم نے جب ربوہ کے لئے سامان خریدا تو اُس پر ۳۲۰ روپے سیل ٹیکس لگا.دکاندار نے کہا اگر آپ رسید نہ لیں تو سیل ٹیکس بھی نہیں لگے گا.میں نے کہا ہم دھوکا بازی نہیں کریں گے.ہم تو ضرور رسید لیں گے.مجھے معلوم نہیں کہ اُس دُکاندار پر رحم خسروانہ کر کے کہ کسی ہمارے نمائندے نے اُس سے رسید لی یا نہیں لی.بہر حال میری طرف سے یہی

Page 383

خطابات شوری جلد سوم ۳۶۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۹ء ہدایت تھی کہ اُس دکاندار سے ضرور رسید لی جائے.میں خیال کرتا ہوں کہ اگر چندہ کے بارہ میں بھی سیل ٹیکس والا معاملہ کیا گیا تو یہ چندہ جو آ رہا ہے یہ بھی کہیں بند نہ ہو جائے.میں جماعت کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ یہ بھی بددیانتی ہے اور انہیں اس قسم کی بد دیانتی سے اجتناب کرنا چاہیئے.اگر ٹیکس ادا نہ کئے جائیں تو پھر حکومت چلے گی کس طرح؟ جو شخص ٹیکس ادا نہیں کرتا وہ گویا اپنے بیوی بچوں کو قتل کرتا ہے.کیونکہ حکومت کے پاس روپیہ نہیں ہوگا تو وہ فوج نہیں رکھ سکے گی اور اس کے نتیجہ میں ملک کا امن خراب ہوگا.اسی طرح دوسری حکومتوں کو دلیری ہوگی اور وہ اس پر حملہ کر کے اُسے اپنے قبضہ میں لے لیں گی.آپ لوگ خود ہی دیکھ لیں پاکستان کے مقابلہ میں افغانستان کی حیثیت ہی کیا ہے کیا پڑی اور کیا پدی کا شور بہ لیکن جب وہ اس قسم کی باتوں کو دیکھتا ہے تو پاکستان کے خلاف کئی قسم کی رذیل حرکات کرنے لگ جاتا ہے.بھلا باز کے مقابلہ میں چڑیا کی حیثیت ہی کیا ہے.اگر مسلمان کے ساتھ صلح قیمتی نہ ہوتی.اگر اسلام میں لڑائی بُری نہ سمجھی جاتی تو پاکستان کے مقابلہ میں افغانستان کے پاس طاقت ہی کیا ہے؟ صرف بورڈر والے لوگ ہی اُس سے ہمدردی رکھتے ہیں لیکن اب تو خود پٹھانوں میں بددلی پیدا ہوگئی ہے.اگر پاکستان کی افغانستان سے لڑائی ہوگئی تو افغانستان پاکستان کے مقابلہ میں ۲۴ گھنٹہ بھی لڑائی کو جاری نہیں رکھ سکتا.صرف ان باتوں کو دیکھ کر کہ پاکستان کے رہنے والے خود اپنے ملک غداری کر رہے ہیں اُس کے اندر دلیری پیدا ہوگئی ہے.سلطان محمود صاحب نے یہ بات پیش کی ہے کہ انسپکٹر ان کی تعداد کو بڑھایا جائے.یہ درست ہے کہ ایک حد تک انسپکٹر ان کی تعداد کو بڑھانا مفید ہے لیکن اس شرط پر کہ کام کرنے والوں میں کام کی عادت کم نہ ہو جائے.جب اُن کے اندر کام کرنے کا جذ بہ نہیں پایا جائے گا تو پھر اُن کے اندر ایمان بھی کم ہو جائے گا.انسپکٹر بے شک بڑھائیں لیکن یہ کہنا جیسا کہ ایک دوست نے کہا ہے کہ مقامی جماعت کے عہدیداروں سے کام نہیں ہوتا درست نہیں.مقامی عہدیدار جو کام کر رہے ہیں آپ لوگ انہیں اس سے بھی زیادہ کام کرنے کی عادت ڈالیں اگر ایسا نہ ہوا تو سلسلہ بالکل بنیا بن کر رہ جائے گا اور لوگوں میں ایمان نہیں رہے گا.لاہور کی جماعت کے متعلق کہا گیا ہے کہ انہوں نے صدر انجمن احمد یہ سے ایک کلرک مانگا تھا.

Page 384

خطابات شوری جلد سوم ۳۶۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۹ء مگر انہیں وہ کلرک نہیں دیا گیا.میرے سامنے اُن کا یہ مطالبہ نہیں آیا اور میں نہیں کہہ سکتا کہ اُن کا یہ مطالبہ صحیح تھا یا غلط.جہاں تک مجھے معلوم ہے ان کا مطالبہ یہ ہے کہ انہیں حیثیت کے مطابق کلرک نہیں ملتا غالباً صدر انجمن احمدیہ نے اس کلرک کا ۳۰ +۴ اگر یڈ رکھا ہوگا.سو ان کا مطالبہ یہ ہوگا کہ ہمیں اس گریڈ پر کلرک نہیں مل سکتا اور یہ معقول بات ہے.صدر انجمن احمد یہ کو اس پر غور کرنا چاہئے.کراچی کی جماعت کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ وہ اچھا چندہ دیتی ہے لیکن وہ اس حیثیت پر نہیں پہنچی جہاں اُسے پہنچنا چاہئے.اگر وہاں کی جماعت دیانتداری کے ساتھ چندہ دے تو چندہ کی مقدرا موجودہ مقدار سے یقیناً بڑھ سکتی ہے.میرے سامنے یہ ظاہر کیا گیا تھا کہ کراچی کی جماعت کی اکثریت نے ۴ را حصہ چندہ دینا شروع کر دیا ہے.اگر یہ بات درست ہوتی تو جماعت کی تعداد پانچ سو کے قریب ہے اور ایک آدمی کی اوسط آمدن دوسو روپیہ ماہوار ہوتی ہے.اب گر تمام جماعت اپنی آمدن کا ۱٫۴ حصہ بطور چندہ دے تو اس کی معنے یہ ہیں کہ اُس کی طرف سے تین لاکھ چندہ آنا چاہئے.اگر وصیت اور ۲۵ فیصد کے درمیان کی اوسط رکھی جائے جو ہرا ۱۷ فیصدی بنتی ہے تو اس کے یہ معنے ہیں کہ ہمیں دو لاکھ دس ہزار چندہ ملنا چاہئے اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعت کی ماہوار آمد کی صحیح اوسط نکالی جائے تو وہ دوسو سے زیادہ ہی نکلے گی کیونکہ کراچی کی جماعت کے اکثر افراد ایسے ہیں جن کی بڑی بڑی تنخواہیں ہیں.بہر حال جو بڑے بڑے شہر ہیں اُن کے لئے خاص انتظام ہونا چاہئے ہم دیکھتے ہیں چھوٹے چھوٹے شہروں میں ٹاؤن کمیٹیاں ہوتی ہیں اُن سے بڑے شہروں میں میونسپل کمیٹیاں ہوتی ہیں اور پھر اُس سے بڑے شہروں میں میونسپل کمیٹیوں کی بجائے کار پوریشن بن جاتی ہے.جو شہر کا انتظام کرتی ہے.لنڈن کا انتظام ایک کونسل کے ماتحت ہے.لنڈن کی کونسل کے انتخابات پر یہ خیال کر لیا جاتا ہے کہ ملک کی آئندہ حکومت کیا ہوگی.غرض کراچی اور لاہور کی جماعتوں کے لئے خاص انتظام کی ضرورت ہے میرے نزد یک راولپنڈی بھی ایک ایسا شہر ہے جس کے لئے خاص انتظام کی ضرورت ہے.راولپنڈی کا چندہ کم تو نہیں ہاں تشخیص کے لحاظ سے کم ہے وہاں کے سیکرٹری مال نہایت محنت سے کام کرتے ہیں.مجھے پہلے کچھ شبہات تھے اس لئے میں نے اُن کے رجسٹر

Page 385

خطابات شوری جلد سوم ۳۶۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۹ء منگوا کر دیکھے.مگر حسابات دیکھنے سے معلوم ہوا کہ وہ نہایت محنت اور دیانتداری کے ساتھ کام کرتے ہیں.میں وہاں کی جماعت کی ایک لسٹ ساتھ لایا تھا جس سے معلوم ہوتا تھا پر ابھی کافی گنجائش ہے.تمام چندے ملا کر موجودہ حالت میں جماعت راولپنڈی کا چندہ ۵۴ ہزار کے قریب ہے لیکن اگر کوشش کی جائے اور جماعت کے نظام کو مضبوط بنایا جائے تو یہ چندہ ۷۰،۶۰ ہزار تک بڑھایا جا سکتا ہے بشرطیکہ انہیں ایک آدمی مل جائے جو سیکرٹری صاحب کے ساتھ مل کر کام کرے.میں نظارت بیت المال کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ فی الحال کراچی اور سیالکوٹ کو مزید سہولتیں بہم پہنچائے.سیالکوٹ کی جماعت کے چندہ میں بھی ابھی بہت گنجائش موجود ہے.لیکن جب تک انتظام نہ ہو چندہ پوری طرح وصول نہیں کیا جاسکتا.اوّل تو ہر جماعت میں کمزور افراد موجود ہوتے ہیں.دوسرے تاجر لوگ اپنی آمد میں صحیح نہیں لکھواتے.جب کہ وہاں کے پریذیڈنٹ صاحب نے بھی ایک دفعہ میرے پاس شکایت کی تھی میں سمجھتا ہوں کہ اس حقیقت کو مدنظر رکھ کر ۱۰ فیصدی تک اُن کو امداد دے دی جائے کچھ تو وہاں کا سکول بہت اچھا کام کر رہا ہے.اگر اس کی طرف اور توجہ دی جائے تو اس سے بھی اچھا کام لیا جا سکتا ہے.اس طرح کچھ تو سکول کے بارہ میں اُن کو سہولت ہو جائے گی اور کچھ حصہ گرانٹ کا وہ وصولی پر خرچ کر سکیں گے.میرے نزدیک اگر سیالکوٹ کی جماعت کو ۱۰ فیصدی تک گرانٹ دے دی جائے تو اُن کے پاس ۳۰۰ ماہوار رقم بچ سکتی ہے جس میں سے وہ سو سکول پر اور دو سو تحصیل چندہ پر خرچ کر سکیں گے.کراچی کی جماعت کو اگر پانچ فیصدی گرانٹ دے دی جائے تو وہ اپنے نظام کو زیادہ اچھا بنا سکیں گے.اگر پانچ فیصدی گرانٹ ملے تو چھ ہزار تو فوری طور پر انہیں مل جائے گا اور پھر آمدن میں اس سے بھی زیادہ ترقی ہو سکتی ہے اور اس رقم سے وہ اپنے نظام کو اور بھی ا مضبوط بنا سکتے ہیں.اور تحصیل چندہ کے کام میں بھی خرچ کر سکتے ہیں.تیسرے نمبر پر راولپنڈی کی جماعت ہے اگر چندے کا پانچ فیصدی حصہ اُن کو بھی بطور مدد دے دیا جائے تو یہ بھی بہت مفید ہو سکتا ہے.انہیں چندے کا پانچ فیصدی مل جانے کے یہ معنے ہوں گے کہ انہیں ۳۰۰ روپے ماہوار بطور مددمل جائے گا.اور وہ ایک ایسا آدمی رکھ سکیں گے جو آنریری طور پر کام کرنے والے سیکرٹری مال کی مدد کر سکے گا.

Page 386

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۴۹ء میرے نزدیک اس کی بہت زیادہ ذمہ داری نظارت بیت المال پر ہے.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے ایک دفعہ مجھے بتایا کہ ایک چندہ کی تحریک کرتے ہوئے نظارت بیت المال نے انہیں بھی چٹھی لکھ دی.حالانکہ چوہدری صاحب اپنا وعدہ کافی مدت پہلے پورا کر چکے تھے.اس طرح جماعت کے دوست یہ خیال کرتے ہیں کہ کا رکن توجہ کے ساتھ کام نہیں کرتے.میرے خیال میں انہیں فراخدلی سے معافی مانگ لینی چاہئے تھی اور انہیں لکھ دینا چاہئے تھا کہ آپ کا نام تو اُسی فہرست میں تھا جن سے چندہ وصول ہو چکا ہے مگر ہم سے غلطی ہو گئی ہے اس طرح جماعت میں بددلی پیدا نہیں ہوتی.اگر اندھا دھند سب کو چٹھیاں لکھ دی جائیں کہ صاحب آپ کی طرف سے چندہ وصول نہیں ہوا آپ ادائیگی کی طرف توجہ کریں تو اس سے جماعت میں بددلی پیدا ہو جاتی ہے.اور لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ کارکن صحیح طور پر کام نہیں کرتے.اس کی سب سے بڑی ذمہ داری بیت المال پر ہے.جس نے چارٹ نہیں بنائے جب میں نے انہیں اس طرف توجہ دلائی تو پھر انہوں نے ایک سال کے بعد چارٹ بنوایا اور اُس میں بھی بہت سی غلطیاں نکلیں.اب تو یہ ہے کہ سب لوگوں کو خط لکھ دیئے جاتے ہیں کہ احباب چندے دیں اور چونکہ خط و کتابت بھی وہی جماعتیں کرتی ہیں جو چندے دیتی ہیں اس لئے دفتر کی طرف سے خطوط بھی انہی کو چلے جاتے ہیں اور جو جماعتیں چندے نہیں دیتیں صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے انہیں خطوط بھی نہیں جاتے.ان نقائص کی وجہ سے بہت سی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں.دفتر کے پاس ہمیشہ ایک چارٹ ہونا چاہئے جس سے معلوم ہو کہ فلاں نے چندہ دیا ہے اور فلاں نے چندہ نہیں دیا.تا جس نے چندہ نہیں دیا اُس کا پتہ لگ جائے.“ بعض نمائندگان کے بجٹ کے متعلق اظہارِ خیالات کے بعد حضور نے فرمایا: - ’ اب جو دوست بجٹ کی کسی خاص بات کے متعلق کچھ کہنا چاہتے ہوں وہ اپنے نام لکھوا دیں.اس میں محکموں والے بھی نظارت متعلق ہے اجازت لے کر اپنی اپنی بات پیش کر سکتے ہیں.بشرطیکہ وہ حدود کے اندر ہو.“ ام لکھوائے اور جب وہ اظہارِ خیالات کرا حضور کے ارشاد پر چند دوستوں نے اپنے چکے تو حضور نے پیش کردہ تجاویز پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا : -

Page 387

خطابات شوری جلد سوم دو مجلس مشاورت ۱۹۴۹ء چونکہ اس وقت کسی اور دوست نے نام نہیں لکھوایا اس لئے جو دوست اظہارِ خیالات ہے.کر چکے ہیں میں انہی کی پیش کردہ باتوں کے متعلق بعض امور بیان کرنا چاہتا ہوں.میرے نزدیک گرانٹ کے ساتھ یہ شرط رکھ دینی چاہئے کہ یہ چندہ کی آمد بڑھانے پر خرچ کی جائے.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم اپنے پاس سے تو کچھ نہیں دیں گے وہ آمد پیدا کریں گے تو ہم گرانٹ دیں گے اور زائد بات یہ ہوگی کہ نادہندگان سے چندہ وصول کرنے کی ایک صورت بھی نکل آئے گی اگلے سال ہم یہ شرط لگا دیں گے کہ گرانٹ اس شرط پر دی جاتی ہے کہ اس سال چندہ اتنا بڑھایا جائے.رامہ صاحب نے اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ نادہندگان سے باز پرس کی جائے یہ بات نہایت اہم ہے اس میں ایک حد تک نظارت بیت المال کی بھی غلطی چندہ حفاظت مرکز اب بھی نصف کے قریب ایسا ہے جو وصول نہیں ہوا.میں نے جب نظارت بیت المال سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ انہوں نے ابھی تک چارٹ بنائے ہی نہیں.اور حالت یہ تھی کہ بعض جماعتوں نے تو اخلاص کی وجہ سے اپنے حصہ کا استی یا نوے فیصدی ادا کر دیا تھا اور بعض جماعتوں کی طرف سے ابھی دس فیصدی چندہ بھی وصول نہیں ہوا تھا.اگر چارٹ بنائے ہوئے ہوتے تو نادہندگان کو توجہ دلائی جاتی کہ وہ جلد از جلد چندہ ادا کریں.تا اخراجات کو پورا کیا جا سکے.اب یہ ہو رہا ہے کہ جب نادہندگان کو ادائیگی کی طرف توجہ دلائی جانی مقصود ہوتی ہے تو سب وعدہ کنندگان کو چٹھی لکھ دی جاتی ہے یہ چٹھی ان لوگوں کو بھی چلی جاتی ہے جنہوں نے اپنے وعدے وقت پر پورے کر دیئے ہوتے ہیں.اب پیشتر اس کے کہ میں اختر صاحب کی تجویز کو پیش کروں میں ایک ضروری بات کہنا چاہتا ہوں.میرے نزدیک ناظروں کو سال میں چھ سات دفعہ باہر لیکچروں کے لئے بھیجنا چاہئے کیونکہ یہ اپنے مافی الضمیر کو ادا نہیں کر سکتے ایک دوست نے یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ سیکرٹری مال کو اجازت ہونی چاہئے کہ وہ ایسے شخص کو جس کی کوئی رقم خزانے میں بطور امانت ہو اُس کے مطالبہ پر چندہ میں سے رقم دے دے اور پھر خزانہ اُس کو ایڈجسٹ Adjust کرلے.میرے نزدیک یہ بالکل غلط تجویز ہے اور دنیا کا کوئی بنک ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا قطع نظر اس کے کہ اس میں بددیانتی کا احتمال ہے.بعض اوقات

Page 388

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۴۹ء دیانتداری سے بھی یہ بات ہو جاتی ہے.روزانہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک آدمی دیانتداری سے کہتا ہے کہ میرا بنک میں اتنا حساب ہے لیکن بعض اوقات تحقیقات کرنے پر بنک میں اُس کا اتنا روپیہ نہیں ہوتا.بہر حال دیانتداری کے ساتھ بھی ایسا کر سکتا ہے کیونکہ واقعات کی سچائی کا دنیا میں یہی معیار ہے کہ فلاں نمازی ہے.یا فلاں روزہ دار ہے.یا فلاں تہجد گزار ہے.حالانکہ ان سب باتوں کے علاوہ انسان کا حافظہ کمزور ہوتا ہے.اور وہ غلطی کر سکتا ہے.اگر سیکرٹری مال کو اپنے پاس سے رقم دینے کی اجازت دے دی جائے تو ایک سال کے اندر ہی گڑ بڑ پیدا ہو جائے.پس ہمارا اصول یہی ہے کہ جس شخص کی امانت ہو وہ خود لے اور یہی بڑے بڑے بنک کرتے ہیں آجکل اس قسم کے دو تین کیس میرے پاس ہیں کسی شخص نے لکھا کہ مجھے اتنا روپیہ دے دیا جائے پھر لکھا کہ کسی بنک کی معرفت جس کی شاخ پشاور میں ہے مجھے اتنا روپیہ بھیج دیا جائے.وہ روپیہ ان کی ہدایت کے مطابق بھیج دیا گیا اور بنک وہ وپیہ لے کر کھا گیا.اب وہ دوست اصرار کر رہے ہیں کہ مجھے روپیہ واپس دلایا جائے.حالانکہ سوال یہ ہے کہ انجمن وہ روپیہ کیوں دے وہ رو پید اگر ضائع ہوا تو ان کی ہدایت کے ماتحت ہوا.انجمن نے تو روپیہ ان کی ہدایت کے مطابق انہیں بھیج دیا تھا.اب اگر ان کا روپیہ ضائع ہو گیا ہے تو انجمن اس کی ذمہ دار نہیں ہوسکتی.اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اتنا روپیہ مجھے منی آرڈر کر دو اور اُس کی ہدایت کے مطابق وہ روپیہ اُسے منی آرڈر کر دیا جائے اور وہ کہیں ضائع ہو جائے تو اس میں انجمن کا کوئی قصور نہیں اور یہی سب بنکوں کا طریق ہے.غرض اُس شخص کی ہدایت کے مطابق روپیہ بنک کے ذریعہ بھیج دیا گیا.مگر جب وہ ضائع ہو تو اب شور مچا رہا ہے کہ مجھے وہ روپیہ واپس دلایا جائے.ایسے کیس ہمیشہ میرے پاس آتے رہتے ہیں اور میں کہتا ہوں کہ انجمن یہ نقصان برداشت نہیں کر سکتی.یہی دنیا کا اصول ہے.اگر ایک نوکر کو میں کسی کام کے لئے بازار بھیجتا ہوں اور پھر اس سے کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو اس کی ذمہ داری میں اُٹھا سکتا ہوں.لیکن جس کام کے لئے میں نے اُسے بھیجا ہی نہیں اُس کا میں کس طرح ذمہ دار ہو سکتا ہوں.مثلاً میں ایک نوکر کو بازر سے مولیاں خریدنے کے لئے بھیجتا ہوں اور وہ گھوڑ ا خرید لیتا ہے تو اُس کا فرض ہے کہ وہ اُس نقصان کو خود برداشت کرے کیونکہ گھوڑا خریدنے کے لئے میں نے اُسے مقرر نہیں کیا تھا.ہاں اگر وہ

Page 389

خطابات شوری جلد سوم ۳۷۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۹ء مولیاں خریدتا اور پھر کوئی نقصان ہو جاتا تو میرا فرض تھا کہ میں اُس نقصان کو برداشت کرتا کیونکہ وہ میری طرف سے یہ کام کرنے کے لئے مقرر تھا.لیکن جس کام کے لئے وہ مقرر نہیں اگر اُس میں اُسے نقصان ہو جاتا ہے تو نتیجہ لازماً اُس کو بھگتنا پڑے گا.پس یہ طریق نہایت خطرناک ہے اور اسے ہرگز اختیار نہیں کیا جاسکتا.اصل تجویز صرف ایک ہے کہ آئندہ مجلس مشاورت کے ہر ممبر کے لئے موصی ہونا لازمی قرار دیا جائے.اگر کوئی دوست اس کے متعلق کچھ کہنا چاہتے ہوں تو وہ اپنا نام لکھوا دیں.دو حضور کے اس ارشاد پر جب چند نمائندگان اظہارِ خیالات کر چکے تو فرمایا : - دوستوں نے مختلف احباب کے خیالات سُن لئے ہیں جو احباب اس امر کی تائید میں ہوں کہ شورای کی ممبری کے لئے وصیت کا ہونا ضروری ہونا چاہئے جیسے اختر صاحب کی 66 تجویز ہے وہ کھڑے ہو جائیں.‘“ اس پر ۱۸۸ دوست کھڑے ہوئے.جو دوست اس رائے کے حق میں ہوں کہ شورای کی ممبری کے لئے وصیت کی قید نہیں ہونی چاہئے وہ کھڑے ہو جا ئیں.“ ۵۶ دوست کھڑے ہوئے.آراء شماری کے بعد حضور نے فرمایا : - مجلس شوری کی ممبری کے لئے وصیت ضروری نہیں کثرت رائے کا مشورہ یہ ہے کہ شوری کی ممبری کے لئے وصیت کی شرط ہونی چاہئے لیکن میں آج اپنی عادت کے خلاف فیصلہ کرنا چاہتا ہوں.میرے نزدیک شوری کی ممبری کے لئے قیود ضرور زیادہ ہونی چاہئیں موجودہ قیود کافی نہیں مگر اس کی ممبری کے لئے موصی ہونے کی شرط میرے نزدیک بلا ضرورت اور بلا فائدہ ہوگی اس لئے کہ شوریٰ کے ممبر بہت ہی کم ہوتے ہیں اور اُن کی قربانی ہمارے بجٹ کے معیار کو اونچا نہیں کر سکتی.دوسرے وہ لوگ جو مختلف جماعتوں کی طرف سے شوریٰ میں شامل ہونے کے لئے آتے ہیں اُن میں سے کافی تعداد پہلے ہی موصی ہوتی ہے اس لئے اس شرط کو عائد کر دینے سے چندوں پر کوئی خاص اثر نہیں پڑسکتا.“ 66

Page 390

خطابات شوری جلد سوم ۳۷۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۹ء اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ:- جو منتخب شدہ نمائندہ ہیں اُن میں سے جو موصی ہیں کھڑے ہو جائیں.“ اس پر ۱۶۳ دوست کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا :- دو گل ٹکٹ ۳۱۰ تھے جن میں سے پچاس کے قریب نامزد ہیں.اس کے معنے یہ ہیں کہ منتخب شدہ نمائندے ۲۶۰ تھے جن میں سے ۱۶۳ موصی ہیں اور صرف ۹۷ کے قریب ایسے ہیں جو غیر موصی ہیں در حقیقت وہ اس بات کے محتاج ہیں کہ انہیں کسی قدر تحریک کی جائے.اگر اُنہیں ذرا بھی تحریک کی جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ فوراً موصی بن جائیں گے لیکن اِس سے ہمارے بجٹ پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا.پس باوجود اس کے کہ ایک بھاری اکثریت اس تجویز کے حق میں ہے.میں اقلیت کے حق میں فیصلہ کرتا ہوں کہ مجلس شوری کی ممبری کے لئے وصیت کا ہونا ضروری نہیں.“ حضور نے فرمایا: - بجٹ آمد کی منظوری کا اعلان ” اب جو دوست صدرانجمن احمدیہ کے پیش کردہ 66 بجٹ آمد کو میری ترامیم کے ساتھ منظور کرنے کے حق میں ہوں وہ کھڑے ہو جائیں.“ ۲۳۲ دوست کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا : - ۲۳۲ دوست اس بات کے حق میں ہیں کہ اسے منظور کر لیا جائے چونکہ یہ ایک بہت بڑی اکثریت ہے اس لئے دوسری رائے کی ضرورت نہیں میں اپنی پیش کردہ ترامیم اور اضافوں کے ساتھ صدر انجمن احمدیہ کے بجٹ آمد کو منظور کرتا ہوں.“ ” اب جو دوست اس بات کے حق میں بجٹ اخراجات کی منظوری کا اعلان ہوں کہ صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے جو اخراجات کا بجٹ پیش کیا گیا ہے اُسے منظور کر لیا جائے اس شرط کے ساتھ کہ گرانٹ سے متعلق جو امور میں نے بیان کئے ہیں اُن کو مدنظر رکھا جائے اور سیالکوٹ، راولپنڈی اور کراچی کی جماعتوں کی امداد کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں قواعد کے مطابق ایک معتین رقم خرچ 66 کرنے کی اجازت ہو وہ کھڑے ہو جائیں.“ سب دوست کھڑے ہو گئے.حضور نے فرمایا : -

Page 391

خطابات شوری جلد سوم ۳۷۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۹ء اس بجٹ میں کچھ غلطیاں بھی ہیں مگر آپ لوگوں کی سفارش کے ماتحت میں بجٹ اخراجات کو اصولی طور پر منظور کرتا ہوں اگر کسی جگہ مجھے بعد میں اصلاح کی ضرورت محسوس ہوئی تو میں خود بخود کر دوں گا.“ اختتامی تقریر وصیت کی اہمیت مجلس مشاورت کی کارروائی ختم ہونے پر حضور نے ایک مختصر سی تقریر کی جس میں نمائندگان جماعت کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا: - میں جماعت کو پھر اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اُسے اپنی قربانی کے معیار کو بلند کرنا چاہئے.میں نے بے شک نمائندگان کے لئے موصی ہونے کی شرط کو اُڑا دیا ہے مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ وصیت کی اہمیت کو نظر انداز کر دیا جائے.اس وقت تک وصیت کی طرف جماعت کی بہت ہی کم توجہ ہے میرے نزد یک اب وقت آ گیا ہے کہ جماعت کے ہر فرد سے یہ اصرار کرنا چاہئے کہ وہ وصیت کرے.اگر سب جماعت وصیت کر دے تو میرے نزدیک فوری طور پر دو تین لاکھ روپیہ کا چندہ میں اضافہ ہو سکتا ہے پھر اصل چیز جب کہ میں نے بار ہا بتایا ہے دعا ہے.ہم نے تجربہ آیا کیا ہے کہ صرف چھیاسٹھ ہزار ، چالیس ہزار روپیہ نہیں آیا.یہ ایک نہایت خطرناک بات ہے جس کی فوری طور پر اصلاح ہونی ضروری ہے.اولا د کو جنت کا حقدار بنائیں میں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ خالی آن کا جنت میں چلے جانا کافی نہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو بھی جنت کا حقدار بنائیں.اور اُن کے اعمال کی نگرانی رکھیں.ابھی تک جماعت کی قربانی کے معیار کو جس حد تک ہم نے پہنچایا ہے وہ دنیا کی فتح کے لئے کافی نہیں اور اگر آئندہ نسل میں قربانی کی وہ روح نہیں ہوگی جو ہم پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ہماری ساری جدو جہد اکارت چلی جائے گی.پس اپنی اولادوں اور جماعت کے نو جوانوں اور نئے آنے والوں میں یہ روح پیدا کرو کہ بجائے قربانی میں کم ہونے کے وہ ہی اصل مسودہ میں سے ایک صفحہ missing ہے اس لئے اس جگہ.....ڈالے گئے ہیں.مرتب

Page 392

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۴۹ء پہلوں سے زیادہ قربانی کرنے کی روح اپنے اندر رکھتے ہوں اس کے ساتھ ہی وصیت کو مقبول بنانے کی کوشش کرو.اس ذریعہ سے جماعت کی بہت سی مشکلات کا ازالہ ہو سکتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ اگر جماعت میں سے نوے فیصدی لوگ وصیت کر دیں تو ہمارے سارے قرضے دور ہو جائیں اور ہماری ترقی کے کئی نئے راستے نکل آئیں.اب میں اللہ تعالیٰ سے دُعا کر دیتا ہوں کہ وہ ہمیں اخلاص کے ساتھ نہ صرف بجٹ کے پورا کرنے بلکہ بڑھا کر پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ ہم اُس ذمہ داری کو ادا کر سکیں جو اُس نے ہمارے کمزور کندھوں پر ڈالی ہے.“ اس کے بعد حضور نے لمبی دعا کروائی اور بارہ بجے شب مجلس شوریٰ کا یہ تاریخی اجلاس بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوا.(رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء غیر مطبوعہ از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ) إِنْ تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ اَوْ تَتْرُكُهُ يَلْهَثْ (الاعراف: ۱۷۷)

Page 393

خطابات شوری جلد سوم ۳۷۷ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء ( منعقده ۷ تا ۹ / اپریل ۱۹۵۰ء) پہلا دن جماعت احمدیہ کی اکتیسویں مجلس مشاورت مؤرخہ ۷ تا ۹.اپریل ۱۹۵۰ء کو ربوہ میں دعا منعقد ہوئی.قرآن کریم کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا : - ”اب میں اس اجلاس کی کارروائی شروع کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کروں گا کہ وہ ہماری مدد فرمائے اور وہ عظیم الشان کام جو ہمارے سپرد کیا گیا ہے اُس کے بجالانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری کمزوریوں اور غلطیوں کو معاف فرمائے اور وہ تمام فتن جو ہمارے راستے میں پیدا کئے جا رہے ہیں یا آئندہ پیدا ہو سکتے ہیں اُن کو دور فرمائے اور ہمیں اس قابل بنائے کہ ہم اس کے فضلوں کو جذب کرنے والے ہوں اور اُس کی ناراضگیوں سے بچنے والے ہوں اور اُس کی مہربانیوں اور عنایت کے مستحق ہوں.اس کی ناراضگی اور خفگی کے مورد نہ ہوں اور وہ ہماری کمزریوں کو اپنی طاقت سے دور فرمائے اور ہماری جہالتوں کا اپنے علم سے ازالہ فرمائے اور ہماری کوتاہ اندیشیوں کی اپنے علم اور اپنے فضل سے اصلاح فرمائے اور اُن کی بجائے ہمیں اُن راستوں کی ہدایت فرمائے جن رستوں پر چل کر ہم اسلام اور احمدیت کی صحیح خدمت کر سکیں اور ہم وہ نہ ہوں جو اس دُنیا میں آتے ہیں تو اس طرح مر جاتے ہیں کہ نہ اُن کے آنے سے اس دُنیا میں کوئی تغیر پیدا ہوتا ہے اور نہ اُن کے مرنے سے کوئی تغیر پیدا ہوتا ہے بلکہ ہم وہ ہوں کہ ہماری اس دُنیا میں آمد اس دُنیا کی اصلاح اور فائدہ کے لئے عظیم الشان تغیر پیدا کرنے کا موجب ہو اور ہمارا

Page 394

خطابات شوری جلد سوم ۳۷۸ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء اس دُنیا سے جانا بھی دُنیا کے لئے ایک قیامت کا موجب ہو.ساتھ ہی ہمیں اللہ تعالیٰ سے یہ بھی دُعا کرتے رہنا چاہئے کہ وہ ایسی نئی پود پیدا کرتا رہے جو اس بوجھ کو اُٹھاتی چلی جائے جو ہم پر ڈالا گیا ہے.وہ ہم سے کم خدمت کرنے والی، ہم سے کم قربانی کرنے والی، ہم سے کم خدا تعالیٰ سے محبت کرنے والی اور ہم سے کم دین کے لئے اپنے اوقات صرف کرنے والی نہ ہو بلکہ اُس کا قدم آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے اور وہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کی زیادہ سے زیادہ وارث ہو.پھر ہمارا فرض ہے کہ ہم اس موقع پر بھی یہ دُعا کریں کہ وہ ہمارے فیصلوں کے بہترین نتائج پیدا کرے اور ہمیں ان فیصلوں کے پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم کو اُن لوگوں میں شامل نہ فرمائے جن کے متعلق وہ کہتا ہے کہ وہ کہتے ہیں مگر کرتے نہیں بلکہ ہم جو کچھ کہیں اُس کے مطابق کریں بلکہ اس سے زیادہ کر کے دکھائیں تا کہ ہمارے اندر کسی قسم کے نفاق کا شائبہ نہ ہو.دُنیا کی نگاہوں میں بھی ، اپنی نگاہوں میں 66 بھی اور خدا تعالیٰ کی نگاہوں میں بھی.“ تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: - افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ کے بعد جن حالات میں سے میں گزرا ہوں اور میری صحت جیسی تھی اُس کے لحاظ سے یہ مشکل نظر آتا تھا کہ شوریٰ کے موقع پر میں حصہ لے سکوں گا لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دے دی اور میں شوریٰ میں شریک ہو گیا.اب بھی میرا گلا زخمی ہے اور آواز پھٹی ہوئی ہے لیکن بہر حال اب آواز اونچی نکلنے لگ گئی ہے.شروع میں تو متواتر کئی دن ایسے گزرے ہیں کہ میرے حلق میں سے آواز بالکل ہی نہیں نکل سکتی تھی اور اگر بہت زور دے کر تھوڑا سا بھی بولتا تو شدید ضعف ہو جاتا ، پسینے آنے لگتے اور بخار ہو جاتا.اُس وقت کے حالات کے ماتحت تو میں سمجھتا تھا کہ شاید میری آواز ہمیشہ کے لئے ختم ہو گئی ہے لیکن آہستہ آہستہ پھر آواز نکلنی شروع ہوئی اور اب بھی گو میں اونچی آواز سے بول سکتا ہوں لیکن آواز پھٹی ہوئی نکلتی ہے.اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ میری طبیعت کب تک ٹھیک ہو گی.لاہور میں بعض ڈاکٹروں سے مشورہ لیا گیا تو اُنہوں نے کہا کہ بچپن اور جوانی میں بھی اگر یہ مرض ہو تو لمبا عرصہ لیتی ہے اور جب انسان اُدھیڑ عمر سے نکل جائے تو پھر تو یہ بہت زیادہ لمبا عرصہ لیتی ہے اور اس کے جلدی اچھے ہونے کا امکان نہیں ہوتا.بہر حال یہ

Page 395

خطابات شوری جلد سوم ۳۷۹ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اُس نے مجھے شمولیت کا موقع دے دیا اور وہ بھی ایسی صورت میں کہ میں اب بول سکتا ہوں اور اپنی آواز دوستوں تک پہنچا سکتا ہوں لیکن بہر حال زیادہ بولنا خطرہ سے خالی نہیں اس لئے ضروری ہوگا کہ میں کم بولوں اور زیادہ زور اپنے گلے پر نہ ڈالوں تا ایسا نہ ہو کہ مرض عود کر آئے اور علاج اور بھی مشکل ہو جائے.نمائندگان اور زائرین کے بیٹھنے ایک ہدایت میں کارکنوں کو یہ دینا چاہتا ہوں کہ وہ مجلس شوری کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کیلئے کرسیوں کا انتظام کیا جائے آئندہ اس کے لئے سامان جمع کریں.ہماری جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ رہے گی اور مجلس شوری بھی ہمیشہ ہوتی رہے گی بلکہ یہ زیادہ سے زیادہ منظم ہوتی چلی جائے گی اس لئے ضروری ہے کہ نمائندگان اور زائرین کے بیٹھنے کے لئے مناسب انتظام کیا جائے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارا پرانا طریق یہی تھا کہ سب لوگ زمین پر بیٹھ کر کام کیا کرتے تھے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ زمین سے اُٹھ کر بات کرنا مشکل ہوتا ہے اور بولنے والے پر یہ.اثر پڑتا ہے کہ میں اپنی بات دوسروں سے منوا نہیں رہا اور بولنے والے کے دل میں یہ یقین پیدا کرنے کے لئے کہ اُس کی بات سُنی جا رہی ہے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ ایسی طرز پر خطاب کرے کہ لوگ اُس کو نظر آتے ہوں اور وہ اُن کو نظر آتا ہو اور یہ اُس وقت ہو سکتا ہے جب سب لوگ گرسیوں پر بیٹھے ہوئے ہوں، زمین پر بیٹھے ہوئے آدمی کے لئے بار بار کھڑے ہونا اور جواب دینا مشکل ہوتا ہے.پس آئندہ کے لئے اس امر کو مدنظر رکھا جائے اور مجلس شوری کے لئے سستی قسم کی گرسیاں لے لی جائیں.اوّل تو یہ کوئی بڑا خرچ نہیں.فسادات سے قبل قادیان میں ہمارے ساڑھے چار سو تک نمائندے ہوا کرتے تھے.آج مجھے بتایا گیا ہے کہ نمائندگان کی تعداد ۳۱۷ ہے.اگر ساڑھے تین سو نمائندے بھی سمجھ لئے جائیں تو تین ہزار روپیہ میں سارا سامان خریدا جا سکتا ہے.لوگ آرام سے بھی بیٹھ سکتے ہیں اور بولتے وقت بھی انہیں سہولت میسر آ سکتی ہے.کرسی سے اُٹھ کر کھڑے ہونے میں بہت آسانی ہوتی ہے لیکن زمین سے کھڑا ہونا مشکل ہوتا ہے.یہاں سکول بن جائے تو کچھ گرسیاں سکول سے بھی لی جاسکتی ہیں اور کچھ گھروں سے لی جاسکتی ہیں ہم نے یہاں آتے وقت

Page 396

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء ایک سو کرسی خریدی تھی جو اس وقت مختلف دفاتر میں ہے.اگر مجلس شوری کی ضرورت کو اپنے سامنے رکھا جائے اور کچھ سامان اس سال لے لیا جائے اور کچھ اگلے سال تو دو سال کے اندر اندر بہت قلیل رقم میں تمام سامان جمع ہو سکتا ہے.اس طرح مجلس شوری کی کارروائی سننے کے لئے بیرونجات سے جو دوست آتے ہیں اُن کے بٹھانے کے لئے بھی مناسب انتظام ہونا چاہئے.اگر لکڑی کے کھمبے ہی اس طرح لگا دیئے جاتے کہ زائرین ایک ترتیب سے الگ بیٹھ سکتے تو یہ بہت زیادہ بہتر ہوتا.اس طرح ناپسندیدہ لوگوں کو بھی اندر آنے کا موقع نہیں مل سکتا اور شامل ہونے والوں کو بھی سہولت میسر آ سکتی ہے.کارکنوں کیلئے بیج کی ہدایت دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اٹھائیس سال سے ہماری مجلس شوریٰ ہو رہی ہے اور بار بار ہمیں اس کا تجربہ ہوتا ہے مگر ہمارے کارکنوں نے گزشتہ تجربات سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ترقی کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی.اس وقت شوری کے ممبر بھی بیٹھے ہوئے ہیں اور کارکن بھی بیٹھے ہوئے ہیں مگر یہ امتیاز کرنا مشکل ہے کہ کارکن کون سے ہیں اور ممبر کون سے ہیں.اگر ہر دفعہ مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے اُن کی اصلاح کی کوشش کی جاتی تو اس قسم کی باتوں کا حل دیر سے دریافت ہو چکا ہوتا.میں سمجھتا ہوں کہ ممبران کے لئے تو بیج لگا کر آنا مناسب نہیں لیکن کارکنوں کے لئے اگر کوئی بیج مقرر کر دیا جائے جو دورانِ مشاورت میں وہ لگائے رکھیں تو یہ زیادہ بہتر ہوگا.اگر مجلس مشاورت کا کوئی بیج ہو جو تمام کارکنوں نے لگایا ہوا ہو تو ہر شخص کو نظر آ سکتا ہے کہ یہ لوگ کا رکن ہیں، شوری کے ممبر نہیں.جس طرح خدام الاحمدیہ والوں نے اپنے لئے ایک بیج بنایا ہوا ہے.اسی طرح شوری جو جماعت کا سب سے اہم محکمہ ہے اُس کے کارکنوں کے لئے بھی بیج ہونا چاہئے.اگر کارکنوں کو بیج لگ جائے تو وہ جہاں ہوں گے سب لوگوں کو نظر آ رہا ہوگا کہ یہ صرف کا رکن ہیں، ووٹ دینے کا حق نہیں رکھتے.ابھی تو خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ زمانہ نہیں کہ لوگ دھوکا سے ووٹ دینے کے لئے کھڑے ہو جائیں لیکن ہو سکتا ہے کہ کبھی کسی کمزور انسان کے دل میں ایسا خیال پیدا ہو جائے اور وہ اس قسم کی حرکت کر بیٹھے اس لئے ضروری ہے کہ کارکنوں کے لئے بیج بنایا جائے جو اُنہوں نے ایامِ مشاورت میں لگایا ہوا ہو.جن کے بیج لگے ہوئے ہوں گے وہ

Page 397

خطابات شوری جلد سوم ۳۸۱ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء ممبر نہیں سمجھے جائیں گے اور نہ انہیں ووٹ دینے کا اختیار ہوگا، ووٹ صرف نمائندگان دے سکیں گے.اگر یہ احتیاط کر لی جائے تو کوئی غیر آدمی دھوکا دینے کی کوشش نہیں کر سکتا.اس کے بعد میں ایک ذاتی امر کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جو اس لحاظ سے ذاتی ہے کہ اُس کا میری ذات پر اثر پڑتا ہے ورنہ ہے وہ سلسلہ کا ہی.میں نے اپنے طور پر اس کام کو کرنے کی کوشش کی مگر اس میں مجھے روکیں نظر آئیں اس لئے اب میں وہ معاملہ جماعت کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں.اس وقت سب دوست بیٹھے ہیں وہ لوگ بھی بیٹھے ہیں جن کے خاندان سے وہ بات تعلق رکھتی ہے، وہ لوگ بھی بیٹھے ہیں جنہوں نے وہ کام کیا مگر معلوم نہیں کیوں وہ اب تک خاموش رہے ہیں اور کیوں اُنہوں نے اس بات کی طرف توجہ نہیں کی.چونکہ زندگی کا اعتبار نہیں میں نہیں چاہتا کہ وہ بوجھ مجھ پر رہے، اس لئے میں اس بات کو آج پیش کر دیتا ہوں.چار پانچ سال کی بات ہے ایک مجلس شوریٰ میں جو قادیان میں ہوئی علاوہ اور باتوں کے یہ بھی تحریک کی گئی کہ چونکہ قادیان کی زمینیں بہت مہنگی ہوتی جا رہی ہیں اور ہمیں دفاتر ، کالج اور سکولوں وغیرہ کے لئے زمین کی ضرورت ہے اس لئے صدر انجمن احمدیہ کو چاہئے کہ وہ ابھی سے ان اغراض کے لئے زمین خرید لے.مجھے یاد ہے جب یہ تحریک ہوئی تو مولوی ابو العطاء صاحب بار بار زور دیتے تھے کہ جامعہ احمدیہ کے لئے بھی زمین خریدی جائے.آخر فیصلہ ہوا کہ اس غرض کے لئے صدر انجمن احمد یہ کو فوراً زمین خرید لینی چاہئے.یہ آخری الیکشن کے قریب کے زمانہ کی بات ہے.اس فیصلہ کے کچھ عرصہ بعد نواب محمد دین صاحب نے کہا کہ میری زمین قادیان کے پاس موجود ہے.کالج ، مدرسہ احمدیہ، زنانہ سکول جامعہ اور صدر انجمن احمدیہ کے دوسرے اداروں کے لئے اگر صد را انجمن احمد یہ اُس زمین کو خریدنا چاہتی ہے تو بے شک خرید لے، میں وہ زمین دینے کے لئے تیار ہوں.چنانچہ نواب صاحب سے وہ زمین ۸۵ ہزار روپیہ میں خرید لی گئی لیکن اس کا روپیہ تحریک جدید کے فنڈ سے میں نے سہولت کی نظر سے ادا کروا دیا.یہ قیمت انجمن نے ہی طے کی تھی میں نے نہیں کی تھی.اس کے بعد نواب محمد دین صاحب نے اس روپیہ میں سے ایک ہزار چندہ کے طور پر دیا اور کہا کہ چونکہ یہ زمین تعلیمی اغراض اور جماعتی مفاد کے لئے خریدی گئی ہے، اس لئے میں

Page 398

خطابات شوری جلد سوم ۳۸۲ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء اس میں سے ایک ہزار روپیہ اپنی طرف سے بطور چندہ پیش کرتا ہوں مگر یہ روپیہ اب تک تحریک کو صدرانجمن احمدیہ نے ادا نہیں کیا اور مجھ پر اس کی طرف سے ذمہ داری آتی ہے میں برابر چار سال سے صدر انجمن احمدیہ کو کہ رہا ہوں کہ وہ اس امر کا فیصلہ کرے مگر بار بار کہنے کے باوجود رو پید ادا نہیں کیا گیا.حالانکہ خود نواب محمد دین صاحب کے خاندان کے افراد بھی اِس حقیقت کو پوری طرح جانتے ہیں اور دوسرے لوگ بھی جانتے ہیں کہ یہ زمین تحریک جدید کے لئے نہ تھی صدر انجمن احمدیہ کے لئے تھی.ابھی مجھے نواب محمد دین صاحب کے لڑکے چوہدری محمد شریف صاحب نظر آئے ہیں.شاید اس بارہ میں اُن کو بھی کچھ علم ہو.“ اس موقع پر حضور نے فرمایا: - چوہدری محمد شریف صاحب بتائیے یہ زمین کس کے لئے تھی ؟ چوہدری محمد شریف صاحب.حضور یہ زمین صدر انجمن کے لئے ہی تھی.اس کے بعد حضور نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سے گواہی لی تو اُنہوں نے بھی فرمایا کہ یہ زمین صدر انجمن کے لئے ہی خریدی گئی تھی.پھر حضور نے راجہ علی محمد صاحب سے گواہی لی جو اُس وقت ناظر بیت المال تھے تو اُنہوں نے بھی اس امر کی تصدیق کی کہ زمین صدر انجمن نے ہی خریدی تھی.حضور نے فرمایا: - پھر کیا بات ہے کہ میرا پیچھا نہیں چھوڑا جاتا اور یہ روپیہ تحریک کو ادا کر کے مجھے ذمہ داری سے سبکدوش نہیں کیا جاتا.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جو بھی اُٹھے گا اعتراض کرے گا اور یہ خیال کرے گا کہ میں نے اتنا روپیہ تحریک کا اُڑا لیا ہے حالانکہ یہ روپیہ تحریک جدید سے صدر انجمن احمدیہ کو قرض دلوایا گیا تھا.اب بجٹ پر غور کرنے کے لئے جو سب کمیٹی بنائی جائے گی میں اُسے ہدایت کرتا ہوں کہ وہ نواب صاحب کے بیٹوں، راجہ علی محمد صاحب، میاں بشیر احمد صاحب اور اسی طرح اگر کوئی اور دوست ہوں تو اُن کے حلفیہ بیانات لے کر اس امر کا فیصلہ کرے.میرے متواتر کہنے کے باوجود ناظر اس بارہ میں کوئی فیصلہ نہیں کرتے ، وہ کھسک کر چلے جاتے ہیں اور مجھے معلوم ہوا کہ ان میں سے بعض دوست یہ باتیں کرتے رہتے ہیں کہ ہمیں کیا پتہ ہے کہ یہ زمین کس نے خریدی تھی اور چونکہ یہ معاملہ

Page 399

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء اب لمبا ہو گیا ہے اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ جماعت کے سامنے یہ بات آ جائے اور کمیٹی حلفیہ بیان لے کر فیصلہ کرے.اگر انجمن نے ہی سلسلہ کی اغراض کے لئے یہ زمین خریدی تھی تو یہ کیسی تقویٰ کے خلاف بات ہے کہ برابر چارسال سے میرے کہنے کے باوجود اُس نے یہ رقم تحریک کے خزانہ کو ادا نہیں کی.اس کی بڑی وجہ تو غالباً یہی ہے کہ قادیان کی جائدادیں انجمن کے ہاتھ سے چلی گئی ہیں اور اب اُسے اُس زمین کے معاملہ سے کوئی دلچسپی نہیں رہی لیکن بہر حال اس کا فیصلہ ہونا ضروری ہے اور اس لئے میں نے یہ بات مجلس میں پیش کی ہے.احمدیوں کو فوج میں بھرتی کی تحریک دوسری بات جو میں جماعت سے کہنا چاہتا ہوں وہ بھی ایسی ہے کہ اب اُس کے متعلق دور میں دوٹوک فیصلہ کرنا چاہتا ہوں.ایک زمانہ ایسا تھا کہ غیر قوم ہم پر حاکم تھی اور وہ غیر قوم امن پسند تھی مذہبی معاملات میں وہ کسی قسم کا دخل نہیں دیتی تھی.اس کے متعلق شریعت کا حکم یہی تھا کہ اُس کے ساتھ جہاد جائز نہیں اور چونکہ حکومت کی باگ اُن لوگوں کے ہاتھ میں تھی جو غیر مسلم تھے اور جن کا براہِ راست اسلامی سیاست پر کوئی اثر نہیں پڑتا تھا اس لئے لازمی طور پر اُن کے توسط سے بھی جہاد کا کوئی پہلو نہیں نکلتا تھا اور ہماری تعلیم یہی ہوتی تھی کہ امن سے رہو.لیکن اس کے بعد زمانہ بدل گیا اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے ملک کے ایک حصہ میں ایسے لوگوں کو حکومت دے دی جن میں خواہ کتنی بھی کمزوریاں ہوں ، جن کی عملی حالت خواہ کتنی ہی گری ہوئی ہو بہر حال وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں نہیں دیتے بلکہ آپ پر درود پڑھتے ہیں.وہ نماز کے مخالف نہیں ، وہ قرآن کے مخالف نہیں ، وہ قرآن کریم کی عزت کرتے ہیں، چاہے وہ اُسے اُٹھا کر جھوٹی قسم ہی کیوں نہ کھا لیں.بہر حال پہلا زمانہ گیا اور وہ زمانہ آ گیا جس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث صادق آتی ہے کہ مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ وَ عِرْضِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ جو شخص اپنے مال اور اپنی عزت کے بچاؤ کے لئے مارا جاتا ہے وہ شہید ہوتا ہے بلکہ صرف مال اور عزت کا ہی سوال نہیں حالات اس قسم کے ہیں کہ اگر کوئی خرابی پیدا ہوئی اور لڑائی پر نوبت پہنچ گئی تو وہ تباہی جو مشرقی پنجاب میں آئی تھی شاید اب وہ ایران کی سرحدوں تک بلکہ اس سے بھی آگے نکل جائے.

Page 400

خطابات شوری جلد سوم ۳۸۴ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء دوسروں کے لئے بھی مشکلات ہیں مگر ہماری جماعت کے لئے سب سے زیادہ مشکل ہے.دوسرے لوگ بکھر گئے تو بکھر گئے لیکن ہماری جماعت ایک منظم جماعت ہے جب تک وہ کہیں منظم ہو کر نہ بیٹھے گی اُس وقت تک وہ کوئی کام نہیں کر سکے گی.یہ کہنا کہ خدا اس سلسلہ کو چلائے گا ٹھیک ہے مگر تم اپنے باقی کاموں میں صرف یہ نہیں دیکھتے کہ خداوہ کام کرتا ہے یا نہیں بلکہ خود بھی اُن کے لئے کوشش کرتے ہو.خدا ہی کھانا کھلاتا ہے مگر تم خود کھانا پکاتے ہو، خدا ہی کپڑے پہناتا ہے مگر تم کپڑے سیتے ہو، پس صرف اس بات پر مطمئن ہو جانا کہ خدا تعالیٰ اس سلسلہ کو قائم رکھے گا اور مادی تدابیر سے غافل ہو جانا کسی صورت میں بھی درست نہیں ہوسکتا.میں نے ان حالات کو دیکھتے ہوئے جماعت میں یہ تحریک کی تھی کہ ہمیں خدا تعالیٰ نے کشمیر کے معاملہ میں لڑائی کا فن سیکھنے کا ایک نہایت اعلیٰ درجے کا موقع عطا فرمایا ہے.اگر پاکستانی احمدی وہاں کثرت کے ساتھ جائیں تو آئندہ انہیں اپنی طاقتوں کے صحیح استعمال کا بہترین موقع مل سکتا ہے.میری اس تحریک پر بہت سے دوست گئے اُنہوں نے فوجی ٹریننگ میں حصہ لیا، نیک نامیاں حاصل کیں، دوسروں کے لئے اچھا نمونہ قائم کیا اور ہمیں امید پیدا ہوئی کہ آئندہ پیش آنے والے خطرات میں وہ اپنے ملک اور قوم کی اعلیٰ درجہ کی خدمت سرانجام دے سکیں گے اور یہ بات ایسی نہیں تھی کہ میں نے تم کو کہا ہو اور خود اس پر عمل نہ کیا ہو.میرے قریباً سارے لڑکے سوائے اس لڑکے کے جو ہندوستان میں ہے کیونکہ وہ ہندوستان کا باشندہ ہے اور اس کے لئے اس تحریک میں حصہ لینا ہمارے مسلک اور طریق کے مطابق ناجائز ہے، اسے بہر حال ہندوستان کی حکومت کا وفادار رہنا چاہئے.یا سوائے ایک چھوٹے بچے کے جو بالغ نہیں باقی سب کے سب وہاں سے ہو کر آئے ہیں.پس یہ نہیں کہ دوستوں کو میں نے کوئی ایسی بات کہی ہو جس سے میں نے اپنوں کو بچایا ہو بلکہ میرے بعض بچے وہاں اُس وقت کام کر کے آئے ہیں جب کہ صرف رات کے وقت وہ سفر کر سکتے تھے.دن کو گولہ باری ہوتی رہتی تھی ، رستے دشوار گزار تھے اور سامان وغیرہ بھی اپنی پیٹھوں پر لاد کر لے جانا پڑتا تھا.اب تو ٹرک آنے جانے لگ گئے ہیں، سڑکیں بن گئی ہیں اور انتظام زیادہ عمدہ ہو گیا ہے.

Page 401

خطابات شوری جلد سوم ۳۸۵ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء بہر حال میں نے یہ دیکھا ہے کہ کچھ مدت تک جوش دکھا کر جماعت نے اب خاموشی اختیار کر لی ہے اور وہ فوجی ٹریننگ کے لئے اپنے نوجوان پیش نہیں کر رہی.میں نے بارہا کہا ہے کہ بغیر خون کی ندی میں سے گزرنے کے تم کامیاب نہیں ہو سکتے اور یہ بات بالکل غلط ہے کہ کوئی قوم خون کی ندی میں سے آپ ہی آپ گزرنے لگ گئی ہو اور اُسے فوجی مشق کی ضرورت پیش نہ آئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو ان مشقوں کو اتنا اہم سمجھتے تھے کہ آپ مسجد میں بھی فنونِ جنگ کے کرتب دیکھتے تھے اور اپنی موجودگی میں صحابہ کا تیراندازی میں مقابلہ کرواتے تھے ، انہیں نیزہ بازی سکھاتے تھے ، انہیں شمشیر زنی کی مشق کراتے تھے ، اُن میں گھوڑ دوڑ کی مہارت پیدا کرتے تھے اور اس طرح اپنی جماعت کو ہر وقت آنے والے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار رکھتے تھے مگر ہماری جماعت میں اس قسم کی بے رغبتی پیدا ہو گئی ہے کہ اس چھوٹے سے کام میں بھی اُس قربانی کا نمونہ نہیں دکھا رہی جو دوسری جماعتیں پیش کر رہی ہیں.ہماری جماعت کے بعض دوست اپنی تعداد کو بہت بڑھا کر بیان کرنے کے عادی ہیں.میں تو ایسے لوگوں کی ہمیشہ تردید کیا کرتا ہوں.مجھ سے اگر کوئی پوچھے کہ آپ کی جماعت کتنی ہے؟ تو میں کہا کرتا ہوں کہ ساری دُنیا کے احمدی ملا کر شاید ہماری تعداد چار پانچ لاکھ ہوگی.اس پر عموماً مجھے کہا جاتا ہے کہ فلاں احمدی تو کہتا ہے کہ ہندوستان میں دس لاکھ احمدی ہیں.میں کہتا ہوں اُس کا علم مجھ سے زیادہ ہو گا میرا اندازہ تو اتنا نہیں.غرض جب تعداد کے بیان کرنے کا وقت آتا ہے تو تم مبالغہ آمیزی سے کام لیتے ہو اور کہتے ہو کہ ہماری تعداد دس لاکھ ہے یا پندرہ لاکھ ہے مگر جب قربانی کا وقت آتا ہے تو تم کبھی غور نہیں کرتے کہ تم کیا کر رہے ہو اور صحابہ کیا کیا کرتے تھے.صحابہ کے وقت سولہ فی صدی آبادی جنگ میں شامل ہوا کرتی تھی.اگر دس لاکھ احمدی ہوں تو ہم میں سے ایک لاکھ ساٹھ ہزار آدمی فوجی ہونا چاہئے.اگر ۵ لاکھ احمدی ہوں تو ہم میں اسی ہزار فوجی ہونا چاہئے.اگر کہو کہ ہم میں صحابہ جتنی ہمت نہیں اور تم صحابہ سے آدھی بھی قربانی کرو تو دس لاکھ ہونے کی صورت میں تم میں اسی ہزار فوجی ہونا چاہئے اور پانچ لاکھ ہونے کی صورت میں تم میں چالیس ہزار فوجی ہونا چاہئے.اگر کہو کہ ہمارا تو بہت ہی گھٹیا ایمان ہے تو کم از کم تم میں

Page 402

خطابات شوری جلد سو ۳۸۶ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء اتنی تو قربانی پائی جانی چاہئے جتنی یورپین قوموں میں پائی جاتی ہے.یورپ میں آبادی کا سوا چھ فی صدی حصہ جنگی کاموں میں حصہ لیا کرتا ہے.اس کے معنے یہ ہیں کہ اگر یورپ کے لوگوں جتنا ایمان بھی تم میں پایا جائے تو دس لاکھ ہونے کی صورت میں ساٹھ ہزار اور پانچ لاکھ ہونے کی صورت میں تمیں ہزار تم میں فوجی ہونا چاہئے.اگر اُس شیر گدوانے والے کی طرح جس نے شیر کا ایک ایک عضو گودنے پر یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ اس کے بغیر بھی شیر رہتا ہے یا نہیں ؟ تم بھی یہ کہہ دو کہ ہماری ساری جماعت تو ہندوستان سے باہر ہے اور یہاں صرف دو لاکھ جماعت قرار دو، تب بھی ساڑھے بارہ ہزار فوجی تم میں ہونا چاہئے مگر یورپ میں سوا چھ فیصدی لوگ جو فوج میں لئے جاتے ہیں وہ اس لئے نہیں لئے جاتے کہ باقی لوگ جان قربان کرنے سے دریغ کرتے ہیں بلکہ سوا چھ فی صدی وہ اس لئے لیتے ہیں کہ اُن کے میڈیکل ٹیسٹ بہت سخت ہوتے ہیں ورنہ جان پیش کرنے سے وہ پیچھے نہیں ہٹتے.اب ہمارے ملک کے حالات نہایت ہی نازک مرحلہ پر پہنچ چکے ہیں.حکومت ان باتوں کو چھپاتی ہے اور اُس کی مصلحت اسی میں ہے کہ وہ ان باتوں کو چھپائے ، ورنہ دوسری قوم شور مچا دے کہ مسلمانوں کو لڑائی کے لئے برانگیختہ کیا جاتا ہے لیکن حالات کی نزاکت سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا.( اب چونکہ دونوں ملکوں میں خوشگوار حالات پیدا ہو گئے ہیں.میں بعض تفصیلات کو حذف کرتا ہوں ) قادیان میں رہتے ہوئے ہمارے لئے ایک مشکل تھی ورنہ اُن دِنوں میں بھی ہم یہی پسند کرتے کہ دشمن سے لڑ کر مر جائیں.اور وہ مشکل یہ تھی کہ ہمیں حکومت سے لڑنا پڑتا تھا اور حکومت سے لڑنا ہمارے مذہب میں جائز نہیں.ورنہ حقیقت یہ ہے کہ قادیان سے ہمارا پیچھے ہٹنا حرام اور قطعی حرام ہوتا.اگر حکومت سے مقابلہ نہ ہوتا مگر چونکہ وہاں ہماری جنگ لوگوں سے نہیں ہوتی تھی بلکہ حکومت کے نمائندوں سے ہوتی تھی اور یہ چیز شرعاً ہمارے لئے جائز نہیں تھی ، اس لئے ہم نے مقابلہ نہ کیا، ورنہ اگر یہ صورت نہ ہوتی تو ہر شخص جو قادیان سے بھاگ کر آتا خواہ میں ہوتا یا کوئی اور ہوتا بھگوڑا اور باغی ہوتا مگر چونکہ خدا کا حکم تھا کہ حکومت سے نہیں لڑنا اس لئے ہم پیچھے ہٹ گئے.جیسے مکہ میں رہتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے دشمن سے جنگ کرنا جائز نہیں تھا مگر جب آپ مدینہ تشریف لے گئے

Page 403

خطابات شوری جلد سوم ۳۸۷ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء تو لڑائی آپ کے لئے جائز ہو گئی.غرض اب حالات بالکل مختلف ہیں.اب اگر پاکستان سے کسی ملک کی لڑائی ہوگئی تو حکومت کے ساتھ ہو کر ہمیں لڑنا پڑے گا اور حکومت کی تائید میں ہمیں جنگ کرنی پڑے گی اس لئے اب پیچھے ہٹنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا.بہترین طریق یہی تھا کہ محاذ کشمیر پر تین تین ماہ کے لئے ہماری جماعت کے نوجوان جاتے اور فوجی ٹریننگ حاصل کر کے آ جاتے لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایک چھوٹی سی تعداد بھی ہم پوری نہیں کر سکے.جو لوگ فوجی خدمت دے رہے ہیں اُن میں سے سوا سو کے قریب تو ایسے ہیں جن کو ہم کچھ گزارہ دیتے ہیں لیکن بہت کم.در حقیقت یہ لوگ بڑے نیک ہیں جو بڑی قربانیاں کرنے والے ہیں ، بڑے اخلاص کے ساتھ کام کرنے والے ہیں اور سالہا سال سے اس فرض کو ادا کر رہے ہیں اور پھر اپنے عہدوں کے لحاظ سے بعض پانچواں ، بعض چھٹا اور بعض ساتواں حصہ گزارہ لے رہے ہیں.میں نے خود گورنمنٹ کی ایک رپورٹ دیکھی ہے جس میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ احمدی لوگ جو یہاں کام کر رہے ہیں وہ صرف نام کا گزارہ لے رہے ہیں.اسی طرح مثلاً سپاہی ہیں اُن میں سے بعض کو بیس ہیں روپے مل رہے ہیں ، آفیسر جو کمانڈ کرتا ہے، اُسے سو روپے ملتے ہیں حالانکہ اگر وہ فوج میں ہوتا تو اُسے ہزار روپیہ ملتا.غرض انتہائی قربانی کے ساتھ یہ لوگ کام کر رہے ہیں اور پھر فوجی ٹریننگ میں بھی یہ لوگ کسی سے پیچھے نہیں.چنانچہ فوجی افسروں کی رپورٹ ہے کہ ان لوگوں کو عام سپاہیوں سے کسی طرح کم قرار نہیں دیا جا سکتا.یہ چیزیں ایسی ہیں جو ہمارے لئے فخر کا بھی موجب ہیں مگر ہمارے لئے شرمندگی اور ذلت کا بھی موجب ہیں.میں بتا چکا ہوں کہ پانچ سو آدمی ہر وقت کام پر رہنے چاہئیں.ان میں سے ایک سو ہیں تو وہ نکل گیا جو معمولی گزارہ لے کر کام کر رہا ہے.باقی چارسو کے قریب آدمی رہ گئے لیکن اس وقت یہ حالت ہے کہ برابر آٹھ نو مہینوں سے ایک سو میں مخلصوں کو نکال کر جو جماعت کی طرف سے والنٹیرز جاتے ہیں اُن کی نفری ایک سو پچاس تک رہ گئی ہے اور ایک سو پچاس میں سے بھی اکثر وہ ہیں جن کو جبراً فوجی قانون کے ماتحت ہم نے روکا ہوا ہے، ورنہ وہ اپنا وقت پورا کر چکے ہیں.اگر ان کو بھی واپس کر دیا جاتا تو صرف ساٹھ ستر والنٹیر زرہ جاتے.جس جماعت کے اقل ترین والنٹیر زدولاکھ تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے ساڑھے بارہ ہزار

Page 404

خطابات شوری جلد سوم ۳۸۸ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء ہونے چاہئیں اور اسلامی طریق پر ۳۲ ہزار ہونے چاہئیں.اُس جماعت میں سے اگر صرف ڈیڑھ سو آدمی جاتا ہے اور باقی سب بہانے بنانے لگ جاتا ہے تو ہمیں یہ خطرناک صورتِ حالات دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ جس طرح وہ شخص جو چندہ نہیں دیتا اُسے جماعت سے خارج کیا جاتا ہے.جہاد اور جنگ کی اہمیت اسی طرح وہ لوگ جو فوجی ٹرینگ کے لئے اپنے آپ کو پیش نہیں کرتے اُن کو بھی جماعت میں سے خارج کر دیا جائے بلکہ جہاد اور جنگ کی تیاری تو چندہ سے بہت زیادہ اہم ہے.جیسے نماز پڑھنا فرض ہے اسی طرح دین کی خاطر ضرورت پیش آنے پر لڑائی کرنا بھی فرض ہے.یہ کہنا کہ یہ دین کی خاطر جہاد نہیں بالکل لغو بات ہے.سوال یہ ہے کہ کیا اگر پاکستان خطرہ میں پڑا تو لڑنے کے لئے فرشتے آئیں گے؟ جب تک تم فوجی فنون نہیں سیکھو گے اُس وقت تک تم ملک کی حفاظت کس طرح کرسکو گے؟ اور ملک کی حفاظت بھی تو ایک قسم کا جہاد ہوتا ہے گو وہ سو فیصدی جہاد نہ ہو.فرض کرو پاکستان پر حملہ کرنے کے لئے ایک قوم آجاتی ہے تو کیا تم اُس وقت اُس قوم سے یہ کہو گے کہ ابھی چھ ماہ کے لئے واپس چلے جاؤ ہمیں پتہ نہیں تھا کہ ہمارے ملک پر کوئی حملہ کرنے والا ہے اس لئے ہم نے تیاری نہ کی تھی ؟ اب آپ کے حملہ سے ہمیں جہاد کا احساس ہو گیا ہے، ہم فوجی ٹرینینگ شروع کرنے والے ہیں، چھ مہینے کے بعد ہم آپ کو اطلاع دے دیں گے پھر آپ بے شک ہم سے لڑنے کے لئے آجائیں.جب تم ایسا نہیں کر سکتے تو تمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ اس قسم کے سوالات محض نفس کے بہانے ہیں اور جب انسان بہانہ بنانے پر آتا ہے تو وہ چاہتا ہے کہ میں کوئی ایسی بات پیش کروں جس سے میں اپنی بریت کر سکوں اور یہ ظاہر کر سکوں کہ میں نے گناہ نہیں کیا.میں جماعت کے دوستوں پر یہ امر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اگر تم اپنے ایمان کو سلامت لے جانا چاہتے ہو اور کسی کے ایمان کی سلامتی میرے اختیار میں نہیں ایمان کو سلامت رکھنے والی تمام باتیں قرآن کریم میں لکھی ہوئی ہیں.اگر تم میں وہ باتیں ہوں گی تو تم ایماندار ہو گے اور اگر نہیں ہوں گی تو ایماندار نہیں ہو گے.بہر حال اگر تم اپنے ایمان کو اس دُنیا سے سلامت لے جانا چاہتے ہو تو تمہیں یہ امر ا چھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ جن امور کو

Page 405

خطابات شوری جلد سوم ۳۸۹ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء اسلام نے ایمان کا اہم ترین حصہ قرار دیا ہے اُن میں سے ایک جہاد بھی ہے بلکہ یہاں تک فرمایا ہے کہ جو شخص جہاد کے موقع پر پیٹھ دکھاتا ہے وہ جہنمی ہو جاتا ہے اور جہاد میں کوئی شخص حصہ ہی کس طرح لے سکتا ہے جب تک وہ فوجی فنون سیکھنے کے لئے نہیں جاتا.کشمیر کی جنگ کا شروع ہونا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک اہم موقع تھا جس سے ہماری جماعت بہت کچھ فائدہ اُٹھا سکتی تھی بلکہ اب بھی اُٹھا سکتی ہے.لیکن اگر کشمیر کی جنگ نہ ہوتی تب بھی ہماری جماعت کا فرض تھا کہ وہ فوجی فنون سیکھنے کے لئے اپنے نو جوانوں کو پیش کرتی تا کہ اگر براه راست پاکستان ہی پر حملہ ہو جاتا تو وہ اپنی قوم اور اپنے ملک کی حفاظت کا کام سرانجام دے سکتی.ظاہر ہے کہ جو لوگ فوجی خدمت سے جی چراتے ہیں، اس وجہ سے جی چراتے ہیں کہ اُن کی اس کام سے جان نکلتی ہے حالانکہ دنیا میں جب بھی کوئی قیمتی چیز کسی کو ملے گی لوگ اُسے اس سے چھینے کی کوشش کریں گے.حضرت عیسی علیہ السلام ساری عمر یہ کہتے رہے کہ اگر کوئی شخص تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تم اپنا دوسرا گال بھی اس کی طرف پھیر دو تے لیکن دشمنوں نے اُس شخص کی قوم پر بھی تلوار چلائی اور خود حفاظتی پر مجبور کر دیا.اسلام کتنا صلح گل مذہب ہے مگر مسلمانوں کو حکومت ملی تو ان کے ملک کو تباہ کرنے کے لئے چاروں طرف سے دشمن کود پڑے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل میں بنی نوع انسان کی محبت اس قدر استوار تھی کہ گولڑائی میں سب سے زیادہ بہادر آپ سمجھے جاتے تھے مگر آپ دشمن کو اپنے ہاتھ سے مارتے نہیں تھے.صرف لوگوں کو ہدایتیں دیتے تھے کہ اس اس طرح لڑائی کرو.گویا آپ کا دل نہیں چاہتا تھا کہ لڑائی کریں لیکن چونکہ دشمن نے آپ کولڑنے پر مجبور کر دیا اس لئے آپ کو بھی اُس کے مقابلہ میں نکلنا پڑا.صرف ایک دفعہ ایک دشمن نے اصرار کیا کہ آپ اُس سے لڑائی کریں اور آپ اُس کے مجبور کرنے پر اُس کے مقابلہ کے لئے تیار ہو گئے.مگر بعض دفعہ ایمان کے ساتھ محبت مل کر ایک عجیب مضحکہ خیز مثال پیدا کر دیتی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بہادری اور جرات کا حال سب کو معلوم تھا مگر ایک لڑائی میں جب کفار کا ایک جرنیل مقابلہ کے لئے نکلا اور اُس نے چیلنج کیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے مقابلہ کے لئے نکلیں تو صحابہ آپ کے گرد اکٹھے ہو گئے کہ آپ کی حفاظت کریں حالانکہ آپ اُن سے زیادہ بہادر تھے.چنانچہ

Page 406

خطابات شوری جلد سوم ۳۹۰ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء آپ نے فرمایا رستہ چھوڑ دو اور اُسے آنے دو.جب وہ آگے بڑھا اور اُس نے حملہ کر دیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس کے وار کو روک کر اپنا نیزہ لمبا کر کے محض اُس کے جسم کو چھوا اور وہ اُسی وقت واپس لوٹ گیا.لوگوں نے اُس سے کہا کہ تم تو اتنے بہادر تھے مگر آج تم نے کیا کیا کہ نیزہ اُدھر تمہارے جسم سے چُھوا اور اُدھر تم واپس لوٹ آئے.اُس نے کہا تمہیں حقیقت نہیں معلوم تمہیں یہی نظر آ رہا ہے کہ وہ نیزہ میرے جسم سے چھوا ہے.تم مجھ سے پوچھو جس کے نیزہ لگا ہے.مجھے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ دُنیا جہان کی ساری آگ میرے جسم میں بھر دی گئی ہے...یہ ایک معجزہ تھا جو اللہ تعالیٰ نے ظاہر فرمایا مگر بہر حال اس سے ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لڑائی سے نفرت کرتے تھے لیکن اس کے با وجود آپ کو لڑنا پڑا.پس یہ خیال کرنا کہ ہم محبت اور پیار سے تبلیغ کرنے والے ہیں، ہمارے ساتھ کسی نے کیا لڑنا ہے یا یہ کہ ہمارا ملک صلح پسند ہے اس پر کسی نے کیا حملہ کرنا ہے محض جہالت ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ہر وقت اپنے آپ کو تیار رکھیں اور فوجی ٹرینگ حاصل کریں تا وقت پر اپنے ملک کی حفاظت کر سکیں.پس جماعت کو اب یہ فیصلہ کر کے یہاں سے جانا چاہئے کہ وہ اپنے سارے نوجوانوں کو نکال کر فوجی ٹریننگ کے لئے بھجوائے گی ورنہ تم صاف طور پر کہہ دو کہ ہم احمدی نہیں.تمہارا خالی چندے دے دینا کافی نہیں ہے.ان چندوں کی تمہیں عادت ہو چکی ہے اور اس قسم کی قربانی تو اور لوگ بھی کرتے ہیں.کنچنیاں ناچتی ہیں تو لوگ اُن کو ویلیں ڈالتے ہیں تم بھی کنچنیوں کو ویلیں ڈالنے والوں کی طرح چندہ دے رہے ہو ورنہ اگر تمہارے اندر حقیقی ایمان ہوتا تو وہ ہر موقع پر ظاہر ہوتا.مال کی قربانی کے موقع پر بھی تم اپنے ایمان کا مظاہرہ کرتے اور جان کی قربانی کے موقع پر بھی تم اپنے ایمان کا مظاہرہ کرتے.یہ سوال ہے جو آج میں نے مجلس شوریٰ میں پیش کر دیا ہے.اس سوال پر اچھی طرح غور کرو اور سوچ سمجھ لو.پانچ سو آدمی کا وہاں بیک وقت موجود رہنا تو ابھی ابتدائی قدم ہے ورنہ ہمارا جی چاہتا ہے کہ وہاں ہزار ہزار دو دو ہزار آدمی ایک وقت میں رہا کریں تا کہ جب کبھی جہاد کا موقع آئے یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد کے مطابق کہ مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ وَعِرْضِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ ہمیں اپنے ملک، اپنے اموال اور

Page 407

خطابات شوری جلد سوم ۳۹۱ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء اپنی عزتوں کی حفاظت کے لئے قربانی کرنی پڑے تو ہم اس میدان میں بھی سب سے بہتر نمونہ دکھانے والے ہوں اور دوسرے مسلمان ہمیں یہ نہ کہہ سکیں کہ یہ مولوی ملک کی حفاظت کے وقت کچے ثابت ہوئے.اور یہ کوئی بڑی بات نہیں ، کافر بھی بڑی بڑی قربانیاں کیا کرتے ہیں.تاریخوں میں لکھا ہے کہ ایک لڑائی کے موقع پر مسلمانوں کی طرف سے ایک شخص کفار پر حملہ آور ہوا اور اُس نے ایسی بے جگری کے ساتھ لڑائی کی اور اس طرح کفار کو تہہ تیغ کرنا شروع کیا کہ مسلمان اُس کو دیکھ دیکھ کر بے اختیار کہتے کہ خدا! اس شخص کو جزائے خیر دے، یہ اسلام کی کتنی بڑی خدمت سرانجام دے رہا ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کسی نے اس دُنیا کے پردہ پر کوئی دوزخی دیکھنا ہو تو وہ اس شخص کو دیکھ لے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بات فرمائی تو صحابہ سخت حیران ہوئے کہ اتنی بڑی قربانی کرنے والے اور آگے بڑھ بڑھ کر حملہ کرنے والے کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ کس طرح فرما دیا کہ اگر کسی نے اس دُنیا کے پردہ پر کوئی دوزخی دیکھنا ہو تو وہ اسے دیکھ لے.ایک صحابی کہتے ہیں میں نے کئی لوگوں کو اس قسم کی باتیں کرتے سُنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ کیا فرما دیا اور میں نے سمجھا کہ ممکن ہے اس سے بعض لوگوں کو ٹھوکر لگے.چنانچہ میں نے قسم کھائی کہ میں اس شخص کا پیچھا نہیں چھوڑوں گا جب تک میں اس کا انجام نہ دیکھ لوں.چنانچہ وہ کہتے ہیں میں اُس کے ساتھ ساتھ رہا یہاں تک کہ وہ لڑتے لڑتے زخمی ہوا اور اُسے لوگوں نے اُٹھا کر ایک طرف لٹا دیا.وہ درد کی شدت کی وجہ سے کراہتا تھا اور چیخیں مارتا تھا.صحابہ اس کے پاس پہنچتے اور کہتے اَبُشِرُ بِالْجَنَّةِ تجھے جنت کی خوشخبری ہو.اس پر وہ اُنہیں جواب میں کہتا.ابشِرُونِی بِالنَّارِ.مجھے جنت کی نہیں دوزخ کی خبر دو اور پھر اُس نے بتایا کہ میں آج اسلام کی خاطر نہیں لڑا بلکہ اس لئے لڑا تھا کہ میرا ان لوگوں کے ساتھ کوئی پرانا بغض تھا.آخر وہ صحابی کہتے ہیں اُس نے زمین میں اپنا نیزہ گاڑا اور پیٹ کا دباؤ ڈال کر خود کشی کر لی.جب وہ مر گیا تو وہ صحابی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں پہنچے اور اُنہوں نے بلند آواز سے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں.آپ نے بھی جواب میں فرمایا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ

Page 408

خطابات شوری جلد سوم ۳۹۲ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء میں اُس کا رسول ہوں.پھر آپ نے فرمایا تم نے یہ بات کیوں کہی ہے؟ اُس نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! آپ نے فلاں شخص کے متعلق یہ بات کہی تھی ، اس پر بعض صحابہ کے دل میں محبہ پیدا ہوا کہ اتنے بڑے نیک انسان کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ کیا کہہ دیا مگر میں نے کہا خدا کے رسول کی بات جھوٹی نہیں ہوسکتی اور میں نے قسم کھائی کہ میں اسے چھوڑوں گا نہیں جب تک میں اس کا انجام نہ دیکھ لوں.چنانچہ میں اس کے ساتھ رہا اور آخر وہ خود کشی کر کے مر گیا ہے تو بے دین لوگ بھی ملک کی خاطر اور حمیت کی خاطر اور جاہلیت کی خاطر بڑی بڑی قربانی کیا کرتے ہیں.پس جان اتنی قیمتی چیز نہیں کہ اُسے اس طرح سنبھال سنبھال کر رکھا جائے لیکن جب سینکڑوں سال کی غلامی کے بعد کسی کو آزادی ملے اور سینکڑوں سال کے بعد کسی کو اس بات کے آثار نظر آنے لگیں کہ خدا تعالیٰ پھر اسلام کی سر بلندی کے مواقع بہم پہنچا رہا ہے تو اُس وقت بھی اپنے حالات میں تغیر پیدا نہ کرنا اور غلامی کے احساسات کو قائم رکھنا بڑی خطرناک بات ہے.ہم تو انگریزوں کے زمانہ میں بھی یہ کہا کرتے تھے کہ غلامی اور چیز ہے اور اطاعت اور چیز ہے.جب گاندھی کہتا کہ ہم کب تک انگریزوں کے غلام رہیں گے تو میں ہمیشہ اس کے جواب میں یہ کہا کرتا تھا کہ میں تو انگریزوں کا غلام نہیں.میرا ضمیر خدا تعالیٰ کے فضل سے اب بھی آزاد ہے اور اگر مجھے جائز رنگ میں اُن کا مقابلہ کرنا پڑے تو میں اُن کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہوں.غرض غلامی کے غلط اور گندے احساسات اُس وقت بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے میرے اندر نہیں تھے لیکن دوسرے لوگ اگر اُنہی احساسات کو اب بھی لئے چلے جائیں اور یہ نہ سمجھیں کہ آئندہ اُن پر کیا ذمہ داری آنے والی ہے تو یہ بالکل تبا ہی والی بات ہوگی.بہر حال جماعت کو یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ اب ان باتوں کو قطعی طور پر برداشت نہیں کیا جاسکتا.یہ کہنا کہ پاکستان کی حکومت کون سی احمدی حکومت ہے لغو بات ہے.سوال یہ ہے کہ اب تمہاری اپنی حکومت ہے، چاہے موجودہ حکومت احمدی حکومت ہو یا نہ ہو.انگریز باہر سے آیا تھا اور وہ یہ کہا کرتا تھا کہ میں حاکم ہوں اور تمہیں وہی اختیار حاصل ہوگا جو میں تمہیں دوں گا لیکن اب پاکستان میں ہندو بھی ہیں، شیعہ بھی ہیں ، سنی بھی ہیں، احمدی بھی ہیں اور کئی دوسری جماعتیں بھی ہیں لیکن حکومت کیا کہتی ہے؟ حکومت یہ نہیں کہتی کہ وہ

Page 409

خطابات شوری جلد سوم ۳۹۳ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء شیعوں کی ہے یا سنیوں کی ہے بلکہ وہ کہتی ہے کہ یہ تم سب کی حکومت ہے.اگر موجودہ حکومت کی جگہ کوئی اور حکومت آ جائے تو بہر حال وہ بھی اکثریت کی ہی حکومت ہوگی اور اکثریت کو بدلنا تمہارے ہاتھ میں ہے.تم تبلیغ کر کے اکثریت بن جاؤ اس سے تم کوکون روکتا ہے.یا دوسری جماعتوں سے سمجھوتے کر کے اکثریت بن جاؤ اس سے تم کو کون روکتا ہے.اگر تم تبلیغ کر کے اکثریت بن جاؤ یا مسلم لیگ یا دوسری جماعتوں سے سمجھوتہ کر کے اکثریت کا جزو بن جاؤ تو اس میں کیا شبہ ہے کہ پاکستان کی حکومت تمہاری حکومت ہی ہوگی.تمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ اب تمہاری وطنی حکومت ہے اور وطنی حکومت اور غیر حکومت میں بڑا بھاری فرق ہوتا ہے.ہمارے اُصول کے مطابق تو غیر حکومت جو امن دے رہی ہو اُس کی مدد کرنا بھی ضروری ہوتا ہے اور وطنی حکومت کی مدد کرنا تو اس حدیث کے ماتحت آتا ہے کہ مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ وَعِرْضِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ.جو شخص اپنے مال اور اپنی عزت کا بچاؤ کرتے ہوئے مارا جائے وہ شہید ہوتا ہے.یہ شہادت چاہے اتنی شاندار نہ ہو جتنی دینی جہاد میں جان دینے والے کی شہادت ہوتی ہے لیکن بہر حال یہ ایک رنگ کی شہادت ضرور ہے اور انسان جتنا بھی ثواب حاصل کر سکے اُسے ثواب حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.پس آپ لوگ اپنے دلوں میں غور کریں اور جماعتوں کی طرف سے ذمہ داری لیں کہ آپ اپنے نو جوانوں کو باقاعدگی کے ساتھ فوجی فنون سیکھنے کے لئے محاذ پر بھجوایا کریں گے اور اپنی تعداد کے لحاظ سے نسبت کو قائم رکھیں گے.میں جانتا ہوں کہ شہری لوگوں کے لئے بڑی مصیبت ہے اور اس خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتے ہوئے اُن کے دل لرزتے ہیں.لاہور میں میں نے کئی تقریریں کیں ، بارہا جماعت کو توجہ دلائی، مختلف پیرایوں میں اُن کے سامنے یہ تحریک رکھی مگر پانچ سو میں سے دس آدمی بھی لاہور سے نہ جا سکے اور دس کہتے وقت بھی غالباً میں حُسنِ ظن سے کام لے رہا ہوں.اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شہری آبادی سے فوجی تیاری کے لئے نوجوان مہیا کرنا کتنا مشکل کام ہے لیکن بغیر مشکلات میں سے گزرنے کے کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہوا کرتی.کسی جماعت میں شامل ہونا اور اُس کی ذمہ داریوں کو پورا نہ کرنا بے وقوفی ہوتی ہے.پس یہ ایک ضروری مسئلہ ہے جسے سوچتے رہیں.میری طبیعت اچھی ہوئی اور گلا گھلا تو میں کسی وقت یہ سوال بھی آپ لوگوں

Page 410

خطابات شوری جلد سوم ۳۹۴ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء کے سامنے پیش کروں گا.اور میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ یہ ذمہ داری بہرحال جماعت کے لوگوں کو اُٹھانی پڑے گی اور نفری پوری کرنی ہو گی.پانچ سو ہی کا سوال نہیں بلکہ ہم تو چاہتے ہیں کہ پندرہ پندرہ سو آدمی ہر وقت وہاں موجود ہوں.فرض کرو کسی وقت پاکستان اور کسی اور ملک میں جنگ ہو جاتی ہے.تو اُس وقت جب تک لاکھوں لاکھ آدمی جان دینے کے لئے تیار نہیں ہوں گے پاکستان کامیاب نہیں ہوسکتا.فوجی افسروں سے جب بھی میری گفتگو ہوئی ہے میں نے ہمیشہ انہیں یہی کہا ہے کہ گولیوں اور توپوں سے تم لوگ کامیاب نہیں ہو سکتے.تمہارے پاس اگر ایک گولی ہے تو دشمن کے پاس دس گولیاں ہیں، تمہارے پاس ایک توپ ہے تو اُن کے پاس پانچ چھ تو ہیں ہیں، جو چیز تمہارے پاس زیادہ ہے اور دشمن کے پاس کم ہے، وہ قربانی کرنے والا آدمی ہے.تم اپنے آدمیوں کو مرواتے جاؤ اور کامیابی حاصل کر لو.گولی کی ضرورت آخر اسی لئے ہوتی ہے کہ آدمی کم مریں لیکن جب گولی کم ہو تو دوسرا علاج یہی ہوتا ہے کہ مرتے جاؤ اور بڑھتے جاؤ.پٹھانوں کی بہادری کی تعریف ہم نے دیکھا ہے.پٹھانوں کو بڑا وحشی سمجھا جاتا ہے لیکن اُن میں یہی خوبی ہے کہ وہ مرنے سے نہیں ڈرتے ، مرتے جاتے ہیں اور آگے بڑھتے جاتے ہیں.مجھے ایک کرنل نے سنایا کہ کشمیر میں ایک بڑا سخت مورچہ تھا.مہاراجہ کشمیر کا اس کے متعلق یہ اعلان تھا کہ وہ مورچہ چھ مہینے تک فتح نہیں ہوسکتا.یہ اُن کی ایک خاندانی جگہ تھی جسے اُنہوں نے بڑا مضبوط بنایا ہوا تھا.اُس نے بتایا کہ ہمیں حکم ہوا کہ پٹھانوں کو آگے بھیجو.اُس وقت کابل کی طرف سے پاوندے آئے ہوئے تھے.فوجی افسر نے انہیں اپنے ساتھ لیا اور نقشوں سے بتانا شروع کیا کہ فلاں جگہ سے رستہ گزرتا ہے فلاں جگہ نالا ہے، فلاں رستہ بڑا خطرناک ہے کیونکہ وہاں دشمن نے مائنز بچھائی ہوئی ہیں.پہلے اس طرف سے جانا، پھر پہاڑی کے اُس طرف چلے جانا، پھر اس نالے کو عبور کرنا، وہ گھبرائیں کہ یہ اپنی بات کو ختم کیوں نہیں کرتا اور یہ بتاتا کیوں نہیں کہ ہم نے کرنا کیا ہے.جب وہ بات کر چکا تو اُنہوں نے کہا کہ تم صرف اتنا بتاؤ کہ ہم نے کرنا کیا ہے؟ اُس نے کہا فلاں قلعہ پر قبضہ کرنا ہے.اُنہوں نے کہا بس اتنی بات تھی.تم نے خواہ مخواہ

Page 411

خطابات شوری جلد سوم ۳۹۵ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء ہمارا اتنا وقت ضائع کیا.اس کے بعد وہ سیدھے اُس قلعہ کی طرف چل پڑے.پندرہ ہیں گز گئے تھے کہ دشمن کو علم ہو گیا اور اُس نے فائرنگ شروع کر دی.اُن کے چالیس پچاس آدمی وہیں ڈھیر ہو گئے.اِس پر اُنہوں نے ان لاشوں کی اوٹ میں آگے بڑھنا شروع کر دیا.پھر کچھ مرے تو اُنہوں نے اُن کی لاشوں کو آگے رکھ لیا.اس طرح وہ اپنی لاشوں کو پناہ بناتے ہوئے ہی آگے بڑھتے چلے گئے اور جس قلعہ کے متعلق یہ کہا جاتا تھا کہ وہ چھ مہینے تک فتح نہیں ہو سکتا اُس قلعہ پر شام کے وقت ہمارا جھنڈا لہرا رہا تھا.اُس کرنل نے بتایا کہ وہ اتنی دلیری کے ساتھ آگے بڑھے کہ ہمیں دیکھ کر حیرت آتی تھی.ہم اُن سے کہتے کہ دشمن سے چھپو اور وہ ناچنے لگ جاتے اور کہتے کہ ہم تو حملہ سے پہلے ناچا کرتے ہیں.یہ دُنیوی چیزیں ہیں جو ایمان کے نہ ہوتے ہوئے بھی مختلف قوموں میں پائی جاتی ہیں.اگر یہ پہلی چیزیں ہی ہمارے اندر نہیں پائی جاتیں تو اگلی خوبیاں ہم میں کہاں ہوسکتی ہیں.حقیقت یہ ہے کہ دُنیا دار لوگ جتنی قربانیاں کرتے ہیں وہ ایک چھوٹا پیمانہ ہوتا ہے جس کو دیکھتے ہوئے مومن اپنی آئندہ ترقی کی عمارت تیار کرتا ہے.اگر نئی عمارت بنانے کی بجائے ہم اُس پیمانہ کی قربانیاں بھی نہ کریں جس پیمانہ کی قربانیاں عام دنیا دار لوگ کیا کرتے ہیں تو ہم سے زیادہ اپنے دعووں میں جھوٹا اور کون ہوسکتا ہے.پس آپ لوگ اچھی طرح سمجھ لیں کہ اب یہ غفلت زیادہ دیر تک برداشت نہیں کی جاسکتی.دُنیا میں کبھی بھی مذہب نے قربانی کے رستوں کے بغیر ترقی نہیں کی.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے کہ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم کو وہ تکلیفیں نہیں پہنچیں گی جو پہلے لوگوں کو پہنچی ہیں.اگر تم ایسا خیال کرتے ہو تو یہ تمہاری غلطی ہے.اب دو ہی باتیں ہوسکتی ہیں یا تو تم یہ سمجھو کہ قرآن نعوذ باللہ جھوٹا ہے اُس نے یونبی ایک گپ ہانک دی ہے اور یا تم یہ سمجھو کہ احمدیت جھوٹی ہے اس نے ترقی ہی نہیں کرنی پھر اس کے لئے جان کی قربانی کی کیا ضرورت ہے.اور اگر قرآن نے جو کچھ کہا وہ سچ ہے اور اگر احمدیت بھی سچی ہے تو لازماً اپنے ملک کی عزت کی حفاظت کے لئے اس وقت جو موقع پیدا ہوا ہے، اس میں تمہیں حصہ لینا پڑے گا کیونکہ یہ تغیر اللہ تعالیٰ نے اسلام کی ترقی کے لئے پیدا کیا ہے.ہم نہیں جانتے کہ اسلام کی آئندہ ترقی کے لئے زیادہ قربانیاں ہم کو ہندوستان میں دینی ہوں گی یا افریقہ میں

Page 412

خطابات شوری جلد سوم ۳۹۶ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء لیکن فرض کرو افریقہ میں پیش آتی ہیں تو وہاں کے احمدی ہما را نمونہ دیکھیں گے.اگر ہم اُس وقت اپنی جانوں کو قربان کرنے کے لئے آگے بڑھیں گے تو ہم ان سے کہہ سکیں گے کہ پاکستان میں ہم کو دینی جہاد کا موقع تو نہیں ملا لیکن ہماری دنیوی حکومت پر یا ہمارے ملک اور ہماری قوم پر جب حملہ ہوا تو ہم نے اس کی حفاظت کے لئے اپنی جانوں کو قربان کر دیا.یہ نمونہ ہے جس سے وہ سبق سیکھیں گے اور اپنی جانوں کو قربان کرنے کے لئے آگے بڑھیں گے لیکن اگر ہم نے اُن سے یہ کہا کہ ہمارے آدمی تو جانیں دینے سے بھاگا کرتے تھے مگر بہادر و شاباش تم لڑو اور اپنی جانیں قربان کرو.تو وہ کہیں گے کہ تم نے تو ہمارے لئے نمونہ بننا تھا اگر تم لڑنے کے لئے نہیں نکلے تو ہم سے تم یہ کس طرح مطالبہ کر سکتے ہو کہ ہم اس وقت دین کے لئے اپنی جانیں قربان کریں.ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ قربانی ہمیں سب سے پہلے کس ملک میں پیش کرنی پڑے گی.ممکن ہے ایشیا میں پیش کرنی پڑے یا ایشیا سے باہر پیش کرنی پڑے.بہر حال ہمیں اس وقت اچھا نمونہ دکھانا پڑے گا.اگر ہم اچھا نمونہ نہیں دکھا ئیں گے تو کبھی بھی ہم دوسرے ملکوں کے لئے نیک روایات قائم نہیں کر سکیں گے.(رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء) دوسرا دن مجلس مشاورت کے دوسرے دن یعنی ۱۸ را پریل کو تلاوت قرآن کریم اور دعا کے بعد حضور نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: - جیسا کہ میں نے کل بیان کیا تھا میری طبیعت جلسہ سالانہ کے بعد سے زیادہ کمزور ہے.کل کی تقریر سے بھی تکلیف بڑھ گئی ہے.بعض دفعہ تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دل کی حرکت فوراً بند ہو جائے گی.گلے کی تکلیف کے آثار بھی رات سے پھر شروع ہو گئے ہیں اور کان میں بھی درد شروع ہوگئی ہے اس بیماری کی ابتدا اسی طرح ہوتی ہے پچھلی دفعہ بھی اسی طرح ہوا تھا اور اب بھی یہی ہو رہا ہے ممکن ہے یہ بیماری جگر کی خرابی کی وجہ سے ہو کیونکہ بعض دفعہ بیماری کہیں ظاہر ہوتی ہے اور اُس کا سبب کہیں مخفی ہوتا ہے اس کا خیال مجھے ایک رویا سے آیا ہے..

Page 413

خطابات شوری جلد سوم ایک رؤیا ۳۹۷ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء رات میں نے رویا میں دیکھا جیسے میں قادیان میں ہوں اور باہر کے محلہ سے جس طرف سے پہلے زمانہ میں یکے وغیرہ آتے تھے ، آرہا ہوں.بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی میرے ساتھ ہیں وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص دشمن کے نرغہ میں گھر جائے تو وہ کیا طریق اختیار کرے.اگر وہ اندر چھپ کر اپنے دن گزارے تو کیا یہ ایمان کے خلاف تو نہ ہوگا ؟ میں نے اُن کے جواب میں کہا کہ یہ امر نا جائز نہیں اس وقت میں سمجھتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود مجھے ایک شخص کمرہ میں سے نکال کر دکھایا تھا اور بتایا تھا کہ یہ اس اس طرح دشمن کے نرغہ میں گھر گیا تھا.مگر گھر میں پوشیدہ رہ کر اُس نے دن گزارے.چنانچہ میں نے ان سے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے عملاً مجھے ایک شخص ایک کمرہ سے ( جو میاں عبداللہ صاحب کے مکان میں تھا ) نکال کر دکھایا ہے جو دشمن کے نرغہ میں گھر گیا تھا اور اُس نے پوشیدہ رہ کر دن گزارے تھے.پھر میں نے مزید وضاحت کے لئے کہا کہ میاں عبداللہ صاحب جلد ساز کے گھر میں تھا یعنی اُس مکان میں جو قادیان میں تھا.اس کے بعد میں گھر میں داخل ہوا اس وقت میرے ہاتھ میں ایک ڈبہ ہے اور ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب بھی وہیں موجود ہیں میں نے وہ ڈبہ انہیں دکھایا اور کہا کہ میری طبیعت خراب رہتی ہے اور یہ دوا کسی نے جگر کے مقام پر لیپ کرنے کے لئے بتائی ہے مگر میں ڈرتا ہوں کہ کہیں اس میں پارہ نہ ہو چونکہ میرے دانت آگے ہی کمزور ہیں اور پارہ دانتوں کے لئے مھر چیز ہے اس لئے میں ڈرتا ہوں کہ کہیں ہاتھ کو دوا لگے اور ہاتھ دانتوں کو لگیں اور دانت خراب ہو جائیں.انہوں نے کہا اس میں پارہ نہیں.وہ ڈبہ ایسا ہے جیسے اینٹی فلوجسٹین کا ہوتا ہے.مگر اس میں جو دوائی نظر آرہی ہے وہ ذرا بھورے رنگ کی ہے یوں وہ ڈبہ بند ہے مگر کشفی طور پر مجھے اس کے اندر کی دوائی بھی دکھائی دے رہی ہے اور وہ بھورے رنگ کی ہے.اس رؤیا سے معلوم ہوتا ہے کہ ممکن ہے بعض جگہ احمدیوں کے لئے ایسا فتنہ پیدا ہو کہ اُن کے لئے کھلے بندوں پھر نا مشکل ہو جائے.خواب کے دوسرے حصہ میں مجھے اپنے علاج کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.ممکن ہے میرے جگر میں خرابی ہو جس کی وجہ سے باقی عوارض پیدا ہور ہے ہوں یا ممکن ہے یہ حصہ بھی تعبیر طلب ہو.

Page 414

خطابات شوری جلد سوم ۳۹۸ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء فوجی ٹریننگ میں نے کل دوستوں کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ انہیں فوجی ٹرینگ کے لئے اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں پیش کرنا چاہیے تا کہ وقت آنے پر وہ اپنی قوم اور ملک کے لئے مفید وجود ثابت ہوں.آج شوری کی کارروائی شروع کرنے سے پہلے میں پھر احباب کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں.جیسا کہ میں نے بتایا تھا جماعت میں اصولی چیزوں کا نہ ہونا اور ان کی اصلاح کی طرف توجہ نہ کرنا کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہو سکتا خالی نعرے لگا دینا اور عملاً کچھ نہ کرنا کبھی مفید نہیں ہوتا.کہتے ہیں کوئی بزدل تھا اُسے خیال ہو گیا کہ میں بڑا بہادر ہوں اور اُس نے تجویز کیا کہ وہ اپنے جسم پر کوئی بہادری کی علامت گدوائے آخر اُس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے بازو پر شیر کی شکل گروائے گا.وہ گودنے والے کے پاس گیا اور اُسے کہا میرے بازو پر شیر گوددو.گودنے والے نے اپنے سامان لیا اور گودنے کے لئے تیار ہو گیا.اُس نے سُوئی جو ماری تو چونکہ وہ بز دل تھا درد کی اُس سے برداشت نہ ہو سکی اور اُس نے گودنے والے سے پوچھا تم شیر کا کون سا حصہ گود رہے ہو؟ اُس نے کہا میں دایاں کان گودنے لگا ہوں.اُس نے کہا اگر شیر کا دایاں کان نہ ہو تو کیا شیر رہتا ہے یا نہیں؟ گودنے والے نے کہا شیر تو رہتا ہے.اُس نے کہا اچھا دایاں کان چھوڑ دو اور آگے چلو.اسی طرح ہر عضو کے متعلق اُس نے یہی کہنا شروع کر دیا آخر گودنے والا سوئی چھوڑ کر بیٹھ گیا، اُس نے پوچھا بیٹھ کیوں گئے ہو؟ اُس نے کہا شیر کا دایاں کان نہ ہو تب بھی وہ شیر رہتا ہے اور اگر بایاں کان نہ ہو تب بھی شیر رہتا ہے لیکن جتنے اعضاء تم نے چھڑ وائے ہیں اُن کے بعد تو شیر ہی نہیں رہتا.غرض بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں خوشی سے تو نہیں لیکن مجبوراً نظر انداز کیا جاسکتا ہے مگر بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں مجبوراً بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.مثلاً طبیعت میں اشتعال کا آجانا اسلام کے خلاف ہے لیکن اسے ایک حد تک برداشت کیا جاسکتا ہے.یا بدظنی ہے یہ بھی اسلام کے خلاف ہے لیکن مجبوراً اسے ایک حد تک برداشت کیا جاسکتا لوگ کہہ دیتے ہیں چلو جی انسان میں کچھ کمزوریاں بھی ہوتی ہیں کچھ کا لفظ غیر معین کمزوری کے لئے استعمال کیا جاتا ہے چنانچہ کسی شخص کے ایسے چند واقعات سن کر لوگ کہہ دیتے ہیں آپ خفا نہ ہوں انسان میں بعض کمزوریاں بھی ہوتی ہیں لیکن یہ سن کر کہ فلاں نماز نہیں پڑھتا ہے.

Page 415

خطابات شوری جلد سوم ۳۹۹ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ خفا نہ ہوں انسان میں بعض کمزوریاں بھی ہوتی ہیں.جن باتوں کو کسی حد تک برداشت کیا جا سکتا ہے وہ ایسی باتیں ہوتی ہیں جن میں اجتہاد کا دخل ہوتا ہے لیکن جو معین احکام ہیں یا جو ایسے احکام ہیں کہ جن میں شبہ نہیں کیا جاسکتا اُن میں کمزوری دکھانے کو برداشت نہیں کیا جاسکتا.ایک شخص کسی کے متعلق اپنی رائے بیان کر رہا ہو تو ہم اُسے بدظنی بھی کہہ سکتے ہیں اور حقیقت حال کا اظہار بھی کہہ سکتے ہیں لیکن اگر جنگ ہورہی ہو اور ایک شخص اُس میں شامل نہ ہو اور گھر بیٹھ رہے تو اُس کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جانے دو انسان میں بعض کمزوریاں بھی ہوتی ہیں کیونکہ جہاد اسلام کے معین احکام میں سے ہے.غرض جن امور کی تعیین میں اجتہاد کو دخل نہیں ہوتا اُن کا تارک کسی صورت میں بھی اُس سلسلہ میں شامل نہیں رہ سکتا جس کی تعلیم کا وہ امور مجزو ہوں.مثلاً چندہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جو شخص تین ماہ تک چندہ نہیں دیتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.یہ اس لئے حکم دیا گیا کہ چندہ دینے میں اجتہاد کا دخل نہیں.یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک شخص کے متعلق بیت المال کا رجسٹر کہہ رہا ہو کہ وہ چندہ نہیں دیتا لیکن مقامی سیکرٹری کہے کہ شاید وہ چندہ دے رہا ہو.کیونکہ ہر شخص جو چندہ دیتا ہے وہ بیت المال کے رجسٹروں میں لکھا جاتا ہے.اور جب بیت المال کا رجسٹر کہہ رہا ہو کہ اُس نے چندہ نہیں دیا تو ہمیں بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ نادہندہ ہے.غرض جو افعال معین ہوتے ہیں اور جن میں اجتہاد اور احتمال کا دخل نہیں ہوتا اُن میں سے کسی فعل کے تارک کو کسی سلسلہ میں جس کا وہ جزو ہے شامل رکھنے کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ اُس کے بگاڑ کو ہم نے برداشت کر لیا.جیسے مسلمان بگڑے تو انہوں نے یہ رنگ اختیار کر لیا کہ فلاں شخص اگر نماز نہیں پڑھتا، روزہ نہیں رکھتا یا حج نہیں کرتا تو خدا تعالیٰ اُس پر رحم کرے اور پھر اس میں ترقی کرتے کرتے مسلمان اس حد تک پہنچ گئے کہ انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ مستحق شفاعت گنهگارانم.یعنی اگر ہم گناہ نہ کریں تو یہ عظیم الشان گناہ ہوگا.کیونکہ اگر ہم گناہ نہ کریں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شفیع کا درجہ کیسے پائیں گے، ہم گناہ نہیں کریں گے تو آپ شفاعت کیا کریں گے.گویا گناہ نہ کر کے ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک بڑے درجہ سے محروم

Page 416

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء کر دیں گے.اب دیکھو یہ چیز کس حد تک پہنچ گئی.مسلمانوں کے بگڑنے کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ معین صورت کے اعمال کے ترک کو برداشت کر لیا گیا قومی حفاظت ، وطنی حفاظت اور ملکی حفاظت یا جہاد کے لئے تیار ہونے یا تیار رہنے کا مسئلہ بھی معین احکام میں سے ہے اس کے بارہ میں اجتہاد سے کام نہیں لیا جا سکتا.یہ رویت کا سوال ہے فلاں گیا ہے یا نہیں، فلاں نے گولی چلائی ہے یا نہیں، فلاں نے جنگ کی ہے یا نہیں، ان چیزوں کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ بدظنی مت کرو شاید وہ جہاد کے لئے تیاری کر رہا ہو.یہ چیزیں بدظنیوں میں سے نہیں بلکہ شواہد میں سے ہیں اور ان کے متعلق احتمالات نہیں ہوتے.پس پیشتر اس کے کہ دوسرے مسائل پیش کئے جائیں میں جماعت کے دوستوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار کریں کہ آیا وہ کم از کم کوٹہ سوا چھ فیصدی دیں گے یا نہیں ؟ اگر دیں گے تو کیسے دیں گے؟ اور کتنے عرصہ میں اس کی تکمیل شروع کر دیں گے؟ یہاں یہ سوال نہیں کہ ایسا ہونا چاہئے یا نہیں؟ یہ فضول بات ہو گی اور ایسا ہی ہوگا جیسے کوئی کہے کہ نماز پڑھنی چاہیے یا نہیں.جہاد سنت اللہ میں داخل ہے جہاد اصولی امور میں سے ہے اور سنت اللہ میں داخل ہے اور سنت اللہ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَبْدِيلاً اللہ تعالیٰ کی سنت میں ہرگز تبدیلی واقع نہیں ہوتی.اسی طرح قرآن کریم کہتا ہے کہ جب تک تم ان مواقع میں سے نہ گزرو گے جن میں سے پچھلے انبیاء کی جماعتیں گزریں تم برکتیں حاصل نہیں کر سکتے ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات میں بھی اس طرف اشارہ پایا جاتا ہے پس یہ خیال مت کرو کہ ہم امتحان کے مواقع میں سے گزرے بغیر کامیاب ہو جائیں گے.قرآن کریم نے اس چیز کو سنت اللہ قرار دیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کو سنت اللہ قرار دیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی سنت میں تم کبھی تبدیلی نہیں پاؤ گے.جس طرح ہر نبی کا کامیاب ہونا ضروری ہے خواہ وہ کہے یا نہ کہے کہ میں کامیاب ہوں گا.اسی طرح جب کوئی جماعت یہ کہہ دیتی ہے کہ وہ کسی مأمور من اللہ کی جماعت ہے تو خواہ وہ کامیابی کا دعوی کرے یا نہ کرے ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ کامیاب ہوگی.غرض یہ ایک غیر متبدل قانون ہے کہ ہر بانی سلسلہ کو تلواروں

Page 417

خطابات شوری جلد سوم ۴۰۱ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء کے سایہ میں چلنا پڑا ہے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے متعلق تو خصوصا یہ کہا گیا تھا کہ وہ اپنے بھائیوں کی تلواروں کے نیچے ترقی کرے گا.پس یہاں یہ سوال نہیں کہ جہاد کے لئے تیار رہنا چاہیے یا نہیں؟ یہ سنت اللہ ہے اگر اس میں اختلاف ہو جائے تو پھر یہ بھی سوال آجائے گا کہ میں خلیفہ ہوں یا نہیں؟ اسی قسم کے بیوقوف کہا کرتے ہیں کہ سید عبد القادر صاحب گیلانی ” ہمارے پیر ہیں لیکن ہمارا مذہب اور ہے اور اُن کا مذہب اور ہے.وہ حنبلی ہیں ہم حنفی ہیں جہاں تک فروع کا تعلق ہے یہ اختلاف ایک حد تک برداشت کیا جاسکتا ہے.فقہاء نے بھی کہا ہے کہ فقہی مسائل میں خود قاضی متبوع سے اختلاف کر سکتا ہے لیکن جو امور اُصولِ دین میں سے ہوں اُن میں اختلاف جائز نہیں اُن میں امام اور جماعت کا اکٹھا ہونا ضروری ہے.اگر جماعت سمجھتی ہے م غلطی پر ہے تو اُسے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ وہ اُسے امام سمجھنے میں بھی غلطی پر ہے.کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ جائز نہیں یا غیر ضروری ہے خدا تعالیٰ نے صاف طور پر بیان کر دیا کہ کسی نبی کی جماعت کو کبھی غلبہ نہیں ملتا جب تک کہ وہ ان حالات میں سے نہ گزرے جن میں سے پچھلے تمام انبیاء گزرے ہیں اور وہ حالات یہ ہیں کہ انہیں اور اُن کی جماعت کو مارنے کی بھی کوشش کی گئی ، اُن سے لڑائیاں بھی ہوئیں باقی یہ کہ نوعیتیں بدلتی رہتی ہیں.یہ که امام سوال اور ہے.جہاد بالسیف کی صورت یہاں سوال یہ ہے کہ کسی نہ کسی ملک میں ہم پر تلوار ضرور اُٹھائی جائے گی اور اس حد تک اُٹھائی جائے گی کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے مقابلہ کی اجازت ہوگی.ظاہری حالات میں افغانستان ایسا ملک ہے جس میں یہ حالات پیش آئیں گے.افغانستان ریڈیو بار بار لوگوں کو اُکسا رہا ہے کہ تم بھی احمدیوں سے وہی سلوک کیوں نہیں کرتے جو ہم نے اُن سے کیا ہے.پہلے تو وہ پردہ ڈال رہے تھے کہ بعض سیاسی وجوہ کی بناء پر ایسا کیا گیا ہے لیکن اب وہ اسے گھلے بندوں تسلیم کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ہم احمدیوں کو ماریں گے اور جو انہیں نہیں مارے گا اُسے ہم اپنا دشمن قرار دیں گے.یہ صورت بتا رہی ہے کہ افغانستان والے احمدیوں کو جہاد پر مجبور کر دیں گے.مثلاً وہ ہجرت کرنا چاہیں گے تو وہ انہیں ہجرت نہیں کرنے دیں گے اور

Page 418

خطابات شوری جلد سوم ۴۰۲ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء کہہ دیں گے کہ اس سے فلاں ملک مضبوط ہوتا ہے.اور جب وہ روکیں گے تو جہاد جائز ہو جائے گا.ہم امن قائم کرنا چاہیں گے لیکن وہ ہمیں امن قائم نہیں کرنے دیں گے اور اگر ایسے حالات پیدا ہونے کا امکان ہو تو ضروری ہے کہ ہم اس کے لئے تیاری کریں.اگر ہم نے تیاری نہ کی تو ہم اُن کا مقابلہ کیسے کریں گے.علاوہ حب الوطنی کے ہمارے مذہبی مرکز کے لئے بھی ضروری ہے کہ پاکستان کو بچایا جائے.اگر لڑائی ہو جائے تو سب سے بڑا فرض احمد یہ جماعت کا ہوگا کہ وہ پاکستان کو بچائے.سب سے زیادہ خطرہ انہیں ہوگا.احمدیت اگر کوئی اہمیت اور وقعت رکھتی ہے تو ہمیں اُس کے برابر اُس کی قیمت بھی ادا کرنی پڑے گی اور وہ قیمت جو قرآن نے مقرر کی ہے وہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص جہاد کے لئے گھر سے نکلتا ہے تو اُس وقت تک وہ گھر واپس نہیں آتا جب تک کہ خدا تعالیٰ اُسے شہادت یا فتح نہیں دے دیتا.خدا تعالیٰ نے ان دونوں موت یا فتح کو إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ قرار دیا ہے.یہ صرف دو ہی چیزیں ہیں، ان کے علاوہ اور کوئی ذریعہ نہیں.اگر کوئی شخص ان دو کے علاوہ کوئی اور رستہ تجویز کرتا ہے تو وہ قرآن کریم بھی اور تجویز کرلے.بہر حال یہ ایک اہم ریضہ ہے جس میں نو جوانوں کو حصہ لینا چاہیئے.ہماری جماعت کے ذمہ دار عہد یداروں کو چاہیے کہ اگر اُن کی جماعت کے نوجوان فوجی ٹرینگ کے لئے اپنے آپ کو پیش نہ کریں یا باوجود توجہ دلانے کے وہ اس میں حصہ لینے کے لئے تیار نہ ہوں تو وہ ایسے نوجوانوں کی فہرست ہمیں ارسال کریں تا کہ اُنہیں جماعت میں سے خارج کر دیا جائے اس کے بعد بے شک وہ لوگ اپنے آپ کو احمدی کہتے رہیں ہم انہیں جماعت کا فرد قرار نہیں دیں گے“.انتخابات سے متعلق سب کمیٹی نظارت سب کمیٹی امور عامہ کی رپورٹ سنائے جانے پر حضور نے فرمایا : - امور عامہ کی تجاویز اور ان کا پس منظر.’احباب نے سب کمیٹی کی تینوں تجویزیں سن لی ہیں.ان تجاویز کا جو پس منظر ہے وہ بھی میں بتا دیتا ہوں.بات یہ ہے کہ پچھلے تجربہ سے یہ ثابت ہوا ہے کہ مرکز کا انتخابات کے معاملہ میں دخل دینا درست نہیں.مسلم لیگ نے پچھلے الیکشن میں ۸۰ فیصدی ووٹ ہماری مدد سے حاصل کیا مگر اس کے باوجود جب بعض جگہ ہماری طرف سے کسی

Page 419

خطابات شوری جلد سو ۴۰۳ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء غیر لیگی کو ووٹ چلا گیا تو اُس کو مدنظر رکھتے ہوئے لیگ والوں نے ہماری جماعت کے خلاف پراپیگنڈہ شروع کر دیا اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ جماعت احمدیہ نے غیر لیگیوں کی مدد کی ہے.۸۰ فیصدی ووٹ جو اُنہیں ہماری وجہ سے حاصل ہوا تھا اُس کو تو وہ بھول گئے اور چند ووٹ جو غیر لیگیوں کی طرف گئے تھے وہ انہوں نے یاد رکھے اور ہماری جماعت کی مخالفت شروع کر دی اس سے ہم نے سمجھا کہ فائدہ کیا ہے کہ خدمت بھی کرو اور بدنامی بھی مول لو.بہتر یہی ہے کہ لوگوں کو آزاد کر دیا جائے کہ وہ جس کو چاہیں مشورہ دیں بے شک اس سے مقامی جماعتوں کے افراد سے لوگوں کی لڑائی ہو جائے گی مگر ساری جماعت پر کوئی الزام نہیں آئے گا.دوسرے اس میں یہ بھی نقص تھا کہ بعض دفعہ مثلاً سیالکوٹ کے لوگوں کو ہم کہتے کہ فلاں کو ووٹ دو اور وہ اسے ووٹ دے دیتے.جب وہ ووٹ لے لیتا تو بجائے اس کے کہ جماعت کے احسان کو یادرکھتا یہ کہنا شروع کر دیتا کہ اس میں آپ نے مجھ پر کیا احسان کیا ہے مرکز نے آپ کو حکم دیا اور آپ نے مان لیا.گویا مرکز کے حکم کا پابند ہونے کی وجہ سے سے مقامی لوگ کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتے تھے ان وجوہ کی بناء پر یہ تجویز کیا گیا ہے کہ آئندہ اس پابندی کو اُڑا دیا جائے اور ہر حلقہ انتخاب کی جماعتیں باہمی مشورہ کے ساتھ جو فیصلہ چاہیں کریں چنانچہ سب کمیٹی نے اس وقت تین تجاویز پیش کی ہیں پہلی تجویز تو کارپوریشن ، میونسپل کمیٹی ، کنٹونمنٹ بورڈ ، ٹاؤن کمیٹی ، نوٹیفائیڈ ایریا کمیٹی اور پنچایت کے انتخابات کے متعلق ہے.پہلا دستور ہمارا یہ تھا کہ اس بارہ میں.یہ فیصلہ مقامی جماعتیں اپنے اپنے طور پر کریں کہ کس حلقہ میں کس امیدوار کی مدد کی جائے.یہ فیصلہ جماعت کے دوران اپنے اپنے حلقہ انتخابات میں اپنے امیر یا صدر کی نگرانی میں کریں گے اور ایسا فیصلہ قطعی ہو گا “.سب کمیٹی نے اس دستور کو قائم رکھنے کے حق میں مشورہ دیا ہے اب دوستوں کے سامنے یہ تجویز پیش ہے اگر کوئی دوست اس کے خلاف کچھ کہنا چاہتے ہوں تو وہ اپنا نام لکھوا دیں.کسی دوست نے اپنا نام نہ لکھوایا.حضور نے فرمایا :- اب جو دوست اس کے حق میں ہوں وہ کھڑے ہو جائیں.“ ۳۴۳ دوست کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا :-

Page 420

خطابات شوری جلد سو فیصلہ وو ۴۰۴ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء میں کثرت رائے کے حق میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ کارپوریشن، میونسپل کمیٹی ، کنٹونمنٹ بورڈ، ٹاؤن کمیٹی ، نوٹیفائیڈ ایریا کمیٹی اور پنچایت کے انتخابات میں پہلا دستور جاری رہے یعنی یہ فیصلہ مقامی جماعتیں اپنے اپنے طور پر کریں کہ کس حلقہ میں کس امیدوار کی امداد کی جائے یہ فیصلہ جماعت کے ووٹران اپنے اپنے حلقہ انتخابات میں اپنے امیر یا صدر کی نگرانی میں کریں گے اور ایسا فیصلہ قطعی ہوگا“.دوسری تجویز سب کمیٹی نے دوسری تجویز یہ پیش کی تھی کہ:.ڈسٹرکٹ بورڈوں کے انتخابات میں یہ فیصلہ کہ کس حلقہ میں کس امیدوار کی مدد کی جائے ضلع کی امارت بہ پابندی مشورہ اُن انجمن ہائے مقامی کے جو اس ضلع میں ہوں کرے گی اور جن اضلاع میں اس وقت تک ضلع وار نظام قائم نہیں ہوا وہاں ضلع کے صدر مقام کی انجمن کا امیر یا صدر یہ پابندی مشورہ اُن انجمن ہائے مقامی کے جو اس ضلع میں ہوں فیصلہ کرے گا اور ایسا فیصلہ قطعی ہوگا“.دو یہ بھی وہی فیصلہ ہے جو پہلے سے جاری ہے صرف اتنا فرق ہے کہ پہلے اس کے ، متعلق حلقہ حلقہ فیصلہ کیا کرتا تھا اب ضلع کو اکٹھا کیا گیا ہے.اگر کوئی دوست اس بارہ میں کچھ کہنا چاہتے ہوں تو وہ اپنے نام لکھوا دیں.“ بعض نمائندگان کے اظہارِ خیال کے بعد حضور نے ڈسٹرکٹ بورڈوں کا انتخاب فرمایا:.سب کمیٹی کی تجویز اس وقت دوستوں کے سامنے پیش ہے اس بارہ میں ایک سوال ایک ایسی جگہ سے اُٹھایا گیا ہے جہاں حالات یہ ہیں کہ ارد گر د تو بڑی بڑی جماعتیں ہیں اور ضلع میں چھوٹی سی جماعت ہے یہ حالت عام مقامات پر نہیں لیکن بعض جگہ یہ حالات موجود ہیں یعنی بعض اضلاع ایسے ہیں جن کے صدر مقام میں جماعت نہیں یا نہایت قلیل جماعت ہے لیکن اُن اضلاع کے بعض علاقوں میں بڑی بڑی جماعتیں موجود ہیں جو اثر اور رسوخ رکھنے والی ہیں.مولوی عبدالباقی صاحب کا اعتراض یہ ہے کہ ایسے مقامات پر ضلع کے صدر مقام کی انجمن کا امیر یا صدر غلط نتیجہ پر پہنچے گا کیونکہ اُس کا ذاتی انٹرسٹ اُس میں کم ہوگا یہ امر کہ امیر یا صدر جماعتوں کو بلائے گا اور وہ صدر مقام میں مشورہ کے لئے پہنچ

Page 421

خطابات شوری جلد سو ۴۰۵ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء جائیں گی یہ بھی کوئی موثر چیز نہیں اور یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ لوگ وہاں پہنچیں گے یا نہیں پہنچیں گے.ابھی شکایت کی گئی ہے کہ امیر کے انتخاب کے موقع پر بھی مقامی جماعت کے لوگ پوری طرح نہیں آتے.جب امارت کے انتخاب کے موقع پر بھی بعض لوگ آنے میں سستی کرتے ہیں تو اس قسم کے مشورہ کے لئے صدر مقام میں اردگرد کی جماعتوں کے تمام افراد کس طرح پہنچ سکتے ہیں.جہاں ضلع وار تنظیم مکمل ہو چکی ہے وہاں تو ضلع کے لوگ کچھ عرصہ کے بعد صدر مقام میں آنے جانے کے عادی ہو جاتے ہیں کیونکہ جماعتوں کے افراد کو وہاں اپنی مختلف ضروریات اور جھگڑوں وغیرہ کے تصفیہ کے لئے جانا پڑتا ہے لیکن جہاں ضلع وار تنظیم مکمل نہیں وہاں کے افراد آسانی سے وہاں نہیں پہنچ سکتے اس لئے ہمیں اُن کی مشکلات کا احساس رکھنا چاہیے.مولوی عبدالباقی صاحب ہماری سٹیٹیوں پر کام کرتے ہیں اور انہوں نے در حقیقت اپنے علاقہ کی مشکلات ہی بیان کی ہیں وہاں کنری میں ہماری جماعت کافی تعداد میں پائی جاتی ہے.دُکانوں میں بھی اچھی خاصی تعداد ہمارے احمدی دُکانداروں کی ہے اور جننگ فیکٹری کی وجہ سے مزدور طبقہ پر بھی زیادہ تر احمدیوں کا ہی قبضہ ہے، پیشہ وروں میں بھی ایک اچھا طبقہ ہماری جماعت کا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ کنری کے حلقہ میں ہماری جماعت کے افراد پانچ سو کے قریب ہوں گے لیکن میر پور جوضلع ہے وہاں ہماری ساری جماعت میں چالیس افراد پر مشتمل ہے.اسی قسم کے حالات بعض اور جگہوں پر بھی ہو سکتے ہیں پس اگر ڈسٹرکٹ بورڈوں کے انتخابات میں ضلع کی امارت یا ضلع کے صدر مقام کی انجمن کا امیر یا صدر فیصلہ کرے گا تو خواہ وہ مشورہ لے کر ہی فیصلہ کرے بہر حال اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ڈسٹرکٹ بورڈوں کے انتخابات میں شہروں والوں کو اتنی دلچسپی نہیں ہوتی جتنی گاؤں والوں کو ہوتی ہے اس لئے اُن کا فیصلہ لوگوں کو مطمئن نہیں کر سکے گا.بہر حال یہ تجویز دوستوں کے سامنے پیش ہے جو دوست سب کمیٹی کی تجویز کے حق میں ہوں وہ کھڑے ہو جائیں.“ ۱۶۵ دوست کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا:.اب جو دوست اس تجویز کے حق میں ہوں کہ جس طرح پہلے حلقہ حلقہ فیصلہ کیا کرتا تھا اسی طرح اب بھی ہو.وہ کھڑے ہو جائیں.“

Page 422

خطابات شوری جلد سوم فیصلہ ۴۰۶ ۱۲۸ دوست کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا :.مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء اکثریت تو اُن کی ہے جو سب کمیٹی کی تجویز کی تائید میں ہیں لیکن چونکہ ہمارا اصل مقصد ڈی سنٹرلائزڈ کرنا ہے تا کہ مرکز پر بوجھ نہ پڑے بلکہ جو بوجھ پڑے مقامی حلقہ ہائے انتخاب پر پڑے اس لئے میں اقلیت کے حق میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ :.ڈسٹرکٹ بورڈوں کے انتخابات میں یہ فیصلہ کہ کس حلقہ میں کس امیدوار کی مدد کی جائے ہر حلقہ انتخاب کی جماعتیں باہمی مشورہ کے ساتھ اپنے اپنے حلقہ انتخاب کے متعلق کیا کریں گی اور ایسا فیصلہ قطعی ہو گا“.تیسری تجویز اس کے بعد سب کمیٹی کی یہ تیسری تجویز پیش ہوئی کہ :.اسمبلی کے انتخابات میں اس امر کا فیصلہ کہ کس حلقہ میں کس امیدوار کی مدد کی جائے ضلع کی امارت یہ پابندگی مشورہ اُن انجمن ہائے مقامی کے جو اس ضلع میں ہوں کرے گی اور جن اضلاع میں ابھی ضلع وار نظام قائم نہیں ہوا وہاں ضلع کے صدر مقام کی انجمن کی امارت یا صدارت به پابندگی مشورہ اُن انجمن ہائے مقامی کے جو اس ضلع میں ہوں فیصلہ کرے گی اور ہر دو صورتوں میں آخری فیصلہ سے قبل مرکز سے بھی مشورہ کرنے کی اجازت ہوگی.اس تجویز کے پیش ہونے پر حضور نے فرمایا کہ:- اگر اس تجویز کے خلاف کوئی دوست کہنا چاہتے ہوں تو وہ اپنا نام لکھوا دیں.“ اس پر صرف ایک دوست نے اپنے خیالات کا اظہار کیا.حضور نے فرمایا:.اسمبلی کے انتخابات میں جماعت احمدیہ کی پالیسی ماسٹر عبداللہ صاحب کا جو مشورہ ہے وہ دوستوں نے سن لیا ہے اسی طرح سب کمیٹی نے جو ریزولیوشن پیش کیا ہے وہ بھی آپ کے سامنے ہے اصل میں اس وقت ایک رسہ کشی جاری ہے مرکز کہتا ہے کہ ہم نے اپنی پیٹھوں پر بہت ڈنڈے کھالئے ہیں اور مخالفین کی طرف سے بہت طعنے سن لئے ہیں اب کچھ تم بھی سن لو اور وہ کہتے ہیں کہ آپ کو ڈنڈے کھانے کی مشق ہو چکی ہے اس لئے آپ ہی کھا ئیں ہمیں معاف کیا جائے.اصل بات جو ہمیں مدنظر رکھنی چاہیے وہ صرف اتنی ہے کہ موجودہ سیاسی

Page 423

خطابات شوری جلد سوم ۴۰۷ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء رو کو دیکھتے ہوئے ہمیں کیا طریق عمل اختیار کرنا چاہیے ورنہ یہ تو ظاہر ہی ہے کہ ملک کے سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے اگر آج ہم کوئی قانون بنائیں گے تو حالات کے تبدیل ہونے پر ہم اُسے بدل بھی سکتے ہیں.بہر حال اس وقت ہمارے سامنے جو مسئلہ ہے وہ یہ ہے کہ اسمبلی کے انتخابات میں اگر مرکز فیصلہ کرے اور حکم دے کہ فلاں امیدوار کی مدد کی جائے اور فلاں کی نہ کی جائے تو ہو سکتا ہے کہ بعض لوگوں کا مرکز پر کوئی حرف لا نا براہ راست حکومت کو سلسلہ سے ٹکرا دے لیکن اگر حلقہ وار جماعتیں اپنی مرضی سے کسی کو ووٹ دیں تو سلسلہ سے ٹکراؤ نہیں ہو سکتا.یہ وہ نقطہ نگاہ ہے جو اس تجویز کے پس پردہ کام کر رہا ہے لیکن اس کے علاوہ ایک اور نقطہ نگاہ بھی ہے اور وہ یہ کہ بعض حلقوں سے جب ہماری جماعت کے افراد الیکشن میں کھڑے ہوں تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا فائدہ اسی میں ہے کہ ہمیں آزاد کر دیا جائے اگر ہمیں آزاد نہ کیا گیا تو ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.یہ تو وہ دو پہلو ہیں جو اس تجویز کی تائید میں ہیں.لیکن اس امر سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جب جماعتیں مرکز کے مشورہ کی پابند ہوا کرتی تھیں تو ہمارا مخالفین پر بڑا رعب تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ یہ جماعت وہی کچھ کرتی ہے جس کے کرنے کا اسے مرکز سے مشورہ دیا جاتا ہے.لاہور کے محرم علی صاحب چشتی ایک دفعہ الیکشن کے لئے کھڑے ہوئے اُن کے حضرت خلیفہ اول سے بڑے تعلقات تھے.پیر طرز کے آدمی تھے اور ساری ساری رات وظیفہ کرتے رہتے تھے.ہمیں اس الیکشن سے صرف اس لئے دلچسپی تھی کہ کانگرس نے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا تھا اور ہم نہیں چاہتے تھے کہ بائیکاٹ ہو چنانچہ شدید مخالفت کے باوجود ہم نے فیصلہ کیا کہ محرم علی صاحب چشتی کو ووٹ دیا جائے.اُن دنوں لاہور میں ہماری اتنی کمزور حالت تھی کہ ہمار ا صرف ایک ووٹ تھا اور وہ بھی محمد اکرام صاحب تاجر کا جو بعد میں قادیان آگئے تھے.جب بھی کوئی شخص ووٹ دینے کے لئے آتا کانگرسی اُسے شرم دلاتے ، اُس کے متعلق گندے الفاظ استعمال کرتے اور اُسے اتنا تنگ کرتے کہ آخر مجبور ہوکر وہ واپس چلا جاتا.محمد اکرام صاحب آئے تو انہیں بھی کانگرسیوں نے بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا مگر اُنہوں نے کہا تم خواہ کچھ کہو میں نے ووٹ ضرور دینا ہے.آخر اُنہوں نے پتھر مارنے شروع کر دیئے یہ پتھر کھا کر گر گئے مگر پھر اُٹھے اور ووٹ دینے کے لئے چل پڑے.انہوں نے پھر پتھر مارنے شروع کر دیئے انہوں نے کہا

Page 424

خطابات شوری جلد سوم ۴۰۸ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء تم چاہے مار ڈالو میں نے تو ووٹ ضرور دینا ہے کیونکہ مرکز سے مجھے یہی حکم آیا ہے کہ محرم علی صاحب چشتی کو ووٹ دیا جائے.غرض اس طرح وہ تین چار دفعہ گرے اور سر سے پاؤں تک زخمی ہو گئے مگر یہی کہتے چلے گئے کہ تم خواہ کچھ کرلو میں اب واپس نہیں جاسکتا آخر انہوں نے خود ہی رستہ دے دیا کہ اس نے تو باز ہی نہیں آنا چلو اسے جانے دو.ان کے مقابلہ میں ملک برکت علی صاحب تھے اُنہوں نے بعد میں کیس کر دیا کہ مذہبی طور پر دباؤ ڈال کر چشتی صاحب کی امداد کی گئی ہے.اس پر ایک کمیشن مقرر ہوا جس میں ایک تو سر عبد القادر صاحب مرحوم تھے اور ایک اور تھے جن کا نام اس وقت میرے ذہن میں نہیں.میں کمیشن کے سامنے پیش ہوا تو مجھ سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ نے اپنی جماعت کو حکم دیا تھا که چشتی صاحب کو ووٹ دیا جائے؟ میں نے کہا میں اپنی جماعت کا امام ہوں اور میرا فرض ہے کہ جماعت اگر مجھ سے کسی امر کے متعلق مشورہ پوچھے تو میں اُسے صحیح مشورہ دوں یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ بیٹا اپنے باپ سے کوئی بات پوچھے اور باپ اُسے نہ بتائے.باقی قانون جس چیز سے روکتا ہے وہ یہ ہے کہ ڈرا دھمکا کر کسی سے ووٹ نہ لیا جائے یا یہ نہ کیا جائے کہ اگر تم نے ووٹ نہ دیا تو تم دوزخ میں چلے جاؤ گے.میں نے کہا اس میں دوزخ اور جنت کا سوال ہی کیا ہے یہ تو ایک دُنیوی معاملہ ہے اور ہر شخص اختیار رکھتا ہے کہ وہ جو چاہے کرے باقی مجھ سے اگر مشورہ لیا جائے گا تو میں بہر حال اُسے وہی مشورہ دوں گا جو میرے نزدیک درست ہوگا.ملک برکت علی صاحب وکیل بھی تھے انہوں نے خوب جرح کی مگر کمیشن نے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ ہندوستان کے پیر عموماً ناجائز طور پر الیکشنوں میں دخل دیتے ہیں لیکن ہم اس حق سے کسی کو محروم نہیں کر سکتے کہ وہ دوسروں کو اپنا مشورہ دے دے.اس کے بعد اُنہوں نے میرا ذکر کیا اور لکھا کہ اس الیکشن میں امام جماعت احمدیہ نے ایسے رنگ میں مشورہ دیا ہے جسے ایک مثال اور نمونہ کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے.اگر ہندوستان کے پیر اور گدی نشین الیکشنوں میں دخل دینا چاہیں تو وہ اس طرح دیا کریں جو ایک جائز رنگ ہے.سرعبدالقادر صاحب سے میرے بڑے دوستانہ تعلقات تھے اور جب بھی انہیں موقع ملتا وہ دلیری سے سلسلہ کی تائید کیا کرتے تھے لیکن اُن سے میری دوستی کی ابتدا اسی کیس سے ہوئی تھی.تو یہ صیح بات ہے کہ ہمیں اس سے فائدہ بھی تھا مگر یہ بھی صحیح بات ہے کہ

Page 425

خطابات شوری جلد سوم ۴۰۹ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء اب بدلے ہوئے حالات میں ہماری خواہ کوئی نیت ہولوگ سلسلہ کے خلاف پراپیگنڈا شروع کر دیں گے اور یہ کہنے لگ جائیں گے کہ جماعت احمدیہ نے مرکز کے حکم کے ماتحت گورنمنٹ کے فلاں فلاں نمائندوں کی مخالفت کی.غرض دونوں طرف خطرات ہیں اور جماعت کا فرض ہے کہ وہ اس بارہ میں پورے غور کے بعد اپنا مشورہ پیش کرے.“ 66 حضور کی تقریر کے بعد بعض نمائندگان نے ترمیمات اور اپنی آراء پیش کیں جس پر سب کمیٹی نظارت امور عامہ نے اس تجویز کو دوبارہ ان الفاظ میں مرتب کر کے پیش کیا اسمبلی کے انتخابات میں اس امر کا فیصلہ کہ کس حلقہ میں کس امیدوار کی مدد کی جائے ہر حلقہ انتخاب کی جماعتیں باہمی مشورہ کے ساتھ اپنے اپنے حلقہ انتخاب کے متعلق کیا کریں گی اور ایسا فیصلہ قطعی ہوگا“.آراء شماری پر ۳۲۵ دوستوں نے اس کی تائید میں اپنی رائے پیش کی.حضور نے فرمایا:- میں کثرتِ رائے کے حق میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ اسمبلی کے انتخابات میں اس امر کا فیصلہ کہ کس حلقہ میں کس امیدوار کی مدد کی جائے ہر حلقہ انتخاب کی جماعتیں با ہمی مشورہ کے ساتھ اپنے اپنے حلقہ انتخاب کے متعلق کیا کریں گی اور ایسا فیصلہ قطعی ہوگا“.فیصلہ نیز فرمایا :.میں نے پہلے بھی کہا تھا اور اب پھر کہتا ہوں کہ اس کے صرف اتنے معنی ہیں کہ ہم مرکز کے تصرف کو اس بارہ میں آپ سے ہٹاتے ہیں اس کے یہ معنی نہیں کہ ہم آپ کو مجبور کرتے ہیں کہ آپ اپنے معاملات میں کسی سے مشورہ نہ لیں.بالکل ممکن ہے کہ آپ کے حالات ایسے ہوں کہ جب تک ضلع کے سب لوگ اکٹھے نہ ہوں آپ اپنی مشکلات کو حل نہ کر سکتے ہوں ایسی صورت میں آپ بے شک اکٹھے ہو جائیں اور مشورہ کریں اور اپنا الگ گروپ بنالیں.اگر دو حلقوں والے سمجھیں کہ ہمارا اس وقت مل جانا زیادہ مفید ہوگا تو وہ دونوں حلقے آپس میں مل جائیں.اگر تین حلقوں والے یہ چاہتے ہیں کہ وہ تینوں مل کر ایک گروپ بنالیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا اثر اس طرح بڑھ جائے گا تو وہ تینوں مل جائیں اس کا اُنہیں اختیار ہو گا صرف مرکز کی دخل اندازی کو ہم روکنا چاہتے ہیں.“ 66

Page 426

خطابات شوری جلد سوم ۴۱۰ تعلیمی سب کمیٹی کی تجاویز مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء پہلی تو یہ سب کمیٹی کی پہلی تجویز یہ تھی کہ جلسہ سالانہ کے ایام میں کوئی کمی نہ کی جائے تجویز بلکہ بدستور تین یوم ہی جلسہ رہے.حضور نے دوستوں کے سامنے سب کمیٹی کی تجویز رکھتے ہوئے فرمایا :.” دوستوں کے سامنے سب کمیٹی کی تجویز پیش ہے اصل سوال یہ تھا کہ چونکہ اب انگریزی حکومت کی طرح کرسمس کی رخصتیں نہیں ہوتیں بلکہ کم ہوتی ہیں اس لئے جلسہ سالانہ کی تاریخوں کے متعلق غور ہونا چاہئے کہ کیا انہی تاریخوں میں آئندہ جلسہ ہوا کرے یا ان تاریخوں کو بدل دیا جائے؟ سب کمیٹی کی تجویز یہ ہے کہ چونکہ دسمبر کے ایام میں کھانا محفوظ رہتا ہے اور بچا ہوا کھانا دوسرے وقت کام آ سکتا ہے اسی طرح سردی کی وجہ سے سب اکٹھے مل کر سو سکتے ہیں اور ریل کے سفر میں بھی آرام رہتا ہے اس لئے دسمبر کے ایام میں ہی جلسہ ہونا چاہیے اور بدستور تین یوم جلسہ ہونا چاہیے.اگر کسی دوست نے اس تجویز کے خلاف کچھ 66 کہنا ہو تو وہ اپنا نام لکھوا دے.“ کسی نے نام نہ لکھوایا.حضور نے فرمایا :.اب جو دوست اس تجویز کی تائید میں ہوں وہ کھڑے ہو جائیں.۳۴۳ دوست کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا :- ۳۴۳ دوست اس تجویز کے حق میں ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ اکثریت تائید میں ہے.میں بھی اکثریت کے حق میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ جلسہ سالانہ کے ایام میں کوئی کمی نہ کی جائے اور بدستور تین یوم ہی دسمبر کے ایام میں جلسہ منعقد کیا جایا کرے.“ جلسہ سالانہ کی تواریخ کی بابت اس تجویز کی دوسری شق یہ تھی کہ جلسہ سالانہ کے لئے ۲۶ ، ۲۷، ۲۸ دسمبر کی تاریخیں ہی ہر لحاظ سے موزوں اور مناسب ہیں جب یہ تجویز مجلس مشاورت میں پیش ہوئی تو بعض نمائندگان شورای نے ۲۶،۲۵، ۲۷ / دسمبر کو جلسہ سالانہ منعقد کرنے کی رائے دی جبکہ بعض نے یہ رائے دی که جلسه سالانه ۲۶ ، ۲۷، ۲۸ / دسمبر کو ہی ہوا کرے.آراء شماری پر ۳۲۵ دوستوں نے

Page 427

خطابات شوری جلد سوم ۴۱۱ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء یہ رائے پیش کی کہ جس طرح ۲۶، ۲۷، ۲۸ دسمبر کو جلسہ ہوتا رہا ہے اسی طرح آئندہ بھی انہی تاریخوں میں جلسہ ہوا کرے.حضور نے فرمایا : - فیصلہ میں کثرت رائے کے حق میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ جلسہ سالانہ بدستور ۲۶ ۲۷ ۲۸ دسمبر کو ہی منعقد ہوا کرے.اس کی تاریخوں میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے.“ نیز فرمایا :.ابتداء میں میری رائے یہ تھی کہ ہمیں جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ اور سالانہ جلسہ کی تاریخوں کی تبدیلی کے متعلق غور کرنا چاہیے لیکن بعد میں آہستہ آہستہ غور کرنے کے بعد اور خصوصاً اس جگہ بعض دوستوں کی آراء سننے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ تاریخیں بدلنے کے فوائد سے اُن کو نہ بدلنے کے فوائد بہت زیادہ ہیں.دنیا میں باقی قوموں کو بھی اپنے اپنے مذہبی تہواروں پر رخصتیں ملتی ہیں اور حکومتیں اُن کے حق کو تسلیم کرتی ہیں.کرسمس کی رخصتیں آخر کہاں سے آئیں؟ یہ رخصتیں اسی طرح منظور ہوئیں کہ عیسائیوں نے اصرار کیا اور اُن کا حق اُن کو مل گیا.اسی طرح بسنت کہاں سے آئی؟ دسہرہ کہاں سے آیا ؟.یہ تعطیلات بھی اسی لئے منظور ہوئیں کہ ہندو قوم نے اصرار کیا اور حکومت کو اُن کے مطالبہ کے سامنے سر جھکانا پڑا.یا مثلاً شیعہ اقلیت میں ہیں مگر محرم کی رخصتیں گورنمنٹ منظور کرتی ہے کیونکہ شیعوں نے اپنے اس حق کا اصرار سے مطالبہ کیا اور وہ اس پر مضبوطی سے قائم رہے.ان مثالوں پر غور کرنے کے بعد میں نے سمجھا کہ قوموں کا اپنے وقار کو قائم رکھنا بھی اُنہیں بہت بڑا تفوق دے دیتا ہے.اگر ہم بھی اپنے طریق کو قائم رکھیں تو خواہ کچھ عرصہ تک گورنمنٹ ہمارے مطالبہ کو تسلیم نہ کرے لیکن آخر اسے تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ ہمارا قومی حق ہے اور وہ مجبور ہوگی کہ ان ایام میں جماعت احمدیہ کے افراد کے لئے رخصتیں منظور کرے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پہلا سالانہ جلسہ (جیسا کہ خادم صاحب نے حوالہ نکال کر پیش کیا ہے ) ۲۷.۲۸.۲۹؍ دسمبر کو ہی ہوا تھا لیکن جہاں تک ہم نے تحقیق کی ہے اب تک اکثر ہمارا سالانہ جلسہ ۲۶.۲۷.۲۸ / دسمبر کو ہی ہوتا رہا ہے بلکہ نوے فیصدی ہمارے سالانہ جلسے انہی تاریخوں میں ہوئے ہیں یہ الگ بات ہے کہ عارضی مجبوری کی وجہ سے کبھی اور تاریخوں

Page 428

خطابات شوری جلد سوم ۴۱۲ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء میں بھی جلسے ہو گئے ہوں جیسے گذشتہ سال ہی ہم نے اپریل میں جلسہ کیا تھا مگر یہ ایک مجبوری کی بات تھی ورنہ اصل قانون یہی ہے کہ ۲۶.۲۷ - ۲۸ / دسمبر کو جلسہ ہو.یہ عارضی تبدیلیاں ایسی ہی ہوتی ہیں جیسے بیمار ہونے کی وجہ سے انسان نماز بیٹھ کر بھی پڑھ سکتا ہے یا دو نمازوں کو جمع بھی کر سکتا ہے لیکن بیٹھ کر نماز پڑھنا یا جمع کر کے نمازیں پڑھنا اصل قانون نہیں.اصل قانون یہی ہے کہ کھڑے ہو کر نماز پڑھی جائے اور الگ الگ نمازیں پڑھی جائیں.پس اب تک جلسہ سالانہ کے ایام میں جو تبدیلیاں ہوئی ہیں وہ عارضی حالات کی وجہ سے ہوئی ہیں لیکن اب جو قانون بنے گا وہ مستقل ہوگا.اگر ہم نے اس قانون کو بدل دیا تو حکومتیں سمجھیں گی کہ ان کا کوئی مقررہ دستور نہیں جب جی چاہے یہ اپنا جلسہ کر لیتے ہیں لیکن اگر ہم یہ کہیں گے کہ یہ ہمارا دستور ہے جو ہمارے بزرگوں نے قائم کیا ہے تو لازماً حکومت کو ہماری جماعت کے لئے سہولتیں بہم پہنچانی پڑیں گی اور اس طرح ہماری جماعت کا ایک وقار قائم ہو جائیگا.بیشک اس وقت ہم تھوڑے ہیں لیکن اس بات پر قائم رہنے کا یہ لازمی نتیجہ ہوگا کہ حکومتوں کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ جماعت احمدیہ کے لئے یہ ایام بڑی اہمیت رکھتے ہیں اور وہ ہمیں سہولتیں بہم پہنچانے پر مجبور ہو جائیں گی.“ احمدیہ تعلیمی کانفرنس کی تجویز سب کمیٹی کی دوسری تجویز یہ تھی کہ تمہر کے تیسرے ہفتہ میں ہر سال ایک احمدیہ تعلیمی کانفرنس منعقد کی جایا کرے جس میں تمام احمد یہ سکولوں، کالجوں اور دیگر علمی اداروں کے اساتذہ صاحبان کو شرکت کی.دعوت دی جائے.اس کے علاوہ بعض غیر احمدی معززین کو بھی اس کانفرنس میں مختلف موضوعات پر مقالہ جات پڑھنے اور اس کے اجلاسوں میں شرکت کے لئے بلایا جائے اور اس غرض کے لئے بجٹ میں دو ہزار روپیہ کی گنجائش رکھی جائے.حضور نے اس تجویز کو پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ: - اصل غرض تو نظارت کی روپیہ مانگنا ہے ورنہ تعلیمی کانفرنس وہ خود بھی کر سکتے تھے بہر حال اُن کی تجویز دوستوں کے سامنے پیش ہے جو دوست اس کے خلاف کچھ کہنا چاہتے ہوں وہ اپنے نام لکھا دیں.“ حضور کے اس ارشاد پر مکرم عبد الرحمن صاحب خادم نے اپنی رائے پیش کی جس کے بعد

