Language: UR
حضرت مصلح موعودؓ نے 1922ء میں جماعت احمدیہ میں باقاعدہ مشاورت کا نظام شروع فرمایا اور شوریٰ کے افتتاحی خطاب میں تفصیل کے ساتھ شوریٰ کی غرض و غایت اور اہمیت پر زریں ہدایات دیں۔ نیز آپ ؓ 1922 سے 1960 تک مجلس شوریٰ کے اجلاسات میں بنفس نفیس شمولیت فرماتے رہے اور قدم قدم پر رہنمائی فرماکر اس باغ احمد کو سینچا۔ آپ ؓ کے ان خطابات کو جو نظام شوریٰ کی اہمیت اور جماعتی ترقی و تربیت کے لئے مشعل راہ ہیں، ان کو اس مجموعہ کی شکل میں شائع کیا گیا ہے۔ اس مجموعہ کا مطالعہ مختلف مجالس شوریٰ کے مواقع پر حضرت مصلح موعود ؓ کی بے نظیر فراست و ذہانت اور حیرت انگیز قوت فیصلہ اور اولوالعزمی کا بھی پتہ دیتا ہے۔
خطابات شورای جلد دوم (۱۹۳۶ء تا ۱۹۴۳ء) از المصلح سید مرزا محموداحمد خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد اصلح الموعود
نام کتاب فرمودات خطابات شوری جلد دوم حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد خلیفۃالمسیح الثانی طبع اول طبع اول انڈیا : دسمبر 2013ء مقام اشاعت قادیان تعداد اشاعت 1000 : ناشر مطبع نظارت نشر و اشاعت، صدر انجمن احمد یہ قادیان، ضلع گورداسپور ، پنجاب 143516.انڈیا فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان Khitabat-e-Shura (Vol II ) Sermons delivered by: Hadrat Mirza Bashirud-Din Mahmud Ahmad رضی اللہ تعالیٰ عنہ Khalifatul Masih II ISBN: 978-81-7912-299-0
بسم الله الرحمن الرحيم عرض ناشر شوریٰ کا نظام ارشاد باری تعالیٰ شَاوِرُهُمْ فِي الْأَمْرِ یعنی اہم معاملات میں ان سے مشورہ کر لیا کر کے مطابق آنحضرت سائی یتیم کے زمانہ میں جاری ہوا.اللہ تعالیٰ نے ایک مثالی دینی معاشرہ اور دین کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے شوریٰ کو ضروری قرار دیا ہے.حضور ملی یہ تم کا مبارک طریق تھا کہ اہم دینی اور امور مملکت کے معاملات میں اپنے صحابہ کرام سے ضرور مشورہ لیا کرتے تھے.اس کی اتباع میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ اسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی احباب جماعت سے انفرادی و اجتماعی صورت میں مشورے لیتے رہے.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے باقاعدہ مشاورت کا قیام سن 1922ء میں فرمایا اور شوری کے افتتاحی خطاب میں تفصیل کے ساتھ شوریٰ کی غرض و غایت اور اہمیت پر زریں ہدایات دیں.نیز حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ 1922 ء تا 1960 ء تک مجلس شوریٰ میں بنفس نفیس شمولیت فرماتے رہے اور قدم قدم پر احباب جماعت کی رہنمائی فرمائی.آپ کے ان خطابات کو جو نظام شوری کی اہمیت اور جماعتی ترقی و تربیت کے لئے مشعل راہ ہیں فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ نے خطابات شوری کے نام سے مرتب کر کے سید نا حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری سے شائع کیا ہے.اس کی ترتیب و تیاری میں جن احباب نے خدمات سرانجام دی ہیں اللہ تعالیٰ انہیں محض اپنے فضل سے جزائے خیر عطا فرمائے.آمین.یہ خطابات احباب جماعت کی تعلیمی، تربیتی ، روحانی اور جسمانی ترقی کے لئے بے حد مفید اور بابرکت ہیں.
سید نا حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد پر نظارت نشر واشاعت قادیان خطابات شوری کی ان جلدوں کی قادیان سے پہلی بار شائع کرنے کی سعادت حاصل کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ اسے ہر لحاظ سے با برکت فرمائے اور احباب جماعت کو ان ارشادات و ہدایات کو پڑھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق دے.آمین خاکسار حافظ مخدوم شریف ناظر نشر و اشاعت قادیان
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ پیش لفظ یہ اللہ تعالی کا خاص فضل و احسان ہے کہ فضل عمر فاؤنڈیشن کو سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی الصلح الموعود کے حقائق و معارف سے پُر خطابات بر موقع مجالس شورای الموسوم خطابات شورای“ کی دوسری جلد احباب جماعت ” کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت نصیب ہو رہی ہے.جلد ھذا ۱۹۳۶ء تا ۱۹۴۳ء کی مجالس شورای کے خطابات پر مشتمل.” خطابات شورای مجموعی طور پر تین جلدوں پر مشتمل ہیں.تیسری جلد پر بھی کام جاری ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ وہ بھی جلد احباب کی خدمت میں پیش کر دی جاوے گی.وَمَا تَوْفِيْقَنَا إِلَّا بِاللَّهِ الْعَزِيْزِ مجالس شوری کے خطابات کے مسودہ کی تیاری کا ابتدائی کام مکرم چوہدری رشیدالدین 66 ہے.صاحب مربی سلسلہ نے سرانجام دیا.فَجَزَاهُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ - محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب کا بھی خاکسار تہہ دل سے ممنون ہے جنہوں نے مجالس مشاورت کی تمام رپورٹس کو پڑھا ، بعض ضروری امور کی نشاندہی کی اور قیمتی مشوروں سے نوازا.محترم سید عبدالحئی شاہ صاحب ناظر اشاعت و نائب صدر فضل عمر فاؤنڈیشن نے خطابات شورای کی تیاری کے سلسلہ میں جہاں کبھی ضرورت محسوس ہوئی انہوں نے کمال بشاشت سے متعلقہ عبارتوں کو پڑھ کر نہ صرف گراں قدر اور قیمتی مشوروں سے نوازا بلکہ بعض بنیادی امور میں بھی ہماری راہنمائی فرمائی.خاکسار ان کا بھی دلی شکر یہ ادا کرتا ہے اور دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں بہترین جزاء دے آمین.
مکرم عبدالرشید اٹھوال صاحب ، مکرم حبیب اللہ باجوہ صاحب، مکرم فضل احمد شاہد صاحب، مکرم عبدالشکور باجوہ صاحب ، مکرم عدیل احمد گوندل صاحب اور مکرم ظہور احمد مقبول صاحب مربیان سلسلہ کا بھی خاکسار خصوصی شکریہ ادا کرتا ہے کہ اس جلد کی تدوین و اشاعت کے مختلف مراحل مسودات کی ترتیب و تصحیح ، پروف ریڈنگ ، حوالہ جات کی تلاش ،Rechecking اور اعراب کی درستی کے سلسلہ میں ان سب نے نہایت محنت لگن ،خلوص اور دلی بشاشت سے کام کیا اور اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا.فَجَزَاهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ الْجَزَاءِ - مکرم بشارت احمد صابر صاحب کارکن دفتر فضل عمر فاؤنڈیشن بھی شکریہ کے مستحق ہیں جنہوں نے اس جلد کی تیاری میں معاونت کی.فَجَزَاهُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ - اللہ تعالیٰ ہماری اس علمی کاوش کو قبول فرما دے اور ہم سب کو اپنی ذمہ داریاں احسن رنگ میں بجالانے کی توفیق عطا فرمائے آمین.
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ پیشگوئی مصلح موعود اُس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا.وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا.وہ دُنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور رُوح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کریگا.اور کلمۃ اللہ ہے کیونکہ خُدا کی رحمت وغیوری نے اسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری اور باطنی سے پر کیا جائیگا.اور وہ تین کا چار کرنے والا ہو گا ( اس کے معنی سمجھ میں نہیں آئے ) دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ.فرزند دلبند گرامی ارجمند مَظْهَرُ الْأَوَّل وَالْآخِرِ ـ مَظْهَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَاءِ كَانَّ اللَّهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ.جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا.ٹور آتا ہے نور.جس کو خدا نے اپنی رضا مندی کے عطر سے ممسوح کیا.ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی.تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے.وَكَانَ أَمْرًا مَّقْضِيًّا - (اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶)
MAKHZAN-E- TASAWEER© 2006 سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدا ان بشرالدين مصلح الموعود خلیفة أسبح الثاني منى الشحنة المسیح
صفحہ ۳۲ ۴۲ ۴۷ ۴۸ ۵۹ ۱۶۳ LL ۸۲ ۸۲ ۱۸۴ ۸۶ (i) خطابات شوری جلد دوم نمبر شمار عناوین ۱ مجلس مشاورت اپریل ۱۹۳۶ء افتتاحی تقریر مجلس شورای کے نتائج ہمارا عظیم الشان مقصد فہرست مضامین جماعت احمد یہ اپنی ذمہ داری کو سمجھے قلوب کی اصلاح کے اوقات صفحہ نمبر شمار ۴ عناوین تعاون کرنے کیلئے ضروری باتیں تمام افراد جماعت تبلیغ میں حصہ لیں خدمت دین کیلئے اپنی زندگیاں وقف کریں لٹر پر صحیح طور پر تقسیم کیا جائے امداد دینے کے طریق تعلیم نسواں کیا لڑکیوں کو ترکہ میں سے اُن کا حق دیا جاتا ہے عزت خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری میں ہے صحابہ کا قول اور عمل 1.11 11 ریز روفنڈ کے لئے تحریک آمد بڑھانے سے متعلق اختتامی تقریر اسلامی احکام اور دنیا کی موجودہ حالت ۱۴ صنعت و حرفت کے کام صرف جذباتی محبت کافی نہیں عملی محبت دل کی ایک حسرت دکھاؤ زمانہ قرب نبوت اور موعود خلافت جماعت متحد الخیال ہو جائے ڈاکٹر اقبال کا کھیل کھیلنے والے ۱۶ ۱۸ ۱۹ نیشنل لیگ کور کا قیام پنشنز اصحاب قادیان میں دینی کام کریں خلیفہ استاد ہے اور جماعت کا ہر فردشاگرد اس وقت کس بات کی ضرورت ہے ۲۱ ۲۵ قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ کی اشاعت بریکاروں کو کام پر لگائیں امانت فنڈ میں احباب حصہ لیں قابل اصلاح افراد
خطابات شوری جلد دوم نمبر شمار عناوین اللہ تعالیٰ مؤمن کا امتحان لیتا ہے مجاہد اور صابر میں فرق اللہ تعالیٰ کی جماعت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا دنیا کی زندگی کیا ہے؟ صدرانجمن سے خطاب بیرونی جماعتوں سے خطاب مجلس مشاورت اکتوبر ۱۹۳۶ء افتتاحی تقریر (i) صفحہ نمبر شمار عناوین صفحہ AL ۸۹ تبلیغی مراکز کی ضرورت تاجروں کی طرف توجہ کی اہمیت دو توجہ طلب رویا ۱۷۵ ۸۹ ۹۱ ۹۴ ۹۴ چندہ بڑھانے کا طریق سچا تو گل اختتامی تقریر 100 آمد بڑھانے کی تجاویز ۱۱۲ اختتامی تقریر مجلس مشاورت ۱۹۳۷ء افتتاحی تقریر شورای میں جمع ہونے کی غرض مامورین کی آمد کی غرض یورپی فلسفہ پر اسلام کی برتری بعثت حضرت مسیح موعود کی غرض ایک احمدی کا فرض ہماری ذمہ داریاں ۱۲۳ ۱۳۱ ۱۳۱ ۱۳۶ نیکی کیا ہے؟ مورخین کیلئے ہدایات فتوحات اور تیاری کی ضرورت ۱۳۸ { ۱۴۱ ۱۴۱ ۱۴۳ ۱۴۴ طلباء کی تعلیم کیلئے ہدایات بیکاری دور کی جائے قادیان میں مکان بنانے کی تحریک بعض اعتراضات کے جوابات وقار عمل کی اہمیت شعبہ صنعت و حرفت کے بارہ میں مجلس شورای کے آداب مبلغین کے لئے ہدایات ܬܙ ہدایات 121 چندہ تحریک جدید کی اہمیت صحابہ کا ایثار بقایا جات کی وصولی کا طریق ۲۰۸ براہ راست چندہ بھجوانے کے نقصان ۲۰۹ منارة المسیح کی سفیدی کی تلقین مصنفین کیلئے ہدایات الفضل کو ایک ضروری ہدایت ۲۱۳ ۱۲۱۵ }} } { { { { { {2y : { لا لا ۲۲۱ ۱۱۸۴ ۱۸۸ IZA IZA ۲۱۷
خطابات شوری جلد دوم (iii) نمبر شمار عناوین صفحہ نمبر شمار امانت فنڈ ۲۴۱ صحابہ پر اسلامی تعلیم کے اثرات وعدہ وہ ہے جو نیکی پر مبنی ہو ۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء افتتاحی تقریر احمدیت کی ترقیات پختہ عزم کی ضرورت ۲۴۴ ۲۵۰ ۲۵۶ ۲۵۶ ۲۶۳ غیر احمدی عورتوں سے شادی کا مسئلہ ۲۶۷ رشتہ میں کفو کی اہمیت تربیت اولاد امراء کے انتخاب کا طریق خلافت کے انتخاب کا طریق تشخیص بجٹ ۲۷۳ ۲۷۴ ۲۷۷ ۲۸۲ ۲۸۳ عناوین کارکنوں کی قربانی پر رشک اختتامی تقریر احباب جماعت کو آئندہ خطرات کیلئے تیاری کرنی چاہئے غلبہ احمدیت سے قبل مصائب آئیں گے دو رویا صفحہ ۱۳۰۷ ۳۰۹ ۳۱۲ ۳۱۴ مسیح ناصری کے حواریوں کی قربانیاں | ۳۱۹ کٹا کومبز کامیابی کیلئے قربانیوں کی ضرورت ابتلاؤں کا ذکر اور مامور زمانہ کا رویا ابتلاؤں کی زبر دست پیشگوئی قربانیوں کا سبق دہراتے جاؤ صحابہ رسول ﷺ کا اخلاص ۳۲۱ :: } } } { { { تاجر طبقہ کی چندوں میں بے احتیاطی ۲۸۴ چندہ جلسہ سالانہ کی اہمیت مبلغین کی تیاری اور تقرر کے بارہ میں ہدایات بجٹ پر بحث کے بعد حضور کی تقریر بجٹ پر اعتراضات کے جوابات حوالہ جات کے ماہر پر رشک حوالہ جات کے علم کی اہمیت ایک انتباہ ۲۸۶ ۲۹۱ ۲۹۹ ۳۰۰ ۳۰۰ ۳۰۵ ۳۰۶ حضرت مسیح موعود کی اپنی والدہ سے محبت اہل حدیث کی ترقی کا راز ۳۳۲ ۳۳۶ مبلغین کا معیار بلند کرنیکی ضرورت ۳۳۸ مدرسہ احمدیہ کے اساتذہ کا معیار بلند ہونا چاہئے ۳۴۰ مختلف علوم کے ماہر تیار کرنے کی سکیم ۳۴۶ ممبران مجلس مشاورت کے غور و فکر کیلئے بعض تجاویز
خطابات شوری جلد دوم نمبر شمار عناوین ۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء (iv) صفحہ نمبر شمار عناوین تحریک جدید کا غیروں پر اثر صفحہ ۴۰۴ ۴۰۵ ۴۰۶ ۴۰۷ ۴۰۹ ۴۲۲ ۴۲۲ ۴۲۳ 중 ۴۳۱ ۴۳۵ ۴۴۱ ۴۴۳ ۴۴۸ دعوت الی اللہ کی ہدایت یوم پیشوایان مذاہب جلسہ ہائے سیرت حضرت مسیح موعود مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ میں داخلہ کا معیار وصیت کیلئے جائیداد کے معیار کی تعیین اختتامی تقریر یورپین طاقتیں مسلمانوں کو کچل دینا ابرہہ کے مقابلہ میں عبدالمطلب کا رد عمل ۳۶۳ ۳۶۳ ۳۶۴ ۳۶۵ ۳۶۶ ۳۷۰ ۳۷۱ ۳۷۳ افتتاحی تقریر تاریخ محفوظ کرنے کی ہدایت مطالبات تحریک جدید کا خلاصہ واقفین زندگی کی قربانیاں دو شہداء کا ذکر تحریک جدید کا مستقل فنڈ تبلیغ احمدیت اور ہمارا مقصد روحانی غلبہ اور ہماری ذمہ داری اقتدار اور غلبہ کے دور میں کام کی حیثیت ۳۷۶ چاہتی ہیں مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء افتتاحی تقریر شورای کے نمائندوں کا انتخاب درست ہونا چاہیئے دین اور تقوی کی اہمیت اہل اللہ کی زبان کی تاثیر یومِ سیرت پیشوایان مذاہب کے جلسہ یونیورسٹی کے قیام کی تجویز تعاونی کمیٹی کی سکیم ۳۷۷ ۳۸۰ ۳۸۲ ۳۸۹ ۳۹۰ ۳۹۲ ۳۹۵ ۳۹۸ اللہی قربانیاں کون سی ہیں ہماری فتح روحانیت کے ذریعہ ہے قانون کا احترام اور وعدہ کا ایفاء ضروری ہے جماعت احمدیہ کا جھنڈا جھنڈے کی افادیت اور اہمیت جوبلی کے موقع پر مشاعرہ جو بلی کے موقع پر جلوس جو بلی کے موقع پر چراغاں جو بلی کے موقع پر جلسہ اور جلوس کی فلم کی کامیابی ۴۰۱ ۴۰۲ کی تیاری سینما کی ممانعت کے بارہ میں
خطابات شوری جلد دوم نمبر شمار عناوین صفحہ نمبر شمار عناوین صفحہ غرباء کی امداد کا طریق ہماری کامیابی کا راز ایک مبشر رویا ۴۵۰ ۴۵۳ ۴۵۴ روحانی لذات ۴۹۵ روحانی انعامات میں پہلوں سے آگے بڑھنے کی تلقین ۵۰۱ اگر موصی منظوری وصیت سے قبل حضرت ابوبکر کی خدمات وفات پا جائے ۴۵۷ پنشن کا کمیوٹ شدہ حصہ آمد سمجھا جائے گا ؟ تجویز پراویڈنٹ فنڈ اور پنشن ۴۵۹ صحابہ کا جذ به عشق ایک انتباہ ۴۵۸ ۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء پیغامیوں کے ایک اعتراض کا جواب ۴۶۵ مجلس شورای کی اہمیت مشورہ دیتے وقت غور سے کام لینا چاہئے ۴۶۸ صحابہ کا اخلاص حضور ﷺ کا اعلیٰ نمونہ حضرت ابرا ہیم سے قربانی کرانے کی حکمت اختتامی تقریر ۴۷۲ ۴۷۳ قومی ترقی کیلئے دعا ضروری ہے نومبائعین کا فرض نمائندگان کے انتخاب میں احتیاط ممبران سب کمیٹی کے انتخاب کا طریق ممبران سب کمیٹی کے فرائض مجلس شورا ی کی ایک اہم چیز ۵۰۸ افتتاحی تقریر ۵۱۳ ۵۱۴ ۵۱۶ ۵۱۷ ۵۱۸ ۵۲۰ ۵۲۰ دو مقاصد مد نظر رکھیں ہندوستان کے بعض نقائص صحیح علم کی ضرورت سبق آموز واقعات مشاورت کی اصل غرض ۴۸۱ ۴۸۲ ۴۸۴ ۴۸۵ ۴۸۷ خلیفہ وقت کے وقت کا خیال رکھنا چاہیئے منتظمین کا ایک فرض دور رفقاء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فیصلوں کی اہمیت ایک ایمان افروز روایت ۵۲۲ ۱۵۲۴ ۵۲۴ اپنے آپ کو خدا کے ہاتھ میں دے دیں ۴۸۸ صحابة رسول ﷺ کے خلوص کے رنگ ۵۲۵ ایک نکتہ ۴۹۱ ایک تاریخی واقعہ کی تفصیح ۵۲۶
صفحہ ۵۸۲ ۵۸۲ خطابات شوری جلد دوم نمبر شمار عناوین (vi) صفحہ نمبر شمار عناوین رفقاء حضرت مسیح موعود کی ذمہ داریاں ۵۲۷ ۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء فیصلے کرتے وقت تقوی کو مد نظر رکھیں ۵۲۸ افتتاحی تقریر شورای کے آداب ۵۳۲ سب کمیٹیوں کے ممبروں کے انتخاب نازک حالات میں اپنے فرائض کو سمجھیں غیر از جماعت لڑکیوں سے رشتہ کا مسئلہ ۵۳۳ میں احتیاط اختتامی تقریر ناظران دوسرے محکموں کا بھی خیال ۵۴۵ منذر رویا جماعت کو اجتماعی اور انفرادی دعاؤں کی تلقین ۵۸۶ ۵۸۶ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کا خود فکر کرو ۵۹۰ ۱۵۹۳ ۵۹۸ ۶۰۱ ۶۰۲ ۶۰۳ ۶۰۵ ۶۰۶ ۶۰۹ ۶۲۴ ۶۳۵ نظارتوں کے فرائض تقریر کا اثر شادی بیاہ کے موقع پر رسوم سے اجتناب چاہئے ولیمہ کے بارہ میں اسلامی تعلیم جہیز کی نمائش نہ کی جائے مہندی کی رسم ہندوؤں میں تبلیغ کی اہمیت چندہ وصیت کی واپسی کا سوال بجٹ ۴۲ ۱۹۴۳ء کے متعلق تقریر ۵۴۷ ۵۴۸ ۵۶۲ ۵۶۳ ۵۶۴ ۵۶۷ ۵۶۸ ۵۶۹ ناظران ماتحتوں کو بھی دلائل دینے کا موقع دیں اجتماعی کاموں کی پوزیشن تبلیغ کا ایک اہم گر شورای میں لجنہ کی نمائندگی نست افراد کی اصلاح کا طریق ہر جگہ ذیلی تنظیمیں قائم کی جائیں خدام الاحمدیہ کا فرض کھیلوں کی اہمیت خدام لاحمدیہ کے دیگر فرائض تنظیموں کے قیام کی غرض فوجی بھرتی میں حصہ لیں دنیا میں تلوار نہیں بلکہ رعب کام کرتا ہے ۵۷۱ تقویٰ سے دوری کا نتیجہ بعض اہم رویا جرمنی تبلیغ کا بہترین مقام ۵۷۳ ۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء ۵۷۷ افتتاحی تقریر
خطابات شوری جلد دوم نمبر شمار عناوین ممبران سب کمیٹیوں کیلئے ہدایات بجٹ کے بارہ میں اہم ہدایات ریز روفنڈ کیلئے ہدایات کارکنون کیلئے جنگ الاؤنس کی ہدایت جماعتی عہد یداران کا انتخاب مجلس شورای کی پوزیشن یتامی کی خبر گیری مانگنے کی ایک صورت میر محمد الحق صاحب کا قابلِ تعریف کام (vii) صفحہ نمبر شمار عناوین صفحہ ۶۳۶ ۶۳۹ ۶۴۱ خلیفہ وقت پر اعتراض کے نقصان ۷۱۳ قادیان میں کالج کی ضرورت 212 روپیہ جمع کرنے کا فائدہ ۱۷۱۸ تاجروں کو مالی قربانی کی خاص تلقین ۷۲۰ ۶۴۶ ۶۴۷ ہمارے سلسلہ کا انحصار خدا پر ہے مجلس مشاورت کی کارروائی جماعت ۷۲۱ ۶۵۸ ۶۵۹ کوسنا ئیں ۷۲۴ نشانات کا ظہور ۷۲۷ ۶۶۲ مغربیت کے زوال کی پیشگوئی عشق خدا میں فنا ہو جاؤ ۷۳۲ ۷۳۵ یتامی کی پرورش قوم کونڈ ر بناتی ہے ۶۶۴ اسلامی پردہ اور مخلوط تعلیم پردے کی استثنائی صورتیں ۶۷۱ عورتوں سے حسن سلوک کی تلقین ۶۷۴ ایک مسلمان عورت کی غیرت ایمانی ۶۷۷ نو مسلم کا ختنہ چندہ جلسہ سالانہ کی اہمیت 729 ۶۸۶ دنیا میں حقیقی کام عاشق مجتہد کے ذریعہ سے ہی ہوتا ہے خدا اپنے سلسلہ کی مدد کرتا ہے جماعت احمدیہ کی دیانت نمائندگان شورای کا ایک اہم فرض اختتامی تقریر ۶۹۰ ۶۹۳ ۷۰۲ 2.9
خطابات شورای ۱۹۳۶ء تا ۱۹۴۳ء
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء ( منعقده ۱۰ تا ۱۲ را پریل ۱۹۳۶ء) پہلا دن مجلس مشاورت ۱۰ تا ۱۲.اپریل ۱۹۳۶ء تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہال میں منعقد ہوئی تلاوت کے بعد حضور نے دعا سے متعلق فرمایا : - دعا دوست سب سے پہلے میرے ساتھ دُعا کر لیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اس اجتماع کو با برکت بنائے اور اپنے فضل سے ہماری راہنمائی ان امور کی طرف کرے جو اس کی منشاء کے مطابق ہوں اور ان امور سے ہماری توجہ پھیر دے جو اس کی منشاء کے خلاف ہوں.66 افتتاحی تقریر تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے سورہ محمد کی درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی.وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ المُجْهِدِينَ مِنْكُمْ وَ الصَّبِرِينَ وَنَبْلُوا اخباركُمُ انَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَشَاقُوا الرَّسُولَ مِنْ الا بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى لَن يَضُرُّوا اللَّهَ شَيْئًا وَ سَيُخيطُ اعْمَالَهُمْ يايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَ َأطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ إِن الّذينَ كَفَرُوا وَ صَدُّوا عَن سَبِيلِ اللهِ ثُمَّ مَاتُوا وَهُمْ كُفَّارُ فَلَنْ يَغْفِرَ ط الله لهُمْ فَلا تَهِنُوا تَدْعُوا إلى السّلمِ وَأَنتُمُ الأَعْلَوْنَ وَاللَّهُ مَعَكُمْ وَلَن يَتِرَكُمْ أَعْمَالَكُمْ إِنَّمَا الْحَيَوةُ الدُّنْيَا لَعِب وَ لَهُرُ وَإِن تُؤْمِنُوا وَ تَتَّقُوا يُؤْتِكُمْ أُجُورَكُمْ وَ لا يَسْلُكُمْ آمُوَالَكُمْ إِن يَسْتَلْكُمُوهَا فَيُحْفَكُمْ
مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء خطابات شوری جلد دوم تبْخَلُوا وَ يُخْرِجُ اصْغَانَكُمْ هَاَنْتُمْ هَؤُلاء تُدْعَونَ لِتُنْفِقُوا فِي سَبِيلِ الله فَمِنْكُمْ مِّن يَبْخَلُ وَ مَن يَبْخَلُ فَإِنَّمَا يَبْخَلُ عَن نَّفْسِهِ وَ اللَّهُ الْغَنِيُّ وانْتُمُ الْفُقَرَاء وَإِن تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِل قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا آمَا لَكُمْ پھر فرمایا:.دُنیا میں نادانی اور کم عقلی کی یہی پہچان ہوتی ہے کہ عقلمند انسان اپنا وقت نفع اور فائدہ حاصل کرنے کے لئے خرچ کرتا ہے مگر بے وقوف اپنا وقت بے فائدہ اور بے غرض خرچ کر دیتا ہے.ہم لوگ سالانہ اس اجتماع کے لئے جمع ہوتے ہیں، باتیں کرتے ہیں، بعض بحثیں بھی کرتے ہیں ، بعض بحث کرتے ہوئے تیز بھی ہو جاتے ہیں، بعض اپنی رائے پر اتنا زور دیتے ہیں کہ گویا اگر اُسے قبول نہ کیا گیا تو دُنیا ادھر کی اُدھر ہو جائے گی مگر ان ساری باتوں کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ اگر ہماری ان گفتگوؤں اور ہماری ان بحثوں کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے دین اور اُس کی مخلوق کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا تو یقیناً یہ اجتماع خدا تعالیٰ کی رضا، اُس کی خوشنودی اور برکت کے حصول کا ذریعہ نہیں ہوسکتا.اگر ہم محض شغل کے لئے جمع ہوتے ہیں اور ایک عادت کے طور پر اسے کرتے چلے جاتے ہیں جس طرح ایک افیونی افیون کھا کر اور ایک بھنگ پینے والا بھنگ پی کر آرام محسوس کرتا ہے اسی طرح سال کے بعد عادت پوری کر کے ہم بھی اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں تو یقیناً یہ اجتماع ہمارے لئے فائدہ مند نہیں ہو سکتا اور خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا موجب نہیں ہوسکتا.نہ سلسلہ کے لئے اور نہ ہمارے لئے مفید ہوسکتا ہے.مجلس شوری کے نتائج یہ معلوم کرنا کہ یہ اجتماع کہاں تک سلسلہ کے لئے اور ہمارے لئے مفید ہوتا ہے اس کے متعلق ہر جماعت کا ہر نمائندہ سوچ سکتا ہے اور فیصلہ کر سکتا ہے.بالکل ممکن ہے کہ یہ اجتماع بعض جماعتوں کے لئے مفید ہو.بالکل ممکن ہے کہ بعض افراد کے لئے بھی مفید ہو اور ممکن ہے کہ بعض جماعتوں کے لئے اور بعض افراد کے لئے مفید نہ ہو.پس اس میں شمولیت کہاں تک روحانی ترقی کا موجب بنتی اور خدا تعالیٰ کی رضا کا مستحق بناتی ہے اس کا فیصلہ افراد کے لحاظ سے کرنا میرے لئے مشکل
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء یہ فیصلہ خود جماعتیں اور افراد ہی کر سکتے ہیں.ہاں ایک فیصلہ ہے جو ہم میں سے ہر وہ شخص کر سکتا ہے جو حالات سے واقف ہو اور وہ یہ ہے کہ ہماری مجموعی کوشش اور جد و جہد کا نتیجہ کیا نکلا.اسے مد نظر رکھتے ہوئے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس مجلس شوری کے نتائج اتنے شاندار نہیں نکلے جتنے شاندار نکلنے چاہیئے تھے کیونکہ جو بیداری اس کے نتیجہ میں پیدا ہونی چاہئے تھی اور جو ہوشیاری اس میں شامل ہونے والے نمائندوں کو اپنی اپنی جماعتوں میں جا کر پیدا کرنی چاہئے تھی وہ اُس حد تک اور اتنی وسعت سے نظر نہیں آتی جتنی اس مجلس کے نتیجہ میں پیدا ہونی چاہئے تھی.پس مجموعی نتائج کو مد نظر رکھتے ہوئے میں کہہ سکتا ہوں کہ ہماری یہ مجلس اپنی غرض اُس حد تک پوری نہیں کر رہی جس حد تک اسے پوری کرنا چاہئے تھی اور جس حد تک پورا کرنے کی ضرورت ہے.مومن کی علامت مومین کا ہر کام ہمیشہ سنجیدہ ہوتا ہے.وہ کسی کام کو جس میں ہاتھ ڈالتا ہے کبھی بے تو جہی اور بے دلی سے نہیں کرتا.جب وہ کسی کام کے متعلق سمجھتا ہے کہ وہ مفید ہے تو اس میں ہاتھ ڈالتا ہے اور پھر اس کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیتا ہے اور جب تک اسے پورا نہ کر لے اسے چین نہیں آتا.منافق کی علامت یہ منافق کی علامت ہوتی ہے کہ ایک بحث میں لگ جاتا ہے، بڑھ بڑھ کر باتیں بناتا ہے مگر جب کام کرنے کا وقت آتا ہے تو کہہ دیتا ہے کہ میں تو یونہی بنسی کر رہا تھا.اگر ہم بھی صرف باتیں کریں اور پھر کہہ دیں کہ ہم تو ہنسی مذاق کر رہے تھے اور گھروں کو چلے جائیں تو ہم اپنے نفاق کا فتویٰ اپنے قول سے دینے والے ہوں گے.ہمارا عظیم الشان مقصد لیکن اگر ہماری باتیں ہنسی کے طور پر نہیں ہوتیں بلکہ ہمارے سامنے ایک مقصد اور مدعا ہے تو ہمیں اپنے اقوال سے اپنے افعال کو متحد بنانا چاہئے اور ہماری زندگی کے ۳۶۲ دن مجلس مشاورت کے ان تین دنوں کے مطابق ہونے چاہئیں.اگر ان کے مطابق نہیں ہیں تو اس کے لازمی طور پر معنی یہ ہوں گے کہ گو قولا ہم نہ کہیں مگر فعلا اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ یہ تین دن ہم محض ہنسی اور تمسخر میں خرچ کرتے ہیں.ہمارے سامنے جو کام ہے وہ معمولی کام نہیں ہے.اگر ہم
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء دیانت دار لوگ ہیں، اگر ہم امین لوگ ہیں ، اگر ہم سنجیدہ لوگ ہیں تو ہمارا دعویٰ ایسا دعویٰ ہے جو زمین و آسمان کو ہلا دینے والا دعوئی ہے.دیکھو اگر کہیں کوئی معمولی نمائش ہونے والی ہوتی ہے تو لوگ سال بھر یا تو دس ماہ پہلے سے اُس کا انتظار کرنے لگ جاتے ہیں اور جب اُس نمائش کے کام کو ہم دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سینکڑوں آدمی اس کی تیاری میں لگے ہوتے ہیں.ہم وہاں ایک خاص قسم کی بیداری اور چستی محسوس کرتے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ نمائش میں حصہ لینے والے لوگوں کے سامنے دُنیا ایک اور مقصد لے کر کھڑی ہوگئی ہے حالانکہ وہ کام جس کے لئے اتنی محنت کر رہے اور اتنی مشقت اٹھا رہے ہوتے ہیں، سال یا تو ماہ یا چھ ماہ کے انتظار کا نتیجہ ہوتا ہے.لیکن ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم اُس کام کو کرنے کے لئے کھڑے ہوئے ہیں جس کے متعلق حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک سب انبیاء خبر دیتے چلے آئے ہیں اور جس کا انتظار سب انبیاء کی جماعتوں کو رہا ہے.پھر ہم اس بات کا دعویٰ رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں اس جنگ کو فتح کرنے کے لئے مقرر کیا ہے جس جنگ سے تمام انبیاء اپنی اپنی امتوں کو ڈراتے چلے آئے ہیں.اگر واقعہ میں یہ وہی جنگ ہے اور واقعہ میں ہمیں اس جنگ کو فتح کرنے کے لئے کھڑا کیا گیا ہے تو کیا ہمارے کاموں میں وہی چستی اور ہوشیاری اور سرگرمی پائی جاتی ہے جو اس قسم کی جنگ میں کامیابی کے لئے ضروری ہے؟ اگر نہیں تو دو باتوں میں سے ایک ضرور ہے.یا تو یہ کہ یہ جنگ وہ نہیں ہے جس کی پہلے سے خبر دی جاتی رہی ہے یا پھر ہم اس جنگ کی اہمیت کو نہیں سمجھے اور جب تک ہم خود اپنے کام کی اہمیت کو نہ سمجھیں اُس وقت تک غیروں کو سمجھانے کا ہمیں حق نہیں پہنچتا.اور پھر یہ امید بھی نہیں کی جاسکتی کہ ایسی صورت میں غیر ہماری باتوں کا کوئی اثر قبول کرے گا.جماعت احمد یہ اپنی ذمہ داری کو سمجھے پس میں آج پھر جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داری.کو سمجھے ، اپنے کام کی اہمیت کو سمجھے اور اپنے مقصد کو ہر وقت پیش نظر رکھے.منہ کی باتیں قطعاً کوئی نفع نہیں دے سکتیں.ہم منہ کی باتوں سے انسانوں کو خوش کر سکتے ہیں مگر صرف کچھ عرصہ کے لئے کیونکہ کب تک لوگ ہم میں عملی قوت کا فقدان دیکھتے ہوئے ہماری باتوں پر
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاو مشاورت ۱۹۳۶ء اعتبار کرتے چلے جائیں گے مگر خدا تعالیٰ کو تو ایک لمحہ کے لئے بھی دھوکا نہیں دے سکتے.ہم جس مقصد کے پورا کرنے کا دعوئی رکھتے ہیں اگر اس پر ہمارا ایمان ہو تو تمام جماعت میں ایک ایسی آگ لگ جانی چاہئے کہ کسی احمدی کو ایک منٹ کے لئے بھی چین نہ آئے.بڑی بڑی آگئیں جو حالت پیدا کر دیتی ہیں اُس کو جانے دیں.پھر اس جنگ کو بھی جانے دیں جس کے متعلق گزشتہ انبیاء نے پیشگوئیاں کیں اور لوگوں پر اس کی اہمیت واضح کرتے رہے.صرف یہی دیکھ لو کہ کیا ہمارے اعمال اُن لوگوں کے اعمال کے بھی مشابہہ ہیں جن کے گھروں کو آگ لگی ہوئی ہو جو چُستی ، جو تیزی ، جو سرگرمی اُن کے اعمال میں پائی جاتی ہے کیا وہ ہمارے اعمال میں ہے؟ اگر ہمارے اعمال میں وہ چستی نہیں جو ان کے اعمال میں ہے.اگر ہمارے اقوال اور افعال میں اُن کے برابر سنجیدگی نہیں تو پھر ہم کیونکر اس عظیم الشان تغییر کی امید رکھ سکتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی قائم کردہ جماعتیں دُنیا میں پیدا کیا کرتی ہیں اور کیونکر اُس فضل کی اُمید رکھ سکتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اور جس کے بغیر کوئی بڑا کام نہیں ہو سکتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کوئی بڑا کام جس کی ابتداء بِسمِ اللہ سے نہ کی جائے کامیابی کے ساتھ سرانجام نہیں پاتا.پس جس عظیم الشان کام کے لئے کھڑے ہونے کا دعوی ہم کرتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی نصرت کے بغیر نہیں ہو سکتا اور خدا تعالیٰ کی نصرت جن حالات میں آتی ہے مجھے افسوس کے ساتھ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ وہ ابھی تک ہماری جماعت پیدا کرنے سے قاصر رہی ہے.مگر جو غلطی ہم پیچھے کر آئے ہیں کیا آئندہ کے لئے بھی اس کا اعادہ ضروری ہے؟ کسی شخص کے متعلق لکھا ہے کہ وہ بڑا جابر تھا.دوسرے لوگ اُسے بہت نصائح کرتے مگر اُس کے دل پر کسی کی بات کا کوئی اثر نہ ہوتا.وہ اپنی دولت کے گھمنڈ میں اور حکومت کے نشہ میں جو چاہتا کرتا، نہ غرباء کا خیال کرتا نہ ہمسائیوں کے آرام کی اسے کوئی پرواہ ہوتی ، دین کے معاملہ میں ہنسی اور تمسخر کرنا اُس کا معمول تھا ، آخر سب لوگوں نے تنگ آ کر اُسے کچھ کہنا چھوڑ دیا.ایک دفعہ ایک بزرگ نے جو اُسے نصیحت کرتے رہتے تھے مگر وہ نہ مانتا تھا اُسے خانہ کعبہ میں دیکھا اور حیران رہ گئے.پوچھا تم کہاں؟ کہنے لگا آپ کو معلوم ہے بہت لوگوں نے مجھے نصیحتیں کیں مگر مجھے کچھ فائدہ نہ ہوا.اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک وقت مقدر کیا ہوا تھا.ایک دن میں بازار میں سے
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء گزر رہا تھا کہ کوئی اجنبی قرآن کریم پڑھ رہا تھا.جب اُس نے یہ آیت پڑھی کہ آلمریان للذين أمنوا أن تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ الله ا یعنی کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ وہ لوگ جو اپنے آپ کو ایماندار کہتے ہیں اُن کے دلوں میں خشیت اور ڈر پیدا ہو؟ تو مجھے ایسا معلوم ہوا کہ مجھ پر بجلی گر پڑی ہے.میں نے اُسی وقت تو بہ کی.جہاں تک مجھ سے ہوسکا میں نے اُن مظالم کا کفارہ ادا کیا جو دوسروں پر کر چکا تھا اور پھر حج کے لئے چلا آیا.مغلوب کی اصلاح کے اوقات تو ایسے اوقات آتے ہیں جب قلوب کی اصلاح ہو جاتی ہے مگر ان وقتوں کو لانے کی کوشش بھی تو کرنی چاہئے.اس کے لئے اپنے ارادوں میں تغیر کرنا ضروری ہوتا ہے، اپنی نیتوں کو بدلنا ضروری ہوتا ہے، اپنے اندر بحجز وانکسار پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے.بیشک اس شخص کے کان میں اُس وقت آواز پڑی جب وہ بازار میں سے گزر رہا تھا لیکن اُس نے اپنے آپ کو بازار میں پہنچایا تو تھا.اسی طرح ہماری کامیابی بھی خدا تعالیٰ کے فضل پر ہی منحصر ہے مگر اس فضل کو جذب کرنے میں ہماری کوشش کا بھی دخل ہے.جیسا کہ ایک واقعہ آتا ہے کہ ایک شخص پرندوں کو دانہ ڈالا کرتا تھا کسی نے کہا اِس کو اِس کا کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے یہ تو کافر ہے.آخر جب وہ ایمان لے آیا اور اُس سے پوچھا گیا کہ تم کس طرح ایمان لائے؟ تو اُس نے کہا وہی پرندوں کو دانے ڈالنا میرے کام آ گیا.اسی طرح لکھا ہے ایک صحابی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا یا رسول اللہ ! کفر کی حالت میں میں نے جو نیک اعمال کئے اُن کا بھی مجھے کچھ فائدہ ہوگا؟ فرمایا.اَسْلَمْتَ عَلَى مَا أَسْلَفْتَ اُس وقت تم نے جو نیک اعمال کئے اُنہی کا نتیجہ ہے کہ تم اسلام لائے ، انہی کی وجہ سے تمہیں ایمان لانے کی توفیق حاصل ہوئی.پس اس شخص کے لئے نصیحت حاصل کرنے کی گھڑی بازار میں آئی مگر اس کے پیچھے اس کا کوئی عمل ضرور تھا.اسی طرح تمہارے لئے بھی کامیابی کی گھڑی آسکتی ہے مگر اس کے لئے بھی تیاری کی ضرورت ہے.دوستوں کے سوال اس وقت میں بھی دوستوں سے پوچھتا ہوں.آلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ امَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللهِ.کیا ابھی وقت نہیں آیا جب کہ اسلام کی تباہی اور احمدیت کی بے کسی ان پر اثر کرے اور وہ یہ کہنے کے لئے تیار ہو
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء جائیں کہ ہر چہ بادا باد ماکشتی در آب انداختیم “ ہم نے کشتی دریا میں ڈال دی ہے اب جو بھی ہوتا ہے وہ ہو جائے.کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا جب ہر شخص اس ارادہ اور اس نیت سے سلسلہ کے کاموں کی طرف توجہ کرے کہ میں اب نتائج کی قطعاً پرواہ نہیں کروں گا جو ہو جائے سو ہو جائے ؟ یہ بالکل ممکن ہے کہ سب کے سب کی حالت ایسی نہ ہو اور سب کے لئے وہ وقت نہ آیا ہو مگر جن کے لئے وہ وقت آچکا ہے اور جو اپنے قلب میں اس آیت کا جواب پاتے ہیں اُن کو تو چاہئے کہ اس وقت سے فائدہ اُٹھا ئیں تا کہ وہ آگے بڑھیں اور اُن کی جگہ لینے کے لئے اور آگے آجائیں.جس طرح اگر کسی محکمہ کے ایک عہدہ دار کو ترقی ملتی ہے تو دوسروں کے آگے آنے کے لئے جگہ نکل آتی ہے، ایسا ہی روحانیت میں بھی ہوتا ہے.پس اگر ہم میں سے سب کے سب لوگ نہ سہی کچھ ہی ہوں جو آلمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ امَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ الله کا جواب اپنے دل میں پاتے ہوں تو وہ آگے آجائیں.اس سے کچھ اور لوگوں کو ان کی جگہ لینے کا موقع مل جائے گا اور وہ آگے بڑھ آئیں گے.پس سب سے پہلے میں اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ہمارا کام معمولی نہیں.اس کے لئے جس اخلاص ، جس سنجیدگی اور جس صفائی قلب کی ضرورت ہے وہ بہت بڑی قربانی، بہت پختہ ارادہ اور بہت بڑا عزم چاہتی ہے.جب تک ہم اس ارادہ، اس نیت اور اس عزم کے ساتھ قلب کی اصلاح میں لگ نہ جائیں یہ کام معمولی کوششوں سے طے نہیں پاسکتا.دل کی صفائی کس قدر مشکل کام ہے ہمارے ذمہ کتنا عظیم الشان کام ہے.اور پہلوؤں کو جانے دو صرف اپنی ذات کی اصلاح کا پہلو ہی لے لیں تو دُنیا کا کوئی کام اس کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتا.بڑے بڑے شہروں کی صفائی کرنا آسان ہے ایک دل کی صفائی کرنے کی نسبت.کیونکہ شہر کی گندگی آنکھوں کو نظر آ جاتی ہے لیکن دل کی گندگی نظر نہیں آتی.جن شہروں میں گندگی پھیلی رہتی ہے اُن کے باشندے اُسے محسوس کرتے اور اُسے سخت نا پسند کرتے ہیں لیکن جس دل میں گندگی ہو وہ اُسے محسوس نہیں کرتا.اس سے ظاہر ہے کہ دل کی صفائی کتنا بڑا اور کتنا مشکل کام ہے مگر ہمارا کام ایک دل کی اصلاح کرنا نہیں بلکہ سب دُنیا کے دلوں کی اصلاح کرنا ہے.غور تو
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاو مشاورت ۱۹۳۶ء کرو، شریعت اسلام کا کون سا حکم ہے جسے لوگ آسانی سے اور بخوشی ماننے کے لئے تیار ہیں.کیا لڑکیوں کو ترکہ میں سے اُن کا حق دیا جاتا ہے غیروں کو جانے دو، اپنوں کے متعلق ہی بتاؤ کہ اس سلسلہ کو قائم ہوئے پچاس سال ہو چکے ہیں کیا ہماری جماعت کے تمام لوگ لڑکیوں کو ترکہ میں سے اُن کا حق دیتے ہیں؟ ہماری جماعت میں ۸۰ فیصدی پنجاب کے لوگ زمیندار ہیں جن کے نمائندے اس وقت یہاں بیٹھے ہیں.وہ اپنے آپ سے پوچھ لیں کیا ان میں سے سب نے اپنی بہنوں کو ورثہ میں سے حصہ دیا؟ یہ کوئی ایسا حکم نہیں جس کے متعلق کسی قسم کا اختلاف ہو یا کسی اجتہاد کی ضرورت ہو.سب فرقوں کے لوگ اسے درست تسلیم کرتے ہیں اور نسلاً بعد نسل پہنچایا گیا ہے مگر آج تک جماعت کا اِسے دوسروں میں قائم کرنا تو الگ رہا اپنے اندر بھی نہیں قائم کر سکی.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج تک اعتراض کیا جاتا ہے کہ مرزا صاحب نے اپنی لڑکیوں کو حصہ نہیں دیا.یہ بات کیوں پیدا ہوئی؟ اس لئے کہ لوگ ایسے احمدیوں کو دیکھتے ہیں جنہوں نے اپنی بہنوں کو حصہ نہیں دیا اور وہ کہتے ہیں ایسا ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی کیا ہو گا.حالانکہ فرض کر لو.( میں اللہ تعالیٰ کی حفاظت طلب کرتا ہوا اور استعاذہ طلب کرتا ہوا کہتا ہوں ) اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد اپنی بہنوں کو حصہ نہ دیتی تو اس میں قصور اولاد کا ہوتا نہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا.مگر یہ خلاف واقعہ بات ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد اپنے خاندان کے لحاظ سے ہم نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ بہنوں کو حصہ دیا اور والدہ صاحبہ کا حصہ نکالا.اُس وقت ایک سرکاری افسر آیا جس نے آ کر کہا کہ آپ قانون کے رو سے ایسا نہیں کر سکتے.میں نے اُسے کہا اگر ایسا نہیں ہوسکتا تو ہم ایسی جائداد اپنے پاس رکھنے کے لئے تیار نہیں اور اسے لعنت سمجھتے ہیں.لیکن اس وجہ سے کہ احمدی عام طور پر لڑکیوں کو حصہ نہیں دیتے مخالفین نے نتیجہ نکال لیا کہ یہی مرکز میں ہوا ہوگا.یہ جو میں نے مثال دی ہے ایسی ہزاروں اور لاکھوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں.اسلام اس قدر وسعت رکھتا ہے اور اتنا وسیع ہے کہ جس کی جزئیات کا اندازہ لگانا ناممکن ہے.اس کے اسرار روز بروز کھلتے جاتے ہیں اور دُنیا کے متعلق ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اسلام کی
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء ہر بات کو پس پشت ڈالے ہوئے ہے.خود مسلمان کہلانے والے اسلامی احکام کو نظر انداز کئے ہوئے ہیں اور غیر مذاہب کے لوگ اسلام پر ہنسی اُڑا رہے ہیں.جہاں چلے جاؤ یہی نظر آئے گا کہ اسلام کی خاک اُڑائی جا رہی ہے.ان حالات میں یہ قیاس کرنا اور یہ باور کرنا کہ اسلامی احکام دُنیا میں قائم ہو جائیں گے، انسانی لحاظ سے بالکل ناممکن اور محال ہے.غیروں میں کہاں قائم ہو سکتے ہیں جبکہ ابھی تک اپنوں میں بھی قائم نہیں ہوئے.وہ ہاتھ جو اسلام کے لئے چندہ دیتے ہیں اُس جائداد سے جس میں سے اُنہوں نے اپنی بہنوں اور بیٹیوں کا حصہ نہیں دیا، اُن میں اتنی طاقت کہاں آ سکتی ہے کہ شیطان کا سرمچل سکیں.ایسے کانپتے ہوئے ضعیف ہاتھوں نے کیا کرنا ہے اور کیا چوٹ لگانی ہے جبکہ وہ لرز رہے ہیں اور ان ہاتھوں والے یہ خیال کر رہے ہیں کہ اگر ہم نے بہنوں کو جائداد میں سے حصہ دیا تو ہم تباہ ہو جائیں گے مگر کیا وہ خاندان محفوظ رہ گئے جنھوں نے پہلے ایسا کیا؟ عزت خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری میں ہے ان خاندانوں کا کیا ذکر، کیا اسلام کے خلاف چلنے والی سلطنتیں قائم رہ گئیں؟ سب سے بڑی عظمت رکھنے والے روسی حکمران تھے مگر آج وہ کہاں ہیں؟ وہ شاہی محلوں اور بادشاہی درباروں میں نظر نہیں آئیں گے ، دنیاوی جاہ وجلال رکھنے والوں کی مجالس میں نظر نہ آئیں گے، سیاسی جماعتوں میں نظر نہ آئیں گے بلکہ ہوٹلوں میں برتن مانجتے ہوئے، شراب خانوں میں شراب پلاتے ہوئے اور مجتبہ خانوں میں فحش کی بکری کرتے ہوئے نظر آئیں گے کیا اُن کے قوانین نے ، اُن کی حکومت نے ، ان کی دولت و ثروت نے ، اُن کی عزت کو قائم رکھا؟ اور کیا خدا تعالیٰ کا قانون تو ڑ کر وہ اپنی عزت محفوظ رکھ سکے؟ پس یا درکھو یہ محض خیال اور وہم ہے کہ فلاں چیز عزت محفوظ رکھ سکے گی اور فلاں چیز خاندان کو تباہی سے بچالے گی.عزت خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری میں ہی مل سکتی ہے اور اُسی کی فرمانبرداری میں قائم رہ سکتی ہے.اگر ہم بھی اِن امور پر سنجیدگی سے عمل کرنے کے لئے تیار نہیں تو پھر میں نہیں سمجھتا کہ مجلس مشاورت قائم کرنے اور اس میں بحثیں کرنے کی کوئی ضرورت ہے.صحابہؓ کا قول اور عمل اگر ہم وہ جرات نہیں دکھا سکتے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ نے بدر کے موقع پر دکھائی.جو رسول کریم صلی اللہ علیہ
خطابات شوری جلد دوم ۱۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء وآلہ وسلم نے اس خیال سے کہ مدینہ والوں نے یہ اقرار کیا تھا کہ اگر دشمن مدینہ پر حملہ کرے گا تو لڑیں گے باہر جا کر نہیں لڑیں گے، صحابہ سے مشورہ پوچھا مہاجرین یکے بعد دیگرے کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ ہم لڑائی کے لئے تیار ہیں لیکن آپ اپنا سوال دُہراتے چلے گئے تا انصار بھی بولیں.تب انصار میں سے ایک صحابی کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! آپ نے بار بار دریافت فرمایا اور صحابہ نے جواب دیا مگر پھر بھی آپ سوال کو دُہراتے چلے جا رہے ہیں اس سے مجھے خیال ہوتا ہے کہ شاید آپ انصار سے دریافت فرما رہے ہیں.غالباً آپ کے مد نظر وہ معاہدہ ہے جو ہم نے آپ کے تشریف لانے پر کیا تھا کہ مدینہ پر حملہ ہو گا تو ہم آپ کے ساتھ مل کر دشمن کا مقابلہ کریں گے لیکن مدینہ سے باہر جا کر لڑنا ہمارے لئے ضروری نہ ہوگا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں.اس پر اس صحابی نے کہا یا رسول اللہ ! وہ اُس وقت کی بات ہے جب ہم نے آپ کو اچھی طرح نہ پہچانا تھا لیکن اب تو ہم آپ کو خوب پہچان چکے ہیں اس لئے ہم کہتے ہیں یا رسول اللہ! یہ سامنے سمندر ہے اگر آپ حکم فرمائیں کہ اس میں گھوڑے ڈال دو تو ہم ایک لمحہ کا توقف بھی نہیں کریں گے اور اگر دشمن آپ پر حملہ کرے تو وہ آپ تک نہیں پہنچ سکے گا جب تک ہماری لاشوں پر سے گزر کر نہ آئے گا.ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی ، آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی اور جب تک جان میں جان رہے گی دشمن کو آپ تک نہیں پہنچنے دیں گے ہے یہ تو ان کا قول تھا مگر عمل سے بھی انہوں نے اس کو درست ثابت کر دیا.دُنیا میں بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جو مُنہ سے تو بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں مگر عمل سے انہیں پورا نہیں کرتے.انصار نے (اللہ تعالیٰ کی بڑی بڑی رحمتیں اور برکتیں اُن پر ہوں ) جو کہا اُسے اپنے عمل سے پورا بھی کر دیا.ہمیشہ میرا قلب اس صحابی کا ذکر آنے پر اس کے لئے دُعائیں کرنے میں لگ جاتا ہے.جس نے اُحد کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اخلاص کا ایسا قابل رشک نمونہ پیش کیا کہ رہتی دنیا تک اس کی مثال قائم رہے گی.وہ واقعہ یہ ہے کہ احد کی جنگ میں جب کفار میدان سے چلے گئے اور مسلمان اپنے زخمیوں اور شہیدوں کی تلاش میں نکلے تو ایک انصاری نے دیکھا کہ ایک دوسرے انصاری بہت بُری طرح زخمی ہو کر میدانِ جنگ میں پڑے
خطابات شوری جلد دوم ۱۳ مجلس مشاو مشاورت ۱۹۳۶ء ہیں اور چند منٹ کے مہمان معلوم ہوتے ہیں.وہ صحابی ان کے پاس گئے اور کہا اپنے گھر والوں کو کوئی پیغام دینا چاہو تو دے دو، میں پہنچا دوں گا.اُس وقت اس صحابی نے جو جواب دیا وہ نہایت ہی شاندار تھا.اس حالت میں کہ وہ موت کے قریب تھے اور اپنی موت کے بعد اپنی بیوی بچوں کی حالت کا نظارہ اُن کی آنکھوں کے سامنے تھا اُنہوں نے جو ایمان کا نمونہ دکھا یا وہ بتاتا ہے کہ انصار نے جو کہا سچے دل سے کہا تھا اور اُسے پورا کر کے دکھا دیا.اُنہوں نے کہا میں پہلے ہی اس بات کی انتظار میں تھا کہ کوئی دوست ملے تو اس کے ذریعہ اپنے رشتہ داروں کو پیغام بھیجوں، اچھا ہو ا تم آگئے.پھر کہا وہ پیغام یہ ہے کہ میرے مرنے کے بعد میرے رشتہ داروں اور میرے دوستوں سے کہہ دینا کہ جب تک ہم زندہ تھے ہم نے اپنی جانیں قربان کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کی مگر اب ہم اس دُنیا سے رخصت ہوتے ہیں اور یہ قیمتی امانت تمہارے سپرد کرتے ہیں امید ہے کہ آپ ہم سے بھی بڑھ کر اس کی حفاظت کریں گے.یہ کہا اور جان اپنے پیدا کرنے والے کے سپر د کر دی ھے یہ ایسا شاندار ایمان کا مظاہرہ ہے حضرت موسی کے ساتھیوں والا جواب ہی دے دو کہ جس کی مثال صحابہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا کسی اور جگہ بہت کم مل سکتی ہے.اب اگر ہم وہ جواب نہیں دے سکتے جو ان صادقوں اور راست بازوں والا جواب ہے جنھوں نے کوئی شرط نہ رکھی تھی اور جنھوں نے معاہدہ کو تو ڑ کر اپنی جانیں پیش کر دی تھیں تو کم از کم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں والا جواب تو دے دینا چاہئے کہ کسی نے کہا ہے سخی سے شوم بھلا جو ثرت دے جواب.ہم ملامت کرتے ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کو ، ہم اُن کے اس فعل پر اظہار نفرت کرتے ہیں.جب انھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ فاذهب انت وربك فَقَاتِلا انا ههنا قَاعِدُون " کہ جاؤ موسیٰ تم اور تمہارا خدا ان سے لڑو ہم تو یہ بیٹھے ہیں.مگر ذرا غور تو کرو کیا ہم میں سے کئی ایسے نہیں جن کی حالت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ان ساتھیوں سے بھی بدتر ہے؟ وہ کہتے تو یہ ہیں کہ ہم لڑنے کے لئے تیار ہیں لیکن عین موقع پر کھسک جاتے ہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں نے جو یہ کہا کہ فاذهب انت وربك فَقَاتِلَا إنَّا هُنا قَاعِدُون.تو انہوں نے اس طرح بتا
خطابات شوری جلد دوم ۱۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء دیا کہ ہم لڑنے کے لئے تیار نہیں تمہیں جو انتظام کرنا ہو خود کر لو.گویا انہوں نے وقت پر آگاہ اور ہوشیار کر دیا مگر ہم میں سے کئی ایسے ہیں جو آگاہ کرنے کے لئے بھی تیار نہیں.ان کی مثال اُس امیر کی سی ہے جس نے اپنے بھائی سے کہا تھا کہ تم کو اپنے لئے کسی جائداد کی ضرورت نہیں میرے کھجوروں کے اتنے باغ کھڑے ہیں، ایک درخت کی کھجوریں تم لے جانا.اُس کے بھائی نے کہا وقت پر میں آپ کو یہ بات کہاں یاد دلاتا رہوں گا، ایک درخت میرے لئے مقرر کر دو میں اُس کی حفاظت بھی کروں گا اور وقت پر کھجوریں لے جاؤں گا.امیر نے کہا کہ یہ تو بڑے شرم کی بات ہے کہ میرے اتنے نوکر ہوں اور تم اپنے درخت کی حفاظت کرو اسی طرح رہنے دو اس کی ضرورت ہی کیا ہے.آخر جب وقت آیا تو غریب بھائی نے کہا کہ اپنے مالیوں سے کہہ دیں کہ مجھے ایک درخت بتا دیں تا کہ میں اُس کی کھجور میں پڑ والوں.تو پھر امیر نے کہا کہ کیا میرے نوکر تمہارا یہ کام نہیں کر سکتے ؟ پھر جب کھجور میں گھر میں لے جانے کا وقت آیا تو غریب بھائی نے کہا اب مجھے کھجور میں دے دی جائیں تا کہ میں گھر لے جاسکوں.امیر بھائی نے کہا یہ بھی میرے لئے مناسب نہیں.جہاں اتنی کھجور میں جائیں گی وہاں یہ بھی چلی جائیں گی میرے نوکر تمہارے گھر پہنچا دیں گے.آخر جب سب کھجوریں اُس کے گھر پہنچ گئیں اور بھائی خالی کا خالی رہ گیا اور اُس نے شکایت کی تو اُس نے جواب دیا کہ اب کے تو نوکروں سے غلطی ہوگئی ہے تم کو اگلے سال کھجوریں دیں گے.یہ بظاہر بنسی کی بات ہے مگر دُنیا میں ہو رہی ہے اور ہم میں بھی ہو رہی ہے.ہر موقع پر ہماری جماعت کے بعض لوگ اقرار کرتے ہیں کہ جس قربانی کی بھی ضرورت ہو گی وہ ہم کریں گے لیکن جب کسی قربانی کے پیش کرنے کا وقت آتا ہے تو اِدھر اُدھر ہو جاتے ہیں.ایسے لوگوں کے متعلق میں کہتا ہوں کاش ! وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں والا یہ جواب ہی دے دیتے کہ فاذهب انت وربك فَقَاتِلا إِنَّا ههنا قاعِدُونَ.تا ہمیں اپنے دنیوی سامانوں کا صحیح اندازہ لگانے کا موقع تو مل جاتا اور ہم ان لوگوں کی وجہ سے جو قربانی کرنے کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر قربانی کرتے نہیں دھوکا میں نہ رہتے.اسلامی احکام اور دنیا کی موجودہ حالت غرض ایک نہایت ہی عظیم الشان کام ہمارے سامنے ہے، اتنا عظیم الشان کہ
خطابات شوری جلد دوم ۱۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء جس کی اہمیت کا اندازہ لگانا بھی انسانی طاقت سے باہر ہے.اس کام کی ایک ایک شق ایسی ہے کہ اس کو سرانجام دینے کے لئے صدیوں تک جدوجہد کی ضرورت ہے.ایک چیز پردہ ہی ہے.کیا کوئی انسانی عقل تسلیم کر سکتی ہے کہ یورپ اور امریکہ اور ایشیا کی عورتیں کسی وقت گھروں میں بیٹھ جائیں گی اور اپنے چہروں پر نقاب ڈال لیں گی؟ اگر ہم اسی کام کے لئے کھڑے ہو جائیں جو ہمارے سارے کام کا کروڑواں حصہ بھی نہیں تو اسی کے لئے صدیوں جد و جہد کرنے کی ضرورت ہے.پھر اگر ہم سُو دکومٹانے کے لئے کھڑے ہو جائیں تو کیا کوئی عقل یہ تسلیم کر سکتی ہے کہ یورپ اور امریکہ اور ایشیا سے ہم اسے مٹا سکتے ہیں؟ غرض ایک ایک اسلامی بات ایسی ہے کہ دُنیا سے اس کا منوانا انسانی عقل کے لحاظ سے ناممکن اور بالکل ناممکن ہے.اگر کوئی خدا تعالیٰ کے وعدوں کو نظر انداز کر کے اس بات کے لئے ووٹ لے کہ کیا سود دُنیا سے مٹ جائے گا ؟ کیا تمام دنیا کی عورتوں میں پردہ رائج ہو جائے گا؟ تو سب سے پہلے اس کے خلاف ووٹ دینے والا میں ہوں گا.خدا تعالیٰ ہی یہ تغیر لا سکتا ہے مگر یہ کام اُس نے ہمارے سپرد کیا ہے.بیشک انجام اُسی کے ہاتھ میں ہے مگر جو یہ کام کریں گے وہ ہمارے ہی ہاتھ اور ہماری ہی زبانیں ہوں گی.مگر کیا ہمارے ہاتھ اور زبانیں اس کوشش اور عمل میں اُسی قوت اور طاقت کے ساتھ لگی ہوئی ہیں جو اس کام کے لئے ضروری ہے؟ کیا ہم وہی چُستی ، وہی ہوشیاری ، وہی سرگرمی اور وہی سنجیدگی دکھا رہے ہیں جو ایسے موقع کے لئے ضروری ہے؟ اگر نہیں تو پھر میں جماعت سے پوچھتا ہوں آلم يَانِ لِلَّذِينَ آمَنُوا انْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللہ ساری دنیا کے مقابلہ میں اسلام کا تمدن اور ہے، اسلام کی تہذیب اور ہے، اسلام کا علم الاخلاق اور ہے، اسلام کی معاشرت اور ہے، اسلام کی اقتصادیات اور ہیں، اسلام کا پیش کردہ مذہب اور ہے غرض کوئی ایک چیز تو نہیں جس کا رونا ہے دُنیا سر سے لے کر پاؤں تک بگڑی ہوئی ہے اور اس کی اصلاح کے لئے عظیم الشان جد و جہد اور عظیم الشان قربانی کی ضرورت ہے.دین سے بے توجہی کی بیماری جب تک ہم اس کام کی عظمت کو سمجھتے ہوئے کام نہ کریں گے کامیاب نہیں ہوسکیں گے لیکن جہاں تک مجھ پر اثر ہے اور مجھ پر اثر متعصبانہ نہیں ہو سکتا جو شخص ایک جماعت کا امام ہو اُس کے متعلق
خطابات شوری جلد دوم 17 مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی جماعت کی کمزوریوں کی پردہ پوشی کرے مگر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اپنی جماعت کی طرف خواہ مخواہ کمزوریاں منسوب کرے.پس جہاں تک میرا خیال ہے ہماری جماعت کے تمام لوگ ابھی تک اس ذمہ داری کو نہیں سمجھے جو ان پر عائد ہوتی ہے اور تمام لوگوں نے مذہب کی اس حقیقت کو نہیں سمجھا جس کا سمجھنا ان کے لئے ضروری ہے.بہت لوگ چند مسائل کو سمجھ کر احمدی ہو گئے ہیں.کئی ایسے ہیں جنہوں نے وفات مسیح کے مسئلہ کو سمجھا اور احمدیت میں داخل ہو گئے، کئی ایسے ہیں جنہوں نے جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات کو دیکھا اور جماعت میں داخل ہو گئے ، کئی ایسے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ظاہر ہونے والے نشانات کو دیکھا اور احمدی ہو گئے گویا ان کی چھوٹی چھوٹی بیماریاں تو دُور ہوگئیں مگر بڑی قائم رہیں جو دین سے بے توجہی کی بیماری ہے.ان پر فالج کے جو ابتدائی حملے ہوئے تھے اُن کا تو علاج ہو گیا اور اس سے اُنہوں نے سمجھ لیا کہ احمدیت سچی ہے مگر ان کے اندر جو مرض تھا اور جس کی وجہ سے ان کی دین کے متعلق جس مٹ گئی تھی ، اس کی طرف انہوں نے توجہ نہیں کی اور ہو سکتا ہے کہ اگر اس کی طرف توجہ دلائی جائے تو کہہ دیں کہ یہ تنگ دلی ہے، اس سے اسلام کا کیا تعلق ہے.یہاں ہی ایک دفعہ ایک بھائی نے کہا تھا کہ داڑھی منڈانے کا اسلام سے کیا تعلق ہے اور داڑھی نہ منڈانے پر زور دینا تنگ دلی ہے.پس پہلی چیز جو سب سے زیادہ ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو اسلام کا پابند بنائیں، ہر ایک اسلامی حکم کی اہمیت کو سمجھیں لیکن اگر ہم خود اسلامی احکام کی پابندی نہیں کرتے تو کیونکر ممکن ہے کہ دوسروں کو ان کے پابند بنا سکیں.صرف منہ سے کہہ دینے سے کوئی کام نہیں ہو جایا کرتا اور ہمارا صرف منہ سے کہہ دینا کہ ہم اسلامی احکام کے پابند ہیں کافی نہیں ہے.سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے اندر وہ حقیقت پیدا ہوگئی ہے جو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر ہمارے تمام مشورے اور ہماری تمام تجاویز رائگاں جائیں گی.صرف جذباتی محبت کافی نہیں عملی محبت دکھاؤ میرے نزدیک اگر ہماری جماعت اس اہمیت کو سمجھ لیتی کہ اسلام کیا ہے اور احمدیت کی غرض کیا ہے تو پھر ضروری تھا کہ ایک ایک بات جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام
خطابات شوری جلد دوم ۱۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء کے منہ سے نکلی یا آپ کے بعد آپ کے خلفاء کے منہ سے نکلی اُس کو وہی عظمت دیتی جس کی وہ مستحق ہے.مگر بہت سے افراد ایسے ہیں جو ہمارے خطبات اور لیکچروں اور تقریروں کو مزے لے لے کر سنتے اور پڑھتے ہیں.وہ بھی ہیں جو ان سے متائثر بھی ہو جاتے ہیں اور وہ بھی ہیں جو تعریفیں کرنے لگ جاتے ہیں مگر عمل کرنے کے وقت ان سے ایسے گزر جاتے ہیں جیسے ہندو سردی کے موسم میں نہاتے وقت گڑوی سے پانی پیچھے گرا دیتے ہیں اور خود آگے نکل جاتے ہیں مگر ایسی بات کا کیا نتیجہ ہو سکتا ہے.جب تک لوگ ہماری ہدائیتیں نہ سمجھیں اور اُن پر عمل نہ کریں اُس وقت تک ان کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو تعلیم لائے ، وہ اپنے ماننے والوں کے عمل کرنے کے لئے لائے اور جن لوگوں نے آپ کو قبول کیا انہوں نے اقرار کیا کہ ہم آپ کی تعلیم پر عمل کریں گے، پھر خلفاء کی احمد یہ جماعت نے اِس لئے بیعت کی کہ وہ جو کہیں گے اُس پر عمل کریں گے.پس اُس وقت تک نیک نتیجہ نہیں نکل سکتا جب تک عمل نہ کیا جائے.اب نبوت کا زمانہ تو گزر گیا اور خلافت کا زمانہ ہے لیکن اگر خلافت کی حقیقت کو بھی سمجھ لیں تو بہت لوگوں کو اپنی اصلاح کی توفیق مل جائے گی مگر اس طرف توجہ بہت کم پائی جاتی ہے.بیشک جماعت میں خلافت کی عظمت ، اس کا احترام اور اس کا ادب موجود ہے مگر وہ جذباتی ہے عملی نہیں.میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ جو محبت جماعت احمدیہ کو اپنے امام سے اس وقت ہے اس کی مثال کسی اور جگہ ملنا ممکن نہیں.مگر باوجود اس کے میں یہ کہنے سے نہیں رک سکتا کہ وہ جذباتی ہے عملی نہیں.ایسے کم لوگ ہیں جو اس محبت کو اِس طرح محسوس کریں کہ جو لفظ بھی خلیفہ کے منہ سے نکلے وہ عمل کئے بغیر نہیں چھوڑنا.بہت لوگ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ خلیفہ کی ہدایات پر عمل کرنا خوش قسمت لوگوں کا کام ہے ہم اس قابل کہاں کہ ان پر عمل کر سکیں حالانکہ ایسا کہنے والے ہزار میں سے ۹۹۹ ایسے ہوتے ہیں جو عمل کر سکتے ہیں بشرطیکہ عمل کرنا چاہیں مگر کہہ دیتے ہیں کہ ہم عمل نہیں کر سکتے ، یہ ان کے نفس کا دھوکا ہوتا ہے.چونکہ ان کی محبت جذباتی ہوتی ہے عملی نہیں ہوتی اس لئے وہ عمل نہیں کرتے.ان کی مثال بالکل اُس شخص کی سی ہے جو حنفی کہلاتا تھا مگر شیخ عبدالقادر صاحب جیلانی سے بڑی عقیدت ظاہر کیا کرتا تھا اُسے کسی نے کہا وہ تو حنبلی تھے.یہ سُن کر وہ کہنے لگا یہ ایمان کا معاملہ ہے اُن کا مذہب اور ہمارا اور.گویا
خطابات شوری جلد دوم > IA مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء لوگ منہ سے نہیں کہتے مگر عمل سے یہی کہتے ہیں کہ خلیفہ کا مذہب اور ہے اور ہمارا مذہب اور.ایسی حالت میں نیک نتائج کہاں سے نکلیں.پھر اس وقت ہماری جماعت کے لئے تو زمانہ قُرب نبوت اور موعود خلافت خلافت کا ہی سوال نہیں دو اور سوال بھی ہیں.ނ ایک قرب زمانہ نبوت کا سوال اور دوسرا موعود خلافت کا سوال.یہ دونوں باتیں ایسی ہیں جو ہر خلیفہ کے ماننے والے کو نہیں مل سکتیں.آج سے سو دوسو سال بعد بیعت کرنے والوں کو یہ باتیں حاصل نہیں ہو سکیں گی.اُس زمانہ کے عوام تو الگ رہے خلفاء بھی اس بات کے محتاج ہوں گے کہ ہمارے قول، ہمارے عمل اور ہمارے ارشاد سے ہدایت حاصل کریں.ہماری بات تو الگ رہی وہ اس بات کے محتاج ہوں گے کہ آپ لوگوں کے قول، آپ لوگوں کے عمل اور آپ لوگوں کے ارشاد سے ہدایت حاصل کریں.وہ خلفاء ہوں گے مگر کہیں گے کہ زید نے فلاں خلافت کے زمانہ میں یوں کیا تھا، ہمیں بھی اس پر عمل کرنا چاہئے.پس یہ صرف خلافت اور نظام کا ہی سوال نہیں بلکہ ایسا سوال ہے جو مذہب کا سوال ہے.پھر صرف خلافت کا سوال نہیں بلکہ ایسی خلافت کا سوال ہے جو موعود خلافت ہے.الہام اور وحی سے قائم ہونے والی خلافت کا سوال ہے.ایک خلافت تو یہ ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ لوگوں.خلیفہ منتخب کراتا ہے اور پھر اُسے قبول کر لیتا ہے مگر یہ ویسی خلافت نہیں.یعنی میں اس لئے خلیفہ نہیں کہ حضرت خلیفہ اول کی وفات کے دوسرے دن جماعت احمدیہ کے لوگوں نے جمع ہو کر میری خلافت پر اتفاق کیا بلکہ اس لئے بھی خلیفہ ہوں کہ حضرت خلیفہ اول کی خلافت سے بھی پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالیٰ کے الہام سے فرمایا تھا کہ میں خلیفہ ہوں گا.پس میں خلیفہ نہیں بلکہ موعود خلیفہ ہوں.میں مامور نہیں مگر میری آواز خدا تعالی کی آواز ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اس کی خبر دی تھی.گویا اس خلافت کا مقام ماموریت اور خلافت کے درمیان کا مقام ہے اور یہ موقع ایسا نہیں ہے کہ جماعت احمد یہ اسے رائگاں جانے دے اور پھر خدا تعالیٰ کے حضور سرخرو ہو جائے.جس طرح یہ بات درست ہے کہ نبی روز روز نہیں آتے اسی طرح یہ بھی درست ہے کہ موعود خلیفے بھی روز روز نہیں آتے.پھر یہ کہنے کا موقع کہ فلاں بات ہم سے
خطابات شوری جلد دوم ۱۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء تمیں پچیس سال پہلے خدا تعالیٰ کے نبی نے یوں کہی یہ بھی روز روز میتر نہیں آتا.جو روحانیت اور قرب کا احساس اُس شخص کے دل میں پیدا ہو سکتا ہے جو یہ کہتا ہے کہ آج سے تمہیں سال پہلے خدا تعالیٰ کے مامور اور مُرسل نے یہ فرمایا تھا اُس شخص کے دل میں کیونکر پیدا ہوسکتا ہے جو یہ کہے کہ آج سے دو سو سال پہلے خدا تعالیٰ کے فرستادہ نے فلاں بات یوں کہی تھی.کیونکہ دوسو سال بعد کہنے والا اس کی تصدیق نہیں کر سکتا لیکن ہیں تھیں سال بعد کہنے والا اس کی تصدیق کر سکتا ہے.جماعت متحد الخیال ہو جائے پس ضرورت ہے اس بات کی کہ جماعت متحد الخیال ہو کر خلیفہ کو اپنا ایسا استاد سمجھے کہ جو بھی سبق وہ دے اُسے یاد کرنا اور اس کے لفظ لفظ پر عمل کرنا اپنا فرض سمجھے.اتحادِ خیالات کے ساتھ قومیں بہت بڑی طاقت حاصل کر لیا کرتی ہیں ورنہ یوں نظام کا اتحاد بھی فائدہ نہیں دیتا جب تک اتحاد خیالات نہ ہو.یورپ کا حال کا تجربہ دیکھ لو.اٹلی یورپ میں ذلیل ترین حکومت سمجھی جاتی ہے لیکن جب مسولینی نے اٹلی میں اتحادِ خیالات پیدا کیا تو آج اٹلی کے لوگ کہتے ہیں کہ یورپ کی کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتی.اور اتنا تو ہم نے بھی دیکھا ہے کہ شیر انگلستان جس کے چنگھاڑنے سے کسی وقت دُنیا کانپ جاتی تھی، اسے بھی اٹلی کے مقابلہ میں آکر دُم دبانی ہی پڑی.یہ ایک کھلا ہوا راز ہے کہ اُس وقت انگریزی حکومت لڑائی کو ضروری سمجھتی تھی اور وہ محسوس کرتی تھی کہ اس کی ذلت ہوئی ہے مگر اس کے افسران نے کہہ دیا کہ اگر اس وقت اٹلی سے لڑائی شروع کی گئی تو اس کا نتیجہ خوش کن نہ ہوگا اور ہم لڑائی کے لئے تیار نہیں ہیں.اس میں شک نہیں کہ یہ کمزوری صرف اس لئے نہ تھی کہ اٹلی طاقتور ہے بلکہ اس لئے تھی کہ اور طاقتیں بھی اندرونی طور پر اٹلی کے ساتھ تھیں.مگر ایک زمانہ کا انگلستان وہ تھا کہ دوسری طاقتوں کی طرف نظر اُٹھا کر بھی نہ دیکھتا تھا.اس قدر طاقت اٹلی کو کہاں سے حاصل ہوئی؟ اسی سے کہ مسولینی نے اٹلی والوں میں اتحادِ خیالات پیدا کر دیا.بے شک اس کے لئے اس نے جبر سے کام لیا.اپنے مخالفین کو قتل کرایا، اُن کی جائدادیں چھین لیں اور اُن کی اولادوں پر قبضہ کر کے اُن کے خیالات کو ایک طرف لگا دیا لیکن ذرائع خواہ کچھ ہوں اُس نے یہ کام کیا اور کامیاب ہو گیا.یہی بات ہٹلر نے جرمنی
خطابات شوریٰ جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء میں کی.غرض اتحادِ خیالات کمزوروں کو بھی بڑا طاقتور بنا دیتا ہے.ڈاکٹر اقبال کا کھیل کھیلنے والے ہیں جب تک اتحاد خیالات پیدا کرنے کی ہم پس کوشش نہیں کرتے ، وہ نتائج نہیں دیکھ سکتے جو خدا تعالی کی طرف سے ہمارے لئے مقدر ہیں.اس میں شک نہیں کہ وہ آج نہیں تو کل ضرور رونما ہوں گے مگر وہ کل ہمارے لئے خوشگوار نہیں ہوگا کیونکہ ہم میں سے بہت سے وہی کھیل کھیل رہے ہیں جو ڈاکٹر اقبال نے حال میں کھیلا ہے.انہوں نے کہا ہے اگر کوئی نماز چھوڑ دے تو مسلمان رہ سکتا ہے، اگر کوئی زکوۃ نہ دے تو مسلمان رہ سکتا ہے، اگر عورتیں پرده ترک کر دیں تو مسلمان رہ سکتی ہیں.غرض اسلام کے ہر حکم کو ترک کرنے والا مسلمان رہ سکتا ہے لیکن اگر یہ نہ مانے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا تو پھر مسلمان نہیں کہلا سکتا.ہم میں سے بھی کئی ہیں جو کہتے ہیں ہم اگر اسلام کے کسی حکم پر عمل نہیں کرتے یا کسی حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو کیا ہوا، ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو تو مانتے ہیں.اگر کوئی اپنی بیوی پر ظلم کرتا ہے اور اُس سے اسلامی احکام کے مطابق سلوک نہیں کرتا تو وہ یہ کہہ دینا کافی سمجھتا ہے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تو مانتا ہوں.اگر کوئی اپنی بہنوں کو حصہ نہیں دیتا تو کہ دیتا ہے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تو مانتا ہوں.اگر کوئی اپنے بچوں کو تعلیم اسلامی طرز کے مطابق نہیں دلاتا تو کہہ دیتا ہے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تو مانتا ہوں، اگر کوئی داڑھی منڈاتا ہے تو کہہ دیتا ہے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تو مانتا ہوں مگر مانتا کیا ہے خاک، جب وہ تفصیلی احکام نہیں مانتا.اس کی مثال اُس شخص کی سی ہے جس نے گودنے والے سے کہا تھا کہ میری کلائی پر شیر گود دو.جب اُس نے سوئی ماری اور اُسے درد ہوا تو کہنے لگا کیا کر رہے ہو؟ گودنے والے نے کہا شیر کا دایاں کان گود نے لگا ہوں.اُس نے کہا اگر دایاں کان چھوڑ دیا جائے تو پھر شیر رہتا ہے یا نہیں؟ گودنے والے نے کہا رہتا ہے.وہ کہنے لگا اچھا اسے جانے دو اور آگے چلو.پھر اس نے سوئی ماری تو کہنے لگا اب کیا کرتے ہو؟ اُس نے کہا شیر کا بایاں کان گودتا ہوں.کہنے لگا اگر بایاں کان نہ ہو تو کیا شیر رہتا ہے یا نہیں؟ اُس نے کہا ہاں رہتا ہے.کہنے لگا پھر آگے چلو.اسی طرح اُس نے ہر عضو کے متعلق کہنا شروع کیا ، آخر گودنے
خطابات شوری جلد دوم ۲۱ مجلس مشاو مشاورت ۱۹۳۶ء والے نے سوئی رکھ دی اور کہہ دیا کہ اس طرح شیر کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا.تو بے شک انسان کمزور ہے، اس سے قصور ہو جاتا ہے مگر ایک قصور ہو گیا ، دو ہو گئے یہ کیا کہ ہر حکم کو چھوڑ دے.پھر اس میں اسلام کا کیا باقی رہ سکتا ہے.صرف یہ مان لینا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوت قدسیہ سے نبی ہو سکتا ہے اور یہ سمجھ لینا کہ اس طرح اسلام دُنیا میں غالب آ جائے گا ایسا ہی ہے جیسا کہ ڈاکٹر اقبال کا یہ کہنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاتم النبین مان لینے کے بعد پھر خواہ کچھ کرو کوئی حرج نہیں اور اسلام غالب آ جائے گا.جماعت کا ہر فرد تعاون کرے پس ہمارا فرض اسلام کو اس کی جزئیات سمیت قائم کرنا ہے اور اپنی اصلاح کے لئے ہر حکم پر عمل کرنا ضروری ہے.مگر یہ اصلاح میرے خطبات اور تقریروں سے نہیں ہوسکتی کیونکہ ہر کان وہ تقریریں نہیں سُن سکتا اور ہر شخص اُس وقت تک نہیں سُن سکتا جب تک اس کا کان قبول کرنے کے لئے تیار ہو.بلکہ یہ اسی طرح ہو سکتی ہے کہ جماعت کا ہر فر د میرے ساتھ تعاون کرے.ہر خطبہ جو میں پڑھتا ہوں، ہر تقریر جو میں کرتا ہوں اور ہر تحریر جو میں لکھتا ہوں اُسے ہر احمدی اس نظر سے دیکھے کہ وہ ایک ایسا طالب علم ہے جسے ان باتوں کو یاد کر کے ان کا امتحان دینا ہے اور ان میں جو عمل کرنے کے لئے ہیں اُن کا عملی امتحان اُس کے ذمہ ہے.اس طرح وہ میری ہر تقریر اور تحریر کو پڑھے اور اس کی جُزئیات کو یاد رکھے.پھر جب پڑھ چکے تو سمجھے کہ اب میں اُستاد ہوں اور دوسروں کو سکھلانا میرا فرض ہے.پس جو کچھ میں کہتا ہوں وہ ایسا ہی ہے جیسے ایک کتاب تصنیف کر دی جائے اور سکول کا کورس تیار کر دیا جائے مگر اس سے وہ فائدہ نہیں اُٹھا سکتا جو اسے یاد نہ کرے اور حفظ نہ کرے جیسا کہ مدرسہ کی کتاب یاد نہ کرنے والا فائدہ نہیں اُٹھا سکتا.پس آپ لوگ اقرار کریں کہ میں جو کچھ کہوں گا آپ طالب علم کی حیثیت سے اسے سنیں اور یاد کریں گے اور جب یاد کر لیں گے تو پھر استاد کی حیثیت سے دوسروں کو پڑھانا اپنا فرض سمجھیں گے.جب تک ہم یہ صورت اختیار نہ کریں تب تک کوئی مفید نتیجہ نہیں نکل سکتا یعنی انسانی ہاتھوں کے ذریعہ.ورنہ خدا تعالیٰ تو کرے گا ہی جو کچھ کرنے کا اس نے وعدہ کیا ہوا ہے.خلیفہ اُستاد ہے اور جماعت کا ہر فرد شاگرد مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے که باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ نے
خطابات شوری جلد دوم ۲۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء مجھے ایک نہایت مخلص جماعت دی ہے اور آپ لوگوں میں اتنا اخلاص ہے کہ جس کا نمونہ کسی اور جگہ نہیں مل سکتا.اس نقطہ نگاہ کے نہ پیدا ہونے کی وجہ سے کہ آپ لوگ شاگرد ہیں اور خلیفہ اُستاد ہے، پھر پڑھ لینے کے بعد تم استاد ہو اور دوسرے لوگ شاگرد، وہ کامیابی نہیں حاصل ہو رہی جو ہونی چاہئے.اس کے مقابلہ میں ایک ایک دن جو گزر رہا ہے ہمارے لئے زیادہ سے زیادہ مشکلات پیدا کر رہا ہے.ایک گزرنے والے دن ہم جس قدر زمانہ نبوت سے قریب ہوتے ہیں دوسرے دن اُس سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور یہ کوئی معمولی بات نہیں.بظاہر تو یہ نظر آ رہا ہے کہ ہم ہر روز ترقی کی طرف جا رہے ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہم روز بروز ساحل عافیت سے دُور ہوتے جا رہے ہیں.جن کوششوں، محنتوں اور قربانیوں سے کل ہم اپنے مقصد اور مدعا میں کامیاب ہو سکتے تھے آج ان سے زیادہ کی ضرورت ہے کیونکہ کل ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کے جس قدر قریب تھے آج اُس سے دور ہیں.پس تم لوگ اس ظاہری کامیابی اور شان و شوکت کو نہ دیکھو جو نصیب ہو رہی ہے.یہ مت دیکھو کہ کل جہاں ایک سو احمدی تھے، وہاں آج ایک ہزار ہو گئے ہیں اور یہ مت خیال کرو کہ کل جہاں سے چندہ ایک ہزار آتا تھا ، آج دو ہزار آتا ہے بلکہ یہ سمجھو کہ خدا تعالیٰ کی برکت کل ہمیں کتنی حاصل تھی اور آج کتنی حاصل ہے.کیا کل جتنی ہی ہے یا آج کم ہے؟ یقینا ہر گزرنے والا دن اسے کم کرتا جا رہا ہے.اس کے لئے یہی صورت ہے کہ ہم اپنی جدو جہد کو بڑھاویں تا کہ جو کمی روحانی طور پر ہورہی ہے اس کا ازالہ اپنی جدو جہد میں اضافہ کر کے کر سکیں.مگر میں دیکھتا ہوں کہ جو باتیں زیادہ سے زیادہ چھ ماہ میں پوری ہو سکتی ہیں، وہ سال بھر میں بھی نہیں ہوتیں.ہمیں اس سے کیا خوشی ہو سکتی ہے کہ فلاں سکیم پیش کی گئی ہے جبکہ اُس پر عمل نہ کیا جائے.میں نے تعاون نہ کرنے کے متعلق شکایت کی ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خدانخواستہ جماعت میں اخلاص نہیں.اخلاص ہے مگر جب تک جماعت کے لوگ اس نقطہ کو نہ سمجھیں گے کہ ان کا تعلق مجھ سے شاگرد کا ہے اور وہ دُنیا کے استاد ہیں، اُس وقت تک ترقی نہ کر سکیں گے اور اگر وہ اس نکتہ کو سمجھ لیں گے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے روز بروز ترقی کرتے جائیں گے.
خطابات شوری جلد دوم ۲۳ مجلس مشاو مشاورت ۱۹۳۶ء صدرانجمن سے شکایت تعاون کے متعلق مجھے پہلے مرکز سے شکایت ہے.میں دیکھتا ہوں اور محسوس کرتا ہوں کہ صدر انجمن مجھ سے وہ تعاون نہیں کر رہی جس کی اس وقت ضرورت ہے.مثلاً یہی کہ اسی مجلس مشاورت میں یہ بحث ہو چکی ہے کہ جب تک ہم عورتوں کی تعلیم کو اسلام کے مطابق نہ کر دیں گے اُس وقت تک کامیابی نہ ہوگی.اس پر بڑے زور شور سے اظہارِ خیالات کیا گیا، عورتوں کی تعلیم کے متعلق سکیم تیار کی گئی اور یہ قرار دیا گیا کہ یہ ضروری نہیں کہ ہم اپنی لڑکیوں کو انٹرنس کا امتحان دلائیں سوائے اُن کے جو ڈاکٹری وغیرہ کے لئے آگے جانا چاہیں مگر آج تک صدر انجمن احمد یہ نے اس پر قطعاً عمل نہیں کیا حالانکہ اس پر یہ تیسرا سال گزر رہا ہے.اور میں سمجھتا ہوں اگر آج اس تقریر میں یہ ذکر نہ آجاتا اور اس کا کوئی نتیجہ نہ ہوگا تو دس سال تک بھی اس طرف توجہ نہ کی جاتی اور دس سال کے بعد کہ دیا جاتا کہ تعلیمی کورس بنا رہے ہیں.پھر میں سال کے بعد بھی یہی کہا جاتا اور تیس سال کے بعد بھی یہی، مگر ایسے بنانے اور سوچنے کو کیا کرنا ہے جو کبھی ختم ہی نہ ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کسی کا یہ شعر ایسے ہی مواقع پر پڑھا کرتے تھے.جب مر گئے تو آئے ہمارے مزار پر پتھر پڑیں صنم ترے ایسے پیار پر پس اس سوچ اور غور وفکر کو ہم نے کیا کرنا ہے کہ جب اسلام شکست کھا کر لوٹ رہا ہو اُس وقت وہ کام شروع کیا جائے.اگر صدر انجمن سمجھتی کہ وہ خلیفہ کا بازو ہے، خلیفہ کے احکام کی تعمیل کرنا اُس کا فرض ہے، خلیفہ افسر اور وہ اس کے ماتحت ہے، خلیفہ استاد اور وہ شاگرد ہے تو اس فیصلہ کی تعمیل آج سے کئی سال پہلے ہو چکی ہوتی مگر فیصلے ہوتے ہیں جو رڈی کاغذ کی ٹوکری میں ڈال دیئے جاتے ہیں.میں نے صرف اتناسُنا ہے کہ انٹرنس کے کورس میں کچھ تبدیلیاں ہوئی ہیں مگر ان کا کوئی فائدہ نہیں.اتحادِ خیالات کے لئے ضروری ہے کہ ہم عورتوں کے خیالات ایک نقطہ پر لے آئیں لیکن جب وہ موجودہ طریق تعلیم کو بدلنا موت سمجھتے ہوں، اس میں تبدیلی کرتے ہوئے ہاتھ کانپتے ہوں اور پھر جب مرکزی ادارہ ہی دماغ کے ماتحت چلنے اور اس کے تجویز کردہ طریق پر کام کرنے کے لئے تیار نہ ہو تو ان
خطابات شوری جلد دوم ۲۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء نتائج کو ہم کس طرح دیکھ سکتے ہیں جن کے دیکھنے کے ہم امید وار ہیں.کیا ایک مفلوج اور شل ہاتھ بھی کچھ کر کے دکھا سکتا ہے؟ سکول اور کالج کی حالت اسی طرح میں دیکھتا ہوں جو سکیمیں اور تجویزیں پاس کی جاتی ہیں ،صدر انجمن ان پر عمل کرنے کے لئے اقدام نہیں کرتی.افراد کر لیتے ہیں لیکن انجمن غافل رہتی ہے.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سکول اور کالج اور طرف جا رہے ہیں اور جماعت اور طرف.مثلاً عملہ رکھتے ہیں تو ایسا نہیں رکھا جاتا کہ جس میں سے ہر ایک کی نگاہ اور کان ہر وقت خلیفہ کی طرف لگا رہے.پچاس فیصد ی عملہ ایسا ہے کہ جو خلیفہ کی باتوں کی کوئی پرواہ نہیں کرتا.ایسے لوگوں کے سپر د اپنے بچوں کو کر کے ماں باپ کس طرح تسلی پاسکتے ہیں اور ان بچوں میں وہ روح فکر کیونکر پیدا ہوسکتی ہے جنہیں یہ احساس ہو کہ دُنیا میں کیا ہو جائے گا اور جب تک یہ نہ ہو قطعا ترقی حاصل نہیں ہوسکتی.کچھ دن ہوئے مجھے کسی نے اطلاع دی کہ دینیات کے کالج اور مدرسہ کے بعض لڑکے داڑھی منڈاتے ہیں حالانکہ ہم یہ قانون بنا چکے ہیں کہ ہائی سکول کے لڑکے بھی داڑھی رکھیں.جب میں نے متعلقہ دفتر کو توجہ دلائی تو مجھے جواب دیا گیا کہ ان لڑکوں کو تنبیہہ کر دی گئی ہے، وہ آئندہ داڑھی رکھیں گے مگر سوال یہ ہے کہ کیا پڑھانے والے مدرس اور پروفیسر نا بینا ہیں؟ یہ سوال نہیں تھا کہ آئندہ کیا ہو گا بلکہ سوال یہ تھا کہ اس وقت تک کیا ہوتا رہا اور کیوں ہوتا رہا ہے؟ کہاں تھی صدر انجمن ، کہاں تھے ناظر، کہاں تھے ہیڈ ماسٹر اور کہاں تھے مدرس ؟ پھر جو کچھ ہوا اُس پر کیا ایکشن لیا گیا؟ کیا ہیڈ ماسٹر سے جواب طلب کیا گیا ؟ اگر اس شکایت کا تعلق سکول سے تھا تو کیا اُسی شان سے جواب طلب کیا گیا جس کا تقاضا یہ معاملہ کرتا تھا؟ اور اگر اس کا تعلق کالج سے تھا تو کیا جامعہ کے پرنسپل سے جواب طلب کیا گیا ؟ اور اُسی شان سے کیا گیا جو ضروری تھی ؟ اگر آئندہ بننے والے مبلغ اپنی شکل بھی ویسی نہیں بنا سکتے جیسی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہتے ہیں تو انہوں نے اسلام کی تبلیغ کیا کرنی ہے.وہ جواب یہ ظاہر کرتا تھا کہ اس معاملہ کی اہمیت نہ نظارت تسلیم کرتی ہے اور نہ جامعہ والے اور نہ مدرسہ احمدیہ والے.سوال تو یہ تھا کہ یہ بات کیوں جاری رہی؟ اگر وہ میرے احکام کی کوئی قیمت سمجھتے تھے اور اگر انہیں مجھ سے تعاون کرنے کا احساس تھا.اگر
خطابات شوری جلد دوم ۲۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء صدر انجمن کے ناظر دیانت داری سے قسم کھا کر یہ کہہ دیں کہ تعلیمی ادارے سارے دن میں پانچ منٹ بھی ان سکیموں کے ماتحت کام کرتے ہیں جو میں جماعت کے سامنے پیش کر چکا ہوں تو میں ان کی بات ماننے کے لئے تیار ہوں.میں سمجھتا ہوں اِن اداروں میں کام کرنے والے کم از کم پچاس فیصدی ایسے ہیں جو ان سکیموں کی طرف لڑکوں کو کوئی توجہ نہیں دلاتے اور خود کوئی توجہ نہیں کرتے اسی لئے میں نے تحریک جدید کا بورڈ نگ علیحدہ بنایا ہے.میں سمجھتا ہوں ابھی تک اس کے وہ نتائج نہیں نکلے جو نکلنے چاہئیں اور ان سے بھی شا کی ہوں مگر ایک حد تک وہ عمدگی سے چل رہے ہیں.گو وہی لوگ جن کی میں شکایت کر رہا ہوں اس بورڈنگ اور ہر اُس تجویز کی جو تحریک جدید کے ماتحت میں نے جاری کی ہے اندر ہی اندر مخالفت کر رہے ہیں اور اس کے خلاف پروپیگنڈا کر رہے ہیں.اس وقت کس بات کی ضرورت ہے یا درکھو اس وقت ہم میدانِ جنگ میں ہیں اور میدان جنگ میں چلنا پھرنا برداشت نہیں کیا جا سکتا بلکہ دوڑنا چاہئے.اس وقت ضرورت تھی اس بات کی کہ جماعت کے بچے بچے کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی جاتی کہ ہم اسلام کے لئے قربان ہونے والی بھیڑ میں اور بکریاں ہیں اور ہم اس بات کے لئے تیار ہیں کہ ہماری گردنوں پر چُھری چلا دی جائے.پھر انہیں رات اور دن یہ بتایا جاتا کہ مغرب کے مذبح پر اپنے آپ کو قربان نہیں کرنا بلکہ مغرب کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دروازہ پر لا کر ذبح کرنا ہے.یہ روح ان میں پیدا کرنی چاہئے تھی مگر ہمارے تعلیمی اداروں نے نہیں کی اور سالہا سال سے ناظروں نے اپنے اداروں کا معائنہ نہیں کیا.پھر مبلغین ہیں ان کی حالت مدرسوں اور استادوں سے بھی زیادہ قابل افسوس ہے.تبلیغ کا کام کرنے کے لئے ان کا انتخاب اس لئے نہیں کیا جاتا کہ ان میں دوسروں کی نسبت دین کی روح اور قربانی کا مادہ زیادہ پیدا ہو چکا ہے بلکہ اس لئے کہ ان کا کوئی لحاظ مد نظر ہوتا ہے.ان کو جو سرٹیفکیٹ دیئے جاتے ہیں وہ 99 فیصدی حقیقت سے خالی ہوتے ہیں حالانکہ مبلغ ایسے ہونے چاہئیں جن میں دین کی روح دوسروں کی نسبت زیادہ قوی اور طاقتور ہو اور وہ دین کے لئے ہر وقت قربان ہونے کے لئے تیار ہوں.وہ ملک کے ایک سرے سے
خطابات شوری جلد دوم ۲۶ مجلس مشاو مشاورت ۱۹۳۶ء دوسرے سرے تک لٹو کی طرح چکر لگائیں لیکن مجھے یہی نظر آتا ہے کہ پانچ سے دس پھر دس سے پندرہ اور پندرہ سے ہیں اور بیس سے تیس مبلغ ہو گئے ، مگر یہی شکایت آتی رہی ہے کہ ہمارے ہاں مبلغ نہیں آتے صرف بڑی بڑی جماعتوں میں آتے ہیں اور اب میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ درست ہے.پھر انتخاب کے وقت یہ نہیں دیکھا جاتا کہ مبلغ کا کام مباحثات کرنا نہیں بلکہ دین اور تقویٰ قائم کرنا ہے.ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سادگی کو دیکھا ہے.میں بچہ تھا مگر مجھے یاد ہے ہم آپ کا چہرہ دیکھ کر سمجھتے کہ معلوم نہیں آپ سوال کا جواب دے سکیں گے یا نہیں مگر جب جواب دیتے تو سائل کو مطمئن کر کے خاموش کر دیتے.پس ہمیں وہ تیز طرار مبلغ نہیں چاہئیں جو خم ٹھونک کر میدانِ مباحثہ میں نکل آئیں اور کہیں آؤ ہم سے مقابلہ کر لو.ایسے مبلغ آریوں اور عیسائیوں کو ہی مبارک ہوں ہمیں تو وہ چاہئیں جن کی نیچی نظریں ہوں جو شرم و حیا کے پتلے ہوں، جو اپنے دل میں خوف خدا رکھتے ہوں، لوگ جنہیں دیکھ کر کہیں کہ یہ کیا جواب دے سکیں گے.ہمیں اُن فلسفیوں کی ضرورت نہیں جو مباحثوں میں جیت جائیں بلکہ اُن خادمانِ دین کی ضرورت ہے جو سجدوں میں جیت کر آئیں.اگر وہ مباحثوں میں ہار جائیں تو سو دفعہ ہار جائیں.ہمیں اس کی کیا ضرورت ہے کہ زبانیں چٹخارہ لیں مگر ہمارے حصہ میں کچھ نہ آئے.سر جنبش کریں اور ہم محروم رہیں.میں مانتا ہوں کہ اس میں بیرونی جماعتوں کا بھی قصور ہے.وہ لکھتی ہیں کہ فلاں مبلغ کو بھیجا جائے ، فلاں کا آنا کافی نہیں کیونکہ وہ چٹخارہ دار زبان میں بات نہیں کر سکتا.یہ صحیح ہے مگر لیڈر وہ ہوتا ہے جو لوگوں کو پیچھے چلائے نہ کہ لوگ جدھر چاہیں اُسے لے جائیں.جو شخص تقویٰ و طہارت پیدا کرتا ہے جو قلوب کی اصلاح کرتا ہے وہی حقیقی مبلغ ہے لیکن جو یہ سمجھے کہ میں نوکر ہوں اور جو وہاں جائے جہاں اُسے حکم دیا جائے ایسے کو ہم نے کیا کرنا ہے.اسے تو کل اگر کہیں اس سے اچھی نوکری مل گئی تو وہاں چلا جائے گا.ہمیں وہ مبلغ چاہئیں جو اپنے آپ کو ملازم نہ سمجھیں بلکہ خدا تعالیٰ کے لئے کام کریں اور اُسی سے اجر کے متمنی ہوں.جو ایسا نہیں کرتا وہ ہمارا مبلغ نہیں بلکہ ہمارے دشمن کا مبلغ ہے، وہ شیطان کا مبلغ ہے کیونکہ اُس کو تقویت دے رہا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ، حضرت موسی علیہ السلام نے ، حضرت عیسی علیہ السلام نے کون سے مبلغ رکھے ہوئے 1
خطابات شوری جلد دوم ۲۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء تھے.یہ تو گندگی اور نجاست ہے جسے زمانہ کی اس مجبوری کی وجہ سے کہ آریوں اور عیسائیوں نے اس قسم کے لوگ رکھے ہوئے ہیں جن کا مقصد اسلام کو نقصان پہنچانا ہے، ان کے مقابلہ کے لئے رکھے ہوئے ہیں.کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ جس وقت کوئی شخص پاخانہ میں بیٹھتا ہے تو وہ اُس کا بہترین وقت ہوتا ہے؟ وہ تو مجبوری کا وقت ہوتا ہے.اسی طرح تبلیغ کے لئے ایسا انتظام تو ایک مصیبت ہے اور مجبوری ہے پس مبلغوں کو اس حقیقت کو سمجھنا چاہئے کہ گزارہ لینے میں عیب نہیں مگر گزارہ کے لئے کام کرنا عیب ہے.مبلغ وہ ہے کہ اُسے کچھ ملے یا نہ ملے اُس کا فرض ہے کہ تبلیغ کا کام کرے.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جب خلیفہ ہوئے تو ایک دن وہ کپڑے کی گٹھڑی لے کر بیچنے کے لئے چل پڑے اس پر صحابہ نے کہا اگر آپ نے یہ کام جاری رکھا تو خلافت کے فرائض کس طرح ادا ہوں گے؟ اِس پر اُنہوں نے کہا میں پھر گزارہ کیونکر کروں؟ صحابہ نے کہا ہم آپ کے لئے وظیفہ مقرر کر دیتے ہیں.یہ گزارہ ایسا نہ تھا کہ اگر نہ ملتا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ دین کی خدمات سرانجام نہ دیتے وہ پھر بھی اُسی طرح کام کرتے.پس ایسے مبلغ رکھنے چاہئیں جن میں نیکی ہو، تقویٰ ہو، جو دین کی خدمت تنخواہ کی خاطر نہ کریں بلکہ تنخواہ اس لئے لیں کہ دین کی خدمت کر سکیں.ایک شخص جو اس وقت مبلغ نہ تھا مگر اب اُسے بطور مبلغ رکھ لیا گیا ہے اُس کے متعلق ایک مخلص نے بیان کیا کہ ایک مقدمہ تھا جس میں اُس کے رشتہ دار کی غلطی تھی مگر باوجود اس کے اُس نے تائید کی.جب اسے کہا گیا کہ آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا تو کہنے لگا اس طرح دنیا نہیں چل سکتی.پرانے مبلغ مثلاً مولوی غلام رسول صاحب وزیر آبادی، مولوی غلام رسول صاحب را جیکی ، مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری انہوں نے ایسے وقتوں میں کام کیا جبکہ ان کی کوئی مدد نہ کی جاتی تھی اور اس کام کی وجہ سے ان کی کوئی آمد نہ تھی.اس طرح انہوں نے قربانی کا عملی ثبوت پیش کر کے بتا دیا کہ وہ دین کی خدمت بغیر کسی معاوضہ کے کر سکتے ہیں.ایسے لوگوں کو اگر ان کی آخری عمر میں گزارے دیئے جائیں تو اس سے ان کی خدمات حقیر نہیں ہو جاتیں بلکہ گزارہ کو ان کے مقابلہ میں حقیر سمجھا جاتا ہے کیونکہ جس قدر ان کی امداد کرنی چاہئے اتنی ہم نہیں کر رہے مگر جو نو جوان ہیں ان کو اپنے ماحول کے مطابق اپنے آپ کو بنانا
خطابات شوری جلد دوم ۲۸ مجلس مشاو مشاورت ۱۹۳۶ء چاہئے اور اس کے مطابق کام کرنا چاہئے.مگر گزشتہ دو سال سے میں دیکھ رہا ہوں کہ نہ مبلغوں نے خود میری سکیموں پر غور کیا اور نہ انہوں نے جماعت کو توجہ دلائی اور نہ نظارت نے مبلغوں کو توجہ دلائی.یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہر مبلغ اپنے آپ کو خلیفہ سمجھتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ یہ اُس کا حق ہے کہ جو اُس کے جی میں آئے سُنائے اور جو نہ چاہے نہ سنائے.حالانکہ وہ بانسری ہے جس کا کام یہ ہے کہ جو آواز اُس میں ڈالی جائے اُسے باہر پہنچائے.اگر مبلغ یہ سمجھتے کہ وہ ہتھیار ہیں میرا نہ کہ دماغ ہیں جماعت کا ، تو وہ میرے خطبات لیتے اور جماعت میں ان کے مطابق تبلیغ کرتے اور اس طرح اس وقت تک عظیم الشان تغیر پیدا ہو چکا ہوتا.مگر ادھر ابھی تک اُن کا خیال ہی نہیں گیا کہ انہیں کس کام کے لئے مقرر کیا گیا ہے اور اُن کا کیا کام ہے اور نہ ناظر کو خیال آیا کہ مبلغ کس طرف جا رہے ہیں.اُس نے مبلغین کا کام صرف یہ سمجھا کہ دورہ کا ایک پروگرام تجویز کیا اور اُسے پورا کرنے کے لئے مبلغوں کو یہاں سے بھیج دیا.یہ کبھی سوچا ہی نہیں کہ مبلغین کا کام یہ ہے کہ خلافت کی ہر آواز کو خود سنیں اور سمجھیں پھر ہر جگہ اسے پہنچائیں.مگر نہ مجھے یہ نظر آتا ہے کہ مبلغ دینی رغبت کے نتیجہ میں مقرر کئے جاتے ہیں نہ مجھے یہ دکھائی دیتا ہے کہ دعائیں کرنا ، نمازوں میں خشوع و خضوع سے کام لینا اور عجز وانکسار کا اظہار کرنا ان کا معمول ہے، نہ وہ تقویٰ کا کوئی ایسا نمونہ پیش کرتے ہیں کہ لوگ ان کی شکل دیکھ کر ہی ان کا اثر قبول کر لیں.لیکن اگر یہی حالت رہے تو میں ساری دنیا میں اپنی جماعت کے پھیل جانے اور اس کی حکومت قائم ہو جانے کو خدا تعالیٰ کی رحمت نہیں سمجھ سکتا.جب تک جماعت احمدیہ کے ذریعہ دنیا میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کو قائم نہ کرلوں میں یہی سمجھوں گا کہ ایک لعنت مٹی اور دوسری اس کی جگہ قائم ہوگئی.دوسرے محکموں کا ذکر یہی حال دوسرے محکموں کی کمزوریوں کا ہے.تین چار سال ہوئے اسی جگہ ایک سکیم پیش کی گئی تھی جس کی بنیاد پر یہ قرار دیا گیا تھا کہ تین محکمے مل کر کوشش کریں کہ بجائے اس کے کہ غرباء کو یونہی امداد دی جائے ان کے لئے کام نکالے جائیں مگر حرام ہے کہ تنکے کے برابر بھی کام کیا گیا.انہوں نے ایک کمیٹی بنا کر مجھے یہ لکھنا شروع کر دیا کہ فلاں کو دس روپے اور فلاں کو پندرہ روپے بطور
خطابات شوری جلد دوم ۲۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء امداد دے دیئے جائیں حالانکہ یہ کام تو میں خود بھی کر سکتا تھا.مگر یہ دینے کا سوال نہ تھا بلکہ یہ بات مد نظر تھی کہ بریکاروں کی اس طرح امداد کرنے کا اخلاقی طور پر بہت بُرا اثر پڑ رہا تھا.وہ لوگ جو بغیر کوئی کام کئے بیٹھے بٹھائے کھاتے وہ بے دینی اور منافقت پھیلاتے اور کمزور ثابت ہوتے ہیں.ان کے متعلق کمیٹی بنانے کی غرض یہ تھی کہ وہ ان میں یہ احساس پیدا کرے کہ اپنی روزی آپ کمائیں گے مگر اس کے لئے کوئی کوشش نہ کی گئی اور لطیفہ یہ ہے کہ جس ناظر نے اس سکیم کے متعلق مجھے لکھا تھا اُس نے دوسروں سے بھی کم کام کیا.اسی طرح متواتر کئی سال سے میں توجہ دلاتا چلا آ رہا ہوں کہ بہشتی مقبرہ ہمارے لئے روپیہ کمانے کا ذریعہ نہیں بلکہ اخلاق کے پر کھنے کا ذریعہ ہے.مگر مقبرہ بہشتی کی کمیٹی کا یہ طریق ہے کہ جس کے پاس جائداد ہو اس کی نسبت اِدھر اُدھر سے پوچھ کر لکھ دیتی ہے کہ اس کی وصیت منظور کی جائے اور اسے مقبرہ بہشتی میں دفن کرنے کی اجازت دی جائے.ایک بار ایک ناظر اس قسم کی وصیت لایا تو میں نے اُس سے پوچھا ایمانداری سے کہو فلاں آدمی متقی ہے؟ اگر اسے مقبرہ بہشتی میں دفن کر دیا گیا تو خدا تعالیٰ تو بیشک اپنے وعدہ کے مطابق اسے بہشت میں داخل کر دے گا مگر ہم دوزخ کے قریب ہو جائیں گے.جو جماعت اپنے نازک وقت میں اور اس ایسے نازک معاملہ میں احتیاط نہیں کرتی ، اُس کی کامیابی کی کیا توقع ہو سکتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مقبرہ بہشتی کے متعلق لکھا ہے:.” خدا تعالیٰ کا ارادہ ہے کہ ایسے کامل الایمان ایک ہی جگہ دفن ہوں تا آئندہ کی نسلیں ایک ہی جگہ ان کو دیکھ کر اپنا ایمان تازہ کریں.اور تا ان کے کارنامے یعنی جو خدا کے لئے اُنہوں نے دینی کام کئے ہمیشہ کے لئے قوم پر ظاہر ہوں.کے پس ہمیں کسی کی وصیت اس لئے قبول نہ کرنی چاہئے کہ وہ جائداد رکھتا ہے یا اُس کی کافی آمدنی ہے جس کا حصہ مل جائے گا اور نہ کسی کے تقویٰ اور دینداری کے متعلق زید اور بکر کی گواہی مان لینی چاہئے بلکہ پوری تحقیقات کرنی چاہئے.مجھے افسوس ہے کہ ہماری جماعت میں ایسے بھی لوگ ہیں کہ جب کسی کے سامنے اس کے متعلق انہیں بات کرنی پڑے تو ان کی آنکھ نیچی ہو جاتی ہے اور وہ سچی گواہی نہیں دے سکتے.انہی حالات کی وجہ سے
خطابات شوریٰ جلد دوم E مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء میرے سامنے یہ مشکل نہیں کہ روپیہ نہیں ہے بلکہ مجھے یہ مشکل ہے کہ روپیہ کے مقابلہ میں بار زیادہ ہے اور کمزوروں اور دین سے حقیقی تعلق نہ رکھنے والوں کی وجہ سے بار بڑھتا ہے، گھٹتا نہیں.اگر دس بھی مخلص انسان جماعت میں رہ جائیں تو بار بڑھے گا نہیں بلکہ گھٹے گا لیکن اگر لاکھوں ہوں مگر مخلص نہ ہوں تو بار بڑھے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے تھے اگر مجھے چالیس حقیقی مومن مل جائیں تو میں ساری دنیا کو فتح کر لوں.اگر چالیس مومنوں کے ذریعہ دنیا فتح کی جا سکتی ہے تو چالیس لاکھ مومنوں سے اور زیادہ آسانی کے ساتھ فتح ہوسکتی ہے.پس ہمارا کام یہ ہے کہ مومن بنا ئیں نہ کہ کمزوروں کو بھرتی کرتے چلے جائیں.اگر دعوة و تبلیغ کا محکمہ تبلیغ کے ذریعہ مومن بنائے ، اگر تعلیم و تربیت کا ادارہ تربیت کے ذریعہ مومن بنائے ، اگر امور عامہ کا محکمہ باہمی معاملات کی اصلاح کے ذریعہ مومن بنائے ، اگر بیت المال کا صیغہ لوگوں سے مالی قربانی کرا کر اُنہیں مومن بنائے ، اگر وصایا کا محکمہ وصیتوں کے ذریعہ مومن بنانے کی کوشش کرے تو بڑی کثرت سے مومن بن سکتے ہیں مگر مصیبت یہ ہے کہ اس کے لئے کوشش نہیں کیا جاتی اور یہ محکمے اس طرح کام نہیں دے رہے.اگر لوگوں کی وصیتیں اس لئے منسوخ کر دی جائیں کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ تم مصیبت کے وقت سچ بولنے سے کتراتے ہو، تم نے فلاں پر ظلم کرنے سے دریغ نہیں کیا، تم نے اپنی بیوی سے انصاف اور عدل کا سلوک نہیں کیا تم نے اپنی دو بیویوں میں سے ایک پر ظلم کر رکھا ہے تو پھر دیکھو ایسے لوگوں میں اخلاص پیدا ہوتا ہے یا نہیں اور وہ اپنی اصلاح کرتے ہیں یا نہیں؟ اگر وہ اصلاح نہ کریں تو ان کے روپیہ سے کیا برکت حاصل ہوسکتی ہے اور وہ ہمیں کیا نفع دے سکتا ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ تجسس کرتے پھر و، یہ خودلعنت ہے اور جو تجسس کر کے دوسروں کی کمزوریاں معلوم کرنا چاہتا ہے وہ خدا تعالیٰ کا غضب اپنے خلاف بھڑکا تا ہے مگر جو آنکھوں دیکھی لکھی کھاتا ہے وہ بھی خدا تعالیٰ کے غضب کو بھڑکا تا ہے.قابل اصلاح افراد ایسی طرح افراد کا حال ہے.آپ لوگوں میں سے بھی ایسے ہیں جو صحیح طور پر تعاون نہیں کرتے.جو وعدہ کرتے ہیں إِلَّا مَا شَاءَ اللهُ مخلصین کو چھوڑ کر باقی پورا نہیں کرتے.حالانکہ اس وقت تک وہ ایک بھی وعدہ ایسا نہیں کر
خطابات شوری جلد دوم ۳۱ Σ مجلس مشاو مشاورت ۱۹۳۶ء رہے جو اُن کی طاقت سے بالا ہو.اور اگر وہ اپنا کوئی وعدہ پورا نہیں کرتے تو اس لئے نہیں کہ کر نہیں سکتے بلکہ اس لئے کہ کرنا نہیں چاہتے.پھر تم میں سے کثرت سے ایسی مثالیں مل سکتی ہیں کہ عورتوں کو ورثہ نہیں دیتے ، ان کے حقوق نہیں ادا کرتے.زمیندار لوگ جب تک عورتوں کو حصہ نہ دیں گے وہ لعنت جو ان پر پڑی ہوئی ہے دُور نہ ہو گی.تم خدا تعالیٰ کا قائم کردہ حق عورتوں کو دو خواہ اُجڑ جاؤ مگر یا درکھو جو خدا تعالیٰ کے کسی حکم پر عمل کرتا ہے خدا تعالیٰ اسے اُجڑ نے نہیں دیتا.تمہیں کیا پتہ ہے کہ خدا تعالیٰ تمہاری اولا دوں کو ہوش سنبھالنے تک بادشاہتیں دے دے.پہلوں کو اس نے دی ہیں اور وہ اب بھی دے سکتا ہے.پس خدا تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنے کے لئے اپنے دلوں کو کھول دو اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے اگر موت بھی آتی ہے تو اسے آنے دو.بعض لوگ اپنے بیویوں سے اچھا سلوک نہیں کرتے.بعض جن کی ایک بیوی ہے اس سے عمدہ سلوک نہیں کرتے.بعض کی دو بیویاں ہیں ان میں کئی لوگ ایک بیوی سے اچھا سلوک نہیں کرتے.میں سمجھتا ہوں کہ بعض حالتوں میں بعض مرد عورتوں سے گزارہ نہیں کر سکتے جس طرح بعض عورتیں بعض مردوں سے نباہ نہیں سکتیں مگر خدا تعالیٰ نے اس کا علاج رکھا ہے.مرد اگر عورت سے اچھا سلوک نہیں کر سکتا تو اُسے طلاق دے دے اور عورت اگر مرد کے ساتھ نہیں رہ سکتی تو ضلع کرالے اور اگر یہ نہ کرنا چاہے تو اپنا حق بخش دے اور اس کا اعلان کر دے تا کہ اعتراض نہ ہو.عورتوں سے بدسلوکی کی مثالیں قادیان میں بھی پائی جاتی ہیں اور باہر بھی موجود ہیں.اگر جماعت میں احساس پایا جائے کہ جو شخص شریعت کے کسی حکم کے خلاف کرتا ہے اُس کے ساتھ حقارت کا سلوک کرنا چاہئے تو ایسے لوگ بہت جلد ٹھیک ہو جائیں مگر اب تو یہ حالت ہے کہ بعض لوگ خدا تعالیٰ کو چھوڑ دیتے ہیں مگر اپنے دوست کو نہیں چھوڑ سکتے.علی الاعلان شریعت کی بے حُرمتی کرنے والوں سے اگر تعلق نہ رکھیں اور ان پر اخلاقی طور سے دباؤ ڈالیں تو ایسے لوگ بہت جلد اپنی اصلاح کر لیں.مگر اس میں مجھ سے تعاون نہیں کیا جاتا.وہ ایسے لوگوں سے خود قطع تعلق کرنے کی بجائے مجھ سے سزا دلاتے ہیں اور پھر اُس کے خیر خواہ بن کر میرے پاس آتے اور اس کی سفارش کرتے ہیں حالانکہ ان کا فرض تھا کہ یہ ذمہ واری مجھ پر آنے ہی نہ دیتے اور اس کا بارخود
خطابات شوری جلد دوم اُٹھاتے.۳۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء تعاون کرنے کے لئے ضروری باتیں ہیں میں آپ لوگوں سے یہ چاہتا ہوں باتوں کو مد نظر رکھیں.کہ مجھ سے تعاون کرنے کے لئے ان (۱) یہ کہ اسلام کی تعلیم ، اسلام کے احکام اور اسلام کی ہدایات کو خود سمجھنے کی کوشش کریں.اس سلسلہ میں اگر کوئی صاحب میرے خطبات میں سے خلاصہ کے طور پر ہدایات نکال لیں اور پھر انہیں کتابی صورت میں اسباق کے طور پر شائع کر دیں تا کہ لوگ انہیں پڑھ کر فائدہ اٹھا سکیں تو وہ ثواب حاصل کر سکتے ہیں.(۲) میں جو باتیں بیان کرتا ہوں ان کو لوگوں میں پھیلائیں اور انہیں تحریک کریں کہ ان کو یاد کر لیں اور ان پر عمل کریں.(۳) اپنے اندر یہ روح پیدا کریں کہ مغربیت سے ڈرنا نہیں اور خوب اچھی طرح سمجھ لیں کہ اسلام کی کسی تعلیم کے متعلق کسی موقع پر بھی معذرت کرنے کی ضرورت نہیں ہے.کوئی وجہ نہیں کہ ہم کہیں اسلام میں ایک سے زیادہ بیویاں کرنے کی جو اجازت ہے اس کے متعلق یہ عذرات ہیں.مغربیت کے مقابلہ میں اسلامی تعلیم کے متعلق معذرت کرنا سخت غداری ہے.اسلام کی وہ کونسی تعلیم ایسی ہے کہ جس کی صداقت کو ہم ثابت نہیں کر سکتے اور کونسی ایسی تعلیم ہے جس کی صداقت کا ہمارے نفسوں نے مشاہدہ نہیں کیا.دشمن تو خود ادھر کوٹ کر آ رہا ہے پھر معذرت کرنے کا کونسا موقع اور محل ہے.جو کچھ اسلام نے کہا ہے وہی سچ ہے آج اگر ہم اسلام کی کسی بات کو نہیں سمجھ سکتے تو اول تو اس کے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اگر یہ نہیں کر سکتے تو جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اسلام کی تعلیم خداتعالی کی طرف سے ہے تو ہمیں یہی کہنا چاہئے کہ اسلام جو کچھ بھی کہتا ہے وہی درست ہے اور اُسی پر عمل کرنا چاہئے اور اس کی حکمت بڑوں سے پوچھنی چاہئے.پس خصوصیت سے جماعتوں کو چاہئے کہ نوجوانوں کی تنظیم کریں اور ان میں یہ روح پیدا کریں کہ ہر موقع پر وہ اسلام کی تعلیم کو دلیری سے پیش کریں اور کسی بات سے نہ ڈریں.دیکھو لوگ دنیا میں نہایت غلط بلکہ نہایت شرمناک تعلیمیں لے کر کھڑے ہوتے
خطابات شوری جلد دوم ۳۳ مجلس مشاو مشاورت ۱۹۳۶ء ہیں اور لوگوں کو اپنے پیچھے چلا لیتے ہیں.یورپ کے لوگ ایک وقت کہتے تھے ہندوستانی وحشی ہیں کیونکہ وہ ننگے رہتے ہیں.ہندوستانیوں کو ننگے سر یا بغیر گرتے کے دیکھ کر ان پر ہنسی اُڑاتے تھے لیکن اب ان میں ایسے لوگ پیدا ہو گئے ہیں جو مادر پدر آزاد بن گئے ہیں اور بغیر کسی حجاب کے ننگے پھرتے ہیں اور ان لوگوں پر ہنسی اُڑاتے ہیں جو ان کی طرح ننگے نہیں پھرتے اور دنیا ان سے مرعوب ہو رہی ہے.ایسے رسالے ہیں جن میں ان کی تنگی تصویر میں ان کے ناموں کے ساتھ شائع ہوتی ہیں اور اس طرح شائع ہوتی ہیں کہ ننگے باپ کے سامنے اُس کی لڑکی اور بیوی ننگی کھڑی ہیں.وہ کہتے ہیں دوسرے لوگ بزدل ہیں جو کپڑے اُتار کر ننگے نہیں ہو سکتے.یہ بالکل الٹ ہے یا نہیں؟ دنیا میں کپڑے اُتار کر دوسروں کے سامنے ننگا ہو جانے والے کو بے حیا کہتے ہیں مگر یہ لوگ کپڑے نہ اُتارنے والوں کو بے حیا کہتے ہیں.ایک لڑکی لکھتی ہے مجھے پہلے پہل کپڑے اُتار کر ننگے ہونے میں بہت تکلیف ہوئی خصوصاً اُس وقت جب کہ میرا باپ ہمارے احاطہ میں داخل ہو ا مگر اب میں سمجھتی ہوں ہم بیوقوف تھے جبکہ کپڑے نہیں اُتار سکتے تھے.پس جبکہ لوگ نا پاک تعلیم کے لئے اتنی دلیری دکھاتے ہیں تو کیا تم سمجھتے ہو کہ خدا تعالیٰ کی تعلیم میں اتنی بھی کشش نہیں کہ ہم اسے پیش کر کے منواسکیں.ہماری جماعتوں کا فرض ہے کہ نو جوانوں کی تنظیم کریں اور اُن میں جرات پیدا کر یں تا کہ دلیری سے وہ اسلام کی تعلیم دنیا میں پیش کر سکیں اور کسی سے نہ ڈریں.(۴) جس وقت آپ مجلس شوریٰ میں بیٹھیں ، اُس وقت جو سکیمیں غور کے لئے پیش ہوتی ہیں اُن پر اُن اصول کو مدنظر رکھ کر غور کریں جو آپ کی ہدایت کے لئے خلافت کی طرف سے جاری ہوتے ہیں اور آپ کے مشورے اس بنیاد پر ہوں کہ جو ہدایت بھی خلیفہ کی طرف سے آئے کامیابی اسی پر عمل کرنے میں ہے.(۵) مالی لحاظ سے سلسلہ پر جو بوجھ پڑا ہوا ہے اُسے دُور کریں.بجٹ ہر سال مجلس مشاورت میں پیش ہوتا ہے.اس پر بڑی بڑی بحثیں ہوتی ہیں پھر وہ باہر جماعتوں کے پاس جاتا ہے اور جماعتوں کی طاقت سے بہت کم ہوتا ہے مگر پھر بھی پورا نہیں کیا جاتا.
۳۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء خطابات شوری جلد دوم (۶) عورتوں کی تعلیم و تربیت کا ہر جگہ انتظام کریں.میں چاہتا ہوں کہ یہاں کے مدارس ایسا انتظام کریں کہ اسلامی تعلیم کی صحیح روح قائم کر دیں تا کہ عورتیں پردہ میں رہ کر اسلامی علوم کی عورتوں میں اشاعت کریں اور اسلام کی برتری ثابت کریں.چونکہ دشمن کا اسلام پر ایک بڑا حملہ عورتوں کے ذریعہ ہو رہا ہے اس لئے جب تک ہماری عورتوں میں یہ روح نہ ہوگی کہ وہ اسلامی تعلیم پر عمل کرتی ہوئی دنیا کی عورتوں کو اسلام کی خوبیوں کی قائل کریں اُس وقت تک ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.میں یہ نہیں کہتا کہ عورتوں میں اخلاص نہیں ہوتا مگر عام طور پر صحیح تعلیم اخلاص کو بڑھا دیتی ہے.تاہم میں نے ایک عورت دیکھی جس نے ایسا اخلاص دکھایا جو کسی تعلیم یافتہ عورت سے کم نہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک عورت روتی ہوئی آپ کے پاس آئی اور آ کر کہا میرالڑ کا عیسائی ہو گیا ہے.وہ لڑکا مسلول تھا مگر وہ عورت بار بار کہتی میں یہ نہیں چاہتی کہ یہ لڑکا بچ جائے بلکہ میں یہ چاہتی ہوں کہ ایک دفعہ کلمہ پڑھ لے، پھر خواہ مر جائے.میری اُس وقت دس بارہ سال کی عمر ہوگی مگر ابھی تک مجھے اُس کی شکل یاد ہے.وہ لڑکا بھی کوئی ایسا ضدی تھا کہ بیماری کی حالت میں رات کو اُٹھ کر چوری بھاگ گیا.جب اُس کی ماں کو معلوم ہوا تو وہ اکیلی اس کے پیچھے بھاگی ہوئی گئی اور بٹالہ کے قریب سے پکڑ کر لے آئی.آخر اُس کی جدوجہد اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعانے اثر دکھایا اور وہ مسلمان ہو گیا.پھر دوسرے تیسرے دن مر گیا.وہ عورت آن پڑھ تھی مگر ایسی ہزار پڑھی ہوئی عورتیں اُس پر سے قربان کی جاسکتی ہیں جو اپنے مذہب اور اپنی اولاد سے اس قسم کی پاک محبت نہیں رکھتیں.تو ایسی آن پڑھ عورتیں بھی ہوتی ہیں مگر عام طور پر تعلیم سے اخلاص بڑھ جاتا ہے.پس ہر جگہ عورتوں کی تنظیم ہونی چاہئے اور لجنہ اماء اللہ قائم کی جائیں.جہاں عالم مرد لیکچر دیں اور عورتوں کو اُن کے فرائض بتا ئیں.اسلام کے خلاف جو اعتراضات کئے جاتے ہیں اُن کے جواب سکھائیں اور خدمت دین کی طرف توجہ دلائیں اور قربانی کی روح پیدا کریں.(۷) سادہ زندگی بسر کرنے کا جو اصل ہے اُس پر کار بند ہونا بھی ضروری ہے.جہاں تک مجھے معلوم ہے ہماری جماعت کے آسودہ حال لوگ بھی اس پر عمل کر رہے ہیں اور کئی ایک
خطابات شوری جلد دوم ۳۵ مشاورت ۱۹۳۶ء کا حیرت کے ساتھ بیان ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ اس پر جس قدر عمل کر رہے ہیں اُتنا سکیم کی کسی اور شق پر نہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ ابھی اس کی طرف توجہ کرنے کی اور ضرورت ہے.مغربیت کے حملہ کی ایک صورت پر تکلف زندگی بھی ہے اس سے وہ ہمارے اندر گھن لگا رہا ہے اور ہم جس قدر اس سے دُور ہوں گے اُسی قدر اپنی طاقت کو بچا سکتے ہیں.کپڑوں کا اچھا ہونا اور سر کا بنانا بھی ایک حد تک جائز ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صفائی اور قلبی صفائی کا کیا لطیف رنگ میں مقابلہ کیا ہے.فرمایا کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے سر کے بال بکھرے ہوتے ہیں اور اُن کے چہروں پر مٹی پڑی ہوتی ہے لیکن اگر وہ کسی بات پر قسم کھا لیں تو خدا تعالیٰ نہیں صبر کرتا جب تک اُسے پورا نہ کر لے تو ہمارے لئے خصوصاً ایسے وقت میں جب کہ جنگ عظیم کے لئے ہم تیاری کر رہے ہیں ایسا موقع کہاں ہے کہ ان باتوں کے پیچھے پڑیں.کچھ دنوں کی بات ہے کہ میں نے اپنی ایک عزیز کو روتے دیکھا.اُس وقت بے ساختہ مجھے خیال آیا اور میں نے اُسے کہا کہ ہماری موجودہ حالت ایسی نہیں کہ جو ہمیں رونے کی بھی اجازت دے.ہمیں رونے کی کب فرصت ہے.کیا تم نے کبھی سنا کہ لڑائی میں لڑتے ہوئے کوئی سپاہی رونے کی فرصت نکال سکا.ہم تو دنیا میں اسلام کے لئے لڑنے اور مرنے کے لئے ہیں.رونا بھی چونکہ عیش کے سامانوں میں سے ایک سامان ہے اس لئے یہ ہمیں میسر نہیں اور اس میں کیا قبہ ہے کہ ظاہری حالات کے لحاظ سے ہم ایسے مغلوب اور اتنے ستم رسیدہ ہیں کہ کئی باتیں جو اوروں کے لئے جائز ہیں وہ ہمارے لئے منع ہیں.کجا وہ چیزیں استعمال کرنا کہ جن قوموں کو عروج حاصل ہوتا ہے جب وہ بھی استعمال کرتی ہیں تو تنزل کے گڑھے میں گرنے لگ جاتی ہیں.(۸) ایک اور بات جو اس سکیم سے تعلق رکھتی ہے وہ اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالنا ہے.جب تک یہ نہ ہو اُس وقت تک اسلام جو برا دری قائم کرنا چاہتا ہے قائم نہیں ہو سکتی.یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک شخص موٹر میں بیٹھا جارہا ہو، اُس کی کوٹھی پر پہرے لگے ہوں ، دوسرے لوگوں کا اُس کے قریب پہنچنا بھی مشکل ہو، اُس کی کسی صورت میں ایک مزدور برابری کر سکے.یہ اُسی صورت میں ہو سکتا ہے جبکہ وہ کسی نہ کسی وقت ایک
خطابات شوری جلد دوم ۳۶ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء جگہ جمع ہو کر ایک ہی قسم کا کام کریں.نماز میں احمدی بے شک اکٹھے ہوتے ہیں مگر وہ عبادت کی جگہ ہے.ضرورت اس بات کی ہے کہ اکٹھے مل کر کام بھی کریں تا کہ سب یہ سمجھیں کہ ہم ایک ہی جیسے ہیں.یہاں یہ کام شروع کیا گیا ہے، راستے ٹھیک کئے جاتے ہیں، گڑھوں میں مٹی ڈالی جاتی ہے.میں چاہتا ہوں کہ باہر بھی اس قسم کے کام دوست مل کر کریں.یہاں راستوں کی درستی کے بعد یہ نیت ہے کہ شہر کی صفائی کی جائے ،خود روڑیاں اُٹھائی جائیں.خدا تعالیٰ نے جس کو جس مقام پر رکھا ہے وہ اُس پر رہے لیکن اصل میں ہم سب ایک جیسے انسان ہیں اور ہمیں عملی طور پر اس کا اقرار کرنا چاہئے کہ سب برابر ہیں تا کہ ایک چوہڑا بھی محسوس کرے کہ بڑے سے بڑا درجہ رکھنے والے بھی انسانیت میں میرے برابر ہیں.جب تک ہماری جماعت کے ہر فرد میں یہ روح نہ پائی جائے وہ اسلامی برادری قائم نہیں ہو سکتی جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے اور جس کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے دین آیا ہے.دین کی غرض جہاں یہ ہے کہ وہ روحانیت کو اُبھارے اور بلند کرے وہاں یہ بھی ہے کہ جسمانیت کو گرائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام ہے کہ کئی چھوٹے ہیں جو بڑے کئے جائیں گے اور کئی بڑے ہیں جو چھوٹے کئے جائیں گے، پس خوف کا مقام ہے.اس کا یہ بھی مفہوم ہے کہ جماعت احمدیہ کو جو ذلیل سمجھی جاتی ہے اسے خدا تعالیٰ بڑھائے گا اور ترقی دے گا اس کے مقابلہ میں دشمنوں کو گھٹائے گا اور ذلیل کرے گا لیکن اس کے یہ بھی معنی ہیں کہ خدا تعالیٰ تمام لوگوں کو ایک سطح پر لے آئے گا.جو بڑے ہیں انہیں نیچے اور جو چھوٹے ہیں انہیں اوپر اٹھا کر برابر کر دے گا.اپنے ہاتھ سے کام کرنے میں ذلت سمجھی جاتی ہے، خاص کر مشقت کا کام کرنا اور مزدوروں کے رنگ میں کام کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے اور جس کام کی عادت نہ ہو اُس کا کرنا دوبھر ہو جاتا ہے.مجھے یاد ہے بچپن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بوجہ شدید مخالفت کے ہمیں باہر جانے کی اجازت نہیں دیا کرتے تھے اس لئے خرید و فروخت کے معاملہ سے ہم بالکل نابلد تھے.ایک دفعہ ایک عورت نے جو ہمارے گھر میں مہمان آئی ہوئی تھی دو پیسے اور گلاس دیا کہ دُکان سے جا کر دودھ لا دو.مجھے یاد ہے کہ یہ سن کر میرے کان اور آنکھیں انگارے کی
خطابات شوری جلد دوم ۳۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء طرح گرم ہو گئیں.میں اپنی اس کمزوری کی وجہ سے کہ اگر کوئی مجھے کام کہے تو مجھ میں اس سے انکار کرنے کی ہمت کم ہے، گلاس اور پیسے لے کر باہر تو چلا گیا مگر میرا سارا جسم کانپ رہا تھا کیونکہ مجھے اس قسم کے کام کی عادت نہ تھی.غرض عادت کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے.ہمارا فرض ہے کہ ان عادتوں کو توڑ کر اپنے آپ کو اُس مقام پر لے جائیں جہاں کوئی بھی کام کرنے میں مشکل نہ پیش آئے.آج اگر اس قسم کی عادت نہ ڈالیں تو ممکن ہے کہ وقت پڑنے پر غدار ثابت ہوں.میں نے دیکھا ہے کہ مٹی کھود نے کے لئے جب میں کھودنے نے گدال پکڑی تو کئی احمدی اَسْتَغْفِرُ اللهَ اسْتَغْفِرُ اللہ کہتے ہوئے آگے بڑھے کہ گدال مجھ سے لے لیں.اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ اس حالت میں مجھے دیکھنے کا انہیں موقع نہ ملا تھا ور نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت ایسا نہ ہوتا تھا ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود دست مبارک میں گدال پکڑی اور چلائی.اب اگر کوئی ساری دنیا کی حکومت کے تخت پر بھی بیٹھ جائے اور کہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو کام کیا ہے وہ معیوب ہے تو وہ مسلمان نہیں کہلا سکتا.(۹) آخری چیز دُعا ہے جس کے ذریعہ آپ لوگ مجھ سے تعاون کر سکتے ہیں اور ان دنوں جبکہ میں نے ہر پیر کو روزہ رکھنے کا حکم دیا ہوا ہے دعا پر خاص طور پر زور دینا چاہئے کیونکہ ہمارا آخری ہتھیار دعا ہی ہے.اِس سے ہم وہ کامیابی حاصل کر سکتے ہیں جو کروڑوں روپیہ خرچ کر کے حاصل نہیں کر سکتے ہیں اور لوگ اس طاقت کو محسوس کر سکتے ہیں.ابھی ایک مخالف کے متعلق مجھے معلوم ہوا کہ وہ کسی احمدی سے کہتا تھا کہ پچھلے سال تم نے روزے رکھے تو کوئٹہ تباہ ہوا تھا اب کے کیا کرانا ہے؟ گو اُس کی نیت جنسی کی ہو مگر حق یہ ہے کہ دعا اپنے اندر بہت بڑی طاقت رکھتی ہے اور ہمیں یہی دعا کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ اُن لوگوں کو جو ہمارے دشمن ہیں ہدایت دے لیکن اگر ان کے لئے ہدایت مقدر نہیں تو انہیں دین کے رستہ میں روک نہ بننے دے اور اس روک کو ہٹا دے.مگر یہ صرف زبان سے کہہ دینا کافی نہیں اس کے لئے دلوں میں اخلاص اور جوش اور یقین ہونا چاہئے کہ دعا ایک بہت زبر دست اور بڑا کارآمد ہتھیار ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ ابھی دو ہی روزے ہوئے ہیں کہ دنیا میں بہت بڑے تغیرات ہونے کے سامان پیدا ہو
خطابات شوری جلد دوم ۳۸ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء رہے ہیں.کل کی خبر ہے کہ روس اور جاپان میں جنگ کے آثار پیدا ہو رہے ہیں.ادھر انگریزوں میں ایسا ہی ہو رہا ہے اور یہ ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ پچھلے سال جو تغیرات رونما ہوئے ، اُس کی مثال سابقہ سالوں میں نہیں مل سکتی.لوگ اس بات کا اقرار کر رہے ہیں کہ جنگ عظیم کے ۱۷ سال بعد دنیا کی حالت اتنی خطرناک نہیں ہوئی تھی جتنی ۱۹۳۵ء میں ہوگئی اور ہوتی چلی جا رہی ہے.یہ تغیرات یکدم شروع ہو گئے ۳۴ ۱۹۳۳ء کے اخبارات کے فائل اُٹھا کر دیکھ لو.اُن میں لکھا ہوگا کہ اب امن کا دور دورہ ہے اور لڑائیوں کا خاتمہ ہو گیا ہے.مگر ۳۶.۱۹۳۵ء میں ایسی حالت ہوگئی ہے کہ ہر شخص جنگ کو اپنے دروازہ پر دیکھ رہا ہے.پس اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی اور انکسار کے ساتھ گر و اور دعائیں کرو کیونکہ دعائیں بہت کچھ کر سکتی ہیں.اس طرح بھی مجھ سے تعاون کیا جائے.ہر جماعت کے لوگ ایک وقت مقرر کر کے اور مل کر دعائیں کریں یا بعض نمازوں کے وقت مل کر دعائیں کریں اور اس طرح کوشش کریں کہ یہ دعا ئیں اور روزے عرش الہی کو ہلا دیں تا کہ عظیم الشان تغییر پیدا ہو.پھر یہ بھی دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ ہمارے اندر بھی غیر معمولی تغییر پیدا کرے تا کہ دنیا میں جو جگہ خالی ہو اُس کے لینے کے ہم اہل ثابت ہوں.ابھی ہمارے اندر اس قسم کی اہلیت کم ہے اور بہت اصلاح اور بڑے تغیر کی ضرورت ہے.پس جماعت کو چاہئے کہ اس تعاون کو اس درجہ پر پہنچا دے کہ وہ اس مثل کے مطابق نہ ہو کہ مُردہ بدست زندہ بلکہ زندہ بدست زندہ کے مطابق ہو.تمام افرادِ جماعت تبلیغ میں حصہ لیں دوسری بات یہ ہے کہ نقطہ نگاہ کی اصلاح کے بعد بیرونی مقابلہ کے لئے تیاری کریں اس کے لئے تمام افراد جماعت کو تبلیغ میں حصہ لینا چاہئے.اگر آج ہم سب یہ فرض ادا کر رہے ہوتے تو پھر الگ مبلغوں کی کوئی ضرورت نہ تھی اور جب تک جماعت یہ خیال اپنے دل سے نکال نہیں دیتی کہ تبلیغ کرنا مبلغین کا کام ہے افراد کا کام نہیں اُس وقت تک کامیابی نہیں ہوسکتی.اس کے لئے میں نے یہ تحریک کی ہے کہ ہر احمدی زندگی کا کچھ حصہ اس کام کے لئے وقف کر دے تاکہ اگر سارے سال میں تبلیغ کرنے میں غفلت ہوگئی ہو تو اس عرصہ میں اس
خطابات شوری جلد دوم ۳۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء غفلت کا ازالہ کیا جا سکے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس ہدایت پر ابھی تک ایک فیصدی حصہ بھی جماعت کا عامل نہیں ہوا.اکثر حصہ جماعت کا ایسا ہے جس نے ابھی تک تبلیغ کے لئے وقف اوقات میں کوئی حصہ نہیں لیا.یہ تو میں سمجھ سکتا ہوں کہ جماعت کا حصہ یا پا حصہ یا اہم حصہ ایسا ہو سکتا ہے جو اپنی مجبوریوں کے ماتحت اپنے اوقات وقف نہ کر سکے لیکن ۱۰۰ میں سے ۹۹ بلکہ اس سے بھی زیادہ حصہ وقف نہ کرے تو اس کے یہی معنی ہو سکتے ہیں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ تبلیغ کرنا ہمارا کام نہیں بلکہ مبلغوں کا کام ہے.یا یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں تبلیغ کے لئے کوئی وقت معین کرنے کی ضرورت نہیں روزانہ جو تبلیغ کرتے رہتے ہیں.مگر یہ کہنا ان کی غلطی ہوگی.انہیں چاہئے کہ اگر وہ روزانہ تبلیغ کرتے ہیں تو نیکی میں اور ترقی کریں.ایسے لوگ اگر اس تحریک میں حصہ نہ لیں گے تو ان کے ارد گرد کے لوگ سمجھیں گے کہ اس تحریک میں حصہ لینا کوئی اتنا ضروری نہیں ہے اور اس طرح وہ ایسے لوگوں کے لئے روک کا موجب بنیں گے.وہ شخص جو روزانہ تبلیغ کرنے میں ان کی نقل نہیں کرتا وہ ان کے تبلیغ کے لئے اوقات وقف نہ کرنے میں نقل کرے گا اس لئے چاہئے کہ وہ بھی حصہ لیں اور ضرور لیں.تبلیغ ایک ایسا ضروری کام ہے اور ایسے اہم احکام میں سے ہے کہ قرآن کریم میں اس کا ذکر خاص طور پر کیا گیا ہے اور خدا تعالیٰ نے ہر مسلمان پر اسے فرض قرار دیا ہے.چنانچہ فرماتا ہے كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عن المنكر ا یعنی تم وہ لوگ ہو جو لوگوں کے نفع کے لئے پیدا کئے گئے ہو.یہ زید یا بکر سے نہیں کہا گیا بلکہ ساری اُمت سے کہا گیا ہے.پس ہر مومن کا فرض ہے کہ تبلیغ کرے اور تبلیغ کے لئے وقت دے.مگر ایک فیصدی بھی احمدی نہیں جنہوں نے وقت دیا ہو.اگر کوئی نہ دینے پر مجبور ہو تو اُس کا فرض ہے کہ مجبوریاں پیش کر کے ہم سے اجازت لے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دفعہ جہاد کے لئے تشریف لے گئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پیچھے چھوڑ گئے.ابھی دو ہی منزل دور گئے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی آ پہنچے اور کہا يَا رَسُول اللہ ! آپ کو جہاد کے لئے جاتے دیکھ کر گھر میں مجھ سے بیٹھا نہیں جاتا.سارے مومن تو آپ کے ساتھ ہیں پھر مجھے کیوں پیچھے رکھا جاتا ہے.آپ نے فرمایا پیچھے رہنا کوئی کم اہم کام نہیں، تم اسی پر مقرر ہو گئے اسی طرح معذوروں کو اپنے آپ کو پیش کرنا چاہئے
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاو مشاورت ۱۹۳۶ء تا کہ ہم انہیں وہی کہ سکیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا گیا تھا.پس یہ مت خیال کرو کہ ہم اپنے گھروں پر تبلیغ کر لیتے ہیں اس لئے ہمیں اوقات وقف کرنے کی ضرورت نہیں.جب ایک نظام مقرر کیا گیا ہے اور تبلیغی جہاد جماعتی رنگ میں شروع کیا گیا ہے تو ہر شخص کو اس میں شریک ہونا چاہئے تا کہ اُسے یادر ہے کہ جب خدا تعالیٰ کے لئے اپنے گھروں کو چھوڑنے کا مطالبہ کیا جائے گا تو اسے پورا کر سکے گا.تیسری بات یہ ہے کہ نوجوان خدمت دین کیلئے اپنی زندگیاں وقف کریں مخصوصا اور دوسرے لوگ عموما اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کریں اور غیر ممالک میں جا کر تبلیغ کریں اس وقت تک کئی نوجوان جا چکے ہیں اور کئی جانے والے ہیں سٹریٹ سیٹلمنٹ لے میں جو مبلغ گیا ہے وہ مدرسہ احمدیہ کا مولوی فاضل ہے.پہلے اس کے متعلق مجھ پر اثر تھا کہ اس نے چستی سے کام نہیں کیا مگر اب معلوم ہوا ہے کہ وہ آہستہ آہستہ اچھا اثر پیدا کر رہا اور اپنے لئے مفید ماحول تیار کر رہا تھا.ہم اُسے کوئی خرچ نہیں دیتے ، وہ پھیری کر کے کماتا ہے اور تبلیغ کرتا ہے اور بھی کئی نوجوان جا رہے ہیں.چین میں ایک مبلغ جا چکا ہے اور دوسرا جانے کے لئے تیار ہے.آسام کو جانے کے لئے ایک نوجوان تیار ہے.سپین جا چکا ہے.ساؤتھ افریقہ جاچکا ہے.ہنگری جا چکا ہے.البانیہ جانے کے لئے تیار ہے.یہ سب زندگی وقف کنندگان ہیں.ان کے علاوہ آٹھ دس نوجوان اپنے طور پر مختلف علاقوں کو روانہ ہو چکے ہیں.ان میں سے بعض یہاں سے کلکتہ تک پیدل گئے ہیں اور پھیری کر کے اپنا زادِراہ پیدا کرتے چلے گئے ہیں.یہ شاندار کام جو انہوں نے کیا اور بھی کر سکتے ہیں اور جماعت کی ترقی میں مُحمد ہو سکتے ہیں.بے شک ہمیں دین کے لئے روپیہ کی ضرورت پیش آتی ہے اور پیش آتی رہے گی لیکن جہاں تک تبلیغ کا کام ہے وہ روپیہ سے نہیں چل سکتا بلکہ قربانی اور ایثار سے چل سکتا ہے اس کے لئے نوجوان اپنے آپ کو پیش کریں اور اس میں جماعت اس طرح تعاون کرے کہ ہر با اثر لوگ اپنی اپنی جماعتوں میں اس پر تقریریں کریں اور نو جوانوں میں تحریک کریں کہ وہ اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کریں.میں نے ایک خطبہ میں بیان کیا تھا کہ ایک لڑکا میرا خطبہ سُن کر افغانستان چلا گیا جہاں اسے قید میں ڈال دیا گیا اور وہ قید خانے
ام خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء کے افسروں کو تبلیغ کرنے لگ گیا جن میں سے بعض احمدیت کے قریب آگئے.اس پر علماء نے فتویٰ دیا کہ اسے قتل کر دیا جائے لیکن حکومت نے کہا یہ انگریزی رعایا ہے، اس کے قتل کرنے سے کوئی اُلجھن نہ پیدا ہو جائے.آخر اسے افغانستان سے نکال دیا گیا.وہ یہاں آ گیا.اب پھر وہ کسی اور ملک کے لئے چلا گیا ہے.اسی طرح اور کئی ایک نے ایسا ہی کیا ہے.وہ جس کا میں نے ذکر کیا ہے کہ کلکتہ تک پیدل گیا وہ جالندھر سے روانہ ہوا اور کلکتہ پہنچ کر آگے سٹریٹ سیٹلمنٹ کے لئے روانہ ہو گیا.اور دس کے قریب ایسے لڑکے ہیں جو ان کے علاوہ ہیں.جن میں سے بعض کی قلیل مدد کی گئی اور بعض کو کوئی مدد نہیں دی گئی.تو جماعتیں اپنے نوجوانوں کو بتائیں کہ گھروں میں بیکار بیٹھے رہنے کی بجائے پاؤنیر (PIONEER) بنو اور باہر جا کر کام کرو.اس طرح خود بھی فائدہ اٹھاؤ اور سلسلہ کو بھی فائدہ پہنچاؤ.بڑھا ئیں چوتھی بات یہ ہے کہ تبلیغی جلسوں کا سلسلہ تبلیغی جلسوں کا سلسلہ بڑھائیں کہ ہی ؟ بڑھائیں مگر یہ نہیں کہ جماعتیں کہیں مرکز سے بھیجے جائیں بلکہ جہاں جلسہ کرنا ہو وہاں کے ارد گرد کے لوگ بُلا لئے جائیں اور اُن سے تقریریں کرائیں.تبلیغ کے سلسلہ میں مبلغوں کا خیال ہی جانے دو اور خود تبلیغ کرو.اپنے اندر تبلیغ کرنے کا ملکہ پیدا کرو.مبلغوں کی وجہ سے کام بہت محدود ہو گیا ہے کیونکہ سمجھا جاتا ہے کہ جب کوئی مبلغ آئے گا تو تبلیغ کرے گا، یہ سمجھ کر خود کچھ نہیں کیا جاتا.پس احباب تبلیغی جلسے کریں اور کثرت سے کریں اور کوئی جماعت ایسی نہ ہو جو مہینہ میں دو یا کم از کم ایک جلسہ نہ کرے.اگر کوئی سُننے کے لئے نہ آئے تو بھی جلسہ کیا جائے.حافظ روشن علی صاحب مرحوم کا ایک لطیفہ مجھے بہت پیارا لگتا ہے.وہ ایک دفعہ مدراس گئے جہاں ایک مقام پر رات کو جلسہ کیا گیا تا کہ لوگ سُننے کے لئے آسکیں کیونکہ اُن دنوں وہ لوگ دن کو دھان کی تلائی کا کام کرنے میں مصروف رہتے تھے ، رات کو کچھ لوگ آگئے اور حافظ صاحب نے تقریر شروع کی مگر دورانِ تقریر میں سب سو گئے.اور حافظ صاحب برابر تقریر کرتے رہے آخر ساری تقریر کر کے اُنہوں نے کہا اے زمین و آسمان ! تو گواہ رہ کہ میں نے خدا کا پیغام یہاں پہنچا دیا اور یہ کہ کر لوگوں سے کہا اب اُٹھ بیٹھو تقریر ختم ہو گئی ہے.پس اگر کوئی انسان نہ سُنے تو ہوا کوئنا دو اور زمین و آسمان کو گواہ بنا لو.جب تم میں سُنانے کی ایسی لگن پیدا ہو جائے گی تو
خطابات شوری جلد دوم ۴۲ مجلس مشاو مشاورت ۱۹۳۶ء زمین و آسمان میں درد پیدا ہو گا اور وہ لوگوں کے سینے میں جاگزیں ہو جائے گا اور وہ حق کی طرف دوڑے آئیں گے.پس جلسے کرو، ان میں تقریریں کرو اور مبلغوں سے بے نیاز ہو جاؤ.جس جلسہ میں مبلغین شامل ہوں اُسے تعیش یا عید کے دن کی طرح سمجھو جس کی نسبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ وہ کھانے پینے کا دن ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کے لئے وہ دن بہتر ہوتا ہے جس میں فاقہ کیا جائے.مبلغین کو بلا کر جلسہ کرنا سیر و تفریح ہے، تبلیغی جلسہ نہیں.جلسہ وہی ہے جس میں خود جلسہ کرنے والے لوگوں کو حق وصداقت کا پیغام پہنچائیں.لٹریچر صحیح طور پر تقسیم کیا جائے پانچویں تجویز یہ ہے کہ لٹر پچر کو صحیح طور پر تقسیم کیا جائے.میں نے اس طرف متواتر توجہ دلائی ہے مگر ابھی تک توجہ نہیں کی گئی.اشتہار چھاپ کر یونہی لوگوں کو بھیج دیئے جاتے ہیں جو بالکل ضائع جاتے ہیں.اس پر میں نے ہدایت کی کہ جو اشتہار بھیجنے کے لئے لکھے، اُسے اس شرط پر بھیجو کہ وہ بعد میں اطلاع دے کہ کس طرح تقسیم کئے اور کیا اثر ہوا.اس پر صرف دس بارہ جماعتوں نے لکھا.چنانچہ تمیں ہزار اشتہارات میں سے زیادہ سے زیادہ دس بارہ ہزار بھیجے جا سکے.اس سے معلوم ہوا کہ پہلے جو اشتہارات بھیجے جاتے تھے وہ یونہی پڑے رہتے تھے.چونکہ لٹریچر کی صحیح تقسیم بہت عمدہ نتائج پیدا کر سکتی ہے اس لئے اس کی طرف پھر توجہ دلاتا ہوں.اشتہار تقسیم کرنے کے متعلق میں نے کہا تھا کہ تحریک جدید کے اشتہارات کسی مقررہ قیمت کے نہیں ہونگے.اگر کوئی جماعت ساری قیمت ادا نہیں کر سکتی تو آدھی ادا کر دے، اگر آدھی نہیں تو تہائی ادا کر دے، اگر تہائی نہیں تو چوتھائی ادا کر دے، اگر یہ بھی نہیں تو کچھ حصہ ہی ادا کر دے، اگر اتنا بھی نہیں تو مفت منگا لے.اس کے مقابلہ میں صرف یہ مطالبہ کیا تھا کہ یہ اطلاع دے دی جائے کہ کس طرح اشتہار تقسیم کئے گئے ہیں اور ان کا کیا اثر ہوا ہے.اگر کوئی یہ بھی نہیں کر سکتا تو کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اشتہارات درست طور پر تقسیم کئے جاتے ہیں.اس وجہ سے میں نے ان کی اشاعت بند کر دی مگر یہ سرزنش کے طور پر تھا اس لئے پھر کہتا ہوں کہ جو جماعتیں جس قدر قیمت دے سکیں دے کر حسب ضرورت اشتہارات منگا سکتی ہیں لیکن جو یہ بھی نہ کر سکیں وہ لکھ دیں، انہیں مفت بھیج دیں گے اور
۴۳ مجلس مشاو مشاورت ۱۹۳۶ء خطابات شوری جلد دوم صرف ایک قیمت ادا کریں اور وہ یہ کہ مرکز میں یہ رپورٹ بھجوا دیں کہ انہوں نے اشتہارات کس طرح تقسیم کئے اور ان کا کیا اثر ہوا.یہ ایک چھوٹا سا کام ہے جس کی طرف میں آپ لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں اور اس لئے توجہ دلاتا ہوں کہ آپ لوگ اس میں بھی فیل ہو گئے.میں بتا چکا ہوں کہ روحانی ترقی کا روپیہ پر انحصار نہیں مگر موجودہ حالات کے لحاظ سے روپیہ کی ضرورت ہے.اس کے لئے جماعت کو تحریک ہوتی رہتی ہے.میں نے تحریک جدید اور صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے ایسے کام شروع کرائے ہیں کہ ان کے ذریعہ کچھ آمد ہو سکے اور اس غرض کے لئے کچھ زمین بھی خریدی گئی ہے اور امید کی جاتی ہے کہ کچھ عرصہ تک وہ زمین اپنا بوجھ برداشت کرنے لگ جائے گی اور اس کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ آمد دینے لگے گی.گو اس وقت تک صدرا انجمن احمدیہ کا پچاس ہزار کے قریب اور تحریک کا پچاس ہزار کے قریب روپیہ خرچ ہوتا ہے لیکن امید ہے کہ آخر یہ جائداد بارہ تیرہ لاکھ کی ہو جائے گی یا اس سے بھی زیادہ کی.میرا ارادہ ہے کہ اسی طرح کچھ اور جائداد خریدی جائے ، یہاں تک کہ دفاتر کے مستقل اخراجات کا بار چندہ پر نہ رہے، چندہ صرف تبلیغ وتعلیم وغیرہ پر خرچ ہو.میرا ارادہ ہے کہ جائداد پچیس لاکھ تک بڑھا دی جائے تا کہ اس طرح ریز روفنڈ کی تحریک پوری ہو جائے بلکہ ممکن ہو تو بڑھا کر ایک کروڑ تک پہنچا دی جائے تاکہ تبلیغ کے کام کو زیادہ شدت سے وسیع کیا جا سکے.اس طرح یہ زمین اٹھارہ لاکھ کی بن جاتی ہے اور ساری سکیم ایک کروڑ کی ہے جس کے لئے خدا کے فضل سے ایسے سامان پیدا ہو گئے ہیں اور اس طرح پیدا ہوئے ہیں کہ جس کا وہم و گمان بھی نہ تھا.مگر اس سکیم کو مکمل کرنے کے لئے شروع میں غیر معمولی قربانیوں کی بھی ضرورت ہوگی.مگر اس کے بغیر چارہ نہیں کیونکہ اس وقت ہمارے چندوں کا اکثر حصہ تنخواہوں پر خرچ ہو جاتا ہے بلکہ یہ تنخواہوں پر خرچ ہو جاتا ہے اور صرف سائز کے لئے رہ جاتا ہے حالانکہ ہونا یہ چاہئے کہ پر عملہ پر خرچ ہو اور سائز پر بلکہ ممکن ہو تو اس سے بھی زیادہ فرق ہوتا کہ سلسلہ کا لٹریچر ساری دنیا میں پھیلایا جائے.حضرت مسیح موعود کی کتب کا دنیا کی ہر زبان میں ترجمہ ہو، ہر ملک میں مبلغ جائیں، وہاں کے لوگوں کو یہاں بلوا کر تعلیم دی جائے، جماعت کے ناداروں کو کام پر لگانے کی، یتامی اور مساکین کی پرورش کی پوری طرح ذمہ داری لی جائے مگر اب تک ہم یہ نہیں کر سکے
خطابات شوری جلد دوم ۴۴ مجلس مشا مشاورت ۱۹۳۶ء کیونکہ اول تو آمد کم پھر مرکزی دفاتر کا خرچ زیادہ ہے جسے کم کرنے کی کوئی صورت نہیں کیونکہ اس سے کم کر لیا جائے تو کام بالکل ہی بند ہو جاتا ہے.پس ہمارے لئے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ جس قدر کام کا روپیہ پر انحصار ہے اس کے لئے ہم مستقل آمد کی صورت پیدا کریں اور تبلیغی کاموں کے لئے بھی مزید رقوم کا انتظام کریں.اس وقت خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے بعض ایسے راستے کھولے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں اگر تین چار لاکھ روپیہ کا انتظام ہو جائے تو غالباً ہم لاکھ ڈیڑھ لاکھ روپیہ سالانہ کی آمد کی جائداد پیدا کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں.جو پہلی خرید شدہ جائداد کے ساتھ مل کر سلسلہ کو مرکزی دفاتر کے اخراجات کے بار سے آزاد کرا سکتی ہے اور اس طرح ہم پورے جوش سے تبلیغ کے کام کو وسیع کر سکتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے چند دن میں ہی اعلیٰ سے اعلیٰ نتائج پیدا ہو سکتے ہیں لیکن اس رقم کا انتظام تو اس وقت مشکل ہے.کم سے کم اگر دوست صدرانجمن احمد یہ کے بقائے ادا کر دیں اور تحریک کا چندہ اِس خلوص سے ادا کریں جس سے اُنہوں نے وعدہ کیا تھا تو کم سے کم ایک معقول بنیاد اس کام کی ڈالی جاسکتی ہے.گویا مزید قربانی کرنے کے بغیر اگر جماعت اپنے وعدوں کو ہی جلد سے جلد ادا کر دے تو مجھے اپنی سکیم کے مکمل کرنے میں سہولت ہو سکتی ہے.مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس سال تحریک جدید کا چندہ اس سُرعت سے نہیں وصول ہو رہا جس سُرعت سے گزشتہ سال وصول ہوا تھا حالانکہ اس سال چندہ کا وعدہ گزشتہ سال کے وعدے سے زیادہ ہے.اگر جماعت اُس چوٹ کو یاد رکھتی اور اس تکلیف کو بھول نہ جاتی جو اُسے پہنچی ہے تو وہ ریز روفنڈ کو بہت مضبوط کر دیتی.اس کے لئے میں تمام مخلص احباب سے تعاون چاہتا ہوں اور وہ اس طرح کہ :- (اول ) جن جماعتوں کے ذمہ تحریک جدید کا چندہ ہے اور جسے انہوں نے اس سال ادا کرنا ہے وہ دو تین ماہ کے اندر اندر بھیج دیا جائے اور یہ انتظار نہ کریں کہ سال کے ختم ہونے تک ادا کر دیں گے.(۲) کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو مکان بنانے یا کسی اور غرض کے لئے روپیہ جمع کر رہے ہوتے ہیں اور روپیہ کے جمع ہو جانے تک انتظار کر رہے ہوتے ہیں ایسے لوگ یا وہ لوگ اپنی ضرورت کو ایک سال پیچھے ڈال سکتے ہیں، میں اُن سے چاہتا ہوں کہ وہ ایک سال
خطابات شوری جلد دوم ۴۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء کے لئے اپنا روپیہ مجھے قرض دیدیں.میں اس کے ذریعہ سے تحریک جدید کے ریز روفنڈ کو مضبوط کروں گا اور اگلے سال کے چندہ سے ان کی رقم واپس کر دوں گا.ایسی رقوم بہر حال یکم اپریل ۱۹۳۷ ء تک اِنْشَاءَ الله واپس کر دی جائیں گی.اگر احباب اس طرح تعاون کریں تو جماعت پر بغیر کسی قسم کا زائد بوجھ ڈالنے کے کام چلایا جا سکتا ہے اور سلسلہ کی آمدنی کا بہت بڑا انتظام کیا جاسکتا ہے.اگر ہمارا ریز روفنڈ کامیاب ہو جائے تو سو فیصدی چندہ تبلیغ کے کام پر اور ان مقاصد پر جو مرکز سے نہیں بلکہ باہر سے تعلق رکھتے ہیں خرچ ہوگا اور مرکز کے اخراجات ریز رو فنڈ کی آمدنی سے چلائے جاسکیں گے ، چندہ میں سے مرکز میں کچھ نہیں لگے گا.اس وقت جو زمین خریدی جا چکی ہے اُس زمین کا انتظام اس ارادہ کے ساتھ کیا گیا تھا کہ جماعت کے زمیندار اسے خرید لیں.اس کے لئے ”الفضل میں اعلان بھی کیا گیا مگر کسی نے توجہ نہ کی.اس پر نصف سے کچھ زائد صدرانجمن احمدیہ نے خرید لی اور باقی کچھ اور لوگوں نے جن میں میں بھی شامل ہوں.لیکن میں برابر اس فکر میں رہا ہوں کہ جماعت کے زمینداروں کی اصلاح کے لئے اور رقبے حاصل کئے جائیں اور چونکہ دوستوں کو اپنی غلطی کا احساس ہو رہا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ انہیں ایسی سکیم میں حصہ لینا چاہئے تھا اس لئے سنڈیکیٹ جو ایک کمپنی زمیندارہ کے متعلق ہے اور جس میں یہ حصہ صدرانجمن احمدیہ کا ہے اور رقبہ جات کی فکر میں ہے.میں دوستوں کو پھر توجہ دلاؤں گا کہ اگر کامیابی ہو تو دوست اس دفعہ پھر غفلت نہ برتیں بلکہ زمیندار لوگ محنت سے کام لیں.اپنی حالت کو بدلنے کی کوشش کریں.یوں سکتے اپنے گھروں میں پڑے رہنے سے کچھ نہیں بنتا.انہیں چاہئے کہ جہاں زمین مل سکتی ہو چلے جائیں اور تھوڑی زمینداری پر کئی کئی خاندان نہ پڑے رہیں.آج زمینداروں کی حالت بہت ہی قابلِ رحم ہو رہی ہے.میں دوستوں کو کئی بار توجہ دلا چکا ہوں کہ وہ اپنے گھروں سے باہر نکل کر اپنی مشکلات کو دور کرنے کی کوشش کریں مگر وہ کچھ ایسے ضدی واقعہ ہوئے ہیں کہ اپنے وطنوں کو چھوڑتے ہی نہیں.دوسری سکیم دوسری حکیم یہ ہے کہ یہاں کا رخانے جاری کئے جائیں.جراب سازی کا کارخانہ تو اپنے طور پر قائم ہو چکا ہے اور وہ اس سکیم کے ماتحت نہیں گو 1
خطابات شوری جلد دوم ۴۶ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء میری تحریک سے ہی جاری ہوتا ہے.اس سکیم کے ماتحت جو کارخانے جاری کئے گئے ہیں وہ یہ ہیں.(1) لوہے کا کام کرنے کا کارخانہ.(۲) لکڑی کا کام کرنے کا کارخانہ.اب چمڑے کے کام کا بھی اضافہ کیا جا رہا ہے.(اس دوران میں یہ کارخانہ بھی جاری ہو چکا ہے.) (۳) دوا سازی کا کام بھی شروع کیا جائے گا.جس کی ایک شاخ دہلی میں کھولی جائے گی.(۴) گلاس فیکٹری کا کام ہے.ایک مخلص دوست نے اپنی جائداد بیچ کر جاری کیا ہے.چونکہ وہ اکیلے اس کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتے تھے اس لئے اس میں بھی تحریک جدید کا حصہ رکھ دیا گیا ہے.بیرونی ممالک میں جو مبلغ گئے ہیں اُن کے ذریعہ وہاں کئی قسم کا ہندوستان کا سامان فروخت ہو سکتا ہے اس لئے ایک اس قسم کی دکان جاری کرنے کی تجویز ہے.اس کے علاوہ اور کار خانے بھی مدنظر ہیں.اصل بات بریکاروں کو کام پر لگانا ہے اور یہ بھی کہ جماعت کی مالی حالت بھی اچھی ہو اور تحریک جدید کی مالی تحریک جب بند کر دی جائے تو اس کا کام اِن کارخانوں کی آمدنی سے چلے.ان کارخانوں کے متعلق احباب ان طریقوں سے مدد کر سکتے ہیں.(۱).جن احباب کو ان کاموں میں سے کسی کا تجربہ ہو، وہ مفید تجاویز بتا ئیں اور سُودمند مشورے دیں.(۲).ماہر فن احباب کارخانوں میں آکر کام ہوتا دیکھیں اور مشورے دیں کہ کس طرح کام کرنا چاہئے.(۳).اس طرح بھی اس بارے میں مدد کی جاسکتی ہے کہ جماعت کے لوگ ان کا رخانوں کی بنی ہوئی چیزیں خریدیں.ہوزری سے خریدنے کے لئے میں نے کہا تھا.گو مجھے افسوس ہے کہ اس طرف پوری توجہ نہیں کی گئی.مگر مجھے ہوزری سے بھی شکایت ہے کہ اُس نے کام اُس طرح سے شروع نہیں کیا جس طرح اسے کرنا چاہئے تھا.اسی طرح لکڑی کا سامان ہے جو دوست یہ سامان اور جگہوں سے خریدتے ہیں وہ یہاں سے خریدا کریں.
خطابات شوری جلد دوم ۴۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء امداد دینے کے طریق ان کارخانوں میں کام سکھانے کے متعلق ہم یتیم لڑکوں کو مقدم رکھیں گے اور جن لڑکوں کو ہم لیتے ہیں ان کا سارا خرچ برداشت کرتے ہیں.ساتھ ہی دینی اور دنیوی تعلیم بھی دلاتے ہیں تا کہ گو وہ کہنے کو تو مستری ہوں لیکن اصل میں انجینئر ہوں اور اعلیٰ پیشہ ور ہوں.یہ بھی ارادہ ہے کہ سرکاری ورکشاپوں سے معلوم کیا جائے کہ اُنہیں کن کاموں اور پیشوں کے جاننے والوں کی ضرورت ہوتی ہے.پھر ان کے مطابق کام سکھایا جائے.پس جماعت کے دوست خود ان کارخانوں کی اشیاء خریدیں اور اپنے اپنے ہاں ان کی ایجنسیاں قائم کریں.امرتسر ، لاہور، گوجرانوالہ، جہلم، راولپنڈی، پشاور وغیرہ مقامات ایسے ہیں کہ وہاں کے دوست سامان منگائیں تا فروخت کر کے خود بھی فائدہ اُٹھا ئیں اور یہاں بھی فائدہ پہنچا ئیں.اسی طرح بیرونی تجارتوں کا سلسلہ مد نظر ہے جو مبلغ بیرونی ممالک میں گئے ہوئے ہیں اُن کے ذریعہ وہاں کی تجارتی اشیاء یہاں منگائی جائیں اور یہاں کی وہاں بھیجی جائیں.اس کے متعلق لاہور اور دہلی دو جگہ جماعتوں نے انتظام کیا ہے جو جماعتیں اپنی ضمانت پر کسی جگہ دوکان کھلوادیں وہاں چند ہفتوں کے اُدھار پر بھی مال بھجوایا جا سکتا ہے.ان تمام تجویزوں سے مقصود یہ ہے کہ جماعت کی مالی حالت کو مضبوط کیا جائے.یہ باتیں جو اس وقت میں نے بیان کی ہیں ان کو مدنظر رکھ کر احباب کو کام کرنا چاہئے دعا تا کہ ہم کامیاب ہوں.اب میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں توفیق دے ہم اس ارادے کے ساتھ کھڑے ہوں کہ یا تو مٹ جائیں گے یا پھر اسلام کی اشاعت کر کے چھوڑیں گے.میں پناہ مانگتا ہوں اس وعید کے پورا کرنے والے سے جو دین سے غداری کرنے اور سُستی و کوتاہی سے کام لینے والوں کے متعلق ہے.میں پھر دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے جو ترقی کی راہیں رکھی ہیں وہ ہمارے ہی ہاتھوں سے کھول دے اور ہمارے ہی ذریعے اپنے وعدوں کو پورا کرے.“
خطابات شوری جلد دوم ۴۸ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء دوسرا دن تعلیم نسواں مجلس مشاورت کے دوسرے دن یعنی ا را پر میل ۱۹۳۶ء کو مجلس مشاورت کے دوسرے اجلاس میں سب کمیٹی نظارت تعلیم و تربیت کی طرف سے نصرت گرلز ہائی سکول قادیان کے ساتھ زنانہ بورڈنگ ہاؤس بنانے کا مسئلہ برائے غور و بحث پیش ہوا.کئی ممبران نے اپنی آراء کا اظہار کیا.رائے شماری کے بعد حضور نے احباب جماعت کو بعض اہم امور کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا :- چونکہ مسئلہ بہت اہم ہے اور بعض دوستوں کو اس کے متعلق جوش بھی آ گیا اور میں سمجھتا ہوں ایک حصہ نمائندگان کا ایسا بھی ہے جو غیر جانب دار رہا ہے اس لئے میں چاہتا ہوں کہ بعض باتیں خود بھی بیان کر دوں.بعض دوستوں نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ہماری جماعت کی لڑکیاں اپنے اپنے مقامات میں بہر حال تعلیم حاصل کریں گی اور جب وہ قادیان کی بجائے باہر تعلیم پائیں گی تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ باہر کی تعلیم کے نقائص ان پر اثر انداز ہوں گے.پھر کیوں نہ ہم جوضرر بہر حال پہنچنا ہے اُس سے بچنے کے لئے اس حد تک کوشش کریں جس حد تک کر سکتے ہیں تا کہ پورا ضرر نہیں بلکہ تھوڑا ضرر پہنچے.اگر پورے ضرر سے ہم نہیں بچ سکتے تو کوئی وجہ نہیں کہ جس قدر ضرر سے بچ سکتے ہیں اس سے بھی نہ بچیں.باہر فیشن کی وبا پھیلی ہوئی ہے.ڈانسنگ سکھائی جاتی ہے، بے پردگی سکھائی جاتی ہے، برتھ کنٹرول کی تعلیم دی جاتی ہے اور ایسی باتیں سکھائی جاتی ہیں جو اسلامی تعلیم کے خلاف ہیں.یہ ضرر ہماری لڑکیوں کو بھی پہنچ سکتے ہیں.ان سے بچنے کے لئے ہمارے واسطے ضروری ہے کہ ایسی کوشش کریں کہ اگر پوری طرح نہیں بچ سکتے تو کچھ حصہ ضرر سے ہی بچیں.یہ دلیل بظاہر نہایت معقول نظر آتی ہے.ایک دوست نے اس پہلو کو لیا تھا.گواس رنگ میں دلائل کا خلاصہ دے کر نہیں بیان کیا مگر قابلِ غور بات یہ ہے کہ ایک طرف ان مضرات کو رکھا جائے اور دوسری طرف پرائمری اور مڈل کی تعلیم کو رکھ کر دیکھا جائے کہ کونسی چیز بھاری ہے.اصولی طور پر جانے دو کیونکہ جب تک کوئی چوٹ اپنے پر نہ پڑے عام
خطابات شوری جلد دوم ۴۹ مجلس مشاو مشاورت ۱۹۳۶ء انسان اس کو پوری طرح محسوس نہیں کر سکتے.تاہم اگر کسی سے یہ کہا جائے کہ فلاں جگہ تعلیم دلانے سے لڑکی فیشن پرست بن جائے گی ، اسے برتھ کنٹرول کی تعلیم دی جائے گی ، بے پردگی سیکھے گی تعلیم اسلام کے خلاف باتیں اسے سکھائی جائیں گی لیکن اگر وہاں داخل نہ کرو گے تو تعلیم حاصل نہ ہوگی.تو غور کرو اس سوال کا کوئی شریف اور غیرتمند احمدی کیا جواب دے گا ؟ کیا یہ کہ بے شک یہ ساری باتیں لڑکی سیکھے مگر اسے ضرور تعلیم دلانی چاہئے؟ یا ان باتوں کو ننگا کر کے اُس کے سامنے رکھا جائے تو یہ کہے گا کہ ضروری نہیں کہ ایسی تعلیم دلائی جائے بلکہ اس کے دماغ کو روشن کرنے والی ، اس میں اسلامی روح پیدا کرنے والی، اسے اسلامی تعلیم سے واقف کرنے والی تعلیم گھر میں دلانی چاہئے.ان نقائص کے مقابلہ میں جو آجکل کی سکول کی تعلیم میں پائے جاتے ہیں، اسے سکول میں نہیں پڑھانا چاہئے.اگر یہی جواب ہر شریف انسان اس نقطہ نگاہ کو پیش نظر رکھ کر دے گا جو ہمارا ہے، تو تعلیم کا سوال ایسا اہم نہیں رہ جاتا جیسا کہ اسے سمجھا جاتا ہے.اگر دوست یہ صورت اختیار کرتے کہ چونکہ سرکاری سکولوں کی تعلیم میں یہ یہ نقائص پائے جاتے ہیں اس لئے ہم اپنی لڑکیوں کو ان میں تعلیم نہیں دلا رہے اس کے لئے قادیان میں تعلیم کا انتظام ہونا چاہئے ، تو ایک معقول بات تھی مگر انہوں نے سوال کو ایسے رنگ میں پیش کیا ہے کہ اسے میرے لئے اپنے دماغ میں لانا ہی مشکل ہو گیا اور وہ یہ کہ چونکہ ہماری بچیاں بیرونی سکولوں میں یہ یہ باتیں جو اسلام کے خلاف ہیں، سیکھ رہی ہیں اس لئے ان کی تعلیم کا قادیان میں کوئی انتظام کیا جائے.اس طرح جماعت پر یہ الزام عائد ہوتا ہے کہ وہ بے پردگی کی موجودگی میں برتھ کنٹرول کی تعلیم دیتے ، فیشن پرست بنانے ، ڈانسنگ سکھانے اور خلاف اسلام با تیں پڑھانے کے با وجود اپنی لڑکیوں کو ایسے سکولوں میں تعلیم دلانا ضروری سمجھتے ہیں حالانکہ اس سے ایک اور پہلو بھی نکلتا ہے اور وہ یہ کہ جلدی مردوں کو توجہ دلائی جائے کہ آجکل کی دُنیوی تعلیم جو لڑکیوں کو دی جاتی ہے وہ ایسی اہم نہیں کہ اس کے لئے ان عیوب کو قبول کیا جائے جو یہاں بیان کئے گئے ہیں.اگر یہ واقعہ ہے کہ آجکل کے سکولوں میں یہ نقائص پائے جاتے ہیں تو میرے نزدیک یہ ہزار درجہ بہتر ہے کہ ہم لڑکیوں کو کم تعلیم دلائیں یا بالکل نہ دلائیں بہ نسبت اس کے کہ وہ ان عیوب کا شکار ہوں.غور تو کرو کیا آپ کی دادیاں اور نانیاں اِن علوم کے
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء نہ جاننے کی وجہ سے اتنی ہی گری ہوئی تھیں جتنی اِن علوم کے جاننے والی عورتیں گری ہوئی ہیں؟ کیا وہ لڑکی جو اسلام کی تعلیم پر کوئی اعتراض کرے بوجہ اس کے کہ وہ چند الفاظ انگریزی کے پڑھی ہوئی ہے، اپنی ان دادیوں اور نانیوں سے زیادہ قابل عزت ہے جو انگریزی کے نام تک سے واقف نہ تھیں لیکن اسلام کی محبت میں سرشار تھیں.ذرا غور تو کرو انہوں نے قوم اور مذہب کی بہتری کے لئے کیا کیا اور آجکل کی تعلیم یافتہ عورتیں کیا کر رہیں ہیں.پھر سوال یہ ہے کہ وجہ کیا ہے کہ اردو کی تعلیم پانے والے کو تو جاہل سمجھا جائے اور انگریزی کی تعلیم حاصل کرنے والے کو عالم قرار دیا جائے.یہ خیال اُس وقت پیدا ہوا جب اردو کو بے علمی کا موجب سمجھ لیا گیا لیکن اگر اپنی زبان کی تعلیم حاصل کرنا جہالت ہے تو انگریزی پڑھنے والا انگریز کیونکر عالم کہلا سکتا ہے.پھر یہ بھی غلط ہے کہ جو باتیں انگریزی میں پڑھائی جاتی ہیں ان سب کو مغرب بھی علم سمجھتا ہے.امریکہ میں ایک استاد کو اس لئے سزا دی گئی کہ تم نے طلباء کو ڈارون تھیوری کیوں پڑھائی.تو ایسی باتیں ہیں جن کو آج یہاں علم قرار دیا جاتا ہے لیکن یورپین ممالک میں ان کو جہالت سمجھا جاتا ہے.دراصل یہ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ جو کچھ یو نیورسٹی میں پڑھایا جائے اُسے تو علم سمجھا جاتا ہے اور جو نہ پڑھایا جائے اُسے جہالت قرار دیا جاتا ہے.دراصل علم اور جہالت کا سوال اتنا باریک ہے کہ وہ لمبی بحث چاہتا ہے اور اس کے لئے یہ موقع نہیں.بہر حال مغربی تعلیم کو علم کہنا اور اپنی تعلیم کو جہالت کہنا یا یہ کہنا کہ اس تعلیم کی وجہ سے خواہ کتنے نقائص پیدا ہوں وہ دلانا ضروری ہے، نہایت لغو بات ہے.اور جب تک کوئی شخص غیرت اور حمیت اور دین سے بیگانہ نہ ہو جائے یہ نہیں کہہ سکتا.پس اگر یہ کہا جاتا کہ ان نقائص کی وجہ سے ہم نے اپنی لڑکیوں کو تعلیم دلانا بند کر دیا ہے تو مجھے ان سے بڑی ہمدردی پیدا ہوتی مگر اب یہ کہا گیا ہے کہ احمدی لڑکیوں میں بھی ، باتیں پائی جاتی ہیں اس لئے مجبوری ہے اور اس مجبوری کی وجہ سے قادیان میں تعلیم کا انتظام ہونا چاہئے ، مگر یہ مجبوری کیسی.یہ تو وہی بات ہوئی جو حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ ایک مولوی نے نکاح پر نکاح پڑھا دیا.میں نے اُسے کہا یہ تم نے کیا کیا ؟ تو وہ کہنے لگا سخت مجبوری کی حالت میں ایسا کیا گیا ہے.حضرت مولوی صاحب فرماتے میں
خطابات شوری جلد دوم ۵۱ مجلس مشاو مشاورت ۱۹۳۶ء نے سمجھا دیہاتی لوگوں نے اسے مارا پیٹا ہوگا اور اِس طرح مجبور کیا ہوگا اس لئے میں نے ہمدردی سے پوچھا کیا مجبوری پیش آگئی تھی ؟ کہنے لگا چڑی کے برابر روپیہ نکال کر انہوں نے میرے سامنے رکھ دیا تو پھر میں کیا کرتا؟ میں نکاح پڑھانے پر مجبور ہو گیا.یہ ویسی ہی مجبوری ہے.ذرا بتاؤ تو سہی اس تعلیم کے وہ کونسے فوائد ہیں جو کہ سارے کے سارے مل کر ان نقائص میں سے کسی ایک سے بھی بھاری ہوں جو سکولوں کی تعلیم پیدا کر رہی ہے.ایک ت نے پوچھا ہے کہ برتھ کنٹرول کے متعلق اسلام کی کیا تعلیم ہے؟ اس لئے بتاتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے ہر حالت میں ناجائز قرار نہیں دیا بلکہ اس کے لئے بعض قیود ہیں مگر یہ قیود شادی کے بعد عائد ہوتی ہیں.اور جس برتھ کنٹرول نے آجکل مصیبت برپا کی ہوئی ہے وہ غیر شادی شدہ کو سکھایا جاتا ہے اور اس لئے سکھایا جاتا ہے کہ بدکاریاں کرو تو ان کے نتائج سے کس طرح بیچ سکتی ہو.پس اس وقت ذکر اُس برتھ کنٹرول کا نہیں جو خاوند کی صحت یا عورت کی صحت سے تعلق رکھتا ہے بلکہ اُس کا ذکر ہے جو کنواری لڑکیوں سے تعلق رکھتا ہے.ایک دوست نے کہا ہے کہ لڑکیوں کے وہ سکول جن کا انتظام بہت اچھا سمجھا جاتا ہے ان میں بھی نقائص ہیں.مجھے اپنا ایک واقعہ یاد آ گیا.لاہور کا ایک کالج جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اُس میں پردہ کا نہایت اعلیٰ انتظام ہے اور چونکہ مجھے اُس کے متعلق پورا پتہ نہ تھا اس لئے اپنی ایک چھوٹی لڑکی اور ہمشیرہ کی چھوٹی لڑکی کو وہاں چھوٹی عمر میں پڑھنے کے لئے بھیجنے کا ارادہ تھا.اس کالج کی ۱۸.۲۰۱۸ - ۲۰ سال کی مسلمان لڑکیاں ننگے سر اور ننگے منہ ایک لیڈی کے ساتھ پٹھانکوٹ پھرتی دیکھی گئیں.اور جب پردہ کے متعلق پوچھا گیا تو یہ جواب ملا کہ مسلمان لڑکیوں کو ہم لاہور میں پردہ کراتے ہیں یہاں چونکہ سیر کے لئے آئے ہیں اس لئے اگر یہاں بھی پردہ کرائیں تو سیر کیا ہو.پھر جب ہم ڈلہوزی پہنچے تو ان کے پاس دو کوٹھیاں خالی تھیں وہ ہم نے کرایہ پر لے لیں.باقی دوکوٹھیوں میں ابھی کچھ لڑکیاں موجود تھیں ان کے متعلق معلوم ہوا کہ ہماری کوٹھیوں کے نوکروں سے گھنٹہ گھنٹہ باتیں کرتی رہتیں ،لڑکوں کے ساتھ اکیلی سیر کو جاتیں.یہ سب سے زیادہ نیک نام کالج کی حالت تھی.وہاں ایک لڑکی تھی جو کسی پٹھان افسر کی بیوی تھی اُس نے پردہ ترک کر رکھا تھا مگر مجھ سے
خطابات شوریٰ جلد دوم ۵۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء پردہ کرتی تھی.ایک دفعہ وہ میاں بیوی رستہ میں مل گئے تو بیوی چُھپ گئی.اُس کے خاوند نے بتایا آپ سے پردہ کرتی ہے.میں نے کہا اچھی بات ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کچھ تو حیا باقی ہے.تو یہ نقائص ہیں جو آجکل سکولوں اور کالجوں میں پیدا ہورہے ہیں اور میں سمجھتا ہوں ہر شریف احمدی ایسی تعلیم کو خیر باد کہنا ضروری سمجھے گا اور کہے گا گھر پر جو تعلیم دلا سکوں وہ ہزار درجہ بہتر ہے کہ اپنی لڑکی کو کالج میں بھیجوں.پس بورڈنگ کے سوال کے علاوہ بھی ہماری جماعت کے لوگ ایسی جگہ تعلیم کیوں دلائیں جہاں اس قسم کے نقائص پیدا ہو سکتے ہیں.ایسی جگہ تعلیم نہ دلانا ہزار درجہ اچھا ہے دلانے سے.میں سمجھتا ہوں کسی امر کی اصلاح کے لئے ماحول کا بدلنا ضروری ہے اور ہر چیز کا ماحول بدلنے کے لئے ایک وقت آتا ہے.وہ وقت ہماری جماعت کے لئے بھی آیا جبکہ تحریک جدید جاری کی گئی.ایک دوست نے کہا تھا کہ جب سے میں ولایت سے واپس آیا تعلیم نسواں پر زور دیتا رہا مگر یہ نہیں بتایا کہ کیوں زور دیتا رہا ہوں.اس لئے کہ ان تعلیموں کا مقابلہ کرنے کے لئے تعلیم دلائی جائے جو آجکل اسلام کے خلاف دی جا رہی ہیں نہ کہ وہی تعلیم ہم اپنی لڑکیوں کو دلانا شروع کر دیں.یہاں کے لڑکوں کے ہائی سکول والوں نے تین دفعہ کہا کہ سکول میں بینڈ رکھنے کی اجازت دیں اس کا بڑا فائدہ ہوگا.یہ کتنی چھوٹی سے بات ہے مگر میں سمجھتا ہوں کئی سال تک یہ تجویز پیش کرنے والوں کی رالیں ٹپک ٹپک کر ان کے تکیے بھیگ گئے ہوں گے کہ اجازت مل جائے.لڑکیوں کے سکول کے متعلق آج ہی ایک مخلص خاتون نے ذکر کیا کہ انسپکٹرس نے اس سکول کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں میری موجودگی میں ہیڈ ماسٹر کو اندر بلا لیا گیا.جس پر میں نے ڈانٹا کہ باہر کے سکول تو گرفت کے ڈر کی وجہ سے ایسا نہیں کرتے تمہیں تو مذہبی طور پر ایسی بات نہیں کرنی چاہئے.ایک لڑکی نے بتایا کہ ایک مدرس نے کہا اُستاد سے پردہ کی ضرورت نہیں.میں نے اُسے کہا تم پردہ کے ساتھ بھی اس کمرہ میں داخل نہ ہو جس میں وہ اُستاد پڑھائے یا سب سے پیچھے گھونگھٹ نکال کر بیٹھا کرو.تو کئی ایسے نقائص ہیں جن کی اصلاح کی ضرورت ہے.جن کو دور کرنے کے لئے میں نے لجنہ کو مقرر کیا تھا.جب لجنہ نے معائنہ کر کے گرفت کی تو بہت کچھ اصلاح ہو گئی
خطابات شوری جلد دوم ۵۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء تھی.مگر یہ پہلے کی باتیں ہیں مستقل اصلاح کے لئے مستقل سامان کی ضرورت ہے.پس قادیان میں صرف سکول اور بورڈنگ بنا دینا کوئی چیز نہیں جب تک اس کا ماحول ایسا نہ ہو جو نقائص سے پاک ہو.مجھے دو سال تک اس بات پر زور دینا پڑا کہ باہیں اور سینے ننگے کرنے کا جو فیشن نکلا ہے وہ ہمارے گھروں میں رائج نہیں ہونا چاہئے.فیشن بھی ایک متعدی بیماری ہی ہے.اور جب آتی ہے تو یکلخت پھیل جاتی ہے اور عورتوں کا کیا کہنا ہے وہ کمزور اور فیشن کی دلدادہ ہوتی ہیں.زیادہ سے زیادہ فیشن والا مرد کم سے کم فیشن والی عورت سے بھی کم ہی ہوگا.عورت ہر روز تغیر چاہتی ہے.قریباً روزانہ گھر کا نقشہ بدلا جاتا ہے.چار پائی ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ بچھا دی جائے گی اور اگر اس کی وجہ پوچھو تو کہا جاتا ہے کہ فلاں جگہ اچھی نہیں لگتی تھی ، اب اچھی لگتی ہے.لیکن چند دن ہر پھر کر چار پائی پھر پہلی جگہ آجاتی ہے، تو عورت جلد جلد تبدیلی قبول کرتی ہے.میں نے ایک انگریزی رسالہ میں پڑھا کہ فرانس میں ایک ٹوپی کا فیشن بدلا تو ایک عورت سخت مصیبت میں پڑ گئی کیونکہ جب وہ گھر سے چلی تو پہلی ٹوپی کا فیشن تھا لیکن جب راستہ میں پہنچی تو معلوم ہوا کہ فیشن بدل چکا ہے.اس پر اُسے وہ ٹوپی چھپانی پڑی تاکہ ذلّت نہ ہو.اس قسم کی باتوں کا عورتوں پر بڑا اثر ہوتا ہے.عورتوں کو تعلیم دلانا نہایت ضروری ہے لیکن جہالت کو تعلیم سمجھ کر حاصل کرنا سخت نقصان رساں ہے.پس پہلے ان عیوب کو دور کرو اور پھر تعلیم کا انتظام کرو ورنہ حافظ نے کہا ہے.در میان قصر دریا تخته بندم کرده باز می گوئی که دامن ترمکن ہشیار باش کسی کو سمندر میں ڈال کر کہا جائے کہ تم پر پانی کا چھینٹا نہ پڑے تو یہ کیونکر ممکن ہے.سمندر میں غوطہ لگا کر جس نے دوسروں کو بچانا ہے اُسے تو سمندر میں گرنے دو مگر کسی اور کو کیوں دھکیلتے ہو.ایک دایا کے لئے تو ضروری ہے کہ بچہ جننے والی کا ستر دیکھے.پھر کیا ہر عورت کو چاہئے کہ دوسری کا ستر دیکھے.ایک ڈاکٹر کا فرض ہے کہ مریض خواہ مرد ہو یا عورت ، اُس کی نبض دیکھے.پھر کیا ہر مرد کو اجازت ہونی چاہئے کہ ہر عورت کو دیکھے.دیکھنا یہ چاہئے کہ کس حد تک کسی چیز کی ضرورت پیش آتی ہے.اس حد تک نفع و نقصان کا موازنہ کر کے اجازت دی جاسکتی ہے، اس سے زیادہ نہیں.
خطابات شوری جلد دوم ۵۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء پس سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ سکول کا نصاب بدلا جائے کیونکہ ماحول بدلنے کے لئے نصاب کا بدلنا ضروری ہے.لڑکی ذرا لکھ پڑھ لے تو رفعے لکھنے لگ جاتی ہے مگر لڑکے اس طرح نہیں کرتے.میں بتا سکتا ہوں کہ کیوں ایسا ہوتا ہے مگر اس کے اتنے پہلو نکلیں گے کہ اگر میں تقریر شروع کروں تو کل تک بھی ختم نہ ہو گی.مگر یہ واقعہ ہے کہ لڑکی تھوڑا بہت پڑھنے کے بعد ر تھے لکھنے لگ جاتی ہے لیکن لڑکے ایسا نہیں کرتے.پھر عورت موسیقی کی طرف زیادہ توجہ کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ گانے والے مردوں کی نسبت گانے والی عورتیں زیادہ ہوتی ہیں.گو اعلیٰ گانے والے مرد زیادہ ہوتے ہیں جیسا کہ اعلیٰ کھانا پکانے والے مرد زیادہ ہوتے ہیں گو پکانے والی عورتیں زیادہ ہوتی ہیں یہ علم النفس کی بات ہے.میں اس کی بحث میں نہیں پڑ سکتا مگر ہوتا اسی طرح ہے.عورتیں زیادہ گانے بجانے کی طرف مائل ہوتی ہیں.گو ماہر گانے والے مرد ہی زیادہ ہوتے ہیں.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ لڑکیاں شعر زیادہ یاد کر لیتی ہیں.پھر لڑ کی جذباتی زیادہ ہوتی ہے اس لئے شعر پڑھ کر اُس میں محو ہو جاتی ہے.ایک ہی شعر ایک لڑکا پڑھے گا تو اُس پر اسقدراثر نہ ہوگا جس قدر وہی شعر ایک لڑکی پر کرے گا.اور آجکل کے تعلیمی نصاب اور زنانہ رسالوں میں جذباتی شعروں کی کثرت ہوتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ لڑکی میں جبکہ شہوت پیدا نہیں ہوئی ہوتی ،عشق پیدا ہو چکا ہوتا ہے.وہ یہ نہیں جانتی کہ بدکاری کیا ہوتی ہے مگر وہ یہ جانتی ہے کہ کوئی محبت کا اظہار کرے تو اُس سے محبت کا اظہار کرنا چاہئے.ان حالات میں اگر کوئی لڑکا رقعہ دیتا ہے تو لڑکی کو اشعار یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ وفادار بننا اور اس کو جواب دینا چاہئے.جب آجکل کی تعلیم کا یہ اثر ہورہا ہو تو کس طرح اس تعلیم کو مفید کہا جا سکتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ آجکل کی تعلیم یافتہ ۹۰ فیصدی لڑکیاں یہ خیال کرتی ہیں کہ جو انہیں مخاطب کرے اُس کے ساتھ اُنہیں وفاداری کرنی چاہئے.ان کے بُرے خیالات نہ ہوں وہ بدکاری کی حد میں داخل نہ ہوں تاہم وہ بدکاری کے تباہ کن مفہوم کی شکار ہو جاتی ہیں اور یہ ب کچھ بُرا اور گندہ لٹریچر پیدا کر رہا ہے.اس کے اثر کے ماتحت ایک لڑکی لفظ محبت جانتی ہے مگر محبت کی حقیقت کو نہیں جانتی.کوئی لڑکا جب اُسے کہتا ہے کہ مجھے تم سے محبت ہے تو وہ سمجھتی ہے کہ میں جو کچھ محبت کے متعلق پڑھتی رہی ہوں اُس کے امتحان کا وقت آ گیا اور
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء مجھے اس کا جواب محبت سے دینا چاہئے.اس کے مقابلہ میں دیکھ لوکس قدر اخلاقی تعلیم دی جاتی ہے.جب تک اس قسم کے شعروں کے زہر کے لئے تریاق نہ تیار کر لیا جائے ، ان کے بداثرات سے کس طرح بچا سکتے ہیں.میں جب ولایت گیا تو ایک عورت میرے پاس آئی اور اُس نے کہا قرآن میں مرد و عورت کے تعلقات کا ذکر ہے پھر ایک لڑکی اسے کس طرح پڑھ سکتی ہے؟ میں نے وہ آیتیں پڑھ کر اُسے بتایا کہ اس طرح محتاط رنگ میں اِن ضروری امور کے متعلق دلائل دیئے گئے ہیں مگر تم جو شعر پڑھتی ہو اُن میں کھلم کھلا سب کچھ کہا جاتا ہے.یہ ۱۹۲۴ء کی بات ہے.اس کے بعد ایک آگ لگی اور بکثرت ایسی کتابیں لکھی گئیں جن میں زور دیا گیا کہ ان باتوں سے لڑکیوں کو آگاہ کرنا ضروری ہے ورنہ وہ تباہ ہو جائیں گی.پس تریاق پیدا کرنا ضروری ہے.یہاں لڑکیاں چونکہ مجھے حالات کی اطلاع دیتی رہتی ہیں اس لئے نقائص کا مجھے علم ہوتا رہتا ہے.اسی سلسلہ میں مجھے معلوم ہوا کہ اُستانیوں میں ایک مرض سہیل اپنے کا پایا جاتا ہے.ایسی اُستانیاں کوئی نہ کوئی سہیلی لڑکیوں میں سے بنا لیتی ہیں اور پھر اظہار محبت کے لئے ہائے میری پیاری وغیرہ کہنا اور با ہیں گلے میں ڈال کر پھرنا شروع کر دیتی ہیں.میں یہ نہیں کہتا کہ وہ بُرے جذبات کے ماتحت ایسا کرتی ہیں.مگر اُستانی اور شاگرد کے اظہار محبت کا یہ طریق ہی کیا ہے.آپ لوگوں کو بھی مجھ سے محبت ہے لیکن کیا اس طرح کبھی ہوا ہے.مجھے مولوی عبد الرحیم درد صاحب کے والد صاحب کے جو ہمارے اُستاد تھے دوسبق ابھی تک یاد ہیں اور ان کو یاد کر کے ہمیشہ ان کے لئے دعا نکلتی ہے.وہ ایک دن سکول میں پڑھا رہے تھے کہ لڑکے جس طرح ایک دوسرے کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیتے ہیں میں نے بھی ایک لڑکے کے کندھے پر ہاتھ رکھا جس سے اُنہوں نے مجھے سختی سے روکا مگر یہاں سنا ہے کہ ایک دوسری کی گردن میں باہیں ڈال کر بیٹھتی ہیں.مجھے اطلاع ملتی رہتی ہے کہ فلاں استانی کا فلاں لڑکی سے جھگڑا ہو گیا جس سے اُسے محبت تھی.پھر جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس قسم کی مشکلات اُستانیوں کے متعلق ہی نہیں انکو تو ہم بدل بھی سکتے ہیں ، سکول کی تعلیم میں بھی مشکلات ہیں جو ابھی تک دور نہیں ہوئیں.دیکھو ایک عقلمند جب باغ لگا تا ہے تو اتنے
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء ہی ایکڑ زمین میں لگاتا ہے جتنے سنبھال سکے اس طرح ہمیں بھی کرنا چاہئے.جب ظاہری تربیت سکول میں کرنے میں ہم کامیاب نہیں ہو سکے تو اسی سلسلہ میں بورڈنگ کا کام گلے ڈال لینے کے یہ معنی ہیں کہ نہ ہم پہلا کام کر سکیں اور نہ نیا.اور ہماری مثال اُس ہر دلعزیز کی بن جائے جو دریا سے پار اُتارنے کے لئے تین آدمی لے گیا اور تینوں ڈوب گئے.آخر پہلے ۲۰،۱۵ سال اگر گزارہ ہوتا رہا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ۳ ۴ سال اور انتظار نہ کریں.قابل اُستانیاں پیدا کیونکر ہوں، نصاب تعلیم کی کس طرح اصلاح ہو جو ہمارے لئے مفید ہو.ہر پہلو کے لحاظ سے سختی کے ساتھ نگرانی کی جائے.جو مرد پڑھائے لڑکیاں اُس سے پردہ میں بیٹھیں.میں اس کا قائل نہیں ہوں کہ مرد سکول کے احاطہ میں نہ جائیں بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ دو تین مل کر جائیں اور ایک پڑھانے کے لئے جا سکتا ہے.مگر ناظر اعلیٰ بھی اگر جائے تو دو تین کو ساتھ لے کر جائے.ناظروں کا اس طرح جانا ضروری ہے ہاں اکیلے جانا منع ہے.ناظروں کا نہ جانا مصر ثابت ہوا ہے اور اس کا نقصان پہنچا ہے.پہلے نصاب پر زور دینا چاہئے.پھر لڑکیوں کے سامنے لیکچر دینے کا انتظام کیا جائے.انہیں اسلام کی اہمیت بتائی جائے ، اسلام کی تعلیم کی حکمتیں سکھائی جائیں ، اس کے بعد جب اچھی تعلیم یافتہ جو اسلامی تعلیم کی پوری طرح پابند ہوں، دین کی تعلیم جانتی ہوں ،سہیل پنا ڈالنے کی عادی نہ ہوں ، لڑکیوں میں وقار کے ساتھ کام کریں ایسی اُستانیاں مل جائیں تو اُن کو مقرر کر دیں گے مگر اس کے لئے معمولی اخراجات کافی نہیں بہت بڑے اخراجات کی ضرورت ہوگی.یہ یقینی بات ہے کہ بورڈنگوں میں بعض خرابیاں ہیں اور ان کا دور کرنا ہمارا مقصد ہے.بورڈنگ میں رہنے والوں کے دل میں ماں باپ کی محبت نہیں پیدا ہوتی ،صرف سزا کا ڈر پیدا ہوتا ہے.یہ کہنا آسان ہے کہ سپرنٹنڈنٹ بورڈروں سے ایسی محبت کرے جیسی ماں باپ اپنے بچوں سے کرتے ہیں مگر کیا ایسا ہوتا بھی ہے.کوشش بھی کی جاتی ہے، مگر غیر طبعی محبت کیونکر طبعی محبت بن سکتی ہے.جو بچہ ماں باپ کے اثر کے نیچے تعلیم حاصل کرے گا، وہ یقیناً اس سے بہتر تربیت پاسکے گا جو بورڈنگ میں رہتا ہے مگر بعض باتیں ایسی ہیں جن کا علاج ہوسکتا ہے.بورڈنگ جاری ہونے کے بعد کام کے متعلق میں نے یہ نوٹ کیا ہوا تھا کہ جب
خطابات شوری جلد دوم ۵۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء بورڈنگ بنے تو کوئی عورت کام کے لئے نوکر نہ ہو بلکہ سب لڑکیاں اپنے ہاتھ سے کام کریں.میں تحریک جدید کے بورڈنگ ہاؤس کو اِس طرف لا رہا ہوں کہ لڑکے کمائیں بھی خود اور جہاں تک ہو سکے اپنے ہاتھوں سے کام کریں.اسی طرح عورتوں کے بورڈنگ میں عورتیں نوکر نہ ہوں.ایک تو خود کام نہ کرنے کی وجہ سے لڑکیاں کام نہیں سیکھ سکتیں دوسرے نوکر عورتوں کے ذریعہ بڑی خرابیاں پیدا ہو سکتی ہیں.۱۲،۱۰ روپیہ ماہوار کی نوکرانی کو چار پانچ روپے دے کر بدفطرت لوگ پیغام رساں بنا سکتے ہیں.میرا خیال یہ ہے کہ لڑکیوں سے دور فاصلہ پر پردہ کے پیچھے بوڑھے مرد ہوں.اُن سے باہر کی چیزیں اُستانیاں پکڑ لیں اور آگے خو دلڑ کیوں تک پہنچادیں.سید سمیع اللہ صاحب نے اگر چہ بعض الفاظ بے احتیاطی کے استعمال کئے ہیں لیکن اس بات سے خوشی ہوئی کہ ان کی تقریر کا رنگ سید حامد شاہ صاحب مرحوم سے ملتا تھا اور جذباتی رنگ تھا.انہوں نے یہ درست کہا ہے کہ بورڈنگ کی تعلیم غیر فطری ہے اور یہ مجبوری کی حالت میں ہی اختیار کی جاسکتی ہے اس لئے میں نے جو شرائط لکھے اُن میں یہ بھی تھا کہ بورڈنگ میں کسی لڑکی کو اُسی وقت لیا جائے جب دیکھا جائے کہ ماں اُس کی تربیت نہیں کر سکتی.بے شک بورڈنگوں میں بعض فوائد بھی ہیں مگر اس میں شبہ نہیں کہ نقائص بھی ہیں اور جو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ماں باپ کی محبتیں پیدا کی ہیں، ان کو قربان کرنا پڑتا ہے.پس بورڈنگ کی رہائش غیر طبعی ہے اور اُسی وقت اس کی اجازت دینی چاہئے جبکہ اس کے بغیر کام نہ چلے.بے شک بچہ کے لئے ماں کا دودھ مقدم ہوتا ہے مگر جب نہ ملے تو چوسنیاں لینی ہی پڑتی ہیں.اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ جب ماں کا دودھ نہ ہو اُس وقت بچہ کو مار ڈالو تو یہ اُس کی بیہودگی ہے.غرض مجبوری کی حالت میں بورڈنگ میں داخل کرنا ہی پڑتا ہے.میں موجودہ حالات میں بورڈنگ کے بوجھ کا اُٹھانا نقصان دہ سمجھتا ہوں ، پھر اتنا روپیہ بھی نہیں ہے.یہ اندازہ جو لگایا گیا ہے غلط ہے.کم از کم پانچ سو روپیہ ماہوار سے کم پرلڑکیوں کے بورڈنگ کا چلنا مشکل ہے کیونکہ لڑکیوں کی ضروریات کے لحاظ سے عملہ زیادہ رکھنا پڑے گا.ایک دوست نے کہا ہے کہ جب نقائص ہیں موجودہ نصاب تعلیم میں تو کیوں نہ سکول کو بھی بند کر دیا جائے.اس کا صحیح جواب ملک عبدالرحمن صاحب خادم نے دے دیا ہے کہ
خطابات شوری جلد دوم ۵۸ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء ایک ایسا کام جو ہم شروع کر چکے ہیں اُس کے لئے یہ کوشش کرنی چاہئے کہ اس کی اصلاح کریں.لیکن جو شروع نہیں کیا اُس کے لئے یہ چاہئے کہ ضروری سامان جمع کریں اور پھر کام شروع کریں.ایک دوست نے کہا ہے کہ مرد سے اگر غلطی ہو جائے تو اُس کی توبہ قبول کر لی جاتی ہے مگر عورت سے غلطی ہو جائے تو اُس کی توبہ قبول نہیں کی جاتی اُس کی بھی قبول کرنی چاہئے.یہ بات ایک موقع کے لحاظ سے بالکل صحیح ہے مگر یہاں یہ موقع نہیں.اصول صحیح ہے اور عام طریق یہی ہے کہ کسی مرد سے اگر لغزش ہو تو اُس کی توبہ قبول کر لی جاتی ہے لیکن عورت سے کوئی غلطی ہو تو اُسکی توبہ قبول نہیں کی جاتی.مگر یہاں تو اس اصل کا یہ مطلب ہوگا کہ مرد جب گڑھے میں گر چکے ہیں تو عورتوں کو بھی کیوں نہ اس میں دھگا دے کر گرا دیا جائے مگر کوئی عقلمند یہ پسند نہیں کرے گا کہ ہم عورتوں کو بھی انہی مشکلات میں سے گزاریں جن میں سے مرد گزر رہے ہیں.یہ بات بار بار دہرائی گئی ہے کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ زنانہ بورڈنگ کی ذمہ داری سلسلہ پر عائد ہوگی.یہ ٹھیک ہے کہ جو کام کوئی شخص کر سکتا ہے اُسے اگر اس لئے نہ کرے کہ لوگ اعتراض کریں گے تو یہ بڑی بُری بات ہے لیکن اگر کوئی شخص ایسا کام نہ کر سکتا ہو اور محض بہادری جتانے کے لئے کہے کہ میں کرلوں گا تو یہ بھی درست نہیں ہے.ہر گھر میں دو چار دس بارہ بچے ہوتے ہیں.ماں ان کی نگرانی کرتی ہے کسی کسی وقت باپ بھی شریک ہو جاتا ہے.پھر بڑی بہن یا بڑا بھائی نگرانی کرتے ہیں.مگر بورڈنگ میں کیا حالت ہوگی؟ یہ کہ ایک سو لڑکیوں پر چند نگران ہوں گے.پس سلسلہ کی نگرانی اور ماں باپ کی نگرانی میں فرق ہے.پھر اُستادوں کی نگرانی کی بنیاد حکومت پر ہوتی ہے اور ماں باپ کی نگرانی محبت پر ہوتی ہے.ماں باپ کے گھر میں رہتی ہوئی لڑکیاں ایک ماحول قبول کر لیتی ہیں لیکن بورڈنگ میں قسم قسم کے ماحول میں پکی ہوئی لڑکیاں ہوتی ہیں جو بعض اوقات کئی قسم کے عیوب بھی اپنے ساتھ لاتی ہیں اور دوسری لڑکیاں ان عیوب میں جلد مبتلا ہو جاتی ہیں اس لحاظ سے بھی بورڈنگ کی زندگی خطرناک زندگی ہے اور یہ اُس وقت اختیار کی جاسکتی.جب کوئی مجبوری ہو.جیسا کہ لڑکوں کے متعلق ہے کہ چونکہ ان کو پڑھانا ضروری ہے کیونکہ ہے
خطابات شوری جلد دوم ۵۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء اس کے بغیر وہ عمدگی سے دنیا میں کام نہیں کر سکتے اور اس کے لئے انہیں بورڈنگ میں داخل کرنا پڑتا ہے.لڑکیوں کے لئے بھی مجبوریاں ہیں مگر ان کے دور ہونے کے لئے وقت کا انتظار کرنا پڑے گا.“ تیسرا دن ۱۲.اپریل ۱۹۳۶ء کو مجلس مشاورت کے تیسرے دن کی کارروائی شروع ہوئی تو حضور نے احباب جماعت کو مالی قربانیوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ریز روفنڈ قائم کرنے کی تحریک فرمائی تاکہ جماعت کو ہنگامی اخراجات کے سلسلہ میں مشکلات پیش نہ آئیں.آپ نے فرمایا : - ریز روفنڈ کے لئے تحریک اب بقیہ کارروائی شروع کی جائے گی لیکن اس کے شروع کرنے سے پہلے میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ جیسا کہ میں نے پہلے دن کہا تھا ہمارے لئے یہ باتیں کرنے کا وقت نہیں بلکہ عمل کرنے کا ہے اور یہ ہمارا فرض ہے کہ اپنے تمام محکموں کے تمام نقائص کو دور کرنے کی کوشش کریں.ان نقائص میں وہ بے پروا ہی اور بے تو جہی بھی شامل ہے جس کے ماتحت بجٹ تیار کرتے ہیں اور اب کے تیار کیا ہے اور کرتے رہے ہیں لیکن اصل کام جو ہمارے سامنے ہے اُس کے مقابلہ میں اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے.جیسا کہ ناظر بیت المال نے بتایا ہے کہ اس سال ۷۰ ہزار کی کمی ہو چکی ہے اور خیال ہے کہ یہ رقم ایک لاکھ تک پہنچ جائے گی پچھلے سالوں کا قرضہ بھی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دو تین سال کے بعد ایک پورے سال کی ادائیگیاں باقی پڑی ہوں گی اور جب ۱۹۳۷ء کا بجٹ پیش ہو رہا ہوگا اس وقت تک ۱۹۳۶ء کے ماہ مئی کی تنخواہیں بھی نہ ملی ہوں گی.اس بات کا اندازہ وہ لوگ نہ کر سکتے ہوں گے جو سرکاری ملازم ہیں اور جنہیں باقاعدہ تنخواہ مل جاتی ہے البتہ ایک حد تک زمیندار کر سکتے ہیں جو کہ بے حد مقروض ہو رہے ہیں لیکن وہ بھی پوری طرح اندازہ نہیں کر سکتے کیونکہ وہ مختلف مقامات میں پھیلے ہوئے ہیں اور ایک نظام ملک میں ایسا بن چکا ہے کہ ان کو قرضہ ملتا رہتا ہے.اور ایک نظام عام طور پر انہوں نے تو ڑا ہوا ہے کہ مدد دیتے رہتے
خطابات شوری جلد دوم ۶۰ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء ہیں اور سُود پر قرضہ حاصل کر لیتے ہیں لیکن یہاں جو انجمن کے کارکن ہیں وہ نہ سُودی لین دین کر سکتے ہیں اور نہ قرض لے سکتے ہیں.ان کی تنخواہوں کا ایک سال تک رُک جانا یا دفاتر کے سائز اخراجات نہ ملنا اور اس وجہ سے کاموں کا رُک جانا خوشگوار نتائج پیدا نہیں کر سکتا.اور بظاہر وہی نظارہ پیدا ہو سکتا ہے سوائے اس کے کہ خدا تعالی مدد کرے جو حافظ روشن علی صاحب مرحوم نے ایک ریاست میں دیکھا.انہوں نے ایک شخص کو دیکھا جو رات کوسرکاری وردی پہن کر پہرہ دیتا اور دن کو بھیک مانگتا اُنہوں نے اُس سے پوچھا تمہارے اس طریق عمل کا کیا مطلب ہے؟ اُس نے کہا میں سرکاری ملازم ہوں مگر دو سال سے مجھے تنخواہ نہیں ملی ، نہ ملازمت سے علیحدہ کیا جاتا ہے ایسی حالت میں بھیک نہ مانگوں تو اور کیا کروں؟ مجسٹریٹ رشوتیں لے لیتے ہیں، پولیس والے بھی لوگوں کو لوٹ کھسوٹ لیتے ہیں مگر ہمارے لئے کوئی صورت نہیں اس لئے میں رات کو پہرہ دیتا ہوں اور دن کو بھیک مانگتا ہوں.بظاہر ہماری مالی حالت اسی مقام پر پہنچی ہوئی نظر آ رہی ہے.میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ ہم اپنے جاری شدہ کاموں کو بند نہیں کر سکتے.اگر ہم نے اس طرف قدم اٹھایا تو پھر ہمارا کوئی ٹھکانا نہیں رہ سکتا.جب ہم کسی ایک کام کو غیر ضروری قرار دے کر ترک کر دیں گے تو دوسرا کام اس سے بھی زیادہ غیر ضروری نظر آئے گا پس ہمارے لئے یہ طریق بھی کھلا نہیں اور نہ ہم اسے اختیار کر سکتے ہیں.قابلِ غور سوال یہ ہے کہ ہماری جماعت کو خدا تعالیٰ نے عظیم الشان کام کرنے کے لئے پیدا کیا ہے نہ کہ نکما رہنے کے لئے.باقی جماعتیں اپنے لئے آپ کام تجویز کرتی ہیں، اس لئے وہ جس کام کو چاہیں چھوڑ سکتی ہیں مگر ہمارے لیئے کام خدا تعالیٰ نے تجویز کیا ہے اور اس کے لئے قربانی کرنا ہمارے ذمہ رکھی ہے.اس تقسیم عمل کے رو سے ہمارے لئے ایک ہی رستہ کھلا ہے اور وہ یہ کہ ہم زیادہ سے زیادہ قربانیاں کریں اور باقاعدہ کریں.جیسا کہ ناظر صاحب نے بتایا ہے تین ہزار سے زیادہ ایسے افراد ہیں جن کی وجہ سے چندہ میں کمی آئی ہے.یہ بہت اہم سوال ہے جس کی طرف دوستوں کو توجہ کرنی چاہئے.اگر ہم اپنا بہت سا وقت اس پر لگا دیں کہ پانچ روپے فلاں مد سے کم کر دیئے جائیں اور سات فلاں سے تو اس سے کچھ فائدہ نہیں ہو سکتا.یہ تو ہم خود بھی سب کمیٹی میں کر لیا کرتے ہیں اور اب حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ
خطابات شوری جلد دوم ۶۱ مجلس مشاو مشاورت ۱۹۳۶ء تخفیف چند سو روپیہ سے زیادہ نہیں ہو سکتی اور اس پر بھی زیادہ زور نہیں دیا جا سکتا.اس لئے ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ احباب مشورہ دیں کہ کیا وجہ ہے کہ تمام جماعتیں با قاعدہ چندہ نہیں دیتیں اور کیوں بجٹ کے پورا ہونے میں کمی رہ گئی ہے.کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ آٹھ نو سو جماعتوں میں سے چند اور وہ بھی چھوٹی چھوٹی ایسی ہیں جنہوں نے اپنا بجٹ پورا کیا اور ۵۰ فیصدی ایسی ہیں جن کے لئے امکان ہے کہ اپنا بجٹ پورا کر سکیں اور باقی پچاس فیصدی ایسی ہیں جن کے لئے ناممکن ہے کہ اپنا بجٹ پورا کر سکیں حالانکہ میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ آمد کا بجٹ جو تجویز ہوتا ہے وہ کم ہوتا ہے.اگر جماعتیں باقاعدگی سے چندہ دیں تو اس سے ڈیڑھ گنا زیادہ بجٹ ہونا چاہئے.پس جبکہ بجٹ پہلے خود ہی ۳۳ فیصدی کم رکھا جاتا ہے اسے بھی ۵۰ فیصدی کم کر دیا جائے تو کام کس طرح چلے.حضرت مسیح علیہ السلام نے کہا کہ تم دوسروں کی آنکھ کا تنکا دیکھتے ہو مگر اپنی آنکھ کا شہتر نہیں دیکھتے.کل آپ لوگوں نے ناظر بیت المال کی آنکھ کا تنکا دیکھا آج اپنی آنکھ کا شہتیر دیکھو.ان کے تیار کردہ بجٹ کی کتابت کی غلطیاں نکالی گئیں مگر آپ لوگوں کی غلطیاں ایسی ہیں کہ اگر انہیں دُور نہ کیا گیا تو آج نہیں تو کل کام بند کرنا پڑے گا اس لئے آپ لوگوں کو اس نتیجہ پر پہنچنا چاہئے کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے.اس کے متعلق صدر انجمن احمدیہ کی ذمہ داری یہ ہے کہ جو لوگ نادہند اور کمزور ہیں اُن کا بھی خیال رکھا جائے.میں بار بار انجمن سے کہتا رہا ہوں کہ بعض رقوم الگ کر کے جمع رکھو.۱۹۲۲ء یا ۱۹۲۳ء میں میں نے مشورہ دیا تھا کہ پانچ سو یا اس سے زیادہ وصیت کی جو رقم وصول ہو اُسے الگ جمع رکھو.اگر اس مشورہ پر عمل کیا جاتا تو آج اس کمی کو جو ہو گئی ہے اس فنڈ سے پورا کر سکتے تھے مگر اس مشورہ کی پرواہ نہ کی گئی.عارضی تکلیف جو انجمن کو پیش آجاتی اُس کی وجہ سے ایسی رقوم خرچ کر دیتے رہے ہیں.آج اس سے بھی بدتر حالت ہوتی اگر میں زور ڈال کر کئی جائدادیں انجمن کو نہ خرید وا دیتا.اب وہ جائداد میں بڑی قیمت پر بک رہی ہیں اور ۳۰،۲۵ ہزار کا قرضہ اس طرح ادا کیا گیا ہے.اب بھی جو جائدادخریدی گئی ہے اور جس میں ریتی چھلہ کی زمین بھی شامل ہے جس کے متعلق مقدمہ چل رہا ہے، وہ بڑی قیمت رکھتی ہے.اب چار ماہ کی تنخواہ ابھی تک باقی ہے.مبلغ باہر جانے سے اس لئے ڑکے ہوئے ہیں کہ ان کے لئے کرایہ نہیں.ڈاک روانہ کرنے میں مشکلات ہیں کیونکہ
خطابات شوری جلد دوم ۶۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء ٹکٹوں کا خرچ نہیں.اس وقت میں کیا کہوں کہ ہزار یا پانچ سو کی رقم روک کر ریز روفنڈ میں ڈالتے جاؤ.اِن مشکلات کو دُور کرنا جماعت کا کام ہے.نہ صرف ان کو دور کرنا بلکہ آئندہ مالی حالت کو مضبوط کرنے کے لئے کوشش کرنی چاہئے.جو جائدادیں خریدی گئی ہیں وہ فی الحال آمدنی کا موجب نہیں بلکہ ان کے لئے بھی خرچ کی ضرورت ہے کیونکہ وہ لاکھوں روپے کی ہیں اور ان پر رقم ابھی کم خرچ کی جاسکی ہے.اس وقت پانچ لاکھ کے قریب کی جائداد ہے لیکن اس پر رقم تیس ہزار کے قریب لگائی گئی ہے.پس سر دست وہ جائداد بوجھ ہے لیکن بعد میں سہارا بن سکتی ہے.پس جب مشکلات پیش آجائیں تو دو باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہو جاتا ہے.ایک یہ کہ ان مشکلات کو کس طرح دور کیا جائے اور دوسرے یہ کہ آئندہ اس قسم کی مشکلات سے کس طرح بچ سکتے ہیں.ہمارے ہاں اسلامی طریق یہی ہے کہ کوئی ریز روفنڈ نہیں ہوتا.مگر یہ خیال مدنظر ہے کہ قرضوں میں ایک اور غیر اسلامی طریق برتا جا رہا ہے اس کی اصلاح ہو جائے.اسلام تو کل سکھاتا ہے مگر اسلام نو کر بھی نہیں بناتا.پہلے اسلام میں کوئی تنخواہ دار کارکن نہیں رکھے گئے مگر اب زمانہ کے حالات بدلنے کی وجہ سے رکھنے پڑتے ہیں.شریعت نے آگ کا عذاب منع کیا ہے مگر فقہاء نے اس پر اتفاق کیا ہے اور میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی سُنا ہے کہ چونکہ دشمن آگ کا عذاب دیتا ہے اس لئے اُس کا مقابلہ اس سے کرنا جائز ہے.اگر ساری دنیا پر اسلامی حکومت ہو تو بندوق اور توپ کا استعمال ناجائز کر دیا جائے.لیکن جب دشمن انہیں استعمال کرتا ہے تو مسلمانوں کو بھی استعمال کرنی پڑتی ہیں.پس جو طریق ریز روفنڈ کا ہم نے اختیار کیا مجبوراً کیا.چونکہ خرچ کے متعلق پرانے دستور کے خلاف طریق اختیار کیا گیا اس لئے آمد بڑھانے کے لئے بھی ایسا طریق اختیار کرنا ضروری ہے.گویا جس قسم کا خرچ ہے اس کے لئے روپیہ مہیا کرنے کے طریق بھی موجودہ زمانہ کے لحاظ سے اختیار کرنے ضروری ہیں.پس جماعت کو آج کا کام شروع کرنے سے پہلے اس طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس پر بہت بڑی ذمہ واری عائد ہوتی ہے.اول تو یہ کہ گزشتہ نقصان کو پورا کرے.(۲).آئندہ مستقل فنڈ قائم کرے تا کہ ہنگامی اخراجات کا بار مستقل چندوں پر نہ پڑے.
خطابات شوری جلد دوم ۶۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء میں نے اس کے متعلق بتایا ہے کہ میں انتظام کر رہا ہوں لیکن اس کا نتیجہ جلد نہیں نکل سکتا چند سال کے بعد اس انتظام سے امدا دمل سکے گی.پس آپ لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کو چھوڑ دیں اور بڑی باتوں کو لیں.اور دوسروں کے نقائص کو نہ دیکھیں بلکہ اپنے نقائص کو 66 دیکھیں.“ آمد بڑھانے سے متعلق سب کمیٹی پہ اعمال کی رپورٹ کے متعلق کئی احباب نے بیت اپنی آراء اور تجاویز بیان کیں جو اُن کے نزدیک جماعت کی آمد بڑھانے میں مفید ثابت ہو سکتی تھیں.ممبران کی اس بحث کے بعد حضور نے احباب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: - اس وقت آمد کے متعلق معاملہ زیر غور ہے اور مختلف دوستوں نے مختلف تجاویز پیش کی ہیں.انتظام کے متعلق تجاویز کے دو پہلو ہیں.ایک یہ کہ جماعتیں پورے طور پر کام نہیں کرتیں اور دوسرا یہ کہ مرکز پورے طور پر ان سے کام نہیں لیتا.میں نے متواتر توجہ دلائی ہے کہ اسلامی طریق اور مغربی طریق میں یہ فرق ہے کہ مغرب کہتا ہے تو اپنے حق پر قائم ہو.مگر اسلام کہتا ہے تو اپنی ذمہ واری ادا کر.نتیجہ دونوں صورتوں میں ایک ہی نکلتا ہے.یعنی زید نے بکر سے کچھ لینا ہو لیکن مغرب بکر کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے اے بکر ! اگر زید کا حق مار سکتا ہے تو مار اور زید کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے اگر بکر کا حق مارسکتا ہے تو مار لے، کم از کم یہ کر کہ اپنا حق حاصل کر لے.اس طرح بھی زید اور بکر کو اپنا اپنا حق حاصل ہوسکتا ہے اور اسلام نے جو طریق رکھا ہے اس طرح بھی حق مل سکتا ہے.مگر اسلام زید سے یہ کہتا ہے کہ بکر کا حق ادا کرو اور بکر سے کہتا ہے کہ زید کا حق ادا کرو، بلکہ یہ بھی کہتا ہے کہ بکر کا جس قدر حق ہے اگر ممکن ہو تو اس سے زائد بھی ادا کرو اور بکر سے کہتا ہے کہ جس قدر زید کا حق ہو اگر ممکن ہو تو اس سے زیادہ ادا کرو.ان دونوں تعلیموں کی شکل مساوی ہے مگر نتیجہ کیا ہوگا؟ ایک سے غیریت پیدا ہوتی ہے اور دوسری سے محبت ، روحانیت ،صلح اور آشتی پیدا ہوگی.بات ایک ہی ہے مگر اخلاقی طور پر جو اثر چھوڑ جاتی ہے وہ یہ ہے کہ مغربیت نے گندگی پیدا کی اور اسلامی تعلیم نے پاکیزگی.ہمارے کام اگر اسلام کی اس تعلیم کے مطابق ہوں تو
خطابات شوری جلد دوم ۶۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء بہت کچھ اصلاح ہو سکتی ہے.مثلاً یہی سوال ہے کہ جماعتیں اپنا حق ادا نہیں کرتیں یا مرکز ادا نہیں کرتا.اس کے لئے جب تک یہ صورت اختیار کی گئی کہ جماعتوں نے کہا ہم سے کوتا ہی ہوئی، ہم اپنا حق ادا کرنے کی کوشش کریں گی.اسی طرح بیت المال نے کہا کہ ہم سے کوتا ہی ہوئی ، ہم اسے دور کرنے کی کوشش کریں گے اور باقی ایک دوسرے کو نصیحت کرنا مجھ پر چھوڑ دیا گیا ہوتا تو بہت اچھی فضا پیدا ہو گئی تھی.مگر اسے ناظر صاحب بیت المال نے کمزور کر دیا.وہ جماعتوں کو نصیحت کرنا مجھ پر چھوڑ دیتے.میں نہ ناظر ہوں نہ انجمن، میری بات کا اور اثر ہوتا.میں سمجھتا ہوں نظارتوں کا میری موجودگی میں یہ کام نہیں ہونا چاہئے کہ نصائح کا پہلو لے لیں.ان کو اپنی گفتگو شمار و اعداد تک محدود رکھنی چاہئے.پس انہوں نے اس وقت محکمہ کی خدمت نہیں کی بلکہ کئی ایک جن کی طبائع میں کمزوری ہے وہ اس بحث پر زیادہ زور دیں گے کہ بیت المال نے یہ مستی کی ، یہ کو تا ہی کی.اس وقت مختلف تجاویز پیش ہوئی ہیں اور جن کو پیش کرنے کا موقع نہیں ملا اُنہوں نے مجھے لکھ کر دی ہیں.ان تجاویز میں اچھی بھی ہو سکتی ہیں.مگر مجلس میں اس جذ بہ کو دبانا چاہئے کہ میری بھی ضرور سنی جائے اس سے بھی فائدہ ہو سکتا ہے.اب میں ان تجاویز کا ذکر کرتا ہوں.(۱).ایک بھائی نے لکھا ہے کہ میں بول نہیں سکتا اس لئے لکھ کر دیتا ہوں کہ جو دکاندار با قاعدہ چندہ نہ دیں اُن کے متعلق یہ طریق اختیار کیا جائے کہ جو احمدی ان سے سو دا لے وہ قیمت ان کو ادا نہ کرے بلکہ چندہ میں دے دے.یہ تجویز بظاہر مفید ہے مگر اس طرح دُکانداروں کو نادہند بنانا ہے کہ جب تک گاہک نہ آئے چندہ دینا بند کر دیں.میں تو انجمن کو بھی یہ حق نہیں دیتا کہ کسی کا حق بغیر فیصلہ قضاء کے جبراً لیا جائے، پھر دُکانداروں کا حق ان کی مرضی کے خلاف کس طرح کسی اور کو ادا کیا جاسکتا ہے.(۲).ایک تجویز یہ پیش کی گئی ہے کہ نادہند لوگوں کے پاس وفود بھیجے جائیں جو بقائے کی ادائیگی پر زور دیں.چند معززین جائیں اور جا کر سمجھا ئیں اور بقایا کی ادائیگی پر زور دیں.اس طرح بقایا میں سے معقول رقم دس، ہمیں تمہیں فیصدی وصول ہوسکتی ہے.اس
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء تجویز پر مالی کمیٹی جو تجویز کی جائے گی غور کرے.اس کمیٹی کے اس سال کے لئے میں یہ ممبر تجویز کرتا ہوں.(۱).پیرا کبر علی صاحب ایم.ایل سی (۲).میر محمد اسماعیل صاحب (۳).خان بہادر چوہدری نعمت خاں صاحب سیشن جج دہلی (۴).راجہ علی محمد صاحب افسر مال لاہور (۵).ملک غلام محمد صاحب رئیس لاہور (۶).چوہدری عطا محمد صاحب نائب تحصیلدار ( ۷ ).جملہ ناظر صاحبان صدر انجمن احمد یہ (۸).محاسب صاحب صدر انجمن احمد یہ (۹).آڈیٹر صاحب صدر انجمن احمد یہ بجٹ کے متعلق فیصلہ اس کمیٹی کے ساتھ مل کر غور کرنے کے بعد کروں گا.یہ کمیٹی دوسری تجاویز پر بھی غور کرے گی لیکن قبل اس کے کہ یہ کمیٹی اپنا اجلاس منعقد کرے جن جماعتوں کے ذمہ گزشتہ بقائے ہیں ان کی لسٹیں تفصیل کے ساتھ تیار ہو جائیں ، خواہ بیت المال کو اس کے لئے زائد آدمی لگانے پڑیں.اس کمیٹی کے اجتماع کے لئے ۳۰.۳۱ مئی کی تاریخیں مقرر کرتا ہوں.درمیانی عرصہ کے لئے بجٹ کی عارضی منظوری دے دوں گا.(۳).ملک مولا بخش صاحب نے بیکاری کو دور کرنے اور آمد بڑھانے پر زور دیا ہے.یہ ضروری بات ہے اور حقیقی علاج یہی ہے مگر یہ ایسی صورت ہے کہ تا ” تریاق از عراق آورده شود مارگزیدہ مُرده شود والی بات ہو گی ، اس وقت فوری علاج کی ضرورت ہے.(۴).چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کی تجویز ہے کہ ہر جماعت کو یونٹ قرار دیا جائے اور پھر اُس کا جو بقایا ہو اس کی ادائیگی کی ذمہ واری صرف سیکرٹری اور پریذیڈنٹ پر نہ ہو بلکہ ساری جماعت پر ہو اور اس کے نادہندہ اگر چندہ ادا نہیں کرتے تو مخلص زیادہ ادا کر کے اُن کی کمی کو بھی پورا کریں.اس کے متعلق کہا گیا ہے کہ اس سے جماعتوں میں سُستی پیدا ہوگی.وہ بجٹ تجویز
خطابات شوری جلد دوم ۶۶ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء کرتے وقت نادہندوں کو نکال دیا کریں گی مگر قانون یہ ہے کہ ہر جماعت کی فہرست میں تمام ممبروں کے نام دینے پڑتے ہیں یعنی تمام احمدیوں کے نام لکھے جاتے ہیں.اگر اس قانون کی پابندی کرائی جائے تو پھر وہ صورت نہیں پیدا ہو سکتی.گویا جہاں تک ممکن ہے احتیاط کر لی گئی ہے.اب اگر غلطی ہوگی تو اس لئے کہ قانون کی پابندی نہ کرائی جائے گی.آئندہ میں اس پر اور بھی زور دوں گا مگر اب بھی کہتا ہوں کہ بہت سے نقائص اس لئے پیدا ہوتے ہیں کہ قانون کی پابندی نہیں کرائی جاتی.یہ غلطی صدرانجمن سے لے کر نیچے تک چلی جاتی ہے.مجلس شوریٰ میں جو امور منظور کئے جاتے ہیں، صدرانجمن احمد یہ میں جو قواعد پاس کئے جاتے ہیں، میں جو قواعد منظور کرتا ہوں صدر انجمن ان کی پابندی نہیں کراتی.آگے جو افسر اپنے اپنے صیغہ کے متعلق قواعد تجویز کرتے ہیں ان کی پابندی نہیں کرائی جاتی.یہ سل اور دق کے امراض ہیں، ان کو دور کرنا ہمارا فرض ہے.قاعدہ یہ ہونا چاہئے کہ جو بھی قانون بنایا جائے اُس کی پابندی کرنی چاہئے اور اگر کسی وجہ سے اس کی پابندی نہیں کی جاسکتی تو اسے پیش کر کے منسوخ کرانا چاہئے.یہ نہیں کہ قانون موجود ہو لیکن اس کی پابندی نہ کی جائے.مثلاً ہم کہتے ہیں ناظر اعلی تمام دفاتر کا معائنہ کرے اگر وہ نہیں کر سکتا تو لکھے کہ ایسا نہیں کر سکتا.مگر ہوتا کیا ہے یہ کہ قانون موجود ہوتا ہے اور اس کے متعلق جب پوچھا جاتا ہے کہ کیا عمل ہوا تو کہہ دیا جاتا ہے کہ کچھ نہیں کیا گیا.یہ قانون شکنی ہے اور اسے کسی صورت میں جاری نہیں رکھا جا سکتا.اسی طرح ناظر اپنے ماتحت دفاتر کا معائنہ نہیں کرتے اور جب پوچھا جائے تو کہہ دیتے ہیں کہ کام بہت ہے مگر جب یہ ذمہ داری عائد کی گئی تھی اُس وقت چاہئے تھا کہ کام بہت ہے اور یہ نہیں ہو سکتا.ورنہ رات دن بیٹھتے اور جو کام ان کے سپرد کیا گیا تھا اُسے پورا کرتے.میں ان لوگوں کے متعلق جو یہ کہتے ہیں کہ کام کی کثرت کی وجہ سے ہم فلاں کام نہیں کر سکتے سمجھتا ہوں کہ ان کے اوقات اتنے نہیں کام میں صرف ہوتے جتنے ہونے چاہئیں.مثلاً ان دفاتر کے آدمی برام بجے دفتر بند کر کے چلے جائیں گے حالانکہ جب کام کرنا ہو تو ۱۲ بجے تک بھی بیٹھنا چاہئے جیسا کہ بعض دفاتر اب بھی دیر تک کھلے رہتے اور ان میں کام ہوتا ہے.مگر ایشیا کی عادت کے مطابق جو یہ ہے کہ قانون توڑنے کے لئے ہوتے ہیں نہ کہ عمل کرنے کے لئے.علماء نے بھی حیلے تراشے ہیں کہ کسی طرح شریعت
خطابات شوری جلد دوم ۶۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء کا قانون تو ڑنا چاہئے.وہی حالت ہمارے کارکنوں کی ہے.وہ قانون کو توڑ نا عیب نہیں سمجھتے اور غذر تلاش کر کے توڑتے ہیں لیکن ہر حال میں قانون کی پابندی ہونی چاہئے.اگر پوری طرح پابندی کر دی جائے تو دفاتر میں کام کرنے والے ہوشیار ہو جائیں گے.میں جو کمیشن مقرر کیا کرتا ہوں اس کے سپرد یہ بھی کام کرتا ہوں کہ وہ نگرانی کرے کہ قواعد شکنی نہ ہو.اس کمیشن کے ممبر اب یہ ہوں گے.(۱).راجہ علی محمد صاحب.(۲).میاں غلام محمد صاحب اختر.(۳).ملک غلام محمد صاحب.(۴).ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب.(۵).بابو عبدالحمید صاحب آڈیٹر.(۲).چوہدری عطا محمد صاحب.(۷).پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اے.میں نے اس کمیشن میں ہر قسم کے آدمی شامل کر دیے ہیں تا کہ وہ سب دفاتر کی نگرانی کر سکیں.یہ کمیشن دو دفعہ سال میں دفاتر کا معائنہ کرے اور سب سے ضروری بات یہ مدنظر رکھے کہ کوئی قانون چھوٹے سے چھوٹا ایسا نہ ہو جس کی پابندی نہ ہوتی ہو.میں اس کمیشن کے ممبروں سے بیعت کے طور پر عہد لوں گا کہ کسی کی رعایت نہ کریں گے.اور چھوٹے سے چھوٹا نقص بھی میرے سامنے پیش کر دیں گے تاکہ معلوم ہو کہ جو قانون نا قابلِ عمل ہے اسے منسوخ کر دیا جائے اور جو قابل عمل ہوں ان پر عمل کرایا جائے.ایک آدمی اس کام کے لئے مقرر کیا جائے کہ مجلس مشاورت کی ساری رپورٹیں پڑھے، صدر انجمن کے فیصلے پڑھے اور یہ نوٹ کرے کہ ناظروں اور نائب ناظروں اور صیغہ کے افسروں کی کیا ذمہ داریاں ہیں.پھر دیکھا جائے کہ وہ پوری ہو رہی ہیں یا نہیں؟ یہ ایک بھاری کام ہے مگر جن مشکلات میں سے ہم گزر رہے ہیں ان کے لئے بھاری قربانیوں کی ضرورت ہے اور یہ قربانی اس حالت کے مقابلہ میں بھاری نہیں بلکہ حقیر سے حقیر ہے.کمیشن کے ممبروں کا یہ کام ہوگا کہ وہ نقائص کو دیکھیں کسی کی مجبوری کو نہ دیکھیں مجبوری قانون بدلوا سکتی ہے مگر قانون شکنی کا موجب نہیں بن سکتی.(۵).سید ارتضی علی صاحب نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ بقایا کا صیغہ الگ کر دیا جائے جو اس کی وصولی کا انتظام کرے.اعلانات کرے، وفود مقرر کرے، مختلف رنگوں میں پرو پیگنڈا کرے اس تجویز کو بھی مالی کمیٹی کے سپر د کرتا ہوں.
خطابات شوری جلد دوم ۶۸ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء میرے نزدیک یہ مناسب تجویز ہے کہ جو لوگ بقایا دار ہوں تین چار بااثر آدمی وفد بنا کر ایک دن مقرر کر لیں کہ اس دن ان سے بقایا وصول کریں گے.وہ تمام بقایا داروں کے پاس جائیں اور محبت و پیار، نرمی اور عمدگی سے حقیقت سمجھا کر وصول کریں.(۶).اختر صاحب نے کہا ہے کہ تاجر عام طور پر پورا چندہ نہیں دیتے.یہ بڑی حد تک صحیح ہے.زمیندار بہت حد تک چندہ با قاعدہ ادا کرتے ہیں اور ملازمت پیشہ بہت بڑی حد تک ، مگر تاجر سب سے پیچھے ہیں.وہ اپنی پوری آمد نہیں بتاتے ، وہ سب سے کم چندہ ادا کرتے ہیں اور آمد کم لکھاتے ہیں.مگر جب مکان بناتے یا شادی کرتے ہیں تو بہت زیادہ خرچ کر دیتے ہیں.یہ خرچ کہاں سے آتا ہے ان کا معاملہ بھی قابلِ غور ہے.(۷).بعض نے کہا ہے کہ اگر محصل اور سیکرٹری اچھی طرح کام کریں تو پورا چندہ وصول کر سکتے ہیں لیکن چونکہ ان کے لئے کام زیادہ ہوتا ہے اس لئے وہ پوری کوشش نہیں کر سکتے.یہ بات بھی قابل غور ہے.پیچھے جب ایک دفعہ یہ سوال اُٹھایا گیا تھا کہ پیڈ (PAID) محصل رکھے جائیں تو جماعتوں نے اس پر بُرا منایا تھا مگر اب محسوس کیا جا رہا ہے کہ پیڈ (PAID) نہ رکھنے کی وجہ سے نقص پیدا ہو رہا ہے.بعض جگہ جماعتیں اتنی زیادہ ہو گئی ہیں کہ وہاں با قاعده وصولی کا کوئی نہ کوئی انتظام ہونا چاہئے.مثلاً لا ہور کی جماعت ہے وہ چونکہ پھیلی ہوئی ہے اس کے حلقے مقرر کر دیئے گئے ہیں اور اس کا اچھا نتیجہ نکلا ہے اور یہ جماعت بھی فرض شناس جماعتوں میں شامل ہونے کے قابل ہوتی جا رہی ہے.قادیان میں محلہ وار جو انتظام کیا گیا ہے یہ بھی مفید ثابت ہوا ہے.تو اس قسم کی کسی تجویز کی ضرورت ہے.خواہ اس کے لئے چندہ میں سے کمیشن مقرر کر کے یا حلقے مقرر کر کے علیحدہ علیحدہ محصل رکھ کر عمل میں لائی جائے.اس تجویز کو بھی میں مالی کمیٹی کے سپر د کرتا ہوں جو اس پر غور کرے اور جہاں بقایا ہو وہاں ہنگامی خرچ کے لئے اجازت دی جائے جو بقایا کی وصولی کے متعلق کرنا پڑے.(۸).ایک تجویز یہ بھی ہے کہ لجنہ کے ذریعہ عورتوں کو توجہ دلائی جائے کہ تمہارا میاں پورا چندہ نہیں دیتا اُسے پورا چندہ دینے کی تحریک کرو.اس کے لئے ضروری ہے کہ ہر جگہ لجنہ اماءاللہ قائم ہو اور عورتوں میں بیداری پیدا ہو پھر وہ مردوں کو بیدار کرنے میں مفید
خطابات شوری جلد دوم ۶۹ مجلس مشاو مشاورت ۱۹۳۶ء ثابت ہوسکیں گی.قادیان اور سیالکوٹ کی لجنہ بہت مفید کام کر رہی ہیں.سیالکوٹ کی لجنہ کو قادیان کی لجنہ پر اس لحاظ سے فضیلت حاصل ہے کہ وہ مرکز کی امداد سے محروم ہے لیکن قادیان کی لجنہ کو تحریک وغیرہ کی امداد ہوتی رہتی ہے اس لئے اسے میں دوسرے درجہ پر رکھتا ہوں.تو لجنات کے ذریعہ بہت مفید کام ہو سکتا ہے.قادیان میں غرباء کی خبر گیری اور چندہ کی وصولی کے متعلق لجنہ بہت اچھا کام کر رہی ہے اور میرا ارادہ ہے کہ بعض اور کام بھی اس کے سپرد کئے جائیں.بیرونی جماعتوں کو چاہئے کہ ہر جگہ لجنہ قائم کریں جو مردوں کو دینی خدمت کے لئے اُبھاریں.پھر عورتیں خود زائد اخراجات سے مردوں کے ہاتھ روکیں گی اور انہیں با قاعدہ چندہ ادا کرنے کے لئے مجبور کریں گی.مجھے معلوم ہے بعض مخلص عورتیں ہماری جماعت میں ایسی ہیں جو مردوں سے کہہ دیتی ہیں پہلے باہر چندہ دے آؤ اور پھر تنخواہ گھر میں لاؤ اور جس سے دوطرف سے مطالبہ ہو باہر محصل چندہ طلب کرے اور گھر میں عورت چندہ دینے پر زور دے وہ ناد ہند نہیں رہ سکتا.تو عورتوں میں اخلاص ہے اور وہ بہت کام کر سکتی ہیں بشرطیکہ ان کو کام کرنے کا موقع دیا جائے.احد کی جنگ کے موقع پر جب یہ مشہور ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہید ہو گئے ہیں تو مدینہ کے بچے اور عورتیں گھبرا کر گھروں سے باہر نکل آئیں.ایک صحابی میدانِ جنگ سے خبر دینے آرہے تھے کہ ایک عورت نے اُن سے پوچھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا حال ہے صحابی چونکہ ابھی ابھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر آیا تھا اُس نے جواب دیا تمہارا باپ مارا گیا ہے.عورت نے کہا میں نے تم سے یہ نہیں پوچھا بلکہ یہ پوچھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا حال ہے.اُس نے پھر کہا تمہارا بھائی بھی مارا گیا ہے.عورت نے کہا مجھے یہ بتاؤ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا حال ہے صحابی نے پھر کہا تمہارا خاوند بھی مارا گیا ہے.عورت نے کہا مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق بتاؤ.اُس نے کہا آپ خیریت سے ہیں.اس پر عورت نے کہا جب آپ زندہ ہیں تو پھر مجھے کسی کی موت کی پرواہ نہیں ہے یوں اگر اُس کا خاوند مرتا اور اُسے اُس کی موت کی خبر پہنچتی تو وہ مہینوں غم والم میں مبتلا رہتی، یوں
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاو مشاورت ۱۹۳۶ء اگر اسے اپنے بھائی یا باپ کے مرنے کی اطلاع ملتی تو رونے دھونے میں لگ جاتی لیکن وہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کی خبر سن چکی تھی اس لئے اس کے بعد ہر ایک کی موت کی خبر سننا اس کے لئے آسان ہو گئی.مجھے بتایا گیا ہے کہ ہماری جماعت میں بھی اس قسم کا ایک واقعہ ہوا.پچھلے دنوں سیالکوٹ میں جب ہماری جماعت کا جلسہ ہوا تو اس میں شریک ہونے کے لئے نیشنل لیگ کور کے کچھ والنٹیئر ز ایک گاؤں کے قریب سے گزرے کہ وہاں کے لوگوں نے ان پر حملہ کر دیا.کور والوں میں سے کچھ نے بُزدلی دکھائی کہ بھاگ گئے.اس کے متعلق مجھے تار آیا اس میں لکھا تھا کہ ایک والنٹیئر کم ہے اور کئی زخمی ہو گئے ہیں.اُس وقت میرے دل پر جو اثر تھا وہ یہ تھا کہ مجھے اس کی فکر نہیں کہ ایک مارا گیا یا کئی، مجھے یہ معلوم ہونا چاہئے کہ وہ اپنی جگہ پر قائم رہے یا نہ اور مجھے یہ معلوم کر کے بے حد افسوس ہوا کہ وہ قائم نہ رہے.گو اس کی انہوں نے توجیہہ کی کہ لوگوں سے نہیں ڈرتے تھے بلکہ قانون سے ڈرے مگر بات ایک ہی ہے اور ان سے بہت بڑی غلطی ہوئی.لیکن کل ہی مجھے اطلاع پہنچی ہے کہ پھر جب ڈسکہ میں جلسہ ہوا اور وہاں کور کے جو نو جوان گئے تو ایک کی ماں نے جو صحابیہ ہیں اپنے بچے سے کہا بیٹا ! میں یہ خبر بڑی خوشی سے سُن لوں گی کہ تمہیں مار دیا گیا ، مگر میں یہ نہیں سُن سکوں گی کہ تم دشمن کے مقابلہ سے بھاگ گئے ہو.اس اخلاص کو دیکھ کر وہ رنج جاتا رہا جو مردوں کی غلطی کی وجہ سے ہوا تھا.دوسری عورتوں نے بھی اپنے بچوں سے یہی کہا.مگر جس کا ذکر کیا گیا ہے اُس کا اکلوتا بیٹا تھا اِس لئے اُس نے زیادہ اخلاص کا ثبوت دیا.بعض نے کہا اگر تمہارے مرنے کی خبر آئے گی تو خوشی ہوگی لیکن تمہارے بھاگنے کا سُن کر رنج ہوگا.تو ہماری جماعت کی عورتوں میں اخلاص ہے اسے صرف اُبھارنے کی ضرورت ہے.اگر ہر جگہ لجنہ قائم ہو جائے ،مستورات کو ان کی ذمہ داری سمجھا دی جائے تو یقیناً چندہ کی نادہندگی میں کمی آجائے گی.کمیشن کے متعلق ایک بات رہ گئی تھی اور وہ یہ کہ انفرادی یا مجموعی طور پر کام کے متعلق مجھ سے ہدایات لے لیں اور پھر کام شروع کریں.(۹).بابو ضیاء الحق صاحب نے ایک تجویز یہ پیش کی ہے کہ بجٹ میں آمد و خرچ کے مطابق
خطابات شوری جلد دوم 21 مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء پوری رقم دکھا کر اس کا پورا کیا جانا ٹھیک نہیں ہے.مجھے اس سے پورا اتفاق ہے.چونکہ پیر اکبر علی صاحب کہتے رہے ہیں کہ بجٹ کا قاعدہ یہ ہے کہ آمد وخرچ پورا دکھائیں اس لئے پورا کیا جاتا رہا ہے.ورنہ یونہی آمد پوری دکھا دینے سے کام کرنے والی انسانی جس دبی رہتی ہے.اب بہت لوگ جب یہ دیکھتے ہیں کہ بجٹ میں آمد وخرج پورا درج ہے تو وہ سمجھتے ہیں چلو کام ہو گیا ہمیں کوشش کرنے کی کیا ضرورت ہے.ہمارا کام یہ ہونا چاہئے که اصل خرچ اور اصل آمد دکھا ئیں اور اگر آمد میں کمی رہے تو پھر پوچھیں کہ اسے پورا کیا جائے.اس احساس کے ساتھ جو دوست یہاں سے جائیں گے وہ پورا کرنے کی کوشش کریں گے.اس تجویز کو بھی میں اس کمیٹی کے سپر د کرتا ہوں کہ بجٹ میں آمد وخرچ کی اصل رقوم پیش کی جائیں اور ان میں جو فرق رہے اُسے مجلس مشاورت میں طے کیا جائے.بیت المال کا دفتر کاغذات میں نہ پورا کر دیا کرے.اس طرح ایک اور نقص بھی ہے جو بے برکتی کا موجب ہوتا ہے.ہر سال دفتر بیت المال والے صیغوں میں آمدنی اور خرچ بڑھا کر دکھاتے ہیں تا کہ یہ ظاہر کریں کہ پچھلے سال اتنی آمدنی تھی اور اتنا خرچ اور اب کے اتنی آمد ہوگی اور اتنا خرچ ہوگا.یہ جھوٹی خوشی دشمن کو دکھانے کے لئے ظاہر کی جاتی ہے جسے اللہ تعالی پسند نہیں کرتا اور اس سے بے برکتی پیدا ہوتی ہے.بیرونی جماعتیں بھی خوش ہو جاتی ہیں اور ناظر بیت المال بھی پیٹ پر ہاتھ پھیر کر کہہ دیتے ہیں کہ اب کے ہم نے چار لاکھ روپیہ کا بجٹ بنا دیا.ہندو عام طور پر گوشت نہیں کھاتے وہ گوشت کی بوٹی کی طرح کی بڑیاں بنا لیتے ہیں.اور جب پکاتے ہیں تو لالہ لانی آے سے کہتا ہے کہ بوٹی دینا! اس طرح وہ اپنا دل خوش کر لیتے ہیں.پس اصل حقیقت کو چھپانا نہیں چاہئے.اگر کمی رہتی ہے تو بے شک دکھاؤ کہ پچھلے سال آمد وخرچ کا بجٹ اتنا تھا مگر اب کے اتنا کم ہے تا کہ ہم خدا تعالیٰ کے سامنے شرمندہ ہوں اور اپنی اصلاح کریں.(۱۰).میرے نزدیک یہ بھی ضروری ہے کہ امانت فنڈ کو الگ رکھا جائے.بینکنگ کو ہمیشہ الگ رکھا جاتا ہے.اس کی آمد اور خرچ دکھایا جائے تاکہ پتہ لگے کہ کام کرنے والے خرچ آمد سے نکالتے ہیں یا نہیں؟ ہم جو نفع حاصل کرتے ہیں اس میں سے وہ خرچ لیا
خطابات شوری جلد دوم ۷۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء جاسکتا ہے جو کارکنوں کی تنخواہ کی صورت میں کرنا پڑے.اگر کسی اور کو اتنا روپیہ دیا جاتا تو وہ اس وقت تک ۱۵،۱۰ ہزار نفع اُٹھا چکا ہوتا.۷۵ فیصدی امانتیں ایسی ہوتی ہیں جن کو تجارتوں میں لگا سکتے ہیں.کوئی امانت ایسی ہوتی ہے جو دس سال کے بعد ادا کرنی ہوتی ہے، کوئی دو چار سال بعد، کوئی سال چھ ماہ بعد.اس طرح ہم کافی نفع حاصل کر سکتے ہیں.پس بینکنگ کی مڈا لگ دکھائی جائے اور اس سے جو نفع ہو وہ بھی ضرور دکھاؤ.اس طرح بھی لوگوں کو اس مد میں روپیہ جمع کرانے کا شوق پیدا ہوگا اور اس کا فائدہ سلسلہ کو پہنچے گا.ضیاء الحق صاحب نے کہا ہے کہ وصایا کے بقائے زیادہ ہیں.جو کمیٹی مقرر ہو وہ اس کے متعلق بھی غور کرے.(۱۱).جائدادوں کی فروخت کی تجویز پیش کی گئی ہے.اگر انجمن کے پاس ایسی جائدادیں ہیں جو سلسلہ کی ضروریات سے زائد ہیں اور فروخت ہو سکتی ہیں مگر فروخت نہیں ہوئیں تو اس پر بھی کمیشن غور کرے تا کہ فروخت کرنے کی ہدایت دی جائے.پیرا کبر علی صاحب نے کہا ہے کہ اگر چندہ با قاعدہ وصول ہوتا رہے بقایا نہ ہو تو پھر شرح چندہ بڑھانے کی ضرورت نہیں.بات یہ ہے کہ حکومت طاقت کے ذریعہ ٹیکس وصول کرتی ہے مگر ہم تجارت کے طور پر لیتے ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے خدا کی راہ میں دو اس کے بدلے تمہیں جنت دی جائے گی.یہ ترغیب کی حد تک بات درست ہے مگر حقیقت کے لحاظ سے درست نہیں کہ اگر دوسرے چندہ ادا نہ کریں تو مخلصین کو بھی زیادہ بار نہ اُٹھانا چاہئے.اگر کوئی ایک ہی احمدی رہتا ہے تو اُس کا بھی فرض ہے کہ سارا بوجھ اُٹھائے.پیرا کبر علی صاحب نے یہ بھی کہا ہے کہ بقائے اُڑا دیئے جائیں.چوہدری فقیر محمد صاحب نے اس کی مخالفت کی ہے مگر بات اہم ہے.بقایا بالکل تو چھوڑا نہیں جاسکتا.یہ ہوسکتا ہے کہ ئین ئین صورت اختیار کریں اور وہ اس طرح کہ کم سے کم اصول یہ ہو کہ بقایا کی لسٹ الگ ہو.ماہوار چندہ با قاعدہ وقت پر وصول کیا جائے اور اگر کوئی اس سے زائد دے تو اُسے بقایا میں شمار کیا جائے.گویا آئندہ ماہوار چندہ کی وصولی مقدم ہو اور بقایا بعد میں.
۷۳ خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء دوسری صورت یہ ہے کہ جو بقایا زیادہ عرصہ کا ہو اُس کے متعلق جماعت سے سمجھوتا کر لیا جائے کہ اُس کا ۳۳ فیصدی یا ۲۵ فیصدی ادا کر دیا جائے گا بشرطیکہ ماہوار چندہ باقاعدہ ادا کیا جائے.تو سمجھ لیا جائے گا کہ بقایا ادا ہو گیا.اور آئندہ بقایا ہونے ہی نہ دیا جائے.لیکن جب تک سابقہ بقایا کا تصفیہ نہ ہو جائے ہر سال بجٹ کے ساتھ ہی بقایا کی لسٹ ہو جسے پیش کر کے کہا جائے کہ ادا کرو.اس کی تفصیلات بھی میں مالی کمیٹی کے سپر د کرتا ہوں.(۱۲).بعض دوستوں نے تجویز پیش کی ہے کہ کمیشن پر محصل رکھے جا ئیں.اس پر بھی مالی کمیٹی غور کرے.(۱۳).شیخ صاحب دین صاحب کی تجویز ہے کہ تاجر کے لئے چندہ کی رقم یکبار دینا مشکل ہوتی ہے اگر ان کے ہاں صندوقچیاں رکھ دی جائیں تو وہ روزانہ کچھ پیسے ڈالتے جائیں اس طرح ان کے لئے آسانی ہوگی.میں سمجھتا ہوں یہ تجویز بھی مفید ہوسکتی ہے.روزانہ آمد کا حساب کر کے چندہ کی رقم صندوقچی میں ڈال دیا کریں تو ان کے لئے بہت آسانی رہے.ہندو تاجر جو بہت بخیل ہوتے ہیں صندوقچیوں کے ذریعہ ہر سال بڑا چندہ نکال دیتے ہیں.وکلاء بھی اسی طرح کر سکتے ہیں.بچوں میں بھی چندہ ادا کرنے کی عادت ڈالی جاسکتی ہے.اس سے مالی نفع کو اتنا نہ ہو مگر بچوں پر اثر بہت عمدہ پڑے گا.میں اپنے گھر میں اسی طرح کرتا ہوں.جب بچوں کو کچھ دیتا ہوں تو کہہ دیتا ہوں پہلے چندہ دے آؤ پھر باقی خرچ کرنا.پیچھے جب چندہ تحریک جدید کا اعلان کیا گیا تو چوہدری اسد اللہ خاں صاحب کا بچہ دوڑا آیا کہ میرے اتنے پیسے جمع ہیں یہ جمع کرا دو.غرض اس طرح بچوں پر اچھا اثر پڑتا ہے اور ماں باپ پر بھی کہ بچہ دے رہا ہے تو ہم بھی دیں.صوفی عبدالرحیم صاحب نے شکوہ کیا ہے کہ جب میں لا ہور جاتا ہوں تو ناد ہند آگے بڑھ بڑھ کر بیٹھتے ہیں.میں اُنہیں یقین دلاتا ہوں کہ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کی طرف سے کسی کے لئے کوئی ممانعت نہیں کہ وہ آگے نہ آئے پس وہ بھی آگے آ سکتے ہیں.عبدالرحیم صاحب کی یہ تجویز معقول ہے کہ افراد جو عذر پیش کریں بقایا کے متعلق.کہ ان وجوہات سے ادا نہیں ہوا اُن کو بھی قبول کیا جائے.
خطابات شوری جلد دوم ۷۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء (۱۴).ملک عبد الرحمن صاحب خادم نے بیان کیا ہے کہ مرکز میں سستی ہوتی ہے.یہ عام طور پر احساس پایا جاتا ہے کہ جو چٹھیاں باہر کے دوست لکھتے ہیں اُن کا جواب نہیں دیا جاتا.تحقیقاتی کمیشن اس کو بھی مد نظر رکھے اور اعلان کرے کہ جس جس جماعت کو ایسی شکایت ہو ا طلاع دے اور پھر تحقیقات کی جائے.(۱۵).ایک تجویز یہ ہے کہ چندہ کی وصولی کے متعلق مبلغین بھی تعاون کریں.اس کی طرف میں پہلے بھی توجہ دلا چکا ہوں.مبلغین جہاں جائیں وہاں وہ تمام مرکزی صیغوں کے نمائندے ہوتے ہیں.نظارت تعلیم و تربیت، نظارت امور عامه، نظارت بیت المال، تحریک جدید وغیرہ ہر صیغہ کے کام کو دیکھنا ان کا فرض ہے.ورنہ ایک آدھ تقریر کرنے کے بعد ان کا کام کیا ہوتا ہے.(۱۶).ایک تجویز یہ ہے کہ قریب کے شہروں کے آدمی دوسرے مقامات کے احمدیوں کے پاس جائیں اور چندہ کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائیں کیونکہ مقامی سیکرٹری مال کو دیکھ کر بعض لوگ بھاگ جاتے ہیں.اگر یہ درست ہے تو پھر دوسرے مقامات کے احمدیوں کو بھیجنے سے بھاگنا بہت زیادہ ہو جائے گا.جہاں کسی احمدی کو دیکھا بھاگ گئے کہ شاید چندہ کی وصولی کے لئے ہی آ رہا ہے.(۱۷).ایک تجویز یہ ہے کہ محصل عام طور پر ماہر فن نہیں ہوتے اس لئے ان کے بار بار کے تقاضا سے لوگ چڑ جاتے ہیں.چندہ وصول کرنے والے اصحاب معاملہ فہم اور طبیعت شناس ہونے چاہئیں.یہ معقول بات ہے بعض ایسی طبائع ہوتی ہیں کہ اگر لوگوں کے سامنے ان سے مانگا جائے تو چڑ جاتی ہیں اور بعض اس طرح بڑھ چڑھ کر دیتی ہیں.پس طبائع کا خیال رکھنا چاہئے.موقع اور محل کو مد نظر رکھا جائے اس کے ماتحت چندہ طلب کیا جائے.ا پھر دیکھا گیا ہے کہ بعض کارکن عام طور پر طنز کرتے ہیں، اس سے کشیدگی پیدا ہو جاتی ہے.اس کے متعلق کم از کم امید یہ ہے کہ خلیفہ کی موجودگی میں تو کسی پر طنز نہ کیا جائے مگر بعض اوقات اس کی بھی پرواہ نہیں کی جاتی ، خصوصاً لاہور میں تو بعض اوقات مجلس میں بیٹھنا مشکل ہو جاتا ہے اور جب میں بیٹھتا ہوں تو دل دھڑکتا رہتا ہے.
خطابات شوری جلد دوم ۷۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء مجھے سب سے محبت ہے خواہ کوئی نادہند ہو یا دہند.خدا تعالیٰ نے سب کو میرے لئے بمنزلہ اولاد بنایا ہے اس لئے طنز خواہ کسی پر کیا جائے مجھے بُرا لگتا ہے.یہ مرض لا ہور کی جماعت میں زیادہ ہے.اس سے بُرے نتائج پیدا ہوتے ہیں.اگر دوست اس بات کی عادت ڈال لیں کہ دوسروں کی طبائع میں اشتعال نہ پیدا ہونے دیں گے تو دُگنا کام کر سکتے ہیں اور یہ مومنانہ صفت بھی ہے.(۱۸).ایک تجویز یہ ہے کہ وصیت کا بقایا نہ ہونے دیا جائے.اگر کسی کے ذمہ بقایا ہو جائے تو اُسے نوٹس دے کر وصیت منسوخ کر دینی چاہئے کیونکہ جو شخص بقایا ادا نہیں کرتا وہ کس طرح مخلص کہلا سکتا ہے؟ جب تک مقبرہ بہشتی کی کمیٹی ایسا نہ کرے گی وہ ہرگز اپنا فرض دیانت داری کے ساتھ ادا نہ کرے گی.بابوعبدالحمید صاحب نے جو تجاویز بتائی ہیں وہ اچھی ہیں اور اس قابل ہیں کہ امراء اور پریذیڈنٹ صاحبان ان پر عمل کرائیں.(۱۹).ایک تجویز یہ ہے کہ وقف کنندگان کی خدمات بقایا وصول کرنے پر لگائی جائیں.مالی کمیٹی اس پر بھی غور کرے گی.آخر میں میں اس تجویز کا ذکر کرتا ہوں جو چوہدری صاحب نے پیش کی ہے.جب تک خاص ذمہ داری عائد نہ ہو جماعتوں کی توجہ وصولی کی طرف پوری طرح نہیں ہو سکتی.بے شک دفاتر میں بھی کوتاہیاں ہوتی ہیں لیکن زیادہ توجہ بیرونی اصحاب کی درکار ہے.ان حالات میں ایک دو سال تک یہ تجربہ مفید ہوگا کہ چند چند جماعتوں کو یونٹ قرار دے کر ان پر چندہ ڈالا جائے جسے ادا کرنے کی وہ ذمہ دار ہوں.اس طرح جماعتوں میں پوری طرح احساس پیدا ہو جائے گا اور اس طرح وہ جماعتیں یا تو سُست افراد کو بیدار کریں گی یا پھر ان کو پکڑوائیں گی.اب تو نہ بیدار کرتی ہیں اور نہ پکڑواتی ہیں.یہ شتر مرغ والی بات ہے اور یہ اچھا نتیجہ نہیں پیدا کر سکتی.اس کے لئے میں نے یہ تجویز کیا ہے کہ اس کی تفصیلات کمیٹی میں طے ہوں گی اور اس کے لئے ضروری ہے کہ مجلس شوری کا ایک اور اجلاس آج سے چار پانچ ماہ بعد منعقد کیا جائے اُس سے قبل بقائے کی فہرستیں جماعتوں کے پاس چلی جائیں اور اجلاس میں آمد پر ہی
خطابات شوری جلد دوم ۷۶ مشاورت ۱۹۳۶ء بحث ہو اور بقائے کی وصولی کے متعلق پوچھا جائے.یہ اجلاس دسہرالا کی چھٹیوں میں ہو.یعنی ۲۳ ۲۴ ۲۵ / اکتوبر کو دوسری مجلس شوری ہوگی کہ اس میں پھر نمائندے آئیں.جن سے پوچھا جائے گا کہ بقائے صاف ہوئے یا نہیں؟ چندے با قاعدہ ادا ہوئے یا نہیں؟ اور اگر نہیں تو کیا مشکلات پیش آئیں؟ اس طرح آپ لوگوں کو ذمہ داری یاد دلائی جائے گی اور چونکہ اُس موقع کے لئے صرف یہی مضمون ہوگا اس لئے احباب اس کے متعلق پوری تیاری کر کے آئیں گے کیونکہ ہر نمائندہ کا فرض ہوگا کہ اپنی جماعت کے متعلق جواب دے.“ اختتامی تقریر مجلس مشاورت کے تیسرے روز ۱۲.اپریل کو بجٹ آمد وخرج پاس ہونے پر مجلس مشاورت کی کارروائی مکمل ہوئی تو حضور نے حاضرین کو الوداعی خطاب سے نوازا.آپ نے سورۃ محمد کی درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی.وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ المُجْهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّبِرِينَ وَنَبْلُوا اخبارَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَ شَا قُوا الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى لَن يَضُرُّوا اللَّهَ شَيْئًا، وَ سَيُحْبِطُ اعْمَالَهُمْ يايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَ َأطِيعُوا الرَّسُولَ وَلا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ إِن الَّذِينَ كَفَرُوا وَ صَدُّوا عَن سَبِيلِ اللهِ ثُمَّ مَا تُوا وَهُمْ كُفَّارُ فَمَن يَغْفِرَ الله لهُمْ فَلا تَهِنُوا تَدْعُوا إلى السّلْمِ وَأَنتُمُ الْأَعْلَونَ وَاللَّهُ مَعَكُمْ ولن يترَكُمْ أَعْمَالَكُمْ إِنَّمَا الْحَيْوَةُ الدُّنْيَا لَعِب وَ لَهُوَ وَإِن تُؤْمِنُوا وَ تَتَّقُوا يُؤْتِكُمْ أُجُورَكُمْ وَ لا يَسْلُكُمْ أَمْوَالَكُمْ إِنْ يَسْلُكُمُوهَا فَيُحْفَكُمْ تبْخَلُوا وَ يُخْرِجُ أَضْغَانَكُمْ هَاَنْتُمْ هَؤُلاء تُدْعَونَ لِتُنْفِقُوا فِي سَبِيلِ الله فَمِنكُمْ مِّن يَبْخَلُ وَ مَن يَبْخَلُ فَإِنَّمَا يَبْخَلُ عَن نَّفْسِهِ وَ اللهُ الغَنِيُّ وانْتُمُ الْفُقَرَاءِ وَإِن تَتَوَلّوا يَستَبدِل قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا آمَثالَكُمْ - اس کے بعد جماعت کی ترقی سے تعلق رکھنے والے بعض نہایت ہی اہم امور کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور نے فرمایا :-
خطابات شوری جلد دوم LL مجلس مشا مشاورت ۱۹۳۶ء در مجلس شوری کا کام خدا تعالیٰ کے فضل سے ختم ہو چکا ہے لیکن پیشتر اس کے کہ آخری چند نصائح کر کے میں احباب کو رخصت کروں چند باتیں پھر دُہرا دیتا ہوں تاکہ دوست واپسی پر اپنی اپنی جماعت کے دوستوں کو ان کی طرف توجہ دلا سکیں اور خود ان کے ذہنوں میں بھی یہ باتیں حاضر ر ہیں.صنعت و حرفت کے کام پہلی بات یہ ہے کہ میں نے کل دوستوں کو بتایا تھا کہ جماعت کے لوگوں میں سے بیکاری کو دور کر کے جماعت کی مالی حالت مضبوط کرنے کے لئے کچھ کام یہاں جاری کئے گئے ہیں.ان کاموں کے جاری کرنے میں یہ بات مدنظر ہے کہ ہم آہستہ آہستہ اس مقام پر پہنچ جائیں کہ اپنی ساری ضرورتیں خود پوری کر سکیں اور دوسری اقوام کی ضرورتیں پوری کرنے میں بھی حصہ لے سکیں.اس وقت غیر ہندوستانی طاقتیں ہندوستان میں اتنی قوت پکڑ چکی ہیں کہ تجارتی طور پر ہمارا ملک ان کے مقابلہ میں عاجز آ رہا ہے اور یہ بات انسانی طاقت سے بالا معلوم ہوتی ہے کہ کوئی جماعت اس کی اصلاح کی کوشش کرے کہ ہندوستانی تجارت وصنعت دوسری قوموں کی تجارت اور صنعت کے مقابلہ میں ٹھہر سکے لیکن ہماری جماعت کو اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان سے دوسری اقوام پر ایک فضیلت حاصل ہے اور وہ یہ کہ یہ منظم جماعت ہے ایک ہاتھ پر اس نے بیعت کی ہوئی ہے.ہماری جماعت میں بہت سے مخلص ہیں لیکن سب کے سب نے یہ اقرار کیا ہوا ہے کہ ہر قسم کے احکام کی فرمانبرداری کریں گے.مگر سب سے زیادہ مشکلات بھی ہماری جماعت کے لئے ہی ہیں اور جتنی روکیں ہمارے رستے میں حائل ہیں کسی اور کے رستہ میں اتنی نہیں.کہتے ہیں نزلہ بر عضو ضعیف مے ریزد.ہم چونکہ کمزور ہیں اس لئے دوسری طاقتیں ہمارے خلاف جتھہ کر کے ہمارے خلاف کھڑی ہیں اور ہمیں تجارت میں، ملازمت میں، صنعت و حرفت میں سخت وقتیں پیش آرہی ہیں.اہلِ ہند میں سے مسلمان گرے ہوئے ہیں اور ہم مسلمانوں میں سے سب سے زیادہ مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں.دوسری قوموں نے مسلمانوں سے بائیکاٹ کر رکھا ہے اور دوسروں سے مار کھائے ہوئے مسلمان ہم پر حملہ کر رہے ہیں.ایسی صورت میں ہمارے لئے زیادہ ضروری ہے کہ ہم ان مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کریں.اِن امور کو مدنظر رکھتے ہوئے لو ہے اور
خطابات شوری جلد دوم ZA مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء لکڑی اور چمڑے اور شیشے کے کام شروع کئے گئے ہیں اور آئندہ کپڑا بننے کا کام اور دوا سازی کا کام شروع کرنے کا ارادہ ہے.کارخانوں کے حصے خریدے جائیں ان کاموں کے لئے اصول یہ رکھا ہے کہ جن کاموں کی ابتداء تحریک جدید کی طرف سے ہو اُن میں کم سے کم ۵۰ فیصدی سرمایہ تحریک جدید کا ہو اور باقی ۵۰ فیصدی تک دوستوں کو شامل ہونے کی اجازت دی جائے اور جو دوست حصہ لینا چاہیں ان میں سے غرباء کو اس طرح حصہ لینے کی اجازت دی جائے کہ وہ دس روپیہ ماہوار کر کے حصہ لے لیں تا کہ غرباء بھی شامل ہوسکیں بلکہ کارخانہ کے کاریگروں کو اس سے کم قسط میں حصہ ڈالنے کی بھی اجازت دی جائے.اِس طرح ان دوستوں کو کارخانوں سے دلچپسی بھی پیدا ہو جائے گی اور زیادہ سے زیادہ احباب حصہ لے سکیں گے.پس ایک تو میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ ان کارخانوں میں جو تحریک جدید نے چلائے ہیں جو دوست چاہیں حصہ دار بن سکتے ہیں.مگر کم از کم سو روپیہ کا حصہ ڈالنا ضروری ہوگا جو قسط وار بھی لیا جا سکتا ہے اور دس مہینے میں وہ حصہ ادا کر دیا جائے یعنی جتنے حصے کوئی دوست خریدیں اُن کے روپیہ کے دس حصے کر کے دس ماہ میں ادا کر دیں.ہوزری اور شیشے کے کام دوسروں کے ہیں.یعنی وہ تحریک جدید کے ماتحت نہیں گو اُن میں حصہ تحریک جدید کا ہے اس لئے اُن کے حصے اُن کے تجویز کردہ قواعد کے ماتحت لئے جاسکتے ہیں.ضروریات قادیان کے کارخانوں سے خریدیں دوسری بات یہ ہے کہ میں دوستوں کو پھر اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اپنی ضرورتیں جہاں تک ممکن ہو ان کارخانوں کے ذریعہ پوری کریں.اس طرح سلسلہ کی مدد بھی ہوگی اور غرباء کی بھی.کیونکہ ان کارخانوں میں غرباء کو اچھے اور اعلیٰ پایہ کے پیشے سکھائے جائیں گے اور جو لوگ اپنے کاموں میں ماہر ثابت ہوں گے اُن کو ملازم رکھ لیا جائے گا یا حصہ دار بنا لیا جائے گا اور جو ملازمت کرنا چاہیں گے انہیں باہر ملازم کرانے کی کوشش کی جائے گی.