Page 429

خطابات شوری جلد سوم ۴۱۳ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء حضور نے فرمایا:- دوستوں نے خادم صاحب کی تقریرین لی ہے اُن کا خیال ہے کہ جبکہ ربوہ میں ابھی تک ہماری عمارتیں بھی نہیں بنیں اور تعلیمی ادارے بھی یہاں نہیں آئے اس کا نفرنس کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا روپیہ ضائع چلا جائے گا اور جن فوائد کی اس کا نفرنس سے امید کی جارہی ہے وہ حاصل نہیں ہوں گے.وہ کہتے ہیں ہم اس کانفرنس کے فائدہ سے گلی طور پر انکار نہیں کرتے ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ یہ موقع شناسی نہیں کہ ایسے موقع پر جبکہ ابھی ہماری مرکزی عمارات بھی شروع نہیں ہوئیں اس قسم کی کانفرنسوں پر روپیہ خرچ کرنا شروع کر دیا جائے.یہ ترمیم نہیں بلکہ تجویز کی مخالفت ہے پس جو دوست یہ سمجھتے ہیں کہ باوجود یکہ ابھی ہمارا کالج نہیں بنا، ہمار ا سکول ابھی ربوہ میں نہیں آیا ہمیں ابھی سے یہ کا نفرنس شروع کر دینی چاہیے وہ کھڑے ہو جائیں.“ فیصلہ صرف ۱۹ دوست کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا :.چونکہ اکثریت اس تجویز کی مخالف ہے اس لئے میں بھی اکثریت کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے اسے نا منظور کرتا ہوں.“ غیر احمدی لڑکیوں سے شادی نظارت امور عامہ کی طرف سے ایجنڈا میں یہ تجویز درج تھی کہ : - در مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ آئندہ تین سال تک ( رشتہ ناطہ کی مشکلات کے پیش نظر ) بغیر منظوری مرکز غیر احمدی لڑکی سے شادی نہ کی جائے.اس کے بعد ہر تین سال کے بعد اس فیصلہ میں توسیع ہوتی رہی.آخری مرتبہ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء میں مزید تین سال کیلئے توسیع ہوئی تھی اب اس معاملہ کو مزید فیصلہ کے لئے پیش کیا جاتا ہے.چونکہ اب جماعتوں میں لڑکیوں کے رشتہ کے متعلق پہلے کی نسبت قدرے سہولت پیدا ہوگئی ہے اس لئے آئندہ مذکورہ بالا پابندی کو صرف مزید دو سال کے لئے جاری رکھنا مناسب معلوم ہوتا ہے ،اس کے بعد اُس وقت کے حالات کے ماتحت مزید غور کے نتیجہ میں فیصلہ کیا جائے“.ب کمیٹی امور عامہ نے اس بارہ میں یہ رائے دی کہ :-

Page 430

خطابات شوری جلد سوم وو ۴۱۴ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء موجودہ حالات میں لڑکیوں کے رشتہ کے بارہ میں کوئی سہولت پیدا نہیں ہوئی بلکہ اب بھی وہی کیفیت ہے جو اس پابندی کے نفاذ کے وقت تھی.پس ضروری ہے کہ اجازت سوائے خاص حالات اور اشد ضرورت کے نہ دی جائے اور اس امر کا فیصلہ زیادہ چھان بین کے بعد کیا جائے.“ رپورٹ سننے پر حضور نے فرمایا: - اس تجویز کو مجلس میں پیش کرنے کی ضرورت نہیں.“ از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ ) اس کے بعد حضور نے اس بارہ میں ایک تقریر فرمائی جو درج ذیل کی جاتی ہے فرمایا : - لڑکیوں کے احمدی اور غیر احمدی رشتوں کا سوال در حقیقت ایمان، اخلاص اور قومیت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.ہماری جماعت میں جتنے احمدی ہیں چونکہ سارے کے سارے قریب العہد ہیں یہ نہیں کہ دو چار سو سال سے وہ احمدیت میں داخل ہوں حتی کہ ہمارا خاندان جو مرکزی حیثیت رکھتا ہے وہ بھی ایسا نہیں.اس لئے ہم نے اپنے خاندان میں بھی دیکھا ہے کہ ہمارے غیر احمدی رشتہ دار اشاروں کنایوں میں بعض دفعہ اپنی لڑکیاں پیش کر دیتے ہیں، یہ تو انہیں خیال نہیں آتا کہ ہم ان سے اپنے لئے لڑکی مانگ لیں مگر یہ ضرور ہوتا رہتا ہے کہ جب ملنے آئیں گے تو باتوں باتوں میں کہہ دیں گے کہ فلاں لڑکا بڑا اچھا ہے جی چاہتا ہے کہ آپس میں رشتہ داری ہو جائے.جب ہمارے خاندان میں ایسا ہوتا ہے تو باقی خاندانوں میں بھی ایسا ضرور ہوتا ہوگا کیونکہ اُنہیں بہر حال احمدیت میں داخل ہوئے ہم سے کم عرصہ ہوا ہے.کسی نے پانچ سال بعد بیعت کی ہے، کسی نے دس سال بعد بیعت کی ہے اور کسی نے پندرہ سال بعد بیعت کی ہے پس اس سوال کی اصل بنیاد مذہبی احساسات اور قومی احساسات پر ہے.کچھ لوگ ان احساسات سے اس قدر عاری ہو چکے ہیں کہ غیر احمدی لڑکیاں لینے کا سوال نہیں وہ غیر احمدیوں کو اپنی لڑکیاں بھی دے دیتے ہیں اور پھر بعض جماعتیں ان احساسات سے اتنی عاری ہیں کہ اُن کی آنکھوں کے سامنے جماعت کا ایک فرد اپنی لڑکی کی غیر احمدیوں میں شادی کر دیتا ہے اور وہ چپ کر کے بیٹھی رہتی ہیں اور کہہ دیتی ہیں کہ چلو جانے دو کسی کی شکایت کرنے کا کیا فائدہ ہے.چنانچہ ایسی لڑکیاں بعض دفعہ مجھے بھی

Page 431

خطابات شوری جلد سوم ۴۱۵ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء ملنے کے لئے آئی ہیں اور مجھے یہ معلوم کر کے انتہائی افسوس ہوا ہے کہ مقامی جماعتیں اس معاملہ میں سخت غفلت کا مظاہرہ کر رہی ہیں.پچھلے ایام میں میں پشاور گیا تھا وہاں ایک دن میری بیوی نے کہا کہ ایک احمدی لڑکی آئی ہے اور وہ اصرار کرتی ہے کہ میں آپ سے ملنا چاہتی ہوں، چونکہ میں نے کہا ہوا ہے کہ جب کوئی عورت آئے تو پہلے اُس سے پوچھو کہ کیا بات ہے اور پھر اگر خود اُس کی ضرورت کو پورا کرسکتی ہو تو کر دو اور اگر مجھ تک بات پہنچانی ضروری ہو تو مجھے پہنچا دو، اس لئے میری بیوی نے اُس سے دریافت کیا کہ کیا کام ہے ؟ اُس نے جواب دیا کہ میں خود مل کر بات کرنا چاہتی ہوں.پھر میری بیوی کہنے لگیں کہ وہ تو آپ کی خوب واقف ہے اور کہتی ہے کہ مجھے وہ گودیوں میں کھلاتے رہے ہیں.میں نے کہا ، ہوگا ،مگر مجھے یاد نہیں آتا کہ وہ کس کی لڑکی ہے.غرض اس طرح وہ دو تین دفعہ آئیں اور اُنہوں نے کہا کہ وہ ایک افسر کی بیوی ہے اور آپ سے ملنا چاہتی ہے.آخر میں نے کہا اُسے لے آؤ.جب وہ آئی تو میں نے شکل سے اُسے پہچانا نہیں، چنانچہ میں نے اُسے کہا کہ آپ نے تو یہ کہلا بھیجا تھا کہ میں انہیں خوب جانتی ہوں مگر میں نے آپ کو نہیں پہچانا.اُس نے بڑی حیرت سے کہا کہ آپ نے تو مجھے اپنی گودیوں میں کھلایا ہوا ہے.میں نے کہا، ٹھیک ہوگا، مگر مجھے کچھ اتا پتہ تو بتاؤ تا کہ مجھے بھی یاد آئے کہ میں نے تمہیں کب اپنی گودیوں میں کھلایا ہے؟ اس پر اُس نے جو اگلی بات کہی اُس سے مجھے بھی سارا واقعہ یاد آ گیا اور میں سمجھ گیا کہ وہ جو کچھ کہہ رہی ہے ٹھیک کہہ رہی ہے.بات یہ تھی کہ اُس کے والد کے ہاں متواتر لڑکیاں پیدا ہوتی چلی گئیں کوئی لڑکا پیدا نہیں ہوتا تھا اور اُن کا طریق تھا کہ جب بھی لڑکی پیدا ہوتی وہ اُسے میرے پاس لاتے اور میری گود میں ڈال کر کہتے کہ دُعا کریں ان لڑکیوں کا بھائی پیدا ہو.اس واقعہ کے یاد آجانے پر میں نے اُسے کہا کہ تمہارا باپ تو اتنا مخلص احمدی تھا اور تم ایک غیر احمدی سے بیاہی ہوئی ہو ، یہ بات کیا ہے؟ اس پر وہ رو پڑی اور اُس نے کہا میرے خاوند نے شادی کے وقت کہہ دیا تھا کہ میں تو احمدی ہی ہوں اور گھر والوں نے زیادہ تحقیق نہ کی اور شادی کر دی اب میں سخت مصیبت میں مبتلا ہوں ، اور واقع یہ ہے کہ وہ بہت دکھ میں تھی اور زار زار روتی تھی.لڑکی بڑی مخلص ہے.اُس کا باپ بھی بڑا مخلص تھا لیکن غیر احمدی سے اُس کی

Page 432

خطابات شوری جلد سوم ۴۱۶ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء شادی کر دی گئی اور وہ ساری عمر کے لئے مصیبت میں مبتلا ہوگئی ، بلکہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں مرد بھی اپنے اندر کچھ نہ کچھ اخلاص رکھتا ہے کیونکہ میرے سامنے وہ اپنے آپ کو احمدی کہتا ہے مگر دل کا کمزور ہے اور لوگوں سے ڈرتا ہے اگر ذرا بھی توجہ کی جاتی تو یقیناً احمدی ہو جاتا.اسی طرح ایک اور بڑی بھاری جماعت ہے وہاں کے ایک صاحب کی بیوی مجھ سے ملنے کے لئے آئیں ، گھر والوں نے مجھے بتایا کہ ایک عورت آئی ہے اور وہ ہمارے خاندان کو خوب جانتی ہے، وہ کہتی ہے کہ میں آپ سے ملنا چاہتی ہوں ، وہ فلاں کی لڑکی ہے اور فلاں سے بیاہی ہوئی ہے.میں نے کہا اُس کے باپ کو تو میں جانتا ہوں ،حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا صحابی تھا ، مگر جس شخص کے ساتھ اس کی شادی بتائی جاتی ہے وہ تو غیر احمدی ہے، یہ بات کیا ہے؟ بہر حال میں نے اُسے بلایا اور کہا ، نیک بخت! تو یہاں کہاں؟ تیرا باپ تو صحابی تھا اور تو ایک غیر احمدی سے بیاہی ہوئی ہے.اُس نے کہا انہوں نے میرے باپ کو کہا تھا کہ میں احمدی ہو جاؤں گا اس وقت میری غیرت برداشت نہیں کرتی کہ لوگ مجھے یہ کہیں کہ میں نے ایک لڑکی کی وجہ سے احمدیت قبول کی ہے.اس پر میرے باپ نے رشتہ دے دیا مگر پھر یہ احمدی نہیں ہوئے.میں نے کہا کیا یہاں کی جماعت کے لوگوں کو اس بات کا علم نہیں ؟ اُس نے کہا سب کو پتہ ہے مگر کسی نے مرکز کو یہ حالات بتائے نہیں.تھوڑے دنوں کے بعد ہی اُس کا خاوند مجھ سے ملنے کے لئے آگیا اور اُس نے ایک ایسی بات کہی جس سے مجھے ایک پرانے برہمن کی کہاوت یا د آ گئی.کہتے ہیں ایک برہمن نے کسی چمارن سے شادی کر لی ، ماں باپ کو برا لگا کہ ہمارے لڑکے کا دھرم بھرشٹ ہو گیا ہے اور اُنہوں نے اپنے لڑکے کا بائیکاٹ کر دیا، مگر ماں باپ آخر ماں باپ ہوتے ہیں ، وہ رات دن بے چین رہتے کہ ہمارے لڑکے کو کیا ہو گیا ہے، آخر ایک دن اُنہوں نے یہ معلوم کرنا چاہا کہ آیا واقع میں ہمارا لڑکا دین سے نکل گیا ہے یا ابھی اُس کے دل میں کچھ ایمان باقی ہے.انہوں نے لڑکے کا وہ گلاس جس میں وہ پانی پیا کرتا تھا اُس چمارن کے ہاں سے منگوالیا اور پھر اپنے لڑکے کو گھر بلا کر اُسے اچار سے روٹی کھلا دی.اچار کھانے کے بعد اُسے خوب پیاس لگی مگر چونکہ وہ اُسے اپنے گلاس میں پانی نہیں دے

Page 433

خطابات شوری جلد سوم ۴۱۷ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء سکتے تھے ، انہوں نے کہا جاؤ اور اپنے گھر سے جا کر پانی پیو، وہ گھر گیا اور بیوی سے کہنے لگا کہ پیاس سے میرا برا حال ہے جلدی کرو اور پانی لاؤ.وہ اُٹھی اور گلاس تلاش کرنے لگی مگر وہاں گلاس کہاں تھا وہ تو اُس کے ماں باپ لے آئے تھے.اس نے خاوند سے کہا کہ گلاس تو ملتا نہیں آپ کہیں تو میں اپنے گلاس میں پانی لے آؤں ؟ اُس نے کہا نہیں میں تمہارے گلاس میں پانی پینے کے لئے تیار نہیں.غرض وہ پیاس کی شدت سے تڑپتا چلا گیا اور اُس کی کیفیت خراب سے خراب تر ہونے لگی ، جب وہ موت کے بالکل قریب پہنچ گیا تو اپنی بیوی سے کہنے لگا، نیک بخت ! اپنے منہ میں پانی بھر کے میرے منہ میں آکر گلی کر دے چنانچہ اُس نے ایسا ہی کیا، اپنے منہ میں پانی ڈالا اور پھر اُس کے منہ میں آکر گلی کر دی.اُس کے ماں باپ بھی چُھپ کر یہ نظارہ دیکھ رہے تھے ، جب اُنہوں نے اپنے بیٹے کا یہ نمونہ دیکھا تو وہ خوشی سے دوڑتے ہوئے آئے اور اپنے لڑکے کو دُعائیں دیتے ہوئے کہنے لگے ،شکر.ہمارے بیٹے کا دھرم بھرشٹ نہیں ہوا.وہ چمارن سے شادی کر چکا تھا ، اُس سے محبت اور پیار کرتا تھا مگر اُس کے برتن میں پانی پینے کے لئے تیار نہیں تھا.اسی قسم کی بات اُس کے خاوند نے کی کہنے لگا احمدی لڑکیاں بڑی کٹر ہوتی ہیں، میں اپنی بیوی سے کہتا ہوں کہ میرے ساتھ نماز پڑھ تو وہ نماز پڑھنے کے لئے تیار نہیں ہوتی.یہ بھی ویسی ہی بات ہے شادی ہو چکی ہے، بچے جن رہی ہے مگر نماز یں الگ الگ پڑھی جاتی ہیں تا کہ ایمان میں کوئی نقص ہے واقع نہ ہو.دوستوں کا فرض ہے کہ وہ مرکز کو یہ صورت جو قلوب کی نظر آتی ہے اس کی اصلاح اُس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک جماعت ہمیشہ صحیح حالات سے باخبر رکھیں میں یہ احساس پیدا نہ ہو کہ جب بھی کسی مقام پر کوئی ایسا واقعہ ہو افراد جماعت کا فرض ہے کہ وہ فوراً مرکز کو صحیح حالات سے باخبر کریں تا کہ مناسب کارروائی کے بعد ان واقعات کی روک تھام کی جاسکے.اب عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی امیر آدمی غیر احمدی کو لڑکی دے دیتا ہے تو مرکز میں اُس کی رپورٹ نہیں کی جاتی لیکن اگر غریب سے کوئی ایسا فعل سرزد ہوتا ہے تو اُس کی فورا رپورٹ کر دی جاتی ہے میرے نزدیک ایسے معاملات کے اصل ذمہ دار

Page 434

خطابات شوری جلد سوم ۴۱۸ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء مقامی اُمراء اور پریذیڈنٹ ہوتے ہیں.کیونکہ وہی ایسے واقعات کو چھپاتے ہیں اور وہی اس قسم کی باتیں کرتے ہیں کہ جانے دو جو کچھ ہو چکا سو ہو چکا اب کسی کی رپورٹ کرنے کا کیا فائدہ ہے؟ پس سب کمیٹی نے جو بورڈ تجویز کیا ہے اُس سے کچھ نہیں بن سکتا.اصل چیز جو اس خرابی کی جڑ ہے وہ یہ ہے کہ افراد جماعت کے اندر یہ روح نہیں ہوتی کہ وہ مضبوطی کے ساتھ احمدیت کی تعلیم پر قائم رہیں اُن کا ایک پیر ادھر ہوتا ہے اور دوسرا پیر اُدھر ہوتا ہے ، ایک طرف وہ احمدی کہلاتے ہیں اور دوسری طرف اُن میں احمدیوں والی جرات نہیں ہوتی ، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اُن کی آنکھوں کے سامنے احمدیت کی ہتک ہوتی ہے اور وہ خاموش بیٹھے رہتے ہیں.ہمارا ایک اچھا بھلا مبلغ ہے اُس نے تھوڑے ہی دن ہوئے میرے کان کھالئے ہر دوسرے دن اُس کی طرف سے تار آجا تا کہ فلاں شخص جسے احمدی ہوئے صرف پندرہ دن ہوئے ہیں اُسے فلاں لڑکی سے شادی کرنے کی اجازت دی جائے اور اجازت بھی بذریعہ تار بھجوائی جائے.میں نے اُسے جواب بھجوایا کہ نیک بخت ! یہ تو گلا گھونٹ کر اجازت لینے والی بات ہے، اگر تو نے نجاست ہی کھانی ہے تو کھا لے مجھ سے اس بارہ میں اجازت لینے کے کیا معنی ہیں.بعد میں ہم نے اجازت بھی دے دی کیونکہ بات یہ نکلی کہ اُس عورت کو بھی احمدی ہوئے صرف پندرہ دن ہی ہوئے تھے ، ہم نے سمجھا کہ شائد یہ دونوں شادی کے لئے ہی احمدی ہوئے ہوں اس لئے چلو ان کو اجازت دے دو.بہر حال یہ حالات ہیں جن میں سے اس وقت جماعت گزر رہی ہے ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے میرے نزدیک پہلے قانون میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں.جو قانون اس وقت جاری ہے وہی درست ہے کیونکہ بہت سی احمدی لڑکیاں رشتے نہ ملنے کی وجہ سے بیٹھی ہیں اُن کا خیال رکھنا ضروری ہے لیکن ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے ضروری ہے کہ آئندہ جب کسی مقام سے یہ رپورٹ ملے کہ کسی شخص نے غیر احمدی کو اپنی لڑکی دے دی ہے یا بغیر مرکز کی منظوری کے غیر احمدی لڑکی سے شادی کر لی ہے تو وہاں صرف اُس شخص کے خلاف کا رروائی نہ کی جائے جس نے ایسی حرکت کی ہو بلکہ امیر یا پریذیڈنٹ کو بھی اس کا ذمہ دار سمجھا جائے اور اُن کے خلاف بھی کارروائی کی جائے بلکہ میرے نزدیک اصل کارروائی امیروں یا پریذیڈنٹوں کے متعلق ہی ہونی چاہیے کیونکہ وہی ہیں جو اس قسم کی

Page 435

خطابات شوری جلد سوم ۴۱۹ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء باتوں کو چھپاتے ہیں اور مرکز کو صحیح حالات سے اطلاع نہیں دیتے.عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ جب کوئی شخص اُن کی خوشامد کر دیتا ہے تو وہ خاموش ہو جاتے ہیں اور اُس فرض کو بھول جاتے ہیں جو سلسلہ کی طرف سے اُن پر عائد ہوتا ہے اس نقص کا ازالہ اسی طرح ہوسکتا ہے کہ آئندہ زیادہ سختی سے کام لیا جائے اور امیروں اور پریذیڈنٹوں کو بھی ذمہ دار سمجھا جائے تالڑکیوں کے لئے رشتہ نہ ملنے کی مشکل دور ہو.کتنے اندھیر کی بات ہے کہ بعض خاندانوں کی لڑکیاں غیر احمدیوں میں بیاہی جاتی ہیں مگر وہاں کی جماعتیں چپ کر کے بیٹھی رہتی ہیں اور کبھی مرکز میں رپورٹ نہیں کرتیں.یہ نتیجہ ہے مقامی جماعتوں اور افسروں کی کوتا ہی کا.جہاں مقامی جماعتیں ذرا بھی ہوشیار ہوں وہاں اس قسم کے فتنے پیدا نہیں ہوتے اور اگر ہوں تو رک جاتے ہیں.پس اپنے تجربہ کی بناء پر میں سمجھتا ہوں کہ اس تجویز کو مجلس میں پیش کرنے کی ضرورت نہیں.اگر ضرورت ہے تو اس بات کی کہ کارروائی میں زیادہ سختی سے کام لیا جائے.میں نے دیکھا ہے ہماری جماعت میں بڑی کثرت سے ایسے کیس ہوتے ہیں کہ فلاں نے اتنا قرضہ لیا تھا مگر اب تک اُس نے ادا نہیں کیا اور جب قرضہ مانگا جاتا ہے تو کہہ دیتا ہے کہ مقدمہ کر دو.ابھی پچھلے دنوں ایک شخص کے متعلق اسی قسم کے کیس میں کارروائی کی گئی.اس پر چند دنوں کے اندر اندر ہی اُس نے سارا رو پید ادا کر دیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری جماعت کے لوگوں میں ایمان تو ہے مگر انہیں عادت پڑ گئی ہے کہ جب تک اُن پر سختی نہ کی جائے وہ اپنے فرض کو نہیں پہچانتے.لوگوں کے سینکڑوں روپے دبا کر بیٹھ جاتے ہیں اور اُن کے دلوں میں یہ احساس تک پیدا نہیں ہوتا کہ اُس روپیہ کو ادا کرنے کی کوشش کریں.لیکن جہاں سختی کی جاتی ہے رو پید ادا کر دیتے ہیں کیونکہ دل میں ایمان ہوتا ہے اور وہ اس ایمان کے لئے اپنی قوم کو چھوڑ کر ادھر آئے ہوئے ہوتے ہیں جب وہ دیکھتے ہیں کہ اس طرف بھی اُن کی عزت نہیں رہی تو وہ اپنی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں.باقی جیسا کہ میں نے ایک شوری کے موقع پر بھی بیان کیا تھا کسی غیر احمدی لڑکی سے شادی کرنے کے متعلق اگر مرکز میں کوئی درخواست آئے تو اگر وہاں کی احمدی لڑکیوں کے رشتہ میں مشکلات پیدا ہونے کا ڈر نہ ہو یا یہ خطرہ نہ ہو کہ لڑکا غیر احمدیوں کے زیر اثر آجائے گا تو عموماً ایسی اجازت

Page 436

خطابات شوری جلد سوم ۴۲۰ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء دے دینی چاہیے اور اس میں مرکز کو روک پیدا نہیں کرنی چاہیے.اب میں اس اجلاس کو ختم کرتا ہوں کیونکہ مجھے ضعف ہورہا ہے، اس کے بعد پہلے مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع ہوں گی پھر کھانا کھایا جائے گا اور نو بجے پھر مجلس شوری کا اجلاس بھی ہوگا.“ C-D از دفتر پرائیویٹ سیکرٹری ربوہ ) تیسرا دن مجلس مشاورت کے تیسرے دن تلاوت قرآن کریم کے بعد نمائندگان سے خطاب کرتے ہوئے حضور نے فرمایا: - کل کے جلسہ کے اختتام پر میں نے رات کے اجلاس کی بھی تجویز کی تھی.لیکن یہاں سے جاتے ہی گلے کی تکلیف تیز ہوگئی اور ساتھ ہی بخار اور ضعف بھی ہو گیا جس کی وجہ سے مجھے وہ اجلاس منسوخ کرنا پڑا اب اس اجلاس میں انشاء اللہ جماعت کا بجٹ پیش ہوگا.تحریک جدید کا بجٹ میری رائے یہ ہے کہ آئندہ تحریک جدید کا بجٹ بھی مجلس شوریٰ میں پیش ہوا کرے.لیکن وہ بجٹ چونکہ صرف طوعی چندوں پر مشتمل ہوتا ہے اس لئے مشورہ میں صرف انہی کو بلایا جائے گا جو تحریک جدید میں حصہ لینے والے ہوں.میں ابھی اس امر پر غور کر رہا ہوں کہ تحریک جدید کے بجٹ کے لئے اسی مشاورت میں سے وقت نکالا جایا کرے یا اس کے لئے کوئی اور وقت مقرر کیا جائے بہر حال تحریک جدید کا کام بھی وسیع ہو گیا ہے اور اب ان لوگوں کی بھی تربیت کی ضرورت ہے اگر چہ صدرانجمن کے بعض کاموں میں بھی اصلاح کی ضرورت ہے لیکن چونکہ یہ دیر سے کام کر رہی ہے.اس لئے اسے مشق ہوگئی ہے.مگر تحریک جدید کے کارکنوں میں یہ بات نہیں پائی جاتی.وہاں ابھی تک ممبران مجلس تحریک جدید ہی آپس میں مل کر بجٹ بنا لیتے ہیں اور اس کی مجھ سے منظوری لے لیتے ہیں لیکن اس کے نتیجہ میں بجٹ کے بہت سے پہلو پوشیدہ رہ جاتے ہیں اُن کو اس کام کی عادت ڈالنے اور ان کے نقائص کو دور کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اُن کا بجٹ بھی مجلس شوری میں پیش ہو.

Page 437

خطابات شوری جلد سوم ۴۲۱ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء بجٹ صدرانجمن احمدیہ کے بعض نقائص اور اس کا حل صدر انجمن احمدیہ کے بجٹ میں بھی نقائص ہیں جن کو دور کرنا چاہیے مثلاً ایک نقص یہ ہے کہ صدر انجمن احمدیہ کی آمد کے بعض حصے بجٹ میں نہیں دکھائے جاتے جیسے ریز روفنڈ ہے اُس کا روپیہ تجارت میں لگا ہوا ہے.صدرانجمن احمد یہ کو اس کی آمد بجٹ میں دکھانی چاہیے جو اس وقت تک نہیں دکھائی جاتی اور اس وجہ سے آمد وخرچ کا صحیح بجٹ سامنے نہیں آتا.اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ بعض چندوں کی آمدن جب کم ہو جاتی ہے تو وہ آمدن خرچ کر لی جاتی ہے.یہ خرچ تو بے شک سلسلہ کا ہے اور جائز ہے لیکن روپیہ ایسے رستہ سے داخل ہوتا ہے جس سے جماعتی نمائندے واقف نہیں ہوتے.یہ جماعت کا کام ہے کہ وہ ریز روفنڈ کے متعلق مشورہ دے کہ آیا اُسے قرضے دور کرنے میں خرچ کرلیا جائے یا ہم اُسے تجارت میں ہی لگائے رکھیں ہر چیز کی کوئی نہ کوئی بنیاد ہونی چاہیے.جماعت کی جائیدادوں کے مشرقی پنجاب میں رہ جانے کی وجہ سے اُسے کئی لاکھ کا نقصان پہنچا ہے.آخر یہ نقصان بھی ہم نے پورا کرنا ہے.ہوسکتا ہے کہ یہ تجویز ہو جائے کہ ریز رو فنڈ کو قرضے دور کرنے میں استعمال کر لیا جائے اور آئندہ نئی عمارتیں بنانے میں بھی اس سے مدد لی جائے بہر حال صدر انجمن احمدیہ کو یہ معاملہ جماعت کے سامنے رکھنا چاہیے اور اس بارہ میں اُسے جماعتی رائے معلوم کرنی چاہیے.پھر قرض کی مد بجٹ میں نہیں رکھی جاتی تھی اس دفعہ میں نے یہ مد بھی رکھوائی ہے تا کہ جماعت کو اپنے قرضے کا علم ہو جائے اور وہ اس کو دور کرنے کی کوشش کرے.جد و جہد کا صحیح جذ بہ اُسی وقت پیدا ہوتا ہے جب قرض کی تفصیل سامنے آجائے.اگر جماعت کو معلوم ہی نہیں کہ کیا قرض ہے تو وہ اُس کے دور کرنے کے لئے کیا کوشش کرے گی.بجٹ میں ان سب باتوں کا ذکر ہونا چاہیے.ہماری جماعت کی تربیت خدا تعالیٰ کے فضل سے دوسروں سے زیادہ ہے اس لئے اس بات کا اندیشہ نہیں ہو سکتا کہ وہ قرض کو سن کر گھبرا جائے گی.مثلاً سکول کی قیمت لگا لو اور اس کو قرضہ کے خانہ میں دکھاؤ.قادیان میں زمین اتنی مہنگی ہو چکی تھی کہ ہم خود ہیں ہزار روپے فی کنال کے حساب سے زمین خریدنا چاہتے تھے تو زمین نہیں ملتی تھی.وہاں سکول کی زمین

Page 438

خطابات شوری جلد سوم ۴۲۲ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء چالیس ایکڑ تھی اور رستوں کو نکال لیا جائے تب بھی وہ زمین قریباً ۲۰۰ کنال تھی.اس طرح صرف سکول کے ہاتھ سے چلے جانے کی وجہ سے جماعت کو ڈیڑھ دو کروڑ کا نقصان پہنچا ہے اور یہ ہمارے بس کی بات نہیں تھی جو کچھ ہوا خدا تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت ہوالیکن کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے سے اس کا ازالہ نہیں ہو سکتا.ان سب چیزوں کو جماعت کے سامنے لانا چاہیے.آخر وہ زمینیں اور عمارتیں جو ہم وہاں چھوڑ آئے ہیں کسی تماشا کے لئے تو نہیں تھیں، کسی میں ہمارا مہمان خانہ تھا کسی میں ہمار ا سکول تھا اور کسی میں ہمارا کالج تھا.اور پھر وہ بنائی اس لئے گئی تھیں کہ اُن کے بنانے کی ہمیں ضرورت تھی اور اگر اُن کے بنانے کی ہمیں ضرورت تھیں تو وہ اب بھی بنانی پڑیں گی.گویا ان عمارتوں کے ہاتھ سے جانے کا ہی سوال نہیں اُن کے دوبارہ بنانے کا بھی سوال ہے اور یہ دونوں باتیں ایسی ہیں جنہیں جماعت کے سامنے لانا چاہیے.احمق بے شک کہے کہ یہ عمارتیں اب نہیں بنانی چاہئیں لیکن ہم نے یہ سب عمارتیں دوبارہ بنانی ہیں.آخر وہ تعیش کا سامان تو نہیں تھے کہ کہہ دیا جائے چلوسینما ہاتھ سے چلا گیا ہے آئندہ ہم سینما نہیں دیکھیں گے.ہم نے جو جگہیں چھوڑی ہیں وہ دینی جگہیں تھیں ، سکول تھے ، کالج تھے، لائبریریاں تھیں، پر لیس تھے ہم احمدیت کے جسم کی روح چھوڑ آئے ہیں اور اس کے بغیر کام نہیں چل سکتا.یہ سب چیزیں ہمیں دوبارہ بنانی پڑیں گی اور ان پر ڈیڑھ دو کروڑ روپیہ خرچ آئے گا اور جب تک ہم ان باتوں کو پوری طرح ذہن نشین نہ کرلیں گے کام نہیں بنے گا.جس طرح ایک شخص کی ضرورت پوری نہیں ہوتی تو وہ شور مچاتا ہے کبھی وہ کسی ناظر کو خط لکھتا ہے اور کبھی مجھے خط لکھتا ہے اسی طرح ان باتوں کو جماعت مد نظر رکھتی تو اُسے شور مچا دینا چاہیے تھا کہ ہمیں سکول چاہئیں ، کالج چاہئیں ، آخر ہم بچوں کو پڑھا ئیں تو کہاں پڑھائیں.یہ شور ہماری طرف سے نہیں ہونا چاہیے تھا جماعت کی طرف سے ہونا چاہیے تھا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارا کالج لاہور میں ہے لیکن ایک تو وہ ہماری اپنی عمارت نہیں گورنمنٹ کا جب جی چاہے ہمیں وہاں سے نکال سکتی ہے اور پھر ماحول اپنا نہیں جس کی وجہ سے قدم غلط مشورہ کی طرف چل پڑتے ہیں.مثلاً کالج کا رسالہ ہے اُس میں عشق ومحبت کے خطوط چھپتے ہیں اور ایسی تصویریں چھپتی ہیں جن کو دیکھ کر یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ

Page 439

خطابات شوری جلد سوم ۴۲۳ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء احمدی لڑکوں کی تصویریں ہیں.اگر وہ قادیان میں ہوتے تو انہیں ایسا کرنے کی جرأت نہ ہوتی.یہ صرف ماحول سے کٹنے کی وجہ سے ہے.غرض جب تک ہمارا کالج یہاں نہیں بن جاتا اور جب تک ہمارے طالب علم اور پروفیسر یہاں نہیں پہنچ جاتے اُن کی صحیح طور پر تربیت کرنا مشکل امر ہے.اس طرح مدرسہ دینیات ہے وہ بھی مرکز سے باہر ہے اس کی نگرانی کی کوئی صورت نہیں اور وہ اس طرز پر جارہا ہے کہ اُس کے نتائج کو ہم اپنے نتائج نہیں سمجھ سکتے.جس طرح جو چیز پہاڑ کے پیچھے ہے وہ آنکھوں سے اوجھل ہوتی ہے اسی طرح ہمار ا سکول بھی ہماری پوری نگرانی میں نہیں.پھر ہمارا یہاں کوئی پریس نہیں.ریویو آف ریلیجنز کو پریس نہ ہونے کی وجہ سے ہم جاری نہیں کر سکتے.پھر الفضل ہے وہ بھی لاہور میں ہے اُس کا حال یہ ہے کہ من چه سرایم و طنبوره من چه سراید وہ اور آواز نکالتے ہیں اور ہم اور آواز نکالتے ہیں جب تک یہ سب ادارے مرکز میں جمع نہ ہو جائیں اُن کی نگرانی مشکل ہے بے شک اُن کی بعض شاخیں مرکز سے باہر بھی ہوں گی مگر پوری نگرانی اُسی وقت ہوسکتی ہے جب اُن کے اصل مرکز میں ہوں.یہ سب چیزیں ہمارا بجٹ ہی سامنے لا سکتا ہے لیکن اُس میں ان باتوں کو نہیں دکھایا جاتا.اسی طرح مثلاً تعمیر ہے بجٹ میں صرف تعمیر کا لفظ لکھ کر اُس کے آگے رقم لکھ دی گئی ہے حالانکہ صرف تعمیر کے لفظ سے لوگوں کے جذبات نہیں اُبھرتے اور طوعی کاموں میں جذبات کو اُبھارنے کی ضرورت ہوتی ہے.شاہ جہان نے جو تاج محل کی عمارت بنوائی تھی وہ بھی تو تعمیر ہی تھی لیکن اور کوئی شخص ویسی عمارت بنانا چاہے تو نہیں بنا سکتا.اس لئے تعمیر کے چاہیے.اگر تفصیل لکھ دی جاتی تو لوگ سمجھتے کہ یہ چیزیں تو ضرور بنانی ساتھ تفصیل چاہیں.ہم یہاں بیٹھے تھے کہ ریلوے والے بھی یہیں آگئے.میں نے انہیں کہا کہ اسٹیشن ابھی نہ بنائیں کیونکہ ہم سب اسٹیشن کی زمین میں ہیں.انہوں نے بات نہ سمجھی اور کہا یہ.

Page 440

خطابات شوری جلد سوم ۴۲۴ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء مکان تو آخر گرانے ہی پڑیں گے.میں نے کہا ٹھیک ہے مکان ضرور گرانے پڑیں گے لیکن اتنی جلدی نہیں کہ ہمیں دوسرے مکانات بنانے کا موقع نہ مل سکے.لیکن اگر کوئی ریلوے کا آفیسر آ جائے اور کہے یہ عمارتیں گرا دو تو ہمیں نئے مکانات بنانے تک خیموں یا جھونپڑوں میں رہنا پڑے گا.یہ سب چیزیں بجٹ میں واضح کرنی چاہئیں تا جماعت کو اس کا احساس ہو.کسی انسان کی قربانیوں کو بڑھانے کا یہ بھی ایک ذریعہ ہوتا ہے کہ اُسے بتایا جائے کہ ہمیں اتنی قربانی کی ضرورت ہے ہم نے فلاں فلاں نقصان اٹھائے ہیں جن کو ہم نے بہر حال پورا کرنا ہے.شہد کی مکھی کا گھر ہمیشہ اُجڑ تا رہتا ہے اور وہ ہمیشہ نیا گھر بنا لیتی ہے اور اس سے اکتاتی نہیں خدا تعالیٰ نے بھی اس کے لئے وحی کا لفظ استعمال کیا ہے جس میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ تمہارا گھر بے شک اُجڑ تا رہتا ہے لیکن تم مورد وحی الہی اور جو کچھ کرتی ہو ہمارے منشاء کے ماتحت کرتی ہو انسان کا حوصلہ مکھی سے تو بہر حال بڑھ کر ہونا چاہیے پس یہ چیزیں چھپانی نہیں چاہئیں بلکہ ان کو ظاہر کرنا چاہیے تا کہ جماعت کو اپنے فرائض کا صحیح احساس ہو سکے.پھر صدرانجمن احمدیہ کی اب تک یہ حالت ہے کہ اُدھر بجٹ پاس ہوا اور ادھر انہوں نے درخواست دے دی کہ حضور فلاں چیز رہ گئی تھی اُس کی منظوری عطا فر مائی جائے.فلاں چیز رہ گئی تھی اُس کی منظوری عطا فرمائی جائے.پھر وہ چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ اُن کی منظوری ئے بغیر گزارہ نہیں ہوتا.مثلاً پاخانہ کی عمارت ہے اگر یہ نہ بنائی جائے تو کوئی ضروری نہیں لیکن جب عمارت بنا لی جائے تو اُس کے لئے کھڑیاں بنانی ضروری ہیں.وہ کھڈیاں عمارت کے ساتھ نہیں بنائی جاتیں مگر بعد میں درخواست دے دی جاتی ہے کہ پاخانہ کے لئے کھڑیاں بنانا ہم بھول گئے تھے اس کے لئے اتنی رقم کی منظوری دی جائے اور مجبوراً منظوری دینی پڑتی ہے.تعمیر کے محکمہ والوں کو کچھ اس قسم کا فن آ گیا ہے کہ وہ ضروری چیزیں چھوڑ جاتے ہیں میرے نزدیک کوئی ایسی تجویز ہونی چاہیے جس سے بجٹ مکمل بن سکے تا آئندہ کسی زیادتی کا سوال ہی پیدا نہ ہو.اور اگر کسی زیادتی کا سوال پیدا ہو تو یہ سمجھ لیا جائے

Page 441

خطابات شوری جلد سوم ۴۲۵ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء کہ غیر معمولی حالات میں یہ ضرورت پیش آگئی ہے.بیرونی ممالک کے لئے کانسٹی ٹیوشن کی اشد ضرورت ابھی شیخ بشیر احمد صاحب نے ایک بات کی طرف توجہ دلائی ہے ہم نے ایک محکمہ قانون بنایا ہے جس کا ایک کام یہ بھی ہوگا کہ وہ بیرونی ممالک کی جماعتوں کے لئے کانسٹی ٹیوشن تیار کرے پندرہ سال سے میں اس کام کی طرف توجہ دلا رہا ہوں مگر صدرانجمن احمدیہ نے اب تک یہ کانسٹی ٹیوشن تیار نہیں کی.حالانکہ بعض بیرونی ممالک میں ہماری جماعتیں بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں.اور اُن کے لئے تفصیلی نظام کی سختی سے ضرورت محسوس کی جارہی ہے.ویسٹ افریقہ میں ہی ایک لاکھ کی جماعت ہے اور وہ اس طرح سے بڑھ رہی ہے کہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ہم سے بھی بڑھ جائے گی وہاں ہیں پچپیس سکول ہیں ۳۵ ، ۴۰ مبلغ ہیں لیکن ابھی تک وہاں کی جماعت کی بھی کانسٹی ٹیوشن نہیں بنی اور یہ امر پندرہ سال سے زیر غور ہے.اسی طرح امریکہ ہے جب بھی امریکہ میں جماعت نے ترقی کی وہ لوگ فوراً شور مچا دیں گے کہ ہمارا مرکز سے کیا تعلق ہے اور مرکز کا ہم سے کیا تعلق ہے، مبلغ کو کس حد تک ہمیں کنٹرول میں رکھنے کا حق حاصل ہے اور ہمیں مبلغ پر کیا کیا حقوق حاصل ہیں اسی طرح اور بہت سے سوالات پیش آجائیں گے اور یہ ایک ایسا ملک ہے کہ اگر وہاں دس پندرہ ہزار گھرانے بھی احمدی ہوگئے تو وہاں کی جماعت کا بجٹ ہم سے بڑھ جائے گا.یہاں بجٹ آٹھ روپے فی کس ہے اور وہاں ایک سو روپیہ فی کس ہے اور ابھی غرباء کا طبقہ ہماری جماعت میں داخل ہے امراء آ گئے تو اُن کی ۳۶ گنا زیادہ آمدن ہوگی.گویا ہمارے ۳۶ آدمیوں کے مقابلہ میں وہاں کے ایک احمدی کا چندہ ہو گا اُس وقت طبعی طور پر یہ سوال آجائے گا کہ اس روپیہ کو ہم اپنی مرضی سے خرچ کر سکتے ہیں یا آپ کی مرضی سے خرچ کر سکتے ہیں.پس جب تک کوئی کانسٹی ٹیوشن نہیں بنے گی ہم اس بارہ میں اُن کو مطمئن نہیں کر سکتے.اسی طرح انڈونیشیا ہے، مشرقی افریقہ ہے، شام ہے ان کے متعلق بھی سوال آجائے گا پس ضروری ہے کہ بیرونی ممالک کے متعلق جلد سے جلد کانسٹی ٹیوشن مرتب کیا جائے اور یہ کام اسی محکمہ قانون کا ہے.اس محکمہ کا جو وکیل ہوگا اُس کے لئے لائبریری بھی چاہیے.شیخ بشیر احمد صاحب نے

Page 442

خطابات شوری جلد سوم ۴۲۶ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء بتایا ہے کہ کمیٹی میں یہ سوال پیش ہوا تھا اور فیصلہ ہوا تھا کہ وکیل کے لئے ۳۰۰۰ روپے کی کتب چاہئیں لیکن بجٹ میں اس کا ذکر نہیں بعد میں درخواست آجائے گی کہ لائبریری کے لئے تین ہزار روپیہ کی ضرورت ہے اس کی منظوری دی جائے.اسی طرح کالج کے پروفیسر ہیں گورنمنٹ نے قانون مقرر کر دیا ہے کہ پروفیسروں کا گریڈ ڈیڑھ سو کا ہے اب چونکہ گورنمنٹ نے فیصلہ کر دیا ہے اس لئے میں نے کہہ دیا تھا کہ کالج کے پروفیسروں کا گریڈ ڈیڑھ سو سے تین سو کر دیا جائے لیکن بجٹ میں صرف تین پروفیسروں کے نئے گریڈ کا ذکر ہے باقیوں کا نہیں.اسی طرح مجلس مشاورت کے سامان کے لئے بجٹ میں کچھ نہ کچھ خرچ رکھنا چاہیے تھا اب دوست اس طرح بیٹھے ہوئے ہیں کہ آپس میں مشورہ کی کوئی صورت نہیں.کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اشاعت کی اہمیت اسی طرح سب سے اہم ترین چیز ہمارے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب ہیں جن کو شائع کرنے کی طرف کوئی توجہ نہیں کی جارہی.ہماری لائبریری کی کتابیں قادیان میں ہی رہ گئی ہیں اور گورنمنٹ انہیں یہاں لانے کی اجازت نہیں دیتی.میں نے غیر احمدیوں کے کئی خطوط پڑھے ہیں جن میں وہ لٹریچر کے لئے لکھتے ہیں لیکن جماعت انہیں مہیا نہیں کر سکتی.وہ لکھتے ہیں عجیب بات ہے کہ آپ کے مبلغ امریکہ اور یورپ تو جارہے ہیں لیکن اپنے ملک کے لئے آپ کے پاس لٹریچر نہیں.صدر انجمن احمدیہ کو چاہیے کہ وہ اس بارہ میں جلد عملی قدم اُٹھائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام کتب جو نایاب ہوتی جارہی ہیں شائع کرنے کی کوشش کرے.اگر ہم ان کتابوں کے بغیر چند سال بھی گزار دیں گے تو آئندہ نسل یہ سمجھے گی کہ ان کے بغیر بھی گزارہ ہوسکتا ہے اور اُس کا یہ فیصلہ ایسا ہی ہوگا جیسے کوئی روٹی کے بغیر جینے کا فیصلہ کر لے.آمد بڑھانے کی ضرورت یہ سب چیزیں بجٹ تیار کرتے وقت نظر انداز کر دی گئی ہیں اور دوسری طرف یہ نظر آ رہا ہے کہ بجٹ اخراجات بجٹ آمد سے زیادہ ہیں.اس پر بھی غور کرنا ضروری ہے کہ ہم اپنی آمد کو بڑھائیں اصل چیز

Page 443

خطابات شوری جلد سوم ۴۲۷ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء تو یہی ہے کہ آمد بڑھے لیکن اس چیز کا احساس بہت کم ہے.قادیان سے نکلنے پر بیعت اُس معیار پر نہیں رہی جس پر وہ پہلے تھی اب کچھ ترقی ہو رہی ہے لیکن ہمیں اس سے دس ہیں گئے زیادہ کوشش کرنی چاہیے.اب حالت یہ ہے کہ بیرونی ممالک میں جماعت زیادہ بڑھ رہی ہے اور پاکستان میں کم بڑھ رہی ہے بنیادیں چوڑی ہوتی ہیں تو دیوار بڑی ہوتی ہے.مرکز بنیاد ہوتا ہے مرکز کی مضبوطی کی زیادہ ضرورت ہے اب پاکستان جماعت کا مرکز ہے.پاکستان میں نسبتی طور پر جماعت زیادہ ہونی چاہیے اور اس کے چندے بھی زیادہ ہونے چاہئیں تاہم بیرونی ملکوں کی جماعتوں کو کہ سکیں کہ ہم تم پر خرچ کرتے ہیں.اب حالت یہ ہے کہ جب نئے احمدی ہوتے ہیں تو وہ کہتے ہیں ہم تم پر خرچ کیوں کریں.لحاظ اور ادب کی وجہ سے وہ مجھے نہیں لکھتے مقامی مبلغ کو کہتے ہیں.میں اُس مبلغ کو یہی لکھتا ہوں کہ وہ انہیں سمجھا دے کہ اب تک پاکستان نے تم پر خرچ کیا ہے اگر یہ اصل ٹھیک ہے کہ آپ کو ہم پر خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے تو پاکستان کو آپ پر خرچ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ قدرتی بات ہے کہ خواہ کوئی دینی بات ہو یا دنیوی انسان دوسرے کی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے.قرآن کریم میں ایک بزرگ ہستی کا ذکر آتا ہے جسے ہم جبرائیل سمجھتے ہیں لیکن دوسرے لوگ خضر کہتے ہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اُن کی اطاعت سے گریز اختیار کیا حالانکہ وہ آپ سے کوئی جائداد حاصل کرنا نہیں چاہتے تھے صرف دل پر حکومت کرنا چاہتے تھے.اسی طرح دنیا ہماری طاقت کو تسلیم نہیں کرتی جب تک ہم اس کے لئے کوئی مادی ذریعہ بھی اختیار نہ کریں اور وہ ذریعہ یہی ہے کہ ہم کہیں ہم نے روپیہ خرچ کر کے آپ کو ہدایت دی ہے اس پر وہ اپنی نظریں نیچی کر لیں گے اور ہماری فوقیت کا اعتراف کریں گے.جب ملک میں نئے طور پر کوئی حکومت قائم ہوتی ہے تو اُس کے رہنے والے اسی لئے اس حکومت کو برداشت کرتے ہیں کہ وہ اپنے پاس سے اُن پر خرچ کرتی ہے.جتنی امپیرلزم ہوتی ہیں اُن کا ابتدائی حصہ یہی ہوتا ہے کہ پیرنٹ باڈی (parent body) خرچ کرتی ہے اور دوسرے فائدہ حاصل کرتے ہیں.اور جب تک وہ حکومت خرچ کرتی چلی جاتی ہے لوگ اُس کے مطیع رہتے ہیں لیکن جب وہ خرچ کرنا

Page 444

خطابات شوری جلد سوم ۴۲۸ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء بند کر دیتی ہے تو لوگ اُس کی اطاعت سے کندھا ہٹا لیتے ہیں اور بغاوت شروع ہو جاتی ہے.مذہبی جماعتوں کو ہمیشہ قربانی کی عادت ڈالنی چاہیے ہر رسول جو دنیا میں آتا ہے اُسے حکومت کی ضرورت ہوتی ہے.قرآن کریم نے کہا ہے کہ جو تمہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیتے ہیں وہ لے لو اور جس سے وہ منع فرماتے ہیں اُسے سے رک جاؤ نے صحابہ اس پر اس طرح عمل کرتے تھے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بلاتے تو نماز توڑ دیتے اور آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بھی حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے ساتھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کو آواز دی اور آپ نے نماز توڑ کر فوراً آپ کی خدمت میں حاضر ہو گئے.بعض لوگوں نے اس پر اعتراض کیا تو آپ نے فرمایا یہ تو قرآن کریم کا حکم ہے کہ جب رسول تمہیں آواز دے تو تم فوراً جواب دو.پس جب تک مرکز کہے گا کہ میں ہی تمہیں دے رہا ہوں اُس وقت تک بیرونی جماعتیں اُس کے ماتحت رہیں گی.اور جب یہ سوال آ گیا کہ تم کھلا ؤ میں کھاتا ہوں تو وہ کہیں گے جب کھلاتی ہیں تو ہم مرکز کیوں نہ بنیں.پس مرکز کی ذمہ داری بہت بڑی ہے اور اُسے دوسرے سے کھانے کی نیت نہیں رکھنی چاہیے.یہ چیز تم ہمیشہ مدنظر رکھو اور اس کو مد نظر رکھتے ہوئے بجٹ پر غور کرو.جب تک کوئی انسان قربانی کی اہمیت کو نہیں سمجھتا اُس کے اندر قربانی کا صحیح احساس پیدا نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ کا منشاء یہی ہے کہ مرکز ہمارے ہاتھوں میں رہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتب میں اس کا اظہار بھی فرمایا ہے.بعض لوگوں نے اس بارہ میں ٹھو کر کھائی ہے وہ یہ نہیں سمجھتے کہ قانون اور استثناء الگ الگ ہوتے ہیں.ہمارا اصل مرکز قادیان ہی ہوگا اگر وہ کہیں چلا جائے ہمارا اصل مرکز قادیان ہی ہے تو اس کا وہاں جانا عارضی ہوگا.مثل کسی شخص سے میں کہوں کہ آپ کہاں کے رہنے والے ہیں.اور وہ کہے میں پشاور کا رہنے والا ہوں تو اس پر اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے یہ پشاور کا رہنے والا نہیں یہ تو ربوہ کا رہنے والا ہے تو غلط ہو گا.جس طرح پشاور کا رہنے والا کوئی شخص اگر ربوہ آجائے تو اس سے

Page 445

خطابات شوری جلد سوم ۴۲۹ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ پشاور کا رہنے والا نہیں.جس طرح ربوہ کا کوئی شخص سودا لینے کے لئے لائل پور یا لاہور جائے تو وہ وہاں کا نہیں ہو جاتا اسی طرح مرکز کے کسی دوسری جگہ عارضی طور پر چلے جانے کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ اب پہلی جگہ مستقل مرکز نہیں رہا.جیسے مسافر اپنے وطن کی طرف ہی منسوب ہوتا ہے.اسی طرح مستقل مرکز سے نکلنے والا بھی اُسی کی طرف منسوب ہوگا.جب یہ فضیلت خدا تعالیٰ نے ہمیں دی ہے تو پھر مرکز والوں کو خرچ کرنا پڑے گا.دنیا میں صرف مائیں ہی خرچ کرتی ہیں اور وہ دودھ پلاتی ہیں.بڑی عمر میں بھی درحقیقت مائیں ہی خرچ کرتی ہیں.سو میں سے دو تین ہی ایسے بچے نکلیں گے جو ماں باپ کی خدمت کرتے ہیں ورنہ اکثر ماں باپ ہی اپنے بچوں کی ساری عمر خدمت ہے کرتے ہیں.اُم القریٰ وہ بستی ہوتی ہے جس میں خدا تعالیٰ کا مامور آتا ہے اور اُم القریٰ ہوتا.وہ ملک جس میں خدا تعالیٰ کا مامور آتا ہے.سکول کے طالب علم کو وظیفے دیتے وقت گورنمنٹ اُس سے شرطیں طے کرتی ہے اور اس سے اشٹام لکھواتی ہے کہ وہ اس وظیفے کو واپس کرے گا یا تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد اُس کی ملازمت کرے گا لیکن مائیں خرچ کرتی ہیں اور اولاد سے کسی بدلہ کی خواہش نہیں رکھتیں.ماں بچہ کی اُس وقت خدمت کرتی ہے جب وہ بول بھی نہیں سکتا لیکن اس کے بدلہ میں اُسے کیا ملتا ہے؟ خدا تعالیٰ نے اسے یہ فضیلت دی ہے کہ اولاد کے ذمہ خدا تعالیٰ نے یہ فرض رکھا ہے کہ وہ سوائے شرک کے ہر بات میں اپنے ماں باپ کی اطاعت کریں.یہی درجہ مرکزی مقام کو بھی حاصل ہوتا ہے اور دوسرے ممالک کو خدا تعالیٰ اس کی اطاعت کا حکم دیتا ہے.جیسے ماں کی اطاعت نہ کرنے والے گنہگار ہوتے ہیں اسی طرح اگر دوسرے ملک مرکزی مقام کی نافرمانی کرتے ہیں تو وہ نافرمان گردانے جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے غضب کے مستوجب بنتے ہیں پس اپنی اس ذمہ داری کو سمجھو کہ خدا تعالیٰ نے تمہیں ماں بنایا ہے لیکن تم ماں والے حق کے اُسی وقت مستحق ہو سکتے ہو جب تم ماں والی قربانی بھی کرو - محسن ہمیشہ احسان مندوں کے لئے کعبہ بن جاتا ہے اور یہ کوئی معمولی عزت نہیں.تم جتنی قربانی بھی کرو وہ اُس نتیجہ کے مقابلہ میں کم ہے جو خدا تعالیٰ اُس کے بدلہ میں پیدا کرتا ہے.

Page 446

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء ماں کا اپنے بچہ کو 9 ماہ تک پیٹ میں رکھنا ، دو سال تک دودھ پلانا، اُس کے لئے راتوں کو جاگنا، اُسے کپڑے مہیا کرنا ، خود بھوکے رہ کر اُسے تعلیم دلانا اور خود تکلیف اٹھا کر اُس کی شادی کرنا یہ بے شک بہت بڑی قربانی ہے لیکن یہ قربانی اُس کے بدلہ کے مقابل میں بالکل بیچ ہے جو خدا تعالیٰ اُس کے نتیجہ میں اُسے دیتا ہے.خدا تعالیٰ کہتا ہے جو شخص ماں باپ کی نافرمانی کرتا ہے وہ میرا نا فرمان ہے.پس تمہاری قربانی بے شک بہت بڑی ہے لیکن جو نتیجہ اس کا خدا تعالیٰ پیدا کرتا ہے اس کے سامنے یہ قربانی کوئی حیثیت نہیں رکھتی امریکہ ، برطانیہ ، سپین، فرانس، اٹلی ، ہالینڈ اور دوسرے یورپین ممالک جو اپنی برتری کے دعوے دار ہیں جو تمہیں غلام کہنے میں بھی اپنی ہتک سمجھتے ہیں تمہاری اس قربانی کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کہے گا اے ملکو! تم اس ملک کے غلام بن کر رہو.تمہاری قربانی بے شک بہت بڑی ہے لیکن خدا تعالیٰ کا جواب اُس سے بھی بہت بڑا ہے.بے شک اس برکت کو حاصل کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے دوسرے ملکوں کے لئے دروازہ کھلا رکھا ہے لیکن امریکہ کا ایک باشندہ تبھی برکت پاسکتا ہے جب وہ یہاں آکر بس جائے گویا وہ اپنی وطنیت کو ترک کر کے ہی برکت حاصل کر سکتا ہے.اُسے بہر حال اپنی بنیا د توڑنی پڑے گی تبھی وہ اس ملک کے حقوق برتری سے فائدہ اٹھا سکتا ہے.ایک خاص وطنیت برادری اور جگہ معین ہو چکی ہے اُس میں داخل ہو کر وہ برکت سے حصہ لے لے گا لیکن جب وہ اس وطنیت برادری اور جگہ سے باہر جائے گا تو وہ اس ملک کے تابع ہو کر رہے گا.جب تک تم ماں کی حیثیت کو قائم رکھو گے دوسرے ملک بھی بچہ کی حیثیت کو قائم رکھیں گے لیکن جب تم ماں کی حیثیت کو قائم نہیں رکھو گے تو دوسرے ممالک سے تم ماں والی عزت کی امید نہیں کر سکتے.جس طرح ماں جب بچہ کو پھینک دے تو کوئی شخص یہ نہیں کہ سکتا کہ بچہ نے اپنی ماں کے حقوق کو ادا نہیں کیا وہ یہی کہیں گے کہ ماں نے خود اپنے حقوق کو چھوڑ دیا ہے اس لئے بچہ نے بھی اُن حقوق کو ادا نہیں کیا جو اُس پر عائد ہوتے تھے.تورات میں آتا ہے کہ حضرت اسحق علیہ السلام کے بڑے بیٹے عیسو نے اپنا حق اپنے چھوٹے بھائی یعقوب علیہ السلام کے لئے چھوڑ دیا تھا.پرانے زمانہ میں بڑے بیٹے کو حقوق برتری حاصل ہوتے تھے.یہود کا یہ خیال تھا کہ بڑا بیٹا ہی نبی بن سکتا ہے.

Page 447

خطابات شوری جلد سوم ۴۳۱ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء حضرت یعقوب علیہ السلام کی والدہ کو یہ احساس تھا کہ بڑا بیٹا ہونے کی وجہ سے عیسو نبوت کا درجہ لے جائے گا اس لئے وہ اس ٹوہ میں رہتی تھی کہ کسی طرح یہ حق اپنے بیٹے یعقوب کو لے کر دے.ایک دن یعقوب نے مسور کی دال پکائی عیسو کا دال کھانے کو جی چاہا اُس نے یعقوب کو بلا کر کہا مجھے دال کھلا یعقوب نے کہا مجھے اپنا پلوٹھا ہونے کا حق دے دے تب میں تجھے دال دوں گا.عیسو کا بچپن بھی تھا اور یہودیوں کے نزدیک اُس کا معیار اخلاق بھی اعلیٰ نہیں تھا اُس نے کہا دال تو نقد بہ نقد مل رہی ہے نبوت پتہ نہیں کب ملے اس لئے اُس نے نبوت کا حق یعقوب کو دے دیا اس پر یعقوب نے اُسے مسور کی دال دی اور اُس نے کھائی.جب حضرت اسحق علیہ السلام بیمار ہو گئے تو آپ نے اپنے بڑے بیٹے عیسو کو کہا عیسو آؤ میں تمہیں دعا دوں کہ خدا تعالیٰ تمہیں میرا وارث روحانی بنائے اور تمہیں نبوت کا رتبہ حاصل ہو.عیسو شکار کے لئے جنگل میں چلا گیا تا دعا لینے سے پہلے اپنے باپ کے لئے لذیذ کھانا تیار کرے.یعقوب کی والدہ سن رہی تھی اُس نے یعقوب کو بلایا اور انہیں ایک دنبہ ذبح کر دیا اور اُس کی کھال انہیں پہنا دی یعقوب اپنے باپ الحق کے پاس گئے اور عیسو کی آواز میں کہا اے باپ! تُو مجھے دل سے دعا دے اسحق نے گوشت کھا کر کہا بیٹا! قریب آؤ.جب وہ قریب آیا تو اسحق نے اُس کے بدن کو ٹولا.اسحق نے دیکھا کہ آواز تو یعقوب والی ہے مگر بدن عیسو والا نہیں عیسو کے بدن پر بال تھے اور یعقوب کے بدن پر بال نہ تھے اس لئے یعقوب کی والدہ نے انہیں دنبے کی کھال پہنا دی تھی حضرت اسحق علیہ السلام نے یعقوب کو دعا دے دی کہ خدا تعالیٰ انہیں اُن کا روحانی وارث بنائے اور نبوت کا درجہ عطا کرے تب عیسو شکار لے کر آیا اور کھانا پکا کر باپ کے پاس لے گیا اور کہا اے باپ مجھے برکت دے.الحق نے کہا تیرا بھائی یعقوب آیا تھا اور دھوکا سے وہ تیری برکت لے گیا ہے.عیسو نے کہا یعقوب پہلے بھی میرا حق لے گیا تھا اور اب بھی اُس نے میرے حق کو دھوکا سے حاصل کر لیا ہے." اس واقعہ میں یہی بتایا گیا ہے کہ اپنے حقوق کی حفاظت کرنا اور اُن کی خاطر قربانی کرنا بڑی اہمیت رکھتا ہے.بعض بیوقوف اپنے بڑے بڑے حقوق کو تھوڑے سے لالچ کی خاطر

Page 448

خطابات شوری جلد سوم ۴۳۲ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء ضائع کر دیتے ہیں.جیسے عیسو نے مسور کی دال کی خاطر اپنا نبوت کا حق چھوڑ دیا اسی طرح بعض ملک کسی مامور کے آنے کی وجہ سے ماں بن جاتے ہیں لیکن بعض لوگ بیوقوفی سے کہہ دیتے ہیں کہ ہم قربانی کیوں کریں.تب خدا تعالیٰ کہتا ہے.اچھا! جب تم قربانی نہیں کرتے تو تم ماں بھی نہیں رہے.در حقیقت خدا تعالیٰ بہت زیادہ دے رہا ہے اور اُس کے مقابلہ میں ہماری قربانی اور جدو جہد بہت کم ہے یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص دو پیسے میں گھوڑا دیدے.اگر کوئی شخص کہے کہ میں دو پیسے نہیں دیتا تو اس سے زیادہ بیوقوف اور کون ہوگا.غرض جہاں کوئی مامور پیدا ہوتا ہے خدا تعالیٰ وہاں کے رہنے والے لوگوں سے قربانی کرواتا ہے لیکن اُس کا جو بدلہ دیتا ہے وہ اُس قربانی کے مقابلہ میں بہت بڑا ہوتا ہے.پس ان سب باتوں کو سمجھ کر قربانیاں کرو اور صدرانجمن احمدیہ کو بھی چاہیے کہ وہ آئندہ واضح طور پر بجٹ بنایا کرے تاکہ تمام باتیں پوری تفصیل کے ساتھ جماعت کے نمائندوں کے سامنے آجائیں“.بجٹ سال نو اس کے بعد حضور نے سب کمیٹی بیت المال کو رپورٹ پیش کرنے کے لئے ارشاد فرمایا.رپورٹ پیش ہونے پر حضور نے فرمایا: - اب بجٹ کے متعلق عام بحث ہو گی تا کہ اگر صیغہ جات میں کوئی نقص ہو یا ترقی کی کوئی صورت کسی کے ذہن میں ہو تو دوست اُسے پیش کر سکیں جو دوست اس بارہ میں اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتے ہوں وہ اپنے نام لکھوا دیں.“ اس پر بعض ممبران نے اپنے نام لکھوائے اور اپنی آراء پیش کیں.نیز بعض نمائندگان کے سوالات کے ناظر صاحبان نے جوابات دیئے.جب بجٹ پر عام بحث ختم ہو چکی تو حضور نے فرمایا:- ”سب سے پہلے شیخ محمود الحسن صاحب نے جو کچھ کہا ہے میں اس کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.یہ ایک نہایت ہی مفید تجویز ہے جس کی طرف پہلے ہمارا ذہن نہیں گیا در حقیقت جب بجٹ کے متعلق ایک سب کمیٹی مقرر کی جاتی ہے اور وہ غور کرنے کے بعد اُس پر تصدیق کی مہر لگا دیتی ہے تو اس کے بعد کسی فرد کا بجٹ کے متعلق کچھ کہنا زیادہ اہمیت نہیں رکھتا

Page 449

خطابات شوری جلد سوم ۴۳۳ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء کیونکہ کمیٹی ایک بڑی تعداد ممبران پرمشتمل ہوتی ہے جن میں سے اکثر بارسوخ اور تجربہ کار ہوتے ہیں جب وہ اس مجلس میں آتے ہیں تو قانونی لحاظ سے اور تنظیم کے لحاظ سے وہ مجبور ہوتے ہیں کہ اپنے پیش کردہ بجٹ کی تصدیق کریں اور ظاہر ہے کہ جب بڑی بڑی جماعتوں کے کارکن ایک فیصلہ کر کے آئیں تو اُن کے حلقہ اثر کی رائیں لازماً اُن کی تائید میں جائیں گی اور اس صورت میں اعتراض کرنے والے کی حیثیت بہت کمزور ہو جائے گی.شیخ صاحب نے کہا ہے کہ اس وقت ایک طرف کی بات تو ذہن میں آتی ہے لیکن دوسری طرف کی نہیں آتی حالانکہ وہ سب باتیں سننے کے لئے تیار تھے اور چاہئیے تھا کہ ان امور کو سب کمیٹی کے سامنے پیش کیا جاتا.میرے نزدیک اس بات کو آئندہ نوٹ کر لینا چاہیے اور اس کے مطابق عمل ہونا چاہیے کیونکہ خود صدر کمیٹی نے لوگوں کے اس حق کو تسلیم کر لیا ہے.اگر سب کمیٹی کے پاس مختلف لوگوں کی آراء آئیں گی تو وہ اُن پر ضرور غور کرے گی اور اگر معقول ہوں گی تو اُن کے متعلق اپنی رپورٹ میں سفارشات پیش کرے گی.یہ سفارشات مجوزہ بجٹ میں کمی کے ساتھ بھی تعلق رکھ سکتی ہیں.زیادتی کے ساتھ بھی تعلق رکھ سکتی ہیں اور بجٹ کی اندرونی تبدیلیوں کے ساتھ بھی تعلق رکھ سکتی ہیں بہر حال تمام باتوں پر غور کرنے کے بعد سب کمیٹی کہہ سکتی ہے کہ بجٹ کو اس شکل میں تبدیل کیا جائے اور یہ صورت زیادہ موزوں ہے بہ نسبت اس کے کہ اس جگہ بجٹ میں تبدیلی کرنے کے متعلق مشورے دیئے جائیں.میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک نہایت ہی مفید تجویز ہے اور اس پر آئندہ سے عمل شروع کر دینا چاہیے سوائے اس کے کہ کوئی پرانا قانون اس کے خلاف ہو.اس کے نتیجہ میں کمیٹی کے سامنے نہ صرف نظارتوں کے نمائندوں کی طرف سے بلکہ مختلف لوگوں کی طرف سے بھی بہت سی تجاویز آجائیں گی جن میں سے بعض معقول ہوں گی اور بعض غیر معقول.کمیٹی سب تجاویز پر غور کر کے رپورٹ کرے گی کہ ہمارے نزدیک یہ یہ باتیں اس قابل ہیں کہ ان کے مطابق بجٹ میں تبدیلی کی جائے اور فلاں فلاں امور کو نظر انداز کر دیا جائے.اس وقت جو باتیں پیش کی گئی ہیں اُن کا تفصیلی طور پر یہاں جواب نہیں دیا جا سکتا.نتیجہ یہ ہوگا کہ نمائندگان غلط اثر لے کر جائیں گے اور وہ سمجھیں گے کہ بعض باتوں کا تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا حالانکہ بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو سب کمیٹی کے سامنے

Page 450

خطابات شوری جلد سو ۴۳۴ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء بیان کی جاسکتی ہیں لیکن ایک بڑے گروہ کے سامنے بیان نہیں کی جاسکتیں.اگر وہ دوست جنہوں نے بجٹ کے متعلق اس وقت اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے سب کمیٹی کے سامنے جاتے اور اُسے بتاتے کہ اُن کے نزدیک بجٹ میں فلاں فلاں خامیاں ہیں جن کو دور کرنا چاہیے یا فلاں مد میں کمی ہونی چاہیے یا فلاں جگہ زیادتی ہونی چاہیے تو اس طرح بجٹ پر زیادہ بہتر رنگ میں غور ہو سکتا.فیصلہ پس اگر کوئی پرانا قانون اس کے خلاف نہیں تو آئندہ کے متعلق میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ وہ سب کمیٹی جو بجٹ پر غور کرنے کے لئے مقرر کی جائے اُن امور پر بھی غور کر لیا کرے جو مختلف لوگوں کی طرف سے اُس کے سامنے پیش کئے جائیں اور اگر قانو نا اس میں کوئی روک ہو تو صدرا مجمن احمدیہ کو چاہیے کہ اُس روک کو دور کرنے کی تجویز کرے تا کہ جس طرح نظارتوں کے نمائندے سب کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر اپنے خیالات کا اظہار کر سکتے ہیں اسی طرح بیرونی جماعتوں کے نمائندے بھی سب کمیٹی میں جاسکیں اور اُن کی باتوں پر غور ہو سکے.لیکن یہ ضرور ہے کہ سب کمیٹی بجٹ شوری کے اجلاس سے کچھ وقت پہلے اپنی کا رروائی ختم کرے اور اپنی سفارشات کی جو صدرانجمن احمدیہ کی سفارشات کے خلاف ہوں نقل صدر انجمن احمدیہ کو بھجوا دے جو فوراً اپنے اجلاس میں اُن کے بارہ اپنی رپورٹ پیش کر دے جو سب کمیٹی کی رپورٹ کے بعد دوستوں کی اطلاع کے لئے شوری میں پڑھ کر سنائی جایا کرے.ایک سوال کا جواب اب میں اُن دوسری تجاویز کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جو مختلف احباب کی طرف سے پیش کی گئی ہیں.بعض کا جواب ناظر صاحب بیت المال نے دے دیا ہے مگر بعض کا نہیں دیا.ایک اعتراض مرزا ناصر احمد کی طرف سے تھا جس کا جواب ناظر صاحب نے یہ دیا ہے کہ میں صرف چند دنوں کے لئے ناظر بنا ہوں اِس لئے میں اس بارہ میں کچھ نہیں کہہ سکتا.یہ درست ہے کہ وہ عارضی طور پر ناظر مقرر کئے گئے ہیں مگر یہ سوال ایسا تھا جس کا نظارت کی طرف سے جواب دیا جانا ضروری تھا.اگر ناظر صاحب بیت المال بوجہ نئے ہونے کے اس کا جواب نہیں دے سکتے تھے تو ناظر صاحب اعلیٰ کا فرض تھا کہ وہ اس کا جواب دیتے مگر ایسا نہیں کیا گیا.مرزا ناصر احمد صاحب

Page 451

خطابات شوری جلد سوم ۴۳۵ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء کی طرف سے یہ سوال اُٹھایا گیا ہے کہ کالج کے پروفیسروں کے گریڈوں کی تبدیلی جدید اخراجات میں دکھائی گئی ہے لیکن سکول کے ایک ماسٹر کے گریڈ کی تبدیلی جدید اخراجات میں نہیں دکھائی گئی.بظاہر یہ ایک امتیاز نظر آتا ہے یا کھول چوک کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے مگر حقیقتاً ایسا نہیں.اصل بات یہ ہے کہ جدید اخراجات کی اصطلاح میں ہمارے نزدیک وہ اخراجات شامل ہوتے ہیں جن کے لئے ہمارے قواعد میں پہلے سے انتظام نہ ہو.سکول ماسٹروں کے گریڈ پہلے سے مقرر ہیں اُن میں کوئی نئی تبدیلی نہیں ہوئی.ایک سکول ماسٹر اپنا گریڈ پورا کر کے ایک ایسے حصے میں جاتا ہے جو پہلے سے ہمارے قواعد میں آچکا ہے اس لئے یہ جدید خرچ نہیں.لیکن کالج کے گریڈ نئے مقرر کئے گئے ہیں اس لئے اُنہیں جدید اخراجات میں شامل کیا گیا ہے.وہاں ایک فرد کو نیا گریڈ دیا گیا ہے گریڈ پہلے سے منظور شدہ ہے اس لئے وہ جدید خرچ نہیں.جیسے نائب ناظر کو ناظر مقرر کر دیا جائے تو لازماً اُس کا الاؤنس بڑھ جائے گا مگر یہ جدید خرچ نہیں ہوگا کیونکہ ہمارے ہاں ناظر کا بھی ایک گریڈ مقرر ہے لیکن فرض کرو ناظر کے متعلق یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ آئندہ اُس کا گریڈ ۳۰۰ سے ۵۰۰ ہوگا تو یہ جدید خرچ میں دکھایا جائیگا کیونکہ اس کے لئے پہلے کوئی قاعدہ نہیں تھا.پس در حقیقت یہ امتیاز جو نظر آتا ہے یہ حقیقی امتیاز نہیں سکول ماسٹروں کے گریڈ پہلے سے منظور شدہ ہیں اور اُن منظور شدہ گریڈوں کے مطابق ایک شخص کو اُس کی لمبی خدمات کی وجہ سے دوسرا گریڈ دیا گیا ہے پس یہ جدید خرچ نہیں.لیکن کالج والوں کو جدید گریڈ دیئے جانے والے ہیں جو ہمارے ہاں پہلے منظور شدہ نہیں تھے اس لئے انہیں جدید اخراجات میں دکھایا گیا ہے.بجٹ کے متعلق بار بار شکایت کی گئی ہے کہ اُسے وقت پر شائع نہیں کیا جاتا اور یہ صرف اس سال کی بات نہیں جب سے شوریٰ ہو رہی ہے ایک دفعہ بھی بجٹ کو وقت پر شائع نہیں کیا گیا.اب تو لڑکوں کے امتحانوں کا وقت تھا اور پریس کی دقتیں تھیں سوال یہ ہے کہ گزشتہ ۲۵ سالوں میں یہ کیوں وقت پر شائع نہیں ہوتا رہا.اصل بات یہ ہے کہ صدر انجمن احمد یہ اپنے فرائض کو صحیح طور پر ادا نہیں کرتی.یہ ہو کس طرح سکتا ہے کہ ماتحت عملہ متواتر غلطی کرتا چلا جائے اور صدرانجمن احمد یہ اُس کی اصلاح نہ کرا سکے.وہ اصلاح کروانا چاہے

Page 452

خطابات شوری جلد سوم ۴۳۶ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء تو کراسکتی ہے اور اُس کے پاس سب ذرائع موجود ہیں.کیا صدرانجمن احمد یہ اُن ناظروں کو جرمانہ نہیں کر سکتی جو متواتر سالہا سال سے غفلت سے کام لے رہے ہیں اور کبھی بھی وقت پر اپنا بجٹ بنا کر پیش نہیں کرتے.مگر سوال یہ ہے کہ صدرانجمن احمد یہ جرمانہ کس کو کرے؟ اصل میں تو وہی بات ہے کہ آپے میں رجی پجی آپے میرے بچے جیون“.بجٹ ناظروں نے تیار کرنا ہوتا ہے.اب سید ولی اللہ یہ کس طرح فیصلہ کریں کہ سید ولی اللہ کی ایک ماہ کی تنخواہ بطور جرمانہ ضبط کی جاتی ہے کیونکہ ۲۵ سال ہو گئے ہیں سید ولی اللہ نے کبھی بھی اپنے بجٹ کو صحیح وقت پر پیش نہیں کیا.قاضی عبداللہ یہ کس طرح فیصلہ کریں کہ قاضی عبداللہ کی ایک ماہ کی تنخواہ بطور جرمانہ ضبط کی جاتی ہے کیونکہ ۲۵ سال ہو گئے قاضی عبداللہ نے کبھی بھی اپنے بجٹ کو صحیح وقت پر پیش نہیں کیا.شمس صاحب یہ کس طرح فیصلہ کریں کہ مولوی جلال الدین شمس صاحب کی ایک ماہ کی تنخواہ بطور جرمانہ ضبط کی جاتی ہے کیونکہ متواتر اور بار بار کہنے کے باوجود انہوں نے اپنے بجٹ کو ایک دفعہ بھی کبھی وقت پر پیش نہیں کیا پس آپے میں رجّی پُجی آپے میرے بچے جیون “.سزا ملتی تو اصلاح ہو جاتی مگر چونکہ سزا خود اپنے آپ کو دینی پڑتی ہے اس لئے نہ انہیں سزا ملتی ہے اور نہ اُن کی اصلاح ہوتی ہے.صدرانجمن احمد یہ در حقیقت ناظروں کے مجموعہ کا نام ہے یا دوسرے لفظوں میں یہ یوں کہہ لو کہ صدر انجمن احمد یہ نام ہے اُن لوگوں کا جو کبھی بھی بجٹ کو وقت پر تیار کرنے کا نام نہیں لیتے.اب کسی کو تم کہو کہ اپنے آپ کو سزا دے تو کیا وہ کبھی اپنے آپ کو سزا دے گا ؟ وہ تو کہے گا کہ میں بالکل بری ہوں.یہی حال ناظروں کا ہے.اگر وہ سمجھتے کہ جس طرح ہمارا ایک ذاتی وجود ہے اسی طرح ہمارا ایک قانونی وجود بھی ہے ذاتی لحاظ سے ہماری اور حیثیت ہے اور قانونی لحاظ سے اور حیثیت ہے تو اُن کی کب کی اصلاح ہو چکی ہوتی.جہاں تک اُن کی ذاتی حیثیت کا سوال ہے وہ ولی اللہ ، جلال الدین شمس صاحب ، قاضی عبد اللہ صاحب، عبد السلام صاحب اور بابومحمد عبداللہ صاحب وغیرہ ہیں لیکن قانونی لحاظ سے وہ صدر انجمن احمدیہ کے مختلف اعضاء ہیں اور اُن کا فرض ہے کہ وہ اپنی اس قانونی حیثیت کو اپنے سامنے رکھیں.سید ولی اللہ بھول جائیں اس بات کو کہ میں ولی اللہ ہوں بلکہ وہ سمجھیں کہ میں صدر انجمن احمدیہ کی اُنگلی ہوں.جلال الدین شمس صاحب

Page 453

خطابات شوری جلد سوم ۴۳۷ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء اس بات کو بھول جائیں کہ میں جلال الدین شمس ہوں بلکہ وہ سمجھیں کہ میں صدرانجمن احمد یہ کا سر ہوں.عبدالسلام اختر اس بات کو بُھول جائیں کہ میں عبدالسلام اختر ہوں بلکہ وہ سمجھیں کہ میں صدر انجمن احمدیہ کا ہاتھ ہوں اور جب اُن سے کوئی غلطی سرزد ہو تو وہ اپنی اس قانونی حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے لئے خود سزا تجویز کریں تو یقیناً ایک سال کے اندراندر اُن کی اصلاح ہو جائے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ گورداسپور میں ایک نیم پاگل انگریز ڈپٹی کمشنر آ گیا وہ بعد میں گورداسپور سے محض اس لئے تبدیل کیا گیا کہ میرے ساتھ لڑ پڑا تھا اور وزیر ہند مسٹر مانٹیگو نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا یہ پہلی سزا ہے جو ایک ہندوستانی سے لڑائی کرنے کی وجہ سے ایک انگریز کو دی گئی اور اُسے ڈی گریڈ کیا گیا.وہ نیم پاگل سا تھا ایک دن سیشن جج کے ہاں اُس کی دعوت تھی وہ وہاں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک لاری آئی جس پر پٹرول رکھا ہوا تھا.سیشن جج نے وہ پٹرول اُتروا کر اپنی کوٹھی میں رکھوا لیا.اُن دنوں قانون کے مطابق وہ لائسنس کے بغیر کچھ پڑول تو رکھ سکتا تھا مگر اُس کا پٹرول زیادہ تھا اور پھر یہ پٹڑول لائسنس والی جگہ میں ہی رکھا جاسکتا تھا کسی دوسری جگہ نہیں.جب پڑول آیا تو وہ ڈپٹی کمشنر ہنستے ہوئے کہنے لگا آپ نے اس کا لائسنس لیا ہے؟ وہ کہنے لگا میں نے تو نہیں لیا.سیشن جج نے کہا کہ تمہارے ہاں بھی تو پرسوں پٹرول آیا تھا.اُس نے کہا ہاں آیا تھا مگر میں نے اُسی وقت ڈی سی کے حضور درخواست دے دی اور اُن کی منظوری حاصل کر لی یعنی خود ہی اپنے نام درخواست لکھی کہ مجھے اتنے گیلن پٹرول رکھنے کی اجازت مرحمت فرمائی جائے اور خود ہی اُس پر لکھ دیا منظور پھر کہنے لگا میں تمہارے خلاف باقاعدہ کورٹ میں کیس پیش کروں گا.اب یہ ہے تو بظاہر جنسی کی بات کہ خود ہی اپنے نام درخواست لکھی جائے اور خود ہی اُسے منظور کرلیا جائے لیکن اگر اسی رنگ میں ذمہ دار عہد یدار اپنے آپ کو سزا دینے کی عادت اختیار کر لیں تو یقیناً اُن کی اصلاح ہو جائے.ہماری یہ اکتیسویں مجلس مشاورت ہے اتنا لمبا عرصہ گزر چکا ہے مگر اب تک ہمارے ناظروں کی اصلاح نہیں ہوئی اور اُنہوں نے کبھی بھی اپنے بجٹ کو صحیح وقت پر پیش کرنے کی کوشش نہیں کی.آئندہ کے متعلق میں یہ قانون مقرر کرتا ہوں کہ :-

Page 454

خطابات شوری جلد سوم دو ۴۳۸ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء صد را منجمن احمد یه ۱۵ جنوری تک فائنل بجٹ مرتب کر کے ناظر صاحب بیت المال کو شائع کرنے کے لئے دے دیا کرے.اگر ایسا نہ ہو تو اگلی مجلس شوری میں ایک سب کمیٹی مقرر کی جائے جو یہ تجویز کرے کہ ناظروں کو کیا سزادی جائے“.قابل گرفت غلطی حافظ فیض صاحب نے جو باتیں بیان کی ہیں اُن میں سے بعض کا جواب تو اُنہیں مل گیا ہے لیکن ایک بات جس کا جواب میں نے ناظر صاحب سے کہا تھا کہ دیں مگر اُنہوں نے نہیں دیا میرے نزدیک وہ درست ہے اور میرے گھر کا تجربہ بھی اُس کی تصدیق کرتا ہے.میری بیویاں مجھ سے کئی دفعہ شکایت کرتی ہیں کہ فلاں مہینہ میں ہم نے چندہ ادا کر دیا تھا مگر اب دفتر کی طرف سے اُس کے متعلق پھر یاد دہانی آگئی ہے.اس کی وجہ دراصل یہ معلوم ہوتی ہے کہ یاددہانیوں کے وقت عموماً دفاتر کے کارکن سب کو چٹھیاں بھجوا دیتے ہیں اور دفتری ریکارڈ سے یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کرتے کہ کس کس نے چندہ دے دیا ہے؟ کسے چٹھی بھجوانی چاہیے اور کسے نہیں بھجوانی چاہئیے.اس سے نہ صرف وقت ضائع ہوتا ہے، نہ صرف سلسلہ کا روپیہ ضائع ہوتا ہے بلکہ اس کے یہ معنی بھی ہیں کہ در حقیقت عقل سے کام نہیں لیا جاتا اور محنت سے جی چرایا جاتا ہے اس کے متعلق بھی آئندہ میں یہ قاعدہ تجویز کرتا ہوں کہ :- و جس شخص کے پاس ایسا خط پہنچے وہ صدر انجمن احمدیہ کے پاس شکایت کرے اور صد را منجمن احمد یہ متعلقہ کارکن کو سزا دے.“ اب میں نے یہ قاعدہ بنا دیا ہے کہ کوئی غلطی بغیر سزا کے نہ رہے.اس قاعدہ کے ماتحت اس قسم کی غلطی بھی قابل گرفت ہو گی.پہلے اس طرح ہوا کرتا تھا کہ میرے پاس شکایت پہنچتی اور میں اُس پر گرفت کرتا تو صدر انجمن احمد یہ کہتی بڑے افسوس کی بات ہے آئندہ ایسا نہیں ہوگا.دوسرے مہینے پھر وہی غلطی کی جاتی.تیسرے مہینے پھر وہی غلطی کی جاتی.بلکہ بعض دفعہ وہی غلطی دو ہزار دفعہ کی جاتی ہے اور ہر دفعہ صدرانجمن احمد یہ یہی کہہ دیتی کہ بڑے افسوس کی بات ہے آئندہ ایسا نہیں ہوگا.اب میں نے کہا ہے کہ چاہے ناظر غلطی کرے یا کوئی اور صدرانجمن احمدیہ کا فرض ہے کہ وہ اُس غلطی کو معین کرے اور پھر

Page 455

خطابات شوری جلد سوم ۴۳۹ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء اُس پر سزا دے.پس اگر کسی صاحب کے پاس آئندہ کوئی ایسا خط پہنچے تو وہ صدر انجمن احمدیہ کے پاس شکایت کریں کہ میں چندہ ادا کر چکا ہوں مگر مجھے پھر یاد دہانی کا خط آگیا ہے.اگر صدرانجمن احمد یہ اُس پر توجہ نہ کرے تو پھر میرے پاس شکایت کی جائے.علاوہ اس کے کہ اس طرح سلسلہ کا خرچ زیادہ ہوتا ہے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ ہمارے کارکن محنت نہیں کر رہے.جس طرح اخبار روزانہ خریداروں کو بھیجا جاتا ہے اسی طرح اگر بعض لوگوں کی طرف سے وصیت کا چندہ نہیں آتا تو تمام موصیوں کو چٹھیاں چلی جاتی ہیں قطع نظر اس کے کہ اُن میں سے کون کون چندہ ادا کر چکا ہے اور کس کس نے ادا نہیں کیا.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جماعت کے دوست پریشان ہوتے ہیں کہ ہم تو چندہ بھجوا چکے تھے معلوم ہوتا ہے کوئی کھا گیا ہے.مالی حالت درست کرنے کا ایک طریق اس وقت چونکہ بجٹ پر عام بحث کی گئی ہے اس لئے میں بھی اسی سلسلہ میں ایک امر کی طرف جماعت کے دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.ہمارے بجٹ میں جہاں دینی امور کے اخراجات شامل ہیں وہاں بعض دنیوی باتیں بھی شامل ہیں.مثلاً ہم نے کالج کھولا ہوا ہے یہ ہمارے کاموں کا دنیوی حصہ ہے.ہم نے سکول کھولے ہوئے ہیں یہ بھی دنیوی حصہ ہے پس جب ہم بعض دنیوی کاموں کی طرف متوجہ ہیں اور اپنا روپیہ اُن پر صرف کر رہے ہیں تو ہمیں بعض اور مفید کاموں کی طرف بھی جو بظاہر دینوی ہیں توجہ کرنی چاہیے تا کہ ہماری جماعت کی مالی حالت مضبوط ہو.میں دیکھتا ہوں کہ ملک کے حالات بدل رہے ہیں اور آئندہ ترقی کی بنیا د صنعت و حرفت پر رکھی جانے والی ہے.لوہار اور ترکھان یہ دو پیشے ایسے ہیں جن پر آئندہ صنعت و حرفت کی بنیاد ہوگی.آگے ان کی بھی قسمیں ہیں.مثلاً ڈرائیور اور فٹر وغیرہ یہ بھی بہت ضروری ہیں.اسی طرح اقتصادی لحاظ سے معمار اور درزی بھی ایک اہم حصہ ہیں.اس وقت ایسٹ افریقہ میں اس قسم کے پیشہ وروں کی سخت ضرورت ہے اور وہاں تین چارسو شلنگ چھوٹی سے چھوٹی تنخواہ ہے جو دی جاتی ہے اب سکے کی قیمت کچھ گر گئی ہے لیکن پھر بھی تین چارسو شلنگ کے معنے دوسور و پہیہ کے قریب تنخواہ ہے اور یہ وہاں کی چھوٹی سی چھوٹی تنخواہ ہے ورنہ اس قسم کے

Page 456

خطابات شوری جلد سوم ۴۴۰ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء پیشہ ور اُس ملک میں بڑی آسانی سے چار پانچ سو سے ہزار روپیہ تک ماہوار کما سکتے ہیں اور چونکہ درزیوں ، معماروں اور لوہاروں کی اُس ملک میں کمی ہے اس لئے وہ پیشہ وروں کو اپنے ملک میں داخلہ کی فوراً اجازت دے دیتے ہیں.اگر ہمارا دو تین سو آدمی وہاں چلا جائے تو یکدم ہمارے بجٹ پر ایک غیر معمولی اثر پڑ سکتا ہے.مثلاً اگر ہمارا تین سو آدمی وہاں جائے اور اوسطاً ہر شخص تین سو روپیہ کمائے تو نوے ہزار روپیہ ماہوار کمائے گا اور اگر وصیت کر دیں تو صرف تین سو آدمی سے ہمیں نو ہزار روپیہ ماہوار چندہ آ جائے گا حالانکہ اگر وہ اسی جگہ رہیں تو اُن سے زیادہ سے زیادہ نو سو روپیہ آسکتا ہے یہ کتنا بڑا فرق ہے جو اُس ملک میں ہمارے چند سو آدمیوں کے چلے جانے سے پید اہوسکتا ہے.پھر اگر اس تعداد میں زیادتی ہوتی چلی جائے اور پانچ سو سے ہزار تک یہ روپیہ کمانے لگیں تو اسی نسبت سے ہمارا بجٹ بھی بڑھ جائے گا.اور اگر تبلیغ کر کے وہاں کے ہندوستانیوں اور دوسرے لوگوں کو بھی احمدی بنانا شروع کر دیا جائے تو ترقی کا ایک وسیع باب کھل سکتا ہے.وہاں اس وقت تین لاکھ کے قریب ہندوستانی ہیں جن میں سے ایک لاکھ کے قریب مسلمان ہے اگر ہماری جماعت وہاں زور پکڑتی چلی جائے اور پچاس ہزار آدمی کمانے والے پیدا ہو جائیں تو ہمارا بجٹ کئی گنا بڑھ جائے گا اور پھر لازماً ہماری تبلیغ بھی وسیع ہو جائے گی.یہ مت خیال کرو کہ ہندو اور سکھ مسلمان نہیں ہو سکتا.ہندوستان میں اس وقت جہاں ہزاروں ہزار مسلمان ہندو اور سکھ ہو رہے ہیں وہاں کئی ہندو اور سکھ ایسے ہیں جو مسلمان ہو رہے ہیں اور اگر یہ لوگ مسلمان ہو جائیں تو پھر ان کے ذریعہ بھی ہم اپنی تبلیغ کو وسیع کر سکتے ہیں.صنعت و حرفت کی طرف توجہ کی ضرورت پیس صنعت و حرفت کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئیے اور کوشش کرنی چاہئیے کہ ہمارے معمار، لوہار، درزی اور موچی وغیرہ بیرونی ملکوں میں جا کر کام کریں اس طرح تبلیغ بھی وسیع ہوگی.ہماری آمد بھی بڑھ جائے گی اور اقتصادی لحاظ سے بھی ہمیں ایک طاقت حاصل ہو جائے گی.اس وقت ہمارا زیادہ زور زمیندار پر ہے اور یہ اقتصادی لحاظ سے نہایت ہی کمزور بنیاد ہے.ہمیں کوشش کرنی چاہئیے کہ ہم صنعت و حرفت میں ترقی کریں.

Page 457

خطابات شوری جلد سوم ۴۴۱ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء اس وقت پاکستان میں عام طور پر صنعت و حرفت کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے مگر اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ کمپنیاں جاری کی جائیں.کمپنیاں جاری کرنے کے لئے بڑے سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اگر ہم لوہار اور ترکھان تیار کر دیں تو ان کمپنیوں پر ہمارا ہی قبضہ ہوگا.روپیہ اُن کا ہوگا اور مزدور ہمارا ہوگا اور اس طرح ہم آسانی سے ملک کی ترقی میں ایک معتد بہ حصہ لے سکیں گے.ماسٹر محمد دین صاحب نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ آئندہ بجٹ کے متعلق ایک سٹینڈنگ کمیٹی ہونی چاہیے جو تفصیلی طور پر پہلے تمام بجٹ کو دیکھ لیا کرے اور پھر سب کمیٹی بیت المال کے سامنے پیش ہوا کرے.میرے نزدیک یہ نہایت معقول بات ہے اور اس کے لئے ہمیں ممبران کے نام تجویز کرنے چاہئیں لیکن پیشتر اس کے کہ ایک سٹینڈنگ کمیٹی مقرر کی جائے میں بعض اور امور کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں.یچر کی اشاعت کی ضرورت اس وقت دوستوں کی طرف سے یہ شکایت کی گئی ہے کہ سلسلہ کا لٹریچر شائع نہیں کیا جار ہا لوگ ہم سے لٹریچر مانگتے ہیں مگر ہم اُنہیں کوئی چیز پیش نہیں کر سکتے.یہ بھی دراصل اُسی غفلت کا نتیجہ ہے جو ہماری نظارتوں میں پائی جاتی ہے.جب ہم قادیان سے آئے ہیں تو میں لاہور میں روزانہ ایک مجلس شوری منعقد کیا کرتا تھا جس میں صدرانجمن احمدیہ کے تمام ذمہ دار عہد یدار شریک ہوا کرتے تھے اور اُن کے کاموں کا جائزہ لیا جاتا تھا اس مجلس شوریٰ میں سلسلہ کے قدیم اور جدید لٹریچر کی اشاعت کے لئے ایک کمیٹی مقرر کی گئی اور شمس صاحب اُس کے سیکرٹری مقرر کئے گئے.چھ مہینے کے بعد میں نے اُن سے پوچھا کہ کیا کام ہوا ہے؟ تو وہ کہنے لگے تو بہ تو بہ میرے سپرد یہ کام کب کیا گیا تھا میرا تو کبھی نام بھی نہیں لیا گیا.میں نے اپنے دل میں سمجھا کہ وہ ٹھیک کہتے ہیں ذمہ داری کے عدم احساس کی وجہ سے اُن کا حافظہ پورا کام نہیں کر رہا چنانچہ میں نے کہا اچھا اب سہی.لیکن اب پھر دو سال گزر گئے ہیں اور کام کچھ بھی نہیں ہوا.حقیقت یہ ہے کہ جہاں ہمارے لئے اپنے قدیم لٹریچر کو شائع کرنا ضروری ہے وہاں ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ ہم مختلف قوموں اور ملکوں کی ضروریات اور اُن کے حالات کو مد نظر

Page 458

خطابات شوری جلد سوم ۴۴۲ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء رکھتے ہوئے جدید لٹریچر شائع کریں.ہمار ا سلسلہ اس وقت مختلف ممالک میں پھیل رہا ہے اور لوگ ہم سے لٹریچر کا مطالبہ کرتے ہیں مگر ہمارے پاس کوئی ایسا لٹریچر نہیں ہوتا جو اُن کی ضروریات کو پورا کرنے والا ہو.ابتدائی زمانہ میں احمدیت صرف ہندوستان میں محدود تھی اور یہاں زیادہ تر ان مسائل کا چرچا تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں یا نہیں؟ دجال کسے کہتے ہیں؟ یا جوج ماجوج سے کیا مراد ہے؟ آنے والے مسیح اور مہدی کی علامات کیا ہیں؟ جہاد کا کیا مسئلہ ہے؟ یہ اور اسی قسم کے اور دوسرے مسائل پر جماعت نے لٹریچر شائع کیا.اس کے بعد احمدیت انگلستان میں پھیلی تو عیسائیوں کے مخصوص مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے انگریزی لٹریچر شائع کیا گیا.لیکن اب ہماری جماعت ایسے ملکوں میں پھیل رہی ہے جن میں اردو تو نہیں بولی جاتی لیکن وہاں مسائل وہی ہیں جو ابتدائی زمانہ احمدیت میں ہمیں پیش آئے یعنی دجال سے کیا مراد ہے؟ مسیح ناصری نے آنا ہے یا نہیں؟ جہاد کی کیا حقیقت ہے؟ مسیح اور مہدی کی پیش گوئیاں کس طرح پوری ہوئی ہیں ایسٹ افریقہ، ویسٹ افریقہ، انڈونیشیا، ماریشس ، مڈغاسکر اور عرب ممالک میں یہی مسائل پوچھے جاتے ہیں.اور جب وہ ہم سے کہتے ہیں کہ لاؤ اپنا لٹریچر تو ہم اُن کے سامنے وہ لٹر پچر پیش کر دیتے ہیں جن میں ان مسائل کا تفصیلی طور پر کوئی ذکر نہیں ہوتا.پس جہاں ہمیں جدید لٹریچر کی ضرورت ہے وہاں ہم نے اپنے پرانے لٹریچر کو کہیں عربی زبان میں بدلنا ہے، کہیں انڈونیشین میں بدلنا ہے، کہیں افریقن میں بدلنا ہے اور اس کے لئے بڑی بھاری جد و جہد اور کوشش کی ضرورت ہے.میہ ایک بہت بڑا علمی کام ہے جو ہماری جماعت نے سرانجام دینا ہے مگر اب تک اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کی جا رہی اور جو کچھ شائع کیا جاتا ہے بغیر سوچے سمجھے شائع کر دیا جاتا ہے.نشر واشاعت کی ذمہ داری ہمارے محکمہ نشر واشاعت نے کبھی اس بات کو سوچا ہی نہیں کہ ملک کو کون سے مسائل در پیش ہیں اور کس قسم کے لٹریچر کی لوگوں کو ضرورت ہے محض روپیہ ضائع کیا جاتا ہے اور کاغذ کالے کر کے پھینک دیئے جاتے ہیں.اگر وہ اس بارہ میں جماعت سے امداد لینا چاہتے ہیں یا مجھ سے روپیہ لینا چاہتے ہیں تو اُن کا فرض ہے کہ وہ پہلے یہ بتائیں کہ اس وقت فلاں قسم کے لٹریچر کی ضرورت ہے اگر وہ ضرورت دیکھتے نہیں اور صرف اتنا کہنا جانتے ہیں کہ ہم نے فلاں اشتہار دو لاکھ

Page 459

خطابات شوری جلد سو ۴۴۳ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء شائع کیا ہے تو میں ایسے اشتہاروں کی اشاعت کے لئے ایک پیسہ دینا بھی گناہ سمجھتا ہوں یہ تبلیغ نہیں محض کاغذ سیاہ کرنا ہے.اگر تم صحیح معنوں میں کام کرنا چاہتے ہو تو پہلے تم یہ فیصلہ کرو کے تم نے کرنا کیا ہے؟ اور جماعت کو اس وقت کن مسائل پر قلم اٹھانے کی ضرورت ہے.مگر یہ تو کبھی فیصلہ ہی نہیں ہوتا اور جو جی میں آجائے اس کے متعلق اشتہار شائع ہو جاتا ہے.میں سمجھتا ہوں یہ ایک بہت بڑا نقص ہے جس کا ازالہ ہونا چاہیے اور میں صدرا انجمن احمد یہ کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ فوراً اس غرض کے لئے ایک کمیٹی مقرر کرے.اس کمیٹی کے نصف ممبر تحریک جدید کے ہوں اور نصف ممبر صدرانجمن احمد یہ کے ہوں.اس کمیٹی کا یہ فرض ہوگا کہ وہ اپنے کام کی ہفتہ وار رپورٹ صدرانجمن احمدیہ کے سامنے پیش کرے اور صدرانجمن احمدیہ کا یہ فرض ہوگا کہ وہ اپنی ہفتہ وار رپورٹ میرے سامنے پیش کرے.اس کمیٹی کا یہ کام ہوگا کہ وہ سلسلہ احمدیہ کا قدیم اور جدید لٹریچر شائع کرنے کے لئے ایک مفصل سکیم تیار کرے جو میرے سامنے پیش کی جائے اور پھر منظور شدہ لائنوں پر جماعت کے لئے لٹریچر مہیا کرے.اس غرض کے لئے کمیٹی کا سب سے پہلا کام یہ ہوگا کہ وہ تمام ممالک کی ایک لسٹ تیار کرے اور پھر اُن زبانوں کی ایک لسٹ تیار کرے جو ان ممالک میں بولی جاتی ہیں اور پھر یہ جائزہ لے کہ ہر ملک کے لوگوں کے لئے کس قسم کے لٹریچر کی ضرورت ہے اور کون کون سے مسائل مخصوصہ ہیں جن کے لئے وہ لوگ ہم سے لٹریچر کا مطالبہ کر سکتے ہیں یا جن مسائل میں ہمارے لئے ضروری ہے کہ اُن کی راہنمائی کریں.اسی طرح یہ بھی غور کیا جائے کہ اس وقت ہندوستان اور پاکستان کے لوگ کون کون سے مسائل کو زیر بحث لاتے ہیں اور پھر یہ بھی دیکھا جائے کہ آیا اس مقصد کے لئے ہمارے پاس کوئی سابق لٹریچر موجود ہے یا نہیں.اگر ہے تو کون کون سا ہے.پھر اس امر پر بھی غور ہونا چاہیے کہ ہمارے پہلے لٹریچر میں کون کون سے مسائل پر زیادہ تفصیلی مواد موجود ہے جس کا خلاصہ شائع کرنے کی ضرورت ہے اور کن مسائل پر ہمارے پاس کم مواد ہے جن پر تفصیل سے لکھنے کی ضرورت ہے.اس طرح تمام امور پر غور کرنے کے بعد عملی کام شروع کیا جائے اور نہ صرف جماعت کو بلکہ غیر ممالک کے لوگوں کو بھی اُن کی زبانوں میں لٹریچر مہیا کیا جائے.اگر صدرانجمن احمدیہ نے اس رنگ میں

Page 460

خطابات شوری جلد سوم ۴۴۴ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء کام شروع کیا تو پھر میں بھی چندہ دے دوں گا ورنہ اب تو میں اس غرض کے لئے چندہ دینا گناہ سمجھتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس ایک دفعہ ایک شخص آیا اور اُس نے آپ سے مسجد کے لئے کچھ چندہ مانگا آپ نے گھر جا کر مجھے ایک چوٹی دی اور فرمایا یہ اُس کو دے آؤ.میں وہ چوٹی اُس کے پاس لے گیا تو وہ دیکھ کر کہنے لگا یہ تو کھوٹی ہے.میں نے واپس جا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے سن کر فرمایا اَلْحَمْدُ لِله یہ کھوٹی نکلی.میرے دل میں پہلے ہی خلش تھی کہ یہ لوگ نماز تو پڑھتے نہیں اور مسجد میں بنواتے پھرتے ہیں میرا چندہ دینا کہیں گناہ نہ ہو.پھر آپ نے فرمایا امام ابو حنیفہ سے بھی ایک دفعہ ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا اُن سے بھی کسی نے مسجد کے لئے چندہ مانگا تو آپ نے ایک درہم دے دیا مگر وہ کھوٹا نکلا.اُس نے درہم واپس کیا تو آپ نے فرمایا میرے دل میں پہلے ہی یہ خیال آرہا تھا کہ میں نے چندہ دے کر غلطی کی ہے سوا چھا ہوا کہ وہ کھوٹا نکل آیا.اس طرح مجھ سے بھی اگر کوئی نشر واشاعت کے لئے چندہ مانگے تو میں ایک چوٹی دینا بھی گناہ سمجھتا ہوں لیکن اگر ان لائنوں پر کام کیا گیا تو پھر میں بھی چندہ دے دیا کروں گا اور اگر دوسرے لوگوں نے بھی چوٹی چوٹی دی تو کئی ہزار روپیہ اکٹھا ہو جائے گا مگر یہ نہ ہو کہ پہلی کمیٹی کی طرح چھ ماہ کے بعد یہ کہ دیا جائے کہ ہمیں تو آج پتہ لگا کہ میں ایسی کمیٹی بنانے کی ہدایت کی گئی تھی.نئی تعمیرات کے متعلق ہدایات نئی عمارتوں کے متعلق بھی میں کچھ کہنا چاہتا ہوں میرے نز دیک بجٹ میں صرف ” تعمیر مرکز پاکستان“ کے الفاظ لکھ دینے کافی نہیں تھے بلکہ عمارتوں کی تفصیل بھی دینی چاہیے تھی تا کہ لوگوں کو پتہ لگتا کہ ہمارے سامنے کتنا بڑا کام ہے اور ہم نے اپنی جد و جہد کو کتنا تیز کرنا ہے.مثلاً اگر مجھ سے کام لینا ہے تو مجھے مکان بھی دینا پڑے گا.اسی طرح میری بیویوں کے لئے مکان بنانا پڑے گا.حضرت اماں جان ) کے لئے مکان بنانا پڑے گا بلکہ جیسے حضرت عمر نے کہا تھا کہ پہلا آٹا حضرت عائشہ کی خدمت میں پیش کیا جائے گا اسی طرح آپ لوگوں کا فرض ہو گا کہ پہلے حضرت اماں جان ) کو مکان دیں اور پھر دوسروں کے مکان بنائیں.

Page 461

خطابات شوری جلد سوم ۴۴۵ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء اسی طرح ہم نے سکول بنانا ہے، کالج بنانا ہے، مہمان خانہ بنانا ہے ورنہ مہمان یہاں آکر کہاں ٹھہریں گے یہ تفصیلات صرف تعمیر کا لفظ لکھ دینے سے سمجھ نہیں آسکتیں.اس کے لئے ضروری تھا کہ صدرانجمن احمدیہ کی طرف سے عمارتوں کی لسٹ پیش کی جاتی.اب انجمن کو چاہیے کہ وہ اس پر غور کر کے ایک فہرست مرتب کرے تا کہ اُس کو مدنظر رکھ کر کام کیا جائے.اسی طرح ناظر ہیں اُن کے لئے مکانوں کی ضرورت ہوگی قادیان میں تو ان کے اپنے مکان تھے مگر یہاں ان کے پاس روپیہ نہیں کہ مکان بناسکیں پھر کلرک ہیں اُن سے ہم کس طرح اُمید کر سکتے ہیں کہ وہ مکان بنالیں گے.اس کی صورت یہی ہوسکتی ہے کہ آپ انہیں مکان بنا کر دیں جس میں وہ رہائش اختیار کریں اور سلسلہ کی خدمات سرانجام دیں.دس پندرہ سال کے عرصہ میں آہستہ آہستہ وہ اپنے مکان بنالیں گے یا اگر اس عرصہ تک ہم قادیان چلے گئے تو یہ مکان کرایہ پر چڑھ جائیں گے.بہر حال ہم عقل کام لیں گے تبھی ان مشکلات پر قابو پایا جا سکے گا.اس وقت نہ کلرکوں کے پاس مکان ہے جاسکے نہ ناظروں کے پاس مکان ہے نہ خلیفہ کے پاس مکان ہے نہ خلیفہ کی بیویوں کے پاس مکان.اپنے بچوں کے مکانات کے لئے تو میں نے کچھ روپوں کا انتظام کر لیا ہے مگر میرے خاندان کے افرا د ساٹھ سے بھی زیادہ ہیں اور بہر حال مجھے اور میری بیویوں اور میرے خاندان کے دوسرے افراد کو اُسی مکان میں رہنا پڑے گا جو خلیفہ کے لئے بنایا جائیگا.اسی طرح ناظروں کے پاس کون سا روپیہ ہے جس سے وہ مکان بنالیں گے.یہ ساری چیزیں ایسی ہیں جن پر پندرہ بیس لاکھ روپیہ صرف ہو گا.پھر علاوہ ان مکانات کے ہم نے ہسپتال بنانا ہے، زنانہ سکول بنانا ہے، مردانہ سکول بنانا ہے، کالج بنانا ہے اور اسی طرح اور کئی مرکزی عمارتیں بنانی ہیں.میرے نزدیک ہمیں فوری طوری پر جن عمارات کی ضرورت ہے وہ یہ ہیں :- 1- دارایح دار المسیح 2.قصر خلافت.3 حضرت خلیفۃ امسح الاول اور بعض پرانے صحابہ کے مکانات 4- لنگر خانه 5 مہمان خانہ

Page 462

خطابات شوری جلد سوم ۴۴۶ 6- جلسه گاه 7.کالج اور اُس کے عملہ کے مکانات 8- جامعہ اور اُس کے عملہ کے مکانات.مدرسہ احمدیہ اور اُس کے عملہ کے مکانات 10.ہائی سکول اور اُس کے عملہ کے مکانات 11 - زنانہ سکول اور اُس کے عملہ کے مکانات 12 - مدرسہ دینیات اور اُس کے عملہ کے مکانات 13 - دفاتر اور اُس کے عملہ کے مکانات 14.ہسپتال اور اُس کے عملہ کے مکانات 15.پریس اور اُس کے عملہ کے مکانات مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء 16 - لائبریری اور اُس کے عملہ کے مکانات 17 - دار القضاء اور اُس کے عملہ کے مکانات 18.درویشان قادیان کیلئے مکانات یہ لسٹ ہے جس کو انجمن نوٹ کر کے اندازہ پیش کرے کہ ان عمارتوں پر کتنا روپیہ خرچ آئے گا.میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں زمین کی فروخت سے جو روپیہ آیا ہے یا آئندہ آئے گا اُس سے بہت حد تک یہ ضروریات انشاء اللہ پوری ہو جائیں گی لیکن اگر اور روپیہ کی ضرورت محسوس ہوئی تو وہ بہر حال جماعت کو بھی دینا پڑے گا اور اُسے یہ سمجھتے ہوئے اپنا قدم آگے بڑھانا پڑے گا کہ قربانی کرنا مومن کے اعلیٰ فرائض میں شامل ہے.چونکہ وقت زیادہ ہو چکا ہے اور ابھی ہمارے سامنے ایک اہم کام سٹینڈنگ کمیٹی بنانا ہے جو بجٹ کے متعلق مفید مشورے دے سکے اس لئے میں اور باتوں کو چھوڑتے ہوئے دوستوں سے خواہش کرتا ہوں کہ وہ ایسے لوگوں کے نام پیش کریں جو اس کمیٹی کے ممبر ہوسکیں نام صرف ایسے لوگوں کا ہی پیش کیا جائے جو اچھے ماہر فن ہوں.مالی معاملات میں کافی تجربہ اور مہارت رکھتے ہوں اور مجلس شوریٰ کے نمائندہ ہوں.“ حضور کے اس ارشاد پر بہت سے نام پیش کئے گئے.چنانچہ سٹینڈ نگ کمیٹی بنانے کے بعد 66

Page 463

خطابات شوری جلد سوم حضور نے فرمایا : - ۴۴۷ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء یہ کمیٹی اس لئے قائم کی گئی ہے تاکہ بجٹ سے تعلق رکھنے والے تمام امور پر زیادہ سے زیادہ غور و خوض ہو سکے اور ہم کوئی ایسا قدم نہ اُٹھا ئیں جو بعد میں ہمارے لئے پریشانی کا موجب ہو.اس کمیٹی کا ہر تیسرے مہینے مرکز میں اجلاس ہوا کرے گا اور اس کمیٹی کا یہ کام ہوگا کہ وہ ان تمام امور پر غور کرے جن کا ہمارے بجٹ پر اثر پڑتا ہے.اسی طرح ایسی سکیمیں بھی تجویز کرے جن سے ہماری آمد میں اضافہ ہوسکتا ہے یہ کمیٹی بجٹ سے تعلق رکھنے والے تمام امور کے بارہ میں اپنی سفارشات صدر انجمن احمدیہ کے سامنے پیش کرے گی اور صدر انجمن احمدیہ کی سفارشات آخری منظوری کے لئے خلیفہ وقت کے سامنے پیش ہوا کریں گی.اسی طرح یہ سٹینڈنگ کمیٹی ہر سال کے بجٹ کو پہلے تفصیلی طور پر دیکھ لیا کرے گی اور پھر مجلس شوری کے موقع پر سب کمیٹی بیت المال اُس پر غور کیا کرے گی علاوہ ازیں مختلف صیغہ جات کی طرف سے ایزاد کی بجٹ کے متعلق جو درخواستیں دورانِ سال میں آئیں وہ بھی اس کمیٹی کے سامنے پیش ہوا کریں گی تاکہ ایزادئی بجٹ کی ذمہ داری بھی شوری کی سٹینڈنگ کمیٹی پر آجائے.ناظر صاحب بیت المال اس کمیٹی کے صدر ہوں گے.“ بجٹ آمد ۱۹۵۰ء.۱۹۵۱ء اس کے بعد ناظر صاحب بیت المال نے بجٹ آمد پیش کیا حضور نے فرمایا : - جو دوست بجٹ آمد کے متعلق کچھ کہنا چاہتے ہوں وہ اپنے نام لکھوا دیں مگر یہ یاد رکھیں کہ اب جنرل ڈسکشن نہیں ہوگی اگر کسی آئٹم میں کسی دوست نے کوئی ترمیم پیش کرنی ہو 66 تو وہ کر سکتے ہیں مگر جو کچھ کہیں مختصر الفاظ میں کہیں کیونکہ وقت بہت کم رہ گیا ہے.“ حضور کے اس ارشاد پر صرف ایک دوست مکرم ماسٹر محمد عبد اللہ صاحب نے اپنا نام لکھوایا.ان کے اظہارِ خیال کے بعد حضور نے فرمایا: - میں نے تنبیہ کر دی تھی کہ یہ لمبی باتیں کرنے کا وقت نہیں مگر پھر بھی انہوں نے اپنی تقریر میں جنرل بحث کی ہے حالانکہ اس وقت وہ صرف اتنا کہہ سکتے تھے کہ اس بجٹ میں فلاں جگہ سے رقم نکال دی جائے یا فلاں جگہ اتنی رقم بڑھا دی جائے اور پھر وہ اپنی تائید میں

Page 464

خطابات شوری جلد سوم ۴۴۸ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء دلائل بھی دے سکتے تھے مگر اُنہوں نے نہ اخراجات کو کم کرنے کی کوئی تجویز بیان کی ہے اور نہ اخراجات کو بڑھانے کی کوئی تجویز بیان کی ہے صرف تقریر کی ہے جس کی کوئی ضرورت نہیں تھی.اور پھر انہوں نے اپنی تقریر میں باتیں بھی ایسی کی ہیں جو کوئی اہمیت نہیں رکھتیں.مثلاً اُنہوں نے مجلس مشاورت کی رپورٹ شائع کرنے کے اخراجات کی ضرورت بیان کی ہے حالانکہ یہ خرچ بجٹ میں موجود ہے اور اس کے پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی.اسی طرح جلسہ سالانہ کے اخراجات کا انہوں نے ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ ساٹھ ہزار خرچ بہت زیادہ ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ جلسہ سالانہ کے اعلان کے ساتھ ہی ہمیں یہ بھی اعلان کر دینا چاہئیے کہ اس سال صرف اتنے مہمان آئیں زیادہ نہ آئیں ورنہ انہیں کھانا نہیں کھلایا جائے گا.یہ امر کہ ہمارے چندہ جلسہ سالانہ کی آمد کم ہے لوگوں کے احساس کی کمی کا نتیجہ ہے ورنہ جماعت بڑی آسانی سے اس رقم کو پورا کر سکتی ہے.جب حفاظت مرکز کے لئے چندے کا اعلان کیا گیا اور وعدے آئے تو وہ تیرہ لاکھ کے قریب تھے اور یہ وعدے ہر شخص کی ماہوار آمد کو مدنظر رکھتے ہوئے لے گئے تھے اگر ہم اس کا دس فیصدی حصہ نکالیں تو ایک لاکھ تیس ہزار روپیہ جلسہ سالانہ کے چندہ کے طور پر آنا چاہئیے.اور اگر تیرہ لاکھ میں وہ وعدے بھی شامل کر لئے جائیں جن کے متعلق ہمارا خیال تھا کہ آنے چاہئیں مگر وہ نہیں آئے تو چندہ جلسہ سالانہ کی متوقع آمد ایک لاکھ تیس ہزار کی بجائے ایک لاکھ ساٹھ ہزار تک پہنچ جاتی ہے لیکن اگر ہماری آمد صرف چالیس ہزار روپیہ ہے اور بجٹ میں ساٹھ ہزار لکھی جاتی ہے اس امید کے ماتحت کہ دوست اپنے فرائض کو سمجھیں گے تو درحقیقت یہ ساٹھ ہزار کی رقم دوستوں کو شرمندہ کرنے کے لئے ہوتی ہے کہ انہوں نے اتنی معمولی رقم کو بھی اب تک پورا نہیں کیا.لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ مہمان کم بلائے جائیں یا مہمان تو آئیں مگر اُن کے لئے روپیہ خرچ نہ کیا جائے.حقیقت تو یہ ہے کہ یہ ساٹھ ہزار کی رقم بھی غلط ہے اگر لاکھ مہمان آئیں گے تو یہ ساٹھ ہزار دو لاکھ بن جائے گا اور ہمیں بہر حال ان اخراجات کو پورا کرنا پڑے گا.پس یہ چیزیں ایسی نہیں جن پر بحث کی جائے یا جن میں کسی کمی کی اُمید کی جاسکے.اگر اخراجات کم کئے جاسکتے ہیں تو بعض اور مدات میں ان میں نہیں.مثلاً اس سال

Page 465

خطابات شوری جلد سوم ۴۴۹ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء (۱۹۴۹ء میں ) ہمارا یہ اندازہ تھا کہ ۳۵ ہزار مہمان آئے گا اور تین دن کے قیام کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارا اُن پر پچپن ہزار روپیہ خرچ ہو گا لیکن ۳۵ ہزار مہمان نہیں آیا.مہمانوں کی ایک دن زیادہ سے زیادہ تعداد ۲۴۵۰۵ رہی ہے باقی دنوں میں اس سے بھی کم مہمان آئے لیکن خرچ ۵۵ ہزار کی بجائے ۶۵ ہزار روپے ہوا.میں نے صدر انجمن احمد یہ سے اس بارہ میں جھگڑا شروع کیا ہوا ہے اور میں نے کہا ہے کہ آئندہ کے لئے ایسا طریق اختیار کرو جس سے روپیہ ضائع نہ ہو.پس اگر گرفت ہوسکتی ہے تو ان رستوں سے.یہ نہیں کہ مہمان آجا ئیں تو انہیں کھانا نہ کھلایا جائے.بہر حال اصل سوال ساٹھ ہزار کا نہیں بلکہ اُس کے صحیح خرچ کا سوال ہے جو یہاں پیش نہیں ہو سکتا اس کی تحقیق محاسبہ کمیٹی یا کوئی کمیشن ہی کرسکتا ہے.بجٹ آمد کی منظوری اب میں دوستوں سے پوچھتا ہوں کہ آیا صدر انجمن احمدیہ کی آمد کا بجٹ جو سب کمیٹی نے پیش کیا ہے منظور کیا جائے یا نہ کیا جائے.حضور کے اس استفسار پر ۳۷۳ دوستوں نے یہ رائے پیش کی کہ بجٹ آمد کو منظور فرمایا جائے.چنانچہ حضور نے بجٹ آمد کی منظوری کا اعلان فرمایا.بجٹ اخراجات پیش ہونے سے قبل حضور نے فرمایا : - بجٹ اخراجات اب اخراجات کا بجٹ پیش ہوگا دوستوں کو یہ امر مد نظر رکھنا چاہئیے کہ اُنہیں لمبی بحثوں کی بجائے اخراجات پر صرف اس رنگ میں تنقید کرنی چاہئیے کہ ہمارے نزد یک فلاں اخراجات میں کمی کر دی جائے یا اتنی رقم فلاں مد میں سے کاٹ دی جائے اب 66 صرف ہیں منٹ باقی رہ گئے ہیں اس لئے لمبی بحث کا یہ وقت نہیں.“ صدر صاحب سب کمیٹی کی طرف سے بجٹ جبکہ پرنسپل صاحب تعلیم الاسلام کالج کی طرف سے اضافہ بجٹ کے متعلق بعض ترامیم پیش ہونے پر حضور نے فرمایا: - عجیب بات ہے کہ یہ ساری ترمیمیں نظارت کی تصدیق کے ساتھ آئی ہیں حالانکہ اس وقت ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں جس سے ہم یہ سوچ سکیں کہ یہ آمد کہاں سے آئے گی.پس پیشتر اس کے کہ یہ ترمیمات دوستوں کے سامنے پیش کی جائیں میں ناظر صاحب اعلیٰ سے یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ آمد میں یہ چالیس ہزار روپیہ کی زیادتی کس طرح ہوگی اور

Page 466

خطابات شوری جلد سوم ۴۵۰ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء اتنا روپیہ وہ کہاں سے لائیں گے؟ پہلے وہ اس کے متعلق اطمینان دلا دیں اس کے بعد وہ 66 اس سوال کو پیش کر سکتے ہیں.“ حضور کے اس ارشاد پر مکرم مولوی جلال الدین صاحب شمس قائم مقام ناظر اعلی کھڑے ہوئے مگر وہ کوئی جواب نہ دے سکے.حضور نے فرمایا :- چونکہ یہ تجویز میں انجمن کی طرف سے پیش ہیں اور یہ قطعی طور پر بے ضابطگی ہے کہ وہ ایک طرف آمد کم دکھاتی ہے اور دوسری طرف اس قسم کی تجاویز پیش کر دیتی ہے کہ خرچ میں اتنی زیادتی کر دی جائے اس لئے ان ترمیموں کے پیش کرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ صدرانجمن احمد یہ اگر چاہے تو اپنے موجودہ بجٹ میں کسی دوسری جگہ سے تخفیف کر کے یہ خرچ نکال لے.بہر حال میں یہ معاملہ دوستوں کے سامنے رکھتا ہوں جو دوست چاہتے ہوں کہ انجمن کو یہ اجازت دی جائے کہ وہ اپنی مخصوص مدات میں نہیں بلکہ عمومی اخراجات میں تخفیف کر کے اگر یہ خرچ نکالنا چاہے تو نکال لے وہ کھڑے ہو جائیں.“ اس پر ۱۵۳ دوست کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا: - اب جو دوست یہ چاہتے ہوں کہ انجمن کو اپنے عمومی اخراجات میں تخفیف کر کے بھی 66 یہ خرچ نکالنے کی اجازت نہ دی جائے ، وہ کھڑے ہو جائیں.“ ۸۳ دوست کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا : - اب اگر کوئی دوست اس بات کی تائید میں ہوں کہ بہر حال یہ اخراجات بڑھانے کی اجازت دی جائے خواہ روپیہ ہو یا نہ ہو وہ کھڑے ہو جائیں.“ صرف ۲ دوست کھڑے ہوئے.آراء شماری کے بعد حضور نے فرمایا :- در حقیقت یہ بہت بڑی بے ضابطگی ہے جس کا اس وقت مظاہر ہ کیا گیا ہے سٹینڈنگ کمیٹی بن جائے گی تو پھر اس قسم کی بے ضابطگیاں نہیں ہو سکیں گی.حقیقت یہ ہے کہ بعض اخراجات تو ناگزیر ہوتے ہیں.مثلاً لائبریری ہے اس کے لئے الماریوں کی لازماً ضرورت ہو گی.مگر بعض اخراجات عقلاً ناجائز ہوتے ہیں جیسے توسیع ہوسٹل کے لئے ہیں ہزار روپیہ کا مطالبہ کیا گیا ہے حالانکہ لاہور میں ہمارا کالج اب صرف چھ مہینے یا سال تک رہے گا.

Page 467

۴۵۱ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء خطابات شوری جلد سوم اس کے بعد انشاء اللہ ربوہ آجائے گا.در حقیقت صحیح طریق وہی ہے جس کی کثرتِ رائے نے تائید کی ہے اور جس کے مطابق میں بھی فیصلہ کرتا ہوں کہ صدر انجمن احمد یہ اگر چاہے تو اپنے موجودہ بجٹ میں کسی دوسری جگہ سے تخفیف کر کے یہ گنجائش نکال لے.اخراجات کا کچھ حصہ یقینا فرض ہے اُس کو نکال کر ضروری اخراجات کے لئے گنجائش پیدا کی جاسکتی ہے.“ اس موقع پر ایک دوست نے سوال کیا کہ کیا صدرانجمن احمد یہ اخراجات میں خود بخود تخفیف کر سکتی ہے یا اُسے حضور سے اجازت لینے کی ضرورت ہوگی ؟ حضور نے فرمایا :- مجمن کو یہ اجازت نہیں کہ وہ خود بخود جن اخراجات کو چاہے کم کر دے اس کے لئے اُسے بہر حال مجھ سے منظوری لینی پڑے گی.میں سمجھتا ہوں اگر سب کمیٹی کے سامنے تمام صیغہ جات کے افسروں کو اپنی اپنی ضروریات پیش کرنے کا موقع دیا جائے جس کی میں پہلے بھی اجازت دے چکا ہوں تو اس قسم کے سوالات پیدا ہی نہیں ہو سکتے.منظوری بجٹ اب جو دوست اس بات کی تائید میں ہوں کہ سب کمیٹی بیت المال کے پیش کردہ بجٹ اخراجات بابت سال ۱۹۵۱ء.۱۹۵۰ء کو منظور کیا جائے وہ کھڑے ہو جائیں.“ ۳۵۹ دوست کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا : - چونکہ کثرت رائے اس بات کے حق میں ہے اس لئے میں سب کمیٹی بیت المال کا پیش کردہ بجٹ اخراجات برائے سال ۱۹۵۱ء.۱۹۵۰ء منظور کرتا ہوں جس کی مجموعی میزان ۷۶۵۴۳۱ا روپیہ ہے.66 از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ ) مجلس مشاورت کے تیسرے دن بجٹ اخراجات کی منظوری کے بعد اور اختتامی خطاب شوری کی کارروائی مکمل ہونے پر حضور نے نمائندگان شوری سے خطاب کرتے ہوئے ایک بصیرت افروز تقریر فرمائی.جس میں حضور نے جماعت کو حلقہ تبلیغ وسیع کرنے ، اپنے اندر روحانی تغیر پیدا کرنے اور اپنے فرائض کو صحیح طور پر سمجھنے کی طرف نہایت ہی دل آویز پیرایہ میں توجہ دلائی.حضور کی اس تقریر کا خلاصہ الفضل ۱۳ را پریل ۱۹۵۰ء میں بدیں طور پر شائع ہوا.اصل چیز تو بجٹ آمد انسانان ہے پس ہمارے زیادہ اخراجات ایسے ہونے چاہئیں

Page 468

خطابات شوری جلد سوم ۴۵۲ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء جو آمد بڑھانے والے ہوں یعنی جن کی وجہ سے جماعت کی تعداد میں اضافہ ہو کیونکہ یہی ہماری اصل آمد ہے.اس کے بعد حضور نے احباب کو صنعت و حرفت اور فریضہ تبلیغ کی طرف خاص طور پر توجہ دینے کی تلقین فرمائی.چنانچہ فرمایا ہمارے دوستوں کو مفید کاموں میں وقت صرف کر کے اپنی آمد کو بڑھانا چاہئیے.جو کاشتکار ہیں وہ صرف زمینداری پر ہی انحصار نہ کریں بلکہ ساتھ کے ساتھ پولٹری فارم یا بھیڑ بکریوں کے ریوڑ پال کر آمد کو بڑھائیں.اسی طرح دوستوں کو بعض مخصوص پیشوں میں مہارت حاصل کر کے ملک کی صنعتی ترقی میں ہاتھ بٹانا چاہیے.لوہارا اور تر کھاناں وغیرہ کے پیشوں میں اگر ہمارے بعض دوست مہارت حاصل کر لیں تو وہ اپنی قدر و قیمت میں بہت زیادہ اضافہ کر سکتے ہیں.بعض پیشوں پر جو صنعتی لحاظ سے بہت مفید ہیں اگر قبضہ کر لیا جائے تو بڑی خدمت سرانجام دی جاسکتی ہے.پس جلد سے جلد ایسے مستری تیار کرنے چاہئیں جو نئے کارخانوں میں بآسانی کھپ سکیں.“ (الفضل ۱۳ را پریل ۱۹۵۰ء) 66 ل مسلم کتاب الایمان باب الوكيل على ان من قصد اخذ مال غیره بغير حق (الخ) متنی باب ۵ آیت ۳۹ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن سیرت ابن هشام جلد ۳ صفحه ۸۹ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ۱۹۸۷ء بخاری کتاب القدر باب العمل بالخواتيم ه أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمُ (البقرة: ۲۱۵) مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۵۵۶ مطبوعه نظارت اشاعت ربوه ك الاحزاب : ۶۳ البقرة: ۲۱۵ الحشر : ۱۰ پیدائش باب ۲۵ آیت ۲۸ تا ۳۴ ( مفهوما ) پیدائش باب ۲۷ آیت ۱ تا ۳۶ (مفہوما )

Page 469

خطابات شوری جلد سو ۴۵۳ مجلس مشاورت ۱۹۵۱ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ مجلس مشاورت ۱۹۵۱ء منعقد ه ۲۳ تا ۲۵ / مارچ ۱۹۵۱ء) پہلا دن جماعت احمدیہ کی بتیسویں مجلس مشاورت ربوہ میں ۲۳ تا ۲۵ مارچ ۱۹۵۱ء کو جامعۃ المبشرین کی عارضی عمارت کے صحن میں شامیانے کے نیچے منعقد ہوئی.( یعنی وہ جگہ جہاں دارالصدر غربی میں اب بیت قمر ہے ) حضور کی طبیعت در دنقرس کی وجہ سے علیل تھی.تلاوت قرآن مجید کے بعد حضور نے بیٹھ کر دُعا سے متعلق فرمایا: - کارروائی شروع کرنے سے قبل احباب مل کر دعا کر لیں.خدا تعالیٰ ہماری راہنمائی فرمائے تا کہ ہم مشورہ طلب امور کے بارے میں ایسے فیصلے کرسکیں کہ جو اسلام کی سر بلندی کا باعث ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا موجب ہوں.خدا تعالیٰ ہم کو اور ان لوگوں کو جن کے ہم نمائندے ہیں ان سب فیصلوں پر کما حقہ عمل کی توفیق عطا فرمائے اور ایسے سامان پیدا کر دے کہ ہم ان فیصلوں کو عملی جامہ پہنا کر صحیح معنوں میں سلسلے کی خدمت بجالا سکیں.“ تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا :- افتتاحی تقریر اس وقت ایجنڈے کے مطابق جماعت کے سامنے دو محکموں کی تجاویز پیش ہیں.ان میں سے ایک نظارت بیت المال ہے اور دوسری نظارت بہشتی مقبرہ.ان تجاویز کے علاوہ انتخاب نمائندگان کے متعلق بھی ایک تجویز ہے جو پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کی طرف سے ہے.اس تجویز کا مقصد یہ ہے کہ صدر انجمن، تحریک جدید اور صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نمائندگی کے لئے کیا طریق اختیار کیا جائے.اس وقت تک محکموں کی نمائندگی اور

Page 470

خطابات شوری جلد سوم ۴۵۴ مجلس مشاورت ۱۹۵۱ء صحابہ کرام کی نمائندگی کے سلسلے میں کوئی خاص قاعدہ مقرر نہیں ہے.جس کی وجہ سے محکموں کے نمائندوں کی تعداد غیر ضروری طور پر بڑھتی جا رہی ہے.اس طرح صحابہ کی نمائندگی کا کوئی خاطر خواہ انتظام موجود نہیں ہے.“ اس ضمن میں حضور نے انگلستان اور امریکہ کے آئین پر علیحدہ علیحدہ روشنی ڈال کر واضح کیا کہ وہاں ایگزیکٹو کی نمائندگی کی نوعیت کیا ہے.حضور نے مزید فرمایا کہ:- نظارت بیت المال کی تجاویز پر غور و خوض کے لئے جو سب کمیٹی مقرر کی جائے گی وہ صدر انجمن اور تحریک جدید کے بجٹوں کے علاوہ اس تجویز پر بھی غور کرے گی.“ دوسرا دن مجلس مشاورت ۱۹۵۱ء کے دوسرے دن ۲۴ مارچ کو پہلے اجلاس سے قبل تلاوت قرآن مجید کے بعد حضور نے بیٹھ کر ہی نمائندگان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: - دعا کی ضرورت اصل کا رروائی شروع کرنے سے پہلے احباب دعا فرما لیں.میں دیکھتا ہوں کہ بعض دوست دعا کی اہمیت کو وہ درجہ نہیں دیتے جو دراصل انہیں دینا چاہئے.حقیقت یہ ہے کہ روحانی سلسلے خدائی نصرت کے ساتھ ہی چلتے ہیں.اس میں شک نہیں کہ ان کو بھی دُنیوی سامانوں سے کام لینا پڑتا ہے اور اسباب و علل کی قیود سے وہ بھی آزاد نہیں ہوتے لیکن وہ تمام دنیوی سامان اور وہ اسباب و علل خدائی منشاء اور اُس کے فضل کے ماتحت ظاہر ہو کر الہی جماعتوں کی کامیابی کا موجب بنتے ہیں.بسا اوقات دنیا کے بندے ظاہری سامانوں پر بھروسہ کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے نصرت طلب کرنے کو خاطر میں نہیں لاتے.مذہب اسباب و علل سے متعلق قوانین قدرت کے اہل ہونے کو تسلیم کرتے ہوئے ایسے لوگوں سے کہتا ہے کہ یہ سامان جن پر تم بھروسہ کرتے ہو اور یہ اسباب و علل جن کی طرف رہ رہ کر تمہاری نگاہیں اُٹھتی ہیں خود خدا تعالیٰ کے ہی پیدا کردہ ہیں ان سے صحیح رنگ میں فائدہ اُٹھانے کے لئے اُس سے استمداد ضروری ہے.خدائی نصرت کے تحت سامانوں کا مہیا ہو جانا اور پھر اُن سے صحیح رنگ میں فائدہ اُٹھانے کی توفیق ملنا ہی معجزہ کہلاتا ہے.

Page 471

خطابات شوری جلد سوم ۴۵ مجلس مشاورت ۱۹۵۱ء قانونِ قدرت کے اہل ہونے سے دعا کی ضرورت یا معجزہ کی اہمیت میں کوئی فرق نہیں آسکتا.پس ہماری جماعت کو دعاؤں کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے.محض رسمی طور پر دعا مانگنا بے معنی ہے.ضروری ہے کہ دعا کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا مانگی جائے.دُعاؤں کی اہمیت کو قائم کرنا ہماری جماعت کے لئے نہایت ضروری ہے کیونکہ ہمارا سلسله دیگر آسمانی سلسلوں کی طرح خدا تعالیٰ کی تقدیر خاص کے نتیجے میں قائم ہوا ہے.خدا تعالیٰ کی تقدیر عام اور تقدیر خاص میں بہت فرق ہے.اس کی مثال ایسی ہے کہ بعض اوقات زمین میں بغیر کسی اہتمام کے بیج بکھیر دیئے جاتے ہیں اور وہ کچھ عرصہ بعد خود بخود اُگ آتے ہیں لیکن باغ وغیرہ لگانے میں بڑی مشقت اٹھائی جاتی ہے اور قدم قدم پر خاص اہتمام کیا جاتا ہے.چنانچہ اس مشقت اور اہتمام کا نتیجہ اول الذکر کی نسبت زیادہ نمایاں اور شاندار طریق پر ظاہر ہوتا ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ دُنیا میں تقدیر عام کا پہلو بھی دعا سے خالی نہیں ہے تو پھر تقدیر خاص میں اس کی اہمیت اور ضرورت کیوں نہ مسلم ہو.وہ جماعت جو قائم ہی تقدیر خاص کے نتیجے میں ہوئی ہو اُس پر خدا تعالیٰ کی خاص نظر ہوتی ہے.اُس کی دعا رائیگاں نہیں جاتی وہ ضرور رنگ لاتی ہے.اُس کے افراد دعا ہی وہ مانگتے ہیں جو خدا تعالیٰ اُن سے منگوانا چاہتا ہے.گویا خدائی تقدیر اور بندوں کی دلی خواہش مل جاتی ہے اسی کا نام قبولیت ہے.دعا کی قبولیت کا وقت وہی ہوتا ہے کہ جب خدا کے فضل کی بارش اور بندوں کے آنسوؤں کا پانی آپس میں مل جاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات سینکڑوں گھنٹوں کے آنسو وہ کام نہیں کرتے جو آنِ واحد میں دل سے نکلی ہوئی دعا کر جاتی ہے.“ اس کے بعد حضور نے حاضرین سمیت لمبی دعا کی اور پھر فرمایا : - بجٹ بر وقت تیار ہو بجٹ بہر صورت میعاد مقررہ کے اندر اندر تیار ہو جانا چاہئے.اس سال بھی بجٹ وقت پر شائع نہ ہو سکنے کی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن جب تک ان وجوہات پر قابو نہیں پایا جائے گا اُس وقت تک بجٹ میعاد مقررہ کے اندر کبھی شائع نہیں ہو سکے گا.کوشش کی جائے کہ آئندہ ایسی وجوہات پیدا نہ ہوں کہ جن کے نتیجہ میں پھر ایسی شکایت سے دوچار ہونا پڑے.“

Page 472

خطابات شوری جلد سوم ۴۵۶ مجلس مشاورت ۱۹۵۱ء گزشتہ سیلابوں کے باعث چندوں میں کمی کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ:- آئندہ بجٹ میں شہری اور دیہاتی جماعتوں کی آمدن علیحدہ علیحدہ دکھائی جایا کرے تا کہ اندازہ ہو سکے کہ کن جماعتوں کی طرف سے وصولی کم ہوئی ہے اور اس کی وجوہات کیا ہوسکتی ہیں.موجودہ بجٹ سے یہ پتہ نہیں لگ سکتا کہ سیلاب کے باعث دیہاتی جماعتوں کی طرف سے خاطر خواہ وصولی نہیں ہو سکی.حضور نے بجٹ میں قرضہ جات وغیرہ کی صحیح پوزیشن دکھانے کی اس سال بھی ہدایت فرمائی اور پھر فرمایا : - تألیف و تصنیف کی اہمیت تالیف و تصنیف کا محکمہ سب سے اہم ہے لیکن صدر انجمن میں یہی محکمہ سب سے کمزور ہے.اگر دیکھا جائے تو وو لوگوں تک اپنے خیالات پہنچانے کا سب سے مؤثر ذریعہ تصنیف ہی ہے.ایک تبلیغی جماعت جس کا کام ہی دوسروں کو حق کی طرف بلانا ہو تالیف و تصنیف کی اہمیت کو کسی طرح نظر انداز نہیں کر سکتی.خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ”سلطان القلم قرار دیا ہے.اس خدائی اعزاز میں ہمارے لئے غور طلب بات یہ ہے کہ کیا کوئی بادشاہ بغیر رعایا کے بھی ہوتا ہے؟ سلطان القلم کا مطلب تو یہ ہونا چاہئے کہ ہماری جماعت میں کثرت سے اہل قلم ہوں جو اپنی تصانیف کے ذریعہ عملاً اس بات کا اعلان کرتے رہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام " سلطان القلم ہیں.اس خدائی اعزاز میں ایک بہت بڑا اشارہ تھا جسے جماعت کے افراد نے نہیں سمجھا.وہ اشارہ یہ تھا کہ مسیح محمدی کی جماعت کو تصنیف کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے.“ اس ضمن میں حضور نے جماعت کے اہل علم طبقہ کو بالعموم اور پروفیسر صاحبان و علماء سلسلہ کو بالخصوص تألیف و تصنیف سے متعلق اس سکیم پر عمل پیرا ہونے کی ایک بار پھر تلقین فرمائی وحضور نے ۱۹۴۹ء کے سالانہ جلسہ منعقدہ ربوہ میں نہایت تفصیل سے بیان کی تھی.اس سکیم کو عملی جامہ پہنانے میں اب تک جو غفلت برتی گئی ہے اُس پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے حضور نے فرمایا: - جب تک جماعت اس طرف توجہ نہیں کرے گی اُس وقت تک حقیقی اسلام

Page 473

خطابات شوری جلد سوم ۴۵۷ مجلس مشاورت ۱۹۵۱ء سے متعلق احمدیت کی تعلیم عام نہ ہوگی اور لوگوں تک نہ پہنچ سکے گی.“ تألیف و تصنیف کے سلسلے میں حضور نے جدید رجحانات اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تاثرات کا بھی تفصیل سے ذکر کیا اور فرمایا: - ہمیں لکیر کا فقیر نہ بننا چاہئے.نئے حالات اور نئے ماحول کے زیر اثر جو جدید رُجحانات پیدا ہوئے ہیں اُن کو مدنظر رکھتے ہوئے نئے رسالے اور نئی کتابیں لکھنے سے خاطر خواہ نتیجہ برآمد ہو سکے گا.“ نیز فرمایا: - ” جب تک ان رُجحانات کا ازالہ نہیں کیا جائے گا لوگ حقیقی اسلام کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوں گے پہلے احمدیت یعنی اسلام سے ذہنی مناسبت پیدا کرنی ضروری ہے.اس کے بغیر عقائد کی پرانی بحث کارگر ثابت نہ ہو سکے گی.“ اس کے علاوہ حضور نے احباب جماعت کو الفضل“ اور دیگر علمی رسائل کے لئے چھوٹے چھوٹے مضامین کی شکل میں اپنے خیالات کو عام کرنے کی طرف بھی خاص طور پر توجہ دلائی.تحریک جدید کے کام کی اہمیت ۲۴ مارچ ۱۹۵۱ء کو مشاورت کے دوسرے اجلاس میں تحریک جدید کا بجٹ پیش کیا گیا.بعض ممبران نے اپنی آراء پیش کرتے ہوئے اسے خوش کن بجٹ قرار دیا.رائے شماری کے بعد احباب سے خطاب کرتے ہوئے حضور نے فرمایا: - تحریک کا بجٹ گوخوش کن ہے لیکن مالی لحاظ سے تحریک جدید صدر انجمن احمدیہ کے مقابلے میں زیادہ خطر ناک حالات میں سے گزر رہی ہے.پچھلے دو سال سے چندوں کی وصولی میں کمی واقع ہوگئی ہے حالانکہ کام کی اہمیت اور اس کے خوش کن نتائج کے پیش نظر لوگوں میں قربانی کا جوش بڑھ جانا چاہئے تھا.یہ تحریک جدید کی ہی برکت ہے کہ آج مختلف ممالک کے لوگ علم دین حاصل کرنے کے لئے یہاں آئے ہوئے ہیں اور اس وقت بھی ہمارے درمیان موجود ہیں.طلباء کی آمد کا سلسلہ بدستور جاری ہے.علاوہ ازیں بیرونی ممالک

Page 474

خطابات شوری جلد سوم ۴۵۸ مجلس مشاورت ۱۹۵۱ء کے احمدی بڑھ چڑھ کر خدمتِ اسلام کے لئے اپنی زندگیاں وقف کر رہے ہیں.امریکہ کے رشید احمد زندگی وقف کرنے کے بعد ایک عرصہ سے ربوہ میں مقیم ہیں.ان کے علاوہ امریکہ سے چار اور نو جوانوں کی درخواستیں موصول ہوئی ہیں.اُنہوں نے بھی خدمت اسلام کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا ہے.ادھر دُنیوی لحاظ سے بھی بیرونی جماعتیں بفضلہ تعالیٰ ترقی کر رہی ہیں.گولڈ کوسٹ کے حالیہ انتخابات میں خدا تعالیٰ کے فضل سے تین احمدی کامیاب ہو کر اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں.یہ چیز میری سمجھ سے باہر ہے کہ تحریک جدید کی اتنی اہمیت کے باوجود احباب نے چندوں کی ادائیگی میں غفلت سے کیوں کام لیا ہے.شاید لوگوں نے سمجھ لیا کہ بیرونی ممالک میں مشن قائم کر کے ہم نے تبلیغ کا حق ادا کر دیا ہے اور ہم اپنے فرض سے سبکدوش ہو گئے ہیں حالانکہ میدانِ تبلیغ کی وسعت کے مقابلے میں ہماری مساعی کی کوئی حیثیت نہیں ہے.ہمارے مبلغ انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں.اگر صحیح معنوں میں تبلیغ کی جائے تو ہر تین سو آدمیوں پر ایک مبلغ ہونا چاہئے.یاد رکھو تبلیغ کا حق اس وقت ہی ادا ہو گا جب ہر ایک فرد تک اسلام و احمدیت کا پیغام پہنچ جائے گا اور اس پر صداقت واضح کر دی جائے گی.دُنیا کی موجودہ آبادی کو دیکھتے ہوئے لاکھوں لاکھ مبلغین اس کام پر متعین کرنے کی ضرورت ہے.اس کے بالمقابل ہم نے صرف چند سو مبلغ دُنیا میں پھیلا رکھے ہیں جو آٹے میں نمک کے برابر بھی قرار نہیں دیئے جا سکتے.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دوستوں نے اس تحریک کی اہمیت کو نہیں سمجھا اور اس ضمن میں اپنی ذمہ واریوں کا کماحقہ احساس نہیں کیا.اگر وہ اس کی اہمیت کو سمجھ لیتے تو اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتے اور انہیں تن کے کپڑے بھی بیچ ڈالنے سے دریغ نہ ہوتا.بیرونی ممالک میں احمدیت کی روز افزوں ترقی اِس امر کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ ہم وہاں اپنی مساعی کو اور زیادہ تیز کر کے خدائی منشاء کو پورا کریں.ہونا یہ چاہئے کہ تحریک کا بجٹ منظور ہونے کے بعد اب کوئی فردا ایسا نہ رہے کہ جو تحریک جدید میں حصہ نہ لے اور دوسروں سے بھی وعدہ پورا کرانے کا بیڑا نہ اُٹھائے.احباب جماعت کا فرض ہے کہ وہ اُس وقت تک چین سے نہ بیٹھیں جب تک کہ تمام وعدہ کرنے والوں سے اُن کا وعدہ پورا نہ کروالیں.“

Page 475

خطابات شوری جلد سوم ۴۵۹ مجلس مشاورت ۱۹۵۱ء دوران تقریر میں حضور نے تحریک جدید کے کارکنوں کو قرضہ ادا کرنے اور ریز روفنڈ قائم کرنے کی طرف بھی خاص طور پر توجہ دلائی.تیسرا دن بارش کی وجہ سے ۲۵ مارچ ۱۹۵۱ء نوجوانوں کی تربیت اور تبلیغ کی طرف توجہ دی جائے تم مجلس مشاورت کا آخری اجلاس مختصر کرنا پڑا.بجٹ پیش ہونے کے بعد حضور نے اختصار کے ساتھ احباب جماعت کو بعض اہم امور کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا : - آجکل ہم مالی لحاظ سے خطر ناک دور میں سے گزر رہے ہیں.اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ تقسیم برصغیر کے بعد جماعت کا قریباً ۴۰ فیصدی حصہ اپنی جائیدادوں اور گزشتہ آمد نیوں سے محروم ہو کر پہلے کی نسبت تنگ دست ہو گیا لیکن اس کے بالمقابل جماعت کے اخراجات پہلے کی نسبت بڑھ گئے ہیں اس صورتِ حال کا جماعت کی مالی حالت پر اثر انداز ہونا ضروری تھا.“ تقسیم کے معا بعد مہاجر احباب نے قناعت سے کام لیتے ہوئے جس ہمت و استقلال کا ثبوت دیا حضور نے اس کی تعریف کی اور فرمایا کہ:- خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں ہنسی خوشی تکالیف اُٹھانے اور مصائب کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے.خدا تعالیٰ نے جماعت کو ایمان بخشا ہے جس کے زیر اثر وہ ہر مصیبت کو اس حال میں جھیل جاتے ہیں کہ ان کے چہروں سے بشاشت ٹپک رہی ہوتی ہے.“ نیز فرمایا.یہ شکایت سننے میں آئی ہے کہ نوجوانوں میں دینی روح کم ہو رہی ہے.یہ ایک خطرناک بات ہے اس کے ازالہ کی طرف توجہ کرنی چاہئے.اگر اصلاح کی فوری تدابیر اختیار نہ کی گئیں تو پھر یہ چیز دس بارہ سال میں ناپسندیدہ سمت کی طرف رُخ کر سکتی ہے.