خطابات شوری جلد دوم ۷۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء دل کی ایک حسرت میں نہیں جانتا کہ دوسرے دوستوں کا کیا حال ہے لیکن میں تو جب ریل گاڑی میں بیٹھتا ہوں میرے دل میں حسرت ہوتی ہے کہ کاش! یہ ریل گاڑی احمدیوں کی بنائی ہوئی ہو، اور اس کی کمپنی کے وہ مالک ہوں.اور جب میں جہاز میں بیٹھتا ہوں تو کہتا ہوں کاش! یہ جہاز احمد یوں کے بنائے ہوئے ہوں اور وہ ان کمپنیوں کے مالک ہوں.میں پچھلے دنوں کراچی گیا تو اپنے دوستوں سے کہا کاش ! کوئی دوست جہاز نہیں تو کشتی بنا کر ہی سمندر میں چلانے لگے اور میری یہ حسرت پوری کر دے اور میں اُس میں بیٹھ کر کہہ سکوں کہ آزاد سمندر میں یہ احمدیوں کی کشتی پھر رہی ہے.دوستوں سے میں نے یہ بھی کہا کاش! کوئی دس گز کا ہی جزیرہ ہو جس میں احمدی ہی احمدی ہوں اور ہم کہہ سکیں کہ یہ احمدیوں کا ملک ہے کہ بڑے کاموں کی ابتداء چھوٹی ہی چیزوں سے ہوتی ہے.یہ ہیں میرے ارادے اور یہ ہیں میری تمنا ئیں.ان کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم کام شروع کریں مگر یہ کام ترقی نہیں کر سکتا جب تک کہ ان جذبات کی لہریں ہر ایک احمدی کے دل میں پیدا نہ ہوں اور اس کیلئے جس قربانی کی ضرورت ہے وہ نہ کی جائے.دنیا چونکہ صنعت و حرفت میں بہت ترقی کر چکی ہے، اس لئے احمدی جو اشیاء اب بنائیں گے وہ شروع میں مہنگی پڑیں گی مگر باوجود اس کے جماعت کا فرض ہے کہ انہیں خریدے.ایک دفعہ دیال باغ آگرہ والے لاہور اپنی اشیاء کی نمائش کرنے کے لئے آئے تو انہوں نے مجھے بھی دعوت دی.گورنر پنجاب کو اُنہوں نے ٹی پارٹی دینے کا انتظام کیا ہوا تھا اور اس موقع پر چیزیں بھی فروخت کرتے تھے.اُس وقت ان کی چیزیں نسبتاً مہنگی تھیں مگر وہ کہتے تھے بے شک ہماری اشیاء مہنگی ہیں مگر ان کے خریدنے سے غرباء کی مدد بھی ہو جاتی ہے.چنانچہ لوگ اُن کا مال شوق سے خریدتے تھے اور خود میں نے بھی ایک اٹیچی کیس ان سے خریدا تھا.اگر دوسری قو میں اپنی جماعت کو بڑھانے کے لئے یہ قربانی کر سکتی ہیں تو کیوں احمدی ایسا نہیں کر سکتے جبکہ ان کی ضرورت دوسرے لوگوں سے بھی اہم ہے کیونکہ ہمارے کارخانوں کی اشیاء خریدنے سے نہ صرف غرباء کو امداد ملے گی بلکہ سب سے بڑے غریب اسلام کو بھی مدد ملے گی جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں :-
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء بے کسے مشهد دین احمد هیچ خویش و یار نیست ہر کسے درکار خود با دین احمد کار نیست پس اس وقت اسلام سب سے زیادہ امداد کا محتاج ہے اور اس طرح مدد کرنے سے نہ صرف افراد کی مدد ہوگی بلکہ اس عظیم الشان صداقت کی بھی مدد ہوگی جو بے کس ہے.پس یہ نہایت ثواب کا کام ہے دُنیوی لحاظ سے بھی اور دینی لحاظ سے بھی اور میں سمجھتا ہوں تھوڑے عرصہ میں ایسے ماہر پیدا ہو سکیں گے جو باہر نکل کر اچھے کام کر سکیں گے.ہم کارخانوں میں کام سیکھنے والوں کو ساتھ تعلیم بھی دیں گے اور اس طرح انہیں صرف مستری نہیں بلکہ انجینئر بنائیں گے.پس ایک بات تو میں جماعت کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ وہ اِن کارخانوں کے حصے خریدے اور یہ بات مدنظر رکھ کر خریدے کہ کوئی چیز دنیا کی بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی ایسی نہ ہو جو احمدیوں کی بنائی ہوئی نہ ہو.اس طرح خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جب ہماری جماعت ترقی کرے گی تو ساتھ اسلام کی بھی ترقی ہوگی.دوسرے یہ بھی یاد رکھیں کہ چونکہ ارادہ یہ ہے کہ ہر سہ ماہی یا ششماہی کے بعد نئے لڑکے داخل کئے جاتے رہیں اس لئے باہر کی جماعتوں میں جو اچھے لڑکے ہنر سیکھنے کے شوقین ہوں ان کے متعلق اطلاع دیتے رہیں.تا ان میں سے مناسب تعدا دلڑکوں کی منتخب کر کے اسے اس کام پر لگایا جائے مگر یاد رہے کہ ایسے ہی لڑکے ہونے چاہئیں جو ہوشیار، محنتی اور پڑھے لکھے ہوں.تیسری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ احباب اس نصیحت کو بھی یاد رکھیں جو میں پہلے کر چکا ہوں کہ جن کے پاس کچھ سرمایہ پڑا ہو اور ابھی اسے استعمال نہ کرنا ہو یا اس کے استعمال کرنے میں کچھ وقفہ ڈال سکتے ہوں ، وہ اسے اپنے پاس رکھنے کی بجائے یہاں بھجوا دیں.انہیں چھ ماہ یا ایک سال تک انشاء اللہ واپس کر دیا جائے گا.( یکم اپریل ۱۹۳۷ء تک ) کل اسی فنڈ میں چوہدری غلام حسین صاحب سرگودھا نے دوسو روپے دیئے ہیں اور ایک بہن نے جو ملازمت سے ریٹائر ہو کر آئی ہیں اور انہیں ۷۷۴ روپیہ پراویڈنٹ فنڈ کا ملا ہے وہ انہوں نے بھجوا دیا ہے.پس جو دوسرے دوست یہاں بیٹھے ٹن رہے ہیں اگر ان کے پاس
خطابات شوری جلد دوم ΔΙ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء ایسی رقوم ہوں جنہیں سال یا چھ ماہ تک کے لئے بھیج سکیں تو مجھے بھجوا دیں اور اپنی اپنی جماعتوں میں جا کر تحریک کریں.اگر اس کے لئے پوری کوشش کی جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ چند دنوں کے اندراندر ۵۰،۴۰ ہزار روپیہ کا جمع ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں ہے.مالی دقت کو دُور کرنے کے لئے جلد سے جلد چند و تحریک جدید ادا کیا جائے مالی وقت کو دوست اس طرح بھی امداد کر سکتے ہیں کہ چندہ تحریک جدید میں جوشستی نظر آتی ہے اُسے چُستی سے بدل دیں.اگر کافی رقم آ گئی تو اخراجات سے جو زائد ہوگا اُسے سلسلہ کی جائداد کے قیام پر لگا دیا جائے گا.پس احباب کو کوشش کرنی چاہئے کہ جلد سے جلد تحریک جدید کا چندہ ادا ہو.اس کی ادائیگی سال کے آخر تک نہ رہنی چاہئے.اس کا بقایا ایسا ہی شرمناک ہے جیسی کہ ناک کٹ جائے کیونکہ اس کے متعلق بار بار کہا گیا ہے کہ جس نے جس قدر ادا کرنا ہو اُسی قدر وعدہ لکھائے اور وعدہ لکھانے یا نہ لکھانے کا اسے اختیار ہے.پس جن لوگوں نے اس قدر احتیاط کے بعد چندہ لکھوایا ہوا گر وہ ہستی کریں تو انتہاء درجہ کی غفلت پر یہ امر دلالت کرے گا.پس دوست تحریک جدید چندے سب کے سب پورے کریں اور جلد سے جلد پورے کریں.سوائے اشد مجبوری کے سال تک انتظار نہ کریں.اور میں پھر ایک دفعہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ جس نے یوں ہی چندہ لکھوا دیا تھا اور وہ ادا نہیں کر سکتا وہ اب بھی اپنا نام کٹوا دے.ورنہ میں تو ایسے شخص کو منافق سمجھنے پر مجبور ہوں گا جس نے اپنی آزاد مرضی سے چندہ لکھوایا بغیر اس کے کہ اُس پر کسی قسم کا جبر کیا گیا ہو اور پھر اپنے وعدہ کو پورا نہ کیا اور اپنے پیدا کرنے والے خدا سے دھوکا کیا.یا پھر اُسے ثابت کرنا ہوگا کہ اُس پر کوئی ایسی ناگہانی آفت گری کہ جس کی وجہ سے اس کے لئے چندہ ادا کرنا ناممکن ہو گیا.مگر معمولی عذر اور ایسی مالی تنگی جو عام طور پر ہو ہی جایا کرتی ہے ہرگز کافی عذر تسلیم نہ ہوگا.تبلیغ کے لئے کچھ نہ کچھ عرصہ وقف کیا جائے (۴).چوتھی بات میں یہ کمپنی چاہتا ہوں کہ تبلیغ کے لئے کچھ نہ کچھ عرصہ وقف کرنے کی تحریک میں نام لکھانے میں غفلت نہ کی جائے سوائے اس کے کہ جسے چھٹی نہ مل سکے.جیسے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب ہیں.باقی سب کو اس میں حصہ لینا
خطابات شوری جلد دوم ۸۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء چاہئے.جو زیادہ رخصت لے سکیں وہ تین ماہ کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں لیکن کم سے کم جس قدر رخصت مل سکے وہ بھی لے لینی چاہئے.ہر ایک جماعت اپنے اپنے ممبروں کی فہرستیں بھجوا دے اور کوئی فرد ایسا باقی نہ رہے جو کچھ نہ کچھ وقت نہ دے.سوائے اس کے جو دے ہی نہ سکے.یعنی جس کے پاؤں نہ ہوں یا اس رنگ کی کوئی اور معذوری ہو.نیشنل لیگ کور کا قیام (۵) نیشنل لیگ کور کے قیام کی طرف بھی احباب کو توجہ کرنی چاہئے.اس کی اصل غرض نو جوانوں کو کام کرنے کی طرف توجہ دلانا ہے.جہاں نیشنل لیگ کو ر نہ ہو وہاں احمدیہ کور میں نو جوانوں کو داخل کر کے منظم کرنا چاہئے.پنشنز اصحاب قادیان میں دینی کام کریں! (۲).جو دوست پیشنر ہیں وہ قادیان میں آکر سلسلہ کا کام کرنے کی کوشش کریں کیونکہ اس وقت کام بہت زیادہ ہے اور کام کرنے والے کم ہیں.پانچ سات ایسے دوست اب بھی کام کر رہے ہیں جن کا بیان ہے کہ تھوڑے سے عرصہ میں انہیں اتنا کام کرنا پڑا جتنا اُنہوں نے ساری عمر نہ کیا تھا.خان صاحب فرزند علی صاحب اور خان صاحب برکت علی صاحب کی شہادت ہے کہ انہیں یہاں سرکاری ملازمت کی نسبت بہت زیادہ کام کرنے کی توفیق حاصل ہو رہی ہے.دراصل دین کا کام ہی ایسا ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں پنشنز احباب اگر یہاں آجائیں اور سلسلہ کے کام سرانجام دیں تو ان کے لئے بھی اور سلسلہ کے لئے بھی بہت مفید ہو سکتا ہے.چوہدری صادق علی صاحب پنشن لینے کے بعد جب یہاں آگئے تو بیمار تھے.اب بھی ان کی صحت کوئی ایسی اچھی نہیں لیکن ان کے سپر د درس کے مرتب کرنے کی نگرانی کا کام کر دیا گیا ہے جسے وہ بڑے شوق اور سرگرمی سے کر رہے ہیں.پس یہ ثواب کے کام یادگار رہ جاتے ہیں.جب بھی کام کرنے والوں کا نام سامنے آ جاتا ہے تو پڑھنے والے شکر گزار دل کے ساتھ اُن کے لئے دعا کرتے ہیں.پس اس طرف بھی احباب کو توجہ کرنی چاہئے.قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ کی اشاعت (۷).ساتویں بات یہ ہے کہ قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ کی اشاعت کے لئے مولوی شیر علی صاحب کو ولایت بھیجا گیا ہے انہوں نے طباعت کے
خطابات شوریٰ جلد دوم ۸۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء خرچ کا جو اندازہ بھیجا ہے وہ یہ ہے کہ اگر دس ہزار قرآن کریم چھپوائیں تو 9 شلنگ في قرآن خرچ آئے گا.یعنی توے ہزار شلنگ ہم ہزار پونڈ جو ساٹھ ہزار روپیہ کے قریب بنتا ہے.گویا ۶ روپے فی قرآن لاگت آتی ہے.ممکن ہے خرچ اس سے بڑھ جائے اور ممکن ہے کم ہو جائے.دوستوں کو اس کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے.اگر ابھی سے اس کے خریدار بنا لئے جائیں تو قرآن کریم کے چھپتے ہی رقم مل سکتی ہے.ایک اور تجویز بھی زیر غور ہے اور وہ یہ کہ آکسفورڈ کا ایک مشہور پر لیس ہے.اُس نے اپنے سرمایہ سے قرآن کریم چھاپنے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے.ان کی طرف سے شرائط آنے پر فیصلہ ہو سکے گا کہ ہم انہیں منظور کر سکتے ہیں یا نہیں.اخبارات کی اشاعت بڑھائی جائے (0) (۸).آٹھویں بات یہ ہے کہ کئی باراخبارات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے مگر اب تک پوری توجہ جماعت نے نہیں کی.بعض جگہ الفضل کی ایجنسیاں قائم کی گئی تھیں الفضل والے شکایت کرتے ہیں کہ ایجنٹ محنت نہیں کرتے اور بعض الفضل“ کی رقم ادا نہیں کرتے.یہ نہایت افسوس ناک بات ہے.مومن کے متعلق تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر اس کے پاس قطار ہوں تو اُن میں بھی خیانت نہیں کرتا.”الفضل کی بکری کی رقم ہی کتنی بنتی ہے کہ وہ بھی ادا نہیں کی جاتی.جہاں ”الفضل کی ایجنسی کا بقایا ہو وہاں کے احباب کو اس کے ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اخبار کی اشاعت بڑھانی چاہئے.الفضل کی اشاعت کم از کم ۴، ۵ ہزار ہونی چاہئے.اب ۱۷، ۱۸ سو اس کی عام بکری ہے.خطبہ نمبر کچھ زیادہ چھپتا ہے.سن رائز والے بھی شکایت کرتے ہیں کہ اشاعت کم ہے حالانکہ اس کے ذریعہ انگریزی جانے والے لوگوں میں اچھا کام ہو رہا ہے.اور غیر مبائعین ان لوگوں میں جو زہر پھیلاتے ہیں اس کا علاج سن رائز کے ذریعہ اچھی طرح ہو رہا ہے.میں اخبار کی ایجنسیاں قائم کرنے کی تحریک اخبارات کی ترقی کے لئے ہی نہیں کرتا بلکہ بے کاروں کو کام پر لگانے کے لئے بھی کرتا ہوں.میں نے بار بار توجہ دلائی ہے کہ اگر کوئی شخص مہینہ میں ایک روپیہ بھی کما سکتا ہے تو بھی وہ ضرور کام کرے.جب تک ہم اس طرف توجہ نہ کریں گے اُس وقت تک به حیثیت جماعت نہ روحانیت مضبوط ہوگی اور نہ دنیوی حالت.یہ خیال کہ اتنی آمد ہو تب
خطابات شوری جلد دوم ۸۴ کام کروں گا ورنہ نہیں بہت نقصان رساں ہے.بریکاروں کو کام پر لگائیں مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء میں دوستوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ اپنے اپنے ہاں جا کر بے کارلوگوں کو کام پر لگانے کی کوشش کریں.خواہ کسی کام سے کتنی ہی کم آمدنی ہو.کتابوں اور اخبارات کی ایجنسیاں قائم کی جائیں اور اپنی اپنی جماعت کے متعلق اس قسم کے نقشے بھجوائے جائیں کہ کتنے لوگ بے کار ہیں اور کتنے لوگوں کو کسی نہ کسی کام پر لگایا گیا ہے.بے کار خواہ کتنے ہی معمولی کام پر اپنے آپ کو لگا دیں اِس سے انہیں آگے چل کر بہت فائدہ ہوگا.ان کے اندر کام کرنے کی اتنی طاقت پیدا ہو جائے گی کہ دوسرا اس کا اندازہ نہیں کر سکے گا اور اس کے شاندار نتائج نکلیں گے.مہمان خانہ کی وسعت میں احباب حصہ لیں (۹).نویں بات یہ ہے کہ مہمان خانہ کی تنگی کی وجہ سے مہمانوں کو دوسرے مکانوں میں ٹھہرانا پڑتا ہے اور اس کے متعلق منتظمین کو شکایت ہے کہ زیادہ ملازم رکھنے پڑتے ہیں اور باوجود اس کے کہ خرچ زیادہ کیا جاتا ہے پھر بھی مہمانوں کو تکلیف پہنچتی ہے اسلئے کوشش کی گئی ہے کہ مہمان خانہ کا ایک حصہ بنالیا جائے تاکہ مہمان وہاں ٹھہریں.اس کی تعمیر شروع ہو چکی ہے جس کے خرچ کا اندازہ ۸ ہزار ہے.بابوسراج الدین صاحب نے جو مخلص احمدی ہیں اور صیغہ ضیافت میں آنریری کام کرتے ہیں اس میں ایک ہزار روپیہ دیا ہے.باقی خرچ کے متعلق میں تحریک کرتا ہوں کہ جو دوست حصہ لے سکتے ہیں وہ لیں.(۱۰).دسویں بات جو میں بیان کرنا چاہتا ہوں بہت اہم ہے مگر ریز روفنڈ کا قیام افسوس ابھی تک اس کی طرف بہت کم توجہ کی گئی ہے.اگر احباب پوری طرح اس کی طرف توجہ کریں تو اس کے فوائد یقینی ہیں ، مالی ہی نہیں بلکہ تبلیغی بھی ، وہ ریز روفنڈ کا قیام ہے.مجلس مشاورت میں جب میں نے اس کے لئے تحریک کی تو ایک دوست نے کہا کہ ایک لاکھ روپیہ میں جمع کر کے دوں گا لیکن جہاں تک میرا خیال ہے اُس کی طرف سے پانچ روپے بھی نہیں پہنچے.ایک بزرگ کے متعلق حضرت خلیفہ اول سناتے کہ وہ امراء کے گھروں میں جاتے اور اُن سے مانگ کر کچھ نہ کچھ رقم لے آتے ، پھر وہ لوگوں کو دے دیتے.کسی نے کہا آپ اس طرح بلا ضرورت کیوں مانگتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب
۸۵ خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاو مشاورت ۱۹۳۶ء دیا کہ امیر لوگ صدقہ نہیں دیتے.میں اُن سے مانگ کر لاتا ہوں اور دوسروں کو دے دیتا ہوں تا کہ وہ دعا دیں اور اس صدقہ کا ثواب ان امراء کو پہنچے اور وہ عذاب سے بچ جائیں.جب میں نے ریز روفنڈ قائم کیا تھا تو کہا تھا اپنے غیر احمدی دوستوں، رشتہ داروں اور دوسرے لوگوں سے چندہ لے کر دیا جائے.جماعت کی ایک کافی رقم دوسروں پر خرچ ہوتی ہے اور دوسری اقوام کی تحریک میں ہم ہمیشہ حصہ لیتے ہیں پھر کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے احباب اُن سے امداد طلب نہ کریں.ہر شخص کے کچھ نہ کچھ دوست ہوتے ہیں.اگر وہ دیانتداری سے اپنے واقفوں اور دوستوں سے ریز روفنڈ جمع کرے تو یقیناً ہر احمدی ایک دو روپیہ سے لے کر ایک دو ہزار روپیہ سال تک چندہ جمع کر سکتا ہے.اور اگر سب احمدیوں کی اوسط وصولی پانچ پانچ روپے بھی رکھی جائے اور دس ہزار مرد و عورت یہ کام کریں تو آسانی سے پچاس ہزار سالانہ رقم جمع کی جاسکتی ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اگر دوست اپنی ذمہ داری کو سمجھیں تو اس طرح ایک لاکھ روپیہ سالانہ سے بھی زائد وہ جمع کر سکتے ہیں مگر افسوس تو یہ ہے کہ دوست اس طرف توجہ نہیں کرتے.مجھے یقین ہے کہ اس فنڈ کے قائم ہونے سے عظیم الشان نتائج دینی بھی اور دنیوی بھی پیدا ہو سکتے ہیں یعنی ثواب کا ثواب اور ملک کی اصلاح الگ.اگر اس فنڈ سے غرباء کی بے روزگاری بھی دور کرنے کی کوشش کی جائے تو ہم ایک مستقل یادگار قائم کر سکتے ہیں.پس یہ ایک ایسی تجویز ہے کہ جس پر ہر ایک عمل کر سکتا ہے یعنی کچھ نہ کچھ رقم جمع کر سکتا ہے اور کوئی شخص ایسا نہیں ہو سکتا جو کچھ بھی جمع نہ کرے گا.اگر فرض کر لو کہ کسی کا کوئی بھی دوست نہ ہو تو وہ واقفوں اور آشناؤں سے مانگ سکتا ہے.اگر فرض کرو گو یہ پہلے سے زیادہ ناممکن ہے کہ اس کا کوئی واقف بھی نہ ہو تو وہ سڑک پر کھڑا ہو کر یا ریل میں مسافروں سے سوال کر کے کچھ رقم جمع کر سکتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ جو لوگ اس تحریک میں حصہ نہیں لیتے ، اس لئے نہیں لیتے کہ ان کے نفس مرے ہوئے نہیں اور وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں فقیر نہیں بننا چاہتے.اس وقت تک اس فنڈ میں جو رقم جمع ہوئی ہے اس میں سب سے زیادہ حصہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا ہے مگر ان کی کوشش میں بھی دو سال سے کمی آگئی ہے.میں پھر دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ چاہے وہ کسی درجہ کے ہوں اس فنڈ کے جمع کرنے
خطابات شوری جلد دوم ۸۶ مجلس مشاو مشاورت ۱۹۳۶ء میں شرما ئیں نہیں.آپ لوگوں میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ اس فنڈ میں کچھ نہ کچھ جمع کرنے کا عہد کرے.خواہ کوئی ایک روپیہ یا ایک پیسہ ہی جمع کر کے لائے اور اگلی مجلس شوری تک کوئی ایسا نہ رہے جو کچھ نہ کچھ جمع نہ کرے.اگر کسی کے لئے یہ موقع نہ ہو کہ وہ دوسروں سے مانگ سکے تو وہ دوسروں کی کوئی خدمت کر کے ہی کوئی اُجرت وصول کرے اور اُسے اس فنڈ میں دے دے مگر اس فنڈ میں کچھ نہ کچھ داخل ضرور کرے.چونکہ اس وقت ہر ایک سے فرداً فرداً پوچھنا مشکل ہے اس لئے میں اعلان کرتا ہوں کہ جنہوں نے اپنے دل میں عہد کر لیا ہو کہ وہ اس فنڈ کے جمع کرنے میں حصہ لیں گے خواہ وہ حصہ ایک پیسہ ہی ہو یا دس ہزار روپیہ ہو، وہ کھڑے ہو جائیں.‘“ اس پر تمام نمائندگان نے کھڑے ہو کر اقرار کیا کہ وہ کچھ نہ کچھ ضرور جمع کریں گے.اس پر حضور نے فرمایا :- ”سب کے سب دوست کھڑے ہو گئے ہیں جن کی تعداد ۴۳۷ ہے اور مجھے کم از کم اتنے پیسوں کی ضرور امید رکھنی چاہئے کہ جمع ہو جائیں گے.یہ بھی امید ہے کہ وہ دوسرے دوستوں میں بھی اس کی تحریک کریں گے اور پھر ہر جماعت مجھے اطلاع دے کہ اتنے دوستوں نے اس فنڈ میں حصہ لینے کا وعدہ کیا ہے.یہ بات یاد رکھو کہ جتنی رقم کا کوئی وعدہ کرے وہی لکھی جائے اُسے بڑھانے کے لئے نہ کہا جائے.پھر جو دوسری مجلس شوریٰ ہوگی (اکتوبر ۱۹۳۶ء میں ) اُس وقت میں اس پر تبصرہ کروں گا کہ دوستوں نے اس تجویز کے متعلق کیا کام کیا ہے.میں اس تحریک کے لئے کم از کم ایک پیسہ رکھتا ہوں.اگر کوئی شخص اس عرصہ میں ایک پیسہ بھی کسی سے حاصل نہ کر سکا تو وہ مجلس مشاورت میں شرکت کے لئے آتے وقت اسٹیشن پر کھڑا ہو کر مانگ کر لے آئے یہ چندہ احمدی کے سوا ہر ایک سے لیا جاسکتا ہے خواہ وہ کوئی ہو یہ صدقہ نہیں بلکہ چندہ ہے اور کوئی شخص مجاز نہ ہوگا کہ اپنے پاس سے یا کسی احمدی سے لے کر یہ رقم ادا کرے.امانت فنڈ میں احباب حصہ لیں (۱۱).گیارہویں بات یہ ہے کہ امانت فنڈ میں حصہ لیا جائے.دوستوں نے پہلے سال کافی حصہ لیا مگر اس سال اس میں کمی آگئی ہے حالانکہ کمی کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ تین سال کے بعد نقد یا
خطابات شوری جلد دوم ۸۷ مجلس مشاو مشاورت ۱۹۳۶ء جائداد کی شکل میں ادا کر دینے کا وعدہ ہے ان کا مال پھر ان کو مل جائے گا.مگر دوستوں کو پھر اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اس میں بہر حال فائدہ ہے اور نقصان کی کوئی صورت نہیں اور ثواب مزید برآں ہے.قادیان کی ترقی دشمن کے ضعف کا باعث ہوگی اور اس میں حصہ لینے والوں کو ثواب ہوگا نیز ان کا روپیہ جمع ہوتا رہے گا ممکن ہے کہ اس سے کچھ زیادہ ہی واپس ملے.ہمارے ہر کام میں سنجیدگی، اس کے بعد میں پھر جماعت کو ان چند آیات کی طرف جو میں نے اس وقت پڑھی ہیں توجہ دلاتا متانت اور استقلال ہونا چاہئے ہوں.میں نے کل بھی کہا تھا کہ ہمارے ہر ایک کام میں سنجیدگی ، متانت اور استقلال ہونا چاہئے.اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ مومن کے لئے اللہ کا کلام حَبلُ اللہ ہوتا ہے اور باتوں کو تو جانے دیں اگر کسی کا ہاتھ گورنر کے ہاتھ میں ہو یا اُس کا ہاتھ وائسرائے کے ہاتھ میں ہو یا اُس کا ہاتھ بادشاہ کے ہاتھ میں ہو تو اُس کی باتوں میں کتنی متانت اور سنجیدگی ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ رسول کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی نسبت فرماتا ہے کہ وہ ایسا ہی ہے کہ گویا تم نے خدا تعالیٰ کے ہاتھ پر بیعت کی.گویا خدا تعالی بیعت کو خدا کے ہاتھ میں ہاتھ دینا قرار دیتا ہے اور کلام اللہ کو حَبلُ اللہ کہتا ہے.ایسی صورت میں کیسی سنجیدگی اور کتنا وقار مومن میں ہونا چاہئے.پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ دنیا کو فتح اللہ تعالیٰ مومن کا امتحان لیتا ہے کرنے اور دنیا میں صداقت پھیلانے کے ارادوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی یا درکھیں کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں اپنے ہاتھ دیئے ہیں اور دوسروں میں اور ان میں کوئی نسبت ہی نہیں.ایک چھوٹا بچہ جب ہاتھ اُٹھا کر کسی بڑے انسان سے کہتا ہے کہ میں چپیڑ ماروں گا تو وہ مسکراتا ہے کہ کیا بیہودہ بات کہتا ہے.اسی طرح مومن کے خلاف جب دنیا کہتی ہے کہ اسے مٹا دیا جائے گا تو وہ اسے بچہ سے بھی حقیر ہستی سمجھتا ہے.پس یہ روح اور یہ معرفت ہونی چاہئے اور اس معرفت کے لئے اللہ تعالیٰ امتحان لیتا ہے.دیکھو! ماں جب بچہ کو اٹھانے لگتی ہے تو دیکھ لیتی ہے کہ اس نے پاخانہ تو نہیں کیا ہوا ؟ اگر کیا ہو تو صاف کر لیتی ہے یا گرد اور مٹی لگی ہو تو اُسے جھاڑ دیتی ہے.اگر
خطابات شوری جلد دوم ۸۸ مجلس مشا مشاورت ۱۹۳۶ء ماں بچہ کو اُٹھاتے وقت یہ احتیاط کرتی ہے تو سمجھ لو قدوس خدا نجس انسان کو اٹھاتے وقت کتنی احتیاط کرے گا.پس وہ بھی صفائی کرنا چاہتا ہے.اس کے متعلق فرماتا ہے.وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ المُجْهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّبِرِينَ ، وَنَبْلُوا اخْبارَكُمْ کہ اے مومنو! ہمارے اندر تمہاری محبت ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ تمہیں اپنے قریب کریں لیکن چونکہ ہماری ذات مقدس ہے اس لئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ تمہیں نجاست تو نہیں لگی ہوئی تا کہ اسے جھاڑ کر تمہیں اپنی گود میں اٹھا لیں.پس جب ہم تمہیں جھاڑیں تو گھبرانا نہیں.اس کی صورت یہ ہوگی کہ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ.ہم تمہارا امتحان لیں گے، تمہاری آزمائش کریں گے.حتى تعلم المُجْهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّبِرِيین یہاں تک کہ ہم جان لیں اور دنیا پر یہ کھل جائے اور روشن ہو جائے کہ تم میں سے کون مجاہد ہے اور کون صابر.مومن کے دو درجے خدا تعالیٰ نے مومن کے دو درجے بتائے ہیں.ایک مجاہد اور دوسرا صابر.پہلا درجہ مجاہد ہے اور دوسرا صابر.مجاہد کے معنے ہیں خدمت کرنے والا، قربانی کرنے والا.فرمایا جب تک یہ پتہ نہ لگے کہ تم خدمت کرنے والے اور قربانی کرنے والے ہو ہم تمہیں اُٹھا نہیں سکتے.جیسا کہ جماعت سے مطالبے کئے گئے ہیں کہ خاص چندے دو، تبلیغ کرو، اپنی روحانی اور اخلاقی اصلاح کرو.ان مطالبات کو پورا کرنے والے مجاہد ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مومن کے لئے پہلا امتحان یہ ہے کہ اپنے آپ کو مجاہد ثابت کر سکے اور اس طرح خدا تعالیٰ کے قریب ہو جائے.مگر یہ تحرب عارضی ہوتا ہے کچھ دیر گود میں بٹھایا جاتا ہے اور پھر اُٹھا دیا جاتا ہے لیکن ایک قرب وہ ہوتا ہے جو مستقل ہوتا ہے.وہ صابر کا قرب ہوتا ہے.صابر کے معنی ہیں ایک بات پر قائم ہو جانے والا یعنی جو نیکیاں بھی اختیار کرے وہ اُس کی جزو بدن بن جائیں، اُس سے الگ نہ ہوسکیں.صابر بننے کے بعد ہر وقت خدا تعالیٰ اس کے ساتھ رہتا ہے.جس طرح یہ مجاہدہ میں مستقل رہ کر صابر بنتا ہے خدا تعالیٰ بھی اُسے مستقل جلوہ دکھاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کا عجیب نقشہ کھینچا ہے.ایک کاپی پر آپ کا لکھا ہوا ایک نوٹ تھا جس میں لکھا تھا.دنیا مجھ سے چاہتی ہے کہ میں خدا تعالیٰ کو چھوڑ دوں اور سب لوگ کوشش کرتے ہیں کہ میں اُس سے الگ ہو جاؤں مگر یہ کس طرح ہو
۸۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء خطابات شوری جلد دوم سکتا ہے.جب سارے کے سارے لوگ مجھے چھوڑ کر الگ ہو جاتے ہیں اور سب دنیا سو رہی ہوتی ہے تو خدا تعالیٰ میرے پاس آتا ہے اور مجھے اپنا جلوہ دکھاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تیرے ساتھ ہوں.پس وہ خدا جو مصائب کے اندھیروں اور مصیبتوں کی تاریکیوں میں میرا ساتھ نہیں چھوڑتا اُسے میں کس طرح چھوڑ دوں.مجاہد اور صابر میں فرق یہ صابرین کا حال ہوتا ہے کہ جو نیکی اختیار کی اُس پر قائم ہو گئے.یہ نہیں کہ کبھی چندہ دیا کبھی نہ دیا، کبھی تبلیغ کی کبھی نہ کی، ہے یہ مجاہد کا حال تو ہو سکتا ہے صابر کا نہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَنَبْلُوا أَحْبَارَكُمْ.پھر ہم ظاہر کر دیں گے تمہارے اخبار کو.خبر کے معنی ہیں وہ بات جو کسی چیز کے متعلق پھیل جائے.اور خبر محاورہ میں اُسے بھی کہتے ہیں جو مستقل بات ہو کیونکہ کسی کے متعلق وہی بات پھیلتی.جس پر وہ مستقل طور پر قائم ہو اس لئے خبر محاورہ کے طور پر مستقل اخلاق کو بھی کہہ سکتے ہیں.تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے ہم تمہارے پوشیدہ اخلاق کو اس طرح تمہارے جسم پر جاری کر دیں گے کہ لوگوں میں ان اخلاق کی وجہ سے تمہارے خاص نام پڑ جائیں گے.جیسے حاتم اور رستم وغیرہ کو سخاوت اور شجاعت کے نام مل گئے ہیں یا جیسے مذہبی دنیا میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام امین اور صدوق بعثت سے پہلے مشہور ہو گیا تھا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعویٰ کیا تو آپ نے لوگوں کو جمع کر کے فرما یا بتاؤ کبھی میں نے جھوٹ بولا ؟ سب نے کہا نہیں.گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس قدر صداقت کا اظہار کیا کہ دشمن کو بھی اس کا اقرار کرنے کے سوا چارہ نہ رہا.تو فرمایا دنیا میں اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے تمہیں شہرت دی جائے گی.سب لوگ کہیں گے یہ بڑے غریب پرور، بڑے رحم دل، بڑے عادل اور بڑے راست باز ہیں.خدا کی راہ میں بڑی فراخ دلی سے خرچ کرتے اور نیکی کے کام بڑے جوش سے کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی جماعت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا آگے فرمایا.ان ان نيت كَفَرُوا وصَدُّوا عَن سَبِيلِ اللهِ وَ شَاقُوا الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى " لَن يَضُرُّوا اللهَ شَيْئًا وسَيُخيطُ اعْمَالَهُمْ.مذکورہ بالا جماعت کے خلاف جو لوگ ہماری باتوں کو رڈ کریں
خطابات شوری جلد دوم ۹۰ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء گے اور اللہ کے رستہ سے روکیں گے اور رسول سے اختلاف کریں گے بعد اس کے کہ ہدایت ظاہر ہو گئی اس سے وہ لوگ بھی مراد ہیں جو منکر ہیں مگر وہ بھی ہیں جو جماعت میں داخل ہو گئے مگر عملی طور پر انکار کرتے ہیں اور دوسروں کو نیک اعمال سے روکتے ہیں.کہتے ہیں یونہی روپیہ ضائع کیا جا رہا ہے.کیوں خرچ کرتے ہو؟ اس سے کیا فائدہ ہے؟ غرض ایسے لوگ بھی مراد ہیں جنہوں نے ایمان لا کر عملی رنگ میں کفر کیا وہ لوگ لَن يَضُرُّوا الله شيئًا.اللہ تعالیٰ کو ہرگز کوئی نقصان نہ پہنچاسکیں گے اور اُس کی جماعت کا وہ کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے.وہ اپنا ہی نقصان کریں گے.ابھی تھوڑا عرصہ ہوا ایک شخص کے متعلق اعلان کرایا گیا تو سُنا ہے اُس نے کہا میں یہ کروں گا وہ کروں گا مگر اس کے ایک بھائی نے لکھا کہ ہمیں اس کی علیحدگی کی کوئی پرواہ نہیں اور ہم اسے کچھ وقعت نہیں دیتے.غرض ایسے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمارے نکلنے سے سلسلہ کو نقصان ہوگا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے یہ غلط ہے ان کا اپنا ہی نقصان ہوگا.عبداللہ بن ابی بن سلول کے متعلق جب اُس کے بیٹے کو معلوم ہوا کہ اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے ادبی کی ہے.تو اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اگر اسے سزا دینی ہو تو مجھے حکم دیا جائے.میں خود اسے سزا دوں گا تا کہ کسی اور کے سزا دینے سے شیطان مجھے نہ ورغلائے.تو فرمایا وَ سَيُخيطُ اعْمَالَهُمْ.اللہ ان کے اعمال گرا دے گا.بعض لوگ نیکیاں کرتے ہیں وہ قائم نہیں رہتیں کیونکہ بعد میں وہ ایسے اعمال کرتے ہیں کہ ان کی وجہ سے نیکیاں گر جاتی ہیں.فرمایا یہ طریق بالکل غلط ہے کہ کچھ اعمال کرنے کے بعد جب بدلہ ملنے کا وقت آئے تو بیہودہ حرکت کر دیتے ہیں اور اپنے پہلے عمل یونہی ضائع کر دیتے ہیں.اے مومنو! تمہارا کام یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو مگر یاد رکھو کبھی انکار کر کے ساری اطاعت کو ہی نہ بگاڑ لینا.دنیا میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو بڑی بڑی خدمات کے بعد اجر سے محروم رہ جاتے ہیں جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک کا تب وحی تھا جو مرتد ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بھی ہم دیکھتے ہیں بعض لوگ بڑے اخلاص کا اظہار کرتے تھے مگر بعد میں مرتد ہو گئے.غیر مبائعین کو ہی دیکھ لو.پہلے ان کی حالت اچھی تھی مگر جب انہوں نے ٹھو کر کھائی تو وہی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو
خطابات شوری جلد دوم ۹۱ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء حضور حضور کہا کرتے تھے انہی میں سے کہنے والے پیدا ہو گئے کہ ظل پر تو جوتیاں مارنی بھی جائز ہیں.پھر فرماتا ہے.اِنّ الّذينَ كَفَرُوا وَ صَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ مَاتُوا وَهُمْ كُفَّارُ فَمَن يَغْفِرَ اللهُ لَهُمْ - وہ لوگ جو کُفر کرتے اور اللہ تعالیٰ کے رستے سے روکتے ہیں پھر اسی حالت میں مرجاتے ہیں اللہ اُن کو معاف نہیں کرتا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کوئی وقت اپنے اوپر ایسا نہ آنے دے جبکہ وہ نیکی نہ کر رہا ہو.کبھی کمزوری نہ دکھاؤ پھر فرمایا.فَلَا تَهِنُوا وَتَدْعُوا إِلَى السّلْمِ وَ انْتُمُ الاعلون واللهُ مَعَكُمْ وَلَن يَتِرَكُمْ أَعْمَالَكُمْ.اگر تم چاہتے ہو کہ کامیابی حاصل کرو تو تم کو چاہئے کبھی کمزوری نہ دکھاؤ.کیونکہ مومن جب نیچے گرتا ہے تو کفر کی طرف جاتا ہے.پس کبھی کمزوری نہ دکھاؤ اور دشمن کو صلح کیلئے نہ بلاؤ.جب لڑائی شروع ہو جائے تو تمہارا یہی کام ہے کہ فتح حاصل کرو یا موت.اس کے درمیان ٹھہرنے کی کوئی جگہ نہیں.مومن خود لڑائی شروع نہیں کرتا بلکہ پوری کوشش کرتا ہے کہ لڑائی نہ ہو لیکن جب لڑائی شروع ہو جائے تو پھر فتح یا موت کے سوا پیچھے نہیں ہلتا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے تم میں سے دشمن کو کوئی صلح کے لئے نہ بلائے.تم نے منتیں سماجتیں کر لیں کہ لڑائی نہ کرو، مگر کوئی پرواہ نہ کی گئی.اب دو ہی صورتیں ہیں فتح یا شہادت تیسری کوئی صورت نہیں.دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ جو روحانی، اقتصادی اور بعض حالتوں میں نیم سیاسی جنگ شروع ہے اس میں ہرگز جائز نہیں کہ ہم صلح کا پیغام دیں.جب دشمن نے لڑائی شروع کر دی تو پھر پوری طاقت سے مقابلہ کرو اور مومن بنو.مومن وہی ہوتا ہے جو یا تو میدانِ جنگ میں کامیابی حاصل کرتا ہے یا مر جاتا ہے.وہ یا تو شہادت کا درجہ پالیتا ہے یا اسلام کی فتح کا جھنڈا لہراتا ہوا واپس ہوتا ہے.واللهُ مَعَكُمْ وَلَن يَتِرَكُمْ أَعْمَالَكُمْ.پھر تمہارے لئے خدا کی مدد ہے.خدا تمہارے ساتھ ہے.اس نے اپنا ہاتھ تمہارے ہاتھ پر رکھا ہے اور پھر اس کا وعدہ ہے کہ تمہارے اعمال میں کمی نہ آئے گی پھر تمہیں کس بات کا ڈر ہے.دنیا کی زندگی کیا ہے انما الحيوةُ الدُّنْيَا لَعِب وَ لَهُؤ.یہ یاد رکھو کہ دنیا کی زندگی لہو ولعب ہے یعنی جس طرح ورزش ہوتی ہے اسی طرح - یہ زندگی ہے.ورزش ناجائز نہیں ہوتی لیکن اس کا فائدہ محدود ہوتا ہے.وہ خود مقصود نہیں ہوتی
خطابات شوری جلد دوم ۹۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء بلکہ بڑے کاموں کا ذریعہ ہوتی ہے.اس میں یہ مقصود نہیں کہ دنیا کھیل ہے اسے چھوڑ دو.بلکہ یہ مقصد ہے کہ دنیا میں اس حد تک مشغول ہو جس حد تک ورزشوں میں مشغول ہونا جائز ہے.۱۵،۱۴ سال کا عرصہ گزرا میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اور چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب اور ایک اور شخص ایک جگہ بیٹھے ہیں.وہ تیسرا شخص اب یاد نہیں رہا کہ چوہدری صاحب پر یا مجھ پر یا اور کسی تیسرے شخص پر اعتراض کرتا ہے کہ وہ ورزش کیوں کرتا ہے؟ اس طرح تو وقت ضائع ہوتا ہے.اس پر میں اُسے جواب دیتا ہوں کہ بعض خدا تعالیٰ کے بندے ایسے ہوتے ہیں جن کے لئے ورزش ضروری ہوتی ہے ورنہ دین کو نقصان پہنچتا ہے اور اگر وہ ورزش نہ کریں تو گنہگار ہوں.اُس وقت میرے دل میں خیال گزرتا ہے کہ میں بھی تو ورزش میں سُستی کر جاتا ہوں اور یہ نہیں چاہئے.غرض ورزش ضروری ہے لیکن ایک حد تک.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے بھی موگریاں رکھی ہوئی تھیں.آپ سیر کے لئے بھی با قاعدہ جایا کرتے تھے.تو لعب کلی طور پر منع نہیں صرف اس پر ایک حد بندی ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنیا کی طرف توجہ بھی منع نہیں لیکن لعب کی حدود کے اندر اس میں مشغول ہونا چاہئے اور اسے اصل مقصود نہیں قرار دینا چاہئے.اصل مقصود دین ہے.دوسری تشبیہہ دنیا کولہو سے دی ہے.اس میں غفلت پائی جاتی ہے.انسان چاہتا ہے آرام ملے.جیسے نیند ہے، مرد و عورت کے تعلقات ہیں، بچوں اور بیوی کی محبت ہے، یہ امور بھی جائز ہیں مگر جو شخص رات دن ان کاموں میں لگا ر ہے عیاش کہلاتا ہے.اسی طرح جو شخص دین کو چھوڑ کر دُنیا میں لگ جائے عیاش کہلائے گا.وان تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا يُؤْتِكُمْ أُجُورَكُمْ و لا يَسْتَلكُمُ آسوا لكم.اگر تم اس طرح کرو گے تو انعام ملے گا.اللہ تم سے اموال نہیں مانگتا بلکہ تجارت کے طور پر معاملہ کرتا ہے.ان يَسْتَلْكُمُوهَا فَيُحْفَكُمْ تَبْخَلُوا و يُخرج اصْفاً نَكُمْ.اگر وہ اصرار سے تمہارے مال مانگے تو بے شک تم نخل کرنے لگ جاؤ گے اور اس طرح وہ تمہارے اندرونی گندوں کو ظاہر کر دے گا لیکن وہ ایسا نہیں کرتا بلکہ تم کو اصلاح کا موقع دیتا ہے - هانتُم هَؤُلَاءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللہ.فرمایا تم وہ ہو جن کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے بلایا جاتا ہے.فمنكُمْ من يَبْخَلُ وَ مَن يَبْخَلُ فَإِنَّمَا يَبْخَلُ عَن نَّفْیس.پھر بھی تم میں سے بعض لوگ بجل
خطابات شوری جلد دوم ۹۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء کرتے ہیں اور جو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے بخل کرتا ہے اس کا نجل اسی کے لئے مضر ہوگا کیونکہ دین کی راہ میں خرچ کرنا تو ایک تجارت کی طرح ہے اور بڑھ بڑھ کر اس سے نفع حاصل ہوتا ہے.مومن کے لئے قربانی اس دُنیا میں بھی مفید ہوتی ہے ہر مومن کو یہ گر یاد رکھنا چاہئے کہ جتنی قربانیوں کا اُس سے مطالبہ کیا جاتا ہے وہ اس دُنیا میں بھی اس کے لئے مفید ہوتی ہیں اور کوئی قربانی اسلام کی ایسی نہیں جس کا دُنیا میں ہی فائدہ نہ ہو.مثلاً جہاد کے لئے روپیہ مانگا تو اس سے کتنا عظیم الشان انقلاب مال دینے والوں پر آ گیا.اُن کی حالت بالکل بدل گئی وہ دُنیا کے حکمران بن گئے.اسی طرح اب جب ہم تبلیغ پر روپیہ خرچ کرتے ہیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جماعت ترقی کرتی جاتی ہے.تعلیم و تربیت پر روپیہ صرف کرتے ہیں تو جماعت میں دینی ودنیوی تعلیم پھیلتی جاتی ہے.غرض کوئی ایک پیسہ بھی ایسا خرچ نہیں ہو رہا جس کے متعلق سمجھیں کہ ضائع ہو گیا یا اس سے کئی گنا بڑھ کر فائدہ نہ ہو رہا ہو.فرمایاد الله الغني وانْتُمُ الْفُقَرَاء - یاد رکھو تم فقیر ہو اور اللہ غنی ہے.اور جب غنی فقیر سے مانگے تو بڑھا کر دینے کے لئے ہی مانگے گا.وان تتولّوا يَسْتَبْدِلَ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثمَّ لَا يَكُونُوا آمَثالَكُمْ.اور یاد رکھو اگر تم پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے تو اللہ ایک اور قوم کو کھڑا کر دے گا جو تمہارے جیسی نہ ہوگی بلکہ تم سے بہتر ہوگی کیونکہ خدا تعالیٰ جب کسی چیز کو بدلتا ہے تو اس سے بہتر لاتا ہے.یاد رکھو دوسرا دھگا نہ لگے جماعت کے ہر فرد کو یاد رکھنا چاہئے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کی راہ میں اور اس کے دین کی خدمت کے لئے کام کرتے ہیں ان کو بہتر بدلا ملنے کی امید ہے لیکن جو اس میں روک بنتے ہیں خدا تعالیٰ پہلے ان کو تباہ کرے گا اور پھر دشمن پر تباہی لائے گا.یستبدِل قَوْمًا غَيْرَكُمْ کا یہ مطلب نہیں کہ خدا تعالی ساری قوم کو تباہ کر دیتا ہے بلکہ یہ ہے کہ جو کمزور اور سکتے ہوں ان کو نکالتا جاتا ہے اور مخلصین اور کام کرنے والوں کو داخل کرتا جاتا ہے.جیسا کہ غیر مبائعین کے متعلق ہوا ، اُن کو نکال کر خدا تعالیٰ نے اُن سے ہر طرح سے بہتر داخل کر دیئے.اب جماعت کو
خطابات شوری جلد دوم ۹۴ مجلس مشاو مشاورت ۱۹۳۶ء یا د رکھنا چاہئے کہ دوسرا دھگا نہ لگے جب کہ پہلے لگ چکا ہے کہ کچھ لوگوں کو جو احمدیت کی اشاعت اور ترقی میں روک بن رہے تھے، الگ کر دیا.صدر انجمن سے خطاب پھر میں صدر انجمن کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے آپ کو خلیفہ کا ہاتھ سمجھے، پورا پورا تعاون کرے.ایسے لوگوں کو سلسلہ کے کام پر لگایا جائے جو خلیفہ کا پورا ادب اور احترام کرنے والے ہوں ، تعاون کرنے والے ہوں اور جو ایسا نہ ہو اُس کی اصلاح کی جائے اور اگر اصلاح نہ ہو تو انہیں نکال دیا جائے.اسی طرح جو کارکن ہیں انہیں سمجھنا چاہئے کہ وہ ہتھیار ہیں اُن کا اپنا کوئی وجود نہیں، جب خلافت قائم ہو تو سارے وجود اس میں مدغم ہو جاتے ہیں کیونکہ خلیفہ دماغ ہوتا ہے اور تمام جوارح کا فرض ہوتا ہے کہ دماغ کے تابع چلیں اور اگر کوئی شخص نہیں چل سکتا تو وہ کام چھوڑ دے اور تفرقہ یا شستی سے اس سکیم کو نقصان نہ پہنچائے جو جاری کی گئی ہو.اسی طرح میں بیرونی جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ بیرونی جماعتوں سے خطاب جو سکیم ان کے سامنے پیش کی جا رہی ہے اسے قرآن کریم سے پر کچھ کر دیکھ لیں ایک لفظ بھی اس سے باہر نہ ہو گا جو کچھ کہا گیا ہے اسی کی روشنی میں کہا گیا ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ میں نہیں بولتا بلکہ بالا ہستی میری زبان سے بولتی ہے.غور کر کے دیکھ لو کہ جب بھی میری باتوں کو یاد نہیں رکھا گیا یا اُن پر عمل نہیں کیا گیا جماعت کو سخت نقصان پہنچا ہے.اگر تبلیغ کے متعلق میری ہدایات کو مدنظر رکھا جاتا اور ریز روفنڈ کی سکیم پر عمل کیا جاتا تو احراری فتنہ نہ اُٹھتا.میری ان باتوں کو نہ سمجھے تو یہ سزا ملی اور اگر اس سزا پر بھی نہ سمجھو گے تو پھر کوئی اور عذاب نازل ہوگا.پس یا درکھو ہماری ترقی کے دروازے کھل چکے ہیں جب کہ خدا تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ آنتُمُ الأَعْلَوْنَ وَاللَّهُ مَعَكُمْ وَلَن يتركُمْ أَعْمَالَكُمْ.لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے آپ کو ان دروازوں میں داخل ہونے کے قابل بنائیں.میں آپ لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ تمہیں یاد دلاتے دلاتے بڑی عمر گزرچکی ہے.اب قطعا سستی اور کوتاہی نہیں ہونی چاہئے اور سب قوت اجتماعی اور انفرادی کو اکٹھا کر کے سلسلہ کے لئے لگا دینا چاہئے اور یہ تہیہ کر لینا چاہئے کہ اب یا تو فتح حاصل کریں گے یا پھر موت.تا کہ شیطان کا سر کچلا جائے اور ہماری آنکھیں بھی اسلام کی
خطابات شوری جلد دوم ۹۵ مجلس مشاو مشاورت ۱۹۳۶ء ترقی اور عروج دیکھ سکیں.ہم تو بڑا اعلیٰ مقصد لے کر کھڑے ہوئے ہیں ادنی ادنی باتوں کے لئے لوگ بڑی بڑی قربانیاں کرتے رہتے ہیں.گزشتہ جنگ عظیم کے دوران میں ایک موقع پر انگریزی کیبنٹ مشورہ کر رہی تھی کہ فلاں محاذ پر گولہ بارود کی جو کمی ہے اس کے متعلق کیا کیا جائے.اس لئے وزراء مشورہ کر رہے تھے کہ لارڈ ینگ کمانڈر انچیف افواج کا تار وزیر اعظم کو ملا کہ اب آخری وقت آن پہنچا ہے، جرمنی نے پورے زور سے آخری حملہ کر دیا ہے اور آپ کی امداد کا وقت نہیں رہا، اب آخری اور فیصلہ کن جنگ ہو رہی ہے.مسٹر لائڈ جارج نے جو اُس وقت وزیر اعظم تھے جب یہ تار پڑھا تو دوسرے وزراء سے مخاطب ہو کر کہا کہ دوستو! تدبیروں کا وقت جاتا رہا، اس وقت ہماری فوج دیوار سے پیٹھ لگائے ( یہ انگریزی محاورہ ہے آخری جد وجہد کے متعلق ) مقابلہ کر رہی ہے اب سوائے خدا کے ہماری کوئی مدد نہیں کر سکتا، آؤ اس سے التجاء کریں اور یہ کہہ کر وہ گھٹنوں کے بل گر کر دعا میں مشغول ہو گئے.یہ وہ لوگ ہیں جو د ہر یہ کہلاتے ہیں اور جن کا خدا تعالیٰ پر نہایت ہی قلیل ایمان ہے.ہمارے لئے اس سے زیادہ خطرناک وقت اور کون سا آ سکتا ہے.ایمان سے زیادہ قیمتی چیز اور کیا ہوسکتی ہے.دشمن اس پر حملہ آور ہو رہا ہے اور تمام طاقتیں مل کر حملہ کر رہی ہیں.حکام میں سے بھی بعض ان سے مل گئے ہیں اور رعایا میں سے بھی ، عیسائی بھی سکھ بھی، ہندو بھی ، امراء بھی اور غرباء بھی، بڑے بھی اور چھوٹے بھی، پیشہ ور بھی اور علم والے بھی ، کالجوں کے طالب علم بھی اور مدرسوں کے لڑکے بھی.آؤ خدا تعالیٰ کے حضور گر جائیں غرض سب نے مل کر اس چھوٹی سی جماعت پر حملہ کر دیا ہے.اب خدا کے نام پر آؤ ہم بھی خدا تعالیٰ کے حضور گر جائیں اور کہیں الہی ! جو کچھ ہم کر سکتے تھے وہ ہم نے کیا مگر ہمارے ہاتھ ٹوٹ چکے ہیں اور ہماری طاقتیں شل ہو گئی ہیں.اے خدا تو ہی ہماری مدد کر.ہم جو کچھ کر سکتے ہیں اُس کے لئے تو ہی توفیق دے اور ہماری مدد فرما کیونکہ تیرے سوا اور کوئی طاقت نہیں جو ہمیں مدد دے سکے.پس تو آسمان سے فرشتے ہماری مدد کے لئے بھیج.ہم بے کس اور بے قوی ہیں لیکن ہماری ذمہ داری بہت بڑی ہے، ہم کمزور اور ناطاقت ہیں لیکن کام بہت مشکل ہے تو ہی ہماری مدد کر کہ تیرے سوا کوئی مدد کرنے والا نہیں.
خطابات شوری جلد دوم ۹۶ مجلس مشاو مشاورت ۱۹۳۶ء آؤ اس نیت اور اس ارادہ سے دشمن کے مقابلہ میں کھڑے ہو جائیں اور جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ سب خدا تعالیٰ کے لئے قربان کر دیں.اسلام اور قرآن کی جو عظمت ہے کیا اس کے مقابلہ میں ہماری جانیں اور مال کچھ بھی عزت رکھتے ہیں؟ اگر قرآن کریم کی ایک زیر یا ایک زبر مٹنے لگے اور اس کے بچانے کے لئے ہم اپنی جانیں اور اپنے مال اور اولا د قربان کر دیں تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے کوئی بڑی قربانی کی.پھر اس وقت جب کہ سارا قرآن ہی خطرہ میں ہے، سارا اسلام ہی چُور چُور ہو رہا ہے تم سمجھ سکتے ہو ہمارے لئے کس کوشش کی ضرورت ہے.سو آؤ ہم پوری طرح عہد کر لیں کہ اب ہم سستی کی گھڑی اپنے پر آنے نہ دیں گے.اپنی جانوں اور اپنے مالوں اور اپنی اولادوں اور اپنی عزتوں کو بے دریغ اس کے لئے قربان کرتے چلے جائیں گے اور دُنیا کے آنے والے تغیر کا سورج دو باتوں میں سے ایک ہی دیکھے گا یا تو ہماری اور ہماری اولادوں کی لاشوں کو اور یا پھر وسیع اُفق سے اسلام کے فتح کی خوشی میں اُڑتے ہوئے جھنڈے کو.اے خدا! تو ہمیں اس عہد کے باندھنے اور پھر اس کے نباہنے کی توفیق دے.اے اسلام کے بھیجنے والے! تُو ہی ہمارے دل کا اخلاص بن جا اور ہمارے بازؤوں کی طاقت ہو جا کہ تیرے بغیر ہم کچھ نہیں اور تیرے ساتھ ہم سب ہی کچھ ہیں.اللَّهُمَّ امِینَ.“ " ( مطبوعہ رپورٹ مجلس مشاورت اپریل ۱۹۳۶ء) ا محمد : ۳۲ تا ۳۹ الحديد: ۱۷ مسلم کتاب الایمان باب بيان حكم عمل الكافر (الخ) السيرة الحلبية جلد ۲ صفحہ ۱۶۰.مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء ۵ سیرت ابن هشام جلد ۳ صفحہ ۱۰۰.۱۰۱.مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء المائدة: ۲۵ الوصیت صفحه ۲۳ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۲۱ مسلم كتاب البر والصلة باب فضل الضُّعَفَاء (الخ) تذکرہ صفحه ۵۳۹.ایڈیشن چہارم ا ال عمران : ااا
خطابات شوری جلد دوم ۹۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء مسلم كتاب فضائل الصحابة باب من فضائل على (الخ) ۱۲ سٹریٹ سیٹلمنٹ : ملایا میں برطانیہ کی سابق شاہی کو آبادی ۱۳ سیرت ابن هشام جلد ۳ صفحه ۱۰۱،۱۰۰.مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء للافی : لالہ کی مؤنث ها وسرا: ہندوؤں کا تہوار جو اسوج کی دسویں تاریخ کو راجہ رام چندر جی کے راون پر فتح پانے کی یاد میں منایا جاتا ہے.دیال باغ (آگرہ): Dayalbagh Agra - یہ آگرہ (انڈیا) سے ۱۵ کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ایک معروف جگہ ہے جہاں رادھا سوامی کی یادگار بھی ہے.
خطابات شوری جلد دوئم ۹۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء منعقده ۲۳ تا ۲۵ را کتوبر ۱۹۳۶ء بار دوئم ) پہلا دن جماعت احمدیہ کی مالی ترقی کا جائزہ لینے اور مزید بہتری کے لئے غوروفکر کی خاطر ۱۹۳۶ء میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے ارشاد کے مطابق مجلس مشاورت کا انعقاد بار دوئم مورخه ۲۳ تا ۲۵ اکتوبر کو ہوا.۲۳ را کتوبر ۱۹۳۶ء کو افتتاح سے قبل دُعا کے بارہ میں حضور نے فرمایا : - دعا - تلاوت قرآن کریم کے بعد میں تمام نمائندگان مجلس شوری اور دوسرے تمام احمدی احباب سے جو بطور وزیٹر اس جگہ موجود ہیں میں یہ خواہش کرتا ہوں کہ سب مل کر اس بات کے لئے دعا کریں کہ جن امور کے غور کرنے کے لئے ہم جمع ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ ان میں ہماری صحیح طور پر راہنمائی فرمائے اور ہمارے قلوب میں ایسی صفائی فرمائے کہ وہ اس کی منشاء معلوم کرنے کا آئینہ بن جائیں.ایک کثیف چیز ایک غبار آلود آئینہ بھی اس بات کی امید نہیں کر سکتا کہ ایک حسین اور جمیل ہستی کی شکل دکھائے ، تو ہمارے وجود جو خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں غبار آلود آئینہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتے ان کے متعلق ہمیں کس طرح بھروسہ ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی منشاء ان پر جلوہ گر ہو، سوائے اِس کے کہ خالقِ ارض وسماء اس بگڑے ہوئے آئینہ کو درست کر کے اپنی شکل دیکھنے کے قابل بنا دے.تب اورصرف تب ہم امید کر سکتے ہیں کہ اُس کے فضل اور اُس کی عنایت سے نہ صرف اپنے لئے درست راہ نمائی حاصل کر سکیں بلکہ دوسروں کے لئے بھی راہ نما بن سکیں.
خطابات شوری جلد دوئم مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء ہمارا کام بہت بڑا ہے اور ہماری ذمہ داری بہت بھاری ہے اور جب تک خدا تعالیٰ کا فضل نہ ہو ہم وہ کام نہیں کر سکتے جو ہمارے سپرد کیا گیا ہے پس ہمیں عجز اور انکسار کے ساتھ اور اس یقین اور ایمان کے ساتھ کہ ہمارا خدا نہایت طاقتور ہے اور اُسے ساری طاقتیں ہیں وہ جو چاہے کر سکتا ہے اور ہم سچے دل کے ساتھ یہ اقرار کریں کہ ہم بے حد کمزور اور نا تواں ہیں نہ کہ منافقانہ طور پر منہ سے تو کہیں کہ ہم کچھ نہیں لیکن ہمارا دل کہتا ہو کہ ہم سب کچھ ہیں.آؤ! خدا تعالیٰ سے دعا کریں کہ ہماری کمی کو پورا کر دے، ظلمت کو نور سے بدل دے.ہماری کمزوری کو طاقت سے تبدیل کر دے، ہماری جہالت کو علم سے بدل دے.ہماری کو تا ہیاں ہوشیاریوں سے اور ہمارے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دے، ہمارے دلوں کی سردی کو عشق کی گرمی سے بدل دے اور ان تمام نقائص کو جو خدا تعالیٰ کے نور کے آگے روک بن سکتے ہیں دور کر کے اپنے فرشتے نازل کرے تا کہ جو کام ہم نہیں کر سکتے اسے خدا تعالیٰ کی فوجیں آسمان سے نازل ہو کر کریں.“ 66 افتتاحی تقریر تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا :- جیسا کہ احباب کو معلوم ہے کہ مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس خاص اجلاس ہے یعنی پہلے جو سالانہ اجلاس مقرر ہے اُس کے علاوہ ایک خاص مضمون پر غور کرنے کے لئے یہ اجلاس منعقد کیا گیا ہے اس لئے اس میں صرف اسی مضمون پر غور کیا جائے گا جس کے متعلق پچھلی مجلس شوری میں اعلان کیا گیا تھا.سوائے اس کے کہ کوئی خاص ضرورت محسوس ہو جو اس وقت ذہن میں نہیں ہے، اُسے اس اجلاس میں زیرغور لایا جا سکتا ہے.اس اجلاس کا ایجنڈا دوستوں کو پہنچ چکا ہے.اس میں درج ہے کہ : - (۱) آیا تمام جماعتوں کے چندوں کے بقائے صاف ہو چکے ہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟ (۲) آیا تمام جماعتوں نے چندے با قاعدہ ادا کئے ؟ اگر نہیں تو کیوں؟ (۳) بقالوں کے صاف کرنے اور چندوں کی ادائیگی میں باقاعدگی پیدا کرنے میں کیا کیا وقتیں پیش آئیں؟ (۴) جماعت جس مالی تنگی میں سے گزررہی ہے اس کے کیا کیا علاج ہو سکتے ہیں؟
خطابات شوری جلد دوئم 1+1 مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء ان چاروں باتوں کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے تین کا جواب تو نمائندوں نے دینا ہے اور ایک کا جواب سلسلہ کے مرکزی دفاتر کے کارکنوں اور نمائندوں نے مل کر دینا ہے.حسب دستور پہلے میں اس بارہ میں ایک سب کمیٹی یا ایک سے زیادہ سب کمیٹیاں بناؤں گا جو ان مسائل پر الگ غور کر لیں ، پھر عام اجلاس میں ان پر غور کر لیا جاوے گا.یہ امر کہ ایک کمیٹی مقرر کی جائے یا کئی اس کے متعلق بعد میں مشورہ لوں گا.پہلے میں بعض باتیں دوستوں سے کہنا چاہتا ہوں تا کہ جو سب کمیٹی کے ممبر ہوں وہ ان کو مدنظر رکھ کر غور کریں.پہلی چیز میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ گومشورہ دینے والوں کو اختیار ہے کہ جو چاہیں مشورہ دیں اور مشورہ لینے والے کی مرضی ہے کہ جو مشورہ چاہے قبول کرے.تاہم بعض باتیں ایسی ہیں جن میں وقت صرف کرنا مفید نہیں ہو گا.مثلاً چوتھا امر یہ ہے کہ وہ مالی تنگی جس میں سے جماعت گزر رہی ہے اس کے کیا علاج ہو سکتے ہیں؟ اس کے متعلق میں بیان کرنا چاہتا ہوں کہ میری کیا رائے ہے اور جو مشورہ اس کے متعلق دیا جائے گا اس پر کس نقطہ نگاہ سے غور کروں گا.میں یہ بات پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور اب بھی وضاحت کے ساتھ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میں اس یقین پر قائم ہوں کہ جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ فلاں کام مُصر ہے اُس وقت تک اس کام کو جسے جاری کیا جا چکا ہے بند کرنا میرے نقطہ نگاہ سے درست نہیں.میں اس بات پر غور کرنے کے لئے تیار ہوں اگر یہ کہا جائے کہ فلاں فلاں کام بند کر دیئے جائیں مگر اُس وقت جب کہ یہ ثابت کر دیا جائے کہ ان کا چلانا سلسلہ کے لئے مہنر ہے میں مشورہ کا دروازہ اس بارے میں بند نہیں کرتا اگر کوئی صاحب اس کے متعلق مشورہ دینا چاہیں.مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ سکول بند کر دیئے جائیں تو میں اس مشورہ کو سننے کے لئے تیار ہوں مگر قبل از وقت بتا دیتا ہوں کہ اسے ماننے کے لئے تیار نہ ہوں گا جب تک یہ ثابت نہ کر دیا جائے کہ سکولوں کا جاری رہنا سلسلہ کے لئے مھر ہے.یا مثلاً یہ کہا جائے کہ ولایت کا مشن بند کر دینا چاہئے ، میں اس بات کو سننے کے لئے تیار ہوں مگر اس پر عمل کرنے بلکہ اس پر غور کرنے
خطابات شوری جلد دوئم ۱۰۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء کے لئے اُسی وقت تیار ہوں گا جب ایسے دلائل پیش کئے جائیں جن سے یہ ثابت ہو کہ یہ کام اسلام اور سلسلہ کے لئے مُصر ہے، صرف اس لئے اس پر غور کرنے کے لئے تیار نہ ہوں گا کہ سلسلہ پر اس کی وجہ سے مالی بوجھ پڑتا ہے کیونکہ اگر مالی بوجھ ہلکا کرنا مدنظر ہو تو پھر سارے کام بند کر دینے سے زیادہ آسانی اور سہولت ہو جائے گی جس طرح باقی مسلمان اس قسم کے بوجھ سے آزاد ہیں، نہ وہ ایسے کام کرتے ہیں اور نہ انہوں نے ان کے کرنے کی ذمہ داری اُٹھائی ہے، اسی طرح اگر ہم بھی کریں تو ہر شخص کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ایک دو کام بند کرنے کی نسبت تمام کام بند کر دینے سے زیادہ آسانی اور سہولت حاصل ہو جائے گی.پس اگر کام ہی بند کرنے ہیں تو پھر مجلس شوری کے منعقد کرنے اور مشورہ لینے کی ضرورت ہی نہیں.سب کام بند کئے اور اپنے اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھ رہے.لیکن اگر ہماری زندگی کا مقصد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کریں تو پھر ہمارا نقطہ نگاہ یہ نہیں ہوسکتا کہ فلاں کام بند کرنے سے اتنی بچت ہو سکتی ہے بلکہ یہ ہونا چاہئے کہ جس کام کے کرنے کا ہم نے ذمہ لیا ہے اُس کے خرچ کے لئے کیا طریق اختیار کریں.شاید بعض لوگ کہیں کہ اور بھی کئی کام مفید ہیں.اگر ہمارا نقطہ نگاہ یہی ہے تو پھر ہمیں اُن کو بھی جاری کر دینا چاہئے میں اس بات کو وزن دینے کے لئے تیار ہوں مگر میرا نقطہ نگاہ پھر بھی نہیں بدل سکتا کیونکہ کوئی کام شروع کر کے بند کر دینا اور بات ہے اور شروع ہی نہ کرنا اور بات.مثلاً ہمیں اختیار ہے کہ دشمن جس سے جنگ کرنا جائز ہو جنگ کا سامان تیار کرنے کے لئے اُس سے جنگ کا اعلان کرنے میں توقف کریں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں اس کی مثال موجود ہے.دشمنوں نے ایسی حرکات کیں جن کی وجہ سے ان کے خلاف اعلانِ جنگ کرنا جائز ہو گیا تھا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلانِ جنگ نہ کیا اور اس کے کرنے میں دیر کی مگر آپ کی زندگی سے ہی یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ لڑائی شروع کرنے کے بعد پھر اس سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے.کوئی اس کا نام حماقت رکھے یا عدم تدبر رکھے مگر حقیقت یہ ہے کہ جس جنگ کو شروع کر دیا جائے اُس سے پیچھے ہٹنا جائز نہیں ہے.بے شک ایک دو مثالیں ایسی ہیں جن کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ ان میں
خطابات شوری جلد دوئم ۱۰۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء کیا ہوا؟ ان میں قدم کیوں پیچھے ہے؟ مگر ان کا جواب یہ ہے کہ غلطی ہوئی اور ان کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں.میں اُس مشورہ میں شامل تھا اور میں تسلیم کرتا ہوں کہ میری بھی غلطی تھی جیسے دوسرے مشورہ دینے والوں نے غلطی کی.مگر یا درکھنا چاہئے خدا تعالی بعض اوقات غلطی کرواتا ہے تا کہ بات واضح ہو جائے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نماز میں غلطی کرائی گئی تاکہ یہ مسئلہ واضح ہو جائے کہ جب امام سے غلطی ہو تو کیا کرنا چاہئے.پس میں سمجھتا ہوں وہ ہماری غلطی تھی ، سوائے اس کے کہ اسے متحرفا لقتال او متحيزا إلى رفقة میں لے آئیں.مگر میں نے اس بارے میں غور نہیں کیا اور اس وقت میرا یہی خیال ہے کہ ہم نے غلطی کی اور بعض تکلیفیں اس کی وجہ سے اُٹھا ئیں.ممکن ہے غور کرنے سے میرا یہ خیال بدل جائے مگر اب تک یہی ہے.پس ایک تو میں دوستوں کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر ایسا مشورہ دیں کہ فلاں کام بند کر دیا جائے تو ساتھ ہی اس کے وجوہ بھی بتائیں کہ اس کام کو جاری رکھنا سلسلہ کے لئے مضر ہے صرف مالی تنگی کی وجہ سے کسی صورت میں بھی کسی کام کو بند کرنے کے متعلق غور کرنے کے لئے میں تیار نہ ہوں گا.پس میں اپنے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ بہادر مومن کی طرح ان معاملات پر غور کریں بُزدل دُنیا دار کی طرح غور نہ کریں.مگر ساتھ ہی میں یہ نصیحت بھی کروں گا کہ دیانت دار مومن کی طرح غور کریں یعنی اگر دیانتداری سے یہ سمجھتے ہوں کہ فلاں تجویز پیش کرنی چاہئے تو اسے ضرور پیش کر دیں.محض اس وجہ سے کہ میں نے کہہ دیا ہے میں کسی کام کو بند کرنے کی تجویز پر ہمدردانہ غور نہ کروں گا جب تک اُس کے مھر ہونے کے دلائل نہ پیش کئے جائیں، کوئی تجویز پیش کرنے سے باز نہ رہیں.اگر کسی امر کے متعلق ان کو کامل یقین ہو کہ وہ اسلام کے لئے مفید ہے تو اُسے پیش کر دیں.پھر میں یہ بھی ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ زیادہ گہرے غور اور فکر سے ان سوالات کو دیکھیں پچھلی سب کمیٹی نے زیادہ گہرے غور سے ان امور کو حل نہیں کیا.میں نہیں کہہ سکتا کہ اُس وقت اگر ان سب کمیٹیوں میں میں بھی ہوتا تو ان سے اختلاف رکھتا مگر آج جب کہ اس سوال کو یعنی مالی تنگی کے سوال کو حل کرنے کے لئے میں نے اپنے قلب کو پڑھا ، یا یہ کہنا
خطابات شوری جلد دوئم ۱۰۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء درست ہو گا کہ خدا تعالیٰ نے اس بارے میں میرے قلب پر روشنی ڈال دی تو ہم اس سوال کے حل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں بشرطیکہ جماعت کا معتد بہ حصہ (یہ میں اس لئے کہتا ہوں کہ جماعت میں منافق بھی ہیں اور کمزور بھی ) یعنی مخلصین اس بات کے لئے تیار ہوں کہ وہ ایسی اہم تجاویز پر شرح صدر سے عمل کریں گے جو زندگیوں پر اثر انداز ہونے والی ہیں.اس طرح ہم نہ صرف پیش آمدہ مشکلات کو دور کر سکیں گے انشاء اللہ تعالیٰ ، بلکہ پہلے کی نسبت زیادہ ترقی بھی کرسکیں گے.میں نے تحریک جدید کے شروع میں ہی بتایا تھا کہ الہی سلسلے روپے سے نہیں چلتے بلکہ اخلاص سے چلتے ہیں اس لئے ہم اُسی وقت کامیاب ہو سکتے ہیں جب کہ ہمارے کاموں کی بنیاد روپیہ پر نہیں بلکہ اخلاص پر ہو.ہمارے لئے روپیہ کے ذریعہ کام کرنا ناممکن ہے اس لئے غور کرتے وقت یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ ہمارے کام کی بنیاد روپیہ پر نہیں بلکہ اخلاص پر مبنی ہو.دیکھو صحابہ کے مقابلہ میں ہماری جماعت کتنی وسیع ہے مگر میں یہ نہیں خیال کر سکتا کہ اس وقت ہمیں کئی لاکھ کی جماعت میں سے دس ہزار سپاہی بھی آسانی سے مل سکتے ہیں کیونکہ آجکل کے لحاظ سے دس ہزار سپاہی رکھنے کے یہ معنے ہیں کہ کم از کم چار پانچ لاکھ روپیہ مہینہ ان پر خرچ کیا جائے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس وقت جب کہ ہماری تعداد کی نسبت آپ کے صحابہ حکم تھے اور کم روپیہ رکھتے تھے ، دس ہزار سپاہی جمع کر لئے.اس کی وجہ کیا تھی؟ یہی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت کام اخلاص پر ہوتا تھا، روپیہ پر نہیں، اس وجہ سے آدمیوں کا ملنا ناممکن نہ تھا اور یہ سوال ہی نہ تھا کہ فلاں حد تک ہم قربانی کریں گے اس سے آگے نہیں بلکہ یہ کہا جاتا تھا کہ کوئی حد بندی نہیں، جہاں چاہیں لے جائیں.چنانچہ بدر کے موقع پر صحابہ نے کہا یا رسول اللہ ! ہم سے آپ کیا پوچھتے ہیں.یہ سامنے سمندر ہے، ارشاد ہو تو اس میں گھوڑے ڈال دیں یکے اس سے ظاہر ہے کہ مومن دین کے لئے قربانی کرتے وقت کوئی شرط نہیں جانتا بلکہ حکم کا منتظر رہتا ہے اور جب کوئی جماعت اس مقام پر قائم ہو جائے تو پھر روپیہ کی کمی اُس کی ترقی میں روک نہیں بن سکتی.میں نے کہا ہے کہ میں اس کے لئے تیار نہیں ہوں کہ کوئی جاری شدہ کام بند کر دیا
خطابات شوری جلد دوئم ۱۰۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء جائے لیکن اگر کوئی کام خود بخود بند ہو جائے تو ہو جائے مثلاً سکول کے کارکن مخلص نہ ہوں ، چار پانچ یا آٹھ دس ماہ کا بقایا ہو جائے اور وہ مدرسہ چھوڑ کر چلے جائیں اور سکول بند ہو جائے مگر میں جانتا ہوں کہ سکول بند نہ ہوگا.اگر ہم اسے جاری رکھنے کی کوشش کریں مگر کامیاب نہ ہوں اور کام کرنے والے کام چھوڑ کر چلے جائیں تو ایک دن بھی کام بند نہ ہوگا کہ ان کے قائم مقام جو ان سے بہت زیادہ مخلص ہوں گے مل جائیں گے.دیکھو! یہ کہیں نہیں آیا کہ ہم نے مومنوں کو روپیہ دیا ہے.قرآن کریم میں ایسی چیزوں کا نام آتا ہے جن کو خدا نے بنایا ہے.قرآن نے مال کا نام لیا ہے اور مال روپیہ کو نہیں کہتے بلکہ ہر اُس چیز کو کہتے ہیں جسے ترقی دی جا سکے اور جس سے غلبہ حاصل ہو اور یہ چیز مومن کے پاس ہر وقت موجود ہوتی ہے.پس میں جانتا ہوں کہ اگر ہمارا کوئی کام بند ہونے لگے تو خدا تعالیٰ ایسے سامان پیدا کر دے گا کہ وہ جاری رہے.لیکن اگر اس کی مصلحت اسے بند ہی رکھنا چاہے تو پھر ہم پر ذمہ داری عائد نہیں ہوگی مگر جسے ہم خود بند کریں اُس کی ذمہ داری ہم پر عائد ہوگی.سب کمیٹی کو یہ بات اچھی طرح مد نظر رکھنی چاہئے کہ ہمیں خود کوئی کام بند نہیں کرنا چاہئے اور اگر خود کوئی کام بند ہو جائے تو اس سے ہم ڈرتے نہیں اور حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے پاس مشکلات کو دور کرنے کے سامان موجود ہیں بشرطیکہ ہمارے کاموں کی بنیاد اخلاص پر ہو.پھر ہمیں یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہئے کہ گورنمنٹ کے کام میں اور ہمارے کام میں فرق ہے.گورنمنٹ کے پاس ٹیکس بڑھانے کے ہی سامان نہیں لوگوں کی آمد بڑھانے کے بھی ذرائع ہیں.جرمنی نے ٹیکس بڑھائے تو ساتھ ہی لوگوں کی آمد بھی بڑھائی ، ترکوں نے ٹیکس بڑھائے تو آمدنی بھی بڑھائی، اٹلی نے ٹیکس زیادہ کئے تو آمدنی کے ذرائع بھی پیدا کئے مگر ہمارے اختیار میں یہ بات نہیں ہے.ہماری جماعت پھیلی ہوئی ہے اور حکومت ہماری مقدرت میں نہیں ہے اس لئے ہمیں بجٹ بڑھانے کی بنیاد دُنیاوی گورنمنٹوں سے مختلف قرار دینی ہوگی.ایک حکومت جو ٹیکس بڑھاتی ہے وہ لوگوں کی آمد بھی بڑھاتی ہے اس پر اعتراض نہیں
خطابات شوری جلد دوئم 1+4 مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء کیا جاتا مگر ہم ٹیکس تو بڑھا سکتے ہیں لیکن آمدنی بڑھانے کے کافی ذرائع ہمارے پاس نہیں ہیں.ہم معذور ہیں، اس لئے قابل اعتراض نہیں مگر باوجود اس کے یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ ایسی صورت ہو سکتی ہے کہ جماعت کی آمد بڑھائی جائے اگر کسی کام کو کلی طور پر ہم نہیں کر سکتے تو اس کے جُزو کے ترک کرنے میں حق بجانب نہیں ہو سکتے.مَالَا يُدْرَكُ كُلُّهُ لَا يُتْرَكُ كُلُّه پس ایسے ذرائع اگر ذہن میں آئیں جن سے آمد بڑھ سکے تو ان کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے.گو میں یہ کہنے سے نہیں رہ سکتا کہ میں نے جماعت کو ایک گر بتا دیا تھا جس پر عمل نہیں کیا گیا.میں نے کہا تھا کہ کوئی شخص اپنے آپ کو بے کار نہ رہنے دے مگر اب تک سینکڑوں آدمی بیکار ہیں.میں نے جماعت سے دین کی خدمت کے لئے روپے مانگے اور وہ اس نے دے دیئے لیکن جب میں نے کہا کہ میں تمہارے بچوں کو زندگی دیتا ہوں تو اسے قبول نہ کیا گیا اور جہاں دو متضاد چیزیں جمع ہو جائیں وہاں ترقی کس طرح ہو سکتی ہے.ہماری جماعت کے لوگوں نے پہلے سے زیادہ مالی قربانی کر کے گویا اپنے آپ کو ایک رنگ میں مار دیا.ادھر اپنے بچوں کو بیکا ر رکھ کر موت لے لی اور اس طرح دو موتیں جمع ہو گئیں.حالانکہ میں نے ان کو ایک حیات دی تھی اور وہ یہ کہ اپنے بچوں کو بیکار نہ رکھو.اسے انہوں نے چھوڑ دیا.اور جو موت دی تھی وہ لے لی.اور پھر کہا جاتا ہے کہ بچوں کے لئے کوئی کام نہیں ملتا.قادیان میں ہی ایک محکمہ بیکاری کو دور کرنے کے لئے ہے مگر وہ کامیاب نہیں ہوتا.ہم نے یہاں کئی کارخانے جاری کئے ہیں مگر یہی سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ محنت زیادہ کرنی پڑتی ہے اور مزدوری تھوڑی ملتی ہے حالانکہ آوارگی اور بیکاری سے تو تھوڑی مزدوری بھی اچھی ہے.یہ قدرتی بات ہے کہ کام سیکھنے والے سے کام خراب بھی ہو جاتا ہے اور اس طرح کام سکھانے والوں کو نقصان اُٹھانا پڑتا ہے.اس وجہ سے کام سیکھنے والوں کو کم مزدوری دی جاتی ہے.کل ہی کام سکھانے والے آئے تھے جو کہتے تھے کہ کام سیکھنے والے لڑکوں نے کام خراب کر دیا ہے.طریق تو یہ ہے کہ کام سکھانے والے سیکھنے والوں سے لیتے ہیں مگر ہم تو کچھ نہ کچھ
خطابات شوری جلد دوئم ۱۰۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء دیتے ہیں مگر پھر بھی کام نہیں سیکھتے ، حالانکہ اس وقت تک ہمارے پاس کئی ہندوؤں کی چٹھیاں آچکی ہیں کہ ہمارے بچوں کو اپنے کارخانوں میں داخل کر کے کام سکھائیے.ولائت میں بھی کام سکھانے والے کام سیکھنے والوں سے لیتے ہیں مگر یہاں کہتے ہیں مزدوری کم ملتی ہے اور اس وجہ سے بچوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں.جب کہ میرا بتایا ہوا یہ گر استعمال نہیں کیا گیا تو آگے کیا امید ہو سکتی ہے کہ جو بات بتائی جائے گی اُس پر عمل کیا جائے گا مگر میرا کام یہ ہے کہ راہ نمائی کرتا جاؤں.جب تک جماعت یہ بات محسوس نہیں کرتی کہ نو جوانوں کا بریکاررہنا خطرناک ظلم ہے.اتنا خطرناک کہ اس سے بڑھ کر اولاد پر اور پھر قوم پر ظلم نہیں ہوسکتا.میں نے کہا تھا کہ چاہے ایک پیسہ کی مزدوری ملے تو بھی کرو، خواہ کوئی گریجوایٹ ہو جب تک اسے کوئی اور کام نہیں ملتا.اب اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ کہتا ہوں کہ اگر ایک پیسہ بھی نہ ملے تو بھی محنت کرو کیونکہ بیکار رہنے کی نسبت یہ بھی تمہارے لئے ، تمہارے خاندان کے لئے اور تمہاری قوم کے لئے بابرکت ہوگا.یاد رکھو جب تک تم اپنی زندگی کے لمحات مفید بنانے کے لئے تیار نہیں ہوتے اُس وقت تک غالب حیثیت سے رہنے کے بھی قابل نہیں بن سکتے.غلبہ حاصل کرنے کے لئے کام کرنے بلکہ کام میں لذت محسوس کرنے کی ضرورت ہے.اگر کسی کو کوئی کام نہیں ملتا تو وہ گھر سے نکل جائے اور وہ سڑکوں پر جھاڑ وہی دیتا پھرے مگر بیکار نہ رہے.سب کمیٹیوں کو اس طرف بھی توجہ کرنی چاہئے کہ ایسے امور پر غور کیا جائے جن کے ذریعہ جماعت کی آمد بڑھ سکے.میں کہتا ہوں ایسی تدبیریں ہو سکتی ہیں بغیر کوئی بڑی قربانی کرنے کے مگر ضرورت پختہ ارادہ اور قربانی کے جذبہ کی ہے.میں اس وقت ان باتوں کو سب کمیٹیوں پر چھوڑتا ہوں.اس کے بعد بتاؤں گا کہ بعض کام اختیار کئے جا سکتے ہیں اور مشکلات دور ہوسکتی ہیں.“ تیسرادن مجلس مشاورت کے تیسرے دن ۲۵ /اکتوبر ۱۹۳۶ء کو کارروائی کے آغاز سے قبل دعا
خطابات شوری جلد دوئم کی گئی.اس کے بعد حضور نے فرمایا : - مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء کل بعض تجاویز سب کمیٹی کے زیر غور لائی گئی تھیں اور بعض باقی رہ گئی تھیں.جن کے متعلق میں اب مشورہ لینا چاہتا ہوں.میں تفصیلاً تو اپنے خیالات بعض امور کے متعلق دورانِ بحث میں یا بعد میں بیان کروں گا مگر میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ یہ معاملہ جس پر ہم غور کر رہے ہیں اس پر دو نقطہ ہائے نگاہ سے غور کیا جا سکتا ہے.ایک دنیوی نقطہ نگاہ سے اور دوسرے روحانی نقطہ نگاہ سے.دنیوی نقطہ نگاہ سے ایک لحاظ سے اس امر کو نہایت اہمیت حاصل ہے اور ایک لحاظ سے کچھ بھی نہیں.دنیا پر نظر رکھنے والا انسان جو اس بات کو محسوس کرتا ہے کہ ہر حال میں اس جماعت کے کام کو چلانا ہے اور اس کام کو اتنی اہمیت دے گا کہ اس کا اندازہ لگانا ہی مشکل ہے کیونکہ ان حالات میں جو ہمارے ہیں کہ نہ ہمارے پاس حکومت ہے اور نہ طاقت اور نہ آمد بڑھانے کے ذرائع ہیں، اس کے لئے وہ ناممکن صورت میں دیکھے گا اور قلب میں بے چینی اور گھبراہٹ کے آثار محسوس کرے گا اور شاید کہہ سکے کہ ہم ایسی مشکل میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں.لیکن ایک اور دُنیا دار جس کے دل میں سلسلہ احمدیہ کی محبت اور اُلفت نہ ہو کہہ سکتا ہے کہ ہم نے ایک کھیل کھیلا تھا جو اب ختم ہو گیا، کوئی مزید فکر اور تر ڈ دکرنے کی کیا ضرورت ہے.اسی طرح روحانی نقطہ نگاہ سے بھی اس معاملہ کے دو پہلو ہیں.ایک لحاظ سے یہ معاملہ نہایت اہم ہے اور ایک لحاظ سے بالکل معمولی.اگر اس امر کو دیکھا جائے کہ ہماری جماعت جس موجودہ دور میں چل رہی ہے اس کے لئے جو ذ رائع مصلحت یا مجبوری یا احتیاط کے ماتحت اختیار کئے گئے ہیں ان کو جاری رکھنا چاہئے.تو یہ روحانی نقطہ نگاہ سے بھی نہایت اہم بات ہے کہ اتنی بڑی ذمہ داری جو ہم پر عائد کی گئی ہے اگر اسے پورا نہ کریں تو دُنیا کا کیا انجام ہوگا.وہ نعمت عظمیٰ جس کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہی بشارت نہ دی تھی بلکہ پہلے انبیاء بھی دیتے آئے ، وہ ہمیں حاصل ہوئی اس کے پھیلانے میں اگر ہمیں کامیابی نہ ہو تو ہمارا کیا حال ہو گا.پھر ایک روحانی مقام ایسا ہوتا ہے کہ انسان سمجھتا ہے کوئی بات نہیں اگر اس ماحول کو
1+9 مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء خطابات شوری جلد دوئم بُھول جائیں جو ہم نے پیدا کیا ہوا ہے.روحانی گروہ ہمیشہ دوطریقوں میں سے ایک اختیار کیا کرتے ہیں.یا تو وہ ایک دم بہت بڑی تبدیلی پیدا کرتے ہیں یا پھر آہستہ آہستہ ایک مقام پر لوگوں کو لاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آہستہ آہستہ اس مقام پر لانے کا کام کیا.مادیات کو نظر انداز کر کے اگر ہم دیکھیں تو ہمارا اصل مقصد دُنیا میں اس روحانیت کو قائم کرنا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لائے اس کے ساتھ اگر ظاہری سلسلے جاری کئے ہیں مثلاً مدر سے لنگر خانہ ، اخبار وغیرہ ہیں تو یہ دین کا تو حصہ نہیں تو اس طرح کوئی مشکل نہیں رہ جاتی.اس مقام پر کھڑا ہونے والا بھی ساری مشکلات کو معمولی سمجھے گا.مگر جو عقدہ ہے اور جس کا حل مشکل ہے وہ یہ ہے کہ کیا وہ وقت آ گیا ہے کہ اس طریق کو اختیار کریں یا ابھی نہیں آیا ؟ اگر وہ وقت آگیا ہے تو کوئی مشکل نہیں رہتی مگر اس کے لئے نہ صرف ان طریقوں کی قربانی کی ضرورت ہے جو ہم نے اختیار کر رکھے ہیں بلکہ بہت سے دوستوں کی قربانی کی بھی ضرورت ہے کیونکہ بہت سے لوگوں میں سے ابھی تک وہ مادیت نہیں نکلی جو عام لوگوں میں پائی جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ہماری جماعت میں تین قسم کے لوگ ہیں.ایک وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ ساری برکت مجھے ماننے میں ہے.دوسرے وہ جو مولوی صاحب کے متعلق سمجھتے ہیں کہ یہ عالم ہیں ، انہوں نے جو مانا ہے تو صحیح سمجھ کر ہی مانا ہے یا اور عالموں کے دلائل سے مانا ہے.تیسرے وہ جنہوں نے مسلمانوں کی پراگندہ حالت دیکھی اور سمجھا کہ احمدی جماعت جتھا ہے، اس میں تنظیم ہے، اس لئے شامل ہو گئے کہ اس طرح ترقی کر سکیں گے.جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ تینوں قسیمیں اب بھی موجود ہیں.گو ان کی شکلیں بدل گئی ہیں یعنی وہ لوگ جو حضرت خلیفہ اول کی وجہ سے داخل احمدیت ہوئے تھے وہ تو اب کم ہو گئے ہیں مگر اب ایسے ہیں جو اوروں کی خاطر داخل ہو گئے.پھر بعض اس لئے داخل ہو گئے کہ ان کے خاندان کے دوسرے لوگ احمدی ہو گئے.پھر وہ طبقہ جو سمجھتا تھا کہ اس جماعت کے ذریعہ مسلمانوں کی اصلاح و تنظیم کر سکتے ہیں وہ بھی آتے رہتے ہیں.وہ اپنی روحانی حالت
خطابات شوری جلد دوئم مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء کی درستی کے لئے نہیں آتے بلکہ اس لئے آتے ہیں کہ اپنی اور مسلمانوں کی دُنیوی حالت درست کریں.اس قسم کے لوگ جھڑ جائیں گے.بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ منافق اُسے کہتے ہیں جو بغیر صداقت کو سمجھے اسے قبول کرنے کا اقرار کریں گویا منافقت کی حالت میں داخل ہوئے ہیں.مگر قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ بعض لوگ پہلے مومن ہوتے ہیں مگر بعد میں منافق ہو جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت مولوی محمد علی صاحب، خواجہ کمال الدین صاحب، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب وغیرہ کی قربانیوں کو دیکھ کر کوئی کہہ سکتا تھا کہ ان کا ایمان پردہ میں ہے؟ گو اُن میں اُس وقت بھی کمزوریاں تھیں مگر کمزوریاں مومنوں میں بھی ہوتی ہیں.ہاں کمزور مومنوں اور منافقوں میں فرق یہ ہوتا ہے کہ مومن کی کمزوری روز بروز کم ہوتی جاتی ہے اور طاقت بڑھتی جاتی ہے لیکن منافق کی کمزوری بڑھتی جاتی ہے اور اخلاص کم ہوتا جاتا ہے یعنی مومن مضبوط ہوتا جاتا ہے اور منافق کمزور.مومن جب تک کامل اخلاص تک نہ پہنچ جائیں ان سے ربانی سلوک کیا جاتا ہے.بعض لوگ کہتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ تین مہینے میں اگر کوئی ایک پیسہ بھی چندہ دیتا ہے تو وہ احمدی ہے مگر اب ایک آنہ فی روپیہ ماہوار چندہ ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ قرآن کریم نے بتایا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی جماعت پہلے کونپل ہو گی اور پھر ترقی کرتی جائے گی.گویا وہ قربانیوں میں بڑھ جائے گی اور مضبوط ہو جائے گی.یہ نہیں کہ حضرت مسیح کی جماعت پہلے زیادہ ہوگی اور بعد میں کم ہو جائے گی بلکہ یہ جو فرمایا کہ پہلے کمزور ہوگی بعد میں مضبوط ہو جائے گی، اس سے ایمانی کمزوری مراد ہے.کوئی کہے پہلے مخلصین کی اس میں ہتک تو نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے وقت تھے؟ مگر نہیں.یہ تو ہو سکتا ہے کہ ان میں سے بعض میں جو اخلاص تھا وہ بعد میں آنے والوں میں پیدا نہ ہو جیسا کہ فرمایا ؎ ممکن چه خوش بودے اگر ہر یک زامت نور دیں بودے ہے ایسے اخلاص والے نہ ہوں لیکن وہ ممتاز ہستیاں جو جماعت کے لئے عمود و ستون تھیں وہ چند ہی تھیں.ممکن ہے ان کی مثال زمانہ پیدا کرنے سے قاصر رہے مگر
خطابات شوری جلد دوئم مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء یوں جماعت اخلاص اور قربانی میں ترقی کر رہی ہے.گومنافق بھی بڑھ رہے ہیں اور منافق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت بھی تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کا ذکر کیا ہے مگر اُس وقت وہ نمایاں نہ تھے کیونکہ قربانی اُس وقت ایسی معمولی تھی کہ جو مخلص کرتا تھا وہ منافق بھی کر دیتا تھا اب جو زیادہ قربانی کا وقت آیا تو منافق گرنے لگے اور مخلص قربانی اور ایثار میں بڑھتے گئے.یہ امتیاز جو اب نظر آ رہا ہے اس لئے نہیں کہ پہلے منافق نہ تھے اور آب ہو گئے ہیں بلکہ اس لئے ہے کہ پہلے منافقوں اور مومنوں میں امتیاز کا ایسا طریق نہ تھا.قرآن نے منافقوں کا نقشہ یوں کھینچا ہے کہ مجوں جوں روشنی ہوتی جاتی ہے وہ ظاہر ہوتے جاتے ہیں.مدینہ میں جب شروع شروع میں مسلمان آئے تو امن نظر آتا تھا اس لئے منافقوں کا پتہ نہ لگا مگر بعد میں جب ظلم شروع ہو ا تب انہوں نے محسوس کیا کہ امن نہیں ہوا.سارا عرب دشمن ہے، بڑی قربانیوں کی ضرورت ہے.اُس وقت منافقت ظاہر ہوتی گئی.جوں جوں لڑائیاں بڑھتی گئیں منافقت ظاہر ہوتی گئی.بدر کی جنگ کے وقت کم منافقت ظاہر ہوئی مگر تبوک کی جنگ میں منافقوں کا پردہ بالکل ہٹ گیا.غرض ربانی سلسلوں میں احتیاط کی جاتی ہے کہ صحیح وقت دیکھا جائے جب منافقوں کو مومنوں سے الگ کر دیا جائے.پس یہ دو نقطہ ہائے نگاہ ہیں.دُنیوی نقطہ نگاہ پر غور کرنے کی ہمیں ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہر احمدی روحانی پہلو لیتا ہے.مگر روحانی نقطہ نگاہ کے بھی دو پہلو ہیں.ایک یہ کہ آیا وہ وقت آ گیا ہے جب منافقوں کو الگ کر دیں یا یہ کہ درمیانی راہ اختیار کریں تا کہ وہ بھی بچ جائیں اور کام بھی چلایا جا سکے.دوست رائے دیتے وقت اس بات کو مدنظر رکھیں کہ وہ کو نسے نقطہ نگاہ کے مطابق کام کرنا چاہتے ہیں.پھر انہیں کام کرنے کے لئے روشنی مل جائے گی.میں نے دوستوں کے سامنے یہ بات کھول کر رکھ دی ہے.میرا طریق عمل تحریک جدید سے ظاہر ہے.میں جماعت کو اس طرف لا رہا ہوں کہ وہ اس مقام پر پہنچ جائے کہ جو دین کے لئے قربانی کرنا چاہے وہ آگے آجائے اور جو نہ کرنا چاہے وہ پیچھے رہ جائے.اسی وجہ
خطابات شوری جلد دوئم ۱۱۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء سے بعض لوگوں کی طرف سے تحریک جدید کی مخالفت کی جاتی ہے کیونکہ منافق سمجھتا ہے کہ اُس کے لئے موت آ رہی ہے.اُس کے چہرہ سے نقاب اُتر جائے گا اور وہ نمایاں ہو جائے گا.اس کے بعد میں آٹھویں تجویز کو لیتا ہوں جو یہ ہے:.جو انجمن مندرجہ ذیل ذمہ داری کو اپنے اوپر لینے کے لئے تیار ہو وہ اپنی جماعت کے افراد سے مشورہ کرنے کے بعد اپنے آپ کو پیش کرے کہ وہ اپنے مشخصہ بجٹ کو ہر صورت میں پورا کرے گی اور نادہندگان کے حصہ کو بھی باقی افراد انجمن پورا کریں گے.گزشتہ مجلس مشاورت کے موقع پر چوہدری صاحب نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ چندہ جماعت کے افراد پر تشخیص ہو مگر ادائیگی کی ذمہ وار ساری جماعت ہو.اگر کچھ لوگ شستی کریں اور اپنا چندہ ادا نہ کریں تو باقی افراد جماعت کا فرض ہوگا کہ تشخیص شُدہ چندہ ادا کریں.اس طرح مقامی کارکنوں کو کام کرنے کی طرف بھی توجہ ہوگی کہ اگر بعض لوگوں نے چندہ نہ دیا تو وہ بھی باقیوں کو دینا پڑے گا.اس طرح وہ زیادہ سرگرمی سے کام کریں گے اور ساری جماعت کے لوگ سُست لوگوں سے چندہ وصول کرنے کی کوشش کریں گے.اب سب کمیٹی نے اس تجویز کو اس رنگ میں پیش کیا ہے کہ اسے لازم نہ قرار دیا جائے بلکہ جو جو جماعتیں خود اپنے لئے واجب کرنا چاہیں کر لیں کہ اگر ان کا مشخصہ چندہ پورا نہ ہو تو باقی چندہ دینے والے اسے پورا کر دیں گے.اس طرح یہ جبری نہیں بلکہ طوعی تحریک ہو گئی.آمد بڑھانے کی تجاویز جماعت کی آمد بڑھانے اور بجٹ پورا کرنے کے سلسلہ میں ممبران نے مختلف تجاویز پیش کیں ان پر بحث کے بعد حضور نے فرمایا: - جہاں تک میں سمجھتا ہوں تجاویز ختم ہو گئی ہیں.میں نے ان تجاویز پر غور کیا ہے اور میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ سب کمیٹی نے حالات پر کافی حد تک غور کیا ہے اور جو تجاویز پیش کی ہیں وہ عملی اور مفید بھی ہیں لیکن جہاں تک میرا خیال ہے عملی نقطہ نگاہ سے بہت سے وقتیں
خطابات شوری جلد دوئم ۱۱۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء بھی ہیں.ہمیں صرف یہ نہیں دیکھنا ہوتا کہ کوئی چیز اچھی ہے بلکہ یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ کس حد تک اس پر عمل کیا اور کرایا جا سکتا ہے.میں سمجھتا ہوں سوائے اس کے جو قرضہ والی تحریک ہے اور یہی ایسی ہے کہ اگر اس پر زور دیا جائے اور جماعت توجہ کرے تو فوری فائدہ ہوسکتا ہے باقی ساری کی ساری ایسی ہیں کہ ہم ان سے کسی حقیقی سہولت کی جلد امید نہیں کر سکتے.جہاں تک میری رائے ہے اور بالکل ممکن ہے کہ وہ غلط ہو یہ ہے کہ درحقیقت وہ صحیح کوشش جو پیش آمدہ مشکلات کے مقابلہ کے لئے ضروری ہے ابھی تک نہیں کی گئی ، ورنہ اس قدر بار ہونے کی کوئی وجہ نہیں.جماعت کے چندہ کی رقم پہلے سے زیادہ ہے، جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے زیادہ ہے، قربانی زیادہ کر رہی ہے مگر قرضہ کھڑا ہے بلکہ بڑھ رہا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے مرکزی دفاتر ایک طرف جاتے ہیں تو دوسری طرف کو بالکل بھول جاتے ہیں.اگر سارے امور کو مدنظر رکھا جائے تو موجودہ چندہ پر بنیاد رکھنے سے ہی آئندہ کے بار سے ہم بیچ سکتے ہیں.دو لاکھ سالانہ چندہ دینے والی جماعت کے لئے چالیس ہزار کی زیادتی یہ جانتے ہوئے کہ بعض لوگ چندہ نہیں دیتے ، کوئی اتنا بڑا بوجھ نہیں جو اُٹھایا نہ جا سکے.یہ بار پانچ سال میں ایک سال کے چندہ کے برابر بنتا ہے.اندازہ لگایا گیا ہے کہ کل سات ہزار افراد تحریک جدید میں حصہ لیتے ہیں.ان میں سے ہر ایک قریباً اتنی رقم ادا کر دیتا ہے جتنی ایک ماہ کی آمد کی رقم اُس کے ذمہ ڈالی جائے.سالانہ جلسہ کا چندہ ۱۵ فیصدی ڈالا جاتا ہے اور ۲۰ ہزار کے قریب آمد ہوتی ہے.یہ ۶۴ فیصدی بنتا ہے.اس دفعہ کا چندہ تحریک جدید ایک لاکھ ۱۷ ہزار ہے اور کل سات ہزار آدمی ہیں جو یہ رقم ادا کر رہے ہیں.دو سال سے ادا کر رہے ہیں اور تیسرے سال کے لئے ابھی میں نے روک دیا ہے کہ اعلان کرنے پر حصہ لیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر مخلص کو مخاطب کیا جائے تو وہ سارا بوجھ اُٹھا لیتا ہے.چندہ خاص جو جبری قسم کا ہے کہ مہینہ یا پندرہ دن کی تنخواہ دوا سے لمبا چلانا درست نہیں لیکن سب کمیٹی کی تجویز کے مطابق ہر سال چندہ خاص کرنا ضروری ہے کیونکہ آمد سے خرچ ہر سال بڑھ جاتا ہے.اس طرح چندہ خاص ہر سال کا ہو جاتا ہے پھر کارکن بھی مست ہو جائیں گے کہ جو کمی رہے گی اُس کے لئے چندہ خاص ہو جائے گا.
خطابات شوری جلد دوئم ۱۱۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء ان حالات میں میں سمجھتا ہوں علاج اور رنگ میں ہونا چاہئے.قرضہ والی تجویز ایک بوجھ ہو گا اور کارکن مجبور ہوں گے کہ چُستی سے کام لیں تا کہ قرض اتار سکیں مگر سوال یہ ہے کہ کون سی چیز ہے جس کے ذریعہ موجودہ بوجھ کو دور کیا جا سکے.ہم اس کو دور کر سکتے ہیں بشرطیکہ جماعت کے مخلص اس تحریک کی اہمیت کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں اگر چوتھا حصہ بھی جماعت کا عمل کرے تو یقینی بات ہے کہ بوجھ اُتر جائے.ہم دیکھتے ہیں کہ بڑی بڑی حکومتیں بھی آمدنی سے نہیں چل رہیں بلکہ قرضوں پر چلتی ہیں.انگریزوں کی حکومت اتنی بڑی ہے مگر وہ بہت بڑی مقروض بھی ہے.اس کے مقابلہ کی یونائٹیڈ اسٹیٹس امریکہ کی حکومت ہے وہ بھی مقروض ہے ہم بھی قرض لے سکتے ہیں لیکن ان میں اور ہم میں ایک فرق ہے، وہ سود دیتی ہیں مگر ہم سود نہیں دے سکتے.یہاں دو بڑے بڑے بینکوں کے نمائندے اس لئے آئے کہ انہیں یہاں اپنے بنک کی شاخ کھولنے کی اجازت دی جائے اور صدر انجمن احمد یہ اپنا روپیہ ان کے ہاں جمع کرائے.اس طرح وہ صدر انجمن کو لاکھ دو لاکھ جس قد رضرورت ہو قرض دے سکیں گے.میں نے کہا آپ لوگوں نے سُود لینا ہے اور ہم سود نہیں دے سکتے.ایک اور بنک والے نے کہا صدر انجمن کے لئے لاکھ دو لاکھ روپیہ قرض دینا کچھ بھی مشکل نہیں.میں نے کہا آپ کے لئے مشکل نہیں مگر ہمارے لئے مشکل ہے کیونکہ ہم نے سُود نہیں دینا.ان حالات میں ہم اس قسم کا قرض تو لے نہیں سکتے مگر ایک اور طریق ہے اور وہ یہ ہے کہ امانت فنڈ زیادہ وسیع پیمانہ پر قائم کیا جائے اور لوگ گھروں میں روپیہ جمع رکھنے کی بجائے وہاں جمع کرائیں.بنکوں کے جو اعلانات ہوتے ہیں اُن میں لکھا ہوتا ہے کہ :- رقم خزانه سرمایہ بنک ۲۰ کروڑ ۲ کروڑ اس کی وجہ یہ ہے کہ جتنے بنک امانتیں رکھتے ہیں ان میں بہت بڑی رقوم لوگوں کی جمع ہوتی ہیں.یہاں صدر انجمن میں امانت رکھنے کی تحریک کی گئی تھی اب ۷۰.۸۰ ہزار کی رقم جمع رہتی ہے.عام اصول یہ سمجھا جاتا ہے کہ امانت رکھنے والے سو میں سے دس ایک وقت میں واپس روپیہ مانگتے ہیں سوائے خاص حالات کے کہ بنک بدنام ہو جائے اور سب لوگ
خطابات شوریٰ جلد دوئم ۱۱۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء ایک وقت میں روپیہ کی واپسی کا مطالبہ شروع کر دیں اور اس طرح دیوالہ نکل جاتا ہے مگر جاری حساب میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ ۹۰ فیصدی مطالبہ نہیں کرتے اور میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ کچھ نہ کچھ روپیہ عام طور پر لوگ جمع رکھتے ہیں.قرآن کریم کے ترجمہ کا سوال جب ۱۹۱۵ء میں پیدا ہوا تو مشکل یہ پیش آئی کہ روپیہ کہاں سے آئے.جماعت اُس وقت تفرقہ میں پھنسی ہوئی تھی اور چندہ میں بہت کمی ہوگئی تھی.اندازہ یہ تھا کہ ساڑھے تین ہزار کی رقم لگے گی.میں نے اُس وقت کہا کہ ہم اپنی جائداد فروخت کر کے روپیہ مہیا کر دیتے ہیں مگر جائیداد کا کوئی خریدار نہ ملا اس لئے میں نے اعلان کرایا کہ ہم کچھ زمین بیچنا چاہتے ہیں کیونکہ ترجمہ قرآن کریم کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے.اس پر میں نے دیکھا صبح سے شام تک چھ ہزار کے قریب روپیہ جمع ہو گیا.محلہ دار الفضل کی بنیاد اِسی طرح رکھی گئی اور قادیان کی وُسعت اس طرح شروع ہوئی.اُس وقت پتہ لگا کہ قادیان کی وسعت میں روک یہی تھی کہ مکان بنانے کے لئے جگہ نہ ملتی تھی.پھر میں نے اپنے بھائیوں سے مشورہ کر کے کہا یہ تو ظلم ہے کہ جماعت کے جولوگ یہاں مکان بنانا چاہیں انہیں جگہ نہ ملے ہمیں اپنی زمین فروخت کر دینی چاہئے.اس طرح مختلف محلوں کی آبادی شروع ہوئی.اس وقت میں جو تجویز پیش کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جن دوستوں نے مکانات بنانے کے لئے کچھ روپیہ جمع کیا ہو اور ابھی مکان بنانے میں کچھ دیر ہو وہ اپنا روپیہ امانت کے طور پر انجمن میں جمع کرا دیں.اب باوجود اس کے کہ بہت تھوڑے لوگوں نے انجمن میں امانت رکھانے کی عادت ڈالی ہے ۷۰ ۸۰ ہزار کے قریب رقم جمع رہتی ہے.یہ صرف اڑھائی تین سو آدمی ہیں.پھر کبھی یہ سوال نہیں پیدا ہوا کہ کوئی امانت رکھانے والا اپنی رقم واپس لینے کے لئے آیا ہو اور اُسے روپیہ نہ ملا ہو لیکن جماعت کا بیشتر حصہ ابھی تک ادھر متوجہ نہیں ہوا.یہ کتنی چھوٹی سی قربانی ہے کہ کسی کے پاس ایک سو روپیہ ہے اور اس لئے ہے کہ مکان بنائے گا، اُس سے وہ مکان نہیں بنا سکتا ، اُسے امانت فنڈ میں جمع کرا دے اور آئندہ بھی جمع کراتا رہے، حتی کہ مکان بنانے کے لئے پوری رقم جمع ہو جائے.اس طرح روپیہ جمع کرنا نا جائز نہیں ہے بلکہ شریعت کا حکم ہے.خدا تعالیٰ نے بھی اپنا مکان بنایا جسے
خطابات شوری جلد دوئم ۱۱۶ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء بیت اللہ کہا جاتا ہے.غرض دوستوں کے پاس اس قسم کے روپے ہوتے ہیں اور اگر قادیان کے ہی دوست اس طرح امانت رکھانا شروع کر دیں تو ۵۰-۶۰ ہزار روپیہ جمع ہوسکتا ہے اور اگر یہ تحریک جاری کی جائے اور اسے پھیلایا جائے یعنی نہ صرف وہی دوست روپیہ جمع کرائیں جنہوں نے مکان بنانے کی نیت سے کچھ نہ کچھ جمع کیا ہو بلکہ وہ بھی جنہوں نے بچوں کی تعلیم کے لئے یا شادیوں کے لئے یا اور ضروری اغراض کے لئے کیا ہے تو بہت بڑی رقم جمع ہو سکتی ہے اور وہ ضرورت کے لئے واپس لے سکتے ہیں.یا پھر قرضہ ایک مدت معینہ کے لئے دے دیں یعنی سال کے لئے یا دو سال کے لئے ، پھر اس پر زکوۃ نہیں ہوگی اور اڑھائی فیصدی اس طرح گو یا نقذ نفع بھی مل گیا.غرض اس طریق پر اگر عمل کیا جائے تو ایک دولاکھ نہیں میں سمجھتا ہوں ۱۰، ۲۰،۱۵ لاکھ روپیہ جمع ہو سکتا ہے اور ان لوگوں کو جو روپیہ جمع کرائیں گے کوئی تکلیف نہ ہو گی ، وہ جب چاہیں اپنا روپیہ مانگ لیں.ادھر انجمن والوں کو سانس لینے کا موقع مل جائے گا.غرض نہایت سہولت کے ساتھ یہ رقم جمع ہو سکتی ہے بشرطیکہ دوست بے اعتباری اور بے جا شرم کو چھوڑ دیں.میں نے قادیان میں ایک مکان بنایا اور اس لئے بنایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی پیشگوئی ہے کہ قادیان مشرق کی طرف بڑھے گا اور اس پیشگوئی کے پورا کرنے میں حصہ لینے کے لئے ضروری ہے کہ مکان بنا ئیں مگر ہم رہتے انہی مکانات میں ہیں جن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام رہتے تھے تا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی برکت حاصل ہو مگر میں نے سُنا ہے کہ ایک شخص جس نے خود کئی مکان بنائے ہیں، اعتراض کر رہا تھا کہ تعیش شروع ہو گیا ہے، کئی مکانات بنائے جا رہے ہیں.حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر بیوی کے لئے الگ مکان بنایا ہوا تھا اور گیارہ مکان آپ کے ثابت ہیں.مجھے خیال آیا کہ اعتراض کرنے والے کو لا کر اُس کمرہ میں رکھوں جس میں ہم رہتے ہیں تو جگہ کی تنگی کی وجہ سے چلانے لگ جائے.تو مکان بنانا جُرم نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام ہے وَسِعُ مَكَانَكَ " اس میں بہت سی
خطابات شوری جلد دوئم ۱۱۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء حکمتیں ہیں.نادان ہے وہ جس کا ذہن ان کی طرف نہیں جاتا.اگر دوست بے جا شرم چھوڑ دیں اور بے اعتباری چھوڑ دیں تو بہت فائدہ پہنچ سکتا ہے.اب بے اعتباری کی تو کوئی بات ہی نہیں.امانت رکھانے والوں کو اب تک کوئی شکایت پیدا نہیں ہوئی اور شرم کی بھی کوئی بات نہیں.سوائے تجارتی روپیہ کے اگر کسی کے پاس دس ہیں، سو ، دوسو ، ہزار روپیہ جمع ہو تو اس کے لئے جمع کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے.یہ روپے ایسے طور پر رکھے جائیں گے کہ کبھی مطالبہ پر دیر نہ ہو.دوست اگر اس پر عمل کریں تو ان کا کچھ بھی خرچ نہیں ہوتا لیکن انجمن کو فائدہ پہنچ سکتا ہے لیکن اگر وہ اس کے لئے بھی تیار نہ ہوں جس پر ان کا کچھ خرچ نہیں ہوتا تو پھر ان کے بڑے بڑے دعووں کی کیا حقیقت باقی رہ جاتی ہے؟ میں نے گزشتہ مجلس مشاورت کے موقع پر اعلان کیا تھا کہ قرضہ کے طور پر انجمن کو روپیہ دیا جائے اور یہ قرض چند ماہ کے لئے ہوگا اس میں گل ۳۱ ہزار کی رقم جمع ہوئی ہے اس میں ایک بیوہ نے بھی پچاس روپیہ کی رقم دی.تجربہ یہ ہے کہ لوگ کچھ نہ کچھ پس انداز کرتے ہیں.اگر ایسی رقوم کو وہ امانت کے طور پر رکھا دیں تو اس طرح ایک بڑی رقم جمع ہو سکتی ہے.اگر جماعت اس کے لئے تیار ہو اور اپنے لئے ضروری قرار دے لے کہ روپیہ امانت میں جمع کرانا ہے تو کامیابی ہو سکتی ہے.دوسری تجویز یہ ہے کہ ایک لاکھ روپیہ قرضہ کی تحریک کی جائے.میں اسے منظور کرتا ہوں.جو لوگ مدت مقرر کر کے قرض کے طور پر رقم دے سکیں دے دیں.مگر قرضہ کی کوئی ضرورت نہیں رہتی اگر دوست امانت کے طور پر اپنی رقوم جمع کرانے لگ جائیں اور پھر جب چاہیں نکال لیں اس میں کوئی روک نہ ہوگی.پس میں ایک تحریک یہ کرتا ہوں اور نمائندوں سے اقرار لیتا ہوں کہ وہ اپنے اپنے ہاں جا کر تحریک کریں کہ جس کے پاس روپیہ ہو وہ امانت کے طور پر صدر انجمن کے خزانہ میں جمع کرا دے.نمائندوں کا یہ خاص فرض ہے کہ جماعتوں میں یہ تحریک کریں اور ایک ماہ کے اندر اندر اطلاع دیں کہ کس قدر اس میں کامیابی ہوئی ہے.اس تجویز کا دوسرا حصہ قرضہ ہے میں اسے بھی منظور کرتا ہوں.تیسرا حصہ ایسا ہے جس میں اور بھی سہولت ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمارے پاس ایسے
خطابات شوری جلد دوئم ۱۱۸ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء ذرائع ہیں کہ اگر روپیہ ہو تو ایسے نفع بخش کام پر لگا دیا جائے کہ روپیہ دینے والے کو بھی فائدہ پہنچ سکے.اس کے لئے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انجمن اپنی جائدادیں روپیہ دینے والوں کو گرو کر دے یعنی تجارت پر روپیہ لگانے والے دوست اپنے روپیہ سے انجمن کی بعض جائیدادیں گرو رکھ لیں.۵۰، ۶۰ ہزار روپیہ اس طرح بھی لگایا جا سکتا ہے اور اتنا ہی روپیہ اور تجارتی کاموں پر لگایا جا سکتا ہے جن پر نفع قریباً یقینی ہے اور دس فیصدی نفع چھ ماہ میں مل سکتا ہے اس طرح بھی انجمن کے بار میں کمی آسکتی ہے.یہ گویا چار تحریکیں ہیں اگر جماعت ان پر عمل کرے تو بغیر چندہ خاص کرنے کے اور بغیر کسی قسم کا بوجھ ڈالنے کے بلکہ فائدہ اُٹھاتے ہوئے انجمن کا بوجھ اُتار سکتے ہیں.(۱) جماعت جبری طور پر سمجھ لے کہ انجمن کے خزانہ میں امانت رکھانی ہے.ایک دوست نے سوال کیا ہے کہ اگر تھوڑی سی رقم امانت رکھنی ہو اور پھر جلد ہی واپس لینی ہو تو اس طرح اُس کے بھیجنے اور واپس لینے پر بہت خرچ پڑ جائے گا مگر یہ خرچ زیادہ نہ ہوگا ، روپیہ واپس بھیجنے کا خرچ انجمن خود برداشت کر سکتی ہے اور اس طرح بھی نفع میں رہتی ہے.پھر انجمن مقامی چندہ میں سے رقم ادا کر سکتی ہے.پس یہ بہت معمولی اور چھوٹی سی بات ہے اگر اس مد میں روپیہ جمع نہ ہوا تو میں یہ نہیں مانوں گا کہ دوستوں کے پاس روپیہ نہیں، بلکہ یہ سمجھوں گا کہ اس طرف توجہ نہیں کی گئی.۵۰ فیصدی لوگوں کے پاس کچھ نہ کچھ رقم پس انداز ہوتی ہے.ایک دوست نے لکھا ہے کہ جو رقم کوئی جمع کرائے وہ کسی اور کو نہ بتائی جائے.یہ ضروری بات ہے، بنک والے بھی ایسا ہی کرتے ہیں.وہ حکومت تک کو کسی کی امانتی رقم نہیں بتاتے کیونکہ بتانے سے رقوم رکھنے والوں کو کئی قسم کی دقتیں پیش آسکتی ہیں.اس بارہ میں یہ قانون ہو گا کہ کسی کی امانتی رقم کا کسی کو علم نہ ہو اور کسی کو کسی کی رقم کے متعلق کچھ نہ بتایا جائے.اسی کے ماتحت جو صاحب یہ کہیں گے کہ اُن کی رقم مقامی جماعت کی معرفت ادانہ ہوا نہیں انجمن خود بھیجے گی.دوسری تجویز قرض کی ہے.تیسری انجمن کی بعض جائیدادیں گرو رکھ کر روپیہ دینے کی اور
خطابات شوری جلد دوئم ۱۱۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء چوتھی جو دوست اپنا روپیہ تجارت پر لگانا چاہیں وہ لگا سکتے ہیں اور انہیں کافی منافع مل سکتا ہے.یہ چار تجویزیں ایسی ہیں کہ اگر جماعت ان پر عمل کرے اور کوئی وجہ نہیں کہ عمل نہ کرے یا اس سے عمل کرایا نہ جائے تو بوجھ دور نہ ہو.پانچویں تجویز یہ ہے کہ وہ جماعتیں جو موجودہ حالات میں اسے پسند کرتی ہیں، شرح چندہ چار پیسے کی بجائے پانچ پیسے کر دیں اور اس پر عمل شروع کر دیں.یہ لازمی نہ ہو بلکہ ہر ایک کی مرضی پر ہو.اس کے لئے تحریک کی جائے کہ اپنی مرضی سے یہ اضافہ کریں اور موصیوں کو تحریک کی جائے کہ زیادہ حصہ کے لئے وصیت کریں.یہ جبری نہ ہو گا بلکہ اپنی مرضی سے ہو گا.بے شک ہم جبری طور پر بھی وصیت کا حصہ بڑھا سکتے ہیں اور ہر موصی کے لئے ضروری قرار دے سکتے ہیں مگر اُسی وقت کہ اسلام کی زندگی اور موت کا سوال در پیش ہو، مگر ایسا وقت ابھی نہیں آیا.پس چندہ کے اضافہ اور حصہ وصیت کے بڑھانے کے متعلق جماعتوں کو تحریک کی جائے اور ناظر پوچھتے رہیں کہ مقامی کارکن اور نمائندگان مجلس مشاورت نے تحریک کی ہے یا نہیں ؟ اور کتنے مخلصین نے پانچ پیسے فی روپیہ چندہ دینے پر آمادگی ظاہر کی ہے؟ اور وصیت کے حصہ میں اضافہ کرنے والے کتنے ہیں؟ اس کے لئے میں تین سال کی میعاد مقرر کرتا ہوں.وصیت کے حصہ میں اضافہ کے لئے اور شرح چندہ میں اضافہ کے لئے بھی یعنی جو دوست اس حکم کے ماتحت اضافہ کریں گے وہ تین سال کے بعد پہلی شرح پر وصیت اور چندہ ادا کر سکیں گے.یہ چھ تجویزیں جماعت کے متعلق ہیں.انجمن کے کارکنوں کے متعلق میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ ۲۰ یا ۲۵ فیصدی اُن کی تنخواہ کا تمام کارکنوں سے جبری قرضہ لیا جائے.اگر کوئی ریٹائر ہو جائے تو اُس کو اُس کی رقم فوراً پراویڈنٹ فنڈ کے ساتھ ادا کر دی جائے ورنہ تین سال تک یہ قرض لیا جائے البتہ ۱۵ روپے یا اس سے کم تنخواہ والوں سے کوئی کٹوتی نہ ہو.اس بارہ میں تخفیف کمیٹی سے مشورہ لیا جائے گا.اس طرح اڑھائی ہزار کے قریب ماہوار کی بچت ہو جائے گی اور سالانہ ۳۰ ہزار.ادھر جماعت کے متعلق جو تجاویز میں نے پیش کی ہیں ،ان سے کم از کم ۵۰،۴۰ ہزار کی آمد بھی کر سکیں تو تین سال تک ہم بجٹ کو برابر رکھ سکتے
خطابات شوری جلد دوئم ہیں اور قرض بھی ادا کر سکتے ہیں.مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء چندہ خاص کو میں پسند نہیں کرتا یہ جبری ہو گا اور یہ طوعی کو بھی کھا جاتا ہے اور تحریک جدید کے چندہ کو بھی کھا جائے گا.میرا خیال تھا کہ تحریک جدید کے تین سال ختم ہونے کے بعد چوتھے سال چندہ خاص کیا جائے اور اس سال ایک مہینہ کی آمدنی دینے کی تحریک کروں جس میں سے ایک قلیل رقم تحریک جدید میں رکھ کر باقی انجمن کو دے دی جائے لیکن یہ ۶۳ فیصدی چندہ کی تحریک بنتی ہے.در اصل مستقل آمد نہ ہونے کی وجہ سے ساری مشکلات ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے الوصیت میں اس طرف بڑا زور دیا ہے اور حصہ وصیت بتا رہی ہے کہ اس کی غرض یہی ہے.معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے اس بات پر مطلع کر دیا تھا کہ ایسے حالات پیش آ سکتے ہیں جب کہ جماعت سے چندہ حاصل کرنا مشکل ہو جائے.سُنا ہے ایک سرکاری افسر نے جو سلسلہ کی مخالفت کر رہا تھا دوسرے سے ذکر کیا کہ گورنمنٹ اس بات پر غور کر رہی ہے کہ جماعت احمدیہ کو چندہ وصول کرنے سے بند کر دیا جائے.جہاں تک میں سمجھتا ہوں ، معمولی حالات میں یہ نہیں کیا جا سکتا مگر ہو سکتا ہے کہ کسی وقت کوئی دیوانی گورنمنٹ ایسا کر دے اس لئے مستقل آمد اور مختلف علاقوں میں پھیلی ہوئی آمد کا انتظام کرنا چاہئے کیونکہ ظالم لوگ ہمیشہ سے نبی کی جماعت پر ظلم کرتے آئے ہیں اس لئے اُس جماعت کو مختلف ملکوں میں پھیلا دیا جاتا ہے.ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ مختلف علاقوں میں جائیدادیں بنائیں اور میں نے منافقین کے اعتراضات کے باوجود کئی لاکھ کی جائیداد خریدی ہے اور ابھی لے رہا ہوں اور اسی کی آمد سے اس کی خرید کی رقم ادا کی جا رہی ہے.امید ہے کہ اس سے زائد آمد بھی ہونے لگ جائے گی.پس مستقل اخراجات کے لئے ضروری ہے کہ اتنی جائداد ہو جس سے کارکنوں کی تنخواہیں ادا ہو سکیں اور چندہ باقی ہنگامی کاموں کے لئے ہو.چونکہ مرکز کا قائم رکھنا نہایت ضروری ہے اس لئے پورا زور لگانا چاہئے کہ سلسلہ کی اتنی جائداد پیدا ہو جائے کہ کارکنوں کی تنخواہیں اس سے نکل آ ئیں.
خطابات شوری جلد دوئم ۱۲۱ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء دوسری طرف عملہ بیت المال کو ذمہ دار قرار دیا جائے اور اس پر زیادہ بار ڈالا جائے اور اگر ثابت ہو جائے کہ عملہ نے کام اچھی طرح نہیں کیا تو اس کو سزا دی جائے مثلاً یہ کہ دوسروں کو جتنے ماہ کی تنخواہ نہ ملی ہو بیٹ المال والوں کو اُن سے بھی پیچھے رکھا جائے یا ان کی رقم زیادہ کائی جائے لیکن اگر کام کے مقابلہ میں عملہ کم ہو تو عملہ بڑھایا جائے اور ہر روز کا پتہ رکھا جائے کہ آج کیا حالت ہے.اگر کوئی کمی واقع ہوتو معلوم کیا جائے کہ کون سی جماعت اس کی ذمہ دار ہے.عملہ میں اضافہ کی اگر ضرورت محسوس کی گئی تو میں خود بڑھاؤں گا عملہ میں ایسے آدمی داخل کئے جائیں جو باہر کے اکاؤنٹ کا تجربہ رکھتے ہوں تا کہ عمدگی سے کام کر سکیں.سب کمیٹی کی پانچویں تجویز انجمن کی جائداد فروخت کرنے کی ہے اس کے لئے پہلے سے ہی کوشش ہو رہی ہے مگر آئندہ زیادہ زور دیا جائے اور اس فروخت سے جو رقم وصول ہو اُس سے زیادہ قیمتی جائداد پیدا کی جائے.ریز روفنڈ کی تحریک بھی ہو چکی ہے ایک دوست نے لکھا ہے کہ یہ ایسی تحریک ہے جس پر ہر احمدی عمل کر کے کامیابی حاصل کر سکتا ہے اُن کا اپنا تجربہ یہ ہے کہ ہر اتوار کو گھر سے نکلتے ہیں اور کم از کم آٹھ آنے ضرور مل جاتے ہیں.وہ کہتے ہیں کون ایسا احمدی ہے جو ہفتہ وار آٹھ آنے بھی نہ لا سکے اور اس طرح انہوں نے سوالاکھ روپیہ کا اندازہ کیا ہے.میں اُن کے تجربہ کو رڈ نہیں کرتا.وہی رڈ کر سکتا ہے جو ان کی تجویز پر عمل کرے اور اسے کامیابی نہ ہو اس لئے یہ تجربہ قابل تجربہ ہے.نہ سہی سوالاکھ ، ۱۵،۱۰ ہزار روپیہ سال میں جمع ہو جانا تو کوئی مشکل نہیں ہے مگر سوال کام کرنے کا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کوئی امیر تھا جس کے باورچی خانہ میں بہت اسراف ہوتا تھا اُس نے کہا باورچی خانہ کے دروازوں کو کواڑ لگا دیئے جائیں.یہ بات جب اُن کتوں کو معلوم ہوئی جو باورچی خانہ میں داخل ہو کر کھاتے پیتے تھے تو وہ ایک جگہ جمع ہو کر رونے لگے.اتنے میں ایک بوڑھا ئتا آیا جس نے رونے کی وجہ پوچھی اور جب اُسے بتائی گئی تو اُس نے کہا رونے کی کیا ضرورت ہے کواڑ اگر لگ بھی گئے تو انہیں بند کون کرے گا؟ پس ترکیبیں تو ہیں اور ان پر عمل کر کے کامیابی بھی ہو سکتی ہے مگر سوال بند
خطابات شوری جلد دوئم ۱۲۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء کرنے کا ہے.اگر آپ لوگ ان پر عمل کرنے کے لئے تیار ہیں تو کامیابی بھی حاصل ہو جائے گی ورنہ نہیں.اس وقت جو تجاویز میں نے بیان کی ہیں وہ ایسی ہیں کہ سوائے مرکزی کارکنوں کے اور کسی پر بوجھ نہیں پڑتا اور سلسلہ کے کام سہولت سے ہو سکتے ہیں.آپ لوگوں نے اگر کام کرنا ہے تو کر کے دکھا ئیں.ورنہ کیا فائدہ ہے اس کا کہ یہاں آئے اور باتیں کر کے چلے گئے.یہی ریز روفنڈ کی تجویز ہے.میرا اندازہ ہے کہ سو میں سے دو جماعتوں نے بھی اس کی طرف توجہ نہیں کی اور ہزار میں سے ایک نے بھی عمل نہیں کیا.جماعت کو کام کی اہمیت سمجھنی چاہئے اور پھر جو تجاویز پیش کی جائیں اُن پر عمل کرنا چاہئے امید ہے کہ جماعت ان تجاویز پر عمل کرے گی.گو پچھلی دفعہ کھڑے کر کے دیکھنے کا کوئی فائدہ نہ ہو ا مگر کیا پتہ ہے کہ ألم يأن للذين امنوا أن تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ يذكر الله شاید آج وہ وقت آ گیا ہو کہ جماعت اپنے وعدے پورے کرنے کے لئے تیار ہو.یہ تجاویز جو میں نے بتائی ہیں ان کی وجہ سے آپ لوگوں پر کوئی بوجھ نہیں پڑتا.پھر یہ مرضی پر منحصر ہیں جس کی مرضی ہو وہ شامل ہو سکتا ہے.کیا آپ لوگ وعدہ کرتے ہیں کہ ان تجاویز پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے ؟ آئندہ نتیجہ خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے.اگر وعدہ کرتے ہیں تو کھڑے ہو جائیں.“ اس پر سب کے سب نمائندے کھڑے ہو گئے.فرمایا: - بیٹھ جائیں.یہ آپ لوگوں نے اخلاقی ذمہ داری بھی لی ہے.آپ کی یہ ذمہ داری نہیں کہ اپنے ہمسایہ سے ضرور چندہ لیں گے بلکہ یہ ہے کہ اُسے تحریک کریں گے.ایسی وصیت جس نے کی ہوئی ہے وہ اپنے نفس سے پوچھے وہ اضافہ کر سکتا ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو معذور سمجھا جائے.اس طرح دوسروں سے پوچھے.پھر ریز روفنڈ ہے، اس کے لئے یہ نہیں رکھا کہ ضرور دیں مگر یہ ضرور رکھا ہے کہ ہفتہ میں یا مہینہ میں ایک بار جا کر کوشش کریں.اور آپ ہی نہیں بلکہ جماعت کے دوسرے لوگوں کو بھی اس کی تحریک کریں.میں سمجھتا ہوں ان تجاویز پر عمل کیا جائے تو بوجھ کم ہوسکتا ہے اور مالی مشکلات دور ہو سکتی ہیں.“
خطابات شوری جلد دوئم اختتامی تقریر ۱۲۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء کے تیسرے دن یعنی ۲۵ اکتوبر کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد حضور نے ممبران سے الوداعی خطاب کرتے ہوئے فرمایا: - اس وقت میں ایک دو باتوں کی طرف فوری توجہ دلاتا ہوں.ایک تجویز یہ ہے کہ مختلف علاقوں میں زمین حاصل کی جائے اور وہاں احمدیوں کی آبادی قائم کی جائے.دوسری تجویز اشتمال اراضی کی ہے اس کے لئے گورنمنٹ کوشش کر رہی ہے مگر اسے نہ زمینداروں نے سمجھا ہے اور نہ گورنمنٹ کا طریق مفید ہے.گورنمنٹ صرف یہ کہتی ہے کہ ایک زمیندار کی زمین ایک جگہ اکٹھی کر دی جائے لیکن اگر ایسا کر دیا جائے تو زمین اتنی تھوڑی ہوتی ہے کہ نفع نہیں دے سکتی.میں مدت سے اس بات پر قائم ہوں کہ جب تک گاؤں کا بڑا حصہ یا سارا گاؤں اپنی زمین اکٹھی نہ کرے، زمین سے نفع نہ ہو گا.ہونا یہ چاہئے کہ ساری زمین اکٹھی کرنے کے بعد جتنے لوگ اس پر لگائے جاسکیں اس پر کام کریں اور باقی اور جگہ جا کر کام کریں.اس کے بغیر زمینداروں میں ترقی نہیں ہو سکتی سوائے بڑے زمینداروں کے.اب یہ صورت ہے کہ ایک شخص کے پاس دوا یکٹر یا پانچ ایکٹر یا دس ایکٹر زمین ہوتی ہے وہ کچھ زمین میں ماش بوتا ہے، تھوڑی سی کپاس لگاتا ہے، کچھ گنا ہوتا ہے اور کچھ گیہوں بو دیتا ہے.گو با وجود زمین کم ہونے کے اپنی تمام ضروریات اُس سے حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر سب زمینوں کی حالت ایک جیسی نہیں ہوتی.ایک زمین میں ایک جنس اچھی ہوتی ہے دوسری اچھی نہیں ہوتی.امریکہ میں یہ طریق ہے کہ گاؤں والوں کی زمین مشترک رکھی جاتی ہے اور اعلیٰ درجہ کے آلات سے کام کیا جاتا ہے مگر ہندوستانی ادھر نہیں آتے.تحریک جدید میں میں نے یہ رکھا تھا کہ جب مالی حالت مضبوط ہو جائے تو جس گاؤں والے ہماری تجاویز کے مطابق کام کریں اُن کو امداد دی جائے.یہ تو جب ہو گا ، ہو گا.جماعت کے لوگوں کو اپنے طور پر یہ عادت ڈالنی چاہئے البتہ ایک بات ایسی ہے کہ اب بھی اس پر عمل کیا جا سکتا ہے اور اسے چھ ماہ کے لئے پیچھے ڈالنا بھی ممنر ہے.وہ یہ کہ تعاونی کمیٹیاں مقرر کی جائیں جن میں زمیندار شریک ہو کر ایک مقررہ قسط ادا کریں.پھر جس کے نام قرعہ نکلے اُسے زمین خرید کر دے
۱۲۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء خطابات شوریٰ جلد دوئم دی جائے مگر وہ کمیٹی کے پاس اُس وقت تک گرو ر ہے جب تک پوری رقم زمین لینے والا ادانہ کر دے.اگر زمیندار اس طرح کریں تو ایک سال میں ہزاروں ایکٹر خریدے جاسکتے ہیں.ایک تو امور عامہ اس تحریک کو جاری کرے یعنی زمینداروں میں تعاونی کمیٹیاں بنائے جن کا کام مکان بنانا نہیں بلکہ زمین خریدنا ہو.دوسری تجویز یہ ہے کہ ایکسپرٹ پیدا کرے، یہ نہایت ضروری ہے اور پہلے بھی اس کی طرف توجہ دلائی ہے مگر کم توجہ کی گئی ہے.یہاں ایک طالب علم ہوتا تھا جسے عبداللہ ٹو پا کہتے تھے.وہ سرحدی علاقہ کا تھا اور کہتا تھا میں اس لئے تعلیم حاصل کرنے کے لئے آیا ہوں کہ تعلیم پانے کے بعد امریکہ جاؤں گا اور وہاں بندوقیں بنانا سیکھوں گا.چنانچہ وہ علی گڑھ جا کر گریجوایٹ بنا اور امریکہ گیا جہاں اُس نے رائفلیں بنانا سیکھیں.پھر سرحد میں کارخانہ کھولا وہ فوت ہو چکا ہے مگر اب بھی ایسے لوگ ہیں جو ہتھیار بناتے ہیں اور اعلیٰ درجہ کے بناتے ہیں تو ایک سرحدی کے دل میں اعلیٰ خیال پیدا ہو ا.پھر کوئی وجہ نہیں کہ احمدی نو جوانوں میں اس قسم کے خیال نہ پیدا ہوں.آجکل ہوائی جہاز چلانا ایک اعلیٰ فن ہے اس کے سیکھنے کی فیس ساڑھے تین سو روپیہ ہے ہمارے نو جوان سینما پر پانچ سال میں اس سے زیادہ رقم خرچ کر دیتے تھے.مگر ایک بھی احمدی نوجوان ایسا نہیں جس نے ہوائی جہاز چلانا سیکھا ہو.میرا لڑکا ناصر احمد ولایت سے واپس آیا تو میں نے اسے کہا اگر کوئی صورت ہو تو تم وہاں جا کر ہوائی جہاز چلانا ضرور سیکھو.ہر شخص یہ کام نہیں سیکھ سکتا اس کے لئے جسمانی صحت کا ایک معیار مقرر ہے اسی طرح نظر کا معیار ہے، اعصاب کا معیار ہے، اگر اعصاب مضبوط نہ ہوں تو اونچائی پر جانے کی وجہ سے جنون ہو جاتا ہے.میں پھر جماعت کے نو جوانوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ایسے کام سیکھیں جو آئندہ کام آ سکیں.ان باتوں کی طرف میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں اور متعلقہ صیغہ کو بھی کہ وہ ایسی باتیں شائع کرے اور جماعت کو ان پر عمل کرائے.میں امید کرتا ہوں کہ ۱۵ دن کے اندر اندر محکمہ سکیم بنا کر پیش کر دے گا کہ ان تجاویز پر عمل کرانے کے لئے یہ انتظام کیا گیا ہے.اگر بیت المال کے عملہ میں کم آدمی ہوں تو رپورٹ کرے.اسی طرح تخفیف کمیٹی جلد
خطابات شوری جلد دوئم ۱۲۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء سے جلد کام شروع کر کے جنوری تک رپورٹ پیش کر دے تا کہ اگلے بجٹ کے وقت اسے مد نظر رکھا جائے.اسکے بعد مجلس مشاورت کی کارروائی ختم کی جاتی ہے.ابج چکے ہیں اور ۱۲ بجے اجلاس برخاست کرنا ہے لیکن بعض باتیں میں کہہ دینا چاہتا ہوں.گوکل سے مجھے بخار ہے اور سینہ میں درد ہے، میں اچھی طرح بول نہیں سکتا اور آواز کو کھینچ کر نکال رہا ہوں.پہلے میں صیغوں کو توجہ دلاتا ہوں.بابو فیض الحق صاحب نے بعض امور کی طرف توجہ دلائی ہے کہ صیغوں نے ان کے متعلق غفلت کی ہے.ناظر صاحب اعلیٰ کو ایسی تجویز کرنی چاہئے کہ جو باتیں مجلس شوریٰ میں طے ہوں اُن کو قلمبند کرنے کے لئے کئی آدمی لگائے جایا کریں تا کہ وہ فوراً مختلف امور کو علیحدہ علیحدہ ترتیب دے کر پیش کر سکیں اور ان پر فورا عمل کیا جائے.اب یہ انتظام ہے کہ الفضل والے روئیداد لکھتے ہیں اور ان سے پوچھ لیا جاتا ہے کہ کیا ہوا ؟ اگر مجلس مشاورت کے تین دن کام کرنے کے لئے دس آدمی بھی رکھ لئے جائیں تو ان پر کتنا خرچ آ جائے گا ؟ اب ایک آدمی کام کرتا ہے جسے روئیداد مرتب کرنے میں دیر لگتی ہے اس کو تا ہی کا علاج کیا جائے.اب تخفیف کمیٹی اپنے متعلق امور نکال لے اور کمیشن جو دفاتر کی تحقیقات کرنے والا ہے وہ اپنا حصہ نکال لے.کل لجنہ اماء اللہ سے ایک امر کے متعلق مشورہ لینے کے لئے کہا تھا.یہ کام ناظر صاحب اعلیٰ کے سپرد کرتا ہوں.وہ خود کریں یا کسی اور سے کرائیں مگر ہونا ضرور چاہئے.اس کے بعد میں اختصار کے ساتھ احباب کو رخصت کرتے وقت بعض نصیحتیں کرنا چاہتا ہوں.گوجیسا کہ میں نے بتایا ہے اس وقت میری صحت اور گلا اجازت نہیں دیتا کہ کچھ بول سکوں یا زور سے آواز نکالوں.یہ الفاظ جو بول رہا ہوں اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ کھینچ کر سینہ سے نکال رہا ہوں.گزشتہ پانچ ماہ سے میری جسمانی صحت کو نہ معلوم کیا صدمہ پہنچ گیا ہے کہ مسلسل کھانسی اور نزلہ کی تکلیف جاری ہے.اب کے دھر مسالہ جانے سے قبل بھی بعض اوقات گلے میں اس طرح تکلیف شروع ہو جاتی تھی کہ رات کو سونہیں سکتا
۱۲۶ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء خطابات شوری جلد دوئم تھا.بعض اوقات خشک کھانسی ایسی چلتی تھی کہ گھنٹوں شروع رہتی تھی لیکن دھر مسالہ سے واپسی پر رستہ میں پہاڑ گرا ہو ا تھا جہاں ہم کھڑے رہے اور بارش سے بھیگ گئے اس سے نزلہ ہو گیا جو گلے میں گرنے لگا اور دست شروع ہو گئے.یہ سلسلہ چلا جا رہا ہے، بدھ کے دن کسی قدر آرام آیا اور میں نے تقریر کی اُس کے بعد پھر نزلہ گرا.اسی حالت میں پرسوں میں نے تقریر کی اور پھر کھانسی شروع ہو گئی.اس تکلیف کی وجہ سے حالت یہ ہے کہ ایک جمعہ پڑھا تا ہوں تو اگلے جمعہ تک بیمار رہتا ہوں.پھر کچھ آرام آتا ہے اور خطبہ پڑھتا ہوں تو پھر بیمار ہو جاتا ہوں.اِن حالات میں کئی قسم کے کام ہیں جو میں نہیں کر سکتا جب تک اللہ تعالیٰ صحت نہ دے.درس جو میں نے جاری کیا تھا وہ بھی بند ہو گیا ہے.بعض اوقات تو ایسی حالت ہو جاتی ہے کہ ڈاک بھی لیٹے لیٹے پڑھنی پڑتی ہے اور لیٹے ہی جواب لکھنا پڑتا ہے.تو کئی کام جو جاری کئے ہوئے تھے اُن میں التواء ہو رہا ہے.ایسے وقت میں میں جماعت سے امید رکھتا ہوں کہ زیادہ بیداری کا ثبوت دے.جب یہ عادت پڑ جائے کہ دوسرا جگائے تو پھر انسان اس امید میں رہتا ہے کہ کوئی اُسے جگا دے گا لیکن جب پتہ ہو کہ جگانے والا کوئی نہیں تو آپ ہی اُٹھ بیٹھتا ہے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے مجھ میں اب وہ طاقت نہیں جو پہلے بیدار کرنے میں لگایا کرتا تھا اِس لئے میں آپ لوگوں سے ایک تو یہ چاہتا ہوں کہ جماعت کو بیدار کرنے کے کام میں حصہ لیں.صوفی مطیع الرحمن صاحب مبلغ امریکہ کی روانگی کے وقت میں نے جو تقریر کی تھی جو لکھی جا چکی ہے اور چھپ جائے گی ، اُس میں میں نے بتایا ہے کہ تحریک جدید جماعت احمدیہ کے لئے اسی طرح ہے جس طرح انگریزوں کے لئے میگنا کارٹا ہے.اس میں جماعت کی ترقی کے وہ اصول بتائے گئے ہیں جن کی اس وقت ضرورت ہے.اگر احباب ان کے بین السطور کو پڑھیں تو ایسا مصالحہ مل سکتا ہے جو صدیوں تک کام آئے.جب میں نے وہ باتیں لکھی تھیں جو سمجھتا تھا کہ القائی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالی ہیں میں اُس وقت دلیری سے کہہ رہا تھا کہ جماعت کے سامنے سکیم پیش کروں گا مگر صرف اتنا جانتا تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو طاقت مجھ میں آئی ہے وہ خود بتائے گی حتی کہ وقت پر اُس کی حقیقت مجھ پر کھولی گئی.تب میں سمجھا کہ یہ ایک ایسی طاقت اور
خطابات شوری جلد دوئم ۱۲۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء قوت ہے کہ جس سے جماعت دشمنوں کو زیر کر سکتی ہے اور خود ترقی بھی کر سکتی ہے.ہزاروں بار میرے دل میں یہ حسرت پیدا ہوئی کہ کونسا طریق ہو جس سے جماعت کو مادی اور مغربی رنگ سے بچایا جائے مگر کوئی صورت نظر نہ آتی تھی حتی کہ وہ وقت آگیا جب خدا تعالیٰ نے مجھے یہ سکیم بتا دی تا کہ جماعت اُس پر عمل کر کے آہستہ آہستہ اس ڈھنگ پر آجائے جو اس کے لئے ضروری ہے.اب ضرورت اس بات کی ہے کہ مستقل طور پر اس پر چلتی جائے اور جماعت کا ایک طبقہ ایسا ہو جو اس سکیم کی روح کو سمجھتا ہو اور یقین رکھتا ہو کہ صحیح ہے.بعض لوگ تو منافقانہ پراپیگنڈہ کرتے ہیں مگر بعض ایسے ہیں جنہوں نے اس کی اہمیت نہیں سمجھی.میں اُن سے جو اس کو سمجھتے ہیں مگر اس کی اہمیت کو نہیں سمجھتے کہتا ہوں کہ اگر اُس روح کے ساتھ اس کی طرف بڑھیں جس سے یہ پیش کی گئی ہے تو انہیں معلوم ہوگا کہ اس میں وہ مسائل موجود ہیں جن کا اسلام کے دوبارہ احیاء سے تعلق ہے اور وہ یقیناً اس سے ایسا مادہ نکال لیں گے جو ان کی روح کی تازگی کا باعث ہوگا اور جماعت کی ترقی کا میں نے انیسواں مطالبہ جماعت سے یہ کیا ہے کہ دعائیں کریں.دعا ئیں تو پہلے بھی کرتے تھے، اب جو کہا گیا تو سوچنا چاہئے کہ کوئی نئی دعا کہی گئی ہے.اگر نہیں تو اس مطالبہ کو حقیقی اور ضروری نہیں سمجھا جا سکتا.دراصل دعا ان چیزوں کے جزو کے طور پر رکھی گئی تھی رسماً نہ تھی.ان تحریکوں کے بعض حصے ایسے بھی ہیں جن پر اور لوگ بھی عمل کر رہے ہیں مگر ہم نے جو عمل کیا اُس میں اور دوسروں کے عمل میں فرق ہے، ہم نے خدا تعالیٰ کے لئے کیا مگر وہ مادیات کے لئے کرتے ہیں.پس دعا رسمی بات نہ تھی بلکہ ایک کو نہ تھا جسے خالی رکھنے سے چور آ سکتا تھا.جب تک ہم یہ کام کرتے وقت یہ نہ سمجھیں کہ خدا کے لئے کر رہے ہیں اور اُس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک خدا تعالیٰ مدد نہ کرے.پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ تحریک جدید پر زیادہ غور کریں اس طرح مالی وقتیں بھی دور ہوسکتی ہیں.جب ہم کھانا سادہ کر لیں گے اور سادہ زندگی بسر کریں گے تو
خطابات شوری جلد دوئم مالی حالت بھی درست ہو جائے گی.۱۲۸ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء دوسری چیز جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جماعت اس خیال کو نکال دے کہ ہم افراد کے ذریعہ کام کر سکتے ہیں.اخلاص والے مومنوں کے ذریعہ کام ہوتا ہے افراد کی کثرت سے نہیں ہوتا.مگر اب تک یہ بات چلی جاتی ہے کہ منافقوں کو پناہ دی جاتی ہے اور اس کا نام رحمہ لی رکھا جاتا ہے.مگر کیا یہ ہوسکتا ہے کہ آپ کے بچہ کو کوئی مار رہا ہو اور کوئی اُسے منع کرے تو آپ کہیں نہ روکو، اس کا دل میلا ہوگا ؟ اگر تم یہ نہیں کر سکتے تو میں کس طرح مان لوں کہ جو شخص دین کو تباہ کرنے کے لئے کھڑا ہوا سے جب اس سے روکا جائے تو یہ کہنا درست ہو سکتا ہے کہ اسے کچھ نہ کہو، اس کا دل میلا ہوگا ؟ یہ حصہ ایسا ہے کہ جماعت کو اس کی طرف بہت توجہ کرنے کی ضرورت ہے.قادیان میں بھی اور باہر بھی احباب اس حصہ کی اصلاح کریں یا اسے نکال دیں.ایسا حصہ اگر قادیان میں ہی نہ ہو تو مالی مشکلات اس طرح پیش نہ آئیں جس طرح اب آ رہی ہیں.یہ ایک حقیقت ہے کہ ۳۵ ۱۹۳۴ء کا چندہ ۳۴ ۱۹۳۳ء سے ڈیڑھ ہزار زیادہ تھا اور ۳۶.۱۹۳۵ء کا چندہ ۳۵ - ۱۹۳۴ء سے چار ہزار زیادہ ہے اور ۳۷.۱۹۳۶ء کے چھ ماہ کا چندہ ۳۶.۱۹۳۵ء کے چندہ سے تین ہزار زیادہ ہے.اس طرح اُن کا جھوٹ ثابت ہو گیا جنہوں نے یہاں رہتے ہوئے اس قسم کی باتیں کیں کہ چونکہ تحریک جدید کا چندہ لیا جاتا ہے اس لئے چندہ کم آتا ہے.یہ ان کا جھوٹ تھا اور ان کی منافقت کی علامت.ایک شخص کو جھوٹا قرار دینے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات آگے کہہ دے مگر یہاں تو شنی ہوئی بات بھی نہیں ہے مگر جماعت کے لوگ ان چیزوں پر پردہ ڈالتے اور کہتے ہیں یہ مخلص لوگ ہیں ، ان کو غلط فہمی ہوئی.اس طرح وہ زہر پھیلتا جاتا ہے.اب بعض کے متعلق ایسے مصالحہ جمع ہو گئے ہیں کہ میں اُن کو قریب میں جماعت سے خارج کرنے والا ہوں.جب اِن کا اخراج ہوگا تو دوسروں کو پتہ لگے گا کہ ان کو کیسے مخلص سمجھتے تھے.انہوں نے ان سے اپنی دوستیاں نبا ہیں مگر خدا تعالیٰ کے سلسلہ سے نہ نباہی.ایسے لوگ قادیان سے باہر بھی ہیں اور قادیان میں بھی.ہمارا کام ہے کہ ان کو گرفت کریں ، ان کی اصلاح کریں اور اگر وہ نا قابل اصلاح ہوں تو ان کو نکال دیں.
خطابات شوری جلد دوئم ۱۲۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء منافق کی اصلاح بہت مشکل ہوتی ہے.وجہ یہ کہ وہ خود اپنی اصلاح نہیں کرنا چاہتا.تو بہ بڑا علاج ہے مگر اسی کو وہ اپنی پشت پناہ بنائے ہوتا ہے.پس دوستوں کو اس امر میں میری مدد کر نی چاہئے.کئی سکیمیں ایسی ہوتی ہیں جن سے اسلام کو بڑی مدد مل سکتی ہے مگر اس لئے جاری نہیں کی جاسکتیں کہ منافقین کا پتھر روک بنا ہوتا ہے اور اب تو ایسی حالت ہے کہ جو آگے دشمن سے لڑنے جاتا ہے منافق اُسے پیچھے سے خنجر مارنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.میرے پچھلے خطبات کا لوگوں پر اثر ضرور ہوا ہے اور اُنہوں نے منافقوں کے متعلق شہادتیں بہم پہنچائی ہیں.ہم نے جن کو مارک کیا کہ وہ منافق ہیں ، جب شہادت آتی ہے ان کے متعلق آتی ہے.پس دوست اس بارے میں میری مدد کریں.تیسری بات یہ ہے کہ دوست روحانیت پر خاص زور دیں.ہماری ساری ترقی روحانیت سے ہی وابستہ ہے.نمازوں کی پابندی، ذکر الہی اور خشوع وخضوع کی طرف خاص توجہ کی جائے ، اپنے نفس پر قابو پانے کی کوشش کی جائے ، انابت الی اللہ پر بہت زور دیا جائے ، دین کی باتوں کا شغل رکھا جائے اس طرح منافقت خود بخود چلی جائے گی.“ ( مطبوعہ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء بار دوئم ) الانفال: ۱۷ سیرت ابن ہشام جلد ۲ صفحه ۲۶۷ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء تفسیر البیضاوی - تفسیر سورة النساء زیر آیت وَلَمْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ میں اس کے الفاظ اس طرح بھی ہیں.مَا لَا يُدْرَكُ كُلُّهُ لَا يُتْرَكُ جُلُّهُ" ۴ تذکرہ صفحه ۵۳.ایڈیشن چہارم ه الحدید: ۱۵
خطابات شوریٰ جلد دوم ۱۳۱ مشاورت ۱۹۳۷ء بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ مجلس مشاورت ۱۹۳۷ء منعقده ۲۶ تا ۲۸ / مارچ ۱۹۳۷ء) پہلا دن ۲۶ مارچ ۱۹۳۷ء کو مجلس مشاورت کے افتتاحی خطاب سے پہلے حضور نے ابتداء دعا کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا: - دُعا سب دوست میرے ساتھ مل کر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہماری صحیح راہ کی طرف رہنمائی کرے اور ہمیں اپنی فرمانبرداری ، اطاعت اور تقویٰ کی راہوں پر چلائے تا کہ ہم صحیح راستہ کو اختیار کر سکیں اور ہمارے مشورے اس کی رضا اور خوشنودی کا باعث ہوں.“ تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے درج ذیل افتتاحی تقریر فرمائی:- افتتاحی تقریر چونکہ ڈیڑھ دو ماہ کے بعد مجھے آج خطبہ میں کھڑے ہوکر بولنے کا موقع ملا ہے اور ابھی میرے پاؤں کی تکلیف صرف کم ہوئی ہے دُور نہیں ہوئی اس وجہ سے میں سمجھتا ہوں کہ آج میرا دوبارہ کھڑے ہو کر تقریر کرنا مرض کی شدت کا موجب ہو جائے گا اور اِس لئے میں مجبور ہوا کہ دوستوں تک بیٹھے بیٹھے اپنے خیالات پہنچاؤں.شوری میں جمع ہونے کی غرض جو دوست اس موقع پر اپنی اپنی جماعتوں کی طرف سے مجلس شوری کا نمائندہ بن کر آئے ہیں یا جن دوستوں کو میری طرف سے اس غرض کے لئے منتخب کیا گیا ہے، میں اُن سب سے یہ کہنا
خطابات شوری جلد دوم ۱۳۲ مشاورت ۱۹۳۷ء چاہتا ہوں کہ جب تک ہم اس امر کو پوری طرح ذہن نشین نہ کر لیں کہ کس کام اور کس غرض کے لئے ہم یہاں جمع ہوتے ہیں، اُس وقت تک ہم اپنے کام کو کبھی صحیح طور پر بجا نہیں لا سکتے.میں نے جہاں تک جماعت کے حالات کا مطالعہ کیا ہے، میں افسوس کے ساتھ اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ابھی ہماری جماعت کا بیشتر حصہ ایسا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو نہیں سمجھا اور نہ وہ جماعت کی اہمیت اور اُس کے مقام سے واقف ہے.اگر ہم لوگ اس مقصد کو سمجھ جاتے تو یقیناً ہمارے اعمال اور افعال ایک نئے رنگ میں ڈھل جاتے اور اُن کے نتائج بھی موجودہ نتائج سے بہت شاندار نکلتے.جہاں تک میں نے سمجھا ہے ابھی تک بیشتر حصہ ہم میں ایسے لوگوں کا موجود ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہماری ہدایت کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا، ہم آپ پر ایمان لائے اور ہمیں ہدایت حاصل ہوگئی اور جب ہدایت حاصل ہوگئی تو وہ سمجھتے ہیں کہ جو ہماری غرض تھی وہ پوری ہو گئی اور جس مقصد کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبعوث فرمائے گئے تھے ، وہ بھی حاصل ہو گیا حالانکہ اللہ تعالیٰ کے مامور افراد کی ہدایت کے لئے نہیں آتے بلکہ وہ قوموں میں تغیرات پیدا کرنے کے لئے آتے ہیں.دُنیا میں جب معمولی معمولی بادشاہوں کے رد و بدل سے ایسے تغیرات پیدا ہو جاتے ہیں کہ اُن کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہوتا ہے تو خدائی بادشاہوں کی آمد اور اُن کے قیام سے دُنیا میں بھلا کیا کچھ تغیر پیدا نہ ہوگا.ملکہ سبا جو ایک عورت تھی ، میں اُس کی عقل کو جب دیکھتا ہوں اور اُس کے مقابلہ میں آپ لوگوں میں سے بعض کی عقل کو دیکھتا ہوں تو حیرت آ جاتی ہے کہ کیونکر اس عورت کی عقل وہاں تک پہنچ گئی تھی جہاں آپ لوگوں میں سے بعض کی عقل ابھی تک نہیں پہنچی.جب حضرت سلیمان علیہ الصلوۃ والسلام کا خط اُسے ملا تو اُس نے اپنی سلطنت کے اکابر سے مشورہ لیا.اُن سب نے کہا کہ ہم ملک کی خدمت کے لئے تیار اور لڑنے مرنے پر آمادہ ہیں ، آپ جو حکم دینا چاہتی ہیں دیں.تو اُس نے جواب دیا کہ ہماری موت سے ملک کو کیا فائدہ پہنچے گا.دیکھنا صرف یہ نہیں کہ لوگ جنگ کے لئے آمادہ ہیں یا نہیں، بلکہ دیکھنا یہ ہے کہ ہماری موت ہمیں کوئی نفع پہنچائے گی یا نہیں؟ اگر ہم زندہ رہیں اور سلیمان کی بادشاہت قبول کر لیں تو یہ زیادہ مفید ہو گا یا یہ زیادہ مفید ہو گا کہ ہم لڑیں اور مر جائیں اور سلیمان
خطابات شوری جلد دوم ۱۳۳ مجلس مش مشاورت ۱۹۳۷ء ہمارے ملک پر قابض ہو جائے ؟ غرض حکومت کا کلی تغیر ہم پر زیادہ اثر انداز ہوسکتا ہے یا اُس کا جزوی تغيّر ؟ ایک تغیر تو یہ ہے کہ سلیمان کو اس ملک کی عظمت اور بڑائی حاصل ہو جائے ، بادشاہت ہمارے پاس ہی رہے ہم صرف اس کے باجگذار ہو جائیں اور ایک تغیر یہ ہے کہ ہم مارے جائیں اور ملک بھی سلیمان کے قبضہ میں چلا جائے.ان تمام امور پر غور کر کے وہ جو کچھ کہتی ہے وہ یہ ہے کہ اِنَّ الْمُلُوكَ اِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُ وهَا وَ جعلوا اعزة اخلما اذلة کہ جب کسی ملک میں کوئی نئی بادشاہت آیا کرتی ہے تو جعلوا اعزّة اهلها اذلة وہ اس ملک کے معززین کو ذلیل کر دیا کرتی ہے.اس کے یہ معنی نہیں جیسا کہ عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ حکومتوں میں جب تغیر ہو تو نئی حکومت بڑوں کو چھوٹا اور چھوٹوں کو بڑا کر دیتی ہے.یہاں یہ مضمون بیان نہیں ہوا کیونکہ اگر اس کے یہی معنی ہوں تو گو بڑے چھوٹے ہو جاویں گے لیکن چھوٹوں کے بڑا بن جانے سے پھر بھی اُس ملک کو فائدہ پہنچے گا اور اُسے کوئی نقصان نہیں رہے گا حالانکہ قرآن کریم کی آیت صرف نقصان اور تباہی کی طرف اشارہ کرتی ہے.دراصل اس آیت میں ایک غیر قوم کی حکومت کا ذکر ہے.جب اس قسم کی نئی بادشاہت کا قیام عمل میں آئے تو وہ بڑوں کو ذلیل کر دیتی ہے اور جو پہلے ہی ذلیل ہوں وہ اور بھی زیادہ ذلیل اور بے حیثیت ہو جاتے ہیں.گویا خارجی قوم کی حکومت نئے حاکم مقرر کرتی ہے، نئے سردار بناتی اور نیا نظام قائم کرتی ہے.پھر وہ لوگ اپنا قانون جاری کرتے ، اپنے افسروں اور اپنے حکام کا تقرر کرتے اور اپنے ہی نظام کو رائج کرتے ہیں.جیسے انگریز یہاں آئے تو انہوں نے انگریزوں کو افسر بنایا ، مغل آئے تو اُنہوں نے ساتھیوں کو ترقی دی، پٹھان آئے تو انہوں نے اپنے ہم قوم افراد کو ذمہ داری کے عہدے دیئے.اسی طرح آرین لوگوں نے حکومت کی تو اُنہوں نے آریوں کو عروج پر پہنچایا اور گونڈ اور بھیل وغیرہ جو کسی زمانہ میں اَعِزَّۃ میں سے تھیں انہیں ذلیل کر دیا.غرض ہر خارجی بادشاہت دُنیا میں ایک نیا تغیر پیدا کرتی اور پہلے نظام کو بدل کر ایک نیا نظام قائم کرتی ہے.جب دنیوی بادشاہتوں اور سلطنتوں کا یہ حال ہے تو کس طرح ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بادشاہت دُنیا میں قائم ہو اور وہ ان تغیرات کو عمل میں نہ لاوے بلکہ وہ تو اس سے بھی زیادہ تغیرات پیدا کرتی ہے.اس لئے کہ جب ایک بادشاہ دوسری
خطابات شوری جلد دوم ۱۳۴ مشاورت ۱۹۳۷ء مملکت پر غالب آجاتا اور اپنی افواج لے کر اس میں داخل ہو جاتا ہے تو صرف یہ کرتا ہے کہ اُس ملک کے جو معززین ہوں اُنہیں ذلیل کر دیتا ہے اور جو اس کی اپنی فوج کے معزز افراد ہوں اُنہیں اعلیٰ عہدے دے دیتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کی بادشاہت اس سے نرالی ہے کیونکہ جولوگ نبی کے ساتھ ہوتے ہیں وہ دُنیا میں معزز نہیں بلکہ ادنی سمجھے جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ سے یہ سُنت چلی آئی ہے کہ ابتداء میں انبیاء پر ایمان لانے والے چھوٹے درجہ کے لوگ ہوا کرتے ہیں.پس جب انبیاء کے ذریعہ سے تغیر ہوتا ہے تو بڑے چھوٹے ہی نہیں کئے جاتے بلکہ ساتھ چھوٹے بھی بڑے کئے جاتے ہیں.حالانکہ جب دُنیوی بادشاہ کسی ملک پر حملہ کرتے اور فاتح ہونے کی حیثیت میں اس ملک میں داخل ہوتے ہیں تو وہ صرف یہ تغیر کرتے ہیں کہ وہاں کے بڑے لوگوں کو چھوٹا کر دیتے ہیں اور اپنے بڑوں کو وہاں کا حاکم بنا دیتے ہیں لیکن انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ جب اللہ تعالیٰ اپنی بادشاہت قائم کرتا ہے تو وہ نہ صرف بڑوں کو چھوٹا بنا دیتا ہے بلکہ چھوٹوں کو اُٹھا تا اور اُنہیں بڑا بنا دیتا ہے.انگریز آئے تو اُن کے ساتھ بڑے بڑے لارڈ اور گورنر آئے ، مغل آئے تو اُن کے ساتھ بڑے بڑے رئیس اور نواب آئے ، پٹھان آئے تو اُن کے ساتھ بڑے بڑے جاگیردار اور سردار آئے مگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کوئی ہفت ہزاری اور ہشت ہزاری منصب رکھنے والا نہ تھا معمولی حیثیت رکھنے والے لوگ آپ کے ساتھ تھے ، وہی آپ پر ایمان لائے.اور جب خدا تعالیٰ نے اُن کے ذریعہ سے تغیر پیدا کیا تو ایک رئیس کی جگہ دوسرے رئیس نے نہیں لی بلکہ رئیسوں کی جگہ غرباء اور ظاہر نگاہ میں ادنیٰ نظر آنے والے لوگوں نے.اور صرف اُس ملک اور اُس علاقہ میں نہیں بلکہ ساری دُنیا میں.اگر صرف اس ملک میں چھوٹوں کو بڑا اور بڑوں کو چھوٹا کر دیا جاتا تو لوگ کہتے ہمارا اس میں کیا نقصان ہے ریاست تو پھر بھی ہمارے ہاتھ میں رہی مگر خدا تعالیٰ نے انہیں چھوٹا کر دیا اور غیروں کو لا کر بڑا بنا دیا.نہ صرف مکہ میں بلکہ عراق اور شام اور مصر اور ایران اور ہندوستان اور افغانستان اور روما میں بھی وہ غیر لوگ ہی تھے جو نہ صرف چھوٹے ہونے سے بڑے کئے گئے بلکہ حاکم اور بادشاہ بنا دیئے گئے اور دُنیا کا نقشہ اِس طرح بدل گیا کہ لوگوں کے لئے اصل حقیقت کا سمجھنا ہی مشکل ہو گیا.
خطابات شوری جلد دوم ۱۳۵ مشاورت ۱۹۳۷ء جبلہ کا ایک واقعہ جلہ بن الا یھم غستانی شام کا مشہور رئیس بلکہ اپنے علاقہ کا بادشاہ تھا جو اپنی قوم کے ساٹھ ہزار عیسائیوں کو لے کر مسلمان ہو گیا.ایک دفعہ اُس کے دل میں شوق پیدا ہوا کہ حج کر آؤں.دراصل اُسے اسلام سے کوئی واقفیت نہ تھی وہ صرف شوکتِ اسلام کو دیکھ کر ایمان لے آیا تھا ایمان کی حقیقت سے واقف نہیں تھا.حج کے لئے مکہ پہنچا تو اُس نے ایک بڑا سا لمبا جبہ پہنا ہوا تھا جس طرح آجکل عزت کا معیار یہ سمجھا جاتا ہے کہ کوٹ چھوٹا ہو اور جتنا زیادہ کوئی شخص اپنے آپ کو معززسمجھتا ہے اُتنا ہی وہ کوٹ چھوٹا کر لیتا ہے.اسی طرح اُس زمانہ میں عزت کا معیار یہ سمجھا جاتا تھا کہ کوٹ لمبا ہو اور جتنا زیادہ کوئی شخص اپنے آپ کو معزز سمجھتا تھا اُتنا ہی زیادہ وہ کوٹ لمبا بنالیتا تھا اسی کے مطابق وہ بھی ایک لمبا سا جبہ پہن کر آیا.ایک جگہ وہ جبہ پھیلا کر یوں بیٹھا ہوا تھا جیسے مرغی اپنے پر پھیلا کر بیٹھتی ہے کہ اتفاقاً ایک غریب مسلمان پاس سے گزرا اور اُس کا پیر اُس کے جبہ پر پڑ گیا.جبلہ نے دیکھا تو زور سے اُسے ایک مکہ مارا اور کہا شرم نہیں آتی تیرے جیسا ر ذیل آدمی میرے جبہ پر اپنا پاؤں رکھتا ہے.خیر وہ مسلمان تو چلا گیا لیکن کسی اور نے اُسے کہا کہ تو نے یہ سخت بُری حرکت کی ہے.اگر عمر (رضی اللہ عنہ ) کو پتہ لگ گیا تو وہ تجھے سزا دیئے بغیر نہیں رہیں گے.وہ کہنے لگا کیا جبلہ کو بھی سزا دی جا سکتی ہے؟ اس مسلمان نے جواب دیا کہ اسلام نے جو قانون مقرر کیا ہے وہ سب کے لئے ہے امیر اور غریب کا اِس میں کوئی فرق نہیں.جبلہ کہنے لگا میں تو بادشاہ ہوں کیا میرے لئے بھی رعایت نہ ہوگی؟ اُس نے کہا اسلام کا قانون سب کے لئے ہے بادشاہ بھی اُس سے مستثنیٰ نہیں ہوتے.چونکہ یہ گفتگو سُن کر اُس کے دل میں کچھ خلش سی پیدا ہو گئی تھی.وہ تھوڑی دیر کے بعد خود ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا کہ پوچھے تو سہی بات کیا ہے.چنانچہ حضرت عمر سے کہنے لگا اگر کوئی بڑا آدمی چھوٹے آدمی کو تھپڑ مار دے تو آیا اُس کی بھی کچھ سزا ہے؟ حضرت عمرؓ نے کہا جبلہ! کہیں تو نے تو ایسی حرکت نہیں کی؟ یا درکھ اگر تُو نے کسی غریب مسلمان کو مارا ہے تو اس کی سزا میں تجھے ضرور دوں گا.جبلہ کہنے لگا میں نے تو صرف ایک بات پوچھی ہے خود تو کسی کو نہیں مارا.یہ کہہ کر وہ کوئی بہانہ بنا کر وہاں سے باہر نکلا اور اپنی قوم کو لے کر چلا گیا اور پھر عیسائی لشکر کے ساتھ شامل ہو گیا اور سالہا سال اُن سے مل کر مسلمانوں کا مقابلہ
مشاورت ۱۹۳۷ء خطابات شوری جلد دوم کرتا رہا.تو اسلام نے تمدنوں کو بدلا، اسلام نے چھوٹی قوموں کو اونچا کیا اور دُنیا کے لئے اُنہیں مفید اور کارآمد بنایا.کہاں غستان کا بادشاہ اور کہاں مکہ یا مدینہ کا ایک غریب عرب.اسلام نے اس غریب کو اونچا کر دیا اور دوسرے ملکوں کے بادشاہوں کو بھی نیچا کر دیا.مامورین کی آمد کی غرض بس اللہ تعاذ پس اللہ تعالیٰ کے مامورین جب آتے ہیں تو دُنیا کا نقشہ شخص بدلنے کے لئے آتے ہیں.وہ صرف افراد کی ہدایت کے لئے نہیں آتے.اگر افراد کی ہدایت ہی اللہ تعالیٰ کے مدنظر ہوتی تو ایک ایک فرشتہ ہر ایک پر نازل ہوتا اور اُسے خواب کے ذریعہ ہدایت کا راستہ دکھا دیتا لیکن خدا تعالیٰ نے ایسا نہیں کیا بلکہ اپنے مامور بھیجے اور دُنیا کو یہ دعوت دے کر کہ اُس کے ہاتھ پر سب جمع ہو جائیں دُنیا میں ایک شور مچا دیا.پس خدا تعالیٰ کے انبیاء اس لئے نہیں آتے کہ وہ افراد کو ہدایت دیں بلکہ اس لئے آتے ہیں کہ دُنیا کا نقشہ بدل دیں.اس لئے آتے ہیں کہ تنظیم کریں، اس لئے آتے ہیں کہ ایک روحانی فوج تیار کریں اور اُس کے ذریعہ دُنیا کو فتح کریں.اگر ہم میں سے کوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لاتا ہے اور کہتا ہے الْحَمْدُ لِلہ مجھے آپ کی شناخت کی توفیق حاصل ہوئی تو اُسے سمجھنا چاہئے کہ اُس کی ہدایت کے لئے خدا تعالیٰ کو مسیح موعود بھیجنے کی کیا ضرورت تھی.کیا خواب کے ذریعے اللہ تعالیٰ اُسے ہدایت نہیں دے سکتا تھا؟ اور کیا اُس کا دل کھول کر ایسے صحیح راستہ کی طرف اُس کی راہنمائی نہیں کر سکتا تھا؟ آخر ایک کو جو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی اور لاکھوں کروڑوں نفوس کو کفر کی ڈیوڑھی میں لا کر کھڑا کر دیا، قتل و خونریزی تک نوبت پہنچی، فسادات ہوئے اور جھگڑے برپا ہوئے تو اس کی کیا وجہ ہے؟ اگر محض ہدایت دینا مدنظر تھا تو ایک ایک فرشتہ نازل ہوتا اور افراد کو صحیح راستہ بتا دیا جاتا.ایک آدمی کے ہاتھ سے ہدایت دینے کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک شخص کے ہاتھ میں سب دُنیا کے ہاتھ رکھنا چاہتا ہے.اگر تم اس نکتہ کو مدنظر نہیں رکھتے اور تنظیم کا خیال نہیں کرتے اور کہتے ہو الْحَمْدُ لِلَّهِ ہمیں یہ ہدایت حاصل ہو گئی تو غفلت اور شستی کی علامت ہو گی اور گوالفاظ کے لحاظ سے تم الْحَمْدُ لِلَّهِ ہی کہہ رہے ہو گے مگر حالت انا للہ کہنے کی ہوگی کیونکہ ایسے انسان نے انبیاء
خطابات شوری جلد دوم ۱۳۷ مشاورت ۱۹۳۷ء کی بعثت کے مقصد کو سمجھا ہی نہیں.اس نے سمجھا ہے کہ ما مورین بھی صوفیاء کی طرح ہوتے ہیں جو آتے ہیں اور وعظ ونصیحت کر کے چلے جاتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ کے مامورین دُنیا کو بدل دینے کے لئے آیا کرتے ہیں اور نہ صرف وہ تغیر پیدا کرتے ہیں جس کا ملکہ سبانے ان الفاظ میں ذکر کیا کہ جَعَلُوا أَعِزَّةُ أهْلِهَا اذلة ، بلکہ وہ تغیر بھی پیدا کرتے ہیں جس کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام میں ان الفاظ میں ذکر ہے کہ کئی چھوٹے ہیں جو بڑے کئے جائیں گے اور کئی بڑے ہیں جو چھوٹے کئے جاویں گے پس مقام خوف ہے اس الہام میں جب یہ کہا گیا کہ کئی بڑے ہیں جو چھوٹے کئے جاویں گے تو اس کے یہ معنی تھے کہ دُنیا کے بادشاہ، دُنیا کے وزراء، دُنیا کے فلاسفر، دُنیا کے سائنسدان، دُنیا کے بڑے بڑے جرنیل، دُنیا کے انجینئر اور دُنیا کے ڈاکٹر غرض ہر شعبہ کے لوگ سلسلہ احمدیہ کے مقابلہ میں آکر کسی نہ کسی رنگ میں زک اور ذلت اُٹھا ئیں گے اور جب یہ کہا کہ کئی چھوٹے ہیں جو بڑے کئے جائیں گے تو ان چھوٹوں سے مراد تم لوگ ہو جو احمدیت میں داخل ہوئے.ہم میں سے ایک بھی ایسا شخص نہیں جو یہ کہہ سکے کہ دُنیا کے بڑے لوگوں کے مقابلہ میں اُس کی کچھ حیثیت ہے.ایک امیر کا واقعہ مجھے ایک لطیفہ ایک شخص کا ہمیشہ یادرہتا ہے.چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب ایک دفعہ ایک دوست کو میری ملاقات کے لئے لائے یا انہوں نے اس دوست کو میری ملاقات کے لئے بھیجا.مجھے اس وقت اچھی طرح یاد نہیں کہ وہ خود ساتھ تھے یا نہیں.بہر حال اُس کے تعارف کا ذریعہ وہ تھے.یہ صاحب ایک زمیندار ہیں اور ایک بڑی ریاست میں بھی ایک معزز عہدہ پر ملازم رہ چکے ہیں.باتوں باتوں میں اُنہوں نے والی ریاست کے متعلق کچھ گفتگو شروع کر دی مگر اس رنگ میں کہ وہ تو عجیب آدمی ہیں.پرانا اور روی سامان بھی آثار قدیمہ قرار دے کر خرید لیا کرتے ہیں.اور یہ کہتے ہوئے وہ بار بار اُن گرسیوں اور صوفوں کی طرف اشارہ کرتے جاتے جو میرے کمرہ میں پڑے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ اس قسم کا رڈی کا سامان بھی وہ اچھا سمجھ کر خرید لیتے ہیں.اب ذرا غور تو کرو کہ وہی سامان جو ہماری جماعت کے منافقوں کی نظر میں بوجہ حکمتوں سے ناواقف ہونے کے قابل اعتراض نظر آتا ہے، اس رئیس کے نزدیک نہایت ہی ذلیل
۱۳۸ مشاورت ۱۹۳۷ء خطابات شوری جلد دوم اور قابلِ حقارت تھا اور باوجود اس کے کہ ہمارے ملک کے رواج کے مطابق صاحب خانہ کے سامان کے متعلق اس قسم کے الفاظ کا استعمال نا پسندیدہ سمجھا جاتا ہے وہ صاحب اس سامان کے رڈی ہونے سے کچھ ایسے متاثر ہوئے کہ اُس کے سوا اُنہیں اور کوئی مثال ہی نظر نہ آتی تھی.اب سوچو تو سہی ان امراء کے لئے کتنی مصیبت ہو گی جو اس قسم کے خیالات رکھنے والے ہوں گے، جب احمدیت پھیل کر اُن سے مطالبہ کرے گی کہ وہ سادہ زندگی اختیار کریں اور غریبوں کی ترقی کے لئے اپنے اموال خرچ کریں اور اُن کو ان غرباء سے حکم سُننے پڑیں گے جن کو خدا تعالیٰ نے پہلے احمدیت میں داخل کر دیا لیکن اگر خالی احمدیت پر ایمان لے آئیں ، اور اپنی زندگی میں کوئی تغیر پیدا نہ کریں تو ایسے ایمان کا کیا فائدہ ہو سکتا ہے اور اس قسم کا ایمان احمدیت کی ترقی میں کس طرح محمد ہوسکتا ہے.اگر ایمان لا کر بھی وہی رسم و رواج رہیں جو پہلے تھے تو دُنیا خاک بدلے گی؟ حالانکہ ہونا یہ ہے کہ یہ آسمان ایک اور آسمان سے اور یہ زمین ایک اور زمین سے بدلنی ہے.اب تک احمدیت کی وجہ سے ہماری جماعت کے افراد میں جو تغیر ہوا ہے وہ صرف یہ ہے کہ مسیح ناصری کو وفات یافتہ مان لیا، اجرائے نبوت کے مسئلہ کو تسلیم کر لیا اور اسی طرح کے بعض اور اعتقادی امور میں عام مسلمانوں سے الگ طریق عمل اختیار کر لیا.عبادات میں دوسروں سے زیادہ با قاعدگی پیدا کر لی مگر عملی تغیرات جو نظام سے تعلق رکھتے ہیں، ان میں اب تک کیا تبدیلی ہوئی ہے؟ اور وہ تبدیلی ہو کس طرح سکتی ہے جب تک یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ ہم اس دُنیا کو مٹانے اور ایک نئی دنیا کی تعمیر کے لئے کھڑے کئے گئے ہیں.میں دیکھتا ہوں کہ اگر کسی کے دل میں عملی تغیر کے یورپی فلسفہ پر اسلام کی برتری متعلق جوش بھی پیدا ہوتا ہے تو وہ اسلام کی تعلیم کے لعنتی ماتحت نہیں بلکہ یورپین مصنفین کی کتابیں پڑھ کر.حالانکہ ان مصنفین کی دونوں تعلیمیں ہیں.وہ بھی لعنتی ہے جو امراء کی تائید میں ہے اور وہ بھی لعنتی ہے جو غرباء کی تائید میں ہے.اُس میں بھی جھوٹ ہے اور اس میں بھی جھوٹ ہے.اُس میں بھی گند ہے اور اس میں بھی گند ہے.اُن کی تہذیب کی مثال بالکل ویسی ہے جیسے کسی نے ایک اونٹ سے پوچھا تھا کہ
خطابات شوری جلد دوم ۱۳۹ مشاورت ۱۹۳۷ء پہاڑ کی اُترائی اچھی ہے یا چڑھائی؟ تو وہ کہنے لگا ہر دو لعنت.ان میں سے بعض بے وقوف بھی یورپ کی سوشلزم کی کتابیں پڑھتے اور انہیں پڑھ کر کہتے ہیں غرباء کے متعلق اُن میں جو نظریہ پیش کیا گیا ہے یہ بالکل اسلام کی تعلیم کے مطابق ہے حالانکہ اسلام کی تعلیم اور اُن کی تعلیم میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے.پھر ان میں سے دوسرے بیوقوف جو امراء کے نکتہ نگاہ کے حامی ہوتے ہیں جب کیپٹل ازم ( یعنی استکنار مال) کے متعلق یورپین نظریہ دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں یہ بالکل ٹھیک ہے یہ اسلام کی تعلیم کے مطابق ہے حالانکہ یہ بھی جھوٹ ہوتا ہے.غرض یورپ کی دونوں تعلیمیں غلط ہیں اور اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں.اسلام کی تعلیم بالکل جداگانہ حیثیت رکھتی ہے.اگر یورپ کے فلاسفر اس تعلیم کو اپنی عقلوں سے سمجھ سکتے تو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت اور قرآن مجید کے نازل کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی.اسلام تو تعلیمات کا ایک وسیع سلسلہ ہے جس کی جزئیات سے بھی یورپین لوگ واقف نہیں.یورپ میں طلاق کا رواج مثلاً دیکھ لو یورپ میں طلاق کا مسئلہ رائج ہو گیا لیکن کیا یہ وہی طلاق ہے جس کی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تعلیم دی.اگر کوئی شخص غور کرے تو اُسے معلوم ہو گا کہ گو نام کے لحاظ سے یہ طلاق ہے اور اسلام کے پیش کردہ مسئلہ سے اس کا نام ملتا ہے لیکن تفصیلات بالکل اور ہیں.اور اب جو یورپ میں طلاق کا رواج ہے اس کی کوئی حد بندی ہی نہیں رہی.ایسی ایسی تمسخر آمیز طلاقوں کی وارداتیں ہوتی ہیں کہ سُن کر حیرت آتی ہے اور انسان کہتا ہے کہ یہ لوگ پاگل ہو گئے ہیں.ٹائمنر آف لنڈن میں ایک دفعہ میں نے پڑھا کہ ایک ایسی عورت کی وفات ہوئی ہے جو ۱۷ خاوند کر چکی تھی اور گیارہ زندہ خاوند اُس کے جنازے میں شامل تھے.اُن خاوندوں سے جو طلاق کی وجوہ لکھی تھیں وہ بھی عجیب و غریب تھیں.ایک خاوند سے تو اُس نے اس لئے طلاق لی کہ اُسے شکوہ تھا کہ جب وہ گھر میں آتا ہے تو مجھے بوسہ نہیں دیتا.عدالت میں مقدمہ گیا اور عدالت نے تسلیم کیا کہ واقعہ میں یہ بہت بڑا ظلم ہے اور اب دونوں کا نباہ مشکل ہے، طلاق ہو جانی چاہئے.پھر ایک اور خاوند سے طلاق لینے کی وجہ یہ لکھی تھی کہ اس عورت نے کہا میں نے ایک ناول لکھا ہے اور میرا خاوند اسے چھپوانے کی
خطابات شوری جلد دوم ۱۴۰ مشاورت ۱۹۳۷ء اجازت نہیں دیتا.عدالت میں یہ مقدمہ پیش ہوا اور عدالت نے تسلیم کیا کہ واقعہ میں یہ بہت بڑا ظلم ہے، اس صورت میں طلاق ضرور مل جانی چاہئے.تو محض اس لئے کہ یورپین مصنفین کی کتابوں میں طلاق کا لفظ آ گیا یہ سمجھ لینا کہ اسلامی طلاق اور وہ طلاق ایک ہی ہے یا محض اس لئے کہ ان کتابوں میں مساوات کا لفظ آ گیا یہ خیال کر لینا کہ اسلامی مساوات اور ان کی مساوات ایک ہی چیز ہے، بہت بڑی غلطی ہے.دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے.اور یہ نادانی ہو گی اگر خیال کر لیا جائے کہ امراء کے متعلق جو اسلام نے تعلیم دی ہے وہی فلاں یورپین فلاسفر نے بھی پیش کی ہے.اُس فلاسفر نے جو کچھ کہا ہوگا نامکمل اور ناقص ہوگا اور وہ کچھ نہیں کہا ہوگا جو اسلام دُنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہے.اسی طرح اگر کسی سوشلسٹ یا بالشوسٹ نے کوئی تعلیم دنیا کی بہتری کی پیش کی ہوگی جسے پڑھ کر تم کہتے ہو یہی اسلام بھی پیش کرتا ہے، تو یہ بالکل جھوٹ ہوگا کیونکہ اس کی جُزئیات اتنی ناقص ، اتنی گندی ، اتنی خراب ، اور اتنی نا معقول ہوں گی کہ اگر دُنیا اُن پر عمل کرے تو تباہ ہو جائے.خالی منہ سے مترادف الفاظ دُہرا دینے سے کچھ نہیں بنتا.کیا سارے مذہب والے یہ نہیں کہتے کہ سچ بولو؟ مگر کیا پھر سچ کی تعریف میں اختلاف نہیں؟ کیا تمام مذاہب والے یہ نہیں کہتے کہ توحید کا عقیدہ اختیار کرنا چاہئے؟ مگر کیا اُن کی تو حید اور اسلام کی توحید ایک ہی ہے؟ کیا عیسائی منہ سے توحید کے قائل نہیں یا آریہ منہ سے تو حید کے قائل نہیں ؟ یہ سب تو حید کے قائل ہیں.مگر اسلامی توحید سے ان کی توحید کا عقیدہ ملتا ہے؟ پس لفظوں سے فریب نہ کھاؤ اور یقیناً سمجھو کہ اسلام نہ کیپٹل ازم قائم کرنا چاہتا ہے نہ سوشلزم نہ بالشوازم قائم کرنا چاہتا ہے نہ فاسزم یا نائسزم بلکہ اسلام ایک نئی چیز دُنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے.ایسی چیز جو دنیا کی نگاہوں سے اس وقت اوجھل ہے اور مکنون ہے.وہ بے شک قرآن مجید میں پائی جاتی ہے لیکن قرآن مجید سے اس تعلیم کو معلوم کرنا ہر ایک کا کام نہیں.اور موجودہ زمانہ میں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس لئے بھیجا ہے کہ تا آپ اس کتاب مکنون کو ظاہر کریں.پس اس تعلیم کو دُنیا میں پھیلانے اور اس کے مطابق عالم کا نقشہ بدلنے کے لئے ہمیں ایک ایک مرحلہ اور ایک ایک قدم پر اس طرح جنگ کرنا پڑے گی جس طرح آجکل سپین میں جنگ ہو رہی ہے کہ بعض بلڈنگز کو فتح کرنے پر ہی کئی کئی دن لگ
خطابات شوری جلد دوم ۱۴۱ مشاورت ۱۹۳۷ء گئے ہیں.مثلاً ایک کمرہ آج باغیوں کے پاس ہے حکومت نے اُس کمرہ کیلئے لڑائی کی اور لڑائی جاری رکھی یہاں تک کہ اُسے اپنے قبضے میں کر لیا.پھر دوسرے کمرہ پر لڑائی ہوئی اور پھر تیسرے پر یہاں تک کہ پندرہ پندرہ دن میں ایک ایک عمارت فتح ہوئی ہے اور نہ صرف ایک ایک کمرہ پر بلکہ ایک ایک دروازہ اور ایک ایک کھڑکی اور ایک ایک روشندان پر لڑائی ہوئی ہے.پھر کیا تم سمجھتے ہو شیطان اتنی بھی ہم سے لڑائی نہیں کرے گا جتنی اس وقت سپین میں ہو رہی ہے؟ یقیناً وہ اس سے زیادہ لڑائی کرے گا اور اس سے زیادہ مشکلات پیدا کرے گا.اور وہ کئی کئی ناموں، کئی کئی اصطلاحوں اور کئی کئی تفصیلوں سے دھوکا دینا چاہے گا اور لوگ سمجھیں گے کہ یہی اسلام ہے حالانکہ وہ اسلام نہیں ہو گا.پس مت خیال کرو کہ تمہارا محض احمدی ہو جانا اور عقائد میں تبدیلی اختیار کر لینا کافی ہے.بعثت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غرض حضرت حج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض یہ ہے کہ ہم دُنیا میں ایک عظیم الشان تغیر پیدا کریں پس ہم نے دُنیا میں ایک تبدیلی پیدا کرنی ہے ایک بربادی اور تباہی ڈالنی ہے اور پھر اُس بربادی اور تباہی کے بعد ایک نئی عمارت تعمیر کرنی ہے.گویا پہلی عمارتوں کو مٹانا اور نئی عمارتوں کو اُستوار کرنا ہے.یہ کام کوئی معمولی کام نہیں.اس کام کے لئے جس بیداری ، جس ایثار ، جس قربانی اور جس سمجھ کی ضرورت ہے اُس کا اندازہ لگانا بھی انسانی سمجھ سے بالا ہے.اور گو اس کی اہمیت کو پورے طور پر سمجھنے سے قاصر ہوں لیکن بہر حال ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ہم سمجھیں اور جس حد تک اس کا احساس اپنے دلوں میں پیدا کر سکتے ہیں، اُس حد تک احساس پیدا کریں.میں اس وقت یہ اقرار کرنے کے لئے تیار ہوں کہ جس دن میں خلیفہ ہوا تھا، اُس دن اِس اہمیت کا میں دسواں حصہ بھی نہیں سمجھا تھا جو آج سلسلہ کی سمجھ رہا ہوں.پس میں یہ نہیں کہتا کہ آپ لوگ مستقبل کا کما حقہ اندازہ کریں.یہ بے شک ایک ناممکن کام ہوگا لیکن بہر حال کچھ نہ کچھ اندازہ ہونا چاہئے اور کچھ نہ کچھ حدود ہمارے سامنے ہونی چاہئیں گو تفصیلات کا ہم احاطہ نہ کر سکتے ہوں.ایک احمدی کا فرض میں دیکھتا ہوں اس نقص کی وجہ سے ہمارے کاموں میں ایک قسم کی سستی اور غفلت پائی جاتی ہے اور بہت سے احمدی ایسے ہیں
خطابات شوری جلد دوم ۱۴۲ مشاورت ۱۹۳۷ء جوایمان لاکر سمجھتے ہیں کہ اُن کی پیدائش کی غرض پوری ہوگئی حالانکہ جس دن کوئی شخص احمدی بنتا ہے وہ فوج میں داخل ہوتا ہے.تم کبھی نہیں دیکھو گے کہ کوئی شخص فوج میں اپنا نام داخل کرا کر گھر چلا جائے اور آرام سے لیٹ جائے مگر کئی لوگ ہیں جو احمدیت میں داخل ہو کر سمجھتے ہیں کہ یہی اُن کا مقصود تھا.حالانکہ احمدی ہونے کے یہ معنے ہیں کہ وہ فوج میں داخل ہوتے ہیں اور کوئی شخص فوج میں داخل ہو کر گھر میں نہیں بیٹھ رہتا بلکہ کام کرتا اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں منہمک ہو جاتا ہے لیکن ہمارے فوجی اکثر ایسے ہی ہیں جو نام لکھا کر اپنے گھروں میں چلے گئے ہیں.یاد رکھو اللہ تعالیٰ کی یہ سنت نہیں کہ وہ اکیلے نجات دے.خدا کی یہ سنت ہے کہ وہ اکٹھی نجات دیتا ہے.جو لوگ کوشش کرتے اور کام کرتے ہیں خُدا انہیں بخش دیتا ہے لیکن جو لوگ کوشش نہیں کرتے انہیں خدا تعالیٰ کی بارگاہ سے دھتکار دیا جاتا ہے.دیکھ لوسورہ فاتحہ میں ہی خدا تعالیٰ نے ااِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ - ایک اہم نکتہ میں بار بار ہم ہم الفاظ استعمال کئے ہیں، میں میں نہیں سکھایا.ہم تیری عبادت کرتے ہیں، ہم تجھ سے مدد چاہتے ہیں ہمیں سیدھا راستہ دکھا.سب جگہ ہم ہی ہم کے الفاظ ہیں.اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ نکتہ سمجھایا ہے کہ ہم نے تمہیں اس لئے کھڑا کیا ہے کہ تم سب کو اپنے ساتھ شریک کرو اور کام کرو لیکن کیا ہم اس عظیم الشان مقصد کے لئے وہی کچھ کوشش کر رہے ہیں جو ہمیں کرنی چاہئے؟ میں تو سمجھتا ہوں اس عظیم الشان تغییر کے لئے جن کوششوں کی ضرورت ہے اُن کا ہم عشر عشیر بھی نہیں کر رہے.بڑے نقص کی بات یہ ہے کہ ہمارے دوست بات کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے اور چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف اپنی نگاہ رکھتے ہیں.مثلاً ایک معمولی سی بات ہے.میں نے کئی دفعہ کہا ہے کہ مجھ سے سفارشیں نہ کرایا کرو مگر دوست اس بات کو بھی نہیں سمجھتے اور وہ شخص جو اپنے روحانی مقام کے لحاظ سے اس وقت کے دُنیوی بادشاہوں سے بھی خدا تعالیٰ کے نزدیک بڑی شان رکھتا ہے اُسے کہا جاتا ہے کہ معمولی افسروں کے پاس ہماری سفارش کر دیں اور انہیں خیال بھی نہیں آتا کہ یہ بُری بات ہے حالانکہ اس سے زیادہ شرم کی بات اور کیا ہوگی کہ مجھ سے کسی دنیوی افسر کے پاس سفارش کرائی جائے.جب میں ایسے دوستوں سے کہتا ہوں کہ کیا
خطابات شوری جلد دوم ۱۴۳ مشاورت ۱۹۳۷ء آپ نے میرے خطبات کو نہیں پڑھا؟ میں نے تو اس سے منع کیا ہے.تو وہ کہتے ہیں پڑھا تو تھا مگر میں نے سمجھا اس کا فلاں مطلب ہے گویا جس طرح کہتے ہیں.چوں قضا آید طبیب ابله شود اُن کی یہ حالت ہوتی ہے کہ جب اُنہیں حرص پیدا ہوتی ہے، اُن کی آنکھیں اندھی ہو جاتی ہیں اور وہ سفارش کرانے کے لئے دوڑ پڑتے ہیں تو کچھ دنوں کی بات ہے میں قادیان آ رہا تھا.ریل کے اُسی کمرہ میں ایک معزز عہدہ دار میرے ہم سفر تھے.وہ مجھ سے کہنے لگے میں قادیان کو دیکھنے جا رہا ہوں.پھر خود ہی کہنے لگے آپ تو قادیان کے بادشاہ ہوئے.میں نے کہا میں تو کوئی بادشاہ نہیں، بادشاہ انگریز ہیں.وہ کہنے لگے ہاں مگر آپ کو بھی ایک رنگ کی بادشاہت حاصل ہے.میں نے کہا اگر اس بادشاہت کا ذکر ہوتو اس میں قادیان کی کیا شرط ہے ویسی بادشاہت تو مجھے ساری دنیا کی حاصل ہے.آپ نے تو قادیان کا نام لے کر میری بادشاہت کو کم کر دیا.اس پر وہ کہنے لگے یہ اور قسم کی بادشاہت ہے.میں نے کہا اور قسم کی بادشاہت مجھے کوئی حاصل نہیں ایک ہی قسم کی بادشاہت مجھے حاصل ہے اور قادیان سے محدود نہیں بلکہ اُس کا تعلق سب دنیا سے ہے.ہماری ذمہ داریاں تو ہمیں خدا تعالیٰ نے اس غرض کے لئے دنیا میں کھڑا کیا ہے کہ ہم بادشاہتوں کو الٹ دیں، حکومتوں کو بدل دیں اور سلطنتوں میں انقلاب پیدا کر دیں اور پھر اُن بادشاہتوں ، حکومتوں اور سلطنتوں کی جگہ نئی حکومتیں اور نئی سلطنتیں قائم کریں اور دنیوی حکومتوں کو اپنے ماتحت لا کر انہیں مجبور کریں کہ وہ اُس تعلیم کو جاری کریں جو اسلام دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے.لوگوں کو یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہوگی مگر ہمیں تو اس میں کچھ بھی عجیب امر نظر نہیں آتا.صرف یقین کی بات ہوتی.ہے وہ پیدا ہو جائے تو ناممکن نظر آنے والے امور بھی ممکن بن جاتے ہیں.لطیفہ یہ ہے کہ اس تقریر کے دوسرے ہی دن بعض دوست جو شوری کے نمائندے تھے یہ اس میں بطور مہمان شامل تھے مجھ سے سفارش کرانے کے لئے آپہنچے.اللہ تعالیٰ اس نابینے پن اور بہرے پن سے جماعت کو نجات دے.
خطابات شوری جلد دوم ۱۴۴ مشاورت ۱۹۳۷ء میاں بگھا کا لطیفہ مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا.ہے تو وہ لطیفہ مگر اس سے کم از کم یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ اُس شخص کو حضرت خلیفہ اول کی ذات پر کس قدر اعتماد تھا.یہاں ایک نیم عقل کا آدمی ہو ا کرتا تھا.میاں بگا اُس کا نام تھا، اُس کی بیوی فوت ہوگئی.بیوی کی وفات کے بعد حضرت خلیفہ اول کے سامنے وہ جب کبھی آتا آپ فرماتے.میاں بگا شادی کرنی ہے وہ کہتا ”سوچ دے ہاں ایک دن حضرت خلیفہ اول کہیں سے آرہے تھے، میاں بگا آپ کے ساتھ تھا.میں بھی اُس وقت اتفاقاً مسجد کی سیڑھیوں سے اُتر رہا تھا.مجھے دیکھ کر حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے.لومیاں بگے کی شادی کا انتظام ہو گیا.پھر فرمانے لگے یہ ابھی مجھے ملا ہے اور اس نے آ کر کہا ہے کہ میری شادی کا پختہ انتظام ہو گیا ہے تھوڑی سی کسر باقی ہے وہ آپ پوری کر دیں.جب میں (حضرت خلیفہ اوّل) نے اُس سے پوچھا کہ مبارک ہو کہاں انتظام ہوا اور کیا ہوا ہے.تو اُس نے جواب دیا کہ بات یہ ہے کہ نکاح کے لئے میں بھی راضی ہو گیا ہوں اور میری والدہ بھی راضی ہو گئی ہے اب آپ صرف لڑکی اور روپے کا انتظام کر دیں ، تو شادی ہو جائے گی.فتوحات اور تیاری کی ضرورت یہ ہے تو جنسی کی بات مگر اس سے اتنا ضرور ثابت ہوتا ہے کہ اُسے یہ خیال تھا کہ صرف میری رضا کی ہی ضرورت ہے، ورنہ حضرت خلیفہ اول اس کی شادی کہیں ضرور کرا دیں گے.اگر اُس نیم مجنوں کو حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کی ذات پر اس قدر اعتماد ہوسکتا تھا تو کیا ہمیں خدا تعالیٰ کے وعدوں پر اتنا اعتماد بھی نہیں رہا؟ ہمارا خدا کہتا ہے کہ مسیح موعود کے ماننے والوں کو ہم دُنیا پر حکمران کر دیں گے اور اُن کے ذریعہ ایک نیا آسمان اور نئی زمین بنائیں گے.دُنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب کسی بات پر یقین ہوتا ہے تو ہم اُس کے مطابق تیاری شروع کر دیتے ہیں.چنانچہ دیکھ لو جب تمہارا کوئی دوست تمہارے پاس آتا اور آکر کہتا ہے کہ میں نے یہ یہ سامان تمہیں تحفہ کے طور پر بھجوایا ہے تو تم سامان آنے سے پہلے ہی اُس کے لئے تیاری شروع کر دیتے ہو.مثلاً اگر اُس نے گوشت کی ران تحفہ بھیجنے کو کہا ہو تو تم فوراً گھر آ کر کہہ دیتے ہو کہ بی بی! آج گوشت نہ منگوانا ، فلاں دوست کے گھر سے گوشت کی ران
خطابات شوری جلد دوم ۱۴۵ مشاورت ۱۹۳۷ء تحفہ آئے گی.یا اگر وہ چاولوں کا تاجر ہے اور اُس نے ہمیں تھیں من چاول تحفہ کے طور پر بھجوا دیئے ہوں تو تم گھر آ کر کہتے ہو بیوی ! اب کے فراغت ہو گئی چاول اس سال ہم نہیں خریدیں گے کیونکہ فلاں دوست تحفہ اتنے من چاول بھیجنے والا ہے.غرض تم فوراً اُس کے لئے تیاری شروع کر دیتے ہو اور اگر سامان زیادہ ہو تو اُس کو رکھوانے کے لئے کمرہ خالی کرا دیتے ہولیکن اس کے مقابلہ میں جب تمہیں کوئی پاگل ملتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تحفہ گوشت بھیج رہا ہوں تو آپ کہہ دیتے ہیں شکریہ شکریہ! اور اس کی بات کو کچھ اہمیت نہیں دیتے لیکن جو عظمند دوست ہوتا ہے اس کی بات سُن کر معا تیاری شروع کر دیتے ہیں.اس مثال کے مطابق اب آپ لوگ خدا تعالیٰ کے وعدوں اور اپنی تیاریوں کو دیکھیں.خدا تعالیٰ نے کہا کہ وہ آپ کو فتوحات اور کامیابیاں عطا فرمائے گا.اب آپ خود ہی اپنے حالات کو دیکھیں کہ کیا کامیابی کی دُلہن لانے کے لئے آپ نے اُسی قسم کی تیاریاں شروع کر دی ہیں جس قسم کی تیاریاں کرنی چاہئیں؟ یا خدا تعالیٰ کی بات کو آپ نے ایک پاگل کی بڑ جیسا سمجھا ہے اور اُس کے مطابق کوئی تیاری نہیں کی؟ اگر کامیابی کی دُلہن کے استقبال کے لئے آپ لوگوں نے تیاری کی ہے تو سمجھا جا سکتا ہے کہ آپ لوگ خدا تعالیٰ کے وعدوں پر ایمان رکھتے ہیں لیکن اگر تیاری نہیں کی تو یہی سمجھا جا سکتا ہے کہ آپ نے خدا تعالیٰ کی بات کو نعوذ باللہ ایک پاگل اور مجنون کی بڑ سمجھا.دنیا میں چھوٹی چھوٹی انجمنیں اور سوسائٹیاں جس انہماک سے کام کرتی ہیں اُسی کو دیکھ لو.بوائے سکاؤٹس کی تحریک دیکھو، ینگ مینز کرسچن ایسوسی ایشنز کی تحریک دیکھو، کس سرگرمی سے ان تحریکات سے دلچسپی رکھنے والوں نے کام کیا اور کامیابی حاصل کی.پھر جرمن کے نازیوں کو دیکھو کہ باوجود اس کے کہ وہ نہایت قلیل تھے جب اُنہوں نے سمجھا کہ اُن کے ہاتھوں میں فتوحات آنے والی ہیں، اُنہوں نے اُن فتوحات کے مطابق قربانیاں کیں اور کامیابی حاصل کی.اٹلی کے فاسٹ (FASCIST) یقین رکھتے تھے کہ اُن کے ذریعہ دُنیا میں تغیرات ہونے والے ہیں اور اُنہوں نے اپنے اعمال سے ثابت کر دیا کہ وہ اُن تغیرات کو پیدا کرنے کے اہل تھے.لیکن ہماری جماعت کے افراد کا یہ حال ہے کہ اکثر چندوں کی باقاعدہ ادا ئیگی میں ہی سستی دکھا دیتے ہیں.میں یہ نہیں کہتا کہ وہ چندے نہیں
خطابات شوری جلد دوم ۱۴۶ مشاورت ۱۹۳۷ء دیتے ، دیتے ہیں مگر یاد دہانیوں کے بعد اور جو چندے دیتے بھی ہیں اُن میں سے بھی اکثر ہیں جو چندے دے کر سمجھتے ہیں کہ اُنہوں نے اپنے فرض کو پورا کر دیا.اسلامی حکومت کے قیام کیلئے حالانکہ وہ تغیر جو ہم نے دنیا کی طبائع، دنیا کے مزاجوں اور دُنیا کے اخلاق میں کرنا ہے اور وہ غیر معمولی قربانیوں کی ضرورت تغیر جس کے نتیجہ میں اسلامی حکومت کا قیام ہم نے عمل میں لانا ہے، اُس کے لئے اس سے بہت زیادہ بیداری، بہت زیادہ قربانی اور بہت زیادہ ایثار اور سرگرمی کی ضرورت ہے.مگر میں نے افسوس کے ساتھ دیکھا ہے ابھی چھوٹی چھوٹی باتوں میں ہی ہمارے احباب اُلجھ کر رہ جاتے ہیں.تحریک جدید کا میں نے بورڈنگ کھولا تو با وجود اس کے کہ اعلان کر دیا گیا تھا کہ اس میں بچوں کو مشقت برداشت کرنے کا عادی بنایا جائے گا اور سادہ غذا دی جائے گی ، پھر بھی شکایتیں آنی شروع ہو گئیں کہ ہمارے بچوں کو فلاں تکلیف ہے، کھانا ایسا ملتا ہے ایسا ملنا چاہئے حالانکہ یہ تمام باتیں پہلے سے بتا دی گئی تھیں اور ضروری بھی ہے کہ ہوں تا بچے جن پر آئندہ قوم کا انحصار ہو گا اُن کی ایسے ہی رنگ میں تربیت ہو کہ وہ زیادہ سے زیادہ قربانیاں پس میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی اہمیت سمجھے اور اپنا وہ مقام بھی پہنچانے جو خدا اتعالیٰ نے اُسے عطا کیا ہے.آپ لوگوں کے علاقہ میں معمولی افسر آ جائے تو آپ دوڑے دوڑے اُس کے پاس جاتے ، اُسے سلام کرتے اور اُس کی ملاقات میں فخر محسوس کرتے ہیں اور آپ کو یہ خیال بھی نہیں آتا کہ خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں آپ بہت بڑے افسر ہیں اور آپ کے مقابلہ میں اُس کی کچھ حیثیت ہی نہیں.پھر خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں با وجود ایک بہت بڑا افسر ہونے کے آپ ہیں کہ اپنے عہدے کا چارج لینے میں ہی نہیں آتے اور آپ کو اس بات کا یقین ہی نہیں آتا کہ خدا سچ بول رہا ہے.آپ سمجھتے ہیں کہ شاید وہ محول کر رہا ہے کیونکہ چارج لینے کے بعد انسان کام شروع کر دیتا ہے اور تمام امور کی نگرانی کرنے لگ جاتا ہے اور آپ ابھی اس رنگ میں کام نہیں کر رہے.شاید آپ لوگوں کو خیال آتا ہو کہ گورنمنٹ تنخواہیں دیتی ہے اور خدائی گورنمنٹ تنخواہ نہیں دیتی.مگر یہ
خطابات شوری جلد دوم ۱۴۷ مشاورت ۱۹۳۷ء خیال ہرگز صحیح نہیں.خدائی گورنمنٹ سب گورنمنٹوں سے زیادہ تنخواہ دیتی ہے.آپ کہیں گے وہ چندے بھی تو لیتی ہے مگر گورنمنٹ بھی تو ٹیکس وصول کرتی ہے.پھر آپ غور کریں کون سی چیز آپ کی اپنی ہے؟ اگر کوئی زمیندار ہے اور وہ زمین کی کاشت کرتا ہے تو کیا زمین خدا کی ہے یا اُس کی.پھر اگر کوئی پروفیسر ہے تو جس زبان سے وہ پڑھاتا ہے، جس دماغ سے وہ کام لیتا ہے، جن آنکھوں سے وہ دیکھتا اور جن کانوں سے وہ سُنتا ہے وہ اُس کے ہیں یا خدا کے عطیے ہیں؟ دراصل یہ سب چیزیں خدا تعالیٰ کی طرف سے تنخواہ ہیں جو انسان کو ملی.فرق صرف یہ ہے کہ قانونِ قدرت کی تنخواہیں سونے چاندی کی صورت میں نہیں ملتیں.دُنیوی حکومتوں میں بھی سونے چاندی کی شکل میں تنخواہیں بہت بعد میں تو ہونے لگی ہیں.پہلے دُنیاوی حکومتوں میں بھی اشیاء کی صورت میں تنخواہیں ملا کرتی تھیں.پس خدا تعالی کی طرف سے بھی انعام طبعی چیزوں کی شکل میں ملا کرتا ہے اور طبعی چیزیں یہی ناک، کان، آنکھ، منہ، زبان، دل، دماغ اور دوسرے اعضاء ہیں.پھر گورنمنٹ نوکری کے بعد تنخواہ دیتی ہے لیکن خدا تعالیٰ نے پہلے سے تنخواہ دے دی ہے.یہ تنخواہ اس قدر قیمتی ہے کہ جس قدر انسانی ترقیات ہوتی ہیں، سب اسی پر مبنی ہوتی ہیں.اچھا بھلا عقلمند آدمی ہوتا ہے اُس سے جب خدا اپنی عقل کی نعمت واپس لے لیتا ہے تو کیسا پاگل ہو جاتا اور بہکی بہکی باتیں کرنے لگ جاتا ہے.میں ایک دفعہ پاگل خانہ دیکھنے گیا.بچپن کی عمر تھی.وہاں پاگل خانے کا ایک منظر مجھے اپنی شخص سے تعلق بتایا گیا کہ یہ مولوی صاحب ہیں اور پاگل ہیں.میں اُس کے پاس کھڑا ہو گیا.اُس نے مجھ سے گفتگو شروع کر دی اور ایسی ایسی معقول باتیں کیں کہ میں حیران رہ گیا کہ اُسے پاگل خانہ میں کس طرح داخل کر دیا گیا ہے.اُس نے بتایا کہ پٹیالہ کے جو مولوی عبدالحق صاحب ہیں اُن کا وہ رشتہ دار ہے اور کوئی جائیداد کا معاملہ تھا جس میں دشمنی ہو جانے کی وجہ سے اُس کے رشتہ داروں نے اُسے پاگل خانہ میں بھجوا دیا.ڈاکٹر اُس کا اِتنا معتقد کہ وہ کہے یہ ولی اللہ ہیں.پھر اسی اثناء میں اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ذکر شروع کر دیا اور کہا کہ مرزا صاحب بڑے بزرگ ہیں.میں نے ان کی کتاب براہین احمدیہ سب پڑھی ہے اور براہین احمدیہ کے زمانہ سے ہی مجھے اُن
خطابات شوری جلد دوم ۱۴۸ مشاورت ۱۹۳۷ء پر اعتقاد چلا آ رہا ہے.اس کے بعد ازالہ اوہام چھپی تو وہ میں نے پڑھی.غرض ایسی ایسی سمجھ کی باتیں کیں کہ مجھے یقین آگیا کہ جو کچھ اس نے شروع میں کہا ہے یہ درست ہے اور اسے دشمنی سے ہی کسی نے پاگل خانہ میں بھجوا دیا ہے مگر یہیں تک گفتگو پہنچی تھی کہ وہ کھڑے ہو کر کہنے لگا.ایک بات بتاؤں مرزا صاحب سے ایک غلطی ہو گئی ہے.میں نے سمجھا کہ جب یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مرید نہیں تو واقعہ میں سمجھتا ہوگا کہ آپ سے غلطی ہوئی ہے.میں نے کہا فرمائیے.کہنے لگا حضرت عیسی علیہ السلام کی موت تو قرآن مجید سے ثابت ہے اور یہ بالکل درست ہے مگر يعيسى إني مُتَوَقِيكَ " میں مُتوقِيكَ کے معنے موت کے نہیں.اس پر میں نے پھر سمجھا یہ مولوی آدمی ہے متوفی کے معنے یہی سمجھتا ہوگا کہ میں پورا کروں گا اور خیال کرتا ہوگا کہ اس کے معنے بلا واسطہ موت کے نہیں لیکن جب اُس کے معنے سنے تو میں حیران رہ گیا.وہ کہنے لگا دراصل اني متوفيت کے یہ معنے ہیں کہ اے عیسی ! میں تیرے چہلم کی روٹی کروں گا.تب میں نے سمجھا کہ میں نے اس پر جس قدر حسن ظنی کی تھی وہ سب غلط تھی.دراصل یہ پاگل ہی ہے.چنانچہ ابھی باتیں ہو رہی تھیں کہ ایک دوسرا پاگل آ گیا، جو پاگل اچھے ہو رہے ہوتے ہیں انہیں آپس میں ملنے کی افسر اجازت دے دیتے ہیں، وہ بھی اُسے ملنے آ گیا اور کہنے لگا مجھ سے تم نے جو پیسے لئے تھے ( جو غالباً چھ تھے ) وہ مجھے واپس کرو.اُس نے کہا میرے پاس ہے نہیں.وہ کہنے لگا میں تو لے کر ہٹوں گا.اس پر آپس میں تکرار ہو گئی.میں نے جھگڑا بڑھتے دیکھا تو جیب میں ہاتھ ڈالا اور پیسے نکال کر اُس کو دے دیئے.یہ پیسے دینے تھے کہ مولوی صاحب جلال میں آگئے.ڈاکٹر کو مخاطب ہو کر کہنے لگے، ابھی جا کر ان کی دعوت کرو اور انہیں پانچ روپے نذر دو.یہ محمود غزنوی ہیں، محمود غزنوی.انہوں نے ہی بٹھنڈہ فتح کیا تھا.ڈاکٹر نے جب دیکھا که مولوی صاحب کو جلال آ رہا ہے تو اُس نے مجھے کہا اب آپ تشریف لے چلیں اب ان کے پاس کھڑا ہونا مناسب نہیں.تو دماغ کی گل ذراسی بگڑ جائے تو اچھا بھلا، پڑھا لکھا عقلمند انسان کہاں کا کہاں پہنچ جاتا ہے.وہیں میں نے ایک ایم.اے دیکھا جو پاگل تھا.وہ بالکل بولتا نہیں تھا اور زبردستی نلکی کے ذریعہ اُس کے معدہ میں غذا پہنچائی جاتی تھی...وہ ایک حج کا بیٹا تھا اور ایم.اے میں تمام یونیورسٹی میں اول رہا.جب وہ یو نیورسٹی میں سے
خطابات شوری جلد دوم ۱۴۹ مشاورت ۱۹۳۷ء فرسٹ نکلا ہوگا تو اُس کے ماں باپ اور دوسرے رشتہ داروں نے کتنا فخر کیا ہو گا لیکن خدا تعالیٰ نے اُس کی عقل واپس لے کر بتا دیا کہ یہ چیز اس کی نہیں تھی ، خدا کی تھی.پس وہ صحت جس سے ہم کام کرتے ہیں، وہ اعضاء جن سے ہم چلتے پھرتے ہیں، وہ عقل جس کو ہم استعمال کرتے ہیں، وہ حافظہ جس سے ہم مدد لیتے ہیں، یہ سب چیزیں خدا تعالیٰ کی طرف سے انعام بطور پیشگی تنخواہ ہیں لیکن ہم ایک نادہند مزدور کی طرح پیشگی تنخواہ لینے کے باوجود کام نہیں کرتے اور اُس کے کام چھوڑ کر جو پیشگی تنخواہ دیتا ہے اُس کا کام کرنے لگ جاتے ہیں جو کام لینے کے بعد تنخواہ دیتا ہے.نادہند مزدور کا یہی طریق ہوتا ہے کہ وہ کہیں سے پیشگی مثلاً آٹھ آنے لے لیتا ہے اور پھر اُس کا کام کرنے کی بجائے کسی اور کے وعدہ پر چلا جاتا ہے.ہم بھی اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں نادہند مزدور کی طرح عمل کرتے اور اُس کے احسانات اور انعامات کو دیکھنے کے باوجود دوسرے کے کام میں مشغول ہو جاتے ہیں.پس آپ لوگوں کا فرض ہے کہ آپ سلسلہ کی اہمیت کو سمجھیں اور اپنے اندر تغیر پیدا کریں.بیسیوں وعدے آپ لوگ یہاں کر کے جاتے ہیں مگر جب آپ اپنے گھروں پر پہنچتے ہیں تو ان وعدوں کو بُھول جاتے ہیں.پھر آپ کی یاد دہانی کے لئے اعلان پر اعلان کئے جاتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ لوگوں کی زبان کچھ اور ہے اور ہماری کچھ اور، اور آپ ” الفضل“ کے مضامین کو سمجھتے ہی نہیں حالانکہ ترقی اور کامیابی حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اصلاح نفس کی جائے.جس کا طریق یہ ہے کہ جو انسان ارادہ کرے، اُس پر عمل کرے.اگر یہ نہیں تو محض جمع ہونے اور باتیں کرنے سے کیا فائدہ ہوسکتا ہے.پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ باتوں کو سنے اور اُن سے مزہ اُٹھانے تک ہی اپنے آپ کو محدود نہ رکھیں بلکہ اپنے اندر قوت عملیہ پیدا کریں.جب یہ چیز پیدا ہو جائے گی اور ساتھ ہی اس امر کو آپ مد نظر رکھیں گے کہ سلسلہ احمد یہ ایک عظیم الشان مقصد کو لے کر کھڑا ہوا ہے جس مقصد کو ہر وقت پیش نظر رکھنا آپ کا فرض ہے تو آپ کی کامیابی یقینی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس ذکر میں کہ کبھی ہمت نہیں ہارنی چاہیئے انسان کوبھی ہمت نہیں ہارنی چاہئے ہارے دادا صاحب کا ذکر سنایا کرتے تھے کہ جب ہمارے خاندان کی ریاست جاتی رہی تو اُن کے والد صاحب
خطابات شوری جلد دوم مشاورت ۱۹۳۷ء کو یہاں سے نکلنا پڑا اور کپورتھلہ کی ریاست میں پناہ گزین ہو گئے.اُس وقت ریاست والوں نے چاہا کہ آپ کو دو گاؤں گزارہ کے لئے دیدیں لیکن آپ نے نہ لئے اور فرمایا اگر ہم نے یہ گاؤں لے لئے تو پھر ہم یہیں رہ پڑیں گے اور اس طرح اولاد کی ہمت پست ہو جائے گی اور اپنی خاندانی روایات قائم رکھنے کا خیال اُس کے دل سے جاتا رہے گا لیکن وہ رہے ایک لمبے عرصہ تک وہیں.پھر جس وقت ہمارے دادا ذرا بڑے ہوئے تو اُس وقت سولہ سترہ سال کی عمر تھی کہ اُن کے والد فوت ہوئے اُنہوں نے انہیں لا کر قادیان میں دفن کیا اور خود دہلی پڑھنے چلے گئے حالانکہ کوئی سامان میسر نہ تھا.ایک میراثی خدمت گار کے طور پر ساتھ گیا.شاید اس زمانہ کے لوگوں میں وفا کا مادہ زیادہ ہوتا تھا کہ اس غربت کی حالت میں اُس شخص نے ساتھ نہ چھوڑا.جب دہلی پہنچے تو ایک مسجد میں جہاں مدرسہ تھا جا کر بیٹھ گئے.اُنہوں نے سُنا ہو ا تھا کہ دہلی شاہی جگہ ہے اور وہاں لڑکوں کو مفت تعلیم ملتی ہے.لیکن بیٹھے بیٹھے کئی دن گزر گئے مگر کسی نے اُن کا حال دریافت نہ کیا اور نہ کھانے کو کچھ دیا.آخر جب تین دن کا فاقہ ہو گیا تو چوتھے دن کسی شخص کو جو خود بھی کنگال تھا خیال آیا کہ انہیں اتنے دن یہاں بیٹھے ہو گئے ہیں انہیں کچھ کھانے کو تو دینا چاہئے چنانچہ وہ ایک سوکھی روٹی لا کر انہیں دے گیا اُس نے جو روٹی اُن کے ہاتھ میں دی تو اُن کا چہرہ متغیر ہو گیا.ہمراہی نے سمجھ لیا کہ معلوم ہوتا ہے روٹی خراب ہے اور انہیں دیکھ کر اپنی گزشتہ حالت یاد آ گئی ہے اور اس کا تصور کر کے تکلیف محسوس ہوئی ہے.اس موقع پر اُس نے مذاق کے طور پر اُن کا دل بہلانے کے لئے کہا لا ئیں میرا حصہ مجھے دیں.اُن کو پہلے ہی غصہ آیا ہوا تھا، اُس کا یہ فقرہ سُن کر انہوں نے زور سے روٹی اُٹھا کر اُس کی طرف پھینکی جو اتفاقاً اُس کی ناک پر لگی اور چونکہ روٹی سُوکھی ہوئی تھی اس لئے اُس کے لگنے سے اُس کی ناک کی ہڈی پر زخم ہو گیا اور خون بہنے لگا.مگر ان تمام مشکلات کے باوجود انہوں نے تعلیم حاصل کی ، محنت کی اور اس قدر ہمت سے کام لیا کہ آخر ایک بہت بڑے عالم اور طبیب ہو گئے.واپس آئے تو مہا راجہ رنجیت سنگھ کا زمانہ شروع ہو گیا تھا اُنہوں نے اُن کی جائیداد میں سے سات گاؤں واگزار کر دیئے اور جنرل کے عہدہ پر فوج میں مقرر کیا.اب دیکھو کہ کس بے کسی کی حالت کو پہنچ کر بھی اُنہوں نے حوصلہ نہیں ہارا اور نہ اپنی ہمت پست کی بلکہ سمجھا کہ اگر ہم
خطابات شوری جلد دوم ۱۵۱ مشاورت ۱۹۳۷ء غریب ہو گئے ہیں تو کیا ہو ا د نیوی لحاظ سے ہمارا ایک حق قائم ہے، وہ ہم لے کر چھوڑیں گے.چنانچہ انہوں نے علم سیکھا اور لیاقت پیدا کی اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ذریعہ سے اپنے حق کے ایک حصہ کو کم سے کم واپس لے لیا.تو جس چیز کو انسان اپنی سمجھتا ہے اُس کے حصول کے لئے کوشش کرتا ہے اور جس چیز کو اپنی نہیں سمجھتا اُس کے حصول کے لئے کوئی کوشش نہیں کرتا.پھر جو چیز خدا تعالیٰ نے تمہیں دینے کا وعدہ کیا ہے اور اس لئے دینے کا وعدہ کیا ہے کہ تم ہی اُس چیز کے حقیقی اہل ہو اُس چیز کے حصول کے لئے اگر تم جدو جہد نہ کرو تو کون کہہ سکتا ہے کہ تمہیں خدا تعالیٰ کے وعدوں پر یقین ہے.کئی نادان ہم میں ایسے بھی ہیں کہ جب تحریک جدید کے خطبات کا سلسلہ میں نے شروع کیا تو وہ اور قادیان کے بعض منافق کہنے لگ گئے کہ اب تو گورنمنٹ سے لڑائی شروع کر دی گئی ہے.بھلا گورنمنٹ کا اور ہمارا کیا مقابلہ ہے.اُن کی اتنی بات تو صحیح ہے کہ گورنمنٹ کا اور ہمارا کیا مقابلہ ہے مگر اس لحاظ سے نہیں کہ گورنمنٹ بڑی ہے اور ہم چھوٹے بلکہ اس لحاظ سے کہ ہم بڑے ہیں اور گورنمنٹ چھوٹی.اگر ہم خدا تعالیٰ کی طرف سے کھڑے کئے گئے ہیں اور یقیناً اُسی کی طرف سے کھڑے کئے گئے ہیں تو پھر اگر ہم مر بھی جائیں تو ہماری موت موت نہیں بلکہ زندگی ہے.آجکل محرم کے ایام ہیں اس لئے اس بات کا سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں.دیکھو جس دن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو یزید کی فوجوں نے مارا ہو گا وہ کس قدر خوش ہوئی ہوں گی اور اُنہوں نے کس مسرت سے کہا ہوگا کہ لو یہ قصہ ختم ہو گیا مگر کیا واقعہ میں وہ قصہ ختم ہو گیا ؟ دُنیا دیکھ رہی ہے کہ امام حسین آج بھی زندہ ہیں مگر یزید پر اُس وقت بھی لعنت تھی اور آج بھی لعنت پڑ رہی ہے.پس اللہ تعالیٰ کی جماعتیں کبھی مرا نہیں کرتیں.حکومتیں مٹ جاتی ہیں لیکن انہی سلسلے کبھی نہیں مٹتے.حکومت زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتی تھی کہ ہم میں سے بعض کو گرفتار کر لیتی یا بعض کو بعض الزامات میں پھانسی دے دیتی مگر کسی آدمی کے مارے جانے سے تو الہی سلسلہ ختم نہیں ہوتا بلکہ الہی سلسلوں میں سے اگر ایک مرتا ہے تو خدا تعالیٰ اُس کی جگہ دس قائم مقام پیدا کر دیتا ہے.جس طرح اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص مرتد ہو گا تو میں اُس کی جگہ ایک قوم کو لاؤں گا.اسی طرح جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے راستہ میں قربان
۱۵۲ مشاورت ۱۹۳۷ء خطابات شوری جلد دوم ہوتا ہے تو اُس کا خون رائیگاں نہیں جاتا بلکہ اُس کی جگہ اللہ تعالیٰ ایک قوم لا تا اور اپنے سلسلہ میں داخل کرتا ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہوتے ہیں انہیں مُردہ مت کہو بل احیا بلکہ وہ زندہ ہیں.خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کو زندہ اسی لئے کہا کہ جب ایک شخص کی جگہ دس کھڑے ہو گئے تو وہ مرا کہاں اور جب وہ مرا نہیں تو اُسے مردہ کہنا کس طرح درست ہو سکتا ہے، پس اللہ تعالیٰ کے مقربین اور اس کی جماعتیں کبھی نہیں مرتیں.حضرت عیسی علیہ السلام صلیب پر لٹکائے گئے اور پھر وہ زندہ ہی صلیب سے اُتارے گئے گوجیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے بعض نے یہ بھی سمجھا کہ آپ مر گئے ہیں لیکن اکثر یہی سمجھتے تھے کہ آپ زندہ ہیں مگر آپ کو صلیب پر لٹکانے والوں کا کیا انجام ہو !؟ اُس صلیب پر لٹکانے کے مجرم میں آج بھی جب کہ اس واقعہ پر اُنیس سو سال کا عرصہ گزر چکا ہے، یہود ہر جگہ مار کھا رہے ہیں اور صلیب پر لٹکے ہوئے ہیں حالانکہ پچاس ساٹھ سال کے بعد لوگ اپنے دادوں پر دادوں کا نام تک بُھول جاتے ہیں.بیسیوں آدمی ہیں جو مجھ سے ملتے ہیں اور میں اُن سے دریافت کرتا ہوں کہ آپ کے دادا کا کیا نام تھا ؟ تو وہ بتا نہیں سکتے اور کہتے ہیں پتہ نہیں کیا نام تھا اور اگر دادا کا نام لوگ جانتے بھی ہوں تو سو سال پہلے کے آباء کو تو لاکھوں کروڑوں میں کوئی ایک جانتا ہے مگر حضرت عیسی علیہ السلام کو مارنے کی کوشش پر انیس سو سال گزر گئے اور آج تک یہودیوں کو پھانسیاں مل رہی ہیں.اسی طرح مکہ کے جن اکابر نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مارنا چاہا کیا آج ان لوگوں کا دُنیا میں کوئی نام لیوا ہے؟ اُحد کے مقام پر ابوسفیان نے آواز دی تھی اور کہا تھا کیا تم میں محمد ہے؟ (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور جب اس کا جواب نہ ملا تو اُس نے کہا میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو مار دیا.پھر اُس نے آواز دی کیا تم میں ابوبکر ہے؟ اور جب اس کا بھی جواب نہ ملا تو اُس نے کہا میں نے ابو بکر کو بھی مار دیا ، پھر اُس نے پوچھا کیا تم میں عمر ہے؟ جب اس کا بھی جواب نہ ملا تو اُس نے کہا میں نے عمر کو بھی مار دیا لیکن آج جاؤ تو دُنیا کے کناروں پر اور اُس آواز دینے والے کے ہمنوا کفار کے سردار ابو جہل کو بلا ؤ اور آواز دو کہ کیا تم میں ابو جہل ہے؟ تو تم دیکھو گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر تو
خطابات شوری جلد دوم ۱۵۳ مشاورت ۱۹۳۷ء کروڑوں آواز میں بلند ہونا شروع ہو جائیں گی اور ساری دُنیا بول اُٹھے گی کہ ہاں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم میں موجود ہیں کیونکہ آپ کی نمائندگی کا شرف ہمیں حاصل ہے لیکن ابو جہل کو بلانے پر تمہیں کسی گوشہ سے آواز اُٹھتی سُنائی نہیں دے گی.ابو جہل کی اولا د آج بھی دُنیا میں ہو گی مگر کسی کو جرات نہیں کہ وہ یہ کہہ سکے کہ میں ابو جہل کی اولاد میں سے ہوں.شاید عقبہ اور شیبہ کی اولاد بھی آج دنیا میں موجود ہومگر کیا کوئی کہتا ہے کہ میں عقبہ اور شیبہ کی اولاد ہوں.پس دُنیا کی حکومتیں عارضی ہیں اور عارضی فتح کوئی فتح نہیں ہوا کرتی.ایک قوم اگر دس میل آگے بڑھ جاتی اور پھر ہمیشہ کے لئے فنا ہو جاتی ہے تو کون کہہ سکتا ہے کہ وہ فاتح ہے.اسی طرح اگر انبیاء کی جماعتوں کے مقابلہ میں دس ہیں یا سو سال تک دنیوی حکومتیں اپنا رُعب اور دبدبہ دکھلا لیں تو کیا ہو ا.آخر انبیاء کی جماعتیں ہی دُنیا پر غالب آیا کرتی ہیں.پس آپ لوگوں کو اپنا مقام سمجھنا چاہئے اور منافق کی پیروی نہیں کرنی چاہئے کیونکہ منافق ہمیشہ پست ہمت اور کم حوصلہ ہوتا ہے اور جب بھی وہ کوئی کام کرتا ہے اُس کا دل دھڑکتا ہے لیکن مومن کا حوصلہ بہت وسیع ، اُس کی ہمت بہت بلند اور اُس کا دل بہت مضبوط ہوتا ہے.اُس کے حوصلہ کی وسعت کو کوئی چیز ناپ نہیں سکتی.یہاں تک کہ آسمان اور زمین کی وسعت بھی مومن کے دل کی وسعت کے مقابلہ میں کچھ حقیقت نہیں رکھتی.بھلا اندازہ تو کرو مومن کے دل کی وسعت کا، کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.زمین و آسمان خدا تعالیٰ کی مٹھی میں ہوں گے لیکن دوسری طرف سورہ نور میں ایک لطیف اشارہ میں یہ امر بھی بیان فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ مومن کے دل میں ہوتا ہے.جیسا کہ فرمایا اللهُ نُورُ السَّمَوتِ والأرض، مثل نوره مشکوة فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُّبَرَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِي وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارُ نُور عَلى نُورِ، يَهْدِى اللَّهُ لِنُورِهِ مَن يَشَاءُ وَيَضْرِبُ اللهُ الأَمْثَالَ لِلنَّاسِ، وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عليم.پھر بھلا زمین و آسمان کی وسعت مومن کے دل کی وسعت کا کہاں مقابلہ کر سکتی ہے.یہ وہی مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس الہام میں بیان ہوا کہ اَنْتَ مِنِّی وَاَنَا مِنْكَ ط
خطابات شوری جلد دوم ۱۵۴ مشاورت ۱۹۳۷ء یعنی میں تیرا ہوں اور تو میرا.پس مومن کے حوصلہ کی وسعت اور زمین و آسمان کی وسعت کی آپس میں کوئی نسبت ہی نہیں.یہ وسعت اُس سے بہت زیادہ ہے کیونکہ مومن کا دل اللہ تعالیٰ کی محبت کا قرار گاہ ہوتا ہے اور اُس کی لازوال محبت اپنے دل میں رکھنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی غیر محدودیت کی چادر ظلی طور پر اُس پر اوڑھا دی جاتی ہے اور وہ اُس زمانہ کی باتیں دیکھ لیتا ہے جس زمانہ کی باتوں کو کوئی اور شخص نہیں دیکھ سکتا.جب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام کی ترقیات اور ترقیات کے بعد اس کے تنزل کی پیشگوئی کی تھی اور بتایا تھا کہ مسیح موعود کے ہاتھوں کس طرح پھر اسلام کو عروج حاصل ہوگا تو ان باتوں کو کون سمجھ سکتا تھا مگر یہ تمام باتیں اسی طرح پوری ہوئیں جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کے پورا ہونے کی خبر دی تھی.پس دیکھ لومحمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر کتنی وسیع تھی.کس طرح آپ کی نظر کے سامنے اسلام کی ترقی ، اسلام کے تنزل اور پھر اسلام کے دوبارہ غلبہ کا نقشہ پورے طور پر بینچ کر رکھ دیا گیا تھا.یہ وسیع فوٹو جو آپ کے دماغ پر کھینچا گیا، اس کا مقابلہ بھلا دُنیا کی تاریخیں کہاں کر سکتی ہیں.دُنیا کی تاریخیں صرف ماضی کے واقعات پر مشتمل ہوتی ہیں مگر آپ کے دماغ پر جو نقشہ کھینچا گیا وہ ماضی، حال اور مستقبل تینوں زمانوں پر حاوی تھا اور پھر جب خدا نے جنت اور دوزخ کا نقشہ بھی آپ کو دکھا دیا تو آپ کی نظر کو غیر محدود طور پر وسیع ماننا پڑا.پس اپنے حوصلوں کو بڑھاؤ اور اپنی قوت عملیہ کو ترقی دو اور زبان کے چسکوں کو جانے دو کہ اب عمل کی ضرورت ہے باتوں کی ضرورت نہیں ہے.“ 66 دوسرا دن مجلس مشاورت کے دوسرے دن (۲۷ / مارچ ۱۹۳۷ء کو ) حضور نے ممبران کو بعض اہم امور کی طرف توجہ دلاتے ہوئے تشہد ،تعوذ کے بعد فرمایا: - وه آج یہ سوال دوستوں کے سامنے پیش تھا کہ ہندوستان کے مختلف مقامات میں تبلیغی مرکز قائم کرنے کے لئے بجٹ میں گزشتہ سال کی نسبت کچھ زیادہ رقم رکھی جائے تاکہ
خطابات شوری جلد دوم ۱۵۵ مشاورت ۱۹۳۷ء بعض اہم مقامات میں خاص طور پر تبلیغی مرکز قائم کئے جائیں.اس سوال کا ایک تو اصلی حصہ ہے یعنی ایسے مرکزوں کی کیا ضرورت ہے اور وہ ضرورت کس حد تک ہے اور دوسرا حصہ اس کا وہ ضمنی گفتگو ہے جو مختلف دوستوں کی طرف سے اس موقع پر کی گئی.مجلس شوری کے آداب میں سب سے پہلے اس دوسرے حصہ کو لیتا ہوں اور پھر اس میں سے سب سے پہلے اس امر کی طرف دوستوں کو توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ متواتر کئی سال سے میں احباب کو یہ بات بتا رہا ہوں کہ اس وقت جو دوست جمع ہوتے ہیں بطور مجلس شوری کے جمع ہوتے ہیں مگر افسوس کہ باوجود اس کے کہ سات آٹھ سال سے میں جماعت کے دوستوں کو اس طرف توجہ دلا رہا ہوں پھر بھی مغربیت ہمارے دوستوں کا پیچھا نہیں چھوڑتی اس لئے آج میں پھر اس امر کو واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہماری مجلس کوئی پارلیمنٹ (PARLIAMENT) نہیں ہے، کوئی لیجسلیٹو اسمبلی (LAGISLATIVE ASSEMBLY) نہیں ہے بلکہ خالص اسلامی مجلس شوری ہے یعنی آپ لوگ خواہ جماعتوں کی طرف سے نمائندہ بن کر آئیں ، خواہ مرکز کی طرف سے آپ کو نامزد کیا جائے ، خواہ صدر انجمن احمدیہ کے کارکن ہوں ، خواہ دوسرے لوگ ، آپ کے اس جگہ جمع ہونے کی محض اتنی ہی غرض ہوتی ہے کہ آپ خلیفہ وقت کو اپنی رائے اور اپنے خیالات سے آگاہ کر دیں پس جب کہ اس مجلس کی بنیاد ہی اس اصول پر ہے کہ اس میں صرف احباب خلیفہ وقت کے سامنے اپنا مشورہ پیش کرنے کے لئے جمع ہوتے ہیں تو خطاب کلّی طور پر خلیفہ وقت سے ہوتا ہے نہ آپس میں ایک دوسرے سے، مگر با وجود بار بار سمجھانے کے دوست ایک دوسرے کو مخاطب کرنے لگ جاتے ہیں اور ایک دوسرے کا نام لے کر اعتراض کرنے یا جواب دینے لگ جاتے ہیں حالانکہ اس مجلس کے آداب کے لحاظ سے ہر دوست کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس وقت اُس کے سامنے صرف ایک ہی وجود ہے جو خلیفہ وقت کا وجود ہے.جب تک کوئی نمائندہ اس مجلس میں بیٹھتا ہے اُس کو اپنے دائیں اور اپنے بائیں بیٹھنے والے آدمیوں سے ناواقف رہنا چاہئے اور سمجھنا چاہئے کہ میں ہی اکیلا خلیفہ وقت سے خطاب کر رہا اور اُس کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کر رہا ہوں.مشورے کی غرض بالکل فوت ہو جاتی ہے اگر احباب اس بات کی پابندی نہ کریں اور اُن
خطابات شوری جلد دوم ۱۵۶ مشاورت ۱۹۳۷ء کے دماغ پر یہ بات مستولی رہے کہ چند دوسرے لوگ ہیں جن کے خیالات کو رڈ کرنا اُن کا کام ہے.ان خیالات کو رد کرنا یا نہ کرنا یہ خلیفہ کا کام ہے اُن کا محض اتنا ہی کام ہے کہ وہ اپنے خیالات ظاہر کر دیں اور خاموش ہو جائیں.اس امر کو مدنظر نہ رکھنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ باتوں میں تیزی پیدا ہو جاتی ہے اور نامناسب الفاظ ایک دوسرے کے متعلق استعمال ہونے لگ جاتے ہیں حالانکہ جب خطاب خلیفہ وقت سے ہے تو کسی دوسرے کی بات کو ر ڈ کرنا کسی کے حق اور اختیار میں نہیں.میں امید کرتا ہوں کہ احباب اس امر کو پھر ذہن نشین کر لیں گے کہ آئندہ جب کبھی بات کہنے کے لئے کھڑے ہوں تو گو دوسرے کی بات کی تردید کریں مگر رڈ خطاب کے طور پر نہیں ہونا چاہئے بلکہ اصولی طور پر ہونا چاہئے اور ذاتیات کا سوال درمیان میں نہیں لانا چاہئے اور اگر کسی سے غلطی ہوئی ہو تو دوسرے کو نہیں چاہئے کہ اس غلطی کو لمبا کرے.اگر اس امر کو مدنظر نہ رکھا جائے اور ذاتیات کا سوال درمیان میں لایا جائے تو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے ایک بات کہتا ہے اور پھر دوسرا شخص کھڑا ہوتا ہے اور اس کا رڈ کرتا ہے اس کے بعد تیسرا کھڑا ہوتا ہے اور اس کا رڈ کرتا ہے اور اس طرح آپس میں ہی تکرار شروع ہو جاتا ہے اور اُن آداب کو وہ بھول جاتے ہیں جو خلافت کے لئے ضروری ہیں.میں ڈرتا ہوں کہ اگر احباب نے اس طریق میں اصلاح نہ کی تو مجھے کسی وقت زیادہ پابندی کے ساتھ اپنی اس بات کو قائم کرنا پڑے گا اور ایسے دوستوں کو مجھے بولنے سے روکنا پڑے گا.ہم یہاں اس لئے جمع ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کریں ، اسلام کی ترقی کی تجاویز سوچیں اور ایسی تدابیر عمل میں لائیں جن سے دین کو فائدہ پہنچے.بھلا اس میں ہماری کیا عزت ہے کہ کہا جائے فلاں کی بات کم عقلی والی بات ہے لیکن ہماری بات بہت صحیح ہے.عقل سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے کیونکہ عقل علم کے تابع ہے اور علم خدا تعالیٰ بخشتا ہے.بے شک عقل انسانی خاصہ ہے اور خدا تعالیٰ کے متعلق ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ بڑا عظمند ہے کیونکہ عقل کے یہ معنے ہیں کہ بُری اور اچھی باتوں کا موازنہ کر کے بُری باتوں سے رُکنا.اور اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اچھی اور بُری باتوں کا اندازہ کر کے بُری باتوں سے رُکتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی صفات میں علم داخل ہے عقل نہیں.وہ علیم تو ہے لیکن نہیں کہا جا سکتا کہ وہ عاقل ہے مگر بہر حال عقل علم کے تابع ہے
خطابات شوری جلد دوم ۱۵۷ مشاورت ۱۹۳۷ء اور جو عقل علم کے تابع نہ ہو وہ عقل نہیں بلکہ جہالت ہوتی ہے.پس چونکہ عقل علم کے تابع ہے اور علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اس لئے اس کے حصول میں کسی کی ذاتی خوبی نہیں ہوتی.پس ہمارے لئے یہ کوئی فخر کی بات نہیں کہ اپنی عقل پر ناز کریں اور دوسرے کی بے عقلی پر تمسخر اُڑائیں اور نہ یہ ہمارے لئے جائز ہے کہ ہم معمولی باتوں میں جن میں تیزی کی کوئی وجہ نہیں ہوتی تیز ہو جائیں اور ایسے فقرے استعمال کرنا شروع کر دیں جیسے ” میری تو سمجھ میں نہیں آتا فلاں دوست نے فلاں خلاف عقل بات کس طرح پیش کر دی.“ اگر کسی کو کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی اور وہ دوسرے کو اُس کی غلطی سے آگاہ کرنا چاہتا ہے، تو اُسے یاد رکھنا چاہئے کہ اُس مجلس میں جہاں خلیفہ موجود ہو، دوسرے کو سبق دینا اور سکھا نا خلیفہ کا کام ہے دوسرے کا کام نہیں.جب تم مدرسوں اور کالجوں میں پڑھا کرتے تھے تو کیا اسی طرح کرتے تھے کہ اُستاد کی موجودگی میں اپنے ساتھی کی غلطی پر اُسے ڈانٹنا شروع کر دیتے تھے؟ یا اُستاد کا کام سمجھتے تھے کہ وہ غلطی پر آگاہ کرے اور اگر ڈانٹنا چاہے تو وہی ڈانٹے ؟ ہر شخص جانتا ہے کہ اُستاد کی موجودگی میں اُستاد کا ہی کام ہوتا ہے کہ وہ غلطیوں کی طرف توجہ دلائے شاگردوں کا کام نہیں ہوتا کہ وہ ایک دوسرے سے جھگڑنے لگ جائیں.میں امید کرتا ہوں کہ احباب اس امر کو آئندہ مدنظر رکھیں گے اور جب کسی دوسرے کی بات کو رڈ کرنا چاہیں گے تو اصولی طور پر کریں گے، ذاتیات کو درمیان میں نہیں لائیں گے اور نہ ایسے رنگ میں تردید کریں گے جس میں دوسرے کی تحقیر اور تذلیل ہو.وہ شخص جو یہ کہتا ہے کہ میری تو سمجھ میں نہیں آتا یہ بات فلاں نے کس طرح کہہ دی.جب وہ یہ کہہ رہا ہوتا تو بسا اوقات میرے نزدیک وہ غلطی پر ہوتا ہے اور بسا اوقات اس کی وہ رائے تو صحیح ہوتی ہے لیکن دوسرے وقت وہ بھی ایسی بات کہہ دیتا ہے جو غلط ہوتی ہے.پس ہر شخص کو اپنا اپنا مقام سمجھنا چاہئے.مشیر کا کام یہ ہے کہ وہ مشیر کی حد تک اپنے آپ کو محدود رکھے ، شاگرد کا یہ کام ہے کہ وہ شاگر د ہونے کی حد تک اپنے آپ کو محدود رکھے ، بھائی کا یہ کام ہے کہ وہ بھائی ہونے کی حد تک اپنے آپ کو محدود رکھے ، اور باپ کا یہ کام ہے کہ وہ باپ ہونے کی حد تک اپنے آپ کو محدود رکھے.اگر کوئی بھائی ہونے کے باوجود باپ کا مقام اختیار کرنا چاہتا ہے یا شاگر داستاد کا مقام اختیار کرنا چاہتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ فتنہ ہو گا اور فساد ہے
خطابات شوری جلد دوم ۱۵۸ مشاورت ۱۹۳۷ء بڑھے گا.میں نے دیکھا ہے اپنی اپنی حدود سے متجاوز ہو جانے کی وجہ سے ہی بچوں میں لڑائیاں ہوتی ہیں گھر میں جب بچے آپس میں لڑ پڑتے ہیں اور تحقیق کی جاتی ہے تو اکثر معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بنیاد اس امر پر ہے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں.چنانچہ اکثر بچہ جب دوسرے کو مارتا ہے اور اُس سے دریافت کیا جاتا ہے کہ اُس نے کیوں اپنے بھائی کو مارا ؟ تو وہ یہی کہتا ہے کہ پہلے اس نے مجھے گالی دی تھی اس لئے میں نے اُسے مارا ؟ لیکن ہم اس کو اپنے گھروں میں کبھی جائز نہیں سمجھتے کہ چونکہ پہلے فلاں نے سختی کی تھی اس لئے جواب میں اس کے لئے بھی سختی کرنا جائز تھا بلکہ بحیثیت والد یا بحیثیت اُستاد یا بحیثیت ایک بزرگ ہونے کے ہم یہی اُمید کرتے ہیں کہ جب کسی کی طرف سے سختی ہو تو وہ اپنے باپ یا اپنی ماں یا اپنے اُستاد یا اپنے کسی اور رشتہ دار کو جس کے ماتحت وہ رہتا ہو بتلائے اور معاملہ اُس کے سپرد کر دے، خود کوئی کارروائی کرنے کی کوشش نہ کرے.پس اگر کسی کا حملہ اس حد تک پہنچا ہوا ہے کہ تمہیں اُس کے جواب کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو تم وہ معاملہ خلیفہ کے سامنے پیش کر دو بشر طیکہ وہ موجود نہ ہو اور اگر موجود ہو تو پھر اُس پر معاملہ چھوڑ دو.وہ اگر مناسب سمجھے گا تو توجہ دلا دے گا اور اگر نہیں سمجھے گا تو نہیں دلائے گا.ہاں جہاں حسابی لحاظ سے کوئی غلط فہمی ہو اُس غلط فہمی کو دور کر دینا چاہئے لیکن اس میں بھی کسی کا نام لینے کی ضرورت نہیں بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ بعض دوستوں کو ایسی غلط فہمی ہوئی ہے جو درست نہیں ہے.بہر حال گفتگو میں عام رنگ اختیار کرنا چاہئے کسی خاص فرد کو مخاطب نہیں کرنا چاہئے.اس کے بعد میں بعض خیالات جو اس موقع پر ظاہر کئے گئے ہیں ان کی تردید کرنا چاہتا ہوں اور جہاں مزید وضاحت یا زور دینے کی ضرورت ہے، اُن امور کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں.رونق ایمان سے آتی ہے ایک دوست نے اپنی تقریر میں بیان کیا ہے کہ رونق روپے سے آتی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک نقطہ نگاہ یہ بھی ہے.چنانچہ کلیلہ دمنہ جو فلسفہ کی کتاب ہے لیکن کہانیوں کے رنگ میں لکھی گئی ہے اُس میں ایک کہانی آتی ہے جسے غالباً مثنوی رومی میں بھی بیان کیا گیا ہے، گو بیان کرنے میں کچھ فرق
خطابات شوری جلد دوم ۱۵۹ مشاورت ۱۹۳۷ء ہے کہ ایک مہمان کسی شخص کے ہاں آیا اُس نے دیکھا کہ اُس مکان میں ایک چوہا تھا جو کھانے پینے کی چیزیں زبر دستی اُٹھا کر لے جاتا تھا.گھر والے اُسے مارنے کی کوشش کرتے ، لیکن وہ ہمیشہ تیزی سے بھاگ کر نکل جاتا.اس طرح وہ چوہا کھا کھا کر بہت موٹا ہو گیا.گھر والوں نے اُس مہمان کے پاس ذکر کیا کہ یہ چُوہا بڑا تیز معلوم ہوتا ہے، اس نے ہمارا ناک میں دم کر رکھا ہے.بہتیرا ہم زور لگاتے ہیں کہ اسے پکڑیں مگر یہ قابو میں نہیں آتا.ہم بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں کہ میز پر گودتا ہے اور کوئی چیز اٹھا کر لے جاتا ہے.ہم مارنا چاہتے ہیں تو وہ تیزی سے نکل جاتا ہے اس کا کیا علاج کریں؟ مہمان نے کہا، آپ اس چوہے کی پل کھود کر دیکھیں، اس کے اندر سے ضرور روپیہ نکلے گا.چنانچہ انہوں نے پل کو کھودا تو اُس میں سے ایک تھیلی دیناروں سے بھری ہوئی نکلی.گھر والوں نے وہ تھیلی اپنے قبضہ میں کر لی اور اس کے بعد سے چوہے کی طاقت بھی جاتی رہی.یہ در حقیقت کہانی کے رنگ میں اس امر کا ذکر ہے کہ دُنیا دار لوگ روپیہ ہاتھ آ جانے پر اترا جاتے ہیں اور چوہا کا نام اس لئے رکھا کہ چوہا زمین کی طرف ہمیشہ مجھکا رہتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی منافق کی مثال چوہے سے دی ہے، غرض دُنیا دار لوگ روپیہ ہاتھ میں آجانے پر اتر جاتے ہیں اور فخر اور محجب میں مبتلا ہو جاتے ہیں مگر اس کا نام ہم رونق نہیں رکھ سکتے ، رونق ہمیشہ ایمان سے آتی ہے.روپیہ تو آتا اور ختم ہو جاتا ہے، لیکن رونق وہ ہے جس کے پیچھے رونق کا ایک سلسلہ لگا ہوا ہو اور خوشی ہمیشہ پہنچتی رہے لیکن رو پید تو خواہ کروڑوں کروڑ ہو پھر بھی ختم ہو جاتا ہے.ہندوستانی تو اکثر غریب ہیں اور صرف کچھ لوگ ہیں جو یونہی نقلی طور پر امیر کہلاتے ہیں.ان امیر کہلانے والوں کی یورپ کے امراء کے مقابلہ میں ہستی ہی کیا ہے.مگر یورپین کروڑ پتی بھی کئی دفعہ کنگال ہو جاتے ہیں.ہماری سمجھ میں ہی نہیں آ سکتا کہ اتنا روپیہ وہ کہاں خرچ کر دیتے ہیں.اُن کا ذکر تو جانے دو ہندوستان کے امراء جو اُن سے چھوٹے ہوتے ہیں، ہم اُن کی دولت کے خرچ ہونے کا بھی اندازہ نہیں کر سکتے.حال ہی میں لالہ ہر کشن لال فوت ہوئے ہیں، اُن کے ذمہ تین کروڑ کے قریب روپیہ مختلف بینکوں اور سوسائٹیوں کا نکلتا تھا حالانکہ وہ خود بھی بڑے مالدار تھے.اب سارے لوگ حیران ہیں کہ اس قدر روپیہ کہاں گیا مگر وہ کوئی خرچ کرنے
خطابات شوری جلد دوم ۱۶۰ مشاورت ۱۹۳۷ء کا ڈھنگ جانتے تھے ، جس کی وجہ سے اُنہوں نے روپیہ لیا اور ضائع کر دیا.ہمارے زمینداروں کے سامنے تو اگر کوئی یہ بات پیش کرے کہ فلاں شخص نے تین کروڑ روپے خرچ کر دیئے.تو وہ کہیں گے بالکل جھوٹ کھلا تین کروڑ بھی کوئی خرچ کر سکتا ہے.مگر اُن کی اپنی حالت یہ ہوتی ہے کہ جو کچھ اُن کے پاس آتا ہے سب کچھ خرچ کر کے مقروض ہی رہتے ہیں.چنانچہ جس کے پاس سو ایکڑ زمین ہو، وہ بھی مقروض ہوتا ہے اور جس کے پاس دوسو ایکڑ زمین ہو، وہ بھی مقروض رہتا ہے، اور جو خوش ہوتا ہے، وہ تھوڑی زمین پر بھی خوش ہوتا ہے اور عمدگی سے اپنا گزارہ کر لیتا ہے.یہاں قریب ہی پھیر و پیچی ایک گاؤں ہے.اس گاؤں کا بڑا حصہ احمدی ہے کچھ ارائیں ہیں اور کچھ گوجر.ایک دفعہ ایک دوست نے شکایت کی کہ ہمارے پاس زمین تو بڑی ہے مگر کچھ ایسی نحوست پڑی ہے کہ ہم ہمیشہ مقروض رہتے ہیں.چونکہ اُس نے مجھ سے مشورہ پوچھا تھا، اس لئے میں نے اُس سے پوچھا کہ آپ کی کتنی زمین ہے؟ اُس نے کہا کہ پہلے چار کنال تھی ، لیکن اب دو کنال اور بھی خرید لی ہے اور چھ کنال زمین ہو گئی ہے چونکہ ارائیں قوم اکثر سبزی ترکاری ہوتی اور اُسی پر گزارہ کرتی ہے اس لئے چھ کنال زمین کا اُن کے پاس ہونا بھی بہت بڑی حیثیت کا موجب سمجھا جاتا ہے اور واقعہ میں وہ ارائیں جو چھ چھ کنال زمین کے مالک ہیں، وہ اُن گوجروں سے زیادہ اعلی گزارہ کرتے ہیں، جو ہیں ہیں، پچاس پچاس، اور سو سو گھماؤں زمین کے مالک ہیں.تو روپیہ کوئی چیز نہیں ، امداد کا تسلسل اصل چیز ہے.تم خود ہی سوچو وہ شخص زیادہ مالدار ہے جس کے پاس صرف ایک ہزار روپیہ ہے یا وہ زیادہ مالدار ہے جسے روزانہ اخراجات کے لئے جس قدر رقم کی ضرورت ہوتی ہے، میسر آجاتی ہے؟ جس کے پاس ہزار روپیہ ہے وہ تو ختم ہو جائے گالیکن جسے روزانہ امداد ملتی ہے وہ چلتی چلی جائے گی.تو اصل چیز رو پیہ نہیں، بلکہ اصل چیز امداد کا تواتر ہے اور یہ تو اتر محض اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے.چنانچہ جو خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتا ہے، وہ خرچ کرتا ہے اور پھر اور آ جاتا ہے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گھر میں کچھ غلہ ڈلوا دیا اور فرمایا اس سے گزارہ کرو.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں ہم اُس غلہ سے خرچ کرتے رہے، کرتے رہے
خطابات شوری جلد دوم ۱۶۱ مشاورت ۱۹۳۷ء اور کرتے رہے، یہاں تک کہ ایک لمبا عرصہ گزر گیا.آخر ایک دن میں نے کہا کہ آؤ اس غلہ کو تو لیں تو سہی، کتنا باقی ہے.آپ فرماتی ہیں جب تو لا تو اُس کے تھوڑے دنوں کے بعد ہی وہ ختم ہو گیا ہے کیونکہ پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے امداد کا ایک سلسلہ جاری تھا چاہے وہ کسی رنگ میں ہو، چاہے اُن کی بُھوکیں کم کر کے، چاہے اُن کی طاقتیں بڑھا کر ، چاہے تحائف کی کثرت کر کے.غرض کسی نہ کسی رنگ میں امداد کا سلسلہ جاری تھا، جب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے چاہا کہ غلہ تول کر دیکھیں اور پھر تو لا تو چند دنوں کے بعد ہی ختم ہو گیا.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا واقعہ مجھے یاد ہے.آپ کو بیماری کی وجہ سے ہمیشہ مشک استعمال کرنا پڑتا تھا.ایک دفعہ کوئی دوست تحفہ کے طور پر مشک لائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اُسے ایک لمبے عرصہ تک استعمال کرتے رہے.ایک دن فرمایا یہ مشک ختم ہونے میں نہیں آتا، دیکھیں تو سہی کتنا باقی ہے.چنانچہ اُسے تول کر دیکھا گیا اور پھر بہت تھوڑے عرصہ میں ہی وہ ختم ہو گیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو برکتیں آتی ہیں، وہ کبھی ختم نہیں ہوتیں اور روپیہ تو خواہ ارب، دس ارب ہو ختم ہو جاتا ہے.پس روپے سے رونق نہیں بلکہ رونق ایمان سے ہوتی ہے.روپے سے تو عجب ، فخر اور ریاء پیدا ہوتا ہے بشرطیکہ ایمان نہ ہو اور جب ایمان ہو تو پھر انسان کی روپے پر نظر نہیں ہوتی بلکہ خدا تعالیٰ پر نظر ہوتی ہے.حضرت خلیفہ اسی الا ؤول فرمایا کرتے تھے.ایک بڑھیا عورت تھی ، جو بڑی نیک اور پر ہیز گار تھی اُس کا ایک ہی لڑکا تھا، اور دونوں سخت غربت سے گزارہ کرتے تھے.ایک دن مجھے خیال آیا کہ اُن کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا ، چلو اُن کا حال چل کر دریافت کریں.میں گھر گیا اور اُس بڑھیا سے پوچھا کہ کوئی ضرورت ہو تو بتا ئیں.وہ کہنے لگی ، بیٹا ہم پر اللہ تعالیٰ کا بڑا ہی فضل ہے کسی قسم کی تکلیف نہیں.میں نے بڑا اصرار کیا کہ کوئی ضرورت ہو تو بتاؤ.وہ کہنے لگی ، کوئی ضرورت نہیں.روٹی اللہ تعالیٰ بھیج دیتا ہے اور سونے کے لئے ہمارے پاس ایک لحاف ہے.ماں بیٹا ہم اکٹھے سو جاتے ہیں.جب ایک طرف گرم ہو جاتی ہے، تو دوسرا پہلو بدل لیتے ہیں.وہ سرد ہو جائے تو پھر پہلی کروٹ پر لیٹ جاتے ہیں اور اس طرح
خطابات شوری جلد دوم ۱۶۲ مشاورت ۱۹۳۷ء بڑے آرام سے رات گزر جاتی ہے.اس کے علاوہ ہمارے پاس ایک قرآن شریف ہے.کبھی میں اُسے پڑھتی ہوں اور کبھی میرا بیٹا اُسے پڑھ لیتا ہے.اس سے زیادہ ہمیں اور کیا چاہئے.تو انسان اگر تو کل کرے تو جب اُس کے پاس روپیہ ہو، وہ کہتا ہے یہ میرا روپیہ نہیں خدا تعالیٰ کا ہے.اور جب روپیہ پاس نہ ہو تو وہ کہتا ہے خدا دینے والا ہے وہ آپ میری ضرورتوں کو پورا کرے گا.غرض رونق ایمان سے ہے نہ کہ روپیہ سے.میں نے پچھلی مجلس شوری پر ہی جو اکتوبر میں منعقد ہوئی تھی ، بیان کیا تھا کہ اگر جماعت حقیقی قربانی کرنے پر تیار ہو جائے تو ایک سال کیا ایک مہینہ میں ہی عظیم الشان ترقی حاصل ہو سکتی ہے لیکن بات یہ ہے کہ جماعت میں کچھ نہ کچھ کمزور طبائع ہوتی ہیں جو مضبوط طبائع کے لئے پتھر بن جاتی ہیں اور اُنہیں آگے بڑھنے نہیں دیتیں اور کچھ طاقتور ہوتے ہیں جو اپنے کمزور بھائیوں کی طرف نگاہ رکھتے ہیں اور کہتے ہیں جب اُنہوں نے کم قربانی کی تو ہم سے کیوں زائد قربانی کی امید رکھی جاتی ہے.گویا دوسرے کی نقل کے شوق میں وہ اپنے ایمان کو کم کر رہے ہوتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ ترقی کی رفتار میں کمی آجاتی ہے.بعض دوستوں نے بیان کیا ہے کہ بوجھ اگر تھوڑا سا بڑھا دیا جائے تو اس میں کیا حرج ہے اور بعض نے کہا ہے کہ بوجھ بڑھانے میں سخت حرج ہے.جو شخص ایک من بوجھ اُٹھا سکتا ہے وہ ایک من دوسیر بوجھ کس طرح اُٹھا سکتا ہے.یہ بظاہر ایک فقرہ ہے مگر اس فقرہ کے پیچھے ایک فلسفہ ہے اور چونکہ اس کے پیچھے ایک فلسفہ ہے، میں نے سمجھا کہ اسے نظر انداز کرنا درست نہیں.میرے نزدیک یہ کہنا بھی درست نہیں کہ اگر تھوڑا سا بوجھ بڑھا دیا جاوے تو اس میں کیا حرج ہے اور یہ کہنا بھی غلط ہے کہ جو ایک من بوجھ اُٹھا سکتا ہے وہ ایک من دو سیر بوجھ کس طرح اُٹھائے.دیکھنا یہ چاہئے کہ بوجھ ہے کیا اس بوجھ کا قابل برداشت یا نا قابل برداشت ہونا بوجھ کی قسم پر منحصر ہوتا ہے.اگر وہ بوجھ جس کو ہم بڑھاتے ہیں کمر توڑنے والا اور نقصان پہنچانے والا ہے تو ایسے بوجھ کو اگر ہم تھوڑا سا بھی بڑھائیں گے تو نقصان پہنچے گا اور ایسے بوجھ کا بڑھانا حماقت ہو گا مثلاً اگر ہم ایسا بوجھ تولہ تولہ بھی بڑھائیں تو کئی تو لے مل کر کئی چھٹانک اور پھر کئی سیر وزن ہو جائے گا اور جماعت کی ترقی کو بہت ضعف پہنچے گا.پس ہم نے محض تھوڑے بوجھ کو نہیں دیکھنا بلکہ دیکھنا یہ ہے کہ اُس بوجھ کا اثر کیا ہے.
خطابات شوری جلد دوم ۱۶۳ مشاورت ۱۹۳۷ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک مثال بیان فرمایا کرتے تھے کہ راجہ رنجیت سنگھ کے دربار میں ایک مسلمان بھی وزیر تھے.وہ وزیر ہونے کے علاوہ طبیب بھی تھے اور بڑے نرم دل تھے.ایک دفعہ اُن کے پاس کوئی فقیر آیا اور اس نے سوال کیا کہ مجھے کچھ دیجئے.اُس زمانہ میں مسلمانوں کی حالت سخت خراب تھی اور اُن کے پاس سینکڑوں فقراء آتے تھے جن کی وہ تھوڑی تھوڑی رقم سے امداد کر دیتے تھے کیونکہ ایک تو اُس زمانہ میں تنخواہیں کم ہوتی تھیں ، دوسرے مسلمان زبوں حالی کی وجہ سے سینکڑوں بطور سائل کے اُن کے پاس آتے رہتے تھے.چنانچہ اس فقیر کو بھی انہوں نے آٹھ آنہ دینے کا حکم دیا وہ آٹھ آنے لے کر کہنے لگا دیکھئے ہم سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اب یہ بھی کیا مساوات ہے کہ ایک بھائی کے پاس تو ہزاروں روپے ہوں اور ایک کے پاس صرف اٹھتی.انہوں نے جواب دیا کہ صرف تو ہی ایک بھائی نہیں بلکہ اور بھی ہزاروں بھائی ہیں.اگر سب میں میں بٹھتی اٹھتی تقسیم کرنے لگوں تو پھر یہ اٹھنٹی بھی حصہ میں نہیں آئے گی.پس تم کو اپنے حصہ سے زیادہ ہی مل گیا ہے مگر اُس نے اصرار کیا نہیں کچھ اور بھی دیں.اُنہیں ضروری کام تھا اور وہ چاہتے تھے کہ جلدی چھٹکارا ہو مگر وہ پیچھا نہ چھوڑتا.آخر وہ اپنے نوکر سے کہنے لگے انہاں فقیر صاحب نوں پولے پولے دھکے دے کر باہر کڈھ دیو حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ مثال ہمیشہ اس ضمن میں سنایا کرتے تھے کہ نرم دل انسان کو غصہ بھی آتا ہے تو اس میں بھی نرمی کا پہلو جھلک رہا ہوتا ہے.اب دھکے دِلوانا غصہ کی ایک علامت تھی مگر پولے پولے دھکے کہنا ان کی نرم طبیعت کا اظہار تھا.تو زیادتی اگر تھوڑی تھوڑی بھی ہو تو کچل سکتی ہے.جیسے مسلمان وزیر نے کہا کہ اگر میں سب کو آٹھ آٹھ آنے دینے لگوں تو میرے پاس کچھ بھی نہ رہے اور غریب پھر بھی باقی رہ جائیں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ کہنا بھی درست نہیں کہ ہر بوجھ میں زیادتی نقصان رساں ہوتی ہے.جب زیادتی کی ضرورت ہو اور دین کا کام ہو اور عقل فیصلہ کرتی ہو کہ اب زیادتی ہونی چاہئے تو اُس وقت کوئی زیادتی جماعت کو کچل نہیں سکتی.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.لا يكلف الله : : : : : : : : اللہ تعالی اس میں یہ قانون بیان فرماتا ہے کہ ہم اپنی جماعتوں پر اتنا ہی بوجھ لادا کرتے ہیں جتنے بوجھ کی ضرورت ہوتی ہے.اب اگر کسی
خطابات شوری جلد دوم ۱۶۴ مشاورت ۱۹۳۷ء وقت ثابت ہو جائے کہ دین کو روپیہ کی ضرورت ہے اور اس ضرورت کو پورا کرنا مذ ہباً اور عقلاً سخت ضروری ہے تو لا يكلف الله نفسا إلا وسعها کے مطابق ہمیں ماننا پڑے گا کہ ہم میں اُس بوجھ کو برداشت کرنے کی طاقت ہے.ورنہ خدا تعالیٰ کا یہ قانون باطل ہو جائے گا اور کہنا پڑے گا کہ ہم میں بوجھ اٹھانے کی طاقت تو نہ تھی لیکن بلا وجہ ہم پر بوجھ ڈال دیا گیا.پس جب بھی دینی ضرورتوں کا سوال آئے ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ ہم اُس بوجھ کے اُٹھانے پر مجبور ہیں یا نہیں.اگر معلوم ہو کہ وہ بوجھ لابدی ہے اور اگر اُس کو نہ اُٹھایا گیا تو اس میں دین کی ہتک ہو گی تو ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ خواہ ہمیں سمجھ آئے یا نہ آئے ہم میں اس بوجھ کے اُٹھانے کی طاقت ہے کیونکہ لا یکلف اللهُ نَفْسًا لا وُسْعَهَا.الله تعالى وسعت کے مطابق ہی انسانوں پر بوجھ ڈالتا ہے.پس جو سوال ہمارے سامنے ہے وہ یہ ہے کہ جس کام کے کرنے کا ہم نے ارادہ کیا ہے آیا وہ لا بدی ہے یا ایسا کام ہے جس میں تعویق اور تأخیر کو برداشت کیا جا سکتا ہے.اگر وہ ایسے کاموں میں سے ہو جو لا بدی اور ضروری ہوتے ہیں تو پھر ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ ہم میں اُن کو بجالانے کی طاقت موجود ہے.اور اگر معلوم ہو کہ وہ ایسا کام نہیں جسے فوری طور پر کرنا ضروری ہو بلکہ اُسے ہم پیچھے بھی ڈال سکتے ہیں تو اُس وقت ہمیں اپنی عقل سے کام لینا پڑے گا اور سوچنا پڑے گا کہ کیا واقعہ میں ہم موجودہ حالات کے لحاظ سے اس بوجھ کو نہیں اُٹھا سکتے.پھر اگر ہم دیانتداری سے اس نتیجہ پر پہنچیں کہ ہم اس بوجھ کو نہیں اُٹھا سکتے تو ہم کہہ دیں گے یہ چونکہ ہماری مرضی پر منحصر ہے اور اس میں خدا کا کوئی حکم نہیں اس لئے ہم اسے دوسرے وقت پر ڈالتے ہیں.بعض دوستوں نے کہا ہے جو لوگ سوتے ہیں اور جگانے کے باوجود نہیں جاگتے اُنہیں ہم کیوں جگائیں؟ یہ بھی ایک فلسفہ ہے اور اس معاملہ کے متعلق بھی میں دو چار باتیں کہنا چاہتا ہوں.بعض دوست ہیں جو کہتے ہیں کہ جو لوگ جاگتے ہیں انہیں ہم کیوں جگائیں ، جگانا اُن کو چاہئے جو سور ہے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ جو سوتے ہیں انہیں ہم کیوں بیدار کریں.جو بیدار اور ہوشیار ہیں اُن سے کام لینا چاہئے مگر درحقیقت یہ دونوں باتیں غلط ہیں.نہ یہ صحیح ہے کہ جو لوگ جاگتے ہیں انہیں نہ جگاؤ اور نہ یہ درست ہے کہ سوتوں کو نہ
خطابات شوری جلد دوم ۱۶۵ مشاورت ۱۹۳۷ء جگاؤ.اور پھر ایک حد تک دونوں باتیں درست بھی ہیں کیونکہ اگر ہم سوتوں کو ہی جگائیں تو جو جاگنے والے ہیں وہ بھی سو جائیں اور اگر اُنہی کی طرف ہم توجہ رکھیں جو محنت کرتے اور دین کی امداد کرتے ہیں تو ہمارے کاموں میں وسعت پیدا نہ ہو.گویا جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ سونے والوں کو نہ جگا ؤ، وہ تبلیغ کے مخالف ہیں اور جولوگ یہ کہتے ہیں کہ جاگنے والوں کی طرف زیادہ توجہ نہ کرو، وہ تربیت کے مخالف ہیں.غرض جہاں کی جماعتیں اچھا کام کرنے والی اور دینی امور میں شوق سے اور ایک دوسرے سے بڑھ کر حصہ لینے والی ہیں جس طرح ان کو گرنے نہ دینا ہمارا کام ہے، اسی طرح اُن جماعتوں کو جوئست اور غافل ہیں جگانا اور تبلیغ کو وسیع کرنا ہمارے فرائض میں داخل ہے.اگر ہم یہ قانون تسلیم کر لیں کہ جو لوگ کوشش کرتے ہیں، تمام روپیہ انہی پر خرچ کر دینا چاہئے تو ہمارا فرض ہو گا کہ ہم اپنا تمام روپیہ لڑکوں کی تعلیم پر خرچ کر دیں اور اگر ہم یہ تسلیم کر لیں کہ سوتوں کو جگانا ہمارے فرائض میں شامل نہیں.تو پھر تبلیغ ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گی کیونکہ جب سوتوں کو جگانا ہمارا فرض نہیں تو مر دوں کو زندہ کرنا ہمارے فرائض سے بالکل ہی باہر ہو گا.پس اگر ہم ایک طرف مجھکتے اور تبلیغ پر زور دیتے ہیں تو تعلیم اور تربیت کا پہلو خالی چھوڑتے ہیں اور ہمارے اپنے آدمی مرتد ہو سکتے ہیں اور اگر ہم تربیت پر زور دیتے ہیں تو تبلیغ سے اغماض کرتے اور جماعت کی وسعت کو محدود کرتے ہیں.پس یہ دونوں چیزیں قائم رکھنی پڑیں گی اور ایک توازن اور اعتدال پر انہیں لانا ہو گا.اور اگر سامان ہمارے پاس کم ہوں تو دونوں چیزوں میں بحصہ رسدی شامل ہونا پڑے گا.یعنی تبلیغ کی طرف بھی ہمیں توجہ کرنی پڑے گی اور تعلیم و تربیت کی طرف بھی.ہاں وقتی طور پر جس چیز کی ضرورت زیادہ ہو اُس پر ہم زیادہ زور بھی دے سکتے ہیں.بعض دوستوں نے جنہوں نے زیادتی کی مخالفت کی ہے کہا ہے کہ ہمیں دیکھنا چاہئے کہ ہماری آمد کیا ہے.جب تک آمد کے سوال کو حل نہیں کر دیا جاتا اُس وقت محض یہ کہہ دینا کہ خرچ بڑھا دو کافی نہیں ہو سکتا اور نہ زیادتی کی یہ کوئی معقول وجہ ہو سکتی ہے.اس کے مقابلہ میں دوسرے دوستوں نے جواب میں کہا ہے کہ اگر آمد کم ہے تو کیوں کم ہے.سوال یہ ہے کہ آیا واقعہ میں اتنی ہی آمدنی ہونی چاہئے یا زیادہ؟ اگر اتنی ہی آمدنی ہونی چاہئے تو ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ بجٹ کو نہیں بڑھانا چاہیئے اور اگر جماعتوں یا افراد کی
خطابات شوری جلد دوم ۱۶۶ مجلس مشاو مشاورت ۱۹۳۷ء غفلت کی وجہ سے آمد میں کمی ہے اور آمد دراصل زیادہ ہونی چاہئے تو پھر غفلت کا عذر صحیح تسلیم کر لینے کے کوئی معنے نہیں اور اگر ہم اس کو صحیح تسلیم کر لیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آئندہ اور غفلت ہو جائے گی اور ہمارے کاموں کے رُکنے کا احتمال ہوگا.میرے نزدیک یہ دونوں دلیلیں صحیح ہیں اور میں یہ بالکل سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کس طرح ایک فریق نے دوسرے کے متعلق کہہ دیا کہ وہ بے عقلی کی بات کر رہا ہے.دونوں نے جو بات کہی وہ عقلمندانہ ہے.یہ بھی صحیح ہے کہ اگر آمد میں کمی ہے تو خرچ کو بڑھا دینا یقیناً نقصان رساں ہوگا اور یہ بھی صحیح ہے کہ اگر آمد میں کمی حقیقی کمی نہیں بلکہ اس لئے کمی ہے کہ جس شخص کو دو روپے چندہ دینا چاہئے وہ مثلاً آٹھ آنے دیتا ہے تو اگر ہم اس بناء پر دینی کاموں کا گھٹانا شروع کر دیں تو پھر روز بروز بجٹ کو کم ہی کرتے جانے پر مجبور ہوں گے.ہم جہاں تک بجٹ کو دیکھتے ہیں، ہمیں یقینی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ جماعت کے تمام افراد کے چندے پورے طور پر وصول نہیں ہو رہے.بعض پچست ہیں جو خوب چندہ دیتے ہیں بعض درمیانہ درجہ کے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو بالکل نہیں دیتے یا بہت ہی کم دیتے ہیں.پس آمد کی کمی کا ایک حصہ اس لئے نہیں کہ آمد کے بڑھانے کے ہمارے پاس ذرائع نہیں بلکہ اس لئے ہے کہ ہم میں سے ایک حصہ ایسا ہے جو اس بوجھ کو اٹھانا نہیں چاہتا.اگر ہم ایسے لوگوں کی وجہ سے کام چھوڑتے اور بند کرتے چلے جائیں تو آہستہ آہستہ ہم اپنے سب کام بند کرنے پر مجبور ہوں گے.اس پر دوسری طرف سے پھر یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ جو لوگ بوجھ نہیں اُٹھانا چاہتے اُن کی ذمہ داری کس پر ہے؟ ہم ان کو مجبور نہیں کر سکتے کہ وہ چندے دیں اور باقاعدہ ایک نظام میں شامل ہوں.میں نے پچھلی دفعہ بھی بتایا تھا کہ ایسے لوگوں نے ہماری آمد کی تشخیص کو بالکل خراب کر دیا ہے اور ہم فیصلہ نہیں کر سکتے کہ اتنی آمد ہمیں ضرور ہو جائے گی کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ ممکن ہے ایسے لوگ چندہ دے دیں اور ممکن ہے نہ دیں اسی لئے ایک گزشتہ مجلس شوریٰ میں یہ تجویز پیش ہوئی تھی کہ جماعتیں اپنے اوپر یہ ذمہ واری لیں کہ اگر اُن میں سے بعض لوگ با قاعدہ چندے ادا نہ کریں تو وہ سال کے اختتام پر اپنے اپنے بجٹ کو پورا کر دیں گی.اس پر بعض جماعتوں نے آمادگی کا اظہار کیا کہ وہ اپنی جماعتوں کا بجٹ بہر حال پورا کر دیں گی لیکن بہت سی جماعتیں ابھی ایسی ہیں
خطابات شوری جلد دوم ۱۶۷ مشاورت ۱۹۳۷ء جنہوں نے اس قسم کا وعدہ نہیں کیا.اگر جماعتیں اس بات پر آمادہ ہو جاتیں تو ہمیں یقینی طور پر معلوم ہوسکتا کہ ہماری کیا آمد ہے.یا اگر جماعت کا ایک حصہ چندوں کی ادائیگی سے انکار کر دیتا اور جماعتیں اُن کے متعلق تمام ذرائع اختیار کرنے کے بعد فیصلہ کر دیتیں کہ اُن سے چندہ وصول نہیں ہوگا تو ایسے لوگوں کے چندوں کی رقوم کو ہم بجٹ میں سے نکال دیتے تا ہمیں حقیقی طور پر معلوم ہوتا کہ ہماری کتنی طاقت ہے لیکن اب ہماری حالت یہ ہے کہ ہم کہتے ہیں مومن پر بدظنی نہیں کرنی چاہئے.جس نے پچھلے سال چندہ نہیں دیا ممکن ہے وہ اب کی دفعہ دے دے اور اس طرح ہم اُس کا چندہ اپنے بجٹ میں شامل کر لیتے ہیں لیکن سال کے بعد ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اُس کی طرف سے چندہ وصول نہیں ہوا اور ہمارے قرض میں زیادتی ہو گئی ہے.اگر ہم ایسا قانون پہلے ہی پاس کر لیتے اور ایسے لوگوں کا پتہ لگا کر اُن کی الگ لسٹیں بنا لیتے اور صرف ایسے ہی لوگوں کا نام اپنے چندوں میں لکھتے جن کے متعلق ہمیں تجربہ ہے کہ وہ اخلاص رکھتے اور دین کے لئے ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار رہتے ہیں تو ہمارا بجٹ صحیح بنیادوں پر ہوتا اور پھر اگر دوسروں کی طرف سے بھی کچھ چندہ آ جاتا تو وہ زائد آمد شمار کی جاتی.میں نے پچھلی دفعہ یا اُس سے پچھلی دفعہ یہ بیان کیا تھا کہ ہمارے بجٹ میں یہ بھاری نقص ہے کہ ایسے اخراجات پر زیادہ رقم خرچ ہو رہی ہے جنہیں کم نہیں کیا جاسکتا مثلاً عملہ کے اخراجات.لیکن یہ غلطی آج کی نہیں بلکہ بہت پرانی ہے اور وہ جو عارضی اخراجات ہوتے ہیں اور جن کی اکثر ضرورت رہتی ہے اُس پر رقم کم خرچ ہوتی ہے.مثلاً انگلستان میں ہم نے مشن کھولا ہوا ہے، وہاں ہمارا تبلیغی مرکز ہے لیکن بجٹ درحقیقت کرا یہ مکان اور رہائش وغیرہ کے لئے ہی کافی ہوتا ہے.اگر یہ دیکھا جائے کہ ہم وہاں تبلیغ کے لئے کیا دیتے ہیں تو یہی نظر آئے گا کہ وہ مستقل اخراجات کا ۱۰را بھی نہیں ہوتا.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے آدمی وہاں بیٹھے رہتے ہیں اور تبلیغ کو وسیع نہیں کر سکتے حالانکہ ہونا یہ چاہئے تھا که مستقل خرچ تھوڑا ہوتا اور عارضی خرچ زیادہ.کیونکہ مستقل خرچ کو کم نہیں کیا جاسکتا لیکن عارضی خرچ میں کمی بیشی کی جا سکتی ہے.یہ تو ہو سکتا ہے کہ ایک سال ہم ہیں ہزار ٹریکٹ شائع کریں اور دوسرے سال آمد کم ہو تو دس ہزار کریں.لیکن اگر دو ملازم ہوں اور اُن میں
خطابات شوری جلد دوم ۱۶۸ مشاورت ۱۹۳۷ء سے ایک کو نکالنا چاہیں تو یہ ہم آسانی سے نہیں کر سکتے.بہر حال ناواقفیت کی وجہ سے بجٹ میں اس قسم کی غلطیاں ہوئی ہیں لیکن آئندہ کے لئے یہ طریق اختیار کرنا چاہئے کہ ہر کارکن جو یہاں رکھا گیا ہے، اُس کے اخراجات کا آخر تک اندازہ لگایا جائے ، اور اُس کو بجٹ میں ظاہر کیا جائے اور بتایا جائے کہ فلاں وقت تک ہمارا بجٹ اتنا بڑھ جائے گا.میرے نزدیک آئندہ کم از کم پانچ سال کا بجٹ تیار ہونا چاہئے.چنانچہ بعض امریکن گورنمنٹیں ایسا کرتی ہیں کہ وہ پانچ سال کا بجٹ پیش کرتی ہیں اور گو پاس ایک سال کا بجٹ ہی کرتی ہیں لیکن چار سال کا خیالی بجٹ بھی وہ پیش کر دیتی ہیں.مثلاً جو ملازم ہوں اُن کے متعلق وہ یہ اندازہ لگاتی ہیں کہ آئندہ سالوں میں اُنہیں اتنی اتنی ترقیاں دینی ہیں، فلاں کو اتنا الاؤنس دینا ہے اور آئندہ سالوں میں فلاں زائد اخراجات ہوں گے.اس طرح وہ نہ صرف ایک سال کے اخراجات کو بلکہ آئندہ پانچ سال کے اخراجات کو بھی مدنظر رکھتی ہیں.لیکن ہمارے ہاں یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی مبلغ رکھتے ہیں اور اُس کی تنخواہ فرض کرو ۴۵ روپے ہوتی ہے تو ہم ۴۵ روپے ماہوار کا اندازہ کر کے ایک رقم معتین کر دیتے ہیں حالانکہ اُس کا گریڈ ۶۵ یا ۱۰۰ تک ترقی کرنے والا ہوتا ہے اور وہ بار بھی صدر انجمن احمدیہ کے خزانہ پر پڑنے والا ہوتا ہے.اسی وجہ سے مجبور ہو کر تین چار سال سے ہم اس کوشش میں رہتے ہیں کہ بجٹ بڑھنے نہ دیں لیکن اس کے لئے پہلا قدم یہ ہے کہ ہم بجٹ کو مستقل حدود تک لے آئیں اور پھر مستقل خرچ کم رہے اور ہنگامی اخراجات کے لئے زیادہ رقوم رکھی جائیں.چنانچہ تحریک جدید کا اسی لئے میں نے الگ فنڈ رکھا ہے اور اس میں عارضی خرچ زیادہ اور مستقل خرچ کم رکھا ہے.اس کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ کئی ممالک میں نئے مشن کھل گئے ہیں.اس سے قبل بیرونی ممالک میں ہماری تبلیغ بالکل رُک گئی تھی اور ملک کے ملک ایسے تھے جہاں سے روحانی طور پر ہمیں آوازیں آرہی تھیں کہ ہم بھی خدا کے بندے ہیں ہماری طرف بھی توجہ کرو اور ہم اُن کی طرف توجہ نہیں کر سکتے تھے لیکن تحریک جدید کے ماتحت خدا تعالیٰ نے ان ممالک میں بھی ہمیں اپنے مشن کھولنے کی توفیق عطا فرمائی.پیر اکبر علی صاحب نے ایک مثال دی تھی.میں اُس کے متعلق بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں.اُنہوں نے مثال دی تھی کہ زمیندار کی فراست مومنانہ ہوتی ہے.پہلے بارش ہوتی
خطابات شوری جلد دوم ۱۶۹ مشاورت ۱۹۳۷ء ہے پھر وہ غلہ ہوتا ہے.لیکن ہم تو دیکھتے ہیں زمیندار ہمیشہ یونہی نہیں کرتا بلکہ بعض دفعہ جب بارشیں نہیں ہوتیں حتی کہ بعض دفعہ جب اس کے بیل بھی مر جاتے ہیں وہ یونہی زمین میں غلہ کا چھینٹا دے آتا ہے اور اُس کا نام اللہ تو کھلی رکھتا ہے.وہ اُسی وقت تک بارش کا انتظار کرتا ہے جب سمجھتا ہے کہ بارش وقت پر ہو جائے گی لیکن جب وہ سمجھتا ہے کہ اب بارش نہیں ہوگی تو وہ اللہ تو کھلی یعنی اللہ تعالیٰ پر توکل کر کے دانے پھینک آتا ہے پس بیشک احتیاط ضروری ہے مگر جب حالت یہاں تک پہنچ جائے کہ ایسے دینی امور سامنے ہوں جو لا بدی ہوں اور جن میں اگر حصہ نہ لیا جائے تو دین کے کام میں حرج واقعہ ہونے کا اندیشہ ہو تو ایسی حالت میں خدا تعالیٰ پر توکل کر کے ہمیں وہ کام کرنا ہی پڑے گا.ایک دلیل یہ بھی دی گئی ہے کہ ہر سال دعوت وتبلیغ کے خرچ میں اضافہ ہو رہا ہے.جب ہر سال اضافہ ہوتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ اس سال اضافہ نہ کیا جائے.میرے نزدیک یہ دلیل بھی ہمارے لئے کافی راہنما نہیں کیونکہ دیکھنا یہ چاہئے کہ کام کس حد تک ضروری ہے.میں مانتا ہوں کہ ہر سال دعوت و تبلیغ کے خرچ میں اضافہ ہو رہا ہے مگر ساتھ ہی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس خرچ کے نتیجہ میں کام میں بھی اضافہ ہو رہا ہے.اگر ہم بیعتوں کو دیکھیں اور یہ اندازہ لگائیں کہ کیا جس وقت صرف دو چار مبلغ تھے، اُس وقت مبلغوں کے ذریعہ بیعت زیادہ ہوتی تھی یا اب جبکہ وہ چالیس کے قریب ہیں؟ تو میں جس کے پاس بیعت آتی ہے بلا تامل کہہ سکتا ہوں کہ اُس وقت کی نسبت سے مبلغوں کے ذریعہ بیعت کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں ہوا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب مخالفوں کی طرف سے دشمنی کا ایک شور اُٹھتا ہے تو بیعت بھی زیادہ ہونے لگتی ہے لیکن وہ زیادتی مبلغوں کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ افراد کے ذریعہ سے ہوتی ہے.پس محض اس وجہ سے کہ کئی سالوں سے دعوت و تبلیغ کے خرچ میں اضافہ ہو رہا ہے یہ کہنا کہ اب بھی زیادتی کر دی جائے جائز نہیں.ہم نے اس سے پہلے دعوت و تبلیغ کے اخراجات بڑھائے ہیں لیکن اُن کے فوائد ہمارے سامنے نہیں آئے.پس جب تک اُس زیادتی کے فوائد ہمارے سامنے نہ آجائیں اندھادھند پہلے طریق عمل کی تقلید کرنا اچھا نہیں.اس کے بعد میں اصل سوال کو لیتا ہوں کہ ہمیں تبلیغی مرکز بڑھانے چاہئیں یا نہیں
خطابات شوری جلد دوم ۱۷۰ مشاورت ۱۹۳۷ء بڑھانے چاہئیں یہ تبلیغی مرکزوں کی سکیم در حقیقت میرے احکام کے ماتحت تین سال سے جاری ہے.یعنی جب سے کہ تحریک جدید جاری ہے.اُس وقت سید ولی اللہ شاہ صاحب دعوت وتبلیغ کے ناظر تھے میں نے انہیں ہدایت دی تھی کہ سرحدوں کی حفاظت قرآنی اصول ہے.آپ کو چاہئے کہ رنگون ، کلکتہ بمبئی ، کراچی، کوئٹہ اور پشاور میں تبلیغ پر زیادہ زور دیں.چنانچہ اس کے ماتحت کراچی میں ہمارا مبلغ دو سال سے کام کر رہا ہے ، بمبئی میں بھی کام شروع ہے، کلکتہ میں دو چار دفعہ کام کیا لیکن پھر بند ہو گیا، رنگون میں بھی دو سال سے مبلغ کام کر رہا ہے.قرآن کریم سے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ سرحدوں کی حفاظت نہایت ہی ضروری چیز ہے اور اس کے فوائد پر جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں اس کے بہت سے ایسے فوائد نظر آتے ہیں جن کو دیکھتے ہوئے اس کو کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.پہلی چیز جس کو مدنظر رکھنا ضروری ہے یہ ہے کہ کسی ملک کے تعلقات دوسرے ممالک سے ہمیشہ سرحدوں کے ذریعہ ہی ہوتے ہیں.اگر بندرگاہ ہو تو غیر ممالک کے جہاز وہاں آتے ہیں اور اس طرح جن ملکوں میں پہنچ کر ہم تبلیغ نہیں کر سکتے وہاں کے لوگوں کو ان شہروں میں مل کر تبلیغ کر سکتے اور احمدیت کا پیغام اُن ممالک کے رہنے والوں تک پہنچا سکتے ہیں.مثلاً بمبئی میں جاپان، جاوا، امریکہ اور اٹلی کے جہاز آتے ہیں.اگر ہمارا ایک آدمی وہاں بیٹھا ہوا ہو اور ان ممالک سے جو سیاح آئیں اُن سے ملاقات کر کے اُنہیں تبلیغ کرے.جہاز کے ملازموں سے تعلقات پیدا کرے اور اُنہیں مطالعہ کے لئے لٹریچر دے تو یقینا عظیم الشان فوائد تھوڑے سے خرچ سے پیدا ہو سکتے ہیں.اسی طرح کراچی سے عرب، ایران اور جزائر خلیج فارس وغیرہ کے تعلقات ہیں بلکہ روس کا بھی تعلق ہے کیونکہ روس کا ایران سے تعلق ہے اور پھر ترکستان اور عراق کا بھی کراچی سے تعلق ہے.کلکتہ کے تعلقات یوروپین ممالک، جاوا، بور نیو، سماٹرا اور چین سے ہیں.پھر رنگون مشرقی ممالک سے خاص طور پر تعلقات رکھتا ہے.پشاور افغانستان، روس اور بخارا سے تعلق رکھتا ہے.ان شہروں میں غیر ممالک کے آدمی تجارت کے لئے آتے اور ایک ایک دو دو تین تین مہینے ٹھہرتے ہیں اسی لئے میں نے پشاور میں ایک تبلیغی مرکز قائم کیا تھا اور ایک مبلغ وہاں مقرر کرایا تھا جو
خطابات شوری جلد دوم مشاورت ۱۹۳۷ء ترکوں اور افغانوں کے قافلوں میں جاتا رہے لیکن محکمہ اس کو قائم نہیں رکھ سکا اور اُس نے آدمی واپس بلا لیا.پس یہ ایسی ضرورتیں ہیں جن کے متعلق دیکھنا چاہئے کہ یہ کیا اہمیت رکھتی ہیں اور آیا ان ضرورتوں کو پورا کرنا ممکن ہے یا نہیں؟ اور اگر ہم بجٹ میں زیادتی نہیں کر سکتے تو کیا کسی مد میں کمی کر کے اس ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں یا نہیں؟ مبلغین کیلئے ہدایات میرے نزدیک اس وقت ہمارے راستہ میں مبلغوں کی کمی روک نہیں بلکہ مبلغوں کی زیادتی روک ہے.میرا اپنا خیال یہ ہے کہ اگر ہم جماعت کی انفرادی کوششوں کو جو وہ تبلیغ کے لئے کرتی ہے منہا کر دیں اور دیکھیں کہ مبلغوں کے ذریعہ کتنے احمدی ہوئے تو میرا خیال ہے زیادہ کام انہی کا نکلے گا جو مبلغ نہیں، اور جو مبلغ ہیں ان کا کام بہت ہی تھوڑا نکلے گا.مثلاً ہر سال پانچ سات ہزار آدمی بیعت میں داخل ہوتا ہے ان پانچ سات ہزار افراد میں سے زیادہ سے زیادہ سو دو سو ایسے لوگ ہوتے ہیں جو مبلغوں کے ذریعہ احمدیت میں داخل ہوتے ہیں، باقی سب وہ ہوتے ہیں جو افراد کے ذریعہ احمدیت قبول کرتے ہیں.میرا اس سے یہ مطلب نہیں کہ مبلغ بے فائدہ چیز ہیں وہ بھی ضروری ہیں بلکہ میں نے خود زور دے کر یہ منظور کرایا تھا کہ کم سے کم تین مبلغ سالانہ نئے لینے چاہئیں.پس میں ان کے مخالف نہیں، میں آج بھی ان کی ضرورتوں کا قائل ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم چودہ پندرہ ہزار روپیہ سالانہ مبلغوں کو تیار کرنے پر خرچ کرتے ہیں تو ان مبلغوں کو تیار ہونے کے بعد چھوڑ دینا یہ خدائی مال کا ضیاع ہے اور ہمارا فرض ہے کہ جب تک ہم مدرسہ احمدیہ اور کالج جاری رکھیں، کچھ نہ کچھ لڑکوں کو جو تبلیغ کے لئے نمایاں طور پر مفید ثابت ہو سکتے ہوں ہر سال چنیں اور انہیں تبلیغ پر لگائیں.پس اس رنگ میں بھی تبلیغ ہونی چاہئے اور میں اس کا قائل ہوں لیکن میرا اثر مبلغوں کے متعلق یہ ہے کہ وہ چھ مہینے کے قریب قادیان رہتے ہیں اور چھ مہینے باہر کام کے لئے جاتے ہیں.اول تو وہ جلسہ سالانہ پر آتے ہیں اور اس کے لئے نومبر سے ہی آنا شروع کر دیتے ہیں.پھر جلسہ کے بعد روپے کا سوال ہوتا ہے اور دفتر والے کہتے ہیں کہ بل نہیں بنے.جنوری کے آخر میں بل بنتے ہیں تو روپیہ موجود نہیں ہوتا ، آخر ہوتے ہوتے فروری کے قریب روپیہ ملتا ہے اور وہ اپنے اپنے علاقوں میں روانہ ہو جاتے ہیں لیکن اس کے معاً بعد
خطابات شوری جلد دوم ۱۷۲ مشاورت ۱۹۳۷ء مجلس شوری کے موقع پر قادیان آتے ہیں اور اپریل مئی تک یہیں رہتے ہیں.پھر بعض دفعہ کوئی رپورٹ دینے کے لئے باہر سے مبلغ آجاتا ہے اور کئی کئی دن یہاں رہتا ہے.بہت شاذ کوئی ایسی مثال ہوگی کہ کوئی مبلغ رپورٹ دینے آیا ہو اور وہ رپورٹ دینے کے معا بعد چلا گیا ہو بلکہ یہی نظر آتا ہے کہ رپورٹ دینے آتے ہیں اور آٹھ آٹھ دس دس دن یہاں رہتے ہیں اور یہ کام کے دن سمجھے جاتے ہیں، چھٹی کے نہیں سمجھے جاتے.میرا اپنا اندازہ یہی ہے کہ وہ قادیان میں تین مہینے سے زائد رہتے ہیں اور بیرونجات میں جو کام کرتے ہیں اُس میں بھی چھ مہینے ضائع کر دیتے ہیں، اور زیادہ سے زیادہ سال میں تین مہینے کام کرتے ہیں.چونکہ مبلغین کے دوروں کا نقشہ میرے سامنے نہیں اس لئے یہ صرف میرا ذہنی نقشہ ہے اور اس کے مطابق میں خیال کرتا ہوں کہ مبلغوں کے 9 مہینے ضائع جاتے ہیں.اس کی وجہ زیادہ تر یہ ہے کہ مبلغین کو اکثر پنجاب کے اضلاع میں پھیلا یا جاتا ہے اور پھر اس بے ترتیبی سے اور بے توجہی سے کام لیا جاتا ہے کہ اُن کا بہت سا وقت ضائع جاتا ہے.میری رائے میں ہم آئندہ کے لئے اس امر کو تو ترک نہیں کر سکتے کہ ہر سال تین نئے مبلغ لئے جائیں لیکن اُن کا سفر بہت حد تک کم کیا جا سکتا ہے.پس میرے نزدیک آئندہ کے لئے مبلغین کے سفر کو بہت کم کیا جائے ، اور اُن کا مرکز بجائے قادیان رکھنے کے باہر کے کسی شہر یا گاؤں کو رکھا جائے.میں نے اس کے متعلق تفصیلی ہدایات دفتر کو دی ہوئی ہیں ، گوان ہدایات پر عمل نہ پہلے ہوا ہے اور نہ اب ہو رہا ہے لیکن میں عنقریب مبلغین کو اس طرز پر پھیلانے پر دفتر کو مجبور کروں گا جس طرز پر پھیلانا میرے نزدیک مفید ثابت ہو سکتا ہے.اب بہت بڑا نقص یہ ہے کہ چونکہ مرکز ہی قادیان رکھا گیا ہے اس لئے مبلغ اپنے بیوی بچوں کو یہاں رکھتے ہیں اور چونکہ ان کا گھر یہاں ہوتا ہے اس لئے اکثر وہ قادیان میں آتے رہتے ہیں.اگر اُن کا مرکز قادیان کی بجائے باہر کسی جگہ کو بنایا جائے ، تو اس نقص کا کسی حد تک ازالہ ہوسکتا ہے..میرے نزدیک یہ بھی غلط ہے کہ ہمیشہ شہروں کو مرکز بنایا جائے ، بلکہ اگر کسی گاؤں کو رکز بنایا جائے تو یہ زیادہ مفید ہو گا.مثلاً سیالکوٹ کا مبلغ بجائے سیالکوٹ شہر میں رہنے کے اگر کسی ایسے گاؤں میں رہے جہاں احمدی زیادہ ہوں تو تبلیغ زیادہ ہوسکتی ہے کیونکہ گاؤں
خطابات شوری جلد دوم ۱۷۳ مشاورت ۱۹۳۷ء کے لوگ آپس میں ملتے رہتے ہیں اور اپنے رشتہ داروں کو تبلیغ کرانے کا زیادہ شوق رکھتے ہیں ، لیکن شہری ایک دوسرے سے بہت کم ملتے ہیں.اب بالعموم ایسا ہوتا ہے کہ مبلغ کسی شہر میں جا کر ڈیرہ لگا دیتا ہے، اور مبلغ یہ شکایت کرتا ہے کہ مجھ سے لوگ کام نہیں لیتے ، اور وہ یہ شکایت کرتے ہیں کہ مبلغ کام نہیں کرتا.اصل میں دونوں طرف سے کچھ کچھ مستی ہوتی ہے اور وہ دوستیاں مل کر ایک بھاری سستی بن جاتی ہے.پس بجائے اس کے کہ مبلغوں کا مرکز کسی شہر کو بنایا جائے اُن کا مرکز دیہات کو بنانا چاہئے اور دورے بہت ہی محدود کر دینے چاہئیں اور اگر انہیں سفر کرنا بھی پڑے تو پیدل جائیں یا زیادہ سے زیادہ گاؤں سے کسی سواری کا انتظام کر لیں.گاؤں والوں کے پاس پالعموم گھوڑے ہوتے ہیں اور وہ مہمان نواز بھی ہوتے ہیں.پس اگر گھوڑوں کے ذریعہ سفر کیا جائے یا اگر گھوڑے نہ ہوں تو پیدل کیا جائے تو سفر خرچ کے اخراجات بہت حد تک بچ سکتے ہیں.اب بجٹ میں سفر خرچ کی مد میں ساڑھے چار ہزار روپیہ رکھا گیا ہے لیکن اگر دفتر والے کوشش کریں اور مبلغین کے دوروں کو محدود کر کے سفر خرچ کو اڑھائی ہزار روپیہ پر لے آئیں ، تو اسی مد میں سے دو ہزار روپے وہ نے تبلیغی مرکزوں کے لئے نکال سکتے ہیں لیکن اس کے لئے ضروری بات یہ ہے کہ مبلغین کا مرکز قادیان نہ رکھا جائے بلکہ باہر کے کسی گاؤں کو رکھا جائے.مثلاً گجرات میں کھاریاں ہے، یہاں اچھی جماعت ہے اگر کسی مبلغ کا مرکز کھاریاں بنا دیا جائے اور کہہ دیا جائے کہ جب اُسے اردگرد تبلیغ کے لئے جانا پڑے تو پیدل جائے ، تو کیا وجہ ہے کہ وہ پیدل نہ جا سکے اور ضرور ریل پر ہی سفر کرے.زمیندار ہمیشہ مہمان نواز ہوتے ہیں.یہ تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ اُن کے پاس سواری کے لئے گھوڑے نہیں ہوں گے.میں نے تو دیکھا ہے ہم جب دریا پر جاتے ہیں تو گاؤں والے بعض دفعہ دس دس گھوڑے مہیا کر دیتے ہیں.گو بعض دفعہ کرایہ بھی دینا پڑتا ہے لیکن اکثر وہ مفت گھوڑے پیش کرتے ہیں.تو کسی نہ کسی زمیندار کے پاس گھوڑا ہوتا ہے.ایسے موقع پر اگر گھوڑا لیں اور سوار ہو کر تبلیغ کے لئے نکل جائیں تو یہ بہت زیادہ مفید ہو سکتا ہے.میں نے دیکھا ہے گاؤں میں اگر اس قسم کا دورہ کیا جائے تو بعض دفعہ ایک ایک دورہ کے نتیجہ میں دس دس پندرہ پندرہ بیس ہیں آدمی ایمان لے آتے ہیں.