Page 476

خطابات شوری جلد سو مجلس مشاورت ۱۹۵۱ء یہ کہنا غلط ہے کہ اس انحطاط کی زد تمام نوجوانوں پر پڑتی ہے.کراچی کی جماعت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بعض ایسے نوجوان موجود ہیں جن میں دین کا ایسا ہی جوش پایا جاتا ہے جیسا کہ پرانے لوگوں میں ہوا کرتا تھا.اسی طرح راولپنڈی کی جماعت بھی ترقی کر رہی ہے وہاں بھی نوجوانوں میں بیداری کے آثار نمایاں ہیں.لیکن پھر بھی کوشش کرنی چاہئے کہ نوجوانوں میں دینی روح ترقی کرے.وہ محض نعرے لگا کر ہی دل میں خوش ہونے والے نہ ہوں بلکہ ذکر و فکر میں شغف پیدا کر کے صحیح اسلامی روح کو اپنانے والے بنیں.بالخصوص موجودہ نازک دور میں نوجوانوں کے اندر بیداری کا پیدا ہونا نہایت ضروری ہے.جو کام خدا تعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے وہ اس بات کا مقتضی ہے کہ ہم آگے ہی آگے قدم بڑھاتے چلے جائیں.جب تک نو جوانوں میں دین کے لئے جوش پیدا نہیں ہوتا اور بحیثیت مجموعی جماعت آگے قدم نہیں بڑھاتی ہم مطمئن ہو کر نہیں بیٹھ سکتے.ہماری نگاہ تو آج سے زیادہ کل پر ہونی چاہئے.کیونکہ ہم کو ساری دُنیا فتح کرنی ہے یہ جب ہی ہو سکتا ہے کہ جوں جوں زمانہ گزرتا جائے ہماری مشکلات کم ہوتی جائیں.اس کے لئے قربانی و ایثار کا مادہ پیدا کرنے اور تبلیغ پر زور دینے کی ضرورت ہے.تبلیغ کی طرف بہت بے تو جہی برتی جا رہی ہے ایک تو مبلغ بہت کم ہیں دوسرے ان سے کام نہیں لیا جاتا.تحریک کے جو مبلغ باہر سے رخصت پر واپس آتے ہیں انہیں بھی کام پر لگا کر ان کی موجودگی سے فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے.علاوہ ازیں صدر انجمن کا بھی فرض ہے کہ وہ اندرون ملک میں مبلغوں کی تعداد بڑھائے اور پھر انہیں ضرورت اور حالات کے مطابق لٹریچر بھی فراہم کرے.لٹریچر ایسے لوگوں تک پہنچانا چاہئے جو واقعی اس سے فائدہ اُٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہوں.لٹریچر دینے سے پہلے لوگوں کے اندر دلچسپی پیدا کرنا ضروری ہے ورنہ وہ اس لٹریچر کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھیں گے اور ہماری ساری محنت اکارت جائے گی.فراہمی ملٹریچر کے سلسلے میں نئے ماحول اور نئے رُجحانات کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا جائے.احمدیت کی لائی ہوئی صداقتوں کو لوگوں کے ذہن نشین کرانے کے لئے حکیمانہ طریق پر عمل کرنا ضروری ہے.“

Page 477

خطابات شوری جلد سوم ۴۶۱ مجلس مشاورت ۱۹۵۱ء اس موقع پر حضور نے اپنے ایک تازہ الہام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:- وو چند دن ہوئے کہ یہ الہام ہوا.سندھ سے پنجاب تک دونوں طرف متوازی نشان دکھاؤں گا معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی نیا فیصلہ صادر ہونے والا ہے.ذہن میں ڈالا گیا کہ متوازی کا لفظ دونوں طرف کیساتھ لگتا ہے شاید دریائے سندھ کے اس پار اور اُس پار دونوں طرف وسیع علاقے اِس سے متاثر ہوں.ساتھ ہی ڈالا گیا کہ یہ نشان ہمارے لئے برکت والا ہو گا لیکن برکت والا انذاری نشان بھی ہوسکتا ہے.اس لئے ہمیں خدا تعالیٰ کا فضل جذب کرنے کے لئے اپنے اندر ایک نیک تبدیلی پیدا کرنی چاہئے اور دعا کرنی چاہئے کہ اس کی وجہ سے لوگوں کی توجہ حق کے قبول کرنے کی طرف پھرے.متوازی سے مراد یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کئی نشان ظاہر ہوں.اور شاید گزشتہ سیلابوں کی طرح پھر کوئی خوفناک طوفان آئے.بہر حال خشیت اللہ سے کام لیتے ہوئے خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے.“ الفضل ۲۵، ۲۷، ۲۸، ۲۹ / مارچ ۱۹۵۱ء )

Page 478

Page 479

خطابات شوری جلد سو ۴۶۳ مشاورت ۱۹۵۲ء بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء ( منعقده ۱۱ تا ۱۳ / اپریل ۱۹۵۲ء) پہلا دن جماعت احمدیہ کی تینتیسویں مجلس مشاورت II.اپریل ۱۹۵۲ء کو بعد نماز جمعہ لجنہ اماء اللہ دعا مرکز یہ ربوہ کے ہال میں شروع ہوئی.تلاوت قرآن مجید کے بعد حضور نے احباب کو دعا کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا: - جیسا کہ شوریٰ کے ایجنڈے سے ظاہر ہے یہ اجلاس ہماری شوری کا تینتیسواں اجلاس ہے.اور آج ہم اس لئے اس جگہ پر جمع ہوئے ہیں کہ تحریک جدید اور صدرانجمن احمدیہ کے سالا نہ میزانیوں پر غور کریں اور بعض اہم مسائل جو سلسلہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ان کے متعلق بھی غور کر کے کسی نتیجہ پر پہنچیں.اصل کا رروائی کے شروع کرنے سے پہلے میں حسب سنت و دستور دعا کروں گا احباب میرے ساتھ دعا میں شامل ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم کو صحیح طور پر غور کرنے اور صحیح نتائج پر پہنچنے کی تو فیق عطا فرمائے.ہمارا کام بہت وسیع ہے لیکن ہمارے ذرائع بہت محدود ہیں.ہماری ذمہ داریاں نہایت اہم ہیں لیکن ہمارے مزاج بہت سبک واقع ہوئے ہیں.ہم اپنی تعلیم کی کمی کی وجہ سے یا تربیت کے نقص کی وجہ سے اہم چیزوں کو موقع پر اہم سمجھنے سے قاصر رہ جاتے ہیں.اور بعض چھوٹی چھوٹی باتوں کو اتنی اہمیت دے دیتے ہیں کہ ہمارا وقت بجائے صحیح طور پر خرچ ہونے کے ضائع ہو جاتا ہے.اور ہماری طاقت منتشر ہو جاتی ہے.پس ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہم کو تمام امور کی صحیح اہمیت سمجھنے کی توفیق دے اور ہمیں موقع کے مناس

Page 480

خطابات شوری جلد سوم ۴۶۴ مشاورت ۱۹۵۲ء کام کرنے کی عقل اور ہمت بخشے تا کہ ہم ان تھوڑے سے تھوڑے سامانوں کو زیادہ سے زیادہ بہتر طور پر استعمال کر سکیں جو کہ اس وقت ہمیں حاصل ہیں اور ہماری تدبیر اور اس سعی کے نتیجہ میں ہمارے سامان آنے والے گل میں آج سے زیادہ ہوں اور آنے والے پرسوں میں آنے والے کل سے زیادہ ہوں.یہاں تک کہ جو ذمہ داریاں ہمارے سپرد کی گئی ہیں ہم اُن کو پورا کرنے کے قابل ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ ہمیں اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ ہماری باتیں باتیں ہی نہ ہوا کریں بلکہ وہ عمل کا پیش خیمہ ہوں اور ہماری فکر کھو ہی نہ ہوا کرے بلکہ وہ ایک سنجیدہ اور اٹل حقیقت ہو جس کے بعد دُنیا کا کوئی عزم اس کے آگے ٹھہر نہ سکے اور کوئی طاقت اس کو دبا نہ سکے.ہماری مجالس کی ابتداء میں ہمیشہ دعا ہوتی ہے، آئندہ اس کے لئے میں ایک طریق مقرر کر دیتا ہوں.ایک دعا افتتاح کے موقع پر تینوں دنوں میں ہوا کرے گی اور ایک دعا آخر میں شوری کے اختتام پر ہوگی.گویا شوری کے تین دنوں میں چار دفعہ دعا ہو گی.ایک دفعہ پہلے دن، پھر دوسرے دن، پھر تیسرے دن ابتداء میں اور پھر شوری کے اختتام پر.اب میں دعا کرتا ہوں تمام احباب میرے ساتھ شریک ہو جائیں.اس کے بعد میں پروگرام کے مطابق کارروائی شروع کروں گا.“ دُعا سے فارغ ہونے کے بعد حضور نے تشہد وتعوذ کے بعد فرمایا: - کمیٹیوں کا تقرر جیسا کہ پروگرام میں لکھا ہوتا ہے اور جیسا کہ دستور چلا آتا ہے شوری کی کارروائی شروع کرنے سے پہلے تھوڑی دیر کے لئے میں تقریر کیا کرتا ہوں لیکن آج میں اس طریق کو بدلنا چاہتا ہوں اور بجائے اس وقت تقریر کرنے کے جب سب کمیٹیوں کا انتخاب ہو جائے گا تو میں ان سب کمیٹیوں کے سامنے بعض باتیں بیان کروں گا جن پر میرے نزدیک سب کمیٹیوں کے غور کے وقت میں بھی اور آئندہ شوری کے اجلاس میں بھی ان پر غور کرنا ضروری ہے.یہ طریق ایک مجبوری کی وجہ سے مجھے اختیار کرنا پڑا ہے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اپنے طریق عمل کے متعلق بعض تبدیلیوں کی ضرورت ہے.پس پہلے میں کمیٹیوں کے انتخاب کے لئے احباب سے مشورہ چاہتا ہوں.یہاں کئی صیغوں کی طرف سے تجاویز پیش ہیں.سب سے اہم چیز تو میزانیہ ہے صدر انجمن احمدیہ کا اور تحریک جدید کا،

Page 481

خطابات شوری جلد سوم ۴۶۵ مشاورت ۱۹۵۲ء پھر صیغہ پرائیویٹ سیکرٹری کی طرف سے کچھ تجاویز ہیں، کچھ نظارت دعوۃ و تبلیغ کی طرف سے تجاویز ہیں.کچھ نظارت بہشتی مقبرہ کی طرف سے تجاویز ہیں اور کچھ نظارت امور عامہ کی طرف سے تجاویز ہیں.نظارت بہشتی مقبرہ کا معاملہ زیادہ تر امور عامہ کے ساتھ متعلق ہے اس لئے ان دونوں کمیٹیوں کو میں ایک کر دیتا ہوں.گویا نظارت بہشتی مقبرہ اور امور عامہ کی ایک کمیٹی ہوگی اور نظارت دعوت و تبلیغ کی دوسری کمیٹی ہوگی.صیغہ پرائیویٹ سیکرٹری کی طرف سے جو معاملات پیش ہیں ان میں سے وقف کے قواعد میں دعوۃ و تبلیغ والی کمیٹی کے سپر د کرتا ہوں.اور باقی ۴،۳،۱ اور ۵ یہ بجٹ کمیٹی کے سپر د کرتا ہوں.گویا تین کمیٹیاں ہوں گی ایک کمیٹی بجٹ کی جو علاوہ تحریک جدید اور صدر انجمن احمد یہ کے بجٹ کے صیغہ پرائیویٹ سیکرٹری کی تجویز ۱ ،۴،۳ ، ۵ پر بھی غور کرے گی.ایک کمیٹی امور عامہ کی ہوگی جو نظارت بہشتی مقبرہ کی تجاویز پر بھی غور کرے گی.ایک کمیٹی نظارت دعوۃ و تبلیغ کی ہوگی جو صیغہ پرائیویٹ سیکرٹری کی تجویز نمبر۲ پر بھی غور کرے گی.تجویز بابت کمپنی چار لاکھ جو ضمیمہ ایجنڈا کی صورت میں پیش کی گئی ہے یہ چونکہ بیت المال کا حصہ ہے اس لئے اسے بھی بجٹ کمیٹی کے سپرد کیا جاتا ہے.سہولت کے لئے میں ان تینوں کمیٹیوں کے لئے مندرجہ ذیل تعداد ممبران کی مقرر کرتا ہوں.بجٹ کمیٹی امور عامه دعوة وتبليغ ۳۶ ۱۵ ۱۵ بجٹ کمیٹی میں ناظر صاحب بیت المال، وکیل المال تحریک جدید اور محاسب اور نائب وکیل المال یہ چار آدمی تو دفتروں کی طرف سے ہوں گے باقی ۳۲ نمائندے جماعت کی طرف سے پیش ہوں گے.امور عامہ میں ناظر صاحب امور عامہ اور ناظم صاحب وصیت کارکنوں کی طرف سے اور باقی ۱۳ دوست جماعت کے نمائندے ہوں گے.دعوۃ وتبلیغ کی کمیٹی میں ناظر صاحب دعوۃ اور وکیل الاعلیٰ سلسلہ کی طرف سے اور باقی ۱۳ دوست جماعت کی طرف سے نمائندے ہوں گے.

Page 482

خطابات شوری جلد سوم ۴۶۶ مشاورت ۱۹۵۲ء اب پہلے دوست بجٹ کمیٹی کے لئے نام تجویز کر دیں.جیسا کہ میں پہلے بھی کئی دفعہ ہدایت دے چکا ہوں ایسے آدمیوں کا نام نہ لیا جائے جو یہاں نہیں ہیں.بعض دوست یونہی نام لے دیتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ وہ یہاں ہیں بھی یا نہیں.دوسرے ایسے آدمی کا نام پیش کرنا چاہئے جو اس کا اہل ہو.یہ ضروری ہے کہ جس فن کے متعلق کسی کا نام پیش کریں وہ اسے سمجھتا ہو.مثلاً بجٹ پر غور کرنا، اس میں تخفیف کرنا یا زیادتی کرنا یا بعض کام جو پہلے بجٹ میں شامل نہیں تھے اُن کو اب شامل کرنا یہ ایسے امور ہیں کہ ان کے لئے ضروری ہے کہ اسی دوست کا نام تجویز کیا جائے جو وسعت معلومات بھی رکھتا ہو اور اپنے علاقہ کے حالات اور چندہ کی وصولی وغیرہ کا اُسے تجربہ ہو یا چندوں کے حصول میں جو دقتیں پیش آتی ہیں ان کو وہ جانتا ہو یا وہ ذرائع جو جماعت کی ترقی کے لئے اختیار کرنے ضروری ہیں ان سے آگاہ ہو.پھر یہ بھی مد نظر رہے کہ مختلف صوبہ جات کے نمائندے آجائیں.یہاں جو جماعتیں نمائندگی کے لحاظ سے موجود ہیں ان میں بنگال ہے، سندھ ہے، کراچی ہے، بلوچستان ہے، بہاولپور ہے، پنجاب ہے، کشمیر ہے صوبہ سرحد ہے، اسی طرح غیر ملکی جماعتوں کے نمائندے بھی یہاں موجود ہیں.مثلاً امریکہ کا نمائندہ ہے، شام کا نمائندہ ہے، انڈونیشیاء کا نمائندہ ہے، مصریا سوڈان کا نمائندہ ہے، اسی طرح بعض اور جماعتوں کے بھی نمائندے ہیں.فرق صرف یہ ہے کہ بیرونی جماعتوں کے بجٹ وہیں پاس ہوتے ہیں ہمارے زیر بحث نہیں آتے.وہ چند اصول ہمارے ساتھ طے کر لیتے ہیں اور ان کے مطابق مقامی طور پر بجٹ بنا لیتے ہیں.پس ان کی دلچپسی ہمارے اس بجٹ سے زیادہ نہیں ہوتی.جن کا چندہ بجٹ کا ایک حصہ سمجھا جاتا ہے وہ صرف پاکستان کے صوبے ہیں.ہندوستان کی جماعتیں بھی چونکہ اب ہم سے الگ ہیں اس لئے ان کو بھی ہمارے بجٹ سے زیادہ دلچسپی نہیں.پس ایسے نمائندے جو پاکستان کے مختلف صوبوں سے تعلق رکھتے ہیں کمیٹیوں میں ضرور آ جانے چاہئیں.بنگال کو بھی نمائندگی ملنی چاہئے ، کراچی کو بھی نمائندگی ملنی چاہئے ، سندھ کو بھی نمائندگی ملنی چاہئے.بلوچستان کو بھی نمائندگی ملنی چاہئے ، بہاولپور کو بھی نمائندگی ملنی چاہئے.اسی طرح پنجاب، کشمیر اور صوبہ سرحد کو بھی نمائندگی ملنی چاہئے.یہ گویا آٹھ صوبے بن جاتے ہیں.اس طرح آٹھوں صوبوں کی نمائندگی ہو جائے گی.پنجاب کی جماعتیں چونکہ زیادہ ہیں اس لئے لازماً ان کی نمائندگی بھی

Page 483

خطابات شوری جلد سوم ۴۶۷ مشاورت ۱۹۵۲ء 66 زیادہ ہو گی مگر آدمی ایسے آنے چاہئیں جو ہمیں زیادہ سے زیادہ مدد دے سکیں.“ افتتاحی تقریر اس کے بعد حضور کی ہدایات کے مطابق سب کمیٹیوں کا تقرر عمل میں آیا.ہوئے فرمایا: - پھر حضور نے سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد نمائندگان سے خطاب کرتے کمیٹیاں ان امور پر غور کرنے کے لئے جو کہ تحریک جدید اور صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے پیش ہوئے ہیں مقرر ہو گئی ہیں اور اس اجلاس کے بعد جیسا کہ ان کے صدر اور سیکرٹری اعلان کریں گے کسی جگہ پر جمع ہو کر وہ ان تجاویز پر غور کریں گی جو ان کے سامنے پیش کئے گئے ہیں.میں سابق دستور کے خلاف اس دفعہ چاہتا ہوں کہ کمیٹیوں کے اجلاس سے بعض باتیں بیان کر دوں جو کمیٹیوں کی ہدایات کے لئے ہوں گی بعض باتیں تو وقتی ہیں لیکن اکثر باتیں وہ ہیں جن کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ وقت آ گیا ہے کہ ہم ان پر غور کریں اور ان کے مطابق سکیم بنائیں اور ایسی باتوں کے متعلق کمیٹیوں کے بیٹھنے سے پہلے ہی توجہ دلانا ضروری ہوتا ہے تا کہ کمیٹیاں ان پر غور کر کے آئندہ کے متعلق سکیم بنالیں.بجٹ کی بعض مدات کے متعلق ہدایات سب سے پہلے تو میں اس حصہ کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں جو بجٹ میں خلافت بجٹ کے طور پر پچھلے سال رکھا گیا تھا.غور کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ دو چیزیں ایسی ہیں کہ بجائے خلافت کے بجٹ کے نیچے ان کا نام رکھنے کے انہیں پرائیویٹ سیکرٹری کے بجٹ کے نیچے رکھنا چاہئے.وہ کام بھی پرائیویٹ سیکرٹری کا ہی ہے اور گو وہ خلیفہ وقت کی ہدایات کے ماتحت ہی کام کرے گا لیکن عنوان کے لحاظ سے اس چیز کو اُس کے بجٹ کے نیچے چلا جانا چاہئے تا کہ نگرانی بھی رہے اور حساب کتاب بھی رکھا جا سکے.ان میں سے پہلی چیز میرے نزدیک موٹر ہے.موٹر کو میرے نزدیک خلافت کے بجٹ میں سے نکال کر سیکرٹری کے بجٹ میں رکھ دینا چاہئے کیونکہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کا حساب ہونا چاہئے اور ہوتا ہے پس کوئی وجہ نہیں کہ پرائیویٹ سیکرٹری کے دفتر کے نیچے اس کو نہ رکھا جائے.اسی طرح چار مدات میں سے ایک مدایسی ہے جس کے متعلق میں چاہتا ہوں کہ اسے اڑا دوں.کسی انہی مصلحت کے ماتحت وہ گزشتہ سال رکھی گئی تھی مگر میں سمجھتا ہوں اب وہ

Page 484

خطابات شوری جلد سوم ۴۶۸ مشاورت ۱۹۵۲ء مصلحت پوری ہو چکی ہے اور مناسب یہی ہے کہ اس مد کو اُڑا دیا جائے اور وہ مہمان نوازی کی مد ہے.مہمان نوازی کی مد ہے تو ضروری لیکن میں سمجھتا ہوں اگر کسی شخص کو توفیق حاصل ہو تو اُس کے لئے کسی قسم کا روپیہ وصول کرنا طبیعت پر گراں گزرتا ہے.چنانچہ میں نے اس سال سے محسوس کیا ہے کہ ہر دعوت پر مجھے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے میں بھیک مانگ رہا ہوں.اب اس پر ایک دفعہ عمل ہو گیا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ خلفاء کے لئے اب یہ طریق عمل معیوب نہیں ہو سکتا.اگر کوئی خلیفہ ایسا ہو کہ اُس کی ذاتی آمدنی اتنی قلیل ہو کہ اس کام کو چلانا اس کے لئے دوبھر ہو تو ایک سال تک اس مد کے جاری رہنے سے سنت پڑگئی ہے اور اگر آئندہ خلفاء کے لئے اس بارہ میں کوئی عار ہو سکتی تھی تو وہ ٹوٹ گئی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ کم سے کم میرے لئے اس کا لینا بہت گراں گزرتا ہے اس لئے میری تجویز یہ ہے کہ اس مد کو نکال دیا جائے.صرف سلسلہ کے ایسے لوگوں کی امداد کے لئے جو پرانے خادم ہیں کچھ رقم ضرور ہونی چاہئے کیونکہ کئی ایسے مواقع پیش آ جاتے ہیں جب ضرورت ہوتی ہے کہ اُن کی دلجوئی کے لئے اور ان کا حوصلہ بڑھانے کے لئے کچھ مدد کی جائے.میں سمجھتا ہوں کہ اس غرض کے لئے صرف تین ہزار کی رقم اس سال کے لئے رہنے دی جائے.باقی موٹر کے متعلق فنانس کمیٹی کے اصرار پر پچھلے سال جو فیصلہ کیا گیا تھا بعد میں غور کرنے پر میں نے سمجھا کہ وہ غلط طریق ہے در حقیقت ہونا یہ چاہئے کہ موٹر جب خریدا جائے تو اس کے لئے بجٹ میں گنجائش رکھی جائے اور جب پرانا موٹر بیچا جائے تو اس کی قیمت آمد میں شمار کی جائے.یہ جو فیصلہ کیا گیا تھا کہ موٹر کی خرید کے لئے قرضہ لے لیا جائے اور ہر سال تین ہزار روپیہ اس قرض میں واپس کیا جائے بعد میں میں نے سمجھا کہ یہ طریق درست نہیں.گزشتہ سال کے بجٹ میں سے صرف تین ہزار روپیہ موٹر کی خرید کے لئے لیا گیا تھا اور باقی روپیہ قرض لے لیا گیا تھا.موٹر کے متعلق جیسا کہ چوہدری عبداللہ خان صاحب نے کہا تھا یہ ضروری تھا کہ ایسا موٹر خریدا جاتا جو زیادہ محفوظ ہوتا.ان کا انداز ہ۲۲ ہزار روپیہ کا تھا مگر ہم نے سترہ ہزار میں موٹر خریدا.تین ہزار موٹر کی مد میں سے نکال کر دیا گیا.چھ ہزار بجٹ میں خرید موٹر کی قسط کے طور پر موجود تھا اور آٹھ ہزار امانت سے قرض لے کر ادا کر دیا گیا.میری تجویز یہ ہے کہ موٹر کی خرید کے لئے جور قم قرض لے کر خرچ کی گئی ہے اس کو موجودہ بجٹ سے

Page 485

خطابات شوری جلد سوم ۴۶۹ مشاورت ۱۹۵۲ء ادا کر دیا جائے.آئندہ جب تک یہ موٹر رہے رہے جب نیا موٹر خریدنے کی ضرورت محسوس ہو تو اسے بیچ کر جو روپیہ حاصل ہو وہ آمد میں ڈال دیا جائے اور جتنے روپیہ کی مزید ضرورت محسوس ہو اتنا روپیہ نئے موٹر کے لئے بجٹ میں رکھا جائے.باقی موٹر کے جو ماہوار اخراجات ہیں مثلاً ڈرائیور کی تنخواہ ہے، مرمت ہے، پٹرول ہے، ٹیکس ہے، ان چیزوں کا بجٹ مناسب طور پر سب کمیٹی تجویز کر سکتی ہے مگر بہر حال یہ بجٹ پرائیویٹ سیکرٹری کے ماتحت رکھا جائے اور خلافت بجٹ میں اعانت کی ایک مدرکھ دی جائے اور تین ہزار روپیہ سالانہ اس کے لئے رقم رکھی جائے ضیافت والی مد اُڑا دی جائے اور کار کے اخراجات مثلاً تنخواہ ڈرائیور، پٹرول، مرمت، لائسنس اور بیمہ وغیرہ کے متعلق اندازہ کر کے ایک رقم معین کر دی جائے.خلافت لائبریری چوتھی چیز جس پر میں زیادہ زور اور وضاحت سے کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ خلافت لائبریری ہے تین ہزار روپیہ اسی مد میں لائبریری کے لئے میں نے رکھوایا تھا.در حقیقت لائبریری خلافت کا کوئی ذاتی خرچ نہیں بلکہ انجمن کا خرچ ہے اس لئے میں کوئی وجہ نہیں سمجھتا کہ اس کو خلافت کے خرچ کے ماتحت رکھا جائے کیونکہ اس کا بھی حساب ہوتا ہے.اور امداد مستحقین والے حصہ کو میں نے خلافت کے ماتحت اس لئے رکھا ہے کہ اس میں ایک قسم کا اخفاء ضروری ہے کیونکہ اس میں زیادہ تر یہی مدنظر ہے کہ وابستگان خلافت اور وابستگان جماعت کی امداد کی جائے اور ان کی دلجوئی کے لئے انہیں کچھ رقمیں دی جائیں اور اس قسم کی امداد کا ظاہر ہونا طبعا لوگ پسند نہیں کرتے اور گو اس صورت میں بھی بہت چھوٹی چھوٹی رقمیں ان کے حصہ میں آئیں گی مگر چونکہ عام طور پر طبائع پر اس قسم کی امداد کا اظہار گراں گزرتا ہے اس لئے خلافت کی مد ہی ایسی ہے کہ اس کے ماتحت بغیر دفتر میں سے گزرنے کے دوسرے کی امداد کے لئے رقم دی جاسکتی ہے اور اس شخص کی طبیعت پر بھی گراں نہیں گزرتا.لیکن لائبریری کوئی پوشیدہ رہنے والی چیز نہیں وہ پرائیویٹ سیکرٹری کے ماتحت ہونی چاہئے اور گو اس کا نام خلافت لائبریری ہی ہوگا مگر باقی دفاتر کو بھی اس سے فائدہ اُٹھانے کا حق ہوگا.لائبریری کی اہمیت لائبریری کے متعلق میرے نزدیک سلسلہ نے بہت بڑی غفلت برتی ہے لائبریری ایک ایسی چیز ہے کہ کوئی تبلیغی جماعت اس کے بغیر

Page 486

خطابات شوری جلد سوم مشاورت ۱۹۵۲ء کام نہیں کر سکتی.جہاں تک میں سمجھتا ہوں جب سے میری خلافت شروع ہوئی ہے کسی بڑے دفتر کے چپڑاسیوں پر جو رقم خرچ ہو چکی ہے اتنی رقم لائبریری کے لئے انجمن نے نہیں کی.ایک دو چپڑاسیوں کی رقم ہی جمع کر لو تو تمہیں فوراً پتہ لگ جائے گا کہ اس بارہ میں کتنی بڑی غفلت اور کوتاہی سے کام لیا گیا ہے.حالانکہ یہ اتنی اہم چیز ہے کہ ہمارے سارے کام اس سے وابستہ ہیں.تبلیغ اسلام مخالفوں کے اعتراضات کے جواب، تربیت یہ سب کام لائبریری ہی سے تعلق رکھتے ہیں.اس وقت تک جتنا کام ہو رہا ہے یا تو حضرت خلیفہ اول کی لائبریری سے ہو رہا ہے اور یا پھر میری لائبریری سے ہو رہا ہے.میں نے اپنے طور پر بہت سی کتابیں جمع کی ہوئی ہیں جن پر میرا پچاس ساٹھ بلکہ ستر ہزار روپیہ خرچ ہو چکا ہے.پس یا میری کتابیں کام آتی ہیں اور یا پھر حضرت خلیفہ اول کو کتابوں کا شوق تھا اور آپ نے بھی ہزاروں کتابیں اکٹھی کی ہوئی تھیں وہ کام آتی ہیں لیکن وہ جماعت جو ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کے کام کے لئے کھڑی ہوئی ہے، اس کے علوم کی بنیاد کسی دوسرے شخص کی لائبریری پر ہونا عقل کے بالکل خلاف ہے.ہمارے پاس تو اتنی مکمل لائبریری ہونی چاہئے کہ جس قسم کی مکمل لائبریری کسی دوسری جگہ نہ ہو مگر ہمارا خانہ اس بارہ میں بالکل خالی ہے.پچھلے سال لائبریری کی مد میں میں نے کچھ رقم رکھوائی تھی مگر وہ زیادہ تر الماریوں وغیرہ پر ہی صرف ہو گئی شاید بارہ چودہ سور و پیہ الماریوں پر صرف ہو گیا تھا باقی جو روپیہ بچا اس میں سے ایک کتاب ہی آٹھ سو اسی روپیہ کی آئی ہے اور جو باقی کتابیں منگوائی گئی ہیں ان کی قیمت سر دست امانت سے قرض لے کر دی گئی ہے.غرض میں نے ایک خاصی رقم کتابوں کے جمع کرنے پر خرچ کی ہے.تقسیم کے وقت قادیان میں میری لائبریری کی بہت سے کتا ہیں رہ گئیں.حضرت خلیفہ اول کی لائبریری کا بھی ایک اچھا خاصہ حصہ وہیں رہ گیا اور گورنمنٹ نے اس لائبریری کو تالا لگا دیا.میرے بیٹے چونکہ وہاں موجود تھے اس لئے میں شروع ہجرت میں ان کو لکھتا رہا کہ میری کتابیں بھجوانے کی کوشش کرو.چنانچہ انہوں نے میری بہت سی کتب بھیجوا دیں لیکن انجمن کے نمائندوں نے ہوشیاری سے کام نہ لیا اور حضرت خلیفہ اول کی کتابوں کا اکثر حصہ وہیں رہ گیا اور اس کی بڑی وجہ یہ مصیبت ہے کہ ہماری جماعت کے دوست اس بات کے عادی ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے الہام کے ایک معنے پہلے

Page 487

خطابات شوری جلد سوم مشاورت ۱۹۵۲ء اپنے پاس سے کریں گے اور پھر خدا تعالیٰ کو ان معنوں کے تابع کرنا چاہیں گے اور کہیں گے کہ ایسا ہی ہونا چاہئے کیونکہ ہم نے الہام کا یہ مطلب سمجھ رکھا ہے.چنانچہ ایسے ہی لوگ شروع میں انہیں خیالات میں مبتلا رہے کہ دو مہینہ کے بعد ہم نے قادیان واپس چلے جانا ہے، ہمیں کتابیں منگوانے کی کیا ضرورت ہے.نتیجہ یہ ہوا کہ اکتوبر یا نومبر میں گورنمنٹ نے لائبریری کو تالے لگا دیئے مگر میں نے اپنے بیٹوں کو چونکہ تاکید کر دی تھی کہ جلدی وہاں سے کتا بیں نکال کر بھجوا دو کیونکہ یہی تو ہماری اصل جائیداد ہے اس لئے خدا تعالیٰ کے فضل سے میری کتابوں میں سے دو تہائی یا شاید اس سے بھی زیادہ کتابیں آ گئی ہیں.حضرت خلیفہ اول کی لائبریری کے متعلق میں کہہ نہیں سکتا کہ اس کی کتنی کتا بیں آئی ہیں لیکن حضرت خلیفہ اول کی جتنی بڑی لائبریری تھی اُس کو مدنظر رکھتے ہوئے میرا اندازہ یہی ہے کہ آپ کی کتابوں کا اکثر حصہ وہیں رہ گیا ہے.لائبریری کی کتب میں اضافہ کی تلقین پھر دنیا میں نئی سے نئی کتا بیں نکل رہی ہیں اور ان کتابوں کا منگوانا بھی ضروری ہے.صرف مذہب سے تعلق رکھنے والی ہی نہیں بلکہ تاریخی اور ادبی کتابیں منگوانا بھی لائبریری کی تکمیل کے لئے ضروری ہوتا ہے.میرا اندازہ یہ ہے کہ اچھی لائبریری وہ ہوسکتی ہے جس میں کم سے کم ایک لاکھ جلد منتخب کردہ کتب کی موجود ہو اور اگر ایک جلد کی اوسط قیمت ۲۵ روپے لگا لی جائے تو میرے نزدیک صرف ایک لائبریری کے لئے پچیس لاکھ روپیہ ہونا چاہئے لیکن ظاہر ہے کہ چھپیس لاکھ روپیہ خرچ کرنے کی ہم میں ہمت نہیں ایسی صورت میں یہی طریق رہ جاتا ہے کہ ہم اپنی استطاعت کے مطابق اس بوجھ کو اُٹھائیں اور اس کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیشہ اس کام کو اپنے سامنے رکھیں اور اپنی لائبریری کو زیادہ سے زیادہ مکمل کرتے چلے جائیں.لائبریری کا بجٹ بھی پرائیویٹ سیکرٹری کے بجٹ میں ہوگا گو اس کے خرچ کا تعلق لائبریرین سے ہو گا.عام طور پر ہمارا طریق یہ ہے کہ جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہم میں کسی کام کی ہمت نہیں تو ہم اُس کام کو کرتے ہی نہیں حالانکہ کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہئے.پس میں تجویز کروں گا کہ فنانس کمیٹی ان تمام حالات کو دیکھ لے اور بجٹ میں اِس کی گنجائش رکھے.اور جماعت کو بھی اس بات کی اجازت ہوگی کہ اگر وہ دیکھے کہ میری کوئی

Page 488

خطابات شوری جلد سوم ۴۷۲ مشاورت ۱۹۵۲ء تجویز ضروری تھی مگر فنانس کمیٹی نے اس کی طرف توجہ نہیں دی تو وہ ترمیم کے طور پر اس کو یہاں مجلس میں پیش کر دے.میری تجویز یہ ہے کہ سر دست ہم کو دس ہزار روپیہ سالانہ کے خرچ سے لائبریری کے کام کو شروع کر دینا چاہئے لیکن دس ہزار روپیہ سالانہ خرچ کرنے کے بھی یہ معنے ہیں کہ ہم اڑھائی سو سال میں پچیس لاکھ روپے کی کتابیں اکٹھی کر سکیں گے.پس میرا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں ہمیشہ دس ہزار روپیہ پر ہی کھڑے رہنا چاہئے.جوں جوں ہماری تبلیغ بڑھے گی اور چندہ میں زیادتی ہوگی یہ رقم بھی بڑھتی چلی جائے گی.چنانچہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ہم اس خرچ کو کسی وقت لاکھ دو لاکھ بلکہ دس پندرہ لاکھ سالانہ بھی کر سکتے ہیں.یہ دس ہزار روپیہ صرف کتابوں کے لئے ہو گا.عملہ جو تھوڑا بہت پہلے بجٹ میں رکھا جا چکا ہے وہ الگ ہوگا.شاید اس میں بھی کچھ زیادتی کرنی پڑے گی.لائبریرین کے فرائض کیونکہ مجھے بتایا گیا ہے کہ لائبریرین کے طور پر ایک ہی نیا آدمی رکھا گیا ہے حالانکہ وہاں کم از کم دو آدمی اور ہونے چاہئیں.لائبریرین کا کام ایسا ہے کہ اس کے لئے آجکل پاس شدہ آدمی رکھے جاتے ہیں.پہلے انسان گریجوایٹ ہو اور پھر لائبریرین کا امتحان پاس کرے تب وہ لائبریرین لگایا جاتا ہے ورنہ نہیں.لائبریرین کے معنے محض چپڑاسی یا کتابوں کی دیکھ بھال کرنے والے کے نہیں ہوتے بلکہ لائبریرین کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ مختلف مضامین کی کتابوں سے واقف ہو.اور جب اُس سے پوچھا جائے کہ فلاں فلاں مضمون پر کون کون سی کتابیں دیکھنی چاہئیں تو وہ فوراً اُن کتابوں کے نام بتا سکے اور پوچھنے والے کی راہ نمائی کر سکے کہ اسے کس کتاب سے کس قسم کی مددمل سکتی ہے.اگر یہ صحیح ہے کہ انجمن نے تیسرے آدمی کو نہیں رکھا تو یہ قابل تعجب بات ہے.تین آدمی بھی درحقیقت لائبریری میں کم ہیں.میری چھ ہزار کتاب قادیان سے آچکی ہے اور حضرت خلیفہ اول کی ساڑھے چار ہزار کتاب آئی ہے اور حضرت خلیفہ اول کا اندازہ یہ تھا کہ آپ کے پاس ۲۰.۳۰ ہزار کتاب موجود ہے.بہر حال چھ ہزار میری کتابیں اور ساڑھے چار ہزار وہ گویا گیارہ ہزار کتابیں ہو گئیں.گیارہ ہزار کتابوں کے لئے دو آدمی کسی طرح کافی نہیں.خصوصاً جب ان کو چپڑاسی بھی نہیں دیا گیا.اب بھی اگر تین آدمی ہوں گے اور چپیڑ اسی ملے گا تو ان کی تمام تر توجہ کتابوں کی عام نگرانی اور جلد بندی تک ہی

Page 489

خطابات شوری جلد سوم مشاورت ۱۹۵۲ء محدودر ہے گی.لائبریری کی اصل غرض بہت وسیع ہے.ہماری جماعت کو چونکہ علمی چیزوں سے شغف کم ہے اس لئے وہ سمجھتے نہیں کہ لائبریرین کا کام کیا ہوا کرتا ہے.میں دوستوں کو بتاتا ہوں کہ ایک کارآمد لائبریرین کے کیا فرائض ہونے چاہئیں.اوّل.لائبریری میں ہرفن کے جاننے والے آدمی ہونے چاہئیں.ان کا کام یہ ہو کہ وہ کتابیں پڑھتے رہیں اور ان کے خلاصے نکالتے رہیں اور ان خلاصوں کو ایک جگہ نتھی کرتے چلے جائیں.اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جب لوگوں کو ان کتابوں کے حوالوں کی ضرورت ہوگی ، وہ خلاصہ سے فوراً ضروری باتیں اخذ کر لیں گے.مثلاً ہماری جماعت کا یہ ایک معروف مسئلہ ہے کہ حضرت مسیح کشمیر گئے تھے.اب مسیح کے کشمیر جانے کا کچھ حصہ انجیلوں سے تعلق رکھتا ہے، کچھ انجیلوں کی تفسیروں میں بحث آئے گی کہ یہ جو لکھا ہے کہ میں بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کی طرف نہیں بھیجا گیا اس میں کھوئی ہوئی بھیڑوں سے بنی اسرائیل کے کون کون سے قبائل مراد ہیں اور مسیح ان کی تلاش کے لئے کہاں کہاں گئے.یا جو لکھا ہے کہ مسیح گہر میں غائب ہو گیا اس کے کیا معنے ہیں.یہ فقرہ بتاتا ہے کہ اس میں مسیح کے سفر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.غرض جو لوگ تفسیر کریں گے اُن کا ذہن اس طرف ضرور جائے گا کہ ان فقروں کا حل کیا ہے اور وہ اس پر بحث کریں گے.جس طرح ہمارے ہاں تفسیریں ہیں اسی طرح عیسائیوں میں بھی سینکڑوں تفسیریں ہیں.اب جو لائبریرین مقرر ہوں گے، ان میں سے وہ جو عیسائی لٹریچر پر مقرر کیا جائے گا اُس کا کام یہ ہوگا کہ وہ زائد وقت میں تمام تفاسیر پر نظر ڈالتا چلا جائے اور ان کے انڈیکس تیار کرتا چلا جائے جس وقت ہم کو کسی تحقیق کی ضرورت ہو گی ہم انچارج کو بلا کر کہیں گے کہ کتابوں پر نشان لگا کر لاؤ کہ مفسرین نے اس بارہ میں کہاں کہاں بحث کی ہے.پھر یہی مضمون تاریخوں میں بھی آتا ہے.چنانچہ اس کے بعد تاریخوں کے ماہر کو بلایا جائے گا اور اُسے کہا جائے گا کہ اس اس مضمون کے متعلق تاریخی کتابوں پر نشان لگا کر لاؤ اِس طرح کتاب لکھنے والا آسانی اور سہولت کے ساتھ کتاب لکھ لے گا.کتاب والے کا فن یہ ہوگا کہ وہ اپنی کتاب کے لئے چند اصول تجویز کرے اور پھر اپنے مضمون کو ترتیب دے اور اُسے ایسی عبارت میں لکھے جو مؤثر اور دلنشین ہو.گویا

Page 490

خطابات شوری جلد سوم ۴۷۴ مشاورت ۱۹۵۲ء لڑنے والا حصہ اور ہو گا اور گولہ بارود تیار کرنے والا حصہ اور ہوگا.کیا تم نے بھی کوئی سپاہی ایسا دیکھا ہے جسے لڑائی پر جانے کا حکم ملے تو وہ کارتوس بنانا شروع کر دے یا بندوق بنانا شروع کر دے.کیا کبھی تم نے دیکھا کہ کسی کو مدرس مقرر کیا گیا ہو تو ساتھ ہی اسے یہ کہا گیا ہو کہ اب جغرافیہ پر ایسی کتاب لکھ دو جو پڑھانے کے کام آ سکے.ہمیشہ اصل کام والا حصہ الگ ہوتا ہے اور تعاونی حصہ الگ ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں چونکہ اس کا خیال نہیں رکھا جاتا، اس لئے ہمارا علم ترقی نہیں کرتا.مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتابوں میں جہاں بھی سخت الفاظ استعمال کئے ہیں.دشمنوں کی سخت کلامی کے جواب میں استعمال کئے ہیں مگر کبھی ایسے لائبریرین نہیں رکھے گئے جو اس قسم کی قابلیت اپنے اندر رکھتے کہ مخالفوں کے تمام سخت الفاظ کو یکجا کر دیتے تا کہ اعتراض کرنے والوں کو ان کی اپنی کتابوں کے حوالوں سے جواب دیا جا سکتا.لائبریرین کا بس اتنا ہی کام ہوتا ہے کہ وہ لکھ دیتا ہے کہ فلاں فلاں کتاب کی جلد ٹوٹ گئی ہے اس کے لئے پندرہ روپے منظور کئے جائیں.فلاں گرسی ٹوٹ گئی ہے اس کے لئے پانچ روپے منظور کئے جائیں.گویا پانچ کرسیوں ، ایک میز اور چند الماریوں کی وہ حفاظت کرتا ہے اور کتابوں کو بھی ایسی حالت میں رکھتا ہے کہ نہ انہیں دھوپ لگائی جاتی ہے اور نہ ان کی صفائی کا کوئی انتظام ہوتا ہے.در حقیقت لائبریرین کے عہدہ پر ایسے آدمی ہونے چاہئیں جو صرف و نحو کا علم رکھتے ہوں ، تاریخ جانتے ہوں ، حدیث ، فقہ، اصول فقہ، تفسیر قرآن اور اصول تفسیر سے تعلق رکھنے والے تمام علوم سے آگاہ ہو اور جب مصنفین کو حوالجات وغیرہ کی ضرورت ہو تو وہ کتابیں نکال نکال کر ان کے سامنے رکھتے چلے جائیں.جیسے لڑنے کے لئے سپاہی جاتا ہے تو اسے وردی تم سلا کر دیتے ہو، اسے گولہ بارود خود تیار کر کے دیتے ہو.اس کے بعد ہمیں ضرورت ہو گی کہ جرمن جاننے والے آدمی ہمارے پاس موجود ہوں، فرانسیسی جاننے والے ہمارے پاس موجود ہوں، انگریزی جاننے والے ہمارے پاس موجود ہوں، اسی طرح عربی علوم کے جاننے والے لوگ موجود ہوں.کوئی تفسیر کا ماہر ہو، کوئی حدیث کا ماہر ہو ، کوئی لغت کا ماہر ہو، اور ان کا کام یہی ہو کہ وہ رات دن ان کتابوں کا مطالعہ کرتے رہیں اور ان کے خلاصے تیار کرتے رہیں.پھر کچھ لوگ ایسے ہوں جو سلسلہ کے خلاف دشمنوں کا شائع کردہ

Page 491

خطابات شوری جلد سوم ۴۷۵ مشاورت ۱۹۵۲ء لٹریچر ہی پڑھتے رہیں.کچھ لوگ ایسے ہوں جو وفات مسیح وغیرہ کے متعلق نئے دلائل کی جستجو میں مشغول رہنے والے ہوں.اب تو اس مسئلہ پر کچھ لکھتے ہوئے بھی گھبراہٹ ہوتی ہے کہ یہ مضمون پامال ہو چکا ہے لیکن بعض دفعہ کوئی نیا نکتہ بھی ذہن میں آ جاتا ہے.بعض دفعہ کوئی نیا اعتراض آ جاتا ہے.جس کے متعلق انسان سمجھ لیتا ہے کہ اس کا حل ہونا ضروری ہے.یہ لائبریرین کا کام ہے کہ وہ بتائے کہ فلاں فلاں مسائل پر ہمارے علماء نے روشنی نہیں ڈالی یا ان کو ان ان کتابوں سے مددمل سکتی ہے.گویا لائبریری ایک آرڈی ننس ڈپو یا سپلائی ڈپو ہے جو مبلغین اور علمائے سلسلہ کی مدد کے لئے ضروری ہے.یہ کام بہت بڑا ہے میں جب حساب لگا تا ہوں تو میرا اندازہ یہ ہوتا ہے کہ اگر ہمارے پاس ایک لاکھ کتاب ہو تو ہمارے پاس پچاس آدمی ماہر لائبریرین ہونا چاہئے.جن میں سے کچھ نئی کتابوں کے پڑھنے میں لگا رہے.کچھ پرانی کتابوں کے خلاصے تیار کرنے میں لگا رہے، کچھ ایسے ہوں جو طلباء کے لئے نئی نئی کتابوں کے ضروری مضامین الگ کرتے چلے جائیں تاکہ وہ تھوڑے سے وقت میں ان پر نظر ڈال کر اپنے علم کو بڑھا سکیں.حقیقت یہ ہے کہ طالب علموں کو جو سکولوں اور کالجوں میں کتابیں پڑھائی جاتی ہیں اُن سے دُنیا میں وہ کوئی مفید کام نہیں کر سکتے کیونکہ وہ صرف ابتدائی کتابیں ہوتی ہیں مگر پھر بھی کسی کالج اور سکول سے امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ ہر طالب علم کو لاکھ لاکھ دو دو لاکھ کتاب پڑھا دے.یہ لائبریرین کا کام ہوتا ہے کہ وہ ایسے خلاصے نکال کر رکھیں کہ جن پر طلباء کا نظر ڈالنا ضروری ہو اور جن سے تھوڑے وقت میں ہی وہ زیادہ فائدہ اُٹھا سکتے ہوں.ہمیں تو حضرت خلیفہ اول نے اس طرح علم کی چاٹ لگائی کہ ایک کتاب کے چار پانچ نسخے منگوا لینا اور فرمانا میاں! یہ کتاب بڑی اچھی ہے ضرور لو اور مطالعہ کرو.چنانچہ اسی ابتدائی زمانہ میں تھیں چالیس اچھی اچھی کتابیں میرے پاس جمع ہو گئی تھیں.ان میں سے بعض تو حضرت خلیفہ اول نے مجھے تحفہ کے طور پر دی تھیں اور بعض میں نے خود خریدی تھیں اس طرح میرا علم بڑھتا چلا جا تا تھا مگر اب یہ حالت ہے کہ مولوی شاید اپنے آپ کو بد قسمت سمجھے گا اگر وہ کوئی کتاب خرید لے حالانکہ کتاب ہی سب سے زیادہ اُس کے کام آنے والی چیز ہوتی ہے.مجھے خوب یاد ہے حضرت خلیفہ اوّل فرمایا کرتے تھے کہ دُنیا کی ہر چیز مولوی خرید لے گا

Page 492

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء مگر وہی چیز جس سے اس کی ترقی وابستہ ہے نہیں خریدے گا.یعنی کتاب خریدنے کے لئے وہ کبھی تیار نہیں ہوگا.اس کا یہی جی چاہے گا کہ کوئی مجھے تحفہ کے طور پر دے دے حالانکہ یہ وہ چیز ہے جو اس کے کپڑے سے زیادہ، اس کے کھانے سے زیادہ، اس کے پینے سے زیادہ، بلکہ اس کے بیوی بچوی کی ضروریات سے بھی زیادہ اہمیت رکھنے والی ہے.ہر شخص کی لائبریری ہونی چاہیئے میں پچیس سال کی عمرمیں خلیفہ ہوا تھا.میرے بچے اب ستائیس ستائیس سال کے ہیں لیکن ستائیس سال کی عمر میں ان کے پاس اتنی کتابیں نہیں جتنی کتا بیں ہیں سال کی عمر میں میرے پاس موجود تھیں اس چھوٹی سی عمر میں پندرہ ہیں کتابیں کئی کئی جلدوں کی میرے پاس موجود تھیں مگر اب میرے لڑکوں کو اس کا شوق نہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ پڑھانے والوں نے انہیں اس طرف کبھی توجہ نہیں دلائی.ایک لائبریری مرکزی ہوتی ہے مگر ایک لائبریری وہ ہے جو ہر شخص کے گھر میں ہونی چاہئے.میں سمجھتا ہوں کہ چھپیں تھیں کتا بیں ایسی ہیں جو ہر مولوی کے پاس ہونی چاہئیں.بلکہ اب موجودہ علوم کے لحاظ سے ایک سو کتابیں ایسی ہیں کہ چاہے انسان فاقہ کرے، ننگا رہے وہ کتابیں اس کے پاس ضرور ہونی چاہئیں لیکن اگر سو نہیں تو کم از کم پچاس ساٹھ کتابیں تو ضرور ہونی چاہئیں مگر یہ تحریک تبھی کامیاب ہو سکتی ہے جب مرکز کو کتابوں کی خواہش ہو.جب مرکز کا یہ حال ہو کہ اسے لائبریری کے لئے اتنا بھی خرچ کرنے کی توفیق نہ ملے جتنا وہ ایک چپڑاسی کے لئے خرچ کرتا رہا ہے تو اور لوگوں کے دلوں میں کہاں شوق پیدا ہو سکتا ہے.پس میرے نزدیک اس مد کو الگ مستقل طور پر رکھنے کی ضرورت ہے تا کہ لائبریری کو ہم صحیح معنوں میں قائم کر سکیں.اس کے یہ معنے نہیں کہ اور لائبریریاں نہیں رہیں گی سکول کی لائبریری بھی رہے گی، کالج کی لائبریری بھی رہے گی، جامعہ کی لائبریری بھی رہے گی، ریسرچ کی لائبریری بھی رہے گی مگر وہ مختصر لائبریریاں ہوں گی زیادہ اہم کتابیں مرکزی لائبریری میں جمع کی جائیں گی.مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہاماً یہ کہا گیا ہے کہ دو ہے کرشن روڈ ر گوپال تیری مہما گیتا میں بھی لکھی گئی ہے اور اسے ہم فخر کے طور پر بیان کیا کرتے ہیں لیکن ہم اس طرف کبھی توجہ نہیں کرتے کہ

Page 493

خطابات شوری جلد سوم مشاورت ۱۹۵۲ء اس زبان کو سیکھیں جس میں یہ پیشگوئیاں بیان کی گئی ہیں اور اُن کتابوں کو پڑھیں جنہیں آپ کی صداقت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے.اس غرض کے لئے سب سے اہم چیز وید ہیں ، پھر ویدوں کی تشریحات ہیں، اسی طرح پر ان ہیں اور پھر پُرانوں کی تشریحات ہیں، گیتا اور اُس کی تفسیر ہے، یہ تمام کتابیں ہندو فلسفہ پر مشتمل ہیں اور ہمارے پاس ان کا موجود ہونا ضروری ہے لیکن میرا خیال ہے کہ ہماری لائبریری میں ایسی کتابیں بہت ہی کم ہوں گی.ہمارے مبلغ جو ہندوؤں اور سکھوں میں کام کرتے ہیں، ان کو کتابوں کا شوق ہے.معلوم نہیں کہ شوق ان کے دلوں میں کس طرح پیدا ہوگا.چنانچہ مہاشہ فضل حسین صاحب کے پاس بڑا کافی لٹریچر موجود ہے.مہاشہ محمد عمر صاحب کے پاس بھی کئی کتابیں ہیں، گیانی عباداللہ صاحب اور گیانی واحد حسین صاحب کے پاس بھی کتابیں ہیں مگر مولویوں کو اس کا کوئی شوق نہیں.میرے خیال میں اگر ان چاروں کی کتابیں جمع کی جائیں تو اتنی کتابیں سو مولوی کے پاس بھی نہیں نکلیں گی بلکہ شاید ان سے آدھی بھی نہیں ملیں گی.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اگر روڈ ر گوپال کہا گیا تھا تو اس کے کوئی معنے تھے اور وہ معنی یہی تھے کہ ہندو قوم کو تبلیغ کی جائے مگر جن لوگوں کو نہ ہندو قوم کے خیالات کا پتہ ہے نہ ان کی زبان کا علم ہے انہوں نے تبلیغ کیا کرنی ہے.پس ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والی تمام کتابیں ہمارے پاس ہونی چاہیں اور وہ ہزاروں ہزار ہیں.میں سمجھتا ہوں کم سے کم دس بارہ ہزار کتاب ضرور ہو گی مگر یہ تو ایک لمبی خواب ہے سرِ دست ہم نے دس ہزار کے خرچ سے اس کام کو شروع کر دیا ہے.پھر کسی سال پندرہ ہزار اور کسی سال بیس ہزار روپیہ بھی اس غرض کے لئے رکھا جا سکتا ہے.اور پھر اور اور اور اسے بڑھایا جا سکتا ہے.اسی طرح عیسائی لٹریچر ہمارے پاس قطعی طور پر ہے ہی نہیں.ایک کتاب انسائیکلو پیڈیا برٹنیکا کے خریدنے پر ہی نو سو روپیہ خرچ ہو گیا.باقی کتابوں کی میں نے ولایت سے لسٹیں منگوائی ہیں اور میں ان کو دیکھ رہا ہوں.میں نے لنڈن میں چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ کو لکھا کہ اِس اِس قسم کی کتابوں کی فہرستیں مجھے بھجوائی جائیں.پہلے تو وہ گھبرائے مگر پھر اُنہوں نے ادھر اُدھر ہاتھ مارے.آخر جوئندہ یا بندہ اُنہوں نے نہایت اعلیٰ درجہ کی دوسٹیں تلاش کر کے مجھے بھجوائیں جن میں کئی ہزار کتابوں کی فہرست دی گئی ہے.میں ان فہرستوں پر نشان لگا رہا ہوں لیکن اگر ہم وہی کتا ہیں منگوانا چاہیں

Page 494

خطابات شوری جلد سوم ۴۷۸ مشاورت ۱۹۵۲ء بھی جن پر میں نے نشان لگایا ہے تو انہی پر ستر اسی ہزار روپیہ خرچ ہو جاتا ہے.اس کا طریق یہی ہے کہ کچھ اس سال کتابیں منگوائی جائیں اور کچھ اگلے سال.پھر اسلامی لٹریچر پر کئی قسم کی کتابیں نکل رہی ہیں.کچھ مصر والے شائع کر رہے ہیں، کچھ شام والے شائع کر رہے ہیں، کچھ یورپ والے شائع کر رہے ہیں.جب تک وہ کتابیں بھی ہمارے پاس موجود نہ ہوں ہم اپنے علم کے لحاظ سے اپ ٹو ڈیٹ (UP TO DATE) نہیں سمجھے جاسکتے.یورپ والے بعض دفعہ فخریہ طور پر ان کتابوں کے حوالے دیتے ہیں اور بعض دفعہ زبانی گفتگو میں چھ بیٹھتے ہیں کہ فلاں کتاب آپ نے پڑھی ہے یا نہیں؟ اور اگر انہیں یہ کہا جائے کہ ہمیں تو اس کتاب کا علم ہی نہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ اس شخص کو علمی شوق نہیں ہے.غرض یہ کام نہایت اہم ہے اس کے بغیر ہماری جماعت کی علمی ترقی نہیں ہو سکتی.مرکزی لائبریری یعنی حضرت خلیفہ اول کی لائبریری بھی اسی میں شامل ہو جائے گی.اور پھر میری کتابیں بھی آخر آپ لوگوں کے ہی کام آتی ہیں.اس طرح پانچ سات سال میں اس قدر کتا ہیں جمع کر لی جائیں کہ ہر قسم کے علوم ہمارے پاس محفوظ ہو جائیں.میں تو سمجھ ہی نہیں سکتا کہ کیوں ہمارے علماء اپنی ذہنی وسعت کے لئے کوشش نہیں کرتے اور کتا ہیں تو الگ رہیں میں تو جادو کی کتاب ہاتھ آ جائے اُسے بھی نہیں چھوڑتا.ہتھکنڈوں کی کتاب مل جائے اُسے بھی پڑھ جاتا ہوں.یہی وجہ ہے کہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر علم والے سے بات کر لیتا ہوں اگر اور لوگ بھی اسی رنگ میں کوشش کریں تو وہ بھی اپنے علم کو بہت بڑھا سکتے ہیں.مجھے ایسی مشق ہے کہ میں کتاب کو پڑھتے ہی صحیح اور غلط بات کا فوراً پتہ لگا لیتا ہوں اور اِس طرح تھوڑے سے وقت میں میں کتاب کا بہت بڑا حصہ پڑھ لیتا ہوں.حضرت خلیفہ اول کو بھی ایسی ہی مشق تھی.ہم آپ کو بچپن میں پڑھتے دیکھتے تو حیران ہوا کرتے تھے.آپ کا طریق یہ تھا کہ کتاب اُٹھائی اس کے ایک صفحہ پر جستہ جستہ نظر ڈالی اور جھٹ اُلٹ کر دوسرے صفحہ پر جا پہنچے.بس چند سیکنڈ میں ہی اُس پر نظر ڈالی کہ آگے جا پہنچے اور ہم حیران ہوتے تھے کہ آپ اتنی جلدی کس طرح پڑھ لیتے ہیں مگر بڑے ہو کر خود مشق ہوئی تو معلوم ہوا کہ کثرت مطالعہ کے نتیجہ میں یہ کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور انسان کتاب پر ایک نظر ڈالتے ہی پتہ لگا لیتا ہے کہ یہ میرے کام کی چیز ہے یا نہیں اور

Page 495

خطابات شوری جلد سوم مشاورت ۱۹۵۲ء اس طرح دو چار گھنٹہ میں بڑی بھاری کتاب بھی ختم ہو جاتی ہے.میرے نزدیک ایک آدمی نہایت آسانی کے ساتھ اگر وہ مطالعہ کے ساتھ دلچسپی رکھتا ہو تو آٹھ نو سو کتاب بھی ایک سال میں سرسری طور پر پڑھ سکتا ہے اور پچاس، سو کتاب تو عام لوگ بھی پڑھ سکتے ہیں.میں نے ایک لاکھ کتابوں کے لئے پچاس آدمیوں کا اندازہ لگایا تھا جس کے معنے یہ ہیں کہ دو ہزار کتاب ساری ملازمت میں ایک آدمی کے حصے میں آتی ہے اگر وہ ہر سال پچاس کتاب پڑھے اور پھر ان کے انڈیکس تیار کرے، ان کے مضامین کے خلاصہ جات تیار کرے تو چند سال میں ہی ہمارے پاس تمام کتب کے اس طرح انڈیکس تیا ہو جائیں گے اور تمام علوم کے اس طرح خلاصے تیار ہو جائیں گے کہ عیسائیوں کی طرف سے حملہ ہو، ہندوؤں کی طرف سے حملہ ہو، دہریوں کی طرف سے حملہ ہو، ہم فوراً اُن کا جواب دے سکیں گے اور اُن کے حملہ کا دفاع کر سکیں گے.بہر حال ایک تو خلافت کی مہمان نوازی کا خرچ اُڑا دو ہاں امداد مستحقین کا خرچ رہنے دو.اسی طرح موٹر کا بجٹ پرائیویٹ سیکرٹری کے ماتحت رکھ دو اور قیمت موٹر کے علاوہ ماہوار اخراجات کے لئے مناسب رقم تجویز کر دو.نیز لائبریری کے متعلق علاوہ عملہ کے دس ہزار روپیہ رکھا جائے.مجھے تو ذاتی طور پر کتابوں کا شوق ہے، تم نہ خریدو گے تو میں تو ضرور خریدوں گا لیکن میں چاہتا ہوں کہ خلافت لائبریری بھی مضبوط بنیادوں پر قائم ہو اور اسی غرض کے لئے میں نے اس کی ضرورت کو تفصیلاً بیان کیا ہے.بیرونی ممالک میں تعمیر مسجد کی اہمیت تیر استہ بیرونی ممالک میں ساجدی تعمیر کا ہے.یہ بھی ایک اہم ترین امر ہے اور اسے با قاعدہ طور پر ہمیں اپنے بجٹ میں مدنظر رکھنا چاہئے.اس وقت بعض اسلامی ممالک میں مسجد میں بنی ہوئی ہیں اور ہمارے دوست ان سے فائدہ بھی اُٹھا رہے ہیں لیکن یورپین ممالک میں تو مسجد کے بغیر ہمارا گزارہ ہی نہیں ہوسکتا.اس کی وجہ یہ ہے کہ مسجد اُن کی نگاہ میں ایسی عجیب چیز ہوتی ہے کہ جیسے گاؤں میں سینما یا تھیٹر چلا جائے تو لوگ اُس کو دیکھنے کے لئے ٹوٹ پڑتے ہیں.اسی طرح یورپین لوگوں نے مسجد کا ذکر صرف سُنا ہوتا ہے مسجد انہوں نے دیکھی نہیں ہوتی.چنانچہ جب اُنہیں کسی مسجد کا پتہ لگتا ہے تو وہ بڑے شوق سے

Page 496

خطابات شوری جلد سوم ۴۸۰ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء عجوبہ کے طور پر اُسے دیکھنے کے لئے جاتے ہیں.انگلستان میں چونکہ ہماری مسجد کئی سال سے قائم ہے، اس لئے ہر سال مختلف مقامات سے لوگ وہاں آتے رہتے ہیں اور ان کے آنے کی غرض محض یہ ہوتی ہے کہ ہم مسجد دیکھنا چاہتے ہیں.چنانچہ جب وہ آتے ہیں تو ہمارے مبلغوں کو بھی تبلیغ کا موقع مل جاتا ہے اور انہیں لٹریچر وغیرہ دیا جاتا ہے.پس یورپین ممالک میں مسجد تبلیغ کا ایک ضروری حصہ ہے مگر اب تک مساجد کی تعمیر بھی کسی پروگرام کے ماتحت نہیں.مثلاً ہم نے لنڈن میں مسجد کی تحریک کی اور مردوں نے اس کے لئے چندہ دیا.دوسری طرف برلن مسجد کے لئے عورتوں میں تحریک کی گئی اور ان کے چندہ سے زمین بھی خریدی گئی مگر حکومت کی طرف سے ایسی شرطیں عائد کر دی گئیں کہ ہم یہ مسجد نہ بنا سکے اور وہی روپیہ ہم نے لنڈن مسجد میں لگا دیا.مسجد خدا تعالیٰ کے فضل سے بن گئی اور کچھ روپیہ بیچ بھی گیا.چنانچہ اُس وقت سے ہمارا قریباً ایک ہزار پونڈ بنک میں محفوظ پڑا تھا.اب مسجد کی مرمت کے لئے روپیہ کی ضرورت تھی کیونکہ اس کی چھت وغیرہ ٹوٹ گئی تھی.مجھ سے پوچھا گیا تو میں نے لکھا کہ روپیہ موجود ہے وہ روپیہ لو اور مسجد کی مرمت کے لئے خرچ کر لو.اگر اس روپیہ کو پہلے ہی خرچ کر لیا جاتا تو اب دقت پیش آتی.اس کے بعد مسجد ہالینڈ کا سوال پیدا ہوا اور زمین خریدی گئی.اس مد میں پچاس ہزار روپیہ کی آمد ہوئی تھی جس میں سے ۳۲ ہزار کی زمین خریدی گئی.اب مسجد اور مکان پر ساٹھ سے ستر ہزار روپیہ کے خرچ کا اندازہ ہے اور ہمارے پاس ۱۹،۱۸ ہزار روپیہ ہے.گویا ۵۰ ہزار روپیہ کی ابھی ہمیں اور ضرورت ہے.مشکل یہ ہے کہ جس شخص سے زمین لی گئی ہے اُس سے یہ شرط کی گئی تھی کہ یہ زمین محض مسجد کے لئے استعمال کی جائے گی.اگر اس میں زیادہ دیر ہو جائے تو وہ بھی قانون کے مطابق کسی وقت دعوی کر کے زمین واپس لے سکتا ہے.واشنگٹن کی مسجد کے لئے ڈیڑھ لاکھ کی تحریک کی گئی تھی جس میں جماعت نے صرف ۳۷ ہزار روپیہ دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ چھیاسی ہزار روپیہ تحریک کی مختلف مدات سے ہمیں قرض لینا پڑا اور اب اس بوجھ کو اُتارنے کے لئے ہمیں روپیہ کی ضرورت ہے.پس مساجد کے متعلق ہماری جماعت کو ایک معتین پالیسی طے کرنی چاہئے.لنڈن میں مسجد بن چکی ہے.یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ میں مکان خریدا جا چکا ہے مگر مسجد ابھی نہیں بنی.اسی طرح ہالینڈ ،

Page 497

خطابات شوری جلد سوم ۴۸۱ مشاورت ۱۹۵۲ء جرمنی، اٹلی ، سپین اور فرانس یہ چھ ممالک ہیں جن میں اگر ہماری مسجدیں بن جائیں تو تبلیغ کا بڑا بھاری ذریعہ ثابت ہو سکتی ہیں.اگر ان مساجد پر سات لاکھ روپیہ کے خرچ کا بھی اندازہ ہو اور ہم اپنے بجٹ میں ایک لاکھ روپیہ سالانہ تعمیر مساجد کے لئے رکھیں تو سات سال میں اور اگر پچاس ہزار روپیہ رکھیں تو چودہ سال میں اس رقم کو پورا کر سکتے ہیں مگر بہر حال کچھ تو ہونا چاہئے تاکہ ہم اپنے تبلیغ کے کام کو وسیع کرسکیں اور لوگوں کے جمع ہونے کا امکان ہو.منصوبہ بندی کی ضرورت ایک اور امر جس کی طرف میں جماعت کو توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمارے کاموں میں منصوبہ بندی نہیں اور یہ ایک خطر ناک نقص ہے جس کو جلد سے جلد دور کرنا ہما را فرض ہے.ہمارے کام اس وقت تک ہنگامی طور پر چلتے چلے آئے ہیں اور ہمیشہ ہی جو کام نئے ہوتے ہیں وہ شروع میں ہنگامی طور پر ہی چلا کرتے ہیں.حضرت خلیفہ اول ہمیشہ ہی اس سوال کے جواب میں کہ خلافت تو انتخابی چیز ہے پھر ابوبکر کو کس نے خلیفہ بنایا تھا؟ فرمایا کرتے تھے کہ وہ ایک ہنگامی وقت تھا.جس شکل میں بھی اُنہوں نے چُنا چُن لیا.تو شروع میں ہمیشہ ہنگامی کام ہوا کرتے ہیں لیکن آخر میں وہ کسی قانون کے ماتحت آجاتے ہیں اور اگر نہ آئیں تو ان میں بے ترتیبی اور بے اصولا پن پیدا ہو جاتا ہے.میں اس بارہ میں پچھلے سال سے خطبات دے رہا ہوں مگر میں دیکھتا ہوں کہ نہ جماعت کو اس طرف توجہ ہے اور نہ اُن کارکنوں کو جو وکالتوں یا نظارتوں میں کام کرتے ہیں اس طرف توجہ ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اب ہمارے کام بجائے ہنگامی طور پر چلنے کے منصوبہ بندی کے ماتحت ہونے چاہئیں مگر میرے بار بار توجہ دلانے کے باوجود کسی منصوبہ بندی کے ماتحت کام نہیں ہور ہے بلکہ بعض محکموں میں تو کام ہو ہی نہیں رہا.میں تو ناظروں اور وکیلوں کو پوسٹ ماسٹر سمجھا کرتا ہوں اور کہا کرتا ہوں کہ تمہارا کام اتنا ہی ہے کہ تمہارے پاس چٹھیاں آئیں اور تم اُن کا جواب دے دو.نظارت علیاء کو ہی لے لو سوائے پوسٹ آفس کے اس محکمہ میں کوئی کام نہیں.نہ نظارتوں کے کام کا معائنہ ہے، نہ ان کے متعلق کوئی رپورٹ ہے، نہ منصوبہ بندی کے لئے اس کی نگرانی میں کوئی مجالس ہوتی ہیں حالانکہ ہم جو

Page 498

خطابات شوری جلد سوم ۴۸۲ مشاورت ۱۹۵۲ء دعوی کرتے ہیں وہ کسی چھوٹے سے کام کا نہیں کرتے بلکہ ساری دُنیا میں اسلام کے پھیلانے کا دعوی کرتے ہیں اور اس کے لئے ہمارے پاس تفصیلی طور سکیمیں تیار ہونی چاہئیں.اگر ہم پورے طور پر منصوبہ بندی کر لیں اور پھر اس سکیم پر ہم آج عمل نہیں کرتے بلکہ کل عمل کرتے ہیں تو یہ ٹھیک ہو گا لیکن اگر ہمیں پتہ ہی نہ ہو کہ ہم نے کیا کرنا ہے اور ہم خاموش بیٹھے رہیں تو یہ امر ہماری جہالت اور بے توجہی پر دلالت کرے گا.میرے نزدیک اب ہم ایسے مقام پر پہنچ چکے ہیں اور ایسی قوموں تک پہنچ چکے ہیں کہ اب ہمارے کاموں میں منصوبہ بندی کا ہونا ایک ضروری امر ہے.امریکہ انگلینڈ، فرانس اور سوئٹزر لینڈ والے سمجھ ہی نہیں سکتے کہ کوئی قوم بغیر کسی پروگرام اور منصوبہ بندی کے کسی کام کے لئے کھڑی ہی کس طرح ہو سکتی ہے.چاہے دس سال کا پروگرام ہو یا پانچ سال کا بہرحال کچھ نہ کچھ پروگرام تو ضرور ہونا چاہئے.جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم نے امریکہ فتح کرنا ہے تو وہ سن کر حیران ہو جاتے ہیں.ان کی طبیعت میں ایک ہیجان پیدا ہو جاتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ دعویٰ کرنے والا یا تو کوئی بڑا عقلمند ہے اور یا کوئی بڑا پاگل ہے کیونکہ بڑی سکیم یا تو کوئی بڑا عظمند بنایا کرتا ہے اور یا پھر بڑا پاگل بنایا کرتا ہے.جیسے لطیفہ مشہور ہے کہ کسی شخص کو اُس کے آقا نے پانچ روپے انعام کے طور پر دیئے.اس نے برتن خرید لئے اور اندازے لگانے شروع کر دیئے کہ یہ پانچ روپوں کے برتن اتنی قیمت پر بیچوں گا اور اس طرح پانچ روپے آٹھ بن جائیں گے.پھر آٹھ روپے کے اور برتن لوں گا اور فروخت کروں گا اس طرح بارہ روپے بن جائیں گے.بارہ سے چوبیس اور چوبیس سے اڑتالیس بن جائیں گے اور پھر برتنوں کی تجارت اور زیادہ وسیع کروں گا.یہاں تک کہ ہوتے ہوتے ایک دن لکھ پتی ہو جاؤں گا اور وزیر مجھ سے درخواست کرے گا کہ میری بیٹی سے شادی کر لو.میں پہلے تو نخرے کروں گا مگر آخرمان جاؤں گا اور اُسے گھر میں لے آؤں گا مگر جب بیوی گھر میں آئے گی تو میں اُسے پوچھوں گا نہیں.تین چار دن کے بعد اُس کی ماں اُسے کہے گی کہ تُو جا اور اپنے خاوند سے معافی مانگ، شاید وہ کسی بات پر ناراض ہو گیا ہو.چنانچہ وہ آئے گی اور کہے گی میرے آقا! میں آپ کی خادمہ ہوں مجھ سے کیا خطا ہوئی ہے کہ آپ مجھ سے بولتے ہی نہیں.میں پیر اُٹھا کر

Page 499

خطابات شوری جلد سوم ۴۸۳ مشاورت ۱۹۵۲ء اُسے یوں ماروں گا کہ جا دفعہ ہو جا.ادھر اس نے یہ سوچا اور اُدھر واقعہ میں زور سے پیر مارا جس سے اس کے تمام برتن ٹوٹ گئے.تو بڑی نیت یا بڑا عقلمند کیا کرتا ہے یا بڑا پاگل کیا کرتا ہے.اس نے بھی سکیم تو بڑی اچھی بنائی تھی اور وہ وزیر کا داماد بلکہ آئندہ بادشاہ بھی بن جاتا بشرطیکہ اُس کے برتن نہ ٹوٹتے.تو بڑے ارادے یا احمق کیا کرتا ہے یا بڑا عقلمند کیا کرتا ہے.ایک امریکن جب ہمارے مبلغ سے سنتا ہے کہ ہم نے امریکہ فتح کرنا ہے تو وہ یکدم حیران ہو جاتا ہے اور کہتا ہے اچھا! اتنے بڑے بڑے ارادے ہیں.پھر وہ پوچھتا ہے کہ بتائیے آپ کام کس طرح کرتے ہیں وہ کہتا ہے بس اسی طرح کام کرتا ہوں کہ اگر کوئی شخص میرے پاس آ جاتا ہے تو میں اُسے تبلیغ کر دیتا ہوں، اگر کوئی سوال دریافت کرتا ہے تو میں اُس کا جواب دے دیتا ہوں.وہ طنزاً کہتا ہے بس میں سمجھ گیا کہ آپ امریکہ کس طرح فتح کریں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لطیفہ سنایا کرتے تھے کہ کوئی سکھ کہیں بیٹھا ہوا تھا اور اس کی ڈاڑھی اور مونچھوں کے بال اس طرح بڑھے ہوئے تھے کہ سارا منہ چھپا ہوا تھا.ایک شخص قریب آیا اور کافی دیر دیکھتا رہا.پھر اس نے بالوں میں اپنی انگلی ڈالی یہ دیکھنے کے لئے کہ اس کا منہ بھی ہے یا نہیں.جب اس نے منہ میں انگلی ڈالی تو سکھ.برداشت نہ ہو سکا اور اُسے گالیاں دینے لگا.اس نے کہا سردار صاحب! غصہ نہ کیجئے.بس یہی دیکھنا تھا کہ آپ کا منہ بھی ہے یا نہیں.وہ بھی جب یہ جواب سنتا ہے تو کہتا ہے بس پستہ لگ گیا کہ آپ امریکہ کو کس طرح فتح کریں گے.تو جب بھی کوئی بڑی نیت کی جائے اس کے لئے کوئی بڑی سکیم بھی بنانی چاہئے.ورنہ لوگ یہی کہیں گے کہ یہ لوگ پاگل ہیں.مثلاً اگر یہی سکیم کسی کے سامنے رکھ دی جائے کہ اس وقت ہمارے چار مبلغ امریکہ کے چار بڑے بڑے شہروں میں ہیں اور وہاں مثلاً ۲ ہزار یونیورسٹی ہے.تین تین ماہ ہم میں سے ہر شخص ان یونیورسٹیوں میں لیکچر دے گا اور اس طرح ایک سال میں ۳۶۰ یو نیورسٹیوں کو ہم اپنے خیالات سے روشناس کرا دیں گے پھر اگلے سال اور ۳۶۰ یو نیورسٹیوں کو روشناس کریں گے یہاں تک کہ تین چار سال میں امریکہ کا تمام علمی طبقہ ہمارے خیالات سے واقف ہو جائے گا.پھر فلاں فلاں سیاسی اور مذہبی سوالات ہیں جن کا امریکن دماغ پر گہرا اثر ہے ہم ہر ماہ

Page 500

خطابات شوری جلد سوم ۴۸۴ مشاورت ۱۹۵۲ء دس یا پندرہ مضامین ان مسائل کے متعلق شائع کرائیں گے اور اس طرح ۱۲۰ یا ۱۲۵ آرٹیکل مختلف اخبارات میں شائع کروائیں گے.یا ہم نے فلاں مشنری کا لج کھولا ہے اور اس میں ئو مسلموں کو داخل کر دیتے ہیں.جب وہ اسلامی تعلیم سے واقف ہو جاتے ہیں تو انہیں اپنے اپنے حلقوں میں کام کے لئے بھجوا دیا جاتا ہے.اگر اس طرح کسی معتین سکیم کے مطابق جواب دیا جائے تو دوسرا بھی سمجھ جاتا ہے کہ یہ لوگ کسی مقصد کے ماتحت کام کر رہے ہیں ورنہ وہ خیال کرتا ہے کہ یہ پاگل لوگ ہیں جو بغیر کسی سکیم کے کام کرنے کے لئے آگئے ہیں.پھر ہر ملک کی تبلیغ کے الگ الگ طریق اور الگ الگ ذرائع ہیں.جب تک ان ذرائع سے کام نہ لیا جائے اُس وقت تک کامیابی نہیں ہو سکتی.میں نے دیکھا ہے جہاں بھی ہمارے مبلغوں نے ہوشیاری کے ساتھ کام کیا ہے ان کی کوششوں کے نہایت شاندار نتائج نکلے ہیں.مثلاً انڈونیشیا میں ہی جماعت کے افراد میں خاص طور پر بیداری کے آثار نظر آتے ہیں.اس سال ان کی طرف سے عام چندوں کا بجٹ ایک لاکھ اسی ہزار روپیہ کا آچکا ہے اور اب اُنہوں نے اطلاع دی ہے کہ تحریک جدید کے وعدے اسی ہزار کے ہو چکے ہیں.گویا ۲ لاکھ ۶۰ ہزار تک ان کا بجٹ پہنچ چکا ہے.ویسٹ افریقہ کے تینوں ممالک کے چندے بھی سال میں پونے دولاکھ روپے کے قریب ہوئے ہیں.انڈونیشیا میں احمدیت کا آغاز انڈونیشیا کی تبلیغ بھی ابتداء میں اتفاقی طور پر شروع ہوئی ہے.اس ملک کے چار پانچ طالب علم لاہور میں آئے اور اُنہوں نے مولوی محمد علی صاحب کے پاس پڑھنا شروع کر دیا.کچھ عرصہ کے بعد وہ تعلیم سے بالکل اُچاٹ ہو گئے اور میرے پاس آئے.کہنے لگے ہم تعلیم کے لئے آئے تھے مگر ہمارا کوئی انتظام نہیں کیا گیا.میں نے کہا کیا اُنہوں نے آپ لوگوں کے لئے کوئی مدرس نہیں رکھا تھا ؟ کہنے لگے مدرس تو رکھا تھا.میں نے کہا تو کھانے کے لئے نہیں دیتے تھے؟ کہنے لگے کھانے کے لئے بھی دیتے تھے.میں نے کہا تو پھر تمہیں اور کیا چاہئے تھا؟ تمہیں سب کچھ مل رہا تھا اگر اس کے باوجود تم تعلیم حاصل نہیں کر سکے تو معلوم ہوتا ہے کوئی اور نقص تھا.چنانچہ میں نے ان سے کہا کہ میں تمہاری تعلیم کا تو انتظام کر سکتا ہوں مگر ایک شرط ہو گی اور وہ یہ کہ چھ مہینے تک تم نے کوئی دینی تعلیم نہیں سیکھنی تم صرف اردو پڑھو

Page 501

خطابات شوری جلد سوم ۴۸۵ مشاورت ۱۹۵۲ء اور سمجھو.اُنہوں نے کہا ہم تو جلدی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں.میں نے کہا میں تو اسی طرح پڑھا سکتا ہوں اگر پڑھنا نہیں چاہتے تو اسی طرح واپس چلے جاؤ.پھر میں نے اُن سے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ علم ہمیشہ کان کے ذریعہ آتا ہے اور جب تم ہماری باتوں کو سمجھتے ہی نہیں تو تم ہم سے سیکھو گے کیا ؟ پس اگر تم کچھ سیکھنا چاہتے ہو تو میری شرط یہ ہے کہ پہلے چھ مہینے تک اردو پڑھو.چنانچہ اُن کی سمجھ میں یہ بات آگئی اور اُنہوں نے پہلے اردو سیکھی اور پھر دینیات کی تعلیم حاصل کی.چنانچہ انہی لڑکوں میں سے ایک مولوی فاضل ہے اور ہالینڈ میں ہمارا مبلغ ہے.اس کے بعد اور لڑ کے آئے اور اُنہوں نے تعلیم حاصل کی اور اس طرح انڈونیشیا میں ہماری تبلیغ کا آغاز ہو گیا.تو ہر کام ایک سکیم کا متقاضی ہوتا ہے.جب تک کوئی معتین سکیم سامنے نہ ہو اس وقت تک انسان اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتا.میں نے مختلف نظارتیں اس غرض کے ماتحت قائم کی تھیں کہ وہ ایک پروگرام کے مطابق جماعت کی ترقی میں حصہ لیں مگر جہاں تک ان کے کام کا تعلق ہے انہوں نے کچھ بھی نہیں کیا اور نہ جماعت نے کبھی ان سے دریافت کیا ہے کہ تمہیں قائم کس غرض کے لئے کیا گیا تھا اور تم نے وہ کام کیوں نہیں کیا.امور عامہ کے فرائض مثلاً امور عامہ کو لے لو.امور عامہ والوں نے کبھی بھی لوگوں کو نہیں بتایا کہ اس محکمہ کو کیوں قائم کیا گیا تھا اور نہ جماعت نے کبھی محاسبہ کیا کہ یہ محکمہ کیا کام کر رہا ہے.امور عامہ کا کام محض اس وقت پوسٹ آفس کا ہے.چٹھیاں آتی ہیں اور ان کا جواب چلا جاتا ہے.صرف دو کام ایسے ہیں جو امور عامہ اس وقت کر رہا ہے.ایک تنفیذ کا کام اور دوسرے رشتہ ناطہ کا کام مگر یہ دونوں کام کرنے والے محض کلرک ہیں ، نہ ناظر کا ان سے کوئی تعلق ہے اور نہ نائب ناظر کا.اگر ان عہد وں کو اُڑا بھی دیا جائے تو کام اسی طرح چلتا چلا جائے جس طرح اب چل رہا ہے.حالانکہ امور عامہ کے سپر د جو کام کئے گئے تھے وہ یہ تھے.اوّل.جماعت کی تنظیم.مگر کیا امور عامہ والے بتا سکتے ہیں کہ جماعت کی تنظیم کے لئے پچھلے ۳۳ سال میں اُنہوں نے کچھ بھی کام کیا ہے؟ دوم.نو جوانوں کو کام پر لگانا.یہ کام بھی امور عامہ نے کبھی نہیں کیا.اتفاقی حادثہ کے طور پر

Page 502

خطابات شوری جلد سوم ۴۸۶ مشاورت ۱۹۵۲ء کچھ نو جوان کام پر لگ گئے ہوں تو اور بات ہے ورنہ دفتر نے یہ کبھی کوشش نہیں کی کہ منتظم طریق پر نو جوانوں کو مختلف کاموں پر لگائے اور اُنہیں سلسلہ کے لئے مفید وجود بنائے.سوم.ناظر تعلیم اور افسران تعلیم سے مل کر نو جوانوں کو مختلف شعبوں کے لئے تیار کرنا یہ کام بھی امور عامہ نے کبھی نہیں کیا.چہارم.تمام ہنگامی کاموں کی نگرانی کرنا.یہ کام صرف میرے ہاتھوں سے ہو رہا ہے.امور عامہ نے اس بارہ میں بھی اپنے فرض کو کبھی نہیں پہچانا.پنجم.دشمنانِ سلسلہ کا سیاسی مقابلہ.یہ کام بھی امور عامہ نے کبھی نہیں کیا.ششم.جماعت کی اقتصادی ترقی کے لئے سکیمیں بنانا.اس بارہ میں بھی ہر محکمہ اپنے فرائض سے سراسر غافل ہے.ہفتم.رشتوں ناطوں کا انتظام.ہشتم.تنفیذ یہ آخری دو کام ایسے ہیں جو کسی قدر ہو رہے ہیں مگر وہ بھی کلرکوں کی وجہ سے ، ناظر اور نائب ناظر کا ان سے کوئی تعلق نہیں.نہم.اخلاق سے گرنے والے عصر کی نگرانی یا اخراج وغیرہ.یہ کام صرف اس حد تک ہوتا ہے کہ جماعتوں کی طرف سے جب اطلاعات آ جاتی ہیں تو امور عامہ مناسب کارروائی کے لئے چند چٹھیاں لکھ دیتا ہے ورنہ کوئی خاص پروگرام اس کے مدنظر نہیں ، حالانکہ چاہئے یہ تھا کہ اس محکمہ کا پروگرام زیادہ سے زیادہ تفصیلی ہوتا.غرض وہ کام جو امور عامہ کے سپرد کئے گئے تھے ان میں سے دو کاموں کے سوا جن کے لئے الگ آدمی مقرر ہیں کوئی کام بھی امور عامہ نہیں کر رہا اور وہ دونوں کام کلرک کرتے ہیں.پس امور عامہ گویا ان دو کلرکوں کے کام کا نام ہے، ناظر اور نائب ناظر محض زیب مجلس ہیں.جماعت کی اقتصادی حالت کی درستی کے لئے اُنہوں نے کب کچھ کیا ہے.زمینداروں سے اُنہوں نے کب تعلق پیدا کیا ہے یا کب اس بارہ میں اُن سے مشورہ کیا ہے یا کب اس سے متعلقہ امور کے احمدیوں سے مشورے کئے ہیں.تجارت وصنعت کی ترقی کے متعلق کب مشورہ کیا ہے، کب کوئی تحریک جماعت میں کی ہے.اگر آج آپ لوگ

Page 503

خطابات شوری جلد سوم ۴۸۷ مشاورت ۱۹۵۲ء ناظر اور نائب ناظر کو اس محکمہ سے ہٹا دیں تو ایک ذرہ بھر بھی فرق کام میں نہیں پڑے گا.ہمارا سارا فخر اجتماع پر ہے.ہم کہتے ہیں ہم ایک جماعت ہیں جس صوبه داری نظام کے معنے یہ ہیں کہ اجتماع سے جو فوائد وابستہ ہوا کرتے ہیں وہ ہمیں حاصل ہیں لیکن اگر ہم اس اجتماع سے فائدہ نہیں اُٹھاتے تو اجتماع کا فائدہ کیا اور فخر کس امر پر.آخر اس جمود کو دیکھتے ہوئے میں نے ضروری سمجھا کہ پنجاب میں صوبہ داری نظام شروع کیا جائے چنانچہ پچھلے سال سے یہ نظام قائم کر دیا گیا ہے اور گوا بھی کام کی ابتداء ہے مگر میں دیکھتا ہوں کہ گزشتہ پندرہ سال میں امور عامہ نے جو کام نہیں کیا تھا وہ اس صوبہ داری نظام کے ماتحت صرف ایک سال میں ہوا ہے اور جس رنگ میں یہ کام ہو رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے بہت کچھ ترقی کی امید ہے.اسی طرح ربوہ کی زمین کا اب تک کوئی فیصلہ ہونے میں نہیں آتا.ناظر صاحب صرف لاہور کا چکر لگا آتے ہیں اور پھر ایک امید کا فقرہ کہہ دیتے ہیں اور بات وہیں کی وہیں رہ جاتی ہے.اگر کسی کام کے نہ ہونے کو ہم کام کہ سکیں تو شاید اس محکمہ کا بھی کچھ کام ہے.تعلیم.تعلیم کے محکموں کی غرض یہ تھی اول تعلیم کو پھیلانا، دوم تعلیم نظارت تعلیم کا کام تعلیم تعلیم کے کی اصلاح کرنا ، سوم نوجوانوں کو اقتصادی اور قومی ضرورتوں کے کے مطابق تعلیم دلوانا، چہارم معلموں کا پیدا کرنا، پنجم سلسلہ کی ضرورتوں کے مطابق مختلف فنون، زبانوں اور کاموں کی تعلیم دلوانا.اس محکمہ کا کام بوجہ کالج اور سکول اور جامعہ کے کچھ نظر آتا ہے لیکن وہ بھی کسی اصول کے ماتحت نہیں مگر اس کا ایک جواب ہو سکتا ہے کہ تعلیم کے محکمہ کو کبھی کوئی موزوں اور مناسب ناظر ملا ہی نہیں.یہ تو مولوی محمد دین صاحب کا احسان ہے کہ وہ اے سال کی عمر میں بھی یہ کام کر رہے ہیں اور اپنی طاقت کے مطابق اچھا کر رہے ہیں ورنہ کچھ بھی نہ ہوتا.میں نے گزشتہ دنوں ایک خطبہ پڑھا تھا جس میں میں نے بیان کیا تھا کہ ہمارے نو جوانوں کو مختلف شعبوں میں جانے کی کوشش کرنی چاہئے.شروع شروع میں نوجوانوں سے یہ غلطی ہوئی کہ اُنہوں نے یہ دیکھ کر کہ فوج میں اچھی تنخواہیں مل رہی ہیں کثرت کے ساتھ فوج میں جانا شروع کر دیا مگر اس کا نتیجہ خراب نکلا کیونکہ جب بھی کسی قوم کے افراد

Page 504

خطابات شوری جلد سوم ۴۸۸ مشاورت ۱۹۵۲ء.کسی خاص محکمہ میں جمع ہو جائیں ، دشمن انہیں شبہ کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیتا ہے.چنانچہ اس کثرت کی وجہ سے کئی احمدی افسر زیر عتاب آگئے.ابھی ایک دوست نے اپنے ایک بھائی کے متعلق جو فوج میں میجر ہیں اور ہندوستان سے آئے ہیں لکھا ہے کہ وہ کئی روز سے غائب ہیں معلوم نہیں ان کے ساتھ کیا ہوگا.ان پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ وہ دشمن کے جاسوس ہیں.یہ خرابیاں اسی لئے پیدا ہوئیں کہ ہماری جماعت کے نوجوان فوج میں کثرت کے ساتھ داخل ہو گئے.اگر وہ مختلف محکموں میں جاتے اور کسی ایک جگہ جمع نہ ہوتے تو یہ خرابی پیدا نہ ہوتی.سورۃ یوسف کو دیکھو حضرت یعقوب نے اسی خوف سے اپنے لڑکوں کو مصر میں ایک دروازہ سے داخل ہونے سے منع کیا تھا.محکمہ تعلیم کا کام یہ ہے کہ وہ نو جوانوں کو قومی ضرورتوں کے مطابق تعلیم دلوائے اور اس غرض کے لئے نوجوانوں کی ذہنیت کا جائزہ لینا ضروری ہوتا ہے اور یہ کام تبھی ہوسکتا ہے جب سکولوں اور کالجوں کے طلباء سے رابطہ رکھا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ وہ کس کس لائن میں ترقی کر سکتے ہیں.ہمارا سکول چنیوٹ میں ہے اور آنے جانے پر اگر ریل کے ذریعہ جائیں تو چھ آنے خرچ ہو جاتے ہیں.اگر ناظر صاحب تعلیم تین چار آدمیوں کو ساتھ لے کر ریل کے ذریعہ جاتے اور شام کو واپس آ جاتے تو ایک دورہ پر ان کے صرف دو اڑھائی روپے خرچ ہو سکتے تھے.اسی طرح کچھ جلسے وہ جامعہ احمدیہ میں کرتے.ایک دو دفعہ لاہور چلے جاتے.اُستادوں کو جمع کرتے ، طلباء کو اکٹھا کرتے اور انہیں بتاتے کہ تمہیں ایسی طرز پر کام کرنا چاہئے کہ تمہیں روپیہ بھی ملے اور سلسلہ کے لئے بھی تم مفید وجود بن سکو.تو اس طرز پر کام کرنے کے نتیجہ میں بہت کچھ اصلاح ہو جاتی مگر ادھر توجہ ہی نہیں کی گئی.اب بھی ہماری تعلیم کی نسبت دوسرں سے بہت زیادہ ہے.لوگ شور مچاتے ہیں کہ احمد یوں کو نوکریاں زیادہ ملتی ہیں مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ ان کے بیٹے سینما دیکھتے رہتے ہیں اور ہمارے لڑکے پڑھائی میں مشغول رہتے ہیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہماری جماعت کے نوجوان اُن سے آگے نکل جاتے ہیں اور ملازمتوں میں بھی وہ دوسروں سے آگے رہتے ہیں.بہر حال یہ محکمہ تعلیم کا کام ہے کہ وہ نو جوانوں کو مفید کام پر لگائے.اسی طرح غرباء کو ابھارنے کی کوشش کرنی چاہئے.دیہات میں بعض جگہ ہیں ہیں

Page 505

خطابات شوری جلد سوم ۴۸۹ مشاورت ۱۹۵۲ء سال سے ہماری جماعتیں قائم ہیں مگر ان میں کوئی گریجویٹ نہیں.اگر محکمہ کی طرف سے ان کو تحریک کی جائے کہ پندرہ ہیں زمیندار مل کر ایک لڑکے کی اعلیٰ تعلیم کا بوجھ اُٹھا ئیں اور اسے قرضہ کے طور پر ماہوار کچھ وظیفے دے دیا کریں تو چند سالوں میں ہی کئی لڑکے گریجویٹ بن سکتے ہیں.میں مانتا ہوں کہ زمینداروں کی ذہنیت ایسی ہوتی ہے کہ ان میں سے بہتوں نے اس کو ماننا نہیں لیکن بہر حال جب کوئی تحریک کی جائے تو کچھ نہ کچھ لوگ اس میں حصہ لینے والے پیدا ہو جاتے ہیں.پھر ان کو دیکھ کر دوسرے لوگ کھڑے ہو جائیں گے اور رفتہ رفتہ کئی گریجویٹ تیار ہو جائیں گے مگر اس کے متعلق بھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی.معلم پیدا کرنا بھی ہمارے محکمہ کا کام ہے مگر یہ کام بھی ہمارے محکمہ نے نہیں کیا.میں نام نہیں لیتا تعلیم کے ایک بڑے افسر نے جسے احمدیت سے اُنس ہے ہمارے ایک دوست سے کہا کہ اگر آپ لوگ مجھے گریجویٹ مہیا کریں تو میں ان سب کو فلاں علاقہ میں پھیلانے کے لئے تیار ہوں.چنانچہ اُس نے محکمہ کو اس بارہ میں چٹھی بھی لکھی مگر اُنہوں نے کوئی جواب نہ دیا.اور وہ جواب دے بھی کیا سکتے تھے جبکہ آدمی ان کے پاس ہی نہیں.غیر ممالک سے بھی برابر اس قسم کی مانگیں آتی رہتی ہیں.افریقہ میں ہم نے ایک کالج قائم کیا ہوا ہے اور وہ نہایت اچھا کام کر رہا ہے اب ایک اور مقام پر کالج کھولنے پر اصرار کیا جا رہا ہے مگر ہمارے پاس اساتذہ نہیں ہیں.اسی طرح مشرقی افریقہ کی طرف سے بار بار مطالبہ ہو رہا ہے کہ مدرس بھجواؤ.وہاں تنخواہیں بھی زیادہ ملتی ہیں اور پھر وہ علاقہ اس جگہ سے سستا بھی ہے.اسی طرح وہاں درزیوں اور لوہاروں کی سخت ضرورت رہتی ہے.اگر ہماری جماعت میں اس قسم کے پیشہ ور کافی تعداد میں ہوں تو سینکڑوں آدمی وہاں کھپائے جا سکتے ہیں.ایک آدمی چار پانچ سو شلنگ وہاں آسانی سے کما سکتا ہے.اس کے معنے یہ ہیں کہ اگر ہم سو آدمی بھی بھجوا دیں تو ان کے ذریعہ ہمارے بجٹ میں غیر معمولی اضافہ ہوسکتا ہے مگر تمیں سال سے اس بارہ میں کوشش نہیں کی گئی اور نہ محکمہ نے اس طرف کبھی توجہ کی ہے کہ وہ سلسلہ کی ضرورتوں کے مطابق مختلف فنون ، زبانوں اور کاموں کی تعلیم دلوائے.محکمہ تصنیف واشاعت کا کام پھر تصنیف واشاعت کا محکمہ ہے.یہ کام نیا شروع ہوگا ہے لیکن ایک حد تک اس کی اُٹھان بہت مبارک ہے.

Page 506

خطابات شوری جلد سوم ۴۹۰ مشاورت ۱۹۵۲ء شمس صاحب نے اس کام میں جان ڈال دی ہے مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ وہ اب مغرور ہوکر سُست ہو جائیں، بہر حال ان پر الزام کوئی نہیں.انہوں نے پہلے ایک کتاب شائع کی اور پھر اس کی آمد سے اور بہت سی کتابیں شائع کر دیں.یہ سلسلہ اگر جاری رہا تو امید ہے کہ تین چار سال میں وہ سلسلہ کی ساری کتابیں چھاپ لیں گے مگر اس سلسلہ میں ابھی بہت سی گنجائش ہے اور اس کے لئے دو چیزوں کی ضرورت ہے.اوّل روپیہ، اگر اس کام کو ہم وسیع کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ اس کام کے لئے ہم روپیہ صرف کریں.دوم.تصانیف ہمیشہ کسی اصول کے ماتحت ہونی چاہئیں اور ہر سال ایک میٹنگ بلائی جانی چاہئے جس میں اس امر پر غور ہونا چاہئے کہ زمانہ کا دماغ کدھر جا رہا ہے اور لوگوں کے خیالات کی روکس طرف ہے.پھر اس کے مطابق کام ہونا چاہئے.کسی زمانہ میں خالی وفات مسیح کے مسئلہ سے کام ہو جاتا تھا لیکن اب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اسلام پیٹ کے دھندوں کا کیا علاج کرتا ہے؟ امن کے قیام کے لئے وہ کونسی تجاویز پیش کرتا ہے؟ یا کونسی تدابیر ہیں جن سے پاکستان مضبوط ہو جائے اور اسلام دنیا پر غالب آجائے؟ چونکہ اب مسلمانوں کو حکومت مل گئی ہے اس لئے نئے نئے سوالات ان کے دلوں میں پیدا ہوتے رہتے ہیں.ان سوالات کے متعلق ہماری طرف سے کتابیں شائع ہونی چاہئیں مگر ان امور کے متعلق بھی کوئی پلاننگ نہیں.اب تک یہی طریق رہا ہے کہ جنہیں لکھنے کا شوق ہے وہ اپنے طور پر کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے ہیں، کسی معین اور واضح سکیم کے ماتحت ان کا کام نہیں ہوتا.اس نقص کو دور کرنے کے لئے میں نے علماء کو بعض رسالے لکھنے کی تحریک کی تھی جن میں سے ۲۵ مضامین پر رسالے لکھے جاچکے ہیں.ابھی وہ صرف بچوں کے لئے لکھ رہے ہیں پھر نو جوانوں کے لئے کتابیں لکھی جائیں گی اور اس کے بعد زیادہ تعلیم یافتہ لوگوں کے لئے کتابیں لکھی جائیں گی.ان کتابوں کی اشاعت تجارتی لحاظ سے بھی ہمارے لئے مفید ہوگی اور ہماری تبلیغ کا سلسلہ بھی وسیع ہوگا.مجھے افسوس ہے کہ علماء اس میں تعاون نہیں کر رہے حالانکہ ان کا کام یہی ہے کہ وہ اپنے علم کو بڑھا ئیں.جن علماء اور مدرسوں کے سپرد یہ کام کیا گیا تھا ان سے بھی بڑی مصیبتوں کے بعد لجاجتیں کر کر کے مضمون لئے گئے ہیں اور بعض نے اب تک نہیں دیئے.اس کام میں مولوی ابو العطاء صاحب رسالہ فرقان کے ذریعہ سے

Page 507

خطابات شوری جلد سوم ۴۹۱ مشاورت ۱۹۵۲ء کچھ نہ کچھ شغل رکھتے ہیں.باقی بھی یقیناً ایسا کر سکتے ہیں بلکہ ان میں سے بعض اپنے فن میں ان پرانے علماء سے زیادہ معلومات رکھتے ہیں مگر وہ اس طرف توجہ نہیں کرتے اور مساجد کے ملانوں سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتے.اسی سلسلہ میں ہماری سکیم یہ ہونی چاہئے کہ ہر بڑے شہر میں ہم ایک پبلک لائبریری قائم کر دیں لیکن بجٹ میں اس کے متعلق گنجائش نہیں رکھی جاتی.حالانکہ یہ ایسا اہم کام ہے کہ اس سے آپ ہی آپ تعلیم یافتہ طبقہ میں تبلیغ کا سلسلہ وسیع ہو جاتا ہے.دعوۃ و تبلیغ: یہ صیغہ بھی دوسرے صیغوں کی طرح سورہا تھا لیکن جب سے شاہ صاحب مقرر ہوئے ہیں اس میں بیداری ہے اور ان کے نائب بھی گو قابل نہیں ہیں مگر کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ وہ اپنے نائیوں کو کام دیں اور ان سے کام کروائیں لیکن حقیقی منصوبہ بندی اس صیغہ میں بھی نہیں صرف ہنگامی کام کر رہے ہیں.محکمہ مال : یہ محکمہ تو بے چارا روز پکڑا جاتا ہے.اگر تنخواہیں ملنے میں ذرا بھی دیر ہو تو شور مچ جاتا ہے.خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب اس محکمہ کی روح رواں ہیں.باوجود بوڑھے اور بیمار ہونے کے اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسا ملکہ عطا فرمایا ہے کہ جو محکمہ بھی خان صاحب کے سپرد کر دیا جائے اس میں زندگی اور بیداری پیدا ہو جاتی ہے.یہ خدا کا فضل ہے وہ جس سے چاہتا ہے کام لیتا ہے.وكالتِ اعلیٰ یہ نظارت علیاء کی طرح ہے لیکن نظارت علیاء تو ایک بوڑھے کے قبضہ میں ہے اور وکالت علیاء ایک نوجوان کے قبضہ میں.مگر ایک نوجوان کے قبضہ میں ہونے کے باوجود یہ بہت کچھ بے کا رسا صیغہ ہے اور تعاون اور منصوبہ بندی کی طرف سے غافل ہے.اب تک بیرونی ممالک کے لئے قانون اساسی تک نہیں بن سکا.متواتر ہیں سال سے وہاں کی جماعتیں لکھ رہی ہیں کہ ہمیں قانون اساسی بھجوا ؤ مگر محکمہ نے اس طرف کبھی توجہ نہیں کی.نائیجیریا میں دس ہزار کے قریب آدمی ایک دفعہ مرتد ہو گیا.اس لئے کہ اُنہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہم کسی غیر ملکی آدمی کو اپنا افسر نہیں مان سکتے.اگر شروع سے ہی اس معاملے کو طے کر لیا جاتا تو انہیں یہ ٹھوکر نہ لگتی.وکالت قانون : تنگ آ کر میں نے اس غرض کے لئے ایک وکالت قانون قائم کی

Page 508

خطابات شوری جلد سوم ۴۹۲ مشاورت ۱۹۵۲ء مگر اس وکالت کا بھی صرف اتنا کام ہے کہ رپورٹ آ جاتی ہے کہ فلاں پانچ روپے جو نہیں ملتے اُن کے متعلق تحقیق ہو رہی ہے، فلاں چار آنے کی رقم کی تحقیق ہو رہی ہے دو سال اس محکمہ کو قائم ہوئے ہو گئے مگر ابھی تک بیرونی ممالک کی کانسٹی ٹیوشن نہیں بن سکی.بیرونی جماعتیں اس وقت تک صرف اخلاص سے چلی جارہی ہیں.ورنہ حقیقتا اگر اخلاص نہ ہوتا تو وہ مرتد ہو جاتیں.یہ محکمہ بھی ایک پوسٹ آفس ہے کہ چٹھیاں آتی ہیں اور اُن کا جواب چلا جاتا ہے.اس نصیحت کا یہ اثر ہوتا ہے کہ سات ماہ پہلے کبھی کبھی اس کام کے بارہ میں رپورٹ آجاتی تھی ، اب وکالت اعلیٰ ایسی کوئی رپورٹ ہی نہیں ارسال کرتی ) وكالتِ تعلیم: اس محکمہ میں بہت کچھ اسراف ہو رہا ہے.چالیس پچاس طالب علم ہیں اور گیارہ بارہ استاد ہیں.جس آدمی کو کوئی کام نہیں ملتا اسے اس محکمہ میں بھرتی کر لیا جاتا ہے اور پھر تعلیم میں منصوبہ بندی بھی نہیں.علماء بھی اپنا علم نہیں بڑھا رہے اور نہ لڑکوں کی صحیح راہنمائی کر رہے ہیں.تصنیف کی طرف ان کی بہت ہی کم توجہ ہے حالانکہ اس محکمہ میں بڑے خرچ کے بعد چار پانچ نوجوانوں کو مختلف علوم کی انتہائی تعلیم دلوائی گئی تھی اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہ ذرا بھی توجہ کریں اور اپنے مطالعہ کو وسیع کریں تو یقیناً اپنے فن میں وہ چوٹی کے علماء بن سکتے ہیں اور جماعت کو بہت کچھ فائدہ پہنچا سکتے ہیں مگر افسوس ہے کہ اس طرف کوئی توجہ نہیں کی جارہی ہے.وکالت تبشیر : وکیل نوجوان ہیں لیکن ابھی تک منصوبہ بندی نہیں کر سکے.تبلیغ وسیع ہو رہی ہے مگر صرف مقامی مبلغوں کی وجہ سے.صیغہ نہ اُن کو مدد دے رہا ہے اور نہ اُن کی راہنمائی کر رہا ہے.بے انتہاء اصلاح کی ضرورت ہے.مرکزی نگرانی نہ ہونے کے برابر ہے.بیرونجات میں تبلیغی سکولوں کی بنیاد رکھنی چاہئے.لٹریچر کو صحیح بنیادوں پر شائع کرنا چاہئے اور جو اعتراضات اور وساوس لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتے ہیں اُن کو مدنظر رکھنا چاہئے.یہ بہت بڑا کام ہے جو خالی پڑا ہے.اسی سلسلہ میں ان کی تصنیف کا خانہ بالکل خالی ہے.حالانکہ جیسے صدر انجمن احمدیہ میں ایک تصنیف و اشاعت کا محکمہ ہے اسی طرح تحریک میں بھی تصنیف و اشاعت کا الگ محکمہ ہونا چاہئے.سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ دو لاکھ روپیہ تراجم قرآن کے لئے رکھا گیا تھا وہ روپیہ بھی موجود ہے اور ترجمے بھی

Page 509

خطابات شوری جلد سوم ۴۹۳ مشاورت ۱۹۵۲ء ہے.موجود ہیں مگر یہ نہیں ہو سکا کہ ان پر نظر ثانی کروا کے ان کو شائع کروایا جا تا.حالانکہ تراجم سات سال سے ہو چکے ہیں.یہ کتنا عظیم الشان کام تھا جو دنیا کے سامنے پیش کیا جاسکتا تھا مگر اس طرف کوئی توجہ نہیں کی گئی.ہم نے سات زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم کروائے تھے.اگر دو تین زبانوں کے تراجم ہی شائع کروا دیئے جاتے تو ان کی آمد سے پھر باقی ترجمے شائع کئے جاسکتے تھے.اسی طرح اور لٹریچر شائع کیا جاسکتا تھا مگر چونکہ تصنیف کے متعلق بھی کوئی سکیم نہیں سوچی گئی اس لئے یہ عظیم الشان کام بھی لوگوں کی نگاہوں سے مخفی پڑا.محکمہ صرف اتنا کام جانتا ہے کہ مختلف مبلغین کی رپورٹوں کے خلاصے تیار کر کے مجھے بھجوا دیتا ہے کہ خلاصہ رپورٹ امریکن مشن ، خلاصہ رپورٹ نائیجیریا مشن ، خلاصہ رپورٹ لنڈن مشن حالانکہ پہلے ان رپورٹوں کو میں خود پڑھ چکا ہوتا ہوں.اس طرح مجھے دو دفعہ وہ رپورٹیں پڑھنی پڑتی ہیں میرے نزدیک اس میں اصلاح کی یہ صورت ہے کہ کمیٹی غور کر کے ایک نائب وکیل التصنیف کا عہدہ قائم کرے تا کہ یہ کام کسی سکیم کے ماتحت آ سکیں.تحریک جدید کے بجٹ کے متعلق اسی سلسلہ میں میں تحریک کے بجٹ کی نسبت یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس میں امریکہ اور انگلستان کی مدد بند کر کے سخت ظلم کیا گیا ہے.امریکہ میں اس وقت ساڑھے چار سو احمدی ہے.اگر ہم ان کی ذرا بھی مدد کریں تو اس چار سو کا آٹھ سو یا ہزار بن جانا کوئی قابل تعجب بات نہیں لیکن اس وقت امداد بند کرنے کے یہ معنے ہیں کہ ہم اس ملک میں اپنی تبلیغ کو بند کر دیں.مفتی صاحب جب امریکہ گئے ہیں تو خواجہ صاحب کے طریق کے مطابق ان کی بھی عادت تھی کہ حُسنِ ظنی سے کام لیتے اور جو شخص بھی کہتا کہ احمدیت تو بڑی اچھی تحریک ہے تو اُسے کہتے اچھا اس فارم پر دستخط کر دیں.اس طرح مفتی صاحب نے کئی بیعتیں اپنی سادگی میں ایسی کروالیں جو در حقیقت صرف نمائشی تھیں.پھر کچھ مفتی صاحب میں دعاؤں کی بھی عادت تھی اس سے بھی لوگ متاثر ہوتے اور وہ احمدیت کو قبول کر لیتے مگر بہر حال کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو صرف نام کے احمدی تھے وہ الگ ہو گئے.ان کے بعد ڈیڑھ دوسو کے قریب آدمی تھا جو ہمیں ملا.اب ان کی تعداد ساڑھے چارسو تک پہنچ چکی ہے.اور زائد خوبی ان میں یہ ہے کہ وہ قربانی کرنے والے ہیں.بعض ان میں سے اپنی زندگیاں بھی وقف کر چکے ہیں.

Page 510

خطابات شوری جلد سوم ۴۹۴ مشاورت ۱۹۵۲ء اگر ہم ان کی امداد بند کر دیں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ سن رائز بند کر دیا جائے ،مبلغین کے تبلیغی دورے بند کر دیئے جائیں، لٹریچر کی اشاعت بند کر دی جائے اور محض روٹی کھانے کے لئے چار آدمی امریکہ میں بٹھا دئیے جائیں.اگر ہم نے ان سے تبلیغ کا کام لینا ہے تو پھر ہمیں تبلیغ کا سامان بھی دینا پڑے گا.اگر ہم سفر خرچ کے لئے انہیں روپیہ نہیں دیتے، اگر ہم اشتہارات کے لئے انہیں روپیہ نہیں دیتے تو ہم سلسلہ کی اشاعت کی کیا توقع رکھ سکتے ہیں.پس میں فنانس کمیٹی کو مشورہ دوں گا کہ وہ مناسب رو پیہ امریکن مشن کے لئے بجٹ میں رکھے اور یہ رقم تین سال میں آہستہ آہستہ ختم کی جائے تا کہ اس عرصہ میں وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی کوشش کر سکیں.اسی طرح انگلستان کی مدد بند کر دینا بھی ظلم ہے.میرے نزدیک انگلینڈ مشن کے لئے مناسب روپیہ بجٹ میں اب بھی رکھنا چاہئے اور اس کو بھی اگلے تین چار سال میں آہستہ آہستہ ختم کرنا چاہئے.زیادہ ضرورت مرکزی بجٹ کی نگرانی کی ہے مثلاً جامعہ ہے اس میں ضرورت سے زیادہ اساتذہ ہیں اور سلسلہ کا روپیہ بلا وجہ ضائع ہو رہا ہے.صنعت و حرفت اب تک یہ صیغہ کوئی مفید کام نہیں کر سکا مگر بعض کاموں کی اصلاح ضرور ہوئی ہے اور ریسرچ کا محکمہ لمبی غفلت سے نکل کر اب کچھ ترقی کر رہا ہے اور بعض نوجوان اچھا کام کر رہے ہیں.گو بعض نوجوان ابھی تک اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں اور ترقی سے غافل ہیں.صنعت و حرفت کی بھی ایک وکالت ضرور ہے مگر پلاننگ کوئی نہیں کہ کس طرح صنعت میں ترقی کی جاسکتی ہے.چونکہ یہ اقتصادی ترقی کا کام زیادہ تر نظارت کے سپرد ہے اس لئے میں پھر انہیں توجہ دلاتا ہوں کہ جماعت کی ریڑھ کی ہڈی زمیندار اور پیشہ ور ہوتے ہیں مگر نظارت نے اس بارہ میں کبھی بھی اپنی ذمہ داری کو محسوس نہیں کیا.میں نے دیکھا ہے سکھوں نے لوہارے کے کام پر اور ڈرائیوری پر قبضہ کیا ہوا تھا اور اس کا نتیجہ یہ تھا کہ وہ دوسری قوموں کے مقابلہ کے خوف سے آزاد ہو گئے تھے لیکن ہماری جماعت کے ہزاروں آدمی بیکار ہیں اور محکمہ کوئی کوشش نہیں کر رہا کہ ان کو لوہارا کام سکھائے یا انہیں معماری کے کام پر لگائے یا انہیں تجاری کے کام پر لگائے.اگر ایک پیشہ پر بھی ہماری جماعت کا قبضہ ہو جاتا تو ہماری اقتصادی حالت موجودہ حالت سے کئی گنا اچھی ہو جاتی.

Page 511

خطابات شوری جلد سوم ۴۹۵ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء تجارت اس میں تحریک نے کوشش تو کی ہے مگر سخت شکست کھائی ہے.ہم اب تک تجارت میں ترقی کرنا تو الگ رہا اس میں ادنی کامیاب بھی نہیں ہو سکے اور میرے نزدیک اس کی بڑی وجہ احمدی تاجروں کی ذہنیت ہے جن میں تعاون کا مادہ نہیں ہے.ایک عام احمدی سمجھتا ہے کہ اگر میں چندہ دوں گا تو میرے بھائیوں کی امداد ہو گی.ملازم بھی ایک حد تک دیانتدار ہوتا ہے اور اسے موقع ملے تو وہ اپنے بھائیوں کی مدد کرنے سے دریغ نہیں کرتا لیکن ایک تاجر کی ذہنیت سخت پست ہوتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میری تجارت میرے ہاتھ میں ہی رہنی چاہئے ورنہ میری اولا د تباہ ہو جائے گی.حالانکہ یہ اول درجہ کی حماقت اور پاگل پن والی بات ہے.ہر تاجر صرف اپنے فائدہ کو دیکھتا ہے قوم کے فائدہ کا خیال اُس کے دماغ میں نہیں آتا.اس سلسلہ میں اگر کسی نے کچھ تعاون سے کام لیا ہے تو ملک عبدالرحمن صاحب قصوری ہیں.وہ بے شک تجارتی طور پر کام کرتے ہیں مگر کرتے تو ہیں.دوسرے تاجر تو اس فکر میں رہتے ہیں کہ سو فیصدی خود فائدہ اُٹھا ئیں اور اگر کوئی سکیم لاتے ہیں تو وہی جو خود اُن کے فائدہ کی ہو.اِس وقت سلسلہ کی طرف سے ایک تیل کا کارخانہ جاری ہے.میں نے کئی احمدی تاجروں کو بلایا اور ان سے کہا کہ وہ سلسلہ کے اس کارخانہ کو دیکھیں اور پھر مشورہ دیں کہ ہم اسے کس طرح ترقی دے سکتے ہیں مگر وہ ہاں جی یا بہت اچھا کہہ کر چلے گئے اور پھر اُنہوں نے کچھ بھی نہیں کیا.میں حیران ہوں کہ تاجروں کی ذہنیت اس قدر گندی کیوں ہے.جتنے تاجر ہیں ان میں عدم تعاون اور عدم ذمہ داری کا مادہ پایا جاتا ہے.وہ صرف عاجل فائدہ کو دیکھتے ہیں آجل کو نہیں.اس وقت تو وہ اپنے آپ کو فائدہ میں محسوس کر رہے ہیں لیکن میں انہیں متنبہ کرتا ہوں کہ اگر انہوں نے اصلاح نہ کی تو کسی دن وہ اس کا بُری طرح خمیازہ بھگتیں گے.ہمارے خلاف سیاسی جوش بڑھتا جا رہا ہے اور گو آج تاجر محفوظ ہیں مگر کل یہی لوگ سلسلہ کے سامنے اپنا ناک رگڑنے پر مجبور ہوں گے اور سلسلہ کو ہی اپنی مدد کے لئے بلائیں گے.پس جب کل اُنہوں نے سلسلہ کو اپنی مدد کے لئے بلانا ہے تو کیوں آج ہی وہ سلسلہ سے تعاون کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے.یا درکھو ہر وہ تجارت یا صنعت یا ملا زمت جو قوم کے اکثر افراد کے ہاتھوں میں آجاتی ہے اسے کوئی دشمن تباہ نہیں کر سکتا کیونکہ وہ فرد کے ہاتھ سے نکل کر قوم کے ہاتھ میں پہنچ چکی

Page 512

خطابات شوری جلد سوم ۴۹۶ مشاورت ۱۹۵۲ء ہوتی ہے.مثلاً تعلیم کا محکمہ ہے اگر اس میں ہمارے صرف آٹھ دس استاد ہوں تو وہ کسی شورش کے وقت آسانی سے ان کو نکال سکتے ہیں لیکن اگر دو چار سو استاد ہوں تو وہ ان کو نکال ہی نہیں سکتے کیونکہ ان کے نکالنے سے خود ان کا اپنا نقصان ہوتا ہے.میں اس کی ایک موٹی مثال دیتا ہوں.میں ایک دفعہ دلی گیا.مسٹر مانٹیگو وزیر ہند اُس وقت ہندوستان میں آئے ہوئے تھے.چوہدری ظفر اللہ خان بھی اُس وقت میرے ساتھ تھے اور گو وہ اُس وقت صرف وکیل تھے مگر اچھے ذہین اور ہوشیار تھے اور قربانی کا مادہ بھی ان میں پایا جاتا تھا.اُنہی دنوں مجھے ایک احمدی دوست کا جو فوج میں ملازم تھے خط آیا کہ مجھے فوج سے نکال دیا گیا ہے اور مجھے کہا گیا ہے کہ تم بڑا اچھا کام کرنے والے ہو مگر چونکہ تم احمدی ہو اس لئے تمہیں فارغ کیا جاتا ہے.میں نے چوہدری صاحب سے کہا کہ آپ کمانڈر انچیف سے ملیں اور اُسے کہیں کہ ایک شخص اگر اپنے کام میں اچھا بھی ہو، گورنمنٹ کا وفادار بھی ہو اور پھر بھی اسے نکال دیا جائے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ وفاداری کی آپ کی نگاہ میں کوئی قیمت نہیں اور آپ ان لوگوں کو منہ لگا رہے ہیں جو شورش پسند ہیں، اس کا نقصان آپ کو ہی پہنچے گا کیونکہ وفاداری کی آپ کوئی قیمت نہیں لگا رہے.چوہدری صاحب واپس آئے تو ان کے چہرہ سے غصہ کے آثار نمایاں تھے.اُنہوں نے بتایا کہ میں مل تو آیا ہوں مگر اس کے ڈھب ٹھیک نہیں.میں نے کہا کیا ہوا ؟ کہنے لگا اس نے جواب یہ دیا کہ چوہدری صاحب! ہمیں فوج میں امن کی ضرورت ہے.اگر ایک احمدی کے رکھ لینے سے باقی ننانوے فوجیوں میں بددلی پیدا ہو اور وہ وفادار نہ رہیں تو ہم کیا کریں.ہمارے پاس یہی علاج ہے کہ ہم اس ایک احمدی کو نکال دیں تاکہ باقی فوج میں بددلی پیدا نہ ہو.میں نے کہا چوہدری صاحب اُس نے ٹھیک کہا ہے انگریز کو اپنے لئے تین لاکھ فوج کی ضرورت ہے.ہماری تو ساری جماعت ایک لاکھ بھی نہیں بنتی اور جب ہماری جماعت اس کی فوجی ضروریات کو پورا نہیں کر سکتی تو لازماً وہ مجبور ہے کہ دوسروں کے جذبات کا خیال رکھے.یا تو یہ ہونا چاہئے کہ اگر انگریز انہیں کہے کہ جاؤ میں تمہاری پرواہ نہیں کرتا اور وہ سب کے سب فوج سے نکل جائیں تو ہم اتنی ہی فوج انہیں بھرتی کر کے دے سکیں.اگر ہم ایسا نہیں کر سکتے تو پھر یقیناً نانوے کی سنی جائے گی اور ایک کی نہیں سنی جائے گی خواہ وہ کتنا ہی وفادار ہو.تو حقیقت یہ ہے کہ

Page 513

۴۹۷ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء خطابات شوری جلد سوم ایک ایک محکمہ میں اگر ہمارے ڈیڑھ ڈیڑھ دو دو تین تین ہزار آدمی موجود ہوں تو وہ ان کو نکال ہی نہیں سکیں گے کیونکہ ان کے اپنے کام معطل ہو جائیں گے.اتنی خالی جگہوں کو کوئی حکومت بھی چند دنوں میں پر نہیں کر سکتی.مثلاً ایک صوبہ میں پانچ سات سو مدرس ہوں، پچاس ساٹھ انجینئر ہوں، تو وہ اُن کو نکالیں گے کس طرح؟ اُن کو نکالنے کے معنے اپنے پاؤں پر کلہاڑا مارنے کے ہوں گی.پس لوگ خواہ ہمارے دشمن ہوں اگر ہمارے آدمی مختلف فن سیکھ کر کافی تعداد میں ایک ایک پیشہ میں کام کر رہے ہوں تو دشمن ہمیں نکال نہیں سکتے.وہ اُسی وقت نکال سکتے ہیں جب ہمارے افراد خال خال ہوں.یہی حال تاجروں کا ہے.اگر وہ بھی مختلف مقامات پر چھائے ہوئے ہوں اور اپنی تجارت کو فروغ دے کر ارد گرد پھیلتے چلے جائیں تو ان کا بائیکاٹ کبھی کامیاب ہی نہیں ہو سکتا.کیونکہ اگر وہ ان کا بائیکاٹ کریں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ اپنے فوائد کو آپ قربان کر دیں اور دُنیا میں کون ایسا احمق ہے جو اُسی شاخ کو کاٹنا شروع کر دے جس پر خود بیٹھا ہوا ہو.پس جہاں تک میں سمجھتا ہوں ایسے اصول یقیناً اختیار کئے جاسکتے تھے جن سے کام کو وسیع طور پر پھیلایا جا سکتا تھا اور اگر تاجر ہمارے ساتھ تعاون کرتے تو بعض تجارتوں میں ہم خاصے ماہر ہو جاتے.صرف اس لئے کہ ہمارے تاجر کمپنیاں بنا کر کام کرنے کے عادی نہیں، ان کی تجارت وسیع نہیں ہوتی.دُنیا کی کوئی قوم صرف انفرادی تجارت کے زور سے باقی اقوام پر غالب نہیں آ سکتی.جب مسلمانوں کی تجارت اپنے عروج پر تھی تو اُس وقت بھی دوسرے لوگوں کا ان کی تجارت میں حصہ شامل ہوتا تھا.یورپ اور امریکہ میں بھی یہی طریق رائج ہے اور اسی وجہ سے وہ ایک لمبے عرصے سے تجارت پر چھائے ہوئے ہیں.فرد کبھی لمبی تجارت کر ہی نہیں سکتا ، آخر ایک نہ ایک دن وہ ٹوٹ جاتی ہے.اس لئے کمپنیاں بنا کر تجارت کرنا ہی تجارت کا کا میاب طریق ہے مگر ہمارا تاجر ہمیشہ عاجل فائدہ کو دیکھتا ہے آجل کو نہیں.وہ یہ تو چاہتا ہے کہ میں اپنے بیٹے کو تجارت پر لگا دوں یا اپنے بھائی کو تجارت میں شامل کر لوں مگر وہ یہ نہیں چاہتا کہ میں اپنے ہمسایہ کو بھی اپنی تجارت میں شریک کرلوں.میں نے ایک دفعہ بمبئی میں ایک تبلیغی وفد بھیجا.میر محمد اسحق صاحب بھی اس میں

Page 514

خطابات شوری جلد سوم ۴۹۸ مشاورت ۱۹۵۲ء شامل تھے ، وہ بڑے ذہین آدمی تھے.واپس آئے تو اُنہوں نے کہا کہ میں نے اس سفر میں ایک ایسی بات دیکھی ہے جس سے میں بڑا متاثر ہوا ہوں.انہوں نے بتایا کہ میں بمبئی میں بڑے بڑے بوہرہ تاجروں سے ملا ہوں.وہ مذہباً شیعہ ہیں مگر تجارت میں ان کو بڑا غلبہ حاصل ہے.میں نے ان سے پوچھا کہ تم لوگوں کو جو طاقت حاصل ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ اور وہ کون ساگر ہے جو تمہاری اس ترقی کا باعث ہے.انہوں نے کہا ہم نے اپنی جتھا بندی اس رنگ میں کی ہوئی ہے کہ ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا.مثلاً ہم میں سے ایک شخص کا دیوالہ نکل جائے تو جب ہمیں اُس کا علم ہوتا ہے تو ہم اُسے بلا کر کہہ دیتے ہیں کہ ہم تمہیں روپیہ تو دے نہیں سکتے لیکن ہم تمہاری مدد بھی کرنا چاہتے ہیں اس لئے آج سے ہم اپنی تمام دیا سلائیاں تمہیں دے دیتے ہیں یا مٹی کا تیل تمہیں دے دیتے ہیں یا صابن تمہیں دے دیتے ہیں.تم یہ چیز لو اور اس کی تجارت کرو.جب ہمارے پاس کوئی گاہک آئے گا تو ہم اُسے تمہارے پاس بھجوا دیا کریں گے.چنانچہ کمیٹی بیٹھتی ہے اور فیصلہ کر دیتی ہے کہ آج سے کسی بوہرے نے دیا سلائی یا صابن یا تیل فروخت نہیں کرنا.وہ ہول سیل تاجر ہیں ، جب ان کے پاس کوئی شخص مال لینے کے لئے آتا ہے تو وہ کہتے ہیں ہمارے پاس تو مال ختم ہے لیکن ہم نے سنا ہے کہ فلاں تاجر کے پاس مال موجود ہے آپ اس سے لے لیجئے.چنانچہ وہ شخص زیادہ گراں قیمت پر مال اس سے خریدنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور چونکہ بڑے بڑے شہروں میں لاکھوں کا مال خریدا جاتا ہے کسی نے پندرہ ہزار کا مال خریدنا ہوتا ہے، کسی نے پچیس ہزار کا اور کسی نے پچاس ہزار کا اِس لئے جب دکانداروں سے پوچھتے ہیں کہ مال ہے تو جواب ملتا ہے کہ مال تو ختم ہے لیکن فلاں تاجر کے پاس مال سنا جاتا ہے.آپ اس کے پاس چلے جائیے وہ ممکن ہے کچھ مہنگا ہی دے.کیونکہ مال کسی اور جگہ سے مل نہیں رہا اس پر وہ مجبور ہوکر اس کے پاس آتے ہیں اور سو دا خرید لیتے ہیں.اس طرح چند دن یا چند ہفتوں میں ہی لاکھ دو لاکھ روپیہ وہ کما لیتا ہے اور اس کے بعد وہ ان کے مال کی قیمت ان کو واپس کر کے باقی روپیہ سے اپنی تجارت شروع کر دیتا ہے.غرض چھوٹی چھوٹی چیزیں جیسے سگریٹ ہوئے یا دیا سلائی کی ڈبیاں ہوئیں یا جرابیں ہوئیں یا بنیانیں ہوئیں، ان کے ذریعہ سے وہ تھوڑے دنوں میں ہی اُس کے اندر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی طاقت پیدا

Page 515

خطابات شوری جلد سوم ۴۹۹ مشاورت ۱۹۵۲ء کر دیتے ہیں.یہ جتھا بندی کی روح جب بھی کسی قوم میں ہوگی سارے لوگ اُس کے سامنے سر جھکانے پر مجبور ہوں گے لیکن جب نفس پرستی ہوگی اور دل میں احساس ہوگا کہ ہم نے دوسروں کو اپنے قریب نہیں آنے دینا تو ایسے لوگ ہمیشہ قوم کو گرایا کرتے ہیں.اُسے ترقی نہیں دیا کرتے.پس مال بڑھانے کا وہ ذریعہ اختیار کرو جس سے قومی رنگ میں تم کو اعزاز حاصل ہو.تجارت اور صنعت میں ترقی کرنے کے لئے احمدی صناعوں اور تاجروں کی انجمنیں بنا کر ان کے اندر قومی خدمت کا مادہ پیدا کرنا ہمارے لئے ضروری ہے.ورنہ ذاتی اور خاندانی ترقی صرف ایک حد تک جاسکتی ہے اس سے آگے نہیں.یہ امور عامہ کا کام ہے مگر وہ اس سے گلیۂ غافل ہے.پھر زراعت ہے اس میں بھی بہت سی مشکلات آئی ہیں مگر بہر حال ان پر قابو پالیا زراعت گیا ہے اور ترقی کی امید ہے.تحریک جدید کا ریز رو فنڈ قائم کرنے کے لئے سندھ میں دس ہزا را یکٹر یا چار سو مربع زمین خریدی گئی ہے جس پر تمیں لاکھ کے قریب خرچ ہوا ہے.چندوں کے ذریعہ تو صرف دس بارہ لاکھ روپیہ ہی آیا تھا.دس لاکھ کے قریب قرض لیا گیا اور سات آٹھ لاکھ روپیہ وہ ہے جو ان زمینوں کی آمد سے ہی ادا کیا گیا.اس زمین کا اکثر حصہ آزاد ہو چکا ہے لیکن ابھی دس لاکھ کے قریب قرض باقی ہے.اسی طرح صدر انجمن احمدیہ کی زمین وہاں ایک سو دس مربع ہے جو ساری کی ساری آزاد ہو چکی ہے.سندھ میں تین سو روپیہ فی ایکٹر عام طور پر قیمت سمجھنی چاہئے یہاں تو فی ایکٹر ایک ہزار سے دو ہزار روپیہ تک قیمت ہے.اگر وہاں بھی کسی وقت یہی قیمت ہو جائے تو دس ہزار ایکٹر کے لحاظ سے تحریک جدید کا ایک کروڑ روپیہ کا ریز رو فنڈ قائم ہو جاتا ہے اور اگر دو ہزار قیمت لگائی جائے تو دو کروڑ روپیہ کا ریز رو فنڈ قائم ہو جاتا ہے.انجمن کی زمین بھی سندھ سے وہ کی قیمتوں کے لحاظ سے سات آٹھ لاکھ روپیہ کی ہے لیکن ہمارے ملک کے لحاظ.اس تقریر کے کچھ عرصہ بعد میں نے ناظر اعلیٰ کو توجہ دلائی کہ باوجود میری تقریر کے اُنہوں نے یا امور عامہ نے کچھ نہیں کیا.تو اُنہوں نے رپورٹ کی کہ ناظر امور عامہ آپ کی تقریر کے چھپنے کے منتظر ہیں.میں نے جواب دیا کہ اس میں کون سی تفصیلات تھیں کہ اس کے چھپنے کے انتظار کی ضرورت تھی مگر ناظر امور عامہ اس کے بعد بھی غافل ہی رہے.

Page 516

خطابات شوری جلد سوم مشاورت ۱۹۵۲ء پچاس لاکھ روپیہ سے کم نہیں.پھر کچھ اور جائیداد بھی ہم نے اسی علاقہ میں خریدی ہوئی ہے اور وہ بھی ڈیڑھ لاکھ روپیہ کی ہے.میرا اندازہ یہ ہے کہ اگر اس پر مکان اور دُکانیں بن جائیں تو دو تین ہزار روپیہ ماہوار کی آمد ہو سکتی ہے.اسی طرح انجمن کی طرف سے گنری میں ایک کارخانہ بھی کھلا ہوا ہے جو پندرہ ہزار کے سرمایہ سے شروع ہوا تھا اب یہ کارخانہ بھی کافی ترقی کر چکا ہے.بہر حال جیسا کہ میں نے بتایا ہے تحریک کی زمین پر ابھی آٹھ دس لاکھ قرض ہے جو آہستہ آہستہ ادا ہونے کی صورت اب نظر آ رہی ہے بشرطیکہ بھاؤ نہ گر گئے.میرا خیال تھا کہ اس سال ہم اڑھائی لاکھ روپیہ ادا کر دیں گے مگر ٹریکٹر خریدنے کی وجہ سے روپیہ اس طرف صرف ہو گیا.آئندہ سال اگر بھاؤ اچھے رہے تو امید ہے ہم اڑھائی تین لاکھ روپیہ قرض ادا کر سکیں گے.میری سکیم یہ ہے کہ جب قرض اُترنے کے بعد ایک اچھا ریز روفنڈ قائم ہو جائے تو ہم اس کی آمد کے ایک حصہ سے ہنگامی اخراجات چلایا کریں اور عام طور پر ہنگامی کاموں کے لئے چندہ کو استعمال نہ کیا کریں ، دوسرے حصتہ سے ریز روفنڈ کو بڑھایا جاتا رہے.بہر حال زراعت میں گو ہمیں اتنی کامیابی نہیں ہوئی جتنی ایک پنجابی زمیندار کو ہوتی ہے لیکن ایسی کامیابی ضرور ہوئی ہے کہ ہم شرمندگی سے بچ سکتے ہیں.اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے حالات نظر آرہے ہیں کہ اگر قیمتیں نہ گریں تو ریز روفنڈ آسانی کے ساتھ قائم ہو جائے گا.محاسبہ کی ضرورت اب سوال یہ ہے کہ سب نقائص جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے کس طرح دور کئے جائیں؟ اس بارہ میں ہمیں سب سے پہلے اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ان نقائص کی وجوہات کیا ہیں؟ میرے نزدیک ان نقائص کی ایک بڑی وجہ عدم محاسبہ ہے.جماعت کی طرف سے کوئی محاسبہ نہیں ہوتا جس کی وجہ سے ہمارے اداروں کے کاموں پرشستی اور غفلت چھائی ہوئی ہے.اگر افسروں سے محاسبہ کیا جائے تو یہ نقائص بہت جلد دور ہو سکتے ہیں.ان کی سستی کی بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں کوئی پوچھنے والا نہیں اور جب قوم میں یہ جذبہ پیدا ہو جائے تو افسروں کے اندر سُستی کا احساس ترقی کر جاتا ہے.دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ صدر انجمن احمد یہ کے پاس افسر کوئی نہیں.میں سمجھتا ہوں کہ جس قسم کے افسر ہماری انجمن میں کام کر رہے ہیں ان پر

Page 517

خطابات شوری جلد سوم ۵۰۱ مشاورت ۱۹۵۲ء کوئی بھی سلسلہ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا.ناظر صاحب اعلیٰ اکسٹھ سالہ عمر کے پنشنز ہیں اور سات آٹھ سال میں وہ اُس عمر کو پہنچنے والے ہیں جب انسان کسی کام کے قابل نہیں رہتا.ناظر صاحب امور عامہ نو جوانی کی حالت میں آئے اور اب وہ ساٹھ سال کے قریب پہنچ چکے ہیں اور بوجہ آزاد مشنوں میں کام کرنے کے کام کی عادت بالکل بھلا چکے ہیں.ناظر صاحب دعوة و تبلیغ باسٹھ یا چونسٹھ سال کے ہیں.( میں ان کی عمر اپنی عمر سے ایک سال زیادہ سمجھتا ہوں اور وہ ہمیشہ اپنی عمر مجھ سے ایک سال کم بتاتے ہیں.میرے حساب کی رو سے وہ چونسٹھ سال کے ہیں اور اپنے حساب کی رو سے وہ باسٹھ سال کے ہیں ) مگر یہ ہمت والے ہیں اور اپنا کام پورا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں.ناظر صاحب تعلیم و تربیت بھی اکہتر سال کے ہو چکے ہیں.ناظر صاحب بیت المال اٹھہتر سال کے ہیں اور پھر ساتھ ہی انہیں فالج بھی ہے.نائب ناظر تیار کئے جائیں یہ لوگ دماغ تو ہیں مگر ہاتھ بھی تو ہونے چاہئیں اور اس کے لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ ۱۵.۱۶ نائب ناظر تیار کئے جائیں.ورنہ کسی وقت انجمن بالکل دیوالیہ ہو جائے گی لیکن نہ تو ہماری فنانس کمیٹی نے اس بات کو سوچا اور نہ انجمن نے اس پر کبھی غور کیا.ان میں یہ مرض ہے کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ جتنا کام ہے وہ سب ہمارے ہاتھوں میں ہی رہے.جن قوموں میں بیداری نہیں ہوتی اور حکومت کا مادہ اُن میں نہیں پایا جاتا ، وہ یہی چاہتی ہیں کہ جو کام بھی ہو ہمارے ہاتھ میں ہی رہے نوجوانوں کے پاس نہ جائے مگر سوال تو یہ ہے کہ ایسی حالت میں کب تک کام چلے گا.ہمارے ہر محکمہ کے لئے قابل ، لائق اور کام کے ماہر نو جوانوں کی ضرورت ہے کہ ان لوگوں کے فارغ ہونے سے پہلے پہلے وہ ان کے کام کو سنبھال لیں.اگر اس غرض کے لئے صدر انجمن احمدیہ کو زیادہ تنخواہیں بھی دینی پڑیں تو بہر حال اسے زیادہ تنخواہیں دینی چاہئیں اور کام کے قابل نوجوان جو اچھے تعلیم یافتہ ہوں ہمیں فوری طور پر تیار کرنے چاہئیں.ورنہ مجھے تو صدرانجمن احمد یہ کام کے لحاظ سے دیوالیہ نظر آتی ہے.

Page 518

خطابات شوری جلد سوم ۵۰۲ مشاورت ۱۹۵۲ء غلبہ اسلام کیلئے سکیم کی ضرورت ہم کی ضرورت اب میں وہ عام باتیں لیتا ہوں جن سے کام لینا ہوا کرتے ہیں.پس ہر شخص میں احساس ہونا چاہئے کہ وہ نیک نیتی سے کام کرے اور ہمیشہ اس امر کو مد نظر رکھے کہ میں نے دُنیا فتح کرنی ہے.یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے آنے کی غرض تھی.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بتاتا ہے کہ ہم نے ظلِ محمد صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس لئے بھجوانا ہے تا کہ وہ سارے ادیان پر اسلام کو غالب کرے.اور جب مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض اسلام کو تمام ادیان باطلہ پر غالب کرنا ہے تو اس کام کے لئے کوئی نہ کوئی سکیم ہونی چاہئے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ فتح اللہ تعالیٰ کی تائید اور اُس کی نصرت سے ہوا کرتی ہے اور ہماری کوششیں ایک حقیر چیز ہیں مگر پھر بھی کوئی نہ کوئی سکیم تو ہمارے سامنے ہونی چاہئے جس کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم کہ سکیں کہ ہم اپنی جدو جہد کو اس اس رنگ میں جاری رکھیں گے.محض کسی وقت ایک آدھ اشتہار کا شائع کر دینا یا کسی کتاب کا شائع کر دینا سکیم نہیں کہلا سکتا.سکیم وہ ہوتی ہے جو متواتر جاری رہنے والی ہو اور جس سے ہر فرد واقف ہو اور جس پر عمل کرنے کے لئے ہر شخص کے اندر جوش اور تڑپ ہو.اس کے بغیر عقلی طور پر دنیا کو فتح کرنا ناممکن ہے مگر میرے پاس دفاتر کی طرف سے جو رپورٹیں آتی ہیں ان میں اس قسم کی کسی سکیم کا ذکر نہیں ہوتا.مثلاً ناظر صاحب اعلیٰ کی طرف سے ہی رپورٹ آ جائے گی کہ اس ہفتہ میں ہم نے ساٹھ چٹھیاں بھیجیں.میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ تم مجھے یہ بتاؤ کہ تم نے دنیا میں اسلام اور احمدیت پھیلانے کے لئے کیا کوشش کی ہے.چٹھیاں بھجوا دینا تو ایک پوسٹ آفس کا کام ہے.مصارف کی نگرانی دوسرے ایک زبر دست رائے عامہ پیدا کرو تا کہ یہ مردے کسی طرح زندہ ہو جائیں.ہر فرد کے اندر یہ احساس ہونا چاہئے کہ میں ضروری ہے.اوّل تمام کام نیک نیتی سے درست چندہ تو خدا کو دیتا ہوں مگر میرا ساتھ ہی یہ بھی کام ہے کہ میں اس روپیہ کا حساب لوں اور دیکھوں کہ وہ صحیح مقام پر صرف ہوا ہے یا نہیں.یہ دونوں چیزیں اپنی اپنی جگہ ضروری ہیں.روپیہ دینا تمہارے لئے ضروری ہے اور تمہارے لئے یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ تم یہ روپیہ کسی انسان کو نہیں بلکہ خدا کو دے رہے ہو مگر ساتھ ہی تمہارے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ

Page 519

خطابات شوری جلد سوم ۵۰۳ مشاورت ۱۹۵۲ء تم خدا تعالیٰ کے روپیہ کی نگرانی اپنے روپیہ سے بھی زیادہ رکھو تا کہ وہ بے جا خرچ نہ ہو.حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک دفعہ شام میں گئے وہاں اطلاع ملی کہ ارد گرد کے علاقوں میں طاعون پھیل رہی ہے.آپ نے لوگوں سے مشورہ کیا تو سب نے یہی رائے دی کہ آپ کا یہاں ٹھہر نا مناسب نہیں ، آپ واپس تشریف لے جائیں.لیکن حضرت ابوعبیدہ بن جراح جو کمانڈر انچیف تھے اُن کی رائے اس کے خلاف تھی.جب واپسی کا فیصلہ ہو گیا اور تیاری ہونے لگی تو حضرت ابو عبیدہ نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ اَتَفِرُّ مِنْ قَضَاءِ اللهِ کیا آپ اللہ کی ایک تقدیر سے بھاگ رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا نَعَمُ نَفِرُّ مِن قَدَرِ اللَّهِ إِلَى قَدَرِ اللَّهِ ہاں ہم خدا کی تقدیر سے اس کی دوسری تقدیر کی طرف بھاگ رہے ہیں.اس طرح بیشک روپیہ تمہارا نہیں مگر ساتھ ہی تمہاری یہ بھی تو ذمہ داری ہے کہ تم دیکھتے رہو کہ خدا کے روپیہ کا صحیح استعمال ہو ورنہ غلط ذہنتیں بعض دفعہ بڑی بڑی خرابیاں پیدا کر دیتی ہیں.حضرت ابوذرغفاری سے جب کوئی شخص کہتا کہ مجھے روپیہ کی ضرورت ہے تو آپ کہا کرتے کہ بیت المال سے کیوں نہیں لے لیتے ؟ بیت المال میں جتنا مال ہے سب خدا کا ہے اور تم خدا کے بندے ہو خدا کا مال اگر خدا کے بندے نے لے لیا تو کیا حرج ہوا.اُن کی باتیں سُن سُن کر بعض لوگوں نے ڈاکے مارنے شرع کر دیئے.جب حضرت عثمان کو اس بات کا علم ہوگا تو آپ نے اُنہیں ڈانٹا اور پھر حکم دے دیا کہ وہ مدینہ سے دس بارہ میل باہر رہا کریں تا کہ لوگوں کے لئے فتنہ کا موجب نہ بنیں.لوگوں نے حضرت عثمان پر جو اعتراضات کئے ہیں اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ نے حضرت ابوذرغفاری کو باہر نکال دیا اور اُن پر ظلم کیا حالانکہ اگر وہ مدینہ میں رہتے تو سارا اسلامی خزانہ لوٹا جاتا کیونکہ ان کی رائے یہ تھی کہ خدا کا مال اگر خدا کے بندے استعمال کر لیں تو یہ ان کا حق ہے.حالانکہ خدا کے مال کے صرف اتنے معنے ہوتے ہیں کہ اس کا ناجائز استعمال نہ کرو اور اسے زیادہ سے زیادہ روحانیت کی ترقی کے لئے استعمال کرو.یہ معنے نہیں ہوتے کہ اسے جب چا ہو اپنے ذاتی استعمال میں لے آؤ.پس جماعت کو ایک زبر دست رائے عامہ پیدا کرنی چاہئے.اب تو میں شور مچاتا ہوں اور یہ لوگ اپنی مجالس میں مجھ پر پھپتیاں اُڑاتے ہیں اور رائے عامہ ان کی تائید کرتی ہے اگر رائے عامہ بیدار ہو جائے تو پھرئستوں کے خوش ہونے

Page 520

خطابات شوری جلد سوم کی کوئی صورت نہیں رہتی.۵۰۴ مشاورت ۱۹۵۲ء پنشنز اپنی خدمات پیش کریں تیسرے جب تک نئے لوگ تیار نہ ہوں اس وقت تک ضروری ہے کہ پنشنز آئیں اور کام کریں.کچھ انہیں پنشن مل جائے گی اور تھوڑی سی رقم سلسلہ سے لے لیں.اس طرح ان کا گزارہ بھی معقول ہو جائے گا اور سلسلہ کے کام میں بھی ترقی ہوگی.آجکل لوگوں میں یہ ایک مرض پیدا ہو رہا ہے کہ سلسلہ کے کاموں سے عموماً بے تو جہی برتی جاتی ہے.یہ بڑی غفلت کی علامت ہے اور اس کو جس قدر جلد ہو سکے دور کرنا چاہئے کیونکہ دین کے کام میں جو عزت ہے وہ کسی اور کام میں نہیں.ناظر اور وکلاء نائبین کو کام سکھائیں (۴) میں نے بتایا ہے کہ اصلاح کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ نئے نوجوان نائب ناظر اور نائب وکیل لگائے جائیں مگر اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ایسا نہ ہو ناظر اور وکلاء انہیں الگ کر کے بٹھا دیں یا انہیں ایسے کاموں پر لگا دیں جو ناظروں کے نہیں بلکہ کلرکوں کے ہیں.پہلے بعض ناظروں اور وکلاء نے ایسا کیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ بعض نوجوان دل برداشتہ ہو گئے اور وہ کام چھوڑ کر چلے گئے.ورنہ جن نو جوانوں کو کام کرنے کا موقع ملا ہے انہوں نے اپنے اپنے درجہ کے مطابق نہایت اچھا کام کیا ہے مثلاً بیت المال میں عبدالباری ہے.جب خان صاحب بیمار ہو گئے اور راجہ علی محمد صاحب کام چھوڑ کر ہے.چلے گئے ، عبدالباری ہی ناظر بنا رہا اور دو تین سال تک اس نے اچھا کام چلایا.اس کے کام میں نقص بھی نکالے جاتے ہیں مگر جب بوجھ آ پڑا تو اس نے کام کر کے دکھا دیا.گو اس کی طبیعت میں شدید بدظنی اور غلط نکتہ چینی کا مادہ ہے جس کی وجہ سے وہ ہر وقت خطرناک ہو سکتا ہے.اسی طرح صلاح الدین ہے، اس نے اپنے کام کو خوب سنبھال لیا ہے.پھر سعید عالمگیر ہے، وہ بھی بہت اچھا کام کرنے والا ہے.عزیز احمد وقف زندگی ہے وہ بھی خوب کام کر رہا ہے اور تعریف کے قابل ہے شاہ صاحب نے بھی اب اپنے دو ماتحت گریجوایٹ کو کام سکھانا شروع کر دیا ہے.میں نے اب بھی کہا ہے کہ وہ ایسے قابل نہیں مگر میری رائے پہلے ان کے متعلق بہت زیادہ خراب تھی.اب میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے

Page 521

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء کچھ نہ کچھ کام سنبھال لیا ہے.بہر حال ناظروں اور وکلاء کا فرض ہے کہ وہ اپنے نائبین کو کام سکھائیں تا کہ وقت آنے پر وہ سلسلہ کا بوجھ برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں.یہ نوجوان بی.اے بلکہ ایم.اے ہونے چاہئیں.اسی طرح پنشنروں کو چاہئے کہ وہ آخری عمر میں سلسلہ کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں.وہ ساری عمر ایک ایک دو دو روپیہ کی ترقی کے لئے لڑتے رہے ہیں.اب انہیں خدا کی خوشنودی کے لئے بھی کوئی کام کرنا چاہئے تا کہ ان کی عاقبت سنور جائے.محکمے اپنی سکیم جماعت کے سامنے لائیں (۵) پھر ترقی کے لئے ضروری ہے کہ تمام محکموں کو جماعت کے سامنے پروگرام پیش کرنے پر مجبور کیا جائے.مثلاً اخبارات میں ہر محکمہ کا پروگرام شائع ہو اور پھر دوسرے لوگ اخبار ہی کے ذریعہ سے اس کے متعلق مشورہ دیں.یا سہ ماہی مجالس مرکز میں ہوں جن میں جماعت کے نمائندے مشورے دیں اور کام کا جائزہ لیں.بہر حال کوئی نہ کوئی طریق ایسا ہونا چاہئے جس سے محکمے اپنے پروگرام پیش کرنے پر مجبور ہوں.ہمارا کام دنیا میں اسلام پھیلانا ہے.پس ہمارے محکموں کو یہ بتانا چاہئے کہ انہوں نے اس غرض کے لئے کیا سکیم بنائی ہے.اس پر تقریریں کرواؤ ، مضامین شائع کرواؤ، محاسبہ کرو اور پوچھو کہ تم کیا کر رہے ہو.اس طرح امید ہے کہ دو چار سال کے اندر اندر جماعت میں بیداری پیدا ہونی شروع ہو جائے گی اور محکموں کی غفلت کم ہو جائے گی.نگران کمیٹیاں (1) پھر جیسے فنانس کمیٹی مقرر ہے، اسی طرح ضروری ہے کہ آئندہ تین تین آدمیوں کی نگران کمیٹیاں بنائی جائیں.ایک امور عامہ کی نگران کمیٹی ہو، ایک دعوۃ و تبلیغ کی ہو، ایک وکالت تبشیر کی ہو، ایک تعلیم و تربیت کی ہو، ایک تجارت اور صنعت کی ہو، ایک بیت المال کی ہو، ایک تصنیف کی ہو، ایک زراعت کی ہو، ہر شخص کو معائنہ کا حق حاصل ہو اور سال بھر میں دو دفعہ لازمی طور پر اجتماعی معائنہ ہو.آدمی وہی لئے جائیں جو تعلیم یافتہ ہوں اور فن کو سمجھنے والے ہوں.سال میں دو دفعہ معائنہ کرنے کے بعد وہ تفصیلی رپورٹ کریں جو شوری میں پیش ہو اور پھر وہ رپورٹ تمام جماعتوں کے مطالعہ کے لئے شائع کی جائے.اس قسم کی رپورٹوں پر شروع میں بے شک

Page 522

خطابات شوری جلد سوم مشاورت ۱۹۵۲ء اخراجات ہوں گے لیکن دو تین سال میں ہی جماعتیں بیدار ہو جائیں گی اور پھر امید ہے کہ اس کے نتیجہ میں چندوں میں بھی آٹھ دس لاکھ کی زیادتی ہو جائے گی.شاہ صاحب نے کچھ کام کرنا شروع کیا ہے جس کے نتیجہ میں جماعتوں میں تبلیغی لحاظ سے کچھ بیداری نظر آتی ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام محکموں میں ایک نیا خون داخل کیا جائے اور اس کی یہی صورت ہو سکتی ہے کہ نگران کمیٹیاں مقرر ہوں جو تمام محکموں کا معائنہ کریں اور پھر معائنہ کی رپورٹ پیش کریں تا کہ اس کی روشنی میں محکمے اپنے اپنے نقائص کا ازالہ کر سکیں.بہر حال پانی سر سے گزر چکا ہے اگر اس وقت اس طرف توجہ نہ کی گئی تو پھر پچھتانا فضول ہوگا اور اپنے نفس کے سوا آپ لوگوں کو کسی پر حرف گیری کرنے کا حق نہ ہوگا.تبلیغ کی طرف توجہ کی ضرورت تبلیغ کی طرف بھی ہماری توجہ بہت ہی کم ہے بالعموم ہماری جماعت میں جو پڑھے لکھے آدمی ہیں وہ تبلیغ سے اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہیں اور تبلیغ کرتے بھی ہیں تو اس طرح کہ بڑے فخر سے خط لکھتے ہیں الْحَمدُ لِلہ خدا تعالیٰ نے بڑا فضل کیا کہ فلاں چیڑ اسی جو میں سال سے زیر تبلیغ تھا اس نے احمدیت قبول کر لی ہے.کیا تم چپڑاسی جتنی لیاقت رکھنے والے ہو.تمہاری قابلیت تو اس بات کا تقاضا کرتی تھی کہ تم کسی ای.اے سی کو تبلیغ کرتے یا اگر تم ڈاکٹر یا وکیل ہو تو کہتے فلاں ڈاکٹر اور وکیل نے ہماری تبلیغ سے احمدیت قبول کی ہے مگر کیا ان کو تبلیغ کرتے ہوئے تمہاری زبان کٹتی ہے.تم سلام کر کے آجاتے ہو اور تم انہیں کہتے کچھ نہیں تا کہ ان کے سامنے تمہاری عزت قائم رہے مگر دنیا پھر بھی تم کو بدنام کرتی ہے اور تمہارا اپنا حال یہ ہے کہ تم خدا کو جواب دینے کے بھی قابل نہیں.پس تم غور کرو اور سوچو کہ تم نے کتنے لوگوں کو تبلیغ کی ہے.اگر تم تبلیغ کرو تو لازماً لوگوں کے دلوں میں صداقت کی جستجو پیدا ہو.ابھی پچھلے دنوں دو احمدی وکلاء کی تحریک پر پانچ سات غیر احمدی وکیل ربوہ میں آئے اور انہوں نے مرکز کو دیکھا اور حالات معلوم کئے.اسی طرح اگر سب لوگ کوشش کریں تو نہایت شاندار نتائج پیدا ہو سکتے ہیں.آخر تم کو غور کرنا چاہئے کہ کیا تم خدا تعالیٰ کے لاڈلے تھے کہ خدا تعالیٰ نے تمہیں احمدی بنا دیا اور اُن کو احمدی نہیں بنا سکتا.جس طرح تم پر فضل ہوگا اسی طرح اُن پر بھی ہوسکتا ہے.یہ صرف تمہاری سستی ہے کہ تم مجالس میں اپنی واہ واہ کرانے کے لئے

Page 523

خطابات شوری جلد سوم مشاورت ۱۹۵۲ء اُنہیں تبلیغ نہیں کرتے مگر دشمن پھر بھی تمہیں بدنام کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا.گویا دونوں جگہ تم اپنا منہ کالا کراتے ہو.پاکستان گورنمنٹ سے لوگ ملنے جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہر احمدی تبلیغ کرتا ہے گو ہر احمدی کا تبلیغ کرنا مجرم نہیں.بُری بات یہ ہے کہ کوئی اپنے ماتحت پر اثر ڈال کر اسے تبلیغ کرے.اور ادھر خدا سے تم ملنے جاؤ گے تو خدا کہے گا کہ مجھ سے کیا لینے آئے ہو، میری تو تم نے کبھی تبلیغ ہی نہیں کی.پس نہ اس جہاں میں عزت رہی اور نہ اگلے جہان میں عزت ملی.پھر اس کا فائدہ کیا ہوا.پس ہر شخص جسے قانون اجازت دیتا ہے اُس کا فرض ہے کہ وہ اپنی اپنی سوسائٹی میں تبلیغ کرے.اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو کسی وکیل کا یہ لکھ دینا کہ میر امنشی بیعت کرتا ہے، یہ کوئی خوبی کی بات نہیں.معلوم نہیں اس نے کسی لالچ کے لئے احمدیت قبول کی ہے یا محض خانہ پری کے لئے کی ہے.تبلیغ اپنی حیثیت کے لوگوں میں کرنی چاہئے اور اگر ہر شخص ایسا کرے تو تم دیکھ لو گے کہ کس طرح دو چار سال میں ہی جماعت بڑھ جاتی ہے.یہ کہہ دینا کہ کوئی مانتا نہیں بالکل غلط ہے.وجہ صرف یہی ہے کہ تم تبلیغ نہیں کرتے.اگر اس کے لئے کوئی معین سکیم تیار کی جائے تو بڑے وسیع نتائج پیدا ہو سکتے ہیں.دار التبلیغ کراچی میں اس موقع پر یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ کراچی کی اہمیت چونکہ پاکستان کی وجہ سے بہت بڑھ گئی ہے اس لئے ضروری ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے وہاں ہمارا مکان بن جائے اور ضروری ہے کہ سلسلہ کے نہایت اچھے اور قابل نمائندے وہاں رہیں.تا کہ ہمارا سلسلہ ساری دنیا سے روشناس ہو سکے ورنہ بیرونی ملکوں پر بُرا اثر پڑے گا.وقف کی شرائط ایک اور بات جس کو میں دوستوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ وقف کی شرائط کے متعلق میرے نظریہ میں کچھ تبدیلی پیدا ہوئی ہے کیونکہ میں نے دیکھا کہ کئی لوگوں نے اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے وقف کیا اور پھر بھاگ گئے.اس کی بڑی وجہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ ہے کہ وقف بچپن میں کیا جاتا ہے یا وہ لوگ بھی جن کا صرف ایک ہی بچہ ہوتا ہے، اپنے بچوں کو وقف کر دیتے ہیں اور پھر انہیں مشکلات پیش آتی ہیں.اب غور کرنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا ہے کہ وقف کے متعلق مندرجہ ذیل امور مدنظر رکھنے چاہئیں.

Page 524

خطابات شوری جلد سوم ۵۰۸ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء اوّل: - وقف ایک سے زیادہ اولاد والوں میں سے کسی ایک کا ہو.ہم دوسروں کا رستہ بند نہیں کرتے وہ بھی وقف کر سکتے ہیں مگر ایسے قواعد ضرور ہونے چاہئیں کہ مجبوری کے وقت وہ آسانی سے فارغ کئے جاسکتے ہوں.(۲) وقف صرف بالغ مرد کا ہو.اکیس سال سے پہلے کے وقف آئندہ نہ لئے جائیں اور گزشتہ وقفوں کو بھی فارغ کرنے کا راستہ کھلا رکھا جائے تا کہ وقف لڑکے کا ہو باپ کا نہ ہو اور اس میں نمائش نہ ہو بلکہ حقیقت ہو.(۳) اکیس سال سے پہلے جن کو وظائف دیے جائیں جیسے جامعہ احمدیہ وغیرہ میں تعلیم پانے والوں کو دیئے جاتے ہیں، وہ بطور قرض ہوں جو وقف کی صورت میں وقف کے اندر مدغم ہو جائیں اور غیر وقف کی صورت میں وہ صرف قرضہ ہو جو حسب شرائط و معاہدہ وصول کر لیا جائے.(۴) سابق واقفین جن کی تعلیم پر سلسلہ کا روپیہ خرچ ہوا ہے، وہ بھی محکمہ کے قواعد کے مطابق رقم واپس کر کے فارغ ہو سکتے ہیں.(۵) جو والدین اپنے بچوں کو وقف کرنا چاہیں وہ امیدواران وقف کی لسٹ میں رہیں.جب وہ اکیس سال کے ہو جائیں تو اُن سے دوبارہ پوچھا جائے کہ آیا وہ اپنی زندگی اپنی مرضی سے وقف کرتے ہیں یا نہیں.اگر وہ وقف نہ کرنا چاہیں تو ان کو فارغ کر دیا جائے اور اگر وقف ہونا چاہیں تو ان کا وقف قبول کر لیا جائے.بہر حال بچوں کو بڑے ہو کر آزاد ہونے کا پورا حق حاصل ہوتا کہ ان کی خدمت چٹی نہ ہو اصلی اور سوچی سمجھی ہوئی قربانی ہو.میرے نزدیک اس سال کی مجلس شوری میں اس امر پر بھی غور ہونا چاہئے کہ ہماری جماعت کے تاجروں، صناعوں اور زمینداروں کی الگ الگ کمیٹیاں مقرر ہوں.جن کے نمائندے سال میں کم سے کم ایک دفعہ یہاں آئیں اور باہمی مشورہ کر کے اپنی ترقی کی سکیمیں طے کریں.تاجر اور صناع جس قدر آ سکیں ان کو اس موقع پر آنے کی کوشش کرنی چاہئے.اسی طرح زمینداروں کے نمائندے بھی آنے چاہئیں کیونکہ وہ بڑی تعداد میں ہیں.یہ سر دست ایک مشاورتی کمیٹی ہو جو قربانی تعاون اور ترقی کی روح پیدا کرے اور تحریک سے کام لے نہ کہ جبر سے یہ نظارت امور عامہ کا

Page 525

خطابات شوری جلد سوم ۵۰۹ مشاورت ۱۹۵۲ء کام ہے.اخراجات میں تقدم و تاخر کوملحوظ رکھا جائے اصولی طور پر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں اپنے تمام اخراجات میں تقدم اور تاخر کوملحوظ رکھنا چاہئے.یعنی ہمارا کام یہ ہونا چاہئے کہ جو بھی پروگرام بنایا جائے اور اس کے لئے جو رقوم بھی تجویز کی جائیں آئندہ سالوں میں بجٹ کی توسیع اس سکیم کے تابع ہو اور جب بھی روپیہ میں زیادتی ہو ان تجاویز کو مقدم رکھا جائے تا کہ بے منصو بہ کام نہ بڑھے اور اگر خاص ضرورت کے ماتحت کانٹا بدلنا پڑے تو یا خلیفہ وقت کی سابق منظوری سے تجویز بدلی جائے.جس میں صاف لفظوں میں لکھا ہو کہ فلاں فلاں مقدم کام کو مؤ تحر کر کے اس نئے کام میں روپیہ لگایا جائے اور یا پھر شوری میں پہلے فیصلہ کروایا جائے کہ اس کام کو دوسرے کاموں پر مقدم کیا جائے اور پھر وہ تجویز پیش ہو.اب تو بعض دفعہ مجھ سے کھیل کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ فلاں کام کے لئے اتنی رقم منظور کی جائے اور جب میں منظور کر لیتا ہوں اور بعد میں دریافت کرتا ہوں کہ فلاں کام جس کی منظوری میں پہلے دے چکا تھا وہ کیوں نہیں ہوا تو کہا جاتا ہے کہ آپ کی منظوری سے ہی وہ رقم فلاں کام میں خرچ کر دی گئی ہے.حالانکہ ایسے موقعوں پر ضروری ہوتا ہے کہ نام لے کر وضاحت کروائی جائے اور فیصلہ کروایا جائے کہ فلاں کام کی جو منظوری دی گئی تھی اُسے رڈ کیا جاتا ہے اور پھر کسی نئے کام کے لئے کسی رقم کی منظوری کا سوال اُٹھایا جائے.بہر حال ہمارے کاموں میں تقدّم اور تا تخر کا فیصلہ ہونا ضروری ہے تا کہ مقدم کا موں کو اختیار کیا جا سکے اور بغیر کسی سکیم کے ہمارا کام نہ بڑھے اور نہ روپیہ کا ضیاع ہو.میں سب کمیٹیوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ان امور پر غور کر کے اپنی اپنی رپورٹیں تیار کریں اور میں جماعت کے نمائندگان سے بھی کہتا ہوں کہ اگر وہ یہ دیکھیں کہ جن امور کی طرف میں نے توجہ دلائی ہے ان میں سے کسی بات پر کمیٹی نے غور نہیں کیا تو اس بارہ میں انہیں مجلس شوریٰ میں ترمیم پیش کرنے کا حق حاصل ہو گا.خواہ فنانس کمیٹی کسی بات کی طرف توجہ نہ کرے یا دوسری کمیٹیاں کسی پہلو کو نظر انداز کر دیں.اس کے بعد میں اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں اور سب کمیٹیوں کے صدر صاحبان سے

Page 526

خطابات شوری جلد سوم مشاورت ۱۹۵۲ء کہتا ہوں کہ وہ اپنے اپنے ممبروں کو یہ بتا دیں کہ کس وقت اور کس مقام پر ان کا مشورہ کے لئے جمع ہونا ضروری ہوگا تاکہ سب کمیٹیاں اپنی اپنی کارروائی جاری رکھ سکیں“.دوسرا دن مجلس مشاورت میں صحابہ کی نمائندگی مشاورت کے دوسرے دن ۱۲.اپریل ۱۹۵۲ء کو نظارت اعلیٰ کی رپورٹ پیش ہونے کے بعد حضور نے فرمایا: - دوستوں نے ناظر صاحب اعلیٰ کی رپورٹ سُن لی ہے.گزشتہ سال کے فیصلہ جات جو تعیین نمائندگان کے متعلق تھے اس میں بعض غلطیاں رہ گئی ہیں مثلاً صحابہ کی نمائندگی کے متعلق ہم نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ۱۹۰۰ ء سے پہلے کے صحابہ سارے کے سارے بطور حق کے ممبر ہیں اس میں جو مضمون ہے وہ بتاتا ہے کہ اس میں در حقیقت صحابہ کی اہمیت کو مد نظر رکھا گیا ہے.یعنی وہ لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت حاصل کی اور استفادہ کیا.ان کے شوریٰ میں بُلانے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ ان کی صحبت کے اثر سے برکت کی جائے لیکن صحابہ کا لفظ بولتے وقت ایسی تشریح نہیں کی گئی جس میں یہ سارا مضمون آجائے.صحابہ کو بطور حق ممبر بناتے وقت یہی بات مد نظر تھی کہ ایسے لوگوں کو شمولیت کا موقع دیا جائے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت حاصل کی ہو اور اس سے فائدہ اُٹھایا ہو لیکن محض صحابہؓ کے لفظ میں وہ بچہ بھی شامل ہے جو ۱۸۹۸ء، ۱۸۹۹ء، یا ۱۹۰۰ء میں پیدا ہوا.بہر حال صحابی کے لفظ کی تشریح ہونی چاہئے.صحابہ کی یہ تعریف بھی کی جاتی ہے کہ وہ شخص جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں مسلمان ہو گیا اور اس نے اپنی زندگی میں چاہے کفر کی حالت میں ہی ہو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہو تو وہ صحابی ہے.پھر ایک تعریف یہ بھی ہے کہ اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہو یا آپ نے اُسے دیکھا ہو.غرض صحابی کی کئی تعریفیں ہیں، مختلف ضرورتوں کے ماتحت اس کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں لیکن محض دیکھ لینے سے ہمیں کیا فائدہ ہوگا ، ہمیں فائدہ تو اسی صورت

Page 527

خطابات شوری جلد سوم ۵۱۱ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء میں ہوگا کہ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت حاصل کی ہو اور پھر اس سے استفادہ کیا ہو.پس یہ بتانا چاہئے کہ صحابہ سے کون سے صحابہ مراد ہیں.چونکہ اس بات کی پہلے تشریح نہیں کی گئی تھی اس لئے نتیجہ یہ ہوا کہ شوری کے لئے بعض ایسے صحابہ کے نام بھی آگئے جن کے متعلق میں قطعی طور پر یہ سجھتا تھا کہ وہ ہمیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتے.جب ان پر یہ سوال کیا گیا کہ ان میں سے وہ کون سے صحابہ ہیں جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت حاصل ہوئی ہے؟ تو بعض ایسے لوگ بھی نکل آئے جنہیں صُحبت نصیب ہی نہیں ہوئی تھی.پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے تین دن تک کاغذات اپنے پاس رکھے کہ تحقیقات ہو رہی ہے حالانکہ بعض معروف صحابہ تھے مثلاً ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب اور ماسٹر فقیر اللہ صاحب جن کو ہم جانتے ہیں لیکن انہیں بھی اسی بناء پر محروم کر دیا گیا کہ ابھی تحقیقات ہو رہی ہے حالانکہ یہ ایسی چیز نہیں تھی جو ہم نہیں کر سکتے تھے.میں سمجھتا ہوں کہ آئندہ کے لئے اس بات کا فیصلہ ہو جانا چاہئے کہ صحابی کی تعریف اس حق کے حاصل کرنے کے لئے کیا ہو گی.آیا صحابی کی یہ تعریف ہوگی کہ وہ شخص جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کسی حالت میں بھی دیکھا ہو اور اُس زمانہ میں یا بعد میں ایمان لایا ہو.یا جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دیکھ لیا ہو.یا اس کی یہ تعریف کی جائے گی کہ اس سے وہ صحابی مراد ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نہ صرف دیکھا ہو بلکہ آپ کی صحبت بھی حاصل کی ہو اور پھر استفادہ بھی کیا ہو.دوسری غلطی یہ ہوئی کہ یہ قانون تو بنا دیا گیا کہ ۱۹۰۰ء کے بعد کے صحابہ میں سے پندرہ صحابہ لے لئے جائیں لیکن کسی کو یہ خیال نہ آیا کہ ان کے انتخاب کی کیا صورت ہو گی اور نتیجہ یہ ہوا کہ صرف ربوہ کے صحابہ کی فہرست دے دی گئی.میں نے کہا کیا ربوہ کے صحابہ کو کوئی خاص فوقیت حاصل ہے کہ صرف انہیں حق دے دیا گیا ہے اور باہر کی جماعتوں کا خیال نہیں رکھا گیا.میں رات کو اس بات پر غور کر رہا تھا لیکن میرے ذہن میں کوئی صورت نہیں آئی کہ کس طرح سارے صحابہ کا خیال رکھا جائے.آیا سارے صحابہ کی ایک فہرست بنا لی جائے اور پھر ان میں قرعہ ڈال کر نام منتخب کئے جائیں یا کوئی اور صورت نکالی جائے.آخر کیا وجہ ہے کہ شوریٰ میں نمائندگی کا حق لاہور، سیالکوٹ، گجرات، گوجرانوالہ اور

Page 528

خطابات شوری جلد سوم ۵۱۲ مشاورت ۱۹۵۲ء دوسری جگہوں کے رہنے والے صحابہ کو نہ دیا جائے.مثلاً اپنی سہولت کے لئے یہ قاعدہ بنا سکتے ہیں کہ ہر جماعت جو ایک نمائندہ منتخب کر سکتی ہے اگر اسے ایک نمائندہ کا حق ہے تو اسے ایک زائد نمائندہ بھیجنے کا حق ہوگا جو صحابی ہوگا کیونکہ ہم ایک کے ٹکڑے نہیں کر سکتے.یا مثلاً یہ رکھا جائے کہ ۲۵ فیصدی نمائندگی پر ایک زائد نمائندہ صحابی آئے ، اس طرح ہر جماعت کو نمائندہ بنانے کا حق حاصل ہو جائے گا اور کوئی اعتراض نہیں ہوگا.بظاہر پچیس فیصدی نمائندگی کا حق دے کر ہم نے صحابہ کو کوئی زائد نمائندگی نہیں دی بلکہ پہلے انہیں ۱۰۰ فیصدی نمائندگی حاصل ہوا کرتی تھی وہ ہم نے پچیس فیصدی کر دی ہے.صحابہ ویسے ہی نمائندگی کے حقدار ہیں جیسے دوسرے لوگ.صرف یہ علیحدہ نمائندگی کا حق اس لئے دیا گیا ہے تا صحابہ کا عصر کم نہ ہو.اگر کسی جماعت کو ۱۲ نمائندے بھیجنے کا حق ہے تو اسے تین صحابہ بھیجنے کا بھی حق ہوگا.اگر کسی جماعت کے نمائندے چار سے کم ہوں تب بھی وہ ایک صحابی بطور نمائندہ بھیج سکتی ہے.یہ تجاویز ہیں ، آپ ان پر غور کر لیں.پہلے دن مجلس شوریٰ میں صحابہ کی نمائندگی مفقود تھی.آج ۱۹۰۰ء سے قبل کے صحابہ کو تو نمائندگی مل گئی ہے لیکن ۱۹۰۰ء سے بعد کے صحابہ میں سے جن پندرہ صحابہ کو نمائندگی کا حق ملنا تھا وہ نہیں ملا کیونکہ ان کے انتخاب کا ذریعہ نہیں بتایا گیا تھا.“ تیسرا دن ۱۳.اپریل ۱۹۵۲ء جماعتی کاموں کو ترقی دینے کے لئے زریں ہدایات کو مجلس مشاورت کا آخری اجلاس شروع ہوا.عام کا رروائی سے قبل حضور نے جماعتی کاموں کو ترقی دینے کے لئے احباب جماعت کو بیش قیمت ہدایات سے نوازا.تلاوت قرآن کریم اور دعا کے بعد فرمایا: - کل صدرانجمن احمدیہ کے بجٹ کے متعلق فیصلہ کیا گیا تھا کہ اصولی طور پر اعداد و شمار کو قبول کر لیا جائے لیکن بعد میں مزید غور کر کے میں اس میں مناسب تبدیلی کروں گا تا کہ

Page 529

خطابات شوری جلد سوم ۵۱۳ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء بجٹ کم ہو جائے.جن دوستوں نے بجٹ کے متعلق تقاریر کی تھیں میں اُن کے نوٹ لیتا گیا تھا اور بعض باتیں اپنی طرف سے لکھتا گیا تھا.آج میں دوسری کا رروائی شروع کرنے سے پہلے ان باتوں کے متعلق کچھ بیان کر دینا چاہتا ہوں.بعض باتیں چھوٹی ہوتی ہیں لیکن نتائج کے لحاظ سے بڑی اہم ہوتی ہیں.میں نے صدر انجمن احمدیہ کی مشکلات کو دیکھ کر یہ فیصلہ کیا تھا کہ بجٹ اخراجات ہمیشہ گزشتہ سال یا اس سے پہلے سال کی آمد سے ۱۰ فیصدی کم رکھا جایا کرے اور اس فیصلہ سے میری غرض یہ تھی کہ اس ذریعہ سے جماعت اپنے پروگرام بڑھانے میں کامیاب ہو سکے گی.یہ نہیں ہو گا کہ یونہی خرچ ہوتا چلا جائے اور بعد میں ندامت اور پشیمانی حاصل ہو.کچھ سال تک تو اس پر عمل ہوتا رہا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صدر انجمن احمدیہ نے آٹھ لاکھ روپیہ بطور ریز روفنڈ جمع کر لیا لیکن ۱۹۴۷ء کے ہنگامے میں یہ قاعدہ ٹوٹ گیا اور شاید مجھ سے بھی اجازت طلب کر لی گئی تھی کہ مشکلات کی وجہ سے اس قاعدہ پر عمل نہیں ہوسکتا کیونکہ آمد کو سخت صدمہ پہنچا تھا نتیجہ یہ ہوا کہ اخراجات بے انتہاء بڑھنے شروع ہوئے.آپس میں رسہ کشیاں شروع ہوئیں اور بجٹ اخراجات کو آمد سے بڑھا دیا گیا.اگر نتائج بھی بڑھتے تو ہمیں کوئی پریشانی نہ ہوتی مگر آمد کم رہی اور اخراجات بڑھتے چلے گئے.نتیجہ یہ ہوا کہ اخراجات میں اتنی زیادتی ہو گئی کہ انہیں سنبھالنا مشکل ہو گیا.اگر کچھ دیر پہلے اس حالت کا پتہ لگ جاتا تو ہم سنبھل جاتے اور دیکھنے سے معلوم ہو جاتا کہ کس کس جگہ زیادتی ہوئی ہے.آیا عملہ میں زیادتی ہوئی ہے یا سائر میں زیادتی ہوئی ہے.اگر عملہ میں زیادتی ہوئی ہے تو عملہ میں مناسب کمی کی جاتی اور اگر سائر میں زیادتی ہوئی ہے تو سائز میں مناسب کمی کی جاتی اور آہستہ آہستہ بجٹ اعتدال پر آ جاتا.کارکنوں کی تنخواہیں کل کہا گیا تھا کہ اگر کارکنوں کی تنخواہیں زیادہ ہوں تو وہ کام اچھا کریں گے.حقیقت یہ ہے کہ یہاں کارکنوں کی تنخواہیں قادیان سے بہت زیادہ ہیں لیکن مجھے کوئی ایسا کارکن نظر نہیں آتا جو خوش ہو.جتنی جتنی تنخواہ بڑھتی گئی ہے اُتنا اتنا ملال بھی بڑھتا گیا ہے مثلاً صدر انجمن احمد یہ نے گریڈ چار کی بجائے پانچ کر دیا تو ایک کارکن چار کے گریڈ میں جتنا خوش تھا اُتنا ہی وہ اب پانچ کے گریڈ میں ناراض ہے

Page 530

خطابات شوری جلد سوم ۵۱۴ مشاورت ۱۹۵۲ء اُس کے نزدیک گریڈ پانچ نہیں ہونا چاہئے بلکہ آٹھ ہونا چاہئے.اگر انجمن نے کسی کارکن کی تنخواہ پچاس کی بجائے ساٹھ کر دی ہے تو جتنا شکوہ اُسے پچاس روپے تنخواہ کے متعلق تھا ساٹھ روپے تنخواہ پر اُس کا شکوہ اس سے بڑھ گیا ہے اس کے نزدیک تنخواہ ساٹھ نہیں اسی ہونی چاہئے تھی حالانکہ بعض حالات میں ہمارے یہاں کے کارکنوں کی حالت گورنمنٹ کے کارکنوں کی حالت سے اچھی ہے.گورنمنٹ کے سارے محکموں کی تنخواہیں ایک سی نہیں.مرکز میں کارکنوں کی تنخواہیں اور ہوتی ہیں، اضلاع میں تنخواہیں اور ہوتی ہیں اور تحصیلوں میں تنخواہیں اور ہوتی ہیں.ڈسٹرکٹ بورڈ کی تنخواہوں کو جب دیکھا گیا تو ہمارے کارکنوں کی تنخواہیں ان کی تنخواہوں سے بڑھی ہوئی تھیں.اخباروں میں وقتاً فوقتاً جو اعلانات چھپتے رہتے ہیں، ان سے ڈسٹرکٹ بورڈ کی تنخواہوں اور صدر انجمن احمدیہ کی تنخواہوں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے لیکن پھر بھی یہ کہا گیا کہ صدر انجمن احمدیہ کے کارکنوں کی تنخواہیں کم ہیں.تو میں نے کہا تنخواہیں بڑھائی جائیں اور اصولاً مغز اسلام کے لحاظ سے بھی تنخواہیں بڑھانی چاہئیں.اسلام کا مغز یہ ہے کہ ہر شخص کے کھانے پینے کے لئے کافی گنجائش ہو.گو کارکن بھول جاتے ہیں اس بات کو کہ حکومت ، صدر انجمن احمد یہ اور ذاتی کاموں میں فرق ہے.حکومت جبراً ٹیکس وصول کرتی ہے لیکن صدر انجمن احمد یہ جبر نہیں کر سکتی.حکومت جبراً ٹیکس لیتی ہے اور دینے والے دیتے ہیں لیکن یہاں یہ کام نہیں ہوسکتا.کوئی انجمن خواہ کتنی طاقتور ہو، اس کے پاس جبر کی طاقت نہیں ہو سکتی اور لوگوں کا ایک حصہ ایسا ہوتا ہے جو جبر سے مانتا ہے.حکومت جبر سے ٹیکس وصول کرے گی مگر ایک خلیفہ یا نبی ایسا نہیں کرے گا.ان کو جبر کی طاقت حاصل نہیں ، جبر کی طاقت حکومت کو ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کے پاس زکوۃ لینے کے لئے آدمی بھیجے.اس نے کہا میرا اپنا گھر پورا نہیں ہوتا تمہیں کہاں سے دوں جس طرح یہاں بعض لوگ کہتے ہیں.اگر ان سے چندہ مانگا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ اپنے گھر کا حساب ٹھیک کریں یا آپ کو چندے دیں.حکومت ہوتی تو وہ کیا کرتی ؟ وہ یقیناً جبراً وصول کر لیتی.انہیں مجرمانہ کرتی ، قید کرتی، یا دونوں سزائیں ایک وقت میں انہیں دیتی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی ایک وقت میں حکومت مل گئی تھی لیکن وہ حکومت جبری حکومت نہیں تھی اس لئے آپ نے جبر کا پہلو اختیار نہیں کیا بلکہ

Page 531

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء اخلاقی پہلو اختیار کیا اور فرمایا اس شخص سے آئندہ زکوۃ نہ لی جائے.حکومت کے لحاظ سے آپ نے اس سے زیادہ وصول کر لینا تھا لیکن چونکہ آپ کے پاس حکومت نہیں تھی یا جو حکومت تھی اس میں مذہبی رنگ غالب تھا آپ اپنی زندگی میں بتانا چاہتے تھے کہ نبوت کا پہلو حکومت کے پہلو پر جو اتفاقی طور پر ملی ہے غالب ہے اس لئے آپ باوجود دُنیاوی حکومت مل جانے کے اس پر مذہبی پہلو غالب رکھتے تھے.پس آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ شخص زکوۃ دینے سے انکار کرتا ہے اس سے جبر ا ز کوۃ وصول کرو اور صرف زکوۃ ہی نہیں بلکہ زائد روپیہ وصول کرو بلکہ یہ فرمایا کہ اس سے آئندہ زکوۃ نہ لی جائے.اخلاقی لحاظ سے ایک شخص کے لئے جس میں ایمان ہو یہ سزا کا اثر مومن قلوب پر سزا بہت بڑی ہے لیکن جس شخص میں ایمان نہیں وہ خوش ہوتا ہے کہ چلو اب کچھ دینا نہیں پڑے گا.میرا اپنا تجربہ ہے، جماعت کے بعض افراد کو جب یہ سزا دی جاتی ہے کہ ان سے چندہ نہ لیا جائے تو ان کے خطوط پر خطوط آتے ہیں کہ ہمیں معاف کر دیا جائے ، غلطی ہو گئی تھی آئندہ ایسا نہیں ہو گا لیکن بعض کی طرف سے کوئی خط آتا ہی نہیں.وہ سمجھتے ہیں اچھا ہوگا روپیہ ضائع ہو رہا تھا ہمارے کام آئے گا.وہ شخص جس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سزا دی تھی اُس میں ایمان موجود تھا.وہ سمجھ گیا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی ہے اس لئے وہ اگلے سال دونوں سالوں کی زکوۃ لے کر آ گیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! وہ حکم تو پچھلے سال کے لئے تھا، اس سال کی زکوۃ لے لی جائے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں ہم زکوۃ نہیں لیں گے.وہ ہر سال زکوۃ لے کر آتا رہا لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی میں اُس سے زکوۃ نہیں لی.آپ کی وفات کے بعد وہ حضرت ابو بکر کے پاس بھی زکوۃ لے کر آیا لیکن آپ نے فرمایا جس شخص سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زکوۃ نہیں لی، میں اُس سے زکوۃ کیسے لے سکتا ہوں.احادیث میں آتا ہے کہ وہ ہر سال گلے کو پالتا اور پھر اس کے ساتھ نئی زکوۃ لے کر آتا اور زکوۃ کے جانور اس کے پاس اتنی تعداد میں ہو گئے کہ جب وہ زکوۃ لاتا تو وادی بھر جاتی تھی لیکن اس سے زکوۃ نہیں لی جاتی تھی.وہ روتا ہوا آتا تھا اور روتا ہوا چلا جاتا تھا.پس مان لیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو حکومت ملی تھی وہ اور قسم کی تھی لیکن سزا کا

Page 532

خطابات شوری جلد سوم ۵۱۶ مشاورت ۱۹۵۲ء اثر بھی مومن قلوب پر ہوتا ہے غیر مومن قلوب پر نہیں.رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق حکومت پس ہمارے چندے طومی ہیں اور ہمارے پاس حکومت نہیں.اگر حکومت ہو بھی تو ہم وہ طریق اختیار نہیں کر سکتے جو دوسری حکومتیں اختیار کرتی ہیں.فرض کرو اگر کوئی حکومت احمدی ہو جائے اور وہ احمدیوں سے جبراً چندے وصول کرنے کا اختیار دے دے تو بھی ہماری حکومت الگ قسم کی ہوگی اور ہم وہ اختیارات اس صورت میں استعمال نہیں کریں گے جس صورت میں دوسری حکومتیں استعمال کرتی ہیں.ہم اخلاقی پہلو کو غالب کریں گے.ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق جبر استعمال نہیں کریں گے اور ایسے حالات میں کہ جب ہمارے چندوں کا آنا قطعی نہیں ہم جبر کے اصول پر عمل کیسے کر سکتے ہیں.شریعت نے وہ احکام حکومت کو دیئے ہیں اور وہ اسی سے وابستہ ہیں لیکن باوجود اس کے ہم نے دیکھا ہے کہ یہ طریق چلا نہیں.جس کے معنے یہ ہیں کہ یا تو کام کرنے والوں کے نفوس میں ایمان کا وہ مقام نہیں یا کام لینے والے ایسے رنگ میں کام نہیں لیتے کہ کارکنوں کے دلوں میں روحانی اور مذہبی روح زیادہ ہو جائے اور کارکن ہونے کی روح کم ہو جائے.غرض ان طریقوں سے بھی فائدہ نہیں پہنچا اور اب جو میں نے بجٹ دیکھا تو یہ میرے لئے تکلیف کا موجب ہوگا.مجھے سر دردتھی اور اسہال بھی آ رہے تھے لیکن میں سوچ رہا تھا کہ اس مصیبت کو کس طرح ٹلایا جائے.میں ذکر کر رہا تھا کہ میں نے احتیاط کے طور پر یہ قاعدہ بنایا تھا کہ نظارت بیت المال موجودہ سال یا اس سے پہلے سال کا بجٹ آمد سامنے رکھ کر اس سے دس فیصدی کم بجٹ اخراجات تیار کیا کرے لیکن نظارت نے اس کی پابندی نہیں کی.نظارت نے کہا ہے کہ میری طرف سے یہ بات کہی گئی تھی کہ کسی سال کے بجٹ سے دس فیصدی کم بجٹ بنایا جائے حالانکہ یہ درست نہیں.خود بیت المال والوں نے مجھ سے پوچھا تو میں نے جواب دیا جس کا مفہوم یہ تھا کہ پچھلے سال کے بجٹ آمد سے دس فیصدی کم رکھ لیا جائے یا اس سے پہلے سال کے بجٹ آمد سے دس فیصدی کم رکھ لیا جائے.میں دیکھ رہا تھا کہ قاعدہ ٹوٹ چکا ہے اس لئے اسے دوبارہ سہولت سے قائم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ٹوٹی ہوئی چیز زور سے اصلاح پذیر نہیں ہوتی.

Page 533

خطابات شوری جلد سوم ۵۱۷ مشاورت ۱۹۵۲ء میں نے جواب دیا کہ کوشش یہی کرو کہ بجٹ کم رہے لیکن میں یہ پابند نہیں کرتا کہ اس سال یا اس سے پہلے سال کے بجٹ کے مطابق بجٹ بنایا جائے اور پھر دس فیصدی کی کمی کر دی جائے.اب اس سال یا اس سے پہلے سال اور کسی سال میں فرق ہے.کسی سال کا یہ مطلب ہے کہ صدر انجمن احمد یہ آزاد ہے وہ کوئی ایک سال اپنی مرضی سے چن لے اور اس کے مطابق بجٹ بنا کر اس میں دس فیصدی کی کمی کر دے.لیکن اس سال یا پچھلے سال میں وہ مقید رہتی ہے.پس یہ غلط ہے کہ میں نے کسی سال“ کے الفاظ کہے تھے.میں نے ۵۱.۱۹۵۰ء کے متعلق اجازت دی تھی یا ۵۲ - ۱۹۵۱ء کے متعلق اجازت دی تھی اور کہا تھا کہ ان میں سے کوئی ایک سال لے لو اور اس پر بجٹ کی بنیاد رکھو لیکن یہ بھی یاد رکھو کہ ایسے قاعدے ہمیشہ نہیں چلا کرتے.چار پانچ سال کے بعد پھر اس قاعدہ پر غور ہوسکتا ہے.بہر حال اب بھی میں کہتا ہوں کہ ہماری آمد نیں محدود ہیں اور کام کو ہم نے وسیع کرنا ہے اس لئے ایسی صورت ہونی چاہئے کہ ہمارے پاس کچھ رقم جمع ہوتا کہ ہم ہنگامی کام کرسکیں.اس وقت ہم ہنگامی کام نہیں کر سکتے.مجلس شورای کا ہال دوسری چیز جو بظاہر خرچ کے متعلق ہے اور اس وقت میرے دل میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت ہم لجنہ اماءاللہ کی مہربانی سے ان کے ہال میں بیٹھے ہیں.گویا مجلس شوریٰ کا اجلاس جو یہاں ہو رہا ہے اس کے لئے ہم عورتوں کے ممنونِ احسان ہیں.میں نے کئی دفعہ کہا ہے کہ عورتیں مردوں سے چندوں کے معاملہ میں پیش پیش ہیں اور ان میں بیداری پائی جاتی ہے.میں نے ایک دفعہ مردوں کو طعنہ دیا تو ایک دوست نے کہا کہ عورتیں آخر ہم سے ہی لے کر دیتی ہیں.میں نے کہا عورتیں پھر بھی ہمت والی ہیں.تمہارے پاس روپیہ ہوتا ہے لیکن تم دیتے نہیں.ان کے پاس روپیہ نہیں ہوتا پھر بھی وہ تم سے لے کر دے دیتی ہیں.یہ کیا ہی شاندار عمارت ہے جو عورتوں نے بنالی ہے.یہ ہال میرے مشورہ سے بنا ہے اور عمارت کو اس طرز پر بنایا گیا ہے کہ ضرورت پڑے تو اسے وسیع کر لیا جائے.اب یہ ۳۶×۷۰ فٹ ہے لیکن اسے ۳۶×۱۰۰ فٹ تک وسیع کیا جاسکتا ہے اگر یہ ہال اِس قدر وسیع ہو جائے تو میرے خیال میں یہ مناسب ہال کہلا سکتا ہے.اس صورت میں بند گھل جائیں گے اور گیلریاں بند ہو جائیں گی اور اس طرح دو اڑھائی ہزار آدمی

Page 534

خطابات شوری جلد سوم ۵۱۸ مشاورت ۱۹۵۲ء ایک وقت میں ہال میں بیٹھ سکیں گے.ہمارے لئے ضروری تھا کہ ہال تیار کرتے لیکن ابھی تک ہال تیار نہیں ہوگا.یہاں روپے کا بھی سوال نہیں تھا روپیہ عمارت کے لئے آ رہا ہے خواہ وہ کم مقدار میں آرہا ہے لیکن آ رہا ہے.میں نے چوہدری صاحب سے ایک بات کہی ہے اگر خدا تعالیٰ ہمیں کامیاب کر دے تو ایک اور صورت بھی پیدا ہو جائے گی.دفاتر کے لئے روپیہ موجود ہے اور تجویز یہ ہے کہ دفاتر کے پہلو میں ایک ہال بن جائے اور یہ ہال ۵۰×۱۰۰ فٹ کا ہو.اگر اتنا بڑا ہال بن جائے تو یہ قادیان کے ہال سے ڈیوڑھا ہو گا.پھر گیلریاں بھی ہوں گی اور اس طرح اجتماع آسانی سے ہو سکے گا.پس کوئی وجہ نہیں کہ اب تک ہال نہ بن چکا ہوتا.میں اس کے لئے ۹۰ ہزار روپیہ کی بھی منظوری دے دیتا.ابھی لجنہ کے ہال کی بنیادیں بھی نہیں گھری تھیں کہ اُس وقت میں نے صدر انجمن احمدیہ کو ہال بنوانے کے لئے کہا تھا.میں حیران ہوں کہ اس قدر کوتا ہی سے کام کیوں لیا گیا ہے.ربوہ کی عمارات کی تاریخ عمارت کی تاریخ اور ریکارڈ کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ربوہ کی تمام عمارات میری ممنونِ احسان ہیں.چاہے ناظر یہ کہہ دیں کہ میں بڑا ظالم ہوں لیکن وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ کوئی ایک عمارت بھی نظارت نے بنوائی ہے میں نے روزانہ سختیاں کر کر کے اور یہ کہہ کر کہ جب تک فلاں عمارت نہ بنے کارکن دو گھنٹہ زائد وقت دفاتر میں بیٹھیں یہ عمارتیں بنوائی ہیں.صدرانجمن احمدیہ کے دفاتر کا کام میں نے سب سے اچھے آدمی کو دیا تھا اور ادھر تحریک جدید کے دفاتر کا کام میں نے چوہدری فقیر محمد صاحب مرحوم کے سپرد کیا تھا مگر دونوں دفاتر والوں نے سستی سے کام لیا ہے.اُس وقت یہ شکوہ تھا کہ اینٹیں نہیں ملتیں.اب اینٹیں ملنے لگ گئی ہیں بلکہ شکایت ہے تو یہ کہ اینٹیں اُٹھائی نہیں جاتیں، اینٹیں بہت زیادہ ہیں.بہر حال اگلے سال تک ہال بن جانا چاہئے.روپیہ منظور ہے اور دفاتر کی جگہ پر نشان لگا دیا گیا ہے.اس سال دفا تر مکمل ہو جانے چاہئیں تا کہ اگلے سال مجلس شوریٰ کا اجلاس وہاں ہو سکے.جہاں روپے کی رقت بتائی گئی ہے وہاں میرے خیال میں اس کی ذمہ داری اوروں پر بھی آتی ہے.مثلاً میرے خیال میں بعض رقوم سکول پر خرچ ہوئی ہیں گورنمنٹ کے قانون کے مطابق یہ رقوم واپس ملنی چاہئیں.اسی طرح کا لج پر بھی بعض رقوم خرچ ہوئی ہیں اور یہ رقوم

Page 535

خطابات شوری جلد سوم زكوة ۵۱۹ مشاورت ۱۹۵۲ء ساٹھ ہزار روپے کے قریب ہیں.دونوں محکموں نے گورنمنٹ کے بعض قوانین کی عدم پابندی کر کے ان رقوم کو خطرہ میں ڈال دیا ہے.گورنمنٹ کا قاعدہ ہے کہ ایسی رقوم کو محکمہ سے چیک کروا کے معین کروا لیا جائے مگر ایسا نہیں کیا گیا.کالج اور سکول کا کام ہے کہ وہ ان رقوم کو وصول کریں.اس طرح ہمیں ۶۰.۷۰ ہزار روپیہ مل سکتا ہے اور اس سے اور عمارت مثلاً بورڈنگ ہاؤس ہی بن سکتا ہے.میں نے مساجد کے متعلق بھی ایک نوٹ لکھا تھا.دراصل باوجود توجہ دلانے کے جماعت نے اس طرف پوری توجہ نہیں کی.اگر لوگ تھوڑی بہت توجہ بھی کرتے تو ہم امید کرتے تھے کہ دو تین سال میں مطلوبہ رقوم جمع ہو جاتیں.ایک دوست نے کہا تھا کہ اگر جماعت پورے طور پر زکوۃ دے تو ایک لاکھ کی رقم جمع ہو جاتی ہے حالانکہ اگر جماعت زکوۃ دے تو آبادی کا صرف دس فیصدی حصہ زکوۃ دیتا ہے، اس طرح ایک لاکھ روپیہ چالیس لاکھ افراد سے آ سکتا ہے لیکن جماعت اڑھائی لاکھ کی ہے اور ہم اندازہ کرتے ہیں کہ بیرونی جماعتوں کو ملا کر ہماری جماعت پانچ لاکھ کی ہے، اب کجا چالیس لاکھ اور گجا اڑھائی لاکھ.حقیقت یہ ہے کہ زکوۃ کی جو تفاصیل شریعت نے بیان کی ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے ہماری جماعت میں تین ہزار آدمی بھی ایسا نہیں بنتا جو زکوۃ دینے والا ہو.اس کی وجہ یہ ہے کہ زکوۃ کے دو حصے ہوتے ہیں اور عام طور پر زکوۃ پر بحث کرنے والے اس سے غافل ہیں.ایک حصہ وہ ہے جسے انسان خود خرچ کرنے کا مجاز ہے اور ایک حصہ وہ ہے جو حکومت لیتی ہے.جو زکوۃ حکومت لیتی ہے اس نے اس کا نام اب بدل دیا ہے.پس اس کا مطلب یہ نہیں کہ دُہری زکوۃ لگا دی جائے.ایک زمیندار جو زکوۃ حکومت کو ادا کرتا ہے، اسلام میں اسے زکوۃ کہتے ہیں لیکن انگریزوں نے اسے ریونیو کہہ دیا ہے.پاکستان والے بھی اسے ریونیو کہتے ہیں.اب ریونیو کہنے سے ہم وہ زکوۃ نہیں لے سکتے.وہ بہر حال زکوۃ ادا کرتا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بعض جگہ حکومت زکوۃ سے دو گنا ٹیکس لے رہی ہے.جانوروں پر زکوۃ واجب ہے، پنجاب میں بہت کم لوگ جانور رکھتے ہیں لیکن سندھ میں لوگ جانور رکھتے ہیں ، اب زکوٰۃ لگے گی تو حکومت لے گی اور کوئی نہیں لے گا.تجارتوں پر زکوۃ ہے لیکن یہ زکوۃ بھی حکومت لیتی ہے اور ٹیکس کی صورت میں لیتی ہے.اب یہ نہیں کہ چونکہ اس زکوۃ کا

Page 536

خطابات شوری جلد سوم ۵۲۰ مشاورت ۱۹۵۲ء نام ٹیکس رکھ دیا گیا ہے اس لئے دُہری زکوۃ وصول کی جائے.زکوۃ اس وقت فرض ہوتی ہے جب ایک تاجر مقررہ زکوۃ سے کم دے لیکن بالعموم گورنمنٹ مقررہ زکوۃ سے زیادہ ہی لیتی ہے.ہاں نفع نہ ہونے کی صورت میں زکوۃ کم ہو جاتی ہے لیکن اسلام نے زکوۃ نفع پر نہیں رکھی کیپیٹل (Capital) پر رکھی ہے.باقی افراد کی زکوۃ رہ جاتی ہے.اس لئے زکوۃ کا حصہ جو جماعت کو مل سکتا ہے بہت کم ہو جاتا ہے.زیور پر جو زکوۃ ہے اس کا ایک حصہ بھی باقی نہیں رہتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو زیور گھستا ہے اُس پر زکوۃ نہیں.تاجروں کے پاس زیور زیادہ ہوتے ہیں.تم لوگ کھاتے پیتے زیادہ ہو اور تمہاری عورتیں زیادہ خرچ کرتی ہیں لیکن ایک تاجر کی عورت زیادہ خرچ نہیں کرتی.وہ تہہ بند پہنتی ہے اور جب مجلس میں آتی ہے تو ایک خاص جوڑا جو اسی مقصد کے لئے ہوتا ہے پہن کر آ جاتی ہے تم سمجھتے ہو کہ وہ روزانہ ایسی پوشاک پہنتی ہے حالانکہ ایسا نہیں ہوتا.گویا تاجر لوگ تنگی سے گزارہ کر لیتے ہیں اور جو کچھ بچتا ہے وہ زیورات میں لگا دیتے ہیں.تاجر لوگ زیورات کو اپنی جائداد سمجھتے ہیں اور جب لیپیٹل (Capital) میں گھاٹا پڑتا ہے تو زیور بیچ کر اس گھاٹے کو پورا کر لیتے ہیں.پس یہ آمد کا معیار نہیں اور نہ ہم اس سے یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ چونکہ فلاں کے پاس زیور زیادہ ہے اس لئے وہ زیادہ مالدار ہے.عام زیور پہننے والے ہوتے ہیں اور ان پر زکوۃ نہیں.پھر آجکل جڑاؤ زیور کا رواج ہے اور جڑاؤ زیور پر زکوۃ نہیں.زکوۃ سونے کے حصہ پر ہوتی ہے اور وہ بہت کم ہوتا ہے اس رنگ میں ہزارواں حصہ زکوۃ کا بھی باقی نہیں رہتا.در حقیقت کھینچ تان کر یوں سمجھنا چاہئے کہ سو میں سے ایک شخص پر زکوۃ واجب ہے اور جب سو میں سے ایک شخص پر زکوۃ واجب ہے تو اڑھائی لاکھ میں سے زکوٰۃ دینے والا صرف اڑھائی ہزار آدمی ہوا اور پھر ان اڑھائی ہزار آدمیوں میں سے بھی بعض نادہند ہوتے ہیں.ناظر صاحب بیت المال نے بتایا ہے کہ ان کے پاس چار سو کے قریب زکوۃ دینے والوں کے کھاتے ہیں اور جب چارسو کے قریب کھاتے ہیں تو تم زکوۃ دینے والے زیادہ سے زیادہ آٹھ سو سمجھ لو.پس یہ محض خیالی باتیں ہوتی ہیں جس وقت وہ دوست یہ بات کہہ رہے تھے میرا ذہن بچپن کے ایک واقعہ کی طرف چلا گیا.

Page 537

خطابات شوری جلد سوم ۵۲۱ مشاورت ۱۹۵۲ء حضرت خلیفہ امسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ ایک دن ایک شخص آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا مجھے بخاری لے دیں.بخاری ان دنوں ۳۰،۲۵ روپیہ کو آتی تھی.آپ نے فرمایا اس وقت بخاری خرید کر دینے کی مجھے تو فیق نہیں.وہ غصہ میں آ کر کہنے لگا کہ یوں کہو کہ میں نے بخاری لے کر دینی نہیں.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل نے فرمایا میں سچ کہہ رہا ہوں کہ مجھ میں اتنی طاقت نہیں.اُس نے کہا میں دھوکا میں نہیں آ سکتا ایک لاکھ کی جماعت ہے.اگر ہر شخص مرزا صاحب کو ایک روپیہ نذرانہ بھی دے تو ان کو ایک لاکھ روپیہ سالانہ آمد ہوتی ہے اور اگر وہ ایک چوٹی بھی آپ کو نذرانہ دیں تو آپ کو پچیس ہزار روپیہ کی آمد ہوتی ہے.جب اس نے یہ کہا تو آپ نے فرمایا کہ تم بتاؤ اب تک تم نے مجھے کتنی چونیاں نذرانہ دی ہیں.مساجد کیلئے چندہ کی تحریک پس یہ قیاسات ہیں، انہیں واقعات پر مبنی نہیں سمجھنا چاہئے.میں نے تحفہ شہزادہ ویلز کے چھپوانے کی تحریک کی تھی تو جماعت نے ایک خاصی رقم جمع کر دی تھی.اسی طرح اگر مساجد کے لئے بھی کچھ نہ کچھ ہمت کی جائے تو کام بن سکتا ہے.جہاں یہ بات غلط ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے پاس ۲۵ ہزار روپیہ آتا تھا، وہاں یہ بات بھی تو غلط ہے کہ آپ کے پاس کچھ نہیں تھا.آپ کھاتے پیتے تھے اور آپ کے پاس روپیہ بھی آتا تھا.اس زمانہ میں سب سے زیادہ چندے حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے ہی ہوتے تھے.تو جماعت کو اس بارہ میں کوئی نہ کوئی کوشش تو کرنی چاہئے.چاہے تم ایک آنہ فی کس دو یا ایک پیسہ فی کس دو.آخر یہ تو سمجھا جائے کہ اس بارہ میں کوئی نہ کوئی کوشش ہو رہی ہے.چلو یہی فیصلہ کر لو کہ جب کسی بیٹے یا بیٹی کی شادی ہوگی تو ہم کچھ نہ کچھ مسجد واشنگٹن کے لئے دیں گے.مجھ سے نکاح پڑھائے جاتے ہیں وہ ہزار ڈیڑھ ہزار ہو جاتے ہیں اور جو نکاح اپنی اپنی جگہوں پر ہوتے ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں.اگر پانچ روپیہ فی نکاح اوسط رکھ لی جائے تو ہیں چھپیں ہزار روپیہ آ جانا چاہئے.پھر بیٹا پیدا ہوتا ہے یا بیٹی پیدا ہوتی ہے تو کچھ نہ کچھ مسجد کے لئے دے دیں.ایک ہزار پر ایک پیدائش ماہوار ہوتی ہے.ہمارے ملک میں ایک فیصدی کی سالانہ ترقی ہوتی ہے اور ہماری جماعت میں تو اس سے بھی زیادہ ہوتی ہے.اگر اڑھائی فیصدی ہی ترقی ہو تو اڑھائی روپیہ تو یہی ہو جاتا ہے.پھر خوشی کی اور تقاریب ہیں، ان کو ملا لو تو یہ آمد اور بھی

Page 538

خطابات شوری جلد سوم ۵۲۲ مشاورت ۱۹۵۲ء بڑھ جاتی ہے.مثلاً یہ وعدہ کر لو کہ اگر سالانہ ترقی ملی تو پہلے ماہ کی ترقی مسجد فنڈ میں دے دوں گا.یعنی اگر پچاس روپے کی بجائے ۵۴ روپے تنخواہ ہو جاتی ہے تو یہ تنخواہ اسے بارہ مہینہ ملنی ہے بلکہ اگر اس نے ہمیں سال نوکری کرنی ہے تو یہ تنخواہ اسے بیس سال تک ملے گی.وہ نیت کر لے کہ میں پہلے ماہ کی ترقی مسجد فنڈ میں دے دوں گا.پھر پیشہ ور ہیں وہ اپنی آمدن کا اندازہ لگا لیں اور پھر اس پر جو زیادتی ہو اُس کا دسواں حصہ مسجد فنڈ میں دے دیں.مثلاً ایک شخص کی بارہ ہزار روپیہ آمد تھی.اگلے سال وہ تیرہ ہزار روپیہ ہو گئی اس ایک ہزار روپیہ کی زیادتی کا دسواں حصہ وہ مسجد فنڈ میں دیدے.اگر وہ یہ نیت کر لے کہ اس میں سے دسواں حصہ وہ مسجد فنڈ میں دیدے گا تو کون سا بوجھ ہے.پھر جو لوگ نئے ملازم ہوں وہ اپنی پہلی تنخواہ کا دسواں حصہ مسجد فنڈ میں دیں تو اس سے زیادہ بوجھ نہیں پڑتا.اگر پانچ سو روپیہ تنخواہ ہے تو پچاس روپیہ مسجد فنڈ میں دیدے.پھر اگر یہ رقم ایک ہی ماہ میں ادا نہیں ہو سکتی تو ۲۵ ۲۵ روپے ماہوار کر کے دیدے.ساڑھے بارہ بارہ روپے کر کے دیدے.تو اس طرح کافی رقم اکٹھی ہو جاتی ہے صرف ارادہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے.میں نے بوہرا تاجروں میں دیکھا ہے کہ وہ دن میں ایک سو دا ضرور خدا تعالیٰ کے نام پر کرتے ہیں.اسی طرح ہمارے تاجر بھی کر سکتے ہیں.ہندو لوگ بھی ایسا کرتے ہیں ہم عموماً کپاس ہندوؤں کے پاس بیچتے تھے.وہ ہمیشہ ایک سو دا مذہب کے نام پر کیا کرتے تھے اور مجھے کسی دوست نے بتایا کہ اس طرح سات کروڑ روپیہ سالانہ آجاتا ہے اور اس سے ان کے سارے قومی ادارے چلتے ہیں.اب ہمارا تاجر اگر نیت کر لے کہ دن میں پہلا سو دا جو میں کروں گا اس کا نفع مذہب کو دوں گا تو کتنی آمد ہو سکتی ہے.چلو بخل کی وجہ سے وہ مہینہ میں ایک سو دا ہی خدا تعالیٰ کے نام پر کر دے تب بھی تھیں ہزار روپیہ سالانہ سے زیادہ آمد ہوسکتی ہے.اسی طرح کئی اور طریق ہیں جن سے آمد بڑھائی جاسکتی ہے.مثلاً قرآن کریم کہتا ہے کہ جب فصل پک جائے تو اُس کا حق دو.جب فصل پکتی ہے تو زمینداروں کے حو صلے بڑھے ہوئے ہوتے ہیں.اگر کوئی اُن سے مانگتا ہے تو وہ خوب دیتے ہیں.اب اگر کوئی زمیندار یہ کہے کہ فی ایکڑ ایک کرم فصل خدا تعالیٰ کی ہے یا مسجد کے لئے ہے تو اس میں کونسی مشکل بات ہے.ایک کرم کو تو زمیندار کچھ سمجھتا ہی نہیں.ایک کرم میں پچیس فٹ

Page 539

خطابات شوری جلد سوم ۵۲۳ مشاورت ۱۹۵۲ء ہوتے ہیں.ایک ایکڑ میں سے ایک کرم دینے کے یہ معنے ہوئے کہ ایک ایکڑ کا دوسواں حصہ.اگر جماعت کے چار ہزار زمیندار بھی ہوں تو دوا یکٹر کی آمد تو آجائے گی.ایک ایکڑ کی پیداوار ۲۵ - ۲۶ من اوسط ہوتی ہے اور دو ایکڑ کے معنے یہ ہوئے کہ ہمیں ۵۰ من پیدا وار آجائے گی.اسی طرح تو ریا، کپاس اور دوسری فصلوں کا حساب لگا ئیں تو بغیر اسکے کہ ہمیں اتنی تکلیف ہو جتنی بالوں میں کھجلی کرنے سے ہوتی ہے ہمیں ایک ہزار کے قریب روپیہ آ سکتا ہے.دوا یکٹر کپاس ہو اور میں من کپاس فی ایکڑ بھی نکل آئے تو اس کے معنے یہ ہوئے کہ اگر ۴۰ روپے فی من کپاس کی قیمت ہو تو ۱۶۰۰ روپیہ آ گیا.اسی طرح دوسری فصلوں کو ملا کر بغیر کوئی دقت محسوس کئے اڑھائی تین ہزار روپیہ آ جاتا ہے.بلکہ ایک زمیندار اس سے بھی زیادہ دے دیتا ہے.ان دنوں اس کی ہمت بڑھی ہوئی ہوتی ہے.یہ طریق ایسا ہے کہ اگر ہم اسے استعمال کریں تو جماعت میں حرکت پیدا ہو جائے گی.پس اپنے اندر حرکت پیدا کرو اور ایسا رنگ پیدا کرو کہ نیکی زندہ رہے.بہر حال گاڑی کو چلنے دو، کھڑا نہ ہونے دو.مسجد کی تحریک کے بارہ میں عورتوں کا جوش بڑھتا جاتا ہے لیکن مردوں کا جوش کم ہے.لوگوں نے وعدے کئے ، تقریریں ہوئیں، جلسے ہوئے ، اخبارات میں تحریکیں ہوئیں لیکن مسجد واشنگٹن کا چندہ ۳۶ ہزار سے نہیں بڑھا.پس کوئی نہ کوئی نیت کر لو.مثلاً وہی لوگ جو یہاں بیٹھے ہیں یہ بتا دیں کہ جو تجویزیں میں نے بتائی ہیں کیا ان پر عمل کرنے کے لئے وہ تیار ہیں؟ مثلاً ملازمین کو سالانہ ترقی ملے تو پہلے ماہ کی ترقی وہ مسجد فنڈ میں دے دیں.ملازم بولیں کہ کیا وہ ایسا کرنے کا وعدہ کرتے ہیں؟“ اس پر سب ملازمین کھڑے ہو گئے اور اُنہوں نے ایسا کرنے کا اقرار کیا.اس کے بعد حضور نے فرمایا.اب تاجر بولیں ، کیا وہ مہینہ میں سب سے پہلے سو دے یا سب سے آخری سو دے کا نفع مسجد فنڈ میں دیں گے؟ تاجر لوگ عہد کر لیں کہ روزانہ نہیں تو ہفتہ یا مہینہ میں ایک دن کے پہلے سو دے کا نفع مسجد فنڈ میں دیں گے.“ اس پر تاجر دوست اُٹھے اور اُنہوں نے اس تجویز پر عمل کرنے کا عہد کیا اور کہا کہ ہم مہینہ میں سب سے پہلے سو دے کا نفع مسجد فنڈ میں دیا کریں گے.حضور نے فرمایا : -

Page 540

خطابات شوری جلد سوم دو ۵۲۴ مشاورت ۱۹۵۲ء پہلا سو دا اچھا ہے.آپ پہلے سو دے کا نفع نکالیں اور اسے مسجد فنڈ میں جمع کرائیں.اب زمیندار بولیں کہ وہ ایک ایکٹر میں سے ایک کرم یعنی ۵ × ۵ فٹ فصل مسجد فنڈ میں دیں گے؟ گویا ایک مرلہ کا بھی دسواں حصہ.یعنی ایک ایکڑ کا دوسواں حصہ یا ایک سو روپیہ میں سے آٹھ آ نہ تم ایک کرم فصل کاٹ لو اور اس کے نتیجہ میں جو آمد ہو وہ مسجد فنڈ میں دو.66 اس پر زمیندار کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے ایسا کرنے کا عہد کیا.حضور نے فرمایا: - ہر فصل میں سے ایک کرم فی ایکٹر دینا ہو گا ہاں چارہ اس سے مستفی ہوگا.باقی تو ریا ہے ، گندم ہے، گنا ہے، کپاس ہے، سرسوں ہے، ان سب فصلوں میں سے ۵ × ۵ فٹ فصل مسجد فنڈ میں دینی ہو گی.ایکٹر میں سے جس جگہ سے چاہیں ایک کرم بھر لیں لیکن یہ خیال رکھیں کہ خدا تعالیٰ کے نام پر جو دینا ہے وہ بہتر مال ہونا چاہئے.ایک تاجر نے کہا ہے کہ پہلے سو دے میں گھاٹا پڑ جائے تو وہ گھاٹا کس کا ہو گا.یہ تاجرانہ ذہنیت کا مظاہرہ ہے.اگر پہلے سو دے میں گھانا پڑ جاتا ہے تو وہ گھاٹا تاجر کا ہے نفع خدا تعالیٰ کا ہے.اگر اس نے خدا تعالیٰ کو گھاٹا دیا تو اُسے ہمیشہ گھاٹا ہی رہے گا.اب رہ گئے پیشہ ور، ملازموں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنے پہلے ماہ کی ترقی مسجد فنڈ میں دیں گے.اسی طرح تاجروں نے بھی وعدہ کیا ہے کہ وہ مہینہ میں سب سے پہلے سو دے کا منافع مسجد فنڈ میں دیں گے.اس وقت مسجد فنڈ سے مراد مسجد ہالینڈ اور مسجد واشنگٹن ہے.صدر انجمن احمدیہ کا مسجد فنڈ مراد نہیں.یہ غیر ملکوں کی مسجدیں ہیں اس لئے یہ روپیہ تحریک جدید میں وکیل المال کو بھیجا جائے اور لکھا مسجد فنڈ جائے.ملازمتوں کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ اگر ملازم فوجی لئے جائیں تو دوسو کے قریب ہمارے فوجی افسر ہیں جن کی غالبا ترقی ۱۵ روپے سالا نہ ہوتی ہے، اگر دوسو افسر ہوں اور پھر ان کی ترقی ۱۵ روپے سالانہ ہو تو تین ہزار سالانہ مسجد فنڈ میں آجاتا ہے.سپاہیوں کی تو تنخواہ بدلتی نہیں، دوسرے ملازم بھی ہمارے کراچی میں دو تین سو ہوں گے.دوسو کے قریب احمدی ملا زم لاہور میں ہوں گے، سارے ویسٹ پاکستان میں اگر ایک ہزار احمدی ملازم بھی ہوں اور ایک ملازم کی اوسط ترقی ۵ روپے سالانہ رکھ لی جائے تو پانچ ہزار روپیہ آ جاتا ہے اور سارا ملا کر بیس پچیس ہزار ہو جائے

Page 541

خطابات شوری جلد سوم ۵۲۵ مشاورت ۱۹۵۲ء تو بڑی بات نہیں اس سے زیادہ بھی آسکتا ہے.پھر شادیوں بیاہوں میں جہاں لوگ اور جگہوں پر روپیہ خرچ کرتے ہیں وہاں مسجد فنڈ میں بھی کچھ نہ کچھ دے دیا کریں.اب پیشوں کو لیجئے.میں نے بتایا تھا کہ پیشہ ور اپنی اوسط آمدن لگا کر اس پر جو ماہانہ زیادتی ہو اُس کا دسواں حصہ مسجد فنڈ میں دیں.دوسری صورت یہ بھی ہے کہ مہینہ میں ایک گاہک مقرر کر لیں.مثلاً وکیل یہ کریں کہ فلاں مقدمہ میں مؤکل جو فیس ہمیں دے گا وہ ہم مسجد فنڈ میں دے دیں گے.ان دونوں تجاویز میں سے جو تجویز زیادہ سہولت والی ہو وہ 66 مقرر کر لیں.“ اس پر وکلاء کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے کہا ہم اپنی ماہوار آمد کی زیادتی کا دسواں حصہ مسجد فنڈ میں دیں گے.حضور نے فرمایا :- وکالت مال کو چاہئے کہ وہ وکلاء، ڈاکٹروں، کنٹریکٹروں اور دوسرے پیشہ وروں کی فہرستیں بنالے.اب رہ گئے مستری ، مزدور، لوہارا ور ترکھان وغیرہ.ان کے متعلق میری تجویز یہ ہے کہ وہ مہینہ میں کوئی ایک دن مقرر کر لیں.وہ مہینہ کا پہلا دن ہو یا آخری دن.اس تاریخ کی جو مزدوری اُنہیں ملے وہ اس کا دسواں حصہ مسجد فنڈ میں دیں.مثلاً وہ اگر اُس دن پانچ روپے کمائیں تو ۶ آنہ مسجد فنڈ میں دیں اور اگر ڈیڑھ روپیہ کمائیں تو سوا دو آنہ مسجد فنڈ میں دیں.اگر لوہاروں، ترکھانوں یا مزدوروں میں سے ان کا کوئی نمائندہ یہاں آیا ہوتو وہ کھڑا ہو جائے.“ اس پر ان پیشوں سے تعلق رکھنے والے نمائندے کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے عہد کیا کہ وہ مہینہ میں سے پہلے دن کی مزدوری کا دسواں حصہ مسجد فنڈ میں دیا کریں گے.اس کے بعد حضور نے سلسلہ تقریر جاری رکھتے ہوئے فرمایا." مرزا عبدالحق صاحب کہتے ہیں کہ پہلی تجویز میں جیسا کہ کہا گیا ہے کہ وکلاء اپنی سالانہ آمد کی زیادتی کا دسواں حصہ مسجد فنڈ میں دیں، ہر ایک وکیل نہیں آ سکتا.مرزا عبدالحق صاحب کی تجویز ہے کہ علاوہ زیادتی کے پہلے ماہ کی آمد کا پانچ فیصدی حصہ ہر ایک وکیل دے.“ اس پر سب وکلاء کھڑے ہو گئے اور اُنہوں نے اس ترمیم سے اتفاق کیا.یعنی اُنہوں نے

Page 542

خطابات شوری جلد سوم ۵۲۶ مشاورت ۱۹۵۲ء عہد کیا کہ وہ زیادتی کے حصہ کے علاوہ ہر سال مئی کی آمد کا پانچ فیصدی مسجد فنڈ میں دیا کریں گے.تاجروں کے پہلے سو دے کی تشریح کرتے ہوئے حضور نے فرمایا." تاجر دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ جو نقد و نقد بیچتے ہیں اور ایک وہ جو آڑھتی یا اسی قسم کے اور تاجر ہیں.جو دکاندار نقد و نقد بیچتے ہیں وہ ہفتہ کے پہلے دن کے پہلے سو دے کا نفع نکال کر مسجد فنڈ میں دیں اور جو آڑھتی ہیں وہ ہر مہینے کی پہلی تاریخ کے پہلے سو دے کا نفع نکال کر مسجد فنڈ میں دیں.اگر پہلی تاریخ کو وہ صرف سو دا کرے، اُسے کوئی آمد نہ ہو تو وہ سو دا سلسلہ کے نام پر رہے گا اور جب اس میں نفع ہوگا وہ سلسلہ کا ہوگا.“ اس کے بعد فرمایا.میں نے اشاعت لٹریچر اشاعت لٹریچر کے متعلق ایک خصوصی ہدایت سے متعلق فیصلہ کر دیا ہے کہ صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کی طرف سے دولمیٹڈ کمپنیاں بنائی جائیں.جو دوست ان کمپنیوں میں حصہ لیں گے اُنہیں ثواب بھی حاصل ہوگا اور فائدہ بھی ہو گا.گزشتہ سال سے میں تحریک اور صدر انجمن احمدیہ کو اس طرف توجہ دلا رہا ہوں کہ جب ہمیں ہر کاروبار میں نقصان ہی نقصان ہوتا ہے تو کیوں نہ وہ تجارت کی جائے جو ہمارے کام کے مطابق ہو.تا کہ اگر اس میں فائدہ نہ ہو تو ہمیں نقصان بھی نہ ہو.پچھلے دنوں الفضل میں میری طرف منسوب کر کے یہ قول شائع ہو گیا کہ اگر میں آزاد ہوتا تو میں عطر کی تجارت کرتا تا کہ اگر مجھے کوئی نفع نہ پہنچتا تو اس کی ریح تو مجھے پہنچتی.میں نے لکھنے والے کو پکڑا تو اس نے کہا میں نے تو ٹھیک لکھا تھا لیکن کتابت کرنے والے نے غلط لکھ دیا.یہ قول حضرت عمرؓ کا ہے.حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ اگر میں خلیفہ نہ ہوتا تو میں عطر کی تجارت کرتا.اگر اس تجارت میں مجھے کوئی نفع نہ پہنچتا تو مجھے خوشبو تو پہنچتی.اسی طرح میں نے کہا کہ تم لٹریچر کی تجارت کرو.جتنا لٹریچر شائع ہو گا اتنا ہی ہمارا پروپیگنڈا ہو گا اور اگر ہمیں مالی لحاظ سے گھاٹا بھی پڑے گا تو کم از کم ہمیں یہ فائدہ تو پہنچے گا کہ ہم خود اس لٹریچر سے فائدہ اُٹھا لیں گے.میں تو سال بھر سے یہ تحریک بھی کر رہا ہوں اور میں نے ناظروں کو بلا کر بار بار اس طرف توجہ دلائی ہے کہ

Page 543

خطابات شوری جلد سوم ۵۲۷ مشاورت ۱۹۵۲ء بڑی بڑی جگہوں پر کتب خانے کھولو.مثلاً راولپنڈی ہے، لاہور ہے، ملتان ہے، کراچی ہے، پشاور ہے اور پھر انہیں پھیلاتے جاؤ.تو یہ چیز ایسی ہے کہ اس میں فائدہ ہی فائدہ ہوگا اور پھر ثواب کا ثواب ہے.جو دوست ان کمپنیوں میں حصہ لیں گے انہیں جہاں مالی فائدہ ہوگا وہاں اللہ تعالیٰ کی رضا بھی حاصل ہو گی.احمد یہ لٹریچر کے اثرات بعض چیزوں کا فائدہ دیر سے ہوتا ہے.پرنس آف ویلز کو جو میں نے تبلیغ کی تھی اس کا بڑی دیر سے اثر ہوا ہے.اب اس لئے ایک کتاب شائع کی ہے جس کے دو حصے ہیں اور وہ دونوں عیسائیت کو کچلنے والے ہیں.مجھے ان کے ایک ہمسفر نے بتایا کہ وہ لاہور سے سیالکوٹ جا رہے تھے کہ رستہ میں انہوں نے آپ کی کتاب تحفہ پرنس آف ویلز کو پڑھا.وہ ان کے ایڈی کا نگ مقرر تھے.انہوں نے بتایا کہ وہ کتاب پڑھتے پڑھتے یکدم کھڑے ہو جاتے تھے اور اس کے بعد انہوں نے صراحتاً عیسائیت سے بیزاری کا اظہار کیا.میں حیران ہوں کہ کس طرح تحفہ شہزادہ ویلز نے اس پر اثر کیا.یہاں تک کہ وہ عیسائیت سے کلی طور پر بیزار ہو گئے.سر غلام حسین ہدایت اللہ گورنر سندھ فوت ہو گئے ہیں ، وہ مجھ سے کچھ نہ کچھ تعلق رکھا کرتے تھے.مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میں کراچی گیا تو اُنہوں نے مجھے دعوت پر بلایا.میرے پاس وقت نہیں تھا تا ہم میں دعوت پر چلا گیا.دعوت میں اور لوگ بھی مدعو تھے.سر غلام حسین ہدایت اللہ بھاری جسم کے تھے اور لوگ سمجھتے تھے کہ وہ ہوشیار نہیں لیکن اس مجلس میں مجھ پر یہ اثر ہوا کہ وہ نہایت ہوشیار آدمی ہیں.ایک آدمی نے اسلام کے متعلق ایک سوال کیا اور میں نے اُس کا جواب دینا شروع کیا.اتنے میں سر غلام حسین ہدایت اللہ نے کرسی پر بیٹھے بیٹھے خراٹے مارنے شروع کر دیئے.میری طبیعت پر یہ بات گراں گزری کہ ادھر سوال کا میں نے جواب دینا شروع کیا ہے اور اُدھر اُنہوں نے خراٹے مارنے شروع کر دیئے ہیں.میں پندرہ سولہ منٹ تک بولتا رہا.ابھی وہ شخص کہ جس نے سوال کیا تھا بولا نہیں تھا کہ سر غلام حسین ہدایت اللہ نے آنکھیں کھول لیں اور کہا سچی بات یہ ہے کہ میں اور تو کچھ جانتا نہیں ، ہاں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ اگر مرزا صاحب نہ آتے تو میں عیسائی ہو جاتا.انہی کی کتابیں پڑھ کر اور سُن کر میں اسلام پر قائم رہا ہوں.معلوم ہوتا تھا کہ

Page 544

خطابات شوری جلد سوم ۵۲۸ مشاورت ۱۹۵۲ء بڑھاپے کی وجہ سے وہ لیٹ گئے تھے ، ورنہ جاگ رہے تھے.اُنہوں نے آنکھیں کھولیں اور فوراً کہنے لگے جو تشریح اسلام کی علماء نے کی ہے، اُسے پڑھ کر کوئی تعلیم یافتہ مسلمان مسلمان نہیں رہ سکتا.میں جب کالج میں پڑھتا تھا تو میں نے مرزا صاحب کی بعض کتابیں پڑھیں اور ان کتابوں کا یہ اثر تھا کہ اب تک میں مسلمان ہوں.سر غلام حسین ہدایت اللہ بھاری جسم کے تھے ، بڑھے تھے اور صحت بھی کمزور تھی اور بظاہر معلوم ہوتا تھا اب ان کا حافظہ ویسا نہیں جیسا جوانی میں ہو گا مگر پھر بھی انہیں طالب علمی کے وقت کی یہ بات یاد تھی.ہوسکتا ہے کہ بعض لوگوں نے سر غلام حسین ہدایت اللہ سے کہا ہو کہ احمدی غلط راستہ پر جارہے ہیں اور احمدیوں نے کہا ہو کہ جو باتیں ہمارے متعلق کہی جاتی ہیں وہ غلط ہیں.تو انہوں نے کہا ہو کہ مجھے احمدیت کا لٹریچر دیکھ لینا چاہئے.پس بڑے بڑے لوگ تقریریں نہیں سنتے لٹریچر پڑھ لیتے ہیں.صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید دونوں کو چاہئے کہ وہ جلد از جلد ان دونوں کمپنیوں کو لمیٹڈ کروا لیں.اگر کمپنیاں لمیٹڈ ہوں گی تو گورنمنٹ بھی ان کی نگرانی کرے گی.پھر دوسرے لوگوں کے حصص ہوں گے تو انہیں بھی اپنی رقوم کا فکر ہوگا اور ہر شخص اس طرف توجہ کرے گا کہ جب سرمایہ لگایا گیا ہے تو کمپنی کو فائدہ بھی دکھانا چاہئے.اس طرح عمدہ کتابیں شائع ہوں گی.لوگوں کے اعتراضات کے جوابات دیئے جائیں گے اور پھر مالی فائدہ بھی ہوگا.پلانگ سیکشن کے متعلق میں کہہ چکا ہوں کہ اس کا مہینہ بھر میں ایک اجلاس ہوا کرے.اسی طرح محاسبہ کمیٹیوں کے متعلق بھی میں بات کر چکا ہوں.اب میں کراچی کے دارالتبلیغ کے متعلق شوریٰ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.کراچی میں ہماری بارہ ہزار روپیہ کی ایک جائیداد ہے جو ہم نے ۱۹۴۵ ء یا ۱۹۴۶ء میں خریدی تھی اور اب وہ جائیداد ۳۵.۳۶ ہزار روپیہ میں فروخت ہوسکتی ہے.اگر وہ جائیداد فروخت ہو جائے تو بغیر کسی بار کے ۳۵.۳۶ ہزار روپے مل جائیں گے.اگر وہ ۳۵.۳۶ ہزار میں فروخت نہیں ہوگی تو کچھ کم رقم مل جائے گی لیکن بہر حال جتنی رقم ملے گی اتنی ہی مجوزہ بجٹ میں کمی ہو جائے گی.اس جائیداد کو بیچ کر زمین خریدی جاسکتی ہے.پھر ایک اور جائیداد بھی ہے اور اس میں اٹھارہ حصے میرے ہیں، دس حصے انجمن کے ہیں

Page 545

خطابات شوری جلد سوم ۵۲۹ مشاورت ۱۹۵۲ء اور ایک حصہ میاں بشیر احمد صاحب کا ہے.ہم نے مشترکہ طور پر یہ جائیداد خریدی تھی علاوہ سندھ کی زرعی زمینوں کے.یہ جائیداد اگر پک جائے تو دس ہزار روپیہ صدر انجمن احمد یہ کومل سکتا ہے.اگر صدر انجمن احمد یہ ان جائیدادوں کو اس سال بیچنے میں کامیاب ہو جائے تو بجٹ میں ۳۰.۳۵ ہزار روپیہ کی کمی آسکتی ہے.میں نے صدر انجمن احمدیہ کو بار بار اس طرف توجہ دلائی ہے کہ بوجھ کو ننگا کرنا چاہئے چھپانا نہیں چاہئے.جتنا ظاہر کرو گے تمہیں اُتنی ہی گھبراہٹ ہوگی اور تم اسے ہلکا کرنے کی کوشش کرو گے.فنانس سٹینڈنگ کمیٹی نے کہا ہے کہ بجٹ میں ایک لاکھ ستر ہزار روپے کا قرض ہے.اگر کمیٹی اس چیز کو ننگا نہ کرتی تو اگلے سال بوجھ زیادہ ہو جاتا.اب کم از کم گھبراہٹ تو رہے گی اور یہ فکر رہے گا کہ کسی طرح یہ بوجھ ہلکا ہو جائے.پنے اپنے طبقہ میں تبلیغ کرو اس کے علاوہ تبلیغ کو زیادہ وسیع کرو اور اپنے اپنے دائرہ میں تبلیغ کرو.بڑے عہد یداروں کی فطرت میں یہ 66 بات داخل ہے کہ ان پر تبلیغ گراں گزرتی ہے اس لئے نہیں کہ انہیں تبلیغ کا احساس نہیں یا اُن کے پاس علمی مواد نہیں ہوتا بلکہ صرف اس لئے کہ اگر ہم نے فلاں کو تبلیغ کی تو شاید وہ مخالفت کرنے لگ جائے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بڑے افسرانہیں مُردہ سمجھنے لگ جاتے ہیں.قرآن کریم نے اس اصل کو لیا ہے کہ قذ تحر اِن نَفَعَتِ الذِّكرى اس آیت میں ان“ کے معنے قد کے ہیں شرط کے نہیں.یہ محض زور دینے کے لئے ہے اس کے معنے شرط کے ہو ہی نہیں سکتے.کیونکہ اگر ان کے معنے شرط کے ہوں تو آیت کے یہ معنے ہوں گے.تو نصیحت کر.اگر نصیحت کرنا فائدہ دے لیکن سوال تو یہ ہے کہ تمہیں کیسے پتہ لگے گا کہ اگر تم نصیحت کرو تو ضرور فائدہ ہوگا.یہ تو مستقبل کے متعلق ہے اور مستقبل کا حال انسان نہیں جانتا.اس لئے یہ لازمی بات ہے کہ اس آیت کے یہ معنے غلط ہیں اس طرح تو کوئی نصیحت ہی نہیں کر سکے گا کیونکہ حکم یہ ہے کہ تمہیں نصیحت سے فائدہ کا یقین ہو تب نصیحت کرو پس ”اِن“ کے معنے یہاں ”قد“ کے ہیں.اس صورت میں اس کے یہ معنے بنیں گے کہ تم نصیحت کرو اس لئے کہ نصیحت سابق میں فائدہ دیتی چلی آئی ہے.چاہے جس کو نصیحت کی جائے وہ مانے یا نہ مانے.دیکھو نجاشی نے نصیحت کو مان لیا یا نہیں.پھر

Page 546

خطابات شوری جلد سو ۵۳ مشاورت ۱۹۵۲ء رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب بادشاہوں کو خطوط بھیجے تو کیا بحرین کے بادشاہ نے مانا یا نہیں؟ دیکھو یہ کتنی دلیری تھی کہ اس نے اسلامی بادشاہت قائم کرنے کے لئے لکھا.نجاشی نے اسلام لانے کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ فائدہ نہیں اُٹھایا اس لئے بعض لوگوں کے نزدیک وہ مسلمان نہیں تھا لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نجاشی کا جنازہ پڑھو نیز فرمایا میرے بھائی نجاشی نے یوں کہا ہے اس سے ظاہر ہے کہ وہ مومن تھا لیکن چونکہ اس نے کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ جس سے دوسرے مذاہب کے ساتھ ٹکراؤ ہو اس لئے بعض لوگ غلطی سے اسے مسلمان نہیں سمجھتے.لیکن بحرین کا بادشاہ نہ صرف مسلمان ہوگا بلکہ مسلمان ہو کر اس نے اپنے علاقہ میں اسلامی حکومت کے قیام کی درخواست کی بلکہ اسلام میں جو یہ مسئلہ آتا ہے کہ عیسائیوں، مجوسیوں ، اور دیگر مذاہب والوں سے حُسنِ سلوک کرو، یہ اسی کی وجہ سے ہے.اس نے یہ دریافت کیا تھا کہ میری حکومت میں عیسائی بھی رہتے ہیں، مجوسی بھی رہتے ہیں، یہودی بھی رہتے ہیں میں ان کے ساتھ کیا سلوک کروں؟ کیا میں انہیں ملک سے نکال دوں ؟ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں.انہیں نکالنے کی ضرورت نہیں، تم ان سے حسن سلوک کرو تا پس تبلیغ ہر ایک شخص کے لئے ضروری ہے.پھر اپنے اپنے حلقہ میں تبلیغ ضروری ہے.- اس وقت صرف ایک جگہ پر صحیح رنگ میں تبلیغ ہو رہی ہے اور وہ شیخو پورہ ہے.چوہدری انور حسین صاحب نئے آدمی ہیں، نوجوان ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ وہ کمزور ہیں لیکن اُنہوں نے اچھی تبلیغ شروع کی ہے اور وہاں کے زمینداروں سے بھی بعض احمدیت میں داخل ہوئے ہیں اور بعض کے متعلق ان کا خیال ہے کہ وہ احمدیت کی طرف مائل ہو رہے ہیں اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ دوسری جگہوں پر بھی تبلیغ مؤ ثر نہ ہو.کراچی میں بھی پچھلے دنوں ایک ڈاکٹر اور ایک وکیل احمدی ہوئے ہیں.لاہور میں کوئی بڑا آدمی احمدی نہیں ہوا.گجرات میں چھ سات سال ہوئے مولوی ظہور الدین صاحب پلیڈر احمدی ہوئے تھے.اس کے بعد اس طبقہ میں سے کوئی احمدی نہیں ہوگا اور میں سمجھتا ہوں کہ جب کوئی شخص کسی اعلیٰ طبقہ میں داخل ہو جاتا ہے تو اکثر یہ بات اُس کی فطرت میں داخل ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے طبقہ میں تبلیغ نہیں کرتا.مثلاً بڑے بڑے زمینداروں میں سے کچھ عرصہ سے کوئی احمدی نہیں

Page 547

خطابات شوری جلد سوم ۵۳۱ مشاورت ۱۹۵۲ء ہو رہا.ان دنوں صرف ایک زمیندار نے ضلع جھنگ میں جماعت سرگودھا کے ذریعہ احمدیت کو قبول کیا ہے حالانکہ دیر سے اس طرف خاموشی تھی.صرف غرباء جماعت میں داخل ہوتے تھے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام غرباء میں ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ جو بُھوکوں مرتے ہیں وہی لوگ اسلام قبول کرتے ہیں.مکہ میں جو لوگ اسلام میں داخل ہوئے اُن میں امیر بھی شامل تھے.حضرت ابوبکر کو دیکھ لو آپ امیر تھے.اگر آپ غریب تھے تو آپ نے سات آٹھ غلام آزاد کیسے کرائے.ایک ایک غلام کی قیمت اُن دنوں سات سات آٹھ آٹھ ہزار درہم تھی.پھر سارا بیت المال حضرت خدیجہ تھیں.آپ بڑی مالدار عورت تھیں.اسلام کے پاس کوئی خزانہ نہیں تھا.سارا بوجھ حضرت خدیجہ نے ہی اُٹھایا ہوا تھا.پھر حضرت عثمان کا نام ہی غنی ہے.پھر حضرت زبیر، حضرت طلحہ ، حضرت ابوعبیدہ بن جراح ، حضرت عمرؓ سارے کے سارے بڑے خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے اور تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ ان کے پاس پانچ پانچ غلام کام کرتے تھے اور یہ سب جائدادوں اور زمینوں والے تھے.یہ لازمی بات ہے کہ جب لوگ کثرت سے اسلام میں داخل ہوئے تو ان میں کثرت غرباء کی تھی لیکن غرباء کی کثرت کے یہ معنے نہیں کہ کوئی پڑھا لکھا اور عظمند انسان اسلام کے متعلق کوئی بات نہیں سنتا.اگر کسی کا ذہن اعلیٰ ہے اور وہ عقلمند ہے تو وہ آپ کی طرف ضرور توجہ کرے گا.صرف سستی کی وجہ سے ہم پر زنگ لگ گیا ہے اور ہمیں یہ مرض ہو گیا ہے کہ ہم دوسروں کو تبلیغ نہیں کرتے.یہ مرض دوسروں کی پیدا کی ہوئی نہیں ہماری خود پیدا کی ہوئی ہے.پھر یہ مرض خدا تعالیٰ کی طرف سے بھی نہیں ، ہم نے خوداپنے اندر یہ بیماری پیدا کی ہے.پس ان لوگوں میں بھی تبلیغ کرنی چاہئے اور پھر اپنے اپنے طبقہ میں بھی تبلیغ کرنی چاہئے.کشمیر کے لوگ یہاں بیٹھے ہیں.میں نے انہیں کہا تم تبلیغ کرو.چنانچہ انہوں نے میری بات مان لی.اب اکثر لوگ کہتے ہیں ہمیں گل گا ر صاحب نے تبلیغ کی ہے.بہر حال اگر ہمارے دوست اپنے اپنے طبقہ میں تبلیغ کریں تو اس کا ضرور اثر ہوگا اور اگر ہم اس طرح تبلیغ میں لگے رہے تو پانچ چھ سال میں ایک مضبوط جماعت قائم ہو جائے گی.اصل بات یہ ہے کہ ہم نے تبلیغ کی ہی نہیں ہوتی.بڑے لوگوں کی تبلیغ یہ ہے کہ بعض

Page 548

خطابات شوری جلد سوم ۵۳۲ مشاورت ۱۹۵۲ء لوگوں کی دعوت کر دی یا انہیں میرے پاس لے آئے.وہ ہنگی تبلیغ نہیں کرتے.غربا رنگی تبلیغ کرتے ہیں.اگر سب لوگ تنگی تبلیغ کرتے تو جماعت کہیں کی کہیں چلی جاتی.مجھے آج ہی ایک دوست کا خط ملا ہے کہ اُنہیں ایک بہت بڑے عالم ملے اور انہوں نے احمدیت سے اتنی ناواقفیت ظاہر کی کہ حیرت آتی ہے.جب میں نے ان سے گھل کر باتیں کیں تو ان کی آخری گفتگو پہلی گفتگو سے بہت نرم تھی.پس چاہے کوئی بڑا آدمی ہو جب اس پر حق گھل گیا ہو تو وہ ضرور اس طرف متوجہ ہوگا.میں جب شام گیا تو وہاں کے ایک عالم شیخ عبدالقادر صاحب مغربی جو ابھی تک زندہ ہیں میرے پاس آئے وہ شریف آدمی ہیں.مجھے ملنے کے لئے آئے تو کچھ نوجوان جو یو نیورسٹی کے سٹوڈنٹ تھے میرے ساتھ کج بحثی کر رہے تھے.شیخ عبد القادر صاحب مغربی اُن سے لڑ پڑے اور کہا ہمارا طرہ امتیاز تو مہمان نوازی ہے تمہیں ان کی باتیں سن لینی چاہئیں کج بحثی نہیں کرنی چاہئے.پھر انہوں نے مجھ سے معافی مانگی.وہ بہت بڑے عالم ہیں اور عربی سوسائٹی کے سرکردہ ممبر ہیں، اس سوسائٹی کے وہ صدر ہیں یا نا ئب صدر ہیں ، وہ مجھے مخاطب کر کے کہنے لگے ہم عرب ہیں.بیوقوف یا جاہل نہیں کہ آپ کی بات مان لیں.اُس وقت میں نے اُنہیں کہا آپ سمجھتے ہیں کہ کوئی اچھا عرب احمدیت میں داخل نہیں ہو سکتا.میں تو اب واپس جا رہا ہوں لیکن وطن پہنچ کر سب سے پہلا کام جو میں کروں گا وہ یہ ہے کہ میں یہاں اپنا مبلغ بھیجوں اور اُس وقت تک نہیں ہٹوں گا جب تک کہ یہاں ایک مخلص جماعت قائم نہ ہو جائے.چنانچہ میں نے یہاں آکر سید ولی اللہ شاہ صاحب اور مولوی جلال الدین صاحب شمس کو شام میں بھیجا اور کہا جاؤ اور شیخ عبد القادر صاحب مغربی سے کہہ دو کہ میں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے.جب یہ دونوں وہاں گئے تو اللہ تعالیٰ نے ایک مخلص جماعت بھی قائم کر دی اور جب شیخ عبدالقادر صاحب مغربی سے ملے اور انہیں کہا کہ خلیفہ اسیح نے اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے تو انہوں نے اس بات کا اقرار کیا اور کہا تم نے واقعہ میں اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے.اسی مجلس میں مسٹر سلیم حسن جابی نے تلاوت کی ہے.یہ شام کے رہنے والے ہیں یہ وہاں سے آئے ہیں.خدا تعالیٰ نے نہ صرف انہیں احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے بلکہ انہیں یہ توفیق بھی دی ہے کہ وہ یہاں آکر دینی تعا.

Page 549

خطابات شوری جلد سوم ۵۳۳ مشاورت ۱۹۵۲ء حاصل کریں.پھر علماء کا طبقہ ہے آجکل اس طبقہ میں بھی تبلیغ کم ہے اور کوئی بڑا عالم چند سال سے احمدیت میں داخل نہیں ہوگا.یہ بات نہیں کہ مولوی لوگ احمدیت میں داخل نہیں ہو سکتے.حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل بھی علماء میں سے تھے.پھر آپ احمدیت میں داخل ہوئے یا نہیں؟ جس طرح اُس وقت غیر احمدیوں میں خدا تعالیٰ کا خوف پایا جاتا تھا اب بھی خدا تعالیٰ کا خوف پایا جاتا ہے اگر اب بھی تم تبلیغ کرو تو کئی لوگ احمدیت میں آجائیں.درحقیقت ہمیں صحیح طور پر تبلیغ کرنی آتی ہی نہیں.ورنہ اگر مخالف سے مخالف شخص کو بھی لایا جائے اور اسے خدا تعالیٰ کا خوف ہو تو وہ احمدیت کو قبول کر لیتا ہے.اب تو بہت سے غیر احمدی یہاں ملنے آتے ہیں کیونکہ ربوہ سڑک پر واقع ہے قادیان کنارے پر واقع تھا.پچھلے دنوں ایک لیڈی ڈاکٹر یہاں آگئیں.وہ کراچی سے سرگودھا جا رہی تھیں جب وہ ربوہ سے گزریں تو انہوں نے مسجد کے مینارے دیکھے اور وہ مسجد دیکھنے کے لئے یہاں آگئیں.انہوں نے کہا میں نے سنا تھا کہ آپ کا مذہب الگ ہے لیکن جب مسجد دیکھی تو یہ ویسی ہی تھی جیسے اور مسلمانوں کی ہوتی ہے تو میں اسے دیکھنے کے لئے یہاں آ گئی.کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ بعض لوگ یہاں سے گزرے اور ربوہ کی آبادی دیکھی تو وہ یہاں آگئے.پس یہ بڑی بھاری غفلت ہے اس کو دور کرنا چاہئے.خدا تعالیٰ نے ہماری آمد کا جو ذریعہ مقرر کیا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام حق اولاد در اولاد میں بیان کیا گیا ہے.یعنی ماننے والوں کے اندر ایسا مادہ رکھ دیا گیا ہے کہ اگر وہ اپنا فرض پورا کریں گے تو آمد ہمارے ذمہ ہوگی.مخالف سے مخالف شخص کے اندر بھی نیکی اور تقویٰ ہوتا ہے اور جب اسے سچائی کی طرف بلایا جائے تو وہ اسے مان لیتا ہے.جب میں پہلی دفعہ حیدر آباد (سندھ) گیا تو وہ شخص جس نے اُس وقت سب سے زیادہ مخالفت کی تھی، میں نے اس دفعہ جب لیکچر کیا تو وہ میرے پاس آیا.سیکرٹری صاحب نے کہا کہ فلاں شخص آپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہے.اس نے مصافحہ کیا اور کہا مجھے جماعت پر جو سیاسی اعتراض تھے اُن میں سے اکثر حصہ دور ہو گیا ہے.میں نے کہا باقی اعتراض بھی دور ہو جائیں گے.اب دیکھو وہی شخص جو اختلاف کی بنیادرکھنے والا تھا ،

Page 550

خطابات شوری جلد سوم ۵۳۴ مشاورت ۱۹۵۲ء آخر متفق ہو گیا.ہمارے ایک معزز احمدی کراچی جارہے تھے تو ان سے ایک شخص نے کہا اگر میں پندرہ بیس منٹ اور وہاں بیٹھ جاتا تو سارے شبہات دور ہو جاتے.پس بات یہ ہے کہ ہم نے اپنے اپنے طبقہ کے لوگوں میں تبلیغ کی ہی نہیں ورنہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ احمدیت ان پر اثر نہ کرتی.امراء ہیں، علماء ہیں، علماء سے مراد صرف دینی علماء ہی نہیں دُنیوی علماء بھی ہیں.پھر وکلاء ہیں، ڈاکٹر ہیں یہ سب اپنے اپنے طبقہ میں جائیں.خدا تعالیٰ نے ہر انسان کی فطرت نیک رکھی ہے آپ اگر کسی کے پاس جائیں گے اور اسے صحیح رنگ میں تبلیغ کریں گے تو وہ احمدیت میں داخل ہو جائے گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے بھائی کو دست آتے ہیں.آپ نے فرمایا اُسے شہد دو.چنانچہ اُسے شہد دیا گیا لیکن دست زیادہ ہو گئے.وہ دوبارہ حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! میں نے شہد دیا تھا لیکن دست اور زیادہ ہو گئے ہیں.آپ نے فرمایا اور شہد دے دو.وہ پھر واپس آیا اور عرض کیا میں نے دوبارہ شہر دیا ہے لیکن دست اور بڑھ گئے ہیں.آپ نے فرمایا اور شہد دے دو.وہ پھر آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! مرض اور بڑھ گیا ہے.آپ نے فرمایا تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے، خدا تعالیٰ جھوٹا نہیں.خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے شہد میں شفا ہے.تم اسے اور شہد دو وہ ضرور ٹھیک ہو جائے گا.چنانچہ اس نے پھر شہد دیا اور وہ ٹھیک ہو گیا.اسی طرح میں کہتا ہوں خدا تعالیٰ نے ہر انسان کی فطرت نیک بنائی ہے.تم اس کے پاس جاؤ اور اسے تبلیغ کرو تو وہ ضرور مانے گا.اگر وہ نہیں مانتا تو ہم غلطی پر ہیں.خدا تعالیٰ کا قول صحیح ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ آج ابو جہل ، عتبہ اور شیبہ نہیں، بے شک وہ ہیں لیکن میں یہ نہیں مانتا کہ کوئی شخص احمدیت کو قبول نہیں کر سکتا.بشرطیکہ تم صحیح رنگ میں تبلیغ کرو.تم خود ان لوگوں کی مجالس میں جاؤ اور تبلیغ کے مواقع تلاش کرو.صاحب پوزیشن لوگوں کو تبلیغ اگر تم نے دنیا کو فتح کرنا ہے تو دنیا تدبیر سے فتح ہوگی ویسے نہیں.یہ بات غلط ہے کہ صاحب پوزیشن لوگ صداقت قبول نہیں کرتے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو صاحب پوزیشن لوگوں نے قبول کیا تھا.حضرت موسیٰ علیہ السلام کو غریبوں نے مانا تھا لیکن

Page 551

خطابات شوری جلد سوم ۵۳۵ مشاورت ۱۹۵۲ء ان کا اس وقت تک دُنیا پر قبضہ نہیں ہوا جب تک کہ انہیں صاحب پوزیشن لوگوں نے نہیں مانا.جن لوگوں کے ہاتھ میں خدا تعالیٰ نے دُنیا کی کنجی دی ہوئی ہوتی ہے، ان کا وجود بھی ضروری ہوتا ہے اس لئے ان لوگوں کو جماعت میں لانے کی کوشش کرو.مولوی محمد صاحب پراونشل امیر صوبہ بنگال نے یہ بات پیش کی ہے کہ ان کے چندہ کے اُنتیس ہزار روپے میں سے ۲۳ ہزار روپے انہیں چاہئیں.جہاں تک کام کا سوال ہے اتنی رقم بھی تھوڑی ہے لیکن جہاں تک اصول کا سوال ہے.حقیقت یہ ہے کہ پنجاب میں جب کام شروع ہوا تو پہلے پہلے صرف چالیس آدمی احمدی ہوئے.پھر انہوں نے کام کیا.ان لوگوں میں ویسے لوگ نہیں تھے جیسے اس وقت بنگال میں ہیں بلکہ وہ اس سے کم درجہ کے تھے.وہ کام کرتے گئے اور جماعت بڑھتی گئی یہاں تک کہ صوبہ سرحد اور یو.پی سے بعض لوگ آئے.صوبہ سرحد میں بالکل ابتدائی زمانہ میں بعض لوگ احمدی ہو گئے تھے.مولوی غلام رسول صاحب ۱۸۹۷ ء میں وہاں گئے تھے.ان ملکوں میں تبلیغ پھیلی اور اُنہوں نے سلسلہ کے بوجھ اُٹھائے اور اُٹھاتے چلے گئے اور اب جو جماعت بنی ہے وہ انہی چندلوگوں کی کوششوں کا نتیجہ ہے.ان کو مدد دینے والا کوئی نہیں تھا.بنگال کو بھی اپنے اندر اعزاز نفس پیدا کرنا چاہئے.مولوی محمد صاحب نے کہا ہے کہ ہمارا گل چندہ ۲۹ ہزار روپے ہے.اگر اس کی تحلیل کی جائے تو اس میں سے بارہ ہزار روپیہ غیر بنگالیوں کا ہوگا.بنگالیوں کا چندہ صرف پندرہ سولہ ہزار روپیہ رہ جائے گا.بے شک بچہ روتا ہے تو ماں کی چھاتی میں دودھ آتا ہے.پس جہاں تک رونے کا سوال ہے یہ جائز امر ہے.مطالبہ کے لئے چلانا جائز ہے لیکن جہاں تک حقیقت کا سوال ہے یہ ایسی حقیقت نہیں جس میں بنگال والے منفرد ہوں اور اس میں کوئی اور شامل نہ ہو.انہی حالات میں سے پنجاب گزرا ہے.اس کا جواب پراونشل امیر صوبہ بنگال نے یہ سوچا ہے کہ دو میں سے ایک بات کرو یا تو ہمیں ضرورت کے مطابق مالی امداد دی جائے اور یا خلیفہ ہمیں دے دیا جائے اور چندے لے لئے جائیں.یہ بات درست ہے کہ خلیفہ تبلیغ کا ایک ذریعہ ہے لیکن اگر بنگال والوں کا مطالبہ جائز ہے تو پھر اور ممالک بھی یہی مطالبہ کر سکتے ہیں.مثلاً شام ہے ، شام والے بھی یہی مطالبہ کریں گے کہ خلیفہ ہمیں دے دیا جائے.شام کو جتنا اختلاف ہے بنگال کو نہیں.جو برتری کا دعویٰ

Page 552

خطابات شوری جلد سوم ۵۳۶ مشاورت ۱۹۵۲ء شام والوں کو ہے وہ بنگال کو نہیں لیکن وہ اپنا بوجھ آپ اُٹھا رہے ہیں.ہم انہیں کوئی مدد نہیں دےرہے.صرف ایک ہزار روپیہ کی مدد دے رہے ہیں.پھر مولوی محمد صاحب نے پریس کا سوال اُٹھایا ہے.بنگال میں دو تین ہزار احمدی ہوگا لیکن سیلون میں کوئی سو ڈیڑھ سو احمدی ہے.ان کا آج ہی خط پہنچا ہے کہ اُنہوں نے اپنا پر لیس جاری کر رکھا ہے.پھر مکان بھی بنایا ہے، ان چیزوں کے لئے اُنہوں نے وہیں سے چندہ لیا ہے.پھر انڈونیشیا ہے.وہ مرکز سے کتنا دور ہے وہ نہ صرف اپنا کام چلا رہے ہیں بلکہ ہمارا حصہ بھی نکالتے ہیں.پھر سنگا پور ہے.وہاں صرف چند افراد ہیں لیکن وہ سارے ملک میں کام کرتے ہیں.پھر گولڈ کوسٹ ہے.نائیجیریا ہے.یہ ممالک کتنے دور ہیں.ان کی زبان مختلف ہے، اخلاق مختلف ہیں ، عادات مختلف ہیں ، وہ اپنا کام بھی چلا رہے ہیں اور ہمارا حصہ بھی دے رہے ہیں.وہ کہیں تجارت کرتے ہیں اور کہیں نئے کام کرتے ہیں.تین مبلغ وہاں ہیں، صرف ان کی تنخواہیں دی جا رہی ہیں.میں مانتا ہوں کہ اپنی ضرورتوں کے مطابق کوشش کرنی چاہئے اور مطالبہ کرنا چاہئے لیکن اسے حقیقت سمجھ لینا غلط ہے.مانگنے کا ایک ذریعہ ضرور ہے.خدا تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں یہ بات رکھی ہے کہ شور مچاؤ.پس آپ بے شک شور کریں لیکن جو مل جائے مل جائے.پنجاب پر ساری دُنیا کا بوجھ ہے.تحریک جدید کا روپیہ تو باہر ہی خرچ ہوتا ہے اور یہ روپیہ ساڑھے تین ہزار آدمی دے رہے ہیں.جو قریباً سب کے سب ویسٹرن پاکستان والے ہی ہیں.انہیں احساس ہے کہ ہماری ذمہ داری اور قسم کی ہے.راولپنڈی نے کل شور مچایا تھا، اب ان کی تسلی ہو جائے گی وہ لوٹ لیتے تو لوٹ لیتے.انڈونیشیا میں نہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام گئے ہیں اور نہ آپ کا کوئی خلیفہ وہاں گیا ہے، اسی طرح ملایا اور سنگا پور ہے وہاں نہ نبی گیا ہے اور نہ خلیفہ.سنگا پور میں پچاس آدمی ہیں وہ بادشاہوں اور نوابوں کے پاس جاتے ہیں اور اُنہیں تبلیغ کرتے ہیں اور ایک بادشاہ کے متعلق تو خیال ہے کہ وہ احمدی ہو جائے گا.وہ ابھی احمدی ہوا تو نہیں لیکن اس نے کہا ہے کہ میں اپنے علاقہ میں احمدیت کی تبلیغ میں کوئی روک پیدا نہیں کروں گا.باقی لوگ بھی مخالفت کرتے ہیں.سارے افراد کے اندر ذمہ داری کا احساس پیدا ہو جانا اصل

Page 553

خطابات شوری جلد سوم ۵۳۷ مشاورت ۱۹۵۲ء چیز ہے.باہر کی تبلیغ بھی ہمارے ذمہ ہے اور تبلیغ ہی ہمارا اصل کام ہے جو مغربی پاکستان کر رہا ہے.اگر اصل کام مغربی پاکستان کر رہا ہے تو کیا تمہارا فرض نہیں کہ تم بھی تبلیغ کرو.میں بنگال کو اس لحاظ سے اہمیت دیتا ہوں کہ وہ ایک طرف ہے اور یہ کہ اس کے لوگ زیادہ ذہین اور حساس ہیں لیکن میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ جہاں تک کوشش کا سوال ہے تم بے شک سوال کرو لیکن یہ نہ سمجھو کہ بنگال کی ذمہ داری بنگال پر نہیں بلکہ اس کی ذمہ داری باہر کی جماعتوں پر ہے اگر یہی احساس پنجاب میں پیدا ہو جائے اور وہ کہے کہ ہمارا مقابلہ صرف اپنے صوبہ کے لوگوں سے ہے تو کام کیسے چل سکتا ہے.ہمارا مقابلہ اڑھائی کروڑ یا تین کروڑ سے نہیں بلکہ ہمارا مقابلہ اڑھائی ارب سے ہے اور یہ مقابلہ کم نہیں جو حالت آپ لوگوں کی ہے وہی حالت ہماری ہے.ہم نے دُنیا میں تبلیغ کرنی ہے حوصلہ پست نہ کیجئے اور یہ مت کہیئے کہ فلاں رعایت ملے گی تو کام ہوگا.اگر پنجاب والے حوصلہ چھوڑ دیں تو کام ہی رُک جائے.تم اپنا کام بھی کرو اور اس کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی تبلیغ کا کام کرو.ہر مومن اپنے آپ کو ساری دنیا کا مبلغ سمجھے کسی مومن کسی مومن کے ذمہ کوئی خاص گھر نہیں، کوئی خاص گاؤں نہیں، کوئی خاص شہر نہیں ، کوئی خاص ملک نہیں، بلکہ ساری دُنیا ہے.خدا تعالیٰ نے مجھے اپنی زندگی میں.بڑا کام کرنے کا موقعہ دیا ہے لیکن سب سے بڑا کام میں صرف اس عہد کو سمجھتا ہوں جو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات پر کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب فوت ہو گئے تو لوگوں نے خیال کیا کہ آپ کی وفات بے وقت ہوئی ہے ابھی آپ کی بہت پیشگوئیاں ایسی ہیں جو پوری نہیں ہوئیں.میں نے آپ کے سرہانے کھڑے ہو کر خاموش زبان میں کہا لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ وفات بے وقت ہوئی ہے یہ اچھا نہیں ہوا لیکن میں عہد کرتا ہوں کہ اگر ساری دُنیا بھی مرتد ہو جائے تب بھی میں آپ کا کام کروں گا اور اس بات کی پرواہ نہیں کروں گا کہ میں اکیلا ہوں اور میری زندگی کے کاموں میں سے سب سے زیادہ اہم کام یہی ہے جو میں نے کیا.اب بھی میں تحریک کرتا ہوں ، انذار کرتا ہوں تبشیر کرتا ہوں لیکن آج بھی میرا ایمان ہے.( خدا تعالی ساری جماعت کو حفاظت میں رکھے اور اسے ترقی عطا فرمائے ) کہ اگر سارے لوگ بھی مرتد ہو جائیں تو اس بڑھاپے میں

Page 554

خطابات شوری جلد سوم ۵۳۸ مشاورت ۱۹۵۲ء بھی میں یہ یقین کرتا ہوں کہ میں اپنے اس وعدہ پر قائم رہوں گا اور اسی یقین سے کھڑا رہوں گا جس یقین سے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے وقت کھڑا ہوا تھا.یہ مومنانہ سپرٹ ہے اسے چھوڑنے سے کچھ نہیں بنتا.ہر فرد یہ سمجھے کہ میں ہی وہ فرد ہوں جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا قائم مقام بنایا گیا ہے اور ساری دُنیا کی تبلیغ میرے ذمہ ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کون سا روپیہ تھا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس کون سا روپیہ تھا.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے پاس کون سا روپیہ تھا.میں جب خلیفہ ہوگا تو میرے پاس کون سا روپیہ تھا.میرے پاس پہلا اشتہار شائع کرنے کے لئے بھی پیسے نہیں تھے.خزانہ میں بارہ روپے تھے اور جماعت کا اکثر حصہ مخالف ہو چکا تھا.بہت تھوڑی سی جماعت میرے ساتھ تھی.حضرت میر ناصر نواب صاحب مساجد کے لئے چندہ اکٹھا کیا کرتے تھے.مسجد نور اور نور ہسپتال انہی کی کوششوں کے نتیجے میں بنے ہیں.ان کے پاس پانچ سو روپیہ تھا.اُن کی نظر مجھ پر پڑ گئی.انہوں نے دیکھا کہ میں نے ایک اشتہار لکھا ہے لیکن اسے شائع کرانے کے لئے میرے پاس روپیہ نہیں وہ میرے پاس آئے اور کہا یہ پانچ سو روپیہ کی تھیلی ہے جو میں مساجد کی تعمیر کے لئے جمع کر کے لایا ہوں.میں سمجھتا ہوں کہ اسے اس مصرف میں لانا جائز ہے اس لئے یہ رقم خرچ کر لی جائے.چنانچہ اس رقم سے میں نے پہلا اشتہار شائع کیا.خزانہ میں بارہ یا اٹھارہ روپے تھے اور باوجود اس حالت کے ہمارے حوصلے پست نہیں ہوئے تھے.میرا پہلا اشتہار آج بھی چیلنج ہے.اس کا ہیڈنگ تھا ”کون ہے جو خدا کے کاموں کو روک سکے.میں نے اُس وقت یہی لکھا تھا کہ تم خیال کرتے ہو کہ تم زیادہ ہو لیکن زیادہ ہم ہوں گے جن کے ساتھ خدا ہے.چنانچہ آج اُن کے جلسہ سالانہ میں اتنے لوگ بھی نہیں ہوتے جتنے ہماری مجلس شوریٰ میں شامل ہوتے ہیں.پس فتح ایمان سے ہوتی ہے روپیہ سے نہیں، تم اپنے اندر ایمان پیدا کرو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کون سا روپیہ تھا.آپ کا کھانا اور کپڑا آپ کی بیوی دیتی تھیں لیکن آپ کے اندر ایمان تھا اور یہی ایمان تھا جس کی وجہ سے آپ جیتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس کون سا روپیہ تھا.بے شک آپ کے

Page 555

خطابات شوری جلد سوم ۵۳۹ مشاورت ۱۹۵۲ء پاس جائیداد تھی لیکن وہ جائیداد دوسروں کے قبضہ میں تھی.آپ خود فرماتے ہیں :- لُفَاظَاتُ الْمَوَائِدِ كَانَ أَكُلِي وَ صِرْتُ الْيَوْمَ مِطْعَامَ الْاهَالِي یعنی کسی زمانہ میں دستر خوان کے بچے کھچے ٹکڑے مجھے کھانے کو دیئے جاتے تھے لیکن آج کئی خاندان میرے ذریعہ سے پرورش پا رہے ہیں.جب تک تم یہ احساس نہیں رکھو گے تبلیغ نہیں کر سکو گے.تم روپیہ دو گے تو تبلیغ ہو گی لیکن یہ بنیادی چیز نہیں ہم تم سے اس وقت تک چندہ مانگتے ہیں جب تک تم میں روپیہ دینے کی طاقت ہے.جب تم میں روپیہ دینے کی طاقت نہیں رہے گی تو ہم چندہ نہیں مانگیں گے.اس وقت خدا تعالیٰ کوئی اور صورت پیدا کر دے گا.ایمان کی قدر کریں پس میں نصیحت کروں گا کہ آپ لوگ ایمان کی قدر کریں ، اس سے آپ جیتیں گے.ایک وقت وہ تھا جب ستر روپے بھی چندہ کے طور پر اکٹھے کئے گئے تھے اور اس قدر قلیل رقم کے لئے ہمیں اشتہار دینا پڑا تھا لیکن آج ہم اپنی جیب سے اتنی رقم دے دیتے ہیں اور اس کا پتہ بھی نہیں لگتا.ابھی چندہ کی تحریک ہوئی ہے تو پونے پانچ ہزار روپیہا اکٹھا ہو گیا ہے.یہ چیز ہمارا حوصلہ بڑھاتی ہے کہ چندہ کی تحریک کی جاتی ہے تو اس کمرہ میں سے پونے پانچ ہزار روپیہ کی رقم اکٹھی ہو جاتی ہے.منارة امسیح کے لئے کتنا زور لگایا گیا لیکن صرف دس ہزار روپیہ کی رقم اکٹھی ہوئی تھی! می اور وہ نامکمل رہ گیا تھا.بعد میں اور چندہ اکٹھا کیا گیا اور ۷۵ ہزار روپیہ کی رقم سے مینارہ اسیح مکمل ہوگا.پس حوصلے بلند رکھو اور خدا تعالیٰ پر نظر رکھو تم بے شک مانگو لیکن مانگنے پر تو کل نہ کرو.تمہارا اصل تو کل خدا تعالیٰ پر ہونا چاہئے.“ موصی کی جائیداد و ہی شمار ہوگی مجلس مشاورت میں نظارت بہشتی مقبرہ کی یہ تجویز پیش کی ہوئی کہ:- جو وفات کے وقت ثابت ہو جن موصوں کی وصیت میں نقدی، زیور، مال مویشی مہر درج ہو اُن سے ان چیزوں کا حصہ وصول کر کے پھر سرٹیفکیٹ دیا جایا کرے کیونکہ یہ ایسی اشیاء ہیں جو ضائع ہونے والی ہیں بعد میں ان کا حصہ اکثر نہیں ملتا.“

Page 556

خطابات شوری جلد سوم ۵۴۰ مشاورت ۱۹۵۲ء حضور نے اس کے بارہ میں اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا : - ”میرے نزدیک وصیت کے لئے وہ شرط جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ سے ظاہر ہوتی ہے.جہاں تک کسی کی آمدن کا سوال ہے وہ تو بالکل واضح ہے اور ہر شخص کے لئے جس کا گزارہ کسی ماہوار آمد پر ہو ضروری ہے کہ وہ اپنی ماہوار آمد کا مقررہ حصہ دفتر بہشتی مقبرہ کو ادا کرے لیکن جہاں تک اس جائیداد کا سوال ہے جو کوئی آمد پیدا نہیں کرتی بلکہ اس کی قیمت کے لحاظ سے اس پر حصہ واجب ہوتا ہے، ایسی جائیداد پر وصیت کے لحاظ سے مرنے کے بعد ہی قانون جاری کیا جا سکتا ہے اس سے پہلے نہیں اور ہمارا کوئی حق نہیں کہ ہم اس کے متعلق یہ فیصلہ کر دیں کہ وصیت کرنے والے کو اپنی زندگی میں ہی جائیداد کا حصہ ادا کرنا چاہئے.بے شک اگر کسی وقت سلسلہ کو مالی مشکلات ہوں تو اس وقت طوعی رنگ میں تحریک کی جاسکتی ہے کہ اگر کوئی دوست اپنے مال مویشیوں کا مقررہ حصہ ادا کر دیں یا اپنی جائیداد کا کوئی حصہ فروخت کر کے سلسلہ کی مدد کریں تو اللہ تعالیٰ سے وہ ثواب کے مستحق ہوں گے لیکن وصیت میں جس بھینس کا ذکر کیا جاتا ہے اس سے مراد بہر حال وہی بھینس ہو گی جو مرنے کے بعد باقی رہے یا اگر وصیت میں کوئی عورت اپنا زیور لکھواتی ہے تو اس سے مراد اس کا وہ زیور نہیں جو اس وقت اس کے پاس موجود ہے بلکہ وہ زیور مراد ہے جو مرنے کے بعد اس سے حاصل ہوتا ہے.یہی صورت زمین کی ہے.زمین سے بھی وہی زمین مراد ہے جو مرنے کے بعد پائی جائے.اگر کوئی شخص وصیت میں اپنی زمین لکھواتا ہے یا کوئی عورت زیور درج کراتی ہے اور پھر وہ اپنی زندگی میں ہی اپنی ضروریات کے لئے اس زمین کو فروخت کر دیتا ہے یا عورت اپنے زیور کو فروخت کر دیتی ہے تو چونکہ ان کے پاس کوئی جائیداد نہیں رہے گی اس لئے ترکہ میں یہ چیزیں شمار نہیں ہوں گی.حقیقتا وصیت کا اطلاق اس آمد پر جو کسی کو ہورہی ہو جمع اس ترکہ کے ہے جو وہ اپنے پیچھے چھوڑتا ہے.زندگی میں اگر وہ اپنی جائیداد کو فروخت کر دیتا ہے یا اپنے کسی اور مصرف میں لے آتا ہے تو اس کا اُسے حق حاصل ہے.جیسے کسی شخص کے پاس ایک لاکھ روپیہ ہو اور وہ پچاس ہزار بیٹے کو اور بچھپیں پچیس ہزار اپنی دو بیٹیوں کو دے دے تو اس کا ایک لاکھ روپیہ ختم ہو جائے گا.یہی حالت وصیت کی ہے.وصیت کا حق در حقیقت جائیداد کے لحاظ سے

Page 557

خطابات شوری جلد سوم ۵۴۱ مشاورت ۱۹۵۲ء مرنے کے بعد ہی قائم ہوتا ہے.پس میرے نزدیک وصیت کے قانون کے ماتحت ہم اس قاعدہ کو جاری نہیں کر سکتے.دفتر بہشتی مقبرہ والوں کو چاہئے کہ وہ لوگوں کو اس غلط فہمی میں مبتلا نہ کریں کہ حصہ جائیداد ادا کرنا ان پر آج سے ہی واجب ہے یہ حصہ درحقیقت ان کی موت پر لیا جائے گا.پس جو دوست مشورہ دیں ان کو یہ امر مدنظر رکھنا چاہئے کہ شرعی مسئلہ کے لحاظ سے جائیداد پر موت کے بعد ہی وصیت حاوی ہوتی ہے.چاہے ایک بھینس بھی باقی نہ رہے یا ایک زیور بھی نہ رہے.اگر مرنے کے بعد کسی کے پاس ایک بھینس کی بجائے دو بھینس ہوں گی تو وصیت دونوں بھینسوں پر حاوی ہو جائے گی.اگر پانچ ہوں گی تو پانچوں پر حاوی ہو جائے گی.اگر ایک بھی نہ رہے گی تو ایک پر بھی حاوی نہیں رہے گی.سب کمیٹی کی تجویز بھی یہی ہے کہ اس بارہ میں کوئی قاعدہ بنانے کی ضرورت نہیں طوعی رنگ میں دوستوں کو تحریک بے شک کی جا سکتی ہے لیکن شرعی قاعدہ یہی ہے کہ مرنے کے بعد کے زمانہ پر وصیت واجب ہوتی ہے.“ اس کے بعد رائے شماری ہوئی.اکثریت نے سب کمیٹی کی تجویز کی تائید کی.اس پر حضور نے فرمایا: - چونکہ اکثریت سب کمیٹی کی رائے کے حق میں ہے اس لئے فیصلہ کیا جاتا ہے کہ فیصلہ رسالہ الوصیت کے مطابق وصیت ترکہ پر واجب ہے پس موصی کو مجبور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ حصہ وصیت اپنی زندگی میں ہی ادا کرے تو اس کو سرٹیفیکیٹ دیا جائے گا.جو لوگ جائداد کی وصیت کرتے ہیں سوائے اس کے کہ وہ اپنی مرضی سے کچھ دیدیں قاعدہ کے طور پر اُن کے لئے اپنی زندگی میں جائداد بطور حصہ وصیت ادا کرنا ضروری نہیں.قاعدہ یہی ہے کہ وفات کے بعد جو جائداد باقی ہوگی اُس پر وصیت حاوی ہوگی.“ بہشتی مقبرہ میں قبر کے لئے جگہ ریز رو کرانا بھارت بہشتی مقبرہ کی ایک تجویز کے بارہ میں سب کمیٹی کی طرف سے رپورٹ پیش ہوئی کہ سب کمیٹی اُن دوستوں کی خواہش کی تائید میں نہیں جو ایسا قاعدہ بنوانا چاہتے ہیں جس سے اُن کے خاندان کے افراد کو ایک قطعہ میں دفن کرنے کا

Page 558

خطابات شوری جلد سوم انتظام کیا جائے.“ ۵۴۲ مشاورت ۱۹۵۲ء نمائندگان مجلس مشاورت نے اس رپورٹ کے بارہ میں اپنی آراء کا تفصیل سے اظہار کیا.اس کے بعد حضور نے فرمایا : - ”جہاں تک عمل کا سوال ہے اس میں بڑی دھنیں ہیں لیکن جہاں تک جذبات کا سوال ہے اس کے لحاظ سے بھی اس میں بڑی دقتیں ہیں.سب کمیٹی نے بے شک مخالف رائے کا اظہار کیا ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو ایک حد تک اس سوال کی اہمیت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جب اپنی وفات کے متعلق متواتر الہامات ہوئے اور آپ نے بعض رؤیا بھی دیکھے تو ایک دن آپ سیر کرتے ہوئے بہشتی مقبرہ کی طرف تشریف لے گئے اور فرمایا یہاں مجھے چاندی کی بنی ہوئی قبریں دکھائی گئی ہیں اور بتایا گیا ہے کہ یہ تیری اور تیرے خاندان کے افراد کی قبریں ہیں.چنانچہ اسی رؤیا کی بناء پر جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مدفون ہیں، وہاں ایک بڑا سا احاطہ بنایا گیا تا کہ آپ کے خاندان کے افراد یہیں دفن ہوں.ادھر قرآن کریم بھی فرماتا ہے کہ الْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ " یعنی ہم جنتیوں کے ساتھ اُن کے رشتہ داروں کو بھی جمع کر دیں گے.تو اس بارہ میں دلوں کے اندر جو جذبات پیدا ہوتے ہیں وہ اتنے اہم ہوتے ہیں کہ خدا نے بھی ان کا لحاظ رکھا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی رویا میں بتایا گیا کہ یہ تیری اور تیرے خاندان کے افراد کی قبریں ہیں جو چاندی کی طرح چمک رہی ہیں مگر یہ مطالبات پھر بڑھتے بڑھتے ایسا رنگ اختیار کر لیتے ہیں کہ انتظام میں کئی قسم کی دشتیں پیدا ہو جاتی ہیں اور جب لوگ ریز روشھدہ قطعات کو دیکھتے ہیں تو انہیں غصہ آتا ہے کہ یہ قطعے تو اوروں نے ریز رو کر وا لئے اب ہمیں کہیں دُور جگہ ملے گی.پس میرے نزدیک جہاں قاعدہ کے رو سے اس میں مشکلات ہیں وہاں اگر مزید غور کی ضرورت محسوس ہونے پر کسی وقت یہ فیصلہ کر دیا جائے کہ اگر میاں بیوی اکٹھے دفن ہونا چاہیں تو ان کے لئے فلاں قطعہ مخصوص ہو گا تو میرے نزدیک اس قسم کی تجویز نکالی جا سکتی ہے مگر موجودہ حالات میں چونکہ اس پر غور نہیں ہو رہا اس لئے اس وقت صرف اس بات پر غور ہوگا کہ کیا موصیوں کو یہ اجازت دی جائے یا نہ کہ وہ اپنے اور اپنے عزیزوں کے لئے ایک قطعہ مخصوص کرالیں.سب کمیٹی کی رائے اس کے خلاف ہے.جو دوست

Page 559

خطابات شوری جلد سوم ۵۴۳ مشاورت ۱۹۵۲ء کی رائے کے حق میں ہوں وہ کھڑے ہو جائیں.“ حضور کے اس ارشاد پر نمائندگان کی اکثریت نے سب کمیٹی کی رائے کی تائید کی.حضور نے فرمایا: - فیصلہ چونکہ اکثریت سب کمیٹی کی رائے کے حق میں ہے کہ اس قسم کا قاعدہ بنانے کی کوئی ضرورت نہیں جس کی رو سے بہشتی مقبرہ میں قطعات مخصوص کرانے کا طریق جاری کیا جائے.جن میں ایک خاندان کے افراد ان کی خواہش کے مطابق اکٹھے دفن ہوں.اس لئے میں بھی کثرتِ رائے کے حق میں فیصلہ کرتا ہوں لیکن اگلے سال غور کر کے اس بات کو پیش کیا جاسکتا ہے کہ بہشتی مقبرہ کے ایک طرف علیحدہ ایک قطعہ مخصوص کر دیا جائے جس میں صرف میاں بیوی اگر اپنے لئے جگہ ریز رو کرانا چاہیں تو کروالیں.“ اختتامی تقریر مجلس مشاورت کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد حضور نے احباب کو رخصت کرتے ہوئے انہیں ایک مختصر خطاب سے نوازا.دعاؤں کی تلقین کرتے ہوئے آپ نے فرمایا : - ”اب میں دعا کر کے اس جلسہ کو برخاست کروں گا.دوستوں کو بھی چاہئے کہ وہ میرے ساتھ دعا میں شریک ہوں تا کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے فضلوں سے ڈھانپ لے اور ہماری مشکلات اور تکالیف کو دور فرمائے.حقیقت یہ ہے کہ ان ایام میں میری طبیعت پر حضرت اماں جان ) کی تشویشناک علالت کی وجہ سے سخت بوجھ رہا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور میں اس کام کو سر انجام دے سکا.دوستوں کو چاہئے کہ وہ ان دنوں خاص طور پر دعاؤں سے کام لیں اور اپنے اندر ایک نیک تبدیلی پیدا کریں.ہمارا سلسلہ مالی لحاظ سے اس وقت ایک نازک دور میں سے گزر رہا ہے اور یہ وہ چیز ہے جس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات میں بھی ذکر آچکا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے کہ بَلِيَّةٌ مَا لِيَّةٌ ها یعنی مالی مشکلات کا دور آنے والا ہے.سو وہ دور تو آپکا لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان مشکلات کے حل کی کوئی نہ کوئی صورت ضرور پیدا فرمادے گا اور وہ ہماری کشتی کو اس بھنور سے سلامتی کے ساتھ نکال لے جائے گا.

Page 560

خطابات شوری جلد سوم ۵۴۴ مشاورت ۱۹۵۲ء ہمارے سلسلہ پر پہلے بھی کئی نازک دور آئے مگر ہمیشہ اللہ تعالیٰ نے ہماری مدد فرمائی اور اب بھی مجھے یقین ہے کہ اگر دوستوں نے دعاؤں سے کام لیا اور اپنے اندر قربانی اور ایثار کے مادہ کو ترقی دی تو یہ مشکلات دُور ہو جائیں گی اور سلسلہ کی ترقی پہلے سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ ہونے لگے گی.بہر حال اب میں دُعا کر دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے دوستوں کی مدد فرمائے اور انہیں اپنے اندر ایک نیا تغیر پیدا کرنے کی توفیق عطا کرے تا کہ وہ سلسلہ کے بوجھوں کو ہلکا کرنے کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے آگے بڑھیں اور اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رضا اور خوشنودی کا وارث بنائے.سچی بات تو یہ ہے کہ زندگی وہی ہے جو خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت میں گزرے اس کے بغیر روح کو تازگی حاصل نہیں ہوسکتی.وہ غفلت کی حالت میں جمود کا شکار ہو جاتی ہے.مُردنی اس پر چھا جاتی ہے اور ترقی کی را ہیں اس کے لئے بند ہو جاتی ہیں.پس دعائیں کرو اور اپنے اوقات کو زیادہ سے زیادہ خدمت دین میں لگاؤ.یہی بات دیکھ لو بظاہر کتنی معمولی ہے لیکن نتائج کے لحاظ سے کتنی اہم ہے کہ میں نے ایک سرسری تحریک کی اور اسی ہال میں مساجد کے لئے ۵ ہزار روپیہ جمع ہو گیا.یہ بات بتاتی ہے کہ ہماری جماعت کے اندر ایک زندہ ایمان موجود ہے، قربانی کا مادہ نہایت نمایاں طور پر پایا جاتا ہے ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ سلسلہ کی مشکلات کا ہر فرد کو احساس دلایا جائے تاکہ اس کی مخفی قوتیں بیدار ہوں اور وہ اپنے فرائض کو صحیح رنگ میں ادا کرنے کے لئے تیار ہو جائے.اب میں بھی دُعا کرتا ہوں دوست بھی میرے ساتھ دُعا (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء) 66 میں شریک ہو جائیں.“ ا تذکرہ صفحہ ۳۸۰.ایڈیشن چهارم ل هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ.(الصف: ١٠) مسلم کتاب السلام باب الطَّاعُون والطيرة (الخ) ۴ تاریخ ابن اثیر جلد ۳ صفحه ۱۱۴.۱۱۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء ۵ اسد الغابة جلد اصفحہ ۲۳۷ - ۲۳۸ مطبوعہ ریاض ۱۳۸۴ھ

Page 561

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء مؤطا امام مالک کتاب الزكواة باب مالا زكوة فيه من الحلى والتبر والعنبر (مفهوماً) ك الاعلى :١٠ بخارى كتاب الجنائز باب الصفوف على الجنازة صحیح مسلم کتاب الجنائز باب في التكبير على جنازة ما السيرة الحلبيه جلد ۳ صفحه ۲۸۳-۲۸۴ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء ا تذکرہ صفحہ ۷۹۴.ایڈیشن چہارم بخاری کتاب الطب باب الدواء بالعسل ۱۳ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۹۶ الطور : ۲۲ ها تذکرہ صفحہ ۴۰۶.ایڈیشن چہارم

Page 562

Page 563

خطابات شوری جلد سو ۵۴۷ مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء منعقده ۱۶ تا ۱۸ / اپریل ۱۹۵۴ء) تیسرا دن جماعت احمدیہ کی پینتیسویں نمائندگان مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء سے خطاب مجلس مشاورت ۱۶ تا ۱۸ اپریل ۱۹۵۴ء کور بوہ میں منعقد ہوئی.ناسازی طبع کی وجہ سے حضور ۱۶.اپریل کو افتتاحی دعا کروا کر اور مختصر نصیحت فرما کر واپس تشریف لے گئے.اسی طرح اختتامی اجلاس میں بھی حضور صرف دُعا کے لئے ہی تشریف لا سکے.تاہم تیسرے دن ۱۸.اپریل کو علالت کے ނ با وجود صبح کے اجلاس میں آپ رونق افروز ہوئے اور کرسی پر بیٹھے بیٹھے نمائندگان خطاب فرمایا اور اُنہیں زریں ہدایات سے نوازا.تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: - پرسوں میں تھوڑی دیر کے لئے مجلسِ شوریٰ کے اجلاس میں آ گیا تھا اور مختصرسی تقریر بھی کی تھی.اُس تقریر کے بعد میری طبیعت خراب ہو گئی اور بقیہ سارا دن درد رہی.اسی طرح رات کو بھی درد ہوتی رہی.آج رات بھی دردر ہی.اسی تکلیف کی وجہ سے بجائے اس کے کہ میں یہ فیصلہ کرتا کہ میں مجلس شوریٰ کے اجلاس میں نہ جاؤں میں نے مناسب سمجھا کہ چونکہ اس موقع پر جماعت کے نمائندے باہر سے آئے ہوئے ہیں، آئندہ شاید ان سے ملنے کا موقع ملے یا نہ ملے اس لئے میں مجلس شوریٰ میں چلا جاؤں چاہے چند منٹ بیٹھ کر آ جاؤں.اس خیال سے آج میں یہاں آیا ہوں.میری تکلیف بڑھ رہی ہے اس کی وجہ

Page 564

مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء خطابات شوری جلد سوم ۵۴۸ معلوم نہیں ہوسکی.بظاہر اس کی موٹی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ حملہ کے بعد کل میں پہلی دفعہ پگڑی پہن کر آیا تھا اور پگڑی کا سر پر بوجھ محسوس ہوتا تھا.اسی طرح گلاہ عین زخم کی جگہ کے او پر لگتا تھا، اس کی وجہ سے درد شروع ہو گیا.آج میں ایک قسم کی ترکی ٹوپی پہن کر آیا ہوں جو ایک دوست لائے تھے.شوریٰ میں آنے لگا تو میں نے یہ ٹوپی سر پر رکھ لی.گھر والے اعتراض کرتے تھے کہ یہ وقار کے خلاف ہے.میں نے کہا اگر وقار کے خلاف بھی یہ بات ہو تب بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ میں جانتا تھا کہ پگڑی باندھ کر آنا میرے لئے ممکن نہیں.میں نے ٹوپی پہن لی اور گھر والوں کا لحاظ کر کے ٹوپی پر ایک رومال باندھ لیا تا ٹوپی رومال کے نیچے چُھپ جائے اور سر بھی نگا نہ رہے.جیسا کہ میں نے کہا ہے تھوڑی دیر کے بعد میں واپس چلا جاؤں گا.جب مجلس شوری کی کارروائی ختم ہو گی تو مجھے اطلاع دے دی جائے گی اور میں اختتامی دعا کے لئے پھر آجاؤں گا.اِس عرصہ میں اگر کوئی ایسی کا رروائی ہوئی کہ جس کے متعلق میں نے کچھ کہنا ضروری سمجھا تو میں کہہ دوں گا.میری طبیعت کی خرابی کے مطابق اُن دوستوں کو جو اس عرصہ میں مجھے ملتے رہے ہیں یا خطوط لکھتے رہے ہیں سب کو ایک قسم کی غلط فہمی پیدا ہوگئی ہے.زخم بظاہر مندمل ہو گیا ہے اور جو لوگ طب سے واقف نہیں وہ زخم مندمل ہونے کے معنے گلی صحت کے سمجھتے ہیں.حالانکہ تھوڑے سے تدبر سے بھی انسان سمجھ سکتا ہے کہ دُنیا میں ہر شخص مرتا ہے لیکن زخم کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے.اگر ایک لاکھ اشخاص مرتے ہیں تو ان میں سے شاید ایک زخم کی وجہ سے مرتا ہے.باقی ۹۹۹۹۹ بخار کی وجہ سے مرتے ہیں، نمونیہ کی وجہ سے مرتے ہیں، ذات الجنب کی وجہ سے مرتے ہیں، کھانسی یا سل کی وجہ سے مرتے ہیں، ذیا بیطیس کی وجہ سے مرتے ہیں یا اور کسی قسم کی کمزوری اور ضعف سے مرتے ہیں.پس محض زخم کا مندمل ہو جانا اس بات کی علامت نہیں کہ میں اچھا ہو چکا ہوں کیونکہ ایک ایسے مو کے جسم سے اُس کے سارے خون کا نکل جانا جس کی عمر شمسی حساب سے ۶۵ سال کی ہو چکی ہے اور قمری لحاظ سے وہ ۶۷ سال کا ہو چکا ہے، زخم سے بھی زیادہ خطر ناک بیماری ہے.اس کے معنے یہ ہیں کہ بیماری کا مقابلہ کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے جو چیز جسم کے اندر بنائی ہے وہ ختم ہوگئی ہے.پھر اس کے ساتھ ذیا بیطیس کی بھی شکایت پیدا ہوگئی ہے اس کی وجہ سے خص

Page 565

خطابات شوری جلد سوم ۵۴۹ مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء جن چیزوں سے پر ہیز بتایا جاتا ہے وہی چیزیں تندرستی کا باعث ہوتی ہیں.مثلاً میٹھے سے جسم کے اندر طاقت پیدا ہوتی ہے لیکن ذیا بیطس کی صورت میں میٹھا کھانا قطعی طور پر بند ہو جاتا ہے.چنانچہ جب سے مجھے پیشاب میں شکر آ رہی ہے میں نے صرف ایک دن چائے میں ایک چمچہ میٹھا ڈال کر پیا ہے ورنہ میں پھیکی چائے پیتا ہوں یا اس میں دوائی ڈال کر پیتا رہا ہوں.غرض ذیا بیطس کی وجہ سے طاقت پیدا کرنے والی جو چیزیں تھیں وہ میں نے چھوڑ دی ہیں پھر گاؤٹ (نقرس) کی وجہ سے گوشت کا استعمال نہیں کیا جاتا.گاؤٹ کی بیماری میں گوشت کا استعمال طبی طور پر منع ہے.ڈاکٹر اس کے استعمال سے روکتے ہیں.گویا ایک طرف مجھے روٹی کھانے سے روکا جاتا ہے اور دوسری طرف ذیا بیطیس اور گاؤٹ کی وجہ سے میٹھا اور گوشت جیسی طاقت پیدا کرنے والی چیزوں سے روکا جاتا ہے.باقی جو چیزیں رہ گئیں مثلاً شور با تر کاری یا صرف تر کاری انہیں نہ تو کوئی انسان رغبت سے کھا سکتا ہے اور نہ ان کے کھانے سے کوئی طاقت پیدا ہوتی ہے.اوّل تو میں یہ چیزیں کھا ہی نہیں سکتا اور اگر کسی وقت کچھ کھا لیتا ہوں تو نفرت سے کھاتا ہوں.پس جن چیزوں سے جسم کے اندر طاقت پیدا ہوتی ہے وہ علاج کے دوران میں چھوڑنی ضروری ہیں.ایسی صورت میں خود ظاہر ہے کہ طاقت بحال ہونے کے لئے ایک لمبا عرصہ درکار ہے.اسی طرح جب لاہور سے علاج کیلئے ڈاکٹر یہاں آئے تو میں نے اُن سے پوچھا آپ کے خیال میں یہ زخم کتنے عرصہ تک ٹھیک ہو جائے گا ؟ اُنہوں نے کہا جو ٹانکوں والا حصہ ہے یہ تو دس دن میں ٹھیک ہو جائے گا اور جونکی والا حصہ ہے وہ کوئی بائیس دن میں ٹھیک ہو جائے گا لیکن اندر کے زخم کے ٹھیک ہونے میں دیر لگتی ہے.میں نے کہا اندر کا زخم کب تک ٹھیک ہو جائے گا؟ تو انہوں نے کہا ممکن ہے کہ اس پر تین ساڑھے تین ماہ کا عرصہ لگ جائے.ایک عصبہ جو کٹ گیا ہے اس کی وجہ سے میرے سر کا چوتھا حصہ سُن ہے، اس کی جس ماری گئی ہے.اس کے متعلق میں نے ڈاکٹروں سے دریافت کیا تو اُنہوں نے بتایا یقین تو نہیں لیکن اکثر یہ عصبہ ٹھیک ہو جایا کرتا ہے اور کچھ عرصہ کے بعد وہ خود بڑھنا بھی شروع ہو جایا کرتا ہے اگر ایسا ہو یعنی وہ عصبہ ٹھیک ہو جائے اور خود بڑھنا شروع کر دے تو اس پر چھ ماہ کا عرصہ لگ جائے گا.گویا صحت کے لئے اگر وہ ممکن ہو تو تین ماہ سے ساڑھے چھ ماہ تک کا عرصہ

Page 566

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء ضروری ہے لیکن جب دوستوں نے سُنا کہ زخم مندمل ہو چکا ہے تو وہ پوری اُمید رکھنے لگ گئے کہ اب مجھے خلافت کا پورا بوجھ اُٹھا لینا چاہئے.بعض نے تو اخلاص میں آ کر مجھے تنگ کرنا بھی شروع کر دیا.کل ایک شخص نے جب وہ ملاقات کے لئے آیا تو میرے سر کو پکڑ کر خوب ہلایا جس کی وجہ سے مجھے درد شروع ہو گیا.میرا سر ہلانے والے پرانے صحابی تھے.اپنے خیال میں انہوں نے مجھ سے محبت کا اظہار کیا لیکن اس محبت کے اظہار کی وجہ سے میری تکلیف بڑھ گئی.اس پر مجھے حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل کا بیان کردہ ایک قصہ یاد آ گیا.آپ جب گھوڑے سے گرے اور سر میں شدید زخم آیا تو دوستوں نے آپ کی عیادت کے لئے آنا شروع کر دیا اور ہر دوست اپنے اخلاص میں چاہتا کہ وہ زخم دیکھے اور اس کے متعلق پوری معلومات حاصل کرے.ایک دفعہ آپ نے فرمایا کہ میرے زخم کی حالت تو بندر کے زخم کی سی ہو گئی ہے.جب کسی بندر کو زخم ہو جاتا ہے تو قریب قریب کے سارے بندر اُس کے پاس جمع ہو جاتے ہیں.پہلے ایک بندر یہ دیکھنے کے لئے کہ زخم کہاں ہے اور کتنا ہے، آگے بڑھ کر زخم میں پنجہ ڈال دیتا ہے پھر دوسرا بندر آگے آتا ہے اور وہ بھی زخمی بندر سے یہی سلوک کرتا ہے.اسی طرح سارے بندر ایک ایک کر کے آتے ہیں اور اُس کے زخم میں ہاتھ ڈال ڈال کر دیکھتے ہیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زخم کی حالت بجائے درست ہونے کے اور زیادہ خراب ہو جاتی ہے.آخر زخمی بندر جنگل میں بھاگ جاتا ہے اور جب تک زخم ٹھیک نہ ہو وہ واپس نہیں آتا.آپ فرماتے تھے کہ میرے زخم کی حالت بھی بندر کے زخم کی سی ہوگئی ہے ہر ایک شخص جو تیمار داری کے لئے آتا ہے، اخلاص اور محبت کی وجہ سے کہتا ہے مجھے زخم دکھاؤ.اور پھر کہتا ہے یہ کیسے ہوا ؟ کیوں ہوا ؟ اس کی اب کیا حالت ہے؟ کیا علاج کیا گیا ہے؟ غرض رات دن یہی ہوتا رہتا ہے.آپ فرماتے اگر کوئی شخص بیمار ہو اور وہ رات دن یہی کہتا رہے کہ میں بیمار ہوں تو وہ اپنے آپ کو بیمار کہتے کہتے مر جائے گا اور اگر وہ کہے کہ میں اچھا ہوں تو سننے والے اُسے جھوٹ کہیں گے.پس میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کیا کروں.ہزاروں پوچھنے والے ہیں اور ان کے سوالات بھی کئی ہوتے ہیں.مثلاً کیا بیماری ہے؟ یہ کیسے لاحق ہوئی ؟ اس کا کیا علاج کر رہے ہیں؟ علاج کون کر رہا ہے؟ اب علاج کی وجہ سے کس قدر آرام ہے؟ اگر دو چار سو ملاقاتی ہوں اور مریض ان سے صبح سے شام تک

Page 567

خطابات شوری جلد سوم ۵۵۱ مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء اپنی بیماری کی کیفیت ہی بیان کرتا رہے تو صحت ہونی مشکل ہے.صحت تب ہوتی ہے کہ جب مریض اپنی بیماری کو کھلانے کی کوشش کرے لیکن اس قسم کے سوالات کرنے والے بیماری کو بُھلانے نہیں دیتے.اگر کوئی شخص اس قسم کے سوالات کے جواب میں یہ کہے کہ الْحَمْدُ لِله اب میں تندرست ہوں یا پہلے کی نسبت بہت افاقہ ہے تو وہ گویا سارا دن جھوٹ بولتا رہے اور اگر بیماری کو بیان کرتا رہے تو اس کا اچھا ہونا مشکل ہے.پس اس صورت میں مریض کے لئے صرف دو صورتیں باقی رہ جاتی ہیں یا تو وہ رات دن جھوٹ بولے اور یا اپنی بیماری کو سارا دن اور ساری رات بیان کرتا رہے.حالانکہ ہر ایک شخص کے الگ کام ہیں.جب ڈاکٹر نے کہہ دیا کہ زخم اتنے عرصہ میں ٹھیک ہوگا تو دوسروں کو اب زیادہ سوالات کی کیا ضرورت ہے.ڈاکٹروں کے معاملہ میں دخل دینا ایسا ہی ہے جس طرح آجکل کے مولویوں نے سیاست میں دخل دینا شروع کر دیا ہے.اور سیاست میں دخل دے کر ملک کا ستیاناس کر دیا ہے.ہمارے ایک مولوی تھے وہ مسجد میں بیٹھے رہتے اور جب میں مسجد میں آتا تو وہ مجھ سے معانقہ ضرور کرتے اور پھر پوچھتے آپ کی طبیعت کیسی ہے؟ نزلہ اور بخار تو نہیں ہوا ؟ اور میں کہتا نہیں.تو کہتے اچھا کھانسی تو نہیں ہوئی ؟ جواب ملتا نہیں.پھر کہتے رات کو نیند تو آ جاتی ہے؟ میں کہتا ہاں.پھر پوچھتے اچھا کام کے وقت تکلیف تو نہیں ہوتی ؟ اس پر پھر میں کہتا نہیں.غرض اس قسم کے وہ کئی سوالات کر ڈالتے.چار ماہ تو میں چپ رہا آخر میں نے کہا اس طرح کے سوالات دریافت نہ کیا کریں.اگر ہر احمدی نے اس قسم کے سوالات پوچھنے شروع کر دیئے تو میں کیا کروں گا.اس پر انہوں نے بُرا تو منایا لیکن پھر وہ چپ ہو گئے ورنہ اس سے قبل جتنی بیماریاں اُنہوں نے سنی ہوئی تھیں وہ ساری دُہرا دیا کرتے تھے اور انہیں بغیر گنوائے صبر نہیں آتا تھا.یہ بے اصولے پن کی بات ہے اور میرے نزدیک اس کی بڑی وجہ جہالت ہے.لوگوں نے ملاقات میں کوئی بات تو کرنی ہوتی ہے لیکن چونکہ علم نہیں ہوتا کہ کیا بات کی جائے اور چونکہ جماعت میں مسائل پوچھنے کا شوق نہیں رہا اس لئے وہ ملاقات کے موقع پر کوئی مفید بات نہیں پوچھ سکتے.پس یہی چیز رہ گئی ہے کہ پوچھا جائے کیا حال ہے؟ بخار تو

Page 568

خطابات شوری جلد سوم ۵۵۲ مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء نہیں ہوا ؟ کھانسی تو نہیں ہوئی ؟ نزلہ تو نہیں ہوا، پیاس تو لگتی ہے؟ نیند آتی ہے یا نہیں؟ کچھ کھاتے پیتے بھی ہیں یا نہیں؟ اگر حالات پر غور کرنے کی عادت ہو، سو چنے کی عادت ہو تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ جب آپ کوئی بات کریں گے تو معقول کریں گے، اس سے ملک اور قوم کو فائدہ ہوگا.بہرحال میرا گلہ پھر خراب ہو گیا ہے اور اس کے اندر سے پانی نکلتا ہے.زخم کے ابتدائی دنوں میں بھی یہ تکلیف پیدا ہو گئی تھی اس لئے ڈاکٹروں سے دوبارہ مشورہ لینا پڑے گا.زخم کے ابتدائی دنوں میں رات کے وقت جب تک میری آنکھ نہیں گھلتی تھی میں کروٹ نہیں بدل سکتا تھا.آنکھ کھلنے پر سہارا لے کر کروٹ بدلتا تھا.آج رات بھی یہی حالت رہی کہ میں سوتے سوتے کروٹ نہیں بدل سکتا تھا.مجھے معلوم ہوا ہے کہ تحریک خاص کے چندہ کے متعلق جو میں نے تجویز کی تھی اس کے علاوہ جماعت کی طرف سے ساٹھ ہزار روپے کی رقم جمع کی گئی ہے.میرا خیال تھا کہ دوستوں نے اس بجٹ کو کافی نہیں سمجھا اور انہوں نے خیال کیا کہ تحریک خاص کے ذریعہ جو رقم اکٹھی ہو گی وہ کم ہے اس لئے مزید ساٹھ ہزار کی رقم جمع کر کے دے دی جائے.جو مذات میرے ذہن میں تھیں ، میرا خیال تھا کہ وہ خود بخود بڑھتی چلی جائیں گی کیونکہ اس رقم کے ذریعہ ربوہ کے علاوہ بعض بیرونی جگہوں پر بھی حفاظت کا انتظام کیا جائے گا.اگر صرف ربوہ میں انتظام کیا جائے تو شاید اس روپیہ کا پچاسواں حصہ ہی کافی ہو لیکن اصل مقصد تو فتنہ کا سدِ باب کرنا ہے.پس میرا خیال تھا کہ دوستوں نے میری سکیم کو نا کافی سمجھتے ہوئے خیال کیا کہ ساٹھ ہزار روپے کی مزید رقم جمع کر کے دے دی جائے.بہر حال اس روپیہ کے جمع ہونے کے بعد مجھے پیغام پہنچا کہ جماعت کے کچھ امراء آپ سے ملنا چاہتے ہیں.چونکہ شوریٰ میں سے بعض امراء کا علیحدہ طور پر ملنا خلاف قاعدہ تھا اس لئے میں نے اس ملاقات کو پسند نہ کیا.ملاقات ایک وقت میں خلاف قاعدہ ہوتی ہے اور دوسرے وقت میں باقاعدہ ہو جاتی ہے.جب مجلس شوری بیٹھی ہو تو سارے افراد شوریٰ کا حصہ ہوتے ہیں اس لئے اُس میں سے بعض افراد کا علیحدہ طور پر ملاقات کرنا چاہے وہ امراء ہوں یا عام ممبر خلاف قاعدہ ہوتا ہے لیکن اگر مجلس شوری نہ ہو تو پھر امیر اور غریب کا

Page 569

خطابات شوری جلد سوم ۵۵۳ مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء کوئی سوال نہیں، ہر شخص کو ملاقات کا حق ہوتا ہے اور وہ ملاقات کرتا ہے.قادیان کا ایک واقعہ ہے کہ ایک شخص بہت غریب تھا اُس نے یہ کہنا شروع کیا کہ آپ امیروں کے ہاں دعوتیں کھاتے ہیں غریبوں کے ہاں دعوت نہیں کھاتے.اُس شخص کی اپنی یہ حالت تھی کہ میرا خیال یہ تھا کہ اگر وہ سامنے دال روٹی بھی رکھے گا تو اُسے تکلیف ہو گی لیکن ہر دو تین ماہ کے بعد وہ میرے پاس آتا اور کہتا کہ آپ غریبوں کی دعوت نہیں کھاتے.آپ میری دعوت قبول کریں.میرے گھر آئیں اور وہاں بیٹھ کر کھانا کھائیں.آخر میں نے کہا میں تمہاری دعوت مان لیتا ہوں مگر شرط یہ ہے کہ تم سالن پکا و یا دال یعنی ان دونوں میں سے کچھ پکاؤ مگر ہو ایک ہی چیز اور اس کے ساتھ پھلکے پکالیں، چاول نہیں پکانے.اگر تم نے سالن اور دال دونوں چیز میں پکا لیں یا چاول پکالئے تو میں تمہاری دعوت قبول نہیں کروں گا.اُس نے کہا مجھے یہ شرط منظور ہے.وہ شخص مجھ سے اخلاص رکھتا تھا اُس نے میرا مطلب سمجھ لیا.چنانچہ جس دن دعوت تھی اُس نے پتلا سا شور بہ بنالیا اور اُس کے ساتھ پھلکے تیار کر لئے.میں اُس کے گھر گیا اور کھانا کھایا.کھانا سے فارغ ہو کر میں اُس کے گھر سے باہر نکلنے لگا تو غالباً سیالکوٹ کے ایک دوست دروازے پر کھڑے تھے.اُنہوں نے مجھے دیکھتے ہی کہا کسی ایسے غریباں دی دعوت وی کھالیندے او‘ میں نے کہا اس شخص کی یہ بات کہ کسی غریباں دی دعوت نہیں کھاندے، میں نے تین سال سُنی ہے.اب تمہاری یہ بات تین سال تک سُن لوں گا.اس پر وہ شخص شرمندہ ہو گیا اور واپس چلا گیا.غرض ایک طرف تو وہ امیر شخص تھا جس کو غریب کے ہاں میرا جانا بُرا لگا.اور دوسری طرف وہ غریب شخص تھا جو مجھے تین سال تک یہ کہتا رہا کہ آپ غریبوں کی دعوت قبول نہیں کرتے اور آخر مجھے اُس کی دعوت منظور کرنی پڑی.تو اعتراض کرنے والے بعض اوقات اعتراض کرتے رہتے ہیں اور حقیقت اس کے خلاف ہوتی ہے.اب ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ ہمارے لئے مخالفت اور ہماری ذمہ داری اس ملک میں رہنا بھی محال بنایا جا رہا ہے.ہر سیاسی تغیر جو ملک میں پیدا ہوتا ہے اس کو ہماری مخالفت کا ذریعہ بنایا جاتا ہے.بنگال میں جو الیکشن ہوا اُس کا احمدیوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا لیکن اُدھر مسلم لیگ والے صوبہ میں

Page 570

خطابات شوری جلد سوم ۵۵۴ مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء کمزور ہوئے اور ادھر مودودی صاحب نے اعلان کر دیا کہ ہم اس کے خلاف ہیں اور ساتھ ہی کہہ دیا کہ ہم ہر اس شخص سے ملنے کے لئے تیار ہیں جو احمد یوں کو اقلیت قرار دے دے.گویا ہر تغییر جو ملک میں پیدا ہوتا ہے اُسے ہماری مخالفت کا ایک ذریعہ بنا لیا جاتا ہے.احمدی پاکستان کے باشندے ہیں اور نہ صرف پاکستان کے باشندے ہیں بلکہ پاکستان کے بنانے والوں میں سے ہیں لیکن وہی ملک جس کے متعلق ہم یہ سمجھتے ہیں اور جائز طور پر سمجھتے ہیں کہ وہ ہماری کوششوں سے بنا ہے اگر چہ ایک وقت میں ہمارے ذہن میں بھی اس کی وہ شکل نہیں تھی جو اب ہے لیکن مسلم لیگ کی ہر تحریک میں جو اس کے حصول کے لئے کی گئی ہم نے حصہ لیا اور اُسے مدد دی.جو لوگ ہمارے دشمن ہیں اور اُنہوں نے ملک کے بنانے میں عملی طور پر کوئی حصہ نہیں لیا بلکہ اس کی مخالفت میں لگے رہے ہیں آج مسلم لیگ سے ساز باز کر رہے ہیں کہ احمدیوں کو پاکستان میں اقلیت قرار دے دیا جائے.ایسے وقت میں احمدیوں کا فرض ہے کہ وہ جو کام بھی کریں ہوشیار ہو کر کریں.یہ درست ہے کہ خدا تعالیٰ ہی ہر کام کرتا ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ عملی طور پر یہ نہیں ہوتا کہ خدا تعالیٰ آسمان سے اتر کر یہ کہے کہ تم لحاف اوڑھ کر چار پائی پر لیٹے رہو میں تمہاری جگہ کام کرتا ہوں.خدا تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے کہا تم اس باغ میں رہو اور اس کے پھل کھاؤ لیکن فلاں دروازہ سے چوکنا ر ہیں.اگر اس دروازہ سے شیطان تم پر حملہ آور ہو گیا تو میں ذمہ دار نہیں ہوں گا.پھر جب شیطان نے حملہ کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ یہ میری غلطی تھی ، میں نے تمہیں کیوں نہ بچایا بلکہ اُس نے کہا میں نے تمہیں باغ دیا تھا، دودھ اور شہد کی نہریں عطا کی تھیں اور ہر قسم کی آسائش کا سامان مہیا کر دیا تھا لیکن تم اتنے سُست نکلے کہ تم نے احتیاط کو بھی نظر انداز کر دیا اور شیطان کو اندر آنے دیا.اب تم سے یہ شہد اور دودھ کی نہریں اور دوسرے آسائش کے سامان واپس لے لئے جاتے ہیں.خلیفہ وقت کی حفاظت حضرت نوح علیہ السلام کو بھی خدا تعالیٰ نے نعمتیں دیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ تم یہ نہ سمجھنا کہ میں تمہیں چیزیں بھی دوں گا اور پھر ان کی حفاظت بھی کروں گا.حفاظت تمہیں خود کرنی ہو گی.اگر تم نے سُستی اور غفلت سے کام لیا تو میں نے تمہارا ہاتھ نہیں بٹانا.ہاں اگر تم کام کرو گے اور پوری محنت

Page 571

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء سے کرو گے اور اس کے بعد بھی کوئی کسر رہ جائے گی تو اُس کو میں پورا کروں گا یعنی اگر تم خود رخنہ پیدا کرو گے تو میں اُس کا ذمہ دار نہیں ہوں گا.ہاں اگر تمہاری پوری جدوجہد کرنے کے باوجود کوئی رخنہ باقی رہ گیا تو میں اُس کو پورا کروں گا.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں بھی یہی ہوگا ، حضرت عیسی علیہ السلام کے وقت میں بھی یہی ہوگا ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت میں بھی یہی ہوگا ، آپ کو یہودیوں نے کھانے میں زہر ملا کر دے دیا.بعض لوگ کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے ان کی دعوت کو منظور کیوں کر لیا لیکن آپ کی شان یہی تھی کہ آپ ان کی دعوت قبول کر لیتے.یہ صحابہ کا کام تھا کہ وہ کھانے کو پہلے چکھ کر دیکھ لیتے اور اطمینان کر لیتے.اب مجھے پر قاتلانہ حملہ ہوا تو بعض دوستوں نے لکھنا شروع کر دیا کہ خلیفہ وقت کو نماز کے لئے مسجد میں نہیں آنا چاہئے.اسی طرح ملاقات کا سلسلہ بھی بند کر دینا چاہئے.میں نے کہا اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ خلیفہ وقت کو کسی منارہ پر باندھ دیا جائے اور جماعت اپنا فرض ادا نہ کرے.جب تک خلافت رہے گی خلیفہ مسجد میں نماز پڑھانے ضرور جائے گا، وہ ملاقات کا سلسلہ بھی جاری رکھے گا، چاہے دشمن اُس پر حملہ کرے یا نہ کرے.اسی طرح وہ اپنے فرائض بھی بجالائے گا آگے جماعت کے لوگوں کا فرض ہے کہ وہ دیکھیں کہ وہاں کوئی مشکوک آدمی تو موجود نہیں.رسول کریم ع کی الہی حفاظت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی یہودیوں کی دعوت کو منظور کر لیا تھا اور آپ کی شان یہی تھی کہ اس دعوت کو منظور فرما لیتے.صحابہ کا یہ فرض تھا کہ وہ حفاظت کے پیش نظر کھانا چکھ لیتے لیکن اُن سے یہ غلطی سرزد ہو گئی اُنہوں نے کھانا چکھا نہیں اور نتیجہ یہ ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھانا کھا لیا.آپ کو الہاماً پتہ لگ گیا کہ اس کھانے میں زہر ملا ہوا ہے اور آپ نے لقمہ منہ سے نکال کر پھینک دیا تھا لیکن غالباً حضرت عائشہ کی یہ روایت ہے کہ وفات کے وقت آپ نے فرمایا کہ یہودیوں نے کھانے میں جو زہر کھلایا تھا اُس کا اثر اُس وقت تو نہیں ہو الیکن اب جسم میں اُس کا اثر معلوم ہوتا ہے یعنی اُس وقت تو آپ بچ گئے لیکن اس زہر کا اعصاب پر ایسا اثر ہوا کہ بڑھاپے میں جا کر وہ محسوس ہوتا ہے.اسی طرح ایک اور واقعہ آتا ہے آپ ایک جنگ سے واپس آ رہے تھے کہ رستہ میں

Page 572

خطابات شوری جلد سوم ۵۵۶ مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء ایک جگہ آرام کرنے کے لئے لشکر ٹھہر گیا.صحابہ کا خیال تھا کہ چونکہ ہم اب مدینہ کے قریب آگئے ہیں اس لئے خطرہ باقی نہیں رہا مگر وہ تھکے ہوئے تھے اس لئے علیحدگی میں آرام کرنے کے لئے بکھر گئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکیلے ایک درخت کے نیچے رہ گئے.آپ نے اپنی تلوار درخت کے ساتھ لٹکا دی اور خود آرام کی خاطر لیٹ گئے.لمبے سفر کی تھکاوٹ تھی اس لئے آپ کو نیند آ گئی.ایک کافر جس کا بھائی مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے مارا گیا تھا اُس نے یہ قسم کھائی تھی کہ چونکہ اُس کے بھائی کو مارنے والے مسلمان ہی ہیں اور وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ماننے والے ہیں اس لئے میں اپنے بھائی کا انتقام لینے کی خاطر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ماروں گا.چنانچہ وہ اس ارادہ سے چوری چھپے آپ کے ساتھ ساتھ آ رہا تھا.اس نے اس موقع کو جب صحابہ کسی خطرہ کا احساس نہ کرتے ہوئے آرام کی خاطر منتشر ہو گئے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک درخت کے سایہ میں اکیلے سوئے ہوئے تھے ، غنیمت جانا.اُس نے درخت سے تلوار اُتاری اور آپ کو آواز دے کر کہا اب کون تم کو مجھ سے بچا سکتا ہے؟ اُس وقت باوجود اس کے کہ آپ بے ہتھیار تھے اور بوجہ لیٹے ہوئے ہونے کے حرکت بھی نہیں کر سکتے تھے ، آپ نے نہایت اطمینان اور سکون سے جواب دیا.اللہ.اب اللہ کا لفظ تو سارے لوگ کہتے ہیں.فقیر بھی اللہ اللہ کہتے ہیں لیکن ظاہر میں اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اللہ کہا تو خدا تعالیٰ کی ذات آپ کے پیچھے موجود تھی.آپ کا یہ لفظ زبان سے نکالنا تھا کہ اُس دشمن کے ہاتھ سے تلوار گر گئی ہے وہ تلوار آپ نے فوراً اُٹھالی.اب وہ شخص جو آپ کے قتل کرنے کی نیت سے آیا تھا آپ کے سامنے مجرموں کی طرح کھڑا تھا.آپ نے معلوم کرنا چاہا کہ آیا میرے منہ سے اللہ کا لفظ سُن کر بھی اسے سمجھ آئی ہے یا نہیں آپ نے اُسے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اب مجھ سے تمہیں کون بچا سکتا ہے؟ تو اُس نے کہا آپ ہی رحم کریں تو مجھے چھوڑ سکتے ہیں.چنانچہ آپ نے چھوڑ دیا اور فرمایا کہ تمہیں بھی کہنا چاہئے تھا کہ اللہ ہی بچا سکتا ہے کیا میرے منہ سے سننے کے باوجود بھی تمہیں اس طرف توجہ نہیں ہوئی.