خطابات شوری جلد دوم ۱۷۴ مشاورت ۱۹۳۷ء خرچ بچانے کا طریق پس مبلغوں کے لئے اول بیر ونجات میں مرکز مقرر کئے جائیں اور پھر یہ ہدایت کی جائے کہ وہ سال دو سال مسلسل اپنے مرکز میں ٹھہریں اگر درد صاحب لنڈن میں پانچ سال رہ سکتے ہیں اور اُن کے ایمان میں کوئی رخنہ پیدا نہیں ہو سکتا تو ہم یہ کیوں فرض کر لیں کہ ہمارا کلکتہ کا مبلغ اگر جلسہ سالانہ پر قادیان نہ پہنچا تو اُس کے ایمان میں خلل آجائے گا.اگر ہم سال میں ایک دفعہ بھی کلکتہ سے اپنا مبلغ بلائیں تو پچاس ساٹھ روپے کا خرچ آ جاتا ہے.اور یہی خرچ اگر لٹریچر کی اشاعت پر کیا جائے تو اس سے بہت کچھ فائدہ ہو سکتا ہے.پس جو کام لینے کا طریق ہے اُس کے مطابق مبلغوں سے ہرگز کام نہیں لیا جاتا اور میرے نزدیک تقسیم عمل ایسے غلط طور پر کی جاتی ہے کہ مبلغوں کے آنے جانے پر ہی بہت سا کرایہ خرچ ہو جاتا ہے.اگر تمام مبلغوں کو باہر اپنے اپنے مرکزوں میں رکھا جائے اور صرف ایک دو مبلغ یہاں ایسے رکھے جائیں جو اشد ضرورت کے موقع پر کام دے سکیں تو بیرونی جماعتوں کو مرکز سے مبلغین منگوانے کی ضرورت بھی محسوس نہ ہو.مثلاً اگر جہلم میں کسی مبلغ کی ضرورت ہے اور گجرات میں ہمارا ایک مبلغ موجود ہو تو جہلم کی جماعت قادیان سے کیوں مبلغ منگوائے گی وہ گجرات سے ہی مبلغ منگوا سکتی ہے اور اس طرح اُس کا خرچ بھی کچھ زیادہ نہیں ہوگا.زیادہ سے زیادہ پانچ چھ آنے خرچ ہو جائیں گے لیکن اگر ہم قادیان سے مبلغ بھیجیں تو کم سے کم دورو پے خرچ ہوں گے.اب آنے جانے کا خرچ دس بارہ آنہ دینا جماعت کو دو بھر معلوم نہیں ہوسکتا لیکن آمد و رفت کے خرچ کے لئے پانچ چھ روپے دینا ضرور دو بھر معلوم ہوگا.پس اگر مبلغوں کے لئے باہر مرکز مقرر کر دیئے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ جماعتیں قادیان سے مبلغ منگوائیں.وہ یہاں سے مبلغ منگوانے کی بجائے اپنے سے قریب ترین مرکز سے مبلغ منگوا سکتی ہیں.مگر اس قسم کے دورے بھی اشد ضرورت پر ہونے چاہئیں.زیادہ تر مبلغوں کا کام یہی ہے کہ وہ اپنے علاقوں میں دورے کریں اور تبلیغ کرتے پھریں.یہ نہ ہو کہ جہاں شور ہو وہاں چلے جائیں بلکہ ہر جگہ جائیں اور لوگوں کو تبلیغ کریں.اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ لمبے عرصہ تک ایک جگہ رہنے کی وجہ سے انہیں اپنے بیوی بچوں کو بھی وہیں رکھنا پڑے گا اور چونکہ گاؤں میں اخراجات کم ہوتے ہیں اس لحاظ سے بھی اُنہیں فائدہ رہے گا.گورنمنٹ آخر اپنے ملازمین
خطابات شوری جلد دوم ۱۷۵ مشاورت ۱۹۳۷ء کو ایک جگہ سے دوسری جگہ تبدیل کرتی ہے یا نہیں؟ جب کرتی ہے اور ان ملازموں کے بیوی بچوں کو بھی وہیں جانا پڑتا ہے جہاں تبدیلی ہوئی ہو.تو کیا وجہ ہے کہ ہمارے مبلغ اپنے بیوی بچوں کو وہاں نہ رکھ سکیں جہاں اُن کی تبدیلی کی جائے.اس طرح گاؤں میں رہنے کی وجہ سے زائد الاؤنس دینے کا بھی کوئی سوال پیدا نہیں ہوسکتا کیونکہ زائد الاؤنس ہمیشہ بڑے شہروں میں رہنے پر ہی دیا جا سکتا ہے.میرے نزدیک یہ قانون ہونا چاہئے کہ پچاس ہزار سے زیادہ آبادی رکھنے والا جو شہر ہو اُس میں اگر کسی مبلغ کو ہم مقرر کریں تو زائد الاؤنس دیں گے اس کے علاوہ کسی جگہ نہیں دیں گے.اگر اُنہوں نے قادیان میں اپنا مکان بنایا ہوا ہے تو بیوی بچوں کو اپنے ساتھ رکھنے کی وجہ سے وہ مکان کو کرایہ پر چڑھا سکتے ہیں ، اور اگر اپنا مکان نہیں بلکہ کرایہ پر رہتے ہیں تو وہ جس طرح یہاں کرایہ دیتے ہیں اسی طرح باہر کرایہ دیں.غرض ایسے مبلغ دو تین سال یا سال ڈیڑھ سال مسلسل ایک جگہ رکھے جائیں.اس کے نتیجہ میں کرایہ کے اخراجات بہت حد تک کم ہو جائیں گے.تبلیغی مراکز کی ضرورت اب میں ان تبلیغی مرکزوں کے قیام کی ضرورت کو لیتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ دو تین سال سے میں کلکتہ اور بمبئی وغیرہ کو تبلیغی مرکز بنانے پر کیوں زور دے رہا ہوں.ایک وجہ تو یہ ہے کہ جماعتوں میں ہر قسم کے آدمیوں کا شامل ہونا ضروری ہوتا ہے.گویا جماعتی ترقی کے لئے تنویع نہایت ضروری ہے اور کوئی جماعت ترقی نہیں کر سکتی جب تک اُس میں مختلف قسم کے افراد شامل نہ ہوں.ہم جب اپنی جماعت پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہماری جماعت میں ملازموں کا ایک بڑا حصہ ہے.اسی طرح زمینداروں کا ہماری جماعت میں ایک بڑا حصہ ہے، لیکن تاجر بہت کم ہیں، حالانکہ مفت تبلیغ ہمیشہ تاجروں کے ذریعہ ہوتی ہے.زمیندار اس میں ہماری کوئی مدد نہیں کر سکتا، ملازم پیشہ ہماری کوئی مدد نہیں کر سکتا، صرف تاجر کر سکتا ہے، اور تاجر ہماری جماعت میں صرف گنتی کے چند افراد ہیں.بڑا تاجر تو ہماری جماعت میں کوئی ہے ہی نہیں.جو درمیانہ طبقہ کے تاجر ہیں وہ صرف ہماری جماعت میں دو چار ہیں.اور جو چھوٹے درجہ سے اوپر کے تاجر ہوتے ہیں، وہ ہیں ، تمھیں، چالیس ہوں گے اور جو معمولی حیثیت کے تاجر ہیں، وہ ہزار ڈیڑھ ہزار سے زیادہ نہیں ہوں گے حالانکہ ہماری جماعت
خطابات شوری جلد دوم 127 مشاورت ۱۹۳۷ء لاکھوں کی ہے اور لاکھوں کی جماعت میں یہ تعدا د سخت قلیل ہے.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جو کام تجارت سے تعلق رکھتے ہیں اُن کی جب ہمیں ضرورت پیش آتی ہے تو ہمیں اپنے لئے کوئی رستہ نظر نہیں آتا.یا د رکھنا چاہئے کہ ملکوں پر ہمیشہ تین قسم کا دور آیا کرتا ہے.ایک دور یہ آتا ہے کہ ملازم نقصان میں ہوتے ہیں.ایک دور یہ آتا ہے کہ زمیندار نقصان میں ہوتے ہیں.اور ایک دور یہ آتا ہے کہ زمیندار اور ملازم دونوں نقصان میں ہوتے ہیں لیکن تاجر نفع میں ہوتا ہے.اگر ان تینوں طبقوں کے لوگ کثرت سے جماعت میں شامل نہ ہوں تو جماعت کی مالی حالت بعض دفعہ سخت خراب ہو جاتی ہے کیونکہ اگر زمینداروں پر مصیبت آئے تو تاجر اور ملا زم طبقہ اس کمی کو پورا کر سکتا ہے اور ملازموں پر کوئی مصیبت آئے تو زمیندار اور تاجر طبقہ اس کمی کو پورا کر دیتا ہے لیکن اگر زمیندار اور ملازم دونوں پر مصیبت آ جائے اور تاجر کوئی نہ ہو تو ایسا دور جماعت کی مالی حالت کو سخت خراب کرنے والا ہوتا ہے.میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں جب زمیندار اور ملازم پر مصیبت کا زمانہ آتا ہے اور اُن کی طرف سے چندوں میں کمی آنی شروع ہوتی ہے تو تاجروں کے نہ ہونے کی وجہ سے یہ تیسرا دور ہمارے حساب کو بالکل خراب کر دیتا ہے.پھر جو ان تاجروں کے ارد گرد کا طبقہ ہے اس نقص کی وجہ سے اُن پر بھی ہم اپنا اثر نہیں ڈال سکتے.علاوہ ازیں تاجروں سے جو اور بہت سے فوائد حاصل ہو سکتے ہیں وہ بھی ہم نہیں اُٹھا سکتے.مثلاً زمیندار تاجر کو آڑھت دیتا ہے تو بعض دفعہ پیسہ، بعض دفعہ دھیلہ اور بعض دفعہ دمڑی آڑھت لے کر ہندو تاجر لاکھوں کروڑوں روپیہ اپنی قوم کو دے دیتا ہے.گویا وہ دھرم ارتھ کے نام پر دمڑی لیتا اور ایسے لوگوں کو وہ روپیہ دے دیتا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالیاں دیتے اور آپ کے خلاف لٹریچر شائع کرتے ہیں.اس طرح ہندوستان کو مدنظر رکھتے ہوئے کروڑوں روپیہ تاجروں کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے لیکن اس کا کوئی حصہ ہمارے پاس نہیں آ سکتا.پھر یہ تو ہندو تاجروں کا ذکر ہے، جو مسلمان تاجر ہیں اُن سے بھی دوسرے لوگ جو فوائد اُٹھا رہے ہیں وہ ہم نہیں اُٹھا سکتے.احرار کو گزشتہ دنوں جتنی امداد پہنچی اُس کا بیشتر حصہ ایسا تھا جو تاجروں سے ملا.افریقہ کا ایک تاجر اُنہیں ایک لمبے عرصہ تک ایک معقول رقم امداد کے طور پر بھجواتا رہا.اسی طرح
خطابات شوری جلد دوم 122 مشاورت ۱۹۳۷ء سُنا گیا ہے کہ دہلی کے ایک تاجر نے انہیں چھ ہزار روپیہ دیا کہ وہ قادیان میں مسجد وغیرہ بنوائیں.اب یہ تاجروں کا جو طبقہ ہے اُن تک اپنی تبلیغ پہنچانا ہمارے لئے بڑا مشکل ہو رہا ہے کیونکہ تاجر کو تاجر ہی تبلیغ کر سکتا ہے، اور تاجر احمدی کم ہیں.ایک ملازمت پیشہ احمدی آخر کلرکوں تک ہی پہنچ سکتا ہے اور زمیندار زمینداروں تک پہنچ سکتا ہے لیکن بڑے تاجروں تک ان میں سے کوئی نہیں پہنچ سکتا اور اس طرح تاجر ہمارے خلاف بطور جماعت کھڑے رہتے ہیں.پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ایسے مقامات میں اپنے تبلیغی مرکز قائم کریں جہاں مسلمان تاجر ہوں اور وہ مقامات کراچی، کلکتہ اور بمبئی ہیں.بمبئی میں مسلمان تاجر زیادہ ہیں اس کے بعد کلکتہ میں اور کلکتہ کے بعد کراچی میں.یہ تین تجارتی شہر ہیں اور بڑی تجارت کے لحاظ سے پشاور نہایت اہم مقام ہے اور مرکزی تجارت کے لحاظ سے دہکی بھی ایسا مقام ہے جہاں تجارت کثرت سے ہوتی ہے اگر ہم ان مرکزوں میں اپنے آدمی مقرر کر دیں اور خصوصیت سے تاجروں پر زور دیں تو بہت حد تک ہمیں کامیابی حاصل ہوسکتی ہے.اس میں شبہ نہیں کہ تاجروں کے لئے ایک مشکل بھی ہے اور وہ یہ کہ تاجر کولوگوں کی خوشنودی مد نظر رکھنی پڑتی ہے، اور اُسے گاہک کے خراب ہونے کا اندیشہ لگا رہتا ہے اسی وجہ سے جب تک تاجروں کا ایک جتھہ نہ ہو تاجر کے لئے آگے بڑھنا مشکل ہوتا ہے.تاجر بے شک دل میں مان جائے گا مگر کہے گا اگر میں اظہار کروں تو میرا گا ہک خراب ہوگا اور اگر اکیلا تاجر مخالفت کی پرواہ نہ کرے تو سخت خطرہ ہوتا ہے کہ اُس کی تجارت کو سخت نقصان پہنچ جائے.پس ضرورت ہے کہ جلد سے جلد اس طرف توجہ کی جائے.اس میں جتنی زیادہ دیر لگے گی اُتنا ہی زیادہ ہمارا کام پیچھے ہوتا چلا جائے گا.میں متواتر تین سال سے زور دے رہا ہوں کہ مبلغوں کو ان جگہوں میں جمع کرو اور تاجروں میں تبلیغ کرو لیکن ابھی تک اس پر عمل نہیں کیا گیا.میرے نزدیک اسی نقطہ کو نظر انداز کرنے کا یہ نتیجہ ہے کہ جب زمیندار اور ملازم پیشہ لوگ اقتصادی بدحالی میں مبتلا ہوتے ہیں، تاجروں کی عدم موجودگی ہمارے بجٹ کو سخت نقصان پہنچا دیتی ہے، پھر اس کا یہ بھی اثر ہے کہ ہندوستان کا ایک حصہ ایسا ہے جو تبلیغ
خطابات شوری جلد دوم مشاورت ۱۹۳۷ء سے بالکل خالی پڑا ہے اور انہیں احمدیت کی خبر ہی نہیں.تاجروں کی طرف توجہ کی اہمیت علاوہ اس کے ایک اور اہم دینی پہلو بھی ہے جس کے لحاظ سے تاجروں کی طرف توجہ کرنا ہمارے لئے نہایت ضروری ہے اور وہ یہ کہ اسلام کے اقتصادی مسائل سب تاجروں سے تعلق رکھتے ہیں.مثلاً سود ہے، بیمہ ہے اور اسی طرح کے اور بہت سے مسائل ہیں.ہم ان مسائل کے بارہ میں کبھی بھی صحیح اسلامی رو پیدا نہیں کر سکتے جب تک تاجر ہمارے ساتھ نہ ہوں.اب جب ہم تبلیغ کرتے اور یہ مسائل اُن کے کانوں تک پہنچاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں تم زمیندار ہو تم کیا جانو تجارت میں کیا مشکلات ہیں.پھر کوئی ملازم انہیں سمجھاتا ہے تو وہ کہہ دیتے ہیں ملازموں کو تجارت کا کیا پتہ لیکن اگر ایک تاجر کے منہ سے یہ باتیں نکلیں اور تاجروں کا ایک جتھا ہمارے ساتھ ہو جو ہماری بتائی ہوئی سکیم کے ماتحت کام کرے، تو ان اسلامی مسائل کی عظمت کو ہم پورے طور پر لوگوں کے قلوب پر منقش کر سکتے ہیں.ورنہ خالی تقریریں کر دینے اور کتابوں میں ان مسائل کو لکھ دینے سے کیا بن سکتا ہے.اور اگر صرف ایک تاجر عمل کرنے کے لئے تیار بھی ہو تو دس دن کے اندر اس کا دیوالہ نکل جائے لیکن اگر ہزار ڈیڑھ ہزار تاجروں کا ایک جتھا ہو جائے اور وہ ایک دوسرے سے تعاون کریں تو ایسے بینک جاری کئے جا سکتے ہیں جن میں سود نہ ہو.اس طرح وہ سُود کی لعنت سے بھی بچ سکتے اور خطرے سے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں.تو اسلامی تعلیم کا ایک جُز و تاجروں کی عدم شمولیت کی وجہ سے بالکل باطل پڑا ہوا ہے.زمیندار اور ملازم پیشہ اصحاب اس کے متعلق لاکھ کوشش کریں، وہ کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک تاجر اس میں شریک نہ ہوں.یہ وہ خیالات ہیں جو تحریک جدید کے ماتحت خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے سمجھائے گئے ، گواشارہ اس طرف مجھے دیر سے ہو چکا تھا.چنانچہ ۱۹۱۵ء کی بات ہے میں نے رویا دیکھا کہ بمبئی سے تاجروں کی دو توجہ طلب رؤیا بیعتیں آئی ہیں اور اُن میں سے ایک کا نام راؤ بہادر راگھو رام جیسا ہے اور جیسا کہ ان علاقوں میں قاعدہ ہے ہر نام باپ کے نام کے ساتھ ملا کر رکھا ہوا ہے.وہ فہرست آٹھ نو تاجروں کی تھی اور مجھے خواب میں ہی معلوم ہوا کہ ان میں سے اکثر
خطابات شوری جلد دوم ۱۷۹ مشاورت ۱۹۳۷ء خطاب یافتہ اور بینکر ہیں.تو معلوم ہوتا ہے اس میں اسی طرف اشارہ تھا کہ اس قوم کو تبلیغ سے خالی نہ چھوڑ و مگر بعض دفعہ خواب کی تعبیر ایک وقت سمجھ میں نہیں آتی اور دوسرے وقت آ جاتی ہے.اُس وقت میں نے اس خواب کی تعبیر نہ سمجھی ، لیکن تحریک جدید پر خدا تعالیٰ نے یہ بات میرے دل میں ڈالی اور میں نے دعوت وتبلیغ پر زور دینا شروع کیا کہ وہ بمبئی میں تبلیغی مرکز قائم کرے.اسی طرح کراچی کے مرکز کے متعلق بھی مجھے مدت ہوئی رؤیا ہو چکی ہے جو میں نے کئی دفعہ سُنائی ہے، اس کے لحاظ سے بھی اور اسلامی ممالک کی طرف توجہ رکھنے کی ضرورت کی وجہ سے بھی وہاں مرکز قائم کرنا نہایت ضروری ہے.قریباً میں سال کی بات ہے میں نے رویا دیکھا کہ میں ایک نہر پر کھڑا ہوں اور اُس کے اردگرد بہت سبزہ زار ہے جیسے انسان بعض دفعہ نہر پر سیر کے لئے جاتا ہے اور لطف اُٹھا تا ہے اسی طرح میں بھی نہر پر کھڑا ہوں.اس کا پانی نہایت ٹھنڈا اور اس کے چاروں طرف سبزہ ہے کہ اسی حالت میں یکدم شور کی آواز آئی جیسے قیامت آجاتی ہے.میں نے اوپر کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا نہر ٹوٹ کر اُس کا پانی تمام علاقہ میں پھیل گیا ہے اور سُرعت سے بڑھتا چلا جا رہا ہے.پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ پانی اس قدر بڑھا کہ سینکڑوں گاؤں غرق ہو گئے.میں یہ نظارہ دیکھ کر سخت گھبرایا اور میں نے چاہا کہ واپس لوٹوں تا پانی میرے قریب نہ پہنچ جائے ، مگر ابھی میں یہ خیال ہی کر رہا تھا کہ میں نے دیکھا میرے چاروں طرف پانی آ گیا ہے پھر میں نے دیکھا کہ نہر کا بند ٹوٹ گیا اور میں بھی نہر کے اندر جا پڑا.جب میں نہر کے اندر گر گیا تو میں نے تیرنا شروع کیا یہاں تک کہ میلوں میل میں تیرتا چلا گیا مگر میرا پاؤں کہیں نہ لگا.آخر جب سینکڑوں میل دور نکل گیا تو میں گھبرانے لگا اور میں نے کہا معلوم نہیں اب کیا ہوگا ، یہاں تک کہ میں نے سمجھا میں تیرتے تیرتے قریباً پنجاب کی سرحد تک پہنچ گیا ہوں.تب گھبراہٹ کی حالت میں میں نے دُعا کرنی شروع کی کہ یا اللہ ! سندھ میں تو پیر لگ جائیں، یا اللہ ! سندھ میں تو پیر لگ جائیں.ابھی میں یہ دُعا کر ہی رہا تھا کہ مجھے معلوم ہوا کہ سندھ آ گیا اور پھر جو میں نے کوشش کی تو میرا پیر ٹک گیا اور پانی چھوٹا ہو گیا، اور پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے سب پانی غائب ہو گیا.
خطابات شوری جلد دوم ۱۸۰ مشاورت ۱۹۳۷ء بیس سال ہوئے جب میں نے یہ رویا دیکھا.اُس وقت سندھ سے ہمارا کوئی تعلق نہ تھا لیکن جب سکھر بیراج کی سکیم مکمل ہوئی تو میں نے صدر انجمن پر زور دیا کہ وہاں زمینیں لیں.اس میں ضرور اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکت ہوگی ، کیونکہ میں نے اس کے متعلق رویا دیکھا ہوا ہے.پھر کراچی خصوصیت سے بندرگاہ ہے عرب اور ایران کا.اور عرب اور ایرانی لوگ مغربی تمدن کے نیچے بہت جلد جلد آ رہے ہیں.ترکوں کو دیکھ لو اُنہوں نے کس طرح عربوں کو اپنے ملک سے خارج کر دیا.یہی حال ایران کا ہے.اگر ہم ان ممالک کی طرف توجہ نہ کریں تو ڈر ہے کہ ایسا نہ ہو ہم یورپ کے لوگوں کو مسلمان بناتے پھریں اور یہاں کے مسلمان اسلام سے نکلتے جائیں اور اگر ایسا ہی ہوا تو پھر ہماری تبلیغی کوششوں کا کیا فائدہ.پس مشرق میں ایک بیداری پیدا ہو رہی ہے اور جس طرح بچہ جب بولنے لگتا ہے تو بعض دفعہ بیہودہ حرکتیں بھی کرتا ہے.کبھی گالیاں دیتا ہے، کبھی منہ چڑاتا ہے، کبھی دوسرے کو مارتا ہے، اسی قسم کا تغییر ان میں بھی پیدا ہو رہا ہے.پس گو وہ حرکتیں ایسی ہی ہیں جیسے بچہ کی حرکتیں لیکن اگر اسی وقت ہم نے ان کا ازالہ نہ کیا ، تو پھر یہ عادات بن جائیں گی اور ان کا دور کرنا بہت مشکل ہو جائے گا.پس یہ تغیرات جو ایران وغیرہ میں پیدا ہو رہے ہیں ایک تبدیلی پر تو دلالت کرتے ہیں، ایک بیداری اور ہوشیاری پر تو دلالت کرتے ہیں لیکن بچے کی ہوشیاری کا زمانہ ہی تربیت کا زمانہ ہوتا ہے اور اگر ہم اُس وقت اُسے نہ سمجھا ئیں تو وہ اچھا خاصہ بدمعاش بن جاتا ہے اور پھر اُس کو سمجھانا ناممکن ہو جاتا ہے.ہمارے لئے ان ممالک میں تبلیغ کے راستہ میں سخت مشکلات ہیں کیونکہ ان ممالک میں دین کو سیاست کا حجز و سمجھا جاتا ہے.ترک دین میں دخل دیتے اور کہتے ہیں یہ سیاست ہے.اسی طرح حکومت ایران دین میں دخل دیتی لیکن کہتی یہ ہے کہ یہ سیاست کا حصہ ہے.پس ان ممالک میں تبلیغ کا بہترین ذریعہ یہی ہے کہ ہم ایسی جگہ بیٹھیں جہاں ان ممالک کے لوگ اکثر آتے رہتے ہیں، اور اندر ہی اندر اُن کے خیالات کا ازالہ کریں.کیونکہ اگر ہمارا مبلغ وہاں جائے تو وہ فوراً اُسے پکڑ کر باہر نکال دیں گے، یا افغانستان جیسے ملک میں مبلغ جائے گا تو وہ اُسے مار ہی دیں گے.آج ہر عیسائی ملک
۱۸۱ خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۳۷ء میں بلکہ بد سے بدتر عیسائی ملک میں بھی ہم تبلیغ کر سکتے ہیں حتی کہ سپین میں جہاں اتنی جنگ ہو رہی ہے کہ بپرس کی گولہ باری بھی اس کے مقابلہ میں ماند ہو گئی ہے( بپرس YEPRES ایک فرانسیسی حدود کے پاس بلجیئم کے ایک مقام کا نام ہے.گزشتہ جنگِ عظیم میں جس قدر وہاں گولہ باری ہوئی اُتنی کسی اور جگہ نہیں ہوئی لیکن جنگ عظیم میں شامل ہونے والے افسروں میں سے بعض کا بیان ہے کہ جس قدر میڈرڈ کے پاس گولہ باری ہوئی ہے، اس کا دسواں حصہ بھی پرس پر نہ ہوئی تھی) وہاں ہمارا مبلغ تھا اور جنگ کے دنوں میں وہ احمدی بنا رہا تھا، اور حکومت اس میں دخل نہیں دیتی تھی.لیکن اس کا دسواں حصہ بھی ہم ترکی اور ایران میں تبلیغ نہیں کر سکتے اور ہمارے لئے سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں کہ ہمارے میں کراچی میں بیٹھ جائیں اور ان ممالک سے آنے والے جو تجارت یا سیر وسیاحت کے لئے آتے ہیں اُن کو تبلیغ کرتے رہیں.اس طرح ملک میں ایک حصہ ایسا تیار ہو جائے گا، جو اپنے ملک کی غیر اسلامی رو کا مقابلہ کرتا رہے گا.ابھی پرسوں ایک دوست نے مجھے ایک اخبار کی کٹنگ بھجوایا اُسے پڑھ کر میرے جسم پر لرزہ آ گیا.اُس کٹنگ میں مسلمانوں کے ایک بڑے آدمی کی ایک تقریر تھی جو اُس نے پہلی دفعہ مذہب پر کی.اس سے پہلے وہ لوگوں کی عملی زندگی پر اثر ڈالتا تھا.مثلاً کہتا تھا کہ عورتوں کو پردہ نہیں کرنا چاہئے لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ اُس نے ایک پبلک تقریر کی اور کہا بعض کہتے ہیں تجدید اچھی چیز ہے اور بعض کہتے ہیں تجدید بُری چیز ہے، اصل بات یہ ہے کہ تجدید عقل کے ماتحت ہو تو اچھی ہوتی ہے، عقل کے ماتحت نہ ہو تو اچھی نہیں ہوتی.بہر حال عقل کے ماتحت تجدید نہایت ضروری چیز ہے.ہر صدی میں ایسے تغیرات ہوتے ہیں کہ جن کو دیکھتے ہوئے پچھلی صدی کے احکام کو بھی اُس پر چسپاں نہیں کیا جا سکتا.پس آج زمانہ میں جو تغیرات ہو رہے ہیں، اُس کو دیکھتے ہوئے تیرہ سو سال کی پرانی باتیں دُہرانا بیوقوفی ہے.شارع اسلام اگر آج ہوتا تو وہ کبھی وہ تعلیم نہ دیتا جو اُس نے آج سے تیرہ سو سال پہلے دی اس لئے ہمیں یقین رکھنا چاہئے کہ ہم احکام اسلامی میں جو تجدید کرتے ہیں، یہ شارع اسلام کے منشاء کے عین مطابق ہے.کیونکہ اگر آج وہ بھی ہوتے ، تو پہلی تعلیم کو بدل کر یہی تعلیم دیتے اب گو الفاظ یہ نہیں، لیکن ان کا مفہوم تو یقیناً یہی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
مشاورت ۱۹۳۷ء خطابات شوری جلد دوم ۱۸۲ نے قرآن کریم نعوذ باللہ خود بنایا تھا اللہ تعالیٰ نے نازل نہیں کیا تھا.یہ تقریر اخباروں میں شائع ہوئی اور اتفاقاً ایک احمدی جو سیر کے لئے وہاں گئے ہوئے تھے، انہوں نے اسے دیکھا اور اُس کی کٹنگ مجھے بھجوا دی.تو جہاں حکومت جبر آلوگوں کو اسلام کے خلاف چلنے پر مجبور کرتی ہو، جہاں طالب علموں کے کورسوں میں ایسے مضامین رکھے جاتے ہوں جو اسلام کے خلاف ہوں ، جہاں علی الاعلان کہا جاتا ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو تعلیم پیش کی وہ تیرہ سو سال پہلے کے لئے تھی، آج دنیا اس پر عمل نہیں کر سکتی ، وہاں کی تبلیغ کتنی اہم چیز ہے.اور اگر ہم ان ملکوں کو چھوڑ دیں تو کتنا خطرناک زہر پیدا ہوتا رہے گا جو یکدم تمام اسلامی زندگی کو برباد کر دے گا اگر ہم ان باتوں کو نظر انداز کر دیں تو کون شخص ہمیں عقلمند کہہ سکتا ہے.پس ہمیں صرف اپنی ہی ضرورتوں کو مدنظر نہیں رکھنا چاہئے بلکہ اُن وسیع ضرورتوں، وسیع تغیرات اور وسیع آلام کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے ، جو مختلف اسلامی ممالک میں پیدا ہو رہے ہیں اور جن کے ازالہ کا بہترین ذریعہ یہی ہے کہ ہم اپنے آدمی کراچی میں رکھیں.وہاں ایران، عراق اور مشرقی عرب کے لوگ آتے رہتے ہیں.اگر ہم ان لوگوں کے دلوں میں قرآن کریم کی محبت پیدا کریں، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کا جذبہ پیدا کریں ، اسلام کی خوبیاں اُن پر ظاہر کریں اور مغربی تعلیم سے جہاں اسلامی تعلیم کا تصادم ہوتا ہے اُس تصادم کے نتائج انہیں بتائیں اور سمجھائیں کہ کس طرح یورپ کے لوگ ٹھوکریں کھا کھا کر اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے کے لئے مجبور ہو رہے ہیں اور پھر انہیں کہیں کہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ جن باتوں کو یورپ ایک لمبے تجربہ کے بعد چھوڑنے پر مجبور ہو رہا ہے، انہیں باتوں کو آپ کے ملک میں اختیار کیا جا رہا ہے تو آہستہ آہستہ ہماری چلائی ہوئی رو ان ممالک کے جوانوں اور بوڑھوں کے دلوں پر اثر کرتی جائے گی.یہاں تک کہ کچھ قلوب اس بات کے لئے تیار ہو جائیں گے کہ جب بھی ہمارا مبلغ اُن کے علاقہ میں پہنچے وہ اُس کے گرد جمع ہو جائیں اور اُسی رو کو جس سے وہ متاثر ہوئے باقی لوگوں میں بھی پھیلائیں.پس ہماری ان کوششوں کا جو خواہ کس قدر معمولی ہوں یہ لازمی نتیجہ ہوگا کہ ان ممالک میں اسلام کی محبت کا خیال زندہ رہے گا اور جب حقیقی اسلام کی رُوح قائم رہے
خطابات شوری جلد دوم گی تو پھر موقع پر تبلیغ بھی آسان ہوگی.۱۸۳ مشاورت ۱۹۳۷ء پس ان علاقوں میں تبلیغی مرکز قائم کرنا نہایت ہی اہم اور ضروری ہے.لیکن ضرورت ہے کہ ہم اپنے مبلغوں کو زیادہ سے زیادہ سنجیدہ اور کارآمد بنا ئیں.ضرورت ہے کہ ہم اُن سے زیادہ سے زیادہ کام لیں.ضرورت ہے کہ جماعت میں اس بات کا احساس ہو کہ مبلغ کا کام تبلیغ کرنا ہی نہیں بلکہ اسلامی مسائل سمجھانا یا ایسے علاقوں میں جانا ہے جہاں اور لوگ تبلیغ کے لئے نہیں جا سکتے اور ضرورت ہے کہ مبلغوں کو ایسے سنٹروں میں جمع کیا جائے جہاں اُن کا جمع کرنا سلسلہ کے لئے اور اسلام کی عام ترقی کے لئے مفید ثابت ہوسکتا ہو.میں نے ایک دفعہ صدر انجمن احمدیہ سے کہا تھا کہ تمہارا تبلیغی کام کم ہو رہا ہے اور تحریک جدید ایک عارضی تحریک ہے، تم تحریک جدید کے نمائندہ کے طور پر میرے ساتھ ٹھیکہ کرلو، شرط صرف یہ ہوگی کہ جو نئے مرکز تحریک جدید قائم کرے اُن مرکزوں میں جتنا چندہ بڑھے وہ آدھا تمہارا ہو اور آدھا تحریک جدید کا اور وہ آدھا چندہ اُس وقت تک تحریک جدید کو ملتا رہے جب تک کہ اس کی خرچ شدہ رقم پوری نہ ہو جائے.جب وہ پوری ہو جائے تو پھر سا را چندہ صدر انجمن احمدیہ کو ملتا رہے.آخر تحریک جدید کے چندہ کو ہم مستقل طور پر جاری نہیں رکھ سکتے لیکن اس کام کو مستقل طور پر جاری رکھنا ضروری ہے اور اس کی صورت یہی ہوسکتی ہے کہ تحریک جدید کی طرف سے جو خرچ ہو، صدر انجمن احمدیہ کی آمد بڑھنے پر وہ تحریک جدید کی مد کو واپس مل جائے اور اس طرح تبلیغ کا میدان وسیع ہوتا چلا جائے.اس معاملہ کو میں نے زیادہ سنجیدہ رنگ میں پیش نہیں کیا تھا مگر میری یہ بات ہنرل کے طور پر بھی نہیں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ تحریک جدید کے کام کو اب چھوڑ انہیں جا سکتا اور اس کے لئے اب مستقل طور پر اخراجات کی ضرورت رہے گی.اسی لئے تحریک جدید کی میں کچھ جائداد صدر انجمن احمدیہ کے نام پر خرید رہا ہوں.کچھ تجارتیں شروع کی ہیں اور کوشش کر رہا ہوں کہ تحریک جدید کے ماتحت جو مشن کھولے گئے ہیں ، اُن کے اخراجات کا بوجھ تحریک جدید پر نہ رہے بلکہ مبلغ خود اپنا خرچ تجارت کے ذریعہ سے نکال سکیں لیکن یہ چیزیں وقت چاہتی ہیں.پس ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میرا فیصلہ یہ ہے کہ موجودہ صورت میں جس
خطابات شوری جلد دوم ۱۸۴ مشاورت ۱۹۳۷ء حد تک ہم بجٹ کو بڑھانے سے بچ سکیں ہمیں بچنا چاہئے لیکن ساتھ ہی اس سکیم کو بھی نہیں چھوڑا جا سکتا.پس اس کا خرچ نکالنے کے لئے میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ میری اوپر کی بتائی ہوئی تجویز کے مطابق مبلغوں کے سفروں کو کم کیا جائے اور مختلف علاقوں میں اُن کے لئے مرکز قائم کئے جائیں اور اس طرح سفر خرچ سے پندرہ سو روپیہ بچایا جائے جو ان نئے مرکزوں پر خرچ کیا جائے.دو ہزار نظارت دعوت جماعت سے اس غرض سے خود جمع کرے اور پندرہ سو کی رقم مذکورہ بالا شرط کے ماتحت تحریک جدید سے خرچ کی جائے.چندہ بڑھانے کا طریق : میں یہ بالکل نہیں سمجھ سکا کہ صدر انجمن احمدیہ کی پیش کردہ تجویز میں جو دو ہزار کی رقم تبلیغی مرکزوں کے لئے طلب کی گئی تھی وہ کس طرح اس کام کے لئے کافی ہو سکتی تھی.میرے نزدیک تو ساڑھے چار ہزار کی رقم جس کی سب کمیٹی نے سفارش کی ہے وہ بھی اس کے لئے ناکافی ہے ،مگر اس سے کام شروع کیا جا سکتا ہے.بمبئی اور کلکتہ میں تبلیغی مرکز قائم کرنے کے لئے مکان لینا بھی بہت سا خرچ چاہتا ہے وہاں اگر اچھا سا مکان لیا جائے تو اُس پر ستر اسی روپے ماہوار کرا یہ ہی خرچ ہو جائے گا.پس ساڑھے چار ہزار سے کم میں یہ سکیم کسی طرح شروع نہیں کی جاسکتی.جس رقم کا میں نے تحریک کی طرف سے وعدہ کیا ہے اس کے متعلق میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ کراچی کا مرکز دعوت و تبلیغ تحریک جدید کے سپرد کر دیا جائے.وہاں کے اخراجات تحریک جدید برداشت کرے گی اور دوسرے مراکز کے اخراجات صدر انجمن کی امداد اور خاص چندہ سے پورے کئے جائیں.خاص چندہ کے بارہ میں نظارت کو چاہئے کہ وہ خود بھی کوشش کرے، اور اپنے مبلغوں کو بھی ہدایت دے کہ وہ نسبتاً آسودہ حال لوگوں سے ان مرکزوں کے قیام اور اُن کے اخراجات کے لئے چندہ وصول کریں اور یہ یا درکھیں کہ اس چندہ کی فراہمی بیت المال پر ہرگز نہ ہوگی بلکہ گلی طور پر نظارت دعوت پر ہوگی اور یہ کوئی مشکل کام نہیں، نیک نیتی اور عزم چاہئے.ہمارے نانا جان میر ناصر نواب صاحب مرحوم چھ چھ سات سات ہزار روپیہ سالانہ بغیر عام لوگوں کو پتہ لگنے کے چندہ اکٹھا کر لیا کرتے تھے.بعض لوگ انہیں زیادہ چندہ دیتے ، تو وہ مجبور کرتے کہ تھوڑا دو، کیونکہ میں نے پھر بھی چندہ مانگنے آنا ہے.اس طرح اُنہوں نے ہزاروں روپے کی عمارتیں کھڑی کر دیں.اگر نانا جان مرحوم ساٹھ ستر سال کی
خطابات شوری جلد دوم ۱۸۵ مشاورت ۱۹۳۷ء عمر میں کام کر سکتے اور لوگوں سے چندہ وصول کر سکتے تھے تو ہمارے ناظر تو جوان ہیں اور لوگوں میں کام کرنے کا جوش بھی ہے ، وہ کیوں ڈیڑھ دو ہزار روپیہ سالانہ اکٹھا نہیں کرسکیں گے.اگر نظارت کے عملہ کا کوئی آدمی مہمان خانہ میں ہی مقرر کر دیا جائے اور کہہ دیا جائے کہ جو مہمان آئے اُس سے وہ کہے کہ ایک آنہ چندہ اس غرض کے لئے دے تو اس طرح بھی سال میں بہت سی رقم جمع ہو سکتی ہے.بلکہ اگر جلسہ سالانہ پر لوگوں سے وہ پیسہ پیسہ بھی وصول کریں تو بڑی رقم اکٹھی کر لیں.جب وہ پیسہ چندہ مانگیں گے تو ضروری نہیں کہ ہر شخص پیسہ ہی دے کوئی آنہ دے دے گا، کوئی روپیہ اور کوئی دو روپے.پس ان تین ہزار روپیہ کے علاوہ جو خرچ ہو وہ اپنی ذاتی کوشش سے پورا کریں.غرض ایک مرکز وہ تحریک جدید کو دے دیں اور پندرہ سو روپیہ سفر خرچ کی مد سے اس مد میں منتقل کر لیا جائے ، اور باقی ڈیڑھ دو ہزار جماعت کے دوستوں سے چندہ کرلیں.میں پھر کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میں نظارت دعوۃ و تبلیغ کے اس غذر کو ہرگز تسلیم نہیں کروں گا کہ لوگ چندہ دیتے نہیں.اگر وہ ہوشیاری سے چندہ جمع کریں تو چند شہروں سے ہی یہ رقم جمع کر سکتے ہیں لیکن اگر وہ دفتری کارروائی کریں تو دفتری کارروائیوں سے کچھ نہیں بنتا، لوگ بھی اس کے جواب میں دفتری کا رروائی کر دیتے ہیں.پس تبلیغی مرکزوں کے قیام کی جو اہمیت ہے وہ میں نے بتادی ہے.یہ دراصل نہایت ہی اہم سوال ہے، اور ہمیں ان مرکزوں کو کبھی نہیں چھوڑ نا چاہئے.پشاور، کراچی، بمبئی، کلکتہ اور دہلی یہ پانچ اہم مرکز ہیں.ان کے علاوہ رنگون بھی ایک ضروری مرکز ہے جہاں ہمارا آدمی مقرر ہے لیکن ضروری ہے کہ ان ہدایتوں کو مد نظر رکھ کر تبلیغ کی جائے جو میں نے دی ہیں اور دو دو، تین تین سال کے بعد مبلغوں کو قادیان بُلا نا چاہئے.اس کے علاوہ جب بھی آئیں، چھٹی لے کر آئیں اور اپنے کرایہ پر آئیں اور اگر اس کے بغیر یہاں آئیں تو اُنہیں فوراً ڈسمس کر دیا جائے.یہ عجیب بات ہے کہ دنیوی باتوں میں تو ان باتوں کا خیال رکھا جاتا ہے لیکن دین کے معاملہ میں کوئی پابندی نہیں کی جاتی.کشمیر میں میں نے مبلغ مقرر کئے ، تو جونہی وہاں سردی شروع ہوئی ، جھٹ اطلاعیں آنے لگ گئیں کہ ہماری بیوی بیمار ہے، ہم خود بیمار ہو گئے ہیں، ہمیں آنے کی اجازت دی جائے.مجھے پتہ لگا تو میں نے کہا
خطابات شوری جلد دوم ۱۸۶ مشاورت ۱۹۳۷ء کہ اگر محکمہ والوں نے اُن کو بلایا، تو انہیں سخت سزادی جائے گی.یہ اطلاع کشمیر میں بھی پہنچا دی گئی، اور اب وہ وہاں بڑے آرام سے بیٹھے ہیں اور کوئی بیماری کی اطلاع نہیں آتی.تو مبلغوں سے کام زیادہ زور سے لینا چاہئے اور محکمہ کو نہیں چاہئے کہ مقررہ میعاد سے پہلے ان کو قادیان آنے دے.پھر وہ ان سے اُن لائنوں پر کام لے جو میں نے بتائی ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ اگر میری ہدایات کے ماتحت کام کیا گیا تو تین ہزار روپیہ کے بجٹ میں سفر خرچ کا گزارہ ہو جائے گا.میری طرف سے یہ بھی ہدایت ہے کہ ماہوار رپورٹ میرے سامنے پیش کی جایا کرے کہ کرایہ کس طرح خرچ ہو رہا ہے.اسی طرح تبلیغی مرکزوں کے لئے جو چندہ جمع ہو اُس کے متعلق بھی میرے سامنے ماہوار رپورٹ پیش ہوتی رہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میں نے ہدایت دی ہوئی ہے کہ قادیان کے ارد گر د تبلیغ پر خاص زور دیا جائے مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ خرچ بھی زیادہ کیا جائے.اگر جو مبلغ مقرر ہوں وہ تھوڑا تھوڑا سفر روزانہ کریں اور پیدل یا دوستوں کی سواریوں پر سفر کریں تو یہ کام بغیر زائد خرچ کے ہو سکتا ہے.میں سمجھتا ہوں جس احمدی زمیندار کے پاس گھوڑا ہوگا وہ مبلغ کو اگلی جگہ پہنچانے کے لئے بخوشی اپنا گھوڑا پیش کر دے گا.غرض آخری فیصلہ میرا یہ ہے کہ عام بجٹ میں زیادتی کو میں نامنظور کرتا ہوں لیکن اس کام کے لئے مبلغین کے سفر خرچ کی مد میں سے ڈیڑھ ہزار روپیہ تبلیغی مرکزوں کے قیام کے اخراجات کی مد میں منتقل کرتا ہوں اور پندرہ سو کا خرچ تحریک جدید پر ڈالتا ہوں اور ڈیڑھ یا حد دو ہزار روپیہ تک خاص چندہ کرنے کی محکمہ کو اجازت دیتا ہوں، اس قدر رقم بجٹ خرچ میں مشروط بہ آمد بڑھا دی جائے.ناظر صاحب دعوت و تبلیغ کو چاہیئے ہر مہینہ یہ رپورٹ کریں کہ انہوں نے اس ماہ میں اس غرض کے لئے کتنا روپیہ جمع کیا ہے.اگر ایک محکمہ ۳۵ مبلغ رکھ کر بھی چندہ جمع نہ کر سکے ، تو میں تو اُس کو نالائق محکمہ ہی خیال کروں گا.تیسرا دن مجلس مشاورت کے تیسرے دن یعنی ۲۸ مارچ ۱۹۳۷ء کو تلاوت قرآن کریم کے
خطابات شوری جلد دوم ۱۸۷ مشاورت ۱۹۳۷ء بعد حضور نے نمائندگان کو نہایت اہم ہدایات سے نوازا.آپ نے فرمایا : - انسانی نفس جب کسی چیز کا اندازہ لگاتا ہے تو اُس سے یہ غلطی ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے نفس کو بُھول جاتا ہے اور دوسروں کے متعلق ایسے قواعد مقرر کرتا ہے جو صحیح نہیں ہوتے اس وجہ سے اُس کے اندازے بسا اوقات غلط ہو جاتے ہیں.یعنی کبھی وہ انسانی مشکلات کو نظر انداز کر دیتا ہے اور کبھی انسانی خوبیوں کو.پھر کبھی وہ یہ غلطی کرتا ہے کہ اپنے نفس کا اندازہ لگا کر ساروں پر اُس کو چسپاں کر دیتا ہے.اس کی بھی آگے پھر دو قسمیں ہیں، یعنی ایک اچھا اندازہ ہوتا ہے اور ایک بُرا اندازہ.گویا کبھی وہ اپنے نفس کی مجبوریوں کو بُھول کر دوسروں کا اندازہ لگاتا ہے اور وہ اندازہ ضرورت سے زیادہ خوشنما ہوتا ہے اور کبھی اپنے نفس کی کمزوریوں کو دیکھ کر سب کو معذور و مجبور قرار دے دیتا ہے اور یہ حقیقت سے بڑھ کر بُرا اندازہ ہوتا ہے.غرض جب وہ بدظنی کی طرف مائل ہوتا ہے تو سمجھتا ہے کہ سب دُنیا بد ہے اور جب نیک ظنی کی طرف مائل ہوتا ہے تو سمجھتا ہے سب دُنیا فرشتہ ہے.اور جب وہ دوسروں کو بُھول جاتا ہے اور صرف اپنے نفس کو اپنے سامنے رکھتا اور اُس کے مطابق ایک رائے قائم کر لیتا ہے تو اس کے نتیجہ میں بھی کبھی وہ اپنی نسبت اچھا فیصلہ کر کے سمجھتا ہے کہ میں چونکہ نیک اور قربانی کرنے والا ہوں اس لئے میری طرح ساری دُنیا ہی نیک ہے اور کبھی اپنی نسبت بُری رائے قائم کر کے خیال کر لیتا ہے کہ میری طرح ساری دُنیا ہی بُری ہے.تو حقیقی اندازہ جس میں انسان کا دماغ ہر قسم کے تعصبات سے پاک اور تمام غلط حدود سے آزاد ہو، بہت مشکل کام ہوتا ہے اور بہت کم لوگ اس قابل ہوتے ہیں کہ وسطی اندازہ لگا سکیں.یعنی نیکیاں بھی مد نظر رکھ سکیں اور کمزوریاں بھی اور دین کے معاملہ میں تو ایک زائد چیز بھی شامل ہوتی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے فضل کو انسان مدنظر رکھتا ہے.گو اس میں بھی غلطی ہو جاتی ہے جیسے کل ہی میں نے بتایا تھا کہ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں اللہ تعالیٰ کا فضل ہو جائے گا، مگر وہ اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی عقل سے کام نہیں لیتے.حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کے نزول کے لئے بعض قواعد رکھے ہوئے ہیں، اور جس طرح اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے نا امیدی انسان کو ہلاک کر دیتی ہے اسی طرح قانونِ قدرت کو نظر انداز کرنا بھی انسان کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے محروم کر دیتا ہے.پس مومن کو ہر کام کے کرتے وقت یہ امر مد نظر
خطابات شوری جلد دوم ۱۸۸ مشاورت ۱۹۳۷ء رکھنا چاہئے کہ ایسا تو نہیں کہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل کو نظر انداز کر رہا ہوں؟ یا ایسا تو نہیں کہ میں اس کے فضل کو اپنی غفلت اور سستی کا بہانہ بنا رہا ہوں؟ بہر حال مومن کو یہ خانہ خالی رکھنا پڑے گا اور یہ بے ادبی ہو گی اگر وہ اس کو پُر کرنے کی کوشش کرے.سچا تو کل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ایک بات میں نے کئی دفعہ سنی ہے، آپ ترکیہ کے سلطان عبد الحمید خان کا جو معزول ہو گئے تھے ذکر کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے، سلطان عبدالحمید کی ایک بات مجھے بڑی ہی پسند ہے.جب یونان سے جنگ کا سوال اُٹھا تو وزراء نے بہت عذرات پیش کر دیئے.دراصل سلطان عبدالحمید کا یہ منشاء تھا کہ جنگ ہو، مگر وزراء کا منشاء نہیں تھا اس لئے انہوں نے بہت سے عذرات پیش کئے اور آخر اُنہوں نے کہا جنگ کے لئے یہ چیز بھی تیار ہے، وہ چیز بھی تیار ہے لیکن چونکہ اُن کا منشاء نہ تھا کہ جنگ ہو اس لئے اُنہوں نے کسی اہم چیز کا ذکر کر کے کہہ دیا کہ فلاں امر کا انتظام نہیں ہے.مثلاً یوں سمجھ لو کہ انہوں نے کہا ( اور غالباً یہی کہا ہو گا ) کہ تمام یورپین طاقتیں اس وقت اس بات پر متحد ہیں کہ یونان کی امداد کریں اور اس کا ہمارے پاس کوئی علاج نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ جس وقت وزراء نے یہ بات پیش کی کہ سب کچھ موجود ہے مگر یہ بات نہیں تو سلطان عبدالحمید نے جواب دیا کہ کوئی خانہ تو خدا کے لئے بھی چھوڑنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سلطان عبدالحمید کے اس فقرہ سے بہت ہی لطف اُٹھاتے تھے.تو مومن کو اپنی کوششوں میں سے ایک خانہ خدا تعالیٰ کے لئے چھوڑ نا ضروری ہوتا ہے.درحقیقت سچی بات یہ ہے کہ مومن کبھی بھی ایسے موقع پر نہیں پہنچتا، اور دراصل کوئی شخص بھی ایسے موقع پر نہیں پہنچتا ، جس کو اس دُنیا میں کامل موقع کہا جا سکے.یعنی یہ کہا جا سکے کہ اب کوئی رستہ کمزوری کا باقی نہیں رہا.فرق صرف یہ ہے کہ مومن سمجھتا ہے ابھی کامیابی کا راستہ ہے، لیکن غیر مومن سمجھتا ہے اب کوئی راہ نہیں.ڈاکٹر بعض دفعہ کسی مریض کا جب علاج کرتا ہے تو کہتا ہے میں نے ساری تدابیر اختیار کر لیں اب اس کے بچنے کی کوئی صورت نہیں، مگر پھر بھی کوئی صورت نکل آتی ہے اور بیمارا چھا ہو جاتا ہے.مجھے ہمیشہ اس بات پر حیرت آیا کرتی ہے کہ جب میری مرحومہ بیوی امتہ الحی سخت
خطابات شوری جلد دوم ۱۸۹ مشاورت ۱۹۳۷ء بیمار تھیں تو تین تجربہ کار ڈاکٹر ان کا علاج کر رہے تھے.اُنہوں نے انہیں دیکھ کر کہا کہ انہیں کوئی تکلیف نہیں، محض اعصابی کمزوری کی شکایت ہے، حالانکہ اس مشورہ کے چند گھنٹوں کے اندر اندر وہ فوت ہو گئیں.تو انسانی اندازے بہت دفعہ غلط ہو جاتے ہیں.کئی دفعہ ڈاکٹر کہہ دیتے ہیں فلاں مریض اب مرنے لگا ہے اور وہ بچ جاتا ہے اور کئی دفعہ کہتے ہیں کہ بچ جائے گا اور وہ مر جاتا ہے.اس بارہ میں اُن کی طرف سے کوئی بے احتیاطی نہیں ہوتی مگر اُن کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ جہاں تک اُن کی نگاہ پہنچتی ہے اُس کے اوپر بھی راستے اور سوراخ ہیں، موت کے لئے بھی اور حیات کے بھی.بہر حال سامانوں کی تکمیل کو انتہاء تک پہنچانے کے بعد انسان خوش ہو جاتا ہے اور وہ یہ نہیں سمجھتا کہ یہ تکمیل کوئی چیز نہیں.تھوڑے ہی دن ہوئے اخباروں میں مضامین شائع ہوئے تھے کہ امپیریل ائیرویز نے ہوائی جہازوں کی سلامتی کے لئے انتہائی حد تک کوشش کی ہے اور اب اُس نے نہایت محفوظ جہاز بنالئے ہیں.ان جہازوں کے رائج ہو جانے کے بعد حادثات کا امکان بالکل جاتا رہے گا کیونکہ راستہ کے تمام چارٹ لنڈن میں لگے ہوئے ہوں گے، اور وائرلیس کے ذریعہ جہاز کو ہدایات پہنچتی رہیں گی کہ اب راستہ میں فلاں پہاڑ ہے، فلاں خطرہ ہے اور اس سے محفوظ رہنے کا یہ طریق ہے.لطیفہ یہ ہے کہ پرسوں کے ایک اخبار میں ایک طرف تو یہ نقشہ چھپا اور دوسری طرف یہ خبر درج تھی کہ وہ جہاز جو اس تجربہ کے لئے روانہ کیا گیا تھا وہ فرانس میں ہی ٹوٹ کر گر گیا.یہ پہلا سفر تھا جو اُس نے الیگزنڈرا ( مصر ) آنے کے لئے کیا لیکن باوجود اس قدرسلامتی کی تجاویز اختیار کرنے کے وہ فرانس میں جہاں ایک ایک سواری کا جہاز بھی آسانی سے اُتر جاتا ہے گر کر تباہ ہو گیا ، اور سفر بھی مکمل نہ کر سکا اور عین اُس وقت جب لنڈن کا مرکز اُسے ہدایات دے رہا تھا ، ایک پہاڑ سے ٹکرا کر چکنا چور ہو گیا.تو انسانی عقل باوجود اپنے کمال کو پہنچ جانے کے پھر بھی تمام کمزوریوں کا احاطہ نہیں کر سکتی اور ایسے رخنے رہ جاتے ہیں جن کو پورا کرنا خدا تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہوتا ہے انسان کے اختیار میں نہیں.اور اگر کوئی انسان کہے کہ میں اپنا کام ایسا مکمل کرلوں کہ اُس میں کوئی رخنہ اور سوراخ باقی نہ رہے تو یہ حماقت ہوگی اسی طرح یہ بھی حماقت ہے کہ انسان اسباب کو بالکل نظر انداز کر دے.اس وقت
خطابات شوری جلد دوم ۱۹۰ مشاورت ۱۹۳۷ء یوروپین قو میں پہلی حماقت میں مبتلا ہیں اور مسلمان دوسری حماقت میں.وہ ایک مکان بناتی ہیں ، اُس کو دروازے لگاتی ہیں، اُس پر چھت ڈالتی ہیں اور اُسے پوری طرح مضبوط کرنے کے بعد کہہ دیتی ہیں کہ اب اسے آگ بھی نہیں لگ سکتی ، اسے زلزلہ بھی نہیں گر ا سکتا اور مسلمان اپنے مکان کے لئے آٹھ فٹ کی دیوار ایک ہی کھڑا کرتا ہے نہ اس کی دیوار میں پوری نہ اُس پر چھت، اور اُسے مکان کہنے لگتا ہے، اور اس کا نام تو تکل علی اللہ رکھتا ہے.مگر یہ تو کل نہیں سستی اور غفلت ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ پہلے اپنے اونٹ کا گھٹنا با ندھو اور پھر اللہ تعالیٰ پر توکل کرونا، یعنی جہاں تک تم کام کر سکتے ہوکر و لیکن جب تمہارے ہاتھ شل ہو جا ئیں اور تمہیں کوئی تدبیر دکھائی نہ دے، اس وقت بیٹھ جاؤ اور اللہ تعالیٰ کی طرف نگاہ رکھو.اس کا نام ہے تو کل.گویا جب تم ساری تدابیر اختیار کر لو اور تمہاری عقل کہتی ہو کہ اب کوئی چیز باقی نہیں رہی اور دُنیا کے علوم کہتے ہوں کہ جتنے علاج ممکن تھے وہ سب ہو چکے، جب عقل کہتی ہو کہ اب کوئی رخنہ باقی نہیں رہا اور جب تجر بہ کہتا ہو کہ اب کوئی سقم نہیں رہا، اُس وقت تم کہو کہ اس کام میں ضرور کوئی نہ کوئی رخنہ ہے، جسے خدا پورا کرے گا.گویا ایک تو کل علمی ہوتا ہے اور ایک عملی.علمی تو گل وہ ہے جب تمہاری عقل اور دُنیا کی عقل، اور تمہارا تجربہ اور دُنیا کا تجربہ متفقہ طور پر فتوی دیتا ہو کہ اب کام مکمل ہو گیا ، مگر تم یہ کہو کہ یہ مکمل نہیں ضرور اس میں کوئی رخنہ ہے، جسے خدا پورا کرے گا.اور عملی تو کل یہ ہے کہ جتنے ذرائع حصول مقصد کے خدا تعالیٰ نے مقرر کئے ہیں، تم اُن سب ذرائع کو اختیار کرتے ہو، جتنی قربانی ممکن ہے وہ سب قربانی پیش کرتے ہو اور جب تمہارے تمام ذرائع ختم ہو جاتے ہیں، تمہاری ساری کوششیں پوری ہو چکتی ہیں، لیکن ابھی اس کام کے پورا کرنے کے لئے بہت سے سامانوں کی ضرورت ہوتی ہے، اور ابھی بہت سی محنت درکار ہوتی ہے اور دُنیا سمجھتی ہے کہ اب تم رہ گئے ، اور کامیابی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تو تمہارا دل مطمئن ہوتا ہے اور مایوسی تمہارے قریب نہیں پھٹکتی.تم اپنی قلیل پونجی خرچ کرتے جاتے ہو، اور اپنے خون کا آخری قطرہ بہاتے جاتے ہو، اور یقین رکھتے ہو کہ خدا تعالیٰ تم کو نہیں چھوڑے گا ، اور تم اللہ تعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہو کر رہو گے.یعنی ایک وہ تو کل ہے جب تمہارا علم یہ کہتا ہو کہ اب کوئی رخنہ باقی نہیں رہا لیکن تم یہ کہتے ہو کہ رخنہ
خطابات شوری جلد دوم ۱۹۱ مشاورت ۱۹۳۷ء ہے اور ضرور ہے.اور ایک وہ تو کل ہے جب تم سمجھو کہ کامیابی کی کوئی صورت نہیں اور رخنے ہی رخنے نظر آ رہے ہیں اُس وقت تم کہو کہ خدا اس کام کو کر کے رہے گا ، خواہ چھت بھی نہ رہے اور دیوار میں بھی گر پڑیں.غرض ایک تو گل کمزوری کی حالت میں ہوتا ہے اور ایک تو کل قوت کی حالت میں ہوتا ہے.جب یہ دونوں ملتے ہیں تب حقیقی تو کل کا مقام انسان کو حاصل ہوتا ہے مگر عام لوگ ان دونوں کے خلاف چلتے ہیں.جب وہ کسی کام کو شروع کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہم نے ہی یہ کام کرنا ہے اور ہم اس کو کر کے رہیں گے،صرف سامان چاہئے اور جب سامان نہیں ملتا تو ہمتیں ہار کر بیٹھ جاتے ہیں، حالانکہ تو کل اِن دونوں حالتوں میں انسان کو الٹ راستے پر چلاتا ہے.جب کام مکمل ہو جائے تو تو کل کہتا ہے یہ مکمل نہیں اور جب مکمل نہ ہو، تو تو گل کہتا ہے تم کہو کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ مکمل ہو جائے گا.گویا تو کل ہماری عقل کے بالکل خلاف فتویٰ دیتا ہے.جب عقل کہتی ہے کہ سامان مکمل نہیں ، تباہی کے سامان بڑی سُرعت سے ہو رہے ہیں، تو تو کل کہتا ہے تم خدا کی طرف دیکھو تمہارا خدائمی بھی ہے اور جب عقل کہتی ہے کہ اب کوئی تباہی کی صورت نہیں، کامیابی کے سب سامان ہمیں حاصل ہیں، تو تو کل کہتا ہے ڈرو کیونکہ خدا صرف نجی نہیں بلکہ میت بھی ہے گویا عقل جب سب کام مکمل کر لیتی ہے تو تو کل کہتا ہے خدا تعالیٰ کی صفت نمیت کو نہ بھولو.اور جب ہمارے سامان سب رہ جاتے ہیں، اور ہم سمجھتے ہیں کہ اب موت اور تباہی آگئی اور مایوسی ہی مایوسی چاروں طرف دکھائی دیتی ہے تو تو کل کہتا ہے کیا خدا می نہیں ؟ گویا جس وقت حیات ناممکن نظر آتی ہے، تو کل کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے نجی ہونے کو یاد رکھو، اور جس وقت امانت ناممکن نظر آتی ہے، تو کل کہتا ہے کیا خدا تعالیٰ کی صفت ممیت کو تم بھول گئے؟ ان حالتوں میں جب کبھی تو بندہ سمجھتا ہے کہ خدا ممیت ہے اور وہ بنے بنائے کام کو تباہ کر سکتا ہے اور کبھی یہ سمجھتا ہے کہ خدا محی ہے اور وہ بگڑے ہوئے کاموں کو بھی درست کر سکتا ہے.کامیابی اور عروج کی حالت میں انسان خدا تعالیٰ کی طرف مُجھکتا اور کہتا ہے خدایا! تیری امانت سے میں پناہ چاہتا ہوں اور تیرے احیاء کو میں طلب کرتا ہوں.پھر جس وقت وہ سخت مایوسی کی حالت میں ہوتا ہے، سامان اُس کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں، اُس وقت بھی وہ خدا تعالیٰ کی طرف جھکتا اور کہتا ہے
خطابات شوری جلد دوم ۱۹۲ مشاورت ۱۹۳۷ء خدایا! مجھ پر موت آ گئی، میں اب تیرے احیاء کا نمونہ دیکھنا چاہتا ہوں.میری کوششیں سب رائگاں گئیں ، میری محنتیں سب ضائع گئیں، اب تیرا احیاء ہی ہے جو مجھے کامیاب کرے، اور میرے مُردہ کاموں کو زندہ کر دے.تب اللہ تعالیٰ اپنی صفتِ احیاء کا جلوہ دکھاتا اور اُسے تاریکیوں سے باہر نکال لیتا ہے.یہ وہ چیز ہے جس کا نام تو کل ہے.اگر یہ نہ ہو تو خالی لفظ تو گل اپنے اندر کوئی حقیقت نہیں رکھتا.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ مسلمانوں کی تباہی کا بڑا سبب یہ ہے کہ وہ منہ سے کہہ دیتے ہیں اللہ کے فضل سے ہم مسلمان ہیں اور کبھی مسلمان بنے کی کوشش نہیں کرتے.تو یہ چیزیں ہیں جن کی انسان کو ضرورت ہے مگر وہ تدابیر کے بارہ میں ہمیشہ تین غلطیاں کرتا ہے.اول.لوگوں کے متعلق اندازہ لگانے میں وہ یہ غلطی کرتا ہے کہ اپنے نفس کا مطالعہ کئے بغیر اور انسانی حدود کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ دُنیا کے متعلق اچھا یا بُر اغلط اندازہ لگا دیتا ہے.دوم.دُنیا کا اندازہ وہ انسانی طاقتوں کو مد نظر رکھ کر نہیں لگا تا بلکہ صرف اپنی ذات کی موجودہ حالت کو دیکھ کر.اگر وہ اچھی ہوتی ہے تو سب دُنیا کے متعلق اچھا اندازہ لگا لیتا ہے اور اگر وہ بُری ہو تو بُرا اندازہ لگا لیتا ہے.سوم.وہ خدا تعالیٰ کے بارہ میں یہ غلطی کرتا ہے کہ کبھی وہ اُس کی صفت امانت کو سامنے رکھتا ہے اور صفت احیاء کو بُھول جاتا ہے اور کبھی صفت احیاء سامنے رکھتا ہے اور صفت امانت کو بُھول جاتا ہے اور یہ دونوں باتیں تو کل کے خلاف ہیں.یہ تین چیزیں ہیں جن میں سے ہر ایک کی دو شقیں ہیں اور جن میں غلطی کرنے کی وجہ سے انسانی اندازے سب غلط ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ جو کچھ چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کا کامل طور اُسی پر تو کل ہو اور وہ کسی چیز کو بھی خدا کے برابر نہ سمجھے.نہ موت کو نہ حیات کو، نہ سامانوں کو نہ سامانوں کے فقدان کو.دیکھو کس عجیب طرز پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں تو کل کے مقام کا ذکر کرتے ہوئے انسانی خیالات کی تردید کی ہے وہ فرماتا ہے.وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَانُو إِذْ قَالَ لِقَوْمِه يقوم إنْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَّقَاعِي وَتَذْكِيرِي بِأَيْتِ اللَّهِ فَعَلَ اللَّهِ
۱۹۳ مشاورت ۱۹۳۷ء خطابات شوری جلد دوم توكلتُ فَاجْمعُوا امْرَكُمْ وَشُرَكَاءَ كُمْ ثُمَّ لَا يَكُن أمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقضوا إلي ولا تنظرون اے فرماتا ہے ان کو ذرا نوح کے حالات پڑھ کر سنا.جب نوح نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم! اگر تمہیں میرا مقام اور میرا نصیحت کرنا بعید از عقل معلوم ہوتا ہے اور تم سمجھتے ہو کہ یہ ماننے والی بات نہیں گویا تم اس بات کو بہت بڑا سمجھتے ہو کہ کس طرح کسی انسان کو نبوت اور داعی الی اللہ ہونے کا مقام حاصل ہو گیا تو فعل اللهِ تَوَكَّلْتُ میں نے نہ تمہاری مدد کی امید سے یہ کام شروع کیا ہے اور نہ مجھے تمہاری مخالفت کا ڈر ہے کہ اگر تم مخالفت کرو گے تو مجھے نقصان پہنچے گا.میں نے تو اللہ تعالیٰ پر ہی تو کل کیا ہوا ہے.فاجمعوا امركُمْ وَ شُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُنْ آمُرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةٌ - تم جاؤ اور جتنی تدابیر ممکن ہو سکتی ہیں اُن سب کو اختیار کرو.پھر جو تمہارے دوست اور مددگار ہیں اُن کو بھی بلاؤ اور انہیں کہو کہ تم بھی اپنی ساری تدابیر اختیار کرو اور مخالفت کے تمام ذرائع سوچ لو اور جب تمہاری طاقتیں اور تمہارے حلیفوں کی طاقتیں جمع ہو جائیں تو پھر جلد بازی سے حملہ نہ کرو بلکہ حملہ کرنے سے پہلے سارے پہلو سوچ لو - لا يكُنْ آمُرُكُمْ عَلَيْكُمْ خمةٌ تمہارے پروگرام کا کوئی حصہ ایسا نہ ہو جو تم پر پوشیدہ ہو بلکہ پری میڈی ٹیٹیڈ پلین (PRE-MEDITATED PLAN) ہو.یعنی کام کرنے سے پیشتر سارا ڈھانچہ اپنے سامنے رکھ لو.جیسے آجکل انجینئر عمارت بناتے ہیں تو عمارت بنانے سے پہلے اُس کا نقشہ تیار کر لیتے ہیں.لیکن مسلمانوں کے تنزل کے زمانہ میں معمار یونہی عمارت بنانی شروع کر دیتے تھے، اور اس وجہ سے انہیں عمارت کئی دفعہ گرانی پڑتی تھی اور گو گراتے اب بھی ہیں لیکن پہلے زمانہ میں ایک نقشہ تیار نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ دفعہ عمارت گرانی پڑتی تھی.تو حضرت نوح علیہ السلام کہتے ہیں کہ انسانی علم کی تکمیل کے جتنے ذرائع ممکن ہیں وہ سب سوچ لو کہ اگر میں نے یوں کیا تو تم یوں کرو گے، اور اگر یہ تدبیر سوچی تو تم وہ تدبیر کرو گے.غرض اپنی حفاظت اور میری تباہی کے جتنے راستے ممکن ہیں وہ سب سوچ لو.تم اقضُوا الي ولا تنظرون.پھر تم سارے کے سارے مل کر مجھ پر ٹوٹ پڑو، اور مجھے کسی قسم کی مہلت نہ دو.پھر دیکھو تمہاری تکمیل کے دعوی کا کیا حشر ہوتا ہے.تم میرے دعوئی کے متعلق تو سمجھتے ہو کہ یہ عقل کے بالکل خلاف ہے.نبوت کا عہدہ کسی انسان کو مل ہی نہیں سکتا.گویا میری
خطابات شوری جلد دوم ۱۹۴ مشاورت ۱۹۳۷ء طاقت کے متعلق تو جو تمہارا فتویٰ تھا وہ لگ گیا ، اب تم جس چیز کو ممکن سمجھتے ہو وہ کرو، اور اس ممکن کو کمال تک پہنچا دو یہاں تک کہ تم سمجھو اب تمہاری تدابیر میں کوئی رخنہ باقی نہیں رہا.جب حالت یہاں تک پہنچ جائے اور تمہیں میری عمارت نامکمل دکھائی دے، اور اس میں رخنے ہی رخنے نظر آئیں، اور تم اپنی عمارت کو ہر لحاظ سے مکمل کر لو اور اس میں کوئی رخنہ نہ رہنے دو تو پھر میری عمارت اور اپنی عمارت کو ٹکرا دو، اور دیکھو کہ رخنوں والی عمارت بچتی ہے یا بے رخنوں والی.اب یہاں ایک نبی کے منہ سے اللہ تعالیٰ یہ کہلواتا ہے کہ اگر تم کو میری بات بڑی معلوم ہوتی ہے تو تم اپنا سارا زور لگا کر دیکھ لو اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے.اس کے مقابلہ میں دشمن کی حالت کا نقشہ اللہ تعالیٰ نے ایک اور جگہ یوں کھینچا ہے.اِن كَان كَبُرَ عَلَيْكَ إعْرَاضُهُمْ فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أن تَبْتَغِي نَفَقًا في الأرْضِ أَوْ سُلمَّا فِي السَّمَاءِ فَتَأْتِيَهُمْ بايَةٍ وَلَوْ شَاءَ اللهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الهُدى فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الجَمِيين " فرماتا ہے اے رسول! اِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إعْراضُهُمُ اگر اُن کا اعراض کرنا تجھے بہت بڑی بات نظر آتی ہے تو تو اس کو بڑی بات مت سمجھ چونکہ عام طور پر مفسرین کے معنے لوگوں کے ذہن میں ہوتے ہیں اس لئے ممکن ہے میرے معنے سمجھنے ذرا مشکل ہوں.اس لئے میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ مفترین ان آیات کے کیا معنے کیا کرتے ہیں.مفسرین اس کے یہ معنے کیا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رسول ! اگر کفار کی مخالفت تجھ کو گراں گزرتی ہے، تو تو اگر آسمان پر چڑھ کر بھاگ سکتا ہے تو بھاگ کر دیکھ لے، زمین سے باہر نکل سکتا ہے تو یہ کر کے دیکھ لے.غرض جو زور لگانا ہے لگا لے اور دیکھ کہ کیا یہ تجھ سے ممکن ہے؟ مگر یہ معنے بالکل غلط ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو کیا کسی رسول کی نسبت بھی ہم یہ اُمید نہیں کر سکتے کہ خدا تعالیٰ اُس سے ان الفاظ میں کلام کرے گا.میرے نزدیک اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ ایسی حالت میں جب تمام قسم کے سامان منقطع ہو جاتے ہیں اور بظاہر مایوسی اور نا امیدی چھا جاتی ہے اُس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے مایوسی کو دور کرنے اور کامیابی حاصل کرنے کا کوئی نہ کوئی راستہ رکھا ہوا ہوتا ہے، زمین میں بھی اور آسمان میں بھی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِن كَان كَبُرَ عَلَيْكَ إعْرَاضُهُمْ
خطابات شوری جلد دوم ۱۹۵ مشاورت ۱۹۳۷ء اے ہمارے رسول یا اے قرآن کے پڑھنے والے! اگر جو قرآن کے مخالف ہیں،اُن کا اعراض کرنا تمہیں بڑی بات معلوم ہوتی ہے اور تم سمجھتے ہو کہ ان کی مخالفت اس حد تک پہنچی ہوئی ہے کہ اب ان کا سُدھار اور ان کی اصلاح مشکل ہے، تو اے انسان! تو کبھی اس وہم میں مبتلا نہ ہونا.یعنی دشمن کے انکار اور اس کی مخالفت کو کبھی ایسا نہ سمجھنا کہ اس کی اصلاح ناممکن ہو گئی ہے.فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أن تَبْتَغِي نَفَقًا في الأرض.یہ عربی کا قاعدہ ہے کہ شرط کی جزا حذف کر دی جاتی ہے.پس اس کے معنے یہ ہیں کہ اگر تمہیں طاقت ہو کہ تم زمین میں کوئی سُرنگ لگاو ارسلها في السماء یا تمہیں طاقت ہو کہ تم آسمان کے لئے کوئی سیڑھی تیار کر وفتاتيهم بأيةٍ اور اُن کے لئے کوئی نشان لے آؤ، تو ایسا کرو.اب ہم دیکھتے ہیں کہ جو چیزیں یہاں بیان کی گئی ہیں وہ ایسی نہیں جو ممکن نہ ہوں.بلکہ قرآن نے ان کو خود پیش کیا ہے اور وہ دو چیزیں ہیں.دُنیا میں بھی انسان جب جنگوں میں کسی قلعہ کو فتح کرنا چاہتا ہے تو وہ ذرائع ہی اختیار کرتا ہے.یعنی کبھی تو سرنگ لگا کر قلعہ کو اُڑا دیتا ہے اور اس کو فتح کر لیتا ہے، اور کبھی سیڑھیوں سے اُن کے اُوپر چڑھتا اور اندر اُتر جاتا ہے.گویا دُنیا میں یا تو قلعوں کی دیوار میں اُڑائی جاتی ہیں یا دیوار میں مغلوب کر لی جاتی ہیں اور یہ دونوں باتیں نا ممکن نہیں.پس یہاں وہ ذرائع بتائے گئے ہیں جن کو دُنیا ہمیشہ استعمال کرتی چلی آئی ہے، اور یہی دو ذرائع فتوحات حاصل کرنے کے ہیں.یعنی یا سرنگ یا دوسرے ذرائع سے دیوار میں توڑ دی جاتی ہیں، یا سیڑھیوں سے چڑھ کر قلعوں کو فتح کیا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روحانی طور پر بھی یہی دو ذرائع خدا تعالیٰ نے تمہاری کامیابی کے لئے مقرر کئے ہیں.یعنی جب تم سمجھو کہ دشمن کی مخالفت بہت بڑھ گئی ہے تو ایک طرف جس قدر دنیوی سامان ہیں سب اُن کی ہدایت کے لئے استعمال کرو اور دوسری طرف آسمان سے سیڑھی لگاؤ اور اُس کے اُوپر چڑھنا شروع کر دو.یہ سیڑھی کون سی ہوسکتی ہے؟ معمولی عقل رکھنے والا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ یہ سیڑھی دُعا کی سیڑھی ہے اور اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ جس طرح دُنیا کے قلعے فتح ہوتے ہیں، اسی طرح تم روحانی قلعے فتح کرو.وہ دیواروں کو یا اُڑا دیتے ہیں یا اُن کو پھاند کر اندر داخل ہو جاتے ہیں.اور یہی دو ذریعے ایسے ہیں جن پر عمل کر کے روحانی جنگ میں بھی کامیابی حاصل ہو سکتی ہے یعنی ایک طرف
خطابات شوری جلد دوم ۱۹۶ مشاورت ۱۹۳۷ء P اُن کو سمجھانے کے لئے پوری کوشش اور جدوجہد سے کام لیا جائے ، اور دوسری طرف اُن کی ہدایت کے لئے دُعائیں کی جائیں.چنانچہ ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تذتير ان نفعت الزنغری که تو نصیحت کرتا چلا جا، کیونکہ نصیحت آخر کامیاب ہو جایا کرتی ہے.یہاں ان کے معنے قد کے ہیں جو تاکید کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے یعنی نصیحت کر کیونکہ نصیحت بار ہا مفید ثابت ہوتی ہے.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان تَبْتَغِي نَفَقَا فِي الْأَرْضِ تمہارا فرض ہے کہ تم دلوں میں سُرنگ لگاؤ اور دلائل اور براہین اُن کے سامنے پیش کرتے چلے جاؤ.جس شخص میں ذرہ بھر بھی سنجیدگی ہو گی ، اُس کے کفر کی عمارت گرنی شروع ہو جائے گی.یہ ایسا ہی امر ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسیح موعود کے متعلق بیان فرمایا کہ دجال اُس کی نظر سے پگھلنا شروع ہو جائے گا.اس کا مطلب جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے براہین احمدیہ پنجم میں بیان فرمایا ہے یہی ہے کہ جوں جوں آپ کے دلائل یورپ میں پھیلیں گے کفر کی بنیادوں میں تزلزل پیدا ہو جائے گا اور دجالیت پچھلنی شروع ہو جائے گی سی غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب دشمن کی مخالفت اپنے انتہاء کو پہنچ جائے تو مومن کا کام یہ نہیں ہوتا وہ ہمت ہار کر بیٹھ جائے ، بلکہ اُس کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی تدابیر کو انتہاء تک پہنچا دے.اور ان تدابیر کے دو حصے کرے ایک حصہ تو یہ ہے کہ وہ زمینی کوشش کرے یعنی تبلیغ اپنے کمال کو پہنچا دے اور دوسرا حصہ یہ ہے کہ آسمان کی طرف سیڑھی لگائے اور خدا کا کوئی نشان لائے ، یعنی اللہ تعالیٰ کے حضور کثرت سے دعائیں کرے.انابت اور تضرع میں مشغول ہو جائے اور اُس سے مدد مانگتا ہوا کہے کہ اے خدا! میرے سامان سب ختم ہو گئے ہیں تو اب اپنی نصرت ہی نازل فرما.چنانچہ آگے اس کا ثبوت بھی دیا ہے کہ یہ ناممکن امر نہیں.فرماتا ہے ولو شاء اللهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الهُدى فَلا تَكُونَنَّ مِنَ الْجَمِيين - اے مومن ! تو مایوس نہ ہواگر خدا چاہے تو ان کا فروں کو بھی ہدایت دے دے فلا تكون من الجملتين اور تو اس نکتہ کو بھولیو نہیں کیونکہ جب انہیں ہدایت دینا خدا تعالیٰ کی طاقت میں ہے تو مایوسی کی کوئی وجہ نہیں.مایوسی ہمیشہ اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان کو اپنی تدابیر میں رخنے ہی رخنے نظر آتے ہوں لیکن جب وہ یہ سمجھ لے کہ ایک کیا خدا تعالیٰ
خطابات شوری جلد دوم ۱۹۷ مشاورت ۱۹۳۷ء ساروں کو ہدایت دے سکتا ہے، اُس وقت وہ کبھی مایوس نہیں ہوسکتا.چنانچہ دیکھو، پہلے مخاطب اس کے عرب تھے اور قرآن کریم کے مقولہ کے مطابق وہ سب ہدایت پا گئے اور پھر ایک فرد بھی ہدایت سے باہر نہ رہا.پس فرماتا ہے فَلا تَكُونَنَّ مِنَ الْجَمِلِينَ اے مومن ! تو اس نکتہ کو کبھی نہ بھولیو.جاہل کا لفظ عربی زبان میں صرف بیوقوف کے معنوں میں ہی استعمال نہیں ہوتا بلکہ جسے کسی بات کی واقفیت نہ ہو اُسے بھی جاہل کہا جاتا ہے.چنانچہ اہل عرب کہتے ہیں جَهِلْتُ ذَالِكَ مجھے اس بات کا علم نہیں تھا.پس فلا تكونن من الجملین کے یہ معنے ہیں کہ اس نکتہ سے غافل نہ رہو کہ تیرے خدا میں بہت بڑی طاقت ہے اور وہ ایک کیا ساری دُنیا کو ہدایت دے سکتا ہے.غرض کفار کے متعلق بھی گبر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے کہ وہ کہتے ہیں انبیاء میں کوئی طاقت نہیں اور اس کا جواب یہ دیا کہ تم سارا زور لگا کر دیکھ لو تم جیتے ہو یا ہارتے ہو.اور نبیوں کے متعلق بھی فرمایا کہ اُن کی جماعتیں بھی بعض دفعہ مخالفت کو دیکھ کر کہتی ہیں کہ شاید اب ان لوگوں کا ایمان لانا مشکل ہوگا.مگر اس کے متعلق بھی فرماتا ہے کہ تم ایسا وہم بھی نہ کرو بلکہ زور لگاؤ تبلیغ پر اور جُھک جاؤ دعاؤں کے لئے.پھر تم دیکھو گے کہ ہم قوم کی قوم اور ملک کے ملک کو ہدایت دے دیتے ہیں یا نہیں.تو دونوں کے متعلق گبر کا لفظ استعمال کر کے بتا دیا کہ کسی اچھی بات کے غیر ممکن ہونے کا خیال خواہ مومنوں میں پیدا ہو یا کافروں میں، دونوں صورتوں میں غلط ہے.اگر مومن ایسا خیال کریں تو یہ بھی درست نہ ہوگا اور اگر کفار خیال کریں تو اُن کی غلطی ہوگی.چونکہ نبی کا خاصہ یہ ہوتا ہے کہ جب بھی وہ ایسے حالات دیکھتا ہے، فوراً خدا تعالیٰ کی طرف جھک جاتا ہے، اس لئے اس جگہ صرف نبی مخاطب نہیں.اور اگر ہو تو ہم کہیں گے کہ خدا نبی کو یہ تعلیم دے رہا ہے، تا کہ وہ اسے آگے مومنوں تک پہنچا دے کیونکہ نبی خدا تعالیٰ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہوتا.ہاں مومن بعض دفعه مجزوی طور پر مایوس ہو جاتے ہیں گو کلّی طور پر وہ بھی مایوس نہیں ہوتے کیونکہ اگر ہوں تو وہ مومن ہی نہیں رہتے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا تَا يَسُوا مِنْ رَّوْحِ اللَّهِ إِنَّهُ لا يا ي من روح الله إلّا القَوْمُ الكفرون " کہ خدا تعالیٰ کی رحمت سے کبھی مایوس مت ہو کیونکہ اُس کی رحمت سے کا فر مایوس ہوا کرتے ہیں، مومن مایوس نہیں ہوتے.تو
خطابات شوری جلد دوم ۱۹۸ مشاورت ۱۹۳۷ء اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں یہ بتایا ہے کہ کسی چیز کو ناممکن سمجھنا غلطی ہے.غرض یہ تین چیزیں ہیں جو اپنی دو دو شقوں کے لحاظ سے چھ چیزیں بن جاتی ہیں.جب تک ان سب باتوں کو مد نظر نہ رکھا جائے اُس وقت تک انسان کبھی صحیح اندازہ نہیں لگا سکتا.میں نے دیکھا ہے جب لوگ مشورہ کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو اُن کی وہی حالت ہوتی ہے جو قصہ کہانیوں میں ایک حجام کی بیان کی گئی ہے.کہتے ہیں ہارون الرشید کے زمانہ میں کوئی نائی تھا جسے کسی امیر نے ایک شادی کے موقع پر پانچ سو اشرفیاں انعام دے دیں.وہ چونکہ امراء کا نائی تھا اس لئے اشرفیوں کی تھیلی کبھی چھپا کر نہ رکھتا بلکہ جہاں جاتا اپنے پاس رکھتا اور اُسے اُچھالتا رہتا.شاید اس لئے کہ باقی امراء بھی دیکھ کر اُسے کچھ دے دیں.وہ چونکہ ہر جگہ تھیلی اپنے پاس رکھتا اور اُسے اُچھالتا رہتا تھا اس لئے لوگوں نے اُس کا مذاق بنا لیا.اور اُس سے پوچھتے میاں خلیفہ ! بتاؤ شہر کا کیا حال ہے؟ وہ کہتا شہر کا حال کیا پوچھتے ہو، کوئی کمبخت بھی ایسا نہ ہو گا جس کے پاس پانچ سو اشرفیاں نہ ہوں.آخر کسی نے ہنسی سے اُس کی تھیلی غائب کر دی چونکہ وہ امراء کا نائی تھا اِس لئے اُسے اتنی جرات نہ تھی کہ وہ امراء سے پوچھ سکتا کہ میری تحصیلی کس نے غائب کر دی؟ لیکن اندر ہی اندر غم سے اُس نے سُوکھنا شروع کر دیا.اب جو اُس سے لوگ دریافت کرتے کہ شہر کا کیا حال ہے؟ تو کہتا شہر کا حال کیا بتائیں ، بُھو کا مر رہا ہے.آخر جس نے تھیلی غائب کی تھی اُس نے نکال کر سامنے رکھ دی اور کہا شہر کو بھوکا نہ مارو اپنی تھیلی لے لو.تو کئی لوگ اپنے نفس کے متعلق ایک اندازہ لگاتے اور پھر اُس اندازہ کو باقی سب لوگوں پر چسپاں کر دیتے ہیں.ایک دیکھتا ہے کہ سال میں میں نے صرف دو دفعہ چندہ دیا ہے دس دفعہ چندہ نہیں دیا.اس پر وہ ہ کہنا شروع کر دیتا ہے بجٹ نہ بڑھاؤ، کسی نے چندہ نہیں دینا اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ چونکہ میں نے چندہ نہیں دیا اس لئے باقی لوگ بھی چندہ نہیں دیں گے.پھر ایک مومن اپنے نفس کو دیکھتا ہے تو اُسے معلوم ہوتا ہے کہ اُس نے بارہ مہینے با قاعدہ چندہ دیا.پس وہ جھٹ کھڑے ہو کر کہنا شروع کر دیتا ہے کہ یہ بالکل جھوٹ ہے کہ احمدی چندہ میں سستی کرتے ہیں، ہماری جماعت میں کوئی نادہند نہیں.گویا اُس وقت اُس کی مثال اُس نائی کی سی ہوتی ہے جس کے پاس پانچ سو اشرفیاں تھیں ، اور وہ سمجھتا تھا کہ سارا شہر آسودہ حال ہے.
خطابات شوری جلد دوم ۱۹۹ مشاورت ۱۹۳۷ء پھر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے نفس کے متعلق اندازہ نہیں لگاتے بلکہ دوسروں کے متعلق ہی اندازہ لگانے کے عادی ہوتے ہیں.اس قسم کے لوگوں میں سے بعض کو ساری دنیا کالی نظر آتی ہے اور بعض کو ساری دنیا سفید دکھائی دیتی ہے.کوئی تو کہتا ہے کسی نے چندہ نہیں دینا، بجٹ جس قدر گھٹا سکتے ہو گھٹاؤ اور کوئی کہتا ہے بجٹ جس قدر بڑھانا چاہتے ہو بڑھاؤ کوئی پرواہ نہیں لوگوں سے چندہ مانگا جائے تو ضرور مل جائے گا.اور دونوں میں سے کوئی بھی واقعات کو نہیں سمجھتا اور کوئی بھی اس امر کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا کہ کمزوریاں دونوں طرف سے ہو جاتی ہیں.پھر ایک اور امر جس کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے یہ ہے کہ انسان اندازہ لگاتے وقت یہ نہیں سوچتا کہ یہ خدا کا کام ہے جو ہو کر رہے گا، میرا فرض صرف اتنا ہے کہ میں کام کرتے کرتے اپنے آپ کو فنا کر دوں.زیادہ سے زیادہ اگر وہ غور کر سکتا ہے تو اس بات پر کہ وہ دیکھے جو کام ہم نے چلانے ہیں یہ ضروری ہیں یا غیر ضروری.اگر غیر ضروری ہیں تو ان سب کو کاٹ دو اور اگر ضروری ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کو پورا کریں اور جس قدر کوشش کر سکتے ہیں کریں.اگر ہم اس بوجھ کو اُٹھا کر صرف دس گز تک جا سکتے ہیں تو ہمیں چاہئے کہ ہم دس گز تک اُٹھا کر لے جائیں اور سمجھیں کہ آگے جس قدر فاصلہ ہے اُس میں خدا خود اس بوجھ کو اُٹھائے گا.جیسے سپاہی کا کام یہ ہے کہ وہ لڑتا جائے ، ہاں جب وہ مر جائے گا تو اُس کا فرض ختم ہو جائے گا اور گورنمنٹ خود اُس کام کو سنبھالنے کا فکر کرے گی.اسی طرح مومن کا کام یہ ہے کہ وہ قربانی کرتا چلا جائے یہاں تک کہ اپنے آپ کو مٹا دے.انگریزی قوم ایک واقعہ پر فخر کیا کرتی ہے اور واقعہ میں اس کا وہ فخر بالکل جائز ہے.وہ واقعہ یہ ہے کہ غالباً کریمیا کی جنگ میں جبکہ ترکوں کی اعانت پر انگریزی حکومت بھی تھی، روسی فوج کے ایک دستہ کے بڑھنے کی اطلاع ملی.اس مقام کا نام بیلا کلا وا تھا.انگریزی جنرل نے ایک دستہ رسالہ کو اس فوجی دستہ کو روکنے کا حکم دیا.افسر کو بتایا گیا کہ روسی فوج کا ایک دستہ نہیں بلکہ اصل فوج آگے بڑھ رہی ہے، مگر اُس نے اسے تسلیم نہ کیا.اس پر انگریزی رسالہ کے افسر نے بلا چون و چرا احملہ کر دیا اور روسی فوج سے مقابلہ کر کے وہ رسالہ قریباً سب کا سب فنا ہو گیا اور یہ جانتے ہوئے فنا ہو گیا کہ جو کام وہ کر رہا ہے اس میں اُسے
خطابات شوری جلد دوم مجلس مش مشاورت ۱۹۳۷ء کامیابی کی امید نہیں ہے.انگریزی قوم اس واقعہ کی یاد کو کئی رنگوں سے زندہ رکھتی ہے تاریخ میں بھی اور ریڈروں میں بھی ، نثر کے ذریعہ سے بھی اور نظم کے ذریعہ بھی اور اس بات پر فخر کیا کرتی ہے کہ اُس کے سپاہیوں نے اطاعت کا کیسا شاندار نمونہ دکھایا.تو سپاہی کا کام یہ ہے کہ وہ اطاعت اور ایثار کا نمونہ دکھائے.اگر اُسے کسی غلطی کا علم ہو تو اُس کا فرض ہے کہ وہ اطلاع ذمہ وار افسروں تک پہنچا دے لیکن جب افسر کہے کہ میں اس حکم کو قائم رکھنے پر مُصر ہوں، تو وہ اس حکم کی اطاعت کرے اور خدا کی آواز پر جو بعض دفعہ واقعات میں سے آتی ہے چل پڑے اور جس قدر بوجھ اٹھا کر جاسکتا ہے جائے.اگر دس گز جا سکتا ہے تو دس گز جائے ، ہمیں گز جا سکتا ہے تو ہیں گز جائے.ہاں جب وہ ڈھیر ہو جائے گا تو اس کا کام ختم ہو جائے گا اور پھر خدا کسی اور کو اس کی جگہ کھڑا کر دے گا.غرض تو کل کا مقام ہمیشہ انسان کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ جو کام ہمارے سامنے ہیں وہ ضروری ہیں یا نہیں؟ اور پھر یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا ان کاموں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو بغیر گناہ کے ہم چھوڑ سکتے ہیں؟ اگر چھوڑ سکتے ہیں تو چھوڑ دیں.گویا پہلا کام یہ ہے کہ ہم عقل سے کام لیں اور دیکھیں کہ یہ کام ضروری ہیں یا نہیں اور جب عقل ختم ہو جائے اور معلوم ہو جائے کہ ہم کسی کام کو نہیں چھوڑ سکتے ، تو اُس وقت یہی حکم ہے کہ کرو اور مر جاؤ.یعنی نیت یہی ہو کہ مر جاؤ.آگے اللہ تعالیٰ زندہ رکھنا چاہے تو الگ بات ہے.حضرت اسماعیل علیہ السلام مرنے کے لئے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام مارنے کے لئے تیار ہو گئے تھے ، لیکن خدا تعالیٰ نے بچا لیا.بہر حال اپنی طرف سے وہ موت کے لئے بالکل تیار ہو گئے تھے، اسی طرح مومن کا فرض ہے کہ جب وہ دیکھے کہ اس کے سامنے جو بوجھ ہیں ان کو اُٹھانا اس کے لئے ضروری ہے، تو وہ انجام سے بے پرواہ ہو کر اُس بوجھ کو اُٹھائے.مگر اس نتیجہ پر پہنچنے کے لئے کہ تمہاری رائے دیانتدارانہ ہے یا نہیں.میں تم کو ایک نکتہ اور گر بتادیتا ہوں.وہ نکتہ یہ ہے کہ گو میں نے ابھی بتایا تھا کہ اپنے نفس کے غلط اندازے کو کبھی دوسرے پر چسپاں نہیں کرنا چاہئے لیکن یہ بھی یا درکھو کہ جس حد تک ہم مستقبل کا اندازہ لگا سکتے ہیں ، اس کی بنیاد اپنے نفس کے حالات پر ہی رکھ سکتے ہیں.لیکن اس صورت میں نہیں جو میں نے پہلے بتائی تھی بلکہ اس صورت میں کہ مثلاً جب تم کہتے
خطابات شوری جلد دوم ۲۰۱ مشاورت ۱۹۳۷ء ہو کہ جماعت کے لوگ چندہ ضرور دیں گے تو اپنے نفس کو دیکھ لو کہ آیا تمہارے ذمہ کوئی بقایا تو نہیں؟ اور اگر ہو تو تم اپنے نفس میں یہ عہد کر لو کہ گومیں پہلے کمزوری دکھا چکا ہوں لیکن اب آئندہ نہایت با قاعدگی سے چندے ادا کروں گا تو اس صورت میں تم خرچ کرنے کے متعلق رائے دے سکتے ہو.اس عہد کے لئے کسی سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، انسان چپکے چپکے اپنے دل میں ایسا عہد کرے، اور پھر دیانتداری سے اپنی رائے دے لیکن اب بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص کے ذمہ خود کئی کئی مہینوں کے بقائے ہوتے ہیں اور وہ چندوں کی ادائیگی کے متعلق زور شور سے تقریر کرنے لگ جاتا ہے.ایک دفعہ اسی مجلس شوریٰ میں ایک شخص نے بڑے زور سے اس بات پر تقریر کی کہ چندے با قاعدہ ادا کرنے چاہئیں لیکن وہ تقریر کر کے بیٹھا ہی تھا کہ ایک دوسرے نے کہا کہ اس شخص نے خود گیارہ ماہ سے چندہ نہیں دیا.اب وہ تقریر اخباری لحاظ سے ایمان پرور “ کہلانے والی تھی لیکن تقریر کرنے والے کی اپنی حالت یہ تھی کہ اُس نے گیارہ ماہ سے چندہ نہیں دیا تھا.تو ایسے حالات میں انسان کے لئے بنیادی اصول یہ ہے کہ وہ اپنے نفس کو دیکھے اور جب بھی رائے دینے لگے وہ سوچے کہ میں نے کیا رکیا ہے یا آئندہ کیا کرنے والا ہوں.اگر وہ بقایا دار ہے تو پہلے دل میں تو بہ کر کے رائے دے اور کہے کہ ہم میں کچھ کمزور بھی ہیں اور طاقتور بھی لیکن ہم امید کرتے ہیں کہ کمزور لوگ بھی آئندہ متوجہ ہوں گے اور وہ چندوں کی ادائیگی میں چست ہو جائیں گے.تب اُس کے لئے چندوں کی زیادتی یا خرچ کی زیادتی کے متعلق رائے دینا جائز ہو سکتا ہے لیکن اگر وہ اس قسم کا عہد نہ کرے اور کوئی دوسرا اُس کے اندرونے کا انکشاف کر دے تو ہم یہی سمجھیں گے کہ اُس نے لوگوں کو دھوکا دینا چاہا تھا اور اُس کی تمام تقریر اس لئے تھی کہ اس کی کمزوری پر پردہ پڑا ر ہے.میں امید کرتا ہوں کہ دوست اپنے مشوروں میں ان امور کو مدنظر رکھیں گے کہ اپنے نفس کو بُھول کر اندازہ نہیں لگائیں گے اور دُنیا کو بُھول کر اندازہ نہیں لگائیں گے.اسی طرح جہاں مایوسی نظر آتی ہو وہاں مایوس نہیں ہوں گے بلکہ اللہ تعالیٰ کی صفت احیاء پر ایمان رکھیں گے کیونکہ تو کل جو کچھ کہتا ہے وہ یہ ہے کہ جب چاروں طرف مایوسی ہی مایوسی نظر آئے تو اُس وقت یقین رکھو کہ خدا تعالیٰ کی نصرت آنے والی ہے.
خطابات شوری جلد دوم ۲۰۲ مجلس مش مشاورت ۱۹۳۷ء پھر جس چیز کے متعلق تم سمجھتے ہو کہ وہ ضروری اور یقینی ہے اُس کے لئے صرف مادی امداد کافی نہ سمجھو بلکہ دُعا بھی کرو.کیونکہ کوئی مقام ایسا بھی آجاتا ہے جہاں خدا تعالیٰ سامانوں کو اُڑا دیتا ہے.پس جہاں بے سامانی ہو وہاں دعاؤں سے سامان تلاش کرو اور جہاں سامانوں کی کثرت ہو، وہاں ایمان کو نظر انداز ہونے سے بچاؤ.گویا جہاں سامان نہیں وہاں دعاؤں کی دیواریں کھڑی کرو اور جہاں سامانوں کی کثرت ہو اور دیواریں تمہیں مکمل نظر آتی ہوں وہاں اُن دیواروں پر ایمان کا پلستر لگاؤ کیونکہ اس کے بغیر دیواریں بھی اُڑ سکتی ہیں.اگر ان امور کو مد نظر رکھو گے تو تمہارے مشورے بھی مفید ہو سکتے ہیں.ورنہ خالی مشورے دینا اور پھر اُن پر عمل نہ کرنا اپنے اندر کوئی حقیقت نہیں رکھتا اور میں نہیں سمجھتا جب اخباروں میں اعلان پر اعلان ہوتے ہیں کہ احباب اپنے وعدوں کو پورا کریں اُس وقت دشمن کیا کہتا ہوگا کہ جماعت کے لوگ یہاں آتے ہیں ، مشورے دیتے ہیں اور پھر اُن پر عمل نہیں کرتے.پس اگر اپنے نفس کے متعلق ایک فیصلہ کر لو تو تمہارا فرض ہے کہ اس کے مطابق کام کرو.اگر اس میں کوئی غلطی بھی ہوگی تو چونکہ دیانتداری سے تم ایک کام کر رہے ہو گے اس لئے اللہ تعالیٰ اس غلطی کے بدنتائج سے تمہیں محفوظ رکھے گا اور اگر تم اس جد و جہد میں مر بھی جاؤ تو تم اس سپاہی کی طرح ہو گے جس نے اپنے فرض کو ادا کر دیا، اور میدانِ جنگ میں لڑتے ہوئے مارا گیا.اس نصیحت کے بعد میں چاہتا ہوں کہ اب بجٹ کے متعلق عام مشورہ شروع کیا جائے.“ حضور کے ارشاد کی تعمیل میں چند ممبران نے اپنی آراء پیش کیں جس کے بعد حضور نے بجٹ کی منظوری فرمائی.اختتامی تقریر مجلس مشاورت کی کارروائی مکمل ہونے پر حضور نے احباب کو اپنے الوداعی خطاب سے نوازا.تشہد وتعوذ کے بعد آپ نے سورہ الصف کی درجہ ذیل ابتدائی آیات کی تلاوت فرمائی :- بسم الله الرّحمن الرّحيم سبع للهِ مَا فِي السّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ
۲۰۳ مجلس مش مشاورت ۱۹۳۷ء خطابات شوری جلد دوم وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لا تَفْعَلُونَ كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللهِ أن تَقُولُوا مَا لا تَفْعَلُونَ إنَّ اللهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ في سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُمْ بُنْيَانَ مَرْصُوصٌ وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يُقَوْمٍ يم تُؤْذُونَني وَقَدْ تَعْلَمُونَ انّي رَسُولُ اللهِ إلَيْكُمْ فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ وَاللهُ لا يَهْدِى الْقَوْمُ الفَسِقِينَ وَاذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَم يبني اسراءيل انّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ مُّصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرية و مُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِى اسْمُهُ أَحْمَدُ فَلَمَّا جَاءَهُمْ بِالْبَيِّنَتِ قَالُوا هذا سعر مُّبِيْنَ وَ مَن أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُوَ يُدْعَى إِلَى الاسلام والله لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّلِمِينَ يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَالله متم نوره ولو كره الكفرُونَ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بالهدى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِةَ المُشْرِكُون لها ان آیات کی تلاوت کے بعد حضور نے مجلس مشاورت کے دوران اخذ کردہ تأثرات کی روشنی میں ضروری نصائح بیان کرتے ہوئے فرمایا : - پیشتر اس کے کہ میں احباب کو وہ آخری نصائح کروں جو اس مجلس شوری کے تاثرات کے نتیجہ میں میرے ذہن میں پیدا ہوئی ہیں میں چند باتیں اُن امور کے متعلق کہنا چاہتا ہوں جو بجٹ پر بحث کے دوران میں دوستوں نے پیش کیں.ایک دوست نے فیروز پور کے متعلق بقالوں کی ایک لمبی فہرست پیش کر کے ثابت کیا ہے کہ بقائے فرضی ہیں.وہ دلائل یا یوں کہنا چاہئے کہ اُن میں سے اکثر دلائل ایسے محیر العقل ہیں کہ اُن کے بعد انسان کے دل میں شک پیدا ہو جاتا ہے کہ آیا بجٹ کی مہیا کردہ باقی معلومات بھی صحیح ہیں یا نہیں.اگر ایک ضلع میں اتنی جماعتوں کے بقائے دکھائے گئے ہیں جو بالکل غلط ہیں تو بالکل ممکن ہے ایک لاکھ سات ہزار بقایا میں سے ہیں تمہیں ہزار یا اس سے زیادہ ایسا بقایا نکل آئے جو غلط ہو.دوسری طرف یہ بھی محیر العقل بات نظر آتی ہے کہ تجویز شدہ بجٹ کے مقابلہ میں جو آمد عملی بتائی جاتی ہے وہ بہت ہی کم ہوتی ہے.اور ہر سال ہی گزشتہ سالوں کے بجٹ میں سے چالیس پچاس ہزار کے بقائے رہ جاتے ہیں.اب اگر اس نقطہ نگاہ سے ہم بقایوں
خطابات شوری جلد دوم ۲۰۴ مشاورت ۱۹۳۷ء کو دیکھیں تو ایک لاکھ سات ہزار بقائے کا سوال نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ ۱۹۳۲ء سے اس وقت تک صرف ایک لاکھ سات ہزار کا بقایا کیوں رہا ؟ چاہئے تو یہ تھا کہ اڑھائی تین لاکھ کا بقایا ہوتا.یا تو ہم یہ فیصلہ کر چکے ہوتے کہ فلاں وقت تک کے بقائے بالکل صاف ہیں لیکن جب ہم نے ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا کہ فلاں وقت تک کے تمام بقائے معاف ہیں تو سات آٹھ سال کے بقائے دو تین لاکھ سے کسی صورت میں کم نہیں ہو سکتے.ناظر صاحب بیٹ المال کا کوئی حق نہیں کہ بغیر خلیفہ وقت کی منظوری کے ان بقالوں کو خود ہی صاف کر دیں.پس ایک نقطہ نگاہ یہ بھی ہے.لیکن اگر پہلے نقطہ نگاہ سے دیکھیں تو بقالوں کا اندازہ بادی النظر میں ہی غلط اور زیادہ معلوم ہوتا ہے.پس میں ناظر صاحب بیت المال کو ہدایت کرتا ہوں کہ جس قدر جلد ممکن ہو وہ اِن دونوں نقطہ ہائے نگاہ کے ماتحت بقایوں کی ایک فہرست تیار کر کے میرے سامنے پیش کریں.ایک تو گزشتہ بجٹوں کی تشخیص اور اصل آمد کو مد نظر رکھ کر بتائیں کہ کیا واقعہ میں صرف ایک لاکھ سات ہزار بقایا ہے.جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ صحیح نہیں، بقایا دو لاکھ سے بھی اوپر ہونا چاہئے تھا.دوسرے تمام جماعتوں کے متعلق تشخیص کریں کہ کیا اُن کے متعلق بقائے لگانے میں کوئی غلطی تو نہیں ہوگئی اور وہ اپنے مستقل اور آنریری محصلین کو ہدایت کریں کہ وہ جماعتوں میں دورے کر کے ان بقایوں کو وصول کریں.یہ غلطیاں جو فیروز پور کے نمائندہ نے بیان کی ہیں اتنی واضح ہیں کہ اگر نمائندہ فیروز پور کا بیان درست ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ دفتر بیت المال کا کوئی حصہ نہایت غفلت سے کام کر رہا ہے.پھر اس کو دیکھ کر نہ صرف بقایوں میں شبہ پڑ جاتا ہے بلکہ آمد بھی مشتبہ ہو جاتی ہے کیونکہ ان جماعتوں کے نہ صرف بقائے دکھائے گئے ہیں بلکہ ان کی مجوزہ آمد بھی دکھائی گئی ہے.اب اگر بقائے درست نہیں اور جس جس جگہ کی جماعتوں کے افراد کے ذمہ بقایا دکھایا گیا ہے، وہ مثلاً وہاں سے تبدیل ہو چکے ہیں اور ہم اُنہیں بقایا دار لکھتے گئے ہیں تو لازماًیہ شبہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ بجٹ آمد بھی درست نہیں.کیونکہ ممکن ہے کہ کئی افراد کا چندہ ہم دو جگہ دکھا رہے ہوں.وہاں بھی جہاں وہ اس وقت ہیں اور وہاں بھی جہاں وہ اس سے پہلے تھے.پس ممکن ہے کہ اگر تحقیق کی جائے تو آمد کا بجٹ دو لاکھ باون ہزار بھی نہ رہے بلکہ اس
خطابات شوری جلد دوم ۲۰۵ مشاورت ۱۹۳۷ء سے کم ثابت ہو.پس یہ سوال نہایت احتیاط سے تحقیق طلب ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ ناظر صاحب بیت المال اس طرف اپنی پوری توجہ صرف کریں گے.انہی بقایوں کے متعلق ایک اور امر جس کی طرف بابو محمد یوسف صاحب مزنگ والوں نے توجہ دلائی ہے، وہ بھی بتاتا ہے کہ کوئی غلطی ہو رہی ہے جو یا تو بجٹ میں ہے یا نظام جماعت میں.انہوں نے بتایا ہے کہ بجٹ کی رو سے بہت سی جماعتیں ایسی ہیں جن کے نام بجٹ کی رقوم سے زیادہ بقایا دکھایا جا رہا ہے.یعنی اگر ۱۴۱ جماعتوں کا بجٹ پچاس ہزار ہے تو دوسری طرف اُن کے ذمہ جو بقایا دکھایا گیا ہے وہ ساٹھ ہزار ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ ایک کافی پر انا بقایا اُن کے ذمہ دکھایا جا رہا ہے.یہ بقایا کب سے ہے؟ یہ بجٹ سے معلوم نہیں ہوسکتا حالانکہ ہمیشہ سنہ کا بھی اظہار کرنا چاہئے.ممکن ہے محکمہ خود بخود بعض سالوں کا بقایا یہ سمجھ کر اڑا دیتا ہو کہ اِس پر کافی سال گزر چکے ہیں اور اب اتنا پرانا بقایا شامل کرنا درست معلوم نہیں ہوتا.مثلاً ممکن ہے وہ خیال کرتا ہو ۱۹۲۹ء کا بقایا پرانا ہو گیا ہے آئندہ بقائے ۱۹۳۰ء کے بقایا سے شمار ہونے چاہئیں.یا ۱۹۳۰ء پرانا ہو گیا ہے آئندہ بقائے ۱۹۳۱ء سے شمار ہونے چاہئیں.تو بقایوں کے بتاتے وقت سنہ بھی بتانا چاہئے کہ یہ فلاں سال سے بقایا چلا آ رہا ہے اور پھر یہ بھی بتانا چاہئے کہ گزشتہ بقالوں کا کیا بنا.آیا وہ جماعتوں کو معاف کر دیئے گئے ہیں یا وہ ادا ہوئے ہیں اور اگر ادا ہوئے ہیں تو کس حد تک.دوسری بات اُنہوں نے یہ پیش کی ہے کہ میں جماعتوں کے ذمے اُن کی آمد سے د گنا بقایا دکھایا گیا ہے.اب بقایا کا دُگنا ہونا بتا تا ہے کہ اُن جماعتوں نے متواتر دوسال چندہ نہیں دیا اور اگر یہ صحیح ہے کہ انہوں نے دو سال سے چندہ نہیں دیا تو نظارت بیت المال کو چاہئے تھا کہ وہ اپنے محصل انہی جماعتوں میں بٹھا دیتی اور انہیں وہاں سے ہلنے نہ دیتی جب تک بقائے وصول نہ ہو جاتے مگر معلوم ہوتا ہے محکمہ نے اس طرف توجہ نہیں کی.وہ ایک راستہ اپنے لئے تجویز کر لیتے ہیں اور پھر درمیانی مصالح سے آزاد ہو کر اس پر چلنا شروع کر دیتے ہیں.یہ نہیں دیکھتے کہ کسی مریض کی طرف زیادہ توجہ کی ضرورت ہے اور کس کی طرف کم توجہ کی ضرورت ہے.
خطابات شوری جلد دوم ۲۰۶ مشاورت ۱۹۳۷ء صحابہ کا ایثار یا درکھو ہمارا خدا حکیم ہے اور قرآن مجید کا ایک نام حکمت بھی ہے.پس جو کام کرو وہ عقل اور حکمت کے ماتحت ہو، اندھا دھند کسی طریقکو اختیار نہ کرو.صحابہ تو یہاں تک احتیاط کیا کرتے تھے کہ وہ مرتے وقت بھی یہ دیکھ لیتے تھے کہ کس کو زیادہ ضرورت ہے اور کس کو کم.تاریخوں میں آتا ہے کہ وہ آخری لڑائی جس میں مسلمانوں نے رومی فوجوں کو شکست دے کر شام پر قبضہ کیا اور جس میں روم کے بادشاہ نے اپنے جرنیل ہامان سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ فتح پائے گا تو وہ اپنی لڑکی اُس سے بیاہ دے گا.اس جنگ میں اسلامی مؤرخین کے نزدیک رومی فوج کی تعداد چھ لاکھ سے دس لاکھ تھی ، اور عیسائی مؤرخین اس تعداد کو۳ لاکھ سے ۶ لاکھ تک بتاتے ہیں.مسلمانوں کی فوج اسلامی مؤرخین کے نزدیک ساٹھ ہزار اور عیسائی مورخین کے نزدیک ایک لاکھ تھی.بہر حال رومی فوج مسلمانوں کی فوج سے تین گنے سے بھی زیادہ تھی.اس جنگ میں مسلمانوں کو جو قربانی کرنی پڑی وہ نہایت ہی اہم ہے.بڑے بڑے صحابہ اس جنگ میں مارے گئے کیونکہ انہوں نے سب سے زیادہ قربانی اپنے ذمہ لی تھی.چونکہ یہاں میری یہ بھی غرض ہے کہ میں آپ لوگوں کو اپنے فرائض کی طرف توجہ دلاؤں اس لئے ایک واقعہ جو اسی جنگ میں رونما ہوا سُنا دیتا ہوں.اس جنگ میں حضرت ابو عبیدہ جو اسلامی فوج کے کمانڈر انچیف تھے، اُن کے سامنے یہ سوال پیش ہوا کہ آیا مسلمانوں کو پیچھے ہٹ جانا چاہئے اور حضرت عمرؓ سے پہلے مشورہ لے لینا چاہئے یا مقابلہ کرنا چاہئے؟ حضرت خالد بن ولید بھی اس مشورہ میں شامل تھے ، اُنہوں نے کہا اسلامی فوجوں کا پیچھے ہٹنا سخت ہتک کی بات ہے جسے ہم ہر گز برداشت نہیں کر سکتے اور آپ کا تو یہ خیال ہے کہ ہماری فوج تھوڑی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ ہمارے پاس سپاہی بہت زیادہ ہیں اور اگر ہماری تعداد اس سے بھی تھوڑی ہو جائے تو ہمیں حملہ کر دینا چاہئے.رومی فوج میں ایک عیسائی عربوں کا لشکر بھی شامل تھا جس کا سردار جبلہ ابن الا یہم تھا جس کا قصہ میں نے پرسوں اپنی تقریر میں سنایا تھا.یہ جبلہ تمیں سے ساٹھ ہزار تک فوج لے کر مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے بڑھ رہا تھا.گویا یہ لشکر ہر اول میں تھا اور رومی فوج نے اُس کو آگے اس لئے رکھا ہوا تھا کہ جبلہ کہتا تھا ہم عرب ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ عربوں کا مقابلہ کس طرح کیا جا سکتا ہے.حضرت خالد نے تجویز کی کہ ہمیں جبلہ کے لشکر پر کم سے کم یہ
خطابات شوری جلد دوم ۲۰۷ مشاورت ۱۹۳۷ء بات ثابت کر دینی چاہئے کہ ہماری طاقت عرب ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ اسلام کی وجہ سے ہے.چنانچہ اُنہوں نے کہا ساٹھ ہزار کے لشکر کے مقابلہ کے لئے مجھے صرف ساٹھ آدمی ( یا بعض روایات کے مطابق دو سو.تاریخی روایات میں اس قسم کے خفیف فرق کوئی اہمیت نہیں رکھتے ) دیئے جائیں.میں ان ساٹھ آدمیوں کو لے کر اُس پر حملہ کروں گا.لیکن شرط یہ ہے کہ ساٹھ آدمی مجھے خود چھنے دیئے جائیں.چنانچہ انہوں نے مسلمانوں میں سے ساٹھ کا لشکر چُنا.اسی لشکر میں عکرمہ بھی تھے جو ابو جہل کے بیٹے تھے اور جن کی اولا داب تک موجود ہے.مگر بوجہ ابو جہل کے افعالِ بد کے کوئی اس کی طرف منسوب ہونا پسند نہیں کرتا.پھر حضرت عباس کے بیٹے فضل بھی اسی لشکر میں شامل تھے.، اسی طرح اور بڑے بڑے صحابہ یا صحابہ کے بیٹے اس میں شریک ہوئے.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بیٹے بھی اس میں شامل تھے.غرض اس چھوٹے سے دستہ نے ساٹھ ہزار فوج پر حملہ کر دیا اور ایسا زبر دست حملہ کیا کہ معا قلب لشکر تک جا پہنچے اور اس لشکر کو اُنہوں نے شکست دی لیکن چونکہ دشمن بہت زیادہ تھا اور وہ چند آدمی تھے، اس لئے قلیل افراد ہی بچ سکے.باقی سب اِس جنگ میں یا مارے گئے یا زخمی ہو گئے.جس وقت یہ لوگ زخمی ہو کر میدانِ جنگ میں پڑے تھے اور عیسائی لشکر ہر اول کی شکست کی وجہ سے ہراساں ہو رہا تھا صحابہ یہ دیکھنے کے لئے کہ کون کون زخمی ہوا ہے، میدان میں گئے.اُنہوں نے پہلے عکرمہ کو دیکھا کہ اُس کی زبان خشک ہے اور نزع کی حالت ہے.صحابہ نے اُن سے پوچھا کہ کیا آپ کو پیاس ہے؟ اُنہوں نے کہا ہاں ہے.وہ کٹورے میں پانی ڈال کر ان کے پاس لائے لیکن ابھی اُنہوں نے پانی پیا نہ تھا کہ انہوں نے اپنے ارد گر د نظر دوڑائی اور دیکھا کہ پاس ہی فضل بن عباس بھی زخمی پڑے ہیں اور پیاس کی وجہ سے تڑپ رہے ہیں اُنہوں نے کٹورہ واپس کر دیا اور کہا کہ فضل کو پیاس مجھ سے زیادہ معلوم ہوتی ہے پہلے انہیں پانی پلاؤ.جب وہ اُن کے پاس پانی لے کر گئے تو فضل نے اپنے ارد گرد دیکھا اور انہیں بھی ایک مسلمان زخمی نظر آیا وہ کہنے لگے اُس مسلمان کو پیاس مجھ سے زیادہ معلوم ہوتی ہے پہلے اُسے پانی پلایا جائے.غرض اسی طرح دس کے قریب اس میدان میں زخمی پڑے تھے اور ہر ایک پیاس سے تڑپ رہا تھا لیکن ہر ایک نے کہا کہ پانی فلاں کے پاس لے جاؤ اُسے زیادہ پیاس معلوم ہوتی ہے.آخر صحابہ
خطابات شوری جلد دوم ۲۰۸ مشاورت ۱۹۳۷ء جب آخری زخمی کے پاس پانی لے کر پہنچے تو وہ فوت ہو چکا تھا.اس پر وہ پھر کوٹے لیکن جس جس کے پاس گئے دیکھا کہ وہ فوت ہو چکا ہے.بقایا جات کی وصولی کا طریق تو صحابہ مرتے وقت بھی یہ اندازہ لگایا کرتے تھے کہ ہم سے زیادہ اہم کس کی ضرورت ہے، اور پھر جس کی ضرورت زیادہ ہوتی وہ اُس کو مقدم کرتے.اسی طرح ہمیں بھی اپنے اندازوں میں کبھی حکمت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے.اگر وہ جماعتیں جو زیادہ کمزور اور بیمار ہیں اور جن کے ذمہ کئی کئی سالوں سے بقائے چلے آ رہے ہیں، اُن کے پاس محصل پہنچتے اور ایک دن نہیں، دو دن نہیں، دس دن نہیں، مہینہ دو مہینے، بلکہ اتنا لمبا عرصہ وہاں ٹھہر تے کہ بقائے صاف ہو جاتے ، تو اس قدر بقائے کیوں ہوتے ، اِس قدر لمبے عرصہ سے بقایوں کا چلا آ نا بتاتا ہے کہ سب سے یکساں سلوک کیا جاتا ہے، اور بالکل اندھیر نگری چوپٹ راجہ ٹکے سیر بھاجی ٹکے سیر کھا جا “ والی مثال ہے.کہتے ہیں کوئی راجہ تھا، اُس نے اپنے شہر میں یہ قانون بنا رکھا تھا کہ یہاں جو چیز فروخت ہو، دو پیسے سیر ہو.سبزی بھی دو پیسے سیر ہو اور مٹھائی بھی.مٹی بھی دو پیسے سیر ہو اور سونا بھی گویا کامل مساوات ہو مگر یہ مساوات حکمت کے بالکل خلاف ہے.جب میں انجمنیں ایسی تھیں جن کے بقائے دوسالہ بجٹ کے برابر تھے نظارت بیت المال کو چاہئے تھا کہ وہ اپنے سارے محصل وہاں بٹھا دیتی اور بقائے وصول کرتی.غرض دونوں صورتیں سخت قابل افسوس ہیں.اگر بقالوں میں حسابی غلطی ہے تو بلا وجہ بعض جماعتوں کو بدنام کیا گیا اور اگر واقعہ میں اُن کے ذمے اتنا ہی بقایا ہے تو نظارت نے اپنے فرائض کی ادائیگی میں سخت کوتاہی کی اور اُس نے سخت مریضوں کی طرف توجہ نہ کی حالانکہ اُن کی طرف توجہ کرنا ضروری تھا.پھر اس سے بھی زیادہ قابلِ اعتراض بات یہ پیش کی گئی ہے کہ ۱۴ جماعتوں کے ذمہ دو سال کے بجٹ سے بھی زیادہ بقایا ہے اور بعض کے ذمے تو گیارہ سالوں کے چندہ سے بھی زیادہ بقایا ہے.یہ اتنا بڑا فرق ہے کہ میری عقل نہیں سمجھ سکتی یہ حسابی غلطی ہے یا وہاں کی جماعتیں مرتد ہو گئی ہیں کہ اُنہوں نے سالہا سال سے چندے ادا نہیں کئے.پس یہ غلطیاں
۲۰۹ مشاورت ۱۹۳۷ء خطابات شوری جلد دوم بتاتی ہیں کہ یا تو بقائے نکالنے میں غلطیاں کی گئی ہیں اور یا پھر جماعت کے بعض حصے نہایت ہی کمزور ہو گئے ہیں اور بیت المال والوں نے اُن کی طرف کوئی توجہ نہیں کی.اندھا دھند پنسل اُٹھائی اور اُن کے ذمہ بقائے لکھتے گئے اور یہ کوشش نہ کی کہ ان بقالوں کو وصول کریں.میں سالہا سال سے پرائیویٹ طور پر ان امور کی طرف توجہ دلا رہا ہوں کہ بیت المال کا دفتر کسی اصول کے ماتحت کام نہیں کرتا حالانکہ اُن کے پاس ہر جماعت کے چارٹ ہونے چاہئیں ، تا وہ ہر مہینہ میں بتا سکیں کہ کون سی جماعت ایسی ہے جس کی کمزوری کی وجہ سے چندے میں کمی آرہی ہے اور پھر بتانا چاہئے کہ اس کمی کا انہوں نے علاج کیا کیا.براہ راست چندہ بھجوانے کے نقصان ایک اور بات جس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے یہ ہے کہ بعض افراد کے براہِ راست چندے بھیجنے سے یہ نقص واقع ہو جاتا ہے کہ جماعت کے چندہ میں کمی آجاتی ہے اور وہ بقایا دار سمجھی جاتی ہے.میرے نزدیک یہ بھی صحیح ہے میرے پاس تو جب بھی اس قسم کی کوئی شکایت آتی ہے کہ بعض دوست کسی وجہ سے ناراض ہو گئے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہم براہ راست چندہ بھیجیں گے تو میرا اُس پر نوٹ یہ ہوتا ہے کہ ہمیں ایسے لوگوں کے چندوں کی کوئی ضرورت نہیں جن میں کبر کا مادہ پایا جاتا ہے.یا تو وہ اپنی ناراضگیوں کو سلسلہ کے ماتحت کریں اور ایک نظام کے ماتحت کام کریں.اور اگر اس بات کے لئے تیار نہ ہوں تو ہم ان کا چندہ قبول کرنے کے لئے تیار نہیں.غرض اس قسم کی مثالیں بھی قابل غور ہیں اور میں ناظر صاحب بیت المال کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ آئندہ ایسے لوگوں کو جو کسی جماعت کا فرد ہونے کے باوجود براہِ راست چندہ بھیجتے ہیں، ہدایت کر دیں کہ تم قواعد کے مطابق چندہ دو، ور نہ ہم تمہارا چندہ قبول کرنے کے لئے تیار نہیں.گو یہ قاعدہ ہر جگہ چسپاں نہیں ہوسکتا.بعض لوگ براہ راست چندہ بھیجتے ہیں، اور اپنے ضلع کی جماعت کو اطلاع دے دیتے ہیں کہ اُنہوں نے اتنا چندہ بھیجا، اور اس طرح وہ بھی ایک نظام میں سمجھے جاتے ہیں.بہر حال بیت المال کو چاہئے کہ وہ اس مسئلہ پر غور کرے اور سوچے کہ آئندہ کیا قانون ہونا چاہئے.میرے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں اگر مختلف ضلعوں کے لئے مختلف قانون ہوں.لیکن
خطابات شوری جلد دوم ۲۱۰ مشاورت ۱۹۳۷ء بہر حال جس ضلع کے متعلق کوئی قانون ہو اُس ضلع کی جماعتوں اور افراد کے لئے اُس قانون کی پابندی ضروری ہوگی.اگر براہ راست چندہ بھیجنے کا فیصلہ ہو تو وہ براہ راست بھیج سکتے ہیں اور اگر فیصلہ ہو کہ ضلع کی انجمن خود چندہ بھیجے تو وہ ضلع کی انجمن کے ذریعہ بھجوائیں.بہر حال قانون کی ہر شخص سے پابندی کرائی جائے بشرطیکہ کسی کو قانون سے مستثنیٰ نہ کر دیا گیا ہو اور اگر کوئی اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چندہ بھیجے تو اُس کا چندہ واپس کر دیا جائے اور کہہ دیا جائے کہ جو نظام مقرر ہے اس کے ماتحت چندہ بھیجو تو قبول کیا جا سکتا ہے ورنہ کہ دیا جو نہیں.ایک اور بات جو میں کہنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ بجٹ میں آئندہ ایک اور خانہ ہونا چاہئے جس میں اُس بھار کا ذکر ہو جو سلسلہ پر ہے.اب جو سلسلہ پر بھار ہوتا ہے، وہ وضاحت سے سامنے نہیں آتا.لیکن آئندہ سال جہاں بجٹ کی آمد و خرچ دکھائی جائے وہاں یہ بھی بتایا جائے کہ پچھلے سال کے اختتام پر سلسلہ پر اتنا بھار تھا اور اس سال کے ختم ہونے پر اتنا بھار ہو جائے گا.یا آمد چونکہ زیادہ ہو جائے گی اس لئے اتنا بھار کم ہو جائے گا.بہر حال ایک ایسا خانہ ضرور ہونا چاہئے تا بھار کی اہمیت ہمارے سامنے آتی رہے.یہ تو عام باتیں ہیں جو میں بیان کرنا چاہتا تھا.ترجمہ قرآن اُستاد سے پڑھیں اس کے بعد میں اس امر کو لیتا ہوں کہ جو تجویزیں اس وقت پیش کی گئی ہیں، اُن میں سے قرآن کے ترجمہ کا سوال ضرور قابلِ توجہ ہو گیا ہے.ہماری جماعت پر ایک وقت ایسا تھا جب ہم یہ اُمید کرتے تھے کہ جماعت کے افراد یہاں آئیں اور قرآن مجید پڑھیں لیکن اب جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے اتنی وسیع ہوگئی ہے کہ ہم اس سے یہ امید نہیں کر سکتے کہ سب جماعت یہاں آ کر پڑھے.گو بہترین صورت یہی ہے اور اب بھی میں اسی کا قائل ہوں کہ دوست یہاں آئیں اور پڑھیں.ترجمہ سے کبھی کوئی شخص قرآن مجید نہیں پڑھ سکتا.حوالہ کے لئے بیشک اس کی ضرورت ہو سکتی ہے لیکن روحانیت پیدا کرنے اور قرآن کریم کے مطالب سمجھنے کے لئے ترجمہ سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا جا سکتا.قرآن مجید ایک زندہ کتاب ہے اور زندہ چیز ہر وقت حرکت کرتی ہے.سینما میں جو تصویر میں دکھائی جاتی ہیں کیا تم انہیں زندہ تصویریں کہہ سکتے ہو؟ وہ تصویر میں ہوتی ہیں
خطابات شوری جلد دوم ۲۱۱ مشاورت ۱۹۳۷ء لیکن زندہ نہیں کہلا سکتیں کیونکہ وہ زندہ سر چشمہ سے منقطع ہو چکی ہوتی ہیں.ایک بچہ جس کی اس میں تصویر دکھائی جا رہی ہوتی ہے بڑا ہو چکا ہوتا ہے لیکن اس میں ابھی وہ بچہ ہی نظر آتا ہے.تصویر دکھاتی ہے کہ وہ چھاتیوں سے دودھ پی رہا ہے حالانکہ اب وہ دو تین سیر گوشت ہضم کر جاتا ہے.تو زندہ چیز زندہ کے ساتھ مل کر ایک نئی چیز پیدا کرتی ہے.ترجمہ اگر ہو تو وہ زندہ نہیں کہلا سکتا لیکن جب پڑھنے والا سامنے ہو اور پڑھانے والا اُسے پڑھائے تو چونکہ وہ اُس کے سامنے ہوتا ہے، وہ ترجمہ اُس کے حالات کے مطابق کرتا اور اُس کی ضروریات کو دیکھ کر قرآن کریم کی تعلیم اُس کے سامنے پیش کرتا ہے.ترجمہ کرنے والا بھلا کب ساری دُنیا کے خیالات کا اندازہ لگا سکتا ہے.وہ تو ایک لفظ کا ایک ہی ترجمہ کرے گا.حالانکہ عربی میں بعض دفعہ ایک ایک لفظ کے ساٹھ ساٹھ معنے ہوتے ہیں اور اُن ساٹھ معنوں میں سے بعض دفعہ قرآن مجید کی کسی آیت پر دس معنے چسپاں ہو جاتے ہیں اور پھر وہ دس معنے مختلف تشریحات کی وجہ سے سینکڑوں معارف کے حامل ہو جاتے ہیں اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا کہ قرآن مجید کے سات بطن ہیں اور پھر ایک دفعہ فرمایا کہ اس کے سو معنے ہوتے ہیں.اس کے یہی معنے ہیں کہ قرآن کریم کا ایک ایک بطن آگے کئی کئی معارف پر مشتمل ہوتا ہے اور اس طرح مل کر کئی سو حقائق ہو جاتے ہیں.پھر اللہ تعالیٰ کی یہ بھی سنت ہے کہ يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاءُ.یعنی وہ نئے سے نئے معارف نازل کرتا ہے، اور اِس طرح قرآن کریم کا علم کبھی ختم ہونے میں نہیں آتا.تو جس طرح قرآن مجید اُستاد سے پڑھنے میں آتا ہے اس طرح ترجمہ سے نہیں آ سکتا.پس طریق یہی ہے کہ انسان کسی استاد سے ترجمہ پڑھے اور اس ترجمہ کو صرف اپنے ذاتی استعمال کے لئے رکھ لے.یعنی کبھی کسی لفظ کا ترجمہ بُھول گئے تو اُس کو دیکھ لیا یا کسی غیر کے سامنے ترجمہ پیش کرنا ہوا تو اُسے پیش کر دیا.مگر باوجود اس کے چونکہ اب ساری جماعت قادیان آ کر نہیں پڑھ سکتی اس لئے انہیں کچھ تو ملنا چاہئے.اگر ہماری جماعت کے افراد اُستادوں سے قرآن مجید میں سستی کر رہے ہیں تو ہم یہ بھی تو نہیں کر سکتے کہ اُن کی طرف سے بالکل توجہ ہٹا لیں اور اُنہیں روحانی طور پر مر جانے دیں.بیمار جب بیٹھ کر کھانا نہیں کھا سکتا تو اُسے فیڈ نگ کپ کے ذریعہ دودھ دیتے ہیں، اور جب دودھ بھی نہیں پی سکتا
خطابات شوری جلد دوم ۲۱۲ مشاورت ۱۹۳۷ء تو جسم میں جذب ہو جانے والی غذاؤں کی مالش کرتے ہیں.مثلاً بادام روغن کی مالش کرتے ہیں، گھی کی مالش کرتے ہیں، نمک اور سونٹھ کی مالش کرتے ہیں اور اس طرح اُس کی طاقت کو بحال رکھتے ہیں.تو ترجمہ اُن کے لئے ہے جو پوری غذا نہیں لے سکتے گو بعض اوقات ترجمہ اُن کے لئے بھی فائدہ کی بجائے نقصان کا موجب ہوسکتا ہے کیونکہ بعض دفعہ دشمن کی طرف سے اعتراض ایسے معنوں کی بناء پر ہو گا جو اس ترجمہ میں نہیں لکھے ہوں گے اور اس طرح وہ جواب دینے سے قاصر رہیں گے.پس اصل طریق یہی ہے کہ انسان کسی ایسے اُستاد سے قرآن مجید پڑھے جو زمانہ کی ضرورتوں کو مدنظر رکھ کر ان مطالب کو اُس کے سامنے لائے جن مطالب سے بالعموم اُس کا واسطہ پڑسکتا ہو.در اصل ترجمہ کی مثال ایک ٹانک کی سی ہے، جیسے سپرٹ ایمونیا ایرومیٹک ہے ترجمہ بھی انسان کے لئے ایک ٹانک کا کام دے سکتا ہے.اگر ہیضہ، چیچک اور بخار وغیرہ میں کسی مریض کو سپرٹ ایمونیا ایرومیٹک دیں گے تو اس سے اُس میں کچھ طاقت تو آ جائے گی مگر اس سے مرض کا علاج نہیں ہو گا.غرض ترجمہ ایک ٹانک کا کام تو دے سکتا ہے مگر وہ روحانی بیماریوں کا علاج نہیں.پس میں نے چاہا کہ دوستوں کی اس غلط فہمی کو دور کر دوں کہ ترجمہ کے بعد وہ قرآن مجید کسی اُستاد سے پڑھنے سے مستغنی ہو جائیں گے.ترجمہ زیادہ سے زیادہ ٹانک کا کام دے سکتا ہے اور ٹانک دوا کا مُمد تو ہو سکتا ہے مگر دوا کا قائم مقام نہیں ہوسکتا.اس کے مقابلہ میں اگر دوا ہو تو وہ ٹانک کا بھی قائم مقام ہو سکتی ہے.بہر حال قرآن مجید کے اردو ترجمہ کا سوال قابل توجہ ہے اور اس کا شائع ہونا ضروری ہے.ایک دوست کی طرف سے ایک تجویز آئی ہے، گو انہیں چاہئے تھا یہ تجویز بجٹ پر بحث کے دوران میں پیش کرتے مگر اُنہوں نے ایسا نہیں کیا اور چپکے سے میرے کان میں کہہ دیا.وہ تجویز یہ ہے کہ میاں بشیر احمد صاحب نے سیرۃ النبی کی اشاعت کا جو سلسلہ شروع کیا تھا اُسے مکمل کرا لیا جائے.میں سمجھتا ہوں اس سیرت کی جہاں تک تکمیل ہوئی ہے اس کے لحاظ سے ضروری ہے کہ بقیہ حصہ بھی مکمل ہو جائے اور میں کوشش کروں گا کہ اگر مناسب انتظام ان کی جگہ ہو جائے تو میاں بشیر احمد صاحب کو فارغ کر دیا جائے تاکہ سیرۃ النبی کا کام مکمل ہو جائے.
خطابات شوری جلد دوم ۲۱۳ مشاورت ۱۹۳۷ء منارة امسیح کی سفیدی کی تلقین تیسری چیز جس کی طرف میں پبلک میں صدر انجمن احمد یہ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں گو اس سے پہلے میں دفا تر کو بار بار توجہ دلا چکا ہوں، لیکن اب پبلک میں اِس کا اِس لئے ذکر کرتا ہوں کہ ممکن ہے انہیں کچھ شرم آ جائے یا وہ کمیشن ہی اس کی طرف توجہ کرے جو دفاتر کے کاموں کے معائنہ کے لئے مقرر ہے یہ ہے کہ منارہ کی سفیدی مدتوں سے خراب ہو چکی ہے اور اب سفیدی اُتر جانے کی وجہ سے ڈر ہے کہ کچھ عرصہ میں وہ منارہ بیضاء کی بجائے منارہ سو داء نہ بن جائے.اس غرض کے لئے آج سے دس سال پہلے چندہ ہوا تھا لیکن سفیدی اب تک ہونے میں نہیں آئی اور ہمارے ناظر اب تک یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ وہ سفیدی کس سے کرائیں.دس سال کے اندر غالبا آگرہ کا تاج محل بھی بن گیا تھا مگر ہماری نظارت دس سال میں یہ فیصلہ نہیں کر سکی کہ وہ کس سے سفیدی کرائے.سو اس کے لئے میں نظارت کو ہدایت دیتا ہوں کہ وہ منارۃ امسیح کی سفیدی کے متعلق ایک ہفتہ کے اندر اندر میرے پاس رپورٹ کرے اور ایک مہینہ کے اندر اندر کام شروع کیا جائے.روپیہ جب موجود ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ جلد سے جلد کام شروع نہ کیا جائے اور منارہ کی سفیدی کا انتظام نہ کیا جائے.منارہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس لئے بنایا تھا کہ تا ہر دیکھنے والا کہے کہ یہ وہی سفید منارہ ہے جس کے پاس مسیح موعود کے نزول کی احادیث میں خبر دی گئی تھی مگر اب تو اُسے دیکھ کر کوئی شخص سفید نہیں کہہ سکتا اور خواہ مخواہ اعتراض پیدا ہوتا ہے.ہم جب دمشق میں گئے تو ہم نے فیصلہ کیا کہ وہ منارہ بیضاء بھی دیکھیں جس کے متعلق لوگوں میں یہ مشہور ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام وہاں اُتریں گے.ہم نے جب اُسے دیکھا تو اُس کا رنگ سفید نہیں تھا بلکہ بھوسلا تھا.لوگوں سے ہم نے دریافت کیا کہ حدیثوں میں تو لکھا ہے مسیح موعود منارہ بیضاء کے پاس اُترے گا اور یہ منارہ بیضاء نہیں بلکہ بھوسلا منارہ ہے تو وہ کہنے لگے ہے تو بھوسلا مگر اسے سفید ہی سمجھ لیں.ہم نے کہا حدیث میں تو منارہ بیضاء کے الفاظ آتے ہیں بھوسلا منارہ کے الفاظ تو نہیں آتے.تو آخر یہی اعتراض یہاں بھی پیدا ہو سکتا ہے اور جو مجازی پیشگوئیاں ہوں اُن میں تھوڑے سے فرق سے بھی بات کہیں کی کہیں پہنچ جاتی ہے.اب ہمارے مینارہ کو تو جو کوئی دیکھے گا یہی کہے گا کہ یہ منارہ بیضاء نہیں بلکہ ایک مٹیالا منارہ
خطابات شوریٰ جلد دوم ۲۱۴ مشاورت ۱۹۳۷ء ہے.میں نے کل یا پرسوں میاں بگا کا قصہ سُنایا تھا، اُنہوں نے تو کہا تھا میں بھی راضی ہوں اور میری ماں بھی راضی ہے، آپ روپے اور لڑکی کا انتظام کر دیں.مگر یہاں روپیہ بھی موجود ہے اور کام کرنے والے بھی مگر سفیدی ہونے میں نہیں آتی.اتنے لمبے عرصہ میں تاج محل بنانے والوں نے تاج محل بنا لیا ، مگر ہم ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ سفیدی کس سے کرائیں.بدظنی تو گناہ کی بات ہے مگر شاید یہ بدظنی نہ ہو بلکہ حسن ظنی ہی ہو کہ جو روپیہ انہوں نے اکٹھا کیا تھا وہ کہیں خرچ کر چکے ہیں اور اب چاہتے ہیں کہ جتنی مدت گزر جائے اُتنا ہی اچھا ہے.نصاب تعلیم کی اصلاح کی ضرورت پاچھی بات جس کی طرف میں اکارت تعلیم وتربیت اور جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ ہمیں اب تعلیمی نصاب کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور تعلیم کے نصاب میں سے خواہ وہ شاعری کا حصہ ہو یا نثر کا، ہمیں نقائص دُور کر کے اصلاح کرنی چاہئے.ایک دفعہ ریڈیو پر ایک لیکچر ہوا جس میں پہلی دفعہ غیر از جماعت شخص کے منہ سے یہ دلیل میں نے سنی کہ ہمارے ہاں اردو کی تعلیم میں جو شاعری کا حصہ رکھا گیا ہے وہ اخلاق پر نہایت بُرا اثر ڈالتا ہے کیونکہ اس سے دلوں میں مایوسی پیدا ہوتی اور ہمتیں مُردہ ہو جاتی ہیں.شاعری کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ وہ مخرب اخلاق ہے لیکن اس کے علاوہ ہماری شاعری کا یہ جو حصہ ہے کہ وہ مایوسی پیدا کرتا ہے یہ سب سے پہلے میں نے ہی لوگوں کے سامنے پیش کیا تھا، مگر اب آہستہ آہستہ دوسروں پر بھی اس کا اثر ہو رہا ہے.تعلیم پر کسی پروفیسر کا لیکچر تھا جس میں اُس نے یہ پہلو بیان کیا پس ہمیں اپنے تعلیمی نصاب کی طرف توجہ کرنی چاہئے.بے شک ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہماری شاعری یہ سکھاتی ہے کہ اگر کوئی بد تحریک کرے تو اُسے ضرور قبول کرو کیونکہ یہ وفا ہے اور اگر بد تحریک کو قبول نہیں کرو گے تو بے وفا بن جاؤ گے.یہ حصہ بھی قابلِ اصلاح ہے اور اس کو دُور کرنا چاہئے.لیکن ایک بہت بڑا نقص ہماری شاعری میں یہ ہے کہ وہ مایوسی پیدا کرتی اور یہ بتاتی ہے کہ جس سے تم محبت کرتے ہو وہ ظالم ہے اور تم مظلوم اور اب تمہارا بعد کی تحقیق سے یہ صحیح ثابت ہوا کہ انجمن دوسرے سلسلہ کے کاموں میں اس مد میں سے اڑھائی ہزار سے زائد خرچ کر چکی ہے جس کے واپس کرنے کی میں نے اب اس کو ہدایت کی ہے.
خطابات شوری جلد دوم ۲۱۵ مجلس مش مشاورت ۱۹۳۷ء یہی کام ہے کہ اس کے ظلم وستم کو برداشت کرتے جاؤ اور کبھی کامیابی کی امید نہ رکھو.جیسا کہ عرقی نے کہا ہے عرفی اگر بگر یہ میسر شدے وصال صد سال می توان به تمنا گریستن یعنی عرفی اگر وصالِ یار کا میسر ہونا ممکن ہوتا تو میں سو سال تک بھی روتا رہتا ، مگر افسوس کہ وصال یار تو ممکن ہی نہیں.گویا دُنیا کو بتایا گیا ہے کہ تمہیں وصال کبھی حاصل ہو ہی نہیں سکتا خواہ ساری عمر روتے اور چیختے رہو.پس شاعری کے لحاظ سے اور نثر کے لحاظ سے بھی ہمارے نصاب بدلنے چاہئیں.مگر یہ کام صرف محکمہ نہیں کر سکتا بلکہ مختلف دوست اگر چاہیں تو اپنے اپنے طور پر یا مل کر کر سکتے ہیں.مصنفین کے لئے ہدایات میں ہر شخص کو کوئی نہ کوئی شوق لگا ہوا ہوتا ہے اگر علمی مذاق رکھنے والے لوگ اپنی فرصت کے اوقات میں کوئی کتاب ہی لکھ دیں تو اس میں کیا حرج ہے.مگر یہ ضروری بات ہے کہ جو کتاب لکھیں وہ معقول ہو اور علمی رنگ میں لکھی گئی ہو.بعض لوگ نہایت نا معقول کتاب لکھتے ہیں اور پھر اصرار کرتے ہیں کہ اس کو اُسی شکل میں شائع کرنے کی اجازت دی جائے.گویا وہ اس اصل کو اختیار کرتے ہیں کہ اگر چه گنده است مگر ایجاد بنده است اول تو یہ اصرار ہوتا ہے کہ اس کتاب پر میں ریویو لکھوں پھر یہ اصرار ہوتا ہے کہ ریویو بھی ایسا زبر دست ہو کہ میں اس میں جماعت کو یہ توجہ دلاؤں کہ یہ نہایت ہی اہم کتاب ہے اور اس کی تمام ترقی اس کے پڑھنے پر منحصر ہے.اب بیسیوں ہی کتب اور رسائل میرے پاس آتے ہیں.اگر ہر رسالے پر ریویو لکھنا ہی خلیفہ کا کام ہو تو پانچ سات خلیفے خلیفہ ریویو ہونے چاہئیں.پھر پانچ سات خلیفے محض اس غرض کے لئے ہونے چاہئیں کہ وہ لوگوں کے سامنے ان رسالوں اور کتابوں کی سفارش کرتے پھریں.اور ابھی تو ہماری جماعت تھوڑی ہے، پھر زیادہ پھیل جائے گی تو دو دو ہزار خلیفے محض ان کتابوں پر ریویو کرنے کے لئے ہونے چاہئیں.کیونکہ انگلستان وغیرہ میں تو لاکھوں کتب اور رسالے شائع ہوتے رہتے ہیں اور ان سب پر ریویو کرنے کے لئے کئی کئی خلیفوں کی ضرورت ہوگی.پس ایسے لوگوں کی کتابوں کی
خطابات شوری جلد دوم ۲۱۶ مشاورت ۱۹۳۷ء نہ ہمیں ضرورت ہے اور نہ ان کی کتابیں دُنیا کے لئے مفید ہوسکتی ہیں.میرا خطاب صرف اُن دوستوں سے ہے جو عقل سے کام کریں.یہ نہیں کہ مجھے مجبور کریں کہ میں اُن کی کتاب پر ضرور ر یو یو کروں اور ریویو بھی تعریفی ہو اور تعریفی بھی ایسا اہم ہو کہ اس میں لکھا جائے کہ ساری جماعت اس کی طرف توجہ کرے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک دوست تھے، انہیں کچھ جنون کا عارضہ ہو گیا تھا.اُن دنوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام من الرحمن لکھ رہے تھے اُس میں آپ نے بیان فرمایا کہ عربی زبان تمام زبانوں کی ماں ہے.اُس دوست کے دماغ میں چونکہ کچھ جنون تھا اس لئے یہ سُن کر انہوں نے بھی الفاظ کی جستجو شروع کر دی اور عجیب عجیب الفاظ نکالنے شروع کر دیئے.ایک دن کہنے لگے لوگ کہتے ہیں مرچوں کا قرآن مجید میں کوئی ذکر نہیں، یہ بالکل غلط ہے.قرآن مجید میں جو اللؤلؤ والمرجان ) کے الفاظ آتے ہیں، اس میں مرجان مرچوں کو ہی کہا گیا ہے.پھر دلیل یہ دی کہ مرچیں بھی لال ہوتی ہیں اور مرجان بھی لال ہوتا ہے.غرض قرآن کریم کی عبارات میں وہ تمام پنجابی الفاظ ثابت کرتے.اس قسم کے مصنفوں کی ہمیں ضرورت نہیں.مصنف وہ ہوں جو ہوش وحواس قائم رکھتے ہوں اور عقل و فکر سے کام لینے والے ہوں.یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ کوئی ایسا فلسفہ نکالیں جس سے دُنیا میں تہلکہ مچ جائے.بلکہ ایسی باتیں لکھی جائیں جو عام سمجھ کے مطابق ہوں اور جن میں اسلام پر جو اعتراضات کئے جاتے ہیں اُن کا حل کیا گیا ہو.مثلاً مؤرخین کی کتابیں ہیں ان میں مسلمان بادشاہوں پر سخت ظلم کئے گئے اور ان پر نہایت گندے الزامات لگائے گئے ہیں.ہم بے شک اُن کی بے جا تعریف نہیں کر سکتے مگر جتنی نیکی اُن میں تھی اُس کو قائم بھی تو رکھنا چاہئے.مثال کے طور پر میں کہتا ہوں اور نگ زیب کو حضرت مسیح موعود اور نگ زیب کا مقام علیہ الصلوۃ والسلام مجد دکہا کرتے تھے اور بیسیوں دفعہ آپ نے اُسے مجد د کہا.حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کا خیال تھا کہ اکبر مجد د ہے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے جب یہ معاملہ پیش ہوا تو آپ نے فرمایا ہم اکبر کو اچھا نہیں سمجھتے البتہ اورنگ زیب کو مجد د سمجھتے ہیں.لیکن اور نگ زیب کی شکل تاریخوں میں نہایت ہی تاریک
۲۱۷ مجلس مش مشاورت ۱۹۳۷ء خطابات شوری جلد دوم دکھائی گئی ہے، حالانکہ تاریخی طور پر ہی اُس کی بیسیوں نیکیاں ثابت ہیں.اگر کہا جائے کہ اور نگ زیب اگر مجد دکھا تو اُس نے اپنی بادشاہت میں فلاں فلاں غلطیاں کیوں کیں تو یہ بے وقوفی ہے.وہ مجددیت اس قسم کی نہیں تھی جو مامورین کو حاصل ہوتی ہے بلکہ عام رنگ کی مجددیت تھی.وہ اسلام کا درد اپنے سینہ میں رکھتا تھا اور معلوم ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ اُس سے اپنے دین کا خاص رنگ میں کام لے رہا ہے.پھر ہر مجد دمبعوث نہیں ہوتا اور نہ مجد د معمولی غلطیوں سے پاک ہوتا ہے.مبعوث مامورین ہوتے ہیں اور وہ بھی صرف اُن غلطیوں سے پاک ہوتے ہیں جن کا دین اور شریعت اور اخلاق فاضلہ سے تعلق ہو.بشری کمزوریاں اُن میں پائی جاتی ہیں.حدیثوں میں جو یہ آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سر پر مجد دمبعوث کیا کرے گا اس سے کئی قسم کے مجد د مراد ہیں، بعض مذہبی مجد د ہوتے ہیں، بعض سیاسی مجدد ہوتے ہیں اور بعض علمی مجد د ہوتے ہیں.جو سیاسی مجد د ہوں وہ سیاسی لحاظ سے اسلام کو غالب کیا کرتے ہیں اور ان کی زندگیاں نیک بادشاہ کے طور پر دیکھی جاتی ہیں نہ کہ نیک پیر کے طور پر.اور غلطیاں نیک بادشاہ سے بھی ہوسکتی ہیں.غرض تاریخوں میں مسلمان بادشاہوں پر بہت سے الزامات عائد کئے گئے ہیں.اگر ہماری جماعت کے مصنف اس طرف بھی توجہ کریں تو وہ سلسلہ کے لئے مفید لٹریچر مہیا کر سکتے ہیں.ایک دوست نے توجہ دلائی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ کے ابتدائی حالات کے متعلق جو میں نے ایک دفعہ لیکچر دیا تھا وہ اگر چھپ جائے تو بہتر ہو.میرے نزدیک اگر وہ لیکچر لکھا ہو ا مل جائے تو بہت ہی اچھا ہو اور میں شوق بھی رکھتا ہوں کہ اُس پر نظر ثانی ہو جائے اور شائع کر دیا جائے.الفضل کو ایک ضروری ہدایت کی اور دوستوں ک اور علی سائل کے متعلق کتابیں اسی طرح کو لکھنی چاہئیں، مگر وہ مسائل علمی ہونے چاہئیں.دوسروں کی اندھی تقلید میں رٹ نہیں لگانی چاہئے.مثلاً میں نے دیکھا ہے کچھ دن ہوئے الفضل میں حضرت عمر کی سادگی کے متعلق بعض مضامین شائع ہوئے ہیں جن میں یہ لکھا گیا ہے کہ حضرت عمر کے کپڑوں پر ۱۲ پیوند ہوتے تھے.اب ایک دفعہ کے متعلق تو یہ تسلیم کیا جا سکتا ہے، لیکن ۱۲ پیوند ہوتے تھے کے معنے تو یہ ہیں کہ جب بھی وہ کوئی نیا کپڑا پہنتے تھے
خطابات شوری جلد دوم ۲۱۸ مشاورت ۱۹۳۷ء اس میں قینچی سے ۱۲ موریاں کر کے ۱۲ پیوند لگا لیتے تھے.حالانکہ اسے کوئی عقل تسلیم نہیں کر سکتی.پھر ۱۲ پیوند لگانے کوئی ذاتی خوبی نہیں کہ اسے بیان کیا جائے اور اس پر زور دیا جائے.دُنیا میں کئی باتیں ایسی ہیں جنھیں انسان وقتی مجبوری یا ضرورت کے لحاظ سے کرتا ہے.لیکن کبھی ان کو اپنی زندگی کا مستقل شغل قرار نہیں دیتا.مثلاً سادہ زندگی ، یہ اسلامی تعلیم ہے، لیکن اگر کوئی اپنے طبعی میلان کی وجہ سے کڈ و زیادہ پسند کرے اور یہی زیادہ کھائے تو ہم کبھی یہ نہیں کہیں گے کہ فلاں شخص اتنی سادگی سے زندگی بسر کرتا ہے کہ ہمیشہ کڈ وکھاتا ہے.سادگی سے زندگی بسر کرنا اور چیز ہے اور اپنے طبعی میلان یا کسی طبعی ضرورت کی وجہ سے کڑو کھانا اور چیز.ہماری جماعت میں ایک دوست ہیں اُن کی بیوی میری بیوی کی سہیلی ہے، اُس نے میرے گھر میں ذکر کیا کہ جب بھی میں اپنے میاں سے پوچھتی ہوں کہ کیا پکاؤں؟ تو وہ کہتے ہیں آلو پکا لو.اس کے علاوہ وہ کوئی اور سبزی کھاتے ہی نہیں بس آلو ہی کھاتے رہتے ہیں.اب اگر کوئی شخص اس امر کو لے لے اور کہنا شروع کر دے کہ فلاں دوست تو بڑے سادہ ہیں، ہمیشہ آلو کھاتے ہیں تو کوئی شخص ایسی بات سن کر خوش نہیں ہوگا کیونکہ سادہ زندگی کا اصل یہ ہے کہ کھانے میں کفایت کے اصول کو برتا جائے نہ یہ کہ ہمیشہ آلو یا کڈو کھاتے رہنا.پھر یہ چیز بھی اپنے اپنے زمانہ کے لحاظ سے بدلتی رہے گی.مثلاً آجکل ہم ایک کھانا کھاتے ہیں لیکن اس کو دیکھ کر اگر کوئی کہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دستر خوان پر بعض دفعہ دو دو کھانے آجایا کرتے تھے جس سے معلوم ہوا کہ آجکل ہم روحانیت میں آپ سے بڑھ گئے ہیں تو یہ بیوقوفی ہوگی.پس جو اصولی نیکیاں ہیں اُن کو پیش کرنا چاہئے اور انہی پر زیادہ زور دینا چاہئے.لیکن اگر ہم کسی کی کوئی ایسی نیکی پیش کرتے ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میں نہیں پائی جاتی تھی تو ہم حضرت عمر یا کسی اور کی تعریف نہیں کرتے بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہتک کرتے ہیں.اسی قسم کی احمقانہ باتوں کے نتیجہ میں لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اسراف
۲۱۹ مشاورت ۱۹۳۷ء خطابات شوری جلد دوم کا اعتراض کیا ، اور انہی باتوں کے نتیجہ میں بعض احمق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بھی اعتراض کر دیتے ہیں.کہتے ہیں کوئی پٹھان قدوری پڑھ رہا تھا جس میں اُس نے پڑھا کہ نماز میں حرکت صغیرہ ممنوع ہے اور حرکت کبیرہ سے نماز ٹوٹ جاتی ہے.پھر کسی دوسرے وقت اُس نے حدیث کا جو سبق لیا تو ایک حدیث ایسی آگئی جس میں لکھا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حالت نماز میں ہی دروازہ کھول دیا اور بعض جگہ آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر نماز میں سانپ وغیرہ سامنے آ جائے تو اُسے مارا جا سکتا ہے یا وہ پٹھان یہ پڑھتے ہی کہنے لگا " خومحمد صاحب کا نماز ٹوٹ گیا ، قدوری میں لکھا ہے کہ حرکت کبیرہ سے نماز ٹوٹ جاتا ہے.اب اگر کوئی شخص ایسا ہو جونماز پڑھ رہا ہو اور نماز میں ہی سانپ نکل اگر آئے اور وہ نماز نہ توڑے بلکہ پڑھتا رہے تو کیا ہم کہیں گے وہ زیادہ نیک ہے؟ ہم تو یہی کہیں گے کہ اُس کے اندر کوئی دماغی نقص ہے جس کی وجہ سے اُس نے سانپ کو دیکھنے کے باوجود اُسے مارنے کی کوشش نہ کی حالانکہ اسلام نے اُس کی اجازت دی تھی.غرض ایسے افعال کو اگر ہم نیکی قرار دیں تو ہمیں نعوذ باللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق کہنا پڑے گا کہ آپ اس نیکی سے محروم تھے حالانکہ یہ بالکل غلط ہے.پھر کپڑوں پر ۱۲ پیوند ہونے یہ کوئی فخر کے قابل بات نہیں.کیا جس دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کپڑوں پر چھ پیوند ہوتے تھے اُس دن آپ میں نیکی کم ہو جاتی تھی؟ یا آپ جب بھی کوئی نیا کپڑا پہنتے قیچی لے کر بیٹھ جاتے تھے اور کپڑوں کو پھاڑنا شروع کر دیتے تھے؟ غرض اس قسم کی تاریخیں ہمارے مدنظر نہیں.یہ لوگ جو ان واقعات کو لکھتے ہیں دراصل نقال ہیں.تاریخی واقعات کی چھان بین کی ان میں قابلیت نہیں اور یہ ویسی ہی بات ہے جیسے غیر مبائعین پہلے کہا کرتے تھے کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں کیسی آزادی رائے حاصل تھی.بھری مجلس میں ایک شخص کھڑا ہوتا تھا اور سوال کر دیتا تھا کہ یہ گر تہ تم نے کہاں سے لیا؟ یہ ہے اصل نیکی جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے.غرض اِس طرح کہہ کہہ کر جب انہوں نے اپنے ساتھیوں کو نیکی کی سان پر چڑھایا تو انہوں نے ہی دوسرے وقت مولوی محمد علی صاحب کی گردن پکڑ لی اور کئی اعتراض کرنے شروع کر دیئے.پھر مولوی محمد علی صاحب نے یہ شور مچا دیا کہ جب تک تم اِسْمَعُوا وَاَطِيْعُوا پر عمل نہیں کرتے اور ایک آواز پر لبیک کہنے کے لئے تیار نہیں رہتے اُس وقت
خطابات شوری جلد دوم ۲۲۰ مشاورت ۱۹۳۷ء تک تمہیں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی.گویا پہلے اعتراض کرنا نیکی تھا اور پھر خاموش رہنا نیکی بن گیا.تو ایسے لوگ جو وقتی امور کو نیکیاں قرار دینے لگ جائیں وہ تھالی کے بینگن ہوتے ہیں.جو کبھی بھی کسی صحیح نتیجہ پر نہیں پہنچتے حالانکہ بحث ہمیشہ اصولی ہونی چاہئے.مثلاً اگر میں مضمون لکھتا ہوں تو یہ دیکھتا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ قومی ضرورتوں کے مطابق کس طرح ہر قسم کی قربانیوں پر آمادہ رہتے تھے اور آیا جن قربانیوں کی اُس وقت ضرورت تھی ، وہ آپ پیش کرتے تھے یا نہیں.میں یہ نہ دیکھتا کہ آپ کے کپڑوں پر ۱۲ پیوند ہیں یا نہیں، بلکہ میں یہ دیکھتا کہ اُس وقت زمانہ جن قربانیوں کا تقاضا کرتا تھا اُن میں آپ نے کس سرگرمی سے حصہ لیا.اگر ۱۲ پیوند لگانے ہی نیکی ہوں تو پھر ہم سب گناہ گار سمجھے جائیں گے، کیونکہ ہم میں سے کسی کے کپڑے پر ۱۲ پیوند نہیں ہوں گے.ہاں ایک یا دو پیوند کبھی کبھار تو سوائے تعیش پسند لوگوں کے سب کے نکل آئیں گے لیکن ۱۲ پوند سینکڑوں میں سے کسی ایک کے ملیں گے.خصوصاً شهری بود و باش والوں میں اور ۱۲ پیوند به تعہد رکھنا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی ثابت نہ ہو گا جو طبعاً بہت بڑے زاہد تھے.دراصل یہ سب غلط خیالات ہیں جو لوگوں میں رائج ہیں اور انہی غلط خیالات کے نتیجہ میں انبیاء اور مامورین پر اعتراض واقع ہو جاتا ہے اور پڑھنے والا سمجھتا ہے کہ جس کے ۱۲ پیوند نہیں وہ روحانیت سے گرا ہوا ہے.وہ یہ نہیں سمجھتا کہ یہ روحانیت کی علامت نہیں بلکہ سادگی کا ایک رنگ ہے جو ہر زمانہ میں بدلتا ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں.اور یہ ایسی ہی بات ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ مومن کا کام یہ ہے کہ جہاں خدا اُس کو رکھے رہے اگر فاقہ میں رکھے تو فاقوں میں خوش رہے اور اگر آسودگی سے رکھے تو اُس میں خوش رہے.غرض ایسے امور کو نیکیاں قرار دینا بالکل غلط اصول ہے.نیکی یہ ہے کہ جب دین کی طرف سے مطالبہ ہو تو اُس وقت انسان مطالبہ کے مطابق قربانی پیش کر دے.نیکی کی اس تعریف کو سامنے رکھ کر دیکھ لوکسی پر بھی اس کے نتیجہ میں اعتراض پیدا نہیں ہوگا نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر.لیکن اگر اس کی بجائے ہم یہ کہیں کہ روحانیت کا معیار یہ ہے کہ جب دینی ضروریات کے متعلق مطالبہ ہو تو انسان سو فی صدی اپنا مال دے دے تو اس کے مطابق سوائے حضرت ابوبکر کے باقی
خطابات شوری جلد دوم ۲۲۱ مشاورت ۱۹۳۷ء سب کو نعوذ باللہ روحانیت سے گرا ہوا سمجھنا پڑے گا اور حضرت ابو بکر کے متعلق بھی کہنا پڑے گا کہ وہ ساری عمر میں صرف ایک دفعہ اس معیار پر پورے اترے.غرض مرکزی نکتہ کو مد نظر رکھ کر کتاب لکھنی چاہئے اور ایسی باتیں پیش نہیں کرنی چاہئیں جو مضحکہ خیز ہوں.یہی چیزیں ہیں جنھیں دیکھ کر مسلمانوں میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو پلاؤ کھاتے ہیں تو اس میں مٹی ملا لیتے ہیں اور یہی باتیں جب غیر مذاہب والے سنتے ہیں تو انہیں خیال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کے مسائل عقل کے مطابق نہیں.الفضل، ہمارے سلسلہ کا آرگن ہے لیکن اس میں متعدد دفعہ ایسے مضامین شائع ہوئے ہیں.پہلے ایک لکھتا ہے اور دو چار مہینے کے بعد وہی مضمون اپنے الفاظ میں نقل کر کے کوئی دوسرا دُہرا دیتا ہے اور اس بات کو بالکل نہیں سمجھا جاتا کہ ان مضامین کے نتیجہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراض واقعہ ہو جائے گا اور مخالف کہے گا کہ اگر یہ نیکی ہے تو آیا یہ نیکی ان میں بھی پائی جاتی تھی جن کو تم نبی ، رسول اور دُنیا کا نجات دہندہ سمجھتے ہو.نیکی کیا ہے؟ یاد رکھو نیکی صرف یہ ہے کہ اسلام کی ضرورت کے مطابق قرآن کریم کی حدود کے اندر رہ کر کام کیا جائے.نیکی کسی خاص فعل کا نام نہیں بلکہ ایک ہی فعل جو ایک وقت میں نیکی ہوتا ہے بعض دفعہ دوسری حالت میں بدی بن جاتا ہے.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ ایک صحابی کو سونے کے کڑے پہنائے ، کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رویا میں اُس کے ہاتھ میں سونے کے کڑے دیکھے تھے.اُس نے پہنے سے انکار کیا تو آپ نے کہا پہن ورنہ میں تجھے کوڑے لگاؤں گا اب آپ نے وہاں ۱۲ پیوند نہیں لگوائے بلکہ اُسے سونے کے کڑے پہنائے ہیں کیونکہ اس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک پیشگوئی پوری ہوتی تھی.تو نیکی یہ ہے کہ تم اسلام کی حدود کے اندر زمانہ کی ضروریات کے مطابق اسلام کے مطالبہ کے ماتحت کام کرو.یہی وہ امور ہیں جو مصنف کو اپنے مدنظر رکھنے چاہئیں.اگر کوئی مصنف حضرت عمرؓ کے سوانح حیات لکھتا ہے، اور وہ ان امور کو مدنظر نہیں رکھتا اور نہ یہ بتاتا ہے کہ آپ کی زندگی زمانہ کے مطابق تھی اور آپ اُن تمام قربانیوں میں حصہ لیتے تھے، جن کا اُس وقت مطالبہ ہوتا تھا تو وہ
خطابات شوری جلد دوم ۲۲۲ مشاورت ۱۹۳۷ء زیادہ سے زیادہ یہی ثابت کرتا ہے کہ آپ ایک سادھو تھے یا ویسے تھے جیسے درگاہوں کے فقیر ہوتے ہیں جن کے کپڑے غلیظ ہوتے ہیں اور اُن کے بالوں میں جوئیں پڑی ہوئی ہوتی ہیں.ایک اعتراض کا جواب حضرت خلیفہ اول سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ میں مسجد اقصیٰ سے درس دے کر واپس آ رہا تھا کہ راستہ میں جو ڈ پٹیوں کا مکان ہے ( جس میں آجکل صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر ہیں ) وہاں ڈپٹی صاحب بیٹھے تھے.مجھے دیکھ کر وہ اُٹھے اور مصافحہ کیا اور پھر کہا مولوی صاحب! ایک بات دریافت کرنی ہے.میں نے کہا پوچھئے.وہ کہنے لگے کیا بادام روغن اور پلاؤ کا استعمال فقیر لوگوں کے لئے بھی جائز ہے؟ میں نے کہا کہ ہمارے مذہب میں یہ چیزیں پاک ہیں اور ہم اُن کے استعمال میں کوئی حرج نہیں دیکھتے.وہ کہنے لگے میں نے سمجھا تھا فقیر لوگ یہ چیزیں استعمال نہیں کر سکتے.درحقیقت اُن کی غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراض تھا کہ آپ نے کوئی خاص غذا نہیں مقرر کی ہوئی بلکہ اتباع نبوی میں اعلیٰ یا سادہ غذا جو غذا میسر آجائے آپ استعمال فرما لیتے ہیں اور بادام روغن تو آپ دماغی کام کی وجہ سے اور بیماری کی وجہ سے کبھی علاج معالجہ کے طور پر استعمال کیا کرتے تھے.مؤرخین کے لئے ہدایات تو ہمیشہ مؤرخ کو عقل سے کام لینا چاہئے اور نقالی کا مادہ اپنے اندر سے نکال دینا چاہئے.ہاں جو اُس زمانہ کا مؤرخ ہو جس زمانہ کی وہ تاریخ لکھنا چاہتا ہے اُس کا یہ کام ہے کہ وہ واقعات جمع کر دے اور بعد میں آنے والے مؤرخوں کا یہ کام ہے کہ وہ واقعات کی صحیح ترتیب قائم کر کے ایسے رنگ میں تاریخ مرتب کریں جس سے اُس شخص کا اصل کیریکٹر سامنے آ جائے.طبری تک لوگوں کا یہ کام تھا کہ وہ محض واقعات جمع کرتے اور بعد کے مؤرخوں کا یہ کام تھا کہ وہ ایسی طرز پر اُن واقعات کو ڈھالتے کہ اس شخص کا کیریکٹر ہر شخص کے سامنے آجا تا.اسی طرح اور بہت سی علمی کتب کی ضرورت ہے، اگر ہمارے دوست اس طرف توجہ کریں تو میں بھی انہیں کچھ مدد دے سکتا ہوں مگر یہ نہیں کہ مجھ سے کتاب لکھوائیں بلکہ اس طرح جس طرح بعض دوست جب لیکچر دینا چاہتے ہیں تو میرے پاس آتے ہیں اور میں اُنہیں نوٹس بتا دیتا
خطابات شوری جلد دوم ۲۲۳ مشاورت ۱۹۳۷ء ہوں.اسی طرح اگر وہ کوئی کتاب لکھنا چاہیں تو میں اس کی آؤٹ لائنس یعنی بیرونی نقشہ اُنہیں اجمالی طور پر بتا سکتا ہوں.پانچویں چیز جس کی طرف میں جماعت کے دوستوں کو طلباء کی تعلیم کیلیے ہدایات توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ ملازمت کے بارہ میں تعلیم کا خیال ہے.میں نے متواتر توجہ دلائی ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیم کا جو عام طریق جاری ہے یہ ہر قسم کی ملازمتوں کے لئے کافی نہیں.اگر ہماری جماعت کے تجربہ کار اصحاب اطلاع دیتے رہیں کہ فلاں فلاں قسم کی ملازمتیں ہیں اور ان کے لئے تعلیم کا فلاں فلاں معیار ہے اور پھر ہمارے دفاتر میں ایک لسٹ تیار رہے تو بہت سی نئی شاخوں میں ہماری جماعت کے دوست کام کر سکتے ہیں.اب ہمارے ملک میں جب بھی کوئی تعلیم حاصل کرتا ہے تو یا وہ ڈاکٹر بنتا ہے یا وکیل.۱۰۰ میں سے کوئی ایک ہوتا ہے جو انجینئر نگ کا خیال کرتا ہے.گویا تین کام ہیں جو ہمارے نوجوانوں کے سامنے ہوتے ہیں، یا ڈاکٹری یا وکالت اور یا پھر تحصیلداری اور ای.اے سی وغیرہ.حالانکہ ملازمتوں کا یہ سواں حصہ ہے.اسی وجہ سے ننانوے فیصدی لڑکے تعلیم حاصل کرنے کے بعد دھکے کھاتے پھرتے ہیں اور انہیں کوئی ملازمت نہیں ملتی.بہت بڑی کوششوں کے بعد یا وہ مدرسی کی طرف چلے جاتے ہیں یا کلر کی کی طرف.میں نے بارہا توجہ دلائی ہے کہ دوست ملازمتوں کے بارہ میں معلومات بہم پہنچائیں مگر اس بارہ میں بہت ہی کم معلومات مہیا کی جاتی ہیں.اس لئے اس موقع پر میں دوستوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ وہ مختلف قسم کی ملازمتوں کے متعلق ہمیں اطلاع دیں اور یہ بھی لکھیں کہ کس کس قسم کی تعلیم ان ملازمتوں کے حصول کے لئے ضروری ہے.مثلاً فوج والے اپنے محکمہ کے متعلق اطلاع دے سکتے ہیں کہ اس اس قسم کے تجربہ اور لیاقت والے آدمیوں کی ضرورت ہوتی ہے.انجینئر اپنے محکمہ کے متعلق اطلاع دیں.اسی طرح اب ہم نے یہاں لوہے کا کام شروع کیا ہے.لوہے کے ایکسپرٹ اس بارہ میں بھی مشورہ دے سکتے ہیں.ڈاکٹری میں بھی مشورہ دیا جا سکتا ہے اور پھر ڈاکٹری بھی دو قسم کی ہوتی ہے، ایک انسانی اور ایک حیوانی.پھر دندان سازی کا کام اب شروع ہے جو جلد جلد ترقی کر رہا ہے.غرض جماعتوں اور افراد کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے اور اپنے بچوں کو بغیر سوچے سمجھے تعلیم نہیں دلوانی چاہئے کیونکہ اس طرح اُن کی عمریں ضائع چلی جاتی ہیں.
خطابات شوری جلد دوم ۲۲۴ مشاورت ۱۹۳۷ء بریکاری دور کی جائے چھٹی بات جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ بریکاری ہے.میں نے بارہا کہا ہے کہ جماعت میں سے بیکاری دُور کی جائے.مگر میں دیکھتا ہوں کہ ابھی تک جماعت کے بعض دوستوں پر یہ اثر ہے کہ جب تک فلاں قسم کی نوکری ہمیں نہیں ملے گی ہم نوکری نہیں کریں گے.اس میں شبہ نہیں کہ ہماری جماعت میں ایسے نوجوان بھی ہیں جنھوں نے قربانی کی.چنانچہ بیسیوں ہیں جنھوں نے ادنی ادنیٰ ملازمتیں اختیار کر لیں اور درجنوں ہیں جو گھروں سے نکل گئے اور غیر ممالک میں چلے گئے.میرے نزدیک وہ نوجوان عزت کے قابل ہیں اور اس بات کے مستحق ہیں کہ اُن کے نام رجسٹروں میں درج کئے جائیں اور اخبارات میں شائع کئے جائیں کیونکہ وہ ہماری جماعت کے پاونیر اور ہر اول ہیں مگر پھر بھی مزید ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری جماعت کے وہ لوگ جو بیکار ہیں گھروں سے باہر نکلیں اور بیکاری دُور کریں.میں نے بارہا کہا ہے کہ اگر کوئی شخص بیکار ہے تو اسے چاہئے الفضل کی ایجنسی لے لے اور جماعت کے لوگوں میں اسے فروخت کرنا شروع کر دے.غالباً پانچ پرچے جہاں جاتے ہوں ، وہاں الفضل کی ایجنسی کھل سکتی ہے اور پانچ پیسے یومیہ کے یہ معنے ہیں کہ وہ دو سوا دو روپے ماہوار حاصل کر سکتے ہیں.میں تو نہیں سمجھ سکتا اگر پاخانے میں بھی ایسے شخص کو دو روپے ملیں تو وہ انہیں چھوڑ دے.پھر میں کس طرح سمجھ لوں کہ اُنہیں حلال روزی ملتی ہو اور وہ اس روزی کو نا پسند کریں.لیکن بڑا نقص یہ ہے کہ ایجنسیاں گھلتی ہیں اور پھر لوگوں کی بددیانتی کی وجہ سے بند ہو جاتی ہیں اور الفضل والے شکایت کرتے ہیں کہ لوگوں سے روپیہ وصول نہیں ہوتا.میں یہ صورتِ حالات دیکھ کر سمجھتا ہوں کہ آئندہ یا تو ایجنسیاں بالکل بند کر دینی چاہئیں یا انہیں خوب جاری کر کے دیکھنا چاہئے کہ کون کون سی جماعت ایسی ہے جس کے افراد بد دیانت ہیں.مومن تو الگ رہا قرآن کریم میں یہودیوں کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ ان میں سے بھی بعض ایسے نیک ہیں کہ اگر ڈھیروں ڈھیر سونا اُن کے سامنے پڑا ہوا ہو تو وہ اس کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھتے.پھر یہ کیسے مومن ہیں کہ دو روپے ”الفضل“ کے لیتے ہیں اور بددیانتی سے کھا جاتے ہیں.پس ایسے لوگ مومن نہیں بلکہ بددیانت ہیں اور ان کا وجود ایمان کے لئے دھبہ ہے اور یہ نہایت ہی خطر ناک اور گندہ پہلو ہے.جماعتوں کو ایمانداری
خطابات شوری جلد دوم ۲۲۵ مشاورت ۱۹۳۷ء اور دیانتداری کے ساتھ کام کرنا چاہئے اور ایجنسی لے کر اس کا روپیہ پوری احتیاط کے ساتھ ادا کرنا چاہئے.پس دوستوں کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر سے بیکاری دور کریں اور کوئی ایک فرد بھی ایسا ندہ رہے جو کام پر نہ لگا ہوا ہو.میں نے اس کی طرف کئی دفعہ اپنے خطبات میں توجہ دلائی ہے لیکن میرے نزدیک اس وقت کوئی جماعت ایسی نہیں جو یہ کہہ سکے کہ اُس کے اندر کوئی فرد بیکار نہیں.ممکن ہے اس وقت میں دریافت کروں تو بعض جماعتیں کھڑی ہو کر کہہ دیں کہ اُن میں کوئی بیکار نہیں لیکن اگر تحقیق کی جائے تو مجھے یقین ہے کہ ننانوے فیصدی جماعتوں میں بیکاری پائی جائے ، اور ثابت ہو جائے کہ انہوں نے اس بریکاری کو دور کرنے کے لئے کوئی کوشش نہیں کی.جبکہ میری نصیحت یہ ہے کہ جماعت کا ایک فرد بھی بیکار نہ رہے.تو جماعتوں میں کثرت سے بیکارلوگوں کا ہونا بتاتا ہے کہ جماعت نے میری نصیحت پر بہت حد تک عمل نہیں کیا حالانکہ اگر وہ بیعت کے مفہوم کو مد نظر رکھتے تو اس وقت ایک بریکا ر بھی ہماری جماعت میں نہ ہوتا.ہاں بجٹ کے متعلق دو باتیں میرے ذہن سے اتر گئی تھیں جنھیں اب میں بیان کر دیتا ہوں.بقایا جات کی ادائیگی کا طریق ایک بات تو سابقہ بھابیوں کی ادائیگی کے متعلق ہے.میرے نزدیک جن جن جماعتوں کا بقایا بہت زیادہ ہے اگر انہیں تحریک کی جائے کہ وہ اپنے اپنے بقائے کا ۱/۲ یا ۳ را یا ۱/۱۰ یا ۲۰ را یا ۱/۵۰ ہی اس وقت ادا کر دیں، اور بقیہ بقایا کی ادائیگی کی ذمہ داری اُٹھا ئیں تو اس تحریک کے نتیجہ میں جس قدر جماعتیں بھی بیدار ہوں گی وہ دوسروں کے لئے نمونہ ہوں گی اور انہیں بھی اپنے بقالوں کی ادائیگی کا فکر ہو جائے گا.پس جماعتوں میں بقایوں کی ادائیگی کے متعلق تحریک کی جائے کیونکہ قرضہ اسی صورت میں دور ہو سکتا ہے جبکہ ہم سابقہ قرضوں میں تخفیف کی کوئی صورت پیدا کریں.میں اُمید کرتا ہوں کہ محکمہ بیت المال اس طرف توجہ کرے گا اور جماعتوں کو بھی اس طرف توجہ دلائے گا.
خطابات شوری جلد دوم ۲۲۶ الفضل کو مالی بجٹ کے بارہ میں ہدایات مشاورت ۱۹۳۷ء ایک بات تجارتی صیغوں کے متعلق ہے جو بہت ہی قابلِ توجہ ہے اور وہ یہ کہ جب میں نے ”الفضل“ کے بجٹ کو دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ الفضل کا مالی پہلو خطرناک ہو رہا ہے.چونکہ خود میں نے ”الفضل“ جاری کیا تھا اس لئے مجھے بھی چھپوائی کا تجربہ ہے اور میں بجٹ کو دیکھتے ہی سمجھ جاتا ہوں کہ اس میں کسی جگہ غلطی ہو رہی ہے.اسی وجہ سے میں نے الفضل کے بجٹ کی تفصیلات محکمہ متعلقہ سے طلب کیں، لیکن انہوں نے جواب دیا کہ الفضل والوں نے جواب دیا ہے کہ ہم تفصیلی حساب نہیں رکھا کرتے.اگر یہ جواب صحیح ہے تو یہ اور بھی خطر ناک بات ہے.جب وہ تفصیلی حساب رکھتے ہی نہیں تو یہ کیونکر پتہ لگ سکتا ہے کہ ان کا حساب صحیح ہے.اگر کسی شخص کا کوئی ذاتی حساب ہو تو اس کے متعلق اس کا یہ عذر تسلیم کیا جا سکتا ہے لیکن جب یہ ذاتی حساب نہیں تو ڈائریوں سے صحیح حساب کا پتہ کس طرح لگ سکتا ہے.صحیح حساب کا پتہ ہمیشہ کھاتوں سے لگتا ہے اور اسی کے ذریعہ صحیح معلومات حاصل ہوا کرتی ہیں لیکن جب الگ الگ کھاتے نہ رکھے جائیں تو حساب کے صحیح ہونے کا کس طرح پتہ لگ سکتا ہے.پس یہ صورتِ حالات نہایت تشویشناک ہے جسے جلد سے جلد دور کرنا چاہئے اور گزشتہ حسابات تیار کرانے چاہئیں بلکہ صدر انجمن احمدیہ کو اُس وقت تک بجٹ منظور نہیں کرنا چاہئے تھا جب تک وہ تمام تفصیلات مہیا نہ کر لیتی.اب جو بجٹ ہمارے سامنے ہے اس میں بادی النظر میں کئی قسم کی غلطیاں معلوم ہوتی ہیں.مثلاً میں نے جب ٹکٹوں کا خرچ دیکھا تو معلوم ہوا کہ اُس میں دس ہزار نو سو روپے کے ٹکٹ رکھے گئے ہیں.اگر نو سو روپیہ کے ٹکٹ عام ڈاک اور خط وکتابت کے لئے رکھ لئے جائیں تو دس ہزار کا ٹکٹ باقی رہ جاتا ہے.ان دس ہزار کے چھ لاکھ چار ہزار پیسے بنتے ہیں، اور دو ہزار پچاس ایسا پر چہ بنتا ہے جو اس ٹکٹ کے ماتحت بھیجا جا سکتا ہے حالانکہ اول تو اتنی خریداری نہیں پھر کچھ ایجنسیاں ہوتی ہیں، اور ایجنسیوں کو جو پرچہ بھیجا جاتا ہے وہ ریل کے ذریعہ بھیجا جاتا ہے ڈاک کے ذریعہ نہیں بھیجا جاتا.پھر کچھ مفت پر چہ جاتا ہے اور جو قادیان میں اخبار تقسیم کیا جاتا ہے اس پر بھی ٹکٹ نہیں لگتا.لیکن اگر یہ ٹکٹوں کا خرچ درست ہے تو پھر آمد کا بجٹ کم معلوم ہوتا ہے کیونکہ ٹکٹوں کے حساب سے کم سے کم بائیس سو خریدار ہونا چاہئے جس کی
خطابات شوری جلد دوم ۲۲۷ مشاورت ۱۹۳۷ء طرف سے تینتیس ہزار روپیہ وصول ہونا چاہئے.اگر اشتہاروں کا چار پانچ ہزار شامل کیا جائے تو آمد سینتیں، اڑتیں ہزار ہونی چاہئے مگر آمد اس سے بہت کم دکھائی گئی ہے.اشتہارات کے بارہ میں یاد رکھنا چاہئے کہ آٹھ دس روپیہ فی صفحہ ہمارا خرچ بنتا ہے کیونکہ ۱۲ صفحہ کا اخبار ہوتا ہے، اور سال میں تین سو پر چہ نکلتا ہے اور خرچ کا بجٹ تمیں ساڑھے تیں ہزار ہے.اس حساب سے فی صفحہ آٹھ دس روپیہ کا خرچ ہوتا ہے.اگر ہم صرف خرج وصول کریں اور دو صفحہ روزانہ کا اشتہار رکھیں تو ہماری آمد چھ ہزار سے کسی صورت میں کم نہیں ہونی چاہئے.گو میں نے سُنا ہے بعض دفعہ پانچ روپیہ فی صفحہ بھی اجرت لے لی جاتی ہے جو ہرگز درست نہیں کیونکہ موجودہ بجٹ کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ آٹھ دس روپے فی صفحہ ہمارا خرچ بنتا ہے اور خرچ سے کم لینا عقل کے بالکل خلاف ہے.پھر سرکاری اشتہار بھی بعض دفعہ چھپتے ہیں اور ان کی اُجرت بہت زیادہ ہوتی ہے.غالبا نصف کالم کے پانچ روپے ہوتے ہیں.اسی طرح ریلوے اور ہائیکورٹ کے اشتہاروں کی قیمت بھی عام اشتہارات سے غالباً زیادہ ہوتی ہے لیکن عام اشتہارات کی بھی خرچ سے کم قیمت لینا عظمندی میں داخل نہیں کیونکہ اگر مستقل طور پر ایسا کیا جائے تو دوکاندار اس بات کا عادی ہو جائے گا کہ اصل خرچ سے اشتہارات کی اُجرت کم دے.لوگ سمجھیں گے، اخبار والے ڈرتے ہیں.جب ہم کہیں گے کہ ہم پانچ روپے فی صفحہ اجرت نہیں دیتے تو وہ کہہ دیں گے اچھا چار روپے ہی لا ؤ اور جب کہیں گے کہ چار روپے بھی نہیں دیتے تو وہ تین پر آجائیں گے.بہر حال یہ اصول ہونا چاہئے کہ اخراجات سے کم اجرت نہ لی جائے تا کہ یہ رسم ہی نہ پڑ جائے.إِلَّا مَا شَاءَ اللہ.بعض دفعہ بعض فرمیں عارضی طور پر اشتہار دیتی ہیں اور چونکہ اُن سے امید کی جاتی ہے کہ وہ آئندہ مستقل طور پر اشتہار دیں اس لئے استثنائی صورتوں میں اُن سے رعایت کی جا سکتی ہے لیکن اس کے علاوہ اشتہارات کی ایک معین اُجرت مقرر ہونی چاہئے اور اس میں کمی بیشی نہیں ہونی چاہئے.غرض بجٹ میں آمد اور خرچ دونوں حساب بالکل نہیں ملتے اور سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ میزا نیں کس طرح لگائی گئی ہیں..یاد رکھنا چاہئے اشتہارات کی اُجرت معین نہ ہونے کا ایک بہت بڑا نقص یہ بھی ہوتا ہے کہ اشتہار لینے والا ممکن ہے بعض دفعہ اشتہار دینے والے تاجر سے کہے کہ مجھے اتنا انعام
خطابات شوری جلد دوم ۲۲۸ مشاورت ۱۹۳۷ء دے دو، میں سو روپے کا اشتہار پچاس روپے میں شائع کرا دوں گا.پس اگر اس بات کی گھلی اجازت ہو تو کسی کو کیا پتہ کہ درمیان میں رشوت ستانی کا کوئی واقعہ ہو رہا ہے یا نہیں.غرض اس طرح بددیانتی کا راستہ بھی گھل جاتا ہے.میرا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ موجودہ عملہ میں سے کوئی شخص ایسا کر رہا ہے، میں قانون پر بحث کر رہا ہوں اور قانون آدمی کو نہیں دیکھا کرتا امکانات کو دیکھا کرتا ہے.آج اگر سب دیانتدار ہوں تو کل کو کوئی بددیانت آدمی عملہ میں آ سکتا ہے.پس قانون ایسا ہونا چاہئے کہ انسانی حدود کے اندر رہتے ہوئے معقول طور پر مکمل کہلا سکے.کاغذستا خریدا جائے اسی طرح تجارتی صیغوں کے بجٹ میں ایک اور نقص یہ ہے کہ چیزوں کو چیک نہیں کیا جاتا.مثلاً کاغذ چھ ہزار پانچ سو کا لکھا ہے اور یہ معمولی رقم نہیں بلکہ بہت بڑی رقم ہے.اگر کوشش کر کے چھ ہزار پانچ سو کی بجائے صرف چھ ہزار کا کاغذ رہ سکے، تو کیا صدر انجمن احمدیہ کا فرض نہیں کہ وہ نگرانی کرے اور ستا کاغذ خریدنے کی ہدایت دے؟ میں نے دیکھا ہے یہاں پہلے چھوٹی چھوٹی کتا بیں چھپتی تھیں اور اُن کی ڈیڑھ ڈیڑھ دو دو اور اڑھائی اڑھائی روپے قیمت ہوا کرتی تھی لیکن جب مولوی ابوالفضل صاحب کو میں نے کتابیں چھاپنے کی اجازت دی تو وہی کشتی نوح جو کبھی چھ آنے پر بکتی تھی چار آنے پر فروخت ہونے لگی، پھر تین آنے پر، اور اب انہوں نے ایک ایک آنہ پر کشتی نوح دینی شروع کر دی ہے.اسی طرح وہ کتابیں جو بک ڈپو پہلے ڈیڑھ ڈیڑھ روپے میں دیتا تھا اس مقابلہ کی وجہ سے اس نے آٹھ آٹھ آنے اور دس دس آنے پر دینی شروع کر دی ہیں.تو جب مقابلہ شروع ہوا ، اُس وقت قیمتیں بھی کم ہو گئیں.کاغذ بھی اُنہیں سستا ملنے لگ گیا اور لوگوں کو بھی سہولت ہو گئی.تو کئی چیزوں میں کسی بددیانتی کی وجہ سے نہیں بلکہ کافی تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے نقصان رہتا ہے اور تجارتی چیزیں تو ہمیشہ تجارتی اصول پر چلانی چاہئیں.بعض اخبار نویس کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہندوستان میں کوئی اخبار فائدے پر نہیں چل رہا.بہت حد تک اُن کی یہ بات صحیح ہے، گو ایسے بھی اخبار ہیں جو فائدے پر چل رہے ہیں.” تہذیب نسواں فائدے پر چلتا ہے، ریاست فائدے پر چلتا ہے، اسی طرح اور
خطابات شوری جلد دوم ۲۲۹ مشاورت ۱۹۳۷ء دو بھی کئی اخبار ہیں جو فائدے پر چل رہے ہیں اور پرتاپ“ اور ”ملاپ والوں نے تو جائیدادیں بنالیں ہیں مگر ایک بات یاد رکھنی چاہئے اور وہ یہ کہ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ”زمیندار“ بھی خسارے پر چل رہا ہے اور ہر وقت لوگوں سے امداد مانگتا رہتا ہے، تو سوال یہ ہے کہ اُس نے تو روپیہ لینا ہوا، اُسے تو اگر دس ہزار کی بچت بھی ہو جائے تو وہ اور مانگے گا.ہم نے سندھ میں زمینیں لی ہوئی ہیں.اسی سلسلہ میں ایک صاحب نے ایک دوسرے دوست سے ذکر کیا کہ آپ کے آدمی کہتے پھرتے ہیں کہ اب کے اتنی کپاس ہو گئی ،لیکن ہماری کپاس ہوتی بھی ہے تو ہم روتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کچھ نہیں ہوگا.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ افسر ہمیں روپیہ معاف کر دیتا ہے اور آپ سے لے لیتا ہے.تو اگر ”زمیندار“ روتا رہتا ہے تو ہم تو یہی کہیں گے کہ وہ اس لئے روتا ہے کہ اُسے اور ملے نہ اس لئے کہ اُسے خسارہ ہے.لیکن اگر اس عذر کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو میں بتانا چاہتا ہوں کہ ”الفضل“ کے سوا کوئی ڈیلی اردو اخبار ایسا نہیں جس کا مستقل خریدار اٹھارہ سو کیا ایک ہزار بھی ہو.وہ سب ایجنسی کے ذریعہ چلتے ہیں اور جو اخبار ایجنسی کے ذریعہ چلنے والے ہوں اُن کی تعداد اتنی جلدی بڑھتی گھٹتی ہے کہ اس کا اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا.”زمیندار“ بعض دفعہ ایک ایک ہزار یا اس سے کم چھپتا رہا ہے اور بعض دفعہ پندرہ پندرہ ہزار بھی.پس یہ عذر بھی بالکل فضول ہے.الفضل کے اتنے مستقل خریدار ہیں کہ ہندوستان کے کسی مسلمان اُردو روز نامہ کو اتنے خریدار حاصل نہیں.پس وہ کاغذ وغیرہ سستے داموں پر خریدنے کی طاقت رکھتا ہے.اس کے بعد میں دوستوں کو تحریک جدید کی طرف پھر توجہ دلانا چاہتا ہوں.آپ لوگ اس وقت اتفاقاً یہاں جمع ہیں.میں خطبات میں تحریک جدید کی طرف جب توجہ دلاتا ہوں تو یہ آپ کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے کہ آپ ان خطبات کو پڑھیں یا نہ پڑھیں لیکن اب جو کچھ میں کہوں گا وہ آپ کو لازماً سننا پڑے گا.قادیان میں مکان بنانے کی تحریک میں نے متواتر توجہ دلائی ہے کہ ہر زمانہ کے لحاظ سے کامیابی حاصل کرنے کے کچھ گر ہوتے ہیں جن کو اگر مدنظر نہ رکھا جائے تو کامیابی کی منزل بہت دور ہو جاتی ہے.وہ گر گو زمانہ کی ضروریات کے لحاظ سے بدلتے چلے جاتے ہیں مگر اُن میں جو تبدیلیاں ہوتی ہیں وہ
۲۳۰ مشاورت ۱۹۳۷ء خطابات شوری جلد دوم عارضی حصہ میں ہوتی ہیں، اصول ہمیشہ ایک ہی رہتے ہیں.مثلاً میں نے تحریک جدید میں ایک مطالبہ جماعت سے یہ کیا ہے کہ قادیان میں اپنے مکان بناؤ.یہ مطالبہ ایک عارضی مطالبہ ہے جو بعد میں صرف مخصوص لوگوں کے لئے رہ جائے گا اور ہر شخص سے یہ مطالبہ نہیں کیا جائے گا.کیونکہ اب تو ضرورت ہے کہ مرکز مضبوط ہو.پس مرکز کی مضبوطی اور اُسے دشمنوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لئے ہم تحریک کرتے ہیں کہ دوست یہاں آئیں اور مکان بنائیں.ہم جب یہ تحریک کرتے ہیں کہ سو میں سے ایک دو ایسے نکل آتے ہیں جو قادیان میں مکان بنا لیتے ہیں اور اس طرح اگر پانچ چھ ہزار آدمی بھی قادیان میں مکان بنا لے تو اس سے مرکز کی شان و شوکت بڑھ جاتی ہے لیکن جب خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت ساری دُنیا میں پھیل گئی اور اربوں لوگ احمدی ہو گئے تو اُس وقت اگر ہم یہ تحریک کریں گے کہ قادیان آ جاؤ اور اپنے اپنے مکان بناؤ تو پھر اس تعداد کا اگر سواں حصہ بھی آ جائے اور پچاس ساٹھ لاکھ یا کروڑ آدمی نے بھی اس آواز پر لبیک کی تو اُن کے لئے قادیان میں گنجائش نہیں ہو گی.پس یہ تو منشاء الہی اور سنت اللہ کے خلاف ہے کہ اس تحریک کو مستقل طور پر جاری رکھا جائے.یہ ایک عارضی چیز ہے جو اُس وقت تک قائم رہے گی جب تک مرکز مضبوط نہیں ہوتا لیکن اس مطالبہ کے ماتحت جو اصل کام کر رہا ہے وہ ہمیشہ قائم رہے گا.یعنی جہاں بھی اسلام کو مدد کی ضرورت ہو وہاں تم جمع ہو جاؤ اور جس جگہ کے متعلق بھی اسلام چاہتا ہو کہ مسلمان وہاں جائیں اور اپنے بیوت کو قبلہ بنائیں وہاں فوراً پہنچیں.پس یہ اصل باطل نہیں ہو گا ہاں اس کی موجودہ شکل بدلتی رہے گی.اس زمانہ میں ممکن ہے ہم یہ کہہ دیں کہ فلاں فلاں قسم کی لیاقتوں کے لوگ قادیان میں آئیں.مثلاً وہ جو علوم دینیہ میں ماہر ہوں یا روحانیت رکھنے والے وجود ہوں تا کہ مرکز میں نیکی قائم رہے.تو تحریک جدید میں کئی چیزیں بے شک عارضی ہیں لیکن اصول وہی رہیں گے اور جب تک قومی ترقی کے لئے اس کی موجودہ شکل ضروری ہے یہ قائم رہے گی اور جب کسی اور شکل کی ضرورت ہوگی وہ قائم کر دی جائے گی.بہر حال اس وقت وہی شکل ضروری ہے جس شکل میں میں نے آپ لوگوں کے سامنے مطالبات پیش کئے ہیں.ان مطالبات پر گو جماعت نے ایک حد تک عمل کیا ہے لیکن سولہواں مطالبہ ایسا ہے
خطابات شوری جلد دوم ۲۳۱ مجلس مش مشاورت ۱۹۳۷ء جس پر ابھی بہت کچھ عمل کرنے کی ضرورت ہے.پچھلے دنوں ایک دوست جو عیسائی ہیں اور یہاں امتحانوں کے سپرنٹنڈنٹ بن کر آئے تھے ، مجھ سے ملنے کے لئے آئے.باتوں باتوں میں کہنے لگے کہ آپ کا جو سولہواں مطالبہ تھا اور جس میں اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی تاکید تھی ، اُس پر قادیان میں عمل نہیں ہوتا.میں نے اُنہیں بتایا کہ میں نے تو خود یہ نیت کی ہوئی ہے کہ اس مطالبہ پر عمل کروں اور جماعت سے کراؤں لیکن آپ جن امور کی طرف توجہ دلا رہے ہیں آپ کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ صرف ہماری نیت اور عمل سے درست نہیں ہو سکتے ، اُن کے متعلق حکومت کا تعاون بھی ضروری ہے اور وہ ہمارے ساتھ تعاون نہیں کرتی اور اس لئے ہمارے لئے بہت سی مشکلات ہیں.پھر میں نے اُنہیں کہا آپ کو اس بارہ میں ایک لطیفہ بھی سُنا دوں.ایک دفعہ پادری گارڈن صاحب ڈاکٹر ز ویمر صاحب کو لے کر قادیان آئے.ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم اُس وقت زندہ تھے.میری ملاقات سے پہلے اُنہوں نے ڈاکٹر زویمر صاحب اور پادری گارڈن صاحب کو قادیان کے بعض مقامات دکھائے.قادیان کی سیر کرنے کے بعد ڈاکٹر زویمر کہنے لگے مجھے خواہش تھی کہ میں دیکھوں کہ اسلامی مسیح کی جماعت نے کہاں تک ترقی کی ہے، کم از کم ظاہری صفائی کے لحاظ سے تو اُس کے مرکز نے کوئی ترقی نہیں کی.ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم کہنے لگے ، ابھی اسلامی مسیح کی حکومت نہیں آئی پہلے مسیح کی ہی حکومت ہے اس لئے قادیان کی صفائی کا الزام پہلے مسیح کی قوم پر ہی آتا ہے.بعض اعتراضات کے جوابات ابھی تقریر کے دوران میں ایک دوست نے جو امرتسر کے ہیں لکھا ہے کہ اُن کے پاس کسی اور دوست نے بیان کیا ہے کہ اُن کی بیوی کہتی ہے میں قادیان گئی تو مجھے اُنہوں نے اپنے گھر میں سات سات کھانے کھاتے دیکھا ہے.وہ دوست احمدی ہے اور اس کی بیوی بھی احمدی ہے اس لئے میں لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِینَ کہنے سے تو رہا، میں یہی کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں جھوٹ سے بچائے، اور بے دینی کے مرض سے محفوظ رکھے.اگر اس دوست کی بیوی یہاں موجود ہوتیں تو میں انہیں اپنی بیویوں کے سامنے کرا دیتا اور سات کھانوں کا فیصلہ ہو جاتا ، مگر وہ یہاں نہیں.اس لئے میں سوائے اس کے کیا کہوں کہ اس میں ذرہ بھر بھی سچائی
۲۳۲ مشاورت ۱۹۳۷ء خطابات شوری جلد دوم سے کام نہیں لیا گیا.گزشتہ دو سالوں میں صرف دو دعوتیں ایسی ہوئی ہیں جن میں بعض غیر احمدی شریک تھے اور چونکہ اُن کے مقام اور درجہ کے لحاظ سے یہ مناسب نہ تھا کہ ایک ہی کھانے پر کفایت کی جائے اس لئے میں نے اس رعایت پر ان دعوتوں میں عمل کیا جس کا میں نے شروع میں ہی اعلان کر دیا تھا.یہ دونوں دعوتیں سندھ میں ہوئی تھیں اور ان میں غیر احمدی معززین مدعو تھے.اس کے علاوہ مجھے یاد نہیں کہ میں نے ان سالوں میں ایک کھانے سے زیادہ کھانا کھایا ہو اور سات کھانے تو میں نے عمر بھر میں کبھی نہیں کھائے.صرف ایک دعوت سات یا اس سے زائد کھانوں کی مجھے یاد ہے.حضرت خلیفہ اول کی زندگی میں میں ایک دفعہ ہندوستان گیا اور شاہجہانپور میں ٹھہرا.اُس وقت حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوری ( جو آجکل بیمار ہیں اللہ تعالیٰ انہیں صحت عطا فرمائے ) کے والد صاحب زندہ تھے اُنہوں نے ہماری دعوت کی.جب کھانے چنے گئے تو وہ اس قدر زیادہ تھے کہ مجھے یہ سمجھ نہیں آتا تھا کہ میرا کھانا کہاں ختم ہوا ہے اور دوسرے دوست کا کھانا کہاں سے شروع ہوا ہے.لطیفہ کے طور پر میں نے اُس وقت کہا کہ حافظ صاحب ! بعض کھانوں کی پلیٹوں تک تو شاید مجھے لیٹ کر پہنچنا پڑے گا.تو چار پانچ کھانوں سے زائد کی یہ صرف ایک دعوت مجھے یاد ہے اس کے سوا کھانا تو الگ رہا مجھے بھی سات کھانوں کی دعوت میں بھی شامل ہونے کا موقع نہیں ملا.ہاں انگریزی کھانے اس سے مستثنے ہیں کیونکہ انگریزی کھانے یوں تو بہت زیادہ ہوتے ہیں اور کئی کئی کھانوں کی فہرست پیش کی جاتی ہے.لیکن کھانے کے قابل صرف دو تین ہی ہوتے ہیں، باقی سب نام کے طور پر جمع کئے ہوئے ہوتے ہیں جنھیں انگریز بھی نہیں کھاتے.غرض مجھے یاد نہیں کہ میں نے کبھی سات کھانے کھائے ہوں، اور سات کھانے ہضم کرنے والا تو میرا معدہ ہی نہیں.بعض لوگ ممکن ہے کھا سکتے ہوں.اسی وقت ایک غیر احمدی دوست نے ایک اور طرف میری توجہ پھرائی ہے.وہ کہتے ہیں آپ کو خود ایسی دعوت دیکھنے کا موقع نہیں ملا مگر آپ کے علم میں تو آیا ہے کہ ایک صاحب محرم کے دن ننانوے کھانے کھاتے ہیں.یہ درست ہے میں نے کل ہی یہ ذکر تعجب سے سُنا ہے جس وقت یہ واقعہ مجھے سُنایا جا رہا تھا ایک دوست جو پاس بیٹھے تھے مسکرا کر کہنے لگے کہ شاید یہ صاحب سواں کھانا محرم کے غم کی وجہ سے چھوڑ دیتے ہیں.خیر یہ
خطابات شوری جلد دوم ۲۳۳ مشاورت ۱۹۳۷ء تو لطیفہ ہوا.بات کچی یہی ہے کہ سات کھانے میں نے کبھی کھائے ہی نہیں.ہاں چونکہ تھے ہمارے گھروں میں کثرت سے آتے رہتے ہیں اس لئے ممکن ہے دوسالوں میں چھ سات دفعہ میں نے اُن تحفوں میں سے کسی ایک کو تحفہ لانے والے کی دلداری کے طور پر چکھ لیا ہو.یہ اگر دوسرا کھانا کہلا سکتا ہے تو ایسا دوسرا کھانا چھ سات دفعہ دو سالوں میں میرے استعمال میں ضرور آیا ہے اس سے زیادہ نہیں اور سات کھانے تو کبھی استعمال میں ہی نہیں آئے.اس قسم کے اعتراض بہت دفعہ بدظنی سے بھی پیدا ہو جاتے ہیں.مثلاً دستر خوان پر پانچ چھ آدمیوں نے بیٹھنا ہو، ایک دو مریض ہوں جن کے لئے پر ہیزی کھانا پکا ہو، ایک کھانا باقی لوگوں والا ہو، اور اتفاقاً کوئی شخص تحفہ لے آئے وہ بھی دستر خوان پر چنا گیا.اب دیکھنے والا اگر تقویٰ سے کام نہ لے تو سمجھے گا کہ چار کھانے رکھے ہیں حالانکہ ان میں سے تین تو الگ الگ لوگوں کے لئے ہیں اور چوتھا تحفہ ہے جسے یا تو گھر کا کھانا چھوڑ کر کوئی شخص کھائے گا یا پھر صرف چکھ لے گا کہ دوسرے کا دل میلا نہ ہو.اسی قسم کی بدظنی کا واقعہ مجھ سے ایسا گزرا ہے کہ وہ مجھے ہمیشہ یاد رہتا ہے.ایک دفعہ ایک دوست میرے پاس آئے اور کہنے لگے میری بیوی پہلی دفعہ قادیان آئی تھی اُسے آپ کے گھر آ کر بہت بڑا ابتلاء آ گیا.میں نے پوچھا کیا بات ہوئی ؟ وہ ہے تو عورتوں کے متعلق بات لیکن چونکہ مسئلہ بیان کرنا پڑتا ہے اس لئے بعض دفعہ ایسی باتیں بھی بیان کرنی پڑتی ہیں.چنانچہ ایک دفعہ ایک عورت نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک مسئلہ پوچھا جو عورتوں سے تعلق رکھتا تھا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا تو نے عورتوں کی لٹیا ڈبودی مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا دین کے مسائل پوچھنے اور بیان کرنے میں کوئی شرم کی بات نہیں، تو بعض دفعہ اس قسم کی باتیں بھی بیان کرنی پڑتی ہیں.خیر جب میں نے اُس سے دریافت کیا کہ کیا ابتلاء آیا ہے.تو اُس نے بتایا کہ میری بیوی نے دیکھا ہے کہ آپ کے گھر کی مستورات نماز نہیں پڑھتیں.میں نے کہا ممکن ہے جس کے متعلق آپ کی بیوی کو مشبہ پڑا ہوا نہیں ماہواری ایام آئے ہوئے ہوں.وہ کہنے لگے کہ میں نے اپنی بیوی سے یہ کہا تھا مگر اُس نے کہا کہ آپ کی دونوں بیویوں نے نماز نہیں پڑھی اور نہ آپ کی جوان بیٹی نے.میں نے کہا شاید اُنہوں نے الگ پڑھ لی ہو.اُنہوں نے کہا نماز کے وقت ساتھ رہی ہے اور اُسے یقین ہے
۲۳۴ مشاورت ۱۹۳۷ء خطابات شوری جلد دوم کہ ایسا نہیں ہوا.گو یہ دعویٰ اُن کا تو باطل تھا کہ اُس نے ایسی نگرانی کی ہو مگر پھر بھی میں نے احتیاطا گھر میں دریافت کیا.ایک بیوی سے معلوم ہوا کہ اُن کو اور لڑکی کو اُنہی دنوں میں نماز جائز نہ تھی دوسری بیوی سے بھی یہی امر معلوم ہوا.اب یہ ایک اتفاق ہے کہ ایک ہی وقت میں تینوں کے لئے نماز ترک کرنی ضروری تھی مگر ایسے اتفاق بھی ہو جاتے ہیں.اگر وہ عورت بدظنی سے کام نہ لیتی تو اس کے لئے ابتلاء کی کوئی بات نہ تھی.تو بعض دفعہ اس طرح بھی غلطی ہو جاتی ہے.نیا آدمی ہوتا ہے اور وہ اپنے دل میں ایک قیاس کر کے اعتراض قائم کر لیتا ہے.لیکن اس موجودہ اعتراض پر تو وہی مثال صادق آتی ہے جیسے پنجابی میں کہتے ہیں ”برائون ہی گنٹھیا ہے.سب جھوٹ ہی جھوٹ ہے اور اس میں کچھ سچائی نہیں کیونکہ معترضہ یہ کہتی ہے کہ اُس نے مجھے سات کھانے کھاتے ہوئے دیکھا.ایک دفعہ ایک دوست نے کسی شخص کا یہ اعتراض مجھے پہنچایا کہ انہوں نے اپنی لڑکی کی شادی پر ۲۷ ہزار روپے کا زیور دیا ہے.میں نے کہا وہ شادی میں نے تحریک جدید سے پہلے کی تھی اس لئے اگر اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دیتا اور میرے پاس مثلا کروڑ روپیہ ہوتا اور میں اُس میں سے ۲۷ ہزار کے زیور بنا دیتا تو اس میں کوئی حرج نہ تھا لیکن میں نے ۲۷ ہزار کے زیور پہنائے ہی نہیں اور اگر اسے اصرار ہو تو وہ میرے ساتھ شرط کر لے جتنے زیور میں نے پہنائے ہیں وہ میں اُسے دے دوں گا اور ۲۷ ہزار میں سے ۲۷ سو روپیہ ہی وہ مجھے دے دے مجھے اس میں بھی کثیر فائدہ رہے گا کیونکہ وہ زیور اس سے بھی بہت کم قیمت کا تھا.اسی طرح ایک دفعہ ایک شخص نے کہا کہ جلسے پر جب لوگ آتے ہیں تو پچیس ہزار کے قریب روپیہ انہیں صرف نذرانوں سے حاصل ہوتا ہے.میں نے اُسے کہا کہ تم اس کا دسواں حصہ مجھے دے دیا کرو، اور جلسہ پر جس قدر نذرانہ آئے وہ تم اُٹھاتے چلے جاؤ.پھر خود ہی دیکھ لینا کہ کس کو زیادہ فائدہ رہتا ہے.غرض بعض دفعہ لوگ اتنا جھوٹ بولتے ہیں کہ اس کی کوئی حد ہی نہیں ہوتی.ایک شخص تھا وہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول کے پاس آیا اور کہنے لگا مجھے بخاری خرید دیجئے.آپ نے فرمایا میرے پاس روپیہ ہے نہیں.وہ کہنے لگا بھلا آپ کے پاس روپیہ نہ ہو یہ میں کس طرح مان لوں.آپ صاف طور پر یہی کیوں نہیں کہہ دیتے کہ میں خرید کر نہیں دیتا.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا میرے پاس روپیہ ہوتا تو خرید دیتا،
خطابات شوری جلد دوم ۲۳۵ مشاورت ۱۹۳۷ء ہے نہیں تو کس طرح خرید دوں.وہ کہنے لگا یہ کس طرح ہو سکتا ہے جماعت کی تعداد اس وقت دس لاکھ ہے اگر ہر شخص چار چار آنے سالانہ بھی آپ کو نذرانہ دیتا ہو تو اڑھائی لاکھ روپیہ سالانہ آپ کے پاس جمع ہو جاتا ہے اور پھر آپ کہتے ہیں کہ کچھ نہیں.حضرت خلیفہ اول کی عادت تھی کہ اگر سمجھانے کے لئے سختی کی ضرورت ہوتی تو اُس سے دریغ نہ کرتے.آپ نے یہ سُن کر فرمایا اتنی بے شرمی ! آپ ہی بتا ئیں آپ نے مجھے اتنے سالوں میں کتنی چونیاں دی ہیں؟ تو کئی لوگ ایسے اعتراض کر دیتے ہیں جن میں ذرہ بھر بھی سچائی نہیں ہوتی.غرض میں نے متواتر توجہ دلائی ہے کہ تحریک جدید کے مطالبات کو پورا کرو.خصوصاً اس کا سولہواں مطالبہ ایسا ہے جس کی طرف جماعت کو زیادہ توجہ کرنے کی ضرورت ہے.مگر میں نے دیکھا ہے قادیان میں اس مطالبہ کے ماتحت چند دن کام کیا گیا ، پھر میں تبدیل آب و ہوا کے لئے پہاڑ پر چلا گیا، تو امور عامہ نے خیال کر لیا کہ یہ مطالبہ میری موجودگی میں ہی قابل عمل تھا اس کے بعد نہیں.پہاڑ سے واپس ہوئے تو حضرت (اماں جان ) پر فالج کا حملہ ہو گیا اور اُدھر مصروفیت رہی پھر سندھ کی طرف جانا پڑا، اس کے بعد میں خود بیمار ہو گیا اور پھر الیکشن کے کام میں مصروف رہنا پڑا، اس وجہ سے میں نگرانی نہ کر سکا لیکن مجھ پر اثر یہی ہے کہ اب کوئی کام نہیں ہو رہا.انہوں نے غالباً سمجھا ہے کہ چھ مہینے ہم نے ایک شغل اختیار کر لیا ہے اب اُسے مستقل طور پر جاری رکھنے کی کیا ضرورت ہے حالانکہ یہی وہ چیزیں ہیں جو لوگوں پر برا اثر ڈالتی ہیں.میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑا کام کرنے والا ہوں ، رات کو بھی یہاں سے گیا تو پڑھتا رہا اور جب سونے لگا تو اُس وقت دو بج چکے تھے لیکن باوجود اس کے کچھ عرصہ سے کام اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ ڈاک بعض دفعہ دفتر میں بھیج دیتا ہوں کہ اس کا خلاصہ میرے سامنے پیش کیا جائے.پھر بھی میرے جیسا آدمی نہیں کہہ سکتا کہ ہفتے میں وہ اس کام کے لئے کوئی وقت نہیں نکال سکتا.پھر میں کس طرح مان سکتا ہوں کہ وہ دوسرے لوگ جن کے اوقات اتنے مصروف نہیں ، وہ ہفتہ میں دو چار گھنٹے اس کام کے لئے نہیں نکال سکتے اور کیا وجہ ہے کہ ایک کام کو جاری کر کے اُسے چھوڑ دیا جائے.
خطابات شوری جلد دوم ۲۳۶ مشاورت ۱۹۳۷ء وقار عمل کی اہمیت ہماری گلیوں کو دیکھو راستوں میں پاخانہ پھرا ہوا ہوتا ہے حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں اگر کوئی راستہ میں پاخانہ پھرتا ہے تو اُس پر خدا تعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے یا دوسری طرف آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص راہ سے کانٹے ، اینٹیں اور دوسری ایذاء دینے والی چیزیں ہٹاتا ہے تو ہر کام کے بدلہ میں اس کی ایک نیکی لکھی جاتی ہے بیتے گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رستوں میں گند پھینکنے کا نام لعنت اور صفائی کرنے کا نام نیکی رکھا ہے اب اگر کوئی بادشاہ بھی ہو اور وہ رستوں کی صفائی کرے تو کتنی نیکیاں ہیں جو مفت میں اُسے مل سکتی ہیں.مگر یہاں تو ابھی بہت چھوٹے پیمانے پر کام شروع کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ ہفتہ میں ایک گھنٹہ کام کیا جائے.اگر قادیان کے لوگ اس کام کو جاری رکھتے تو میں باہر سے آنے والوں کو ملامت کر سکتا مگر مجھے افسوس ہے کہ قادیان والوں نے بھی چند دن اس مطالبہ کے ماتحت کام کر کے چھوڑ دیا.میں نے دیکھا ہے جب پہلے دن میں نے کسی پکڑی اور مٹی کی ٹوکری اُٹھائی تو کئی مخلصین ایسے تھے جو کانپ رہے تھے اور وہ دوڑے دوڑے آتے اور کہتے حضور تکلیف نہ کریں، ہم کام کرتے ہیں اور وہ میرے ہاتھ سے کسی اور ٹوکری لینے کی کوشش کرتے لیکن جب چند دن میں نے اُن کے ساتھ مل کر کام کیا تو پھر وہ عادی ہو گئے ، اور وہ سمجھنے لگے کہ یہ ایک مشتر کہ کام ہے جو ہم بھی کر رہے ہیں اور یہ بھی کر رہے ہیں تو اس طرح کام کرنے کے نتیجہ میں اخلاق کی درستی ہوتی ہے اور قوم کا معیار بلند ہوتا ہے.اگر ہفتہ میں ایک دفعہ ایسے مفت کے مزدور مل جائیں تو خود ہی اندازہ لگا و صفائی میں کس قدر ترقی ہو جائے.پھر اس کا یہ بھی فائدہ ہے کہ وہ خلیج جو امیروں اور غریبوں کے درمیان حائل ہے اور جسے ہم پاٹنا چاہتے ہیں اُس خلیج کو دور کرنے میں ہم کامیاب ہو جائیں گے.پس ایک طرف میں ملامت کرتا ہوں امور عامہ کو کہ اُس نے ایسے اچھے اور نیک کاموں کے بجالانے میں سستی کی ، اور دوسری طرف یہاں کی جماعت کے دوستوں اور باہر کے احباب کو بھی اِس مطالبہ کی طرف توجہ دلاتا ہوں.مکان بنانے میں احتیاط کی ضرورت اس ضمن میں ایک اور بھی نقص ہے جس کی اصلاح کی طرف میں توجہ دلا دیتا ہوں اور
خطابات شوری جلد دوم ۲۳۷ مشاورت ۱۹۳۷ء وہ یہ کہ قادیان میں جب بھی کوئی شخص نیا مکان بناتا ہے، وہ گلی میں سے کچھ نہ کچھ زمین اپنے مکان میں شامل کر لیتا ہے.یہ ایسی گندی مرض ہے کہ اسے دیکھ کر دل میں سخت قبض پیدا ہوتی ہے اور بجائے دُعا کے بددعا نکلتی ہے کہ لوگ کتنے مُردہ ہو گئے ہیں اور اُن کے احساس کس طرح مر گئے ہیں.پھر وہ اس میں اتنا غلو اور اصرار کرتے ہیں کہ سمجھانے کے با وجود باز نہیں آتے اور کہتے ہیں چونکہ فلاں نے گلی میں سے تھوڑی سی زمین لے لی ہے اس لئے ہم سے بھی برداشت نہیں ہو سکتا اور ہم بھی ضرور گلی میں سے کچھ زمین چھینیں گے.حالانکہ چاہئے تو یہ تھا کہ اپنے مکان کی زمین میں سے تھوڑی سی زمین رستہ کی وسعت کے لئے چھوڑ دی جاتی مگر کیا یہ جاتا ہے کہ گلی کی زمین کو اپنی زمین میں شامل کر لیا جاتا ہے اور جب جھگڑا پیدا ہوتا ہے تو کہتے ہیں ذرا سی زمین تھی، ذراسی زمین لے لینے میں کیا حرج ہوا.یہ ویسی ہی بات ہے، جیسے راولپنڈی کی طرف ایک ملا کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا، اگر ذراسی ہوا خارج ہو جائے تو کیا وضوٹوٹ جاتا ہے؟ اس نے کہا ذراسی کیا اور زیادہ کیا ہوا خارج ہو گی تو وضو ٹوٹ جائے گا.مگر وہ اصرار کرے اور کہے کہ ذراسی ہوا خارج ہو جائے تو اس میں کیا حرج ہے.یہ لوگ بھی کہتے ہیں اگر راستہ میں سے ذراسی زمین لے لی جائے تو کیا ہوا.حالانکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے چاہئے یہ تھا کہ اگر راستہ کافی چوڑا نہ ہو تو راستے چوڑے رکھنے کے لئے خود اپنی زمین میں سے کچھ حصہ گلی میں خالی چھوڑا جاتا کیونکہ رستوں کا چوڑا ہونا نہایت ضروری ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ اپنے رہنے کے لئے مکان بنانے سے پہلے مردوں کا انتظام کرنا چاہئے.آپ فرماتے تھے کسی شخص نے مکان بنایا تو زینے اُس کے بہت چھوٹے رکھے.اتفاقاً اُن کے گھر میں ایک موت ہو گئی.جو شخص مرا وہ بہت ہی موٹا تھا اُسے چھت پر سے اُتارنے کے لئے بڑی جدو جہد کرنی پڑی اور لاش کی سخت بے حرمتی ہوئی تو آپ فرمایا کرتے تھے زندوں سے پہلے مُردوں کا خیال رکھو.پس ان باتوں کا خیال ہمیشہ قوم کے دماغی معیار کو بلند کرتا اور قوم میں قربانی کی روح پیدا کرتا ہے اور میں نصیحت کرتا ہوں کہ باہر کے لوگ بھی اور یہاں کے رہنے والے بھی اس بارے میں اپنا اچھا نمونہ پیش کریں.
خطابات شوری جلد دوم ۲۳۸ مشاورت ۱۹۳۷ء اس کے بعد میں یہ ذکر کرنا چاہتا شعبه صنعت و حرفت کے بارہ میں ہدایات ہوں کہ دارالصناعت والوں نے جہاں صنعت و حرفت کا کام ہوتا ہے ایک نمائش کا انتظام کیا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ میں اُن کے متعلق کچھ سفارش کر دوں.میری تقریر کے بعد غالباً اتنا وقت تو نہیں رہے گا کہ سب دوست نمائش دیکھ سکیں لیکن پھر بھی جو دوست یہاں رہیں انہیں ضرور کوشش کرنی چاہئے کہ وہاں جائیں اور جن چیزوں کی انہیں ضرورت ہو وہ خریدیں.یہ صنعت و حرفت کا کام دراصل بیتامی وغرباء کی پرورش کے لئے جاری کیا گیا ہے.ترکھانے کا کام تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت حد تک کامیاب ہوا ہے.لوہارا کام بھی ہو رہا ہے اور چمڑے کا کام بھی جاری ہے.دوستوں کو چاہئے کہ انہیں جس چیز کی ضرورت ہو وہ یہاں سے خرید لے جائیں اور کوشش کریں کہ ان چیزوں کی باہر ایجنسیاں گھل جائیں.اس کا زیادہ تر فائدہ قوم کے بیتامی کو ہی پہنچے گا اور جو زائد آمد ہوگی وہ تبلیغ اسلام کے کام آئے گی.اسی طرح تحریک جدید کے ماتحت دہلی میں ایک دواخانہ کھولا گیا ہے.ویدک یونانی دواخانہ “ اس کا نام ہے.دہلی سے لوگ عام طور پر دوائیں منگواتے رہتے ہیں.اگر اب دوست اس کارخانہ سے جو تحریک جدید کے ماتحت جاری کیا گیا ہے دوائیں منگوائیں گے تو چونکہ سلسلہ کی طرف سے بھی اس میں ایک حصہ رکھا گیا ہے، اس لئے اس کا بہت سا نفع قومی ضروریات پر ہی خرچ ہو گا.مجھے تحفہ کے طور پر اس دوا خانہ والوں کی طرف سے ماء اللحم دیا گیا ہے، میں نے اُسے چکھا تو وہ مجھے صحیح معلوم ہوا، کیونکہ ماء اللحم کا ذائقہ اور خوشبو اُس میں موجود تھے.اسی طرح اور بھی بہت سی ادویہ ہیں اور چونکہ سلسلہ کے اموال کا ایک حصہ اس پر خرچ ہوا ہے اس لئے ہم امید کرتے ہیں کہ اس دوا خانہ کے کارکن دیانتداری سے کام کریں گے اور کسی کو نقصان نہ ہونے دیں گے.ان کے علاوہ بعض اور کارخانے بھی ہمارے مدنظر ہیں.پھر سندھ میں ہماری جو زمینیں ہیں وہاں ایسے دوست جن کی زمین نہیں اگر کاشتکار بن کر چلے جائیں تو اُن کے لئے بھی کام کا موقع ہے.گو ہمارا اصول یہ ہے کہ ہم پنجابیوں کو ہی وہاں جمع نہیں کرتے بلکہ سندھ کے لوگوں کو بھی کام کرنے کا موقع دیتے ہیں لیکن پھر بھی ہمارے دوستوں کے لئے ابھی موقع ہے، اور جو جانا چاہیں وہ وہاں اچھا کام اپنے لئے مہیا کر سکتے ہیں.
خطابات شوری جلد دوم ۲۳۹ مشاورت ۱۹۳۷ء چندہ تحریک جدید کی اہمیت تحریک جدید کے مطالبات کے سلسلہ میں میں ایک دفعہ پھر دوستوں کو چندوں کی ادائیگی کی طرف توجہ دلاتا ہوں.دوستوں نے در حقیقت اس کام کی عظمت کو ابھی سمجھا ہی نہیں جو تحریک جدید کے ماتحت خدا تعالیٰ کے فضل سے جاری ہے.ان دو سالوں میں دُنیا کے دو براعظموں میں بڑے زور سے تبلیغ ہو رہی ہے اور اخراجات جو پہلے ہوا کرتے تھے اُن کا اب چوتھا یا پانچواں حصہ ہوتا ہے اور یہ بہت ہی معمولی خرچ ہے جس پر اس وقت کئی ممالک میں تبلیغ ہو رہی ہے.مثلاً اس وقت تک تحریک جدید کے ماتحت جاپان میں دو مبلغ ، چین میں تین مبلغ ، سماٹرا بور نیو وغیرہ میں مبلغ ، سٹریٹ سیٹلمنٹس میں چار مبلغ اور جنوبی امریکہ میں ایک مبلغ کام کر رہا ہے.اسی طرح سپین میں پہلے ہمارا ایک مبلغ کام کرتا رہا ہے مگر اب انہیں روم میں مقرر کیا گیا ہے.گویا دو ملکوں میں تبلیغ ہوئی ہے.پھر ہنگری میں اس وقت دو مبلغ کام کر رہے ہیں جن میں سے ایک اب انشاء اللہ پولینڈ چلے جائیں گے.اسی طرح ایک مبلغ یوگوسلاویہ میں ہے.گویا تحریک جدید کے ماتحت پندرہ مبلغ اس وقت مختلف ممالک میں کام کر رہے ہیں.جن میں سے بعض جگہ تو ایسی کامیابیوں کی بنیاد پڑ گئی ہے کہ جنہیں دیکھتے ہوئے خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت خوش کن نتائج نکلنے کی توقع ہے.چنانچہ ہنگری میں بہت بڑی کامیابی ہوئی ہے.اسی طرح روم میں بھی جس طرز پر بنیاد پڑ رہی ہے وہ امید ہے بہت مفید ثابت ہوگی.البانیہ اور یوگوسلاویہ میں چھ سات شخص احمدی ہو چکے ہیں اور ہنگری میں ایک سو ہیں افراد احمدیت میں شامل ہیں.پین میں بھی کچھ جماعت قائم ہو چکی ہے اور سٹریٹ سیٹلمنٹس میں بھی.لیکن ابھی تک چین اور جاپان میں ہماری جماعت قائم نہیں ہوئی اور یہ ضرور قابل تعجب امر ہے مگر اس کی وجہ غالبا یہ ہے کہ وہاں کی زبان بالکل مختلف ہے، اور اُس کے سیکھنے میں بھی ایک کافی عرصہ درکار ہوتا ہے.بہر حال ان دو ممالک کو اگر نکال دیا جائے تو باقی ممالک میں اچھے نتائج پیدا ہو رہے یا اچھے نتائج نکلنے کے سامان ہو رہے ہیں اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلد ہی پندرہ سولہ نئے ممالک میں احمدیت قائم ہو جائے گی اور نے مشن تحریک جدید کے ماتحت کھولے جائیں گے.تمام ممالک میں سے ہنگری میں سب سے زیادہ ترقی کے آثار ہیں حالانکہ ابھی ہمارا مشن قائم ہوئے وہاں ایک سال ہی ہوا
خطابات شوری جلد دوم ۲۴۰ مشاورت ۱۹۳۷ء ہے.وہاں کے اخباروں میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے متعلق نہایت اچھے مضامین شائع ہوتے ہیں اور وہاں کی اطلاع ہے کہ تو رائی بحیثیت جماعت ہمارے مرکز میں آتے اور سلسلہ کے متعلق معلومات حاصل کرتے ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ ان کی جماعت کی جماعت جلد ہی احمدیت میں شامل ہو جائے گی.غرض تحریک جدید کے ماتحت تبلیغ احمدیت کے نہایت شاندار نتائج نکل رہے ہیں.ہندوستان میں بھی ایک حد تک تبلیغ ہو رہی ہے لیکن چندوں کی ادائیگی کی رفتار بہت شست ہے.میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ تحریک جدید کا چندہ طوعی ہے جبری نہیں اور جب یہ طوعی ہے اور اس کا وعدہ کرنا ہر شخص کی اپنی مرضی پر منحصر ہے تو اپنی خوشی سے کئے ہوئے وعدہ کے پورا کرنے میں بھی اگر شستی پائی جائے تو کس قدر قابلِ افسوس ہے.پہلے سال تحریک جدید کے چندہ کے متعلق ایک لاکھ دس ہزار کا وعدہ کیا گیا اور ۹۸ ہزار وصول ہوا.گویا بارہ ہزار بقایا رہ گیا.دوسرے سال ایک لاکھ سترہ ہزار کا وعدہ کیا گیا اور ایک لاکھ چھ ہزار وصول ہوا.اس طرح دوسرے سال بھی گیارہ ہزار کا بقایا ہو گیا.اب تیسرے سال کے لئے گو ایک لاکھ چوالیس ہزار کے وعدے ہو چکے ہیں اور ابھی اور وعدوں کی توقع ہے لیکن اس وقت تک وصولی بہت کم ہوئی ہے.میرے اندازہ میں اس وقت تک باون ہزار سے اوپر آچکنا چاہئے تھا مگر وصول صرف ۳۱ ہزار ہوا ہے.میں نے بار ہا توجہ دلائی ہے کہ تحریک جدید کا چندہ جلد سے جلد ادا کرنا چاہئے اور ابتدائی مہینوں میں ہی ادا کر دینا چاہئے.مگر دوست اس کی ادائیگی میں پھر بھی غفلت سے کام لیتے ہیں.اب میں نے اخبار میں ایک نوٹ لکھ کر جماعتوں کو پھر توجہ دلائی تو میں دیکھتا ہوں اس کا اثر ہو رہا ہے اور اب چندہ کی ادائیگی کی رفتار بڑھ رہی ہے مگر اتنی نہیں جس سے امید کی جا سکے کہ سال بھر میں تمام چندہ پورا ہو جائے گا حالانکہ اکثر دوستوں کے یہ وعدے تھے کہ وہ جون تک تمام رقم ادا کر دیں گے.اگر طوعی اور اپنی مرضی کے چندوں میں بھی دوست اس قسم کی سستی دکھائیں تو جبری چندوں میں اُن کا تساہل کہاں تک پہنچ سکتا ہے.پس میں دوستوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ان چندوں کی ادائیگی کی طرف خود بھی توجہ کریں اور اپنی اپنی جماعتوں میں جا کر دوسرے لوگوں کو بھی توجہ دلائیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے، جماعت میں اب آہستہ آہستہ تحریک ہو
خطابات شوری جلد دوم ۲۴۱ مشاورت ۱۹۳۷ء رہی ہے اور چندہ کی ادائیگی کی رفتار میں سُرعت پیدا ہو گئی ہے لیکن پھر بھی اس امر کی ضرورت ہے کہ جماعتوں کو بار بار توجہ دلائی جائے.میں نے پچھلے سال یہ کہہ دیا تھا کہ جو شخص میعاد مقررہ میں چندہ نہیں دے گا بعد میں اُس کی طرف سے چندہ قبول نہیں کیا جائے گا.لیکن اب تازہ اعلان میں یہ کرتا ہوں کہ جس نے گزشتہ کسی سال کا چندہ ادا نہیں کیا وہ ہم سے اس کی معافی لے لے یا وہ چندہ ادا کرے تا خدا تعالیٰ کے نزدیک گناہ گار نہ ہو.اس لحاظ سے پہلے سالوں کا وہ روپیہ جو ۲۳ ہزار کے قریب ہے وہ بھی اس قابل ہے کہ دوست ادا کریں یا اس کے متعلق مجھ سے معافی لے لیں.اگر تم وہ چندہ ادا نہیں کر سکتے تو تم ہمیں لکھ دو کہ ہمارے حالات اب ایسے ہو گئے ہیں کہ ہمارے لئے چندہ ادا کرنا مشکل ہے ہم تمہیں فراخدلی سے معاف کر دیں گے اور اگر چندہ ادا کر سکتے ہو تو ادا کرو.بہر حال دونوں راستے تمہارے لئے کھلے ہیں.اگر اس کے با وجود کوئی شخص محض عزت نفس کے لئے معافی طلب نہیں کرتا اور نہ چندہ ادا کرتا ہے تو گویا وہ خدا تعالیٰ کا گناہ گار ہونا تو پسند کرتا ہے لیکن یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ لوگ اُس کی طرف اُنگلی اُٹھا ئیں.حالانکہ جب میں کسی کو معاف کر دوں تو دوسروں کا اُنگلی اُٹھانا یا کسی کو مطعون کرنا محض ظلم ہے.میں جب کسی کو خوشی سے معاف کر دوں تو دوسرے کا کوئی حق نہیں کہ وہ پھر بھی دوسرے پر اعتراض رکھے.پس میں دوستوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ یہ نہایت ہی اہم کام ہے، ایک عظیم الشان سکیم ہے جو میرے مدنظر ہے.اگر ان مطالبات میں ہی احباب سستی دکھانے لگے تو دوسرے مطالبات کس طرح پیش کئے جا سکتے ہیں.امانت فنڈ اسی طرح امانت فنڈ کی طرف میں نے توجہ دلائی تھی، اُس میں بھی اب نستی ہو رہی ہے اور دوستوں کو چاہئے کہ اسے دور کریں.سادہ زندگی اور ایک کھانا کھانے کے متعلق جو میری تحریک ہے اُس پر البتہ جماعت کا بیشتر حصہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے عمل کر رہا ہے گو کچھ نہ کچھ کمزور لوگ ہر جماعت میں موجود ہوتے ہیں.اسی طرح عورتوں میں ابھی یہ مرض پایا جاتا ہے گو پہلے سے بہت کم ہے.ایک دوست ایک دفعہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ میں نے سُنا ہے آپ کی بیوی کے پاس پانچ پانچ سو روپے کا ایک ایک جوڑا ہے.میں نے کہا اگر چاہو تو ابھی تلاشی لے لو ، تمہیں معلوم ہو جائے
خطابات شوری جلد دوم ۲۴۲ مشاورت ۱۹۳۷ء گا کہ یہ بات کس حد تک صحیح ہے.تو ایسے کمزور لوگ جو بہانے بنا بنا کر اپنے آپ کو اس تحریک کے مطالبات سے آزاد کرنا چاہتے ہیں ان کو چھوڑ کر باقی جماعت نے اچھا نمونہ دکھایا ہے.چندے کے وعدے بھی اچھے کئے ہیں اور ادا بھی بہت حد تک کیا ہے.امانت فنڈ میں بھی کافی حصہ لیا ہے گو اتنا نہیں جتنی میری خواہش تھی.سادہ زندگی کی طرف بھی توجہ کی ہے.قادیان میں مکانات بنانے کے متعلق بھی جماعت میں ایک بیداری پائی جاتی ہے گواتنی نہ ہو جتنی اس وقت ضرورت ہے.قادیان میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے اپنے بچے بھیجنے کے مطالبہ میں بھی لوگوں نے حصہ لیا ہے.بیرونی ممالک میں نکل جانے کے متعلق بھی جماعت نے اچھا نمونہ دکھایا ہے.غرض اُنہیں مطالبات میں سے سات آٹھ مطالبے ایسے ہیں جن کو جماعت نے عمدگی سے پورا کیا ہے.باقی تمام مطالبات ایسے ہیں جن کی طرف جماعت کو ابھی توجہ کی بہت زیادہ ضرورت ہے.خصوصاً بریکاری دُور کرنے اور اپنے ہاتھوں سے کام کرنے کے متعلق جو میری نصیحت تھی اس کے مطابق صرف ایک فیصدی کام ہوا ہے اور ننانوے فیصدی کام باقی ہے.ایک قربانی دوسری قربانی کا زینہ ہیں ان امور کی طرف میں جماعت کو پھر توجہ پس دلاتا ہوں اور انہیں بتا تا ہوں کہ ہر قربانی دوسری قربانی کے لئے ایک زینہ کے طور پر ہوتی ہے.اگر کوئی شخص ایک زینہ پر قدم نہیں رکھتا تو اس سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ دوسرے زینے پر چڑھ سکے.اسی طرح اگر کسی شخص نے ان مطالبات کو پورا کرنے میں حصہ نہیں لیا تو اس سے یہ امید کس طرح کی جاسکتی ہے کہ وہ انگلی سکیموں پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو گا.کسی کو کیا پتہ کہ اگلی سکیم کیسی ہو اور اس کے لئے کتنی بڑی قربانیوں اور ایثار کی ضرورت ہو لیکن اگر آپ یہ چھوٹی چھوٹی قربانیاں کریں گے اور شوق سے ان میں حصہ لیں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کو ان سے بڑی بڑی قربانیوں کی توفیق عطا فرماوے گا.پس اس طرف میں دوستوں کو خصوصیت سے توجہ دلاتا ہوں.جو دوست یہاں بیٹھے ہیں وہ توجہ کریں لیکن یاد رکھیں کہ میرا یہ حکم نہیں کہ واجبی چندوں کو نظر انداز کر کے اس میں حصہ لو بلکہ میں نے جو کچھ کہا ہے وہ یہ ہے کہ صدر انجمن احمدیہ کے مستقل چندے مقدم ہیں.ہاں اُن کے علاوہ اگر اپنی خوشی سے تم اس تحریک میں شامل ہونا چاہتے ہو تو
خطابات شوری جلد دوم ۲۴۳ مشاورت ۱۹۳۷ء ہو جاؤ.اسی طرح تحریک جدید کے بقالوں کے متعلق بھی لوگوں کو جا کر کہو اور انہیں مجبور کرو کہ یا تو وہ اپنے بقائے ادا کریں اور اگر بقائے ادا کرنے سے معذور ہیں تو پھر معافی مانگ لیں.میں فراخدلی سے اُنہیں معاف کرنے کے لئے تیار ہوں.اس کے بعد اصولی طور پر اُن آیات کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو میں نے اس وقت تلاوت کی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سبح لله ما في السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ.کہ اے انسان! تیرے سوا جتنی بھی مخلوق ہے وہ بلا استثناء تسبیح الہی کر رہی اور اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی ثابت کر رہی ہیں صرف ایک تیرا وجود ہی ہے جو استثناء رکھتا ہے، باقی سب اپنے اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں.یہاں تک کہ شیطان بھی اور فرشتے بھی اور نیچر بھی.غرض زمین و آسمان کی کوئی چیز ایسی نہیں جو تسبیح نہ کر رہی ہو.وَهُوَا لْعَزِيزُ الْحَكِيمُ اور خدا غالب حکمت والا ہے.یعنی دنیا ثبوت دے رہی ہے اس بات کا کہ خدا غالب ہے اور دنیا ثبوت دے رہی ہے اس بات کا کہ خدا حکمت والا ہے.پھر فرماتا ہے يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لا تَفْعَلُونَ - كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللهِ آن تَقُولُوا مَا لا تَفْعَلُونَ.اب چونکہ صرف ایک انسان ہی ایسا رہ گیا تھا جس کے متعلق یہ سوال ہو سکتا تھا کہ وہ تسبیح کرتا ہے یا نہیں اس لئے فرماتا ہے تم جانے دو کافروں کو کہ وہ تسبیح الہی نہیں کرتے.اُن سے اگر کہا بھی جائے گا تو وہ کہیں گے ہم خدا کو کب مانتے ہیں کہ اُس کی تسبیح کریں.پس جب انسانوں میں سے بھی کا فرمستثنی ہو گئے تو تسبیح کرنے والے صرف مؤمن رہ گئے اور مومنوں کے متعلق اللہ تعالی فرماتا ہے کہ لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ.میرے جلال اور میری بڑائی کو دُنیا میں ظاہر کرنے کا صرف تم ہی ایک ذریعہ رہ گئے تھے مگر حالت یہ ہے کہ تم میں سے بھی ایک حصہ کہتا کچھ ہے اور کرتا کچھ.اس صورت میں تو میری تسبیح انسانوں میں اور بھی محدود ہو گئی.انسانوں کے ہوا تو زمین و آسمان میں جس قدر چیزیں ہیں وہ جب سے کہ دُنیا پیدا ہوئی تسبیح کر رہی ہیں اور انسانوں میں سے کفار یوں مستقی ہو گئے کہ وہ کہہ دیتے ہیں ہم اللہ تعالیٰ کے وجود اور اُس کی قدرتوں کو تسلیم ہی نہیں کرتے اس لئے فرماتا ہے اے مومنو! کم سے کم تم جو تھوڑے سے رہ گئے تھے تمہارا فرض تھا کہ تم اپنے عمل سے بتا دیتے کہ انسان بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح کر رہا ہے لیکن اگر تم میں سے بھی
۲۴۴ مشاورت ۱۹۳۷ء خطابات شوری جلد دوم ایک حصہ ایسا ہو جو تسبیح نہ کرتا ہو اور دعوے تو بہت بڑے کرتا ہو لیکن عملی قربانیوں میں سُست ہو تو بتاؤ تسبیح الہی کا نظارہ دُنیا کے انسانوں میں سے کون دکھائے گا.پس إِلَّا مَا شَاءَ الله اگر کوئی کمزور ہو تو اُس کو چھوڑ کر تمہاری اکثریت ایسی ہونی چاہئے کہ اُس کے منہ سے جو الفاظ نکل جائیں وہ اٹل ہوں اور جو اقرار وہ کرے اسے ہر قربانی کر کے پورا کرنے والی ہو.بہ پر اسلامی تعلیم کے اثرات صحابہ پر دیکھواس تعلیم کا کتا اثر ہوا.انہوں نے یہاں تک اپنے وعدوں کو پورا کیا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اُن کی تعریف کرتا اور فرماتا ہے.مِنْهُمْ مِّن قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مِّن ينتظر ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت نے ہماری اس نصیحت کوسُن کر ایسا عمل کیا ایسا عمل کیا کہ اُن میں سے بعض نے تو اپنے فرائض ادا کر دیئے اور بعض اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لئے پوری مستعدی سے تیار بیٹھے ہیں.حدیثوں میں آتا ہے کہ یہ آیت خصوصیت سے ایک صحابی پر چسپاں ہوتی ہے اور اسی صحابی کا واقعہ اس آیت کا شانِ نزول ہے.دراصل شانِ نزول کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ اس واقعہ کی وجہ سے آیت نازل ہوئی بلکہ اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ اس آیت کی زندہ مثال فلاں صحابی میں پائی جاتی ہے.تو صحابہ اس آیت کے زندہ ثبوت کے طور پر ایک صحابی کا واقعہ پیش کیا کرتے تھے.بدر کی جب جنگ ہوئی تو وہ صحابی اس میں شامل نہ ہو سکے.جب جنگ ہو چکی اور انہیں معلوم ہوا کہ اس طرح کفار سے ایک عظیم الشان لڑائی ہوئی ہے، تو انہیں اپنے شامل نہ ہونے کا بہت ہی افسوس ہوا اور اِس کا اُن کی طبیعت پر ایسا اثر ہوا کہ اس کے بعد جب کسی مجلس میں بدر کی جنگ کا ذکر آتا اور وہ سنتے کہ فلاں نے یوں بہادری دکھائی اور فلاں نے اس طرح کام کیا تو وہ سنتے سنتے کہہ اُٹھتے ، اچھا کیا ، اچھا کیا لیکن اگر میں ہوتا تو بتاتا کہ کس طرح لڑا کرتے ہیں.لوگ سُن کر ہنس دیتے کہ اب اس قسم کی باتوں کا کیا فائدہ.مگر اُن کا جو جوش تھا وہ سچ سچ کا جوش تھا، کسی عارضی جذبہ کے ماتحت نہیں تھا بلکہ عشق و محبت کی وجہ سے وہ کُھلے جا رہے تھے اور انہیں یہ غم کھائے جارہا تھا کہ کاش! انہیں بھی خدا کی راہ میں اپنی جان قربان کرنے کا موقع ملے.آخر خدا تعالیٰ نے اُحد کی جنگ کا موقع پیدا کر دیا.اس جنگ میں جب مسلمانوں نے کفار کے لشکر کو شکست دے دی اور ان کی فوجیں پراگندہ ہو گئیں تو ایک درہ تھا
خطابات شوری جلد دوم ۲۴۵ مشاورت ۱۹۳۷ء جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دس آدمی چُن کر کھڑے کئے تھے اور حکم دیا تھا کہ خواہ جنگ کی کوئی حالت ہو تم نے اس درّہ کو نہیں چھوڑنا.جب کفار کا لشکر منتشر ہو گیا تو ا انہوں نے غلطی سے اجتہاد کیا کہ اب ہمارے یہاں ٹھہرے رہنے کا کیا فائدہ ہے ہم بھی چلیں اور غنیمت کا مال حاصل کریں.چنانچہ اُن میں سے سات آدمی دڑہ چھوڑ کر چلے آئے اور صرف تین پیچھے رہ گئے.اُن کے سردار نے اُنہیں کہا بھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم ہے کہ ہم یہ درہ چھوڑ کر نہ جائیں مگر اُنہوں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ مطلب تو نہ تھا کہ فتح ہو جائے تب بھی یہیں کھڑے رہو.آپ کے ارشاد کا تو یہ مطلب تھا کہ جب تک جنگ ہوتی رہے درہ نہ چھوڑو.اب چونکہ فتح ہو چکی ہے اس لئے یہاں ٹھہرنے کا کوئی فائدہ نہیں.حضرت خالد بن ولید جو اُس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے نوجوان تھے اور اُن کی نگاہ بہت تیز تھی وہ جب اپنے لشکر سمیت بھاگے چلے جا رہے تھے تو اتفاقاً اُنہوں نے پیچھے کی طرف نظر جو ڈالی تو دیکھا کہ درہ خالی ہے اور مسلمان فتح کے بعد مطمئن ہو گئے ہیں.یہ دیکھتے ہی اُنہوں نے لشکر میں سے چند آدمی منتخب کئے اور اُس درّہ کی طرف سے چڑھ کر یکدم مسلمانوں کی پشت پر حملہ کر دیا.مسلمانوں کے لئے یہ حملہ چونکہ بالکل غیر متوقع تھا اس لئے اُن پر سخت گھبراہٹ طاری ہوگئی اور بوجہ پکھرے ہوئے ہونے کے دشمن کا مقابلہ نہ کر سکے اور میدان پر کفار نے قبضہ کر لیا.یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گر دصرف ۱۲ صحابہ رہ گئے.جن میں حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عثمان ، حضرت علی، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر بھی تھے اور ایک وقت تو ایسا آیا کہ ۱۲ بھی نہیں صرف چند آدمی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارد گر درہ گئے اور کفار نے خاص طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تیر اندازی شروع کر دی.صحابہ نے اُس وقت سمجھا کہ اب ہماری خاص قربانی کی ضرورت ہے.چنانچہ حضرت زبیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیٹھ کی طرف کھڑے ہو گئے تا اُس طرف سے کوئی تیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آ کر نہ لگے اور حضرت طلحہ آپ کے سامنے کھڑے ہو گئے اور اُنہوں نے اُس جگہ جہاں سے تیر گزر کر آتے تھے اپنا ہاتھ رکھ دیا تا کہ تیر اُن کے ہاتھ پر لگیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم تک کوئی تیر نہ پہنچ سکے.اسی طرح اور صحابی بھی و
۲۴۶ مشاورت ۱۹۳۷ء خطابات شوری جلد دوم ار در گرد کھڑے ہو گئے.چونکہ اُس وقت تیروں کی سخت بوچھاڑ ہو رہی تھی اس لئے جس قدر صحابہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارد گرد کھڑے تھے، وہ گردن سے لیکر زانو ؤں تک تیروں سے زخمی ہو گئے اور ایک انچ جگہ بھی ایسی نہ رہی جہاں اُنہیں تیر نہ لگا ہو اور حضرت طلحہ کا ہاتھ تو تیر لگتے لگتے بالکل شل ہو گیا اور ساری عمر کے لئے ناکارہ ہو گیا.بعد میں وہ ایک جگہ کسی مجلس میں بیٹھے تھے کہ ایک منافق نے اُن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اس ٹھنڈے کی یہ بات ہے.حضرت طلحہ نے یہ سُن کر کہا تمہیں پتہ ہے میں کس طرح ٹھنڈا ہوا ؟ پھر اُنہوں نے اُحد کی جنگ کا قصہ سُنایا اور بتایا کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آگے اپنا ہاتھ پھیلائے کھڑا رہا اور جو تیر بھی آیا وہ میں نے اپنے ہاتھ پر لیا یہاں تک کہ تیروں کی بوچھاڑ نے اسے شل کر دیا.کسی نے کہا آپ اُس وقت درد سے کراہتے نہ تھے؟ وہ کہنے لگے میں درد سے کس طرح کراہ سکتا تھا اگر کراہتا تو میرا جسم ہل جاتا اور تیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لگ جاتا.جب دشمنوں کی تیراندازی بھی رائیگاں گئی تو اُنہوں نے یکدم ریلہ کر دیا اور وہ ۱۲ آدمی بھی دھکیلے گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم زخمی ہو کر ایک گڑھے میں گر گئے.آپ پر بعض اور صحابہ جو آپ کی حفاظت کر رہے تھے شہید ہو کر گر گئے اور اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھوڑی دیر کے لئے نگاہوں سے اوجھل ہو گئے اور لشکر میں یہ افواہ پھیل گئی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہید ہو گئے ہیں.یہ سُن کر بعض کمزور تو مدینہ کو واپس چلے گئے کہ وہاں کے لوگوں کو اطلاع دیں اور باقی صحابہ میدانِ جنگ میں گھبرائے گھبرائے پھرنے لگ گئے.حضرت عمرؓ پر اس خبر کا یہ اثر ہوا کہ آپ ایک چٹان پر بیٹھ کر رونے لگ گئے.اُس وقت بعض صحابہ ایسے بھی تھے جنھیں اس امر کی اطلاع نہ تھی کیونکہ وہ فتح کے بعد ایک طرف ہو گئے تھے اور انہیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ کفار نے دوبارہ حملہ کر دیا ہے.انہی میں وہ صحابی بھی تھے جو ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ اگر میں جنگ بدر میں شامل ہوتا تو یوں کرتا اور یوں کرتا.اُنہیں اُس وقت بھوک لگی ہوئی تھی اور وہ ٹہلتے ٹہلتے کھجور میں کھا رہے تھے.چلتے چلتے وہ حضرت عمر کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں.گھبرا کر پوچھا کہ عمر یہ رونے کا کونسا مقام ہے؟ اسلام کو فتح حاصل ہوئی ہے اور آپ رو ر ہے ہیں حضرت عمر نے کہا تم کو پتہ نہیں
خطابات شوری جلد دوم ۲۴۷ مشاورت ۱۹۳۷ء دشمنوں نے دوبارہ حملہ کیا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہید ہو گئے ہیں.اُنہوں نے جب یہ سُنا تو کہنے لگے عمر! تمہاری عقل بھی خوب ہے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہید ہو گئے ہیں تو پھر ہمارے اِس دُنیا میں رہنے کا کیا فائدہ ہے؟ یہ کہہ کر اُنہوں نے کھجور کی طرف دیکھا اور کہا میرے اور جنت میں کیا چیز حائل ہے صرف یہ کھجور؟ یہ کہتے ہوئے اُنہوں نے کھجور کو زمین پر پھینک دیا اور کہا عمرا رو کیوں رہے ہو؟ جہاں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم موجود ہیں وہاں ہم بھی جائیں گے.چنانچہ تلوار لے کر دشمنوں پر ٹوٹ پڑے اور اس قدر جوش سے لڑے کہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر شہید ہو گئے.بعد میں صحابہ نے اُن کی نعش کو دیکھا تو اُن کے جسم پر ستر زخم تھے.تو صحابہ یہ مثال پیش کیا کرتے تھے مِنْهُم مِّن قَضَى نَحْبَه کی کہ بعضوں نے اپنے فرائض کو جو ان پر خدا تعالیٰ کی طرف سے عائد ہوتے تھے ادا کر دیا اور بعض یقین اور صدق سے بیٹھے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ اُن کا وجود بھی اسلام کی خدمت کے لئے کام آئے گا یہ گواہی ہے جو صحابہ کے متعلق خدا تعالیٰ نے دی.اس کو اپنے سامنے رکھو اور پھر غور کرو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللهِ آن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ - خدا تعالیٰ کے حضور یہ سخت ناپسندیدگی کی بات ہے کہ تم کہتے ہو مگر کرتے نہیں.فرماتا ہے بعض چیزیں جبری ہوتی ہیں اور بعض طوعی.جبری تو بہر حال پوری کرنی پڑیں گی اور جو طوعی ہوں اُن کے متعلق ہم یہ کہتے ہیں کہ یا تو وہ وعدہ ہی نہ کیا کرو اور اگر وعدہ کرو تو پھر اُسے پورا کرو، چاہے تمہیں کس قدرقربانی کرنی پڑے.ہندوؤں میں ایک قصہ مشہور ہے وہ ہے تو قصہ مگر ہم اس سے بہت کچھ سبق حاصل کر سکتے ہیں.کہتے ہیں کہ کوئی راجہ تھا جس کے ہاں اولاد نہیں ہوتی تھی.ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ تین خدا ہیں.برہما ، وشنو اور شوجی.برہما پیدا کرتا ہے، وشنو رزق دیتا ہے اور شو جی مارتا ہے.اس تقسیم کی وجہ سے ہندوؤں میں برہما کی پوجا نہیں کی جاتی.کیونکہ وہ سمجھتے ہیں پیدا تو ہم ہو ہی گئے ہیں اب ہمیں روٹی کی ضرورت ہے اور اس بات کی ضرورت ہے کہ زندہ رہیں.پس وہ وشنو اور شوجی کی پوجا کرتے ہیں، برہما کی نہیں کرتے لیکن اُس را جا کے ہاں چونکہ اولاد نہیں ہوتی تھی اور اولاد دینا برہما کا کام تھا اس لئے اُس نے برہما کی پرستش
خطابات شوری جلد دوم ۲۴۸ مشاورت ۱۹۳۷ء شروع کر دی.آخر اُس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا.جب وہ گیارہ سال کا ہوا اور عقل اُس کی پختہ ہونی شروع ہوئی تو اس نے اپنے باپ سے کہا کہ آپ برہما کی کیوں پرستش نہیں کرتے اور اُس کے احسان کے بدلہ میں بیوفائی کیوں دکھاتے ہیں؟ باپ نے کہا اب برہما نے ہمارا کیا کر لینا ہے، اب تو ہم شوجی کی پوجا کریں گے تا وہ تم کو زندہ رکھیں.بیٹے نے کہا میں تو برہما کی پرستش کروں گا اُسی نے مجھے پیدا کیا ہے اور اُسی کے احسان کا میں شکر ادا کروں گا.اس پر باپ بیٹے میں اختلاف ہو گیا اور یہ اختلاف اتنا بڑھا کہ باپ نے غصہ میں آکر دعا کی کہ شوجی میرے بیٹے کو مارڈالو، یہ بڑا نا خلف اور نالائق ہے.چنانچہ شوجی نے اُسے مار دیا.برہما کو جب یہ معلوم ہوا تو وہ کہنے لگے ہیں! میری پرستش کرنے کی وجہ سے یہ لڑکا مارا گیا ہے میں اسے زندہ کروں گا چنانچہ اُنہوں نے اُسے زندہ کر دیا.شوجی نے اُسے پھر مار دیا.برہما کو پھر جوش آیا اور اُنہوں نے اُسے پھر زندہ کر دیا.غرض ایک لمبے عرصہ تک بر ہما زندہ کرتے اور شوجی مار دیتے.شوجی مارتے اور برہما زندہ کرتے.یہ ہے تو قصہ اور قصہ کے لحاظ سے لغو بھی مگر سبق سے خالی نہیں.اس میں یہ سبق ہے کہ جب خدا تعالیٰ کے لئے کوئی شخص اپنی جان دیتا ہے تو کون ہے جو اُسے مار سکے.وہی تو پیدا کرنے والا ہے اور جب وہی پیدا کرنے والا ہے تو اُس پر موت آ کس طرح سکتی ہے.پس اس قصہ میں کم از کم یہ سبق ضرور ہے کہ اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ کے لئے مرتا ہے تو وہ مرتا نہیں.دیکھ لو حضرت اسماعیل علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قربان کیا مگر کیا وہ قربانی رائیگاں گئی اور کیا حضرت اسماعیل علیہ السلام ہمیشہ کے لئے زندہ نہ ہو گئے ؟ پس اگر کوئی اپنی مرضی سے کوئی چندہ لکھا تا اور کسی قربانی کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتا ہے تو اُس کا فرض ہے کہ اپنے عہد کو نبھائے خواہ کس قدر ہی تکلیف ہو اور یقین رکھے کہ خدا تعالیٰ کے لئے موت قبول کر کے انسان موت کا شکار نہیں ہوتا بلکہ موت سے محفوظ ہو جاتا ہے.اور جس کی نیت وعدہ پورا کرنے کی نہ ہو وہ وعدہ کرے ہی نہ کیونکہ كَبُرَ مَقْتًا عند الله أن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم اس بات سے سخت ناراض ہوتے ہیں کہ تم خوشی سے ایک عہد کرو اور پھر عملی رنگ میں اُسے پورا نہ کرو.