Page 573

خطابات شوری جلد سوم ۵۵۷ مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء اسلام ذہنیت بدلنے کا نام ہے اب دیکھ لو.خدا تعالیٰ نے اپنے رسول کی ایک نشان کے طور پر حفاظت تو کر دی لیکن دراصل یہ ذمہ داری صحابہ کی تھی.خدا تعالیٰ نے کہا میرا کام حفاظت نہیں ہاں موت سے بچانا میرا کام ہے اور موت سے میں بچالوں گا لیکن اُس نے حملہ میں کوئی روک پیدا نہیں کی.نپس کچھ کام جماعت کو بھی کرنے پڑتے ہیں.خلیفہ پر پابندیاں عائد نہیں کی جاسکتیں.خلیفہ اپنا کام کرے گا اور جماعت کو اپنا فرض ادا کرنا ہو گا.ضرورت اس بات کی ہے کہ ذہنیت کو بدلا جائے.مجھے افسوس ہے کہ جماعت نے کچھ مسائل سمجھ لینے اور نماز و روزہ کی پابندی کرنے کا نام ہی اسلام سمجھ لیا ہے.حالانکہ یہ سب چیزیں علامات ہیں.اسلام ذہنیت بدلنے کا نام ہے.صلوۃ خود کوئی چیز نہیں، ہاں یہ ایک ذریعہ ہے فحشاء اور منکر سے بچنے کا.اسی طرح روپیہ دینا کوئی چیز نہیں بلکہ اصل مقصد یہ روح پیدا کرتا ہے کہ مالوں میں پاکیزگی پیدا کی جائے.اسی طرح حج ہے، خالی حج میں بھی کوئی فائدہ نہیں.انسان حج کے لئے جاتا ہے تو اُس کی یہ غرض ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی خاطر اگر اُسے اپنا ملک بھی چھوڑنا پڑے تو وہ اس سے دریغ نہیں کرے گا یعنی ضرورت پڑنے پر وہ وطن کی قربانی بھی کر دے گا.آجکل وطن کی محبت باقی سب چیزوں کی محبت سے بڑھی ہوئی ہے اور حج میں یہ ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی خاطر ان کو وطن چھوڑنا پڑتا ہے.اگر یہ غرض باقی نہ رہے تو خالی حج کوئی چیز نہیں.مجھے یاد ہے جب میں حج کر کے واپس آ رہا تھا تو جس جہاز پر میں واپس آ رہا تھا اُس کا کپتان انگریز تھا.اس نے مجھ سے کہا میں نے آپ سے ایک بات پوچھنی ہے.آپ کی عمر ۲۳ ۲۴ سال کی ہے.( میں اُس وقت خلیفہ نہیں بنا تھا ).آپ حج کر کے آئے ہیں ، اس لئے اب آپ کو نماز روزے کی ضرورت تو نہیں رہی.میں نے کہا حج کا نماز ، روزہ ترک کرنے سے کیا تعلق ہے؟ اُس نے کہا مسلمان کہتے ہیں کہ حج کرنے سے نماز ، روزہ معاف ہو جاتے ہیں.میں نے کہا جب آپ نیا سوٹ پہن لیتے ہیں تو کیا دوسرے سوٹ کی حفاظت ترک کر دیتے ہیں؟ اس پر وہ ہنس پڑا.میں نے کہا حج کیا ہے؟ ایک نیا سوٹ ہے.اب کیا اُس نئے سوٹ کی حفاظت کی وجہ سے دوسرے لباس کی حفاظت ترک کر دی جائے گی ؟ مجھے خوب یاد ہے کہ جس سال میں نے حج کیا اُس سال سُورت کے ایک تاجر نے بھی

Page 574

خطابات شوری جلد سوم ۵۵۸ مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء حج کیا تھا.میں نے دیکھا جب وہ شخص منیٰ کی طرف جا رہا تھا تو وہ اُردو کے نہایت گندے عشقیہ شعر پڑھ رہا تھا.اتفاقاً جس جہاز پر میں واپس آ رہا تھا اُس پر وہ تاجر بھی سوار تھا.جب اُسے پتہ لگا کہ میں کون ہوں تو اس شخص نے کہا خدایا! یہ جہاز جس میں یہ شخص ہے غرق کیوں نہیں ہو جاتا.میں نے سُنا تو کہا اگر یہ جہاز غرق ہو گیا تو تو کہاں جائے گا؟ وہ شخص دن میں کوئی نماز نہیں پڑھتا تھا لیکن یہ بات اکثر کہتا رہتا تھا کہ خدایا! وہ جہاز جس میں یہ شخص سوار ہے غرق کیوں نہیں ہو جاتا.ایک دن میں نے اُس سے سوال کیا کہ کیا آپ حج کر کے آئے ہیں؟ اس نے کہا ہاں.میں نے کہا میں نے آپ کو پہلی دفعہ اُس وقت دیکھا تھا جب آپ ایک اونٹ پر سوار ہو کر منٹی کی طرف جارہے تھے.یہ وقت دعا کا ہوتا ہے لیکن آپ اُس وقت فحش اور گندے شعر پڑھ رہے تھے.اسی طرح آپ نماز بھی نہیں پڑھتے.پھر آپ پر کون سی مصیبت پڑی تھی کہ آپ حج کے لئے گئے اور اتنا روپیہ تباہ کیا؟ اُس نے کہا میں میمن قوم کا ایک فرد ہوں، میرا باپ ایک بڑا تاجر ہے، ہماری دُکان سے ہر روز لوگ دس دس پندرہ پندرہ ہزار روپیہ کا سو دالے جاتے ہیں، ہمارے ساتھ کی دُکان پر دو بھائی کام کرتے ہیں.ان میں سے ایک بھائی حج کر کے آیا اور واپس آ کر اُس نے دُکان پر ایک بورڈ لگایا.جس پر اُس نے اپنے آپ کو حاجی لکھا.اب اس بورڈ کو پڑھ کر ہر شخص اُن کی دکان پر جانے لگا جس سے ہماری بکری کم ہو گئی.میرے باپ نے کہا تم بھی حج کر آؤ تا کہ ہم بھی اپنی دکان پر حاجی کا بورڈ لگا سکیں نہیں تو ہماری دکان ختم ہو جائے گی ، ورنہ مجھے حج سے کیا کام؟ حقیقت یہ ہے کہ مذہب قبول کرنے کے معنے ہی یہ ہوتے ہیں کہ انسان کی حرکات، افکار، اور دماغ سب تبدیل ہو جائیں.اگر یہ نہیں ہوتا تو کسی مذہب کے قبول کرنے سے اُسے کچھ بھی نہیں ملتا.باقی سب چیزیں رسمی ہیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی وفات کے قریب فرمایا اگر میں کسی انسان کو اپنا خلیل بنانا چاہتا تو ابوبکر کو بناتا سے یہ تم پر فضیلت رکھتا ہے.تم کہہ سکتے ہو کہ اسے ہم پر کون سی فضیلت حاصل ہے.اسے تم پر جو فضیلت حاصل ہے وہ نماز، روزہ کی وجہ سے نہیں بلکہ ان جذبات کی وجہ سے ہے جواس کے دل میں موجزن ہیں.نماز اور روزہ کا ادا کرنا بھی ضروری ہے لیکن ان کے ہوتے ہوئے

Page 575

خطابات شوری جلد سوم ۵۵۹ مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء بعض اوقات خدا تعالیٰ نہیں ملتا.خدا تعالیٰ کو پانے کی خاطر اپنی ذہنیت کو بدلنا ضروری ہے.جو شخص خدا تعالیٰ کا ہو جاتا ہے وہ ہر کام کو بغیر یہ سوچنے کے کہ یہ عقل کے معیار پر پورا اتر نا ہے یا نہیں کرتا چلا جاتا ہے.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں وعظ فرما رہے تھے.بعض صحابہ مجلس کے کناروں پر کھڑے تھے ، آپ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا بیٹھ جاؤ.اُس وقت حضرت عبداللہ بن مسعودؓ پاس کی گلی میں سے گزر رہے تھے.آپ کے کان میں یہ آواز پڑی تو آپ وہیں بیٹھ گئے اور بیٹھے بیٹھے مسجد کی طرف اُنہوں نے گھٹتے ہوئے آنا شروع کر دیا.کسی شخص نے آپ سے کہا یہ کیا احمقانہ حرکت ہے کہ تم گلی میں اس طرح بیٹھ کر چل رہے ہو.آپ نے فرمایا میرے کان میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ آواز پڑی تھی کہ بیٹھ جاؤ تو میں بیٹھ گیا.اس پر اس شخص نے کہا کیا تمہیں یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ حکم اُن لوگوں کو دیا ہے جو مسجد میں آپ کے سامنے کھڑے تھے ؟ آپ نے فرمایا یہ درست ہے لیکن موت کا کوئی وقت مقرر نہیں.پتہ نہیں میں مسجد میں پہنچنے سے قبل ہی مر جاؤں اور اس حکم پر عمل نہ کر سکوں تو خدا تعالیٰ کے سامنے میں کیا جواب دوں گا ہے کیا خدا تعالیٰ کے سامنے میں یہ کہوں گا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک حکم میں نے نہیں مانا تھا اس لئے جو نہی آواز میرے کان میں پڑی تو میں بیٹھ گیا.چاہے یہ بیوقوفی کا کام قرار دے دیا جائے لیکن اگر مسجد میں جانے سے قبل مجھے موت آگئی تو خدا تعالیٰ کے سامنے میں یہ تو کہہ سکوں گا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر حکم جو میرے کانوں میں پڑا مانا ہے.اسی طرح جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شراب کے حرام ہونے کے متعلق اعلان فرمایا تو اُس وقت کچھ صحابہ ایک شادی کے موقع پر جمع تھے.ایک مٹکا باقی تھا جس کو وہ شروع کرنے ہی والے تھے کہ ان کے کانوں میں آواز آئی کہ شراب حرام ہوگئی ہے.اس پر اُن میں سے ایک نے کہا سنو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے شراب حرام ہو گئی ہے.دوسرے نے کہا باہر نکل کر ذرا تصدیق کر لو لیکن جس صحابی کو اُس نے یہ بات کہی تھی اُس نے ڈنڈا مٹکے پر مارا اور اُسے پھوڑ کر کہا خدا کی قسم! میں پہلے مٹکا توڑوں گا اور پھر تحقیقات کروں گا.جب میرے کان میں آواز پڑ گئی تو تحقیقات کا

Page 576

خطابات شوری جلد سوم سوال بعد میں پیدا ہو گا، عمل پہلے ہوگا.بیٹے مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء پس صحابہ میں یہ روح تھی کہ وہ احکام پر فوری طور پر عمل کرتے تھے اور یہ نہیں سوچتے تھے کہ آیا وہ عقلی معیار پر پورا اُترتے ہیں یا نہیں.میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں ابھی یہ روح نہیں پائی جاتی.ورنہ کیا وجہ ہے کہ موقع پر لوگ قربانی بھی کر جاتے ہیں اور پھر معمولی معمولی باتوں پر اُن کا قدم رُک بھی جاتا ہے.اس بیماری کے دنوں میں ہی ایک نوجوان میرے پاس آیا.اُس نے مجھ سے ذکر کیا کہ میں نے زندگی وقف کی ہوئی ہے.اُس نے داڑھی پر اُسترا بڑے زور سے استعمال کیا ہوا تھا.میں نے دل میں خیال کیا کہ اس نوجوان نے زندگی وقف کی ہوئی ہے وہ زندگی کھوٹی ہی سہی ، چاہے اُس نے پوری طرح زندگی وقف نہ کی ہوتا ہم یہ ایک سال بھی وقف پر قائم رہ جائے تو ایک سال اپنی عمر کا دے دینا بھی آسان نہیں لیکن اسے یہ احساس نہیں کہ وقف کے لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہت کی بھی ضرورت ہے لیکن اس طرف توجہ نہ ہونے کی وجہ سے اُس نے پرواہ نہیں کی.پس میں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں قربانی تو ہے لیکن یہ احساس نہیں کہ وہ قربانی کس رنگ میں کرنی چاہئے اس لئے اس قربانی سے پوری طرح فائدہ نہیں اُٹھایا جا سکتا.ایک جج تھے جو احمدی تھے بعد میں اُنہیں ٹھو کر بھی لگی.انہوں نے جب بیعت کی تو اس کے بعد ایک دفعہ مجھے ملنے کے لئے آئے.میں انہیں دیکھ کر حیران رہ گیا.یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا وہ میرا جوڑا پہن کر آگئے ہیں.شلوار، کوٹ اور میض سب یوں معلوم ہوتے تھے کہ وہ میرے ہی ہیں.میں نے ان سے دریافت کیا کہ کیا وہ ہمیشہ اسی قسم کا لباس پہنتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا جب میں نے بیعت کی تو میں نے خیال کیا کہ اب ظاہری طور بھی آپ کا رنگ اختیار کرنا چاہئے.چنانچہ میں نے ایک احمدی سے پوچھا کہ آپ کا لباس کسی قسم کا ہوتا ہے؟ تو اس نے بتایا کہ آپ کا لباس اس اس قسم کا ہوتا ہے تو میں نے اسی قسم کا لباس بنوالیا.انسان کی روحانی طور پر بھی اس قسم کی کوشش کی ضرورت ہے.حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کے متعلق روایت آتی ہے کہ جب آپ حج کے لئے تشریف لے جاتے تو ایک جگہ پر پہنچ کر آپ رستہ سے ہٹ کر کچھ دور چلے جاتے اور وہاں کچھ دیر

Page 577

خطابات شوری جلد سوم ۵۶۱ مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء کے لئے اس طرح بیٹھ جاتے جیسے کوئی پیشاب کرنے بیٹھتا ہے.ایک صحابی نے دیکھا کہ آپ ہر دفعہ اس جگہ جاتے ہیں اور کچھ دیر کے لئے بظاہر پیشاب کرنے کی غرض سے وہاں بیٹھ جاتے ہیں اور پھر واپس آ جاتے ہیں تو اُنہوں نے دریافت کیا کہ آپ اُس جگہ کیوں جاتے ہیں؟ حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا میں ہمیشہ اس بات کو چُھپا تا رہا ہوں اور میری خواہش تھی کہ میرا یہ راز لوگوں کو معلوم نہ ہو لیکن چونکہ آپ نے اب پوچھ لیا ہے اس لئے بتا دیتا ہوں.واقعہ یہ ہے کہ میں نے ایک دفعہ دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس جگہ بیٹھ کر پیشاب کیا تھا.میں نے چاہا کہ چلو آپ کے اس کام کی بھی نقل ہو جائے.پس جماعت کے افراد کو کوشش کرنی چاہئے کہ ان کی قربانی کا معیار بلند ہو اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ان کی ذہنیت میں تبدیلی پیدا ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذہنیت کو دیکھو آپ کس قدر ہوشیار واقع ہوئے تھے.ایک صحابی روایت فرماتے ہیں کہ ایک رات خطرہ کا الارم ہوا.سب لوگ جاگ اُٹھے اور ایک جگہ پر اکٹھے ہو کر یہ تجویز کرنے لگے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں اطلاع دے کر ہدایات لی جائیں.اتنے میں ہم نے دیکھا کہ ایک سوار آ رہا ہے.جب لوگ بڑھے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ سوار خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں.آپ نے ہمیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کوئی فکر کی بات نہیں تم سب گھروں میں واپس چلے جاؤ.لے اور سو جاؤ.کچھ بدوی لوگ اونٹوں کولڑا رہے تھے میں نے خیال کیا کہ شاید دشمن آ گیا ہے چنانچہ میں اُس طرف چلا گیا جدھر سے آواز آ رہی تھی تا صحیح خبر لاسکوں.یہ ذہنیت تھی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کے اندر پائی جاتی تھی.اس کے مقابلہ میں ہماری جماعت کی یہ حالت ہے کہ چوہدری عبداللہ خان صاحب نے مجھے بتایا کہ محراب کے سامنے جولوگ بیٹھے تھے میں نے جب اُن سے بعض باتیں دریافت کیں تو ان میں سے ایک نے کہا کہ وہ شخص مشکوک حالت میں تھا.وہ کمبل اوڑھے ہوئے تھا اور اُس کا منہ کمبل سے ڈھکا ہوا تھا.جب وہ سجدہ میں گیا تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ کوئی چیز اُس کی جیب سے گر رہی ہے لیکن اس شخص کو یہ احساس نہ ہوا کہ اُسے احتیاطی تدبیر کرنی چاہئے.اُس نے یہ خیال کیا کہ یہ صدر انجمن احمد یہ کا کام ہے مجھے اس کے کام میں دخل

Page 578

خطابات شوری جلد سوم ۵۶۲ مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء نہیں دینا چاہئے.و قادیان میں ایک دفعہ اسی قسم کا واقعہ ہوگا.میں دار احمد میں تھا کہ میرے ایک لڑکے نے مجھے اطلاع دی کہ ایک نو جوان آیا ہے اور وہ آپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہے.میں باہر آیا لیکن ابھی رستہ میں ہی تھا کہ باہر شور پڑ گیا.باہر آ کر دریافت کرنے پر مجھے بتایا گیا کہ کوئی نو جوان تھا ، اُس کے پاس چھرا تھا اور وہ حملہ کی نیت سے یہاں آیا تھا.اب اُسے پکڑ لیا گیا ہے.مجھے عبدالاحد خان پٹھان نے بتایا کہ یہ نو جوان بچوں کے پاس کھڑا تھا اور اُن سے کہہ رہا تھا کہ میں مرزا صاحب سے ملنا چاہتا ہوں.بات کرتے وقت اُس نے اپنی ٹانگ کو حرکت دی اور یہ حرکت اس قسم کی تھی کہ جیسے پٹھان اُس وقت کیا کرتے ہیں جب اُنہوں نے پھر اچھپایا ہوا ہو.میں نے اُسے اس قسم کی حرکت کرتے دیکھا تو میں نے اُسے پکڑ لیا اور ٹولنے پر واقع میں اندر سے چُھر انکل آیا.لیکن یہاں وہ نو جوان آتا ہے، مسجد میں آکر بیٹھتا ہے، اس کی ظاہری حالت اُسے مشکوک بتاتی ہے پھر جب نماز پڑھتا ہے تو اُس کی جیب میں سے چا تو نیچے گر جاتا ہے اور وہ اُسے اُٹھا کر جیب میں دوبارہ ڈال لیتا ہے لیکن اُسے کسی نے پکڑا نہیں.صحابہ کا کردار ایک دفعہ مکہ کے قریب دشمن نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینے میں ایک خیمہ میں بیٹھے تھے کہ کھٹ کھٹ کی آواز آئی.آپ نے دریافت فرمایا کون ہے؟ تو اس شخص نے جواب دیا کہ میں فلاں شخص ہوں.آپ نے فرمایا کیا بات ہے؟ تو اُس نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں نے خیال کیا کہ مکہ والوں نے مسلمانوں سے لڑائی شروع کر دی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ کفار مدینہ پر بھی حملہ کر دیں.میں یہاں حاضر ہوا ہوں تا آپ کی خدمت میں درخواست کروں کہ مدینہ کی حفاظت کے لئے میری قوم حاضر ہے اب دیکھو مکہ میں لڑائی ہو رہی ہے لیکن صحابہ مدینہ میں پہرہ کا انتظام کرنے لگ جاتے ہیں.پھر جب صحابہ عدل وانصاف پر آتے تھے وہ ہمیشہ اپنی چیز کی قیمت گرا دیتے تھے بڑھاتے نہیں تھے.اور جب دوسروں کے حقوق کا سوال آتا تھا تو وہ اپنی عورتوں کو طلاق دے کر کہتے تھے کہ تم ان میں سے جس سے چاہو شادی کر لو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جائیدادیں آتی ہیں تو آپ انصار کو بلا کر

Page 579

خطابات شوری جلد سوم ۵۶۳ مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء فرماتے ہیں کہ جائیدادیں لے لو تو وہ جائیدادیں لیتے نہیں بلکہ کہتے ہیں یہ مہاجرین کو دے دیں.یہ وہ رنگ ہے جسے اختیار کرنے کے بعد قو میں ترقی کیا کرتی ہیں.جاپان میں ایک مذہبی کا نفرنس ہو رہی ہے.اس میں یہ سوال پیش ہے کہ دُنیا میں امن کیسے قائم ہو؟ اور کچھ مذہبی سوال بھی ہیں مجھے بھی اس میں شریک ہونے کے لئے دعوت آئی.میں نے خلیل احمد ناصر کو امریکہ سے ہدایت کی کہ وہ اس کانفرنس میں شریک ہوں، چنانچہ وہ وہاں گئے.اب وہاں سے اطلاع آئی ہے کہ ۳۶ نمائندے باقی دُنیا سے اس میں شرکت کے لئے آئے ہیں.۱۳ نمائندے ہندوستان سے اور ایک نمائندہ پاکستان سے بھی اس کا نفرنس میں شریک ہوا ہے.کانفرنس کی کارروائی سننے کیلئے لوگ بڑی کثرت سے آئے اور باہر سے آنے والوں کی خوراک اور رہائش کا بڑا عمدہ انتظام کیا گیا.جاپان میں لوگوں نے بعض نئے گرجے بنائے ہیں جن میں اس قسم کے مقابلے ہوتے ہیں لیکن ہیں یہ لوگ بہت کنگال ان میں سے کوئی بھی مالدار نہیں لیکن اس قسم کی کانفرنسوں پر لاکھوں روپے خرچ کر دیئے.خلیل احمد ناصر نے لکھا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض غریبوں نے اپنے کپڑے تک بیچ کر کانفرنس کی کارروائی سننے کے لئے سفر کیا.چنانچہ یہ کانفرنس بڑی شان سے ہو رہی ہے.رومن ہسٹری کو دیکھ لو، مسیح کے حواریوں کو عیسائی نہیں کہا جاتا تھا بلکہ فقیر کہا جاتا تھا.جہاں بھی حواریوں کا نام آئے گا وہ کہیں گے فقیروں کا گروہ کیونکہ وہ لوگ اپنا سارا مال دین کی خدمت کے لئے دے دیتے تھے.تم لوگ تو اپنی آمد کا دسواں، بارہواں ، پندرھواں حصہ دیتے ہو لیکن وہ لوگ معمولی گزارہ رکھنے کے بعد اپنا سب کچھ دین کی خدمت کے لئے دے دیتے تھے.یہ وہ روح ہے جس سے قو میں بنتی ہیں.خدا تعالیٰ تو دھوکا نہیں کھا سکتا.جس نے حضرت آدم علیہ السلام سے اور آپ کی قوم سے کہا تھا کہ تم یہ یہ کام کرو گے تو تمہیں جنت ملے گی، جس نے نوح علیہ السلام اور آپ کی قوم سے کہا تم نے یہ قربانی کی تو تمہیں جنت ملے گی، جس نے ابراہیم علیہ السلام اور آپ کی قوم سے کہا کہ اگر تم نے یہ یہ کام کیا تو میں تمہیں جنت دوں گا، جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آپ کی قوم سے کہا تھا کہ اگر تم نے یہ یہ قربانی کی تو تمہیں جنت دوں گا.جس نے عیسی علیہ السلام اور آپ کی

Page 580

خطابات شوری جلد سوم ۵۶۴ مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء قوم سے کہا کہ اگر تم نے یہ یہ قربانی کی تو تمہیں جنت ملے گی ، جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام میں کہا کہ جب تک آپ کی قوم فلاں قسم کی قربانی نہیں کرے گی وہ انعام حاصل نہیں کر سکتی.اپنے آپ کو کلی طور پر خدا کے حوالہ کرو کیا تم اب یہ خیال کرتے ہو کہ اب وہ خدا نہیں جو پہلے تھا ؟ یا تم یہ خیال کرتے ہو کہ اب خدا بڑھا ہو گیا ہے اور وہ تمہاری بات سے دھوکا کھا جائے گا ؟ جیسے بائبل میں لکھا ہے کہ حضرت اسحاق علیہ السلام کو ان کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام نے دھوکا دیا.نبوت کا حق در اصل عیسو کا تھا.حضرت اسحاق علیہ السلام نے عیسو سے کہا میں تمہارے لئے دُعا کر دیتا ہوں تم جنگل میں جاؤ اور میرے لئے کوئی جانور شکار کر کے لاؤ.یعقوب علیہ السلام کی ماں نے جب دیکھا کہ اب عیسو نبی بن جائے گا اور اُس کی خواہش تھی کہ نبوت اس کے بیٹے یعقوب کو ملے تو اُس نے یعقوب علیہ السلام سے کہا کہ پیشتر اس کے کہ عیسو شکار سے واپس آئے تو ریوڑ سے ایک دنبہ لے کر اُسے ذبح کر اور اپنے باپ کو کھانا کھلا اور اس کی دعا حاصل کر.چنانچہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے عیسو کے آنے سے پہلے دھوکا سے حضرت اسحاق علیہ السلام سے دُعا کرائی اور اس طرح نبوت کا حق اپنے بڑے بھائی عیسو سے چھین لیا.پھر کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ نعوذ باللہ خدا تعالیٰ کو حضرت اسحاق علیہ السلام سے بھی کم علم ہے اور تم اسے دھوکا دے لو گے؟ پس تمہیں خدا تعالیٰ کے متعلق اپنی ذہنیت کو بدلنا ہو گا.تمہیں تھی طور پر اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے حوالہ کرنا ہوگا.جب تم اپنے آپ کو گلی طور پر خدا تعالیٰ کے حوالہ کر دو گے تو تم خدا تعالیٰ کی گود میں ہو گے.اُس وقت دُشمن تم پر حملہ آور نہیں ہو گا خدا تعالیٰ پر حملہ آور ہوگا.باقی رہا تکالیف کا سوال سو تکالیف تو خدا کی جماعتوں کو بڑھانے والی ہوتی ہیں.یہ تو جماعت کے تمغے ہیں، سزائیں نہیں اور قوم کی تباہی کا موجب خدا تعالیٰ کی سزا ہوتی ہے.جو شخص خدا تعالیٰ کا ہو جاتا ہے خدا تعالیٰ اُس کا ہو جاتا ہے.تمہیں یہ دیکھنا چاہئے کہ اس قسم کے حملے انفردی نہیں ہوتے.ایک عرصہ سے مجھے مخالفین کی طرف سے خطوط آ رہے تھے کہ یوں ہو گا.اگر اس حملہ کا جو مجھ پر کیا گیا ایک فرد سے ہی تعلق ہے تو یہ سینکڑوں خطوط

Page 581

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء کہاں سے آگئے تھے.اس قسم کی باتیں لوگوں نے دوسروں سے سنی ہوئی تھیں تو تبھی اُنہوں نے تحریر کیں.بہر حال کچھ لیڈر اس حملہ کے پیچھے کام کر رہے ہیں.عوام کے خلاف تمہارا جوش اور غصہ بیکار ہے، اس حملہ کے اصل ذمہ وار لیڈر ہیں.اس فعل کا تعلق کسی ایک فرد سے نہیں ، یہ ایک قومی فعل ہے اور اس کی ذمہ داری قوم پر ہے.اس کا ایک علاج تو یہ ہے کہ حکومت اس طرف توجہ کرے لیکن حکومت اس طرف توجہ نہیں کرتی.دوسرا علاج یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اس طرف توجہ کرے اور خدا تعالیٰ اس طرف ضرور توجہ کرے گا بشرطیکہ تم اُس کی طرف رجوع کرو.خدا تعالیٰ سے کی ہوئی دعا ئیں اور اپنے فرائض کو صحیح طور پر ادا کرنا خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرتے ہیں اور دشمن کو نا کام کرتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گو ایک عورت نے کھانے میں زہر دے دیا تھا یا یہودیوں نے آپ پر پتھر پھینکنے کی کوشش کی تھی لیکن پھر بھی وہ سمجھتے تھے کہ اُن لوگوں نے خدا تعالیٰ پر قبضہ کیا ہوا ہے.اگر ہم نے ان پر حملہ کیا تو خدا تعالیٰ خود ان کی طرف سے ہم سے بدلہ لے گا.پھر ان میں اس قسم کی تنظیم تھی کہ ان پر دشمن ہاتھ ڈالنے کی جرات نہیں کرتا تھا.چاہے جماعت کتنی بھی چھوٹی ہو دشمن سمجھتا ہے کہ اگر وہ اس پر ہاتھ ڈالتا ہے تو وہ ایک چھوٹی سی جماعت پر ہاتھ نہیں ڈالتا بلکہ ایک تنظیم پر ہاتھ ڈالتا ہے.لیکن جہاں تنظیم نہیں ہوتی ، جماعت میں پراگندگی پائی جاتی ہے، اُس کا خدا تعالیٰ سے تعلق نہیں ہوتا ، دشمن اس پر حملہ کرنے میں دلیر ہو جاتا ہے.صحابہ میں دیکھ لو جب عبداللہ بن ابی بن سلول نے یہ کہا کہ جو شخص سب سے زیادہ معزز ہے یعنی عبداللہ بن ابی بن سلول.وہ نعوذ باللہ سب سے ادنی اور ذلیل شخص یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مدینہ سے باہر نکال دے گا تو یہ خبر اس کے بیٹے کو بھی ملی جو اسلام لا چکا تھا.وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے یہ خبر ملی ہے کہ میرے باپ نے ایسے الفاظ کہے ہیں اور اس قسم کے الفاظ کی سزا قتل کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے.آپ نے فرمایا میرا تو اُسے قتل کرنے کا ارادہ نہیں.اس نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! اگر آپ کا یہ ارادہ ہو کہ میرے باپ کو قتل کر دیا جائے تو آپ مجھے حکم دیں کہ میں اُسے قتل کروں.اگر کسی اور شخص نے میرے باپ کو قتل کیا تو ممکن ہے کبھی میرے دل میں یہ خیال پیدا ہو جائے کہ اُس نے میرے باپ کو قتل کیا ہے اور میں اس کو کوئی نقصان

Page 582

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء پہنچا بیٹھوں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں.جب وہ شخص مدینہ پہنچا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ میں داخل ہو چکے تھے، باقی لوگ داخل ہورہے تھے.وہ تلوار کھینچ کر رستہ میں کھڑا ہو گیا اور اپنے باپ کو مخاطب کر کے کہنے لگا اگر تم نے مدینہ میں داخل ہونے کی کوشش کی تو میں تمہیں قتل کر دوں گا.تم مدینہ میں داخل ہونے سے قبل یہ اعلان کرو کہ میں سب سے زیادہ ذلیل ہوں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سب سے زیادہ معزز ہیں اور جب تک تم اس بات کا اعلان نہیں کرو گے میں تمہیں شہر میں داخل نہیں ہونے دوں گا.چنانچہ عبد اللہ بن ابی بن سلول نے اعلان کیا میں سب سے زیادہ ذلیل ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے زیادہ معزز ہیں.الہی تصرف تھا.خود عبداللہ کے بیٹے نے یہ تہیہ کر لیا کہ جب تک میں اپنے باپ کے منہ سے یہ فقرہ نکلوا نہ لوں گا میں اُسے چھوڑوں گا نہیں.اگر تم بھی خدا تعالیٰ کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کر لو تو خواہ دشمن تمہیں نقصان پہنچانے کی کتنی ہی کوشش کرے اللہ تعالیٰ اس کے ازالہ کی کوئی نہ کوئی صورت پیدا کر دے گا.ایک ریزولیوشن پر تبصرہ میر ہزار روپے جو جمع کئے گئے ہیں ان کے متعلق بعد میں پچہتر پتہ لگا کہ یہ اس لئے جمع کئے گئے کہ میں امریکہ جا کر اپنا علاج کراؤں.اول تو یہ بات ہے کہ میری موجودہ صحت امریکہ جانے والی نہیں.اب بھی تھوڑی دیر کے لئے یہاں آیا ہوں تو درد شروع ہو گئی ہے.پس میرے لئے امریکہ جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن اگر ایسا سوال پیدا بھی ہو جائے تب بھی یہ رقم ان اخراجات کی کفیل نہیں ہو سکتی جو میرے امریکہ جانے پر آئیں گے.انسان جب کسی چیز کا اندازہ لگائے تو صحیح تو لگائے.جماعت کو اخراجات کا اندازہ کرتے وقت یہ دیکھ لینا چاہئے تھا کہ کیا اس رقم میں امریکہ جانا ممکن ہے؟ ہم نے یہاں سے خلیل احمد ناصر کو بھجوایا تو دو ہزار ڈالر خرچ آئے.پھر اگر میں امریکہ جاؤں تو ہسپتال ساحل پر ہی تو نہیں اس کے لئے ملک کے اندر جانا پڑے گا.اس لئے ریلوں پر سفر بھی ہوگا اس پر بھی کچھ رقم خرچ آئے گی.پھر سامان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے لئے مزدوریاں دینی پڑیں گی.پھر اگر میں امریکہ گیا تو آپ کو پرائیویٹ سیکرٹری کا عملہ بھی ساتھ بھیجنا پڑے گا.

Page 583

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء میں جب انگلینڈ گیا تو جماعت کے افراد کو یہ شکایت تھی کہ انہیں خطوط کا جواب نہیں ملتا تھا.اس وقت عملہ میں دس آدمی کام کر رہے ہیں.تب بھی دوست شکایت کرتے ہیں کہ ہمارے خطوط کا جواب نہیں دیا جاتا.باہر گیا تو اور شکوہ ہو گا.آپ لوگوں نے خطوط بھی لکھنے ہیں ، تاریں بھی دینی ہیں.اُن کے جوابات کے لئے عملہ کی ضرورت ہے.پھر اگر میں باہر گیا تو ہر طبقہ کے لوگ میرے پاس آئیں گے.مجھ سے مسائل دریافت کریں گے.جب میں انگلستان گیا تھا تو اُس وقت ہر طبقہ کے لوگ میرے پاس آئے تھے.میرے پاس آنے والوں میں پروفیسر بھی تھے.لارڈ بھی تھے ، سیاست دان بھی تھے اور مستشرقین بھی تھے اور مختلف مسائل پر وہ مجھ سے باتیں کرتے تھے اس لئے اگر میں امریکہ گیا تو میرے ساتھ ایک دو مبلغ بھی ہونے چاہئیں.جب میں انگلستان گیا تھا اُس وقت میرے ساتھ ۱۳ اشخاص تھے.ایک ڈاکٹر تھا.دو مبلغ تھے اور ایک آدمی خادم کے طور پر تھا.دفتر کے عملہ کے تین آدمی بھی میرے ساتھ تھے اور اُس وقت ۵۶۰۰۰ روپے صرف کرایہ لگا تھا.اس طرح مکان کا کرایہ اور انگلستان میں قیام کے اخراجات شامل نہیں تھے.اب تم ان لوگوں کے کرایہ کا اندازہ کر لو اور پھر مثلاً میں امریکہ میں تین ماہ تک قیام کروں تو ان دنوں کے اخراجات کا بھی اندازہ لگا لو.ہمارا مبلغ اس وقت ایک کمرہ میں رہتا ہے اور اس کمرہ کا کرایہ ۲۹۰۰ ڈالر ہے.اب اگر میرے ساتھ عملہ جائے گا تو ان کے لئے عارضی طور پر مکان کا انتظام کیا جائے گا.انگلستان میں جو مکان لیا گیا تھا اُس کا کرایہ ۱۵۰۰ پونڈ تھا.گویا ۲۲،۲۱ ہزار روپیہ یہ ہو گیا.پھر وہاں ایک ادنیٰ مزدور کی مزدوری ۱۲۰ ڈالر ماہوار مقرر ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر ایک سو ڈالر فی فرد ماہوار خرچ کا اندازہ لگایا جائے تو آٹھ ہزار ڈالر یہ ہوئے اور روپے کے حساب سے تمہیں ہزار روپیہ بنا.گویا ایک لاکھ دس ہزار روپیہ تو صرف تمہارے عملہ پر خرچ ہو گا اور تم یہ ریزولیوشن پاس کر رہے ہو کہ خلیفہ وقت کو ۶۰ ہزار روپیہ دے دو تا وہ امریکہ جا کر علاج کرائے.میں جب انگلستان گیا تھا اُس وقت بھی میں نے اپنا ذاتی خرچ نہیں لیا تھا اور اب امریکہ جاؤں گا تب بھی اپنا ذاتی خرچ نہیں لوں گا بلکہ انگلستان کے تجربہ کے بعد تو میں کبھی نہیں لوں گا.اس وقت بھی جماعت نے کہا تھا ہم خرچ دیں گے لیکن میں نے انکار کیا تھا.اُس وقت عملہ کے اخراجات کے سلسلہ میں جماعت کی

Page 584

خطابات شوری جلد سوم ۵۶۸ مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء طرف سے پچاس ہزار روپیہ دیا گیا باقی روپیہ کے متعلق تاریں دی گئیں کہ خرچ ختم ہو گیا اور اگر خرچ نہ ملا تو ہماری ذلت ہو گی لیکن کوئی خرچ نہ گیا.اس تجربہ کے بعد کیا میں اس بات کی ہمت کر سکتا ہوں کہ تمہاری یہ بات مان لوں کہ ہم سفر کا سارا خرچ دیں گے؟ تم ہی بتاؤ اگر میرے ساتھ مبلغ نہ ہوا تو ملاقات کرنے والوں سے بات کون کرے گا؟ اگر سیکرٹری کا عملہ نہ ہوا تو تمہاری چٹھیوں اور تاروں کا جواب کون دے گا؟ کیا سیکرٹری کے عملہ کے لئے حکومت امریکہ سے درخواست کی جائے گی ؟ تم نے مجھے ۶۰ ہزار روپیہ دینے کا وعدہ کیا ہے اور صرف تمہارے عملہ کا خرچ اندازاً ایک لاکھ دس ہزار روپیہ ہے.گویا اس کا یہ مطلب ہے کہ عملہ کا باقی خرچ بھی تم نے مجھ پر ڈال دیا ہے.پس میں صحت کی خرابی کی وجہ سے امریکہ جا تو نہیں سکتا لیکن اگر حالات اس قسم کے پیدا ہو گئے کہ مجھے امریکہ جانا پڑا تو میں کسی کے خرچ پر جانے کو تیار نہیں ہوں.تم اپنے آدمیوں کو ہی خرچ دے دو تو کافی ہے انگلستان میں میں بہت ذلیل ہوا تھا.نوکر شور مچاتا تھا کہ مجھے تنخواہ دو لیکن ہمارے پاس روپیہ نہیں تھا.میرے اپنے پاس کچھ روپیہ تھا اُس سے ہم کسی حد تک گزارہ کر لیتے تھے.پس اگر جماعت کوئی قدم اُٹھانا چاہتی ہے تو ضروری ہے کہ وہ اس کی اہمیت کو بھی سمجھ لے.جب میں انگلستان گیا تھا اُس وقت جماعت مالی لحاظ سے کمزور تھی لیکن پھر بھی اگر وہ انگلستان کے سفر کی اہمیت کو سمجھ لیتی تو وہ روپیہ کا انتظام کر لیتی.اُس وقت پانچ ہزار روپیہ کی ایک رقم میرے بنک کے حساب میں جمع ہوگئی تھی اُس وقت صدر انجمن احمد یہ قرض لے رہی تھی.میں نے صدر انجمن احمد یہ کولکھا کہ یہ رقم کیسی ہے؟ تو اُس نے بیرونی جماعتوں سے تحریراً دریافت کیا کہ کیا یہ رقم تم نے بطور قرض دی ہے؟ تو کسی جماعت نے بھی یہ نہ لکھا کہ ہم نے یہ رقم بطور قرض صدر انجمن احمدیہ کو دی ہے.یہ رقم نذرانہ کے طور پر کسی نے مجھے دی تھی ورنہ میرے پاس بھی زائد روپیہ نہیں تھا کہ عملہ کے لوگ مجھ سے قرض لے لیتے.غرض بڑی مصیبت کے ساتھ وہ سفر ختم ہوا.پس انسان کو ہمیشہ سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہئے.جو کام ہو سکتا ہے کر دیا جائے اور جس بات کے متعلق ایک دفعہ بات منہ سے نکال دی جائے اُسے جان مار کر پورا کیا جائے.بہر حال جو ریزولیوشن پاس کیا گیا ہے، درست نہیں.میں نے بنگال جانے کا ارادہ

Page 585

خطابات شوری جلد سوم ۵۶۹ مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء کیا تھا.میں وہاں گیا تو نہیں لیکن میں نے صدر انجمن احمدیہ سے کہ دیا تھا کہ وہ عملہ کے لئے دس ہزار روپیہ علیحدہ کر کے رکھ دے.اب دس ہزار روپے اس غرض کے لئے جمع ہیں.اگر میں مشرقی بنگال گیا تو یہ رقم کام آجائے گی.اسی طرح کراچی میں ایک عمارت تیار کرنے کا سوال پیش آیا تو میں نے تحریک جدید سے بھی کہہ دیا تھا کہ وہ اس کیلئے رقم جمع کر دے.اس طرح تم اپنے عملہ کے لئے روپیہ دے دو اور اُسے علیحدہ رکھو.جب ضرورت پیش آئی میں لے لوں گا.اب میری ایسی حالت نہیں کہ میں لمبا سفر کر سکوں.امریکہ بحری رستہ سے جاؤں تو دو ماہ جانے میں لگیں گے اور دو ماہ آنے میں لگیں گے اور تین ماہ تک وہاں قیام کرنا ہو گا.ہاں ہوائی جہاز پر سفر کیا جائے تو وقت کم لگے گا لیکن ہوائی جہاز پر سفر کرنے کے میں قابل نہیں.پس تم شوق سے چندہ جمع کر ولیکن اگر صرف اتنا روپیہ ہی دینا ہے تو تم وعدہ کرو کہ اس عرصہ میں تم مجھے خط نہیں لکھو گے.اگر تم اس قسم کا وعدہ کر لو تو چاہے کتنی ذلت ہو میں انتظام کرلوں گا ورنہ تم مجھ پر احسان کیوں جتاتے ہو.یہ تو وہی بات ہوگئی کہ کسی کے رشتہ دار کی شادی تھی.رشتہ دار ایسے مواقع پر تحفہ دیا کرتے ہیں.ایک عورت بخیل بھی تھی لیکن اپنی شان دکھانے کی بھی عادی تھی.اُس نے اس موقع پر ایک روپیہ دے دیا.اُس کی بھا وجہ امیر تھی اس نے ہیں روپے دیئے.جب اُس بخیل عورت سے سوال کیا جاتا کہ تم نے کیا دیا ہے؟ تو وہ یہ جواب دیتی میں اور بھابی اکیس.اس طرح تم یہ بات نہ کرو کہ خرچ تو آدھا دو اور مجھ سے کہو کہ میں اُسے قبول کرلوں ، میں عملہ کا خرچ کہاں سے لاؤں گا ؟ میں سمجھتا ہوں کہ شاید اس کی محرک میری وہ تحریک تھی جو مجلس کے پہلے اجلاس میں میں نے افتتاحی تقریر میں کی تھی.میری اس سے یہ غرض نہیں تھی کہ میں ربوہ سے باہر علاج کیلئے جانا چاہتا ہوں.میں تو کہتا ہوں کہ میں علاج کے لئے باہر نہیں جا سکتا.اس تحریک سے میری یہ غرض تھی کہ ربوہ اور جماعت کے لئے حفاظت کا انتظام کیا جائے.دوسرے دشمنوں کے اعتراضات کا جواب دیا جائے.تیسرے دنیا کے سامنے اپنا نمونہ پیش کیا جائے.اگر جماعت یہ ثابت کر دے کہ تمہارا مارا جانا ملک اور قوم کے لئے نقصان دہ ہے تو تمہارے او پر ہاتھ اُٹھانے پر ہر طرف شور پڑ جائے گا.اب تو یہ حالت ہے کہ جب مغربی پاکستان

Page 586

۵۷۰ خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء میں طوفان آیا تو تم نے لوگوں کی امداد کے لئے کوئی تحریک نہیں کی.مشرقی بنگال میں طوفان آیا تو تمہارا فرض تھا کہ چاہے کچھ دیتے تم دیتے ضرور.اُس وقت تم نے یہ بہانہ بنالیا کہ ہمارا مرکز ہے اگر اس سلسلہ میں مرکز کوئی ہدایت دے گا تو ہم اس پر عمل کریں گے.میں تو اس بہانہ کو تب درست مانوں گا جب تمہارا اپنا بچہ یا کوئی اور رشتہ دار بیمار ہو اور پھر تم یہ بہانہ بناؤ.اگر تم ایسے وقت پر یہ بہانا نہیں بنایا کرتے تو پھر تم مرکز کا نام لے کر اُسے بدنام کیوں کرتے ہو.چندہ تم مرکز میں بھیجتے ہو اور اس کی بھی یہ حالت ہے کہ جو بھیجنے والا ہے وہ تو مرکز کی تحریک پر چندہ بھیج دیتا ہے اور جسے چندہ دینے کی عادت نہیں وہ پھر بھی بہانہ بنا دیتا ہے.اس قسم کی دھوکا بازی کی ہزاروں مثالیں پائی جاتی ہیں.یہی لوگ جو چندہ دیتے وقت کوئی نہ کوئی بہانہ بنا دیتے ہیں کیا اپنے بیوی بچوں کا علاج کرتے وقت بھی وہ اس قسم کا بہانہ بنایا کرتے ہیں؟ وہ سفر بھی کرتے ہیں، اپنے رشتہ داروں کی خدمت بھی کرتے ہیں اور کبھی مرکز کا بہانہ نہیں بناتے.وہ بھی تو تمہارے بھائی ہی ہیں.اگر تم نے اُن پر کچھ خرچ کر دیا تو کیا ہوا.اگر تم مصائب کے وقت میں آگے آؤ اور لوگوں کی مدد کرو تو جب تمہارے خلاف دشمن کوئی بات کرے گا تو وہ بھی آگے آئیں گے.گزشتہ سال کے فسادات کی تحقیقات کے لئے کمیشن مقرر ہوا تو وہاں ہمیں یہی رونا رونا پڑا ہے کہ ہم لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں.اگر یہ کام جماعتی طور پر ہوتا تو ہمیں ہر جگہ یہ رونا کیوں رونا پڑتا کہ ہم لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں.اگر مصیبت کے وقت سرگودہا ، سیالکوٹ ، سندھ، بنگال، کراچی اور سرحد کی جماعتیں نکل کھڑی ہوتیں اور لوگوں کی بھائیوں کی مانند خدمت کرتیں تو اس قسم کا جواب دینے کی ہمیں ضرورت پیش نہ آتی.جب یہ فتنہ اُٹھا تھا ہر جگہ کے لوگ تمہاری مدد کے لئے نکل کھڑے ہوتے.اب تو ہماری مدد کا ریکارڈ مسلم لیگ کے رجسٹروں کے سوا اور کہیں نہیں.لوگ تمہیں کیا سمجھیں؟ میرا مطلب یہی تھا تم لوگ اپنے قلوب کی اصلاح کرو اور ایسے کام کرو کہ دوسرے لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ تم خدمت خلق کرتے ہو کیونکہ خدمتِ خلق ہی اصل چیز ہے اور یہ ہر جگہ ہو سکتی ہے.اپنی آمد میں گزارا کریں ڈاکٹروں کی تنخواہوں کی زیادتی کے متعلق میں نے کہا تھا.میں نے اس کے متعلق مختلف آراء پڑھی ہیں جن کا مطلب

Page 587

خطابات شوری جلد سوم ۵۷۱ مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء یہ ہے کہ چاہے تبلیغ بند ہو جائے ، ہم ایک بڑا سا ہسپتال قائم کر دیں حالانکہ جب آمد تھوڑی ہوگی تو بہر حال اُسے ہر جگہ تقسیم کرنا ہوگا اور ہر شخص یہی کرتا ہے.اگر ایک شخص کی آمد پانچ روپے ہو تو وہ یہ نہیں کرتا کہ ایک دن مرغا لا کر کھا لیا اور باقی دن بغیر خوراک کے گزار لئے بلکہ وہ تین روپے کا آٹا لے لیتے ہیں ایک روپیہ کا ایندھن لے لیتے ہیں اور ایک روپیہ متفرق ضروریات کے لئے رکھ لیتے ہیں اور اس طرح گزارہ کرتے ہیں.ہماری حالت بھی یہی ہے ہم نے ہر چیز پرنسبتی طور پر خرچ کرنا ہے.مثلاً ہسپتال والوں نے لکھا ہے کہ ہمیں ریڈیالوجسٹ کی بھی ضرورت ہے پھر فلاں ماہر کی ضرورت بھی ہے، فلاں ماہر کی بھی ضرورت ہے، اس کا مطلب تو یہ ہے کہ تبلیغ کا کام بند کر دیا جائے اور ہسپتال پر سارا روپیہ خرچ کر دیا جائے.ہماری جماعت کے ایک ڈاکٹر تھے وہ ریڈیالوجسٹ بھی تھے.وہ ایک وقت میں ۷۵ روپے لیتے تھے اب وہ ہزاروں روپے لیتے ہیں.پس ہمارا کام ہے کہ ہم اپنی آمد میں گزارہ کریں.دوائیں تو عورتیں بھی دے لیتی ہیں.ہاں سرجری کے بغیر ہمارا گزارہ نہیں اور بات صرف یہ تھی کہ اس سلسلہ میں کچھ نہ کچھ ہو جائے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم انگلینڈ یا امریکہ کے ہسپتالوں کے سٹینڈرڈ کا کوئی ہسپتال بنالیں.میں نے ایک ہسپتال کے متعلق پڑھا تھا کہ اُسے ۳۳ لاکھ روپیہ گورنمنٹ کی طرف سے ایڈ کے طور پر ملتا ہے اور اس کے علاوہ اُس کی اپنی آمد بھی ہے.اب تمہاری آمد تو اتنی نہیں، پھر تم ان کی نقل کیسے کر سکتے ہو.بات صرف یہ تھی کہ ایک آدمی رکھ لیا جائے جو سرجری کا کام کرے.کوئی احمدی نوجوان اس کام کے لئے اپنی زندگی وقف کر دے یا کوئی بوڑھا پنشن لے لے اور یہاں گزارہ پر کام کرے یا کسی نو جوان کو مشق کرائی جائے, پھر ہسپتال بنانے کا سوال ہے تم پہلے ڈاکٹر تو تلاش کر لو ہسپتال پھر بنا لیا جائے گا.وقف کے قواعد وقف کے قواعد کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے کارکنوں کی ذہنیت غیر احمد یوں والی ہے ان کے اندر نظم اور ضبط نہیں.میں نے ان کے فائدہ کے لئے بعض قواعد جاری کئے تھے لیکن وقف کمیٹی نے ان کی اور صورت بنا دی ہے.وہ لوگ تو امن میں ہیں لیکن میرا بُرا حال ہے.واقفین کی طرف سے مجھے رُفعے لکھے جا رہے ہیں.ایک صاحب لکھتے ہیں کہ حضور ! ان لوگوں نے اوورسیئر کو گریجوایٹ

Page 588

خطابات شوری جلد سوم ۵۷۲ مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء بنا دیا ہے حالانکہ وہ اس سے زیادہ معیار کا ہوتا ہے حالانکہ ہم نے تو دیکھا ہے کہ ایک گریجویٹ وزیر بھی بن سکتا ہے لیکن اوورسیئر وزیر نہیں دیکھا.پیشہ ور صرف اپنے پیشہ میں لیا جاتا ہے لیکن عام تعلیم یافتہ یا تو بہت اوپر آ جاتا ہے یا بہت نیچے چلا جاتا ہے.مسولینی مزدور تھا لیکن بعد میں وہ ملک کا ڈکٹیٹر بن گیا.اب کوئی ڈاکٹر یہ کہہ دے کہ اگر مزدور وزیر بن سکتا ہے تو میں تو ڈاکٹر ہوں مجھے بادشاہ کیوں نہ بنا دیا جائے ، تو یہ بات درست نہیں ہو گی.وقف کمیٹی نے وقف کے قواعد مرتب کئے اور اُنہیں واقفین میں بھی سرکولیٹ کر دیا تو اتنا شور پڑ گیا کہ حد نہیں.مجھے اپنے گھر میں بھی اس کا تجربہ ہوا.بچے بڑی بڑی دیر تک اونچی آواز سے اس پر بخشیں کرتے رہے.میں نے دریافت کرایا کہ یہ کیا بات ہے؟ تو اس پر مجھے بتایا گیا کہ یہ واقفین کے گریڈوں کے متعلق بحث کر رہے ہیں.سو میں کہوں گا کہ اس رپورٹ کو دریا برد کر دو.بات دراصل یہ ہوئی کہ یہ رپورٹ واقفین کے سامنے پیش کر دی گئی.تحریک جدید انجمن احمدیہ نے ایک مجلس بلائی اُس میں واقفین کو بلایا گیا اور اُن سے رائے لی گئی.اب تم واقفین کو ایسی مجلس میں بلاؤ گے تو وہ بولیں گے ہی اور اگر بولیں گے تو مجھے بھی تنگ کریں گے.چنانچہ کئی لوگوں نے مجھے لکھ دیا کہ ڈرافس مین اوورسیئر کے برابر ہے لیکن اُسے اوورسیئر کا معیار نہیں دیا گیا.اوورسیئر گریجوایٹ قرار دے دیا گیا ہے حالانکہ اس کا معیار اس سے بلند ہوتا ہے.میرے نزدیک اس رپورٹ کو واقفین کے سامنے پیش کر کے سارا فساد کھڑا کیا گیا ہے.جو کچھ مقرر کرنا تھا اُن کے لئے مقرر کر دیتے اور پھر کہتے کہ تم نے رہنا ہے تو اسے قبول کرو ورنہ جو جی میں آتا ہے کرو.صحیح لٹریچر شائع کرو ایک اور بات جو میں کہنی چاہتا ہوں یہ ہے کہ اس وقت ضرورت یہ ہے کہ صحیح لٹریچر شائع کیا جائے جس سے مخالفین کے اعتراضات کا ازالہ ہو.پاگل نہ لٹریچر شائع کرنے کی ضرورت نہیں.اب تک نبوت کے متعلق جولٹریچر ہماری جماعت کی طرف سے لکھا گیا ہے یا شائع کیا گیا ہے وہ محض پیغا میوں کوملحوظ رکھ کر لکھا گیا ہے.اس سلسلہ میں جو اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں وہ ہماری اپنی اصطلاحیں تھیں اور ان کے معنے بھی وہی تھے جو ہم لیتے ہیں.اس قسم کے لٹریچر کے متعلق ہمارا یہ خیال بھی نہیں تھا کہ یہ غیر احمدیوں کے سامنے پیش ہوگا اور وہ چڑیں گے.

Page 589

خطابات شوری جلد سوم ۵۷۳ مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء ایک دفعہ عدالت میں ایک مقدمہ پیش ہوا اور ایک احمدی ڈاکٹر بطور گواہ پیش ہوئے.مخالف فریق یہ سمجھتا تھا کہ احمدی غَضِ بصر سے کام لیتے ہیں اور عورتوں کی طرف نہیں دیکھتے.اُس کے مخالف فریق کے وکیل نے احمدی ڈاکٹر پر یہ سوال کیا کہ کیا آپ نے فلاں عورت کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھا تھا ؟ اُس کے جواب میں انہوں نے کہا میں نے اُس کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھا تھا حالانکہ وہ کہہ سکتا تھا کہ میں اُس کی آواز کو پہچانتا ہوں، اُس کی چال کو پہچانتا ہوں.لیکن غیر احمدی وکیل کو چونکہ یہ پتہ تھا کہ احمدی سچ کی خاطر جھوٹ نہیں بولتا اس لئے اُس نے یہ تدبیر کی.نتیجہ یہ ہوا کہ وہ عورت جس پر مقدمہ تھا بری ہو گئی.اسی طرح ہم نے کفر کا لفظ استعمال کیا ہے تو اُن معنوں میں نہیں کیا جو غیر احمدی مراد لیتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ مخالفین نے ہمارے متعلق غلط پروپیگنڈا کر کے لوگوں کو ہم سے بہت دور کر دیا ہے.اُنہیں یقین دلا دیا گیا ہے کہ ہم نیا کلمہ پڑھتے ہیں، ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہتک کرنے والے ہیں اس لئے ان اعتراضات کا جواب دینا انہیں اپنے قریب کرنا ہے.جب وہ ہم سے دور نہیں ہوں گے تو خود بخو د ہماری بات پر غور کریں گے اور اُسے تسلیم کریں گے.تم اپنا کچھ نام رکھ لو! اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا.حق کو ماننے کے لئے اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ باطل کی تردید کی جائے.تمہیں منکرِ رسول کہا جاتا ہے، تمہیں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہتک کرنے والا کہا جاتا ہے اور یہ تمہاری اپنی ہتک ہے اس لئے تم ان اعتراضات کے جواب مناسب پیرایہ میں دو اور ان کی خوب اشاعت کرو تو لوگ تمہارے قریب آجائیں گے اور اس طرح تبلیغ میں سہولت پیدا ہو جائے گی.دوسرے یہ عادت ڈالو کہ جب کوئی بات کہی جائے تو اُسی وقت اُسے کرو.اُسے دوسرے وقت پر نہ ڈالو.ناظر کہتے ہیں کہ ہم جماعتوں کو پندرہ پندرہ خطوط لکھتے ہیں تب جا کر کہیں جواب آتا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت کی کوئی گل بگڑی ہوئی ہے جس کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے.اس کی اصلاح کی ضرورت ہے.یہ ایسی چیز نہیں کہ اسے نظر انداز کیا جائے.جماعت میں تنظیم ہو تو سب کام ہو جاتے ہیں.اگر تنظیم ہی باقی نہ رہے تو

Page 590

خطابات شوری جلد سوم کوئی کام بھی مناسب طور پر نہیں کیا جا سکتا.۵۷۴ مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء بچوں کو وقف کی تحریک کرو تم اپنے منہ سے تو قربانی ، قربانی قربانی کی آواز بلند کرتے ہو لیکن تم اپنے بیٹوں کو نہیں کہتے کہ سلسلہ کی خدمت کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں.اور اگر وہ وقف کر کے آجاتے ہیں تو تم خود اُن کو ورغلاتے ہو کہ وہ وقف سے بھاگ جائیں.تم پہلے اپنے گھر کی قربانی پیش کرو اور پھر بات کرو.میں کس طرح مان سکتا ہوں کہ تمہارے بیٹے اپنی زندگیاں وقف کرنے کو تیار نہیں ہیں.میرے تو ۱۳ کے ۱۳ بیٹے اپنی زندگیاں وقف کرنے کے لئے تیار ہو جا ئیں اور تمہارا ایک بیٹا بھی زندگی وقف نہ کرے، میں مان نہیں سکتا.اگر تم یہ عذر پیش کرتے ہو کہ تمہارے بیٹے زندگی وقف کرنے کے لئے تیار نہیں تو تم جھوٹ بولتے ہو.آخر میرے۱۳ بیٹوں نے زندگیاں وقف کی ہیں یا نہیں؟ ان میں اس بات کا احساس ہے یا نہیں؟ وہ جانتے ہیں کہ اگر اُنہوں نے وقف چھوڑا تو میں نے ان کی شکل نہیں دیکھنی.میرے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں رہے گا.آخر دین کی اشاعت ہم نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا.تمہارے بیٹوں میں اس قسم کا احساس نہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ اگر تم انہیں زندگی وقف کرنے کی تحریک کرتے ہو تو تم یہ بات دل سے نہیں کر رہے ، صرف ظاہری طور پر اس قسم کی بات کر رہے ہو.عورتوں کو اُن کے حقوق دو پھر تم اپنے اخلاق درست کرو.ہماری جماعت میں میاں اور بیوی کے تعلقات اتنے گندے ہو رہے ہیں کہ ایک احمدی کے متعلق یہ خیال بھی نہیں کیا جا سکتا کہ اُس کے اپنی بیوی سے اس قدر گندے تعلقات ہوں گے.اس میں شبہ نہیں کہ غیر احمد یوں میں بھی اس قسم کے گندے اخلاق والے لوگ ہوتے ہیں لیکن اُن کا یہ دعویٰ نہیں کہ ہم نے ان اخلاق کو دوبارہ قائم کرنا ہے لیکن تمہارا دعویٰ ہے کہ تم اسلام کی تعلیم کو دوبارہ قائم کر رہے ہو.پھر تم میں اس قسم کے گندے اخلاق کیوں ہیں.بات بات پر طلاق دی جا رہی ہے اور بات بات پر ضلع کرایا جا رہا ہے.آخر انسانیت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے.شادی کے وقت کوئی شخص تمہیں مجبور نہیں کرتا کہ تم ضرور فلاں عورت سے شادی کرو.شریعت نے تمہیں یہ حق دیا ہے کہ شادی سے قبل تم لڑکی کو دیکھ لو اور اس کے متعلق تحقیقات کر لو اور عورت کو بھی شریعت نے یہ حق دیا ہے

Page 591

خطابات شوری جلد سوم ۵۷۵ مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء کہ وہ خاوند کو دیکھ لے کے اور اُس کے متعلق تحقیقات کر لے لیکن جب تعلق قائم ہو جاتا ہے تو تمہیں ایک دوسرے کی ایسی باتیں برداشت کرنی پڑیں گی.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ جماعت کے بعض افراد بڑی آزادی کے ساتھ اس تعلق کو توڑنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.یہ کوئی انصاف ہے؟ یہ عورت کو ذلیل کرنے کے مترادف ہے.قرآن کریم نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لوگوں کو توجہ دلائی ہے کہ تم عورتوں کے ساتھ لیٹتے ہو اور پھر ان کے حقوق ادا نہیں کرتے ، یہ کتنی قابل شرم بات ہے.قرآن کریم کہتا ہے کہ اگر تم مجبور ہو کر کسی عورت کو اپنے ازدواجی تعلق سے علیحدہ بھی کرنا چاہو تو اُسے احسان کے ساتھ ، علیحدہ کرو لیکن یہاں ایک مقدمہ دکھا دو جہاں خاوند یہ کہتا ہو کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہوں اور مقرر کردہ مہر اُسے دیتا ہوں.کل ہی ایک مقدمہ پیش ہوا.ایک خاوند نے کہا میری بیوی کو طلاق دلائی جائے لیکن میں مہر نہیں دوں گا.میری بیوی کو مجھ سے علیحدہ کر دیا جائے لیکن یہ ضلع کی صورت میں ہو، تا مجھے مہر نہ دینا پڑے.اس قسم کے مقدموں میں اگر مجبور ہو کر بیوی خلع بھی کرا لے تو قاضی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اُس کے خاوند سے مہر دلائے کیونکہ خاوند طلاق دینا چاہتا تھا لیکن مہر دینے پر راضی نہیں تھا اِس لئے اُس نے بیوی کو ضلع لینے پر مجبور کر دیا.قاضی کا یہ حق ہے کہ وہ اس قسم کے خلع کو طلاق قرار دے کر بیوی کو اُس کا مہر دلائے.یہ کوئی اسلام نہیں یہ غنڈوں اور بد معاشوں والا اسلام کہلائے گا شرفاء کا اسلام نہیں کہلائے گا.عورت اگر خلع کرائے تو کرائے لیکن اگر قاضی سمجھتا ہے کہ وہ مجبور ہو کر خلع کرا رہی ہے تو وہ اُس کے خاوند سے یہ کہہ سکتا ہے کہ تم اس کے سارے حقوق دو پھر اُسے علیحدہ کیا جائے گا.میں ان امور کے سلسلہ میں جماعت میں برابر کمزوریاں دیکھ رہا ہوں.پس تم اپنے اخلاق درست کرو اور عورتوں کے حقوق دینے کی طرف توجہ کرو، ان کے حقوق مارنے کی طرف متوجہ نہ ہو.ناظر صاحب اعلیٰ کا ایک رقعہ مجھے پہنچا ہے کہ صدر انجمن احمد یہ میں جو خراب عصر پیدا ہو گیا اسے نکال دیا جائے.اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ وہ خود نئے نئے آئے ہیں.میں نے ان پر واضح کر دیا تھا کہ جب کوئی کارکن غلطی کرتا ہے اور میں اُسے سزا دینے کی کوشش کرتا ہوں تو نظارت اسے بچاتی ہے.اگر وہ کوشش کریں تو کام بن جائے گا.جماعت تو

Page 592

خطابات شوری جلد سوم ۵۷۶ مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء صرف تین دن کے لئے یہاں آتی ہے.جماعت کو ان امور کا پتہ نہیں لگ سکتا.مگر مجھے پتہ لگ جاتا ہے اور میں سزا دیتا ہوں تو اس کا نام ڈکٹیٹر شپ رکھ دیا جاتا ہے.آخر ان باتوں کی اصلاح کرنے کے لئے میرے ساتھ مدد کرنے والا بھی تو ہونا چاہئے.یا ناظر صاحب اعلی مدد کریں یا شوری سال میں بار بار منعقد ہو اور وہ ان امور کی تحقیقات کر لے جو جماعت سے چھپائے جاتے ہیں.شوری کے متعلق میں نے یہ ہدایت دی ہے کہ وہ آئندہ چار دن کے لئے شورای چاردن ہو.یہ چوتھا دن آخر میں زیادہ کیا جائے یا شروع میں اس کے متعلق رائے دی گئی ہے کہ چھٹی کے دوسرے دن کی چھٹی لی جائے تو وہ دو چھٹیاں شمار ہو جاتی ہیں.اس لئے اگر اتوار کے ساتھ سوموار کو ملایا جائے تو ملازمت پیشہ لوگوں کے لئے رقت ہوگی.ان کی اتوار کی رخصت بھی شمار ہو جائے گی اس لئے بہتر ہے کہ جمعرات کا دن ساتھ ملایا جائے اس میں زیادہ آسانی ہو گی.چنانچہ اگلے سال تین کی بجائے چار دن تک شوری ہو گی.اتوار کو کام ختم کیا جائے گا.اس میں یہ فائدہ بھی ہو گا کہ بعض نمائندے اتوار کو یہاں سے روانہ ہو کر اپنے کام پر وقت پر پہنچ جائیں گے.بہر حال میں نے بعض چیزیں شوری کے سامنے رکھ دی ہیں ان کی اصلاح اسی طرح ہو سکتی ہے کہ جماعت کے اجلاس بار بار ہوں.ناظر صاحب اعلیٰ مجرموں کی معافی کی طرف زیادہ توجہ نہ کریں.معافی اُس وقت بہتر ہوتی ہے جب زیادہ خرابی پیدا نہ ہو.جب خرابی زیادہ ہو تو سزا بہتر ہوتی ہے.موجودہ ناظر صاحب اعلیٰ اگر تعاون کریں گے تو یہ کام آسانی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے.میں انہیں اسی غرض سے یہاں لایا ہوں تا وہ مجھ سے تعاون کریں.باقی اصلاح کا یہ طریق درست نہیں کہ پرانے لوگوں کو فوراً نکال دیا جائے.اصل علاج یہ ہے کہ باہر سے آدمی آئیں اور کام کو سنبھالیں.جب نئے آدمی کام سنبھال لیں تو پرانے کارکنوں کو فارغ کر دیا جائے.موجودہ ناظر بھاگ دوڑ کا کام نہیں کر سکتے.مثلاً مولوی محمد دین صاحب ہیں ان کی عمر ۷۵ سال سے کم نہیں جب ہم بچے تھے تو وہ کالج میں پڑھتے تھے.اب ۷۵ سال کا ایک بوڑھا شخص نوجوانوں کی طرح کس طرح کام کر سکتا ہے.اچھے پینشنز باہر سے آجائیں اور وہ کام کرنے لگیں تو پرانے آدمی فارغ کر دیئے جائیں.

Page 593

خطابات شوری جلد سوم ۵۷۷ مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء پچاس، پچپن سال کی عمر میں جا کر بالعموم پنشن مل جاتی ہے اور اس عمر میں بھاگ دوڑ کا کام کیا جا سکتا ہے.ضرورت تعاون کی ہے.پہلے بڑی خطرناک غلطی واقع ہوئی ہے.میں نے بعض نوجوانوں کو بلایا اور اُن کو نائب ناظر کے طور پر محکموں میں لگایا لیکن بجائے اس کے کہ اُنہیں کام سکھایا جاتا اُن سے چپڑاسیوں والا سلوک کیا گیا.جس کی وجہ سے وہ پتھر کی طرح ہو گئے ہیں.میں اب اُن کی مدد کرنے کے لئے بھی تیار نہیں.جب بھی موقع ملے گا میں انہیں نکالوں گا لیکن وہ نو جوان محض ان ناظروں کی وجہ سے اس حد تک پہنچے ہیں.اس بارہ میں میں ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ کی مثال دیتا ہوں.ان کے ساتھ دو گریجوایٹ کام کرتے ہیں لیکن ان کی ذہنیت پرائمری پاس نو جوانوں والی بھی نہیں.ان کو خراب دماغ والا بنا دیا گیا ہے لیکن اب بھی اگر انہیں کسی اچھے آدمی کے ماتحت کام کرنے دیا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ کام کر سکتے ہیں.بہر حال مجھے یہ بات پسند نہیں کہ اپنی ذات کی وجہ سے سلسلہ سے دشمنی کی جائے.نوجوانوں کو محض اس لئے کام نہ کرنے دیا جائے تا اُن کی گڈی قائم رہے.تم نوجوانوں کو آگے لاؤ تا کام کو زیادہ تیز رفتاری سے کیا جا سکے اور سلسلہ کو نقصان سے بچایا جائے.اب میں واپس جاتا ہوں ، تم باقی کام کرو.“ (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء ) السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۶۳ تا ۶۵ مطبوعه مصر ۱۹۳۵ء مسلم كتاب الفضائل باب توكُله (الخ) مسلم كتاب فضائل الصحابة باب مِنْ فضائل ابى بكر اسد الغابة جلد ۳ صفحه ۱۵۷ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ نیز.ابو داؤد ابواب الجمعة باب الْاِمَامُ يُعَلِّمُ الرَّجُلَ فِي خُطْبَتِهِ ه بخاری کتاب التفسير تفسير سورة المائده باب قوله إِنَّمَا الخمر (الخ) بخاری كتاب الجهاد و السَّير باب الحمائل وَتَعَلَيْقُ السَّيْفِ بِالْعُنُقِ ک سیرت ابن هشام جلد ۳ صفحه ۳۰۴ - ۳۰۵ مطبوعہ مصر ١٩٣٦ء و السيرة الحلبية جلد ۲ صفحه ۳۰۶ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء

Page 594

خطابات شوری جلد سوم ۵۷۸ ترمذى كتاب النكاح باب ما جاء في النظر (الخ) وَكَيْفَ تَأْخُذُونَهُ وَقَدْ أَفْضَى بَعْضُكُمْ إِلَى بَعْضٍ (النساء:۲۲) ا وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحاً جَمِيلًا (الاحزاب:۵۰) مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء

Page 595

خطابات شوری جلد سو ۵۷۹ مجلس مشاورت ۱۹۵۵ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ مجلس مشاورت ۱۹۵۵ء منعقدہ ۷ تا ۹ ر ا پریل ۱۹۵۵ء) مجلس مشاورت ۱۹۵۵ء کے موقع پر جماعت احمد یہ کی چھتیسویں مجلس مشاورت ۷ تا ۹.اپریل ۱۹۵۵ء کو ہال لجنہ اماءاللہ احباب جماعت کے نام حضور کا پیغام ربوہ میں منعقد ہوئی.حضور ان ایام میں ڈاکٹری مشورہ کے مطابق سفر یورپ کے ارادہ سے کراچی میں تشریف فرما تھے اس لئے آپ اس مجلس میں رونق افروز نہ ہو سکے.تاہم اس موقع پر حضور نے احباب جماعت کے نام ایک پیغام کراچی سے ارسال فرمایا جو مشاورت کے دوسرے دن ۸.اپریل کو صدر مجلس محترم مرزا عبد الحق صاحب نے احباب کو پڑھ کر سنایا.یہ پیغام درج ذیل ہے :- ” اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيْمِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الكَرِيمِ ھوال خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّ احباب جماعت احمدیہ! اصر السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ - پہلی بات تو میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ شوریٰ میری غیر حاضری میں آ رہی ہے.پچھلے سال میں بوجہ زخم کے شوری میں پورا حصہ نہیں لے سکا اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو مشق کروا دی مگر میں محسوس کرتا ہوں کہ ابھی آپ لوگوں میں اتنی طاقت نہیں پیدا ہوئی کہ میری غیر موجودگی میں اپنی ذمہ داری پر پورا کام کر سکیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ایسی طاقت بھی

Page 596

خطابات شوری جلد سوم ۵۸۰ مجلس مشاورت ۱۹۵۵ء پیدا کر دے اور مجھے بھی ایسی صحت بخشے کہ آپ سے مل کر اسلام کی فتح کی بنیادیں رکھ سکوں.جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے پچھلے چند دنوں سے میری طبیعت زیادہ خراب ہونے لگ گئی تھی مگر دو دنوں سے پھر بحالی کی طرف قدم جلدی جلدی اُٹھ رہا ہے، چنانچہ اس وقت بھی کہ میں یہ پیغام لکھوا رہا ہوں میں کمرہ میں ٹہل رہا ہوں اور میرے قدم آسانی کے ساتھ چل رہے ہیں.پہلے جو بیماری کے حملہ کے بعد دماغ خالی خالی معلوم ہوتا تھا کل سے وقفہ وقفہ کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل سے اس میں بھی نیک تغیر پیدا ہو رہا ہے اور میں بعض اوقات محسوس کرتا ہوں کہ میں سوچ سکتا ہوں اور پچھلے واقعات کا تسلسل میرے دماغ میں شروع ہو جاتا ہے بلکہ کراچی آتی دفعہ ریل میں ایک سورۃ میرے دماغ میں آئی جس کے بعض حصے لوگوں سے اب تک حل نہیں ہو سکے تھے اور باوجود بیماری کے اس سورۃ کی شرح اور بسط میں نے کرنی شروع کی اور وہ تفسیر عمدگی کے ساتھ حل ہونی شروع ہوگئی.تب میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اے خدا! ابھی دنیا تک تیرا قرآن صحیح طور پر نہیں پہنچا اور قرآن کے بغیر نہ اسلام ہے نہ مسلمانوں کی زندگی تو مجھے پھر سے توفیق بخش کہ میں قرآن کے بقیہ حصہ کی تفسیر کر دوں اور دُنیا پھر ایک لمبے عرصے کے لئے قرآن شریف سے واقف ہو جائے اور اس پر عامل ہو جائے اور اس کی عاشق ہو جائے.بہر حال آج میری طبیعت پچھلے چند دن سے بہت اچھی معلوم ہوتی ہے کچھ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ سفر کی پریشانیاں جو پیدا ہو رہی تھیں وہ دور ہو رہی ہیں پچھلے دنوں اختر صاحب اور مشتاق احمد صاحب باجوہ جو کام کے لئے جاتے رہے تو اپنی نا تجربہ کاری کی وجہ سے یہ نہیں سمجھتے تھے کہ فورار پورٹ نہ پہنچی تو مجھے صدمہ ہوگا.دو چار دن کے تجربہ کے بعد میں نے خود اس بات کو محسوس کر لیا اور انہیں ہدایت کر دی کہ جب وہ باہر جایا کریں تو ایک زائد آدمی لے کر جایا کریں اور اسے اس وقت کی رپورٹ دے کر میرے پاس بھجوا دیا کریں تا کہ مجھے پتہ لگتا رہے.جب سے اس پر عمل ہوگا میری گھبراہٹ اور پریشانی دور ہونی شروع ہو گئی اور اب خدا تعالیٰ کے فضل سے طبیعت میں سکون ہے.خدا نے یہ بھی فضل کیا ہے کہ جہاز کے ٹکٹوں کے ملنے کے غیر معمولی سامان ہو گئے اور ایکسچینچ کے ملنے کے سامان بھی پیدا ہو گئے.اس موقع پر اسلامی ملک کے بعض نمائندوں نے غیر معمولی شرافت کا ثبوت دیا.اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے ان کے ملکوں کو عزت اور

Page 597

۵۸۱ مجلس مشاورت ۱۹۵۵ء خطابات شوری جلد سوم ترقی بخشے.اس واقعہ سے طبیعت میں اور بھی زیادہ سکون پیدا ہوگا اور پریشانی دور ہوئی.خدا کرے کہ مسلمانوں میں پھر سے اتحاد پیدا ہو جائے اور پھر سے وہ گزشتہ عروج کو حاصل کرنے لگ جائیں اور اسلام کے نام میں وہی رُعب پیدا ہو جائے جو آج سے ہزار بارہ سو سال پہلے تھا.میں اس دن کے دیکھنے کا متمنی ہوں اور ہر وقت اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں.جب سعودی ، عراقی ، شامی اور لبنانی ، ترک ، مصری اور یمنی سو رہے ہوتے ہیں میں ان کے لئے دعا کر رہا ہوتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ وہ دعائیں قبول ہوں گی.خدا تعالیٰ ان کو پھر ضائع شدہ عروج بخشے گا اور پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوم ہمارے لئے فخر و مباہات کا موجب بن جائے گی.خدا کرے جلد ایسا ہو.میں شوریٰ میں آنے والے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ سنجیدگی سے بجٹ اور دوسری باتوں پر غور کریں.اس سال دس بارہ دن لگا کر میں نے خود بجٹ کوحل کیا ہے اس لئے بجٹ میں دوستوں کو زیادہ تبدیلی نہیں کرنی چاہئے.میرا خیال ہے کہ میری بیماری کا موجب وہ محنت بھی تھی جو تحریک اور انجمن کے بجٹوں کو ٹھیک کرنے کے لئے مجھے کرنی پڑی.میں تو بیمار ہو گیا مگر میری محنت کئی سال تک آمد و خرچ کے توازن کو ٹھیک کر دے گی.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو اور آپ کو ان فرائض کے پورا کرنے کی توفیق دے.جن کا آپ وعدہ کر چکے ہیں اور جن کے بغیر جماعت کی قریب کی ترقی ناممکن ہے.مرزا محمود احمد خلیلیه اسیح الثانی ۱۹۵۵/۴/۶ء 66 (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۵ء)

Page 598

Page 599

خطابات شوری جلد سو ۵۸۳ ت ۱۹۵۶ء بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ مجلس مشاورت ۱۹۵۶ء منعقده ۲۹ تا ۳۱ / مارچ ۱۹۵۶ء) پہلا دن جماعت احمدیہ کی سینتیسویں مجلس مشاورت ۲۹ تا ۳۱ مارچ ۱۹۵۶ء کو ہال لجنہ اماءاللہ دعا مرکز یہ ربوہ میں منعقد ہوئی.۲۹ مارچ کو بعد دو پہر حضور نے اس کا افتتاح فرمایا.تلاوت قرآن مجید کے بعد احباب کو دعاؤں کی تلقین کرتے ہوئے حضور نے فرمایا : - شوری کی کارروائی شروع کرنے سے پہلے میں مختصر طور پر دُعا کروں گا.دُعائیں جتنی بھی لمبی ہوں اُتنی ہی اچھی ہوتی ہیں لیکن بیماری کی وجہ سے مجھے دعا ئیں مختصر کرنی پڑتی ہیں.جب شروع شروع میں خلافت کا کام میرے سپرد ہوا تو میں لمبی لمبی دُعائیں کیا کرتا تھا.اُس وقت جوانی کا عالم تھا اور میرے بدن میں طاقت اور قوت تھی لیکن اب بڑھاپا اور بیماری ہے اس وجہ سے بھی لمبی دُعائیں کرنا مشکل ہے.خصوصاً اس بیماری کے بعد تو میرا یہ حال ہو گیا ہے کہ اگر کسی امر کے متعلق دُعا کرنے کا کچھ خیال آتا ہے تو اُس کے آخر تک پہنچ کر میں اُس کا ابتدائی حصہ بُھول جاتا ہوں اور بیماری کی وجہ سے میرا دماغ بوجھ محسوس کرنے لگتا ہے اس لئے میں اس وقت مختصر طور پر ہی دُعا کروں گا.آپ لوگوں نے بہت دفعہ میری تقریریں سنی ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ میں جماعت کو رکن امور کے لئے دُعا کرنے کی تحریک کیا کرتا ہوں اس لئے میرا تھوڑا کہنا بھی بہت ہوسکتا ہے.کن امور کے لئے دعا کرنی چاہئے سب سے پہلی چیز تو یہ ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ سے یہ دُعا کرنی چاہئے کہ ہمیں اور ہماری

Page 600

خطابات شوری جلد سوم ۵۸۴ رت ۱۹۵۶ء اولا دوں کو ہمیشہ ہمیش کے لئے اسلام کا کام جاری رکھنے کی توفیق دے.ہم لوگ غریب ہیں.اگر صرف روپوں سے کام ہوتا تو اسلام کی خدمت کا جو موقع ہمیں ملا ہے کبھی ک ختم ہو چکا ہوتا لیکن اگر ہماری اولادوں میں ایمان کا سلسلہ قائم رہے تو تھوڑے روپیہ سے بھی قیامت تک کام ہوتا چلا جائے گا کیونکہ روپیہ کی مقدار کو دوام حاصل نہیں ہوتا بلکہ اخلاص اور ایمان کا جوش دوام اختیار کرتا ہے.چنانچہ دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے خلفاء اور صحابہ کو جو کچھ ملا وہ اُنہوں نے اسلام کی خدمت میں لگا دیا لیکن اس کے بعد اسلام لا وارث ہو گیا.روپیہ تو مسلمانوں کے پاس بہت آیا لیکن ان میں اخلاص اور ایمان کا سلسلہ باقی نہ رہا.اب اسلام کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث کیا ہے.آپ ایک گاؤں کے رہنے والے تھے.آپ کی آواز پر چند لوگ آپ کے ساتھ مل گئے اور اس چھوٹی سی جماعت نے تبلیغ کا کام شروع کر دیا.آپ کے پاس کوئی خزانہ نہیں تھا اور پھر ظاہری لحاظ سے بھی آپ کو کوئی شہرت حاصل نہیں تھی.قادیان بھی کوئی مشہور مقام نہیں تھا بلکہ ایک معمولی اور گمنام سی بستی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں اپنے دین کی محبت کی چنگاری سلگا دی تھی اس لئے جو کام آپ سے پہلے بڑی بڑی اسلامی حکومتیں بھی نہ کر سکیں وہ ایک گمنام اور معمولی گاؤں کا رہنے والا کر گیا.اس نے اسلام کی جو بے مثال خدمت کی ہے اس کا شدید سے شدید دشمنوں کو بھی اقرار کرنا پڑتا ہے.مصر کا ایک مشہور اخبار الفتح ہے وہ احمدیت کی ہمیشہ مخالفت کرتا ہے.ایک دفعہ اس میں کسی نے مضمون لکھا کہ احمدیوں کو ہم بے شک کا فر کہتے ہیں لیکن میں نے سارے افریقہ میں پھر کر دیکھا ہے، اسلام کی خدمت کی جو توفیق ۱۳۰۰ سال میں بڑی بڑی اسلامی حکومتوں کو نہیں ملی وہ اس چھوٹی سی جماعت کو ملی ہے.اس جماعت نے جو کام کیا ہے وہ 66 اب تک کوئی دوسری مسلمان قوم نہیں کرسکی.تو دیکھو روپیہ کوئی چیز نہیں صرف ایمان ہے جو کام کرتا ہے.ہمیں دُعا کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ یہ ایمان ہم میں اور ہماری آئندہ نسلوں میں قائم رکھے.انسان جب تک مر نہ جائے اُس کے متعلق یہ یقین نہیں کیا جا سکتا کہ وہ آخر تک ایمان پر قائم رہے گا.پس

Page 601

خطابات شوری جلد سوم ۵۸۵ مجلس مشاورت ۱۹۵۶ء دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ نہ صرف ہمیں ایمان پر قائم رکھے بلکہ اُسے روز بروز زیادہ کرتا چلا جائے اور نہ صرف ہمیں گزشتہ پاک لوگوں کا وارث بنائے بلکہ قیامت تک اپنی برکات ہم پر نازل کرتا چلا جائے اور ہماری اولاد نہ صرف اُس جوش کی وارث ہو جو ہمارے دلوں میں خدمت دین کے لئے پایا جاتا ہے بلکہ اس کا جوش ہم سے بڑھ کر ہو اور وہ جوش قیامت تک قائم رہے تا اسلام کا جھنڈا ان کے ہاتھ میں رہے اور وہ کبھی سرنگوں نہ ہو.وہ اپنی متواتر جد و جہد سے ساری دُنیا کو اسلام کے جھنڈے تلے لے آئیں اور اس دُنیا میں ایک ہی خدا اور ایک ہی دین ہو.پھر اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہم دُعائیں کریں جہاں اللہ تعالیٰ ہمیں روپیہ دے وہاں ہمیں اس کے صحیح استعمال کی بھی توفیق عطا فرمائے کیونکہ روپیہ کا غلط استعمال کیا جائے تو وہ ضائع ہو جاتا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ اُن کا ایک دوست بہت امیر تھا.جب وہ مرا تو اُس نے لاکھوں روپیہ اپنے پیچھے چھوڑا اور وہ روپیہ اُس کے لڑکے کو ملا.خود تو اُس نے بڑی تنگی میں گزارا کیا تھا لیکن اپنے بیٹے کے لئے اُس نے کافی سرمایہ اپنے پیچھے چھوڑا.ایک دن کسی شخص نے آپ سے آ کر کہا کہ آپ اپنے دوست کے بیٹے کو سمجھا ئیں وہ قیمتی تھان کپڑے کے خریدتا ہے اور انہیں سارا دن پھاڑتا رہتا ہے.آپ نے فرمایا مجھے یہ بات سُن کر بڑا تعجب ہوا کیونکہ میرے نزدیک یہ پاگلانہ حرکت تھی.تاہم میں نے اُسے اپنے پاس بلایا اور کہا میاں ! تمہارے متعلق یہ شکایت آئی ہے کہ تم اپنی دولت کو ضائع کر رہے ہو.تم قیمتی تھان کپڑے کے خریدتے ہو اور پھر انہیں بیٹھے پھاڑتے رہتے ہو، اس کا کیا فائدہ.وہ کہنے لگا مولوی صاحب! نیا کپڑا پھاڑنے کے نتیجہ میں جو چر کی آواز آتی ہے وہ مجھے بڑی اچھی لگتی ہے اس لئے میں سارا دن یہی کام کرتا رہتا ہوں.اب دیکھو اگر چہ اس کے پاس روپیہ بہت تھا لیکن اس نے اُسے نا واجب طور پر ضائع کر دیا.اسلامی بادشاہوں کے پاس بھی بہت رو پید رہا لیکن اُنہوں نے بھی اسے اسی طرح ضائع کر دیا.اب بھی جب میں دمشق گیا تو میں نے سُنا کہ ایک اسلامی حکومت کا شہزادہ وہاں آیا اس نے مصر سے دو سو ناچنے والی عورتیں منگوائیں.ان میں سے ہر عورت کی

Page 602

خطابات شوری جلد سوم ۵۸۶ رت ۱۹۵۶ء ایک ایک ہزار روپیہ فی رات اُجرت تھی.گویا اُس نے دولاکھ روپیہ صرف ایک رات میں نچنیوں کو دیدیا.اس ملک کے والی کو پتہ لگا تو اُس نے شہزادہ کو ہدایت کی کہ ان ناچنے والیوں کو فوراً واپس کرو لیکن جو روپیہ وہ لے چکی تھیں وہ تو لے چکی تھیں وہ واپس نہیں آسکتا تھا.اس طرح سے اُس نے چند دنوں میں ۲۰ لاکھ کے قریب رو پید ان عورتوں پر خرچ کیا.اشاعت اسلام پر خرچ کیا جاتا تو اس سے کتنا فائدہ اُٹھایا جا سکتا تھا.تحریک جدید کا بجٹ پانچ چھ لاکھ روپیہ سالا نہ ہوتا ہے اور پانچ چھ لاکھ روپیہ سے ہم ایسا اچھا کام کرتے ہیں کہ دنیا حیران ہوتی ہے.اگر یہ ہیں لاکھ روپیہ ہمارے پاس ہوتا تو دُنیا کے چپہ چپہ پر تبلیغ ہو سکتی تھی لیکن اس شہزادہ نے وہ روپیہ چنیوں کو دیدیا.پس روپیہ مسلمانوں کے پاس ہے لیکن انہیں خدمت دین کی توفیق نہیں ملی.ہمارے پاس روپیہ نہیں لیکن ہمیں اللہ تعالیٰ نے توفیق دی ہے کہ دُنیا کی خدمت کریں اور ہم ”نہیں“ سے وہ کام کر رہے ہیں جو دوسرے لوگ ” ہے“ سے بھی نہیں کر رہے.پس دُعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دیانت سے کام کرنے کی توفیق دے.دشمن تو اب بھی اس بات کا قائل ہے کہ ہم نہایت دیانتداری سے کام کر رہے ہیں لیکن قوموں میں بعض افراد بد دیانت ہوتے ہی ہیں.حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ اور حضرت علی کتنے پاکیزہ اور دیانتدار لوگ تھے لیکن اُن کی نسلوں میں بھی چور، ڈاکو، اور خائن پائے جاتے ہیں.وہ اپنی ذات میں نہایت متقی اور ایمان والے لوگ تھے.وہ دوسروں کے روپیہ کی حفاظت کرنے والے تھے لیکن اب ان کی اولا د راہ زن ہے اور دوسروں کے مالوں کو ناجائز طور پر اپنے تصرف میں لے آتی ہے.پس مجھے ڈر ہے کہ ہماری اولادوں میں سے بھی کہیں چور، ڈاکو اور خائن لوگ پیدا نہ ہو جائیں جو سلسلہ کے روپیہ کی حفاظت نہ کرسکیں.پس دُعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس بات کی توفیق دے کہ ہم جماعت کا بجٹ اس طرح بنائیں کہ اس کا ایک ایک پیسہ صحیح طور پر خرچ ہو اور اس کے نتیجہ میں اسلام مضبوط ہو پھر اس کام کی ہماری آئندہ نسلوں کو بھی توفیق ملے اور ہمیشہ ہمیش کے لئے ان کا یہ کریکٹر قائم رہے کہ دین کا جو روپیہ ان کے پاس آئے وہ بینک کے سیف سے بھی زیادہ محفوظ رہے.وہ اس کا استعمال پوری عقل سے کریں اور اس میں سے ایک پیسہ بھی ضائع نہ ہونے دیں.

Page 603

خطابات شوری جلد سوم ۵۸۷ مجلس مشاورت ۱۹۵۶ء بے شک انسان سے غلطیاں ہوتی رہتی ہیں مگر ہمیں دُعائیں کرنی چاہئیں کہ خدا تعالیٰ ہمیں غلطیوں سے بچائے اور بد دیانتی سے محفوظ رکھے کیونکہ غلطی سے بھی روپیہ ضائع ہو جاتا ہے.پس دُعائیں کرو کہ جہاں اللہ تعالیٰ ہمیں غلطیوں اور بد دیانتی سے بچائے وہاں وہ ہماری اولا د کو بھی ہمیشہ کے لئے دیانت سے روپیہ خرچ کرنے کی توفیق دے اور ایسا کوئی وقت نہ آئے کہ ہم خدا تعالیٰ کی راہ میں روپیہ خرچ کرنے میں بخل محسوس کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ” الوصیت میں فرمایا ہے کہ مجھے اس بات کا غم نہیں کہ یہ اموال جمع کیونکر ہوں گے اور ایسی جماعت کیونکر پیدا ہو گی جو ایمانداری کے جوش سے یہ مردانہ کام دکھلائے.بلکہ مجھے یہ فکر ہے کہ ہمارے زمانہ کے بعد وہ لوگ جن کے سپر دایسے مال کئے جائیں، وہ کثرت مال کو دیکھ کر ٹھوکر نہ کھاویں اور دُنیا سے پیار نہ کریں لے بہر حال شیطان ہر وقت انسان کے ساتھ لگا رہتا ہے ممکن ہے وہ ہم میں سے کسی کے دل میں شرارت کا خیال پیدا کرے.اس کو شرارت کرنے کے کئی ڈھنگ آتے ہیں.بعض دفعہ اس کی تحریک بظاہر نیک ہوتی ہے لیکن حقیقتاً وہ بُری ہوتی ہے.جب جماعت نے خلافت جوبلی منانے کا فیصلہ کیا اور اس نے میرے لئے نذرانہ کے طور پر ایک رقم اکٹھی کی تو جلسہ سالانہ کے موقع پر میر محمد اسحاق صاحب نے جماعت کی طرف سے مجھے دو لاکھ ستر ہزار روپیہ کا چیک پیش کیا اور کہا کہ مصلح موعود کی پیشگوئی میں چونکہ یہ بھی ذکر آتا ہے کہ وہ صاحب دولت ہوگا اس لئے اس روپیہ سے حضور کے صاحب دولت ہونے کی ایک صورت پیدا ہوگی لیکن میں نے اُس روپیہ کو بھی اپنی ذات پر خرچ کرنے کی بجائے جماعت پر خرچ کرنے کا فیصلہ کیا اور کہا میں اس شرط پر اس روپیہ کو قبول کرتا ہوں کہ میں اسے اپنی ذات پر نہیں بلکہ جماعت پر خرچ کروں گا.چنانچہ اب بھی وہ روپیہ بنک میں موجود ہے اور صدرانجمن احمد یہ اس کا زیادہ تر حصہ اسلام پر خرچ کرتی ہے اور کچھ حصہ وظائف پر خرچ کرتی ہے.روپیہ تجارت میں لگا ہوا ہے تا کہ اس سے مستقل آمد کی صورت پیدا ہوتی رہے.

Page 604

خطابات شوری جلد سوم ۵۸۸ رت ۱۹۵۶ء بیماری کی وجہ سے چونکہ میرا حافظہ کمزور ہو گیا ہے اس لئے جو بلی فنڈ کے خرچ کی سکیم مجھے پوری طرح یاد نہیں رہی.صرف اتنا یاد ہے کہ وہ روپیہ صدر انجمن احمدیہ کے پاس تھا اور وہی اس کے خرچ کرنے کی ذمہ دار تھی لیکن چونکہ روپیہ میرے نام پر جمع ہے اس لئے وہ مجھے سے چیک پر دستخط کرا لیتے ہیں.بہر حال میں یہ ذکر کر رہا تھا کہ خلافت جوبلی کے جلسہ پر میر محمد اسحاق صاحب کے ذریعہ جماعت نے دو لاکھ ستر ہزار روپیہ مجھے دیا اور میں نے کہا کہ میں اس صورت میں یہ روپیہ قبول کروں گا کہ میں اسے جماعت کے سپر د کر دوں اور وہی اسے خرچ کرے لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اپنے طور پر بھی صاحب دولت بنایا ہے.میں نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا تھا کہ سندھ میں میرے پیر لگے ہیں.اس پر میں نے صدر انجمن احمد یہ اور بعض دوسرے دوستوں کو جن میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بھی شامل تھے ،تحریک کی کہ ہم ایک کمیٹی بنالیں اور اس طرح سندھ میں زمینیں خریدیں چنانچہ ہم نے وہاں زمینیں خرید لیں.چونکہ اُس وقت جو لوگ زمینوں پر کام کرنے کے لئے مقرر کئے گئے تھے، انہیں تجربہ نہیں تھا اس لئے لوگوں کو خسارہ ہونا شروع ہوا اور حصہ داروں نے تنگ آکر اپنے حصے بیچنے شروع کر دیئے.ایک دن ایک حصہ دار میرے پاس آیا اور اس نے کہا کہ آپ ہی زمین لے لیں، میں اس سے تنگ آ گیا ہوں.مجھے یقین تھا کہ اس زمین میں برکت ہو گی اس لئے میں نے وہ زمین لے لی.پھر دوسرا حصہ دار آیا، پھر تیسرا آیا، پھر چوتھا آیا اور اُنہوں نے اپنی زمینیں میرے سپرد کر دیں اور کہا کہ ہم نفع نہیں مانگتے جتنی رقم ہم نے خرچ کی ہے وہ ہمیں دے دیں اور ساری زمین سنبھال لیں.میرے پاس روپیہ نہیں تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کا بھی سامان کر دیا.ایک دوست ملا زمت سے فارغ ہو کر آئے اور اُنہوں نے مجھے کہا کہ ہمارے محکمہ میں پنشن نہیں ملتی ، پراویڈنٹ فنڈ ملتا ہے.مجھے پراویڈنٹ فنڈ اور گریجوٹی کے طور پر کئی ہزار روپیہ ملا ہے میں چاہتا ہوں کہ آپ کچھ عرصہ کے لئے اسے استعمال کر لیں.میں نے کہا میں تو آہستہ آہستہ روپیہ واپس کر سکوں گا.اُنہوں نے کہا مجھے منظور ہے.چنانچہ میں نے وہ رقم لے لی اور زمین خرید لی.اس کے بعد میں نے زمینوں پر کام کرنے والے عملہ میں تبدیلی شروع کی اور صدر انجمن احمد یہ کو کہا کہ.

Page 605

خطابات شوری جلد سوم ۵۸۹ رت ۱۹۵۶ء وہ بھی اپنی زمین انتظام کے لئے میرے قبضہ میں دیدے چنانچہ انہوں نے بھی زمین میرے سپرد کر دی اور اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے نہ صرف ہمیں خسارہ سے نجات ملی بلکہ وہ زمین نفع دینے لگ گئی.رفتہ رفتہ اس آمد کے ذریعہ میں نے اور زمین بھی خرید لی اور اسی طرح میں صاحب دولت ہو گیا.جائیداد کی تقسیم ۱۹۴۳ء میں جب میں بیمار ہوا تو میں نے اپنی وصیت لکھ کر محفوظ کر لی.میں نے اُس میں لکھا کہ میری وفات پر میری جس قدر جائیداد ہو اس کا یہ حصہ صدر انجمن احمدیہ کو دیدیا جائے.اس میں سے ا حصہ تو صدر انجمن احمد یہ خود خرچ کرے اور با حصہ غریبوں پر خرچ کرے.جب مجھ پر موجودہ بیماری کا حملہ ہوا تو مجھے کسی نے کہا کہ آپ اپنی جائیداد اپنی اولاد میں تقسیم کر دیں.چنانچہ میں نے اُسے تقسیم کر دیا.ایک دن اچانک مجھے خیال آیا کہ میں نے تو اپنی جائیداد کا ہی حصہ وقف کرنے کی وصیت کی تھی مگر میں نے تو ساری جائیداد اپنی اولاد میں تقسیم کر دی ہے.اس پر میری راتوں کی نیند اُڑ گئی.میں نے اِس کا ذکر چوہدری ظفر اللہ خان صاحب سے بھی کیا اور ملک سیف الرحمن صاحب سے بھی ذکر کیا.اُنہوں نے کہا کہ آپ کی اس وصیت کا اطلاق صرف اس جائیداد پر ہوتا ہے جو آپ کی وفات کے بعد بچے.اپنی زندگی میں آپ اپنی جائیداد کو اپنی مرضی سے تقسیم کر سکتے ہیں.بعض دوسرے فقہاء کا مسلک بھی یہی ہے کہ انسان اپنی زندگی میں اِس بات کا اختیار رکھتا ہے کہ وہ اپنی جائیداد جس کو چاہے دے، وصیت کا اثر صرف اس جائیداد پر ہوتا ہے جو اس کی وفات کے بعد بچے.لیکن پھر بھی میں نے کچھ جائیداد جو تقسیم سے بچ گئی تھی صدرانجمن احمدیہ کے نام ہبہ کر دی اور اُن سے یہ شرط کی کہ وہ اس کا حصہ خود خرچ کرے اور ہا حصہ غرباء پر خرچ کیا جائے.اس کے علاوہ میں نے اور کوئی شرط نہیں کی.پس یہ سندھ کی زمینیں ہی تھیں جنہوں نے مجھے صاحب دولت بنایا اور خدا تعالیٰ کی پیشگوئی پوری ہو گئی.اسی طرح پچھلے دنوں جب تھل میں زمین سستے داموں مل رہی تھی.میں نے ۶۵۰.ایکٹر زمین خرید لی.اس میں سے کچھ حصہ تو گورنمنٹ نے ضبط کر لیا ہے اور کچھ حصہ مجھے مل جانے کی امید ہے.یہ ساری زمین میں نے صدر انجمن احمدیہ کے نام ہبہ کر دی ہے.

Page 606

خطابات شوری جلد سوم ۵۹۰ مجلس مشاورت ۱۹۵۶ء ۳۶.ایکٹر زمین اس وقت تک با قاعدہ طور پر صدر انجمن احمد یہ کے نام لگ چکی ہے اور ڈیڑھ سو ایکڑ کے قریب اور زمین ملنے کی اُمید ہے.جب ملی یہ بھی صدرانجمن احمدیہ کے نام کرا دی جائے گی.اس زمین کے علاوہ سابق سندھ کی زمین میں سے بھی ۸۰.ایکٹر زمین صدر انجمن احمدیہ کے نام ہبہ کی جاچکی ہے اور یہ گل ۲۶۶.ایکٹر بن جاتی ہے.میں نے بتایا ہے کہ سندھ میں صدر انجمن احمدیہ نے زمینوں کا انتظام کیا تو اُسے نقصان شروع ہوا لیکن جب مجھے اپنی زمین سے نفع ہونا شروع ہوا تو میں نے صدر انجمن احمدیہ کو بھی کہا کہ وہ بھی اپنی زمین میرے سپر د کر دے، میں اُس کی طرف سے انتظام کروں گا.چنانچہ اس زمین نے ۶۰-۷۰ ہزار روپیہ سالانہ دینا شروع کیا اور نہ صرف یہ کہ اس کی قیمت جو پہلے قرض لے کر ادا کی گئی تھی وہ اُتر گئی بلکہ بعد میں اس زمین سے آمد کی بھی ت پیدا ہو گئی.اب یہ سال سندھ والوں کے لئے بڑی تکلیف کا سال ہے.وہاں گزشتہ سال اتنی بارش ہوئی تھی کہ فصل کا ایک تنکا بھی نہیں بچا لیکن مجھے بتایا گیا ہے کہ اس سال بھی ان زمینوں سے ۳۰.۳۵ ہزار روپیہ کا نفع ہوا ہے.ویسے جب تک زمین میرے صورت انتظام میں رہی ، میں ۷۵ ۷۶ ہزار روپیہ سالانہ دیتا رہا ہوں.غرض اللہ تعالیٰ جہاں چاہے برکت دے دیتا ہے.ہالینڈ میں تین تین ہزار روپیہ فی ایکٹر آمد ہوتی ہے.اگر ہماری زمینوں سے بھی اتنی آمد ہونے لگے تو صدر انجمن احمد یہ کے پاس چونکہ تین ہزار ایکٹر زمین ہے.اس لئے ہمیں نوے لاکھ روپیہ سالانہ آ سکتا ہے بلکہ اگر اس سے نصف آمد بھی ہونے لگے تو ۴۵ لاکھ کی آمد ہو سکتی ہے.اگر چوتھا حصہ بھی آمد ہو تو بائیس لاکھ پچاس ہزار روپیہ کی آمد ہو سکتی ہے مگر افسوس ہے کہ ہمیں ابھی تک صحیح طور پر کام کرنے والے نہیں ملے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی تحریر فرمایا تھا کہ مجھے اس بات کا فکر نہیں کہ روپیہ کہاں سے آئے گا بلکہ فکر ہے تو اس بات کا کہ روپیہ خرچ کرنے والے دیانتدار آدمی کہاں سے ملیں گے.اس لئے دُعائیں کرو کہ کارکنوں کو اللہ تعالیٰ اپنے لئے بھی اور دین کے لئے بھی اچھے سے اچھا کام کرنے کی توفیق دے اور وہ اس طرح محنت کریں کہ تھوڑی جائیداد سے لاکھوں کی رقم پیدا کر یں.یورپ میں چھوٹی چھوٹی جائیداد میں بڑی بڑی آمد پیدا کرتی ہیں پھر کوئی وجہ نہیں کہ ہماری جائیداد سے اتنی آمد

Page 607

خطابات شوری جلد سوم ۵۹۱ رت ۱۹۵۶ء پیدا نہ ہو.پس دُعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح رنگ میں سوچنے اور کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور پھر وہ قیامت تک ہماری آنے والی نسلوں کو بھی صحیح رنگ میں کام کرنے اور دیانتداری سے روپیہ خرچ کرنے کی توفیق دیتا چلا جائے.تاہم اللہ تعالیٰ کے حضور سُرخرو ہو سکیں، اس کے بعد حضور نے احباب سمیت ہاتھ اُٹھا کر لمبی دُعا کروائی.تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا :- افتتاحی تقریر اب شوری کا ایجنڈا پیش ہوگا.میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر بھی تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ صد را منجمن احمد یہ اور تحریک جدید دونوں کے بجٹ ۲۵.۲۵ لاکھ روپیہ تک پہنچ جائیں.جب تک ان دونوں اداروں کے بجٹ ۲۵٬۲۵ لاکھ تک نہیں پہنچ جاتے اُس وقت تک نہ تو پاکستان میں صحیح طور پر کام ہوسکتا ہے اور نہ ہی بیرونی ممالک میں صحیح طور پر کام کیا جا سکتا ہے اور اگر کوشش کی جائے تو یہ کوئی مشکل امر نہیں.میں نے بتایا تھا کہ اگر باہر کے ممالک کے زمیندار زیادہ آمد پیدا کرتے ہیں تو کیوں ہمارے زمیندار بھی اپنے بچوں کے لئے نہیں، اپنی آسائش اور سہولت کے لئے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی خاطر زیادہ آمد پیدا نہ کریں.اس وقت ہماری جماعت کے پاس کم سے کم ایک لاکھ ایکٹر زمین ہے.اگر ہماری زمین کی سالانہ آمد فی ایکٹر سات سو روپیہ تک پہنچ جائے جو ہالینڈ کی آمد کا چوتھا حصہ اور اٹلی کی آمد سے نصف سے بھی کم ہے تو جماعت کی گل آمد سات کروڑ روپیہ بن جاتی ہے.اس سات کروڑ میں سے ایک آنہ فی روپیہ کے حساب سے بھی احمدی زمیندار چندہ دیں تو ۴۴ لاکھ کے قریب روپیہ آ جاتا ہے اور اگر سلسلہ کی زمینوں کی آمد کو اس میں شامل کر لیا جائے تو یہ رقم بڑی آسانی سے پچاس لاکھ روپیہ سالانہ تک پہنچ جاتی ہے.اب تم اندازہ لگا لو کہ اگر ہماری جماعت کا سالانہ بجٹ پچاس لاکھ روپیہ تک پہنچ جائے تو ہمارے پھیلنے کی رفتارکتنی تیز ہو جائے گی.احمدیت کی ترقی کی ترو اس وقت باہر سے جو خیر میں آرہی ہیں وہ خدا تعالی کے فضل سے بڑی خوش کن اور حوصلہ افزا ہیں چنانچہ جب بھی ڈاک

Page 608

خطابات شوری جلد سوم ۵۹۲ رت ۱۹۵۶ء میرے پاس آئی ہے، وہ کوئی نہ کوئی خوشخبری اپنے ساتھ لائی ہے.ملایا سے خبر آئی ہے کہ وہاں ایک بڑے افسر نے احمدیت قبول کر لی ہے مگر ساتھ ہی اُس نے کہا ہے کہ میری بیعت کو فی الحال مخفی رکھا جائے کیونکہ مجھے اُمید ہے کہ تھوڑے ہی عرصہ میں میں ملک میں کوئی اہم پوزیشن حاصل کرلوں گا.اس طرح جرمنی میں ہمبرگ یونیورسٹی کے ایک مشہور پروفیسر ہیں جو مشرقی زبانوں کے ماہر ہیں.یونیورسٹی نے انہیں اسلام پر ایک کتاب لکھنے کے لئے بھی مقرر کیا ہے اُنہوں نے ایک جرمن رسالہ میں ایک اہم مضمون لکھا تھا جس پر امریکہ کی ایک یونیورسٹی کے پریذیڈنٹ نے انہیں مبارکباد دی اور لکھا کہ میں نے اب تک جرمن کے کسی رسالہ میں اتنا قیمتی مضمون نہیں پڑھا.وہ پروفیسر جرمنی میں میری آمد کی خبر سُن کر مجھے ملنے کے لئے آ گیا اور کہنے لگا میں نے آپ سے بعض مخفی باتیں کرنی ہیں آپ اپنے سیکرٹری اور دوسرے ساتھیوں کو ذرا کمرہ سے باہر بھیج دیں.چنانچہ میں نے اپنے سیکرٹری اور دوسرے ساتھیوں سے کہا کہ وہ کچھ دیر کے لئے کمرہ سے باہر چلے جائیں.جب وہ کمرہ سے باہر چلے گئے تو اُس نے کہا میں آپ کی بیعت کرنا چاہتا ہوں لیکن میں چاہتا ہوں کہ اسے فی الحال مخفی رکھا جائے.میں نے کہا بہت اچھا، بیعت کے مخفی رکھنے میں کوئی حرج نہیں چنانچہ اُس نے بیعت کر لی.جب نماز کا وقت آیا تو میں اُس کمرہ میں گیا جو نماز کے لئے مخصوص کیا گیا تھا.جب میں نے سلام پھیرا تو دیکھا کہ وہ پروفیسر بھی مقتدیوں میں بیٹھا ہوا ہے.میں نے اپنے مبلغ کو پاس بلایا اور اس سے کہا کہ اس سے پوچھو کہ تم نے تو اپنی بیعت کو مخفی رکھنے کے لئے کہا تھا اور اب خود ہی نماز میں شامل ہو گئے ہو ، اب تمہاری بیعت مخفی کس طرح رہ سکتی ہے؟ مبلغ نے دریافت کیا تو وہ کہنے لگا کہ بے شک میں نے اپنی بیعت مخفی رکھنے کی درخواست کی تھی لیکن پھر مجھے خیال آیا کہ شاید خدا تعالیٰ انہیں میری خاطر ہی جرمنی میں لایا ہے.پھر نہ معلوم یہ موقع نصیب ہو یا نہ ہو.اس لئے میں نے کہا کہ آپ کی اقتداء میں چند نمازیں تو پڑھ لوں.اب خط آیا ہے کہ وہ دو تین ماہ کے لئے ربوہ آکر دینی تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے.اسی طرح انگلینڈ سے بھی خوش کن خبریں آرہی ہیں.وہاں ہمارا مشن دیر سے قائم ہے لیکن اب وہاں کی یو نیورسٹیاں بھی ہمارے مبلغ کو اپنے ہاں بلاتی اور اسلام پر لیکچر کراتی ہیں.

Page 609

خطابات شوری جلد سوم ۵۹۳ رت ۱۹۵۶ء وہاں کے مبلغ نے اطلاع دی ہے کہ اب وہ لیکچر کے لئے گلاسگو جا رہے ہیں.اس طرح اُنہوں نے لکھا ہے کہ میں ایک اور یونیورسٹی میں لیکچر دینے گیا.اس یونیورسٹی میں ہماری بہت مخالفت کی جاتی تھی لیکن جب میں وہاں گیا تو ہال بھرا ہوا تھا.بعض لوگوں نے مجھے بتایا کہ جب لیکچر کا اعلان ہوا تو یہودیوں نے بڑی مخالفت کی اور اعلان کیا کہ اس لیکچر میں کوئی نہ جائے.ہم نے کہا کہ اگر یہودی اس لیکچر کی مخالفت کرتے ہیں تو ہم ضرور جائیں گے.اب اطلاع آئی ہے کہ کسی اور یو نیورسٹی نے بھی انہیں اپنے ہاں لیکچر کے لئے بلایا ہے.غرض وہاں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے اب ایک رو پیدا ہوگئی ہے اور اچھے اچھے خاندانوں میں احمدیت کی تبلیغ ہو رہی ہے.احمدیت کے غلبہ کا وقت جب آئے گا، آئے گا لیکن اس وقت بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں.دیکھ لو یہاں الیکشن میں کوئی احمدی کھڑا ہوتا ہے تو وہ ہار جاتا ہے.پچھلے الیکشن میں احرار نے اعلان کیا تھا کہ ہماری مخالفت کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ انتخاب میں ایک بھی احمدی کامیاب نہیں ہو سکا لیکن چند دن ہوئے ، میرے پاس ایک ایم.ایل.اے.آئے.میں نے اُن کے نام کے آگے ایم.ایل.اے.کا لفظ دیکھ کر دریافت کیا کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ تو انہوں نے بتایا میں اسمبلی کا ممبر ہوں.میں نے کہا الیکشن تو شورش میں ہوئے تھے، پھر آپ کیسے ایم.ایل.اے.بن گئے.کیا آپ کے علاقہ میں مولوی نہیں گئے تھے؟ انہوں نے بتایا کہ ہمارے علاقے میں بھی مولوی گئے تھے اور انہوں نے میرے خلاف پروپیگنڈا بھی کیا تھا لیکن میری قوم کے لوگ کھڑے ہو گئے اور اُنہوں نے کہا کہ یہ شخص کافر ہے تو کافر ہی سہی ہماری قوم کا فرد تو ہے ہم بہر حال اسے ووٹ دیں گے.سیلون سے بھی خط آیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب ایسے طبقہ سے بھی بعض لوگ احمدیت قبول کر رہے ہیں جن کے متعلق اُمید ہے کہ وہ اپنے ملک کی اسمبلی کے الیکشن میں کامیاب ہو جائیں گے.مغربی افریقہ میں بھی ہمارے چار دوست وہاں کی اسمبلی کے ممبر ہیں.بہر حال اگر پاکستان میں ہماری جماعت کے دوستوں کے لئے مشکلات ہیں اور وہ اسمبلی کے انتخابات میں کامیاب نہیں ہو سکتے تو باہر کے ممالک میں ہمارے غلبہ کے آثار

Page 610

خطابات شوری جلد سوم ۵۹۴ رت ۱۹۵۶ء ظاہر ہو رہے ہیں.ضرورت اس امر کی ہے کہ تم اپنے کام کو دیانت داری سے کرو اور اپنی زمینوں کی پیداوار بڑھانے کی کوشش کرو.وہ دن قریب آ رہے ہیں جب خدا تعالیٰ ہماری جماعت کے لئے کامیابی کے راستے کھول دے گا.ہماری جماعت سیاسی جماعت نہیں لیکن چند دنوں سے جماعت کے بعض دوستوں کو متواتر خوابیں آ رہی ہیں کہ ہم قادیان گئے ہیں.چنانچہ ۳۰.۳۱ جنوری ۱۹۵۶ء کی درمیانی شب کو مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کو خواب آئی.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم اگلے سال جون یا جولائی کے مہینہ میں قادیان جائیں گے.پھر میرا بھانجا عباس احمد قادیان گیا تو وہاں ایک سکھ نے اُس سے کہا کہ آپ فکر نہ کریں، آپ بہت جلد قادیان آنے والے ہیں.اُنہوں نے دریافت کیا کہ تمہیں اس کا کیسے علم ہو !؟ اُس نے کہا میں نے خواب دیکھا ہے کہ کنگیں پکنے والی ہیں.(یعنی گندم پکنے کے دن قریب ہیں ) اور لوگ کہتے ہیں کہ مرزائی واپس آنے والے ہیں.پھر یہاں کی ایک عورت نے خواب دیکھا کہ گندم پک رہی ہے اور ہم قادیان جا رہے ہیں.وسیم احمد کا بھی اس کے متعلق قادیان سے ایک خط آیا ہے.اُس کا پاسپورٹ گورنمنٹ آف انڈیا نے واپس لے لیا تھا.اُنہی دنوں میں نے خواب میں دیکھا کہ وسیم احمد مجھ سے دُور دُور جا رہا ہے.اُس کے ساتھ ایک اور نوجوان ہے جس نے فوج یا پولیس کی طرح پگڑی باندھی ہوئی ہے.وسیم احمد نے جب دیکھا کہ میں اس بات پر حیران ہوں کہ وہ کیوں مجھ سے دور جا رہا ہے تو اُس نے کہا کہ لیلا رام مجھے لے جا رہا ہے.باقی عِندَ الطَّلَب.اس خواب سے میں نے سمجھا کہ دعاؤں اور ادھر کی کوششوں کے نتیجہ میں اس کا پاسپورٹ بنے گا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور اُسے پاسپورٹ مل گیا.بہر حال اُس نے خط میں ایک ہندو سادھو کے متعلق جو امرتسر کا رہنے والا ہے لکھا کہ وہ برما میں آٹھ دس سال تک مالی کا کام کرتا رہا ہے.اُس نے بتایا کہ میں مالی کا کام اس لئے کرتا تھا کہ مجھے الہاماً بتایا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ سے کام کیا کرو.پھر اُس نے بتایا کہ مجھے الہام ہوا کہ قادیان جاؤ، وہاں تمہیں روحانیت ملے گی.وسیم احمد نے لکھا ہے کہ وہ بہت دیر یہاں رہا اور دُعائیں کرتا رہا.ایک دفعہ اُس نے اِس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ میں بیٹ الدعا میں بیٹھ کر دعا کرنا

Page 611

خطابات شوری جلد سوم ۵۹۵ مشاورت ۱۹۵۶ء چاہتا ہوں.چنانچہ اُس نے وہاں جا کر بھی دُعا کی.پھر اُس نے کہا میں تمہیں وہ کچھ بتاتا ہوں جو خدا تعالیٰ نے مجھے کہا ہے.خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ وہ جلد تمہیں ادھر لانے کے سامان پیدا کرے گا.بہر حال دوستوں کو متواتر ایسی خوابیں آ رہی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ قادیان میں ہماری واپسی کی کوئی نہ کوئی صورت پیدا کرنے والا ہے.میں نے خود دیکھا ہے کہ جب بھی میں ربوہ کا نام لینا چاہتا ہوں ، اس کی بجائے قادیان کا نام منہ سے نکلتا ہے.مثلاً میں نے اگر کہنا ہو کہ ربوہ کب جانا ہے؟ تو یہ کہہ دیتا ہوں کہ قادیان کب جانا ہے.پھر میں نے خود بھی رویا میں دیکھا کہ میں قادیان گیا ہوں.دفتر کے نیچے سے اُئِم ناصر کے گھر کو جو رستہ جاتا ہے وہاں بیٹھا ہوں.چھتری میں میں نے ہار ڈالے ہوئے ہیں.میں نے چابیوں کا ایک کچھا نکالا اور میں اپنی بیویوں سے کہتا ہوں کہ چابیوں کو زنگ لگ گیا تھا اور مجھے شبہ تھا کہ کہیں تالے کھولتے وقت وہ ٹوٹ نہ جائیں اس لئے میں نے نئی چابیاں بنوائی ہیں اب ہم تالے کھول کر اندر چلے جائیں گے.بہر حال یہ سب خوش خبریاں ہیں اور اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان کی کیا تعبیر ہے اور کس رنگ میں اِن کا ظہور مقدر ہے.البتہ ان خوابوں سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہماری جماعت کی ترقی کی کوئی نہ کوئی صورت پیدا کرنے والا ہے.یہ ترقی کس شکل میں ظاہر ہوگی اسے وہ خود ہی جانتا ہے، ہمیں اس کا علم نہیں.ہم یہی دُعا کرتے ہیں کہ جو ترقیات بھی ہمارے لئے مقدر ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے صحیح طور پر فائدہ اُٹھانے کی توفیق عطا فرمائے اور حقیقی ایمان اور سچا تو کل ہمارے اندر پیدا کرے تا کہ اس کے سوا کسی اور کی طرف ہماری آنکھ نہ اُٹھے.وہی ہمارا ملجا وماً ولی ہو.وہی ہمارا سہارا ہو اور اسی کی مدد سے ہم اُس کے دین اور شریعت کو قائم کرنے والے ہوں.ہماری اپنی اغراض مٹ جائیں اور صرف اُسی کی غرض اور اُسی کا مقصد ہمارے سامنے رہے.“

Page 612

خطابات شوری جلد سوم ۵۹۶ رت ۱۹۵۶ء دوسرا دن مجلس مشاورت قرآن مجید کا دیگر زبانوں میں ترجمہ نہایت اہم کام ہے کے دوسرے دن ۳۰ / مارچ ۱۹۵۶ء کو حضور نے احباب جماعت کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا :- ”سب سے بڑی چیز جس کی کسی دینی سلسلہ کو ضرورت ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ اس میں خلافت اور تنظیم ہمیشہ کے لئے قائم رہے، اللہ تعالیٰ سے محبت قائم رہے.احمدیت کی طرف ہر قوم کی توجہ اگر یہ سب باتیں قائم رہیں تو دنیا کی فتح میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا.میں تو بیمار ہوں اور مجھے بعض دفعہ اپنی زندگی کا ایک ایک دن دو بھر معلوم ہوتا ہے لیکن مجھے یہ بات نظر آ رہی ہے اور ہم میں سے جو لوگ زندہ رہیں گے وہ دیکھیں گے کہ چند سالوں کے اندر اندر دُنیا میں ایک عظیم الشان تغیر پیدا ہوگا اور احمدیت ایک نمایاں حیثیت اختیار کرلے گی بلکہ اب بھی احمدیت نے اتنی اہمیت حاصل کر لی ہے کہ امریکہ کے ایک رسالہ نے جس کی اشاعت دو کروڑ کے قریب ہے ایک زبر دست مضمون لکھا ہے کہ مشرقی افریقہ میں احمدیوں نے ، اسلام کی اس طرح تبلیغ کی ہے کہ اس کے مقابلہ میں عیسائیت شکست کھا کر رہ گئی ہے.انگلستان کے ایک اور مشہور شخص نے بھی لکھا ہے کہ مشرقی افریقہ میں اب عیسائیت کی اشاعت کے لئے کوئی موقع نہیں رہا اور احمدیوں نے اس کے لئے کوئی جگہ نہیں چھوڑی.یہ احمدیت کی صداقت کا ایک بڑا نشان ہے.پھر جنوبی افریقہ میں ہمارے خلاف ایک شخص نے مضمون لکھا ہے جب ہماری جماعت نے پروٹسٹ کیا تو اُس نے معذرت کی اور کہا کہ مجھے لوگوں نے دھوکا دیا تھا آئندہ میں ایسا کوئی مضمون شائع نہیں کروں گا.اب دیکھو یہ کتنا عظیم تغیر ہے جو احمدیت کے متعلق لوگوں میں پیدا ہو رہا ہے کہ مخالف اس کی اہمیت تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں.پچھلے دو سال کی بات ہے کہ ایک شخص نے ایک کتاب لکھی اور اس میں ہمارے امریکہ کے مشن کے کام کو اُس نے غیر مبائعین کی طرف

Page 613

خطابات شوری جلد سوم ۵۹۷ رت ۱۹۵۶ء منسوب کر دیا.چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ نے جو اُس وقت لنڈن میں امام تھے اُسے توجہ دلائی کہ یہ مشن تو ہماری جماعت کا قائم کردہ ہے.اس پر اُس نے تحریر کیا کہ میں تحقیق کروں گا اور اگر اس تحقیق کے نتیجہ میں اطلاع غلط ثابت ہوئی تو میں اس کی تردید کر دوں گا.چنانچہ اُس نے نئے ایڈیشن میں اس کی اصلاح کر دی ہے اور لکھا ہے کہ میں نے اس مشن کو ایک غلط اطلاع کی بناء پر پہلے لاہور والوں کی طرف منسوب کر دیا تھا اب تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ میری وہ اطلاع غلط تھی، یہ مشن در حقیقت قادیانی جماعت سے تعلق رکھتا ہے.غرض پہلے لوگ ہماری باتوں کی پرواہ نہیں کرتے تھے لیکن اب ایسا تغیر واقع ہوا ہے کہ وہ ہماری باتوں کی پرواہ کرنے لگ گئے ہیں.میں پچھلے سال انگلینڈ گیا.میں بیمار تھا اس لئے عام لوگوں سے تو ملاقات نہیں کر سکتا تھا لیکن پھر بھی بعض لوگ ملنے آجاتے تھے.چنانچہ ایک دن ایک شخص مجھے ملنے کے لئے آیا وہ ایک ایسے رسالہ کا ایڈیٹر تھا جس کی اشاعت ۸۰ لاکھ کی ہے.اُس نے میرے سامنے خود یہ تجویز پیش کی کہ فلسطین میں آپ کی جماعت پر سختی ہوئی ہے آپ اُس کی تفصیل مجھے بتائیں.یو این او میں میرے بعض واقف آدمی ہیں، میں اُنہیں کہہ کر وہاں سوال اُٹھوا دوں گا.اُس نے یہ بھی کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کا لڑکا لنڈن میں رہے گا.آپ اُسے کہیں کہ وہ مجھے ملتا رہے، میں اُسے یہاں کی اچھی سوسائٹی سے ملاؤں گا.غرض خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسا تغیر واقع ہوا ہے کہ لوگوں کی توجہ اور رجحان خود بخود احمدیت کی طرف ہو رہا ہے اور انہیں احساس ہو رہا ہے کہ احمدیت ایک دن غالب آئے گی.پہلے یہ بات ان کے خواب و خیال میں بھی نہیں آتی تھی لیکن اب یہ خیال ایسی خواب بن گیا ہے جو انہیں بار بار آ رہی ہے اور اُن کے نفوس محسوس کر رہے ہیں کہ احمدیت کا غلبہ یقینی بات ہے.انگریزی میں ایک ضرب المثل - ہے.Coming events cost their shadow before یعنی آنے والے حادثات کا ان کے وقوع سے پہلے پتہ لگ جاتا ہے.اب ہر قوم میں احمدیت کی طرف توجہ ہو رہی ہے.تراجم قرآن کی اہمیت ہمارے کارناموں میں سے سب سے زیادہ اہم کارنامہ قرآن کریم کا متعدد زبانوں میں ترجمہ کرنا ہے.جماعت کو

Page 614

خطابات شوری جلد سو ۵۹۸ اورت ۱۹۵۶ء اس کی طرف خاص طور پر توجہ کرنی چاہئے.خصوصاً میاں عبدالمنان صاحب عمر کو جو اس کمپنی کے چیئر مین ہیں جس کے زیر اہتمام قرآن کریم کا ترجمہ غیر زبانوں میں شائع ہو رہا ہے انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ان کے بزرگ والد کو قرآن سے عشق تھا.اگر ان کی روح کو پتہ لگے کہ جس کمپنی کے زیر انتظام قرآن کریم کا مختلف زبانوں میں ترجمہ شائع ہورہا ہے، اُس کا چیئر مین اُن کا لڑکا ہے اور اُس کی نگرانی میں یہ سب کام ہو رہا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ اُن کی روح و جد میں آجائے گی.مجھے یاد ہے آپ مجھے قرآن کریم پڑھاتے پڑھاتے کہتے جاتے تھے میاں! مجھے قرآن کریم سے عشق ہے اور واقع میں انہیں قرآن کریم سے عشق تھا لیکن خدا تعالیٰ نے ان تراجم کی اشاعت کی سعادت میرے لئے رکھی ہوئی تھی ورنہ جس قدر عشق قرآن کریم سے حضرت خلیفہ اول کو تھا اُس کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کوئی بعید امر نہیں تھا کہ تراجم قرآن کریم کا کام انہی کے زمانہ میں شروع ہو جاتا لیکن چونکہ یہ سعادت خدا تعالیٰ نے میرے لئے مقدر رکھی تھی اس لئے اُس زمانہ میں یہ کام شروع نہ ہوا تا قرآن کریم کے انوار کا ظہور میرے زمانہ خلافت میں ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ الہام پورا ہو کہ تور آتا ہے تو ر ۲۰ اس الہام کا ایک مفہوم یہ بھی تھا کہ میرے زمانہ خلافت میں قرآن کریم کی اشاعت ہوگی اور اس کے تراجم مختلف زبانوں میں کئے جائیں گے کیونکہ قرآن کریم کا ایک نام تور بھی رکھا گیا ہے.حقیقت یہی ہے کہ اب تک جو کچھ کام ہوا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوا ہے اور اُسی نے مختلف زبانیں جاننے والے آدمی ہمیں مہیا کئے.ورنہ ہمارے پاس مختلف زبانیں جاننے والے لوگ موجود نہیں تھے.پچھلی جنگ ختم ہوئی تو مختلف ممالک کے لوگ انگلینڈ آگئے.میں نے مولوی جلال الدین صاحب شمس کو لکھا کہ یہ موقع ہے، مختلف زبانیں جاننے والے انگلستان میں موجود ہیں آپ ان سے قرآن کریم کا ترجمہ کروالیں.چنانچہ ڈچ ، جرمن ، ہسپانوی، اطالوی، فرانسیسی اور پرتگالی زبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ کروایا گیا.بعد میں ہمارے مبلغ ان ممالک میں گئے اور اُنہوں نے وہاں کی زبانیں سیکھیں اور اس کے بعد اُنہوں نے ان تراجم کی اصلاح کی.ابھی تک ہمیں روسی زبان کا

Page 615

خطابات شوری جلد سوم ۵۹۹ مجلس مشاورت ۱۹۵۶ء کوئی ماہر نہیں ملا تھا لیکن اب ایسا ماہر مل گیا ہے جس نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ہمارے مبلغ کے ساتھ مل کر ترجمہ پر نظر ثانی کا کام کر دے گا اور عجیب بات یہ ہے کہ اُس نے بہت کم رقم اجرت کے طور پر مانگی ہے.چنانچہ اس ماہر نے سارے قرآن کریم کے ترجمہ پر نظر ثانی کے عوض صرف ۱۸۰ پونڈ کی رقم طلب کی ہے.ہمارے مبلغ نے لکھا ہے میں کوشش کروں گا کہ وہ اس مطالبہ میں بھی کسی قدر کمی کر دے مگر میں نے تحریک جدید کولکھا ہے کہ نظر ثانی کی اُجرت کو بڑھا دیں، کم نہ کریں کیونکہ وہ روسی زبان کا چوٹی کا ماہر ہے اور اس کی قابلیت کے مقابلے میں اُجرت بہت کم ہے.اگر روسی زبان میں ترجمہ کا کام ہو جائے تو یہ ایسا اہم کارنامہ ہو گا جو اس وقت تک اور کسی نے نہیں کیا.چوہدری صاحب (چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب) نے بتایا ہے کہ ایک امریکن نے جو روس گیا تھا اُنہیں لکھا کہ میں وہاں کے مسلمانوں سے بھی ملا اور اُنہوں نے مجھے کہا کہ اگر تم خدا تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو قرآن کریم کا ترجمہ روسی زبان میں کراؤ اور پھر اُسے جلد شائع کرو کیونکہ وہ اگر ہمارے مرنے کے بعد یہاں آیا تو اسلام ختم ہو جائے گا.اگر اسلام نے روس میں باقی رہنا ہے تو اُس کی ایک ہی صورت ہے کہ قرآن کریم کا ترجمہ ہماری زندگیوں میں یہاں آ جائے اور ہم اپنی اولادوں کو پڑھا دیں، پھر وہ اپنی اولادوں کو پڑھا ئیں.ورنہ اگر اس میں کوئی وقفہ پڑ گیا اور ہم اپنی اولادوں کو قرآن کریم پڑھائے بغیر مر گئے تو روس سے اسلام ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا.پس مجھے ہر وقت اس بات کا فکر رہتا ہے کہ کسی طرح قرآن کریم کا ترجمہ روسی زبان میں شائع ہو جائے اور ہم اُسے پہنچا دیں تا وہاں اسلام سے محبت رکھنے والے لوگ پیدا ہوں.یورپ کے سفر میں یوگوسلاویہ کا ایک مسلمان جو احمدی ہو گیا تھا مجھے ملا.اُس نے مجھے بتایا کہ پہلے قسطنطنیہ کے لوگ ہمارے ملک میں آتے تھے اور مسلمانوں کو قرآن کریم پڑھاتے تھے لیکن اب وہ ہمارے ملک میں نہیں آتے کیونکہ ملک کی حکومت اسلام کے خلاف ہے اور جو لوگ مسلمان کہلاتے ہیں وہ ختم ہو گئے تو وہاں اسلام بھی ختم ہو جائے گا.آپ ہماری زبان میں بھی قرآن کریم کا ترجمہ کروائیں اور اس کی اشاعت ہمارے ملک میں کریں.اگر اس ترجمہ میں دیر لگ گئی تو کروڑوں مسلمان اسلام کے حلقہ سے نکل جائیں گے.

Page 616

خطابات شوری جلد سوم ارت ۱۹۵۶ء خلافت اور تنظیم کی برکات پس یہ برکتیں اللہ تعالیٰ نے صرف ہمارے لئے رکھی تھیں.درحقیقت ان تراجم کا کام کسی فرد کا کام نہیں تھا بلکہ خلافت ،تنظیم اور جتھے کا کام تھا.ورنہ جماعت میں سے کون ہے جو ان تراجم میں سے ایک ترجمہ بھی شائع کروا سکتا لیکن ہم سب نے مل کر وہ کام کر لیا جو بڑے بڑے بادشاہ بھی نہیں کر سکے تھے.کہتے ہیں ایک شخص نے موت کے وقت اپنے سب بیٹوں کو بلایا اور ایک جھاڑ و منگوا کر کہا اس جھاڑو میں سے ایک تنکا نکال کر توڑو.اُنہوں نے اُس تنکے کو بڑی آسانی سے توڑ دیا.اس کے بعد اُس نے انہیں جھاڑو دیا اور کہا کہ اسے تو ڑومگر ان سے نہ ٹوٹا.اس پر اُس نے کہا میرے بیٹو! تم نے دیکھا کہ ایک ایک تنکا ذاتی طور پر کوئی قوت نہیں رکھتا، تم نے اُسے ایک انگلی کے دباؤ سے ہی توڑ دیا لیکن جھاڑو کو توڑنا تمہارے لئے مشکل ہو گیا.اسی طرح اگر تم متفرق ہو گئے تو دُنیا کی ہر طاقت تمہیں تباہ کر سکتی ہے لیکن اگر تم اکٹھے اور متفق رہے تو تم محفوظ و مصون رہو گے.اسی طرح یہ خلافت اور تنظیم کی ہی برکت ہے کہ جماعت نے متعدد زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم شائع کر دیئے.ورنہ جماعت میں کوئی ایک فرد بھی ایسا مالدار نہیں جو ان تراجم میں سے ایک ترجمہ بھی شائع کروا سکتا.اسی طرح کوئی فرد ایسا رسوخ نہیں رکھتا کہ وہ علیحدہ طور پر کسی زبان میں بھی قرآن کریم کا ترجمہ شائع کراسکتا لیکن اجتماعی صورت میں ہم اس وقت تک انگریزی، ڈچ، روسی ، سپنیش ، پرتگیزی ، اٹالین ، جرمن اور فرانسیسی زبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ کروا چکے ہیں.مشرقی افریقہ میں سواحیلی“ زبان میں ترجمہ شائع ہو چکا ہے اور لو گنڈ ا زبان میں ترجمہ کا کام ہو رہا ہے.انڈونیشین اور ملائی زبانوں میں بھی ترجمہ کا کام ہو رہا ہے.ہندی اور گورمکھی زبانوں میں بھی ترجمہ کروایا جا رہا ہے اور اُمید ہے کہ اگلے تین چار سال میں بیس سے زائد زبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ شائع ہو جائے گا.ہماری نیت ہے کہ ہر اہم زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ شائع کر دیں تا کسی زبان کا جاننے والا ایسا نہ رہے جو اس سے فائدہ نہ اُٹھا سکے.بہر حال اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کے کام میں برکت دی ہے.دُعائیں کرو کہ

Page 617

خطابات شوری جلد سوم ۶۰۱ درت ۱۹۵۶ء خدا تعالیٰ ہمیں اس تنظیم کو قائم رکھنے کی توفیق دے اور دین کی خدمت کا ولولہ اور جوش قیامت تک ہم میں قائم رہے اور ہم دین کی خدمت اس طور پر کریں کہ قرآن کریم کو دُنیا کے کونے کونے تک پہنچا دیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز دُنیا کے کناروں تک بلند کر دیں اور کوئی انسان ایسا نہ رہے جس تک قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام نہ پہنچا ہو.“ بعض امور کی تحقیق جماعتی مشاورت میں حصہ لینا بڑے اعزاز کا کام ہے کے لئے جماعت کی طرف سے ایک کمیشن مقرر کیا گیا.ممبران کی سُستی کی وجہ سے اس کا اجلاس جلد نہ ہو سکا.اس سلسلہ میں نصیحت کرتے ہوئے حضور نے فرمایا : - ” ناظر صاحب اعلیٰ نے ابھی رپورٹ فیصلہ جات سال گزشتہ پڑھ کر سُنائی ہے.افسوس ہے کہ مجلس شوری ۱۹۵۵ء کے فیصلہ کے مطابق صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے دفاتر میں نظم ونسق اور ملازمین و پنشنرز کے حقوق و مفاد کے بارہ میں تحقیقات کرنے کے لئے جو کمیشن مقرر کیا گیا تھا اس کا دو دفعہ اجلاس بلایا گیا لیکن دونوں دفعہ اس کمیشن کا کورم جو تین ممبران پر مشتمل تھا پورا نہ ہو سکا اور اجلاس ملتوی کرنا پڑا.تیسرے اجلاس میں کورم پورا ہوا اور کارروائی کی جاسکی لیکن کمیشن کی کارگزاری کے متعلق کوئی رپورٹ ابھی تک موصول نہیں ہوئی.اس کے معنے یہ ہیں کہ جماعت کے دوستوں کو کام کی طرف توجہ نہیں.ہماری جماعت میں تو مشورہ لینے کا کام چونتیس سال سے شروع ہے لیکن انگلستان میں یہ کام ایک ہزار سال سے ہو رہا ہے.وہاں یہ خبر کبھی نہیں آئی کہ اجلاس میں ممبران حاضر نہ ہوئے.وہ لوگ ان اجلاسوں میں شریک ہونے کو موجب فخر سمجھتے ہیں اور بڑے شوق سے ان کاموں میں حصہ لیتے ہیں لیکن یہاں یہ حال ہے کہ جماعت کے دوست سلسلہ کے ایک اہم کام کے متعلق جو کمیٹی بنائی گئی تھی اُس کے اجلاس میں بھی نہیں آئے.گویا وہ ڈسٹرکٹ بورڈ کے اجلاسوں میں شرکت کو تو عزت سمجھتے ہیں لیکن سلسلہ کے اجلاسوں میں شمولیت کو وہ کوئی اہمیت نہیں دیتے.حالانکہ مومن کو چاہئے کہ وہ سلسلہ کی کمیٹیوں کو

Page 618

خطابات شوری جلد سوم ۶۰۲ ورت ۱۹۵۶ء پارلیمنٹ کی ممبری سے بھی زیادہ موجب عزت خیال کرے.جب تک جماعت میں یہ احساس پیدا نہیں ہو گا وہ اپنا کام کامیابی کے ساتھ جاری نہیں رکھ سکتی.آخر کا موں کو تو اتر سے چلانے کے لئے ضروری ہے کہ افراد کو بھی مشورہ میں شریک کیا جائے لیکن اگر انہیں سلسلہ کے کاموں میں دلچسپی ہی نہ ہو تو گو کام پھر بھی ایک حد تک چلتا رہے گا لیکن اسے ترقی نہیں دی جا سکے گی.مثلاً یہی کام جس کے لئے مشورہ طلب کیا گیا تھا ، ایک ناظر کر رہا تھا لیکن صدر انجمن احمدیہ نے خیال کیا کہ ناظر کے ساتھ جماعت بھی مشورہ میں شریک ہوتا یہ کام ایک آدمی کا کام نہ رہے لیکن جماعت نے یہ نمونہ دکھایا کہ جو مبر کمیشن کے طور پر مقرر کئے گئے تھے وہ اجلاس میں حاضر نہ ہوئے اور دو دفعہ کمیشن کا کورم پورا نہ ہو سکا.اگر ان لوگوں کو گورنر لاہور میں چائے پر بلاتا اور یہ لوگ پشاور میں ہوتے تب بھی وہ اس دعوت میں شریک ہونے کے لئے چل پڑتے اور اس شرکت کو اپنے لئے موجب عزت خیال کرتے مگر سلسلہ کی کمیٹیوں میں شامل ہونا ان کے نزدیک موجب عزت نہیں.سلسلہ کی میٹنگز میں حاضری کی اہمیت تم جو چاہوکر لولیکن یاد رکھو وہ دن آنے والا ہے جب احمدیت کے کاموں میں حصہ لینے والے بڑی بڑی عزتیں پائیں گے لیکن ان لوگوں کی اولا دوں کو جو اس وقت جماعتی کاموں میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے دھتکار دیا جائے گا.جب انگلستان اور امریکہ ایسی بڑی بڑی حکومتیں مشورہ کے لئے اپنے نمائندے بھیجیں گی اور وہ اُسے اپنے لئے موجب عزت خیال کریں گے، اُس وقت ان لوگوں کی اولاد کہے گی کہ ہمیں بھی مشورہ میں شریک کر ولیکن کہنے والا انہیں کہے گا کہ جاؤ، تمہارے باپ دادوں نے اس مشورہ کو اپنے وقت میں رڈ کر دیا تھا اور جماعتی کاموں کی اُنہوں نے پرواہ نہیں کی تھی اس لئے تمہیں بھی اب اس مشورہ میں شریک نہیں کیا جاسکتا.پس اس غفلت کو دور کرو اور اپنے اندر یہ احساس پیدا کرو کہ جو شخص سلسلہ کی کسی میٹنگ میں شامل ہوتا ہے اس پر اس قدر انعام ہوتا ہے کہ امریکہ کی کونسل کی ممبری بھی اس کے سامنے بیچ ہے اور اسے سو حرج کر کے بھی اس میٹنگ میں شامل ہونا چاہئے اگر وہ اس میٹنگ میں شامل نہیں ہوتا تو اس کی غیر حاضری کی وجہ سے سلسلہ کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا

Page 619

خطابات شوری جلد سوم ۶۰۳ رت ۱۹۵۶ء لیکن وہ خود الہی انعامات سے محروم ہو جائے گا.جب شوری نہیں تھی تب بھی کام چلتا تھا اور اب شوری بلائی جاتی ہے تب بھی کام چل رہا ہے پس تم حصہ لو یا نہ لو سلسلہ کا کام چلتا رہے گا.ہاں اگر تم اس وقت جماعتی کاموں میں حصہ نہیں لیتے اور انہیں اپنے لئے موجب عزت خیال نہیں کرتے تو تمہاری اولادیں آئندہ انعامات سے محروم ہو جائیں گی لوگ اپنی زندگیوں میں اپنی اولادوں کے لئے ہزاروں ہزار روپیہ کی جائیدادیں بنا جاتے ہیں تا ان کے کام آئیں.تم بھی اگر سلسلہ کے کاموں میں حصہ لیتے رہو گے تو تمہارا ایسا کرنا تمہاری اولاد کے لئے ایک بڑی بھاری جائیداد ثابت ہو گا.ت سلسلہ کا اعزاز یاد رکھو اگر تم میں سے کسی کو سلسلہ کے کسی کام کے لئے مقر کیا جائے تو اُس کا اُس سے بھاگنا سخت غلطی ہے.تم سلسلہ کے کام کی سرانجام دہی میں ہرگز کوتاہی نہ کرو بلکہ اُسے اپنی عزت کا موجب سمجھو.اگر تم سلسلہ کے کاموں کو عزت والا قرار دو گے تو خدا تعالیٰ بھی تمہیں عزت والا بنا دے گا.گواس وقت جماعتوں کے پاس دولت نہیں، اسے دنیا میں کوئی اہمیت حاصل نہیں لیکن تھوڑے عرصہ میں ہی احمدیت دُنیا پر غالب آنے والی ہے اور اس کے آثار خدا تعالیٰ کے فضل سے نظر آ رہے ہیں.بڑے بڑے لوگوں کی توجہ احمدیت کی طرف ہو رہی ہے.یہ بڑے بڑے لوگ جس علاقہ سے بھی آئیں گے وہ احمدیت کو زیادہ معزز سمجھیں گے اور احمدیت کی وجہ سے انہیں اور عزت حاصل ہو گی لیکن جو لوگ سلسلہ کے کاموں میں شریک ہونے کو ذلت اور وقت کا ضیاع سمجھیں گے ان کے علاقہ میں عزت دیر سے آئے گی.اور اگر وہ عزت آگئی تو جن لوگوں نے اپنے وقت میں سلسلہ کی خدمت میں کوتاہی کی ہوگی اُن کی اولادیں اس عزت سے محروم کر دی جائیں گی.پس آئندہ کے لئے احتیاط کرو اور ہمیشہ سلسلہ کے کاموں کو عزت کی نگاہ سے دیکھو.تم میں سے کسی کو سلسلہ کے کسی کام کے لئے مقرر کیا جائے تو وہ سمجھے کہ خدا تعالیٰ نے اُسے بہت بڑے خطاب سے نوازا ہے.“

Page 620

خطابات شوری جلد سوم ۶۰۴ درت ۱۹۵۶ء ربیان کی تیاری اور ان سے مربیان سلسلہ کے سائر اخراجات میں اضافہ کا مسئلہ مشاورت میں زیر بحث آیا.چند ممبران کام لینے کے سلسلہ میں ہدایات نے اس بارہ میں اپنی آراء پیش کیں.اس موقع پر حضور نے حقیقت حال واضح کرتے ہوئے فرمایا : - نمائندگان نے اس وقت جو تقاریر کی ہیں اُن میں زیادہ تر اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ مربیوں کا سفر خرچ کم رکھا گیا ہے اور اشارہ اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ ۳۵ مربی تھوڑے ہیں.نمائندگان کو یا د رکھنا چاہئے کہ جب تک کوئی نو جوان شاہد کلاس پاس نہ کرے اُسے مربی مقرر نہیں کیا جا سکتا.آخر مربیوں کی تعداد کو فوری طور پر بڑھانے کے لئے یہ تو نہیں کیا جاسکتا کہ جو بھی رستہ میں ملے اُسے مربی بنا دیا جائے.جبری فوجی بھرتی میں سینہ اور قد ناپ لیا جاتا ہے اور انسان کو بھرتی کر لیا جاتا ہے لیکن ہم ایسا نہیں کر سکتے.ہمیں مربی بنانے کے لئے دیکھنا پڑتا ہے کہ اُس نے سلسلہ کی تعلیمی درسگاہوں میں مکمل تعلیم حاصل کی یا نہیں.اس وقت جامعتہ المبشرین کی آخری کلاس میں ۱۶ طلباء تعلیم حاصل کر رہے ہیں.جن میں سے آٹھ صدر انجمن احمدیہ نے لے لینے ہیں اور آٹھ تحریک جدید نے لے لینے ہیں.گویا صدر انجمن احمدیہ کو صرف آٹھ شاہد مل سکتے ہیں.پس مربیوں کی تعداد میں فوری طور پر زیادتی ایک ناممکن امر ہے.جب تک نوجوان شاہد کلاس پاس کر کے نہیں نکلتے محض ریزولیوشن پاس کرنے سے کچھ نہیں بن سکتا.اگر صدرانجمن احمد یہ عام لوگوں کو بھرتی کر کے انہیں مربی بنا دے تو پھر آپ کہیں گے کہ وہ شخص تو معمولی آدمیوں سے بھی ہار جاتا ہے، اس کا کیا فائدہ.تحریک وقت زندگی اور والدین کی ذمہ داری پیس مربوں کی تعداد صرف اسی وقت بڑھے گی جب آپ لوگ اپنی اولادوں کو وقف کریں گے اور انہیں یہاں پڑھنے کے لئے بھیجیں گے.اس وقت تعلیم کیلئے آنے والے واقفین کا یہ حال ہے کہ پچھلے سال صرف ایک طالب علم جامعہ احمدیہ میں داخل ہونے کے لئے آیا تھا.اس کے بعد آپ لوگ کس طرح اُمید کر سکتے ہیں کہ مرکز زیادہ سے زیادہ مربی آپ لوگوں کے لئے بھجوا سکے.میں سمجھتا ہوں یہ ناشکری ہوگی کہ میں.

Page 621

خطابات شوری جلد سوم رت ۱۹۵۶ء اس موقع پر تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر اور اساتذہ کا ذکر نہ کروں.یہ لوگ واقف زندگی کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور ہر سال وقف میں طلباء بھجواتے ہیں.پچھلے سالوں میں بھی انہوں نے اس بارہ میں کام کیا ہے اور بڑی تعداد میں طلباء وقف کے لئے بھجواتے رہے ہیں.اس سال بھی اُنہوں نے اس بارہ میں بہت کچھ کیا ہے وہ بالعموم ۲۰.۲۵ طلباء ہر سال وقف کراتے ہیں.اگر اُنہوں نے اپنی کوششوں کو تیز تر کر دیا تو ممکن ہے ہر سال سو ڈیڑھ سو طلباء وقف کے لئے مل جائیں.پھر یہ سوال پیدا ہو گا کہ ان طلباء کو وظیفہ کہاں سے دیا جائے گا کیونکہ دینیات کلاسز میں بالعموم وہی نو جوان آتے ہیں جو دوسرے کالجوں میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتے کیونکہ دوسرے کالجوں کے اخراجات بہت زیادہ ہوتے ہیں اور وہ انہیں برداشت نہیں کر سکتے.اس وقت سلسلہ دس پندرہ طلباء ہر سال لیتا ہے مگر ان کو پڑھانے پر سات سال لگ جاتے ہیں.گویا جو سات آٹھ طلباء اب صدر انجمن کو ملیں گے وہ بھی سات سال کی تعلیم کے بعد ملیں گے.پس آپ اپنے بچوں میں وقف کی تحریک کریں اور ان میں تبلیغ کا احساس پیدا کریں.میرے پاس ایک نوجوان آیا اور اُس نے کہا کہ میں اپنی زندگی وقف کرنا چاہتا ہوں.میں نے اُس سے دریافت کیا کہ تمہیں زندگی وقف کرنے کا خیال کس طرح پیدا ہوا اور یہ بھی دریافت کیا کہ تم کس خاندان سے تعلق رکھتے ہو؟ اُس نے اپنے نانا کا نام لیا اور کہا کیا آپ انہیں جانتے ہیں.میں نے کہا ہاں.اُس نے کہا میں ان کا نواسہ ہوں.میں نے کہا ان کی تو ایک لڑکی قادیان آیا کرتی تھی.اس پر اُس نے کہا کہ وہ میری والدہ تھیں.میرے نانا کو تو احمدیت قبول کرنے کی توفیق نہ ملی مگر میری والدہ احمدی ہوگئی تھیں اور ان میں دین کی خدمت کا جذبہ اس قدر پایا جاتا تھا کہ جونہی میں نے ہوش سنبھالی ، اُنہوں نے میرے کان میں یہ بات ڈالنی شروع کی کہ میں نے تمہیں دین کی خدمت کے لئے وقف کرنا ہے.میں نے بڑے ہو کر تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد مجھے ایک اچھی ملازمت مل گئی لیکن جب کبھی مجھے اپنی والدہ کا خیال آتا اُن کی وہ بات یاد آ جاتی کہ میں نے تمہیں دین کی خدمت کے لئے وقف کرنا ہے چنانچہ اب میں نے ارادہ کر لیا ہے کہ میں اپنی والدہ کی خواہش کو پورا کروں گا.میں نے اپنے باپ سے بھی اس بات کا ذکر کیا ہے.اُنہوں نے بھی کہا ہے کہ تم

Page 622

خطابات شوری جلد سوم رت ۱۹۵۶ء بے شک زندگی وقف کرو، یہ اچھی بات ہے.اب آپ لوگ دیکھیں کہ ماں کی بچپن سے کان میں ڈالی ہوئی بات اس نوجوان کو یا د رہ گئی.اگر دوسرے دوست بھی اپنے بچوں کے کانوں میں پچپن سے ہی دین کی باتیں ڈالتے رہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اپنی زندگیاں وقف نہ کریں.اسی طرح مجھے کراچی سے ایک اور نوجوان نے لکھا کہ میں نے وقف کیا کرنا ہے پچپن سے ہی میرے کانوں میں یہ بات ڈالی جاتی رہی ہے کہ تم نے بڑا عہدہ حاصل کرنا ہے.اب میں بچپن سے ہی کان میں پڑی ہوئی بات کس طرح چھوڑ دوں.پس یہ ضروری امر ہے کہ ماں باپ اپنی اولادوں کے کانوں میں یہ بات ڈالتے رہیں کہ سب سے بڑا عہدہ یہی ہے کہ دین کی خدمت کی جائے.اس وقت تک یہ دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ کھاتے پیتے ہیں، اُن میں سے ہر ایک یہی چاہتا ہے کہ اس کی اولا د دُنیا کی تعلیم حاصل کرے.اگر سو ڈیڑھ سولڑ کا ہر سال زندگی وقف کرے تو ہم بڑی آسانی سے ہر سال مربیوں کی تعداد بڑھا سکتے ہیں اور اس طرح یہ سوال بڑی آسانی سے حل ہو جائے گا کہ مربیوں کی تعداد سو ڈیڑھ سو تک بڑھا دی جائے.بہر حال مربیوں کی تعداد بڑھانے کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے پاس نو جوان آئیں جو اپنی زندگی دین کے لئے وقف کریں ور نہ یونہی تقریریں کرنے سے ان کی تعداد نہیں بڑھ سکتی.پس اگر آپ کا یہ مطالبہ کہ مربیوں کی تعدادہ ۷ تک بڑھا دی جائے صدر انجمن احمد یہ مان بھی لے تب بھی کچھ نہیں ہو گا.وہ آپ کو ۷۰ چپڑاسی دے دیں گے، مبلغ ان کے پاس موجود نہیں.اس وقت ان کے پاس صرف ۸ نو جوان ہیں جو شاہد کلاس میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور اُن آٹھ نو جوانوں کو ہی شاہد کلاس پڑھنے کے بعد مربی کے کام پر لگا سکتے ہیں.میرے نزدیک ایک ضروری بات یہ ہے کہ مربیوں کا سائر خرچ بڑھایا جائے تا کہ وہ تربیت وغیرہ کا کام وسیع پیمانہ پر کر سکیں.میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے مخالف علماء کا ایک ایک آدمی بعض دفعہ چار چار پانچ پانچ سو میل تک چلا جاتا ہے اور ہر جگہ تقریریں کرتا پھرتا ہے لیکن ہمارا مربی جب کسی جگہ جاتا ہے تو وہیں بیٹھ جاتا ہے کیونکہ اُس کے سفر کے لئے اخراجات مہیا نہیں کئے جاتے.رامہ صاحب نے کہا ہے کہ انسپکٹروں کو چونکہ ایک جگہ پر قیام نہیں کرنا پڑتا بلکہ انہیں ہر وقت سفر میں رہنا پڑتا ہے، اس لئے ان کا سائر خرچ زیادہ

Page 623

خطابات شوری جلد سوم ۶۰۷ رت ۱۹۵۶ء رکھا گیا ہے اور مربیوں کے پاس اتنا کام نہیں ہوتا اس لئے ان کے سائر اخراجات کم رکھے گئے ہیں مگر یہ بات درست نہیں.حقیقت یہ ہے کہ مربیوں سے صحیح رنگ میں کام نہیں لیا جا تا.اگر ان کے سائر اخراجات کے لئے کافی روپیہ رکھا جائے تو ایک ایک مربی لاکھوں افراد تک سلسلہ کا پیغام پہنچا سکتا ہے.مگر اب چونکہ بجٹ بن چکا ہے اس لئے اور تو کچھ نہیں کیا جا سکتا صرف اتنا مدنظر رکھا جائے کہ موجودہ بجٹ کے اندر اندر مربیوں کو اتنے اخراجات مہیا کئے جائیں کہ وہ سارا سال دورہ کر سکیں اور آئندہ ہر سال ایک طرف تو مربیوں کی تعداد بڑھائی جائے اور دوسری طرف ان کے سائر اخراجات میں زیادتی کی جائے تاکہ ہر جگہ سلسلہ کی آواز پہنچ جائے.جہاں تک مربیوں کی تعداد کا سوال ہے وہ فوری طور پر نہیں بڑھائی جا سکتی.اس وقت صدر انجمن احمدیہ کے پاس صرف آٹھ شاہد امیدوار ہیں.جنہیں مربی مقرر کیا جا سکتا ہے اور پھر ممکن ہے کہ ان آٹھ میں سے بھی کوئی فیل ہ جائے اور اس طرح یہ تعداد اور بھی کم ہو جائے.بہرحال اس مشکل کا علاج یہی ہے کہ ہماری جماعت کے نوجوان اپنی زندگیاں وقف کریں تا کہ ہمیں اتنے شاہدین مل سکیں کہ اپنے ملک میں بھی اور دوسرے ممالک میں بھی کام کرنے کے لئے ۸۰،۸۰،۷۰،۷۰ مربی ہو میسر آسکیں.اصل بات یہ ہے کہ ہمارے پاس اس وقت جس قدر مربی موجود ہیں اگر انہی سے صحیح طور پر کام لیا جائے تو ہمارا کام بہت کچھ ترقی کر سکتا ہے کیونکہ چندہ کی زیادتی کا تمام تر مدار مربیوں پر ہی ہوتا ہے اگر صدر انجمن احمدیہ کا بجٹ ۲۵ لاکھ تک پہنچ جائے تو مربیوں کے لئے پانچ لاکھ کی رقم بھی رکھی جاسکتی ہے اور اگر ہم سو ڈیڑھ سو مربی رکھیں تو پاکستان کے ہر ضلع میں تین تین مربی رکھے جا سکتے ہیں جو ہر سال ضلع کا دورہ کریں.اس وقت در حقیقت کوئی کام نہیں ہو رہا کیونکہ اس وقت جو ۳۵ مربی موجود ہیں ان سے بھی نظارت رُشد و اصلاح صحیح طور پر کوئی کام نہیں لے رہی.انہیں ایک جگہ پر ناکارہ کر کے بٹھا دیا گیا ہے اور اُن سے کوئی کام نہیں لیا جا رہا اگر وہ مربیوں سے کام لے تو جماعت کی ترقی کی رفتار بڑی تیزی سے بڑھ سکتی ہے مگر اس کے لئے پھر بجٹ کا سوال آ جاتا ہے.اگر اس وقت مربیوں کے سائر اخراجات کو بڑھانے کی ہدایت کی گئی تو صدر انجمن احمد یہ کے لئے مشکلات پیدا.

Page 624

خطابات شوری جلد سوم ۶۰۸ درت ۱۹۵۶ء ہو جائیں گی اس لئے میرے نزدیک مناسب یہی ہے کہ صدر انجمن احمدیہ کو اُصولی رنگ میں یہ ہدایت دے دی جائے کہ جہاں تک ممکن ہو سکے وہ مربیوں کی تعداد اور ان کے اخراجات کو بڑھانے کی کوشش کرے اور آئندہ ہر سال ان کی تعداد اور سائر اخراجات میں اضافہ کرتی چلی جائے اور اتنے سائر اخراجات ان کے لئے مہیا کر دے کہ وہ سال بھر دورے کرتے رہیں اور اگر وہ کسی جگہ بیٹھیں تو سائر اخراجات کی کمی کا بہانہ کرنے کی ان کے لئے گنجائش نہ ہو.بہر حال صحیح طور پر کام کرنے کے لئے مربیوں کو سارا سال دورہ کرتے رہنا چاہئے تا کہ ایک مربی ایک ماہ میں کراچی سے پشاور تک کے علاقہ میں تقریریں وغیرہ کر سکے.اگر ایسا کیا جائے تو سائر اخراجات میں بہر حال زیادتی کرنی پڑے گی.مثلاً پشاور سے کراچی جاتے ہوئے تھرڈ کلاس میں بھی سفر کیا جائے تو قریباً سو روپیہ خرچ ہو جاتا ہے.اب اگر ۳۵ مربی ہوں تو سفر کے لئے ۳۵۰۰ روپیہ درکار ہوگا.اور اگر ان کی تعدادہ ۷ کر دی جائے تو سات ہزار روپیہ صرف ایک سفر کے لئے درکار ہو گا اور ہر سال بھر کے اخراجات کے لئے ۸۴ ہزار روپیہ کی ضرورت ہوگی.بہر حال ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم مربیوں سے کام لیں ورنہ ایک جگہ پر بیکار بٹھا دینا ایسا ہی ہوگا جیسے گھوڑے کو کیلے پر باندھ دیا جائے.پس اگر مربیوں کی تعداد بڑھی نہیں تو اس میں صدر انجمن احمدیہ کا کوئی قصور نہیں.قصور جماعت کا ہے کیونکہ وہ جامعتہ المبشرین میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے واقف زندگی نوجوان نہیں بھجواتی.صدر انجمن احمد یہ اس سال صرف آٹھ مربی اور رکھ سکتی ہے اس سے زیادہ نہیں اور ان کے لئے بھی ضروری ہے کہ مربیوں کے اخراجات سفر اس قدر بڑھائے جائیں کہ وہ بیکار نہ بیٹھ سکیں.اسی طرح جماعتوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے ہاں مختلف پارٹیوں پر لوگوں کو بلا کر مربیوں سے تقریریں کرایا کریں، اس سے بہت فائدہ ہوگا.جلسہ کرانے پر تو بہت خرچ آ جاتا ہے لیکن اس قسم کی پارٹیوں پر بعض دفعہ دو آنہ فی کس میں بھی گزارہ ہو جاتا ہے.ہیمبرگ جرمنی میں میں نے دیکھا ہے کہ وہاں پارٹیوں میں بہت سادگی برتی جاتی ہے مثلاً چائے کے ساتھ صرف سادہ بسکٹ رکھ دیئے جاتے ہیں بلکہ ایک دعوت کے موقع پر تو بسکٹ صرف ایک تھالی میں تھے اور وہ بھی صرف میرے آگے.میرے کہنے پر

Page 625

خطابات شوری جلد سوم ۶۰۹ درت ۱۹۵۶ء وہ تھالی دوسرے دوستوں کے آگے رکھ دی گئی لیکن مجھے یاد ہے کہ ان میں سے کوئی بسکٹ بھی کھایا نہیں گیا.وہاں سوشل تقریب کے موقع پر پیسٹری وغیرہ کا کوئی رواج نہیں بلکہ وہاں ایسے مواقع پر بہت معمولی چیزیں میزوں پر چھنی جاتی ہیں جن میں اخراجات بہت تھوڑے آتے ہیں.اسی طرح آپ لوگ بھی کریں کہ چند دوستوں کو چائے پر بلا لیا اور پھر اس موقع پر مبلغ سے مختلف سوالات شروع کر دیئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں میاں معراج الدین صاحب مرحوم کی یہ عادت تھی کہ وہ مجلس میں آکر خود ہی سوالات شروع کر دیتے اور کہتے حضور لوگ ایک سوال یہ کرتے ہیں، اس کا کیا جواب ہے؟ اور پھر جب آپ جواب دے دیتے تو ایک اور سوال کر دیتے.اسی طرح بعض اوقات دو دو چار چار گھنٹہ تک سوالات و جوابات کا سلسلہ جاری رہتا اور باہر سے آنے والے لوگ بڑے خوش واپس جاتے.میاں معراج الدین صاحب مرحوم کا یہ طریق تھا کہ وہ باہر سے آنے والوں سے پوچھتے رہتے تھے کہ مخالف کیا کیا اعتراض کرتے ہیں اور اگر کوئی نیا اعتراض مل جاتا تو وہ مجلس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں پیش کر دیتے تا کہ دوسرے لوگ بھی آپ کے جواب سے مستفید ہوں.اب یہ دیکھ کر افسوس آتا ہے کہ اس قسم کے لوگ موجود نہیں.لوگ مجلس میں آتے ہیں اور خاموش بیٹھے رہتے ہیں.پس تم یہ طریق اختیار کرو اور اس سے فائدہ اُٹھا کر لوگوں کو سلسلہ سے روشناس کرنے کی کوشش کرو.اس قسم کی دعوتوں میں زیادہ تکلیف کی ضرورت نہیں ہوتی.چائے کی ایک پیالی آگے رکھ دی اور دیسی بسکٹ جو بالعموم تنوروں پر بکتے ہیں خرید کر ایک ایک دو دو بسکٹ ہر ایک کے آگے رکھ دیئے.اس طرح چالیس دوست بھی ایک موقع پر بلائے جائیں تو روپیہ دو روپیہ سے زیادہ خرچ نہیں ہوگا.دوسرے دن چالیس آدمی اور بلا لئے اس طرح تبلیغ کا کام وسیع کیا جا سکتا ہے.صدر انجمن احمد یہ کو چاہئے کہ اگر مزید مربی نہیں مل سکتے تو جو مربی موجود ہیں انہی سے کام لیا جائے اور انہیں فارغ بیٹھنے نہ دیا جائے.مربیوں کی تعداد فوری طور پر ۳۵ سے ۷۰ کر دینے کے یہ معنے ہیں کہ چپڑاسی بھرتی کر لئے جائیں.اسی طرح مربیوں کو کافی لٹریچر دو اور ان کا سفر خرچ بھی زیادہ رکھو تا کہ وہ زیادہ سے زیادہ

Page 626

خطابات شوری جلد سوم ۶۱۰ ت ۱۹۵۶ء جگہوں پر جاسکیں.لٹریچر کے بارہ میں بھی جب تک ہماری جماعت کوئی اصلاحی قدم نہیں اُٹھائے گی اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا.جس قدر لٹریچر ہم اس وقت شائع کرتے ہیں بہائی لوگ اس کا پچاسواں حصہ بھی شائع نہیں کرتے لیکن پھر بھی وہ اپنے کام کو وسیع کر رہے ہیں.حال ہی میں ایک پارسی بہائی ہوا ہے جس نے ایک لاکھ روپیہ اشاعتِ بہائیت کے لئے دیا ہے.وہ لوگ لٹریچر قیمتاً دیتے ہیں لیکن ہمارے ہاں لٹریچر مفت تقسیم کے لئے لیا جاتا ہے اور پھر ایک آدمی یہ لٹریچر ہاتھ میں لے کر بازار میں کھڑا ہو جاتا ہے اور پاس سے گزرنے والے ہر شخص کے ہاتھ میں دیتا چلا جاتا ہے چاہے وہ چو ہڑا اور چمار ہی کیوں نہ ہو اور اس بات کا خیال نہیں رکھا جاتا کہ جسے لٹریچر دیا جاتا ہے وہ پڑھنا جانتا ہے یا نہیں بھلا اس قسم کی تقسیم کا کیا فائدہ.بہائیوں کے ہاں لٹریچر کی تقسیم کے متعلق یہ تاکید ہوتی ہے کہ کسی کو مفت نہ دو بلکہ اسے فروخت کرو.چاہے چار آنہ کی چیز ایک آنہ میں ہی دے دو لیکن دو قیمتا.اس طرح لٹریچر لینے والے کو یہ خیال رہتا ہے کہ اس نے قیمتاً چیز خریدی ہے اسے پڑھے بھی.کراچی میں مجھے ایک بڑے افسر ملے جو ایک بڑے خاندان کے فرد ہیں اُنہوں نے بتایا کہ میں خود احمدی ہوں لیکن میری بیوی احمدی نہیں اس کے لئے لٹریچر گھر لے جا رہا ہوں.دعا کریں کہ خدا تعالیٰ اسے احمدیت قبول کرنے کی توفیق دیدے.تین چار دن کے بعد خط آیا کہ وہ بھی احمدی ہو گئی ہے.اسی طرح ایک اور تھے اُنہوں نے بتایا کہ ان کی بیوی کہتی ہے کہ آپ جماعت کا لٹریچر گھر لایا کریں اردو کا بھی اور انگریزی کا بھی.انگریزی کا آپ پڑھیں اور اُردو کا میں پڑھوں گی.پھر ان کی بیوی مجھے ملنے آئیں تو انہوں نے چار سو روپیہ پیش کیا اور کہا میں نے عہد کیا تھا کہ میرا بیٹا ملازم ہوگا تو چارسو روپیہ اشاعت اسلام کے لئے دوں گی ، سو یہ روپیہ حاضر ہے.پس جو لوگ لٹریچر کے لئے تھوڑی بہت رقم خرچ کرتے ہیں وہ تو اُسے پڑھ لیتے ہیں لیکن مفت لینے والوں میں سے زیادہ تر ایسے ہوتے ہیں جو اسے پڑھتے نہیں.پس لٹریچر کی اشاعت کے لئے بھی ہمارے پاس کافی روپیہ ہونا چاہئے.انڈونیشیا کے ایک مشہور لیڈر کے متعلق مجھے بتایا گیا کہ اُنہوں نے ہمارے مبلغ سے ذکر کیا کہ آپ کی جماعت کا لٹریچر

Page 627

خطابات شوری جلد سوم ۶۱۱ اورت ۱۹۵۶ء - میرے پاس ہے اور میں اسے پڑھتا رہتا ہوں جس کی وجہ سے آپ لوگوں کے خیالات سے واقف ہوں.اسی طرح ایسٹ بنگال کے ایک عالم ہمارے ایک دوست سے ملے تو اُنہوں نے کہا کہ میں پرانی طرز کا عالم نہیں بلکہ میں آپ کی جماعت کا لٹریچر بھی پڑھتا رہتا ہوں اگر آپ میرے گھر چلیں تو میں آپ کو سارا لٹریچر دکھا دوں.پس لوگ لٹریچر پڑھتے ہیں لیکن عام قاعدہ یہ ہے کہ جو لٹریچر مفت دیا جاتا ہے اُسے بہت کم لوگ پڑھتے ہیں اور جو لٹریچر خرید کر لیا جاتا ہے اُسے لوگ پڑھتے ہیں پس اگر لٹریچر مفت تقسیم کرنے کی بجائے فروخت کیا جائے ، چاہے اس کی قیمت بہت معمولی رکھی جائے تو اس سے بہت زیادہ فائدہ ہوتا ہے.پس اس سال صدر انجمن احمد یہ کولٹریچر کی اشاعت اور مربیوں کے سائر اخراجات میں زیادتی کرنے کے متعلق صرف مشورہ دیا جاتا ہے.اگلے سال ہم دیکھیں گے کہ اُس نے ہمارے مشورہ پر کس حد تک عمل کیا ہے.اگر اس نے ہمارے مشورہ پر عمل نہ کیا تو ہم سمجھیں گے کہ اُس نے ہمارے مشورہ کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہے اور اگر عمل کریں ہم سمجھیں گے کہ ہمارے یہاں آنے کا کچھ فائدہ ہوا ہے.تو ہم پس اس وقت بجائے کوئی نئی تجویز پیش کرنے کے مربیوں کی تعداد اور سائر اخراجات کے بارہ میں صدر انجمن احمدیہ کو صرف یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ مربیوں کی تعداد جس قدر بڑھا سکتی ہے اسے بڑھانے کی کوشش کرے اور پھر ان کا سائر بھی اس قدر بڑھائے کہ نہ صرف وہ بیکار نہ رہیں بلکہ ان کے پاس لٹریچر بھی کافی مقدار میں ہو.“ رپورٹ دورہ جات ناظر صاحبان ناظران کے دورہ جات کی رپورٹ پیش ہونے پر حضور نے فرمایا:.اس وقت دورہ کے متعلق جو رپورٹ پیش کی گئی ہے میرے نزدیک یہ غیر تسلی بخش ہے.دورہ کی غرض یہ ہوتی ہے کہ جماعت کے حالات سے واقفیت حاصل ہو جائے لیکن اگر ناظر صاحب رُشد و اصلاح چک چھور، بہوڑ و چک، کرتار پور، گھسیٹ پور اور رام دیوالی وغیرہ چلے جاتے ہیں تو انہیں جماعت کے حالات سے کیا واقفیت حاصل ہو گی.پھر

Page 628

خطابات شوری جلد سوم ۶۱۲ درت ۱۹۵۶ء رپورٹ کا ہر فقرہ لاہور پر ختم ہوتا ہے.لاہور بے شک مرکزی مقام ہے اور اُسے بڑی اہمیت حاصل ہے لیکن جس جگہ ناظر صاحب کے اپنے رشتہ دار ہوں وہاں بار بار دورہ کرنے کے سوائے اس کے کیا معنے ہو سکتے ہیں کہ وہ اپنے رشتہ داروں سے ملنا چاہتے تھے.دورے تبھی مفید ہو سکتے ہیں جب حکومت کے افسروں کی طرح ان کا پروگرام بنایا جائے اور پہلے سے ان کا وقت مقرر کر کے جماعت متعلقہ کو اطلاع دے دی جائے تا کہ وہ اردگرد کی پچاس ساٹھ جماعتوں کے لوگوں کو وہاں بلا لے اور پھر وہاں کانفرنس کی جائے ورنہ جس قسم کے دورے سال کے دوران میں کئے گئے ہیں انہیں ہرگز دورہ نہیں کہا جا سکتا.دورہ اِس چیز کا نام ہے کہ کسی جماعت میں اردگرد کے پچاس ساٹھ میل تک کے رہنے والے احمدیوں کو اکٹھا کیا جائے اور ان سے جماعتی امور پر تبادلہ خیالات کیا جائے اور پھر جومشورہ طے پائے اُس پر عمل کیا جائے.پھر میں نے یہ ہدایت بھی دی تھی کہ ناظر صرف اپنے صیغہ کا ہی خیال نہ رکھے بلکہ جب دورہ پر جائے تو صدر انجمن احمدیہ کے ہر ناظر سے ہدایات لے کر جائے اور جو دقتیں اُنہیں پیش ہوں اُن کو دور کرے.مثلاً اگر بعض جماعتوں میں جھگڑے طے نہ ہو رہے ہوں یا تعلیم کا اچھا انتظام نہ ہو تو چاہے دورہ کرنے والے ناظر کا ان امور سے کوئی تعلق نہ ہو.اُس کا فرض ہے کہ وہ ان امور کو بھی اپنے پروگرام میں شامل کرے.بہر حال اس چیز کا نام دورہ نہیں کہ کوئی ناظر چک چھور یا بہوڑ و چک وغیرہ چلا جائے یا لا ہور جہاں ناظر کے رشتہ دار اور دوست موجود ہوں وہاں بار بار جائے دورہ کی تعریف وہی ہے جو میں نے کی ہے اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے.اب ڈاکٹر مجھے واپس جانے پر مجبور کر رہے ہیں اس لئے میں اب جاتا ہوں.66 چوہدری ظفر اللہ خان صاحب شوریٰ کا کام کرائیں گے.“

Page 629

خطابات شوری جلد سوم ۶۱۳ رت ۱۹۵۶ء تیسرا دن احمدی زمیندار محنت اور دعاؤں مجلس مشاورت کے تیسرے دن ۳۱ مارچ ۱۹۵۶ء صبح کے اجلاس میں زراعت کمیٹی کی رپورٹ پیش سے کام لیکر پیداوار بڑھائیں ہوئی تو حضور نے فرمایا: ” اس وقت زراعت کمیٹی کی رپورٹ پیش ہو رہی ہے اور زمیندارہ کام سخت مشکل ہے کیونکہ زمیندار دوسرے کی بات ماننے کا عادی نہیں ہوتا.میں نے ایک دفعہ قادیان میں ایک خطبہ پڑھا جس میں میں نے تاجروں کو کسی امر کی طرف توجہ دلائی اور کہا کہ تم لوگ بعض غلطیاں کرتے ہوا اگر تم یہ نہ کرو تو تمہارے کا روبار میں ترقی ہو سکتی ہے.اس کے بعد مجھے ایک تاجر ملے تو میں نے ان سے کہا آپ سچ سچ بتا ئیں آپ کے چہرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ خطبہ کی وجہ سے آپ نے یہ تاثر لیا ہے کہ تاجر تو میں ہوں اور یہ ہدایات مجھے خلیفہ ایح دے رہے ہیں جو تاجر نہیں.اس پر وہ ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ آپ کی بات ٹھیک ہے میں اس وقت یہی سوچ رہا تھا کہ تاجر تو میں ہوں اور نصیحت مجھے یہ کر رہے ہیں.میں نے کہا دیکھنا یہ چاہئے کہ جو بات کہی جا رہی ہے وہ معقول ہے یا نہیں.زمینداروں کی بھی یہی حالت ہے ہمارا زمیندار ابھی تک لکیر کا فقیر چلا آتا ہے اور وہ بار بار توجہ دلانے کے باوجود کبھی توجہ نہیں کرتا.گورنمنٹ سالہا سال سے بیج اور کھاد کے متعلق شور مچا رہی ہے مگر یہ ہے کہ پرانے ڈگر پر چلتا چلا جاتا ہے کھا د ابھی تک جلائی جاتی ہے اور بیج کا یہ حال ہے کہ ہم سالہا سال سے بیچ مزارعوں کو خرید کر دیتے ہیں لیکن وہ گھروں میں کھا جاتے ہیں اور رڈی بیج بو دیتے ہیں.ان کی مثال بالکل ویسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی سرد مقام کا آدمی تھا وہ دھوپ میں کھڑا تھا اُس کے پاس سے ایک اور شخص گزرا اور اُس نے کہا میاں تم دھوپ میں کیوں کھڑے ہو، سایہ میں بیٹھ جاؤ.اُس نے ہاتھ پھیلا کر کہا میں سایہ میں بیٹھ جاؤں تو آپ مجھے کیا دیں گے؟ یہی حال زمینداروں کا ہے.تم بے شک ان کے فائدہ کی بات کرو مگر وہ اس کی طرف توجہ نہیں کریں گے وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے باپ دادے جس طرح شروع سے کرتے آئے ہیں اُسی طرح ہم بھی کریں گے اور یہ خیال نہیں کرتے کہ اب

Page 630

خطابات شوری جلد سوم ۶۱۴ ت ۱۹۵۶ء دوسرے ملک ہم سے کس قدر آگے بڑھ گئے ہیں.بہر حال زمینداروں کی اصلاح بہت مشکل امر ہے اور یہ صرف دعاؤں سے ہی ہو گی.آپ لوگ دعائیں کریں کہ خدا تعالیٰ ہمارے زمینداروں کے دلوں کو بدل دے تا کہ وہ صحیح طور پر اپنے کام کی طرف توجہ کریں.ابھی تک وہ اپنے قیمتی وقت کو ضائع کرتے ہیں.وقت پر اور صحیح طور پر ہل نہیں چلاتے اور نہ وقت پر پانی دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انکی طرف توجہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں.میری عمر اس وقت ۶۷ سال کی ہو رہی ہے اور میرا عمر بھر کا یہ تجربہ ہے کہ مسلمان زمیندار وقت پر ہل نہیں چلاتے.قادیان میں ہمارے ارد گر دسکھ زمیندار تھے.میں نے دیکھا کہ وہ تہجد کے وقت ہل چلاتے تھے اور اس کا نتیجہ یہ تھا کہ اُن کی فصلیں مسلمان زمینداروں کی فصلوں سے بہت اچھی ہوتی تھیں.مسلمانوں کو یہ غصہ تھا کہ زمیندارہ پرس رسکھوں نے قبضہ کر لیا ہے لیکن میں اُنہیں بھی کہتا تھا کہ وہ قبضہ کیوں نہ کریں وہ محنت کرتے ہیں اور تم محنت نہیں کرتے.جو محنت نہیں کرتا وہ کاٹے گا کیا.بہر حال میرا یہ تجربہ ہے کہ سکھوں کی فصلیں اچھی ہوتی ہیں اور ان کے مقابلہ میں مسلمانوں کی فصلیں رڈی ہوتی تھیں.میں جب بھی کسی کی فصل دیکھتا تھا تو حیران ہوتا تھا کہ مسلمانوں کو کیا ہو گیا ہے.ایک دفعہ میں نے سندھ میں زمینداروں کو بڑا اچھا بیج مہیا کر کے دیا لیکن فصل میں پھر بھی کئی اور چیزیں اُگ آئیں.میں نے جب دریافت کیا تو مجھے بتایا گیا وہ تو مزارع کھا گئے ہیں اور اس کی بجائے رڈی بیج انہوں نے بو دیا ہے جس کی وجہ سے فصل میں اور کئی چیز میں اُگ آئی ہیں.پس دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے زمینداروں کو عقل دے اور وہ اپنے فائدہ کے لئے ہی محنت سے کام لیں.اس سے دُہرا فائدہ ہوگا یعنی نہ صرف زمینداروں کی آمد پہلے کی نسبت بڑھ جائے گی بلکہ جماعت کا بجٹ بھی بڑھ جائے گا اور تبلیغ کا کام زیادہ وسیع کیا جا سکے گا.اگر احمدی زمیندار محنت کریں تو ہمارا بجٹ تین گنا ہو سکتا ہے لیکن مصیبت یہی ہے کہ وہ صحیح طور پر کام نہیں کرتے.سیالکوٹ کے ایک دوست غلام حسن صاحب ہیں ان کے بیٹے مولوی نذیر احمد صاحب مبشر گولڈ کوسٹ مشن کے انچارج ہیں اور ایک بھتیجا امریکہ میں مبلغ ہے وہ ایک دفعہ قادیان آئے انہوں نے کہا حضور دعا کریں میں نے اس دفعہ سات ایکڑ زمین گیارہ ہزار سالانہ کے ٹھیکہ پر لی ہے.میں یہ سُن کر حیران ہو گیا کہ سات ایکڑ

Page 631

خطابات شوری جلد سوم ۶۱۵ رت ۱۹۵۶ء اور گیارہ ہزار روپیہ زرٹھیکہ.میں نے کہا آپ تو بہت ہوشیار تھے پھر آپ نے یہ بیوقوفی کا کام کیوں کیا ہے.آپ تو مارے گئے ، اس قدر رقم پوری کیسے ہوگی کیونکہ سات ایکڑ کے لحاظ سے گیارہ ہزار روپے کی رقم بہت زیادہ ہے.اُنہوں نے کہا حضور! فکر کی کوئی بات نہیں.یہ زمین شہر کے پاس ہے.اس میں ہم پونڈا سے کماد بوئیں گے اور اس سے بہت زیادہ آمد ہوگی.اس طرح نہ صرف ہم زر ٹھیکہ ادا کر سکیں گے بلکہ اپنے لئے بھی کچھ نہ کچھ بچا سکیں گے ، بہر حال یہ سودا خسارہ والا نہیں.اسی طرح ایک دفعہ مجھے ڈائریکٹر زراعت ڈلہوزی میں ملے.ملاقات کے وقت پیداوار کا حساب ہونے لگا.اُنہوں نے بتایا کہ زمیندار بہت ہوشیار ہوتے ہیں مجھے دو مربعے ملے تھے اور میں سمجھتا تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ اڑھائی ہزار روپیہ ٹھیکہ پر چڑھ سکیں گے لیکن میرے پاس ایک زمیندار آیا اور اُس نے کہا مجھے اپنے مربعے ٹھیکہ پر دے دیں.میں نے وہ دونوں مربعے اُسے ٹھیکہ پر دے دیئے اور اُس نے اس کے عوض سات ہزار روپے پیش کئے.میں نے سمجھا کہ میں نے اسے لوٹ لیا ہے لیکن کچھ دنوں کے بعد وہ زمیندار مجھے مقاطعہ کے دینے کے لئے آیا.میں نے اس سے دریافت کیا کہ تمہیں کچھ زیادہ نقصان تو نہیں ہوا؟ اُس نے کہا نقصان، میں نے تو اٹھارہ ہزار روپیہ کمایا ہے.سات ہزار روپیہ آپ کو دے رہا ہوں اور باقی گیارہ ہزار روپیہ بنک میں جمع کرا رہا ہوں اور ابھی ایک فصل باقی ہے.پھر اُس نے کہا اصل بات یہ ہے کہ آپ کی زمین کے پاس گورنمنٹ کے دس مربع زمین تھی.اُس کو پانچ روپیہ فی ایکڑ کے حساب سے بھی کوئی نہیں لیتا تھا.ہم دونوں بھائی ہوشیار ہیں ہم نے اندازہ لگایا کہ آپ والے دونوں مربعے اچھے ہیں ان سے فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے چنانچہ ہم نے سات ہزار روپیہ آپ کو پیش کیا اور چھ سو روپیہ پر گورنمنٹ والے دس مربعے ٹھیکہ پر لئے.ہم نے سمجھا کہ ان دس مربعوں کا پانی آپ والے مربعوں کو دیں گے اور ان میں گنا بوئیں گے چنانچہ ان دس مربعوں کا پانی آپ والے دونوں مربعوں کو ملا تو گنا کی نہایت شاندار فصل ہوئی اور اب نہ صرف آپ کو زرٹھیکہ تمام کا تمام ادا کر دیا گیا ہے بلکہ گیارہ ہزار روپیہ کی رقم ہم نے بنک میں بھی جمع کرا دی ہے اور ابھی ایک فصل باقی ہے.پس ہوشیار زمیندار کافی آمد پیدا کر سکتے ہیں.

Page 632

خطابات شوری جلد سوم ۶۱۶ مجلس مشاورت ۱۹۵۶ء صحابہ کو دیکھ لو اُنہوں نے مدینہ کی زمین کو ایسا آبا د کیا کہ اس کی کھجور سارے عرب میں جاتی تھی.دو دو چار چار کنال کے ٹکڑے ان کے پاس تھے لیکن وہ ان سے بہت زیادہ آمد پیدا کرتے تھے.میں ایک دفعہ پھیر و پیچی گیا وہاں ایک احمدی دوست تھے جو اب سندھ میں میری زمینوں پر ناصر آباد میں رہتے ہیں.وہ میرے استقبال کے لئے آئے اُن دنوں وہ مقروض رہتے تھے اگر چہ وہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں لیکن پھر بھی وہ مولوی کہلاتے ہیں اور تبلیغ کا اُنہیں بہت شوق ہے.اسی شوق کی وجہ سے ان کا نام مولوی پڑ گیا.رحمت علی اُن کا نام ہے.میں نے کہا مولوی صاحب آپ ہمیشہ مقروض رہتے ہیں کیا آپ کی زمین کم ہے یا اس کی کوئی اور وجہ ہے؟ اس پر وہ نہایت سادگی سے کہنے لگے حضور ! زمین تو بہت ہے.دو کنال میرے باپ کی زمین تھی اور چار کنال میں نے گرو لے لی ہے، کچھ اللہ کی مار ہی ہے.ان کا کنبہ کافی بڑا تھا.چار پانچ لڑکیاں تھیں اور تین لڑکے تھے اور تین بچے پڑھتے تھے ان کا ایک لڑکا اُن دنوں قادیان میں پڑھتا تھا جو بعد میں ناصر آباد میں غلطی سے بندوق چل جانے کی وجہ سے شہید ہو گیا اور پھر خود میاں بیوی بھی تھے لیکن وہ سمجھتے تھے کہ چھ کنال زمین بہت زیادہ ہے اور اس میں کافی آمد پیدا ہو سکتی ہے اور اگر اس کے باوجود میں مقروض ہوں تو اس میں زمین کا کوئی قصور نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی مخفی گناہ کی سزا ہے.اب دیکھ لو ان کے پاس صرف چھ کنال زمین تھی پھر بھی وہ زیادہ آمد نہ ہونے کی وجہ اللہ تعالیٰ کی مار سمجھتے تھے لیکن دوسرے زمیندار جن کے پاس پندرہ پندرہ ایکڑ زمین ہے یعنی مولوی رحمت علی صاحب کی زمین سے ہیں گنے زیادہ ان پر با وجود اس قدر زمین کے اللہ تعالیٰ کی مار پڑ رہی ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ اس زمین کو صحیح طور پر استعمال نہیں کرتے.پس دوست دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے زمینداروں کو صحیح طور پر محنت کرنے کی توفیق عطا فرمائے.وہ جو کچھ کمائی کرتے ہیں اس میں اللہ تعالیٰ کا بھی حصہ ہوتا ہے اگر اللہ تعالیٰ ان کی کمائی میں برکت دے تو سلسلہ کی آمد بڑھ سکتی ہے.اس وقت تحریک جدید کے پاس دس ہزار ایکڑ زمین ہے.اگر وہ سرگودھا کی زمین

Page 633

خطابات شوری جلد سوم ۶۱۷ رت ۱۹۵۶ء کے مقابلہ میں رڈی سے روی زمین بھی شمار کر لی جائے تب بھی اس زمین کی آمد چار لاکھ روپیہ سے زیادہ ہونی چاہئے لیکن اس سال بجٹ میں صرف ڈیڑھ لاکھ روپیہ آمد دکھائی گئی ہے.پچھلے سال فصل خراب ہو گئی تھی تب بھی دو لاکھ روپیہ آمد ہوئی لیکن اس سال پہلے ہی اندازہ لگا لیا گیا ہے کہ تباہی آجائے گی اور اس کا فصل پر اس قدر اثر پڑے گا کہ پچھلے سالوں سے بھی کم آمد ہو گی حالانکہ اس سال تین چار لاکھ روپیہ آمد کا اندازہ ہونا چاہئے تھا.میں نے محکمہ سے دریافت کیا کہ یہ کیا ہے؟ تو مجھے بتایا گیا کہ ممکن ہے پچھلے سال کی طرح اس سال بھی تباہی آجائے اس لئے ہم نے آمد کا کم اندازہ لگایا ہے.گویا خدا تعالیٰ پر پہلے ہی بدظنی کر لی گئی ہے اور سمجھ لیا گیا ہے کہ ہم پر ضرور تباہی آئے گی حالانکہ اگر صحیح طور پر محنت کی جائے تو اس زمین سے پانچ لاکھ روپیہ نفع آنا چاہئے.مجھے ایک دفعہ مرزا مظفر احمد صاحب نے بتایا کہ گورنمنٹ نے لائل پور کے پاس ایک جگہ پچاس پچاس ہزار روپیہ پر مربعے ٹھیکہ پر دیئے تھے لیکن پانچ پانچ چھ چھ ہزار روپیہ فی مربع کی مثالیں تو بڑی کثرت سے ملتی ہیں.پچھلے سال میں نے جھنگ کی زمین کا اندازہ لگوایا.میرا ایک لڑکا جھنگ گیا تو اُس نے بتایا کہ وہاں پندرہ بیس مربعے ایسے ہیں جو دس دس ہزار روپیہ ٹھیکہ پر چڑھے ہوئے ہیں.اب اگر چار سو مربعے دس دس ہزار روپیہ ٹھیکہ پر چڑھے ہوئے ہوں تو چالیس لاکھ روپیہ سے ہم سارے یورپ میں مساجد تعمیر کر سکتے ہیں.ایک مسجد پر قریباً ایک لاکھ روپیہ لگتا ہے.پس چالیس لاکھ روپیہ میں چالیس مساجد بنائی جاسکتی ہیں اور اگر اس سارے روپیہ سے مساجد بنائی جائیں تب بھی اس سے سارے یورپ میں مشنوں اور مساجد کی تعداد کو دو گنا کیا جا سکتا ہے لیکن ہماری مثال تو اُس میراثی کی سی ہے جس نے بھرتی ہونے سے پہلے ہی اپنے آپ کو مُردہ تصور کر لیا تھا.کہتے ہیں کوئی میراثی تھا جو ہمیشہ بیکا ر رہتا تھا جب اس کی بیکاری سے تنگ آ کر اُس کی بیوی اُسے کوئی کام کرنے کے لئے کہتی تو وہ جواب دیتا کہ بڑی دقت تو یہی ہے کہ ان دنوں کوئی کام نہیں ملتا.اتفاق کی بات ہے کہ اُن دنوں اس ملک کے بادشاہ کی کسی اور ملک سے جنگ ہو گئی اور اُس نے ملک میں عام فوجی بھرتی کا اعلان کر دیا.میراثی کی بیوی نے کہا گھر میں کھانے کو کچھ نہیں اور تم کوئی کام نہیں کرتے.اگر واقعی کوئی کام نہیں ملتا تو یہ سنہری موقع ہے تم فوج میں

Page 634

خطابات شوری جلد سوم ۶۱۸ رت ۱۹۵۶ء بھرتی ہو جاؤ اور کماؤ.بے شک تنخواہ کم ہے لیکن تاہم کچھ نہ کچھ تو آئے گا اور جو کچھ آئے گا وہ بریکاری سے بہر حال بہتر ہو گا.میراثی نے کہا تم بھی عجیب ہو، بیویاں تو اپنے خاوندوں کی خیر خواہ ہوتی ہیں اور تم مجھے فوج میں بھرتی کرا کے مروانا چاہتی ہو.اُس کی بیوی نے اُسے سمجھانے کے لئے چکی میں چند دانے ڈالے اور چکی کو چلا یا اس پر آٹے کے ساتھ بعض سالم دانے بھی نکل آئے.چنانچہ اس نے میراثی سے کہا کہ دیکھو جنہیں خدا تعالیٰ محفوظ رکھنا چاہتا ہے وہ چکی کے پاٹوں کے درمیان سے بھی سالم نکل آتے ہیں.میں نہیں سمجھتی کہ تم نے اپنے متعلق یہ خیال کیوں کر لیا کہ تم ضرور مر جاؤ گے جو لوگ فوج میں بھرتی ہوتے ہیں وہ سارے کے سارے تو نہیں مر جاتے.اس پر میراثی نے کہا مجھے تو پسے ہونے دانوں میں ہی سمجھ لے.یہی حالت ہمارے زراعت کے محکمہ کی ہے.اُنہوں نے پہلے سے ہی خدا تعالیٰ پر بدظنی کر لی ہے کہ اس سال بھی ضرور تبا ہی آئے گی حالانکہ پچھلے سال بہت زیادہ تباہی آئی تھی اور پھر بھی دو لاکھ روپیہ کا منافع ہوا تھا لیکن اس سال نفع کا اندازہ صرف ڈیڑھ لاکھ کیا گیا ہے.میں نے جب وکیل الا علی کو پکڑا کہ یہ کیا اندھیر ہے؟ تو انہوں نے بتایا یہ اس لئے کیا گیا ہے کہ ممکن ہے کوئی تباہی آجائے.حالانکہ مومن شاعر نہیں ہوتا.شاعروں کے متعلق تو خدا تعالیٰ نے بے شک فرمایا ہے کہ فِي كُلِ وَادٍ يَهِيمُونَ وہ ہر وادی میں سرگردان پھرتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ جو بجلی بھی گرے گی وہ ہمارے آشیانوں پر گرے گی لیکن مومن کی مثال شاعر کی نہیں ہوتی.پھر بھی ہمارے محکمہ نے یہ سمجھ لیا کہ جو آفت بھی آئے گی وہ تحریک جدید کی زمینوں پر ہی آئے گی پس اگر احمدی زمیندار صحیح طور پر محنت کریں تو نہ صرف ان کی اپنی آمد میں ترقی ہوگی بلکہ جماعت کا بجٹ بھی بڑھ جائے گا اور ہمارا کام پہلے کی نسبت وسیع ہو جائے گا.اٹلی میں ہمارے ایک مبلغ گئے تھے اُنہوں نے وہیں ایک عورت سے شادی کر لی ہے اُنہوں نے مجھے بتایا کہ وہاں زمین کی اوسط آمد چودہ سو روپیہ فی ایکڑ ہے لیکن اگر اس کا نصف بھی لگا لیا جائے تب بھی سلسلہ کی زمینوں سے ستر لاکھ روپیہ کی آمد ہوسکتی ہے اور اگر اتنی آمد ہو جائے تو نہ صرف ہم کافی تعداد میں مساجد تعمیر کر سکتے ہیں بلکہ اپنے مشنوں کے اگلے دس سالوں کا خرچ بھی رکھ سکتے ہیں بشرطیکہ ہم محنت سے کام کریں لیکن ہمارا حال

Page 635

خطابات شوری جلد سوم ۶۱۹ رت ۱۹۵۶ء یہ ہے کہ ہم پہلے سے ہی خدا تعالیٰ پر بدظنی کر لیتے ہیں حالانکہ احادیث میں آتا ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِی بی یعنی میرے متعلق جس قسم کا گمان میرا بندہ کرتا ہے، اُسی قسم کا سلوک اس سے کرتا ہوں.اپنے اندر ایمان پیدا کریں میں تحریک جدید کے کارکن پہلے انے اندر ایمان پیدا کریں پھر وہ کاشتکاروں میں ایمان پیدا کریں اور ان کے اندر عمل کا جوش پیدا کریں اگر وہ اس رنگ میں کام کریں تو صرف تحریک جدید کی زمینوں سے اس قدر آمد ہو سکتی ہے کہ اس کے ذریعہ تبلیغی کام کو خوب وسیع کیا جا سکتا ہے اور دُنیا کے کئی ممالک میں مساجد تعمیر کی جاسکتی ہیں.جب تک میں نے تحریک جدید کی زمینوں کی طرف توجہ نہیں کی تھی تحریک جدید کو ستائیس ہزار روپیہ سالانہ خسارہ ہوتا تھا لیکن جب میں نے زمینیں اپنی نگرانی میں لے لیں تو بجائے ستائیس ہزار روپیہ سالانہ خسارہ کے پچھتر ہزار روپیہ سالانہ نفع آنے لگا.پس اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے لئے بڑی برکتیں رکھی ہیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ تم ان سے فائدہ اُٹھاؤ اور دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان برکات سے فائدہ اُٹھانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری فصلوں کو حوادث سے محفوظ رکھے.اگر اللہ تعالیٰ کی برکت ہمارے شامل حال رہے تو ہمارا تھوڑا مال بھی بہت بڑے نتائج پیدا کر سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ آپ کے پاس ایک شیشی میں مشک تھی جسے آپ کافی عرصہ تک استعمال فرماتے رہے لیکن وہ ختم ہونے میں نہ آتی.آپ فرمایا کرتے تھے کہ ایک دن مجھے خیال آیا کہ دیکھوں اس شیشی میں کس قدر مشک باقی ہے چنانچہ میں نے شیشی کو کھول کر دیکھا اور اس کے بعد وہ مشک جلدی ختم ہو گئی.اسی طرح احادیث میں آتا ہے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میرے پاس ایک وسق جو تھے میں کافی عرصہ تک اس میں سے جو لے کر استعمال کرتی رہی لیکن وہ جو ختم نہ ہوئے.ایک دن مجھے خیال آیا کہ صرف ایک وسق جو تھے تعجب ہے کہ وہ ابھی تک ختم نہیں ہوئے.میں دیکھوں تو سہی کہ اب کتنے باقی ہیں چنانچہ میں نے جو کا اندازہ کیا اور اس کے بعد وہ جلد ہی ختم ہو گئے.کے پس اللہ تعالیٰ مومن کے اموال میں برکت دیتا ہے تم اس پر

Page 636

خطابات شوری جلد سوم ۶۲۰ رت ۱۹۵۶ء تو کل کرو اور محنت کرو پھر دیکھو تمہاری ان زمینوں سے خدا تعالیٰ تمہیں اتنا دے گا جو تمہارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا.دعاؤں کی برکت ناصر آباد میں میری زمینوں پر ایک دوست منشی قدرت اللہ صاحب سنوری مینیجر تھے.ایک دفعہ ہم زمین دیکھنے گئے.چونکہ سندھ میں صدر انجمن احمدیہ کی زمین تھی اس لئے میرے ساتھ چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے اور مرزا بشیر احمد صاحب بھی تھے.وہاں اُن دنوں گھوڑے کم ملتے تھے.انہوں نے میرے لئے تو گھوڑا کسی سے مانگ لیا تھا اور دوسرے ساتھی میرے ساتھ پیدل چل رہے تھے.منشی قدرت اللہ صاحب نے باتوں باتوں میں بتایا کہ انہیں اس قدر آمد کی اُمید ہے.اس پر چوہدری صاحب اور مرزا بشیر احمد صاحب نے اس خیال سے کہ منشی قدرت اللہ صاحب کو ان کی باتوں کا علم ہو کر تکلیف نہ ہو آپس میں انگریزی میں باتیں کرنی شروع کر دیں اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ شخص گپ ہانک رہا ہے، اتنی فصل کبھی نہیں ہو سکتی.ان کا خیال تھا کہ منشی قدرت اللہ صاحب سنوری انگریزی نہیں جانتے مگر دراصل وہ اتنی انگریزی جانتے تھے کہ ان کی باتوں کو خوب سمجھ سکیں مگر وہ خاموشی سے ان کی باتیں سنتے رہے.جب اُنہوں نے باتیں ختم کر لیں تو منشی صاحب کہنے لگے آپ لوگ خواہ کچھ خیال کریں، دیکھ لینا میری فصل اس سے بھی زیادہ نکلے گی جو میں نے بتائی ہے.آپ کو کیا علم ہے؟ میں نے ہر کھیت کے کونوں پر سجدے کئے ہوئے ہیں اور یہ فصل میری محنت کے نتیجہ میں نہیں بلکہ میرے سجدوں کی وجہ سے ہوگی.میں نے ہر کو نہ پر دو دو رکعت نماز پڑھی ہے اور چار چار سجدے کئے ہیں.اس پر ان دونوں کا رنگ فق ہو گیا کیونکہ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کا انہیں پتہ نہیں لگ سکتا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.صدرانجمن احمدیہ کو اس سال گھاٹا رہا لیکن منشی قدرت اللہ صاحب نے کئی ہزار روپیہ مجھے بھجوایا.میں نے سمجھا کہ یہ صدرانجمن احمدیہ کا روپیہ ہے جو غلطی سے میرے نام آ گیا ہے لیکن دیکھا تو معلوم ہوا یہ میرا ہی روپیہ ہے.ساتھ ہی منشی قدرت اللہ صاحب نے لکھا کہ میرا اندازہ ہے کہ اتنی ہی آمد اور ہو جائے گی.میں نے جو پیداوار ابھی تک اُٹھائی ہے وہ میں نے ایک ہندو تاجر کے پاس بھیجی ہے.آٹھ ہزار روپیہ میں بطور پیشگی لے کر بھیج رہا ہوں اور میں ابھی اور روپیہ ارسال کروں گا حالانکہ

Page 637

خطابات شوری جلد سوم ۶۲۱ رت ۱۹۵۶ء میری زمین صدر انجمن احمدیہ کی نسبت بہت تھوڑی تھی لیکن اُس سال صدر انجمن احمدیہ کو تو گھاٹا رہا لیکن مجھے نفع آیا.یہ حض منشی قدرت اللہ صاحب سنوری کے سجدوں کی برکت تھی.پس اگر احمدی زمیندار یہ دونوں کام کریں یعنی محنت بھی کریں اور سجدے بھی کریں اور خدا سے دُعا کریں کہ وہ ان کے دلوں کے زنگ کو دور کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم یورپ کی طرح اپنی پیداوار نہ بڑھا سکیں.جو ہاتھ پاؤں خدا تعالیٰ نے یورپ والوں کو دیئے ہیں وہی ہاتھ پاؤں اُس نے پاکستانیوں کو دیئے ہیں بلکہ میں سمجھتا ہوں ہم لوگ یورپین لوگوں سے زیادہ محنت کر سکتے ہیں لیکن ہمیں بُری عادتیں پڑی ہوئی ہیں ہم اپنی طاقت کا صحیح استعمال نہیں کرتے ورنہ ہم میں طاقت اُن سے زیادہ ہے.میں سمجھتا ہوں اگر ایک پاکستانی مسلمان پوری طاقت کے ساتھ کھڑا ہو جائے تو وہ اکیلا چار یورپین افراد کا مقابلہ کر سکتا ہے لیکن نقص یہ ہے کہ یہ سستی کرتا ہے اور یورپ والے سستی نہیں کرتے.اہل یورپ کی محنت میں " میں ۱۹۲۴ء میں انگلینڈ گیا تو حافظ روشن علی صاحب بھی میرے ساتھ تھے.ان کی طبیعت میں مزاح تھا.ہم ایک زیر تعمیر مکان کے پاس سے گزرے تو ہم نے دیکھا کہ معمار اور مزدور اِس طرح بھاگ بھاگ کر کام کر رہے تھے جیسے کہیں آگ لگی ہوئی ہے اور وہ اُسے بجھا رہے ہیں.ہم وہاں سے کچھ دور گئے تو حافظ صاحب نے کہا حضور! کیا آپ نے یہاں کوئی آدمی چلتا ہوا بھی دیکھا ہے؟ میں ان کی بات کو سمجھ گیا اور میں نے کہا آپ درست کہتے ہیں.میں نے یہاں کسی کو چلتے ہوئے نہیں دیکھا سب کو دوڑتے ہوئے ہی دیکھا ہے.غرض وہ لوگ کام کرنے کے عادی ہیں وہ ناممکن کے متعلق بھی کہتے ہیں کہ ہم اُسے کر لیں گے لیکن ہم ممکن کو بھی ناممکن کہہ دیتے ہیں اس لئے ہمارے کاموں میں اللہ تعالیٰ کی برکت نہیں ہوتی لیکن اگر ہم صحیح رنگ میں محنت کریں اور دُعاؤں کی عادت بھی ڈال لیں تو ہمیں بھی سب کچھ حاصل ہوسکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور وہ سب کچھ کر سکتا ہے.“ حضور کی اس تقریر کے بعد ایجنڈا کی اس تجویز کے بارہ میں ” کہ ہر جماعت میں سیکرٹری زراعت مقرر کیا جائے چند ممبران نے اپنی آراء پیش کیں.محترم میاں غلام محمد اختر صاحب ناظر زراعت نے بھی اس بارہ میں اظہار خیال کیا.اس پر حضور نے فرمایا :-

Page 638

خطابات شوری جلد سوم ۶۲۲ ت ۱۹۵۶ء میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ غلام محمد اختر صاحب نے اپنے آپ کو ناظر زراعت قرار دیا ہے لیکن میرے خیال میں اس محکمہ کا کام وہی شخص کر سکتا ہے جسے زراعت سے واقفیت ہو.اختر صاحب محکمہ ریل کے ناظر تو ہو سکتے ہیں لیکن زراعت کے نہیں کیونکہ نہ اُنہوں نے خود کبھی زراعت کا کام کیا ہے اور نہ زراعت کا کام کروایا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میں نے بھی کبھی ہل نہیں چلایا لیکن بچپن سے ہی مجھے زراعت کے کام کا شغف رہا ہے.میں نے خود کئی باغ لگوائے ہیں اور بڑے کامیاب باغ لگوائے ہیں.پھر گو میں نے زراعت کا باقاعدہ علم حاصل نہیں کیا لیکن اگر میرے ماتحت کوئی زراعت کا ایکسپرٹ کام کرے تو میں اُس سے اس موضوع پر تبادلہ خیالات کرسکتا ہوں اور اگر میں اس سے کچھ سیکھوں گا تو اُسے کچھ سکھاؤں گا بھی.اگر اختر صاحب اپنی تقریر میں یہ بتا دیتے کہ میرے ماتحت فلاں زراعت کا ایکسپرٹ کام کر رہا ہے اور وہ فارغ بھی ہے اور میں اس سے کچھ سیکھ رہا ہوں اور کچھ اُسے سکھا رہا ہوں تو اُن کا جواب درست ہوسکتا تھا، ورنہ موجودہ صورت میں اُن کا جواب تسلی بخش نہیں.میں نے جب نظارت زراعت قائم کرنے کے لئے کہا تھا تو اُس وقت میرے ذہن میں یہ تھا کہ میں اس کام پر کوئی ایکسپرٹ لگاؤں گا.میں نے اُس وقت یہ کہا تھا کہ ضروری نہیں کہ زراعت کا کوئی بی ایس سی یا ایم.ایس سی ہوا اور اُسے اس کام پر لگایا جائے بلکہ میں نے کہا تھا کہ اس کام سے شغف رکھنے والوں کو لگایا جائے اور اس کے ساتھ ہی میں نے یہ تحریک کی تھی کہ جامعتہ المبشرین کے دولڑکوں کو اس کام پر لگا ؤ.یہ دونوں لڑکے اُس زمین پر کام کریں جو ربوہ کے قریب ہمیں الاٹ ہوئی ہے.چنانچہ دولڑکوں کو اس کام پر لگا دیا گیا اور اگر وہ استقلال سے کام کرتے رہے تو تھوڑے عرصہ میں ہی وہ اس کے ماہر بن جائیں گے.مجھے رپورٹ ملی ہے کہ تھوڑے ہی دنوں میں وہ دونوں ہل چلانے لگ گئے ہیں.اگر وہ اسی طرح محنت کرتے رہے تو ایک سال میں ہی وہ ایکسپرٹ ہو جائیں گے.اسی طرح اسی محکمہ میں سید عبدالرزاق شاہ صاحب ہیں اگر چہ وہ افریقہ میں ملازمت کرتے رہے ہیں لیکن جب وہ وقف کر کے آئے تو میں نے اُنہیں سندھ کی زمینوں پر لگایا اور وہاں اُنہوں نے زراعت کا کام سیکھا.اب بڑی حد تک اُنہوں نے زراعت کے کام میں

Page 639

خطابات شوری جلد سوم ۶۲۳ اورت ۱۹۵۶ء مہارت حاصل کر لی ہے.اُنہوں نے مجھے بتایا کہ حیدرآباد کے ضلع میں ایک زمیندار ہے، اُس نے ۷۰ من کپاس فی ایکٹر اور ۳۶ من فی ایکٹر تو ریا پیدا کیا ہے اگر اتنی پیدا وار ہو جائے تو اٹلی والوں کی سی پیداوار ہو جاتی ہے کیونکہ اس طرح فی ایکٹر ہزار ڈیڑھ ہزار روپے کی آمد ہو جاتی ہے.مجھے ان کی بات پر یقین نہیں آتا کیونکہ میں نے سندھ میں کوئی زمین اس کے لگ بھگ پیداوار دینے والی بھی نہیں دیکھی تھی.چنانچہ اب وہ سندھ گئے تو میں نے انہیں کہا ہے کہ وہ اس زمیندار کا فارم دیکھ کر آئیں.بہر حال یہ بات درست نہیں کہ ہماری جماعت میں اس کام کا کوئی ماہر نہیں.ہماری جماعت میں بھی ماہر موجود ہیں لیکن جہاں وہ زمیندارہ کام کے ماہر ہیں وہاں ٹلانے کے بھی ماہر ہیں.چنانچہ ایک دوست لمبے عرصہ تک مجھے خطوط لکھتے رہے کہ مجھے سلسلہ کا کام کرنے کا موقع دیا جائے.اس کے باپ بھی ایک محکمہ کے سیکرٹری رہے ہیں اور بھائی بھی بڑے عہدہ پر کام کرتا رہا ہے.میں نے انہیں کہا آپ آجائیں.ہم آپ کو گورنمنٹ سے زیادہ گزارہ دے دیں گے.وہ زراعت کے ماہر ہیں اور انہیں اس کام کا وسیع تجربہ ہے.جہاں بھی کام خراب ہوتا ہے گورنمنٹ انہیں وہاں بھیج دیتی ہے اور اُنہوں نے ہزار ہزار روپیہ فی ایکٹر آمد پیدا کی ہے لیکن ہر دفعہ جب میں خط لکھتا ہوں تو وہ چُپ ہو جاتے ہیں اور پھر دوسال کے بعد اُن کا خط آ جاتا ہے کہ حضور مجھے سلسلہ کی خدمت کرنے کا موقع دیں، میری بدقسمتی ہے کہ مجھے ابھی تک جماعت کے کسی کام پر نہیں لگایا گیا.میں پھر انہیں لکھتا ہوں کہ آپ چھٹی لے کر آجائیں اور یہاں کچھ عرصہ کام کریں لیکن وہ پھر چپ ہو جاتے ہیں.یورپ کے سفر سے واپسی کے بعد وہ پھر میرے پاس آئے اور کہا اب کوئی خدمت میرے سپرد کر دیں میں آجاؤں گا.میں نے کہا ہم آپ کو کام پر لگانے کے لئے تیار ہیں لیکن آپ پورے طور سے فارغ ہو کر آجائیں.اس پر اُن کی طرف سے اطلاع آئی کہ میں اب ڈپٹی ڈائر یکٹر آف ایگریکلچر لگ گیا ہوں اس لئے اب میں نہیں آ سکتا.غرض میں نے دیکھا ہے کہ وہ دوست زراعت کے کام میں ماہر ہیں لیکن ٹلانے میں بھی بڑے ماہر ہیں.اب جیسا کہ میں نے بتایا ہے دو شاہدین کو میں نے زراعت کے کام پر لگایا ہے کالج میں انہیں دیسی طب اور ٹیکہ لگانے کا کام بھی سکھایا جاتا ہے.اسی طرح اُمید ہے وہ

Page 640

خطابات شوری جلد سوم ۶۲۴ رت ۱۹۵۶ء ہمارے لئے بہت مفید ثابت ہوں گے.ہر مبلغ کو کوئی نہ کوئی فن آنا چاہئے میں نے جامعہ والوں کو کہا ہے کہ ہر مولوی کو کوئی نہ کوئی فن آنا چاہئے.مثلاً اُسے موٹر ڈرائیوری اور مکینک کا کام سکھایا جائے.اسی طرح اور فنون سکھائے جائیں تا کہ وہ قوم کے لئے زیادہ سے زیادہ مفید ثابت ہوں.یہ دونوں لڑکے جنہیں زراعت کے کام پر لگایا گیا ہے مخلص خاندانوں کے ممبر ہیں اور بڑی محنت سے کام کر رہے ہیں.اگر وہ ایکسپرٹ ہو جائیں تو ہم انہیں نظارت زراعت میں ایڈوائزر کے طور پر لگا لیں گے.بہر حال میرے نزدیک اختر صاحب اس محکمہ کی نگرانی نہیں کر سکتے.اُنہوں نے یہ کام نہ کبھی خود کیا ہے اور نہ کسی اور سے کروایا ہے.وہ ریلوے میں ساری عمر ملازمت کرتے رہے ہیں اس لئے وہ ریلوں کے ٹائم ٹیبل تو بتا سکتے ہیں مگر زراعت کی نگرانی نہیں کر سکتے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہم بعض مبلغوں کو یہ کام سکھا رہے ہیں اور اُمید ہے کہ چند ماہ میں وہ اس بارہ میں مشورے دینے کے اہل ہو جائیں گے.میں اکثر زمینوں پر سیر کے لئے جاتا ہوں.وہاں ایک دفعہ میں نے اپنے مالی کو کہا کہ کھاد بناؤ.میں نے اُسے ہدایت دی کہ آٹھ دس فٹ گہرا گڑھا کھودو.جو قریباً اسقدر چوڑا بھی ہو.اس میں درختوں اور پودوں کے پتے ڈال دو اور اُس پر مٹی ڈال کر پانی دے دو تو وہ گل سڑ جائیں.کچھ دنوں کے بعد میں پھر سیر کے لئے گیا اور اُس سے دریافت کیا کہ کیا گڑھا تیار ہو گیا ہے تو اُس نے کہا میں اس بارہ میں سوچ رہا ہوں.پانچ سات دن کے بعد پھر گیا تو اُس نے ایک ٹوکری کے برابر گڑھا مجھے دکھایا اور کہا اسے میں جلد پورا کر دوں گا.دس بارہ دن کے بعد پھر گیا تو اُس نے گڑھا تو بنا دیا تھا لیکن ابھی پتے نہیں ڈالے تھے.میں نے دریافت کیا تو اُس نے کہا میں پتے جمع کر رہا ہوں.پھر گیا تو دریافت کیا کہ کیا پتے جمع ہو گئے ہیں؟ تو اُس نے کہا پتے جمع کر لئے ہیں.میں نے کہا ان پر مٹی ڈالو اور پھر پانی ڈالو تا وہ گل جائیں تو وہ کہنے لگا ٹیوب ویل کی بجلی خراب ہوگئی ہے.جب ٹیوب ویل چلا اور میں نے کہا تم نے اس گڑھے میں پانی ڈالا ہے تو وہ کہنے لگا آج تو فلاں طرف پانی لگایا ہے ، کل اس طرف پانی لگاؤں گا تو اس گڑھے میں بھی پانی پڑ جائے گا.غرض ڈیڑھ ماہ

Page 641

خطابات شوری جلد سوم ۶۲۵ ماورت ۱۹۵۶ء کے بعد اُس نے تھوڑی سی کھا د تیار کی.یہ نقص محض محنت نہ کرنے کی وجہ سے ہے.اگر ہمارے مبلغ زراعت کا کام سیکھ لیں تو وہ ہمیں بہت کچھ کام دے سکتے ہیں بلکہ ہم ان سے ایڈوائزر کا کام بھی لے سکتے ہیں.پھر اختر صاحب بھی اُن سے یہ فن سیکھ سکتے ہیں لیکن اس سے پہلے اس بات کی ضرورت ہے کہ ایسے آدمی مہیا کئے جائیں جو ہل چلانا بھی جانتے ہوں اور زراعت کے کام سے بھی واقفیت رکھتے ہوں.ایک دوست نے ابھی کہا ہے کہ کھیت میں سے گھاس اُکھاڑ دی جائے تو فصل اچھی ہوسکتی ہے لیکن بڑی مصیبت تو یہی ہے کہ زمیندار اس طرف توجہ ہی نہیں کرتے.میں ایک دفعہ سندھ کی زمینوں پر گیا تو وہاں میں نے دیکھا کہ اگر دس ہزار پودا کپاس کا تھا تو پچاس ہزار پودا گھاس کا تھا پس یہ بات کہنی تو بہت آسان ہے کہ زمین سے گھاس نکلوا دو تو فصل اچھی ہو سکتی ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ گھاس نکلوانے کے لئے کیا طریق اختیار کیا جائے.زمیندار تو گھاس نکالنے سے رہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک امیر کا واقعہ سُنایا کرتے تھے کہ اُسے ایک دفعہ یہ شکایت پیدا ہوئی کہ کھانے کے اخراجات بہت بڑھ گئے ہیں.اس نے اپنے دوستوں سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا کہ بجٹ بڑھ جانے کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے سٹور کا دروازہ کھلا رہتا ہے اور کھانے کی اشیاء گیدڑ اور گتے وغیرہ کھا جاتے ہیں آپ سٹور کو دروازہ لگوا دیں تو بجٹ کم ہو سکتا ہے چنانچہ اُس نے سٹور کو دروازہ لگوا دیا.گیدڑوں نے یہ بات سنی تو اُنہوں نے رونا شروع کر دیا.ایک بوڑھا گیدڑ اُن کے رونے کی آواز سُن کر آیا تو اُس نے دریافت کیا کہ یہ کیا ماجرا ہے تم رو کیوں رہے ہو؟ اُنہوں نے سارا واقعہ بیان کر دیا اور کہا ہم اسی سٹور سے کھانا کھایا کرتے ہیں اب چونکہ سٹور کا دروازہ بن گیا ہے اس لئے ہمارے گزارے کی کوئی صورت نہیں رہی، اب تو ہم بھوکے مر جائیں گے.بوڑھے گیدڑ نے کہا تمہاری عقل ماری گئی ہے جس شخص کو میں سال تک سٹور کو دروازہ لگوانے کا خیال نہیں آیا ، اُس کے سٹور کا دروازہ بند کون کرے گا.پس اصل بات تو یہ ہے کہ کام کس طرح کرایا جائے ورنہ سکیم پاس کر دینے سے کچھ فائدہ نہیں ہو سکتا.میں جن لوگوں کو زمین کے کام پر لگا تا ہوں انہیں ہمیشہ یہی نصیحت کرتا ہوں

Page 642

خطابات شوری جلد سوم ۶۲۶ رت ۱۹۵۶ء کہ زمیندارہ کام کے لئے ضروری ہے کہ سختی سے کام کروایا جائے اور قانون کی پابندی کروائی جائے ، ورنہ تم اس کام میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے.صرف ایک شخص کو ناظر زراعت لگا دینے سے زراعت نہیں ہو سکتی ، نہ ہی زراعت کے پاس شدہ نوجوان کافی ہو سکتے ہیں.اصل کام محنت کرنا ہے.گھاس اُکھڑوانے کا قانون پاس کر دینا بہت آسان ہے لیکن گھاس اُکھڑوانا بہت مشکل ہے.کام کروانے کے لئے کچھ عرصہ محنت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے پھر مزارعہ خود بھی ماہر ہو جاتا ہے.میں ایک دفعہ سندھ گیا تو میرے پاس شکایت کی گئی کہ مزارع سوئے رہتے ہیں اور پانی ضائع ہو جاتا ہے میں نے کارکنوں کو لکھا کہ تم خود پانچ چھ دن جا گو اور کام کی نگرانی کرو تو یہ کام ہو جائے گا.پس ضروری امر یہ ہے کہ نگرانی کی جائے اور کام کرنے کی عادت پیدا کی جائے.پھر چاہے کوئی مولوی ہی ہو ، وہ کام چلا لے گا.وہ گاؤں میں جا کر جب کسی زمیندار کا ہل چلائے گا اور پھر اُسے وعظ بھی کرے گا تو اُس کا اثر یقیناً زیادہ ہو گا.اسی طرح لائبریری میں اِس موضوع پر لٹریچر جمع کرو اور پھر طلباء کو اس کے پڑھنے کی تلقین کرو تا کہ وہ نئے آلات اور نئے طریق کاشت سے واقف ہوسکیں.مثلاً آجکل حکومت مشینی کھاد پر زور دیتی ہے مجھے ایک شخص نے بتایا کہ اس کھاد سے اس کی فصل خراب ہوگئی ہے.اس پر میں نے اُسے ایکسپرٹ کے پاس بھیجا.اُس نے کہا مشینی کھاد کے لئے ضروری ہے کہ اس کے ساتھ سبزہ کی یا جانور کی کھاد بھی ہو.اگر دوسری کھا د اس کے ساتھ ملی ہوئی نہ ہو تو یہ فصل کو خراب کر دیتی ہے پھر ہم نے یہی طریق اختیار کیا تو فصل بجائے خراب ہونے کے اچھی ہوئی.یہ بظاہر چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں لیکن اگر ان کے متعلق تجربہ حاصل ہو جائے تو بڑے مفید نتائج پیدا ہو سکتے ہیں.“ سب کمیٹی کی تجویز کہ باقی اضلاع میں صرف ضلعوار زراعتی کمیٹیاں زراعتی کمیٹیاں حضور نے فرمایا:- مقرر کی جائیں“ پر چند نمائندگان نے اظہارِ خیال کیا.اس کے بعد اصل چیز جس کی طرف نہ ناظر صاحب زراعت نے توجہ دلائی ہے اور نہ وکیل الزراعت صاحب نے وہ یہ ہے کہ سب سے بڑی پرابلم (PROBLEM) یہ ہوتی ہے کہ

Page 643

خطابات شوری جلد سوم ۶۲۷ رت ۱۹۵۶ء کون سے ٹکڑوں میں کون سی فصل کی کون سی قسم کاشت کی جائے.ضلع وار کمیٹی اس کا فیصلہ نہیں کر سکتی اور نہ اس کے متعلق وہ تفصیلی علم حاصل کر سکتی ہے اس کا فیصلہ گورنمنٹ کے گزٹیئر (GAZETTEER) یا رپورٹیں پڑھ کر کیا جاسکتا ہے.سنٹر کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ وہ ایسے آدمی مقرر کرے جو گورنمنٹ کا گزٹیئر اور رپورٹیں پڑھیں اور معلوم کریں کہ کس کس ضلع کے کس کس ٹکڑا میں فصل کی کون کون سی اقسام پیدا ہو سکتی ہیں مثلاً کسی علاقہ میں کپاس کی ایک قسم اچھی ہوگی اور کسی میں دوسری اور بعض علاقے ایسے ہوں گے جہاں کپاس ہو ہی نہیں سکتی.اب یہ واقفیت پہنچانا مرکز کا کام ہے.احمد نگر میں ہمیں زمین الاٹ ہوئی تو میں نے دیکھا وہاں کپاس کے پودے بہت اچھے قد کے تھے.میں نے سمجھا کہ سندھ میں اس قسم کی کپاس ہو تو بارہ بارہ تیرہ تیرہ من کپاس فی ایکڑ نکلے لیکن ایک زمیندار نے مجھے بتایا کہ یہاں تو فی ایکڑ اڑھائی تین من سے زیادہ نہیں نکلے گی ، چنانچہ ایسا ہی ہوا بعد میں پتہ لگا کہ گورنمنٹ کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اس علاقہ میں کپاس نہیں ہوسکتی.پھر ایک احمدی انسپکٹر نے کہا یہاں تمبا کو بوئیں تو اچھی آمد ہو سکتی ہے.بعض دوستوں نے اس وقت اعتراض بھی کیا کہ تمباکو کے استعمال سے تو ہم منع کرتے ہیں.میں نے کہا بے شک ہم نہیں پیتے مگر اور پینے والے تو ہیں اس لئے تمباکو کو بونے میں کیا حرج ہے.میں نے اس انسپکٹر سے کہا کہ تمبا کو پر ٹیکس زیادہ لگتا ہے.میں نے قادیان کے قریب راجپورہ میں دو کنال تمبا کو لگوایا تھا تو اس پر ایک سور و پیہ ٹیکس لگ گیا تھا.اس انسپکٹر نے کہا گورنمنٹ نے سارے ملک کا سروے کرنے کے بعد معلوم کیا ہے کہ کس کس علاقہ میں کس کس قدر مقدار میں تمباکو فی ایکٹر پیدا ہوتا ہے اور پھر اس کے مطابق اُس نے ٹیکس کی مقدار مقرر کی ہے.اب اگر آپ کے علاقہ میں تمبا کوکم پیدا ہوتا ہے اور کوئی انسپکٹر زیادہ ٹیکس لگا تا ہے اور آپ گورنمنٹ کے پاس احتجاج کرتے ہیں تو آپ کے احتجاج کو درست تسلیم کیا جائے گا اور اُس کی رپورٹ کو غلط سمجھا جائے گا بعض علاقوں میں ۶۰.۶۰ من تمبا کو فی ایکٹر پیدا ہوتا ہے.وہاں اگر انسپکٹر کے لگائے ہوئے زیادہ ٹیکس پر زمیندار احتجاج کرے تو اس کی طرف گورنمنٹ توجہ نہیں دے گی اور انسپکٹر کے لگائے ہوئے ٹیکس کو منظور کرے گی.بہر حال ہر علاقہ کے لئے مناسب ٹیکس کی مقدار مقرر کی گئی ہے اس سے زیادہ ٹیکس لگے تو اس پر احتجاج

Page 644

خطابات شوری جلد سوم ۶۲۸ رت ۱۹۵۶ء کیا جاسکتا ہے.پھر بعض علاقوں میں کپاس کی امریکن قسم اچھی ہوتی ہے اور بعض میں دیسی کپاس بوئیں تو اس سے زیادہ آمد ہو سکتی ہے.اب یہ کہ کس علاقہ میں کپاس کی کون سی فصل ہوئی جائے اس کا فیصلہ مرکز کر سکتا ہے.مرکز ماہر فن مقرر کرے، وہ گورنمنٹ کی ہدایات اور رپورٹیں پڑھتا ہے.پھر لائبریری میں اس قسم کا لٹریچر منگوایا جائے جس کا وہ مطالعہ کرے اور اس کے مطابق احمدی زمینداروں کو ہدایات جاری کرے.مثلاً ضلع سیالکوٹ کے متعلق گورنمنٹ کی زرعی رپورٹ پڑھ کر جماعتوں کو یہ اطلاع دے کہ فلاں فلاں حصہ میں چاول کی فلاں فصل ہو سکتی ہے اور فلاں فلاں حصہ میں فلاں فصل.پھر آجکل گندم کی بعض خاص اقسام دریافت کی گئی ہیں.بعض علاقوں میں ایک قسم اچھی پیدا ہوتی ہے.پھر گورنمنٹ نے بھی بعض علاقوں میں یہ شرط رکھی ہے کہ ان میں صرف فلاں قسم کی گندم بوئی جائے.مثلاً زمین زیادہ اعلیٰ ہو تو اس میں ۵۹۱ بوئی جائے اور اس سے ادنیٰ میں ۵۱۸ کی کاشت کی جائے.پس ما ہرفن مطالعہ کرنے کے بعد ہر ضلع کی زمین کو تقسیم کرے اور جماعتوں کو اطلاع دے تا ادنی اور اعلیٰ ٹکڑوں کو آپس میں بدلنے سے نقصان نہ ہو.احمد نگر کی زمین کے متعلق گورنمنٹ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ یہاں باسمتی نہیں ہوتی.میں زچ ہو گیا اور منتظمین سے کہا کہ وہ دو کنال زمین میں باسمتی بوئیں اور دیکھیں کہ اس سے کس قدر پیداوار ہوتی ہے چنانچہ ایک ٹکڑا زمین جو چار کنال سے بھی کم تھا بویا گیا اور اس سے نومن کے قریب باسمتی نکلی.اس حساب سے ایک ایکٹر میں ۱۸.۱۹ من باسمتی پیدا ہوسکتی ہے.اس طرح گورنمنٹ کی رپورٹ غلط ثابت ہوئی کیونکہ باسمتی بونے سے فی ایکٹر آمد.۳۶۰ روپیہ کے قریب ہو جاتی ہے لیکن جھونا ہونے سے نوے یا سو روپیہ آمد ہوتی ہے.پس مرکز ایسا انتظام کرے کہ وہ اپنے طور پر بھی تجربہ کر کے زمینداروں کو مناسب ہدایات جاری کرے اگر زمیندار ان ہدایات پر عمل کرنے سے ہچکچاہٹ محسوس کریں تو ان میں سے کسی سے کہیں کہ وہ فلاں قسم کی فصل کسی چھوٹے سے ٹکڑا میں کاشت کرے تاکہ پتہ لگے کرہ فصل کیسی ہوتی ہے.پھر اگر وہ تجربہ کامیاب ہو جائے تو دوسروں سے بھی ایسا کرنے کے لئے کہا جائے.

Page 645

خطابات شوری جلد سوم ۶۲۹ درت ۱۹۵۶ء بہر حال بعض رپورٹیں گورنمنٹ کی بھی غلط ہوتی ہیں لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ گورنمنٹ کی رپورٹیں درست ہوتی ہیں اور ان کے مطابق عمل کرنے سے زمیندار اپنی آمد میں اضافہ کر سکتے ہیں.کماد کی فصل کے متعلق بھی تجربہ کیا گیا ہے کہ بعض جگہ اس کی ایک خاص قسم اچھی پیدا ہوتی ہے اور بعض جگہ دوسری.پھر بعض جگہ موڈھا کماد کام دے جاتا ہے اور بعض جگہ نہیں.مثلاً سندھ میں موڈھا کماد کام نہیں دیتا لیکن مجھے ایک زمیندار نے بتایا وہ جالندھر کے تھے ) کہ ہمارے ہاں گیارہ سال تک موڈھا کماد چلا گیا.اس سال تو فصل کم ہوئی لیکن دوسرے سال اس میں زیادتی ہوئی اور پھر چھ سال تک اس میں زیادتی ہوتی چلی گئی.چھ سال کے بعد مقدار میں کمی آنی شروع ہوئی.ماریشس کے علاقہ میں گیارہ گیارہ بارہ بارہ سال تک موڈھا چلا آتا ہے.وہاں زمین اچھی ہے لیکن سندھ میں دوسرے سال ہی فصل خراب ہو جاتی ہے اگر مرکز اس قسم کے تجربات اپنی نگرانی میں کرائے تو تھوڑے سے ہی عرصہ میں بہت سی چیزوں کی لسٹ بن جائے گی اور اس سے زمیندار فائدہ اُٹھا سکیں گے.راجپورہ ضلع گورداسپور میں ریتلی زمین تھی ، وہاں گندم اور کماد کی کاشت کی جاتی تھی.ایک دفعہ اتفاق ایسا ہوا کہ ایک شخص نے کسی جگہ بیٹھ کر مونگ پھلی کھائی.بعض مونگ پھلیاں خراب تھیں اُس نے اُنہیں زمین پر پھینک دیا.ان پر اتفاقاً جانور کا گو بر پڑا.جس کی وجہ سے اس قدر مونگ پھلی نکلی کہ اگر اسے ایکڑوں کے حساب سے بویا جاتا تو فی ایکٹر ہزار ہزار روپیہ آمد ہو جاتی.اسی طرح بعض اور چیزیں بھی ہیں جو بعض علاقوں میں اچھی ہوتی ہیں لیکن بعض میں نہیں ہوتیں.سندھ والوں نے مجھے بتایا کہ یہاں ہندوستانی قسم کے آم نہیں ہوتے.ملتان میں ایک خاص قسم کا آم ہوتا ہے.مرزا مظفر احمد وہاں ڈی.سی مقرر ہوئے تو میں نے ان سے کہا اس کا ایک پیوند حاصل کرو تا کہ اسے سندھ میں اپنی زمینوں میں بویا جائے.اُنہوں نے کوشش کی لیکن پیوند نہ مل سکا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اگر دوسرے لوگ بھی اسی قسم کو پیدا کرنے لگ گئے تو ہمارا افخر جاتا رہے گا.وہاں پادریوں کا ایک ہسپتال ہے اس قبیلہ کے لوگ بالعموم اسی ہسپتال سے علاج کراتے ہیں.ان کے ذریعہ بھی ہم نے پیوند حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن پیوند نہ ملا.بعد میں ایسا اتفاق ہوا کہ اس قبیلہ نے ملک عمر علی صاحب سے کسی معاملہ میں

Page 646

خطابات شوری جلد سوم رت ۱۹۵۶ء سفارش کرائی تھی.میں نے انہیں کہا کہ اس موقع سے فائدہ اُٹھا کر ان سے تین پودے لے لو.ایک اپنے ہاں بوؤ ، ایک مجھے دے دو اور ایک میاں بشیر احمد صاحب کو دے دو.چنانچہ اُنہوں نے ایک پیوند حاصل کر کے مجھے بھجوایا میں نے وہ اپنے مالی کو دے دیا اور اس نے اُسے دوسرے درختوں میں لگایا لیکن اُس نے پتہ نہ دیا اور ہمارا تجربہ کامیاب نہ ہؤا.پھر میں نے انہیں ہدایت دی کہ آم خرید کر لگائیں چنانچہ بارہ آم خرید کئے گئے لیکن قاعدہ یہ ہے کہ پیوند لگانے سے بہترین آم پیدا ہوتا ہے، گٹھلی ہونے سے اچھا آم پیدا نہیں ہوتا لیکن ایک دفعہ ایک کتاب مرے مطالعہ میں آئی وہ امداد امام صاحب جو بہار کے رئیس تھے اور علی امام صاحب کے والد تھے، انہوں نے لکھی تھی.انہیں باغات لگانے کا بڑا شوق تھا.انہوں نے اپنے تجربات کی بناء پر اس کتاب میں لکھا تھا کہ اگر کسی گٹھلی کو بویا جائے اور وہ اُگ آئے تو چھ ماہ کے بعد پودے کو دوسری جگہ لگائیں اور پھر ہر تین ماہ کے بعد اُس کی جگہ بدلتے جائیں.تو وہ درخت اصل آم کی طرح پھل دینے لگ جائے گا.پھر میں نے پڑھا تھا کہ شہد میں ڈبو کر گٹھلی کو لگایا جائے تو آم میٹھا ہوتا ہے.میں نے وہ گٹھلیاں لگوائیں اور ان کتابوں کے مطابق تجربہ کیا تو بارہ گٹھلیوں میں سے سات گٹھلیاں اُگیں.پھر ان میں سے دو پودے مر گئے ، پانچ بچے ، ان پودوں کو میں نرسری میں ایک جگہ سے دوسری جگہ تبدیل کرا تا رہا.اب وہ درخت آم دینے لگ گئے ہیں اور وہ آم بالکل اصل آموں کی طرح ہیں.پھر اُن آموں کی بڑی شہرت ہوئی.میرا ایک کارکن مچل فارم کے پاس بعض پودے لینے گیا تو اُنہوں نے کہا کہ ناصر آباد کے نورالہدی آم بہت اچھے ہوتے ہیں.میں چاہتا ہوں کہ ایک درخت مجھے بھی دیں کہ میں اُسے اپنے باغ میں لگاؤں.اب دیکھو پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ سندھ میں ہندوستان اور ملتان کے آم پیدا نہیں ہوتے لیکن بعد میں ہم نے تجربہ کیا اور ملتان کا نور الہدی اور ہندوستان کی بعض اقسام پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے.پس تجربہ سے بعض نئی نئی چیزیں بھی پیدا کی جاسکتی ہیں لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ مرکز میں جو آدمی ہو اُسے ان کاموں کی دھت سی لگی رہے.قادیان میں میاں بشیر احمد نے باغ لگایا ہوا تھا.اُنہیں آم لگانے کا بہت شوق تھا چنانچہ انہیں کئی دفعہ انعام ملا.

Page 647

خطابات شوری جلد سوم ۶۳۱ رت ۱۹۵۶ء ناصر آباد میں بھی بڑے سائز کا فجری ہم پیدا ہو گیا ہے.پس کوشش کی جائے تو بہت حد تک کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے.میں نے قادیان میں دوستوں کو نصیحت کی تھی کہ ہر زمیندار آم کے چار چار درخت ہر کھیت میں بوئے لیکن اُنہوں نے میری بات نہ مانی.اگر اُنہوں نے اس ہدایت پر عمل کیا ہوتا تو ہر احمدی زمیندار کے پاس ایک باغ ہوتا.پھر الگ الگ لگائے ہوئے درخت پھل بھی زیادہ دیتے ہیں.دیوانی وال کے تکیہ میں ایک آم کا درخت تھاوہ ہر سال تین تین چار چار سو روپیہ پر پک جاتا تھا گویا ایک ایک ایکڑ سے تین تین چار چار سو کی زائد آمد پیدا کی جاسکتی ہے.عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ آم کا درخت سات سال کے بعد پھل دیتا ہے اور مالٹا کا درخت پانچویں چھٹے سال پھل دیتا ہے لیکن آم کا درخت سو سال تک پھل دیتا چلا جاتا ہے.شمالا مار باغ میں بعض ایسے درخت ہیں جو اڑھائی اڑھائی سو سال سے پھل دے رہے ہیں.بہر حال عام طور پر آم کا درخت دو نسلوں تک پھل دیتا چلا جاتا ہے.جماعت کو اس سے فائدہ اُٹھانا چاہئے اور ہر احمدی کو یہ نصیحت کرنی چاہئے کہ وہ اپنے ہر کھیت میں پھلوں کے چار چار درخت لگائے.آٹھ سال کے بعد ان کے پاس ایک مستقل باغ ہو جائے گا اور اس سے زائد آمد کی صورت پیدا ہو جائے گی.ہماری جماعت کا ایک بڑا حصہ زمینداروں پر مشتمل ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق احادیث میں آتا ہے کہ وہ حارث اور حراث ہو گا یعنی وہ خود بھی زمیندار ہو گا اور ایک بڑے زمیندار کا بیٹا بھی ہو گا اس لئے آپ کی جماعت کو سمجھ لینا چاہئے کہ زمیندارہ کام میں بہت برکت ہے.پس زمینداروں کو چاہئے کہ وہ صحیح طور پر کام کریں اور اپنی آمد اور پیدا وار کو بڑھانے کی کوشش کریں.جو سکیم زراعت کے متعلق پیش کی گئی ہے اس کے متعلق یا درکھنا چاہئے کہ اس کے علمی حصے ضلع کی جماعت پورے نہیں کر سکتی.ضلع کی امارت آگے کئی امارتوں میں تقسیم ہوتی ہے.مثلاً پوہلہ مہاراں کی جماعت کو ہی لے لو اس حلقہ کی امارت اپنی امارت کے حلقہ کی جماعتوں کو ہی ہدایات جاری کر سکتی ہے اور اپنے علاقہ کے متعلق ہی معلومات حاصل کر سکتی ہے.

Page 648

خطابات شوری جلد سوم ۶۳۲ رت ۱۹۵۶ء جو حصہ اس سکیم کا تمام صوبے یا ملک سے تعلق رکھتا ہے اُس کے متعلق ضلع کی جماعت کو مرکز ہی اطلاع دے سکتا ہے.ایک امارت زیادہ سے زیادہ ۵ × ۵ میل پر مشتمل ہوگی اور ضلع کی امارت زیادہ سے زیادہ ۱۰۰ × ۱۰۰ میل پر حاوی ہو گی بہر حال مرکز کو چاہئے کہ وہ جماعتوں کو زرعی امور کے متعلق ہدایات جاری کرے اور اُنہیں بتائے کہ فلاں جگہ فلاں فصل کم ہوتی ہے اور فلاں جگہ زیادہ.روس نے زمین کا سروے کرنے کے بعد جب اپنے ملک میں ہدایات جاری کیں کہ فلاں علاقہ میں صرف فلاں فصل کی کاشت ہو سکتی ہے اور فلاں علاقے میں فلاں کی تو اُن کی آمد میں دس گنا اضافہ ہو گیا لیکن ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ ہر زمیندار یہ سمجھتا ہے کہ ساری چیزیں اپنے گھر کی ہی ہوں.ماش بھی اپنے گھر کے ہوں، تیل بھی اپنے گھر کے ہوں ، شکر بھی اپنے گھر کی ہو، چاول بھی اپنے گھر کے ہوں ، گندم بھی اپنے گھر کی ہو، کپاس بھی اپنے گھر کی ہو، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ ساری فصلیں اس زمین کے حالات کے مطابق نہیں ہوتیں جس کی وجہ سے زمیندار کی آمد میں کمی آجاتی ہے.اگر ہمارے ملک میں بھی ہر فصل کے مطابق علاقہ کو چن لیا جائے اور پھر وہاں صرف اُسی چیز کی کاشت کرنے کا زمینداروں کو مشورہ دیا جائے تو نہ صرف ملک کی آمد میں اضافہ ہوگا بلکہ افراد کی اقتصادی حالت ترقی کرے گی اور یہ ہدایات مرکز ہی دے سکتا ہے ضلع کی کمیٹی یہ کام نہیں کر سکتی.“ نیز فرمایا:.66 ڈاکٹر نے مجھے لکھا ہے کہ آپ کو یہاں آئے ہوئے اڑھائی گھنٹے ہو گئے ہیں اس لئے اب آپ کو واپس چلنا چاہئے کل تو شور بہت زیادہ تھا جس کی وجہ سے تکلیف محسوس ہوتی رہی لیکن آج اتنی دیر بیٹھنے کے باوجود کوئی تکلیف نہیں ہوئی.شاید کام کرنے کی عادت بڑھ رہی ہے.بہر حال اس وقت میں دوستوں کو ایک رؤیا سنا دیتا ہوں.چند دن ہوئے مجھے ایک رویا رؤیا میں ایک عورت نظر آئی جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ اُس نے مجھے غافل پا کر مجھ پر توجہ کی تھی.خواب میں میں سمجھتا ہوں کہ ۱۹۵۳ء کے فسادات میں چونکہ جماعت کے دشمن بُری طرح خائب و خاسر ہوئے تھے اس لئے اس نا کامی کے بعد میرے متعلق

Page 649

خطابات شوری جلد سوم ۶۳۳ درت ۱۹۵۶ء ان کے اندر یہ شدید خواہش پیدا ہوئی کہ کاش! یہ شخص ختم ہو جائے کیونکہ یہ ہمارے راستہ میں روک بنا ہوا ہے اگر یہ رستہ سے ہٹ جائے تو یہ جماعت بھی ختم ہو جائے گی.جب مجھے محسوس ہوا کہ اس عورت نے مجھ پر توجہ کی تھی تو میں نے اُسے کہا کہ تم نے بے خبری کے عائم میں مجھ پر توجہ کر لی تھی اب مجھ پر توجہ کرو تو جانوں.اتنے میں میں دیکھتا ہوں کہ ایک مرد اُس عورت کو اشارہ کر رہا ہے.اِس پر اُس عورت نے بھی انگلی سے اُسے اشارہ کیا.میں نے اس وقت اس کی انگلی پر توجہ کی اور میں نے دیکھا کہ اس توجہ کے نتیجہ میں اُس کی انگلی بالکل اکٹر گئی.پھر میں نے اس کی انگلی پکڑ کر دیکھا تو وہ مڑتی نہیں تھی.اُس مرد نے بھی اس کی انگلی مروڑی لیکن وہ نہ مُڑی.اس سے میں نے یہ سمجھا کہ میری یہ بیماری چونکہ دشمنوں کی ایک مخفی توجہ کے نتیجہ میں پیدا ہوئی تھی، اس لئے اس کا تعلق زیادہ تر دعاؤں سے ہی ہے.چنانچہ میں نے تجربہ کیا ہے کہ جن دنوں کثرت سے دُعائیں ہوں مجھے آرام آنا شروع ہو جاتا ہے.جلسہ سالانہ کے موقع پر بھی میں نے دیکھا ہے کہ اگرچہ میں نے بہت زیادہ کام کیا تھا لیکن چونکہ دوستوں نے دعا کی طرف خاص توجہ کی تھی اس لئے نہ صرف میری طبیعت پر کام کا کوئی بوجھ نہ پڑا بلکہ بعد میں بھی میری صحت ترقی کرتی گئی.سوئٹزر لینڈ میں بھی میں نے رویا دیکھا تھا کہ ہماری جماعت کے ہزاروں ہزار آدمی اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہیں اور میرے لئے دُعا کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اے خدا! اس نے تیری کتاب قرآن کریم کو ہمارے اتنا قریب کر دیا تھا کہ ہمیں یوں معلوم ہوتا تھا یہ ہم پر ہی نازل ہو رہی ہے.ابھی ہم اس بات کے لئے تیار نہیں ہیں کہ یہ شخص ہم سے جُدا ہو جائے تو ہم پر رحم کر اور اسے ہمارے درمیان رہنے دے کے اس وقت میں نے سمجھا کہ اس رویا میں میری موت کی طرف اشارہ ہے لیکن بعد میں میں نے دیکھا کہ میری صحت ترقی کرنے لگی اور کچھ دنوں کے بعد اُس دُعا کے نتیجہ میں جو رمضان کے آخر میں ربوہ میں ہوئی تھی میری طبیعت بڑی حد تک اچھی ہو گئی.میں گھر میں بھی کہا کرتا ہوں کہ میری بیماری جتاتی قسم کی بیماری ہے.ایک منٹ میں طبیعت خراب ہو جاتی ہے اور ایک منٹ میں سنبھل جاتی ہے.جب تکلیف کا اظہار کرتا ہوں تو گھر والے کہتے ہیں ابھی تو آپ اچھے بھلے تھے اور اب آپ تکلیف کا اظہار کر رہے ہیں.

Page 650

خطابات شوری جلد سوم ۶۳۴ رت ۱۹۵۶ء میں انہیں یہی جواب دیتا ہوں کہ میری بیماری جناتی قسم کی ہے.احادیث میں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جادو ہو جانے کے متعلق روایت آتی ہے اُس کی وجہ بھی درحقیقت یہی تھی کہ یہودی خواہش رکھتے تھے کہ آپ فوت ہو جائیں اور اُن کے اندر یہ خواہش اتنی شدت اختیار کر گئی کہ اُس کا آپ کی طبیعت پر بھی اثر گیا.میری بیماری کی وجہ بھی یہی تھی چنانچہ میں نے خواب میں اُس عورت سے یہی کہا کہ پہلے تو میں نا واقف تھا اس لئے تمہاری توجہ کا اثر ہو گیا، اب توجہ کرو تو میں جانوں.پھر میں نے اُس کی اُنگلی پر توجہ کی تو وہ اکٹر گئی اور اُس کی ایسی حالت ہوگئی کہ وہ ادھر اُدھر مڑتی نہیں تھی.دوسرے شخص نے بھی اس کی انگلی مروڑی تو وہ نہ مڑی.بہر حال میری طبیعت ایسی ہے کہ اگر صبح کو اچھی ہوتی ہے تو شام کو خراب ہو جاتی ہے.میں نے خطبہ میں بھی بیان کیا تھا کہ میری حالت عجیب ہے اگر میں کہتا ہوں کہ میں اچھا ہوں تو پچاس آدمیوں کے نام ملاقات کے لئے آجاتے ہیں اور اگر میں یہ کہوں کہ میں بیمار ہوں تو یہ جھوٹ ہوتا ہے کیونکہ اُس وقت میں تندرست ہوتا ہوں.ویسے ملاقات ہوتی رہتی ہے اور تفسیر کا کام بھی کر رہا ہوں لیکن آنے والے تھوڑا وقت لیں اور میری صحت کا خیال رکھیں تو کوئی حرج نہیں لیکن آنے والے سمجھتے ہیں کہ آج ہی ساری کسر پوری کر لی جائے.ڈاکٹر تو ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ آپ کی طبیعت بالکل اچھی ہے لیکن ساتھ ہی یہ کہتے ہیں کہ اچھا ہونا آپ کے اختیار میں ہے.کام کا یہ حال ہے کہ میں نے سیر روحانی کی تین تقریریں ٹھیک کروا دی ہیں.سورۃ کافرون کی تفسیر ہو چکی ہے اور سورۃ مریم اور طہا کے نوٹ لکھوا رہا ہوں.احباب دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے قرآن کریم کی تفسیر کا کام پورا کرنے کی توفیق دیدے اور میرا اگلا سال اس سال سے بہتر ہو.اب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کام کرائیں گے میں واپس جاتا ہوں.“ نوجوانوں کو جامعہ احمدیہ میں داخل ہونے کی تحریک مشاورت میں یہ سوال زیر بحث آیا کہ جامعہ احمدیہ میں طلباء کے داخلہ کی کمی کیسے دور کی جائے.اس بارہ میں ممبران کے اظہار خیال کے بعد حضور نے فرمایا : -

Page 651

خطابات شوری جلد سوم ۶۳۵ رت ۱۹۵۶ء ایک کمیٹی مقرر کر دی جائے جو دونوں سوالوں پر غور کرے.علیحدہ علیحدہ کمیٹیاں مقرر کرنے کی ضرورت نہیں.اب ان امور پر اس اجلاس میں بحث کرنے کی ضرورت نہیں کمیٹی بیٹھے گی اور ان امور پر غور کر لے گی اور اس کی سفارشات پر صدر انجمن احمد یہ غور کرے گی.باقی اصل چیز یہ ہے کہ ہمیں تو نسخہ قرآن کریم نے بتا دیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.تهران نَفَعَتِ الذكرى یعنی تم تحریک کرتے جاؤ ایک نہ ایک دن وہ تحریک ضرور کامیاب ہو گی.خالی میرے خطبات کافی نہیں.جب لڑکے پڑھتے ہیں تو کئی لڑکے ایک دفعہ بات سن کر متاثر ہوتے ہیں، کئی دو دفعہ بات سن کر متاثر ہوتے ہیں اس لئے اگر میں ایک یا دو خطبات میں کسی امر کی تحریک کروں تو اُس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا.چاہئے تھا کہ اساتذہ لوگوں سے درخواست کرتے کہ وہ طلباء کو جامعہ احمدیہ میں داخل ہونے کے لئے تحریک کریں اور اُن کے دلوں میں دینی علوم حاصل کرنے کا شوق پیدا کریں لیکن اُنہوں نے اس طرف توجہ نہیں کی حالانکہ دُنیا میں یہی طریق رائج ہے کہ اصلاح کے قابل لوگوں تک پہنچ کر اُن کی اصلاح کی جاتی ہے.جیل خانہ جات میں بھی لوگ جاتے ہیں اور قیدیوں کو اخلاق کی طرف توجہ دلاتے ہیں.سکول اور کالج میں اس کا انتظام کیا جائے اور علماء بھی اس طرف توجہ کریں.وہ ہیڈ ماسٹر صاحب اور پرنسپل صاحب کو ملیں اور اُن سے کہیں کہ وہ انہیں طلباء سے مل کر انہیں دینی تعلیم کی عظمت بتانے کا موقع دیں.اگر ایسا ہو جائے تو طلباء میں جوش پیدا ہو جائے اور بہت سے لڑکے جامعہ احمدیہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آجائیں گے.پچھلے دنوں میں نے چند خطبات پڑھے ہیں ان کی وجہ سے کئی لوگوں نے اپنی زندگی وقف کی ہے.ایک دوست کا خط آیا ہے کہ اس نے اپنے میٹرک پاس لڑکے سے زندگی وقف کرنے کا ذکر کیا اور وہ جامعہ احمدیہ میں آنے کو تیار ہے.اسی طرح ایک اور بی.اے کے طالب علم کی طرف سے بھی خط آیا ہے اور بھی کئی لوگوں کے خطوط آئے ہیں اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ تحریک کی جائے اور اس کا کوئی اثر نہ ہو.ضرورت ہے کہ انہیں بار بار تحریک کی جائے اور علماء اپنی ذمہ داری کو سمجھیں.وہ یہ خیال نہ کریں کہ میں نے خطبہ پڑھ دیا ہے اس لئے مزید تحریک کی ضرورت نہیں.وہ ہیڈ ماسٹر اور پرنسپل سے مل کر طلباء کو دینی تعلیم

Page 652

خطابات شوری جلد سوم ۶۳۶ درت ۱۹۵۶ء کی طرف توجہ دلائیں.لڑکوں سے مل کر اُنہیں نصیحت کریں اور سمجھا ئیں کہ دین کی خدمت کرنا اچھا ہے.اگر علماء اس طرف توجہ کریں تو طلباء کو جامعہ احمدیہ کی طرف متوجہ کرنا کوئی مشکل امر نہیں.داخلہ کے متعلق جو خیالات ظاہر کئے گئے ہیں اُن کے متعلق ابھی کچھ بیان کرنا تصیح اوقات ہے، ان پر بھی کمیٹی خود غور کرے گی.بیرونی مبلغوں سے بھی رائے طلب کی جائے کہ کتنے مبلغوں کی ضرورت ہے اور اس کے مقابلہ میں کس قدر داخلہ ہوسکتا ہے.مجھے شکایت ہے کہ سرحد کے احمدی نوجوانوں میں سے بہت کم نو جوان زندگی وقف کر کے آئے ہیں.صرف ایک سرحدی نوجوان نے بی.اے پاس کر کے اپنی زندگی وقف کی ہے.اس کے رشتہ دار کامیاب وکیل ہیں.اس نے کہا کہ آپ مجھے وکالت پاس کرنے کی اجازت دیں ، میں وکالت پاس کر کے وقف میں آجاؤں گا اور سلسلہ کے لئے زیادہ مفید وجود ثابت ہوں گا.میں نے کہا یہ سب دھوکا ہے تم دینی کام کرو اور اس بات کا خیال جانے دو کہ تم اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد سلسلہ کے لئے مفید وجود ثابت ہو گے.چنانچہ اس نے شرح صدر سے میرا مشورہ قبول کیا اور جامعتہ المبشرین میں داخل ہو گیا اور اگلے سال وہ شاہد ہو جائے گا.پس سمجھانے سے سب کچھ ہو جاتا ہے اب جماعت لاکھوں کی ہے.اگر جماعت کے دس فیصدی لوگ بھی ہماری بات نہ مانیں تو گھبرانے کی وجہ نہیں ، سمجھنے والے موجود ہیں اس لئے علماء کو چاہئے کہ وہ والدین اور اُن سے زیادہ بچوں کو سمجھائیں اور دینی تعلیم کی طرف انہیں توجہ دلائیں.بچے دلیر ہوتے ہیں اور بعض اوقات وہ ماں باپ کے روکنے کے باوجود وقف کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.مجھے کئی ایک بچوں کے خطوط آتے ہیں کہ وہ دین کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمارے والدین منع کرتے ہیں، کیا ہم والدین کی نافرمانی کر کے وقف کر سکتے ہیں؟ میں انہیں یہی لکھتا ہوں کہ کیا فوج میں بھرتی کے لئے ماں باپ سے اجازت لینے کی ضرورت ہوتی ہے.بے شک باپ منع کرتا ہے تو کرے تم وقف کر کے سلسلہ کی خدمت کے لئے حاضر ہو جاؤ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھ لو.آپ کے والد نے آپ کو سیالکوٹ میں ملازم کرا دیا لیکن آپ جلد ہی ملازمت چھوڑ کر آگئے اور ہم آپ کے ملازمت چھوڑ کر آ جانے کو نیکی سمجھتے ہیں اور

Page 653

خطابات شوری جلد سوم ۶۳۷ رت ۱۹۵۶ء آپ کے اس فعل کو قابل فخر سمجھتے ہیں.پھر ماں باپ کی ناپسندیدگی کے باوجود وقف کرنے والے لڑکوں کو قابلِ مذمت کیوں قرار دیں.چنانچہ میں ایسے لڑکوں کو یہی جواب دیتا ہوں کہ اگر تمہیں اطمینان قلب حاصل ہے اور تم خدا تعالیٰ کا کام کرنا چاہتے ہو تو والدین کی پرواہ نہ کرو اور دین کی خدمت کے لئے اپنی زندگیاں پیش کر دو.پس اصل چیز یہ ہے کہ پوری طرح تحریک نہیں کی جاتی.باہر سے مہمان آتے ہیں، علماء کو چاہئے کہ انہیں بھی ملیں اور اس بارہ میں انہیں تحریک کریں.قادیان میں پچاس ساٹھ مہمان روزانہ آجاتے تھے.پندرہ ہیں تو یہاں بھی آجاتے ہوں گے، علماء ان کے پاس جائیں اور انہیں تحریک کریں کہ وہ اپنی اولاد میں سے ایک حصہ کو دین کی خدمت کے لئے وقف کریں.چھٹیوں میں اُنہیں یہاں بھیج دیا کریں تاکہ وہ قرآن کریم سیکھیں.جب میٹرک پاس کر لیں تو اُنہیں جامعہ احمدیہ میں بھیج دیں اس کے بعد وہ عالم بن جائیں گے.پس علماء تحریک کریں، وہ دیکھیں گے کہ تھوڑے ہی عرصہ میں نو جوانوں کو وقف زندگی کی طرف رغبت پیدا ہو جائے گی.دل خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہوتے ہیں.وہ اُنہیں جس طرف چاہے موڑ سکتا ہے.صرف زبان ہلانے کی ضرورت ہے ، نتائج کے متعلق فکر کرنے کی ضرورت نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.بمفت ایں اجر نصرت را د ہندت اے اخی ورنہ قضائے آسمانست ایں بہر حالت شود پیدا پس خدا تعالیٰ تو آپ لوگوں کو مفت میں اجر دینا چاہتا ہے ورنہ یہ اُس کا فیصلہ ہے کہ کام بہر حال ہو گا اس لئے چاہے والدین ناراض ہوں لیکن بچے وقف زندگی میں ضرور آئیں گے کیونکہ خدا تعالیٰ فیصلہ کر چکا ہے کہ وقف کرنے والے آئیں گے اور ضرور آئیں گے اور ہمارا فرض ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس قول پر ایمان لائیں جو میں پہلے بیان کر چکا ہوں.والدین اور بچوں کو تحریک کریں تا احمدیوں کے کانوں میں یہ بات نا رہے کہ احمدیت کی خدمت کے لئے نوجوانوں کی ضرورت ہے.تم دیکھتے ہو کہ سپاہیانہ زندگی میں نوجوان بڑے شوق سے آتے ہیں.وقف بھی ایک قسم کا فوجی کام ہی ہے اس میں نوجوان ضرور آئیں گے.ہمیں صرف تحریک کرتے رہنا چاہئے خدا تعالیٰ ضرور امداد

Page 654

خطابات شوری جلد سوم ۶۳۸ کرے گا ، باقی تفصیلات کمیٹی خود طے کر لے گی.“ اختتامی تقریر رت ۱۹۵۶ء مجلس مشاورت کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد حضور نے مختصر الوداعی خطاب فرمایا : - اس سال مشاورت کے لئے چار دن مقرر کئے گئے تھے تاہم تین دن میں ہی کام مکمل ہو گیا.اس کا نیز اپنی بیماری کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا.میں بیماری کی وجہ سے اپنے ماحول کو بھی پوری طرح نہیں سمجھ سکتا.مجلس میں کئی باتیں ہوتی ہیں ایک بات کا دوسری بات سے تعلق ہوتا ہے لیکن میں اپنے ذہن میں ان کے تسلسل کو قائم نہیں رکھ سکتا.ورنہ جب میری صحت اچھی تھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے سارا کام میں خود ہی کرتا رہا ہوں اب مجبور ہوں.جب ایک بات کے بعد دوسری بات شروع ہوتی ہے تو میں پہلی بات بُھول جاتا ہوں اور اس طرح تسلسل قائم نہیں رہتا ، دماغ پریشان ہو جاتا ہے اس لئے جو کام میری طاقت سے باہر ہے اسے کرنا میرے لئے مشکل ہے.شوری کے لئے اس سال چار دن مقرر تھے مگر میں نے دیکھا ہے کہ اس سال بہت کم لوگ شوری پر آئے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں آہستہ آہستہ اس کی عادت پڑ جائے گی.چندوں کو ہی لے لو، شروع شروع میں لوگ بہت کم چندہ دیتے تھے پرانی لسٹوں کو دیکھ لو آنہ آنه ، دو دو آنہ چندہ لکھا ہے آج جماعت کے غریب سے غریب افراد بھی بڑی بڑی رقوم بطور چندہ دے جاتے ہیں.تھوڑے دن ہوئے ایک شخص مجھے ملنے آیا وہ غیر احمدی تھا دیر تک وہ مجھ سے باتیں کرتا رہا.بعد میں اُس نے سو روپے چندہ دیا اور کہا کہ اِس رقم سے کتابیں خریدیں اور اپنی لائبریری میں رکھیں.پس کجا یہ حالت تھی کہ اگر کوئی احمدی دو آنہ یا تین آنہ چندہ دیتا تھا تو اخبارات میں چھپتا تھا کہ فلاں شخص نے اتنی رقم دینے کا وعدہ کیا ہے لیکن اب ایک معمولی احمدی بھی پانچ چھ روپیہ سالانہ دے دیتا ہے.پھر کئی ایسے بھی ہیں جو ہزار ہزار، دو دو ہزار روپیہ سالانہ چندہ دیتے ہیں اور اب تو عام چندہ کے علاوہ تحریک جدید کا چندہ بھی ہے.پس یہ عارضی روکیں ہیں.علماء سکولوں سے تعلقات پیدا کریں اور لڑکوں کو تحریک کریں کہ وہ خدمت دین

Page 655

خطابات شوری جلد سوم ۶۳۹ رت ۱۹۵۶ء کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں.پھر انٹرنس کیا بی اے بھی وقف میں آئیں گے ضرورت اس بات کی ہے کہ علماء اُن سے ملیں اور اُن پر دین کی اہمیت واضح کریں اور سلسلہ کی ضرورت پیش کریں.اس سے اُن کے اندر خدمت دین کا جذبہ پیدا ہو جائے گا.اس سال شوری کے لئے چار دن مقرر تھے لیکن مجلس نے پچھلے سال کی طرح تین دن میں اپنا کام ختم کر دیا مگر امید ہے کہ آہستہ آہستہ جماعت کے دوست اس بات کی اہمیت کو سمجھ جائیں گے اور نمائندگان بھی کثرت سے آئیں گے اور کام بھی تین دنوں میں ختم نہیں ہوگا.اسی طرح تقریریں کرنے والوں کو بھی اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لئے زیادہ وقت دیا جا سکے گا.ہمارے ملک میں ایک مشہور ضرب المثل ہے کہ ”سج پکے سو میٹھا ہو ، جو پھل آہستہ آہستہ پکتا ہے وہ ہمیشہ میٹھا ہوتا ہے.اگر کسی آم کو جلد پکانے کے لئے پندرہ لحاف اُس پر ڈال دیئے جائیں تو زیادہ گرمی کی وجہ سے وہ سڑ جائے گا لیکن اگر اسے تھوڑی اور مناسب گرمی پہنچائی جائے تو وہ میٹھا ہوگا جماعت کو بھی جو ترقیات ملی ہیں وہ آہستہ آہستہ ہی ملی ہیں.پہلی شوری کو ہی لے لو اُس میں سو ڈیڑھ سو ممبر شامل ہوتے تھے لیکن پھر ان کی تعداد پانچ سو سے بھی بڑھ گئی.تقسیم ملک کے بعد ممبران میں پھر کمی آنی شروع ہوئی لیکن آہستہ آہستہ یہ کمی پھر زیادتی سے بدل گئی.بہر حال جب کسی چیز پر نیا دور آتا ہے تو کم لوگ اس میں حصہ لیتے ہیں.ربوہ میں پہلا سالانہ جلسہ ہوا تو اُس میں بہت کم لوگ آئے تھے لیکن اب جلسہ پر آنے والوں کی تعداد چالیس پچاس ہزار کے قریب ہوتی ہے اور دوست دیکھیں گے کہ کسی دن جلسہ پر آنے والوں کی تعداد خدا تعالیٰ کے فضل سے لاکھ سے بھی آگے نکل جائے گی.اسی طرح اس دفعہ شوریٰ کا کام چار دن کی بجائے تین دن میں ختم کر دیا گیا ہے لیکن جب دو چار دفعہ چار دن کی سکیم چل جائے گی تو دماغ پک جائیں گے اور آنے والے سوچیں گے کہ اُنہوں نے چار دن تک یہاں رہنا ہے اور پھر لوگ بڑی کثرت سے آنے لگ جائیں گے.آؤ اب ہم یہ دعا کر کے شوری کے اجلاس کو ختم کریں کہ خدا تعالیٰ ہمیں پھر اگلے سال شوری میں شریک ہونے کا موقعہ دے اور ہمیں عمدگی سے ان چار دنوں کو استعمال کرنے کی

Page 656

خطابات شوری جلد سوم ۶۴۰ اورت ۱۹۵۶ء توفیق بخشے.اسی طرح کام کرنے والوں کو یہ بات سمجھنے کی عادت پڑ جائے کہ ہم نے چار دن کام کرنا ہے اور آنے والوں کو بھی یقین ہو کہ اُنہوں نے چار دن تک یہاں رہنا ہے اور اس کے بعد واپس جانا ہے.“ اس کے بعد حضور نے نمائندگان سمیت لمبی دعا کروائی اور شوریٰ کا اجلاس ختم ہوا.ل الوصیت صفحہ ۲۱.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۱۹ تذکرہ صفحہ ۱۳۹ ایڈیشن چہارم سے پونڈا: گنا.موٹا اور نرم گنا مقاطعہ : ٹھیکہ الشعراء : ٢٢٦ ( رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۶ء ) بخاری کتاب التوحيد باب قول الله تَعَالَى وَيُحَذِّرُكُمُ الله نَفْسَهُ صحیح بخاری کتاب الرقاق باب فضل الفقر الفضل ۱۴ جون ۱۹۵۵ء الاعلى : ١٠

Page 657

خطابات شوری جلد سوم ۶۴۱ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء دعا بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء منعقده ۲۱ تا ۲۳ / مارچ ۱۹۵۷ء) پہلا دن ماعت احمدیہ کی اڑتیسویں مجلس مشاورت ۲۱ تا ۲۳ مارچ ۱۹۵۷ء کو تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے ہال میں منعقد ہوئی.کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہو ا.اس کے بعد حضور نے دُعا سے متعلق فرمایا : - اب میں دُعا کر دیتا ہوں دوست بھی میرے ساتھ شامل ہوں.دعاؤں میں اس بات کا خیال رکھیں کہ اپنے ملک اور سلسلہ دونوں کے لئے دعائیں کریں.بعض لوگ یہ خیال کر لیتے ہیں کہ ملک کی ترقی یا اس کی کامیابی ایک دُنیوی معاملہ ہے لیکن یا درکھنا چاہئے کہ اگر ہمارے ملک کی ترقی نہیں ہوگی تو ہماری جماعت کی آمد بھی نہیں بڑھے گی.ہماری جماعت کا بڑا حصہ پاکستان میں رہتا ہے.اگر پاکستان کی مالی حالت ترقی کرے تو جماعت کی مالی حالت بھی ترقی کرے گی اور چندے بھی بڑھیں گے اور جوں جوں چندے بڑھیں گے بجٹ بھی بڑھے گا، اسی طرح آپ کی مسجدیں بھی انشاء اللہ بڑھتی چلی جائیں گی.اسی طرح اگر ملک کی تجارتی ترقی ہو تو فارن اینچ آزاد ہو جاتا ہے.آجکل مسجد میں بنانے میں روپیہ کی اتنی رقت نہیں جتنی فارن ایکیھنچ کی ہے.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہماری جماعتیں یورپ میں بھی ہیں، افریقہ میں بھی ہیں، امریکہ میں بھی ہیں اس کی وجہ سے گورنمنٹ کی مہربانی کے علاوہ ان جماعتوں کی مدد سے بھی ہمارے کچھ کام ہو جاتے ہیں مگر اس میں ابھی زیادہ آزادی نہیں.ہماری باہر کی جماعتیں ابھی تھوڑی ہیں، زیادہ جماعتیں

Page 658

خطابات شوری جلد سوم ۶۴۲ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء کستان میں ہی ہیں.اگر اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کی تجارت میں برکت دے اور ملک کا ایکسچینج بڑھ جائے اور ہماری جماعت کو بھی کثرت سے ایکسچینج مل سکے تو ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑی سرعت کے ساتھ مسجدیں بنا سکتے ہیں.وقت زیادہ تر ایکسچینج کی ہوتی ہے.باہر کے لوگ چونکہ ہماری حکومت کے قانون کے نیچے نہیں ہوتے اس لئے کچھ تو گورنمنٹ ایکسچینج دیتی ہے اور کچھ ہمارے غیر ملکی احمدیوں سے امدا دمل جاتی ہے اور ان دونوں کو ملا کر مبلغوں کا خرچ بھیجا جاتا ہے اور مساجد کی تعمیر کی کوشش کی جاتی ہے لیکن پاکستان گورنمنٹ سے حاصل کردہ اینچ اور غیر ملکی احمدیوں کی مدد ملا کر بھی اتنی رقم جمع نہیں ہوتی کہ ہم کوئی بڑا کام کر سکیں.وہ رقم بہت قلیل ہوتی ہے اور بڑی مشکل سے بیرونی مشعوں کے اخراجات چلائے جا سکتے ہیں.پس دُعائیں کرو کہ جن باتوں پر ہم یہاں غور کرنے کے لئے آئے ہیں اُن میں اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح طریق اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم ایسی باتوں کا فیصلہ کریں جو اسلام اور سچائی اور امن کے لئے مفید ہوں اور ایسی باتوں کا فیصلہ نہ کریں جو اسلام اور سچائی اور امن کے لئے مضر ہوں.خدا تعالیٰ خود ہماری راہ نمائی کرے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ہم بڑے غور وفکر کے ساتھ ایک بات کے متعلق یہ خیال کریں کہ وہ ہمارے لئے مفید ہو گی لیکن خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ بُری ہو.پس خدا کرے کہ ہمارے ذہن میں وہ باتیں آئیں جو ہمارے نزدیک بھی اچھی ہوں اور خدا تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھی ہوں تا کہ اس سے ہم کو بھی فائدہ پہنچے ، اسلام کو بھی فائدہ پہنچے اور دین حلقہ کو بھی فائدہ پہنچے.پس تم یہ دُعائیں کرو اور یہ دُعا بھی کرو کہ تحریک جدید اور صدر انجمن احمدیہ کا جو بجٹ ہم پاس کریں اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.بجٹ شاندار بنا لیا جائے چاہے دس لاکھ کا بنا لیا جائے لیکن آئے دس ہزار بھی نہیں تو اس بجٹ کا فائدہ کیا ہے.اس دفعہ خدا تعالیٰ کے فضل سے تحریک جدید اور صدرانجمن احمدیہ کا بجٹ ۲۸ لاکھ کا ہے مگر ۲۸ لاکھ کا بجٹ تبھی بابرکت ہوسکتا ہے جب ۲۸ لاکھ کی بجائے ۳۰ لاکھ آئیں.ہم تو اُس دن کا انتظار کر رہے ہیں جب کروڑوں نہیں اربوں کا بجٹ ہوا کرے گا اور دُنیا کے چپہ چپہ پر مسجد میں ہوں گی اور دُنیا کے چپہ چپہ پر اسلام کا مبلغ ہوگا اور

Page 659

خطابات شوری جلد سوم ۶۴۳ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء ہماری خوشی اور ہماری راحت کا وقت وہی ہوگا اس لئے دُعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صرف بجٹ پاس کرنے کی ہی توفیق نہ دے بلکہ بجٹ میں جو رقوم درج ہیں اللہ تعالیٰ اُن سے بہت زیادہ سلسلہ کے لئے مالی قربانی کی ہمیں توفیق دے اور پھر جماعت کی مالی حیثیت اور اس کی تعداد کو بڑھاتا جائے یہاں تک کہ ہمارا بجٹ کروڑوں نہیں اربوں اور کھر بوں تک پہنچ جائے گا اور دُنیا کا کوئی ملک اور کوئی گوشہ ایسا نہ ہو جس میں ہم مسجد میں نہ بنالیں اور کوئی گوشہ ایسا نہ ہو جس میں ہماری طرف سے اسلام کے مبلغ موجود نہ ہوں.اسی طرح جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے یہ بھی دُعائیں کرو کہ ہماری گورنمنٹ کے لئے جو تجارت کی دقتیں ہیں، اسی طرح فارن کرنسی کی ہوتیں ہیں خدا تعالیٰ انہیں دُور کرے.پھر حکومت کا دل بھی وسیع کرے کہ جو ہمارے لئے زیادہ سے زیادہ کرنسی منظور کرے جس کے ساتھ مسجدیں بھی بنیں اور مبلغ بھی باہر جاسکیں.غرض اللہ تعالیٰ دینی اور دنیوی دونوں حالتوں میں ہماری بھی اور ہمارے ملک کی بھی مدد کرے.دُعا کے بعد سب سے پہلے ایک ریزولیوشن پیش ہوگا جس کے متعلق میں نے جلسہ میں بھی ذکر کیا تھا.اس کے بعد سب کمیٹیاں تجویز کی جائیں گی.اب سب لوگ میرے ساتھ شامل ہو کر دعا کر لیں.“ اس کے بعد حضور نے دعا کروائی اور دعا کے بعد فرمایا :- انتخاب خلافت کے متعلق ایک ریزولیوشن ”اب میں باقی ایجنڈا شروع کرنے سے پہلے مولوی ابوالعطاء صاحب کو ہدایت دیتا ہوں کہ وہ ریزولیوشن جو میری ہدایت کے مطابق بنایا گیا ہے اور جلسہ سالانہ پر انتخاب خلافت کے سلسلہ میں میں نے اس کا ذکر کیا تھا پڑھ کر سنا ئیں.“ اس پر مولوی ابوالعطاء صاحب سٹیج پر تشریف لائے اور آپ نے مندرجہ ذیل تقریر کی:.مسئلہ خلافت اسلام کا ایک اہم مسئلہ ہے اور جماعت احمد یہ نصف صدی سے پوری وضاحت اور یقین کے ساتھ اس پر قائم ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کا انتخاب ہوا تو جماعت نے بالا تفاق اس بات کا

Page 660

خطابات شوری جلد سوم ۶۴۴ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء اظہار کیا کہ یہ مسلم جماعت کے لئے نیز اسلام کی حفاظت اور ترقی کے لئے نہایت ضروری ہے.حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کی وفات کے بعد خلافت ثانیہ کا دور شروع ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ایک بار پھر یہ امر ثابت کر دیا کہ جماعت کے انتظام، اس کی ترقی اور اشاعت کے لئے خلافت کا وجود نہایت ضروری ہے.پچھلے ۴۵ سال کا دور ہماری نظر کے سامنے سے گزرا ہے اور ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ کس طرح خلافت کے افضال اور برکات جماعت پر نازل ہوئی ہیں.حي و قیوم صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہے.ہر انسان جو اس دنیا میں پیدا ہوا ہے اُس نے ایک نہ ایک دن اس دنیا سے رخصت ہونا ہے.اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے امام کو لمبی اور صحت والی زندگی عطا فرمائے لیکن یہ مسئلہ جماعت کے لئے انتہائی قابلِ توجہ ہے تا آئندہ جماعت میں تشقت اور تفرقہ کی کوئی صورت پیدا نہ ہو.جماعت کے احباب کو علم ہے کہ بعض فتنہ پردازوں نے ایک گروہ بنا کر فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ اُس نے ۱۹۵۶ء میں حضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز پر منکشف فرمایا کہ بعض لوگ جاہ طلبی کی وجہ سے جماعت کے انتظام کو توڑنے اور اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.حضور نے بیماری کے باوجود نہایت ہمت اور محنت سے اس فتنہ کی سرکوبی فرمائی اور آپ سب لوگ اس بات کے گواہ ہیں کہ خدا تعالیٰ نے کس قدر آپ کی مدد اور نصرت فرمائی.حضور نے واضح فرمایا ہے کہ خلیفہ خدا ہی مقرر فرماتا ہے اس کے لئے کوشش کرنا نا جائز ہے.خلافت ایک مقدس امانت ہے اور جماعت کا فرض ہے کہ وقت آنے پر نئے خلیفہ کا انتخاب کرے لیکن ان جاہ طلب اور فتنہ پرداز لوگوں کو مایوس کرنے اور جماعت میں اتحاد کو مستحکم کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ ابھی سے خلافت کے انتخاب کے متعلق کوئی قطعی فیصلہ کرے.“ مکرم مولوی صاحب نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے فرمایا: - ” تازہ حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ مخالفین خلافت احمد یہ ابھی تک اپنی کوششوں میں سرگرم ہیں اور ہر رنگ میں جماعت میں تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس لئے جماعت کے ہر فر کو چاہئے کہ وہ ہر وقت بیدار رہے.تا کہ دشمن اپنے منصوبہ اور سازش میں

Page 661

خطابات شوری جلد سوم ۶۴۵ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء کامیاب نہ ہوں.اب میں اس بات کے ثبوت میں کہ خلافت کے مخالف ابھی تک اپنی کوششوں میں سرگرم عمل ہیں بعض شہادتیں پیش کرتا ہوں.مکرم جناب چوہدری عبداللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی کی شہادت مکرم چوہدری عبد اللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی فرماتے ہیں:.غالباً فروری یا مارچ ۱۹۵۶ء کی بات ہے کہ مولوی محمد اسمعیل صاحب غزنوی مجھ سے کراچی میں دو تین دفعہ ملنے کے لئے آئے اتفاق ایسا ہوا کہ میں انہیں مل نہ سکا.اس کے بعد اُنہوں نے مجھے پیغام بھجوایا کہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں مجھے کچھ وقت دیا جائے.میں نے یہ محسوس کر کے کہ وہ دو تین دفعہ مجھ سے پہلے بھی ملنے کی کوشش کر چکے ہیں مگر میں انہیں نہیں ملاحسنِ اخلاق کے ماتحت مناسب سمجھا کہ انہیں خود جا کر مل لوں کیونکہ وہ میری بیوی کے رشتہ دار ہیں.چنانچہ میں نے پیغامبر سے کہا کہ میں آج شام خود اس جگہ حاضر ہو جاؤں گا جہاں وہ ٹھہرے ہوئے ہیں.اُن کا قیام اس وقت احمد غزنوی صاحب سپیشل جج کے ہاں تھا.شام کو میں حسب وعدہ اُن کے ہاں گیا.دوران گفتگو میں اُنہوں نے حضرت (خلیفہ اسیح الثانی) ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ذکر شروع کر دیا اور مجھے کہا کہ میں نے حضور کی بیعت کر لی ہے.میں اس پر ہنس پڑا اور میں نے کہا کہ آپ جھوٹ بولتے ہیں.اس پر اُنہوں نے قسم کھا کر کہا کہ میں نے بیعت کر لی ہے اور کہا میں صحیح کہہ رہا ہوں.کہ میں نے بیعت کر لی ہے اور اس کے بیان کرنے میں میری کوئی ذاتی غرض نہیں.دوسرے دن میں اور ملک اُن کے پاس گئے.میں منصور ملک کو اُن کے پاس چھوڑ کر چلا گیا.بعد میں منصور ملک صاحب نے مجھ سے کہا کہ آپ نے تو مجھے بتایا نہیں.یہ بزرگ تو احمدی ہیں.میں نے کہا یہ مجھ سے بھی یہی بات کہتے تھے لیکن اس بزرگ کا اعتبار نہیں.یونہی منافقت کر رہے ہیں.احمدی نہیں ہیں.“ دسمبر ۱۹۵۶ء کے تیسرے ہفتہ کا واقعہ ہے کہ عبدالرحمن غزنوی جو مولوی محمد اسمعیل صاحب غزنوی کا بھانجا ہے ایک شادی کے سلسلہ میں مجھے میٹرو پول ہوٹل میں ملا اور اُس نے کوئی گفتگو چھیڑ کر مجھے کہا کہ آپ لوگوں نے ہمارے ماموؤں کو جماعت سے نکال دیا ہے لیکن ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ہمارے نانا کی خلافت ہمارے ماموؤں کومل جائے.