خطابات شوری جلد دوم ۲۴۹ مشاورت ۱۹۳۷ء اس کے بعد فرماتا ہے.اِنَّ اللهَ يُحِبُّ الَّذِينَ مومن کا کام دوسروں کو مضبوط بنانا يُقَاتِلُونَ في سَبِيلِهِ صَفًّا عَانَّهُمْ بُنْيَانَ مرْصُوص.اللہ تعالیٰ یقیناً اُن لوگوں کو پسند فرماتا ہے جو اس کی راہ میں یوں جنگ کرتے ہیں گویا وہ ایسی دیواریں ہیں جن کے رخنے سیسہ ڈال ڈال کر پُر کئے گئے ہیں.اس میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ مومن کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ متحد ہو کر رہے.چنانچہ دیکھ لو نمازوں کے وقت بھی صفیں سیدھی رکھی جاتی ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر تم صفیں ٹیڑھی کرو گے تو تمہارے دل ٹیڑھے ہو جائیں گے " اس کے معنے یہی ہیں کہ جس طرح باطنی رخنے خرابی کا موجب ہوتے ہیں، اسی طرح ظاہری رخنے بھی خرابی کا موجب ہوتے ہیں.گویا نماز کی ظاہری صف کے ٹیڑھے ہونے کو بھی اسلام پسند نہیں فرماتا کجا یہ کہ دلوں میں رخنے ہوں اور اتحاد کی بجائے بعض اور عِنا د بھرا ہوا ہو.پھر دیوار کی مثال دے کر اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف بھی اشارہ کر دیا کہ مومن کا کام یہ ہے کہ نہ صرف دینی امور میں وہ خود مضبوط ہو بلکہ دوسروں کو بھی مضبوط رکھے.جیسے اینٹیں جب دیوار پر لگائی جاتی ہیں اور اُن پر سیمنٹ کا پلستر کر دیا جاتا ہے تو وہ مل کر ایک دوسری کو مضبوط بنا دیتی ہیں.پس مومن کا کام صرف یہی نہیں کہ خود مضبوط بنے بلکہ اس کا کام یہ ہے کہ دوسروں کو بھی مضبوط بنائے.واذ قال موسى لِقَوْمِهِ يُقَوْمِ لِمَ تُؤْذُونَني وَقَدْ تَعْلَمُونَ انّي رَسُولُ الله إليكم جب موسی نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم! تم مجھے کیوں دکھ دیتے ہو.یہاں خدا تعالیٰ نے اگر چہ یہ نہیں بتایا کہ اُنہوں نے کیا دُکھ دیا لیکن سیاق کلام سے صاف پتہ لگتا ہے کہ اس کا اشارہ اسی امر کی طرف ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں بھی بعض لوگ ایسے تھے جو باتیں بہت کرتے تھے مگر کام نہیں کرتے تھے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں بھی اُس کی قوم کے بعض افراد نے ایسی حرکات کیں جن سے اُسے تکلیف ہوئی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ کہنا پڑا کہ جب میں کہتا ہوں کہ میری فلاں تحریک میں شامل ہونا تمہاری اپنی مرضی پر منحصر ہے تو تم پہلے تو کہہ دیتے ہو کہ ہم بھی اس میں شامل ہوں گے لیکن درمیان میں آکر رخنہ ڈال دیتے ہو اور اپنے وعدے کو
خطابات شوری جلد دوم ۲۵۰ مشاورت ۱۹۳۷ء پورا نہیں کرتے.اب تم خود ہی بتاؤ کہ تم مجھے کیوں تکلیف دیتے اور میری جاری کردہ سکیموں کو تباہ کرتے ہو.لم تُؤذونني.تم کیوں مجھے تکلیف دیتے ہو جبکہ تمہارے اختیار میں تھا کہ تم میری جاری کردہ تحریک میں شامل ہوتے یا نہ ہوتے.پھر جب کہ تم نے اپنی خوشی سے اس میں شامل ہونا پسند کیا وقد تَعْلَمُونَ انّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ اور تمہیں یہ بھی پتہ ہے کہ میں خدا تعالیٰ کا رسول ہوں تو پھر اپنے اقرار کو کیوں پورا نہیں کرتے.گویا تم نے کسی بُرے کام کے متعلق وعدہ نہیں کیا بلکہ اس انسان کے ہاتھ پر وعدہ کیا ہے جس کی رسالت پر تمہارا یقین ہے.ان حالات میں تمہارا فرض تھا کہ تم اس عہد کو پورا کرتے مگر تم نے اپنے عہد کو پورا نہ کر کے مجھے بہت دُکھ دیا ہے.وعدہ وہ ہے جو نیکی پر مبنی ہو مینا اس آیت سے یہ بات ضمناً اس آیت سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ وہی اقرار انسان پورا کرنے پر مجبور ہوتا ہے جو نیکی کا اقرار ہو اور جس میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی ہو.بدی کے متعلق اقرار کوئی اقرار نہیں ہوتا.حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ میں نے ایک شخص کو نصیحت کی کہ فلاں عورت سے تم نے ناجائز تعلق رکھا ہوا ہے یہ سخت گناہ کی بات ہے اسے چھوڑ دو.تو وہ کہنے لگا مولوی صاحب! وہ عورت ہو کر اپنے اقرار پر قائم ہے تو کیا میں مرد ہو کر بے ایمان ہو جاؤں اور اس کو چھوڑ دوں؟ گویا اس کے نزدیک کسی غیر عورت کو اپنے گھر میں ڈال لینا اور آپس کے اقرار کو پورا کرنا یہ ایمان تھا حالانکہ شرارت کا وعدہ کوئی وعدہ نہیں ہوتا.وعدہ وہ ہے جو نیکی پر مبنی ہو.حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی اسی امر کی طرف اپنی قوم کو توجہ دلاتے اور فرماتے ہیں تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے غلطی سے وعدہ کر دیا تھا اب ہمیں سمجھ آیا کہ یہ وعدہ نا جائز تھا کیونکہ اگر کسی غیر سے وعدہ ہوتا تو تم کہہ سکتے تھے کہ ہمیں بعد میں غور کر کے معلوم ہوا کہ ہمارا وعدہ درست نہیں لیکن تم تو میرے متعلق یہ یقین رکھتے ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں پھر تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ میں نے تم سے کسی بُرے کام کے متعلق وعدہ لیا.پس تم یہ عذر نہیں کر سکتے.کیونکہ اگر یہ عذر کرو تو یہ تمہارے دین، ایمان، انصاف اور دیانت کے بالکل خلاف ہو گا.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی یہ نصیحت جب ان کی قوم نے نہ سنی تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللهُ قُلُوبَهُمْ.یہ وہی مضمون ہے جو
خطابات شوری جلد دوم ۲۵۱ مشاورت ۱۹۳۷ء حدیثوں میں آتا ہے کہ اگر صفیں ٹیڑھی ہوں گی تو تمہارے دل ٹیڑھے ہو جائیں گے.اللہ تعالیٰ بھی فرماتا ہے جب بعض نے اُن میں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بات نہ مانی تو ان کی صف ٹیڑھی ہو گئی اور اُن کی صف ٹیڑھی ہونے کے نتیجہ میں دل بھی آگے پیچھے کر دیئے گئے اور اُن کا امن اور اتحاد تباہ ہو گیا.والله لا يَهْدِى الْقَوْمَ الفيسقين اور اللہ تعالی عہد شکنوں کی قوم کو کبھی کامیاب نہیں کیا کرتا.فَسَقَ کے معنے ہوتے ہیں خَرَجَ عَنِ الطَّاعَۃ اور فاسق اُس کو کہتے ہیں جو اپنے عہد کی حدود سے نکل جائے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عہد شکنوں کی قوم کو ہم کبھی کامیاب نہیں کیا کرتے.وہی قوم کامیاب ہوتی ہے جو وعدہ کرتی اور پھر ہر حال میں خواہ عسر ہو یا ئیسر اُسے پورا کرتی ہے.صحابہ میں یہی بات تھی اور اسی وجہ سے دُنیا اُن پر ہاتھ اُٹھانے سے ڈرتی تھی.آج ہم پر بھی لوگ ہاتھ اُٹھانے سے ڈرتے ہیں کیونکہ وہ رُعب جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمیں عطا ہوا ہے وہ اُن کے سامنے آ جاتا ہے مگر بہر حال ہمیں سمجھنا چاہئے کہ جب تک ہم اپنے وعدوں پر قائم رہیں گے تبھی تک اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت بھی نازل ہو گی اور اگر ہم نے اپنے عہدوں سے انحراف کر لیا تو خدا تعالیٰ کی نصرت بھی جاتی رہے گی.پس آج میں پھر تمام جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اگر وعدوں کو پورا کرنے کا ارادہ نہ ہو تو وعدے ہی نہ کیا کرو اور اگر اپنی خوشی سے وعدے کر و تو پھر چاہے موت آ جائے ، چاہے ذلت برداشت کرنی پڑے اُن وعدوں کو پورا کرو.اور اگر دیکھو کہ وعدے پورے کرنے کی تم میں استطاعت نہیں تو تم میرے پاس آجاؤ، میں تمہیں ہر وقت معاف کرنے کے لئے تیار ہوں.اللہ تعالیٰ کے جو مستقل احکام ہیں اُن میں تو میں کچھ نہیں کر سکتا.مثلاً نماز ہے، اسے میں معاف نہیں کر سکتا.روزے ہیں وہ میں معاف نہیں کر سکتا.زکوۃ ہے وہ میں معاف نہیں کر سکتا.لیکن جو وقتی احکام ہوں اُن میں میں تبدیلی کر سکتا ہوں.پس کیوں جماعت کے لوگ جرات کر کے میرے پاس نہیں آتے؟ اور اگر ان میں استطاعت نہیں تو وہ مجھ سے معافی نہیں لے لیتے اور یا پھر ہمت کر کے اُن وعدوں کو پورا نہیں کر دیتے ؟ میں نہیں سمجھ سکتا اِن دو باتوں کے علاوہ کوئی اور بھی راہ ہو.یا تو وہ وعدے جو تم نے
خطابات شوری جلد دوم ۲۵۲ مشاورت ۱۹۳۷ء اپنی خوشی سے کئے ہیں پورے کرو اور اگر پورے نہیں کر سکتے تو میری طرف سے آزادی ہے تم میرے پاس آؤ اور اپنا معاملہ پیش کرو میں ہر وقت اس پر ہمدردانہ طور پر غور کرنے کے لئے تیار ہوں.اب تک ایک مثال بھی ایسی پیش نہیں کی جاسکتی کہ کسی شخص نے چندے کی معافی کی مجھ سے درخواست کی ہو اور میں نے اُسے منظور نہ کیا ہو.پس کیوں آپ لوگ ان دونوں راہوں میں سے ایک راہ اختیار نہیں کرتے ، اور خواہ مخواہ گنہگار بنتے ہیں؟ اب آپ لوگ میرے پاس آتے ہیں اور وعدے کرتے ہیں کہ ہم سادہ زندگی اختیار کریں گے مگر پھر لوگوں میں یہ کہتے پھرتے ہیں کہ خلیفہ اُسیح سات سات کھانے کھاتے ہیں.ایسے جھوٹ کی بھلا کیا ضرورت ہے.پس آپ لوگوں نے تحریک جدید کے متعلق جو وعدے کئے ہیں اُن کے متعلق وہ طریق عمل اختیار کریں جو میں نے بتایا ہے.یا تو اپنے وعدوں کو پورا کریں اور یا پھر مجھ سے معافی لے لیں.جو مستقل شرعی احکام ہیں اُن کے متعلق یقین کر لیں کہ میں اُن میں کچھ نہیں کر سکتا.لیکن جو مطالبہ میں نے کیا ہے وہ بدل بھی سکتا ہے اور اس کی تبدیلی اور تغیر میرے اختیار میں ہے.اس کے بعد میں دوبارہ احباب سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے اپنے دلوں میں یہ عہد کر کے جائیں کہ وہ اپنے وعدوں کو پورا کریں گے اور خواہ انہیں کس قدر تکلیف اُٹھانی پڑے وہ تکلیف اُٹھا کر بھی اپنے عہدوں کو نبھائیں گے.چونکہ دوستوں نے اب جانا ہے اور اڑھائی بجنے والے ہیں اس لئے میں بقیہ رکوع کی تشریح چھوڑتا ہوں اور دعا کر کے اس جلسہ کو برخاست کرتا ہوں.“ (مطبوعہ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۷ء) ل النمل : ۳۵ تذکرہ صفحہ ۵۳۹.ایڈیشن چهارم الفاتحة : ۲۵ آل عمران : ۵۶ البقرة : ۱۵۵ النور : ٣٦ کے تذکرہ صفحہ ۳۰۵.ایڈیشن چہارم
خطابات شوری جلد دوم 스 ۲۵۳ مشاورت ۱۹۳۷ء كا البقرة : ٢٨٧ ترمذى كتاب صفة القيامة باب حديث إعقلها و توكل - يونس : ۱۲ الانعام : ۳۶: يوسف : ۸۸ ۱۵ الصف: ۱ تا ۱۰ الرحمن : ٢٣ ١٨ السِّيرَةُ الحلبية جلد دوم مصنفه على بن برهان الدين الحلبی.19 سنن ابن ماجه كتاب الطهارت باب النهي عن الخلاء على قارعة الطريق - ۲۰ صحیح بخاری کتاب الجهاد باب من اخذ بالركاب و نحوه - ال الاحزاب : ۲۴ ۲۲ بخاری کتاب الجهاد باب قول الله تعالى من المُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا (الخ) سیرت ابن ہشام جلد ۳ صفحه ۸۸ مطبوعه مصر ۱۹۳۶ء ۲۳ مسند احمد بن حنبل جلد ۵ صفحه ۳۸۰ باب حديث براء بن عازب دار الاحياء التراث العربى بيروت لبنان الطبعة الثانية -
خطابات شوریٰ جلد دوم ۲۵۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء منعقده ۱۵ تا ۱۷ را پریل ۱۹۳۸ء بمقام قادیان ) پہلا دن مجلس مشاورت منعقد و ۱۵ تا ۱۷ اپریل ۱۹۳۸ تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے وسیع ہال میں منعقد ہوئی.افتتاحی خطاب سے قبل دعا کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور نے فرمایا:- چونکہ جس کام کے لئے ہم کھڑے ہوئے ہیں وہ الہی کام ہے اور اللہ تعالیٰ کے منشاء دعا کو پورا کرنا ہی اصل مقصد ہے اس لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں.یوں تو ہر انسان کے لئے ہر کام شروع کرنے سے قبل یہ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگے اور دعا کرے.حتی کہ بعض بزرگوں نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ اگر جُوتی کے تسمہ کی ضرورت ہو تو وہ بھی اللہ تعالیٰ سے مانگنا چاہئے لیکن جو کام ہو ہی اللہ تعالیٰ کا اسے اس کی مدد کے بغیر کرنا نادانی ہے.جو شخص کسی کا وکیل یا مختار ہو اُس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اُس کا کام شروع کرنے سے قبل اُس سے ہدایت لے تا اُس کے منشاء کے مطابق کام کر سکے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے کام کے لئے دعا کرنا اور اُس سے مددطلب کرنا نہایت ہی ضروری ہے.یوں تو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ہر کام سے پہلے دُعا کرنا ضروری ہے مگر اللہ تعالیٰ کا کام کرنے سے قبل تو اشد ضروری ہے کہ ہم اس سے دعا مانگیں کیونکہ خدائی کام ہرگز آپ ہی آپ نہیں ہو سکتا.اور اگر ہم اسے اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر کرنا چاہیں تو ہوسکتا ہے کہ ایک تو اس کے خلاف منشاء کر کے ہم خدمت کے صلہ سے محروم ہو جائیں اور دوسرے عذاب میں مبتلا ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ سے پوچھنے کا طریق دعا ہی ہے.ہمیں چاہئے کہ دُعا کریں کہ
خطابات شوری جلد دوم ۲۵۶ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء ہمارے ہاتھ اور ہماری زبانیں اس کے منشاء کو پورا کرنے والی ہوں ، ہم وہی کہیں اور کریں جو اُس کی مرضی ہو.یہ ذریعہ ہے خدا تعالیٰ سے پوچھنے کا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بندہ نوافل کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا جاتا ہے حتی کہ اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ ہو جاتا ہے جن سے وہ کام کرتا ہے، اُس کے پاؤں ہو جاتا ہے جن سے وہ چلتا ہے، آنکھیں ہو جاتا ہے جن سے وہ دیکھتا ہے اور کان ہو جاتا ہے جن سے وہ سُنتا اور نوافل دراصل دعا ہی ہیں.پس اللہ تعالیٰ کے کاموں میں خصوصیت سے دعائیں کرو تا ان کاموں میں جو دراصل اس کے ہیں اور ہم کو جو محض خادم اور مامور کی حیثیت رکھتے ہیں وہ اپنی مرضی بتائے اور ہمارے فیصلے اس کے فیصلوں کے ماتحت ہوں اور ہمیں اس کے ثواب کا مستحق بنانے والے ہوں.افتتاحی تقریر تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - ہے احمدیت کی ترقیات جماعت احمدیہ کے قیام کو آج قریباً پچاس سال گزرنے کو آئے ہیں یعنی پچاسواں سال اس کی زندگی کا اب شروع ہے.اس زندگی میں سے جو اس کے بچپنے کے سال تھے اُس وقت تو کوئی کوئی آنکھ تھی جو اسے دیکھ کر کہا کرتی تھی کہ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات.مگر عام طور پر لوگوں کی نگاہیں یہی سمجھا کرتی تھیں کہ یہ روئیدگی جانوروں کے پاؤں تلے روندی جائے گی اور کل کوئی اسے یاد بھی نہیں رکھے گا.لیکن خدا تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اسے بڑھایا اور تقویت دی اور ہندوستان کے مختلف علاقوں میں اسے پھیلاتے ہوئے بیرونی ممالک میں لے گیا اور آج دُنیا کے مختلف گوشوں میں اس کے ساتھ تعلق رکھنے والے لوگ موجود ہیں اور کوئی براعظم ایسا نہیں جہاں احمد یہ جماعت موجود نہ ہو اور بعض ممالک میں تو ہزار ہا کی تعداد میں اس کے ساتھ تعلق رکھنے والے پائے جاتے ہیں.چنانچہ پچھلے سال ہی گولڈ کوسٹ کے سالانہ جلسہ میں تین ہزار ڈیلیکیٹ شامل ہوئے.ایک ایسے علاقہ میں جہاں تعلیم کم ہے تین ہزار ڈیلگیٹیوں کا شامل ہونا بتاتا ہے کہ جماعت کی
خطابات شوری جلد دوم ۲۵۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء تعداد پچیس تیس ہزار ضرور ہوگی اور میں نے سُنا ہے کہ وہاں مردم شماری کی رپورٹ میں جماعت کی تعداد پچیس ہزار درج ہے.یہ افریقہ کے وہ علاقے ہیں جہاں اسلام اپنی شان و شوکت کے زمانہ میں بھی نہیں پہنچا تھا.اسلام کو وہاں پہنچے ابھی ایک سو سال سے کم ہی ہوا ہے.جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے وہاں اسلام کا ذریعہ یہ بنا ہے کہ وہاں کی ایک قوم جو ہاؤسا کہلاتی ہے اُس کے افراد تجارت کے لئے الجزائر کی طرف آئے تھے ، وہاں سے انہوں نے اسلام سیکھا اِسی طرح بعض عرب تاجر گئے اور ان کے ذریعہ اسلام پھیلا.اکثر آبادی اس ملک کی قریب زمانہ تک بت پرست تھی.اسی طرح دُنیا کے اور گوشوں میں بھی احمدیت خدا تعالیٰ کے فضل سے پھیلتی جا رہی ہے.یورپ کے مختلف ممالک میں یہ آہستہ آہستہ روشناس ہو رہی ہے اور گو ابھی نہیں کہا جا سکتا کہ وہاں پھیل رہی ہے کیونکہ جس حد تک اسلام ان لوگوں کے اندر ابھی آیا ہے.اسے دیکھتے ہوئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ ماسوا چند افراد کے مومن ہیں.مگر اس میں شک نہیں کہ اسلام سے ہمدردی رکھنے والے اور منہ سے اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے ضرور پیدا ہو رہے ہیں.جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ قَالَتِ الْأَعْرَابُ امَنَّا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلكِن قُولُوا اسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ في قُلُوبِكُمْ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انہیں یہ نہیں کہنا چاہئے کہ ہم ایمان لے آئے ہیں.ہاں استمنا کہنا چاہئے.فرمایا کہ تم ظاہراً اسلام تو لے آئے ہو مگر ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا لیکن ظاہری اسلام بھی دشمن کو کمزور کرتا اور دوستوں کی صف کو مضبوط کرتا ہے.ان لوگوں کا ماحول ایسا ہے کہ اسلام کی تعلیم پر استقلال کے ساتھ قائم نہیں ہو سکتے.بہر حال یہ تحریک شروع ہے اور جب یہ زور پکڑے گی خود بخود ایسی جماعت پیدا ہو جائے گی جو استقلال کے ساتھ اسلام کی تعلیم پر عمل پیرا ہو گی.ابھی ان کے رستہ میں کئی قسم کی مشکلات ہیں.دوسرے مسلمان ہم پر تو اعتراضات کرتے ہیں مگر عمل اسلام پر خود نہیں کرتے.مثلاً عورت سے مصافحہ کرنے کا حکم نہیں.یہ لوگ مصافحہ کر لیتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے مصافحہ نہ کرنے کو تنگدلی پر محمول کیا جاتا ہے.انہیں یہ معلوم نہیں کہ اسلام کے حکم کو یہ لوگ توڑتے ہیں اور اس سے ہمارے رستہ میں بھی رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں.پھر مشرق کی طرف خصوصاً جاوا اور سماٹرا میں جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے سُرعت
۲۵۸ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء خطابات شوری جلد دوم کے ساتھ پھیل رہی ہے لیکن باوجود ان سب باتوں کے وہ شباب جو پچاس سال کی عمر میں ایک قوم کو حاصل ہونا چاہئے وہ ابھی ہمیں حاصل نہیں ہوا.ابھی ہمارے کاموں میں کوتا ہیاں اور کمزوریاں ہیں اور جس میدان کربلا میں سے خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم گزریں اس میں ابھی دلیری سے داخل نہیں ہوئے.ابھی کئی ہیں جو شیر گدوانے والے کی طرح ہر بار جب سوئی لگتی ہے تو کہہ اُٹھتے ہیں کہ اسے چھوڑو اور آگے چلو حالانکہ حقیقی قربانی کے بغیر کوئی ترقی نہیں ہو سکتی.کئی نادان ہیں جو جماعت کی موجودہ ترقی سے ہی خوش ہیں اور اسی پر فخر کرتے اور کہتے ہیں کہ ہم نے جتنا بڑھنا تھا بڑھ لیا.اب تبلیغ کی بجائے وہ تفرقہ یدا کرتے اور طعن و تشنیع سے کام لیتے ہیں اور ایسی باتوں میں پڑ گئے ہیں جو غالب قو میں کیا کرتی ہیں اور یہ خیال نہیں کرتے کہ مصیبت زدہ آدمی کبھی ان باتوں میں نہیں پڑا کرتا.جس ماں کا بچہ مرا ہوا پڑا ہو اسے گھر میں بکھری ہوئی چیز میں نظر نہیں آیا کرتیں.دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ تکیہ فلاں جگہ پڑا ہے اور برتن فلاں جگہ، گھر میں کوئی صفائی نہیں مگر وہ ماں جس کا بچہ مرا ہوا پڑا ہے اُسے ان نقائص میں سے کوئی بھی نظر نہیں آتا.تو ہم لوگ جن کے سامنے اسلام ایسی نازک حالت میں پڑا ہے ایسی ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کو کب دیکھ سکتے ہیں.اور اگر کسی کو ایسی باتیں نظر آتی ہیں تو اس کے صاف معنے یہ ہیں کہ اسے اسلام سے وہ تعلق نہیں جو ماں کو بچہ سے یا بچہ کو ماں سے ہے.کسی سمجھدار بچہ کی ماں بیمار ہو تو اُس کے دل کی کیفیت بھی ایسی ہوتی ہے کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو نہیں دیکھ سکتا.ایسی باتوں پر ہمیشہ انہی لوگوں کی نگاہیں پڑا کرتی ہیں جن کے سامنے کوئی صدمہ یا مقصد نہیں ہوتا.کیا لڑائی کے موقع پر بھی کوئی شخص شیشہ لے کر بال سنوارا کرتا ہے.گھر میں تو ایسا کرتے ہیں مگر لڑائی کے موقع پر نہیں.بعض لوگ جو فارغ ہوں چاقو لے کر اپنے ناخنوں کے کنارے ٹھیک کرتے ہیں یا ولایتی سیٹ سے انہیں درست کرتے رہتے ہیں لیکن یہ کبھی نہیں ہوگا کہ لڑائی کے موقع پر کوئی ایسا کرتا ہو.اُس وقت صرف ایک ہی بات زیر نظر ہوتی ہے اور وہ یہ کہ دشمن مقابلہ پر کھڑا ہے اگر میں نے اسے مغلوب نہ کیا تو یہ مجھے مغلوب کر لے گا.پس جن کے دلوں میں اسلام کی اس نازک حالت کو دیکھ کر تڑپ پیدا ہوتی ہے وہ ایسی باتوں پر دھیان نہیں دے سکتے.غرض ہم میں بعض ایسے لوگ پیدا ہو گئے ہیں جو جماعت کی موجودہ
۲۵۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء خطابات شوری جلد دوم حالت پر ہی فخر کرتے ہیں اور ایسی باتوں میں پڑ گئے ہیں حالانکہ ہم ابھی آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں.آٹے میں نمک کی مقدار بھی زیادہ ہوتی ہے مگر ہم دُنیا میں اس سے بھی کم ہیں اور اس وجہ سے ہمارے لئے بہت زیادہ فکر کی بات ہے کیونکہ ابھی ہم اس مقام پر نہیں پہنچے جس پر پہنچ کر تو میں محفوظ ہوتی ہیں.دُنیا میں سب سے چھوٹی قوم سکھوں کی ہے مگر ہم ابھی ان کا نصف بلکہ ایک چوتھائی بھی نہیں ہیں حالانکہ سکھ قوم عالمگیر نہیں وہ صرف پنجاب میں پائے جاتے ہیں یا اس کے آس پاس کے علاقوں میں قلیل تعداد میں ہیں مگر ہماری تعداد ان کے مقابلہ میں بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتی اور ایسی کمزور حالت میں کسی ایسی قوم کے افراد کا قانع ہو جانا جن کے سامنے دُنیا کو فتح کرنے کا مقصد ہو نہایت ہی افسردگی کی بات ہے اور اس کے یہ معنے ہیں کہ اس قوم کا حوصلہ بہت ہی کم ہے.بعض لوگ لڑائی میں شامل ہوتے ہیں مگر جب ذرا فتح کے آثار ظاہر ہوں تو جھٹ لڑائی کا خیال چھوڑ کر مال غنیمت کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں اور نتیجہ وہی ہوتا ہے جو جنگ احد کے موقع پر ہوا.جنگ حنین میں بھی ایسا ہی ہوا.یعنی بعض کمزور لوگوں نے اصل مقصد کو بُھلا دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ بجائے فتح کے شکست ہوگئی.ہماری جماعت کو اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ جس کام کے لئے ہم کھڑے ہوئے ہیں وہ اتنا بڑا ہے کہ ابھی ہم اُس کا کروڑواں حصہ بھی نہیں کر سکے اور جس مقام پر پہنچ کر خطرات سے محفوظ ہو سکتے ہیں اُس سے ابھی منزلوں پیچھے ہیں.کیا بلحاظ جماعتی نظام کے اور کیا بلحاظ تربیت افراد کے.نظام کے لحاظ سے ہم جماعت سے ویسا عمل بھی نہیں کرا سکتے جیسا چوہڑے اور چمار کرا لیتے ہیں.اُن کی بھی پنچائتیں ہوتی ہیں اور وہ اپنے افراد سے اپنے تمام احکام منوا لیتی ہیں لیکن ہم میں بعض لوگ ابھی ایسے ہیں کہ اُن کو ذراسی سزا بھی دی جائے تو وہ کہتے ہیں کہ چھوڑو ہم اپنی برادری میں واپس چلے جاتے ہیں.مگر چوہڑے چماروں میں سے جس کسی کو سزا دی جائے وہ اسے قبول کر لیتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس برادری کو چھوڑ کر وہ اور کہیں نہیں جاسکتا.مگر ہمارے لوگ مختلف برادریوں سے نکل کر آئے ہیں اس لئے ان میں سے جو کمزور طبائع ہیں فوراً اپنی برادری میں واپس جانے کو تیار ہو جاتے ہیں لیکن چوہڑا چمار جسے سزا دی جاتی ہے وہ چونکہ سمجھتا ہے کہ میری برادری یہی
خطابات شوری جلد دوم ۲۶۰ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء ہے اس لئے وہ اپنی قوم کی مخالفت کی جرات نہیں کرتا اور بات ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے.غرض ہماری حکومت اب تک خالص مومنوں پر ہے، کمزوروں کو اپنے ساتھ چلانے کے لئے سامان میسر نہیں حالانکہ یہ سامان ہندوستان کی ادنیٰ اقوام کو میسر ہے.جماعت کے لئے نازک وقت غرض ہم اس وقت ایسے مقام پر ہیں جو قوموں کے لئے نہایت خطرناک ہوتا ہے.قوموں پر ایک وقت ایسا آیا کرتا ہے جب وہ لوگوں کی نظر کے نیچے آجاتی ہیں مگر ابھی اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی طاقت اُن میں نہیں ہوتی.ایک زمانہ تو ایسا ہوتا ہے کہ لوگ اُن کو اتنا کمزور سمجھتے ہیں کہ ان کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے اور خیال کرتے ہیں کہ یہ خود بخو دمر جائیں گے، مخالفتیں اُس وقت بھی ہوتی ہیں مگر انفرادی طور پر ، اُس وقت قو میں مقابل پر کھڑی نہیں ہوتیں.وہ اس کے جماعتی نظام کو بالکل حقیر سمجھتی ہیں اور اس کے جوشِ ترقی اور ولولوں کو دیکھ کر صرف ہنس چھوڑتی ہیں.لیکن ایک زمانہ پھر ایسا آتا ہے کہ قومیں اُس کی طرف متوجہ ہوتی ہیں اور حکومتوں کے نظام اُن کے مقابل پر آتے ہیں لیکن اُس قوم میں ابھی اتنی طاقت پیدا نہیں ہو چکی ہوتی کہ قوموں اور حکومتوں کا مقابلہ کر سکے.اُس وقت اسکی حالت فٹ بال کی ہوتی ہے جو دو ٹیموں کے درمیان ہوتا ہے.اُس وقت کوئی قوم اُس کا ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں ہوتی اور ہر قوم اسے دھتکارتی ہے.کوئی اُس کے ساتھ اتحاد کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا بلکہ جہاں تک ہو سکے اس کے مارنے پر آمادہ ہوتا ہے، لیکن اُس قوم میں ابھی جواب کی طاقت نہیں ہوتی اور یہ وقت قوموں کے لئے نہایت خطرناک ہوتا ہے یہی وقت ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں مدنی زندگی کہلاتا ہے.مکہ میں بے شک مخالفت تھی مگر وہ انفردی مخالفت تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہیں رہتے تھے، کوئی کوئی شخص آپ کی مخالفت کرتا تھا مگر جب آپ کی تائید میں کوئی کھڑا ہو جا تا مثلاً آپ کے چچا آپ کی طرف سے کھڑے ہو جاتے تو مخالف بھی اپنی مخالفت ترک کر دیتے تھے اور سمجھ لیتے تھے کہ ہمیں کیا ضرورت ہے کہ خواہ مخواہ بگاڑ پیدا کرتے پھریں لیکن جب قوم کی قوم مخالفت پر کھڑی ہو جائے تو افراد بھی ساتھ دینا چھوڑ دیتے ہیں.مدنی زندگی در اصل ایسی ہی تھی اور یہ زمانہ بہت ہی خطرناک تھا.ہمارے مفسرین نے غلطی کھائی
خطابات شوری جلد دوم ۲۶۱ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء ہے اور مدنی زندگی کو امن کی زندگی قرار دیا ہے حالانکہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہت خطرناک زندگی تھی.عرب کے تمدن اور حالات کے لحاظ سے اُس وقت سے مسلمانوں کے لئے امن کی زندگی شروع ہو گئی جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ کو فتح کیا لیکن دراصل یہ فتح آپ کے لئے امن نہیں بلکہ مشکلات پیدا کرنے والی تھی کیونکہ پہلے تو آپ کی طرف کسی بیرونی طاقت کو توجہ نہیں تھی مگر اس کے بعد روم اور ایران کی سلطنتوں کو بھی یہ خیال پیدا ہوا کہ یہ لوگ ترقی کرتے اور طاقت پکڑتے جاتے ہیں ان کو مٹانا چاہئے اور اس لئے یہ زمانہ بہت خطرہ کا زمانہ تھا.دشمن پوری طاقت کے ساتھ مٹانے کی طرف متوجہ ہو چکے تھے مگر مسلمانوں کے پاس دفاع کی طاقت نہ تھی.یہی حالت اس وقت ہماری ہے.آج کوئی حکومت ایسی نہیں جو سکھوں کو دکھ دینے کے لئے تیار ہو کیونکہ اگر چہ وہ تعداد میں تھوڑے ہیں مگر سالہا سال تک حکومت کو مشکلات میں ڈال سکتے ہیں جسے برداشت کرنے کے لئے کوئی حکومت تیار نہیں ہو سکتی.لیکن ہمیں دکھ دینے میں کسی کو تامل نہیں کیونکہ ہماری اس قدر تعداد نہیں جس سے لوگ خوف کھا سکیں اور پھر ہم اب ایسے مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ بعض نادان حکام بھی اور مختلف قو میں بھی یہ سمجھ رہی ہیں کہ ان کا اور آگے بڑھنا ہمارے لئے خطرہ کا موجب ہے اس لئے انہیں آج ہی مٹا دینا چاہئے.ادھر ہم میں ایسی طاقت نہیں کہ جس کی وجہ سے وہ ہماری تکلیف کا خیال چھوڑ دیں.پس ہم میں سے جو عقلمند ہیں انہیں اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ ہماری جماعت کے لئے یہ وقت نہایت نازک ہے.قومی مقابلہ ہمیشہ خطرناک ہوتا ہے اور قومی طور پر ایک نظام کے ماتحت جو تدابیر اختیار کی جائیں اور جوطریقے استعمال کئے جاتے ہیں، وہ ایسے ہوتے ہیں جو بعض دفعہ نظر بھی نہیں آتے.پس ہماری جماعت کیلئے یہ وقت بہت ہی نازک ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی حالتوں میں اصلاح کریں، اپنے اعمال پر قابو رکھیں اور دعاؤں پر بہت زور دیں اور پھر اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے کی ضرورت ہے تا ادھر ایک طرف تو تدبیر مکمل ہو اور اُدھر تقدیر درست ہو اور جب کسی قوم کے لئے یہ دونوں باتیں درست ہو جائیں تو اُس کی تباہی پر کوئی قادر نہیں ہوسکتا.میں ایک عرصہ سے ان باتوں کی طرف توجہ دلا رہا ہوں اور مجھے یاد ہے کہ بعض منافقین جو اب جماعت سے علیحدہ ہو چکے
۲۶۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء خطابات شوری جلد دوم ہیں کہا کرتے تھے کہ وہ کون سے فتنے آنے والے ہیں جن سے یہ جماعت کو ڈرا رہے ہیں.کوئی ایسے فتنے آنے والے نہیں ہیں، یہ محض چندہ وصول کرنے کے لئے کہا جاتا ہے مگر آج یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ میں جو کچھ کہتا تھا وہ درست تھا.اب میں پھر جماعت کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ بہت سے رفتن آنے والے ہیں.ایسے ایسے فتن ہمیں در پیش ہیں جن کو ابھی سمجھنے کی بھی تم قابلیت نہیں رکھتے مگر وہ میری آنکھوں کے سامنے ہیں کیونکہ جس کے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ اپنی جماعت کی باگ دیتا ہے اُس کے ذہن میں اُن باتوں کو بھی داخل کر دیتا ہے جن کا جاننا ضروری ہوتا ہے.میں اپنی آنکھوں کے سامنے ایسے خطرناک فتن دیکھتا ہوں کہ اگر جماعت جلد بیدار نہ ہوئی اور ایسی قربانیوں کے لئے آمادہ نہ ہوئی کہ موت وحیات اس کی نظر میں یکساں ہو تو اس کے لئے نہایت تاریک ایام اور خطرناک گھڑیاں آنے والی ہیں لیکن اگر آپ لوگ اپنی زندگیوں کو خدا تعالیٰ کے لئے وقف کر دیں، اسلام کی تعلیم پر پوری طرح عمل پیرا ہوں جیسا کہ جلسہ سالانہ پر آپ لوگوں نے عہد کیا تھا اور انفرادی قربانیوں کے لئے ہر وقت آمادہ رہیں اور ان ذمہ داریوں کو سمجھیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ پر ڈالی گئی ہیں اور قطع نظر اس کے کہ آپ جیتے ہیں یا مرتے ہیں خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت میں لگ جائیں تو دُنیا کی کوئی طاقت بھی آپ لوگوں پر غالب نہ آسکے گی.اس وقت آپ سے مقابلہ کرنے والے آپ سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ سے مقابلہ کرنے والے ہوں گے اور خدا تعالیٰ خود ان کو تباہ کر دے گا.اندرونی نظام کی کمزوریوں کی وجہ سے بھی اس وقت بعض مشکلات ہمارے سامنے ہیں جیسا کہ آپ لوگوں کو ایجنڈا سے معلوم ہو چکا ہوگا اس لئے ان باتوں پر بھی غور کرنا اور ان مشکلات کو دور کرنے کی تجاویز سوچنا آپ کا فرض ہے.یہ چند سال مالی قربانیوں کے لحاظ سے بھی سلسلہ کے لئے بہت نازک ہیں.ایک طرف تو بجٹ پورا نہیں ہورہا اور دوسری طرف قرضہ اب قریباً چار لاکھ ہو چکا ہے.جس کے معنے یہ ہیں کہ اگر ہم اپنے تمام کاموں کو بند کر دیں تو بھی دو سال میں قرضہ اُتار سکیں گے اور کاموں کو جاری رکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ بچت جو انسان اپنے اخراجات میں کر سکتا ہے وہ دس فی صدی ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ بیس سال میں بڑی جدو جہد کے بعد ہم اس قرضہ کو اُتار سکیں گے.مگر اس کے ساتھ
۲۶۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء خطابات شوری جلد دوم بعض دوسری تحریکات بھی ہیں.تحریک جدید ہے جو سات سال تک جاری رہنی ہے.پھر ایک اور فنڈ جوبلی فنڈ ہے جو اگرچہ سلسلہ کی طرف سے نہیں مگر بعض دوستوں نے اپنے ارادہ اور خواہش سے گومیری اجازت سے قائم کیا ہے اس کے لئے بھی دوست وعدے کر رہے ہیں.اور یہ ایک ایسا بوجھ ہے کہ دو تین سال آئندہ میں سوائے پختہ ارادہ اور عزم قربانی کے اُٹھایا نہیں جاسکتا.پختہ عزم کی ضرورت اس کے لئے ایک ایسے عزم کی ضرورت ہے جو صورت دیکھتے ہی نظر آ جائے.اس میں شک نہیں کہ ہمارا عزم دوسروں سے بہت زیادہ ہے مگر اتنا نہیں جو صحابہ کرام کے اندر تھا.پس ضرورت ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے نفس کا محاسبہ کر کے اپنے اندر وہ عزم پیدا کرے اور پختہ عہد کرے کہ اب جو ہو سو ہو زندگی کے یہ تین سال خدا تعالیٰ کے لئے بسر کرے گا.اور اگر کوئی ایسا کرے تو کیا بعید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ساری عمر ہی اپنے لئے بسر کرنے کی توفیق عطا کر دے.ہمارا خدا بعض دفعہ بالکل معمولی سی بات کو نواز دیتا ہے.تین سال کا عرصہ کوئی بڑا عرصہ نہیں.گنٹھیا کے مریض سات سات سال تک اس مصیبت میں زندگی گزارتے ہیں کہ چار پائی پر سے نہیں اُٹھ سکتے.اگر تم یہ تین سال خدا تعالیٰ کے لئے گزار دو تو یہ کوئی بڑی بات نہیں، لیکن نتائج اس کے بڑے ہوں گے اور ہو سکتا ہے کہ ایسے شخص کی اللہ تعالیٰ آئندہ زندگی کے باقی ہیں تھیں ، ساٹھ یا سو سال جتنی بھی عمر باقی ہو اپنی رضا پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور اسے ابدی زندگی حاصل ہو جائے.کام اگر چہ تھوڑا ہے مگر نتیجہ بہت بڑا اور ثمرات نہایت اہم ہیں.پس اوّل تو میں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور دوسرے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ انجمن کے جو کام ہیں اُن کو مدنظر رکھتے ہوئے بعض تجاویز پیش ہوں گی اُن پر غور کرنے کے لئے ابھی سب کمیٹیاں بنیں گی.ان میں سے بعض ایسی ہیں کہ جن پر عمل کرنے کے بعد اس سال کا بجٹ بنایا گیا ہے اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں ہمارے کارکنوں نے بشاشت کے ساتھ ان قربانیوں کو قبول کیا ہے.یہ بھی صحیح ہے کہ بعض نے اس پر بُرا منایا ہے، اس کی بھی مجھے اطلاع ہے مگر بیشتر حصہ ایسا ہے کہ جس نے رضا کے ماتحت
۲۶۴ خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء اور یا صبر کے ماتحت اسے قبول کر لیا ہے.کارکنوں کو جو گزارے دیئے جاتے ہیں ان میں سے دو آنے ، تین آنے اور چار آنے فی روپیہ کمی کر دی گئی ہے.یہ وضعات چندوں کے علاوہ ہیں اور وصایا اور تحریک جدید کے چندے اس سے باہر ہیں اور ان سب کو ملا کر گویا کم سے کم کٹوتی چار آنے فی روپیہ ہے.یعنی پچیس فی صدی.اور زیادہ سے زیادہ چھ آنے اور سات آنے تک جا پہنچتی ہے.اگر یہ بجٹ منظور ہو جائے تو جماعت کو اس امر پرغور کرنا چاہئے کہ اس کے مقابلہ میں باہر والوں کو کیا قربانی کرنی چاہئے.کیا ان کے لئے اُس ہندو کی مثال پر عمل کر لینا ہی کافی ہے جس کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ سردی کے موسم میں صبح صبح دریا پر نہانے کے لئے گیا اور بڑی کوشش کے باوجود اسے دریا میں گودنے کی جرات نہ ہوئی.آخر سوچ سوچ کر اس نے دریا میں ایک پتھر پھینکا اور کہا کہ ” تو راشنان سوموراشنان.“ یعنی تیرا نہانا میرا نہانا ہے.اور یہ کہہ کر واپس لوٹ آیا.رستہ میں اُسے ایک اور ہندو ملا جو دریا پر نہانے جا رہا تھا اور پوچھا کہ کیا نہا آئے ہو؟ اُس نے کہا کہ میں تو اِس طرح کر آیا ہوں.اس پر وہ کہنے لگا کہ اچھا پھر ” تو را شنان سومور اشنان“ اور یہ کہہ کر وہ بھی گھر کو لوٹ گیا.تو کیا باہر کے دوست بھی یہی کافی سمجھتے ہیں کہ قادیان والوں نے جو قربانی کی ہے اُسے اپنی طرف سے سمجھ کر خاموش ہو جائیں یا عملی زندگی سے اس بات کا ثبوت پیش کریں گے کہ وہ بھی حقیقی قربانی کر کے سلسلہ کا بوجھ اسی طرح اُٹھائیں گے جس طرح قادیان والوں پر لادا گیا ہے.پس ایک بات یہ بھی ہے جو زیر غور آنی چاہئے یعنی یہ کہ قربانی یک طرفہ ہوگی یا دو طرفہ.دوسرے بعض پیش کردہ تجاویز کے خلاف بھی مجھے بعض چٹھیاں موصول ہوئی ہیں جو میں نے پڑھ لی ہیں اور بعض دفتر میں بھی بھجوا دی ہیں ، مشورہ کرتے وقت اُن کو بھی پڑھ لیا جائے.خلیفہ وقت کی تجویز کی پوزیشن میں یہ امر بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ محض اس خیال سے کہ کوئی تجویز میری طرف سے ہے اُس پرغور نہ کرنا صحیح نہیں.اور یہ سمجھ لینا کہ جو تجویز خلیفہ کی طرف سے پیش کی گئی ہے اس میں ضرور برکت ہوگی اس لئے ہمیں اس پر غور کرنے کی کیا ضرورت ہے، درست نہیں.دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ آخری فیصلہ پھر بھی میرے ہاتھ میں خدا تعالیٰ نے دیا ہے لیکن
خطابات شوری جلد دوم ۲۶۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء بحیثیت مشیر آپ لوگوں کا فرض ہے کہ دیانت داری کے ساتھ ان پر غور کریں اور اگر سمجھیں کہ کسی تجویز میں نقائص ہیں یا اس پر عمل کرنے سے سلسلہ کو نقصان ہوگا یا مشکلات میں اضافہ ہو گا تو دلیری کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار کر دیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ الْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَن کے جس سے مشورہ لیا جاتا ہے وہ امین ہوتا ہے.گویا جس طرح کسی کا روپیہ کھا جانا بد دیانتی ہے اسی طرح مشورہ کو چھپانا بھی دیانتداری کے خلاف ہے.پس آپ محض اس وجہ سے اس پر غور کرنے سے پہلو تہی نہ کریں کہ یہ میری طرف سے پیش کی گئی ہے بلکہ اگر آپ کے دل کی گہرائیوں سے یہی آواز نکلے کہ اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے تو اسے چھپائیں نہیں بلکہ دلیری کے ساتھ گفتگو کر کے اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کریں.اگر تغیر کے متعلق مشورہ کو میں قابل قبول نہ سمجھوں گا تو اپنی ذمہ واری پر اسے رڈ کر دوں گا.جب اس پر عمل کا وقت آئے اس وقت اختلاف رائے کے اظہار کی اجازت نہ ہو گی لیکن مشورہ کے وقت ہر ایک کو اجازت ہے کہ اپنا مشورہ پیش کرے.معاملات کی نزاکت کا احساس رکھتے ہوئے ایک تجویز یہ کی گئی ہے کہ گو میں خودسب کمیٹیوں میں شامل نہیں ہوں گا لیکن اگر کمیٹی ضرورت سمجھے تو مجھے مل کر تبادلہ خیالات کر سکتی ہے چاہے تو سارے ممبر مل لیں یا اپنے میں سے بعض نمائندے تجویز کر کے بھیج دیں تا اس سکیم پر جو اعتراضات ہو سکیں انہیں پہلے ہی حل کر لیا جائے اور اگر تبادلۂ خیالات کے بعد اُن کی سمجھ میں بات آجائے تو وہ اپنی رائے میں تبدیلی کر لیں ورنہ جس رنگ میں مفید سمجھیں یہاں پیش کر دیں.اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اصل اجلاس میں بہت سی باتیں پیش کرنے کی ضرورت نہ رہے گی اور اس طرح باہم تبادلۂ خیالات کا یہ فائدہ بھی ہو گا کہ ممکن ہے کوئی ایسی تجویز پیدا ہو جائے جو اس وقت نہ ان کے ذہن میں ہو اور نہ میرے ذہن میں.اگر سب کمیٹی نے اپنا اجلاس یہاں ہی کرنا مناسب سمجھا تو یہاں سکول میں ٹیلیفون ہے اس پر وہ میرے ساتھ بات چیت کر سکتے ہیں.لیکن اگر سارے ممبران کمیٹی سے بات کرنی ضروری سمجھی جائے تو میں یہاں آ سکتا ہوں یا پھر کمیٹی اپنے میں سے بعض نمائندوں کو میرے پاس بھیج سکتی ہے.
خطابات شوری جلد دوم ۲۶۶ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء اس کے بعد میں باقی دوستوں کو جو کسی کمیٹی میں امام ابوحنیفہ کا سبق آموز واقعہ شامل نہ ہوں گے توجہ دلاتا ہوں کہ ایسے نازک موقع پر بہت احتیاط کی ضرورت ہے اس لئے وہ دعاؤں پر بہت زور دیں.اس وقت ہماری تھوڑی سی غلطی بہت بڑے نتائج پیدا کر سکتی ہے.میں نے کئی دفعہ ایک واقعہ سُنایا ہے کہ ایک دفعہ بارش ہو رہی تھی.حضرت امام ابو حنیفہ نے دیکھا کہ ایک بچہ پھسلنے لگا ہے.آپ نے کہا کہ میاں بچے ذرا سنبھل کر چلو ایسا نہ ہو گر جاؤ.بچہ کی عمر تو گو چھوٹی تھی مگر دماغی نشو ونما اعلیٰ درجہ کا تھا.اُس نے مُڑ کر دیکھا اور معلوم کیا کہ نصیحت کرنے والے امام ابوحنیفہ تھے.اس نے کہا امام صاحب آپ سنبھل کر چلیں ، میری خیر ہے کیونکہ اگر میں گرا تو اس کا نقصان صرف مجھے ہو گا لیکن اگر آپ گرے تو آپ کے ساتھ قوم گرے گی.تو ایسے بظاہر کمزور نظر آنے والے افراد اور نہایت قلیل نظر آنے والی جماعت کے لوگو! بے شک اس وقت تم سب سے قلیل اور کمزور ہو لیکن آئندہ دُنیا کی بڑی بڑی حکومتوں کی بنیاد تم ہو گے.تم وہ بنیادی پتھر ہو جس پر دین کی عمارت تعمیر کی جائے گی اس لئے اگر اس وقت تمہارے اندر کوئی کبھی پیدا ہوئی تو وہ ہزاروں سال تک چلتی جائے گی.پس دُعائیں کرو اور بہت دعائیں کرو اور اللہ تعالیٰ کی مدد تلاش کرو تا اُس کے فضل نازل ہوں اور تم کوئی ایسا قدم اُٹھانے سے بچ جاؤ جو تمہاری تباہی کا موجب ہو سکتا ہو اور تم اُس راہ پر نہ چل سکو جو خدا تعالیٰ سے دور لے جانے والی ہو.ایجنڈا کے متعلق عام دستور کے مطابق تو یہی طریق ہے کہ مختلف کمیٹیاں مقرر کر دی جاتی ہیں لیکن میں چاہتا ہوں اس سال کم سے کم کمیٹیاں ہوں.سب سے بڑی سب کمیٹی تو وہی ہے جو نظارت بیت المال کی ہے کیونکہ وہ بجٹ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.اس کے علاوہ نظارت تعلیم و تربیت کی ایک تجویز ہے لیکن میں سمجھتا ہوں اس کے لئے کسی سب کمیٹی کی ضرورت نہیں.اسی طرح امور خارجہ اور امور عامہ کی تجاویز کے لئے بھی نہیں.ان تجاویز پر عام اجلاس میں ہی غور کر لیا جائے گا.نظارت علیا کی طرف سے جو تجویز ہے اس پر غور کی ضرورت ہے لیکن اس کے لئے بھی کوئی علیحدہ سب کمیٹی مقرر کرنے کی ضرورت نہیں.بیت المال سب کمیٹی میں ہی اس پر غور کر لیا جائے.پس میں صرف ایک ہی سب کمیٹی مقرر
۲۶۷ خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء کرتا ہوں.اور وہی ان تجاویز پر بھی غور کرے گی جو میں نے پیش کی ہیں اور نظارت علیا والی پر بھی.ہاں اگر وہ چاہے تو اپنے میں سے چھوٹی کمیٹی اور بنا سکتی ہے جو اپنی رپورٹ اُسی کے سامنے پیش کرے.اور یہ اپنی رپورٹ کے ساتھ اسے شامل کر کے اصل اجلاس میں پیش کر دے.اور چونکہ یہ سب کمیٹی اہم ہوگی اور ممکن ہے اسے اپنے میں سے بعض اور کمیٹیاں بھی مقرر کرنی پڑیں اس لئے اس کے ممبروں کی تعداد چوالیس مقرر کرتا ہوں.اور دوستوں سے خواہش کرتا ہوں کہ وہ مناسب آدمیوں کے نام اس سب کمیٹی کی ممبری کے لئے پیش کریں.“ دوسرا دن غیر احمدی عورتوں سے شادی کا مسئلہ مجلس مشاورت کے دوسرے دن ۱۶ را پریل ۱۹۳۸ء کو پہلے اجلاس میں نظارت امور عامہ کی طرف سے یہ تجویز پیش کی گئی کہ احمدی لڑکیوں کے لئے جماعت میں رشتوں کی کمی کے پیش نظر نظارت هذا کی طرف سے مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء میں یہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ احمدی احباب کے لئے غیر احمدی لڑکیوں اور عورتوں کا رشتہ لینے کے بارہ میں ممانعت اور استثنائی حالات میں مرکز سلسلہ سے اجازت لینے کی پابندی کو مزید تین سال کے لئے جاری رکھا جائے.یہ تجویز منظور ہو گئی تھی اور اب تک اسی کے مطابق عمل ہو رہا ہے.اب سوال یہ ہے کہ آئندہ کیا کرنا چاہیے ؟ چند احباب نے اس بارہ میں اپنی آراء پیش کیں اس کے بعد حضور نے ممبران سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : - د بعض دوستوں کی تقریروں سے میرے دل پر یہ اثر ہوا ہے کہ ان کے دل میں یہ سوال خلش پیدا کر رہا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اہلِ کتاب کی لڑکیوں سے شادی کی اجازت دی تھی اور عہد اول کے مسلمانوں نے اس اجازت سے فائدہ اُٹھانے میں کوئی روک پیدا نہیں کی تو کیا وجہ ہے کہ غیر احمدیوں کی لڑکیاں لینے کی جو اجازت ہمیں حاصل ہے با وجود اس کے کہ وہ ہمارے بہت زیادہ قریب ہیں ، ہمارا ان کا ایک قرآن اور ایک رسول ہے، اس میں کیوں روک پیدا کی جائے.پس اجازت کی قید کو دور کر کے عام اجازت دے
خطابات شوری جلد دوم ۲۶۸ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء دینی چاہئیے.اس کے متعلق بعض باتیں کہ دینا چاہتا ہوں کیونکہ یہ بات ایک مسئلہ سے تعلق رکھتی ہے مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ میں کوئی رائے بیان کر رہا ہوں.میں صرف اس لئے کچھ کہنا چاہتا ہوں کہ ایک قرآنی آیت کی طرف بار بار اشارہ ہو رہا ہے اور میں سمجھتا ہوں یہ میرا فرض ہے کہ میں اس کے متعلق بعض حکمتیں بیان کر دوں.یہ بات یاد رکھنی چاہئیے کہ ہر چیز کے استعمال کی اجازت محض اس کے فوائد اور نقصانات کے ساتھ ہی تعلق نہیں رکھتی بلکہ اس امر کا بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ اس چیز کو کن حالات میں استعمال کیا جاتا ہے.بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کے استعمال کے مواقع بہت کم آتے ہیں اور طبعا اس کی طرف ہماری کشش بھی بہت کم ہوتی ہے.اور یہ قدرتی بات ہے کہ جس کی طرف کشش کم ہو اُسے خاص حالات میں تو ہم استعمال کر لیں گے مگر عام طور پر استعمال نہیں کریں گے.مثلاً ایک چیز کڑوی ہے اُسے اگر کوئی استعمال کرے گا تو خاص ضرورت کے ماتحت کرے گا لیکن جو چیز کڑوی بھی ہو اور ساتھ ہی نشیلی بھی ہو اُسے انسان عادت کے ماتحت بھی استعمال کر سکتا ہے.مثلاً رسونت ایک کڑوی چیز ہے مگر اس میں نشہ نہیں.اب جو شخص بھی اسے استعمال کرے گا خاص ضرورت کے ماتحت کرے گا لیکن افیون کا گومزا اس سے بھی زیادہ کڑوا ہے مگر ساتھ ہی اس کے نشہ بھی ہے.پس اس کی کڑواہٹ اس کے استعمال میں روک نہیں بنتی.یا مثلاً نیم کڑوا ہوتا ہے اور اسی طرح چرائتہ کڑوا ہوتا ہے ضرورت کے وقت لوگ ان کو بھی گھوٹ کر یا پانی میں بھگو کر پیتے ہیں.کسی کو ضرورت نہیں کہ اس امر کی تاکید کرے کہ ان کا استعمال احتیاط سے کرو کیونکہ ان میں کوئی نشہ نہیں.ہر آدمی جانتا ہے کہ خاص ضرورت سے ہی ان کا استعمال کیا جائے گا.غرض کسی چیز کے منع کرنے پر جو زور دیا جاتا ہے وہ صرف اُس کے نقصان کی نسبت سے نہیں ہوتا بلکہ اس کے استعمال کے مواقع کی کثرت وقلت کی وجہ سے بھی ہوتا ہے.اب جاننا چاہئے کہ قرآن کریم کی پہلی مخاطب قوم جس کی اکثریت تھی عرب تھے اور عربوں کا مذہب شرک تھا اور قوموں میں جب بھی رشتہ ناطہ کا سوال پیدا ہوتا برادری کا سوال سب سے پہلے سامنے آتا ہے.پس عربوں کے نزدیک اگر کوئی چیز اہمیت رکھتی تھی تو
خطابات شوری جلد دوم ۲۶۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء وہ عرب اقوام سے رشتہ کا سوال تھا.اہل کتاب کے ساتھ شادی کرنے کی ان کے لئے کوئی کشش نہیں تھی.انہیں کوئی خاص غرض نہ تھی کہ ایک یہودی یا عیسائی کی لڑکی سے شادی کریں.عرب بھی سفید قوم تھے اور یہودی اور عیسائی بھی سفید قوم تھے.اور گوان کے تمدن میں فرق تھا مگر شکلوں میں کوئی فرق نہیں تھا اس لئے کسی مسلمان کے لئے اس میں کوئی کشش نہیں تھی سوائے اس کے کہ اہل کتاب کے ساتھ رشتہ کرنے سے عقلی طور پر اُسے کوئی خاص فائدہ پہنچ سکتا ہو ورنہ اپنی قوم کے رشتے موجود ہوتے تھے اور وہ اُنہی کو ترجیح دیتے تھے.تو اہل کتاب سے رشتہ کرنے کی اجازت بیشک قرآن کریم میں آئی ہے اور اس اجازت سے فائدہ اُٹھانے سے مسلمانوں کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ عربوں کے لئے اس امر میں کوئی ذاتی کشش نہ تھی.ہر شخص جانتا تھا کہ غیر برادری میں شادی وہی کرے گا جو سخت مجبور ہو گا لیکن یہاں یہ بات نہیں.غیر احمدی ہمارے ساتھ قومیت کا تعلق بھی رکھتے ہیں اور اکثر احمدیوں کو برادریوں کے تعلق کے قیام کے لئے ان میں شادی کرنے کی رغبت ہوتی ہے.کوئی کہتا ہے وہ میرے ماموں کی لڑکی ہے اگر میرے گھر میں آجائے تو بہت اچھا ہو.کوئی کہتا ہے فلاں میرے چچا کی لڑکی ہے اس سے میں شادی کرلوں تو کیا حرج ہے.غرض یہاں غیر احمدیوں سے رشتہ میں اتنی کششیں موجود ہیں کہ اہل کتاب والی مثال یہاں بالکل چسپاں نہیں ہو سکتی اور اگر کسی خاص ضرورت کے ماتحت ہم قیود لگا ئیں تو یہ حکمت سے خالی نہ ہوگا.“ اس موقع پر چند نمائندگان نے اپنی آراء پیش کیں چنانچہ رائے شماری کے بعد حضور نے فرمایا: - 66 اس تجویز کے متعلق جو آراء ظاہر کی گئی ہیں، ان میں سے بعض کے متعلق میں کچھ کہنا چاہتا ہوں.ایک دوست نے کہا ہے کہ ہمارا گذشتہ تجربہ یہ ہے کہ اس اجازت کے نتیجہ میں ہمارے بعض لوگ مرتد ہو گئے ہیں.یعنی جب ایسے دوست جنہوں نے غیر احمدی لڑکی سے شادی کی ہوتی ہے فوت ہو جاتے ہیں تو اُن کی بیویاں اُن کے بچوں کو اپنے میکے غیر احمدی گھروں میں لے جاتی ہیں اور وہ غیر احمدی ہو جاتے ہیں یا بعض کمزور طبائع لوگ اپنے سرال کے اثر کے نیچے آکر احمدیت کو چھوڑ گئے ہیں.یہ خیال کئی دوستوں کی طرف سے
خطابات شوری جلد دوم ۲۷۰ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء بیان ہوا ہے.زمیندار دوستوں نے تو یہ بیان کیا ہے کہ ایسے واقعات کم ہوتے ہیں اور شہری دوستوں نے یہ بیان کیا ہے کہ ایسے واقعات زیادہ ہوتے ہیں.میرا خیال ہے کہ یہ ایک نسبتی چیز ہے اور حالات پر محمول ہے.شہر والوں کو سسرال میں زیادہ دیر تک ٹھہرنے کا موقع مل جاتا ہے اور زمینداروں میں سوائے آوارہ گرد نوجوانوں کے یہ بات نہیں پائی جاتی کیونکہ انہیں اپنے کام کاج کی وجہ سے ٹھہرنے کی بہت کم فرصت ہوتی ہے لیکن شہر والے کئی کئی ماہ سرال میں ٹھہر سکتے ہیں.مثلاً ایک طالب علم کالج کی چھٹیوں کے موقع پر خیال کرتا ہے کہ چلو رخصت کے ایام بیوی کے پاس گزار آتے ہیں.اس طرح شہر والوں کو زیادہ نقصان پہنچا ہو گا اور دیہات والوں کو کم.اسی لئے بعض دوستوں نے بیان کیا ہے کہ جب ہم غیروں کے پاس جائیں گے تو اُن پر اپنا اثر ڈالیں گے.بعض دوستوں نے کہا ہے کہ ان کا اثر ہمارے نوجوانوں پر پڑے گا.لیکن سوال یہ ہے کہ جانے والا کیسا ہے اگر وہ دینی لحاظ سے طاقت اور اثر رکھتا ہے تو جہاں وہ جائے گا اپنا اثر ڈالے گا.اور اگر کمزور ہے تو یقیناً وہ دوسروں کا اثر قبول کرے گا.ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کی تعلیم اور تربیت کیسی ہے.سو یہ امر ظاہر ہے کہ ہماری جماعت کے سَابِقُونَ الْأَوَّلُون کی اولاد بھی إِلَّا مَا شَاءَ اللہ اُن سے بڑھ کر تو کیا ان کے ہم پلہ اور ہم رنگ بھی نہیں اور ایسے نوجوان کم ہیں جو دینی تعلیم رکھتے ہوں اور دوسروں پر اثر ڈال سکیں.تو ایسے نوجوان جہاں جائیں تو گے ضرور اثر قبول کریں گے.اور یہ جو کہا گیا ہے کہ غیروں میں جا کر عورتیں مرتد ہو جاتی ہیں.اس کے مقابلہ میں دوسروں نے یہ کہا ہے کہ جب غیر احمدی عورتیں احمدی گھروں میں آ جاتی ہیں تو وہ احمدی ہو جاتی ہیں.در حقیقت یہ دونوں قسم کے واقعات پائے جاتے ہیں.میں اپنے تجربہ کی بناء پر کہہ سکتا ہوں کہ ایسے واقعات بہت زیادہ ہیں کہ غیر احمدی لڑکیاں احمدیوں کے ہاں آکر احمدی ہوگئی ہیں اور وہ لوگ زیادہ حق پر ہیں جو کہتے ہیں کہ غیر احمدی عورتیں احمدیوں کے ہاں آکر احمدی ہو جاتی ہیں.میرے خیال میں سو میں سے نوے ایسی ہوں گی جو آکر احمدی ہوگئی ہیں اور جو جا کر مرتد ہو جاتی ہیں وہ سو میں سے دس ہوں گی بلکہ اس سے بھی کم.بعض تو آتے ہی احمدی ہو جاتی ہیں اور بعض ایک لمبی کشمکش کے بعد احمدی ہو جاتی ہیں.چنانچہ کل
خطابات شوری جلد دوم ۲۷۱ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء ہی ایک مہمان عورت نے آکر میری بیوی کو سُنایا کہ جب احمدیوں میں میری شادی ہو گئی تو میرے رشتہ داروں نے کہا کہ اپنے خاوند کو پھسلانا.میرا بھی یہی خیال تھا کہ جب موقع ملے ایسا کروں.ظاہراً تو خاوند کے کہنے پر میں نے بیعت کر لی لیکن میرے دل کی کیفیت اسی طرف مائل تھی اور ہر موقع پر میں نے یہی کوشش کی کہ کسی طرح اپنے خاوند کو بھی اپنے ساتھ ملا لوں.وقت گزرتا گیا مگر مجھے اس میں کامیابی نہ ہوئی حتی کہ وہ دن آن پہنچا کہ ہمارا نوجوان بیٹا جس کے ساتھ ہماری امیدیں وابستہ تھیں فوت ہو گیا.ہماری رشتہ دار عورتیں تعزیت کے لئے آئیں اور کہنے لگیں کہ دیکھا ! تمہارے احمدی ہونے کی وجہ سے یہ لڑکا فوت ہو گیا ہے اگر تو احمدی نہ ہوتی تو یہ فوت نہ ہوتا.مگر میں بجھتی تھی کہ میں نے تو صرف ظاہراً بیعت کی ہوئی تھی اور دل میں پکی غیر احمدی تھی اس لئے مجھے یہ سزا خدا کی طرف سے ملی ہے اس لئے میں نے اُن سے اُسی وقت کہا کہ جاؤ! میں آج سے پختہ احمدی ہوں.غرض یہ امر بطور دلیل پیش نہیں کیا جا سکتا.حقیقت یہ ہے کہ جب یہ دلیل بیان کی جا رہی تھی خود میری طبیعت کا رُجحان بھی اس طرف ہو جا تا تھا.گو میں مشورہ سے قبل کوئی فیصلہ نہیں کرتا اور میں نے بار ہا دوستوں کے سامنے بیان کیا ہے کہ جب میں مشورہ کے لئے بیٹھتا ہوں تو بالکل خالی الذہن ہو کر بیٹھتا ہوں کیونکہ پہلے ہی اگر ایک فیصلہ کر لیا جائے تو مشورہ بے معنی ہو جاتا ہے.بلکہ ایک موقع پر جب یہ دلیل بیان ہو رہی تھی تو میری طبیعت میں یہ بات آگئی کہ فی الواقعہ کثرت تو ہماری طرف آجاتی ہے.مگر ایک دوست نے اپنی تقریر میں ایک فقرہ ایسا کہا کہ وہ جن کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ آ جاتی ہیں اُن کا لانا تو ہمارے ذمہ نہ تھا مگر جو جاتا ہے اس کی ہدایت کی ذمہ واری ہم پر تھی تو میری طبیعت نے پلٹا کھایا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لا يَضُرُّكُمْ مِّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ ؟ یعنی اگر تمہارے حق اور ہدایت پر ہونے کی وجہ سے کوئی گمراہی میں پڑتا ہے تو تم پر کوئی الزام اور ذمہ واری نہیں.ہدایت یافتہ کو گمراہی میں پڑنے دینا معمولی بات نہیں بلکہ اگر ایک ہزار آتا ہے اور اس کی جگہ ہماری غفلت سے ایک جاتا ہے تو یہ زیادہ خطرناک ہے کیونکہ اس کو بچانے کی ذمہ واری ہم پر تھی.بعض دوستوں نے یہ بیان کیا ہے کہ اگر غیر احمدیوں سے رشتہ لینے کی عام اجازت ہو
خطابات شوری جلد دوم ۲۷۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء گئی تو غیر احمدی ہمارے لائق لڑکوں کو لے جائیں گے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ پڑھے لکھے لڑکے غیروں میں چلے جائیں گے.اگر ایسا ہوا کہ تعلیم یافتہ لڑ کے باہر چلے گئے تو یہ افسوسناک بات ہوگی اس لئے یہ امر بھی قابل غور ہے.بعض دوستوں نے کہا ہے کہ اگر ہم غیر احمدی لڑکیاں لیں گے اور اس کی اجازت ہو جائے گی تو پھر ان کو احمدی لڑکیاں دینی بھی پڑیں گی اور کمزور طبقہ ایسا کر دے گا.ایسی مثالیں ہماری جماعت میں پائی جاتی ہیں کیونکہ وہ پہلے غیر احمدیوں سے لڑکیاں لے چکے ہوتے ہیں پھر وہ غیر احمدی ان سے مطالبہ کرتے ہیں.ایک بات جو بار بار دہرائی گئی ہے کہ احمدی غریب لڑکوں کو لڑکیاں نہیں ملتیں.یہ عام شکایت ہے.مجھ پر بھی یہی اثر ہے کہ بوجہ خیالات میں بلندی پیدا ہونے کے اور احساس زیادہ ہونے کے ہر شخص یہی چاہتا ہے کہ مجھے اعلیٰ درجہ کا رشتہ مل جائے.میں امید کرتا ہوں کہ میرے وہ عزیز دوست اگر میں اُن کا ذکر کروں تو بُرا نہیں منائیں گے.وہ دوست ہماری جماعت میں داخل ہوئے ہیں.چار پانچ ہزار ایکٹر زمین کے مالک ہیں اور بی.اے ہیں اور اگر چہ وہ اتنے مالدار نہیں جتنا کہ خیال کیا گیا ہے.اُنہوں نے اپنے رشتہ کا فیصلہ میرے سپرد کیا ہوا ہے.میں نے دیکھا ہے کہ ان کے لئے ہفتہ میں دو تین خط آ جاتے ہیں اور پچھلے چند ماہ میں کوئی ساٹھ ستر رشتے ان کے متعلق آچکے ہیں حالانکہ بعض رشتہ پیش کرنے والے دوست ایسے نہیں کہ ان کے ساتھ ان کا کوئی جوڑ ہو یا کفو ہو محض اس لئے کہ چار پانچ ہزار ایکٹر زمین کے مالک ہیں ان کے ساتھ رشتہ کرنا چاہتے ہیں.میں ایسے لوگوں کو یہی جواب دیتا ہوں کہ آپ ان سے کہیں جب وہ مجھ سے کہیں گے تو غور ہو سکے گا.تھوڑے دن ہوئے ایک شخص آیا اور اس نے ان کے لئے رشتہ پیش کیا میں نے وہی جواب دے دیا.اس پر اس نے کہا کہ آپ سفارش تو کر دیں.میں نے کہا کہ اگر میں سفارش کرنے لگتا تو اس وقت سفارش کر کے شریعت کی حدود سے زیادہ رشتے کرا دیتا.میں نہیں کہہ سکتا کہ غیر احمدیوں میں یہ خیال ہو لیکن یہاں ہماری جماعت میں بلندی خیال کی وجہ سے ایسا ہے اور یہ خیال کہ لڑکی والا آئے اور کہے کہ میری لڑکی لے لو، نہ تو اس میں کوئی
خطابات شوری جلد دوم ۲۷۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء قابلیت ہو اور نہ ہی کلو کا کوئی خیال ہو بلکہ محض اس لئے کہ فلاں مخلص چار پانچ ہزار ایکٹر زمین کا مالک ہے اور بی.اے تک تعلیم یافتہ ہے، اس سے رشتہ کی خواہش کرنا محض حرص اور لالچ ہے اور قومی گراوٹ پر دلالت کرتا ہے.میں نے اس کا نام اُمنگ رکھا ہے، کیونکہ میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس قدر گراوٹ ہماری جماعت کے احباب میں ہے.لیکن ممکن ہے کہ لڑکی والا کہے کہ احمدیوں میں تو مساوات ہے تو میں کہوں گا بے شک.لڑکے کو چاہئے کہ اس بات کا خیال کرے، لڑکی والوں کو تو ایسا نہیں چاہئے.دیکھو! ایک طرف شریعت کہتی ہے کہ اپنا مال دو اور دوسری طرف کہتی ہے لا تمدن عينيك إلى مَا مَتَّعْنَاية أَزْوَاجًا مِنْهُمْ ، گویا مال والوں کو تو یہ حکم دیا کہ مال خرچ کرو اور محتاجوں کو ارشاد فرمایا کہ اس کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھو.اسی طرح شادی کے بارہ میں مال وغیرہ کے ملحوظ رکھنے کا کوئی حکم نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا عَلَيْكَ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَہ یعنی اے مومن! تیرا کام یہ نہیں کہ دیکھے کہ بیوی حسب نسب والی یا مال دار یا صاحب جمال ہے بلکہ اگر حسب نسب والا خدا نے تجھے بنایا ہے تو تجھے اس جھگڑا میں پڑنے کی ضرورت نہیں کہ بیوی حسب نسب والی نہیں.اولا د تو باپ کی طرف ہی منسوب ہوگی یا اگر بیوی مالدار یا صاحب جمال نہیں ہے تو تیرے لئے یہ حکم ہے کہ تو اپنے مال اور جمال پر قناعت کر.اور ارشادفرمایا کہ تیرا یہ کام ہے که تو ذات الدین بیوی کی تلاش کرے.شریعت تو کہتی ہے کہ اگر کوئی غریب ہو کر سائل بنتا ہے تو وہ مردود ہے.اور اگر کوئی مال دار ہو کر بخل کرتا ہے اور اپنے بھائی کو فائدہ نہیں پہنچانا چاہتا تو وہ بھی مردود ہے.وہ نیکی خدا نے اس کے لئے فرمائی ہے اور یہ حکم تیرے لئے.غرض یہ مساوات کی نصیحت تو لڑکے والوں کو تھی نہ کہ لڑکی والوں کو.پس یقیناً یہ مرض جماعت میں موجود ہے اور جماعت کے احباب کو چاہئے کہ اس نقص کی اصلاح کی طرف توجہ کریں.رشتہ میں کفو کی اہمیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بعض ایسے رشتوں کو روک دیا تھا کہ جو مناسبت نہ رکھتے تھے اور فرمایا کہ کفو اور مناسبت کو دیکھ کر رشتے کئے جائیں اس لئے ہماری جماعت کو اس بات کی طرف توجہ کرنی
خطابات شوری جلد دوم ۲۷۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء چاہئے اور لڑکوں میں یہ بات پیدا کرنی چاہئے کہ رشتہ کا تلاش کرنا ان کے ذمہ ہے نہ کہ لڑکی والوں کے اور رشتہ تلاش کرتے وقت وہ ذاتِ الدین کو ترجیح دیں.پس ہمارے دوستوں کو اس بات کی طرف خاص توجہ کرنی چاہئے.میں احباب کو اس امر کی طرف بھی توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ انہوں نے اپنی تربیت اولاد لڑکیوں میں کوئی خوبی بھی پیدا کی ہے یا نہیں.جن لوگوں کو خدا نے حیثیت دی ہے، انہیں چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کی اچھے رنگ میں تعلیم و تربیت کریں.قادیان کے بعض اولین کی اولاد کی تربیت خراب ہے.اگر غرباء اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرتے ہیں تو وہ زیادہ مستحق ہیں کہ ان کی طرف توجہ کی جائے.ایک دوست نے کہا ہے کہ لڑکیاں زیادہ قابل ہیں اور لڑ کے اس قدر قابل نہیں ، اس لئے لڑکوں میں قابلیت پیدا کرنی چاہئے مگر یہ خیال غلط ہے.لڑ کے قابل ہیں لیکن لڑکیوں کی تعلیم کی زیادہ قیمت لگائی جاتی ہے اور ان کی معمولی تعلیم کو بھی بہت بڑی تعلیم سمجھ لیا جاتا ہے.مثلاً لڑکا اگر میٹرک پاس ہو تو کوئی توجہ نہیں کرتا اور نہ اسے کوئی اہمیت دی جاتی ہے.اگر لڑ کی میٹرک پاس ہو تو اُسے کہتے ہیں کہ بہت لائق ہو گئی ہے اور اگر ایف.اے یا بی.اے ہو جائے تو پھر اس کی لیاقت کا کوئی حساب ہی نہیں رہتا.ایک شخص کو ابھی جماعت سے خارج کیا گیا ہے اُن کو لڑکیاں پڑھانے کا شوق تھا.جب انٹرنس پاس کیا تو مجھ سے مشورہ کرنے آئے.میں نے انہیں مشورہ دیا کہ زیادہ تعلیم کی وجہ سے پھر رشتوں میں دقت پیدا ہو گی.مگر اُنہوں نے تعلیم کو جاری رکھا اور ایف.اے اور ایف.اے کے بعد بی.اے اور ساتھ ہی رشتے کی تلاش کرتے رہے مگر جب پہلے کوئی رشتہ انہیں پسند نہیں آتا تھا تو اب زیادہ تعلیم کی صورت میں کیونکر پسند آ سکتا تھا.اب لازماً ان لوگوں کو کسی ولایت پاس شدہ کی تلاش پیدا ہوئی.انہی کے متعلق میں نے ایک خطبہ بھی پڑھا تھا اور اس میں توجہ دلائی تھی کہ ہر ولایت سے آنے والے کو احمدی بنالینا میرے بس کی بات نہیں اور نہ میں یہ کر سکتا ہوں کہ اپنے خرچ پر ولایت میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے لڑ کے بھیجوں.اس کے بعد ان کی بیوی میرے پاس آئی اور اُس نے کہا کہ آپ تو ہمیں کوئی رشتہ تلاش کر کے دیتے نہیں پھر ہمیں مجبوراً غیر احمدیوں کے ساتھ شادی کرنی پڑے گی.میں نے کہا کہ میں نے تو
خطابات شوری جلد دوم ۲۷۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء آپ کو رشتے بتائے تھے جو آپ کو پسند نہیں آئے.جس پر اُس نے کہا کہ ہم مجبور ہیں کہ ایسی حالت میں غیر احمد یوں میں رشتہ کر دیں.میں نے کہا یہ تو شریعت کا مسئلہ ہے، میرے پاس کوئی طاقت نہیں کہ میں آپ کو اس سے روک سکوں بجز اس کے کہ آپ کو شریعت کے مسئلہ سے واقف کر دوں.اس گفتگو کے بعد وہ چلی گئیں اور اپنے خاوند سے جا کر کہا کہ اجازت ہو گئی ہے.پھر ان کے خاوند میرے پاس آئے کہ میری بیوی کہتی ہے کہ آپ نے اجازت دے دی ہے.تو میں نے اُنہیں سارا واقعہ سُنا دیا اور کہا کہ شریعت کا مسئلہ ہے میں اجازت دینے والا کون ہوں اور کس طرح شریعت کے خلاف کر سکتا ہوں.کچھ عرصہ کے بعد معلوم ہوا کہ انہوں نے اپنی ایک لڑکی کی غیر احمد یوں میں شادی کر دی اور بہانہ یہ بنایا کہ خلیفہ المسیح نے رشتہ کا انتظام نہیں کیا مجبور ہو گئے ہیں اور جس کے ساتھ شادی کی ہے سُنا ہے کہ وہ پرائمری پاس ہے“ اس موقع پر ایک دوست نے عرض کیا کہ حضور! وہ پرائمری پاس بھی نہیں ہے حضور نے فرمایا:.د محض اس لئے کہ وہ ایک وزیر کی فوت شدہ بیوی کا بھائی ہے اس کے ساتھ شادی کر دی ہے.حیرت کی بات یہ ہے کہ امور عامہ نے جب ان سے جواب طلب کیا تو اُنہوں نے لکھ بھیجا کہ ہم نے اجازت کے بعد رشتہ کیا ہے اور اپنی بیوی کا حوالہ دے دیا کہ وہ خلیفہ اسیح سے اجازت لے آئی تھیں.لڑکیوں کی تعلیم میں احتیاط کی ضرورت غرضیکہ ہماری جماعت کے احباب کو لڑکیوں کو تعلیم دلانے میں احتیاط سے کام لینا چاہئے.تعلیم کے بعد لڑکیوں کی قیمت زیادہ لگائی جاتی ہے اور وہ محض اس خیال سے کہ زیادہ دولت مل جائے.لڑکی تو باپ کی ہوتی ہے مگر شرم میں محسوس کرتا ہوں کیونکہ جماعت کی لڑکیاں بھی میری ہی لڑکیاں ہیں.سو اگر تعلیم دلانی ہے تو اس نیت سے دلانی چاہئے کہ ہم نے احمدی کے ساتھ ہی رشتہ کرنا ہے جیسا بھی میسر آجائے ، ورنہ موجودہ صورت میں تعلیم دلانا سخت دینی نقصان کا موجب ہے اور لڑکیوں کے رشتے آپ جا کر پیش کرنا یہ بھی شریعت کے خلاف ہے.قرآن کریم صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہی اس معاملہ میں خاص کرتا ہے.چنانچہ فرماتا ہے و امراةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا النَّبِيِّ إن
۲۷۶ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء خطابات شوری جلد دوم آراد النَّبِيُّ أَن يَسْتَنْكِحَهَا خَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ یعنی صرف حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہی شان ہے کہ کوئی عورت اپنے آپ کو بطور ہبہ پیش کرے کیونکہ اس میں اُس عورت کی کوئی کسر شان نہیں.دوسرے لوگوں کو شریعت اجازت نہیں دیتی کہ لڑکی پیش کریں بلکہ لڑکے والوں کو رشتہ طلب کرنا چاہئے.اگر لڑکی والالڑ کی پیش کرے گا تو یہ سمجھا جائے گا کہ وہ ایک سائل کی حیثیت میں آیا ہے.الغرض تعلیم کے معاملہ میں نہایت احتیاط کی ضرورت ہے اور یہ وہ نقائص ہیں جن کا دور کرنا ہمارے لئے ضروری ہے.ایک سوال یہ اُٹھایا گیا ہے کہ اگر یہ حد بندی اُڑا دی جائے تو قومیت کا سوال ہمارے سامنے پھر آ جائے گا اور لوگ اپنی قوم کی لڑکیوں کی تلاش میں لگ جائیں گے.اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ قیود کی وجہ سے قومی تعصب کم ہو رہا ہے اور اس کی بیسیوں نظائر ہیں.میں دیکھتا ہوں کہ ایک وقت میں ایک شخص میرے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں سید ہوں، کوئی سید لڑکا تلاش کر دیں.جب سید رشتہ نہیں ملتا تو پھر کچھ مدت کے بعد وہی شخص کہتا ہے کہ اچھا قریشی ہی سہی.جب وہ بھی نہیں ملتا تو اور چھ ماہ بعد وہ کہنے لگتا ہے کہ اچھا کوئی مغل یا پٹھان ہی مل جائے.اگر وہ بھی نہیں ملتے تو آخر کہہ دیتے ہیں کہ احمدیت کا سوال ہے اس لئے اب ہم کوئی شرط نہیں کرتے.تو یہ درست ہے کہ ان قیود نے قومیت کے ناجائز تعصب کو بہت حد تک احمدیوں سے اُڑا دیا ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ اب ہمارے تعلقات محدود ہو رہے ہیں.جب غیر احمد یوں سے رشتہ داری کے تعلقات تھے تو تبلیغ کا میدان کُھلا تھا اور لوگ کثرت سے احمدی بنتے تھے.مگر جب سے حد بندیاں قائم کی جا رہی ہیں، تبلیغ کا میدان تنگ ہو رہا ہے.جولوگ پہلے احمدی ہوئے وہ تو اپنے خاندانوں کو احمدی بنا چکے ہیں اور جو نئے آتے ہیں وہ اکیلے وکیلے آتے ہیں اور حد بندیوں کی وجہ سے آئندہ نئے تعلقات قائم نہیں ہو سکتے.تو یہ بھی ایک سوال ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی ایسا محکمہ ہو جو اس کام کو اچھی طرح چلائے اور ایسے رشتوں کی اجازت دے جس سے تبلیغ کا میدان وسیع ہو تو یہ فائدہ مند ہو گا.اب اُن کو اجازت ملتی ہے جن کو احمد یوں میں رشتہ نہیں ملتا اور زیادہ حصہ انہی لوگوں کا ہے اِس سے اُتر کر ان لوگوں کو اجازت ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ اجازت سے
۲۷۷ خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء احمدیت کو فائدہ پہنچے گا اور یہ لوگ بہت ہی کم ہیں.غرض ان قیود میں بعض مفید پہلو بھی ہیں اور بعض مھر بھی اس لئے اس وقت تک میرا خیال یہی ہے کہ موجودہ قاعدہ کہ اجازت کے ساتھ شادی کی جائے میرے نزدیک مرجح ہے اس لئے میں کثرت رائے کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں کہ تین سال تک مزید یہ قاعدہ جاری رہے کہ جو احمدی غیر احمدی لڑکی سے شادی کرنا چاہے، ناظر تعلیم سے اجازت لے کر کرے اس کے بغیر نہیں.مگر ساتھ ہی محکمہ متعلقہ کو ہدایت کرتا ہوں کہ جہاں فوائد ہوں وہاں اجازت دینے میں بخل سے کام نہ لیا جائے.“ امراء کے انتخاب کا طریق ۱۶.اپریل ۱۹۳۸ء کو مجلس مشاورت کے دوسرے اجلاس میں سب کمیٹی نظارت علیا کی طرف سے یہ تجویز پیش ہوئی کہ:- امراء کے تقرر کے لئے مشورہ بذریعہ عام اجلاس نہ ہو بلکہ ہر ایک امارت کے علاقہ میں جہاں کہ چندہ دہندگان کی تعداد چالیس یا چالیس سے زیادہ ہو ایک مجلس انتخاب مقرر کی جائے جو اس علاقہ کے منتخب شدہ نمائندوں اور مرکز کی طرف سے نامزد شدہ اصحاب پر مشتمل ہو اور امراء کے انتخاب کے متعلق مشورہ دینے کا حق صرف اس مجلس کے ممبران تک محدود کر دیا جائے.“ اس سلسلہ میں حضور نے فرمایا :- ر بعض دوستوں نے یہ سوال اُٹھایا ہے کہ تقریر امیر کا مسئلہ ایک مذہبی مسئلہ ہے اس لئے اس کے متعلق اُس اسوہ کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یا آپ کے بعد خلفاء کے زمانہ میں اختیار کیا جاتا تھا میرے خیال میں یہ ایک ایسا امر ہے جس کی طرف توجہ کی جانی چاہئے اور اس لئے میں اپنے علماء کو جو تاریخ یا اس سے متعلقہ مضامین پڑھاتے ہیں موقع دینا چاہتا ہوں کہ اس کے متعلق اپنے خیالات اختصار کے ساتھ بیان کریں مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب، میر محمد اسحاق صاحب اور مولوی محمد اسماعیل صاحب اپنے اپنے خیالات ظاہر کریں.“ اس پر اس تجویز کے بارے میں یکے بعد دیگرے ممبران نے اپنی آراء پیش کیں.
خطابات شوری جلد دوم ۲۷۸ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء ووٹ لینے پر یہ تجویز کثرتِ رائے سے پاس ہوگئی.اور فیصلہ ہوا کہ :- جہاں جماعت کے ممبر چالیس یا اس سے زیادہ ہوں وہاں انتخاب امیر براہ راست دو نہ ہو بلکہ احباب جماعت کی منتخب کمیٹی انتخاب کرے.“ اس کے بعد بعض ترامیم پیش کی گئیں جن پر ممبران کے اظہارِ خیال اور رائے شماری کے بعد حضور نے فرمایا : - " ر بالواسطه انتخاب کا جو مسئلہ نظارت اعلیٰ کی طرف سے پیش کیا گیا ہے اس کی حکمت پوری طرح میری سمجھ میں نہیں آئی اور اس کے جواز کے لئے جو مشکلات پیش کی گئی ہیں میری طبیعت پر یہ اثر ہے کہ ان پر پوری طرح غور نہیں کیا گیا اور میرا اندازہ ہے کہ اس تجویز سے ان مشکلات کا حل نہیں ہو سکتا.یہ بحث سیاسیات میں ہمیشہ چلتی رہتی ہے کہ بیرونی اثر تھوڑے آدمیوں پر جلدی ڈالا جا سکتا ہے یا زیادہ پر اور اس کے متعلق ابھی دُنیا کوئی فیصلہ نہیں کرسکی.ہندوستان کے کانسٹی ٹیوشن (CONSTITUTION) کی ترتیب کے وقت بھی یہ بحث بڑے زور سے ہوئی ہے کہ انتخابات بالواسطہ ہوں یا بلا واسطہ.اور جہاں تک مجھے یاد ہے اس ضمن میں یہ سوال بھی زیر بحث آیا تھا کہ زیادہ اثر کس پر ڈالا جا سکتا ہے.بعض مدبروں کی رائے یہ ہے کہ تھوڑے لوگوں پر اثر کم ڈالا جا سکتا ہے، اس لئے انتخاب بالواسطہ ہونا چاہئے.بعض کی اس کے خلاف.میری اپنی رائے بھی ثانی الذکر کے مطابق ہے.اور جہاں تک مجھے یاد ہے.سائمن رپورٹ پر میں نے جو تبصرہ لکھا تھا اُس میں بھی اسی رائے کا اظہار کیا تھا کہ تھوڑے لوگوں پر زیادہ اثر ڈالا جا سکتا ہے مگر اس کے انتخابات بلا واسطہ ہونے چاہئیں.اس وقت ہمارے سامنے مذہبی نظام ہے اور دنیوی نکتہ نگاہ مذہبی نکتہ نگاہ سے مختلف ہو سکتا ہے.عین ممکن ہے کہ ایک شخص سیاسیات کے میدان میں تو انتخاب بالواسطہ کا حامی ہو لیکن مذہبی انتخاب اُس کے نزدیک بلا واسطہ ہونا ضروری ہو اس لئے میں یہ تو نہیں کہتا کہ اس وقت بھی میری وہی رائے ہے جو میں نے ہندوستان کی کانسٹی ٹیوشن کی تیاری کے وقت دی تھی لیکن اس امر کا اقرار کرتا ہوں کہ اس مسئلہ کے تمام پہلوؤں پر میں نے جو اس وقت غور کیا ہے اس کے رو سے میں کہہ سکتا ہوں کہ اس تجویز کو اس وقت پیش کرنے کی حکمت میری سمجھ میں نہیں آئی.ابھی تک مجھ پر یہی اثر ہے کہ جن مثالوں کی بنیاد
۲۷۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء خطابات شوری جلد دوم پر اس کی ضرورت سمجھی گئی ہے وہ کوئی ایسی فیصلہ کن مثالیں نہیں ہیں کہ ان کے پیش نظر یہ یقین کیا جا سکے کہ انتخاب با لواسطہ ضرور مفید ہو گا.اس وقت صرف دو ایسی جماعتیں ہیں جن میں امراء کے انتخاب کے مسئلہ پر اختلاف ہے اور میرا خیال ہے کہ یہ تجویز اُن دونوں جگہوں پر ہی فساد کو تیز کرنے والی ہوگی کیونکہ وہاں کوئی ایسا آدمی نہیں جس کی ذاتی بڑائی دینی یا دنیوی لحاظ سے دوسروں کو مرعوب کر سکے.بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہم زیادہ کام کرسکیں گے.یہاں کوئی تنخواہ وغیرہ تو ملتی نہیں.پس یہی ایک رستہ ہے جس سے شیطان ور غلا سکتا ہے اور کہتا ہے کہ شاباش ! ہمت کرو، قوم کی زندگی تمہیں سے وابستہ ہے.اور یہ تجویز ایسے وہموں کا خاطر خواہ انسداد نہیں کر سکتی اس لئے میں اسے کوئی مؤثر چیز نہیں سمجھتا.مگر چونکہ کثرتِ رائے اس کے حق میں ہے اس لئے اسے منظور کرتا ہوں اور فیصلہ کرتا ہوں کہ جن جماعتوں میں چالیس سے زیادہ چندہ دہندہ افراد ہوں ان کی ایک مجلس انتخاب چنی جائے (جس کے لئے قواعد صدرانجمن احمد یہ تجویز کرے) اور وہ مجلس انتخاب امیر کا انتخاب کیا کرے.دوران سال میں یہ امر میرے مدنظر رہے گا بلکہ اگر ضرورت ہوئی تو آئندہ سال بھی.پھر جن جماعتوں میں جھگڑے وغیرہ ہوتے ہیں ان کو بھی میں مدنظر رکھوں گا اور اگر ضرورت محسوس ہوئی تو پھر اس پر غور کر لیا جائے گا.ایک زمیندار دوست نے کہا ہے کہ جب خلیفہ نے ہی آخری منظوری دینی ہے تو پھر انجمن کی طرف سے نامزدگی کی کیا ضرورت ہے؟ میرے نزدیک بھی یہ بات صحیح ہے اگر انجمن کو کوئی اعتراض ہو تو اسے خلیفہ وقت کے سامنے پیش کر سکتی ہے.جو بات بہر حال ہماری منظوری سے ہونی ہو، اُس میں اس قسم کی بیخ کی ضرورت نہیں.ہاں ایک قسم کی نامزدگی ہے جسے کسی صورت میں بھی نظرا نداز کرنا جائز نہیں اور وہ یہ کہ ایسی جگہ پر جتنے صحابی ہوں گے وہ سب اُس مجلس کے ممبر ہوں گے.اُن میں سے اگر کوئی انتخاب میں آجائیں تو وہ انتخاب کے حق سے ممبر ہوں گے لیکن جو صحابی منتخب نہ ہوں وہ بھی اُس مجلس کے ممبر بہ حیثیت صحابی کے ہوں گے.فرض کرو کہ کسی جماعت میں دس صحابی ہیں.ان میں سے پانچ منتخب ہو گئے ہیں، باقی پانچ بھی اُس مجلس کے ممبر ہو جائیں گے گویا وہ دس کے دس صحابی ہی ممبر ہوں گے.
خطابات شوری جلد دوم ۲۸۰ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء دوسری تبدیلی میں یہ کرنی چاہتا ہوں کہ ساٹھ سال سے اوپر کے چندہ دینے والے احمدی بھی سب کے سب بطور حق اس مجلس انتخاب کے ممبر ہوں گے“.جو احمدی کسی جگہ ساٹھ سال سے زائد عمر کے ہوں وہ بھی اس مجلس کے ممبر سمجھے جائیں گے کیونکہ اس عمر کے لوگ تجربہ کار ہوتے ہیں اور ان کی رائے سلجھی ہوئی ہوتی ہے اس لئے ان کی رائے سے فائدہ اُٹھانا چاہئے.بوڑھوں کی رائے ہمیشہ مفید ہوتی ہے.بچپن میں ایک کہانی سنا کرتے تھے کہ کسی راجہ کی لڑکی سے دوسرے راجہ کے لڑکے کی شادی قرار پا گئی مگر لڑ کی کا والد رشتہ پسند نہ کرتا تھا اور چاہتا تھا کہ کسی نہ کسی آڑ میں انکار کر دے.چنانچہ اُس نے پہلے یہ شرط پیش کی کہ بارات کے ساتھ بوڑھا کوئی نہ آئے لیکن بوڑھے وزیر نے کہا کہ مجھے صندوق میں بند کر کے ضرور ساتھ لے چلو تمہیں فائدہ ہوگا.جب بارات وہاں پہنچی تو لڑکی والوں نے یہ شرط پیش کر دی کہ ہر برائی کو ایک سالم بکرا کھانا پڑے گا.بوڑھے وزیر نے مشورہ دیا کہ ہم کھائیں گے مگر بکرا ایک ایک کر کے لایا جائے اور ظاہر ہے کہ ہزار آدمیوں کو ایک بکرا کی بوٹی بوٹی بھی نہیں آ سکتی تھی.اس قصہ کا سبق یہ ہے کہ بعض فوائد بوڑھے آدمیوں کی رائے سے بھی حاصل کئے جا سکتے ہیں.دوسرے اس طرح بڑھاپے کی عزت بھی قائم رہے گی.پس ان دو تر میموں کے ساتھ میں اس تجویز کو منظور کرتا ہوں کیونکہ کثرتِ رائے اِس کے ساتھ ہے.اس بحث کے دوران میں ایک یہ سوال بھی زیر بحث آیا ہے کہ شریعت اس بارہ میں کیا کہتی ہے.اس کے لئے میں نے بعض علماء سے بھی دریافت کیا اور اُنہوں نے اپنے خیالات ظاہر کئے ہیں.اصولی طور پر اس کے متعلق میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ امارت کے لفظ سے بعض لوگ دھوکا کھاتے ہیں.عربوں میں یہ لفظ قومی سردار کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے، چاہے وہ نظامِ حکومت کے لحاظ سے کوئی حیثیت رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو.اس کے علاوہ امیر کے معنے یہ بھی ہیں کہ وہ شخص جو افراد اور مرکز کے مابین واسطہ ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں کوئی ایسی مثال ہمیں نہیں ملتی کہ مافي الذکر امیر کا لوگوں نے انتخاب کیا ہو.ایسے امیر ہمیشہ مقرر ہی ہوتے رہے.ہاں یہ ضرور مدنظر رکھا جاتا تھا کہ اس تقریر میں لوگوں کی مرضی کا دخل ہو.لوگ کسی کے تقرر پر اعتراض کر دیتے تو بعض دفعہ
۲۸۱ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء خطابات شوری جلد دوم اسے واپس بلا لیا جاتا تھا.پھر بعض دفعہ تقرر سے پیشتر بھی مشورہ لے لیا جاتا تھا.اِن دونوں طریق کی مثالیں احادیث میں ملتی ہیں.حضرت ابو بکر ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان کے زمانہ میں بھی ایسی مثالیں ملتی ہیں.حضرت علیؓ کے زمانہ میں بھی میرا خیال ہے کہ ایسی مثال ہے.اگر چہ اس وقت یقینی طور پر یاد نہیں.حضرت عمر کے زمانہ کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ حضرت مغیرہ یمن کے گورنر مقرر ہوئے.اُس علاقہ کے لوگوں نے کہا کہ یہ شخص چونکہ ٹیکس سختی سے وصول کرتا ہے اس لئے کوشش کرو کہ یہاں آئے ہی نہیں.ان میں سے ایک شخص بہت ہوشیار تھا.اُس نے کہا کہ مجھے ایک لاکھ درہم جمع کر دو تو میں جا کر شکایت کرتا ہوں کہ یہ روپیہ مغیرہ نے رشوت لی ہے.وہ شخص حدیث العہد تھا اور جھوٹ کی قباحت کو پوری طرح نہیں سمجھا تھا.چنانچہ اس نے وہ روپیہ حضرت عمرؓ کے پیش کیا کہ یہ مغیرہ نے رشوت لی ہے.حضرت مغیرہ نہایت سمجھدار اور عظمند تھے اور صحابہ میں بہت نیک سمجھے جاتے تھے.حضرت عمرؓ نے اُن کو بلایا اور پوچھا کہ کیا تم نے یہ روپیہ رشوت لیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں لیا ہے مگر ایک لاکھ نہیں دو لاکھ اور وہ میں نے اسی کے پاس جمع کر دیا تھا.اس پر وہ شخص گھبرا گیا اور کہا کہ یہ بات بالکل غلط ہے اور اُنہوں نے کوئی رقم دراصل وصول کی ہی نہیں.یہ محض ان کی سختی کی وجہ سے ہم نے سازش کی تھی تا آپ ان کی جگہ دوسرے والی کو بھجوا دیں.اس واقعہ اور بہت سے اور واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت والیوں کو بدلنے کا بھی رواج تھا لیکن انتخاب خود خلیفہ وقت ہی کرتا تھا.ہاں ایک امیر اور بھی ہوتے تھے جولوگوں کے خیالات آکر حکومت کے سامنے پیش کرتے تھے.یہ لوگ بے شک منتخب ہوتے تھے اور قوم انہیں اپنا نمائندہ بنا کر بھیجتی تھی.مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک دفعہ ایک وفد آیا اور آپ نے فرمایا کہ آپ لوگ اپنے میں سے ایک امیر منتخب کریں اور وہی بات چیت کرے.تو ایسے امیر جن کو حکومت کی طرف سے کوئی رتبہ نہیں ملتا تھا بے شک منتخب ہوتے تھے لیکن جن کو حکومت کی طرف سے کوئی رتبہ ملتا تھا وہ انتخابی نہیں ہوتے تھے، وہ مقرر کئے جاتے تھے.ہاں تقریر کے وقت لوگوں کی مرضی کو ضرور مدنظر رکھ لیا جاتا تھا اور اب چونکہ یہ کوئی ایسا عہدہ نہیں کہ جس کی تنخواہ ہو اس لئے اس کی بھی ضرورت نہیں کہ مرکز سے مقرر کر کے بھیجا جائے ، وہیں سے آدمی لینے پڑتے ہیں اور چونکہ ہمیں لوکل حالات کا
خطابات شوری جلد دوم ۲۸۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء علم نہیں ہوتا اور ممکن ہوتا ہے کہ کوئی غلطی کر جائیں اس لئے یہ تجویز کی ہوئی ہے کہ ناموں کی تجویز تو اُن لوگوں سے کرائیں اور انتخاب خود کریں.اور ہم نے یہ بھی قاعدہ رکھا ہوا ہے کہ امیر کے لئے کوئی جماعت صرف ایک آدمی کا نام نہ بھیجے بلکہ زیادہ نام بھیجے جائیں.ابتدا ء ایسا ہی ہوتا تھا کہ مختلف نام بھیجے جاتے تھے جن میں سے ہم ایک کو منتخب کر دیا کرتے تھے مگر آہستہ آہستہ وہ بات نہ رہی اور صورت بدلتی چلی گئی جس کی ذمہ داری بہت حد تک ناظر اعلیٰ پر ہے جو قاعدہ کی پابندی پر اصرار نہیں کرتے.خلافت کے انتخاب کا طریق خلافت کے انتخاب کے متعلق بھی کئی طریق ثابت ہیں.ایک یہ کہ مرکزی جماعت کے موجودہ ممبر انتخاب کر لیں یا جماعت میں سے چند لوگ انتخاب کر لئے جائیں اور پھر وہ انتخاب کریں.یا ایک خلیفہ دوسرے خلیفہ کو منتخب کر دے جیسے حضرت ابوبکر نے حضرت عمرہ کو کیا.تو یہ مختلف طریق ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلفاء سے ثابت ہیں.اور آپ نے فرمایا ہے کہ عَلَيْكُمُ بِسُنَّتِي وَ سُنَّةِ خُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ اور قرآن کریم نے صحابہ کو نجوم قرار دیا ہے.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اَصْحَابِی كَالنُّجُوْمِ بِآتِهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ جو لوگ حقیقی طور پر صحابہ ہیں منافق نہیں وہ سب ستاروں کی طرح ہیں جس کی چاہو پیروی کرو ہدایت ہی ملے گی.اور صحابہ سے یہ سارے طریق ثابت ہیں.اس واسطے ہمارے لئے گنجائش ہے کہ زمانہ کے حالات کے لحاظ سے جو مناسب سمجھیں اختیار کر لیں.مگر یہ ضروری ہے کہ پبلک کی مرضی کا خیال رکھا جائے اور اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے موجودہ طریق رکھا ہوا ہے.ایک زمانہ میں سب کی رائے لی جاسکتی ہے اور پھر ایسا وقت بھی آ سکتا ہے جب سب کی رائے لی ہی نہ جاسکے.جیسے ہم امید رکھتے ہیں کہ احمدیت ساری دنیا میں پھیل جائے گی اُس وقت اگر سب کی رائے لینے کے طریق پر عمل کیا جائے تو ممکن ہے سال دو سال تک کوئی خلیفہ ہی نہ ہو اور یا پھر بنو عباس والا طریق ہو جو بالآخر انسان کی تباہی کا باعث ہوا تھا.تمام مسلم و غیر مسلم مورخ اس امر پر متفق ہیں کہ ان کی تباہی کا موجب یہی بات ہوئی کہ وہ ایک خلیفہ کے وقت میں ہی دوسرا مقرر کر دیتے تھے جو خلاف اسلام بھی تھا اور خلاف مصلحت بھی.
خطابات شوری جلد دوم ۲۸۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء پس یہ دونوں طریق (یعنی جن کا ذکر پہلے ہو چکا ہے ) جائز ہیں اور موقع کے لحاظ سے ان سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے.بالواسطہ انتخاب امیر کے طریق سے بھی بعض فتنے پیدا ہو سکتے ہیں اور تفصیلی قواعد بناتے ہوئے ان باتوں کو مدنظر رکھنا چاہئے.جیسا کہ میں نے کہا ہے ابھی ۱۰۰ میں سے صرف ایک ہی جگہ کوئی فتنہ ہے.پس بہتر تو یہی تھا کہ نظارت اس کی اصلاح کا انتظام کرتی.مثلاً انتخاب کے لئے مرکز سے آدمی بھیج دیئے جاتے جو ہر ایک سے حلف لیتے کہ آزادانہ رائے دیں گے اور باقی جگہوں کے لئے کسی ایسے قاعدہ کی ضرورت نہ تھی مگر چونکہ کثرت سے دوستوں نے اس کی تائید میں رائے دی ہے اس لئے میں اسے منظور کر لیتا ہوں اور فیصلہ کرتا ہوں کہ :- فیصلہ و آئندہ امارت کے انتخاب کے لئے یہ قاعدہ ہوگا کہ جہاں چالیس ۴۰ یا اس سے زیادہ چندہ دہندہ ممبر ہوں وہاں کی جماعت کے امیر کا انتخاب بلا واسطہ نہ ہوگا بلکہ ایک مجلس انتخاب کے ذریعہ سے ہوگا.جس کے ممبروں کو چندہ دہندگان حسب قواعد منتخب کیا کریں گے.(اس کی بقیہ تفصیلات صدر انجمن احمد یہ طے کرے گی ) علاوہ ان ممبران مجلس منتخبہ کے تمام مقامی صحابی اور تمام چندہ دہندگان مقامی ممبر جن کی ساٹھ سال سے زائد عمر ہو اس انتخاب میں حصہ لینے کے حقدار ہوں گے.“ تشخیص بجٹ نظارت بیت المال کی طرف سے یہ تجویز آئی کہ تشخیص بحجٹ اور تحصیل چندہ کے سلسلہ میں جن لوگوں کی آمد معین نہیں مثلاً دکاندار اور پیشہ ور وغیرہ، وہ یا تو اپنی آمد کا حساب دکھائیں یا پھر ان کی آمد کی تصدیق کے متعلق ان کا حلفیہ بیان لیا جایا کرے سب کمیٹی مجلس مشاورت نے اسے مناسب نہ سمجھا اور اس کی بجائے یہ تجویز پیش کی دو ہر چندہ دہندہ سے اُس کی آمد کے متعلق بے شک دریافت تو زیادہ کوشش اور تعین کے ساتھ کیا جائے مگر کسی حلف یا اقرار صالح کی ضرورت نہیں اور جہاں یہ محسوس ہو کہ کسی شخص نے اپنی آمد کم بتائی ہے یا
خطابات شوری جلد دوم ۲۸۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء وہ آمد بتانے سے ہی انکاری ہو تو اُس کے متعلق نصیحت اور تحریک کی صورت میں کوشش کی جائے.“ اس بارہ میں چند نمائندگان نے اپنی آراء پیش کیں اور پھر ووٹ لئے گئے تو معلوم ہوا کہ غالب اکثریت سب کمیٹی کی تجویز کے حق میں ہے.اس پر حضور نے فیصلہ کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا: - فیصلہ میں کثرتِ رائے کے حق میں فیصلہ کرتا ہوں.حلف ایسے مقام پر درحقیقت ایک غیر شرعی چیز ہے.جس چیز پر ہمارے کام کی بنیاد ہے وہ یہ ہے کہ ایسے شخصوں کا یا تو ہم حساب لے سکیں یا ہم ان کی بات پر اعتبار کریں.حساب لینا غیر شرعی نہیں.زکوۃ میں حساب لیا جاتا ہے.سوال صرف اتنا ہے کہ آیا حساب لینے کے ہمارے پاس سامان ہیں یا نہیں؟ اگر ہوں تو ہمیں ایسے ماہر انسپکٹر مقرر کرنے پڑیں گے جولوگوں کی آمد کی اچھی طرح جانچ پڑتال کریں اور پھر ممکن ہے کہ بعض کمزور طبائع اس سے ٹھوکر کھا جائیں.تاجر طبقہ کی چندوں میں بے احتیاطی میں جہاں تک سمجھتا ہوں مجھ پر اثر یہ ہے کہ تاجر طبقہ چندوں میں اتنا محتاط نہیں جتنے محتاط دوسرے لوگ ہیں.میں اس کے متعلق ارادہ رکھتا ہوں کہ بعض اور ذرائع کو استعمال میں لاکر ( بغیر ان طریقوں کے جن کو کمیٹی نے نا پسندیدہ قرار دیا ہے ) کوشش کی جائے کہ تاجروں کی آمدنیاں معلوم کی جائیں.میری رائے اس وقت یہی ہے کہ تاجر چندوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے ہیں.میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ گو میں نے کثرتِ رائے کو قبول کیا ہے لیکن میرے نزدیک اس کی تجویز کا حصہ درست نہیں ہے.یعنی اس کی یہ تجویز کہ اگر تاجر اپنی آمد بتانے سے انکار کر دیں تو انہیں نصیحت اور تحریک کی جائے.اس کے صرف یہ معنے ہوں گے کہ جو تنخواہ دار ہیں ہم سب بوجھ اُنہی پر ڈال دیں اور تاجر آرام سے بیٹھے رہیں.پس حلف بے شک نا پسندیدہ ہے مگر کوئی وجہ نہ تھی کہ تاجر سے اتنا بھی نہ پوچھا جائے کہ اس کی آمد کتنی ہے اور وہ اتنی بات بتانے سے بھی انکار کر دے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دوکاندار بعض دفعہ اپنا گاہک بتانا بھی پسند نہیں کرتا.بعض دفعہ وہ یہ بھی نہیں بتاتا کہ فلاں چیز وہ کہاں سے خریدتا ہے اور کس بھاؤ خریدتا ہے.بعض دفعہ وہ منڈی تک کا پتہ نہیں
۲۸۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء خطابات شوری جلد دوم دیتا اور یہی اس کی تجارت کے راز ہوتے ہیں.اگر وہ تجارتی راز بتا دے تو مارکیٹ میں اپنی پوزیشن کھو بیٹھے.لیکن بغیر ان باتوں میں سے کسی بات کے دریافت کرنے کے اور بغیر حساب دکھانے کے اگر وہ یہ کہے کہ میں اپنی آمد نہیں بتا تا تو اس کا سوائے اس کے اور کوئی مطلب نہیں کہ وہ گورنمنٹ کو بھی دھوکا دینا چاہتا ہے اور خدا تعالیٰ سے بھی دھوکا کرتا ہے.حالانکہ جیسے خدا کے ساتھ جھوٹ بولنا نا جائز ہے اسی طرح گورنمنٹ کے ساتھ جھوٹ بولنا بھی نا جائز ہے.یہ ہوسکتا ہے کہ ہم اگر اس کا حساب دیکھیں تو ہمارا وہ آدمی جو حساب دیکھے وہ محتاط نہ ہو اور اس کا راز فاش کر دے اور اس کی تجارت کو نقصان پہنچ جائے.لیکن ہم اگر اس پر اعتبار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تمہارا حساب نہیں دیکھتے تم صرف اتنا بتا دو کہ تمہاری آمد کیا ہے اور وہ کہہ دے کہ میں آمد بتانے کے لئے تیار نہیں تو اس کا سوائے اس کے اور کیا مطلب ہے کہ وہ گورنمنٹ کو دھوکا دے رہا ہے اور چاہتا ہے کہ انکم ٹیکس سے بچ جائے اور اسی وجہ سے ہم سے بھی حساب چُھپاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس ایک دفعہ ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ میرے پاس کر یہ نہیں تھا.میں بغیر ٹکٹ کے گاڑی پر سوار ہو گیا اور یہاں آ گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ سن کر اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور روپیہ دو روپے جتنا کرایہ بنتا تھا نکال کر اُس کے سامنے رکھ دیا اور فرمایا جاتی دفعہ ٹکٹ خرید لینا.اور فرمایا یہ بھی ویسا ہی دھوکا ہے جیسے دنیا میں کوئی اور دھوکا کیا جاتا ہے اور انکم ٹیکس سے بچنے کے لئے اپنی آمد غلط بتا دینا یہ بھی دھوکا ہے.انسان کو دلیری سے اپنی آمد بتا دینی چاہئے.اللہ تعالیٰ اس سچ کے عوض اُس کے روپیہ میں برکت دے گا اور پھر اپنی عقل سے کام لے کر کوشش کرنی چاہئے کہ آمد بڑھ جائے.پس یہ تجویز غیر طبعی ہے اور اس بات کی کوئی وجہ نہیں کہ تاجر اپنی آمد نہ بتا ئیں.اگر کوئی تاجر اتنا بھی نہیں بتا تا کہ اس کی آمد کیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سارا بوجھ تنخوا دار کارکنوں پر ڈال دیا جائے اور وہ چندوں سے چھوٹ جائیں“.
خطابات شوری جلد دوم ۲۸۶ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء چندہ جلسہ سالانہ کی اہمیت سب کمیٹی مجلس مشاورت کی طرف سے یہ تجویز پیش ہوئی کہ :- جلسہ سالانہ کا چندہ ایک ماہ کی آمد پر پندرہ فیصدی کی نسبت سے آئندہ لازمی چندوں کے ساتھ بجٹ میں شامل کیا جائے.“ بعض ممبران اور جناب ناظر صاحب بیت المال نے اس تجویز کے بارہ میں اپنے خیالات کا اظہار کیا.رائے شماری کے بعد حضور نے چندہ جلسہ سالانہ کی اہمیت واضح کرتے ہوئے فرمایا:- میں اس کے متعلق بعض باتیں کہنی چاہتا ہوں.اوّل تو یہ کہ میرے خیال میں وہ تجویز جس کو پیش کیا جائے اُسے اپنے اعداد و شمار سے کوئی نسبت ہونی چاہئے.اس وقت تک میرا خیال یہی تھا کہ پندرہ فیصدی چندہ جلسہ سالانہ جو طلب کیا جاتا ہے وہ کسی حساب سے طلب کیا جاتا ہے اور لازمی قرار دیا جاتا ہے اور جماعتیں اگر پورا نہ کریں تو اُن سے جواب طلبی کی جاتی ہے.لیکن آج مجھ پر پہلی دفعہ یہ انکشاف ہوا کہ یہ چندہ جو طلب کیا جاتا ہے لازمی نہیں سمجھا جاتا اور پندرہ فیصدی مانگنے کے بعد جس نے جو کچھ دے دیا اُسی کو کافی سمجھ لیا جاتا ہے.اگر اس قسم کے طریق کو جاری کیا جائے تو اس کے دو نہایت خراب نتائج ہوتے ہیں.ایک تو یہ کہ لوگوں کے قلوب میں تحریکات کی وقعت کم ہو جاتی ہے اور دوسرے یہ کہ جو لوگ کام کرنے والے ہیں اُن کے کام میں سُستی پیدا ہو جاتی ہے.اور بجائے محنت کر کے اپنے کام کو پورا کرنے کے انہیں یہ خیال آنے لگ جاتا ہے کہ اچھا اگر اب کی دفعہ چندہ کم آیا تو اگلی دفعہ میں فیصدی کی تحریک کر دیں گے اور اگر پھر بھی کم آیا تو پچیس فیصدی کی تحریک کر دیں گے.گویا وہ شرح کو اس لئے نہیں بڑھاتے کہ اس کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ اس لئے بڑھاتے ہیں تا مخلصین کو ڈراویں اور کہیں کہ ہم کتنی بڑی قربانی کا مطالبہ کر رہے ہیں.مگر میرے نزدیک یہ طریق بالکل نا درست ہے.میری اپنی رائے دیر سے یہ ہے اور بعض دفعہ مجالس شوریٰ میں اختصار کے ساتھ میں
خطابات شوری جلد دوم ۲۸۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء وو اس کا اظہار بھی کر چکا ہوں کہ چندہ جلسہ سالانہ کی اہمیت زمینداروں کے سامنے اگر پورے طور پر واضح کی جائے تو وہ اپنے ملکی رواج کے مطابق اسے مختلف رنگوں میں پورا کر سکتے ہیں.آخر ہماری جماعت ان طبقوں سے ہی آئی ہے جو عُرس وغیرہ مناتے ہیں اور ہمارے ملک میں اہم چندہ وہی سمجھا جاتا ہے جو عُرس کے لئے کیا جائے اور گو جلسہ سالانہ اور عُرسوں میں کوئی نسبت نہیں لیکن ایک زمیندار جب جلسہ سالانہ کا نقشہ کھینچتا ہے تو عرس کا نقشہ ہی اس کے ذہن میں آتا ہے.پس اگر اسی طریق سے زمینداروں سے چندہ وصول کیا جائے جس طرح عُرسوں کے موقع پر لوگ وصول کرتے ہیں تو بہت زیادہ آمد ہو سکتی ہے.لیکن میرا خیال ہے آج تک اس امر کو واضح نہیں کیا گیا کہ ہر سال بقایا رہ جاتا ہے اور جلسہ کے اخراجات پورے نہیں ہوتے.اگر یہ طے کر لیا جاتا کہ چندہ عام سے ہی جلسہ سالانہ کے اخراجات پورے کر لئے جائیں گے تو اس صورت میں بے شک چندہ جلسہ سالانہ کی تحریک کو ایک معمولی بات سمجھا جاتا اور کہا جاتا کہ اس کی ویسی ہی مثال ہے جیسے کہتے ہیں ” جاتے چور کی لنگوٹی ہی سہی مگر جہاں تک مجھے علم ہے چندہ جلسہ سالانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ سے ہی شروع ہے.بعض دوستوں نے غلطی سے یہ سمجھا ہے کہ یہ چندہ عام کا ہی ایک حصہ ہے جسے الگ کر دیا گیا ہے حالانکہ مجھے ایک مثال بھی ایسی یاد نہیں جب چندہ جلسہ سالانہ کے لئے الگ تحریک نہ کی گئی ہو.تو یہ چندہ نہایت ہی پرانے چندوں میں سے ہے.اس کو اگر اچھے طور پر پیش کیا جاتا تو میں سمجھتا ہوں وصولی کے لحاظ سے وہ حالت نہ ہوتی جواب ہے.میں ہمیشہ ناظر صاحب بیت المال سے یہ پوچھتا رہا ہوں کہ یہ پندرہ فیصدی چندہ کس نسبت سے مانگا جاتا ہے؟ مگر مجھے اس کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا اور میں سمجھتا ہوں اس چندہ کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کہتے ہیں کسی پٹھان نے کہا ” جاٹ رے جاٹ تیرے سر پر کھاٹ.“ یہ سن کر وہ کہنے لگا پٹھان رے پٹھان تیرے سر پر کولہو.کسی نے پوچھا کہ
خطابات شوری جلد دوم ۲۸۸ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء قافیہ نہیں ملا.وہ کہنے لگا قافیہ تو نہیں ملا مگر کو لہو اتنا وزنی ہے کہ اس کا سرتوڑ دے گا.اسی طرح میں سمجھتا ہوں وہ بھی مطالبہ تو پندرہ فی صدی کا کرتے رہے مگر دل میں یہ خیال کر لیا کہ اگر آٹھ دس فیصدی بھی چندہ آ گیا تو کام بن جائے گا حالانکہ پندرہ فی صدی کی نسبت سے ۴۵ ہزار روپیہ آنا چاہئے تھا اور ان کا خرچ اس وقت ہمیں چھپیس ہزار ہے.اگر لوگ اس اصل پر روپیہ دیتے تو ان کے پاس روپیہ بیچ بھی جاتا.مگر انہوں نے جس نیت سے مانگا تھا اُسی کے مطابق انہیں چندہ ملا.میرا خیال ہے ۱۹۲۶ء یا ۱۹۲۸ء کی بات ہے کہ اُس وقت بھی میں نے کہا تھا کہ یہ طریق غلط ہے مگر اُس وقت بھی مجھے یہی جواب دیا گیا تھا کہ چونکہ سب لوگ چندہ دیتے نہیں اس لئے ہم زیادہ چندہ کا مطالبہ کرتے ہیں حالانکہ اس طریق سے چندہ لینے کی کیا ضرورت ہے.اب بھی جو پندرہ فی صدی چندہ لگایا گیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ باوجود اس کے کہ جلسہ سالانہ کا خرچ زیادہ ہے پھر بھی یہ شرح زیادہ ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر اخراجات کی نگرانی کی جائے تو خرچ میں بھی کمی ہو سکتی ہے.اس کا یہ مطلب نہیں جیسا کہ بعض نادان کہا کرتے ہیں کہ اخراجات میں کمی کی تجویز یہ ہے کہ قانون بنا دیا جائے کہ سب کو ایک ایک روٹی ملا کرے گی.یہ طریق اخراجات میں کمی کرنے کا نہیں بلکہ جو قواعد چلے آتے ہیں اور مہمان نوازی کا جو دستور اب تک ہماری طرف سے ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے کمی کے متعلق مشورہ کیا جائے اور اگر کوئی ایک دوست یا ایک جماعت امید دلائے کہ قواعد کے مطابق عمل کرتے ہوئے وہ خرچ کم کر کے دکھا دے گی تو اُس سال انتظام اُن کے سپرد کر دیا جائے.لیکن اگر جلسہ سالانہ کے اخراجات کم نہ ہوسکیں تب بھی اس سال چھپیں ہزار خرچ بتایا گیا ہے لیکن چندہ عام کی اس سال جو آمد ہوئی ہے وہ دو لاکھ دس ہزار ہے.اس لحاظ سے چندہ جلسہ سالانہ پندرہ فیصدی کے حساب سے پینتالیس ہزار وصول ہونا چاہئے تھا.میں مان سکتا ہوں کہ گزشتہ سے پیوستہ سال بیس ہزار روپیہ خرچ اور گزشتہ سال پچیس ہزار، مگر پچیس اور پینتالیس ہزار میں کوئی جوڑ نہیں.پس جہاں میں سب کمیٹی
خطابات شوری جلد دوم ۲۸۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء کی یہ تجویز منظور کرتا ہوں کہ آئندہ چندہ جلسہ سالانہ لازمی ہوگا، وہاں بجائے پندرہ فی صدی کے میں دس فیصدی مقرر کرتا ہوں.اگر دس فی صدی چندہ پوری جد وجہد اور کوشش سے وصول کیا جائے تو تمہیں ہزار روپیہ کے قریب وصول ہو سکے گا.اور ہما را موجودہ خرچ اس سے کم ہے.بعض دوستوں نے کہا ہے کہ جلسہ سالانہ کے موقع پر بھی اگر کچھ چندہ جمع کر لیا جائے تو اُس وقت بہت سے لوگ کچھ نہ کچھ دے دیتے ہیں.میرے نزدیک اس تجویز کو اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں.پہلے یہ دستور ہوا کرتا تھا مگر پھر اسے بند کر دیا گیا.اب پھر اسے جاری کر کے دیکھ لیا جائے.میرے نزدیک اس طرح دو چار ہزار روپیہ آسانی سے جمع ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں مگر میرے نزدیک ایک اور تجویز کو بھی مدنظر رکھ لیا جائے اور وہ یہ ہے کہ مجھے ہمیشہ خیال آتا ہے کہ ضلع گورداسپور پر مہمان نوازی کاسب سے زیادہ فرض عائد ہوتا ہے.پس اگر ضلع گورداسپور کے احمدیوں کے سپرد یہ کیا جائے کہ اُنہوں نے مثلاً جلسہ سالانہ کے لئے گیہوں مہیا کرنا ہے تو یہ زیادہ مناسب ہوگا.اس میں کوئی فخر کی بات نہیں کہ میں جو جلسہ سالانہ کا چندہ دیتا ہوں وہ میری اصل آمد کا قریباً سو فیصدی ہوتا ہے اور یہ اس لحاظ سے ہے کہ میں سمجھتا ہوں در حقیقت مہمان نوازی کا فرض شریعت کی رو سے ہم پر عائد ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں.پس اگر ہمارے گورداسپور کے ضلع کی احمد یہ جماعتوں کے ذمہ یہ بات ڈال دی جائے کہ وہ گیہوں مہیا کریں اور روپیہ کی بجائے.جنس کی صورت میں ہی ان کا چندہ وصول کر لیا جائے تو میں سمجھتا ہوں آمد انشاء اللہ بہت زیادہ ہوگی.ناظر صاحب ضیافت یہاں بیٹھے ہیں کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ جلسہ سالانہ پر کتنا گیہوں خرچ ہوتا ہے.“ ناظر صاحب ضیافت : ۸۰۰ امن.اٹھارہ سو من گیہوں کا جمع کرنا ضلع گورداسپور کے احمدیوں کے لئے کوئی بڑی بات
خطابات شوری جلد دوم ۲۹۰ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء فیصلہ نہیں.اسی طرح لائل پور اور سرگودھا والوں کے ذمہ یہ بات ڈال دی جائے کہ وہ سارا گھی جمع کرتے رہیں اور میں تو سمجھتا ہوں اگر ضلع لائل پور اور سرگودھا کے دوست وہی گھی جو اپنے سروں پر لگایا کرتے ہیں چند دن نہ لگا ئیں اور جمع کرتے رہیں تو اُسی سے کئی کنستر بھر سکتے ہیں.بہر حال زمینداروں سے جنس کی صورت میں اور شہریوں سے روپیہ کی صورت میں اس چندہ کی وصولی کی جائے.جنس کی صورت میں زمینداروں سے چندہ لینے کا ایک یہ بھی فائدہ ہوسکتا ہے کہ ایک زمیندار جو چار آنے چندہ دے سکتا ہے اُسے اگر جنسکی صورت میں چندہ دینے کے لئے کہا جائے تو بالکل ممکن ہے وہ دو روپے کی مرچیں دے دے اور اس طرح اُس کا چندہ بہت بڑھ جائے.اسی طرح بعض ضلعوں کے سپرد ماش کی دال کی جائے.کسی کے سپر د روشنی کا خرچ کیا جائے.کسی کے سپر د دوسری اجناس کی جائیں.اس طرح بہت سہولت سے چیزیں جمع ہوسکتی ہیں.ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ دس فیصدی سے زیادہ چندہ وصول کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور میری اپنی رائے یہی ہے کہ اخراجات میں اور بھی کمی ہوسکتی ہے لیکن اگر خرچ کم نہ ہو تب بھی دس فیصدی چندہ اخراجات کے لئے بالکل کافی ہے.مگر دس فیصدی چندہ کا یہ مطلب نہیں کہ جو پندرہ فی صدی چندہ دے سکتا ہے وہ بھی نہ دے.جو شخص پندرہ فیصدی چندہ دیتا ہے اُس کا خدا کے پاس اجر ہے اور ہم اس کے اجر کے راستے میں روک نہیں بن سکتے.پس اس شرح میں اگر کوئی شخص خوشی سے زیادتی کرنا چاہے تو وہ ہر وقت کر سکتا ہے لیکن وہ لوگ جو دس فیصدی چندہ نہیں دیتے اُنہیں ہم مجبور کریں گے کہ وہ دس فیصدی چندہ ضرور دیں اور اگر اجناس بھی ملا لی جائے تو عُرس والوں کی طرح اخراجات کے بعد بہت سی رقم ہمارے پاس بیچ بھی جائے گی.
خطابات شوری جلد دوم ۲۹۱ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء سب کمیٹی مجلس مشاورت نے مبلغین کی تیاری اور تقرر کے بارہ میں ہدایات چھی تجویز کہ: - د مبلغین کی کانٹ چھانٹ کی جائے“ کو مناسب قرار دیا.نمائندگان مجلس نے بھی سوائے ایک کے سب نے اس کے حق میں رائے دی.اس کی ضرورت اور پس منظر واضح کرتے ہوئے حضور نے اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور نہایت قیمتی ہدایات سے جماعت کو نوازا.اس تجویز کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا : - " چوتھی تجویز مبلغین کی کانٹ چھانٹ کے متعلق ہے.اس کے متعلق کثرتِ رائے کے حق میں فیصلہ کرتا ہوں اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیتا ہوں کہ اس کانٹ چھانٹ سے کسی کو نقصان نہیں ہے، صرف الاؤنس والوں کو الگ کیا گیا ہے اور یہ دراصل بے قاعد گی تھی جس کا ازالہ کیا گیا ہے.حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک ناظروں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ قانون کا احترام کرنا چاہئے.مومن روحانی لحاظ سے چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بھی دیکھتا ہے.ایک صوفی کے متعلق لکھا ہے کہ اُس کا گھوڑا جب کبھی چلتے چلتے رک جاتا تھا تو اس کی توجہ اس طرف پھرتی تھی کہ میرے ماتحت میرے منشاء کے خلاف رُکتا ہے، شاید میں نے اپنے مالک (خدا) کی مرضی کے خلاف کوئی کام کیا ہے.مگر میں عام طور پر دیکھتا ہوں کہ ناظر بالعموم اصطلاحی بہانوں سے شوری کے فیصلوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور قانون توڑتے ہیں.بعض ناظر دوسروں کے اثرات کو قبول کر لیتے ہیں اور اس اثر کے ماتحت ان کے گزارہ کی کوئی صورت پیدا کر لیتے ہیں.مثلاً سفر خرچ کے بجٹ سے الاؤنس دے دیتے ہیں.میں بار بار شوری میں کہہ چکا ہوں کہ ایسے الاؤنس نا جائز ہیں اور ایسی باتوں سے نحوست پیدا ہوتی ہے.جب ایک فیصلہ کیا گیا ہے کہ صرف ہمارے پاس شدہ مبلغ ہی لئے جائیں اور اگر کوئی دوسرا لینا ہے تو باقاعدہ اُس کی منظوری لی جائے تو پھر کیوں ایسا نہیں ہوتا.جماعتیں تو انتظار میں رہتی ہیں اور چینی رہتی ہیں کہ مبلغ نہیں پہنچتا.لیکن جب سفر خرچ
خطابات شوری جلد دوم ۲۹۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء کی رقم دوسری جگہ خرچ کر لی جاتی ہے تو مبلغین جماعتوں میں کیسے پہنچیں.اس کے متعلق صدر انجمن بھی جواب دہی میں ویسے ہی ذمہ وار ہے جیسے الاؤنس دینے والے.میں سوچ رہا ہوں کہ بعض دوسرے لوگوں کو بھی صدر انجمن میں داخل کر دوں تا نگرانی اچھی طرح ہو سکے.اب جب کے چار لاکھ کے قریب قرضہ ہو گیا ہے جو دو سال کی آمد سے بھی اُترنا مشکل ہے تو میں نے دیکھا کہ نہ تو ناظر توجہ کرتے ہیں اور نہ صدر انجمن اپنی ذمہ داری کو ھتی ہے اور نہ ہی جماعت کے احباب اپنے حق کا مطالبہ کرتے ہیں.تو باوجود یکہ میں ایسے معاملات میں دخل نہیں دیتا لیکن اس موقع پر میں نے دخل دینا ضروری سمجھا اور ہدایت دی کہ اس کے مطابق بجٹ بنایا جائے.اگر جماعت کے احباب مشورہ دیں گے کہ وہ اخراجات ادا کر دیویں گے تو پھر تبدیلی نہ کی جائے اور اسی طریق پر انتظام قائم رہے اور یہ امر جماعت کے مخلصین پر مشکل نہیں.اس سے قبل بھی جب ایک دفعہ صدر انجمن احمدیہ کی مالی حالت خراب ہوگئی تو میں نے ارادہ کیا کہ اس بار کو دور کر دیا جائے.خواہ اپنی ساری ہی جائیداد کیوں نہ فروخت کرنی پڑے اور میں نے اس کا ذکر میاں بشیر احمد صاحب سے بھی کیا.اُنہوں نے اس سے اتفاق کیا اور غالباً چوہدری ظفر اللہ خان صاحب سے اُنہوں نے ذکر کیا تو وہ بھی تیار ہو گئے اور اس طرح اس وقت قریباً سات آدمی اس بوجھ کے اُٹھانے کے لئے تیار ہو گئے.اس کی اور صورتیں بھی ہو سکتیں ہیں مگر جب تک کوئی انتظام نہ ہو تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ایسا نہ کیا جائے.تحریک جدید کے پہلے مبلغین کے انتخاب کے وقت صرف یہ دیکھا جاتا تھا کہ جرات کے ساتھ کام کرنے کا مادہ ہو، لیاقت کا زیادہ خیال نہیں رکھا گیا تھا.اس وقت ایسے آدمی کی ضرورت تھی جو دلیری کے ساتھ آگ میں اپنے آپ کو ڈال دینے والا ہو.چنانچہ ایسے لوگوں کو منتخب کر کے ہم نے بھیج دیا اور وہ مقصد حاصل بھی ہو گیا.ان میں سے بعض دینی علوم اور عربی سے بھی اچھی طرح واقف نہ تھے.بلکہ بعض کا تقویٰ کا معیار بھی اتنا بلند نہ تھا.مگر اُس وقت ہمیں صرف آواز پہنچانی تھی اور دشمن کو یہ بتانا تھا کہ ہمارے پاس ایسے نو جوان ہیں جو اپنا آرام و آسائش، اپنا وطن عزیز واقارب، بیوی بچوں غرضیکہ کسی چیز کی پرواہ نہ کرتے ہوئے نکل جائیں گے.بھوکے پیاسے رہیں گے اور دین کی خدمت کریں گے.
خطابات شوری جلد دوم ۲۹۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء ایسی قوم کو جس میں ایسے نوجوان ہوں ماردینا ناممکن ہوتا ہے، چنانچہ ہم نے یہ دکھا دیا.بعض نوجوان برائے نام گزارے لے کر اور بعض یونہی باہر چلے گئے اور اس طرح ہمارا خرچ بارہ مشنوں پر قریباً ایک مشن کے خرچ کے برابر ہے.لیکن جب وہ زمانہ گزر گیا اور جب ہم نے یہ بتا دیا کہ ہمارے پاس ایسے نوجوان ہیں جو ہر وقت لبیک کہنے پر آمادہ ہیں تو اس کے بعد اب دوسرا انتخاب کیا جاتا ہے.باقاعدہ تعلیم دی جاتی ہے زیادہ معتین قانون بنا دیئے گئے ہیں اور اب ہمیں ایسے نوجوان مل رہے ہیں.پس اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے تبلیغ میں کمی نہیں ہوئی بلکہ صرف طریق تبدیل کیا گیا ہے اور زیادہ خرچ والا طریق چھوڑ کر کم خرچ والا اختیار کیا گیا ہے.وقف کرنے والے نو جوانوں سے کام لیا جا رہا ہے.میں نے دیکھا ہے بعض لوگ وقف کا صحیح مفہوم بھی نہیں سمجھتے.وہ اپنے چھوٹے بچوں کو جو دین کے نام سے بھی ناواقف ہوتے ہیں لے آتے ہیں کہ ہم اسے وقف کرتے ہیں اور میں کہہ دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی نیت کا آپ کو بدلہ دے اور لڑکے کو توفیق دے کہ بڑا ہو کر آپ کے خیالات سے اتفاق کرنے والا ہو اور یہ وقف کی رسم ختم ہو جاتی ہے.لیکن بعض لوگ غربت کو دین کا جامہ پہنانا چاہتے ہیں وہ محض اس لئے وقف کا لفظ استعمال کرتے ہیں کہ لڑکے کی تعلیم کا انتظام ہو جائے.میں جب کہتا ہوں کہ اچھا ہم اسے کسی کام پر لگا لیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ نہیں جی ہم نے تو سمجھا تھا کہ یہ پڑھے گا.تو اُن کی اصل غرض تعلیم دلانا ہوتی ہے مگر نام وقف کا لیتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ایسے لڑکوں پر مبلغین کے انتخاب کو حاوی کرنا نقصان دہ امر ہے.ایک وقت ہم مجبور تھے کہ ایسے مبلغ لیں.چنانچہ تین سال پہلے ہم نے لئے مگر آج نہیں لے سکتے.جنگ عظیم کے دنوں میں رنگروٹوں کو صرف دو ماہ کی ٹریننگ کے بعد آگے بھیج دیا جاتا تھا حالانکہ عام حالات میں یہ عرصہ دو سال کا ہوتا ہے.اُس وقت صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ اُسے بندوق کندھے پر رکھنا آتی ہو اور وہ ڈرے نہیں اور یہ اس لئے کیا جاتا تھا کہ میدان خالی نہ رہے.میں نے جنگ عظیم کے متعلق پڑھا ہے کہ ایک موقع ایسا آ گیا تھا کہ سات میل کا رقبہ بالکل خالی ہو گیا تھا.اس موقع میں انگریزی فوج کے آدمی یا تو شکست کھا کر ہٹ چکے تھے اور یا مارے جاچکے تھے.اگر جرمن افواج کو اس کا علم ہو جاتا تو جنگ کا نقشہ بالکل بدل
خطابات شوری جلد دوم ۲۹۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء جاتا.جب جنرل HAUG کو اس کا علم ہوا تو اُس نے ایک ماتحت جرنیل کو جو شاید آسٹیرین یا کینیڈین تھا بُلایا اور کہا کہ ایسا ایسا واقعہ ہو گیا ہے.ہمارے پاس اس وقت فوج نہیں جو اس خلاء کو پورا کر سکے.میں یہ کام تمہارے سپرد کرتا ہوں کہ جس طرح بھی ہو سکے انتظام کرو کہ یہ خلا پُر ہو جائے.چنانچہ وہ جرنیل موٹر میں بیٹھا اور دھوبیوں اور باورچیوں اور دوسرے ملازموں سے جو فوج کے پیچھے کام کرتے ہیں جا کر کہا کہ تم لوگ ہمیشہ جنگ میں شریک ہونے کی خواہش کیا کرتے ہو.آج تمہارے لئے بھی حو صلے نکالنے کا موقع آ گیا ہے.جو ہتھیار جس کے ہاتھ میں آئے لے لو اور چلو.بعض کو بندوق چلانی آتی تھی انہیں تو بندوقیں دے دی گئیں مگر دوسروں نے گدالیں اور پھاوڑے وغیرہ لے لئے.بعض نے کفگیر ہی اُٹھائے اور چار پانچ گھنٹے اُس خلا کو پُر کئے رکھا اور دشمن کو یہ خیال بھی نہ ہوا کہ یہاں کوئی فوج نہیں ہے حتی کہ پیچھے سے ٹمک آگئی.اس طرح گزشتہ تحریک کے موقع پر میں نے بعض ایسے مبلغ بھی لئے تھے جو ہر گز اس ذمہ واری کو اُٹھانے کے قابل نہ تھے لیکن ہم نے کہا کہ جاؤ اور صرف اتنا کہہ دو کہ مسیح آ گیا اور اس بات میں اُن کی طرف سے غلطی کا کیا امکان ہو سکتا تھا.گو اُن میں سے بعض نے غلط مسائل بھی بیان کر دیئے اور بعد میں ہمیں سنبھالنا پڑا مگر اب وہ حالات بدل رہے ہیں.مبلغین کی ذمہ داریاں سالہا سال کے غور کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ملغ بننا بڑی ذمہ واری ہے.مبلغ پیدا نہیں کیا جا سکتا بلکہ وہ پیدا.ہوتا ہے.یہ خیال کہ کوئی کالج مبلغ پیدا کر سکتا ہے بالکل غلط ہے.مبلغ وہ ہے جس کے دل کی ایمان کی حالت انبیاء کے ایمان کی مثل ہو اور ظاہر ہے کہ یہ چیز خدا کی دین ہے ہم کسی کے اندر سے پیدا نہیں کر سکتے.یہ خیال کرنا کہ قدوری یا ہدا یہ یا تفسیریں پڑھنے سے یہ بات پیدا ہو سکتی ہے بالکل غلط ہے.کتابیں پڑھ کر ایک شخص عالم تو بن سکتا ہے مگر مبلغ نہیں.مبلغ کے حقیقی انتخاب کا وقت وہ ہوتا ہے جب اُس کی فطرت کی گہرائیوں کا اندازہ ہو جائے، اُس کے جو ہر ظاہر ہو جائیں اور اُس کا ایمان آزمائشوں کی بھٹی میں پڑ چکا ہو.میں مانتا ہوں کہ دینی تعلیم کا انتظام بھی ضروری ہے لیکن مدرسہ میں پڑھنے کے وقت تو طالب علم کو خود بھی اپنے جوہر کا علم نہیں ہوتا.پس تعلیم دینی کا انتظام تو ہونا چاہئے لیکن یہ ضروری نہیں کہ
خطابات شوری جلد دوم ۲۹۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء تعلیم حاصل کرنے والوں کو مبلغ بنا دیا جائے.صحابہ کے زمانہ میں یہ سہولت تھی کہ اُن کا دین بھی عربی زبان میں تھا اور اُن کی اپنی زبان بھی یہی تھی مگر ہمارے لئے یہ وقت ہے کہ دین تو عربی میں ہے مگر زبان اردو ہے اس لئے وہ ساری قوم میں سے مبلغین انتخاب کر سکتے تھے مگر ہم ایسا نہیں کر سکتے اس لئے ضروری ہے کہ اس مدرسہ کو جاری رکھا جائے تا انتخار کے لئے میدان موجود رہے.اس کے ساتھ میں نے تجویز کی ہے کہ ان لوگوں کے لئے ایسا انتظام بھی ہونا چاہئے کہ وہ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد اپنے گزارہ کی صورت بھی نکال سکیں.ہم انہیں ملک کے مختلف گوشوں میں پھیلا دیں اور وہ اپنا گزارہ کریں اور ساتھ ساتھ تبلیغ بھی کرتے رہیں اور جب یہ ثابت کر دیں کہ ان کے دل میں جوش ہے، ان پر وہی مثال صادق آتی ہے کہ دست در کار دل بایار “ اور دین کی اشاعت کے لئے ان کے دل میں تڑپ ہے تو پھر انہیں بلا کر تبلیغ کے کام پر لگایا دیا جائے.وہ خواہ باہر جا کر کوئی پیشہ اختیار کریں تب بھی ہمیں یہ پتہ لگ سکتا ہے کہ وہ مبلغ بن سکتے ہیں یا نہیں.جماعت کے بعض دکاندار اور بعض ملازم پیشہ دوست بھی تبلیغ کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کو تبلیغ کرنے والوں سے کم کام نہیں کرنا پڑتا.دونوں اُتنا ہی وقت دفتر میں یا دکان میں کام کرتے ہیں.فرق صرف یہ ہے کہ جس کے دل میں شوق ہوتا ہے وہ دفتر سے فارغ ہو کر تبلیغ کے لئے نکل جاتا ہے اور جسے شوق نہیں ہوتا وہ گھر جا کر لیٹ جاتا ہے.غرض اپنا اپنا کام کرنے والوں کی نسبت بھی آسانی سے پتہ لگ سکتا ہے کہ کسے تبلیغ کا شوق ہے اور کسے نہیں.اور اس طرح بیسیوں آزمودہ مبلغوں میں سے کسی کا پورے وقت کا مبلغ بنانے کے لئے انتخاب کیا جا سکتا ہے.اور ایسا انتخاب یقیناً با برکت ہوگا.پس بہتر طریق یہ ہے کہ علماء کو پیشے سکھا کر باہر بھیج دیا جائے کہ اپنا اپنا کام کریں اور پھر دیکھا جائے کہ وہ دین کے کام میں لگے ہوئے ہیں یا نہیں اور اپنے عمل سے ثابت کرتے ہیں یا نہیں کہ ان کے دل میں اللہ تعالیٰ اور اُس کے دین کی محبت ہے.اس طرح انہوں نے علم تو پہلے سیکھا ہوا ہو گا اور ایمان کا ثبوت اپنے عمل سے دے دیں گے.ایسے لوگ مبلغ بنائے جائیں گے تو وہ بہترین مبلغ ثابت ہوں گے.اب بھی بعض وہ علماء جو باہر سے بطور مبلغ لئے ہوئے ہیں نسبتا زیادہ بہتر ہیں.مثلاً
۲۹۶ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء خطابات شوری جلد دوم مولوی راجیکی صاحب، مولوی بقا پوری صاحب، مولوی محمد نذیر صاحب لائل پوری.یہ ہمارے کالج کے پڑھے ہوئے نہیں ہیں مگر اپنے عمل سے انہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ ان کے دل میں دین کا جوش ہے.بعض لوگ مبلغین میں بھی ہیں جو بہت اچھے ہیں اور موجودہ ضرورت کے لئے جس لیاقت کی ضرورت ہے اس میں وہ بڑھے ہوئے ہیں اس لئے مدرسہ اور کالج کی ضرورت تو بہر حال ہے صرف مبلغین کے انتخاب کے سٹم میں تبدیلی کی ضرورت ہے.ہم اُن لوگوں کو لے لیتے ہیں جو اچھا بولنے والے ہوں.حالانکہ نہ اچھے بولنے والوں سے یہ کام چلتا ہے اور نہ اچھے لکھنے والوں سے ،ضرورت ایمان اور اخلاص کی ہوتی ہے.جب دل میں اخلاص ہو تو بولنا اللہ تعالیٰ خود ہی سکھا دیتا ہے.دیکھو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اچھا بولنا نہیں آتا تھا اور اُنہوں نے اللہ تعالیٰ سے کہا بھی کہ میرے بھائی کو بولنا آتا ہے لیکن وہی موسیٰ علیہ السلام جنہیں بولنا نہیں آتا تھا اور جن کے متعلق مفسرین لکھتے ہیں کہ ان کی زبان میں لکنت تھی اور قرآن شریف سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اُن کو تقریر کی مشق نہ تھی.مگر جب خدا تعالیٰ نے اُن کو نبوت دی، ایمان کا چشمہ اُن کے اندر سے پُھوٹ پڑا تو فرعون کے سامنے جا کر خود ہی تقریر کی.حضرت ہارون بھی ساتھ تھے مگر اُن کو ایک لفظ تک آپ نے بولنے نہیں دیا اور خود اس زور سے اور ایسی شان سے تقریر کی کہ بڑے سے بڑا مقرر تسلیم کرے گا کہ آپ نے کمال کر دیا.دیکھو مصیبت زدہ عورتیں جن کو ایک لفظ بھی بولنا نہیں آتا ، غیر مرد کے سامنے ایک لفظ منہ سے نہیں نکال سکتیں بلکہ رشتہ داروں سے بھی بات نہیں کر سکتیں جب ان کا بچہ کسی مصیبت میں ہو تو ایسی تقریر کرتی ہیں کہ سُننے والا دنگ رہ جاتا ہے.تو ضرورت یہ ہوتی ہے کہ دل میں زخم ہو، بولنا خود بخود آ جاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ دعا سکھائی رب اشر خري صَدَرِي ريزي آمري واحْلُلْ عُقدة من لساني يَفْقَهُوا قَوْلِي " اس میں شرح صدر کو پہلے رکھا، جب شرح صدر ہو تو سہولتیں آپ ہی آپ پیدا ہو جاتی ہیں لیکن میرا یہ مطلب نہیں کہ سکول اور کالج بیکار ہیں.یہ یقیناً ایسی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں جن کو ہمارے پرانے علماء نہیں کر سکتے اور اگر ان کو بند کر دیا جائے تو نقصان ہوگا.ان کی ضرورت ہے تا کہ علوم ایسے رنگ میں پڑھائے جائیں کہ اگر کسی وقت کسی کے دل میں ایمان کا چشمہ
۲۹۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء خطابات شوری جلد دوم پھوٹ پڑے تو اُس سے فائدہ اُٹھایا جا سکے.گو یہ صحیح نہیں کہ علم ایمان دار بنا سکتا ہے.اس کے لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ سے انسان کا تعلق ہو.محض علم کوئی چیز نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کاتب وحی نے جب آپ پر الہام نازل ہو رہا تھا آیت کے مضمون کی رو سے متاثر ہو کر خاتمہ کے الفاظ بے ساختہ خود بول دیئے.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ درست ہے یہی الفاظ ہیں یا لکھو تو یہ بات اُس کی ٹھوکر کا موجب ہو گئی.اس نے کہا کہ یہ تو سُن سُنا کر الہام بنا لیتے ہیں.پس نیکی انسان کے قلب میں پیدا ہوتی ہے، دوسری چیزیں تو بطور امداد کے ہوتی ہیں.اگر دل میں نیکی نہ ہو تو بیرونی چیزوں سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا.پس ان حالات میں میں سمجھتا ہوں کہ کالج کو ایسے طریق پر لانے کی ضرورت ہے کہ اس کے فارغ التحصیل نوجوانوں کو ہم باہر بھیج دیں تو وہ جا کر اپنا کام کر سکیں اور پھر ہم حسب ضرورت ان میں سے مبلغ منتخب کر کے اُن سے کام لے سکیں.یہ صحیح نہیں کہ اپنا کام کاج چلانے کے بعد اُسے چھوڑ نا مشکل ہوگا.جس کے دل میں ایمان اور اخلاص ہو گا اسے جب بھی خدا تعالیٰ کی آواز پہنچے گی خواہ دس ہزار ماہوار آمد کیوں نہ ہو اُس پر لات مار کر آ جائے گا لیکن جس کے دل میں میل ہوگی وہ کہہ دے گا کہ اب میری تجارت چل پڑی ہے، زمیندارہ کام چل نکلا ہے اب میں نہیں آ سکتا.ایسا شخص ہمارے اندر رہ کر بھی کام نہیں کر سکتا.پس جو ہمارے کام کا ہے وہ کہیں جائے گا نہیں اور جو کام کا نہیں اُسے رکھ کر ہم نے کیا کرنا ہے.اس وقت ہمارے پاس مبلغ کافی ہیں اور آئندہ کے لئے اگر کوئی صحیح معنوں میں مبلغ مل سکا تو اُسے لے لیا جائے گا ورنہ نہیں.جو سچا مبلغ ہو گا اُس کا رکھنا کبھی بھی بوجھ کا موجب نہ ہوگا، وہ اپنا گزارہ ساتھ لائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دنیا دار کا قصہ سنایا کرتے تھے کہ اس کے بہت سے نوکر چاکر تھے.ایک دن اس نے خیال کیا کہ انہیں علیحدہ کر کے بچت کی صورت کی جائے لیکن رات کو اُس نے خواب دیکھا کہ اُس کا خزانہ کھلا پڑا ہے اور کچھ لوگ گڈے بھر بھر کر مال اُس میں سے نکالتے جا رہے ہیں.اُس نے پوچھا کہ تم لوگ کون ہو اور میرا مال کہاں لے جا رہے ہو؟ انہوں نے کہا ہم فرشتے ہیں، پہلے کچھ لوگوں کا رزق تمہارے پاس تھا مگر
خطابات شوری جلد دوم ۲۹۸ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء اب تم نے اُن کو نکالنے کا ارادہ کیا ہے اس لئے اُن کے حصہ کا رزق اب دوسری جگہوں پر بھیجا جائے گا.تو رزق ہر ایک کا خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اور جب عام حالت میں یہ ہے تو خدا تعالیٰ کے دین کا کام کرنے والے کیوں اپنا رزق ساتھ نہ لائیں گے.کون ہے جو خدا تعالیٰ کا بندہ کہلائے اور پھر خدا تعالٰی اسے فاقہ سے مرنے دے.پس جو اس قسم کے مبلغ ہوں گے وہ خزانہ پر کوئی بار نہیں ڈالیں گے.اگر ان کا خرچ ایک ہزار ہوگا تو خدا تعالیٰ ڈیڑھ ہزار دے گا لیکن یہ طریق کہ ہر سال جبری طور پر مبلغ رکھے جائیں، چونکہ وقتی ضرورت پوری ہو چکی ہے اب بدل دینا چاہئے.تعلیم حاصل کرنے کے بعد مبلغین باہر جا کر اپنا اپنا کام کریں اگر ان میں سے ہمیں کوئی موزوں آدمی نظر آ گیا تو اُسے لے لیا جائے گا.اوّل تو ہو نہار بروا کے چکنے چکنے پات.زمانہ طالب علمی سے ہی کچھ نہ کچھ اندازہ ہونے لگ جائے گا کہ کونسا طالب علم مبلغ بننے کی اہلیت رکھتا ہے.لیکن باہر جا کر کام کرنے کی صورت میں تو اُس کے بارہ میں پورا علم ہو جائے گا اور جب ہم دیکھیں گے کہ اپنا کام کرنے کے ساتھ اُس نے خدا تعالیٰ کے کام کو نہیں چھوڑا تو پھر اُسے رکھ لیا جائے گا اور اس طرح آئے ہوئے مبلغ حقیقی مبلغ ہوں گے اور دوسری طرف تحریک جدید میں مبلغین کو رکھنے کا سلسلہ جاری رہے گا.ان کے انتخاب میں بھی اس بات کو مدنظر رکھا جائے گا کہ دین کا علم رکھتے ہیں یا نہیں یا سکھ سکتے ہیں یا نہیں؟ اور ایسے مبلغ دوسروں سے بہت زیادہ مفید ہوں گے.دو دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میرا یہ مطلب نہیں کہ الاؤنس پر مبلغ نہ رکھے جائیں.میں اس چیز کا مخالف ہوں کہ دکھایا کچھ جائے اور حقیقت کچھ اور ہو.نام تو یہ ہو کہ مبلغوں کو کرایہ دیا جا رہا ہے اور در حقیقت الاؤنس یا تنخواہ ہو.جو ضرورت ہو اس کا دلیری سے مطالبہ کرنا چاہئے اس لئے اس طریق کو بند کیا جائے.گزشتہ سال تک تو یہ طریق تھا اب پتہ نہیں نئے ناظر صاحب کے وقت بھی جاری ہے یا نہیں ؟“ ناظر صاحب نے بتلایا کہ اب ایسا نہیں کیا جاتا.دو دوروں کے متعلق مجلس کا مشورہ میں نے منظور کر لیا ہے یعنی یہ کہ ضروری دوروں کو نہ روکا جائے.اس تجویز کے وقت بنگال اور بہار میرے ذہن میں نہ تھے اور ان کو مدنظر
خطابات شوری جلد دوم ۲۹۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء رکھتے ہوئے اگر جماعت غور کرے تو اس رقم میں کچھ زیادتی کر سکتی ہے ورنہ مبلغین کومختلف اضلاع میں پھیلانے کے لئے پندرہ سو کافی ہے.“ بجٹ پر بحث کے بعد حضور کی تقریر سب کمیٹی کی طرف سے مجوزہ بجٹ پیش ہونے پر چند احباب نے اپنی آراء کا اظہار کیا.اسی دوران میں ایک صاحب نے عملہ الفضل کی کارکردگی کو بھی ہدف تنقید بنایا.بحث کے اختتام پر حضور نے اپنی تقریر میں مالی امور کے علاوہ اس بات کا بھی جائزہ لیا اور وو فرمایا: - یہ جو سوال کیا گیا ہے کہ بجٹ وقت پر کیوں نہیں پہنچا اس کا جو اصل جواب تھا افسوس ہے کہ وہ نظارت کی طرف سے نہیں دیا گیا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کچھ دیر کارکنوں کی طرف سے بھی ہوئی ہے مگر جس امر کی وجہ سے بہت زیادہ دیر ہوئی وہ یہ ہے کہ بجٹ تیار ہونے کے بعد میں نے صدر انجمن احمدیہ کو ہدایت دے دی کہ موجودہ بجٹ اُن اصول پر تیار ہونا چاہئے جو میں نے تجویز کئے ہیں.اور چونکہ میں نے یہ ہدایت ایسے وقت میں دی جبکہ پہلا بجٹ وہ تیار کر چکے تھے اس لئے ان کے لئے ضروری تھا کہ میری تجویز کے مطابق بجٹ میں تغیر کرتے.یہ تغیر کوئی معمولی نہیں تھا جو آسانی سے ہوسکتا بلکہ پچاس ساٹھ ہزار روپیہ کی کمی انہوں نے کرنی تھی.جس سے علاوہ اس ذہنی کوفت کے جو ان کو ہوئی بہت سا وقت بھی خرچ ہوا.اور بڑی مشکل سے انہوں نے بجٹ تیار کیا کیونکہ میں نے سارا مواد انہیں نہیں دیا تھا بلکہ چند ہدایتیں دے دی تھیں کہ ان اصول پر عمل کریں.پس ایک طرف انہوں نے بجٹ کو اُس طرز پر ڈھالنا تھا جو میں نے تجویز کی تھی اور دوسری طرف اس میں کافی کمی کرنی تھی اور یہ ایسی مشکلات تھیں کہ جن کی وجہ سے بعض دفعہ انہیں مایوسی بھی ہوئی مگر بالآخر وہ کامیاب ہو گئے.پس گو شروع میں کارکنوں کی طرف سے سستی ہوئی مگر آخر میں جو دیر ہوئی وہ اس وجہ سے ہوئی ہے کہ بجٹ کو میری ہدایات کے ماتحت انہیں نئی طرز پر ڈھالنا پڑا.اور اس میں ان کا بہت زیادہ وقت خرچ ہو ا.پس یہ اعتراض جوان پر کیا گیا ہے یہ جائز نہیں.ہاں تسلیم کیا ہے کہ بعض کارکنوں نے انہیں وقت پر
خطابات شوری جلد دوم ۳۰۰ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء بجٹ نہیں بھیجا.لیکن اگر وہ بھیج بھی دیتے تو وہ بات جو میں نے بیان کی ہے انجمن پر سے عائد کردہ الزام کو دور کر دیتی ہے مگر کارکنوں سے یہ بات الزام دور نہیں کر سکتی.اس لئے میں تحقیقاتی کمیشن کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اس بارے میں رپورٹ کرے.صرف یہی نہیں کہ اس میں فلاں فلاں کی غلطی ہے بلکہ یہ بھی کہ ان افسروں کو کیا سزاملنی چاہئے کیونکہ جب تک قانون شکنی کو روکا نہیں جائے گا اس وقت تک ہم کوئی اصلاحی قدم نہیں اُٹھا سکتے.بجٹ پر اعتراضات کے جوابات دوستوں کی طرف سے اس بات پر کثرت سے اعتراض کیا گیا ہے کہ جو گرانٹ میں کمی کی گئی ہے اس سے مختلف جماعتوں کے کام رُک جائیں گے مجھے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ جس نیت اور غرض سے میں نے گرانٹیں تجویز کی تھیں جماعتوں نے اس بارے میں اپنی ذمہ داری کو محسوس نہیں کیا اور جس زیادتی کی امید تھی اور خیال تھا کہ دس فیصدی گرانٹ تمام جماعت کو دی جائے اور میرے خیال کو جماعتوں نے اپنے عمل سے باطل کر دیا ہے بعض جماعتوں نے تو اس کو ایک ایسا حق فرض کر لیا ہے کہ ایک پراونشل انجمن کی طرف سے مجھے چٹھی ملی کہ ہم نے صدر انجمن احمدیہ کو یہ بات لکھی ہے کہ اس نے گرانٹ بند کر دی تو ہمارے اور صدرانجمن کے تعلقات کشیدہ ہو جائیں گے.جس پر مجبوراً مجھے لکھنا پڑا کہ صدرا انجمن احمد یہ جو کچھ کرتی ہے چونکہ وہ خلیفہ کے ماتحت ہے اس لئے خلیفہ بھی اس کا ذمہ دار ہوتا ہے اور آپ نے جب یہ فیصلہ کیا ہے کہ اگر آپ کی بات نہ مانی گئی تو صدر انجمن کے ساتھ آپ کے تعلقات اچھے نہیں رہیں گے تو ساتھ ہی آپ نے یہ بھی سوچ لیا ہوگا کہ خلیفہ کے ساتھ بھی آپ کے تعلقات اچھے نہیں رہیں گے اس صورت میں کیا آپ نے کوئی نئی جماعت بنانے کی تجویز سوچ لی ہے.گویا بجائے اس کے کہ تعاون بڑھتا تعاون میں کمی آگئی.(اس جماعت کی طرف سے بعد میں تشریح آگئی ہے کہ امیر کا اس میں دخل نہ تھا کسی اور کارکن نے یہ الفاظ بڑھا دیئے تھے.) ایک انتباہ جماعتوں کو یہ امر اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ وہ ایک مذہی جماعت ہیں دُنیوی حکومت نہیں پس انہیں اپنے مذہبی ادب کو ہمیشہ ملحوظ رکھنا چاہئے ورنہ ان کا اتحاد آج بھی نہیں اور کل بھی نہیں.جس طرح بعض افراد ایسے ہوتے ہیں جنہیں ہیں
۳۰۱ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء خطابات شوری جلد دوم ہیں تھیں تھیں سال کے بعد ٹھو کر لگتی ہے.اسی طرح بعض جماعتیں بھی ٹھوکر کھا سکتی ہیں پس ان کو یہ امر ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اُن سے جو تعاون کیا جاتا ہے وہ اس لئے نہیں کہ شریعت نے ان کے حقوق مقرر کئے ہیں بلکہ اس لئے کہ اُن کے کاموں میں سہولت پیدا ہو.اگر مرکز میں اس وقت رو پیدا اکٹھا کیا جاتا ہے تو انتظام کی سہولت کے لئے ور نہ ہوسکتا ہے کہ ہم جماعتوں کو کہہ دیں کہ وہ خود ہی چندہ اکٹھا کریں اور خود ہی خرچ کریں.مگر اس صورت میں یہ سمجھ لینا کہ یہ ہمارا حق ہے اور اس میں تبدیلی نہیں ہوسکتی بالکل غلط بات ہے.دوسری طرف میں یہ سمجھتا ہوں کہ یکدم تبدیلی بہت سی مشکلات پیدا کرے گی.اس لئے پیشتر اس کے کہ بجٹ پیش کیا جائے اس قدر تبدیلی کرتا ہوں کہ بجائے نصف گرانٹ کم کرنے کے پچیس فی صدی کٹوتی کر کے ۷۵ فی صدی گرانٹ کی رقم بجٹ میں رکھی جائے.ناظر صاحب نے کہا ہے کہ جماعتوں کی گرانٹ میں اگر کمی ہوئی ہے تو اس کے مقابلہ میں ہم نے بھی کمی کر دی ہے اور اس بارے میں ثبوت یہ پیش کیا ہے کہ مبلغین کا سفر خرچ کم اور ان کے دوروں کو محدود کر دیا گیا ہے مگر یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کہتے ہیں ایک عورت دانے پینے کے لئے دوسری عورت کے گھر گئی تو اس نے کہا بہن لا میں ہی پیس دیتی ہوں چنانچہ اس کی بجائے گھر کی مالکہ دانے پینے لگ گئی یہ دیکھ کر وہ کہنے لگی اچھا بہن توں میرے دانے پیس میں تیری روٹی کھاتی ہوں.اخراجات میں کمی کا ذکر انہوں نے کیا ہے اس کا اثر بھی تو بیرونی جماعتوں پر پڑے گا نہ کہ مرکز پر.پس یہ قربانی باہر کی جماعتوں کی ہے نہ کہ مرکز کی.مگر اسے پیش اپنی قربانی کے ثبوت میں کیا گیا ہے.میں سمجھتا ہوں حیا کی وجہ سے انہوں نے یہ مثال نہیں دی جو انہیں دینی چاہئے تھی مگر میں اس کے ذکر میں کوئی حجاب محسوس نہیں کرتا اور بجائے ان کے میں خود ہی ذکر کر دیتا ہوں کہ یہاں کے کارکنوں نے اپنی تنخواہوں میں ایک کافی کٹوتی اپنی خوشی سے منظور کر لی ہے اور میں سمجھتا ہوں اب جبکہ ہماری مالی حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے سوائے اس شخص کے جو عرفان سے خالی ہوکون ہوگا جو اس امر کے لئے جدو جہد نہیں کرے گا کہ ہماری مالی حالت درست ہو.اگر جماعتیں جد و جہد کریں اور وہ سو فی صد ہی چندہ وصول کر لیں تو اُن کی گرانٹ بھی پوری ہوسکتی ہے.اس طرح کہ اب ۸۰ فیصدی چنده پر انہیں دس فیصدی گرانٹ ملتی ہے اور بعض کے ساتھ
خطابات شوریٰ جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء رعایت بھی کی جاتی ہے ایسی حالت میں جبکہ وہ سو فیصدی چندہ پورا کر دیں گی تو مرکز کو بھی فائدہ رہے گا اور اُن کی گرانٹ جو دس فی صدی ہے اُس میں کوئی کمی نہیں ہوگی.علاوہ ازیں جب موقع ایسا ہے کہ مقامی کارکنوں نے کٹوتی منظور کر لی ہے تو بیرونی جماعتوں کو اپنے اختیار کا نمونہ دکھانا چاہئے اور میں نے جو یہ امر یہاں پیش کیا تھا کہ جماعت کے دوستوں کو الاؤنسز کی یہ کٹوتی منظور ہے یا نہیں ؟ اس میں یہی حکمت تھی کہ اگر یہ لوگ کہیں کہ منظور کر لی جائے اور ترقیات روک دی جائیں تو میں آپ سے پوچھوں کہ اب آپ لوگ بتائیں کہ اس کے مقابلہ میں آپ نے کیا کیا ہے کیونکہ جو شخص دوسرے کے متعلق قربانی کا مطالبہ کرتا مگر خود قربانی کرنے سے ہچکچاتا ہے وہ اخلاص سے کام نہیں لیتا.پس یہ ذمہ داری بھی جماعت پر عائد ہوتی ہے اور امید کی جاتی ہے کہ وہ اسی فیصدی نہیں بلکہ سو فیصدی چندہ وصول کریں گے تا اُن کی گرانٹ میں جو کمی ہوئی ہے وہ پوری ہو جائے اور میں سمجھتا ہوں اگر وہ حقیقی ایمان کا مظاہرہ کریں تو اُن کی گرانٹ میں کمی نہیں آ سکتی ایک اور بات بھی میرے نوٹس میں لائی گئی ہے اور اس کو ہلکا کرنے کے لئے آئندہ پانچ سال میں گزشتہ تعلیمی وظائف کی رقوم وصول کی جائیں اور پھر آئندہ اسی رقم میں سے وظائف دیئے جائیں.عام آمد سے امداد نہ کی جائے.ایک دوست نے دریافت کیا ہے کہ اس فیصلہ کی تعمیل ہوئی ہے یا نہیں؟ سو ناظر صاحب اعلیٰ اور ناظر صاحب تعلیم و تربیت سے میں پوچھتا ہوں کہ اس فیصلہ کی تعمیل ہوئی ہے یا نہیں؟ اور اگر نہیں ہوئی تو اس فیصلہ کو توڑنے کا اختیا ر انہیں کس نے دیا تھا.“ ناظر صاحب اعلیٰ : حضور اس پر عمل نہیں ہو سکا.حضور نے فرمایا: - ” تحقیقاتی کمیشن رپورٹ کرے کہ اس فیصلہ کوتوڑنے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے اور اسے کیا سزاملنی چاہئے“.الفضل کی مشکلات دوران گفتگو میں بعض باتیں ”الفضل“ کے متعلقہ عملہ کے متعلق بھی کہی گئی ہیں لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں بہت سی باتیں معترض صاحب کی ناواقفیت کا نتیجہ ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مجھ پر اثر یہی ہے کہ الفضل
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء کا عملہ پوری طرح کام نہیں کرتا مگر جس رنگ میں معترض صاحب نے بات پیش کی ہے اُس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُنہیں اشاعت کے کام سے کوئی لگا ؤ ہی نہیں اور اُنہوں نے الفضل کے عملہ کا جس رنگ میں نکتا پن ثابت کیا ہے اس کا بیسواں حصہ بھی درست نہیں.میں چونکہ خود ایڈیٹر رہ چکا ہوں اس لئے میں جانتا ہوں کہ اخبار والوں کو رکن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے.مثلاً ایک کام خبریں نقل کرنا ہی ہے.وہ اخبارات جن کے پاس رائٹر کی تاریں آتی ہیں اُنہوں نے بھی ایک نیوز ایڈیٹر بالکل الگ رکھا ہوا ہوتا ہے جس کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ خبروں کو ترتیب دے اور ان کے ہیڈنگ لگائے یا بعض خبریں جن کا اندراج مصلحت کے خلاف ہو انہیں حذف کر دے.مگر اتنے سے کام کے لئے ان کے ہاں ایک نیوز ایڈیٹر ہوتا ہے جس کا کام صرف خبریں مرتب کرنا ہوتا ہے لیکن الفضل والے اپنے اور کاموں کے علاوہ خبروں کی ترتیب کا کام موجودہ عملہ سے ہی لیتے ہیں.پھر اور اخبارات میں جو خبریں آتی ہیں وہ کئی کئی صفحات پر پھیلی ہوئی ہوتی ہیں اور کوئی ان میں سے اہم ہوتی ہے اور کوئی غیر اہم.کسی میں بے جا تکرار ہوتا ہے کسی میں طوالت ہوتی ہے، کسی کے الفاظ درست نہیں ہوتے ، کسی کا مفہوم بگڑا ہوا ہوتا ہے الفضل والے ان تمام خبروں کو پڑھتے ہیں اور پھر ان آٹھ دس صفحات کا خلاصہ نکالتے ہیں جو الفضل کے ایک صفحہ پر آتا ہے.اس میں کئی جگہ انہیں دوسری خبروں سے الفاظ کاٹنے پڑتے ہیں ، کئی جگہ نئی عبارتیں بڑھانی پڑتی ہیں.پھر یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ اہم خبر کونسی ہے اور غیر اہم کونسی اور آیا ایسی خبریں تو درج نہیں ہور ہیں جو مضحکہ خیز ہیں.غرض یہ ایک بہت بڑا کام ہے جو الفضل والوں کو کرنا پڑتا ہے.اگر انہی صاحب کے سپرد یہ کام کیا جائے جنہوں نے اعتراض کیا ہے تو یا تو نا تجربہ کاری کی وجہ سے وہ ایسی خبریں لکھ دیں گے جنہیں پڑھ کر لوگ ہنستے ہنستے لوٹ جائیں گے.یا اگر محنت کریں گے تو انہیں پتہ لگ جائے گا کہ اس کام میں کتنی مشکلات ہیں اور کس قدر وقت صرف کرنا پڑتا ہے.خطبہ جمعہ کے متعلق بھی انہیں یہ وہم ہے کہ شاید جب میں خطبہ پڑھ رہا ہوتا ہوں تو وہ ساتھ کے ساتھ ٹائپ ہوتا چلا جاتا ہے حالانکہ خطبہ کا لکھنا کوئی معمولی کام نہیں بلکہ اُس شخص پر جو خطبہ لکھ رہا ہوتا ہے بہت بڑا بوجھ ہوتا ہے.گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ خطبہ ہوتا ہے اور جب اتنا
۳۰۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء خطابات شوری جلد دوم لمبا خطبہ پڑھا جاتا ہے تو اُس شخص کی حالت بہت ہی قابل رحم ہوتی ہے جو اس وقت خطبہ لکھ رہا ہوتا ہے.وجہ یہ کہ بولنے میں انسان کافی تیز ہوتا ہے مگر لکھنے میں اتنی تیزی نہیں ہوسکتی.پھر مزید وقت یہ ہے کہ اردو کا کوئی شارٹ ہینڈ نہیں، اس وجہ سے خطبہ نویس کو لفظاً لفظاً خطبہ لکھنا پڑتا ہے.اور اِس پر اُس کی اس قدر محنت اور طاقت خرچ ہوتی ہے کہ خطبہ لکھنے کے بعد بجائے اسکے کہ لوگ اُس پر اعتراض کریں وہ اس بات کا مستحق ہوتا ہے کہ لوگ اس کی اُنگلیاں دبائیں.پھر اس کے بعد وہ خطبہ ۲۴ گھنٹہ کی اور محنت چاہتا ہے.کیونکہ وہ خطبہ جو گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ میں دیا جاتا ہے چوبیس گھنٹوں کی محنت کے بعد صاف ہوتا ہے.اس کے بعد وہ میرے پاس درستی کے لئے آتا ہے اور میں اس پر دو گھنٹے سے لے کر چھ گھنٹے تک وقت صرف کرتا ہوں.اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اُس غریب کا کیا حال ہوتا ہو گا جو تقریر اور خطبہ کے ساتھ ساتھ الفاظ لکھتا چلا جاتا ہے.اور پھر بعد میں ایک خاصی محنت کر کے اُسے صاف کرتا ہے.بعض دفعہ ساٹھ ساٹھ صفحوں کا خطبہ بھی ہوتا ہے اور یہ تمام خطبہ وہ پنسل کے ساتھ جلدی جلدی لکھتا ہے اب ایک طرف پنسل کا لکھا ہوا ہوتا ہے ، دوسری طرف جلدی میں لکھا ہوا ہوتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کئی جگہ اپنے لکھے ہوئے الفاظ اس سے پڑھے نہیں جاتے اور اُسے سوچنا پڑتا ہے کہ یہ کیا لفظ ہے.پھر مضمون کے تسلسل اور ربط کے لحاظ سے جو لفظ زیادہ صحیح معلوم ہو وہ اُسے لکھنا پڑتا ہے.میرے پاس جو خطوط آتے ہیں اُن پر ہمیشہ میں قلم سے جواب لکھ دیا کرتا ہوں.مگر میں نے دیکھا ہے بعض دفعہ میرے قلم سے لکھے ہوئے الفاظ دفتر والوں سے نہیں پڑھے جاتے اور وہ میرے پاس آکر پوچھتے ہیں کہ یہ آپ نے کیا لکھا ہے.اُس وقت عجیب بات یہ ہوتی ہے کہ بعض دفعہ اپنا لکھا ہوا مجھ سے بھی نہیں پڑھا جاتا حالانکہ میں نے وہ اِس قدر جلدی میں نہیں لکھا ہوتا مگر خطبہ تو شروع سے آخر تک پنسل سے لکھا جاتا ہے.پس اس کے پڑھنے اور صاف کر کے لکھنے میں انہیں بہت بڑی محنت کرنی پڑتی ہے اتنی بڑی محنت کے بعد جب خطبہ نمبر شائع ہوتا ہے تو سمجھ لیا جاتا ہے کہ اس میں الفضل والوں کا کیا کام ہے، کچھ بھی نہیں اور اس طرح خیال کر لیا جاتا ہے کہ جس دن اُنہوں نے خطبہ شائع کیا ہے اس دن وہ بالکل سکتے اور فارغ رہے ہیں حالانکہ خطبے کا دن خطبہ لکھنے والے کارکن کا سب سے زیادہ محنت کا دن ہوتا ہے.
خطابات شوری جلد دوم ۳۰۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء عملہ الفضل کا قابلِ تعریف کام اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ کام کے لحاظ سے عملہ الفضل ترقی کرسکتا ہے مگر وہ علمی قابلیت یا تجربہ سے ہو سکتا ہے، یونہی نہیں.ورنہ وقت کے لحاظ سے اور محنت کے لحاظ سے وہ کافی کام کرتے ہیں.لوگ ان باتوں کو معمولی سمجھتے ہیں حالانکہ جو کام کرنے والے ہوتے ہیں وہی جانتے ہیں کہ معمولی معمولی بات پر کتنا وقت خرچ ہو جاتا ہے.مثال کے طور پر یہی دیکھ لو کہ الفضل کے پہلے صفحہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات دیئے جاتے ہیں.اب بادی النظر میں ایک ایسا شخص جس نے حوالجات نکالنے میں کبھی محنت سے کام نہیں لیا خیال کر لیتا ہے کہ یہ کوئی بڑی بات ہے! حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کوئی کتاب یا الحکم یا بدر کا کوئی فائل اٹھایا اور اس میں سے ایک عبارت نقل کر دی حالانکہ اس میں بہت بڑی محنت اور جد و جہد سے کام لیا جاتا ہے.بلکہ عجیب بات یہ ہے کہ جس مضمون کا خطبہ ہوتا ہے عین وہی مضمون حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی تحریر سے نکال کر خطبہ نمبر کے پہلے صفحہ پر رکھ دیا جاتا ہے اور یہ اتنا قیمتی کام ہے کہ میں اسے خطبہ سے بھی زیادہ اہم سمجھا کرتا ہوں.اور بعض دفعہ جب میں دیکھتا ہوں کہ خطبہ کے عین مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات نکالے گئے ہیں تو میں بے اختیار کہہ اٹھتا ہوں کہ جس رنگ میں یہ حوالہ نکالا گیا ہے میں تو اسے خدا کا فعل سمجھتا ہوں.خطبہ میں آج پڑھتا ہوں مگر خطبہ کے عین مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک تحریر جو سالہا سال پہلے کی ہوتی ہے نکال کر سامنے پیش کر دی جاتی ہے اور یہ ایسا کام ہے جو بہت ہی قابل تعریف ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ۱۰۰ کے قریب کتابیں ہیں.پھر الحکم اور بدر کے بیسیوں فائل ہیں.ان تمام مجموعہ کتب میں سے خطبہ کے مضمون کے عین مطابق حوالہ نکال لینا ایک ایسی خوبی ہے جس کی جس قدر بھی تعریف کی جائے کم ہے.حوالہ جات کے ماہر پر رشک مجھے خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے بہت سے علوم عطا فرمائے ہیں اور کئی قسم کے فنون میں میں ملکہ رکھتا ہوں.مگر بعض دفعہ اور مجالس میں بھی میں اس کا اظہار کر چکا ہوں کہ جس رنگ میں یہ شخص حوالے نکالتا ہے، یہ ایک ایسا کمال ہے کہ اس پر مجھے رشک آتا ہے مگر معترض صاحب نے
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء سمجھا کہ شاید یہ کام آپ ہی آپ ہو جاتا ہے حالانکہ حوالجات نکالنے اور پھر مضمون کے مطابق حوالجات نکالنے میں بہت بڑی محنت صرف ہوتی ہے.یہی دیکھو قرآن کریم کی کئی کا پیاں چھپی ہوئی موجود ہیں مگر بعض دفعہ ایک ایک آیت نکالنے کے لئے دو دو گھنٹے لگ جاتے ہیں.حوالہ جات میں تائید الہی جلسہ سالانہ پر میں زیادہ سے زیادہ چھ گھنٹے تقریر کرتا تائید ہوں مگر وہ تقریر ایک لمبی تحقیق کا نتیجہ ہوتی ہے.اس دفعہ مجھے نوٹ لکھنے کے لئے فرصت نہیں ملتی تھی.میں نے اس کا چوہدری ظفر اللہ خان صاحب سے ذکر کیا تو وہ ہنس کر کہنے لگے میں نے تو دیکھا ہے جب حضور کو فرصت نہ ملے اُس وقت خدا تعالیٰ کی خاص تائید ہوتی ہے.چنانچہ واقعہ میں ایسا ہوا کہ جب میں نوٹ لکھنے بیٹھا جس کے لئے بہت سے حوالوں کی ضرورت تھی تو وہ حیرت انگیز طور پر جلد جلد نکلتے گئے.بعض دفعہ میں کتاب کھولتا تو اُس کا وہی صفحہ نکل آتا جس کی مجھے ضرورت ہوتی.حتی کہ ایک عجیب بات یہ ہوئی کہ بعض حوالہ جات کی ضرورت پیش آتی مگر میرا ذہن اُدھر نہ جاتا تھا کہ وہ حوالہ جات کس کتاب میں سے ملیں گے.ارادہ تھا کہ بعض اور دوستوں کو بلا کر حوالہ جات کی تلاش کا کام سپرد کر دوں کہ اتفاقاً کسی اور کتاب کی تلاش کے لئے میں نے کتابوں کی ایک الماری کھولی.اس میں چند کتابیں بے ترتیب طور پر گری ہوئی تھیں انہیں ٹھیک کرنے کے لئے اُٹھایا تو ان میں سے ایک کتاب مل گئی جس کے لائبریری میں ہونے کا بھی مجھے علم نہ تھا اُسے کھول کر دیکھا تو اس میں اکثر وہ حوالے موجود تھے جن کی مجھے ضرورت تھی.غرض اس طرح حوالوں کا ملنا ایک الہی تصرف ہوتا ہے ورنہ تھوڑی دیر میں ایسے حوالے نہیں نکل سکتے بلکہ ان کے لئے گھنٹوں کی محنت درکار ہوتی ہے.حوالہ جات کے علم کی اہمیت معترض صاحب اس بات پر غور کر لیں کہ مجالس شوری کی رپورٹوں کا حجم کوئی زیادہ نہیں ہے مگر اس کے حوالے زیادہ تر انہیں اور ان کے بھائی صاحب کو ہی یاد ہیں، باقی لوگوں کو یاد نہیں.اس سے وہ سمجھ سکتے ہیں کہ حوالہ جات کا علم کتنا ضروری ہوتا ہے اور کس قدر کم لوگوں کو ہوتا ہے پھر اگر کسی کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات سے
خطابات شوری جلد دوم ۳۰۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء نہایت مفید اور با موقع حوالہ جات کا انتخاب کرنے میں مہارت رکھتا ہے تو اُس کی محنت کو معمولی قرار دینا کس طرح صحیح ہو سکتا ہے.تو یہ غلط طریق ہے کہ جس فن میں انسان کو مہارت نہ ہو اُس کے متعلق رائے زنی شروع کر دے.بجٹ میں جو زیادہ بقائے دکھائے گئے ہیں اُس کے متعلق میں نظارت بیت المال کو توجہ دلاتا ہوں اور اُسے تاکید کرتا ہوں کہ وہ غلطی کو نکالے.اسی طرح بعض دوستوں نے شکایت کی ہے کہ یہاں کے دفاتر سے اُن کی چٹھیوں کا یا تو جواب نہیں دیا جاتا یا غلط دیا جاتا ہے.یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ اس قسم کی تمام شکائتیں تحقیقاتی کمیشن کے پاس آنی چاہئیں.آگے یہ تحقیقاتی کمیشن کا کام ہے کہ وہ تحقیق کے بعد میرے پاس رپورٹ کرے.بعض دوستوں نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ جو محکمہ مفید کام نہ کرے اُس محکمہ کو امداد نہ دی جائے.مگر یہ محکمہ کو سزا نہیں بلکہ سلسلہ کو ہے.مثلاً اگر ہم سکول کو امداد نہ دیں تو ہیڈ ماسٹر کا کیا ہے، وہ کمروں کو تالا لگائے گا اور کہیں دوسری جگہ نوکری کر لے گا.فرض کر و الفضل والوں سے کوئی غلطی ہو گئی ہے اور سزا یہ دی گئی ہے کہ الفضل کو امداد نہ دی جائے ، تو الفضل بند ہو جائے گا اور ایڈیٹر کہیں اور نوکری کر لے گا.پس اس قسم کا مشورہ بغیر کافی غور کئے دینا مفید نہیں ہوتا.کیونکہ یہ سزا سلسلہ کو ہوگی اور کام درہم برہم ہو جائے گا.“ کارکنوں کی قربانی پر رشک میاں عطا اللہ صاحب نے اپنے اخلاص کا جو اظہار کیا ہے کہ کاش! میں بھی ویسی ہی قربانی کر سکتا جیسی کارکنوں نے کی ہے.وہ بہت قابلِ تعریف ہے.حقیقت یہ ہے کہ کارکنوں کی قربانی کے نتیجہ میں جماعت کے دوستوں کے دلوں میں بھی یہ احساس پیدا ہو چکا ہے کہ انہیں بھی قربانی کا کوئی نمونہ دکھانا چاہئے چنانچہ کل سے میرے پاس کئی جماعتوں کے نمائندگان کی طرف سے رقعے آرہے ہیں کہ ہم اس اس رنگ میں قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں.ایک دوست نے تو لکھا ہے کہ میری اس قدر تنخواہ ہے آپ اس میں سے جو گزارہ میرے لئے مقرر کر دیں گے وہ رکھ کر باقی سب تنخواہ میں اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے مرکز میں ارسال کرنے کے لئے تیار ہوں.ایک دوست نے لکھا ہے کہ آئندہ مجھے تین سال تک
خطابات شوری جلد دوم ۳۰۸ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء جس قدر ترقی ملے گی وہ میں اپنی ذات پر نہیں بلکہ سلسلہ کی ضروریات پر خرچ کروں گا.تو بیرونجات کے دوستوں نے بھی اپنے اخلاص کا اظہار کیا ہے.گو انہیں یہ موقع نہیں ملا کہ وہ متفقہ طور پر اپنے جذبات کا اظہار کر سکتے اور پھر وہ کسی ایک نظام کے ماتحت بھی اس طرح نہیں جس طرح صدر انجمن احمدیہ کے کارکن ہیں.مگر بہر حال دوستوں کے اندر قربانی کا جذبہ پایا جاتا ہے.میاں عطاء اللہ صاحب نے یہ بھی کہا ہے کہ کاش جماعت کے دوسرے احباب بھی ایسا نمونہ دکھاتے.سو جہاں تک میں سمجھتا ہوں إِلَّا مَا شَاءَ الله اکثر احباب کے دلوں میں اس کا احساس ہے اور وہ ارادہ رکھتے ہیں کہ اپنی قربانی کا کوئی نمونہ پیش کریں.احباب جماعت کا اخلاص میں نے جب وہ خطبہ پڑھا جس میں صدر انجمن احمدیہ کے کارکنان کی تنخواہیں کم کر دینے کا ذکر تھا تو میرے پاس رپورٹیں پہنچیں کہ احرار اور مرتدین میں سے بعض نے یہ کہا ہے کہ خدا نے ان کے لئے یہ ایک خاص موقع بہم پہنچا دیا ہے.اب جو نہی انہوں نے اس قسم کی تخفیف کا اعلان کیا جماعت کا ایک معتد بہ حصہ ہمارے ساتھ مل جائے گا.میں نے جب یہ بات سنی تو میں نے کہا کہ میرے لئے بھی خدا نے یہ ایک موقع پیدا کیا ہے تا دشمن پر میں یہ ظاہر کروں کہ جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے کسی حالت میں بھی ڈگمگانے والی نہیں.سو خدا تعالیٰ نے واقعہ میں وہ نمونہ دکھا دیا اور میں دیکھتا ہوں کہ کارکنوں کی بہت بڑی اکثریت نے نہ صرف اس کمی کو خوشی سے قبول کیا ہے بلکہ دس بارہ تو ایسے ہیں جنہوں نے لکھا ہے کہ ہم اس کمی کو اس حد تک قبول کرنے کو تیار ہیں کہ ہمیں صرف گزارہ دیا جائے جتنا تحریک جدید کے کارکنوں کو دیا جاتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی وقف کی ہوئی ہے.گو یا وہ صرف پندرہ روپے لینے کے لئے بھی تیار ہیں.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اخلاص کے لحاظ سے جماعت کی اکثریت ایسے مقام پر ہے کہ اس کو کوئی ٹھو کر نہیں لگ سکتی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض کمزور طبع بھی ہوتے ہیں اور پھر بعض منافق ہوتے ہیں اور وہ ہرا لہی سلسلہ میں ہوتے ہیں مگر منافقوں کا وجود کوئی انوکھی بات نہیں.کئی لوگ ایسے ہیں جو میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیا قادیان میں بھی منافق ہو سکتے ہیں؟ میں انہیں کہتا ہوں قرآن موجود ہے اسے کھول کر دیکھ لو.وہاں یہی لکھا ہے کہ مدینہ میں بھی منافق موجود تھے.اور یہ تو ایک ایسا
خطابات شوری جلد دوم.مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء کانٹا ہے جس کا گلاب کے پھول کے ساتھ ہونا ضروری ہے.پس جماعت کے کارکنوں کے ایک حصہ نے نہ صرف وہ کمی قبول کی ہے جو اُن کی تنخواہوں میں کی گئی ہے بلکہ بعض نے تو وقف زندگی کے شرائط کے مطابق گزارہ لینے کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیا ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ سب نے اس کو خوشی سے قبول کیا ہے.ایسے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جن کو یہ کمی دو بھر لگی ہو.مگر وہ نہایت ہی قلیل ہوں گے اور کم از کم میرے کانوں میں اب تک کسی کا رکن کے متعلق یہ آواز نہیں پہنچی کہ اُس نے اس کمی پر بُرا منایا ہو.غیروں نے بے شک یہ کہا کہ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ جماعت منحرف ہو جائے گی مگر کارکنوں میں سے ایک شخص کے متعلق بھی میں نے یہ بات نہیں سنی.نہ براہ راست اُس کے منہ سے اور نہ کسی اور کی زبان سے مگر میں خیال کر سکتا ہوں کہ ممکن ہے بعضوں نے اس پر چہ میگوئیاں کی ہوں.مگر میرے علم میں کوئی ایسی مثال نہیں آئی.پس ایک نہایت ہی اہم اکثریت نے سلسلہ کی مشکلات کو سمجھا ہے اور اُس نے اس بوجھ کے اُٹھانے کے لئے بخوشی اپنے آپ کو پیش کر دیا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ بیرونی جماعتیں بھی اس امر کو محوظ رکھتے ہوئے اپنی قربانی کا نمونہ پیش کریں گی.“ تیسرا دن سے.اختتامی تقریر مجلس مشاورت کی کارروائی مکمل ہونے پر حضور نے ۱۷.اپریل ۱۹۳۸ء کو مستقبل کے خطرات کا ذکر کرتے ہوئے احباب جماعت کو ایک پُر اثر الوداعی خطاب سے نوازا اور انہیں ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.آپ نے فرمایا: - احباب جماعت کو آئندہ خطرات کے لئے تیاری کرنی چاہیئے اب ہم اُس کام کو ختم کر چکے ہیں جس کے متعلق غور کرنے کے لئے ہم اس جگہ جمع ہوئے تھے لیکن وقتی ضرورت اور حقیقی ضرورت میں بہت بڑا فرق ہوا کرتا ہے.وقتی ضرورت گو بڑی دکھائی دیتی ہے لیکن حقیقتا چھوٹی ہوتی ہے اور حقیقی ضرورت گوچھوٹی نظر آتی ہے بلکہ بعض دفعہ
خطابات شوری جلد دوم ۳۱۰ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء نظر انداز بھی ہو جاتی ہے، دراصل بہت بڑی ہوتی ہے.ایک چیونٹی اگر کسی کے کان میں گھس جائے تو اُسے یوں معلوم ہوتا ہے کہ بڑے زور سے ڈھول بج رہے ہیں.لیکن دُور بجنے والے ڈھولوں کی آواز محض بھنک کے طور پر اُس کے کان میں پڑتی ہے.ایک ٹھیکری بھی انسان اگر اپنی آنکھ پر رکھ لیتا ہے تو ساری دُنیا اُس کی نگاہ سے اوجھل ہو جاتی ہے لیکن میلوں دور جو بڑے بڑے پہاڑ ہوتے ہیں اور جن کی چوٹی پر پہنچنے کا خیال تو الگ رہا اُن کے نصف تک پہنچنے کے خیال سے ہی انسان کا دل کانپنے اور لرزنے لگتا ہے، وہ اُسے نظر نہیں آتے.تو عقلمند قوم وہ ہوتی ہے جو اُن چیزوں کو اپنی نظر کے سامنے رکھتی ہے جو دقت کے ساتھ دکھائی دیتی ہیں لیکن جذباتی آدمی صرف اُن چیزوں کو دیکھتا ہے جو اس کے سامنے ہوتی ہیں.فرض کرو ایک آدمی میدانِ جنگ میں اس لئے بھیجا جاتا ہے کہ وہ جائے اور کمانڈر انچیف کو یہ اطلاع دے کہ دشمن ایک لشکر جرار کے ساتھ حملہ آور ہونے والا ہے اُس کے مقابلہ میں اپنی حفاظت اور بچاؤ کا سامان کر لو.تو بالکل ممکن ہے اُس شخص کی جان کے ساتھ دس ہزار یا بیس ہزار یا پچاس ہزار یا ایک لاکھ آدمیوں کی جانیں وابستہ ہوں.مگر جاتے ہوئے اُسے راستے میں اگر کوئی شخص گالی دے دیتا ہے اور وہ اُس سے لڑ پڑتا ہے اور اسی لڑائی میں مارا جاتا ہے تو بظاہر ایک شخص جو حقیقت سے ناواقف ہو کہہ سکتا ہے کہ دیکھو! یہ کتنا غیرت مند تھا اس نے گالی سنی مگر اسے برداشت نہ کر سکا لیکن حقیقتا وہ اپنے ملک کا غدار ہوگا کیونکہ اُس نے دس ہزار یا ہمیں ہزار یا پچاس ہزار یا ایک لاکھ آدمیوں کی جانوں کو اپنے عمل سے خطرہ میں ڈال دیا ہے اور اگر دشمن کے حملہ کے نتیجہ میں وہ لوگ مارے جاتے ہیں تو یقیناً اس کا ذمہ دار وہی ہے.محض اس لئے کہ اُس نے وقتی مصیبت کو اہمیت دے دی اور بڑی مصیبت کو نظر انداز کر دیا لیکن اکثر دُنیا میں یہی قاعدہ جاری ہے.بلکہ سوائے عارفین کے عام لوگ وقتی ضرورت کو اہمیت دیتے اور مستقبل میں رونما ہونے والے امور کو نظر انداز کر کے عارفین کی باتوں کو نادانی کا خیال قرار دے دیتے اور کہتے ہیں کہ وہمی ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دُنیا میں وہمی بھی ہوتے ہیں اور وہ خیالی تصویریں کھینچ کھینچ کر اہم اور ضروری باتوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور یہ لوگ بھی خطرناک ہوتے ہیں کیونکہ وہ جو ڈراؤنی تصویریں کھینچتے ہیں خیالی ہوتی ہیں لیکن حقیقی خطرہ خواہ تھوڑا ہو خیالی نہیں
خطابات شوری جلد دوم ۳۱۱ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء ہوتا بلکہ اصلی ہوتا ہے.اس کے مقابلہ میں وہ لوگ جو حال کے خطرات کو قلیل سمجھتے اور مستقبل کے خطرات کو کثیر سمجھتے ہیں وہ تھوڑے ہوتے ہیں اور وہ جو مستقبل کے خطرات کو تھوڑا اور حال کے خطرات کو زیادہ سمجھتے ہیں وہ بہت ہوتے ہیں.بالعموم دنیا میں جذباتی لوگ ہوتے ہیں جو سامنے آنے والی مشکلات کو زیادہ اہمیت دے دیتے ہیں اور آئندہ رونما ہونے والی مشکلات کو نظر انداز کر دیتے ہیں.جماعت احمدیہ کے خلاف منصوبے پس جہاں ہم نے اپنی موجودہ مشکلات اور قرضوں پر غور کیا ہے اور ان امور پر بحث و تمحیص کی ہے جو ہمارے کارکنوں کے لئے تکلیف کا موجب ہیں یا سلسلہ کے کاموں میں روک بن رہے ہیں وہاں ہمیں ان خطرات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے جو ہمارے گرد جمع ہورہے ہیں اور گو وہ اس وقت قلیل ہیں مگر بہر حال بڑھتے چلے جارہے ہیں وہ وہی خطرات ہیں جن کی طرف کل بھی میں نے اشارہ کیا تھا اور بتایا تھا کہ جماعت اب ایک ایسے مقام پر پہنچ گئی ہے کہ بعض حکومتیں بھی اسے ڈریا اہمیت کی نگاہ سے دیکھنے لگ گئی ہیں اور مختلف قو میں بھی اسے ڈریا اہمیت کی نگاہ سے دیکھنے لگ گئی ہیں.اور ان میں ایک بیداری اور ہوشیاری پائی جاتی ہے اور وہ چاہتی ہیں کہ جس طرح بھی ہو اس جماعت کو تباہ اور بربادکر دیا جائے.یہ خطرات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں.کہیں بعض عدالتیں ہیں جو اسی رو میں بہہ کر اپنے فیصلوں میں سلسلہ کے خلاف ریمارکس کرتی ہیں، کہیں خفیہ ریکارڈ جماعت کے خلاف تیار کئے جاتے ہیں، کہیں مختلف ملکوں میں ہماری تبلیغ میں رکاوٹیں پیدا کی جاتیں اور مبلغین کو نکالا جاتا ہے اور کہیں تو میں آپس میں شدید اتحاد کر کے جماعت کے لوگوں کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں.اور وہ لوگ جو بظاہر ہمارے دوست نظر آتے ہیں وہ بھی اس اتحاد میں ان کے شریک ہیں کیونکہ ان کی نگاہیں احمدیت کی بڑھتی ہوئی ترقی نہیں دیکھ سکتیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر احمدیت اسی طرح ترقی کرتی رہی تو ایک دن تمام دُنیا پر غالب آ جائے گی.وہ جس وقت ہم سے ملتے ہیں ہمیں اپنی دوستی کا یقین دلاتے ہیں مگر جب وہ اپنی پرائیویٹ مجالس میں جاتے ہیں تو ہماری جماعت کے خلاف باتیں کرتے ہیں.بظاہر ان خطرات کے اثرات بہت قلیل ہیں، بظاہر ایسی صورت حالات جس کو نظر انداز کیا جا سکتا
خطابات شوری جلد دوم ۳۱۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء ہے اور بظاہر اگر ہم دور بینی سے کام نہ لیں تو کہہ سکتے ہیں کہ یہ معمولی باتیں ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ معمولی باتیں نہیں بلکہ ایک لمبی زنجیر کی کڑی ہیں.پس میں جماعت کو ان خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے نصیحت کرتا ہوں کہ تم اپنے اندر وہ وسعت نظر پیدا کرو جس سے تمہیں معلوم ہو سکے کہ آئندہ تمہارے ساتھ کیا ہونے والا ہے.ڈ نیوی لوگوں کے لئے یہ مشکل ہوتی ہے کہ وہ کہتے ہیں نہ معلوم آئندہ کے متعلق ہمارا جو اندازہ ہے وہ وہم ہے یا حقیقت.اُن میں سے ہر شخص جو اپنے مستقبل پر غور کرتا ہے وہ اس شش و پنج میں مبتلا رہتا ہے کہ نہ معلوم میرے خواب، میری عقل کی خرابی کا نتیجہ ہیں یا آئندہ واقعات کا صحیح نقشہ ہیں اور بسا اوقات اُس کے لئے کوئی فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے مگر آپ لوگوں کے لئے یہ فیصلہ کرنا بالکل آسان ہے.ایک منٹ کے لئے آپ ان تمام ترقیات کو بُھول جائیں جو اب تک آپ کو حاصل ہوئیں ، ایک منٹ کے لئے آپ بھول جائیں اس امر کو کہ آپ کے گردو پیش کے لوگ آپ کے متعلق کیا کہتے ہیں، آپ پُھول جائیں اس بات کو کہ آپ لوگوں میں سے کوئی شخص کسی معزز عہدے پر فائز ہے یا نہیں.آپ بُھول جائیں اس بات کو کہ دشمن اس وقت کیا کر رہا ہے یا کیا کہہ رہا ہے بلکہ میں کہتا ہوں آپ اپنے نفس کو بھی بھول جائیں اور صرف اتنا کام کریں کہ ایک شاہد سے جو نہایت ہی عظیم الشان ہے دریافت کریں کہ ہمارا مستقبل کیا ہے؟ وہ شاہد قرآن کریم ہے، وہ خدا تعالی کی کتاب ہے.اس سے پوچھیں کہ نبیوں کی جماعتوں کا مستقبل کیا ہوتا ہے اور پیشتر اس کے کہ خدا تعالیٰ کی تائید انہیں دنیا کا حاکم اور بادشاہ بنا دے، ان جماعتوں کی حالت کیا ہوتی ہے؟ اگر قرآن کریم یہ شہادت دے کہ انبیاء کی جماعتوں پر عظیم الشان مصائب آیا کرتے ہیں تو آپ لوگ سمجھ لیں کہ اگر آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ آپ لوگوں کے لئے کوئی مصائب مقدر نہیں تو آپ کا نفس آپ کو دھوکا دے رہا اور صحیح راستہ سے آپ کو منحرف کر رہا ہے.پھر اس شاہد تک بس نہیں میں ایک اور شاہد بھی پیش کرتا ہوں جو یہی گواہی دے رہا ہے اور وہ شاہد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات ہیں.
خطابات شوری جلد دوم ۳۱۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء غلبہ احمدیت سے قبل مصائب آئیں گے دنیا میں دو شاہدوں کی گواہی پر عدالت قتل کی سزا تک دے دیتی ہے اور میں تو جو شاہد پیش کر رہا ہوں اُن سے بڑھ کر اور کوئی شاہد ہو ہی نہیں سکتا.آپ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات کو پڑھیں اور دیکھیں کہ ان میں اللہ تعالیٰ نے کیا بیان کیا ہے کہ جب تھوڑی بہت ترقی حاصل ہوگئی تو مصیبت کا زمانہ ختم ہو جائے گا؟ یا یہ بیان کیا ہے کہ اس زمانہ تک کہ جماعت کو تمام دنیا پر غلبہ تام حاصل نہیں ہو جا تا مشکلات پر مشکلات آئیں گی اور مصائب پر مصائب برداشت کرنی پڑیں گی.یہاں تک کہ حضرت موسی علیہ السلام کی قوم کو جو تکالیف پہنچیں، حضرت عیسی علیہ السلام کے حواریوں کو جن مصائب میں سے گزرنا پڑا اسی طرح اور انبیاء کی جماعتیں جن مشکلات کے دور میں سے گزریں وہ تمام مشکلات اور تمام مصائب جماعت احمدیہ کو بھی برداشت کرنی پڑیں گی.اور اگر ان الہامات سے یہی ظاہر ہوتا ہے تو آپ لوگوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ کہہ کر کہ مصیبت کوئی نہیں آپ کا نفس آپ کو دھوکا دے رہا ہے اور آپ لوگوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ ابھی آپ کے لئے بڑے بڑے ابتلاء مقدر ہیں اور در حقیقت میری زبان اُن خطرات کو بیان کرنے سے بالکل قاصر ہے جو ہماری جماعت کو پیش آنے والے ہیں کیونکہ اگر تصریحاً اُن خطرات کا اظہار کر دیا جائے تو دشمن پہلے سے بھی زیادہ ہوشیار اور دلیر ہو جائے اور اُسے معلوم ہو جائے کہ میری خفیہ تدابیر کا اِن کو علم ہو چکا ہے.اسی وجہ سے مجھے اختفاء سے کام لینا پڑتا ہے تا دشمن کو یہ معلوم نہ ہو کہ اُس کے منصوبوں کا ہمیں علم ہے.ابتلاؤں کے مقابلہ کے لئے تبدیلی کی ضرورت لیکن حقیقت یہی ہے کہ اگر ہماری جماعت خدا کی طرف الصلوة سے ہے اور مجھے تو یقین ہے کہ وہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر حضرت مسیح موعود علیہ والسلام کے الہامات صحیح ہیں اور مجھے تو یقین ہے کہ وہ صحیح ہیں اور اگر قرآن کریم جو کچھ کہتا ہے وہ صحیح ہے اور مجھے تو یقین ہے کہ اس نے جو کچھ کہا وہ صحیح ہے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جس قسم کی زندگی کے دور میں سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں یہ ہرگز ہمارے مناسب حال نہیں اور اس میں ایک عظیم الشان تبدیلی کی ضرورت ہے.جب تک ہم وہ تبدیلی نہیں کریں
خطابات شوری جلد دوم ۳۱۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء گے آنے والے مصائب کا ہم مقابلہ نہیں کر سکیں گے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے متواتر ہم کو جگایا گیا اور اس نے اپنے عمل سے ہم کو بتا دیا ہے کہ سلسلہ کے سامنے کتنی اہم مشکلات ہیں اور اگر ان مصائب میں کچھ وقفہ پڑا ہے تو اس لئے کہ ہم اس وقفہ میں آئندہ رونما ہونے والی مشکلات کے لئے تیار ہو جائیں.خدا تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ جب وہ اپنے مامورین کی جماعت کو صدمات اور مصائب پہنچا تا ہے تو درمیان میں کچھ وقفے بھی دے دیتا ہے تا وہ صدمات اس کو بالکل ٹچل نہ دیں اور تا اس کے دل میں یہ حسرت نہ رہے کہ اگر مجھے موقع ملتا تو میں اور زیادہ تیاری کر لیتا.اگر متواتر ہے.مصائب ہی مصائب وارد ہوتی ہی جائیں تو سوائے ناکامی کے اور کیا حاصل ہوسکتا.ایک شخص کو گرا کر اُس کی چھاتی پر اگر کوئی دوسرا شخص چڑھ بیٹھے اور اُس کا گلا گھونٹنا شروع کر دے اور مسلسل گھونٹتا چلا جائے تو وہ کس طرح بچ سکتا ہے.لیکن اگر کسی طرح اوپر کا شخص نیچے جا پڑے اور جو نیچے پڑا ہوا تھا وہ اُس کے سینہ پر چڑھ جائے تو اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ وہ بیچ رہے کیونکہ اُسے زور آزمائی کے لئے موقع مل جاتا ہے.لیکن اگر یہ دوسرے کی چھاتی پر بیٹھ کر مطمئن ہو جاتا ہے اور سمجھ لیتا ہے کہ اب دوسرا مجھے نیچے نہیں گر ا سکتا اور ہم نے اسے شکست دے دی تو یہ بیوقوفی کا مرتکب کہلائے گا کیونکہ جب بھی وہ اطمینان کا سانس لے گا دوسرے کے حملہ سے غافل ہو جائے گا اور اس غفلت سے فائدہ اٹھا کر دشمن اُس پر پھر حملہ آور ہو جائے گا.تو درمیانی دور مطمئن کرنے کے لئے نہیں آتے بلکہ اس لئے آتے ہیں کہ قوم کو تازہ دم کر کے اور زیادہ مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار کر دیں.مگر کئی نادان ہیں جو اس کی وجہ سے غفلت میں پڑ جاتے ہیں حالانکہ درمیانی وقفے اس لئے آتے ہیں تا لوگ تیاری کر لیں اور جب مصائب آجاتی ہیں تو دراصل وہ نقشہ ہوتی ہیں اُن حالات کا جو پس پردہ ہوتے ہیں.میں نے متواتر جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک جماعت میں یہ روح اس رنگ میں پیدا نہیں ہوئی جس رنگ میں میں پیدا کرنا چاہتا ہوں.
خطابات شوری جلد دوم دور ویا ۳۱۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء تھوڑے ہی دن ہوئے ایک رویا میں نے دیکھا جو بعض دوستوں کو سنا بھی دیا تھا.اس رؤیا کو سنائے آج پانچواں دن ہے مگر اس سے بھی آٹھ دن پہلے میں نے یہ رویا دیکھا تھا.اُس وقت جو حالت تھی وہ دراصل رؤیا کی نہیں تھی.سوتے سوتے میری آنکھ کھل گئی اور میں نے دیکھا کہ نیم غنودگی کی حالت میں میں سورہ نوح کی چند آیتیں چھوڑ کر باقی آیتیں اس طرح پڑھ رہا ہوں کہ گویا ایک طرف لوگوں کو ان آیات کے ساتھ مخاطب کر رہا ہوں اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ سے دعا کر رہا ہوں.مجھے سورۃ نوح حفظ نہیں ہے مگر اُس وقت بلا تکلف اس کی آیات پڑھتا جاتا ہوں.چنانچہ جو آیات میں نے اُس وقت تلاوت کیں، اُن میں سے بعض مجھے اب تک یاد ہیں.مثلاً یہ کہ رب اتي دعوتُ قَوْمِي ليلًا و نَهَارًا فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعَاء في الافرادا اور یہ بھی کہ تم إني أعلنتُ لَهُمْ وَ اَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْرَارًا من بعض آیات مجھے اس وقت بوجہ اس کے کہ ساری سورۃ مجھے حفظ نہیں زبانی یاد نہیں لیکن یہ یقینی طور پر یاد ہے کہ صرف چند آیات چھوڑ کر باقی ساری سورۃ میں نے پڑھی ہے.اس واقعہ سے میں نے سمجھا کہ کوئی ابتلاء ہے جو بہت بڑا ہے اور جس میں دشمن سے ہمیں سخت مقابلہ کرنا پڑے گا مگر میری عادت نہیں کہ میں ایسی باتوں کا اظہار کرتا پھروں.اس کے آٹھ دن بعد پھر میں نے دیکھا کہ میں ایک جگہ پر ہوں اور خواب میں میں یہ سمجھتا ہوں کہ بعض لوگ بھی وہاں ہیں مگر یہ کہ وہ کون ہیں، یہ مجھے یاد نہیں رہا.صرف اتنا سمجھتا ہوں کہ اور لوگ بھی ہیں اور ہم ایک کشتی میں بیٹھے ہیں جو سمندر میں ہے اور سمندر بہت وسیع ہے.اُس کے ایک طرف اٹلی کی مملکت ہے اور دوسری طرف انگریزوں کی.اٹلی کی مملکت شمال مغربی طرف معلوم ہوتی ہے اور انگریزی علاقہ مشرق کی طرف اور جنوب کی طرف ہٹ کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ کشتی اُس جانب سے آ رہی ہے جس طرف اٹلی کی حکومت ہے اور اس طرف جا رہی ہے جس طرف انگریزوں کی حکومت ہے.اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ یکدم شور اُٹھا اور گولہ باری کی آواز آنے لگی اور اتنی کثرت اور شدت سے گولہ باری ہوئی کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا ایک گولے اور دوسرے گولے کے چلنے میں کوئی فرق نہیں ہے اور یکساں شور ہو رہا ہے.میں نے دیکھا کہ گولے متواتر پڑ رہے تھے.
۳۱۶ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء خطابات شوری جلد دوم اور اتنی کثرت سے پڑ رہے تھے کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ اُن گولوں سے جو بھرا ہوا ہے.میں یہ دیکھ کر گولوں سے بچنے کے لئے کشتی میں مجھک گیا.اس کے بعد کا نظارہ مجھے یاد نہیں رہا.اسی اثناء میں میں یکدم محسوس کرتا ہوں کہ ایک زبردست طوفان آیا ہے اور دُنیا میں پانی ہی پانی ہو گیا ہے اور میں اُس وقت اپنے آپ کو پانی کے نیچے پاتا ہوں.میری کمر پر اُس وقت پانی کا اتنا بڑا بوجھ ہے کہ میں اُس کی وجہ سے پورے طور پر کھڑا نہیں ہوسکتا اور ہاتھوں اور پاؤں کے بل چلتا ہوں.ساتھ ہی اندھیرا بھی ہے اور مجھے تاریکی کی وجہ سے کچھ نظر نہیں آتا لیکن میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ جیسے پانی کو چادر میں ڈال کر کسی نے میرے اوپر سے اُٹھایا ہوا ہے یعنی اُس کا بوجھ میں زیادہ محسوس نہیں کرتا اور میری کمر پر پانی اس طرح لگ رہا ہے گویا وہ چادر ہی ہے اور چادر کو کسی نے اُٹھایا ہوا ہے جیسے پانی کی مشک کسی کی کمر پر رکھ دی جائے اور ساتھ اُس کا بوجھ بھی نہ پڑنے دیا جائے اسی کی مانند تھی.اسی حالت میں جبکہ میں حیران ہوں کہ اب کیا ہو گا میں محسوس کرتا ہوں کہ پانی کم ہونا شروع ہوا ہے اور کسی نے اُس پانی کو جو ہمارے اوپر ہے اُٹھانا شروع کر دیا ہے.یہاں تک کہ تمام بوجھ میری کمر پر سے دور ہو گیا اور میں کھڑا ہو گیا.اُس وقت میں اپنے آپ کو ایک اس قسم کے کمرہ میں پاتا ہوں جو مغلیہ بادشاہوں کی عمارتوں کی طرز پر بنا ہوا ہے.اُس میں تین بڑے بڑے در ہیں جنہیں دروازہ نہیں لگا ہوا.کمرہ مسجد مبارک سے کچھ بڑا ہے.اُس کمرہ میں کچھ اور لوگ بھی ہیں جن میں سے ایک میری بیوی اہم طاہر ہیں جو میرے پاس ہی کھڑی ہیں.جب میں کھڑا ہوا تو میں نے دیکھا کہ پانی کم ہوتا جاتا ہے.یہاں تک کہ کمرہ کے دروں میں سے ایک دَر کے اوپر کی طرف سے پانی ہٹ گیا اور روشنی اندر داخل ہونی شروع ہوئی جسے دیکھ کر میں نے بڑے جوش سے اپنی تیسری بیوی سے مخاطب ہو کر کہا مریم الْحَمْدُ للهِ دیکھو میری خواب پوری ہوگئی.وہ دیکھو نور نظر آنے لگ گیا.اُس وقت میں سمجھتا ہوں کہ میں نے اس کے متعلق پہلے سے کوئی رؤیا دیکھی ہوئی تھی.اسی طرح دو تین دفعہ میں نے کہا پھر وہ پانی اور زیادہ کم ہونا شروع ہوا.یہاں تک کہ دروازے نصف نصف تک نظر آنے لگ گئے.میں یہ دیکھ کر پھر اُسی جوش میں کہتا ہوں مریم! دیکھو پانی اور زیادہ کم ہو گیا، الْحَمْدُ یتے میری خواب پوری ہو گئی.اُس وقت میں دیکھتا ہوں کہ ایک ہندو عورت بھی وہاں شکر کر بیٹھی
خطابات شوری جلد دوم ۳۱۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء ہے جیسے کسی کو سردی لگی ہوئی ہوتی ہے.مگر وہ نہایت غلیظ ہے جسے دیکھ کر گھن آتی ہے.اُس کے پاس ہی ایک بڑھیا عورت بیٹھی ہے جسے میں اس کی ماں یا ساس سمجھتا ہوں.وہ بھی نہایت غلیظ لباس میں ہے.اُس شکر کر بیٹھی ہوئی عورت کی نسبت میرے دل میں خیال آتا ہے کہ یہ بیمار ہے اور اُسے سردی لگ گئی ہو گی مگر میں اُس طرف کوئی توجہ نہیں کرتا اور یوں سمجھتا ہوں جیسے وہ عذاب الہی میں مبتلا ہے، توجہ کے قابل نہیں ہے اور میں اس خیال سے کہ گیلے لباس سے تکلیف نہ ہو کمرہ میں ٹہلنا شروع کر دیتا ہوں.میری بیویاں بھی وہیں ہیں.تین بیویاں تو یاد ہیں چوتھی یاد نہیں اور اپنی دولڑکیاں امتہ القیوم اور امتۃ الرشید وہاں دیکھیں.جو امتہ الحی مرحومہ کے بطن سے ہیں.میں اُس وقت دل میں خیال کرتا ہوں کہ گھر کے لوگوں کو ذرا فکر نہیں ، گیلے کپڑے پہن رکھے ہیں.بہتر تھا کہ یہ ٹہلتیں تا کہ ان کے کپڑے خشک ہو جاتے اور صحت پر کوئی بُرا اثر نہ پڑتا.مگر میں اُنہیں کہتا کچھ نہیں.اتنے میں میرے دل میں خیال آتا ہے کہ یہ جو اس اطمینان سے کھڑی ہیں تو شاید ان کے کپڑے گیلے ہی نہیں ہوئے اور مجھے خیال آتا ہے کہ میں اپنے کپڑے تو دیکھوں وہ خشک ہیں یا گیلے؟ جب میں اپنے کپڑے دیکھتا ہوں تو وہ بالکل خشک معلوم ہوتے ہیں.اور میں کہتا ہوں یہ عجیب قسم کا طوفان تھا کہ باوجود طوفان میں رہنے کے کپڑے بھی سُوکھے رہے.پھر مجھے شبہ پیدا ہوا اور میں نے سمجھا کہ شاید یہ طوفان نہیں تھا بلکہ طوفان کا ایک نظارہ تھا جو دکھائی دیا مگر جب حقیقت معلوم کرنے کے لئے ایک کانس پر پڑے ہوئے کپڑے پر ہاتھ رکھتا ہوں تو وہ بالکل گیلا نظر آتا ہے.اور میں کہتا ہوں یہ کوئی خدائی تصرف ہے کہ میرے کپڑے باوجود طوفان کے گیلے نہ ہوئے.اسی دوران میں مجھے خیال آتا ہے کہ امۃ القیوم کی صحت کمزور ہے، اسے گرم دھتہ دینا چاہئے تا کہ وہ اوڑھ لے چنانچہ میں نے اسے اپنا گرم دھستہ دیا جو بالکل خشک معلوم ہوتا ہے مگر تھوڑی دیر کے بعد میں کیا دیکھتا ہوں کہ اس نے وہ دُھتہ اوڑھا ہوگا نہیں.میں اُس سے دریافت کرتا ہوں کہ میں نے جو تمہیں دھتہ دیا تھا ، وہ کہاں گیا ؟ تو وہ کہتی ہے کہ یہ ہندو عورت جو بیمار ہے اُسے میں نے دیا ہے تا کہ یہ اوڑھ لے.ظاہری شریعت کے لحاظ سے تو اُس کا یہ فعل اچھا تھا مگر رویا میں مجھے اُس کا یہ فعل اچھا معلوم نہیں ہوا اور میں سمجھتا ہوں کہ میرا دھتہ اُس ہند وعورت کو نہیں دینا چاہئے
۳۱۸ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء خطابات شوری جلد دوم تھا.اتنے میں میں دیکھتا ہوں کہ وہ عورت لیٹ گئی اور اس نے بیقراری ظاہر کرنی شروع کر دی جیسے گرمی لگی ہوئی ہوتی ہے اور خود بخود دھتہ پرے پھینک دیا.میں نے دیکھا کہ وہ دھتہ آپ ہی تہہ ہو گیا اور میں نے اُٹھا کر اور کسی جگہ رکھ دیا.اس عورت کے متعلق اس وقت مجھے یوں محسوس ہوا کہ یہ اب مرگئی ہے یا مرنے والی ہے.اس وقت اس کے پاس اس کی ساس یا ماں جو بھی ہے آکر بیٹھ گئی ہے.اتنے میں میں باہر آجاتا ہوں.جہاں مجھے اپنی جماعت کے بہت سے دوست ملتے ہیں.کچھ ہندو اور کچھ پیغامی بھی ہیں.مولوی محمد علی صاحب اور مولوی صدرالدین صاحب مجھے خاص طور پر یاد ہیں.اور ایک اور پیغامی بھی مجھے یاد ہے جس کے متعلق رویا میں مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ وزیر آباد کا ہے اور اچھا تاجر ہے.پھر میں نے ایک اور شخص کو دیکھا کہ وہ کھڑا ہے اور اس کے پاس ایک گاڑی ہے جو اُس گاڑی سے ذرا بڑی ہے جو بچوں کے لئے ہوتی ہے.اور تین بکرے بھی کھڑے ہیں جن میں دو اس گاڑی میں بجتے ہوئے ہیں.مجھے خیال پڑتا ہے کہ اُس جگہ میں نے بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کو بھی جماعت کے لوگوں میں سے دیکھا.جولوگ وہاں کھڑے ہیں میں ان کو مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ دیکھو یہ پانی کا طوفان میرے خواب کی بناء پر آیا ہے.مجھے اس طوفان کی اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت خبر دی تھی اور مجھے رویا میں بکروں کی صورت میں خدا تعالیٰ کے فرشتے نظر آئے تھے اور اُنہوں نے مجھ سے بات کی تھی اور مجھے یہ سب نظارہ دکھایا گیا تھا.اور بتایا گیا تھا کہ پھر یہ طوفان ہٹ جائے گا اور سب سے پہلے میں روشنی دیکھوں گا.میں نے جب یہ کہا کہ بکروں کی صورت میں خدا تعالیٰ کے فرشتے ظاہر ہو کر مجھ سے ہمکلام ہوئے تھے تو میں نے دیکھا کہ جس طرح کسی کی تقدیس اور بزرگی کا اعتراف کیا جاتا ہے اُسی طرح اُن بکروں میں سے جو وہاں تھے ایک نے میرے بازو پر اپنی تھوتھنی ملنی شروع کر دی.گویا کہ وہ اظہار کرتا ہے کہ جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں ٹھیک ہے.اور گویا کہ وہ برکت ڈھونڈ رہے ہیں.اور خواب میں مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ بکرا اپنے پچھلے پاؤں پر کھڑا ہے اور اُس نے اگلے دونوں پاؤں میرے بازو کے گرد لپیٹ لئے ہیں.جیسے کوئی وفور محبت سے دوسرے کو کھینچتا ہے اور میرے بازو پر اپنا منہ ملتا ہے.اُس وقت میں حاضرین کو گزشتہ سب واقعہ پھر سناتا ہوں کہ اس طرح جب میرے خواب کے مطابق
خطابات شوری جلد دوم ۳۱۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء طوفان آیا اور پھر ہٹا تو میں نے اپنی بیوی مریم بیگم کو مخاطب کر کے کہا الحمد لله مریم دیکھو میرا خواب پورا ہو گیا.پانی کم ہو رہا ہے اور وہ دیکھو روشنی نظر آ رہی ہے.جب میں آخری بات کہتا ہوں کہ الحمد للہ میرا خواب پورا ہو گیا تو وہ لوگ جو میرے سامنے ہیں وہ بھی الْحَمْدُ یتو یا الله اَكْبَرُ کا نعرہ بلند کرتے ہیں.پھر میں نے دیکھا کہ وہ آدمی جو اس بکروں والی گاڑی میں بیٹھا تھا، گاڑی ہانک کر چلا گیا.خواب میں میں نے یہ بھی دیکھا کہ جس وقت میں نے اپنا رویا سنانا شروع کیا تو مولوی محمد علی صاحب وہاں سے ہٹ کر دوسری طرف چلے گئے لیکن مولوی صدر الدین صاحب کھڑے رہے.مگر ذرا ہٹ کر لیکن وزیر آباد کا جو پیغامی تھا وہ اُسی جگہ رہا اور میرے سامنے کھڑا رہا اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس خواب سے متاثر ہے.چنانچہ میرے یہ کہنے پر کہ الْحَمْدُ لله میرا خواب پورا ہو گیا جو لوگ الحمد لله یا الله اَكْبَرُ کا نعرہ بلند کرتے ہیں اُن میں وہ وزیر آباد کا پیغامی بھی شامل ہے.تو یہ اور اس قسم کے اور بہت سے اشارات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی طوفان آنے والے ہیں.ممکن ہے بعض طوفان ظاہری شکل میں ہوں اور بعض طوفان مشکلات و ابتلاؤں کی صورت میں ظاہر ہوں.حقیقت یہ ہے کہ جب کبھی انبیاء کی جماعتیں کھڑی ہوئی ہیں وہ کبھی اس طرح کمال کو نہیں پہنچیں جس طرح ہم اس وقت کام کر کے کمال حاصل کرنا چاہتے ہیں.مسیح ناصری کے حواریوں کی قربانیاں حضرت مسیح ناصری کی جماعت نے ترقی کی اور بہت بڑی ترقی کی مگر ان عظیم الشان قربانیوں کے بعد جن کا تصور کر کے بھی بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.بعض پرانی تاریخیں جو آجکل نکلی ہیں ان کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح آجکل لوگ ہمیں مرزائی کہتے ہیں اسی طرح مسیح ناصری کے حواریوں کو فقیر کہا جاتا تھا گویا انہیں اتنی قربانیاں کرنی پڑیں ، اتنی قربانیاں کرنی پڑیں کہ لوگوں نے ان کا نام ہی فقیر رکھ دیا.روم کے پاس میں نے وہ کٹا کومبز (CATACOMBS) دیکھی ہیں جن میں حضرت مسیح کے متبعین کو ایک لمبا عرصہ رہنا پڑا.یہ زمین دوز غاریں مختلف مقامات میں ہیں.اسکندریہ میں بھی ہیں
۳۲۰ 16 مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء خطابات شوری جلد دوم اور اٹلی میں بھی ہیں اور ایشیا کے بعض مقامات میں بھی.ان کو دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے کہ کیا کیا تکالیف تھیں جو اُنہوں نے اُٹھا ئیں.وہیں وہ رہے اور وہیں اُن کی قبریں ہیں وہاں اُن کے جو گر جے ہیں اُن میں کوئی مشر کا نہ بات نظر نہیں آتی اور اس بات کو خود عیسائی مؤرخین نے بھی تسلیم کیا ہے کہ پرانے آثار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء عیسائیت میں وہ مشرکانہ باتیں رائج نہیں تھیں جو آج رائج ہیں.اسی طرح جو کتبے ملے ہیں اُن پر جو تحریریں لکھی ہوئی ہیں ان میں بھی زیادہ تر زور انجیل پر نہیں بلکہ تو رات کے واقعات پر دیا گیا ہے.غرض ان لوگوں میں کوئی شرک کی بات نہیں تھی.وہ توحید کی تعلیم لے کر کھڑے ہوئے تھے.مگر جب لوگوں کی طرف سے اُن پر پے در پے مظالم کئے گئے تو وہ غاروں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے.چنانچہ انسان جب اُن غاروں میں جاتا ہے تو اُسے کہیں یہ لکھا ہوا نظر آتا ہے کہ یہاں خدا کے وہ سات بندے مدفون ہیں جو اُس کے مسیح پر ایمان لائے اور جو چُھپ کر یہاں عبادت کرتے رہے مگر کسی طرح رومی حکومت کو پتہ لگ گیا اور اُس نے اِن سب کو قتل کر دیا.اور کہیں یہ لکھا ہوا ہوتا ہے کہ یہاں میری پیاری بہن دفن ہے جو اس جگہ کی آب و ہوا برداشت نہ کر کے مرگئی جب کہ ہم کافروں کے ظلم سے تنگ آکر ان غاروں میں چھپے ہوئے تھے.غرض اس قسم کے سینکڑوں کتبے وہاں موجود ہیں.تعجب یہ ہے کہ اُنہوں نے زمین میں اتنی اسی فٹ گہرے گڑھے کھو دے اور وہاں اپنی زندگی کے دن گزارے.یہ غاریں بیس بیس میل تک لمبی چلی جاتی ہیں.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہزاروں لوگ ان غاروں میں رہے اور مہینوں اندر رہے بلکہ ایک دفعہ تو اُنہیں تھوڑے تھوڑے عرصہ کے وقفے سے سات سال تک اندر رہنا پڑا.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان پر فضل کیا اور روم کا بادشاہ عیسائی ہو گیا اور پھر وہ تکالیف جاتی رہیں جو پہلے انہیں پہنچا کرتی تھیں.غرض انہوں نے ایسی ایسی تکالیف برداشت کی ہیں کہ اگر ہم ان واقعات کو یا درکھیں تو یقیناً اپنی قربانیوں پر شرمندہ ہوں.مگر ہمارے مبلغ ان تمام قربانیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کہہ دیا کرتے ہیں حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھیوں کو کیا پوچھتے ہو، اُن میں سے ایک نے مسیح پر لعنت بھیجی اور باقی سب صلیب کے وقت بھاگ گئے.مگر وہ عظیم الشان قربانیاں وہ بھول جاتے ہیں جو سالہا سال تک عیسائیت نے کیں.
خطابات شوری جلد دوم ۳۲۱ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء پطرس کی قربانی دیکھو وہی پطرس جس نے کہا تھا میں نہیں جانتا مسح کون ہے اور جس نے آپ پر لعنت بھیجی ، وہی پطرس ایک لمبے عرصہ کے بعد روم میں صلیب دیا جاتا ہے اور جس وقت وہ صلیب کی طرف بڑھتا ہے اُس کی لکڑی کو بوسہ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ میری نجات کی چیز ہے.تو ہم اس قسم کی مثالوں سے اپنے نفس کو دھوکا دیتے ہیں.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے جہاں اس قسم کے واقعات بیان کئے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کی قربانیوں کے مقابلہ میں بیان کئے ہیں مگر ہم میں سے بعض لوگ اس سے ناجائز فائدہ اُٹھاتے اور یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ عیسائیوں نے کوئی قربانیاں نہیں کیں حالانکہ عیسائیوں نے جو قربانیاں کیں وہ بہت ہی شاندار ہیں.ایک دفعہ کوئی شخص روم کی کٹا کو مبز کو دیکھ آئے پھر اگر وہ مہینوں حیرت میں نہ پڑا رہے تو میرا ذمہ رہا.وہ بالکل گیلے کمرے ہیں جو زمین کو اسی اسی فٹ تک کھود کر بنائے گئے ہیں.جہاں سورج کی ایک شعاع تک نہیں پڑتی.وہ اس جگہ ایک لمبا عرصہ رہے ہیں.یہ وہ قربانیاں تھیں جن کے بعد عیسائیت نے ترقی کی اور یہ وہ قربانیاں ہیں جن کے نتیجہ میں باوجود شرک و کفر کے عیسائی قوم کو حکومت کے لئے خدا نے ایک لمبا عرصہ دے دیا.میں سمجھتا ہوں کہ جب بھی عیسائیوں کی تباہی کا وقت آتا ہے اللہ تعالیٰ کے سامنے وہ ہزاروں روحیں آکر کھڑی ہو جاتی ہیں جنہوں نے اُس کے لئے قربانیاں کیں اور خدا اُن کو دیکھ کر کہتا ہے کہ میری خاطر جنہوں نے اتنی عظیم الشان قربانیاں کی ہیں اُن کی نسلوں کو مجھے کچھ اور مہلت دے دینی چاہئے.اگر نیکی اور تقویٰ پر قربانیاں ہوں تو اُن کے جو نتائج نکل سکتے ہیں وہ محتاج بیان نہیں.حضرت مسیح علیہ السلام وہ آخری نبی ہیں جن پر سلسلہ موسویہ ختم کیا گیا اور ایک نئے سلسلے کا آغاز رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوا اور عام طور پر لوگوں کی بعد میں آنے والے سلسلہ سے عداوتیں زیادہ ہوتی ہیں لیکن اس زمانہ کے عیسائیوں میں سے ہی بعض کی بھی قرآن کریم میں اللہ تعالی تعریف کرتا اور ان کی سفارش کرتا ہے.مگر یہ کس بات کا نتیجہ ہے؟ یہ نتیجہ ہے اُن قربانیوں کا جو انہوں نے کیں.کامیابی کے لئے قربانیوں کی ضرورت پس ہماری جماعت کو ہمیشہ یہ امر مدنظر رکھنا چاہئے.اگر وہ سمجھتے ہیں کہ بغیر
خطابات شوری جلد دوم ۳۲۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء قربانیوں کے اور بغیر منہاج نبوت پر چلنے کے دنیا میں کامیاب ہو سکتے ہیں تو ان سے زیادہ پاگل اور کوئی نہیں ہو سکتا اور ان کی مثال بالکل اُس بے وقوف کی سی ہوگی جس کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ لڑائی میں شامل ہوگا اور اُسے کوئی تیر آلگا یہ دیکھ کر وہ میدان جنگ سے بھاگ پڑا اور چونکہ تیر لگنے سے خون بہنے لگ گیا تھا اس لئے وہ خون بھی پونچھتا جائے اور یہ بھی کہتا جائے کہ یا اللہ ! یہ خواب ہی ہو حالانکہ حقیقت کس طرح خواب بن سکتی ہے.اسی طرح یہ خدا کی سنت ہے جس میں آج تک کوئی تبدیلی نہیں ہوئی اور نہیں ہو سکتی کہ جب کسی نبی کی جماعت دنیا میں کھڑی ہوتی ہے تو اُسے خطرناک مصائب سے گزرنا پڑتا ہے اسے چکی کے دو پاٹوں میں پیسا جاتا ہے تب اس موت کے بعد سے ابدی اور دائمی حیات ملتی ہے کیونکہ ابدی حیات وہی ہے جوموت کے بعد ملے.پس جو شخص چاہتا ہے کہ اسے ابدی زندگی ملے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ موت قبول کرے.چاہے وہ موت آہستہ آہستہ آئے یا یکدم آئے.چاہے تلوار کے ذریعہ سے آئے یا فاقہ اور قید خانہ کے ذریعہ آئے.بہر حال وہ دیر سے آئے یا جلدی آئے ، موت کا آنا ضروری ہے اور موت کے بغیر کسی نبی کی جماعت کی ترقی نہیں ہوئی.اس موت کی شکل بے شک بدل سکتی ہے مگر موت کی شکل بدل جانے کے یہ معنے نہیں کہ تمہارے لئے موت مقدر نہیں.موت مقدر ہے اور ضرور ہے اور جو لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کے لئے موت کا قبول کرنا ضروری نہیں انہوں نے خدائی کتب کا کبھی گہری نظر سے مطالعہ نہیں کیا اور اُنہوں نے نہ صرف یہ کہ قرآن کو نہیں سمجھا بلکہ تو رات اور انجیل اور وید اور ژوند اوستا کو بھی نہیں سمجھا.تم دید پڑھو تو اس میں بھی یہی نظر آئے گا.گیتا پڑھو تو اُس میں بھی یہی دکھائی دے گا.زند اوستا پڑھو تو اس میں بھی یہی کچھ پایا جائے گا.بے شک یہ کتا بیں بگڑ گئیں، بے شک ان میں ہزاروں خرابیاں پیدا ہوگئیں مگر یہ تمام کتا بیں اس صداقت پر متفق ہیں کہ نبی کی جماعت کیلئے مصائب کا برداشت کرنا ضروری ہے.چنانچہ ویدوں میں اِس لئے یہ دعائیں سکھائی گئی ہیں کہ اے ہمارے خدا ہمارے دشمنوں نے ہم کو ملیا میٹ کر دیا تو آپ ہمارا انتقام لے اور ان کو تباہ اور برباد کر.ژوند اوستا میں بھی یہی ہے، گیتا میں بھی یہی ہے ، تو رات میں بھی یہی ہے ، انجیل میں بھی یہی ہے اور اگر کسی زمانہ میں خدا تعالیٰ کی کوئی اور کتاب ایسی معلوم ہو جس کا ہمیں آج علم نہیں تو یقیناً اس میں یہی
خطابات شوری جلد دوم ۳۲۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء بات پائی جائے گی.یہ ایک صداقت ہے جسے خدا تعالیٰ نے اپنی تمام الہامی کتب میں زمانہ کی دست برد سے محفوظ رکھا اور اس لئے محفوظ رکھا تا آئندہ کوئی جماعت دھوکا نہ کھائے کہ وہ بغیر ان مشکلات میں سے گزرنے کے کامیاب و با مراد ہوسکتی ہے؟ یا یہ کہ یہ واقعات چند انبیاء کے ساتھ ہی مخصوص تھے ، سب انبیاء کے لئے ایسا ہونا ضروری نہیں.پس خدا نے ان تکلیفوں اور دکھوں کے واقعات کو محفوظ رکھ کر بتایا ہے کہ غافل مت بنو اور یہ دھوکا نہ کھاؤ کہ حقیقی کامیابی مشکلات کے بغیر حاصل ہوسکتی ہے.اور میں سمجھتا ہوں اس قدر وضاحت کے بعد اب ہمارے لئے کوئی عذر باقی نہیں.جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ کا مامور سمجھتے ہیں اور اس بات پر صدق دل سے ایمان اور یقین رکھتے ہیں تو پھر اگر ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ نبیوں کی جماعتوں والا معاملہ ہم سے نہیں ہوگا تو یقیناً ہم دُنیا کو بھی دھوکا دیتے ہیں اور خدا تعالیٰ کو بھی اور یقیناً دو میں سے ایک بات غلط تسلیم کرنی پڑے گی.یا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہمارا نبی قرار دینا غلط ہو گا اور یا پھر ہمارا یہ خیال غلط ہوگا کہ ہم بغیر مشکلات کے دُنیا پر غالب آ سکتے ہیں.یہ بات تو کسی طرح درست نہیں ہو سکتی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اللہ تعالیٰ کے نبی نہیں.پس جب یہ بات درست نہیں تو لازماً ہمارا وہ خیال ہی غلط ہوگا کہ مشکلات کے بغیر کامیابی حاصل ہو سکتی ہے اور یقیناً یہ خیال غلط ہے.قرآن مجید تمہارے سامنے موجود ہے تم اسے کھولو، اس میں صاف لکھا ہے کہ احسب النَّاسُ أَن يَتَرَكُوا أَن يَقُولُوا أمَتَارَهُمْ لا يُفتنون ) کیا یہ ممکن ہے کہ لوگ یہ تو کہیں کہ ہم خدا پر ایمان لاتے ہیں مگر ان کا امتحان نہ ہو؟ فرماتا ہے ایسا نہیں ہوسکتا اور یہ ممکن ہی نہیں کہ مومنوں کو خطرناک ابتلاؤں میں نہ گزرنا پڑے.پس یہ مشکلات جو عارضی ہیں بے شک ان کو بھی اپنے سامنے رکھو مگر جو اصل مشکلات ہیں اُن کو مت بھولو.یہ چیزیں کہ تم نے دس فیصدی کی بجائے پندرہ فیصدی چندہ دے دیا یا آنہ فی روپیہ کی بجائے پانچ پیسے فی روپیہ کے حساب سے مالی قربانی کر دی یہ صرف تمہیں بیدار رکھنے کے لئے ہیں.ورنہ ان کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انہی قربانیوں پر تمہاری ترقی کا انحصار ہے.
خطابات شوری جلد دوم ۳۲۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء ابتلاؤں کا ذکر اور مامورِ زمانہ کا رویا تم ایک نبی کی جماعت ہو اور ضروری ہے کہ وہ تمام حالات تم پر گزریں جو پہلے انبیاء کی جماعتوں پر گزرے ہیں.پس جب تک منہاج نبوت کے مطابق تم اپنی زندگیوں کو نہیں بدلو گے اُس وقت تک ان قربانیوں کی توفیق نہیں پاسکو گے.پس سوال دس یا پندرہ فیصدی چندے کا نہیں بلکہ سوال پچاس یا سو فیصدی چندے کا بھی نہیں سوال یہ ہے کہ کیا آپ لوگ ایک نبی کی جماعت ہیں؟ اگر واقعہ میں آپ نبی کی جماعت ہیں تو یہ ایک یقینی اور قطعی امر ہے کہ جس طرح پہلے انبیاء کے مریدوں کو شہید کیا گیا اُسی طرح ہماری جماعت کے آدمیوں کو بھی شہید کیا جائے ، جس طرح پہلے لوگوں کو قید خانوں میں ڈالا گیا اُسی طرح ہمارے آدمیوں کو بھی قید خانوں میں ڈالا جائے ، جس طرح پہلوں کو آروں سے چیرا گیا، اُنہیں تلواروں سے قتل کیا گیا اور اُنہیں دُکھ دے دے کر مارا گیا اُسی طرح لوگ تمہیں بھی طرح طرح کے دکھ دے کر ماریں.یہ وہ امور ہیں جن کا وقوع میں آنا ضروری ہے اور میں نے تمہیں کہا ہے کہ اگر تمہیں ان باتوں پر یقین نہیں آتا تو تم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات اور مکاشفات کا مطالعہ کرو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام صاف طور پر فرماتے ہیں کہ میں نے رویا میں دیکھا کہ میں مصر کے دریائے نیل پر کھڑا ہوں اور میرے ساتھ بہت سے بنی اسرائیل ہیں اور میں اپنے آپ کو موسیٰ سمجھتا ہوں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم بھاگے چلے آتے ہیں.نظر اُٹھا کر پیچھے دیکھا تو معلوم ہوا کہ فرعون ایک لشکر کثیر کے ساتھ ہمارے تعاقب میں ہے اور اُس کے ساتھ بہت سامان مثل گھوڑے وگاڑیوں و رتھوں کے ہے اور وہ ہمارے بہت قریب آ گیا ہے.میرے ساتھی بنی اسرائیل بہت گھبرائے ہوئے ہیں اور اکثر ان میں سے بے دل ہو گئے ہیں اور بلند آواز سے چلاتے ہیں کہ اوہ موسیٰ ہم پکڑے گئے تو میں نے بلند آواز سے کہا.حلا اِن مي ربي سيهدينا اتنے میں میں بیدار ہو گیا اور زبان پر یہی الفاظ جاری تھے.“ 66 بڑی قربانیوں کے لئے ذہنیت بناؤ پہ تمام باتیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے قبل از وقت بتا دی گئی ہیں رونما ہو کر رہیں گی.پس جب تک ان چیزوں کو اپنے مدنظر نہ رکھا جائے حقیقی نیکی اور تقویٰ پیدا نہیں ہوسکتا.ہم
۳۲۵ خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء زیادہ سے زیادہ یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم نے دس فیصدی کی بجائے پندرہ فیصدی چندہ دے دیا.حالانکہ دس یا پندرہ فیصدی چندہ کیا میں کہتا ہوں سو فیصدی چندہ دینا بھی اُن قربانیوں کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتا جو نبیوں کی جماعتوں کو کرنی پڑتی ہیں.بڑی غلطی یہ ہے کہ ہم اپنی موجودہ حالت پر تمام باتوں کا قیاس کرتے ہیں اور اس بات پر قیاس نہیں کرتے کہ ہم ایک نبی کی جماعت ہیں اور چونکہ اپنی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے ہم خدا تعالیٰ کے فیصلہ کو نہیں دیکھتے اس لئے ہمارے اندر ابھی تک وہ ذہنیت پیدا نہیں ہوئی جس کا پیدا کرنا اسلام کا منشاء ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ آپ لوگ ابھی بدل جائیں اور وہ قربانیاں کرنے لگ جائیں جو انتہائی قربانیاں ہیں.چنانچہ کئی نادان ہیں جو کہہ دیا کرتے ہیں کہ جب اس قسم کی قربانیوں کے بغیر قومی ترقی نہیں ہوتی تو کیوں ابھی سے ان قربانیوں کا مطالبہ نہیں کیا جاتا.حالانکہ میں جو کچھ کہتا ہوں اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی ذہنیت کو اس رنگ میں تبدیل کرو تا جس وقت بھی ان قربانیوں کی ضرورت پیش آئے جماعت خوشی اور بشاشت کے ساتھ وہ قربانیاں کرنے کے لئے تیار ہو.میں نے اپنی ذہنیت اس رنگ میں بدل لی ہے اور میں آپ لوگوں کو بھی ذہنیت بدلنے کے لئے یہی کہتا ہوں.یہ نہیں کہتا کہ وہ ابھی اپنی تمام جائدادیں چھوڑ دیں.اگر میں یہ کہتا کہ اپنی جائیدادوں سے الگ ہو جاؤ تو سے پہلے میں اپنی جائداد کو چھوڑ کر الگ ہو جاتا.پس اگر یہ ان قربانیوں کا موقع ہوتا تو سب سے پہلے میں خود ان قربانیوں کو کر کے دکھاتا.جیسا کہ ۱۹۲۲ء یا ۱۹۲۳ء میں جب جماعت پر سخت تنگی کا وقت آیا تھا تو میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ میں اپنی سب جائداد سلسلہ کے سپرد کر دوں اور دوسرے دوستوں میں بھی تحریک کروں.چنانچہ میں نے بعض دوستوں سے ذکر کیا تو سات اور دوستوں نے بھی اس قسم کی قربانی کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیا.پس اگر اس قسم کا کوئی موقع آئے تو سب سے پہلے میرا حق ہے کہ میں اُس پر عمل کروں لیکن اس وقت جو میرا سوال ہے وہ ذہنیت کو تبدیل کرنے کا ہے.اور میں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ جماعت میں وہ ابھی ذہنیت پیدا نہیں ہوئی جس کے نتیجہ میں ہر قسم کی قربانیاں آسان معلوم ہوتی ہیں.
خطابات شوری جلد دوم ۳۲۶ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء ابتلاؤں کی زبر دست پیشگوئی ابھی وہ دس اور پندرہ فیصدی کے چکر میں پھنے ہوئے ہیں اور یہ بات اُن کے ذہن کے کسی گوشہ میں بھی نہیں کہ اُنہیں ملکوں سے نکالا جائے گا ، اُنہیں جائدادوں سے بے دخل کیا جائے گا ، انہیں بیوی بچوں سے علیحدہ کیا جائے گا ، انہیں قید خانوں میں ڈالا جائے گا ، اُنہیں پھانسیوں پر لٹکایا جائے گا اور ان کو مٹانے اور نابود کرنے کے لئے ہر قسم کے ظلم و تشدد کو کام میں لایا جائے گا.بے شک آج ہندوستان کی حکومت حتی الوسع ان باتوں سے بچتی ہے لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ کل بھی یہی حال رہے گا.آخر حکومتیں بدلا ہی کرتی ہیں.منصف کی جگہ ظالم حکومت آجاتی ہے اور ظالم کی جگہ منصف.مجھے افسوس ہے کہ اتنی اہم اور ضروری باتیں ہمارے سامنے ہیں اور ہم دس پندرہ فیصدی کے چکروں میں پڑے ہوئے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے قربانیاں کر لیں حالانکہ ضروری ہے کہ جماعت پر اس قسم کے ابتلاء آئیں.مگر یہ کوئی ضروری نہیں کہ ہندوستان میں ہی آئیں.ان میں سے بعض ابتلاء ہندوستان میں آسکتے ہیں ، بعض چین میں آ سکتے ہیں ، بعض جاپان میں آ سکتے ہیں ، بعض روم میں آ سکتے ہیں، بعض افریقہ میں آ سکتے ہیں اور بعض امریکہ اور دوسرے ممالک میں آسکتے ہیں.افغانستان میں بھی اس قسم کے بعض ابتلاء جماعت پر آئے مگر ان ابتلاؤں میں افغانستان کی کوئی خصوصیت نہیں.مختلف رنگوں میں مختلف ممالک میں ابتلاء آ سکتے ہیں اور آئیں گے اور ہر جگہ جماعت کو مختلف رنگ میں قربانیاں کرنی پڑیں گی.مثلاً اس وقت ہمارے سلسلہ پر بعض حکام کی طرف سے جو پے درپے حملے ہو رہے ہیں، ان کے مقابلہ میں ایک دن ہمیں ضرور بولنا پڑے گا اور یہ ناممکن ہے کہ ہم لمبے عرصہ تک خاموش رہ سکیں.ایک ذلیل مجسٹریٹ جو دن میں پچاس دفعہ جھوٹ بول لیتا ہے وہ اُٹھتا ہے اور نہایت بے باکی سے کہنا شروع کر دیتا ہے کہ احمدی جھوٹے ہوتے ہیں.پھر ایک اور افسر اُٹھتا ہے اور اُس کی یہ حالت ہوتی ہے کہ رشوت اُس کا اوڑھنا، رشوت اُس کا بچھونا ، رشوت اُس کا کھانا ، رشوت اُس کا پینا، رشوت اُس کا لباس، رشوت اُس کا مکان، رشوت اُس کی زمین اور رشوت اُس کا سامان ہوتا ہے، اُسے جھوٹ سے کوئی عار نہیں ہوتا اور وہ سچائی کے کبھی قریب بھی نہیں گیا ہوتا مگر کہتا یہ ہے کہ یہ خلیفہ کے نوکر ہیں اور جب
خطابات شوری جلد دوم ۳۲۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء موقع آئے جھوٹ بول سکتے ہیں.آخر یہ کب تک جماعت پر بحیثیت جماعت الزام لگائیں گے اور کب تک ہم ان باتوں کو سن کر صبر کرتے چلے جائیں گے.بیشک ہم صبر بھی کریں گے اور ان کے طعنوں اور گالیوں کو برداشت بھی کریں گے مگر ایک وقت ایسا آ سکتا ہے جب اس قسم کے متواتر الزامات سے سچائی مشتبہ ہونے لگ جائے ، جب ہماری تبلیغ کے راستہ میں خطرناک روکیں پیدا ہو جائیں ، تب وقت ہوگا کہ اپنے لئے نہیں، خدا تعالیٰ کے لئے جماعت سے کہا جائے گا کہ آؤ اور قربانیاں کرو اور حکومت کو مجبور کرو کہ وہ اس ظلم کی اصلاح کرے.اور جب تک وہ ایسا نہ کرے تم سلسلہ کی عزت اور اس کے ناموس کے تحفظ کے لئے قربانیاں پیش کرتے چلے جاؤ اور ثابت کر دو کہ تم بے غیرت نہیں ہو.مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم ابھی سے اپنی ذہنیت کو تبدیل کر لیں.صبر اور برداشت کی تلقین پس میں اس وقت تمہیں کسی خاص قربانی کے لئے نہیں بلا تا.میں کہتا ہوں تم صبر کرو اور برداشت سے کام لو.مگر اپنی ذہنیت یہی رکھو کہ تم نے شریعت اور قانون کی حدود کے اندر رہتے ہوئے خدا اور اُس کے رسول کے لئے موت قبول کرنی ہے.بے شک بعض ایسے مواقع پر بھی تمہیں جوش آ سکتا ہے جب اُس جوش کا دکھانا شریعت اور قانون کے لحاظ سے درست نہ ہو.مگر اس وقت تمہارا فرض یہی ہے کہ تم صبر کرو کیونکہ تمہارے لئے شریعت اور قانون کی پابندی کرنا ضروری ہے.اگر کوئی شخص کسی غیر حکومت میں رہتے ہوئے جوش میں آکر کسی کو مار دیتا ہے تو یقیناً وہ شریعت کے خلاف چلتا ہے.پس جان دینے کے یہ معنے نہیں کہ تم دشمن کو مارو بلکہ جان دینے کے یہ معنے ہیں کہ تم اپنے حقوق کے لئے ایسی مضبوطی کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ کہ اگر دشمن تمہیں مارنے کے لئے تیار ہو جائے تو تم موت کو قبول کر لو.پس کسی دوسرے کی موت نہیں بلکہ تمہاری اپنی موت سلسلہ اور اسلام کی ترقی کے لئے ضروری ہے مگر مجھے افسوس ہے کہ ایسے مواقع پر بعض لوگ اس طرح غلطی کر بیٹھتے ہیں کہ وہ شریعتِ اسلام کے خلاف چل پڑتے ہیں اور دشمن پر حملہ آور ہو جاتے ہیں اس طرح نہ صرف وہ خود ایک خلاف رسول فعل کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ دوسروں کے دلوں میں بھی نفرت کے جذبات پیدا کر دیتے ہیں.لیکن اس کے مقابلہ میں بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ان کا کام بس اتنا ہی
۳۲۸ خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء ہے کہ چندہ دیا اور بستروں پر پڑ کر سور ہے حالانکہ ہمارے خلاف مخالفت کا ایک وسیع جال پھیلایا جا رہا ہے.عدالتوں کے فیصلوں کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں اس قدر نفرت پیدا کی جارہی ہے کہ بالکل ممکن ہے وہ کسی وقت ایسا رنگ اختیار کر لے کہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ احمدی بُرے ہوتے ہیں بلکہ وہ یہ سمجھیں کہ احمدیت بُری چیز ہے.تب ہمارا فرض ہوگا کہ ہم دنیا کو بتا دیں کہ ہم قربانیاں کرنے والے ہیں اور ہم میں وہ تمام اخلاق فاضلہ موجود ہیں جو کسی بلند سے بلند تر قوم میں پائے جانے ضروری ہوتے ہیں.اور یہ کہ جو ہم پر جھوٹ کا الزام لگاتا ہے وہ خود جھوٹا ہے.جو ہمیں مکار اور فریبی کہتا ہے وہ خود دھوکا باز ہے.اور جو ہماری طرف کوئی بدی منسوب کرتا ہے وہ خود بدکار ہے.لیکن ہماری جماعت کو یہ دو باتیں ہمیشہ مد نظر رکھنی چاہئیں.ایک یہ کہ شریعت اور قانون کو نہیں توڑنا اور دوسرے یہ کہ ہمیشہ ان قربانیوں کے لئے تیار رہنا جو نبیوں کی جماعتیں کیا کرتی ہیں اور جو انسانی ذہنیت کو بالکل بدل دیتی ہیں.قربانیوں کا سبق دہراتے جاؤ پس میں دوستوں سے کہتا ہوں کہ آپ لوگوں نے یہاں بہت سی باتیں سنیں اور اب آپ اپنی اپنی جگہ واپس جائیں گے.آپ لوگوں کو یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ آپ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.آپ اپنی جماعتوں کے نمائندے ہیں اور نمائندے کی حیثیت ایک ستون کی سی ہوتی ہے اور جماعت کی حیثیت چھت کی سی.پس چونکہ آپ لوگ ستون ہیں اس لئے ضروری ہے کہ آپ لوگ اپنی جماعتوں میں جا کر ان خیالات کو پھیلائیں اور پھیلاتے چلے جائیں.مجھے افسوس ہے کہ بعض لوگ صرف اتنا ہی کافی سمجھتے ہیں کہ ایک دفعہ بات کسی دوسرے کو سُنا دی حالانکہ یہ باتیں ایسی ہیں کہ اُٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے ، سوتے جاگتے اور کھاتے پیتے ہر وقت اور ہر لمحہ اپنی بیویوں، اپنے بچوں، اپنے دوستوں، اپنے عزیزوں اور اپنے رشتہ داروں کے کانوں میں ڈالنی چاہئیں اور اُنہیں اِن باتوں پر راسخ اور مضبوط کرنا چاہئے کہ ہماری جماعت خدا تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت ہے اور خدا تعالیٰ کی قائم کردہ جماعتیں مشکلات کے بغیر ترقی نہیں کرتیں.پس ان باتوں کو دُہراؤ اور دُہراتے چلے جاؤ.یہاں تک کہ یہ باتیں تمہارا ور د اور وظیفہ بن جائیں.اور اگر ایک چھوٹے بچے سے بھی
۳۲۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء خطابات شوریٰ جلد دوم سوال کیا جائے کہ احمدیت کی ترقی کا ذریعہ کیا ہے تو وہ کہہ اُٹھے کہ ہم بغیر قربانی اور جان دینے کے ترقی نہیں کر سکتے اور میں اس کے لئے تیار ہوں.ایک عورت سے اگر پوچھا جائے تو وہ بھی یہی جواب دے اور اگر ایک مرد سے پوچھا جائے تو وہ بھی یہی جواب دے.غرض ہر شخص کے ذہن میں یہ باتیں ڈالی جائیں اور اس کے ماتحت جماعت میں ایسا ماحول اور بیداری پیدا کی جائے کہ قربانیاں کرنا کوئی مشکل کام نہ رہے.مگر یہ باتیں اس طرح ذہنوں میں داخل نہیں ہوتیں کہ ایک دفعہ کہا اور پھر سال بھر خاموش ہور ہے بلکہ سال کے ۳۶۵ دنوں میں سے ایک دن بھی ایسا نہیں گزرنا چاہئے جب یہ باتیں تم اپنے نو جوانوں، اپنے بچوں، اپنی عورتوں اور اپنے مردوں کے ذہن نشین نہ کرو.حضرت مسیح علیہ السلام نے اس کا کتنا اچھا نقشہ کھینچا ہے.آپ اپنی بعثت ثانی کی لوگوں کو خبر دیتے ہیں مگر اس رنگ میں نہیں کہ میں دوبارہ انیس سو سال کے بعد آؤں گا بلکہ آپ فرماتے ہیں کہ :- ہوشیار رہو اور جاگتے رہو.ایسا نہ ہو کہ میں آؤں اور تمہیں سویا ہوا پاؤں مگر یہ جاگنے کا زمانہ کوئی معمولی زمانہ نہیں تھا بلکہ انہیں سو سال کا عرصہ تھا.پھر آپ وو تمثیل بیان کرتے اور فرماتے ہیں.آسمان کی بادشاہت ان دس کنواریوں کی مانند ہو گی جو اپنی اپنی مشعلیں لے کر دولہا کے استقبال کو نکلیں.ان میں پانچ بے وقوف اور پانچ عقلمند تھیں جو بے وقوف تھیں انہوں نے اپنی مشعلیں تو لے لیں مگر تیل اپنے ساتھ نہ لیا مگر عقلمندوں نے اپنی مشعلوں کے ساتھ اپنی گپیوں میں تیل بھی لے لیا اور جب دولہا نے دیر لگائی تو سب اونگھنے لگیں اور سو گئیں ( یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ گو میں یہ کہہ رہا ہوں کہ میں جلدی آؤں گا مگر یا درکھو یہ رات بہت لمبی ہے ) آدھی رات کو دھوم مچی کہ دیکھو دولہا آ گیا، اس کے استقبال کو نکلو.اس وقت وہ سب کنواریاں اُٹھ کر اپنی اپنی مشعلیں درست کرنے لگیں اور بے وقوفوں نے عقلمندوں سے کہا کہ اپنے تیل میں سے کچھ ہمیں بھی دے دو کیونکہ ہماری مشعلیں بجھی جاتی ہیں.عقلمندوں نے جواب میں کہا کہ شاید 1966
خطابات شوری جلد دوم ۳۳۰ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء ہمارے تمہارے دونوں کے لئے پورا نہ ہو بہتر یہ ہے کہ بیچنے والوں کے پاس جا کر اپنے واسطے مول لے لو.جب وہ مول لینے جا رہی تھیں تو دولہا آ پہنچا اور جو تیار تھیں وہ اُس کے ساتھ شادی میں چلی گئیں اور دروازہ بند کیا گیا.پیچھے وہ باقی کنواریاں بھی آئیں اور کہنے لگیں اے خداوند! اے خداوند !! ہمارے لئے دروازہ کھول دے.اُس نے جواب میں کہا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میں تمہیں نہیں جانتا.پس جاگتے رہو کیونکہ تم نہ اُس دن کو جانتے ہو نہ اُس گھڑی کو ، یک یہ ایک لطیف تشبیہہ ہے جو حضرت مسیح ناصری نے دی.اس میں دولہا سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہیں اور تیل لینے سے جو ذخیرہ میں تھا مرا درسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت ہے اور آپ کا مطلب اس سے یہ ہے کہ تمہارے لئے وہی تیل کافی نہیں ہوگا جو مسیح اول نے دیا بلکہ تمہیں ایک نیا لیمپ دیا جائے گا.جو لوگ اس تیل کو لے لیں گے یعنی اسلام کو قبول کر کے اس کی روشنی میں چلیں گے ، وہی مسیح ثانی پر بھی ایمان لاسکیں گے.مگر جو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لائے ہوئے تیل سے اپنے لیمپوں کو روشن نہیں کریں گے انہیں مسیح ثانی کی معرفت بھی نصیب نہیں ہوگی.چنانچہ دیکھ لو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر زیادہ تر ایمان لانے والے وہی ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بھی ایمان رکھتے ہیں مگر جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار کر دیا وہ آپ کی شناخت سے بھی محروم ہو گئے اور اُنہوں نے آپ کو دیکھ کر کہہ دیا کہ ہم انہیں کیوں مانیں یہ غیر ہیں اور ہم میں سے نہیں ہیں.پس وہ دلہنیں جو شمع ہاتھ میں لئے اپنے دولہا کا انتظار کر رہی تھیں اور تیل اور فتیلہ لئے چوکس اور تیار کھڑی تھیں، انہوں نے آسمان سے اپنے مسیح کو اترتے دیکھ لیا.مگر وہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لائے ہوئے نور سے منور نہ ہوئے ، ان کی بینائی جاتی رہی اور وہ آپ کو شناخت کرنے سے محروم رہے.پس اس تمثیل سے حضرت مسیح نے اپنی بعثت اول اور بعثتِ ثانی کے درمیانی زمانہ کو ایک رات سے مشابہت دی ہے پھر اس رات کی لمبائی بیان کی ہے اور کہا ہے کہ وہ اتنی لمبی ہوگی کہ انتظار کرتے کرتے لوگ تھک جائیں گے مگر اسی دوران میں آپ نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کی پیشگوئی بھی کر دی
۳۳۱ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء خطابات شوری جلد دوم اور بتایا کہ آپ کے ذریعہ دُنیا کو روشن کرنے کے لئے ایک نیا تیل دیا جائے گا جو لوگ اس تیل کو اپنے پاس رکھیں گے اور اس کی روشنی میں اپنے آپ کو چلائیں گے وہی مسیح ثانی کو قبول کر سکیں گے مگر جن کے پاس یہ تیل نہیں ہو گا اُن کے لئے دروازہ بند کیا جائے گا اور اُن کے لئے رونا اور دانت پیسنا ہو گا.چنانچہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے آج مسیح ثانی کے ساتھ زیادہ تر وہی قوم ہے جس نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لائے ہوئے تیل کا استعمال کیا.قرآن کریم نے بھی دینِ اسلام کو زیتون کے تیل سے مشابہت دی ہے.اور فرمایا کہ لا شرييّةٍ ولا غربيّة وہ ایسا تیل ہوگا کہ دُنیا میں اس کی کوئی نظیر نہیں مل سکے گی.تو جو لوگ پہلے سے تیاری کرتے ہیں، وہی موقع پر کامیاب ہوا کرتے ہیں مگر جولوگ تیاری نہیں کرتے وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتے.صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاص رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب جہاد کے لئے نکلتے تو بعض دفعہ وہ مال دار جن کے پاس بہت کچھ جمع ہوتا اس میں شامل ہونے سے محروم رہ جاتے تھے.محض اس وجہ سے کہ وہ خیال کرتے تھے کہ ہمیں تیاری کی ضرورت نہیں.ہم جب چاہیں گے نکل کھڑے ہوں گے نتیجہ یہ ہوتا کہ آخر وقت میں جب سامان تلاش کرتے تو نہ ملتا.ایک دفعہ تین صحابہ اسی خیال کے ماتحت رہ گئے.اُنہوں نے سمجھا آج نہیں کل تیاری کریں گے.کل آیا تو کہا پرسوں کر لیں گے یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاد کے لئے چل پڑے.اُنہوں نے کہا اچھا کل چل پڑیں گے.دوسرے دن کوئی سامان ملا اور کوئی نہ ملا اور ان کی روانگی تیسرے دن پر ملتوی ہو گئی.تیسرے دن اُنہیں یکدم خبر ملی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک منزل کی جگہ دو دو تین تین منزلیں طے کرتے ہوئے چلے جا رہے ہیں.اور چونکہ اُس زمانہ میں اتنا لمبا سفر آسانی سے نہیں ہوسکتا تھا اس لئے محض اس اتکال نے کہ ہم تیاری کر لیں گے انہیں جہاد میں شریک ہونے سے محروم کر دیا مگر وہ غرباء جن کے پاس کچھ نہیں تھا وہ محض اپنے پاس کچھ نہ ہونے کی وجہ سے ہوشیار ہو گئے اور اپنی تیاری مکمل کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ چل پڑے.ان ہی میں سے بعض کے متعلق قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے
خطابات شوری جلد دوم ۳۳۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء اور اُنہوں نے عرض کیا کہ ہمارے پاس کوئی سواری نہیں جس پر ہم سفر کر سکیں.اگر ہمارے لئے سواری کا انتظام ہو جائے تو ہم چلنے کے لئے تیار ہیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس کوئی چیز نہیں وہ یہ سن کر افسوس کے ساتھ روتے ہوئے چلے گئے.پھر بعض کی تو یہ حالت ہوتی تھی کہ وہ دوسروں سے مانگنے کے لئے چل پڑتے تھے.چنانچہ ایک صحابی کہتے ہیں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے عرض کیا کہ میرے لئے کوئی سامان مہیا فرما دیجئے.آپ نے فرمایا میرے پاس کوئی چیز نہیں.اس پر میری حالت اتنی غیر ہو گئی اور مجھے اس قدر صدمہ پہنچا کہ میرا صدمہ ہر ایک کو نظر آنے لگ گیا.یہ دیکھ کر ایک صحابی نے جن کے پاس دو اونٹنیاں تھیں، ایک اونٹنی مجھے دے دی اور کہا کہ اس پر سوار ہو کر چلو ایک اور صحابی کہتے ہیں کہ میں کسی سے اونٹنی مانگنے بھی نہیں گیا.میرے لئے تو میری کھڑاواں ہی سواری تھی.پھر بعض غرباء رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہتے کہ یا رسول اللہ ! ہمیں صرف جُوتی مل جائے مگر آپ فرماتے کہ میرے پاس جوتی بھی نہیں اے اس پر وہ جہاد سے محروم رہنے پر روتے ہوئے چلے جاتے.یہ تیاری تھی جو غرباء کرتے اور جس کے نتیجہ میں بسا اوقات وہ جہاد میں شامل ہو جاتے اور اگر نہ بھی ہو سکتے تو بھی اپنے دل کی نیت کی وجہ سے ثواب میں شامل رہتے مگر وہ لوگ جو تیاری نہیں کرتے تھے با وجود دولت مند ہونے کے بعض دفعہ ثواب سے محروم رہ جاتے.تو اصل چیز یہ ہے کہ مشکلات کا مقابلہ کرنے کی قبل از وقت تیاری کی جائے.اگر خطرہ محض خیالی ہو تو بے شک اس کے لئے تیاری نہ کرنا کوئی نقصان رساں نہیں ہوتا لیکن اگر خطرہ حقیقی ہو تو ضروری ہوتا ہے کہ اس خطرہ کے آنے سے پہلے اپنی ذہنیت میں تبدیلی کی جائے.اور خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کیا جائے.یہی وہ چیز ہے جس کی طرف میں اپنی جماعت کو لا رہا ہوں مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جماعت کے بعض دوست اس حکمت کو نہیں سمجھتے اور وہ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ جب کوئی خطرہ موجود ہی نہیں تو یہ شور کیا مچار ہے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ جب خطرہ آئے گا تو اُس کا مقابلہ کر لیا جائے گا اور میں یہ کہتا ہوں کہ جو شخص آج تیاری نہیں کرتا وہ خطرہ کا مقابلہ نہیں کر سکے گا.پس خطرات کا مقابلہ کرنے کے
خطابات شوری جلد دوم ۳۳۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء لئے پہلے سے تیاری کرنی چاہئے.اگر ہم قبل از وقت ان کے لئے تیار نہیں ہوں گے تو موقع آنے پر بالکل گھبرا جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام والدہ سے بہت محبت تھی.غالبا آپ جن کی اپنی والدہ سے محبت دنوں سیالکوٹ میں تھے یا کسی اور مقام پر قادیان سے باہر تھے کہ آپ کو خبر پہنچی کہ آپ کی والدہ سخت بیمار ہیں.یہ سُن کر آپ فوراً قادیان کی طرف روانہ ہو گئے.جب آپ بٹالہ سے یکہ میں بیٹھ کر قادیان کی طرف روانہ ہوئے تو جو شخص لینے آیا ہوا تھا وہ بار بار یکہ والے سے کہنے لگا کہ ذرا جلدی کرو، بی بی صاحبہ کی طبیعت بہت ہی خراب تھی خدا خیر کرے.پھر تھوڑی دیر کے بعد اور زیادہ یکہ والے کو تاکید کرنے لگا اور یوں کہنا شروع کیا کہ کہیں خدانخواستہ فوت ہی نہ ہو گئی ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے تھے میں نے اس فقرہ سے سمجھ لیا کہ وہ فوت ہو چکی ہیں اور یہ مجھے صدمہ کے لئے تیار کر رہا ہے اور میں نے اُس سے کہا کہ تم ڈرو نہیں اور جو سچ سچ بات ہے وہ بتا دو.اس پر اُس نے کہا کہ بات تو یہی ہے کہ وہ فوت ہو چکی ہیں.اب دیکھو وہ اس قسم کے فقرات تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد کہہ کر آپ کو صدمہ کی خبر سنانے کے لئے تیار کر رہا تھا.ورنہ جو حادثہ ہونا تھا وہ ہو چکا تھا تو دُنیا میں جو معمولی حادثات وقوع میں آتے ہیں اُن کی برداشت کے لئے بھی تیاری کی ضرورت ہوتی ہے لیکن یہ جس صدمہ کا میں ذکر کر رہا ہوں یہ تو بہت ہی اہم ہے اور قوموں اور ملکوں سے تعلق رکھتا ہے.حق یہ ہے کہ میں آپ لوگوں کے سامنے وہ بات پیش کر رہا ہوں جو ایسی ہی یقینی ہے جیسے سورج کا نکلنا.اگر یہ یقینی بات ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اللہ تعالی کے نبی تھے ، اگر یہ یقینی بات ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت منہاج نبوت پر قائم کی گئی ہے، تو جب تک ہماری گردن پر تلواریں نہیں رکھی جائیں اور جب تک ہمارے خون کی ندیاں دنیا میں نہیں بہا دی جاتیں اُس وقت تک ہمارا کامیابی حاصل کرنا ناممکن اور بالکل ناممکن ہے.ممکن ہے اللہ تعالیٰ نے ہماری کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے اس زمانہ کو لمبا کر
خطابات شوری جلد دوم ۳۳۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء دیا ہو.نہ معلوم اُس نے یہ زمانہ سو سال تک پھیلا دیا ہے یا ڈیڑھ سو سال تک لیکن بہر حال یہ زمانہ تین سو سال گزرنے سے بہت پہلے آئے گا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرما چکے ہیں کہ ابھی تیسری صدی پوری نہیں ہوگی کہ احمدیت کو کامل غلبہ حاصل ہو جائے گا اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا کیا اور یہ وسیع کا میابیاں اگر تین سو سال سے پہلے آنی ہیں تو لازماً اس کامیابی کے ابتدائی دور سے پہلے یہ تکلیفیں جماعت کو پہنچنی ہیں.پس ہمارے لئے خون کی ندیوں میں سے گزرنا مقدر ہے اور وہ زمانہ بہر حال تین سو سال سے پہلے ہے اس وجہ سے جب تک اس قسم کی ذہنیت رکھنے والے نفوس ہمارے اندر شامل نہ ہوں جن کے چہروں سے ہی یہ ظاہر ہورہا ہو کہ اگر ہمیں آروں سے چیر دیا جائے یا آگ میں جلا دیا جائے ، تو احمدیت سے منحرف نہیں ہو سکتے اور ہمیشہ ہماری زبانوں پر یہ اعلان رہے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے سچے نبی تھے اُس وقت تک میں نہیں سمجھ سکتا کہ ہم کس منہ سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایک نبی کی جماعت ہیں.یہ وہ ذہنیت ہے جس کے مطابق ہمیں اپنے نفوس میں تغیر پیدا کرنا چاہئے.بے شک مجھے ان تمام باتوں پر یقین ہے مگر میرا یقین تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا.اگر تم چاہتے ہو کہ تم اور تمہاری نسلیں آئندہ ناکامی کا منہ نہ دیکھیں تو خیالات کی وہ رو جو میں پیدا کرنا چاہتا ہوں اُسے اپنے اور اپنی آئندہ نسلوں کے دلوں میں پیدا کرو.جب خیالات کی یہ رو چل پڑے گی تو تمہاری آئندہ نسلیں بالکل محفوظ ہو جائیں گی.میں یہ نہیں کہتا کہ جن مصائب کا میں نے ذکر کیا ہے یہ ضرور میری زندگی میں آئیں گے ہو سکتا ہے کہ یہ میری زندگی میں نہ آئیں.اور ہو سکتا ہے کہ تمہاری زندگیوں میں بھی نہ آئیں.لیکن اگر تم اپنے اندر یہ ذہنیت پیدا کر لو گے تو یقیناً تمہاری اولادوں کے قدم بھی لڑکھڑانے سے محفوظ رہیں گے اور اگر یہ ذہنیت پیدا نہیں کرو گے تو خود تمہارے قدم بھی لڑکھڑا جائیں گے.ایک کشمیری کا بیٹا کشمیری ہوتا ہے اور پٹھان کا بیٹا پٹھان.اسی طرح اس ذہنیت کے نتیجہ میں جو تمہارے ہاں اولاد ہوگی وہ بھی اسی ذہنیت کی حامل ہوگی.اور اگر تمہارے اندر یہ ذہنیت نہیں ہوگی تو تمہاری اولادیں بھی بُزدل ہوں گی.بے شک انفرادی طور پر بعض تبدیلیاں بھی ہوتی ہیں.مگر قانون میں استثنائی حالات کو مد نظر نہیں رکھا جاتا.ایک قوم جو بہادر ہو
خطابات شوری جلد دوم ۳۳۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء جاتی ہے اُس کی آئندہ نسلیں بھی بہادر ہی رہتی ہیں اور وہ قوم جو بُز دل ہو اُس کی نسل بھی بہادری کے کام نہیں کر سکتی.آج کشمیریوں کو بُزدل سمجھا جاتا ہے لیکن اگر اُن پر ایسے مصائب آئیں کہ وہ لڑنے مرنے کے لئے تیار ہو جائیں تو اُن کی آئندہ نسل بہادر بن جائے گی.اسی طرح آج اگر ہم میں سے ہر شخص قربانیوں کے لئے تیار رہتا ہے ہم میں سے ہر شخص یہ سوچتا رہتا ہے کہ نہ معلوم جس وقت کا مجھے انتظار ہے وہ آج شام کو آ جائے یا کل صبح کو تو وہ اگر مر بھی جائے تو اللہ تعالیٰ اُس کے اس عمل کو ضائع نہیں کرے گا بلکہ اُس کی اولاد کے دل میں وہ وہی جرات پیدا کر دے گا جو اُس کے دل میں تھی اور اس کی اُمنگیں خدا تعالیٰ اُس کی اولاد کے ذریعہ پوری کر دے گا.اِلَّا مَا شَاءَ اللهُ.استثناء ہر جگہ ہوتا ہے لیکن عام قانون یہی ہے کہ جب کوئی قوم اپنے اندر کمال پیدا کر لیتی ہے تو اس کے بعد ورثہ کے طور پر اُس کے کمالات آئندہ نسلوں میں پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں.پس اگر کسی کے دل میں اخلاص ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی اولا د کو ویسے ہی کاموں کی توفیق دے دیتا ہے اور اس طرح اس کی خواہش اور آرزو پوری ہو جاتی ہے.سو اگر کسی کو بینائی نصیب نہیں اور وہ موجودہ حالات میں آئندہ کے واقعات کو نہیں دیکھ سکتا تو میں اُسے کہوں گا کہ جاؤ اور قرآن کریم پڑھو اور اندھوں کی طرح اُس کی آیتوں پر سے مت گزرو.تم جاؤ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کا مطالعہ کرو مگر نابینوں اور بہروں کی طرح ان پر سے مت گز رو.تم ان دونوں کو دیکھو اور پھر سوچو کہ کیا وہاں یہ لکھا ہے کہ تمہیں کانٹوں کے بستر پر سونا پڑے گا.اگر تمہیں یہ دکھائی دے کہ وہاں یہی لکھا ہے کہ تمہارے لئے پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کے بستر تیار کئے گئے ہیں اور میں تمہیں کہتا ہوں کہ تم اُس دن کے لئے تیاری کرو ایسا نہ ہو کہ جب تمہارے سامنے یا تمہاری اولا دوں کے سامنے وہ قربانی کے مطالبات آئیں تو تم فیل ہو جاؤ اور کہو کہ ان پر عمل ہم سے نہیں ہوسکتا.مجھے افسوس ہے کہ ہمارے دوست جب بھی غور کرتے ہیں وہ روپیہ اور بجٹ کے چکر میں ہی رہتے ہیں ان سے باہر نہیں جاتے.حالانکہ یہ بالکل حقیر چیزیں ہیں.اور حقیقت یہ ہے کہ جس قسم کی اصلاحات کا نفاذ ہمارے لئے ضروری ہے اُس قسم کی اصلاحات کے لئے
۳۳۶ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء خطابات شوری جلد دوم موجودہ عملہ کیا اگر موجودہ عملہ سے دس گناہ زیادہ بھی رکھ لیا جائے تو وہ کافی نہیں ہوسکتا.کیا تم سمجھتے ہوں کہ تربیت کوئی معمولی چیز ہے.تربیت ایک نہایت ہی اہم چیز ہے.حتی کہ گورنمنٹ نے یہ قانون بنایا ہوا ہے کہ جب سکول کی کسی کلاس میں چالیس پچاس سے زائد لڑکے ہو جائیں تو اُن کا ایک الگ فریق بنا دیا جائے اور الگ استادوں کی نگرانی میں اُن کو رکھا جائے.پھر اگر اسی نسبت سے ہم اپنی جماعت کے متعلق غور کریں تو تم خود ہی اندازہ لگا لو کہ ہمیں کس قدر آدمیوں کی ضرورت ہو سکتی ہے.مگر اتنے آدمیوں کا خرچ ہم کہاں برداشت کر سکتے ہیں.اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم وہی طریق اختیار کریں جو انبیاء کی جماعتیں اختیار کرتی ہیں.یعنی مطالبہ کریں کہ وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی کرنے کا شوق رکھتے ہیں وہ آئیں اور اپنے اوقات کی قربانی کر کے لوگوں کی تربیت کریں.مرکزی مبلغ کا کام پر امید رکھنا کہ واعظوں اور مبلغوں کے ذریعہ تمام کام ہوسکتا ہے صحیح نہیں.واعظ کا کام صرف نگرانی کرنا ہے.اور مبلغ اپنے حلقہ میں ایسا ہی ہوتا ہے جیسے ضلع میں ڈپٹی کمشنر.اس کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ دورہ کرے اور لوگوں کو اپنے تجربہ سے آگاہ کرے.لیکن تبلیغ کے لئے زیادہ تر مقامی اصحاب ہی مفید ہوتے ہیں.اگر جماعتیں مختلف مقامات پر معمولی مدر سے کھول دیں اور لوگوں کو پڑھانا شروع کر دیں تو اس ذریعہ سے ہی کافی تبلیغ ہو سکتی اور نئی پود احمدیت کے اثر سے متاثر ہو سکتی ہے.اسلام میں جو مصلح گزرے ہیں انہوں نے بالعموم اسی رنگ میں کام کیا ہے.اہلِ حدیث کی ترقی کا راز اہلِ حدیث کی تمام ترقی اسی اصول پر ہوئی ہے.وہ اپنے ہم عقیدہ لوگوں کو حدیثیں پڑھاتے اور پھر کہتے کہ جاؤ اور مدر سے کھول لو.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب ان کی تعداد ایک کروڑ بتائی جاتی ہے حالانکہ ان کو شروع ہوئے ابھی ایک ہی صدی ہوئی ہے.ابتداء میں ان کی جس قدر مخالفت تھی اُس کا پتہ اس سے لگ سکتا ہے کہ فیروز پور کے ایک دوست نے سنایا ہے کہ ایک دفعہ نماز پڑھتے ہوئے کسی اہلِ حدیث نے بلند آواز سے آمین کہہ دی اس پر لوگوں نے نماز توڑ کر اُسے جوتیاں مارنی شروع کر دیں لیکن آج اہلِ حدیث ایک بہت بڑی طاقت ہیں اور کافی تعداد میں پائے جاتے ہیں.اخباروں سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر لوگ اہلِ حدیث
خطابات شوری جلد دوم ۳۳۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء ہی ہیں.چنانچہ مولوی ظفر علی صاحب اہلِ حدیث ہیں اور سالک صاحب اور مہر صاحب مدیران انقلاب بھی جہاں تک میں سمجھتا ہوں اہلِ حدیث ہی ہیں، گو بعض دفعہ سیاسی اختلاف ان سے ظاہر ہو جائیں، تو ہندوستان میں اگر اخباروں کو دیکھو تو اور مدرسوں کو دیکھو تو سب جگہ اہلِ حدیث ہی نظر آتے ہیں.اسی طرح سیاسیات میں حصہ لینے والے بھی زیادہ تر اہلِ حدیث ہی ہیں.مگر یہ تمام ترقی اُنہوں نے مدرسوں کے ذریعہ کی.اور درحقیقت اگر ہم کسی جگہ مرکز قائم نہ کریں اور تبلیغ یا مباحثہ کے لئے تو چلے جائیں مگر پھر واپس آجائیں تو اس کا اتنا اثر ہرگز نہیں ہوسکتا جتنا اثر ایک مرکز قائم کر کے تبلیغ کرنے کا ہوتا ہے.پس ضروری ہے کہ تبلیغ کے لئے مختلف مقامات میں مرکز قائم کئے جائیں اور مقامی جماعت کے افراد اس کو کامیاب بنانے کی کوشش کریں.مبلغ کا کام یہ ہو کہ وہ نگرانی کرے اور اپنے اعلیٰ نمونہ سے لوگوں کے دلوں کو احمدیت کی طرف مائل کرے.اس زمانہ میں ممکن ہے بعض مبلغ ایسے بھی ہوں جو لوگوں کے لئے نمونہ نہ ہوں مگر ان کے بُرے نمونہ کا لوگوں کے قلوب پر اتنا گہرا اثر نہیں ہوتا.آجکل لوگ جب کسی کے متعلق کوئی ایسی بات سنیں جو نا مناسب ہو تو گھٹ کہہ دیتے ہیں کہ وہ کوئی ہمارا خلیفہ ہے مگر ایک زمانہ ایسا آ سکتا ہے جب مبلغ بھی نمونہ سمجھے جائیں.پس اگر ابھی سے ان کے اخلاق کا معیار اعلیٰ نہ رکھا گیا تو آئندہ کے لئے لوگوں کو مشکلات پیش آسکتی ہیں.ابتدائے اسلام میں باقاعدہ مبلغین کا طریق نہیں تھا.مگر یہ کوئی ضروری نہیں کہ پہلے زمانہ کی ہر بات کی نقل کی جائے.زمانہ کے حالات کے مطابق بعض باتوں میں تغیر بھی کرنا پڑتا ہے مگر ہمیں اُن سبقوں کو یاد ضرور رکھنا چاہئے جو اُن کے افعال میں پنہاں تھے.وہ اس لئے مبلغ نہیں رکھتے تھے کہ اگر اُنہوں نے کوئی بُرا نمونہ دکھایا تو لوگ ان کی نقل کر کے خود بھی ہدایت سے دور جا پڑیں گے.مبلغ کیسے ہوں پس اس سبق کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں ایسے ہی مبلغ رکھنے چاہئیں جو نیکی اور تقویٰ کے لحاظ سے لوگوں کے لئے نمونہ ہوں.اب تو ایسے بھی مبلغ ہیں جن کی بعض حرکات کی جب رپورٹ آتی ہے تو شرم سے گردن جھک جاتی ہے.ایک دفعہ ایک مبلغ کے متعلق باہر کی کسی جماعت نے رپورٹ کی کہ فجر کی نماز کے وقت سوتا رہتا ہے اور نماز ہی نہیں پڑھتا ایک اور مبلغ نے ایک دفعہ جھوٹ بولا تو ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ
خطابات شوری جلد دوم ۳۳۸ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء نے مجھے لکھا کہ فلاں مبلغ نے جھوٹ بولا تھا.جس پر میں نے اُسے سخت سرزنش کی ہے.میں تو ناظر صاحب کی یہ رپورٹ پڑھ کر حیران ہی رہ گیا کہ جھوٹ ثابت ہونے کے بعد بھی اُسے مبلغ ہی سمجھ رہے ہیں.یہ تو ایسی بات ہے جیسے کہا جائے کہ فلاں جگہ کا سپاہی چونکہ مرگیا ہے اس لئے میں نے اُسے سخت سرزنش کی ہے.کسی کے مرنے کے بعد اُسے سرزنش کرنے کے معنے ہی کیا ہیں.اسی طرح جو شخص جھوٹ بولتا ہے وہ تو مر گیا، مبلغ ہونا تو بہت بلندشان ہے.اُنہوں نے سمجھا تھا کہ شاید مجھے شکایت پیدا ہوگی کہ انہوں نے اُسے سرزنش کیوں کی.اور میرے لئے یہ امر باعث حیرت تھا کہ جس نے ایک دفعہ جھوٹ بول دیا وہ تو مر گیا.اب وہ تبلیغ کس طرح کر سکتا ہے اور ہمارا مبلغ کیوں کر کہلا سکتا ہے.وہ تو اب کسی صورت میں بھی ہمارا مبلغ نہیں.تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے مبلغین کا معیار بلند کرنے کی ضرورت سلفین کا معیار بلند کریں اور ایسے ہی لوگوں کو اپنے انتخاب میں لائیں جو دوسروں کے لئے نمونہ ہوں.بے شک ایسے مواقع بھی آ سکتے ہیں جب ہمیں یکدم بہت سے مبلغین کی ضرورت پڑ جائے اور اس صورت میں ہم جن کا انتخاب کریں ضروری نہیں کہ وہ نمونہ ہوں.مثلاً ہمیں یکدم دوسو مولویوں کی ضرورت آپڑے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو لوگ بھی اپنے آپ کو پیش کرنا چاہیں پیش کر دیں.اس صورت میں ہم ان لوگوں کو بھی لے سکتے ہیں جو نمونہ نہ ہوں.مگر یہ ضرورت کا قانون ہوگا جو ہر حالت پر اطلاق نہیں پاسکے گا.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے شرعاً جائز ہے کہ اگر کسی کے پاس ایک ہی پاجامہ ہو اور اُس پر پیشاب کے چھینٹے پڑے ہوئے ہوں اور نماز کا وقت آ جائے تو وہ اُسی پاجامہ کے ساتھ نماز پڑھ لے.مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ دوسرے وقتوں میں بھی جب اُس کے پاس صاف پاجامہ موجود ہو یا اُسی کو دھوسکتا ہو، وہ اُسی پاجامہ کے ساتھ نماز پڑھنے لگ جائے کیونکہ یہ اجازت ضرورت کے وقت کے لئے ہے ہر وقت کے لئے نہیں.عورتوں میں اکثر یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ نماز چھوڑ دیتی ہیں اور جب پوچھا جاتا ہے کہ کیوں نہیں پڑھی؟ تو وہ جواب دیتی ہیں کہ ہمارے کپڑے صاف نہیں، بچے ان پر پیشاب کر دیتے ہیں حالانکہ اس قسم کے غذرات سے نماز کا چھوڑ نا کسی صورت میں جائز
خطابات شوری جلد دوم ۳۳۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء نہیں.مجھ سے جب بعض دفعہ عورتیں یہ مسئلہ پوچھتیں اور اس کے متعلق میرا فتویٰ طلب کرتی ہیں تو میں انہیں کہا کرتا ہوں کہ پیشاب کے چھینٹے کیا اگر کپڑا پیشاب میں رنگا ہوا بھی ہو اور نماز کا وقت آ جائے اور نہ اور کپڑا ہو اور نہ اُسے دھویا جا سکتا ہو تو تمہارے لئے ضروری ہے کہ تم انہی کپڑوں کے ساتھ نماز پڑھ لو.ایک دفعہ ایک نواب صاحب جو ہزاگز اللہ ہائی نس نظام حیدر آباد کے قریبی رشتہ داروں میں سے ہیں یہاں آئے.میں نے انہیں نصیحت کی کہ آپ نماز ضرور پڑھا کریں اور سفر وحضر میں اس کی پابندی کیا کریں.وہ کہنے لگے کہ سفر میں مجھے یہ وہم رہتا ہے کہ طہارت درست نہیں ہوئی اس لئے میں نماز پڑھنے سے ہچکچاتا ہوں.میں نے کہا کہ بعض عورتیں جب مجھ سے یہ مسئلہ پوچھتی ہیں اور کہا کرتی ہیں کہ ہمارے کپڑوں پر بچے پیشاب کرتے رہتے ہیں ہم کیا کریں؟ تو میں انہیں یہی جواب دیا کرتا ہوں کہ اول تو یہی بہتر ہے کہ کپڑے بدل لو یا انہی کپڑوں کو دھو لولیکن اگر تمہارے پاس کوئی اور کپڑا نہیں اور ان کپڑوں کو دھونے لگو تو نماز کا وقت فوت ہو جانے کا خطرہ ہو تو تم اس بات کی مت پرواہ کرو کہ تمہارے کپڑوں پر پیشاب کے چھینٹے پڑے ہوئے ہیں بلکہ اگر کپڑا پیشاب میں ڈوبا ہوا ہو تب بھی اُس کے ساتھ نماز پڑھ لو.سو یہی نصیحت میں آپ کو کرتا ہوں.آپ بھی اس قسم کے وہم کر کے نماز کے تارک نہ بنیں.میری اس نصیحت کا ان پر بہت گہرا اثر ہوا اور ان کا دل بالکل پکھل گیا اور انہوں نے وعدہ کیا کہ میں اب نماز پڑھنا نہیں چھوڑوں گا.دوسرے دن ان کے نوکر نے ہمارے کسی آدمی کو بتایا کہ نواب صاحب پر آپ کے خلیفہ صاحب کی نصیحت کا خوب اثر ہوا.رات کے بارہ ایک بجے تک وہ نواب صاحب کو سمجھاتے رہے.جب وہ اُٹھے تو اُن کو سخت نیند آئی ہوئی تھی مگر مجھے بلا کر کہنے لگے کہ آج صبح کی نماز کے وقت مجھے ضرور جگا دینا میں وعدہ کر چکا ہوں کہ اب نماز پڑھنی نہیں چھوڑوں گا.میں نے کہا سرکار کو جگانا ذرا مشکل ہی ہے.وہ کہنے لگے اگر میں نہ اُٹھوں تو میری چار پائی اُلٹا دینا.چنانچہ صبح کے وقت میں نے اُنہیں جگا دیا ، وہ اُٹھ بیٹھے.میں نے وضو کرا دیا اور وہ مسجد کی طرف چل پڑے.مگر آنکھیں نیند سے بند ہو رہی تھیں.وہاں بھی جا کر نیند کی حالت میں ہی اُنہوں نے نماز پڑھی اور جب سلام پھیر کر واپس آنے لگے تو اُسی نیند کی حالت میں بجائے اپنا جوتا پہننے
۳۴۰ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء خطابات شوری جلد دوم کے کسی اور شخص کا نہایت پھٹا پرانا جوتا پہن کر چل پڑے.راستہ میں کسی نے دیکھا تو پوچھا نواب صاحب آپ کے پاؤں میں کس کا جوتا ہے؟ اس پر اُنہوں نے آنکھیں کھولیں اور جوتا دیکھ کر گھبرا گئے اور نوکر سے کہنے لگے جلدی سے یہ جوتا مسجد میں لے جاؤ اور وہیں جا کر رکھ دو کہیں اس جوتے کا مالک مجھے چور نہ سمجھ لے.اس کے بعد کچھ پتہ نہیں چلا کہ انہوں نے نماز قائم رکھی یا نہیں.تو دراصل ضرورت کے وقت اگر کوئی قانون بدل جاتا ہے تو یہ بالکل اور بات ہوتی ہے اور اس پر اصل قانون کی بناء نہیں رکھی جاتی.اسی طرح مبلغوں کے متعلق جو قانون رہے گا وہ تو یہی ہے کہ مبلغ ایسے ہوں جو واقعہ میں نمونہ ہوں لیکن ضرورت کے وقت اس میں تبدیلی بھی ہو سکتی ہے.اور گو یہ ضروری نہیں کہ ان مبلغوں سے لازماً لوگ فائدہ اُٹھا ئیں مگر بہر حال ہم پر جو فرض عائد ہوتا ہے وہ ادا ہوسکتا ہے.جب کہیں روشنی کی جاتی ہے تو یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ہر شخص منزلِ مقصود پر پہنچ جائے لیکن اس روشنی کا یہ فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص اُس میں چل پڑے تو خواہ ایک ٹمٹماتا ہوا چراغ ہو وہ اُسے راستہ دکھا دیتا ہے.اسی طرح وہ مبلغ جو اس ہدایت کے ماتحت لئے جائیں گے وہ لوگوں کے لئے ایک مشعلِ راہ ہوں گے اور جو بھی اُن کے پیچھے چلیں گے اپنے منزل مقصود تک پہنچ جائیں گے.بعض دوستوں کو یہ غلط فہمی مدرسہ احمدیہ کے اساتذہ کا معیار بلند ہونا چاہیے ہوئی ہے کہ شاید مدرسہ احمدیہ کو توڑے جانے کی تجویز ہے حالانکہ یہ درست نہیں.جو سوال اس وقت زیر غور ہے وہ مدرسہ احمدیہ کی موجودہ شکل کو بہتر شکل میں بدل دینے کا ہے نہ کہ اسے بالکل تو ڑ دینے کا.مدرسہ کی موجودہ حالت یہ ہے کہ بدترین اُستاد چھانٹ کر نظارت نے وہاں لگا دیئے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ میں سال سے وہاں انگریزی کی تعلیم دی جا رہی ہے اور آٹھ دس سال سے تو انگریزی تعلیم لازمی قرار دی گئی ہے مگر مدرسہ احمدیہ کے فارغ التحصیل کسی مبلغ سے پوچھ کر دیکھ لو.حرام ہے کہ وہ انگریزی کا ایک فقرہ بھی صحیح بول سکے.اس کی وجہ سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ عملہ میں نہایت روی آدمی رکھ لئے جاتے ہیں.حالانکہ مبلغوں کے دماغ میں جس قسم کی تعلیم داخل کرنے کی ضرورت ہے اُس کے لحاظ سے چاہئے
خطابات شوری جلد دوم ۳۴۱ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء یہ تھا کہ بہترین آدمی یہاں مقرر کئے جاتے بے شک اس کے نتیجہ میں بجٹ میں اضافہ ہو جاتا.لیکن اس کا فائدہ یہ ہوتا کہ جو طالب علم اس مدرسہ سے نکلتے وہ علمی استعدادوں کے لحاظ سے نہایت اعلیٰ ہوتے.میں جیسا کہ کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں ، اس امر کا قائل ہوں کہ بچپن سے ہی بہترین ماحول ہونا چاہئے اور در حقیقت ماحول کا یہ محاورہ اپنے مدارس کے لئے میری ہی ایجاد ہے اور اس محاورہ کا میں موجد ہوں لیکن کہتے ہیں کہ مرغی جان سے گئی اور کھانے والے کو مزہ بھی نہ آیا.ایجاد میری چلتی رہے اور جس غرض کے لئے میں نے یہ ایجاد کی تھی وہ بھی حاصل نہ ہو تو اس کا فائدہ کیا ہو سکتا ہے.پس بہترین ماحول اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ پہلی جماعت سے ہی قابل اساتذہ کی نگرانی میں لڑکے رکھے جائیں.اور اگر یہ نہیں ہوسکتا تو نچلی جماعتوں کو اڑا کر صرف بڑی جماعتوں کے لئے ایسے اساتذہ کو رکھ لیا جائے جو نہایت ہی قابل اور ہوشیار ہوں.میں یقینا سمجھتا ہوں کہ موجودہ عملہ جس قسم کے اساتذہ پر مشتمل ہے اُن سے لڑکوں کو پڑھوانا خود کشی کے مترادف ہے.اور ایسے لڑکے پیدا ہو رہے ہیں جنہیں عربی کے چند صیغے تو آتے ہیں مگر روشن ضمیری اُن میں اُس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتی جب تک استاد نہایت اعلیٰ درجہ کے نہ ہوں.آخر امام شافعی وغیرہ کے اُستاد انہیں زیادہ تو نہیں پڑھایا کرتے تھے ، اُتنا ہی پڑھاتے تھے جتنا آجکل کے استاد پڑھاتے ہیں مگر چونکہ استاد روشن ضمیر تھے اس لئے اُن کی روشن ضمیری شاگردوں کے اندر بھی چلی گئی.یہاں بھی بعض ایسے اساتذہ ہیں جو بعض علوم میں ماہر ہیں.مثلاً میر محمد اسحق صاحب ہیں یا مولوی سید سرور شاہ صاحب ہیں یا حافظ روشن علی صاحب مرحوم تھے لیکن سوال دو یا تین کا نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ تمام عملہ ایسا ہی ہونا چاہئے.پس ضروری ہے کہ ہر قسم کے علوم کے ماہرین ہم مدرسہ احمدیہ کے عملہ میں لائیں اور بہترین نوجوان دنیا میں پیدا کریں.پھر جب ہمارے پاس اور زیادہ اموال آجائیں اور ہم بہترین عملہ کو بڑھا سکیں تو ہمیں مدرسہ احمدیہ کو نیچے سے اوپر کو لانا چاہئے بلکہ پہلی جماعت سے ہی اس کی جماعتوں کو شروع کرنا چاہئے.لیکن اگر ہم ابھی ایسا کرنے سے قاصر ہیں تو پھر میری رائے یہی ہے ( اس پر غور کر لیا جائے ) کہ مدرسہ احمدیہ کی موجودہ شکل جو شرعی نہیں اس قابل ہے کہ اسے بدل دیا جائے کیونکہ ہم موجودہ لائن پر اپنے
خطابات شوری جلد دوم ۳۴۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء بچوں کو ہرگز قربان نہیں کر سکتے.اسی نقص کا یہ نتیجہ ہے کہ میں نے دیکھا ہے عام طور پر تعلیم یافتہ اور آسودہ حال لوگ اپنے بچوں کو مدرسہ احمدیہ میں داخل نہیں کرتے کیونکہ وہ زمانہ کی ضرورت سے مجبور ہیں اور اُن کا نفس اُن کو کہتا ہے کہ لڑکوں کو کچھ انگریزی بھی آنی چاہئے.اور چاہے ووٹ وہ اس جگہ مدرسہ احمدیہ کی موجودہ شکل کے حق میں دے جائیں مگر ان کے گھر کا ووٹ اس کے خلاف ہوتا ہے کیونکہ وہاں اُن کے اپنے بچے سامنے آجاتے ہیں اور انسان کہہ اُٹھتا ہے کہ اس جگہ بچوں کو داخل کرانے سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ دوسرے مدرسہ میں انہیں داخل کیا جائے.یہی وجہ ہے کہ اب مدرسہ احمدیہ صرف غرباء کی تعلیم کا ایک ذریعہ بن کر رہ گیا ہے.اور اس میں داخل ہونے والے اس لئے داخل نہیں ہوتے کہ وہ علم دین کے حصول کا کوئی شوق رکھتے ہیں بلکہ اس لئے داخل ہوتے ہیں کہ کسی اور جگہ تعلیم پانے کا اُن کے پاس اور کوئی سامان نہیں ہوتا.غرض یہ وہ ماحول ہے جس میں مدرسہ احمدیہ کے طلباء کو رکھنا چاہئے.بعض لوگوں نے میری اس تجویز کے خلاف مجھے چٹھیاں لکھی ہیں اور کہا ہے کہ یاد رکھئے کہ اگر آپ نے یہ تبدیلی کی تو لڑکے اس سکول میں نہیں آئیں گے مگر میرا جواب یہ ہے کہ یاد رکھیئے اس کے نتیجہ میں لڑکے آئیں گے اور اچھے بن کر نکلیں گے.عیسائی پادریوں کو دیکھ لو، انہیں ہر قسم کے علوم پڑھائے جاتے ہیں.جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر دنیوی مجلس میں بیٹھ کر اپنا رُعب جما لیتے ہیں اور کہیں شرمندہ نہیں ہوتے مگر ہماری جماعت کے احباب اپنے بچوں کو مدرسہ احمد یہ داخل کرتے وقت دل میں ڈرتے رہتے ہیں اور انہیں خدشہ رہتا ہے کہ کہیں ہمارے بچے گودن نہ ہو جائیں.اسی لئے کئی لوگ انہیں دوسرے مدرسہ میں داخل کر دیتے ہیں.اور جب وہ میٹرک کا امتحان پاس کر لیتے ہیں تو کہتے ہیں اب کون انہیں مدرسہ احمدیہ کی پہلی جماعت میں داخل کرے.کوئی بڑا شوقین ہو تو انٹرنس کے بعد عربی تعلیم کی طرف توجہ کرتا ہے ورنہ بالعموم ایسا ہی ہوتا ہے کہ انٹرنس کے بعد لڑ کے پسند نہیں کرتے کہ مدرسہ احمدیہ کی پہلی یا دوسری جماعت میں داخل ہوں.مبلغین دو قسم کے ہوں ان نقائص کی وجہ سے اب میری رائے یہ ہے کہ آئندہ مبلغ دو قسم کے ہونے چاہئیں.ایک تو وہ مبلغ ہوں جو نہایت ہی
۳۴۳ خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء اعلیٰ ہوں اور جن کی علمی اور اخلاقی حالت لوگوں کے لئے قابل نمونہ ہو.اس کے لئے پہلا قدم یہ ہے کہ ہمیں ظالمانہ طور پر اُن تمام مبلغین کو کاٹ دینا چاہئے جو اس پایہ کے نہیں ہیں.اور پھر اُن کو جو تبلیغ کے اہل ہوں ہر قسم کے علوم سکھائے جائیں اور اعلیٰ درجہ کی تعلیم دلائی جائے.تا ایک طرف اعلیٰ تعلیم کی وجہ سے اور دوسری طرف اپنے تقویٰ اور اخلاص کی وجہ سے ان کی تبلیغ اپنے اندر نمایاں اثر رکھے.اور ایک ایسے مبلغین ہونے چاہئیں جو صرف تھوڑی سی تعلیم رکھتے ہوں.اُنہیں نماز، روزہ، حج، زکوۃ اور احمدیت کے موٹے موٹے مسائل سکھا کر گاؤں گاؤں میں پھیلا دیا جائے اور اُنہیں کہہ دیا جائے کہ وہ وہیں رہیں اور لوگوں کو وفات مسیح اور صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور دیگر موٹے موٹے مسائل سے واقف کرتے رہیں اور عملی درستی اور ابتدائی تعلیم کی طرف زیادہ توجہ کریں.تا اس قسم کے مبلغین کے ذریعہ غرباء میں تبلیغ ہوتی رہے.ایسے لوگوں کا سلسلہ پر کوئی خاص بار بھی نہیں پڑسکتا کیونکہ دیہات میں رہنے کی وجہ سے کوئی انہیں دانے دے گا ، کوئی کپڑے اور اس طرح ان کا گزارہ ہوتا چلا جائے گا.لیکن اب یہ حالت ہے کہ ہم جس کو بھی تعلیم دلاتے ہیں ، وہ فارغ ہونے کے بعد کہنا شروع کر دیتا ہے کہ مجھے کم سے کم شروع میں تھیں یا چالیس روپے دیں اور چونکہ اتنا روپیہ ہمارے پاس ہوتا نہیں ، اس لئے سب سے ہم فائدہ نہیں اُٹھا سکتے.اگر زمینداروں میں سے اٹھارہ اٹھارہ بیس بیس سال کی عمر کے لڑکے لے لئے جائیں اور انہیں وہ تمام مسائل ہم اچھی طرح یاد کرا دیں جن کی عام طور پر ضرورت پیش آتی ہے اور وہ مختلف علاقوں میں بیٹھ جائیں اور اپنی اپنی قوم کے لوگوں کو خصوصیت سے تبلیغ کریں تو میں یقیناً سمجھتا ہوں کہ اس سے ہمارے سلسلہ کو بہت فائدہ ہو.میں نے تجربہ کیا ہے کہ جائوں میں جاٹ، راجپوتوں میں راجپوت ، گوجروں میں گوجر، پٹھانوں میں پٹھان اور سیدوں میں سید اگر تبلیغ کریں تو بڑا اثر ہوتا ہے مگر یہ ظاہر بات ہے کہ اتنے مبلغ ہم پیدا نہیں کر سکتے.پس اس کا ایک ہی طریق ہے اور وہ یہ کہ جائوں اور راجپوتوں اور پٹھانوں اور گوجروں اور سیدوں میں سے نو عمر لڑ کے جو زمیندارہ کام کرتے ہوں لے لئے جائیں اور انہیں موٹے موٹے مسائل سکھا دیے جائیں.جب وہ یہ مسئلے سیکھ چکیں تو انہیں کہا جائے کہ اب وہ اپنا زمیندارہ کام بھی کریں اور تبلیغ بھی کریں.
خطابات شوری جلد دوم ۳۴۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ چونکہ انہیں زیادہ اعلیٰ تعلیم نہیں ملی ہو گی اس لئے وہ گزارہ کے لئے اپنے آبائی پیشہ کو بخوشی اختیار کر لیں گے.مگر اب یہ ہوتا ہے کہ بعض کمزور ایمان کے طالب علم ایسے نکلتے ہیں کہ جب ہم انہیں کہتے ہیں کہ ابھی ہمارے پاس کوئی جگہ نہیں جس پر تمہیں مقرر کیا جائے تو کوئی کہتا ہے کہ اچھا پھر میں پیغامی ہی ہو جاتا ہوں اور کوئی رُوٹھ کر فتنہ پیدا کرنے لگتا ہے.پس ایسے وقت میں آ کرلڑکوں کے لئے بڑی مشکل ہوتی ہے.اخلاص اور ایمان اتنا چونکہ ان میں ہوتا نہیں کہ وہ مصیبت کا مقابلہ کرسکیں اس لئے وہ اپنے مذہب سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں.لیکن اگر ہم زمینداروں میں سے اس قسم کے مبلغ لیں اور اُنہیں تیار کریں تو بعد میں اگر ہم انہیں یہ بھی کہہ دیں کہ ہمارے پاس کوئی جگہ نہیں تو وہ کہیں گے اچھا ہم پھر ہل پکڑ لیتے ہیں، پہلے بھی یہی کام کرتے تھے اور اب پھر یہی کام شروع کر دیتے ہیں.اس طرح ایک وسیع حلقہ میں بغیر کسی خرچ کے تبلیغ ہو سکتی ہے.پس ایک تو ایسے مبلغ تیار کئے جائیں اور ایسے لوگ بطور مبلغ لئے جائیں جن کے اندر اخلاص ایمان اور تقویٰ ہو اور جنہیں ضروری علوم پوری طرح پڑھائے گئے ہوں.میں نے تحریک جدید کا جو سسٹم جاری کیا ہے اس کی یہی وجہ ہے کہ میں نے دیکھا اگر ہم اپنے کارکنوں کو جاہل رکھتے ہیں تو اس طرح قومی نقصان ہوتا ہے اور اگر ہم انہیں ولایت میں بھیجتے ہیں اور اعلیٰ تعلیم دلاتے ہیں تو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ولایت جانے سے پہلے مثلاً اُن کی پچاس روپیہ تنخواہ ہوتی ہے تو وہاں سے واپس آتے ہی وہ ڈیڑھ سو روپیہ مانگنے لگ جاتے ہیں.گویا وہ ولایت ہمارے خرچ پر جاتے اور ہمارے خرچ پر علمی ترقی حاصل کرتے ہیں مگر جب واپس آتے ہیں تو اپنی قیمت زیادہ مانگنے لگ جاتے ہیں.اس نقص کو دیکھ کر میں نے تحریک جدید جاری کی اور اس میں میں نے یہ اصول رکھا ہے کہ گزارہ افراد کی تعداد کے مطابق ہوگا نہ کہ ڈگریوں کے مطابق.اس تحریک کے ماتحت جولڑ کے لئے جائیں گے انہیں ہم دُنیا کی اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلائیں گے.اور میرا ارادہ ہے اور اللہ تعالیٰ اس ارادہ کو پورا کرنے والا ہے کہ ہم کسی کو جرمنی میں تعلیم دلائیں، کسی کو امریکہ میں تعلیم دلائیں کسی کو انگلستان میں تعلیم دلائیں.مگر ساتھ ہی ہم اُن کو یہ بھی کہہ دیں گے کہ دیکھو
خطابات شوری جلد دوم ۳۴۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء تمہاری زندگی وقف ہے تم ہمارے خرچ پر جاؤ گے اور ہمارے خرچ پر اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرو گے.مگر دیکھنا تمہیں ملیں گے وہی پندرہ روپے.اب ایسے آدمی کو تعلیم دلانے سے ہم پر کوئی بوجھ نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ جس قدر تعلیم بھی حاصل کرے گا اس کا سلسلہ کو بھی فائدہ پہنچے گا اور اُس کو بھی فائدہ پہنچے گا مگر وہ علم اور عرفان کی صورت میں ہو گا.اگر وہ تحریک جدید کا مبلغ نہ ہوتا تو اسے یہ موقع کب مل سکتا تھا.تو تحریک جدید کے اصول پر میرا ارادہ یہ ہے کہ جماعت کے نوجوانوں کو ایسے رنگ میں اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلاؤں کہ ان کا سلسلہ پر بوجھ نہ ہو اور وہ سلسلہ کے لئے مفید ثابت ہوں.اس رنگ میں اگر ہم ہزار یا پندرہ سو آدمی تیار کر لیں تو دُنیا کے ہر فن کے آدمی ہماری جماعت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے موجود ہو جائیں گے.مگر موجودہ حالت یہ ہے کہ ہم جب بھی کسی کو ولایت بھیجتے ہیں ، دل ڈرتا رہتا ہے کہ ہم نے ذرا اسے علم سکھایا تو اُس نے اپنی قیمت زیادہ لگانی شروع کر دینی ہے.چنانچہ ولایت میں ہماری جماعت کے جس قدر آدمی گئے ہیں وہاں سے آتے ہی ان کی تنخواہیں بڑھ جاتی رہی ہیں اور شاذ ہی ایسی مثال ملے گی کہ کوئی ولایت سے ہو آیا ہو اور اُس کی تنخواہ نہ بڑھی ہو.مگر یہ بھی اُس وقت ہوا جب انجمن والوں کے اس فعل کے خلاف میں نے شور مچایا.اس وقت کے بعد شاید انہوں نے کسی کی تنخواہ نہیں بڑھائی.جس کا ممکن ہے ان دوستوں کے دلوں میں شکوہ ہو اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں شکوہ ضرور ہوگا کہ پہلوں کے خلاف ہمارے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا گیا.غرض دشمن کے مقابلہ میں جن جن علوم کی ضرورت ہے اگر ہمارے آدمی قربانی کر کے انہیں تحریک جدید کے ماتحت سیکھ لیں تو اس کا انہیں بھی فائدہ ہوگا اور ہمیں بھی.ہم ان وقف کرنے والے نوجوانوں سے کہیں گے کہ ہم تمہاری اس قربانی کے معاوضہ میں وہ تعلیم تمہیں دلائیں گے جو تمہارا سارا خاندان مل کر بھی تمہیں نہیں دلا سکتا.گویا تمہاری تنخواہ روپیہ کی صورت میں تم کو نہیں ملے گی بلکہ تعلیم کی صورت میں ملے گی.اس کے مقابلہ میں تمہاری موجودہ حالت کی نسبت سے جماعت نے جو تمہاری قیمت لگائی ہے وہ اس علم کے بعد بھی ہم سے لیتے رہو اور اپنی تعلیم سے سلسلہ اور اسلام کو فائدہ پہنچاؤ.یہ چیزیں ہیں جو میرے سامنے ہیں اور میں دیکھ رہا ہوں کہ سیاست میں بعض دفعہ
۳۴۶ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء خطابات شوری جلد دوم ایک احراری ہمارے ناظر سے اچھا چلتا ہے.جس کی وجہ یہی ہے کہ لاہور میں رہنے کی وجہ سے اور ایسی سوسائٹیوں اور مجالس میں آنے جانے کی وجہ سے جن میں ہر وقت سیاسی امور کا تذکرہ رہتا ہے، وہ سیاست سے زیادہ آگاہ ہوتا ہے لیکن ہمارے ناظر کو چونکہ اس کا موقع نہیں ملتا اس لئے وہ ان امور سے ناواقف ہوتا ہے.اگر ہم اپنے آدمیوں کو موقع دیں اور کہیں کہ وہ ایسی کمیٹیوں میں شامل ہو جائیں اور ان کے ممبر بنیں تو تجربہ سے اُنہیں بھی وہ تمام باتیں معلوم ہوسکتی ہیں جو دوسروں کو معلوم ہیں.بلکہ اگر اپنی قابلیت اور لیاقت سے کام لیں تو اُن سے بڑھ بھی سکتے ہیں.مختلف علوم کے ماہر تیار کرنے کی سکیم عوض میری تعلیم یہ ہے کہ اپنی جماعت کے مختلف افراد کو مختلف علوم کا ماہر بنایا جائے اور بیرونی ممالک میں بھیج کر انہیں اس بات کا موقع دیا جائے کہ وہ اپنے علوم کو بڑھا ئیں تا جس وقت وہ واپس آئیں تو لوگوں پر ان کی علمی قابلیت کا اثر ہو.ابھی گزشتہ دنوں مولوی محمد سلیم صاحب اور مولوی ابو العطاء صاحب کے مدرسہ میں لیکچر ہوئے ہیں اور بڑے کامیاب ہوئے ہیں مگر یہ لیکچر اس لئے کامیاب نہیں ہوئے کہ یہ احمدی مبلغ تھے بلکہ اس لئے کامیاب ہوئے ہیں کہ مولوی محمد سلیم صاحب ابھی شام سے آئے تھے اور اُنہوں نے فلسطین کے حالات بیان کئے تھے.اور مولوی ابوالعطاء صاحب بھی کچھ عرصہ وہاں رہ چکے تھے اور طبعا لوگوں کو یہ اشتیاق ہوتا ہے کہ وہ غیر ملک سے آئے ہوئے ھو ئے شخص کو دیکھیں اور اس کی باتیں سنیں.پس ان کا بیرونی ملکوں کا قیام ان کی مقبولیت کا موجب ہوا اور ساتھ ہی سلسلہ کے تبلیغی میدان کو وسیع کرنے کا موجب ہوا.پس میرا منشاء یہ ہے کہ اپنی جماعت کے بعض افراد کو غیر ممالک میں تحصیل علم کے لئے بھیجا جائے مگر یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب ان کو بھیجتے وقت ہمارا دل نہ دھڑ کے کہ خبر نہیں اب ان کی قیمت ڈیڑھ سو بنتی ہے یا اڑھائی سو بنتی ہے مگر جب ہمیں یقین ہو کہ ان کی قیمت پندرہ روپے ہی رہے گی تو ہم انہیں کہیں گے جاؤ اور دنیوی علوم میں خواہ افلاطون بھی بن جاؤ یا دینی علوم میں عبدالرحمن بن جوزی یا سیوطی بن جاؤ، ہم تمہیں اپنے سر آنکھوں پر بٹھا ئیں گے.مگر یہ یاد رکھو کہ تمہیں با وجود افلاطون یا عبدالرحمن بن جوزی یا سیوطی بن جانے کے پندرہ روپے ہی ملیں گے اس سے
خطابات شوری جلد دوم ۳۴۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء زیادہ نہیں.ایسے آدمی اگر ہمیں میسر آجائیں تو ہمیں ان کو غیر ممالک میں بھیجنے میں کوئی گھبراہٹ نہیں ہو سکتی کیونکہ ان کو علم کی صورت میں نفع مل جائے گا اور ہمیں ایک قابل آدمی کی صورت میں نفع مل جائے گا.تو ان چیزوں پر ہمیں غور کرنا چاہئے.یہ ایسی باتیں نہیں ہیں جن کا معمولی اثر ہو بلکہ ان کے نتائج نہایت دُور رس ہیں اس لئے میں سمجھتا ہوں جہاں ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم کسی ضروری چیز کو نہ چھوڑیں وہاں ہمارے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم کسی خاص شکل کے غلام نہ بنیں.اصل مقصد جو ہمارے سامنے رہنا چاہئے یہ ہے کہ سلسلہ کے مستقل فائدے کی صورت کس میں ہے.پھر سلسلہ کا مستقل فائدہ جس صورت میں بھی ہو اُسے اختیار کر لینا چاہئے ، خواہ اس کے نتیجہ میں پہلی کوئی شکل بالکل بدل جائے.میں نے بتایا ہے کہ بعض لوگ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ گویا مدرسہ احمدیہ کو ہم اُڑانے لگے ہیں اور بعض دوستوں کے ذہن میں یہ بات ہے کہ محض مالی مشکلات کے دور کرنے کی ایک تجویز ہے حالانکہ مدرسہ احمدیہ کو اُڑانے کی کوئی تجویز ہے اور نہ مالی مشکلات کے حل کے لئے میں نے یہ تجویز پیش کی ہے.میں نے جس نقطہ نگاہ کے ماتحت یہ تجویز پیش کی ہے وہ یہی ہے کہ ہم نا قابل لڑکے تیار نہ کریں بلکہ ایسے لڑکے تیار کر کے بھیجیں جو علمی لحاظ سے دُنیا پر اپنا رعب ڈال سکیں.میں یقیناً ہر اُس مشورہ پرغور کرنے کے لئے تیار ہوں جو اس بارہ میں دوستوں کی طرف سے پیش ہو اور خوشی اور بشاشت کے ساتھ اُس کو سُنوں گا مگران کو بھی مشورہ پورے غور کے بعد دینا چاہئے.میں نے راتیں جاگ جاگ کر اور سالہا سال غم کھا کر جماعت کی ضرورتوں کے متعلق تجاویز سوچی ہیں، آپ لوگوں کا بھی فرض ہے کہ اس پر جذباتی رنگ میں غور نہ کریں بلکہ حقیقی درد کے ساتھ غور کریں.غرض یہ تمام باتیں ہم کو مد نظر رکھنی چاہئیں اور پھر یہ بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ ہوسکتا ہے بعض دفعہ مالی بوجھ ہم پر اس رنگ میں پڑ جائے کہ چندے لینے کی ہمیں ممانعت کر دی جائے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض الہام بھی اس طرف اشارہ کرتے ہیں.پس ہمیں اپنے نظام کو ایسی صورت میں لانا چاہئے کہ ہمیں نہ حکومتوں کا ڈر رہے نہ قوموں کا ڈر.کسی شاعر کا ایک شعر ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ہمارا کیا ہے، ہمارا نہ گھر ہے
خطابات شوری جلد دوم ۳۴۸ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء جی چاہا تو سٹرک پر بیٹھ رہے اور اگر کسی نے وہاں سے بھی اُٹھا دیا تو اُٹھ کر آگے چل پڑے.یہی انبیاء کی جماعتوں کا حال ہوتا ہے.قو میں اُن سے دشمنی کریں ، حکومتیں ان کی مخالفت کریں اور یہ کہہ دیں کہ تم چندہ وصول نہیں کر سکتے تو اُن کا نظام ایسا ہو کہ اس میں کوئی خلل واقع نہ ہو اور وہ آپ ہی آپ چلتا چلا جائے.آخر گورنمنٹ نے کانگرس کے اموال پر قبضہ کر لیا تھا یا نہیں.پھر اگر کسی وقت حکومت ہمیں بھی چندہ جمع کرنے سے روک دے اور کہہ دے کہ اگر تم چندہ جمع کرو گے تو یہ جُرم ہوگا تو اُس وقت ہم کیا کر سکتے ہیں.ایسی صورت میں صرف ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ ہمارا نظام ایسا ہو کہ ہم کہیں بہت اچھا اگر چندہ جمع نہیں کرنے دیتے تو نہ سہی ہم اس کے بغیر بھی ترقی کر سکتے ہیں.مگر بات یہ ہے کہ آپ لوگ ان چیزوں کو خیال سمجھتے ہیں اور میں انہیں حقیقی سمجھتا ہوں.اسی لئے میں نے آپ لوگوں سے کہا ہے کہ آپ قرآن کریم پڑھیں پھر آپ کو خود بخو د نظر آ جائے گا کہ جو کچھ میں نے کہا ہے وہی صحیح ہے کیونکہ قرآن جس صداقت کو بیان کرتا ہے اُسے ایک ہی دفعہ بیان نہیں کر دیتا بلکہ مختلف آیتوں میں بیان کرتا ہے اور گو بعض دفعہ مضمون بہت باریک ہو جاتا ہے مگر پھر بھی اس مضمون کا مختلف آیات سے استنباط ہو جاتا ہے.میں نے اس کے متعلق ایک مثال بھی کئی دفعہ سنائی ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں نے آپ سے ایک ضروری بات پوچھنی ہے.میں نے کہا پوچھئے.وہ کہنے لگا قرآن کریم سے حضرت مرزا صاحب کی صداقت کا کوئی ثبوت پیش کریں.میں نے کہا سارا قرآن ہی آپ کی صداقت کا ثبوت ہے.وہ کہنے لگا کوئی ایک آیت پیش کریں.میں نے کہا کہ میں نے تو کہہ دیا ہے کہ سارا قرآن ہی آپ کی صداقت کا ثبوت ہے.پس آپ کوئی آیت پڑھ دیں میں اس سے آپ کی صداقت ثابت کر دوں گا.وہ کہنے لگا اچھا قرآن میں آتا ہے وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنین ۳ آپ اس سے حضرت مرزا صاحب کی صداقت ثابت کریں.میں نے کہا دیکھو اس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت اس رنگ میں ثابت ہوتی ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں بھی ایسے لوگ تھے جو ایمان کا دعویٰ تو کرتے تھے مگر دراصل مومن نہیں تھے.اگر محمد صلی اللہ علیہ وآ
خطابات شوری جلد دوم ۳۴۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء کے زمانہ میں اس قسم کے لوگ تھے تو اب کیوں نہیں ہو سکتے.آپ آخر یہی کہتے ہیں کہ جب قرآن کریم موجود ہے اور ہم سب اس پر ایمان لا چکے ہیں تو کسی اور کے آنے کی کیا ضرورت ہے مگر قرآن کریم ہی بتاتا ہے کہ بعض لوگ منہ سے ایمان کا دعویٰ کرنے کے با وجود مومن نہیں ہوتے.پس یا تو مسلمان قرآن کریم کی اس بات کا انکار کر دیں اور یا ماننا پڑے گا کہ محض منہ کی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا.پھر اگر امت محمدیہ اُسی طرح بگڑ جائے جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں بعض لوگ تھے تو کیا ایسے لوگوں کے علاج کے لئے کوئی انتظام ہونا چاہئے یا نہیں اور چونکہ قرآن کریم کہتا ہے کہ ایسے لوگ ہوتے رہیں گے ، اس لئے ضروری ہے کہ ان کے معالج بھی آتے رہیں.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اسی لئے مبعوث ہوئے ہیں کہ آپ پھر مسلمانوں کو اسلام پر قائم کریں اور رسمی مسلمانوں کو حقیقی مسلمان بنا ئیں.تو حقیقت یہ ہے کہ صداقت ایک دوسرے سے پروئی ہوئی ہوتی ہے اور جو مضمون اس کی ایک آیت میں بیان ہوتا ہے، وہی اس کے دوسرے مقامات میں بھی بیان ہوتا ہے.پس قرآن کریم میں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات میں کافی مصالحہ موجود ہے اور ان میں ان مشکلات کا ذکر کیا گیا ہے جو ہمارے سلسلہ کو پیش آنے والی ہیں.فرق صرف یہ ہے کہ آپ نے غور نہیں کیا اور آپ ان مشکلات کو خیالی سمجھتے ہیں اور میں نے پورا غور کیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ خیالی باتیں نہیں بلکہ حقیقی ہیں.اور اگر آپ ان مشکلات میں سے نہ گزرے تو آپ کی اولادوں کو ان میں سے گزرنا پڑے گا لیکن آپ کی اولادیں اسی صورت میں اس امتحان میں کامیاب ہوسکتی ہیں جب آپ آج سے ہی اپنی ذہنیت کو بدل لیں اور اپنے آپ کو مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار کر لیں.اگر آپ پوری تیاری کر لیں اور اپنی ذہنیت کو بدل کر اس رنگ میں ڈھل جائیں جس رنگ میں انبیاء کی جماعتیں ہوتی ہیں تو یقیناً آپ کی اولادوں کو فائدہ پہنچے گا اور وہ ان مشکلات کے امتحان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہو جائیں گے.اس کے بعد میں دعا کر دیتا ہوں اور مجلس کو برخواست کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ ان تمام امور پر ٹھنڈے دل سے غور کریں گے جن کو میں نے بیان کیا ہے اور اپنی
خطابات شوری جلد دوم ۳۵۰ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء اولا دوں اور اپنے خاندانوں کے دلوں میں بھی ان کو پورے طور پر داخل کرنے کی کوشش کریں گے اور یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں گے کہ احمدیت کوئی سوسائٹی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا اور ایک نبی کی قائم کردہ جماعت ہے.پس ضروری ہے کہ جن حالات میں سے پہلے انبیاء کی جماعتیں گزریں، انہی میں سے ہماری جماعت بھی گزرے اور پھر جس طرح انہیں کامیابی حاصل ہوئی اسی طرح ہماری جماعت کو بھی کامیابی حاصل ہو.“ ممبران مجلس مشاورت کے غور و فکر کے لئے بعض تجاویز اس مضمون میں حضور نے نمائندگان مجلس مشاورت اپریل ۱۹۳۸ء کے غور و فکر کے لئے اپنی طرف سے بعض تجاویز پیش کیں جو ایجنڈا مجلس میں شائع کر دی گئیں تا کہ ممبران اپنی جماعتوں سے ان کے بارہ میں اچھی طرح استصواب کر کے مجلس میں شامل ہوں.جماعت کا بجٹ کئی سال سے لگا تار غیر متوازن چلا آ رہا تھا.ہر سال اخراجات، آمد سے بڑھ جاتے ہیں.حضور نے تفصیل سے حالات کا جائزہ لے کر یہ تجاویز تحریر فرمائیں تا کہ مجلس میں غور و فکر کے بعد بجٹ کو متوازن بنانے کے لئے فیصلے کئے جاسکیں.” اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ ممبران مجلس شوری ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ میں کچھ عرصہ سے اس امر پر غور کر رہا ہوں کہ ہمارا مالی نظام ایسی صورت پر چل رہا ہے کہ باوجود کوشش کے آمد و خرچ برابر نہیں ہو سکے اور بظاہر نہیں ہو سکتے.قریباً ۱۹۲۰ء سے ہماری مالی تنگی اسی رنگ میں چلی آ رہی ہے.اور گو عارضی طور پر بعض دفعہ تنگی میں کمی آئی ہو لیکن پھر جلد ہی صورت حالات پہلے جیسی یا پہلے سے بھی خراب ہوتی رہی ہے.اس عرصہ
خطابات شوری جلد دوم ۳۵۱ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء میں سوائے ایک دفعہ کے کہ اُس وقت تک مجلس شوریٰ کا قیام نہ ہوا تھا، تفصیلات میں میں نے خود دخل نہیں دیا.اور صرف اصولی طور پر جماعت کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلا دیتا رہا ہوں مگر میں دیکھتا ہوں کہ اب تک صورتِ حالات پر قابو پانے میں کامیابی نہیں ہوئی.اور آخری دس سال میں باوجود آمد کے بہت زیادہ ہو جانے کے اخراجات آمد سے بڑھے ہی رہے ہیں.جہاں تک مجھے یاد ہے میں اپنے مشوروں میں ان اصولوں پر زور دیتا رہا ہوں :- (۱) مومن کو قدم ہمیشہ آگے بڑھانا چاہئے اور کام شروع کر کے سوائے اس کے کہ اس میں نقص معلوم ہو یا اس میں بہتر تبدیلی کی صورت پیدا ہو جائے یا اس کی ضرورت نہ رہے یا اس میں پیچھے ہٹنا کسی بڑے اسلامی فائدہ کے لئے ہوا سے چھوڑنا نہیں چاہئے.(۲) قربانیوں میں کمی نہیں ہونی چاہئے بلکہ ہمیشہ زیادہ سے زیادہ قربانی کی طرف ہمیں قدم اُٹھانا چاہئے ورنہ دلوں پر زنگ لگ کر انسان کا ایمان ضائع ہو جاتا ہے.(۳) قربانی کا مطالبہ صرف مرکزی کارکنوں سے نہیں کرنا چاہئے بلکہ جماعت کو بالمقابل قربانی کے لئے تیار رہنا چاہئے.کیونکہ در حقیقت ہم سب اللہ تعالیٰ کے دین کے خادم ہیں صرف شکل مختلف ہے.کوئی مرکز میں رہ کر پورے وقت کی خدمت کرتا ہے، کوئی باہر جا کر خدمت کرتا ہے اور اپنی کمائی سلسلہ کے لئے دے دیتا ہے.گویا ہماری مثال بالکل ویسی ہے جیسے ایک مالک کے پاس بہت سے غلام ہوں ان میں سے بعض کو تو وہ اپنے گھر پر لگا دے اور بعض کو دوسری جگہوں پر کام کے لئے بھیج دے اور ان کی مزدوری سے فائدہ اُٹھائے.پس جو بھی ہم میں سے ایمان رکھتا ہے وہ اپنے آپ کو اسی مقام پر سمجھے گا اور اس وجہ سے اس کا مطالبہ یہ نہ ہوگا کہ فلاں سے قربانی کا مطالبہ کیا جائے بلکہ یہ ہو گا کہ مجھے بھی برابر بلکہ بڑھ کر قربانی کا موقع دیا جائے.ان تینوں اصولوں کے ماتحت میں جماعت کو بجٹ میں تبدیلی کے لئے کہتا رہا ہوں اور دوستوں نے پوری کوشش سے اصلاح کی کوشش بھی کی ہے لیکن نتائج اب تک ایسے خوش کن نہیں نکلے جیسے کہ اُمید تھی.میں سمجھتا ہوں اب جبکہ دشمنوں نے اندرونی و بیرونی حملوں سے سلسلہ پر یورش کی ہے ہمیں پورے طور پر مالی پریشانی کے سوال کو حل کر دینا چاہئے تا کہ
خطابات شوری جلد دوم ۳۵۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء پوری طاقت سے مخالف پروپیگنڈا کا مقابلہ کیا جاسکے اور کام کو پہلے سے بہتر بنایا جا سکے.اس غرض کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نمائندگان مجلس مشاورت سے خواہش کرتا ہوں کہ وہ مجھے اپنے مشوروں سے آگاہ کریں اور بعض تجاویز اپنی طرف سے بھی ان کے غور کے لئے پیش کرتا ہوں.ا.خرچ کی بابت :- جب بار پڑ رہا ہو تو سب سے پہلے ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ خرچ کی زیادتی کو روکیں تا کہ گزشتہ بار کو دور کرنے میں سہولت ہو.اور اب ایسے حالات ہو چکے ہیں کہ جن کی موجودگی میں اس قسم کا انتظام ضروری ہے.پس میں تجویز کرتا ہوں کہ خرچ کی مستقل طور پر زیادتی کے موجبوں کو بند کر دیا جائے.مثلاً : - (۱) جب تک مالی حالت میں درستی پیدا نہ ہو تمام ترقیات روک دی جائیں.سر دست تین سال کے لئے یہ فیصلہ کیا جائے.اگر اس سے پہلے حالات درست ہو جائیں تو پھر اس سوال پر غور کر لیا جائے اور اگر تین سال کے خاتمہ سے پہلے درست نہ ہوں تو تین سال کے ختم ہونے پر پھر حالات پر غور کر لیا جائے.(۲) آئندہ کے لئے تین مبلغوں کی سالانہ زیادتی کو ملتوی کر دیا جائے.بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح ہم قدم پیچھے ہٹاتے ہیں لیکن در حقیقت ایسا نہیں ہے کیونکہ یہ قاعدہ اُس وقت جاری کیا گیا تھا جبکہ تحریک جدید جاری نہیں ہوئی تھی.تحریک جدید کے اجراء کے پہلے تین سال میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے چالیس کے قریب مبلغ کام کر رہے ہیں یا تیار ہو رہے ہیں.گویا دس بارہ مبلغوں کی زیادتی سالا نہ ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ زیادتی بڑھتی جائے گی.پس جبکہ تبلیغ کا کام پہلے سے وسیع ہو رہا ہے اور آئندہ اس کے وسیع ہونے کی صورت خدا تعالیٰ کے فضل سے نظر آ رہی ہے تو ان مبلغوں کی با قاعدہ بھرتی کے قاعدہ کو ملتوی کر دیا جائے اور صرف یہ قاعدہ رکھا جائے کہ حسب ضرورت مبلغ لئے جائیں گے.تو اس سے ہم کام میں کمی نہیں کرتے بلکہ صرف کام کی ترقی کی صورت بدلتے ہیں جو جائز ہی نہیں بلکہ بعض حالات میں ضروری اور زیادہ نفع رساں ہوتی ہے.(۳) مبلغوں کے دورے بند کر دیئے جائیں.اُن کے مقام مقرر کر کے وہاں پہنچا دیا
خطابات شوری جلد دوم ۳۵۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء جائے.آگے یا وہ پیدل سفر کریں یا گھوڑے وغیرہ پر دوستوں سے بطور امداد لے کر علاقہ میں سفر کریں.خرچ والے سفر صرف اُس صورت میں ہوں کہ اُن کو جماعتیں خود خرچ بھجوا دیں.(۴) کچھ مبلغوں کو چھانٹ کر دوسرے کاموں پر لگایا جائے یا فارغ کر دیئے جائیں.کیونکہ ایک حصہ مبلغوں میں ایسا ہے جو در حقیقت بوجھ بنا ہوا ہے.محکمہ ان سے کام نہیں لے رہا.میرے نزدیک جس طرح نظارت دعوۃ و تبلیغ کام کر رہی ہے موجودہ مبلغوں کی ایک چوتھائی موجودہ کام سے زیادہ اچھا کام کر سکے گی بشرطیکہ اچھے آدمی چھنے جائیں.اس وقت تبلیغ بذریعہ مبلغین قریباً بند ہے.اور سب سے زیادہ بے فیض اس بارہ میں یہ محکمہ ہے.دوسرے لوگ ان سے زیادہ افراد کو جماعت میں لانے میں کامیاب ہوئے ہیں اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ان سے صحیح طور پر کام نہیں لیا جاتا اور بعض ایسے لوگ مبلغ بن گئے ہیں جو تبلیغ کے اہل نہیں کیونکہ انتخاب میں پوری توجہ سے کام نہیں لیا گیا.۲.آمد بڑھانے کے متعلق:- (۱) ہائی سکول اور مدرسۃ البنات کے اخراجات جس طرح ہو رہے ہیں وہ غیر ذمہ دارانہ ہیں.تمام قومی سکولوں میں اخراجات کی ذمہ داری ایک حد تک خود عملہ پر ہوتی ہے اور اکثر جگہ تو کلی طور پر عملہ پر ہی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن یہاں عملہ کو آمد سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے.میرے نزدیک ہائی سکول اور مدرسہ بنات کی امداد کی ایک رقم مقرر کر کے آئندہ آمد کے پیدا کرنے کی ذمہ داری عملہ پر ڈالدی جائے تاکہ خرچ اور آمد کو برابر رکھنے کا انہیں احساس پیدا ہو.مدرسہ بنات میں تو اندھیر ہے کہ دس ہزار کا خرچ سب کا سب سلسلہ کو ادا کرنا پڑتا ہے.اگر عملہ پر ذمہ داری ہوتی تو کب کا وہ امدا دسر کاری لینے میں کامیاب ہو جاتا.اس بارہ میں خاص قوانین تجویز کئے جائیں جن کی امداد سے جلد سے جلد یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچ جائے.(۲) تجارتی صیغے سب کے سب گھاٹے پر چل رہے ہیں اور اس کی وجہ صدر انجمن احمدیہ کی بے تو جہی ہے.ہمارا کتب خانہ جو ہزاروں کی آمد کا موجب ہونا چاہئے تھا اس کا روپیہ بہت سا ضائع ہوا ہے اور کبھی بھی اس سے نفع حاصل نہیں ہوا حالانکہ چاہئے تھا کہ پانچ
۳۵۴ خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء دس ہزار سالانہ اس سے منافع سلسلہ کو ملتا.یہ افسوسناک امر ہے اور اس کی اصلاح فوراً ہونی چاہئے.رسائل و اخبارات کا بھی یہی حال ہے.عملہ اپنی کوئی ذمہ داری نہیں سمجھتا اور یقینا سستی سے کام لیتا ہے.سب کاموں میں عملہ پر آمد کی ذمہ داری ڈالنی چاہئے اور آمد کا اثر عملہ کے گزارہ پر بھی اُسی طرح پڑنا چاہئے جس طرح انجمن پر تا کہ دونوں کو توجہ رہے.(۳) ایک قربانی کارکن کریں اور اس کے بالمقابل ویسی ہی قربانی جماعت کرے.یعنی بجٹ کو پورا کرنے کے لئے کارکن بھی ایک کٹوتی اپنی تنخواہوں میں منظور کریں اور جماعت بھی اس کے مقابل پر ویسی ہی زیادتی اپنے چندوں میں کرے.آئندہ بجٹ کے متعلق میرے نزدیک اصول یہ ہونا چاہئے کہ ایک اصل آمد نکالی جائے.یعنی گل آمد سے سب زائد آمد نیاں جو عارضی طریق سے حاصل کی گئی ہوں خارج کر دی جائیں اور فیصلہ یہ کیا جائے کہ بجٹ بہر حال اس اصل آمد سے دس فیصدی کم رکھنا ہے.اس غرض کیلئے کارکنوں کی تنخواہوں اور سائز میں مناسب کمی کر دی جائے.تنخواہوں کی کمی تین درجوں میں تقسیم ہو.مثلاً ۳۳، ۲۵، ۲۰ یا مثلاً ۲۵، ۱۵،۲۰ یا مثلاً ۲۰، ۱۰،۱۵ یعنی ان تین قسم کی کمیوں میں سے جس قسم کی کمی سے یہ کام ہو سکتا ہو ا سے استعمال کر لیا جائے.اس تجویز سے جو دس فیصدی بچت بجٹ سے ہو نیز وہ سب رقوم جو غیر معمولی مدات آمد سے حاصل ہوں ، قرضہ کی ادائیگی میں خرچ کی جائیں.مرکزی کارکنوں کی اس قربانی کے بالمقابل جماعت کے مخلصین بھی تین سال کے لئے غیر معمولی بوجھ اپنے پر قبول کر کے اس قربانی کے مساوی قربانی اپنی آمدنیوں میں کریں.یعنی اپنی آمدنیوں میں سے زائد چندے ادا کریں اور یہ چندے بھی قرض کی ادائیگی پر خرچ ہوں.کارکنوں کی کٹوتی کو قرض سمجھا جائے جو تو فیق پر انجمن ادا کرے.کوشش کی جائے کہ ریٹائر ڈ ہونے والے کارکن کو یہ قرض پراویڈنٹ فنڈ کے ساتھ ادا کر دیا جائے.علاوہ اوپر کی مستقل تجویزوں کے غیر ضروری جائدادوں کو بھی فروخت کر دیا جائے اور اس آمد سے قرض اُتارا جائے.
خطابات شوری جلد دوم ۳۵۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء بجٹ کو اُس کی حد میں رکھنے کے متعلق تجاویز (۱) یہ قانون کر دیا جائے کہ دورانِ سال میں جو تغیر انجمن بجٹ میں کرے اُس کے لئے خود بجٹ میں سے گنجائش نکالے، بجٹ کو زائد نہ کیا جائے.(۲) کسی افسر کو کسی سہ ماہی میں را بجٹ سے زائد خرچ کرنے کا اختیار نہ ہو سوائے خاص منظوری کے.اور انجمن ہر اُس درخواست کو رڈ کر دے جو خرچ کرنے کے بعد منظوری کے لئے دی گئی ہو.(۳) بجٹ میں زیادتی کی کوئی تجویز دوران سال میں پیش نہ ہو سوائے مندرجہ ذیل صورتوں کے (الف) جو تجویز خلیفہ وقت کی طرف سے ہو.(ب) انجمن کی طرف سے ہو اور ناظر بیت المال اس کی ذمہ داری لے.بعض ضروری تشریحات میں نے تجویز کیا ہے کہ آئندہ تین مبلغوں کا با قاعدہ لینا بند کیا جائے.اس بارہ میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا جامعہ کی آخری دو جماعتیں اُڑا دی جائیں ؟ اگر ایسا کیا گیا تو ایک تو جامعہ کا موجودہ عملہ بے کار ہو جائے گا، دوسرے بوقت ضرورت مشکلات پیش آئیں گی.سو اس بارہ میں میری تجویز یہ ہے کہ عملہ کو بیکا ر نہ کیا جائے اور جماعتیں جاری رہیں.صرف یہ کیا جائے کہ ان جماعتوں میں طب اور دوا سازی کا علم بڑھا دیا جائے.مثلاً س۲۳ وقت تحصیل طب میں طلباء خرچ کریں اور ۳ را دوسرے علوم کی تحصیل میں اور فارغ ہو کر مناسب جگہوں پر مطب کھول دیں.چونکہ یہ طلباء عربی زبان میں اچھے ماہر ہوں گے، تھوڑی محنت سے علم طب کے مبادی اور اصول سیکھ سکیں گے.جس کی مدد سے وہ خود مطالعہ سے علم بڑھا سکیں گے.اس وقت طبیبوں کی لیاقت کا جو معیار عام طور پر پایا جاتا ہے اس سے زیادہ لیاقت یہ پیدا کر سکتے ہیں بشرطیکہ ہوشیار ہوں.خصوصاً جبکہ ہمارا اپنا ہسپتال ہے اور تشریح اور مرہم پٹی اور تھوڑی سی کمپونڈری بھی وہ وہاں سیکھ سکتے ہیں.اس طریقہ سے ایک وسیع جال طبیبوں کا پھیلایا جا سکتا ہے.یہ لوگ عربی مدارس قائم کر کے بھی مفید کام کر سکتے ہیں.
۳۵۶ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء خطابات شوری جلد دوم میری رائے میں یہ بہتر ہو گا کہ ان طلباء میں سے مستحق اور لائق طلباء کو تکمیل تعلیم کے بعد کچھ رقم کام کی ابتدائی مشکلات پر قابو پانے کے لئے دے دی جائے.بے شک اس صورت میں ہمیں ایک اچھا طبیب ملازم رکھنا ہو گا لیکن یہ خرچ زیادہ نہ ہوگا کیونکہ انجمن کے کئی عہدہ دار ریٹائرڈ ہونے والے ہیں اور اس عملہ میں سے گنجائش نکالی جاسکتی ہے.اس تجویز کے ماتحت اگر دیکھا جائے تو خرچ اور آمد کی صورت یہ ہو گی.ایک طبیب فرض کرو ساٹھ روپیہ ماہوار کا، چالیس روپے دوائیوں وغیرہ کے لئے گل سو روپیہ ماہوار.تین لڑکے جن کو وظیفہ دیا جائے.(بشرطیکہ اس کے بغیر گزارہ نہ چلے ) تمیں روپیہ ماہوار.اس میں سے آخری خرچ اب بھی ہو رہا ہے.پس صرف سو روپیہ ماہوار خرچ بڑھے گا جو میں نے بتایا ہے انجمن کے موجودہ عملہ کی تبدیلیوں سے پورا ہو سکتا ہے اور اسی سال ہوسکتا ہے.جب طالب علم پاس ہوں تو جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا ہے ضرورت مند اور وقف کنندہ طلباء کو کچھ رقم جو میرے خیال میں سو روپیہ سے دوسو روپیہ تک مناسب ہوگی امداد یا قرض دے کر کسی خاص مقام پر جو تبلیغ اور طب دونوں کے لحاظ سے اچھا ہو ، بٹھا دیا جائے.اگر اس امداد کی اوسط سو روپیہ فی طالب علم کبھی جائے تو یہ تین سو روپیہ ہوگا.جب کبھی سلسلہ کو مزید مبلغوں کی ضرورت پیش آئے ان طلباء میں سے ایک یا ایک سے زیادہ طالب علموں کو حسب ضرورت منتخب کر کے ایک سال کے زائد مطالعہ کے بعد کام پر لگا دیا جائے.اس طرح نئے مبلغ بھی وقت پرمل سکیں گے اور جن کی ضرورت نہ ہو گی اُن کی عمر بھی ضائع نہ ہوگی.اس وقت تین مبلغ سالانہ لئے جاتے ہیں.ان کی تنخواہ ۴۵ سے ۶۵ تک ہوتی ہے.اور اوسط ۵۵ فرض کر کے پونے دو سو روپیہ ماہوار کی بچت صرف پہلے سال میں نکل آتی ہے جو دس سال میں بیس ہزار سالانہ کی بچت بن جاتی ہے.زائد تین سو کا خرچ جو طب کا کام چلانے کے لئے دیا جانے کی تجویز ہے، وہ بھی اگر ضرورت ہو صرف سفر خرچ کی کمی سے نکل آتا ہے.کیونکہ قریباً فی مبلغ ایک سو روپیہ سالانہ سفر کے اخراجات میں خرچ ہوتے ہیں.پس ان تین مبلغوں کے اُڑ جانے سے تین سو روپے سفر خرچ کے بیچ جاتے ہیں اور یہی رقم حسب ضرورت فارغ التحصیل طلباء کو کام چلانے کے لئے دی جاسکتی ہے اور ہندوستان میں مختلف جگہوں پر مطب کھولے جا سکتے ہیں.اگر جیسا کہ میں نے اوپر لکھا ہے یہ لوگ علاوہ
خطابات شوری جلد دوم ۳۵۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء طب کے عربی کی تعلیم کی جماعتیں بھی کھول دیں تو تھوڑے ہی عرصہ میں مختلف علاقوں میں احمدیت کے مرکز قائم ہو سکتے ہیں.انشاء اللہ تعالی.در حقیقت طب، تعلیم اور تجارت یہ تین بہترین ہتھیار تبلیغ کے ہیں اور انہی کے ذریعہ تبلیغ کو وسعت دی جاسکتی ہے.ہم نے تحریک جدید کے کام میں تجربہ کیا ہے کہ تعلیم کا ہتھیار اور علاج کا ہتھیا را کثر جگہ نہایت کامیاب ہوا ہے.اور اشد ترین دشمن جو پہلے نفرت کرتے تھے محبت سے پیش آنے لگ گئے ہیں.اسی طرح یہ بھی فیصلہ کر لینا چاہئے کہ جو طلباء جامعہ کی آخری جماعتوں سے فارغ ہوکر نکلیں اُن کو سلسلہ کی کارکنی کے لئے دوسروں پر ترجیح دی جائے.اس طرح بھی ان جماعتوں کے طلباء کیلئے کام نکل سکے گا اور یہ جماعتیں بند کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے گی.اس فوری بچت کے علاوہ بعض اور اصلاحات بھی میرے ذہن میں ہیں جن پر غور کر لیا جائے.یہ اصلاحات بھی آئندہ چند سال میں جا کر اخراجات میں خاص کمی کر دیں گی.اور موجودہ حالات کے لحاظ سے کام میں بھی ان سے ترقی ہو جائے گی.(۱) مدرسہ احمدیہ کی نسبت میرا ہمیشہ سے یہ خیال رہا ہے اور اب بھی ہے کہ اگر حالات مساعدت کریں تو اس کی جماعتیں شروع سے الگ رہیں تا کہ دین کا خالص ماحول پیدا ہو جائے.اور میں ہمیشہ اس امر پر زور دیتا رہا ہوں کہ اس کی چھوٹی جماعتیں بھی الگ رہیں.لیکن عملاً آکر ایک وقت معلوم ہوئی ہے جس کا حل اس وقت ہمارے پاس نہیں ہے اور وہ یہ کہ مالی دقت کی وجہ سے مدرسہ کا عملہ ہمیشہ ایسا مقرر ہوتا رہا ہے جو حساب بجغرافیہ وغیرہ کی اعلیٰ لیاقت پیدا کرنے کا اہل نہ تھا اور اسی طرح انگریزی کی اعلیٰ تعلیم جس کے نتیجہ میں مبلغ انگریزی لیکچر وغیرہ دے سکیں کبھی نہیں دی گئی اور موجودہ حالت میں نہیں دی جاسکتی.نتیجہ یہ ہوا ہے کہ مدرسہ احمدیہ کے سات سالہ نصاب اور جامعہ کے چارسالہ نصاب کے باوجود ان کی انگریزی اور دنیوی واقفیت بالکل کم ہوتی ہے.دوسری طرف ہائی سکول میں یہ نقص ہوتا ہے کہ اس کے لئے دینیات کا اعلیٰ عملہ مہیا نہیں کیا گیا.جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ وہاں سے طلباء دینیات کی نامکمل تعلیم پا کر نکلتے ہیں.پس ان حالات کو دیکھتے ہوئے ) کہ ابھی ہماری مالی حالت ایسی نہیں کہ دو بوجھ ایک وقت میں اُٹھا سکیں)
خطابات شوری جلد دوم ۳۵۸ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء اُس وقت تک کے لئے کہ اللہ تعالیٰ ہماری مالی حالت کو اچھا کرے، میری تجویز یہ ہے کہ آئندہ انٹرنس پاس طلباء مدرسہ احمدیہ میں داخل کئے جائیں.اور صرف تین سال کا کورس ہو.آئندہ چار سال تک ترتیب کے ساتھ نئی جماعت کا داخلہ روک دیا جائے اس طرح چار سال میں مدرسہ کی تین جماعتیں رہ جائیں گی.اور انٹرنس پاس طلباء لئے جانے شروع ہو جائیں گے.آج سے چار سال بعد انٹرنس پاس طلباء پانچویں جماعت میں داخل کئے جائیں جو آئندہ مدرسہ کی پہلی کلاس ہو گی.تمام دُنیوی علوم جو آب پڑھائے جاتے ہیں وہ اُڑا دیئے جائیں سوائے انگریزی کے جو کالج کی لیاقت کے برابر ہو، جس کے لئے ایک لائق پروفیسر مقرر کیا جائے.اگر کسی وقف کنندہ کو انگلستان میں تعلیم دلائی جائے تو وہ معمولی گزارہ لے کر کام کر سکے گا اور خرچ میں بھی کوئی خاص زیادتی نہ ہوگی.نصاب میں اس امر کو مدنظر رکھا جائے کہ انگریزی میں کم سے کم ایف.اے تک کی لیاقت مولوی فاضل پاس کرنے تک لڑکوں میں پیدا ہو جائے.جو پانچ سال کے تعلیمی عرصہ کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی مشکل امر نہیں صرف اچھے پروفیسر کی ضرورت ہوگی.اس دوران موجودہ عملہ کو دوسری جگہوں میں جذب کرنے کی کوشش کی جائے.اور آہستہ آہستہ جب سب عملہ جذب ہو جائے یا ریٹائرڈ ہو جائے تو یہ بھی کوشش کی جائے کہ مدرسہ کو کالج میں جذب کر دیا جائے اور صرف چار جماعتیں کر دی جائیں یا پانچ ہی رہیں اور شروع سے ہی طب کی تعلیم کو نصاب میں شامل کر لیا جائے.اس تجویز پر عمل کر کے چار سال کے عرصہ تک مدرسوں اور وظائف وغیرہ کی تخفیف سے میں سمجھتا ہوں کا فی تخفیف ہو جائے گی اور چونکہ بنیاد اس تعلیم کی ہائی سکول ہو گا اس کی دینیات کی طرف زیادہ توجہ ہو جائے گی اور یہ زائد فائدہ ہوگا.جیسا میں نے کہا ہے میں دینیات کے ماحول کو بچپن سے شروع کرنا پسند کرتا ہوں.لیکن سر دست مالی مشکلات اور عملہ کی دقتوں کو دور کرنے کا یہ اچھا ذریعہ ہے.اس کے بعد جب حالات درست ہوں ، بالکل ممکن ہے کہ ضروری ماحول ہائی سکول میں ہی پیدا کرنے کی رائج الوقت قانون اجازت دے دے.یا پھر نئے سرے سے مدرسہ کی جماعتیں کھول دی جائیں.چھوٹی جماعتیں ہر وقت آسانی سے کھولی جاسکتی ہیں اس میں
خطابات شوری جلد دوم ۳۵۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء کوئی دقت نہیں ہے.اس تجویز سے یہ بھی فائدہ ہوگا کہ انگریزی تعلیم کی زیادتی کی وجہ سے ان طلباء کو مولوی فاضل کے بعد بی اے کرنے میں دقت نہ ہوگی اور جو سرکاری ملازمتیں کرنا چاہیں گے انہیں اس میں آسانی رہے گی.(۲) آئندہ جو نئے کارکن لئے جائیں وہ حتی الوسع وقف کنندگان میں سے لئے جائیں جو تحریک جدید کی شرائط کے ماتحت اپنے آپ کو پیش کریں.اور اس طرح ایسے بجٹوں سے چھٹکارا حاصل کیا جائے جو با قاعدہ بڑھتے چلے جاتے ہیں.ہاں یہ اصول مدنظر رہنا چاہئے کہ ایک خاص فنڈ ایسے لوگوں کی خاص ضرورتوں کے لئے کھول دیا جائے.جیسے شادی بیاہ ہے، خاص بیماری ہے یا وفات کی صورت میں بچوں کا گزارہ ہے.مکان کی ضروریات ہیں.اور ایسے فنڈ کے لئے مثلاً دس فیصدی سلسلہ کی آمد ریز روفنڈ کے طور پر جمع ہوتی جائے.موجودہ کارکنوں میں بھی اس قسم کے اصول پر کام کرنے کی تحریک کی جائے لیکن جو اپنی خوشی سے اس کے لئے تیار نہ ہوں انہیں مجبور نہ کیا جائے جو پرانے کارکنوں میں سے وقف کریں ، ان کی تنخواہوں میں تنزّل نہ کیا جائے.ہاں آئندہ ترقیات بند کی جائیں اور امداد صرف اس اصل پر دی جائے کہ رقم زیادہ ہو جائے تو بطور خاص بونس یعنی عطیہ کے رقم دی جائے.اگر روپیہ آ گیا تو امداد ملے ورنہ نہیں.ایسے لوگوں کو جو وقف کنندہ نہ ہوں ملا زمت میں توسیع نہ دی جائے.بناوٹ اور نمائش کو بند کرنے کے لئے یہ قاعدہ ہو کہ صرف وہی لوگ وقف کر سکتے ہیں جو ابھی اپنے گریڈ کی انتہاء کو نہیں پہنچے.جو گریڈ کی انتہاء کو پہنچ چکے ہوں ان کے لئے وقف بے معنی ہو جاتا ہے.تحریک جدید کے وقف کنندگان کے لئے زیر تجویز قوانین یہ ہیں :- (۱) ہر غیر شادی شدہ کارکن کو پندرہ روپیہ ماہوار.شادی شدہ کو ہیں اور چار بچوں تک تین روپیہ ماہوار کی زیادتی ہو کر آخری رقم گزارہ کی بتیس روپیہ ہو گی.یہ رقم گریجوایٹ اور غیر گریجوایٹ سب کے لئے یکساں ہوگی.(۲) اگر کسی نفع رساں کام پر کسی وقف کنندہ کو لگایا جائے گا تو علاوہ گزارہ کے نفع میں سے
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء بھی اُسے حصہ دیا جائے گا.(۳) اگر خدانخواستہ کسی وقت اس قدر گزارہ بھی ان کو نہ دیا جا سکے تو حسب وعدہ وقف کنندگان دوسرے کام کر کے اپنے گزارے کریں گے اور جن کو بھی اِس طرح عارضی طور پر فارغ کیا جائے یا مستقل طور پر انہیں کوئی عذر نہ ہوگا.(۴) جولوگ غیر شادی شدہ ہوں گے اُنہیں ایسی صورت میں بغیر خرچ کے پھر کر تبلیغ کرنی ہوگی.(۵) جو شادی شدہ سلسلہ کے کام کے لئے رکھ لئے جائیں گے اُنہیں ایسے ایام میں اس اصول پر کام کرنا ہو گا کہ سائز کا بجٹ تیار ہو کر جو رقم بچے اُسے ان میں بانٹ دیا جائے ، خواہ کس قدر کم رقم ہی کیوں نہ بچے.(۶) اس کے مقابل اگر تحریک کی آمد مستقل پیمانہ پر بڑھ جائے تو انہیں حسب لیاقت و اہمیت خدمت خاص عطیہ ( یعنی بونس ) دیا جائے گا.اس عطیہ کی کمی زیادتی کے بارہ میں بعد میں قوانین تجویز کئے جائیں گے.خاکسار مرزا محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء) ا صحيح بخارى كتاب الرقاق باب التواضع الحجرات: ۱۵ سنن ابو داؤد کتاب الادب باب في المشورة - المائدة : ١٠٦ الحجر : ٨٩ صحیح بخاری کتاب النکاح باب الاكفاء فی الدین.ك الاحزاب : ۵۱ سنن ابو داؤد كتاب السنة باب فى الزوم السنة 2 مشكواة المصابیح باب مناقب ابی بکر.
خطابات شوری جلد دوم ۳۶۱ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء الاصابة في تمييز الصحابة الجز الاوّل صفحه ۳۱۷ مطبع دار الاحياء التراث العربي الطبعة الاولى سنه ۱۳۲۸ه ال طه : ۲۶ تا ۲۹ نوح : ۶۰ نوح : ١٠ العنكبوت :٣ ۱۵ تذکرہ صفحہ ۴۲۹.ایڈیشن چہارم ۱ متنی باب ۲۴ آیت ۴۲ (مفہوماً) كلاه متنی باب ۲۵ آیت ۱ تا ۱۳ ١٨ النور : ٣٦ 19 صحیح بخاری کتاب المغازى باب غزوة تبوك وهي غزوة العسرة - ۲۰ صحیح بخاری کتاب المغازى باب غزوة تبوك وهى غزوة العسرة - ۲۲ تذکرۃ الشہادتین صفحہ ۶۷ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۶۷ ٢٣ البقرة : ٩
خطابات شوریٰ جلد دوم ۳۶۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء ( منعقده ۷ تا ۹ را پریل ۱۹۳۹ء) پہلا دن مجلس مشاورت ۷ تا ۹.اپریل ۱۹۳۹ء تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے وسیع ہال میں منعقد ہوئی.افتتاحی اجلاس چار بجے بعد دو پہر شروع ہوا.تلاوت قرآن مجید کے بعد حضور نے دُعا سے متعلق فرمایا: - پیشتر اس کے کہ مجلس کی کارروائی شروع کی جائے میں چاہتا ہوں کہ سب دوست مل دعا کر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح فیصلوں پر پہنچنے کی توفیق دے اور اپنی محبت اور رضاء کی راہوں پر چلائے.خصوصاً اس امر کے لئے دعا کی جائے کہ ہماری زبانیں جو کچھ دعوے کریں اُس کی نہ صرف ہمارے اعمال سے تائید ہوتی ہو بلکہ ہماری عملی قوت، ہماری زبانوں کے دعاوی سے بہت زیادہ ہو افتتاحی تقریر 66 تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - تاریخ محفوظ کرنے کی ہدایت "سب سے پہلے تو میں ایجنڈا شائع کرنے والوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ایجنڈے کے اوپر اجلاس کے عدد کا بھی ذکر ہونا چاہئے.یعنی نہ صرف یہ بیان ہونا چاہئے کہ یہ فلاں سال کی مجلس مشاورت کا ایجنڈا ہے بلکہ یہ بھی بیان ہونا چاہئے کہ مجلس مشاورت کے اس اجلاس کا فلاں سال ہے کیونکہ یہ امر تاریخ معلوم کرنے میں بہت حد تک مفید ہوتا ہے.اب جو ایجنڈا
خطابات شوری جلد دوم ۳۶۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء شائع ہوا ہے اُس پر صرف اتنا لکھا ہوا ہے کہ ایجنڈا مجلس مشاورت منعقدہ ۷ تا ۹.اپریل ۱۹۳۹ء ' اس سے گو جس سال کا ایجنڈا ہو، اس سال کی مجلس شوری کے پروگرام کا انسان کو علم ہو جاتا ہے مگر یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ مجلس شوری پر کتنے سال گزر چکے ہیں اور یہ اس کا کون سا اجلاس ہے.پندرھواں اجلاس ہے یا سولہواں اجلاس ہے یا سترھواں اجلاس ہے اور اس طرح تاریخ محفوظ نہیں رہتی.پس آئندہ کے لئے ایجنڈا شائع کرنے والوں کو نہ صرف یہ بتانا چاہئے کہ یہ فلاں سال کا ایجنڈا ہے بلکہ یہ بھی بتانا چاہئے کہ مجلس شوری کے اس اجلاس کا فلاں عدد ہے تاکہ ایجنڈا کے ساتھ ہی مجلس شوری کے انعقاد کی تاریخ بھی محفوظ ہوتی چلی جائے.مطالبات تحریک جدید کا خلاصہ جیسا کہ جماعت کے احباب کو معلوم ہوگا اور وہ میرے اُن گزشتہ خطبات سے سمجھ گئے ہوں گے جو تحریک جدید کے موجودہ سال کے متعلق میں نے گزشتہ سال کے آخر یا اس سال کے شروع میں پڑھے ہیں کہ موجودہ زمانہ کی ضروریات کے لحاظ سے میں نے چند امور جماعت کے احباب کے لئے مخصوص کر دیئے ہیں اور میں اپنے خطبات میں مسلسل جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلا رہا ہوں کہ وہ ان امور کو ہمیشہ اپنے مد نظر رکھیں.میرے وہ مطالبات گو بہت سے ہیں مگر ان مطالبات کا خلاصہ چار باتیں ہیں.اوّل.جماعت کے افراد میں عملی زندگی پیدا کرنا ، خصوصاً نو جوانوں کے اندر بیداری اور عملی جوش پیدا کرنا.دوسرے.جماعتی کاموں کی بنیاد بجائے مالی بوجھ کے ذاتی قربانیوں پر زیادہ رکھنا.تیسرے.جماعت میں ایک ایسا فنڈ تحریک جدید کا قائم کر دینا جس کے نتیجہ میں تبلیغ کے کام میں مالی پریشانیاں روک پیدا نہ کر سکیں.چوتھے.جماعت کو تبلیغی کاموں کی طرف پہلے سے بہت زیادہ توجہ دلانا.جس کے لئے میں نے جماعت سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ ہر احمدی سال میں کم از کم ایک نیا احمدی ضرور بنائے.اگر کسی کو اللہ تعالیٰ توفیق دے تو وہ زیادہ احمدی بھی بنا سکتا ہے، لیکن کم سے کم میرا مطالبہ یہ ہے کہ ہر احمدی سال میں ایک نیا احمدی ضرور بنائے.
خطابات شوری جلد دوم ۳۶۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء یہ چار باتیں ایسی ہیں کہ اگر ہماری جماعت ان کی طرف پورے طور پر توجہ کرے تو یقیناً تھوڑے ہی عرصہ میں ایک عظیم الشان تغیر پیدا ہوسکتا ہے.مدتوں سے میری یہ رائے ہے کہ اگر ایک طرف ہماری جماعت کے کاموں کی بنیاد مالی قربانی کی بجائے جانی قربانی پر رکھی جائے تو دوسری طرف مالی قربانی کے اس حصہ کو جو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا مستقل صورت دے دی جائے اور کوئی ایسا فنڈ قائم کر دیا جائے جس کی آمد سے مستقل تبلیغی ضروریات پوری ہوتی رہیں تو تبلیغی میدان میں ہمیں بہت کچھ سہولتیں میسر آ سکتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے کوئی روک ہمارے قدم کو شست نہیں کر سکتی.جانی قربانی کے لئے میں نے وقف زندگی کی تحریک کی واقفین زندگی کی قربانیاں با ہوئی ہے جس کے ماتحت خدا تعالیٰ کے فضل سے نو جوانوں کی ایک اچھی خاصی جماعت نے اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کر دی ہیں.مالی قربانیوں کے لئے ہر سال مالی تحریک کی جاتی ہے جس کے متعلق آخری فیصلہ میں نے یہ کیا ہے کہ مالی قربانی کے ان مطالبات کو دس سال تک ممتد کر دیا جائے.جس میں سے پانچواں سال اب گزر رہا ہے اور پانچ سال ابھی باقی رہتے ہیں.اس عرصہ میں انشاء اللہ تعالیٰ ایک ایسا فنڈ قائم ہو جائے گا جس سے ہماری تبلیغ مالی خطرات سے بالکل آزاد ہو جائے گی اور ملک کی اقتصادی حالت میں جو روزانہ کمی بیشی ہوتی رہتی ہے اور جس کے نتیجہ میں آمد میں اُتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے، اس کے بُرے اثرات سے ہماری جماعت محفوظ ہو جائے گی.جانی قربانی کے سلسلہ میں مبلغین کا ایک جتھا مختلف ممالک میں جا چکا ہے لیکن وہ ایک ایسا جتھا تھا جس کی خاص طور پر تعلیم و تربیت نہیں کی گئی تھی ، بہر حال اس کے ذریعہ ہمیں غیر ممالک کا اچھا خاصہ تجربہ ہو گیا ہے.اس جتھا کے افراد میں بعض کمزوریاں بھی معلوم ہوئی ہیں کیونکہ ان میں اکثر ایسے تھے جو دینی تعلیم سے پوری طرح واقف نہیں تھے.اور اگر کسی کو دینی تعلیم تھی تو دنیوی تعلیم کے لحاظ سے وہ کمزور تھا لیکن بہر حال یہ ایک مظاہرہ تھا جماعتی قربانی کا ، اور یہ ایک مظاہرہ تھا اس بات کا کہ ہماری جماعت کے نوجوانوں میں خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ مادہ پایا جاتا ہے کہ جب بھی خدا تعالی کی آواز ان کے کانوں میں آئے وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اعلاء کلمہ اسلام کے لئے نکل کھڑے ہوتے ہیں.اس.
۳۶۶ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء خطابات شوری جلد دوم مظاہرہ کے ذریعہ دُنیا کے سامنے ہماری جماعت کے نوجوانوں نے اپنے اخلاص کا نہایت شاندار نمونہ پیش کیا ہے لیکن چونکہ کام میں مہارت ایک لمبی تعلیم و تربیت کے نتیجہ میں ہی پیدا ہوسکتی ہے، اس لئے آئندہ کے لئے ان نوجوانوں کی تعلیم کا خاص طور پر انتظام کیا گیا ہے جنہوں نے اس تحریک پر اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کی ہیں.گو کام کے لحاظ سے ہمیں پہلے جتھا کے افراد کی تبلیغی کوششوں کے نتیجہ میں بعض جگہ اتنی کامیابی نہیں ہوئی جتنی کامیابی کی ہمیں توقع تھی مگر پھر بھی بعض جگہ خاصی کامیابی ہوئی ہے.دو شہداء کا ذکر بلکہ قریب ترین عرصہ میں ایک ایسا واقعہ ہوا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری جماعت کے نوجوانوں نے اپنے اخلاص کا نہایت قابلِ رشک مظاہرہ کیا ہے اور وہ یہ کہ ان چھپیں تھیں نوجوانوں میں سے جنہوں نے اپنی زندگیاں وقف کی تھیں ایک نوجوان تھوڑا ہی عرصہ ہوا ، غالباً پندرہ بیس دن یا مہینہ کی بات ہے کہ محض احمدیت کی تبلیغ کی وجہ سے اپنے علاقہ میں مارے گئے ہیں.اس نوجوان کا نام ولی داد تھا اور اس نے اپنی زندگی خدمت دین کے لئے وقف کی ہوئی تھی افغانستان کے علاقہ میں ہم نے انہیں تبلیغ کے لئے بھجوایا تھا.کچھ طب بھی جانتے تھے اور معمولی امراض کے علاج کے لئے دوائیاں اپنے پاس رکھتے تھے.کچھ مدت تک ہم انہیں خرچ بھی دیتے رہے مگر پھر ہم نے انہیں خرچ دینا بند کر دیا تھا.اُن کی اپنی بھی یہی خواہش تھی اور میں نے بھی انہیں یہی مشورہ دیا تھا کہ اس علاقہ میں طب شروع کر دیں اور آہستہ آہستہ جب لوگ مانوس ہو جائیں تو اُنہیں تبلیغ احمدیت کی جائے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے انہیں ایسے مواقع بہم پہنچا دیئے کہ اُنہوں نے اس علاقہ میں لوگوں کو تبلیغ کرنی شروع کر دی.گھلی تبلیغ سے تو ہم نے خود انہیں روکا ہوا تھا کیونکہ یہ وہاں قانون کے خلاف ہے.آہستہ آہستہ وہ تبلیغ کیا کرتے اور لوگوں کو نصیحت کیا کرتے کہ جب کبھی پنجاب میں جایا کرو تو قادیان بھی دیکھ آیا کرو.رفتہ رفتہ جب لوگوں کو معلوم ہو گیا کہ یہ احمدی ہے تو اُنہوں نے گھر والوں پر زور دینا شروع کر دیا کہ تمہیں اس فتنہ کے انسداد کا کوئی خیال نہیں تمہارے گھر میں کفر پیدا ہو گیا ہے اور تم اس سے غافل ہو.چنانچہ انہیں اس قدر برانگیختہ کیا گیا کہ وہ قتل کے درپے ہو گئے.مولوی ولی دادخان چند دن پہلے ہندوستان میں بعض دوائیاں خریدنے کے لئے آئے ہوئے تھے.جب دوائیاں
خطابات شوری جلد دوم ۳۶۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء خرید کر اپنے علاقہ کی طرف گئے تو انہیں کے چچا زاد بھائی اور سالہ نے ان پر گولیوں کے متواتر تین چار فائر کر کے انہیں شہید کر دیا.اسی طرح ایک اور نوجوان جو اس تحریک کے ماتحت چین میں گئے تھے وہ بھی فوت ہو گئے ہیں اور گوان کی وفات طبعی طور پر ہوئی ہے مگر ایسے رنگ میں ہوئی ہے کہ وہ موت اپنے اندر شہادت کا رنگ رکھتی ہے.چنانچہ تھوڑا ہی عرصہ ہوا مجھے ایسے حالات معلوم ہوئے جن سے پتہ لگتا ہے کہ واقعہ میں اُس کی موت معمولی موت نہیں بلکہ شہادت کا رنگ لئے ہوئے ہے.اس نوجوان نے بھی ایسا اخلاص دکھایا جو نہایت قابل قدر ہے.سب سے پہلے ۱۹۳۴ء میں جب میں نے یہ تحریک کی اور اعلان کیا کہ نو جوانوں کو غیر ممالک میں نکل جانا چاہئے تو یہ نو جوان جو غالباً دینیات کی متفرق کلاس میں پڑھتا تھا اور عدالت خان اس کا نام تھا، تحصیل خوشاب ضلع شاہ پور کا رہنے والا تھا، میری اس تحریک پر بغیر اطلاع دیئے کہیں چلا گیا.قادیان کے لوگوں نے خیال کر لیا کہ جس طرح طالب علم بعض دفعہ پڑھائی سے دل برداشتہ ہو کر بھاگ جایا کرتے ہیں اسی طرح وہ بھی بھاگ گیا ہے.مگر دراصل وہ میری اس تحریک پر ہی باہر گیا تھا مگر اس کا اس نے کسی سے ذکر تک نہ کیا.چونکہ ہمارے ہاں عام طور پر صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید اور دوسرے شہداء کا ذکر ہوتا رہتا ہے اس لئے اُسے یہی خیال آیا کہ میں بھی افغانستان جاؤں اور لوگوں کو تبلیغ کروں.اُسے یہ بھی علم نہیں تھا کہ غیر ملک میں جانے کے لئے پاسپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ اُسے پاسپورٹ مہیا کرنے کے ذرائع کا علم تھا.وہ بغیر پاسپورٹ لئے نکل کھڑا ہوا اور افغانستان کی طرف چل پڑا.جب افغانستان میں داخل ہوا تو چونکہ وہ بغیر پاسپورٹ کے تھا اس لئے حکومت نے اُسے گرفتار کر لیا اور پوچھا کہ پاسپورٹ کہاں ہے؟ اُس نے کہا کہ پاسپورٹ تو میرے پاس کوئی نہیں.انہوں نے اسے قید کر دیا مگر جیل خانہ میں بھی اُس نے قیدیوں کو تبلیغ کرنی شروع کر دی.کوئی مہینہ بھر ہی وہاں رہا ہوگا کہ افسروں نے رپورٹ کی کہ اسے رہا کر دینا چاہئے ورنہ یہ قیدیوں کو احمدی بنالے گا.چنانچہ انہوں نے اس کو ہندوستان کی سرحد پر لاکر چھوڑ دیا.جب وہ واپس آیا تو اُس نے مجھے اطلاع دی کہ میں آپ کی تحریک پر افغانستان گیا تھا اور وہاں میرے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا.اب آپ بتائیں
۳۶۸ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء خطابات شوری جلد دوم کہ میں کیا کروں؟ میں نے اُسے کہا کہ تم چین میں چلے جاؤ.چنانچہ وہ چین گیا اور چلتے وقت اُس نے ایک اور لڑکے کو بھی جس کا نام محمد رفیق ہے اور ضلع ہوشیار پور کا رہنے والا ہے تحریک کی کہ وہ ساتھ چلے.چنانچہ وہ بھی ساتھ تیار ہو گیا.اُس کے چونکہ رشتہ دار موجود تھے اور بعض ذرائع بھی اسے میسر تھے اس لئے اُس نے کوشش کی اور اسے پاسپورٹ مل گیا.جس وقت یہ دونوں کشمیر پہنچے تو محمد رفیق تو آگے چلا گیا مگر عدالت خاں کو پاسپورٹ کی وجہ سے روک لیا گیا اور بعد میں گاؤں والوں کی مخالفت اور راہ داری کی تصدیق نہ ہو سکنے کی وجہ سے وہ کشمیر میں ہی رہ گیا اور وہاں اس انتظار میں بیٹھ رہا کہ اگر مجھے موقع ملے تو میں نظر بچا کر چین چلا جاؤں گا مگر چونکہ سردیوں کا موسم تھا اور سامان اُس کے پاس بہت کم تھا اس لئے کشمیر میں اسے ڈبل نمونیہ ہو گیا اور دو دن بعد فوت ہو گیا.ابھی کشمیر سے چند دوست آئے ہوئے تھے اُنہوں نے عدالت خاں کا ایک عجیب واقعہ سنایا جسے سن کر رشک پیدا ہوتا ہے کہ احمدیت کی صداقت کے متعلق اسے کتنا یقین اور وثوق تھا.وہ ایک گاؤں میں بیمار ہوا تھا جہاں کوئی علاج میسر نہ تھا.جب اس کی حالت بالکل خراب ہو گئی تو اُن دوستوں نے سنایا کہ وہ ہمیں کہنے لگا کسی غیر احمدی کو تیار کرو جو احمدیت کی صداقت کے متعلق مجھ سے مباہلہ کر لے.اگر کوئی ایسا غیر احمدی تمہیں مل گیا تو میں بچ جاؤں گا اور اُسے تبلیغ بھی ہو جائے گی ورنہ میرے بچنے کی اور کوئی صورت نہیں.شدید بیماری کی حالت میں یہ یقین اور وثوق بہت ہی کم لوگوں کو میسر ہوتا ہے کیونکہ ننانوے فیصدی اس بیماری سے مر جاتے ہیں اور بعض تو چند گھنٹوں کے اندر ہی وفات پا جاتے ہیں.ہماری مسجد مبارک کا ہی ایک موذن تھا وہ عصر کے وقت بیمار ہوا اور شام کے وقت فوت ہو گیا.ایسی خطرناک حالت میں جبکہ اُس کی موت یقینی کا ننانوے فیصدی یقین کیا جا سکتا تھا اُس نے اپنا علاج یہی سمجھا کہ کسی غیر احمدی سے مباہلہ ہو جائے اور اُس نے کہا کہ اگر مباہلہ ہو گیا تو یقیناً خدا مجھے شفا دے دے گا اور یہ ہو نہیں سکتا کہ میں اس مرض سے مرجاؤں.بہر حال اس واقعہ سے اُس کا اخلاص ظاہر ہے.اسی طرح اُس کی دوراندیشی بھی ثابت ہے کیونکہ اُس نے ایک اور نوجوان کو خود ہی تحریک کی کہ میرے ساتھ چلو اور وہ تیار ہو گیا.اس طرح گو عدالت خاں فوت ہو گیا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے اُس کے بیج کو ضائع
۳۶۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء خطابات شوری جلد دوم نہیں کیا بلکہ ایک دوسرے شخص نے جسے وہ اپنے ساتھ لے گیا تھا احمدیت کے جھنڈے کو پکڑ کر آگے بڑھنا شروع کر دیا اور مشرقی شہر کاشغر میں پہنچ گیا اور وہاں تبلیغ شروع کر دی.نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں کے ایک دوست کو اللہ تعالیٰ نے احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرما دی.حاجی جنود اللہ صاحب اُن کا نام ہے.وہ اسی تبلیغ کے نتیجہ میں قادیان آئے اور تحقیق کر کے احمدیت میں شامل ہو گئے.پھر کچھ عرصہ بعد حاجی جنود اللہ صاحب کی والدہ اور ہمشیرہ بھی احمدی ہو گئیں اور اب تو وہ قادیان ہی آئے ہوئے ہیں.تو عدالت خاں کی قربانی رائیگاں نہیں گئی بلکہ احمدیت کو اس علاقہ میں پھیلانے کا موجب بن گئی.یہ ایک ایسا علاقہ ہے جس میں احمدیت کی اشاعت کا خیال بھی نہیں کیا جاسکتا تھا.ایسے ایسے خطرناک اور دشوار گزار رستے ہیں کہ اُن کو عبور کرنا ہی بڑی ہمت کا کام ہے.حاجی جنود اللہ صاحب کی والدہ نے بتایا کہ رستہ میں ایک مقام پر وہ تین دن تک برف پر گھٹنوں کے بل چلتی رہیں.ایسے سخت رستوں کو عبور کر کے ہماری جماعت کے ایک نوجوان کا اُس علاقہ میں پہنچنا اور لوگوں کو تبلیغ کرنا بہت بڑی خوشی کی بات ہے.تو تحریک جدید کے ما تحت اللہ تعالیٰ نے عدالت خاں کو پہلے یہ توفیق دی کہ وہ افغانستان جائے چنانچہ وہ افغانستان میں کچھ عرصہ رہا اور جب وہ واپس آیا تو میری تحریک پر وہ چین کے لئے روانہ ہو گیا اور خود ہی ایک اور نوجوان کو اپنے ساتھ شامل کر لیا.راستہ میں عدالت خاں کو خدا تعالیٰ نے شہادت کی موت دے دی مگر اُس کے دوسرے ساتھی کو اس امر کی توفیق عطا فرمائی کہ وہ آگے بڑھے اور مشرقی ترکستان میں جماعت احمدیہ قائم کر دے.یہ دو واقعات شہادت بتاتے ہیں کہ گو یہ اپنی جدوجہد میں کامیاب نہیں ہوئے مگر ان کی کوششیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول تھیں.چنانچہ ان دو آدمیوں میں سے ایک کو تو اللہ تعالیٰ نے عملی رنگ میں شہادت دے دی اور دوسرے کی وفات ایسے رنگ میں ہوئی جو شہادت کے ہمرنگ ہے.اب جو نیا گروہ تیار ہو رہا ہے اسے دینی تعلیم دلوائی جا رہی ہے.جب یہ تعلیم مکمل ہو جائے گی تو بعض بیرونی ممالک میں انہیں دنیوی تعلیم دلائی جائے گی کیونکہ جیسا کہ گزشته مجلس مشاورت کے موقع پر میں نے بیان کیا تھا میرا ارادہ ہے کہ ان لوگوں کو اگر ہم گزارے کم دیتے ہیں تو علمی طور پر ہم ان کے اندر اس قد ر لیاقت اور قابلیت پیدا کر دیں
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء کہ دنیا کی کسی علمی مجلس میں بیٹھ کر وہ اپنے آپ کو کم علم والا محسوس نہ کریں.اور اگر روپیہ کے لحاظ سے ان کے پاس کمی ہو تو لیاقت اور قابلیت اور علم کے لحاظ سے ان کے پاس اِس قدر فراوانی ہو کہ کوئی شخص انہیں ذلیل نہ سمجھ سکے اور ہر جگہ وہ اپنا رُعب قائم رکھ سکیں.تحریک جدید کا مستقل فنڈ باقی رہا روپے کا معاملہ، سو جہاں تک وعدوں کا سوال ہے جماعت نے اس سال پہلے سالوں سے زیادہ تحریک جدید کے مالی مطالبہ کی طرف توجہ کی ہے.اور باوجود یکہ بہت سے لوگ اس نیت اور اس ارادہ سے اس تحریک میں شامل ہوئے تھے کہ تین سال کے بعد یہ تحریک بند ہو جائے گی اور مالی بوجھ ان پر زیادہ دیر تک نہیں رہے گا اور باوجود اس بات کے کہ میں نے اب یہ اعلان کر دیا ہے کہ دس سال تک جماعت کو مسلسل یہ مالی قربانی کرنی پڑے گی اور یہ کہ وہی اس تحریک میں شامل ہوں جو مستقل طور پر قربانی کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں تا کہ اس دائمی یادگار میں اُن کا نام آئے جو مسلسل قربانی کرنے والوں کی یاد میں قائم کی جائے گی پھر بھی بجائے کمی کے وعدوں میں زیادتی ہوئی ہے.چنانچہ اس وقت تک ایک لاکھ پچیس ہزار روپیہ کے وعدے ہو چکے ہیں اور ابھی بیرونی ممالک کی اکثر جماعتوں کے وعدے نہیں پہنچے اُن کو ملا کر یہ رقم اور بھی زیادہ ہو جائے گی.جیسا کہ میں کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں اس روپیہ سے تحریک جدید کا ایک ایسا مستقل فنڈ ہم نے قائم کرنا ہے جس کے نتیجہ میں آئندہ تحریک جدید کا شعبہ چندے کا محتاج نہیں رہے گا.وقتی یا ہنگامی ضرورت کے لئے اگر کوئی چندہ کرنا پڑے تو وہ اور بات ہے.اس فنڈ کے قائم کرنے سے میرا منشاء یہ ہے کہ روزانہ کام کے لئے چندوں کی ضرورت نہ رہے اور اس فنڈ کی آمد سے ہی تمام کام ہوتا رہے تا کہ ہمارے ملک کا اقتصادی اُتار چڑھاؤ تبلیغ کے کام میں روک پیدا نہ کر سکے.- خدام الاحمدیہ کی کامیابی عملی حصہ کے متعلق میں نے خدام الاحمدیہ کی تحریک جماعت میں جاری کی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس تحریک کو بہت بڑی کامیابی حاصل ہو رہی ہے.قادیان میں خصوصاً اچھا کام ہو رہا ہے باہر بھی بعض جگہ مجالس خدام الاحمد یہ اچھا کام کر رہی ہیں.مگر چونکہ ابھی وہ پورے طور پر منظم نہیں ہیں اور دوسرے پورے طور پر انہیں تجربہ بھی حاصل نہیں اس لئے اس عمدگی سے بیرونی جماعتوں
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء میں کام نہیں ہو رہا جس عمدگی سے قادیان میں ہو رہا ہے.میرا منشاء ہے کہ قادیان کے خدام الاحمدیہ جب وہ تمام سبق ذہن نشین کر لیں جو میں ان کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں اور ان کو اس تحریک کی تمام جزئیات کا علم ہو جائے تو انہیں انسپکٹر بنا کر باہر کے علاقوں میں بھیجا جائے تاکہ وہ مہینہ مہینہ دو دو مہینے وہاں رہ کر مجالس خدام الاحمدیہ کو بیدار کریں اور اُنہیں اُن نقائص کو دُور کرنے کی طرف توجہ دلائیں جو اُن میں پیدا ہوں.جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس کام کی طرف جماعت کو توجہ ہے إِلَّا مَا شَاءَ الله بعض جماعتوں نے ابھی اس طرف توجہ نہیں بھی کی مگر عام طور پر خدام الاحمدیہ کی تحریک کی طرف جماعت کو توجہ ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کے نتائج نہایت اچھے پیدا ہورہے ہیں.اگر میری اس سکیم پر جو میں نے خدام الاحمدیہ کے سامنے پیش کی ہے پورے طور پر عمل کیا گیا تو احمدیت کا دنیا کے سامنے ایک خوشنما نقشہ آ جائے گا جسے دیکھ کر ہر شخص احمدیت کی فضیلت اور اس کی خوبیوں اور برتری کا اقرار کرنے پر مجبور ہوگا.تبلیغ احمدیت اور ہمارا مقصد چوتھی چیز تبلیغ احمدیت ہے اس کے متعلق میں نے جماعت سے وعدے مانگے ہیں اور میں نے مطالبہ کیا ہے کہ ہر شخص ہمیں بتائے کہ وہ سال میں کتنے نئے احمدی بنائے گا.اس کے متعلق ابھی تمام جماعتوں کی طرف سے وعدے نہیں آئے ، لیکن آہستہ آہستہ آرہے ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ جن جماعتوں یا افراد نے ابھی تک اس طرف توجہ نہیں کی وہ فوری طور پر توجہ کریں گے اور محکمہ متعلقہ کو اپنے اپنے وعدوں کی اطلاع دے دیں گے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعتیں اس مطالبہ کی طرف توجہ کریں تو ایک سال میں عظیم الشان تغیر پیدا ہو سکتا ہے.اگر ہر احمدی لازماً ہر سال ایک نیا احمدی بنائے اور اس میں کسی قسم کی شستی اور غفلت کو روانہ رکھے تو چار پانچ سال کے اندر ہی ہماری جماعت اتنی زیادہ تعداد میں پھیل سکتی ہے کہ دشمن کی نگاہیں بغض اور غصہ سے ہمیں نہیں دیکھ سکتیں.مگر یاد رکھنا چاہئے کہ ہمیں محض اتنی چھوٹی سی بات کی وجہ سے تبلیغ نہیں کرنی چاہئے کہ ہم دشمن کے ضرر سے بچ جائیں گے بلکہ ہمارے مد نظر ہمیشہ یہ امر رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو، یہی ہمارا اصل مقصود ہے اور اس مقصد کو ہمیشہ ہمیں اپنے مد نظر رکھنا چاہئے.محض یہ خیال کہ تبلیغ کے نتیجہ
۳۷۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء خطابات شوری جلد دوم میں ہم دشمن کے حملہ سے محفوظ ہو جائیں گے کوئی اعلیٰ خیال نہیں.مومن کا فرض ہے کہ وہ ہر کام کے کرتے وقت اعلی نیتیں اور اعلیٰ ارادے پیدا کرے اور ہما را اعلیٰ مقصد یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی محبت لوگوں کے دلوں میں پیدا کریں اور بندوں کا خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر دیں اور یہی مقصد ہمیں تبلیغ میں بھی مد نظر رکھنا چاہئے.میں نے پچھلے سالوں میں متواتر جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ دُنیا میں عظیم الشان تغیرات قریب ترین عرصہ میں رونما ہونے والے ہیں، بلکہ اسی مجلس شوری کے ایک اجلاس میں چند سال ہوئے میں نے کہا تھا کہ دس سال کے اندر اندر اس بات کا فیصلہ ہو جانے والا ہے کہ کون سی قوم زندہ رہے اور کس کا نام ونشان مٹ جائے.اور اب آپ لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ دُنیا کس طرح عظیم الشان تغیرات کے قریب تر ہوتی چلی جارہی ہے، یہاں تک کہ یورپ کے لوگ بھی اب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اگر جنگ ہوئی تو موجودہ یورپ بالکل تباہ ہو جائے گا.اور اس میں کیا شبہ ہے کہ جب یورپ تباہ ہو گیا تو پھر نئی طاقتیں پیدا ہوں گی اور نئی حرکتیں ظہور میں آئیں گی اور ان نئی حرکتوں اور نئی طاقتوں کے ظہور کے وقت احمدیت کی ترقی کے لئے اللہ تعالیٰ ایک نیا راستہ پیدا کرے گا کیونکہ جب عمارتیں گرائی جاتی ہیں تو ان کی جگہ نئی عمارتیں بنائی بھی جاتی ہیں.پس ہمارے لئے آج بہت ہی نازک وقت ہے.باقی قوموں کے لئے اتار چڑھاؤ کا سوال ہے.اُن کے لئے صرف اتنا ہی سوال ہے کہ وہ بڑھیں گے یا گھٹیں گے کیونکہ جس طرح دن کے بعد رات اور رات کے بعد دن آتا ہے، اسی طرح ان قوموں کی زندگی میں اُتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے.مگر ہمارے لئے اُتار چڑھاؤ کا سوال نہیں بلکہ زندگی اور موت کا سوال ہے.جو قومیں ایک دفعہ ترقی کر چکیں اُن کے لئے تنزل کا خیال بھی آجاتا ہے اور جو قو میں تنزل میں گری ہوئی ہوں اُن کے لئے یہ سوال ہوتا ہے کہ وہ کس طرح ترقی کریں.اور جو قو میں ترقی کر رہی ہوں ان کے لئے یہ سوال ہوتا ہے کہ وہ کس طرح پہلی ترقی سے بھی زیادہ ترقی حاصل کریں.غرض مختلف قوموں کے سامنے مختلف سوالات ہوتے ہیں مگر ہمارا کام بالکل نیا ہے.وہ کسی بنی بنائی چیز پرمبنی نہیں کہ اگر اس میں تغیر ہوا تو ہمارے اندر بھی تغیر آ جائے گا بلکہ ہم
۳۷۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء خطابات شوری جلد دوم نے ایک نئی دنیا بسانی ہے، ہم نے ایک نیا آسمان بنانا اور ایک نئی زمین بنانی ہے.اور اس کے لئے وقت یہی مقرر ہے جس میں سے ہم گزر رہے ہیں.باقی قو میں ایک ہزار سال بھی اپنی ترقی کے لئے اور انتظار کر سکتی ہیں کیونکہ ان کے ساتھ خدا تعالیٰ کا یہ کوئی وعدہ نہیں کہ اُنہوں نے اسی زمانہ میں ترقی کرنی ہے.جرمنی جو یہ خواہش رکھتا ہے کہ اس کا غلبہ تمام دنیا پر ہو جائے اور دُنیا کی غالب حکومت جرمنی کی حکومت ہی سمجھی جائے اُس کے لئے یہ کوئی مقدر نہیں کہ وہ چالیس یا پچاس سال کے اندر غلبہ پائے گی.ہوسکتا ہے وہ آج کامیاب نہ ہومگر ہزار سال کے بعد کامیاب ہو جائے.اٹلی جو اس امر کے لئے جدو جہد کر رہا ہے کہ وہ اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو حاصل کرے، اس کی جد و جہد اگر آج ناکام رہتی ہے تو اس کے لئے ترقی کا راستہ بند نہیں ہوتا اور کوئی وجہ نہیں کہ اگر آج وہ ناکام ہو تو آج سے چار سو یا پانچ سو سال کے بعد اپنے مقصود کو حاصل نہ کر سکے.یہی حال انگلستان کا ہے.اگر آج جرمنی اور اٹلی والے انگلستان والوں کو دبا لیتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ پچاس یا ساٹھ یا سو سال کے بعد پھر جرمنی اور اٹلی پر وہ غالب نہ آجائیں کیونکہ ان کی ترقی کا کوئی زمانہ معتین نہیں.وہ آج بھی ترقی کر سکتے ہیں اور آج سے دو سو یا چار سو یا پانچ سو سال کے بعد بھی کر سکتے ہیں.روحانی غلبہ اور ہماری ذمہ داری دُنیا میں صرف ایک ہی جماعت ایسی ہے جس کے لئے ترقی کا ایک زمانہ مقرر ہو چکا ہے اور وہ تم ہو.تمہارے لئے نہ صرف یہ مقدر ہو چکا ہے کہ تمہارے ذریعہ دُنیا میں ایک عظیم الشان تغیر پیدا ہوگا بلکہ اس کے ساتھ ہی ایک اہم بات یہ ہے کہ تمہارے لئے ترقی کا یہی وقت مقرر ہے.اگر تم اس وقت سے آگے پیچھے ہو جاتے ہو تو تمہارے لئے ترقی کا اور کوئی وقت نہیں.کیونکہ انبیاء کی جماعتیں اُسی زمانہ میں ترقی کیا کرتی ہیں جو زمانہ نبوت کے قریب تر ہوتا ہے.بے شک دُنیوی غلبہ بعد میں بھی حاصل ہوتا رہتا ہے مگر تمام دنیا پر روحانی غلبہ انبیاء کی بعثت کے محدود عرصہ کے بعد ہی ہو جاتا ہے، جو سو سوا سو یا ڈیڑھ سو سال کا عرصہ ہوتا ہے.اس کے بعد دنیوی غلبے کا زمانہ آتا ہے، بڑی بڑی حکومتیں آتی ہیں، شاندار فوجیں تیار ہوتی ہیں، عظیم الشان مجالس منعقد ہوتی ہیں، بادشاہ اور حکام اُس سلسلہ میں
خطابات شوری جلد دوم ۳۷۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء داخل ہوتے ہیں، مگر روحانی غلبے اور روحانی شان وشوکت کا وہ زمانہ نہیں ہوتا.پس ہماری اس قسم کی ترقی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کے قُرب کے ساتھ مخصوص ہے جب تک اس قریب زمانہ میں ہم دُنیا میں ایک روحانی تغیر پیدا نہ کر دیں گے اور جب تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی لائی ہوئی تعلیم کو ہم اس عرصہ میں دُنیا کے قلوب میں راسخ نہیں کر دیں گے اُس وقت تک ہمیں حقیقی کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ کو بھی ہم دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اُس زمانہ میں صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے عہد کو ہی مبارک سمجھا جاتا تھا.یہ نہیں ہوتا تھا کہ کہہ دیا جاتا تنبع تبع تابعین، یا تبع تبع تبع تابعین.دُنیا کے تمام رشتوں میں بھی یہ دستور ہے کہ دادا، بیٹا، پوتا، یا دادا، بیٹا ، پوتا اور پڑپوتا ، اس سے آگے سلسلہ نہیں چلاتے.اس کے معنے یہی ہوتے ہیں کہ اس قسم کے تعلقات ایک حد تک چل کر کمزور ہو جاتے ہیں.دس سال کے پوتے یا پڑ پوتے کے دل میں جو محبت دادے یا پر دادے کی ہوتی ہے، اس سے بہت زیادہ محبت اس کے دل میں اپنے ہمسائے کی ہوتی ہے.تو صحابہ تابعین اور تبع تابعین کے زمانہ کو ہی ترقی کا زمانہ سمجھا جاتا ہے.اب ہمارے اوپر بھی تابعین کا زمانہ گزر رہا ہے، کیونکہ اب صحابی کم ہیں، اور تابعین زیادہ اور آج سے چالیس پچاس سال کے بعد تابعی کم ہو جائیں گے، اور تبع تابعین زیادہ ہو جائیں گے.اور ان تبع تابعین کے بعد جو لوگ آئیں گے وہ کسی اعداد و شمار میں نہیں ہوں گے.وہ بے شک احمدی کہلائیں گے مگر اُن کا کوئی ایسا مقام نہیں ہو گا کہ ہم اُن کا نام خاص طور پر رکھیں.ہم خاص طور پر انہی کا نام رکھتے ہیں جنہوں نے رسول کی محبت اُٹھائی ہوئی ہو، یا خاص طور پر ہم اُن کا نام رکھتے ہیں جنہوں نے صحابہ کی صحبت اُٹھائی ہو.ان میں سے ایک گروہ کو ہم صحابہ کہتے ہیں تو دوسرے کو تابعین جن کا قرآن کریم میں بھی والّذينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ میں ذکر آتا ہے.گویا اصل گروہ صحابہ اور تابعین کا ہی ہے لیکن اس کے بعد اعزازی طور پر ان لوگوں کا بھی نام رکھ دیا جاتا ہے جنہوں نے تابعین کی صحبت اُٹھائی اور اُنہیں تبع تابعین کہہ دیا جاتا ہے.مگر بہر حال اس سلسلہ کو ہم لمبا نہیں چلاتے اور یہ نہیں کرتے کہ پانچ پانچ ، چھ چھ پشت تک لوگوں کے نام رکھتے چلے جائیں، بلکہ تین تک تو ہم نام رکھتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ
خطابات شوری جلد دوم اب سب عام مسلمان ہیں.، ۳۷۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء اور یہ امر تو ظاہر ہی ہے کہ خاص قربانیاں خاص ناموں والوں سے ہی تعلق رکھا کرتی ہیں.جن کو خاص نام ملتا ہے ان کو خاص کام بھی کرنے پڑتے ہیں، اور جن کو خاص نام نہیں ملتا، ان کا خاص کام بھی نہیں ہوتا.بے شک بعد میں مسلمانوں کی زیادتی کی وجہ سے لوگوں کے کام بڑے نظر آتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں وہ کام بڑے نہیں ہوتے.ایک عمارت جو ہمیں آدمی مل کر بنا سکتے ہوں اُسے اگر ایک آدمی بنا دے تو اُس کی بہت زیادہ تعریف کی جائے گی اور اگر ہیں کی بجائے پانچ آدمی بنا دیں تو اُن کی بھی تعریف تو کی جائے گی مگر پہلے سے کم.اور اگر دس آدمی اس عمارت کو بنا ئیں تو وہ بھی تعریف کے مستحق ہوں گے لیکن دوسروں سے کم درجہ پر.لیکن اگر وہ عمارت جسے ہیں آدمی بنا سکتے ہوں اُسے پچیس آدمی مل کر بنا ئیں تو کیا تم سمجھتے ہو ان چھپیس کی تعریف کی جائے گی؟ دس آدمی تو اگر اپنے کام کا ذکر کریں گے تو اس پر کوئی ان کی تعریف کرے گا لیکن اگر بیس کی بجائے چھپیں آدمی یا تھیں آدمی اُس عمارت پر لگ جائیں اور پھر کہیں کہ دیکھا ! ہم نے کتنی جلدی عمارت بنائی؟ تو ہر شخص انہیں کہے گا کہ تم نے کون سا کام کیا، یہ تو ہمیں آدمیوں کا کام تھا جو تم چھپیس نے کیا پس تم تعریف کے نہیں بلکہ مذمت کے مستحق ہو.اسی طرح بظاہر بعد میں آنے والے لوگ بڑے بڑے کام کرتے ہیں مگر ان کاموں کے کرنے والے بھی زیادہ ہوتے ہیں، پھر ان کے پاس سامان بھی زیادہ ہوتے ہیں اور گردو پیش کے حالات بھی ان کی تائید میں ہوتے ہیں.پس گو بظاہر ان کا کام بڑا نظر آتا ہے مگر چونکہ سامان اور اعداد وشمار کے لحاظ سے انہیں زیادتی حاصل ہوتی ہے اس لئے نسبتی طور پر وہ ادنی سمجھے جاتے ہیں اور جنہوں نے پہلے کام کیا ہوتا ہے وہ اعلیٰ سمجھے جاتے ہیں.اگر ایک ہزار آدمی مل کر دو من بوجھ اُٹھاتے ہیں اور اس کے مقابلہ میں ایک بچہ من بوجھ اُٹھا لیتا ہے تو کیا ان ہزار لوگوں کی تعریف کی جائے گی جنہوں نے دومن بوجھ اُٹھایا ؟ یا اس بچہ کی تعریف کی جائے گی جس نے من بوجھ اُٹھایا ؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دو من وزن زیادہ ہے اور من تھوڑا.مگر جب تعریف کا وقت آئے گا تو اُسی کی کی جائے گی جس نے اکیلے ایک من بوجھ اُٹھا لیا، اُن کی تعریف نہیں کی جائے گی جنہوں نے بہت زیادہ ہو کر دومن بوجھ اُٹھایا.بلکہ ہر کوئی ان پر
خطابات شوری جلد دوم ہنسے گا اور کہے گا کہ یہ پاگل تھے جنہوں نے ہزار ہو کر دومن بوجھ اُٹھایا.مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء تو آئندہ زمانہ میں بڑی بڑی حکومتیں اقتدار اور غلبہ کے دور میں کام کی حیثیت آئیں گی، دوسری طاقتوں پر انہیں غلبہ واقتدار حاصل ہوگا اور وہ جب چاہیں گی ان کو توڑ کر رکھ دیں گی.پھر اُن کے کام کے ذرائع وسیع ہوں گے اور وہ بغیر کوئی تکلیف محسوس کئے تمام کام کرتے چلے جائیں گے.مگر بہر حال صحابہ، تابعین، تبع تابعین کے مقابلہ میں اُن کے کاموں کی کوئی نسبت نہیں ہوگی کیونکہ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں جو کام غیر معمولی نظر آتے ہیں وہ بعد میں سامانوں کی کثرت اور قومی روح پیدا ہو جانے کی وجہ سے نہایت معمولی دکھائی دیتے ہیں کیونکہ جوں جوں دین ترقی کرتا چلا جاتا ہے قومی روح بھی ساتھ ہی ترقی کرتی چلی جاتی ہے اور صرف دین کا جوش ہی ان کے اندر قوت عمل پیدا نہیں کرتا بلکہ قومی روح بھی ان کے اندر ایک عزم اور ارادہ پیدا کر دیتی ہے.چنانچہ جب اسلام نے عرب سے نکل کر ایران میں ترقی کی تو اسیران کے لوگوں میں صرف اسلامی جوش ہی پیدا نہ ہوا بلکہ ایرانیت کی روح بھی ان کے اندر پیدا ہو گئی.وہ اگر اپنے گر دو پیش کے علاقوں پر حملے کرتے تھے تو صرف اس لئے حملے نہیں کرتے تھے کہ اسلامی عظمت قائم کریں بلکہ اس لئے بھی حملے کرتے تھے کہ ایران کی عظمت قائم کریں اور چونکہ وہ مسلمان تھے اس لئے ایران کی عظمت کے اضافہ کے معنے مسلمانوں کی عظمت میں اضافہ کے بن گئے.اسی طرح ہندوستان میں خلجی اور لودھی خاندانوں نے اسلام کے عروج کے لئے جو کام کئے ان کا واحد مقصد اسلام کو غالب کرنا نہیں تھا بلکہ خلجی اور لودھی عظمت کو ہندوستان میں قائم کرنا بھی تھا.پس مسلمانوں کے غلبہ اور اقتدار کے زمانہ میں جو شخص بھی کوئی کام کر رہا تھا وہ خالص اسلامی روح کے ماتحت کام نہیں کر رہا تھا بلکہ کوئی اسلام کے ساتھ خلجی خاندان کی عظمت قائم کرنے کی کوشش کر رہا تھا، کوئی لودھی خاندان کی عظمت قائم کرنے کی کوشش کر رہا تھا ، کوئی ایرانی عظمت کو قائم کرنے کی کوشش کر رہا تھا.اسی طرح کہیں برمی روح کام کر رہی تھی، کہیں مصری روح لوگوں کے اندر داخل تھی ، کہیں سپینش روح ان کے اندر موجزن تھی اور کہیں فلسطینی روح اُن میں موجود تھی.گویا خدا تعالیٰ کے حضور مسلمانوں کی طرف سے بعد میں بھی نذریں پیش کی جاتی رہیں مگر وہ نذر
خطابات شوری جلد دوم ۳۷۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء خالص خدا کی نہیں تھی بلکہ اس نذر میں بتوں کا بھی اشتراک تھا اور اسلام کی فتوحات خالص اسلامی فتوحات نہیں تھیں بلکہ ان اقوام کی فتوحات بھی اس کے ساتھ شریک تھیں.جب مؤرخ لکھتے تھے کہ فلاں موقع پر اسلام کی فتح ہوئی تو اُن کی یہ بات پوری سچی نہیں ہوتی تھی کیونکہ اُس فتح میں اگر بعض دفعہ اسلام کا ایک حصہ ہوتا تھا تو دس حصے اُس میں اپنی قوم کے شامل ہوتے تھے.اور بعض دفعہ تو اس فتح میں دسواں حصہ بعض دفعہ بیسواں حصہ اور بعض دفعہ سواں حصہ اسلام کا ہوتا اور باقی سب قومی روح کا حصہ اس میں شامل ہوتا کیونکہ کوئی خلجیت کو غالب کرنے کے لئے لڑ رہا ہوتا، کوئی لودھیت کو غالب کرنے کے لئے لڑ رہا ہوتا ، کوئی ایرانیت کو غالب کرنے کے لئے لڑ رہا ہوتا، کوئی مصریت کو غالب کرنے کے لئے لڑ رہا ہوتا ، کوئی مغلیت کو غالب کرنے کے لئے لڑ رہا ہوتا اور کوئی افغانیت کو غالب کرنے کے لئے لڑ رہا ہوتا.تو ملکی جوش اور وطنیت و قومیت دو مختلف جذبات ہیں جو مختلف اقوام کے لوگوں کے اندر اپنے عروج اور دبدبہ کے زمانہ میں پیدا ہو جاتے ہیں.یہی قربانیاں کونسی ہیں بے شک اس وقت مذہب کے نام پر قربانیاں کی جاتی ہیں مگر وہ خالص خدا تعالیٰ کے لئے قربانیاں نہیں ہوتیں بلکہ ان قربانیوں کے نتیجے میں قومیت اور وطنیت کے جذبات بھی پوشیدہ ہوتے ہیں اور وہ فتح خالص خدا اور اس کے رسول کی فتح نہیں ہوتی بلکہ وہ کچھ اللہ کی فتح ہوتی ہے اور کچھ شیطان کی.اور تم جانتے ہو کہ وہ فتح جو اللہ اور شیطان کی ہو وہ اللہ تعالیٰ کبھی قبول نہیں کرتا.حدیثوں میں بھی آتا ہے اور قرآن میں بھی اجمالی رنگ میں اس کا ذکر آتا ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب کوئی بندہ قربانی کرتا ہے اور اس میں بتوں کا بھی کچھ حصہ ہوتا ہے تو خدا تعالیٰ اپنے فرشتوں سے کہتا ہے کہ جاؤ یہ قربانی اُس کو واپس کر دو کیونکہ اس میں میرا حصہ نہیں ہے تو اس قسم کی کامیابیاں بے شک بظاہر بڑی نظر آتی ہیں مگر وہ اسلام اور روحانیت کے لحاظ سے بڑی نہیں ہوتیں کیونکہ وطنیت اور قومیت کے جذبات اس کے ساتھ شامل ہوتے ہیں اور اگر ان جذبات کو ہم الگ بھی کر دیں تو بھی ظاہری اسباب کی کثرت جو بعد میں آنے والوں کو میسر ہوتی ہے وہ اُن کے بڑے بڑے کاموں کو بھی حقیر قرار دے دیتی ہے اور ان کے بڑے سے بڑے کام بھی معجزہ نہیں کہلا سکتے ، بلکہ
خطابات شوری جلد دوم ۳۷۸ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء اسباب کے استعمال کا ایک طبعی نتیجہ کہلاتے ہیں.الَّا مَا شَاءَ اللہ.بعض لوگ بعد میں آنے والوں میں بھی ایسے ہو سکتے ہیں جو خالص خدا کے لئے کام کریں اور وطنیت اور قومیت کے جذبات کو قریب بھی نہ پھٹکنے دیں.ایک مسلمان بادشاہ کی خوبی میں نے پہلے بھی غالبا یہ بات سنائی ہوئی ہے کہ گھمن جو ایک مشہور مؤرخ ہے، اُس نے روم کی ترقی و تنزل کے حالات کے متعلق ایک تاریخی کتاب لکھی ہے.اس کتاب میں وہ ایک مسلمان بادشاہ کا ذکر کرتا ہے جس کی اٹھارہ سال کی عمر تھی، اُس کا باپ فوت ہو گیا تھا اور وہ اُس کی جگہ بادشاہ بنا دیا گیا تھا.جب وہ بادشاہ بنا تو اُس کے چچا اور دوسرے بھائیوں نے بغاوت کر دی اور اس قدر شورش پیدا کر دی کہ اس کی حکومت چاروں طرف سے خطرات میں گھر گئی.اس بادشاہ کا ایک وزیر تھا جس کا نام نظام الدین طوسی تھا.نظام الدین طوسی علمی دُنیا میں ایسی شہرت رکھتا تھا جیسے سیاسی دُنیا میں سکندر اور نپولین شہرت رکھتے ہیں.تمام اسلامی مدارس جو آجکل مشرقی دُنیا میں جاری ہیں اسی کی نقل میں جاری ہیں کیونکہ سب سے پہلے اسی نے ان مدرسوں کا طریق ایجاد کیا تھا.وہ نظام الدین طوسی مذہب کے لحاظ سے شیعہ تھا.جب بغاوت زیادہ بڑھ گئی تو اُس نے بادشاہ کو تحریک کی کہ حضرت موسیٰ رضا کے مقبرہ پر جا کر کامیابی کے لئے دعا کی جائے.اس کی غرض یہ تھی کہ اگر بادشاہ کو کامیابی حاصل ہو گئی تو یہ بھی شیعہ ہو جائے گا.گبن لکھتا ہے کہ نظام الدین طوسی کی اس تحریک پر نو جوان با دشاہ موسیٰ رضا کے مقبرہ پر گیا اور وہاں دونوں نے دعا کی.جب وہ دعا سے فارغ ہو گئے تو بادشاہ نے وزیر سے کہا کہ میں نے بھی دعا کی ہے اور آپ نے بھی دعا کی ہے، کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ آپ نے کیا دعا کی ہے؟ نظام الدین طوسی نے کہا میں نے یہ دعا کی ہے کہ خدایا تو ہمارے بادشاہ کو فتح دے اور اس کے دشمنوں کو شکست دے.بادشاہ نے کہا میں نے تو یہ دعا نہیں کی.نظام الدین نے پوچھا پھر آپ نے کیا دعا کی ہے؟ بادشاہ نے کہا میں نے یہ دعا کی ہے کہ اے خدا! بادشاہت تیری ایک امانت ہے جو بندوں کے سپرد کی جاتی ہے اور یہ ایک بوجھ ہے جو ان کے کندھوں پر تیری طرف سے ڈالا جاتا ہے اِس عہدے کی صرف ایک ہی غرض ہے اور وہ
۳۷۹ خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء یہ کہ ملک اور رعایا کے حقوق کی حفاظت کی جائے اور ان کے لئے ترقی کے زیادہ سے زیادہ مواقع بہم پہنچائے جائیں مگر اے میرے رب! مجھے معلوم نہیں کہ میں اس عہدہ کے قابل ہوں یا میرا چا اور میرے بھائی اس عہدے کے لئے مجھ سے زیادہ موزوں ہیں، میں حالات سے بالکل ناواقف ہوں اور میں غیب کی کوئی بات نہیں جانتا، پس میں تجھ سے نہایت عاجزانہ طور پر التجا کرتا ہوں کہ اگر تیرے نزدیک میں ہی اس عہدے کے زیادہ قابل ہوں تو کل کی جنگ میں مجھے فتح دیجیو اور اگر میری فتح میرے ملک اور میری قوم کے لئے نقصان رساں ہے اور میرا چا اور میرے بھائی مجھ سے زیادہ قابل اور زیادہ موزوں ہیں تو اے خدا ! کل مجھے موت دیجیو اور میرے چچا اور میرے بھائیوں کو فتح دیجیؤ تا کہ ملک کا بھلا ہو اور وہ بادشاہت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھا سکے.گین ایک عیسائی مؤرخ اور نہایت ہی متعصب مؤرخ ہے مگر وہ اس عظیم الشان واقعہ سے اس قدر شدید طور پر متاثر ہوا ہے کہ بے اختیار ہو کر اس مقام پر لکھتا ہے کہ مسلمان بے شک کا فر ہیں اور ہماری قوم ان کی بُرائیاں بیان کرتی ہے اور میں بھی انہیں بُرا ہی سمجھتا ہوں مگر میں عیسائی دنیا کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ کیا تم سارے مل کر بھی وہ نمونہ پیش کر سکتے ہو جو ایک مسلمان نوجوان نے دُنیا کے سامنے پیش کیا.تو اس قسم کی مثالیں بھی بعد میں ملتی ہیں مگر بہر حال ایسی مثالیں استثنائی صورت رکھتی ہیں.قبولیت دُعا کے دو واقعات میں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے سُنا ہے کہ ایک دفعہ تیمور یا محمود غزنوی کو ایک جنگ میں شکست ہونے لگی تو اُس نے دعا کی کہ خدایا! میں تو اسلام کی خدمت کے لئے لڑ رہا تھا اور میری نیت کا تجھے علم ہے، اگر میں اپنی بڑائی یا اپنی حکومت کی توسیع کے لئے جنگ کرتا تو اور بات تھی مگر میری نیت تو تیرے دین کی خدمت ہے اور اب میری شکست کا اثر صرف مجھ تک محدود نہیں رہے گا بلکہ تیرے دین تک بھی پہنچے گا پس تو اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا کر دے کہ یہ شکست فتح سے بدل جائے.اللہ تعالیٰ نے اُس کی اِس دعا کو قبول کیا اور معاً ایسے سامان پیدا ہو گئے کہ دشمن نے غلطی سے یہ سمجھ کر کہ یہ مقابل کی فوج ہے، اپنے اُسی دستہ پر.حملہ کر دیا جو مسلمانوں کی فوج کو شکست دیتا چلا جارہا تھا اور اس طرح مسلمانوں کی شکست
خطابات شوری جلد دوم فتح میں تبدیل ہو گئی.مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء تو اس قسم کے نظارے انفرادی طور پر بعد میں بھی نظر آ جاتے ہیں بلکہ آج تک نظر آتے رہتے ہیں.عبدالحمید جوٹر کی کا معزول بادشاہ تھا، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ اس کی ایک بات مجھے بہت ہی پسند ہے.یونان سے جب ترکوں کی جنگ ہوئی تو اُس وقت خطرہ تھا کہ یورپ کی تمام طاقتیں یونان کی مدد کریں گی اور ترکوں کو لازماً شکست ہو جائے گی.اُس وقت ترکوں نے ایک مجلس منعقد کی جس میں فیصلہ کیا کہ یونان کے حملہ کی اِس اِس رنگ میں مدافعت ہونی چاہئے.دوسرے دن ایک وزیر گھبرایا ہوا عبدالحمید کے پاس آیا اور کہنے لگا اگر مکمل انتظام ہوتا تو شاید یونان کے حملہ سے ہم بچ جاتے مگر مجھے اس انتظام میں بعض خامیاں نظر آتی ہیں جن کا ہمارے پاس کوئی علاج نہیں.اگر ان خامیوں کی موجودگی میں ہم نے جنگ کی تو ہمیں شکست ہو جائے گی بہتر یہی ہے کہ یونان سے صلح کر لی جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ جب اس وزیر نے عبدالحمید کو یہ بات کہی تو عبدالحمید ہنس کر کہنے لگا اتنے خانے ہم نے پر کئے تھے اور اب کچھ خانے خدا کے لئے چھوڑ دو اور اُس کے فضل پر بھروسہ رکھتے ہوئے جنگ شروع کر دو.چنانچہ لڑائی ہوئی اور ترکی کو فتح حاصل ہوئی.تو ایسی مثالیں اسلام کے اس زمانہ میں بھی مل جاتی ہیں جو روحانی لحاظ سے تنزل کا زمانہ ہوتا ہے مگر انفرادی مثالوں سے قومی ترقی نہیں ہوا کرتی.آج مسلمان ہر جگہ ذلیل ہیں ، مگر آج بھی بمبئی اور کلکتہ میں مسلمانوں میں ایسے کروڑ پتی موجود ہیں جو یورپ کے بڑے بڑے مال دار لوگوں کے مقابلہ میں کھڑے ہو سکتے ہیں لیکن وہ ایک دو ہیں اور یورپ میں ایسے مال دار سینکڑوں ہیں اور ایک دو سینکڑوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے.ہماری فتح روحانیت کے ذریعہ ہے تو قومی زندگی اور افراد میں سے بعض کی زندگی علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں اور قومی زندگی ایسے ہی زمانہ میں ہوتی ہے جو صحابہ کا زمانہ ہوتا ہے یا تابعین کا یا تبع تابعین کا زمانہ ہوتا ہے.اس کے بعد جو تغیر ہوتا ہے وہ دُنیوی سامانوں کے ذریعہ ہوتا ہے.پس بعد میں آنے والے زمانہ میں دنیوی سامانوں کے ذریعہ فتح ہو گی مگر آج ہماری فتح روحانیت کے ذریعہ ہے.
خطابات شوری جلد دوم ۳۸۱ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء روحانیت سے غلبہ کے زمانہ میں باوجود یکہ نبی پر ایمان لانے والے تھوڑے ہوتے ہیں، پھر بھی جب وہ دشمن کے مقابلہ میں کھڑے ہوتے ہیں تو دشمن ہیبت سے لرز نے لگ جاتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ خبر نہیں یہ کیا کر دیں گے.وہ ہم اپنی جماعت کی طاقت کو خوب جانتے ہیں.ہمیں اپنی جماعت کے اعداد و شمار کا بھی علم ہے اور ہم اپنی جماعت میں سے کام کرنے والوں کی قابلیت کو بھی خوب جانتے ہیں، اس کے مقابلہ میں ہمیں یقینی طور پر معلوم ہے کہ ہندوؤں ،سکھوں اور عیسائیوں کی طاقت ہم سے بہت زیادہ ہے مگر ان پر ہماری جماعت کا رُعب اس قدر ہے کہ میں نے دیکھا ہے کہ ہر مہینے ایک دو ہندوؤں اور سکھوں کی ایسی چٹھیاں میرے پاس ضرور پہنچ جاتی ہیں کہ اگر ہمارے لئے کچھ روپیہ کا انتظام کیا جائے تو ہم مسلمان ہونے کے لئے تیار ہیں.اسی طرح جب ہندو، مسلمانوں کا کوئی جھگڑا ہو، لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ احمدی کس طرف ہیں کیونکہ و خیال کرتے ہیں کہ احمدی جس طرف ہوئے وہ جیت جائیں گے.یہی حال مسلمانوں کا ہے، باوجود اس کے کہ ہم قلیل التعداد ہیں ان کی نگاہ بار بار ہماری طرف اُٹھتی ہے، یہی وجہ ہے کہ احرار بار بار اس امر کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا جائے اور اس سے ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں جب الیکشن ہوا تو جس طرف احمدی ہوں گے وہ پارٹی جیت جائے گی حالانکہ احرار کے مقابلہ میں ہماری تعدا د ہے ہی کتنی.ہمارے جس قدر مخالف ہیں وہ سب احراری ہیں، گو احراری وہ کہلاتے ہوں یا نہ کہلاتے ہوں.تو ان تین زمانوں کے اندر اندر تغیرات پیدا کرنا ہمارے لئے ضروری ہے اور میں جماعت کو کئی سالوں سے اس طرف توجہ دلا رہا ہوں مگر مجھے افسوس ہے کہ ابھی تک ہماری جماعت نے اس طرف پوری توجہ نہیں کی.میں نے بار ہا بتایا ہے کہ وہ زمانہ جس میں ہمارے لئے ترقی کرنا مقدر ہے دن بدن تھوڑا ہوتا جا رہا ہے اور ضروری ہے کہ ہم اس زمانہ کے ختم ہونے سے پہلے پہلے دُنیا میں وہ نظام قائم کر دیں جس نظام کو قائم کرنا اسلام اور احمدیت کا مقصود ہے.پس میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ مجلس شوریٰ میں اُنہیں یہی مقصد اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے اور ہر بات میں مشورہ دیتے وقت یہی امر اُن کے سامنے رہنا
خطابات شوری جلد دوم ۳۸۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء چاہئے.جس طرح قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ہدایت دی تھی کہ تم جدھر بھی رُخ کرو، فتح مکہ کا مقصد تمہارے سامنے رہنا چاہئے..اسی طرح تم جو بھی کام کرو، اور اس مجلس شوریٰ میں جو بھی مشورہ پیش کرو، اس کام کے کرتے اور اس مشورہ کے دیتے وقت تمہارے مد نظر یہی امر رہنا چاہئے کہ ہمارا مقصد قلیل ترین عرصہ میں دُنیا میں اسلامی نظام اور اسلامی تمدن قائم کرنا ہے ، خواہ اس کے لئے ہمیں کتنی قربانیاں کرنی پڑیں.اگر ہم سچے احمدی ہیں تو ہمیں اپنی قربانیوں سے اس عظیم الشان مقصد کے پورا کرنے کا فکر کرنا چاہئے.اور اگر ہم بچے احمدی نہیں اور اس مقصد کو ایک کھیل سے زیادہ وقعت نہیں دیتے تو پھر ہمارے یہاں جمع ہونے کی کوئی قیمت نہیں اور ہم اپنا وقت اور اپنا مال بلا وجہ ضائع کرنے کے جُرم کا ارتکاب کرتے ہیں.“ دوسرا دن قانون کا احترام اور وعدہ کا ایفاء ضروری ہے مجلس مشاورت کے دوسرے دن پروگرام کے مطابق متفرق امور سے اجلاس کی کارروائی شروع ہوئی اور شوریٰ کے ایک فیصلہ کی عدم تعمیل کے بارہ میں تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ پیش ہوئی.کمیشن نے قرار دیا کہ اس کی ذمہ داری سابق ناظر صاحب بیت المال پر عائد ہوتی ہے لہذا وہ مجلس شوری میں اپنی غلطی کا اقرار کر کے حضور سے معافی مانگیں.چنانچہ سابق ناظر صاحب بیت المال نے اس کی تعمیل میں عَلَى الْإِعْلَانِ حضور سے معافی مانگی.اس کے بعد حضور نے احباب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: - میں جیسا کہ گزشتہ سالوں میں کہہ چکا ہوں، اب بھی کہتا ہوں کہ نظارت نے مجلس شوریٰ کی حقیقت کو سمجھا ہی نہیں اور یا تو وہ کسی جذبہ رقابت سے متاثر ہو کر یا اس خیال سے کہ لوگوں کو بلا کر ان کی بھڑاس نکالی جائے گزشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی مجلس شوری میں نظارت نے یہی غلطی کی ہے.ناظر بیت المال تو در حقیقت قربانی کا بکرا بنے ہیں لیکن اصل میں مجلس شوری کے فیصلوں کی نسبت گزشتہ سالوں میں کوئی عملی کا رروائی نہیں ہوئی ، اگر ؟
۳۸۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء ނ خطابات شوری جلد دوم اب تو بہت کچھ اس میں اصلاح ہو چکی ہے.میں اس سال خصوصاً اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ شوریٰ کے فیصلوں کی تعمیل کی جائے.میں امید کرتا ہوں کہ آئندہ بھی وہ خیال رکھیں گے.حقیقت یہ ہے کہ جب تک قانون کی پابندی پورے طور پر نہ کرائی جائے اُس وقت تک کوئی نظام قائم نہیں رہ سکتا.میں سمجھتا ہوں کہ عام لوگوں میں سے پچانوے فیصدی ایسے ہیں کہ جو اس نقص میں ملوث ہیں جیسا کہ میرے خطبوں سے بھی ظاہر ہے اور شاذ و نادر ہی ایسے آدمی ہیں جو اس سے بچے ہوئے ہیں.میں تو سمجھتا ہوں کہ قانون کو بدلوائے بغیر اس کا توڑنا جائز نہیں لیکن مجھے جن لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے اُن میں بہت کم اس سے مستثنی ہیں.ہندوستانیوں کو یہ خیال نہیں آتا کہ یا تو کسی چیز پر عمل کریں یا پھر اس کو بدلوائیں.جس کو وہ کہتے ہیں کہ اس پر عمل نہیں ہو سکتا میرے نزدیک وہ محض نفس کا دھوکا ہوتا ہے کیونکہ ” نہ ہوسکنا اور مشکل امر میں فرق ہے.نہ ہوسکنا کا مطلب یہ ہے کہ خدا کا قانون یہ ہے کہ فلاں بات نہیں ہو سکتی لیکن کہنے والوں کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انہیں ایسی مجبوری تھی کہ وہ اس کو نہ کر سکے.اُن کے نزدیک تو معمولی محنت والی بات بھی ناممکنات میں داخل ہو جاتی ہے، حالانکہ جو ناممکن ہے اُس کے متعلق تو یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ اس کو کوئی کر ہی نہیں سکتا.ہندوؤں کے متعلق تو میں نہیں کہہ سکتا لیکن مسلمانوں سے چونکہ مجھے واسطہ پڑتا ہے اس لئے میں کہہ سکتا ہوں کہ وہ ہر مشکل امر کو ناممکن قرار دینے کے عادی ہوتے ہیں ، وہ ہر بات کو ٹالتے ہیں مگر یہ بات قومی لحاظ سے نہایت ہی خطرناک ہے.پس جہاں میں نظارت کو توجہ دلاتا ہوں وہاں لوگوں کو بھی اس امر کی طرف متوجہ کرتا ہوں کہ جیسا کہ میں نے کل خطبہ میں بھی کہا تھا وہ اس نقص کو دور کریں.جس کام کو روزانہ کیا جاتا ہے اُس کے متعلق بھی شستی کر کے یہ کہنا کہ یہ بات ہو ہی نہیں سکتی بالکل غلط ہے حالانکہ مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ اس کے کرنے میں ہم کو وقت ہے.اس کے بعد جو دوسری کارروائی ہے اس کے شروع کرنے سے پہلے میں جماعت کو پھر کل والے مضمون کی طرف توجہ دلاتا ہوں، کیونکہ اب حالات ایسے پیدا ہو رہے ہیں کہ ہماری جماعت کو بہت سنبھلنے کی ضرورت ہے.خصوصیت سے ان چند دنوں میں تو بہت سی تبدیلیاں ہوئی ہیں.میں نے کل ذکر کیا تھا کہ دُنیا میں بہت جلد جلد تغیرات پیدا ہو رہے
خطابات شوری جلد دوم ۳۸۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء ہیں اور دُنیا جلد ہی لڑائی کی طرف بڑھ رہی ہے.مجھے کل مشاورت کے اجلاس سے جا کر رات کو ریڈیو پر جو خبریں سننے کا موقع ملا تو وہ یہ تھیں کہ البانیہ پر اٹلی نے حملہ کر دیا ہے.البانیہ مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی ریاست ہے.یورپ میں قوموں کا فریب یہی ہوتا ہے کہ پہلے ایک قوم کو وہ کہتے ہیں کہ تم آزاد ہو جاؤ اور جب وہ آزاد ہو جاتے ہیں تو اُس کو ہڑپ کر جاتے ہیں.یہی حال البانیہ کا ہوتا ہے.اسی طرح پہلے البانیہ کی آزاد حکومت بنائی پھر اس کے سامنے چند شرائط پیش کیں.اُنہوں نے کہا کہ یہ غلامی والی شرطیں ہیں جس پر اُنہوں نے کہا کہ اچھا تم ہمیں جواب دیتے ہو! بظاہر عیسائی حکومتیں اس معاملہ میں بالکل متوجہ نہیں، کیونکہ یہ ایک مسلمان حکومت ہے.عام طور پر فرانس اور انگلینڈ والے بھی یہی کہتے ہیں کہ ہمارا اس معاملہ سے کوئی تعلق نہیں.ہاں ہم اس کو اپنے معاہدہ کے خلاف سمجھتے ہیں.لیکن میں تو سمجھتا ہوں کہ وہی لڑائی جس کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ ہمیں کوئی تعلق نہیں کسی نہ کسی طرح اور حکومتوں کو بھی اپنے ساتھ کھینچ لے گی.مجھے اس موقع پر رہ رہ کر اُس خواب کا خیال آتا ہے جو میری چھوٹی لڑکی امتہ الباسط نے دیکھی تھی، اُس وقت ہر طرف یہی شور تھا کہ اب کوئی جھگڑا باقی نہیں رہا.میونخ کے معاہدہ کے بڑے گیت گائے جاتے تھے.میری لڑکی نے دیکھا کہ ایک بزرگ آئے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ تمہارے ماموں کے لڑکے پاس ہو جائیں گے.چنانچہ یہ خواب پوری ہو گئی حالانکہ لڑکے کلاس میں کمزور تھے لیکن پھر بھی کامیاب ہو گئے.پھر کچھ مدت کے بعد اُس نے اُن بزرگ کو دیکھا جنہوں نے بتایا تھا کہ تمہارے ماموں کے لڑکے پاس ہو جائیں گے اور اُنہوں نے کہا کہ اب میں تمہیں بتاتا ہوں کہ ۱۳ / اپریل کو پھر لڑائی شروع ہو جائے گی.میں نے یہ رویا بعض غیر مذاہب والوں اور ہندوؤں وغیرہ کو سنائی اور وہ اس کوشن کر حیران ہوتے تھے.ممکن ہے کہ اسی البانیہ کے معاملہ سے ہی ایک عام جنگ چھڑ جائے.گواس دن جنگ نہیں چھڑی.لیکن ۱۳ / اپریل کو انگریزوں نے وہ بیان شائع کیا ہے جس کی بناء پر اگر آئندہ جرمنی، اٹلی نے کوئی حملہ کیا تو جنگ شروع ہو جائے گی.گویا اس طرح وہ خواب پوری ہو گئی.بہر حال حالات جلدی جلدی متغیر ہو رہے ہیں اور ان حالات میں میں جماعت کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی حالت کو سمجھیں.ہمارے لئے تبلیغی کام
۳۸۵ خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء سب کاموں سے زیادہ پیارے ہیں اس لئے ان حالات میں زیادہ ضروری ہے کہ ہم دین کے لئے تیار ہوں.مگر افسوس ہے کہ اب تک جماعت میں یہ بات پیدا نہیں ہوئی.پس میں جماعت سے پہلے تو یہی مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اپنے طوعی وعدوں کو بغیر کسی کے کہنے یا تحریک کرنے کے پورا کرنے اور کرانے کی روح پیدا کریں.میں وعدوں کے متعلق جماعت کو اس معیار پر لانا چاہتا ہوں کہ وعدہ کرنے کے بعد قطعی طور پر کوئی اور امر کہنے کی ضرورت نہ رہے لیکن ابھی اس مقام تک پہنچنا تو الگ رہا، اس کے قریب بھی جماعت نہیں پہنچی.میں اس وقت توجہ دلاتا ہوں کہ جب تک جماعتیں بحیثیت جماعت اس طرف نہ آئیں گی، کامیابی نہیں ہو سکتی.مثلاً اس وقت یہی جو نمائندے ہیں یہی اپنے لئے مقرر کر لیں کہ وہ کہیں کہ ہم نے وعدہ کیا ہے، اب ہم اِس کی ذمہ داری لیتے ہیں کہ ہم خود بغیر کسی کی مزید تحریک کے انہیں ادا کریں گے.جو تحریکیں خاص ہوتی ہیں اُن کی یاددہانی نہیں کرائی جاتی لیکن یہاں جماعت کو ہر بار توجہ دلانی پڑتی ہے، تو اس طرح سے جماعت میں ایک ایسا حصہ تیار ہو جائے گا جو بغیر یاد دہانی کے ہی اپنے وعدوں کو ادا کر دے گا اور یہ حصہ آئندہ کے لئے ایک بیج کی طرح ہوگا.پس آپ لوگ یہ اقرار کریں کہ اگر آپ نے اپنے نام پیش کئے ہیں تو کہیں کہ ہم خود اپنے وعدے ادا کریں گے، ایسے لوگوں کو پھر یاد دہانی نہیں کرائی جائے گی.تو اس وقت میں آپ لوگوں کو ایمان کے پختہ کرنے کا موقع دیتا ہوں کہ اس طرح آپ دوسرے لوگوں کے لئے بھی نمونہ بنیں.ہمیں اس وقت ساری جماعت کے متعلق کوئی قانون پاس کرنے میں حجاب ہوتا ہے لیکن اگر افراد خود اپنے اقرار پیش کریں تو ہمیں آسانی ہو جائے گی.اس سلسلے میں میں دفتر تحریک اور جو بلی فنڈ والوں سے بھی کہتا ہوں کہ اگر کوئی ایسا وعدہ کرے تو اُس کو یاد دہانی نہ کرائی جائے.جو تاریخ اس کے دینے کیلئے مقرر کی ہو، اس کے بعد اُس کو نادہندہ قرار دیا جائے اور جو سزا تجویز ہو وہ اُسے دی جائے.بہر حال اگر ایسا ہو جائے تو یہ ایسا بیج ہو گا جس سے ہم اچھے کھیت کے پیدا ہونے کی توقع کر سکتے ہیں.اور جب تک اس قسم کی جماعت پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہوں اُس وقت تک ہم دُنیا کو عمدہ نمونہ نہیں دکھا سکتے.
۳۸۶ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء خطابات شوری جلد دوم بعض چھوٹی چھوٹی باتیں بہت بڑا اثر پیدا کر دیتی ہیں.لاہور میں ایک صاحب الیکشن میں کھڑے ہوئے غیر احمدیوں نے فیصلہ کیا کہ کوئی اُس کو ووٹ نہ دے.اُنہوں نے ایک احمدی کے متعلق یہ بات بیان کی کہ ایک بوڑھا احمدی با وجود بہت تکلیف اور وقت کے ووٹ دینے کے لئے گیا اور اس نے کہا کہ میں اس لئے آیا ہوں کہ ہمارے امام نے ہمیں ووٹ اس طرف دینے کے لئے کہا ہے.اس بات کا اُس پر اتنا اثر ہوا کہ سالہا سال بعد بھی جب وہ ملتا تو کہتا کہ اگر کوئی چیز ہے تو یہ ہے حالانکہ یہ ایک معمولی بات تھی لیکن اگر ساری جماعت میں یہی پیدا ہو جائے کہ وہ اپنے فرائض کو پوری طرح سمجھیں تو اس سے سینکڑوں گنا احمدی ہو جائیں گے.ہاں یہ وعدے جن کی طرف میں توجہ دلاتا ہوں کہ افراد کریں، یہ جماعتی وعدے نہ ہوں بلکہ افرادی ہوں.ایسا دوست جو جماعت کے لئے کسی سے وعدہ کرتا ہے تو یہ اپنا حق نہیں بلکہ دوسرے کے حق پر بھی وعدہ کرتا ہے.تو جماعت کے افراد کو اپنے طور پر وعدے کرنے چاہئیں.ان کو یہ خوب یاد رکھنا چاہئے کہ آپ نے پہلے جماعت سے یہ وعدہ کیا ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری پر اپنے وعدوں کو پورا کریں گے لیکن ان وعدوں کے ایفاء کرنے کی تحریک سے وہ لوگ فائدہ نہ اُٹھا ئیں جنہوں نے گزشتہ سالوں کے وعدے بھی پورے نہیں کئے کیونکہ ان کا وعدہ جماعت سے وعدہ خلافی ہے اور یہ گناہ 66 ہے نیکی نہیں.“ تقرری کارکنان صدر انجمن احمد یہ مجلس مشاورت میں سب کمیٹی نظارت علیاء کی رپورٹ پیش ہوئی.سب کمیٹی کے سامنے یہ سوال تھا کہ آیا صدرانجمن احمدیہ کے کارکنان کو اس طرز پر بھرتی کرنا جس طرح تحریک جدید کے ماتحت واقفین زندگی کو بھرتی کیا جاتا ہے مفید ہوگا یا نہیں؟ غور وفکر کے بعد سب کمیٹی نے رائے دی کہ صدرانجمن احمدیہ کے موجودہ انتظام میں سر دست کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں.موجودہ سات سالہ دور میں تجربہ ہو جانے کے بعد اس پر غور کیا جانا چاہئے.اس تجویز کے بارہ میں ممبران کی رائے معلوم کرنے سے پیشتر حضور نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا : - تجویز یہ ہے کہ سب کمیٹی نے تجویز کی ہے کہ سابقہ دستور کارکنوں کی تعیین کا جاری
خطابات شوری جلد دوم ۳۸۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء رہے.تحریک جدید کا جب تجربہ ہو جائے گا تب دیکھا جائے گا فی الحال اس کو زیر عمل لانے کی ضرورت نہیں.شوریٰ کی سب کمیٹی نے اس کی تصدیق کی ہے.اس کی جو وجوہات بتائی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ابھی اس امر کا فیصلہ نہیں ہوا کہ مبلغین کی بھرتی تحریک جدید اور صدر انجمن احمد یہ ہر دو کے ماتحت جاری رہے گی یا صرف تحریک جدید کے ماتحت ہی مبلغین بھرتی ہوں گے.اگر صرف تحریک جدید کی طرف سے ہوں گے تو صدرانجمن کے کارکنوں کا کام صرف مرکزی رہ جائے گا.دوسری وجہ یہ بتائی ہے کہ اس میں اخراجات زیادہ ہو جائیں گے کیونکہ صدر انجمن میں بارہ بارہ روپے کے چپڑاسی بھی ہیں.ان دونوں وجوہات کی بناء پر مثلاً یہ کہ اس کے انتظام میں دقت پیش آئے گی.سب کمیٹی نے کہا ہے کہ ابھی تحریک جدید والی سکیم کو جاری نہیں کرنا چاہئے.(اگر آپ لوگ نہیں سمجھے تھے ، تو آپ کو کہہ دینا چاہئے تھا) تائید کے لئے آپ یہ کہیں گے کہ سابق دستور قائم رہے اور خلاف کے لئے یہ کہ سابق دستور کو بدلا جائے تو جو دوست تجویز کے حق میں ہیں وہ کھڑے ہو جائیں.“ ۳۴۶ دوست کھڑے ہوئے.جو دوست اس کے خلاف ہیں وہ کھڑے ہو جائیں.“ ۲۸ دوست کھڑے ہوئے.رائے شماری کے بعد حضور نے فرمایا کہ:- میں اس وجہ سے کہ یہ سوال اپنی موجودہ شکل میں پوری طرح واضح نہیں ہوا اور شاید موجودہ حالات میں اتنا اہم بھی نہ ہو کثرتِ رائے کی تائید میں فیصلہ کرتا ہوں مگر یہ بتانا چاہتا ہوں کہ شوری کی سب کمیٹی نے اس عبارت پر غور نہیں کیا جو میں نے لکھی تھی.میں نے گزشتہ مشاورت میں جب پہلی دفعہ یہ معاملہ پیش ہوا تھا تو اُس وقت ایک اعلان کیا تھا کہ اگر ضرورت ہو تو سب کمیٹی مجھ سے مشورہ لے سکتی ہے.اور وہ اسی وجہ سے کہ میں سمجھتا تھا کہ غالباً اس سوال کے سمجھنے میں دقت ہو گی.مگر افسوس کہ انہوں نے اس اعلان کی اہمیت نہ سمجھی حالانکہ اگر وہ مجھ سے مشورہ لے لیتے تو اس غلطی میں نہ پڑتے جس میں وہ اس وقت مبتلا ہیں.اب پھر جو دوبارہ غور ہوا ہے تو اس میں بھی سب کمیٹی نے صحیح غور نہیں کیا اور میں
خطابات شوری جلد دوم ۳۸۸ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء سمجھتا ہوں کہ اصل نتیجہ پر وہ نہیں پہنچے.سوال یہ نہیں کہ کسی محکمہ میں کیا خرچ ہو رہا ہے اور کیا نہیں بلکہ سوال ان امکانات کا ہے کہ کسی خاص تحریک کے ماتحت ہم امکانی طور پر اس میں کیا کچھ کر سکتے ہیں.اس وقت صدر انجمن کے کارکنوں کی تعیناتی بعض خاص حقوق اور قوانین کے مطابق ہوتی ہے اور ان حقوق اور قوانین کی وجہ سے قواعد کے مطابق ہم ان کے پابند ہیں.اس کے مطابق ہی ہمیں گریڈ مقرر کرنے پڑتے ہیں لیکن سوال موجودہ حالت کا نہیں بلکہ امکانات کا ہے.تحریک جدید کا بنیادی اصول یہ ہے کہ جو کارکن وقف کرتا ہے ہم اُس کو خواہ ایک ہزار دے رہے ہیں خواہ اُس کو بیس روپے دیں ہم پابند نہیں ہیں کیونکہ ہمارا وعدہ یہ ہے کہ تحریک جدید میں کوئی گریڈ نہیں ہیں.تحریک جدید کے کارکن کی تنخواہ حالات کے لحاظ سے ہے یہ لازمی نہیں کہ ہم اس کو ترقی دیں.ہو سکتا ہے کہ ہم اس کا تنزل کر دیں.تو یہ بنیادی اصول تھا جس کے مطابق تجویز کی گئی تھی کہ صدر انجمن احمدیہ کے آئندہ کا رکن اس اصول پر لئے جائیں.جو پہلے کا رکن موجود ہیں ہم اُن سے تخفیفیں لے سکتے ہیں مگر اس میں ہمیں مشکلات پیش آتی ہیں کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ تنخواہ دار کارکن ہیں اس لئے ہر دس فیصدی تخفیف پر ہمارا اپنا نفس ہمیں روکتا ہے.پس میرا خیال تھا کہ آئندہ ایسے ہی کارکن لئے جائیں جو وقف کے ماتحت آئیں.ان کا گریڈ عارضی اور وقتی ہوگا.جیسے جیسے ہمارے پاس روپیہ آئے گا اُس کے مطابق ہم ان کو خرچ دیں گے.ہوسکتا ہے کہ ایک کارکن کو ہم ایک سال نوے روپے دیں لیکن دوسرے سال ہم اُس کو بیس روپے دے دیں.تحریک جدید والوں کے لئے جو گریڈ ہیں وہ اسی وقت کے لئے ہیں.کل کو اگر کوئی تغیر ہو تو میرے اختیار میں ہے کہ حالات کے مطابق ان کے گزارے بدل دوں.تو سوال یہ تھا کہ آئندہ کا رکن صرف وقف زندگی والے لئے جائیں جو وقتی لحاظ سے تنخواہ لیں.صرف اسی قسم کے آدمی لئے جائیں تا کہ معاہدات ہمارے ہاتھوں کو بند نہ کریں.اور اسی لحاظ سے سب کمیٹی کو فیصلہ کرنا چاہئے تھا.سوال تو آئندہ کے متعلق تھا کہ جو کارکن لئے جائیں وہ کیسے لئے جائیں.پھر تحریک جدید کے کام کرنے والوں کے لئے جو گزارے میں نے موجودہ حالت میں مقرر کئے ہیں وہ ضروری نہیں کہ صدرانجمن والے بھی مقرر کریں.وہ اپنے لحاظ سے فیصلہ کریں.اس وقت بھی صدرانجمن کی موجودہ حالت کے لحاظ سے تحریک جدید کے گریڈ کے مطابق
خطابات شوری جلد دوم تین چار ہزار کی بچت ہے.“ ۳۸۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء اس موقع پر حضور نے محکمہ سے سوال کیا کہ صدرانجمن کے کارکن کتنے ہیں؟ جواباً ڈیڑھ سو عرض کیا گیا.فرمایا : - ” میرے اصول سے تحریک جدید میں انتہائی تنخواہ بتیس روپے ہے.پس اس لحاظ سے ۵۷۶۰۰ روپے صدرانجمن کے کارکنوں کی تنخواہ بنے گی اور ہمارا موجودہ بجٹ کارکنوں کا تقریباً ایک لاکھ اسی ہزار ہے لیکن سب کی تنخواہ بتیس روپے نہیں ہوگی کیونکہ یہ تو انتہائی تنخواہ ہے.مگر بہر حال جو انہوں نے سکیم کو سمجھا ہے کہ بتیس روپے ہر ایک کے لئے مقرر ہیں تو اس لحاظ سے بھی بہت سا فرق پڑ گیا ہے لیکن بات یہ ہے کہ انہوں نے مجھ سے مشورہ نہیں لیا ور نہ میں انہیں تفصیل سے بتا دیتا.تو یہ غلطی ہوئی ہے کہ بغیر سکیم کو سمجھنے کے فیصلہ دے دیا ہے.ابھی اس کے بہت سے حصے میرے دماغ میں ہی تھے.دوسرے انہوں نے یہ بھی نہیں سمجھا کہ یہاں تو اصول سے مراد ہے.یہاں تو آئندہ بھرتی کا سوال تھا کہ آئندہ اس اصول پر کارکنوں کی بھرتی کی جائے.میں نے کہاں لکھا ہے کہ موجودہ کارکنوں کو نکال دیا جائے.مدارس کی جو مشکلات کہی گئی ہیں وہ بھی درست نہیں.درحقیقت وہاں یہ سوال نہیں تھا کہ موجودہ بجٹ کو بدل دیا جائے بلکہ سوال تو یہ تھا کہ اس اصول کو بدل دیا جائے اس کے ذریعے سے نظام میں خرابی یا روپے میں دقت نہیں آتی تھی.پس آئندہ کے لئے جو تغیر تھا اس میں کمی ہونی تھی زیادتی نہ تھی.نچلے حصے کے گزارے اس طرح بڑھ جائیں گے اور اوپر کے کم ہو جائیں گے.میرا اندازہ تھا کہ موجودہ حالات کے لحاظ سے دس ہزار کی بچت ہوگی لیکن فوری فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ اب جو کارکن اس کے ماتحت لئے جانے تھے وہ بہت تھوڑے تھے لیکن آئندہ اگر ایسا ہو تو ہمارے پاس امکان ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے بوجھوں کو کم کریں.اب بھی اگر چہ میں نے اعلان کیا ہوا ہے کہ کارکنوں کے لئے کوئی تنخواہ مقرر نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ یکطرفہ بیان ہے کارکنوں کا اور میرا معاہدہ نہیں ہے.“ جماعت احمدیہ کا جھنڈا سب کمیٹی پروگرام جو بلی نے اپنی رپورٹ میں یہ تجویز پیش کی کہ ”جماعت احمدیہ کا کوئی مناسب جھنڈا مقرر کیا جائے جسے
خطابات شوری جلد دوم ۳۹۰ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء با قاعدہ طور پر جلسہ جو بلی کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی سے نصب کروانے کی درخواست کی جائے.“ بحث کے بعد نمائندگان مشاورت نے کثرتِ رائے سے یہ تجویز پاس کی کہ جماعت احمدیہ کا کوئی جھنڈا ہونا چاہئے.اس موقع پر حضور نے فرمایا: - پس میں بھی اکثریت کے حق میں فیصلہ دیتا ہوں کہ جھنڈا ہونا چاہئے.مگر میری رائے میں خلاف رائے کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے.شیخ صاحب دین صاحب کا خیال نہایت ہی لطیف اور قابلِ غور تھا.ہم اُس کو چاہے غلط قرار دے دیں مگر میرے نزدیک وہ نہایت لطیف تھا اور ضرور اس قابل ہے کہ ہم اُس پر غور کریں.یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے یعنی ہمیں اس کے ثبوت مل سکتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑائی کے دنوں میں جھنڈا استعمال کیا اور اس کی تیاری کی چنانچہ لڑائی کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑا اور ڈنڈا منگوایا اور اس سے جھنڈا تیار کیا.تو اس کا یہ جواب دینا کہ ملکانہ کے موقع پر ہمارا جھنڈا تھا یا خدام الاحمدیہ کا جھنڈا ہوا کرتا ہے غلط ہے.یہ کوئی مجلس شوری کے فیصلہ پر منحصر نہیں تھا.اگر ایسا ہو تو ہم مجلس شوریٰ میں معاملہ پیش کرنے کی بجائے ہر معاملہ کے لئے ملکانے پہنچ جایا کریں.پس ملکانہ یا خدام الاحمدیہ کا عمل جماعت کے لئے دلیل نہیں ہو سکتا.خدام الاحمدیہ تو جماعت کے افراد کا ایک حصہ ہیں اور ان میں بھی بالعموم نو جوان ہیں.پس ان کا فعل با وجود اس کے جائز بھی ہو تو بھی جماعت کے لئے سند نہیں.میر محمد الحق صاحب نے جو حدیث بیان کی ہے وہ بھی اس مسئلہ کو حل کرتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنڈا کو جنگ کے ساتھ خاص نہیں کیا.چنانچہ حضور نے جھنڈے کے نیچے کھڑے ہو کر وعظ کیا.دوسرے امر کے متعلق مجھے اچھی طرح یاد نہیں غالباً عمرہ کے متعلق ہے یا ممکن ہے حج کے متعلق ہو لیکن وہ بھی سند ہو جاتی ہے کہ جھنڈا جنگ کے اوقات کے بغیر بھی استعمال ہوتا رہا ہے.جھنڈے کی افادیت اور اہمیت تعجب ہے کہ اس معاملہ میں وہ لوگ نہیں بولے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کے انڈیکس تیار کئے ہیں.اگر اب بھی وہ دوست یہاں ہوں اور انہیں یاد ہو تو بیان کر
خطابات شوریٰ جلد دوم ۳۹۱ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء دیں.مثلاً مرزا عبد الحق صاحب یا مولوی محمد اسمعیل صاحب ہیں مجھے جہاں تک خود یاد پڑتا ہے جب میر صاحب نے الفضل میں جھنڈے کی تجویز کے متعلق اعلان کیا تھا تو ایک دوست نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک حوالہ بھیجا تھا.غالبا حضور کی کسی ڈائری کا حوالہ تھا کہ تجویزیں پیش ہوں کہ ہمارا جھنڈا کیسا ہو.مگر بہر حال اس وقت جو تجویز ہے وہ خلاف شریعت نہیں.ہم اب صرف یہ دیکھیں گے کہ اس سے ہمیں کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے یا نہیں.جھنڈے کا کام صرف لڑائی میں ہی محدود نہیں بلکہ اس کے اور بھی فوائد ہیں.مثلاً جھنڈے کے نیچے جمع ہونے کی تحریک مگر اس کے علاوہ اس میں قوم کی عزت کا بھی سوال ہے اور یہ ایک بہت ہی اہم سوال ہے.چنانچہ ایک جنگ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنڈے کو خود بنایا اور ایک صحابی کو دیا تو فرمایا کہ میں امید رکھتا ہوں کہ تم اس کی حفاظت کرو گے اور اس کی عزت کو قائم رکھو گے ہے تو جھنڈے میں قومی عزت کا سوال ہوتا ہے اور قوموں میں اخلاق اور کیریکٹر کو زندہ رکھنے کا احساس ہوتا ہے.پس جو حصہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فوائد کا اُٹھایا وہی ہمارے سامنے ہے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے جھنڈے کے متعلق فرمایا کہ میں امید رکھتا ہوں کہ تم جھنڈے کی عزت کو قائم رکھو گے.تو جھنڈے کے ساتھ قومی اعزاز کا بھی سوال ہے.۱۸۷۰ء والی جرمنی اور فرانس کی لڑائی میں جب صلح ہوئی تو ایک فوج کے متعلق یہ شرط بھی پیش کی گئی کہ وہ اپنا جھنڈا ہمارے حوالے کر دے.اس فوج کے افسر نے جب یہ سنا تو اپنے نائب افسر سے کہا کہ اگر چہ فوجی قانون تو یہی ہے کہ ہر معاملہ میں مکمل اطاعت کی جائے مگر یہ بات ایسی نہیں ہے کہ میں اطاعت کر سکوں چنانچہ اُس نے جھنڈے کو آگ لگا دی.اسی قسم کے احساس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ نے فائدہ اٹھایا ہے.پس اس میں جماعت کے لئے اور نوجوانوں کیلئے اور ان کے اندر قومی روح کے احساس کے پیدا کرنے کے لئے بہت سے فوائد ہیں اس لئے میں کثرتِ رائے کے حق میں فیصلہ دیتا ہوں.دوسرا سوال اس کو نصب کرنے کا ہے اس میں بھی پہلے علماء بیان کریں کہ کیا جھنڈے نصب کیا جانا اپنے اندر کوئی خاص حکمت رکھتا ہے؟ یا اس کے متعلق کوئی سند ہے؟“ مختلف آراء پیش ہونے کے بعد حضور نے فرمایا : -
خطابات شوری جلد دوم ۳۹۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء جو دوست اس تجویز کے حق میں ہوں کہ جھنڈا کے نصب کرنے اور اس کو لہرانے کی تجویز پر عمل کیا جائے وہ کھڑے ہو جائیں.“ تجویز کے حق میں ۳۴۸ جبکہ تجویز کے خلاف ۹ دوستوں نے رائے دی.اس پر حضور نے فرمایا :- میں بھی کثرتِ رائے کے حق میں فیصلہ دیتا ہوں.جھنڈا نصب کیا یا لہرایا جائے.یہ تو ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا قائم رکھا جاتا تھا.بعض لوگ تو کہتے ہیں کہ اب تک ترکوں کے پاس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا موجود ہے.یہ صحیح ہو یا نہ ہو بہر حال ایک لمبے عرصہ تک مسلمانوں کے پاس جھنڈا قائم رہا اس لئے اس زمانہ میں جو ابھی احمدیت کا ابتدائی زمانہ ہے ایسے جھنڈے کا بنایا جانا اور قومی نشان قرار دینا جماعت کے اندر خاص قومی جوش کے پیدا کرنے کا موجب ہوسکتا ہے.پس میں بھی فیصلہ کرتا ہوں اور میرا خیال ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ سے پیسہ پیسہ یا دھیلہ دھیلہ کر کے مخصوص صحابہ سے ایک مختصر سی رقم لے کر اس سے روئی خریدی جائے، اور صحابیات کو دیا جائے کہ وہ اس کو کا تیں اور اس سوت سے صحابی کپڑا تیار کریں.اسی طرح صحابہ ہی اچھی سی لکڑی تراش کر لائیں.پھر اُس کو باندھنے کے بعد جماعت کے نمائندوں کے سپرد کر دیا جائے کہ یہ ہمارا پہلا قومی جھنڈا ہے.پھر آئندہ اس کی نقل کروالی جائے.اس طرح جماعت کی روایات اُس سے اس طرح وابستہ ہو جائیں گی کہ آئندہ آنے والے لوگ اس کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار ہوں گے.“ مجلس مشاورت میں یہ تجویز زیر غور آئی کہ جو بلی کے جوبلی کے موقع پر مشاعرہ موقع پر ایک پاکیزہ مشاعرہ بھی منعقد کیا جائے.نمائندگان کی آراء کے بعد رائے شماری ہوئی ۳۲۴ آراء اس حق میں تھیں کہ تقریروں کے دوران میں ہی نظمیں پڑھ دی جائیں جبکہ ۳۳ آراء با قاعدہ مشاعرہ کے حق میں تھیں.اس حضور نے کثرتِ آراء کے حق میں فیصلہ دیا اور بعض امور کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:-
خطابات شوری جلد دوم ۳۹۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء میں اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے بعض باتیں کہنا چاہتا ہوں.نیر صاحب نے اپنی تقریر میں جس مشاعرہ کے انتظام کا ذکر کیا ہے مجھے اپنی عمر کے لحاظ سے بھی اور اس لحاظ سے بھی کہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس آنے جانے کا زیادہ موقع مل سکتا تھا اس کا زیادہ علم ہے.حقیقت یہ ہے کہ انعقاد کرنے والوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اجازت طلب کی تھی کہ ہم ایک مشاعرہ کرنا چاہتے ہیں جس میں دینی اشعار ہوں گے اور لغو باتیں نہیں ہوں گی اور اس طرح ایک رنگ میں دینی خدمت کا موقع ملے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی اجازت دے دی جو میں ہی لے کر آیا.اس کے بعد وہ پارٹی جو اب لاہور میں بیٹھی ہے اُس کا دستور تھا کہ یہاں خواہ کوئی کام ہو جب تک اُس میں اُن کا دخل نہ ہو وہ اُس میں کوئی نہ کوئی روڑا ضرور اٹکاتے تھے.انہوں نے جب دیکھا کہ مشاعرہ ہوگا اور نظمیں پڑھی گئیں.میں نے اس کے لئے جو نظم لکھی تھی وہ مشاعرہ سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سنی تھی اور بعض جگہ مشورے بھی دیئے تھے.انہوں نے جب دیکھا کہ مجلس مشاعرہ ہوئی اور کامیاب ہوئی تو انہوں نے نہ معلوم کیا خیال کیا کہ اب ہمیں کتنا نقصان پہنچے گا.اُنہوں نے یہ معاملہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے پیش کیا اور جیسا کہ پیش کردہ ڈائری کے الفاظ میں بھی اس کے متعلق اشارہ پایا جاتا ہے کہا کہ ایسی مجلسوں کا نتیجہ یہ ہوگا کہ طالب علم پڑھائیاں چھوڑ دیں گے ، مدرس پڑھانا ترک کر دیں گے اور اس طرح بہت نقصانات ہوں گے اور اس بات کو اس رنگ میں پیش کیا کہ گویا اب روزانہ یا دو روزه یا سہ روزہ ایسی مجالس منعقد ہوا کریں گی اور اس طرح کے ارادے جب مشاعرہ کرنے والوں کی طرف منسوب کئے گئے کہ سب کام بند ہو جائیں گے اور پڑھائی بھی بند ہو جائے گی تو آپ نے وہ الفاظ فرمائے جو ڈائری میں درج ہیں.اس کے بعد جب مشاعرہ کرنے والوں نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یہ تو آپ کی اجازت سے ہوا تھا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے جو اجازت دی تھی وہ تو ٹھیک ہے لیکن مجھے تو یہ بتایا گیا ہے کہ اس کے نتیجہ میں طالب علم پڑھنا چھوڑ چھاڑ کر اور استاد تعلیم دینا ترک کر کے اب شعر ہی بنایا کریں گے اس لئے میں نے یہ کہا ہے.اور ڈائری کے یہ الفاظ اس وجہ سے ہیں کہ ہماری طرف غلط ارادے منسوب کئے گئے اور بدظنی سے کام لیا گیا تھا.یہ تو میں نہیں کہتا کہ ان
۳۹۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء خطابات شوری جلد دوم لوگوں نے جھوٹ بولا تھا لیکن انہوں نے ہماری طرف جو ارادے منسوب کئے وہ بدظنی پر مبنی تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ڈائری میں ایک حصہ غلط رپورٹ کی وجہ سے ہے اور - دوسرا حصہ جو ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عام حالات پر غور کر کے فرمایا ہے.مشاعرہ واقعات کی مجبوری کی وجہ سے جائز بھی ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک دفعہ ایک قافلہ آیا اور کہا کہ ہم آپ کا امتحان لینا چاہتے ہیں اور اس طرح یہ فیصلہ کرنا چاہتے ہیں کہ آپ کو قبول کیا جائے یا نہ کیا جائے.اور امتحان کا طریق ہم نے یہ تجویز کیا ہے کہ ہم اپنے شاعر پیش کرتے ہیں اور آپ اپنے کریں اور ہم فیصلہ کریں گے کہ ان میں کون اچھے ہیں.اور چونکہ ان کے نزدیک ادبی نشان ایک بڑا نشان تھا.آپ نے فرمایا بہت اچھا.اور یہی موقع ہے جب آپ نے حسان بن ثابت کو مقرر فرمایا کہ مقابلہ کریں اور یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے گا ہے چنانچہ یہ مقابلہ ہوا اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ان میں سے بہتوں کو ہدایت دے دی اور یہ مجبوری ہے اور ایسے حالات میں مشاعرہ کرنا ضروری ہو جاتا ہے.مگر موجودہ حالات میں میری رائے یہی ہے کہ مشاعروں میں تکلف زیادہ پایا جاتا ہے اس لئے بجائے اس کے عام تحریک کر دینی چاہئے کہ دوست شعر کہیں اور اسی رنگ میں اعلان کر دینا چاہئے اور اس طرح جو نظمیں آئیں اُن کو تقریروں کے دوران میں ہی پڑھنے کا موقع دے دیا جائے.ان نظموں کو پہلے دیکھ بھی لینا چاہئے.میں نے دیکھا ہے کہ نظم پڑھنے بلکہ تلاوت قرآن کریم کرنے کے وقت بھی بعض لوگ اس بات کا کوئی خیال نہیں رکھتے کہ موقع کیسا ہے.پھر بعض لوگ نظم کہتے ہیں اور سو دوسو شعر کہہ لاتے ہیں.سُننے والے جَزَاكَ الله ، جزاک اللہ کہتے جاتے ہیں اور ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ خدا کے واسطے اب بند کرو لیکن نظم پڑھنے والا سمجھتا ہے کہ شاید میرے شعروں سے ان کو بہت مزا آ رہا ہے.پس نظمیں پہلے سے دیکھ لینی چاہئیں کہ بلا وجہ لمبی نہ ہوں ، خلافِ ادب مضامین ان میں نہ ہوں ، خلاف علم نہ ہوں اور صرف وہی نظمیں پڑھنے کی اجازت دی جائے جو دینی جوش کے ماتحت کہی گئی ہوں.“
خطابات شوری جلد دوم ۳۹۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء جو بلی کے موقع پر جلوس ایک جویز یہ بھی پیش ہوئی کہ جلسہ جو بل پر قادیان میں ایک بڑا جلوس نکالا جائے.۱۹۸ نمائندگان نے اس کے حق میں اور ۱۵۶انے اس کے خلاف رائے دی.اس پر حضور نے احباب کو اسلامی تعلیم کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:- جلوسوں کے متعلق میں عرصہ سے غور کر رہا ہوں اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہماری جماعت جلوسوں اور سفروں کے معاملہ میں بجائے اسلامی تعلیم حاصل کر کے اسے قائم کرنے کے دوسروں کی نقل کی طرف زیادہ مائل ہو گئی ہے اور اس میں اسلامی شعار نظر آنے کے بجائے احراری اور کانگرسی طرز زیادہ نمایاں ہے اور جس رنگ میں اسلام میں جلوس جائز ہیں ہم اس کے خلاف جا رہے ہیں اور اس لئے اسی معاملہ میں ہمیں مزید احتیاط کی ضرورت ہے اور میں سمجھتا ہوں اس بارہ میں ہمیں بعض پابندیاں عائد کر دینی چاہئیں.ایک نقص تو یہ ہے کہ جلوسوں میں میں نے دیکھا ہے کہ اس رنگ میں اشعار پڑھے جاتے ہیں جو میرے نزدیک اسلامی وقار کے خلاف ہیں.حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں جب آپ سفر کر رہے ہوتے تو بعض لوگ نظمیں پڑھتے تھے اور بعض کو آپ خود تحریک فرما دیتے تھے بلکہ یہاں تک بھی لکھا ہے کہ جب کوئی شخص نظم پڑھتا تو بعض اوقات آپ فرماتے کہ اللہ تعالیٰ تجھے راحت بخشے.اور تجربہ سے ثابت ہے کہ جس کے متعلق آپ یہ فرماتے وہ شہید ہو جاتا تھا.ایک دفعہ ایک شخص نے شعر پڑھے اور آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ تجھے راحت بخشے.اس کے دوستوں نے اس سے کہا کہ مبارک ہو، اب تم شہادت کا درجہ پا لو گے.مگر اب ہمارے ہاں جلوس کا جو طریق رائج ہو گیا ہے وہ یہ ہے کہ ایک شخص نظم پڑھتا ہے اور سارا جلوس اس کا جواب دیتا ہے، یہ اسلامی طریق نہیں.اسلامی طریق یہ ہے کہ جس کا دل چاہے وہ ساتھ پڑھے اور جس کا دل چاہے وہ سنے.یہ ضروری نہیں کہ سب کے سب پڑھیں.میرے خیال میں یہ طریق غلط ہے اسی طرح نعروں کے متعلق بھی میں نے دیکھا ہے کہ غلط طریق اختیار کر لیا گیا ہے.اس کا تعلق بھی جلوس سے ہے اس لئے اس کا ذکر بھی میں یہاں کر دینا چاہتا ہوں.میری خواہش رہی ہے کہ ہمارے علماء اس کے متعلق اسلامی طریق پیش کریں.جہاں
خطابات شوری جلد دوم ۳۹۶ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء تک مجھے یاد ہے احادیث سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لاتے یا کوئی شخص آتا تو مسلمان اهلا وَ سَهْلًا وَ مَرْحَبًا کہا کرتے تھے.یہ مجھے یاد نہیں کہ کسی ایسے موقع پر اللہ اکبر کے نعرے لگائے گئے ہوں.اللهُ أَكْبَرُ کا نعرہ تو قربانیوں کے نتائج سے تعلق رکھتا ہے مثلاً خندق کھودتے وقت جب ایک ایسا پتھر آ گیا، جو ٹوٹنے میں نہ آتا تھا تو صحابہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا.آپ نے کدال ماری تو اس میں سے شعلے نکلے اور آپ نے کشف میں دیکھا کہ قیصر و کسری کے خزانے آپ کو دیئے گئے ہیں اس پر آپ نے اللهُ أَكْبَرُ کا نعرہ لگایا اور صحابہ نے بھی آپ کا تتبع کیا.یا اسی طرح عید کے موقع پر جسے عیدالاضحیہ کہتے ہیں، تکبیر کے کلمات کہے جاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں موقع بے موقع اللہ اکبر کے نعروں کا رواج ہو گیا ہے.جس موقع پر اهلًا وَ سَهْلًا وَ مَرْحَبًا کہنا چاہئے اس موقع پر بھی اللہ اکبر کے نعرے لگا دیئے جاتے ہیں اور الوداع کے موقع پر بھی.یہ تو وہی بات ہوئی جیسے پنجابی میں کہتے ہیں کہ ہر مصالحہ پیلا مول.“ ہر چیز کے استعمال کا ایک موقع ہوتا ہے.جلوس کے ساتھ نعروں کا بھی غلط استعمال ہونے لگا ہے.ایک دفعہ ہم جب ایک جگہ پہنچے تو دوستوں نے نعرہ ہائے تکبیر بلند کئے.میں نے کہا ہم تو ملنے آئے ہیں.اللہ اکبر کے نعروں کا یہ کیا موقع ہے.لیکن جب میں یہ کہہ کر آگے بڑھا تو پھر وہی نعرے لگائے جانے لگے.میرا خیال ہے جلوس کا سوال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے بھی آیا ہے اور آپ نے اسے پسند فرمایا ہے کہ اس سے لوگ یہ سمجھیں گے کہ ہزاروں احمدی ہو چکے ہیں.اس طرح کے جلوس صحابہ سے بھی ثابت ہیں کہ ہجوم کر کے بعض موقع پر چلتے تھے.عید کے متعلق ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ایک رستہ سے جاؤ اور دوسرے سے آؤ کے اس سے بھی ایک جلوس کی صورت ہو جاتی ہے کیونکہ آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جہاں تک ہو سکے اکٹھے آؤ جاؤ.اس سے دشمنوں پر رعب ہوتا ہے اور ان کو یہ دیکھنے کا موقع ملتا ہے کہ سلسلہ کو کتنی ترقی حاصل ہو چکی ہے اور ویسے جلوس کا ثبوت احادیث سے ملتا ہے.مگر ہمارے ہاں جلوسوں کا طریق غلط ہے اسے ایک تماشا بنا لیا جاتا ہے بجائے سنجیدہ بنانے کے.میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ ہجوم اپنے طور پر چلتا جائے اور ہر شخص اپنی پسند کے مطابق
خطابات شوری جلد دوم ۳۹۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء شعر پڑھے یا سنے.بناوٹ اور تصنع کی کوئی ضرورت نہیں.میں نے دیکھا ہے، سیرت النبی کے موقع پر جب دوست جلوس نکالتے ہیں تو بجائے اس کے کہ اس موقع پر ایسے شعر پڑھے جائیں اور تقریریں کی جائیں جن سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان ظاہر ہو، ایسے اشعار پڑھتے ہیں جن کا اس موقع کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا.جلسہ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کا ہوتا ہے مگر وہ پڑھتے ہیں ؎ جس کی دعا سے آخر لیکھو مرا تھا کٹ کر ماتم پڑا تھا گھر گھر وہ وہ میرزا یہی ہے حالانکہ اس تحریک کی غرض یہ ہے کہ ہندوؤں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت بیان کر کے متاثر کیا جائے اور اُن کے دلوں میں آپ کی رغبت پیدا کی جائے اور ظاہر ہے کہ ایسے موقع پر ایسے اشعار پڑھنے سے یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا.یہ تو ایسی ہی ہے کہ کسی کو کہا جائے کہ فلاں شخص سے جا کر صلح کر آؤ اور وہ جا کر اُس کی داڑھی پکڑے، اسے کون صلح کہہ سکتا ہے.اور جس وقت ہم یہ کوشش کریں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ہندوؤں کے قلوب میں رغبت پیدا کی جائے اُس وقت یہ شعر پڑھنا بالکل نا مناسب ہے.اور پھر لطیفہ یہ ہے کہ یہ اشعار رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق بھی نہیں ہیں.پس اس قسم کے جلوس اسلامی طرز پر نہیں ہوتے بلکہ احرار اور کانگرس کی نقل ہے.دوست سمجھتے ہیں کہ اس سے فائدہ ہوتا ہے حالانکہ فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہوتا ہے.پھر جلوس میں قطار میں بنا بنا کر چلتے ہیں.اور فوجی صورت بنانا ضروری سمجھا جاتا ہے.حالانکہ جلوس میں شامل ہونے والے سب اس قسم کے نہیں ہوتے کہ اس طرح چل سکیں.کوئی لاتیں گھسیٹ رہا ہوتا ہے اور کوئی بھاگ رہا ہوتا ہے حالانکہ اگر فوجی صورت ہی بنانی ہو تو چاہئے کہ اُن جیسے ہوں اور یا پھر اپنے رنگ میں ہی چلیں جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں ہوتا تھا لوگ ہجوم بنا کر چلے جاتے تھے لیکن یہاں نہ تو وہ صورت ہوتی ہے اور نہ فوجی.پس میں سب کمیٹی کی تجویز کو اس شرط پر منظور کرتا ہوں کہ وقار اسلامی کو مدنظر رکھا جائے.ایسا طریقہ اختیار کیا جائے جس سے احمدیت کی شوکت کا اظہار ہو اور ایسا نہ ہو جس
خطابات شوری جلد دوم سے اس کے وقار کو صدمہ پہنچے.“ ۳۹۸ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء جو بلی کے موقع پر چراغاں جویلی کے موقع پر اظہار خوشی کے لئے چراغاں کرنے کی تجویز پیش ہوئی تو حضور نے اس کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا : - تجویز یہ ہےکہ اس تقریب پر ایک رات معین کر کے قادیان کی تمام مساجد، منارہ مسیح.مقبره بهشتی، قصر خلافت اور سلسلہ کی دیگر پبلک عمارات پر چراغاں کیا جائے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بعض خوشی کے موقعوں پر ہوا ہے.یہ چراغاں خوشی کے طبعی اظہار کے علاوہ تصویری زبان میں اس بات کی بھی علامت ہوگا کہ جماعت کی دلی خواہش اور کوشش ہے کہ اللہ تعالیٰ سلسلہ کے نور کو بہتر سے بہتر صورت میں اور جلد سے جلد دنیا کے سارے کناروں تک پہنچائے.لوگ خود بخود خوشی کا اظہار کریں یہ تو اور بات ہے لیکن یہ کہ ایسا کرنا ضروری قرار دیا جائے یہ ایک علیحدہ بحث ہے اور اس لئے سب سے پہلے میں یہ سوال لیتا ہوں کہ آیا چراغاں کرایا جانا چاہئے یا نہیں؟ محض چراغاں سے بحث نہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ملکہ کی جو بلی پر ایسا کرایا.سوال یہ ہے کہ بعض باتیں جو دنیوی بادشاہوں کے لئے جائز ہو سکتی ہیں وہ کیا دینی لوگوں کے لئے بھی جائز ہو سکتی ہیں؟ اس لئے جو دوست یہ سمجھتے ہیں کہ چراغاں کرنا جائز ہے اور اس موقع پر بھی چاہئے ، وہ کھڑے ہو جائیں.“ اس پر ۴۳۰ دوست کھڑے ہوئے.اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ:- جو اس کے خلاف ہیں وہ کھڑے ہو جائیں“ تو صرف ۱۳ دوست کھڑے ہوئے.اس پر حضور نے فرمایا کہ:.میں اس معاملہ میں کسی قدر تفصیل اور وضاحت سے بعض باتیں کہنی چاہتا ہوں جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے چراغاں ثابت ہے.آپ نے
خطابات شوری جلد دوم ۳۹۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء دو بار ملکہ وکٹوریہ اور غالباً شاہ ایڈورڈ کی جو بلیوں پر چراغاں کرایا.یا شاید دونوں جو بلیاں ملکہ وکٹوریہ کی ہی تھیں اور مجھے خوب یاد ہے کہ دونوں مواقع پر چراغاں کیا گیا.چونکہ بچپن میں ایسی باتیں اچھی لگتی ہیں اس لئے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مسجد مبارک کے کناروں پر چراغ جلائے گئے.اور بنولے ختم ہوئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آدمی بھیجا کہ جا کر اور لائے.ہمارے مکان پر بھی ، مسجد میں بھی اور مدرسہ پر بھی چراغ جلائے گئے تھے.اور میر محمد الحق صاحب نے بھی اس کی شہادت دی ہے اس لئے خالی چراغاں کی مخالفت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.میرا عقیدہ ہے کہ حکم و عدل ہونے کی حیثیت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام قرآنی نص کے خلاف کوئی بات نہ کرتے تھے اور چراغاں آپ سے ثابت ہے.اس کے متعلق گواہیاں بھی موجود ہیں اور الحکم میں بھی یہ درج ہے اس لئے خاص چراغاں کے متعلق کسی بحث کی ضرورت نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس رنگ میں جو خوشی کا اظہار کیا وہ اپنے اندر ایک حکمت رکھتا ہے جیسا کہ مومن کی ہر بات اپنے اندر حکمت رکھتی ہے.چراغاں خصوصاً جب وسیع پیمانہ پر کیا جائے اور ہر گھر میں کرنا ضروری قرار دیا جائے اس پر اتنا خرچ آجاتا ہے کہ اس کے مقابلہ میں اس کا کوئی حقیقی فائدہ نظر نہیں آتا.ہاں جہاں اس کی ملکی اور سیاسی ضرورت ہو یا جہاں زیادہ روشنی کی ضرورت ہو وہاں اگر کیا بھی جائے تو کوئی حرج نہیں.جیسا کہ میر صاحب نے حضرت عمرؓ کی طرف سے مسجد میں زیادہ روشنی کے انتظام کی مثال دی ہے.مسجد ایک ایسی جگہ ہے جہاں زیادہ روشنی کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ لوگ وہاں قرآن شریف پڑھتے ہیں یا اور دینی کتب کا مطالعہ کرتے ہیں.پس اگر حضرت عمرؓ نے مسجد میں زیادہ روشنی کا انتظام کیا تو اس میں حکمت تھی.ورنہ جہاں تک ہم دیکھتے ہیں اسلام میں خوشیاں ایسے رنگ میں منائی جاتی ہیں کہ بنی نوع انسان کو اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچ سکے.مثلاً عید ہے اس میں قربانی کرنے سے غریبوں کو گوشت ملتا ہے، عیدالفطر پر فطرانہ سے غریبوں کو مدد دی جاتی ہے.تو اسلام نے جہاں بھی خوشی منانے کا حکم دیا ہے اس بات پر زور دیا ہے کہ اسے ایسے رنگ میں منایا جائے کہ ملک اور بنی نوع انسان کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے لیکن چراغاں کی صورت میں کوئی ایسا فائدہ
۴۰۰ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء خطابات شوریٰ جلد دوم نہیں ہو سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو چراغاں کرایا وہ ایک سیاسی مصلحت پر مبنی تھا اور اسی طرح بعض اوقات آپ ہمیں آتش بازی بھی لے دیا کرتے تھے تا کہ بچوں کا دل خوش ہو اور فرمایا کرتے تھے کہ گندھک کے جلنے سے جراثیم ہلاک ہو جاتے ہیں.چنانچہ آپ نے کئی دفعہ ہمیں انار اور پھلجڑیاں وغیرہ منگوا کر دیں.گو یہ ایک قسم کا ضیاع ہے مگر اس میں وقتی فائدہ بھی ہے گو ایسا نمایاں نہیں مگر اس سے بچوں کا دل خوش ہو جاتا تھا اور بچوں کے جذبات کو دبانے سے جو نقصان پہنچ سکتا ہے اس سے بچاؤ ہو جا تا تھا مگر آپ نے ساری جماعت کو آتشبازی چلانے کا حکم نہیں دیا.اسی طرح آپ نے اگر کسی مصلحت کے ماتحت چراغاں کیا تو اس کے یہ معنے نہیں کہ اب یہ ضروری ہو گیا.یہاں تو سوال یہ ہے کہ مذہبی طور پر جو تقریب منائی جائے کیا اس پر یہ جائز ہے یا نہیں؟ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو دنیوی بادشاہوں کے جشن کی خوشی کے موقع پر ایسا کیا تھا لیکن اب جو کیا جائے ، یہ ایک مذہبی تقریب ہوگی.میری خلافت کی جو بلی جو منائی جارہی ہے یہ کوئی انفرادی تقریب نہیں بلکہ اس لئے ہے کہ میں نظام سلسلہ کی ایک کڑی ہوں اور میرے خلیفہ ہونے کی وجہ سے ہے اور یہ مجلس بھی جماعت کی نمائندہ ہے اس لئے رو پید ایسے طور پر خرچ کرنا چاہیئے کہ ضائع نہ ہو اور اس بات کا خیال رکھا جائے کہ حیوانی جذبات پورے کرنے کا سامان نہ ہو.بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو اپنے اندر کشش رکھتی ہیں اور چراغاں بھی ایسی ہی چیزوں میں سے ایک ہے.شادی بیاہ کے مواقع پر لوگ چراغاں کرتے ہیں اور اس موقع پر اس کی ضرورت بھی ہوتی ہے.مہمان آئے ہوئے ہوتے ہیں، سامان پکھرا ہوا ہوتا ہے اس لئے اس موقع پر اس کا فائدہ بھی ہو سکتا ہے.مگر اس تقریب پر اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں اِس لئے اس تحریک کو یوں بدل دیا جائے کہ منارہ پر روشنی کا انتظام کر دیا جائے.منارہ پر جو بڑے لیمپ ہیں وہ روشن کر دیئے جائیں اور اُن کے نیچے چھوٹے لگا دیئے جائیں تا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نشان بھی پورا ہو.اس طرح فضول خرچی بھی نہیں ہوگی.ایک ایسی تقریب جو اپنی نوعیت کی پہلی تقریب ہے ہمیں ایسے رنگ میں منانی چاہئے کہ اس میں کوئی بات فضول نہ ہو.اگر چہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے بعض اوقات عبث کام بھی کرنا پڑتا ہے کیونکہ مصلحت کا
خطابات شوری جلد دوم ۴۰۱ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء تقاضا ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شاہی جو بلیوں کے مواقع پر چراغاں کیا ہے کیونکہ سارے ملک میں یہ کیا گیا تھا اور اُس وقت اگر آپ ایسا نہ کرتے تو سیاسی رنگ میں یہ قابلِ اعتراض بات ہوتی.پس ضرورت کے موقع پر بے شک جائز ہے اُس وقت چونکہ ضرورت تھی آپ نے ایسا کر دیا.پس میں یہی فیصلہ کرتا ہو کہ منارہ مسیح پر رونی کا انتظام کر دیا جائے تا اللہ تعالی نے احمدیت کی روشنی کو جو بڑھایا ہے اس کا ظاہری طور پر بھی اظہار ہو جائے.باقی اس موقع پر صدقہ خیرات کر دیا جائے.اور چونکہ قادیان کے غریب احمدی تو لنگر خانہ سے کھانا کھائیں گے ہی، اس لئے جہاں جو صدقہ کیا جائے وہ غیر احمد یوں بلکہ ہندوؤں اور سکھوں کو بھی دیا جائے.“ فیصلہ جو بلی کے موقع پر جلسہ اور جلوس کی فلم کی تیاری سب کمیٹی کی طرف سے یہ تجویز پیش کی گئی کہ جو بلی کے موقع پر ایک فلم تیار کروائی جائے جو آئندہ نسلوں کے لئے بطور یادگار کام دے.کچھ نمائندگان مشاورت نے اس کے حق اور مخالفت میں اپنی آراء پیش کیں.اس کے بعد حضور نے اس بارہ میں چند نکات اُجاگر کرتے ہوئے فرمایا : - تجویز یہ ہے کہ ہو سکے تو اس جلسہ اور اجلاس وغیرہ کی ایک مناسب فلم تیار کرائی جائے جو تبلیغی لحاظ سے مفید ہو سکے لیکن اس پر ہماری طرف سے کوئی خرچ نہ ہو بلکہ کسی بیرونی کمپنی وغیرہ کو دعوت دے کر کوئی انتظام کرایا جائے.اس میں جلسہ اور جلوس کی فلم کی تیاری کی تجویز ہے مگر جلوس کو سب کمیٹی رڈ کر چکی ہے جو دوست اس کے حق میں ہوں کہ فلم تیار کرائی جائے وہ کھڑے ہو جائیں.“ اس پر ۱۹۸ دوست کھڑے ہوئے اور اس کے خلاف ۱۵۷نے رائے دی حضور نے فرمایا: - ایک سوال اس کے متعلق میرے دل میں ہے جس کی طرف ملک صاحب نے توجہ بھی دلائی تھی مگر اس پر زور نہیں دیا گیا.غالب کا ایک شعر ہے کہ
خطابات شوری جلد دوم ۴۰۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء حضرت ناصح گر آئیں دیدہ و دل فرش راہ کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا دو کہ سمجھائیں گے کیا جلوس کو آپ لوگ رڈ کر چکے ہیں.باقی رہا جلسہ سو وہ بیٹھ کر ہوگا اور فلم تو متحرک ہوتی ہے.جلسہ کی تصویر تو لی جاسکتی ہے مگر فلم نہیں بن سکتی.اور تصویر ہر سال لی جاتی ہے.نوجوانوں کے پاس کیمرے ہوتے ہیں اور وہ تصویر میں بھی لیتے ہیں اور اس سال بھی لی جاسکتی ہیں.باقی فلم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ جلوس کو آپ لوگ رڈ کر چکے ہیں.اس لئے گو اکثریت نے اس تجویز کے حق میں رائے دی ہے مگر اسے میں تسلیم بھی کرلوں تو بھی یہ بے نتیجہ ہے کہ کوئی فلم کمپنی ایسی ناسمجھ نہیں ہو سکتی جو بغیر فائدہ کے جلسہ کی فلم تیار کرنے کے لئے آئے اس لئے اس تجویز کو میں رڈ کرتا ہوں.مگر اس کے باوجود میں بعض باتیں کہنا چاہتا ہوں.میرا یہ فیصلہ اس بنیاد پر ہے کہ فلم لئے جانے کی کوئی چیز ہی اس تقریب میں نہ ہوگی.پھر اگر ہو بھی تو کسی کمپنی کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ آ کر اس جماعت کی کسی تقریب کی فلم تیار کرے جس نے جا کر اسے دیکھنا ہی نہیں.فلم کمپنیوں کا قاعدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اصل کھیل سے پہلے کوئی حصہ علمی یا اخباری رکھ دیتے ہیں اور اُس وقت بعض لوگ سیگریٹ پیتے اور چاکلیٹ کھاتے ہیں اور کچھ اسے دیکھ بھی لیتے ہیں جن کو اس سے کوئی دلچسپی ہو.اگر تو احمدیوں نے جا کر دیکھنا ہو تو کوئی کمپنی فلم تیار کر سکتی ہے.وہ سمجھے گی کہ کیا ہوا اگر ہزار روپیہ خرچ ہو گیا تو ہزارہا کی آمد بھی تو ہو گی.مگر ہم نے جب دیکھنا ہی نہیں تو کیا ہم کسی سے کہیں گے کہ آپ تشریف لائیں اور فلم تیار کریں مگر ہم دیکھیں گے نہیں بلکہ دوسروں کو بھی نصیحت کریں گے کہ آپ کے پاس نہ پھٹکیں.یہ تو ایسا ہی ہے کہ جیسے کوئی انشورنس کمپنی قادیان میں آ کر اپنا دفتر کھول دے.اس لئے یہ بات ہی غلط ہے کہ کوئی کمپنی آ کر فلم تیار کرے گی.سینما کی ممانعت کے بارہ میں پھر بعض لوگوں کے منہ سے یہ بات بھی نکلی ہے کہ سینما کی ممانعت دس سال کے لئے ہے.انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ بُرائی کا تعلق دس سال یا بیس سال سے نہیں ہوتا.جس چیز میں کوئی خرابی ہو وہ کسی میعاد سے تعلق نہیں رکھتی.اس طرح تو میں نے صرف آپ لوگوں کی عادت چھڑا دی
۴۰۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء خطابات شوری جلد دوم ہے.اگر میں پہلے ہی یہ کہہ دیتا کہ اس کی ہمیشہ کے لئے ممانعت ہے تو بعض نوجوان جن کے ایمان کمزور تھے اس پر عمل کرنے میں تامل کرتے.مگر میں نے پہلے تین سال کے لئے ممانعت کی اور جب عادت ہٹ گئی تو پھر مزید سات سال کے لئے ممانعت کر دی اور اس کے بعد چونکہ عادت بالکل ہی نہیں رہے گی اس لئے دوست خود ہی کہیں گے کہ جہنم میں جائے سینما، اس پر پیسے ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے.قانون شکن تو اب بھی ہیں مگر اب ایک آدھ فیصدی ہے لیکن اگر میں یہ صورت نہ اختیار کرتا تو چالیس فیصدی ایسے ہوتے خصوصاً کالجوں کے طلباء.پس یہ خیال کہ دس سال کے بعد اس کی اجازت ہو جائے گی غلط ہے.میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ کوئی نام اپنی ذات میں کوئی حقیقت نہیں رکھتا اس لئے یہ کہنا که سینما یا با ئیسکوپ یا فونوگراف اپنی ذات میں بُرا ہے صحیح نہیں.فونوگراف خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سُنا ہے بلکہ اس کے لئے آپ نے خود ایک نظم لکھی اور پڑھوائی اور پھر یہاں کے ہندوؤں کو بلوا کر سنائی.یہ وہ نظم ہے جس کا ایک شعر یہ ہے کہ آواز آ رہی ہے یہ فوٹو گراف سے ڈھونڈو خدا کو دل سے نہ لاف و گزاف سے پس سینما اپنی ذات میں بُرا نہیں بلکہ اس زمانہ میں اس کی جو صورتیں ہیں وہ مخرب اخلاق ہیں.اگر کوئی فلم کلی طور پر تبلیغی یا تعلیمی ہو اور اس میں کوئی حصہ تماشہ وغیرہ کا نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں.میری یہی رائے ہے کہ تماشہ تبلیغی بھی ناجائز ہے.ہم جب ولایت میں گئے تو بعض لوگوں نے کہا کہ اذان دیں یا نماز پڑھائیں کہ ہم اس کی تصویر لیں.مگر میں نے کہا کہ تماشہ کے لئے میں ایسا نہیں کر سکتا.شام میں جب ہم گئے تو وہاں مولوی فرقہ کے لوگوں کا ایک مرکز ہے.دمشق میں ان کی باقاعدہ گدی ہے.مجھے دوستوں نے کہا کہ اگر آپ دیکھنا چاہیں تو انتظام کیا جائے.اُن کو کچھ پیسے دیئے گئے اور ان کے گدی نشین نے اپنے چالیس پچاس چیلے منگوا لئے اور اُنہوں نے حال وغیرہ دکھایا.مگر مجھے اس سے شدید نفرت ہوئی کیونکہ انہوں نے یہ تماشہ کے طور پر دکھایا تھا.پس کوئی حرکت خواہ وہ کتنی اچھی کیوں نہ ہو اگر اس کا مقصد تماشہ دکھانا ہو تو وہ نا جائز ہے.مگر سینما تو مخرب اخلاق ہونے کی وجہ سے ہی ناجائز قرار دیا گیا ہے.اگر کوئی شخص مثلاً ہمالیہ پہاڑ کے نظاروں کی فلم
خطابات شوری جلد دوم ۴۰۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء تیار کرے.وہاں کی برف، درخت، چشمے دکھائے جائیں.اس کی چٹانوں، غاروں اور چوٹیوں کا نظارہ ہوتو چونکہ یہ چیزیں علمی ترقی کا موجب ہوں گی میں اس سے نہیں روکوں گا.جس چیز کو ہم روکتے ہیں وہ اخلاق کو خراب کرنے والا حصہ ہے اور چونکہ آجکل کی فلموں میں یہ چیز عام ہے اس لئے ہم کسی فلم کے مخرب اخلاق ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ دیکھنے والوں پر نہیں چھوڑتے بلکہ اس بات کو مسلمہ قرار دیتے ہیں کہ سینما میں یہ خرابی موجود ہے.اور سینما کا آجکل اس قدر رواج ہو گیا ہے کہ اسے زندگی کا جز وسمجھا جانے لگا ہے.تحریک جدید کے بعد میری ہمشیرہ سے شملہ میں بعض تحریک جدید کا غیروں پر اثر کریک جدید سامیوں کے غیر احمدی اور غیر مسلم معززین کی مستورات نے ذکر کیا کہ یہ تحریک بہت مفید ہے بلکہ بعض نے اس کی کا پیاں منگوا کر تقسیم کیں.ایک کھانا، سادہ کپڑے، ضرورت سے زیادہ کپڑے نہ بنوانا ان سب باتوں کو ان سب نے بہت پسند کیا مگر سینما کی ممانعت کے متعلق کہا کہ یہ بہت مشکل ہے اسے نہیں چھوڑا جا سکتا.تو یہ چیز ایسی گھر کر گئی ہے کہ آجکل اسے چھوڑنا بہت مشکل معلوم ہوتا ہے لیکن اس کی خرابی میں کوئی شک نہیں.احمدیوں میں بھی بعض ایسے ہیں جو اس ممانعت کو توڑتے ہیں مگر وہ بہت کم ہیں.لاہور میں ایک شخص نے سینما دیکھا.دوسرے نے اُسے کہا کہ اس کی تو ممانعت ہے تو اُس نے کہا کہ سات سال کے بعد تو اجازت ہو جائے گی اگر میں نے پہلے دیکھ لیا تو کیا ہوگا.لیکن اس کی دوبارہ اجازت کا خیال آپ لوگوں کو دل سے نکال دینا چاہئے کیونکہ اس میں روپیہ کے ضیاع کے علاوہ اخلاق کی بھی تباہی ہے پھر اسراف کے حصہ کا تو علاج ہو سکتا ہے مگر اس کے ذریعہ اخلاق کو جو نقصان پہنچتا ہے وہ ایسا ہے کہ اگر کسی کے پاس لاکھوں کروڑوں بلکہ اربوں کھربوں روپیہ بھی ہو میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا اور جب تک فلمیں مخرب اخلاق رہیں گی اس کی ممانعت قائم رہے گی.اسی طرح جب کسی فونوگراف کے ریکارڈ مخرب اخلاق ہوں تو اس کی بھی ممانعت ہوگی لیکن اگر فلمیں تعلیمی ہوں تو اس کی ممانعت نہیں ہوگی.اس طرح میں اس بات کے بھی خلاف ہوں کہ کوئی جلوس اس لئے نکالا جائے کہ کوئی اس کی فلم لے.یہ علیحدہ بات ہے کہ ہم جلوس نکال رہے ہوں اور کوئی تصویر لے لے، اس.
خطابات شوری جلد دوم ۴۰۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء میں کوئی حرج نہیں.تکلف اور تصنع سے کوئی کام کرنا درست نہیں اور میں اسے ناجائز سمجھتا ہوں بلکہ اپنے عزیز اور پیارے کی اس میں ذلت سمجھتا ہوں.“ سب کمیٹی دعوۃ و تبلیغ کی طرف سے یہ تجویز پیش يوم التبلیغ تین مرتبہ منایا جائے ہوئی کہ یوم التبلیغ جو اب سال میں دو مرتبہ ہوتے ہیں اور جن میں سے ایک غیر مسلموں میں تبلیغ کے لئے مقرر ہے آئندہ چار مقرر کئے جائیں یعنی ہر سہ ماہی میں ایک یوم التبلیغ ایسا مقرر ہو جس میں تمام افراد جماعت تبلیغ کیا کریں“.چند نمائندگان مشاورت نے اس بارہ میں اپنی آراء پیش کیں.اس کے بعد حضور نے فرمایا: - تجویز یہ ہے کہ یوم التبلیغ سال میں دو مرتبہ ہوتے ہیں آئندہ ان کو چار مرتبہ کر دیا جائے.سب کمیٹی نے اسے اسی صورت میں منظور کیا ہے.اب موافق اور مخالف آراء لوگوں نے سُن لی ہیں.اس لئے جو لوگ اس بات کی تائید میں ہیں کہ دو کی بجائے چار دن 66 کر دیئے جائیں وہ کھڑے ہو جائیں.“ تائید میں ۲۰۶ اور مخالف ۷۵ا رائے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ جن دوستوں نے موجودہ دودنوں کو دعوت الی اللہ کی ہدایات زیادہ مکمل طور پر منانے پر زور دیا ہے میری اپنی ذاتی " رائے میں اس وقت وہی حق پر ہیں.قادیان میں میں نے قطعی اور ذاتی طور پر نگرانی کرائی ہے اور میرے نزدیک دس آدمیوں میں سے صرف ایک کام کرتا ہے اور باقی 9 سیر کرتے ہیں.میں یہ نہیں کہتا کہ وہ جان بوجھ کر ایسا کرتے ہیں بد دیانتی سے نہیں بلکہ دیانت داری سے ان کا جو فعل ہے وہ عبث ہوتا ہے.جو کام ان کے سپرد کیا گیا ہے اس کی نگرانی کا صحیح انتظام نہیں.تنظیم نہیں ہوتی ، پارٹیاں بنا دی جاتی ہیں مگر ان کے لئے صحیح ہدایات نہیں دی جاتیں کہ جس جگہ انہوں نے جانا ہے وہاں کے کیا حالات ہیں اور ان لوگوں کی کیا حیثیت ہے بلکہ دعائے خیر پڑھ کر وہ نکل جاتے ہیں اور شام کو واپس آ جاتے ہیں اس سے اصل غرض پوری نہیں ہوتی بلکہ وہ فوت ہو جاتی ہے.جہاں جماعتیں چھوٹی ہیں وہاں یہ مقصد
خطابات شوری جلد دوم ۴۰۶ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء ایک حد تک پورا ہو جاتا ہے اور جہاں جماعتیں بڑی ہوتی ہیں وہاں یہ نقص زیادہ ہے اس لئے میرے نزدیک دو دنوں میں زیادہ مکمل طور پر کام کرنا چاہئے ، میں ان لوگوں سے متفق ہوں اس کی اصل غرض ایک رو چلانا ہے اور تبلیغ کا جوش پیدا کرنا ہے.اگر ہر ایک فرد کی نگرانی کی جائے اور پورا انتظام کیا جائے تو سارے کے سارے لوگ اس سے متاثر ہوتے ہیں.چنانچہ جب یہ دن آتا ہے تو غیر احمدی اور دوسرے لوگ ناراض ہوتے ہیں، حالانکہ آگے پیچھے وہ ناراض نہیں ہوتے صرف ان موقعوں پر وہ ناراض ہوتے ہیں.پس اس کی خوبیاں اور خامیاں بالکل جدا گانہ ہیں.میرے نزدیک دو دن چار سے زیادہ فائدہ مند ہیں.اس کی اصل غرض تبلیغ نہیں ہے بلکہ اس میں زیادہ زور مجموعی طاقت کے دکھانے کا ہے اور جماعت سے ہر فرد کا تعاون کرانا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ دو دنوں پر ایک اور دن بڑھا دیا یوم پیشوایان مذاہب می جائے اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دیرینہ خواہش پوری کرنے کے لئے ہو کہ تمام لوگوں کو دعوت دی جائے کہ وہ اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں یا اپنے مذہب کے بانی کے حالات اس موقع پر بیان کریں.پس ایک دن سال میں اور بڑھا دیا جائے جس میں تمام مذاہب والوں کو دعوت دی جائے ، ہندوؤں اور عیسائیوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو.اس میں ایک فائدہ یہ ہوگا کہ ہمارے لوگ اسلامی نقطہ نگاہ کو اچھی طرح پیش کر سکیں گے اور آہستہ آہستہ یہ بات عام ہو جائے گی کہ احمدیت کے دلائل زیادہ مفید اور غالب ہیں.اس موقع پر نہ صرف مذہبی خوبیاں ہی بیان ہوں بلکہ سیرت کے مضامین بھی لئے جائیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت مسیح ، کرشن اور حضرت مسیح موعود کی سیرت کے مضامین بیان ہوں.موجودہ جلسہ سیرت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت بیان ہوتی ہے لیکن ایسے جلسے میں ہر مذہب کے اُس بانی کی خوبیاں بیان کی جائیں جو الہام کا مدعی ہو.فیصلہ پس میں دو دنوں کی بجائے ایک دن بڑھاتا ہوں لیکن اس مخصوص غرض کے لئے کہ اُس دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مقرر کردہ تجویز کے مطابق مختلف مذاہب کے مامور مدعیان کے حالات بیان کئے جائیں.“
خطابات شوری جلد دوم ۴۰۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء جلسہ ہائے سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک تجویز پیتھی کہ ۱۲ سال سے یوم سیرۃ النبی منایا جارہا ہے اور اب وقت ہے کہ یومِ سیرت مسیح موعود بھی منایا جایا کرے“.سب کمیٹی دعوت وتبلیغ نے اس میں حسب ذیل ترمیم منظور کی کہ فی الحال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کو ہر احمدی جماعت اپنے سالانہ جلسہ کے پروگرام میں شامل کرے اور بجائے سیرت مسیح موعود کا جلسہ علیحدہ منعقد کرنے کے اس ضروری حصہ کو پروگرام کا لازمی حصہ قرار دیا جائے اس سے اخراجات کا بار بھی نہ پڑے گا اور مقصد بھی آسانی سے حاصل ہوگا.“ بحث کے دوران میں بعض نمائندگان نے اس ترمیم پر تنقید کی تو سب کمیٹی کے ایک ممبر محترم سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے سب کمیٹی کے دفاع میں ایک مختصر تقریر کی.اس کے بعد حضور نے احباب کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا : - شاہ صاحب نے بہت کچھ مٹی ڈالنے کی کوشش کی ہے.لیکن وہ تجویز جو میرے ہاتھ میں ہے اور وہ جس کو سب کمیٹی نے منظور کر کے ہمارے پاس بھجوایا ہے اُس کے اندر کچھ ایسے پھاوڑے ہیں جنہوں نے اس سب مٹی کو کھود دیا ہے.(اقتباس از رپورٹ سب کمیٹی ) اس تجویز پر خیالات کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلسوں میں غیر احمدی مسلمان عام طور پر روک ڈالتے ہیں اور خود بھی ہمارے بالمقابل جلسے کرتے ہیں اور پہلے سے ہی بدنام کرتے ہیں کہ احمدی اپنی تبلیغ کی خاطر یہ جلسے کرتے ہیں اس طرح غلط پراپیگنڈا سے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلسوں کی کامیابی کی راہ میں رخنے ڈالتے ہیں.اگر ہم سیرت مسیح موعود علیہ السلام کے جلسے کریں گے تو ان میں کامیابی کی صورت اس سے بہتر متوقع نہیں ہوسکتی جو ہمیں سیرت نبویہ کے جلسوں میں حاصل ہے بلکہ اس کا طبعی نتیجہ یہ ہو گا کہ سیرت النبی کا جلسہ بھی کمزور ہو جائے گا.کیا بلحاظ مخالفانہ پراپیگنڈا کے اور کیا بلحاظ اخراجات کے“.سب کمیٹی کی تجویز جو آئی ہے اس سے پتہ لگتا ہے کہ خرچ بہت بڑھ جائے گا.دوسرے
خطابات شوری جلد دوم ۴۰۸ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء یہ کہ اگر ہم نے ایسا کیا تو لوگ مخالفانہ پراپیگنڈا کریں گے کہ سیرت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جلسہ یہ لوگ اس واسطے کرتے تھے کہ کل کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر کریں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا لوگ ہم کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے کو پیش کرتے وقت یہ نہیں کہتے ؟ حالانکہ سیرت کا معاملہ بہت ہلکا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کا جلسہ ہم کرتے ہیں اس پر ہندو اور عیسائی بھی لیکچر دیتے ہیں، لیکن کیا خاتم النبیین پر بھی کوئی مضمون دینے کو تیار ہوتا ہے؟ اگر سیرت کی وجہ سے یہ رخنہ پیدا ہو گا تو ہمارے دوسرے دلائل کے بیان کرنے سے جو ہم روزانہ پیش کرتے ہیں لوگ کیا کہتے ہیں.باقی رہا اخراجات کا سوال؟ تو میں اس کی اہمیت نہیں سمجھ سکا کیونکہ اس رپورٹ میں سب کمیٹی نے دو اور جلسوں کی تائید کی ہے، کیا اس پر اخراجات نہیں ہوتے.جب یوم التبلیغ دو اور بڑھانے کی تجویز کی تھی تو کیا اس پر اخراجات نہیں بڑھتے ؟ پس یہ دونوں دلیلیں غلط ہیں.حقیقت یہ ہے کہ اس وقت شیطان نے ان کے دل میں یہ وسوسہ پیدا کر دیا ہے کہ اس طرح لوگ طعنہ دیں گے.گو انہوں نے جو کچھ کہا ہے نیکی اور نیک خیال سے کہا ہے کہ اس طرح سے ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے جو فائدہ حاصل کر رہے ہیں اور اس میں لوگ ہماری باتوں کو آ کر سُنتے ہیں اس سے ہم محروم ہو جائیں گے.میں اس سے پہلے کہہ چکا ہوں کہ ایسے جلسے کئے جائیں جن میں سیرت مسیح موعود علیہ السلام کا مضمون بھی آ جائے.جب ہم نے غیر کو سُنانا ہے تو بہتر ذرائع کیوں نہ اختیار کریں.پس یہ طریق بہتر ہے جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ ایک ایسا دن مقرر ہو جس میں ہر ایک مذہب اپنے اپنے بانی کی خوبیاں بیان کرے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس تجویز کو بیان فرمایا ہے.اس میں سیرت کا پہلو بھی آ جاتا ہے اور عملی طور پر اس طریق سے ہم زیادہ فائدہ اُٹھائیں گے.ہم جن کی تعریف کریں گے اُن کا زمانہ گزر چکا ہے اور جن کی وہ تعریف کریں گے اُن کا زمانہ ابھی جاری ہے.ایک پادری اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعریف کرے گا تو لازماً اس کے اندر ایک سُرنگ لگتی جائے گی.پس ایسے جلسے زیادہ مفید ہوں گے.جس صداقت کے ہم خود قائل ہیں دوسروں کو بھی اس کا حق ہے.ہم کرشن کو مانتے ہیں.عیسی علیہ السلام کو مانتے ہیں.اگر وہ ہم کو ان کی تعریف کرنے کو کہیں
خطابات شوری جلد دوم ۴۰۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء تو ہم کریں گے.قرآن مجید نے سب صداقتوں کو بیان کیا ہے کیا وجہ ہے کہ ہم تو اپنا حق لیں مگر ان کا حق نہ دیں.یہ ان کا قرضہ تھا جس کو اس صورت میں ادا کرنا چاہئے.اردو میں ایک مثال ہے کہ کبھی ایک کام کرنے کے دو نتیجے نکل آتے ہیں.انگریزی میں بھی یہ مثال ہے کہ کبھی ایک پتھر سے دو شکار مارے جاتے ہیں.پس ہم جب ان کا یہ قرضہ اُتاریں گے تو دوسری طرف عملی لحاظ سے ہم کو فائدہ ہوگا.وہ ہماری باتوں کو شوق سے سنیں گے.اس طرح یہ غرض جو سیرت مسیح موعود کی ہے پوری ہو جائے گی.مجھے صرف الفاظ پر اعتراض تھا کہ اگر لوگ سُن لیں تو بہتر اور اگر نہ سنیں تو پہلے فائدہ سے محروم نہیں ہونا چاہئے.گو میرے نزدیک یہ الفاظ کسی کمزوری کی وجہ سے نہیں کہے گئے بلکہ بعض اوقات انسان سے الفاظ بے احتیاطی سے لکھے جاتے ہیں.سیرت کے متعلق اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اس کا جماعت میں چرچا ہونا چاہئے.اس کے لئے الفضل کا ایک سالانہ نمبر سیرت پر ہوا کرے.یہ پرچہ چالیس پچاس صفحات کا ہو تا کہ جماعت کے سامنے یہ مضمون بار بار آتے رہیں.“ مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ میں داخلہ کا معیار سب کمیٹی تعلیم و تربیت نے میعار داخلہ مدرسہ احمدیہ، جامعہ احمدیہ کے بارہ میں رپورٹ پیش کی کہ فی الحال تجربہ کے طور پر معیار داخلہ انٹرنس پاس طلباء کا کر دیا جائے اور چند سال کے بعد عملی نتائج کی بناء پر اس سوال پر پھر غور کر لیا جائے.“ اس تجویز پر اظہار رائے کرتے ہوئے نمائندگان نے دو ترامیم بھی پیش کیں.اس کے بعد حضور نے فرمایا : - وو مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کے متعلق سب کمیٹی کی تجویز یہ ہے ( کثرتِ رائے سے) کہ فی الحال تجربہ کے طور پر داخلہ انٹرنس پاس طلباء کا کر دیا جائے اور چند سال کے بعد عملی نتائج کی بناء پر پھر غور کر لیا جائے.دوستوں کے سامنے مخالف اور موافق دونوں قسم کے خیالات آچکے ہیں.اب تین صورتیں ہیں.ا.سب کمیٹی کی تجویز کہ دسویں پاس طلباء کا داخلہ ہو.
خطابات شوری جلد دوم ۴۱۰ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء ۲ - ( ترمیم ) مدرسہ کی جو موجودہ صورت ہے وہی قائم رہے اور معیار کو بڑھایا نہ جائے.۳.(ترمیم) مڈل پاس کا معیار قائم کر دیا جائے.اس کے بعد رائے شماری کی گئی.سب کمیٹی کی تجویز کی تائید میں ۸۵.ترمیم اول ( موجودہ صورت قائم رہے ) کی تائید میں ۱۰۹.ترمیم دوم (مڈل پاس کا داخلہ ہو ) کی تائید میں ۱۵۲.رائے شماری کے بعد حضور نے فرمایا : - دورانِ گفتگو میں میری یہ رائے ہوگئی تھی کہ موجودہ صورت میں تجربہ مڈل پاس کا معیار ہی اختیار کر لیا جائے کیونکہ بعض لوگ ڈر رہے ہیں.میں نے اس اثناء میں ہیڈ ماسٹر صاحب سے دریافت کر لیا تھا کہ مڈل پاس کے لئے کس قدر عرصہ درکار ہو گا.تو اُنہوں نے کہا ہے کہ تین سال کافی ہوں گے.میری رائے دورانِ گفتگو میں مڈل پاس کے متعلق ہوگئی تھی اس لئے میں کثرتِ رائے کے حق میں فیصلہ کرتا ہوں.مجھے اب خیال آیا کہ مدرسہ بنات میں بھی ہم نے یہی سکیم جاری کی ہوئی ہے.وہاں بھی مڈل پاس کرنے کے بعد ہم دینیات کی طرف گئے ہیں.اس طرح ان دونوں میں ایک قسم کا اشتراک پیدا ہو گیا ہے گو میری رائے یہی ہے جیسا کہ کل میں نے ایک دوست سے ذکر کیا تھا کہ مبلغ کے لئے اعلیٰ اخلاق اور اعلیٰ ارادوں کا ہونا نہایت ضروری ہے اور اس کے لئے صحیح معیار انٹرنس پاس ہی ہے.کیا ہم چوتھی جماعت پاس کے طلباء کا انٹرویو کر سکتے ہیں؟ ہاں مڈل پاس کا انٹرویو ایک حد تک ہو سکتا ہے مگر پوری طرح نہیں.تبلیغ کے لئے ہم کو ایسے آدمی کی ضرورت ہے کہ جس میں اُمنگیں اور جذبات پیدا ہو گئے ہوں اور اس میں قابلیت پیدا ہو گئی ہو کہ وہ اپنے متعلق یہ فیصلہ کر سکے کہ میں آئندہ کیا کروں گا اور اس کا معیار کم سے کم انٹرنس پاس ہے.اس کے اُستاد بھی اس امر کی شہادت دے سکتے ہیں کہ اس کے اخلاق اور میلان طبع کیا ہیں.پرائمری پاس تو ابھی بچہ ہی ہوتا ہے جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں.اَلصَّبِيُّ صَبِيٌّ وَلَوْ كَانَ نَبِيَّات کہ اس کے اخلاق کا ابھی اظہار نہیں ہوتا ، وہ اپنے اخلاق کو ظاہر نہیں کرتا.وہ تو ایک نقال ہوتا ہے اور اپنے والدین کے اخلاق کو ظاہر کرتا ہے لیکن جب اس کی عمر بڑی ہوتی ہے تو اُس وقت اس کی حیثیت ایک منفردانہ رنگ رکھتی ہے.اور جب میں ایسے دلائل کو سُنتا ہوں کہ اس
خطابات شوریٰ جلد دوم ۴۱۱ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء صورت میں اس میں غرباء تعلیم نہیں پاسکیں گے تو میری طبیعت پر اس کا الٹا اثر پڑتا ہے کہ اس سے ہم ایک اعلیٰ نظام کو تباہ کرتے ہیں.یہ ایسی بات ہے کہ فلاں منافق کے لئے ایک صحابی کی قربانی کی جاوے.ہم بلغ ما انزل اليك کے لئے جو تعلیم جاری کرتے ہیں، اس کے لئے ہم یہ قربانی نہیں کر سکتے اور یہ بہت معیوب بات ہے کہ اگر ہم میں غرباء کی ہمدردی ہے تو انہیں انگریزی سکول میں امداد دے کر پڑھا لیں.اس سکول کی ترقی کو محض اس لئے روکنا کہ غرباء اس میں تعلیم نہیں پاسکیں گے بہت نا مناسب ہے اور غلط طریق ہے.یا تو یہ معیار ہوتا کہ غرباء میں سے مبلغ ہو سکتے ہیں تو پھر یہ کہنا صحیح ہوسکتا تھا لیکن اگر یہ معیار نہیں بلکہ ہر طبقہ میں مبلغ بننے کی قابلیت ہوتی ہے تو پھر یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم چند غرباء کی خاطر محکمہ تبلیغ قربان کر دیں.میں جب اِس دلیل کو سنتا ہوں تو میرے دل کو ٹھیس لگتی ہے اور میں کہتا ہوں کہ وقت آ گیا ہے کہ ہم اس معیار کو بہت جلد تبدیل کر دیں.میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ ہمارے لڑکے کچھ نہ کچھ تو ناکام رہتے ہیں اور اس صورت میں یہ کسی کام کے نہیں رہتے کیونکہ چوتھی جماعت والے کو کوئی کام نہیں ملتا لیکن مڈل پاس کو پھر بھی کچھ کام مل ہی جاتا ہے.لائل پور میں مالی تک کے لئے یہ شرط ہے کہ کم سے کم مڈل پاس ہو.پس سر دست تو جولڑ کا اس مدرسہ کو چھوڑ جائے وہ بالکل ہی ناکام رہتا ہے.اگر کم سے کم مڈل ہوگا تو کوئی اور کام تو کر لے گا.اس سے نیچے کا تعلیمی معیار رکھنا تو ظلم ہے.اب اس سے تجربہ کے طور پر دو تین سال تک امتحان کر لیا جائے.اور یہ بات غلط ہے کہ انٹرنس پاس کی صورت میں لڑکے نہ آئیں گے.بہر حال فوری طور پر تبدیلی کرنا بھی بعض اوقات نقصان دہ اور خطرناک ہوتا ہے اس لئے میں مڈل پاس کا فیصلہ کرتا ہوں اور ہیڈ ماسٹر صاحب اس کا فوری طور پر انتظام کر لیں.اس سال پہلی جماعت میں مڈل پاس طلباء داخل ہوں.یہ لڑکے اینگلو ور نیکر ہوں یعنی انگریزی مڈل پاس ہوں.“ وصیت کے لئے جائیداد کے معیار کی تعیین سب کمیٹی بہشتی مقبرہ کی طرف سے مجلس مشاورت کے اجلاس
۴۱۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء خطابات شوری جلد دوم میں رپورٹ پیش ہوئی کہ وصیت کے لئے ” جائیداد کا معیار مقرر ہونا چاہئے، بعض نمائندگان نے اس تجویز کے حق میں اور بعض نے مخالفت میں اپنی اپنی آراء کا اظہار کیا.رائے شماری سے قبل حضور نے چند امور کی وضاحت ضروری خیال کرتے ہوئے فرمایا :- ’ دوستوں کے سامنے سب کمیٹی کی رپورٹ آ چکی ہے.پہلے سوال یہ در پیش ہے کہ جائیداد کا معیار ہونا چاہئے.میں دفتر الوصیت سے یہ دریافت کرتا ہوں کہ آیا یہ قانون پاس ہو چکا ہے کہ آمد کی وصیت ضروری ہے اور جو شخص جائیداد کی وصیت کرے اُس کی آمد کی وصیت بھی لازمی ہے.“ اس پر رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء صفحہ ۸۹ حضور کی خدمت میں پیش کی گئی جس میں آمد کی وصیت کو بھی ضروری قرار دیا گیا تھا.اس پر حضور نے فرمایا : - میں سمجھتا ہوں کہ یہ سوال ایسا ہے کہ جس کے متعلق رائے لینے سے پہلے میں اپنے خیالات کا اظہار کر دوں.اس بارے میں میرے نزدیک بہت سی غلط فہمیاں ہوئی ہیں اور بہت سی غلط فہمیوں کا امکان ہے اِس لئے میں غیر معمولی طور پر اپنی عادت کے خلاف پہلے اپنی رائے کا اظہار کرتا ہوں.مگر یہ میری رائے ہوگی فیصلہ نہ ہوگا پہلے بھی میں کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سے بھی یہ ثابت ہے کہ مشورہ سے پہلے حضور نے بعض دفعہ اپنی رائے کا اظہار فرمایا.پس اس بات سے دوسروں پر کوئی بُرا اثر نہیں ہونا چاہئے.مومن جس چیز کو درست سمجھتا ہے وہی رائے دیتا ہے.- میرے نزدیک جو بات میر صاحب ( محترم میر محمد الحق صاحب ) نے بیان کی ہے کہ یہ شرطیں وحی خفی سے ہوئی ہیں ثابت نہیں ہوتی.وصیت کی عبارت سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وحی خفی نے آپ کو یہ توجہ دلائی ہے کہ کچھ شرطیں ہونی چاہئیں.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:- اس لئے خدا نے میرا دل اپنی وحی خفی سے اس طرف مائل کیا کہ ایسے قبرستان کے لئے ایسے شرائط لگا دیئے جائیں کہ وہی لوگ اس میں داخل ہوسکیں جو اپنے صدق اور راستبازی کی وجہ سے ان شرائط کے پابند ہوں.
خطابات شوری جلد دوم ۴۱۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء ”ایسے“ کا لفظ دلالت کرتا ہے کہ وحی خفی نے شرائط بیان نہیں کیں.یہاں پر یہ الفاظ نہیں ہیں کہ ایسے قبرستان کے لئے یہ شرائط لگا دیئے جائیں.یعنی وحی خفی شرائط کا لگانا ضروری قرار دیتی ہے، شرائط کو معتین نہیں کرتی.مگر اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو شرطیں لگائی ہیں ہم اُن کو یونہی نظر انداز کر دیں.بعض وقتی تحریکیں پیدا ہو جاتی ہیں وہ مستقل اصولوں سے ٹکراتی نہیں.شریعت میں بھی بعض احکام وقتی طور پر پیدا ہو جاتے ہیں.حضرت عمر نے فرمایا کہ آئندہ جو تین طلاق یکدفعہ دے گا اُس کو میں جُدا کر دوں گا، حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن سے یہ ثابت نہیں.تو جب کوئی جز وی حکم کسی اصولی حکم کی خلاف ورزی کا نتیجہ ہو تو اُس وقت وقتی طور پر اس کوملحوظ رکھا جائے گا.پس میرے نزدیک ان شرائط کا وحی خفی کے ماتحت نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ان کو نظر انداز کر دیں.اس کے بعد میں اصلی مسئلہ کے متعلق اپنے خیالات بیان کرتا ہوں.یہ تو ظاہر ہے کہ مقبرہ بہشتی کی غرض روپیہ حاصل کرنا نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے:.اور ایک جگہ مجھے دکھلائی گئی اور اس کا نام بہشتی مقبرہ رکھا گیا ہوئی.اور ظاہر کیا گیا کہ وہ ان برگزیدہ جماعت کے لوگوں کی قبریں ہیں جو بہشتی ہیں.تو قبرستان کا خیال ان شرائط کے بنانے سے پہلے ہوا اور اس کے بعد ایک تحریک پیدا اب اخویم مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کی وفات کے بعد جبکہ میری وفات کی نسبت متواتر وحی الہی ہوئی ، میں نے مناسب سمجھا کہ قبرستان کا جلدی انتظام کیا جائے.‘۱۲ تو یہ الہامات اور مولوی عبد الکریم صاحب کی وفات اس تحریک کو پورا کرنے کا محرک ہو گئے.اس پر حضور نے کیا کیا.اس لئے میں نے اپنی ملکیت کی زمین جو ہمارے باغ کے قریب ہے جس کی قیمت ہزار روپیہ سے کم نہیں، اس کام کے لئے تجویز کی
خطابات شوری جلد دوم ۴۱۴ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء اب سوال یہ ہے کہ کیا ہر احمدی اس قبرستان میں داخل ہو سکے گا اور وہ رؤیا اس طور پر پوری ہو جائے گا؟ تب وحی خفی نازل ہوئی اور بتایا کہ یہ رویا اس طرح پوری کرو کہ ایسے قبرستان کے لئے کچھ شرائط لگا دیئے جائیں کہ اس معیار کے مطابق لوگ اس میں داخل ہوں.اور یہ اس جماعت کے پاک دل لوگوں کی خواب گاہ ہو جنہوں نے در حقیقت دین کو دُنیا پر مقدم کر لیا اور دُنیا کی محبت چھوڑ دی اور خدا کے لئے ہو گئے اور پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کر لی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کی طرح وفاداری اور صدق کا نمونہ دکھلایا.امِيْنَ يَا رَبَّ الْعَلَمِيْنَ ١٢٠٠ یہ شرائط حضور نے اپنی سمجھ کے مطابق لگائے ہیں.اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ شرطیں اپنی نہ ہوں تو پھر یہ کہنا جائز ہوگا کہ ہر شخص جو ان شرطوں کے ماتحت وصیت کرے وہ جنتی ہے، حالانکہ یہ واقعہ کے خلاف ہے کیونکہ اس صورت میں لازم آئے گا کہ ہر وصیت کرنے والا لازماً جنتی ہے حالانکہ بعض وصیتیں منسوخ بھی ہو سکتی ہیں.گو میرا یہ عقیدہ ہے کہ جو لوگ ہماری نظروں میں کمزور ہوں لیکن وہ مقبرہ میں داخل ہو جائیں تو یہ ہماری نظروں کی غلطی ہوگی اور اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہی درست ہو گا اور اگر ہم نے اپنے صحیح علم کے مطابق فیصلہ نہیں کیا تو گو اس میں داخل ہونے والا تو جنتی ہو جائے گا لیکن ہم نے اپنے لئے دوزخ خرید لیا.پس مقبرہ بہشتی کی اصل غرض روپیہ نہیں بلکہ اچھے اعمال اور تقویٰ اور قربانی ہے.چونکہ جب ہم کہتے ہیں کہ ایک شخص ہمارے علم میں متقی ہے، تو ہو سکتا ہے کہ اس کے بعد کسی زمانہ میں وہ متقی نہ رہے.پس ہم اس کے متعلق ایسی شرائط لگا دیتے ہیں کہ جن سے آئندہ بھی ہمیں اس کے ایمان کا پتہ لگتا ر ہے اور اس کے ایمان کے بارہ میں اس کے حال سے ہم گواہی لیتے رہتے ہیں.چنانچہ جب اس کی مالی قربانی ایک طرف اور ظاہری حالات دوسری طرف اس کی نیکی پر گواہی دیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ جس طرح اس کی ابتداء اچھی تھی انتہاء بھی اچھی ہے اس احتیاط کے بعد بھی اگر ہم غلطی کریں تو اس کی ذمہ داری ہم پر نہیں ہوتی.
خطابات شوری جلد دوم ۴۱۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء اب سوال یہ پیدا ہوا کہ کیا ہم جائیدادوں کی کوئی حد بندی کریں؟ اس موقع پر میرے بعض حوالے پیش کئے گئے ہیں اور میں نے ان کے متعلق اپنی رائے بدلی نہیں.میں نے جب یہ کہا تھا تو اُس وقت آمد کا سوال تھا نہ کہ جائیداد کا.میں نے اُس وقت کہا تھا کہ وصیت کرنے والے کے اخلاق اور اعمال کا ثبوت صرف جائیداد سے نہیں لگانا چاہئے اس سے اس کی قربانی کا ثبوت نہیں ملتا اور میں نے ثبوت کے طور پر یہ بات پیش کی تھی جس کو میں دُہرا دیتا ہوں کہ جائیداد کا لفظ یا معین ہے یا غیر معتین.اگر غیر معین ہے تو ایک گلاس بھی جائیداد ہے.حالانکہ ممکن ہے کہ وصیت کرنے والے کی آمدنی دس ہزار ہو اور اسی اسٹیج پر اُس وقت مصری صاحب نے کہا تھا کہ ہاں میرے نزدیک گلاس جائیداد ہے اور اس کا ۱٫۱۰ حصہ موصی بنا دے گا.یہ اس شخص کی دلیری تھی اور اس سے ثابت ہو گیا تھا کہ صاحب خشیت اللہ کے اعلیٰ معیار پر نہیں ہیں.حقیقت یہ ہے کہ جائیداد یا معین ہوگی یا غیر معتین.اگر غیر معین ہو تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ چاہے گلاس ہو یا ایک کپڑا ہو اور آخری جائیداد ایک بوسیدہ تہہ بند ہوسکتی ہے.اور اگر ہم جائیداد کو معین کریں تو اس کے متعلق سوال پیدا ہوتا ہے کہ معین کس بنیاد پر کریں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں یہ سوال پیدا ہوا کہ جس کے پاس کوئی جائیداد نہیں وہ کیا کرے؟ اور میں نے اس کے معنی یہ کئے تھے کہ اس سے معلوم ہوا کہ معین جائیداد ہونی چاہئے.کیونکہ اگر وہ بالکل نگا نہیں تو تہہ بند بھی تو جائیداد ہے اور اس کا وہ ترکہ ہو گا جس کو وہ پیش کر سکتا ہے.تو ایسی حالت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فرمانا کہ جس کی کوئی جائیداد نہیں اُس کی یہ شرط ہے.تو کیا اس سے یہ مراد ہو گی کہ جو شخص بالکل ننگا ہوتا ہے اُس کی یہ شرط ہے حالانکہ یہ درست نہیں.ایک شخص بالکل نگا ہو اور وہ وصیت کرنے کے لئے دفتر میں آ رہا ہے.کم سے کم ہم اتنا تو قیاس کریں گے کہ وہ ایک لنگوٹی باندھ کر آیا ہے اور لنگوٹی بھی ترکہ ہے تو اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صرف ترکہ کو جائیداد کا نام نہیں دیا.چاہے وہ ایک لنگوٹی ہو یا بھوج پتر.تو میں نے کہا تھا کہ اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ جائیداد کی ہم تعیین کر سکتے ہیں کیونکہ بعض اشیاء کو آپ نے غیر جائیداد قرار دیا ہے.
خطابات شوری جلد دوم ۴۱۶ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کی ایک مثال موجود ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک شخص نے وصیت کی.اُس نے لکھا کہ میں اپنی آمد کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ میرے پاس کوئی جائیداد نہیں لیکن ساتھ لکھا ہے کہ میرے پاس صرف ایک چھوٹا سا مکان مع فلاں فلاں سامان ہے.اُس شخص کی آمد اور ترکہ کی وصیت کو جائز قرار دیا گیا.جس سے صاف معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں معمولی اشیاء کو جن پر گزارہ کا مدار نہ ہو، وصیت کے معاملہ میں جائیداد نہیں قرار دیا جاتا تھا.پس میں نے جائیداد کا یہ معیار قرار دیا تھا کہ جس پر موصی کا گزارہ ہو رہا ہو.جس کے پاس ایسی جائیداد نہ ہو وہ اُسی مال سے وصیت کرے گا جس پر اس کا گزارہ ہے خواہ تنخواہ ہو یا عطیہ یا وظیفہ.مثلاً میں اپنے بچوں کو الاؤنس دیتا ہوں.وہ اس میں وصیت کریں.یا بریکاروں کو گورنمنٹ کی طرف سے وظائف ملتے ہیں یا ہماری انجمن کی طرف سے وظائف دیئے جاتے ہیں، وہ اُن کے مطابق وصیت کر سکتے ہیں.اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ پھر وہ کون لوگ رہ جائیں گے جن کی کوئی جائیداد نہیں؟ تو یہ وہ لوگ ہوں گے جن کا گزارہ دوسروں پر ہے.مثلاً ایک شخص دوسرے کے گھر میں رہتا ہے اور وہیں سے کھانا کھاتا ہے تو اس کے لئے تیسرا حکم ہوگا کہ چونکہ مالی لحاظ سے اس کا تجز یہ نہیں ہوسکتا تو اس کی خدمت دین کو دیکھ لیا جائے کہ وقت کی اور جانی قربانی کیا کرتا ہے.تو یہ تین شقیں تھیں جب ان سب پر بحث ہو گئی تو میں نہیں سمجھ سکا کہ اب اس کی بحث کی کیا ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ قطعاً اجازت نہیں دی کہ اتنی رقم والا اس قبرستان میں دفن ہو اور اتنی رقم والا نہ ہو.مگر یہ بھی یا درکھنا چاہئے کہ گزارہ کی حد بندی ہم نہیں کریں گے.خواہ وہ کتنا ہی قلیل ہو، اس میں وصیت ہو سکے گی بشرطیکہ صحیح اندازہ بتایا گیا ہو.اگر ایک شخص کی تین روپے آمدنی ہے اور اس میں سے وہ پانچ آ نہ ہم کو لا دیتا ہے تو اس کے متعلق یہ کہنا درست نہیں کہ وہ مخلص نہیں ، وہ سو روپے والے سے زیادہ مخلص ہے کیونکہ وہ دس روپے دے کر بھی باقی رقم سے اپنے تعیش کا سامان کر سکتا ہے.پس ہم کو کوئی حق نہیں کہ ہم کسی کم آمدنی والے کی
خطابات شوری جلد دوم ۴۱۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء وصیت منظور نہ کریں، ہاں عورتوں کی صورت میں ہم نے گزارے پر کوئی وصیت نہیں لگائی کیونکہ روٹی ان کو روٹی کی صورت میں ملتی ہے لیکن آمد وہ ہے جو مال کی صورت میں اس کے قبضہ میں آجاتی ہے.عورت یہ تو نہیں کر سکتی کہ آج میری طبیعت خراب ہے میں کھانا نہیں کھاتی ، اس کے عوض مجھے پیسے دے دو.پس عورت کے لئے خاوند کے مال کے اس حصہ میں وصیت ہے جس کی وہ مالک بن جاتی ہے اور جس میں اشترا کی طور پر خاوند کی طرف سے اس کو مالکیت کا حق ملتا ہے جیسے کھانا اور کمرے کی رہائش وغیرہ اس پر وصیت نہیں ہے.پس میرے نزدیک کوئی قابل حل سوال رہ ہی نہیں گیا تھا.یہ تمام شقیں میں نے محبت پیار اور زجر سے جماعت سے منوالیں تھیں.جب یہ لازمی قرار دیا گیا ہے کہ ہر شخص اپنی آمدنی سے حصہ وصیت ادا کرے تو اس میں یہ شق خود بخود آ گئی جہاں سے وہ کھاتا ہے اس میں سے ہم کو حصہ وصیت دیتا ہے تو میرے نزدیک یہ سوال حل ہو جاتا ہے.اب صرف عورتوں کا سوال رہ جاتا ہے.اس کے متعلق فیصلہ باقی ہے کہ ان کی جائیداد چونکہ بالعموم گزارہ والی نہیں ہوتی.ان کے متعلق آیا کوئی تعین ہو یا نہیں.مجھے اس بارہ میں دونوں صورتوں میں نقص نظر آتا ہے لیکن ابھی تک میرا نفس اس بارہ میں ایسا قانون نہیں بنا سکا جس پر میں مطمئن ہو سکوں ، اس لئے اس پر غور کر لیا جائے.ہاں میں اس قدر سمجھا ہوں کہ ان کے بارہ میں کوئی قید لگانا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منشاء کے بالکل خلاف نہیں ہے.پس میرے نزدیک اب اس معاملہ میں کوئی اور تجویز باقی نہیں رہ جاتی سوائے عورت کے معاملہ کے.جن دوستوں کی یہ رائے ہو کہ اب جائیداد کو معین کرنا چاہئے وہ کھڑے ہو جائیں.‘“ 66 اس پر صرف ایک صاحب کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا کہ:- اس سلسلہ میں اگر کوئی معتین مشکلات ہوں تو انہیں سامنے لانا چاہئے.پہلے جو دقتیں تھیں، وہ سب کی سب حل شدہ ہیں.لیکن اگر محکمہ والے سمجھتے ہیں کہ ان کے سامنے کوئی اور مشکلات بھی ہیں تو انہیں چاہئے کہ معین صورت میں سامنے لائیں اور انہیں آئندہ شوریٰ میں پیش کر دیں ، ان پر بھی غور کر لیا جائے گا.“
خطابات شوری جلد دوم ۴۱۸ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء بجٹ صدر انجمن احمد سب کمیٹی بیت المال نے اپنی رپورٹ میں مجوزہ بجٹ صدر انجمن احمد یہ ۴۰.۱۹۳۹ء منظور کرنے کی سفارش کی نیز تجویز پیش کی کہ آئندہ چندہ جلسہ سالانہ دس فیصدی کی بجائے پندرہ فیصدی مقرر کیا جائے.مجلس مشاورت میں بجٹ پر لمبی بحث ہوئی اس کے بعد حضور نے بعض اہم امور کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا : - افسوس ہے کہ اس دفعہ پھر اس ہدایت کو نظر انداز کر دیا گیا ہے جو میں نے ۳۰.۱۹۲۹ء میں دی تھی کہ بجٹ کے متعلق جو اعتراضات ہوں وہ اس کمیٹی کو بھیج دیئے جایا کریں جو بجٹ پر غور کیا کرتی ہے اور چونکہ ایسا نہیں کیا گیا اس لئے بہت سا وقت ضائع ہو گیا ہے اور دوستوں نے اس وقت جو سوالات کئے ہیں، ان کا یہ موقع نہ تھا.یہ سب کمیٹی کے پاس بھیجے جانے چاہئے تھے.اس صورت میں یہ بھی فائدہ ہوتا ہے کہ دوسرے احباب کو بھی بجٹ پر غور کرنے کا موقع مل سکتا ہے.یہاں تو صرف نمائندے ہی غور کر سکتے ہیں اور یہ کوئی ضروری نہیں کہ مفید باتیں صرف نمائندے ہی کر سکیں بلکہ بعض اوقات ایک بچہ بھی کوئی ایسی بات پیش کر دیتا ہے جو بہت مفید ہوتی ہے.یہاں تو صرف وہ سوالات ہونے چاہئیں جو بجٹ کے نقشہ کے متعلق ہوں اور کوئی ایسی بات ہو جو سمجھ میں نہ آسکے.یعنی براہ راست بجٹ کے متعلق.ایک اعلان میں یہ کرنا چاہتا ہوں کہ تین سال پہلے میں نے دفاتر کے معائنہ کے لئے جو کمیشن مقرر کیا تھا اُس نے اب تک صرف بار یک معائنہ ہی کیا ہے.ابھی میرے ساتھ بجھ کر گفتگو کا موقع اسے نہیں مل سکا، اس لئے میں اس کی عمر ایک سال اور بڑھا تا ہوں.اگر اس عرصہ میں کام ختم نہ ہوا تو شاید اسے اور موقع دے دیا جائے.اس کے بعد میں بجٹ کے متعلق بعض سوالات دریافت کرتا ہوں.سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ قرضہ کفالت جائیداد کے سامنے ۱۲۱۰۴۹ روپیہ درج ہے.میں نے قانون بنایا ہوا ہے کہ انجمن میری اجازت کے بغیر کوئی جائیداد رہن یا بیع نہیں کر سکتی اور جب تک وہ یہ ثابت نہ کرے کہ اسے پرانی جائیداد کی واگزاری یانٹی کی
خطابات شوری جلد دوم ۴۱۹ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء خرید کے لئے ضرورت ہے اُسے ایسی اجازت نہیں دی جا سکتی.یہ قرضہ گزشتہ سال کی نسبت چھبیس ہزار بڑھ گیا ہے.اور میں پوچھتا ہوں کہ بغیر میری منظوری کے یہ کیسے بڑھ گیا؟ انجمن نے یہ کیا اندھیر مچا رکھا ہے کہ لاکھوں روپیہ اس طرح جماعت پر ڈالتی جا رہی ہے اور سمجھتی یہ ہے کہ اس کا بجٹ سے کوئی تعلق نہیں.اس طرح وہ جتنا چاہے بے شک قرض لے کر خرچ کرتی جائے.حالانکہ یہ صورت بہت ہی خطرناک ہے.کسی کا مجھ سے روپیہ لے لینا ایسا بُر انہیں جتنا کہ میرا دوسروں سے لے لینا، اور پھر اسے بوجھ نہ سمجھنا گویا کہ اسے ادا ہی نہیں کرنا.“ اس کے متعلق جب ناظر صاحب اعلیٰ نے کہا کہ یہ سارا روپیہ جائیداد بنانے پر صرف ہوا ہے تو اس پر حضور نے فرمایا کہ :- یہ بات بھی غلط ہے.آپ یہ بھی ثابت نہیں کر سکتے کہ اس کا پچاس فیصدی بھی جائیداد بنانے پر صرف ہوا ہو.لیکن اگر یہ درست بھی ہو تو بھی انجمن کو کیا حق ہے کہ منظوری کے بغیر نئی جائیدادیں خریدے.ایک پیسہ کی جائیداد خریدنے کا بھی انجمن کو حق نہیں، چہ جائیکہ ناظم جائیداد کو ہو.سوائے معمولی کاغذ پنسل وغیرہ ضروری اشیاء کے.جائیداد خریدنے کے لئے جس کے لئے خریدی جا رہی ہو اس کی منظوری ضروری ہوتی ہے کیونکہ اگر وہ سمجھتا ہے کہ وہ اس جائیداد کو رکھ ہی نہیں سکتا تو اسے خرید کر کیا کرے گا.دوسرا سوال یہ ہے کہ آمد صیغہ جات جو ۶۱۷۲۶ دکھائی گئی ہے یہ کس بناء پر ہے؟ صفحہ ۲ پر جو آمد صیغہ جات دکھائی گئی ہے وہ ۳۸۰۰۰ ہے.جس کا تیسرا حصہ قریباً ۱۳۰۰۰ بنتا ہے پھر ۶۱۰۰۰ کس طرح لکھ دیا گیا ہے؟ گزشتہ سال بجٹ کے متعلق میں نے یہ ہدایت دی تھی کہ خرچ آمد سے ہیں ہزار کم رکھا جائے مگر اس کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا.قرضہ ہیں ہزار ادا کرنے کے بجائے اور بڑھ گیا ہے اور اب نظارت نے تجویز یہ کیا ہے کہ بیس ہزار خرچ زیادہ رکھا جائے.چندہ جلسہ سالانہ تہیں ہزار لکھا گیا ہے جو بالکل فرضی ہے.اگر پندرہ فیصدی شرح سے وصول کیا جائے تو اٹھارہ ہزار بنتا ہے.گویا بارہ ہزار فرضی ہے.اسے اگر نکال دیا جائے تو ۳۰۴۰۰۰ آمد رہ جاتی ہے.جس میں سے ۳۰۷۰۰۰ خرچ دکھایا گیا ہے اور واپسی قرضہ میں ہزار بھی ہے اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ مجلس میں یہ کہہ دیا گیا تھا
خطابات شوری جلد دوم ۴۲۰ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء کہ یہ ہدایت تو صرف پچھلے سال کے لئے تھی اب اس پر عمل کرنے کی کیا ضرورت ہے اب تو ہمارا قرضہ اتر چکا ہے.حالانکہ اگر اعداد و شمار فرضی درج کرنے ہوں تو سارا بجٹ ہی فرضی بنایا جائے تا جماعت مطمئن تو رہے.اب یا تو انجمن مجھے سمجھائے کہ یہ کس طرح ہے اور یا پھر اس امر کی ضمانت دے کہ اتنی رقم جمع کر کے دے گی.میرے کان میں ایک آواز یہ بھی پڑی ہے کہ ناظر کلرکوں کے سپر د کر دیتے ہیں کہ جو چاہیں لکھ لائیں لیکن میں یہ کہ دینا چاہتا ہوں کہ یہ بالکل غلط بیانی ہے.میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ اُنہوں نے خود سے تیار کیا ہے اور اس پر بہت محنت کی ہے.نقص صرف یہ ہے کہ اُنہوں نے اپنی ذمہ داری نہیں سمجھی اور وہ موت ان کو نظر نہیں آئی جو سامنے کھڑی ہے.ورنہ اُنہوں نے بجٹ کی تیاری پر مہینوں صرف کئے ہیں اور بڑی محنت کی ہے.یہ صرف کو تاہ نظری کی وجہ سے نقائص رہ گئے ہیں.“ اس پر حضرت میر محمد الحق صاحب نے کہا کہ اگر وصولی نہ ہو گی تو واپسی قرضہ بھی نہیں ہوگی.حضور نے فرمایا.پھر آپ چین اور اطمینان کا سانس کس طرح لے سکیں گے؟ جب تک قرضہ ادا نہ ہو گا ، آپ کو آرام کیسے آئے گا.اگر تو یہ رقم کسی عمارت کی تعمیر کے لئے ہوتی تو اس کا علاج آپ اس طرح کر سکتے تھے کہ عمارت نہ بنواتے لیکن یہ تو کسی کا قرضہ ہے جو تقاضا کرے گا اور اسے بہر حال ادا کرنا ہو گا.یہ حالات جماعت کے پیش کر کے میں پوچھتا ہوں کہ یہ بجٹ آمد جو تجویز کیا گیا ہے وہ جن دوستوں کو منظور ہے وہ کھڑے ہو جائیں.“ اس پر ۱۵۰ آراء اس کی منظوری کے حق میں اور ۹۸ خلاف تھیں.حضور نے فرمایا:- " بہر حال اگر کثرتِ رائے یہی ہے کہ اسے منظور کیا جائے تو میں منظور کرتا ہوں لیکن جماعت کا فرض ہے کہ وہ اسے پورا کرے اور اگلے سال میں نمائندوں سے دریافت کروں گا کہ اُنہوں نے اسے پورا کیا ہے یا نہیں؟ اس کے بعد میں بجٹ خرچ کو لیتا ہوں.یہ جس طرح پیش کیا گیا ہے جو دوست اسے 66 منظور کرنے کے حق میں ہوں وہ کھڑے ہو جائیں.“
خطابات شوری جلد دوم ۴۲۱ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء چنانچہ اسے منظور کر لینے کے حق میں ۲۳۱ اور خلاف ۴۹ آراء تھیں.حضور نے فرمایا کہ:- ”میرے نزدیک تائیدی آراء بے بنیاد ہیں.پچھلا تجربہ یہی ہے کہ نہ جماعت نے اتنی آمد دینی ہے اور نہ اتنا خرچ پورا ہو گا لیکن چونکہ کثرتِ رائے یہی ہے اس لئے میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ جماعتیں اس بات کی ذمہ دار ہیں کہ اتنی آمد کر کے دیں.کمی صرف اکیس ہزار کی ہے اور اتنی بڑی جماعت کے لئے اتنی رقم بڑھا دینا کوئی بڑی بات نہیں.اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی فیصلہ کرتا ہوں کہ انجمن اس بجٹ میں سے اصل اخراجات سے پندرہ ہزار کم کر کے میرے پیش سامنے کرے جس کی میں منظوری دوں گا.مجھے افسوس ہے کہ باوجود اس علم کے کہ اتنی رقم جمع ہونی مشکل ہے اور اخراجات بھی بڑھنے لازمی ہیں مثلاً اگر گریڈ وغیرہ جاری رہے تو اخراجات کی زیادتی لازمی ہے لیکن انجمن کو کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ یہ روپیہ کہاں سے آئے گا.پھر بعض ادائیگیاں لازمی ہیں لیکن ان کو قطعاً کوئی خبر ہی نہیں کہ وہ کس طرح ادا ہوں گی.ہر ناظر یہی کوشش کرتا ہے کہ اُس کا خرچ پورا کر دیا جائے ، باقی جائیں چولہے میں.اس سال جو رپورٹیں آ رہی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ واقعات پچھلے سال کی نسبت زیادہ خطرناک صورت میں موجود ہیں لیکن انجمن کو کوئی خیال نہیں.تنخواہوں میں جو تخفیف کی گئی ہے اس کے متعلق یہ سوال تھا کہ وہ قرضہ سمجھا جائے یا تخفیف؟ اور میں نے کہا تھا کہ یہ سوال شوری میں پیش کیا جائے.میری رائے یہی تھی کہ سارا بوجھ کارکنوں پر ہی نہیں پڑنا چاہئے لیکن انجمن نے فیصلہ کر دیا کہ اسے شوری میں پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں اسے قرضہ ہی سمجھ لیا جائے.انجمن نے پہلے یہ معاملہ میرے پیش سامنے کیا اور جب میں نے کہا کہ اسے شوریٰ میں پیش کیا جائے تو اس کے صاف معنے تھے کہ میں بھی اس کے متعلق خود فیصلہ نہیں کرتا.پھر میں نے یہ رائے بھی ظاہر کر دی تھی کہ میں سارا بوجھ کارکنوں پر ڈالنا نہیں چاہتا.اس کے صاف معنے تھے کہ کچھ نہ کچھ ان پر بھی پڑنا چاہئے اور جس طرح دوسرے کچھ بوجھ اُٹھائیں کا رکن بھی اُٹھا ئیں.یہ ایک پیچیدہ معاملہ تھا اور میں نے اسے شوریٰ میں پیش کرنے کو کہا تھا لیکن انجمن نے ان سب باتوں کو نظر انداز کر کے فیصلہ کر دیا اور کہہ دیا کہ اسے شوریٰ میں
خطابات شوری جلد دوم پیش کرنے کی ضرورت نہیں.۴۲۲ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء پھر میں نے کئی دفعہ توجہ دلائی ہے کہ یہ حالات معمولی نہیں ہیں اور اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ذمہ داری جماعت کی ہے اور اگر بدنامی ہو گی تو جماعت کی ہوگی تو یہ کوئی ایمان کی علامت نہیں.جب تک کوئی یہ نہیں سمجھتا کہ جماعت کی بدنامی سے بہتر ہے کہ اس کو موت آ جائے اُس وقت تک اس میں ذرہ بھر ایمان نہیں کہا جا سکتا.قرضوں کا بار جماعت کی بدنامی کا موجب ہے اور اس کا اُتارنا ضروری ہے.ایک دو سال میں نہیں اُتر سکتا تو نہ سہی، دس بیس سال جتنے عرصہ میں بھی ممکن ہو تھوڑا تھوڑا کر کے اُتارنے کی کوشش کریں لیکن اگر دس سال میں بھی کچھ نہ اُتار سکیں تو پھر کیا صورت ہو سکتی ہے.سوائے اس کے کہ بازار کے آوارہ گردوں کی طرح جو قرض لے کر بعد میں کہہ دیتے ہیں کہ جاؤ ہم نہیں دیتے جو کرنا ہے کر لو انجمن بھی اپنے قرضہ خواہوں کو یہ جواب دیدے.پہلے جو غلطی ہو چکی ہے اُس کے ازالہ کی اب بھی کوئی کوشش انجمن کی طرف سے نہیں ہو رہی.اس کے ساتھ ہی میں جماعت سے بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ موجودہ غیر معمولی باروں کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں بھی خاص کوشش سے کام کرنا چاہئے اور پوری توجہ سے بجٹ کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.“ اختتامی تقریر مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد حضور نے اپنے اختتامی خطاب میں احباب جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ دُنیا کے حالات میں بڑی تبدیلی آرہی ہے اور یورپین تو میں اسلام اور مسلمانوں کو کچلنے کی تیاری کر رہی ہیں ان حالات کا ادراک کرتے ہوئے جماعت کو چاہئے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور انہیں پوری طرح ادا کرنے کے لئے تیار ہو جائے.حضور نے اپنا بصیرت افروز خطاب شروع کرتے ہوئے فرمایا : - آج حالات دُنیا میں اس قدر یور چین طاقتیں مسلمانوں کو کچل دینا چاہتی ہیں.سرعت سے تبدیل ہو رہے ہیں کہ ہمارا آنکھیں بند کر کے بیٹھ جانا بے وقوفی ہے.ہر طرف سے مسلمانوں کو پیسا جا رہا
خطابات شوری جلد دوم ۴۲۳ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء ہے اور اُن پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے.اگر ہماری جماعت ان حالات میں بھی اپنی آنکھیں نہیں کھولے گی اور جماعت کی مضبوطی کے لئے کوشش نہیں کرے گی تو اس کے لئے زمانہ کی رفتار کا مقابلہ کرتے ہوئے ترقی کرنا بالکل ناممکن ہو جائے گا.یورپین طاقتیں اسلام اور مسلمانوں کو کچلنے کے لئے بڑھتی چلی آ رہی ہیں اور ہم جنہیں خدا تعالیٰ نے اسلام کی حفاظت کے لئے کھڑا کیا ہے اس بات پر مجبور ہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت کے لئے اپنی جماعت کو مضبوط کریں.یہ خطرات کوئی خیالی نہیں حال میں البانیہ پر اٹلی نے جو قبضہ کیا ہے اس کا صاف یہ مطلب ہے کہ اس کی پالیسی یہ ہے کہ آہستہ آہستہ مسلمانوں کو بالکل ختم کر دیا جائے.اور ان کی کوئی حکومت باقی نہ رہے اور یہ قطعی اور یقینی بات ہے.میں نے اکثر کتابیں پڑھی ہیں اور مجھے معلوم ہے کہ اٹلی یقینی طور پر ٹرکی ، فلسطین اور سیریا کو لینا چاہتا ہے اور اگر شام اور فلسطین وغیرہ اس کے قبضہ میں آجائیں تو عرب کے لئے کون سی حفاظت رہ سکتی ہے.اور اگر مکہ پر بھی عِيَاداً بِاللہ گولہ باری شروع کر دی جائے تو مسلمان اس کے بچاؤ کا کیا انتظام کر سکتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کا خیال گو اللہ تعالیٰ کی طاقتوں اور قدرتوں کو دیکھتے ہوئے بے وقوفی ہو لیکن سچی بات یہی ہے کہ اگر اٹلی مکہ پر بھی گولہ باری کرتا اور اس کی ایک ایک اینٹ گر جاتی تو بھی مسلمان سوائے اس کے اور کچھ نہ کرتے کہ گھر بیٹھ کر اٹلی والوں پر کفر کا فتویٰ لگا دیتے.یہ محض مسلمانوں کا رُعب ہی ہے جو دوسری اقوام کو اس قسم کی حرکات سے باز رکھتا ہے اور وہ خیال کرتی ہیں کہ اگر ہم نے اس مقام پر حملہ کیا تو مسلمان اپنی مجموعی قوت سے ہمارا مقابلہ کرنے کے لئے کھڑے ہو جائیں گے، ورنہ مسلمانوں کی اندرونی حالت اس قسم کے مقابلہ کی قطعاً تاب نہیں رکھتی.ابرہہ کے مقابلہ میں عبدالمطلب کا رد عمل یا اگر زیادہ سے زیادہ کرسکیں تو وہ وہی کریں گے جو عبدالمطلب نے کیا.اُس وقت بھی مکہ پر حملہ کرنے والے اٹلی والے ہی تھے.یہ نہیں کہ وہ اٹلی کے رہنے والے تھے بلکہ ابر ہہ جس نے حملہ کیا تھا اتھوپیا کے بادشاہ کا نائب تھا اور اتھوپیا یا ابی سینیا کا علاقہ گو براہ راست اٹلی کے ماتحت نہ تھا مگر اٹلی کے زیر سلطنت تھا.ابرہہ نے جب حملہ کیا
۴۲۴ خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء اور مکہ والوں کے اونٹ اس کے سپاہی پکڑ کر لے گئے تو ابرہہ نے عبد المطلب کو بلایا اور کچھ باتیں کرنے کے بعد ان کی عقل سے متاثر ہو کر کہا کہ آپ مجھ سے کچھ مانگیں.عبدالمطلب نے کہا کہ میرے چند اونٹ آپ کے سپاہی پکڑ کر لے آئے ہیں آپ اگر میرے اونٹ واپس کر دیں تو میں آپ کا ممنون ہوں گا.ابرہہ کہنے لگا تم نے اپنے اونٹوں کا سوال کر دیا مگر تمہیں اپنے مکہ کا کوئی خیال نہیں آیا.تمہیں تو چاہئے تھا کہ میرے پاس یہ درخواست کرتے کہ مکہ پر میں حملہ نہ کروں، بجائے اس کے تم یہ درخواست کرتے کہ اونٹ واپس کئے جائیں.عبدالمطلب کہنے لگے میں اپنے اونٹوں کا مالک ہوں اور مجھے ان کا فکر.بیٹ اللہ کا بھی ایک مالک ہے وہ خود اس کی حفاظت کرے گا، مجھے اس کا فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے یا یہی جواب زیادہ سے زیادہ مسلمان دے سکتے ہیں، اس کے علاوہ اور کیا کر سکتے ہیں.تو اس قسم کے خطرناک حالات دُنیا میں رونما ہورہے ہیں کہ مسلمانوں کے لئے اپنی زندگی قائم رکھنا بہت مشکل نظر آ رہا ہے.مصطفے کمال نے بے شک جبری طور پر اسلام کی بہت سی تعلیمیں اُڑا دیں مگر اُس نے کم سے کم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام تو رہنے دیا لیکن ہے.اگر اٹلی اور جرمنی والے آجائیں تو وہ اسلام کا نام بھی باقی رہنا پسند نہ کریں گے.آج سے ۱۲ دن پہلے حکومت اٹلی نے اعلان کیا تھا کہ لوگ یونہی جھوٹی افواہیں اُڑا رہے ہیں کہ ہم البانیہ پر حملہ کرنا چاہتے ہیں حالانکہ ہمارا البانیہ پر حملہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں.لیکن اِس اعلان پر ابھی ۱۲ دن ہی گزرے ہیں کہ اٹلی نے واقعہ میں البانیہ پر قبضہ کر لیا ہے.اسی طرح ایک دفعہ جب ٹرکی کے ساتھ اٹلی کے تعلقات کشیدہ تھے تو اٹلی کے پرائم منسٹر نے اعلان کیا کہ ہمارے لڑکی سے اتنے اچھے تعلقات ہیں کہ اس قدر اچھے تعلقات آج پہلے کبھی نہیں ہوئے.یہ اعلان ہوگا اور اس اعلان کے تیسرے دن بعد اٹلی نے لڑکی پر حملہ کر دیا تو یہ وہ لوگ ہیں کہ جہاں جہاں ان کا بس چلے گا وہاں اسلام کو مٹانے کی کوشش کریں گے.انگریز ہزار بُرے سہی لیکن ان میں یہ مادہ ہے کہ وہ مذہب کے معاملہ میں کم سے کم دخل اندازی کرتے ہیں اور اس لحاظ سے انگریز اٹلی اور جرمنی سے بہتر ہیں.میں نے ہٹلر کی کتاب پڑھی ہے.وہ ایک مقام پر اس میں لکھتا ہے کہ وہ قوم جس کا
خطابات شوری جلد دوم ۴۲۵ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء مذہب اس کی تمدنی زندگی کے لئے قانون بناتا ہے، ہرگز اس قابل نہیں ہوتی کہ اسے اپنے ملک میں رہنے دیا جائے.پھر وہ لکھتا ہے مذہب کا تعلق محض عقائد سے ہے، اس کا ہماری عملی زندگی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.اور میں نے اپنی کتاب میں وہاں نوٹ لکھا ہے کہ سچا عیسائی یہی شخص ہے کیونکہ عیسائیت کہتی ہے کہ شریعت لعنت ہے.باقی عیسائی اس تعلیم کو سُنتے اور شریعت پر پھر بھی کچھ نہ کچھ عمل کرتے رہتے ہیں لیکن ہٹلر کہتا ہے کہ شریعت کا نہ سیاست سے کوئی تعلق ہے نہ عملی زندگی سے.پھر وہ بحث کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہودیوں کے مذہب نے انہیں ایک تفصیلی قانون دیا ہے.پس جس قوم کے اندر بھی یہ قوم مل کر رہے گی اُس کی ترقی بہر حال رُک جائے گی.اسی طرح اس نے رومن کیتھولک والوں کا بھی ذکر کیا ہے، پراٹسٹنٹ کا بھی اور کہتا ہے کہ یہ بھی بیوقوف ہیں کیونکہ یہ بھی مذہبی اعمال کی دخل اندازی کو تسلیم کرتے ہیں.پھر وہ تنظیم کا ذکر کرتا ہے اور لکھتا ہے کہ ہر وہ قوم جس کا کوئی مذہب مرکز کی حکومت سے باہر ہے ہرگز اس حکومت میں رہنے کے قابل نہیں.اب بتاؤ یہ قو میں احمدیت کو کب اچھی نگاہ سے دیکھ سکتی ہیں.احمدیت تو بات بات پر کہتی ہے کہ فلاں امر شریعت کے خلاف ہے اور فلاں امر شریعت کے مطابق.پس ان قوموں کی ترقی یقیناً اسلامی اور احمدی نقطہ نگاہ سے دُنیا کے لئے بے حد خطرناک ہے اور اب تو یہ قو میں اس قدر ترقی کر چکی ہیں کہ دُنیا کے ڈر کے مارے اوسان خطا ہو رہے ہیں.یہ کھلے بندوں دھمکی دیتے ہیں اور کوئی اُن کے مقابلہ میں حرکت نہیں کرتا.ایسا رعب دلوں پر چھایا ہوا ہے کہ جو کچھ چاہتے ہیں کر لیتے ہیں.البانیہ چھوڑ معمولی معمولی قلعوں پر پہلے لڑائیاں شروع ہو جایا کرتی تھیں مگر اب بڑے بڑے علاقے اپنے قبضہ میں کر لئے جاتے ہیں اور کوئی مقابلہ کے لئے نہیں اُٹھ سکتا.چیکوسلو و یکیہ کی ۹۵ لاکھ کی آبادی ہے جس پر ہٹلر نے قبضہ جمایا.اگر ان ۹۵ لاکھ آدمیوں میں جرات ہوتی اور ان پر ہٹلر کا رُعب چھایا ہوا نہ ہوتا تو یہ جرمنی کا سالہا سال مقابلہ کر سکتے تھے مگر اُنہوں نے ایک دن بھی مقابلہ نہ کیا اور ہتھیار ڈال دیئے اور اب تو ان کا طریق ہی یہ ہو گیا ہے کہ وہ پہلے اعلان کر دیتے ہیں کہ اگر ہمارا مقابلہ کیا گیا تو فوجی کارروائی کی جائے گی اور طاقت وقوت کو استعمال میں لایا جائے گا.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی مقابلہ کی ہمت نہیں کرتا اور وہ ملکوں کے ملک اپنے قبضہ
خطابات شوری جلد دوم ۴۲۶ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء میں کئے چلے جاتے ہیں.یہ خبریں ہمارے سامنے ہیں.مگر ہماری جماعت کو ان کا کوئی فکر نہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ اُن کے وہ لوگ دشمن ہیں جو لاہور ، فیرز پور یا سیالکوٹ میں بیٹھے ہوئے ہیں.حالانکہ ان کا وہ دشمن نہیں جو قصور میں بیٹھا ہوا ہے.وہ دشمن نہیں جو فیروز پور میں بیٹھا ہوا ہے، وہ دشمن نہیں جو لاہور میں بیٹھا ہوا ہے، بلکہ احمدیت اور اسلام کا وہ دشمن ہے جو ہزاروں میل دور بیٹھا ہے اور موت کی طرح ہر آن ہماری طرف بڑھتا چلا آ رہا ہے اور موت کو روکنے والا سوائے خدا کے اور کوئی نہیں.پس جب تک خدائی ہاتھ ان دشمنوں کو ہماری طرف بڑھنے سے روک نہ دے اُس وقت تک ہمارا چین سے بیٹھے رہنا ایک احمقانہ اور مجنونانہ حرکت ہے.پس میں جماعت کے تمام دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں، دعاؤں سے کام لیں اور جو وعدے اُنہوں نے کئے ہوئے ہیں انہیں پورا کرنے کی کوشش کریں.وہ وعدے بھی جو تحریک جدید کے سلسلہ میں اُنہوں نے کئے اور وہ وعدے بھی جو جو بلی فنڈ کے لئے اُنہوں نے کئے گو جو بلی فنڈ کی تحریک میری طرف سے نہیں مگر بہر حال دوستوں نے جو وعدے کئے ہیں اُن کا فرض ہے کہ وہ اُنہیں پورا کریں.پھر اس وقت جو بجٹ طے ہوا ہے اس کو پورا کرنا بھی ہماری جماعت کے تمام دوستوں کا فرض ہے.میں نے بار ہا بتایا ہے کہ جب تک ہماری جماعت کے دوست صحیح طریق اختیار نہیں کریں گے اور عورتوں اور بچوں میں بھی قربانی کی روح پیدا نہیں کریں گے، اُس وقت تک ان کی راہ میں بہت سی مشکلات حائل رہیں گی اور وہ کبھی بھی صحیح رنگ میں قربانی نہیں کر سکیں گے.مگر جس دن اُنہوں نے عورتوں اور بچوں میں بھی یہ روح پیدا کر دی، اُس دن اگر موجودہ بجٹ سے دو گنا بجٹ بھی منظور ہو گا تو میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ وہ آسانی سے پورا ہو جائے گا.اسی طرح تبلیغ پر زور دیں اور لوگوں کو سلسلہ میں داخل کرنے کی کوشش کریں.میں نے انہی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے تحریک جدید کو صدر انجمن کے باقی صیغہ جات سے الگ رکھا ہوا ہے اور میرا منشاء ہے کہ اس روپیہ سے ایک ایسا مستقل فنڈ قائم کیا جائے جس
خطابات شوری جلد دوم ۴۲۷ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء سے تحریک جدید کے تمام کام خود بخود ہوتے چلے جائیں.صرف ہنگامی کاموں کے لئے اگر کوئی تحریک کرنی پڑے تو وہ کر دی جائے ورنہ مستقل کاموں کے لئے مستقل فنڈ ہمارے پاس موجود ہو اور اُسی سے تمام کام بغیر کسی فکر اور تر ڈد کے ہوتے چلے جائیں.پس میں جماعت کے تمام دوستوں کو اُن کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور اس دعا کے ساتھ مجلس شوری کے اجلاس کو ختم کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ داریوں کے سمجھنے اور ان کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ ہم صرف باتیں کرنے والے نہ ہوں بلکہ عمل کرنے والے ہوں.اور ہماری ہر حرکت اور ہمارا ہر سکون اس کی رضا اور خوشنودی کے حصول کے لئے وقف ہو.“ (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء ) التوبة : ١٠٠ و من حيثُ خَرَجْتَ فَوَل وَجَهَكَ شَطْرَ المسجد الحرام (البقرة : ۱۵۱) السيرة النبوية لابن هشام جلد ۳ صفحہ ۷۱ تا ۷۳ مطبوعہ ۱۹۳۶ء الاستيعاب في معرفة الاصحاب جلد اصفحه ۴۰۵ تا ۴۰۷ مطبوعه ۲۰۰۲ء اسد الغابه جلد ۳ صفحه ۱۹ از مراسم عامر بن سنان مطبع دار الفکر بیروت لبنان مطبوعہ ۱۹۹۸ء کے بخاری کتاب العيدين باب من خالف الطريق إِذا رَجَعَ يَوْمَ العيد موسوعه امثال العرب جلد ۴ صفحه ۲۶۵ مطبوعہ بیروت لبنان - المائدة : ٦٨ الوصیت.روحانی خزائن جلد نمبر ۲۰ صفحه ۳۱۸ الوصیت.روحانی خزائن جلد نمبر ۲۰ صفحه ۳۱۶ الوصیت.روحانی خزائن جلد نمبر ۲۰ صفحه ۳۱۶ الوصیت.روحانی خزائن جلد نمبر ۲۰ صفحه ۳۱۶ ۱۴ الوصیت.روحانی خزائن جلد نمبر ۲۰ صفحه ۳۱۶ ها السيرة النبوية لابن هشام جلد اول صفحه ۴۸ تا ۵۱ مطبوعه ۱۹۳۶ء
خطابات شوری جلد دوم ۴۲۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء منعقده ۲۲ تا ۲۴ / مارچ ۱۹۴۰ء ) پہلا دن جماعت احمدیہ کی بیسویں مجلس مشاورت تعلیم الاسلام ہائی سکول کے وسیع ہال میں ۲۲ تا ۲۴ مارچ ۱۹۴۰ء منعقد ہوئی.قرآن کریم کی تلاوت کے بعد دُعا سے متعلق حضور نے فرمایا: - ہم لوگ خدا تعالیٰ کے کلمہ کے اعلاء اور اس کے قائم کردہ سلسلہ کے نظام کی تجدید اور دعا توسیع کے لئے اس وقت جمع ہوئے ہیں اور چونکہ یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے اس لئے ہم اُسی سے مدد مانگتے اور اُس کی نصرت اور تائید طلب کرتے ہیں.آج دُنیا میں نہایت عظیم الشان تغیرات پیدا ہو رہے ہیں.ایسے عظیم الشان تغیرات کہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اگلے سال کی دُنیا وہی ہو گی جو آج ہے.حکومتیں سکہ کی طرح پگھل رہی ہیں اور ان کی جگہ نئے نظام اور نئے تغیرات لے رہے ہیں.خیالات میں ویسا ہی جوش ہے جیسے زمین کی گہرائیوں میں آتش فشاں پہاڑوں کے نیچے جوش ہوا کرتا ہے.بہت سے ولولے اور جوش لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو رہے ہیں.بہت سے فلسفے نئے اجسام پکڑ رہے ہیں، بہت سی پرانی اچھی باتیں تباہ ہوتی جا رہی ہیں اور بہت سی نئی اچھی باتیں نکل رہی ہیں.اسی طرح بہت سے پرانے بُرے خیالات مٹ رہے ہیں اور بہت سے نئے بُرے خیالات دُنیا میں پیدا ہو رہے ہیں.غرض اس وقت ایک ایسا عظیم الشان تغیر رونما ہے کہ دُنیوی تاریخ میں اس قسم کے تغیر کے بہت کم واقعات ملتے ہیں.ان حالات میں ہماری مثال بالکل اُس آدمی کی سی ہے جو روشنی
خطابات شوری جلد دوم ۴۳۰ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء کی شعاع کو اپنے ہاتھ سے پکڑنا چاہے مگر پیشتر اس کے کہ اُس کے ہاتھ اُس تک پہنچیں وہ شعاع کہیں کی کہیں نکل جائے.پس آؤ ہم اپنے خدا کے آگے عجز اور زاری سے گریں اور اُس سے درخواست کریں کہ وہ اس ناممکن کام کو اپنے فضل سے ہمارے لئے ممکن بنا دے.ہماری کمزوریوں کو دور کرے اور ہمیں ایسی طاقت اور قوت بخشے کہ اُسی کے فضل اور رحم کے ساتھ اس کے نام کو دُنیا میں پھیلا سکیں، اور دُنیا میں خود پسندی اور خود رائی کے خیالات کو دور کر کے خدا تعالیٰ کی حکومت اور اس کے رسولوں کی حکومت اور اس کے دین کی حکومت کو قائم کر سکیں ، اور ہمارے اپنے نفوس جو منہ زور گھوڑے کی طرح ہمارے قابو سے نکل رہے ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر اس طرح بیٹھنے کی توفیق دے کہ وہ منہ زور گھوڑے اُن سیدھے ہوئے گھوڑوں کی طرح بن جائیں جو ہر اُس مقام پر دوڑتے ہوئے پہنچ جائیں جہاں خدا تعالیٰ کے دین کے متعلق استمداد کی آواز اُٹھ رہی ہو اور وہ اس طرح ہمارے اشاروں کے نیچے چلیں کہ کسی ایک موقع پر بھی ان میں نافرمانی کی روح نظر نہ آئے.لیکن یہ کام ہماری طاقت سے بالا ہے.خدا ہی ہے جو ایسا کر سکتا ہے، اسے ہر قسم کی طاقتیں حاصل ہیں اور وہ بہت ہی فضل اور رحم کرنے والا ہے.جب کوئی بندہ اُس کی طرف مجھکتا ہے تو وہ اس کی آواز سنتا اور اس کی دُعاؤں کو قبول کرتا ہے اور جب کوئی شخص اس کے دروازہ کو کھٹکھٹاتا ہے تو وہ اپنے دروازہ کو اس کے لئے کھول دیتا ہے اور کسی سائل کو بھی نا کام نہیں جانے دیتا.“ افتتاحی تقریر تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- ” اے عزیز و! جو مختلف جہات اور اطراف سے اس مجلس شوریٰ میں شامل ہونے کے لئے جمع ہوئے ہو ہماری ذمہ داریاں اور ہمارے فرائض ایسے نازک ہیں کہ ان کا خیال کر کے بھی دل کانپ جاتا ہے.وہ نیا آسمان اور نئی زمین بنانے کا کام جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سپرد فرمایا تھا اب وہ ان کے ہاتھوں سے منتقل ہو کر ہمارے سپر د کیا گیا ہے.اور ہم میں سے ہر ایک بلا استثناء وہ شخص ہے جو اس بات کو جانتا
خطابات شوری جلد دوم ۴۳۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء ہے اور سمجھتا ہے اور تسلیم کرتا ہے کہ ہم اس کام کے اہل نہیں ہیں بلکہ اس کام سے واقف بھی نہیں ہیں جو ہمارے سپرد کیا گیا ہے.ہمارے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ ہم ایک ایسی عمارت تیار کریں جو دُنیوی عمارتوں کے مقابلہ میں روحانی صفت میں ایسا ہی رتبہ رکھتی ہو جیسے دنیوی عمارتوں میں مثلاً تاج محل مگر ہم تو جھونپڑے بنانے کی بھی طاقت نہیں رکھتے.مزدوروں کے چھپر بنانے کی بھی ہم میں طاقت نہیں کجا یہ کہ ہم وہ عظیم الشان عمارت تیار کریں جسے دیکھ کر اگلے اور پچھلے لوگ حیران رہ جائیں سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ یہ کام ہماری طرف سے خود ہی کر دے.جیسے پرانے قصوں میں بیان کیا جاتا تھا کہ جنات لوگوں کے مکان بنا جایا کرتے تھے.ہماری امیدیں بھی اپنے رب پر ایسی ہی ہیں.وہ فرضی جن تو لوگوں کے کیا مکانات بناتے تھے البتہ ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہم پر یہ رحم کرے کہ جب ہم سور ہے ہوں تو اپنے فضل سے وہ روحانی عمارت دنیا میں خود بخود کھڑی کر دے اور جب ہم جاگیں تو یہ دیکھ کر اُس کے حضور سجدات شکر بجالائیں کہ خدا نے ہم پر رحم کر کے وہ کام خود بخود کر دیا ہے جس کا بجا لانا ہمیں اپنے لئے بالکل ناممکن نظر آتا تھا اور جس کا کرنا ہمیں سخت مشکل دکھائی دیتا تھا.مگر جہاں ایک حصہ اس کام کا ایسا ہے جو دعاؤں اور عاجزی اور زاری سے خدا تعالیٰ سے کروایا جا سکتا ہے وہاں اس کام کا ایک حصہ ایسا بھی ہے جو ہمارے ذمہ ہے.اور جس کی طرف اگر ہم نگاہ نہ رکھیں گے اور اگر ہم اپنے اس حصہ کو پورا کرنے کی کوشش نہ کریں گے تو ہم اللہ تعالیٰ کے اُس فضل کے کبھی مستحق نہیں ہو سکتے جس کی ہم اُمید لگائے بیٹھے ہیں.اور وہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے کام کے لئے ہمیشہ اہل لوگوں کا انتخاب کرنا چاہئے.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا شوری کے نمائندوں کا انتخاب درست ہونا چاہیئے ہے کہ بعض جماعتیں ایسی ہیں جو مجلس شوریٰ میں اپنے اہل نمائندے چن کر نہیں بھجواتیں.چنانچہ میں نے اس سال کے نمائندگان کی جو لسٹیں دیکھیں ہیں ان میں بعض منافق بھی نظر آئے ہیں، بعض نہایت کمزور ایمان والے بھی مجھے دکھائی دیئے ہیں ، بعض بڑ بولے اور معترض بھی میں نے دیکھے ہیں اور بعض یقینی طور پر ایسے لوگ ہیں جو اپنے اندر بہت تھوڑا ایمان رکھتے ہیں.اگر
۴۳۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء خطابات شوری جلد دوم جماعتیں اپنے نمائندگان کا صحیح انتخاب کرتیں تو اس قسم کی کوتاہی اور غفلت ان سے کبھی سرزد نہ ہوتی مگر افسوس ہے کہ جماعتیں یہ نہیں دیکھتیں کہ کون نمائندگی کا اہل ہے بلکہ وہ یہ دیکھا کرتی ہیں کہ کون فارغ ہے جسے قادیان بھیجا جا سکتا ہے اور جب نمائندگی کا سوال ہو تو وہ پوچھ لیتی ہیں کہ کیا کوئی فارغ ہے اور کیا وہ قادیان جا سکتا ہے؟ اس پر جو بھی کہہ دے کہ میں فارغ ہوں اُسے بھجوا دیا جاتا ہے اور یہ قطعی طور پر نہیں سمجھا جاتا کہ اس مجلس شوری کی ذمہ داریاں کتنی وسیع ہیں اور کتنے اہم فرائض ہیں جو نمائندگان پر عائد ہوتے ہیں.صرف اس لئے کہ ایک شخص فارغ تھا یا صرف اس لئے کہ ایک شخص بڑ بولا اور معترض تھا یا صرف اس لئے کہ ایک شخص زیادہ آسودہ حال تھا یا صرف اس لئے کہ ایک شخص آگے آنا چاہتا تھا، اُنہوں نے ان کو نمائندہ بنا کر قادیان بھیج دیا.حالانکہ وہ شخص جو آگے آنا چاہے اور خود بخود کوئی عہدہ مانگے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے شخص کے متعلق یہ فرمایا کرتے تھے کہ اُسے وہ عہدہ نہیں دیا جائے گا یلے پس میں جماعت کو آپ لوگوں کی وساطت سے پیغام پہنچانا چاہتا ہوں کہ جو کام خدا کا ہے وہ تو بہر حال اسے پورا کرے گا مگر جس کام کا ہمارے ساتھ تعلق ہے اگر ہم اس کام کو دیانت داری کے ساتھ سرانجام نہیں دیں گے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نزول میں دیر لگ جائے گی.پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اور نمائندگی کے لئے ہمیشہ اہل لوگوں کو منتخب کرو.جہاں تک میں سمجھتا ہوں میرا یہ خیال ہے کہ جماعت نے ابھی تک مجلس شوری کی اہمیت کو نہیں سمجھا.اُنہوں نے صرف اس کو ایک مجلس سمجھ لیا ہے جس کے متعلق وہ سمجھتے ہیں کہ اگر اس میں اُنہوں نے اپنی جماعت کا کوئی نمائندہ نہ بھیجا تو ان کی سبکی ہو گی اسی لئے اُنہوں نے کامل غور سے کام نہیں لیا اور نمائندہ کے طور پر بعض منافقین کا بھی انتخاب کر لیا ہے.اسی طرح اُنہوں نے بے نمازیوں کو بھی چن لیا ہے بلکہ ان لوگوں کو بھی چن لیا ہے جن کا کام سلسلہ پر ہر وقت اعتراضات کرتے رہنا ہے.صرف اس لئے کہ وہ بڑے بڑ بولے تھے یا صرف اس لئے کہ وہ معترض تھے یا صرف اس لئے کہ وہ دولت مند تھے یا صرف اس لئے کہ وہ خواہش رکھتے تھے کہ انہیں آگے آنے کا موقع ملے.حالانکہ اس مجلس شوری کے سپرد ایک ایسا کام ہے جس کی اہمیت اور نزاکت ایسی عظیم الشان ہے کہ اس کو کسی وقت بھی
خطابات شوری جلد دوم ۴۳۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.اور وہ یہ کہ اس مجلس کے سپر د ایک کام یہ بھی ہے کہ اگر کسی خلیفہ کی ناگہانی موت ہو جائے تو یہ مجلس اُس کی وفات پر جمع ہو اور نئے خلیفے کا انتخاب کرے.اگر اس جماعت کے اندر بھی منافقین شامل ہوں، اگر اس جماعت کے اندر بھی کمزور ایمان والے لوگ شامل ہوں، اگر اس جماعت کے اندر بھی بے نمازی شامل ہوں، اگر اس جماعت کے اندر بھی وہ بڑبولے اور معترض شامل ہوں جن کے دل اللہ تعالیٰ کی خشیت سے بالکل خالی ہوں تو نتیجہ یہ ہوگا کہ اس مجلس میں بھی پارٹی بازی شروع ہو جائے گی اور کوئی کسی کی طرف مُجھک جائے گا اور کوئی کس کی طرف اور لڑائی جھگڑا اور فساد شروع ہو جائے گا.جیسے بعض ناقص العقل اور کمزور جماعتوں میں پریذیڈنٹ وغیرہ کے انتخاب کے موقع پر اس قسم کے جھگڑے ہو جایا کرتے ہیں اور جماعت کا ایک حصہ کسی کے متعلق پرا پیگینڈہ کرتا رہتا ہے اور دوسرا حصہ کسی کے متعلق.اور انتخاب کے موقع پر بجائے سنجیدگی اور متانت کے ساتھ غور کرنے کے ہر پارٹی یہ چاہتی ہے کہ جس کا اس نے انتخاب کیا ہے وہی پریذیڈنٹ ہو.اگر اس قسم کے جھگڑے اور اس قسم کی پارٹی بازی مجلس شوریٰ میں بھی شروع ہو گئی تو اُس وقت خلافت خلافت نہیں رہے گی بلکہ ایک ادنی دنیوی انتظام ہو گا جو نہ دین کے لئے مفید ہوگا اور نہ دُنیا کے لئے.اس مجلس میں تو ان لوگوں کو شامل ہونے کے لئے بھیجنا چاہئے جن کا ایمان اتنا مضبوط ہو کہ وہ سلسلہ کے فائدہ کے لئے اپنے باپ اور اپنی ماں کی بات سننے کے لئے بھی تیار نہ ہوں کجا یہ کہ وہ ادھر اُدھر کی باتیں سنیں اور سلسلہ کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے لگ جائیں.اس قسم کے آدمی تو مجلس شوری سے ہزاروں میل کے فاصلہ پر رہنے چاہیں کجا یہ کہ ان کو نمائندہ بنا کر اس مجلس میں شامل کر لیا جائے.پس یہ ایک خطرناک غفلت ہے جو اس دفعہ جماعت نے کی اور میں امید کرتا ہوں کہ آئندہ جماعتیں میری اس ہدایت کو یاد رکھیں گی.بلکہ میں جماعت کے کارکنوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ میرے اتنے حصہ تقریر کو الگ شائع کر دیں اور آئندہ مجلس شوری کے موقعوں پر ہمیشہ اسے شائع کرتے رہیں تاکہ جماعتیں اُن لوگوں کا انتخاب کر کے بھیجا کریں جو تقویٰ اور دیانت اور عبادت کے لحاظ سے بڑے ہوں.یہ نادانی کا خیال ہے جو بعض جماعتوں میں پایا جاتا ہے کہ فلاں چونکہ مالی واقفیت
خطابات شوری جلد دوم ۴۳۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء رکھتا ہے، اس لئے اسے نمائندہ بنا کر بھیجنا چاہئے یا فلاں چونکہ بولتا زیادہ ہے اس لئے اسے نمائندہ بنا کر بھیجنا چاہئے.اگر محض مالی واقفیت کی وجہ سے شوری کی نمائندگی جائز ہو تو پھر تو کوئی ہندو بھی ہمیں نمائندہ بنا لینا چاہئے.اسی طرح کوئی عیسائی اگر مالی امور کے متعلق واقفیت رکھتا ہو تو اُسے بھی نمائندہ بنا لینا چاہئے.حقیقت یہ ہے کہ بجٹ سے تعلق رکھنے والی یہ باتیں محض سطحی ہیں اور دوسرا درجہ رکھتی ہیں اگر یہ نہ ہوں تو کوئی نقصان نہیں ہو سکتا.آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں کون سا بجٹ تیار ہوا کرتا تھا.پھر حضرت ابو بکر کے زمانہ میں کون سا بجٹ ہوتا تھا.اسی طرح حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کے زمانہ میں بجٹ بنتا ہی نہیں تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بھی بجٹ نہیں بنتا تھا، حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں جب کام انجمن کے سپرد ہوا تو اُس وقت بجٹ بنے لگا.لیکن فرض کرو کسی وقت ہم ضرورتا اس مجلس کو اُڑا دیں تو سلسلہ کو اس سے کیا نقصان ہو سکتا ہے؟ پس بجٹ پر بحث ایک سطحی کام ہے اور اگر ہم اس کام کے لئے ایسے ہی لوگوں کو منتخب کیا کریں جو مالی معاملات کے متعلق اچھی واقفیت رکھتے ہوں یا بڑ بولے اور معترض ہوں اور نمائندوں کے انتخاب میں نیکی اور تقویٰ کو مدنظر نہ رکھا کریں تو یہ ایسی ہی بات ہوگی جیسے چہرہ کی صفائی کے لئے کسی کی روح نکال لی جائے.اگر روح نہیں ہوگی تو مُردہ کی لاش کو لے کر کسی نے کیا کرنا ہے خواہ اُس کا چہرہ کیسا ہی چمکتا ہو.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر ہمیں ایسے متقی اور نیک لوگ ملیں جو دنیوی علوم سے بھی آگاہ ہوں اور حسابی معاملات میں اچھی دسترس رکھتے ہوں یا اچھے لستان اور لیکچرار ہوں تو بڑی اچھی بات ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ ضرور ایسے ہی نمازی کو چنو جو حساب نہ جانتا ہو یا ایسے ہی نیک شخص کا انتخاب کرو جو بولنا نہ جانتا ہو.اگر دونوں خوبیاں کسی میں پائی جائیں تو اُسی کا انتخاب کرنا زیادہ موزوں ہو گا.لیکن اگر کسی میں نیکی اور انقاء نہیں بلکہ وہ محض دنیوی علوم کا ماہر ہے تو تم اُس کی بجائے اُس متقی اور پرہیز گار انسان کا انتخاب کرو جو اپنے دل میں دین کا در درکھتا ہو، جو بڑ بولا نہ ہو، جو اپنے آپ کو آگے کرنے کی عادت نہ رکھتا ہو اور بائیں ہمہ بات کو سمجھنے اور مشورہ دینے کی بھی اہلیت رکھتا ہو.مگر یہ کہ صرف دنیوی علوم وفنون کو مدنظر رکھا جائے اور یہ نہ دیکھا جائے کہ وہ اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کی خشیت اور
خطابات شوری جلد دوم ۴۳۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء محبت بھی رکھتا ہے یا نہیں ایک فضول بات ہے.دین اور تقویٰ کی اہمیت پس میں جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور متعلقہ کا رکنوں کو بھی ہدایت کرتا ہوں کہ وہ میرے اس حصہ تقریر کو بقیہ جماعت تک پہنچا دیں اور پھر متواتر پہنچاتے رہیں کہ مجلس شوری کے نمائندے ایسے ہی منتخب کرنے چاہئیں جن کے اندر تقویٰ وطہارت ہو.جو لوگ لڑا کے اور فسادی ہوں ، نمازوں کی پابندی کرنے والے نہ ہوں ،جھوٹ بولنے والے ہوں ، معاملات کے اچھے نہ ہوں ، بلا وجہ ناجائز افتراء اور اعتراض کرنے والے ہوں یا منافق اور کمزور ایمان والے ہوں ان کو بطور نمائندہ انتخاب کرنا جماعت کی جڑ پر تبر رکھنا ہے اور ایسے لوگوں کو مجلس کے قریب بھی نہیں آنے دینا چاہئے چاہے وہ کروڑوں روپیہ کے مالک ہوں اور چاہے وہ باتیں کر کے تمام مجلس پر چھا جانے والے ہوں.ہمارے لئے وہی لوگ مبارک ہیں جن کے اندر دین اور تقویٰ ہے خواہ وہ اچھی طرح بول بھی نہ سکتے ہوں.اس کے مقابلہ میں وہ لوگ جن میں دین اور تقویٰ انہیں خواہ وہ کتنے ہی لستان اور لیکچرار ہوں اور خواہ اُن کے گھر سونے اور چاندی سے بھرے ہوئے ہوں ، ہمیں اُن کی ہرگز ضرورت نہیں اور وہ اس مجلس سے جس قدر دُور رہیں اُتنا ہی ہمارے لئے اچھا ہے.اس کے بعد میں دوستوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ ایجنڈے میں شائع ہو چکا ہے آج میری اس تقریر کے بعد ایجنڈا پیش ہو گا اور اس کے بعد ممبران سب کمیٹی کا اعلان کیا جائے گا جو اپنے اجلاس منعقد کر کے تفصیلی رپورٹ کریں گی.اور درحقیقت ہمارا کام اُسی وقت سے شروع ہوتا ہے جب سب کمیٹیوں کے اجلاس کے بعد اُن کی رپورٹیں آجاتی ہیں.اس سے پہلے ہمارا اتنا ہی کام ہوتا ہے کہ ہم ایجنڈا پیش کر دیں اور پھر سب کمیٹیوں کے ممبران کا اعلان کر دیں.اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بتایا ہے اور جیسا کہ اس تقریر میں بھی میں بیان کر چکا ہوں سب کمیٹی کے ممبران بھی ہمیں ایسے ہی منتخب کرنے چاہئیں جو خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری کر کے اُس کی برکتیں ہمارے لئے لائیں.ایسے لوگ منتخب نہیں کرنے چاہئیں جو صرف لستان ہوں اور باتیں کرنی جانتے ہوں.اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ ایسے ہی لوگوں سے کام لیا ہے جو دُنیا کی نگاہ میں حقیر اور ذلیل ہوتے ہیں اور درحقیقت ہر
۴۳۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء خطابات شوری جلد دوم نبی کے زمانہ میں ایسا ہی ہوتا ہے.چھوٹے بڑے کئے جاتے ہیں اور بڑے چھوٹے کئے جاتے ہیں.پس یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ جو لوگ دُنیا کی نگاہ میں بڑے ہیں وہ زیادہ مفید ثابت ہو سکتے ہیں.یا جو دُنیا کی نگاہ میں چھوٹے ہیں وہ ہمارے کام نہیں آ سکتے.حضرت موسیٰ علیہ السلام اور تائید الہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب وقتی ہوئی کہ جا اور فرعون کو تبلیغ کر تو اُنہوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور عذر کیا اور کہا کہ میں اچھی طرح بولنا نہیں جانتا، میرے بھائی ہارون کو میرے ساتھ کر دیجئے.وہ زیادہ عمدگی سے بولنا جانتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اس درخواست پر حضرت ہارون علیہ السلام کو اُن کا نائب تو مقرر کر دیا مگر موسیٰ علیہ السلام کو اپنے فرض سے سبکدوش نہیں کیا بلکہ فرمایا تم ہارون کو ساتھ لے کر فرعون کے پاس جاؤ.چنانچہ وہ فرعون کے پاس گئے مگر جب وہاں پہنچے تو بجائے اس کے کہ وہ اپنے بھائی کو بولنے دیں، تمام باتیں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خود کیں اور انہیں ایک موقع پر بھی یہ ضرورت محسوس نہیں ہوئی کہ حضرت ہارون علیہ السلام اُن کی اعانت کریں حالانکہ وہ خود کہہ چکے تھے کہ ہارون مجھ سے زیادہ اچھا بولتا ہے اسے میرے ساتھ کر دیں مگر جب فرعون کے پاس پہنچتے ہیں تو حضرت موسیٰ علیہ السلام ہارون کو ایک لفظ بھی بولنے نہیں دیتے.چنانچہ قرآن کریم میں جو گفتگو بیان ہوئی ہے وہ سب وہی ہے جو حضرت موسیٰ اور فرعون کے درمیان ہوئی ہارون کا کہیں ذکر بھی نہیں آتا.حالانکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام شروع میں کہتے ہیں کہ اے خدا ہارون کو وزیر بنا کر میرے ساتھ بھیج دے کیونکہ وہ بولنا جانتے ہیں مگر میں بولنا نہیں جانتا.اس طرح خدا نے یہ ظاہر کر دیا کہ جس کا انتخاب ہم نے کیا تھا وہی کام کے لئے زیادہ موزوں تھا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بظاہر بولنا نہیں جانتے تھے مگر جب خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت کے ساتھ وہ بولے تو انہیں اس بات کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی کہ ہارون ان کی مدد کریں.تو استانی کوئی چیز نہیں، نہ کسی کا اپنے آپ کو بڑا سمجھنا کوئی چیز ہے.بڑائی وہی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے اور بات وہی ہے جو دل پر اثر کرتی ہے.ہزاروں لیکچرار دنیا میں ایسے ہوتے ہیں جن کی زبان نہایت منجھی ہوئی ہوتی ہے مگر جب وہ تقریر کرتے ہیں تو اس کا دلوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا اور نہ ان کے ذریعہ کسی قسم
خطابات شوری جلد دوم ۴۳۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء کا تغییر رونما ہوتا ہے.بوعلی سینا کا ایک واقعہ بوعلی سینا ایک بہت بڑے حکیم گزرے ہیں.طب میں ان کا نہایت اعلیٰ مقام ہے.منطق اور فلسفہ کے بھی ماہر تھے اور دین سے بھی واقفیت رکھتے تھے.آدمی نیک اور نمازی تھے.ایک دفعہ وہ فلسفہ کی باتیں کر رہے تھے کہ ان کا ایک شاگردان کی باتوں سے بہت متاثر ہوا اور کہنے لگا حضرت آپ تو نبی ہیں اور آپ کی نبوت میں کسی قسم کا شبہ نہیں کیا جا سکتا.انہیں اس کی یہ بات بہت بُری محسوس ہوئی اور اُنہوں نے کہا کہ تم کیسی احمقانہ باتیں کرتے ہو.مجھے نبوت کا کوئی دعوی نہیں اور نہ مجھے نبی کہنا جائز ہے.وہ کہنے لگا آپ خواہ دعویٰ کریں یا نہ کریں واقعہ یہی ہے کہ آپ نبی ہیں کیونکہ اس قسم کی باتیں سوائے نبی کے اور کوئی نہیں کر سکتا.خیر وہ خاموش رہے.کچھ دنوں کے بعد سردی کا موسم شروع ہو گیا.جس علاقہ میں وہ اُس وقت تھے وہ یوں بھی سرد تھا.مگر جب سردی بہت زیادہ تیز ہو گئی تو حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ پانی بھی جم گیا.ایک دن وہ ایک حوض کے کنارے بیٹھے تھے سخت سردی پڑ رہی تھی اور پانی جم کر برف بنا ہوا تھا کہ اُنہوں نے اپنے اسی شاگرد سے کہا کہ میاں کپڑے اُتارو اور اس حوض میں کود جاؤ.پہلے تو اس نے سمجھا کہ یہ مجھ سے مذاق کر رہے ہیں چنانچہ کہنے لگا اِس حوض میں اگر کوئی کو دے تو وہ یقیناً مر جائے ، آپ مجھے مارنا چاہتے ہیں؟ اُنہوں نے کہا پھر کیا ہوا، میں جو کہتا ہوں کہ کود جاؤ.وہ پھر کہنے لگا میں اس حوض میں کس طرح کو دسکتا ہوں ، اس میں کو دوں تو فوراً مر جاؤں.وہ کہنے لگے میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ اس حوض میں گود جاؤ.جب اس نے سمجھا کہ یہ سچ مچ مجھے گودنے کا حکم دے رہے ہیں تو وہ حیرت سے ان کا منہ دیکھنے لگ گیا اور کہنے لگا کہ کیا آپ پاگل ہو گئے ہیں؟ بوعلی سینا کہنے لگا کہ نالائق تجھے وہ بات بُھول گئی کہ تو نے مجھے کہا تھا کہ آپ تو نبی ہیں.ارے! تو تو اِس حوض میں گودنے کے لئے تیار نہیں حالانکہ مجھے نبی کہہ چکا ہے لیکن محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی وہ تھے جو ہزاروں کی تعداد میں موت کے حوض میں کود گئے اور انہوں نے اس بات کی کوئی پرواہ نہ کی کہ ان کا کیا انجام ہوگا.اہل اللہ کی زبان کی تأثیر تو بوعلی سینا ممن ہے فن لیکچرار میں محمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھے ہوئے ہوں، اسی طرح موسیٰ علیہ السلام اور
خطابات شوری جلد دوم ۴۳۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء عیسی علیہ السلام سے بڑھے ہوئے ہوں اور بوعلی سینا پر ہی کیا منحصر ہے، دُنیا میں ہزاروں لستان ہیں، ہزاروں کا میاب لیکچرار ہیں، ہزاروں ایسے ہیں جو باتیں کرتے وقت تمام مجلس پر چھا جاتے ہیں مگر کیا اُنہوں نے دُنیا میں کبھی کوئی تغیر پیدا کیا؟ اور کیا ان کے ذریعہ کبھی کوئی سچی قوم بھی پیدا ہوئی؟ دُنیا میں ایسے لوگوں کے ذریعہ کبھی کوئی تغیر پیدا نہیں ہوا.اس وجہ سے کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں دل سے نہیں کہتے.اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کے رسول اور ان کے خلفاء اور ان رسولوں کے بچے تابعین جو کچھ کہتے ہیں اپنے دل سے کہتے ہیں اور جب ان کی زبان پر الفاظ جاری ہوتے ہیں تو اس کے ساتھ ہی ان کا دل غم سے پگھل رہا ہوتا ہے اور وہ ہر لفظ کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور یہ دعا بھی کرتے جاتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمارے ان الفاظ کا تو شیریں پھل پیدا کر، ایسا نہ ہو کہ ہم بے مراد اور بے ثمر رہیں.اسی لئے ان کی باتوں میں برکت ہوتی ہے اور جب ان کی زبان سے الفاظ نکل رہے ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فرشتے اُن کے ساتھ دوڑتے چلے جاتے ہیں اور وہ کانوں کے راستے ان الفاظ کو لوگوں کے قلوب میں بٹھا دیتے ہیں یہاں تک کہ آہستہ آہستہ دُنیا میں ایک نہایت خوشگوار تغیر رونما ہو جاتا ہے.مگر اپنے زمانہ میں لوگ ان کے متعلق یہی سمجھتے ہیں کہ وہ کوئی بڑے خطیب نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بعض دفعہ عربوں کے وفد آتے اور وہ آکر کہتے کہ استانی میں ہمارا مقابلہ کر لیا جائے.گویا وہ خیال کرتے تھے که رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ دعویٰ ہے کہ میں بڑا لستان اور ادیب ہوں.حالانکہ آپ کا یہ دعوی نہ تھا بلکہ آپ کا دعویٰ یہ تھا کہ میں خدا تعالیٰ کا ایک پیغامبر ہوں.پس اس قسم کے آدمیوں کا جمع ہونا، ان کا مشوروں میں شامل ہونا اور آئندہ کے متعلق ان کا تدابیر سوچنا مفید ثابت نہیں ہو سکتا جو محض لستان اور لیکچرار ہوں اور جن کے دل تقوی وطہارت اور روحانیت سے خالی ہوں.بلکہ ایسے ہی لوگ مفید ہو سکتے ہیں جو نیک اور پاک ہوں ، اور وہی تدابیر سلسلہ کے لئے مفید ہو سکتی ہیں جن کے ساتھ دل کا خون شامل ہو.جن تدابیر کے ساتھ مومن کے دل کا خون شامل نہیں اور جن مشوروں کے ساتھ مومن کی عاجزانہ دعا ئیں شامل نہیں وہ تدابیر اور مشورے دین کے لئے مفید نہیں ہو سکتے.پس سب کمیٹیوں کے ممبران کے تقرر میں بھی تقویٰ اور پرہیز گاری اور نیکی اور
خطابات شوری جلد دوم ۴۳۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء اخلاص مدنظر رکھنا چاہئے تا ہمیں خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہو.بے شک یہ بات دُنیا کے اصول کے خلاف ہے مگر ہمیں اس بات کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے کہ دُنیا رکن اصول کی مخالف ہے کیونکہ فتح خدا کی طرف سے آیا کرتی ہے اور خدا اُنہی اصول کی پابندی کو پسند کرتا ہے جو اُس نے خود ہمارے لئے مقرر کئے ہیں.آج کا ایجنڈا دوستوں کے ہاتھوں میں ہے.اس ایجنڈا میں شامل کرنے کے لئے ایک اور تجویز میں نے بھی آج لکھ کر دی ہے جو ناظر صاحب اعلیٰ نے نظارت بیت المال کے سپرد کی ہے.میں اس تجویز کو بھی سنا دیتا ہوں تا دوست یہ سمجھ لیں کہ یہ تجویز بھی ایجنڈے کا حصہ ہے.تجویز یہ ہے کہ : - آئندہ کا رکنان صدرانجمن احمدیہ کے متعلق یہ قاعدہ بنایا جائے کہ جو لوگ تیں روپیہ ماہوار تک گزارہ پاتے ہیں، انہیں تو پراویڈنٹ فنڈ ملے اور جو اس سے زیادہ گزارہ پانے والے ہیں انہیں اختیار دیا جائے کہ خواہ وہ پراویڈنٹ فنڈ کے طریق کو اپنے لئے پسند کریں خواہ پنشن کے طریق کو.پنشن چالیس فیصدی ملے.اس تبدیلی کی صورت میں بھی ہر کارکن کو جو پنشن لینا چاہے اپنا حصہ پراویڈنٹ فنڈ کا جمع کراتے رہنا پڑے گا جو اُسے اکٹھا پنشن کے وقت منافع سمیت مل جائے گا.صدر انجمن احمد یہ بھی اپنا حصہ پہلے کی طرح ادا کرتی رہے گی اور اسی میں سے پنشن ادا کرے گی.“ اسی طرح نظارت تعلیم و تربیت کی طرف سے ایک تجویز احمد یہ یونیورسٹی کے متعلق ہے جو ایجنڈا میں درج ہونے سے رہ گئی ہے.اب دوست سب کمیٹیوں کے متعلق مناسب آدمیوں کے نام لکھاتے چلے جائیں، میں بعد میں ممبران کا اعلان کر دوں گا.“ دوسرا دن مکرم ناظر صاحب اعلیٰ کی رپورٹ پر تبصرہ مجلس مشاورت کے دوسرے روز ۲۳ / مارچ ۱۹۴۰ء کو مکرم ناظر صاحب اعلیٰ نے
خطابات شوری جلد دوم ۴۴۰ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء فیصلہ جات سال گزشتہ اور ان کی تعمیل کے متعلق رپورٹ پیش کی.اس پر تبصرہ کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:- ” ناظر صاحب اعلیٰ نے گزشتہ سال کے فیصلوں کے متعلق اپنی رپورٹ پڑھ کر سنائی ہے.میں نہیں کہہ سکتا کہ شور کی وجہ سے جو زیادہ تر لاؤڈ سپیکر کی خرابی کے باعث تھا دوستوں تک آواز پہنچی ہے یا نہیں؟ بہر حال اُنہوں نے اپنی رپورٹ سنا دی ہے اور ہم نے جو قریب بیٹھے تھے اسے سُن لیا ہے.اس کے متعلق میں ایک بات تو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آخری بات جو اُنہوں نے کتابوں کی اشاعت کے متعلق کہی ہے وہ صحیح طور پر رپورٹ نہیں کہلا سکتی.فیصلہ یہ نہیں تھا کہ نظارت دوستوں میں تحریک کرے اور وہ روپیہ دیں جس سے کتب شائع کی جائیں.ان کو یا تو یہ کہنا چاہئے تھا کہ کتب شائع ہوئیں اور اگر نہیں ہوئی تھیں تو ان کو یہ کہنا چاہئے تھا کہ روپیہ کا انتظام نہیں ہو سکا اس لئے شائع نہیں کی جاسکیں.یہ بات کہ دوستوں میں روپیہ کے لئے تحریک کر دی گئی صحیح رپورٹ نہیں کہلا سکتی.ایک اور امر اُنہوں نے مدرسہ احمدیہ میں داخلہ کے متعلق بیان کیا ہے کہ کوشش کی گئی که حسب فیصلہ مشاورت داخلہ میں کامیابی ہو، مگر چونکہ نہ ہوسکی اس لئے اس فیصلہ کو تبدیل کرانا پڑا.میں نے جہاں تک اس پر غور کیا ہے اس فیصلہ کی ناکامی کی وجہ یہی تھی کہ داخلہ کا معیار مڈل پاس کر دیا گیا تھا.اور مڈل تک انگریزی مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد یہاں ٹھہر جانا مشکل ہوتا ہے.طالب علم بھی اور والدین بھی سمجھتے ہیں کہ اب مڈل تک پہنچے ہیں تو انٹرنس تک ہی ختم کر لیں.میری تجویز یہ تھی کہ داخلہ کا معیار انٹرنس رکھا جائے اور اگر یہ رکھا جاتا تو مڈل کی نسبت زیادہ کامیابی ہوتی.اس کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ معیار خواہ مڈل ہوتا یا انٹرنس ، پہلے سال پوری کامیابی نہیں ہو سکتی تھی.لازمی طور پر پہلے سال بہت کم لڑ کے داخل ہونے کے لئے آتے.مگر آہستہ آہستہ انٹرنس پاس کرنے کے بعد آنے لگ جاتے.مگر نظارت نے پہلے سال کی مشکلات کو دیکھ کر پریشانی کا اظہار کر کے تبدیلی کرالی.ور نہ ہر تبدیلی پر کچھ نہ کچھ دقت ضرور ہوتی ہے.بظاہر یہ بات سہل نظر آتی تھی کہ مڈل پاس کرنے کے بعد لڑکے سہولت کے ساتھ مل سکیں گے مگر حقیقت یہی ہے کہ جولڑ کا مڈل پاس کرے وہ خود بھی اور اُس کے ماں باپ بھی یہی چاہتے ہیں کہ اب انٹرنس بھی کر لیا جائے.