Page 662

خطابات شوری جلد سوم.۶۴۶ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء آپ بھی ہمارے ماموؤں کے ساتھ مل جائیں.میں نے کہا مجھ سے تو مار کھائے گا کہنے لگا اگر آپ نہیں تو آپ کی اولاد ہمارے قابو آ جائے گی.میں نے کہا میں نے اس اولاد کی پیدائش سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ سے دُعائیں شروع کر دی تھیں کہ اللہ تعالیٰ اسے شیطان کے حملوں سے محفوظ رکھے اس لئے میری اولاد آپ لوگوں کے قابو نہیں آ سکتی.دوسرے خلافت خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.وہ جس کو چاہے دے.آپ کو ہماری خلافت کی اتنی فکر کیوں ہے.پھر اپنے ماموؤں کے متعلق تو آپ کو اتنی گھبراہٹ ہے.کم سے کم آپ نے اپنے نانا کی بیعت تو کر لی ہوتی کہنے لگا آپ لوگوں نے ہمارے ماموؤں کو جماعت سے نکال دیا ہے وہ خلیفہ ہوں یا نہ ہوں آپ لوگوں میں ہم نے اختلاف ضرور پیدا کر دیا ہے.میں نے کہا شیطان کی جانشینی بھی تو کسی نے کرنی تھی.دوران گفتگو میں اُس نے یہ بھی کہا کہ میں اللہ رکھا کو پچاس روپے ماہوار دیتا رہا ہوں.یا یہ کہا کہ اب بھی دے رہا ہوں.بہر حال اس کا مفہوم یہی تھا.میں نے اُسے کہا کہ میرے گھر آ کر ذرا اپنی بہن کو بھی مل لو.کہنے لگا.میں گیا تو اُس نے بات تو سنی نہیں جو تیاں مارنی شروع کر دینی ہیں.میں نے کہا.تمہارا علاج ہی یہی ہے.خاکسار عبداللہ خان امیر جماعت احمدیہ کراچی اس شہادت سے جو دسمبر ۱۹۵۶ء کے واقعات پر مشتمل ہے ثابت ہے کہ مخرجین کا خاص مقصد خلافت کا حصول یا کم از کم جماعت احمدیہ میں تفرقہ پیدا کرنا ہے.جس کا میاں عبدالمنان صاحب کے رشتہ دار بر ملا اظہار کرتے ہیں.اس ناپاک سکیم کے لئے یہ لوگ اللہ رکھا جیسے انسان کو رقمیں دے کر بھی کام لے رہے ہیں.پس احباب جماعت کا فرض ہے کہ وہ مخرجین کے فتنہ سے ہوشیار رہیں اور انہیں جماعت احمدیہ میں تفرقہ پیدا کرنے کے منصوبہ میں کامیاب نہ ہونے دیں.مکرم مولوی صاحب نے مزید فرمایا کہ : - ۱۷ مارچ ۵۷ ء کی بات ہے کہ عزیزم عطاء الرحیم حامد کو گول بازار میں سے گزرتے ہوئے ایک خط کا ایک ورق ملا جو وہ اُٹھا کر گھر لے آیا.وہ ورق میں آپ کو سنا تا ہوں.

Page 663

خطابات شوری جلد سوم ۶۴۷ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء بسم اللہ الرحمن الرحیم پیارے ماموں صاحب! خدا تعالیٰ آپ کو عمر دراز دے.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ صبح کا ایک بجنے کو ہے.میں ابھی ابھی منہ لپیٹ کر رضائی اوڑھے پڑا تھا.خیال آیا کہ ماموں جان نے کوئی خبر اپنے ہاتھ سے نہیں بھیجی.دل یا دماغ دونوں میں سے کسی ایک نے کچھ گلہ شکوہ بھی تجویز کیا.پھر معا خیال آیا کہ آپ بھی تو کہہ سکتے ہیں کہ بھلے مانس تم نے کیا ہماری خبر لی جو ہم پر دوش دیتے ہو.ماموں جان ! جس بات نے مجھے اس وقت چراغ جلا کر لکھنے کو مجبور کیا ہے وہ یہ ہے کہ جناب کو جو صدمہ جماعت کی ناراضگی سے پہنچا ہے وہ غم وغصہ میں تبدیل ہو کر اللہ تعالیٰ نہ کرے کہ آپ کے ایمان کو ضائع کر دے.پیارے ماموں! اگر چہ ظاہر میں آپ کی ربوہ سے ہجرت بُری نظر آتی ہے مگر اس سے خوبی جنم لیتی ہے.یہ موقع آپ کے ایمان کو اجاگر کرنے کے لئے بڑا ہی مبارک ہو سکتا ہے اگر آپ زیادہ سے زیادہ تبلیغ اسلام کی اپنے قلم سے کر سکیں.پیارے ماموں ! خدا تعالیٰ وہ دن جلد لائے کہ لاہور کے ہر اخبار میں آپ کے ہدایت سے بھر پور مضمون نظر آنے لگیں اور احباب مجبور ہو کر یہ کہ اُٹھیں کہ یہ صاحب احمدی ہیں.آپ صرف کمر بستہ ہو جائیں.اللہ تعالیٰ آپ کی مدد کرے گا.پیارے ماموں! یہی ایک طریقہ ہے جو آپ کو پریشانیوں سے نجات دلا سکتا ہے.“ یہ خط ظاہر کرتا ہے کہ یہ میاں عبدالمنان صاحب کے نام لکھا گیا ہے اور اُن کی جیب سے گرا ہے.وہ ان دنوں ربوہ آئے ہوئے تھے.اس خط میں انہیں یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ وہ اخبارات میں مضامین شائع کر کے یہ اثر قائم کریں کہ وہ احمدی ہیں تا کہ اپنی سکیم کو بروئے کار لاسکیں.ان منصوبوں کے ہوتے ہوئے جماعت کے لئے ضروری ہے کہ وہ انتخاب خلافت کے لئے کوئی مبین طریق تجویز کرے.جماعت پر یہ امر واضح ہے کہ انتخاب کے وقت جماعت کے ہر فرد کا حاضر ہونا ضروری نہیں.ارباب حل و عقد کا فرض ہے کہ وہ اپنے میں سے ایک نہایت موزوں اور متقی شخص کو خلیفہ منتخب کر لیں اور باقی جماعتوں کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اس کی وفاداری کا

Page 664

خطابات شوری جلد سوم ۶۴۸ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء حلف اُٹھا ئیں.علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں :- ( ترجمہ ) ” جب یہ طے ہو گیا کہ امام کا مقرر کرنا اجتماعی طور پر واجب ہے تو یہ امر فرض کفایہ قرار پایا.اب ارباب حل وعقد کے ذمہ ہو گا کہ وہ خلیفہ کا تقرر کریں اور باقی جماعت پر واجب ہوگا کہ سب کے سب خلیفہ کی اطاعت کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اَطِيْعُوا اللَّهَ وَ أَطِيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِى الْأَمْرِ مِنْكُمْ ( مقدمه ابن خلدون صفحه ۶۱ ۱ مطبوعہ مصر ) شیخ رشید رضا صاحب ایڈیٹر ” المنار " مصر نے اپنی کتاب ”الخلافہ“ میں اس بات پر بحث کی ہے.آپ لکھتے ہیں :- ( ترجمہ ) ''اہل سنت کا اس امر پر اتفاق ہے کہ خلیفہ مقرر کرنا فرض کفایہ ہے اور امت کے ارباب حل و عقد اس تقریر کے ذمہ وار ہیں.معتزلہ اور خوارج بھی اس پر متفق ہیں کہ ارباب حل وعقد کی بیعت کے ساتھ خلافت قائم ہو جاتی ہے.ہاں بعض علماء نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے کہ ارباب حل وعقد کون ہیں؟ آیا ان سب کی بیعت ضروری ہے یا معین تعداد کی بیعت سے خلافت قائم ہو جاتی ہے یا یہ کہ اس بارے میں تعداد کی کوئی شرط نہیں.حالانکہ چاہئے تھا کہ اُن کا ارباب حل و عقد قرار دیا جانا ہر قسم کے اختلاف سے خالی ہو.کیونکہ اس لفظ کے ظاہری معنے یہ ہیں کہ وہ امت کے لیڈر ہیں اور امت کی اکثریت ان پر اعتماد رکھتی ہے.اور ان کے مقام کو ایسے طور پر مانتی ہے کہ جس کو وہ خلیفہ مقرر کریں گے امت اس کی اطاعت کرنے میں اُن کی پیروی کرے گی تا کہ امت کا نظام قائم رہے اور مقرر ہونے والے خلیفہ کی نافرمانی اور بغاوت کا سوال پیدا ہی نہ ہو.علامہ سعد الدین تفتازائی شرح المقاصد میں دوسرے متکلمین اور فقہاء کے ہم نوا ہو کر لکھتے ہیں کہ ارباب حل وعقد سے مراد علماء اور قوم کے سردار اور بڑے لوگ ہیں.امام نووی المنہاج میں فرماتے ہیں کہ اُن میں سے جن کا حاضر ہونا وقت پر ممکن ہو وہ منتخب کریں گے.“ امام ابوالحسن الماوردی جنہیں سب سے بڑا قاضی سمجھا جاتا تھا اپنی کتاب (صفحه اا)

Page 665

خطابات شوری جلد سوم ۶۴۹ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء الاحکام السلطانیہ میں لکھتے ہیں :- ( ترجمہ ) ''امامت دو طرح سے منعقد ہوتی ہے.اوّل یہ کہ جماعت مسلمین کے ارباب بسط و کشاد کسی شخص کو منتخب کریں.دوم اس طرح کہ سابق خلیفہ کسی کو نامزد کرے.علماء کا اس بارہ میں اختلاف ہوا ہے کہ ارباب بسط و کشاد کی کتنی تعداد انتخاب کرنے والی ہونی چاہئے.ایک گروہ کا خیال ہے کہ ہر ملک کے عمومی ارباب حل وعقد کا اجتماع ہونا چاہئے.تا کہ سب کی رضا مندی ہو اور سب منتخب ہونے والے خلیفہ کی خلافت کو اجتماعی طور پر تسلیم کر لیں.مگر یہ رائے حضرت ابوبکر کی خلافت کے مسئلہ سے نادرست قرار پاتی ہے کیونکہ وہاں پر جو لوگ اس موقع پر حاضر تھے ان کے انتخاب سے خلیفہ کا انتخاب کیا گیا تھا اور غیر حاضر لوگوں کے آنے کے انتظار میں بیعت کو ملتوی نہیں کیا گیا تھا.علماء کی ایک دوسری جماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ خلیفہ کا انتخاب ارباب حل وعقد میں سے کم از کم پانچ افراد کے انتخاب سے صحیح ہو جاتا ہے خواہ وہ پانچوں ہی اس خلافت کے بارے میں اجتماعی طور پر انتخاب کرنے والے ہوں.یا ان میں سے ایک مقرر کرے اور باقی چار رضا مندی کا اظہار کرنے والے ہوں.علماء کی اس جماعت کا استدلال دو باتوں پر ہے (۱) حضرت ابو بکر کی خلافت پانچ اصحاب کے اجتماع سے ہوئی تھی.باقی لوگوں نے ان پانچ کی اس بارے میں اتباع کی تھی.وہ پانچ حضرات عمر ابن الخطاب.ابو عبیدہ بن الجراح.اُسید بن حضیر.بشیر بن سعد اور سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ عنہم تھے..حضرت عمرؓ نے اپنے بعد خلافت کے انتخاب کے لئے چھ آدمیوں کی مجلس شوری مقرر کی تھی اور فرمایا تھا کہ پانچ کی رضا مندی سے ان میں سے ایک کو خلیفہ مقرر کیا جائے.خلافت کے انتخاب کے لئے ارباب حل وعقد کی مقدار پانچ ہونے کے متعلق ہی اہل بصرہ کے اکثر فقہاء اور متکلمین کا مذہب ہے.“ ہے.“ الاحکام السلطانیه صفحه ۴ ) جناب ڈاکٹر سید محمد یوسف صاحب پی.ایچ.ڈی لیکچرار عربی علی گڑھ یونیورسٹی

Page 666

خطابات شوری جلد سوم لکھتے ہیں :- مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء الف تاریخ میں مذکور ہے کہ حضرت عمرؓ کو اس بناء پر کافی تشویش رہتی تھی کہ امت مسلمہ کے باقی ماندہ اعیان ملت میں کوئی شخص ایسا نہ تھا جس کو جانشینی کے لئے تجویز کیا جا سکے حضرت عمر نے انتخاب ( اور یہ حقیقی معنوں میں انتخاب تھا ) کا معاملہ چھ اشخاص کی ایک مجلس کے سپر د کر دیا.فیصلہ کثرت رائے سے ہونا تھا اور آراء کی مساوات کی حالت میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو حکم بنایا جانا تھا بشرطیکہ مجلس کے اراکین اس پر متفق ہوں.بصورت دیگر حضرت عبد الرحمن بن عوف کو اختیار دیا گیا کہ اپنی فیصلہ کن رائے (casting vote) سے کسی اور امیدوار کے حق میں فیصلہ کر دیں.اس میں ایک خاص نکتہ یہ ہے کہ اعیانِ ملت کا فیصلہ ہمیشہ قطعی سمجھا جائے گا اور عامتہ المسلمین اس فیصلہ کی تصدیق حلف وفاداری سے کریں گے....الماوردی کا بیان اس بارے میں نہایت واضح ہے کہ اعیانِ ملت کا انتخاب عامۃ الناس کے لئے قبول کرنا لازمی ہے.“ (رسالہ اسلام میں خلیفہ کا انتخاب صفحه ۲۳ ، صفحہ ۲۴) مکرم مولوی صاحب نے اس تقریر کے بعد فرمایا.اب میں وہ قرار داد پڑھتا ہوں جو شریعتِ اسلامیہ اور پرانے علماء کی تحقیقات کی روشنی میں مجلس علماء سلسلہ احمدیہ نے مرتب کی ہے.قرارداد کا متن یہ ہے:.بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ انتخاب خلافت کے متعلق ایک ضروری ریزولیوشن تمہید سید نا حضرت...خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ ۱۹۵۶ء کے موقع پر آئندہ خلافت کے انتخاب کے متعلق یہ بیان فرمایا تھا کہ پہلے یہ قانون تھا کہ مجلس شوری کے ممبران جمع ہو کر خلافت کا انتخاب کریں لیکن آجکل کے فتنہ کے حالات نے ادھر توجہ دلائی ہے کہ تمام ممبران شوری کا جمع ہونا بڑا لمبا کام ہے.ہو سکتا ہے کہ اس سے فائدہ اُٹھا کر منافق کوئی فتنہ کھڑا کر دیں اس لئے اب میں یہ تجویز کرتا ہوں جو اسلامی شریعت

Page 667

خطابات شوری جلد سوم ۶۵۱ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء کے عین مطابق ہے کہ آئندہ خلافت کے انتخاب میں مجلس شوری کے جملہ ممبران کی بجائے صرف ناظران صدر انجمن احمدیه ممبران صدر انجمن احمدیہ، وکلاء تحریک جدید، خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زندہ افراد ( جن کی تعداد اس غرض کے لئے اس وقت تین ہے.یعنی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت نواب میاں عبداللہ خان صاحب) جامعتہ المبشرین کا پرنسپل.جامعہ احمدیہ کا پرنسپل اور مفتی سلسلہ احمدیہ مل کر فیصلہ کیا کریں.مجلس انتخاب خلافت کے اراکین میں اضافہ جلسہ سالانہ ۱۹۵۶ء کے بعد حضرت....خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے علماء سلسلہ اور دیگر بعض صاحبان کے مشورہ کے مطابق مجلس انتخاب خلافت میں مندرجہ ذیل اراکین کا اضافہ فرمایا.ا.مغربی پاکستان کا امیر اور اگر مغربی پاکستان کا ایک امیر مقرر نہ ہوتو علاقہ جات مغربی پاکستان کے امراء جو اس وقت چار ہیں.۲.مشرقی پاکستان کا امیر.۳.کراچی کا امیر ۴.تمام اضلاع کے امراء ۵.تمام سابق امراء جو دو دفعہ کسی ضلع کے امیر رہ چکے ہوں.گو انتخاب خلافت کے وقت امیر نہ ہوں.( ان کے اسماء کا اعلان صدرانجمن احمد یہ کرے گی ) ۶.امیر جماعت احمدیہ قادیان.۷.ممبران صدر انجمن احمد یہ قادیان تمام زنده صحابه کرام کو بھی انتخاب خلافت میں رائے دینے کا حق ہوگا.(اس غرض کے لئے صحابی وہ ہوگا جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا ہو اور حضور کی باتیں سُنی ہوں ا ہوں اور ۱۹۰۸ء میں حضور علیہ السلام کی وفات کے وقت اس کی عمر کم از کم بارہ سال کی ہو.صدر انجمن احمد یہ تحقیقات کے بعد صحابہ کرام کے لئے سرٹیفیکیٹ جاری کریگی اور ان کے ناموں کا اعلان کرے گی )

Page 668

خطابات شوری جلد سوم ۶۵۲ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اولین صحابیوں میں سے ہر ایک کا بڑا لڑکا انتخاب میں رائے دینے کا حقدار ہو گا بشرطیکہ وہ مبائعین میں شامل ہو.(اس جگہ صحابہ اولین سے مراد وہ احمدی ہیں جن کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۹۰۱ء سے پہلے کی کتب میں فرمایا ہے ( ان کے ناموں کا اعلان بھی صدر انجمن احمد یہ کرے گی ) ۱۰.ایسے تمام مبلغین سلسلہ احمدیہ جنہوں نے کم از کم ایک سال بیرونی ممالک میں تبلیغ کا کام کیا ہو اور بعد میں تحریک جدید نے کسی الزام کے ماتحت اُنہیں فارغ نہ کر دیا ہو.( اُن کو تحریک جدید سرٹیفیکیٹ دے گی اور اُن کے ناموں کا اعلان کرے گی ).ایسے تمام مبلغین سلسلہ احمدیہ جنہوں نے پاکستان کے کسی صوبہ یا ضلع میں رئیس التبلیغ کے طور پر کم از کم ایک سال کام کیا ہو اور بعد میں اُن کو صدرا انجمن احمدیہ نے کسی الزام کے ماتحت فارغ نہ کر دیا ہو.( اُنہیں صدر انجمن احمد یہ سرٹیفیکیٹ دے گی اور اُن کے ناموں کا اعلان کرے گی ) مجلس انتخاب خلافت کا دستور العمل سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مندرجہ بالا جملہ اراکین مجلس انتخاب خلافت کے کام کے لئے حسب ذیل دستور العمل منظور فرمایا ہے:.مجلس انتخاب خلافت کے جو اراکین مقرر کئے گئے ہیں.اُن میں سے بوقت انتخاب حاضر افراد انتخاب کرنے کے مجاز ہوں گے.غیر حاضر افراد کی غیر حاضری اثر انداز نہ ہوگی اور انتخاب جائز ہوگا.ب.انتخاب خلافت کے وقت اور مقام کا اعلان کرنا مجلس شوری کے سیکرٹری اور ناظر اعلیٰ کے ذمہ ہو گا.اُن کا فرض ہوگا کہ موقع پیش آنے پر فوراً مقامی اراکین مجلس انتخاب کو اطلاع دیں.بیرونی جماعتوں کو تاروں کے ذریعہ اطلاع دی جائے.اخبار الفضل میں بھی اعلان کر دیا جائے.ج.نئے خلیفہ کا انتخاب مناسب انتظار کے بعد چوبیس گھنٹے کے اندر اندر ہونا چاہئے مجبوری کی صورت میں زیادہ سے زیادہ تین دن کے اندر انتخاب ہونا لازمی.ہے.

Page 669

خطابات شوری جلد سوم ۶۵۳ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء اس درمیانی عرصہ میں صدر انجمن احمدیہ پاکستان جماعت کے جملہ کاموں کو سرانجام دینے کی ذمہ دار ہوگی.و.اگر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی زندگی میں نئے خلیفہ کے انتخاب کا سوال اُٹھے تو مجلس انتخاب خلافت کے اجلاس کے وہ پریذیڈنٹ ہوں گے.ورنہ صدرانجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے اُس وقت کے سینیئر ناظر یا وکیل اجلاس کے پریذیڈنٹ ہوں گے.(ضروری ہے کہ صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید فوری طور پر مشترکہ اجلاس کر کے ناظروں اور وکلاء کی سینیارٹی فہرست مرتب کر لے ) ھ.مجلس انتخاب خلافت کا ہر رکن انتخاب سے پہلے یہ حلف اُٹھائے گا کہ : - میں اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اعلان کرتا ہوں کہ میں خلافت احمد یہ کا قائل ہوں اور کسی ایسے شخص کو ووٹ نہیں دوں گا جو جماعت مبائعین میں سے خارج کیا گیا ہو یا اُس کا تعلق احمدیت یا خلافت احمدیہ کے مخالفین سے ثابت ہو.“ جب خلافت کا انتخاب عمل میں آجائے تو منتخب شدہ خلیفہ کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ لوگوں سے بیعت لینے سے پہلے کھڑے ہو کر قسم کھائے کہ : - میں اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میں خلافت احمدیہ پر ایمان رکھتا ہوں اور میں ان لوگوں کو جو خلافت احمدیہ کے خلاف ہیں باطل سمجھتا ہوں اور میں خلافت احمدیہ کو قیامت تک جاری رکھنے کے لئے پوری کوشش کروں گا اور اسلام کی تبلیغ کو دُنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے انتہائی کوشش کرتا رہوں گا اور میں ہر غریب اور امیر احمدی کے حقوق کا خیال رکھوں گا اور قرآن شریف اور حدیث کے علوم کی ترویج کے لئے جماعت کے مردوں اور عورتوں میں ذاتی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی کوشاں رہوں گا ز.اوپر کے قواعد کے مطابق صحابہ اور نمائندگان جماعت جن میں امراء اضلاع سابق حال بھی شامل ہیں کی تعداد ڈیڑھ صد سے زیادہ ہو جائے گی.ان میں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد کی تعداد اتنی قلیل رہ جاتی ہے کہ منتخب شدہ ممبروں کے مقابلہ میں اس کی کوئی حیثیت ہی باقی نہیں رہتی.ہاں خلیفہ وقت کا انتخاب

Page 670

خطابات شوری جلد سوم ۶۵۴ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے خاندان کے افراد اور جماعت کے ایسے مخلصین میں سے ہو سکے گا جو مبائعین ہوں اور جن کا کوئی تعلق غیر مبائعین یا احرار وغیرہ دشمنان سلسلہ احمدیہ سے نہ ہو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس وقت تک ایسے مخلصین کی تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی ہے) ضروری نوٹ :- سیدنا حضرت......بنیادی قانون خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آئندہ کے لئے انتخاب خلافت کے لئے مذکورہ بالا اراکین اور قواعد کی منظوری کے ساتھ بطور بنیادی قانون کے فیصلہ فرمایا ہے کہ : - آئندہ خلافت کے انتخاب کے لئے یہی قانون جاری رہے گا سوائے اس کے کہ خلیفہ وقت کی منظوری سے شوریٰ میں یہ مسئلہ پیش کیا جائے اور شوری کے مشورہ کے بعد خلیفہ وقت کوئی اور تجویز منظور کرے.“ دو مجلس علماء کی یہ تجویز درست ہے“ دستخط مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی ۲۰-۳-۱۹۵۷ء مجلس علما ءسلسلہ احمدیہ ۱۹۵۷-۳-۱۸ اس کے بعد حضور نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کی اور افتتاحی تقریر نمائندگان مجلس شوری کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : - شاید مولوی صاحب کو یہ بات یاد نہیں رہی یا پھر اُنہیں بتائی نہیں گئی کہ یہ خط جو اُنہوں نے پڑھا ہے اور اُس میں عبدالمنان سے کہا گیا ہے کہ تم بعض ایسے مضامین لکھو جو اسلام کی تائید میں ہوں تا اس سے جماعت احمدیہ کو جو تم سے نفرت ہے دور ہو جائے اس کے اوپر لکھا ہے ماموں جان “.اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ”ماموں جان“ کے الفاظ سے کیسے پتہ لگا کہ یہ خط عبدالمنان کو لکھا گیا ہے.سو اس کا پتہ اس طرح لگتا ہے کہ جس دن یہ خط ملا اور مولوی صاحب نے مجھے بھیجا اور کہا کہ یہ میرے بیٹے کو بازار سے ملا ہے تو اُس دن

Page 671

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء نائی میری حجامت بنانے آیا ہوا تھا.پہلے جب بھی وہ آیا کرتا تھا مجھے بتایا کرتا تھا کہ آج میاں عبدالمنان نے مجھے حجامت بنوانے کے لئے بلوایا اور وہاں مجھ سے یہ یہ باتیں کیں لیکن اُس دن اُس نے کوئی بات نہ کی.میں نے اُس سے دریافت کیا کہ آج تو نے میاں عبدالمنان کی کوئی بات نہیں بتائی.اس پر اُس نے کہا کہ میاں عبد المنان تو بڑی مدت سے میری دُکان پر نہیں آئے اور نہ ہی اُنہوں نے مجھے اپنے گھر بلایا ہے.آج اتفاقاً گول بازار میں (جہاں سے یہ خط ملا ہے ) وہ خود اور اُن کے بیٹے پھر رہے تھے.وہاں میں نے دیکھا کہ ایک دکاندار جو اُن کا کرایہ دار تھا آگے آیا اور کہنے لگا میاں صاحب! میں بڑی دیر سے آپ کو تلاش کر رہا ہوں.دفتروں میں میں کہاں کہاں جاتا.میں نے آپ کو کرایہ دینا تھا آپ ملتے ہی نہیں.میں نے اُس دکاندار کو کہا کہ تم کیوں تکلیف کرتے ہو.میاں صاحب کو ضرورت ہوگی تو وہ آ کر کرایہ مانگ لیں گے.تو یہ واقعہ اور اس خط کا وہاں سے ملنا بتا تا ہے کہ ممکن ہے جیب سے رومال نکالتے ہوئے یہ خط میاں عبدالمنان سے نیچے گر گیا ہو.پھر میں نے گھر میں بات کی تو انہوں نے مجھے بتایا کہ شاید آپ کو معلوم نہیں حضرت خلیفہ اول کے خاندان کے ساتھ جو تعلق رکھنے والے لوگ ہیں وہ سارے کے سارے میاں عبدالمنان کو ماموں جان ہی کہتے ہیں اس لئے اُنہوں نے کہا.”ماموں جان“ کے الفاظ کی وجہ سے آپ ان کے کسی بھانجے یا بھانجی کو تلاش نہ کریں کیونکہ بیسیوں ایسے آدمی ہیں جن کے ساتھ اُن کے تعلقات ہیں اور وہ سب اُن کو عادتا ماموں“ کہتے ہیں.بہر حال میاں عبداللہ صاحب حجام کی گواہی سے پتہ لگ گیا کہ یہ خط فی الواقع عبد المنان کا ہے کیونکہ اُس نے اُسی جگہ جہاں سے یہ خط ملا ہے اور اُسی دن جس دن خط ملا ربوہ میں اُنہیں دیکھا تھا.اس کے بعد ریزولیوشن کے متعلق ووٹ انتخاب خلافت کے ریزولیوشن پر تبصرہ لینے سے پہلے میں یہ بات کہنی چاہتا ہوں کہ اس ریزولیوشن کے متعلق غلط فہمی ہوئی ہے.بعض جماعتوں نے اپنے نمائندوں سے قسمیں لی ہیں کہ وہ شوریٰ میں اس ریزولیوشن کی تائید کریں اور اس کے خلاف ووٹ نہ دیں.بعض لوگوں نے اس پر اعتراض کیا ہے اور وہ اعتراض یہ ہے کہ ہم نے تو اپنے ایمان

Page 672

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء کی بناء پر اور یہ بتانے کے لئے کہ ہمیں خلافت کے ساتھ وابستگی ہے اور ہم خلافت احمد یہ کو کسی صورت میں بھی تباہ نہیں ہونے دیں گے اس ریزولیوشن کی تائید کرنی تھی لیکن ہوا یہ کہ جماعتوں نے ہم سے اس بات کے متعلق بھی حلف لیا ہے کہ ہم ضرور اس ریزولیوشن کی تائید کریں.اس طرح جو بات ہم نے اپنے ایمان کے ثابت کرنے کے لئے کرنی تھی وہ حلف کے ذریعہ سے کروائی جائے گی اور یہ سمجھا جائے گا کہ اس شخص میں ایمان تو کوئی نہیں صرف جماعت سے وعدہ کی بناء پر یہ ایسا کر رہا ہے.اس طرح گویا ہمارے ثواب کا راستہ بند ہوتا ہے اور ہم اپنے اخلاص کا اظہار نہیں کر سکتے.ان کی یہ بات چونکہ معقول ہے اس لئے جو دوست باہر سے جماعت کے نمائندہ بن کے آئے ہیں اور اُن سے جماعتوں نے اس بات کے لئے حلف لیا ہے کہ وہ ضرور اس ریزولیوشن کی تائید کریں، میں انہیں اس حلف سے آزاد کرتا ہوں.خلافت احمدیہ کو خدا تعالیٰ نے قائم کرنا ہے.اگر کوئی شخص اپنے ایمان میں کمزور ہے اور وہ کوئی ایسا راستہ کھولتا ہے جس کی وجہ سے خلافت احمد یہ خطرہ میں پڑ جاتی ہے یا دشمنوں کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے تو اس کے ووٹ کی نہ خلافت احمدیہ کو ضرورت ہے اور نہ خدا کو ضرورت ہے.یہاں جماعتیں کچھ نہیں کرسکتیں، اگلے جہاں میں خدا تعالیٰ خود اس کو سیدھا کر سکتا ہے.اس لئے مجھے اس بات کی کوئی ضرورت نہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ایسے نمائندگان کو تائید کا پابند کرنے کی مجھے ضرورت نہیں.وہ ووٹ دیں تو اپنے ایمان کی بناء پر دیں.یہ سمجھ کر نہ دیں کہ وہ کسی جماعت کے حلف کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں بلکہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ریزولیوشن جماعت احمدیہ کی خلافت کی حفاظت کرتا ہے اور اس کے ذریعہ سے آئندہ فتنوں کا سد باب ہوتا ہے تو وہ اپنی عاقبت سنوارنے کے لئے ووٹ دیں نہ کہ اپنی جماعت کو خوش کرنے کے لئے.اور اگر کوئی شخص سمجھتا ہے کہ اس ریزولیوشن سے شرارت بڑھتی ہے اور فتنہ کا دروازہ گھلتا ہے تو وہ ووٹ نہ دے.ہمیں اُس کے ووٹ کی ضرورت نہیں اور نہ خدا تعالیٰ کو اُس کے ووٹ کی ضرورت ہے.خدا تعالیٰ نے جب مجھے خلیفہ بنایا تھا اُس وقت اس قسم کا کوئی قانون نہیں تھا مگر اللہ تعالیٰ نے فتنہ پردازوں کی کوششوں کو نا کام کر دیا.پس ہم خدا تعالیٰ پر توکل کرتے ہیں.جو شخص ووٹ دے وہ اس بات کو سمجھ کر دے کہ اس ریزولیوشن کی وجہ سے جماعت میں شرارت کا سد باب ہوتا ہے

Page 673

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء لیکن اگر وہ سمجھتا ہے کہ اس ریزولیوشن سے شرارت کا سدِ باب نہیں ہوتا بلکہ اس سے شرارت کا دروازہ کھلتا ہے تو وہ ووٹ نہ دے.آگے اُس کا معاملہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ہے.خدا تعالیٰ جس طرح چاہے گا اُس کے ساتھ برتاؤ کرے گا.وہ اپنی جماعت سے نہ ڈرے.کراچی کا نمائندہ کراچی کی جماعت سے نہ ڈرے، لاہور کا نمائندہ لاہور کی جماعت سے نہ ڈرے، سرگودھا کا نمائندہ سرگودھا کی جماعت سے نہ ڈرے.وہ ووٹ دے تو خدا تعالیٰ سے ڈر کر دے اور پھر اس کے بعد ہمارا اور اُس کا جو معاملہ ہے وہ خدا تعالیٰ خود طے کرے گا.ہمیں اُس کے ووٹ کی ضرورت نہیں.ہمیں صرف اُس شخص کے ووٹ کی ضرورت ہے جو خدا تعالیٰ سے محبت رکھنے والا ہے، اسلام سے محبت رکھنے والا ہے اور خلافت سے محبت رکھنے والا ہے.پس اگر وہ خدا تعالیٰ اسلام اور خلافت کی خاطر ووٹ دیتا ہے تو دے اور اگر وہ اپنی جماعت کی خاطر ووٹ دیتا ہے تو ہمیں اُس کے ووٹ کی ضرورت نہیں.یہ تحریک کرنے کے بعد میں جماعت کے دوستوں کی رائے اِس بارے میں دریافت کرنا چاہتا ہوں مگر میں یہ کہہ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس ریزولیوشن کے بعض حصے ایسے ہیں جن پر آئندہ زمانوں میں دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہوگی لیکن بہر حال جب تک کوئی دوسرا ریزولیوشن پاس نہ ہو گا اُس وقت تک یہ ریزولیوشن قائم رہے گا جیسا کہ خود اس ریزولیوشن میں بھی یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ آئندہ خلافت کے انتخاب کے لئے یہی قانون جاری رہے گا سوائے اس کے کہ خلیفہ وقت کی منظوری سے شوریٰ میں یہ مسئلہ پیش کیا جائے اور شوری کے مشورہ کے بعد خلیفہ وقت کوئی اور تجویز منظور کرے.پس یہ ریزولیوشن دوبارہ بھی مزید غور کیلئے پیش ہو سکتا ہے اور آئندہ پیدا ہونے والی مشکلات کو دور کیا جاسکتا ہے.مجھے خود اس میں بعض ایسی باتیں نظر آتی ہیں جن میں بعد میں تبدیلی کی ضرورت محسوس ہوگی مثلاً کچھ عرصہ کے بعد صحابی نہیں رہیں گے.پھر ہمیں یہ کرنا پڑے گا کہ انتخاب کی مجلس میں تابعی لئے جائیں یا وہ لوگ لئے جائیں جنہوں نے ۱۹۱۴ء سے پہلے بیعت کی ہے.پھر کچھ عرصہ کے بعد یہ قانون بنانا پڑے گا کہ وہ لوگ لئے جائیں جنہوں نے ۱۹۴۰ء سے پہلے بیعت کی ہے.پھر کچھ عرصہ کے بعد یہ قانون بنانا پڑے گا کہ وہ لوگ لئے جائیں

Page 674

خطابات شوری جلد سوم ۶۵۸ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء جنہوں نے ۱۹۵۶ء سے پہلے بیعت کی ہوئی ہے.بہر حال یہ درستیاں حالات کے بدلنے کے ساتھ ہوتی رہیں گی اور ریزولیوشن بار بار مجلس شوری کے سامنے آتا رہے گا.سر دست یہ ریزولیوشن شرارت کے فوری سد باب کے لئے ہے.ورنہ آئندہ زمانہ کے لحاظ سے دوباره ریز ولیوشن ہوتے رہیں گے اور پھر دوبارہ غور کرنے کا لوگوں کو موقع ملتا رہے گا.اس کے بعد میں دوستوں سے کہتا ہوں کہ وہ اپنی رائے دیں.جو دوست اس بات کی تائید میں ہوں اور خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اور اسلام سے محبت رکھتے ہوئے یہ رائے رکھتے ہوں کہ اس ریزولیوشن کو پاس کیا جائے وہ کھڑے ہو جائیں.جماعتوں کی طرف سے جو پابندی عائد کی گئی تھی اور نمائندگان سے وعدے کئے گئے تھے اُن کو میں نے ختم کر دیا ہے.اب صرف اُس وعدہ کو پورا کرو جو تمہارا خدا تعالیٰ کے ساتھ تھا.“ حضور کے اس ارشاد پر تمام نمائندگان کھڑے ہو گئے.رائے شماری کے بعد حضور نے فرمایا: - ۳۴۱ * دوستوں کی رائے ہے کہ اس ریزولیوشن کو منظور کر لیا جائے مگر میں چاہتا ہوں کہ اگر کوئی نمائندہ اس تجویز کے مخالف ہو اور اس کی رائے یہ ہو کہ اس ریزولیوشن کو منظور نہ کیا جائے تو وہ بھی کھڑا ہو جائے لیکن یہ یاد رہے کہ جن دوستوں نے اس ریزولیوشن کے موافق رائے دی ہے اُن کو دوبارہ کھڑا ہونے کی ضرورت نہیں.ہاں اگر کوئی نمائندہ ایسا ہو جو اس کے مخالف رائے رکھتا ہو تو وہ کھڑا ہو جائے.“ اس پر کوئی دوست کھڑے نہ ہوئے.فرمایا : - گفتی میں سہولت کے لئے اس وقت آٹھ حلقے بنائے گئے ہیں.ان آٹھ حلقوں فیصلہ میں کوئی نمائندہ بھی اس ریزولیوشن کے خلاف کھڑا نہیں ہوا اور اس کے بالمقابل ۳۴۱ ووٹ اس ریزولیوشن کی تائید میں ہیں.اس طرح دوستوں نے واضح کر دیا ہے کہ اُنہوں نے اس وقت اپنی مرضی سے ریزولیوشن کے حق میں رائے دی ہے.جماعتوں کے دباؤ کی وجہ سے اُنہوں نے ایسا نہیں کیا.سو میں اِس ریزولیوشن کے حق میں فیصلہ کرتا ہوں سیکرٹری مجلس مشاورت کی طرف سے ۳۴۴ ٹکٹ تقسیم کئے گئے تھے مگر رائے شماری کے موقع پر تین نمائندے حال میں موجود نہیں تھے.

Page 675

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء اور اسے منظور کرتا ہوں.خدا تعالیٰ اس کو مبارک کرے.میں جانتا ہوں کہ اس ریزولیوشن کے بعض حصے ایسے ہیں جن پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہو گی جیسا کہ مولوی ابوالعطاء صاحب نے کہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس بات کو رسالہ الوصیة میں اُٹھایا ہے کہ جو بھی اس دُنیا میں پیدا ہوا ہے اُس نے ضرور مرنا ہے چاہے وہ آج مرے یا کل مرے اِس لئے یہ تو ہو نہیں سکتا کہ کوئی خلیفہ قیامت تک زندہ رہے یا اُس کا کوئی ماننے والا قیامت تک زندگی پائے.پس ہم نے جو کچھ کرنا ہے اس دُنیا کی زندگی کے متعلق کرنا ہے.اگلی دُنیا کا خدا خود ذمہ دار ہے.اس جہان میں خدا تعالیٰ نے انسان کو نیکی اور بدی کا اختیار دیا ہے.اگلے جہان کا کام وہ خود کرے گا.پس چونکہ صرف اِس دُنیا کا کام چلانا انسان کے اختیار میں ہے اس لئے ہماری کوشش اس حد تک ہونی چاہئے کہ ہم اس دُنیا کے نظام کو اچھا کرنے کی کوشش کرتے رہیں.اگلے جہان کا نظام خدا تعالیٰ نے خود اپنے اختیار میں رکھا ہے اور وہ اُسے آپ ہی ٹھیک کر دے گا.ہماری اللہ تعالیٰ سے یہی دُعا ہے کہ وہ نظام خلافت حقہ کو احمدیت میں ہمیشہ کے لئے قائم رکھے اور اس نظام کے ذریعہ سے جماعت ہمیشہ ہمیش منتظم صورت میں اپنے مال و جان کی قربانی اسلام اور احمدیت کے لئے کرتی رہے اور اس طرح خدا تعالیٰ ان کی مدد اور نصرت کرتا رہے کہ آہستہ آہستہ دُنیا کے چپہ چپہ پر مسجدیں بن جائیں اور دُنیا کے چپہ چپہ پر مبلغ ہو جائیں اور وہ دن آجائے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا ہے کہ دنیا کے دیگر مذاہب اسلام اور احمدیت کے مقابلہ میں ایسے رہ جائیں جیسے ادنی اقوام کے لوگ ہیں.دُنیا میں ہر کہیں لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ کے پڑھنے والے نظر آئیں اور روس، امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے لوگ جو آج اسلام پر ہنسی اُڑا رہے ہیں وہ سب کے سب احمدی ہو جائیں.وہ اسلام کو قبول کر لیں اور انہیں اپنی ترقی کے لئے اسلام اور مسلمانوں کا دست نگر ہونا پڑے.ہم ان ممالک کے دشمن نہیں ہماری دُعا ہے کہ یہ ملک ترقی کریں لیکن ترقی کریں اسلام اور مسلمانوں کی مدد سے.آج تو دمشق اور مصر روس کے ہاتھوں کی طرف دیکھ رہا ہے کہ کس طرح اس سے کچھ مددمل جائے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ دمشق اور مصر کے مسلمانوں کو پکا مسلمان بھی بنائے اور پھر دُنیوی طاقت بھی

Page 676

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء اتنی دے کہ دمشق اور مصر روس سے مدد نہ مانگیں بلکہ روس دمشق اور مصر کو تاریں دے کہ ہمیں سامانِ جنگ بھیجو.اسی طرح امریکہ ان سے یہ نہ کہے کہ ہم تمہیں مدد دیں گے بلکہ امریکہ، شام، مصر، عراق، ایران، پاکستان اور دوسری اسلامی سلطنتوں سے کہے کہ ہمیں اتنے ڈالر بھیجو ہمیں ضرورت ہے.ورنہ ہم تو خالص دین کے بندے ہیں اور دُنیا سے ہمیں کوئی غرض نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کی جو چیز ہے وہی ہمیں پیاری ہے.خلافت کی غرض پس اللہ تعالیٰ اسلام کے غلبہ کی کوئی صورت پیدا کرے اور خلافت کی اصل غرض بھی یہی ہے کہ مسلمان نیک رہیں اور اسلام کی اشاعت میں لگے رہیں یہاں تک کہ اسلام کی اشاعت دُنیا کے چپہ چپہ پر ہو جائے اور کوئی غیر مسلم باقی نہ رہے.اگر یہ ہو جائے تو ہماری غرض پوری ہوگئی اور اگر یہ نہ ہو تو محض نام کی خلافت نہ ہمارے کسی کام کی ہے اور نہ اس خلافت کے ماننے والے ہمارے کسی کام کے ہیں.ہمارا دوست وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے نام کو دُنیا کے کناروں تک پھیلائے.وہ خلیفہ ہمارے سر آنکھوں پر جو خدا تعالیٰ کے نام کو دُنیا کے کناروں تک پھیلاتا ہے.وہ مبائع ہمارے سر آنکھوں پر جو خدائے واحد کے نام کو دُنیا میں پھیلاتے ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام کی صداقت کو دُنیا پر ظاہر کرتے ہیں.ہمارے دل اُن کے لئے دُعائیں کرتے ہیں چاہے وہ ہزار سال بعد آئیں اور ہمارے دماغ بھی اُن کے لئے دُعا کرتے ہیں چاہے وہ سینکڑوں نہیں ہزاروں سال ہم سے بعد آئیں.اللہ تعالیٰ اُن کا حافظ و ناصر ہو اور اُن کی مدد کرے اور ہمیشہ اُن کو راہ راست پر قائم رکھے اور اسلام کی ترقی کے سامان پیدا کرتا رہے.66 نظارت غلیا کی تجویز نمبرا کے متعلق فیصلہ اس کے بعد حضور نے شوری کے سامنے ایجنڈا کی تجویز نمبرا پیش کی جس کے الفاظ یہ ہیں : - و جس شخص پر کسی وقت سلسلہ عالیہ احمدیہ کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کرنے کا الزام ثابت ہو تو ایسے شخص کو خدمت سلسلہ کے کام سے برطرف کر دیا

Page 677

خطابات شوری جلد سوم ۶۶۱ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء جائے گا اور اس کے بعد ایسے شخص کو کسی مقامی یا مرکزی عہدہ پر مقرر نہ کیا جائے گا اور نہ ہی ایسا شخص مجلس شوریٰ کا ممبر بننے کا اہل ہوگا.حضور نے فرمایا.اس کے متعلق کسی کمیٹی کے مقرر کرنے کی ضرورت نہیں.چھوٹا سا مسئلہ ہے جو دوست اس بات کے حق میں ہوں کہ جس شخص کے متعلق سلسلہ یہ فیصلہ کرے کہ اس نے سلسلہ احمدیہ کے خلاف کسی کا رروائی میں حصہ لیا ہے اُس کو خدمتِ سلسلہ کے کام سے برطرف کر دیا جائے.اُسے کسی جماعت میں عہدیدار مقرر نہ کیا جائے اور نہ اس کو ممبر بنایا 66 جائے ، وہ کھڑے ہو جائیں.‘“ رائے شماری پر تمام نمائندگان نے اس تجویز کے حق میں رائے دی.حضور نے فرمایا :- جماعت کی متفقہ رائے کی وجہ سے میں نظارت علیا کی اس تجویز کی منظوری دیتا ہوں.“ دوسرا دن رپورٹ تعمیل فیصلہ جات پر تبصرہ مجلس مشاورت کے دوسرے دن ۱۲ مارچ ۱۹۵۷ء کو محترم میاں غلام محمد اختر صاحب ناظر اعلی ثانی و ناظر زراعت نے رپورٹ تعمیل فیصلہ جات پڑھ کر سنائی.اس پر تبصرہ کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:- ”سب سے پہلے تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کل جلسہ کی کارروائی میں پورا وقت شامل ہونے کے باوجود میری طبیعت خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھی رہی لیکن صبح بارش کی وجہ سے خراب ہو گئی.جلسہ سالانہ کے بعد میں نے دیکھا ہے کہ اکثر بارش اور ہوا رہتی ہے جس کی وجہ سے میری طبیعت خراب ہو جاتی ہے لیکن رہی سہی کسر اختر صاحب نے نکال دی ہے.ناظر اعلیٰ کے فرائض اول تو تعمیل فیصلہ جات کے متعلق یہ کوئی عقل کی بات نہیں کہ ناظر اعلیٰ خود رپورٹ پیش کرے.کیا صیغہ جات کے ناظروں

Page 678

خطابات شوری جلد سوم ۶۶۲ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء کی زبانوں کو تالا لگا ہوا ہے وہ کیوں نہیں باری باری رپورٹ پیش کرتے ؟ ناظر صاحب اعلیٰ کے سپر د جو کام ہے وہ تو یہ ہے کہ وہ بتائیں کہ اُنہوں نے تعمیل فیصلہ جات کے سلسلہ میں اتنے معائنے نظارت تعلیم کے کئے ، اتنے معائنے بیت المال کے کئے، اتنے معائنے نظارت اصلاح وارشاد کے کئے اور اُن کو اِن اِن باتوں کی طرف توجہ دلائی.پھر ناظر آتے اور اپنے اپنے صیغوں کا کام بتاتے.مگر اختر صاحب نے سارے صیغوں کا کام اپنی طرف منسوب کر لیا ہے اور اس طرح اپنے عیب کو چھپانے کی کوشش کی ہے.پھر اُنہوں نے رپورٹ کیا پیش کی ہے ایک ست ناجا پکا کر ہمارے سامنے رکھ دیا ہے جو شیعہ لوگ محرم کے موقع پر پکاتے تھے.ہماری دائیاں جو پرانے زمانہ کی عورتیں تھیں وہ بھی ست ناجا پکا یا کرتی تھیں.اصل میں یہ ست نا جاشیعوں میں حضرت امام حسین کی نیاز دی جاتی ہے.وہ دائیاں کبھی کبھی ایک تھالی ہمارے گھر میں بھی بھیج دیتی تھیں.ہم بچے تھے اور وہ ست ناجا کھا لیتے تھے.اُس کے اندر چاول بھی ہوتے تھے ، گندم بھی ہوتی تھی ، چنے بھی ہوتے تھے ، ماش بھی ہوتے تھے ، گوشت بھی ہوتا تھا اور اس کوست ناجا کہتے تھے.اسی طرح اختر صاحب نے کیا.بجائے اس کے کہ وہ ناظر صاحب اصلاح وارشاد کے سپرد یہ کرتے کہ وہ اپنی رپورٹ پیش کریں، ناظر صاحب بیت المال کے سپرد یہ کرتے کہ وہ اپنے کام کی رپورٹ پیش کریں ناظر صاحب تعلیم کے سپرد یہ کرتے کہ وہ اپنے کام کی رپورٹ پیش کریں اور خود یہ بتاتے کہ میں نے شوری کے فیصلہ جات کے سلسلہ میں اتنے معائنے فلاں فلاں مہینہ میں نظارت تعلیم کے کئے ہیں.فلاں مہینہ میں میں نے پانچ معائنے کئے ، فلاں مہینہ میں دس معائنے کئے اور فلاں مہینہ میں پندرہ معائنے کئے اور دیکھا که شوری کے فیصلوں کی کیا تعمیل ہو رہی ہے.اُنہوں نے تمام صیغوں کا کام خود بیان کرنا شروع کر دیا.ناظر اعلیٰ ناظر نہیں بلکہ ناظر اعلیٰ کے معنے ہیں کہ وہ انسپکٹنگ ناظر ہے.انہیں بتانا چاہئے تھا کہ جنوری میں میں نے اصلاح وارشاد کے پانچ معائنے کئے.نظارت تعلیم کے میں نے سات معائنے کئے.نظارت بیت المال کے میں نے آٹھ معائنے کئے ، پھر فروری میں میں نے اتنے کئے اس طرح سارے سال میں اتنے اتنے معائنے ہر محکمہ کے ہو گئے.ان معائنوں میں میں نے نظارتوں کو توجہ دلائی کہ وہ ان باتوں کی تعمیل کریں

Page 679

خطابات شوری جلد سوم ۶۶۳ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء جو شوری نے انہیں بتائی ہیں لیکن اُنہوں نے نظارتوں کے سب کام لے لئے اور بتانا شروع کر دیا کہ ہم نے یہ یہ کام کیا ہے.محکمہ زراعت کے متعلق ہدایات صرف ایک محکمہ تھا جو اُن کا اپنا تھا اور وہ زراعت کا محکمہ ہے.اس کے متعلق وہ بے شک جائز طور پر بعض باتیں بیان کر سکتے تھے مگر اس وقت بھی ان کو یہ کہنا چاہئے تھا کہ میں یہ باتیں بطور ناظر زراعت کے پیش کر رہا ہوں، ناظر اعلیٰ ہونے کی حیثیت سے نہیں کر رہا.چونکہ مجھے ناظر زراعت بھی مقرر کیا گیا ہے اس لئے میں زراعت کے محکمہ کی چیزیں پیش کرتا ہوں.اتنی بات ان کی معقول تھی لیکن غلطی یہ تھی کہ ناظر اعلیٰ کے عہدہ کے ساتھ اُنہوں نے یہ باتیں پیش کیں حالانکہ وہ باتیں ناظر زراعت کے عہدہ کے ماتحت آتی ہیں.اور اس محکمہ کا اپنا یہ حال ہے کہ تعریفیں تو انہوں نے بڑی کی ہیں لیکن جو انسپکٹر زراعت مقرر کیا گیا ہے پچھلے تین ماہ میں صرف چار یا پانچ دفعہ اس کا نام میرے سامنے آیا ہے مگر دوروں کے لئے نہیں بلکہ چونکہ وہ چوہدری فتح محمد صاحب کا بھتیجا ہے انہوں نے چار یا پانچ دفعہ مجھے آ کر یہ کہا کہ اس کا ایکس رے کرانا ہے کیونکہ وہ بہت دیر سے بیمار چلا آ رہا ہے بلکہ ابھی چار پانچ دن ہوئے اُنہوں نے پھر کہا ہے کہ ہسپتال کی طرف سے رپورٹ آئی ہے کہ ایک دفعہ اور اس کا ایکسرے کرنا ہے.سوائے چوہدری صاحب کے اس بیان کے اس کا نام میرے سامنے کبھی نہیں آیا.اب میں سندھ گیا تھا تو اختر صاحب اُسے بھی ساتھ لے گئے تھے.اس دورہ کے سوا اس کے کسی دورہ کا مجھے علم نہیں مگر یہ ظاہر ہے کہ جو بیماری کی وجہ سے ہر تیسرے چوتھے دن ایکسرے کروا رہا ہے اُس نے زراعت کا کیا کام کرنا ہے.زراعت کے انسپکٹر کو تو سارے پنجاب میں پھرنا پڑے گا.گویا اُسے ہیں ہزار مربع میل کا چکر کاٹنا پڑے گا بلکہ اس سے بھی زیادہ جس آدمی کو ہر وقت ایکسرے کروانا پڑتا ہے اُس نے بیس ہزار مربع میل کا چکر کیسے لگانا ہے.پس نام کو تو اختر صاحب نے بتایا ہے کہ ہم نے ایک انسپکٹر زراعت رکھا ہوا ہے اور اس طرح بڑا تیر مارا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اتنے وسیع علاقہ میں ایک معمولی زراعت انسپکٹر کر ہی کیا سکتا ہے.چوہدری سعد اللہ بی.ایس سی ہیں اور زراعت کے بی.ایس.سی گورنمنٹ کی نگاہ میں ایک ادنیٰ افسر کی حیثیت رکھتے ہیں.

Page 680

خطابات شوری جلد سوم ۶۶۴ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء اُس کے پاس زراعت کے وہ افسر ہیں جو اس محکمہ کا پچاس پچاس سالہ تجربہ رکھتے ہیں.اور وہ امریکہ سے ہو آئے ہیں یا جاپان سے ہو آئے ہیں اور اُن کی نظر بڑی وسیع ہے.پھر گورنمنٹ سارے مغربی پاکستان میں زراعت کے لئے کچھ نہ کچھ کر رہی ہے.اصل چیز یہ تھی کہ بجائے اس کے کہ یہ کہا جاتا کہ انسپکٹر زراعت دورے کر رہے ہیں اور دورے کریں گے اور انشاء اللہ ایک ایسا تیر ماریں گے کہ اس سے آسمان بھی ہل جائے گا.یہ کہتے کہ اس نے فلاں افسر سے مل کر فلاں فلاں معلومات حاصل کی ہیں جو جماعت کے لئے مفید ہوں گی.اگر وہ اخبار میں پڑھتے تو وہ جانتے کہ تھوڑے ہی دن ہوئے گورنمنٹ نے یہ اعلان کیا تھا کہ زراعت کی ایک سکیم بھلوال میں چلائی گئی ہے اور وہاں مختلف ٹیسٹ کئے جا رہے ہیں.بعض ٹیسٹ تو اس بات کے کئے جا رہے ہیں کہ بیج اگر اچھا استعمال کیا جائے تو کتنی فیصدی ترقی ہو سکتی ہے.بعض ٹیسٹ یہ کئے جارہے ہیں کہ اگر مصنوعی کھاد ڈالی جائے تو اس سے کتنی ترقی ہو سکتی ہے.غرض زمینداروں کی ترقی سے تعلق رکھنے والی جو چیزیں ہیں اُن کے ٹیسٹ وہاں کئے جار ہے ہیں.اب بجائے اس کے کہ انسپکٹر زراعت ڈیرہ غازی خان، تقل یا پشاور جاتا وہ بھلوال میں جاتے اور دو تین دن ٹھہر کر دیکھتے کہ وہاں کیا کام ہو رہا ہے.گورنمنٹ یہ تو نہیں کر سکتی کہ اپنا منتخب علاقہ چھوڑ دے لیکن یہ تو ہوسکتا تھا کہ ہمارے انسپکٹر زراعت اُن سے کوئی سبق حاصل کرتے اور پھر زمینداروں کا بتاتے کہ میں گورنمنٹ کے ماہرین سے فلاں سبق لے کر آیا ہوں اُنہوں نے فلاں قسم کا بیج چنا ہے، اُس کے بونے سے فصل میں ترقی ہو سکتی ہے.پھر اس پیج کا تجربہ کر کے بتاتے کہ فی الواقع یہ بیج زمینداروں کے لئے مفید ہے تم اس پیج کو استعمال کرو اور فلاں فلاں ہدایت کو مدنظر رکھو.پھر ہر علاقہ کا الگ بیج ہوتا ہے.ہمارے زراعت کے افسر کو چاہئے تھا کہ وہ مثلاً سیالکوٹ جاتے اور وہاں ماہرین سے پوچھتے کہ آپ کے ہاں کپاس کے بیج کا کون سا تجربہ کامیاب رہا ہے؟ گندم کے بیج کا کون سا تجربہ کامیاب رہا ہے؟ گتا کے بیج کا کون سا تجربہ کامیاب رہا ہے؟ اور پھر جماعتوں کو اس سے مطلع کرتے.ہم جب گورداسپور کے ضلع میں رہا کرتے تھے تو گورنمنٹ کے زراعت کے افسر مجھے ملا کرتے تھے اور بتایا کرتے تھے کہ گورنمنٹ نے اس علاقہ کے لئے گنا کا فلاں پیج تجویز کیا ہے بلکہ اُنہیں اتنا خیال ہوتا تھا

Page 681

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء کہ وہاں زراعت کے صوبائی وزیر سردار جو گندر سنگھ خود قادیان چل کر آئے تھے صرف مجھے یہ بتانے کے لئے کہ اس ضلع میں فلاں بیج کامیاب ثابت ہوا ہے.پس ہمارے انسپکٹر زراعت کو چاہئے تھا کہ وہ سیالکوٹ جاتے اور وہاں زراعت کے افسروں سے ملتے.پھر سیالکوٹ میں جتنی فصلیں ہوتی ہیں اُن کا اندازہ لگاتے.پھر وہ زمینداروں کے پاس آتے اور انہیں بتاتے کہ تم فلاں بیج لولیکن بجائے اِس کے کہ اس طرح مفید طور پر کام کیا جاتا الفضل میں مضامین شائع کرنے پر اکتفا کر لیا گیا.حالانکہ میں نے خود ” نوائے وقت“ میں پڑھا تھا کہ گورنمنٹ نے بھلوال میں اس قسم کے سیکشن مقرر کئے ہیں اور وہاں پانچ سات قسم کے تجربات کئے جارہے ہیں.چاہئے تھا کہ ہمارے انسپکٹر وہاں جاتے اور اُن تجربات سے فائدہ اُٹھاتے.یہ ضروری نہیں کہ بھلوال کا تجربہ سیالکوٹ یا ڈیرہ غازی خاں میں بھی کامیاب ہو لیکن سائنس بنتی ہی اس طرح ہے کہ ایک چیز کا تجربہ کیا جاتا ہے.اگر وہ کامیاب ہو جاتا ہے تو اُس کو بڑھا دیا جاتا ہے.مثلاً کئی تجربوں کے بعد کپاس کی کاشت کے متعلق یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ پنجاب میں دیر سے ہونی چاہئے.ایک پارسی پروفیسر تھا جو لائل پور زراعتی کالج میں مقرر تھا.اصل میں وہ پونا کالج کا تھا.گورنمنٹ نے اُسے یہاں بلوایا تھا اور اُسے سندھ کی زمینوں کا معائنہ کرنے کی ہدایت دی تھی.اُس کا ماتحت ایک سکھ تھا.ایک دفعہ میں نے اپنا ایک نوکر اُس کے ہاں بطور مینجر بھیجا تھا اس لئے میرے اُس سے تعلقات پیدا ہو گئے تھے.وہ مجھے ملنے کے لئے آیا اور کہنے لگا میں ایک افسر کا سیکرٹری یا پرسنل اسسٹنٹ بن کر یہاں آیا ہوں.وہ ایم.ایس.سی تھا.اُس نے بتایا کہ ہمارے افسر نے فیصلہ کیا ہے کہ یہاں کپاس بجائے موسم کے آخر میں بونے کے پہلے ہوئی جائے.میں نے کہا یہ تمہارے افسر کی بیوقوفی ہے اس لئے کہ تمہارے افسر نے صوبہ بمبئی کے موسم کو دیکھا ہوا ہے اور اُس نے لائل پور کی رپورٹیں دیکھی ہیں.سندھ کا تعلق نہ لائل پور سے ہے اور نہ بمبئی سے ہے.اس کی آب و ہوا بالکل الگ ہے.یہاں سوئنگ سیزن (sowing season) بہت چھوٹا ہوتا ہے.اس کے چھوٹا ہونے کی وجہ یہاں اتنی فصلیں نہیں ہوئی جاسکتیں جتنی پنجاب میں بوئی جاسکتی ہیں.پھر یہاں زمین کی تہیں پنجاب کی زمین کی تہوں سے مختلف ہیں.یہاں نیچے بڑی سخت زمین آ جاتی ہے.

Page 682

خطابات شوری جلد سوم ۶۶۶ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء اُس نے واپس جا کر اپنے افسر سے بات کی تو وہ مجھے ملنے کے لئے آیا اور اُس نے شکریہ ادا کیا کہ آپ نے میری توجہ اس طرف پھرائی ہے، میں اپنی رپورٹ میں اس بات کا خیال رکھوں گا.تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بھلوال کی جو باتیں ہیں وہ سیالکوٹ پر چسپاں نہیں ہوں گی لیکن سیالکوٹ میں اس کا تجربہ کیا جا سکتا ہے اور اس سے پتہ لگ جائے گا کہ اس میں کیا کیا نقائص ہیں.پس انسپکٹر زراعت کو چاہئے تھا کہ وہ بھلوال کا دورہ کرتے اور پھر جماعتوں میں جا کے کہتے کہ یہ یہ بیج استعمال کرو.اگلے سال وہ جاتے تو زمیندار کہتے ہماری فصل ماری گئی ہے یا دُگنی ہوگئی ہے اور یہ اس بات کو نوٹ کر لیتے کہ ضلع سیالکوٹ میں فلاں بیج اچھا ہے.پھر اگلی جماعتوں میں جاتے کہ کھا د اتنے اتنے وزن میں استعمال کرو.مثلاً میں نے قادیان میں بھی دیکھا ہے کہ میں نے ایک آم کو مصنوعی کھاد ڈلوائی اور وہ مر گیا.اسی طرح ہم نے یہاں بھی تجربہ کیا کہ مصنوعی کھاد ڈالنے سے ایک پودا مر گیا تو بعض جگہ مصنوعی کھاد ایک خاص مقدار میں مفید ہوتی ہے اس سے بڑھ جائے یا کم ہو جائے تو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا.پس انسپکٹر زراعت کو چاہئے تھا کہ وہ بھلوال جاتے اور وہاں کے تجربوں سے فائدہ اُٹھاتے اور پھر خود تجربے کرتے اور اگلے سال وہ کھاد کی نوعیت اور پیج بناتے.پھر وہ بتاتے کہ سبز کھاد استعمال کرو.آگے سبز کھاد کئی قسم کی ہے.وہ جماعتوں میں جاتے اور دیکھتے کہ وہاں بڑی بڑی فصلیں کون سی ہیں اور ان کے کاشت کے موسم کون کونسے ہیں.پھر دیکھتے کہ اُن کے درمیان میں کون سی سبز کھاد بوئی جاسکتی ہے.برسیم ہوئی جاسکتی ہے یا گوارا بویا جا سکتا ہے تاکہ وہ پھر دفن ہو سکے اور دوبارہ فصل اچھی ہو سکے.پھر اس کھاد کے دبانے کا عرصہ مختلف علاقوں میں مختلف ہوتا ہے.بعض زمینیں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ بہت جلد کھا د کو کھا جاتی ہیں اور اس کو اس قابل بنا دیتی ہیں کہ اس سے اگلی فصل اچھی ہو اور بعض علاقوں میں اس کو قابلِ استعمال ہونے میں بہت دیر لگتی ہے.انسپکٹر زراعت جماعتوں میں جاتے اور کہتے کہ سبز کھاد کے طور پر فلاں فصل بونا اور پھر اُس کو دفن کر کے اتنی دیر تک زمین خالی پڑی رہنے دینا اور اس کے اتنے عرصہ بعد فلاں فصل بونا.پھر بعض عارضی طریقے سبز کھاد بنانے کے لوگوں نے ایجاد کئے ہوئے ہیں.مثلاً

Page 683

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء ایک طریق یہ ہے کہ سبز کھاد دبا کر پانی دے دیا جائے اور اس طرح اُسے گلا دیا جائے.اس میں آگے یہ ہوتا ہے کہ پانی کی زیادتی اور کمی کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ پانی کم موزوں ہے یا زیادہ موزوں ہے.غرض مختلف طریقے تھے جن سے وہ فائدہ اُٹھا سکتے تھے.پھر دُور جانے کی ضرورت نہیں تھی یہیں ہمارے سامنے مغربی پاکستان کے انٹا مالوجسٹ بیٹھے ہیں ان سے ملتے اور کہتے کہ فصلوں کو بالعموم کیڑے کھا جاتے ہیں.آپ میرے ساتھ اپنا کوئی افسر بھجوائیں جو ہمیں بتائے کہ کیڑوں کا کیا علاج کرنا چاہئے اور کس وقت کرنا چاہئے.مثلاً میں نے اُن سے کہا تھا کہ ہماری فصل کو کیڑا لگ گیا تھا، آپ کی تجویز کردہ دوائی چھڑ کوائی بھی لیکن پھر بھی کیڑ افصل کھا گیا.اس پر انہوں نے بتایا کہ آپ کے افسر جب فصل کو کیڑا لگ جاتا ہے تو پھر دوائی چھڑ کنے والوں کو بلواتے ہیں.حالانکہ دوائی کیڑا لگنے کے موسم سے پہلے پچھڑ کوانی چاہئے.آپ انہیں ہدایت فرمائیں کہ کیڑا لگنے کے موسم سے پہلے دوائی چھڑ کو الیا کریں، ورنہ بعد میں دوائی چھڑ کوانے کا زیادہ فائدہ نہیں ہوتا.بہر حال اس قسم کی کئی باتیں ہیں جو اگر انسپکٹر زراعت جماعتوں میں جا کر بتاتے تو ہر ضلع میں اُن سے فائدہ اُٹھایا جا سکتا تھا.نظارت تعلیم کو ہدایات اسی طرح اختر صاحب نے تعلیم کے متعلق بھی جو باتیں کہی ہیں اگر وہ باتیں ناظر تعلیم پیش کرتے تو چونکہ وہ اس فن کے ماہر ہیں اس لئے ہم اُن سے پوچھتے کہ جو جو باتیں آپ نے کہی ہیں وہ عقلی بھی ہیں یا نہیں؟ مثلاً کیا ہمارے پاس اتنا روپیہ ہے کہ ہم ساری جماعت میں سکول کھلوائیں.یا اگر ہم پانچ سکول کھول دیں تو ہماری ساری جماعت تعلیم یافتہ ہو سکتی ہے.ہم کو تو ایسا طریق اختیار کرنا چاہئے کہ جس سے زیادہ سے زیادہ تعلیم ہماری جماعت میں پھیل سکے اور اس کے لئے ایک طریق تو یہ ہے کہ ہم گورنمنٹ سے اپیل کریں اور اُس کے افسروں سے تعاون لیں اور کہیں کہ جہاں جہاں ہماری جماعت زیادہ ہے وہاں آپ ایک سکول کھول دیں.دوسرا طریق یہ ہے کہ مساجد کے ذریعہ سے تعلیم کو وسیع کیا جائے.ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ جو عالم باہر جاتا ہے وہ اپنے آپ کو مبلغ کہلانے میں فخر محسوس کرتا ہے.حالانکہ ہمارے پرانے بزرگ معلم کہلانے میں فخر محسوس کیا کرتے تھے.پھر یہ بھی وقت ہے کہ امام الصلوۃ نہیں ملتے.

Page 684

خطابات شوری جلد سوم ۶۶۸ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء میرے نزدیک اگر امام سے ہی معلم کا کام لیا جائے تو ہماری مسجد میں بھی آباد ہو جائیں اور مدرسہ بھی قائم ہو جائے.پھر یہ سہولت بھی ہوگی کہ ہمیں مدرسہ کے لئے کسی عمارت کی بھی ضرورت نہیں ہوگی.وقت مقرر کر دیا جائے کہ فلاں وقت بوڑھے پڑھنے کے لئے آئیں اور فلاں وقت بچے پڑھنے کو آئیں.اس سے تعلیم بڑی آسانی کے ساتھ وسیع ہوسکتی ہے.پھر جو تعلیم اپنی زبان میں دی جاتی ہے وہ تھوڑی سی محنت سے کامیاب ہو جاتی ہے.میں سمجھتا ہوں اس سادہ طریق سے بچہ ایک سال میں ایسا سمجھدار ہو جائے گا کہ وہ اعلیٰ درجہ کی کتابیں بھی پڑھ سکے گا اور ادھر ہر علاقہ میں ہمارا ایک آدمی بیٹھا ہو گا اور اس کے ذریعہ سے علاقہ میں تبلیغ بھی ہو جائے گی اور ہم بغیر کسی خرچ کے ساری جماعت میں تعلیم پھیلا سکیں گے.پھر ہمارے زمانہ میں تعلیم کا یہ طریق ہوا کرتا تھا کہ مدرسوں کے خلیفے ہوتے تھے اور وہ خلیفوں کو حکم دیتے تھے کہ اتنے لڑکے لے لو اور اُنہیں پڑھاؤ.مجھے یاد ہے جب ہم بچے ہوتے تھے اور ہماری والدہ دتی جاتی تھیں تو وہ ہماری تعلیم کے حرج کے خیال سے پاس ہی ایک مدرسہ میں ہمیں داخل کر دیتی تھیں.اس سکول کی مدرسہ ایک عورت تھی.۱۹۴۰ء میں جب میں دتی گیا تھا تو وہ گھر دیکھ کے آیا تھا جہاں وہ اُستانی رہا کرتی تھیں.لوگوں نے مجھے بتایا کہ وہ اُستانی تو آب چلی گئی ہیں لیکن یہ وہ مکان تھا جو اُنہوں نے خرید لیا تھا اور اسی میں وہ پڑھایا کرتی تھیں.وہ پڑھانیوالی صرف ایک تھی.۷۰ ۸۰ لڑکے لڑکیاں تھے.اس لئے اُس نے سہولت کی خاطر اپنے بعض خلیفے بنائے ہوئے تھے.وہ صبح انہیں بلاتی اور سبق دے دیتی اور پھر وہ آگے دوسرے لڑکے لڑکیوں کو پڑھانے لگ جاتے.اسی طرح جو اُستاد اور علماء ہم جماعتوں میں مقرر کریں وہ ہوشیار طالب علموں کو چن چن کر خلیفے بناتے چلے جائیں اور اُن کے سپرد بعض طالب علم کرتے جائیں.اپنا کام اُن کا وہی ہو جو میں نے ناظر اعلیٰ کا بتایا ہے کہ وہ یہ دیکھتے رہیں کہ خلیفہ کیسا کام کر رہا ہے.اگر وہ ٹھیک پڑھا رہا ہے تو اُس کو شاباش دیں اور اگر وہ غلط پڑھا رہا ہو تو اُس کو تنبیہ کریں اس طرح تعلیم اچھی ہوسکتی ہے.ورنہ ہمارے پاس روپیہ نہیں.ہمارے باپ دادوں نے یہی کام کیا تھا اور سارے ملک کو تعلیم دے دی تھی.آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھو کہ کتنی بڑی قوم اُن کے سپرد تھی لیکن تھوڑے عرصہ میں ہی آپ نے اُس سب قو م کو تعلیم دے دی اور وہ اسی طرح تھی کہ

Page 685

خطابات شوری جلد سوم ۶۶۹ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء بہت سے آدمیوں کو کام سپرد کر دیا جاتا تھا اور لوگوں میں تعلیم کی تلقین کی جاتی تھی.مثلاً آپ نے فرمایا کہ اگر کسی کی دولڑ کیاں ہوں اور اُن کی والدہ انہیں اچھی تعلیم دے، اُن کی تربیت کرے تو اُس کو جنت میں مقام ملتا ہے.اب ہر عورت کو شوق آیا کہ وہ جنت میں مقام حاصل کرے اور اُس نے اپنی لڑکیوں کو تعلیم دینا شروع کی.اسی طرح اگر ہر جگہ پر علماء ہوں اور وہ امام مسجد بھی ہوں اور مدرس بھی ہوں تو کام بڑی آسانی سے ہوسکتا ہے.انہیں بتایا جائے کہ نماز پڑھانا بھی تمہارے کورس میں شامل ہے.اگر علاقہ وسیع ہو جائے تو اس کے طالب علم دوسری جگہوں پر اس کام کو سنبھال لیں.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں صحابہ اسی طرح تعلیم لے کر جایا کرتے تھے.ایک دفعہ ایک گاؤں والوں نے آ کر کہا کہ یا رسول اللہ ! ہمارے ہاں کوئی قرآن کریم پڑھانے والا نہیں، آپ ہمیں ایک مدرس دے دیں.آپ نے انہیں ایک لڑکا دے دیا جو کوئی گیارہ بارہ برس کا تھا اور فرمایا یہ تمہارا امام ہے.چنانچہ وہ اس کو ساتھ لے گئے.وہ لڑکا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں بیٹھا کرتا تھا اور قرآن کریم پڑھنا سیکھتا تھا جب وہ اس گاؤں میں گیا تو چونکہ وہ ایک غریب گھرانہ کا ایک فرد تھا اس کے پاس تہہ بند یا پاجامہ نہیں تھا.وہ اس ملک کے رواج کے مطابق صرف گرتہ پہن لیتا تھا لیکن چونکہ وہ گر تہ لمبا نہیں تھا چھوٹا تھا اس لئے جب وہ سجدہ میں جاتا تو ننگا ہو جاتا.ایک دفعہ سجدہ کی حالت سے عورتوں نے سر اُٹھایا تو اُنہوں نے اُس کے ننگ کو دیکھ لیا.اُنہوں نے مردوں سے کہا مسلمانو! تم اپنے امام کا ننگ تو ڈھانکو.اب دیکھو اس طریق سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام لوگوں کو نمازیں اور قرآن کریم پڑھنا سکھا دیا.پھر آپ لوگوں کو تعلیم دینے کے لئے ایک یہ طریق بھی اختیار فرماتے تھے کہ جنگ کے قیدی آتے تو انہیں فرماتے میں تمہیں چھوڑ دوں گا لیکن شرط یہ ہے کہ سال بھر مدینہ میں رہو اور یہاں کے رہنے والوں کو پڑھنا لکھنا سکھا دو.اس طرح آپ نے مدینہ کے سارے مسلمانوں کو پڑھنا لکھنا سکھا دیا.ایک زمانہ تھا کہ سارے مکہ میں صرف اٹھارہ پڑھے لکھے آدمی تھے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے قریب زمانہ میں مدینہ میں ہر شخص پڑھا ہوا تھا.

Page 686

خطابات شوری جلد سوم ۶۷۰ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء آخر ہم نے ساری جماعت کو بیدار کرنا ہے صرف ایک آدمی کو بیدار نہیں کرنا اور جو طریق کا رسوچا گیا ہے اس سے بجٹ پر ہی بوجھ پڑتا ہے اور بجٹ اس بوجھ کو برداشت نہیں کر سکتا.ہمیں اس سلسلہ میں وہ طریق سوچنے چاہئیں جن کی وجہ سے بجٹ پر بوجھ نہ پڑے.ہمیں اپنے باپ دادوں کے پرانے طریق کو اختیار کر کے جو اُن کا آزمایا ہوا ہے ساری جماعت کو تعلیم دینی چاہئے اور یہی وہ طریق ہے جس کے ذریعہ ہم اس کام میں کامیاب ہو سکتے ہیں.پھر افسر تعلیم کے علاوہ ناظر تعلیم کا یہ کام ہونا چاہئے کہ وہ دیہات میں دورے کریں اور دیکھیں کہ مرکز کی ہدایات کے مطابق تعلیم کا سلسلہ جاری ہے یا نہیں.اس وقت محکمہ تعلیم میں تین آفیسر ہیں ایک تو ناظر تعلیم ہیں وہ تو بہت بوڑھے ہو گئے ہیں.دو اُن کے نائب ہیں، ایک نائب اگر چہ بوڑھے ہیں ۵۷، ۵۸ سال کی عمر کے ہوں گے مگر اُن میں کام کرنے کی ہمت ہے.تیسرے شیخ مبارک احمد صاحب ہیں، وہ بالکل نوجوان ہیں.وہ دیہات کے دورے کریں اور دیکھیں کہ کیا ہماری مسجد میں اس رنگ میں آباد ہیں یا نہیں.اور جو امام مقرر کیا گیا ہے وہ امامت کے ساتھ ساتھ درس و تدریس کا کام بھی کرتا ہے یا نہیں.اُس کو کہیں کہ ہم تمہیں دس روپے ماہوار دیں گے اور جماعت کچھ غلہ وغیرہ مہیا کر دے گی.تم امامت کے ساتھ ساتھ درس و تدریس کا کام بھی کرو.پھر اس طرح قدم بقدم ضلعوار چلیں.پہلے ایک ضلع کو لے لیں پھر اگلے ضلع کو لے لیں.بجائے اس کے کہ ہم کہیں انے سارے پنجاب میں یہ کام شروع کیا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ ہم نے کچھ بھی نہیں کیا.یہ بہتر ہے کہ ہم کہیں کہ ہم نے ضلع جہلم کی ساری جماعتوں کو پڑھا دیا ہے، ہم نے ضلع گوجرانوالہ کی سب جماعتوں کو پڑھا دیا ہے، ہم نے ضلع گجرات کی ساری جماعتوں کو پڑھا دیا ہے.پس تم جو امام رکھو اُس کے سپر د تعلیم کا کام بھی رکھو.دس روپے خود ماہوار دو اور جماعت کو تحریک کرو کہ وہ کچھ غلہ مقرر کر دے اور افراد کو کہہ دیا جائے کہ جب تمہارا غلہ نکلے تو اتنا غلہ تم اپنے امام اور مدرس کو دے دیا کرو.اگر لوگوں کو اس کی عادت پڑ جائے اور غلہ سے وہ اپنے مولوی کی مدد کر دیا کریں تو دس روپیہ ماہوار میں اچھا تو نہیں مگر غریبانہ گزارہ ہو جاتا ہے اور اس ذریعہ سے ہم ہر جگہ سکول کھول سکتے ہیں.ایک ضلع میں اس قسم کے

Page 687

خطابات شوری جلد سوم ۶۷۱ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء پندرہ بیس سکول کھول دیئے جائیں تو یہ ڈیڑھ دو سو روپیہ فی مہینہ خرچ ہے اور بارہ چودہ لاکھ کے بجٹ سے کسی ایک ضلع میں احمدیوں کو تعلیم دلانے کے لئے دوسو روپیہ ماہوار خرچ کر دینا کوئی بڑی بات نہیں.پس امام مقرر کئے جائیں اس طرح مسجد میں بھی آباد ہوں گی اور مدر سے بھی بن جائیں گے.پھر ہر مدرس کے آگے خلیفے ہوں گے جو کام کریں گے.پرانے زمانہ میں جو خلیفے ہوتے تھے وہ اس انتظار میں رہتے تھے کہ کوئی مسجد ہمیں بھی مل جائے.۱۹۱۲ء میں میں مدارس کا دورہ کرنے کے لئے گیا تو میں نے رام پور کا مدرسہ بھی دیکھا.وہاں میں نے ایک طالب علم کو دیکھا جس کی بہت لمبی داڑھی تھی وہ بخاری پڑھ رہا تھا.میں نے اُسے کہا آپ ابھی پڑھ رہے ہیں، آپ کے پڑھانے کا وقت کب آئے گا ؟ وہ اُٹھ کر ہمارے ساتھ آ گیا اور باہر آ کر کہنے لگا آپ کسی کو بتا ئیں نہیں میں اِس انتظار میں ہوں کہ میرا اُستاد مر جائے تو میں اس کی جگہ لے لوں.ابھی تک وہ زندہ ہیں جب وہ مریں گے تو میں ان کی جگہ لے لوں گا.غرض شا گرد اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ ہمیں کوئی مدرسہ مل جائے.اگر کسی کا کوئی اچھا شاگرد ہو تو وہ اُسے دوسرے محلہ کی مسجد میں بٹھا دے اور دفتر کو لکھ دے کہ آپ مجھے دس روپیہ دیتے ہیں اب پانچ روپے ماہوار اُسے بھیج دیا کریں، میں نے محلہ والوں سے روٹیاں لگوا دی ہیں.اس طرح تھوڑے عرصہ میں ہی ایک ضلع کی تعلیم پر قابو پایا جاسکتا ہے.پھر دوسرے ضلع کی تعلیم پر قابو پایا جا سکتا ہے.مگر جو طریق ناظر صاحب تعلیم اختیار کر رہے ہیں کہ الفضل میں اعلان کرا دیا اس سے کچھ نہیں بنے گا.بلکہ آہستہ آہستہ جواثر ہے وہ بھی لوگوں کے دلوں سے زائل ہو جائے گا.تحریک جدید والوں کا یہ حال تھا کہ وہ ہمیشہ یہی لکھتے تھے کہ حضرت خلیفہ ایچ نے یوں فرمایا ہے.میں نے اُنہیں ڈانٹا اور کہا کہ تم خلیفتہ اسیح کا رُعب بھی مٹانا چاہتے ہو.تم میرا نام نہ لکھا کرو بلکہ یہ لکھا کرو کہ تمہارا فائدہ اِس میں ہے.اس طرح ان کے دلوں میں چندہ دینے کی رغبت پیدا ہوگی.میرا نام بار بار چھپنے سے پہلا اثر بھی نزائل ہو جائے گا.کبھی لکھ دیا کہ ہم ۲۹ تاریخ کو چندہ پورا ادا کرنے والوں کی لسٹ خلیفہ امسیح کے سامنے پیش کریں گے.پھر دو دن کے بعد چھپا کہ اب ہم ۳۱ / تاریخ کولسٹ پیش کریں گے.پھر چھپا اگلے مہینے کی دو تاریخ کولسٹ پیش کریں گے.میں نے کہا اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ آخر

Page 688

خطابات شوری جلد سوم ۶۷۲ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء پڑھتے پڑھتے جماعت کے افراد سے اس کا اثر مٹ جائے گا.وہ سمجھیں گے کہ لسٹ میں نام آئے یا نہ آئے ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں.پس تم اس بات کو رہنے دو اور یہ بات اُن کے ایمان پر چھوڑو اور یہ کہو کہ اسلام کو تبلیغ کی ضرورت ہے اور مبلغوں کو روپیہ کی ضرورت ہے.اس طرح بڑی مشکل سے کہہ کہہ کر میں نے اس میں کمی کرائی ہے.غرض ناظر صاحب اعلیٰ نے صیغہ جات کی طرف سے جو رپورٹ پیش کی ہے وہ اُن صیغہ جات کے ناظروں کو پیش کرنی چاہئے تھی اور خود اُن کو یہ بتانا چاہئے تھا کہ فلاں فلاں ماہ میں فلاں فلاں دفتر میں گیا ہوں اور دفاتر کا معائنہ کیا ہے.پھر ناظروں سے کہنا چاہئے تھا کہ وہ سٹیج پر آئیں اور بتائیں کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے.“ مشاورت میں سب کمیٹی وصیت کے لئے عورت کی اصل جائداد اُس کا مہر ہے بہشتی مقبرہ کی رپورٹ پیش ہوئی کہ عورتوں کے لئے کم از کم جائداد جس پر وصیت ہو سکے پانچ سو روپے ہونی چاہئے.چند ممبران نے اس بارہ میں اپنی آراء بیان کیں.اس کے بعد حضور نے فرمایا : - چونکہ تجویز کی دونوں شقیں الگ الگ پیش نہیں ہوئیں اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ بات واضح نہیں ہوئی.میرے نزدیک اس وقت دو ہی تجویز میں غور کے قابل تھیں اور انہیں پر بات کو محدود رکھا جاتا تو کسی فیصلہ تک پہنچنے میں آسانی ہو سکتی تھی.ایک بات تو میاں عطا اللہ صاحب نے بیان کی ہے کہ وصیت کے لئے کوئی حد بندی لگانا جائز نہیں.دوسرے ایک دوست نے کہا ہے کہ عورت کی اصل جائیداد اُس کا مہر ہے.میرے نزدیک بھی اگر مہر پر بنیا د رکھ دی جائے تو یہ سارے جھگڑے ختم ہو جاتے ہیں کیونکہ شریعت نے کہا ہے کہ مہر مرد کی حیثیت کے مطابق مقرر کیا جائے.پس میرے نزدیک اگر آپ سب مجھ سے متفق ہوں تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ قاعدہ بنا دیا جائے کہ ہر عورت کی وصیت پر اُس کے خاوند کے بھی دستخط لئے جائیں اور یہ شرط کر دی جائے کہ اگر تم نے اپنی بیوی کو مہرادا کیا تو وصیت کا حصہ ہمیں ادا کرنا.مثلاً اگر پانچ سو روپیہ مہر ہے تو پانچ سو روپیہ دیتے وقت پچاس روپے ہمیں دینے ہوں گے.اگر تم نے اُس کی موت کے وقت کہہ دیا کہ اُس نے اپنا مہر مجھے

Page 689

خطابات شوری جلد سوم ۶۷۳ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء معاف کر دیا تھا تو ہم نہیں مانیں گے کیونکہ وصیت کی ادائیگی تمہارے ذمہ تھی.اگر تم نے مہر معاف کروالیا تھا تو تمہارا یہ حق نہیں تھا کہ ہمارا حصہ بھی معاف کرواؤ اور نہ اس کا حق تھا کہ ہمارا حصہ تمہیں معاف کرتی، اس لئے پچاس روپے لازماً ہمیں ملنے چائیں اور اگر تم کہو کہ میں نے اُسے مہر دے دیا تھا تو اس صورت میں بھی تمہارا کوئی حق نہیں تھا کہ اُسے ہمارے حصہ کے روپے دے دیتے.اگر پانچ سو روپے مہر تھا تو ساڑھے چار سو روپیہ اُسے دیتے اور پچاس روپے ہمیں دیتے کیونکہ وہ ہما راحق تھا.پس میرے نزدیک ہر عورت کی وصیت پر حصہ وصیت ادا کرنے کا ذمہ دار اُس کے خاوند کو قراردیا جائے.اگر عورت اپنا مہر معاف کر دے تو اس کا یہ حق نہیں ہو گا کہ وہ ہمارا حصہ معاف کرے.اسی طرح اگر خاوند اپنی بیوی سے مہر معاف کرواتا ہے تو اس کا یہ حق نہیں ہو گا کہ ہمارا حصہ معاف کرائے اور اگر وہ مہر ادا کرے تو ہمارا حصہ اُسے ادا نہ کرے بلکہ وصیت کا حصہ ہمیں دے باقی مہر اپنی بیوی کو ادا کرے.اگر مہر کو وصیت کے لئے معیار کر دیا جائے تو جہاں عورتوں کی یہ خواہش ہو گی کہ ان کا مہر بڑھے وہاں ہماری آمد میں بھی اضافہ ہوگا اور مہر کی زیادتی برکت کا موجب ہوگی.میں آپ لوگوں کو یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ آپ بے شک اپنے دوست کو احمدی نہ بنا سکے ہوں مگر وہ عورت جو وصیت کرے گی وہ اُس وقت تک اپنے خاوند کو چھوڑے گی نہیں جب تک اُسے احمدی نہیں کر لے گی.میں نے بیسیوں نہیں سینکڑوں ایسی عورتیں دیکھی ہیں کہ اُن کے خاوند کٹر غیر احمدی تھے اور اُنہوں نے اُن کو اُس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک کہ اُنہوں نے بیعت نہیں کر لی.حال ہی میں کراچی میں ایک افسر نے بیعت کی ہے.بعد میں مجھے پتہ لگا کہ افسر سے اس کی بیوی نے بیعت کرائی ہے.بلکہ دو ایک شیعہ بھی تھے اُن کے متعلق بھی معلوم ہوا کہ پہلے بیوی احمدیت کی طرف مائل ہوئی اور پھر اُس نے اپنے خاوند کو قرآن کریم پڑھایا اور بیعت کی تحریک کی.“ 66 ورثہ میں لڑکیوں کا حصہ ایک سوال کے جواب میں حضور نے فرمایا: - اصلاح وارشاد کے محکمہ کا فرض ہے کہ وہ جماعت کے تمام دوستوں کو اس امر کی تحریک کرتا رہے کہ وہ اپنی جائیداد سے شریعت کے مطابق اپنی

Page 690

خطابات شوری جلد سوم ۶۷۴ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء لڑکیوں کو حصہ دیا کریں.اگر کسی نے اپنی لڑکی کو جائیداد سے حصہ دیا ہوگا تو وہ بیوہ بھی ہوگی تو صاحب جائیداد ہوگی اور اگر کسی نے اپنی بیوی کو حصہ دیا ہوگا یا اس کے مرنے کے بعد اس کی اولا د نے اپنی ماں کو اپنے باپ کی جائیداد سے حصہ دیا ہو گا تب بھی وہ صاحب جائیداد ہو گی.بہر حال یہ جھگڑا ختم ہو جاتا ہے کہ ہم عورت کی وصیت کے لئے کوئی معیار مقرر کریں.جائیداد کی تعیین کے لئے ہمیں فکر نہیں کرنی چاہئے.کیونکہ تعین وہی درست ہے جو خاوند نے کر دیا ہے اور جو خود عورت نے کر دیا ہے.اُسے خواہ مخواہ جھوٹا کرنے اور بات کے کریدنے کی ضرورت نہیں.مثلاً اگر ایک مرد ہمارے پاس آ کر کہتا ہے کہ میری سور و پیہ ماہوار تنخواہ ہے، میں دس روپے چندہ دیتا ہوں تو ہم اس بات کی تردید نہیں کیا کرتے کہ اس کی تنخواہ سو روپیہ ماہوار نہیں بلکہ ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار ہے.ہمیں معلوم ہے کہ بعض لوگ عمداً سو روپیہ آمد لکھواتے ہیں اور پھر ٹیوشن کرتے ہیں اور سو سو روپیہ اُن سے بھی کما لیتے ہیں اور اُس سے چندہ نہیں دیتے.ہم سمجھتے ہیں اُنہوں نے تو خدا تعالیٰ سے اپنے اخلاص کا بدلہ لینا ہے.آخر جنت ہمارے پاس تو نہیں جو ہم نے اُسے دے دینی ہے جنت تو خدا تعالیٰ کے پاس ہے.اگر وہ ہم سے دھوکا کرے گا تو اس کا بدلہ بھی کم ہو جائے گا.ہم نے صرف ظاہر پر عمل کرنا ہے.پس چاہئے کہ اصلاح وارشاد والے جماعت کے مردوں پر زور دیں کہ وہ اپنی جائیدادوں سے اپنی عورتوں کو بھی حصہ دیں یا اپنی اولاد کو وصیت کر جائیں کہ وہ اُن کے ترکہ سے اُن کی بیویوں کو حصہ دے.گورنمنٹ نے تو اس قسم کا قانون بنا دیا ہوا ہے لیکن پہلو بچانے والے کسی نہ کسی طرح اپنا پہلو بچا ہی لیتے ہیں.بہر حال میری تجویز یہ ہے کہ اگر آپ لوگ متفق ہوں تو فی الحال یہ تجویز کر دیا جائے کہ عورتوں کا مہر اُن کی جائیداد سمجھ لیا جائے.اس کے علاوہ کسی عورت کی اگر کوئی اور جائیداد بھی ہو تو وہ بھی وصیت میں لکھوا دی جائے لیکن اگر وہ کہہ دے کہ اس کے علاوہ میری کوئی جائیداد نہیں تو ہمیں گریدنے کی کوئی ضرورت نہیں.مہر وہ چیز ہے جو خدا تعالیٰ نے مقرر کی ہے.اگر وہ کہے کہ میرا ہر کوئی نہیں تو ہم کہیں گے کہ تیرا نکاح بھی کوئی نہیں.پس یا تو اُسے اپنا مہر بتانا پڑے گا یا خاوند سے بھی طلاق لینی پڑے گی.اس کے سوا اور کوئی صورت نہیں ہو گی.بہر حال جو چیز خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے آسان کر دی ہے اس کے لئے

Page 691

خطابات شوری جلد سوم ۶۷۵ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء ہمیں سرگرداں ہونے کی کیا ضرورت ہے.خدا تعالیٰ نے ہم کو بتا دیا ہے کہ مہر ضروری ہے اور مہر ایک ایسی جائیداد ہے جس کو کوئی چُھپا نہیں سکتا.اگر کوئی اُسے چُھپائے گا تو اس منافقت میں تین آدمی شامل ہوں گے.ایک تو قاضی ہوگا ، ایک خود عورت ہو گی اور ایک اُس کا خاوند ہو گا.اب یہ کہنا کہ سارا کنبہ ہی منافقوں کا ہے یہ نا جائز بات ہے.اتنی بدظنی کرنے کی ہمیں ضرورت نہیں.عورت اپنا جو مہر بتائے وہ ہمیں تسلیم کر لینا چاہئے اور اُس کے خاوند سے وصیت فارم پر دستخط لینے چاہئیں اور تحریر لکھوا لینی چاہئے کہ میں اپنی عورت سے اُس کا مہر بخشواؤں گا نہیں اور اگر بخشواؤں گا تو وصیت کا حصہ خود ادا کر دوں گا اور اگر میری بیوی خود اپنا مہر معاف کرے گی تو میں اُسے بھی سمجھاؤں گا کہ بی بی! تیرا حق وصیت کا حصہ کاٹ کر باقی مہر معاف کرنے کا ہے اس سے زیادہ نہیں.اور اگر بالفرض وہ سمجھانے کے باوجود بھی معاف کر دے گی تب بھی میں اُسے معاف نہیں سمجھوں گا اور وصیت کا حصہ ادا کروں گا.اور اگر میں اپنی بیوی کو اُس کا مہر دوں گا تو میں خود اس بات کا ذمہ دار ہوں گا کہ مہر سے وصیت کا حصہ کاٹ کر اُسے دوں.پس اگر مہر کو محفوظ کر لیا جائے تو پھر میرے نزدیک عورتوں کا سوال حل ہو جاتا ہے.باقی ہمارے ملک میں بہت تھوڑی عورتیں ہیں جن کی کوئی جائیداد نہیں ہوتی.زمینداروں کو میں نے ایک دفعہ نصیحت کی تھی کہ وہ اپنی لڑکیوں اور بیویوں کو اپنی جائیداد سے حصہ دیا کریں اور مجھے یاد ہے کہ اُس وقت بعض دوستوں نے اس پر عمل بھی کیا تھا مگر پھر وہ بُھول گئے.اُنہوں نے سمجھا کہ شاید خدا تعالیٰ کی خوشنودی صرف ایک سال کے لئے ہی ضروری ہے پھر اس کی ضرورت نہیں.غیر شادی شدہ عورتوں کی وصیت ایک سوال لجنہ نے کیا ہے کہ اگر وصیت کے لئے مہر کی شرط کی گئی تو غیر شادی شدہ عورتوں کی وصیت کے متعلق کیا ہوگا.سو یا درکھنا چاہئے کہ غیر شادی شدہ عورت جو بھی اپنی جائیداد بتائے گی ہم اُسے تسلیم کر لیں گے.اگر وہ کہے گی کہ میرے پاس ایک روپیہ ہے تو ہمارا فرض ہوگا کہ ہم اُس ایک روپیہ کو ہی تسلیم کر لیں.کیونکہ قرآن کریم کہتا ہے کہ غیر شادی شدہ رہنا منع ہے.آخر دو چار سال تک تو وہ غیر شادی شدہ رہے گی لیکن اس کے بعد وہ بہر حال شادی کرے گی اور جب وہ شادی کرے گی تو مہر والی صورت پیدا ہو جائے گی کیونکہ وصیت کی

Page 692

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء ایک شق یہ بھی ہے کہ اگر کوئی جائیداد آئندہ ثابت ہوگی تو اس پر بھی میری وصیت حاوی ہو گی.ہاں اگر کوئی عورت یہ کہے کہ میں مرنے تک شادی نہیں کروں گی تو یہ درست نہیں ہو گا.بہر حال لجنہ کے سوال کا میں نے جواب دے دیا ہے کہ غیر شادی شدہ عورتیں ہمیشہ غیر شادی شدہ نہیں رہیں گی بلکہ ہو سکتا ہے کہ ایک دو سال کے بعد ہی اُن کی شادی ہو جائے.اگر خدانخواستہ ایسا حادثہ پیش آجائے کہ کوئی لڑکی وصیت کرنے کے بعد بغیر شادی کے فوت ہو جائے تو وہ چاہے ایک روپیہ وصیت میں لکھوائے ہم بہر حال اُسے تسلیم کریں گے کیونکہ اُس نے اپنے اخلاص کا ثبوت دے دیا اور جس نے اپنا اخلاص ثابت کر دیا ہمارا کوئی حق نہیں کہ اُس کی وصیت کو ر ڈ کریں.ہماری لڑکیوں نے بچپن میں جب وصیت کی تو وہ ہم سے آکر مطالبہ کرتی تھیں کہ کچھ روپے ہمیں دے دیں تا کہ اُن پر ہم وصیت کریں.اسی طرح میری لڑکیوں اور لڑکوں نے وصیت کی.وہ آ کر کچھ روپیہ مانگ لیتے تھے اور اُسے جائیداد شمار کر کے وصیت کر دیتے تھے.بیویوں کے حقوق اب تو میں نے اپنی ساری جائیدادلڑکوں اور لڑکیوں میں تقسیم کر دی ہے اور بیویوں کو بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق میں نے ایک ایک مکان بنا دیا ہے، بعض مکانات مکمل ہو چکے ہیں اور بعض ابھی بن رہے ہیں بچوں کو بھی میں نے اسی طرح مکانات بنوا دیئے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ تشریف لے گئے تو آپ نے سب سے پہلا کام یہی کیا تھا کہ ہر بیوی کو الگ الگ مکان بنوا دیا.مجھے بھی بیماری کے دوران سارا سال یہ وہم رہا کہ اگر میں مرگیا تو میری بیویوں کا کیا بنے گا کیونکہ میں نے یہ نظارہ دیکھا ہے کہ جب بھی کوئی ناظر فوت ہوتا ہے اُس کی بیوی دوڑی دوڑی میرے پاس آتی ہے کہ مجھے صدر انجمن احمد یہ موجودہ مکان سے باہر نکال دے گی مجھے اُس وقت بڑا رحم آتا ہے کہ اِدھر اُسے اپنے خاوند کی موت کا صدمہ ہے اور اُدھر انجمن بھی کیا کرے.اُس نے ایک نیا افسر لگانا ہے اور اُسے رہائش کے لئے کوارٹر مہیا کرنا ہے.بہر حال جب یہ نظارہ مجھے یاد آیا تو میرے دل پر سخت بوجھ پڑا اور میں نے ارادہ کر لیا کہ یورپ سے واپس آکر سب سے پہلا کام یہ کروں گا کہ اپنی ہر بیوی کے لئے ایک ایک مکان بنوا دوں گا تا کہ انہیں میری وفات کے بعد قصر خلافت استعمال نہ کرنا پڑے

Page 693

خطابات شوری جلد سوم ۶۷۷ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء کیونکہ وہ صدر انجمن احمدیہ کا ہے اور میری وفات کے بعد انہیں پتہ ہو کہ ہمارا ذاتی مکان ہے اور جس وقت ہم چاہیں گی اپنے مکان میں چلی جائیں گی.ایک اور سوال کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ:- جس عورت نے مہر وصول کر لیا ہو گا وہ جب وصیت کرے گی اور کہے گی کہ میں مہر لے چکی ہوں تو ہم کہیں گے کہ وصیت کرنے آئی ہو تو اپنے مہر سے ہمارا حصہ اِدھر لاؤ.اور اگر وہ کہے کہ میں مہر وصول کر کے خرچ کر چکی ہوں تو ہمیں بہر حال اُس پر اعتبار کرنا پڑے گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ کا واقعہ ہے کہ حضرت اسامہ نے ایک جنگ کے دوران ایک کا فر کو قتل کرنے کے لئے اُس کے پیچھے گھوڑا دوڑایا تو اُس نے کہا صَبَوتُ میں صابی ہو گیا ہوں.مسلمانوں کو اُن دنوں عام طور پر چونکہ صابی کہا جاتا تھا اُس نے یہی سمجھا کہ مسلمان ہونے کے لئے صابی کے لفظ کا استعمال ہی کافی ہے، مگر حضرت اسامہ نے اُسے قتل کر دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس واقعہ کا علم ہوا تو آپ حضرت اسامہ پر سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ تو نے اسے کیوں قتل کیا.حضرت اسامہ نے کہا یا رسول اللہ ! وہ ڈر کے مارے یہ الفاظ کہہ رہا تھا دل سے مسلمان نہیں تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بڑے جوش سے فرمایا کہ اسامہ! کیا تو نے اس شخص کا دل پھاڑ کر دیکھ لیا تھا کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے جھوٹ ہے؟ وہم نے بھی کسی کا دل پھاڑ کر نہیں دیکھا اگر کوئی عورت کہتی ہے کہ میں نے مہر خرچ کر لیا ہے تو ہمیں اُس پر اعتبار کرنا چاہئے اور اگر وہ ہمارے ساتھ دھوکا کرتی ہے اور کہتی ہے کہ میں نے مہر وصول کر کے خرچ کر لیا ہے حالانکہ اُس نے خرچ نہیں کیا تو وہ جھوٹ بول کر اپنا نقصان آپ کرے گی.ہمارا اس میں کیا نقصان ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی موجود ہے کہ مجھے یہ فکر نہیں کہ روپیہ کہاں سے آئے گا.مجھے یہ فکر ہے کہ اس روپیہ کو خرچ کرنے والے کہاں سے آئیں گے، سو روپیہ تو آتا ہی رہے گا چاہے دس لاکھ بھی ایسی عورت ہو جو مہر لے کر خرچ کر چکی ہو، روپیہ بہر حال آنا ہے اور اس مقدار میں آنا ہے کہ ہمیں یہ فکر ہوگی کہ ہم وہ آدمی کہاں سے لائیں جو اس روپیہ کو مناسب طور پر خرچ کریں.پس جو قانون بنتا ہے بناؤ اور باقی چیزیں خدا پر چھوڑ دو.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض لوگ اُسے بھی دھوکا دینے کی

Page 694

خطابات شوری جلد سوم ۶۷۸ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء کوشش کرتے ہیں.پس اگر خدا تعالیٰ کو دھوکا دینے والے موجود ہیں تو کیا ہم خدا تعالیٰ سے بڑھ کر ہیں کہ ہمیں کوئی دھوکا نہ دے.اگر کوئی دھوکا دے گا تو اپنا انجام آپ خراب کرے گا.ہمیں اس کے فکر کی ضرورت نہیں اور اگر وہ اخلاص سے کام لے رہا ہے تو ایک مخلص پر بدظنی کر کے تم اپنا انجام کیوں خراب کرتے ہو.بہر حال جو دوست اس تجویز کے حق میں ہوں کہ عورتوں کی وصیت کے لئے اُن کے مہر کو بنیا د رکھا جائے اور ان کے خاوندوں سے بھی حصہ وصیت کی ادائیگی کے لئے عہد لے 66 لیا جائے وہ کھڑے ہو جائیں.“ فیصلہ حضور کے ارشاد پر ۲۵۹ دوست کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا.چونکہ اکثریت نے اس کی تائید کی ہے اس لئے میں بھی اکثریت کی رائے کے ساتھ اتفاق کرتا ہوں.اگر کوئی اور تجویز پیش ہوئی تو وہ اگلی شوریٰ میں آجائے گی ، یار زندہ صحبت باقی.عورتوں نے تو بہر حال جنت میں ہمارے ساتھ رہنا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اگر کوئی مومن ہوگا تو خدا تعالیٰ اُس کی بیوی کو بھی جنت میں اس کے ساتھ رکھے گا.پس آپ لوگ اگر عورتوں کو مقبرہ سے نکال بھی دیں تب بھی اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں آپ لوگوں کے ساتھ رکھے گا بلکہ خاوند اگر بہشتی مقبرہ میں دفن ہے تو اس کی بیوی چاہے کسی روڑی میں دفن ہو خدا تعالیٰ پھر بھی اُسے جنت میں اپنے خاوند کے پاس پہنچا دے گا.پس زیادہ قیود اور پابندیاں عائد کرنے کا کوئی فائدہ نہیں.“ اس موقع پر مکرم چوہدری عبداللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی نے دریافت فرمایا کہ کیا ایک مومن عورت بھی اپنے خاوند کو اپنے ساتھ جنت میں لے جاسکتی ہے؟ حضور نے فرمایا.” خاوند اور بیوی دونوں ایسا کر سکتے ہیں.اگر بیوی اچھی ہو گی تو وہ اپنے خاوند کو اپنے ساتھ لے جائے گی اور اگر خاوند مخلص اور مومن ہوگا تو وہ اپنی بیوی کو اپنے ساتھ جنت میں لے جائے گا.اگر بیٹا بیٹی بھی اچھے ہوں گے تو وہ اپنے والدین کو اپنے ساتھ لے جائیں گے اور اگر والدین اچھے ہوں گے تو وہ اپنے بیٹے اور بیٹی کو اپنے ساتھ جنت میں

Page 695

۶۷۹ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء خطابات شوری جلد سوم لے جائیں گے.“ وصیت کی آمد کا ۱۰۰ را حصہ مقبرہ بہشتی کی سجاوٹ پر خرچ کیا جائے بئی بہشتی مقبره کی طرف سے مجلس مشاورت میں یہ تجویز پیش ہوئی کہ چندہ شرط اول کا معیار مقرر ہونا چاہئے تا کہ قبرستان کو خوشنما بنانے کے لئے معقول رقم وصول ہو سکے.اس پر تبصرہ کرتے ہوئے حضور نے فرمایا: - ترامیم کے متعلق قاعدہ ہے کہ وہ لکھ کر پیش کرنی چاہئیں.تقاریر میں ان کا ذکر کرنا اصول کے خلاف ہے.میں نے وصیت کی آمد کا اندازہ لگوایا ہے، دفتر والوں نے بتایا ہے کہ پانچ لاکھ روپیہ سالانہ وصیت کی آمد ہے.میرے نزدیک اگر وصیت کرنے والوں پر زور دینے کی بجائے وصیت کی آمد سے ہی ۱۰۰/ ا لے لیا جائے تو یہ پانچ ہزار روپیہ سالانہ بن جاتا ہے جس سے ساری تجویز میں پوری کی جا سکتی ہیں.کچھ نئے وصیت کرنے والوں سے مل جائے گا.پس آئندہ کے لئے یہ قانون بنا دیا جائے کہ وصیت کی آمد کا ۱/۱۰۰ بہشتی مقبرہ کی سجاوٹ اور اُس کو باغ کی شکل دینے کے لئے مخصوص کیا جائے.اس طرح اگر وہ امانت سے پندرہ میں ہزار روپیہ لے کر اپنی سکیموں پر خرچ بھی کر لیں تو پانچ ہزار سالا نہ اس طرح آجائے گا اور کچھ نئے وصیت کرنے والوں سے آجائے گا اور وہ تین چار سال میں اپنا سارا قرض اُتار سکیں گے بلکہ میں سمجھتا ہوں اگر آمد کم ہوگئی تو ہماری انجمن کو توجہ ہوگی کہ وہ وصیتیں بڑھائے.مثلاً اگر دس لاکھ وصیت ہو جائے اور وہ ایک ایک روپیہ بھی چندہ چندہ شرط اول دیں تو دس لاکھ روپیہ آ جاتا ہے.اب سالانہ ۲۸۸ وصیتیں ہو رہی ہیں جو بہت کم ہیں.اگر پانچ ہزار بھی ہر سال وصیت ہو تو پانچ ہزار روپیہ آ جاتا ہے اور پانچ ہزار انجمن دے گی ، دس ہزار روپیہ ہو جائے گا.اس طرح دو تین سال کے اندراندر ٹیوب ویل بھی لگ جاتا ہے باغ بھی لگ جاتا ہے اور دوسرے اخراجات بھی پورے ہو جاتے ہیں.اس وقت تک کام چلانے کے لئے امانت سے قرض لے لیا جائے اور پھر آمد سے ادا کر دیا جائے.پس میرے نزدیک بجائے سب کمیٹی کی تجویز منظور کرنے کے انجمن کو کہا جائے کہ وہ وصیت کی

Page 696

خطابات شوری جلد سوم ۶۸۰ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء آمد کا ۱/۱۰۰ مقبرہ بہشتی کی سجاوٹ وغیرہ کے لئے خرچ کرے اور پھر وصیتوں کو بھی بڑھانے کی کوشش کرے.اگر ان کی تعداد بڑھ جائے تو دس پندرہ ہزار کی آمد مشکل نہیں.اسی طرح میں سمجھتا ہوں دو تین سال میں اتنا چندہ جمع ہو سکتا ہے کہ اس سے ساری ضروریات پوری ہوسکتی ہیں.في الحال امانت سے قرض لے لیا جائے اور اگلے سال بتایا جائے کہ صدر انجمن احمد یہ نے کس قدر دیا ہے اور نئے موصیوں سے کس قدر آمد ہوئی ہے.صدر انجمن احمدیہ کے لئے بارہ تیرہ لاکھ کے بجٹ سے پانچ ہزار کی رقم نکالنا مشکل بات نہیں.اب جو دوست اس تجویز کے حق میں ہوں جو میں نے پیش کی ہے وہ کھڑے ہو جائیں.“ فیصلہ اس پر ۳۹۲ دوست کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا:- ۳۹۲ نمائندگان کی رائے ہے کہ اس تجویز پر عمل کیا جائے.پس میں اسے منظور کرتا ہوں.اگر انجمن توجہ کرے اور وہ ایک روپیہ سینکڑہ کی بجائے آٹھ آنے بھی دے تب بھی اڑھائی ہزار روپیہ ہو جاتا ہے اور پانچ لاکھ سے اڑھائی ہزار روپیہ نکالنا کوئی مشکل امر نہیں.آخر جو لوگ وصیت کا روپیہ دے رہے ہیں اُن کے روپیہ کا کچھ نہ کچھ خرچ تو مقبرہ بہشتی پر بھی ہونا چاہئے اور پھر سجاوٹ اور خوبصورتی کا طبعا لوگوں پر اثر بھی پڑتا ہے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ ایک سکھ رئیس قادیان آیا اور وہ بہشتی مقبرہ میں چلا گیا.واپس آکر کہنے لگا ”ہیں تے میں سکھ.پر دل میرا کردا اے کہ جے میں مر جاواں تے مینوں ایتھے دفن کر دیتا جائے.یعنی ہوں تو میں سکھ پر میرا جی چاہتا ہے کہ اگر میں مر جاؤں تو مجھے اس جگہ دفن کیا جائے.بہرحال اس کے لئے کوئی نیا چندہ لگانے کی ضرورت نہیں.کچھ صدر انجمن احمدیہ دیدے اور کچھ نئے لوگوں سے لے لیا جائے.اس طرح کسی پر بوجھ بھی نہیں پڑے گا اور کام بھی ہو جائے گا.“

Page 697

خطابات شوری جلد سوم ۶۸۱ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء تیسرا دن یوم جمہوریہ پاکستان کے موقع پر قرارداد مبارکباد ۲۳ مارچ ۱۹۵۷ء کو صبح آٹھ بجے مجلس مشاورت کا اجلاس حضور کی صدارت میں شروع ہوا تو حضور کی اجازت سے یوم جمہوریہ پاکستان کے سلسلہ میں مبارکباد کی ایک قرارداد پاس ہوئی جو کہ صدر اور وزیر اعظم پاکستان اور دونوں صوبائی گورنر ز کو بھجوائی گئی.اس موقع پر حضور نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : - " آج پاکستان کی آزادی کا دن ہے اور جیسا کہ میں کل بتا چکا ہوں اس کو ہمیں دنیوی بات نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ چونکہ پاکستان کی ترقی اور طاقت کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کا بڑا گہرا تعلق ہے اس لئے ہمیں اس کو دین کا ہی ایک حصہ سمجھنا چاہئے.مثلاً پچھلے دنوں سپین کی حکومت نے ہمارے مبلغ کو نوٹس دیا کہ وہ وہاں سے چلا جائے کیونکہ سپین میں اسلام کی تبلیغ منع ہے.ظاہر ہے کہ یہ جرات اُن کو اس لئے ہوئی ہے کہ وہ سمجھتے تھے کہ پاکستان کمزور ہے اور وہ ہما را مقابلہ نہیں کرسکتا.میں نے کئی دفعہ یہ واقعہ سُنایا ہے کہ جب صلیبی جنگوں کے زمانہ میں عیسائیوں نے مکہ کے قریب مسلمانوں کو شکست دے کر اپنی فوجیں فلسطین میں داخل کر دیں اور فلسطین کا وہ حصہ جو مکہ اور حیفا کے پاس ہے اُس کو فتح کر لیا اور تھوڑا سا حصہ مسلمانوں کے پاس رہ گیا تو اُس وقت ایک قافلہ بغداد سے شام اور فلسطین میں تجارت کے لئے آیا ہوا تھا.جب وہ قافلہ شام کی حدود میں سے گزر رہا تھا تو اُنہوں نے ایک عورت کی آواز سنی جو چلا چلا کر کہہ رہی تھی یا للامیر المومنین! جس کے معنے یہ ہیں کہ اے امیر المومنین ! میری فریاد کو پہنچو.وہ کوئی عورت تھی جس کو عیسائی پکڑ کر لے جا رہے تھے.پاس ہی مسلمانوں کی بستیاں تھیں.عیسائی بعض اوقات اُن بستیوں پر ڈاکہ مارتے تھے اور مسلمانوں کو پکڑ لیتے تھے.چنانچہ عیسائی لوگ اُس عورت کو پکڑ کر لے جا رہے تھے.اُس بیچاری کو پتہ نہیں تھا کہ آجکل امیر المومنین کی کوئی طاقت نہیں ہے، بغداد کے قلعہ سے باہر اُسے کوئی پوچھتا بھی نہیں.مگر اس کی پُرانی شہرت ابھی باقی تھی اُس کی وجہ سے اُس نے یہ آواز دی کہ اے امیر المومنین !

Page 698

خطابات شوری جلد سوم ۶۸۲ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء میری فریاد کو پہنچے.قافلہ والے پاس سے گزر گئے اور کسی نے اس کی مدد نہ کی.وہ آپس میں یہ باتیں کرنے لگے کہ عجیب بے وقوف عورت ہے اس کو اتنا بھی پتہ نہیں کہ اب امیر المومنین کی کوئی طاقت نہیں.جب قافلہ بغداد پہنچا تو کچھ لوگ سودا وغیرہ خریدنے کے لئے آئے.تو اُنہوں نے دریافت کیا کہ کوئی عجیب واقعہ آپ کے ساتھ گزرا ہو تو بتاؤ.اس پر قافلہ کے بعض لوگوں نے بتایا کہ ہم نے واپسی پر یہ عجیب واقعہ دیکھا کہ ایک عورت کو عیسائی پکڑے لئے جارہے تھے اور وہ یا للامیر المومنین ! کے نعرے لگا رہی تھی.شاید اُس کو یہ پتہ ہی نہیں تھا کہ ہمارے خلیفہ کی آجکل کوئی طاقت نہیں.کسی درباری نے بھی یہ بات سُن لی.وہ دربار میں گیا تو اس نے عباسی خلیفہ سے کہا کہ اے امیر المومنین ! آج ایک قافلہ شام سے واپس آیا ہے اور اُس نے یہ خبر سُنائی ہے کہ اِس اِس طرح شام کی ایک مسلمان عورت کو عیسائی پکڑ کے لئے جا رہے تھے اور اُس نے یہ نعرہ لگایا کہ اے امیرالمومنین ! میری فریاد کو پہنچیو.حضور اس کو اتنا بھی پتہ نہیں تھا کہ بغدادی حکومت اب اتنی کمزور ہو چکی ہے.جب خلیفہ نے یہ بات سنی تو گو اس کے پاس کوئی فوج نہیں تھی ، سارے علاقے باغی ہو چکے تھے اور ہر صوبہ میں الگ حکومت قائم ہو چکی تھی ، وہ اُسی وقت تخت سے نیچے اُتر آیا اور کہنے لگا خدا کی قسم ! جب تک میں اس مسلمان عورت کو چھڑا کر نہیں لاؤں گا اُس وقت تک میں تخت پر نہیں بیٹھوں گا.یہ کہہ کر وہ اُٹھا، تھا تو وہ ایک دکھاوے کا حکمران لیکن یہ خبر بجلی کی طرح سارے علاقوں میں پھیل گئی اور جس جس صوبہ میں گئی وہاں سے فوراً نیم بادشاہ اپنی فوجیں لے کر اسلامی خلافت کے ماتحت چل پڑے کہ جدھر خلیفہ جائے گا اُدھر ہی ہم جائیں گے اور آناً فاناً ایک بہت بڑا لشکر بغداد کے ارد گرد جمع ہو گیا.یہ لشکر خلیفہ کی کمان میں آگے بڑھا اور اُس نے عیسائیوں کو شکست دی اور اس طرح خلیفہ اُس عورت کو چھڑا کر واپس لے آنے میں کامیاب ہو گیا تو یہ طاقت کی بات تھی.گو اس وقت مسلمانوں کی حالت نہایت نا گفتہ بہ تھی.پھر بھی اس کی مثال ایسی ہی تھی جیسے کہتے ہیں کہ ہاتھی زندہ لاکھ کا مُردہ سوالاکھ کا.گو اُس وقت مسلمان گر چکے تھے لیکن پھر بھی اُن میں اتنی طاقت تھی کہ یورپ کی فوجیں کا نپتی ہوئی اُن کے آگے سے بھاگ جاتی تھیں.سپین تو یورپ کا ایک حصہ ہے مگر اس وقت مکہ میں سارے یورپ کی فوجیں تھیں جنہیں مسلمانوں نے شکست دی.

Page 699

خطابات شوری جلد سوم ۶۸۳ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء تو یہ صرف طاقت کی بات ہوتی ہے اگر اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو طاقت بخشے اور ساتھ ہی ایمان بھی بخشے تو سپین کیا یورپ کی ساری طاقتیں مل کر بھی مسلمانوں کے مبلغوں کو نہیں نکال سکتیں.اگر وہ نکالیں گی تو اُن کو ایسی مشکلات کا سامنا پیش آئے گا اور مسلمان حکومتیں اتنی جلدی اُن کا مقابلہ کریں گی کہ اُن کو فوراً اپنی شکست تسلیم کرنا پڑے گی.چنانچہ حکومت پاکستان تو الگ رہی ہماری جماعت اگر چہ ایک غریب جماعت ہے مگر چونکہ منتظم ہے اس لئے ہماری جماعت کے ڈر کے مارے ہی سپین کے سفیر متعینہ پاکستان نے یہ اعلان کر دیا کہ میری حکومت اسلامی مبلغ کو ملک سے باہر نکالنا نہیں چاہتی، یہ خبر جو مشہور کی گئی ہے جھوٹ ہے لیکن ہمارا مبلغ اس بات پر مصر ہے کہ اُسے ملک سے باہر نکلنے کا نوٹس دیا گیا ہے.مگر سپین کے سفیر نے کہا ہے کہ آپ ہمیں خواہ مخواہ بدنام کر رہے ہیں ہم نے آپ کے مبلغ کو باہر نہیں نکالا.یہ اثر صرف چند لاکھ غریب فقیروں کی جماعت کی تنظیم کی وجہ سے تھا.اگر اللہ تعالیٰ اسلامی حکومتوں کو طاقت بخشے تو پھر لازمی بات ہے کہ ان چند لاکھ فقیروں کی جماعت سے بہت زیادہ یوروپین حکومتیں اسلامی حکومتوں سے ڈریں گی.کیونکہ اُن کے پاس تو طاقت بھی ہوگی اور ہمارے پاس کوئی طاقت نہیں.اسلامی حکومتیں اگر آزاد ہوں اور ترقی کریں تو اُن کے پاس بیڑے بھی ہوں گے ، تو پیں بھی ہوں گی اور ہوائی جہاز بھی ہوں گے.ہمارے پاس تو سوٹیاں بھی مشکل سے ہوتی ہیں اس لئے ہم سے کسی حکومت نے کیوں ڈرنا ہے مگر اسلامی حکومتیں اگر طاقت پکڑ جائیں تو دوسری حکومتیں اُن سے یقینا ڈریں گی.یوم آزادی منانے کا جماعتی طریق پس اپنی دُعاؤں میں ہمیں ملک کی آزادی اور ترقی کی دُعا بھی شامل کرنی چاہئے.مجھے معلوم ہوا ہے کہ یوم آزادی کے لحاظ سے صدر انجمن احمدیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ یہاں شام کو روشنی بھی کرائیں اور غرباء میں کھانا بھی تقسیم کریں.اُن کا یہ فعل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اتباع میں ہے.جب ملکہ وکٹوریہ کی جو بلی ہوئی تھی تو حضرت مسیح موعود الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ خوب خوشی منائی جائے.چنانچہ قادیان میں منارہ اسیح اور مکانوں کی چھتوں پر روشنی کا انتظام کیا گیا.اگر ایک عیسائی ملکہ کی جو بلی پر اتنی خوشی منانی جائز ہو سکتی ہے تو ایک اسلامی ملک کی آزادی پر اس سے ہزار گنے خوشی منانی جائز ہوسکتی.ہے.

Page 700

خطابات شوری جلد سوم ۶۸۴ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء پس ان کا یہ اقدام نہایت مستحسن ہے اور ہماری جماعتوں کو بھی چاہئے کہ جہاں جہاں وہ ہیں اس دن جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ملک کو آزادی بخشی ہے اور اسلامی حکومتوں میں ایک اور اسلامی حکومت کا اضافہ ہوا ہے خوشی منائیں ، چراغاں کریں اور غرباء میں کھانا تقسیم کریں.پاکستان کو چھوٹا ملک ہے لیکن اپنے جائے وقوع اور آبادی کے لحاظ سے باقی تمام اسلامی ملکوں سے طاقتور ہے.اس کی آبادی ۸ کروڑ سے زیادہ ہے اور پھر اسے ایسے سامان میسر ہیں کہ کوئی تعجب نہیں کہ دس پندرہ سال کے اندر ہمارے ملک کی آبادی بارہ تیرہ کروڑ ہو جائے اور اگر اللہ تعالیٰ کشمیر کو ادھر لے آیا اور خدا کرے کہ ایسا ہی ہو تو ایک دن میں ہی آبادی میں ایک کروڑ کی زیادتی ہو جائے گی اور کئی سامان ترقی کے پیدا ہو جائیں گے.بہر حال ہمارا ملک جو اس وقت سارے اسلامی ممالک میں سب سے زیادہ آباد ہے اور سب سے زیادہ ذرائع ترقی کے رکھتا ہے اگر ترقی کرے تو یقیناً دوسری اسلامی حکومتیں بھی اس کے ساتھ ساتھ ترقی کریں گی اور اس کو اپنا لیڈر تسلیم کریں گی.ابھی ہندوستان سے بعض جھگڑوں کی وجہ سے بعض ہمسایہ اسلامی حکومتیں اپنے آپ کو پاکستان سے زیادہ طاقتور سمجھتی ہیں.مگر جس دن پاکستان اپنی مشکلات سے آزاد ہوا اس کی صنعت و حرفت نے ترقی کی اور اس کی طاقت بڑھ گئی تو ارد گرد کی اسلامی حکومتیں اس بات پر مجبور ہوں گی کہ اسے اپنا لیڈر تسلیم کریں.پس احمدیوں کو اس تقریب میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیئے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ وہ وقار کو اپنے ہاتھ سے نہ جانے دیں.دُعائیں کریں اور بڑی سنجیدگی کے ساتھ اس دن کو منائیں تا اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے پاکستان کی طاقت کو بڑھائے اور پھر اسلامی رُوح کو بھی بڑھائے کیونکہ خالی پاکستان کی ترقی اُس وقت تک مفید نہیں ہو سکتی جب تک کہ اسلامی روح بھی ترقی نہ کرے.تاکہ ہم صرف اس پر خوش نہ ہوں کہ ہمیں ایک حکومت حاصل ہے بلکہ ہمیں وہ حکومت حاصل ہو جس میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھی حصہ ہو کیونکہ پھر صرف چھلکا ہی نہیں روح بھی ہمیں مل جائے گی.“

Page 701

خطابات شوری جلد سوم ۶۸۵ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء مقامی جماعتوں کو ضرورت کے مطابق گرانٹ سب کمیٹی بجٹ کی رپورٹ پر بحث کے دوران مکرم شیخ بشیر احمد صاحب لاہور نے یہ تجویز پیش دی جایا کرے فیصدی والا سسٹم نقصان دہ ہے کی کہ نئی ضروریات کے پیش نظر بڑی جماعتوں یعنی کراچی.لاہور.راولپنڈی.پشاور اور ڈھا کہ کو اپنی آمد کا حصہ مقامی طور پر خرچ کرنے کی اجازت دی جائے.اس تجویز پر تبصرہ کرتے ہوئے حضور نے فرمایا : -.اصل تجویز تو شیخ بشیر احمد صاحب کی ہے کہ کراچی، لاہور اور راولپنڈی کو اُن کے چندوں کا بطور گرانٹ دیا جائے.چندوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر اس تجویز کو منظور کر لیا جائے تو قریباً دو لاکھ روپیہ بجٹ کی آمد سے کم ہو جاتا ہے.ہمارا گل بجٹ بارہ لاکھ 99 ہزار کا ہے.اگر یہ دولاکھ روپیہ اس سے نکال لیا جائے تو آمد دس لاکھ 99 ہزار بلکہ اس سے بھی کم رہ جاتی ہے اور اس دس لاکھ 99 ہزار روپیہ کی آمد سے بارہ لاکھ 99 ہزار کے اخراجات چلانا کسی انجمن کی طاقت سے باہر ہے.درحقیقت یہ بحث اخراجات کی کمیٹی کے سامنے اُٹھانی چاہئے تھی کہ اس قدر اخراجات کم کر دیئے جائیں.کالج بند کر دو، زنانہ کالج بند کر دو لنگر خانہ بند کر دو، نظارت امور عامہ بند کر دو، نظارت اصلاح وارشاد کے کارکنوں کو رخصت کر دو اور اخراجات کے بجٹ کو دس لاکھ ننانوے ہزار روپیہ پر لے آؤ.ورنہ یہ کہ خرچ تو وہی رکھو اور آمد تقسیم کر دو.یہ وہی بات ہے جیسے کوئی شخص ایک ناممکن چیز کی خواہش کرے یا جیسے بچے روتے ہیں تو کہتے ہیں ستارے دے دو.دس لاکھ 99 ہزار روپیہ میں بارہ لاکھ ننانوے ہزار کے اخراجات کا بجٹ پورا کرنا بھی ستارے لانے والی بات ہے.گل بجٹ جو بارہ لاکھ 99 ہزار روپے کا ہے اس میں سے دولاکھ روپے کی رقم کاٹ کر یہ کہنا کہ اخراجات وہی بارہ لاکھ 99 ہزار روپیہ کے رکھو ایک ناممکن العمل بات ہے.اس لئے اس تجویز پر رائے دیتے وقت جماعت کو اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ آیا اس بجٹ کو نامنظور کیا جائے یا رہنے دیا جائے کیونکہ دو لاکھ روپیہ کی تخفیف کے بعد خرچ نہیں چل سکتا.خرچ پر بحث کے وقت تو دو ہزار روپیہ پر بحث ہوتی رہی ہے اور اب یکدم تخفیف کی تجویز پیش

Page 702

خطابات شوری جلد سوم ۶۸۶ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء ہوگئی ہے اور کہا گیا ہے کہ بارہ لاکھ 99 ہزار کے موجودہ بجٹ میں سے ۲ لاکھ روپیہ کاٹ لیا جائے.کہا گیا ہے کہ اس کی ضرورت ہے.ٹھیک ہے اس کی ضرورت ہے لیکن اگر کوئی ضرورت ہو تو اُس کے لئے آمد بڑھائی جاتی ہے.مثلاً اگر ضرورت ہے تو جماعت لاہور ۸۰ ہزار روپیہ چندہ کی بجائے تین لاکھ کی آمد پیدا کرے.راولپنڈی ۲۰ ہزار کی بجائے چار لاکھ پیدا کرے.کراچی دس لاکھ پیدا کرے اور جب ساٹھ ستر لاکھ کی آمد ہو جائے تو یہ بات پیش کی جائے.ورنہ اگر ہم اس طرح ان شہروں میں آمد تقسیم کرنا شروع کر دیں تو پنجاب اور مغربی پاکستان کے گاؤں اور مشرقی پاکستان سارے کا سارا رہ جائے گا اور اُن کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہوگا بلکہ مرکزی دفاتر بھی اپنا خرچ نہیں چلاسکیں گے.شیخ بشیر احمد صاحب نے مشرقی پاکستان کو بھی اپنی تجویز میں شامل کر لیا ہے مگر انہیں معلوم نہیں کہ اُن کی تجویز تو یہ ہے کہ انہیں چندہ کا ۳۳ فیصدی دیا جائے مگر مشرقی پاکستان والوں نے پہلے تو تجویز پیش کی تھی کہ اُنہیں اُن کے چندہ کا ۷۰ فیصدی دیا جائے، چنانچہ صدر انجمن احمدیہ نے اُسے منظور کر لیا اور اب تک وہ ۷۰ فیصدی چندہ مقامی ضروریات کے لئے لیتے رہے ہیں اور یہ شرح ایسے ملکوں کی ہے جہاں پاکستانی اور ہندوستانی نہیں بستے مثلاً ایسٹ افریقہ.مگر پچھلے دنوں پھر مشرقی پاکستان والوں نے شکایت کی تھی کہ اُن کا کام ۷۰ فیصدی میں بھی نہیں چلتا.انہیں ۲۵ ہزار کی مزید گرانٹ دی جائے.گویا اپنے چندہ کا ۷۰ فیصدی تو وہ پہلے لے رہے ہیں اور ۲۵ ہزار اُنہیں اور دے دیا جائے.محاسب صاحب نے بتایا ہے کہ اس طرح جتنا چندہ اُن کا آتا ہے پچاس ہزار اُس سے زائد دینا پڑتا ہے تب جا کر ان کا گزارہ ہوتا ہے.پس اگر آمد اِس طرح تقسیم کر دی جائے اور ادھر مشرقی پاکستان کا مطالبہ بھی قائم رہے کہ ہمارے چندہ سے ۲۵ ہزار روپیہ زائد ہمیں دیا جائے تو پھر تمام اضلاع محروم رہ جائیں گے.اگر کراچی، لاہور، پشاور، راولپنڈی اور ڈھاکہ کا حق ہے کہ انہیں ۱/۳ حصہ اُن کی آمد کا دیا جائے تو ملتان، بہاولپور، لائل پور اور حیدر آباد والوں کا بھی حق ہے کہ انہیں اس تجویز میں شامل کر لیا جائے.اور اگر ان شہروں کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ صورت ہو جاتی ہے کہ بارہ لاکھ 99 ہزار کے اخراجات کا بجٹ ایک طرف اور آمد صفر

Page 703

خطابات شوری جلد سوم ۶۸۷ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء ایک طرف.مشرقی پاکستان پہلے ہی اپنے چندہ کا ۷۰ فیصدی لے رہا ہے اور پھر مطالبہ کرتا ہے کہ ۲۵ ہزار روپیہ اور دیا جائے اس کے بغیر ہم گزارہ نہیں کر سکتے.تحریک جدید تو میں نے اب جاری کی ہے پہلے بیرونی مشن بھی صدر انجمن احمدیہ کے ہی سپر د تھے اور ہم غیر ملکوں کو بڑے فخر سے کہا کرتے تھے کہ دیکھو تمہارا سارا بوجھ پاکستانی برداشت کر رہے ہیں.یا یہ کہتے تھے کہ تمہارا سارا بوجھ ہندوستانی برداشت کر رہے ہیں اور اس طرح شرمندہ کر کے اُن سے تھوڑا بہت چندہ لے لیتے تھے لیکن اگر شیخ بشیر احمد صاحب کی تجویز پاس ہو گئی تو وہ لوگ کہیں گے کہ یہ لوگ تو پاکستان میں ہیں اور مرکزی اداروں سے فائدہ اُٹھاتے ہیں.مثلاً ربوہ کا لنگر خانہ راولپنڈی کو بھی کام دے رہا ہے، کراچی کو بھی کام دے رہا ہے.اسی طرح کالج میں جو لڑ کے آتے ہیں اُن میں کراچی کے بھی ہیں، لاہور کے بھی ہیں اور راولپنڈی کے بھی ہیں.گویا وہ سب کو فائدہ دے رہا ہے.اسی طرح لڑکیاں ہیں وہ کسی جگہ کی بھی ہوں ، ربوہ کا زنانہ کالج انہیں فائدہ پہنچا رہا ہے.پس بیرونی جماعتیں کہیں گی کہ جب مقامی جماعتیں جو اِن اداروں سے فائدہ اُٹھا رہی ہیں اپنے چندے کا ۳۳ فیصدی لیتی ہیں تو ہمیں ۹۹ فیصدی دیا جائے.بلکہ ہمیں ۴ ۹۹ فیصدی چندہ مقامی ضروریات کے لئے دینا چاہئے.باقی مرکز والے لے لیں.غرض اس طرح چندہ کی تقسیم شروع ہوگئی تو بندر بانٹ ہو جائے گی.یعنی پنیر تو سارا بند رکھا جائے گا اور بلیاں خالی ہاتھ رہ جائیں گی.پھر جب ساری رقوم سلسلہ کے کاموں پر ہی خرچ ہوتی ہیں تو کراچی، لاہور اور راولپنڈی کی کیا خصوصیت ہے کہ وہ اپنی آمد کا ۱/۳ حصہ مقامی ضروریات پر خرچ کریں، سب جماعتوں کو۱/۳حصہ خرچ کرنے کی اجازت ہونی چاہئے.اس میں شبہ نہیں کہ لاہور میں وفد آتے ہیں مگر جماعت کے دوست کیا کرتے ہیں؟ وہ یہ کرتے ہیں کہ انہیں سیدھا ر بوہ بھیج دیتے ہیں اور جب وہ وفو در بوہ آتے ہیں تو ان کی مہمان نوازی وغیرہ پر جس قدر خرچ ہوتا ہے وہ مرکز ہی برداشت کرتا ہے.گویا جتنی اہمیت لا ہور اور کراچی کی بڑھ رہی ہے، اتنی اہمیت مرکز کی بھی بڑھ رہی ہے.کراچی میں کوئی باہر کا مہمان آتا ہے تو وہاں سے فون آ جاتا ہے کہ فلاں جرمنی یا امریکہ کا مہمان آ رہا ہے، اس کے لئے قیام وطعام کا انتظام کرو.

Page 704

خطابات شوری جلد سوم ۶۸۸ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء پس جس نسبت سے کراچی کی اہمیت بڑھ رہی ہے اُسی نسبت سے ربوہ کی اہمیت بھی بڑھ رہی ہے اور اُسی نسبت سے ربوہ کے اخراجات بھی بڑھ رہے ہیں.اگر ہم چندہ کی تقسیم شروع کر دیں تو لازمی طور پر یہ بات ہوگی کہ ربوہ کے کام ختم ہو جائیں گے پھر کراچی والوں کو کوئی حق نہیں ہو گا کہ وہ فون کریں کہ ربوہ میں فلاں مہمان آ رہا ہے.اگر وہ مہمان یہاں آئے گا اور ہمارے پاس خرچ کرنے کے لئے کوئی روپیہ نہیں ہوگا تو وہ واپس جا کر کہے گا میں آپ کا سنٹر دیکھ آیا ہوں وہاں نہ کوئی تبلیغ کا انتظام ہے، نہ اصلاح وارشاد ہے، نہ تبشیر ہے، نہ کوئی کالج ہے نہ سکول.مثلاً خود کراچی کی جماعت نے لکھا کہ امریکن سفیر نے ربوہ سے واپس آ کر کہا کہ مجھے وہاں جا کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ ربوہ ایک نہایت افسردہ مقام ہے.وہاں نہ باغات تھے ، نہ سڑکیں تھیں ، نہ کچھ اور تھا.جماعت کو وہاں اچھی سڑکیں بنانی چاہئیں اور شہر کو خوبصورت بنانے پر خرچ کرنا چاہئے.گویا کراچی کی حیثیت بڑھ جانے کا یہ نتیجہ ہوا کہ ہم سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ یہاں باغات لگاؤ اور سڑکیں بناؤ لیکن جب پیہ تقسیم ہو گیا بلکہ آمد سے بھی زیادہ خرچ ہونے لگا تو اس قسم کے مطالبات کس طرح روپیه پورے ہوں گے.پس خالی نیچے سے اوپر ہی نہیں جانا چاہئے یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ مرکز میں آنے والا پھر کیا اثر لے گا.اگر ان چیزوں پر سارا چندہ خرچ کر لیا گیا اور مرکز کو غیر آباد کر دیا گیا تو مرکز میں آنے والے کیا اثر لے کر جائیں گے.پس بے شک ہم جانتے ہیں کہ دوسرے شہروں کی اہمیت بڑھ گئی ہے مگر اس کا علاج یہ نہیں کہ جماعت کی آمد تقسیم کر دی جائے بلکہ اس کا علاج یہ ہے کہ جماعت بڑھے اور چندے ترقی کریں.اس میں شبہ نہیں کہ جماعت بڑھ رہی ہے اور چندہ بھی بڑھ رہا ہے مگر اخراجات کی نسبت آمد کم بڑھ رہی ہے.ہمیں زیادہ زور اس بات پر دینا چاہئے کہ اپنے رشتہ داروں کو احمدی کریں.عورتیں خاوندوں کو احمدی کریں اور خاوند بیویوں کو احمدی کریں.اسی طرح اپنے قریبیوں اور عزیزوں کو مالی قربانی کی تحریک کریں.اس طرح چندے بڑھ جائیں گے.اگر ہم ایک ارب ہو جائیں تو ۲۵ ہزار اور ساٹھ ہزار کی رقوم کا سوال ہی کیا رہ جاتا ہے وہ تو آپ ہی آپ ادا ہو جائے گا.پس ہمیں کوشش کرنی چاہئے اور دُعا بھی کرنی چاہئے کہ ہماری آبادی بڑھے اور آمد بڑھے.آمد بڑھے گی تو راولپنڈی کی

Page 705

خطابات شوری جلد سوم ۶۸۹ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء ضرورت بھی پوری ہو جائے گی.آخر جو روپیہ بچتا ہے وہ ناظر صاحب بیت المال اپنی جیب میں تو نہیں ڈالتے ، سلسلہ پر ہی خرچ کرتے ہیں.پس جب آمد بڑھے گی تو لاہور، کراچی، راولپنڈی اور دوسرے شہروں کی ضروریات ۱/۳ سے نہیں صرف گرانٹ سے ہی پوری ہو جائیں گی.صحیح اصول یہی ہے کہ گرانٹ دی جائے مگر اس کے لئے دس فیصدی کی تعیین درست نہیں.اصل طریق یہ تھا کہ مقامی جماعتوں کے حالات کے مطابق گرانٹ رکھی جاتی اور اس کے لئے کوئی فیصد رقم مقرر نہ کی جاتی تاکہ سلسلہ کے نمائندوں کو یہ حق حاصل رہتا کہ وہ اسے کم بھی کر سکتے.اب دس فیصدی کی تعیین کے نتیجہ میں ایک رقم مخصوص ہو جاتی ہے.اگر یہ کہا جاتا کہ بجٹ میں بارہ ہزار روپیہ گرانٹ کراچی کی رکھو یا اگر اُن کی آمد زیادہ ہے تو تیرہ ہزار، چودہ ہزار یا پندرہ سولہ ہزار رکھو تو پھر سلسلہ کے جو نمائندے ہیں ان کو یہ حق حاصل رہتا کہ وہ اسے کم بھی کر سکتے اور ہر سال بجٹ تیار ہونے سے پہلے مقامی جماعتوں کو اطلاع بھیجوا دی جاتی کہ اُن کا ایک ایک نمائندہ آجائے اور ہم سے براہ راست گفتگو کرے تا کہ یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ اُن کی آمد کے لحاظ سے اور سلسلہ کی ضرورتوں کے لحاظ سے ہم اُن کو کتنی رقم دے سکتے ہیں.اس کے نتیجہ میں خود اُن کو بھی اپنے چندے بڑھانے کا خیال رہتا اور دفتر بیت المال کو بھی اپنی آمد بڑھانے کا خیال رہتا.اب بھی میں سمجھتا ہوں کہ اصل طریق یہی ہے کہ معین گرانٹ کا طریق جاری کیا جائے اور جماعتوں کے نمائندوں کو ہر سال اس پر رائے دینے کا موقع دیا جائے.یہ فیصدی جو ہے اس نے سارا کام خراب کیا ہے اور اس دس فیصدی سے ۳۳ فیصدی کا مطالبہ شروع ہو گیا.پھر بنگال والوں نے ستر فیصدی کا مطالبہ شروع کر دیا.پھر کہہ دیا ہمارے چندہ کا ستر فیصدی بھی کافی نہیں ہمیں ہمارے چندہ کا ستر فیصدی بھی دے دو اور ۲۵ ہزار اور بھی دے دو.کل ہی آپ لوگ تجویز کر رہے تھے کہ سکول کھولے جائیں.مگر جب رقم ہی ساری خرچ کر لی جائے گی تو سکول کہاں سے کھولے جائیں گے.میرے نزدیک جس طرح مرکزی اخراجات کو دیکھ کر اُن کے لئے بجٹ مقرر کیا جاتا ہے اسی طرح مقامی جماعتوں کی ضرورتوں کو دیکھ کر اُن کیلئے گرانٹ مقرر کرنی چاہئے.چاہے وہ دس فیصدی چھوڑ ۳۳ فیصدی سے بھی بڑھ جائے..

Page 706

خطابات شوری جلد سوم ۶۹۰ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء فرض کر و لا ہور یا کراچی کی ضرورت کسی وقت اتنی بڑھ جائے کہ اگر مثلاً ۳۳ فیصدی کے لحاظ سے اُن کا حق صرف تمیں ہزار روپیہ لینے کا ہے مگر ضرورت ان کو ۶۰ ہزار کی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اُن کو ۶۰ ہزار نہ دیں.اسی طرح اگر سلسلہ کی مرکزی ضرورتوں اور دوسرے علاقوں کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم کسی جماعت کو ۳۰ ہزار میں سے صرف پندرہ ہزار ہی دے سکتے ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اس پر راضی نہ ہو.پس فیصدی والا سسٹم نقصان دہ ہے اور اس سے جیلسی (JEALOUSY) بڑھنے کا خطرہ ہے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ مشرقی بنگال میں یہ مرض بڑھ گیا ہے.اس نے پہلے اپنے چندہ کا ۷۰ فیصد ی مانگا اور اس کے بعد مجھے لکھا کہ ہمارے چندہ کا ۷۰ فیصدی ہمارے لئے کافی نہیں، ۲۵ ہزار اور دے دو.اس کے بعد ایک اور امیر عارضی طور پر مقرر ہوئے تو اُنہوں نے مجھے لکھا کہ ۲۵ ہزار سے بھی ہمارا گزارہ نہیں ہوتا اُنہیں اور رقم دی جائے.گویا مشرقی پاکستان اپنی آمد ہی نہیں مغربی پاکستان کی آمد بھی لینا چاہتا ہے اور جب مغربی پاکستان کی آمد بھی مشرقی پاکستان لے جائے گا تو کراچی، لاہور اور راولپنڈی کے لئے ۱/۳ کا کیا سوال باقی رہ جائے گا.اصل طریق جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہی ہے کہ ہر جماعت کی ضروریات کو دیکھ کر اس کو معتین گرانٹ دی جائے اور ہر سال اس پر غور ہوتار ہے.اس طرح نئے نئے خیالات بھی سوجھتے رہیں گے اور جماعت کی ضرورتیں بھی سامنے آتی رہیں گی.“ حضور کے اس ارشاد پر مکرم شیخ بشیر احمد صاحب نے اپنی ترمیم واپس لے لی.تحریک جدید کے دور ثانی کے لئے سب کمیٹی مال تحریک جدید کی طرف سے بجٹ سال ۵۸ - ۱۹۵۷ء برائے منظوری مجلس مشاورت نوجوانوں کو زیادہ حصہ لینے کی تحریک میں پیش ہونے پر حضور نے فرمایا : - کسی صاحب نے اگر اس کے متعلق کوئی ترمیم پیش کرنی ہو تو وہ پیش کر دیں.مگر بظاہر اس بارہ میں کوئی ترمیم پیش کرنا درست نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ بجٹ بیرونی جماعتوں کا ہے اور پھر جو آمد انہوں نے بتائی ہے وہ بھی ایک حد تک خیالی ہے کیونکہ تحریک جدید کا چندہ وصیت کے چندے کی طرح با قاعدہ وصول نہیں ہوتا اور اس وجہ سے آمد میں کمی واقع ہو جاتی ہے.