۴۴۱ خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء اور میں اس بات کو اچھی طرح سمجھتا تھا مگر پھر بھی میں نے کثرت کے فیصلہ کو منظور کر لیا کیونکہ میں نے خیال کیا کہ اگر میں نے انٹرنس کا معیار کر دیا تو بعض لوگوں میں یہ احساس پیدا ہو گا کہ غرباء کی تعلیم کے رستہ میں دقت پیدا کر دی گئی ہے.تعلیم کے متعلق یہ ایک نیا تجربہ تھا جس کے لئے اس دینی مدرسہ کو ہی منتخب کیا گیا.اور یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کہتے ہیں کہ ایک دفعہ مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب کے دربار میں دہلی کا ایک طبیب آیا اور ان کے وزیر فقیر عزیز الدین سے مل کر اصرار کیا کہ مجھے مہاراجہ کے پیش کر دیا جائے.وہ شریف آدمی تھے اس لئے انکار بھی نہ کر سکتے تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ ان کی وزارت طب ہی کی وجہ سے ہے.انہوں نے اسے مہاراجہ کے پیش تو کر دیا مگر ساتھ کہا کہ مہاراج! یہ دہلی سے آئے ہیں، طب خوب پڑھ چکے ہیں اور حضور کے طفیل اب ان کو تجربہ بھی ہو جائے گا.مہاراجہ رنجیت سنگھ تھے تو ان پڑھ مگر ذہین بہت تھے فوراً سمجھ گئے اور کہا کہ تجربہ کے لئے غریب رنجیت سنگھ کی جان ہی نظر آتی ہے؟ اسے کچھ انعام دیا اور رخصت کر دیا.اسی طرح احباب کا میلان اسی طرف تھا کہ اسی دینی مدرسہ پر ہی نئی سکیم کا تجربہ کیا جائے مگر تجربہ نے بتا دیا ہے کہ وہ رائے غلط تھی.لڑکیوں کی تعلیم کے سلسلہ میں بھی ہمیں یہ وقت پیش آئی تھی.وہاں بھی یہ تجویز کی گئی تھی کہ اُنہوں نے نوکریاں تو بہت کم کرنی ہوتی ہیں یا ان کے لئے اس کے مواقع بہت کم ہوتے ہیں اس لئے مڈل کے بعد دینیات کی کلاسیں جاری کی جائیں.ایک دو سال تک تو اس طرف اچھی رغبت رہی مگر پھر یہ شور اُٹھا کہ انٹرنس پاس کر کے ہی کیوں نہ داخل ہوں مڈل سے کیوں چھوڑ دیں؟ اور جب لڑکیوں کے متعلق یہ حالت ہو تو لڑکوں کے متعلق ہے خیال کر لینا کہ وہ سرے پر پہنچ کر واپس آجائیں گے بالکل ہی غلط خیال ہے اور یہی خیال اس کی ناکامی کا موجب ہوا ہے.پھر اس کی ناکامی کی کچھ ذمہ داری خود افسروں کی نیت پر ہے.وہ چونکہ اسے پسند نہیں کرتے تھے اس لئے ذراسی مشکل سے گھبرا کر رپورٹیں کرنے لگے اور آخر تبدیلی کرالی.یومِ سیرت پیشوایان مذاہب کے جلسوں کی کامیابی یوم سیرت پیشوایان مذاہب کے جلسوں کے متعلق بھی
خطابات شوری جلد دوم ۴۴۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے.دوستوں نے اپنی اپنی جگہ پر دیکھا ہوگا کہ یہ جلسے کیسے کامیاب رہے ہیں.میرے پاس جور پورٹیں پہنچی ہیں اُن سے ظاہر ہوتا ہے کہ تبلیغ کا ایک نیا رستہ پیدا ہو گیا ہے بعض جگہ مشکلات بھی پیش آئی ہوں گی اور یہ تحریک بعض لوگوں میں رغبت کی بجائے مخالفت پیدا کرنے کا موجب ہوئی ہوگی.مگر بیشتر مقامات پر لوگوں نے اس تحریک کو پسند کیا اور اس سے فائدہ اُٹھایا ہے اور یہ ثابت ہو چکا ہے کہ غیر اقوام سے تعلقات کی مضبوطی اور امن عامہ کے لئے یہ ایک مفید تجویز ہے.کئی جلسوں کی صدارت غیر مسلموں نے کی اور اُنہوں نے اقرار کیا کہ یہ جلسے ہندو مسلم اتحاد کے لئے بہت مفید ہیں.حال میں ہی لاہور میں جلسہ ہوا ہے جس کی تقریب کو تو میں نہیں سمجھ سکا کیونکہ ہم نے جو جلسے کرائے وہ دسمبر میں ہوئے تھے.مگر بہر حال اس جلسہ کی صدارت ہائی کورٹ کے جج مسٹر سیکمپ نے کی اور تسلیم کیا کہ ہندو مسلم اتحاد کا یہ بہترین ذریعہ ہے اور انشاء اللہ جوں جوں ان کو وسیع پیمانہ پر کیا جائے گا غیرم یر مسلموں کے دلوں میں اسلام سے جو تنافر ہے وہ دور ہوتا جائے گا اور یہ جلسے بالخصوص غیر اقوام کے ساتھ احمدیوں کے تعلقات کی استواری کا موجب ہوں گے.بعض مقامات پر غیر اقوام نے تو ان جلسوں کے سلسلہ میں احمدیوں کے ساتھ ہمدردانہ تعاون کیا مگر غیر احمد یوں نے بہت بُرانمونہ دکھایا.نیروبی کے جلسے میں وہ شامل ہوئے اور سب تقریریں محبت وسکون سے سُنتے رہے.عیسائیوں کی تقریریں سنیں ،سکھوں اور ہندوؤں کی شنیں مگر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر آیا تو وہ اُٹھ کر چلے گئے اور کہا کہ ہم یہ تقریر سُننے کیلئے تیار نہیں.اس کا اثر غیر مسلموں پر بہت بُرا ہوا اور اُنہوں نے اس امر کا اظہار کیا کہ یہ لوگ اس قدر متعصب ہیں!! اور اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ماننے والے آپس میں اس قسم کے تعلقات رکھتے ہیں تو اس کے صاف معنے یہ ہیں کہ غیر مسلم پیشواؤں کے متعلق جو تقریریں اُنہوں نے سُنی ہیں، وہ نیکی کی وجہ سے نہیں.اگر نیکی کی وجہ سے سنتے تو اپنے میں سے ایک شخص کے متعلق کیوں نہ سُنتے جس کے ساتھ ان کے اختلافات ہماری نسبت بہت کم ہیں.مگر ایسی مخالفتوں سے گھبرانا نہیں چاہئے.یہ امر یقینی ہے کہ آہستہ آہستہ یہ جلسے انشاء اللہ ضرور کامیاب ہوتے جائیں گے اور ہندوستان میں قیام امن کا ایک زبر دست ذریعہ ثابت ہوں گے.
خطابات شوری جلد دوم ۴۴۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء مولوی شیر علی صاحب نے لکھا ہے کہ جلسہ سالانہ پر اعلان کیا گیا تھا کہ مجلس مشاورت تک قرآن کریم کے ترجمہ کے نوٹ ختم ہو جائیں گے.چنانچہ بالعموم وہ ختم ہو چکے ہیں اور اب صرف کراس ریفرنسز اور سورتوں کے خلاصہ کا کام ہو رہا ہے جو بہت جلد ختم ہو جائے گا.اس کے بعد میں کل کی کمیٹیوں کی رپورٹیں پیش کرتا ہوں.تین کمیٹیاں تھیں ایک بیت المال کی کمیٹی جس میں بہشتی مقبرہ سے متعلقہ کام بھی شامل تھا.دوسری نظارت امور عامہ و امور خارجہ کی اور تیسری یونیورسٹی کے متعلق.یونیورسٹی کے قیام کی تجویز اور سب سے پہلے میں ناظر تعلیم و تربیت کو بلاتا ہوں کہ وہ یو نیورسٹی کے متعلق جو دراصل گزشتہ سال کی رہی ہوئی تجویز ہے، رپورٹ پیش کریں.اس سے پہلے میں حسب دستور سابق چوہدری ظفر اللہ خانصاحب کو بلاتا ہوں کہ وہ وقتا فوقتا بولنے والے دوستوں کو باری باری موقع دیتے جائیں.میں سمجھتا ہوں کہ دوستوں کو اس رپورٹ کے سمجھنے میں زیادہ آسانی ہوگی.اگر ان کو یہ پتہ لگ جائے کہ یونیورسٹی سے مراد کیا تھی اور اس کا خیال کیونکر پیدا ہوا اور چونکہ جہاں تک مجھے یاد ہے یہ تجویز سب سے پہلے درد صاحب کی طرف سے پیش کی گئی تھی اس لئے وہی اس کے متعلق مناسب روشنی ڈال سکیں گے.وہ آئیں اور بتائیں کہ اس تجویز سے ان کا منشاء کیا تھا.“ حضور کے اس ارشاد کی تعمیل میں مکرم مولا نا عبدالرحیم صاحب درد نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے ذہن میں یونیورسٹی کا مفہوم یہی تھا کہ ایک ادارہ ہو جس کے ماتحت نصاب تعلیم کا اجراء اور امتحانات لے کر ڈپلومے اور ڈگریاں جاری کرنا ہو.محترم در دصاحب کی اس وضاحت کے بعد حضور نے فرمایا: - میں اس رپورٹ کے متعلق جو پڑھی گئی ہے یہ غیر معمولی طریق اختیار کرتا ہوں کہ قبل اس کے کہ اس کے بعض حصے پیش کر کے احباب سے ان کے متعلق رائے لی جائے پہلے اپنے خیالات کا اظہار کر دوں.میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس موضوع پر اس رنگ میں بحث سے جیسا کہ سب کمیٹی نے اسے پیش کیا ہے کیا نتیجہ نکل سکتا ہے.کمیٹی کے ممبروں کا ذہن اس طرف گیا ہے کہ ان کے سامنے ایک ایسی یونیورسٹی کے قیام کی تجویز ہے جو انگریزی چارٹر
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء کے ماتحت ہو اور اس قسم کی تجویز پر اس وقت بحث کرنا میرے نزدیک تضیع اوقات ہے کیونکہ ایسی یو نیورسٹی کیلئے جتنے روپیہ اور جس قدر سامانوں کی ضرورت ہے اس کا عشر عشیر بھی اس وقت ہمیں میسر نہیں.حتی کہ ہم ابھی تک انٹرمیڈیٹ کالج بھی قائم نہیں کر سکے اور جو جماعت ایف.اے تک کلاسیں بھی نہ کھول سکے اُس کا یونیورسٹی کے قیام کی تجاویز پر بحثیں کرنا ایک کھیل اور تمسخر ہے.صرف ایک سوال ہے جو زیر بحث آ سکتا ہے اور وہ وہی ہے جو در دصاحب نے پیش کیا ہے اور وہی اس قابل ہے کہ ہم اُس طرف توجہ کریں.اور وہ یہ ہے کہ ہماری بعض درسگاہوں کے امتحانات تو حکومت کے مقررہ ادارے اور انسپکٹر لے لیتے ہیں مگر بعض درسگاہیں آزاد ہیں اور حکومت کی طرف سے ان کے امتحانات نہیں لئے جاتے یا حکومت کے ماتحت درسگاہوں کے بعض امتحانات ایسے ہیں جو حکومت کی طرف سے نہیں لئے جاتے.مثلاً دینیات کا امتحان ہے وہ خود ہیڈ ماسٹر صاحب لے لیتے ہیں.یا جیسا کہ کچھ عرصہ سے یہ طریق ہو گیا ہے نظارت لے لیتی ہے.درد صاحب کو یہ خیال پیدا ہوا کہ ہر ناظر تعلیم و تربیت کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ درسگاہوں کی ایسی ضروریات کو بھی محسوس کر سکے.ہو سکتا ہے کسی وقت کوئی ایسا ناظر مقرر ہو جائے جو تربیت کے لحاظ سے مقرر کیا جائے مگر زیادہ تعلیم یافتہ نہ ہو کیونکہ ناظر تعلیم و تربیت کا کام تو یہی ہے کہ جماعت کی تعلیمی ترقی کا خیال رکھے اور اس کی تعلیمی ضرورتوں کو مجلس کے سامنے لاتا رہے، اس کا خود زیادہ تعلیم یافتہ ہونا ضروری نہیں.حکومت میں بھی جو وزیر تعلیم مقرر ہوتا ہے وہ بعض اوقات کئی ہیڈ ماسٹروں سے بھی کم تعلیم یافتہ ہوتا ہے.اور اس سے کوئی نقص لا زم نہیں آتا کیونکہ اُس نے تو صرف تعلیم کی نگرانی کرنی ہوتی ہے تعلیم دینی نہیں ہوتی.اور یہ طریق صرف ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ بیرونی حکومتوں میں بھی ہے.انگریزی حکومت میں جو تعلیم کا محکمہ ہے اس کے وزیر جب ڈاکٹر فنشر مقرر ہوئے تو ان کے اخبارات نے لکھا تھا کہ ساری تاریخ میں یہ پہلا ماہر تعلیم ہے جو اس عہدہ پر مقرر ہوا مگر اسے بھی ناکام ہونا پڑا اور کچھ عرصہ بعد وہ مستعفی ہو گیا کیونکہ وہ انتظامی قابلیت نہ رکھتا تھا.تو ضروری نہیں کہ ہمارے ہاں جو ناظر تعلیم و تربیت مقرر ہو وہ لازمی طور پر زیادہ تعلیم یافتہ ہو.درد صاحب نے خیال کیا کہ ایسی صورت میں اس کے لئے آزاد درسگاہوں کے امتحانات کا انتظام کرنے یا ایسی درسگاہوں
۴۴۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء خطابات شوری جلد دوم میں جن کے امتحانات حکومت کے مقررہ افسران لیتے ہیں دینیات وغیرہ کے امتحانات کا انتظام کرنا اور ان کی تعلیمی ضروریات کو سمجھنا مشکل ہو گا اس لئے ایک ایسا بورڈ مقرر کر دیا جائے جو امتحانات کا انتظام کرے اور تعلیمی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے نئی نئی سکیمیں پیش کرتا رہے، اسی طرح نصاب تعلیم میں بھی بہتر سے بہتر اصلاحات ہوسکیں گی اور یہی ان کی تجویز تھی.اور میرے نزدیک یونیورسٹی کی سکیموں پر بحث کی بجائے یہ زیادہ مناسب ہوگا کہ ہم ایک ایسے بورڈ کے قیام پر غور کریں جس کا کام امتحانات کی نگرانی ، تعلیمی ضرورتوں کا خیال رکھنا اور نصاب مقرر کرنا اور نصاب کے لئے اگر کسی موضوع پر کوئی موزوں کتاب موجود نہ ہو تو وہ لکھوانا ہوتا یہ ٹیکنیکل کام ناظر کے ہاتھ سے نکل کر ایسے لوگوں کے ہاتھ میں چلا جائے جو تعلیمی لحاظ سے زیادہ ماہر ہوں.باقی انگریزی چارٹر کے ماتحت قائم ہونے والی یونیورسٹی کے لئے ہمارے پاس اس وقت نہ روپیہ ہے اور نہ سامان اور اگر آج سے تھیں، چالیس یا پچاس سال بعد ہم کوئی یو نیورسٹی قائم کر سکیں گے تو آج اس کی تفاصیل پر بحثیں کرنا بالکل بے فائدہ ہے.اس میں شک نہیں کہ بعض امور ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے متعلق ہزار سال قبل بھی غور کرنا ضروری ہوتا ہے مثلاً ابھی ہمیں حکومت نہیں ملی مگر اس کے قواعد اور طریق نظم و نسق کے متعلق میری کتابوں میں بحثیں موجود ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ہمیں جو نور ملا ہے، اسے بعد میں آنے والوں کی نسبت ہم زیادہ اچھی طرح پیش کر سکتے ہیں اور چونکہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں اس لئے ہم اسے پیش کرتے رہتے ہیں تا آئندہ نسلوں کو فائدہ پہنچ سکے کیونکہ اس بارہ میں وہ ہماری راہنمائی کی بہت زیادہ محتاج ہیں.لیکن اس سوال کے متعلق کہ آئندہ کبھی یو نیورسٹی ہماری جماعت قائم کرے گی اس کے بیس ممبر ہوں یا چھپیں آج ہمارا بحث کرنا تصیح اوقات ہے.جب اس کا وقت آئے گا وہ لوگ جو یہ کام کریں گے خود اس پر غور کر لیں گے.ہمیں صرف ان باتوں میں قبل از وقت بحثیں کرنی چاہئیں جن میں ہماری رہنمائی کے بغیر آئندہ نسلوں کے لئے غلطی کر جانے کا امکان ہے اور یو نیورسٹی کے قیام کا سوال ایسا نہیں اس لئے اس وقت صرف اتنے سوال کو لے لیا جائے کہ آیا کوئی ایسا تعلیمی بورڈ مقرر کیا جانا چاہئے یا نہیں جس کی غرض ایسے امتحانات کا انتظام ہو جو انگریزی یونیورسٹی کے ماتحت نہیں لئے جاتے یا ایسی.
خطابات شوری جلد دوم ۴۴۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء درسگاہوں کے امتحانات کا انتظام ہو جو انگریزی یونیورسٹی سے آزاد ہیں اور جو جماعت میں تعلیم کی وسعت کے متعلق مشورے دیتا رہے اور اس کی تعلیمی ضرورتوں کی تکمیل کا خیال رکھے.اس کے متعلق جو دوست اظہارِ خیالات کرنا چاہئیں وہ اپنے نام لکھوا دیں.“ اس پر چند ممبران نے اپنی آراء کا اظہار کیا.حضور نے فرمایا: - ” ملک غلام فرید صاحب نے جو تقریر کی ہے پہلے تو میں اس کی تصدیق کرتا ہوں میری بھی دولڑکیاں گرل سکول میں اس سال دینیات کا آخری امتحان دے رہی ہیں.اور میں نے دیکھا ہے امتحان کی تیاری میں وہ بالکل پاگل سی ہو رہی ہیں.رات کو بارہ بارہ بجے تک ان کے کمروں سے پڑھنے کی آواز آتی رہتی ہے.اور وہ اتنی محنت کرتی ہیں کہ میں نے لڑکوں کو کبھی کرتے نہیں دیکھا اور بے شک اتنی محنت سے دماغ پراگندہ ہو جاتا ہے.اور یہ بھی صحیح ہے کہ اس نصاب کی منظوری پر میرے بھی دستخط ہوں گے مگر اس کے متعلق شکایت مجھے بھی ہے وہ اس سکول کے ہیڈ ماسٹر ہیں اور انہیں یہ بھی خیال ہے کہ ان پر یہ اعتراض نہ ہو کہ تم پڑھاتے نہیں ہو اور اِس لئے اُنہوں نے اس اعتراض سے بھی بچنے کی کوشش کی ہے.مگر حقیقت یہی ہے کہ کورس بہت لمبا ہے اور لڑکیوں کی طاقت سے بالا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے جو بورڈ مقرر کیا تھا اس کے سامنے کا لج کی کلاسز بھی تھیں مگر اس نے ایک طرف تو یہ فیصلہ کر دیا کہ کالج کی کلاسز ا بھی نہ کھولی جائیں مگر ساتھ ہی یہ کوشش کی کہ میں نے جو خاکہ پیش کیا تھا اس کا نقشہ بھی قائم رہے.نتیجہ یہ ہوا کہ وہ نہ شتر رہا اور نہ مرغ بلکہ شتر مرغ بن گیا.دوسری بات اس کے متعلق یہ ہے کہ خود امتحان لینے والے لڑکیوں کے لئے اس دقت کا موجب ہو رہے ہیں.کورس کے بعض حصے تو صرف معلومات میں اضافہ کے لئے ہیں.ان کو اس طرح رٹوانا درست نہیں.صرف یہ چاہئے تھا کہ لڑکیوں سے کہہ دیا جاتا کہ ان کتابوں کو غور سے پڑھ جاؤ.ہمیشہ اعلیٰ جماعتوں میں بعض زائد کتب رکھنی پڑتی ہیں کیونکہ اگر صرف یہی مد نظر رکھا جائے کہ کورس اتنا مختصر ہو جسے آسانی سے یاد کیا جا سکے.تو وسعت مطالعہ کا فائدہ حاصل ہو سکتا اور اگر ان کتابوں کو رٹوانا شروع کر دیا جائے.تو اس سے بھی مشکل پیدا ہوتی ہے کچھ لٹریچر صرف پڑھنے کے لئے ہوتا ہے اور کچھ امتحان کے.
خطابات شوری جلد دوم ۴۴۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء لئے.مدرسین نے اس بات کو سمجھا نہیں اور وہ ہر کتاب رٹو انے لگتے ہیں.جس کے نتیجہ میں صحت پر بھی بُرا اثر پڑتا ہے.میں اس امر کی بھی تصدیق کرتا ہوں کہ مدرسہ احمدیہ بلکہ جامعہ کے طلباء سے ہماری لڑکیاں دینی معلومات میں زیادہ ہیں میں نے ان میں سے بعض کے لکھے ہوئے مضامین دیکھے ہیں جو سلسلہ کے اچھے مصنفین کے پایہ کے ہوتے ہیں.اگر بعض صورتوں میں ان سے بڑھ نہیں جاتے.اگر کوئی تعلیمی بورڈ ہوتا تو یہ سب وقتیں اس کے سامنے آتی رہتیں.مگر اب سارا کام ناظر صاحب کو ہی کرنا پڑتا ہے.بورڈ ہوتا تو اس میں ہیڈ ماسٹر صاحبان بھی شامل ہوتے اور وہ اس قسم کی دقتیں پیش کرتے رہتے.“ اس پر چند ممبران نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اس پر حضور نے فرمایا: - اب دوستوں کے سامنے یہ تجویز ہے کہ تعلیمی نگرانی امتحانات کا انتظام اور نصاب کی تجویز نیز مختلف شعبہ جات علمی کو مد نظر رکھتے ہوئے جماعت میں تعلیمی وسعت پیدا کرنے کی غرض سے ایک ایسا بورڈ مقرر کر دیا جائے جو ناظر تعلیم و تربیت کے ماتحت اپنے فرائض سرانجام دیتا رہے اور صدرانجمن کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرتا رہے تا یہ کام صرف ناظر کے ہاتھ میں ہی نہ رہے بلکہ ماہرین فن کے سپرد ہو جائے.چوہدری فضل احمد صاحب نے اس میں یہ ترمیم پیش کی ہے کہ باقی کام تو بورڈ کے ماتحت رہیں مگر امتحانات کے انتظام کے لئے ایک علیحدہ رجسٹرار مقرر کر دیا جائے جو ناظر صاحب تعلیم و تربیت کے ماتحت کام کرے.پہلے وہ دوست کھڑے ہو جائیں جو اس بات کے حق میں ہوں کہ ایسا بورڈ مقرر کر دیا جائے جس کا نام خواہ کچھ ہو نام کے لئے یہاں مشورہ کی ضرورت نہیں اس وقت صرف اصولی طور پر اس کے قیام کے متعلق فیصلہ ہو جانا چاہئے.جو دوست اس کے حق میں ہوں 66 وہ کھڑے ہو جائیں.“ اس پر ۳۴۴ ا حباب کھڑے ہوئے اور اس کے خلاف کوئی نہ ہوا.حضور نے فرمایا:- ”سب کمیٹی کی تجویز ہے کہ امتحانات کا کام بھی بورڈ سے ہی متعلق ہومگر ایک دوست
خطابات شوری جلد دوم ۴۴۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء کی ترمیم ہے کہ یہ حصہ بورڈ کے ماتحت نہ ہو بلکہ اس کے لئے ایک علیحدہ رجسٹرار مقرر کر دیا جائے.اب جو دوست اس بات کے حق میں ہوں کہ امتحانات بھی بورڈ کے ماتحت ہی رہیں وہ کھڑے ہو جائیں.“ ہوئے.فیصلہ اس پر ۱۱۳ کھڑے ہوئے.اور علیحدہ رجسٹرار کے تقرر کے حق میں ۹۵ احباب کھڑے حضور نے فرمایا: - میں دونوں امور میں کثرتِ رائے کے حق میں فیصلہ کرتا ہوں.صدر انجمن احمدیہ جلد سے جلد ایک ایسے بورڈ کے قیام کے متعلق تفصیلی قواعد بنا کر میرے سامنے پیش کرے.سلسلہ کے سب امتحانات بھی اس کے سپرد ہوں.ہمارے بعض امتحانات موجودہ صورت میں صرف ایک شغل معلوم ہوتے ہیں.بورڈ کے ماتحت آ جانے سے ان کی اہمیت بھی بڑھ جائے گی.اور ان کے متعلق جماعت میں بھی زیادہ توجہ پیدا ہو جائے گی.“ تعاونی کمیٹی کی سکیم جماعت کے نادار و پسماندگان کی امداد کے لئے ایک دوست نے تعاونی کمیٹی قائم کرنے کی ایک سکیم بھجوائی جوسب کمیٹی امور عامہ کے زیر غور آئی.سب کمیٹی نے متفقہ طور پر مجلس مشاورت میں یہ رائے پیش کی کہ یہ سکیم قطعی طور پر نا قابل عمل ہے.کمیٹی نے اپنی اس رائے کی تائید میں وجوہات بھی بیان کیں.سب کمیٹی کی رائے اور دلائل پر تبصرہ کرتے ہوئے حضور نے فرمایا :- مجھے اس سب کمیٹی کی رپورٹ سن کر ایک تاریخی مجلس یاد آ گئی جو آج سے کوئی تین سو سال قبل منعقد ہوئی تھی.یہ مجلس پین میں بیٹھی تھی اور سپین کے بادشاہ کی گویا مجلس شور کی تھی اُس کے سامنے یہ سوال تھا کہ ایک شخص کو لمبس نامی یہ کہتا ہے کہ زمین گول ہے اور اگر یہ صحیح ہے تو ہم اپنے جہاز سمندر میں چھوڑ دیں تو وہ چلتے چلتے کبھی ہندوستان پہنچ جائیں گے اور اس طرح اس ملک کے ساتھ ہماری تجارت شروع ہو سکے گی.اُس مجلس میں لاٹ پادری بھی شریک تھا اس نے کہا انا جیل سے ثابت ہے کہ زمین چپٹی ہے اور جو شخص اس بات پر ایمان نہیں رکھتا وہ خالص کافر ہے.اور پھر مذہب کو جانے دو جو شخص مذہب سے کوئی مس نہیں
خطابات شوری جلد دوم ۴۴۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء رکھتا وہ عقل سے اگر کام لے تو بھی اس بات کو تسلیم نہیں کر سکتا کہ زمین گول ہے.زمین گول کے یہ معنے ہیں کہ مشرق کی طرف لوگوں کے سر نیچے اور ٹانگیں اوپر ہوتی ہوں گی.درختوں کے پھل نیچے کی طرف ہوں گے اور وہ بجائے اوپر جا کر اُتارنے کے نیچے جا کر اُتارنے پڑتے ہوں گے.چار پائیاں بھی نیچے کی طرف لٹکتی ہوں گی.سب کمیٹی نے بھی اسی قسم کے دلائل دیئے ہیں.اس نے بعض باتیں فرض کر لی ہیں مگر ان کے لازمی نتائج کا انکار کر دیا ہے.اس نے فرض کر لیا ہے کہ پانچ ہزار ممبر تین روپیہ دینے والے اور اتنے ہی آٹھ آنہ دینے والے مہیا ہو جائیں گے.مگر ان کے بعد نہ تو ان میں سے کوئی دینے والا رہے گا اور نہ کوئی باہر سے داخل ہو سکے گا.اس کمیٹی کے شروع ہوتے ہی سب لوگ پندرہ سال کی عمر میں فوت ہونے لگیں گے اور کوئی بھی جوان نہ ہو سکے گا حالانکہ ہماری جماعت میں ہر وقت لوگ باہر سے داخل ہوتے رہتے ہیں لیکن اگر نئے لوگ داخل نہ ہوں تو بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت میں اوسط پیدائش وفات سے بڑھی ہوئی ہے.اس لئے اگر نئے لوگ داخل نہ ہوں تو بھی بڑھتے جائیں گے.یہ جو دلائل دیئے گئے ہیں یہ دراصل قلت تدبر کا نتیجہ ہیں.اس میں شبہ نہیں کہ شروع شروع میں اوسط تعداد ممبران گری ہوئی ہوگی کیونکہ بوڑھے، اُدھیڑ عمر کے اور جوان سب شامل ہوں گے مگر بعد میں چونکہ جوان شامل ہوتے جائیں گے اس لئے یہ نقص دور ہو جائے گا مگر ایک دوسرا نقص اس میں ضرور ہے.اگر ان میں سے فوت ہونے والے تمہیں بھی ماہوار سمجھ لئے جائیں تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ قریباً ایک ہزار روپیہ سالانہ ہر ممبر کو دینا پڑے گا اور اتنی رقم سالا نہ دینے والے پانچ ہزار ممبر ملنے مشکل ہیں مگر اس میں بھی شک نہیں کہ یہ تحریک دُکھے ہوئے دل کی آواز ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جماعت کو کسی ایسی سکیم کی ضرورت ضرور ہے، اس لئے کوئی نہ کوئی سکیم ہونی چاہئے.میں نے ایک سکیم پیش کی تھی مگر بعض علماء نے اس کے متعلق کہا کہ وہ مذہبی لحاظ سے قابلِ اعتراض ہے.گومیرے خیال میں ان کی یہ رائے غلط تھی مگر ان کے احترام کے طور پر میں نے اسے تسلیم کر لیا ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ جماعت مشکلات میں ہے اور ایسی کسی سکیم کی ضرورت محسوس کر رہی ہے اور یہ بات کہ اسلام اس حقیقی ضرورت کو پورا کرنے کا
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء انتظام نہیں کرتا میرے لئے ماننا مشکل ہے.جن علماء نے جب میری سکیم کو قابلِ اعتراض سمجھا تو اُن کو چاہئے تھا کہ خود کوئی ایسی سکیم پیش کرتے جو اعتراضات سے پاک ہوتی.غرباء کی امداد کا طریق میرے نزدیک تو میری سکیم درست تھی لیکن اس کو قابل اعتراض قرار دینے والے علماء نے اپنا فرض ادا نہیں کیا.ان کا کام تھا کہ اقتصادیات کے ماہرین کے مشورہ سے خود کوئی اچھی تجویز پیش کرتے جس سے غرباء کی امداد کی صورت پیدا ہو سکتی مگر افسوس اُنہوں نے اس طرف توجہ نہیں کی.ایک چیز ہمارے اختیار میں ہے مگر ہم نے اسے بھی اختیار نہیں کیا اور وہ نیو تہ ( تنبول ) کا طریق ہے.یہ میرے خیال میں کمیٹی ڈالنے کا بہترین طریق ہے بشرطیکہ لینے اور دینے والے کی حیثیت کا لحاظ رکھا جائے.اور جبر نہ ہو کہ دوسرا بھی اُتنا ہی دے جتنا کہ اسے دیا گیا تھا.اگر اپنے اپنے طور پر احمدی اس کا انتظام کر لیں کہ شادی کے موقع پر بطور امداد کچھ نہ کچھ دیا جائے یا جب کوئی فوت ہو جائے تو ہر شخص مدد کرے تو بہت مفید ہوسکتا ہے.قادیان میں اس کا انتظام بہت عمدہ طریق پر ہو سکتا ہے.ایسا انتظام سارے گاؤں کا نہ ہو بلکہ محلہ وار ہو اور یہ بہترین طریق ہے.ہمارے ملک نے ہزاروں سال تک اس طریق پر عمل کیا ہے.اس میں نقص صرف وہی ہے کہ جبر کیا جاتا ہے کہ دوسرا بھی ضرور اُتنی ہی رقم دے جتنی اُسے دی گئی تھی حالانکہ ممکن ہے پہلے کسی کی حالت اچھی ہومگر بعد میں کمزوری آجائے اور وہ اتنا ہی دینے کے قابل نہ رہ سکے.بس یہی کافی ہے کہ ہر شخص بطور تحفہ کچھ نہ کچھ دے.اگر اس طریق کو ضبط میں رکھا جائے تو بہت مفید ہے.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے سُنا ہے کہ اس طریق میں کوئی نقص نہیں اگر یہ جبر نہ ہو کہ کوئی شخص ضرور اپنی حیثیت سے بڑھ کر قرضہ اُتارے.اس کے علاوہ اور تحریکوں پر بھی غور کر لیا جانا چاہئے اور اسلام کی رو سے کوئی نہ کوئی جائز صورت ضرور نکل آئے گی.اسلام نے سُود سے منع کیا ہے مگر بیع سلم کو جائز قرار دیا ہے اور ہم اس کے ذریعہ اپنی ضرورتوں کو پورا کر سکتے ہیں اس لئے اس مشکل کا بھی کوئی علاج ضرور سوچنا چاہئے اور جب تک یہ نہ ہو نیو تہ کا طریق ہی جاری کرلینا چاہئے.اس رنگ میں دوست اپنے اپنے ہاں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہیں اور اس طرح اپنی ضرورتیں پوری کرتے رہیں.“
خطابات شوری جلد دوم نیز فرمایا : - ۴۵۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء تجویز یہ ہے کہ ایسی کمیٹی مقرر کر دی جائے جو غور وفکر کے بعد کوئی تجویز پیش کرے.جو دوست اس کے متعلق اظہارِ خیالات کرنا چاہئیں وہ اپنے نام لکھوا دیں.“ چنانچہ بعض ممبران نے اپنی آراء کا اظہار کیا جس کے بعد رائے شماری ہوئی.تجویز کے حق میں ۳۹۲ آراء تھیں.چنانچہ حضور نے کثرتِ رائے کو منظور فرمایا اور ۸ ممبران پر مشتمل ایک تعاونی کمیٹی بنائی گئی.دینی فتوحات خدا تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوتی ہیں ۲۲ مارچ ۱۹۴۰ء کو بعد دو پہر جب مجلس مشاورت کا دوسرا اجلاس شروع ہوا تو سب کمیٹی بیت المال کی رپورٹ پیش ہونے سے قبل حضور نے دوستوں کو بعض اہم امور کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا :- اب سب کمیٹی بیت المال کی رپورٹ پیش ہوگی.جس میں صیغہ جائیداد اور پنشن سے متعلقہ امور بھی شامل ہیں.پہلے اس کے کہ یہ پیش ہو جیسا کہ میرا قاعدہ ہے کہ میں بعض باتیں درمیان میں بھی کہتا رہتا ہوں میں دوستوں کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہماری اس مجلس کی غرض اسلام کی ترقی اور بہتری کی تجاویز سوچنا ہے مگر اس کے لئے ہماری تجاویز نہایت محدود ہوتی ہیں.اور پھر ہمارے پاس اتنا روپیہ بھی نہیں کہ اس غرض کے لئے خرچ کر سکیں.ابھی بجٹ آپ لوگوں کے سامنے آئے گا اور آپ دیکھیں گے کہ وہی قرضے اور وہی مالی مشکلات ہیں اور انہیں دور کرنا ہمارے اختیار میں نہیں لیکن جہاں تک ذاتی انقلاب پیدا کرنے کا سوال ہے وہ ہم ہر وقت کر سکتے ہیں.اس کے لئے نہ مادی اسباب و ذرائع کا نہ ہونا ہمارے رستہ میں روک ہوسکتا ہے اور نہ حکومت کا کوئی قانون ہمارے رستہ میں روک بن سکتا یا بنتا ہے اور اصل چیز یہی ذاتی انقلاب ہے جو ہمیں کامیاب کر سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ مجھے اگر چالیس مومن مل جائیں تو میرا کام ہوسکتا ہے اور آپ کا کام یہی تھا کہ دین کو دیگر ادیان پر غالب کرنا.گویا آپ یہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر مجھے چالیس مومن مل جائیں تو میں اسلام کو دیگر ادیان پر غالب کر سکتا
خطابات شوری جلد دوم ۴۵۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء ہوں.اور اسلام کو چالیس مومنوں کے ذریعہ ایسے تمام ادیان پر غالب کرنا جن کے ماننے والوں کے پاس حکومتیں اور فوجیں ہیں، بے شمار سامان ہیں جو اس وقت علمی ، اقتصادی اور تمدنی لحاظ سے تمام دنیا پر چھائی ہوئی ہیں اس کے صاف معنے ہیں کہ اسلامی فتوحات کا انحصار ظاہری سامانوں پر نہیں.ظاہری کوشش تو محض علامت کے طور پر ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ سے فرمایا کہ اپنی اُمت کو ختنہ کا حکم دو، یہ میرے اور ان کے درمیان دائمی تعلق کی علامت ہوگی.اسی طرح ہمارے یہ بجٹ وغیرہ سب علامتیں ہیں.اصل کام جو ہونا ہے وہ اسی طرح ہوگا کہ بعض اللہ تعالیٰ سے محبت رکھنے والے قلوب میں سوز وگداز پیدا ہوگا اور وہ اس کے حضور چلائیں گے اور آہ وزاری کریں گے کہ ہمارے دلوں میں دکھ ہے کہ تیرا نام روشن نہیں ہوتا اور تیرے پیارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دُنیا سے مٹ رہا ہے تو اس کیفیت کو دُور کر.چنانچہ کسی وقت اللہ تعالیٰ ان کی پکار کو سُنے گا اور کہے گا کہ بہت اچھا ہم نے اس کیفیت کو دور کر دیا.چنانچہ اسلام دُنیا میں پھیلنے لگے گا جیسے رات کے وقت ہر جگہ پہاڑوں پر بھی اور جنگلوں پر بھی ، سمندروں پر بھی ، دریاؤں اور نہروں پر بھی ، غاروں پر بھی ، سایہ دار جگہوں پر بھی اور ایسی جگہوں پر بھی جہاں کوئی سایہ نہیں ہوتا رات کی تاریکی چھائی ہوئی ہوتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اربوں ارب من ظلمت ہے جس نے ہر جگہ پر قبضہ کیا ہوا ہے مگر جونہی سورج چڑھتا ہے اس تاریکی کا پتہ ہی نہیں ملتا کہ کہاں غائب ہو گئی.یہی حال اسلامی تعلیمات کا ہوتا ہے.وہ دُنیا میں ظاہری اسباب سے نہیں پھیلا کرتیں.رات کو اُس کے ماننے والے اس پریشانی میں سوتے ہیں کہ یہ تعلیم دُنیا میں کب اور کس طرح مقبول ہو گی مگر صبح اُٹھتے ہیں تو نقشہ ہی بدلا ہوا ہوتا ہے.کچھ عرصہ تک تو لوگ ایک ایک اور دو دو کر کے اس میں شامل ہوتے ہیں مگر جس وقت اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کی آہ وزاری حد تک پہنچ جاتی ہے تو وہ اُسے سنتا ہے.خدا تعالیٰ کا عرش ان کی چیخوں سے کانپنے ہے اور دُنیا میں ان کے غلبہ کے سامان شروع ہو جاتے ہیں.اُس وقت پھر یہ سوال نہیں رہتا کہ کس کس کو اس دین میں شامل کیا جائے بلکہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے کون داخل ہو اور پیچھے کون.لوگ فوج در فوج داخل ہونے لگتے ہیں اور دُنیا کا نقشہ ایک ہی دن میں بدل جاتا ہے.سب انبیاء کی جماعتوں کے ساتھ ایسا ہی ہوا ہے.حضرت عیسی علیہ السلام کو دیکھ لو.لگتا.
۴۵۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء خطابات شوری جلد دوم ان کے ماننے والے کتنے مصائب برداشت کرتے رہے.وہ مدتوں شیروں کے غاروں میں رہے.میں نے خود اٹلی کے پاس وہ غار دیکھے ہیں جن میں عیسائی پناہ گزیں ہوئے اور ان میں اتنی اتنی فٹ زمین کے نیچے وہ چھپے رہتے تھے.سالہا سال باہر نہیں نکلتے تھے اور کبھی کوئی شہر میں جاتا بھی تو چوری چوری اور چھپ چھپ کر مگر صرف ایک دن میں یہ تمام نقشہ بدل گیا.ایک بادشاہ نے خواب دیکھا کہ مسیح خدا تعالیٰ کا پیارا تھا اور اس خواب کے نتیجہ میں اس نے مسیحیت میں نرمی کا برتاؤ شروع کر دیا اور ان میں سے جب کوئی شہر میں کوئی چیز وغیرہ لینے کے لئے آیا تو حیران رہ گیا کیونکہ وہاں نقشہ ہی بدلا ہوا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا.بے شک آپ نے دشمنوں کو شکستیں بھی دیں مگر قلوب میں تغیر یکدم ہوا.چنانچہ ایک سال اتنے لوگ اسلام میں داخل ہوئے کہ اس کا نام ہی سالِ وفود رکھ دیا گیا.مختلف قبائل کے وفود دوڑے چلے آتے تھے کہ دوسرے سے پہلے اپنے قبولِ اسلام کا اعلان کریں مگر وہ دن ظاہری سامانوں سے نہیں آیا.سامان وہی تھے جو پہلے تھے مگر نتائج بدل گئے اور یہ انقلاب ہمیشہ خدا تعالیٰ کے حضور چیخ و پکار اور آہ وزاری سے ہوتا ہے.مگر یہ دن تب آتا ہے جب خدا تعالیٰ کے بندوں کا دکھ درد انتہاء کو پہنچ جاتا ہے.قرآن کریم میں آتا ہے کہ ایک دن ایسا آتا ہے جب مومن ہماری کامیابی کا راز بے قرار ہو کر پکارتے ہیں.کہ متى تضر الله ! اس وقت اللہ تعالیٰ کی نصرت آتی ہے اور اس جماعت کو کامیاب کر دیتی ہے ورنہ تبلیغ کے ذریعہ جو ترقی ہوتی ہے وہ بہت تھوڑی ہوتی ہے.میں نے ایک دفعہ حساب کیا تھا کہ موجودہ رفتار سے ہم تین ہزار سال میں دُنیا پر غالب آ سکتے ہیں مگر یہ حسابی اندازہ ہے اور خدا تعالیٰ مومنوں کو بغیر حساب کے دیتا ہے.کچھ عرصہ تک ایسے حساب چلتے ہیں مگر ایک دن ایسا آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فیصلہ کر دیتا ہے کہ اب ان کو بغیر حساب دو.پہلے وہ لوگ مغلوب اور مقہور ہوتے ہیں مگر یکدم غالب اور منصور ہو جاتے ہیں لیکن انقلاب قلوب کی حالت سے پیدا ہوتا ہے.جب مومن متى نصر اللہ پکارتے ہیں اور چلاتے ہیں تب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہماری نصرت قریب ہے، وہ آتی اور کایا پلٹ دیتی ہے.
خطابات شوری جلد دوم ۴۵۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء پس ہماری کامیابی بھی خدا تعالیٰ کے حضور جھکنے اور آہ و زاری کرنے سے ہو گی ان بجٹوں وغیرہ سے نہیں.یہ تو یونہی ہیں اصل چیز وہی ہے اور یہی چیز ہے جو اگر اس مجلس کے نمائندے یہاں سے لے کر جائیں تو کامیاب ہوں گے.وہ فیصلہ کر لیں کہ اپنے دلوں میں عجز وانکسار اور خشیت پیدا کریں گے اور دوسروں کے دلوں میں بھی.اگر وہ ایسا کر لیں تو اللہ تعالیٰ ایک دن میں تغیر عظیم پیدا کر دے گا اور ہماری کامیابی کا یہی ایک ذریعہ ہے.نادان ہے وہ شخص جو اس کے خلاف خیال کرتا ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ ہماری کامیابی ان سامانوں اور ان ذرائع سے ہو گی جو ہم اختیار کرتے ہیں وہ احمدی نہیں اور اس سے زیادہ بے وقوف کوئی نہیں.ہمارے سامان ہیں کیا جو ہمیں دُنیا پر غالب کر سکتے ہیں.یہ سامان تو انگلستان یا جرمنی کے ایک ایک گاؤں کے برابر بھی نہیں ہیں.ہندوستان میں ایسے ایسے مال دار لوگ موجود ہیں کہ ان کی ایک ایک ماہ کی آمد کے برابر ہمارے سارے سال کا بجٹ نہیں ہوتا اور ظاہر ہے کہ اس بجٹ پر اپنی کامیابی کا انحصار رکھنا انتہائی بے وقوفی ہے.ایک مبشر رویا اس کے متعلق میں نے ایک عجیب خواب دیکھا ہے جو بیان کر دیتا ہوں.پہلے تو میں اس سے ڈر گیا مگر بعد میں غور کیا تو معلوم ہوا کہ مبشر ہے.میں نے دیکھا کہ میں ملاقات کے دفتر میں بیٹھا ہوں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ صحن میں دو ہوائی جہاز ہیں.جن میں سے ایک میں دُنیا کی حکومت اور دوسرے میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور عشق ہے اور یہ دونوں اکٹھے پرواز کرنے لگے ہیں.جب وہ اُڑنے لگے ہیں تو آواز آتی ہے اور میں پوچھتا ہوں کہ کیا بات ہے؟ میری بیویاں پاس ہیں اور وہ بتاتی ہیں کہ دونوں جہاز اُڑے ہیں.ہم لوگ چونکہ ہوائی جہازوں میں پرواز کے عادی نہیں اس لئے عام طور پر اس میں سفر کو ہندوستان میں خطرناک سمجھا جاتا ہے.چنانچہ جب مجھے بتایا جاتا ہے کہ دُنیا کی حکومت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و عشق علیحدہ علیحدہ ہوائی جہاز میں پرواز کرنے لگے ہیں تو میں گھبرا کر کہتا ہوں کہ اوہو! یہ ہوائی جہاز میں گئے ہیں کہیں کوئی حادثہ نہ پیش آ جائے اور میں برآمدہ میں کولوں (PILLERS) کے پاس کھڑا ہو کر دیکھتا ہوں وہ مشرق کی طرف جاتے ہیں.میں افق کی طرف دیکھتا ہوں مگر وہ کہیں واپس آتے ہوئے نظر نہیں آتے.میں گھبرا کر کہتا ہوں کہ چلو ان کی تلاش کریں.رات کا وقت ہے میں
خطابات شوری جلد دوم ۴۵۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء تلاش کے لئے نکلتا ہوں اور خیال کرتا ہوں کہ مدرسہ احمدیہ کے طلباء کو ساتھ لے لوں.وہاں جاتا ہوں تو طالب علم کھیل رہے ہیں.میں ان سے کہتا ہوں کہ سب چلومگر یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک غیر احمدی لڑکا بھی ان میں ہے جو مجھے جانتا نہیں اور وہ کہتا ہے کہ ہیڈ ماسٹر صاحب کی اجازت نہیں ہم کیسے جائیں.مگر ایک احمدی لڑکا اسے ڈانٹتا اور کہتا ہے کہ خاموش رہو تمہیں پتہ نہیں یہ حضرت خلیفتہ المسیح ہیں اور ان کی اجازت کے بعد کسی دوسرے کی اجازت کی ضرورت نہیں.میں ان لڑکوں کو ساتھ لے کر مغرب کی طرف جاتا ہوں اور ایک جگہ سے بڑے زور زور سے چیخنے اور چلانے کی آوازیں آ رہی ہیں اور معلوم ہوا کہ جس جہاز میں دُنیا کی حکومت اور بادشاہت تھی وہ واپس آ گیا ہے مگر جس میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت تھی اُسے ایکسیڈنٹ پیش آیا جس سے جہاز ٹوٹ گیا اور وہ مرگئی اور زور زور سے رونے کی آوازیں آرہی ہیں مگر وہاں لاش کے کوئی آثار نہیں.کچھ لوگ ہوائی جہاز کو نکالنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے لئے مٹی کھود رہے ہیں مگر کچھ نہیں نکلا.اور اس کوشش میں یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہاتھی مرکز گرا ہوا ہے.اور خواب میں یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ اتنا پرانا ہے کہ ہاتھی بھی گل سڑ کر خاک ہو چکا ہے اور جب اُس پر پھاوڑے مارتے ہیں تو مٹی کا ڈھیر کٹ کٹ کر علیحدہ ہوتا ہے.اس ہاتھی کی تمام مٹی ہٹانے کے بعد لاش اُس کے نیچے سے نکلتی ہے اور ایک شخص بڑے افسوس کے ساتھ کہتا ہے کہ یہ محبت کی لاش ہے اور میں اسے دیکھ کر اِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کہتا ہوں.یہ لاش بالکل ایسی ہے جیسے گتے کے اوپر کوئی تصویر ہوتی ہے اور بوجھ کی وجہ سے پچک گئی ہے.سر اور دھڑ کا گوشت بالکل کھایا جا چکا ہے اور ڈھانچہ بالکل اُسی طرح چپکا ہوا ہے جیسے گئے پر تصویر ہوتی ہے.لاتیں بھی نظر تو آتی ہیں مگر بالکل ہڈیاں ہیں.سب لوگ اسے دیکھ کر رو رہے ہیں.میں اُس کے قریب پہنچتا ہوں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک پتلا سا ڈھانچا ہے.میں قیاس کر کے اُس کے دل پر ہاتھ رکھتا ہوں اور ایک شخص سے مخاطب ہو کر کہتا ہوں تمہیں معلوم ہے کہ میرا ایک الہام ہے کہ ہم نے ایک مُردہ کو زندہ کیا تھا آؤ اب ہم اس کی آنکھوں میں نور ڈالیں.اور میں کہتا ہوں کہ یہ الہام ایسے ہی موقع کے لئے تھا اور پھر میں اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہو کر کہتا ہوں کہ تو نے ہی یہ الہام مجھے کیا تھا اور اب میں اس
خطابات شوری جلد دوم ۴۵۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء کی زندگی کے لئے تجھ ہی سے دُعا کرتا ہوں.اے میرے رب ! تو اس مُردہ کو زندہ کر دے.اے میرے رب! تو اس مُردہ کو زندہ کر دے.اے میرے رب! تو اس مُردہ کو زندہ کر دے.رویا میں ہی مجھ پر یہ اثر بھی ہے کہ مُردے زندہ نہیں ہوا کرتے مگر پھر یہ خیال آتا ہے کہ نہیں اس کے زندہ ہونے کے متعلق خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے.اور جب میں نے اس کے دل پر ہاتھ رکھا تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس کی رگیں پھولنے لگی ہیں.تب میں نے اس کے پیٹ کی جگہ پر پانی کا چھینٹا دیا اور کہا اے میرے رب! تو اس مُردہ کو زندہ کر دے اور میں نے دیکھا کہ اُس کی ناف کی جگہ پر وہ پانی جمع ہونا شروع ہوا اور یوں معلوم ہوا کہ وہ اس کے جسم میں جذب ہو رہا ہے اور اس کی ہڈیوں پر گوشت نمودار ہونا شروع ہوا اور اس کے سر کی جگہ ربڑ کے غبارہ کی طرح موٹی ہونی شروع ہوئی اور پھر وہ گول ہونے لگا اور اس میں سے سر، چہرہ، آنکھیں، ناک اور گردن نظر آنے لگی ہے.بعض آدمی جو وہاں کھڑے ہیں میں اُن سے مخاطب ہو کر کہتا ہوں کہ دیکھو! یہ سانس لینے لگا ہے.اس کے بعد اس کی لاتوں پر گوشت چڑھنے لگا اور اس طرح ہوتے ہوتے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس میں جان پڑ گئی ہے مگر اس کی آنکھوں میں نور نہیں اور میں کہتا ہوں کہ مجھے الہام ہوا تھا کہ ہم نے ایک مُردہ کو زندہ کیا تھا، آؤ اب ہم اس کی آنکھوں میں نور ڈالیں اور مجھے گھبراہٹ بہت ہے کہ اس کی آنکھوں میں نور نہیں اور میں اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھتا ہوں کہ آنکھ کھل گئی.اس خواب میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہاتھی دُنیا کی علامت ہے اور محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا ہاتھی ڈھیر کے نیچے آجانے کے یہ معنے ہیں کہ وہ دُنیا کی محبت کے نیچے دب گئی ہے اور پرانے ڈھیر کے یہ معنے ہیں کہ یہ کوئی نیا واقعہ نہیں بلکہ صدیوں کی پرانی حالت بتائی جا رہی ہے یعنی جس دُنیا نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو مٹایا تھا وہ خود بھی خاک ہو چکی ہے.تا ہم دُنیا کی ترقی کی خواہشات موجود تھیں اور ہمارے ہاتھوں سے اللہ تعالیٰ محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو پھر زندہ کرے گا اور پھر اس کی آنکھوں میں نور پیدا ہوگا.پہلے اس کے جسم میں جان پڑے گی اور پھر آنکھوں میں نور ڈالا جائے گا.یعنی عملی قوت آئے گی اور مُردہ کو زندہ کرنے کے یہ معنے ہیں کہ یہ کام مُردہ کو زندہ کرنے کے برابر ہے مگر یہ انسانی تدبیروں سے نہیں ہوگا بلکہ محض خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوگا.پس ہمیں چاہئے کہ اس کے لئے دعاؤں میں لگے رہیں اور محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو زندہ کرنے کی کوشش کرتے رہیں کیوں کہ دنیا کے لیے جو روحانی کمالات مقدر ہیں وہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہی ہیں جب تک آپ کی محبت زندہ
خطابات شوری جلد دوم نہ ہو گی اسلام ترقی نہیں کرسکتا.۴۵۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء پس اصل چیز یہی ہے کہ ہمارے نمائندے اس امر کا اقرار کر کے جائیں کہ اپنے اندر نئی روح پیدا کریں گے اور باہر جا کر اپنی جماعتوں میں بھی وہی روح پیدا کریں گے اور یہی طریق کامیابی کا ہے ورنہ سامانوں سے ہم دُنیا پر غالب نہیں آ سکتے.“ اگر موصی منظوری وصیت سے قبل وفات پا جائے مینہ بہشتی مقبرہ سے متعلق د و تجاویز کو بھی سب کمیٹی بیت المال کے سپرد کیا گیا تھا چنانچہ سب کمیٹی نے ان تجاویز کی بابت جو رپورٹ تیار کی اسے سیکرٹری صاحب بہشتی مقبرہ نے پیش کیا.پہلی تجویز کہ اگر موصی منظوری وصیت سے قبل وفات پا جائے تو اس کی وصیت منظور کی جائے یا نہیں ، سے متعلق نمائندگان کے اظہارِ خیال کے بعد حضور نے فرمایا: - اس وقت دوستوں کے سامنے یہ سوال ہے کہ اگر کوئی موصی وصیت کر کے مقامی کارکنوں کے سپر د کر دے مگر صدرانجمن احمدیہ کی منظوری سے پیشتر وفات پا جائے تو اس کی وصیت منظور کی جائے یا نہیں؟ سب کمیٹی کی تجویز یہ ہے کہ اگر ان کی وصیت ماہوار آمد کی تھی اور وصیت کرنے کے بعد اس نے ماہوار حصہ آمد کی ادائیگی شروع کر دی یا اگر اس کی وصیت حصہ جائیداد کی تھی اور اس کے ورثاء حصہ جائیداد ادا کر دیں تو اس کی وصیت منظور کر لی جائے.میر محمد الحق صاحب نے اس میں یہ ترمیم پیش کی ہے کہ چونکہ جو شخص اپنی زندگی میں وصیت منظور کرالیتا ہے اس کے لئے بھی ان شرائط کی پابندی ضروری ہے.اور وصیت کے قواعد میں یہ بات داخل ہے اس لئے نئے سرے سے یہ شرائط لگانے کی ضرورت نہیں.اس لئے میں پہلے میر صاحب کی ترمیم دوستوں کے سامنے پیش کرتا ہوں کہ ان دونوں شرطوں کی ضرورت نہیں.وہ پہلے ہی قواعد میں موجود ہیں.اس لئے ان کا یہاں لکھنا غیر ضروری ہے اصل تجویز یہ ہے کہ مثلاً زید نے دہلی میں وصیت کی اس کی جائداد دس ہزار روپیہ کی تھی اور اس نے وصیت کی کہ اس میں سے ایک ہزار روپیہ انجمن کو دے دیا جائے.اور یہ وصیت لکھ کر اس نے مقامی کارکنوں کے حوالہ کر دی اور پیشتر اس کے کہ وہ قادیان پہنچتی وہ فوت ہو گیا یا مثلاً اس کی ایک سو روپیہ ماہوار آمد تھی اور اس نے، ارا حصہ کی وصیت کی اور لکھ کر مقامی کارکنوں کو دیدی.مگر قادیان میں وصیت پہنچنے سے قبل
خطابات شوری جلد دوم ۴۵۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء وہ فوت ہو گیا.اب سوال یہ ہے کہ اس کی وصیت منظور کی جائے یا نہ کی جائے؟ سب کمیٹی کی تجویز یہ ہے کہ اگر تو اس کے ورثاء اس کی جائداد کا دسواں حصہ ادا کر دیں یا اگر وصیت آمد کی تھی اور وصیت تحریر کرنے کے بعد اتنا عرصہ وہ زندہ رہا کہ اُسے آمد ہوئی اور اس کا مارا حصہ اُس نے با قاعدہ ادا کر دیا تو اسے منظور کر لیا جائے.اور اگر نہیں کیا تو اسے نامنظور کر دیا جائے.میر صاحب کی ترمیم اس کے متعلق یہ ہے کہ یہ دونوں شرطیں غیر ضروری ہیں کیونکہ جو وصیت انجمن کے پاس بھی پہنچ جائے مگر موصی کے ورثاء اُس کی جائداد کا حصہ دینے سے انکار کر دیں یا وہ خود حصہ آمد ادا نہ کرے تو وصیت تسلیم نہیں کی جاتی.اور جب یہ شرطیں پہلے ہی موجود ہیں تو اس صورت میں خاص طور پر ان شرطوں کو لگانے کی کیا ضرورت ہے.پس اس وقت اصل سوال یہ ہے کہ لوکل انجمن کے سپر د جو وصیت کی جائے اگر وہ دوسری شرائط وصیت کو پورا کرے تو اُسے منظور کر لیا جائے یا نہیں؟ جو دوست اس کے حق میں ہوں وہ کھڑے ہو جائیں.“ اس پر ۲۴۷.احباب نے اِس کی منظوری کے حق میں اور صرف ۷ نے اس کے خلاف رائے دی.حضور نے فرمایا: - 66 فیصلہ میں کثرت رائے کے حق میں فیصلہ کرتا ہوں.“ پنشن کا کمیوٹ شھدہ حصہ آمد سمجھا جائے گا؟ سیکرٹری صاحب بہشتی مقبرہ نے سب کمیٹی کی طرف سے دوسری تجویز پیش کی تو حضور نے فرمایا: - ب کمیٹی کی تجویز یہ ہے کہ جو شخص اپنی پنشن کا کوئی حصہ کمیوٹ کرالیتا ہے اُسے آمد سمجھا جائے لیکن اگر وہ شخص عمر بھر اپنی پوری پنشن کا حصہ آمد ادا کرتا رہے تو بے شک اسے جائداد تصور کر لیا جائے.جو دوست اس کے متعلق اظہار خیال کرنا چاہیں وہ اپنے نام لکھوا دیں.“ چند ممبران کے اظہارِ خیالات کے بعد حضور نے فرمایا: - تجویز یہ ہے کہ کسی موصی کی پنشن کا وہ حصہ جس کا بدلہ یکمشت اسے لینے کی اجازت ہے اگر وہ اسے لے لیتا ہے تو اسے آمد قرار دیا جائے یا جائداد؟ جو دوست اس 66 رائے کے حق میں ہوں کہ اسے آمد قرار دیا جائے وہ کھڑے ہو جائیں."
خطابات شوری جلد دوم ۴۵۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء اس پر ۳۴۶ / ا حباب کھڑے ہوئے.پھر حضور نے فرمایا: - ” جو دوست اس بات کی تائید میں ہوں کہ اسے جائداد قرار دیا جائے وہ کھڑے ہو جائیں.“ فیصلہ اس پر صرف پانچ احباب کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا : - میں کثرتِ رائے کے حق میں فیصلہ کرتا ہوں.“ اس کے متعلق دوسری تجویز یہ ہے کہ جس وقت کوئی موصی اپنی پنشن کا کوئی حصہ کمیوٹ کرائے اس سے اُسی وقت حصہ آمد لے لیا جائے.جو دوست اس کے حق میں ہوں وہ کھڑے ہو جائیں.“ اس پر ۳۹۳/ احباب کھڑے ہوئے.اور اس کے خلاف صرف تین.حضور نے فرمایا: - فیصلہ میں کثرتِ رائے کے حق میں فیصلہ کرتا ہوں.یعنی یہ کہ کمیوٹیشن سے جو روپیہ حاصل ہو اس کا حصہ آمد اُسی وقت لے لیا جائے.مگر اس استثنیٰ کے ساتھ کہ بعض صورتیں ایسی ہوسکتی ہیں کہ کمیوٹیشن کا حصہ فوری طور پر لے لینے سے موصی کو نقصان ہوتا ہے مثلاً کسی موصی نے دو ہزار روپیہ کمیوٹیشن کے ذریعہ حاصل کیا ہے اور اس پر اتنی ہی رقم کی کوئی ڈگری ہے اب اگر اس سے دو سو روپیہ انجمن لے لے تو اسے یہ نقصان پہنچ سکتا ہے کہ اس کی یہ ڈگری ادا نہ ہو سکے گی.اس صورت میں وہ انجمن سے کوئی سمجھوتہ کر سکتا ہے اور یہ رقم اپنے اوپر بطور قرض تسلیم کر کے اس کی ادائیگی کے متعلق کوئی تصفیہ انجمن سے کر سکتا ہے.اس صورت میں جو بھی سمجھوتہ ہو وہ اس پر عمل کرے.“ تجویز پراویڈنٹ فنڈ اور پینشن مجلس مشاورت میں حضور کی طرف سے یہ تجویز پیش ہوئی کہ آئندہ کارکنان صدر انجمن احمدیہ کے متعلق یہ قاعدہ بنایا جائے کہ جو لوگ تیں روپیہ ماہوار تک گزارہ پاتے ہیں انہیں تو پراویڈنٹ فنڈ ملے اور جو اس سے زیادہ گزارہ پانے والے ہیں انہیں اختیار دیا جائے کہ
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء خواہ پراویڈنٹ فنڈ کے طریق کو اپنے لئے پسند کریں اور خواہ پنشن کے طریق کو.اور بصورت پنشن چالیس فیصدی پنشن ملے.چند نمائندگان کے اظہارِ خیال کے بعد حضور نے اس تجویز کے پس منظر اور افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا : - اس وقت تجویز یہ پیش ہے کہ آئندہ کے لئے پراویڈنٹ فنڈ کا طریق بالکل اُڑا دیا جائے.موجودہ کارکنوں کو اختیار ہو کہ وہ چاہے پراویڈنٹ فنڈ جاری رکھیں اور چاہے پنشن لے لیں مگر آئندہ کے لئے ایک ہی طریق ہو یعنی سب کو پنشن دی جائے اور وہ چالیس فیصدی ہو.میر محمد اسحق صاحب کی ترمیم یہ ہے کہ پنشن پچاس فیصدی ہو اور چوہدری سر محمد ظفر اللہ خانصاحب کی ترمیم یہ ہے کہ کسی کارکن کی ملازمت کے آخری تین سالوں کی مستقل تنخواہ کی اوسط نکال کر اُس کا چالیس یا پچاس فیصدی پینشن دی جائے.کارکنوں کی مشکلات مجھے اس تجویز کے پیش کرنے کی تحریک اس سبب سے ہوئی کہ گزشتہ ایام میں میں نے دیکھا ہے کہ ہمارے کارکن جو علمی کاموں پر لگے ہوئے ہیں وہ بالعموم ایسے طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں کہ جن میں تجارت کا رواج نہیں.یا تو وہ زمیندار طبقہ سے ہیں اور یا ایسے ہیں جن کے باپ دادا ملازمت پیشہ تھے اس لئے تجارت سے بالکل ناواقف ہیں.ان کو جو پراویڈنٹ فنڈ ملتا ہے وہ ان لیاقتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت ہی کم ہوتا ہے.میں نے دیکھا ہے کہ تمیں پینتیس سال کی ملازمت کے بعد ایک اچھی پوزیشن کے کارکن کو تین ساڑھے تین ہزار کے قریب روپیہ پراویڈنٹ فنڈ سے ملتا ہے.اُس وقت ان کے کئی بچے ہوتے ہیں شریفانہ گزارہ کی عادت ہو چکی ہوتی ہے کیونکہ عام طور پر ایک ایسے کارکن کو وصیت وغیرہ کا حصہ آمد وضع ہونے کے بعد بھی ستر یا نوے روپیہ کے قریب مل جاتے ہیں اسے تین ساڑھے تین ہزار کے قریب روپیہ پراویڈنٹ فنڈ سے ملتا ہے اور ظاہر ہے کہ وہ کسی جھونپڑے میں تو گزارہ کر نہیں سکتا.اگر چھوٹا سا مکان بھی بنائے تو اس پر اڑھائی تین ہزار روپیہ لاگت آ جاتی ہے گویا اس کی گل آمد اور انجمن کا عطیہ بھی صرف مکان کے لئے بھی کافی نہیں ہوسکتا.جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دوسرے تیسرے مہینہ ہی فاقہ کشی کی نوبت آ جاتی ہے.
خطابات شوری جلد دوم ۴۶۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء مولوی محمد اسمعیل صاحب کی قربانی اخبار الفضل میں ایک واقعہ لکھا تھا کہ مولوی محمد اسمعیل صاحب بعض اوقات نمک سے روٹی کھا لیتے تھے.حقیقت یہ ہے کہ ریٹائر ہونے کے بعد ان کے گزارہ کی کوئی صورت ہی نہ تھی.جو رقم بطور پراویڈنٹ فنڈ اُن کو دی گئی وہ پہلے سے ہی خرچ ہو چکی ہوئی تھی اور اس لئے قرضوں میں چلی گئی اور اس حالت میں کہ جب وہ بوڑھے ہو چکے تھے اور مسلول بھی تھے بعض دفعہ ان کو نمک کے ساتھ روٹی کھانی پڑتی تھی اور اس حالت کو جب ان کی علمی قابلیت کے ساتھ دیکھا جائے تو معلوم ہو سکتا ہے کہ ہم نے کتنا ظلم کیا ہے.میں تو پہلے بھی پراویڈنٹ فنڈ کے خلاف باتیں کہتا رہا ہوں مگر ذمہ دار کارکنوں نے اس طرف کوئی توجہ نہ کی لیکن اب جو ایسے واقعات میرے سامنے آئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک صحابی جسے ذاتی طور پر علم میں ہمہ دانی کا ایسا مقام حاصل تھا جو شاید ہی جماعت میں کسی اور کو حاصل ہو.جماعت میں جو کوئی شخص کوئی تصنیف کرتا تو ان سے ضرور کسی نہ کسی رنگ میں مدد لیتا تھا.تو میں نے خیال کیا کہ یہ خطرناک ظلم ہے جو ہم کر رہے ہیں اور اس کے انسداد کی کوئی صورت ہونی چاہئے اس لئے میں نے ایک تجویز یہ پیش کی.مولوی صاحب کی امداد کی ایک صورت میرے اختیار میں تھی یعنی تحریک جدید کے فنڈ سے.اور میں نے اس سے ان کے لئے ساٹھ روپیہ ماہوار مقرر کر دیئے اور ان کے سپرد یہ کام کیا کہ وہ کچھ تو تحریک جدید کے مجاہدین کو پڑھایا کریں اور کچھ ترجمہ قرآن کریم کے کام میں لغت کے حوالے وغیرہ نکالنے میں میری مدد کریں اور اس طرح میں نے اُن کو فاقہ کشی کی موت سے بچانے کی کوشش کی.اگر یہ صورت میرے ہاتھ میں نہ ہوتی تو اُن کو فاقہ کشی کی موت سے بچانے کی کوئی صورت نہ تھی مگر افسوس کہ وہ اس آمد سے بھی تین چار ماہ سے زیادہ عرصہ تک فائدہ نہ اٹھا سکے.گویا یہ صورت بھی اللہ تعالیٰ نے جماعت کو عذاب اور شرمندگی سے بچانے کے لئے پیدا کی تھی ورنہ اگر وہ فاقہ کشی سے فوت ہو جاتے تو جماعت خدا تعالیٰ کے حضور اس کے لئے جواب دہ ہوتی.پس ایسے واقعات کو دیکھ کر میں نے سمجھا کہ جتنی جلدی ہو سکے جماعت کو اس شرمندگی سے بچانے کی کوشش کی جائے اس لئے میں نے یہ تجویز مشاورت میں پیش کرنے کے لئے بھیج دی.اس میں میاں غلام محمد صاحب اختر
خطابات شوری جلد دوم ۴۶۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء نے یہ ترمیم پیش کی ہے کہ یہ جو شرط ہے کہ تمیں روپیہ سے زیادہ تنخواہ والوں کے لئے پنشن رکھی جائے یہ اُڑا دی جائے اور سب کے لئے پنشن کر دی جائے یا جو بھی قانون ہو وہ سب کے لئے کر دیا جائے.اور پہلے میں اس ترمیم کو لیتا ہوں جو دوست اس کے حق میں ہوں وہ کھڑے ہو جائیں.“ اس پر ۲۷۶ احباب کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا.” جو دوست اس کے خلاف ہوں اور چاہتے ہوں کہ چھوٹی اور بڑی تنخواہ والوں میں کوئی فرق رہنا چاہئیے وہ کھڑے ہو جائیں.“ اس پر صرف ۲۶ ا حباب کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا : - میں کثرت رائے کے حق میں فیصلہ کرتا ہوں.اب سوال یہ ہے کہ سب کے لئے پنشن ہی رکھی جائے یا اختیار دے دیا جائے کہ جو چاہے پنشن لے لے اور جو چاہے پراویڈنٹ فنڈ ؟ میر محمد اسحق صاحب نے ترمیم پیش کی ہے که پنشن لازمی کر دی جائے لیکن کسی کا رکن کے ریٹائرڈ ہونے پر پراویڈنٹ فنڈ کا حساب ضروری ہو اور پنشن لینے کے بعد اگر کوئی کارکن فوت ہو جائے تو اُس کے ورثاء کو اتنی رقم ضرور دی جائے جتنی کہ وہ پراویڈنٹ فنڈ کی صورت میں حاصل کر سکتا.یعنی اتنا عرصہ پنشن جاری رہے جب تک کہ اتنی رقم پوری نہ ہو جائے.اس تجویز کے متعلق کوئی آٹھ دس ترامیم اس وقت میرے سامنے پڑی ہیں اور ظاہر ہے کہ ان سب پر اگر بحث کی جائے تو بجٹ بھی پیش نہیں ہو سکتا اور کل کا دن ان کے لئے بھی کافی نہیں ہو سکے گا.ہم اس وقت اصلاح اور تغیر کی طرف ایک قدم اُٹھا رہے ہیں.اگر دوست مزید اصلاح کی ضرورت محسوس کریں تو وہ اس کے لئے تجاویز اگلے سال پیش کر سکتے ہیں آج کی بحث کو ممتد نہیں کیا جا سکتا.ایک ترمیم کو میر محمد الحق صاحب نے اپنی ترمیم میں شامل کر لیا ہے اور اب ان کی ترمیم یہ ہے کہ کارکن کا جو پراویڈنٹ فنڈ وضع ہوتا ہے وہ برابر ہوتا رہے اور ریٹائر ہونے کے بعد منافع سمیت اُسے واپس مل جائے اور انجمن جو عطیہ دیتی ہے وہ نہ دے بلکہ اس کے عوض پنشن دے اور پنشن کی گارنٹی کم سے کم دس سال ہو.اگر اس اثناء میں وہ کا رکن فوت بھی ہو جائے تو اُتنا عرصہ اس کے ورثاء کو ضرور پنشن ملتی رہے.پنشن کی بنیاد دراصل اسی
خطابات شوری جلد دوم ۴۶۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء اصول پر ہے کہ بعض لوگ جلد فوت ہو جاتے ہیں اور بعض دیر سے.اس لئے دونوں کو جو رقم دینی پڑتی ہے اسے ملا کر نقصان قریباً پورا ہو جاتا ہے.پراویڈنٹ فنڈ نسبتا ستا رہتا ہے.فرض کرو ایک شخص سو روپیہ ماہوار تنخواہ لیتا ہے.اُس کا اگر پراویڈنٹ فنڈ جمع ہوتا رہے تو انجمن کو ایک آنہ فی روپیہ یا چھ روپے چار آنے ماہوار دینے پڑیں گے یعنی ۷۵ روپے سالانہ.اور اگر وہ تہیں سال بھی ملازمت کرے تو کل رقم اسے ۲۲۵۰ روپے دینی پڑے گی.لیکن اگر اسے پنشن دی جائے تو وہ پچاس روپیہ ماہوار ہوگی گویا سال میں چھ سو روپیہ اور اس طرح چار سال میں ہی وہ پراویڈنٹ فنڈ سے بڑھ جائے گی.مگر پنشن کے بعد کوئی شخص چار پانچ سال زندہ رہتا ہے اور کوئی آٹھ ، دس، بیس سال اور اس طرح اوسط قریباً وہی ہو جاتی ہے اور دوستوں کو یہ امر مد نظر رکھنا چاہئے کہ موجودہ قاعدہ کو بدلنے کے ساتھ ہی ہمارے خزانہ پر ڈ گنا بوجھ ہو جائے گا.یعنی اگر پراویڈنٹ فنڈ کی صورت میں ہم کو دس ہزار روپیہ خرچ کرنا پڑتا ہے تو پنشن کی صورت میں وہ کم سے کم ہیں ہزار ہو جائے گا.اس کے ساتھ اگر یہ تجویز منظور کر لی جائے کہ دونوں فوائد کارکنوں کو حاصل ہوں تو انجمن پر ایسا بوجھ پڑ جائے گا کہ جس کا اُٹھانا اُس کے لئے مشکل ہو گا.انجمن کوئی زندہ وجود تو ہے نہیں کہ وہ اپنی مشکلات کو پیش کر سکے اس لئے اس کا خیال بھی ہمیں ہی رکھنا ہے اور یہ نا مناسب ہے کہ اس پر ڈہرا بوجھ ڈال دیا جائے.منطقی نتیجہ تو وہی صحیح ہے جو میاں عطاء اللہ صاحب نے پیش کیا ہے کہ اگر یہ صحیح ہے کہ ہم اپنے کارکنوں کو تنخواہیں نہیں بلکہ گزارے دے رہے ہیں تو کسی وقت بھی اس کے نصف ہونے کے معنے ہی کیا ہیں.مگر بعض منطقی نتائج عملاً غلط ہوتے ہیں.ایک کروڑ پتی ایک روٹی کھاتا ہے مگر مزدور پانچ کھا جاتا ہے اور اگر دونوں پر ایک ہی منطقی نتیجہ عائد کیا جائے تو مزدور بُھو کا مر جائے گا.پس گو منطقی نتیجہ تو وہی صحیح ہے جو میاں عطاء اللہ صاحب نے پیش کیا ہے مگر موجودہ صورت میں ہم بجٹ کو زیر بار نہیں کر سکتے.اگر وہ بھیا نک نظارے جو قوم کی بدنامی کا موجب ہیں ہمیں نظر آنے لگے ہیں تو اس کے یہ معنے نہیں کہ ہم اپنے بٹوے کا منہ اتنا کھول دیں کہ موجودہ کارکنوں کو بھی گزارے دینے کے قابل نہ رہیں.ہاں اگر کسی وقت انجمن کے پاس کافی روپیہ آ جائے تو اس تجویز پر بھی عمل ہوسکتا ہے کہ ہمیشہ ہی پورا گزارہ ملتا رہے.چنانچہ تحریک جدید کے سلسلہ میں میری یہی تجویز
خطابات شوری جلد دوم ۴۶۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء ہے مگر وہاں گزارہ بڑھتا اور گھٹتا رہتا ہے.اگر بچے جوان ہو جائیں تو گزارہ میں کمی ہو جائے گی، بیوی فوت ہو جائے تو کمی ہو جائے گی ، اگر بچے زیادہ ہوتے جائیں تو گزارہ بھی زیادہ ہوتا جائے گا، اور اسی طرح جب بوڑھا ہو کر کوئی شخص کام ختم کر دے تو بھی گزارہ وہی رہے گا لیکن انجمن کے کارکنوں کے متعلق یہ اصول جاری کرتے وقت یہ سوچ لینا چاہئے کہ انجمن کا خزانہ اس بوجھ کو اُٹھا بھی سکتا ہے یا نہیں.حالت یہ ہے کہ اس وقت قریباً دو لاکھ قرضہ ہے.تجویز یہ تھی کہ جماعت اسے اتارنے کے لئے پہلے سال پندرہ ہزار، دوسرے سال ۳۵ ہزار اور تیسرے سال پچاس ہزار روپیہ بطور چندہ خاص ادا کرے مگر دو سال قریباً گزر گئے ہیں اور اس مد میں پانچ ہزار روپیہ وصول ہوا ہے اور ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں اتنا بوجھ نا قابل برداشت ہے.پنشن کا تغیر تو ضروری ہونا چاہئے ، یہ ایک ضروری بات ہے اور اسے کرنے میں اگر باقی کام فیل ہوتا ہے تو بے شک ہو، اگر جماعت بیٹھ جاتی ہے تو بیٹھ جائے ، یہ تبدیلی ضروری ہے.لیکن بعض چیزیں ضروری نہیں ہوتیں بلکہ محض تحسین کے لئے ہوتی ہیں.مومن کو ہمیشہ درمیانی راہ اختیار کرنی چاہئے.یہ طریق درست نہیں کہ کبھی تو دوست یہ شور کرتے ہیں کہ کارکنوں کی تنخواہیں کا ٹو اور کبھی یہ کہ یہ بھی دے دو، وہ بھی دے دو.پس ہر ترمیم پیش کرتے وقت اس بات کو ضرور مدنظر رکھنا چاہئے.اگر دس سال تک پنشن ضروری قرار دے دی جائے اور کوئی کارکن آخری عمر میں شادی کرے اور دو ماہ کا بچہ چھوڑ کر فوت ہو جائے تو کیوں نہ ۲۲ سال تک یعنی جب تک کہ وہ بچہ جوان ہو جائے اُسے پنشن دی جائے.کیا یہ دس سال دینے کی نسبت بہتر تجویز نہیں؟ پھر اگر وہ بچہ کولا لنگڑا ہو اور ساری عمر ہی کمانے کے قابل نہ ہو سکے تو کیوں نہ ساری عمر اُسے پنشن دی جائے بے شک یہ چیزیں اچھی تو ہیں مگر اس وقت اتنا ہی قدم اُٹھاؤ جتنا اُٹھا سکو.میری طرف سے جو تجویز پیش ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ جو کارکن پراویڈنٹ فنڈ لینا اپنے لئے مفید سمجھے، لے لے اور جو چاہے پنشن لے لے تا ہم پر کوئی الزام نہ آئے اور خدا تعالیٰ کے سامنے ہماری براءت ہو جائے اور ہم کہہ سکیں گے اس نے اپنے لئے جو پسند کیا وہ اسے دے دیا گیا.اس وقت ہمارے پاس اتنا روپیہ نہیں کہ ہم کوئی تحسین کی صورت پیدا کر سکیں کیونکہ ہم مقروض ہیں اور اتنے مقروض ہیں کہ اگر جماعت کے بعض دوست اپنے قرضوں
خطابات شوری جلد دوم ۴۶۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء کی وصولی میں مہلت نہ دیتے تو انجمن کئی سال پہلے دیوالیہ ہو چکی ہوتی.پس اس وقت ہم صرف دنیا کے سامنے اپنی براءت اور تکلیف میں کمی کرنا چاہتے ہیں اور کارکنوں کو یہ اختیار دینا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے لئے آرام کی جو صورت سمجھیں اسے اختیار کر لیں.باقی رہا یہ سوال کہ دس سال کی گارنٹی ہو، تا اس کے بیوی بچوں کو تکلیف نہ ہو، تو یہ تکلیف تو میں سال کے بعد بھی ہو سکتی ہے.ہمیں تو معقول درمیانی رستہ اختیار کرنا چاہئے.پیغامیوں کے ایک اعتراض کا جواب پیغامی ہمیشہ اعتراض کرتے رہتے ہیں کہ قادیان والے سب روپیہ کھا جاتے ہیں.مجھے ایک دوست نے سنایا کہ انہیں پیغامیوں نے بتایا کہ قادیان میں جب منی آرڈر آتے ہیں تو خلیفہ بھی اور دوسرے ارکان بھی مسجد میں جمع ہو جاتے ہیں اور وہیں سب کچھ بانٹ لیتے ہیں.انہوں نے جب یہاں آ کر دیکھا کہ یہ بات کس قدر دور از حقیقت ہے تو کہا کہ ان لوگوں کے جھوٹا ہونے کی بس یہی کافی دلیل ہے.اور بھی دوستوں نے اس قسم کے واقعات سنائے ہیں مگر پیغامی اپنے کارکنوں کو صرف تین سال پنشن دیتے ہیں اور ہم جو بقول ان کے روپیہ خود کھا جاتے ہیں اختیار دے رہے ہیں کہ کوئی چاہے تو ساری عمر پیشن لیتا رہے اور چاہے تو پراویڈنٹ فنڈ یکمشت حاصل کرے.پھر کئی کیس ایسے بھی ہیں کہ ہم بچوں کو پنشن دیتے ہیں مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی صحابی ہے اُس کے بچوں کو اگر دس سال کے بعد بھی ضرورت ہو تو پنشن دی جا سکتی ہے اور ہم دیتے ہیں اور آئندہ بھی جو لوگ مستحق سمجھے جائیں گے ان کو دیں گے.مگر پنشن کی مد سے نہیں بلکہ دوسری مدات سے مثلاً زکوۃ وغیرہ سے جن پر انجمن کے قواعد حاوی نہیں ہوتے لیکن وہ امداد کی صورت ہے، استحقاق کی نہیں.پس چاہئے کہ شروع سے ہی ان دونوں حصوں کو الگ الگ رہنے دیا جائے.اور میرے نزدیک اس وقت بہترین تجویز یہی ہوسکتی ہے کہ پراویڈنٹ فنڈ اور پنشن دونوں کی اجازت ہو.اور یہ بھی مجبوراً کر رہے ہیں تا کہ کارکنوں کو کم سے کم تکلیف کا سامنا ہو اور ہماری براءت بھی ہو سکے.ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ہم اس بوجھ کو بھی اُٹھانے کے قابل نہیں ہیں، ہم سخت مقروض ہیں.ہر سال جو نمائندے یہاں آتے ہیں وہ یہ وعدہ کر کے
خطابات شوری جلد دوم ۴۶۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء جاتے ہیں کہ انجمن کی مالی مشکلات کے دور کرنے کے لئے پوری پوری کوشش کریں گے مگر نتیجہ کچھ نہیں نکلتا.اگر میں بدظنی سے کام لوں تو کہہ سکتا ہوں کہ ان کے ایمانوں میں کمی ہے اور اگر حُسنِ ظنی سے کام لوں تو کہوں گا کہ جماعت میں اس سے زیادہ بوجھ اُٹھانے کی طاقت نہیں.اور اس نقطہ نگاہ کے لحاظ سے بھی یہی مناسب ہے کہ فی الحال یہی صورت رہنے دی جائے کہ دونوں میں سے جو کوئی لینا چاہے لے لے.اور جو پنشن لے اُس کا ذاتی پراویڈنٹ فنڈ مع منافع اسے بہر حال دے دیا جائے.ہمارا فائدہ اس میں یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے الزام سے بچ سکیں گے ورنہ یہ نہیں کہ ہمارے پاس بہت زیادہ روپیہ آ گیا ہے اور ہم کوئی تحسین چاہتے ہیں.پس جو دوست اس امر کی تائید میں ہوں کہ سر دست اتنی ہی تبدیلی ہونی چاہئے کہ کارکنوں کو اختیار دیا جائے کہ چاہے پنشن لے لیں اور چاہے پراویڈنٹ فنڈ وہ کھڑے ہو جائیں.“ اس پر ۲۸۲ / ا حباب کھڑے ہوئے.فرمایا :- وو جو دوست میر صاحب کی ترمیم کے حق میں ہوں کہ پنشن لینے کے بعد اگر کوئی شخص جلد فوت ہو جائے تو بہر حال اُس کے پراویڈنٹ فنڈ کے برابر رقم اس کے ورثاء کو پوری کر دی جائے وہ کھڑے ہو جائیں.“ اس پر صرف ۸۶/ ا حباب کھڑے ہوئے.فرمایا :- میں کثرت رائے کے حق میں فیصلہ کرتا ہوں.دوسری ترمیم یہ ہے کہ آخری تین سال کی مستقل تنخواہ کی اوسط کا پچاس فیصدی پنشن ہو جو اس کے حق میں ہوں کھڑے ہو جائیں.“ اس پر ۲۶۲ را حباب کھڑے ہوئے اور چالیس فیصدی کے حق میں صرف ۳۰.حضور نے فرمایا:- میں اکثریت کے حق میں فیصلہ کرتا ہوں.“
خطابات شوری جلد دوم ۴۶۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء سب کمیٹی بیت المال کی طرف سے رپورٹ درمیانی اور وسطی طریق اختیار کرو ہائی ہوئی کہ کارکوں کی تنخواہوں میں سے جو کٹوتی ہوئی تھی اُسے قرضہ قرار دیا گیا ہے مگر اس قرضہ میں سے وہ رقم منہا کی جانی ضروری ہے جوانہی سالوں میں جماعت کے دوسرے دوستوں پر چندہ خاص کی صورت میں لگائی گئی ہے.اس کے متعلق کچھ نمائندگان نے اپنے خیالات اور آراء پیش کیں.اس کے بعد حضور نے احباب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : - مختلف احباب اپنے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں.سوال یہ ہے کہ سلسلہ کی مالی تکالیف کو مدنظر رکھتے ہوئے کارکنوں کے گزاروں میں سے کچھ کٹوتیاں شروع ہوئی ہیں.وہ کٹوتیاں ۱۳٫۲ اور ۴ فی روپیہ کے حساب سے ہیں یعنی بارہ فیصدی سے لے کر ۲۵ فیصدی تک.بلکہ در حقیقت وصیت اور تحریک جدید کے چندوں کو ملا کر ۲۵ فیصدی کٹوتی چالیس پینتالیس فیصدی تک پہنچ جاتی ہے اور بارہ فیصدی والوں کی پچیس فیصدی بلکہ اس سے بھی زیادہ کٹوتی ہو جاتی ہے.یہ کٹوتیاں مالی مشکلات کی وجہ سے کی گئی تھیں مگر جب جماعت کے سامنے یہ سوال آیا اُس وقت یہ وضاحت رہ گئی کہ یہ کٹوتی بطور قرض ہوگی یا امداد کے طور پر تصور کی جائے گی اور بعد میں ادا نہیں کی جائے گی.جب جماعت کے سامنے یہ سوال آیا اُس وقت کا رکنوں کے مقابلہ میں جماعت پر بھی ایک بوجھ ڈالا گیا اور وہ یہ کہ وہ ایک لاکھ چندہ خاص تین سال میں دے.جماعت کا چندہ قریباً سات لاکھ روپیہ ہوتا ہے اس میں دوسرے چندے بھی شامل ہیں جن کو اگر نکال دیا جائے تو ساڑھے پانچ یا چھ لاکھ چندہ رہ جاتا ہے.اس ساڑھے پانچ یا چھ لاکھ چندہ کے مقابلہ میں جماعت نے مزید ایک لاکھ روپیہ تین سالوں میں دینا تھا اور یہ نسبت ہیں فیصدی بلکہ اس سے بھی کم بنتی ہے لیکن اس کے مقابلہ میں کارکنوں سے جس چیز کا مطالبہ کیا گیا وہ ۲۵ فیصدی سے ۷۵ فیصدی تک ہے.بلکہ اگر جماعت کے بار کی اوسط نکالی جائے اور اس میں چندہ وصیت وغیرہ کو بھی شامل کر لیا جائے تو باقی جماعت پر بار دو فیصدی بنتا ہے اور جو کارکنوں پر بار ڈالا گیا وہ ۷۵ فیصدی ہے.در حقیقت اول تو یہ بار کی نسبت ہی غلط ہے.جبکہ ہمارے احباب یہ تسلیم کرتے ہیں
خطابات شوری جلد دوم ۴۶۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء کہ یہاں صرف گزارہ ملتا ہے اور باہر تنخواہیں ملتی ہیں.پس جن کا صرف گزارہ پر انحصار ہو ان پر ۷۵ فیصدی اور جنہیں تنخواہیں ملتی ہیں ان پر دو فیصدی بار آپس میں کوئی نسبت ہی نہیں رکھتا.لیکن بہر حال قانون کا سوال تھا اور چونکہ اس امر کی وضاحت رہ گئی تھی کہ کارکنوں کی یہ کٹوتی قرض شمار ہوگی یا نہیں ؟ اس لئے یہ معاملہ اب دوبارہ مجلس کے سامنے پیش کیا گیا ہے.جیسا کہ احباب کو معلوم ہے جماعت پر جو دو فیصدی بار ڈالا گیا تھا اس میں سے بھی اُس نے صرف پانچ فیصدی ادا کیا ہے.گویا جس قلیل رقم کا ان سے مطالبہ کیا گیا تھا اور جو صرف دو فیصدی بار کی نسبت رکھتی تھی اس میں سے بھی صرف پانچ فیصدی رقم ادا کی گئی.یعنی جو رقم مانگی گئی تھی اُس کا بیسواں حصہ ادا کیا گیا.اس کے مقابلہ میں کارکنوں کی جو کٹوتیاں ہوتی ہیں وہ ان کے بلوں میں سے وضع ہو جاتی ہیں اور اس لحاظ سے انہوں نے وہی قربانی کی جس کا ان سے مطالبہ کیا گیا تھا.پس کارکن اس عرصہ میں قاعدہ مقررہ کے مطابق ۲۵ فیصدی سے ۵۰ فیصدی تک ادا کر چکے ہیں.گویا جماعت کے دوستوں نے سلسلہ کے بار کو ہلکا کرنے کے لئے جو کچھ ادا کیا اس سے کارکنوں نے ایک ہزار گنا زیادہ حصہ لیا.یہ صورت حالات میں سمجھتا ہوں ایسی ہے کہ اگر میں کسی جماعت کا نمائندہ بن کر اس مجلس میں شامل ہوتا تو مجھے یہ کہتے ہوئے شرم آتی کہ کارکنوں کی کٹوتیوں کو ضبط کر لیا جائے.اس سے طبائع کا فرق بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ دُنیا میں کیسی کیسی طبیعت کے انسان موجود ہیں.مشورہ دیتے وقت غور سے کام لینا چاہیئے لیکن اصل بات یہ ہے کہ احباب مشورہ دیتے وقت غور سے کام نہیں لیتے.گزشتہ سال ممبر کے بعد ممبر اُٹھتا تھا اور کہتا تھا کہ کارکنوں کے گزاروں میں سے کٹوتی کرنے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ انہیں جو کچھ ملتا ہے وہ گزارہ ہے تنخواہ نہیں ، جو کچھ بوجھ ڈالا جائے وہ باہر کی جماعت پر ڈالا جائے اور میں بار بار روکتا تھا کہ یہ درست طریق نہیں کہ صرف باہر کی جماعت پر بوجھ ڈال دیا جائے مگر آج جو دوست بھی اُٹھے ہیں انہوں نے یہی کہا ہے کہ سلسلہ کو مالی تکلیف ہے کارکنوں کی کٹوتی کو بالکل واپس نہ کیا جائے.وہی ممبر ہیں ، وہی تجویز ہے، وہی مجلس شوری ہے، وہی حالات ہیں مگر پچھلے سال تو یہ کہہ رہے تھے کہ کارکنوں کے گزارہ میں سے کچھ نہ کاٹو ، کچھ نہ کاٹو اور جو بوجھ بھی ڈالنا ہو ہم پر ڈالو اور آج
خطابات شوری جلد دوم ۴۶۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں جانے دو اور کارکنوں کے گزاروں میں سے جس قدر کاٹا جا سکتا ہے وہ کاٹ کر رکھ لیا جائے آخر یہ فرق کیوں ہے؟ ایمان نہیں بدل گیا ، حالات نہیں بدل گئے ، تجویز نہیں بدل گئی، واقعات میں کوئی تغیر نہیں ہوا، پھر یہ فرق کس لئے ہے؟ کیا محض اس لئے کہ ہماری جماعت کے بعض دوست بھیڑ چال چلنے کے عادی ہیں؟ غور اور فکر سے کام نہیں لیتے ؟ ایک دوست نے اگر کہہ دیا کہ کارکنوں سے کچھ نہ لو تو سب کہنے لگ جاتے ہیں کہ کچھ نہ لو، کچھ نہ لو.اور اگر ایک دوست نے کہہ دیا کہ کاٹ لو تو سب کہنے لگ جاتے ہیں کہ کاٹ لوکاٹ لو.اگر ہم کسی اصول پر بات کرنے کے عادی ہوں تو دس سال تک بھی ہماری رائے نہیں بدل سکتی جب تک نئے دلائل اور نئے حالات پیدا نہ ہو جائیں جو ہمیں اپنی پہلی رائے کو تبدیل کرنے پر مجبور کر دیں.لیکن اگر ہم بھیٹر چال چلیں تو ہر منٹ اور ہر لحظہ ہماری بات بدل سکتی ہے.میں نے ایک ملک کی تاریخ پڑھتے ہوئے کسی تاریخی کتاب میں یہ لکھا ہوا دیکھا تھا کہ اس ملک کی یہ حالت تھی کہ ایک منٹ کے اندر وہ کسی کے سر پر حکومت کا تاج رکھتے تو دوسرے منٹ ہی اُس کے گلے میں پھانسی کا پھندا ڈال دیتے.یہی حالت بہت دفعہ ہمارے بعض نمائندوں کی بھی ہو جاتی ہے.کسی نے کہہ دیا قربانی ! قربانی ! تو سب شور مچانے لگ جاتے ہیں کہ قربانی قربانی اور اگر کسی نے کہا کہ بوجھ بوجھ ، تو وہ شور مچانے لگ جاتے ہیں کہ بوجھ بوجھ.یہ بہت ہی ناقص طریق ہے اور دراصل غیر احمدیت والی حالت ہے کہ وہ معاملات پر صحیح رنگ میں غور نہیں کرتے بلکہ جب جوش میں آتے ہیں تو بغیر عواقب کو دیکھے قربانی کے میدان میں کود جاتے ہیں اور جب پیچھے ہٹتے ہیں تو اُس وقت بھی ان کی حالت مضحکہ خیز ہو جاتی ہے.یہ طریق بہت ہی نا پسندیدہ ہے.ہر بات جو تمہارے سامنے پیش ہو پہلے اُس پر غور کرو، سوچو سمجھو، اور اگر اُس کے متعلق کوئی بات کہنا چاہو تو اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے ہوئے کہو اور ہمیشہ وسطی راستہ اختیار کیا کرو.یہ نہ دیکھنا کہ زمانہ کی کیا حالت ہے، یہ نہ دیکھنا کہ جماعت کی کیا حالت ہے، یہ نہ دیکھنا کہ صحیح بات کون سی ہے اور یونہی جوش کی حالت میں بولتے چلے جانا مومنانہ شیوہ نہیں.
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء جذبات قابو میں رکھیں پس تم جوش کی حالت میں اپنے جذبات کو قابو میں رکھو اور جب تمہارے جذبات میں ٹھنڈک ہو تو تم اپنے قلب میں جوش پیدا کرو.جب جذبات جوش کی حالت میں ہوں تو دلائل مہیا کرنے کی کوشش کرو اور جب دلائل سے تمہیں اطمینان ہو تو تم اپنے جذبات کو حرکت میں لاؤ تا جو بھی تم رائے دو وہ سموئی ہوئی ہو اور وہ بات پیش کرو جو تمہارے لئے ممکن ہو اور جو خدا تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی رضا کا موجب ہو.اگر اِن امور کو مدنظر نہ رکھا جائے تو مشورہ بالکل بیکار ہو جاتا ہے اور وہ غرض پوری نہیں ہو سکتی جو اس مجلس شوری کا اصل مقصد ہے.چنانچہ ابھی جو بجٹ سے کم چندہ دینے والی جماعتوں کے اعداد و شمار پیش کئے گئے ہیں وہ کتنے خطرناک ہیں.اور زیادہ تر تعجب کی بات یہ ہے کہ بالعموم بقائے اُنہی جماعتوں کے ہیں جن کے نمائندے سب سے زیادہ قربانی پر زور دیا کرتے ہیں.معلوم ہوتا ہے وہ ہمارے سامنے ہی قربانی پر زور دینے کے عادی ہیں جماعتوں کے سامنے قربانی کا مطالبہ پیش نہیں کیا کرتے.اگر وہ اپنی جماعتوں کو بھی قربانی کی تحریک کرتے اور مسلسل کرتے رہتے تو آج انہیں کیوں شرمندگی اُٹھانی پڑتی.پس تم ایسا طریق اختیار کرو جو درمیانہ اور وسطی ہو.ادھر اپنے آپ پر بوجھ ڈالو اور اُدھر اپنے ساتھی سے بھی کہو کہ وہ بوجھ اُٹھائے.چنانچہ قرآن کریم میں جہاں بھی خدمات بجالانے کی تحریک کی گئی ہے وہاں ہمیشہ دوسروں کو بھی نیک بات کہنے کا حکم دیا گیا ہے.یا مفاعلہ کا باب استعمال کیا گیا ہے جس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ کام خود بھی کرو اور دوسروں سے بھی کرواؤ.مثلاً فرماتا ہے صَابِرُوا خود صبر کرو اور دوسروں سے صبر کرواؤ.رَابِطُوا اسلام کی سرحدیں مضبوط کرو اور دوسروں کو اس بات پر آمادہ کرو کہ وہ اسلام کی سرحدیں مضبوط کریں.غرض ایک مومن کا یہی طریق ہوتا ہے کہ نیکی میں پہلے خود نمونہ بنتا ہے اور پھر دوسروں کو اس کی تحریک کرتا ہے.مومن اکیلا ہی قربانی کرتا ہے باقی جو قربانی کرنے والے ہیں اُن سے بھی میں کہوں گا کہ وہ میرے ان الفاظ کے یہ معنے نہ لے لیں کہ اُن پر جو فرض عائد تھا وہ ادا ہو گیا.مومن اکیلا ہی خدا تعالیٰ کے راستہ میں قربانی کیا کرتا
۴۷۱ خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء ہے اور دراصل وہ مومن ہی نہیں جو دوسرے کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھتا ہے کہ وہ میری مدد کے لئے آتا ہے یا نہیں.مجھے اپنے زندگی کے کاموں میں سے جو بہترین کام نظر آیا کرتا ہے اور جس کا خیال کر کے بھی میرا دل خوشی سے بھر جاتا ہے وہ وہی واقعہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر پیش آیا اور جس کا میں کئی دفعہ ذکر کر چکا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب وفات پاگئے تو میرے کانوں میں بعض لوگوں کی یہ آواز آئی کہ اب کیا ہو گا؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بہت سی پیشگوئیاں ابھی پوری نہیں ہوئیں اور لوگ ان کی وجہ سے ہم پر اعتراض کریں گے.میں اُس وقت ایک کمرہ سے نکل کر دوسرے کمرہ کی طرف جا رہا تھا کہ یہ آواز میرے کانوں میں آئی.میں نے اس آواز کو سُنا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سرہانے کھڑے ہو کر میں نے خدا تعالیٰ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اے خدا! میں حضرت مسیح موعود کے جسم کے سامنے کھڑے ہو کر تیرے حضور یہ اقرار کرتا ہوں کہ اگر ساری جماعت بھی مرتد ہو گئی تو میں اکیلا ہی تیرے دین کی اشاعت کروں گا.پس مومن کا یہ کام نہیں ہوتا کہ وہ دوسروں کی طرف دیکھے بلکہ وہ اکیلا اپنے آپ کو ہی خدا تعالیٰ کے حضور جواب دہ سمجھتا ہے.بے شک جن جماعتوں نے سستی کی ہے میرا فرض ہے کہ میں انہیں توجہ دلاؤں مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ اگر اُنہوں نے قربانی کی تو میں کروں گا اور اگر نہ کی تو نہیں کروں گا.میرا قربانی کرنا اس لئے نہیں کہ وہ بھی قربانی کریں بلکہ میں تو اپنے مقام پر قربانی کرتا چلا جاؤں گا کیونکہ میرا خدا سے براه راست معاملہ ہے.اسی طرح ہر مومن کا خدا تعالیٰ سے براہ راست تعلق ہوتا ہے اور خواہ اس کا کوئی ساتھ دینے والا ہو یا نہ ہو وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی کرتا چلا جاتا ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ہمیں اس کا نہایت اعلیٰ نمونہ نظر آتا ہے.صحابہ کا اخلاص بدر کی جب جنگ ہوئی تو اس وقت صحابہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک عرشہ پر بٹھا دیا اور ارد گرد مضبوط پہرہ لگا کر تیز رو اونٹنیاں آپ کے پاس کھڑی کر دیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ اونٹنیاں کیسی ہیں؟ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم نے یہ اونٹنیاں یہاں اس لئے باندھی
خطابات شوری جلد دوم ۴۷۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء ہیں کہ اگر ہم تمام کے تمام اس جنگ میں مارے جائیں تو آپ ان اونٹنیوں پر سوار ہو کر مدینہ تشریف لے جائیں.وہاں ایسے لوگ موجود ہیں جو اخلاص میں ہم سے کم نہیں، مگر يَا رَسُول اللہ! انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ جنگ ہونے والی ہے انہیں جب حقیقت حال کا علم ہو گا تو وہ بھی حضور کے ساتھ مل کر جہاد کریں گے اور اس ثواب میں ہم سے پیچھے نہیں رہیں گے.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ہمیں ایک وقت یہ بھی نظر آتا تھا کہ آپ الگ ایک عرشہ پر بیٹھ گئے اور صحابہ کی درخواست کو آپ نے منظور فرمالیا کے مگر یہ وہ وقت تھا جب مصیبت ابھی کھلے طور پر سامنے نہیں آئی تھی اور صحابہ کے قدم میدان جنگ سے اُکھڑے نہیں تھے بلکہ وہ دلیری کے ساتھ کہہ رہے تھے کہ یا رسول اللہ! ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں اور پیچھے بھی لڑیں گے اور ہم ڈھیر ہو جائیں گے مگر دشمن کو آپ متک نہیں پہنچنے دیں گے گئے یہ اس موقع کی بات ہے اور آپ نے صحابہ کی اس تجویز کو قبول کر لیا اور عرشہ پر بیٹھ گئے.مگر آپ کی زندگی میں ہی پھر ایک دوسرا موقع آیا.جب بعض ایسے واقعات کی وجہ سے جن کو بیان کرنے کا یہ موقع نہیں صحابہ کے پیراُکھڑ گئے اور اسلامی لشکر منتشر ہو گیا.چار ہزار دشمن کے مقابلہ میں صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بارہ صحابی رہ گئے.اُس وقت چاروں طرف سے تیروں کی بارش ہو رہی تھی اور وہاں کھڑے رہنے والوں کے مارے جانے کا سو فیصدی احتمال تھا.حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلیٰ نمونہ مگر جہاں بدر کے موقع پر صحابہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں صفوں کے پیچھے ایک الگ مقام پر بیٹھنے کی درخواست کرتے ہیں اور آپ ان کی بات کو مان لیتے ہیں ، وہاں غزوہ حنین کے موقع پر صحابہ چاہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو واپس لوٹائیں بلکہ بعض آپ کے گھوڑے کی باگ پکڑ لیتے ہیں اور کہتے ہیں يَا رَسُول اللہ ! یہ آگے بڑھنے کا موقع نہیں.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن کے ہاتھ کو جھٹک دیتے ہیں اور فرماتے ہیں چھوڑو میرے گھوڑے کی باگ کو اور یہ کہتے ہوئے گھوڑے کو ایڑ لگاتے ہیں اور فرماتے ہیں.
خطابات شوری جلد دوم ۴۷۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبُ.أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبُ.میں نبی ہوں جھوٹا نہیں.میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں.تو بدر کے موقع پر صحابہؓ آپ کو پیچھے بٹھاتے ہیں اور آپ ان کی بات کو مان جاتے ہیں لیکن حنین کے مقام پر صحابہ جب چاہتے ہیں کہ آپ آگے نہ بڑھیں تو آپ ان کی درخواست کو رد کر دیتے ہیں اور فرماتے ہیں میں پیچھے نہیں ہٹوں گا بلکہ آگے بڑھوں گا.اس لئے کہ بدر کے موقع پر صحابہ جان دینے کے لئے تیار تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سمجھتے تھے کہ اب جب کہ ذمہ داری کو صحابہ کی طرف سے ادا کیا جا رہا ہے تو مجھے آگے بڑھنے کی ضرورت نہیں.لیکن حنین کے موقع پر جب صحابہ بھاگ پڑے، بُزدلی کی وجہ سے نہیں بلکہ بعض طبعی حالات کی وجہ سے، تو اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سمجھا کہ اب گلیہ ذمہ داری مجھ پر ہے اور میرا فرض ہے کہ خواہ کوئی میرے ساتھ ہو یا نہ ہو میں آگے بڑھوں.چنانچہ آپ نے فرمایا میرے گھوڑے کی باگ چھوڑ دو اور مجھے آگے بڑھنے دو.أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبُ.أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبُ تو جب بعض مومن کمزوری دکھاتے یا اپنے فرائض کی ادائیگی میں نستی سے کام لیتے ہیں تو جو سچا مومن اور مخلص ہوتا ہے خدا اس سے کہتا ہے کہ اے میرے بندے! اب سب بوجھ تجھ پر ڈال دیا گیا ہے آگے آ اور اس بوجھ کو اُٹھا کہ تیرے سوا اب اس بوجھ کو اُٹھانے والا کوئی نہیں رہا.حضرت ابراھیم سے قربانی کرانے کی حکمت چنانچہ حضرت ابراھیم علیہ السلا سے ان کے اکلوتے بیٹے کی قربانی کرانے میں یہی حکمت پوشیدہ تھی.یوں تو ساری دُنیا سے ہی قربانی کرائی جاتی ہے مگر حضرت ابراھیم علیہ السلام سے اکلوتے بیٹے کی قربانی کے مطالبہ کے یہی معنے تھے کہ اُس وقت دنیا میں ان کے علاوہ اور کوئی اکلوتے بیٹے کی قربانی کرنے کے لئے تیار نہ تھا.تب خدا نے حضرت ابراھیم علیہ السلام سے کہا کہ اُٹھ اور میری راہ میں اپنے بیٹے کو قربان کر.ورنہ واقعہ میں خدا کا یہ منشاء نہ تھا کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کے ذریعہ ایک انسانی قربانی کرائی جائے.اسلام میں انسانی قربانی جائز نہیں اور اسلام سے میری مراد صرف مذہب اسلام ہی
خطابات شوری جلد دوم ۴۷۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء نہیں بلکہ ہر سچا دین ہے کیونکہ قرآنی اصطلاح میں تمام بچے ادیان کا نام اسلام رکھا گیا ہے.پس ابراہیمی دین میں بھی انسانی قربانی جائز نہ تھی اور نواح کے دین میں بھی انسانی قربانی جائز نہ تھی یہ قربانی کا مطالبہ در حقیقت اسی امر کی طرف اشارہ کرنے کے لئے تھا کہ جب خدا تعالیٰ کے لئے کوئی قربانی کرنے والا نہ رہے تو اُس وقت انسان کو چاہئے کہ اپنے آپ کو فنا کر دے.یہی اکلوتے بیٹے کی قربانی کرنے کا مفہوم تھا کیونکہ اکلوتے بیٹے کی قربانی کے بعد نسل ختم ہو جاتی ہے اور یہی وہ مفہوم ہے جسے زندہ قومیں ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھا کرتی ہیں.پس کا رکنوں میں سے جو لوگ قربانی کرنے والے ہیں ان میں سے جو اس قربانی کو چٹی سمجھتے ہیں اُن کی تو حیثیت ہی اور ہے.لیکن جو مخلص ہیں اور سچے دل سے یہ قربانی کر رہے ہیں.اُن سے میں یہ کہتا ہوں کہ اُنہیں صرف اس بات پر خوش نہیں ہو جانا چاہئے کہ وه ۲۵ یا ۷۵ فیصدی دے رہے ہیں بلکہ اگر سلسلہ کی اعانت کے لئے اُنہیں اس سے بھی زیادہ قربانی کرنی پڑے تو انہیں اس کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے کیونکہ جب کوئی اور قربانی کرنے والا نہ ہو تو اس وقت قربانی کی قدر و قیمت اللہ تعالیٰ کے حضور بہت بڑھ جایا کرتی ہے.یوں لوگوں نے اپنے بیٹوں کی اور ہزاروں لاکھوں انسانوں نے بھی قربانی کی ہے مگر ابراھیم کی قربانی اسی لئے زیادہ مقبول ہوئی کہ جب ابراھیم نے یہ قربانی کی اُس وقت روئے زمین پر اور کوئی اس قسم کی قربانی کرنے والا نہیں تھا.جب بہت لوگ قربانی کرنے والے ہوں تو اُس وقت قربانی کی اہمیت زیادہ شاندار نہیں رہتی کیونکہ ایک دوسرے کو قربانی کرتے دیکھ کر بعض کمزور ایمان والے بھی قربانیوں میں شامل ہو جاتے ہیں.جیسے سمندر میں اگر دس ہیں بہا در گود جائیں تو دس میں بزدل بھی اُن کو دیکھ کر گود جائیں گے لیکن اگر کوئی بھی گودنے کے لئے تیار نہ ہو اور ایک شخص نڈر ہو کر گود جائے تو وہ بہت زیادہ اعزاز کا مستحق سمجھا جائے گا.حضرت ابراھیم علیہ السلام کی قربانی بھی اسی لئے افضل ہے کہ دوسرے لوگ اُس وقت قربانی کرتے ہیں جب عام طبائع میں ایک جوش ہوتا ہے اور وہ بھی اسی جوش سے متاثر ہو کر کہہ دیتے ہیں کہ ہم اپنا مال اور اپنی جان قربان کر دیتے ہیں مگر ابراھیم نے اُس وقت قربانی کی جب وہ اکیلا تھا اور جب اُسے کوئی اُبھارنے والا موجود نہیں تھا.
خطابات شوری جلد دوم ۴۷۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء پس اگر دوسرے لوگ اس قربانی پر تیار نہ ہوں تو جو کارکن یہ قربانی کر رہے ہیں اُن سے میں کہتا ہوں کہ تم تمام ذمہ داری اپنی ہی سمجھو کیونکہ مومن پر سارے دین کی ذمہ داری ہوتی ہے اس کے کسی حصہ کی ذمہ داری نہیں ہوتی.بہر حال اس وقت جو سوال پیش ہے وہ یہ ہے کہ مجلس شوریٰ میں کارکنوں کی کٹوتی کے متعلق جو فیصلہ کیا گیا تھا آیا اسے قرض سمجھا جائے یا امداد تصور کیا جائے؟ اگر جماعت کے دوستوں نے بھی کچھ نہ کچھ کٹوتی کروانی ہے جیسا کہ اب تک وہ پانچ ہزار روپیہ دے کر کسی قدر کٹوتی کرا چکے ہیں تو سوال یہ ہے کہ کارکنوں کی کٹوتی تمام کی تمام قرض کیوں سمجھی جائے ؟ اور اگر ساری جماعت نے اس میں حصہ نہیں لینا جیسا کہ عملاً اب تک جماعت نہایت قلیل ہی رقم دے کر اس کا اظہار کر چکی ہے تو سوال یہ ہے کہ کارکنوں سے جماعت کے مقابلہ میں کئی گنے زیادہ لے کر اس رقم کو قرض کیوں سمجھا جائے؟ گویا دونوں صورتوں میں اُلجھن ہے.اگر ہم کارکنوں کی کٹوتی کو قرض سمجھیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب باقی جماعت بھی اس سلسلہ میں کٹوتی کروا رہی ہے تو یہ کیوں نہ کروائیں اور کیوں ان کی کٹوتی کو قرض سمجھا جائے.اور اگر ان کی کٹوتی کو قرض نہ سمجھا جائے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب باقی جماعت کے دوست جو آزاد ہیں اور گورنمنٹ سے پوری تنخواہیں وصول کرتے ہیں وہ دو فیصدی تک کٹوتی کرواتے ہیں تو یہ کارکن جو صرف گزارہ لیتے ہیں ان پر یہ ظلم کیوں کیا جائے کہ ان کے گزاروں میں سے ۱۲ سے ۲۵ فیصدی تک کٹوتی ہو اور پھر وہ قرض بھی شمار نہ ہو.اس کے متعلق سب کمیٹی نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ کارکنوں کے گزاروں میں سے کٹوتی تو ہوتی رہے لیکن تین سال کے بعد یہ دیکھ لیا جائے کہ جماعت نے اس سلسلہ میں چندہ خاص کے ذریعہ اپنا کتنا حصہ ادا کیا ہے.جتنا حصہ جماعت ادا کرے اُتنے حصہ کو تو کارکنوں کو کٹوتی میں سے امداد تصور کیا جائے مگر جو باقی حصہ رہ جائے اُسے قرض سمجھا جائے اور جب توفیق ہوا سے ادا کر دیا جائے.چنانچہ سب کمیٹی کے اصل الفاظ یہ ہیں : - دو مطبوعہ تجویز نمبر۲ کے متعلق یہ مشورہ قرار پایا کہ جیسا کہ حضرت (خلیفه امسح ) ایده اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ابتدائی تجویز میں کارکنوں کی کٹوتی کو قرضہ قرار دیا گیا ہے وہی صورت مناسب ہے اور قائم رہنی چاہئے مگر اس قرضہ میں سے وہ رقم منہا کی جانی ضروری
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء ہے جو انہی سالوں میں جماعت کے دوسرے دوستوں پر چندہ خاص کی صورت میں لگائی گئی ہے.مثلاً اگر کسی کا رکن کی کٹوتی ایک سو روپیہ ہوئی ہے تو یہ ایک سو روپیہ سب کا سب قرضہ شمار نہ ہو بلکہ اگر چندہ خاص کی شرح کے مطابق ایسے شخص پر بیس روپیہ چندہ خاص لگتا ہو، تو وہ بیس روپیہ منہا کر کے صرف ۸۰ روپیہ قرضہ شمار ہو.“ ” جو دوست سب کمیٹی کی تجویز کی تائید میں ہوں وہ کھڑے ہو جائیں“ ۲۸۲ آراء شمار کی گئیں.پھر حضور نے فرمایا :- جن دوستوں کی یہ رائے ہو کہ یہ کٹوتیاں سب کی سب قرض سمجھی جائیں وہ کھڑے ہو جائیں.“ تین آراء شمار کی گئیں.حضور نے فرمایا : - ایک امکان چونکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص اس خیال کا ہو کہ یہ تمام کٹوتیاں سلسلہ کی امداد سمجھی جانی چاہئیں اس لئے جو دوست اس کے حق میں ہوں وہ کھڑے ہو جائیں“ صرف دو آراء شمار ہوئیں.حضور نے فرمایا فیصلہ میں کثرت رائے کے حق میں فیصلہ کرتا ہوں“ چندہ نشر و اشاعت کے متعلق ایک تجویز بحث صدر انجمن احمدیہ پر بحث کے دوران بجٹ میں مکرم پنڈت عبداللہ بن سلام صاحب نے یہ تجویز پیش کی کہ ایک پیسہ فنڈ کھولا جائے اور جلسہ سالانہ پر ہر آنے والا ایک ایک پیسہ دے.اس غرض کے لئے صندوقچیاں بنوا کر رکھ دینی چاہئیں.جس میں آتی دفعہ بھی اور پھر واپسی پر بھی ہر ایک دوست ایک ایک پیسہ ڈال دے.اس طرح تبلیغ کے اخراجات میں جو ۱۰۲۵ روپے کی کمی کی گئی ہے اس کی بھی ضروررت نہیں رہے گی اور جلسہ سالانہ میں شریک ہونے والوں کی تعداد بھی معلوم ہو جائے گی.اس تجویز کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا :- دو پنڈت عبد اللہ بن سلام صاحب نے ایک تجویز پیش کی ہے جس کو بیان کرتے وقت اُنہوں نے ایک فقرہ یہ بھی استعمال کیا ہے کہ تبلیغی اخراجات میں یہ جو ۱۰۲۵ کی کمی کی گئی ہے
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء یہ اس طرح پوری ہو سکتی ہے کہ جلسہ سالانہ اور مجلس شوری کے موقع پر کچھ صندوقچیاں بنوالی جائیں اور ہر دوست سے کہا جائے کہ وہ ان میں ایک ایک پیسہ ڈالتا جائے مگر یہ انہیں غلطی ہے ، یہ کمی تبلیغی اخراجات میں نہیں کی گئی بلکہ وظائف کی وصولی کی مد میں یہ کمی اس خیال سے کی گئی ہے کہ اتنی آمد نہیں ہو گی.باقی جو ان کی اصل تجویز ہے وہ اس موقع پر نہیں بلکہ بجٹ پر عام بحث کے دوران میں انہیں پیش کرنی چاہئے تھی مگر وہ چونکہ ہمارے طریق کار سے ابھی ناواقف ہیں اس لئے ان سے یہ غلطی ہو گئی لیکن بہر حال اُنہوں نے جو تجویز بیان کی ہے میرے خیال میں اگر دعوت وتبلیغ والے اس سے فائدہ اُٹھانا چاہیں تو اُٹھا سکتے ہیں.جلسہ سالانہ پر چندہ کی وصولی گزشتہ سالوں میں جلسہ سالانہ کے موقع پر بھی لوگوں سے چندہ وصول کیا جاتا تھا مگر جب چندہ کی وصولی کا طریق زیادہ منظم ہو گیا تو لوگوں کے یہاں آنے سے پہلے ہی چندہ وصول ہونے لگا اور اس طریق کو چھوڑ دیا گیا مگر جو تبلیغی چندہ ہے اور نشر واشاعت کے کام پر صرف کیا جاتا ہے اور جو زیادہ سے زیادہ چار پانچ ہزار روپیہ ہوتا ہے، اگر دعوۃ و تبلیغ والے کوئی ایسا ہی انتظام کریں تو اس چندہ کی وصولی میں انہیں بہت کچھ مددمل سکتی ہے.چاہے اسی رنگ میں کریں جس رنگ میں پنڈت عبداللہ بن سلام صاحب نے تجویز پیش کی ہے کہ صندوقچیوں کے ذریعہ لوگوں سے پیسہ پیسہ وصول کیا جائے اور چاہے وہ مبلغین اور جماعت کے نو جوانوں کو تحریک کریں کہ وہ بطور والنٹیئر مختلف جماعتوں میں پھر کر اس غرض کے لئے چندہ وصول کریں.اس طرح بآسانی وہ چندہ جمع ہو جائے گا جو خطوط اور لفافوں کے ذریعہ لکھ لکھ کر وصول ہونا مشکل ہوتا ہے.جلسہ سالانہ کے موقع پر عام طور پر بیس پچیس ہزار آدمی جمع ہوتے ہیں.پس اگر مردوں اور عورتوں دونوں میں منظم طور پر تحریک کی جائے تو تین چار ہزار روپیہ جلسہ سالانہ کے دنوں میں جمع ہونا کوئی مشکل امر نہیں اور اس طرح تبلیغی لٹریچر کی اشاعت میں جو بعض دفعہ روکیں حائل ہو جاتی ہیں وہ دور ہو سکتی ہیں.بہر حال محکمہ دعوت و تبلیغ اس سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے.چاہے اسی طرح کر دے کہ وہ مختلف مقامات پر بکس لگا دے مگر مشکل یہ ہے کہ ہمارے ہاں لوگوں کو یہ عادت نہیں کہ وہ اس قسم کے بکسوں میں کچھ ڈال دیا کریں.بعض قوموں کو اس کی عادت ہوتی ہے اور وہ آسانی سے اس رنگ میں
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء لوگوں سے چندہ جمع کر لیتے ہیں مگر ہمارے ہاں چونکہ لوگوں کو اس کی عادت نہیں اس لئے ممکن ہے پہلے سال فائدہ نہ ہو لیکن اگر مستقل طور پر اس طریق کو جاری کر دیا جائے تو بعد میں فائدہ ہو سکتا ہے اور یا پھر مبلغین کو جماعتوں میں پھرایا جائے اور لوگوں سے پیسہ پیسہ، دو دو پیسے، آنہ آنہ یا دو دو آ نے وصول کئے جائیں.اس طرح محکمہ کی کافی مدد ہوسکتی ہے اور وہ ٹریکٹوں وغیرہ کے اخراجات بہت حد تک پورے کر سکتا ہے.چونکہ جن دوستوں نے اپنے نام لکھائے تھے ان سب کو بولنے کا موقع دیا جا چکا ہے مشتمل ہے، دوستوں اس لئے اب سب کمیٹی کا تجویز کردہ بجٹ آمد جو ۷٫۳۸,۳۶۹ روپے کے سامنے اس غرض کے لئے پیش کیا جاتا ہے کہ اسے منظور کیا جائے یا نہ کیا جائے.دوست اس امر کو مدنظر رکھیں کہ جب وہ اس بجٹ کو منظور کریں گے تو اس کو پورا کرنے کی ذمہ داری ان پر عائد ہو جائے گی اور ان کا فرض ہوگا کہ وہ ہستی کو دور کریں اور خدا تعالیٰ کے دین کے لئے چُستی اور ہوشیاری سے کام لیں.آج آپ لوگوں کی جو حالت ہے آپ اس کو نہ دیکھیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو وعدے دیئے گئے ہیں آپ اُن کو دیکھیں.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات کو پڑھا کریں تا آپ کو معلوم ہو کہ خدا تعالیٰ آپ کے ذریعہ دنیا میں کیسا عظیم الشان تغیر پیدا کرنا چاہتا ہے اور تا آپ کے حوصلے بلند ہوں اور آپ کو معلوم ہو کہ ایک بہت بڑا کام ہے جو آپ کے سپرد کیا گیا ہے.بہر حال جو دوست اس بات کی تائید میں ہوں کہ اس آمد کے بجٹ کو منظور کیا جائے وہ کھڑے ہو جائیں.“ ۳۷۵ آراء شمار کی گئیں.فرمایا.چونکہ بجٹ کو منظور کرنے کے حق میں ۳۷۵ آراء ہیں اور مقابل میں کوئی ترمیم پیش نہیں.اس لئے میں آمد کے اس بجٹ کو جو سب کمیٹی نے تجویز کیا ہے منظور کرتا ہوں.“ اختتامی تقریر مجلس مشاورت کی کاروائی مکمل ہونے پر ۲۴ / مارچ ۱۹۴۰ء کو حضور نے اپنے الوداعی خطاب میں احباب جماعت کو ان کی اہم ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا: -
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء جشن خلافت کے بعد سستی ”میں نے جلسہ سالانہ کے بعد جماعت کے دوستوں کو خصوصیت سے اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ جب کبھی خاص زور لگا کر کوئی جماعت جشن مناتی اور اپنی خوشی کا اعلان کرتی ہے تو عام طور پر اس کے بعد اس میں کچھ نہ کچھ کمزوری پیدا ہو جایا کرتی ہے کیونکہ لوگ یہ خیال کر لیتے ہیں کہ اُنہوں نے جو خوشی کا مظاہرہ کیا وہ اس بات کا ثبوت تھا کہ جو کام انہیں کرنا چاہئے تھا وہ انہوں نے کر لیا.حالانکہ خوشی کا مظاہرہ کسی کام کے ختم ہونے کی دلیل نہیں ہوتا بلکہ اپنی ذمہ داریوں کو عمدگی کے ساتھ ادا کرنے کا ایک نیا اقرار ہوتا ہے.اور میں نے جماعت کو ہوشیار کیا تھا کہ ایسا نہ ہو کہ جماعت میں سستی پیدا ہو جائے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے که با وجود میری اس تنبیہہ کے جماعت میں کئی صورتوں میں سُستی کے آثار نظر آ رہے ہیں.مثلاً ایک کام جو میں اپنے ہاتھ سے کیا کرتا ہوں وہ تحریک جدید کا ہے.اس کے چندہ میں گزشتہ سالوں میں برابر ترقی ہوتی رہی ہے مگر اس دفعہ تحریک جدید کے وعدوں میں ہی تین چار ہزار روپیہ کی کمی ہوگئی ہے.جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض لوگوں نے خوشی کا ایک مظاہرہ کر کے اور یہ خیال کر کے کہ خلافت پر پچپچیس سال کا عرصہ گزر گیا اور نبوت پر پچاس سال ہو چکے سمجھ لیا کہ گو یا دشمن بھی مارا گیا ہے.ہماری پنجابی زبان میں بعض نہایت ہی لطیف مثالیں ہیں جو حقیقت کو ننگا کر کے دکھا دیتی ہیں اور جن سے انسان اگر چاہے تو بہت کچھ سبق حاصل کر سکتا ہے.چنانچہ انہیں مثالوں میں سے ایک مثال پنجابی زبان میں یہ ہے کہ آپے میں رتی بیجی آپے میرے بچے جیون“ یعنی بجائے اس کے کہ کوئی دوسرا دعا دے کہ تیرے بچے جیتے رہیں اور تو خوشی و خرمی کے ساتھ زندگی کے دن گزارے بعض لوگ آپ ہی آپ اپنے متعلق ایک نیک خواہش کا اظہار کر کے فرض کر لیتے ہیں کہ گویا انہیں جس چیز کی ضرورت تھی وہ انہیں حاصل ہو گئی اور اب انہیں کسی مزید جدوجہد کی ضرورت نہیں.یہ ایک نہایت ہی غلط طریق ہوتا ہے جس کے نتائج بہت خطرناک نکلتے ہیں اور میں اس قسم کے جشنوں اور مظاہروں کا اسی لئے مخالف ہوں کہ کئی نادان ان باتوں کو دیکھ کر سمجھ لیتے ہیں کہ جو کام ان کے سپر د تھا وہ ہو گیا.وہ یہ نہیں سمجھتے کہ یہ صرف اس بات کا ثبوت ہے کہ انہوں نے ایک قدم طے کر لیا بلکہ وہ یہ خیال
خطابات شوری جلد دوم ۴۸۰ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء کرنے لگ جاتے ہیں کہ جس منزل مقصود پر اُنہوں نے پہنچنا تھا وہ اُن کو حاصل ہو گئی.گویا جب جشن منایا گیا تو ہماری جماعت کے بعض ناواقف لوگوں نے بھی سمجھ لیا کہ اب خلافت کی ضرورت سب جہان پر ثابت ہو گئی ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت سب دنیا پر عیاں ہوگئی، عیسائیوں کو شکست ہوگئی ، ہندوؤں کا زور جاتا رہا، دہر بیت مٹ گئی ، کفر اور الحاد کی بنیادیں ہل گئیں اور اب سارے جہان پر نیکی ہی نیکی پھیل گئی ہے.میں نے جماعت کے دوستوں کو بیدار کیا تھا مگر مجھے افسوس ہے کہ وہ بیداری جماعت میں پیدا نہیں ہوئی.شاید یہ میری کسی کوتا ہی کا نتیجہ ہے یا شاید اللہ تعالیٰ جماعت کو اس رنگ میں ایک تازیانہ لگانا چاہتا تھا یا شاید دوستوں سے ہی اس بارہ میں سستی ہوئی ہے.بہر حال میں نہیں جانتا اس کی ذمہ داری مجھ پر ہے یا تم پر.اور یہ اللہ تعالیٰ کا مکر خیر ہے یا اس میں جماعت کے لئے کوئی ابتلاء پوشیدہ ہے مگر بہر حال واقعہ یہی ہے کہ جماعت سے سستی ہوئی اور میرے بیدار کرنے کے باوجود وہ بیدار نہیں ہوئی.اصل بات یہ ہے کہ ہماری منزل ابھی بہت دور ہے اور ہمارا کام بہت وسیع ہے اور جو تغیرات ہم نے دنیا میں پیدا کرنے ہیں ان کے لئے ابھی بہت کچھ وقت درکار ہے.بے شک میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ یہ تغیر یکدم واقعہ نہیں ہوگا کیونکہ مسیحیت کے ماتحت ہمیشہ آہستہ آہستہ تغیرات ہوا کرتے ہیں لیکن بہر حال اس تغیر کے تغیر عظیم ہونے میں کوئی شبہ نہیں.وہ ایک انقلاب ہے اور عظیم الشان انقلاب لیکن بہر صورت وہ آہستگی سے ہوگا اس تیزی اور اس سُرعت سے نہیں ہوگا جیسے موسوی اور محمدی دور میں ہوا.مگر اس عظیم الشان انقلاب کے لئے خواہ وہ آہستہ ہی کیوں نہ ہو دوستوں کو ابھی سے جد و جہد کرنی چاہئے.میں نے اسی حکمت کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات چھپوائے تھے اور میں نے جماعت کو توجہ دلائی تھی کہ وہ ان کو پڑھتے رہا کریں.تا یہ امر ہر وقت ان کے سامنے رہے کہ وہ کیا کام ہے جو ان کے ذمہ ڈالا گیا ہے.پیغامیوں کو بھی اسی وجہ سے ٹھوکر لگی کہ انہوں نے سمجھ لیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کام بہت محدود تھا.اگر لوگوں سے چندہ لے کر قرآن کریم کا ترجمہ شائع کر دیا جائے اور ایک کمیٹی بنادی جائے جو اشاعتِ اسلام کا کام سرانجام دیتی رہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کی غرض پوری ہو
خطابات شوری جلد دوم ۴۸۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء جائے گی.حالانکہ ہمارا نقطۂ نگاہ کسی کتاب کا ترجمہ کرنا نہیں بلکہ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم ساری دنیا کو فتح کر کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈال دیں.بھلا یہ کام کوئی انجمن کر سکتی ہے؟ یہ کام تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کر سکتا ہے اور یا پھر وہ کر سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں اپنے آپ کو بطور تلوار دے دے.بے شک اچھی تلوار بھی مفید ہوا کرتی ہے لیکن اچھی تلوار کے ساتھ اچھے شمشیر زن کا ہونا بھی ضروری ہوتا ہے اور بے شک کُند تلوار اچھا کام نہیں کر سکتی لیکن بسا اوقات اچھے شمشیر زن کے ہاتھ میں جا کر کند تلوار بھی بہت کچھ کام کر سکتی ہے لیکن اگر تلوار بھی اچھی ہو اور تلوار چلانے والا بھی اپنے کام میں خوب ماہر ہو تو پھر تو وہ تلوار اس شمشیرزن کے ہاتھ میں ایسے ایسے کمالات کا نمونہ دکھایا کرتی ہے کہ دنیا انہیں دیکھ کر محو حیرت ہو جاتی ہے.ہمارا شمشیر زن تو خدا ہے جس کے کامل اور تمام صفات حسنہ کے جامع ہونے میں کوئی شبہ نہیں.ساری طاقتیں اُسی کو حاصل ہیں اور وہ جو چاہے پل بھر میں کر سکتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ جب وہ اپنے بندوں کے ذریعہ کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو ان بندوں کو تلوار کا مقام دے دیتا ہے اور تلوار جتنی اچھی ہوگی اُتنا ہی اس کے ذریعہ تغیر رونما ہو گا.اگر اچھی تلوار ہوگی تو اس کے ذریعہ جلد تغیر پیدا ہو جائے گا اور اگر گند تلوار ہوگی تو گو پھر بھی اس وجہ سے کہ وہ گند تلوار خدا کے ہاتھ میں ہے ہم یقین رکھتے ہیں کہ دنیا میں تغیر پیدا ہونے سے نہیں رک سکتا، مگر بہر حال تیز تلوار کی نسبت وہ تغیر زیادہ دیر میں ہوگا.دو مقاصد مد نظر رکھیں پس دو مقاصد ہیں جو ہمیں ہر وقت اپنے سامنے رکھنے چاہئیں اور ہمیں یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ جب تک ہم ان دونوں مقاصد کو پورا نہیں کریں گے حقیقی کامیابی ہمیں حاصل نہیں ہوگی.ان مقاصد میں سے پہلا مقصد ہمیں اپنے مدنظر ہمیشہ یہ رکھنا چاہئے کہ ہم اپنے آپ کو تیز تلوار بنا ئیں.اگر ہم اپنے آپ کو تیز تلوار نہیں بناتے تو ہم اچھا کام بھی نہیں کر سکتے.ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے ذہنوں کو روشن کریں، اپنی عقلوں کو تیز کریں، اپنے افکار کو بلند کریں، اپنے دماغوں کو اعلیٰ بنائیں اور اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا کریں کہ دنیا ہمیں دیکھ کر یہ یقین کرے کہ ان کے ذریعہ کوئی عظیم الشان تغیر رونما ہو گا.ہمارے سامنے وہ نقائص ہیں جن کی وجہ سے ہندوستانی عام طور
خطابات شوری جلد دوم ۴۸۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء پر ناکام رہتے ہیں اور جن کی وجہ سے ہندوستان بدنام ہو رہا ہے.اگر ہم ان نقائص سے اپنے آپ کو بچائیں اور اپنی نسلوں کو بھی ان سے محفوظ رکھیں تو نہ صرف اپنی ترقی کا سامان ہم مہیا کر سکتے ہیں بلکہ ہندوستان کی نیک نامی اور اس کی عزت و رفعت کا بھی موجب بن سکتے ہیں.یہی ہندوستان تھا جو کبھی ساری دنیا کو راحت و آرام کے سامان مہیا کیا کرتا تھا اور ساری دنیا میں اس ملک سے کپڑا تیار ہو کر جایا کرتا تھا مگر اب جو حالت ہے وہ سب پر عیاں ہے.ہندوستان کے بعض نقائص کولمبس نے جب اپنے ملک سے باہر جانے کی کوشش کی تو اس کی اصل غرض یہ تھی کہ ہندوستان پہنچے اور یہاں کے مصالحہ جات اور کپڑے اپنے ملک میں لے جائے.امریکہ کی دریافت ایک اتفاقی امر تھا.وہ صرف اس لئے نکلا تھا کہ کسی طرح ہندوستان پہنچے اور یہاں کی مصنوعات سے اُس کا ملک فائدہ اٹھائے لیکن آج ہندوستان نہایت ہی گری ہوئی حالت میں ہے.کیوں؟ یہ کہنا کہ انگریزوں نے ایسا کر دیا یہ کوئی جواب نہیں کیونکہ پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انگریز کیوں آئے ؟ آخر ہمارے اندر ہی کوئی کمزوری تھی جس سے فائدہ اٹھا کر انگریز اس ملک پر حکمران ہو گئے.ہندوستانی ۳۳ کروڑ ہیں اور بعض کانگرسی کہا کرتے ہیں کہ اگر ۳۳ کروڑ ہندوستانی تھوکیں تو ان کی ٹھوک سے ہی انگریز بہہ جائیں.جولوگ ان میں سے غلیظ طبع ہیں وہ یہ کہا کرتے ہیں کہ اگر ۳۳ کروڑ ہندوستانی پیشاب کریں تو تمام انگریز بہہ جائیں مگر سوال یہ ہے کہ جو لوگ ۳۳ کروڑ ہندوستانیوں کے تھوک اور پیشاب سے بہہ سکتے ہیں ان کو ہندوستانیوں نے تلوار سے کیوں نہ مار دیا.آخر کوئی نہ کوئی نقائص تھے جن کی وجہ سے انگریز غلبہ پاگئے اور ہندوستانی محکوم ہو گئے.چنانچہ اگر غور کر کے دیکھا جائے تو کئی قسم کے نقائص ہیں جو ہندوستانیوں میں پائے جاتے ہیں.بعض تو ہندوستانی تمدن کے نقائص ہیں اور بعض ان کے کیریکٹر کے نقائص ہیں.مثلاً ہندوستانی عام طور پر سچائی سے کام نہیں کرتے ، وعدے کرتے ہیں مگر انہیں پورا نہیں کرتے اور چونکہ وہ اپنے وعدوں کے پابند نہیں ہوتے اس لئے جب خدا سے کوئی وعدہ کرتے ہیں تو اسے بھی پورا نہیں کرتے اور چونکہ وہ دنیوی معاملات میں سچائی کے پابند نہیں ہوتے اس لئے خدا تعالیٰ سے جب کوئی
خطابات شوری جلد دوم ۴۸۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء عہد کرتے ہیں تو اُس کے پورا کرنے میں بھی سچائی سے کام نہیں لیتے.اسی طرح وہ وقت کے پابند نہیں اور بغیر کسی قسم کی ضرورت کے وہ لغو باتیں کرنے کے عادی ہیں.چنانچہ کسی مجلس میں بیٹھ کر دیکھ لو ایک زمیندار جو نہ فن لینڈ کو جانتا ہے، نہ روس سے واقف ہے، نہ جرمن کی حکومت کو سمجھتا ہے باتیں کرتے ہوئے کہہ دے گا کہ جرمن والے یہ چالا کی کر رہے ہیں، روس والے یہ چالا کی کر رہے ہیں اور فن لینڈ والے یہ چالا کی کر رہے ہیں.وہ نہ جرمن کو جانتا ہے، نہ فن لینڈ کو جانتا ہے، نہ روس کو جانتا ہے، نہ اسے ان قوموں کے کیریکٹر کا علم ہوتا ہے، نہ تاریخی طور پر اسے ان کے متعلق کوئی واقفیت ہوتی ہے، نہ اسے حالات اور واقعات کا علم ہوتا ہے یونہی بغیر سوچے سمجھے اور بغیر کسی قسم کی تحقیق سے کام لئے وہ کہتا چلا جائے گا کہ فلاں نے یہ چالا کی کی اور فلاں نے وہ چالا کی کی.اس قسم کی غیر ذمہ دارانہ جرح ہندوستان سے باہر بہت ہی کم ہے.چنانچہ کسی وقت اگر تم مصری اخبار اٹھا کر دیکھ لو اور ساتھ ہندوستانی اخبار رکھ لو تو تمہیں ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق دکھائی دے گا.ان کی جرح نہایت معقول اور شستہ ہوگی اور صاف معلوم ہو رہا ہوگا کہ جو کچھ انہوں نے لکھا ہے سوچ سمجھ کر لکھا ہے.وہ جانتے ہیں کہ کیا محرکات ہیں، کیا واقعات ہیں اور ان کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے.گویا سارے پہلوؤں پر غور کر کے وہ ایک نتیجہ نکالتے ہیں.چاہے وہ نتیجہ غلط ہو یا صحیح.بہر حال ان کی تنقید سے یہ امر مترشح ہوئے بغیر نہیں رہتا کہ انہوں نے سوچ سمجھ کر بات لکھی ہے اور یہ وصف ان کے ادنیٰ سے ادنی اخبار میں بھی پایا جاتا ہے مگر ہمارے ملک کے اخبارات کا بیشتر حصہ ایسا ہے کہ وہ کوئی ٹھوس بات نہیں لکھتے.کوئی ایک بات ان کے ذہن میں آتی ہے اور اُسی پر رطب و یا بس لکھ دیتے ہیں.یہ غور ہی نہیں کرتے کہ بڑے بڑے کاموں کے ہمیشہ بڑے بڑے محرکات اور اسباب ہوا کرتے ہیں اور جب تک وہ سمجھ میں نہ آجا ئیں صحیح نتیجہ نہیں نکل سکتا.غرض ہندوستانی عام طور پر لغو باتیں کرتے ہیں اور اچھے اچھے سمجھ دار اس میں مبتلا پائے جاتے ہیں کئی دفعہ اخبارات میں لکھا ہوتا ہے کہ فلاں بڑا شخص فلاں جگہ جارہا ہے.اس پر کئی لوگ مجھ سے ہی پوچھنے لگ جاتے ہیں کہ یہ وہاں کیوں جا رہا ہے؟ بھلا مجھے کیا پتہ کہ وہ وہاں کیوں جا رہا ہے.غرض لغو طور پر وہ اپنا بھی وقت ضائع کرتے ہیں اور دوسروں
۴۸۴ خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء کا بھی وقت ضائع کرتے ہیں.اسی طرح سچ نہ بولنا ، وفائے عہد نہ کرنا، محنت نہ کرنا ایسے نقائص ہیں جو عام ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ان نقائص کو دور کریں اور لوگوں کو سمجھائیں کہ جب وہ کوئی بات کریں تو سوچ سمجھ کر کیا کریں.بغیر تحقیق کے یونہی لغو باتوں میں حصہ نہ لیا کریں.محنت کی عادت ڈالیں، ایفائے عہد کریں، سچ سے کام لیں اور عمل صحیح اپنے اندر پیدا کریں.جب تک ہم ان نقائص کو دور نہیں کریں گے اُس وقت تک وہ بات پیدا نہیں ہوسکتی جو جماعتوں کو کامیاب کیا کرتی ہے.صحیح علم کی ضرورت اسی طرح علیم صحیح کے بغیر بھی کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی اور میں دیکھتا ہوں کہ اس میں بھی ابھی بہت کچھ کمی ہے.گو کچھ عرصہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں کے امتحان کا سلسلہ شروع ہے اور یہ بہت ہی مفید ہے مگر کتنی جماعتیں ہیں جہاں قرآن کا درس ہوتا ہے، جہاں حدیث کا درس ہوتا ہے، جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا درس ہوتا ہے.جب ان کو معلوم ہی نہیں کہ خدا نے کیا کہا ہے، جب ان کو معلوم ہی نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کیا احکام ہیں اور جب ان کو معلوم ہی نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام انہیں کس مقام پر کھڑا کرنا چاہتے تھے اور کس قسم کی قربانیوں کا ان سے مطالبہ فرماتے تھے تو بتاؤ وہ کس طرح کوئی مفید کام کر سکتے ہیں.آپ لوگ جو نمائندہ بن کر آئے ہیں آپ کے متعلق میں یہ سمجھنے کا حق رکھتا ہوں کہ آپ لوگ اپنی جماعتوں میں زیادہ بارسوخ ، زیادہ سمجھ دار اور زیادہ اثر رکھنے والے ہیں.پس آپ کو میں یہ کہتا ہوں کہ آپ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور پہلے خود سلسلہ کا علم حاصل کریں.قرآن پڑھیں ، احادیث پڑھیں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب پڑھیں اور پھر جماعت کے اندر اس قسم کی بیداری پیدا کر دیں کہ ان کا علم ایسا کامل ہو جائے کہ وہ اسلام کی دکھ اور مصیبت کو سمجھ جائیں اور ان پر اشاعتِ اسلام اور اشاعت احمدیت کی اہمیت پوری طرح واضح ہو جائے.اس کے بعد میں سمجھتا ہوں ان میں قربانی کا مادہ آپ ہی آپ پیدا ہو سکتا ہے.اس وقت میں دیکھ رہا ہوں کہ ہزاروں ایسے احمدی ہیں جن کو سلسلہ کے موٹے موٹے مسائل بھی معلوم نہیں.ان میں جوش ہے، اخلاص ہے مگر علم صحیح کی ان میں کمی ہے.
خطابات شوری جلد دوم ۴۸۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء سبق آموز واقعات میں گزشتہ دنوں کراچی میں تھا کہ ایک غیر احمدی گریجوایٹ جو عرب کے علاقہ میں کام کرتے ہیں مجھ سے ملنے آئے اور کہنے لگے کہ ریل میں مجھے آپ کا ایک مرید ملا جس نے مجھے ایک رسالہ دیا اور پھر کچھ تبلیغ بھی کی مگر جب میں نے اس سے نبوت کے متعلق سوال کیا تو وہ اس کا کوئی جواب نہ دے سکا.اس کے بعد وہ مجھے خیر خواہ بن کر کہنے لگا آپ ایسا انتظام کریں کہ آپ کی جماعت میں جو جاہل لوگ ہیں وہ دوسروں کو تبلیغ نہ کیا کریں.کیونکہ ایسے آدمیوں کو تبلیغ کے لئے بھیجنا بالکل فضول ہے صرف ایسے ہی لوگوں کو بھجوانا چاہئے جو تمام مسائل سے واقفیت رکھتے ہوں.اس کے بعد انہوں نے مجھ سے وہی سوال کیا جس کا میں نے انہیں جواب دیا اور پوچھا کہ کیا اب آپ کی سمجھ میں یہ بات آ گئی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں اب میں یہ مسئلہ اچھی طرح سمجھ گیا ہوں.پھر میں نے اُن سے کہا آپ یہ کہتے ہیں کہ وہ ان پڑھ تھا اور تبلیغ کی اجازت ایسے ہی لوگوں کو دینی چاہئے جو پڑھے لکھے ہیں، حالانکہ آپ میرے پاس اُسی کی تبلیغ کے نتیجہ میں آئے ہیں.اگر وہ آپ کو تبلیغ نہ کرتا تو آپ یہاں بھی نہ آتے.بیشک آپ بی.ایس سی ہیں اور وہ شاید پرائمری تک پڑھا ہوگا ہو مگر اُس پرائمری پڑھے ہوئے شخص کے دل میں ایک جوش تھا اور اُس نے چاہا کہ وہ نعمت جو اُس کے پاس ہے آپ اس سے محروم نہ رہیں چنانچہ اُس نے آپ کو تبلیغ کی اور آپ اسی کے نتیجہ میں مجھ سے ملنے آگئے پس آپ کو اس کے اخلاص کی قدر کرنی چاہئے.تو جماعت کے دوستوں کے اخلاص میں کوئی شبہ نہیں.اسی وجہ سے بعض بالکل ان پڑھ ہوتے ہیں مگر اپنے دل میں تبلیغ کا ایسا جوش رکھتے ہیں جو بہت ہی قابلِ قدر ہوتا ہے.اس کراچی کے سفر میں گجرات کا ایک نوجوان میرے ساتھ تھا اُس کے طریق عمل سے بعض دفعہ تکلیف بھی ہوتی مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ اپنے اندر جوش اور اخلاص رکھتا تھا.چنانچہ ایک سٹیشن پر اسے گجرات کا ہی ایک آدمی مل گیا وہ اُس کا واقف نہیں تھا صرف زبان سے اُس نے سمجھ لیا کہ یہ بھی گجرات کا ہے.چنانچہ اُس نے اُس سے باتیں شروع کر دیں اور کہا کہ تم یہاں کس طرح آئے ہو؟ اُس نے بتایا کہ میں سندھ میں نوکر ہوں.غرض اسی طرح باتیں کرتے کرتے وہ اُسے میرے پاس لا کر کہنے لگا ان سے مصافحہ کرو.چنانچہ
۴۸۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء خطابات شوری جلد دوم اُس نے مصافحہ کیا.پھر وہ کہنے لگا انہیں دعا کے لئے بھی کہو.چنانچہ اس نے دعا کے لئے بھی کہا.پھر کہنے لگا اب تمہیں بیعت کر لینی چاہئے حالانکہ نہ اُس نے احمدیت کا نام سُنا ہوا تھا اور نہ اُسے مسائل وغیرہ کا کوئی علم تھا بس پہلے اُسے مصافحہ کرایا پھر اُسے کہہ دیا کہ ان سے اپنے لئے دعا کراؤ اور اس کے بعد اُس پر زور دینا شروع کر دیا کہ اب بیعت بھی کر لو.میں نے اُسے سمجھایا کہ یہ تو احمدیت کے مسائل سے کچھ بھی واقفیت نہیں رکھتا اسے بیعت کے لئے کیوں مجبور کرتے ہو؟ مگر وہ بیچارہ یہی سمجھتا تھا کہ تبلیغ یہی ہے کہ دوسرے کو جھٹ بیعت کے لئے کہہ دیا جائے.اسی طرح ایک اور اسٹیشن آیا تو وہاں قادیان کا ایک شخص کھڑا تھا مگر یہ اسے پہچانتا نہیں تھا.دوڑ کر اس کے پاس پہنچا اور کہنے لگا آپ احمدی ہیں؟ اور جب اس نے کہاں ہاں.تو کہنے لگا چنگا پھر الْحَمدُ لِلہ میں نے اسے کہا کہ تم اس طرح نہ کیا کرو.اس طرح لوگوں کو ٹھوکر لگتی ہے.مگر وہ کہنے لگا نہیں جی! اس طرح تبلیغ ہوتی ہے.اپنے ذہن میں اس نے سمجھ رکھا تھا کہ جب احمدیت کچی ہے تو پھر اس کے لئے کسی دلیل کی کیا ضرورت ہے.تو ہماری جماعت کے دوستوں کے اخلاص میں کوئی شبہ نہیں مگر افسوس ہے کہ ان میں سے کئی سے ہم نے صحیح رنگ میں کام نہیں لیا.وہ ہیرے ہیں جو خدا نے ہمارے ہاتھ میں دیئے مگر ہم ان ہیروں کو کاٹ کر منڈی میں نہیں لے گئے بلکہ وہ پتھروں کی طرح ہمارے گھروں میں بیکار پڑے ہوئے ہیں.پس ضرورت اس بات کی ہے کہ عورتوں اور مردوں کو اسلامی تعلیم سے واقف کیا جائے ، قرآن اور حدیث کا ہر جگہ درس جاری ہو، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب لوگوں کو بکثرت پڑھنے کے لئے کہا جائے اور وقتاً فوقتاً ان کا امتحان لیا جائے تا ہماری جماعت کے بچے بچے میں وہ روح سرایت کر جائے جو خدا نے معرفت کے خزانوں کے ذریعہ ہمیں عطا کی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت سے پہلے قرآن دنیا میں موجود تھا مگر مسلمان شکست پر شکست کھا رہے تھے ، بخاری موجود تھی، مسلم موجود تھی ، اسی طرح دوسری احادیث کی کتابیں موجود تھیں مگر مسلمان کفار کے حملوں کا شکار ہوتے چلے جا رہے تھے تب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ سے طاقت پاتے ہوئے قرآن کو اس
خطابات شوری جلد دوم ۴۸۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء طرح مصفے اور بے عیب شکل میں پیش کیا جیسے منوں مٹی کے نیچے سے کوئی چیز نکال کر اُسے گردوغبار سے صاف کر کے لوگوں کے سامنے پیش کر دی جائے.اسی طرح وہ بخاری اور مسلم جن کو بالکل بے اثر سمجھا جاتا تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کو زبر دست ہتھیاروں کی شکل میں بدل دیا.اور اگر ہم یہ ہتھیار استعمال نہیں کرتے تو بتاؤ اس سے ہمیں کیا فائدہ ہو سکتا ہے اور کیونکر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ایک تیز تلوار کی حیثیت رکھتے ہیں.مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس کے لئے زبردست تبدیلی کی ضرورت ہے اس کے لئے مستقل ارادے اور مصمم عزم کی ضرورت ہے.سال میں ایک دفعہ جمع ہونا اور بعض تجاویز کے متعلق ووٹ دے دینا یہ محض ایک رسمی بات ہے اور یہ مشورے اپنی ذات میں چنداں مفید بھی نہیں ہوتے.مشاورت کی اصل غرض میں اپنی ذات کے متعلق ہی جانتا ہوں کہ ان مشوروں میں سے کتنی باتیں ہیں جو مجھے سننے کی ضرورت ہوتی ہے.یہاں نمائندگان کی طرف سے جو باتیں پیش کی جاتی ہیں اُن میں بیشتر حصہ ایسی باتوں کا ہوتا ہے جن کو ہم پہلے ہی جانتے ہیں اور یا پھر وہ باتیں ہوتی ہیں جو بالکل غلط ہوتی ہیں مگر ہمیں غلط باتیں بھی سننی پڑتی ہیں کیونکہ اصل غرض اس قسم کی مجلس کے انعقاد اور باہمی مشوروں سے یہ ہے کہ ہمارے اندر یہ روح رہے کہ ہم مل کر کام کریں اور سلسلہ کی ترقی کی تجاویز میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں.اگر یہ غرض حاصل نہیں ہوتی تو اس مجلس کا مقصد بالکل فوت ہو جاتا ہے.یہ خیال کرنا کہ یورپ کی طرح ہم نے بھی اپنی ایک پارلیمنٹ بنالی ہے کسی صورت میں صحیح نہیں.آخر ہم نے جو ساری دُنیا کو چھوڑا اور اپنے تعلقات لوگوں سے قطع کر کے ایک ایسے گوشہ میں آگئے جہاں دنیوی اعزازات اور دنیوی مفادات میں سے کوئی چیز بھی نہیں تو ہماری غرض یہ تو نہ تھی کہ ہم یورپین لوگوں کی کسی خاص بات میں نقل کریں بلکہ ہماری غرض یہ تھی اور یہی ہے کہ ہم اُس رستہ پر چلیں جس پر چلنے سے خدا خوش ہوتا ہے.پس دُنیا خواہ کچھ کہے ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ ہمارا خدا کیا کہتا ہے، ہمارا رسول کیا کہتا ہے، اور کس بات کے کرنے کی وہ ہمیں تاکید کرتا ہے.اگر ہم اس کے بتائے ہوئے راستہ پر چل پڑتے
خطابات شوری جلد دوم ۴۸۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء ہیں تو ہمارا مدعا ہمیں حاصل ہو سکتا ہے اور اگر ہم اس کے بتائے ہوئے راستہ پر نہیں چلتے تو اپنے مقصد اور مدعا میں ہم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے.پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس اہم کام کی طرف توجہ کریں.وقت آ رہا ہے کہ پھر ان کے لئے اس کام کا وقت نہیں رہے گا.دُنیا میں عظیم الشان تغیرات پیدا ہو رہے ہیں اور بہت بڑا انقلاب ہے جو رونما ہونے والا ہے.پس عملی طور پر ہمیں اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا کرنی چاہئے کہ ہم اپنے عہد کو پورا کرنے والے ہوں.سچائی پر قائم رہنے والے ہوں، خدا اور اُس کے رسول سے محبت رکھنے والے ہوں اور اس طرح اپنے اعمال میں ایک نیک تغیر پیدا کر کے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں.اور علمی طور پر ہمارا فرض ہے کہ وہ خزائن جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائے ہیں زیادہ سے زیادہ اپنی جماعت کے دوستوں کو دیں اور اسی طرح ان خزائن کو دوسرے لوگوں میں بھی تقسیم کریں.دوسری بات یہ ہے کہ ہمارا فرض یہی اپنے آپ کو خدا کے ہاتھ میں دے دیں نہیں کہ ہم اپنے آپ کو ایک تیز تلوار کی مانند بنا ئیں بلکہ ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ ہم اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں دے دیں کیونکہ اگر تلوار بھی تیز ہو اور تلوار چلانے والا بھی ماہر ہو تو اس تلوار کا وار کوئی روک نہیں سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ کوئی سپاہی تھا جسے تلوار چلانے کی ایسی مشق تھی کہ وہ گھوڑے کو کھڑا کر کے ایک ہی ضرب میں اُس کے چاروں پاؤں کاٹ دیا کرتا تھا.ایک دفعہ شہزادے نے اُسے ایک ہی وار میں گھوڑے کے چاروں پاؤں کاٹتے دیکھا تو وہ سپاہی کے پیچھے پڑ گیا اور کہنے لگا یہ تلوار مجھے دے دو مگر سپاہی نے وہ تلوار نہ دی.شہزادہ نے بادشاہ سے شکایت کر دی کہ فلاں سپاہی سے میں نے اُس کی تلوار مانگی تھی مگر وہ مجھے دیتا نہیں.بادشاہ نے اُس سپا ہی کو بُلا کر ڈانٹا اور کہا کہ تم بڑے نمک حرام ہو میرے بیٹے نے تم سے تلوار مانگی اور تم نے وہ تلوار اِسے نہیں دی.سپاہی نے کہا بہت اچھا یہ تلوار حاضر ہے لے لیجئے.چنانچہ بادشاہ نے وہ تلوار لے کر شہزادے کو دے دی.شہزادہ خوشی خوشی اُس تلوار کو لے کر ایک گھوڑے کے قریب گیا اور زور سے اُس کے پاؤں پر ماری مگر بجائے چاروں پاؤں کٹنے کے گھوڑے کے پاؤں پر معمولی نشان بھی نہ پڑا.یہ دیکھ کر پھر وہ اپنے
خطابات شوری جلد دوم ۴۸۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء باپ کے پاس آیا اور کہنے لگا معلوم ہوتا ہے سپاہی نے دھوکا کیا ہے اور جو اصل تلوار تھی وہ چھپا کر اُس کی بجائے کوئی اور تلوار دے دی ہے کیونکہ اُس تلوار سے تو گھوڑے کے چاروں پیر کٹ جاتے تھے مگر اس تلوار سے اس کا ایک پیر بھی نہیں کٹا.بادشاہ نے پھر اسے بلا کر ڈانٹا اور کہا کہ اصل تلوار کہاں چُھپا رکھی ہے، وہ نکال کر فوراً حاضر کرو.سپاہی نے عرض کیا کہ بادشاہ سلامت! تلوار تو وہی ہے مگر بات یہ ہے کہ صرف تلوار کام نہیں کیا کرتی بلکہ تلوار کو چلانے والے کی مہارت کی بھی ضرورت ہوتی ہے.آپ کے صاحبزادہ کو یہ ہنر نہیں آتا مگر مجھے آتا ہے اور اگر آپ کو شبہ ہے تو ابھی کسی گھوڑے کو میرے سامنے لائے اور اسی تلوار سے میرے ہنر کا مشاہدہ کر لیجئے.چنانچہ اُسی وقت ایک گھوڑا لایا گیا اور سپاہی نے اُسی تلوار کی ایک ایسی ضرب لگائی کہ اُس کے چاروں پاؤں یکدم کٹ گئے.تو بعض دفعہ ہتھیار اچھا ہوتا ہے مگر چونکہ چلانے والا اپنے فن میں ماہر نہیں ہوتا اس لئے وہ ہتھیار صحیح طور پر کام نہیں دیتا.اور چونکہ جو کام ہمارے سپرد کیا گیا ہے وہ انسانی ہاتھوں سے ہونے والا نہیں اس لئے ہمارا کام یہ ہے کہ اپنے آپ کو بہتر تلوار سے بہتر بنائیں اور پھر اپنے آپ کو یہ کہتے ہوئے خدا تعالیٰ کے سپرد کر دیں کہ سپردم بتو مایه خویش را کہ الہی ! جس حد تک اپنے خیالات کی اصلاح ممکن تھی ، جس حد تک اپنے افکار کی اصلاح ممکن تھی ، جس حد تک اپنے ارادوں میں بلندی اور پختگی پیدا کی جاسکتی تھی وہ ہم نے کر لی مگر اے ہمارے رب! ان تمام اصلاحوں کے باوجود ہم ایک بے جان لاشہ ہیں اور ہمارے اندر قطعاً یہ طاقت نہیں کہ ہم دُنیا میں کوئی تغیر پیدا کر سکیں اس لئے اے خدا! اب تیرے ہاتھ میں ہم اپنے آپ کو نفس بے جان کی طرح ڈال رہے ہیں، تو جہاں چاہے اسے ڈال دے اور جہاں چاہے اس کو پھینک دے یہ تیرا کام ہے اور تُو ہی کر سکتا ہے، ہم سے تو کچھ نہیں ہو سکتا.اگر ہم اس طرح اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے حوالے کر دیں تو یقیناً اس صورت میں تلوار ایسے تغیرات پیدا کرے گی کہ دُنیا حیران رہ جائے گی اور آئندہ آنے والی نسلیں حیرت سے کہیں گی کہ کتنی چھوٹی جماعت تھی جس نے قلیل ترین عرصہ میں ایسا عظیم الشان کام کر لیا.بے شک جب ہمیں کامیابی حاصل ہو جائے گی اُس وقت بعض لوگ ایسے بھی ہوں
خطابات شوری جلد دوم ۴۹۰ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء گے جو یہ کہیں گے کہ اس دُنیا میں ایسے حالات پیدا ہو رہے تھے جن کا لازمی نتیجہ احمدیت کی ترقی تھی مگر اُن میں سے جو سمجھ دار لوگ ہوں گے وہ اس بات کو تسلیم کریں گے کہ یہ کام خدا کا ہے اور اُسی نے یہ تغیر پیدا کیا.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ کو ہی دیکھ لو، جب آپ نے یہ دعویٰ کیا کہ میں تمام دُنیا کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں اور یہ کہ ایک دن ایسا آئے گا جب کہ میری مخالفت کرنے والے مٹ جائیں گے اور میرا لایا ہوا دین تمام دُنیا میں پھیل جائے گا تو لوگ ہنستے تھے اور کہتے تھے یہ تو مجنونانہ دعویٰ ہے اس میں تو اتنی طاقت بھی نہیں کہ مکہ کو فتح کر سکے ، جا یہ کہ سارے عالم پر اس کا قبضہ ہو جائے.مگر جب مکہ ہی نہیں تمام عرب پر اور عرب ہی نہیں فلسطین پر بھی اور فلسطین ہی نہیں شام پر بھی اور شام ہی نہیں مصر پر بھی اور مصر ہی نہیں اناطولیہ پر بھی ، اور اناطولیہ ہی نہیں ایران پر بھی ، اور ایران ہی نہیں افغانستان اور چین اور دوسرے تمام ممالک پر آپ اور آپ کے خلفاء کا قبضہ ہو گیا اور لوگوں نے یہ انقلاب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تو آج یورپین مؤرخ لکھتے ہیں کہ یہ انقلاب کوئی غیر متوقع نہیں تھا.اُس زمانہ میں ایسے سامان پیدا ہو رہے تھے جن کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ کسریٰ کی حکومت مٹ جائے ، قیصر کی حکومت تباہ ہو جائے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کا تمام دنیا پر غلبہ ہو جائے.مگر ہم کہتے ہیں اے احمقو! اور نادانو ! تمہیں آج یہ تغیرات کیوں نظر آ رہے ہیں.جبکہ وہ لوگ جن کے زمانہ میں یہ تغیرات ہوئے ہنتے تھے اور کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) مکہ فتح کرنے کی تو طاقت نہیں رکھتا اور خوا ہیں یہ دیکھتا ہے کہ وہ سارے جہان کو فتح کرلے گا.حقیقت یہ ہے.خوئے بد را بهانه بسیار جس نے نہیں ماننا ہوتا وہ ہزار بہانے بنالیتا ہے اور جو ماننے والے ہوتے ہیں وہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے ہدایت پا جاتے ہیں.اس وقت بھی دُنیا میں عظیم الشان تغیرات پیدا ہو رہے ہیں اور تغیرات یقیناً احمدیت کے لئے مفید ہیں.آج ہماری جماعت میں سے جن لوگوں کو خدا تعالیٰ یہ توفیق دے گا وہ بچے طور پر اپنی اصلاح کر کے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے حوالہ کر دیں اور اپنے آپ کو ایک تیز تلوار بنا کر خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں دے دیں.ان
خطابات شوری جلد دوم ۴۹۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء کے ذریعہ اللہ تعالیٰ دُنیا میں ایک ایسا انقلاب پیدا کر دے گا جسے دیکھ کر اگلے لوگ حیران رہ جائیں گے اور خواہ کتنی عظیم الشان روکیں درمیان میں حائل ہوں اللہ تعالیٰ ان کو دور کر کے اسلام کو کمال تک پہنچائے گا اور ہمیشہ آسمان سے ان کے لئے برکتیں نازل ہوں گی مگر یہ تغیرات اپنے نفوس کی اصلاح کئے بغیر نہیں ہو سکتے.محض ریزولیوشن پاس کر دینے سے کچھ نہیں بن سکتا جب تک ہم یہ حقیقت ذہن نشین نہ کر لیں کہ آج ہم جو کچھ کہتے اور کرتے ہیں انہی کا پھل ہمیں آئندہ زندگی میں ملے گا.اگر آج ہمارے اعمال ناقص اور ہمارے ارادے نا تمام ہیں تو ان کے پھل بھی کبھی شیریں پیدا نہیں ہو سکتے.لیکن اگر ہماری ہمتیں بلند اور ہمارے اعمال میں خلوص ہو تو ان کے پھل بھی شیریں پیدا ہوں گے.پس ہمیں یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ ہم آج جو کچھ کر رہے ہیں ، انہیں کا پھل ہمیں اگلی زندگی میں ملنے والا ہے.اگر ہم اچھے کام کریں گے تو پھل بھی اچھے ہوں گے اور اگر ہم بُرے کام کریں گے تو پھل بھی بُرے ہوں گے.ایک نکتہ یہی وہ نکتہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم کی ایک آیت سے استدلال کرتے ہوئے بیان فرمایا اور جو انسان کی عملی زندگی میں ایک عظیم الشان تغیر پیدا کرنے والا ہے.وہ نکتہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا یہ ہے کہ قرآن کریم کے پہلے پارہ میں ہی آتا ہے کہ مومن جب بہشت میں جائیں گے تو وہاں انہیں کھانے کے لئے پھل ملیں گے.ان پھلوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے محتما رُزِقُوا مِنْهَا مِن ثَمَرَةٍ رِزْقًا قَالُوا هَذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ وَاتُوايه متشابهات کہ جب کبھی پھلوں میں سے کوئی پھل ان کے پاس بطور رزق لایا جائے گا تو وہ متشابہہ ہو گا.جسے دیکھ کر وہ کہیں گے هذا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ کہ یہ پھل تو ہمیں بھی مل چکا ہے.مفسرین نے اس کے یہ معنے گئے ہیں کہ جنتیوں کو ایک ہی پھل بار بار لا کر دیا جائے گا اور چونکہ بار بار ایک ہی پھل ان کے پاس لایا جائے گا اور اس وجہ سے وہ پھل آپس میں متشابہہ ہوں گے اس لئے وہ کہیں گے هذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ یہ پھل تو وہی ہے جو اس سے پہلے ہم کھا چکے ہیں.گویا وہ یہ انعام قرار دیتے ہیں کہ اگر جنتیوں کو ایک دفعہ آم کھانے کے لئے ملا تو دوسری دفعہ پھر وہی آم ان کے سامنے پیش کیا
خطابات شوری جلد دوم ۴۹۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء جائے گا.تیسری دفعہ پھر وہی آم ان کے سامنے لایا جائے گا اور چوتھی دفعہ پھر وہی آم انہیں کھانے کے لئے دیا جائے گا اور اس طرح ایک ہی پھل انہیں متواتر دیا جائے گا اور اس تواتر کے ساتھ دیئے جانے کی وجہ سے وہ کہیں گے کہ هُذَا الَّذِي رُزِ قُنَا مِن قَبْلُ کہ یہ پھل تو ہم پہلے بھی کھا چکے ہیں حالانکہ اگر اُتوا به متشابھا کے یہی معنے ہوں کہ ایک ہی پھل بار بار انہیں کھلایا جائے گا اور اس وجہ سے وہ پھل آپس میں متشابہہ ہوں گے تو یہ خوبی نہیں بلکہ ایک نقص ہوگا.مثلاً اگر کسی کو بار بار ایک ہی قسم کا جوڑا پہننے کے لئے دیا جائے تو آخر وہ تنگ آجائے گا اور کہے گا ہمیشہ ایک ہی قسم کا جوڑا دیا جاتا ہے، کیا کوئی اور تم نہیں رہی؟ اور یہ امر انسانی فطرت میں داخل ہے کہ وہ تنوع کو پسند کرتا ہے.چنانچہ دیکھ لو مرد کبھی کسی رنگ کا کوٹ بنوا لیتے ہیں اور کبھی کسی رنگ کا، اسی طرح رومال بدلتے رہتے ہیں.عورتیں بھی کبھی ایک رنگ کی ساڑھی پہنتی ہیں اور کبھی دوسرے رنگ کی ، کبھی ان کے کپڑوں کا کوئی ڈیزائن ہوتا ہے اور کبھی کوئی.بیل بوٹے بھی مختلف قسم کے بناتی رہتی ہیں، کبھی کوئی اور کبھی کوئی.یہ نہیں ہوتا کہ ایک ہی رنگ اور ایک ہی قسم کے کپڑے وہ ہمیشہ پہنتی چلی جائیں کیونکہ انسانی فطرت تبدیلی اور ترقی چاہتی ہے یہ پسند نہیں کرتی کہ وہ ایک مقام پر ٹھہر جائے.پس اگر جنت میں ترقی ہے تو پھر اُتوا به متشابھا کے یہ معنے کس طرح درست ہو سکتے ہیں کہ انہیں بار بار ایک ہی قسم کا پھل کھانے کے لئے دیا جائے گا جبکہ یہ کوئی خوبی کی بات نہیں بلکہ ایک نقص ہے.اس صورت میں تو جنتیوں کا یہ کہنا کہ هذا الذي رزقنا من قبل یہ شکوہ ہی معلوم ہوتا ہے.جیسے کوئی کہے کہ مجھے صبح بھی کھانے کے لئے دال ملی اور اب شام کو بھی دال مل رہی ہے حالانکہ قرآن اُتُوا به مُتَشَابِها خوبی کے معنوں میں بیان کر رہا ہے.اس آیت کے دوسرے معنے مفسرین نے یہ کئے ہیں کہ دُنیا میں جس قسم کے پھل کھانے کے لئے ملتے ہیں جنتیوں کو ویسے ہی پھل جنت میں کھانے کے لئے ملیں گے.جیسے آم یہاں ملتے ہیں ویسے ہی آم اگلے جہان میں ملیں گے اور جیسے خربوزے یہاں کھانے کو ملتے ہیں اسی طرح کے خربوزے اگلے جہان میں جنتیوں کو ملیں گے.اور جب وہ اُن آموں اور خربوزوں کو کھا ئیں گے تو کہیں گے ھذا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ یہ پھل تو
خطابات شوری جلد دوم ہمیں پہلے مل چکے ہیں.۴۹۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء یہ معنے قرآنی الفاظ کے نسبتاً زیادہ قریب سمجھے جا سکتے ہیں مگر اس پر بھی ایک ایسا اعتراض وارد ہوتا ہے جو ان معنوں کو کسی صورت میں قائم نہیں رہنے دیتا اور وہ یہ کہ اگر اثوابه متشابھا کے یہی معنے ہیں کہ وہاں کے آم یہاں کے آموں کے مشابہہ ہوں گے اور وہاں کے خربوزے یہاں کے خربوزوں کے مشابہہ ہوں گے تو گویا دُنیا اور جنت کے پھل آپس میں مشابہہ ہو گئے.جیسے یہاں آم ملتے ہیں ویسے ہی وہاں آم ملیں گے، جیسے یہاں خربوزے ملتے ہیں ویسے ہی وہاں خربوزے ملیں گے اور جیسے یہاں اور کئی قسم کے پھل ملتے ہیں اسی طرح وہاں کھانے کے لئے کئی قسم کے پھل ملیں گے حالانکہ قرآن کریم سے ہی پتہ لگتا ہے کہ جنت کی نعمتیں دُنیا کی نعمتوں سے بالکل مختلف ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی فرماتے ہیں کہ لَاعَيُنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بشر کہ جنت کی نعمتیں ایسی ہیں کہ نہ کسی آنکھ نے دیکھیں اور نہ کسی کان نے سنیں اور نہ انسان کے واہمہ اور خیال میں بھی گزریں.گویا وہ چیزیں جو ہمارے دیکھنے یا سننے سے تعلق رکھتی ہیں یا جن کو ہم معین صورت میں اپنے دماغ میں لا سکتے ہیں جنت کی نعمتیں ان سے بالکل مختلف ہیں اور جب جنت کی نعمتوں کی یہ حقیقت ہے تو اُتُوا به متشابھا کے کیا معنی ہوئے.پھر ان معنوں کو تسلیم کر لینے کی صورت میں هَذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ کہنا بھی تعریف نہیں بلکہ مذمت ثابت ہوتی ہے.کیونکہ یہ تو مان لیا کہ پہلی دفعہ جب انہیں آم کھانے کے لئے ملے تو انہوں نے کہہ دیا کہ یہ آم تو ہم دُنیا میں بھی کھا چکے ہیں مگر ہر آم کے ملنے پر اُن کا یہ کہنا کہ یہ آم تو ہم پہلے بھی کھا چکے ہیں اپنے اندر تنقیص کا پہلو رکھتا ہے، تعریف کا پہلو نہیں رکھتا.پھر یہ عجیب بات ہے کہ دُنیا میں تو ادنیٰ سے ادنی انسان یہ کوشش کرتا ہے کہ جب اس کے ہاں اس کا کوئی عزیز یا دوست یا مہمان آئے تو وہ اسے عمدہ سے عمدہ کھانا پیش کرے جو اس نے پہلے کبھی نہ کھایا ہومگر خدا جب جنتیوں کو جنت میں نعمتیں دینے لگے تو دُنیا کی چیزیں اُٹھا اُٹھا کر ان کے سامنے پیش کر دے.دُنیا میں ہم دیکھتے ہیں جب کسی کے ہاں کوئی مہمان آیا ہوا ہوتا ہے تو عورت چاہتی ہے کہ مہمان کے لئے اعلیٰ سے اعلیٰ کھانا تیار کیا جائے.چاول پکائے گی تو خواہش رکھے گی
خطابات شوری جلد دوم ۴۹۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء کہ میرے پکے ہوئے چاول اتنے اچھے ہوں کہ اس نے ویسے چاول پہلے کبھی نہ کھائے ہوں.پر اٹھا پکائے گی تو کہے گی میں ایسا اچھا پر اٹھا پکاؤں کہ ویسا پر اٹھا اس نے پہلے کبھی نہ کھایا ہو.ہمارے خاندان کے بچے کا ہی ایک لطیفہ ہے.میاں بشیر احمد صاحب کا ایک لڑکا ایک دفعہ اماں جان کے ہاں گیا اور وہاں سے پر اٹھا کھا کے آیا جو اُسے بہت ہی پسند آیا اور آکر اپنی والدہ سے کہنے لگا کہ مجھے بھی ایسا ہی پر اٹھا پکا دو جیسا اماں جان نے پکایا ہے.خیر دوسرے دن اُنہوں نے اُسے پر اٹھا پکا کر دے دیا.وہ کھا تا رہا کھا تا رہا، مگر زبان سے اس نے کچھ نہیں کہا.البتہ اُس کے چہرہ پر ایسے آثار تھے جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کوئی بات سوچ رہا ہے.جب کھا چکا تو کہنے لگا اماں! یہ پراٹھا بھی اچھا ہے پر اماں جان دے پر اٹھے دی تے حداں ہی ٹٹ گیاں ہیں.تو ہر انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے عزیز کے آگے ایسی اعلیٰ چیز رکھے جو اس نے پہلے کبھی نہ کھائی ہو.ہم اس کے کھانے کے لئے کیلا منگوائیں گے تو کہیں گے کہ ایسا اچھا کیلا لا نا جو اس نے پہلے کبھی نہ کھایا ہو.خربوزہ منگوائیں گے تو تاکید کریں گے کہ بہترین خربوزہ لانا جو ایسا میٹھا ہو کہ ویسا میٹھا خربوزہ اس نے پہلے کبھی نہ کھایا ہو.ایک روایت ہمارے ایک مرحوم دوست لاہور کے میاں تاج دین صاحب تھے جن کے لڑکے میاں مظفر الدین صاحب آجکل پشاور میں بجلی کا کام کرتے ہیں.انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ایک قسم کا عشق تھا.جب آپ لاہور سے قادیان آتے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے ضرور کوئی نہ کوئی تحفہ لاتے.اُن کی عادت تھی کہ دکاندار کے پاس جاتے اور کہتے اعلیٰ سے اعلیٰ سیب دو میں حضرت صاحب کے لئے تحفہ لے جانا چاہتا ہوں.وہ مثلاً روپیہ کے ۱۲ سیب دیتا، یہ کہتے کہ ان سیبوں سے بھی اعلیٰ سیب دو، خواہ روپیہ کے تم مجھے دس دے دو مگر بہر حال اعلیٰ ہوں میں حضرت صاحب کے لئے قادیان تحفہ لے جانا چاہتا ہوں.وہ وہی سیب جو روپیہ کے ۱۲ ہوتے دس دے دیتا اور کہتا کہ یہ بہت اعلیٰ ہیں اور وہ دکاندار پر اعتبار کر کے لے لیتے اور یہ سمجھ لیتے کہ دکاندار نے اچھے سے اچھے سیب دیئے ہیں.
خطابات شوری جلد دوم ۴۹۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء تو ہماری تمام کوشش یہ ہوتی ہے کہ ہم اپنے دوست اور محبوب اور پیارے کے لئے وہ چیز لے جائیں جو اس نے پہلے نہ دیکھی ہو اور وہ ایسی اعلیٰ ہو کہ ویسی اعلیٰ چیز اس کی نظر سے پہلے کبھی نہ گزری ہو.اسی طرح اللہ تعالیٰ اگر جنتیوں پر احسان جتانا چاہتا تو کہتا کہ ملیح آبادی آم بھی اچھے ہوتے ہیں مگر وہ کمبخت بھلا جنت کے آموں کا کیا مقابلہ کر سکتے ہیں.اسی طرح ماجھے کی بھینسیں بے شک اچھا دودھ دیتی ہیں مگر جنت کے دودھ کے مقابلہ میں اس دودھ کی حیثیت ہی کیا ہے مگر مفسرین ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ جیسے دُنیا کے آم اور خربوزے اور دوسرے پھل ہیں اسی طرح کے پھل جنتیوں کو بھی ملیں گے اور جب وہ کھائیں گے تو کہیں گے کہ ہم تو دُنیا میں بھی یہ پھل کھا چکے ہیں حالانکہ اول تو یہ معنے درست ہی نہیں لیکن اگر بالفرض درست بھی ہوں تو بھی صرف پہلی دفعہ اس قسم کے پھل ملنے پر جنتیوں کا یہ کہنا درست ہوسکتا ہے کہ هذا الذي رزقنا مِن قَبْلُ یہ پھل تو ہم پہلے بھی کھا چکے ہیں.بار بار ایک ہی قسم کا پھل ملنے پر بار بار اُن کا یہ فقرہ دُہرانا اپنے اندر کوئی مفہوم نہیں رکھتا.اور پھر اس قسم کا فقرہ یا تو خوشی کی وجہ سے دُہرایا جاتا ہے یا حسرت کی وجہ سے یعنی یا تو وہ فقرہ اس موقع پر دُہرایا جا سکتا ہے جب کوئی شخص کسی مصیبت میں پھنس جائے اور جب بھی وہ واقعہ اسے یاد آئے تو حسرت سے کہے کہ ہائے افسوس یہ مصیبت پیچھا نہیں چھوڑتی اور یا اس موقع پر دُہرایا جا سکتا ہے جب کسی کونٹی کا میابی یا خوشی حاصل ہو اور وہ خوش ہو کر کہے کہ ایک انعام مجھے فلاں موقع پر بھی مل چکا ہے مگر یہ کون سی خوشی کا مقام ہے کہ آم کے بعد آم اور خربوزے کے بعد خربوزہ وہی مل رہا ہے جو دُنیا میں اُنہوں نے کھایا اور وہ کہتے چلے جاتے ہیں کہ یہ تو وہی پھل ہیں جو ہم پہلے کھا چکے ہیں.صاف معلوم ہوتا ہے کہ اگر مفسرین کے مفہوم کو تسلیم کر لیا جائے تو جنتیوں کا یہ قول ایک شکوہ کا اظہار تو ہو سکتا ہے مگر اسے خدا تعالیٰ کے احسانات کا شکر قرار نہیں دیا جا سکتا.روحانی لذات اس کے مقابلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس آیت کے جو معنے کئے ہیں وہ کتنے لطیف اور عظیم الشان ہیں اور ان سے کس قدر اصلاح نفس ہو سکتی ہے.آپ فرماتے ہیں تم نے اس آیت کو سمجھا نہیں اور نہ تمہارا ذہن اس امر کی طرف منتقل ہوا ہے کہ ان میووں سے کیا مراد ہے.حقیقت یہ ہے کہ ان میووں
۴۹۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء خطابات شوری جلد دوم سے مراد وہی عبادتیں ہیں جو انسان دُنیا میں اللہ تعالیٰ کی رضاء اور خوشنودی کے حصول کے لئے بجا لاتا ہے.وہ نمازیں پڑھتا ہے، وہ روزے رکھتا ہے، وہ حج کرتا ہے، وہ زکوۃ دیتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے اور اوامر پر عمل کرتا اور نواہی سے بچتا ہے.ان عبادات میں جو روحانی لذتیں ہیں اور ان عبادات کے نتیجہ میں جس طرح قلب میں صفائی پیدا ہوتی اور انسان کو خدا تعالیٰ کے قرب اور اُس کے وصال کا لطف محسوس ہوتا ہے وہی اگلے جہان میں پھلوں کی صورت میں متمثل ہو کر اس کے سامنے آئے گا.دُنیا میں جب ایک مومن کامل خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھتا ہے تو اُسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا اسے خدا کا قرب حاصل ہو گیا.روزہ رکھتا ہے تو وہ محسوس کرتا ہے کہ گویا خدا اُس کے ہاتھ آ گیا.صدقہ دیتا ہے تو وہ یوں محسوس کرتا ہے کہ خدا اس کے سامنے آ گیا.اسی طرح حج اور زکوۃ وغیرہ عبادات جب کوئی صدق دل کے ساتھ بجالاتا ہے تو اسے اپنے اندر ایک روحانی کیف محسوس ہوتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی محبت کو آسمان سے اُترتے اور اپنی رگ رگ میں سرایت کرتے دیکھتا ہے.یہ روحانی لذتیں ہی وہاں پھلوں کی صورت میں مومنوں کو ملیں گی اور یہ پھل اُتوابه متشابھا کے مطابق ملتے جلتے ہوں گے یعنی جس رنگ میں کسی نے عبادت کی ہوگی اُسی رنگ میں وہ عبادت متشکل ہو کر اس کے سامنے آجائے گی.اب دیکھو ان معنوں نے انسانی اعمال میں کس قدر تغیر پیدا کر دیا.اگر تم نماز پڑھتے ہو اور اس نماز میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور خشیت سے تمہارا دل بھرا ہوا ہوتا ہے، تمہاری آنکھیں پرنم ہوتی ہیں، تمہارے اندر ایک سوز اور گداز ہوتا ہے اور تم ایک لذت اور سرور کے ساتھ نماز پڑھتے ہو تو تمہیں اس نماز کے نتیجہ میں جو پھل ملے گا وہ بھی ویسا ہی لذیذ ہوگا جیسے دُنیا میں تمہاری نماز لذیذ تھی.لیکن اگر تم نے نماز اچھی طرح نہیں پڑھی ہوگی ، تم بظاہر تو نماز میں شامل ہو گے مگر تمہارا دل کہیں ہوگا اور خشوع و خضوع اور لذت تمہیں حاصل نہیں ہو گی تو تمہیں جنت میں جو پھل ملے گا وہ بھی اسی نماز کے مشابہہ ہو گا اور اس کے کھانے سے بھی تمہیں کوئی زیادہ لذت نہیں آئے گی.پس اُخوابه متشابھا کے یہ معنے ہیں کہ جنت کے پھل ہر انسان کی روحانی عبادات کے مشابہ ہوں گے.جس قسم کی لذت اسے دُنیا میں روحانی عبادات کے کرتے
۴۹۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء خطابات شوری جلد دوم وقت حاصل ہوتی تھی.اسی قسم کی لذت اسے اگلے جہان میں ان پھلوں کو کھاتے وقت حاصل ہوگی کیونکہ اُتُوا به متشابها وہ پھل ان روحانی کیفیات سے ملتے جلتے ہوں گے.اُتوا به متشابھا کے یہ معنے بھی ہیں کہ جنت کے تمام پھل ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہوں گے.جیسے زید اور بکر کو آم ملے گا ویسا ہی آم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی ملے گا اور بظا ہر وہ سب آپس میں مشابہہ ہوں گے مگر اندرونی ذائقہ اور مزہ ہر ایک کا الگ الگ ہو گا کیونکہ ہر ایک کی نمازیں اور ہر ایک کے روزے الگ الگ کیفیات کے حامل ہوتے ہیں.ہر انسان کے چندہ میں فرق ہے.کوئی تو ایسا ہوتا ہے جو چندہ اس نیت سے دیتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو جائے اور کوئی چندہ تو دے دیتا ہے مگر دل میں یہ کہتا جاتا ہے کہ میں کمبخت کس مصیبت میں پھنس گیا.اگر چندہ دوں تو بال بچے بھوکے مرتے ہیں اور اگر چندہ نہ دوں تو جماعت میں بدنامی ہوتی ہے.گویا چندہ دیتے وقت اُسے لذت نہیں بلکہ تکلیف محسوس ہو رہی ہوتی ہے جیسے سخت کھٹا اور ترش آم آدمی کھانے لگے تو ادھر وہ اس آم کو چوستا ہے اور اُدھر اُس کے پٹھے کھنچے چلے جاتے ہیں، جسم پر لرزہ طاری ہوتا جاتا ہے اور دل سخت منقبض ہو رہا ہوتا ہے.لیکن اس کے مقابلہ میں ایک اور آم ہوتا ہے جولکھنوی یا ملیح آبادی ہوتا ہے انسان اسے چوستا ہے تو اُسے ایسی لذت حاصل ہوتی ہے کہ اسے چھوڑنے کو اس کا جی نہیں چاہتا.اب آم تو دونوں ہیں اور دونوں آپس میں ملتے جلتے ہیں کھٹا اور ترش آم بھی اور ملیح آبادی آم بھی مگر ان دونوں کے ذائقہ میں زمین و آسمان کا فرق ہوگا.اسی طرح بیروں کو لے لیا جائے ، کوئی بیر تو بڑے میٹھے ہوتے ہیں اور کوئی سخت کسیلا اور بدمزہ ہوتے ہیں.جنہیں پنجابی میں ”گل گھوٹو“ کہتے ہیں.انسان کھاتا ہے تو اسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا اس کا گلا گھٹنے لگا.اسی طرح خربوزے بظاہر سب یکساں ہوتے ہیں مگر کوئی تو اتنے بد بودار، کھٹے اور ترش ہوتے ہیں کہ ان کی ایک قاش تک آسانی سے نہیں کھائی جاتی اور کوئی اتنے میٹھے ہوتے ہیں کہ مدتوں یا درہتے ہیں.یہی حال سردے کا ہے.ظاہری شکل سب کی ایک ہوتی ہے مگر ذائقہ اور لذت میں ان میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے.پس اُتوابه متشابهاً کہہ کر اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ
خطابات شوری جلد دوم ۴۹۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء اے مسلمانو! تم عمدگی کے ساتھ نمازیں پڑھا کرو، تم عمدگی کے ساتھ روزے رکھا کرو، تم عمدگی کے ساتھ چندے دیا کرو، تم عمدگی کے ساتھ حج کیا کرو، تم عمدگی کے ساتھ زکوۃ دیا کرو کیونکہ جنت میں تمہاری انہی عبادات کے مشابہ تمہیں پھل ملیں گے.جس قسم کی لذت اور جس قسم کا سرور تمہیں دُنیا میں ان عبادات کے بجالانے میں حاصل ہوگا وہی سرور اور وہی لذت تمہیں جنتی پھلوں کو کھا کر حاصل ہوگی کیونکہ وہ پھل انہی روحانی عبادات کے مشابہ ہوں گے.پس جو لذت آج تمہیں نمازیں پڑھنے میں آتی ہے، جو لذت آج تمہیں روزہ رکھنے میں آتی ہے، جو لذت آج تمہیں حج کرنے یا زکوۃ دینے یا صدقہ و خیرات دینے میں آتی ہے ویسی ہی لذت تمہیں جنت کی نعمتوں کو کھا کر حاصل ہوگی.اگر تم نماز ھتے ہو مگر تمہیں اعلیٰ لذت حاصل نہیں ہوتی تو جب تم جنت میں وہ پھل کھاؤ گے جو نماز کے بدلہ میں تمہیں ملے گا تو اُس کے کھانے میں بھی تمہیں وہ لذت حاصل نہیں ہوگی جو اعلیٰ طور پر نماز ادا کرنے والے کو حاصل ہوتی ہے.اور اگر تم روزہ رکھتے ہو مگر روزہ میں تمہیں اعلیٰ لذت نہیں آتی تو تمہیں جنت کا پھل کھانے سے بھی اعلیٰ لذت نہیں حاصل ہو گی.پس وہاں جو بھی نعمتیں دی جائیں گی وہ متشابہہ ہوں گی.وہ متشابہہ ہوں گی آپس میں بھی اور وہ متشابہہ ہوں گی انسان کے روحانی اعمال سے بھی.بظاہر یہ معلوم ہوگا کہ جیسا آم زید کے ہاتھ میں ہے ویسا ہی آم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں ہے مگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آم کی اور لذت ہوگی اور زید کے آم کی اور لذت ہو گی.دُنیا میں ہی دیکھ لو، بظاہر دو آم ایک جیسے دکھائی دیتے ہیں مگر ایک آم کے کھانے سے تو لذت محسوس ہوتی ہے اور دوسرا آم وہ ہوتا ہے جس میں کیڑے پڑے ہوئے ہوتے ہیں اور جو سخت ترش اور بد بودار ہوتا ہے.حتی کہ اگر انسان اسے کھالے تو ہیضہ ہونے کا ڈر ہوتا ہے.اسی طرح جنت کے پھل متشابہہ ہوں گے آپس میں بھی اور متشابہہ ہوں گے ہر انسان کی روحانی کیفیات سے بھی اور با وجود اس کے کہ تمام جنتی جنت میں ہی ہوں گے.وہ جنتی جس نے دُنیا میں اعلیٰ طور پر نمازیں نہیں پڑھی ہوں گی جب وہ پھل کھائے گا تو اسے اس پھل کا بھی اعلیٰ مزہ نہیں آئے گا اور وہ کہے گا هذا الذي رزقنا من قبل.یہ تو وہی نماز میرے آگے آگئی ہے جو میں دُنیا میں پڑھا کرتا تھا.بے شک جنت میں حسرت نہیں ہوگی مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ
۴۹۹ خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء درجات کی بلندی اور کمی کا احساس ضرور ہو گا اسی لئے جنتی کچھ عرصہ کے بعد زیادہ اعلیٰ مرتبہ کے حصول کے خواہش کریں گے اور خدا اپنے فضل سے وہ انہیں دے دے گا لیکن بہر حال ان پھلوں میں انہیں ویسا ہی مزہ معلوم ہوگا جیسا مزہ انہیں دنیا میں روحانی عبادات کے بجالاتے وقت حاصل ہوا.اگر انہوں نے نماز روزوں کو عمدگی سے ادا کیا ہوگا تو ان کا پھل انہیں پوری لذت دے گا اور اگر انہوں نے بے دلی کے ساتھ ان کو ادا کیا ہوگا تو جنت کے پھلوں میں بھی انہیں اعلیٰ مدارج کے لوگوں سے کم مزہ آئے گا.یہ نکتہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتایا ایسا عظیم الشان ہے کہ اس سے اعمال میں ایک تغیر عظیم پیدا ہو جاتا ہے.ورنہ یہ معنے کہ جیسے دنیا میں آم ملتے ہیں اسی قسم کے آم جنتیوں کو ملیں گے یا متواتر انہیں ایک ہی قسم کے پھل کھانے کے لئے دیئے جائیں گے ایسے ہیں کہ جن کو عقل تسلیم نہیں کرتی اور جو یوں بھی اسلام اور قرآن کی تعلیم کے خلاف ہیں.عمل کا وسیع میدان پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان معنوں نے ہمارے لئے عمل کا ایک وسیع میدان کھول دیا ہے.ان معنوں کو سمجھ لینے کے بعد جب ہم نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوں گے فوراً ہمیں خیال آئے گا کہ ہم نماز ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں ، خشوع و خضوع سے پڑھیں، رقت اور سوز اپنے اندر پیدا کریں تا جب اس کی جزا ہمیں ملے تو ہم خوش ہوں، ایسا نہ ہو کہ وہ پھل کھا کر ہمیں کوئی لذت نہ آئے.اسی طرح جب ہم چندہ دینے لگیں گے فوراً ہمیں یہ خیال آئے گا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی کے حصول کے لئے بشاشت کے ساتھ چندہ دیں ورنہ کسیلے، بدمزہ اور گل گھوٹو بیروں کی طرح ہمیں اس کا بدلہ ملے گا.تو ان معنوں سے ہماری نیتوں اور ہمارے اعمال میں ایک عظیم الشان تبدیلی پیدا ہو سکتی ہے اور یہ آیت ایک ایسا زبردست محرک ہے جو ہر وقت ہمیں اپنے اعمال کی اصلاح پر آمادہ رکھ سکتا ہے.ہم نمازیں پڑھنے لگیں گے تو فوراً یہ آیت سامنے آ جائے گی، روزہ رکھنے لگیں گے تو یہ آیت سامنے آ جائے گی ، چندہ دینے لگیں گے تو یہ آیت سامنے آجائے گی ، زکوۃ دینے لگیں گے تو یہ آیت سامنے آ جائے گی ، حج کرنے لگیں گے تو یہ آیت سامنے آ جائے گی اور ہم فورا سنبھل جائیں گے
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء اور کہیں گے کہ ہم جس طرح اس جہان میں کام کریں گے اُسی طرح اگلے جہان میں ہمیں اس کا بدلہ ملے گا.اگر ہم اس جہان میں اپنے اعمال میں مٹھاس بڑھائیں گے تو جنتی پھلوں کی مٹھاس بھی ہمارے لئے بڑھ جائے گی اور اگر ہم ان اعمال میں کسی قدر کڑواہٹ داخل کر لیں گے تو اسی نسبت سے جنت کے پھلوں میں بھی کڑواہٹ آ جائے گی.تو اصلاح اعمال کے لحاظ سے یہ آیت ہمارے لئے ایک بڑا بھاری محرک ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان معنوں کو ہمارے سامنے لا کر عمل کی دنیا کو ہی بدل دیا ہے بلکہ اگر ہم زیادہ غور کریں تو عمل کی دنیا میں ہماری زمین اور آسمان بالکل نیا بن جاتا ہے کیونکہ ہر کام کرتے وقت یہ امر ہمارے مدنظر ہوگا کہ اسی عمل نے اگلے جہان میں متشکل ہو کر ہمارے سامنے آنا ہے.یہی نمازیں ہیں جو ہمارے سامنے آئیں گی ، یہی روزے ہیں جو ہمارے سامنے آئیں گے، یہی حج ہے جو ہمارے سامنے آئے گا اور یہی چندے ہیں جو ہمارے سامنے آئیں گے.اگر انسان یہ خیال نہ کرے بلکہ یہ خیال کرے کہ مجموعی طور پر نماز ، روزہ ، زکوۃ اور حج کا بدلہ مل جائے گا تو یقیناً اس کی طبیعت پر اتنا اثر نہیں ہوسکتا جتنا اثر اس امر سے ہو سکتا ہے کہ یہی اعمال اگلے جہان میں متشکل کر کے تمہارے سامنے پیش کر دیئے جائیں گے.اگر یہ صورت نہ ہوتی اور کہا جاتا کہ مثلاً تمام عبادات کو ملحوظ رکھتے ہوئے مجموعی طور پر اس قدر انعام دیا جائے گا تو انسان خیال کر لیتا ہے کہ میرے لئے جُزوی طور پر عمل کی نگہداشت ضروری نہیں لیکن موجودہ صورت میں ہر انسان اس بات پر مجبور ہے کہ وہ اپنے عمل کا جائزہ لے اور ہر وقت جائزہ لے.کیونکہ یہی اعمال ہیں جنہوں نے اس کے سامنے پیش ہونا ہے.اگر اچھے اعمال ہوں گے تو اچھے پھل ملیں گے اور اگر اعمال میں نقص ہوگا تو ان پھلوں میں بھی ویسا ہی نقص ہوگا جو اس کو اگلے جہان میں ملیں گے.پس ہمیں اپنی اصلاح کر کے اپنے اندر نیکی اور تقویٰ پیدا کرنا چاہئے اور ہر عمل کے کرتے وقت ہمیں اس نکتہ کو مدنظر رکھنا چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ ہمارا قدم آگے کی طرف بڑھے پیچھے کی طرف نہ ہے.میری زندگی میں یہ پہلا موقع ہے کہ تحریک جدید کے اس سال کے وعدے پہلے سالوں کی نسبت کم رہے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ جو بلی کے شور اور نمائش کی وجہ سے
خطابات شوری جلد دوم ۵۰۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء ہماری جماعت کے دوستوں میں کسل پیدا ہو گیا ہے اور وہ خیال کرنے لگ گئے ہیں کہ اب انہیں آرام کرنا چاہئے حالانکہ جہاں انسان کو آرام کا خیال آیا وہیں انسان کو یہ خیال کر لینا چاہئے کہ اب اس کے ایمان کے ضائع ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے.میرے پاس ایک دفعہ ایک اباحتی قسم کا آدمی آیا اور کہنے لگا اگر انسان دریا میں کشتی پر سوار ہو اور وہ اپنے دوست سے ملنے جارہا ہو تو آپ بتائیں کہ جب کنارہ آجائے تو آیا وہ اُتر پڑے یا کشتی میں ہی بیٹھا ر ہے؟ جو نہی اس نے سوال کیا معا میں سمجھ گیا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز اور روزہ وغیرہ تو اِس لئے ہیں کہ انسان کو خدا مل جائے پس اگر کسی کو خدامل جائے تو اُسے نماز اور روزہ کی کیا ضرورت ہے مگر اُس نے خیال کیا کہ اُس کا یہ مفہوم میں کہاں سمجھوں گا اور میں اسے یہی جواب دوں گا کہ جب کنارہ آئے تو اتر پڑے مگر اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اس کی حقیقت کھول دی اور میں نے بجائے یہ جواب دینے کے کہ جب کنارہ آئے تو وہ کشتی سے اتر پڑے، یہ جواب دیا کہ اگر تو جس دریا میں وہ سفر کر رہا ہے اس کا کوئی کنارہ ہے تو جب کنارہ آ جائے تو بیشک اُتر پڑے.لیکن اگر اس دریا کا کوئی کنارہ نہیں تو جہاں اسے کنارے کا خیال آیا اور وہ یہ سمجھ کر کشتی سے اترا کہ کنارہ آ گیا ہے وہیں وہ ڈوبا.یہ جواب دے کر میں نے کہا اب بولو تم جس دریا کا ذکر کر رہے؟ اُس کا کوئی کنارہ ہے یا نہیں ؟ وہ کہنے لگا ہے تو وہ بے کنارہ ہی.تو اللہ تعالیٰ کی غیر محدود ہستی ہے اور غیر محدود ہستی کا عرفان اسی صورت میں انسان کو حاصل ہو سکتا ہے جب وہ بھی اپنا قدم آگے سے آگے بڑھا تا چلا جائے.اگر ہم ایک ہی مقام پر ٹھہرے رہیں تو غیر محدود ہستی کا غیر محدود شرب ہم کس طرح حاصل کر سکتے ہیں.اور جب ہم اس کا قرب حاصل نہیں کریں گے تو اس کے انعامات سے محروم رہیں گے.اور جتنا زیادہ ہم اس کے انعامات سے محروم رہیں گے اُسی قدر زیادہ ہمیں نا کامی و نامرادی ہوگی.روحانی انعامات میں پہلوں سے آگے بڑھنے کی تلقین پس ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وسعت اور رفضلوں اپنے کام کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے رات دن یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہمیں اُس کے فن سے زیادہ سے زیادہ حصہ ملے.نہ صرف اُسی قدر جو پہلی جماعتوں کو ملا بلکہ ان سے بھی بڑھ
۵۰۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء خطابات شوری جلد دوم کر ہمیں اس کے انعامات حاصل ہوں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کوئی آدمی پیدا نہیں ہو سکتا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ جو بھی اصلاح ہوگی وہ دراصل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کی ہی تأثیر ہو گی لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہماری جماعت کو اپنی جماعت قرار دیا ہے.احمق اور نادان کہتے ہیں کہ تم اپنے آپ کو صحابہ کا مثیل کہتے ہو مگر ہم ان احمقوں اور نادانوں کو کہتے ہیں کہ اگر تم ابو جہل کے مثیل بن سکتے ہو تو ہم ابوبکر اور عمرہ کے مثیل کیوں نہیں بن سکتے.اور پھر ہم تو وہی کچھ کہتے ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا.آپ نے ایک دفعہ صحابہ کو مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا میں نہیں جانتا میری اُمت کا پہلا حصہ زیادہ اچھا ہے یا آخری حصہ زیادہ اچھا ہے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ جس امید اور یقین کے ساتھ بھرے ہوئے ہیں وہ ان الفاظ سے پھوٹ پھوٹ کر ظاہر ہو رہی ہے.آپ نے ان الفاظ کے ذریعہ تم کو مخاطب کیا ہے اور فرمایا ہے کہ اے میرے آخری زمانہ کے صحابہ! اگر تم اپنے مقام اور درجہ میں پہلے صحابہ سے بڑھنا چاہتے ہو تو تم بڑھ سکتے ہو کیونکہ تمہارے لئے بھی ویسا ہی راستہ کھلا ہے جیسے ان کے لئے کھلا تھا.اگر تم بڑھو تو تم بڑھ سکتے ہو اور اگر تم نہ بڑھو تو یہ تمہاری اپنی کوتا ہی ہوگی ورنہ راستہ تمہارے لئے کھلا ہے.انعامات تمہارے سامنے ہیں اور تم اگر چاہو تو تم پہلوں سے بھی آگے نکل سکتے ہو.کس قدر امید افزا الفاظ ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائے کہ میں نہیں جانتا میری اُمت کا پہلا حصہ اچھا ہے یا آخری حصہ اچھا ہے.ان الفاظ کے ذریعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کی جماعت کی ہمت کو بلند کر دیا اور آپ نے انہیں بتایا کہ تم مت سمجھو کہ جس قدر درجات تھے وہ پہلے لوگ لے چکے اتنے ہی درجات خدا تعالیٰ کے پاس تھے.یہ نہیں بلکہ تمہارے لئے بھی ان مقامات کے حصول کا دروازہ کھلا ہے اور تم اگر چا ہو تو نہ صرف ان مقامات کو حاصل کر سکتے ہو بلکہ ان سے بھی آگے بڑھ سکتے ہو.لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ تمام درجات اپنے باپ دادا کو دے دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب ان سے بڑا کوئی نہیں ہو سکتا.پیغامیوں کو بھی یہی ٹھوکر لگی اور انہوں نے اور تو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درجہ کو بھی گھٹانے کی کوشش کی.چنانچہ ایک غیر مبائع نے
خطابات شوری جلد دوم ۵۰۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء ایک دفعہ ایک مضمون میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق بہت بڑا تعریفی کلمہ یہ استعمال کیا کہ ؎ بعد از علی بزرگ توئی قصہ مختصر کہ حضرت علی کے بعد آپ کا ہی مقام ہے.چونکہ امت محمدیہ میں اس قسم کے لوگوں نے بھی پیدا ہونا تھا جنہوں نے لوگوں کی ہمتوں کو پست کر دینا تھا، ان کی امنگوں کو کچل دینا تھا، ان کے حوصلوں کو دبا دینا تھا، ان کی خواہشات کو مُردہ بنا دینا تھا اور آسمانِ روحانی کی فضاء میں اڑنے والے پرندوں کو پنجروں میں محبوس کر دینا تھا اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پنجروں کی تیلیوں کو توڑ دیا، ان کے دروازں کو کھول دیا اور فرمایا میں نہیں جانتا میری اُمت کا پہلا حصہ بہتر ہے یا آخری حصہ.اس طرح آپ نے یہ اعلان کر دیا کہ اے میرے امت کے لوگو! اگر تم ابو بکر سے اوپر اڑنا چاہو تو تم ابو بکڑ سے بھی اوپر اڑ سکتے ہو، اگر تم عمرؓ سے اوپر اُڑنا چاہو تو تم عمر سے بھی اوپر اڑ سکتے ہو، اگر تم عثمان سے اوپر اُڑ نا چاہو تو تم عثمان سے بھی اوپر اڑ سکتے ہو اور اگر تم علی سے اوپر اُڑنا چاہو تو تم علی سے بھی اوپر اڑ سکتے ہو میں نے تمہارے لئے دروازہ کھول دیا ہے.اب اگر تم خود باہر نکل کر فضائے آسمانی میں نہ اُڑ و تو یہ تمہارا قصور ہے میرا قصور نہیں.حضرت ابوبکر کی خدمات پس محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تم پر وہ احسان کیا ہے جس کی کوئی حد نہیں کیونکہ ظاہری طور پر وہ لوگ جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جسمانی وجود کے ساتھ مل کر اعلاء کلمتہ اللہ میں عمر بسر کی اس بات کا حق رکھتے تھے کہ انہیں انعامات کا اولین حق دار قرار دیا جاتا اور بعد میں آنے والوں کو اُن کے نیچے رکھا جاتا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا حالانکہ اُس زمانہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ابوبکر کے کام کی جو عظمت تھی وہ کسی اور کے کام کی عظمت نہیں تھی.آپ جانتے تھے کہ کس طرح ابتداء سے یہ میرے ساتھ رہا اور کس طرح اس نے میری اعانت اور فرمانبرداری میں اپنے آپ کو بالکل مٹا ڈالا.چنانچہ وہ جذبات کی کیفیت جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمات سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں پیدا تھی اُس کا اِس بات سے ثبوت ملتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ میں
خطابات شوری جلد دوم ย ۵۰۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء لڑائی ہوگئی.حضرت ابو بکر حق پر تھے اور حضرت عمرؓ اس لڑائی میں حق بجانب نہیں تھے مگر حضرت عمر چونکہ تیز طبیعت انسان تھے اس لئے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب وہاں سے ہٹنا چاہا تو حضرت عمرؓ نے یہ سمجھا کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس میری شکایت کرنے چلے ہیں.چنانچہ انہوں نے زور سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا دامن کھینچا کہ ٹھہرمیں بات تو سنیں.مگر اس جھٹکے سے حضرت ابوبکر" کا کرتہ پھٹ گیا اور وہ وہاں سے چل پڑے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں خیال آیا کہ وہ ضرور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس میری شکایت کرنے گئے ہیں حالانکہ وہ شکایت کرنے نہیں بلکہ اپنے گھر گئے تھے مگر بہر حال اس خیال کے آنے پر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑے.اتنے میں کسی نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اطلاع دی کہ حضرت عمر نے آپ پر ظلم بھی کیا ہے اور پھر وہ آپ کی شکایت کرنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی پہنچ گئے ہیں.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خیال آیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے ناراض ہو گئے تو یہ اچھا نہیں ہوگا چنانچہ وہ بھی جلدی جلدی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان کی طرف چل پڑے.جب دروازے کے قریب پہنچے تو چونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پہلے پہنچ چکے تھے اس لئے بات شروع تھی اور اس دوران میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں بھی ندامت پیدا ہو چکی تھی.چنانچہ وہ کہنے لگے کہ یا رسول اللہ ! غصہ میں مجھے خیال نہ رہا اور میں نے حضرت ابوبکر پر اظہار ناراضگی کر دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ بات سنی تو آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ نے فرمایا اے لوگو! تم مجھے اور ابو بکر کو تکلیف دینے سے باز بھی آؤ گے یا نہیں؟ جب تم لوگ میری مخالفت کر رہے تھے تو اُس وقت ابوبکڑ ہی تھا جو مجھ پر ایمان لایا اور میں نے کبھی کوئی نصیحت نہیں کی جو ابو بکڑ نے نہ مانی ہو یا جس کے متعلق اس کے دل میں کوئی کبھی پائی گئی ہو بلکہ جب بھی میں نے کچھ کہا اس نے اسے مانا اور تسلیم کیا.پس کیا تم مجھے اور اسے دکھ دینے سے باز نہیں آؤ گے؟ آپ یہ الفاظ فرما ہی رہے تھے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پہنچ گئے اور انہوں نے پہنچتے ہی اپنی اس نیکی کا تازہ بتازہ ثبوت بہم پہنچا دیا جس کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی ذکر فرما رہے تھے.چنانچہ وہ آئے تو اس نیت سے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ عرض کریں کہ عمر نے ان پر ظلم کیا ہے مگر
خطابات شوری جلد دوم ۵۰۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء جب انہوں نے دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر پر ناراض ہو رہے ہیں تو انہوں نے جھٹ اپنے گھٹنے ٹیک دیئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! قصور میرا ہی تھا عمرؓ کا قصور نہیں تھا.تو ان لوگوں کی خدمات اور قربانیوں کو اگر دیکھا جائے تو واقعہ میں ان کا پایہ نہایت بلند معلوم ہوتا ہے.انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ایسا عشق تھا جس کی نظیر تاریخ کے صفحات میں نظر نہیں آتی.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں باتیں ہو رہی تھیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ان کے ایک بیٹے نے جو بعد میں مسلمان ہوئے کہا کہ ابا فلاں جنگ کے موقع پر جب آپ فلاں جگہ سے گزرے تھے تو اُس وقت میں ایک پتھر کے پیچھے چھپا بیٹھا تھا اور اگر چاہتا تو آپ پر حملہ کر کے آپ کو ہلاک کر سکتا تھا مگر مجھے خیال آیا کہ اپنے باپ کو کیا مارنا ہے.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب یہ بات سنی تو کہا تیری قسمت اچھی تھی کہ تُو مجھے دکھائی نہیں دیا.ورنہ اگر تو مجھے دکھائی دیتا تو خدا کی قسم! میں تجھے ضرور قتل کر دیتا.یہ وہ جذبہ محبت ہے جو صحابہ کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے متعلق تھا کہ انہوں نے آپ کی محبت کے مقابلہ میں نہ بیٹے کی محبت کی پرواہ کی ، نہ بیوی کی محبت کی پرواہ کی ، نہ عزیزوں اور دوستوں کی محبت کی پرواہ کی.صحابہ کا جذبہ عشق اسی طرح صحابہ کے جذ بہ عشق کا اظہار اس واقعہ سے بھی ہوتا ہے کہ جب جنگ موتہ ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید کو اسلامی فوج کا سپہ سالار مقرر فرمایا اور ہدایت کی کہ اگر زیڈ مارے جائیں تو حضرت جعفر کو ( جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی تھے ) سپہ سالار مقرر کر لیا جائے اور اگر جعفر بھی مارے جائیں تو عبد اللہ بن سرخ کو سپہ سالار مقرر کر لیا جائے اور اگر وہ بھی مارے جائیں تو پھر مسلمان جس کو چاہیں اپنا افسر مقرر کر لیں لیے چنانچہ جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا بعینہ ویسا ہی ہوا.زیڈ بھی شہید ہو گئے ، جعفر بھی شہید ہو گئے اور عبد اللہ بن سرخ بھی شہید ہو گئے.آخر صحابہؓ نے حضرت خالد بن ولیڈ کو اپنا افسر مقرر کیا اور وہ بغیر کسی مزید نقصان کے مسلمانوں کے لشکر کو واپس لانے میں کامیاب ہو گئے.چونکہ اس جنگ میں علاوہ ان اسلامی جرنیلوں کے اور بھی بہت سے مسلمان شہید ہو گئے تھے اس
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء لئے جب مدینہ میں یہ خبر پہنچی تو گھر گھر کہرام مچ گیا اور شہداء کے بیوی بچوں اور رشتہ داروں نے رونا شروع کر دیا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ مین نہیں ڈالتے تھے مگر ابھی تک مین ڈالنے سے اسلام نے پوری طرح رو کا بھی نہیں تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُس دن اپنے گھر سے کسی کام کو نکلے مگر آپ جس گلی میں سے گزرے اتفاقاً اس میں کئی شہادتیں ہوئی تھیں اور ہر گھر میں سے رونے کی آواز آ رہی تھی مگر جب آپ حضرت جعفر کے مکان کے پاس سے گزرے تو وہ چونکہ مہاجر تھے اور اُن کا کوئی رشتہ دار مدینہ میں موجود نہیں تھا اس لئے جعفر کے گھر سے کسی کے رونے کی آواز نہ آئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اظہار محبت کے لئے کہا کہ جعفر کے گھر سے تو رونے کی کوئی آواز نہیں آرہی.صحابہ نے جب یہ فقرہ سنا تو انہوں نے فوراً اپنے اپنے گھروں میں جا کر عورتوں کو کہہ دیا کہ جاؤ اور جعفر کے گھر روؤ.چنانچہ ساری عورتیں اپنے اپنے گھروں کو چھوڑ کر جعفر کے گھر اکٹھی ہو گئیں اور ان سب نے مل کر رونا شروع کر دیا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے رونے کی آواز پہنچی تو آپ نے فرمایا یہ کیا ہوا؟ صحابہ نے کہا یا رسول اللہ ! آپ نے جو فر مایا تھا کہ جعفر پر کوئی رونے والا نہیں ہم نے اپنی عورتوں کو ہدایت کر دی ہے کہ وہ اپنے رشتہ داروں پر نہ روئیں بلکہ جائیں اور جعفر کے گھر روئیں یا در حقیقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ منشا نہیں تھا کہ عورتیں جعفر کے گھر اکٹھی ہو کر رونا شروع کر دیں بلکہ آپ یہ بتانا چاہتے تھے کہ جب میرا ایک رشتہ دار بھی شہید ہوا ہے اور ہم سب نے اس پر صبر سے کام لیا ہے تو تمہیں بھی صبر کرنا چاہئے مگر صحابہ کے دلوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جو محبت تھی اس نے انہیں یہ سوچنے کا موقع نہیں دیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیا چاہتے ہیں بلکہ اُنہوں نے فوراً عورتوں سے کہہ دیا کہ اپنے غم کو بھلا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غم میں شریک ہو جاؤ.اس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ ان کے دلوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیسا عشق تھا کہ وہ یہ فقرہ سن کر ہی کہ جعفر کے گھر سے تو رونے کی کوئی آواز نہیں آرہی یہ خیال کر لیتے ہیں کہ انہوں نے اپنے رشتہ داروں کی شہادت پر رو کر غلطی کی ، اصل غم تو وہی ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچا.بظاہر یہ ایک چھوٹا سا واقعہ ہے مگر جذبات کے اظہار کے لئے اس سے بہتر واقعات
خطابات شوری جلد دوم ۵۰۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء بہت کم مل سکتے ہیں.یہ وہ لوگ تھے جن کی خدمات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تھیں.جن کی قربانیاں ہر لمحہ اور ہر آن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کے سامنے ہوا کرتی تھیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ لوگ ایسی محبت رکھتے تھے کہ جس کی نظیر کسی ڈ نیوی رشتے میں نہیں مل سکتی.پس اگر دنیا کے لحاظ سے دیکھا جائے ، اگر احساسات کے لحاظ سے دیکھا جائے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ان لوگوں کے خیالات کی پاس داری زیادہ ہونی چاہئے تھی اور ہماری نسبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کم ہونی چاہئے تھی لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی غیر محدود محبت نے (جہاں تک انسانی محبت غیر محدود ہوسکتی ہے ) یہ پسند نہ کیا کہ وہ تمہاری ہمتوں کو پست ہونے دیں بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نے یہ بھی پسند نہ کیا کہ وہ درمیانی اُمت کی ہمت کو پست ہونے دیں.چنانچہ ایک مجلس میں آپ نے بعد میں آنے والے لوگوں کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا کہ میرے بھائی جو میرے بعد آنے والے ہیں وہ ایسے ہوں گے.صحابہ کو یہ سن کر رشک پیدا ہوگا اور انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! وہ بھائی ہوئے ہم نہ ہوئے.آپ نے فرمایا تم صحابہ ہو اور وہ میرے بھائی ہیں.تمہیں کیا یہ کم نعمت حاصل ہے کہ تم مجھے دیکھ رہے ہو اور میرے ساتھ رہ کر خدمات دینیہ بجالا رہے ہو؟ وہ لوگ جو مجھے نہیں دیکھیں گے اور وہ لوگ جو میرے بعد آئیں گے مجھے کوئی لفظ ان کے متعلق بھی تو بولنے دو تا انہیں بھی تسلی ہو اور ان کے حوصلے بھی بلند ہوں چنانچہ دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے حوصلے کس قدر بڑھا دیئے ہیں کہ آپ نے فرمایا میں نہیں جانتا میری امت کا پہلا حصہ بہتر ہے یا آخری حصہ بہتر ہے.پس تمہارے دلوں میں یہ کبھی خیال نہ آئے جیسا کہ پیغامی یا ملا طبع لوگ کہا کرتے ہیں کہ تم صحابہ سے نہیں بڑھ سکتے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہاری پیٹھوں پر تھپکی دی ہے اور تمہیں محبت اور پیار سے کہا ہے کہ اے میرے عزیز و! اور اے میری جماعت کے لوگو! تم پست ہمت مت بنو.لوگ تمہارے لئے مختلف قسم کے جیل خانے بنا ئیں گے اور کئی قسم کے پنجرے تیار کریں گے جن میں تم کو محبوس کرنے کی کوشش کریں گے مگر میں ان پنجروں کی تیلیوں کو معنوی طور پر ابھی سے توڑ دیتا ہوں اور ان کے دروازوں کو کھول دیتا ہوں.آؤ اور باہر نکلو اور آسمان روحانی کی فضا کی طرف پرواز کرو اور یہ سمجھ لو کہ تم جتنا اونچا چاہو
خطابات شوری جلد دوم ۵۰۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء پرواز کر سکتے ہو بلکہ اگر چاہو تو صحابہ سے بھی آگے نکل سکتے ہو.اتنی عظیم الشان نعمت کے موجود ہوتے ہوئے اگر ہم شستی سے کام لیں اور اپنے فرائض کی بجا آوری میں کوتا ہی کریں تو ہماری بدقسمتی میں کیا شبہ ہوسکتا ہے.پس اے عزیزو! ان باتوں کو یاد رکھو.خدا نے تمہاری ترقیات کے دروازے ایک انتباہ کھول رکھے ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فیوض تم تک پہنچانے میں بخل سے کام نہیں لیا.اُس نے تم پر وہ عظیم الشان احسان کیا ہے جس کا بدلہ تم اُتارنے کی قطعاً ہمت نہیں رکھتے.مگر وہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم جن کے تم پر اس قدر احسانات ہیں اگر میں حقیقت کو ننگے الفاظ میں بیان کروں تو میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ مثالی طور پر وہ ہمارا محسن ، وہ سب دنیا کا محسن اللہ تعالیٰ کے سامنے ایک مظلوم فریادی کے طور پر کھڑا ہے اور اس کی فریا دکو پہنچانے کا کام اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے.اب تمہارا یہ کام ہے کہ تم اس عظیم الشان محسن کے نام کو دنیا کے کونوں تک پہنچاؤ اور اُس کے لائے ہوئے دین کی اشاعت کے لئے ہر قسم کی قربانیوں میں حصہ لو.اگر تم اس عظیم الشان کام کی سرانجام دہی میں مستی سے کام لو گے تو تم خدا تعالیٰ کے بہت بڑے الزام کے نیچے آؤ گے.اتنے بڑے الزام اور اتنی بڑی سزا کے نیچے کہ دل اُس کے تصور سے کانپ جاتا ہے.پس آؤ ہم خدا تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعا کریں اور اس سے کہیں کہ اے خدا! ہم پر رحم کر، رحم کر، رحم کر اور اُس عذاب سے بچا جو ہمیں تیرے سامنے اور تمام اولین و آخرین کے سامنے شرمندہ کرنے والا ہو اور اپنا فضل نازل کر کے ہم مُردہ روحوں کو زندگی بخش اور ہمیں اپنے فرائض کی ادائیگی کی توفیق عطا فرما تا کہ ہم کہہ سکیں کہ ہم نے وہ فرض ادا کر دیا جو تیری طرف سے ہم پر عائد کیا گیا تھا اور ہم پہلی اُمتوں کے سامنے بھی فخر کے ساتھ اپنی گردن اونچی کر کے کہہ سکیں کہ جو فرض خدا اور اس کے رسول نے ہمارے ذمہ لگایا تھا ہم نے اسے پورا کر دیا.پس آؤ ہم اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعائیں کرتے اور اُس سے اُس کا فضل اور رحم مانگتے ہوئے اس نیت اور اس ارادہ کے ساتھ اپنے گھروں کو رخصت ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا میں نیکی اور تقویٰ پھیلانے کا ذریعہ بنائے اور ہم سے وہ کام لے جس سے ہمیں اس کی
خطابات شوری جلد دوم رضا اور خوشنودی حاصل ہو.اَللَّهُمَّ مِينَ " 66.مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء ( رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء ) صحيح مسلم كتاب الامارة باب النهى عن طلب الامارة والحرص عليها البقرة : ۲۱۵ السيرة النبوية لابن هشام المجلد الاول الجزء الثاني.المكتبه التجاريه تحقيق محمد فهمى السرجانى بكلية الشريعة و القانون جامعه الازهر.صفحه ۱۳۶ بخاری کتاب المغازی باب غزوہ بدر صحيح مسلم كتاب الجهاد باب غزوة حنين البقرة : ٢٦ کے مسند احمد بن حنبل باب مسند ابى هريرة جلد ۲ صفحه ۶۰۳ دار الاحياء التراث العربي الطبعة الثالثة بيروت لبنان ١٩٩٤ء كنز العمال جلد ۱۲ صفحه ۱۵۴.مكتبه التراث الاسلامي حلب الطبعة الاولى ١٩٧٤ء ا كنز العمال جلد ۱۰ صفحه ۱۹۳.دار الكتب العلمية بيروت لبنان الطبعة الاولى ١٩٩٨ء بخارى كتاب المغازی باب غزوة موته ۱۲ سنن ابن ماجه كتاب الجنائز باب ماجاء في البُكَاءِ عَلَى الْمَيِّتِ کنز العمال جلد ۱۲ صفحه ۱۸۳.مكتبة التراث الاسلامي حلب الطبعة الاولى ۱۹۷۴ء كنز العمال جلد ۱۲ صفحه ۱۵۴.مكتبة التراث الاسلامي حلب الطبعة الاولى ۱۹۷۴ء
خطابات شوریٰ جلد دوم ۵۱۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء ( منعقده ۱۱ تا ۱۳ / اپریل ۱۹۴۱ء) پہلا دن ار اپریل ۱۹۴۱ء کو ۳ بج کر ۳۵ منٹ پر مجلس مشاورت کا افتتاحی اجلاس تعلیم الاسلام دعا ہائی سکول قادیان میں منعقد ہوا.اجلاس کے آغاز میں دُعا سے متعلق حضرت مصلح موعود نے فرمایا: - چونکہ اب مجلس مشاورت کا اجلاس شروع ہونے والا ہے اس لئے حسب سابق اجلاس شروع ہونے سے پہلے میں دُعا کروں گا.سب دوستوں کو چاہئے کہ وہ میرے ساتھ دعا میں شریک ہو جائیں.جیسا کہ میں ابھی خطبہ جمعہ میں بیان کر چکا ہوں ایک کمزور اور بے سروسامان کا سہارا صرف دُعا ہی ہے.بچہ جو نہ دوڑ سکتا ہے.نہ مارسکتا ہے اور نہ اپنا بچاؤ کر سکتا ہے وہ اپنی حفاظت کی صرف ایک ہی صورت جانتا ہے اور وہ یہ کہ وہ دوڑ کر اپنی ماں کی گود میں چُھپ جاتا ہے کیونکہ اُس کو اپنی ماں پر یقین ہوتا ہے.مائیں خود اپنی ذات میں ایک کمزور چیز ہیں خصوصاً ہمارے ملک کی عورتیں تو نہ لڑنا جانیں اور نہ ہی بھاگنا جانیں.انہیں اگر کچھ آتا ہے تو کو سنا آتا ہے مگر کو سنے سے دُنیا میں کچھ نہیں ہوتا بلکہ حفاظت کے ذرائع اختیار کرنے سے کام بنتا ہے.اور انسانی حفاظت کے جو ذرائع ہیں ان سے ہماری عورتیں طبعی طور پر بھی اور تربیتی طور پر بھی محروم ہوتی ہیں مگر باوجود اس کے بچہ ہر مصیبت اور مشکل کے وقت اپنی ماں کی گود میں پناہ لیتا ہے کیونکہ اُسے اپنی ماں پر یقین ہوتا ہے.کسی دلیل کی بناء پر نہیں، کسی برہان کی بناء پر نہیں، کسی مشاہدہ کی بناء پر نہیں بلکہ محض اس
خطابات شوری جلد دوم ۵۱۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء لئے کہ وہ اُس کی ماں ہے.مگر وہ ذات جس کی گود میں ہمیں چھپنے اور پناہ لینے کے لئے کہا گیا ہے وہ تو نہ صرف ہمارے باپ اور ہماری ماں سے بہت زیادہ ہمارے قریب ہے بلکہ دلیل اور برہان اور مشاہدہ اُس کی طاقت اور قوت پر گواہ ہے.اگر ایک نادان بچہ اپنے یقین اور وثوق کا یہ نمونہ دکھا سکتا ہے کہ ہر خطرہ اور مصیبت کے وقت وہ اپنی ماں پر اعتبار کو ترک نہیں کرتا تو کیسا بد قسمت ہے وہ مومن کہلانے والا انسان جو خطرہ اور مصیبت کے وقت پنے خدا کی گود میں نہیں جاتا حالانکہ بچہ کو اُس کی ماں کی گود میں جو امان مل سکتی ہے اُس سے نہیں، کہیں اور کہیں زیادہ مومن کو خدا تعالی کی گود میں امان ملتی ہے.پھر نہ معلوم کیوں وہ اس میں کوتاہی کرتا ہے، کیوں اس کا ایمان ڈگمگا جاتا ہے اور کیوں اُس کے ایمان میں تزلزل پیدا ہو جاتا ہے.اگر ایسا نہ ہو اور انسانی ایمان میں خطرات کے آنے پر تزلزل پیدا نہ ہو تو یقیناً خدا کی گود میں آئے ہوئے انسان کو کوئی شخص بر باد نہیں کرسکتا.پس خدا ہی ہے جو ہر قسم کے خطرات کو دُور کر کے کامیابی عطا کرتا ہے اور اُس کی گود ہی ہے جہاں مومن کو پناہ ملتی ہے.اس وقت ہمارے سامنے ایک عظیم الشان کام ہے اور بہت بڑی رکاوٹیں ہیں جو اس میں حائل ہیں.ہماری منزل بہت بعید ہے اور ہماری کوششوں کی رفتارا بھی زیادہ تیز نہیں.پھر ہمارے راستہ میں اتنے خطرات اور اتنی عظیم الشان مشکلات ہیں کہ کوئی انسانی طاقت ان کو حل نہیں کر سکتی اور کوئی انسانی قدم خود بخود ان کو طے نہیں کر سکتا سوائے اِس کے کہ قادر مطلق اور رحیم و کریم خدا ہمیں اپنی گود میں اُٹھا کر منزلِ مقصود تک پہنچا دے اور ہماری مشکلات کو خود اپنے فضل سے دور فرما دے.پس آؤ ہم سچے دل اور خشوع و خضوع کے ساتھ اپنے رب کے حضور دُعا کریں کہ وہ ہماری کمزوریوں پر رحم کرتے اور ہماری کوتاہیوں سے چشم پوشی فرماتے ہوئے ہمیں صحیح تدبیریں سمجھائے اور کامیابی کے لئے صحیح سامان عطا فرمائے تا کہ ہماری کمزور یاں ہمارے مقاصد کے پورا ہونے میں روک نہ ہوں اور اس کے فضل ہماری اُمیدوں سے بڑھ کر ہمارے مقاصد کو پورا کرنے والے ہوں.تا دنیا کو یہ معلوم ہو جائے کہ ہمارا خدا زندہ خدا ہے جو مر دوں کو زندہ اور کمزوروں کو طاقت عطا کرنے والا ہے.6❝
خطابات شوری جلد دوم ۵۱۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء افتتاحی تقریر تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد افتتاحی تقریر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے فرمایا : - نمائندگان شورای کی حد بندی ”جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے اس سال نمائندگان کے انتخاب کو بعض خاص شرائط عائد کر کے محدود کر دیا گیا ہے یعنی جماعتوں کو اب اس طرح کی آزادی حاصل نہیں رہی کہ وہ اپنی جماعتوں میں سے جتنے نمائندے چاہیں بھجوا د میں بلکہ حد بندی کر دی گئی ہے اور جوں جوں ہماری جماعت ترقی کرے گی اس کے ساتھ ساتھ یہ پابندیاں شاید اور بھی بڑھانی پڑیں گی.بلکہ شاید کیا یقیناً ایسا وقت آئے گا جب بجائے جماعتوں کے مختلف اضلاع بلکہ صوبوں سے نمائندے منتخب کرنے پڑیں گے کیونکہ کوئی مجلس شوری ایسی وسیع نہیں ہو سکتی کہ ہزاروں لاکھوں آدمی اس میں بلائے جاسکیں.جب خدا ہماری جماعت کو ساری دُنیا میں پھیلا دے گا تو اُس وقت ضلعوں اور صوبوں بلکہ مختلف ملکوں کے نمائندے ہی لئے جائیں گے ہر جماعت سے نمائندہ نہیں لیا جا سکے گا.پس اس پابندی پر جماعتوں کو بُرا نہیں منانا چاہئے.یہ ایک مجبوری ہے اور یہ مجبوری اب بڑھتی ہی جائے گی لیکن بہر حال جب تک چھوٹی جماعتوں کو اپنے نمائندے بھیجنے کا حق حاصل ہے اُس وقت تک انہیں چاہئے کہ وہ اپنے اس حق سے فائدہ اُٹھا ئیں اور مجلس شوری کے موقع پر بہترین نمائندے منتخب کر کے بھیجا کریں.مگر میں دیکھتا ہوں جہاں ایک حصہ مخلصین کا ایسا ہے جس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اُس کے نمائندے قابل ہوں وہاں بعض جماعتیں ایسی ہیں جن کے نمائندے مجبوری کے نمائندے ہوتے ہیں یعنی اُن کے دلوں میں مجلس شوری کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی.وہ صرف یہ پوچھ لیتے ہیں کہ کسی کا قادیان جانے کا ارادہ تو نہیں؟ اور جب کوئی شخص کہہ دے کہ میرا ارادہ قادیان جانے کا ہے کیونکہ وہاں میں اپنا مکان بنانا چاہتا ہوں یا مجھے کوئی اور کام ہے تو اُسی کو اپنا نمائندہ بنا دیتے ہیں.یا مثلاً کسی نے کہا کہ میں لا ہور اور امرتسر اپنے کسی تجارتی کام کے سلسلہ میں جارہا ہوں تو اُسے ہی کہہ دیتے ہیں کہ مہربانی کر کے قادیان سے بھی ہوتے آنا اور وہاں مجلس شوری میں ہمارا نمائندہ بن جانا.بلکہ بعض نے تو نمائندگی کو ایسا ہی کا م سمجھ لیا ہے جیسے مشہور ہے کسی بنیے نے سردی کے دنوں میں دوسرے کے نہانے کو اپنا نہا نا فرض کر لیا تھا.وہ
خطابات شوری جلد دوم ۵۱۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء بھی بجائے اس کے کہ اپنی جماعت میں سے کسی کو نمائندہ بنا کر بھیجیں قادیان کے افراد کو ہی اپنا نمائندہ سمجھ لیتے ہیں.مجلس شورای کی اہمیت اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان جماعتوں کے اندر ابھی تک یہ احساس پیدا نہیں ہوا کہ یہ مجلس شوریٰ کتنی اہم ہے اور دُنیا کی آئندہ ترقی کا انحصار اس پر کس حد تک ہے.شروع شروع میں تو چونکہ جماعت کے لوگوں کو اس کی اہمیت کا بالکل ہی علم نہیں تھا، اس لئے کئی سال تک تو یہی خیال کیا جاتا تھا کہ ہمارے مشورہ دینے کا کیا فائدہ ہے.فیصلہ تو اُنہوں نے وہی کرنا ہے جو اُن کا جی چاہے گا.ہمارے ہاں چونکہ آخری فیصلہ خلیفہ کا ہوتا ہے اس لئے وہ خیال کرتے تھے کہ ہمارا کچھ کہنا یا نہ کہنا برابر ہے جب اُنہوں نے ہی فیصلہ کرنا ہے تو وہ جو جی چاہے فیصلہ کر لیں.مگر آہستہ آہستہ اب اس خیال کا زور ٹوٹ گیا ہے گوکسی قدر اب بھی پایا جاتا ہے.پہلے بالعموم یہ خیال کیا جاتا تھا کہ جو فیصلہ کرنا ہے اُنہوں نے ہی کرنا ہے اس لئے ہمارے مشورہ کی کوئی ضرورت نہیں.مگر اب ہمارے دوست اس بات کو سمجھنے لگ گئے ہیں کہ باوجود اس کے کہ خلیفہ وقت کا فیصلہ آخری ہوتا ہے پھر بھی مجلس شوری بہت اہمیت رکھتی ہے.اسی طرح اور کئی نقائص ہیں جو آہستہ آہستہ دُور ہو رہے ہیں.گواب بھی بعض دفعہ دوستوں کو یہ دورہ ہو جاتا ہے کہ وہ بلا وجہ بحث کو لمبا کر دیتے ہیں مگر جو دوست ہر سال اس مجلس میں شامل ہوتے ہیں وہ محسوس کر سکتے ہیں کہ اب اس نقص میں بھی کمی ہو رہی ہے اور زیادہ تر دوست اُسی وقت بولتے ہیں جب اُن کا بولنا مفید ہوتا ہے.اسی طرح تجربہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اب دوستوں کی رائے زیادہ صائب ہوتی ہے اور زیادہ غور اور زیادہ فکر سے تجاویز پیش کی جاتی ہیں.اسی طرح جو دوست بولنا چاہتے ہیں ، وہ محل اور موقع کے مناسب حال بولتے ہیں.غرض میں دیکھتا ہوں کہ مجلس شوری کے کاموں میں برابر ترقی ہوتی جا رہی ہے اور دوستوں پر اس کی اہمیت زیادہ سے زیادہ روشن ہو رہی ہے.اسی طرح سلسلہ کے کاموں میں حصہ لینے کا طریق بھی انہیں معلوم ہو رہا ہے.غلطیاں اب بھی ہوتی ہیں مگر بہت کم اور یہ غلطیاں بھی بعض لوگ اپنی طبیعت کی اُفتاد کی وجہ سے کرتے ہیں اور بعض سے غلطیاں اس وجہ سے ہوتی ہیں کہ وہ بھول جاتے ہیں اور بعض دفعہ چونکہ جماعت
۵۱۵ خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء میں نئے لوگ شامل ہوتے ہیں اور وہ ہمارے دستور اور طریق سے ناواقف ہوتے ہیں اس وجہ سے اُن سے غلطیاں ہو جاتی ہیں.یہی حکمت ہے جس کے ماتحت قرآن کریم میں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ لے کی دعا سکھلائی گئی ہے اور بجائے اهْدِنِی کے اخدنا کا لفظ رکھا گیا ہے.بعض لوگ غلطی سے کہہ دیتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس دعا کی کیا ضرورت تھی ، کیا آپ بھی نعوذ باللہ ہدائت سے محروم تھے کہ ہر نماز میں یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.حالانکہ انہی الفاظ میں خدا تعالیٰ نے اس اعتراض کا جواب رکھا ہوا ہے اور وہ اس طرح کہ قرآن کریم نے اهْدِنِی نہیں بلکہ اهدنا کہا ہے.اور کسی ایک فرد یا بعض افراد کو نہیں بلکہ تمام قوم کو اس میں شامل کیا ہے.پس یہ دعا تمام قوم کے لئے ہے اور دُنیا میں کبھی کوئی قوم ایسی نہیں ہوسکتی جس میں ایسے لوگ شامل نہ ہوں جنہیں سیکھنے اور علم حاصل کرنے کی ضرورت نہ ہو بلکہ ہر قوم میں ایسے نئے لوگ شامل ہوتے رہتے ہیں جنہیں تعلیم اور تربیت کی ضرورت ہوتی ہے.کبھی تو نسلوں کے ذریعہ سے اور کبھی تبلیغ کے ذریعہ سے اور جبکہ ہمیشہ قوم میں ایسے لوگ موجود رہتے ہیں جو تعلیم اور تربیت کے محتاج ہوں تو لازماً یہ دُعا بھی ہمیشہ مانگنی پڑے گی کہ الھدنا الصراط المُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.پس یہ کوئی اعتراض کی بات نہیں بلکہ اس میں یہ ایک بہت بڑا نکتہ بیان کیا گیا ہے کہ تم کبھی یہ خیال مت کرو کہ آئندہ نسلیں پیدا ہونی بند ہو جائیں گی یا نئے لوگ سلسلہ میں داخل نہیں ہوں گے.اگر کوئی جماعت تبلیغی جماعت ہو اور نئے لوگ اُس میں داخل نہ ہوں تو یہ تو اُس کی موت کی علامت ہو گی.اسی طرح اگر اولاد پیدا نہ ہو تو اس میں بھی قوم کی موت ہو گی.غرض دُنیا میں جس قدر مذہبی جماعتیں ہیں اُن میں ہمیشہ دو طریق سے نئے آدمی داخل ہوتے ہیں.ایک تو نئے آدمی اس طرح داخل ہوتے ہیں کہ وہ تبلیغ سے متاثر ہو کر نیا مذہب قبول کر لیتے ہیں اور دوسرے نئے آدمی اس طرح داخل ہوتے ہیں کہ نئی نسلیں پیدا ہوتی رہتی ہیں اور جبکہ قوموں میں ہمیشہ نئے آدمی شامل ہوتے رہتے ہیں تو کیا ان کو صراطِ مستقیم کی ضرورت نہیں کہ انسان یہ خیال کرے کہ مجھے یہ دعا مانگنے کی کیا ضرورت ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ
خطابات شوری جلد دوم صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ - ۵۱۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء پس یہ دعا قومی ترقی کے لئے ایک نہایت ہی قومی ترقی کے لئے دُعا ضروری ہے ضروری چیز ہے اور جب بھی ایک مسلمان یہ دعا مانگتا ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ تو ہر دفعہ اُس کے دل میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ صرف موجودہ لوگوں کی تربیت ہی کافی نہیں بلکہ ہر نئے شامل ہونے والے آدمی کی تربیت اور تعلیم کی ذمہ داری بھی مجھ پر عائد ہوتی ہے اور میرا فرض ہے کہ میں اس کو بھی ہدایت کی راہوں پر چلاؤں.پس کیسا جھوٹا ہے وہ مسلمان جو دن رات میں چالیس پچاس دفعہ یہ کہتا ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ اور پھر وہ سمجھتا ہے کہ مجھے تو ہدایت مل چکی ہے کسی دوسرے کو ہدایت پر لانے کی مجھے کیا ضرورت ہے.اور وہ یہ نہیں جانتا کہ یہ دعا تو اسی لئے اُس سے منگوائی گئی تھی تا کہ وہ یہ سمجھے کہ جن لوگوں کو ابھی تک ہدایت نہیں ملی اُن کو ہدایت پر لانا بھی اس کا فرض ہے.پس علاوہ ان معنوں کے جو ہماری جماعت میں اس آیت کے کئے جاتے ہیں اور جو درست ہیں اس آیت کے ایک معنی یہ بھی ہیں.جن لوگوں کو صراط مستقیم مل چکا ہو اُن کا فرض ہے کہ وہ دوسروں کو صراط مستقیم دکھا ئیں اور جو تربیت اور تعلیم سے محروم ہیں ان کی اسلامی رنگ میں تربیت کریں اور انہیں اسلام کے احکام کا علم دیں.تربیت کی اہمیت کیونکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہمیشہ نی نسلیں پیدا ہوتی رہتی ہیں جو تربیت کی محتاج ہوتی ہیں اور پھر تبلیغی جماعتوں میں یوں بھی نئے نئے لوگ شامل ہوتے رہتے ہیں.اسی لئے خدا نے ہمیں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صراط الذین انعمت عَلَيْهِمْ کی دعا سکھلائی ہے اور بتایا ہے کہ قوم کے تمام افراد کو ہمیشہ یہ امر اپنے مدنظر رکھنا چاہئے کہ وہ نئے داخل ہونے والوں کو اسی معیار ایمان پر لے آئیں جس پر وہ خود ہوں.اسی طرح جو نئی نسل پیدا ہوا سے بھی وہ اسی معیار ایمان پر لے آئیں جس پر وہ خود ہوں.اگر اس نکتہ کو ہم سمجھ لیں تو یقیناً ہماری ترقی کی رفتار بہت زیادہ تیز ہو جائے.اگر صحابہ میں یہ احساس ہو کہ تابعین ایمان کے لحاظ سے ہمارے درجہ پر ہوں ، اگر تابعین میں یہ احساس ہو کہ تبع تابعین ایمان کے لحاظ سے ہمارے درجہ پر ہوں
۵۱۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء خطابات شوری جلد دوم اور اگر تبع تابعین میں یہ احساس ہو کہ تبع تبع تابعین ایمان کے لحاظ سے ہمارے درجہ پر ہوں ، اسی طرح ہر باپ کو یہ احساس ہو کہ میری اولا د کم سے کم میرے جتنا دین جانتی ہو اور اُس کے اندر کم سے کم اتناہی ایمان ہو جتنا میرے اندر ہے تو بتاؤ وہ قوم کس طرح تباہ ہوسکتی ہے.ساری تباہی اور بربادی اسی لئے ہوتی ہے کہ تو مسلم یا تو احمدی جماعت میں شامل ہو جاتے ہیں اور ان کے دلوں میں سلسلہ کی وہ عظمت نہیں ہوتی جو پہلوں کے دلوں میں ہوتی ہے.اس لئے جماعت کا قدم تنزل کی طرف اُٹھنا شروع ہو جاتا ہے.پھر ان کے باپ دادا تو قربانیاں کرتے ہیں، ماریں کھاتے ہیں، بڑی بڑی تکلیفیں برداشت کرتے ہیں جس کی وجہ سے دین کی اہمیت اُن پر روشن ہوتی ہے اور وہ دعاؤں سے کام لیتے اور سلسلہ کے لٹریچر کا مطالعہ رکھتے ہیں مگر یہ نئی پود جب کھڑی ہوتی ہے تو اس کے چاروں طرف اپنے ہی عزیز اور رشتہ دار ہوتے ہیں.انہیں دشمنوں کے ہاتھوں سے ماریں کھانے اور دین کے لئے مصائب اور تکالیف برداشت کرنے کے مواقع میسر نہیں آتے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انہیں نہ دعاؤں کی اہمیت معلوم ہوتی ہے اور نہ ان میں صبر کی عادت پیدا ہوتی ہے، نہ ان کا اخلاص ترقی کرتا ہے اور نہ ان کی جماعت سے وابستگی پختہ ہوتی ہے اس لئے ان کو سمجھانے ، ان کی تربیت کرنے اور ان کو دین سے آگاہ کرنے کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے.نو مبائعین کا فرض ہیں یہ کام ہمیشہ جاری رہے گا اور درحقیقت اس کے بغیر کوئی قوم حقیقی معنوں میں زندہ نہیں کہلا سکتی.مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ نئے آنے والوں کو خود بخود دین سیکھنے کی جدو جہد نہیں کرنی چاہئے.بے شک پہلوں کا بھی فرض ہے کہ وہ نئے لوگوں کو سکھائیں مگر نئے شامل ہونے والوں کا یہ ذاتی طور پر بھی فرض ہے کہ وہ کمی کو پورا کریں اور پہلے لوگوں کی اچھی باتوں کی تقلید کریں.مثلاً اسی مجلس میں کئی دوست ایسے ہوں گے جو اس سے پہلے کسی مجلس شوری میں شامل نہیں ہوئے ہوں گے.پس ان کو چاہئے کہ وہ اُن لوگوں کو دیکھیں جو اُن سے پہلے اس مجلس میں شامل رہ چکے ہیں اور جس رنگ میں وہ اپنے خیالات کا اظہار کریں اُسی رنگ میں خود بھی اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی کوشش کریں.اور جس صبر تحمل اور شائستگی سے وہ گفتگو کر میں اُسی صبر تحمل اور شائستگی سے خود بھی گفتگو کریں.یہ ہدایت وہ ہے جو قرآن کریم میں بھی بیان ہوئی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ
۵۱۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء خطابات شوری جلد دوم فرماتا ہے فبهداهم اقتده " کہ پہلوں نے جو اچھے نمونے دکھائے ہیں ان کی اقتداء کیا کرو کیونکہ وہ لوگ ایسے ہیں جو ایک لمبا عرصہ نبی کے زیر تربیت رہے اُس نے ان کے لئے دعائیں کیں اور خدا تعالیٰ کے فضلوں نے ان کی تربیت کی.پس جبکہ ایک بنا بنایا نمونہ تمہارے سامنے موجود ہے تو تم نیا تجربہ کیوں کرتے ہو.کیوں ان کے نمونہ سے فائدہ نہیں اُٹھاتے.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں اَصْحَابِی كَالنُّجُومِ باتِهُمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمُ " کہ میرے سب صحابہ ستاروں کی مانند ہیں.انہیں لوگوں نے بڑے بڑے دکھ دیئے ، بڑے بڑے مصائب ان پر وارد کئے مگر وہ صبر اور استقلال سے کام لیتے چلے گئے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کے مدرسہ میں سبق پڑھتے پڑھتے اُنہوں نے نیکی اور تقویٰ کے امتحان میں کامیابی حاصل کر لی.اب تمہارا یہ فرض ہے کہ تم اُن کی اتباع کرو اور بجائے اس کے کہ اپنے لئے نیا راستہ اختیار کرو، اپنی تربیت کے لئے نئے نئے مدر سے کھولو اور اپنے آپ کو نئے تجربات کی بھٹی میں سے گزارو، تم ان کو دیکھو اور جو کچھ اُنہوں نے کیا ہو وہی خود بھی کرنے لگ جاؤ.پس مجلس شوریٰ میں جو نئے دوست شامل ہوئے ہیں اُنہیں چاہئے کہ وہ پہلوں کے طریق عمل کی تقلید کریں اور نہ صرف ان کی نیکیاں اپنے اندر جذب کریں بلکہ ان سے بڑھ کر نیکیاں دکھا ئیں تا کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو.میں جیسا کہ ہمیشہ نصیحت کیا کرتا ہوں آج پھر نمائندگان کے انتخاب میں احتیاط یہ نصیحت کرتا ہوں کہ جیسا کہ نمائندگان کے انتخاب کے وقت احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے اور اس بات کی کوشش کرنی چاہئے کہ نمائندے مجلس شوریٰ میں شامل ہونے کے اہل اور صائب رائے رکھنے والے ہوں.ممبران سب کمیٹی کے انتخاب کا طریق اسی طرح سب کمیٹیوں کے لئے ممبران کا انتخاب کرتے وقت بھی احتیاط سے کام لینا چاہئے.مجھے شکایت پہنچی ہے کہ اس بارہ میں دوست اپنی ذمہ داری کو پوری طرح محسوس نہیں کرتے بلکہ خود میرے کانوں نے ایک دفعہ سنا کہ ایک شخص دوسرے سے کہہ رہا تھا کہ فلاں سب کمیٹی کے لئے تم میرا نام پیش کر دو.کسی سب کمیٹی کے لئے خود اپنا نام پیش
خطابات شوری جلد دوم ۵۱۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء کر دینا بشرطیکہ جس امر پر غور کرنے کے لئے سب کمیٹی بنائی گئی ہو اُس میں کوئی شخص مہارت رکھتا ہو، کوئی حرج کی بات نہیں مگر دوسرے سے اپنا نام پیش کرانا اور کہنا کہ تم میرا نام پیش کرو ایک معیوب امر ہے کیونکہ اس طرح وہ یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ اُس کا نام پیش کرنے کی دوسرے لوگوں نے ضرورت محسوس کی ہے حالانکہ وہ خود پیش کر رہا ہوتا ہے.اول تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کسی عہدہ کے لئے اپنا نام پیش نہ کرو گے تا ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں چونکہ وہی لوگ شامل ہوتے تھے جو رات دن آپ کے قرب و جوار میں رہتے تھے اس لئے آپ جانتے تھے کہ کون مشورہ دینے کا اہل ہے اور کون نہیں.مگر ہماری یہ مجلس شوریٰ مختلف جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل ہوتی ہے اور میں ہر ایک کے متعلق یہ نہیں جانتا کہ وہ کسی خاص امر کے متعلق مشورہ دینے کا اہل ہے یا نہیں.اگر قادیان کے لوگوں تک ہی یہ مجلس شوریٰ محدود ہو تو میں خود ہی سب کمیٹیوں کے لئے ممبروں کا انتخاب کرلوں لیکن چونکہ ہماری اس مجلس میں بیرونی جماعتوں کے بھی دوست کثرت سے شریک ہوتے ہیں اور مجھے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان میں سے کون قانون کے متعلق زیادہ واقفیت رکھتا ہے، کون اخلاق کے متعلق زیادہ واقفیت رکھتا ہے، کون تعلیم کے متعلق زیادہ واقفیت رکھتا ہے، کون آڈٹ کے متعلق زیادہ واقفیت رکھتا ہے اس لئے اگر کوئی دوست اپنا نام آپ پیش کر دیں یا کوئی دوست اپنی ذاتی واقفیت کی بناء پر کسی اور دوست کا نام تجویز کر دیں تو یہ کوئی معیوب بات نہیں لیکن دوسرے کو یہ کہنا کہ تم میرا نام پیش کر و سخت معیوب بات ہے.اس طرح ایک طرف تو وہ یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ میں بہت بڑا قابل انسان ہوں اور دوسری طرف وہ اپنے آپ کو منکسر المزاج ظاہر کرنا چاہتا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ وہ خود نمائی اور خودستائی کا دلدادہ ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ میرا نام کسی نہ کسی سب کمیٹی میں ضرور آ جائے.مگر اس دوست کے متعلق بعد میں یہ عجیب بات معلوم ہوئی کہ باوجود اپنا نام خود پیش کرانے کے وہ سب کمیٹی کی میٹنگ میں شامل ہی نہ ہوئے.پس آئندہ کے لئے اس بارہ میں احتیاط سے کام لینا چاہئے.اسی طرح یہ بھی دیکھ لینا چاہئے کہ جن دوستوں کے نام لکھائے جا رہے ہیں آیا وہ مجلس شوریٰ میں شامل بھی ہیں یا نہیں ؟ بعض دفعہ کوئی دوست یونہی دوسرے کا نام پیش کر دیتے ہیں اور بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ دوست
۵۲۰ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء خطابات شوری جلد دوم قادیان میں آئے ہی نہیں.یہاں ہم مشورہ کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں اَلْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمِنٌ ، جس سے مشورہ لیا جاتا ہے وہ امین ہوتا ہے اور چونکہ امانت میں خیانت جائز نہیں اس لئے اگر کوئی دوست کسی ایسے دوست کا نام پیش کر دیتے ہیں جو آئے ہی نہیں تو وہ امانت میں خیانت سے کام لیتے ہیں.ممبران سب کمیٹی کے فرائض اسی طرح جو دوست سب کمیٹیوں کے لئے تجویز کئے جائیں انہیں چاہئے کہ وہ محنت سے کام کریں اور کوشش کریں کہ سلسلہ کی مشکلات کے حل کے لئے جو تجاویز پیش کریں وہ ایسی ہوں جن پر عمل کیا جا سکتا ہو.شروع شروع میں بہت سے دوست محض ایک تحریک کی خاطر ایسی کئی تجاویز پیش کر دیتے تھے جو گو اچھی ہوتی تھیں مگر ہم اُن پر عمل نہیں کر سکتے تھے لیکن اب بالعموم ایسی ہی تجاویز پیش کی جاتی ہیں جو ہمارے دائرہ عمل میں ہوتی ہیں اور جن کے بجالانے پر ہم قدرت رکھتے ہیں.بہر حال یہ ایک ضروری امر ہے کہ مجلس شوریٰ میں جو تجویزیں پیش کی جائیں وہ ایسی ہی ہوں جو عمل کے قابل ہوں.ایسی نہ ہوں جن پر ہم عمل ہی نہ کر سکتے ہوں.خواہ مقدرت کی کمزوری کی وجہ سے ، خواہ اس وجہ سے کہ حالات ان پر عمل کرنے کی اجازت نہ دیتے ہوں، خواہ اس وجہ سے کہ ان پر عمل کرنے سے کوئی فتنہ پیدا ہوتا ہو اور خواہ اس وجہ سے کہ ان سے بہتر تجاویز پہلے موجود ہوں.مجلس شورا ی کی ایک اہم چیز میں اب زیادہ تقریر کرنا نہیں چاہتا اور اسی پر اکتفا انا کرتے ہوئے ایجنڈا کی تجاویز پر غور کرنے کے لئے مختلف سب کمیٹیوں کے ممبران کے انتخاب کا سوال دوستوں کے سامنے پیش کرتا ہوں.مگر ایک غلطی ہے جس کی طرف میں توجہ دلا دیتا ہوں اور وہ یہ کہ اس سال کے ایجنڈے میں بجٹ کا ذکر ہی نہیں حالانکہ مجلس شوریٰ میں سب سے اہم چیز جو قابل مشورہ ہوتی ہے وہ بجٹ ہوتا ہے.پس اگر ہم اس ایجنڈے پر عمل کریں تو بجٹ پر بحث ہو ہی نہیں سکتی.ناظر صاحب بیت المال کہتے ہیں کہ وہ ایجنڈے میں بجٹ کا ذکر کرنا بھول گئے ہیں مگر یہ ٹھول بہت بھاری ہے اور ایسی ہی ہے جیسے کہیں برات پہنچے تو وہ کہے غلطی ہوگئی دولھا کو ہمراہ لانا تو یاد ہی نہیں رہا.ایسی بھول بہت مشکل سے ہوتی ہے مگر خیر یہ مشکل کام ہمارے ناظر صاحب
خطابات شوری جلد دوم ۵۲۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء نے کر ہی لیا ہے.بہر حال دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ بجٹ بھی پیش ہوگا اور اس پر بھی بحث ہوگی.اسی طرح میں بھی اعلان کر دیتا ہوں کہ مجلس شوری کے اس اجلاس کے ختم ہونے کے بعد ہال میں ہی دارالا نوار کمیٹی کا اجلاس ہوگا.دارالانوار کمیٹی کے جو ممبر ہیں انہیں چاہئے کہ وہ اجلاس کے بعد اسی جگہ تشریف رکھیں.“ دوسرا دن 66 مجلس مشاورت کے دوسرے دن (۱۲ / اپریل ۱۹۴۱ء) کے پہلے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے فرمایا.پہلے تو میں اس امر کے لئے معذرت خلیفہ وقت کے وقت کا خیال رکھنا چاہیئے کرتا ہوں کہ آج میں کافی دیر کے بعد آسکا ہوں.اس کی وجہ وہی ہے جو ہمیشہ ہوا کرتی ہے گیارہ بجکر پانچ منٹ پر تو ملاقاتیں ختم ہوئیں.اس کے بعد میں نے کچھ کھانا کھایا.پہلے تو میں بھوک برداشت کر لیتا تھا مگر آج صبح بھی کھانسی کی تکلیف رہی جس کی وجہ سے طبیعت میں ضعف ہے اور صحت اجازت نہیں دیتی کہ بُھوکا رہ سکوں، اس لئے کچھ کھانا ضروی تھا اور اس وجہ سے قریباً ۳۵ منٹ کی تأخیر مزید ہو گئی.میں نے دفتر کو بارہا ہدایت کی ہے کہ ملاقاتوں کے وقت کا خیال رکھا کریں مگر وہ فرض کر لیتے ہیں کہ اور کوئی کام کرنا ہی نہیں.ایسی مجالس میں آنے سے قبل انسان کو پیشاب پاخانہ وغیرہ سے بھی فارغ ہو کر آنا ہوتا ہے اس کے لئے بھی وقت چاہئے.اولیاء کا یہ دستور رہا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بھی یہی دستور تھا کہ آپ وضو کر کے آتے تھے اور میں بھی وضو کر کے آتا ہوں.سات آٹھ منٹ کم سے کم حوائج سے فارغ ہونے اور وضو کرنے میں بھی لگ جاتے ہیں اور پھر چونکہ سارا دن یہاں کام کرنا ہوتا ہے اس لئے کھانا کھانا بھی ضروری ہوتا ہے.مگر دفتر والوں نے کسی بات کا خیال نہ رکھا حالانکہ ہو سکتا تھا کہ اگر آٹھ دس ملاقات کرنے والے رہ جاتے تو وہ شام کو
خطابات شوری جلد دوم ۵۲۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء ملاقات کر لیتے یا اُن کو کل کا کوئی وقت دے دیا جاتا.اس تأخیر میں دوستوں کا اتنا قصور نہیں جتنا دفتر والوں کا ہے.ملاقات کرنے والے دوستوں میں سے کسی نے سوائے ایک کے مقررہ وقت سے زیادہ نہیں لیا اور جس دوست نے زیادہ وقت لیا اُنہوں نے بھی اس لئے کہ دفتر والوں نے وقت ختم ہونے کی گھنٹی نہیں بجائی ، کم سے کم میں نے نہیں سنی.چاہئے تھا کہ دفتر والے ملاقاتیں ساڑھے دس بجے تک ختم کر دیتے ، باقی ملاقاتیں رات کو ہو سکتی تھیں.ہمیں کوشش ضرور کرنی چاہئے کہ اوقات مقررہ کی پابندی کریں.میں تو مجبور ہوں اور دفتر والوں کے ہاتھ میں ہوتا ہوں.ملاقاتیں ایک کے بعد دوسری ہوتی جاتیں ہیں اور میں گھڑی تک نہیں دیکھ سکتا اور ایسا سلسلہ ہوتا ہے کہ سانس لینے کی فرصت نہیں ملتی اس لئے دفتر والوں کو اس کا خیال رکھنا چاہئے.منتظمین کا ایک فرض اس کے بعد میں ایک بات کی طرف منتظمین و توجہ دلانا چاہتا ہوں جو میں نے ابھی دیکھی ہے.جب میں آرہا تھا تو دیکھا کہ میرا ایک بچہ دروازہ پر آیا.منتظم نے پہلے تو اسے روکا مگر پھر مجھے دیکھ کر اُسے اندر جانے کی اجازت دے دی یہ درست طریق نہیں.چاہئے تھا کہ میرے بچوں کو بھی ٹکٹ دے دیتے جیسا کہ دوسروں کو دیئے جاتے ہیں.تا ان کے اندر یہ احساس پیدا ہوتا کہ ہم بھی دوسروں کی طرح ایک نظام کے پابند ہیں بجائے اس احساس کے کہ چونکہ ہمارا باپ اس مجلس کا صدر ہے ہمیں یہ حق ہے کہ بغیر ٹکٹ کے اندر جاسکیں.اس طرح ان کو اندر آنے دینا میرے نزدیک ان کے ساتھ حسنِ سلوک نہیں بلکہ بدسلوکی ہے.اور یہ ان کے اخلاق کو بگاڑنے والی بات ہے کیونکہ اس سے قانون شکنی کی عادت ان میں پیدا ہو سکتی ہے.اور یہ روح پیدا نہیں ہوسکتی کہ ہم بھی قانون کے پابند ہیں اور اسے توڑ نہیں سکتے.خشیت اللہ کا وقت اس کے بعد میں دوستوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ پچھلے دنوں مجھے شدید کھانسی رہی ہے اور دمہ کی صورت پیدا ہوگئی تھی.دس بارہ روز سے افاقہ تھا مگر آج پھر شدید کھانسی ہوگئی ہے.کل بھی تھی اس لئے میں زیادہ بول نہیں سکتا اور آج میں ابھی سے تکلیف محسوس کر رہا ہوں مگر با وجود اس کے میں نے مناسب سمجھا کہ دوستوں کو توجہ دلاؤں کہ ان کی ذمہ داریاں بہت اہم ہیں اور یہ وقت بہت
خطابات شوری جلد دوم ۵۲۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء ہی خشیت اللہ سے کام لینے کا ہے.بات کرنے سے پہلے بلکہ کھڑا ہونے کا ارادہ کرتے وقت ان کے دل میں یہ احساس ہونا چاہئے کہ ہم خدا تعالیٰ کی مدد کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئی بار ایک بات سنی ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ ہماری حالت اس سے بھی نازک تر ہے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ ایک مرتبہ بارش کا دن تھا زور کی بارش ہو رہی تھی.امام ابوحنیفہ گھر سے نکلے تو دیکھا ایک لڑکا بھاگتا ہوا جا رہا ہے.آپ نے اسے کہا میاں بچے ! ذرا سنبھل کر چلو ایسا نہ ہو گر جاؤ.اس نے کہا امام صاحب میرا کیا ہے آپ سنبھل کر چلئے.کیونکہ اگر میں گرا تو کیا ہے خود ہی کروں گا مگر آپ گرے تو آپ کے ساتھ اور بھی بہت سے لوگ گریں گے.امام ابو حنیفہ اور ایسے ہی دوسرے بزرگوں کی شہرت بہت ہے اس لئے لوگ ان کو بہت بڑا سمجھتے ہیں اور اس میں شک نہیں کہ ظاہری علوم کے لحاظ سے آپ لوگ ان کا ہزارواں حصہ بھی نہیں ہیں.لیکن اس کے ساتھ ایک اور پہلو بھی ہے اور وہ ہے باطنی حیثیت کا.اور اس لحاظ سے وہ آپ لوگوں کے مقابلہ پر ہزارواں حصہ بھی نہیں ہیں.اس میں کیا شک ہے کہ ظاہری علم عام طور پر صحابہ کو بھی اتنا حاصل نہ تھا جتنا امام ابو حنیفہ کو تھا بلکہ فلسفہ دین اور تفقہ فی الدین میں بھی امام ابو حنیفہ کا علم زیادہ تھا اور سوائے چند ایک صحابہ مثلاً حضرت ابو بکر، عبد اللہ بن عباس وغیرہ کے عام طور پر صحابہ سے ابو حنیفہ کا علم بڑھا ہوا تھا مگر پھر بھی باطنی حیثیت سے صحابہ کا جو مقام ہے وہ ابوحنیفہ کا نہیں.صحابہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشق تھا.انہوں نے براہ راست آپ کی باتیں سنیں اور پھر ان کو دوسروں تک پہنچایا اور اس وجہ سے ان کا مقام بہت بلند ہے اور آج بھی اگر ایک طرف چھوٹے سے چھوٹے صحابی کا کوئی عمل ہمارے سامنے ہو اور اس کے بالمقابل ابو حنیفہ کا عمل ہو تو جب تک بڑے ہی زبر دست دلائل سے ابو حنیفہ کے عمل کی تائید نہ ہوتی ہو ہم اس چھوٹے سے چھوٹے صحابی کے عمل پر اسے مقدم نہ سمجھیں گے حالانکہ ہوسکتا ہے کہ ظاہری علوم کے لحاظ سے وہ صحابی امام ابوحنیفہ کی پچاس سال شاگردی کر سکتا ہو مگر اس قدر تفاوت کے باوجو د سوائے اُن حنفیوں کے جنہوں نے امام ابو حنیفہ کو خدا کا درجہ دے رکھا ہے اس صحابی کے فعل کو امام صاحب کے فعل پر ترجیح دی جائے گی.
خطابات شوری جلد دوم ۵۲۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء دور رفقاء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فیصلوں کی اہمیت اس طرح گو آج ہماری پوزیشن معمولی ہے مگر کل جب احمدیت پھیلے گی اور دنیا میں اسے ترقی حاصل ہوگی تو ہماری باتیں ان کے نزدیک اس سے بھی بڑا درجہ رکھیں گی جو آج امام ابوحنیفہ کی باتوں کو حاصل ہے اور گو بعد میں بڑے بڑے فقہاء پیدا ہوں اور ظاہری علوم کے لحاظ سے بہت آگے بڑھے ہوئے ہوں پھر بھی احمدیت کو جو مقام حاصل ہونے والا ہے اس کے باعث آپ لوگوں کی حیثیت ان فقہاء اور علماء سے ہمیشہ بڑی سمجھی جائے گی.آج یہاں جو فیصلے کئے جاتے ہیں یہ صرف یہیں تک محدود نہیں رہ سکتے بلکہ یہ دنیا کی راہنمائی کے لئے ستارے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِآتِهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمُ.یعنی میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں.یعنی جس طرح ستارے قائم ہیں اسی طرح ان کی ہدایت بھی ہر وقت قائم رہے گی اور تم ان میں سے جس کے پیچھے بھی چل پڑو گے ہدایت پا جاؤ گے اور یاد رکھو کہ آئندہ نور ہدایت کی اشاعت اور دنیا کی راہ نمائی اسی سلسلہ سے ہوگی.باقی سب راستے بند ہو چکے ہیں اور وہ ایسی کھڑکیاں ہیں جن کو بند کر دیا گیا مگر احمدیت کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہے اور آئندہ لوگ اسی سے ہدایت اور راہ نمائی حاصل کریں گے اور اس بات کو ہر وقت مد نظر رکھنا چاہئے اور اپنے اقوال اور افعال کی نگرانی کرتے رہنا چاہئے.احمدیت کے ذریعہ اسلام کو ایک نئی روشنی دی گئی ہے اور اسلام کی ایک نئی تعبیر کی گئی ہے اور اس تعبیر کو صحیح طور پر وہی لوگ بیان کر سکتے ہیں جنہوں نے اس کے بیان کرنے والوں کی صحبت پائی ہے.ایک ایمان افروز روایت مجھے ایک دوست کا لطیفہ ہمیشہ یاد رہتا ہے وہ آئے اور مجھے کہا کہ آپ سے ایک بات کرنی ہے وہ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بہت مقرب تھے ، میں نے کہا بہت اچھا.میں انہیں مسجد کے ساتھ والے کمرہ میں لے آیا.وہ کہنے لگے میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ایک تفسیر سُنی ہوئی ہے وہ آپ کو سُناتا ہوں اور وہ سُنانے لگے، کوئی آدھ گھنٹہ سناتے رہے.ایک موقع پر کوئی بات تھی جو مجھے اچھی معلوم ہوئی اور میں نے محسوس کیا کہ یہ نئی بات
خطابات شوری جلد دوم ۵۲۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء ہے اور میں نے تصدیق کی نیت سے اس کا تکرار کیا اور دریافت کیا کہ اچھا آپ نے یہ بات فرمائی تھی.یہ بالکل ویسی ہی بات تھی جیسے کوئی شخص ہمارے سامنے آتا ہے تو ہم کہتے ہیں اچھا آپ آگئے ! حالانکہ وہ تو سامنے کھڑا ہوتا ہے اس سے صرف اظہار خوشی مقصود ہوتا ہے، اسی طرح ان کی بات سن کر میں نے تصدیق کے لئے کہا کہ اچھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے یہ بات یوں فرمائی تھی! اس کا یہ مطلب نہ تھا کہ مجھے ان پر کوئی شبہ ہے مگر میرے اس سوال پر وہ رونے لگ گئے اور اتنا روئے کہ ہچکی بندھ گئی اور مجھے خطرہ محسوس ہونے لگا کہ کہیں بے ہوش نہ ہو جائیں.بہت دیر کے بعد خاموش ہوئے تو میں نے کہا کہ رونے کی کیا وجہ تھی؟ انہوں نے کہا کہ آپ نے جو دریافت کیا تو میں نے سمجھا کہ میں عالم نہیں ہوں شاید بیان میں کوئی غلطی کر گیا ہوں اور ایسا نہ ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر کوئی افتراء کر جاؤں، حالانکہ میں نے تو تصدیق کے لئے اور اس وجہ سے کہ وہ بات مجھے لطیف معلوم ہوئی یہ پوچھا تھا مگر انہوں نے سمجھا کہ شاید مجھ سے غلط بات بیان ہوگئی ہے اور اس وجہ سے رونے لگے.میرے دل پر اُن کی اِس خشیت کا بڑا اثر ہوا کہ وہ محض اس شبہ سے کہ مجھ سے کوئی غلط بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے منسوب نہ ہوگئی ہو اور مجھے خدا تعالیٰ کے حضور اس پر گرفت نہ ہو اس قدر روئے اس قدر روئے کہ ہچکی بندھ گئی.صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلوص کے رنگ صحابہ میں بھی ایسے لوگ تھے.حضرت زبیر کے متعلق آتا ہے کہ ایک دفعہ ان کے لڑکے نے کہا کہ ابا جان! آپ بھی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ شروع سے رہے ہیں دوسرے لوگ جو آپ سے بعد میں آئے بہت سی احادیث بیان کرتے ہیں مگر آپ نہیں کرتے.آپ یہ بات سن کر فرمانے لگے کہ بات یہ نہیں کہ مجھے ان سے کم باتیں معلوم ہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو کوئی میری طرف غلط بات منسوب کرے گا اُس کا ٹھکانا جہنم ہے.اس لئے میں ڈرتا ہوں کہ ایسا نہ ہو میں کسی بات کو صحیح سمجھوں اور وہ دراصل غلط ہو اور اس وجہ سے میں عذاب میں مبتلا ہو جاؤں.یہ صحیح ہے کہ ایسے لوگ دین کو قائم کرنے والے نہیں ہوتے
خطابات شوری جلد دوم ۵۲۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء اور یہ محض خشیت اللہ کا مظاہرہ ہے ورنہ جب انسان سمجھتا ہے کہ جو کچھ میں کہ رہا ہوں یہ صحیح ہے اور اس میں ایک ذرہ کی بھی کمی بیشی میری طرف سے نہیں ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حضور بری ہے.حضرت ابوذر سے کسی نے کہا کہ آپ بعض باتیں ایسی کہہ دیتے ہیں جن سے لوگوں کو ٹھوکر لگنے کا اندیشہ ہوتا ہے تو آپ نے کہا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ اگر تمہاری گردن پر تلوار رکھی ہو اور تمہیں کوئی بات معلوم ہو تو اسے بیان کرنے میں جلدی کرو تا تلوار چلنے سے پہلے وہ بیان ہو جائے اس لئے میں نے جو بات رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہے وہ بیان کرتا جاؤں گا..یہ دو مختلف اور متضاد پہلو ہیں اور اس سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ بات کرنے میں یہ دونوں پہلو ہو سکتے ہیں اس لئے بہت احتیاط کرنی چاہئے.ایک تاریخی واقعہ کی تصحیح ہم لوگوں پر بڑی ذمہ داری ہے آئندہ نسلیں ہم کو انتہائی ادب اور احترام کی نظر سے دیکھیں گی.اس زمانہ میں ایک یہ خرابی پیدا ہو چکی ہے کہ روایات بہت غلط ہو جاتی ہیں کیونکہ اس زمانہ میں کتابوں کی اشاعت عام ہو جانے کی وجہ سے حفظ کرنے کی عادت بہت کم ہو گئی ہے.پچھلے دنوں الفضل، میں بعض غلط روایات شائع ہوئیں میں نے خود تو اُن کی تردید مناسب نہ سمجھی مگر بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی سے کہا کہ آپ کو تو سب واقعات کا علم ہے آپ کیوں صحت نہیں کرتے ؟ میاں مہر اللہ صاحب نے لکھا تھا کہ ایک دفعہ یہاں ڈپٹی کمشنر آیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود اس کے استقبال کیلئے گئے.حالانکہ ڈپٹی کمشنر نہیں بلکہ فنانشل کمشنر آیا تھا اور آپ خود تشریف نہیں لے گئے تھے بلکہ آپ نے مجھے دوسرے دوستوں کے ساتھ بھیجا تھا.ہمارا خاندانی طریق یہ رہا ہے کہ جب کوئی بڑا افسر آئے تو شہر کے باہر اُس کے استقبال کے لئے خاندان کا رئیس خود نہیں جاتا بلکہ جو دوسرے درجہ پر ہو اُسے بھیجا جاتا ہے اس لئے آپ نے مجھے بھیجا، خواجہ کمال الدین صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب میرے ساتھ تھے اور غالبا شیخ رحمت اللہ صاحب بھی.ہم سب گھوڑیوں پر گئے.میرے پاس تو اپنی گھوڑی تھی باقیوں کے لئے مانگ لی گئیں.پھر قادیان پہنچنے پر مولوی شیر علی صاحب
۵۲۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء خطابات شوری جلد دوم کے مکان سے پچاس ساٹھ گز پرے جنوب کی طرف ہم نے مسٹر کنگ ڈپٹی کمشنر سے باتیں کیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے فنانشل کمشنر سے ملنے کے متعلق باتیں کیں.مولوی صاحب کے مکان کے پاس جو کھیلوں کا میدان ہے وہاں کمشنر کا ڈیرہ لگایا گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اُس وقت ساتھ نہ تھے.پھر جب آپ ملاقات کے لئے تشریف لائے تو پانچ سات آدمی آپ کے ساتھ تھے.صحیح واقعہ تو اس طرح ہے مگر میاں مہر اللہ صاحب نے اسے غلط رنگ میں پیش کر دیا.رفقاء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذمہ داریاں اس کی وجہ یہی ہے کہ آجکل حافظہ تیز نہیں رہے اور اس وجہ سے ہم لوگوں کے لئے جو صحابہ ہیں اور بھی بہت ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں.تابعین کا درجہ بھی بڑا ہے.تفسیر اور دینی لحاظ سے تابعین کا بھی اتنا ہی اثر ہے جتنا صحابہ کا.جن لوگوں نے مامور کی بعثت کا قریب ترین زمانہ دیکھا ہو اُن کی آواز بڑی وقیع سمجھی جاتی ہے اس لئے ہمارا کسی بات پر غور و خوض کرنا بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے.یہ خیال نہ کرو کہ ہم جن باتوں پر غور کرتے ہیں وہ چھوٹی یا معمولی ہیں بلکہ یہ دیکھنا چاہئے کہ ہماری آج کی باتوں سے آئندہ نسلیں بڑے مسائل پر استدلال اور استنباط کریں گی جس طرح آج صحابہ کے اقوال سے استنباط کیا جاتا ہے.اصولی تعلیم تو قرآن کریم میں موجود ہے مگر جب تک اس کی تشریح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعمال میں نہ ملے تسلی نہیں ہوتی.ایک صحابی کی روایت ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کی.کدو کا شوربہ پکا تھا، آپ اس میں ہاتھ ڈال ڈال کر کڈو کے قتلے تلاش کرتے تھے اور کھاتے تھے ، بعض صوفیاء نے اس سے استدلال کیا ہے کہ کہو کا شور بہ اچھی چیز نہیں اور بعض اس کے خلاف استدلال کرتے ہیں اور اس سے یہ مطلب لیتے ہیں کہ گویا آپ نے خواہش اور رغبت کا اظہار کیا.اسی طرح ایک اور حدیث ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک گھر میں دعوت تھی.آپ تشریف لے گئے اس گھر میں کھجور اور گوشت کے ہار لٹکے ہوئے تھے آپ نے اُتار کر کھانے شروع کر دیئے.اس سے بعض لوگ یہ استدلال کرتے ہیں کہ قسم قسم کے کھانے جائز ہیں.تو ان معمولی معمولی باتوں سے نسلیں بڑے بڑے مسائل مستنبط کرتی
خطابات شوری جلد دوم ۵۲۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء ہیں.اسی طرح ہماری آج کی باتوں سے بھی لوگ بڑے بڑے مسائل نکالیں گے.میں نے سیرت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک کتاب لکھی ہے.مولوی محمد احسن صاحب امروہی جو پہلے تو خلافت سے برگشتہ ہو گئے تھے مگر بعد میں اُن کو تو بہ کی توفیق مل گئی تھی وہ کہا کرتے تھے کہ میں تو اس کتاب کو معجزہ سمجھتا ہوں کہ اس میں بخاری کی احادیث سے سیرت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات بیان کئے گئے ہیں.تو زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات سے بھی صحیح نتائج اخذ کئے جاسکتے ہیں اور اس لئے آج ہماری جماعت کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ کوئی فیصلہ کرتے وقت پوری طرح غور و حوض کر لیں اور تقویٰ سے کام لیں.اصل چیز تقومی ہی ہے انسان کو کوشش کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی بات پوری ہو، میری خواہ ہو یا نہ ہو.میری طبیعت پر اس بات کا بہت بڑا اثر ہے کہ یہ کام کا وقت ہے مگر ہماری طرف سے عملی قربانی بہت کم ہے باتیں بنانے کا وقت نہیں.یہی تفسیر کی مثال ہمارے سامنے ہے.سالہا سال سے دوست تفسیر نہ ہونے کی وجہ سے اعتراضات کی بوچھاڑ کرتے رہتے تھے مگر اب چھپی ہے تو اس کی خریداری سے سخت غفلت برتی گئی ہے اور مجھے حیرت ہے کہ اس کے خریداروں میں خاصی تعداد میں غیر احمدی اور ہندو ہیں اور بعض دوست جنہوں نے پہلے خریداری کے لئے لکھا بھی تھا اب بالکل چپ ہو گئے ہیں.تین ہزار شائع ہوئی تھی.چاہئے تو یہ تھا کہ کم سے کم ۲۹۰۰ احمدی خرید تے اور ایک سو دوسری قو میں.مگر واقعہ یہ ہے کہ ۷.۸ کو غیر احمدیوں نے خریدی ہے اور بیس بائیس سو احمدیوں نے خریدی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی جماعت کو بہت بڑی تربیت کی ضرورت ہے یہ بہت بڑا نقص ہے.امراء اور سیکرٹریوں کا فرض ہے کہ قرآن کریم کی محبت جماعت میں قائم کریں.مجھے معلوم ہوا ہے کہ ایک احمدی نے کہا کہ اس حصہ کو خرید کر کیا کرنا ہے کیا معلوم باقی پانچ حصے چھپیں گے یا نہیں حالانکہ دین کی ایک بات بھی بہت بڑی قیمت رکھتی ہے.فیصلے کرتے وقت تقوی کو مدنظر رکھیں امام بخاری نے حدیث کی کتاب لکھی تو ایک ایک حدیث کے لئے ہزار ہزار میل کا سفر کیا اور اپنی زندگی کے تمیں سال احادیث کے جمع کرنے میں صرف کر دیے.وہ بخارا
۵۲۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء خطابات شوری جلد دوم کے رہنے والے تھے مگر احادیث کے جمع کرنے کے لئے مصر، شام اور عرب میں گئے اور اس طرح یہ کام کیا.اسی طرح دوسرے محدثین نے بھی ایک ایک حدیث کے لئے پانچ پانچ سو اور ہزار ہزار میل کے سفر کئے.سپین کا رہنے والا ایک شخص صرف ایک حدیث سُننے کے لئے تین ہزار میل کا سفر کر کے بغداد پہنچا تھا.وہ راوی جس سے وہ حدیث سُننے کے لئے آیا چوتھا یا پانچواں تھا مگر پھر بھی اس کے دل میں یہ شوق تھا کہ براہ راست اس سے سُنوں.پس دین کی باتوں کے لئے بڑے شوق کی ضرورت ہے اور یہ شوق نہ ہونے کی وجہ سے مسائل میں غور کرنے کی عادت بہت کم ہو گئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وفات مسیح علیہ السلام کے سلسلہ میں آیت فَلَمَّا تَوَفَيْتَنِي كُنت انت الرقيب عَلَيْهِمْ پر بہت زور دیا ہے اور اسے آپ نے اصل آیت قرار دیا ہے مگر میں نے دیکھا ہے غیر احمدیوں سے بحث کرتے وقت ہمارے بعض علماء عام طور پر اس آیت پر زور نہیں دیتے اور اس حصہ کو بہت کم لیتے ہیں کہ اس آیت سے ثابت ہے کہ عیسائی حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی میں نہیں بگڑے بلکہ بگاڑ آپ کی وفات کے بعد ہوا ہے.اب میرے زور دینے پر ہمارے نو جوان مبلغین میں اس طرف توجہ پیدا ہو رہی ہے مگر پہلے نہ تھی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مسائل میں غور کرنے کی عادت نہیں رہی.اگر یہ عادت ہو تو چھوٹی چھوٹی باتوں سے بڑے بڑے مسائل اخذ کئے جا سکتے ہیں اور فقہاء بڑے بڑے مسائل کو چھوٹی چھوٹی باتوں سے ہی حل کرتے ہیں اس لئے آج ہم جو باتیں کریں اور جو فیصلہ کریں چاہئے کہ بہت سوچ سمجھ کر کریں کیونکہ بعد میں آنے والے فقہاء انہیں سے بڑے بڑے مسائل حل کریں گے.ہماری اس وقت کی حالت سورج کی ہے اور جو بعد میں آئیں گے اُن کی حالت چاند کی ہوگی جو سورج سے روشنی لیتا ہے اور ظاہر ہے کہ سورج کی روشنی اور چاند کی روشنی میں بڑا فرق ہے.پس فیصلے کرتے وقت دوستوں کو چاہئے کہ تقویٰ کو مدنظر رکھیں اور خشیت اللہ پیدا ایک نقص غیر سنجیدگی ایک اور نقص میں نے دیکھا ہے بعض لوگ آیات قرآنی جنسی سے پڑھ دیتے ہیں.بعض روایات اور احادیث کو ہنسی میں بیان کر دیتے ہیں.یہ بہت بُری عادت ہے اور اسے مٹا دینا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
۵۳۰ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء خطابات شوری جلد دوم کی بعثت کی غرض ہی یہ تھی کہ لوگوں کے قلوب میں خشیت اللہ پیدا کریں.اور چاہئے کہ ہماری ہر بات میں سنجیدگی ہو.ہمارے چہروں سے سنجیدگی ظاہر ہو اور ہمارے حالات ایسے ہونے چاہئیں کہ لوگ یہ سمجھ لیں کہ احمدی جو کچھ کہتے ہیں سنجیدگی سے کہتے ہیں مذاق سے دینی باتیں نہیں کرتے.اگر لوگوں پر ہم یہ اثر قائم کر لیں تو یہ بات تبلیغی لحاظ سے بھی بہت مفید ہو سکتی ہے.میں نے دیکھا ہے بعض دفعہ کوئی مجھ سے بات چیت کرنے آتا ہے اور مسئلہ وغیرہ پوچھتا ہے تو بعض نادان احمدی اُس کی لاعلمی کی باتوں کوسن کر ہنتے اور قہقہے لگاتے ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے دلوں میں خشیت اللہ نہیں..بیعت کے وقت سنجیدگی بعض احمدی بیعت کے وقت ہنستے رہتے ہیں.یہ بھی سراسر نادانی کی بات ہے.بیعت کا وقت تو نہایت سنجیدگی کا وقت ہوتا ہے.یہ تو نئی پیدائش کا وقت ہوتا ہے خدا جانے جو بیعت کر رہا ہے کس نیت اور کس ارادہ سے کر رہا ہے.اگر تو وہ نیک نیتی سے بیعت میں شامل ہو رہا ہے تو بھی یہ ایک اہم وقت ہے، اس کی نئی پیدائش ہو رہی ہے اور اگر فتنہ اور منافقت کی نیت سے کر رہا ہے تب بھی یہ خطر ناک وقت ہے.جو لوگ بیعت کے وقت باتیں کرتے یا ہنستے ہیں میں آج تک یہ نہیں سمجھ سکا کہ وہ کس طرح ایسا کرنے کی جرات کرتے ہیں.میری تو یہ حالت ہے کہ بچپن سے ہی جب میں کسی کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کرتے دیکھتا تو بدن پر رعشہ طاری ہو جاتا اور ہمیشہ یہ محسوس کرتا کہ یہ نہایت سنجیدگی کا وقت ہے مگر آجکل میں نے دیکھا ہے بعض لوگ نہایت بے باکی سے بیعت کرتے وقت باتیں کرتے یا ہنستے رہتے ہیں حالانکہ یہ وقت ایک نئے بچہ کی پیدائش کے وقت کے مشابہ ہوتا ہے اور جب کسی کے ہاں بچہ پیدا ہو تو اسے کیا معلوم کہ وہ اس کے لئے بھلائی کا موجب ہوگا یا مصائب کا.پس ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر سنجیدگی اور متانت پیدا کریں.ہماری جماعت کو بہت تربیت کی ضرورت ہے اور یہ ایک دوسرے کو سمجھانے سے ہی ہو سکتی ہے.مسائل ایک دوسرے کو سمجھائیں مگر میں نے یہ نقص بھی جماعت میں دیکھا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو مسائل سمجھاتے نہیں.یہ ضروری نہیں ہوتا کہ بڑے بڑے علماء ہی بات کو صحیح طور پر سمجھ سکیں اور دوسرے نہ سمجھیں بعض دفعہ
۵۳۱ خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء غیر علماء اچھی طرح سمجھ لیتے ہیں.مجھے یاد ہے ایک دفعہ میں نے ایک مضمون دوستوں کے سامنے بیان کیا.اس کے بعد میں مسجد مبارک کے اوپر جو کمرہ ہے اس میں بیٹھا تھا کہ میں نے باہر سے ڈاکٹر محمد رمضان صاحب اور مولوی محمد اسمعیل صاحب مرحوم کی آواز سنی کہ وہ آپس میں اس کے بارہ میں گفتگو کر رہے تھے.ڈاکٹر صاحب کہتے تھے کہ حضرت خلیفہ اسیح نے یہ بات بیان کی ہے اور مولوی صاحب کہتے تھے کہ نہیں یہ نہیں یوں بیان کی ہے اور گو مولوی صاحب بڑے عالم تھے عربی، علوم احادیث ، قرآن کریم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے خوب واقف تھے اور ڈاکٹر صاحب کو ایسی واقفیت نہیں اور نہ وہ کوئی عالم ہیں مگر میں نے دیکھا کہ مولوی صاحب جو مضمون بیان کر رہے تھے وہ غلط تھا اور ڈاکٹر صاحب صحیح بیان کر رہے تھے.تو بعض دفعہ معمولی علم رکھنے والے کی سمجھ میں بھی بات آ جاتی ہے اور اس کا فرض ہوتا ہے کہ دوسروں کو سمجھائے مگر بڑی مشکل یہ ہے کہ دوست ایک دوسرے کو سمجھاتے نہیں ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بعض چھوٹے چھوٹے مسائل سے بھی بعض لوگ واقف نہیں ہیں.مثلاً ایک چھوٹا سا مسئلہ ہے نماز پڑھنے والے کے آگے سے نہ گزرنے کا.مگر بہت سے لوگ اس سے بھی ناواقف ہوتے ہیں.اسی طرح مسجد میں فضول باتیں نہ کرنے کا مسئلہ ہے کئی لوگ اس سے بھی ناواقف ہیں اور مسجد میں فضول باتیں کرتے رہتے ہیں اور کوئی ان کو منع بھی نہیں کرتا.یہ معمولی باتیں ہیں مگر کئی لوگوں کو علم نہیں اور دوسرے بھی اُن کو نہیں بتاتے.اگر دوست اس طرف توجہ کریں اور ایک دوسرے کو مسائل بتاتے اور سمجھاتے رہیں تو ایک سال بلکہ چھ ہی ماہ میں جماعت کی بہت اچھی تربیت ہو سکتی ہے اور اس کے نتیجہ میں اخلاص میں بھی بہت ترقی ہو سکتی ہے.وہابیوں کی مثال ہمارے سامنے ہے اُن کے جاہل لوگ بھی عام مسائل سے بخوبی واقف ہوتے ہیں.اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو بتاتے رہتے ہیں.اگر ہمارے دوست بھی یہ فرض سمجھیں ، اپنی مجالس میں ، ملاقاتوں میں اس بات کو مدنظر رکھیں تو بہت فائدہ ہوسکتا ہے اور تربیت کے علاوہ تبلیغ میں بھی بہت مددمل سکتی ہے.یہی مجلس شوری ہے اگر اس میں شامل ہونے والے نئے آنے والوں کو بتائیں کہ اس کے یہ یہ آداب ہیں یوں بات کرنی چاہئے تو وہ نہایت آسانی سے یہ باتیں سیکھ سکتے ہیں مگر میں نے دیکھا ہے کہ دوست آپس میں باتیں کرنے لگ جاتے ہیں
خطابات شوری جلد دوم ۵۳۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء حالانکہ اس سے کئی بار منع کیا گیا ہے مگر پھر بھی جوش کی حالت میں اس کا خیال نہیں رکھا جاتا.شورای کے آداب پس میں پھر یہ نصیحت کرتا ہوں کہ دوست باتوں میں اور مشوروں میں سنجیدگی کو مد نظر رکھیں اور ان کے اندر یہ احساس ہونا چاہئے کہ ہم نے دنیا میں ایک نیا انقلاب پیدا کرنا ہے اور ہماری باتوں پر آئندہ نسلیں دینی مسائل کی بنیا درکھیں گی.ہمارے سپرد بہت بڑا کام ہے اور ایسے بڑے کام ہمیشہ خشیت اللہ کے ماتحت ہی سرانجام دیئے جاسکتے ہیں.پس چاہئے کہ ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف اور اُس کی برتری کا جذبہ ہر وقت موجزن رہے، بے جا نکتہ چینی، تلخ فقرے نہیں ہونے چاہئیں ، بحث اور مناظرے کا رنگ نہیں ہونا چاہئے.علماء کو ایک ضروری نصیحت میں نے افسوس کے ساتھ دیکھا ہے کہ ہمارے علماء کو بحث مباحثہ کا بہت شوق ہے حالانکہ یہ تو ایسی چیز ہے کہ اس سے جس قدر ممکن ہو بچنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہاما اس سے روکا گیا.گو یہ جائز تو ہے مگر نا پسندیدہ ہے.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جائز چیزوں میں سے خدا تعالیٰ کو سب سے زیادہ ناراض کرنے والی چیز طلاق ہے شاہ اسی طرح یہ بھی جائز تو ہے مگر پسندیدہ نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو شروع میں اجازت تھی مگر بعد میں اللہ تعالیٰ نے اس سے منع کر دیا.جب بحث مباحثہ کی عادت ہو جائے تو دل سے خشیت مٹ جاتی ہے اور بعض اوقات تو انسان کو ایسی باتوں میں بھی بحث کی دلیری ہو جاتی ہے جن میں بحث مباحثہ جائز نہیں.پس جہاں تک ممکن ہو بحث مباحثہ سے گریز کرو اور اخلاص کے ساتھ دوسرے کو بات سمجھاؤ اور اگر تم ایسا کرو گے تو دیکھو گے کہ اُس پر ضرور اثر ہوگا.چاہئے کہ تمہاری شکلوں سے رقت ظاہر ہو، تمہاری شکلوں.معلوم ہو کہ تمہارے دل خدا تعالیٰ کے خوف سے کانپ رہے ہیں.اگر یہ حالت ہو تو ہو نہیں سکتا کہ دوسروں پر اس کا اثر نہ ہو.لوگ بِالعموم اسی قلبی کیفیت سے متاثر ہوتے ہیں جو ایمان چاہتا ہے.پس وہ کیفیت اپنے اندر پیدا کرو پھر تم دیکھو گے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکت نازل ہوتی ہے.اگر ایسی رقت اور ایسی خشیت پیدا کرو تو پھر تم دنیا کو فتح کر
خطابات شوری جلد دوم ۵۳۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء سکتے ہو.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور لوگوں کی آنکھیں بھی کھول دے کہ وہ حقیقی نور کو دیکھ سکیں اور ہدایت پائیں.“ غیر از جماعت لڑکیوں سے رشتہ کا مسئلہ سب کمیٹی نظارت امور عامہ کی طرف سے یہ تجویز پیش ہوئی کہ غیر احمدی لڑکی سے رشتہ کے بارہ میں موجودہ پابندی کو جاری رکھا جائے.مرکز کی اجازت کے بغیر مزید تین سال کے لئے غیر احمدی لڑکی لینے کی اجازت نہ ہو.چند ممبران نے اس بارہ میں اپنی آراء کا اظہار کیا اس کے بعد حضور نے فرمایا : - دوست مختلف خیالات سن چکے ہیں سوائے ان کے جنہوں نے وقت پر اپنے نام نہیں لکھوائے اور بعد میں بولنے کی کوشش کی.اب جو دوست اس بات کے حق میں ہوں کہ موجودہ پابندی کو جاری رکھا جائے اور مزید تین سال کے لئے مرکز کی اجازت کے بغیر غیر احمدی لڑکی لینے کی اجازت نہ ہو وہ کھڑے ہو جائیں.“ اس پر ۲۶۶ احباب کھڑے ہوئے.جو دوست یہ چاہتے ہیں کہ یہ پابندی منسوخ کر دی جائے اور جماعت کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے کہ جو دوست مناسب سمجھیں غیر احمدی لڑکیاں لے لیں وہ کھڑے ہو جائیں.“ اس پر صرف ۲۴ ا حباب کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا :- میں کثرتِ رائے کی تائید میں فیصلہ کرتا ہوں مختلف دوستوں نے اس بارہ میں اپنے خیالات ظاہر کئے ہیں.اس کی تائید میں بھی اور مخالفت میں بھی بالعموم دوستوں نے اس بات کو لیا ہے کہ غیر احمدی لڑکی لے لینے میں کیا نقصان ہے یا نہ لینے میں کیا فائدہ ہے.میرے نزدیک ہمارے سامنے یہ سوال زیر بحث نہ تھا کہ غیر احمدی لڑکی کا رشتہ لینے میں کیا نقصان ہے یا نہ لینے میں کیا فائدہ یا نقصان ہے.یہ بات تو ظاہر ہے کہ جس بات سے خدا تعالیٰ نے منع نہیں کیا اُس میں ضرور کچھ فوائد ہیں اور جن کو ناجائز قرار دیا ہے اُن میں بھی اتمهما اكبرُ مِنْ نَفْعِهِما ل کا اصول ہے یعنی فوائد تو ان میں بھی ہیں مگر ان کے فوائد سے ان کی مضرتیں زیادہ ہیں.اگر شراب اور جوئے میں بھی کچھ نہ کچھ منافع ہیں تو
خطابات شوریٰ جلد دوم ۵۳۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء دوسری چیزیں جن کی شناعت ان سے بہت کم ہے یہ خیال کرنا کہ ان میں کوئی فائدہ نہیں بالکل غلط ہے.جو باتیں ہر رنگ میں مصر ہیں اُن کو شریعت نے حرام کر دیا ہے.جو درمیانی حالت میں ہیں وہ ہر رنگ میں حلال نہیں اور ہر رنگ میں حرام بھی نہیں اور ان کے متعلق اصول یہی ہے کہ قومی حالات کے مطابق ان کے متعلق فیصلہ کر لیا جائے.مثلاً گوشت اور سبزیاں وغیرہ ہیں مگر کبھی طبیب کسی کو گوشت کھانے سے یا شلغم یا کوئی سبزی کھانے سے منع کر دیتا ہے اب یہ چیزیں اسکے لئے حرام تو نہیں مگر چونکہ اس کی حالت کے لحاظ سے اس کے لئے ان کی مضرتیں فوائد سے بڑھ گئی ہیں اس لئے اسے انکا استعمال کرنے سے روک دیا جاتا ہے.اب اگر کوئی ایسے شخص کو سامنے رکھ کر اسلامی نقطہ نگاہ کے پیش نظر اس سوال پر بحث شروع کر دے کہ گوشت مفید ہے یا مضر تو وہ نادان ہوگا کیونکہ یہ تو اس کے خاص حالات کی وجہ سے تھا اسی طرح یہ سوال بھی وقتی حیثیت رکھتا ہے.ایک بات رہ گئی ہے جو اصل بحث سے متعلق ہے اور وہ یہ کہ اس زمانہ میں لڑکے زیادہ اور لڑکیاں کم ہیں اور اگر یہ درست ہو تو غیر احمدی لڑکیاں لینا حسب حالات جائز رکھنا چاہئے.ناظر صاحب امور عامہ کی تحقیقات یہی ہے اور گورنمنٹ کی تحقیقات بھی یہی ہے کہ پنجاب میں لڑکے، لڑکیوں کی نسبت زیادہ ہیں، اگر سولر کے ہیں تو ۹۶ یا ۹۸ لڑکیاں ہیں.بعض قوموں میں یہ نسبت کم و بیش ہے مگر بحیثیت مجموعی فرق ضرور ہے.اسی نسبت کے لحاظ سے ہمارے ہاں بھی لڑکے زیادہ ہوں تو کوئی تعجب کی بات نہیں.معروف خاندانوں میں بھی لڑکے زیادہ اور لڑکیاں کم ہیں.ہمارے اپنے خاندان میں میرے۳الر کے اور ۹ لڑکیاں ہیں.مرزا شریف احمد صاحب کے بھی لڑکے زیادہ ہیں اور پھر آگے ہماری اولادوں میں بھی نسبت قریباً برابر ہے مگر ابھی ان کے ایک ایک دو دو بچے ہیں اس لئے صحیح قیاس نہیں کیا جاسکتا مگر سارے ملک میں عام حالات یہی ہیں کہ لڑکے زیادہ ہیں اور لڑکیاں کم ہیں اور اس نقطہ نگاہ سے اگر دیکھا جائے تو ہمیں یہی فیصلہ کرنا چاہئے کہ باہر سے لڑکیاں لائیں ورنہ ہمارے لڑکے کنوارے رہیں گے اور ان کے اخلاق گر جائیں گے.اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر جو شہوانی جذبات پیدا کئے ہیں ان کو دبانا شاذ حالات میں ہی مفید ہوسکتا ہے ورنہ عام طور پر مصر ہی ہوتا ہے اس دریا کے بہاؤ کو روکنا مناسب نہیں.اس لحاظ سے
خطابات شوری جلد دوم ۵۳۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء ہمیں اس سوال پر غور کرنا چاہئے کہ اگر ہماری جماعت میں لڑکے زیادہ اور لڑکیاں کم ہوں تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ مگر اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی ضرور دیکھنا چاہئے کہ اگر باہر سے ہم لڑکیاں لائیں تو اس کی کیا صورت ہوگی؟ اور اگر یہ ثابت ہو کہ لانے میں مضرت زیادہ ہے تو ہمیں یہ دروازہ نہ کھولنا چاہئے.ناظر صاحب امور عامہ نے جو اعداد پیش کئے ہیں اُن کے ساتھ اس بات کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ مقابلہ کی کئی اور نسبتیں بھی ہوتی ہیں.اس زمانہ میں لڑکوں کی ایک خاصی تعداد ایسی ہوتی ہے جو شادی کے قابل نہیں ہوتی اور اس لئے ہمیں یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہئے کہ لڑکوں میں ایسا حصہ کتنا ہے.بعض اور باتیں اور اخلاق بھی مدنظر رکھنے ضروری ہوتے ہیں جن کی وجہ سے اس نسبت میں فرق پڑ جاتا ہے.اور جب تک ان سب باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مردم شماری نہ کرائی جائے کوئی اعداد قابل اعتبار نہیں سمجھے جا سکتے.لیکن اگر اس بات کو مد نظر نہ بھی رکھا جائے تو بھی یہاں یہ سوال زیر بحث نہیں کہ لڑکیاں لینی ناجائز ہیں یا جائز.بلکہ صرف یہ سوال ہے کہ جو احمدی کسی غیر احمدی لڑکی سے رشتہ کرنا چاہے وہ مرکز کی اجازت سے ایسا کرے.گویا محکمہ اس کی ضرورت کو تو تسلیم کرتا ہے مگر یہ چاہتا ہے کہ اس امر کا فیصلہ اس کے ہاتھ میں ہو کہ زید یا بکر کو ایسا کرنے کی اجازت دی جائے یا نہیں.اُس نے اِس کی ضرورت کو تو تسلیم کر لیا ہے ورنہ یہ بات پیش کی جاتی کہ غیر احمدی لڑکی سے شادی قطعا روک دی جائے.اجازت سے کرنے کے معنی سوائے اس کے کچھ نہیں ہیں کہ وہ تسلیم کرتا ہے کہ بعض صورتوں میں اجازت ہونی چاہئے.مقصد صرف یہ ہے کہ وہ دیکھ سکے کہ آیا زید اگر غیر احمدی لڑکی سے شادی کرے تو یہ سلسلہ کے لئے مفید ہوگا یا مضر.ہو سکتا ہے ایک شخص ایسا ہو جس کے ماں باپ بھی غیر احمدی ہیں یا کمزور احمدی ہیں وہ خود بھی کمزور ہے.اگر اس کی شادی بھی غیر احمد یوں میں ہو جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ خاندان بالکل احمدیت سے کٹ جائے گا یا کم سے کم اس لڑکے کے لئے تو خطرہ بہت بڑھ جائے گا.اور ایک اور ہے جو خود بھی احمدیت میں مضبوط ہے اور اُس کے ماں باپ بھی پکے احمدی ہیں اگر وہ غیر احمدی لڑکی سے شادی کرے تو بہت حد تک امید کی جاسکتی ہے کہ وہ بھی احمدی ہو جائے گی.اب محکمہ صرف یہ چاہتا ہے کہ اسے صرف یہ اختیار ہو کہ رشتہ کرنے والے کے اپنے نیز اس کے خاندان کے حالات کو دیکھتے
خطابات شوری جلد دوم ۵۳۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء ہوئے اجازت دینے یا نہ دینے کا سوال اُس کے اختیار میں رہے.اگر وہ دیکھے کہ کسی کی غیر احمدی لڑکی سے شادی اس کے نیز اس کے خاندان کے لئے احمدیت کے نقطہ نگاہ سے مضر ہے تو وہ اسے روک دے اور اگر وہ کوئی حرج نہ دیکھے بلکہ فائدہ کی امید ہو تو اجازت دے دے.وہ صرف یہ دیکھے گا کہ کون سے گھر میں غیر احمدی لڑکی کا آنا مینر ہوسکتا ہے اور کون سے گھر میں مفید ہو سکتا ہے اسی لئے میں نے کثرتِ رائے کی تائید پر فیصلہ کر دیا ہے.سے اس میں تعلقات کو قائم رکھنے، تبلیغ کا راستہ کھلا رہنے اور لڑکیاں کم ہونے کی وجہ سے ضرورت کو تو تسلیم کیا گیا ہے مگر صرف فیصلہ کسی ایسے ہاتھ میں رکھا گیا ہے جو سلسلہ کے مفاد کو مد نظر رکھ سکے.یہ نظارت کا کام ہوگا کہ دیکھ لے جو شخص اجازت مانگتا ہے وہ خود اور اس کے متعلقین احمدیت میں پختہ ہیں یا کمزور؟ اور پھر حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے سلسلہ کے مفاد کے لحاظ سے مناسب مشورہ دے.نظارت کو بھی اس بات کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہئے کہ اجازت کسی اصول کے ماتحت دی جائے.یہ نہ ہو کہ جو درخواست دے اسے منظور کر لیا جائے.اس صورت میں تو یہ ساری پابندی صرف ناظر کی عزت افزائی تک محدود ہو جائے گی.بعض دوستوں نے کہا ہے کہ خدا تعالیٰ نے غیر احمدیوں سے جو تعلقات توڑ دیئے ہیں مثلاً نماز، جنازہ وغیرہ وہ تو بند ہی ہیں جو اس نے کھلے رکھے ہیں وہ تو کھلے رہنے چاہئیں.یہ صرف جذباتی باتیں ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب کسی امر کی اجازت دی جاتی ہے تو اس کے معنی بھی یہ ہوتے ہیں کہ انسان اپنے حالات کے لحاظ سے یہ دیکھ لے کہ ایسا کرنا اس کے لئے مفید ہے یا مینر اور کس وقت اللہ تعالیٰ کا منشاء اس طرح پورا ہوتا ہے کہ اس اجازت سے فائدہ اٹھایا جائے اور کس وقت اس طرح کہ نہ اُٹھایا جائے ، ہر حالت میں یہ دیکھنا چاہئے کہ دین کا فائدہ کس میں ہے.پس اجازت کے معنی ضروری طور پر یہ نہیں ہوتے کہ ان پر کسی قسم کی پابندی عائد کرنا جائز ہی نہیں.ہمارے اپنے خاندان میں میری بیویوں کے غیر احمدی رشتہ دار ہیں اور ان سے ظاہری تعلقات بڑے اچھے ہیں اور میں سمجھتا تھا کہ اگر ہم اُن کی لڑکیاں لے آئیں تو بہت مفید ہوگا مگر جماعت میں جب میں نے اس طرف میلان دیکھا کہ احمدی اپنے غیر احمدی رشتہ داروں کی لڑکیاں لانے کی طرف مائل
خطابات شوری جلد دوم ۵۳۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء تھے تو میں نے یہ خیال ترک کر دیا کیونکہ میں نے سمجھا کہ اس مثال کو سامنے رکھ کر لوگ عام طور پر ایسا کرنے لگیں گے اور ایک خاندان کے لحاظ سے تو گو یہ فعل احمدیت کے نقطہ نگاہ سے مفید ثابت ہومگر ہزار خاندانوں کو نقصان پہنچ جائے گا.مومن کی عقل و فہم کا امتحان پس مومن کو ہر وقت یہ دیکھنا چاہئے کہ کس وقت خدا تعالی کا منشاء کیا ہے.ایسی اجازت دراصل مومن کی عقل و فہم کا امتحان ہوتی ہے.جہاں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ نماز پڑھو تو یہ اخلاص کا امتحان ہوتا ہے کیونکہ نماز ہر حال میں فرض ہے لیکن جہاں اجازت ہو کہ آدمی چاہے تو کرے اور چاہے تو نہ کرے وہاں اُس کی عقل اور فہم کا امتحان ہوتا ہے.دینی امور میں تفقہ بھی ضروری ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مرتبہ کہیں باہر تشریف لے گئے نماز کا وقت ہوا تو حضرت عباس نے لوٹا لا کر آپ کو وضو کرایا.آپ نے دعا فرمائی کہ اللَّهُمَّ فَقَهُهُ فِي الدین کا یعنی اے اللہ اس نے عقل سے کام لیا ہے اس کی عقل کو دینی امور میں تیز کر دے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کئی بار صرف یہ بتانے کے لئے کہ مومن ہونا ہی کافی نہیں بلکہ عقل بھی تیز ہونی چاہئے ایک مثال دیا کرتے تھے.فرماتے کسی انسان کا دوست ایک ریچھ تھا.اس شخص کی ماں بیمار تھی اور وہ اس کے پاس بیٹھا مکھیاں اُڑا رہا تھا کہ اسے تکلیف نہ ہو.کسی نے اسے باہر بلایا تو وہ اپنے جگہ پر مکھیاں اُڑانے کے لئے ریچھ کو بٹھا گیا.ریچھ نے مکھیاں اُڑانی شروع کیں تو ایک مکھی بار بار آ کر وہیں بیٹھے وہ اسے اُڑائے مگر وہ پھر آ کر بیٹھ جائے.اب اگر آدمی ہوتا تو سمجھتا کہ مکھی کا کام بیٹھنا ہے اور میرا کام اسے ہٹانا مگر ریچھ میں عقل تو تھی نہیں اس نے سوچا کہ اسے ایسا ہٹا نا چاہئے کہ پھر نہ آ کر بیٹھ سکے.پس اس نے ایک بڑا سا پتھر اٹھایا اور جب مکھی آکر بیٹھی تو زور سے پتھر اس پر دے مارا.لکھی نے تو کیا مرنا تھا اس سے اس کے دوست کی ماں کی جان نکل گئی.تو خالی اخلاص ہر موقع پر کام نہیں آتا بلکہ عقل بھی ضروری ہے.پس جہاں تو خدا تعالیٰ نے کسی کام کا حکم دیا ہے وہاں تو صرف اخلاص کا امتحان ہے.مگر جہاں اجازت دی ہے چاہو کرو چا ہو نہ کرو وہاں عقل کا امتحان لیا ہے.وہاں یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ آیا انسان اس اجازت سے موقع و محل کے لحاظ سے فائدہ اٹھاتا ہے یا بے موقع.آیا اندھا دھند فیصلہ کرتا ہے یا
خطابات شوری جلد دوم ۵۳۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء موازنہ کر کے دیکھتا ہے کہ کیا کرنا چاہئے اور کیا نہ کرنا چاہئے.پس اگر غیر احمدی لڑکی سے رشتہ کی اجازت ہے تو یہ ہماری عقل اور فہم کا امتحان ہے اور یہ دیکھنا ضروری ہے کہ لینا مفید ہے یا نہ لینا اور میں سمجھتا ہوں موجودہ حالات کے لحاظ سے یہی ضروری ہے کہ اس حد بندی کو قائم رکھا جائے.دراصل شریعت کی اجازت بھی حالات کے مطابق ہی استعمال کی جائے تو مفید ہو سکتی ہے.ایک وقت ایسا ہوتا ہے کہ اجازت کے پہلو کی طرف قوم زیادہ راغب ہو جاتی ہے تو پابندی لگانا ضروری ہو جاتا ہے اور ایک وقت اس طرف توجہ ہی نہیں رہتی تو اسے جاری کرنا ضروری ہو جاتا ہے.جب کوئی قوم نئی نئی بنتی ہے تو جن لوگوں سے نکل کر آتی ہے اُن کی طرف لوٹنے کے لئے اس کے اندر زیادہ میلان ہوتا ہے اس لئے ایسے موقع پر پابندی لگا نا ضروری ہو جاتا ہے مگر جب فاصلہ زیادہ ہو جائے تو طبعا اس سے دور ہو جاتی ہے.ایسے وقت میں ایک دوسرے سے قریب ہونے کے لئے اجازت سے فائدہ اٹھانا ضروری ہو جاتا ہے.مثلاً کئی دفعہ میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی ہے کہ ہمارے لوگ ہندو عورتوں سے شادیاں کریں.اکبر کے زمانہ میں ایسی شادیاں ہوئیں مگر ان سے خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں ہوسکا کیونکہ ہند و عام طور پر یہی سمجھتے ہیں کہ یہ شادیاں جبر سے ہوئیں مگر اب ایسا وقت نہیں ہے.اب اگر ایسی شادیاں ہوں تو انہیں جبر کا نتیجہ نہیں کہا جا سکتا اور میں نے کئی تو مسلموں سے کہا ہے کہ میں روپیہ دیتا ہوں اور تم شادیاں کرو.تو ایسے وقت میں ہندو عورتوں سے شادیاں کرنا زیادہ مفید ہو سکتا ہے کیونکہ اب اس بات کا کوئی خطرہ نہیں کہ مسلمان ہندو ہو جائیں گے یہ بات اب ناممکن ہے.مگر ہمارے ہاں اب یہ حالت ہے کہ اگر ایک شخص احمدی ہے تو اس کے خاندان کے دس غیر احمدی ہیں.اب اگر اس اجازت سے فائدہ اٹھانے کی عام اجازت دے دی جائے تو اس بات کا بھی احتمال ہو سکتا ہے کہ باقی سب رشتہ دارمل کر اس اکیلے کو اپنے ساتھ ملا لیں.اس وقت کئی دوستوں نے ایسی مثالیں لکھ کر بھیجی ہیں کہ غیر احمدی لڑکیاں جب احمدیوں کے ہاں بیاہی گئیں تو احمدی ہو گئیں مگر سوال یہ ہے کہ غیر احمدی لڑکیوں کا احمدی ہو جانا اتنا مفید نہیں جتنا کسی احمدی کا غیر احمدی ہو جانا مضر ہے.فرض کرو ۱۰۰ رشتے غیر احمد یوں
۵۳۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء خطابات شوریٰ جلد دوم میں ہوئے ان میں سے ہیں لڑکے غیر احمدی ہو گئے اور اسی لڑکیاں احمدی ہو گئیں.تو ہمارے لئے ان استی لڑکیوں کا احمدی ہونا اتنا مفید نہیں جتنا ہمیں احمدیوں کا غیر احمدی ہو جانا مضر ہے.اللہ تعالیٰ نے جو کچھ ہمارے ہاتھ میں دیا ہے زیادہ لینے کے خیال سے اس کے قلیل حصہ کو بھی خطرہ میں ڈالنا جائز نہیں.ہمارا فرض یہی ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ نے ہمیں دیئے ہیں اُن کے ایمانوں کی حفاظت کریں.یہ ہماری کامیابی نہیں ہوگی کہ ہم ۹۹ غیر احمد یوں میں سے جیت لائیں اور ایک اپنے میں سے اُن میں جانے دیں.ایمانی جذبہ کا تقاضا یہ ہونا چاہئے کہ ہم اس ایک کو نہ جانے دیں خواہ ۹۹ آ ئیں یا نہ آئیں.پس ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میں کثرتِ رائے کے فیصلہ کو درست قرار دیتا ہوں.“ 66 الفضل پر اعتراضات کے جوابات روزنامہ الفضل قادیان کے بارہ میں ایک تجویز پر بحث کرتے ہوئے بعض احباب نے کچھ باتیں ناقدانہ رنگ میں کہیں.حضور نے اس سلسلہ میں وضاحت کرتے ہوئے فرمایا :- الفضل کے متعلق بعض باتیں کہی گئی ہیں جن میں سے بعض تو غیر متعلق ہیں.یہ تو ہوسکتا تھا کہ انہیں بطور تجویز نظارت میں بھیج دیا جاتا یہاں ان کے پیش کرنے کا موقع نہ تھا.بعض باتیں جو کہی گئی ہیں وہ درست نہیں ہیں.بار بار کہا گیا ہے اور اس پر بہت زور دیا گیا ہے کہ یہ ایک پیسہ کا اخبار ہے جو تین پیسہ میں فروخت ہوتا ہے.میں اس اعتراض کو اُس وقت تک تسلیم نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ دوست جن کا یہ خیال ہے یہاں قادیان میں اسے ایک پیسہ میں تیار کر کے نہ دکھا ئیں.اصل خرچ تو کاغذ، کتابت ، طباعت اور سیاہی وغیرہ کا ہوتا ہے اور ایسے ہی کاغذ پر اور ایسی طباعت کے ساتھ اگر وہ ایسا اخبار ایک پیسہ میں تیار کرا دیں تو میں اس اعتراض کو درست مان سکتا ہوں.باقی رہی یہ بات کہ دہلی میں یا لا ہور میں چھپ سکتا ہے ممکن ہے یہ صحیح ہو مگر ہم اسے نہ تو دہلی سے شائع کر سکتے ہیں اور نہ لا ہور سے.وہ دوست یہاں ایک ہفتہ ٹھہریں، میں تمام انتظام اُن کے سپر د کرادوں گا اور ہ یہاں ایک پیسہ میں ایسا اخبار تیار کرا دیں.پھر ان کو اِس اعتراض کا حق ہوگا اور وہ کہہ سکیں گے کہ اس کی قیمت بہت زیادہ ہے ورنہ یونہی اعتراض کر دینا کوئی مشکل امر نہیں.وہ
۵۴۰ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء خطابات شوری جلد دوم میں یہ تو نہیں کہتا کہ جو کاغذ اس وقت الفضل کو لگایا جاتا ہے وہ بہت اچھا ہے یا اس میں ترقی کی گنجائش باقی نہیں لیکن اس بات کو بھی اُس وقت تک صحیح نہیں مان سکتا جب تک عملاً اسے درست ثابت کر کے دکھا نہ دیا جائے کہ یہ ایک پیسہ قیمت کا اخبار ہے اور ایک پیسہ سے زیادہ نہیں پکنا چاہئے.اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ جو اخبار ایک پیسہ میں فروخت ہو وہ اول تو دمڑی نہیں تو کم سے کم دھیلہ میں تو ضرور تیار ہونا چاہئے.جو پر چہ دہلی اور کلکتہ میں جاکر ایک پیسہ میں پکنا ہو وہ دمڑی یا زیادہ سے زیادہ دھیلہ میں تیار ہو تو تبھی پک سکتا ہے ورنہ نہیں.پس وہ دوست اس اخبار کو اول تو دمڑی نہیں تو دھیلہ میں تیار کرا دیں.میں انتظام ان کے ہاتھ میں دینے کو تیار ہوں وہ آ ئیں اور تیار کر کے دکھا دیں.میں ذمہ دار ہوں کہ ان کو آزادی کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیا جائے گا اور ان کی تجاویز کو منظور کر لیا جائے گا.لیکن اگر اتنا ئستا وہ تیار نہ کراسکیں یا اگر پیسہ میں تیار کرائیں تو پھر بھی زیادہ نہیں تو دہلی اور کلکتہ وغیرہ شہروں میں دو پیسہ میں تو ضرور ہی بیچنا ہوگا اور اس صورت میں پھر ان پر بھی یہی اعتراض کیا جا سکے گا کہ پیسہ کا اخبار دو پیسہ میں فروخت کیا جا رہا ہے.وہ اس اعتراض میں اُسی صورت میں حق بجانب ہو سکتے ہیں کہ دمڑی یا دھیلہ میں اخبار تیار کر کے دکھا دیں تا وہ پیسہ میں فروخت ہو سکے.وہ کہتے ہیں کہ ان کو اخبار نویسی کا بہت پرانا تجربہ ہے مگر میں نے بھی یہ کام کیا ہے اور خود ایڈیٹر رہا ہوں اور میں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے اُنگلیوں پر ہی ایسے حساب کر سکتا ہوں.میرا اندازہ یہی ہے کہ کاغذ کی موجودہ قیمت ، طباعت اور اخراجات کے پیش نظر وہ ڈیڑھ پیسہ میں تیار نہیں ہوسکتا.پھر پوسٹیج، ریل کا محصول، ایجنٹوں کا کمیشن اور ملازموں کی تنخواہ وغیرہ اس سے علاوہ ہیں.ایک اور اعتراض خبروں پر کیا گیا ہے کہ وہ بہت پرانی ہوتی ہیں اور کہا گیا ہے کہ کیوں تازہ خبریں نہیں مل سکتیں ؟ میں تو یہ بات سمجھ بھی نہیں سکتا کہ تازہ خبریں نہ مل سکنے کا خیال بھی کیسے کیا جاسکتا ہے.رائٹر ایجنسی یا کسی اور خبر رساں ایجنسی کو تین چار سو روپیہ ماہوار دیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ خبریں نہ مل سکیں.مگر واقعہ یہ ہے کہ ایجنسیاں اپنی اُجرت لے کر خبریں مہیا کرنے کو تیار ہیں، الفضل اتنا روپیہ دینے کو تیار ہے مگر ڈاکخانہ کہتا ہے کہ ہم رات کو تار تقسیم نہیں کر سکتے اور جو تار آئیں وہ اگر رات کو نہ مل سکیں تو چار سو روپیہ خواہ مخواہ
خطابات شوری جلد دوم ۵۴۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء ضائع کرنے والی بات ہے.ایک دوست نے کہا ہے کہ خبریں چار روز کی باسی ہوتی ہیں.مجھے افسوس ہے کہ ہمارے بعض دوست ایسی غلط باتیں کہنے میں بھی تامل نہیں کرتے.ممکن ہے کوئی ضروری خبر ایک دن رہ جائے تو بعد میں بھی دے دی جائے.اگر کسی ایسی خبر کی بناء پر خبروں کو باسی کہا گیا ہے تو ایسی باسی خبر میں تورسول اور شیشمین میں بھی ہوتی ہیں.ورنہ یوں میں نے دیکھا ہے کہ الفضل کی خبریں سول کے ساتھ ہوتی ہیں.ایک خبر میں صبح الفضل میں پڑھ لیتا ہوں تو بعد میں سول آتا ہے تو اس میں بھی وہی ہوتی ہے.(آنریبل سر ظفر اللہ خان صاحب نے بھی اس بات کی تائید آہستہ سے کی ) پس یہ بالکل غلط ہے کہ چار چار روز کی باسی خبریں اس میں ہوتی ہیں.خبریں سول کے ساتھ ہوتی ہیں بلکہ بعض لوگ تو یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ یہ خبریں کہیں سے چوری کی جاتی ہیں.ایک اور بات بھی مدنظر چاہئے اور وہ یہ کہ یہاں جو خبر آج شائع ہو وہ کلکتہ، بمبئی اور دہلی وغیرہ شہروں میں تو دو یا تین روز بعد ہی پہنچ سکتی ہے.اور اگر اعتراض کرنے والے نے اس بات کو مد نظر نہیں رکھا کہ آخر اخبار پہنچنے میں بھی تو وقت لگتا ہے تو یہ بھی اس کی غلطی ہے.اور اگر اس بات کا خیال نہ رکھا جائے تو سول اور سٹیٹسمین کی خبروں کو بھی چار روز کی باسی کہنا پڑے گا کیونکہ ان کو پہنچنے میں بھی کچھ وقت لگتا ہے.الفضل والوں کے پاس کوئی ہوائی جہاز تو ہیں نہیں کہ اُسی روز اخبار کالا باغ پہنچا دیں.انسان کو چاہئے کہ بات کرنے سے پہلے دیکھ لے کہ اس میں معقولیت کہاں تک ہے.یہ صحیح ہے کہ سول اور دوسرے اخبار جو لاہور سے نکلتے ہیں دوسرے شہروں میں پہلے پہنچ جاتے ہیں.مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ لاہور سے صبح سویرے گاڑیاں چلی جاتی ہیں.اور الفضل وہاں بعد میں پہنچتا ہے.اگر تو گاڑیاں شام کو چلیں تو الفضل بھی ان کے ساتھ پہنچ سکتا ہے مگر وہ تو لاہور سے صبح سویرے پوسٹ ہو جاتے ہیں اور الفضل شام کو لاہور پہنچتا ہے، ایسی صورت میں دونوں کا مقابلہ کس طرح ہوسکتا ہے.یہ بھی کہا گیا ہے کہ روزانہ اخبار کی ضرورت نہیں ہفتہ وار ہی کافی ہے.اس کے متعلق میں یہ کہوں گا کہ پانچ وقت نمازوں کی کیا ضرورت ہے؟ اللہ تعالیٰ نے پانچ وقت کی نمازیں کیوں فرض کر دیں جبکہ ہر نماز میں وہی بات دہرائی جاتی ہے، ساری عمر میں ایک ہی نماز کافی تھی.ہر دو تین گھنٹے کے بعد نماز کا حکم کیوں دے دیا گیا ؟ پس جس طرح اللہ تعالیٰ نے نماز
خطابات شوری جلد دوم ۵۴۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء کا تکرار ضروری قرار دیا ہے اسی طرح دین کی باتوں کا تکرار بھی ضروری ہے.یہ بات بھی صحیح نہیں کہ مولوی ابو العطاء کے مضامین کے سوا الفضل میں کام کا کوئی مضمون ہی نہیں ہوتا.میں علماء کے مضامین کا اس وقت ذکر نہیں کرتا.لاہور کے ایک طالب علم خورشید احمد صاحب کے مضامین بعض اوقات الفضل میں چھپتے ہیں جو بہت اچھے ہوتے ہیں اور میں ہمیشہ ان کو دلچسپی سے پڑھتا ہوں.حوالے بھی گو بالکل نئے تو نہیں ہوتے تاہم ایسے ضرور ہوتے ہیں جو عام طور پر مستعمل نہیں ہیں.پس یہ بالکل صحیح نہیں کہ مولوی ابوالعطاء کے مضامین کے سوا کوئی اچھا مضمون نہیں ہوتا.پھر میر محمد الحق صاحب کا درس حدیث چھپتا ہے.اس کی کسی ت سے مجھے اختلاف بھی ہو سکتا ہے مگر اس میں شک نہیں کہ وہ بہت مفید سلسلہ ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات اور آپ کی زندگی کے واقعات نہایت مؤثر پیرا یہ میں اور تکرار کے ساتھ سامنے آتے رہتے ہیں اور یہ سلسلہ علمی اور عملی دونوں لحاظ سے بہت مفید ہے.کہا گیا ہے کہ باسی خبروں اور بعض مضامین وغیرہ کو پڑھ کر لوگ ہنسی اُڑاتے ہیں لیکن لوگوں کی ہنسی کا کیا ہے لوگ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتوں کی بھی ہنسی اُڑایا کرتے تھے اور اب بھی اڑاتے ہیں.پس لوگوں کی ہنسی اگر کوئی معیار ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتوں کو بھی نعوذ باللہ قابلِ اعتراض ماننا پڑے گا.پس لوگوں کی ہنسی کوئی چیز نہیں.میں یہ نہیں کہتا کہ الفضل میں ترقی کی گنجائش نہیں اور اس سے اچھے مضامین لکھے نہیں جاسکتے لیکن یہ بھی تو یاد رکھنا چاہئے کہ ایسے مضامین جو پہلے نظر سے نہ گزرے ہوں اور جو بالکل اچھوتے ہوں وہ تو اس صورت میں لکھے جا سکتے ہیں کہ سٹاف بھی بہت اعلیٰ درجہ کا تعلیم یافتہ ہو.اور ظاہر ہے کہ ایسے آدمی فی الحال ہمارے پاس نہیں ہیں.ایسے آدمی واقفین میں سے مل سکتے ہیں مگر وہ ابھی تیار نہیں ہو سکے.اور پھر اگر غیر واقفین میں سے ایسے لوگ مل بھی جائیں تو وہ تنخواہیں بھی تو بڑی بڑی لیں گے.اگر سکول کا ہیڈ ماسٹر بن کر ایک شخص اڑھائی سو روپیہ ماہوار لے سکتا ہے تو ایڈیٹر کیوں اتنی بلکہ اس سے زیادہ کا مطالبہ نہ کرے گا.وہ بھی کہہ سکتا ہے کہ جیسی خدمت وہ کرتا ہے ویسی ہی میں کرتا ہوں.پھر ایسے اچھوتے مضامین لکھنے کے لئے عملہ الفضل کے پاس ضروری لٹریچر ?
خطابات شوری جلد دوم ۵۴۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء کہاں ہے.ایسے مضامین کے لئے کم سے کم دس پندرہ ہزار روپیہ کی لائبریری ہونی ضروری ہے.مگر یہاں الفضل کے دفتر میں تو ۱۵ روپیہ کی کتابیں بھی نہیں ہوں گی.کوئی کتاب کہیں سے ریویو کے لئے آگئی تو وہ ہوگی.یا پھر کسی نے اپنی ذاتی کتابوں سے فائدہ اُٹھا لیا.یہاں تو ایک انسائیکلو پیڈیا تک نہیں.پس اس بات کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ اچھے کام کے لئے اچھے سامان بھی ضروری ہیں.یہ صحیح ہے کہ دوسرے شہروں سے نکلنے والے اخباروں کے پاس بھی بڑی بڑی لائبریریاں نہیں ہوتیں مگر وہ تو قیچی اخبار کہلاتے ہیں اور مضامین اِدھر اُدھر سے کاٹ کاٹ کر کاتبوں کو دیتے جاتے ہیں.لالا دینا ناتھ صاحب پنجاب کے بہت پرانے اخبار نویس ہیں، میں ایک دفعہ شیخ یعقوب علی صاحب کے ساتھ اُن سے ملنے گیا تو دیکھا کہ ہاتھ میں قینچی ہے اور کوئی ٹکڑا کہیں سے اور کوئی کہیں سے کاٹ کاٹ کر کا تب کو دیتے جاتے ہیں پڑھنے والوں کو اس بات کا کیا علم.وہ تو یہی سمجھتے ہیں کہ فلاں ایڈیٹر صاحب نے بہت محنت کی ہے لیکن الفضل ہمارا ند ہی پرچہ ہے اسے تو اس طرح پر نہیں کیا جاسکتا.جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں قیمت پر جس دوست نے اعتراض کیا ہے وہ شوق سے آگے آئیں اور دمڑی یا دھیلہ میں ہی اخبار تیار کر کے دکھا دیں.کتابت اور طباعت کی اجرتیں اگر زیادہ ہوں تو وہ انہیں کم کر سکتے ہیں، اسی طرح کاغذ کا نرخ اگر ارزاں ہو سکے تو کرالیں مگرستا اخبار نکال کر دکھا دیں.میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ دہلی میں اگر ایسا ہوسکتا ہو تو ممکن ہے ہو سکے یہاں نہیں ہوسکتا.اسی دوست نے دہلی کے ایک اخبار (ریاست) کا نام لیا ہے مگر یہ اخبار جس طرح نکلتے ہیں میں خوب جانتا ہوں.امراء ، رؤساء اور والیان ریاست کو مرعوب کرتے اور دھمکیاں دیتے ہیں کہ ہمیں فلاں بات کا علم ہو چکا ہے اب ہم اسے شائع کر دیں گے اور اس طرح ان سے بڑی بڑی رقوم لیتے ہیں مگر ہم الفضل کو اس طرح نہیں چلا سکتے.تاہم اگر وہ دوست چاہیں تو میں انہیں موقع دے سکتا ہوں.یا کل کا دن ابھی مشاورت باقی ہے وہ میرے پاس آ کر حساب کر کے ہی بتا دیں کہ اس طرح دمڑی یا دھیلہ میں اخبار تیار ہوکر پیسہ میں پک سکتا ہے.“.اس کے بعد حضور نے سب کمیٹی کی تجویز کو پڑھ کر فرمایا کہ:-
خطابات شوری جلد دوم " ۵۴۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء یہ تجویز اب دوستوں کے سامنے ہے.بعض لوگوں نے اس بات پر اعتراض کیا ہے کہ سب کمیٹی نے عمداً فاروق کا نام نہیں لیا جو اسے نقصان پہنچانے والی بات ہے.مگر یہ الزام صحیح نہیں.اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ سب کمیٹی نے سمجھا کہ اگر فاروق کا معتین طور پر نام لیا گیا تو جنبہ داری کا الزام اس پر عائد ہو سکے گا اور الحکم یا کوئی دوسرا اخبار کہہ سکے گا کہ اسے کیوں نظر انداز کیا گیا.اس لئے کمیٹی نے کسی کا نام نہیں لیا مگر با قاعدہ ہفتہ وار نکلنے کی شرط لگا دی.پس اس نے فاروق کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کی بلکہ اپنے آپ کو اعتراض سے بچانا چاہا.اس تجویز کے متعلق خادم صاحب نے یہ ترمیم پیش کی ہے کہ جس جماعت کے چندہ دہندگان کی تعداد ہیں یا بیس سے زیادہ ہو وہ لازماً روزانہ الفضل منگوائے اور جس جماعت کے چندہ دہندگان اس سے کم ہوں وہ کم سے کم الفضل کا خطبہ ایڈیشن یا فاروق خریدے.اور مولوی مبارک علی صاحب کی ترمیم اس کے متعلق یہ ہے کہ صوبہ بنگال کے لئے بنگلہ اخبار احمدی کو الفضل کے خطبہ نمبر یا فاروق کا قائمقام سمجھا جائے اور یہ کہ اخبار اس وقت پندرہ روزہ ہے اس لئے ہفتہ وار کیا جائے.اسے ہفتہ وار کرنا تو ہمارے اختیار میں نہیں.باقی اسے فاروق یا الفضل کے خطبہ نمبر قرار دیئے جانے کے حق میں جو دوست ہوں وہ 66 کھڑے ہو جائیں.“ اس پر ۲۳۴ دوست کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا: - اس کے خلاف رائے لینے کی ضرورت نہیں.پھر فرمایا : - جو دوست خادم صاحب کی ترمیم کے حق میں ہوں وہ کھڑے ہو جائیں.“ اس پر ۱۱۳ احباب کھڑے ہوئے اور اس کے خلاف ۷۶.حضور نے فرمایا :- ”میرے نزدیک یہ تجویز قابل عمل نہیں.میں ہیں چندہ دہندگان افراد کی کئی جماعتیں ہیں جو روزانہ الفضل نہیں منگوا سکتیں.دراصل زمیندار جماعتوں کے لئے یہ بہت مشکل ہے.ایک دوست کو جو زمیندار تھے اور جن کی مالی حالت بہت خراب ہو رہی تھی میں نے پوچھا کہ آپ کی زمین کتنی ہے؟ انہوں نے کہا کہ جی زمین تو بہت کافی ہے دو کنال ہمارے باپ نے چھوڑی تھی چار ہم نے خود پیدا کی.زمین تو کافی ہے یہ کوئی خدا کی طرف
خطابات شوری جلد دوم ۵۴۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء سے مار ہی ہے جو حالت ٹھیک نہیں.بعض جگہ بڑے بڑے زمیندار بھی ہیں مگر آمد نہیں ہوتی اس لئے یہ تجویز قابل عمل نہیں.تاہم اب ایک سال کے لئے اس کا تجربہ کر لیا جائے اور محکمہ ایک سال کے بعد رپورٹ کرے کہ اس پر کہاں تک عمل ہوا ہے.“ اختتامی تقریر دو تیسرا دن مشاورت کے آخری دن بجٹ پر عام بحث مکمل ہونے کے بعد حضور نے ابتداء چند باتیں بجٹ کے متعلق ارشاد فرما ئیں اور پھر متفرق امور کے بارہ میں احباب جماعت کو اپنی بیش قیمت ہدایات سے نوازا.حضور نے فرمایا :- چونکہ بجٹ پر عام بحث ہو چکی ہے اس لئے میں یہ کہہ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ جو دوست اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں وہ عموماً دو قسم کے ہوتے ہیں.بعض کی غرض تو صرف اتنی ہوتی ہے کہ ہماری توجہ کسی خاص امر کی طرف مبذول کرا دی جائے.ان کی یہ خواہش نہیں ہوتی کہ انکی تجویز پر فوری طور پر عمل بھی کیا جائے مگر بعض کی غرض یہ ہوتی ہے کہ جو تجویز وہ پیش کر رہے ہیں اُس پر ضرور عمل کیا جائے.اگر اُن کی تجویز پر عمل نہ ہو تو عام مجالس وضع قوانین میں یہ طریق ہوتا ہے کہ ایسے موقعوں پر کہہ دیا جاتا ہے کہ ہم اس بجٹ کو رڈ کرتے ہیں یا اس میں سے اس قدر کمی کی تجویز پیش کرتے ہیں اور یہ در حقیقت ناراضگی کا ایک رنگ ہوتا ہے جو اسلامی اصول کے ماتحت جائز نہیں.ہم نے ایک کام کرنا ہے اس میں خفگی یا ناراضگی کا کوئی ایسا پہلو اختیار کرنا جس سے کام بند ہو جائے یا اس کو نقصان پہنچے ناجائز ہے.لیکن بہر حال دوستوں کو تجاویز پیش کرتے وقت یہ امر مدنظر رکھنا چاہئے کہ انہیں بجٹ کے متعلق یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اسے پاس کیا جائے یا نہ کیا جائے.سوال صرف اتنا ہے کہ آیا بجٹ میں کوئی تبدیلی کی جاسکتی ہے یا نہیں؟ میں نے جیسا کہ بتایا ہے دوستوں کی بجٹ پر رائے زنی کرنے سے مختلف غرضیں ہو سکتی ہیں.بعض کی یہ خواہش نہیں ہوگی کہ اُن کی تجویز پر رائے لی جائے اُن کا مقصد صرف توجہ دلانا ہے اور ممکن ہے بعض کا مقصد یہ ہو کہ اُن کی تجویز پر ضرور عمل کیا جائے اس لئے بجائے عام بحث کے جو دوست بجٹ کے
خطابات شوری جلد دوم ۵۴۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء خاص خاص امور کے متعلق کوئی تجاویز پیش کرنا چاہتے ہوں اور ضروری سمجھتے ہوں کہ ان پر بحث کی جائے انہیں پیش کر دیں مگر یہ یا درکھیں کہ بارہ بج چکے ہیں.“ مکرم پیر صلاح الدین صاحب نے تجویز پیش کی کہ جامعہ احمدیہ کے محرر کی اسامی کو قائم رکھا جائے.اس کے بعد حضور نے فرمایا.پیر صلاح الدین صاحب یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ جامعہ احمدیہ میں سے جو کلرک ہٹایا گیا ہے اُسے دوبارہ رکھ دیا جائے اِس لئے جو دوست اس بات کی تائید میں ہوں کہ جامعہ احمدیہ میں کلرک کو رکھ لیا جائے وہ کھڑے ہو جائیں.“ آراء شماری پر ۱۰۴ دوستوں نے یہ رائے دی کہ جامعہ احمدیہ میں کلرک رکھا جائے اور ااا نے مخالف رائے دی.حضور نے فرمایا:- میں کثرتِ رائے کے حق میں فیصلہ کرتا ہوں کہ جامعہ احمدیہ میں کلرک نہ رکھا جائے.“ اس پر بعض دوستوں نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ ووٹ دوبارہ لئے جائیں کیونکہ اس تجویز کو صحیح طور پر سمجھا نہیں گیا تھا.اور بعض نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے کہ شمار کرنے میں غلطی ہوئی ہے اس لئے دوبارہ ووٹ لئے جائیں.حضور نے دوبارہ ووٹ لئے جانے کی تجویز کو مستر د کر دیا اور فرمایا : - غلطی کا امکان تو ہے کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ ہر دوسری دفعہ شمار کرنے والے بدل جاتے تھے.معلوم ہوتا ہے اس دفعہ ایسے آدمی مقرر نہیں کئے گئے جو لوگوں کو صحیح طور پر گن سکیں.مگر پھر بھی اس طریق کو ہم جاری نہیں کر سکتے کہ ایک امر کے متعلق دو دفعہ ووٹ لئے جائیں.پھر اگر اس میں غلطی کا امکان ہے کہ تائید میں ۱۰۴ دوست نہیں تھے تو اس بات میں بھی تو غلطی کا امکان ہو سکتا ہے کہ مخالف ممکن ہے ا نہ ہوں بلکہ ۱۲۱ ہوں.بہر حال دوبارہ ووٹ نہیں لئے جا سکتے.مگر اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ اس دفعہ آراء شماری میں نهایت سخت بدانتظامی تھی اور ہر دفعہ ایک نئی مشکل میرے سامنے آ جاتی تھی لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہے ہم یہ طریق جاری نہیں کر سکتے کہ ایک امر کے متعلق دو دفعہ رائے لی جائے کیونکہ
۵۴۷ خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء ہمارا عام تجربہ یہی ہے کہ دوست گنے میں احتیاط سے کام لیتے ہیں گو اس دفعہ زیادہ احتیاط سے کام نہیں لیا گیا.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کہتے ہیں کہ مجھ پر بھی یہی اثر تھا کہ جامعہ احمدیہ میں کلرک رکھے جانے کی تائید میں زیادہ لوگ تھے.مگر اس کی وجہ بھی اُنہوں نے بتا دی ہے کہ شاید اگلی صفوں کے دوست چونکہ زیادہ کھڑے ہوئے تھے اس لئے اُنہوں نے یہ خیال کر لیا.بہر حال یہ بجٹ جس شکل میں پیش ہے اس کے متعلق مجھے مجلس شوری کا فیصلہ معلوم ہو گیا ہے.اب سابقہ دستور کے ماتحت میں خود اس بجٹ پر غور کروں گا اور جو غلطیاں دکھائی دیں اُن کی اصلاح کرانے کی کوشش کروں گا.میری ہدایت یہ تھی کہ بجٹ میں سے ۱۵ ہزار روپیہ کا خرچ کم کیا جائے اور اسی کے مطابق بجٹ بنایا گیا تھا مگر یہاں آ کر معلوم ہوا کہ غلطی سے وظائف کی مد میں تین ہزار روپیہ شامل نہیں کیا گیا.اگر اس کو بھی شامل کر لیا جائے تو پھر میری یہ شرط کہ ۱۵ ہزار روپیہ کم کیا جائے پوری نہیں ہو گی اس لئے میں یہ بجٹ پھر صدرانجمن احمدیہ کو واپس کروں گا کہ وہ اس میں ایسی تبدیلیاں کر دے کہ بجٹ میری عائد کردہ شرط کے ماتحت آ جائے.ناظران دوسرے محکموں کا بھی خیال رکھیں بجٹ کو دیکھنے کے بعد جہاں تک میں سمجھتا ہوں نظارتوں کے خلاف یہ ایک سخت الزام عائد ہوتا ہے کہ ناظر اپنے محکموں کا تو خیال رکھ لیتے ہیں مگر دوسرے محکموں کا خیال نہیں رکھتے.مثلاً مجھے نہایت ہی افسوس کے ساتھ معلوم ہوا کہ بغیر اس کے کہ ناظر دعوۃ و تبلیغ سے پوچھا جاتا ولایت کے مشن کے اخراجات میں خود بخود ایک ہزار روپیہ کی تخفیف کر دی گئی ہے اور یہ تخفیف ان ایام میں کی گئی ہے جبکہ جنگ کی تباہ کاریاں پہلے سے بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں اور ضرورت اس امر کی تھی کہ اخراجات کو موجودہ حالات کی نزاکت کی وجہ سے بڑھایا جاتا نہ کہ کم کیا جاتا.مگر صدرانجمن احمدیہ نے اس میں ایک ہزار روپیہ کی کمی کر دی ہے اور یہ نہیں سوچا کہ اس ملک کے لوگ دن اور رات بموں کے نیچے رہتے ہیں اور ایسے ایسے بم سینکڑوں کی تعداد میں وہاں روزانہ گرتے ہیں کہ اگر ہمارے ملک کے کسی گاؤں میں دو چار سال میں بھی اس جیسا ایک بم گر جائے تو چھ ماہ تک ماتم پڑا رہے.مگر
خطابات شوری جلد دوم ۵۴۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء ایسے نازک حالات میں بغیر اس کے کہ صیغہ کے ناظر سے دریافت کیا جاتا ایک ہزار روپیہ کی کمی کر دی گئی ہے.اور زیادہ تر افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ کمی ان لوگوں کے سامنے ہوئی ہے جو امن اور آرام کے زمانہ میں موجودہ اخراجات سے ڈیوڑھے بلکہ دوگنے اخراجات کرتے رہے اور صدرانجمن احمد یہ سے رقمیں وصول کرتے رہے ہیں.یہ بجٹ کا طریق نہیں بلکہ دھینگا مشتی ہے.طریق یہ تھا کہ ذمہ دار افسر سے اس بارہ میں رپورٹ طلب کی جاتی کہ اگر ولایت کے مشن میں سے اتنے روپے کم کر دیئے جائیں تو آیا کام کو نقصان تو نہیں پہنچے گا ؟ پھر اس کے دلائل پر غور کیا جا تا اور اگر اُس کے دلائل پر غور کرنے کے بعد بھی ان کی یہی رائے ہوتی کہ کمی کی جانی ضروری ہے تو بے شک کمی کر دیتے مگر اب بغیر پوچھے انہوں نے یہ طریق اختیار کیا ہے.اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے کاموں کے لئے تو دلیلیں دینا جانتے ہیں مگر ماتحت محکموں کے دلائل سننے کے لئے وہ تیار نہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کے حقوق پر قلم سے سیاہی پھیر دی جائے.ناظران ماتحتوں کو بھی دلائل دینے کا موقع دیں حالانکہ ناظروں کی دیانت یہی چاہتی ہے کہ وہ اپنے ماتحتوں کو دلائل پیش کرنے کا ویسا ہی موقع دیں جیسے وہ اپنے لئے چاہتے ہیں بلکہ انہیں اپنے ماتحتوں کو اس بات کا زیادہ موقع دینا چاہئے کیونکہ آخری فیصلہ ان کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور جس کے ہاتھ میں آخری فیصلہ ہو اُسے بہت زیادہ احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے.بہر حال یہ ایک سخت غلطی ہے جو صدرانجمن احمدیہ سے ہوئی اور میں نے علی الاعلان اس کے متعلق تنبیہ کرنا ضروری سمجھا.میری طبیعت پر مرزا ناصر احمد صاحب کی تقریرین کر بھی یہ اثر ہوتا ہے کہ تخفیف کرتے وقت دوسرے محکموں سے پوچھا ہی نہیں جاتا کہ ان پر اس تخفیف کا کیا اثر ہوگا اور آیا وہ اثر قابل برداشت بھی ہے یا نہیں.مگر ولایت کے مشن کے متعلق تو جو فیصلہ ہوا ہے وہ نہایت ہی ظالمانہ اور غیر منصفانہ ہے اور میں اس پر قیاس کر کے کہ سکتا ہوں کہ باقی محکموں کا بھی یہی حال ہوگا کہ ان کے متعلق آپ ہی آپ فیصلہ کر دیا جاتا ہوگا اور ان سے کوئی بات دریافت نہیں کی جاتی ہوگی.مثلاً مدرسہ احمدیہ ہے اسے یہ فضیلت
خطابات شوری جلد دوم ۵۴۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء حاصل ہے کہ اس کے ہیڈ ماسٹر صدر انجمن احمدیہ کے ممبران میں شامل ہیں اس لئے مدرسہ احمدیہ کے متعلق اگر صدر انجمن احمدیہ میں کوئی بات طے ہو تو اُس کا انہیں علم ہو سکتا ہے لیکن باقی ماتحت محکموں کو یہ بات حاصل نہیں کہ ان کے افسر صدرانجمن احمدیہ کے ممبر ہوں.مثلاً تعلیم الاسلام ہائی سکول ہے یہ اپنی ذات میں ایک مستقل محکمہ ہے اور ہیڈ ماسٹر تمام امور کے متعلق جوابدہ سمجھا جاتا ہے.ناظر صرف ایک سرسری نگرانی کرتا ہے ورنہ اصل نگرانی ہیڈ ماسٹر کے ہی سپرد ہوتی ہے.اب اگر اس محکمہ میں خود بخود کوئی تخفیف کر دی جائے اور مدرسہ ہائی کے ہیڈ ماسٹر سے پوچھا نہ جائے تو یہ امر بالکل غیر مناسب ہوگا.اسی طرح جامعہ احمدیہ، نصرت گرلز سکول، شفا خانہ اور بعض تجارتی صیغہ جات سب ایسے ہیں کہ ان کے ذمہ دار افسر مقرر ہیں اور وہ اپنے محکمہ کی خرابی کی وجہ سے الزام کے نیچے آتے ہیں.پس ایسے امور میں اُن کو موقع ملنا چاہئے کہ وہ اپنے محکمہ کے مفاد کو واضح کریں.اسی طرح بیرونی ممالک میں جس قدر تبلیغی مشن قائم ہیں سب اپنے اپنے دائرہ میں مستقل کام کر رہے ہیں اور مبلغین اپنے کام کے آپ ذمہ دار ہیں.گو کام وہ ہماری پالیسی کے ماتحت کرتے ہیں.یہ نہیں کہ ہم صرف انہیں روٹی کھانے کے لئے بھجوا دیتے ہیں.یہی کام دُنیوی حکومتیں کرتی ہیں جب وہ کسی جگہ اپنے جرنیل کو بھجواتی ہیں تو اُسے اپنے دائرہ عمل میں آزاد رکھتی ہیں اور اگر کوئی حکومت کسی جرنیل کو اتنی آزادی بھی نہ دے اور اُس کی ہر نقل و حرکت اپنے حکم کے ماتحت رکھے، وہ کہیں جانا چاہے تو اُسے جانے نہ دے، حملہ کرنا چاہے تو اسے حملہ نہ کرنے دے تو کوئی شریف اور عقلمند جرنیل ایسے عہدہ کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوگا.پس گو حکومت پالیسی اپنی رکھے مگر اُسے جرنیل کو یہ موقع دینا پڑے گا کہ وہ اپنے کام کو جس رنگ میں اچھی طرح سرانجام دے سکتا ہے اس رنگ میں سرانجام دے.اسی طرح جو محکمے اپنی ذات میں مستقل ہیں اور ان کے ذمہ دار افسر مقرر ہیں ان کے متعلق کوئی فیصلہ کرتے ہوئے صدر انجمن احمدیہ کا فرض ہے کہ وہ افسروں کی رائے بھی دریافت کرے اور ان کے دلائل کو معلوم کرنے کے بعد جو فیصلہ مناسب سمجھے کرے.جیسے قاضی کا حق ہے کہ وہ فریقین کی باتیں سُننے کے بعد کہہ دے کہ فلاں کا حق ہے اور فلاں کا نہیں.مگر اُس کو کون قاضی کہے گا جو یکطرفہ فیصلہ کر دے.پس ولایت کے مشن کے متعلق ناظروں کا یہ یکطرفہ فیصلہ نہایت ہی
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء ظالمانہ اور غیر منصفانہ ہے اور اگر اس قسم کے فیصلوں کے نتیجہ میں بعض لوگوں کے دلوں میں شکوہ پیدا ہو تو یہ بالکل جائز اور درست ہوگا.اس کے بعد میں اول تو بجٹ کے متعلق جماعت کے دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جس طرح بھی ہو سکے اب انہیں اس بجٹ کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.اب کے یہ ایک مشکل پیش آگئی ہے کہ بعض اخراجات بجٹ میں درج ہونے سے رہ گئے ہیں.میں عام طور پر مجوزہ بجٹ سے اخراجات کو کم کر کے اسے منظور کیا کرتا ہوں مگر اس دفعہ غالباً مزید کمی کی گنجائش نہیں ہوگی.۱۵ ہزار کی کٹوتی پہلے ہی ہو چکی ہے اور تین ہزار کی زیادتی اس میں درج ہی نہیں ہو سکی.یہ تین ہزار کی رقم بعض اور مدات سے تخفیف میں لانی پڑے گی.بہر حال یہ کام تو اب ہوگا ہی.میں جماعت کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ جہاں تک ہو سکے اس بجٹ کو پورا کرنے کی کوشش کرے.بعض دوستوں کو اس بات کا شکوہ ہوگا کہ اُن کی جماعتوں کا نام مقررہ بجٹ پورا نہ کرنے والوں کی فہرست میں آگیا حالانکہ وہ خود اپنا ذاتی چندہ پورا ادا کر چکے ہیں.ایسے لوگ اپنے دلوں میں خیال کرتے ہوں گے کہ یہ عجیب بات ہوئی کہ انہوں نے اپنا چندہ تو ادا کر دیا مگر وہ چونکہ ایسی جماعتوں کے نمائندے بن کر آگئے جو نادہندہ تھیں یا جنہوں نے چندہ کی ادائیگی میں سُستی سے کام لیا اس لئے اس ملامت سے ان کو بھی حصہ لینا پڑا.یہ بات بظاہر ایسی ہی نظر آتی ہے جیسے کسی مزدور کو سارا دن کام کرنے کے بعد کچھ نہ دیا جائے بلکہ الٹا اُس پر ناراضگی کا اظہار کیا جائے کہ اس نے فلاں فلاں کام درست طور پر نہیں کیا.اجتماعی کاموں کی پوزیشن حقیقت یہ ہے کہ بعض کام اجتماعی ہوتے ہیں اور ان کا نتیجہ اُسی وقت خوشکن کہلا سکتا ہے جب اجتماعی رنگ میں خوشکن نتیجہ نکلے.چنانچہ دیکھ لو فنج اعوج کا زمانہ جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ظلمت اور کفر کا زمانہ قرار دیا ہے.اس زمانہ میں سید احمد صاحب بریلوی اور سید اسمعیل صاحب شہید اور دوسرے کئی صلحاء اور اولیاء پیدا ہوئے ہیں، ان کے واقعات پڑھ کر انسان کا ایمان تازہ ہوتا اور اس کے دل میں خدا اور اس کے رسول کی محبت پیدا ہوتی ہے.مگر با وجود اس کے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چونکہ اُس زمانہ میں بدیاں اپنے کمال پر تھیں اور
خطابات شوری جلد دوم ۵۵۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء ظلمت نے دنیا کا چاروں طرف سے احاطہ کیا ہوگا تھا اس لئے باوجود اس کے کہ سید احمد صاحب بریلوی ایک عظیم الشان بزرگ ہوئے ہیں، سید اسمعیل صاحب شہید بہت بڑے ولی ہوئے ہیں پھر بھی یوں معلوم ہوتا ہے کہ بدکاریوں کا ایک عظیم الشان سمندر تھا جو دنیا کو اپنے زور میں بہائے چلا جارہا تھا.پس بے شک اس زمانہ میں بھی بڑے بڑے اولیاء گزرے ہیں مگر چونکہ اجتماعی رنگ میں وہ زمانہ نیکی کا زمانہ نہیں تھا اس لئے سب لوگ اس زمانہ کو بُرا کہتے ہیں یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی فرمایا کہ اس زمانہ سے بھیڑیوں نے بھی پناہ مانگی ہے.تو جس قد ر ا جتماعی کام ہیں ان میں انسان کو اس تمام تنقیص ، مذمت اور ندامت میں سے حصہ لینا پڑتا ہے جو کسی جماعت یا قوم کے حصہ میں آتی ہے اور اگر حصہ نہ لینا پڑے تو قومی روح انسان کے اندر پیدا نہیں ہو سکتی.دنیا میں لڑکا بُرا ہو تو باپ بھی اس کی بدنامی میں سے حصہ لیتا ہے اور باپ بُرا ہو تو لڑکا اس کی بدنامی میں شریک ہوتا ہے.ہے.مثل مشہور ہے کہ کوئی شخص کفن چور تھا.جب لوگ کسی میت کو قبرستان میں دفن کر کے آتے تو وہ رات کو جاتا اور قبر کھود کر کفن نکال لاتا.لوگ بڑی گالیاں دیتے اور کہتے کہ خدا اس کا بیڑا غرق کرے اس نے تو ہمیں تنگ کر رکھا ہے.آخر کچھ دنوں کے بعد وہ مر گیا تو لوگوں نے اس کی پھر بُرائیاں بیان کرنی شروع کر دیں اور کہنے لگ گئے کہ بڑا خبیث تھا، خدا کی اس پر لعنت ہو اور وہ اسے دوزخ میں ڈالے، اس نے دنیا میں بڑی خباثت پھیلائی ہوئی تھی.اس کا بیٹا نیک انسان تھا جب اس کے باپ کو کوئی شخص بُرا بھلا کہتا تو اسے تکلیف محسوس ہوتی مگر باپ کی زندگی میں تو اس نے اس بات کو زیادہ محسوس نہ کیا جب اس کے مرنے کے بعد بھی لوگوں نے لعنتیں ڈالنی بند نہ کیں تو اُسے بہت تکلیف ہوئی.آخر وہ کسی عقلمند سے مشورہ لینے کے لئے گیا کہ مجھے کیا کرنا چاہئے؟ اور کہنے لگا کہ میرا باپ خود تو بُرا آدمی تھا ہی مجھے یہ تکلیف ہے کہ مجھے اس کی برائیاں سننی پڑتی ہیں اور میں نہ ان کی تائید کر سکتا ہوں اور نہ تردید کر سکتا ہوں آخر کروں تو کیا کروں ؟ وہ کوئی مذاقی آدمی تھے کہنے لگے تم چند دنوں تک یوں کرو کہ جب لوگ کسی میت کو قبرستان میں دفن کر کے چلے جائیں تو تم قبر کھود کر میت کو باہر پھینک دیا کرو.اُس نے چند دن ایسا ہی کیا تو لوگوں میں ایک شور مچ گیا اور وہ کہنے لگے
۵۵۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء خطابات شوری جلد دوم خدا اس پہلے کفن چور کو جنت نصیب کرے ، وہ تو کوئی شریف آدمی تھا کہ صرف کفن چرا تا تھا، میت کی بے حرمتی نہیں کرتا تھا مگر اب تو کوئی ایسا خبیث پیدا ہوا ہے جو میت تک کو قبر سے باہر نکال کر پھینک دیتا ہے.خیر چند دن ایسا ہوتا رہا.جب اس نے دیکھا کہ اب اس کے باپ کی لوگ بُرائی بیان نہیں کرتے تو اس نے اس کام کو چھوڑ دیا.غرض بدی اگر باپ میں ہو تو اس کی ملامت میں بیٹے کو بھی شریک ہونا پڑتا ہے اور اگر بیٹا بدی میں شریک ہو تو اسکی ملامت میں باپ کو بھی حصہ لینا پڑتا ہے.چنانچہ دیکھ لوساڑھے تیرہ سو برس گزر گئے ابو جہل کو آج تک بُرا بھلا کہا جاتا ہے.آج تو ابو جہل کی کوئی اولاد موجود نہیں لیکن عکرمہ آخر ابو جہل کا ہی بیٹا تھا.جب وہ اپنے باپ کی برائیاں سنتا ہو گا تو اسے کتنی تکلیف ہوتی ہوگی.صحابہ کی یہ عادت تھی کہ جب انہوں نے ابو جہل کا ذکر کرنا ہوتا تو کہتے عَدو الله ابو جہل.یعنی اللہ کے دشمن ابو جہل کی یہ بات ہے.اب لا زماً ان الفاظ سے عکرمہ کے دل کو تکلیف پہنچتی ہوگی کیونکہ وہ اس کا باپ تھا مگر بہر حال یہ تکلیف انہیں برداشت کرنی پڑتی تھی.اسکے مقابلہ میں بعض دفعہ خود تم چندوں کی ادائیگی میں سُست ہوتے ہومگر چونکہ تمہاری جماعت اعلیٰ نمونہ دکھاتی ہے اس لئے اس کی تعریف میں تم بھی شریک ہو جاتے ہو.مثلاً فرض کرو ایک جماعت نے اچھا کام کیا ہے تو جب اس جماعت کی تعریف کی جائے گی تو وہ کمزور لوگ جو چندہ میں سُست ہوں گے وہ بھی پھولے نہیں سمائیں گے اور کہتے پھریں گے کہ ہماری جماعت نے یہ قابل تعریف کام کیا ہے.جیسے پنجابی میں مثل مشہور ہے کہ کسی کی بھاوجہ نے جو امیر تھی ایک شادی کے موقع پر بیس روپے نیو تہ دیا.اور خود اس نے ایک روپیہ دیا.کسی عورت نے اس سے پوچھا کہ تو نے اس شادی میں کتنا نیو تہ دیا وہ کہنے لگی” میں تے بھائی اکی“ یعنی میں نے اور میری بھاوج نے اکیس روپے دیئے ہیں.گویا دوسرا یہ سمجھے کہ اس نے دس ساڑھے دس روپے تو ضرور دیئے ہونگے حالانکہ اُس نے ایک روپیہ دیا تھا.تو اجتماعی کاموں میں جہاں بعض دفعہ اچھا کام کرنے کے باوجود مذمت حاصل ہوتی ہے وہاں بعض دفعہ ناقص کام کرنے کے باوجود تعریف حاصل ہوتی ہے.اور چونکہ اس قانون کا فائدہ زیادہ ہے اور نقصان کم اس لئے دنیا نے اس قانون کو تسلیم کیا ہے.اور خدا نے بھی اس قانون کو تسلیم کیا ہے مثلاً خدا نے ایک
۵۵۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء خطابات شوری جلد دوم طرف تو یہودیوں اور عیسائیوں پر لعنت ڈالی ہے اور کہا ہے کہ ان میں یہ یہ بُرائیاں ہیں اور دوسری طرف یہ تعریف بھی کی ہے کہ ان میں بعض ایسے لوگ ہیں جو اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کی خشیت رکھتے ہیں اور تکبر سے کام نہیں لیتے.گویا قومی طور پر تو یہود اور نصاری کی خدا نے مذمت کی مگر انفرادی رنگ میں بعض کی تعریف کر دی.اسی طرح شراب کو خدا تعالیٰ نے نجس اور عمل شیطان قرار دیا ہے مگر ساتھ ہی فرمایا ہے کہ اس میں فائدے بھی ہیں.تو یہ ایسا دستور ہے جسے دین نے بھی تسلیم کیا ہے اور دنیا نے بھی.اور قوم میں بیداری پیدا کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اجتماعی رنگ میں کاموں کے نتائج کو دیکھا جائے تاکہ سب طور پر زور لگا کر آگے بڑھنے کی کوشش کریں.اگر لاہور کی جماعت کا کوئی دوست جس نے اب تک کے تمام چندے ادا کر دیئے ہوں یہ کہے کہ جب میں چندہ ادا کر چکا ہوں تو مجھے تم بُرا کیوں کہتے ہو؟ تو ہم اسے کہیں گے کہ ہم تمہیں اس لئے ملامت کرتے ہیں تا کہ تم دوسروں کو بیدار کرنے میں حصہ لو اور ان کی سستی اور غفلت کو دُور کرو.غرض دوسروں کو بیدار اور ان کو ہوشیار کرنے کے لئے اجتماعی عیب اچھوں کی طرف منسوب ہو جاتے ہیں اور اجتماعی خوبی بُروں کی طرف منسوب ہو جاتی ہے پس دوستوں کو چاہئے کہ بجائے اس کے کہ اس پر بُرا منائیں کہ ان کی جماعتوں کے نام مجلس شوری میں کیوں پیش کئے گئے ہیں وہ اپنی اپنی جماعتوں میں جا کر انہیں سمجھا ئیں اور کہیں کہ تم نے ذلیل کرا دیا.اگر تم چندہ کی ادائیگی میں سستی سے کام نہ لیتیں تو یہ ذلت ہمیں کیوں برداشت کرنی پڑتی.پس وہ شخص جو بارہ مہینے باقاعدگی کے ساتھ چندہ ادا کرتا رہا ہے مگر آج اس مجلس میں اُس کی جماعت کا نام نادہند جماعتوں کی فہرست میں سُنا یا گیا ہے اُسے چاہئے کہ وہ اپنی جماعت کو جا کر کہے کہ میں تو بارہ مہینے اپنا حق ادا کرتا رہا مگر مجلس شوریٰ میں شریک ہوکر ساری شرمندگی مجھ کو حاصل ہوئی اس لئے آئندہ اپنی اصلاح کرو اور اس غفلت کو دور کر کے چندوں کی ادائیگی میں حصہ لو.پس دوست بجائے اس پر گلہ اور شکوہ کرنے کے ایک پختہ ارادہ اور عزم کے ساتھ اپنی جماعتوں میں واپس جائیں اور یہ عہد کریں کہ آپ اپنی جماعت کو بیدار کر دیں گے.اگر آپ کے دلوں میں فہرست سُن کر درد پیدا ہوا ہے تو یہ درد ناظروں کے خلاف نہ نکالیں، صدر انجمن احمدیہ کے خلاف نہ نکالیں بلکہ اگر یہ درد ظاہر
خطابات شوریٰ جلد دوم ۵۵۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء کریں تو اپنی انجمن کے افراد کے سامنے اور انہیں کہیں کہ محض تمہاری شستی کی وجہ سے یہ ندامت ہمیں پہنچی ہے.اگر آپ ایسا کریں گے تو یقیناً آپ کی جماعت کے افراد میں بیداری پیدا ہو جائے گی اور آئندہ ایسی غلطی کے ارتکاب سے وہ بچ جائیں گے.ہم نے تو دیکھا ہے جب کوئی شخص اس طرح کھلے رنگ میں اپنے جذبات درد کا اظہار کرے تو سننے والی طبیعت اثر قبول کئے بغیر نہیں رہتی.ایک دلچسپ روایت میت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ سیالکوٹ تشریف لے گئے.اتفاق سے جماعت نے آپ کے قیام کے لئے جو بالا خانہ تجویز کیا وہ بغیر منڈیر کے تھا آپ کو چونکہ اس بات کا علم نہیں تھا کہ اس مکان کی چھت پر منڈیر نہیں اس لئے آپ مکان میں تشریف لے گئے مگر جونہی آپ کو معلوم ہوا کہ اس کی منڈیر نہیں آپ نے فرمایا کہ منڈیر کے بغیر مکان کی چھت پر رہنا جائز نہیں اس لئے ہم اس مکان میں نہیں رہ سکتے.پھر آپ نے مجھے بلایا اور فرمایا ابھی سید حامد شاہ صاحب کے پاس جاؤ اور کہو کہ ہم کل واپس جائیں گے کیونکہ ایسے مکان میں رہنا شریعت کے خلاف ہے.وہ بڑے مخلص اور سلسلہ کے فدائی تھے انہوں نے جب یہ سنا تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے مگر کہا کہ بہت اچھا حضرت صاحب سے عرض کر دیجئے ہم انتظام کر دیتے ہیں.جماعت کے دوستوں کو معلوم ہوا تو ایک کے بعد دوسرے دوست نے آنا شروع کر دیا اور انہوں نے کہا کہ حضرت صاحب سے عرض کیا جائے کہ وہ ہماری اس غلطی کو معاف فرما دیں ہم ابھی آپ کے لئے کسی اور مکان کا انتظام کر دیتے ہیں وہ خدا کے لئے سیالکوٹ سے نہ جائیں.مگر شاہ صاحب نے فرمایا میں اس بات کو پیش کرنا ادب کے خلاف سمجھتا ہوں.جب حضرت صاحب نے فرما دیا ہے کہ اب ہم واپس جائیں گے تو ہمیں حضور کی واپسی کا انتظام کرنا چاہئے.اتنے میں ان کے والد میر حسام الدین صاحب مرحوم کو اس بات کا پتہ لگ گیا.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بہت بے تکلفی کے ساتھ گفتگو فرمالیا کرتے تھے اور تھے بھی حضور کے پرانے دوستوں میں سے.سیالکوٹ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جو زمانہ ملازمت گزرا ہے اُس میں میر صاحب کے حضرت مسیح مود عود علیہ السلام کے ساتھ دوستانہ تعلقات رہ چکے تھے اس لئے وہ بے تکلفی سے گفتگو کر لیا کرتے تھے.وہ یہ سنتے ہی.
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء مکان پر تشریف لائے اور بڑے زور سے کہا.بلاؤ مرزا صاحب کو، مجھے جہاں تک یاد ہے انہوں نے حضرت کا لفظ استعمال نہیں کیا.میرا چونکہ اُن سے کوئی تعارف نہیں تھا اس لئے میں تو نہ سمجھ سکا کہ یہ کون دوست ہیں مگر کسی اور شخص نے مجھے بتایا کہ یہ میر حامد شاہ صاحب کے والد ہیں.خیر میں گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے میں نے کہا کہ ایک بڑھا سا آدمی باہر کھڑا ہے اور وہ کہتا ہے کہ بلاؤ مرزا صاحب کو ، نام حسام الدین ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ سُنتے ہی اسی وقت اُٹھ کھڑے ہوئے اور سیڑھیوں سے نیچے اُتر نا شروع کر دیا.ابھی آپ آخری سیڑھی پر نہیں پہنچے تھے کہ میر حسام الدین صاحب نے رو کر اور بڑے زور سے چیخ مار کر کہا کہ اس بڑھے واریں مینوں ذلیل کرنا ہے ساڈا تے تک وڈیا جائے گا.یعنی کیا اس بڑھاپے میں آپ مجھے لوگوں میں رُسوا کرنا چاہتے ہیں میری تو ناک کٹ جائے گی اگر آپ واپس چلے گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اس کا کچھ ایسا اثر ہوا کہ آپ نے فرمایا سید صاحب! ہم بالکل نہیں جاتے ، آپ بے فکر رہیں.چنانچہ فوراً جماعت نے کیلیے گاڑ کر قناتیں لگا دیں اور شریعت کا منشاء بھی پورا ہو گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو شکایت تھی وہ دُور ہو گئی.تو جن لوگوں کو رونا اور شور مچانا آتا ہے وہ دوسروں سے اپنی بات منوالیا کرتے ہیں.اسی طرح اگر دوست اپنی اپنی جماعتوں میں واپس جا کر کہیں کہ تم نے ہمیں بڑا ذلیل کرایا.ہم برابر سال بھر چندہ دیتے رہے اور ایک پائی بھی ہمارے ذمہ بقایا نہ رہا.مگر وہاں جا کر ہمیں تمہاری وجہ سے ندامت اور شرمندگی اٹھانی پڑی تو بیسیوں لوگوں کے دلوں میں جوش پیدا ہو جائے گا اور وہ آئندہ اس سُستی کا ارتکاب نہیں کریں گے.پس اپنے ان جوشوں کو نکالو نہیں بلکہ دباؤ اور اپنی جماعتوں کے سامنے ان کو ظاہر کرو اور انہیں ہوشیار اور بیدار کرنے کی کوشش کرو تا کہ انگلی دفعہ ان کا نام سوفیصدی چندہ ادا کرنے والی جماعتوں میں آجائے.تبلیغ کا ایک اہم گر میں نے تبلیغ کے متعلق بھی کئی دفعہ بتایا ہے کہ لوگوں کو احمدیت میں داخل کرنے کا ذریعہ بھی یہی ہے کہ ان پر یہ ظاہر کرو کہ تمہیں ان کے ہدایت نہ پانے کا انتہائی صدمہ ہے.تم فلسفیانہ رنگ میں ہزار دلیلیں دو تو ان کا اتنا اثر نہیں ہو سکتا جتنا اُس وقت اثر ہو سکتا ہے جب دوسرے کو تم یہ محسوس کرا دو کہ
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء اُس کے ہدایت نہ پانے کی وجہ سے تمہیں سخت تکلیف ہے.کل ایک دوست نے ”الفضل“ کے متعلق بعض باتیں کہی تھیں جن کی میں نے تردید کی تھی.آج میں نے اخبار والوں سے اندازہ لگوا کر معلوم کیا ہے کہ ایک پرچہ کی چھپوائی سوا پیسہ سے کچھ کم بنتی ہے اور ابھی اس میں دفتر کے اخراجات شامل نہیں ، ایڈیٹروں کے اخراجات شامل نہیں، ڈاک کے اخراجات شامل نہیں ، سٹیشنری وغیرہ کے اخراجات شامل نہیں.اس کے علاوہ مجھے اپنی ایک غلطی بھی معلوم ہوئی میں نے خیال کیا تھا کہ خطبہ نمبر کی ایک آنہ قیمت ہوتی ہے مگر الفضل والے بتاتے ہیں کہ اگر خطبہ بڑا ہو تو اس کی ایک آنہ قیمت ہوتی ہے ورنہ بالعموم تین پیسے ہوتی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ تین پیسے قیمت وصول کر کے ان کا خرچ سوا دو پیسے ہوتا ہے اور اس میں ابھی ایڈیٹوریل اخراجات شامل نہیں ، مکان کا کرایہ شامل نہیں، چپڑاسیوں اور دفتریوں کے اخراجات وغیرہ شامل نہیں.گویا بقیہ رقم اس طرح خرچ ہو جاتی ہے.بیشک اخبار کا کچھ حصہ ایسا ہے جو ڈاک میں نہیں جاتا اور اس طرح اخراجات میں تخفیف ہو جاتی ہے مگر اس صورت میں انہیں کمیشن دینا پڑتا ہے.بہر حال پندرہ سو اخبار ۱۷۱۲ پیسوں میں چھپتا ہے اور اس خرچ میں کتابت ، ٹکٹ ، دفتری خرچ، سٹیشنری، ریپر، مکان کا کرایہ، روشنی اور پنکھے کا خرچ، ایڈیٹروں کی تنخواہیں اور ہنگامی اخراجات وغیرہ شامل نہیں.اگر صرف ڈاک کا خرچ اس میں شامل کر لیا جائے تو فی پر چہ سوا دو پیسے خرچ آ جاتا ہے مگر عملہ کی تنخواہوں ، مکان کے کرایہ اور روشنی وغیرہ کے اخراجات پھر بھی اس سے علیحدہ ہوں گے.غرض عملی طور پر یہ کیفیت ہے کہ بالعموم اخبار گھاٹے میں رہتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض خریدار نادہند ہوتے ہیں اور وہ پر چہ تو وصول کرتے رہتے ہیں مگر قیمت ادا نہیں کرتے اور جو ایجنٹ ہوتے ہیں وہ بھی بعض دفعہ اسی استی اور سوسو روپیہ کی رقم لے کر غائب ہو جاتے ہیں.میں نے یہ قانون رکھا ہوا تھا کہ الفضل بغیر پیشگی قیمت وصول کئے کسی کے نام جاری نہ کیا جائے مگر بعض حالات کی وجہ سے وہ چونکہ قائم نہ رہ سکا اس لئے نتیجہ یہ ہوا کہ کسی کے ذمہ پندرہ روپیہ بقایا ہے کسی کے ذمہ دس روپیہ اور کسی کے ذمہ سات روپیہ.بہر حال عملاً یہ کیفیت ہے کہ الفضل خسارے پر چل رہا ہے.ممکن ہے باہر حالات کے مختلف ہونے کی وجہ سے کتابت اور طباعت زیادہ سستی ہو
۵۵۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء خطابات شوری جلد دوم سکتی ہو.مثلاً لاہور یا دہلی میں چونکہ کا تب بہت زیادہ ہیں اس لئے ممکن ہے ان میں مقابلہ ہو جاتا ہو اور بعض کم اجرت پر لکھنے کیلئے تیار ہو جاتے ہوں.یا مطبع والوں میں مقابلہ ہو جاتا ہو تو بعض کم نرخ پر چھاپنے کے لئے تیار ہو جاتے ہوں.یا اخبار کے لئے معمولی کاغذ استعمال کر لیا جاتا ہو مگر یہاں تو کاغذ لانے پر ہی کافی خرچ آجاتا ہے اور پھر کتابت اور طباعت کے لئے بھی یہاں آسانیاں میسر نہیں اس لئے یہ کہنا کہ اخبار پر پون پیسہ فی پرچہ لاگت آتی ہے، یہ واقعات کے بالکل خلاف ہے.میں نے اخراجات کا جو اندازہ لگوایا ہے دوستوں کے سامنے پیش کر دیا ہے اور پھر اس میں بھی ایڈیٹوریل اخراجات یا ڈاک کا خرچ شامل نہیں.پس الفضل کی قیمت زیادہ نہیں بلکہ اگر بقایا وغیرہ دیکھا جائے تو عملاً اخبار کو اس قیمت میں گھاٹا ہے.شورای میں لجنہ کی نمائندگی ایک ضروری بات میں جمعہ کی نمائندگی سے متعلق بھی کہتا چاہتا ہوں.ہر سال لجنہ سے رائے لی جاتی ہے مگر ہر دفعہ اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے اور کبھی اسے مجلس شوریٰ میں پیش نہیں کیا جاتا.میری تجویز یہ ہے کہ آئندہ مجلس شوریٰ میں ایک لجنہ اماء اللہ کا نمائندہ بھی ہوا کرے اور بیرونی جماعتوں کی لجنات سے جو جو تجاویز پرائیویٹ سیکرٹری کو موصول ہوں وہ سب دفتر پرائیویٹ سیکرٹری لجنہ کے اس نمائندہ کو پہنچا دیا کرے.اس کا یہ فرض ہوگا کہ وہ ہر موقع پر لجنات کی رائے بھی پیش کرتا چلا جائے اور بتائے کہ فلاں لجنہ کی اس کے متعلق یہ رائے ہے اور فلاں کی یہ رائے.اس طرح نہ صرف ان کی آراء کا پتہ لگ جائے گا بلکہ ممکن ہے بعض دفعہ کوئی لطیف اور مفید بات بھی معلوم ہو جائے اور اگر اس طریق کا کوئی اور فائدہ نہ بھی ہوا تو بھی کم سے کم اس طرح یہ پتہ لگتا رہے گا کہ ہماری جماعت کی مستورات کی ذہنی ترقی کا کیا حال ہے.جب ان کی آراء پڑھی جائیں گی تو اُس وقت معلوم ہوگا کہ بعض دفعہ تو ان کی رائے نہایت ہی مضحکہ خیز ہوگی جس سے ہم یہ اندازہ لگا سکیں گے کہ فلاں فلاں معاملہ میں عورتوں کو حالات کا بالکل علم نہیں اور بعض دفعہ ان کی رائے بہت اعلیٰ ہوگی جس سے ہم یہ اندازہ لگا سکیں گے کہ فلاں فلاں معاملہ میں عورتوں کا علم زیادہ پختہ ہے.تو ان کی آراء کے پڑھے جانے پر ہماری جماعت کے دوست ساتھ ساتھ یہ موازنہ بھی کرتے چلے
۵۵۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء خطابات شوری جلد دوم جائیں گے کہ ہماری عورتوں کی دماغی اور ذہنی ترقی کس طرح ہو رہی ہے.اور بعض دفعہ یہ بھی ممکن ہے کہ لوگ یہ دیکھ کر کہ عورتوں کی فلاں معاملہ میں جو ان کی ذات سے تعلق رکھتا ہے یہ رائے ہے وہ ان کا احترام کرتے ہوئے اپنی رائے بدل لیں اور انہی کے حق میں فیصلہ کر دیں.پس آئندہ کے لئے دفتر اس بات کو نوٹ کر لے اور وہ مجھ سے اس بارہ میں ہدایات لے کر اُس شخص کو جو لجنہ کا نمائندہ منتخب ہو تمام آرائیں بھجوا دیا کرے تا کہ جب مجلس شوری میں تجاویز پیش ہوں تو وہ اُٹھ کر بتا سکے کہ فلاں لجنہ کی اس کے متعلق یہ رائے آئی ہے اور فلاں کی یہ تاکہ خصوصیت سے ایسے مسائل میں جن کا تعلق عورتوں سے ہو ان کے جذبات اور احساسات کو مقدم رکھنے کی کوشش کی جائے.کمزور جماعتوں کی اصلاح کی طرف توجہ کی ضرورت ایک دوست نے ایک نہایت ہی اچھی بات کہی ہے اور وہ یہ کہ صدرانجمن احمدیہ کی طرف سے انفرادی رنگ میں جماعتوں کی اصلاح کی طرف بہت کم توجہ کی جاتی ہے.میں خود مدت سے اس بات کی طرف توجہ دلا رہا ہوں مگر مجھے افسوس ہے کہ محکموں نے اس کی اہمیت کو نہیں سمجھا.تحریک جدید کا کام چونکہ براہ راست میرے ساتھ تعلق رکھتا ہے اس لئے میں اسی رنگ میں اس کے کام کی نگرانی کرتا ہوں اور جہاں نقص واقع ہو اپنی توجہ کا بیشتر حصہ اس کی طرف صرف کر کے اسے دور کرنے کی کوشش کیا کرتا ہوں.مثلاً ہم نے ٹریکٹ بھیجوانے ہوں تو جن جماعتوں میں ٹریکٹوں کی زیادہ ضرورت ہوگی وہاں زیادہ ٹریکٹ بھیجوا دئیے جائیں گے اور جنہیں کم ضرورت ہوگی انہیں کم بھجوا دیئے جائیں گے.یہ نہیں ہوگا کہ سب کو یکساں بھجوا دئیے جائیں.اسی طرح اور امور میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ کون کون سی جماعت کمزور ہے.پھر جو جماعت کمزور ہو، اُس کی کمزوری کو دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر نظارتوں نے اس طرف ابھی تک توجہ نہیں کی.مثلاً انسپکٹروں کا جماعتوں میں جو دورہ ہوتا ہے اس کے متعلق اخبار میں اعلان کر دینا کافی سمجھ لیا جاتا ہے.یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کون کون سی جماعت تربیت کی زیادہ محتاج ہے اور کونسی جماعت تربیت کی زیادہ محتاج نہیں.میری کوٹھی کے قریب باغ ہے.میں جب اس
۵۵۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء خطابات شوری جلد دوم میں سیر کرنے کے لئے جایا کرتا ہوں تو باغ میں کام کرنے والوں کو یہ ہدایت کر دیا کرتا ہوں کہ جس درخت میں تمہیں کوئی نقص دکھائی دے اُس کے ساتھ ایک سُرخ دھجی باندھ دیا کرو جس کے معنی یہ ہوں گے کہ تمہیں ان سُرخ دھجیوں والے درختوں کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہئے اور دوسرے درختوں کی طرف کم.اسی طرح ہر نظارت کے پاس جماعتوں کا ایک نقشہ ہونا چاہئے جس میں یہ دکھایا جانا چاہئے کہ جماعتوں کی تعلیمی حالت کیسی ہے، ان کی تربیتی حالت کیسی ہے، ان کے اخلاق کیسے ہیں، ان کی مالی قربانی کیسی ہے.اگر وہ ایسا کریں تو تمام جماعت کے متعلق فوری طور پر یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ ان کی ترقی کی کیا رفتار ہے.مثلاً وہ سارے ہندوستان کا نقشہ بنا ئیں اور اس میں ایک رنگ سبز ہو، ایک سرخ ہو، اور ایک اُودا رنگ ہو.سرخ رنگ میں ان جماعتوں کے نام لکھے جائیں جو ناقص ہوں، سبز رنگ میں ان جماعتوں کے نام لکھے جائیں جو درمیانی حالت میں ہوں اور اُودے رنگ میں ان جماعتوں کے رنگ لکھے جائیں جو اچھی ہوں.یہ نقشہ سالانہ تیار ہوتا رہے اور جو جماعتیں سست ثابت ہوں وہاں انسپکٹر بھیجے جایا کریں اور پھر نظارتیں موازنہ کیا کریں کہ جماعتوں نے اپنی پہلی حالت میں کہاں تک تغیر پیدا کیا ہے.بلکہ اگر ایسا نقشہ مجلس شوریٰ کے موقع پر ہال میں لٹکا دیا جایا کرے تو یہ اور بھی زیادہ مفید ثابت ہوسکتا ہے.اگر اس قسم کا ایک نقشہ یہاں لٹکا ہوا ہو اور اس میں سُرخ رنگ کے ماتحت ان جماعتوں کے نام لکھے ہوئے ہوں جو نمازوں میں ست ہیں، قرآن کریم کی طرف توجہ نہیں کرتیں، شریعت پر عمل نہیں کرتیں.اور دوسری طرف ان کے نام ہوں جو درمیانی حالت میں ہیں یا زیادہ اعلیٰ جماعتیں ہیں تو یقیناً ست جماعتوں میں بھی غیرت پیدا ہوگی اور وہ اپنے نقص کو دور کرنے کی کوشش کریں گی.پھر اگلے سال ممکن ہے جو جماعتیں پہلے سُرخ رنگ کے خانہ میں تھیں وہ سبز یا اُودے رنگ کے خانہ میں چلی جائیں اور جو جماعتیں ان میں سے سُست ہو جائیں وہ سُرخ خانہ میں آجائیں.اس طرح تعلیمی، تربیتی اور تبلیغی نظام کو بہت کچھ فائدہ ہوسکتا ہے اور جماعتوں کی مالی قربانی کے متعلق بھی صحیح اندازہ لگایا جاسکتا ہے.یہاں مجلس شوریٰ میں اجلاس کی کارروائی شروع ہونے سے کوئی پندرہ منٹ پہلے آ جاتا ہے، کوئی دس منٹ اور کوئی نصف گھنٹہ.اس طرح وہ اس فارغ وقت میں نقشہ کو دیکھ کر اپنی اپنی جماعت کی
۵۶۰ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء خطابات شوری جلد دوم حالت کا صحیح اندازہ لگا سکیں گے اور میں سمجھتا ہوں جماعت اس طرح زیادہ بیدار ہو جائے گی اور وہ اپنے فرائض کو زیادہ تندہی کے ساتھ ادا کرے گی.غرض اگر انفرادی طور پر جماعتوں کی طرف توجہ کی جائے تو ان کی حالت بہت جلد سُدھر سکتی ہے.سب کی طرف یکساں توجہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے ملیریا کے موسم میں سب کو کو نین دے دی جائے حالانکہ بعض طبائع ایسی ہوتی ہیں جن کے لئے کونین مفید نہیں ہوتی.اسی طرح بعض جماعتیں ایسی ہوتی ہیں جن کی عام لیکچروں یا وعظ ونصیحت سے اصلاح نہیں ہوتی بلکہ اُس وقت اصلاح ہوتی ہے جب خاص طور پر ان کو مدنظر رکھ کر ان کی اصلاح کی تدابیر اختیار کی جائیں.پھر فرداً فرداً بھی انسان کی حالت روزانہ بدلتی رہتی ہے اور جو تد بیر کسی کی اصلاح کے لئے آج مفید ہو سکتی ہے بالکل ممکن ہے وہ کل مفید نہ رہے.بہر حال اگر اس رنگ میں نظارتیں کوشش کریں تو نتیجہ زیادہ اعلیٰ پیدا ہوسکتا ہے.سُست افراد کی اصلاح کا طریق ایک دوست نے بجٹ پر بحث کے دوران میں ایک تجویز یہ پیش کی تھی کہ جو دوست چندہ دینے میں سُست ہیں ان کو الگ کر کے جماعتوں کا بجٹ تجویز ہونا چاہئے.اُن کی اس بات کا ناظر صاحب بیت المال نے بھی جواب دیا ہے مگر میں سمجھتا ہوں یہ بات ایسی ہے کہ جس کے متعلق مجھے بھی کچھ کہنا چاہئے.حقیقت یہ ہے کہ اگر اس قسم کی اجازت دی جائے اور جماعتوں کو یہ کہا جائے کہ وہ سُست لوگوں کے نام اپنی جماعت میں شمار نہ کیا کریں اور ان کو مستثنی کر کے بجٹ تجویز کیا جائے تو یہ چیز قوم کے لئے خودکشی کے مترادف ہوگی.اگر ہر وہ شخص جو جماعتوں کو کمزور دکھائی دے اُس کا نام کاٹنے کی انہیں اجازت ہو تو آج اگر ایک سست ہے تو کل دوسست ہو جائیں گے ، پرسوں تین سست ہو جائیں گے اور اترسوں چار مست ہو جائیں گے.اس صورت میں تو ان کا بجٹ اگر آج چار سو روپیہ کا ہے تو اگلے سال ساڑھے تین سو روپیہ کا رہ جائے گا اور اس سے اگلے سال تین سو کا کیونکہ ہر دفعہ وہ کہیں گے کہ اتنے آدمی چونکہ اور سُست ہو گئے ہیں اس لئے اب کی دفعہ ہم نے ان کو بھی شامل نہیں کیا.پھر سوال یہ ہے کہ اگر کمزور لوگوں کو الگ کر کے وہ چندہ بھجواتے ہیں تو اس میں ان کی خوبی کونسی ہے.یہ تو مفت کی نیک نامی حاصل کرنے والی بات ہے جو دیتا ہے وہ
۵۶۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء خطابات شوری جلد دوم تو خود بخود دے رہا ہے اس میں تمہاری کونسی خوبی ہے کہ تم اس فخر کو اپنی طرف منسوب کرو.مثلاً جو شخص پہلے ہی نمازیں پڑھنے کے عادی ہیں اُن کو پیش کر کے اگر کہا جائے کہ یہ ہماری جد و جہد سے نماز کے پابند ہوئے ہیں تو یہ ناجائز تعریف حاصل کرنے والی بات ہوگی کیونکہ نماز پڑھنے کے وہ پہلے ہی عادی تھے تو کام کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ جو لوگ سُست ہوں انہیں ہوشیار کیا جائے نہ یہ کہ سُست افراد کو تو الگ کر دیا جائے اور چست افراد کی نیک نامی خود حاصل کر لی جائے.مثلاً خدام الاحمدیہ کا دفتر جب میرے پاس یہ رپورٹ کرتا ہے کہ اتنے آدمی خدام الاحمدیہ کی تنظیم کی وجہ سے نماز باجماعت کے پابند ہیں تو میں انہیں یہی کہا کرتا ہوں کہ تم مجھے یہ بتاؤ کہ کتنے بے نمازوں کو تم نے نماز کا عادی بنایا ؟ جو لوگ پہلے ہی نمازوں کے پابند تھے ان کو تم اپنی طرف کیوں منسوب کرتے ہو؟ تم اپنی طرف وہ کام منسوب کرو جو تم نے کیا ہے لیکن اگر کوئی کیا کرایا کام تمہیں مل گیا ہے تو وہ تمہارا کام نہیں اور نہ اس کی تعریف تمہیں حاصل ہوسکتی ہے.پس یہ طریق بالکل غلط ہے اور جماعت کے لئے سخت مضر ہے.اس سے نہ صرف جماعت کسی تعریف کی مستحق نہیں رہ سکتی بلکہ اس کے افراد میں ترقی کے بجائے تنزل کے آثار پیدا ہو جائیں گے اور جب کمزوروں کے نام جماعت کی لسٹ میں سے کاٹ دیئے جائیں گے تو ان کی اصلاح کا خیال جاتا رہے گا اور آہستہ آہستہ ان کا ایمان بالکل ضائع ہو جائے گا.ذیلی تنظیموں میں شمولیت اس کے بعد گو بجٹ کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں مگر میں جماعتوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ میں نے اس سال یہ پابندی عائد کر دی ہے کہ وہ تمام نو جوان جو ۵ اسال سے چالیس سال تک کی عمر کے ہیں وہ خدام الاحمدیہ میں شامل ہو جائیں اور چالیس سال سے جو او پر عمر رکھتے ہیں وہ انصار اللہ میں شامل ہو جائیں.چونکہ اس وقت تمام جماعتوں کے نمائندے جمع ہیں اس لئے میں پھر اس معاملہ کو دوستوں کے سامنے پیش کرتا ہوں.مجھے یہ معلوم نہیں کہ ہر جگہ خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کی جماعتیں قائم ہو چکی ہیں یا نہیں.خدام الاحمدیہ کی رپورٹیں تو باقاعدگی کے ساتھ میرے سامنے پیش ہوتی رہتی ہیں مگر انصار اللہ میں سے صرف قادیان کے انصار کی رپورٹ چند دن ہوئے مجھے ملی ہے.اس
۵۶۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء خطابات شوری جلد دوم کے علاوہ باہر سے کسی جماعت کی رپورٹ نہیں آئی لیکن میں سمجھتا ہوں اسکے بغیر کبھی جماعتی تنظیم مکمل نہیں ہو سکتی.اگر ہر جگہ مجالس اطفال احمدیہ قائم ہو جائیں، ہر جگہ مجالس خدام الاحمدیہ قائم ہو جائیں اور ہر جگہ مجالس انصار اللہ قائم ہو جائیں تو ساری جماعت پروئی جاتی ہے اور اس طرح جماعت کے تین ہار بن جاتے ہیں.ایک اطفال الاحمدیہ کا ہار، ایک خدام الاحمدیہ کا ہار اور ایک انصار اللہ کا ہار، اس تنظیم کے ساتھ ہر فرد جماعت کے سامنے آجاتا ہے اور اس کے متعلق یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ وہ کیا کام کرتا ہے اور دینی کاموں سے وہ کس حد تک دلچسپی لیتا ہے.پھر اس طرح ایک رنگ میں منتظم جماعت کی مردم شماری بھی ہو جاتی ہے.بیشک جلسوں وغیرہ میں پہلے بھی جماعت کے افراد شامل ہوا کرتے تھے مگر اُس وقت ان پر کوئی پابندی عائد نہیں تھی اور نہ زیادہ تعھد سے یہ دیکھا جاتا تھا کہ کون غیر حاضر ہے اور اس کی غیر حاضری کی کیا وجہ ہے لیکن اس تحریک کے ماتحت چونکہ سب ہم عمر ایک جگہ اکٹھے کر دیئے گئے ہیں اس لئے وہ ایک دوسرے کی نگرانی کر سکتے ہیں اور انہیں کام کرنے کی مشق بھی ہو سکتی ہے.پھر سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح چھوٹی عمر سے ہی بچوں کی تربیت اسلامی اصول کے ماتحت شروع ہو جائے گی جو بڑے ہو کر ان کے کام آئے گی.علاوہ ازیں چونکہ ان مجالس میں شامل ہونے والوں میں سے ہر ایک کو کوئی نہ کوئی کام کرنا پڑتا ہے اس لئے ہر فرد کسی نہ کسی رنگ میں سامنے آ جاتا ہے.غرض یہ ایک اتنا اہم کام ہے کہ اگر اس طرف توجہ نہ کی جائے تو جماعتی ترقی کبھی نہیں ہو سکتی اور تربیتی حصہ میں بھی ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.ہر جگہ ذیلی تنظیمیں قائم کی جائیں پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جب وہ اپنی اپنی جماعتوں میں جائیں تو ہر جگہ انصار اللہ ، خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ کی جماعتیں قائم کریں.اطفال کے لئے میں نے ضروری قرار دیا ہے کہ انہیں موٹے موٹے دینی مسائل سکھائے جائیں اور وہ باتیں بتائی جائیں جو مذہب کی بنیاد ہوتی ہیں.اسی طرح میرا مقصد اطفال الاحمدیہ کے قیام سے یہ ہے کہ کھیل کود میں بچوں کی نگرانی کی جائے یہ نہیں کہ انہیں کھیل کود سے روکا جائے بلکہ کھیل کود کے نامناسب اور گندے اثرات سے اُنہیں بچایا جائے.مثلاً بعض دفعہ جب کسی لڑکے سے.
خطابات شوری جلد دوم ۵۶۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء جٹ نہیں لگتی تو ہا کی یا بیٹ کو گالی دے دیتا ہے، بعض دفعہ بال کو گالی دے دیتا ہے، بعض دفعہ فیلڈ کے متعلق کوئی ناشائستہ لفظ اپنی زبان سے نکال دیتا ہے اور بعض دفعہ اپنے ساتھ کھیلنے والے کو گالی دے دیتا ہے.خدام الاحمدیہ کا فرض اب یہ ایک نقص ہے جس کو دور کرنا خدام الاحمدیہ کا فرض ہے اور ان کا کام ہے کہ وہ بچوں کو اپنی نگرانی میں کھلائیں اور دیکھیں کہ وہ فیلڈ یا بال یا بیٹ یا کسی اپنے ساتھی کو گالی تو نہیں دیتے ؟ اور اگر دیں تو اس کا تدارک کریں.دوسرے اس تنظیم کے ماتحت اطفال الاحمدیہ میں سے ہر ایک کو کھیلنے کا موقع مل سکے گا.اب تو کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ امراء کے لڑکے آپس میں مل کر کھیلنا شروع کر دیتے ہیں اور غرباء کو اپنے اندر شامل نہیں کرتے مگر اس تنظیم کے ماتحت غرباء کو بھی کھیلوں میں شریک کیا جا سکے گا اور اس طرح ان کے دلوں میں بھی یہ احساس پیدا ہوگا کہ وہ قوم کا جُزو اور اس کا ایک حصہ ہیں.یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ جو لڑ کے کھیلوں میں حصہ نہیں لیتے وہ اس لئے حصہ نہیں لیتے کہ کھیلنا نہیں چاہتے بلکہ کئی اِس لئے کھیلوں میں شریک نہیں ہوتے کہ امراء انہیں حقارت کی وجہ سے اپنے اندر شامل نہیں کرتے.ان کا دل اندر سے گڑھتا ہے مگر وہ کچھ کر نہیں سکتے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بُری صحبت میں بیٹھنے لگ جاتے ہیں اور اخلاقی لحاظ سے نقصان اٹھاتے ہیں.اسی طرح اور بیسیوں خرابیاں ہیں جو اس لئے پیدا نہیں ہوتیں کہ لڑکے کھیلتے ہیں بلکہ اس لئے پیدا ہوتی ہیں کہ کھیلوں میں ان کی نگرانی نہیں کی جاتی.کھیلوں میں اطفال کی نگرانی پس خدام الاحمدیہ کا فرض ہے کہ وہ کھیلوں میں اطفال کی نگرانی کریں اور نہ صرف پہلے سے زیادہ اچھی اور زیادہ عمدہ کھیلیں انہیں کھلائی جائیں بلکہ ایسی ایسی نئی نئی کھیلیں ایجاد کی جائیں جو بچوں کی دلچسپی کا موجب ہوں اور ان کی آئندہ ترقی کے لئے مفید ہوں.میں نے اس کے متعلق تحریک بھی کی تھی مگر ابھی تک عمل نہیں کیا گیا.پرسوں کا واقعہ ہے کہ نماز فجر کے بعد میں نے خبریں سننے کے لئے ریڈیو کھولا تو اُس وقت آسٹریلیا کے سپاہیوں کو انگلستان میں کھلایا جا رہا تھا اور وہ کھیلیں اسی طرز کی تھیں کہ کہیں اُن کی نظر کا امتحان لیا جا رہا تھا، کہیں اُن کی یادداشت کا امتحان لیا جارہا تھا اور کہیں سونگھنے اور چکھنے کی طاقت کا امتحان لیا جارہا تھا.وہ چونکہ زندہ
خطابات شوری جلد دوم ۵۶۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء قومیں ہیں اس لئے لڑائی کے دنوں میں بھی وہ اپنی دلچسپی کو قائم رکھنے کے لئے کھیلیں کھیلتی ہیں اور کھیلیں بھی وہ جو اُن کی ذہانت اور ان کی طاقت کو بڑھانے والی ہوتی ہیں.اسی طرح اگر خدام الاحمدیہ چاہیں تو وہ آنکھوں اور کانوں اور ناک اور زبان کے ٹیسٹ کے متعلق ایسی ایسی دلچسپ کھیلیں ایجاد کر سکتے ہیں کہ لڑکے ٹوٹ پڑیں اور وہ بڑے شوق سے ان میں حصہ لینے لگ جائیں.کھیلوں کی اہمیت یہ امر یا درکھو کہ اسلام ہرگز یہ نہیں کہتا کہ تم اپنے لڑکوں کو افسردہ دل اور افسردہ دماغ بناؤ بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں.الصَّبِيُّ صَبِيٌّ وَلَوْ كَانَ نَبِيًّا یعنی بچہ بچہ ہی ہوتا ہے خواہ اس نے بعد میں نبی ہی کیوں نہ بن جانا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق بھی ثابت ہے کہ آپ بچپن میں کبھی چڑیوں کا شکار کرتے ، کبھی غلیلیں بناتے اور کبھی سواری سیکھتے.گویا اس زمانہ کے نبی اور مامور نے بھی بچپن کی عمر میں کھیلوں میں حصہ لیا ہے اور جب آپ نے اس میں حصہ لیا تو اور کون ہے جو کھیلوں میں حصہ لینا خلاف اسلام قرار دے.حقیقت یہ ہے کہ جن بچوں کو کھیلنے سے روکا جاتا ہے وہ کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتے.ہماری جماعت کے ہی ایک مشہور کارکن ہیں اُن کی یہ عادت تھی کہ وہ اپنے بچے کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے نتیجہ یہ ہوا کہ بڑے ہو کر ان کا وہ بچہ نہ دنیا کا رہا نہ دین کا.میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ وہ لڑکا جسے دوسروں سے الگ رکھا جائے گا وہ دوسروں سے زیادہ اچھا کبھی نہیں بن سکے گا کیونکہ اس میں قوت عملیہ مفقود ہوگی.پس میں یہ نہیں کہتا کہ تم اپنے بچوں کو نہ کھلاؤ.انہیں کھلاؤ اور پہلے سے زیادہ کھلاؤ اور جتنا ہنسی مذاق وہ پہلے کیا کرتے ہیں اُس سے بھی زیادہ ہنسی مذاق اُنہیں کرنے دو.میں صرف یہ کہتا ہوں کہ تم ان کی کھیلوں کو مہذب اور اُن کی ہنسی اور مذاق کوشستہ بنا دو اور ان پر یہ اثر ڈالو کہ تمہیں ان کی کھیلوں سے دلچسپی ہے.پس اطفال الاحمدیہ کا قیام صرف اس لئے نہیں ہوا کہ اطفال جمع ہوں اور یہ دیکھ لیا جائے کہ وہ نماز پڑھتے ہیں یا نہیں.بے شک نماز پڑھنا بھی اطفال کے لئے ضروری ہے لیکن جو بچے نماز نہیں پڑھتے در حقیقت ان کے ماں باپ مجرم ہوتے ہیں مگر بہر حال یہ ایسی چیز ہے جس کی نگرانی ان کے ماں باپ کر سکتے ہیں.انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ جو مدد دے
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ کھیل کود کے وقت ان کی نگرانی کریں جبکہ بچوں کے ماں باپ ان کے ساتھ نہیں ہوتے.اگر یہ کام کیا جائے تو ہمارے بچے زیادہ عقل، زیادہ سمجھ اور زیادہ فہم اور زیادہ فراست والے پیدا ہو سکتے ہیں.میں نے خود ایک ایسا کھیل سیکھا ہوا ہے کہ اگر آج کھیل کے متعلق دلچسپ روایت کوئی بچہ وہی کھیل سیکھنے لگے تو شاید پچاس ساٹھ فیصدی احمدی کہنے لگ جائیں کہ تو بہ تو بہ کیسی لغو کھیل سیکھ رہا ہے حالانکہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مدد سے وہ کھیل سیکھا ہے.واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ایک احمدی دوست آئے اور کہنے لگے میرا دل چاہتا ہے کہ میں حضور کو کسی طرح خوش کروں.مگر میں غریب آدمی ہوں نذرانہ دے نہیں سکتا اور عالم بھی نہیں کہ اپنے علم کے زور سے کوئی خدمت بجا لا سکوں.مجھے صرف تماشے دکھانے آتے ہیں اگر اجازت ہو تو میں حضور کو وہ تماشے مسجد میں دکھا دوں.اگر آج کسی مسجد میں تماشہ دکھایا جانے لگے تو شاید اسی فیصدی احمدی شور مچا دیں کہ یہ کفر ہو گیا ہے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب یہ بات سنی تو آپ ہنس پڑے اور فرمایا بہت اچھا ہم تماشہ دیکھیں گے.چنانچہ وہ مداری کا تھیلا لے کر مسجد مبارک میں مغرب کی نماز کے وقت آگئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز مغرب کے بعد مسجد میں بیٹھا کرتے تھے.چنانچہ آپ نماز سے فارغ ہو کر بیٹھ گئے اور ان صاحب نے اپنے کرتب دکھانے شروع کئے.کبھی گولہ غائب کر دیتے، کبھی تاش اُڑانے لگ جاتے ، کبھی کچھ کرتے اور کبھی کچھ.مجھے خوب یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام درمیان میں بیٹھے ہوئے تھے.آپ کے بائیں طرف گوشہ میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب بیٹھے تھے اور آپ سے ذرا پرے حضرت خلیفہ اول مولوی نورالدین صاحب بیٹھے تھے.حضور کے بائیں طرف میں بیٹھا تھا اور مجھ سے ہٹ کر ایک طرف پیر سراج الحق صاحب تھے.غرض اُس نے عجیب وغریب تماشے دکھانے شروع کر دیئے.کبھی بوتل دکھا تا اور پھر وہ غائب ہو جاتی اور اس کی جگہ گلاس آجاتا اور کبھی گلاس بھی غائب ہو جا تا.مولوی عبد الکریم صاحب بہت سادہ طبیعت کے تھے.وہ تماشہ دیکھتے جائیں اور سُبْحَانَ اللَّهِ سُبْحَانَ اللهِ کہتے جائیں.مگر حضرت خلیفہ اول ان باتوں کو جانتے تھے.اور وہ تو اس کا پول بھی کھولنے لگے
مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء خطابات شوری جلد دوم تھے مگر پھر اُس کی درخواست پر رُک گئے.بہر حال اُس نے مسجد مبارک میں تماشے دکھائے اور میں نے بھی دیکھے.میرے لئے یہ بات ایسی عجیب تھی کہ گویا آسمان کے فرشتوں نے کائنات کے تمام اسرار کھول کر میرے سامنے رکھ دیئے ہیں.جب کھیل ختم ہو گیا تو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر زور دینا شروع کر دیا کہ ان صاحب سے کہیں کہ یہ کھیل مجھے بھی سکھا دیں.جب میرا اصرار بہت ہی بڑھ گیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُس دوست کے نام ایک رقعہ لکھا جس کا مضمون یہ تھا کہ :- مکرمی فلاں صاحب ! محمود کو آپ کی کھیلیں سیکھنے کا بہت شوق پیدا ہو گیا ہے اور وہ بار بار مجھے دق کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ کھیلیں اسے سیکھا دی جائیں آپ کا تو یہ پیشہ ہے اس لئے میں زور نہیں دیتا لیکن اگر آپ کا کوئی حرج نہ ہو تو بعض کھیلیں محمود کو سکھا دیں.چنانچہ میں باقاعدہ اس مداری کا شاگرد بنا اور پانچ سات دنوں میں اُن کرتبوں کا ایک حصہ اس نے مجھے سکھا دیا اب اگر کوئی مداری کے کھیل سیکھنا چاہے تو تم فوراً کہہ دو گے کہ تو بہ تو بہ یہ تو بڑے گناہ کی بات ہے حالانکہ میں نے خود یہ کھیل سیکھا اور نہ صرف سیکھا بلکہ کئی دفعہ اپنے گھر میں دوسروں کو بھی میں نے یہ کھیل دکھائے ہیں.اب تو ایک عرصہ سے مجھے اس کا موقع نہیں ملا لیکن اس سے پہلے کبھی فرصت کا وقت ہوا اور بچوں سے باتوں میں مشغول ہوا تو میں انہیں بعض کھیل دکھا دیا کرتا تھا.میرے ایک بھتیجے کا ایک لطیفہ ہے جو اب تک مجھے یاد ہے.۱۴.۵ سال کی بات ہے میاں بشیر احمد صاحب کا لڑکا منیر احمد ابھی چھوٹا بچہ تھا کہ ایک دن بعض بچوں کے کہنے پر میں نے بعض کھیل انہیں دکھائے.عزیزم منیر احمد بہت چھوٹا تھا اور گری پر سامنے بیٹھا تھا.باقی تو ان کھیلوں پر بڑا تعجب کرتے رہے مگر میں نے دیکھا کہ منیر پتھر کی طرح کرسی پر جم کر بیٹھا رہا اور جب تک میں کھیلیں دکھا تا رہا وہ برابر مجھے گھورتا چلا گیا.چار پانچ منٹ بچوں کا دل خوش کرنے کے بعد جب میں نے بچوں سے پوچھا اور وہ سب اپنی حیرت کا اظہار کر چکے تو میں نے منیر سے بھی پوچھا منیر تم نے کیا دیکھا ؟ اس پر وہ بے ساختہ کہنے لگا.چا ابا! جان بھی دیو میں جانداں ہاں تہاڑی چلا کیاں نوں.یعنی چچا ابا! آپ جانے بھی دیں میں آپ
خطابات شوری جلد دوم ۵۶۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء کی چالاکیوں کو خوب جانتا ہوں.ہم سب لوگ دیر تک اُس کے اس فقرہ پر ہنستے رہے.اب منیر کو کبھی یہ بات یاد کرائی جاتی ہے تو وہ بڑا شرمندہ ہوتا ہے.تو اِس قسم کی کئی کھیلیں ہیں جو ہم کھیلتے رہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنے بچپن میں کئی کھیلیں کھیلیں اور ہمیں بعض کھیل دیکھنے کے لئے بھجواتے رہے اور بعض دفعہ مداریوں کا تماشہ گھر کے دروازہ پر بچوں کے دیکھنے کے لئے اجازت دی.پس کھیلوں میں حصہ لینا نہایت ضروری ہوتا ہے.اگر بچے کھیلوں کی طرف توجہ نہ کریں تو مجھے شبہ ہوتا ہے کہ اُن کی اخلاقی حالت اچھی نہیں ہوگی.پس میرا اطفال الاحمدیہ کی تنظیم سے یہ مطلب نہیں کہ کھیلیں اُڑا دی جائیں بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ انہیں پہلے سے بھی زیادہ کھیلوں میں حصہ لینے کے لئے کہو اور سب قسم کی کھیلوں سے انہیں روشناس کرو تا کہ ان کی معلومات زیادہ ہوں.انگریزوں میں اس قسم کی عام واقفیت ہوتی ہے لیکن ہندوستانیوں میں سے کئی مداری کے کھیل کھیلنے کے بعد کہنے لگ جاتے ہیں کہ یہ ضرور کرامت ہے.لیکن اگر انہیں خود بھی کھیلیں آتی ہوں تو وہ قیاس کر لیں گے کہ جیسے ہمیں کھیلیں آتی ہیں اسی طرح یہ بھی کھیلیں دکھا رہا ہے، حیرت اور استعجاب ان میں پیدا نہیں ہوگا.پس کھیلوں میں حصہ لینا عقل کو تیز کرتا ، ذہانت کو بڑھاتا اور افسردگی کو دور کرتا ہے.مگر کھیلوں میں اطفال کی نگرانی کرنا یہ خدام الاحمدیہ کا کام ہے.خدام الاحمدیہ کے دیگر فرائض اسی طرح خدام الاحمدیہ کو اس بات کی بھی نگرانی کرنی چاہئے کہ بچے بُری صحبت میں مبتلا نہ ہوں اور نیک محبت انہیں حاصل رہے.یہ کام ہے جو ہر جگہ اور ہر وقت ہونا چاہئے اور اس میں کسی قسم کی سستی نہیں ہونی چاہئے.اسی طرح خدام الاحمدیہ کے قیام کی غرض یہ ہے کہ دینی اور تمدنی کاموں میں حصہ لینے کی تحریک بجائے اس کے کہ بڑی عمر کے لوگ انہیں کریں ان کے ہم عمر ہی انہیں ان کاموں میں حصہ لینے کی ترغیب دے دیا کریں.اگر بڑی عمر کے لوگ یہ کہیں کہ نمازیں پڑھو تو ممکن ہے وہ اس پر کسی قدر بُرا منائیں لیکن اگر ہم عمر کہیں گے کہ نمازیں پڑھو تو وہ اس تحریک کو زیادہ جلد قبول کرنے کے لئے تیار ہوں گے اور چونکہ وہ آپس میں لڑ جھگڑ بھی لیتے ہیں اس لئے ان میں افسردگی اور مُردنی پیدا نہیں ہوسکتی.
خطابات شوری جلد دوم ۵۶۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء تنظیموں کے قیام کی غرض غرض خدام الاحمدیہ کے قیام کی غرض یہ ہے کہ نبی پور دینی رنگ میں رنگین ہو جائے اور وہ ایک دوسرے سے مل کر تعلیم و تربیت کا انتظام کرنے والی ہو.اسی طرح انصار اللہ کے قیام کی غرض یہ ہے کہ عمر کے اس حصہ میں جب انسان عمل میں سُست ہو جاتا ہے، دین کے کاموں میں سُست نہ ہو اور وہ اپنے آپ کو بے کار اور عضو معطل خیال نہ کرے بلکہ سمجھے کہ وہ بھی ابھی کام کرنے کا اہل ہے.جب خدام الاحمدیہ چالیس سال عمر کے بعد انصار اللہ میں شامل ہوتے جائیں گے تو خدام الاحمدیہ کی تنظیم کے نتیجہ میں چونکہ ان میں بیداری اور ہوشیاری پیدا ہو چکی ہوگی، اس لئے وہ یہی بیداری اور ہوشیاری انصار میں پیدا کرنے کی کوشش کریں گے اور اپنے مشوروں اور نیک نمونوں سے نو جوانوں کو فائدہ پہنچاتے رہیں گے.غرض یہ تینوں محکمے مل کر نہایت شاندار نتائج پیدا کر سکتے ہیں.سر دست اطفال الاحمدیہ کا کام خدام الاحمدیہ کے ہی سپرد ہے لیکن میرا ارادہ ہے کہ یہ کام مشترکہ طور پر خدام اور انصار دونوں کے سپرد کیا جائے مگر ابھی تک اس بارہ میں میں تفصیلی قواعد تیار نہیں کر سکا.جنگ میں حصہ لینے والوں کی امداد آخر میں میں احباب کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ جیسا کہ میں نے خطبہ جمعہ میں بھی بیان کیا تھا آجکل جنگ کی وجہ سے حالات نہایت خطرناک ہو چکے ہیں.ان ایام میں دوستوں کو اپنی ذمہ داریاں خاص طور پر سمجھنی چاہئیں اور خطرہ کی اہمیت کو اپنی حماقت سے نظر انداز نہیں کرنا چاہئے.بعض باتیں بظاہر بہت چھوٹی ہوتی ہیں لیکن ان کے نتائج بہت اہم ہوتے ہیں.اس وقت ہزاروں نہیں لاکھوں ہندوستانی جنگ کے لئے باہر گئے ہوئے ہیں ان لوگوں میں سینکڑوں احمدی دوست بھی شامل ہیں.پس علاوہ اس کے کہ ہمیں دن رات یہ دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائے اور جنگ کے خطرات سے ان کو بچائے ہمیں اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ ہمارے اعمال بہت حد تک ان پر اثر انداز ہو سکتے ہیں.مثلاً جنگ کے لئے چندہ کی جو تحریکیں ہو رہی ہیں ان میں ہر شخص کو اپنی وسعت کے مطابق حصہ لینا چاہئے مگر مجھے افسوس ہے کہ احمدیوں میں بالعموم یہ سخت دلی پائی جاتی ہے کہ وہ صرف دینی کاموں میں حصہ لینا کافی سمجھتے ہیں ان کاموں میں حصہ لینا
۵۶۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء خطابات شوری جلد دوم ضروری خیال نہیں کرتے جو عام دنیوی مفاد کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں حالانکہ ہم براہ راست اپنے اُن بھائیوں تک جو اس وقت میدان جنگ میں گئے ہوئے ہیں کوئی چیز نہیں پہنچا سکتے.اگر اُن تک کوئی چیز پہنچ سکتی ہے تو صرف ان محکموں کے ذریعہ جو گورنمنٹ نے مقرر کئے ہوئے ہیں.پس اگر ہم ان چندوں میں حصہ نہیں لیں گے تو لازماً دو باتوں میں سے ایک بات ضرور ہوگی.یا تو ہمارے بھائی ہر قسم کی امداد سے محروم رہیں گے اور یا ہمارے بھائیوں کے آرام اور ان کی راحت کا سامان ہندو، سکھ اور دوسرے مذاہب کے پیرو کریں گے ہم نہیں کریں گے اور یہ دونوں باتیں انتہائی بے غیرتی پر دلالت کرتی ہیں.یہ بھی بے غیرتی ہے کہ ہم اپنے بھائیوں کی امداد نہ کریں اور یہ بھی بے غیرتی ہے کہ غیر تو امداد میں حصہ لیں اور ہم کنارہ کش رہیں.فوجی بھرتی میں حصہ لیں پس میرے نزدیک اس قسم کے کاموں میں جس حد تک حصہ لیا جا سکتا ہو اُس حد تک ضرور حصہ لینا چاہئے.اس سے ہمارے نفس کے اندر یہ احساس ہمیشہ تازہ رہے گا کہ ہمارے بھائی جو میدانِ جنگ میں گئے ہوئے ہیں اُن کے آرام اور راحت کا خیال رکھنا ہمارے لئے ضروری ہے.علاوہ ازیں آجکل جنگی اغراض کے لئے جو بھرتیاں ہو رہی ہیں ان میں بھی ہماری جماعت کے دوستوں کو زیادہ سے زیادہ حصہ لینا چاہئے مگر میں نے دیکھا ہے کہ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ہمیں اس میں حصہ لینے کی کیا ضرورت ہے حالانکہ قطع نظر اس سے کہ وہ ہزاروں لاکھوں لوگ جو باہر گئے ہوئے ہیں وہ ہمارے بھائی ہیں اور ان کی امداد کرنا ہمارا اخلاقی فرض ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْإِيْمَانِ " یعنی وطن سے محبت رکھنا ایمان کی علامت ہوتی ہے.پس وہ مائیں جن کے بیٹے جنگ کے لئے باہر گئے ہوئے ہیں، وہ بہنیں جن کے بھائی جنگ کے لئے باہر گئے ہوئے ہیں اور وہ بیٹے جن کے باپ جنگ کے لئے باہر گئے ہوئے ہیں قطع نظر اس کے کہ وہ ہندو ہیں یا سکھ ہیں یا عیسائی ہیں، ان کے غم اور دکھ کا ہم پر اثر انداز ہونا ایمان کے لحاظ سے ضروری ہے اور اس وجہ سے ہمارا فرض ہے کہ ہم فوجی بھرتی میں گورنمنٹ کو مدد دے کر اور خود اس میں حصہ لے کر اپنے ان بھائیوں کی امداد کریں.یادرکھو فوج کو جب تک کمک نہیں پہنچتی اُس وقت تک اس فوج کے
خطابات شوری جلد دوم ۵۷۰ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء سپاہیوں کی اپنی جانیں ہر وقت خطرہ میں گھری ہوئی ہوتی ہیں اور ان کی کامیابی بہت مشکل ہوتی ہے.پس وہ لوگ جو فوجی بھرتی میں حصہ لیتے اور گورنمنٹ کی اس معاملہ میں مدد کرتے ہیں، یہ نہیں کہ وہ حکومت کی مدد کرتے ہیں بلکہ دراصل وہ اُن بھائیوں کی جولڑائی پر گئے ہوئے ہیں حفاظت کی کوشش کرتے ہیں.یہ امر واضح ہے کہ جہاں دس سپاہیوں کی ضرورت ہو وہاں اگر پانچ سپاہی بھیجے جائیں گے تو ہلاک ہوں گے.ہاں اگر دس کی بجائے پندرہ بھیج دیئے جائیں تو پہلے دس سپاہیوں کی جان بھی بچ جائے گی.پس اس نقطہ نگاہ کو اچھی طرح سمجھ لو اور یاد رکھو کہ اگر تم فوجی بھرتی میں روک ڈالتے ہو، اگر تم ریکروٹنگ میں دلچسپی نہیں لیتے اور اگر تم کہتے ہو کہ ہمیں اس کی کیا پروا ہے تو جنگ میں مارے جانے والوں کے ذمہ دار خدا کے حضور تم قرار پاؤ گے کیونکہ اگر میدانِ جنگ میں کوئی ایک سپاہی بھی اس لئے مارا جاتا ہے کہ اگر اس کے ساتھ کوئی اور سپاہی ہوتا تو وہ بچ جاتا تو اُس کے قاتل وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے بھرتی میں رُکاوٹ ڈالی اور اسے دوسروں کی امداد سے محروم رکھا.پس ہمارے وہ بھائی جو میدانِ جنگ میں جاچکے ہیں، خواہ وہ ظلم سے لے جائے گئے ہیں یا غلطی سے گئے ہیں بہر حال جو لوگ جا چکے ہیں ان کو بچانا ہمارا فرض ہے.ان ایام میں اس قسم کے خیالات اپنے دلوں میں رکھنا کہ ہمیں اس جنگ سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے جو ہم سے پوچھ کر نہیں کی گئی حماقت اور نادانی ہے.کیا ایک مکان جسے آگ لگی ہوئی ہو اُس میں اگر کوئی شخص عداوت سے کسی کا لڑکا اٹھا کر پھینک دے تو وہ کہہ سکتا ہے کہ میں اپنے بچے کو کیوں بچاؤں، مجھ سے پوچھے بغیر اسے آگ کے اندر پھینک دیا گیا ہے.وہ یقیناً ایسا نہیں کہے گا بلکہ اسے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرے گا.اسی طرح موجودہ وقت میں بجائے اس کے کہ بھرتی میں رکاوٹیں ڈالی جائیں یا یہ کہا جائے کہ جنگ ہم سے پوچھے بغیر کیوں کی گئی ہے تمام ہندوستانیوں کا فرض ہے کہ اس جنگ میں فتح حاصل کرنے کی کوشش کریں.جنگ کے وقت ایک احتیاط اسی طرح ہندوستانیوں کی ایک اور بہت بڑی نادانی یہ ہے کہ وہ ادھر اُدھر کی باتیں سن کر یا اخباروں کی بعض خبروں سے نتائج نکال کر یا پھر جرمن ریڈیو کی جھوٹی اور مبالغہ آمیز خبریں سن کر جرمنی
خطابات شوری جلد دوم ۵۷۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء کی بہادری اور کامیابی کے قصے بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اس طرح جرمنی کے غلبہ اور رُعب کے پھیلانے کا ذریعہ بنتے ہیں جو نہایت ہی نقصاں رساں ہے.وہ نادان لوگ اس بات کو نہیں جانتے کہ ان باتوں کا نتیجہ ہے کہ بھرتی بند ہو جاتی ہے اور لوگوں میں بُزدلی اور دون ہمتی پیدا ہو جاتی ہے.جب لوگوں کو یہ معلوم ہو کہ کسی ایسی طاقتور قوم سے ان کا مقابلہ ہے جو اپنے دشمن کو مارتی چلی جاتی ہے اور جو بھی اُس کے سامنے آئے اُسے فنا کر دیتی ہے تو اس کی ہمتیں پست ہو جاتی ہیں اور مقابلہ کی طاقت کو وہ بالکل کھو بیٹھتی ہے.پس ان دنوں ایسی باتیں کرنا جن سے جرمنوں کو تقویت پہنچ سکتی ہو سخت ظلم ہے.اپنے ملک پر ظلم ہے، اپنی قوم پر ظلم ہے اور اُن لاکھوں انسانوں پر ظلم ہے جو میدان جنگ میں گئے ہوئے ہیں، اگر ہم اپنے ملک کے لوگوں کے دلوں میں اس قسم کے زہر یلے خیالات بھر کر میدانِ جنگ میں بھیجتے ہیں ، اگر ہم انہیں صبح وشام یہ سناتے رہتے ہیں کہ تمہارا مقابلہ ایک بہت بڑے دیو سے ہوگا جو آنِ واحد میں تمہیں کچل ڈالے گا تو یقیناً ہم ان لوگوں کو مفلوج کر کے میدانِ جنگ میں بھیجتے ہیں اور وہ کبھی کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکتے.دنیا میں تلوار نہیں بلکہ رعب کام کرتا ہے یاد رکھو دنیا میں بھی تلوار کام نہیں کرتی د بلکہ رُعب کام کیا کرتا ہے.جرمنی کی اس وقت تک کی تمام ترقیات اور کامیابیوں کی وجہ یہی ہے کہ اس کا رُعب دلوں پر بیٹھتا چلا جا رہا ہے اور لوگ پہلے ہی یہ خیال کر کے سہم جاتے ہیں کہ نہ معلوم مقابلہ میں ہمارا کیا حشر ہو.اگر آج کسی قوم کے دل میں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ جرمن آخر انسان ہیں اور وہ کوئی غیر معمولی طاقتیں لے کر نہیں آئے ، ہم ان کا مقابلہ کر سکتے اور انہیں میدان سے بھگا سکتے ہیں تو یقینا بز دل سے بُزدل قوم بھی جرمن کا مقابلہ کر سکتی ہے.پس یہ سخت بے وقوفی کی بات ہے کہ اپنے ملک کے لوگوں میں جرمنی کا رُعب قائم کیا جائے اور جھوٹی سچی خبریں ایک دوسرے کو سُنا کر اُنہیں بُزدل اور دون ہمت بنایا جائے.اگر لوگوں کے دلوں میں یہ خیالات پیدا کئے جائیں کہ جرمنی کی کیا طاقت ہے کہ وہ ہمارا مقابلہ کر سکے.وہ دن رات شرا ہیں پینے والے لوگ ہیں وہ اگر مسلمانوں کے مقابلہ میں آئیں تو میدان سے بھاگنے کے سوا اُن کے لئے کوئی چارہ نہ رہے تو یقینا لڑائی کا نقشہ پلٹ جائے اور لوگ تھوڑے
خطابات شوری جلد دوم ۵۷۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء دنوں میں ہی جرمنی کو شکست دے دیں.مگر اب تو ہندوستان اور دوسرے ملکوں سے جن سپاہیوں کو میدانِ جنگ میں بھیجا جاتا ہے انہیں بزدل اور مفلوج بنا کر بھیجا جاتا ہے اور اس کی تمام تر ذمہ داری ان لوگوں پر ہے جو اپنی مجالس میں روزانہ جرمنی کی بہادری کے قصے دُہراتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں آج اُس نے اتنے آدمی مار ڈالے اور آج اتنے علاقوں پر قبضہ کر لیا.وہ دن اور رات لوگوں کو مفلوج بناتے ہیں.وہ صبح اور شام لوگوں کو بُزدل بناتے ہیں.وہ اٹھتے بیٹھتے ان کی ہمت کو پست ، ان کے ارادوں کو مُردہ اور ان کے جذبات کو پامال کرتے ہیں اور انہیں ناکارہ اور مفلوج بنا کر میدانِ جنگ میں بھیجتے ہیں.کیا تم نے نہیں دیکھا کہ گاؤں میں بعض دفعہ پولیس کا ایک آدمی بھی چلا جائے تو سارا گاؤں اُس سے کانپنے لگ جاتا ہے؟ پھر تمہیں کیا ہوا کہ تم اس بات کو نہیں سمجھتے کہ اصل طاقت تعداد میں نہیں بلکہ رُعب میں ہے.اگر تم جرمن قوم کا رُعب پھیلاتے ہو، اگر تم اس کی بہادری کے قصے بیان کرنے سے باز نہیں آسکتے اور اگر تمہیں دن رات اُس کی تعریف کرنے سے فرصت نہیں حالانکہ تمہارا اپنا باپ میدانِ جنگ میں گیا ہوا ہوتا ہے یا تمہارا اپنا بھائی میدانِ جنگ میں گیا ہوا ہوتا ہے یا تمہارا کوئی اور رشتہ دار میدانِ جنگ میں گیا ہوا ہوتا ہے تو یاد رکھو تم وہ ہو جو اس قسم کی باتوں سے اپنے باپ کو قتل کراتے ہو، اپنے بیٹے کو قتل کراتے ہو، اپنے بھائی کو قتل کراتے ہو، اپنے رشتہ داروں کو قتل کراتے ہو اور اپنے شہر والوں اور اپنے ملک والوں ا کو قتل کراتے ہو حالانکہ اگر تمہارے باپ یا تمہارے بیٹے یا تمہارے بھائی کو اگر کوئی اور شخص قتل کرنے کا ارادہ بھی کرے تو تم اسے قتل کر دو.پھر میں کہتا ہوں اگر تم اور باتوں کو جانے بھی دو تو اس بات کو تم کس طرح نظر انداز کر سکتے ہو کہ جنگ میں سینکڑوں احمدی بھی گئے ہوئے ہیں کیا اگر تمہارا سگا بیٹا اس جنگ میں گیا ہوا ہوتا تو تم ویسی ہی باتیں کرتے جیسی اب کرتے ہو؟ اگر نہیں تو تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں.ان میں سے اگر کسی ایک کو دکھ پہنچتا ہے تو سارے مسلمان تکلیف محسوس کرتے ہیں.یہی اخوت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہم میں قائم کی.پس اگر تمہیں کسی اور کا احساس نہیں تو کم سے کم اپنے ان بھائیوں کا ہی احساس کرو جو میدان جنگ میں گئے ہوئے
۵۷۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء خطابات شوری جلد دوم ہیں اور یاد رکھو کہ اگر تم ریکروٹنگ سے لوگوں کو روکو گے یا جانے والوں کو بُزدل بنا کر بھیجو گے تو جو لوگ وہاں مارے جائیں گے اس کی ذمہ داری خدا کے حضور تمہارے اوپر عائد کی جائے گی.اسی طرح جو احمدی مارے گئے ان کی ذمہ داری بھی ان احمدیوں پر ہی ہوگی جو جرمنوں کی بہادری کے قصے بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کے عادی ہیں.پس ہمیں اس معاملہ میں احتیاط سے کام لینا چاہئے اور ہمیشہ ایسے رنگ میں گفتگو کرنی چاہئے جو لوگوں کو دلیر اور بہادر بنانے والی ہو.اگر ہم اس طرح سے ایک آدمی کو بھی بچا لیتے ہیں تو جیسا کہ قرآن کریم نے بتایا ہے، ہم ایک آدمی کی جان نہیں بچاتے بلکہ سارے جہان کو بچاتے ہیں.لیکن اگر ہماری سستی ، ہماری غفلت اور ہماری بے احتیاطی کی وجہ سے وہاں ایک آدمی بھی مارا جاتا ہے تو نہ صرف ہمارا آدمی ضائع ہوتا ہے بلکہ ہمارا ایمان بھی ساتھ ہی ضائع ہو جاتا ہے.غرض اس معاملہ میں کمزوری دکھانا یا بُزدلی ظاہر کرنا یا ایسی باتیں کرنا جن سے جرمنوں کو تقویت پہنچ سکتی ہو سخت ظلم ہے اور اُن لوگوں پر ظلم ہے جو میدانِ جنگ میں گئے ہوئے ہیں اور جن میں سینکڑوں ہمارے احمدی بھائی بھی شامل ہیں.اس کے بعد میں پھر دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ بعض اہم رؤیا ہمارے تمام کام دعاؤں پر مبنی ہیں، پس ہمیں ہر وقت دعاؤں سے کام لینا چاہئے.بڑی بڑی آفات اور مصیبتیں ہیں جو دنیا میں آنے والی ہیں.ان میں سے بعض کے متعلق تو میں اپنی خواہیں بیان کر چکا ہوں اور بعض خوابیں ایسی ہیں جن کو میں نے ابھی تک بیان نہیں کیا.ان سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے ابتلاء ابھی باقی ہیں اور بعض ان میں سے بہت شدید ہیں.ابھی چار پانچ دن ہوئے مجھے ایک رویا ہوا جس سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ پیغامی پھر کوئی فتنہ کھڑا کرنا چاہتے ہیں.میں نے رویا میں دیکھا کہ گھر میں کوئی بیمار ہے جس کے لئے میں نے کونین تجویز کی ہے اور میں کونین لینے کے لئے حضرت اماں جان) کے کمرہ کی طرف جارہا ہوں.جب میں کمرہ کے قریب پہنچا تو میں نے دیکھا کہ اندر میاں منصور احمد ، مولوی صدر الدین صاحب پیغامی اور غالباً مرزا ناصر احمد اور مرزا مبارک احمد بیٹھے ہیں.میرا غالب خیال یہی ہے کہ ناصر احمد بیٹھے ہوئے ہیں.میں مولوی صدر الدین صاحب
۵۷۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء خطابات شوری جلد دوم کو دیکھ کر بہت گھبرایا کہ یہ ہمارے گھر میں کس طرح آگئے ہیں.مگر مرزا منصور احمد اور مرزا ناصر احمد نے بتایا کہ یہ اماں جان سے اجازت لے کر ان کا حال دریافت کرنے کے لئے آئے ہیں.میاں منصور احمد میرے بھتیجے بھی ہیں اور داماد بھی.میں نے رویا میں مذاق کے طور پر اُن سے کہا کہ میاں اماں جان کی شیشی میں سے کونین کی ایک گولی تو پچر ا دو.پُرا دو کا لفظ اس لئے بولا کہ حضرت (اماں جان ) وہاں موجود نہ تھیں اور ان کی بلا اجازت کو نین لینے گئے تھے.اس پر مولوی صدر الدین صاحب کہنے لگے یہ تو پہلے ہی چوری کے عادی ہیں.مجھے اُن کا یہ فقرہ بہت بُرا لگا اور میں نے اپنے دل میں کہا کہ میں نے تو منصور احمد سے مذاق کیا تھا اور مخاطب بھی میں نے اُسے ہی کیا تھا ، مولوی صدر الدین صاحب درمیان میں کیوں بول پڑے.پھر میں نے مولوی صاحب سے کہا کہ یہ بہت بُری بات ہے.آپ کو اس لئے اجازت نہیں دی گئی تھی کہ اندر آ کر آپ ایسی بے ہودہ باتیں کریں.اس پر وہ کھڑے ہو گئے اور میری طرف اُنہوں نے بڑھنا شروع کر دیا گویا وہ میرا مقابلہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں.جب وہ میرے قریب پہنچے تو میں نے اپنی کلائی اُن کی کلائی کے سامنے رکھ کر انہیں پیچھے ہٹایا اور کہا کہ آپ نے یہ بہت بُری حرکت کی ہے.اتنے میں میں کیا دیکھتا ہوں کہ مولوی صدر الدین صاحب میرے اس معمولی سے جھٹکے سے چاروں شانے چت گر گئے ہیں اور اُن کا قد کوئی بالشت بھر کے قریب رہ گیا ہے اور وہ زمین پر پڑے ہوئے یوں معلوم ہوتے ہیں جیسے موم کی گڑیا ہوتی ہے اور وہ میری طرف اس طرح پھٹی ہوئی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ گویا سمجھتے ہیں میں اُنہیں مار ڈالوں گا.پھر میں نے انہیں کہا کہ ہمارے گھر سے اسی وقت چلے جاؤ، چنانچہ وہ باہر نکل گئے.اتنے میں خواب میں ہی نماز کا وقت ہو گیا.میں نماز کی تیاری کر رہا ہوں کہ میاں بشیر احمد صاحب میرے پاس آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ چوک میں کچھ پیغا می کھڑے ہیں جن میں مولوی صدر الدین صاحب بھی ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہم نائش کرنے والے ہیں کیونکہ انہوں نے ہم کو مارا ہے.ہاں اگر وہ معافی مانگ لیں یا معافی نہیں مانگتے تو اظہار افسوس ہی کر دیں تو ہم نالش نہیں کریں گے ور نہ ضرور نالش کر دیں گے.میاں بشیر احمد صاحب نے جب مجھے یہ بات کہی تو میں نے ان سے کہا کہ مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ، وہ بے شک مجھ پر نالش کر دیں.میں نے
۵۷۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء خطابات شوری جلد دوم جو کچھ کیا ہے ٹھیک کیا ہے.یہ سنکر میاں بشیر احمد صاحب چلے گئے اور تھوڑی دیر کے بعد پھر واپس آئے.میں نے اُن سے پوچھا کہ کیا ہوا؟ وہ کہنے لگے وہ تو کچھ اوباش لوگ تھے.انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا وہ معافی مانگنے یا اظہار افسوس کرنے کے لئے تیار ہیں مگر جب میں نے آپ کا جواب انہیں سنایا تو وہ کہنے لگے اچھا اگر ان کی مرضی نہیں تو نہ سہی اور یہ کہہ کر وہ چلے گئے.میں نے یہ رویا چوہدری ظفر اللہ خان صاحب سے بیان کر دیا تھا اور اُن سے کہا تھا که شاید پیغامی پھر کوئی فتنہ کھڑا کرنے والے ہیں.کل شیخ بشیر احمد صاحب نے سنایا کہ ان کو لائکپور کے ایک دوست کے ذریعہ یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ پیغامیوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ مولوی صدر الدین صاحب کو قادیان بھیجا جائے.میں نے کہا پھر تو یہ خواب اپنے ظاہری رنگ میں ہی پوری ہو جائے گی اور وہ اگر آئے تو یقیناً ہمارے مقابلہ میں گڑیا بن کر رہ جائیں گے اور ان کے ساتھی یہ کہہ کر چلے جائیں گے کہ جب یہ کوئی بات مانتے ہی نہیں تو نہ سہی ہم جاتے ہیں.یہ رویا ۹ را پریل بدھ کے روز میں نے دیکھا تھا.غرض اللہ تعالیٰ قبل از وقت کئی غیب کی خبریں ہمیں بتا دیتا اور پیش آمدہ حالات سے اطلاع دے دیتا ہے.ابھی چند دن کی بات ہے یہاں ایک مقامی افسر نے ایسی کارروائی کرنی شروع کی جس سے مجھے یہ شبہ پیدا ہوا کہ ہماری تبلیغ کو روک دیا جائے گا.میں نے اس کے متعلق دعا کرنی شروع کر دی اور میں نے کہا کہ یا اللہ ! تیرے دین کی تبلیغ کو تو کوئی روک نہیں سکتا مگر یہ افسر اس بے وقوفی کا ارتکاب کر کے اپنے آپ کو ہلاک کر لے گا.اس لئے تو اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا فرما کہ تبلیغ میں کوئی روک پیدا نہ ہو.میں نے اس دعا کے بعد رویا میں دیکھا کہ میں ایک جگہ بیٹھا ہوا ہوں اور وہی افسر میرے سامنے آیا ہے.پہلے تو وہ اور افسروں سے کچھ مشورہ کرتا رہا پھر ایک خالی بینچ پر بیٹھ گیا.میں نے دیکھا کہ اُس کے سر پر ایک لمبا سا کلاہ ہے اور چھوٹی سی پگڑی.اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی مُلاً ہے.اتنے میں پیچھے سے بعض اور دوست آئے اور وہ ان سے باتیں کرنے لگ گیا.باتیں کرتے کرتے یکدم وہ اُٹھا اور میرے پہلو میں جھکا.میں نے دیکھا کہ اس کا رنگ فق ہوتا چلا جا رہا ہے میں حیران ہوا کہ اسے کیا ہو گیا ہے.اتنے میں میں نے دیکھا کہ وہاں ایک
خطابات شوری جلد دوم ۵۷۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء وہ سوراخ ہے جس میں سے ایک سانپ نے سر نکالا ہوا ہے اور غالبا اس سانپ نے ہی اُسے کاٹ لیا ہے میں نے کہا کہ جلدی سے اس سانپ کا زہر نکالومگر وہ بالکل ہمت ہار چکا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے جیسے مرنے لگا ہے مگر میں اُس کے لئے دوائی تلاش کرنے لگ گیا اور ابھی دوائی تلاش ہی کر رہا تھا کہ آنکھ کھل گئی.ادھر یہ رویا میں نے دیکھا اور اُدھر چند دنوں کے بعد ہی مجھے معلوم ہوا کہ اس افسر کے رویہ میں فرق پیدا ہو گیا ہے اور یا تو و ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ کے ماتحت کارروائی کرنے لگا تھا اور یا اس نے اس ارادہ کو بالکل ترک کر دیا.اس رؤیا سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ باز نہ آیا تو یا تو واقعہ میں کوئی سانپ اُسے کاٹ لے گا یا اپنی ہی قوم کے کسی مخفی شخص کے ذریعہ اسے شدید نقصان پہنچے گا.غرض ہر اہم موقع پر اللہ تعالیٰ غیب کی خبریں مجھ پر ظاہر کر دیا کرتا ہے.اس جنگ کے متعلق ہی کل میں نے ایک اور رویا دیکھا ہے.میں نے دیکھا کہ میں انگریزوں کی کامیابی کے لئے دعا میں مشغول ہوں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے نماز پڑھ کر میں فارغ ہو چکا ہوں اور مصلی پر بیٹھا ہوا ہوں.شمال کی طرف میرا منہ ہے اور میرے سامنے میری بچی ناصرہ بیگم بیٹھی ہوئی ہے.اس کے آگے میرا بھتیجا مظفر احمد بیٹھا ہوا ہے اور اس کے آگے منصور یا منور ہے.خواب میں میں حیران ہوتا ہوں کہ ناصرہ نے مظفر سے پردہ کیوں نہیں کیا؟ اتنے میں مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ناصرہ میری طرز سے اس اعتراض کو بھانپ گئی ہے.اُس وقت اس نے ایک دُھتہ لیا ہوا ہے اور وہ اپنے ہاتھ سے اس دُھتہ کے کونوں کو پکڑ کر ہلاتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ میں نے پردہ کیا ہوتا ہے.اس رؤیا کی تعبیر میں نے یہ مجھی کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت پس پردہ بیٹھی ہے.یہ تو معلوم نہیں ہو سکا کہ مظفر کون ہے مگر اس خواب سے اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ جو مظفر ہے اسے بھی یہ معلوم نہیں کہ نصرت اُس کے پس پردہ بیٹھی ہوئی ہے.اس سے ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس جنگ میں خدا تعالیٰ کا ضرور دخل ہے.بعض جنگیں ایسی ہوتی ہیں جن میں خدا تعالیٰ انجام لوگوں پر چھوڑ دیتا ہے مگر اس جنگ میں خدا تعالیٰ کا دخل معلوم ہوتا ہے اور پتہ لگتا ہے کہ نصرت پردہ کے پیچھے ہے.حتی کہ جو مظفر ہے اُس کو بھی یہ معلوم نہیں کہ اُس کے پیچھے نصرت بیٹھی ہوئی ہے.بہر حال اس رویا سے مجھے اتنی تسلی ضرور ہوئی کہ اس جنگ میں خدا تعالیٰ
۵۷۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء خطابات شوری جلد دوم کا دخل ہے اور جس جنگ میں خدا تعالیٰ کا دخل ہو اُس کا نتیجہ اسلام اور احمدیت کے لئے مضر نہیں ہوسکتا.ابھی میں برابر دعا میں مشغول ہوں اور گو درمیانی واقعات اللہ تعالیٰ نے مجھے بتا دیئے ہیں مگر اس جنگ کے آخری نتیجہ اور انجام کے متعلق ابھی وضاحت سے علم نہیں ہوا.دوستوں کو چاہئے کہ وہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس عظیم الشان مصیبت سے جس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی اپنے بندوں کو بچالے.میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر اس جنگ میں جرمنی کو شکست جرمنی تبلیغ کا بہترین مقام ہوئی تو اس کے بعد تبلیغ کا بہترین مقام جرمنی ہوگا.جرمن قوم تین سو سال سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس غرض کے لئے اس نے بڑی بڑی قربانیاں کی ہیں مگر ابھی تک وہ اپنے ارادہ میں کامیاب نہیں ہوسکی.اگر اس جنگ میں بھی اسے کامیابی حاصل نہ ہوئی تو ہم اسے بتا سکیں گے کہ خدا نے تمہاری ترقی کا کوئی اور ذریعہ مقرر کیا ہوا ہے جو سوائے اس کے کچھ نہیں کہ تم خدا کے دین میں داخل ہو جاؤ.اور بحبل من الله 10 ترقی کر جاؤ.پھر تمہیں دنیا میں کوئی مغلوب نہیں کر سکے گا.پس میں سمجھتا ہوں جرمن قوم کا اس شکست میں دینی لحاظ سے بہت بڑا فائدہ ہے اور عنقریب تبلیغ کے لئے ہمیں ایک ایسا میدان میسر آنے والا ہے جہاں کے رہنے والے باتیں نہیں کرتے بلکہ کام کرتے ہیں اور زبانی دعوے نہیں کرتے بلکہ عملی رنگ میں قربانیاں کر کے دکھاتے ہیں.دعاؤں کی تحریک بہر حال یہ دن بہت نازک ہیں دوستوں کو چاہئے کہ وہ دن رات دعائیں کریں اور نہ صرف خود دعائیں کریں بلکہ دوسروں کو بھی دعاؤں کی تحریک کریں یہاں تک کہ ہر شخص دعائے مجسم بن جائے.اگر ایسا ہو جائے تو دنیا کی کسی طاقت سے تمہیں خطرہ نہیں ہو سکتا.اگر خدانخواستہ کسی وقت اسلام اور احمدیت کے لئے خطرہ پیدا ہوا تو اس کی وجہ صرف یہی ہوگی کہ ہماری طرف سے دعاؤں میں کوتاہی ہوئی ہوگی.یہ وجہ نہیں ہوگی کہ جرمن طاقتور ہیں یا کوئی اور قوم زیادہ ساز وسامان رکھتی ہے.پس اپنے آپ کو بدنامی سے بچانے اور اسلام اور احمدیت کو ہر قسم کے خطرات سے محفوظ رکھنے کا ذریعہ صرف یہی ہے کہ ہم دن رات دعاؤں میں لگے رہیں.ورنہ ہم ننگے ہو جائیں گے اور
خطابات شوری جلد دوم ۵۷۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ ہم نے دعا ئیں نہیں کی تھیں.اس کے بعد میں مجلس شوریٰ کو ختم کرتا ہوں.سب دوست میرے ساتھ دعا میں شامل ہو جائیں کہ اللہ تعالی ہماری کمزوریوں کو دور فرمائے اور ہمارے دلوں میں اپنے بھائیوں کے متعلق رافت اور محبت کے جذبات پیدا کرے اور ایسا سوز اور گداز ہمارے دلوں میں بھر دے کہ ہم ان کے غم کو اپنا غم اور ان کے دکھ کو اپنا دکھ قرار دیں.اسی طرح ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں کہ وہ عظیم الشان ذمہ داری جو خدا تعالیٰ نے ہم پر عائد کی ہے، جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سپرد کی ہے اور جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہم پر ڈالی ہے ہم اس کو عمدگی سے ادا کرنے والے ہوں اور ہم میں سے ہر شخص کے دل میں ایسا ایمان بھرا ہوا ہو کہ جب اس کی موت کا وقت آئے تو وہ اس خوشی سے دنیا کو چھوڑے کہ میں اب خدا کی گود میں جارہا ہوں اور درمیان میں دوزخ کا مجھے کوئی خطرہ نہیں.“ الفاتحة : ٦، الانعام : ۹۱ (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء ) مشكواة كتاب المناقب باب مناقب ابی بکر.بخاری کتاب كفارات الايمان باب الكفارة قبل الحنث و بعده مسلم کتاب الامارة باب النهي عن طلب الإمارة - ۵.سنن ابو داؤد كتاب الأدب باب في المشورة.سنن ابی داؤد کتاب العلم باب التشديد فى الكذب على رسول الله صلى الله عليه وسلم ك تذكرة الحفاظ جلد ۱ صفحه ۱۹ دار الكتب العلمية بيروت لبنان الطبعة الاولی ۱۹۹۸ء.صحیح بخارى كتاب البيوع باب الخياط المائدة : ١١٨ ا سنن ابو داؤد كتاب الطلاق باب في كراهية الطلاق ال البقرة : ٢٢٠
خطابات شوری جلد دوم ۵۷۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء صحیح بخاری کتاب الوضوء باب وضع الماء عند الخلاء موسوعه امثال العرب جلد ۴ صفحه ۲۶۵ مطبع بیروت لبنان سلسلة الاحاديث الضعيفة والموضوعة از محمد ناصر الدین البانی صفحه ۱۱۰ حدیث نمبر ۳۶ مكتبة المعارف رياض - ۱۵ ال عمران : ۱۱۳
خطابات شوریٰ جلد دوم ۵۸۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء منعقده ۳ تا ۵ / اپریل ۱۹۴۲ء) پہلا دن قعا جماعت احمدیہ کی بائیسویں مجلس مشاورت ۳ تا ۵ / اپریل ۱۹۳۲، تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے ہال میں منعقد ہوئی اس کی افتتاحی تقریر سے قبل دُعا سے متعلق حضور نے فرمایا: - " پیشتر اس کے کہ مجلس شوری کی کارروائی شروع ہو میں چاہتا ہوں کہ سب دوست مل کر دعا کر لیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری صحیح راہنمائی فرمائے ، ہمارے دماغوں کو روشن کرے، ہماری عقلوں کو تیز کرے اور ہماری نصرت اور تائید فرمائے تا کہ ہم قربانی کے صحیح جذبات کے ماتحت اس کے نام کی بلندی اور اس کے جلال کے اظہار کے لئے ایسی کوشش کریں جو اس کے علم میں ہمارے لئے اور اسلام کی ترقی اور اس کی اشاعت کے لئے مفید ہو اور ان ذمہ داریوں کو اُٹھانے سے ہم ہاریں نہیں جن ذمہ داریوں کا اُٹھانا ہمارے لئے ضروری ہو.پھر اس موقع پر ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ ہم اپنے ان بھائیوں کے لئے بھی دعا کریں جو تبلیغ کے لئے غیر ممالک میں گئے ہوئے ہیں اور جن میں سے شاید آج بہت سے قید و بند کی تکالیف میں مبتلا ہیں بالخصوص تحریک جدید کے اکثر مبلغ ایسے ہی ممالک اور ایسے ہی حالات میں ہیں کہ جہاں تک ہمارا علم کام کرتا ہے ہم یہی سمجھتے ہیں کہ وہ قید ہوں گے یا قیدیوں اور نظر بندوں کی سی زندگی بسر کر رہے ہوں گے.سماٹرا اور جاوا میں علاوہ اور مبلغین کے دو تحریک جدید کے مبلغ ہیں، اسی طرح ملایا میں تحریک جدید کا ایک مبلغ ہے، چین میں تحریک جدید
خطابات شوری جلد دوم ۵۸۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء کی طرف سے جو مبلغ مقرر تھا اُسے انگریزوں نے آجکل نظر بند کر رکھا ہے اس طرح تحریک جدید کے چار مبلغ ایسے ہیں جو اس وقت یا تو قید ہیں یا ان کے متعلق نظر بندی کی حالت کا ہم امکان سمجھتے ہیں.پھر خطرات جنگ کے لحاظ سے ہم یقینی طور پر یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ان کی جانیں بھی محفوظ ہیں یا نہیں پس ان تمام مبلغین کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھو.اسی طرح ہمیں اپنی دعاؤں میں ان لوگوں کو بھی یا درکھنا چاہئے جنہوں نے ہمارے مبلغین کی آواز پر احمدیت کو قبول کیا اور اپنے آپ کو اس جماعت میں شامل کر دیا.ایسے لوگ ان ممالک میں سینکڑوں کی تعداد میں ہیں اور ان میں سے کئی ایسے ہیں جنہوں نے دین کی خدمت اور اس کی اشاعت کے لئے اپنی زندگیاں وقف کی ہوئی ہیں.پس آؤ ہم سب مل کر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب پر اپنا فضل نازل فرمائے اور وہ اپنی تائید اور نصرت ہمارے شامل حال رکھے.پھر ہمیں یہ بھی دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے صرف ہم ہی وارث نہ ہوں بلکہ ہمارے وہ بھائی بھی وارث ہوں جو آ جکل سماٹرا، جاوا اور ملایا وغیرہ میں ہیں.اسی طرح ہمیں اُن کے رشتہ داروں اور دوستوں کے متعلق بھی دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اُن کے دلوں کو مضبوط کرے اور انہیں وہ مومنانہ ثبات و استقلال عطا کرے جو مصیبت اور تکلیف کی گھڑیوں میں اُس کے بندوں کو حاصل ہوتا ہے.“ افتتاحی تقریر تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:- 66 خطبہ جمعہ میں میں بتا چکا ہوں کہ دس بارہ دن کے عرصہ میں مجھ پر انفلوئنزا کا دو دفعہ حملہ ہو چکا ہے دوسرے حملہ کو ابھی چار پانچ دن ہی ہوئے ہیں.اس دوران میں مجھے عزیزم منیر احمد کی شادی کی تقریب میں حصہ لینا پڑا جس کی وجہ سے میری تکلیف بہت بڑھ گئی اور اب بھی میرے لئے کھڑا ہونا اور کوئی لمبی تقریر کرنا مشکل ہے اس لئے میں اس وقت کوئی تقریر کرنا نہیں چاہتا.صرف دوستوں کے سامنے سب کمیٹیوں کے ممبروں کے انتخاب میں احتیاط کمیٹیوں کے ممبروں کے انتخاب کا مسئلہ پیش کرتا ہوں.ہاں اختصار کے ساتھ اس قدر کہہ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ
۵۸۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء خطابات شوری جلد دوم انتخاب کرتے وقت جیسا کہ میں نے بار ہا بتایا ہے ایسے لوگوں کا نام لینا چاہئے جو اس کام کے اہل ہوں.بعض دوست ایسی بے احتیاطی سے کام لیتے ہیں کہ اُن لوگوں کا نام لے لیتے ہیں جو نمائندے ہی نہیں ہوتے.اور بعض ایسی بے احتیاطی سے کام لیتے ہیں کہ ایسے لوگوں کا نام لے لیتے ہیں جو قادیان میں ہی نہیں آئے ہوتے اس طرح وقت خواہ مخواہ ضائع ہوتا ہے اس لئے ایسے ہی دوستوں کا نام لینا چاہے جو قادیان میں آئے ہوئے ہوں ، نمائندگان میں شامل ہوں اور پھر کام کے اہل ہوں.ایسے دوست کا نام لینے سے جو گو قادیان میں آیا ہوا ہو مگر نمائندہ نہ ہو صرف وقت کا ضیاع ہی نہیں ہوتا بلکہ اُس دوست کی بھی ایک طرح سبکی ہوتی ہے کہ پہلے اُس کا نام لیا جاتا ہے اور پھر پتہ لگتا ہے کہ وہ تو نمائندہ ہی نہیں.گویا اس بے احتیاطی کے نتیجہ میں وقت الگ ضائع ہوتا ہے، اس دوست کی الگ دل شکنی ہوتی ہے اور مجلس کے وقار کے خلاف الگ حرکت ہوتی ہے.اس لئے ایسے ہی لوگوں کو منتخب کرنا چاہئے جو نمائندہ ہوں، قادیان میں آئے ہوئے ہوں اور پھر اس کام سے دماغی یا کسی اور رنگ میں مناسبت رکھتے ہوں.مثلاً سیکرٹری ہوں یا عام طور پر انہیں اس مسئلہ سے دلچسپی ہو اور وہ اس کے متعلق اچھی معلومات رکھتے ہوں.مگر جن میں یہ شرائط نہ پائی جاتی ہوں اُن کا نام نہیں لینا چاہئے.میں نے پچھلے سال تجویز کی تھی کہ آئندہ مجلس شوریٰ میں لجنہ کی طرف سے ایک آدمی مقرر کیا جائے گا جو ان کی آراء کو حسب موقع پڑھ کر سنا دیا کرے گا تا کہ دوستوں کو لجنہ کی آراء سے بھی واقفیت ہوتی رہے.میں اس غرض کے لئے بابو عبد الحمید صاحب آڈیٹر لاہور کو مقرر کرتا ہوں.لجنات کی طرف سے اس مجلس شوری کے لئے جو آراء آئی ہوئی ہوں دفتر پرائیویٹ سیکرٹری ان کے سپرد کر دے اور وہ ان کا اچھی طرح مطالعہ کر لیں.جب کسی نظارت کی کوئی تجویز پیش ہو تو بعد میں اُٹھ کر وہ سُنا دیا کریں کہ فلاں فلاں لجنہ نے اس کے متعلق یہ یہ رائے بھیجی ہے.اس سال ہمارے سامنے نظارت علیا، نظارت بیت المال ، نظارت تالیف و تصنیف، نظارت امور خارجه، نظارت تعلیم و تربیت، نظارت بہشتی مقبرہ اور نظارت دعوۃ و تبلیغ کی طرف سے تجاویز پیش ہیں.ان سب کے متعلق الگ الگ کمیٹیاں بنا نا مناسب معلوم نہیں ہوتا اس
خطابات شوری جلد دوم ۵۸۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء لئے میں تجویز کرتا ہوں کہ نظارت علیاء، نظارت تألیف و تصنیف اور نظارت بہشتی مقبرہ کے لئے ایک سب کمیٹی بنائی جائے ، نظارت بیت المال کی تجویز نمبر ۲ بھی اس سب کمیٹی سے تعلق رکھے گی.دوسری سب کمیٹی نظارت تعلیم و تربیت اور نظارت دعوۃ و تبلیغ کے لئے ہوگی.تیسری سب کمیٹی صرف نظارت بیت المال کے لئے ہوگی جو بجٹ پر غور کرے گی اس طرح تین کمیٹیاں ہو جائیں گی.نظارت امور خارجہ کی تجویز پر غور کرنے کے لئے کسی کمیٹی کے بنانے کی ضرورت نہیں اگر موقع ہوا تو نظارت امور خارجہ کی رپورٹ پر ہی غور کیا جا سکتا ہے.گو میرے نزدیک آجکل اس قسم کے حالات پیدا ہورہے ہیں کہ بالکل ممکن ہے اب اس سوال کی ضرورت ہی نہ رہے.“ نظارت تألیف و تصنیف کی تجویز میں ترمیم دو میں نے نظارت تألیف و تصنیف کی تجویز میں کسی قدر ترمیم کر دی ہے 66 انہیں چاہئے تھا کہ تجویز کے الفاظ ایسے رکھتے جو مفہوم کو صحیح طور پر ادا کرنے والے ہوتے مگر افسوس ہے کہ ایسا نہیں کیا گیا حالانکہ جلسہ سالانہ پر میں نے وضاحت سے بتا دیا تھا کہ سوال صرف یہ نہیں کہ جنگ کے دوران میں قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ و تفسیر کو اگر شائع کیا جائے تو خرچ زیادہ ہوگا بلکہ زیادہ اہمیت رکھنے والا سوال یہ ہے کہ اس وقت انگلستان میں کسی کا چھپوانے کے لئے جانا سخت مشکل ہے اور اگر ہندوستان میں چھپوایا جائے تو یہاں کا چھپا ہوا قرآن کریم یورپ میں فروخت نہیں ہو سکتا اور نہ انگریز ہندوستان کی چھپی ہوئی کسی کتاب کو خریدنا پسند کرتے ہیں کیونکہ یہاں کی چھپوائی بہت ناقص ہوتی ہے.پس اصل سوال جو قابلِ غور تھا یہی تھا کہ کیا اسے ہندوستان میں چھپوانے کی کوشش کی جائے یا اختتام جنگ تک انتظار کیا جائے.مگر اسے بالکل چھوڑ دیا گیا ہے اس لئے میں نے اس تجویز میں کچھ ترمیم کر دی ہے اور اب اس تجویز کے الفاظ یہ ہیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے انگریزی ترجمہ و تفسیر القرآن مکمل ہو چکے ہیں لیکن اس وقت انگلستان میں چھپوائی کا انتظام قریباً ناممکن ہے نیز موجودہ جنگ کے دوران میں کاغذ وغیرہ کی بے حد گرانی کی وجہ سے خرچ بہت زیادہ ہوگا کیا ان حالات میں اسے ہندوستان میں چھپوانے کی
خطابات شوری جلد دوم ۵۸۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء کوشش کی جائے یا کہ اختتام جنگ تک انتظار کیا جائے.خرچ کے تخمینہ اور دیگر امور کے متعلق اجلاس مشاورت میں روشنی ڈالی جائے گی دوسرا دن نازک حالات میں اپنے فرائض کو سمجھیں مجلس مشاورت کے دوسرے روز کا روائی کے آغاز میں تلاوت قرآن کریم کے بعد حضور نے تمام مجمع سمیت دعا کروائی اور اس کے بعد فرمایا: - دنیا اس وقت سخت نازک حالات میں سے گزر رہی ہے ہمارے سامنے جو کام ہے وہ بہت اہم اور عظیم الشان ہے اور ہم اسے پورا نہیں کر سکتے جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت ہمیں حاصل نہ ہو.ہمیں بہت زیادہ خشیت اللہ اور بہت زیادہ ایمان اور بہت زیادہ قوت عملیہ سے کام لینا چاہئے.ہمارے لئے آج حقیقی معنوں میں زندگی اور موت کا سوال پیدا ہو رہا ہے.میں اس لفظ کو اِس کے عام معنوں میں استعمال نہیں کر رہا.لوگ بالعموم معمولی معمولی باتوں کے لئے یہ لفظ استعمال کرتے ہیں لیکن حقیقتاً یہ اپنے اندر بہت بڑی اہمیت رکھتا اور ایسے ہی موقع پر بولا جا سکتا ہے جب واقعی کسی قوم یا کسی انسان کے لئے مرجانے کا سوال ہو، خواہ وہ موت جسمانی ہو یا روحانی اور میں اس لفظ کی پوری پوری اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے آج یہ کہہ سکتا ہوں کہ واقعی اس وقت جماعت کے لئے زندگی اور موت کا سوال ہے.حالات ایسے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کی مدد آڑے نہ آئے تو ممکن ہے کہ ہماری مسلسل کامیابی کا دور کچھ عرصہ کے لئے مٹ جائے.اس وجہ سے ضروری ہے کہ ہم بہت زیادہ اپنے فرائض کو سمجھیں اور دعائیں کریں، بہت زیادہ دعائیں کریں اور بہت زیادہ ایمان اپنے دلوں میں پیدا کریں تا اللہ تعالیٰ جس کے اختیار میں ترقی ہے اور جس کے فضل کے ماتحت ہم نے آج تک ترقی کی بھی ہے، جس کے ہاتھ میں موت اور حیات دونوں ہیں ہمیں اپنی حفاظت میں لے لے.پس اپنے آپ کو ایسا بنا لو کہ اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہونے لگے اور خدا تعالیٰ اس بات سے رُکے کہ اس جماعت کو کوئی ایسی تکلیف پہنچے
خطابات شوری جلد دوم ۵۸۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء جس کے نتیجہ میں اس کی ترقی خواہ عارضی طور پر ہی سہی رُک جائے.میں نے بہت سے رویا دیکھے ہیں جن کا ذکر میں مناسب نہیں سمجھتا اور بعض کو منذر رویا میں نے کسی کے سامنے بھی بیان نہیں کیا لیکن وہ بہت سے خطرات پر دلالت کرتے ہیں گو ان میں سے بعض خوشکن بھی ہیں اور ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ آخر ہماری کامیابی کی صورت نکل آئے گی لیکن اگر درمیان میں ایسے حوادث پیش آجائیں جو جماعت کے وجود کو قریب قریب ملیا میٹ کر دیں تو آخری کامیابی اتنی خوشکن نہیں رہ جاتی.جماعت کو اجتماعی اور انفرادی دعاؤں کی تلقین لیکن اگر جماعت اجتماعی اور انفرادی دعاؤں میں لگ جائے تو چونکہ یہ جماعت خدا تعالیٰ کی جماعت ہے وہ اس کی دعاؤں کو ضرور سنے گا.پس چاہئے کہ دوست انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی دعاؤں میں لگ جائیں.نماز کی آخری رکعت میں امام دعا کرے اور سب مقتدی اس کے ساتھ شامل ہوں.اور اگر سب دوست اس طرح دعاؤں میں لگ جائیں تو ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ ان دعاؤں کو سن کر جو دراصل اس کے دین کے لئے ہی ہوں گی جماعت کو بچالے اور ان خطرات کو جو اس کے کاموں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں دور کر دے.اللہ تعالیٰ کو اپنا دین ایسا پیارا ہے جیسے ماں کو اکلوتا بیٹا پیارا ہوتا ہے اور جب ہم اُس چیز کے لئے جو اُسے اس درجہ پیاری ہے اتنی دعائیں کریں تو وہ اپنی شانِ محبوبیت اور شانِ رحمانیت کے ماتحت ہماری دعاؤں کو بہانہ رکھ کر اپنی تقدیر کو بھی بدل دے گا.دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے یا ہونے والا ہے وہ دنیا کے لحاظ سے گو بہت اہمیت رکھتا ہو مگر اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے لحاظ سے کچھ نہیں.اس کے نزدیک سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والی چیز وہی ہو سکتی ہے جو اُس کے دین پر نیک اثر ڈالنے والی اور اسلام کو تقویت دینے والی ہو.پس دین اور اسلام پر خطرناک اثر ڈالنے والی باتوں کو منسوخ کر دینا اُس کے لئے کوئی بڑی چیز نہیں اور دعا کے نقطہ نگاہ سے یہ کوئی بڑا کام نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان خطرات کو اس کام کی خاطر مٹانے سے دریغ کرے جو اُس کے نزدیک سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے.خدا تعالیٰ کے نزدیک دین ہی سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے دنیا کے کام جب دین کے مقابل پر آئیں تو اللہ تعالیٰ انہیں مثانے سے دریغ نہیں کرتا.یا پھر وہ ان
خطابات شوری جلد دوم ۵۸۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء دنیاوی کاموں کو مٹانے سے دریغ کرتا ہے جو دینی کاموں کی تائید میں ہوں.یا کسی دینی کام کے مخالف نہ ہوں اور کسی دینی کام کے مقابل پر نہ آئیں.ذیل کی روایت روایتاً خواہ کیسی ہی کمزور ہو لیکن اللہ تعالیٰ کی بے نیازی کی اچھی مثال ہے.کہتے ہیں کہ جب طوفانِ نوح آیا اور پانی بہت اونچا ہونے لگا تو فرشتوں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ پانی کافی اونچا ہو گیا ہے، کافی تباہی آچکی ہے اب اسے بند کر دیا جائے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ابھی اور اونچا ہونے دو.پھر اور اونچا ہو ا.تو فرشتوں نے عرض کیا کہ اب بند کر دیا جائے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نہیں ابھی اور اونچا ہونے دو فلاں پہاڑ کی چوٹی پر ایک درخت کی اوپر کی شاخ پر ایک چڑیا کا بچہ ہے وہ پیاسا ہے جب تک وہ اپنی چونچ سے نہ پی لے طوفان بند نہ کرو تو دنیا اپنی ظاہری شان و شوکت کے باوجود کوئی حقیقت نہیں رکھتی بالخصوص جب وہ دین کے مقابل پر آئے تو اللہ تعالیٰ اسے تباہ کرنے کی کوئی پرواہ نہیں کرتا.پس اس وقت دنیا میں جو عظیم الشان تغیرات ہو رہے ہیں یا ہونے والے ہیں بے شک یہ بہت اہمیت رکھتے ہیں لیکن اُسی وقت جب تک کہ وہ دین کے مقابل پر نہ آئیں اور اگر احباب جماعت پالا التزام دعاؤں میں لگ جائیں حتی کہ اللہ تعالیٰ انہیں دین کے مقابل پر لے آئے تو پھر اس کے نزدیک ان کی کوئی اہمیت نہ رہے گی اور ان پر خط نسخ کھینچ دے گا.دنیا کے عظیم الشان واقعات کے علاوہ اس وقت ہندوستان کے مستقبل کا بھی فیصلہ ہو رہا ہے.انگریز فیصلہ کر رہے ہیں کہ اس ملک کی حکومت کس طرح ہندوستانیوں کے سپرد کریں اور ہندوستانی زیادہ سے زیادہ جو مطالبہ کر سکتے ہیں وہ دینے کا اعلان برطانوی حکومت کر چکی ہے.اگر کانگرس اس کی مخالفت کر رہی ہے تو صرف اس لئے کہ انگریز ڈرکر مسلمانوں کو کچھ نہ دیں یہ نہیں کہ کوئی ایسی بات رہ گئی ہے کہ جو ان کو حسب منشاء حاصل نہیں ہوسکی.اس کی مخالفت صرف بہانہ ہے تا کہ اگر وہ مسلمانوں کو کچھ دینے کا ارادہ رکھتی ہو تو نہ دے.جو سکیم برطانیہ کی طرف سے شائع کی گئی ہے جہاں تک اقلیتوں کے حقوق کا سوال ہے میرے نزدیک اس سے ناقص سکیم اور کوئی نہیں ہوسکتی.بعض نادان مسلمان خوش ہیں کہ پاکستان مل گیا ہے لیکن حقیقتا یہ سکیم ایسی ہے کہ یہ ناممکن ہے کہ مسلمان اس کے ماتحت خوش رہ سکیں بلکہ پہلے جو کچھ مسلمانوں کو حاصل تھا وہ بھی چھین لیا گیا ہے.سکیم یہ ہے کہ جو صوبہ
۵۸۸ خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء اسی فیصدی ووٹوں سے مرکز سے علیحدگی کا فیصلہ کرے گا وہ علیحدہ ہو سکے گا.اسی فیصدی ووٹ مسلمانوں کو کسی صوبہ میں حاصل نہیں ہو سکتے.صوبہ سرحد میں ۷۵ فیصدی مسلمان ہیں.سندھ میں ۷۵ فیصدی اور پھر اِن دونوں صوبوں میں ایک حصہ کانگرسی ہے جو کبھی علیحدگی کے حق میں ووٹ نہ دے گا.یہ سکیم پیش کر کے گورنمنٹ نے میرے نزدیک صرف اپنا پہلو بچالیا ہے تا نہ کانگرس اعتراض کرے اور نہ مسلم لیگ.حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے اکثریت کی یہ رائے ہر گز نہیں کہ وہ ہندوستان سے علیحدہ ہو جائیں.وہ جو علیحدگی کا مطالبہ کرتے ہیں تو اس سے اُن کا مقصد صرف یہ ہے کہ کانگرس پر ایسا سیاسی دباؤ ڈالا جائے کہ وہ اُن کے حقوق مان لے اور موجودہ سکیم اس مقصد کو پورا نہیں کرتی.صوبہ سرحد میں بھی اسی فیصدی ووٹ مسلمانوں کو علیحدگی کی تائید میں نہیں مل سکتے اور صوبہ سندھ میں بھی نہیں.پھر ان دونوں صوبوں میں ایک معتد بہ حصہ کانگرسی خیالات کا ہے.پنجاب میں مسلمان ہے صرف ۵۶ فیصدی ہیں اور بنگال میں ۵۴ فیصدی.تو جہاں تک سکیم کے اس حصہ کا تعلق.وہ بالکل ناقص ہے.دوسرا حصہ اس سکیم کا یہ ہے کہ اگر ایسے ووٹ ۶۰ فیصدی ہوں تو وہ قوم دعویٰ کر سکتی ہے کہ ریفرینڈم کیا جائے اِس سے اُسے علیحدگی کا حق حاصل نہیں ہو جائے گا بلکہ صرف اسے اس مطالبہ کا حق حاصل ہوگا کہ ساری پبلک سے رائے لی جائے.پھر اگر اس خیال والوں کو اکثریت حاصل ہو تو خواہ وہ ۵۱ فیصدی ہوا سے یہ حق مل جائے گا.اعداد کے لحاظ سے ہو سکتا ہے کہ صوبہ سرحد میں اس طرح مسلمانوں کو کامیابی ہو سکے لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہاں کے چونکہ کچھ مسلمان ممبر کانگرس کے ساتھ ہیں وہاں بھی اس مطالبہ کی تائید میں ساٹھ فیصدی ووٹ نہ مل سکیں گے.وہاں کی حکومت کچھ عرصہ ہوا کانگرسیوں کے ہاتھ میں تھی جس کے معنے یہ ہیں کہ بہر حال پچاس فیصدی سے زیادہ ممبر کانگرسی تھے اور دوسرے لازماً ان سے کم ہونگے.سندھ میں بھی یہی حالت ہے وہاں جو پارٹی بھی ہندوؤں سے سمجھوتہ کرے وہی حکومت قائم کر سکتی ہے.پنجاب میں مسلمان ۵۶ فیصدی ہیں ان میں سے احراری کبھی ان کے ساتھ ووٹ نہ دیں گے.پھر شہری آزاد طبقہ بھی ہے.اسمبلی میں مسلمان ممبر ۵۱ فیصدی ہیں ان میں سے بھی چار فیصدی کم سے کم اور نکل جائیں گے باقی ۴۷ ۴۸ رہ جائیں گے اور ظاہر ہے کہ اتنی قلیل تعداد کچھ بھی نہیں کر سکتی.اس وقت
خطابات شوری جلد دوم ۵۸۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء مسلمانوں کے کچھ حقوق محفوظ ہیں مگر یہ سکیم نافذ ہونے کے بعد یہ تحفظ بھی قائم نہ رہ سکے گا کیونکہ اس کے بعد جو فیصلہ اسمبلی کرے گی وہ بہر حال ماننا ہوگا.حقیقت یہ ہے کہ اگر مدراس کا صوبہ چاہے تو مرکز سے علیحدہ ہوسکتا ہے، بمبئی کا صوبہ چاہے تو ہو سکتا ہے، یو.پی کا صوبہ چاہے تو ہو سکتا ہے، بہار اور اُڑیسہ ہو سکتے ہیں مگر کوئی ایسا صوبہ جس میں مسلمانوں کی اکثریت کہی جاتی ہے وہ نہیں ہوسکتا.مثلاً مدراس میں چھ فیصدی مسلمان اور ۹۴ فیصدی ہندو ہیں اُن کو تو فائدہ پہنچ سکتا ہے مگر مسلمانوں کو کہیں بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا.پنجاب میں اس وقت جو یونینسٹ حکومت قائم ہے اس میں دوسری قوموں کے ممبر بھی شامل ہیں اور ان کی امداد سے یہ حکومت قائم ہے.وہ زمیندار اور غیر زمیندار کے سوال پر تو اکٹھے ہو سکتے ہیں مگر اور کسی معاملہ میں مسلمانوں کے ساتھ نہیں مل سکتے.چنانچہ سر چھوٹو رام علی الاعلان کہہ چکے ہیں کہ وہ پنجاب کی مرکز سے علیحدگی کے حق میں ہرگز ووٹ نہ دیں گے.مسلمانوں کے فائدہ کی صرف ایک ہی صورت ہو سکتی ہے اور وہ یہ کہ بعض ہندو اور سکھ ممبروں کو وہ ساتھ ملا سکیں لیکن اگر کوئی غیر مسلم ان کے ساتھ ملے تو وہ وہی لے کر راضی ہوں گے کہ جس کے دینے سے مسلمانوں کے پاس کچھ بھی باقی نہ رہے گا اس لئے میرے نزدیک موجودہ سکیم کا جو ڈھانچہ شائع ہوا ہے وہ مسلمانوں کے لئے سخت ممنر ہے.میں نہیں جانتا کہ مسلم لیگ اس بارہ میں کیا فیصلہ کرے گی لیکن لیڈروں کے جو بیانات میں نے پڑھے ہیں اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خوش ہیں.ابھی رستہ میں ایک دوست نے ذکر کیا کہ ایک مسلمان اخبار نے لکھا ہے کہ پاکستان قائم ہو گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں کو جو کچھ تحفظات حاصل ہیں وہ بھی باقی نہ رہیں گے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہندوؤں نے یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ شور مچا دو کہ مسلمانوں کو پاکستان مل گیا تا مسلمان جو نسبتا کم تعلیم یافتہ ہیں خوش ہو جائیں.یہ حالات بھی ہمارے لئے خطر ناک ہیں گاندھی جی اور ان کے ساتھیوں کا یہ فیصلہ ہے کہ ان کے سوا راجیہ میں عام تبلیغ اور تبدیلی مذہب کی اجازت کسی کو نہ ہوگی.پس اگر یہ سکیم موجودہ صورت میں منظور ہو گئی تو یہ سخت خطرناک بات ہوگی.مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ سمجھ دے اور وہ صاف طور پر حکومت کو بتا دیں کہ وہ اس سکیم کو موجودہ صورت میں ہرگز قبول نہ کریں گے.ان کو دلوں
خطابات شوری جلد دوم ۵۹۰ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء سے یہ غلط خیال نکال دینا چاہئے کہ انہیں کچھ مل گیا ہے ملا ملایا کچھ نہیں بلکہ پہلے جو کچھ حاصل تھا اُس کے بھی ہاتھ سے جاتے رہنے کا امکان پیدا ہو گیا ہے.اس کے بعد میں اس امر پر خوشی کا اظہار کرتا ہوں کہ سوائے چند ایک کے جماعتوں نے بجٹ کو بالعموم پورا کیا ہے بلکہ بعض کا چندہ تو بجٹ سے زیادہ ہو گیا ہے.تحریک جدید میں بھی یہی نظارہ دکھائی دیتا ہے.گزشتہ سال تحریک جدید کے وعدے ۱۳۰۰۰۰ کے تھے اور اُس وقت تک ۳۹ ہزار وصول ہوا تھا.مگر اس سال اب تک ۵۶ ہزار وصول ہو چکا ہے.صدر انجمن احمدیہ کے بجٹ میں سے بھی گزشتہ سال اب تک کم وصولی ہوئی تھی مگر اس سال اندازہ سے زیادہ وصول ہو چکا ہے اور مجموعی چندہ مقررہ بجٹ سے زیادہ ہے.اس میں شک نہیں کہ اس میں ایک حصہ اُن ملازمین کے چندوں کا ہے جو پہلے بریکار تھے مگر اب جنگ کی وجہ سے ملا زم ہو گئے ہیں مگر یہ سارا حصہ اُن کا ہی نہیں بلکہ اس میں کچھ حصہ جماعت کی بیداری کا بھی ہے اور جماعت میں اِس بیداری پر میں خوشی کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتا.یہ نہیں کہ یہ بیداری تبلیغ اور سلسلہ کے دوسرے کاموں میں بھی ہے مگر جتنا بھی اچھا کام جماعت نے کیا ہے میں اُس پر اظہارِ خوشنودی کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ جماعت کے اس اخلاص کی قدر فرمائے اور آئندہ ان کے اخلاص میں ترقی دے اور مزید نیک کاموں کی توفیق عطا فرمائے.“ اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت کا خود فکر کرو مجلس مشاورت میں سب کمیٹی نظارت تعلیم و تربیت کی طرف سے یہ تجویز پیش ہوئی کہ :- اگر کسی احمد یہ جماعت کے پانچ میل کے دائرہ کے اندر اندر احمدی بچوں کی تعداد پچاس سے زیادہ ہو تو وہاں کم از کم احمد یہ پرائمری سکول جاری کرنے کی کوشش کی جائے.فی الحال تجربہ تین سکول کھولنے 66 منظور کئے جائیں.“ ممبران کی بحث کے بعد جب ووٹ لئے گئے تو یہ تجویز رڈ ہوگئی.اس موقع پر
خطابات شوری جلد دوم ۵۹۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء حضور نے فرمایا:- اگر چہ یہ تجویز رڈ ہو گئی ہے مگر کئی باتیں ہمارے سامنے آ گئی ہیں جو پہلے ہمیں معلوم نہ تھیں یا جو بُھول گئی تھیں.جو سکول کسی زمانہ میں انجمن نے جاری کئے تھے اُن میں سے بعض کے متعلق تو مجھے علم تھا کہ وہ چل رہے ہیں مگر سب کے متعلق علم نہ تھا جو انجمن نے جاری کئے تھے اور اب کسی نہ کسی طرح زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں.جو استاد اُن کو چلائے جا رہے ہیں اُن کی مشکلات کا ہمیں علم نہ تھا اور اس بحث کا یہ فائدہ ہوا کہ ان کی مشکلات ہمارے سامنے آگئی ہیں.اُن کے لئے ہمدردی کے جذبات ہمارے دلوں میں پیدا ہو گئے ہیں اور ان کی خدمات کی قدر پیدا ہوئی ہے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ تعلیم و تربیت کا تعلق جماعت کے ہر فرد کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.یہ امید رکھنا کہ دنیا کا کوئی سکول یا کوئی بڑے سے بڑا محکمہ تعلیم و تربیت کا کام کر سکتا ہے بالکل غلط امید ہے.آپ لوگوں کو خواہ بُرا لگے یا اچھا کچی بات یہی ہے کہ جب تک جماعت کے دوست فردا فردا اپنی اور اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو محسوس نہ کریں گے یہ بات بالکل ناممکن ہے.خدا تعالیٰ نے تعلیم و تربیت کا اختیار خود ہمیں دیا ہے مگر ہم اسے استعمال نہیں کرتے.مبلغ یا مدرس تعلیم و تربیت کا کام کبھی نہیں کر سکتے.میرا سینکڑوں بار کا تجربہ ہے کہ جماعتوں نے شکایت کی کہ مبلغ ہمارے پاس نہیں آتے مگر جب مبلغ وہاں گیا تو اس نے آ کر شکایت کی کہ جماعت کوئی فائدہ اٹھانا نہیں چاہتی.ایک حصہ بے شک فائدہ اٹھاتا ہے مگر بہت سا حصہ ایسا ہے جو فائدہ نہیں اٹھاتا.میں پہلے بھی کئی بار کہہ چکا ہوں اور اب پھر یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اگر دوست واقعی احمدیت سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اور خدا تعالیٰ کو خوش کرنا چاہتے ہیں تو اپنے دلوں میں فیصلہ کر لیں کہ تعلیم و تربیت کا کام وہ خود کریں گے کوئی مبلغ یا مدرس یہ کام نہیں کر سکتا.پیر اکبر علی صاحب اس وقت آپ لوگوں کے سامنے بیٹھے ہیں پہلے میری رائے یہ تھی کہ وہ تعلیم کا کام اچھی طرح نہیں کر سکتے یوں بھی وہ بہت مصروف آدمی ہیں.اسمبلی کے ممبر ہیں ، ڈسٹرکٹ بورڈ میں بھی ہیں، مسلم لیگ کے بھی ممبر ہیں، ریاست کے قانونی مشیر ہیں اور اپنی پریکٹس بھی کرتے ہیں مگر پھر بھی وہ بچوں کی تعلیم کا بہت اچھا خیال
۵۹۲ خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء رکھتے ہیں.میرا یہ مطلب نہیں کہ ان سے زیادہ بہتر تعلیم نہیں ہوسکتی لیکن بہر حال وہ ایک نمونہ ہیں اگر چہ اور بھی کئی ایسی مثالیں ہیں مگر پیر صاحب کا ماحول ایسا ہے کہ مجھے ان سے امید نہ ہو سکتی تھی اور ان کے لڑکے عزیزم پیر صلاح الدین صاحب کے متعلق میرا خیال تھا کہ انہوں نے خود کوشش کر کے دینی تعلیم حاصل کی ہے مگر جب میں فیروز پور گیا اور ان کے دوسرے بچوں کو دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ اس میں پیر صاحب کی کوشش کا دخل ہے.اور بھی ایسے دوست جماعت میں ہیں مگر جو یہ امید رکھتے ہیں کہ انجمن اُن کے لئے سکول کھولے اور مدرس اور مبلغ مقرر کرے وہ غلطی کرتے ہیں.بیشک اگر طاقت ہو تو ضرور سکول بھی کھولے جائیں مگر حقیقت یہی ہے کہ تعلیم و تربیت کا کام سکولوں اور مبلغوں سے نہیں ہوسکتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک بھی سکول نہ تھا مگر پھر بھی یہ کام نہایت اعلیٰ پیمانہ پر ہوتا تھا اور اس کی وجہ یہی ہے کہ صحابہ میں سے ہر ایک نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ یہ میرا کام ہے کہ خود دین سیکھوں اور دوسروں کو سکھاؤں.تو اصل تربیت خود ماں باپ ہی کر سکتے ہیں اس لئے میں احباب کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب خود پڑھیں اور بچوں کو پڑھائیں آپ لوگوں میں سے اکثر ہیں جو کسی احمدی سکول میں نہیں پڑھے مگر دوسرے سکولوں میں پڑھنے کے باوجود احمدی ہوئے.اسی طرح اگر آپ لوگ اپنے بچوں کو دینی تعلیم دیں تو وہ دوسرے سکولوں میں پڑھنے کے باوجود دینی تعلیم و تربیت اچھی حاصل کر سکتے ہیں مگر میں نے دیکھا ہے دوست اس بات کی طرف خاص توجہ نہیں کرتے.ایک احمدی طالب علم نے مجھے ایک دفعہ لکھا کہ میرے والد صاحب میرے نام اخبار الفضل جاری نہیں کراتے.ان کی دو بیویاں تھیں اور پہلی کے ساتھ اُن کے تعلقات کشیدہ تھے میں نے خیال کیا کہ یہ بیٹا اُس بیوی سے ہوگا مگر جب میں نے ان سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ ان کی دوسری بیوی سے ہے.جب میں نے ان سے دریافت کیا کہ وہ اس کے نام الفضل کیوں جاری نہیں کراتے.تو انہوں نے جواب دیا کہ میں چاہتا ہوں کہ مذہب کے بارہ میں اس کی رائے آزا در ہے.میں نے اُن سے کہا کہ آپ نے اسے دنیوی تعلیم کے لئے کالج میں بھیجا ہوا ہے جہاں وہ فلسفہ کی کتابیں اس پر اثر ڈالتی ہیں جو وہ پڑھتا ہے، جہاں اُس کے
خطابات شوری جلد دوم ۵۹۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء استاد اور دوست اثر ڈالتے ہیں.آپ کا یہ خیال ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اس کے مذہبی خیالات پر گمراہ کن اثر نہیں ڈالتا؟ آپ نے اس کے لئے زہر کا انتظام تو کر رکھا ہے مگر تریاق آپ کو پسند نہیں.وہ جن کا کوئی حق نہ تھا کہ اسے مذہب کے بارہ میں کچھ سکھاتے وہ تو سکھا رہے ہیں مگر آپ جن کا فرض تھا اس سے غافل ہیں.نظارتوں کے فرائض بہر حال دوستوں کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ تعلیم و تربیت کی ذمہ داری ہر ایک پر ہے چند ایک سکول جاری کر دینے سے یہ کام نہیں چل سکتا اور میں سمجھتا ہوں کہ اس سال نظارت کو اس کا خیال آنا مفت کرم داشتن والی بات ہے.میں سال پہلے اسے یہ خیال نہیں آیا مگر اب جبکہ اس کا موقع نہ تھا اس کی طرف سے یہ تجویز پیش کر دی گئی ہے.یہ امر بھی قابل افسوس ہے کہ اِس محکمہ نے اُن سکولوں کی طرف کوئی توجہ نہیں کی جو پہلے سے جاری ہیں بھلا ان کی نگرانی میں نظارت کا کیا حرج تھا.اور ہمیں ممنون ہونا چاہئے اُن نوجوانوں کا جنہوں نے تعلیم کے لئے اپنی زندگیاں وقف کیں اور سکولوں کو چلاتے رہے.میں نے پہلے بھی کئی بار کہا ہے کہ جب تک جماعتوں سے نظارتیں میل ملاپ نہیں بڑھاتیں وہ اپنے فرائض کو اچھی طرح ادا نہیں کرسکتیں.بار بار ملنا، جماعتوں کی مشکلات معلوم کرنا، سادگی سے ان کی تقاریب میں شرکت کرنا ان کے لئے بہت ضروری ہے.مبلغین کے فرائض میں نے پہلے بھی کئی بار کہا ہے کہ ہمارے سلسلہ کے مبلغین کو جماعت کی تعلیم و تربیت کے لئے اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھنا چاہئے اور مجھے افسوس ہے کہ اب تک وہ ایسا نہیں سمجھتے وہ جہاں جاتے ہیں وفات مسیح ، صداقت مسیح موعود یا کسی اور مسئلہ پر تقریر کرتے ہیں اور واپس آ جاتے ہیں اور وہ اپنی کوئی ذمہ داری نہیں سمجھتے بلکہ میں تو بعض مبلغین کو بھی اچھا احمدی نہیں سمجھتا ، وہ بالکل ملنٹے ہیں اور ان میں اور دیو بندی ملانوں میں کوئی خاص فرق نہیں.چند ایک آیات یاد کر رکھی ہیں یا چند ایک دلائل رٹے ہوئے ہیں اور جہاں جاتے ہیں وہ سنا کر آجاتے ہیں.میں سب کے متعلق ایسا نہیں کہتا لیکن کسی کا نام بھی نہیں لیتا مگر یہ ضرور کہوں گا کہ ہمارے مبلغین میں سے بعض ایسے ہیں کہ جب میں اُن کی شکلیں دیکھتا ہوں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دماغ تکبر اور غرور
خطابات شوری جلد دوم ۵۹۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء سے بھرے ہوئے ہیں اور وہ یوں ہاتھ مار مار کر اور اکڑ اکڑ کر چلتے ہیں کہ گویا وہ عام لوگوں سے بالا ہستی رکھتے ہیں اور دنیا کا فرض سمجھتے ہیں کہ اُن کی قدر کرے.جب تک مبلغ اپنی حالت کو نہ بدلیں اور جب تک نظارت تبلیغ اپنے آپ کو تعلیم و تربیت کا بھی ذمہ دار نہ سمجھے یہ کام نہیں ہو سکتا بلکہ تبلیغ کا کام بھی تسلی بخش طور پر نہیں ہو سکتا.میری سمجھ میں تو یہ کبھی نہیں آیا کہ کیوں یہ سمجھا جائے کہ مبلغ معلم نہیں ہیں اور وہ کیوں یہ خیال کریں کہ اُن کا کام صرف تبلیغ ہے تعلیم و تربیت سے اُن کا کوئی تعلق نہیں.کیا خدا تعالیٰ کا نوکر بھی کبھی یہ خیال کر سکتا ہے کہ فلاں نیک کام میرے فرائض میں داخل نہیں ؟ اگر تو وہ مومن ہیں تو خواہ انہیں ڈنڈے پڑیں انہیں جماعت کی تعلیم و تربیت کے کام کو کبھی فراموش نہ کرنا چاہئے.لیکن واقعہ یہ ہے کہ ان کو با قاعدہ تنخواہ ملتی ہے لیکن پھر بھی ان میں سے بعض تبلیغ تو کرتے ہیں، دن میں صرف آدھ گھنٹہ اور باقی وقت لمبی تان کر سوتے ہیں یا سیر کرتے رہتے ہیں اور پھر سمجھتے یہ ہیں کہ وہ مبلغ ہیں اور اس لئے لوگوں کو ان کی بڑی قدر کرنی چاہئے.حالانکہ چاہئے یہ کہ جب کوئی مبلغ باہر جائے تو جماعت کے دوستوں کی تربیت اور تعلیم کا بھی کام کرے، دعاؤں پر زور اور نمازوں کی پابندی اپنے عمل سے دکھائے.مگر یہ بات نہیں.جو مبلغ اس وقت پیدا ہو رہے ہیں اُن کی اِن باتوں کی طرف توجہ نہیں.نظارت تعلیم و تربیت کو شکوہ ہے کہ تربیت کے لئے انسپکٹر نہیں ملتے حالانکہ اگر مبلغین میں ایسی روح ہوتی کہ وہ اپنے آپ کو مبلغ سمجھنے کی بجائے مومن ہی سمجھتے تو انسپکٹروں کی کوئی ضرورت ہی باقی نہ رہتی.اس وقت ۴۰.۵۰ مبلغ ہیں جو کام یہ سب نہیں کر سکتے وہ دو چار انسپکٹر کیسے کر سکتے ہیں.مبلغ کے معنے تو یہ ہیں کہ جو دین کی تبلیغ واشاعت کو اپنی زندگی کا مقصد قرار دے لے.ایسے شخص کو اگر ملا زمت سے نکال بھی دیا جائے تو بھی وہ تبلیغ ہی کرے گا لیکن ہمارے مبلغین میں کتنے ایسے ہیں جن کو اگر نکال دیا جائے تو بھی وہ تبلیغ ہی کریں گے.اس وقت تک جتنے بھی نکالے گئے ہیں ان میں سے کسی نے مدرسی کر لی ، کسی نے کوئی اور کام کسی نے کوئی سرکاری نوکری کر لی.اس کے معنے یہ ہیں کہ یہ لوگ در حقیقت مبلّغ نہ تھے صرف تنخواہ دار تھے اور اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے انگریزوں کے ملازم ہوتے ہیں.انگریزوں نے تنخواہ دی تو اُن کی ملازمت کر لی اور جاپانیوں نے دی تو اُن کے نوکر ہو گئے.ایسی مثالیں بھی ہیں کہ ہم نے ایک مبلغ کو
خطابات شوری جلد دوم ۵۹۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء نکال دیا تو وہ جا کر پیغامیوں سے مل گیا جس کے معنے یہ ہیں کہ ان مبلغین میں جماعت کے عام مومنوں جتنا ایمان بھی نہ تھا اور یہ بھی تعلیم و تربیت کا نقص ہے کہ ایسے مبلغ پیدا نہیں ہو رہے اور مبلغین کا انتخاب کرنے والوں پر بھی اس کی ذمہ داری ہے.ناظران کے فرائض میرے پاس کئی شکائتیں ایسی آتی ہیں کہ مبلغین جب باہر جاتے ہیں تو تمسخر سے کام لیتے ہیں، گالیاں دیتے ہیں اور دوسروں کو اُکساتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ جو ناظر ایسے مبلغین کے متعلق رپورٹ سن کر خاموش رہتا ہے اُس کا ایمان بھی مشتبہ ہے.میرے نزدیک خود نظارت بھی بہت تربیت کی محتاج ہے.دن گزرتے جاتے ہیں اسلام کے لئے زیادہ سے زیادہ خطرات پیدا ہور ہے ہیں مگر نظارت میں کوئی اصلاح نہیں.ابھی بجٹ آپ لوگوں کے سامنے آئے گا اور آپ دیکھیں گے کہ اس کی تیاری میں کیسی غفلت اور لا پرواہی سے کام لیا گیا ہے.کوئی محنت نہیں کی گئی اور کوشش کی گئی ہے کہ مجبور کر کے اسے منظور کر لیا جائے.اس بجٹ کی مثال ایسی ہی ہے جیسے یہ بات پیش کی جائے کہ مسجد کی چھت پر پانی کھڑا ہے ایک ہزار روپیہ دیا جائے تو وہ بیچ سکتی ہے.اب کون ہے جو مسجد کی چھت کا گرنا گوارہ کرے گا اور اس کے لئے روپیہ کی منظوری کی مخالفت کرے گا اسی طرح کا بجٹ ہے جو پیش کیا گیا ہے.مطلب یہ ہے کہ ہم جو اخراجات پیش کرتے ہیں انہیں مانو اور اگر نہیں مانتے تو ہم مجبور کر کے منوائیں گے حالانکہ اگر دیانتداری سے غور کیا جاتا اور محنت کی جاتی تو ایسی راہیں نکل سکتی تھیں کہ کمی بھی ہو جاتی اور کام بھی چل سکتا.پس میں اپنے آپ کو بھی اور آپ لوگوں کو بھی یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو ان ذمہ داریوں کا احساس کرو جو ہم پر عائد ہیں جو آئندہ سینکڑوں سال کے لئے ہیں.آئندہ سینکڑوں سالوں کے لئے دنیا کی قسمتوں کا فیصلہ ہم سے وابستہ ہے ہم آج جو فیصلہ کریں گے وہ آئندہ سینکڑوں سالوں کے لئے دُنیا کی قسمتوں کا فیصلہ کر دیں گے.ان تغیرات کی باگ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ہاتھوں میں دی ہے اور یہ کام خدا تعالیٰ کی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتا.پس اللہ تعالیٰ سے دعا کرو اور اپنی نیتوں کو درست کرو.اسی رو میں میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ناظر بھی اپنی ذمہ داریوں کو نہیں سمجھتے.ان میں پارٹیاں بن گئی ہیں اور وہ باہم لڑتے ہیں.ناظر امور عامہ ناظر اعلیٰ کی چٹکی لیتا.
خطابات شوری جلد دوم ۵۹۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء اور ناظر اعلیٰ اُس کی چٹکی لیتا ہے.ایک میرے پاس آ کر دوسرے کی شکایت کرتا ہے اور دوسرا اُس کی کرتا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ میں بے وقوف نہیں ہوں اور سب باتوں کو سمجھتا ہوں مجھے ان پر رحم آتا ہے اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے.چاہئے تو یہ تھا کہ وہ دوسروں کے اختلاف بھی دور کرتے مگر خود ان میں پارٹی بندیاں ہو گئی ہیں.ایک کہتا ہے فلاں نے یہ کام کر دیا اور دوسرا کہتا ہے فلاں نے یہ کیا.میں ان کو اصلاح کا موقع دیتا جارہا ہوں.جو تقویٰ اللہ چاہئے وہ ان میں نظر نہیں آتا، خشیت اللہ باقی نہیں.میں ابھی موقع دیئے جا رہا ہوں لیکن جب میں نے دیکھا کہ ان کی اصلاح نہیں ہوسکتی تو کہہ دوں گا کہ آپ لوگ تشریف لے جائیں.وہ اپنے مقام کو نہیں سمجھتے اللہ تعالیٰ نے دین کی باگ ان کے ہاتھ میں دی ہے اور اپنے رسول کے تخت پر ان کو بٹھایا ہے مگر وہ اس مقام کو نہیں سمجھتے اور ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے ہیں.اگر یہی حالت رہی تو یا تو ان کے ایمان مسخ ہو کر وہ خود مرتد ہو جائیں گے اور یا نکال دیئے جائیں گے.میں اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتا ہوں کہ میں سلسلہ کے کام میں کسی کی رعایت کروں.مجھے نہ نظارت کی کوئی پرواہ ہے نہ جماعت کی.اور اگر ان کی اصلاح نہ ہوئی تو مجھے ان میں سے کسی کو نکالنے میں کوئی دریغ نہ ہو گا خواہ کوئی میرا بھائی ہو یا بیٹا یا کوئی اور رشتہ دار.میں خدا تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے اس امر کی توفیق دے کہ میں سلسلہ کے مفاد کے لحاظ سے کسی کی کوئی پرواہ نہ کروں.تربیت ایمان سے پیدا ہوتی ہے میں اپنی نیتوں کو درست کر لو او تعلیم وتربیت کے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو.دیکھو قرآن کریم نے کیسی موٹی مثال تربیت کی دی ہے.فرعون حضرت موسی کے مقابلہ پر بازیگروں کو لایا.ان لوگوں کی تربیت اور اخلاق جس قسم کے ہوتے ہیں وہ سب جانتے ہیں.یہ لوگ ذلیل طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے سب کام ایک دھوکا کی شکل رکھتے ہیں ہاتھ ادھر مارا اور چیز اُدھر سے نکال دی.ظاہر ایسا کرتے ہیں کہ گویا وہ پیٹ میں سے گولہ نکال رہے ہیں لیکن نکالتے دراصل آستین میں سے ہیں.چنانچہ جب ان کو فرعون نے حضرت موسی کے مقابلہ کے لئے بلایا تو انہوں نے پہلے یہی کہا کہ اچھا اگر ہم خوش کریں گے تو آپ کیا دیں گے؟
خطابات شوری جلد دوم ۵۹۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء اس سے بھی اُن لوگوں کی ذہنیت کا اندازہ ہو سکتا ہے لیکن جب حضرت موسی کے معجزہ نے ان کو مغلوب کر دیا اور ان پر ظاہر ہو گیا کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے تو فوراً ایمان لے آئے.یہاں تک تو دلیل کی بات تھی جو انہوں نے مان لی مگر آگے تربیت کا حصہ ہے.فرعون نے ان کو دھمکی دی کہ میں تمہیں بہت اذیت دوں گا بلکہ یہاں تک کہا کہ صلیب پر لٹکا دوں گا کیونکہ تم لوگوں نے مجھے ذلیل کرایا ہے.تو دیکھو وہی لوگ جو ایک منٹ پہلے کہہ رہے تھے کہ اچھا مولا خوش کریں گے تو دلاؤ گے کیا ؟ وہ فرعون کی اس دھمکی کے جواب میں کہتے ہیں کہ اگر تو ہمیں پھانسی بھی دے دے گا تو کیا ، تو ہماری جان ہی لے سکتا ہے اس سے زیادہ کیا کر سکتا ہے.تو یہ تربیت ایمان کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے.حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ ایک بڑھیا عورت کو ایک پیسہ کا خط اس کا کوئی عزیز لکھتا ہے تو وہ جب تک اسے سات مختلف لوگوں سے پڑھوا کر نہ سن لے اُسے چین نہیں آتا لیکن قرآن کریم جو خدا تعالیٰ کا کلام ہے اس کے پڑھنے کی طرف مسلمانوں کو کوئی توجہ نہیں.پس اپنے دلوں میں ایمان پیدا کرو.اگر دل میں ایمان پیدا ہو جائے تو تعلیم و تربیت خود بخود درست ہو جاتی ہے.پس میری آپ لوگوں کو پہلی اور آخری نصیحت یہی ہے کہ اپنے دلوں میں ایمان پیدا کرو.اپنی اور اپنی اولادوں کی تعلیم و تربیت کا خود فکر کرو محکمے اور ناظر وغیرہ یہ کام نہیں کر سکتے.“ مبلغین تبلیغ کے علاوہ تعلیم و تربیت کا کام بھی کریں سب کمیٹی نظارت تعلیم وتربیت کی طرف سے یہ تجویز پیش ہوئی کہ :- جماعت کی دینی تعلیم و تربیت کی اہمیت اور مبلغین سلسلہ کے اس طرف کماحقہ توجہ نہ دے سکنے کی وجہ سے کم از کم دو انسپکٹر نظارت ھذا 66 کے لئے منظور کئے جائیں.“ بعض ممبران مشاورت کے اظہار خیال کے بعد حضور نے مبلغین کے کام کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا :-
خطابات شوری جلد دوم ۵۹۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء تقریر کا اثر دو میں نے کئی بار خطبات میں بھی اور مبلغین کے اجلاسوں میں بھی اس کی طرف توجہ دلائی ہے مگر پھر بھی اس پر عمل نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو طاقتیں دی ہیں ان کو ۲۴ گھنٹہ تک کوئی مبلغ بھی تبلیغ پر صرف نہیں کر سکتا.عیسائی مشنری تو ہفتہ میں صرف ایک بار تقریر کرتے ہیں اور وہ بھی آہستہ آہستہ اور صرف ۲۰ منٹ یا آدھ گھنٹہ تک.پھر بھی ڈاکٹری کتب میں مستقل بیماری Clergyman's Sore Throat کہلاتی ہے گویا وہ سمجھتے ہیں کہ ہفتہ میں ایک بار آہستہ آہستہ بولنے سے بھی گلا خراب ہو جاتا ہے.کام کی اوسط ۶، ۷ گھنٹہ روزانہ ہے اور اتنا عرصہ ہر روز کون بول سکتا ہے اور اگر کوئی روز اتنا بولے تو یا پاگل ہو جائے گا یا اسے سہل ہو جائے گی.بولنے کا اثر انسان کے اعصاب پر بہت بُرا پڑتا ہے اس لئے ناممکن ہے کہ دنیا میں کوئی ایسا مبلغ مل سکے جو سارا وقت خالص تبلیغ کر سکے اگر کوئی ایسا دعویٰ کرتا ہے تو وہ جھوٹ بولتا ہے.اسی وجہ سے انبیاء جہاں مبلغ ہوتے ہیں وہاں معلم اور مربی بھی ہوتے ہیں.اور یہ سب کام ان کے سپر د ہوتے ہیں اور وہ یہ مختلف کام کرتے ہیں.خالص تبلیغ سارا دن کرنا مشکل ہے پس مبلغین کو تبلیغ کے ساتھ تعلیم اور تربیت کے کام بھی کرنے ضروری ہیں اور خرابی اسی وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ مبلغ یہ کام نہیں کرتے.تبلیغ کا محکمہ اپنے آپ کو آزاد سمجھتا ہے اور جب کہیں سے رپورٹ آ جائے کہ کسی مبلغ کا لیکچر ہو گیا تو سمجھ لیا جاتا ہے کہ بس ہمارا کام ہو گیا حالانکہ تعلیم وتربیت بھی مبلغ کے فرائض میں ہے اور اسی وجہ سے بعض دفعہ مجھے خیال آتا ہے کہ یہ دونوں محکمے اکٹھے کر دیئے جائیں.کوئی مبلغ تبلیغ کا کام سارا وقت نہیں کر سکتا مگر تعلیم و تربیت کا کام کر سکتا ہے.تعلیم و تربیت کے کام میں زیادہ اونچا بولنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور اس لئے یہ کام زیادہ دیر تک کیا جا سکتا ہے اور جب تک مبلغین اس طرح کام نہ کریں گے ان کی اپنی اصلاح بھی نہیں ہوسکتی اور کام بھی ٹھیک نہیں ہو سکتا.میں جانتا ہوں کہ سوائے چند کے باقی سب مبلغ اپنا وقت ضائع کرتے ہیں اور یہ ہے بھی ناممکن کہ کوئی شخص خالی مبلغ ہو سکے.ہمارے مبلغ زیادہ سے زیادہ ہفتہ میں ایک دو تقریریں کرتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ کام ہو گیا.مگرستر ہزار روپیہ چند تقریروں پر صرف کرنا کسی طرح بھی مناسب نہیں.اگر وہ چار ہزار تقریریں بھی سال میں کریں تو گویا ایک تقریر کی فیس ۱۶.۱۷ روپیہ ہوئی جو سول سرجن کی فیس کے
خطابات شوری جلد دوم ۵۹۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء برابر ہے اور یہ خرچ بالکل عبث اور لغو ہے مگر مبلغین سے اس سے زیادہ تقریروں کی امید رکھنا بھی فضول ہے.تبلیغ کا کام اتنا ہی وقت کیا جاسکتا ہے باقی وقت میں یا تو وہ دوسرے کام کریں یا بیکار رہیں اور اس روپیہ کا صحیح مصرف اسی طرح ہو سکتا ہے کہ ان سے دوسرے کام لئے جائیں لیکن یہ انجمن کا کام ہے کہ اس کے لئے تجاویز سوچے.ناظر بیٹھیں ،سوچیں اور دماغ سے کام لیں تو کئی صورتیں پیدا ہوسکتی ہیں مگر وہ محنت سے کام نہیں کرتے.وہ مجلس میں آتے ہیں ایجنڈا پیش ہوتا ہے تو پارٹی بازی کے ماتحت مشورے اور آراء دیتے ہیں اور چلے جاتے ہیں.وہ اگر دیکھیں تو انہیں معلوم ہو کہ اس وقت جنگ کے زمانہ میں کس طرح انگلستان میں کو آرڈینیشن (COORDINATION) کی کوشش ہوتی رہتی ہے، کس طرح سارے ملک میں ایک ہلچل سی رہتی ہے.کبھی ایک وزیر کو بدلاتے ہیں کبھی دوسرے کو اور کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح کام درست طور پر ہو سکے.اس طرح اگر انجمن غور کرے تو انگلستان کی وار کیبنٹ کی طرح دعوۃ و تبلیغ ، تعلیم و تربیت اور بیت المال کے کاموں کا پروگرام بنایا جاسکتا ہے اور ایک کمیٹی مقرر کی جاسکتی ہے.باہم اتصال اور اتحاد پیدا کرنے کے لئے نائب ناظر مقرر کیا جاسکتا ہے اس طرح تبلیغ کا کام بہت اچھی طرح ہو سکتا ہے.مبلغ صرف دلیل بیان کرنے والے کو نہیں کہتے بلکہ مبلغ کے کام میں تعلیم و تربیت، خدمت خلق اور تبلیغ وغیرہ سب کام شامل ہیں.وہ اپنے آپ کو تنخواہ دار ملازم نہ سمجھیں بلکہ اس کام کو اپنا فرض سمجھیں اور اسے خدا تعالیٰ کا احسان سمجھیں کہ تنخواہ بھی مل جاتی ہے ہے ورنہ اصل کام ان کا یہ ہونا چاہئے کہ بہر حال تبلیغ کرنی ہے تنخواہ ملے یا نہ ملے.جو ناظر ایسے شخص کو مبلغ تصور کرتا ہے جو صرف تنخواہ کے لئے ملازمت کرتا ہے اگر تنخواہ ملتی رہے تو تبلیغ کی ورنہ کوئی اور کام کر لیا وہ ناظر بھی خدا تعالیٰ کے حضور جوابدہ ہے.صدرانجمن اگر غور کرے تو کئی تجاویز ہوسکتی ہیں.تبلیغ کے کام میں اصلاح کی ضرورت بہر حال تبلیغ کے کام میں بہت اصلاح کی ضرورت ہے.مبلغین کا بہت سا وقت فضول ضائع ہوتا ہے.جب سے مولوی عبد المغنی صاحب دعوۃ و تبلیغ کے ناظر ہوئے ہیں میں تو اس محکمہ کو اندر سبھا کہا کرتا ہوں.ان کو یہ شوق ہے کہ مبلغین ان کے ارد گرد بیٹھے ہوں
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء اور وہ بیچ میں بیٹھے ہوں اس لئے موجودہ صورت میں اگر پچاس مبلغ ہوں تو بھی اور اگر سو کر دیئے جائیں تو بھی ان سے کوئی کام نہیں لیا جا سکتا کیونکہ وہ تو ان کو اپنے ارد گر دہی بٹھا چھوڑیں گے.کہا گیا ہے کہ مبلغین چھ ماہ قادیان میں رہتے ہیں اور چھ ماہ باہر مگر میرا اندازہ ہے کہ وہ 9 ماہ قادیان میں رہتے ہیں اور صرف تین ماہ باہر.مجھے اکثر مبلغ یہیں نظر آتے ہیں اور میں ناظر صاحب سے پوچھتا ہوں کہ مولوی صاحب فلاں مبلغ یہاں ہی ہیں؟ تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ ہاں حضور وہ رپورٹ دینے آیا ہے.دو ماہ بعد پھر دیکھتا ہوں اور پوچھتا ہوں تو وہ پھر یہی جواب دے دیتے ہیں کہ ہاں حضور وہ رپورٹ دینے آیا ہے اور اس کئی ماہ کی رپورٹ کے بعد کہا جاتا ہے کہ وہ ڈاکٹری سرٹیفیکیٹ پر رخصت پر ہے لیکن بات یہ ہے کہ ایک مبلغ جاتا ہے کہ مولوی صاحب میری بیوی بیمار ہے مجھے چھٹی چاہئے اور ادھر اُدھر کی ایک دو باتیں کرتا ہے تو بس وہ اسے چھٹی دے دیتے ہیں حالانکہ ناظر کو یہ کہاں حق ہے کہ وہ کسی کو مقررہ رخصتوں سے زیادہ رعایت دے.شرعاً اور اخلاقاً نا جائز بات ہے اور جو افسر ایسی ناجائز رعائتیں دیتا ہے وہ سلسلہ کے مال کا چور ہے.جو ناظر کسی کو ایک دن کی بھی چھٹی اس کے حق سے زیادہ دیتا ہے وہ سلسلہ کے مال کا ایسا ہی چور ہے جیسا بیت المال سے روپیہ چُرانے والا.اور پھر جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں جب تک مبلغین سے تبلیغ کے ساتھ تعلیم و تربیت کا کام نہ لیا جائے کوئی ناظر دیانتداری سے مبلغین سے کام لے ہی نہیں سکتا کیونکہ ۲۴ گھنٹے تبلیغ کرنا بالکل ناممکن ہے.کوئی بڑے سے بڑا مخلص بھی اُتنا ہی کام کر سکتا ہے جتنا اُس کی طاقت میں ہے کوئی شخص خواہ کتنا مخلص کیوں نہ ہو اس سے یہ مطالبہ کرنا کہ پہاڑ کو اٹھالو بیوقوفی کی بات ہوگی.کوئی مبلغ سارا وقت تبلیغ کا کام کر ہی نہیں سکتا.اصل کام تعلیم و تربیت کا ہی ہے.اور یہ بات کہ مبلغ تعلیم وتربیت کے کام کے لئے وقت دے ہی نہیں سکتے بالکل غلط بات ہے.ایک مبلغ نے لاہور جانا ہے مگر تعلیم و تربیت کے محکمہ کو امرتسر میں ضرورت ہے تو اس میں کوئی ہرج نہیں کہ وہ لاہور جانے سے قبل دو یا تین روز امرتسر میں ٹھہر جائے.آخر اسے کونسا فوجداری مقدمہ در پیش ہوتا ہے کہ سیدھا لا ہور پہنچنا ضروری ہوتا ہے امر تسر ٹھہر کر بھی جاسکتا ہے.پھر مبلغ جہاں جائے وہاں کے دوست جب اپنے دفتروں وغیرہ میں کام کاج پر چلے جائیں تو وہ بچوں کی تربیت کر سکتا ہے.کسی کو کلمہ ہی سکھا دیا ، نماز
خطابات شوری جلد دوم ۶۰۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء کا سبق پڑھا دیا.پھر وہ عورتوں کو پڑھا سکتے ہیں ان کے لئے اسباق تیار کئے جا سکتے ہیں پس اگر کام لینے والے دیانتداری سے کام کریں تو ایسا پروگرام بنایا جا سکتا ہے کہ ان سے روزانه ۸ - ۱۰ گھنٹہ کام لیا جا سکے.اس وقت لڑائی ہو رہی ہے اور لوگ پاگلوں کی طرح کام کر رہے ہیں اسی طرح ہم کیوں نہ کریں مگر اس کی ذمہ داری ناظروں پر ہے وہ اگر غور کریں تو اس کے لئے پروگرام بنا سکتے ہیں مگر وہ محنت نہیں کرتے.بجٹ جو تیار کیا جاتا ہے اس پر بھی کوئی غور اور محنت نہیں کی جاتی.آخری ۱۵.۲۰ دن مجلس میں بیٹھے دس پندرہ تجاویز ذہن میں آگئیں کچھ ادھر سے کاٹا کچھ اُدھر سے کاٹا اور اس طرح ایک بجٹ بنا کر سمجھ لیا کہ کام ختم ہو گیا یہ طریق کام کرنے کا نہیں.ان کو چاہئے کہ اپنے دلوں میں سلسلہ کے کاموں کا درد پیدا کریں اور اس کے مطابق کام کریں.“ شادی بیاہ کے معاملات کے شادی بیاہ کے موقع پر رسوم سے اجتناب چاہئے سلسلہ میں چند اصلاحی تجاویز مجلس مشاورت میں زیر بحث آئیں.ان کے بارہ میں حضور نے اپنا نکتہ نگاہ بیان کرتے ہوئے فرمایا : - ”شادی بیاہ کی رسوم یا دوسری رسوم ایسا نازک اور اہم سوال ہے کہ جو کسی زندہ جماعت کی دائمی توجہ کا مستحق ہے.دنیا میں تین قسم کے مذاہب ہیں.ایک وہ جنہوں نے حرمت پر زیادہ زور دیا ہے یہ بھی حرام ہے وہ بھی حرام ہے دوسرے وہ جنہوں نے جلت پر زور دیا ہے جیسے عیسائی مذہب ہے اس نے ہر چیز کو حلال کر دیا ہے سوائے اس کے کہ ابتداء میں سو رعیسائیت میں حرام تھا مگر بعد میں یورپ میں آ کر وہ بھی حلال ہو گیا.ہندوؤں میں بعض ایسے فرقے ہیں جو حرمت پر زیادہ زور دیتے ہیں مثلاً بھا بڑے اور جینی وغیرہ.مسلمانوں میں بھی بعض ایسے صوفیاء ہیں کہ جو پلاؤ کھانے لگیں گے تو اس میں تھوڑی سی مٹی ملالیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ بھلا ایسے لوگوں کو پلاؤ کھانے کی ضرورت ہی کیا ہے.ایسے مذاہب کے ماننے والوں کو کوئی مشکل پیش نہیں رہتی.تیسری قسم اسلام ہے یعنی اس میں بعض چیزیں حلال بھی ہیں اور حرام بھی ہیں.پھر
خطابات شوری جلد دوم ۶۰۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء ایسی صورتیں ہیں کہ ہر حلال میں حرام کی اور ہر حرام میں حلال کی صورت پیدا ہو جاتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہر بادشاہ کی ایک رکھ ہوتی ہے اور جو چرواہا رکھ کے پاس جانور چرائے اس کے جانوروں کے رکھ میں گھس جانے کا احتمال ہوتا ہے اور ہوشیار چرواہا وہ ہے جو ر کھ سے فاصلہ پر جانوروں کو چرائے.اسلام نے اصولی طور پر بعض چیزوں کے متعلق ہدایات دے دی ہیں اور پھر انسان کی عقل پر چھوڑ دیا ہے.سو ر ، خون ، مُردار اور غیر اللہ کے چڑھاوے وغیرہ حرام قرار دیئے ہیں.باقی کسی چیز کو حرام نہیں کیا اور ان اصول کی بناء پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض چیزوں کو حرام قرار دیا ہے لیکن جن چیزوں کو اسلام میں حرام قرار دیا گیا ہے ان کو بھی انسان ایسے وقت میں جب کہ اور کچھ اسے کھانے کو نہ ملے کھا سکتا ہے.بلکہ بعض صوفیاء نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص بھوک سے مر رہا ہو اور اسے اس وقت کھانے کو سوائے سور کے گوشت کے کچھ نہ ملے تو ایسی حالت میں اگر وہ سو ر نہ کھائے تو سمجھا جائے گا کہ اُس نے اپنی جان کو ضائع کیا.اسی طرح قرآن کریم نے پردہ کا حکم دیا ہے لیکن اگر کسی عورت کے ہاں بچہ پیدا ہونے والا ہو اور وہ خطرہ کی حالت میں ہو، اچھی دائی نہ مل سکتی ہو تو اگر وہ ایسی حالت میں مرد سے بچہ جنوانے سے انکار کرے گی تو اگر وہ مرجائے تو سمجھا جائے گا کہ اس نے خود کشی وہ کی.تو جب جان کا خطرہ ہو تو اسلامی حکم یہ ہے کہ حرام چیز کا استعمال بھی اُس وقت حلال ہو جاتا ہے.پس اسلامی تعلیم میں جہاں بعض چیزوں کو حلال قرار دیا گیا ہے وہاں بھی بعض حد بندیاں لگائی ہیں اور جہاں بعض چیزوں کو حرام قرار دیا ہے وہاں بھی حد بندی قائم کی ہے.اسی طرح سچ بولنے کا اسلام میں حکم ہے مگر غیبت کرنے کی ممانعت ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ منافق تیرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو اللہ تعالیٰ کا رسول ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ بات تو درست ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کا رسول ہے مگر منافق جھوٹ بولتے ہیں لے گویا کچی بات منافقت سے کہی جائے تو وہ بھی گناہ ہے.ولیمہ کے بارہ میں اسلامی تعلیم پس اسلام نے حلال وحرام دونوں حالتوں میں عقل سے کام لینے کا حکم دیا ہے اور بعض اصول مقرر کر دیئے
خطابات شوری جلد دوم ۶۰۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء ہیں اور یہی حالت رسوم کے متعلق ہے.اسلام نے بعض باتیں کرنے کا حکم دیا ہے اور بعض سے منع کیا ہے مثلاً ولیمہ کا حکم اسلام نے دیا ہے مگر دوسری طرف اسراف سے منع کیا ہے اور ولیمہ کے وقت اس کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے.بعض ممبروں نے اسمبلی میں یہ قانون بنوانے کی کوشش کی تھی کہ شادی بیاہ کے اخراجات مقرر کر دیئے جائیں کوئی شخص اُس سے زیادہ خرچ نہ کر سکے مگر یہ بھی بیہودگی ہے.ایک شخص زیادہ خرچ کرنے کی طاقت رکھتا ہے اُس کے لئے جائز ہے دوسرا نہیں رکھتا اس کے لئے ناجائز ہے.مجھے ایک دفعہ ایک شخص نے بڑی لمبی چوڑی چٹھی لکھی اور پہلے بڑی تمہید باندھی اور درخواست اُس کی صرف یہ تھی کہ مجھے ڈیڑھ دو روپے مل جائیں.ہر شخص کی حالت جُدا ہوتی ہے ایسے بھی لوگ ہیں جو تین روپے بھی خرچ نہیں کر سکتے اور ایسے بھی ہیں جو تین ہزار کر سکتے ہیں اور ایسے کروڑ پتی بھی ہیں جو کئی لاکھ خرچ کر سکتے ہیں لیکن خواہ کوئی شخص زیادہ خرچ کرنے کی استطاعت بھی رکھتا ہو اُس کے متعلق یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ آیا اس کے لئے زیادہ خرچ مناسب بھی ہے مثلاً وہ ایک بچہ پر بہت زیادہ خرچ کرتا ہے لیکن اس کے اور بچے بھی ہیں اسے اس بات کو مدنظر رکھنا چاہے کہ کیا وہ سب کے لئے اتنا اتنا خرچ کر سکتا ہے..مجھ پر یہ اثر ہے کہ اس بارہ میں ہماری جماعت میں زیادہ اسراف ہو رہا ہے ہم یہ جو قوانین بناتے ہیں یہ دائمی نہیں ہیں.آئندہ نسل اگر چاہے تو ان کو بدل بھی سکتی ہے اس وقت ہم جو قوانین بناتے ہیں ان کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ ہمارے اندر ایک بدی آ رہی ہے اُسے روکنے کی کوشش کی جائے لیکن اس بات کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ ایسے قوانین ہمیشہ وقتی بنائے جائیں.ہم کوئی نئی شریعت بنانے کے مجاز نہیں ہیں.یہ تو حق ہمیں ہے کہ عارضی طور پر کوئی پابندی لگا دیں مگر یہ نہیں کہ کوئی نئی شریعت بنا ئیں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پانچ دس سال بعد وہی حد بندی پھر قائم کر دیں.پس ہم کوئی ایسا قانون نہیں بنا سکتے کہ شادی بیاہ پر اتنی ہی رقم خرچ کی جائے یا ضرور اتنے ہی مہمان مدعو کئے جائیں.ہاں نمائش اور ریاء سے روک سکتے ہیں اور اس پر پابندیاں لگا سکتے ہیں اور چونکہ کثرتِ آراء اس کے حق میں ہے اس لئے میں تجویز کو منظور کرتا ہوں.جہیز کی نمائش نہ کی جائے نمائش اور ریاء سے ہمارے دوستوں کو ہمیشہ بچنا چاہئے
خطابات شوری جلد دوم ۶۰۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء اس کا دوسروں پر بہت بُرا اثر پڑتا ہے.ایک عورت نے مجھے سُنایا کہ ایک جگہ جہیز کی نمائش کی گئی تو اس جگہ ایک لڑکی نے اپنی ماں سے کہا کہ تم مجھے کیا دو گی؟ لڑکیاں جب اپنی سہیلیوں کے جہیز وغیرہ کو دیکھتی ہیں تو پھر وہ بھی اپنے والدین سے ویسی ہی اشیاء لینا چاہتی ہیں اور اس طرح نمائش گویا جذبات کو صدمہ پہنچانے والی چیز بن جاتی ہے.جو کچھ دیا جائے بکسوں میں بند کر کے دیا جائے.ہمارے گھروں میں بھی یہی طریق ہے ہاں یہ ضروری ہے کہ وہ بکس جن کے حوالے کئے جائیں اُن کو دکھایا جائے کہ فلاں فلاں چیز ان میں موجود ہے بلکہ ہمارے گھروں میں تو یہ دستور ہے کہ ایک دن پہلے سامانِ جہیز لڑکے والوں کے گھر پہنچا دیتے ہیں تا دکھانے کا سوال ہی پیدا نہ ہو.ہاں بھیجنے سے پہلے لڑکے والوں کو دکھا دینا چاہئے ور نہ چوری کا ڈر رہتا ہے.یہ نمائش نہیں بلکہ رسید ہے.ہمارے ملک میں یہ نمائش کی رسم بہت عام ہو گئی ہے بلکہ قادیان میں بھی ہے اس کا روکنا نہایت ضروری ہے.عزیزم صلاح الدین صاحب نے یہ ترمیم پیش کی ہے کہ یہ حکم نہیں مشورہ ہے لیکن یہ انگریزی طریق ہے کہ جو بات حکم کی صورت اختیار کر جائے یا مثلاً تعزیرات کا حصہ بن جائے اُس کی خلاف ورزی پر سزا دی جاتی ہے مگر اسلام کے احکام کے دو حصے ہیں ایک وہ جن کی سزا ہے اور دوسرے وہ جن کی سزا نہیں.بعض احکام کی خلاف ورزی کی سزا اس دنیا میں دی جاتی ہے اور بعض کی قیامت کے دن ملے گی.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مومنوں کو حکم دیا ہے أطِيعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُم " تو خلیفہ جس بات کا حکم دیتا ہے اُس کی نافرمانی کرنے والا ایسا ہی مجرم ہے جیسا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنے والا.اور اگر چہ اس کی کوئی سزا شریعت نے مقرر نہیں کی مگر مومنوں کے نزدیک خود نافرمانی اپنی ذات میں سزا ہے.اور یہ احساس کہ خلیفہ کا حکم نہیں مانا گیا اپنی ذات میں ایک سزا ہے اور اصل سزا یہی ہے.دوسری سزائیں تو مصلحتا دی جاتی ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ سلسلہ اور خلیفہ کی نافرمانی سے بڑھ کر اور کیا سزا ہو سکتی ہے.اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی ناراضگی خود بہت بڑی سزا ہے.دوزخ کی سزا کا مطلب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ناراض ہے پس گواوامر کی نافرمانی کے لئے سزا مقرر نہیں مگر بہر حال وہ احکام ہی ہیں.اس تجویز کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ شادی اور بیاہ کے موقع پر مہر کے سوا جو شریعت نے
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء مقرر کیا ہے زیور اور کپڑے کا مطالبہ ممنوع قرار دیا جائے جو دوست اس کی تائید میں ہوں 66 وہ کھڑے ہو جائیں.“ اس پر ۲۷۵ دوست کھڑے ہوئے اور اس کے خلاف صرف ۲.حضور نے فرمایا : - میں کثرت رائے کے حق میں فیصلہ کرتا ہوں.“ مہندی کی رسم تیرا حصہ یہ تھا کہ مہندی کی رسم ممنوع قرار دی جائے.ملک عبدالرحمن صاحب خادم نے اس میں یہ ترمیم پیش کی کہ مائیاں اور کھارا کی رسوم بھی ممنوع قرار دی جائیں.حضور نے فرمایا: - 66 اگر کوئی دوست اس کے متعلق کچھ کہنا چاہیں تو نام لکھوا دیں.“ مگر کسی نے نام نہ لکھوایا.حضور نے فرمایا: - اصل میں یہ بات بھی نامکمل طور پر پیش کی گئی ہے چاہئے تھا کہ جامع الفاظ میں ہے اسے پیش کیا جاتا.میں نے حضرت اماں جان سے اس کے متعلق دریافت کرایا ہے اور اُنہوں نے فرمایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں مہندی کی رسم نہ کبھی ہمارے ہاں ہوئی اور نہ آپ کے زمانہ میں قادیان میں کسی اور احمدی کے ہاں یہ رسم ادا ہوئی لیکن اب مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہ عام ہو رہی ہے بلکہ ہمارے گھروں میں بھی غالبا ایسا ہوا ہے کہ لڑکی کے گھر میں مہندی بھجوائی گئی ( بعد میں تحقیق سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ میرا خیال غلط تھا ایسا کبھی نہیں کیا گیا ) اب یہ ایک رسم کی صورت اختیار کر گئی ہے اس لئے اسے روکنا ہمارا فرض ہے مگر اب اس کی اتنی اقسام ہیں کہ گویا شریعت کا ایک مستقل باب بن گیا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ یہ شیعوں کی مہندی کی نقل ہے یا شیعوں کی مہندی ان کی نقل ہے.اب تجویز یہ ہے کہ شادی کے موقع پر مہندی اور اس کی متعلقہ جملہ رسوم جو رائج ہیں ہمارے نزد یک غیر اسلامی ہیں اور ہماری جماعت کو ان سے بچنا چاہئے.جو دوست اس کی تائید میں ہوں وہ کھڑے ہو جائیں.‘“ 66 اس پر ۳۰۷ احباب کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا : - یہ رسوم ایسی صورت اختیار کرتی جا رہی ہیں کہ خطرہ ہے کہ وہ جُز و شریعت نہ بن جائیں اس لئے ان کا روکنا ہمارا فرض ہے اور دوستوں نے کثرت سے اسے روکنے کے حق
خطابات شوری جلد دوم ۶۰۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء میں رائے دی ہے اس لئے میں بھی یہی فیصلہ کرتا ہوں.امید ہے کہ قادیان میں بھی اب یہ 66 رسم مٹا دی جائے گی.“ ہندووں میں تبلیغ کی اہمیت سب کمیٹی نظارت دعوۃ وتبلیغ کی طرف سے یہ تجویز پیش ہوئی کہ ہندوؤں میں تبلیغی مہم شروع کرنے کے لئے موجودہ وقت بہت مناسب ہے اس کے لئے انتظام کیا جائے.اس پر بحث کے بعد حضور نے فرمایا: - ”ہمارے سامنے یہ سوال متواتر آیا ہے کہ ہندوؤں میں تبلیغ کے لئے کوئی تجویز کی جائے اور یہ سوال متفرق اوقات میں ہمارے سامنے آیا ہے لیکن یہ کہ اس سلسلہ میں کیا کوشش کی گئی اس کا کوئی پتہ نہیں اور نتیجہ ہمارے سامنے نہیں ہے.ہند و علوم اور لٹریچر سے واقف کئی لوگ ہمارے پاس موجود ہیں.پروفیسر عبداللہ بن سلام صاحب ہیں جو بہت بڑے ماہر ہیں، مولوی عبد اللہ ناصر الدین صاحب ہیں جو دید بھی پڑھے ہوئے ہیں اور اعلیٰ ڈگری حاصل کر چکے ہیں، مہاشہ محمد عمر صاحب نے بھی پنجاب یونیورسٹی سے مولوی عالم کی ڈگری کے برابر ڈگری سنسکرت میں حاصل کی ہوئی ہے یہ مادر زاد ہندو ہیں اس لئے ان کا لہجہ وغیرہ بھی ہندوانہ ہے.سکھوں کے متعلق واقفیت رکھنے والے کئی لوگ ہیں.گیانی عباداللہ صاحب اور گیانی واحد حسین صاحب ہیں.ان کے علاوہ VETERAN سپاہی سردار محمد یوسف صاحب ہیں جو سکھوں کی کتب اور لٹریچر کے پرانے ماہر ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے دیر سے بہت مفید کام کر رہے ہیں.غالبا ۱۹۲۲ء کی بات ہے کہ مہاشہ محمد عمر صاحب ہندو طالب علموں کی ایک پارٹی کے ساتھ مجھے ملنے کے لئے آئے تھے.گور وکل کانگڑی کے ایک پروفیسر صاحب یہاں ایک جلسہ پر آئے تھے اور اپنی بہادری دکھانے کے لئے کہ دیکھو میں کیسی اچھی تقریر کرتا ہوں طالب علموں کی ایک پارٹی کو بھی ساتھ لے آئے.اُنہوں نے طلباء کو مجھ سے ملنے کے لئے بھی بھیجا.اُس وقت مہا شہ محمد عمر بھی ان کے ساتھ تھے میں نے طالب علموں سے کہا پروفیسر صاحب سے کہو کہ آپ اپنے چند طالب علم یہاں بھیج دیں میں خود اُن کو قرآن پڑھاؤں گا.اسی طرح میں چند طالب علم بھیجتا ہوں جن کو وہ وید پڑھائیں.خرچ اپنے طالب علموں کا بھی اور اُن کے بھیجے ہوئے طالب علموں کا
خطابات شوری جلد دوم ۶۰۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء بھی میں ہی دوں گا.اگر قرآن کریم میں تاثیر ہوگی تو ان کے بھیجے ہوئے طالب علموں کو میں مسلمان کر لوں گا اور اگر ویدوں میں تاثیر ہوگی تو ہمارے طالب علموں کو وہ ہند و کرسکیں گے اور یہ ہم دونوں کا انعام ہو گا مگر اُنہوں نے اِس تجویز کو نہ مانا.مہاشہ محمد عمر صاحب بھی اس پارٹی میں تھے اُن کے دل پر کچھ ایسا اثر ہوا کہ چند دنوں کے بعد بھاگ کر یہاں آگئے.انہوں نے گو جوانی یہاں گزاری ہے مگر بچپن میں وہ ہندوؤں میں رہے ہیں اور وہیں پڑھتے رہے ہیں اس لئے ان کا لہجہ ہندوانہ ہے.ان کے علاوہ مہاشہ فضل حسین صاحب ہیں وہ شاید سنسکرت تو نہیں جانتے مگر ہندو لٹریچر سے اچھے واقف ہیں مگر ان سب لوگوں سے ابھی تک کوئی فائدہ نہیں اٹھایا گیا.ہندوؤں میں تبلیغ کا طریق ہندوؤں میں تبلیغ اس طرح کامیاب نہیں ہوسکتی کہ کبھی کسی موقع پر کوئی مبلغ گیا اور کوئی تقریر کر کے واپس آ گیا بلکہ جب تک کوئی جاکر ان میں ہی ڈیرا لگا کر نہ بیٹھ جائے جس طرح حضرت معین الدین چشتی اور بعض دوسرے بزرگوں نے کیا اُس وقت تک ہندوؤں میں کامیابی سے تبلیغ نہیں ہو سکتی.اس کا صحیح طریق یہی ہے کہ پرانے صوفیاء کی طرح آدمی ان میں ہی جا کر بیٹھ جائے.ان کی گالیاں سنے ، ماریں کھائے ، تکلیفیں اُٹھائے مگر وہاں سے ہٹے نہیں.ان لوگوں میں رہے نمازیں پڑھے، روزے رکھے اور اسلام کا صحیح نمونہ پیش کرے.مگر بظاہر اسلامی ماحول سے کٹ کر ان میں رہائش اختیار کرے مگر اب تک ایسا نہیں کیا گیا.یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہندوؤں میں تبلیغ کے لئے لٹریچر کی بھی ضرورت ہے مگر سوال یہ ہے کہ لکھنے والے تو کئی آدمی موجود تھے کیا ان سے کوئی لٹریچر لکھوایا گیا ؟ آدمی تو پندرہ پندرہ سال سے موجود تھے پھر ان سے کیوں لٹریچر تیار نہ کرایا گیا ؟ ایسی سکیم بنائی جاسکتی تھی کہ جس سے بہت سا مفید کام ہو سکتا.بجائے اس طرح چندہ مانگنے کے اگر یہ کہا جاتا کہ فلاں فلاں کتب سنسکرت ، مرہٹی، گجراتی اور تلنگو وغیرہ زبانوں میں تیار کرائی گئی ہیں انہیں چھپوانے کے لئے روپیہ چاہئے تو میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ وہی لوگ جن کے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ بقایا دار ہیں وہ تمام خرچ بخوشی ادا کر دیتے.جس وقت میں نے تحریک جدید کا اعلان کیا ہے اُس وقت بھی بقایا دار موجود تھے مگر وہی جماعت ہر سال سوا ڈیڑھ لاکھ روپیہ اس تحریک
خطابات شوری جلد دوم ۶۰۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء میں ادا کر رہی ہے اور اس کے ساتھ چندہ عام بھی پہلے سے بڑھ رہا ہے.پس صرف خالی تجویزیں پیش کر دینے سے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا اس کا مقصد تو صرف بعض زیر نظر آدمیوں کو فائدہ پہنچانا ہو سکتا ہے اور مجھے سب کمیٹی کے بعض ممبروں نے بتایا ہے کہ اس روپیہ کا ایک حصہ بعض لوگوں کے لئے وظائف مقرر کرنے پر صرف ہوگا.سوال یہ ہے کہ اگر واقعی کوئی ٹھوس کام کرنے کی نیت ہے تو اب تک کیوں نہ کیا گیا جبکہ اس کے لئے موزوں آدمی موجود تھے.آخر وہ کونسے اسلامی مسائل ہیں جن پر تقریریں کرنے کے لئے اگر مہاشہ محمد عمر صاحب کو نہ بھیجا جائے تو کام نہیں ہوسکتا.کیوں ان سے ہندوؤں میں تبلیغ کے سلسلہ میں اب تک کام نہیں لیا گیا ؟ پندرہ سال میں کونسی کتاب ہندوؤں کے متعلق لکھی گئی ہے؟ کونسا لٹریچر سکھوں کے متعلق پیدا کیا گیا ہے؟ اور ان مبلغوں سے ہندوؤں اور سکھوں میں خاص طور پر تبلیغ کا کونسا کام لیا گیا ہے؟ سوائے اس کے کہ یہ احمدیوں کے گاؤں میں جا کر بیٹھ رہتے ہیں اور مقامی لڑائیوں جھگڑوں میں حصہ لیتے ہیں.یا زیادہ سے زیادہ ہفتہ میں ایک آدھ بار کسی ہندو یا سکھ سے بھی کچھ بات چیت کر لیتے ہیں اور جب یہ حالت ہے تو ان کو ہندوؤں اور سکھوں کے لئے مبلغ کس طرح کہا جاسکتا ہے.پس حقیقت یہی ہے کہ مبلغین سے صحیح طور پر کام نہیں لیا جا تا تبلیغ کا سارا زور غیر احمد یوں پر صرف ہورہا ہے اور اس میں خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیابی بھی ہو رہی ہے، جماعت بھی بڑھ رہی ہے لیکن اگر یہ کامیابی کافی ہے تو اس نئی سکیم کے پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی اور اگر کافی نہیں تو اس کا محکمہ کے پاس کیا جواب ہے کہ جب آدمی موجود تھے تو ان سے کام کیوں نہیں لیا گیا اور پہلوں سے کیا کام لیا گیا ہے جو مزید آدمی منظور کئے جائیں.جب تک صحیح طریق پر کام نہ کیا جائے گا خواہ کتنے آدمی کیوں نہ رکھ لئے جائیں کامیابی نہیں ہو سکتی جب تک محکمہ دن اور رات لگا کر اور ایک دُھن کے ساتھ کام نہ کرے کوئی مفید نتیجہ نہیں نکل سکتا.جن مبلغین کا میں نے ذکر کیا ہے کہ وہ ہندوؤں میں تبلیغ کا کام کر سکتے ہیں ان کے لئے بجٹ میں سفر خرچ کی گنجائش ہمیشہ رکھی جاتی رہی ہے، پھر ان کو کیوں ہندوانہ ماحول میں بھیج کر فائدہ نہیں اُٹھایا گیا اور کیوں ان سے مفید لٹریچر تیار نہیں کرایا گیا.اگر محکمہ ایسا لٹریچر تیار کرا تا تو اس کی اشاعت کے لئے فوراً رو پیٹل سکتا تھا.ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے زندہ جماعت
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء ہے اور ایسے اخراجات وہ ایک دن میں پورے کر سکتی ہے کوئی ایسا لٹریچر تیار کرا کے پیش کیا جاتا تو میں حلقہ مسجد مبارک سے ہی چندہ کر کے پورا خرچ اس کے لئے مہیا کر سکتا تھا مگر ضروری ہے کہ کوئی چیز سامنے پیش ہو.“ تیسرادن چندہ وصیت کی واپسی کا سوال مجلس مشاورت کے تیسرے دن ۱٫۵ پریل ۱۹۴۲ء کو سب کمیٹی نظارت علیاء کی رپورٹ میں یہ تجویز پیش ہوئی کہ:- د, حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے منظور فرمودہ قاعدہ نمبر ۱۲ مندرجہ ضمیمه متعلقه رساله وصیت و قاعدہ نمبر ۶ مندرجہ روئدادا جلاس ۲۹ جنوری ۱۹۰۶ ء کی روشنی میں یہ ظاہر ہے کہ ایسے موصی کو جس کی وصیت ان قواعد کی رو سے منسوخ کی جائے چندہ عام مشمولہ حصہ آمد لینے کا حق نہ ہوگا.اس کے مطابق وصیت کے طبع شدہ فارم میں تبدیلی کر دی جائے.اس تجویز پر تفصیلی بحث کے بعد حضور نے فرمایا: - قواعد وصیت میں ترمیم اس وقت اس وقت جو تجویز وصیت کے متعلق پیش ہے وہ بہت پیچیدہ صورت اختیار کر گئی ہے کہیں تو اس میں یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ آیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقرر کردہ قواعد میں ہمیں تبدیلی کا حق حاصل ہے یا نہیں؟ کہیں یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ وصیتی مال کے معنے کیا ہیں؟ اور پھر ان معانی میں اختلاف کیا گیا ہے.سب سے پہلے میں یہ امر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ درحقیقت یہاں یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا کہ ہمیں وصیت کے قواعد کو تبدیل کرنے کا حق حاصل ہے یا نہیں؟ کیونکہ کوئی احمدی بھی یہ نہیں کہتا کہ اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقرر کردہ قواعد تبدیل کرنے کا حق حاصل ہے.سوال صرف یہ ہے کہ قواعد کے بعض حصے ایسے ہیں
خطابات شوری جلد دوم ۶۱۰ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء جن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ سے یہ اجازت معلوم ہوتی ہے کہ ہم ان میں تغیر کر سکتے ہیں.پس جب کوئی تغیر کرنے کا سوال پیدا ہوتا ہے تو صرف انہی قواعد کے متعلق جن سے اس قسم کی اجازت ظاہر ہوتی ہے ورنہ جن قواعد میں ایک صورت معین کر دی گئی ہے ان کے متعلق اس حق کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.پس جب بھی بحث ہوگی سوال یہ ہوگا کہ آیا یہ قاعدہ ان قواعد سے ہے جن میں ہمیں تغیر کرنے کا حق حاصل ہے یا ان قواعد میں سے نہیں ہے.پس جو شخص کوئی تبدیلی کرانا چاہتا ہے وہ یہ نہیں کہتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کسی مقرر کردہ قاعدہ میں تبدیلی کرو بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریر سے ہمیں تبدیلی کرنے کی اجازت معلوم ہوتی ہے.اس کے مقابلہ میں دوسرا شخص جو یہ کہتا ہے کہ ہمیں اس تبدیلی کی اجازت نہیں وہ بھی اس وجہ سے یہ بات نہیں کہتا کہ اس کے نزدیک دوسرا فریق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قاعدہ کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ وہ صرف اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ تمہارا یہ اجتہاد غلط ہے کہ یہ اُن قواعد میں سے ہے جن میں تبدیلی کا ہمیں حق حاصل ہے.پس کوئی وجہ نہیں کہ بلا وجہ اس بات پر زور دیا ہے کہ جو لوگ قاعدہ میں تغیر چاہتے ہیں وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قواعد کو تسلیم نہیں کرتے.مجھے یہ بات کہنے کی اس لئے ضرورت پیش آئی ہے کہ بعض دوستوں نے بلا وجہ اپنی تقریروں میں ایسا رنگ اختیار کر لیا ہے اور اُنہوں نے اپنے بھائیوں پر یہ الزام لگا دیا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریروں کو منسوخ کرنا چاہتے ہیں حالانکہ یہاں کسی تحریر کو منسوخ کرنے کا سوال نہیں بلکہ اس تحریر کی شکل کا سوال ہے کہ آیا تم جو کہتے ہو کہ اس قاعدہ میں ہمیں کسی تبدیلی کا حق نہیں یہ درست ہے یا نہیں؟ ورنہ ایک احمدی پر یہ الزام لگا نا کسی صورت میں بھی درست نہیں ہو سکتا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کسی تحریر کو منسوخ کرنے کے لئے کھڑا ہو گیا ہے.اِس وقت جو ترمیمیں پیش کی گئی ہیں اُن کی وجہ سے بڑی مشکلات نظر آ رہی ہیں کیونکہ بعض ترمیمیں بعض کو رڈ کر دیتی ہیں اور بعض ترمیم در ترمیم ہیں اور اتنا وقت نہیں کہ سب تر میموں پر پورے طور پر غور کر کے کوئی فیصلہ کیا جا سکے پھر میرے لئے یہ بھی مشکل پیدا ہو رہی ہے کہ میں پہلے کونسی ترمیم پیش کروں اور بعد میں کسے پیش کروں اس لئے ممکن.
خطابات شوری جلد دوم ۶۱۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء مجھ سے غلطی ہو جائے اور وہ ترمیمیں آگے پیچھے پیش ہو جائیں.میں نے پیرا کبرعلی صاحب سے اس بارہ میں مشورہ کیا تھا وہ کہتے ہیں کہ شیخ بشیر احمد صاحب والی ترمیم ایسی ہے کہ اگر وہ پاس ہو جائے تو باقی سب ترمیمیں رڈ ہو جاتی ہیں مگر میرے نزدیک یہ دوستوں سے انصاف نہیں ہوگا کہ ایسی ترمیم پہلے ہی پیش کر دی جائے جس کے پاس ہونے کے نتیجہ میں باقی ترمیمیں رڈ ہو جائیں.عام قانون یہی ہے کہ ایسی ترمیم پہلے پیش کرنی چاہئے جو دوسروں کی ترمیموں کو ر ڈ نہ کرتی ہو.اصل تجویز جو سب کمیٹی کی ہے وہ یہ ہے کہ ایسے موصی کو جس کی وصیت ان قواعد کی رو سے منسوخ کی جائے ، چندہ عام مشمولہ حصہ آمد لینے کا حق نہ ہوگا.یعنی جتنا چندہ عام بنتا ہے وہ کاٹ لیا جائے اور جو وصیت کا حصہ ہے وہ واپس کر دیا جائے.سب کمیٹی کی اس تجویز کو اختر صاحب کی یہ ترمیم اور چوہدری اعظم علی صاحب کی تشریح کلی طور پر رڈ کرتی ہے کہ قاعدہ نمبر ۱۲ میں مال کا لفظ ہے اور مال کا لفظ جائیداد اور روپیہ وغیرہ سب پر حاوی ہے اس لئے جیسا کہ اب تک تعامل چلا آ رہا ہے تمام مال یعنی چندہ عام بھی اور حصہ وصیت بھی سب کی سب رقم واپس کی جائے اس کے لئے کسی مزید قانون کی ضرورت نہیں،، شیخ بشیر احمد صاحب یہ کہتے ہیں کہ چونکہ آمد کی وصیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس قاعدہ کے وقت کہ مرتد اور منکر از وصیت کا مال رڈ کر دیا جائے موجود نہ تھی اس لئے رڈ کرنے کا قاعدہ آمد کے مالوں پر چسپاں ہی نہیں ہوتا.نیز آمد کا مال خرچ ہوتا جاتا ہے نہ قبضہ میں ہوتا ہے نہ قائم رہتا ہے اس لئے حصہ آمد کا مال کسی صورت میں بھی واپس نہ کیا جائے.ہاں اگر مرتد یا منکر از وصیت کی کوئی جائیداد بجنسہ انجمن کے قبضہ میں ہو تو وہ بیشک ارتداد یا انکار از وصیت کی صورت میں واپس ہونی چاہئے.“ شیخ بشیر احمد صاحب کی تو یہ تجویز ہے لیکن سب کمیٹی نے قاعدہ نمبر ۶ سے یہ استدلال کیا ہے کہ اس قاعدہ میں ۱۰ را حصہ کی وصیت کا جو ذکر ہے اس میں چندہ عام بھی شامل ہے اور جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ۱۰را حصہ میں چندہ عام اور دیگر چندوں کو بھی شامل کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے تو وصیتی مال کے واپس کرتے وقت یہ چندہ وضع
خطابات شوری جلد دوم کر کے باقی مال واپس کرنا چاہئے.۶۱۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء چوہدری اعظم علی صاحب نے اس کا ایک جواب دیا ہے جو دوستوں کو مدنظر رکھنا چاہئے اور وہ یہ ہے کہ اس قاعدہ کے بنانے کی ضرورت یہ پیش آئی تھی کہ وصیت کی تحریک سے پہلے لوگ اگر اور چندوں میں اپنی اپنی توفیق کے مطابق حصہ لیا کرتے تھے کہیں لنگر کے لئے دیتے تھے.کہیں مدرسہ کے لئے دیتے تھے اور کہیں دیگر ضروریات کے لئے چندے بھیجتے تھے.جب وصیت کا مسئلہ پیش ہوا تو اُن کے دل میں یہ سوال پیدا ہوا کہ چندوں کے بارہ میں اُنہوں نے جو پہلے وعدے کئے ہوئے ہیں وہ اس میں شامل ہوں گے یا نہیں ہوں گے؟ فرض کرو ایک شخص کی سو روپیہ آمد ہے اور وہ پہلے ہی سات یا آٹھ یا نو روپے ماہوار چندہ دیا کرتا تھا اس کے بعد جب وصیت کا مسئلہ سامنے آیا تو اُس کے دل میں یہ سوال پیدا ہونا لازمی تھا کہ آیا میرے پہلے چندے اس ۱۰ را حصہ میں شامل سمجھ لئے جائیں گے یا اس چندہ کے علاوہ مجھے دس روپے اور ماہوار بطور چندہ دینے پڑیں گے.اگر یہ کہا جاتا کہ ضرور ہر شخص وصیت کا چندہ الگ دے اور پہلے چندے حسب معمول الگ روانہ کرے تو کئی لوگوں کے لئے یہ ایک نا قابل عمل بات ہوتی کیونکہ وہ پہلے ہی کافی قربانی کر رہے تھے.چنانچہ اس قسم کی مثالیں موجود ہیں کہ اس زمانہ میں بعض لوگ مثلاً دور و پیہ ماہوار سکول کے لئے بھیجا کرتے تھے اور دس روپیہ لنگر کے لئے.اب ایک صورت تو یہ تھی کہ کہا جاتا کہ تم ۱۲ وہ اور دس وصیت کے یعنی بائیس روپے دو تب تم قواعد کے مطابق چلنے والے قرار پاؤ گے اور دوسری صورت یہ تھی کہ ان کی قربانی کے پیش نظر اجازت دی جاتی کہ اگر وہ چاہیں تو اپنے موجودہ چندوں کو وصیت کے ۱/۱۰ حصہ میں شامل رہنے دیں.اگر ان سے بائیں روپے مانگے جاتے تو اس کے معنے یہ تھے کہ اور لوگ جو پہلے عام چندوں میں اتنی قربانی کا نمونہ نہیں دکھایا کرتے تھے وہ تو دس روپے دے کر موصی بن جائیں مگر یہ بارہ روپے ماہوار دے کر بھی موصی نہ بنیں اور انہیں بائیس روپے دینے پڑیں حالانکہ بالکل ممکن تھا کہ وہ اپنے حالات کی وجہ سے بائیس روپے ماہوار نہ دے سکتے.پس وہ لوگ جنہوں نے چندوں میں پہلے اچھے وعدے کئے ہوئے تھے اور قربانی کا نمونہ دکھا رہے تھے اُن کے لئے سہولت پیدا کرنے اور اُنہیں وصیت میں شامل کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے
۶۱۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء خطابات شوری جلد دوم فرما دیا کہ تمہارے پہلے وعدے ۱/۱۰ حصہ کی وصیت میں ہی شامل سمجھ لئے جائیں گے.چوہدری اعظم صاحب کہتے ہیں کہ یہ حالت اُس وقت تو موجود تھی مگر بعد میں یہ حالت نہیں رہی بلکہ پھر چندہ کی ایک شرح مقرر ہو گئی اس لئے جب لوگ وصیت کرتے ہیں تو اس کے نتیجہ میں اُن کا کوئی پہلا وعدہ منسوخ نہیں ہوتا بلکہ وصیت کی طرف اُن کا وعدہ منتقل ہو جاتا ہے.پس موجودہ زمانہ میں جبکہ وہ وصیت قائم ہی نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں تھی تو اس پر قیاس کر کے آج ہمارے لئے کوئی قانون بنانا درست نہیں ہوسکتا.مولوی ابوالعطاء صاحب درحقیقت ترمیم کرتے ہیں شیخ بشیر احمد صاحب کی ترمیم میں وہ کہتے ہیں کہ احمدیت سے الگ ہونے والے موصی کا ادا کردہ اصل وصیتی مال اگر جماعت احمد یہ کے قبضہ میں موجود ہو تو ایسے شخص کو مطالبہ پر واپس کر دیا جائے گا اور اگر اصل چندہ موجود نہ ہو تو چندہ عام کا حصہ ۱۶ را وضع کر کے باقی حصہ لینے کا وہ مطالبہ کر سکتا ہے.حصہ آمد کی موجودگی کا معیار اس سال کا بجٹ ہوگا.گویا شیخ بشیر احمد صاحب کی ترمیم تو یہ ہے کہ اگر غیر منقولہ جائیداد بجنسہ موجود ہو تو صرف وہ واپس کی جائے مگر مولوی ابوالعطاء صاحب کہتے ہیں کہ منقولہ جائیداد بھی واپس کی جائے اور اگر اُس سال کا چندہ موجود ہو تو وہ بھی ۱۶ /ا حصہ وضع کر کے واپس کر دیا جائے.دوسرا فرق شیخ بشیر احمد صاحب اور مولوی ابوالعطاء صاحب کی ترمیم میں یہ ہے کہ شیخ بشیر احمد صاحب کہتے ہیں کہ جو جائیداد بجنسہ انجمن کے قبضہ میں ہو وہ اُسے واپس کر دی جائے مطالبہ ہو یا نہ ہو.مگر مولوی ابوالعطاء صاحب کہتے ہیں کہ مطالبہ ہو تو رو پیر اور جائیداد کو واپس کیا جائے مطالبہ نہ ہو تو نہ کیا جائے.خلیل احمد صاحب ناصر کی ترمیم یہ ہے کہ یہ امر کہ کونسی چیز واپس کی جائے ، دوسرا سوال ہے.پہلا سوال یہ ہے کہ مال کس کو واپس کیا جائے ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جو شخص اپنی وصیت سے منکر ہو جائے اور انکار بھی ضعف ایمان کی وجہ سے کرے اُسے مال واپس دیا جائے.اگر ایک شخص کہتا ہے کہ میرا ایمان تو قوی ہے اور میں وصیت کے متعلق وہی اعتقاد رکھتا ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے مگر اب میرے حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ میں وصیت پر قائم نہیں رہ سکتا.مثلاً اُس
۶۱۴ وہ خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء کی دس روپے آمد تھی اور وہ پہلے ایک روپیہ ماہوار وصیت میں دیا کرتا تھا مگر اُس وقت اُس کا صرف ایک بچہ تھا.اس کے بعد فرض کرو اس کے دس بچے ہو جاتے ہیں مگر آمد اتنی ہی رہتی ہے تو ان حالات میں وہ کہہ سکتا ہے کہ میرے لئے اب وصیت کا چندہ ادا کرنا ناممکن ہے میری وصیت منسوخ کر دی جائے مگر اُس کی یہ منسوخی کسی ضعف ایمان کی وجہ سے نہیں ہوگی بلکہ بیرونی دباؤ کی وجہ سے ہوگی ورنہ اس کی نیت یہی رہتی ہے کہ اگر خدا زیادہ روپیہ دے تو پھر وہ وصیت کر دے.پس ایسے انسان کو وصیت کا روپیہ واپس نہیں کیا جائے گا کیونکہ اس نے ضعف ایمان کی وجہ سے وصیت کو منسوخ نہیں کرایا بلکہ اپنے حالات کی وجہ سے وصیت کو منسوخ کرایا ہے.لیکن ایک دوسرا شخص ہے جو کہتا ہے کہ میرا وصیت پر ایمان ہی نہیں رہا اور میں نہیں مانتا کہ اس مقبرہ میں دفن ہونے سے روحانی طور پر کوئی فائدہ ہوتا ہے تو اس کے متعلق بیشک کہا جائے گا کہ وہ ضعف ایمان کی وجہ سے اپنی وصیت سے منکر ہو گیا اور در حقیقت میرے نزدیک ان الفاظ میں غیر مبائعین کے متعلق پیشگوئی کی گئی تھی.و احمدیت کے منکر نہیں مگر ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس مقبرہ میں دفن ہونا کوئی اہمیت نہیں رکھتا.پس ان کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ وہ ضعف ایمان کی وجہ سے وصیت سے منکر ہو گئے ہیں.غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایسے ہی لوگوں کے لئے جو ضعف ایمان کی وجہ سے وصیت کا انکار کر دیں اور کہہ دیں کہ ہم اس بات کے قائل نہیں رہے کہ وصیت کر کے جنت مل سکتی ہے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ اُن کا مال اُن کو رڈ کر دیا جائے کیونکہ خدا کسی کے مال کا محتاج نہیں.دوسری صورت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ کوئی شخص سلسلہ سے روگردان ہو جائے ، پس جو شخص ایسا ہو اُ سے بھی اس کا مال واپس کرنا چاہئے.مگر خلیل احمد صاحب ناصر کہتے ہیں کہ سلسلہ سے روگردان ہونا اس کی طرف منسوب کیا گیا ہے یہ نہیں کہا گیا کہ اگر کسی کو نظام سلسلہ الگ کرے تو اُسے بھی اُس کا ادا کردہ مال واپس کیا جائے.اور در حقیقت ایسے کئی لوگ ہوتے ہیں جو منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم سلسلہ سے روگردان نہیں مگر سلسلہ کو مجبوراً اُن کی کسی شرارت یا نفاق کی وجہ سے انہیں نظام سے الگ کرنا پڑتا ہے پس وہ کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
خطابات شوری جلد دوم ۶۱۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء کے الفاظ تک محدود رکھنا چاہئے یعنی جو شخص ضعف ایمان کی وجہ سے وصیت سے انکار کا مدعی ہو یا خود کہے کہ میں سلسلہ احمدیہ سے روگردان ہوتا ہوں اُسے اس کا مال واپس دیا جائے.جس شخص کو سلسلہ بطور سز ا نظام سے الگ کرتا ہے اور وہ خود سلسلہ سے روگردانی کا دعویٰ نہیں کرتا اُسے اُس کا مال واپس دینے کا اِس قاعدہ میں کوئی ذکر نہیں.جو شخص ضعف ایمان کی وجہ سے وصیت سے منکر نہیں ہوتا بلکہ کسی اور وجہ سے اپنی وصیت کو منسوخ کراتا ہے یا جوشخص یہ نہیں کہتا کہ میں سلسلہ سے روگردان ہوتا ہوں کوئی وجہ نہیں کہ اُسے اُس کا مال دیا جائے کیونکہ اس میں وہ شرطیں نہیں پائی جاتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قاعدہ نمبر ۱۲ میں بیان فرمائی ہیں.میرے نزدیک اس ترمیم کو رڈ کر دیتی ہے شیخ بشیر احمد صاحب کی ترمیم.لیکن یہ ترمیم شیخ بشیر احمد صاحب کی ترمیم کو رڈ نہیں کرتی بلکہ اسے محدود کرتی ہے.ان حالات میں میرے نزدیک پہلے خلیل احمد صاحب ناصر کی ترمیم پیش ہونی چاہئے.سو پہلے میں خلیل احمد ناصر صاحب کو کہتا ہوں انہیں اپنی ترمیم کی تائید میں دو منٹ بولنے کی اجازت ہے خلیل احمد صاحب ناصر کی رائے پیش ہونے پر حضور نے فرمایا : - د خلیل احمد صاحب ناصر کہتے ہیں کہ میرے نزدیک وصیت کا روپیہ صرف اسی شخص کو واپس ملنا چاہئے جو ضعف ایمان کی وجہ سے وصیت کا انکار کر دے مثلاً کہے کہ مجھے اب اعتبار نہیں رہا کہ وصیت کرنے کے نتیجہ میں ضرور جنت ملتی ہے یا قبل اس کے کہ جماعت اس کو خارج کرے وہ خود کہے کہ میں سلسلہ سے روگردان ہوتا ہوں.وہ شخص روپیہ واپس لینے کا مجاز نہیں جو سلسلہ سے وابستگی کا تو دعوی کرے مگر نظام سلسلہ نے تعزیر کے طور پر اُسے الگ کیا ہو.اسی طرح وہ شخص بھی روپیہ واپس نہیں مانگ سکتا جو شعف ایمان کے علاوہ کسی اور وجہ سے اپنی وصیت منسوخ کرا دے.بہر حال جو شخص ضعف ایمان کی وجہ سے وصیت کا منکر ہو جائے یا سلسلہ سے روگردانی اختیار کر لے اسے اس کا تمام مال بغیر منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کا فرق کرنے کے اور بغیر چندہ عام منہا کرنے کے اور بغیر اس کے کہ وہ مطالبہ کرے یا نہ کرے واپس کر دینا چاہئے لیکن جو شخص ضعف ایمان کی وجہ سے وصیت کا منکر نہ ہو یا جو شخص جماعت سے تعزیری طور پر خارج کیا گیا ہو اور وہ نظام سلسلہ سے تو علیحدہ ہومگر
خطابات شوری جلد دوم ۶۱۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء احمدیت سے الگ نہ ہو ایسے شخص کو روپیہ واپس کرنے کی کوئی وجہ نہیں.جو دوست اس بات کی تائید میں ہوں اور وہ چاہتے ہوں کہ وصیت کا سارا مال روپیہ کی صورت میں ہو یا جائیداد کی صورت میں قاعدہ نمبر ۱۲ کی اس تشریح کے ماتحت جو خلیل احمد صاحب ناصر نے کی ہے واپس کر دینا چاہئے وہ کھڑے ہو جائیں.“ اس موقع پر حضور کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ سارے مال کی واپسی کے الفاظ سے بقیہ تمام ترمیمیں رڈ ہو جاتی ہیں اس لئے یہ الفاظ اس ترمیم میں نہیں ہونے چاہئیں چنانچہ حضور نے دوبارہ فرمایا.چونکہ سارے مال کے لفظ سے بقیہ تمام تر میمیں رڈ ہو جاتی ہیں اس لئے میں اس ترمیم میں اصلاح کرتا ہوں.اب خلیل احمد صاحب ناصر کی ترمیم صرف اس قدر ہے کہ جس شخص کو وصیتی مال واپس کرنا ہے اُس کی کیا تعریف ہے.ان کے نزدیک اگر کسی کو مال دینا ہوگا تو اُسی کو دیا جائے گا جو ضعف ایمان کی وجہ سے وصیت کا منکر ہو یا سلسلہ سے روگردان ہو جائے اور احمدیت سے براءت کا خود اعلان کرے.سارا مال دینے یا آدھا دینے کا اِس وقت سوال نہیں بلکہ سوال صرف اس تعیین کا ہے کہ کسے مال واپس کیا جائے.میں دوستوں کے سامنے ایک بار پھر یہ تجویز پیش کر دیتا ہوں خلیل احمد صاحب ناصر کے نزدیک جس کو وصیتی مال واپس کرنا ہو، سارا مال واپس کرنا ہو یا آدھا چندہ عام وضع کر کے واپس کرنا ہو یا بغیر وضع کئے ، اس کا سوال نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ جس کو وصیتی مال واپس کرنا ہے چاہے وہ کس قدر ہے وہ صرف اسی کو واپس ہونا چاہئے جو ضعف ایمان کی وجہ سے اپنی وصیت سے منکر ہو جائے یا احمدیت سے ہی روگردان ہو جائے تعزیز والا اس سے فائدہ اٹھانے کا مستحق نہیں.جو دوست اس ترمیم کی تائید میں ہوں وہ کھڑے ہو جائیں.“ ۱۸۰ دوست تائید میں کھڑے ہوئے.اب جن دوستوں کی یہ رائے ہو کہ چاہے کسی کو تعزیری طور پر بھی نظامِ سلسلہ سے الگ کیا گیا ہو اُسے اُس کی وصیت کا مال واپس کر دینا چاہئے اور جن کے نزدیک قاعدہ نمبر ۱۲ کے الفاظ کوئی خاص تعیین نہیں کرتے بلکہ وہ الفاظ ہر اُس شخص پر حاوی ہیں جس کی وصیت رڈ کر دی جائے وہ کھڑے ہو جائیں.“
خطابات شوری جلد دوم ۶۱۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء صرف ۳۵ دوست اس کی تائید اور پہلی ترمیم کے مخالفت میں کھڑے ہوئے.اب مولوی ابوالعطاء صاحب کی ترمیم پیش ہوگی.“ مولوی ابوالعطاء صاحب کی طرف سے ترمیم پیش ہونے پر فرمایا: - مولوی صاحب کہتے ہیں کہ جو شخص احمدیت سے الگ ہو جائے اور الگ ہونے کی وہ تشریح سمجھی جائے گی جس کا اکثریت فیصلہ کر چکی ہے کہ یا تو وہ خود سلسلہ سے روگردان ہونے کا دعویٰ کرے یا ضعف ایمان کی وجہ سے اپنی وصیت سے منکر ہو جائے اسے اس کا ادا کردہ اصل وصیت کا مال اگر جماعت احمدیہ کے قبضہ میں موجود ہو مطالبہ پر واپس کیا جائے گا اور اگر اصل چندہ موجود نہ ہو تو واپس نہیں کیا جائے گا اور حصہ آمد کی موجودگی کا معیار اس سال کا بجٹ ہوگا.اس کے مقابلہ میں شیخ بشیر احمد صاحب کی ترمیم بھی دوست مدنظر رکھیں کہ چونکہ آمد کی وصیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس قاعدہ کے وقت کہ مرتد اور منکر از وصیت کا مال رڈ کر دیا جائے موجود نہ تھی اس لئے رڈ کرنے کا قاعدہ آمد کے مالوں پر چسپاں ہی نہیں ہوتا.گویا شیخ بشیر احمد صاحب کی ترمیم اور اس ترمیم میں فرق یہ ہے کہ شیخ بشیر احمد صاحب کہتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیان فرمودہ تشریح سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ قاعدہ حصہ آمد پر بھی حاوی ہے بلکہ یہ قاعدہ صرف جائیداد پر چسپاں ہوتا ہے اور جائیداد بھی وہ جو بجنسہ انجمن کے قبضہ میں ہو.مگر مولوی ابوالعطاء صاحب کہتے ہیں کہ جائیداد تو بیشک اگر موجود ہو تو واپس کی جائے ورنہ نہیں لیکن چندہ ضرور دیا جانا چاہئے لیکن صرف اُس سال کا چندہ جس میں وہ سلسلہ سے روگردان ہونے یا ضعف ایمان کی وجہ سے وصیت کا انکار کرنے کا دعویٰ کرتا ہے.دوسرا فرق یہ ہے کہ مولوی صاحب کہتے ہیں اگر وہ مطالبہ کرے تب مال واپس کیا جائے مطالبہ نہ کرے تو واپس نہ کیا جائے مگر شیخ بشیر احمد صاحب کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مطالبہ کی شرط نہیں رکھی بلکہ ہر حالت میں خواہ وہ مطالبہ کرے یا نہ کرے ایسے مال کو رڈ کرنے کے قابل قرار دیا ہے چونکہ یہ دونوں ترمیمیں ایک دوسرے کو رد کرتی ہیں اس لئے میں مخالف رائے نہیں لونگا.جو دوست مولوی ابوالعطاء صاحب کی تائید میں ہوں یعنی اس خیال کے ہوں کہ
خطابات شوری جلد دوم ۶۱۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء روپیہ مطالبہ پر واپس ہونا چاہئے مطالبہ کے بغیر واپس نہیں کرنا چاہئے اور نقد بھی اُسی صورت میں واپس کرنا چاہئے جب وہ اُس سال کے بجٹ کے اندر ہو.اسی طرح جائیداد بھی اُسی صورت میں واپس کرنی چاہئے جب وہ موجود ہو.جو دوست اس خیال کی تائید میں ہوں وہ کھڑے ہو جائیں.“ صرف ۶۷ دوست کھڑے ہوئے.اب جو دوست شیخ بشیر احمد صاحب کی تائید میں ہوں میں ان سے ان کی رائے دریافت کروں گا.اُن کی تجویز یہ ہے کہ یہ قانون صرف جائیداد کے متعلق ہے کیونکہ آمد کی وصیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس قاعدہ کے وقت موجود نہ تھی اور جائیداد پر بھی صرف اس صورت میں یہ قانون عائد ہوتا ہے جب وہ بجنسہ انجمن کے قبضہ میں ہو، روپیہ کا یہاں کوئی ذکر نہیں، اسی طرح وہ کہتے ہیں مطالبہ کا بھی کوئی سوال نہیں جب کوئی شخص سلسلہ سے روگردان ہو جائے یا ضعف ایمان کی وجہ سے وصیت کا انکار کر دے تو اُسے اُس کا مال فوراً رڈ کر دینا چاہئے اور اپنے پاس کسی صورت میں بھی نہیں رکھنا چاہئے کیونکہ وہ مال خدا کے حضور مردود ہے.“ جو دوست شیخ بشیر احمد صاحب کی ترمیم کے حق میں ہوں اور ان کا خیال ہو کہ یہ قاعدہ صرف جائیداد موجودہ پر عائد ہوتا ہے اُس شرط کے ماتحت جس کا خلیل احمد صاحب ناصر کی ترمیم کے نتیجہ میں جماعت کی اکثریت فیصلہ کر چکی ہے اور ان کا یہ خیال ہو کہ یہ قاعدہ آمد کے مالوں پر چسپاں نہیں ہوتا وہ کھڑے ہو جائیں.“ کچھ دوست کھڑے ہوئے مگر کچھ دوستوں نے عرض کیا کہ ہم بات کو صحیح طور پر نہیں سمجھے.اس لئے حضور نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا : - اس وقت شیخ بشیر احمد صاحب کی ترمیم پیش کی ہے جس کی تائید میں ابھی میر محمد اسحق صاحب بولے ہیں وہ کہتے ہیں کہ مرتد اور منکر از وصیت کو روپے کے واپس کرنے کا کوئی حکم نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریر سے یہ امر ثابت ہے کہ اِس قاعدہ کا اطلاق صرف جائیداد پر ہوتا ہے جو اُس نے دی ہوئی ہو.اگر اس کے بعد وہ ضعف ایمان کی وجہ سے اپنی وصیت کا انکار کر دیتا ہے یا ارتداد اختیار کر لیتا ہے تو اگر اُس کی جائیداد بجنسہ
خطابات شوری جلد دوم ۶۱۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء انجمن کے قبضہ میں ہو تو وہ بیشک واپس کر دینی چاہئے لیکن حصہ آمد کا مال کسی صورت میں بھی واپس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اول تو جب یہ قاعدہ بنایا گیا اُس وقت آمد کی وصیت نہیں ہوا کرتی تھی دوسرے آمد کا مال خرچ ہوتا جاتا ہے اور وہ نہ قبضہ میں ہوتا ہے نہ قائم رہتا ہے اس لئے حصہ آمد کا مال واپس نہیں کیا جاسکتا.اس صورت میں اس سوال کی بھی ضرورت نہیں رہتی کہ چندہ عام وضع کیا جائے یا نہ کیا جائے.دوسری بات وہ یہ کہتے ہیں کہ مطالبہ کی کوئی شرط نہیں ایسا مال بہر حال گندہ اور رڈ کرنے کے قابل ہے.جو دوست اس بات کے حق میں ہوں کہ مطالبہ کی کوئی شرط نہیں ہر حالت میں مال رڈ کر دینا چاہئے اور ساتھ ہی اس بات کے حق میں ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس قاعدہ کا اطلاق صرف جائیداد پر ہوتا ہے اور وہ بھی ایسی جائیداد پر جو انجمن کے قبضہ میں بجنسہ ہو چندہ جو خرچ ہو جاتا ہے اُس پر یہ قاعدہ اطلاق نہیں پاتا وہ کھڑے ہو جائیں.“ ۱۴۴ دوست کھڑے ہوئے.فرمایا :- ’ اب ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ۶۷ دوست مولوی ابوالعطاء صاحب کی ترمیم کی تائید میں تھے اور ۱۴۴ اس ترمیم کی تائید میں مگر مجلس مشاورت میں شامل ہونے والے نمائندگان اس سے زیادہ ہیں اس سے خیال کیا جاسکتا ہے کہ نمائندگان کا کچھ حصہ نیوٹرل رہا ہو اور وہ سب کمیٹی کی تجویز کی تائید میں ہو اس لئے اب اسے پیش کیا جاتا ہے.سب کمیٹی کی تجویز یہ ہے کہ : - حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے منظور فرمودہ قاعدہ نمبر ۱۲ مندرجہ مندرجہ ضمیمہ متعلقہ رساله الوصیت و قاعدہ نمبر ۶ مندرجہ روئداد اجلاس ۲۹ جنوری ۱۹۰۶ء کی روشنی میں یہ ظاہر ہے کہ ایسے موصی کو جس کی وصیت ان قواعد کی رو سے منسوخ کی جائے چندہ عام مشمولہ حصہ آمد لینے کا حق نہ ہوگا اس کے مطابق وصیت کے طبع شدہ فارم میں تبدیلی کر دی جائے.“ مرتد اور منکر از وصیت کی تعریف پہلے ہو چکی ہے پس سب کمیٹی کی تجویز یہ ہے کہ جس کو وصیتی مال واپس کرنا ہو اُس کو روپیہ واپس کیا جائے اور جائیداد بھی.گویا اگر چندے والی
خطابات شوری جلد دوم ۶۲۰ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء صورت ہو تو چندہ عام کی رقم اُس کے چندہ میں سے منہا کر لی جائے گی اور بقیہ رقم واپس کی جائے گی اور جائیداد کی صورت میں خواہ وہ جائیداد موجود ہو اور خواہ پک چکی ہو دونوں صورتوں میں واپس کی جائے گی یعنی سب کمیٹی فروخت شدہ جائیداد کو بھی جائیداد ہی سمجھتی ہے.“ کمیٹی کی تجویز یہی ہے کہ جائیداد بہر حال واپس کرنی چاہئے اس قاعدہ کی حد بندی کے ساتھ جس کا پہلے ذکر کیا جاچکا ہے.البتہ جو روپیہ ماہوار بطور حصہ آمد آئے اس کے متعلق یہ امتیاز کیا جائے کہ چندہ عام کو وضع کر لیا جائے اور باقی رقم واپس کی جائے جو دوست سب کمیٹی کی اس تجویز کی تائید میں ہوں وہ کھڑے ہو جائیں.“ صرف ۵۲ دوست کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا:- چونکہ شیخ بشیر احمد صاحب کی ترمیم کو خلیل احمد صاحب ناصر کی تشریح کے ساتھ جس میں رقم واپس لینے والوں کی تعیین کا ذکر ہے جماعت کی اکثریت کی تائید حاصل ہے اس لئے میں بھی اکثریت کے حق میں فیصلہ کرتا ہوں کہ :- " چونکہ آمد کی وصیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس قاعدہ کے وقت کہ مرتد اور منکر از وصیت کا مال رڈ کر دیا جائے موجود نہ تھی اس لئے رڈ کرنے کا قاعدہ آمد کے مالوں پر چسپاں ہی نہیں ہوتا نیز آمد کا مال خرچ ہوتا جاتا ہے نہ قبضہ میں ہوتا ہے نہ قائم رہتا ہے اس لئے حصہ آمد کا مال کسی صورت میں بھی واپس نہ کیا جائے.ہاں اگر مرتد یا منکر از وصیت کی کوئی جائیداد بجنسہ انجمن کے قبضہ میں ہو تو وہ بیشک ارتداد یا انکار از وصیت کی صورت میں واپس ہونی چاہئے.مگر اس قاعدہ کا اطلاق صرف اُسی شخص پر ہو گا جو ضعف ایمان کی وجہ سے اپنی وصیت سے منکر ہو جائے اور کہہ دے کہ میرا اب وصیت کے مسئلہ اور اس کے نتیجہ میں جنت ملنے پر اعتقاد نہیں رہا.یا سلسلہ سے خود روگردان ہونے کا دعویٰ کرے.لیکن جسے تعزیری طور پر نظام سلسلہ سے خارج کیا جائے اُس کی وصیت کا کوئی مال واپس نہیں کیا جائے گا کیونکہ وہ حسب قاعدہ نمبر ۱۲ متعلقہ ضمیمہ رسالہ الوصیت مرتد نہیں ہوا بلکہ اُسے نظام سلسلہ نے الگ کیا ہے.“
خطابات شوری جلد دوم ۶۲۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء میری ذاتی رائے ایک وقت بالکل وہی تھی جو شیخ بشیر احمد صاحب کی ہے لیکن بعد میں میری رائے چوہدری اعظم علی صاحب کی اس تشریح کو سن کر بدل گئی کہ اس وقت اس شرط کی اس لئے ضرورت پیش آئی تھی کہ لوگوں نے اس سے پہلے کئی قسم کے چندوں کے لئے وعدے کئے ہوئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کی سہولت کے لئے اعلان فرما دیا کہ اگر وہ وصیت کر دیں تو اُن کے پہلے چندے ۱۰ را میں ہی شامل سمجھ لئے جائیں گے مگر اب یہ صورت نہیں ہے.اس تشریح کو سن کر میری رائے بدل گئی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا منشاء پورے طور پر واضح نہیں ہے.میرا ذاتی خیال تو یہ ہے کہ اگر ہمیں اس بارہ میں شبہ بھی ہو جائے کہ آیا صرف وہی جائیداد واپس کرنی چاہئے جو بجنسم موجود ہو یا اُس جائیداد کو بھی واپس کر دینا چاہئے جو فروخت ہو چکی ہو تو ہمیں فروخت شدہ جائیداد کو بھی رڈ کر دینا چاہئے لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے ابھی مجھے ایسے دلائل نہیں ملے جن سے اس بارہ میں کوئی قطعی طور پر کوئی آخری فیصلہ کیا جا سکے اس لئے في انحال میں اِس قاعدہ کو جاری کرتا ہوں.دوست اس مسئلہ پر غور کرتے رہیں میں بھی انشاء اللہ مزید غور کروں گا.اس وقت میرا طبعی میلان اس طرف ہے کہ تقویٰ کا طریق یہی ہے کہ خواہ ایسے شخص سے مال لیا گیا ہو اور خواہ جائیداد، دونوں چیز میں اُسے واپس کر دینی چاہئیں.مگر غلطی سے بعض دوستوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ جسے تعزیر کے طور پر ہم اپنی جماعت سے خارج کرتے ہیں وہ بھی اس بات کا مستحق ہوتا ہے کہ اُسے اُس کی وصیت کا مال واپس کر دیا جائے.حالانکہ میں نے بارہا بتایا ہے کہ میں کسی کو احمدیت سے نہیں نکالتا بلکہ جماعت سے نکالتا ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ فرماتے ہیں کہ جو شخص سلسلہ سے روگردان ہو جائے اُسے اُس کا وصیتی مال واپس کیا جائے مگر بالعموم اس فرق کو نہیں سمجھا جاتا.چنانچہ بعض دفعہ جب ہم کسی شخص کو اپنی جماعت سے خارج کر دیتے ہیں تو وہ بھی اپنی وصیت کا روپیہ واپس مانگنے لگ جاتا ہے حالانکہ اُسے بطور سزا جماعت سے خارج کیا گیا ہوتا ہے اس لئے تو خارج نہیں کیا جاتا کہ ہم اسے بعد میں کہہ دیں کہ لو تمہارا اتنا روپیہ ہمارے پاس جمع ہے یہ ہم سے انعام لے لو.