Page 707

خطابات شوری جلد سوم ۶۹۱ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء اس کے لئے بنیادی طور پر سب سے اہم بات یہ ہے کہ تحریک جدید کے دور ثانی میں نو جوانوں کو زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کی تحریک کی جائے.مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دور ثانی کی آمد ہر سال اُس نسبت سے نہیں بڑھی جس نسبت سے دور اول کی آمد بڑھتی رہی ہے.دور اؤل والوں نے اتنی جلدی ترقی کی تھی کہ بعض ایسے سال بھی آئے کہ اُن کا چندہ دس لاکھ تک پہنچ گیا مگر دور ثانی کے نو جوانوں کا چندہ دو لاکھ پر پہنچ کر گرا اور پھر اس کے بعد چڑھنا شروع ہوا.اب وہ اپنی کمی پوری کر رہے ہیں لیکن ابھی وہ ایسی نہیں جو قابلِ ذکر ہو.حالانکہ نو جوانوں میں کام کرنے کی روح بوڑھوں سے زیادہ ہونی چاہئے.بوڑھے فوت ہو رہے ہیں اور جو زندہ ہیں وہ پنشنوں پر ریٹائر ہو جائیں گے.اس طرح ان کے چندوں میں بھی کمی آجائے گی اور یہ کی دور ثانی نے پوری کرنی ہے یا ہمارے محکمہ زراعت نے پوری کرنی ہے.کئی سکیمیں انہوں نے بنائی ہیں جو معقول ہیں اور کئی سکیمیں میں نے بھی ان کو بتائی ہیں اور کئی تجاویز محکمہ زراعت نے پیش کی ہیں اگر وہ اُن پر عمل کریں تو انشاء اللہ تعالیٰ تحریک جدید کا نام غیر ملکوں میں اور بھی بڑھ جائے گا اور وہاں جماعت پھیل جائے گی.مثلاً انڈونیشیا میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک لاکھ سے زیادہ جماعت ہو گئی ہے.اسی طرح ویسٹ افریقہ میں کوئی ایک لاکھ کے قریب جماعت ہے.بیرونی مشنوں کی ترقی خوشکن ہے آج سے میں سال پہلے مولوی نذیر احمدعلی صاحب.مرحوم نے لکھا تھا کہ ہماری جماعت یہاں تیس ہزار ہے.اُس وقت انہوں نے لکھا تھا کہ سالانہ جلسہ پر ہمارے تین ہزار نمائندے آئے.وہ ملک بڑا وسیع ہے اگر مغربی اور مشرقی پاکستان دونوں کو ملا لیا جائے تو وہ اس سے بھی دوگنا ہے.اتنی دور سے لوگوں کا آنا بہت مشکل ہوتا ہے.پھر وہاں اتنے سامانِ سفر بھی نہیں جتنے ہمارے ملک میں ہیں مگر پھر بھی تین ہزار نمائندہ آ گیا.تین ہزار نمائندوں کے متعلق میں نے یہ اندازہ لگایا تھا کہ دس آدمیوں میں سے ایک آدمی آیا ہے.اس لئے ہماری تعداد وہاں تیں ہزار ہے.مگر اس سال جو رپورٹ ملک کے دوحصوں کی آئی ہے اُس میں مبلغ انچارج نے لکھا ہے کہ اس سال جلسہ سالانہ پر پانچ ہزار آدمی آیا ہے اور ایک ملک نے لکھا ہے کہ بارہ سو آیا ہے.اگر اس کو دس سے ضرب دیں تو یہ ۶۲،۰۰۰ کے قریب بن جاتا ہے

Page 708

خطابات شوری جلد سوم ۶۹۲ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء لیکن درحقیقت ہماری جماعت اس سے زیادہ ہے اور گولڈ کوسٹ، سیرالیون اور نائیجیریا وغیرہ کو ملا کر وہاں ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہماری جماعت کے افراد پائے جاتے ہیں.بہر حال جوں جوں جماعت بڑھے گی ، وہاں کے چندے بھی انشاء اللہ بڑھتے جائیں گے لیکن ابھی تک ہم اُن کے چندوں کو سوائے خاص موقعوں کے ادھر نہیں لائے.مثلاً پچھلے دنوں پونڈ ختم ہو گئے تھے تو ہم نے ان جماعتوں کو کہا کہ تم اپنے پونڈ فلاں ملک میں بھجوا دو، چنانچہ انہوں نے اپنے پونڈ وہاں بھیج دیئے.ان لوگوں کے چندہ اور عطیہ میں حکومتِ پاکستان کا کوئی قانون روک نہیں اس لئے کہ وہ غیر ملک ہیں اور آزاد ہیں وہ جہاں چاہیں اپنا روپیہ خرچ کر سکتے ہیں.چنانچہ ہم آتی دفعہ ایک موٹر اپنے ساتھ لائے.گورنمنٹ نے ہم سے کہا کہ تم یہ کار اپنے ایکسچینج سے نہیں خرید سکتے تھے لیکن جب ہم نے اُن پر ثابت کر دیا کہ یہ موٹر ملک کے زرمبادلہ سے نہیں خریدی گئی بلکہ بنک کی رسید پیش کر دی کہ یہ روپیہ غیر ممالک سے آیا تھا تو حکومت پاکستان نے کہا کہ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا.یوں بھی ایک دفعہ ہم نے گورنمنٹ سے اپنی بیرونی آمد کے متعلق دریافت کیا تھا کہ انہیں اس پر کوئی اعتراض تو نہیں تو اُس نے کہا تھا کہ جو مدد آپ کو کسی باہر کے ملک سے آئے اُس پر ملک کے ایکسچینج کا کوئی قانون حاوی نہیں کیونکہ اُن کے پونڈ اپنے ہیں.مثلاً سیرالیون اب تک انگریزوں کے ماتحت ہے.گولڈ کوسٹ اب خدا تعالیٰ کے فضل سے آزاد ہو گیا ہے اور سب سے زیادہ ہماری جماعت گولڈ کوسٹ میں ہی ہے.خیال ہے کہ دوسرے نمبر پر سیرالیون آزاد ہو گا پھر نائیجیریا آزاد ہوگا.لائبیریا میں بھی اب نئی جماعت قائم ہوئی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑھ رہی ہے.وہ پہلے سے آزاد ہے.کوئی تعجب نہیں کہ سیرالیون اور نائیجیریا بھی چند سال میں آزاد ہو جائیں.ان سب ممالک میں ہماری جماعت کی تعداد کافی زیادہ ہے.یوں تو پاکستان میں بھی ہماری جماعت باقی ممالک سے تعداد میں زیادہ ہے لیکن پاکستان اسمبلی میں ہمارا ایک بھی ممبر نہیں اور وہاں ہمارے پانچ چھ ممبر اسمبلی میں ہیں.گویا اُس جگہ پر جماعت کا اثر بڑھ رہا ہے اور جوں جوں وہ ملک آزاد ہوتے جائیں گے خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کی تعداد بھی بڑھتی جائے گی.یہاں یہ ہوتا ہے کہ

Page 709

خطابات شوری جلد سوم ۶۹۳ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء ڈپٹی کمشنر بھی ہمارے ہاں آجائے تو وہ ڈرتا ہے کہ ملک والے کیا کہیں گے؟ لیکن وہاں یہ حالت ہے کہ ہماری مسجد کے افتتاح کے موقع پر خود وزیر اعظم جو عیسائی تھا آیا اور اُس نے کہا آپ لوگ جو کام اس ملک میں کر رہے ہیں وہ بے نظیر ہے، ہم اس کی قدر کرتے ہیں.آپ نے ہمارے ملک کو بہت اونچا کیا ہے اس لئے میں یہاں افتتاح کے لئے آیا ہوں.اسی طرح یو.این.او کے نمائندے اور یونائیٹڈ سٹیٹس کے نمائندے بھی گئے.امریکہ کا ایک مشہور رسالہ ”لائف ہے جو چالیس لاکھ کی تعداد میں چھپتا ہے اس رسالہ میں ایک مضمون چھپا تھا جس میں لکھا تھا کہ افریقہ میں احمدیت کثرت کے ساتھ پھیل رہی ہے اور وہاں ۶۰ لاکھ احمدی ہو گیا ہے کے حالانکہ ہمارا اندازہ صرف ایک لاکھ سے اوپر کا ہے.پھر الفضل میں شائع ہو چکا ہے کہ ایک عیسائی پروفیسر نے اپنی ایک کتاب میں لکھا کہ آئندہ افریقہ کا مذہب اسلام ہوگا یا عیسائیت.پھر وہ لکھتا ہے کہ پہلے یہ خیال تھا کہ افریقہ کا آئندہ مذہب عیسائیت ہوگا مگر اب یہ بات غلط ہو گئی ہے.احمد یہ جماعت نے ملک میں جو مشن کھولے ہیں ان کی وجہ سے یہ بات یقینی طور پر نہیں کہی جاسکتی کہ یہاں کا آئندہ مذہب عیسائیت ہوگا بلکہ بالکل ممکن ہے کہ کچھ عرصہ کے بعد ہمیں یہ ماننا پڑے کہ اس ملک کا آئندہ A مذہب اسلام ہوگا تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں جماعت بڑھ رہی ہے اور جب جماعت کی تعداد زیادہ ہو جائے گی تو ہماری پونڈوں کی دقت بھی دور ہو جائے گی.ہمارا دوسو کے قریب مبلغ گولڈ کوسٹ میں کام کر رہا ہے.اُن کے سب اخراجات مقامی جماعت خود دیتی ہے.آنے جانے کے کرائے بھی وہی دیتے ہیں.لٹریچر بھی خود شائع کرتے ہیں.ہم بھی اُن کو گرانٹ دیتے ہیں مگر اس لئے کہ : - اوّل تو وہ لوگ ابھی تہذیب میں بہت پیچھے ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ اُن کی مدد کریں.دوسرے وہ تعداد میں ہم سے کم ہونے کے باوجود اس قدر قربانی کر رہے ہیں کہ سارے مبلغوں کو وہ خرچ دے رہے ہیں حالانکہ وہاں تنخواہیں زیادہ ہیں.مثلاً میرا بھتیجا مرزا مجید احمد جو کالج کا پرنسپل ہو کر وہاں گیا ہے اُسے گورنمنٹ نے ۱۶۰۰ روپے تنخواہ دی ہے

Page 710

خطابات شوری جلد سوم ۶۹۴ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء حالانکہ ہم یہاں پرنسپل کو پانچ سو روپیہ دیتے ہیں.بہر حال وہاں جو ترقی ہوگی اس کے ذریعہ جماعت کی حالت بھی مضبوط ہو گی.چنانچہ جب سیرالیون میں ایک پریس لگانے کی تجویز ہوئی تو جیسا کہ میں ایک خطبہ میں بیان کر چکا ہوں وہاں ایک دوست نے جو نیا نیا احمدی ہوا تھا ایک ہزار پونڈ چندہ دیا اور ایک اور آیا اُس نے پندرہ سو پونڈ دیا اور پندرہ سو پونڈ کے معنے یہ ہیں کہ گویا اُس نے بائیس ہزار روپیہ بطور چندہ دیا اور تین چار مہینہ کے اندر اندر پچیس سو پونڈ جمع ہو گیا.گویا چند ماہ کے اندر اندر اس جماعت نے ۳۳ ہزار روپیہ دیا.سیرالیون کی جماعت ابھی بہت تھوڑی ہے مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید ہے کہ یہ جماعت بھی بڑھے گی اور ترقی کرے گی مگر اُس وقت تک یہ بوجھ ہمیں ہی اُٹھانا پڑے گا وہاں کا ایک لڑکا بھی یہاں آیا ہوا ہے تاکہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد جماعت کا مبلغ بن سکے.اس کی تعلیم کا بوجھ بھی ہم برداشت کر رہے ہیں.اسی طرح جو مبلغ وہاں جاتے ہیں اُن کے کرائے وغیرہ بھی ہمیں ادا کرنے پڑتے ہیں.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ابھی ان لوگوں کے دلوں میں یہ احساس پیدا نہیں ہوا کہ پاکستانی ہم پر حکومت کر رہے ہیں.صرف ایک دفعہ نائیجیریا سے یہ آواز آئی تھی.میں نے انہیں کہا کہ اگر تمہیں یہ بات نا پسند ہے تو میں سارے پاکستانی مبلغ واپس بلا لیتا ہوں.میری اس دھمکی کے بعد فوراً اُن کی مجلس شوریٰ ہوئی اور اُس نے فیصلہ کیا کہ ہم اس شخص کے سخت خلاف ہیں جس نے یہ بات کہی ہے.ہمارا امیر پاکستانی مبلغ ہی مقرر کیا جائے ہم اس کے پیچھے چلیں گے.تو خدا تعالیٰ کے فضل سے اگر اُن میں یہ روح قائم رہی بلکہ ترقی کرتی رہی تو شاید اس ملک کے چندے ہمارے ملک سے بھی بڑھ جائیں لیکن ابھی ان ملکوں کی موجودہ آبادی کے لحاظ سے ان کے چندے کم ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ اگر گولڈ کوسٹ ، نائیجیریا، سیرالیون اور لائبیر یا ملایا جائے تو ان کی وسعت پاکستان سے ہیں گنے ہے لیکن آبادی تھوڑی ہے صرف تین کروڑ کے قریب ہے زیادہ تر جنگلات ہی ہیں.احمدیت مشرقی افریقہ میں پھر ایسٹ افریقہ میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت پھیل رہی ہے.اس کا علاقہ بھی پاکستان.ހނ دس پندرہ گنا زیادہ ہے لیکن آبادی تھوڑی ہے یعنی تین چار کروڑ کے قریب ہے.پس

Page 711

خطابات شوری جلد سوم ۶۹۵ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء ان علاقوں میں احمدیت کے بڑھنے سے جماعت کی آمد پر اثر پڑے گا لیکن ابھی ہمیں مصلحتاً اور ان کے ایمان کی تقویت کے لئے اُن کی آمد انہیں پر خرچ کرنی پڑے گی اور کہنا پڑے گا کہ مبلغ ہم بھیجیں گے خرچ تم دیا کرو.اس سے بھی فائدہ ہو جاتا ہے کہ جو خرچ ہم نے وہاں بھیجنا ہوتا ہے وہ بچ جاتا ہے اور ہم اسی کو غنیمت سمجھتے ہیں تا یہ اعتراض نہ ہو کہ چندہ ہم دیتے ہیں اور پاکستانی کھا جاتے ہیں.ہم چاہتے ہیں کہ وہ ایمان میں اتنے مضبوط ہو جائیں کہ پاکستانیوں سے کہیں کہ ایک پیسہ چندہ بھی نہ دو ہم وہاں روپیہ بھیجیں گے.اُس دن کا جب خود اُن کی طرف سے یہ تحریک ہو ہم انتظار کر رہے ہیں مگر جب تک وہ دن نہیں آتا ہمیں خوشی سے یہ خرچ برداشت کرنا پڑے گا اور ہمیں خوشی سے یہ بات منظور کرنا پڑے گی کہ مبلغ ہم بھیجتے رہیں اور اُن کا خرچ وہ دیں پس یہ پس منظر ہے تحریک جدید کی آمد کا.اب اگر کوئی دوست بجٹ آمد کے متعلق کچھ کہنا چاہیں تو وہ اپنا نام لکھا دیں.اگر چہ اس بجٹ پر بولنے کا حق صرف غیر ملکیوں کو ہے کیونکہ یہاں والوں کو کیا پتہ ہے کہ مثلاً گولڈ کوسٹ میں کون کونسی جماعت ہے اور وہ کیا چندہ دیتی ہے اور جو غیر ملکی یہاں موجود ہیں وہ طالب علم ہیں.اُن کو معلوم نہیں کہ وہ کیا کہیں.لیکن اگر وہ کچھ کہنا چاہتے ہوں تو کہہ سکتے ہیں.لیکن یہاں والے تو کچھ کہہ ہی نہیں سکتے.ہاں اگر کسی کو یہ پتہ ہو کہ وہاں کیا ہو رہا ہے تو وہ بے شک کہے.جیسے کوئی امریکی پاکستان میں سات دن بھی رہ جائے تو واپس جا کر کہتا ہے کہ میں All about Pakistan جانتا ہوں.یعنی مجھے پاکستان کے متعلق ساری معلومات ہیں.حالانکہ اُسے کچھ بھی معلومات حاصل نہیں ہوتیں.اسی طرح اگر کوئی پاکستانی بھی ایسا ہو جس نے ہمارے بجٹ سے All about Africa جان لیا ہو تو وہ بھی کچھ کہہ سکتا ہے.ورنہ جو باہر سے آئے ہیں وہ کہنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں.“ اس موقع پر کراچی کے ایک نمائندے نے یہ ترمیم پیش کی کہ تحریک جدید والے بھی اپنے چندہ میں سے بڑی جماعتوں کو کچھ حصہ بطور گرانٹ دیا کریں.اس پر حضور نے فرمایا:.اس بات پر بھی تحریک جدید غور کرے وہ کہتے ہیں کہ تحریک جدید بھی اگر کچھ گرانٹ رکھے تو شاید اس ذریعہ سے ان علاقوں کے چندے بڑھ جائیں.یہ تحریک کراچی کے

Page 712

خطابات شوری جلد سوم ۶۹۶ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء ایک دوست نے کی ہے.میرے خیال میں بہتر ہے کہ محکمہ اس تجویز پر غور کرے.چاہے شروع میں بہت تھوڑی سی نسبت رکھیں مگر تھوڑی نسبت سے بھی آخر وہاں کی جماعتوں کی گرانٹ بڑھ جائے گی اور پھر انہیں زیادہ توجہ پیدا ہوگی کہ تحریک جدید کے چندے با قاعدگی سے وصول کیا کریں.مثلاً اب پتہ لگا ہے کہ یوں تو تحریک جدید کی آمد ملا کر جماعت کراچی کی آمد ۲ لاکھ ۲۰ ہزار ہے لیکن صدر انجمن احمدیہ کی جو آمد تھی وہ ایک لاکھ اکتیس ہزار تھی.اگر باقی آمد کا اڑھائی فیصد بھی تحریک جدید دے تب بھی بارہ ہزار یہاں سے ملا تین چار ہزار تحریک جدید سے مل کر سولہ ہزار بن جاتا ہے.پھر تھوڑے دنوں تک یہ رقم پچیس تیس ہزار تک پہنچ جائے گی.تو تحریک جدید یہ امر زیر غور رکھے چاہے شروع میں Percentage بہت تھوڑی ہو اور چاہے میری تجویز کے مطابق Percentage نہ رکھے بلکہ گرانٹ رکھے بشرطیکہ تحریک جدید کا چندہ ۷۵ فیصدی وصول ہو جائے.پس یہ تجویز بڑی مفید ہے.تحریک جدید اسے نوٹ کرے اور آئندہ اسے مد نظر رکھے.جو دوست اس بات کی تائید میں ہوں کہ تحریک جدید کا بجٹ آمد جس صورت میں کی بجٹ کمیٹی نے پیش کیا ہے منظور کر لیا جائے وہ کھڑے ہو جائیں.“ رائے شماری پر ۳۹۵ ممبروں نے اس کے حق میں رائے دی.حضور نے فرمایا : - بجٹ آمد کی منظوری رائے شماری سے پتہ لگتا ہے کہ ۳۹۵ ممبر اس بات کے حق میں ہیں کہ تحریک جدید کے بجٹ آمد کو منظور کر لیا جائے.گویا پانچ ممبر اس وقت غیر حاضر ہیں.میں کثرتِ رائے کے مطابق تحریک جدید کے بجٹ آمد کو منظور کرتا ہوں.اس سفارش کے ساتھ کہ آئندہ وہ گرانٹیں بھی مد نظر رکھا کریں اور اپنے بجٹ میں گرانٹ کا حصہ شامل کیا کریں.وہ بے شک اپنی موجودہ وقت کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ ابھی با قاعدہ وصولیاں نہیں ہوتیں تھوڑی گرانٹ رکھیں مگر کچھ نہ کچھ ضرور رکھیں اور کہہ دیں کہ جو جماعت ۷۵ فیصدی وصول کرے گی اُس کو ہم گرانٹ دیں گے.وہ اندازہ لگا لیں کہ کراچی سے اتنا آتا ہے، لاہور سے اتنا آتا ہے، ملتان سے اتنا آتا ہے، راولپنڈی سے اتنا آتا ہے، سیالکوٹ سے اتنا آتا ہے، ربوہ سے اتنا آتا ہے اور پھر اس چندہ کی نسبت سے ہر ایک کے لئے الگ الگ گرانٹ مقرر کر دیں.“

Page 713

خطابات شوری جلد سوم ۶۹۷ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء اس موقع پر جناب حافظ عبدالسلام صاحب وکیل الاعلیٰ نے عرض کیا کہ ۷۵ فیصدی تو ہم خود وصول کر لیتے ہیں اس پر حضور نے فرمایا :- ” بے شک آپ وعدوں میں سے ۷۵ فیصدی وصول کر لیتے ہیں لیکن جب آپ دیں گے تو وعدے بھی زیادہ کرائیں گے پھر ۷۵ فیصدی جو آپ وصول کر لیتے ہیں اس سے بھی زیادہ آپ کو وصول ہوا کرے گا.“ بجٹ اخراجات اور دو نئے مشن مجلس شوری کا چوتھا اور آخری اجلاس ٹھیک تین بجے بعد دو پہر حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی صدارت میں فلپائن اور نجی کھولنے کی تجویز شروع ہوا.حضور نے کرسی صدارت پر رونق افروز ہونے کے بعد جناب حافظ عبدالسلام صاحب وکیل الاعلیٰ تحریک جدید سے فرمایا کہ وہ تحریک جدید کا بجٹ اخراجات پیش کریں.حضور کے ارشاد کی تعمیل میں جناب حافظ عبدالسلام صاحب نے تحریک جدید کا بجٹ اخراجات برائے سال ۵۸ - ۱۹۵۷ء پیش کیا اور کہا کہ اس سال تجویز ہے کہ فلپائن اور نجی میں دو نئے مشن کھولے جائیں اور اُن پر ۲۲۶ پونڈ فی مشن اخراجات کا اندازہ ہے.سب کمیٹی تحریک جدید سفارش کرتی ہے کہ ان نئے اخراجات کو منظور کر لیا جائے.اس موقع پر حضور نے فرمایا:.اس وقت نئے مشنوں کے متعلق ایک تجویز پیش کی بیرونی مشنوں کیلئے ہدایات سنی سے لیکن یہ کام خالص خلافت کا ہے اور ان کو گئی ہے یہ چاہئے تھا کہ اس بارہ میں پہلے مجھ سے مشورہ لے لیتے.کیونکہ چالیس سال سے برابر میں بیرونی مشنوں کو دیکھ رہا اور ان کی راہنمائی کر رہا ہوں.جب میں ان کے پاس موجود تھا تو وہ مجھ سے مشورہ لے لیتے.مثلاً ایک مشورہ میں برابر ان کو دیتا رہا ہوں لیکن اُنہوں نے بجٹ میں اس کا خیال تک نہیں رکھا.میں ان کو کہتا رہا ہوں کہ جرمنی میں فوراً ایک اور مشن کھولنا ضروری ہے ورنہ ہمارا جرمن مشن کامیاب نہیں ہوسکتا.جرمنی کے بعض حصوں میں نئے احمدی ہوئے ہیں اور وہ ہیمبرگ سے کئی سو میل کے فاصلہ پر ہیں.جس وقت میں وہاں

Page 714

خطابات شوری جلد سوم ۶۹۸ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء گیا تھا اُس وقت بھی وہاں کی جماعت نے میرے پاس درخواست کی تھی کہ یہاں ایک اور مشنری رکھا جائے.اتفاقاً ہمیں ایک ٹیونیشین عرب مل گیا اور ہم نے اُس کو مشنری مقرر کر دیا.ہمارے آنے کے بعد وہ اپنے ملک چلا گیا.اب وہ وہاں سے واپس آ گیا ہے اُس ا نے کہا ہے کہ میں وہاں شادی بھی کر آیا ہوں اور وہاں جا کے تبلیغ بھی کر سکتا ہوں.میرے ذریعہ وہاں دو آدمی احمدی ہوئے ہیں اور اس علاقہ میں احمدیت کے پھیلنے کا امکان ہے.پس جرمنی اور ٹیونس ایسے تھے جن میں نئے مشن کھولنے ضروری تھے.ہم نے امریکہ سے اپنے مبلغ کو جاپان بھجوایا تھا.واپس جاتے ہوئے وہ فلپائن ہو کے آیا تھا.وہاں بھی اس وقت تک تقریباً ۳۸ احمدی ہو چکے ہیں اور یہ زیادہ تر یو نیورسٹی کے طالب علم لڑکے اور لڑکیاں ہیں.وہاں سے ایک شخص نے زندگی بھی وقف کی ہے مگر ابھی تک وہ یہاں نہیں پہنچ سکا کیونکہ وہ ایک فرم کا ملازم ہے اور وہ ابھی اُس کو چھوڑ نہیں رہی.وہاں کیتھولک مذہب کا زیادہ اثر ہے اور کیتھولک مذہب والے بڑے متعصب ہوتے ہیں.وہ کسی نہ کسی بہانہ سے ہمارے آدمی کو وہاں جانے سے روکتے ہیں.چنانچہ ہم نے ملایا سے بھی کوشش کی کہ ہمارا مبلغ وہاں چلا جائے ، وہ علاقہ قریب ہے مگر اس کے راستہ میں بھی روک پیدا ہوئی.آخر ایک انگریزی نمائندہ نے ہمیں بتایا کہ وہاں کی حکومت نہیں چاہتی کہ یہاں کوئی مسلمان آئے کیونکہ وہ سخت متعصب ہے.ڈچ گی آنا میں احمدیت کی ترقی پھر ڈچ گی آنا سے اطلاعات آرہی ہیں کہ وہاں ایک اور مبلغ کی ضرورت ہے کیونکہ وہاں کوئی چار سو کے قریب احمدی ہو چکا ہے اور پچاس ساٹھ ہزار کے قریب وہاں مسلمان آباد ہیں اور امکان ہے کہ سارے کے سارے احمدیت میں داخل ہو جائیں.ایک خاص تعداد اُن میں انڈونیشی مسلمانوں کی ہے اور باقی ہندوستانی اور پاکستانی.اگر وہ احمدی ہو جائیں تو سارا ملک ہی احمدی ہو جاتا ہے.وہاں سے بھی درخواست آئی ہے کہ ایک اور آدمی بھیجا جائے تا کہ ہم یہاں مدرسہ کھولیں اور اس طرح تبلیغ کو وسیع کریں.فنجی میں بھی مشن کھولنا ضروری ہے کیونکہ وہاں احمدی زیادہ ہیں گو وہ پنجابی ہیں.اس جزیرہ کی دو چار لاکھ کی آبادی ہے اور یہ علاقہ اس قابل ہے کہ اس کی طرف

Page 715

خطابات شوری جلد سوم ۶۹۹ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء توجہ کی جائے.گویا فوری توجہ کے قابل علاقہ نبی اور ڈچ گی آنا ہے.پھر ڈچ اور فرنچ گی آنا کے درمیان برٹش گی آنا پڑا ہوا ہے، وہاں بھی کوئی مبلغ جانا چاہئے.ایک طالب علم برٹش گی آنا کا یہاں سے پڑھ کر گیا ہے.اُس نے کہا تھا کہ میں وہاں جا کر تبلیغ کروں گا اگر وہ وہاں چلا گیا تو ممکن ہے یہاں سے مبلغ بھیجنے کی ضرورت نہ رہے.پھر خود ڈچ گی آنا میں ایک ایسے مبلغ کی ضرورت ہے جو کچھ تھوڑی سے ڈچ زبان بھی جانتا ہو یا پھر انڈونیشین جانتا ہو تا کہ انڈونیشین لوگوں میں جو وہاں بڑی تعداد میں ہیں تبلیغ کی جا سکے.غرض یہ علاقے جو میں نے بتائے ہیں ایسے ہیں کہ اگر وہاں تبلیغ کی جائے تو تھوڑے ہی عرصہ میں احمدیت سارے ملک پر غالب آ سکتی ہے.یہ تجاویز میں نے دفتر والوں کو بتائی تھیں مگر ان کا بجٹ میں کسی جگہ بھی ذکر نہیں کیا گیا.“ پھر بجٹ تحریک جدید کے سلسلہ میں مختلف جدید اخراجات کی تجویز پیش ہونے پر حضور نے فرمایا: - حافظ صاحب نے مسجد لندن کی مرمت کا ذکر کرتے ہوئے ” کچھ عرصہ“ کہدیا ہے حالانکہ میں ۱۹۲۴ء میں لنڈن میں گیا تھا اور وہاں مسجد بنوائی تھی اور ۱۹۵۵ء میں وہاں گیا گویا ۳۱ سال کا عرصہ ہو چکا ہے مگر ابھی تک مسجد کی مرمت نہیں ہوئی تھی.ان ۳۱ سالوں کا نام انہوں نے ” کچھ عرصہ رکھدیا ہے.“ اس کے بعد فرمایا:.جدید اخراجات کے متعلق اگر کوئی دوست ترمیم پیش کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں مگر یہ یاد رہے کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ یہ غیر ممالک کا کام ہے اور آپ لوگ اس ناواقف ہیں، اس لئے لازمی طور پر مجھے اس کی تشریح کرنی پڑتی ہے.کم خرچ سے زیادہ کام کریں اُنہوں نے کہا ہے کہ جو مبلغ باہر جائیں گے ان کو موٹر چلانی سکھائی جائے گی مگر میرے نزدیک اُنہوں نے اس سکیم پر عمل کرنا ہے تو انہیں کم سے کم ۷۵ ہزار کی رقم بجٹ میں بڑھانی چاہئے کیونکہ جس مبلغ کو یہ موٹر ڈرائیوری سکھائیں گے اس نے باہر جاتے ہی لکھ دینا ہے کہ اس ملک میں

Page 716

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء موٹر کے بغیر کام نہیں چل سکتا اور موٹر ۵۰ - ۶۰ پونڈ میں آتی ہے.سفر یورپ کے دوران میرے بیٹے نے محنت کر کے وہاں ۵۰ پونڈ کی موٹر خریدی تھی لیکن مبلغ نے یہ نہیں کرنا.اُس نے جہاز سے اُترتے ہی فوراً تاریں دینی شروع کر دینی ہیں کہ میرے لئے موٹر کا انتظام کریں کیونکہ یہاں موٹر کے بغیر کام ہی نہیں چل سکتا.آخر ہمیں سوچنا چاہئے کہ جب ہم تنگی کی حالت میں سے گزر رہے ہیں تو ایسی سکیمیں سوچنے کا فائدہ کیا ہے.جو بجٹ آگے ہی انتہائی تنگی سے بنایا گیا ہے اُس میں موٹر ڈرائیوری کی گنجائش رکھ کر نئے مبلغ کو خراب کرنا ہے.وہ مبلغ جو دس دس سال سے باہر بیٹھے ہیں اُن کے لئے تو کوئی موٹر نہیں لیکن جو ابھی جانے والے ہیں ان کو پہلے سے ہی ڈرائیوری سکھا کے بھیجا جائے گا جس کے معنے یہ ہیں کہ جب تک تم انہیں سکھاؤ گے وہ اپنا سر پھوڑیں گے اور جب وہ سیکھ جائیں گے تو تحریک جدید کا سر پھوڑیں گے.یہ سکیمیں بچوں والی ہیں.ہمیں کم سے کم خرچ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ کام کرنا چاہئے.ہم نے ساری دُنیا کو جو احمدیت کی پیاسی ہے تعلیم دینی ہے اور اس کے لئے ہمیں بجٹ میں زیادہ سے زیادہ کفایت کی ضرورت ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ مبلغین کو موٹر میں مت دو مگر میں کہتا ہوں کہ اُن کے اندر موٹر کی خواہش مت پیدا کرو.جب تم انہیں موٹر ڈرائیوری سکھاؤ گے تو تم اُن کے اندر موٹر کی خواہش پیدا کر دو گے اور یہ چیز ضرر رساں ہے.پس میرے نزدیک یہ تجاویز خطرات سے خالی نہیں.اوّل تو کئی علاقے جہاں مبلغ بھجوانے کی ضرورت تھی چھوڑ دیئے گئے ہیں.مثلاً ٹیو نیشیا کا علاقہ چھوڑ دیا گیا ہے اور وہاں مبلغ نہیں بھیجا جا رہا حالانکہ ہمارے آدمی نے وہاں سے لکھا ہے کہ ٹیونیشیا میں تبلیغ کے بہت سے مواقع ہیں اور ان لوگوں میں تعصب بھی اتنا نہیں جتنا دوسری جگہوں میں پایا جاتا ہے چنانچہ ٹیونیشیا کا ایک بہت بڑا رئیس جو وہاں کے وزیر اعظم حبیب بورقیہ کا نائب ہے مجھے یورپ میں ملا.میں نے دریافت کیا کہ آپ کیسے آئے ہیں.اُس نے کہا میں نے سُنا ہوا تھا کہ امام جماعت احمد یہ یہاں آئے ہوئے ہیں.جب میں نے آپ کے ساتھ بہت سے آدمی دیکھے تو مجھے خیال آیا کہ آپ ہی امام جماعت احمد یہ معلوم ہوتے ہیں.چنانچہ میں ملنے کے لئے آگیا.میں ٹیونیشیا کے وزیر اعظم حبیب بورقیہ کا نائب ہوں اور میں یہاں

Page 717

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء ٹیو نیشیا کی آزادی کے متعلق مشورہ کرنے آیا ہوں.تو ان لوگوں کو احمدیت کی طرف توجہ ہے.یہ تو نہیں کہ وہ احمدی ہیں لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ اس بات کی طرف مائل ہیں کہ سلسلہ کی کتابیں پڑھیں.اگر ہمارے دوست وہاں جائیں تو احمدیت اُن علاقوں میں بھی پھیل سکتی ہے جیسے ہمارے ترک دوست محمود ہیں جو ٹیونیشیا کے رہنے والے ہیں پہلے نیورمبرگ میں ہمارے مبلغ تھے.اب نیورمبرگ سے ٹیونیشیا گئے اور وہاں تبلیغ کی تو دو احمدی ہو گئے اور ساتھ ہی اُنہوں نے بتایا کہ ٹیونیشیا کے لوگ احمدیت کی طرف بہت توجہ رکھتے ہیں.اگر سمجھدار مبلغ اُن علاقوں میں جائیں تو وہ لوگ احمدیت کی طرف جلد متوجہ ہو سکتے ہیں.پس ہمیں جزائر فجی.ٹرینیڈاڈ.ڈچ گی آنا.برٹش گی آنا.ٹیو نیشیا اور جرمنی کو.چھوڑ نا نہیں چاہئے.جرمنی میں بعض جگہوں پر بڑے اچھے اچھے افراد احمدیت میں داخل ہوئے ہیں مثلاً پروفیسر ٹلٹاک جو بڑی اچھی حیثیت کے ہیں وہ یہاں آئے اور کچھ عرصہ رہے واپس جا کر اُنہوں نے منور احمد کو لکھا کہ یہاں میں منسٹر آف انڈسٹریز سے ملا تھا اور اُسے کہا تھا کہ ربوہ میں ہمارا ہسپتال بن رہا ہے اس لئے تم کوئی تحفہ بھجوا ؤ.چنانچہ اس نے وعدہ کیا ہے کہ میں اس کا خیال رکھوں گا.بے شک احمدی ہونے والوں میں سے بعض کمزور بھی ہوتے ہیں.مثلاً جرمنی میں جو شخص پہلے احمدی ہوا تھا وہ انگلستان آ کے مرتد ہو گیا تھا لیکن اس کے بعد ایسے لوگ احمدیت میں داخل ہوئے جو بہت مخلص ثابت ہوئے.مثلاً نیورمبرگ میں ایک مخلص نوجوان جس نے اپنی زندگی بھی وقف کی تھی اُس ہوٹل میں جہاں میں ٹھہرا ہوا تھا روزانہ آ کر تعلیم حاصل کرتا تھا.اس طرح نیورمبرگ میں گو صرف دس بارہ احمدی ہیں مگر روزانہ باری باری اُن میں سے دو آدمی ہوٹل میں رہا کرتے تھے.ایک دن میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ایک چار پائی بچھی ہے.میں نے عبد اللطیف صاحب سے دریافت کیا کہ یہ کیا بات ہے تو اُنہوں نے کہا کہ یہاں کی جماعت نے آپس میں باریاں مقرر کی ہوئی ہیں اور وہ باری باری یہاں آکر پہرہ دیتے ہیں.یہ لوگ آپ کے ہوٹل کے دروازہ کے آگے چار پائیاں بچھا لیتے ہیں اور پہرہ دیتے ہیں.غرض ان لوگوں کے اندر پاکستانیوں کی طرح اخلاص پایا جاتا ہے.

Page 718

خطابات شوری جلد سوم ۷۰۲ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء و ہیں نیورمبرگ میں ہم نے محمود ترکی مبلغ مقرر کیا تھا.اگر وہاں کوشش کی جائے تو ایسے لوگ احمدیت میں داخل ہو سکتے ہیں جو اچھے پایہ کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں.پس میں اضافہ بجٹ کے تو مخالف نہیں لیکن میرے نزدیک اضافہ کی جو تقسیم کی گئی ہے وہ غور کے ساتھ نہیں کی گئی حالانکہ ان ساری باتوں کے متعلق میں نے خود وکیل التبشیر سے باتیں کی تھیں اور انہیں بتایا تھا کہ یہ تجاویز ضروری ہیں، لیکن ان پر کوئی عمل نہیں کیا گیا.اس لئے اگر جماعت اس اضافہ کے حق میں رائے دینا چاہے تو بے شک دے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس اضافہ سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ جو ضروری جگہیں تھیں اُنہیں چھوڑ دیا گیا ہے.ان حالات میں میں تو نہیں سمجھتا کہ آپ لوگوں کے سامنے تحریک جدید کا بجٹ پیش کروں.اگر ہندوستان اور پاکستان کی بات ہوتی تو میں پیش کر دیتا لیکن یہ ہندوستان اور پاکستان کی بات نہیں کہ آپ اسے سمجھتے ہوں اس لئے آپ جو بھی رائے دیں گے محض رسمی ہوگی یا تو آپ سب کمیٹی کے حق میں ووٹ دے دیں گے کہ انہوں نے یہ تجویز پیش کی ہے یا یہ خیال کریں گے کہ خلیفہ اسیح نے یہ باتیں بیان کی ہیں، میری تجاویز کے حق میں ووٹ دے دیں گے اور اس طرح یہ ووٹ آزاد نہیں ہوں گے.“ اس موقع پر مکرم شیخ رحمت اللہ صاحب نائب امیر جماعت احمدیہ کراچی نے درخواست کی کہ چونکہ نمائندگان جماعت تحریک جدید کے اخراجات اور ضروریات کا علم نہیں رکھتے اس لئے ہماری درخواست ہے کہ حضور خود ہی جس رنگ میں مناسب سمجھیں اس بجٹ کی منظوری دے دیں.حضور نے فرمایا:.66 یہ ذمہ داری تو بہت زیادہ ہے لیکن مجھے اس کے سوا اور کوئی چارہ نظر نہیں آتا.تحریک جدید کے وکلاء کو مشورہ کی ھدایت تحریک جدید کے وکلاء کو چاہئے تھا کہ جس طرح صدر انجمن احمدیہ والے مجھ سے مشورہ لیتے رہتے ہیں وہ بھی مشورہ لیتے رہتے.اس کے نتیجہ میں کم سے کم میں اس وقت جماعت کے سامنے بجٹ تو پیش کر سکتا تھا اور کہہ سکتا تھا کہ رائے دو، ہاں کہو یا نہ کہو.مگر اب یہ بجٹ ایسی شکل میں پیش کیا گیا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ نہ کہیں گے تو بھی.

Page 719

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء نقل ہوگی اور ہاں کہیں گے تو بھی نقل ہوگی.میں حافظ عبدالسلام صاحب کو کئی دفعہ توجہ دلا چکا ہوں کہ مجھ سے آکر مشورہ لیا کریں لیکن وہ تین تین مہینہ تک مجھے شکل بھی نہیں دکھاتے اور صدر انجمن احمدیہ کے ناظر اعلیٰ میاں غلام محمد صاحب اختر مجھ سے کبھی اپنی شکل نہیں چھپاتے.اُن کو دیکھ کر مجھے وہی بات یاد آ جاتی ہے کہ جب میں یورپ میں گیا تو ایک جرمن عورت میرے پاس آئی.اُس نے باتوں باتوں میں ذکر کیا کہ جنرل نجیب نے مجھے ایک دفعہ سعودی عرب کے بادشاہ کے پاس بھیجا اور اُس نے مجھ سے کہا کہ میرے بیٹے سے شادی کر لو.میں نے کہا شکر کرو تم بچ گئیں کیونکہ اُن کی تو بہت سی بیویاں ہوتی ہیں.وہ کہنے لگی ساری بیویاں نہیں ہوتیں true wife ایک ہی ہوتی ہے باقی سب داشتہ ہوتی ہیں.پھر کہنے لگی جب اسلام نے مسلمانوں کو ایک سے زیادہ بیویاں کرنے کی اجازت دی ہے اور میں بھی مسلمان ہوگئی ہوں تو مجھے ایک سے زیادہ بیویوں پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے.پھر وہ کہنے لگی میری کئی دفعہ پادریوں سے گفتگو ہوئی ہے.ایک دفعہ ایک پادری نے تعددازدواج کے خلاف تقریر کی تو میں نے کہا تم بڑے بیوقوف ہو.عورت تو میں ہوں سوکن مجھ پر آنی ہے یا تم پر آنی ہے؟ مجھے تو سو کن آنے پر کوئی اعتراض نہیں اور تم خواہ مخواہ چڑتے ہو.میں تو اسلام کے اس حکم کو غنیمت سمجھتی ہوں کیونکہ اسلام نے گومرد کو ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت دی ہے مگر ساتھ ہی کہا ہے اُنہیں ایک جیسا کھانا کھلاؤ، ایک جیسے کپڑے دو، ایک جیسا مکان دو.جب یہ چیز موجود ہے تو عورتوں کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے.ہم کورٹ شپ کے بعد شادی کرتے ہیں مگر دو سال تک کورٹ شپ کرنے کے باوجود پھر بھی لڑائی ہو جاتی ہے.اگر تعدد ازدواج کی صورت میں میرا خاوند مجھ سے لڑے گا تو اتنا تو ہوگا کہ ایک مکان میرا ہو گا اور اس کے ساتھ ہی ایک مکان میری سوکن کا ہو گا اور اس کے ساتھ ایک مکان میری تیسری سوکن کا ہوگا.میں خاوند کا بازو پکڑوں گی اور اُسے دوسرے گھر میں دھکیل دوں گی کہ سارا دن میں نے تیرا منحوس منہ دیکھا ہے، اب وہ تیرا منہ دیکھے.اگر یہ ہوتا کہ کورٹ شپ کی وجہ سے ہماری کبھی لڑائی نہ ہوتی تو پھر تو کوئی بات بھی تھی لیکن جب ہماری بھی لڑائیاں ہوتی ہیں تو پھر اسلام کی اس اجازت سے اتنا تو فائدہ ہوسکتا ہے کہ جب خاوند کی عورت سے لڑائی ہو تو وہ اُس کا بازو پکڑ کر اُسے دوسری بیوی کے گھر میں دھکیل دے اور خود اس کا

Page 720

خطابات شوری جلد سوم ۷۰۴ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء غصے والا چہرہ سارا دن نہ دیکھتی رہے.میں جب ولایت سے آیا تو کراچی میں میری ایک تقریر ہوئی.اُس میں میں نے یہ واقعہ سنایا.اس کا اثر یہ ہوا کہ انڈونیشیا سے ہمارے مبلغ کا خط آیا کہ یہاں پاکستانی ایمبیسی میں جو پریس اٹا چی تھا اس نے مجھے بتایا کہ میں نے مرزا صاحب کی ایک تقریر سنی ہے مجھے تعدد ازدواج کا مسئلہ بھی سمجھ نہیں آیا کرتا تھا اب یہ مسئلہ سمجھ آ گیا ہے.میں نے سمجھا کہ یہ کوئی پرانی بات ہوگی اس لئے میں نے اُسے لکھا کہ مجھے تو یاد نہیں کہ کبھی میں نے کراچی میں ایسی تقریر کی ہو.مگر اُس نے میری اسی تقریر کا حوالہ دیا جس میں میں نے یہ واقعہ بیان کیا تھا.اس پر مجھے تعجب ہوگا کہ میں نے تو صرف ایک لطیفہ بیان کیا تھا مگر اُس افسر نے اس لطیفہ سے ہی ایک اہم مسئلہ سمجھ لیا.بہر حال اس سے اتنا پتہ لگتا ہے کہ وہاں اسلام کی طرف توجہ پیدا ہو گئی ہے اور ہمیں اس سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے.میں نے بتایا ہے کہ صدر انجمن احمدیہ کے آدمی ہمیشہ میرے پاس آتے ہیں اور مجھ سے مشورہ کرتے ہیں لیکن تحریک والے ایسا نہیں کرتے.بار بار توجہ دلانے کے بعد اب انہیں اس کا کچھ احساس ہونے لگا ہے.آخر انہیں اتنا تو سمجھنا چاہئے کہ بیرون پاکستان میں ساری تبلیغ میں نے شروع کی ہے اس سے پہلے یورپ میں سوائے وہ کنگ مشن کے اور کوئی تبلیغی مشن نہ تھا پھر میں نے پہلے انگلستان میں مشن قائم کیا اس کے بعد سیلون میں مشنری بھجوایا، پھر ماریشس میں بھجوایا، پھر جرمنی میں بھجوایا ، پھر افریقہ میں مشنری بھجوایا ، یونائٹڈ سٹیٹس امریکہ میں بھجوایا، چین میں بھجوایا ، ہانگ کانگ میں بھجوایا، انڈونیشیا میں بھجوایا.غرض سارے کے سارے تبلیغی مشن میرے ہی زمانہ میں قائم ہوئے ہیں.اگر تحریک والے آتے تو میرے مشورہ سے بہت فائدہ اُٹھا سکتے تھے لیکن چونکہ اُنہوں نے ایسا نہیں کیا اس لئے شیخ رحمت اللہ صاحب کی تجویز پر عمل کئے بغیر مجھے اور کوئی چارہ نظر نہیں آتا.بجٹ کی موجودہ صورت روپیہ کے لحاظ سے بھی غلط ہے اور پھر بڑا سوال آدمیوں کے مہیا کرنے کا ہے.اس کے لحاظ سے بھی بہت کچھ مشورہ کی ضرورت ہے.جب میں بھی اتنے لمبے تجربہ کے باوجود دوسروں سے مشورہ لے لیتا ہوں تو ان کو تو چاہئے کہ وہ بیسیوں آدمیوں سے مشورہ کیا کریں.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ دیکھو اگر تم کو خدا تعالیٰ سے محبت ہوتی

Page 721

خطابات شوری جلد سوم ۷۰۵ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء تو تم بار بار قرآن پڑھتے.کیا تم نہیں دیکھتے کہ ایک ان پڑھ آدمی کے پاس اُس کے کسی عزیز کا کارڈ آ جاتا ہے تو اُسے اس وقت تک تسلی نہیں ہوتی جب تک کہ وہ اُسے پندرہ ہیں افراد سے پڑھوا نہ لے.قرآن بھی خدا تعالیٰ کا خط ہے اگر تمہیں خدا تعالیٰ سے محبت ہوتی تو تم بیسیوں افراد سے جا کر پوچھتے کہ اس الہی خط میں کیا لکھا ہے.اسی طرح اگر ان کے اندر بھی کچی تڑپ ہوتی تو وہ بار بار مجھ سے ملتے اور مشورہ لیتے.بہر حال میں دوستوں سے یہ پوچھتا ہوں کہ جو دوست اس رائے کے حق میں ہوں کہ جو بجٹ اس وقت پیش ہوا ہے اسے مشروط طور پر اس رنگ میں منظور کر لیا جائے کہ روپیہ کی حد تو اتنی ہی رہے لیکن ایڈ جسٹمنٹ مناسب مشورہ کے بعد میں خود کرلوں وہ کھڑے ہو جائیں.“ اس پر ۳۹۹ دوست کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا.۳۹۹ دوستوں کی یہ رائے ہے کہ مشروط طور پر اس بجٹ کو منظور کر لیا جائے.اس دفعہ ۴۰۰ ممبروں کو نمائندگی ٹکٹ جاری ہوئے ہیں.جس کے معنے یہ ہیں کہ ۳۹۹ ایسی اکثریت ہے جس پر شبہ نہیں کیا جاسکتا.اس لئے میں کثرتِ رائے کے مطابق جو اتفاق رائے کے برابر ہے اس بجٹ کو مشروط طور پر منظور کرتا ہوں.“ اس موقع پر محترم چوہدری عبداللہ خان صاحب امیر جماعت کراچی نے حضور کی خدمت میں تحریراً گزارش کی کہ صحت کی بحالی کے لئے حضور ایک بار پھر ولایت تشریف لے جائیں.وو اس کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا: - یہ بات تو ڈاکٹروں کی مرضی پر ہے.میں جب ولایت سے واپس آیا تھا تو چونکہ وہاں موسم ایک قسم کا رہتا ہے اور یہاں بدلتا رہتا ہے اس لئے مجھے وہاں یقینا فائدہ ہوگا.اس سال جلسہ سالانہ پر میری طبیعت اچھی رہی لیکن بعد میں جنوری سے فروری تک جو بارشیں شروع ہوئیں اور پھرڑ کی ہی نہیں روزانہ بارش ہوتی رہتی ہے، اس سے طبیعت خراب ہو گئی.کل خدا تعالیٰ کے فضل سے باوجود کام کرنے کے طبیعت بحال رہی.اسی طرح

Page 722

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء آج بھی کچھ نہ کچھ کام کرنے کی توفیق مل گئی.اس قسم کی کوئی تکلیف نہیں ہوئی جس کے متعلق میں سمجھوں کہ کام میں روک پیدا ہوئی ہے لیکن جب تک ڈاکٹری مشورہ نہ ہوئیں کہیں نہیں جا سکتا.میں تو سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر کہے تو پھر تو حکم ہو گیا اور اس صورت میں مجبوری ہوتی ہے.میں نے بعض ڈاکٹروں سے بات کی ہے انہوں نے ملک سے باہر جانے کا مشورہ نہیں دیا.اُنہوں نے کہا ہے کہ اس وقت حالت اور ہے اور جب ہم نے یورپ جانے کا مشورہ دیا تھا اُس وقت حالت اور تھی.اُس وقت ضروری تھا کہ ہم آپ سے یورپ جانے کے لئے کہتے لیکن اب ہم نہیں کہہ سکتے.اگر ہمیں نظر آیا کہ آپ کو وہاں جانے سے فائدہ ہوگا تو ہم پھر کہیں گے کہ آپ یورپ چلے جائیں اس لئے اگر ڈاکٹر کہیں تو چوہدری عبداللہ خان صاحب کی اس تجویز پر عمل ہو سکتا ہے.دوسرے میں جب پچھلی دفعہ یورپ گیا تھا تو گواب اتنے قافلہ کی ضرورت نہیں ہو گی لیکن اُسوقت میں اپنی بیویوں کو بھی ساتھ لے گیا تھا اور اُن بچوں کو بھی ساتھ لے گیا تھا جن کی مائیں پیچھے نہیں تھیں.جماعت کے دوستوں نے جو چندہ جمع کیا تھا اُس کے علاوہ میرا ۳۸ ہزار روپیہ خرچ ہو گیا.واپس آکر میں نے ۳۸ ہزار روپیہ میں سے ۳۲ ،۳۳ ہزار رو پیدا دا کر دیا ہے، پانچ چھ ہزار رو پیدا بھی ادا کرنا باقی ہے ، ابھی میں وہی ادا کر رہا ہوں اس لئے ابھی اس بات کا سوال پیدا نہیں ہوتا کہ میں کہیں باہر جاؤں کیونکہ ابھی پچھلے سفر کا قرضہ مجھ پر باقی ہے.جو چیزیں ایسی تھیں جو کہ لفظاً اس ریزولیوشن کے نیچے آتی تھیں جو جماعت نے پاس کیا تھا مثلاً میرا کرایہ یا میری ڈاکٹری فیس ، وہ تو میں نے چندہ سے لے لیا باقی جو بیویوں اور بچوں کے اخراجات تھے وہ میں نے خود سارے کے سارے ادا کئے تا کہ جماعت پر بوجھ نہ ہو اور اُس وقت جو خرچ آیا اُس میں سے ابھی پانچ چھ ہزار روپیہ باقی ہے.چند دن ہوئے میں نے حساب منگوایا تھا تو دفتر والوں نے لکھا تھا کہ ۳۸ ہزارر وپیہ کی رقم بنتی تھی.اس میں سے اس وقت تک ۳۲ ہزار رو پید ادا ہو چکا ہے ممکن ہے بعد میں اور بھی کچھ ادا ہو گیا ہو.مگر بہر حال حالات کو دیکھنا پڑتا ہے جب میں یورپ گیا تھا تو میں اپنے پیچھے اپنے ایک داماد کو کام سپرد کر گیا تھا، اُسے کام کا تجربہ نہیں تھا اس لئے میری غیر حاضری میں اُس نے مجھے بہت مقروض کر دیا.پھر سارا سال خرچ میں تنگی کرنی پڑی.

Page 723

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء میرے ایک بیٹے کو خدا تعالیٰ نے توفیق دی اور اُس نے کچھ کام کیا تو اس جلسہ پر میں نے اعلان کیا کہ وہ قرضہ میں نے اس حد تک ادا کر دیا ہے لیکن ابھی کچھ حصہ قرضہ کا ابھی باقی ہے جو میں چاہتا ہوں کہ اپنے سامنے ادا کر دوں.اس طرح بچوں کو بھی توجہ رہتی ہے کہ وہ قرضہ ادا کریں.بہر حال خدا تعالیٰ میں سب طاقتیں ہیں جو خدا باہر جا کر صحت دے سکتا ہے وہ یہاں بھی ایسے سامان کر سکتا ہے کہ میری صحت میں ترقی ہو جائے.پچھلی دفعہ بھی میں باہر جانے پر راضی نہیں تھا مگر سامان ایسے ہو گئے کہ مجھے باہر جانا پڑا.میں یکدم ایسا بیمار ہو گیا کہ ڈاکٹروں نے رائے دی کہ میں باہر چلا جاؤں.مثلاً خود ڈاکٹر ملک صاحب جو ڈائریکٹر ہیلتھ تھے اُنہوں نے بھی یہ مشورہ دیا جب انہوں نے مجھے دیکھا تو کہا اب دوائیں ختم ہو چکی ہیں دوائیں اب آپ کو فائدہ نہیں دے سکتیں.اب ایک ہی علاج ہے کہ آپ فوراً باہر چلے جائیں یورپ کی جو آب و ہوا ہے وہ آپ کو مفید پڑے گی.میں یہ نہیں کہتا کہ یہاں کوئی دوائی نہیں جو دوائیں ان لوگوں کو معلوم ہیں وہ ہمیں بھی معلوم ہیں لیکن وہاں کی آب و ہوا ایسی ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ وہاں جا کر آپ کو فائدہ پہنچ سکتا ہے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.جب ہم وہاں پہنچے تو میں فوراً کچھ نہ کچھ چلنے پھرنے لگ گیا اور جسم میں طاقت آگئی.واپس آکر جو صحت میں پروگریس (Progress) ہوئی ہے وہ ظاہر ہی ہے.۱۹۵۴ء میں میں نے مجلس شوریٰ میں کچھ کام کیا تھا.۱۹۵۵ء میں میں بیمار ہو گیا اس لئے اُس سال شوری میں میں نہ آسکا.۱۹۵۶ء میں بھی میں صرف ایک دن اجلاس میں آیا تھا اور پھر واپس چلا گیا تھا ، کوئی کام نہیں کیا تھا.آج ۱۹۵۷ء میں چار سال کے بعد پھر خدا تعالیٰ نے مجھے توفیق دی ہے کہ میں شوری میں تمام اجلاسوں میں شریک ہوا ہوں اور کام بھی کیا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ میری صحت میں ترقی ہوئی اور ہو رہی ہے لیکن بعض چیزیں ایسی ہیں جن میں کوئی نمایاں فرق نہیں پڑا.مثلاً ہاتھوں میں جو بے حسی تھی وہ ابھی تک دُور نہیں ہوئی اس سے بعض اوقات بڑی گھبراہٹ ہو جاتی ہے.پیر کی انگلیاں اندر کو کھنچتی ہیں اور ہاتھ بے حس ہو جاتا ہے.ہوتی تو یہ مذاق کی بات ہے لیکن گھر میں میرا کوئی چھوٹا پوتا یا نواسہ آ جائے تو وہ بیمر نہیں سمجھتا.وہ میرا ہاتھ پکڑ لے تو میں فوراً گھبرا جاتا ہوں

Page 724

خطابات شوری جلد سوم 2.1 مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء کہ کیا ہو گیا ہے اور میرا ہاتھ کدھر چلا گیا ہے.غرض ان چیزوں کو کوئی نمایاں فائدہ نہیں ہوگا.پس جب تک مجھے یقین نہ ہو جائے کہ یورپ میں کوئی نیا علاج نکل آیا ہے اُس وقت تک میرا وہاں جانا مشکل ہے.پچھلے دنوں اخباروں میں چھپا تھا کہ فالج کا علاج نکل آیا ہے.مگر میں نے کراچی میں جا کر پوچھا تو مجھے بتایا گیا کہ ابھی وہ علاج پانچ چھ سال میں مکمل ہوگا.تو اگر یہ پتہ لگ جائے کہ وہاں علاج ہے جس سے مجھے فائدہ ہو سکتا ہے تو میں تو وہاں سے امریکہ بھی جانے کو تیار ہو گیا تھا مگر پھر وہاں سے پتہ لگا کہ امریکہ میں جو علاج ہے وہ وہی ہے جو یورپ میں ہے اور اس سے کوئی فائدہ آپ کو نہیں ہوسکتا اس لئے میں سوئٹزر لینڈ چلا گیا اور وہاں دوبارہ ڈاکٹروں سے اپنا معائنہ کرایا تو اُنہوں نے بھی بتایا آپ کو امریکہ میں علاج سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا ہے.امریکہ میں بوسٹن بڑی بھاری یو نیورسٹی ہے.وہی ڈاکٹر جس سے میں علاج کرا رہا تھا اُس نے مجھے بتایا کہ میں وہیں سے آ رہا ہوں اور میں آپ کو بتاتا ہوں کہ آپ کو وہاں کوئی فائدہ نہیں ہو گا.آپ کو خود زور لگانا چاہئے کہ آپ اچھے ہو جائیں.آپ جب تک یہ خیال نہ کریں کہ میں اچھا ہوں اُس وقت تک آپ کو کوئی دوائی فائدہ نہیں دے سکتی.میں نے کہا جب مجھے نظر آتا ہے کہ میں بیمار ہوں تو میں اپنے آپ کو تندرست کیسے خیال کرلوں؟ وہ کہنے لگا چاہے آپ کو یہی نظر آتا ہے کہ آپ بیمار ہیں لیکن جب تک آپ یہ خیال نہیں کریں گے کہ آپ تندرست ہیں، اُس وقت تک آپ تندرست نہیں ہو سکتے.میں نے کہا اچھا پھر آپ مجھے ایسی دوائی دیں جس کے استعمال سے میں بُھول جاؤں کہ میں بیمار ہوں تو وہ کہنے لگا یہی بات تو میں کہہ رہا ہوں کہ اس کا ہمیں پتہ نہیں.اصل بات یہ ہے کہ اگر تو کوئی فائدہ نظر آتا ہو تو پھر تو میں وہاں جانے کی کوشش بھی کروں ورنہ خواہ مخواہ اپنے دوستوں اور عزیزوں سے جُدا بھی ہوں اور کوئی فائدہ بھی نہ ہو تو وہاں جانے کا فائدہ کیا ہے.میں اس ٹوہ میں لگا رہتا ہوں کہ اس بیماری کا کوئی علاج نکل آئے تو میں اُس سے فائدہ اُٹھاؤں.رسالوں اور اخباروں میں اس بیماری کے متعلق جو مضامین چھپتے ہیں میں اُن کا خیال رکھتا ہوں.پچھلے دنوں امریکہ سے ایسی خبریں آئی تھیں کہ فالج کا بڑا یقینی علاج نکل آیا ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ ابھی زیر تجربہ ہے ابھی اس پر مزید

Page 725

خطابات شوری جلد سو 2.9 مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء چار پانچ سال لگ جائیں گے لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس کے جتنے تجربے ہوئے ہیں اس سے یقینی اور سو فیصدی فائدہ ہوا ہے.ڈاکٹر حیران تھے اور کہتے تھے کہ آپ کا فالج عجیب ہے.فالج والوں کے ہاتھ ٹیڑھے ہو جاتے ہیں.میرے ہاتھ کی صرف جس میں فرق ہے.ذراسی گرم چیز بھی ہاتھ میں پکڑ وں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا میں نے آگ کا انگار ہاتھ میں پکڑ لیا ہے.بہر حال اگر حقیقی طور پر یورپ جانے سے فائدہ ہو تو مجھے اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے.اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ بیماری کا علاج کراؤ لیکن پہلے مجھے بھی تو نظر آنا چاہئے کہ کوئی فائدہ ہوسکتا ہے.وہاں میں نے جتنے ڈاکٹروں سے پوچھا ہے اُن کا یہی جواب آیا ہے کہ آپ کو انہی دواؤں سے فائدہ ہو گا جو آپ اس وقت استعمال کر رہے ہیں.پس اگر بیماری کا کچھ حصہ باقی ہے تو وہ دعاؤں کے ساتھ دور ہو گا اور اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا اور سلسلہ کی خدمت کی توفیق دینا اُس کے مدنظر ہوگا تو وہ تو فیق دے دے گا.میں تو ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات پڑھ کر حیران ہوا کرتا تھا کہ آپ کے اس الہام کا کیا مطلب ہے کہ إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا " اے اہل بیت ! اللہ تعالیٰ کا اس کے سوا اور کوئی ارادہ نہیں کہ وہ رجس کو تم سے اچھی طرح دُور کر دے.جب مجھ پر فالج کا حملہ ہوا تو میں نے سمجھا کہ یہ بیماری آئی ہی کئی قسم کے رجس دور کرنے کے لئے ہے.مثلاً ایک رجس تو یہ دور ہوا کہ پہلے احمدی سمجھتے تھے کہ میں نے پانچ چھ سو سال زندہ رہنا ہے.بیماری آئی تو انہیں ہوش آ گیا کہ ہم بھی اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کریں.تو ایک رجس تو یہ دُور ہوگا کہ جماعت میں یہ غلط خیال پیدا ہو گیا تھا کہ خلیفتہ اسی قیامت تک زندہ رہیں گے ہمیں کوئی فکر نہیں، یہ ہمارا کام کرتے رہیں گے.دوسرا ر جس یہ تھا کہ خلیفہ اسیح الاوّل کی اولاد کو یہ خیال تھا کہ ہم خلیفہ بنیں گے.اگر میں بیمار نہ ہوتا اور اُن کو پتہ نہ لگتا کہ میں پاکستان سے باہر گیا ہوں تو وہ اس طرح دلیری سے آگے نہ آتے.پس اس واقعہ نے إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرّجُسَ أَهْلَ الْبَيْتِ والی بات کو پورا کر دیا.خدا تعالیٰ کا منشا یہی ہے کہ وہ ان باتوں سے جماعت کو ہوشیار کرتا رہے.تھوڑے تھوڑے دنوں کے بعد جب اخبار میں

Page 726

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء چھپتا ہے کہ طبیعت اچھی نہیں تو جماعت میں بیداری پیدا ہوتی ہے اور انہیں میری بیماری کا احساس ہوتا ہے.ادھر کچھ دعائیں ہوتی ہیں اور کچھ منافقوں کی منافقت ظاہر ہوتی ہے.اب مثلاً ہماری جماعت کو اس قسم کے اخلاص دکھانے کا جو موقع ملا ہے اور کل جو خلافت کے استحکام کے لئے ریزولیوشن پیش کئے گئے دراصل یہ وہی بات تھی کہ خدا تعالیٰ نے جماعت سے رجس کو دُور کیا اور جماعت کے اندر یہ احساس پیدا کیا کہ ہم نے خلافت کا جھنڈا ہمیشہ کھڑا رکھنا ہے.اگر یہ بیماری نہ ہوتی تو یہ باتیں بھی پیدا نہ ہوتیں.پس میں تو سمجھتا ہوں کہ یہ بیماری محض تطہیر کے لئے ہے.یہ بیماری اس لئے ہے کہ جماعت کی اصلاح ہو اور ہم سلسلہ کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں.اس کے لئے ہمیں خدا تعالیٰ سے بھی دُعا ئیں کرنی چاہئیں کوئی تعجب نہیں کہ خدا تعالیٰ موجودہ عارضوں کو بھی دور کر دے.پرسوں میں نے رویا میں دیکھا کہ کوئی شخص بیٹھا ہے جس کو میں پہنچانتا نہیں.ایک رؤیا میں اُسے ایک نسخہ دے رہا ہوں اور کہہ رہا ہوں کہ ڈاکٹر فضل نے یہ لکھ کر دیا ہے.اس کے اوپر پیڈ پر اُس کا مونو گراف بھی چھپا ہوا ہے جو نہایت اعلیٰ اور خوبصورت ہے.یہ بھی عجیب بات ہے کہ ایک ڈاکٹر فضل کو میں جانتا ہوں.میں کوئٹہ گیا تو وہاں مجھے گاؤٹ کا دورہ ہوا.ڈاکٹروں نے کہا دانت دکھائیں.جب ایک ڈاکٹر کو میں دانت دکھانے گیا تو اُس کے مکان پر بورڈ لگا ہوا تھا کہ ڈاکٹر فضل“ جب ہم فیس دینے لگے تو اُنہوں نے کہا میں تو سید محمود اللہ شاہ صاحب کا شاگرد ہوں.اُنہوں نے مجھے بچوں کی طرح پالا ہے اس لئے میں آپ سے فیس نہیں لے سکتا.تو میں ایک ڈاکٹر فضل کو جانتا ہوں جو ڈینٹسٹ تھا لیکن خواب میں جو میں نے دیکھا کہ ڈاکٹر فضل نسخہ دیتا ہے درحقیقت اس کے معنے صحت کے آثار کے تھے.چنانچہ میں نے یہ خواب پرسوں دیکھی تھی اس کے بعد کل بھی میں نے سارا دن کام کیا اور آج بھی کام کیا.یہ وہ فضل ہے جو چل رہا ہے اور یہی خدا تعالیٰ نے میری پیدائش کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کہا تھا کہ اُس کے ساتھ فضل ہے جو اُس کے آنے کے ساتھ آئے گا.تو ہمارے کام تو خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہوتے ہیں.اگر ولایت جانا مفید ہوگا تو خدا تعالیٰ وہاں جانے کے سامان کر دے گا اور اگر ولایت جانا مفید نہیں تو اللہ تعالیٰ میرے دل میں بھی انقباض رکھے گا اور ڈاکٹروں کو

Page 727

خطابات شوری جلد سوم بھی اس طرف متوجہ نہیں کرے گا.مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء اختتامی تقریر چونکہ ایجنڈا ختم ہو گیا ہے اس لئے اب دُعا کے ساتھ میں دوستوں کو رخصت کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو دُعائیں کرنے اور قرآن کریم اور اسلام پر عمل کرنے کی توفیق بخشے اور خلافت احمد یہ کے قائم رکھنے کا جو عہد آپ نے کیا ہے اُس کے پورا کرنے کی آپ کو اور آپ کی اولاد کو ہمیشہ تو فیق ملتی رہے اور قیامت تک اس کے ذریعہ اسلام دُنیا کے کناروں تک پھیلتا رہے.حقیقت یہ ہے کہ ہمیں جو کچھ ملتا ہے ظلمی طور پر ملتا ہے اصل میں یہ سب کچھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مال ہے.اُنہی کے مال کی حفاظت کے لئے ہم لڑ رہے ہیں ورنہ ہمیں اپنی کسی عزت کی ضرورت نہیں.اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح ہو جائے تو ہمیں دُنیا کے تمام دُکھ اُٹھانے منظور ہیں.خواہش ہے تو صرف اتنی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت دُنیا میں قائم ہو.پس یہ دُعائیں کرتے جائیں اور واپس جا کر کوشش کریں کہ جو بجٹ آپ نے منظور کئے ہیں وہ پورے بھی ہوں.ہم بھی کوشش کریں گے کہ جس طرح ہو سکے بجٹ کے اندر کام کریں لیکن آپ بھی کوشش کریں کہ آمد اتنی زیادہ ہو کہ آئندہ فراغت کے ساتھ ہم لوکل جماعت کی ضرورتوں کو بھی پورا کر سکیں ، مرکز کی ضرورتوں کو بھی پورا کرسکیں اور دُنیا کو جو اسلام کی پیاس ہے اُس کی پیاس کو بھی بجھا سکیں.“ است ناجا: نیاز کا کھانا ( رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء ) ترمذی کتاب البر والصلة باب ما جاء في النفقة على البنات (الخ) زرقانی جلد ۲ صفحه ۳۲۴.مطبوعہ بیروت ۱۹۹۶ء مسلم کتاب الایمان باب تحريم قتل الكافر (الخ) الوصیت صفحہ ۲۱.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۱۹ يُخْدِعُونَ الله (البقرة: ١٠) ک تاریخ احمدیت جلد ۱۸ مصنفہ مولانا دوست محمد شاہد صاحب مرحوم صفحہ ۲۸۳ تا ۷ ۲۸ میں

Page 728

خطابات شوری جلد سوم ۶۰ ہزار کا ذکر ہے.تذکرہ صفحه ۶۹۲ ایڈیشن چهارم ۷۱۲ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء

Page 729

خطابات شوری جلد سو ۷۱۳ مجلس مشاورت ۱۹۵۸ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ مجلس مشاورت ۱۹۵۸ء منعقده ۲۶،۲۵ را پریل ۱۹۵۸ء) پہلا دن ماعت احمدیہ کی انتالیسویں مجلس مشاورت ۶،۲۵ ۲ اپریل ۱۹۵۸ء کو تعلیم الاسلام کالج کے ہال میں منعقد ہوئی.اس کا پہلا اجلاس ۲۵.اپریل کو عصر کے بعد پانچ بج کر پچاس منٹ پر شروع ہوا.تلاوت قرآن مجید کے بعد دُعا سے متعلق حضور نے فرمایا : - ” دوست میرے ساتھ مل کر دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اس اجتماع کو بابرکت فرمائے اور ہم سے ایسی سکیمیں منظور کروائے جو دُنیا بھر میں اسلام کو غلبہ اور عظمت دینے والی ہوں اور پھر وہ ہم سے ایسے وعدے کروائے جنہیں ہم پورا بھی کریں تا کہ اسلام کا خزانہ ہمیشہ بھر پور رہے اور وہ کفر کے آگے کبھی سرنگوں نہ ہو.“ تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل تقریر 66 افتتاحی تقریر فرمائی:- ”سب سے پہلے تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص ساری چیزوں کو اپنے قبضہ و تصرف میں سمجھتا ہے وہ کبھی سچا مومن نہیں کہلا سکتا.خدا تعالیٰ کا خانہ خالی رکھنا بہر حال ضروری ہوتا ہے مگر ہمارے کارکنان نے اس اصول کو قطعی طور پر نظر انداز کرتے ہوئے اس دفعہ مجلس شوری شدید گرمی کے موسم میں رکھ لی ہے.شاید صدر انجمن احمدیہ کے ناظروں نے یہ خیال کر لیا کہ گرمی بھی ان کے قبضہ میں ہے اور وہ اس کے اثر سے محفوظ رہیں گے حالانکہ اس سال اتنی شدید گرمی پڑ رہی ہے کہ

Page 730

خطابات شوری جلد سوم ۷۱۴ مجلس مشاورت ۱۹۵۸ء میرے جیسے کمزور انسان کے لئے نا قابل برداشت ہے اور مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی نے مجھے تنور میں دھکا دے دیا ہے.صدر انجمن احمد یہ والوں نے سمجھ لیا کہ وہ موسم ہی کیا ہے جو ان کے قبضہ میں نہ ہو.آخر وجہ کیا تھی کہ مجلس شوریٰ کو کچھ عرصہ پہلے نہ رکھ لیا گیا.اگر یہ اجلاس مہینہ بھر پہلے رکھ لیا جاتا تو لوگ گرمی کی شدت سے بچ جاتے اور نقصان بھی کوئی نہ ہوتا.پاکستان کے قیام سے پہلے یہ اجلاس اِن دنوں میں اس لئے رکھا جاتا تھا کہ اِن دنوں ایسٹر کی تعطیلات ہوتی تھیں اور ان کی وجہ سے یہاں آنے والے نمائندگان کو علیحدہ چھٹیاں نہیں لینی پڑتی تھیں لیکن اب تو یہ تعطیلات نہیں ہوتیں اور نمائندگان کو اس موقع پر بہرحال چھٹی لینی پڑتی ہے اس لئے اب یہ ضروری نہیں کہ مجلس مشاورت کا اجلاس ان دنوں کیا جائے اب ہم چاہیں تو اسے مارچ کے مہینہ میں بھی کر سکتے ہیں.بہر حال آئندہ مجلس شوریٰ کا اجلاس مارچ کے اوائل میں منعقد کرنا چاہئے تا کہ گرمی کی شدت سے بچا جا سکے.اگلے سال مارچ کے پہلے عشرہ میں رمضان شروع ہو رہا ہے.اگر ہم رمضان سے پہلے مجلس شوریٰ کا اجلاس منعقد کر لیں تو میرے نزدیک زیادہ بہتر ہوگا ورنہ اس قسم کی گرمی میں بیمار آدمی تو بالکل بیکار ہو جاتا ہے.اس مجلس شوریٰ میں کشمیر کی جماعتوں کے نمائندے بھی آتے ہیں اور ان کے علاوہ بعض ایسی جماعتوں کے نمائندے بھی آتے ہیں جن کے علاقہ کی آب و ہوا ہمارے علاقہ کی آب و ہوا سے نسبتاً ٹھنڈی ہوتی ہے مثلاً سمندر کے کنارے کے لوگ ہیں اسی طرح ملتان وغیرہ کے علاقوں میں بھی رات کو ٹھنڈ ہو جاتی ہے لیکن ربوہ میں شدید گرمی پڑتی ہے.نواب محمد دین صاحب مرحوم نے یہ زمین خریدی تھی جب وہ اس زمین کے حصول میں کامیاب ہو گئے تو وہ ہنستے ہوئے میرے پاس آئے اور کہنے لگے میں نے سلسلہ کا پندرہ بیس ہزار روپیہ بچا لیا ہے.گورنمنٹ نے ہمیں پہاڑیاں دینے کی کوشش کی تھی لیکن میں نے وہ حصہ خریدنے سے انکار کر دیا میں نے کہا آپ نے سلسلہ کا پندرہ ہیں ہزار روپیہ بچایا نہیں بلکہ آئندہ جو لوگ یہاں آ کر بسیں گے اُنہیں آپ نے ان پہاڑوں میں قید کر دیا ہے.ان پہاڑوں پر جب دھوپ پڑے گی تو اس کی تپش کا اثر شہر والوں پر بھی پڑے گا اور وہ گرمی کی وجہ سے تکلیف اُٹھائیں گے.نواب صاحب نے کہا میں ابھی انتظام کر لیتا ہوں اور پہاڑیاں بھی خرید لیتا ہوں.میں نے کہا اب آپ ساری عمر بھی ان پہاڑیوں کو خریدنے کی

Page 731

خطابات شوری جلد سوم ۷۱۵ مجلس مشاورت ۱۹۵۸ء کوشش کریں گے تو کامیاب نہیں ہوں گے.چنانچہ وہ کئی بار افسران کے پاس گئے لیکن وہ نہ مانے اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ جب گرمی کا دباؤ ان پہاڑیوں پر پڑتا ہے تو وہ تپنے لگ جاتی ہیں اور پھر اس کا اثر سارے شہر پر پڑتا ہے.بہر حال یہ ایک غلطی تھی جو نواب صاحب مرحوم سے ہوئی اگر پہاڑیاں بھی لے لی جاتیں اور وہاں درخت لگا دیئے جاتے تو یہ ایک اعلیٰ سیر گاہ بن جاتی جسے دیکھنے کے لئے لوگ دُور دُور سے یہاں آتے.بہر حال ہمیں شوریٰ کا اجلاس ایسے وقت میں رکھنا چاہئے جب خدائی قانون کے ماتحت گرمی کا امکان نہ ہو.ہم قانونِ قدرت کے تابع اور ماتحت ہیں ، اس پر حاکم نہیں.تو کل کے ثمرات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے سلطان عبدالحمید آف ٹرکی کی ایک بات بہت پسند ہے.جب یونان نے حملہ کیا تو سلطان عبد الحمید نے اپنے وزیروں کو بلا کر مشورہ کیا وہ لوگ لڑنا نہیں چاہتے تھے اس لئے اُنہوں نے کہہ دیا کہ ہم نے یہ انتظام بھی کر لیا ہے اور وہ انتظام بھی کر لیا ہے لیکن فلاں بات نہیں ہو سکی.وہ بادشاہ کو یہ تو نہیں کہہ سکتے تھے کہ ہم لڑنا نہیں چاہتے انہوں نے کوئی بہانہ ہی بنانا تھا سو اُنہوں نے اس طرح سلطان عبدالحمید کے دل کو جنگ سے پھیرانے کی کوشش کی.سلطان عبدالحمید نے کہا اگر ایک بات نہیں ہوئی تو اُسے خدا پر چھوڑ دو، آخر ہمیں خدا کے لئے بھی تو کوئی خانہ خالی رکھنا چاہئے سارے خانے ہم نے ہی تو پر نہیں کرنے.چنانچہ اس کے ایمان کا یہ نتیجہ ہوا کہ گجا تو یہ حالت تھی کہ یورپ سمجھتا تھا ٹر کی فوجیں ایک قلعہ بھی فتح نہیں کر سکتیں اور کجا یہ کہ اُنہوں نے چھ ماہ میں ہی وہ جنگ جیت لی اور یورپ کی فوجیں جن کا اُنہوں نے یونان سے وعدہ کیا تھا اُس کی مدد کو بھی نہ پہنچ سکیں.اسی جنگ میں ایک جرنیل کو کمانڈرانچیف نے حکم دیا کہ تم فلاں قلعہ فتح کرو اور اس مہم کے لئے اُس نے تین دن کا عرصہ مقرر کیا.دو دن تک اُس جرنیل نے پوری کوشش کی لیکن وہ قلعہ فتح کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا.تیسرے دن اُس نے اپنے سپاہیوں کو بلایا اور کہا کہ ہم نے اس قلعہ کو آج شام تک فتح کرنا ہے.میں اس قلعہ پر چڑھتا ہوں تم سب میرے پیچھے پیچھے آؤ.چنانچہ وہ قلعہ کی دیوار پر چڑھا، سپاہی بھی بہادری کے ساتھ اس کے پیچھے پیچھے

Page 732

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۵۸ء چڑھنے لگے.نصف فاصلہ پر پہنچے تو جرنیل نے کہا ہمیں دشمن تک اس کی بے خبری کے عالم میں پہنچنا ہے اس لئے تم اپنے ٹوٹ اُتار لو رستہ میں پتھروں کی وجہ سے پاؤں زخمی ہو گئے تو سپاہیوں نے بُوٹ پہننے کی اجازت چاہی مگر اُس نے اجازت نہ دی.نصف فاصلہ سے کچھ آگے گئے تو اچانک دشمن کی ایک گولی جرنیل کے سینہ میں آ لگی.سپاہیوں نے اُسے اُٹھا کر کسی امن کی جگہ میں لے جانا چاہا تو اُس نے کہا میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کہ تم مجھے یہیں پڑا رہنے دو اور اگر میں مرجاؤں تو شام کو مجھے اس قلعہ کی چوٹی پر دفن کرنا ورنہ میری لاش کو کتوں کے آگے پھینک دینا.سپاہی اپنے محبوب جرنیل کے اس فقرہ کی وجہ سے مجنون ہو گئے اور اس کے ماتحت افسروں نے پاگلوں کی طرح آگے بڑھنا شروع کیا اور شام کو قلعہ کی چوٹی پر جھنڈا لہرا دیا.حالانکہ دشمن کا خیال تھا کہ ٹرکی اس قلعہ کی ابتدائی کڑیاں بھی چھ ماہ میں فتح نہیں کر سکتا.مگر اللہ تعالیٰ نے لڑکی کی مدد کی اور اُس نے نہ صرف ابتدائی کڑیاں ہی فتح کیں بلکہ تین دن میں قلعہ کو اپنے قبضہ میں لے لیا.اسی طرح مسلمانوں میں اور بھی کئی غیور بادشاہ پیدا ہوئے ہیں مثلاً ہندوستان میں احمد شاہ ابدالی اور سلطان ٹیپو جیسے غیور مسلمان پیدا ہوئے مگر ان غیور بادشاہوں کے ساتھ غدار بھی ہمیشہ پیدا ہوتے رہے.چنانچہ پہلی جنگ عظیم میں جب سمرنا میں دشمن نے فوجیں اُتاریں اور ایک اسلامی جرنیل کو اُن کا مقابلہ کرنے کیلئے کہا گیا اُن دنوں میں ”ڈیلی نیوز“ منگوایا کرتا تھا.اس کے نامہ نگار نے لکھا کہ میں نے میدان جنگ میں ایک ایسا درد ناک نظارہ دیکھا ہے جسے میں کبھی بھول نہیں سکتا.میں نے دیکھا کہ ترک جرنیل جو دشمن کی فوجوں سے لڑ رہا تھا میدان سے ہٹ کر ایک پتھر پر بیٹھا ہے اور رو رہا ہے.میں نے اس کے رونے کا سبب دریافت کیا تو اُس نے کہا ان کارتوسوں کو دیکھو، ان میں بارود کی بجائے بورا بھرا پڑا ہے میں دشمن کو مار نہیں سکتا.اگر ان کارتوسوں میں بارود ہوتا تو میں آج دشمن کو شکست دے دیتا لیکن اب میں کچھ نہیں کر سکتا.غرض جہاں اسلام میں دلیر اور غیور افراد گزرے ہیں وہاں اس میں غدار بھی پیدا ہوتے رہے ہیں.چنانچہ ان کارتوسوں میں بارود کی بجائے بُو را بھرنے والا کوئی غدار ہی تھا جس نے ایسے لوگوں کو ٹھیکہ دے دیا جنہوں نے کارتوسوں میں بارود کی بجائے بُورا بھر دیا.

Page 733

خطابات شوری جلد سوم 212 مجلس مشاورت ۱۹۵۸ء اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں اس قسم کے غداروں سے محفوظ رکھے اور ایسے وفا دار لوگ عطا کرے جو اسلام کی خاطر ہمیشہ سینہ سپر رہنے والے ہوں اور جن کو اپنی اور اپنے بچوں کی جانوں کی پرواہ نہ ہو.وہ میدان میں جائیں اور اسلام کی خاطر اپنی جانیں لڑا دیں.جنگِ اُحد میں جب یہ بات مشہور ہوئی کہ رسول کریم صلی اللہ صحابہ کا اخلاص و فدائیت علیہ وآلہ وسلم شہید ہو گئے ہیں تو مسلمانوں کے دل ٹوٹ گئے اور شہادت کی خبر سُن کر مسلمان سپاہیوں کے قدم اُکھڑ گئے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گڑھے میں سے نکالا گیا اور مسلمان پھر آپ کے ارد گرد پروانہ وار جمع ہو گئے تو آپ نے ایک انصاری صحابی کو تلاش کرنے کا حکم دیا.صحابہ ان کی تلاش میں نکل گئے.اُنہوں نے دیکھا کہ وہ ایک جگہ سر سے پیر تک زخمی پڑے ہیں اور نزع کی حالت میں ہیں.وہ ان کے پاس گئے اور اُنہوں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں آپ کے پاس بھیجا ہے اگر آپ نے اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کے نام کوئی پیغام دینا ہو تو دے دیں ہم پہنچا دیں گے.اُس صحابی میں قربانی کی ایسی عظیم الشان رُوح پائی جاتی تھی کہ اُنہوں نے کہا اپنا ہاتھ بڑھاؤ اور اقرار کرو کہ تم میرا یہ پیغام میرے عزیزوں تک ضرور پہنچا دو گے.اُنہوں نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور پیغام پہنچانے کا اقرار کیا.اس کے بعد اُس صحابی نے جبکہ وہ دم توڑ رہے تھے کہا میرے بیٹوں ، بھائیوں ، بھتیجوں اور دامادوں کو کہہ دینا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ قیمتی چیز دُنیا میں اور کوئی نہیں جب تک ہم زندہ رہے ہم نے اپنی جانیں خطرہ میں ڈال کر بھی آپ کی حفاظت کی کوشش کی اور اب جبکہ میں مر رہا ہوں میری آخری نصیحت یہی ہے کہ تم اپنی زندگیوں کو قربان کر دو مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک کسی دشمن کو نہ پہنچنے دولے اس طرح غزوہ بدر کے موقع پر انصار نے جس فدائیت کا نمونہ دکھایا ہے وہ بھی ان کے عشق کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے.مدینہ کی طرف ہجرت کرنے سے قبل رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور انصار کے درمیان یہ معاہدہ ہوا تھا کہ اگر مدینہ پر کسی نے حملہ کیا تو انصار آپ کی حفاظت کریں گے لیکن اگر مدینہ سے باہر حملہ کیا گیا تو وہ لڑائی میں شامل ہونے کے پابند نہیں ہوں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب جنگ بدر کے لئے تشریف لے گئے

Page 734

خطابات شوری جلد سوم ZIA مجلس مشاورت ۱۹۵۸ء تو چونکہ یہ مقام مدینہ سے فاصلہ پر تھا.آپ نے خیال فرمایا کہ اگر میں نے مدینہ والوں کو دشمن سے جنگ کرنے کا حکم دیا تو یہ ان سے بد عہدی ہو گی اس لئے آپ نے تمام صحابہ کو جمع کیا اور فرمایا آپ لوگ مشورہ دیں کہ اب کیا کیا جائے؟ اب قافلہ کا سوال نہیں کفار کی مسلح فوج سے مقابلہ ہے.اس پر ایک ایک کر کے مہاجرین اُٹھے اور اُنہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! ہم دشمن سے ڈرتے نہیں ہم اس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں مگر جب کوئی مہاجر اپنے خیالات کا اظہار کر کے بیٹھ جاتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر فرماتے کہ اے لوگو! مجھے مشورہ دو.جب بار بار آپ نے یہ فقرہ دُہرایا تو ایک انصاری سردار کھڑے ہوئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ ! مشورہ تو آپ کو مل رہا ہے مگر پھر جو آپ بار بار مشورہ طلب فرما رہے ہیں تو شاید آپ کی مراد ہم انصار سے ہے آپ نے فرمایا.ہاں.اس سردار نے کہا یا رسول اللہ ! شاید آپ اس لئے ہمارا مشورہ طلب فرما رہے ہیں کہ آپ کے مدینہ آنے سے قبل ہمارے اور آپ کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا اور وہ معاہدہ یہ تھا کہ اگر کسی نے مدینہ پر حملہ کیا تو ہم اس کا مقابلہ کریں گے لیکن مدینہ سے باہر نکل کر اگر لڑائی کرنی پڑی تو ہم اس میں شامل ہونے کے پابند نہیں ہوں گے.آپ نے فرمایا ہاں.اسی انصاری سردار نے کہا یا رسول اللہ ! جب یہ معاہدہ ہوا تھا اُس وقت ہم پر آپ کی حقیقت پورے طور پر روشن نہیں ہوئی تھی لیکن اب آپ کی حقیقت ہم پر پورے طور پر واضح ہو چکی ہے اور آپ کی شان کا ہمیں پتہ لگ گیا ہے اس لئے اب اُس معاہدہ کا کوئی سوال نہیں.ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کی طرح آپ سے یہ نہیں کہیں گے کہ اِذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلاَ إِنَّا هَهُنَا قَاعِدُونَ کے کہ تو اور تیرا رب جاؤ اور دشمن سے لڑتے پھرو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں بلکہ یا رسول اللہ ! ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے سے یا رسول اللہ ! جنگ تو ایک معمولی بات ہے اگر آپ حکم دیں کہ ہم سمندر میں اپنے گھوڑے ڈال دیں تو خدا کی قسم ہم بغیر کہ ہچکچاہٹ کے اپنے گھوڑے بھی سمندر میں ڈال دیں گے ہے ایک اور انصاری کہتے ہیں کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ

Page 735

خطابات شوری جلد سوم وا مجلس مشاورت ۱۹۵۸ء کئی لڑائیوں میں شامل ہوا مگر میری ہمیشہ خواہش رہی کہ کاش ! میں ان لڑائیوں میں شامل نہ ہوتا اور یہ فقرات میری زبان سے نکلتے.یہ فدائیت اور قربانی کا وہ عظیم الشان نمونہ تھا جو صحابہ رضوان اللہ علیہم نے ہمارے سامنے پیش کیا اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اسی قسم کا نمونہ دکھانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں طاقت دے کہ ہم اسلام کے جھنڈے کے دائیں بھی لڑیں اور بائیں بھی لڑیں ، آگے بھی لڑیں اور پیچھے بھی لڑیں اور اُس وقت تک دم نہ لیں جب تک کہ کفر کی چوٹی پر اسلام کا جھنڈا نہ گاڑ دیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ کام بہت بڑا ہے اور خدا تعالیٰ کے ہاتھوں ہی انجام تک پہنچ سکتا ہے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ہمیں خدا تعالیٰ نے اس کام کا ایک ذریعہ بنایا ہے ورنہ اس کی تکمیل کے سامان وہ خود ہی کر سکتا ہے ہمارے بس کی یہ بات نہیں.یہ ایسا ہی ہے جیسے بعض صوفیاء نے کہا ہے کہ خود کوزه و خود کوزه گر و خود گل کوزه اللہ تعالیٰ آپ ہی کو زہ ہے، آپ ہی اس کوزہ کو بنانے والا ہے اور آپ ہی کوزہ کی مٹی ہے اور پھر وہ کوزہ بازار میں فروخت کے لئے رکھتا ہے تو آپ ہی اس کا خریدار بن کر آ جاتا ہے اور اسے خرید لیتا ہے.پس حقیقت یہی ہے کہ صداقت بھی خدا کی ہے اور ہم جو اس صداقت کے علم بردار ہیں، ہمیں بھی خدا تعالیٰ نے ہی بنایا ہے اور پھر جس مٹی سے ہم بنے ہیں وہ بھی خدا تعالیٰ ہی کی پیدا کردہ ہے.اگر بازار میں ہماری کوئی قیمت پڑے گی تو تبھی پڑے گی جب خدا تعالیٰ ہمارا خریدار ہو.پھر چاہے تو ہمیں تو ڑ دے اور چاہے تو ہمیں پیمانہ بنالے یہ اُس کے فضل وکرم پر منحصر ہے.حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بازار میں سے گزر رہے تھے کہ آپ نے دیکھا ایک صحابی کھڑے ہیں یہ صحابی سخت بدصورت تھے اور بازار میں مزدوری کا کام کرتے تھے.اُس وقت اُن کا جسم پسینہ سے شرابور تھا اور ان کے چہرہ پر حسرت برس رہی تھی.آپ نے اُنہیں دیکھا تو بچوں کی طرح پیچھے سے آ کر اُن کی آنکھوں ނ پر ہاتھ رکھ دیا.آپ کا جسم چونکہ نازک تھا اس صحابی نے انگلیوں کی نرمی اور ملائمت آپ کو پہچان لیا اور پیار سے اپنا میلا جسم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بدن کے ساتھ ملنا شروع کر دیا.پھر آپ نے اس کی آنکھوں پر سے اپنے دونوں ہاتھ ہٹا لئے اور

Page 736

خطابات شوری جلد سوم ۷۲۰ مجلس مشاورت ۱۹۵۸ء 66 فرمایا اے لوگو! میں ایک غلام بیچنا چاہتا ہوں کیا کوئی خریدار ہے؟ اس صحابی نے بڑی افسردگی سے کہا یا رسول اللہ ! کیا اس دُنیا میں میرا بھی کوئی خریدار ہوسکتا ہے؟ میں تو نہایت حقیر اور بدصورت ہوں، مجھے کون خریدے گا.آپ نے فرمایا ایسا مت کہو تم بے شک دُنیا کی نظر میں حقیر ہولیکن خدا تعالیٰ کی نگاہ میں تمہاری بڑی قیمت ہے.پس اگر اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی نظروں میں کوئی قیمت دیدے تو یہ کام جو ہمارے سپرد ہے ہوسکتا ہے ورنہ یہ کام نہایت بوجھل اور بھاری ہے اور اس کو سرانجام دینا ہماری اپنی طاقتوں کے لحاظ سے بڑا مشکل ہے.اس کے بعد حضور نے مجلس شوری کے ایجنڈے پر غور کرنے کے لئے ایک سب کمیٹی مقرر فرمائی.جس میں ۲۹ / افراد شریک کئے گئے.صرف نظارت تعلیم کی اُس تجویز کو حضور نے پیش کرنے کی اجازت نہ دی جس میں آئندہ سال کے لئے انسپکٹر کی آسامی جاری رکھنے کی استدعا کی گئی تھی.حضور نے فرمایا : - میں پہلے بھی کئی بار کہہ چکا ہوں کہ جو چیز ہے ہی مشروط بآمد ، اُس کو شوری کے اجلاس میں پیش کرنا شوری کا وقت ضائع کرنا ہے اگر کوئی اچھی چیز ہے اور جماعت کے دوست اس کے لئے چندہ دے رہے ہیں تو اس پر عمل کیا جائے اور اگر وہ چندہ نہیں دے رہے اور اس تجویز کو ناپسند کرتے ہیں تو جماعت اُس کی ذمہ داری کیوں لے.ایسی ہی ایک تجویز ناظر صاحب تعلیم نے یہ بھی پیش کی تھی جسے میں نے مستر دکر دیا کہ گھٹیالیاں کے ہائی سکول کو ہائر سیکنڈری سکول (Higher secondery School) بنایا جائے.جب شروع شروع میں یہ سکول جاری کیا گیا تو اس علاقہ کی جماعتوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ مدد دیں گی لیکن اُنہوں نے کوئی مدد نہ کی پھر وہ سکول مڈل ہوا پھر ہائی ہوا اور پھر بھی علاقہ کی جماعتوں نے کوئی مدد نہ کی لیکن ناظر صاحب نے تجویز پیش کر دی کہ اس سکول کو ہائر سیکنڈری سکول بنا دیا جائے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ربوہ میں بھی ایک ہائی سکول موجود ہے جس کا بوجھ جماعت اُٹھا رہی ہے لیکن یہ مرکز ہے اور مرکزی ادارہ کے لئے چندہ دینا ساری جماعت کا فرض ہوتا ہے لیکن جو سکول ضلع سیالکوٹ کے ایک گاؤں میں ہو اُس کے لئے چندہ دینا تمام جماعت کا فرض نہیں.ہاں اُس علاقہ کی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ اُس کے سارے بوجھ کو اُٹھا ئیں.بے شک اگر ہم میں طاقت ہو تو ہم باہر کے علاقوں میں بھی

Page 737

خطابات شوری جلد سوم ۷۲۱ مجلس مشاورت ۱۹۵۸ء.نئے سکول جاری کریں گے مگر یہ اُس وقت ہو سکتا ہے جب ہمارا بجٹ بڑھ جائے.جب ہمارا بجٹ لاکھوں سے نکل کر کروڑوں کا ہو جائے گا تو پھر ہم ڈھا کہ میں بھی ہائی سکول جاری کریں گے، کراچی میں بھی ہائی سکول جاری کریں گے، راولپنڈی، ملتان، ایبٹ آباد، لاہور، لائکپور اور سرگودھا میں بھی ہائی سکول جاری کریں گے لیکن بہر حال یہ بات مرکز کے اختیار میں ہوگی.ہم کسی ایک ضلع کی جماعت کو یہ اختیار نہیں دے سکتے کہ وہ اپنی مرضی سے ایک سکول کھولے اور مرکز پر اُس کے اخراجات کا بوجھ ڈال دے.آخر گھٹیالیاں، کراچی ، لاہور یا لائکپور کی طرح نہیں کہ جماعت اپنے بچے وہاں تعلیم کیلئے بھیجے.ربوہ میں وہ اپنے بچے اس لئے بھیجتی ہے کہ یہ مرکز ہے اور یہاں سلسلہ کے علماء رہتے ہیں.ان سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے جماعت کے لوگ یہاں آتے ہیں لیکن کون پاگل ہے جو کراچی ، ملتان یا کسی اور شہر سے اپنے بچے گھٹیالیاں بھیجے گا.پس ایسی تجاویز پر نظارت یا صدر انجمن احمد یہ خود غور کر لیا کرے، ہمیں ان پر وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں.یہ تجویز جو ایجنڈا میں تجویز نمبرا کے طور پر دکھائی گئی ہے اس کی ابتدائی منظوری بھی اس شرط پر دی گئی تھی کہ لوگ چندہ دیں گے تو بچوں کو وظیفہ دے دیا جائے گا.اب اس کے متعلق مزید منظوریاں لینا پائینچا پکڑنے والی بات ہے.پس میں اس کو پیش کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا.“ دوسرا دن احمدیت کی ترقی کے لئے دعاؤں کی ضرورت ۲۶.اپریل ۱۹۵۸ء کو جلس مشاورت کے دوسرے اجلاس میں حضور نے ابتدائی دعا سے قبل اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے دُعاؤں کی ضرورت واضح کرتے ہوئے فرمایا : - اب تمام دوست میرے ساتھ مل کر دُعا کر لیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری کمزوریوں کو دُور فرمائے اور اپنے فضل سے اسلام اور احمدیت کی ترقی کے سامان پیدا کرے.یہاں تک کہ

Page 738

خطابات شوری جلد سوم ۷۲۲ مجلس مشاورت ۱۹۵۸ء عیسائیت اور دہریت دُنیا سے مٹ جائیں اور اسلام اور توحید ساری دُنیا پر غالب آ جائے.یہ کام تو اس کا ہے اور اُسی نے اپنے فضل سے اسے سرانجام دینا ہے.ہم تو صرف لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں.ہماری مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے مائیں جب کوئی وزنی چیز اُٹھانے لگتی ہیں تو اپنے بچہ کی حوصلہ افزائی کے لئے اُسے کہتی ہیں کہ تم بھی اُنگلی لگا دو.بچہ اپنے خیال میں سمجھتا ہے کہ کام میں کر رہا ہوں حالانکہ ماں کر رہی ہوتی ہے.اسی طرح ہم سمجھ رہے ہیں کہ اسلام کی اشاعت کا کام ہم کر رہے ہیں حالانکہ اصل میں یہ کام خدا تعالیٰ کر رہا ہے لیکن پھر بھی اس ثواب میں شریک ہونے کے لئے ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو اور وہ اس کام کو جلدی پورا کرے.کام تو ہماری دعاؤں کے بغیر بھی ہو سکتا ہے مگر اس صورت میں یہ سمجھا جائے گا کہ ہم نے اس کام میں کوئی حصہ نہیں لیا لیکن اگر ہم دُعائیں کریں گے تو یہ سمجھا جائے گا کہ ہم نے بھی کام پورا کرنے میں حصہ لیا ہے.پس پہلے میں دعا کرتا ہوں پھر بقیہ کا رروائی شروع کی جائے گی.“ ضرورت کے مطابق مناسب اور سستا لٹریچر شائع کریں مجلس مشاورت میں اشاعت لٹریچر پر بحث کے دوران میں مکرم شیخ رحمت اللہ صاحب امیر جماعت کراچی نے شکایت کی کہ ضرورت کے وقت مرکز سے مناسب لٹریچر نہیں ملتا.شاہ افغانستان کی آمد کے اہم موقع پر ہمیں جو دعوۃ الا میر کا صرف ایک نسخہ بھجوایا گیا اس کے کئی صفحات دیمک خوردہ تھے.اس پر حضور نے فرمایا :- ”ہماری فارسی کتابیں ختم ہو چکی ہیں.دعوۃ الامیر کا فارسی ترجمہ مولوی عبیداللہ صاحب بسمل مرحوم نے کیا تھا مگر اب وہ نہیں ملتا اور نہ اس کو دوبارہ چھپوانے کی کوئی کوشش کی گئی ہے.میرے نزدیک ضروری ہے کہ ایک لسٹ بنائی جائے اور دیکھا جائے کہ ہمارے پاس عربی زبان میں کون کون سی کتابیں ہیں اور کس کس مضمون پر مزید کتابیں شائع ہونی چاہئیں، اسی طرح بنگالی میں کون کون سی کتابیں ہیں اور کون کون سی کتابیں شائع ہونی ضروری ہیں، انگریزی میں کون کون سی کتابیں ہیں اور کون کون سی شائع کرنی ضروری ہیں،

Page 739

خطابات شوری جلد سوم ۷۲۳ مجلس مشاورت ۱۹۵۸ء فارسی زبان میں کون کون سی کتابیں ہیں اور کون کون سی شائع ہونی ضروری ہیں تا کہ تبلیغ کو وسیع کیا جا سکے.پاکستان میں اُردو اور بنگالی دو اہم زبانیں ہیں اور پاکستان سے باہر عربی، فارسی اور انگریزی اہم زبانیں ہیں.اسی طرح نظارت علیا ہر تین ماہ کے بعد نظارت اصلاح وارشاد کے شائع کردہ لٹریچر کی پڑتال کیا کرے اور دیکھا کرے کہ وہ مناسب طور پر تقسیم ہوا ہے یا نہیں.“ چند ممبران کے اظہارِ خیال کے بعد حضور نے مزید فرمایا : - لٹریچر کی وقت رفع کرنے کیلئے میرے نزدیک نظارت اصلاح وارشاد میں ایک مصنف ہونا چاہئے جو سارا مہینہ کتابیں اور اخبارات پڑھتا رہے اور ضروری اشتہارات اور پمفلٹ وغیرہ لکھتا رہے مگر لٹریچر ہمیشہ ستا دینا چاہئے.ٹمس صاحب یہ بات نوٹ کر لیں کہ آئندہ کوئی کتاب آٹھ آنہ فی سو صفحہ سے زیادہ قیمت پر نہ بیچی جائے.اگر آٹھ آنے فی سوصفحہ کے لحاظ سے کتابیں فروخت کی جائیں تو ساری جماعتیں کتابیں خرید سکتی ہیں.“ اس موقع پر حضور نے اعلان فرمایا کہ اصلاح وارشاد والے کہتے ہیں کہ کفارہ کی حقیقت“ اور ”احمدیت کا مستقبل جن کے ۷۲،۷۲ صفحات ہیں ہم ایک ایک آنہ میں فروخت کرتے ہیں.اسی طرح ” ہماری تعلیم اور جماعت اسلامی پر تبصرہ بھی ایک ایک آنہ کو ملتے ہیں.احمدیت کا پیغام ۵۰ صفحات کا ہے وہ بھی ایک آنہ کو ملتا ہے.یہ ایسی کتابیں ہیں جو مفید ہیں اور اس قیمت پر سارے پاکستان بلکہ ہندوستان میں بھی نہیں مل سکتیں.میں سمجھتا ہوں کہ جماعتیں مبلغ تو مانگ لیتی ہیں جن پر ہزاروں روپیہ سالانہ خرچ ہوتا ہے لیکن لٹریچر نہیں منگواتیں.حالانکہ اگر وہ تھوڑی رقم سے بھی لٹریچر شائع کریں تو بہت فائدہ ہو سکتا ہے." ۲۶.اپریل ۱۹۵۸ء ہم اپنے غیر ملکی بھائیوں کے حقوق ادا کرتے ہیں سو ہی جلس مشاورت میں تحریک جدید کا بجٹ پیش ہوا اور بحث کے بعد کثرتِ رائے سے پاس ہوا.اس کی منظوری عطا کرتے ہوئے حضور نے فرمایا: -

Page 740

خطابات شوری جلد سوم " ۷۲۴ مجلس مشاورت ۱۹۵۸ء چونکہ ۴۱۵ دوست اس تجویز کے حق میں ہیں اور باقی صرف ۱۶ نمائندگان ایسے رہ جاتے ہیں جنہوں نے اپنی رائے کا اظہار نہیں کیا اس لئے میں کثرتِ رائے کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے بجٹ آمد تحریک جدید کو منظور کرتا ہوں.یہ غیر ملکوں کا بجٹ ہے اور ان کے نمائندے اس وقت یہاں موجود نہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے.إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں اس لئے بھائی کو بھائی کے حقوق کی نگرانی کرنی چاہئے.نمائندگان یہ خیال نہ کریں کہ یہ بجٹ پاکستان کا نہیں اس لئے ہمیں اس کے متعلق غور کرنے کی کیا ضرورت ہے.ہمیں نائیجیریا اور گولڈ کوسٹ ایسا ہی پیارا ہے جیسے پاکستان.امریکہ کے نو مسلم بھی ہمیں ویسے ہی پیارے ہیں جیسے پاکستان کے احمدی.لیبیا کے نو مسلم بھائی بھی ہمیں ویسے ہی پیارے ہیں جیسے پاکستان کے احمدی.اسی طرح سیرالیون میں جو احمدی ہیں وہ بھی ہمیں ویسے ہی پیارے ہیں جیسے پاکستان کے احمدی.ہمارے نزدیک ان میں اور پاکستان کے احمدیوں میں کوئی فرق نہیں اس لئے انہیں اس بات کی تسلی رکھنی چاہئے کہ اُن کے پاکستانی بھائی ان کے حقوق کی حفاظت کر رہے ہیں.جب پاکستان قائم نہیں ہوا تھا اُس وقت بھی ساری دُنیا تسلیم کرتی تھی کہ ہندوستان کے احمدی غیر ملکی بھائیوں کے حقوق کو ادا کر رہے ہیں اور خود بُھو کے رہ کر ان کے لئے چندہ دیتے ہیں اور ان کے ملکوں میں مبلغ بھیج رہے ہیں.اختتامی تقریر مشاورت کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد ۲۶.اپریل ۱۹۵۸ء کو حضور نے احباب کو الوداعی خطاب سے نوازا.اپنی کمزوری اور گرمی کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا: - میں چاہتا تھا کہ آج ہی دوست فارغ ہو جائیں تا کہ میں بھی واپس جاسکوں آجکل تو جابہ بھی بڑا سخت گرم ہے لیکن ربوہ کی نسبت ٹھنڈا ہے.پچھلی دفعہ جب ہم وہاں گئے تھے تو ہم لحاف اوڑھ کر کمروں کے اندر سوتے تھے لیکن اس دفعہ اگر چہ ہم کمروں کے اندر ہی سوتے رہے لیکن کپڑا اوڑھنے کی ضرورت نہیں پڑی.پچھلی دفعہ ان دنوں وہاں کا درجہ حرارت ۸۱ تھا، اس دفعہ ۹۴ تھا.بہر حال وہاں ربوہ سے کم گرمی پڑتی ہے.مجھے یاد ہے میری جوانی

Page 741

خطابات شوری جلد سوم ۷۲۵ مجلس مشاورت ۱۹۵۸ء کے زمانہ میں ایک دفعہ جیکب آباد میں ۱۱۴ درجہ کی گرمی پڑی تو شور مچ گیا تھا کہ جیکب آباد کے لوگ مر گئے لیکن اس دفعہ فورٹ عباس میں ۱۱۹ درجہ کی گرمی پڑی ہے.خانپور کا درجہ حرارت ۱۱۵ ہے.بہاولپور اور ملتان کا درجہ حرارت ۱۱۵ ہے اور یہاں کا درجہ حرارت ۱۱۳ ہے حالانکہ یہاں کا درجہ حرارت اِن دنوں میں ۱۰۸ سے زیادہ نہیں ہوتا تھا.پچھلے دنوں یہاں کی رپورٹ جو جا بہ گئی تھی وہ یہ تھی کہ یہاں کا درجہ حرارت ۹۲ تھا.گویا میری جوانی کے زمانہ میں جس قدر گرمی کی خبر سن کر شور مچ گیا تھا کہ لوگ مر گئے ، بعض جگہوں پر اس سے زیادہ گرمی پڑ رہی ہے.اس گرمی کی شدت کی وجہ سے لوگ زیادہ عرصہ گھروں سے باہر نہیں رہ سکتے.آخر جتنا امن گھروں میں مل سکتا ہے باہر رہ کر نہیں مل سکتا.اس لئے میں چاہتا ہوں کہ میں بھی جلدی واپس چلا جاؤں تا کہ مجھے کوفت سے نجات مل جائے اور دوست بھی جلد گھروں کو واپس چلے جائیں.اگلے سال کے لئے میں نے ہدایت دے دی ہے کہ شوری رمضان سے پہلے رکھیں.جب شوری کے لئے بہر حال چھٹی لینی پڑتی ہے تو رمضان سے پہلے چھٹی لے لی جائے یا رمضان کے بعد بات ایک ہی ہے.اگلے سال رمضان اار مارچ سے شروع ہے اس تاریخ سے پہلے جو جمعہ آئے ، شوری اس دن سے شروع کر لی جائے.اس کے ساتھ ہفتہ، اتوار کے دن ملالئے جائیں کیونکہ یہی دن مناسب ہوتے ہیں.بہر حال آئندہ سال تو یہ احتیاط انشاء اللہ ہو جائے گی کوئی تعجب نہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ فضل فرمائے تو اگلے سال اتنی گرمی بھی نہ پڑے.اگر اس سال گرمی ۹۲ درجہ سے ترقی کر کے ۱۱۳ درجہ تک پہنچ گئی ہے تو جس خدا نے اسے اس حد تک پہنچایا ہے وہ اسے ۹۰ بھی کر سکتا ہے.۸۰ بھی کر سکتا ہے.پس یہ فرق محض عارضی ہے لیکن بہر حال صحت یہ نہیں دیکھتی کہ یہ فرق عارضی ہے یا مستقل.صحت تو یہ دیکھتی ہے کہ حالت کیا ہے میری صحت چونکہ اس سال زیادہ خراب رہی ہے اس لئے میں گرمی کی اس شدت کو برداشت نہیں کرسکتا.پہلے میں اجابت کے لئے چوکی پر بیٹھ سکتا تھا لیکن پھر چوکی چھٹ گئی اور اب تک چھٹی ہوئی ہے.بعد میں میں نے کموڈ پر بیٹھنا شروع کیا لیکن کموڈ پر بھی میں جھک نہیں سکتا.اگر جُھکوں تو ٹانگ میں اتنی درد ہوتی ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ٹوٹ جائے گی.جو علاج لوگوں نے بتائے ہیں وہ سب گرم ہیں اور اس گرمی کے موسم میں میں وہ علاج نہیں کروا سکتا.

Page 742

خطابات شوری جلد سوم مجلس مشاورت ۱۹۵۸ء میں جب کراچی گیا تھا تو ڈاکٹر جتاں صاحب نے بھی یہی کہا تھا.ہمارے ڈاکٹر عبدالحمید صاحب جو ریلوے میں بڑے افسر ہیں وہ بھی آئے تھے اور اُنہوں نے بھی کہا تھا کہ اس بیماری میں جو دوائیں مفید ہیں وہ لازماً گرم ہوں گی اس لئے خیال یہی تھا کہ ہم جا بہ جائیں گے تو وہاں چونکہ گرمی میں کمی ہوگی اس لئے وہاں گرم دوائیں استعمال کر لیں گے تا کہ موسم کی ٹھنڈک کی وجہ سے دواؤں کا بُرا اثر نہ پڑے.اگر ان سے فائدہ ہوا تو ممکن ہے میں چوکی پر بیٹھنے لگ جاؤں اب یہ حال ہے کہ میں نماز میں جس طرح عورتیں پاؤں نکال کر بیٹھتی ہیں اس طرح بیٹھ سکتا ہوں حالانکہ پہلے میں تشہد میں بائیں پاؤں پر پوری طرح بیٹھ جاتا تھا لیکن بہر حال جب صحت ہو جائے گی تو یہ چیز بھی حاصل ہو جائے گی.مجھے اب یہ فرق تو نظر آ رہا ہے کہ میرا حافظہ پہلے سے اچھا ہو گیا ہے.پہلے میں نمازوں میں بہت بھولنے لگ گیا تھا لیکن اب وہ حالت نہیں.گویا دماغی طور پر تو صحت میں بہت فرق پڑ گیا ہے لیکن جسمانی حرکت کرنے کے لحاظ سے میری صحت ابھی کمزور ہے.میں نے ایک لیڈی ڈاکٹر سے علاج کروایا تھا.وہ لیڈی ڈاکٹر ملک غلام محمد صاحب مرحوم سابق گورنر جنرل پاکستان کی معالجہ تھیں ملک صاحب مرحوم میرے اور چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے دوست تھے اُنہوں نے ہی اس لیڈی ڈاکٹر کو میرے علاج کے لئے بھجوایا تھا.اس نے مجھے بار بار اٹھنے اور بیٹھنے کا مشورہ دیا تھا اور کہتی تھی کہ اس طرح پٹھوں کو نرم رہنے کی عادت پڑ جائے گی.اب کے میں کراچی گیا تو اُس نے مالش کے ساتھ ساتھ مجھے بعض ورزشیں بتائیں تا کہ پٹھے نرم رہیں لیکن گرمی کی وجہ سے میں مالش نہیں کروا سکتا.ڈاکٹر جتاں صاحب جو نروز سسٹم (NERVES SYSTEM) کے ماہر ہیں اُنہوں نے بھی مجھے یہی بتایا تھا کہ تیل کی مالش کیا کرو لیکن تیل کی مالش سے مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے.چوہدری شکر الہی صاحب مبلغ امریکہ کی بہن بھی فالج کے عارضہ سے بیمار ہو گئی تھی.اُنہوں نے بھی یہی بتایا کہ مجھے فالج ہو گیا تو ڈاکٹروں نے مالش بتائی تھی جس کی وجہ سے مجھے آرام آ گیا لیکن یہاں ہوا بہت تیز چلتی ہے اور اس میں مالش کروانا مفید نہیں ہوتا.پھر مالش میں ایسی ادویہ پڑتی ہیں جو گرم ہوتی ہیں اور ان کے استعمال سے گرمی محسوس ہوتی ہے مثلاً اس میں کٹھ پڑتی ہے جو گرم ہوتی ہے، زعفران پڑتا ہے جو گرم ہوتا ہے، سونٹھ پڑتی ہے جو گرم ہوتی ہے اس لئے میں گرم علاقہ میں رہ کر یہ علاج

Page 743

خطابات شوری جلد سو ۷۲۷ مجلس مشاورت ۱۹۵۸ء نہیں کروا سکتا.ٹیکے بھی یہاں رہ کر نہیں لگواسکتا کیونکہ وہ بھی گرم ہیں اس لئے میرا ارادہ تھا کہ جابہ واپس چلا جاؤں.وہاں یہ آرام ہے کہ انسان کمرہ بند کر کے اندر بیٹھ سکتا ہے.یہاں گرمی کی وجہ سے ہوا لطیف ہو کر اوپر چڑھ جاتی ہے.نیچے ایک خلا رہ جاتا ہے جسے پُر کرنے کے لئے ارد گرد کے علاقوں کی ہوا تیز چل کر اس خلا کو پُر کرنے کے لئے آتی ہے اور پھر وہ ہوائیں چونکہ گرم علاقہ سے گزر کر آتی ہیں اس لئے وہ بھی گرم ہوتی ہیں لیکن جابہ چونکہ ٹھنڈا ہے اس لئے گرم علاقوں کی طرح ہوائیں خلا پُر کرنے کے لئے نہیں آتیں.پھر ارد گرد کے علاقے ٹھنڈے ہیں اس لئے جو ہوا آتی ہے وہ بھی ٹھنڈی ہوتی ہے.یہاں تو ہوا ئیں اتنی گرم ہوتی ہیں کہ جسم کو جھلس دیتی ہیں.میں نے ایک آدمی مری میں کوٹھی لینے کے لئے بھی بھجوایا ہوا ہے.اگر کوٹھی مل گئی تو وہاں اور بھی ٹھنڈک ہو گی.پہلے یہ خیال تھا کہ ہم سکیسر چلے جائیں وہ بھی ٹھنڈی جگہ ہے اور پھر وہ جگہ جابہ سے بہت قریب ہے.ہم صبح کا ناشتہ کر کے دو پہر سے پہلے وہاں پہنچ سکتے ہیں مگر مشکل یہ ہے کہ مجھے سیکیسر میں گنٹھیا کا دورہ ہو جاتا ہے اور اگر بیماری میں نئی بیماری پیدا ہو جائے تو اس کا علاج بڑا لمبا ہو جاتا ہے.پچھلے چار ماہ میں مجھے یہی شبہ رہا ہے کہ میری گنٹھیا کی بیماری بڑھ گئی ہے اس لئے ڈر آتا ہے کہ وہاں جانے سے اگر خدانخواستہ گاؤٹ ہو گیا تو مشکل پیدا ہو جائے گی.۱۹۵۲ء میں میں وہاں گیا تو مجھے گاؤٹ کی اتنی خطرناک تکلیف ہوئی تھی کہ مجھے سہارا دے کر موٹر میں بٹھا کر لایا گیا.پھر ایک ڈاکٹر لاہور سے بلایا گیا یعنی ڈاکٹر بلوچ صاحب کو بلایا گیا.اب تو وہ فوت ہو چکے ہیں ان کے دماغ میں رسولی ہو گئی تھی جس کا آپریشن ہوا تو وہ فوت ہو گئے.اُن کے علاج سے مجھے فائدہ ہوگا.تو بیماری سے بچنے کیلئے احتیاط لازمی چیز ہے.اُن دنوں ہم سکیسر میں صرف سات دن رہے تھے اور گنٹھیا کی مرض ہو گئی تھی لیکن اس دفعہ یہ احتیاط کر لیں گے کہ صبح گئے اور شام کو واپس آگئے.تا زیادہ دیر ٹھہرنے کی وجہ سے بیماری کا دورہ نہ ہو جائے.مری میں کوٹھی مل گئی تو وہاں چلے جائیں گے ورنہ جا بہ میں رہیں گے اور روزانہ سکیسر چلے جایا کریں گے.سکیسر بھی ڈلہوزی کی طرح بہت ٹھنڈی جگہ ہے.تعجب آتا ہے کہ ریتلے علاقہ میں پانچ ہزار فٹ بلند جگہ ہے.مری اس سے صرف ایک دو ہزار فٹ زیادہ بلند ہے.بہر حال سکیسر بڑی خوبصورت اور چھوٹی سی جگہ ہے جیسے بمبئی کے پاس ,,

Page 744

خطابات شوری جلد سوم ۷۲۸ مجلس مشاورت ۱۹۵۸ء ’ماتھے ران تھی.مجھے یاد ہے کہ ہم پہلی بار وہاں گئے.ماموں جان بھی ساتھ تھے ہم دونوں بحث کرتے گئے کہ ریلوے والوں نے تو لکھا ہے کہ یہ ایک سیر گاہ ہے مگر ہے یہ جنگل اور ریتلا علاقہ.بہر حال چٹانوں سے ریل گزرتی چلی گئی اور جونہی ایک طرف مڑی تو وہ جگہ آگئی.اسی طرح سکیسر ہے.گویا یہ ہمارے علاقہ کی ماتھے ران“ ہے.بہر حال میں چاہتا تھا کہ شوریٰ کی کارروائی آج ختم ہو جائے تا دوست بھی واپس جا سکیں اور میں بھی کل صبح واپس چلا جاؤں.تا مجھے زیادہ گرمی کی تکلیف نہ اٹھانی پڑے.باقی دوست دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے صحت عطا فرمائے.حضرت ابراہیم علیہ ا دیکھ لو.آپ نہ صرف خود نبی تھے بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا بھی تھے.آپ فرماتے ہیں.وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشفِينِ کے جب میں بیمار ہوتا ہوں تو صرف خدا ہی مجھے شفا دیتا ہے.۱۹۵۴ء میں میرے بچنے کی کیا اُمید تھی.یوں معلوم ہوتا تھا کہ میں ایک دن کا مہمان ہوں.پھر میں یورپ گیا وہاں جا کر علاج سے اتنا فائدہ ہوا کہ میں نے سارے یورپ کا موٹر پر سفر کیا.پھر واپس آیا تو ۱۹۵۶ء میں مری گئے.وہاں بھی صحت اچھی رہی.۱۹۵۷ء میں جابہ گئے.ابتدائی حصہ سال میں تو اچھا رہا لیکن بعد میں میری طبیعت خراب ہو گئی.۱۹۵۸ء میں بھی خراب رہی.جولائی ۱۹۵۷ء تک میں کسی قدر اچھا تھا.جولائی تک میں اجابت کے لئے چوکی پر بیٹھ سکتا تھا.اب سات آٹھ ماہ سے طبیعت خراب ہے لیکن جس خدا نے پہلے شفا دی تھی وہ اب بھی شفا دے سکتا ہے اُس کے ہاتھ میں شفا ہے.ڈاکٹر ایک دوائی کے متعلق خاص طور پر زور دیتے ہیں کہ اگر میں اُس کے ٹیکے کروالوں تو اس سے فائدہ ہو گا لیکن میں نے ایک جرمن ڈاکٹر سے مشورہ کیا تھا تو اُس نے کہا تھا کہ آپ منہ کے راستہ دوائی کھا لیا کریں ، ٹیکا نہ لگوایا کریں.اس سے فائدہ تو ہوا لیکن مرض ابھی تک گئی نہیں.اب ٹھنڈی جگہ جائیں گے تو وہاں ٹیکے بھی لگوالیں گے.یورپ میں میرا جو معالج تھا اُس کے کئی پیغام آچکے ہیں کہ آپ وہ ٹیکے ضرور لگوائیں ، آپ کا علاج وہی ہے، ہاں ڈوز (Dose) چھوٹی کر لیں اور روز ٹیکا لگوانے کی بجائے ہفتہ میں ایک دفعہ لگوا لیں مگر لگوائیں ضرور.بہر حال خیال ہے کہ ٹھنڈی جگہ جا کر اس کا تجربہ بھی کر لیں گے.ایک دفعہ ناصر آباد میں میں نے یہ ٹیکا کروایا تھا، اس سے فائدہ ہوا تھا.واپسی پر سارے رستہ میں

Page 745

خطابات شوری جلد سوم دوست ۷۲۹ مجلس مشاورت ۱۹۵۸ء ت ملتے رہے میں نے اُن سے مصافحہ بھی کیا اور گفتگو بھی کرتا رہا لیکن مجھے کوئی تکلیف محسوس نہ ہوئی لیکن بعد میں پتہ نہیں مجھے کیوں یہ وہم ہو گیا کہ اب جو صحت خراب ہوئی ہے تو وہ اُس ٹیکہ کی وجہ سے ہوئی ہے حالانکہ اس کے بعد رمضان آیا تو میں اس میں بارہ بارہ تیرہ تیرہ بلکہ بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ پاروں کی تلاوت کرتا رہا ممکن ہے اس سے کوفت ہوگئی ہو.ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب تو ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ آپ زیادہ پاروں کی تلاوت نہ کیا کریں لیکن میں نے اندازہ لگایا کہ قریباً تیرہ پارہ روزانہ اوسط تھی.ویسے میں نے بعض دنوں میں اس سے بھی زیادہ تلاوت کی ہے.اس کے علاوہ اور کام بھی ہوتے ہیں.مثلاً نماز پڑھنا، کھانا، پیشاب اور پاخانہ میں بھی کچھ وقت لگتا تھا.اس کو نکال لیں تو باقی وقت میں نے کئی روز تک ۱۸، ۱۸ پارہ کی تلاوت کی.پھر دوسرے جماعتی کام بھی کرنے پڑتے تھے.تندرستی میں میں بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ پڑھ لیتا تھا.بعض دفعہ میں ایک دن میں قرآن کریم ختم کر لیتا تھا.مجھے یاد ہے ایک دفعہ ہم راجپورہ شکار کو گئے.میرے پندرہ پارے رہ گئے تھے ، میں نے ظہر کے بعد بیٹھ کر شام تک پندرہ پاروں کی تلاوت کر لی.نماز تراویح میں حافظ ایک پارہ روز ختم کرتے ہیں لیکن میں بعض دفعہ ایک دن میں قرآن کریم ختم کر لیتا تھا.حافظ لوگ ایک پارہ روزانہ نماز تراویح میں پڑھتے ہیں اور وہ بھی اس طرح پڑھتے ہیں کہ معلوم نہیں ہوتا قرآن کریم کی تلاوت ہو رہی ہے یا کچھ اور ہو رہا ہے.لیکن ہم تو بڑے آرام سے پڑھتے ہیں اور قرآن کریم کے معارف پر غور بھی کرتے ہیں.چنانچہ اس دفعہ جہاں میں نے بارہ بارہ تیرہ تیرہ پاروں کی تلاوت کی وہاں میں نے تفسیر صغیر میں کئی نوٹ بھی لکھوائے جہاں کوئی ایسی آیت آتی جو اہم ہوتی تو میں اُس پر نوٹ لکھوا دیتا.بہر حال اب شوری کی کارروائی ختم کی جاتی ہے.دوست دُعا کر لیں.“ ( رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۸ء ) ا سیرت ابن هشام جلد ۳ صفحه ۱۰۰.۱۰۱ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء تاح السيرة الحلبية جلد ٢ صفحه ۱۵۹.۱۶۰ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء شمائل الترمذى باب ما جاء فى صفة مزاح رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّهِ عَلَيْهِ وَسِلَّمَ الحجرات: اا ك الشعراء : ٨١

Page 746

Page 747

خطابات شوری جلد سو ۷۳۱ مشاورت ۱۹۵۹ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ مجلس مشاورت ۱۹۵۹ء منعقدہ ۱۷، ۱۸ را پریل ۱۹۵۹ء) پہلا دن افتتاحی تقریر جماعت احمدیہ کی چالیسویں مجلس مشاورت ۱۷.۱۸.اپریل ۱۹۵۹ء کو تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے ہال میں منعقد ہوئی.۱۷.اپریل کو بعد نماز عصر ހނ حضور نے اس کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا: - ” جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے موٹر کے حادثہ کی وجہ سے میری کمر اور باقی حصہ جسم میں دردیں شروع ہو گئی ہیں اور گو اس سے پہلے بھی مجھے وجع المفاصل کی تکلیف تھی لیکن اس حادثہ کی وجہ سے دردیں زیادہ ہو گئی تھیں.اب خدا تعالیٰ کے فضل سے دو دن سے آرام آنا شروع ہوا ہے ممکن ہے خدا تعالیٰ چاہے تو مکمل آرام ہی آجائے.چونکہ پہلے کسی دوائی.فرق نہیں ہوا تھا اس لئے مجھے ایک نئی دوائی کا خیال آیا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام مجھے بچپن میں دیا کرتے تھے.میں نے اس دوائی کا ڈاکٹر صاحب سے ذکر کیا تو اُنہوں نے بتایا کہ میں بھی اس دوائی کا استعمال کرتا ہوں اور یہ مفید ہے.چنانچہ اس دوائی کے استعمال کرنے سے کچھ فائدہ ہونا شروع ہوا ہے.صرف اتنا نقص ہے کہ یہ دوائی قبض پیدا کرتی ہے، اس کے لئے کچھ جلاب لے لیا کروں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب یہ دوائی مجھے دیا کرتے تھے تو ساتھ کسٹر آئل ایملشن بھی دے دیا کرتے تھے اور اس کے ذریعہ سے قبض کا ازالہ ہو جاتا تھا.غرض اب ارادہ ہے کہ کچھ دن قبض کشا دوائیں کھالی جائیں تا کہ درد کو بھی آرام آجائے اور جو دماغی پریشانی رہتی ہے وہ بھی دور

Page 748

خطابات شوری جلد سوم ۷۳۲ مشاورت ۱۹۵۹ء ہو جائے.بہر حال میں آپ لوگوں کی تکلیف کی وجہ سے اور اس خیال سے کہ جماعت اس سال پھر جمع ہوئی ہے تاکہ دُنیا میں تبلیغ اور اشاعت اسلام کا کام وسیع کیا جائے اپنی بیماری اور کمزوری کے باوجود آگیا ہوں تا کہ لہو لگا کر میں بھی شہیدوں میں شامل ہو جاؤں.اب مجلس مشاورت کی کارروائی شروع کی جاتی ہے.سیکرٹری صاحب مجلس مشاورت ایجنڈا کی تجاویز پڑھ کر سنائیں.“ حضور کے ارشاد کی تعمیل میں ایجنڈا پڑھ کرسنایا گیا اور پھر سب کمیٹیوں کا تقر عمل میں لایا گیا اس کے بعد حضور نے فرمایا:- ہر زمیندارہ جماعت اپنے اپنے ہاں زراعت کا ایک سیکرٹری مقرر کرے.وہ سیکرٹری اس بات کا ذمہ دار ہوگا کہ زیادہ سے زیادہ پیداوار فی ایکڑ کرائے.میں نے بتایا تھا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ۵۲۰ من فی ایکڑ پیداوار ہوسکتی ہے لیکن ہر سیکرٹری زراعت سے ہم یہ امید نہیں کر سکتے کہ وہ پہلے سال ہی ۵۲۰ من فی ایکڑ پیداوار کرائے.وہ چاہے پانچ من فی ایکٹر ہی زیادہ پیداوار کرائے بہر حال کچھ نہ کچھ تو کوشش کرے گا.ہم سب زمیندارہ جماعتوں کا آپس میں مقابلہ کریں گے اور پھر دیکھیں گے کہ کس کی پیداوار فی ایکٹر زیادہ ہوتی ہے.اگست میں تمام جماعتوں کی طرف سے رپورٹ آ جایا کرے کہ کس جماعت کی کتنی پیداوار ہوئی ہے اور پھر جس جماعت کی زیادہ پیداوار ہو گی اُس کا نام خاص طور پر مجلس شوریٰ میں سنایا جائے گا اور اُسے جماعت کی طرف سے کوئی انعام یا خطاب بھی دیا جایا کرے گا.“ دوسرا دن مجلس مشاورت ۱۹۵۹ء کے آخری دن یورپ میں مساجد کی تعمیر کا پروگرام تحریک جدید کا بجٹ پاس ہونے کے بعد حضور نے احباب جماعت سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: - میں آئندہ کے لئے یورپ میں مساجد کا ایک پروگرام بنا دینا چاہتا ہوں جو مشروط بآمد

Page 749

خطابات شوری جلد سوم ۷۳۳ مجلس مشاورت ۱۹۵۹ء ہوگا.یعنی اگر گورنمنٹ ہمیں ایکھینچ دے دے یا باہر کی جماعتیں پونڈ مہیا کریں تو ایک مسجد پیرس میں بنائی جائے، ایک روم میں بنائی جائے، ایک نیور مبرگ(جرمنی) میں بنائی جائے ، ایک اوسلو(ناروے) میں بنائی جائے اور ایک نیو یارک میں بنائی جائے.اس طرح یہ مسجد میں ملا کر ۹ مسجد میں ہو جائیں گی.پیرس میں مسجد بنانے کا یہ فائدہ ہے کہ اس کا تیونس اور مراکش پر بھی اثر پڑے گا.جو اسلامی ممالک ہیں.کسی زمانہ میں جب اسلام کمزور ہو گیا تھا تو مراکش اور تیونس نے ہی اسلام کا جھنڈا اونچا رکھا تھا.پس ان کا حق ہے کہ ہم ان کی مدد کریں.اگر اس جگہ ہماری مسجد بن جائے تو سپین میں بھی ہماری تبلیغ بڑھ جائے گی کیونکہ یہ ملک سپین کے قریب ہے.تحریک جدید نے اعلان کیا ہے کہ جو دوست مسجد کے لئے ۱۵۰ روپیہ دیں گے اُن کے نام مسجد پر کندہ کرائے جائیں گے.میں نے اس سلسلہ میں اپنے بہت سے رشتہ داروں کے نام لکھوائے ہیں مگر چونکہ میں اپنی زمین اُن میں تقسیم کر چکا ہوں، اس لئے یہ شرط ہوگی کہ اگر وہ بھی منظور کریں کہ اُن کی آمد میں سے یہ رقم دی جائے ، تب میں یہ رقم دوں گا ورنہ میں تو اپنی سب جائیداد تقسیم کر چکا ہوں.بہر حال اگر اُنہوں نے منظور کیا تو ۶۶۰۰ روپیہ میں اس مد میں دوں گا.ان میں سے ایک رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں، ایک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں، ایک حضرت خلیفہ المسیح الاول ہیں، ایک حضرت اماں جان ہیں، میں ہوں ، میری بیویاں ہیں، لڑکے لڑکیاں ہیں مگر چونکہ میں جائداد سب رشتہ داروں میں تقسیم کر چکا ہوں اس لئے اس وعدہ کو اس شرط کے ساتھ مشروط کرتا ہوں کہ وہ بھی اس کی منظوری دیں کیونکہ اب یہ زمین اُن کی ہے میری نہیں.دفتر دوم کے چندہ کے متعلق تحریک افسوس ہے کہ تحریک جدید کے دفتر دوم میں حصہ لینے والے چندوں کی ادائیگی میں سستی دکھا رہے ہیں حالانکہ دفتر اول میں شامل ہونے والے باوجود اس کے کہ وہ بوڑھے ہو چکے ہیں اور اُن کے خرچ بھی زیادہ ہیں پھر بھی زیادہ حصہ لے رہے ہیں.کل میں نے وکیل التبشیر سے پوچھا تو انہوں نے بھی اقرار کیا کہ دفتر دوم کے چندوں میں کمی ہے حالانکہ نو جوانوں پر بوجھ کم ہے.بڑھوں پر تو بیویوں اور بچوں کا بوجھ ہوتا ہے مگر ان کے چندے پھر بھی زیادہ ہیں.

Page 750

خطابات شوری جلد سوم ۷۳۴ مجلس مشاورت ۱۹۵۹ء میں سب دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ دفتر دوم میں زیادہ سے زیادہ احمدی نوجوان حصہ لیں اور پھر اپنے وعدوں کو پورا بھی کریں.“ مشاورت کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد حضور نے احباب سے الوداعی خطاب کرتے ہوئے فرمایا : - اختتامی تقریر شوری کا کام ختم ہو چکا ہے.اب میں دُعا کر دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو تو فیق دے کہ وہ ان فیصلوں پر پوری طرح عمل کرے.اس کے بعد دوستوں کو اپنے اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت ہو گی.آئندہ شوریٰ کی سب کمیٹیوں کے ممبر اپنی اپنی جماعتوں کی طرف سے مقرر ہو کر آیا کریں.اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ مشورہ اچھا ہو سکے گا اور کام بھی جلدی ہوگا.اس وقت صرف کراچی کی جماعت اچھا کام کر رہی ہے.اُنہوں نے ڈسپنسری بھی قائم کر لی ہے اور دو مسجدیں بھی بنالی ہیں.لاہور میں ایک مسجد بھی ابھی تک تیار نہیں ہوئی.آئندہ کے لئے میں جماعتوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ علیحدہ علیحدہ زون بنا لیں.مثلاً ایک زون ملتان ڈویژن ہو.ایک زون راولپنڈی ڈویژن ہو.ایک زون لاہور ڈویژن ہو.ایک زون پشاور ڈویژن ہو.ایک زون بہاولپور ڈویژن ہو اور ایک زون حیدر آباد ڈویژن ہو.اسی طرح کرنل عطاء اللہ صاحب کی تجویز پر عمل کیا جا سکتا ہے اور ہر حلقہ میں ہسپتال اور مساجد بنائی جاسکتی ہیں اور سکول اور کالج قائم کئے جا سکتے ہیں.گو بعض شہروں میں ہماری جماعت بہت قلیل تعداد میں ہے لیکن اگر زون بنا لئے جائیں تو ان علاقوں کی جماعتیں باہم مل کر کراچی کی جماعت سے تعداد میں زیادہ ہو سکتی ہیں.مثلاً ملتان میں ہماری جماعت بہت چھوٹی ہے لیکن اگر ملتان ڈویژن کا زون بنا لیا جائے تو اس زون کی جماعت کراچی کی جماعت سے تعداد میں بڑھ جاتی ہے.اسی طرح راولپنڈی میں ہماری جماعت کی تعداد ۱۴۰۰ کے قریب ہے لیکن راولپنڈی ڈویژن میں ہماری جماعت کے افراد چودہ ہزار سے بھی زیادہ ہیں.کراچی میں تو صرف چار ہزار کی جماعت ہے.اگر اس طرح زون بنا لئے جائیں تو سارے مغربی اور مشرقی پاکستان میں جماعت کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے اور ہر جگہ

Page 751

خطابات شوری جلد سوم ۷۳۵ مشاورت ۱۹۵۹ء ہسپتال، سکول، کالج اور مساجد بنائی جاسکتی ہیں.ہر شہر میں اس تجویز پر عمل کرنا مشکل ہے لیکن اگر ہر ڈویژن میں بھی بن جائیں تب بھی بڑی بات ہے.اور پھر خدا چاہے گا تو وہ وقت بھی آ جائے گا کہ ہر شہر میں ہماری مسجد بھی ہو ، ہسپتال بھی ہو ،سکول بھی ہو اور کالج بھی ہو.پھر اگر تنظیم مضبوط ہوگی تو جماعت کی تعداد بھی بڑھ جائے گی اور حسب ضرورت مساجد میسر آتی رہیں گی اور آباد ہوتی رہیں گی مگر جماعتیں لاہور کی طرح نہ کریں.لاہور میں ہمیں گمٹی بازار والی مسجد مل رہی تھی لیکن خواجہ کمال الدین صاحب نے چار ہزار روپیہ لے کر حق تولیت فروخت کر دیا.پھر حکیم محمد حسین صاحب مفرح عنبری والوں نے میاں فیملی والوں سے زمین حاصل کر کے مسجد تعمیر کی اور وہی آج تک ہمارے کام آ رہی ہے اگر لاہور والے مسجد کی تعمیر کا کام شروع کر دیں تو میرے خیال میں وہاں لاکھوں روپیہ جمع کیا جا سکتا ہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے لوگوں میں اس نیکی کا احساس ہے.مثلاً یورپ کی مساجد کے سلسلہ میں میں نے تحریک کی تو ایک زرگر کا لڑکا ایک دفعہ میرے پاس آیا اور اُس نے کہا کہ یہ دو ہزار روپیہ میری والدہ نے دیا ہے اور اُس کی خواہش ہے کہ اسے مسجد میں لگا دیا جائے.اب دیکھو وہ معمولی زرگر تھے لیکن اُنہوں نے دو ہزار روپیہ دے دیا.لاہور میں تو ہمارے بہت سے زرگر ہیں، وہاں چار پانچ لاکھ روپیہ آسانی سے جمع کیا جا سکتا ہے.“ اس کے بعد حضور نے حاضرین سمیت دعا کروائی اور گیارہ بجے قبل دو پہر مجلس شوری کا اجلاس برخواست ہوا.(رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۹ء )

Page 752

Page 753

خطابات شوری جلد سو ۷۳۷ مشاورت ۱۹۶۰ء بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ مجلس مشاورت ۱۹۶۰ء ( منعقده ۸، ۹ / اپریل ۱۹۶۰ء) پہلا دن دُعا اور افتتاحی کلمات جماعت احمدیہ کی اکتالیسویں مجلس مشاورت ۹،۸.اپریل ۱۹۶۰ء کو تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے ہال میں منعقد ہوئی.کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا.اس کے بعد حضور نے تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد نا سازی طبع کے باعث صرف چند کلمات اور دعا سے اس کا افتتاح کیا.حضور نے فرمایا:- پیشتر اس کے کہ شوریٰ کی کارروائی شروع کی جائے سابق دستور کے مطابق میں کارروائی کے افتتاح سے پہلے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کروں گا کہ وہ ہمارے غور اور مشورہ میں ہمارا ہادی و راہ نما ہو.وہ ہمیں صحیح راستہ پر چلنے اور درست فیصلوں تک پہنچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ایسا فضل نازل فرمائے کہ ہمارے مشورے ہمارے ایمان کی ترقی اور سلسلہ کی عظمت بڑھانے کا موجب ہوں، دلوں میں نفاق اور شقاق اور نفرت پیدا کرنے کا موجب نہ ہوں.اسی طرح یہ مشورے ہماری نیکی اور اخلاص کو تو بڑھانے والے ہوں لیکن کج بحثی اور غلط تنقید کا دروازہ کھولنے والے نہ ہوں اور یہ کہ ہم کسی ایسے فیصلہ پر نہ پہنچیں جس کو پورا کرنے کی ہم میں توفیق نہ ہو اور اُس مقام پر پہنچنے سے نہ رہیں جس مقام پر پہنچنے کا اللہ تعالیٰ ہمارے متعلق فیصلہ فرما چکا ہے.اب سب دوست میرے ساتھ مل کر دعا کر لیں.اس کے بعد ہم شوری کی کارروائی شروع کریں گے.“

Page 754

خطابات شوری جلد سوم ۷۳۸ مشاورت ۱۹۶۰ء اس کے بعد حضور نے حاضرین سمیت لمبی دعا کروائی.دُعا کے بعد حضور نے فرمایا : - دوست یہ بھی دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لئے قادیان کا رستہ کھولے اور ہماری وو مشکلات کو دُور کرے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے.بشارت دی کہ اک بیٹا ہے تیرا بخشے جو ہو گا ایک دن محبوب میرا کروں گا دور اس مه سے اندھیرا دکھاؤں گا کہ اک عالم کو پھیرا سودُعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ عالم کو پھیرنے کے سامان پیدا کرے اور احمدیت کو ترقی اختتامی تقریر مجلس مشاورت کی کارروائی مکمل ہونے پر حضور نے دوستوں سے الوداعی خطاب کرتے ہوئے فرمایا : - اب شوری کی کارروائی چونکہ ختم ہو چکی ہے اس لئے میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ انہیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے ان فیصلوں کے مطابق جو اس وقت کئے گئے ہیں صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کی مالی حالت کو مضبوط بنانے کی کوشش کرنی چاہئے.تقویٰ کے حصول کی کوشش کرو تبلیغ پر زور دینا چاہئے اور نیکی اور تقویٰ میں ترقی کرنی چاہئے.حقیقت یہ ہے کہ تقویٰ کے بغیر انسان کا کوئی عمل اُسے اللہ تعالیٰ کا مقرب نہیں بنا سکتا.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہر نماز میں بلکہ نماز کی ہر رکعت میں یہ دعا مانگنے کی ہدایت فرمائی ہے کہ اهدنا الصراط المُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الّذينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ لے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بھی الہام ہے کہ ہر ایک نیکی کی جڑ اتقاء ہے اگر جڑ رہی سب رہا ہے پس دوستوں کو اپنے اندر تقویٰ پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور بار بار قادیان

Page 755

خطابات شوری جلد سوم جانے کی کوشش کرنی چاہئے.۷۳۹ مشاورت ۱۹۶۰ء پس تقویٰ اللہ کے حصول کی کوشش کرو.اپنی آئندہ نسلوں میں دین کی محبت پیدا کرو.انہیں اسلام اور احمدیت کی خدمت کے لئے وقف کرو، اشاعت احمدیہ کے لئے ہر قسم کی مالی اور جانی قربانیوں میں حصہ لو اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہو کہ وہ ہماری ناچیز کوششوں میں برکت ڈالے اور ہمارے کاموں کو اپنے فضل اور رحم کے ساتھ نتیجہ خیز ثابت کرے تا کہ ہم نے یہاں جو وقت صرف کیا ہے وہ ضائع نہ ہو اور ہم خدا تعالیٰ کے نزدیک جھگڑالو قرار نہ پائیں بلکہ اُس کے دین کے خدمت گزار اور اس کے احکام کی اطاعت کرنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں ایمان ، اخلاص اور تقویٰ پیدا کرے اور ہمارے قلوب میں ایسی محبت اور عشق بھر دے کہ بغیر اس کے مل جانے کے ہماری سوزش میں کمی واقع نہ ہو.ہماری گھبراہٹ دور نہ ہو ، ہمارا جوش کم نہ ہو اور ہماری راحت اور ہمارا چین سوائے اس کے کسی اور چیز میں نہ ہو کہ ہمیں اُس کا قرب حاصل ہو جائے اور ہم اُس کے وصال سے لطف اندوز ہوں ، ہماری ہر قسم کی خوشی اور امید اُس سے وابستہ ہو اور ہماری محبت اور چین اُس کے رسولوں خصوصاً محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے خلیفہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ وابستگی اور ان کی تعلیموں اور منشاء کے مطابق چلنے میں ہو اور ہم اُن کے نام کو دُنیا میں پھیلانے والے ہوں.اللہ تعالیٰ ہماری مدد کرے اور ہماری زبانوں میں برکت ڈالے تا کہ ہم دوسرے لوگوں کو بھی خدائے واحد کے کلام کی طرف کھینچ سکیں اور اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم خدا تعالیٰ کے کلام سے محبت کرنے والے، اُس کی تعلیم سے پیار کرنے والے، اس کے حکموں کو پھیلانے والے اور اُس کے بندوں سے محبت کرنے والے ہوں.آپ لوگوں نے اس وقت آمین آمین تو کہا مگر آپ لوگوں کا فرض ہے کہ اپنی اپنی جگہوں پر جا کر تبلیغ پر زور دیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک ایک سال میں تھیں تھیں ہزار احمدی ہوتا تھا.اب تو ۳۰، ۳۰ ، ۴۰ ، ۴۰ لاکھ سالانہ احمدی ہونے چاہئیں.حضرت مسیح ناصری کی اُمت نے ۱۹۰۰ سال کی عمر پائی ہے.ہم دُعا کرتے ہیں اور اُمید کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو ۱۹۰۰۰ سال

Page 756

خطابات شوری جلد سوم ۷۴۰ مشاورت ۱۹۶۰ء سے بھی زیادہ عمر دے گا اور دُنیا کے چپہ چپہ پر کوئی ایسی جگہ نظر نہ آئے گی جہاں احمدیت اور اسلام کا نام نہ لیا جاتا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ایک زمانہ میں خدا تعالی اسلام اور احمدیت کو اس قدر ترقی دے گا کہ حق کا انکار کرنے والے اس کے مقابلہ میں چوڑھوں چماروں کی طرح رہ جائیں گے کے پس دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ احمدیت کو ترقی دے اور اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی تکلیف آئے تو وہ ہماری تباہی کا موجب نہ ہو.ہم اس کے سلسلہ کے لئے عزت کا باعث ہوں.بدنامی اور رسوائی کا باعث نہ ہوں.ہمیں خدا اپنے بھائیوں کی خدمت کی توفیق دے اور جو باتیں اچھی ہوں خواہ بظاہر وہ ناپسندیدہ اور بُری نظر آئیں، اللہ تعالیٰ ہمیں اُن کو حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جو چیزیں بُری ہیں خواہ غلطی سے ہم ان کو اچھی ہی سمجھتے ہوں خدا تعالیٰ ہمیں اُن سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو اپنی حفاظت کے سایہ کے نیچے رکھے اور ہمارا مرکز دائمی طور پر ہمیں دیدے.“ (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۰ء) الفاتحہ : ۷۶

Page 757

خطابات شوری جلد سو ۷۴۱ مجلس مشاورت ۱۹۶۱ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ مجلس مشاورت ۱۹۶۱ء منعقد ۲۴۰ تا ۲۶ / مارچ ۱۹۶۱ء) پہلا دن تحریری پیغام برائے افتتاحی اجلاس جماعت احمدیہ کی بیالیسویں مجلس مشاورت ۲۴ تا ۲۶ مارچ ۱۹۶۱ء کو تعلیم الاسلام کالج ربوه کے ہال میں منعقد ہوئی.حضور بوجہ علالت اس میں بنفس نفیس شمولیت نہ فرما سکے.حضور نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو ارشاد فرمایا کہ آپ مجلس مشاورت کی کارروائی سرانجام دیں.تلاوت قرآن کریم سے مجلس مشاورت کی کارروائی شروع ہوئی.اس کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب نے حضور کا پیغام جو حضور نے اس موقع کے لئے تحریر فرمایا تھا وہ پڑھ کر سنایا جو درج ذیل ہے :- " ” اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ هو الہ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ہے برادران! اصر السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ میں جوان تھا جب میں نے مجلس مشاورت کی بنیا د رکھی اور اب

Page 758

خطابات شوری جلد سوم ۷۴۲ مجلس مشاورت ۱۹۶۱ء میں بیمار اور کمزور ہوں جس کی وجہ سے نہ تو میں مجلس شوریٰ میں زیادہ دیر بیٹھ سکتا ہوں اور نہ ہی اس کی کارروائی میں اُس طرح حصہ لے سکتا ہوں جس طرح پہلے لیا کرتا تھا بلکہ اس مجلس مشاورت میں تو شرکت سے ہی معذور ہوں لیکن اس لئے کہ میں دُعا کے ساتھ مجلس مشاورت کا افتتاح کر دوں باوجود بیماری اور کمزوری کے عزیزم مرزا بشیر احمد کے ہاتھ یہ مختصر سا افتتاحی پیغام بھجوا رہا ہوں اور دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ مشورے وہی بابرکت احتیاط اور غور و فکر سے مشورہ دیں مشورے ہوتے ہیں جو صحت نیت اور اخلاص کے ساتھ جماعتی مفاد کی غرض سے دیئے جائیں اور جن میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے قائم کردہ سلسلہ کی بہبودی کو مدنظر رکھا گیا ہو.اگر آپ لوگ اپنے مشوروں میں اس روح کو قائم رکھیں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کے کاموں میں ہمیشہ برکت رکھے گا اور آپ کے مشوروں کے اچھے نتائج پیدا کرے گا لیکن اگر آپ لوگوں نے بھی کسی وقت یہ دیکھنا شروع کر دیا کہ زید یا بکر کی کیا رائے ہے اور یہ نہ دیکھا کہ سلسلہ کا مفاد کس امر میں ہے تو آپ کے کاموں میں برکت نہیں رہے گی اور آپ کے مشورے محض رسمی بن کر رہ جائیں گے اور خدائی نصرت کو کھو بیٹھیں گے.پس آپ لوگوں پر ایک بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہے.آپ لوگ جب مشورہ دینے کے لئے جمع ہوتے ہیں تو درحقیقت آپ ایک ایسے راستہ پر قدم مارتے ہیں جو تلوار کی دھار سے بھی زیادہ تیز اور بال سے بھی زیادہ باریک ہے.پس آپ لوگ بڑی احتیاط اور غور وفکر کے ساتھ مشورہ دیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا ئیں بھی کرتے رہیں کہ وہ حق آپ کی زبان پر جاری کرے اور آپ کو ایسے فیصلوں پر پہنچنے کی توفیق بخشے جو سلسلہ کے لئے مفید اور اس کی دینی اور روحانی اور تنظیمی اور مالی حالت کو

Page 759

خطابات شوری جلد سوم ۷۴۳ مجلس مشاورت ۱۹۶۱ء بہتر بنانے والے ہوں.بجٹ بڑھانے کا طریق مجھے افسوس ہے کہ باوجود اس کے کہ متواتر کئی سال سے میں جماعت کو توجہ دلا رہا ہوں کہ اُسے اپنی آمد کا بجٹ چھپیں لاکھ تک پہنچانا چاہئے ، ابھی تک ہماری جماعت نے اس کی طرف پوری توجہ نہیں کی ، حالانکہ ہمارے سپر د جو عظیم الشان کام کیا گیا ہے اُس کے لحاظ سے ۲۵ لاکھ ہی نہیں بلکہ ۲۵ کروڑ کا بجٹ بھی ہماری تبلیغی ضروریات کے لئے کافی نہیں ہو سکتا کیونکہ ہم نے ساری دُنیا کو اسلام اور احمدیت کے لئے فتح کرنا ہے اور ساری دُنیا میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام پہنچانا اور اُسے خدائے واحد کے جھنڈے کے نیچے لانا ہے لیکن بہر حال جماعت کی موجودہ تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں اپنی آمد کا بجٹ کم از کم پچیس لاکھ تک پہنچانے کی جلد تر کوشش کرنی چاہئے.جہاں تک میں سمجھتا ہوں ہمارے بجٹ کی کمی میں بڑا دخل اُن نادہندوں کا ہے جو سلسلہ میں شامل ہونے کے باوجود اخلاص کی کمی کی وجہ سے مالی قربانیوں میں حصہ نہیں لیتے ، اسی طرح وہ لوگ جو مقررہ شرح کے مطابق چندہ نہیں دیتے یا بقایوں کی ادائیگی میں سستی سے کام لیتے ہیں.اُن کی غفلت بھی سلسلہ کے لئے نقصان کا موجب ہو رہی ہے.پس میں تمام امراء اور سیکرٹریان جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ اُنہیں روحانی اور تربیتی اصلاح کے ساتھ ساتھ نادہندوں اور شرح سے کم چندہ دینے والوں کے بارہ میں اپنی ذمہ داری سمجھنی چاہئے تاکہ ان میں بھی قربانی کا جذبہ پیدا ہو اور وہ بھی اپنے دوسرے بھائیوں کے دوش بدوش اسلام کو دُنیا کے کناروں تک پہنچانے کے ثواب میں شریک ہوسکیں.ران مختصر کلمات کے ساتھ میں بیالیسویں مجلس مشاورت کا افتتاح کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ ہمارے کاموں میں

Page 760

خطابات شوری جلد سوم ۷۴۴ مجلس مشاورت ۱۹۶۱ء برکت ڈالے اور ہمیں اخلاص اور تن دہی کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرنے اور صحیح فیصلوں تک پہنچنے کی توفیق بخشے.اَللَّهُمَّ امَيْنَ خاکسار مرزا محمود احمد خلیلیه لمسیح الثانی ۶۱۹۶۱-۳-۲۰ ( رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۱ء)

Page 760