خطابات شوریٰ جلد دوم ۶۲۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دو ہی صورتیں ”الوصیت“ میں بیان فرمائی ہیں کہ یا تو وہ ضعف ایمان کی وجہ سے وصیت کا انکار کر دے یعنی کہے کہ وصیت کے میں وہ فوائد درست تسلیم نہیں کرتا جو بیان کئے جاتے ہیں اور نہ میرا یہ اعتقاد رہا ہے کہ اس کے نتیجہ میں جنت مل سکتی ہے.ایسے شخص کو اُس کا مال واپس کر دینا چاہئے کیونکہ ایسے شخص کو اگر روپیہ واپس نہ کیا جائے گا تو یہ سمجھ لیا جائے گا کہ ہم نے لالچ کے ماتحت اُس سے روپیہ لے لیا ہے ورنہ جب وہ یہ عقیدہ ہی نہیں رکھتا کہ اس کے نتیجہ میں جنت مل سکتی ہے تو اُس کا روپیہ رکھنے کے معنے ہی کیا ہیں.دوسری صورت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ سلسلہ سے روگردان ہو جائے ایسی حالت میں بھی جبکہ اُس کے عقائد احمدیت کے عقائد کے خلاف ہو جائیں اُس کا مال اُسے واپس کر دیا جائے گا اور اس بات کو نہیں دیکھا جائے گا کہ اُس نے مال کی واپسی کا مطالبہ کیا ہے یا نہیں کیا.کیونکہ جیسا کہ میر محمد اسحق صاحب نے اپنی تقریر میں بیان کیا ہے بعض بڑے آدمی ہوتے ہیں اُن کے متعلق اس بات کا امکان ہے کہ وہ عقائد کی درستی کی حالت میں دو چار سو روپیہ وصیت کے حساب میں دے دیں مگر جب مرتد ہو جائیں تو اُس روپیہ کی واپسی کا مطالبہ نہ کریں بلکہ روپیہ مانگنا اپنی کسر شان خیال کریں مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ایسے لوگوں کو اُن کا مال رڈ کر دینا چاہئے کیونکہ ایسا مال خدا تعالیٰ کے نزدیک مکروہ ہے اور خدا کسی کے مال کا محتاج نہیں.اگر ہم ایسے لوگوں کا بھی مال رڈ نہ کریں یا اُن کے مطالبہ کا انتظار کرتے رہیں تو اس صورت میں لوگوں کے دلوں میں شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ ہم روپیہ لے کر جنت کا سودا کرتے ہیں حالانکہ یہاں روپیہ کا سوال نہیں بلکہ ایمان کا سوال ہے.پس ان ہر دو قسم کے لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کے ماتحت ان کا مال رڈ کیا جائے گا کیونکہ ایسا مال خدا کے نزیک مکروہ ہے.لیکن ان دو قسم کے علاوہ ایک قسم ایسے لوگوں کی بھی ہے جو دعویٰ کرتے رہتے ہیں کہ ہم احمدی ہیں مگر نظام سلسلہ نے اُن کو جماعت سے الگ کیا ہوا ہوتا ہے.اس تشریح کے بعد ان کا کوئی حق نہیں ہوگا کہ وہ ہم سے وصیتی مال کی واپسی کا مطالبہ کریں.پھر اس تشریح کا ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ ممکن ہے بعض ایسے لوگ جو دل میں تو احمدیت سے روگردان ہوں مگر دعوی یہ کرتے ہوں کہ ہم احمدی ہیں وہ اپنے روپیہ کے لالچ
۶۲۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء خطابات شوری جلد دوم میں حقیقت کا اظہار کر دیں اور علی الاعلان سلسلہ سے روگردانی کا دعویٰ کر کے اپنے روپیہ کی واپسی کا مطالبہ کر دیں.ایسی صورت میں اُن کے دل کی حالت کا اظہار ہو جائے گا اور روپیہ دے کر ہم اُن کے بداثرات سے محفوظ ہو جائیں گے.جیسے مصری صاحب کے بہت دیر سے پیغامیوں کے ساتھ تعلقات تھے اور اُن کے ساتھ ان کے سمجھوتے بھی تھے مگر ظاہر میں وہ یہی کہتے تھے کہ میں جماعت کو یقین دلاتا ہوں کہ میں احمدیت کی تعلیم پر قائم ہوں.اُنہی عقائد کو درست تسلیم کرتا ہوں جو جماعت احمدیہ کے ہیں میں تو صرف اصلاح کے لئے چند باتیں پیش کر رہا ہوں حالانکہ اندرونی طور پر اُن کے پیغامیوں کے ساتھ تعلقات تھے.پس ایسے لوگوں کے دلوں میں اگر لالچ پیدا ہوا تو وہ آپ ہی ہم سے کہہ دیں گے کہ ہمارا روپیہ واپس کر دیا جائے ہم سلسلہ سے روگردان ہوتے ہیں.پس ایسے لوگ جو پہلے دھوکا سے ہمارے اندر رہتے تھے اُن کو ظاہر کرنے کے لئے یہ قانون بہت مفید رہے گا.ہم اُن کو اُن کا روپیہ دینے کے لئے بخوشی تیار ہو جائیں گے مگر یہ بات پسند نہیں کریں گے کہ وہ دھوکا اور فریب سے ہمارے اندر ر ہیں اور اس طرح سلسلہ کے نقصان کا باعث بنیں.میں نے دیکھا ہے شیخ عبدالرحمن صاحب مصری گو بظاہر اخلاص کا دعویٰ کرتے تھے مگر ہمیں پرائیویٹ اطلاعات سے معلوم ہوتا تھا کہ اُن کے پاس دشمنوں کی طرف سے روپیہ آتا ہے اور وہ اُن سے ملتے اور تعلقات رکھتے ہیں.بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کو ہم على الإعلان شائع نہیں کر سکتے کیونکہ اگر ہم ایسا کریں تو مخبروں کا لوگوں کو پتہ لگ جاتا ہے اور بعض دفعہ یوں تو واقعات درست ہوتے ہیں مگر قضائی طور پر ایسے دلائل مہیا نہیں ہوتے جن کے ماتحت کوئی فیصلہ کیا جا سکے.پس اس قسم کے لوگ جو پہلے منافقانہ طور پر ہماری جماعت میں شامل رہا کرتے تھے اُن کے لئے اس تشریح کے ماتحت ایک لالچ پیدا ہو گیا ہے جس کے نتیجہ میں ممکن ہے وہ خود ہی سلسلہ سے روگردانی کا دعوی کر کے اپنے روپیہ کی واپسی کا مطالبہ کر دیں اور اس طرح ہم اُن کے شر سے محفوظ ہو جائیں.میرے نزدیک اس تشریح کا ایک اور فائدہ یہ ہوا ہے کہ آئندہ کے لئے ہماری جماعت کو معلوم ہو گیا ہے کہ کس قسم کے لوگوں کو روپیہ واپس کرنے کا حکم ہے پہلے اس فرق کو ملحوظ نہیں رکھا گیا جس کی وجہ سے بعض جھگڑے بھی پیدا ہوئے.مثلاً مولوی عمر دین شملوی
۶۲۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء خطابات شوری جلد دوم نے کہہ دیا کہ میری وصیت کا روپیہ مجھے واپس کیا جائے حالانکہ جب وہ اقرار کر رہا تھا کہ میں سلسلہ سے روگردان نہیں تو اُس کا یہ مطالبہ اپنے اندر کوئی معنے نہیں رکھتا تھا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے صاف طور پر فرما دیا ہے کہ روپیہ ایسے شخص کو ہی واپس کیا جائے گا جو یا تو ضعف ایمان کی وجہ سے اپنی وصیت کا انکار کر دے یا سلسلہ سے روگردان ہونے کا دعوی کرے.جو شخص سلسلہ سے روگردان ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا بلکہ نظام سلسلہ اُسے علیحدہ کرتا ہے وہ اس شق کے ماتحت روپیہ کی واپسی کا مطالبہ کرنے کا حقدار نہیں ہے.مولوی عمر دین شملوی کے متعلق بھی ہمیں دیر سے اطلاعات مل رہی تھیں کہ ان کے رادھا سوامیوں اور بہائیوں وغیرہ سے تعلقات ہیں مگر بظاہر وہ ہماری جماعت کے اندر شامل تھے.پس اس تشریح کے ماتحت ایک طرف تو نظام جماعت سے الگ کئے جانے والے وصیتی مال کی واپسی کا مطالبہ نہیں کر سکیں گے اور دوسری طرف وہ لوگ جو دل میں سلسلہ سے روگردان ہوں مگر منافقانہ طور پر ہمارے اندر شامل ہوں خود بخود روپیہ کے لالچ میں اپنی روگردانی کا دعوی کر دیں گے اور بجائے اِس کے کہ انہیں ہم نکالیں وہ خود ہمارے سلسلہ سے نکل جائیں گے.پس اس قاعدہ کو میں في انحال جاری کرتا ہوں بعد میں اس پر مزید غور بھی ہوسکتا ہے.“ بہت ۴۲ - ۱۹۴۳ء کے متعلق تقریر بجٹ کے بارہ میں کئی ممبران کے اظہارِ خیال ہوئے فرمایا : - کے بعد حضور نے احباب سے خطاب کرتے جن دوستوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرنا تھا کر لیا ہے ان میں سے ایک دوامر ایسے ہیں جن کے متعلق میں اس وقت کچھ کہنا ضروری سمجھتا ہوں.ریویو آف ریلیجنز کی امداد بند کرنے کی وجہ بجٹ پر رائے ظاہر کرتے ہوئے عزیزم پیر صلاح الدین نے اعتراض کیا ہے کہ ریویو آف ریلیجنز اُردو کو جو امداد دی جاتی تھی وہ کیوں بند کر دی گئی ہے جبکہ رسالہ عمدگی سے شائع ہو رہا ہے اُن کے نزدیک ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا.خود ایڈیٹر صاحب کی بھی اس بارہ میں میرے پاس چٹھی پہنچی ہے.اگر یہ بات صرف اس حد تک محدود ہوتی
خطابات شوری جلد دوم ۶۲۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء که ریویو آف ریلیجنز اُردو کی آمد کیا ہے؟ اور جب پہلے اسے امداد دی جاتی تھی تو اب وہ امداد کیوں بند کر دی گئی ہے؟ تو یہ اعتراض معقول سمجھا جا سکتا تھا لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ تمام واقعہ میرے ہاتھ سے گزرا ہے اور میں آج سے کئی سال پہلے سے یہ بات جانتا تھا کہ اس بارہ میں جنبہ داری سے کام لیا گیا ہے اس لئے اب اس کے نتیجہ میں اگر کسی کو کوئی تکلیف ہوئی ہے تو اس کا وہ خود ذمہ دار ہے.کہتے ہیں کوئی شخص کسی درزی کے پاس کپڑا لے کر گیا اور کہنے لگا کہ کیا اس کپڑے کی دوٹوپیاں بن جائیں گی ؟ اُس نے کہا کہ ہاں دوٹو پیاں تیار ہو جائیں گی.وہ کہنے لگا کیا اس کی تین ٹوپیاں بن سکتی ہیں ؟ درزی نے کہا تین بھی بن سکتی ہیں اس پر وہ کہنے لگا اچھا بتاؤ کیا اس کپڑے کی چارٹو پیاں بن جائیں گی؟ اس نے کہا کہ ہاں آپ چاہیں تو چار ٹوپیاں بھی بن سکتی ہیں.پھر اس نے پوچھا کہ کیا اس کی پانچ ٹوپیاں بن سکتی ہیں ؟ درزی نے کہا کہ پانچ بھی بن سکتی ہیں.اسی طرح بڑھتے بڑھتے وہ آٹھ تک پہنچا اور درزی نے پھر بھی یہی کہا کہ ہاں اس کی آٹھ ٹو پیاں بھی بن سکتی ہیں چنانچہ اُس نے کہا بہت اچھا اس کی آٹھ ٹوپیاں تیار کر دو.درزی نے کپڑا رکھ لیا اور وہ شخص چلا گیا.جب چند دنوں کے بعد وہ ٹوپیاں لینے کے لئے آیا تو درزی نے چوہے کے سر جیسی آٹھ ٹوپیاں اُس کے سامنے رکھ دیں.وہ کہنے لگا ہیں یہ کیا، اتنی چھوٹی چھوٹی ٹوپیاں بنانے کے لئے کس نے کہا تھا ؟ درزی نے کہا اپنا کپڑا ناپ لیجئے اگر اس میں سے کچھ کم ہو تو آپ مجھے کو میں ورنہ آپ جتنے کپڑے میں مجھے آٹھ ٹو پیاں بنانے کے لئے کہہ گئے تھے اتنے کپڑے کی آٹھ ٹوپیاں تیار کر دی گئی ہیں.اگر آپ کو اب تکلیف ہوئی ہے تو اس کے ذمہ دار آپ ہیں میں نہیں.واقعہ یہ ہے کہ ایڈیٹر صاحب ریویو اُردو، میں نہیں جانتا کہ کسی رسوخ اور تعلق کی بناء پر یا کسی اور وجہ سے اُن مبلغین میں سے تھے جنہیں قادیان میں ہی رکھا جاتا تھا اور مبلغ بھی تھے مگر ان میں سے ایک وہ بھی تھے.میں جب اعتراض کرتا تو میرے سامنے کوئی نہ کوئی عذر پیش کر دیا جاتا.آخر جب میں نے سختی سے اعتراض کیا تو میرے سامنے یہ تجویز پیش کی گئی کہ انہیں ریویو آف ریلیجنز اُردو کا ایڈیٹر بنا دیا جائے وہ وعدہ کرتے ہیں کہ ایک (یا دو) سال کے اندر اندر رسالہ اپنا خرچ آمد سے نکال لے گا اور تنخواہ بھی آمد میں سے ہی پیدا کریں گے.چنانچہ نظارت نے یہ تجویز پیش کی اور ایڈیٹر صاحب
خطابات شوری جلد دوم ۶۲۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء نے بھی معاہدہ کیا کہ ایک (یا دو) سال کے اندر اندر اس کے اخراجات اور تنخواہ وغیرہ کا صدر انجمن احمدیہ پر کوئی بوجھ نہیں رہے گا.میں جانتا تھا کہ ایسا نہیں ہوسکتا صرف ان کی مشکلات کو دور کرنے کے لئے یہ تجویز کی گئی ہے تاکہ ان کو قادیان میں رہنے کا موقع دیا جائے اور وہ باہر نہ جائیں.چنانچہ جب اُن کی تنخواہ کا سوال آیا اور کہا گیا کہ ان کی تنخواہ زیادہ ہے اور پہلا ایڈیٹر کم تنخواہ لیتا رہا ہے تو کہہ دیا گیا کہ بیشک پہلے ایڈیٹر کو ہم تمہیں چالیس روپے دیتے تھے اور انہیں ستر اسی روپے ماہوار دینے پڑیں گے مگر یہ تھوڑے عرصہ کی بات ہے ایک دو سال کے اندر اندر یہ اپنی تنخواہ اور دوسرے اخراجات رسالہ کی آمد میں سے نکال سکیں گے.اب ان کی یہ بات اُسی طرح درست تھی جیسے درزی نے کہا تھا کہ میں کپڑے کی آٹھ ٹوپیاں بنادوں گا.چنانچہ ایک سال کا تو کیا ذکر ہے وہ چار سال تک برابر صدر انجمن احمدیہ سے تنخواہ وصول کرتے رہے اور اب آ کر انہیں کہا گیا کہ وہ اپنی تنخواہ رسالہ کی آمد میں سے نکالیں صدر انجمن احمد یہ انہیں امداد دینے کے لئے تیار نہیں.بیشک اس سے اُنہیں تکلیف ہوئی ہے مگر در حقیقت جب بھی کوئی اس قسم کی بات کی جائے گی جس میں پوری طرح تقویٰ کو مدنظر نہیں رکھا جائے گا تو اُس کا ایسا ہی نتیجہ نکلے گا.پس در حقیقت یہ اُس نامناسب تدبیر کا نتیجہ ہے جو ان کے متعلق کی گئی.میں چونکہ اعتراض کرتا تھا کہ فلاں فلاں مبلغ باہر نہیں جاتے انہیں قادیان میں کیوں رکھا جاتا ہے اس لئے میرے اس اعتراض سے بچنے کے لئے محکمہ نے جو شاید ان کی مشکلات سے بہت متاثر تھا جوڑ تو ڑ کر کے انہیں ایڈیٹر بنا دیا اور پہلے ایڈیٹر کو تمیں چالیس روپے ملتے تھے مگر ان کو ستر اسی روپے دینے شروع کر دیئے گئے اور مجھے کہا گیا کہ یہ ایک سال کے اندر اندر تمام اخراجات خود برداشت کرنے کا ذمہ لیتے ہیں.میں نے کہا مجھے منظور ہے.میں جانتا تھا کہ مجھے جو کچھ کہا گیا ہے اُس پر عمل نہیں ہو سکے گا، میں جانتا تھا کہ یہ تجویز میرے سامنے کیوں پیش کی گئی ہے مگر شریعت مجھے بولنے کا حق نہ دیتی تھی اس لئے میں خاموش رہا اور میں نے کہا بہت اچھا یہ تجربہ کر کے بھی دیکھ لو.پس موجودہ مشکل کو دور کرنے کا میرے پاس کوئی علاج نہیں.تقوی سے دوری کا نتیجہ جب بھی انسان پوری طرح تقویٰ سے کام نہ لے گا وہ ضرور پھنسے گا.ناظر پھنسیں، انجمن پھنسے یا ایڈیٹر پھنسے.
۶۲۷ خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء بہر حال وہ اس صورتِ حالات کے ذمہ دار ہیں.خود ایڈیٹر نے کہا کہ میں ایک دو سال کے اندر اندر آمد سے اس کا خرچ نکال لوں گا اور میرے سامنے تجویز پیش کی گئی کہ انہیں ایک دو سال تک صدر انجمن احمدیہ سے تنخواہ دلا دی جائے اس کے بعد اس مدد کی ضرورت نہیں رہے گی.مگر نظارت کی غلطی سے ایک دو سال کی بجائے چار سال تک یہ امدا دلتی رہی.پس آج اگر اس امداد کے بند کرنے سے اُنہیں کوئی تکلیف ہوئی ہے تو یہ تکلیف در حقیقت انہیں آج سے تین سال پہلے پہنچنی چاہئے تھی مگر غلطی سے اس طرف توجہ نہ کی گئی.اگر اُس وقت یہ طریق اختیار نہ کیا جاتا اور صفائی سے یہ سوال اُٹھایا جاتا کہ ریویو کے لئے قابل ایڈیٹر کی ضرورت ہے اور قرعہ فال موجودہ ایڈیٹر کے نام پڑتا تو یہ مشکلات پیش نہ آتیں.بعض اور باتیں بھی بجٹ کے متعلق میرے نوٹس میں لائی گئی ہیں.درحقیقت بجٹ کی زیادتی کی وجہ یہ ہے کہ جو قواعد مقرر ہیں اُن کے خلاف عمل کیا جاتا ہے.مثلاً ایک قاعدہ جو میرا منظور کردہ ہے اور جس کا کیڈر کمیٹی کی رپورٹ اور صدرانجمن احمدیہ کی رائے پر میں نے فیصلہ کیا تھا یہ ہے کہ : - منظور شدہ اسامیوں کے گریڈ میں کسی قسم کی تبدیلی بصورت کمی و بیشی کی ضرورت محسوس ہو تو اس کے لئے لازمی ہوگا کہ نظارت متعلقہ کی طرف سے مفصل رپورٹ مع رپورٹ محاسبہ کمیٹی بلحاظ مالی پہلوصدرانجمن احمد یہ میں پیش ہو کر مشاورت میں حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی باقاعدہ منظوری حاصل کی جائے.“ اس قاعدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آپ ہی آپ گریڈ بدلے جاتے رہے ہیں اور بعض میں کمی اور بعض میں زیادتی کی جاتی رہی ہے حالانکہ یہاں کمی کے بھی الفاظ ہیں اور بیشی کے بھی.اور صاف الفاظ میں یہ تصریح کر دی گئی ہے کہ منظور شدہ اسامیوں کے گریڈ میں کسی قسم کی تبدیلی کی ضرورت محسوس ہو تو نظارت متعلقہ کی طرف سے مفصل رپورٹ محاسبہ کمیٹی کی رپورٹ کے ساتھ صدرانجمن احمد یہ میں پیش کر کے مشاورت میں خلیفہ وقت کی منظوری حاصل کی جائے.اسی طرح میری ہدایت تھی کہ بجٹ میں پندرہ ہزار روپیہ کی کمی کی جائے مگر صدر انجمن احمدیہ نے یہ پندرہ ہزار روپیہ جس طرح کم کیا ہے وہ سلسلہ کے
خطابات شوری جلد دوم ۶۲۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء کا موں کو خطرناک نقصان پہنچانے والا ہے اور ایسا ہی ہے جیسے کسی کو اپنے کپڑوں میں کمی کرنے کے لئے کہا جائے تو اپنی دس گز کی پگڑی کو تو پانچ گز نہ کرے مگر پاجامہ کے پائنچے اُڑا دے.سیدھی بات ہے کہ جب پگڑی کو دس گز ہی رکھا جائے گا اور پاجامہ کو بنکر میں تبدیل کر دیا جائے گا تو ہر شخص اُسے یہ کہنے پر مجبور ہوگا کہ وہ نیم عریاں نہ پھرے اور پورا پاجامہ ضرور پہنے.اسی طرح کمی تو کر دی گئی ہے مگر بجٹ میں یہ کمی اس طرح کی گئی ہے جیسے کسی کا گلا گھونٹ دیا جائے اور اس کی وجہ انجمن کو بھی خوب معلوم ہے کہ وہ جانتی ہے آج تو اس رنگ میں کمی کر کے بظاہر خلیفہ کا حکم پورا کر دیا جائے گا اور کہہ دیا جائے گا آپ کے حکم کی تعمیل کر دی گئی ہے مگر کل ہم اس سے یہ اضافہ منظور کرالیں گے اور کہیں گے کہ اس کے بغیر سلسلہ کے کام نہیں چل سکتے.جیسے پچھلے سال کے بجٹ میں ہی بعض اہم اخراجات صدر انجمن احمدیہ نے غلطی سے درج نہیں کئے تھے بعد میں صدرانجمن احمدیہ نے مجھ سے اپنی اس غلطی کا ذکر کیا اور میں نے انہیں اجازت دے دی کہ وہ بجٹ میں ان اخراجات کو رکھ لیں مگر اب اس ایزادی کو اس رنگ میں پیش کیا گیا ہے کہ خلیفتہ امسیح کی منظوری سے دورانِ سال میں اخراجات میں یہ یہ زیادتی کی گئی ہے حالانکہ وہ خود بعض ضروری اخراجات چھوڑ گئے تھے اور انہوں نے بجٹ کو اپنی غلطی سے نامکمل رکھا تھا پس ان کا فرض تھا کہ یہ غلطی اپنی طرف منسوب کرتے مگر کہا یہ گیا ہے کہ خلیفہ المسیح کی منظوری سے دورانِ سال میں یہ اخراجات زیادہ کئے گئے ہیں.اس دفعہ بھی ایسا ہی واقعہ ہوا ہے کہ وہ زیادتیاں تو بجٹ میں کی گئی ہیں جن کا اس قانون کے ماتحت صدرانجمن احمدیہ کو اختیار نہیں تھا بلکہ اس کا فرض تھا کہ مشاورت میں منظوری حاصل کرتی اور پھر بجٹ میں زیادتی کرتی.مگر دوسری طرف اُن زیادتیوں کے ساتھ کوئی ایسا نوٹ نہیں دیا گیا جس سے معلوم ہو کہ وہ زیا دتیاں کیوں کی گئی ہیں.مثلاً ہمارا یہ قانون ہے کہ :- جس مد یا تفصیل وغیرہ میں کوئی بیشی یا غیر معمولی کمی صیغہ کی طرف سے تجویز کی جاوے تو اُس کے متعلق خانہ کیفیت میں وجہ نوٹ ہونی چاہئے.“ قواعد وضوابط صد ر انجمن احمدیہ صفحہ ۷۶)
خطابات شوری جلد دوم ۶۲۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء مگر اس قانون کا بھی کوئی پاس نہیں کیا گیا.چھ سات کا رکن ایسے ہیں جن کے گریڈ نیچے سے اُٹھا کر اوپر کر دیئے گئے ہیں مگر اُن کے ساتھ کوئی ایسا نوٹ نہیں دیا گیا جس سے معلوم ہوسکتا کہ انہیں یہ غیر معمولی ترقی کیوں دی گئی ہے.اسی طرح کئی جگہ بلا وجہ کی کر دی گئی ہے مثلاً ڈاک کا خرچ ہی بعض جگہ کم کر دیا گیا ہے.اب اگر کل میرے پاس ڈاک لائی جائے گی اور کہا جائے گا کہ ہم یہ ڈاک با ہر بھیجیں یانہ بھیجیں؟ تو کیا تم سمجھتے ہو کہ میں یہ کہوں گا کہ بیشک باہر ڈاک نہ بھیجو کیونکہ بجٹ کم کر دیا گیا ہے.لازماً ایسا ہی ہوگا کہ یہ اخراجات بڑھانے ہوں گے تا اس قسم کی دقتیں واقع نہ ہوں مگر سوال یہ ہے کہ پھر اس قسم کی بے معنی کمی کرنے کی صدر انجمن احمدیہ کو کیا ضرورت تھی.اسی طرح اور اخراجات اگر دیانتدارانہ طور پر کم کئے جاسکتے تھے تو انہیں کم کرنا چاہئے تھا مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ صدر انجمن احمدیہ نے اس دفعہ اخراجات میں ایسی ہی غیر معقول کمیاں کی ہیں.مثلاً لکھا ہے د و گرانٹ صیغہ جات برائے ادائیگی کرایہ.دو ہزار روپیہ“ یہ گرانٹ جو ادا ئیگی کرایہ کے لئے تھی پہلے چار ہزار روپیہ رکھی گئی تھی پھر میرے اس مطالبہ پر کہ بجٹ میں پندرہ ہزار روپیہ کی کمی کی جائے چار ہزار کو دو ہزار کر دیا گیا.اب سوال یہ ہے کہ اگر تو چار ہزار کو دو ہزار انہوں نے اس لئے کیا ہے کہ انہوں نے اپنی بعض جائیدادیں واگزار کر لی ہیں تو پہلے بجٹ میں چار ہزار روپیہ اس غرض کے لئے کیوں رکھا گیا تھا ؟ اور اگر چار ہزار روپیہ کرا یہ تھا تو سوال یہ ہے کہ اب وہ کرایہ دیں گے یا نہیں؟ اگر وہ چار ماہ کے بعد میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ ہم نے فلاں فلاں کا اتنا کرایہ دینا ہے تو کیا اُن کا یہ خیال ہے کہ میں انہیں کہوں گا کہ تم بیشک کرایہ نہ دو اور لوگوں پر ظلم کرتے رہو؟ پھر جبکہ انہوں نے لازماً کرایہ دینا ہے تو اس رقم کو چار ہزار کی بجائے دو ہزار کیوں کیا گیا ؟ اور اگر اُن کا یہ منشاء ہے کہ وہ لوگوں کو کرایہ نہیں دیں گے اور اس نقطہ نگاہ کے ماتحت انہوں نے گرانٹ میں کمی کی ہے تو یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی اپنے مہمان کا بٹوا چرا لے اور کہے کہ میری اتنی آمد بڑھ گئی ہے اگر اس قسم کا کوئی واقعہ میرے سامنے آئے تو لازمی بات ہے کہ مجھے یہی کہنا پڑے گا کہ چوری کا بٹوا واپس کرو اور اپنی آمد بڑھانے کے لئے یہ ناجائز طریق اختیار نہ کرو.اسی طرح جب یہ چار ہزار کرایہ تھا تو سوال یہ ہے کہ اس کرایہ کو دو ہزار کس طرح کر دیا گیا.
خطابات شوری جلد دوم ۶۳۰ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء مجھے نظارت بیٹ المال بتائے کہ یہ دو ہزار رقم انہوں نے کرایہ میں کس طرح کم کی ہے؟ آیا انہوں نے چار ہزار کرایہ دینا تھا یا نہیں ؟ اگر نہیں دینا تھا تو پہلے کیوں ظاہر کیا گیا کہ چار ہزار کرایہ دینا ہے اور اگر چار ہزار ہی دینا تھا تو اب اس میں دو ہزار کی کمی کس طرح ہو گئی ؟ خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب ناظر بیت المال اس کا جواب عرض کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تو حضور نے پھر فرمایا : - بتایا جائے کہ یہ کرایہ کس چیز کا ہے اور پہلے اس کے لئے کیوں چار ہزار روپیہ کی رقم رکھی گئی تھی اور اب دو ہزار روپیہ کس طرح رہ گئی ہے؟“ ناظر صاحب بیت المال :- حضور یہ ان جائیدادوں کا کرایہ ہے جو مکفول ہیں اور جن کے عوض انجمن نے روپیہ لیا ہوا ہے.حضور نے فرمایا : - " کیا اُن جائیدادوں کا جو کرایہ ہے وہ چار ہزار روپیہ سالانہ ہے؟ “ ناظر صاحب بیت المال : - غالباً اسی قدر ہے.حضور نے فرمایا: ” آیا یہ شکی بات ہے؟ میں پوچھتا ہوں کہ کرایوں کی صحیح رقم کیا بنتی ہے؟.ناظر صاحب بیت المال : - فوری طور پر کوئی جواب نہ دے سکے اس پر حضور نے فرمایا :- اصل بات وہی ہے جس کا میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں کہ انہوں نے تجویز یہ کی ہے کہ امانت میں سے روپیہ لے کر جائیداد کا ایک حصہ آزاد کرا لیں گے حالانکہ وہ آمد ہے اور آمد میں ہی دکھائی جانی چاہئے.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کسی کی آمد میں سے کچھ حصہ غائب کر لیا جائے.پندرہ ہزار آمد ہو تیرہ ہزار کی آمد دکھا دی جائے اور دو ہزار کسی اور جگہ صرف کر کے کہہ دیا جائے کہ اتنا خرچ کم ہو گیا ہے.“ اس موقع پر جناب ناظر صاحب بیت المال نے عرض کیا کہ جائیدادوں کو فک کرانے کے لئے امانت میں سے روپیہ نہیں لیا گیا بلکہ اُس قرض میں سے لیا گیا ہے جو سلسلہ کی ضروریات کے لئے حاصل کیا جاتا ہے اسی لئے خرچ میں اس جگہ کمی دکھائی گئی ہے.اس پر حضور نے فرمایا:- ”انہوں نے بتا دیا ہے گو ہے یہ بھی آمد میں سے کمی.مگر کہتے ہیں اس کے لئے ہم
خطابات شوری جلد دوم ۶۳۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء نے قرضہ لیا ہے.امانت میں سے نہیں لیا میں اس کی بعد میں تحقیقات کروں گا.پھر لکھا ہے گرانٹ انجمن ہائے برائے انتظام مقامی‘ اس میں ایک ہزار روپیہ کی کمی کی گئی ہے حالانکہ گزشتہ سال چھ ہزار گرانٹ رکھی گئی تھی اور سات ہزار ایک سو خرچ ہوا.اب گزشتہ سال کے بجٹ میں بھی ایک ہزار کی جو کمی کر دی گئی ہے یہ کس حکمت کے ماتحت کی گئی ہے؟ کیا وہ کسی نئی انجمن کی منظوری نہیں دیں گے یا کسی انجمن کی گرانٹ بند کر دیں گے؟ حالانکہ انہیں اس قسم کا کوئی اختیار حاصل نہیں.“ ناظر صاحب بیت المال اس کا کوئی جواب نہ دے سکے.حضور نے فرمایا: ” نظامت جائیداد والے بتائیں کہ وہ ادائیگی کرایہ کے لئے کتنی رقم سالانہ دیتے ہیں؟“ ناظم صاحب جائیداد نے ابھی جواب میں کچھ عرض نہیں کیا تھا کہ بابوعبدالحمید صاحب آڈیٹر نے عرض کیا کہ جو قرض جائیدادوں کو فک کرانے کے لئے دیا گیا ہے اُس کا کرایہ انجمن کی طرف سے پہلے کاٹا جا چکا ہے اس لئے یہ چار ہزار روپیہ کرایہ الگ ہے جس میں کوئی کمی نہیں ہو سکتی تھی.حضور نے فرمایا:- ناظر ان کو تقوی کی تلقین " اس طرح وہ تشریح جو ناظر صاحب بیت المال نے بتائی تھی پھر باطل ہوگئی کیونکہ کرایہ کی رقم زیادہ دینی پڑتی ہے اور بجٹ میں کم دکھائی گئی ہے.مجھے افسوس ہے کہ جس قسم کی کمی اس دفعہ بجٹ میں کی گئی ہے وہ تقویٰ کے بالکل خلاف ہے اور درحقیقت یہ خلیفہ پر جبر اور اُسے اپنی گھوڑی اور سواری بنانے والی بات ہے.میں اس قسم کے تمسخر اور کھیل کو ہرگز جائز نہیں سمجھتا اور انجمن کو تنفیہ کرتا ہوں کہ اگر وہ اسی طرح کام کرے گی تو میرا اور اس کا ہر گز تعاون نہیں ہو سکے گا.اگر وہ تقویٰ سے کام لیتے تو وہ اُن مدات میں کمی کرتے جن میں کمی کرنے کا انہیں جائز طور پر حق تھا.اور اگر کمی نہ کر سکتے تو کہہ دیتے کہ ہم سے تو کمی نہیں ہو سکتی آپ بتا دیں کہ کس کس جگہ کمی کی جائے ہم کمی کرنے کے لئے تیار ہیں.لیکن سال بسال وہ خرچ بڑھاتے اور باصرار بڑھاتے چلے جاتے ہیں مگر جب کمی کا وقت آتا ہے تو اُن چیزوں میں کمی کر دیتے
۶۳۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء خطابات شوری جلد دوم ہیں جن کے متعلق وہ جانتے ہیں کہ اُن میں کمی ہونا ناممکن ہے.جب ایک دفعہ یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ گریڈوں میں ہر قسم کی تبدیلی کا معاملہ شوریٰ میں پیش ہو کر فیصلہ ہوگا تو انہیں کس نے حق دیا تھا کہ وہ خود بخود اس کے متعلق فیصلہ کر دیتے.پھر جب میں نے ایک سوال کیا تو اُس کا جواب ایسے رنگ میں دیا گیا کہ میں بھی دھوکا میں آ گیا حالانکہ واقعہ یہ تھا کہ قرض کے روپیہ سے جائیداد فک کرانے کے نتیجہ میں جتنی کمی ہو سکتی تھی وہ پہلے ہی کی جا چکی تھی اب مزید کمی کسی صورت میں ہو ہی نہیں سکتی تھی.پھر یہ صاف بات ہے کہ جب کوئی شخص اپنے قرض کا مطالبہ کرے گا اور کہے گا کہ لاؤ میری رقم تو کیا میں اُس وقت یہ کہوں گا کہ سلسلہ بیشک اس کو لوٹ لے اور اُس کا روپیہ اُس کو واپس نہ کرے لازماً مجھے یہی کہنا پڑے گا کہ اُس کا روپیہ اُسے واپس کیا جائے.اور جب میں یہ کہوں گا تو وہ کہہ دیں گے کہ بجٹ میں تو گنجائش نہیں آپ بجٹ بڑھانے کی اجازت دے دیں.غرض وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ اخراجات میں وہ ایسی ہی کمی کر رہے ہیں جن کے متعلق مجھے مجبوراً دوبارہ اجازت دینی پڑے گی اور یہ کمی ہر گز کمی نہیں کہلا سکتی کیونکہ عملاً اگلے ہی مہینہ میں انہوں نے کہنا شروع کر دینا ہے کہ فلاں فلاں کام نہیں ہو سکتا اس کے لئے بجٹ میں اضافہ کیا جائے.یہ تقویٰ کے خلاف اور میرا منہ چڑانے والی بات ہے اور در حقیقت یہ سزا ہے اُس اختلاف کی جو ان دنوں بعض ناظروں کے درمیان ہو رہے ہیں اور یہ سزا ہے روحانیت کی کمی کی کہ بجائے اس کے کہ وہ اپنے دماغوں کو سلسلہ کے فائدہ کے کاموں میں لگاتے اور بجائے اس کے کہ خدا کو یاد کرتے اور اُس سے مدد مانگتے ، انہوں نے ایک عقلی کھلونا بنانے کی کوشش کی.چنانچہ خدا تعالیٰ نے ان کو سزا دی اور ان سے ایسی حرکات سرزد کرائیں کہ آج وہ اپنے نفس میں شرمندہ ہو رہے ہوں گے.اگر وہ تقویٰ سے کام لیتے ، اگر وہ خدا کو یا درکھتے اور اگر وہ سلسلہ کے مفاد کو اپنے نفس پر مقدم رکھتے تو آج ان کی یہ حالت نہ ہوتی بلکہ خدا ان کے لئے کوئی اورصورت پیدا کر دیتا.پس میں اُنہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ تقویٰ سے کام کریں ، اپنے اندر سلسلہ کا درد پیدا کریں اور ایسے افعال سے اجتناب کریں جن سے سلسلہ کا کام تمسخر بن کر رہ جائے.بلکہ ایسے طور پر جدوجہد کریں جو سلسلہ کے بوجھ کو کم کرنے والی ہو.بہر حال میں
خطابات شوری جلد دوم ۶۳۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء موجودہ صورت میں جماعت کے سامنے اس بجٹ کو پیش نہیں کر سکتا بلکہ صدر انجمن احمدیہ کو یہ بجٹ واپس کرتا ہوں اور اس قسم کے غلط بجٹ کو پاس کرنے کے لئے جماعت کے دوستوں کی رائے طلب کرنا میں بالکل فضول اور لغو خیال کرتا ہوں.صدرانجمن احمد یہ کا فرض ہے کہ وہ تیرہ دن کے اندر اندر یعنی ۱۷ ر ا پریل ۱۹۴۲ء تک اس بجٹ پر دوبارہ غور کرے.اُس کو کوئی حق حاصل نہیں تھا کہ وہ گریڈوں کو خود بخود بدل دے اور مختلف محکموں میں ایسی کمی کرے جسے کوئی شخص معقول قرار نہیں دے سکتا.اسے چاہئے کہ جو معقول کمی کی جاسکتی ہو وہ کمی کر کے بجٹ کو صحیح اور مکمل صورت میں دوبارہ پیش کرے.نیز اس بجٹ پر غور کرنے کے لئے میں ایک کمیٹی تجویز کرتا ہوں اور جماعت کے جن دوستوں کو اس کا ممبر مقرر کرتا ہوں اُن کا یہ فرض قرار دیتا ہوں کہ وہ پندرہ دن کے بعد یعنی انگلی اتوار کے گزرنے کے بعد جو اتوار کا دن آئے گا اُس دن قادیان میں جمع ہو جائیں اور سوائے اشد مجبوری کے کوئی دوست اس موقع پر قادیان آنے میں تساہل سے کام نہ لیں.اگر اس اتوار کو بجٹ کا کام ختم نہ ہو سکا تو اگلی اتوار کو کام ختم کر دیا جائے گا.بہر حال اس میں عدم شمولیت کے متعلق کسی قسم کا عذر نہیں سنا جائے گا اور سب کا فرض ہوگا کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے مقررہ اتوار کے دن قادیان پہنچ جائیں.اس کمیٹی کے لئے میں (۱).چوہدری نعمت خان صاحب (۲).پیراکبر علی صاحب (۳).خان بہادر نواب محمد الدین صاحب (۴).بابو عبدالحمید صاحب آڈیٹر (۵).میر محمد اسماعیل صاحب (۶).مرزا عبد الحق صاحب (۷).چوہدری عبداللہ خاں صاحب (۸).راجہ علی محمد صاحب اور (۹).ملک غلام محمد صاحب کو ممبر مقرر کرتا ہوں.سلسلہ کے تمام ناظر بھی اس کمیٹی میں شریک ہوں گے.آنے والی اتوار کے بعد جو اتوار کا دن آئے گا اُس دن یہ تمام دوست بجٹ پر غور کرنے کے لئے قادیان میں پہنچ جائیں.پرائیویٹ سیکرٹری صاحب اس کمیٹی کے سیکرٹری ہونگے ، اسی طرح وہ کمیٹی کے ہر ممبر کے سیکرٹری ہوں گے.ممبران بجٹ کی کاپیاں لے لیں اور اُن کے نزدیک جو بات دریافت طلب ہو یا جو معلومات وہ مزید حاصل کرنا چاہتے ہوں وہ پرائیویٹ سیکرٹری فوراً متعلقہ دفاتر سے حاصل کر کے انہیں پہنچا دیں.اگر صدرانجمن احمدیہ کو اس غرض کے لئے اپنے دفاتر
خطابات شوری جلد دوم ۶۳۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء چار یا پانچ گھنٹے تک وقت کے بعد بھی کھلے رکھنے پڑیں تو دفاتر کو کھلا رکھنا چاہئے اور اگر صدر انجمن احمد یہ انہیں فوری طور پر معلومات بہم نہ پہنچائے تو پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کا فرض ہے کہ اس امر کی میرے پاس فورار پورٹ کریں.چونکہ بجٹ میں جائیدادوں کا سوال بھی زیر غور آئے گا اس لئے ملک مولا بخش صاحب ناظم جائیداد کو بھی اِس میں بُلایا جائے گا.اسی طرح جن جن صیغوں کا سوال سامنے آئے گا ان صیغہ جات کے افسروں کو بلایا جائے گا.مثلاً پرنسپل جامعہ احمد یہ یا ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول یا ہیڈ ماسٹر نصرت گرلز سکول، مدرسہ احمدیہ کے ہیڈ ماسٹر تو خود ہی ناظر ہیں اس لئے وہ اُس وقت موجود ہی ہوں گے.اسی طرح تجارتی صیغہ جات ہیں ان میں سے جس محکمہ کا سوال پیش ہوگا اُس کے افسر کو بھی بلایا جائے گا.اب چونکہ اپریل کا مہینہ گزر رہا ہے اور اس بجٹ کی یکم مئی سے ضرورت پیش آتی ہے اس لئے میں امید کرتا ہوں کہ دوست مجھ سے اس بارہ میں اتفاق کریں گے کہ اس وقت مصنوعی بجٹ پیش کرنے کی بجائے صدر انجمن احمدیہ کو یہ بجٹ واپس کر دیا جائے اور پھر کمیٹی کے مشورہ کے بعد اسے پاس کیا جائے.“ نیز فرمایا: - پہلے مذکورہ بالا ممبر مشورہ کریں گے بعد میں ناظران کو بلا یا جائے گا.“ یہ بجٹ وقتِ مقررہ پر پیش ہوا اور بعد غور اور مناسب تبدیلی پاس کر دیا گیا.آخر میں حضور نے جماعت کو بعض ضروری نصائح فرمائیں اور دُعا کے ساتھ اجلاس ختم ہوا.(رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء) ل المنافقون :٢ النساء : ۶۰
خطابات شوریٰ جلد دوم ۶۳۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء ( منعقده ۲۳ تا ۲۵ / اپریل ۱۹۴۳ء) پ پہلاور دن جماعت احمدیہ کی تئیسویں مجلس مشاورت ۲۳ تا ۲۵ را پریل ۱۹۴۳، تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے وسیع ہال میں منعقد ہوئی.اس کا افتتاح کرتے ہوئے دُعا سے متعلق حضور نے فرمایا : - آج کے اجلاس کی کارروائی شروع کرنے سے پہلے سب دوست میرے ساتھ مل ،.کر دعا کر لیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں اور ہماری زبانوں اور ہمارے افکار پر اپنی رحمت نازل فرمائے اور ہمیں کسی ایسے خیال کو دماغ میں لانے کی توفیق نہ دے، کسی ایسے جذبہ کو دل میں وارد کرنے کی توفیق نہ دے اور کسی ایسے لفظ کو ہماری زبان پر لانے کا موقع نہ دے کہ جن خیالات ، جذبات اور الفاظ کے ذریعہ ہم اُس کی مرضی کے خلاف کام کر رہے ہوں بلکہ ہمارے دلی جذبات، ہمارے دماغی افکار اور ہماری زبان کے الفاظ سب اُس کے منشاء کے مطابق ہوں تا کہ آسمان پر جو اُس کی مرضی ہے ہم اس کو اس کے فضل سے زمین پر جاری کرنے والے ہوں.“ افتتاحی تقریر تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: - ہم آج اُن امور کے متعلق مشورہ کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں جو دورانِ سال میں ہمیں پیش آئے ہیں یا آئندہ پیش آنے والے ہیں.وہ ایجنڈا جو مجلس شوری کے سامنے
خطابات شوری جلد دوم ۶۳۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء پیش کیا گیا ہے حسب دستور اِس کے متعلق آج ہم سب کمیٹیاں تجویز کریں گے جو اپنی اپنی جگہ پر غور کر کے ان امور کے متعلق اپنی رائے ہمارے سامنے کل پیش کریں گی کہ اُن کے نزدیک ان تجاویز پر کس حد تک عمل کیا جانا چاہئے یا نہ کیا جانا چاہئے.میں نے گزشتہ شوریٰ کے اجلاسوں کے ممبران سب کمیٹیوں کے لئے ہدایات موقع پربھی دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ان کمیٹیوں میں ایسے ہی آدمیوں کے نام لینے چاہئیں جو اس کے لئے کافی وقت دے سکیں اور ان مضامین کے ساتھ اُن کو کچھ مناسبت ہو.پھر یہ امر بھی مد نظر رکھا جائے کہ ہر قسم کے لوگوں کو نمائندگی کا موقع دینا چاہئے.وہ گاؤں کے لوگ بھی ہوں وہ ان پڑھ بھی ہوں اور وہ مختلف صوبوں کے بھی ہوں.جہاں تک مضامین کے ساتھ مناسبت کا سوال ہے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس بارہ میں پڑھوں اور ان پڑھوں میں کس قدر امتیاز کی ضرورت ہے.میں نے دیکھا ہے بہت سے ان پڑھ ہوتے ہیں مگر انہیں سوچنے کی عادت ہوتی ہے اس لئے مختلف مضامین کے متعلق پہلے سے سوچی ہوئی تجاویز کو ایسی عمدگی سے پیش کر دیتے ہیں کہ کئی پڑھے لکھے آدمی جن کو سوچنے کی عادت نہیں ہوتی وہ اس عمدگی کے ساتھ تجاویز پیش نہیں کر سکتے.پس جب میں نے یہ کہا کہ ایسے ہی لوگوں کو سب کمیٹیوں کے لئے مقرر کرنا چاہئے جو ان سب کمیٹیوں کے کام کے ساتھ مناسبت رکھتے ہوں تو اس سے میری مراد ذہنی مناسبت ہے.یہ مراد نہیں کہ وہ گریجوایٹ ہوں یا کسی خاص حد تک تعلیم حاصل کئے ہوئے ہوں بلکہ اخلاص اور تقویٰ ہی ایسی چیزیں ہیں جو کسی شخص کو دینی کاموں کا اہل ثابت کرتی ہیں.اگر انسان کے اندر تقویٰ اور اخلاص پایا جاتا ہو تو وہ ایسی ایسی باتیں نکال لیتا ہے کہ وہ شخص جو پڑھا لکھا تو ہومگر تقویٰ اور اخلاص اُس کے اندر نہ ہو وہ نہیں نکال سکتا.ہمارا یہ روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ ایک شخص بظاہر ایک لفظ بھی پڑھا ہوا نہیں ہوتا مگر دین کے متعلق چونکہ غور کرنے کا عادی ہوتا ہے اور تقویٰ اور اخلاص اُس کے دل میں پایا جاتا ہے اس لئے وہ تقویٰ اور اخلاص اور اپنے دل کی محبت کی وجہ سے خدا تعالیٰ سے وہ علوم حاصل کر لیتا ہے جو دوسرا شخص با وجود ظاہری علوم رکھنے اور عالم کہلانے کے حاصل نہیں کرسکتا.اس کے علاوہ میں کوئی اور بات اس موقع پر نہیں کہنا چاہتا.جب ایجنڈا پیش ہوگا
خطابات شوری جلد دوم ۶۳۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء تو اس کے مناسب حال جماعت کے سامنے اپنے خیالات رکھتا چلا جاؤں گا.البتہ ایک بات میں ضرور کہنا چاہتا ہوں مگر وہ ایجنڈا پڑھنے کے بعد بیان کروں گا.اس دفعہ کے ایجنڈے میں نظارت علیا، نظارت تعلیم و تربیت، نظارت بیت المال، نظارت تألیف و تصنیف، نظارت امور عامہ اور نظارت بہشتی مقبرہ کی طرف سے تجاویز پیش ہیں.“ اس کے بعد حضور نے تمام ایجنڈا پڑھ کر سنایا.نظارت تعلیم و تربیت کی طرف سے ایک تجویز یہ پیش ہوئی تھی کہ قادیان میں دار الشیوخ کا موجودہ انتظام چونکہ قابلِ اعتراض ہے اس لئے مجلس مشاورت ایک کمیٹی مقرر کرے جس کے ممبران اس انتظام کو بہتر بنانے کی 66 تجویز پر غور کریں.“ اس کے متعلق حضور نے فرمایا : - " حسب اطلاع ناظر صاحب ضیافت، دفتر تعلیم و تربیت نے اطلاع دی ہے کہ اب کئی ماہ سے طلباء دار الشیوخ آٹا فراہم نہیں کرتے بلکہ اس کے لئے تنخواہ دار آدمی رکھا ہوا ہے.اس لئے اس تجویز کو ایجنڈا سے نکال دیا جائے.“ اسی طرح نظارت تعلیم و تربیت کی طرف سے ایک اور تجویز بھی پیش کی گئی جس کا ذکر گوایجنڈے میں نہیں تھا مگر ضمیمہ ایجنڈا کے طور پر اُسے الفضل ۱۳ را پریل ۱۹۴۳ء میں شائع کر دیا گیا تھا.وہ تجویز یہ ہے:.(الف) معلوم ہوا ہے کہ بعض افراد بے پردگی اور ( لڑکوں اور لڑکیوں کی ) مخلوط تعلیم کا رواج دے رہے ہیں اس کے انسداد کی تجاویز پر غور کرنے کے لئے مجلس شوری میں معاملہ پیش کیا جائے گا.“ ایجنڈا سنانے کے بعد حضور نے فرمایا: - نظارت اعلیٰ کی جو تجاویز ہیں اُن کے لئے میں دس ممبروں کی کمیٹی مقرر کرنا چاہتا ہوں.نظارت تعلیم و تربیت کی تجاویز کے لئے بھی دس آدمیوں کی سب کمیٹی مقرر کی جائے گی.دار الشیوخ کے متعلق جو تجویز ہے وہ ناظر صاحب ضیافت کے کہنے پر میں اُڑاتا نہیں بلکہ اسے بھی ایجنڈے میں شامل رکھتا ہوں.یہ تجویز لائل پور کی جماعت کی طرف سے آئی ہے.ہمیں معلوم نہیں کہ ناظر ضیافت کے اس جواب سے کہ اب دار الشیوخ کے طلباء خود آٹا فراہم نہیں
خطابات شوری جلد دوم ۶۳۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء کرتے بلکہ ایک تنخواہ دار آدمی رکھ لیا گیا ہے، اُن کی تسلی ہو گئی ہے یا نہیں.ممکن ہے اُن کے نزدیک بعض اور عیوب کی اصلاح بھی مد نظر ہو اس لئے سب کمیٹی اس تجویز پر بھی غور کرے گی.اگر لائل پور کی جماعت کی تسلی ہوگئی تو اس تجویز کو اُڑا دیا جائے گا ورنہ اس پر بحث کر کے دوستوں کی رائے معلوم کر لی جائے گی.نظارت تألیف و تصنیف کی تجویز کو پیش کرنے کی میں اجازت نہیں دیتا کیونکہ یہ خلاف قاعدہ ہے.میں نے بار بار بتایا ہے کہ مجلس شوری میں وہ معاملہ پیش کرنا چاہئے جس کے اخراجات کا لوگوں کے ساتھ تعلق ہو.جس امر کے متعلق جماعت پر کوئی ذمہ داری نہ ہو اُسے مجلس شوریٰ میں پیش کرنا بالکل فضول بات ہے.اس تجویز میں یہ کہا گیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حالات زندگی اور سلسلہ کے متعلق ضروری معلومات کا انگریزی میں خصوصاً اور دوسری زبانوں میں عموماً ترجمہ ہونا چاہئے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا ترجمہ ہونا چاہئے اور یہ کہ اس کے لئے دوستوں کی خدمات آنریری طور پر حاصل کی جائیں.میرے نزدیک یہ کوئی ایسی تجویز نہیں جسے مجلس میں پیش کرنے کی ضرورت ہو.اس کا تعلق محض ناظر صیغہ کے ساتھ ہے.اگر اُن کے نزدیک ایسا ہونا ضروری ہے تو انہیں اس پر فوری طور پر عمل شروع کر دینا چاہیئے ، انہیں کس نے منع کیا ہے کہ وہ ایسا نہ کریں.پس اس تجویز کو مجلس میں پیش کرنا وقت کو ضائع کرنے والی بات ہے.نظارت امور عامہ کے لئے بھی میں دس آدمیوں کی سب کمیٹی مقرر کرتا ہوں مگر میرے پاس نظارت امور عامہ کی تجویز کے متعلق ایک ترمیم آئی ہے بلکہ ترمیم کیا وہ تو ایک رنگ میں اس کی تنسیخ بن جاتی ہے اس لئے میں اسے بھی پیش کر دیتا ہوں.وہ ترمیم یا تنسیخ لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کی طرف سے ہے.وہ لکھتی ہیں تعجب ہے کہ حیوانات جو تھوڑی یا بہت قیمت پر خریدے جا سکتے ہیں اُن کے لئے تو نظارت امور عامہ کو یہ احساس ہوا ہے کہ ایک شفاخانہ حیوانات کھولا جائے کیونکہ گزشتہ سال حیوانات کی کافی تعداد بروقت علاج میسر نہ آنے کی وجہ سے ہلاک ہو گئی مگر مستورات جن کی جانیں کسی قیمت پر بھی دوبارہ خریدی نہیں جاسکتیں اُن کے لئے نظارت امور عامہ کو کوئی فکر نہیں حالانکہ ہر سال
۶۳۹ خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء بیسیوں عورتیں محض اس وجہ سے مرجاتی ہیں کہ قادیان میں علاج کے لئے کوئی لیڈی ڈاکٹر نہیں.وہ کہتی ہیں بھینسوں کے خریدنے کے لئے مردوں کو چونکہ روپیہ خرچ کرنا پڑتا ہے اس لئے امور عامہ کو شاید اُن کے بچانے کا فکر ہے مگر عورتوں کے لئے چونکہ روپیہ خرچ کرنا نہیں پڑتا اس لئے اُن کی جان بچانے کا انہیں کوئی فکر نہیں.وہ کہتی ہیں ہماری یہ ترمیم ہے کہ یا تو شفاخانہ حیوانات کی تجویز کے ساتھ ہی ہمارے لئے لیڈی ڈاکٹر کا بھی انتظام کیا جائے اور دونوں تجویزوں کو پاس کیا جائے اور اگر ایک تجویز کو ہی پاس کرنا ہے تو لیڈی ڈاکٹر رکھنے کی تجویز کو پہلے منظور کیا جائے اور حیوانوں کے شفاخانہ کا معاملہ ملتوی کر دیا جائے.نظارت بہشتی مقبرہ کی جو تجویز ہے کہ آئندہ ہر موصی کو اجازت دی جائے کہ وہ اپنا چنده براه راست فنانشل سیکرٹری مجلس کار پرداز قادیان کے نام بھیجے.یہ تجویز بھی درحقیقت صدر انجمن احمدیہ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے مگر چونکہ ممکن ہے اس طریق کو اختیار کرنے میں سیکرٹریان جماعت کو مشکلات ہوں اس لئے میں اسے پیش کرنے کی اجازت دے دیتا ہوں مگر اس کے لئے کسی الگ کمیٹی کی ضرورت نہیں.نظارت بیت المال کے لئے جو کمیٹی مقرر کی جائے گی وہی سب کمیٹی نظارت بہشتی مقبرہ کی تجاویز پر بھی غور کرے گی.نظارت بیت المال کی سب کمیٹی کے لئے میں ۲۱ بجٹ کے بارہ میں اہم ہدایات آدمی تجویز کرتا ہوں.مگر پیشتر اس کے کہ سب کمیٹیوں کے لئے ممبران کا انتخاب کیا جائے اور اس بارہ میں دوستوں سے مشورہ لیا جائے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس سال کا بجٹ پھر غلط بنایا گیا ہے.اس بجٹ میں غلطی یہ ہے کہ جب سلسلہ کا بار بڑھ گیا تو میں نے تجویز یہ کی تھی کہ ۳۶.۱۹۳۵ء کی آمد کے بجٹ سے ہمیشہ ۱۵ ہزار روپیہ کم خرچ کا بجٹ تجویز کیا جایا کرے.مگر باوجود میری تاکید کے کسی نہ کسی طرز پر صدر انجمن احمد یہ اپنے اخراجات کو بڑھاتی چلی گئی اور چونکہ ان بڑھائے ہوئے اخراجات کو بعد میں روکا نہیں جاسکتا اس لئے میں نے چند سال بعد یہ قانون بنا دیا کہ آئندہ اخراجات کا بجٹ ہمیشہ ۴۲.۱۹۴۱ء کے بجٹ سے ۱۵ ہزار کم رکھا جائے.۴۳.۱۹۴۲ء میں انجمن نے جب بجٹ بنایا تو گو اس میں پندرہ ہزار کی کمی کر دی گئی تھی مگر وہ اس قسم کی کمی تھی جس پر گزشتہ سال مجھے افسوس کے ساتھ صدر انجمن احمدیہ کو تنبیہ کرنی پڑی تھی.یعنی بجائے
۶۴۰ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء خطابات شوری جلد دوم اس کے کہ وہ غیر ضروری اخراجات کم کرتے انہوں نے ضروری اخراجات کاٹ کر پندرہ ہزار روپیہ کم کر دیا.اس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ گو کہ اس وقت انہوں نے پندرہ ہزار روپیہ کم کر دیا تھا مگر بعد میں مجھے ان اخراجات کو بڑھانا پڑتا اور اس طرح صدرانجمن احمد یہ ایک ہی وقت میں یہ سمجھ لیتی کہ اس نے میرے حکم کی تعمیل بھی کر دی ہے اور پندرہ ہزار روپیہ کم بھی نہیں کیا کیونکہ بعد میں مجبوراً مجھے وہ اخراجات بڑھانے پڑتے.میں امید کرتا تھا کہ اب کے صدر انجمن احمد یہ زیادہ ہوشیاری سے کام کرے گی مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس دفعہ پھر اس نے غلط بجٹ بنایا ہے اور وقت کی ضرورت اور اُن روکوں کو جو سلسلہ کے کاموں میں پہلے پیدا ہوتی رہی ہیں مد نظر نہیں رکھا.بجٹ ابھی آپ کے سامنے نہیں آیا ہوگا مجھے بھی کل ہی اس کی کاپی ملی ہے.اس کو دیکھ کر آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے.پچھلے سال کا بجٹ اخراجات معمولی ۲۹۱۸۳۱ تھا.مگر اس سال کا بجٹ اخراجات معمولی ۴۰۰۳۳۶ ہے.گویا ۴۳ ۱۹۴۲ء کے بجٹ سے بھی ایک لاکھ آٹھ ہزار پانچ سو پانچ روپیہ زیادہ ہے.اور بجائے اس کے کہ ۴۳ ۱۹۴۲ء کے بجٹ سے پندرہ ہزار روپیہ کم رکھا جاتا ایک لاکھ آٹھ ہزار روپیہ کی زیادتی کر دی گئی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری آمد بڑھ گئی ہے اور اس کو ہم بھی تسلیم کرتے ہیں لیکن اس بات کو مد نظر نہیں رکھا گیا کہ یہ آمد وقتی حالات کے ماتحت بڑھی ہے.مومن ایک سوراخ سے دو دفعہ کا ٹا نہیں جاتا.پچھلی جنگ میں بھی ہماری آمد بڑھ گئی تھی مگر غلطی سے اُس آمد کو مستقل آمد سمجھ کر انجمن نے اپنے اخراجات کو بہت بڑھا دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ ۱۹۲۰،۲۱ء میں ہماری مالی حالت اس قدر کمزور ہوگئی کہ ہمیں اپنے اخراجات میں بہت کچھ کمی کرنی پڑی.کچھ کا رکن بھی الگ کرنے پڑے اور تنخواہوں میں بھی تخفیف کرنی پڑی اس طرح پھر زور لگا کر چار پانچ سال کی جدو جہد کے بعد ہماری مالی حالت کسی قدر درست ہوئی.مگر پھر صدرانجمن احمدیہ نے اپنے اخراجات بڑھانے شروع کر دیے اور پھر ہماری مالی حالت پر ایک تزلزل کی کیفیت طاری ہو گئی.چنانچہ آخری دفعہ ۱۹۳۸ء میں تین سال کے لئے صدر انجمن کے کارکنوں کی ترقیات کو روک دیا گیا اور نہ صرف ترقیات کو روک دیا گیا بلکہ ان کی تنخواہوں میں سے تین سال مسلسل کٹوتی کی گئی.اسی طرح مالی تنگی کی وجہ سے تین مبلغین کی سالانہ زیادتی کو ملتوی کیا گیا، مبلغین کے دورے محدود کئے گئے اور
خطابات شوری جلد دوم ۶۴۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء اس طرح اخراجات کے بار کو ہلکا کرنے کی کوشش کی گئی تب کہیں جا کر ہماری مالی حالت درست ہوئی.پس یہ ترقی عارضی ہے اور اس ترقی کی وجہ سے اخراجات کو بڑھانے کی غلطی نہیں کرنی چاہئے.ریز روفنڈ کے لئے ہدایات انہیں چاہئے کہ بجائے اخراجات میں زیادتی کرنے کے اس عارضی ترقی کو خدا تعالیٰ کا خاص فضل سمجھ کر اپنے قرضوں کو اُتاریں اور آئندہ کے لئے اسی آمد میں سے ایک ریز روفنڈ قائم کر دیں تا کہ اگر حوادث زمانہ کے ماتحت کبھی ہماری آمد میں کمی ہو تو اس ریز روفنڈ سے پوری کی جا سکے.اگر اس رنگ میں اخراجات کو بڑھا دیا گیا تو نتیجہ یہ ہوگا کہ یہ اخراجات سلسلہ پر ایک مستقل بار بن جائیں گے اور اگر کسی وقت اِس آمد میں ساٹھ ستر ہزار کی کمی آگئی تو ان اخراجات کو برداشت کرنا بالکل ناممکن ہو جائے گا کیونکہ آمد کم ہو گی اور اخراجات زیادہ ہوں گے.پس اس وقت اخراجات کو بڑھانے کی کوئی تجویز میں منظور کرنے کے لئے تیار نہیں کیونکہ اگر ایسا کیا گیا تو ریز رو فنڈ اور قرض اُتارنے کی سکیمیں دونوں خطرہ میں پڑ جائیں گی.پس اس غرض کے لئے جو سب کمیٹی تجویز ہو گی اُس کے سامنے میں چند تجاویز رکھتا ہوں.ناظر صاحب بیت المال ان تجاویز کو نوٹ کر لیں اور کمیٹی کے ممبران کے سامنے پیش کر دیں.(1) میری پہلی تجویز یہ ہے کہ جہاں تک بجٹ کا تعلق ہے اس کے لحاظ سے میرا وہ قانون قائم ہے کہ پندرہ ہزار کی کمی ۴۲.۱۹۴۱ء کے بجٹ پر ہونی چاہئے.وہ۴۲.۱۹۴۱ء کا بجٹ سامنے رکھ لیں اور پھر اس بجٹ سے پندرہ ہزار روپیہ کی کمی کر کے نئے سال کا بجٹ تیار کریں.ہاں زائد اخراجات جن کی میری طرف سے اجازت دی جا چکی ہے وہ بعد میں اس میں جمع کر دیں.یہ زائد اخراجات چونکہ جنگ کی وجہ سے ہیں اس لئے ان اخراجات کو اصل بجٹ سے علیحدہ دکھانا چاہئے.جیسے سپلیمنٹری بجٹ ہوتا ہے تا کہ ہر شخص کو یہ معلوم ہوتا رہے کہ جنگ کے خاتمہ پر یہ اخراجات خود بخود ہٹ جائیں گے.(۲) میری دوسری تجویز یہ ہے کہ وہ یہ امر ہر وقت اپنے پیش نظر رکھیں کہ کم سے کم ڈیڑھ دو سال کی آمد کے برابر انہوں نے چند سالوں میں اسی آمد میں سے بچت کر کے
خطابات شوری جلد دوم ۶۴۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء ریز روفنڈ قائم کرنا ہے.جنگ کے ختم ہونے کے معاً بعد آمد کم نہیں ہو جاتی بلکہ دو تین سال میں آہستہ آہستہ کمی آ جاتی ہے اس لئے چار پانچ سال کے عرصہ میں صدر انجمن احمد یہ کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ چھ سات لاکھ روپیہ ریز روفنڈ کے طور پر جمع ہو جائے تا کہ اگر سلسلہ پر کسی وقت کوئی غیر معمولی بوجھ آپڑے تو ہم بغیر پریشان ہوئے اور بغیر جماعت کو پریشان کرنے کے اس بوجھ کو اُٹھا سکیں بلکہ ہمیشہ یہ اصول اپنے مد نظر رکھنا چاہئے کہ جب بھی آمد میں غیر معمولی زیادتی ہو اُس کا ایک معتد بہ حصہ جمع کیا جائے اور اس طرح ریز روفنڈ کو بڑھا دیا جائے یہاں تک کہ وہ اتنا مضبوط ہو جائے کہ اس ریز رو فنڈ کی آمد سے ہی سلسلہ کے زائد اخراجات پورے ہو سکیں.پس میری ایک تجویز تو یہ ہے کہ ۴۲.۱۹۴۱ء کے بجٹ سے پندرہ ہزار کی تخفیف پر ہر سال کے بجٹ کی بنیاد رکھی جائے اور جو زیادتیاں ہم نے منظور کی ہیں اُن کو عارضی زیادتی کے طور پر شامل کیا جائے نہ کہ مستقل زیادتی کے طور پر.مثلاً کارکنوں کے لئے میں نے خود حکماً صدر انجمن احمدیہ سے کچھ رقوم مقرر کرائی ہیں جو قحط الاؤنس کے طور پر اُن کو دی جاتی ہیں مگر یہ ایک عارضی خرچ ہے.جنگ ختم ہوئی اور حالات میں تبدیلی پیدا ہو گئی تو یہ خرچ بھی بند ہو جائے گا.پس ایسے اخراجات کو اصل بجٹ سے علیحدہ دکھایا جائے اور بتایا جائے کہ ہم نے اتنی رقم عارضی طور پر زائد کی ہوئی ہے.کارکنوں کے لئے جنگ الاؤنس کی ہدایت میں اس موقع پر یہ کہ دینا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ پنجاب گورنمنٹ نے اپنے ملازموں کے لئے نئے الاؤنس مقرر کئے ہیں اور وہ پہلے الاؤنسوں سے زیادہ ہیں.سب کمیٹی کو چاہئے کہ وہ گورنمنٹ کے اس اعلان کو بھی مدنظر رکھ لے اور اس امر پر بھی غور کرے کہ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ہم بھی اپنے کارکنوں کے الاؤنس بڑھا کر گورنمنٹ کے مقرر کردہ الاؤنسوں تک پہنچا دیں.۲۲ /اپریل ۱۹۴۳ء کے سول اینڈ ملٹری گزٹ میں اس کی تفصیلات شائع ہوئی ہیں.جو یہ ہیں کہ گورنمنٹ کی طرف سے آئندہ پندرہ روپے تنخواہ پر سات روپیہ ماہوار الاؤنس دیا جائے گا.پندرہ سے اوپر ہمیں روپیہ تنخواہ تک ساڑھے آٹھ روپے ماہوار الاؤنس دیا جائے گا.ہمیں سے تیس روپیہ تنخواہ تک ساڑھے نو روپے ماہوار الاؤنس دیا جائے گا.تمیں سے چالیس روپے تنخواہ تک ساڑھے دس روپیہ ماہوار الاؤنس دیا جائے گا.
خطابات شوری جلد دوم ۶۴۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء چالیس سے ساٹھ روپیہ تختو او تک بارہ روپے ماہوار الاؤنس دیا جائے گا.ساٹھ سے سو روپیہ تنخواه تک چودہ روپیہ ماہوار الاؤنس دیا جائے گا.اس کے بعد ۱۱۳ روپیہ تنخواہ تک ہر ایک کو اتنا الاؤنس دیا جائے گا کہ اُس کی تنخواہ مع الاؤنس ایک سو چودہ روپے ہو جائے.مثلاً ۱۰۱ والے کو ۱۳ روپے الاؤنس دیا جائے گا.۱۰۲ والے کو ۱۲.۱۰۳ والے کو ۱۱ ۱۰۴ والے کو ۱۰.۱۰۵ والے کو ۹.اور ۱۰۶ والے کو آٹھ.یہ الاؤنس ہمارے مقرر کردہ الاؤنسوں سے زیادہ ہیں.پس ممبران کمیٹی کو چاہئے کہ وہ ان کو بھی مد نظر رکھ لیں بلکہ میں ان کو یہاں تک اجازت دیتا ہوں کہ اگر وہ چاہیں تو اس امر پر بھی غور کر سکتے ہیں کہ کیوں نہ ہم اپنے کارکنوں کے الاؤنس گورنمنٹ کے مقرر کردہ الاؤنسوں سے بھی بڑھا دیں کیونکہ غلہ کی قیمت اس سال خاص طور پر بڑھ گئی ہے.عام خیال یہ ہے کہ ابتداء میں سات روپیہ من سے کم غلہ نہیں ملے گا اور پھر جلدی ہی آٹھ کو روپیہ تک چلا جائے گا.باقی جو ترقیات وغیرہ ہیں، ان کو سر دست رہنے دو.اگر اس وقت ہم افسروں کی تنخواہیں بڑھا دیں یا کلرکوں کی تنخواہیں بڑھا دیں یا اور کارکنوں کی تنخواہیں بڑھا دیں تو نہ قرض اُتر سکتا ہے اور نہ ریز روفنڈ قائم ہوسکتا ہے.ہم نے الاؤنس مقرر کر دیئے ہیں بلکہ اگر ضرورت ہو تو ان الاؤنسوں کو بڑھا بھی سکتے ہیں.پس اس وقت کارکنوں کو جو تکلیف ہے اُسے جنگ الاؤنس یا قحط الاؤنس کے ذریعہ دور کرنے کی کوشش کرو.یہ وقت نہیں کہ ہم کارکنوں کی تنخواہیں بڑھانے کا فیصلہ کریں.ہمیں کیا معلوم کہ جنگ کے بعد کیا حالات رونما ہونے والے ہیں.شاید وہی غلہ جو آٹھ روپے کو ملتا ہے دو روپے کو ملنے لگ جائے اور وہی کپڑے کا تھان جو آج ستر اسی روپے کو ملتا ہے دس گیارہ روپے کو مل جائے.پس ایسے وقت میں جب غیر معمولی حالات رونما ہوں اور اس کی وجہ سے آمد میں زیادتی ہو اپنی آمد کو مستقل آمد سمجھ لینا اور اس آمد پر قیاس کرتے ہوئے اپنے اخراجات کو بڑھا لینا یا تنخواہوں میں اضافہ کر دینا غلط طریق ہے اور اس وقت میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا.ہاں جو کارکنوں کو تکلیف ہے اُسے جنگ الاؤنس کے ذریعہ دُور کرنے کی صدر انجمن احمد یہ کوشش کر سکتی ہے.بلکہ اگر وہ اس امر پر غور کرنا چاہے کہ گورنمنٹ کے مقرر کردہ الاؤنسوں سے بھی زیادہ الاؤنس ہم اپنے کارکنوں کے مقرر کر دیں تو میری طرف سے اس میں بھی روک نہیں.ہم دیکھیں گے کہ اس کی اس تجویز
خطابات شوری جلد دوم ۶۴۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء کا کہاں تک سلسلہ کے حالات کے مناسب ہے مگر مستقل تنخواہیں بڑھانے کی میں اجازت نہیں دے سکتا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ گورنمنٹ نے تنخواہوں میں اضافہ کر دیا ہے مثلاً مدارس ہیں.مجھے معلوم ہوا ہے کہ گورنمنٹ نے مدرسین کی تنخواہوں میں اضافہ کر دیا ہے اور بعض دفعہ ہم جنہیں مدارس کے قوانین کا پورا علم نہیں ہوتا خیال کر لیتے ہیں کہ ہمیں بھی اپنے مدرسین کو ضرور اتنی ہی تنخواہیں دینی پڑیں گی جتنی گورنمنٹ نے مقرر کی ہیں.مگر میں نے سنا ہے یہ درست نہیں.یہ امر ہماری مرضی پر منحصر ہے کہ ہم اپنے مدرسین کی تنخواہوں میں اضافہ کریں یا نہ کریں.گورنمنٹ کا طریق عمل ہمیں مجبور نہیں کرتا کہ ہم ضرور مدرسین کی تنخواہیں اُسی قدر بڑھا دیں جس قدر گورنمنٹ نے بڑھائی ہیں.پس نظارت بیت المال کے متعلق جو سب کمیٹی مقرر ہونے والی ہے اُس میں ایک دو ایسے آدمی ہونے چاہئیں جنہیں سکولوں کی گرانٹوں وغیرہ کے متعلق تجربہ ہو مثلاً انسپکٹر آف سکولز ہوں اور وہ ہمیں بتائیں کہ آیا ہم اس بات کے پابند ہیں کہ مدرسین کی تنخواہوں کو بڑھا ئیں یا یہ امر ہماری مرضی پر منحصر ہے کہ ہم چاہیں تو ان کی تنخواہیں بڑھا دیں اور چاہیں تو نہ بڑھائیں.اگر ہم پابند ہیں کہ گورنمنٹ کے طریق کی پابندی کریں تب تو مجبوری ہے لیکن اگر ہم اس بات کے پابند نہیں تو اُن کو بھی قحط الاؤنس یا جنگ الاؤنس ہی ملنا چاہئے.قاعدہ کے طور پر اُن کی تنخواہیں بڑھانے کی تجویز نہیں ہونی چاہئے.تاکہ بعد میں یہ امر ہمارے لئے پریشانی کا موجب نہ ہو.گورنمنٹ نے مدرسین کی تنخواہوں میں جو اضافہ کیا ہے وہ محض موجودہ جنگی ضرورتوں کے پیش نظر کیا ہے کیونکہ گورنمنٹ کا یہ خیال ہے کہ بہترین پرو پیگنڈا سکولوں کے طلباء کے ذریعہ ہو سکتا ہے.اُستاد اُن کے سامنے جو بات بھی زور کے ساتھ بیان کریں وہ طالب علموں کے ذریعہ تمام ملک میں پھیل جاتی ہے.اخباروں میں بھی چرچا ہوتا رہا کہ سب سے زیادہ پروپیگنڈا کرنے والے اُستاد ہوتے ہیں.اگر ان کو خوش رکھا جائے تو وہ طالب علموں میں اچھا پرو پیگنڈا کر سکتے ہیں اور اس طرح تمام ملک پر اثر پڑتا ہے.چنانچہ گورنمنٹ نے اپنے پروپیگنڈے کا کام لینے کے لئے استادوں کی تنخواہیں بڑھانے کا فیصلہ کر دیا.پچھلی جنگ میں بھی ایسا ہی ہوا تھا.استادوں کی
خطابات شوریٰ جلد دوم ۶۴۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء تنخواہیں بڑھا دی گئی تھیں مگر بعد میں پھر ان کی تنخواہیں کم کر دی گئیں.چنانچہ مجھے ایسے استاد معلوم ہیں جو اڑھائی اڑھائی تین تین سو روپیہ تنخواہ لیتے تھے مگر جنگ کے بعد سوا سو اور ڈیڑھ سو روپیہ تنخواہ پر آگئے.پس گورنمنٹ اپنی مصلحت کے ماتحت تنخواہیں بڑھا گھٹا دیتی ہے اس لئے ہمیں اس معاملہ میں اُس کی پیروی کرنے کی ضرورت نہیں.ہاں جیسا کہ میں نے بتایا ہے کارکنوں کی موجودہ مالی تنگی کو قحط الاؤنس یا جنگ الاؤنس کے ذریعہ دُور کرنے کی کوشش ضرور ہونی چاہئے.اور اگر بعد میں ہمیں کسی وقت معلوم ہو کہ ہما را ریز روفنڈ قائم ہو گیا ہے، قرض اُتر گیا ہے، آمد میں بھی اضافہ ہے، مگر ملک کی حالت اچھی نہیں اور ہمیں اپنے کارکنوں کو آرام پہنچانے کی ضرورت کا احساس ہو تو ہم اُس وقت ان کی تنخواہ بھی بڑھا سکتے ہیں مگر یہ وقت نہیں کہ ہم ان کی تنخواہ بڑھانے پرغور کریں.پچھلی جنگ کے دوران میں بھی ہم سے یہ غلطی ہوئی تھی جس کے نتیجہ کے طور پر ایک لمبے عرصہ تک ہماری آمد میں مد و جزر کیفیت رہی.چنانچہ کبھی کارکنوں کو تخفیف میں لایا گیا ، کبھی تنخواہیں کم کی گئیں اور کبھی کٹوتیوں کا سلسلہ جاری کیا گیا.پس چونکہ ایک دفعہ ہم اس کا تلخ تجربہ کر چکے ہیں اس لئے آئندہ ہمیں اس تجربہ کو دوبارہ کرنے کی ضرورت نہیں.پس سب کمیٹی کے لئے ضروری ہے کہ وہ عام اخراجات کا بجٹ ۴۲.۱۹۴۱ء کے بجٹ سے پندرہ ہزار روپیہ کم رکھے.لیکن اِس قاعدہ پر اُن الاؤنسوں کا اثر نہیں ہو گا جو جنگ کی وجہ سے منظور کئے گئے ہیں یا اُس اضافے کا اثر نہیں ہوگا جو جنگ کی وجہ سے سائر خرچ میں ہو گیا ہے.مگر ایسی تمام زیادتیاں اصل بجٹ سے علیحدہ دکھانی چاہئیں ، خواہ وہ زیادتی سائر میں ہو خواہ قحط الاؤنس میں ہو.خواہ وہ زیادتیاں جو بعد میں وقتاً فوقتاً بطور مستقل سالانہ اخراجات کے میری منظوری سے بجٹ میں شامل کی جائیں.اس وقت تنخواہوں میں زیادتی کا سوال اُٹھانا بالکل عبث اور فضول ہے.جنگ کے بعد ان امور پر غور کیا جا سکتا ہے.اس وقت ہم اپنے کارکنوں کو قحط الاؤنس کے ذریعہ مدد دے سکتے ہیں اور یہ مدد ہمیں ضرور دینی چاہئے.
خطابات شوری جلد دوم ۶۴۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء دوسرا دن جماعتی عہدیداران کا انتخاب سب کمیٹی نظارت علیا کی رپورٹ میں یہ تجویز پیش ہوئی کہ:- جہاں چالیس یا اس سے زیادہ چندہ دہندہ ممبر ہوں وہاں کی جماعت کے امیر اور سیکرٹریوں اور محاسب اور آڈیٹر اور امین کا انتخاب بلا واسطہ نہ ہو گا بلکہ ایک مجلس انتخاب کے ذریعہ سے ہوگا“ اس تجویز پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کئی ممبران نے اپنی آراء پیش کیں.اس کے بعد حضور نے فرمایا: - اس وقت جو گفتگو ہوئی ہے یا دوستوں کی طرف سے مشورہ پیش ہوا ہے اس میں دو ترمیمیں ہیں ایک لجنہ اماءاللہ لاہور کی طرف سے کہ جو تجویز نظارت کی طرف سے پیش ہے وہ منظور نہ ہو بلکہ امیر کو حق دیا جائے کہ وہ عہدیداروں کو خود منتخب کیا کرے.دوسری ترمیم پیر صلاح الدین صاحب کی طرف سے ہے کہ معہدیداروں کا انتخاب تو امیر مقامی ہی کرے لیکن چونکہ اصولاً ذمہ داری امیر پر ہوتی ہے اس لئے اُسے یہ اختیار حاصل ہونا چاہئے کہ جب وہ کسی کو کام کرتا نہ دیکھے تو اُسے معطل کر دے اور اُس کی جگہ اور شخص کو مقرر کر کے نظارت علیا میں رپورٹ پیش کر دے.گویا اس تجویز کے متعلق دو ترمیمیں ہو گئی ہیں.جہاں تک میں نے دوستوں کی آراء کو سُنا ہے اس وقت جو گفتگو ہوئی ہے اس میں کوئی بات کسی دوست نے زائد اور بلا ضرورت نہیں کی اور وہ صحیح حد کے اندر رہے ہیں.بہر حال دونوں طرف سے اس وقت اہم باتیں بیان کر دی گئی ہیں اور اُمید ہے کہ دوستوں نے ان سب امور کو اپنے ذہن میں مستحضر رکھا ہوگا تا کہ رائے پیش کرتے وقت اُن کو آسانی رہے.لیکن پیشتر اس کے کہ دوستوں سے اس بارہ میں رائے لی جائے بعض باتوں کے متعلق میں اپنے خیالات کو ظاہر کرنا چاہتا ہوں تا کہ رائے دینے سے پہلے اگر کسی شخص کے دل میں کوئی خلش پائی جاتی ہو تو وہ دُور ہو جائے.
خطابات شوری جلد دوم ۶۴۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء با بو قاسم الدین صاحب سیالکوٹ نے یہ سوال اُٹھایا ہے کہ مجلس شوری کی پوزیشن ایی کلید باران کے تعلق ایک قاعدہ صدر انجمن احمد ہے انتخاب عہدیداران کا چلا آرہا ہے شوری کو صدر انجمن کے کسی قاعدہ میں ترمیم کرنے کا اختیار حاصل ہے یا نہیں؟ یہ ایک اہم معاملہ ہے جس کی وضاحت ضروری ہے اس لئے کہ یہ سوال حقیقت کو نہ سمجھنے وجہ سے پیدا ہوا ہے.اگر اس سوال کو بغیر توجہ کے چھوڑ دیا جائے تو اس سے کئی قسم کی غلط فہمیاں پیدا ہوسکتی ہیں.بات یہ ہے کہ مجلس شوری کبھی بھی کوئی فیصلہ نہیں کرتی اور یہ ایک ایسا امر ہے جسے متواتر بار بار ظاہر کیا گیا ہے اور بارہا بتایا جا چکا ہے کہ مجلس شوریٰ کوئی فیصلہ نہیں کرتی بلکہ مجلس شوری خلیفہ وقت کے مطالبہ پر اپنا مشورہ پیش کرتی ہے.پس مجلس شوریٰ مشورہ نہیں دیتی بلکہ قرآن کریم کے اس حکم کے مطابق کہ شاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ تُو لوگوں سے مشورہ لے، خلیفہ وقت لوگوں سے اُن کا مشورہ مانگتا ہے اس پر لوگ اسے مشورہ دیتے ہیں.اور اس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے خلیفہ وقت فیصلہ کرتا ہے کہ کونسی بات ہونی چاہئے اور کونسی نہیں.یہ نہیں ہوتا کہ مجلس شوری خود بخود کوئی فیصلہ کر دیتی ہو.پس جب یہ سوال ہو کہ کیا ہم صدر انجمن احمدیہ کے کسی قاعدہ میں ترمیم کر سکتے ہیں اور ہم سے مراد یہ لی جائے کہ کیا شوری کو یہ طاقت حاصل ہے یا نہیں؟ تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ شوری صدر انجمن کے مقابل میں ایک الگ اور مستقل نظام ہے جس کا اثر ایک دوسرے پر رد عمل کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور جو کسی اور واسطہ سے آزاد ہو کر مختلف امور کا فیصلہ کرتی ہے اور یہ خیال ایسا ہے جو بالبداہت باطل ہے.اس لئے کہ ”ہم“ کا کوئی وجود ہی نہیں جو براہ راست عمل کرے یا کسی رد عمل کا موجب بنے.اور اگر ہم سے مراد شوری لے لی جائے اور شوری کا انعقاد بصدارت خلیفہ وقت ہوتا ہے اور شوری تبھی کوئی مشورہ دیتی ہے جب اُس سے خلیفہ وقت کی طرف سے مشورہ مانگا جائے اِس لئے اس صورت میں ان الفاظ کے یہ معنے بن جائیں گے کہ کیا خلیفہ وقت یہ طاقت رکھتا ہے کہ وہ صدر انجمن احمدیہ کے کسی قاعدہ میں ترمیم کرے؟ اور یہ بات پیش کرنا بھی بالکل غلط ہے.غرض اس سوال کے دونوں پہلو غلط ہیں.نہ یہ درست ہے کہ مجلس شوری کوئی آزاد اور مستقل مجلس ہے جو صدر انجمن احمدیہ کے مقابل میں عمل یا رد عمل کرتی ہے.مجلس شوری ایسی کوئی مستقل چیز نہیں.
خطابات شوری جلد دوم ۶۴۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء شوری صرف مشورہ دیتی ہے اور مشورہ بھی اُس وقت دیتی ہے جب خلیفہ وقت اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اُس سے مشورہ مانگتا ہے.پس دوست اگر مشورہ دیتے ہیں تو محض اللہ تعالیٰ کے ایک حکم کی تعمیل میں ، سلسلہ کی ضروریات کو سب سے مقدم سمجھتے ہوئے ، نہ اس لئے کہ اُن کا وجود کوئی مستقل حیثیت رکھتا ہے اس لئے یہ کہنا کہ ہم کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں یا نہیں؟ بالکل غلط ہے.مجلس کوئی فیصلہ نہیں کرتی اُن معنوں میں جن معنوں میں مجالس قانون ساز فیصلہ کیا کرتی ہیں.اور اگر ہم" کے معنے مجلس شوریٰ کے نظام کے ہوں اور یہ نظام بصدارت خلیفہ وقت ہوتا ہے کیونکہ وہی لوگوں سے مشورہ مانگنے والا ہوتا ہے تو پھر اس کے معنے یہ بنیں گے کہ کیا خلیفہ وقت صدر انجمن احمدیہ کے کسی قاعدہ کو رڈ کر سکتا ہے یا نہیں ؟ اور یہ سوال بھی بالکل غلط ہے.خلیفہ وقت بہر حال بالا حیثیت رکھتا ہے اور وہ صدر انجمن کے قوانین میں ترمیم و تنسیخ کا کامل مجاز ہے.پس یہ سوال کسی کے دل میں خلش کا موجب نہیں ہونا چاہئے.پھر یوں بھی دیکھ لیا جائے کہ گو قواعد وضوابط میں یہ درج ہو یا نہ ہومگر ہمارا عملی نظام یہی ہے کہ مجلس شوریٰ میں کسی معاملہ کو پیش کرنے کی دوصورتیں ہوتی ہیں.اول باہر کی جماعتوں میں سے اگر کوئی دوست کسی تجویز کا پیش کرنا ضروری سمجھیں تو وہ تجویز محکمہ متعلقہ میں آجاتی ہے.اور پھر اُس محکمہ کے ناظر باقی ناظروں کے ساتھ مشورہ کرنے کے بعد کہہ دیتا ہے کہ ہم اس تجویز کے پیش کرنے کے حق میں ہیں.اس صورت میں صدر انجمن احمد یہ باہر سے آئی ہوئی تجویز کو اپنا لیتی ہے.اور وہ اُسے اپنی تائید کے ساتھ شوری میں پیش کر دیتی ہے.اگر زیر بحث تجویز اس طور پر پیش ہوتی ہے کہ صدر انجمن احمدیہ نے اس کو اپنا لیا ہے تو پھر بھی یہ سوال نہیں اُٹھایا جا سکتا کہ شوری صدر انجمن کے قاعدہ میں کسی ترمیم کا حق رکھتی ہے یا نہیں کیونکہ یہ وہ معاملہ ہے جسے صدر انجمن احمد یہ خود پیش کر رہی ہے.جس کے معنے یہ ہیں کہ وہ اپنے قاعدہ میں خود بھی کسی تبدیلی کی ضرورت محسوس کرتی ہے.دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ صدر انجمن احمد یہ اُس تجویز کو اپناتی نہیں.صدر انجمن احمدیہ چونکہ ایگزیکٹو باڈی ہے اور فیصلوں کا نفاذ کرنے والی انجمنیں بعض ذمہ داری کا بوجھ اُٹھانے
۶۴۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء خطابات شوری جلد دوم سے گھبراتی اور کتراتی ہیں اس لئے دوسرا قاعدہ ایسی تجاویز کے متعلق یہ ہے کہ وہ خلیفہ وقت کے پاس جاتی ہیں اور باوجود صدر انجمن احمدیہ کے رڈ کر دینے کے خلیفہ وقت اگر اُن تجاویز کا پیش ہونا ضروری سمجھتا ہے تو وہ حکم دیتا ہے کہ ان تجاویز کو مجلس شوری میں پیش کیا جائے کیونکہ اُس کے نزدیک وہ تجاویز ضروری ہیں اور گو صدر انجمن احمد یہ اُن تجاویز کو نہ اپنائے مگر خلیفہ وقت اپنے اختیارات سے حکم دے کر اُن کو جماعت کے نمائندگان کے سامنے لاتا ہے.اِس صورت میں بھی جو سوال اُٹھایا گیا ہے وہ بالکل غلط ہے کیونکہ خلیفہ وقت تو اُس تجویز کا پیش ہونا ضروری سمجھتا ہے مگر اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ کیا اس طریق سے صدر انجمن احمدیہ کے اختیارات میں دست اندازی تو نہیں ہو گی بہر حال ہمارے نظام کے مطابق مجلس شوری میں اُس وقت تک کوئی تجویز نہیں ہو سکتی جب تک صدر انجمن احمد یہ اُس کو اپنانہ لے یا خلیفہ وقت اُس کو پیش کرنے کا حکم نہ دے.بلکہ میری رائے تو یہ ہے کہ چونکہ اہم امور کا نفاذ کرنے والی انجمنیں بعض دفعہ اپنی ذمہ داریوں کی زیادتی کے خوف سے سُست اور غافل ہو جاتی ہیں اس لئے ہو سکتا ہے کہ وہ بعض ایسی تجاویز کو ر ڈ کر دیں جو اُس پر ذمہ داری کا بوجھ ڈالنے والی ہوں اور ہو سکتا ہے کہ خلیفہ وقت کے سامنے بعض دفعہ ایسی تجاویز پیش نہ ہوں اس لئے آئندہ کے لئے صدر انجمن احمدیہ کو یہ نوٹ کر لینا چاہئے کہ وہ تجاویز جو مجلس شوریٰ میں پیش ہونے کے لئے باہر سے دوستوں کی طرف سے آئیں اُن سب سے انجمن جن تجاویز کو رڈ کر دے وہ تمام تجاویز ہمیشہ مجلس شوری کے اجلاس میں نظارت علیا کی طرف سے سُنائی جانی چاہئیں اور یہ بھی بتانا چاہئے کہ کن وجوہ کی بناء پر اُن کو منظور نہیں کیا گیا.اس کا بھی مخفی طور پر فطرت پر ایک دباؤ پڑے گا اور لوگوں کو بھی معلوم ہوتا رہے گا کہ اُن کی تجاویز پر پورا غور کیا جاتا ہے.یہ نہیں ہوتا کہ بلا وجہ اُن کو نظر انداز کر دیا جائے.دوسرا سوال انہوں نے یہ اُٹھایا ہے کہ اگر اس تجویز کو منظور کر لیا جائے کہ معہد یداروں کا انتخاب ہمیشہ ایک مجلس انتخاب کے ذریعہ ہوا کرے تو لوگوں سے اُن کے ووٹ دینے کا حق چھینا جائے گا جو ایک نا مناسب امر ہے.میرے نزدیک یہ سوال بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے لیکن اگر میری اُن ہدایات پر جماعت ہمیشہ عمل کرتی ہے جو وقتاً فوقتاً میں دیتا رہتا ہوں تو
خطابات شوری جلد دوم پھر اس سوال کی بھی کوئی اہمیت نہیں رہتی.مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر ہم انتخاب کے تمام حقوق جماعت کے چند افراد کے ہاتھوں میں محصور کر دیں اور وہی مشورہ دینے کا حق رکھتے ہوں تو باقی جماعت عضو معطل کے طور پر رہ جائے گی اور اس کے اندر غور اور فکر کرنے اور معاملات کو تذ تر سے سلجھانے کی قوت یقیناً کم ہو جائے گی.پس اگر تو یہ صورت ہے کہ اس وقت ہم چند افراد نے اکٹھے ہو کر فیصلہ کر دینا ہے کہ انتخاب نمائندگان کا حق افراد سے لے کر ایک مخصوص جماعت کو دے دیا جائے جو افراد پر مشتمل ہو اور ہم یہ نہیں دیکھتے کہ جماعت کی عام رائے کیا ہے تو یقیناً اس سے کئی قسم کے خطر ناک نقائص پیدا ہو سکتے ہیں اور سوچنے اور غور کرنے کا معیار بھی یقیناً گر جائے گا.مگر ہمارے ہاں یہ دستور ہے کہ ایجنڈا جب جماعتوں میں جاتا ہے تو سب دوستوں کو پڑھ کر سُنا دیا جاتا ہے اور اُن کی آراء نمائندگان کی وساطت سے ہمارے سامنے پیش ہوتی ہیں.بیشک ہم نے نمائندگان کو یہ اجازت دی ہوئی ہے کہ وہ اپنی آزاد رائے بھی پیش کر سکتے ہیں لیکن اُن کا پہلا فرض یہی ہے کہ وہ جماعت کی رائے جس کے وہ نمائندہ ہیں پیش کریں.اسلام یہ اجازت نہیں دیتا کہ انسان اپنی رائے کا حق کلیۂ تلف کر دے مگر اسے یہ حق بھی حاصل نہیں ہوتا کہ وہ جماعت کی اکثریت کا مشورہ پیش نہ کرے حالانکہ اکثریت نے ہی اُسے نمائندہ بنا کر بھجوایا ہوتا ہے.(پس اگر جماعت کی اکثریت سے نمائندگان نے پوری طرح مشورہ لیا ہے اور اکثریت نے یہی رائے دی ہے.) کہ آئندہ ایک مجلس انتخاب کے ذریعہ سے عہد یداران مقرر ہوا کریں تو پھر یہ سوال جاتا رہے گا کہ لوگوں کے ووٹ دینے کا جو حق حاصل تھا وہ اس طرح چھین لیا جائے گا.مجھے یہ معلوم نہیں کہ دوستوں نے ہر جماعت میں ایجنڈا سُنایا ہے یا نہیں لیکن اگر جماعت کی اکثریت نے یہی رائے دی ہے تو پھر حق کو چھینے کا سوال کسی صورت میں بھی اُٹھایا نہیں جا سکتا.جو شخص خوشی سے اپنا حق دوسرے کو دے دیتا ہے اُس کے متعلق یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اُس کا حق چھین لیا گیا ہے.ہاں اگر جماعت کے مشورہ کے بغیر ہم ان کا حق ایک مجلس انتخاب کے سپر د کر دیتے ہیں تو یہ چیز یقیناً ایسی ہوگی جو اُن کا حق چھننے کے مترادف ہوگی.لیکن فرض کرو یہ مسئلہ ساری جماعت کے سامنے پیش کیا گیا تھا اور سب نے یا اُن کی اکثریت نے یہ مشورہ دیا تھا کہ
خطابات شوری جلد دوم ۶۵۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء آئندہ عہد یداران کا انتخاب ایک مجلس منتخبہ کے ذریعہ ہونا چاہئے تو یہ دوسروں کا حق چھیننا نہیں کہلائے گا بلکہ یہ کہا جائے گا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اپنا حق دوسروں کو منتقل کر دیا ہے.پس اگر واقعہ میں نمائندگان نے جماعت کے تمام دوستوں سے یہ بات پوچھ لی تھی اور پھر اکثریت نے اس تجویز کے حق میں اپنی رائے دی تھی تو پھر اس غرض کے لئے اگر ہر جماعت میں سے چند آدمی منتخب ہو جائیں تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ دوسروں نے اُن کا حق چھین لیا.ہاں اگر ایجنڈا دوستوں کے سامنے پیش نہیں کیا گیا تھا تو پھر بے شک یہ اعتراض ہوسکتا ہے کہ اس تجویز سے دوسروں کے حقوق پر اثر پڑتا ہے.بہر حال اس بات کے فیصلہ کے لئے کہ نمائندگان نے اپنی اپنی جماعتوں کے سامنے ایجنڈا پیش کیا تھا یا نہیں ، میں سب سے پہلے اسی بات کو لیتا ہوں.جن نمائندگان نے شائع شدہ ایجنڈا جماعت کے سامنے پیش کر دیا تھا اور پھر اکثریت نے یہ کہا تھا کہ تجویز معقول ہے بے شک ایک مجلس انتخاب 66 کے ذریعہ آئندہ عہدیداران منتخب ہوا کریں وہ مہربانی فرما کر کھڑے ہو جائیں.“ حضور کے اس ارشاد پر سات حلقوں میں مندرجہ ذیل نسبت سے دوست کھڑے ہوئے :- حلقہ نمبرا حلقہ نمبر ۵ حلقہ نمبر ۲ حلقہ نمبر ۳ حلقہ نمبر۴ ۲۹ ۱۹ ۱۴ حلقہ نمبر ۶ حلقہ نمبرے میزان جنہوں نے جماعتوں سے مشورہ لیا تھا.حضور نے فرمایا:- ۲۹ ۱۵ ۹ 117 اب یہ اندازہ لگانا ہے کہ جماعتی نمائندے اس وقت کتنے ہیں تا کہ یہ معلوم ہو سکے کہ کس نسبت سے دوست کھڑے ہوئے ہیں.چنانچہ جماعتوں کی طرف سے جس قدر 66 نمائندے آئے ہوئے ہیں وہ سب کھڑے ہو جائیں.“ حضور کے اس ارشاد پر تمام نمائندگان کھڑے ہو گئے.اور مردم شماری پر اُن کی تعداد مختلف حلقوں کے لحاظ سے ۲۲۸ معلوم ہوئی.تفصیل یہ ہے:.
خطابات شوری جلد دوم حلقہ نمبرا حلقہ نمبر ۲ حلقہ نمبر ۳ حلقہ نمبر ۴ حضور نے فرمایا:- ۳۹ ۴۶ ۳۸ ۶۵۲ حلقہ نمبر ۵ حلقہ نمبر ۶ حلقہ نمبرے میزان ۳۷ ۴۰ ۲۷ ۲۲۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء ۲۲۸ جماعتی نمائندے اس وقت موجود ہیں.مگر نمائندگان کی کل تعداد تقسیم ٹکٹ کے لحاظ سے ۲۹۳ ہے.جس کے معنے یہ ہیں کہ ۶۵ نمائندے اس وقت غیر حاضر ہیں.یہ بڑی بھاری غیر حاضری ہے جو قابلِ اصلاح ہے.اب جو مقامی نمائندے ہیں یا میری طرف سے مدعو ہیں وہ کھڑے ہو جائیں.یعنی وہ جو نظارتوں کی طرف سے مقرر ہیں یا میری طرف سے براہ راست اُن کو شامل ہونے کی اجازت دی گئی ہے.میری مراد مختلف محلوں کے نمائندوں سے نہیں بلکہ اُن لوگوں سے ہے جن کو میری طرف سے نامزد کیا گیا تھا.“ حضور کے اس ارشاد پر مندرجہ ذیل نسبت سے لوگ کھڑے ہوئے.۴۲ حلقہ نمبر ۳ ۴ حلقه نمبر ۱۲۵ حلقہ نمبر 11 گل میزان ۴۴ حلقہ نمبر ۱۳ حلقہ نمبر ۲ حلقہ نمبر ۶ حضور نے فرمایا:- ✗ گل تعداد ۸۵ تھی جس میں سے ۴۴ حاضر ہیں.ان کی حالت نمائندگان سے بھی زیادہ افسوسناک ہے.بہر حال ۲۲۸ میں سے ۱۶ یعنی اکثر نمائندے ایسے ہیں جو جماعتوں سے مشورہ لے کر آئے ہیں مگر چونکہ ایک حصہ ایسا بھی ہے جو جماعتی مشورہ لے کر نہیں آیا اس لئے میں یہ ہدایت کرتا ہوں کہ آئندہ تمام نمائندگان کو جماعتوں کا مشورہ لے کر آنا چاہئے اور پھر جب وہ مشورہ پیش کرنے لگیں تو پہلے جماعت کا مشورہ پیش کریں اور اگر اُن کی ذاتی رائے اُس کے خلاف ہو تو بعد میں وہ یہ بھی کہہ دیں کہ گو جماعت نے وہ مشورہ دیا تھا جسے میں نے پیش کر دیا ہے مگر میری ذاتی رائے یہ نہیں فلاں ہے.بہر حال جیسا کہ میں نے بتایا ہے جماعتوں سے مشورہ لینے کے بعد یہ سوال بالکل
۶۵۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء خطابات شوری جلد دوم اُڑ جاتا ہے کہ اس طرح لوگوں کا حق چھینا جاتا ہے کیونکہ جب جماعتیں خود یہ مشورہ دے دیں کہ ہمارا حق بعض اور کے سپرد کر دیا جائے تو یہ اُن کے حق کا چھینا نہیں کہلائے گا بلکہ صرف یہ سمجھا جائے گا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اپنے اختیارات بعض اور کے سپر د کر دیئے ہیں.ایک سوال اس کے متعلق مولوی سعد الدین صاحب نے اٹھایا ہے کہ اس سے نظام اُلٹ جاتا ہے کیونکہ صدر بھی تو ہیں آخر وہ کس طرح کام لیتے ہیں پس اس تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے.یہ بھی ایک غور کے قابل سوال ہے لیکن اس کو درست تسلیم کر لینے کی صورت میں ایک اور سوال بھی اُٹھتا ہے جس کو مد نظر رکھنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ اگر سوال ہو کہ صدر بھی تو کام چلا سکتے ہیں تو پھر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ امیر کی کوئی ضرورت نہیں.لیکن اگر باوجود صدر کے بعض مقامات پر امیر کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو یہ سوال اُڑ جاتا ہے کہ اس تبدیلی کی ضرورت نہیں صدر کام کے لئے موجود ہیں.اس صورت میں یہی کہا جائے گا کہ صدر بھی کام کرتے ہیں اور امراء بھی کام کرتے رہیں.کچھ عرصہ کے بعد جماعت دونوں کے کاموں کا موازنہ کر کے یہ فیصلہ کر سکے گی کہ وہ ان دونوں میں سے کس کا انتخاب اپنے لئے زیادہ بہتر سمجھتی.ہے.ایک سوال اس کے متعلق حکیم خلیل احمد صاحب مونگھیری نے اٹھایا ہے کہ یہ بات جماعت کی روح عمل کو نکال لینے کے مترادف ہے.اس کے متعلق چونکہ دوسرے دوستوں نے اپنی بحث میں کافی روشنی ڈال دی ہے میں اس کے متعلق کچھ کہنا نہیں چاہتا.ایک سوال اس کے متعلق یہ بھی کیا گیا ہے کہ اگر کام کے اہل آدمی امیر نے نہ بچنے بلکہ عام انتخاب کے ذریعہ سے اُن کو لیا گیا تو ایسے آدمی جو کام کے قابل ہوں گے وہ جماعتی کاموں میں حصہ لینے سے محروم رہ جائیں گے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ وہ انتخاب میں نہ آسکیں.میرے نزدیک یہ سوال ایسا ہے جو دوسری طرف بھی پڑ سکتا ہے.اگر نامزدگی کا طریق اختیار کیا جائے تو اس صورت میں بھی ہو سکتا ہے کہ امیر کی نظر اہل آدمی پر نہ پڑے یا وہ کسی اور وجہ سے اس کو اپنے ساتھ رکھنا مناسب نہ سمجھے اور اس کی بجائے کسی اور کو لے لے.آخر یہ کوئی ضروری تو نہیں کہ ہمیشہ اہل آدمیوں کو امیر کی طرف سے نامزد کیا جائے.ہوسکتا ہے
۶۵۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء خطابات شوری جلد دوم کہ امیر بھی اُن کو نامزد نہ کرے اور ہو سکتا ہے کہ وہ انتخاب میں بھی نہ آئیں.پس یہ اعتراض ایسا اہم نہیں جس کو مد نظر رکھا جا سکے لیکن ایک اور سوال جو نہایت اہمیت رکھتا ہے یہ اُٹھایا گیا ہے کہ اس سے جماعت کے کمزور طبقہ میں یہ احساس پیدا ہو جائے گا کہ ہم سے صرف چندہ مانگا جاتا ہے ہمیں اور کاموں میں دخل دینے کا حق نہیں دیا جاتا.میرے نزدیک یہ سوال گومعمولی نظر آتا ہے لیکن اصولی طور پر اگر ہم دیکھیں تو بہت اہم ہے اور اس کے دونوں پہلو اچھے بھی ہیں اور بُرے بھی.جہاں تک تعاون اور کام کے عمدگی سے چلنے کا سوال ہے یہ امر مد نظر رکھنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ امیر کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دیئے جائیں اور انتخاب میں ایسے ہی آدمی لائے جائیں جو کام کے اہل ہوں.مگر دوسری طرف جیسا کہ خود دوستوں نے سوال اُٹھایا ہے اس کا یہ نتیجہ بھی نکل سکتا ہے کہ جماعت کے ایک حصہ میں سے روح عمل مفقود ہو جائے اور وہ یہ سمجھنے لگ جائے کہ ہم سے صرف چندہ مانگا جاتا ہے عملی کاموں میں حصہ لینے کا ہمیں موقع نہیں دیا جاتا.اس کے علاوہ ایک اور چیز بھی ہے جس کو ہم کسی صورت میں نظر انداز نہیں کر سکتے اور وہ یہ کہ جہاں اس طریق سے آپ کا تعاون بڑھ جاتا ہے وہاں یہ بھی خطرہ پیدا ہو جاتا ہے کہ جماعت میں اختلاف کے باوجود تعاون کرنے کی جو روح پائی جانی چاہئے وہ زائل یا کمزور نہ ہو جائے.اس وجہ سے ہماری جماعت کے افراد ہمیشہ ایسے مقام پر رکھے جاتے ہیں کہ دوسرے کے ساتھ مل کر جہاں اپنی مرضی سے کام کرنے کے لئے تیار ہوں وہاں ان کی مرضی کے خلاف اگر کسی کے ماتحت اُنہیں کام کرنا پڑے تو اس کے لئے بھی وہ ہمیشہ تیار رہیں لیکن ایک امیر کو جب اختیار دے دیا گیا کہ وہ ہمیشہ اپنی مرضی کے آدمی جماعت میں سے منتخب کر لیا کرے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ مخالفت کے باوجود تعاون کرنے کی روح جماعت میں کم ہو جائے گی.ہماری کوشش یہ ہے کہ آہستہ آہستہ امارت کا سلسلہ ہر جماعت میں رائج کر دیا جائے.پس جب اس نظام کو وسیع کیا گیا اور امراء کو یہ اختیار دے دیا گیا کہ وہ اپنی مرضی سے عہدیداران کا انتخاب کر لیا کریں تو وہ ہمیشہ ایسے لوگوں کو ہی منتخب کیا کریں گے جو خوشی سے اُن کے ساتھ تعاون کرنے کے لئے تیار ہوں گے اور وہ یہ خیال کر لیں گے کہ یہ لوگ امیر کے ساتھ تعاون کرنے والے ہیں حالانکہ وہ امیر کے ساتھ تعاون نہیں کر رہے
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء ہوں گے بلکہ اپنی مرضی سے پیچھے چل رہے ہوں گے.قصہ مشہور ہے کہ ایک چوہے نے کسی اونٹ کی نکیل پکڑ لی اور کئی میل تک چلتا گیا.اونٹ بھی خاموشی سے اُس کے پیچھے چلتا رہا.یہاں تک کہ چلتے چلتے سامنے دریا آ گیا.اونٹ نے دریا کو دیکھا تو رُک گیا اور اُس نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا.یہ دیکھ کر چوہا کہنے لگا اب تک تو تم میری اطاعت کرتے آئے تھے یہ کیا ہوا کہ یہاں آ کر تم نے میری بات ماننے سے انکار کر دیا ؟ اونٹ کہنے لگا میں تمہاری اطاعت تو نہیں کر رہا تھا میری تو اپنی مرضی اس طرف آنے کی تھی تم نے یہ سمجھ لیا کہ میں تمہاری اطاعت کر رہا ہوں.اب آگے جانے کی میری مرضی نہیں اس لئے میں تمہارے ساتھ نہیں چلتا.اس قصہ میں یہی بتایا گیا ہے کہ کئی اطاعتیں ایسی ہوتی ہیں جو بظاہر تو اطاعتیں نظر آتی ہیں مگر در حقیقت اُن میں انسان کی اپنی مرضی اور رضا کا دخل ہوتا ہے.جب تک اس کے منشاء کے مطابق کام ہوتا رہتا ہے وہ چلتا چلا جاتا ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ اطاعت کر رہا ہے مگر جونہی اس کی طبیعت کے خلاف کوئی بات آجاتی ہے اُس کا تمام تعاون جاتا رہتا ہے اور وہ مخالفت کرنے لگ جاتا ہے.جس سے صاف پتہ لگ جاتا ہے کہ اُس کا تعاون اپنی مرضی کے لئے تھا اطاعت اور فرمانبرداری کا اس میں دخل نہیں تھا.پس اگر ہم یہ قاعدہ مقرر کر دیں کہ امراء ہی عہد یدار نامزد کیا کریں تو نتیجہ یہ ہوگا کہ امراء بہر حال ایسے ہی لوگوں کو نامزد کریں گے جو ان کے مزاج شناس ہوں گے اور جو اُن سے مل کر کام کر سکتے ہوں گے.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ امراء کو عہد یداروں کا تعاون تو حاصل ہو جائے گا مگر یہ روح جماعت میں نہیں رہے گی کہ اپنی طبیعت کے خلاف بات دیکھ کر بھی افسر کی کامل فرمانبرداری اور اطاعت کرنی چاہئے.دوسری طرف امراء میں یہ نقص پیدا ہو جائے گا کہ وہ لوگوں سے اپنے خلاف باتیں سننے کے عادی نہیں رہیں گے.اگر امیر کوئی حکم دیتا ہے اور جماعت میں سے کوئی شخص اس کو نہیں مانتا تو اُسے یہ احساس رہتا ہے کہ مجھے لوگوں میں اطاعت کا مادہ زیادہ سے زیادہ پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے لیکن اگر وہ ہمیشہ اپنے ڈھب کے آدمی نامزد کر لیا کرے تو اپنے خلاف باتیں سُننے کا وہ عادی نہیں رہے گا.حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں یہ فرمایا ہے.کہ مَنْ أَطَاعَ اَمِيُرِى فَقَدْ اَطَاعَنِى وَمَنْ عَطى أَمِيرِى فَقَدْ عَصَانِي جس
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی.وہاں آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اخْتِلَافُ أُمَّتِي رَحْمَةٌ " میری اُمت کا اختلاف رحمت ہے.آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ امیر قائم ہو جانیکی وجہ سے تم دنیا سے تمام اختلافات کو مٹا دو بلکہ یہ فرمایا ہے کہ امراء کے با وجود اختلافات کا رہنا امت محمدیہ کے لئے رحمت ہے.اگر یہ اختلافات گلیہ مٹ جائیں تو یہ امر رحمت کی بجائے مصیبت اور دکھ کا موجب بن جائے.پس آپ نے فرمایا کہ اس امر کو اچھی طرح سمجھ لو کہ اختلاف کا مٹ جانا رحمت نہیں بلکہ اختلاف کا قائم رہنا رحمت ہے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ تفرقہ اور شقاق اور لڑائی اور جھگڑا رحمت ہے.اگر یہ مفہوم ہوتا تو آپ فرماتے.الاخْتِلَافُ رَحْمَةٌ.اختلاف رحمت ہے.مگر آپ نے یہ نہیں فرمایا بلکہ فرمایا ہے اِخْتِلَافُ أُمَّتِی رَحْمَةٌ یعنی اس نظام کے ماتحت جو اسلام نے قائم کیا ہے میری اُمت کے لئے اختلاف رحمت کا موجب ہے.گویا ایک ہی وقت میں اختلاف اور اُسی وقت میں اطاعت یہ چیز ہے جو جماعتوں کی ترقی اور ان کی کامیابی کا ذریعہ ہوتی ہے.پس میرے نزدیک یہ نہایت ضروری ہے کہ ہم اس قاعدہ کو ایسے رنگ میں بدلیں کہ جس میں یہ دونوں پہلو مد نظر رہیں.میرے نزدیک یہی وہ طریق ہے جس پر عمل کرنا ہمارے لئے زیادہ مفید رہے گا.میں نے اپنی اس رائے کا مشورہ سے پہلے ہی اظہار کر دیا ہے.بعض دوست ایسے موقع پر اعتراض کر دیا کرتے ہیں کہ خلیفہ وقت جب پہلے اپنی کسی رائے کا اظہار کر دے تو پھر شوری کا مشورہ مشورہ نہیں رہتا کیونکہ لوگ مجبور ہوتے ہیں کہ خلیفہ وقت کی رائے کے مطابق رائے دیں، خواہ اُن کو اُس سے کیسا ہی اختلاف کیوں نہ ہو.مگر میں سمجھتا ہوں جماعت کی تربیت کے لئے ایسا ہونا ضروری ہے.میرے نزدیک جماعت کو اپنے اندر ایسا رنگ پیدا کرنا چاہئے کہ باوجود اس اقرار کے کہ وہ خلیفہ وقت کی کامل اطاعت کرے گی جب اُس سے مشورہ لیا جائے تو خواہ مشورہ لینے والا نبی ہی کیوں نہ ہو جماعت کا فرض ہے کہ وہ اپنی دیانتدارانہ رائے کا اظہار کر دے اور ہرگز کسی اور رائے سے متاثر نہ ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی ثابت ہے کہ آپ نے بعض مقامات پر پہلے اپنی رائے کا اظہار فرمایا اور پھر لوگوں سے مشورہ لیا.اس لئے کہ
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ یقین رکھتے تھے کہ جہاں تک رائے کا سوال ہے صحابہ رائے دیتے وقت ہر قسم کے اثرات سے آزا در ہیں گے اور یہ دیانتدارانہ رنگ میں اپنا مشورہ پیش کریں گے.اسی طرح میں بعض دفعہ اپنی رائے کا پہلے ہی اظہار کر دیا کرتا ہوں تا مشورہ دینے سے پہلے اُس کے مختلف پہلو جماعت کے سامنے آجائیں مگر اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ جب دوستوں سے رائے لی جائے تو اُن کا فرض ہے کہ وہ وہی رائے دیں جس پر اُن کے دل کو اطمینان حاصل ہو.محض اس لئے کہ ایک نبی نے یا خلیفہ وقت نے اپنی رائے کا اظہار کر دیا ہے، بلا وجہ اپنی رائے کو بدل لینا درست نہیں.ہاں اگر دلائل سن کر کسی شخص کی رائے واقعہ میں بدل گئی ہو تو اُسے کوئی شخص مجبور نہیں کر سکتا کہ وہ اپنی پہلی رائے ہی پیش کرے کیونکہ دلائل نے اُسے پہلی رائے پر قائم نہیں رہنے دیا.بہر حال اگر کوئی شخص دیانتداری سے اپنی رائے بدل لیتا ہے تو اُس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا کہ اُس نے اپنی رائے کو کیوں بدلا لیکن اگر کوئی شخص اپنی رائے کو نہیں بدلتا تو اُس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ سچائی کے ساتھ اپنی رائے پیش کر دے خواہ خلیفہ وقت اُس رائے کے خلاف اپنے خیالات کا اظہار کیوں نہ کر چکا ہو.یہ سوال چونکہ اصولی تھا اس لئے میں نے اپنے خیالات کا اظہار کر دیا ہے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ لوگ بھی ضرور یہی رائے دیں.آپ سے جب رائے پوچھی جائے تو آپ وہی دیں جس پر آپ قائم ہوں.ہاں اگر کسی نے اپنی رائے کو بدل لیا ہو تو وہ حق رکھتا ہے کہ تبدیل شدہ رائے کو پیش کرے اور اپنی پہلی رائے کو چھوڑ دے.اس تقریر کے بعد سب سے پہلے میں ترمیم کو لیتا ہوں.جو دوست اس ترمیم کے حق میں ہوں کہ عہدیداروں کی نامزدگی امیر کیا کرے.انجمن کا اب تک جو قاعدہ ہے اس کے مطابق انتخاب نہ ہو اور نہ ہی مجلس منتخبہ انتخاب کرے،صرف ایک امیر مقرر کر دیا جائے اور اُس کو یہ حق دے دیا جائے کہ وہ جس جس کو چاہے عہد یدار نامزد کر لیا کرے.جو دوست اس کے حق میں ہوں وہ کھڑے ہو جائیں.“ صرف سات دوست کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا:- جو دوست اس بات کے حق میں ہوں کہ صدر انجمن احمد یہ کے قاعدہ میں ترمیم کی جائے اور ایک مجلس منتخبہ کو عہدیداران کے انتخاب کا حق دیا جائے، وہ کھڑے ہو جائیں“
خطابات شوری جلد دوم ۲۰۴ دوست کھڑے ہوئے.پھر فرمایا: - وو جائیں.“ فیصلہ ۶۵۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء ” جو دوست اس بات کے حق میں ہوں کہ پرانا دستور ہی قائم رہے وہ کھڑے ہو ۶۶ دوست کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا : - ” مجھے اس رائے پر گو پوری تسلی نہیں مگر میں کثرتِ رائے کے حق میں فیصلہ کرتا ہوں کہ آئندہ جہاں چالیس یا اس سے زیادہ چندہ دہندہ ممبر ہوں، وہاں کی جماعت کے امیر و نائب امیر اور سیکرٹریوں اور محاسب اور آڈیٹر اور امین کا انتخاب بلا واسطہ نہ ہو گا بلکہ ایک مجلس انتخاب کے ذریعہ سے ہوگا.“ یتامی کی خبر گیری یہ تجویز پیش ہوئی کہ :- مجلس مشاورت کے دوسرے دن یعنی ۲۴ /۱اپریل ۱۹۴۳ء کو دوسرے اجلاس میں سب کمیٹی نظارت تعلیم و تربیت کی طرف سے قادیان میں دار الشیوخ کا موجودہ انتظام چونکہ قابلِ اعتراض ہے اس لئے مجلس مشاورت ایک کمیٹی مقرر کرے جس کے ممبران اس انتظام کو بہتر بنانے کی تجویز پر غور کریں.“ چند ممبران کی آراء پیش ہونے اور رائے شماری کے بعد حضور نے فرمایا: - جہاں تک نمائندگانِ جماعت کا تعلق ہے ان کی تعداد اس وقت ۴۵۰ کے قریب ہے میں نہیں سمجھ سکا کہ باقی دوست کیوں غیر حاضر ہیں بہر حال جماعت کی کثرتِ رائے کے مطابق میں فیصلہ کرتا ہوں کہ دار الشیوخ کو صدر انجمن احمدیہ کا ایک شعبہ قرار دیا جاتا ہے مگر یہ کہ اس کا نام کیا ہو، یتامی اور مساکین اکٹھے رہیں یا بتائی الگ رہیں اور مساکین الگ، اس شعبہ کے کیا قواعد ہوں اور اس کی مالی ضروریات کس طرح پوری ہوں؟ اس کے متعلق میں صدر انجمن احمدیہ کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ ایک مہینہ کے اندر اندر اس بارہ میں میرے پاس رپورٹ کرے کہ اس شعبہ کا کیا نام رکھا جائے.اس میں داخلہ کے کیا قواعد ہوں اور
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء اس کے اخراجات کا کیا انتظام ہو.سیٹھ محمد صدیق صاحب آف کلکتہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس غرض کے لئے ۱۰۰ روپیہ ماہوار دیا کریں گے.جَزَاهُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ میں اِس دوست کا شکر یہ ادا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ اس نیکی کی ان کو جزائے خیر عطاء فرمائے اور دنیا و آخرت میں اس کا بہتر سے بہتر بدلہ دے.لیکن بہر حال صدر انجمن احمد یہ کوکسی انفرادی امداد پر انحصار نہیں رکھنا چاہئے.اسے پورے طور پر غور کرنا چاہئے کہ مالی مشکلات جن کا اس شعبہ سے تعلق ہے کس طرح دور ہوسکتی ہیں.مانگنے کی ایک صورت دار الشیوخ کے متعلق جماعت میں زیادہ تر احساس اِس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ طلباء کے سپر دگھروں سے آٹا مانگ کر لانے کا کام کیا جاتا ہے جو بہت تکلیف دہ ہے.مجھے اس بارہ میں خود بھی ایک تجربہ ہے.میں ایک دفعہ گھر گیا تو میں نے ایک چھوٹے سے لڑکے کو کھڑا دیکھا.میں نے اُس سے پوچھا کہ تم کس طرح آئے ہو؟ اِس پر اُس نے کہا ” آٹا مانگنے“.اور جب اُس نے یہ کہا میں نے دیکھا کہ اُس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے.میں نے اُسے تسلی دی اور کہا کہ تم کچھ فکر نہ کرو آئندہ تم ہمارے ہاں آ کر کھانا کھا لیا کرو چنانچہ اس کے بعد میں اُس کے کھانے کا خرچ ایک لمبا عرصہ تک دیتا رہا.تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض طالب علم ایسے ہیں جن پر آٹا مانگ کر لانا انتہائی طور پر گراں گزرتا ہے.ممکن ہے کہ بعض طبائع میں یہ احساس نہ بھی ہو مگر پھر بھی اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اخلاق پر اس کا بُرا اثر پڑتا ہے اور شریعت نے جو مانگنے سے روکا ہے اس میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.گومیں اس بات کا قائل نہیں ہوں کہ انسان کو کسی صورت میں بھی دوسروں سے مانگنا جائز نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہر گاؤں والے پر تین دن کی مہمانی فرض ہے.جب یہ بات سنی تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! اگر وہ نہ دیں تو کیا کیا جائے.آپ نے فرمایا اُن سے مانگو اور اگر وہ پھر بھی نہ دیں تو اُن سے چھین لو، یہ تمہارا حق ہے.اب دیکھو شریعت نے مانگنا منع کیا تھا مگر اس مقام پر آکر جائز ہو گیا.میں تبلیغی حالات پر غور کرتے ہوئے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ بعض حالات میں تبلیغ کے لئے نہ صرف مانگنا مصر صحاب
خطابات شوری جلد دوم ۶۶۰ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء نہیں بلکہ ہماری تبلیغ کو زیادہ موثر اور نتیجہ خیز بنا سکتا ہے.اگر جماعت کے افراد مختلف ملکوں اور شہروں اور گاؤں میں نکل جائیں.دوسروں کے گھروں سے روٹی مانگ کر کھائیں اور رات دن تبلیغ کرتے رہیں تو کیا یہ ذلیل کام ہوگا ؟ وہ سوال ذلت کا موجب ہوتا ہے جو اپنے نفس کے لئے ہو لیکن جو سوال خدا اور اس کے دین کی اشاعت کے لئے ہو وہ ہرگز کسی مومن کے لئے ہتک کا موجب نہیں ہے بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ مومن ہوتا ہی ” منگتا ہے صبح ہوتی ہے تو مانگتا ہے، ظہر ہوتی ہے تو مانگتا ہے ، عصر ہوتی ہے تو مانگتا ہے، شام ہوتی ہے تو مانگتا ہے، پھر عشاء آتی ہے تو مانگتا ہے، آدھی رات کا وقت آتا ہے تو مانگتا ہے.پس خالی مانگنا بُری چیز نہیں بلکہ اُن خسیس جذبات کے ساتھ دوسروں سے کچھ مانگنا بُرا ہوتا ہے جن خسیس جذبات کے ساتھ سائل اور گدا گر بھیگ مانگتے ہیں.ورنہ خدا سے کچھ مانگنا ہر گز بُری بات نہیں.ہم خدا سے روزانہ مانگتے ہیں اور اس مانگنے میں ہی ہماری ساری عزت ہے.“ حضور نے اس موقع پر اعلان فرمایا کہ :- ,, ملک عبد الرحمن صاحب قصور والے وعدہ کرتے ہیں کہ وہ بتائی ومساکین کی امداد کے لئے پچاس روپے ماہوار دیا کریں گے.جَزَاهُ اللهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ اس اعلان کے بعد فرمایا:- ہمیں اس بات کو مد نظر رکھنا چاہئے کہ بعض دفعہ ایک رنگ کے الفاظ اُسی قسم کے دوسرے حصہ پر بھی بُرا اثر ڈال دیتے ہیں.اگر ہم مانگنے کو بُرا قرار دیں اور اس کی شناعت اور بُرائی پر انتہائی زور دیں تو اس سے لازماً یہ اثر بھی پیدا ہوسکتا ہے کہ جماعتی ضروریات کے لئے لوگوں سے کچھ مانگنا بھی بُری بات ہے حالانکہ یہ صحیح نہیں.جماعتی ضروریات کے لئے لوگوں سے روپیہ مانگنا اور اُن سے بار بار اس کا تقاضا کرنا قومی ترقی کے لئے نہایت ضروری ہوا کرتا ہے.مگر میں نے دیکھا ہے غرباء تو پھر بھی مانگ لیتے ہیں، اور امراء پر جماعتی ضروریات کے لئے لوگوں سے چندہ مانگنا نہایت ہی گراں گزرتا ہے اور بعض لوگ اسی بات کو طعنے کے طور پر پیش کر دیتے ہیں.مثلاً لوگوں میں لانگری کا ایک لفظ رائج ہے جو عام طور پر دوسرے کی تحقیر کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور اس سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ فلاں شخص ایسا ہے جیسے اُس نے مجاوروں کی طرح کسی کی قبر پر لنگر جاری کر رکھا ہو اور وہ اس
خطابات شوری جلد دوم ۶۶۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء ذریعہ سے لوگوں سے مانگتا رہتا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب وفات پا گئے تو صدر انجمن احمدیہ نے میرے سپر دلنگر خانہ کا کام کر دیا.خواجہ کمال الدین صاحب عام طور پر میرے کاموں کو پسند نہیں کیا کرتے تھے لیکن اگر میں کام نہ کرتا تو حضرت خلیفہ اول سے یہ شکایت کر دیتے کہ میاں ہماری مدد نہیں کرتے.بہر حال جب یہ کام میرے سپرد ہوا تو خواجہ صاحب نے حقارت کے طور میرے متعلق لانگری کا لفظ استعمال کرنا شروع کر دیا.چنانچہ جب بھی میں اُن سے ملتا کہتے آگئے لانگری صاحب.وہ سمجھتے کہ اس طرح میری خوب ہتک ہوتی ہے مگر میں پرواہ بھی نہ کرتا.آخر چند دن کے بعد وہ خود ہی تھک گئے اور اُنہوں نے اس لفظ کا استعمال ترک کر دیا.تو کچھ حقارت کے الفاظ ہوتے ہیں جن کا استعمال لوگ اپنے لئے ہتک کا موجب سمجھتے ہیں مگر ہمیں یہ امر اچھی طرح مد نظر رکھ لینا چاہئے کہ ہم اللہ کے بندے ہیں اور اللہ سے روزانہ سوال کرنا ہمارا کام ہے.پس جب ہم اللہ سے روزانہ مانگتے ہیں تو اُس کے سلسلہ کے لئے اگر ہمیں کچھ مانگنا پڑے تو اس میں ہمارے لئے ہر گز کوئی ہتک نہیں ہو سکتی.مانگنا وہ بُرا ہوتا ہے جس میں انسان اپنے لئے یا اپنے ایسے عزیزوں کے لئے مانگے جن کی ذمہ داری اُس پر ہو.دارالشیوخ میں رہنے والے چونکہ اپنے لئے دوسروں سے آٹا مانگتے ہیں، اس لئے یہ یقیناً ایسی بات ہے جو قابل اصلاح ہے.چنانچہ جن لڑکوں کو عزت نفس کا احساس ہوتا ہے اُن پر یہ بات سخت گراں گزرتی ہے.جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے کے ایک لڑکے سے میں نے اس کے متعلق سوال ہی کیا تو وہ رونے لگ گیا لیکن میں سمجھتا ہوں اب تک بھی دار شیوخ کی اہمیت ہماری جماعت نے صحیح طور پر نہیں سمجھی.انہیں جس امر سے بہت ہی تکلیف ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ لڑکے ہر جمعہ کو لوگوں کے گھروں سے آٹا مانگ کر لے آتے ہیں.اس طرح گھر بہ گھر پھر کر اُن کا آٹا مانگنا ہماری جماعت کے تمام افراد کے لئے سخت دکھ اور تکلیف کا موجب ہوا ہے لیکن انہوں نے کبھی اس حقیقت پر غور کرنے کی کوشش نہیں کی کہ اس کی ذمہ داری کس پر ہے اور یہ کہ اگر وہ غرباء اور یتامیٰ کے متعلق یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ وہ دوسروں کے گھروں سے آٹا مانگ کر لائیں تو انہیں اس بات کی بھی تو کوشش کرنی چاہئے کہ ہماری جماعت کے غرباء اور بیتامی و مساکین ایسی حالت میں نہ رہیں کہ اُنہیں اپنے نفس کے لئے لوگوں کے سامنے
خطابات شوری جلد دوم ۶۶۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء دستِ سوال دراز کرنا پڑے.میں نے یتامی و مساکین کی نگہداشت اور ان کی پرورش کے متعلق کئی بار کوششیں کیں مگر مجھے افسوس ہے کہ اب تک مجھے ان کوششوں میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی.ایک دفعہ میں نے ایک دوست کے سپرد میر محمد اسحاق صاحب کا قابلِ تعریف کام کئی یتامی و مساکین کئے، وہ دوست اب فوت ہو چکے ہیں میری غرض یہ تھی کہ اُن کی تربیت اور ان کی پرورش اور ان کی نگرانی کا انتظام کیا جائے مگر کچھ عرصہ کے بعد ہی مجھے رپورٹ پہنچی کہ وہ اور ان کے رشتہ دار سارا دن اُن یتامیٰ سے خادموں کی طرح کام لیتے رہتے ہیں.آخر میں نے فیصلہ کیا کہ ایسا انتظام کرنے کی بجائے جس میں یتامی و مساکین سے نوکروں کی طرح کام لیا جائے کیوں نہ میں صاف طور پر کہہ دوں کہ میں کوئی انتظام نہیں کر سکتا.ہاں روپیہ کی امداد مجھ سے جس قدر مانگی جائے وہ میں دینے کے لئے تیار ہوں.چنانچہ اس کے بعد وہ انتظام تو ڑنا پڑا اور میں اپنے طور پر روپیہ وغیرہ سے اُن کی امداد کرتا رہا لیکن میں سمجھتا ہوں جہاں ہماری جماعت مشترکہ طور پر یتامی و مساکین کی خبر گیری میں ناکام رہی ہے وہاں میر محمد اسحاق صاحب نے اس میں کامیابی حاصل کر لی اور انہوں نے سو ڈیڑھ سو ایسے غرباء اور یتامی و مساکین کو جن کے کھانے پینے اور لباس اور رہائش وغیرہ کا کوئی انتظام نہیں تھا ، اپنی نگرانی میں رکھ کر ایسے رنگ میں اُن کی تربیت اور تعلیم کا کام کیا جو نہایت قابل تعریف ہے.میر صاحب نے جن جن مشکلات میں یہ کام کیا ہے اُن کو کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.وہ مشکلات یقیناً ایسی ہیں جو اُن کے کام کی اہمیت کو اور بھی بڑھا دیتی ہیں.میں سمجھتا ہوں انہوں نے اتنے سال کام کر کے جماعت کے اندر ایک بیداری پیدا کر دی ہے اور اب جماعت کے افراد کو بھی محسوس ہونے لگ گیا ہے کہ اُنہیں یتامی و مساکین کی خبر گیری کرنی چاہئے اور گو اس کا احساس انہیں اس وجہ سے پیدا ہوا کہ یتامیٰ اپنے لئے آٹا مانگ کر لاتے ہیں مگر بہر حال میں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ یتامیٰ کے فاقوں نے ہماری جماعت کے اندر جو احساس پیدا نہ کیا وہ احساس اُن کے بھیک مانگنے نے پیدا کر دیا.اب ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس انتظام کو جاری رکھیں اور ایسے رنگ میں جاری رکھیں کہ یہ کام
خطابات شوری جلد دوم ۶۶۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء ہمارے لئے ثواب اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کا موجب ہو.ایسا نہ ہو کہ ہم کسی کوتا ہی کا ارتکاب کر کے اس کی ناراضگی کے مورد بن جائیں.میں نے اس کے لئے ایک کمیٹی مقرر کرنے کی ہدایت دے دی ہے جو اپنے وقت پر تجاویز پیش کرے گی لیکن میں سمجھتا ہوں یتیم کی خدمت اور اُس کی صحیح رنگ میں تعلیم و تربیت اتنا اہم کام ہے کہ کوئی جماعت جو زندہ رہنا چاہتی ہو وہ کسی صورت میں بھی اس کو نظر انداز نہیں کر سکتی.یتامی کے بارہ میں دکھ کا اظہار مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یتامی کی خدمت اور اُن کی پرورش کا احساس اس زمانہ میں لوگوں کے اندر بہت ہی کم پایا جاتا ہے.الفاظ میری زبان سے نہیں نکلتے بلکہ شرم سے میری زبان مفلوج ہو جاتی ہے یہ کہتے ہوئے کہ مجھے اب تک ایک مثال بھی ایسی نہیں ملی کہ ہماری جماعت میں سے کسی نے یتیم پروری کی ہو.اور جب میں یہ کہتا ہوں کہ مجھے ایک مثال بھی ایسی نظر نہیں آئی تو میں اپنے آپ کو بھی مستقلی نہیں کرتا.میں نے کئی دفعہ کوشش کی ہے کہ میں اپنے گھر میں کسی یتیم بچے کو رکھوں اور اُس کی پرورش کروں.میں اُس کے کھانے اور اُس کے پینے اور اُس کے کپڑے وغیرہ کا خرچ بھی دیتا رہا مگر کچھ عرصہ کے بعد جب میں نے دیکھا تو مجھے وہ یتیم بچہ گھر میں ایک ملازم کی شکل میں نظر آیا اور میں نے اس سے وہی سلوک ہوتے دیکھا جو ایک ملازم سے کیا جاتا ہے اس لئے میں نہیں کہہ سکتا کہ میں نے ایک یتیم کو بھی پالا ہے.میں یہ تو کہہ سکتا ہوں کہ میں نے کئی یتیموں کو کپڑے دیئے ، میں یہ تو کہہ سکتا ہوں کہ میں نے کئی یتیموں کو روٹی دی ، میں یہ تو کہہ سکتا ہوں کہ میں نے کئی تیموں کو پڑھنے کے لئے کتابیں خرید کر دیں، میں یہ تو کہہ سکتا ہوں کہ میں نے کئی قیموں کی اپنی رگرہ سے فیسیں ادا کیں، میں یہ تو کہہ سکتا ہوں کہ میں نے کئی یتیموں کو تعلیم دلوائی مگر میں یہ نہیں کہ سکتا کہ میں نے کسی ایک یتیم کو بھی پالا ہے کیونکہ اگر وہ بورڈنگ میں رہا تو اس کی تربیت میں نے نہیں کی میں نے صرف اُس کے اخراجات کے لئے روپیہ دیا.اگر وہ گھر میں رہا تو میں نے اُسے ہمیشہ ایک نیم ملازم کی حیثیت میں دیکھا.میں اُن لوگوں کو مستی کرتا ہوں جو کسی کو لے پالک بنا لیتے ہیں وہ بالکل اور چیز ہے مگر یہ کہ اپنے بچے موجود ہوں اور پھر کسی یتیم بچے کو اپنے بچوں کی طرح پالا جائے اور اُس سے وہی سلوک کیا جائے جو اپنے
خطابات شوری جلد دوم ۶۶۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء بچوں سے کیا جاتا ہے اس کی ایک مثال بھی اب تک میں نے نہیں دیکھی.نہ اپنے گھر میں اور نہ جماعت کے کسی اور دوست کے نمونہ میں.سورۃ الضحیٰ ایک ایسی سورۃ ہے جسے میں روزانہ التزام کے ساتھ عشاء کی نماز میں پڑھا کرتا ہوں.اس سورۃ کے پڑھتے ہوئے جب میں اس آیت پر پہنچتا ہوں کہ آخر يجدك يتيما فادى تو میرے دل میں احساس پیدا ہوتا ہے کہ خدا نے آلسفر يجدك يتيما فادی کہہ کر ہمیں اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ دیکھو تمہارا رسول بھی یتیم رہ گیا تھا اگر تمہارے دل میں اپنے رسول کی کوئی عزت ہے تو تمہیں بھی یتامی کی پرورش اور ان کی نگہداشت کا ہمیشہ خیال رکھنا چاہئے مگر اب تک میں جماعت کے اندر یہ احساس کامل طور پر پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوا.اگر ہماری جماعت کے ہر فرد کے اندر وہ احساس موجود ہو جو ایک زندہ قوم کے افراد کے دلوں میں پایا جانا چاہئے تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس کے لئے ہمیں کسی یتیم خانہ قائم کرنے کی ضرورت ہو.ہر ہمسایہ اپنے مرنے والے بھائی کے بچے شوق سے پالنے کے لئے تیار رہے گا اور وہ سمجھے گا کہ اگر میں اپنے بھائی کے بچوں کی پرورش کروں گا تو اللہ تعالیٰ میرے بچوں کو بھی ضائع ہونے سے محفوظ رکھے گا.مجھے تعجب آتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ بُھول جانے والی چیز وہی ہے جو سب سے زیادہ یقینی ہے.لوگ موت کو بھول جاتے ہیں حالانکہ موت ہی وہ چیز ہے جس کے یقینی ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یتامی کی پرورش کے متعلق اسی رنگ میں توجہ دلائی ہے.کیا تمہیں خیال نہیں آتا کہ اس امر کا ہر وقت امکان موجود ہے کہ تم مرجاؤ اور اپنے بچوں کو یتیم چھوڑ جاؤ اور جب کہ ایسا امکان تمہارے لئے موجود ہے تو تم کیوں یتامی کی پرورش کی طرف خیال نہیں رکھتے.کیا اتنی موٹی بات بھی تمہاری سمجھ میں نہیں آتی کہ جو سلوک تم دوسروں کے یتیم بچوں سے کر رہے ہو وہی کل تمہارے مرنے پر تمہارے بچوں کے ساتھ ہو سکتا ہے.پھر کیوں اُن کی پرورش کا کوئی مستقل انتظام نہیں کر دیتے تا کہ تمہارے بچے بھی محفوظ رہیں اور دوسروں کے بچے بھی محفوظ رہیں.یتامی کی پرورش قوم کو نڈر بناتی ہے دیکھو ہم میں سے ہر شخص وہ ہے جس کے بچے یتیم ہونے کے خطرہ میں ہیں مگر اس کے
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء باوجود ہم یتامیٰ کی طرف کبھی پوری توجہ نہیں کرتے حالانکہ یتامیٰ کی پرورش ہی ایک ایسی چیز ہے جو قوم کو مضبوط اور بہادر اور نڈر بنایا کرتی ہے.اگر ایک بچہ یتیم ہو اور دس آدمی اُس یتیم کی پرورش کے لئے آگے بڑھیں اور کہیں کہ اس بچہ کو ہمارے سپرد کیا جائے ہم اپنے بچوں کی طرح اس کی پرورش کریں گے اور اس کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھیں گے تو وہ قوم کبھی مٹ نہیں سکتی، وہ قوم کبھی بزدل نہیں رہ سکتی.دنیا میں انسان اپنی موت سے کبھی اتنا نہیں گھبرا تا جتنا اس خیال سے گھبراتا ہے کہ اُس کی بیوی بیوہ اور اُس کے بچے یتیم رہ جائیں گے.اگر ایک ہزار بُزدل ہوں تو اُن ہزار میں سے پندرہ صرف اپنی موت کے خوف کی وجہ سے بُزدل ہوں گے لیکن باقی سب ایسے ہی ہوں گے جو اپنی بیویوں کی بیوگی اور اپنے بچوں کے یتیم ہونے کی وجہ سے موت سے ڈرتے ہو نگے.وہ روزانہ اپنی آنکھوں سے یہ نظارہ دیکھتے ہیں کہ ایک شخص مر گیا اُس کے بچے یتیم رہ گئے.ہمسایہ آیا اور اُن بچوں کو لے گیا مگر حالت یہ ہے کہ وہ بات بات پر اُن کو جھڑکتا ہے، بات بات پر اُن کو تھپڑ مارتا ہے، کبھی بید کی چھٹڑیوں اور کبھی ٹوٹ کی ٹھوکروں سے ان کی تواضع کرتا ہے.لوگ اِن حالات کو دیکھتے ہیں تو وہ اپنے دلوں میں کہتے ہیں ہم مر تو جائیں مگر کیا کریں کہ اگر مر گئے تو یہی حال ہمارے بچوں کے ساتھ بھی ہوگا.اگر قوم میں سے یتیم کے ساتھ بدسلوکی کا احساس مٹا دیا جائے تو ساتھ ہی موت کا خوف لوگوں کے دلوں میں سے جاتا رہے گا.اور پھر یہ سوال بھی مٹ جائے گا کہ اس غرض کے لئے کوئی یتیم خانہ ہونا چاہئے کیونکہ بچے کی تربیت گاہ عورت کی گود ہے، بچے کی پرورش گھر کی چار دیواری میں ہوا کرتی ہے، کوئی بڑے سے بڑا یتیم خانہ بھی اُن کی تعلیم اور پرورش کا صحیح انتظام نہیں کرسکتا.عربوں میں یہ خوبی پائی جاتی تھی کہ وہ یتامیٰ کا خاص طور پر خیال رکھتے تھے.چنانچہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگوں نے اس عمدگی کے ساتھ یتامی کی پرورش کی کہ بڑے ہو کر وہ لوگ سمجھ ہی نہیں سکے کہ اُن کا باپ کوئی اور تھا یا اُن کی ماں کوئی اور تھی.یہ احساس اگر قومی طور پر تمام افراد میں پیدا ہو جائے تو یتامیٰ کا بوجھ بھی نہ رہے اور اُن کی پرورش بھی اعلی پیمانہ پر ہو جائے.زندوں کی تعداد ہمیشہ مرنے والوں کی تعداد سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے.اس صورت میں ایک ایک یتیم کے لئے ہیں میں گھرانوں کی ڈیوڑھیاں
خطابات شوری جلد دوم ۶۶۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء کھلی ہوں گی اور وہ خوشی سے ان کی تربیت کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے.ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ جماعت کے اندر یہ احساس پیدا کر دیا جائے کہ یتیم کی پرورش، یتیم کی پرورش کرنا نہیں بلکہ اپنی اور اپنے بچوں اور اپنی قوم کی پرورش کرنا ہے.بغیر اس احساس کے کوئی قوم حقیقی رنگ میں قربانی نہیں کر سکتی اور بغیر اس احساس کے کوئی قوم صحیح معنوں میں بہادر نہیں بن سکتی.جس دن یتیم ہونے کا احساس تم بچوں کے دلوں سے مٹا ڈالو گے، جس دن یتیم کو تم اُسی نگاہ سے دیکھو گے جس نگاہ سے تم اپنے بچوں کو دیکھتے ہو اُس دن ہر انسان خدا کے لئے خوشی کے ساتھ صلیب پر لٹکنے کے لئے تیار ہو جائے گا اور وہ کہے گا میرے لئے موت سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ میری قوم میں ایسے لوگ موجود ہیں جو میرے بچوں کے منہ پر تھپڑ مارنے کی بجائے محبت اور پیار کے ساتھ اُن کو اپنے گلے سے لگائیں گے.وہ خود ٹھو کے رہنے کے لئے تیار ہوں گے مگر یہ برداشت نہیں کریں گے کہ یتیم بچہ بھوکا رہے.وہ خود ننگے رہنے کے لئے تیار ہوں گے مگر یہ برداشت نہیں کریں گے کہ یتیم بچہ نگا ر ہے.جس دن یہ احساس ہمارے اندر پیدا ہو جائے گا وہی دن ہوگا جب قوم کا ہر فرد بہادری کے ساتھ خدا کی راہ میں اپنی جان دینے کے لئے تیار ہو جائے گا اور بُزدلی کا نشان تک لوگوں کے دلوں سے مٹ جائے گا.“ اسلامی پردہ اور مخلوط تعلیم نظارت تعلیم وتربیت کی یہ تجویز کہ بعض افراد بے پردگی اور مخلوط تعلیم کو رواج دے رہے ہیں اس کے انسداد کے لئے تجاویز پر غور ہونا چاہئے.مجلس مشاورت میں زیر بحث آئی.مکرم ملک عبدالرحمن خادم صاحب گجراتی اور بعض دیگر احباب نے اپنی آراء پیش کیں.اس موقع پر حضور نے اسلامی پردہ کی وضاحت اور اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا :- میں اس وقت خادم صاحب کی بعض باتوں کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جو بُر تھے اس وقت تک رائج ہیں وہ اس پر دے کے موجب نہیں ہو رہے جس کا اسلام تقاضا کرتا ہے مگر میرے نزدیک جو پرانی طرز کا برقع ہے اور جس کی انہوں
خطابات شوری جلد دوم ۶۶۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء نے تائید کی ہے وہ بھی پردے کو صحیح طور پر قائم نہیں رکھ سکتا بلکہ موجودہ طرز کے برقعوں سے بھی اُس میں زیادہ بے پردگی کا امکان پایا جاتا ہے.موجود طرز کے برقعوں میں جو عورتیں محتاط نہ ہوں صرف اُن کے منہ کا کچھ حصہ ننگا رہتا ہے.مگر پرانے برقعے ایسے ہیں کہ اگر نقاب اُٹھا دی جائے تو گلے سے لے کر دھڑ تک عورت کا سارا جسم ننگا ہو جاتا ہے اس لئے میرے نزدیک دونوں برقعوں میں نقائص ہیں، نہ پرانا برقع پر دے کو صحیح طور پر قائم رکھ سکتا ہے اور نہ نئی طرز کے برقعے پر دے کو صحیح طور پر قائم رکھ سکتے ہیں.انہوں نے شکایت کی ہے کہ برقع میں عورت کی آنکھیں بند رہتی ہیں جن کا اُن کی صحت پر بُرا اثر پڑتا ہے.مگر جہاں تک میں نے حدیثوں اور تاریخ کا مطالعہ کیا ہے مجھے یہی معلوم ہوا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عورتیں پردہ کے لئے جو کپڑا اپنے اوپر لے لیتی تھیں اُس میں آنکھیں نہیں ہوتی تھیں.پھر سوال صرف آنکھوں کا نہیں.جہاں تک میں سمجھتا ہوں اگر آنکھیں لگا دی جائیں اور عورت جالی میں سے دیکھے تو پھر بھی اس کی آنکھیں تھک جاتی ہیں اور جالی میں سے دیکھنا اُسے بوجھ سا محسوس ہوتا ہے.جہاں تک میں نے غور کیا ہے صحیح اسلامی پر دہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا.اُس زمانہ میں عورتیں اپنے جسم پر ایک چادر لپیٹ لیتی تھیں اور اس طرح پر دے کا مقصد پورا ہو جاتا تھا.مگر اوّل تو چادر کا ہر وقت لپیٹنا مشکل ہوتا ہے دوسرے بے احتیاط عورت اگر ہاتھ ڈھیلا چھوڑ دے تو وہ اس میں موجود برقع سے بھی کم اپنے پردہ کو قائم رکھ سکتی ہے.اصل چیز جس کو پردہ میں مدنظر رکھنا چاہئے وہ گھونگھٹ ہے.یہ ایک ایسی چیز ہے جس سے نہ نظر پر بوجھ پڑتا ہے نہ رستہ دیکھنے میں کوئی دقت پیش آتی ہے، نہ سانس گھٹتا ہے اور نہ بے پردگی کا کوئی امکان رہتا ہے سوائے اس کے کہ کوئی بدمعاش ہو اور وہ ہاتھ سے کسی کا گھونگھٹ اُتار دے، مگر ایسے شخص کو ہر شخص جوتیاں مارنے کے لئے تیار ہو جائے گا.بہر حال جہاں تک میں سمجھتا ہوں چادر کا استعمال سب سے زیادہ موزوں طریق تھا جو اسلام میں اختیار کیا گیا مگر اس زمانہ میں موٹریں اور گاڑیاں اس کثرت سے چلتی ہیں کہ چادر سنبھالی نہیں جاسکتی ، اس لئے وہ طریق ہم اس زمانہ میں اختیار نہیں کر سکتے.مجھے افسوس ہے کہ اب تک مجھے کوئی ایسا درزی نہیں ملا جو اُس نقشہ کے مطابق برقع
خطابات شوری جلد دوم ۶۶۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء تیار کر سکے جو میرے ذہن میں ہے، ورنہ میرا جی چاہتا ہے کہ جس طرح مصری برقع ہوتا ہے اسی طرز کا برقع تیار کیا جائے.سر کی ٹوپی علیحدہ ہو اور اس میں زنجیر کے ساتھ اس قسم کے ٹک لگے ہوئے ہوں کہ جب مرد سامنے آئے فوراً اس کو دبا کر پردہ کیا جا سکے.اس کے نتیجہ میں وہ شکایت بھی پیدا نہیں ہو گی جو اب بعض دفعہ سُننے میں آجاتی ہے کہ بعض عورتیں سڑک پر ایسی حالت میں نظر آ جاتی ہیں کہ اُن کا منہ کھلا ہوتا ہے اور وہ اُس وقت نقاب ڈالتی ہیں جب مرد پر اُن کی نظر پڑتی ہے.جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ شکایت درست نہیں ہے.اسلام اس بات کی ہدایت نہیں دیتا کہ عورتیں ہمیشہ منہ پر نقاب رکھیں خواہ کوئی مرد سامنے ہو یا نہ ہو.ابو داؤد میں صاف طور پر ذکر آتا ہے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ كَانَ الرُّكْبَانُ يَمُرُّونَ بِنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْرَمَاتٌ فَإِذَا جَاوَزُوْا بِنَا سَدَلَتْ إِحْدَانَا جِلْبَا بَهَا مِنْ رَأْسِهَا عَلَى وَجُهِهَا فَإِذَا جَاوَزُوْنَا كَشَفْنَا یعنی جب ہم حج کے لئے جائیں تو ہودج میں بیٹھے ہوئے ہم اپنی نقابیں اُٹھا لیتی تھیں.جب سامنے سے مردوں کو آتا دیکھتیں تو پردہ کرلیتیں اور جب وہ گزر جاتے تو پھر نقاب الٹ دیتیں.در حقیقت ایسے مقامات پر جہاں مردوں کے آنے جانے کا بہت کم امکان ہوتا ہے عورت نقاب اٹھا سکتی ہے اور یہ ہرگز شریعت کے خلاف نہیں ہے.ایسی حالت میں اگر اتفاقاً کوئی مرد سامنے آ جاتا ہے اور اس کی نظر پڑ جاتی ہے اور عورت اسے دیکھتے ہی فوراً پردہ کر لیتی ہے تو یہ چیز ایسی نہیں جسے بطور اعتراض پیش کیا جاسکے کیونکہ یہ ایک اتفاقی بات ہوتی ہے.وہی چیز قابلِ اعتراض سمجھی جاسکتی ہے جو عمداً اور ارادتاً شریعت کے خلاف کی جائے اور جس میں شریعت کے استخفاف کا پہلو پایا جائے.بہر حال میرے نزدیک موجودہ برقع ضرور قابل اصلاح ہے.میں نے عورتوں سے اس بارہ میں دریافت کیا ہے وہ کہتی ہیں کہ اس برقع میں اگر ہم پوری دیانتداری کے ساتھ پردہ کرنا چاہیں تو بھی نہیں کر سکتیں.جس کی وجہ یہ ہے کہ آنکھیں جالی کے اندر سے دیکھنے کے نتیجہ میں تھک جاتی ہیں اور نقاب اگر زیادہ دیر تک رہے تو دم گھٹنے لگتا ہے.ایسی صورت میں اگر کوئی عورت پردہ میں پوری احتیاط نہیں کر سکتی تو لوگوں کے لئے ایک اعتراض کا موقع پیدا ہو جاتا ہے.لیکن پھر بھی قادیان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے پردہ کی خاص طور پر پابندی کی
خطابات شوری جلد دوم ۶۶۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء جاتی ہے.ورنہ دوسرے شہروں میں تو یہ حالت ہوتی ہے کہ میلوں میں چلے جائیں تو کوئی برقع نظر نہیں آتا.اس کے یہ معنے نہیں کہ وہاں عورتیں نظر نہیں آتیں بلکہ یہ معنے ہیں کہ عورتیں تو نظر آتی ہیں مگر برقع کے بغیر ہوتی ہیں.یہاں چونکہ بار بار پردے پر زور دیا جاتا ہے اس لئے لوگوں کو اگر ذراسی بھی خامی یا نقص نظر آئے تو وہ اعتراض کرنے لگ جاتے ہیں حالانکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے قادیان میں پردہ کی خاص طور پر پابندی کی جاتی ہے اور اگر کوئی نقص ہے تو وہ بہت معمولی ہے.بہر حال جہاں ایسی عورتوں کی اصلاح ضروری ہے جو پردہ میں احتیاط سے کام نہیں لیتیں وہاں ہمارے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم ایسا برقع ایجاد کریں جس سے عورتوں کو پردہ کرنے میں سہولت ہو اور ان کی موجودہ تکالیف سب کی سب دُور ہو جائیں.ایک دوست نے کہا ہے کہ شہری اور دیہاتی پردہ میں جو فرق ہے اس پر روشنی ڈالی جائے.یہ سوال معقول ہے مگر اس وقت اس سوال پر روشنی ڈالنے کا موقع نہیں کیونکہ بات لمبی ہو جائے گی اور وقت کم ہے.اس وقت میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ دیہاتی عورتوں سے جس حد تک پردہ کرانے کی کوشش کی جا سکے اُس حد تک اُن سے پردہ کرانے کی کوشش ہمیشہ جاری رکھنی چاہئے.میں اپنی سابق تقریروں اور قرآن کریم کے درسوں وغیرہ میں اُس کی پوری وضاحت کر چکا ہوں.دوستوں کو چاہیے کہ وہ میری ان تقاریر کا مطالعہ کریں.في الحال سوال صرف اُن عورتوں کے متعلق ہے جن کو مزدوری یا کام وغیرہ کے لئے باہر جانے کی ضرورت نہیں ہوتی اور وہ آسانی سے پردہ کی شرائط کی پابندی کر سکتی ہیں مگر اس کے باوجود اُن کی طرف سے پردہ کی شرائط پر عمل کرنے میں بعض کوتاہیوں کا ارتکاب کیا جاتا ہے.پس عورتوں کے متعلق یہ سوال ہے کہ اُن کی اصلاح کا کیا طریق اختیار کیا جائے؟ جو دوست اس بات کی تائید میں ہوں کہ ایک ہی وقت میں ایک طرف پردہ کی اہمیت اور اُس کی ضرورت کا مختلف مضامین وغیرہ کے ذریعہ جماعت پر اظہار کیا جائے.....اور دوسری طرف جن کے متعلق پردہ کی خلاف ورزی کی شکایت موصول ہو، انہیں 66 تنبیہ کی جائے جس کی آخری حد اخراج از جماعت تک ہو وہ کھڑے ہو جائیں.“ ۳۱۹ دوست کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا:-
خطابات شوری جلد دوم ۶۷۰ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء پردہ کے متعلق مضامین لکھوائے جائیں ۳۱۹ دوست اس بات کی تائید میں ہیں کہ ایک ہی وقت میں ایک طرف پردہ کی تائید میں متواتر مضامین لکھے جائیں اور جماعت پر اس مسئلہ کی اہمیت واضح کی جائے اور دوسری طرف جو عورتیں بے پردگی کی علی الاعلان مرتکب ہوں اور شریعت کے اس حکم کو پس پشت ڈال دیں ان کے نگرانوں سے باز پرس کی جائے اور انہیں اپنی اصلاح کی طرف توجہ دلائی جائے اور اگر وہ باوجود توجہ دلانے کے اس حرکت سے باز نہ آئیں تو انہیں مرکز کی طرف سے سزا دی جائے جس کی آخری حد اخراج از جماعت تک ہوسکتی ہے.اب اگر کوئی اس کے خلاف ہوں تو وہ بھی کھڑے ہو جائیں.“ صرف ایک دوست کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا:- معلوم نہیں یہ دوست کس بات کے خلاف ہیں.آیا اُن کے نزدیک ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ مرکز کی طرف سے ایسا قدم اُٹھایا جائے یا وہ پردہ کے ہی خلاف ہیں.بہر حال میں کثرت رائے کے حق میں فیصلہ کرتا ہوں کہ پردہ کی اہمیت کے متعلق نظارت تعلیم و تربیت کی طرف سے متواتر اخبارات سلسلہ میں مضامین شائع کرائے جائیں اور مبلغین وغیرہ کے ذریعہ سے بھی جماعتوں پر پردہ کی اہمیت واضح کی جائے تا کہ ہم میں سے کوئی ایک فرد بھی ایسا باقی نہ رہے جو یہ کہہ سکے کہ اُسے پردہ کے متعلق صحیح اسلامی تعلیم کا علم نہیں تھا.دوسری طرف جماعت میں سے جن عورتوں کے متعلق یہ اطلاع موصول ہو کہ وہ پردہ کی علی الاعلان خلاف ورزی کر رہی ہیں اور اسلام کے اس حکم کی ہتک کر رہی ہیں اُن سے اور ان کے نگرانوں سے سختی کے ساتھ جواب طلبی کی جائے اور انہیں اور ان کے لواحقین کو اصلاح کی طرف توجہ دلائی جائے.اگر مرکز کی اس تنبیہ کا اُن پر اثر نہ ہو اور وہ اپنی اصلاح کی کوشش نہ کریں تو انہیں سزا دی جائے جس کی آخری حد اخراج از جماعت تک ہو سکتی ہے.“ مخلوط تعلیم کے انسداد کے متعلق سب کمیٹی کی تجویز اس کے بعد مخلوط تعلیم کے انسداد کے متعلق سب کمیٹی کی تجویز پیش ہوئی.تجویز پیش ہونے کے بعد چند نمائندگان نے اپنی آراء کا اظہار کیا اس کے بعد حضور نے فرمایا : -
خطابات شوری جلد دوم ۶۷۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء ” جو دوست اس بارہ میں کچھ کہنا چاہتے ہوں وہ اپنے نام لکھوا دیں.“ ” دوستوں نے تمام خیالات سُن لئے ہیں جو دوست اس بات کی تائید میں ہوں کہ مخلوط تعلیم کو گلیہ روک دیا جائے اور جماعت میں اس کے متعلق اعلان کر دیا جائے کہ سلسلہ احمدیہ مخلوط تعلیم کی اجازت نہیں دیتا.اس کے بعد جو لوگ اس حرکت کے مرتکب ہوں اُن سے پہلے جواب طلبی کی جائے اور پھر انہیں سرزنش کی جائے.جس کی حد اخراج از جماعت تک ہو سکتی ہے.وہ کھڑے ہو جائیں.“ ۲۹۵ دوست کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا :- اگر کوئی دوست اس تجویز کے خلاف ہوں تو وہ بھی کھڑے ہو جائیں.“ چار دوست کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا : - میں کثرتِ رائے کے حق میں فیصلہ کرتا ہوں کہ مخلوط تعلیم کسی صورت میں بھی درست نہیں سمجھی جاسکتی.نظارت تعلیم و تربیت کو اس کے انسداد کے متعلق جماعت میں ایک اعلان کرنا چاہئے تا کہ ہر شخص کو علم ہو جائے کہ مرکز اس بارہ میں کیا رائے رکھتا ہے.اس کے بعد جولوگ اس جرم کے مرتکب ہوں اُن سے جواب طلبی کی جائے اور انہیں اصلاح کی طرف توجہ دلائی جائے.اگر اس تنبیہ کے باوجود ان کی اصلاح نہ ہو تو انہیں سزا دی جائے.جس کی حد اخراج از جماعت تک ہو سکتی ہے.“ اس کے بعد حضور نے فرمایا : - پردے کی استثنائی صورتیں.دد میں اس موقع پر کچھ اور بھی کہنا چاہتا ہوں.یہ سوال اُٹھایا گیا ہے کہ اسلام نے مجبوری کی حالت میں بعض باتوں کی اجازت دی ہے جن کی غیر مجبوری کی حالت میں اجازت نہیں دیتا.یہ درست ہے.بالخصوص پردہ کے متعلق اسلامی احکام مجبوری اور غیر مجبوری سے ہی تعلق رکھتے ہیں.مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم پردہ کرو.إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا.ہاں جو حصہ آپ ہی آپ ظاہر ہو جائے اُس کو چھپانے کا حکم نہیں دیتے کیونکہ وہاں مجبوری ہے.جیسے قد ہے، اسے کوئی عورت چھپا نہیں بعض عورتوں کا جسم اتنا بد نما ہوتا ہے کہ برقع یا چادر کے اندر بھی اس کی بدنمائی انسان کو نظر آجاتی ہے اور وہ کسی معقول ذہنیت رکھنے والے کے لئے کشش کا موجب نہیں ہوسکتا.
خطابات شوری جلد دوم ۶۷۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء اسی طرح بعض عورتوں کے جسم کی بناوٹ ایسی اچھی ہوتی ہے کہ باوجود برقع یا چادر کے ہو سکتا ہے کہ کوئی نا معقول انسان کسی عورت پر فریفتہ ہو جائے.اسی طرح موٹا ہونا یا جسم کا دبلا ہونا یہ بھی اثر رکھنے والی چیزیں ہیں مگر ان کو چھپایا نہیں جا سکتا.اسی طرح بعض اور حالات ہوتے ہیں جن میں ایک عورت بعض دفعہ مجبور ہو جاتی ہے کہ وہ مخصوص پردہ کو ترک کر دے مثلاً ایک عورت بیمار ہو اور اس کی آنکھ میں کوئی تکلیف ہو تو وہ مجبور ہوتی ہے کہ ڈاکٹر کو اپنی آنکھ دکھائے.اسی طرح اگر کسی عورت کے دانت میں درد ہے تو وہ ڈاکٹر کو جب اپنا دانت دکھائے گی ضروری ہے کہ اس کے ہونٹ اور اس کے کلے کا کچھ حصہ نگا ہو اور ڈاکٹر اُسے دیکھے.یا اگر نبض دکھائے گی تو ہاتھ ضرور ننگا کرنا پڑے گا.یہ مجبوریاں ایسی ہیں جن کو شریعت محوظ رکھتی ہے اور اس کی طرف سے یہ اجازت ہے کہ اگر کسی عورت کو ایسی مجبوریاں پیش آجائیں تو وہ مجبوری والے حصہ میں پردہ کو اُٹھا سکتی ہے لیکن مجبوری کا لفظ جو عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے اس کی بھی کوئی نہ کوئی حد بندی ہے.یہ نہیں کہ جو بات نظر آئے اُسے مجبوری قرار دے دیا جائے.بعض دوستوں کی طرف سے کہا گیا ہے کہ آیا یہ بہتر ہے کہ لڑکیاں کالجوں میں لڑکوں کے ساتھ مل کر تعلیم حاصل کریں یا یہ بہتر ہے کہ ہماری عورتیں بیمار ہوں اور انہیں علاج کے لئے ڈاکٹروں کے سامنے بے پردہ ہونا پڑے حالانکہ عورتوں کی کئی بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جو مخصوص اعضاء کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بظاہر یہ بات بڑی دلکش نظر آتی ہے.اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ بعض دفعہ عورتوں کے رحم میں آنول کا کوئی حصہ رہ جاتا ہے اور ڈاکٹروں کو ہتھیاروں کے ذریعہ اُسے نکالنا پڑتا ہے.مگر سوال یہ ہے کہ ہمارا یہ حق نہیں کہ ہم کوئی نئی شریعت بنا ئیں.ہمارا کام صرف اتنا ہے کہ ہم حالات کے پیش آنے پر یہ دیکھتے چلے جائیں کہ شریعت نے اُن کے متعلق کیا ہدایت دی ہے.اس نقطہ نگاہ کے ماتحت اگر ہم اس بات پر غور کریں تو پھر یہ سوال ہمارے سامنے آئے گا کہ آیا یہ مجبوری ہے کہ ایک بیمار عورت کو ڈاکٹر کے سامنے اپنا منہ نگا کرنا پڑتا ہے یا رحم کی بعض امراض کا اُسے علاج کرانا پڑتا ہے یا یہ مجبوری ہے کہ ہم یہ فرض کر کے کہ آئندہ احمدی عورتوں کو ایسی مشکلات پیش آسکتی ہیں جماعت کی لڑکیوں کو مخلوط تعلیم کی اجازت دے دیں؟ بے شک
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء جہاں تک جذبات کا سوال ہے یہ بات زیادہ معیوب نظر آتی ہے کہ ایک احمدی عورت کسی ڈاکٹر کے سامنے اپنا منہ تنگا کرے مگر شریعت نے ہمیں جذبات کا تابع نہیں کیا.یہ تو کہا ہے کہ جہاں تم مجبور ہو وہاں ایسا کر سکتے ہو جیسے اگر کسی عورت کے سینہ پر سرطان نکل آئے تو وہ مجبور ہوگی کہ اپنے پستانوں کا کچھ حصہ نگا کرے.یا پیٹ پر پھوڑا ہو تو اُسے بہر حال پیٹ پر سے کپڑا اُٹھانا پڑے گا.یا اگر آنول پھنس گئی ہو اور نرس موجود نہ ہو تو لازماً کسی ڈاکٹر کو علاج کے لئے بلانا پڑے گا مگر یہ مجبوری اُس عورت کی ذاتی ہوگی جس کو دیکھتے ہوئے شریعت اُسے فتوی دے دے گی کہ وہ ڈاکٹر سے علاج کروا سکتی ہے.چنانچہ میں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے سُنا کہ ہمارے نزدیک اگر کسی عورت کے ہاں بچہ پیدا ہونے والا ہو اور نرس موجود نہ ہو یا نرس فیصلہ کر دے کہ اب علاج کرنا میری طاقت سے بالا ہے تو ایسی حالت میں اگر کوئی اور نرس نہیں مل سکتی اور ڈاکٹر موجود ہے تو عورت کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ ڈاکٹر کو بلائے اور بچہ جنوائے.اُس وقت یہ تو نہیں دیکھا جائے گا کہ ایک ڈاکٹر کے سامنے عورت کو ننگا نہیں ہونا چاہئے بلکہ اُس وقت ضروری ہوگا کہ وہ اس سے علاج کرائے بلکہ آپ نے فرمایا اگر وہ عورت مرد ڈاکٹر سے بچہ نہ جنوائے اور اسی حالت میں مر جائے تو ہمارے نزدیک وہ خود کشی کرنے والی سمجھی جائے گی.اب دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انتہائی نازک حالت میں ایک عورت کے لئے مرد ڈاکٹر سے بچہ جنوانا بھی جائز قرار دے دیا اور فرمایا کہ اگر وہ ایسا نہ کرے اور اسی حالت میں مرجائے تو ہم یہ نہیں سمجھیں گے کہ اُس نے پردہ کے حکم پر عمل کیا بلکہ ہم یہ سمجھیں گے کہ اُس نے خود کشی کا ارتکاب کیا.مگر آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ چونکہ احمدی عورتیں اس قسم کے حالات میں شہید ہو سکتی ہیں یا ایسی بیماریوں میں مبتلا ہو سکتی ہیں اس لئے احمدی لڑکیوں کو مخلوط تعلیم دلا کر ڈاکٹری کا فن سکھا دیا جائے.یا یہ کہ اگر ہماری لڑکیاں ڈاکٹری نہیں سیکھیں گی تو وہ اس قسم کی عورتوں کی موت کی ذمہ دار ہوں گی اس لئے کہ وہ مجبوری ایک عورت کی ذاتی مجبوری ہے.ہمارے لئے یہ ضروری نہیں کہ اس کی مجبوری کی وجہ سے ہم خود بھی شریعت کے احکام کو نظر انداز کر دیں.شریعت نے یہ تو کہا ہے کہ زید مجبور ہو تو وہ ایسا کرے مگر یہ نہیں کہا کہ زید مجبور ہو تو بکر فلاں بات کرے.زید کو اپنی مجبوری تک شریعت کے
خطابات شوری جلد دوم ۶۷۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء احکام طے کرنے کا حق حاصل ہے مگر دوسروں کو یہ حق حاصل نہیں کہ اُس کی مجبوری کی وجہ سے اپنا قدم شریعت سے باہر لے جائیں.یوں تو ہماری جماعت کی کوئی لڑکی کسی کالج میں پڑھے یا نہ پڑھے اگر وہ گجرات یا جہلم میں بیمار ہوگی اور کسی مرد ڈاکٹر سے علاج کرانے پر مجبور ہوگی تو اُسے کوئی گناہ نہیں ہو گا.لیکن اگر ہم اس نظیر کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے اپنی لڑکیوں کو مخلوط تعلیم دلانا شروع کر دیں اور شرعی احکام کو نظر انداز کر دیں تو چونکہ ہمارے لئے کوئی مجبوری نہیں ہوگی اس لئے یقینا گنہگار ہوں گے.پھر یہ بھی غور کے قابل بات ہے کہ اگر یہ درست ہے کہ ہماری جماعت کی لڑکیاں اسی مجبوری کی وجہ سے ڈاکٹری تعلیم حاصل کرتی ہیں اور ان کے مد نظر یہ ہوتا ہے کہ وہ تعلیم حاصل کر کے جماعت کی عورتوں کی خدمت کریں گی تا کہ مرد ڈاکٹروں سے انہیں علاج نہ کرانا پڑے تو پھر کم از کم کوئی ایک مثال ہی ایسی ہونی چاہئے تھی کہ کسی نے تعلیم حاصل کی اور پھر اُس نے جماعت کی عورتوں کی خدمت کی.اُس نے مفت کام کیا اور یہ پسند نہ کیا کہ وہ فیس لے اور اس طرح اپنی جماعت کی مستورات پر بوجھ ڈالے.لیکن ہم میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ یہ بات بالکل جھوٹ ہے کہ وہ ہمارے لئے پڑھ رہی ہیں.وہ اپنی ترقی کے لئے یا روپیہ کمانے کے لئے پڑھ رہی ہیں جماعت کی خدمت کے لئے نہیں پڑھ رہیں.پس یہ دوسرا دھوکا ہے جو ان کی طرف سے دیا جاتا ہے کہ ایک تو وہ شریعت کی بے حرمتی کرتی ہیں اور دوسری طرف وہ یہ کہتی ہیں کہ ہم تمہارے غم میں مری جا رہی ہیں.ہم تو اس لئے ھ رہی ہیں کہ مرد ڈاکٹروں کے سامنے جماعت کی مستورات کو بے پرد نہ ہونا پڑے.ہر شخص جانتا ہے کہ یہ جھوٹ اور افتراء ہے.وہ بھی اس بات کو جانتا ہے جو اپنی لڑکیوں کو تعلیم دلاتا ہے اور لڑکیاں بھی اس بات کو خوب بجھتی ہیں کہ وہ محض اپنے خاندان کا سٹینڈرڈ بڑھانے کے لئے یا روپیہ کمانے کے لئے تعلیم حاصل کر رہی ہیں مگر کہا جاتا ہے کہ وہ عورتوں کی خدمت کے لئے تعلیم حاصل کر رہی ہیں.عورتوں سے حسن سلوک کی تلقین احسان صاحب نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ لڑکیوں کے متعلق یہ بھی تو سوچنا چاہئے کہ مرد اُن پر کس قدر ظلم کرتے ہیں.یہ بات صحیح ہے اور ضروری ہے کہ جہاں عورتیں اس امر کو
خطابات شوری جلد دوم ۶۷۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء مدنظر رکھیں کہ وہ کوئی ایسی تعلیم حاصل نہ کریں جو اُن کو اپنے فرائض سے غافل کرنے والی ہو وہاں مردوں کا بھی فرض ہے کہ وہ ایسے اعمال سے اجتناب کریں جن سے ایک عورت مجبور ہو کر اسلام کے متعلق بدظنی سے کام لینے لگ جاتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جنت تمہاری ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے.اب یہ کس طرح جائز ہو سکتا ہے کہ جس کے قدموں کے نیچے جنت ہوا سے ایسے حالات میں رکھا جائے جو اس کے لئے دوزخ کی مانند ہوں.در حقیقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں یہ فلسفہ بتایا ہے کہ تمہاری تمدنی زندگی اُس وقت تک درست نہیں ہو سکتی جب تک عورت تمہارے لئے جنت پیدا نہ کرے اور تم عورت کے لئے جنت پیدا نہ کرو.آخر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ تمہاری عورت تو تمہارے لئے جنت پیدا کرے اور تم اُس کے لئے دوزخ تیار کرو.جو عورت تمہارے لئے جنت پیدا کرتی ہے اُس کے متعلق تم پر یہ ایک اہم ترین فرض عائد ہوتا ہے کہ تم اُس کے لئے بھی جنت پیدا کرو.اُس سے سلوک ایسا کرو جو محبت اور پیار والا ہو، اُس کے حقوق کو پوری طرح ادا کرو اور اُس پر بے جا سختی اور تشدد سے کام نہ لو.مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک ہماری جماعت میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو عورتوں کے حقوق کو صحیح طور پر ادا نہیں کرتے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ۹۵ فی صد لوگ ہماری جماعت میں ایسے ہیں جو عورتوں سے حُسنِ سلوک کرتے ہیں مگر وہ خدا اور اس کے رسول کے احکام کی وجہ سے حُسنِ سلوک نہیں کرتے بلکہ اپنی ذاتی محبت اور پیار کی وجہ سے حسن سلوک کرتے ہیں.ورنہ جن کو ذاتی طور پر اپنی بیویوں سے کم محبت ہوتی ہے وہ خدا اور اس کے رسول کی تعلیم کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرتے اور اس کو چاک کر کے رکھ دیتے ہیں اور پھر اس کے بعد وہ بدسلوکی کرنے کے لئے ہر قسم کے بہانے نکال لیتے ہیں اور اپنی حکومت جتانے کے لئے پورا زور صرف کر دیتے ہیں.گویا دوسرے الفاظ میں وہ اپنی حکومت جمانے کے لئے عورتوں کو اسلام کی تعلیم سے بیزار کر دیتے ہیں اور اس امر کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرتے کہ ان کی بدسلوکی کا عورت کے قلب پر کیا اثر ہوگا.اور کیا وہ اس نتیجہ پر نہیں پہنچیں گی کہ جو مذہب مجھے ابتدائی انسانی حقوق بھی دینے کے لئے تیار نہیں وہ ہر گز اس قابل نہیں ہوسکتا کہ اسے کوئی انسان اختیار کرے.گویا وہ اپنے بد اعمال کی وجہ سے صرف اپنے آپ کو ہی گنہگار نہیں بناتے بلکہ ایک
خطابات شوری جلد دوم للی محبت ۶۷۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء عورت کے دل کو اسلام سے بیزار کر کے خدا تعالیٰ کے غضب کو اپنے اوپر بھڑکاتے ہیں.جس دن ہماری جماعت کے افراد میں یہ خوبی پیدا ہو جائے گی کہ وہ خدا تعالیٰ کے لئے اپنی بیویوں سے محبت کریں گے اور خدا کے لئے اپنی بیویوں سے نفرت کریں گے، اُن کے ذاتی میلانات یا ذاتی رجحانات یا ذاتی خواہشات کا اس میں کوئی دخل نہیں ہو گا بلکہ ان کی ناراضگی اور ان کی رضا مندی ، اُن کی محبت اور اُن کی نفرت سب کی سب خدا کے لئے ہوگی وہ دن ہو گا جب عورت سینہ سپر ہو کر مغربیت کا مقابلہ کر سکے گی.یورپ کا فلسفہ اس پر اثر نہیں کرے گا اور وہ ہر مجلس میں یہ کہنے کے لئے تیار ہو گی کہ اسلام نے جو حقوق اُسے دیئے ہیں دنیا کا کوئی مذہب ویسے حقوق عورتوں کو نہیں دیتا.دوسروں کی نقل آخر کسی مجبوری کی وجہ سے ہوتی ہے.اگر مجبوری نہ ہو تو کون ہے جو یورپ کے فلسفہ کے آگے سر جُھکا سکے.ہم نے تو دیکھا ہے کہ یورپ کی حد سے بڑھی ہوئی آزادی کی فضاء میں جن عورتوں نے پرورش پائی ہوئی ہوتی ہے وہ بھی جب دیکھتی ہیں کہ اُن کے تمام حقوق اُن کو مل گئے ہیں تو یورپ کی آزادانہ فضاء کو ایک لمحہ کے لئے برداشت نہیں کر سکتیں.تھوڑا ہی عرصہ ہوا کہ ایک ایک انگریز عورت کی قبول اسلام کے بعد تبدیلی ریاست میں سے کوئی مسلمان لوہار ولایت گیا.تو وہاں سے وہ ایک انگریز عورت کو بیاہ لایا.وہ ہندوستان آکر اُسی طرح پردہ کرتی تھی جس طرح مسلمان عورتیں پردہ کرتی ہیں بلکہ گھر کے کام میں بھی وہ پورا حصہ لیتی.چکی اپنے ہاتھوں سے پیستی اور صبح شام خاوند کو روٹی پکا کر دیتی.کچھ عرصہ کے بعد لوگوں میں یہ بات مشہور ہوئی تو کسی شخص نے ریذیڈنٹ کو ایک چٹھی لکھ دی کہ اس اس طرح ریاست میں فلاں لوہار نے ایک انگریز عورت کو قید کر رکھا ہے.ریذیڈنٹ نے نواب صاحب کو لکھا کہ فوراً تحقیقات کی جائے اور عورت کو اس سے چھڑا یا جائے.ریاستوں کے نواب بظاہر تو نواب کہلاتے ہیں مگر ریذیڈنٹ کے مقابلہ میں خادموں کی طرح ہوتے ہیں.اُس کے پاس چٹھی پہنچی تو کانپنے لگ گیا کہ اب نہ معلوم میرے ساتھ کیا سلوک ہو.چنانچہ اُس نے لوہار کو بلایا اور اُسے خوب ڈانٹا کہ تم نے یہ کیا حرکت کی ہے اور اُسے کہا کہ وہ فوراً عورت کو رخصت کر دے ورنہ اس کے ساتھ بہت بُرا سلوک کیا جائے گا.لوہار نے کہا کہ
خطابات شوری جلد دوم ۶۷۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء صاحب! مجھے کوئی اعتراض نہیں میں بھیجنے کے لئے تیار ہوں آپ اُس سے بھی تو دریافت فرما لیں کہ آیا وہ واپس جانے کے لئے تیار ہے یا نہیں؟ اس سے پوچھا گیا تو وہ کہنے لگی یہ لوگ ہیں کون جو میرے ذاتی معاملات میں دخل دیتے ہیں.میں نے جو کچھ کیا اپنی مرضی سے کیا ان کا کیا اختیار ہے کہ مجھے زبر دستی واپس بھجوانے کی کوشش کریں.اُس سے کہا گیا کہ دیکھو یہ شخص تم سے چکی پھواتا ہے، صبح شام کھانا تیار کراتا ہے اور گھر کا تمام کام لیتا ہے، یہ سلوک نہایت ہی نا مناسب ہے، پس ایسے شخص کے پاس ایک منٹ بھی نہیں رہنا چاہئے.اس نے کہا چکی میں اپنی مرضی سے پیستی ہوں، پردہ اپنی مرضی سے کرتی ہوں، کھانا اپنی مرضی سے پکاتی ہوں اس پر کسی اور کو اعتراض کرنے کا کیا حق ہے.میں نے تو جب اس خاوند کو اپنے لئے پسند کیا تھا اُسی وقت فیصلہ کر لیا تھا کہ جو رواج اس کے ملک کا ہوگا وہی میں قبول کروں گی چنانچہ اب میں خوشی سے اِس رواج کو قبول کر چکی ہوں کسی شخص کا کوئی حق نہیں کہ وہ اس بارہ میں دخل دے اور مجھے اپنے خاوند سے الگ کرنے کی کوشش کرے.آخر نواب صاحب نے مجبور ہو کر ریذیڈنٹ کو لکھا کہ وہ عورت قید نہیں بلکہ آرام سے گھر میں رہتی ہے.ہم نے خود اُسے بُلا کر تمام حالات دریافت کئے ہیں اور ہمیں معلوم ہوا ہے کہ وہ اپنی خوشی اور رضا مندی سے اس کے گھر میں رہتی ہے، زبر دستی اُسے نہیں رکھا گیا اور اب وہ اس گھر کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہے.اگر کہا جائے تو زبر دستی اس کو بھجوا دیا جائے.گورنمنٹ نے جواب دیا کہ ہمارا یہ منشاء نہ تھا.اگر وہ خوشی سے رہتی ہے تو اس کا اختیار ہے.تو ایسی مثالیں یورپین عورتوں کی بھی ملتی ہیں کہ جب انہیں تمام حقوق دے دیئے گئے تو انہوں نے یورپ کی آزادانہ زندگی پر خانگی زندگی کو ہزار درجہ زیادہ ترجیح دی اور باوجود لوگوں کے بہکانے اور اُکسانے کے وہ اسے چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہوئیں.ایک مسلمان عورت کی غیرت ایمانی اسی طرح غدر کے دنوں میں ایک مسلمان عورت سے ایک انگریز نے نکاح کر لیا مگر اُس نے اسلامی دستور کو ترک نہ کیا بلکہ ساری عمر اسلام پر پوری مضبوطی کے ساتھ قائم رہی اور اس نے اپنے ایمان کا مظاہرہ بھی نہایت شاندار طریق پر کیا.اس عورت کی وفات قادیان میں ہی ہوئی تھی.حضرت خلیفہ اول نے ایک دفعہ ہمیں اس عورت کے حالات
خطابات شوری جلد دوم ۶۷۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء سنائے اور بتایا کہ اس کے پہلے انگریز خاوند سے دولڑ کے ہیں.جن میں سے ایک سپرنٹنڈنٹ پولیس ہے، وہ ہمیشہ با قاعدگی کے ساتھ حضرت خلیفہ اول کی معرفت اپنی والدہ کو روپے بھجوا دیتا تھا مگر چونکہ وہ لڑکا عیسائی تھا اُس کی والدہ ان روپوں کو لیتی نہیں تھی بلکہ پھینک دیا کرتی تھی.حضرت خلیفہ اوّل فرماتے کہ ایک دفعہ میں نے اُسے بڑا سمجھایا کہ ان روپوں کے لے لینے میں کوئی حرج نہیں.چنانچہ اس کے بعد روپے آئے تو اس نے رومال نکالا اور روپوں کو رومال میں رکھ کر گرہ باندھ لی اس کے بعد وہ اُٹھ کر ایک طرف کو چل پڑی.حضرت خلیفہ اول نے بتایا کہ مجھے کچھ شبہ پیدا ہوا اور میں نے اُس کا خیال رکھا کہ وہ کدھر جاتی ہے.تھوڑی دیر کے بعد ہی میں نے دیکھا کہ وہ ڈھاب کے قریب گئی اور رو مال اُس میں پھینک کر واپس آگئی.اب دیکھو کہ اُس کے اندر ایمان تھا، اسلام کے متعلق غیرت تھی اور گوروپیہ نہ لینے میں اس قدر غلو درست نہیں تھا مگر بہر حال اپنے رنگ میں اُس نے کس قدر عظیم الشان غیرت کا مظاہرہ کیا کہ وہ اپنے بیٹے کی طرف سے آئے ہوئے روپے بھی قبول نہ کرتی بلکہ ساری عمر اس نے اپنے عیسائی بیٹے کی شکل تک نہیں دیکھی.پس عورتیں بھی بہت بڑی قربانی کر سکتی ہیں مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کا نمونہ اُن کے سامنے ایسا پیش کیا جائے جس سے اُن کا دل مطمئن ہو جائے اور وہ سمجھ لیں کہ اسلام سے بڑھ کر ہمیں دنیا کا کوئی مذہب حقوق نہیں دے سکتا.مجھے نہایت ہی افسوس کے ساتھ اس امر کا ذکر کرنا پڑتا ہے کہ بظاہر بعض اچھے بھلے لوگ ہوتے ہیں مگر اُن کو اپنی بیویوں سے ذرا بھی شکایت پیدا ہو تو اُن سے اس قسم کی بدسلوکی کرتے ہیں کہ عورت کے لئے کوئی چارہ کار باقی نہیں رہتا اور ساری عمر اُس کی برباد ہو جاتی ہے.مرد اس قسم کی بدسلوکی کی یہ توجیہہ نکال لیتے ہیں کہ ہمیں خدا نے قَوَّامُون قرار دیا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا تعالیٰ نے انتظامی امور میں مرد کو عورت پر فضیلت دی ہے مگر بدسلوکی کرتے وقت اُن کا شریعت کے اس اصل کو پیش کرنا محض ایک بہانہ ہوتا ہے اور ایسی ہی بات ہوتی ہے جیسے میں نے بچپن میں ایک لڑکے کو دیکھا کہ وہ بڑی حرص سے جلدی جلدی ریوڑیاں کھا رہا ہے گویا اُسے ڈر تھا کہ اوپر سے کوئی اور نہ آ جائے اور اُسے بھی ریوڑیاں نہ دینی پڑیں.میں نے اُسے اس حرص کے ساتھ جلدی ریوڑیاں کھاتے دیکھا تو
۶۷۹ خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء میں نے پوچھا کیا بات ہے، تم ریوڑیاں اتنی حرص سے کیوں کھا رہے ہو؟ وہ کہنے لگا بات یہ ہے کہ میں نے سُنا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ریوڑیاں بہت پسند تھیں اس لئے میں نے بھی ریوڑیاں کھانی شروع کر دی ہیں.میں نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو ایسٹین سیرپ بھی پیا کرتے تھے وہ کیوں نہیں پیتے ؟ آخر میٹھی چیز تمہیں کیوں یاد آگئی اور کڑوی چیز کیوں بھول گئی محض اس لئے کہ میٹھی چیز کھانے کو تمہارا اپنا دل چاہتا ہے مگر تم بہانہ یہ بناتے ہو کہ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ریوڑیاں پسند تھیں اس لئے میں بھی کھا رہا ہوں.تو عورتوں سے بدسلوکی کرتے وقت مردوں کی طرف سے اس قسم کے عذرات کا پیش ہونا محض ایک بہانہ ہوتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ عورتوں سے گندہ سلوک کرتے ہیں وہ ان کے ایمان کو کمزور کرنے اور انہیں اسلام سے بدظن کرنے کا موجب ہوتے ہیں اور اگر وہ اپنی اصلاح نہ کریں تو یقیناً خدا تعالیٰ کے حضور گنہگار ہوتے ہیں.میں دیکھتا ہوں کہ قضاء میں بھی بالعموم جب میاں بیوی کے جھگڑے ہوتے ہیں تو اُس کے فیصلوں میں کسی قدر جُھکا ؤ مرد کی طرف ضرور پایا جاتا ہے حالانکہ اگر عورتوں کے حقوق کی نگہداشت کی جائے تو کبھی میاں بیوی کے جھگڑے قضاء میں نہ آئیں.کبھی گھروں میں بدمزگی پیدا نہ ہو، کبھی آپس کے تعلقات کشیدہ نہ ہوں بلکہ جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے وہ گھر جنت کا نمونہ بن جائیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ جنت عورت کے قدموں کے نیچے ہے اس کے ایک معنے یہ بھی ہیں کہ اگر عورت کا پاؤں گھر سے باہر نکلا تو وہ گھر تمہارے لئے جنت نہیں رہے گا ، اگر تم اپنے گھروں کو جنت بنانا چاہتے ہو تو یا د رکھو عورتوں کو اُن کے جائز حقوق دو اور اُن سے محبت اور پیار کا سلوک کرو ور نہ یہ جنت تمہیں کبھی حاصل نہیں ہو سکے گی.تو مسلم کا ختنہ مولوی محمد نذیر صاحب قریشی مبلغ سلسلہ نے ایک روایت لکھی ہے کہ ایک نو مسلم کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پوچھا گیا کہ اُن کا ختنہ نہیں ہوا جو سنت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ سنت سے فرض یعنی ستر ڈھانپنا بہتر ہے.اب دیکھو پر دہ کتنی اہم چیز ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی عمر کے ایک نو مسلم کے لئے ختنہ بھی ضروری نہ سمجھا کیونکہ اس
خطابات شوری جلد دوم ۶۸۰ سے بے پردگی ہوتی تھی حالانکہ ختنہ کرانا سنت ہے.مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء پردہ اسلام کا اہم ترین حکم غرض اچھی طرح یاد رکھو پردہ اسلام کا ایک اہم ترین حکم ہے.جو شخص پر دہ کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ اسلام کی ہتک کا ارتکاب کرتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مغربیت کی رو دلوں میں اباحت پیدا کر رہی ہے اور بعض احمدی بھی کہتے سنائی دیتے ہیں کہ اب پردہ دنیا میں قائم رہتا نظر نہیں آتا.مگر میں اُن سے کہتا ہوں تمہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وجود بھی دنیا میں قائم ہوتا نظر نہیں آتا تھا.پھر آج کیا یہ نظارہ تم اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ رہے کہ دنیا کے کناروں تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام پھیل چکا ہے اور اس کو مٹانے والے خدا تعالیٰ کے غضب کا نشان بن چکے ہیں.پھر میں کہتا ہوں کیا تم نے خدا کے اس نشان کو نہیں دیکھا کہ ۱۹۳۴ء میں احرار کا لشکر ہمارے مقابل میں اُٹھا اور اُس نے ہندوستان کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک ہمارے خلاف ایک طوفانِ بے تمیزی برپا کر دیا.چھوٹے بھی اور بڑے بھی ، عالم بھی اور جاہل بھی اس بات پر متفق ہو گئے کہ ہمیں مٹا دیں.گورنمنٹ کے کل پرزے بھی احرار کی تائید میں نظر آنے لگے ، حکام ان کی پیٹھ ٹھونکتے اور کہتے شاباش! تم بڑا اچھا کام کر رہے ہو.اُن نازک اور تاریک ترین ایام میں جب کہ بعض احمدی بھی کہہ رہے تھے کہ اب جماعت کا کیا بنے گا، خدا نے میری زبان پر جاری کیا کہ میں زمین احرار کے پاؤں تلے سے نکلتی دیکھتا ہوں.چنانچہ تھوڑے ہی دن گزرے کہ دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ زمین احرار کے پاؤں سے نکل گئی.یہاں تک کہ غیر احمدی اخبارات نے بھی اس صداقت کو تسلیم کیا.انہوں نے بھی انہی الفاظ سے احرار کی عبرتناک ناکامی کا ذکر کیا کہ زمین احرار کے پاؤں تلے سے نکل گئی.اسی طرح اب جو لوگ کہتے ہیں کہ پردہ قائم رہتا نظر نہیں آتا میں اُن سے کہتا ہوں کہ تمہیں تو پردہ قائم ہوتا نظر نہیں آتا ، اگر دنیا ہمارے وعظ ونصیحت سے متاثر ہو کر بے پردگی سے باز نہیں آئے گی تو کیا تم سمجھتے ہو اس زمین کو چکر دینا خدا کے اختیار سے باہر ہے؟ یہ بگڑی ہوئی دنیا جو آج تمہیں دکھائی دے رہی ہے خدا اسے ایک ایسا چکر دے گا کہ یہ مجبور ہوگی اس بات پر کہ اسلام کے احکام پر عمل کرے اور ہر قسم کی غلط آزادی کو خیر باد کہہ دے.
۶۸۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء خطابات شوریٰ جلد دوم اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑے بڑے اہم تغییرات مقدر ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ آدمی رات کو مومن سوئے گا اور صبح کو کا فر اُٹھے گا.صبح کو کافر ہوگا اور رات اُس پر ایسی حالت میں آئے گی جب کہ وہ مومن ہو گا.اس میں اسی امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اس زمانہ میں جلد جلد تغیرات رونما ہوں گے اور ایسے ایسے انقلاب پیدا ہوں گے جو انسانی قیاسات سے بالکل بالا ہوں گے.ایک شخص مومن ہونے کی حالت میں سوئے گا اور دہریہ بن کر اُٹھے گا، اور ایک دوسرا شخص دہر یہ ہونے کی حالت میں صبح کرے گا اور شام کو وہ محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ غلامی میں آچکا ہو گا.ہمارا کام یہ ہے کہ ہم خدا کے حکم کے مطابق چلتے چلے جائیں اور اپنی اطاعت اور وفا داری کا نمونہ دکھا کر خدا تعالیٰ کے سچے سپاہی بنیں.اگر ایک فوج کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ سمندر میں اپنے گھوڑے ڈال دے تو سپاہیوں کا یہ کام نہیں ہوتا کہ وہ اعتراض کریں اور کہیں کہ ہم سمندر میں اپنے گھوڑے کیوں ڈالیں ہماری جانوں کا اس میں خطرہ ہے.اُن کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ بے دھڑک سمندر میں گود جائیں اور اپنے افسر کے حکم کو بجالائیں.اسی طرح ہمیں اگر روحانی فوج میں داخل ہونے کے بعد بعض نا قابلِ عبور سمند ر نظر آتے ہیں یا وہ گڑھے نظر آتے ہیں جن میں گر کر ہماری پسلیاں چُور چُور ہوسکتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ ہم سمندر کو عبور کر جائیں اور گڑھوں پر سے چھلانگ لگا کر گزر جائیں تو اگر خدا کا منشاء یہ ہوگا کہ وہ ہمیں زندہ رکھے اور ہمارے ذریعہ سے دنیا کے احیاء کے سامان پیدا فرمائے تو پیشتر اس کے کہ ہم ان گڑھوں میں گریں خدا تعالیٰ کے فرشتے آسمان سے اتر کر اُن کو پُر کر دیں گے اور جب ہم پہنچیں گے وہ ہمیں گڑھے نہیں بلکہ ہموار اور سیدھا اور کھلا راستہ نظر آئے گا، پس ہمارا کام یہ ہے کہ ہم اپنی آنکھیں بند کر کے چلتے چلے جائیں اور اس امر کی پرواہ نہ کریں کہ دنیا ہمارے متعلق کیا کہتی ہے.جس خندق کو عبور کرنے کا خدا نے حکم دیا ہے وہ بہر حال عبور کی جائے گی.اگر ہمارے لئے یہ مقدر ہے کہ ہم اس میں گر کر مر جائیں تو اس موت سے زیادہ ہمارے لئے خوشی کی چیز اور کوئی نہیں ہوسکتی اور اگر ہمارے لئے مقدر ہے تو کوئی خطرہ ہمارے ارادوں کو پست اور ہماری ہمتوں کو کوتاہ نہیں کرسکتا.لیکن میں کہتا ہوں یہ خیال ہی غلط ہے کہ ہمارے رستے میں وہ گڑھے آنے والے ہیں جو ہمیں ہلاک کر دیں
خطابات شوری جلد دوم ۶۸۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء گے.ان گڑھوں کو خدا کے فرشتے ہمارے پہنچنے سے پہلے پہلے ہی پر کر دیں گے اور ہم سلامتی کے ساتھ دنیا میں امن کا جھنڈا قائم کر کے رہیں گے.یہ خدا کی تقدیر ہے جسے کوئی بدل نہیں سکتا ، یہ عرش پر خدا کا وہ فیصلہ ہے جسے بدلنے کی کوئی شخص طاقت نہیں رکھتا.ہمارا کام دین کی عظمت اور اس کے جلال کو دنیا میں قائم کرنا ہے، ہمارا کام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو دنیا میں بلند کرنا ہے، ہمیں نہیں چاہئے کہ ہم کوئی ایسا کام کریں جو دشمنوں کی نظر میں اسلام کو بد نام کرنے والا اور اُن کو دین کے متعلق اور زیادہ شبہات میں مبتلا کرنے والا ہو.بے پردگی مٹ جائے گی مجھے خدا تعالیٰ کے فضل سے کامل یقین ہے کہ یہ حالات جو بے پردگی وغیرہ کے سلسلہ میں دنیا میں نظر آرہے ہیں، چونکہ خدا تعالیٰ کے دین کے خلاف ہیں اس لئے اب دنیا میں قائم نہیں رہ سکتے.بے پردگی مٹ جائے گی ، مرد اور عورت کا آزادانہ میل جول جاتا رہے گا، مغربیت اپنے ہاتھوں اپنی قبر کھود رہی ہے جس میں وہ ایک دن ہمیشہ کی نیند سلا دی جائے گی اور اسلام اپنی پوری شان اور پوری آب و تاب کے ساتھ دنیا کے ہر گوشہ میں بلکہ ایک ایک گھر اور ایک ایک دل میں جلوہ نما ہو گا.اگر خدا ہمیں کل ہی حکومت دے دے اور ہم وائسرائے کی طرح ایک آرڈی ننس جاری کر دیں کہ جو عورتیں پر وہ نہیں کریں گی انہیں قید کر دیا جائے گا تو تم دیکھو گے کہ دوسرے ہی دن وہ عورتیں جو آج کھلے منہ سڑکوں اور بازاروں میں گھومتی دکھائی دیتی ہیں دوڑی دوڑی جائیں گی اور گھروں میں سے نہیں نکلیں گی جب تک اُنہوں نے برقع پہنا ہوا نہ ہو گا.پھر یہ سوال تو رہ جائے گا کہ برقع کا سرخ رنگ ہونا چاہئے یا سبز ہونا چاہئے ، سیاہ ہونا چاہئے یا سفید ہونا چاہئے ، کوئی طبقہ کسی رنگ کو پسند کرے گا اور کوئی کسی رنگ کو مگر یہ نہیں ہوگا کہ کوئی ایک عورت بھی بے پردہ نظر آئے.پس ہمارے لئے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں.آسمان پر فرشتے اسلام کی تائید کے لئے کھڑے ہیں اور وہ زمین پر اتر نے والے ہیں.ہمارا کام یہ ہے کہ ہم نڈر ہو کر کام کرتے چلے جائیں اور اسلام کی اصل شکل میں ایک خفیف سے خفیف تبدیلی بھی کبھی برداشت نہ کریں.
خطابات شوری جلد دوم ۶۸۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء مخلوط تعلیم اور ایک دردناک واقعہ باقی رہی مخلوط تعلیم.اس کے نقائص بعض دوستوں نے اپنی تقاریر میں بیان کر دیئے ہیں.اسی سلسلہ میں ایک احمدی دوست نے مجھے رقعہ لکھا ہے جس میں ایک احمدی لڑکی کے متعلق جو کالج میں پڑھتی تھی اُس نے لکھا ہے کچھ سال ہوئے میں میوہسپتال میں داخل تھا اور سخت بیمار تھا کہ ایک رات آدھی رات سے لے کر سحر تک میں نے اُسے ایک غیر احمدی لڑکے کے ساتھ ناز و ادا کرتے دیکھا.اُن دونوں کی غالباً کالج کی طرف سے ڈیوٹی تھی.اُس رات میرا دل یہ واقعہ دیکھ کر بہت ہی مجروح ہوا.ایسی باتیں بعض دفعہ گھروں میں بھی ہو جاتی ہیں.مگر گھروں میں ان چیزوں کے سامان ہم خود مہیا نہیں کرتے لیکن کالج کی فضاء ایسی ہوتی ہے جس میں دوسروں کی طرف سے اس قسم کے سامان مہیا کئے جاتے ہیں اس لئے کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے لڑکیوں کا بھیجوانا اور اُن کا لڑکوں کے ساتھ مل کر تعلیم حاصل کرنا نہایت ہی خطرناک چیز ہے.کہتے ہیں کسی حکیم سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے ہاتھ سے بھی مریض مرتے ہیں اور اناڑیوں کے ہاتھ سے بھی، پھر آپ میں اور اُن میں فرق کیا ہوا؟ اُس نے جواب دیا کہ میرے ہاتھ سے لوگ علم کے ماتحت مرتے ہیں اور اُن کے ہاتھ سے جہالت کے ماتحت مرتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ اگر انسان صحیح کوشش کرے اور پھر اتفاقاً کسی کوتاہی کی وجہ سے خراب نتیجہ نکل آئے تو اس کا انسان بہت کم ذمہ دار ہوتا ہے لیکن دوسری صورت میں دشمنوں کی شماتت بھی ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے بھی انسان پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور وہ گنہگار قرار پاتا ہے.“ سب کمیٹی نظارت امور عامہ کی رپورٹ سب کمیٹی نظارت امور عامہ کی رپورٹ پیش ہوئی تو حضور نے فرمایا : - دو پہلی تجویز جو دوستوں کے سامنے ہے زنانہ ہسپتال کے قیام اور ایک لیڈی ڈاکٹر کے متعلق ہے کہ اسے عورتوں کے علاج کے لئے قادیان میں رکھا جائے.جو دوست اس کے متعلق کچھ کہنا چاہتے ہوں وہ اپنے نام لکھوا دیں.“ 66 چند نمائندگان نے اپنی آراء کا اظہار کیا اس کے بعد حضور نے فرمایا: -
خطابات شوری جلد دوم وو ۶۸۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء دوستوں کے سامنے یہ تجویز پیش ہے کہ زنانہ مریضوں کے علاج کے لئے قادیان میں ایک لیڈی ڈاکٹر اور اس کے ساتھ ضروری عملہ رکھا جائے.اسی طرح علاج سے تعلق رکھنے والے سامان اور ادویہ وغیرہ کے لئے روپیہ منظور کیا جائے.اس کے متعلق دوستوں نے یہ رائے دینی ہے کہ آیا ایسا کیا جائے یا نہ کیا جائے ضمنی طور پر ایک دوست نے کہا ہے کہ زنانہ ہسپتال کے تمام اخراجات قادیان والے خود ادا کریں ، جماعت پر اس کا بار نہیں ہونا چاہئے.جس طرح بیرونی شہروں کے مریض اپنے اخراجات خود ادا کرتے ہیں اسی طرح قادیان کی طبی ضروریات پر جو کچھ خرچ ہو وہ خود قادیان والوں کو برداشت کرنا چاہئے، جماعت پر اس کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہئے.میرے نزدیک یہ مشورہ اُن اصول کے خلاف ہے جو دنیا کے تمام متمدن ممالک اور اقوام میں جاری ہیں.اگر ہم اس اصل کو تسلیم کر لیں تو پھر یہ سوال بھی پیدا ہو سکتا ہے کہ قادیان میں جو مدرسے جاری ہیں اُن کے اخراجات بھی خود قادیان والوں کو برداشت کرنے چاہئیں کیونکہ اُن کا زیادہ تر فائدہ قادیان والوں کو ہی پہنچ رہا ہے.پھر یہ بھی سوال اُٹھایا جا سکتا ہے کہ دنیا میں ہر جگہ لوگ اپنے مہمانوں کی خاطر مدارات کرتے اور حسب توفیق روپیہ خرچ کرتے ہیں قادیان میں بیر ونجات سے جو مہمان آتے ہیں اُن کے اخراجات بھی قادیان والوں کو خود ہی برداشت کرنے چاہئیں ، جماعت پر اُن اخراجات کا بار نہیں ڈالنا چاہئے.اگر اس طرح ایک ایک کر کے مختلف مذات کے اخراجات قادیان والوں پر تقسیم ہونے لگیں تو پھر غالبا چند رسالے ہی باقی رہ جائیں گے جن کا بوجھ جماعت پر رہے، باقی تمام اخراجات سے جماعت کے افراد آزاد ہو جائیں گے مگر کیا دنیا میں کہیں بھی یہ طریق رائج ہے کہ کسی مرکزی حیثیت رکھنے والے شہر میں کوئی ایسا ادارہ یا انسٹی ٹیوٹ قائم ہو اور اُس کے اخراجات صرف اُس شہر کے باشندے برداشت کرتے ہوں؟ گورنمنٹ اس میں حصہ نہ لیتی ہو؟ لا ہور میں میو ہاسپٹل قائم ہے مگر کیا لاہور کے باشندے اس کے اخراجات ادا کرتے ہیں؟ یا گورنمنٹ کالج ہے کیا اس کے اخراجات کی ذمہ داری صرف لاہور والوں پر اس وجہ سے ڈالی جاسکتی ہے کہ لاہور کے لوگ اس کالج سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ جو مرکزی ادارے ، ہوتے ہیں اُن کے اخراجات قومی طور پر تمام لوگوں کو ادا کرنے پڑتے ہیں.یہ نہیں ہوتا کہ
خطابات شوری جلد دوم ۶۸۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء ایک شہر کے رہنے والوں پر تمام اخراجات کا بوجھ ڈال دیا جائے.اگر قادیان کے لوگ عام چندوں کی ادائیگی میں سستی سے کام لینے والے ہوتے تو کہا جا سکتا تھا کہ چونکہ عام طور پر یہاں کے رہنے والے چندوں میں حصہ نہیں لیتے اور جماعت اُن کو ادا کرتی ہے اس لئے اب یہ بوجھ قادیان والے برداشت کریں.مگر جہاں تک میرا تجربہ ہے قادیان کے لوگ سب سے زیادہ چندہ دیتے ہیں، پس یہ دلیل جو پیش کی گئی ہے بالکل غلط ہے.شوریٰ میں وہی بات پیش ہوتی ہے جس کے متعلق فیصلہ کر دیا جاتا ہے کہ اس کے اخراجات کی جماعت پر ذمہ داری ہے.ایسے امور شوریٰ میں پیش نہیں ہوتے جو لوکل حیثیت رکھتے ہوں.بہر حال جو دلیل پیش کی گئی وہ صحیح نہیں.دوست یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ مالی مشکلات میں زنانہ ہسپتال نہ کھولا جائے یا فلاں گریڈ پر لیڈی ڈاکٹر کو رکھا جائے.مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس معاملہ کا جماعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.میرے نزدیک اس وقت اصل سوال صرف اتنا ہے کہ زنانہ ہسپتال قائم کیا جائے یا نہ کیا جائے.بعد میں ایک سب کمیٹی مقرر کر دی جائے گی جو تفصیلات طے کر کے صدر انجمن احمدیہ میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی.بہر حال میں اس وقت دوستوں سے صرف اجمالاً پوچھتا ہوں کہ اُن کے نزدیک ہسپتال کا زنانہ حصہ منظور کیا جائے یا نہ کیا جائے ؟ جو دوست اس کے حق میں ہوں وہ کھڑے ہو جائیں.“ ۳۱۷ دوست کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا : - اب اگر کوئی صاحب مخالف ہوں تو وہ بھی کھڑے ہو جائیں.“ کوئی دوست کھڑے نہ ہوئے.حضور نے فرمایا :- میں فیصلہ کرتا ہوں کہ زنانہ ہسپتال کے قیام کے سوال پر بجٹ پیش ہونے کے موقع پر غور کر لیا جائے اور اگر بجٹ میں گنجائش ہو تو اس کو منظور کر لیا جائے.مگر میں اس موقع پر لجنہ اماء اللہ سے بھی جس نے لیڈی ڈاکٹر رکھنے کی تجویز پیش کی تھی کہتا ہوں کہ اصولی طور پر گومیں نے کہہ دیا ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ قادیان کے کسی ادارہ کے اخراجات قادیان والے ہی ادا کریں لیکن پھر بھی اگر لجنہ اماءاللہ اس بوجھ کو اُٹھانے کی کوشش کرے اور وہ عورتوں سے اس بارہ میں چندہ جمع کر لے تو بجٹ کے معاملہ میں ہمیں زیادہ سہولت ہو سکتی ہے اور ہم بغیر کسی خاص فکر کے اُن کی تجویز کو منظور کر سکتے ہیں.“
خطابات شوری جلد دوم ۶۸۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء وو نیز فرمایا کہ: - " سیٹھ محمد صدیق صاحب کلکتہ والوں نے اپنی بیوی زبیدہ بیگم صاحبہ کی طرف سے مبلغ چارصد روپیہ زنانہ ہسپتال کے لئے دینا منظور کیا ہے.جَزَاهُمُ اللهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ.یہ وہی دوست ہیں جو اس سے پہلے یتامیٰ کے لئے ایک سو روپیہ ماہوار مدد دینے کا اعلان کر چکے ہیں.“ تیسرا دن مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء کے تیسرے روز کا رروائی کا آغاز چندہ جلسہ سالانہ کی اہمیت تلاوت قرآن مجید اور اجتماعی دعا سے ہوا.اس کے بعد سب کمیٹی نظارت بیت المال کی رپورٹ پیش ہوئی جس کا پہلا حصہ چندہ جلسہ سالانہ سے متعلق تھا.اس بارہ میں جب ممبران اظہارِ خیال کر چکے تو حضور نے احباب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: - شروع میں میں نے بتایا تھا کہ یہ سوال میں نے دوستوں کے سامنے صرف اُن کی آراء اور خیالات معلوم کرنے کے لئے پیش کیا ہے یہ غرض نہیں کہ اس کے متعلق کوئی رائے شماری کی جائے.دوستوں نے اس بارہ میں مختلف خیالات ظاہر کئے ہیں مگر اس وقت میں اُن میں سے کسی امر کے متعلق بھی آراء شماری کی ضرورت نہیں سمجھتا.صیغہ نے تمام خیالات کو سُن لیا ہے ان میں سے جو مفید خیالات ہیں صیغہ اُن کے مطابق عمل شروع کر دے.یا اگر ضرورت سمجھے تو اُن میں سے کسی ایک کو اگلے سال کی مجلس شوریٰ میں پیش کر دے.اگر صیغہ اپنی ذمہ داری پر یہ سمجھتا ہے کہ چندہ عام کی شرح کو بڑھا دینے سے چندہ جلسہ سالانہ کی کمی پوری ہو سکتی ہے تو وہ اگلے سال یہ معاملہ مجلس شوریٰ میں پیش کر دے.گو میری ذاتی رائے یہی ہے کہ یہ تجویز مفید نہیں ہوگی اور اس طرح جو وصولی ہو گی اُس کے متعلق سلسلہ یہ اندازہ نہیں لگا سکے گا کہ اس میں چندہ عام کس قدر ہے اور چندہ جلسہ سالانہ کس قدر.کیونکہ دونوں کو ایک ہی شرح چندہ میں شامل کر دیا جائے گا.پھر میرے نزدیک اس تجویز پر عمل کرنے کا ایک اور نقص یہ ہے کہ
خطابات شوری جلد دوم ۶۸۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے چندہ جلسہ سالانہ کو ایک مستقل کام قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ:- اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلاء کلمہ اسلام پر بنیاد ہے.اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لئے قو میں تیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آملیں گی.کیونکہ یہ اس قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسہ سالانہ کو ایک مستقل کام قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ کے حکم سے یہ سلسلہ جاری کیا گیا ہے.پس اگر چندہ جلسہ سالانہ کو الگ رکھا جائے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس زور دینے کی وجہ سے کہ ہمارا سالانہ جلسہ دوسرے لوگوں کے جلسوں کی طرح نہیں مومنوں کا اس کے چندہ میں حصہ لینا ان کے ایمانوں کو ہمیشہ تازہ کرنے کا موجب بنتا رہے گا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہر جماعت میں کچھ کمزور لوگ ہوتے ہیں، ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں بھی بعض کمزور اور منافق تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے زمانہ میں بھی بعض لوگ کمزور اور منافق تھے حالانکہ یہ لڑائی کا زمانہ نہ تھا اور اب بھی ہماری جماعت میں بعض کمزور اور منافق ہیں.اور آئندہ بھی ایسے کمزور اور منافق لوگ جماعت میں موجود رہیں گے مگر ہم اُن کے خیالات پر سلسلہ کا قیاس نہیں کر سکتے.جس طرح کسی اعلیٰ درجہ کی چیز پر قیاس نہیں کیا جاسکتا اسی طرح ادنی درجہ کی چیز پر بھی سلسلہ کا قیاس نہیں کیا جاسکتا.عام لوگوں کی حالت کا قیاس ہمیشہ اوسط درجہ کے مومنوں پر کیا جاتا ہے.پس ہم اپنی جماعت کے افراد کا نہ انبیاء پر قیاس کر سکتے ہیں اور نہ منافقوں کو دیکھ کر اُن پر قیاس کیا جا سکتا ہے.اُن کی حالت کا اندازہ تمام مومنوں کی حالت پر قیاس کر کے ہی کیا جاسکتا ہے اور مومن اس قسم کی باتوں سے ضرور متاثر ہوتا ہے.جب وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں میں پڑھتا ہے کہ ”لوگ معمولی اور نفلی طور پر حج کرنے کو بھی جاتے ہیں.مگر اس جگہ نفلی حج سے ثواب زیادہ ہے اور غافل رہنے میں نقصان اور خطرہ.کیونکہ سلسلہ آسمانی ہے اور حکم ربانی.اور یہ کہ ” جو اللہ
خطابات شوری جلد دوم ۶۸۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء 6 سفر کیا جاتا ہے وہ عند اللہ ایک قسم عبادت کے ہوتا ہے.تو اس کے دل میں جوش پیدا ہوتا ہے کہ میں اس مد میں بھی حصہ لے کر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کروں.پس اگر یہ مدا لگ رہے تو ایک مومن کا اخلاص تسلی پا جاتا ہے لیکن اگر یہ مد الگ نہ ہو بلکہ چندہ عام میں ہی اسے شامل کر دیا جائے تو اس کا اخلاص تسلی نہیں پاتا اور عام چندہ دینے کے باوجود اس کے دل میں حسرت رہ جاتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسہ سالانہ کی جو تحریک فرمائی تھی میں اُس میں حصہ نہیں لے سکا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں جماعت کے دوست چندہ جلسہ سالانہ ہمیشہ الگ دیا کرتے تھے اور چونکہ تمام انتظام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ میں تھا، اس لئے لوگ آپ کو روپیہ بھجوا دیتے یا یہاں آتے تو آپ کی خدمت میں پیش کر دیتے اور اس طرح ان کے دلوں میں سکینت پیدا ہو جاتی کہ انہوں نے نیکی کے اس شعبہ میں بھی حصہ لے لیا ہے.پس اگر اس چندہ کو الگ نہ رکھا جائے تو نیکی کی وہ روح جماعت میں پیدا نہیں ہوگی جو اسے الگ رکھنے کی صورت میں پیدا ہوتی ہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے پانچ روپے اگر نیکی کے ایک مقام پر خرچ کر دیے جائیں تو اس سے نیکی کی وہ روح پیدا نہیں ہوتی جو پانچ روپے پانچ مختلف جگہوں میں خرچ کرنے سے پیدا ہوتی ہے.اس طرح انسان کے دل میں نیکی کی روح زیادہ سے زیادہ ترقی کر جاتی ہے اور وہ اس بات کے لئے تیار رہتا ہے کہ جب بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی آواز آئے وہ فوراً اس پر لبیک کہتا ہوا قربانی پیش کر دے.مثلاً وہی دوست جو اب تحریک جدید میں حصہ لے رہے ہیں اگر دوسری تحریکوں میں اس سے زیادہ چندہ بھی دیں مثلاً وصیت کے حصہ آمد یا حصہ جائیداد کو بڑھا دیں مگر تحریک جدید میں حصّہ نہ لیں تو گو انہوں نے پہلی تحریکوں میں زیادہ حصہ لیا ہو گا مگر ان کے اندر نیکی میں ترقی کرنے کی وہ روح پیدا نہیں ہوگی جو اس طرح پیدا ہوتی ہے کہ ایک نئی مد میں نئی تحریک کے ماتحت قربانی پیش کر رہے ہیں.پس مختلف تحریکات کا ہونا جماعت کی روحانی ترقی کے لئے نہایت ضروری ہے.اگر صرف چندہ عام جماعت سے وصول کیا جاتا تو اس کے دل میں وہ روحانیت پیدا نہیں ہوتی جو چندہ عام اور وصیت کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے.اور اگر صرف چندہ عام اور وصیت کی مدات ہوتیں تو ان دونوں کے نتیجہ میں بھی وہ روحانیت پیدا نہ ہوسکتی
خطابات شوری جلد دوم ۶۸۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء جو چندہ عام، چندہ وصیت اور چندہ جلسہ سالانہ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے.گویا ہر نئی تحریک مومنوں کے دلوں میں ایک نیا ایمان پیدا کر دیتی ہے.میرا یہ مطلب نہیں کہ ہم دیوانگی کے طور پر اپنے چندوں کو بڑھاتے چلے جائیں.میرا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ سکیمیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کی روحانی ترقی کے لئے جاری فرمائی تھیں ہمارا فرض ہے کہ ہم اُن کو جاری رکھیں تاکہ نیکی کے موجبات اور اس کے محرکات ہر وقت ہمارے سامنے رہیں اور وہ نئی سے نئی شکل میں ہمارے سامنے آتے رہیں.کسی وقت وہ چندہ جلسہ سالانہ کی صورت میں ہمارے سامنے ہوں، کسی وقت چندہ عام کی صورت میں ہمارے سامنے ہوں، کسی وقت وصیت کی صورت میں ہمارے سامنے ہوں اور کسی وقت عید فنڈ کی صورت میں ہمارے سامنے ہوں حالانکہ اگر ہم سب چندوں کو اکٹھا کر دیں تو جیسا کہ ابھی بعض دوستوں نے بیان کیا ہے صرف اتنا کرنا پڑے گا کہ چندہ عام کی شرح بجائے ایک آنہ فی روپیہ کے مثلاً چھ پیسے فی روپیہ مقرر کر دینی پڑے گی.مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے خواہ ہم چھ پیسے شرح مقرر کر دیں ، جماعت کے اندر اس طرح نیکی کی وہ تحریک پیدا نہیں ہوگی جو ان مدات کو الگ الگ رکھنے کی صورت میں پیدا ہو سکتی ہے.اللہ تعالیٰ کو بھی دیکھ لوکس طرح وہ بار بار مختلف شکلوں میں نیکی کی تحریک کرتا ہے.مثلاً صبح کی نماز ہے.خدا تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ تم صبح چار رکعت نماز پڑھ لیا کرو بلکہ حکم دیا تو یہ کہ دوسنتیں پڑھو اور دو فرض ادا کرو.اس طرح بھی رکھتیں تو چارہی رہتی ہیں مگر چونکہ دو دورکعتیں الگ الگ پڑھی جاتی ہیں اس لئے ایک نماز کے ختم ہونے پر انسان کہتا ہے آداب میں دوسری نماز بھی پڑھ لوں اور اس طرح اس کے دل میں نیکی کی اور خواہش پیدا ہوتی ہے یا مثلاً ظہر کے پہلے اور پیچھے چار چارسنتیں اور درمیان میں چار فرض ہیں.اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہمیں یہ کہ دیا جاتا کہ ظہر کے وقت ۱۲ رکعت نماز اکٹھی پڑھ لیا کرو تو بظاہر اس میں کوئی حرج نہ تھا.اب بھی ہم ۱۲ رکعت پڑھتے ہیں اور اُس صورت میں بھی ہمیں ۱۲ رکعت نماز ہی پڑھنی پڑتی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے اس طرح ہمیں حکم نہیں دیا بلکہ چار چار الگ الگ رکعتیں پڑھنے کا حکم دیا.اس کی وجہ یہی ہے کہ رکعتوں کے مختلف حصے کر کے انسانی دماغ میں ایک ترتیب پیدا کی جاتی ہے اور اس کے دل پر طبعی طور پر یہ اثر ہوتا ہے کہ اب میں ایک اور نیکی کا کام
خطابات شوری جلد دوم ۶۹۰ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء کرنے لگا ہوں حالانکہ بات وہی ہوتی ہے، وقت اُتنا ہی خرچ ہوتا ہے مگر ہمیں فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہمارے اندر یہ تحریک پیدا ہوتی ہے کہ ایک نیکی کا کام تو ختم ہوا آؤ اب دوسرا نیکی کا کام کریں.دوسراختم ہوتا ہے تو ہم کہتے ہیں آؤ اب ہم تیسرا نیکی کا کام شروع کر دیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے جو جو تحریکات مختلف اوقات میں فرمائی ہیں اگر ہم ان تمام شقوں کو قائم رکھ سکیں اور یقینا ہمیں قائم رکھنی چاہئیں تو اس کا ایک مزید فائدہ یہ ہوگا کہ یہ مختلف تحریکات ہمارے قلب پر بار بار نیکی کا احساس پیدا کرتی رہیں گی.پس جہاں تک میری ذاتی رائے کا سوال ہے اور جہاں تک نیکی اور تقویٰ پیدا کرنے کا سوال ہے، ان لوگوں کے لئے جو نیکی اور تقویٰ کے حصول کے خواہش مند ہوں یہ مختلف مدات قائم رکھنی ضروری ہیں لیکن پھر بھی اگر محکمہ کو اس بارہ میں مشکلات ہوں یا سلسلہ کی ترقی کی کوئی بہتر صورت پیدا کی جاسکتی ہو تو اُس پر غور کیا جا سکتا ہے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں مجنون دنیا میں حقیقی کام عاشق مجتہد کے ذریعہ ہی ہوتا ہے نہیں بنایا بلکہ تقلص عقل مند بنایا ہے اور مخلص عقل مند کا یہ کام ہوتا ہے کہ جب وہ دیکھتا ہے کہ کسی خاص طریق پر کام کرنے کے نتیجہ میں نقص پیدا ہو رہا ہے تو وہ اُسے ترک کر دیتا ہے اور درحقیقت دنیا میں ایسے ہی لوگ کامیاب ہوا کرتے ہیں.نہ خالص مجتہد دنیا میں کام کر سکتا ہے اور نہ خالص متبع کام کر سکتا ہے.دنیا میں حقیقی کام عاشق مجتہد کے ذریعہ ہوا کرتا ہے.عشق اُسے اجتہاد سے روکتا رہتا ہے اور عقل اس کے عشق کو بے قابو نہیں ہونے دیتی اور یہی مومن کا کام ہے کہ وہ عاشق بھی بنے اور مجتہد بھی بنے.نہ عشق کو بے قابو ہونے دے اور نہ عقل کو شریعت پر حاکم بننے دے.یہی طریقہ ہے جس پر چل کر پہلی جماعتیں کامیاب ہوئیں اور یہی طریق ہے جس پر چل کر ہم فلاح حاصل کر سکتے ہیں.بعض دوستوں نے بیان کیا ہے کہ چندہ جلسہ سالانہ کی شرح میں اگر کمی کر دی جائے تو چندہ کی وصولی میں زیادتی ہو سکتی ہے مگر بعض اور دوستوں نے یہ بیان کیا ہے کہ اس طرح چندہ میں زیادتی ہونے کی بجائے اور بھی کمی ہو جائے گی.میری اپنی رائے بھی یہی ہے.میں نے ایک سال چندہ جلسہ سالانہ کی شرح کو کم کر دیا تھا مگر ناظر صاحب بیت المال کہتے
خطابات شوری جلد دوم ۶۹۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء ہیں اُس سال اسی نسبت سے چندہ کی وصولی کم ہو گئی.مگر میرے نزدیک اُن کا یہ خیال درست نہیں کہ جس نسبت سے چندہ کی شرح میں کمی کی گئی تھی اُسی نسبت سے وصولی میں کمی آگئی کیونکہ اُنہوں نے بتایا یہ ہے کہ ۳۸ - ۱۹۳۷ ء میں جب کہ جلسہ سالانہ کی شرح ۱۵ فیصدی تھی انہیں ۱۸ ہزار روپیہ وصول ہوا.مگر ۳۹.۱۹۳۸ء میں جب کہ یہ شرح کم کر کے دس فی صدی کر دی گئی تھی تو ۱۵ ہزار روپیہ وصول ہوا حالانکہ اگر اسی نسبت سے چندہ میں کمی آتی تو اس سال بجائے ۱۵ ہزار کے ۱۲ ہزار روپیہ آنا چاہیئے تھا.پس ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اُس سال اسی نسبت سے چندہ کی وصولی کم ہو گئی.ہاں ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ اس سال پوری جد و جہد نہیں کی گئی اور نہ ممکن تھا اتنی کمی نہ ہوتی.اگر نسبت کے لحاظ سے کمی واقع ہوتی تو چند ۱۲۰ ہزار آنا چاہئیے مگر چونکہ اس سال چندہ ۱۵ ہزار آیا ہے اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر اس سال زیادہ زور دیا جاتا تو یہ کمی بھی نہ ہوتی.اب بھی جیسا کہ امید کی جاتی ہے اگر پندرہ فی صدی کے حساب سے چندہ جلسہ سالانہ جماعت کے تمام دوست ادا کریں تو ۵۸ ہزار روپیہ وصول ہو سکتا ہے.سب کمیٹی کا اندازہ یہ ہے کہ اس طرح ۶۹ ہزار روپیہ وصول ہو سکتا ہے مگر میرے نزدیک یہ درست نہیں.اس سال کے بجٹ میں چندہ عام کی رقم ایک لاکھ ۶۵ ہزار روپیہ تجویز کی گئی ہے جس پر پندرہ فی صدی کے حساب سے ۳۳ ہزار روپیہ وصول ہو سکتا ہے اور حصہ آمد دو لاکھ ہے اس پر پندرہ فی صدی کے حساب سے قریباً ۲۵ ہزار آمد ہو سکتی ہے.گویا ۵۸ ہزار روپیہ اس صورت میں وصول ہو سکتا ہے جب ہر شخص سے اس کی ماہوار آمد پر پندرہ فی صدی کے حساب سے چندہ جلسہ سالا نہ وصول کیا جائے.سب کمیٹی نے اس کا انداز ہ ۶۹ ہزار روپیہ لگایا ہے.گویا اس کے اندازہ میں 11 ہزار روپیہ کی زیادتی ہے.بہر حال اگر پندرہ فی صدی شرح کے حساب سے ۵۸ ہزار روپیہ وصول کیا جاسکتا ہو تو دس فی صدی کے حساب سے ۳۸ ہزار روپیہ وصول ہوسکتا ہے.اگر جماعت کے بعض نادہند اس میں سے نکال دیئے جائیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے کوئی جماعت ایسی نہیں ہوتی جس میں کمزور یا منافق لوگ موجود نہ ہوں اور اس قسم کے لوگوں کو مد نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے.تب بھی جماعت کے دوستوں سے ۳۵ ہزار روپیہ کی رقم دس فی صدی شرح کے حساب سے آسانی کے ساتھ وصول کی جاسکتی ہے.اگر دس فی صدی شرح کے
خطابات شوری جلد دوم ۶۹۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء حساب سے ہی جماعت کے افراد سے چندہ وصول ہو جائے تو اس قحط کے زمانہ میں بھی جب کہ جلسہ سالانہ کے اخراجات بہت بڑھ گئے ہیں اور ۳۰ ہزار کے قریب پہنچ گئے ہیں، دو تین سالوں میں ہم اِس مد سے دس پندرہ ہزار روپیہ بطور ریز روفنڈ جمع کر سکتے ہیں اور پھر اس فنڈ سے مستقل جلسہ گاہ بن سکتی ہے.ہمارا جلسہ گاہ پر ہی سالانہ ہزار ڈیڑھ ہزار روپیہ خرچ ہو جاتا ہے.اگر یہ ریز روفنڈ قائم ہو جائے تو نہ صرف ہر سال جلسہ گاہ کا خرچ بچ سکتا ہے بلکہ مستقل جلسہ گاہ بنانے کے لئے بھی اخراجات نکل سکتے ہیں.اگر ہم اس فنڈ میں ۲۵ ہزار روپیہ جمع کر دیں جو چندہ جلسہ سالانہ کے بجٹ کے لحاظ سے تین سال میں جمع ہوسکتا ہے تو ہمارا جلسہ گاہ اخراجات سے آزاد ہو جاتا ہے اور پھر بقیہ رقم کو ریز روفنڈ کے طور پر رکھا جاسکتا ہے.غرض چندہ جلسہ سالانہ دس فی صدی شرح کے حساب سے ہی اگر صحیح طور پر جمع کیا جائے تو ہمیں اس میں کافی بچت ہو سکتی ہے.ہیں فیصدی تک چندہ جلسہ سالانہ کی شرح کو بڑھانے کا تو احتمال بھی پیدا نہیں ہوتا.پس میں سمجھتا ہوں یہ بھی ایک تجربہ کے قابل بات ہے.خصوصاً اس سال جو گرانی کے لحاظ سے مشکل ترین سالوں میں سے ہے.اب بھی اگر پورے طور پر زور دیا جائے اور چندہ جلسہ سالانہ کی وصولی کے لئے صحیح جدو جہد کی جائے تو شرح کی کمی کے باوجود چندہ کی وصولی میں کمی نہیں آسکتی.ناظر صاحب بیت المال کو چاہئے کہ وہ اخبار کے ذریعہ یہ اعلان کر دیں کہ ہم جماعتوں کو اس سال دس فی صدی شرح کے حساب سے چندہ جلسہ سالانہ دینے کی اجازت دیتے ہیں.بشرطیکہ جتنا چندہ انہوں نے پچھلے سال دیا تھا اس سال اُس سے دس پندرہ فی صدی زیادہ ادا کریں.مثلاً جس جماعت نے گزشتہ سال ایک ہزار روپیہ چندہ دیا ہے وہ اس سال گیارہ سو روپیہ جمع کرا دے.تو اُسے دس فی صدی شرح کے حساب سے چندہ جلسہ سالانہ دینے اور اپنی جماعت کے دوسرے لوگوں سے چندہ وصول کرنے کی اجازت ہوگی.اس زیادتی کا فائدہ یہ ہوگا کہ سیکرٹریان مال کو اس غرض کے لئے خاص طور پر جدوجہد کرنی پڑے گی اور بار بارلوگوں کے پاس جانا پڑے گا تا کہ یہ بار ساری جماعت پر مجموعی طور پر پڑے اور اس طرح جو نا دہند یا چندہ دینے میں سُست ہیں وہ بھی ہوشیار ہو جائیں گے اور کوشش کرنے والوں کو ثواب بھی مل جائے گا.یہ جو میں نے گزشتہ سال کے چندہ میں دس فیصدی زیادتی کا جماعتوں سے
خطابات شوری جلد دوم ۶۹۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء مطالبہ کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا جلسہ سالانہ کا خرچ تمیں ہزار روپیہ ہے مگر آمد اندازہ ۲۷ ہزار روپیہ ہے.اس زیادتی سے جماعتیں کوشش کریں گی کہ چندہ جلسہ سالانہ کی آمد اور اس کا خرچ برابر ہو جائے.(اب جلسہ کا خرچ پچاس ہزار سے اوپر چلا گیا ہے ) خدا اپنے سلسلہ کی مدد کرتا ہے بعض دوستوں نے کہا ہے کہ ملازم پیشہ لوگوں پر چونکہ بوجھ زیادہ ہے اس لئے ان سے کم چندہ لینا چاہئے ، زمینداروں اور تاجروں سے زیادہ لینا چاہئے.اس کے جواب میں بعض ملازموں نے کھڑے ہو کر کہا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر حالت میں زیادہ قربانی کر سکتے ہیں اس لئے یہ کہنا درست نہیں کہ اُن سے کم چندہ لیا جائے.میرے نزدیک جس دوست نے یہ بات کہی ہے انہوں نے واقعات سے غلط نتیجہ نکالا ہے اور اس قسم کے الفاظ ایمان اور اخلاص کو کم کرنے والے ہوتے ہیں.اس کے مقابلہ میں بعض دوستوں نے میرے متعلق یہ کہا ہے کہ میرے مانگنے کی وجہ سے لوگوں پر اثر ہو جاتا ہے مگر میرے نزدیک یہ بھی درست نہیں.حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم اخلاص اور ایمان کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے نفوس پر غور کریں اور تاریخ عالم پر نظر دوڑائیں تو ہمیں یہ امر تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ سچی بات تو یہ ہے کہ نہ آپ لوگوں نے چندہ دیا اور نہ میں نے مانگا.ہم میں سے ایک شخص کی زبان پر اللہ تعالیٰ بیٹھ جاتا ہے اور اپنے بندوں کو آواز دیتا ہے کہ اے میرے بندو! آؤ اور دین کی مدد کرو.پھر وہ اُسی وقت دوڑ کر دوسرے لوگوں کے دلوں میں بیٹھ جاتا ہے اور اُن کی زبان سے یہ الفاظ نکلوا دیتا ہے کہ ہم ہر قربانی کے لئے تیار ہیں، ہمارے مال اور ہماری جانیں دین کے لئے حاضر ہیں اس سے زیادہ میرے مانگنے اور آپ لوگوں کے دینے کی کوئی حیثیت نہیں.یہی سنت دنیا میں موجود تھی، یہی الفاظ دنیا میں پائے جاتے تھے، یہی قرآن دنیا میں پڑھا جاتا تھا مگر جب تک خدا تعالیٰ کا یہ فیصلہ نہ تھا کہ ابھی لوگوں کے کہنے کا وقت نہیں آیا لوگ نہیں سُنتے تھے اور جب تک خدا تعالیٰ کا فیصلہ یہ تھا کہ لوگوں کے ماننے کا وقت نہیں آیا لوگ نہیں مانتے تھے.جب خدا نے کہا مان لو تو لوگ ماننے لگ گئے اور جب خدا نے کہا سنو تو وہ سُننے لگ گئے.پس حقیقت یہ ہے کہ اس میں میرا یا آپ لوگوں کا کوئی دخل نہیں.جب خدا آسمان پر کسی امر کا فیصلہ کرتا ہے تو زمین پر اُس کے مطابق تغیرات پیدا کرنے شروع کر دیتا ہے اور
خطابات شوری جلد دوم ۶۹۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء جب تک خدا چاہے گا ، جب تک ہم اپنے آپ کو اس کے فضلوں کے مستحق بناتے رہیں گے اس کے اندر کوئی تغیر پیدا نہیں ہو گا چاہے قحط پڑے، لڑائیاں ہوں، مالی مشکلات آئیں مومن کا ایمان کسی حالت اور کسی زمانہ میں بھی قربانی کرنے سے دریغ نہیں کر سکتا.کل ہی میں نے صرف قادیان والوں کی بھینسوں کی قیمت کا اندازہ لگایا تھا اور میں نے بتایا تھا کہ وہ لاکھ ڈیڑھ لاکھ روپیہ مالیت کی ہیں.اسی پر قیاس کرتے ہوئے اگر ہم ان کی اور جائیدادوں کا اندازہ لگائیں تو میرا خیال یہ ہے کہ صرف قادیان کے احمدیوں کے پاس ایک یا دو کروڑ روپیہ کی جائیدادیں موجود ہیں.اُن کی بھینسیں ہی لاکھ ڈیڑھ لاکھ روپیہ کی ہیں.اس سے ہم قیاس کر سکتے ہیں کہ اگر کسی وقت یہ سوال پیدا ہو جائے کہ ہر شخص اپنے مال کی انتہائی حد تک قربانی کر دے تو صرف قادیان کی جماعت جو بیرونی جماعتوں کا بیسواں بلکہ پچیسواں حصہ ہے ایک یا دو کروڑ روپیہ کی جائیدادیں خدمتِ اسلام کے لئے پیش کر سکتی ہے اور بیرونی جماعتوں میں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھے اچھے امیر لوگ موجود ہیں.ان سب کا اگر اس کے مطابق اندازہ لگایا جائے اور ان کے ایمان اور اخلاص کو مدنظر رکھا جائے تو اس وقت بھی جب کہ ہماری جماعت کنگال اور غریب ہے، اگر واقعہ میں ایسا زمانہ آ جائے کہ ہمیں اپنا سب کچھ قربان کر دینا پڑے تو اب بھی جماعت بسہولت پندرہ بیس کروڑ روپیہ کی جائیداد دے سکتی ہے.سوال صرف یہ ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کس قدر مانگنے کی آواز آتی ہے.پھر جس قدر خدا لینا چاہتا ہے اور جس قدر ضرورت ہوتی ہے اُتنا روپیہ بہر حال جمع ہو جاتا ہے.نہ قحط اس میں روک پیدا کر سکتے ہیں نہ لڑائیاں اس میں روک بن سکتی ہیں نہ مالی تنگیاں لوگوں کو قربانی سے روکتی ہیں.میں نے جب تحریک جدید جاری کی تو میں نے جماعت کے دوستوں سے ۲۷ ہزار روپیہ کا مطالبہ کیا تھا اور میں آپ لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ میر انفس اُس وقت مجھے یہ کہتا تھا کہ ۲۷ ہزار روپیہ بہت زیادہ ہے، یہ جمع نہیں ہو گا مگر میرا دل کہتا تھا کہ اس قدر روپیہ کے بغیر کام نہیں چل سکتا.چنانچہ گو میں یہی سمجھتا تھا کہ اتنا روپیہ جمع نہیں ہوسکتا دینی ضرورتوں کو دیکھتے ہوئے میں نے تحریک کر دی اور ساتھ ہی دعائیں شروع کر دیں کہ خدایا ! ضرورت تو اتنی ہے مگر جن سے میں مانگ رہا ہوں اُن کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے میں اُمید نہیں
۶۹۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء خطابات شوری جلد دوم کرتا کہ وہ اس قدر روپیہ جمع کر سکیں، تو خود ہی اپنے فضل سے ان کے دلوں میں تحریک پیدا کر کہ وہ تیرے دین کی اس ضرورت کو پورا کریں.نتیجہ یہ ہوا کہ جماعت نے بجائے ستائیس ہزار کے ایک لاکھ دس ہزار کے وعدے پیش کر دیئے.میں ۲۷ ہزار کو ناممکن سمجھتا تھا میرے خدا نے مجھے ایک لاکھ ستائیس ہزار کے صرف وعدے دلا دیئے اور پھر وصولی بھی ہو گئی ، پس ہم نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ خدا آپ ہمارے سلسلہ کی مدد کرتا ہے.بعض دفعہ تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ معاملہ بالکل آسان ہے لیکن شور مچاتے رہو کچھ بھی نہیں بنتا اور بعض دفعہ انسان کہتا ہے کہ فلاں بات بالکل ناممکن ہے مگر خدا اُس وقت لوگوں کے دلوں میں ایسی تحریک قربانی کی پیدا کر دیتا ہے کہ اندازہ اور قیاس سے بڑھ کر چندہ اکٹھا ہو جاتا ہے.پس حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کام خدا کر رہا ہے اس لئے ہمیں ہر وقت خدا تعالیٰ سے صلح رکھنی چاہئے.اگر خدا سے ہماری صلح رہے تو ہمارے اموال میں کسی قسم کی کمی آ ہی نہیں سکتی.نہ مانگنا بے نتیجہ رہتا ہے اور نہ لوگوں کے لئے قربانیاں کسی تکلیف کا موجب ہوسکتی ہیں کیونکہ مومن جانتا ہے کہ میری جان اور میر امال میرا نہیں بلکہ خدا کا ہے اس لئے اگر وہ اپنا تمام مال بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دے تو وہ یہی سمجھتا ہے کہ ابھی اس نے نصف معاہدے کو پورا کیا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ہم نے مومنوں سے ان کے مال اور اُن کی جانیں لے لیں اور اس کے بدلہ میں انہیں جنت دے دی.گویا یہ ایک معاہدہ ہے جو مومن اور خدا کے درمیان ہوتا ہے.اس کے بعد اگر مومن اپنا تمام مال قربان کر دے تو اس صورت میں بھی وہ صرف اتنا سمجھتا ہے کہ اس نے نصف معاہدہ پورا کیا ہے.نصف معاہدہ ابھی اس نے پورا نہیں کیا اور میں نے بتایا ہے کہ معمولی اندازہ بھی اگر ہم اپنی جماعت کی زمینوں اور جائیدادوں اور اموال وغیرہ کا لگا ئیں تو پندرہ بیس کروڑ روپیہ کی مالیت کی جائیدادیں بن جاتی ہیں اور یہ پندرہ بیس کروڑ روپیہ ایک معمولی غریب جماعت خدا تعالیٰ کی راہ میں پیش کر سکتی ہے.خدا تعالیٰ نے یہ معاہدہ کرتے وقت یہ نہیں کہا کہ ہم تم سے کچھ حصہ مال کا لیں گے بلکہ فرمایا ہے کہ ہم تم سے تمہارے سب اموال مانگتے ہیں.پس اگر ہم کسی وقت اپنا ہر پیسہ خدا کی راہ میں دے دیں اور کپڑے تک فروخت کر کے ننگے ہو جائیں تو اس صورت میں بھی ہم صرف اُس نصف معاہدہ کو پورا کرنے والے
خطابات شوری جلد دوم ۶۹۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء بنتے ہیں جو مال کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.جان کے ساتھ تعلق رکھنے والا معاہدہ پھر بھی ہم پورا نہیں کرتے ، پس ہمارے پاس روپیہ کی کمی نہیں ہے.دعا یہ کرنی چاہئے کہ ہمارے ایمان محفوظ رہیں.جب تک ہمارے ایمان محفوظ رہیں گے اور خدا کرے کہ ہمیشہ محفوظ رہیں اس وقت تک ہمیں روپیہ کے حاصل کرنے میں کسی قسم کی دقت نہیں آسکتی.ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ اگر کسی وقت اس میں کوتاہی ہوئی تو اس کی ذمہ داری صرف ہم پر ہوگی اور ہمارے ایمانوں کا ہی نقص ہوگا جو اس کا باعث بنے گا ورنہ ایمان کے ہوتے ہوئے خدا تعالیٰ کی نصرت کبھی ہٹ نہیں سکتی.یہ ناممکن بات ہے کہ انسان کے دل میں ایمان بھی ہو اور خدا تعالیٰ کی نصرت کا ہاتھ بھی اس کے ساتھ نہ ہو.پس اس قسم کے خطرہ کے پیدا ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا..یہاں ابھی ایک دوست نے ایک بات کہی ہے جو ہے ہمارا معاملہ فی داتا سے ہے تو انہی والی تمرکل سیالکوٹ کے ایک دوست نے جو بات کہی تھی اس کا جواب مل گیا.اُس دوست نے بیان کیا ہے کہ بعض احمدی زمینداروں سے جب چندہ جلسہ سالانہ کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں ہم نے وہاں اتنی روٹی نہیں کھائی.در حقیقت جب بھی جماعت کے بعض لوگوں کے اندر یہ روح پیدا ہو جائے کہ فلاں جگہ جو کام ہو رہا ہے اس کے لئے ہم کیوں خرچ کریں تو اس قسم کے الفاظ زبان سے نکلا کرتے ہیں.پس یہ ایک نگی مثال اس نقص کی نکل آئی کہ بعض لوگ چندہ جلسہ سالانہ کے متعلق بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ زیادہ روٹی کھا جائیں تب تو انہیں چندہ دینا چاہئے ورنہ یہاں کی جماعت کو ہی جلسہ کے اخراجات برداشت کرنے چاہئیں.اس سلسلہ کو بڑھاتے چلے جاؤ تو اس کے نتائج نہایت ہی خطرناک نکل سکتے ہیں اور درحقیقت ایمان اور اخلاص کے راستہ میں یہ چیزیں پتھر بن کر حائل ہو جاتی ہیں اور انسان ترقی سے محروم ہو جاتا ہے.ہمارا کام صرف اتنا ہونا چاہئے کہ جب خدا تعالیٰ کے سلسلہ کی طرف سے کوئی آواز بلند ہو تو ہم اُس پر لبیک کہتے ہوئے اپنی قربانی پیش کر دیں اور یہ نہ دیکھیں کہ وہ کہاں خرچ ہوگا اور کہاں نہیں ہوگا.مومن کو ان باتوں سے کوئی غرض نہیں ہوتی اور نہ وہ یہ دیکھا کرتا ہے کہ اس نے جو چندہ دیا تھا وہ کس جگہ خرچ ہوا.میں اپنے دل میں یقین رکھتا ہوں کہ جو چندے
۶۹۷ خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء سلسلہ کی ضروریات کے لئے میں دیتا ہوں، اگر ان کے متعلق جماعت پر میرا کوئی اختیار نہ ہو تو خواہ میرے سامنے جماعت اُس چندہ سے آتش بازی چلا دے میری طبیعت میں ذرا بھی ملال پیدا نہ ہو کیونکہ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ جماعت نے روپیہ کہاں خرچ کیا.مجھے تو ثواب اُس وقت مل گیا تھا جب میں نے چندہ دیا اور جب مجھے ثواب مل چکا ہے تو مجھے اس سے کیا کہ وہ کہاں خرچ ہوگا اور کہاں خرچ نہیں ہوا.اگر خدا تعالیٰ نے یہ کہا ہوتا کہ جب رو پیر صحیح مصرف پر استعمال ہو گا تب ثواب ملے گا یا جتنا روپیہ استعمال ہوگا اتنے روپیہ کا ہی ثواب ملے گا باقی روپے کا ثواب نہیں ملے گا تو بے شک مجھے تر ڈ دہوتا اور میں فکر کرتا کہ یہ روپیہ صحیح جگہ پر صرف ہونا چاہئے اور سب کا سب صرف ہونا چاہئے.مگر جبکہ خدا تعالیٰ اسی وقت ثواب دے دیتا ہے جب انسان روپیہ دیتا ہے بلکہ دینے کا تو کیا ذکر ہے جب انسان دینے کا ارادہ کرتا ہے اس وقت ثواب دے دیتا ہے تو ایسی حالت میں مجھے یا کسی اور کو اس بات کا کیا شکوہ ہو سکتا ہے کہ وہ روپیہ صحیح مقام پر کیوں خرچ نہیں کیا گیا.اب اس کے خرچ کا میں ذمہ دار نہیں.میرا کام اتنا ہی تھا کہ روپیہ دے دوں.میں نے روپیہ دے دیا اور اس کی جگہ ثواب اپنے گھر لے آیا.اب میرا کیا حق ہے کہ میں دی ہوئی چیز کے متعلق یہ دیکھوں کہ دوسرے نے اسے کہاں خرچ کیا ہے.میں نے ایک چیز دینی تھی دے دی اور مجھے اس کی قیمت مل گئی.اب مجھے اس سے کیا کہ وہ روپیہ کہاں جاتا ہے.پس یہ سب دنیوی چیزیں ہیں اور ان کا زیادہ خیال رکھنا انسان کے ایمان کو کمزور کرتا ہے.میرا یہ مطلب نہیں کہ اصلاح قوم کے لئے انسان کوشش نہ کرے، کرے اور ضرور کرے.مگر جہاں تک اس کے دینے اور اُسے ثواب ملنے کا تعلق ہے جب یہ دونوں باتیں ہو چکیں تو اس کے بعد اسے کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہئے کہ اس کا روپیہ کالا چور لے جاتا ہے یا کالا کتا لے جاتا ہے.جب خدا تعالیٰ کے نام پر ہم نے کچھ روپیہ دے دیا اور خدا تعالیٰ نے اس کی قیمت ہمیں ادا کر دی تو اب وہ ہماری چیز کہاں رہ گئی.پس ہمارا کوئی حق نہیں کہ ہم یہ کہیں کہ ہمارا مال ضائع ہو گیا یا فلاں چیز ہماری تھی وہ کہاں خرچ کی گئی.گزشتہ دنوں اس کی ایک مثال ہمارے گھر میں بھی پیدا ہوگئی.باہر کی ایک لڑکی ہمارے گھر میں آئی ہوئی تھی.وہ لڑکی ایک غریب آدمی کی تھی.وَاللهُ أَعْلَمُ یہ سچ ہے یا
۶۹۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء خطابات شوری جلد دوم جھوٹ ، شریعت نے تحقیق سے قبل ہمیں کسی کو مجرم قرار دینے کا اختیار نہیں دیا.بہر حال ایک اور عورت کا جو ہمارے ہاں مہمان تھی ایک کپڑا چپڑایا گیا اور اس لڑکی کے متعلق یہ شبہ کیا گیا کہ کپڑا اس نے چرایا ہے.لڑکی سے پوچھا گیا تو اُس نے انکار کیا اور کہا میں نے کپڑا نہیں چرایا.وہ عورت چونکہ ہماری مہمان تھی اِس لئے میری بیوی نے اُسے ایک اپنا کپڑا نکال کر دے دیا یا پیسے دے دیئے کہ وہ ویسا ہی کپڑا خرید لے.خیر وہ عورت بھی چلی گئی اور لڑکی بھی.کچھ عرصہ کے بعد وہی لڑکی پھر ہمارے گھر میں آگئی اور اتفاقاً وہ عورت بھی آگئی جس کا کپڑا چڑھایا گیا تھا اور اس نے دیکھ لیا کہ اس کا کپڑا جو چُرایا گیا تھا اس لڑکی کے پاس ہے.وہ اس سے جھگڑ پڑی اور کہنے لگی کہ یہ میرا کپڑا ہے.اب نہ معلوم لڑکی نے کپڑا واقعہ میں چرایا تھا یا اس کپڑے سے ملتا جلتا اس کا کپڑا تھا.اگر چرایا تھا تب بھی چور کے لئے اقرار کرنا مشکل ہوتا ہے اور اگر پڑایا نہ تھا تب تو بات ہی اور تھی.بہر حال اس نے انکار کیا اور کہا یہ میرا کپڑا ہے.آخر جھگڑا بڑھ گیا اور دونوں آپس میں لڑنے لگ گئیں.اسی دوران میں لڑکی کو غصہ آگیا اور اُس نے دیا سلائی سے اُس کپڑے کو آگ لگا کر جلا دیا.دوسری عورت نے یہ دیکھ کر بڑا شور مچایا کہ اُس نے میرا کپڑا جلا دیا ہے.جب مجھے اس کی اطلاع ہوئی تو میں نے کہا یہ اس عورت کی غلطی تھی.یہ تو اس کا مال تھا ہی نہیں.جب ہم نے اس کے کپڑے کے پیسے دے دیئے تھے تو گویا اُسے اپنی قیمت مل گئی.اب وہ کپڑا اس کا نہیں تھا کہ وہ اس کے لئے شور مچاتی اور اس لڑکی سے لڑتی مگر وہ یہی کہتی چلی گئی کہ وہ تو تھا آپ کا احسان مگر چیز تو میری ہی تھی.یہی نقطہ نگاہ بعض احمدیوں کا ہے کہ وہ ایک چیز دیتے ہیں، اُس چیز کی اُنہیں قیمت دی جاتی ہے مگر پھر بھی وہ یہی سمجھتے ہیں کہ وہ چیز اُن کی ہے.ہم نے تو کبھی کسی چیز کو اپنا قرار ہی نہیں دیا.جب ہم نے اپنا روپیہ خزانہ میں دیا تو پھر وہ ہمارا روپیہ کہاں رہا.ہم تو اپنا روپیہ خدا کو دیتے ہیں اور خدا قیمت رکھا نہیں کرتا بلکہ اُسی وقت دے دیا کرتا ہے.اگر نعوذ باللہ ہمارا خدا نا دہند ہوتا تو ہم سمجھتے یہ جھگڑے والی بات ہے.یا خدا پہلے ہم سے روپیہ لے لیتا اور قیمت بعد میں کسی اور وقت دیتا پھر بھی کوئی جھگڑنے کی بات ہو سکتی تھی.مگر ہمارا خدا تو وہ ہے جو ارادہ پر ہی ثواب دے دیتا ہے.گویا قیمت پہلے دیتا اور چیز بعد میں لیتا ہے.پس ان باتوں کا خیال نہیں کرنا چاہئے.یہ چیزیں ایمان کو
خطابات شوری جلد دوم ۶۹۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء نقصان پہنچانے والی ہیں.ہمارا معاملہ ایک سخی داتا سے ہے اور وہ ہم سے صرف سودا ہی نہیں کرتا بلکہ اپنے پاس سے زائد انعامات بھی اپنے فضل سے دیتا ہے اور جس نے قیمت بھی دی اور زائد انعام بھی دے دیا اُس کے متعلق کسی کو کیا خدشہ ہو سکتا ہے اور کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ وہ چیز میری ہے.بے شک ایک ملازم کی حیثیت سے ہمیں فکر کرنی چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ روپیہ صیح جگہ خرچ ہو مگر یہ نہ ہو کہ سیالکوٹ والے کہیں اُن کا چندہ قادیان پر کیوں خرچ ہو رہا ہے.اس سے اُن کا کوئی تعلق نہیں.حقیقت یہ ہے کہ نہ لا ہور نے قادیان کو چندہ دیا ہے، نہ سیالکوٹ اور بنگال نے قادیان والوں کو چندہ دیا ہے بلکہ سب نے خدا کو چندہ دیا ہے.ابھی گزشتہ دنوں بنگال کے دوستوں میں یہ سوال پیدا ہو گیا تھا کہ ہمارا اتنا چندہ ہوتا ہے اس لئے ہمارا حق ہے کہ ہم اپنے لئے فلاں فلاں مطالبات مرکز سے کریں.میں نے ان سے کہا نیک بختو! تم اتنا تو سوچو کہ اگر قادیان خرچ نہ کرتا تو تمہارے کانوں تک احمدیت کی آواز کس طرح پہنچتی.اب تمہارا فرض ہے کہ بجائے اپنی ضروریات پر خرچ کرنے کے تم کوشش کرو کہ تمہارے روپیہ سے غیر ممالک تک اسلام اور احمدیت کا نام پہنچ جائے.پس یہ سوال نہیں کرنا چاہئے کہ ہمارا اتنا روپیہ ہے.اس روپیہ کو کہاں خرچ کیا گیا.ہمارا تعلق اپنے روپیہ سے اسی وقت ختم ہو جاتا ہے جب ہم اسے خدا کے لئے دے دیتے اور اس کی قیمت وصول کر لیتے ہیں.چوہدری عبد اللہ خاں صاحب نے کہا ہے کہ چندہ جلسہ سالانہ کی وصولی پر زور دیا جائے.میرے نزدیک یہ نہایت ضروری بات ہے اور نہ صرف نظارت بیت المال کو بلکہ سیکرٹریان مال کو بھی اس طرف توجہ کرنی چاہئے.چندہ عام کے متعلق بھی پہلے شکایت رہتی تھی کہ جماعتیں با قاعدگی کے ساتھ ادا نہیں کرتیں مگر جب نمائندگان کو اس کا ذمہ دار قرار دیا گیا اور وصولی پر زور دیا گیا تو اصلاح نمایاں ہو گئی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ چندہ کی پوری وصولی نہ ہونے میں جنگ کا بھی دخل ہے کیونکہ اشیاء گراں ہو گئی ہیں لیکن میرے نزدیک اگر مجلس شوری کے موقع پر اس چندے کا ایک جماعت وار نقشہ تیار کر کے اُسے پڑھ دیا
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء جائے یا لوگوں میں تقسیم کر دیا جائے جس میں یہ ذکر ہو کہ فلاں جماعت نے اتنا چندہ دیا ہے اور فلاں جماعت نے اتنا تو نقص واضح ہو جائے اور جماعتوں میں بھی یہ احساس پیدا ہوتا رہے کہ انہوں نے اس چندہ کو با شرح ادا کرنا ہے.ورنہ ان کا نام کم چندہ دینے والی جماعتوں میں آجائے گا.جماعت احمدیہ کی دیانت بہر حال چندہ کی وصولی پر زور دینا چاہئے کیونکہ اس کے نتیجہ میں جولوگ سُست ہوں وہ بیدار ہو جاتے ہیں.بعض دوستوں نے کہا ہے کہ سیکرٹریاں مال اس قسم کے چندے بعض دفعہ کچھ عرصہ تک اپنے پاس رکھ چھوڑتے ہیں اور مرکز میں وقت پر روانہ نہیں کرتے جس کے نتیجہ میں مرکز کو دقت محسوس ہوتی ہے.بے شک یہ ایک نقص ہے اور اس کے ازالہ کے لئے ہم ہمیشہ جماعت کو توجہ دلاتے رہتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہماری جماعت میں دیانتداری کی روح نَعُوذُ بِالله کم ہے.ہمارے چندوں کی وصولی خدا تعالیٰ کے فضل سے اتنی باقاعدگی سے ہوتی ہے اور پھر ان چندوں کو ایسی دیانتداری کے ساتھ مرکز میں بھیجا جاتا ہے کہ اس کی نظیر کوئی اور جماعت اس وقت پیش نہیں کر سکتی.اور لوگ بڑی بڑی رقموں کا تو کیا ذکر ہے چھوٹی چھوٹی رقمیں بھی دیانتداری کے ساتھ اپنے مرکز میں نہیں بھیجتے اور ہمیشہ یہ شور مچا رہتا ہے کہ فلاں شخص جو چندہ وصول کرنے پر مقرر تھا اتنا روپیہ نہین کر گیا اور فلاں اتنا روپیہ غبن کر گیا مگر ہمارے ہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے چندہ کی وصولی میں اتنی غیر معمولی دیانت پائی جاتی ہے کہ اس زمانہ میں کسی قوم میں بھی ایسی مثال نہیں ملتی.میں ایک دفعہ شملہ میں تھا کہ ایک بڑے گورنمنٹ افسر نے دعوت کی اور اس میں مجھے بھی مدعو کیا.میں نے کہا کہ میں شامل نہیں ہو سکتا کیونکہ ایسی دعوتوں میں انگریز افسروں کے ساتھ اُن کی بیویاں بھی آجاتی ہیں اور وہ مصافحہ کرنا چاہتی ہیں اور میں نے مصافحہ کرنا نہیں ہوتا جس کی وجہ سے انہیں تکلیف ہوتی ہے مگر اُنہوں نے اصرار کیا اور کہا کہ آپ ضرور شامل ہوں ، ہم آپ کو ایک طرف بٹھا دیں گے.چنانچہ میں اس دعوت میں شریک ہو گیا.مسٹر سٹرک لینڈ کو آپریٹو سوسائٹیز کے ایک انگریز رجسٹرار تھے.انہیں جب میرا پتہ لگا تو وہ میرے پاس آبیٹھے اور کہنے لگے کہ ہمارے پاس طاقت بھی ہے حکومت بھی ہے مگر پھر بھی
2 +1 مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء خطابات شوری جلد دوم ہمارے ملازموں میں بڑی بددیانتی پائی جاتی ہے.آپ کی جماعت بھی چندے وصول کرتی ہے آپ نے اس بد دیانتی کو دور کرنے کا کیا علاج کیا ہوا ہے؟ میں نے کہا ہمارے ہاں کوئی بددیانتی نہیں کرتا کیونکہ ان کا ایمان ہے کہ بد دیانتی انسان کے ایمان کو ضائع کر دیتی ہے.بے شک ہم کسی طاقت یا حکومت کا دباؤ اُن پر نہیں ڈال سکتے مگر ایمان کا دباؤ ایسی چیز ہے کہ جو کام حکومت کے دباؤ سے نہیں ہو سکتا وہ ایمان کے دباؤ سے ہو جاتا ہے اور اصل چیز ایمان ہی ہے.یہ اگر دل میں پیدا ہو جائے تو انسان نہ بد دیانتی کرتا ہے، نہ چوری کرتا ہے، نہ ڈاکہ ڈالتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ چیزیں اس کے ایمان کو ضائع کرنے والی ہیں.وہ انگریز افسر اُس وقت چھٹی پر انگلستان جارہا تھا.میری ان باتوں سے اس قدر متاثر ہوا کہ کہنے لگا اگر میں واپس آیا تو میں حکومت سے درخواست کروں گا کہ کو آپریٹو سوسائٹیز کے انسپکٹر پہلے چھ ماہ کے لئے امام جماعت احمدیہ کے پاس بھیج دیئے جایا کریں تا کہ وہ ان میں دیانت کی روح پیدا کریں.میں نے کہا آپ کو گورنمنٹ اس کی اجازت نہیں دے گی.کہنے لگا میں تو ضرور درخواست کروں گا.غرض وہ بہت ہی متاثر ہوا کہ جماعت احمدیہ میں کس قدر دیانت پائی جاتی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض دفعہ انسان سے بُھول چوک ہو جاتی ہے مگر بھول چوک اور چیز ہے اور بددیانتی اور چیز.بد دیانتی کی مثال ہماری جماعت میں شاذ و نادر کے طور پر ہی نظر آ سکتی ہے.ورنہ ہماری جماعت کے دوست ہزاروں روپیہ ماہوار وصول کرتے ہیں اور بغیر ایک پیسہ کی بددیانتی کے سب کا سب مرکز میں بھجوا دیتے ہیں اور اُن کے حساب ایسے صاف ہوتے ہیں کہ اُن پر کسی قسم کا اعتراض نہیں ہوسکتا.غرض خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہماری جماعت میں اس قدر دیانت پیدا کی ہے کہ بجائے اس کے کہ اعتراض کیا جائے اور دوستوں کا شکوہ کیا جائے ہمارا تو یہ کام ہے کہ ہم مسجدوں میں گر گر کر خدا تعالیٰ کا شکر بجالائیں کہ اُس نے جماعت کو ایسا اچھا نمونہ پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے.بے شک جہاں تک انفرادی معاملات کا تعلق ہے میں پوری طرح خوش نہیں.بعض لوگ قرض لے لیتے ہیں اور پھر واپس نہیں کرتے بعض اور کمزوریاں دکھاتے ہیں مگر ہمارا جماعتی معیار انفرادی معیار سے بہت بلند ہے.پس میں سمجھتا ہوں کہ اگر وصولی پر زور دیا جائے اور
خطابات شوری جلد دوم ۷۰۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء اُن کے چندہ کا ایک نقشہ بنا کر اُن کے سامنے ہمیشہ پیش کیا جایا کرے تو دس فیصدی شرح کے حساب سے ہی کافی چندہ جمع ہوسکتا ہے.نمائندگان شورای کا ایک اہم فرض محمد حسن صاحب احسان کی یہ تجویز بھی بہت ضروری ہے اور غالباً پہلی مجلس شوریٰ میں اس طرف توجہ بھی دلائی جا چکی ہے کہ ہر نمائندہ یہاں سے جا کر ایک میٹنگ کرے اور اس میں وہ تمام باتیں سُنائے جو یہاں بیان ہوئی ہیں.میں نے بھی کئی دفعہ کہا ہے کہ آپ لوگ یہاں اپنی مرضی سے نہیں آتے بلکہ بعض اور لوگ آپ کو یہاں اپنے نمائندہ کی حیثیت سے بھجواتے ہیں.پس آپ کا فرض ہے کہ جب آپ یہاں سے واپس جائیں تو اُن کو بتائیں کہ یہاں کیا کیا باتیں ہوئیں اور کون کون سے فیصلے ہوئے.اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو سودا لینے کے لئے بھیجے اور وہ سودا خرید کر اپنے گھر میں رکھ لے تو وہ دیانتدار نہیں سمجھا جاسکتا مگر میں نے لوگوں میں یہ عام طور پر نقص دیکھا ہے کہ وہ ایسے مواقع پر جو کام اُن کے سپرد ہو وہ تو کر لیتے ہیں.مگر جس نے انہیں بھیجا ہو اُسے بتاتے نہیں کہ کام ہو گیا ہے یا نہیں.اپنے کارکنوں میں ہی میں نے بارہا دیکھا ہے کہ جب میں اُن میں سے کسی کو کام کے لئے بھیجوں تو وہ کام کرنے کے بعد گھر میں بیٹھ جاتا ہے اور مجھے یہ اطلاع دینا ضروری نہیں سمجھتا کہ کام ہو گیا ہے یا نہیں.آخر مجھے خود اس کی طرف آدمی بھیجوانا پڑتا ہے کہ تم مجھے بھی تو بتاؤ کہ آخر کیا کر کے آئے ہو.تو یہ چیز ایسی ہے کہ اس کے بغیر وہ مفید نتائج کبھی حاصل نہیں ہو سکتے جو اس مجلس شوری سے حاصل ہونے چاہئیں.اگر ہماری جماعت کی طرف سے پانچ سو یا ہزار نمائندے یہاں آجائیں اور واپس جا کر جماعتوں میں ایک نئی زندگی پیدا کرنے کی کوشش نہ کریں تو محض مجلس شوری کسی بیداری کے پیدا کرنے کا موجب نہیں ہو سکتی.بیداری اسی صورت میں پیدا ہو سکتی ہے جب وہ یہاں سے جاتے ہی تمام کارروائی لوگوں کو سُنائیں اور پھر بار بار سناتے رہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مجلس شوری کی رپورٹ چھپ جاتی ہے مگر اول تو رپورٹ بہت دیر کے بعد شائع ہوتی ہے دوسرے رپورٹ پڑھنے کا وہ اثر نہیں ہوتا جو اپنے نمائندوں کے منہ سے سن کر اثر ہوتا ہے.جب وہ کہتا ہے میں آپ لوگوں کی طرف سے مجلس شوری میں شامل ہوا تھا اور میں نے یہ عہد کیا تھا کہ ہمارے
۷۰۳ خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء چندہ کی وصولی اس سال سو فی صدی ہو گی تو انسانی غیرت اور حمیت جوش میں آجاتی ہے اور تمام جماعت میں ایک بیداری پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ لوگ سمجھتے ہیں اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو ہمارا نمائندہ ذلیل ہو جائے گا اور یہ احساس ایسی چیز ہے جو انسان کو بڑی سے بڑی قربانی کرنے پر تیار کر دیتا ہے.ہم اللہ تعالیٰ کے معاملات کو دیکھیں تو اس احساس سے وہاں بھی فائدہ ہو جاتا ہے.دعا کے نازک ترین مواقع پر جب اللہ تعالیٰ کے انبیاء یا اس کے خلفاء اور اولیاء اُس کے حضور گر کر عاجزی کے ساتھ کہتے ہیں کہ یا اللہ ! اب ہمارے بس کی بات نہیں رہی.تُو نے خود ہمیں اس کام کے لئے کھڑا کیا ہے، اب ہم تیری مرضی پر ہیں.تیرا جی چاہے تو ہمیں لوگوں کی نگاہ میں ذلیل کر دے اور اگر تیرا جی چاہے تو اپنے نام کی لاج رکھ اور ہمیں ذلیل ہونے سے بچالے.جب اس طرح ایک طرف اللہ تعالیٰ کے رحم کو جوش میں لایا جاتا ہے دوسری طرف اُس کی غیرت کو حرکت میں لایا جاتا ہے تو اُس وقت کی دعائیں ایسی تیر بہدف بن جاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ زمین اور آسمان کی قوتوں کو ہلا دیتا ہے اور وہ کام جسے انسان بالکل ناممکن سمجھتا ہے ممکن ہو جاتا ہے.لوگ کہتے ہیں کہ اگر کتے کے آگے لیٹ جاؤ تو وہ بھی حملہ نہیں کرتا.پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اپنے جیسے انسانوں کے سامنے انسان ایک معاملہ پورے زور کے ساتھ رکھے اور وہ ان پر توجہ نہ کریں.جب وہ کہے گا کہ تم نے مجھے اپنا نمائندہ بنا کر قادیان بھیجا تھا اب بتاؤ تم میں یہ نستی کب تک رہے گی.میں تو یہ وعدہ کر کے آیا ہوں کہ جماعت اس قدر چندہ ضرور دے گی.پھر کیا آپ لوگ مجھے ذلیل کرنا چاہتے ہیں کہ چندوں کی ادائیگی میں مستی سے کام لیتے ہیں.جب اس طرح تحریک کی جائے تو جماعت میں بہت حد تک بیداری ہو جاتی اور اس کی شستی اور غفلت دُور ہو جاتی ہے.پس یہاں سے واپس جا کر اپنی اپنی جماعت کو تمام واقعات سنانے چاہئیں.تین چار سال متواتر میں اس طرف توجہ دلاتا رہا ہوں.اگر نمائندگان کی طرف سے کچھ غفلت ہوئی ہو تو انہیں اب اس طرف توجہ کرنی چاہئے.“
خطابات شوری جلد دوم ۷۰۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء صدر انجمن احمدیہ کے بجٹ کی تیاری اس سال بجٹ حضور کی ہدایات کے مطابق تیار نہیں کیا گیا تھا اس لئے سب کمیٹی بیت المال نے یہ تجویز منظور کی کہ ناظر صاحب بیت المال حضور کی ہدایات کے مطابق جدید بجٹ مرتب کر کے منظوری کے لئے پیش کریں.سب کمیٹی کی یہ رپورٹ مجلس مشاورت میں پیش ہوئی تو حضور نے بجٹ کے سلسلہ میں ہدایات دیتے ہوئے فرمایا : - ناظر صاحب نے سب کمیٹی کی یہ تجویز پڑھ کر سنائی ہے کہ اس دفعہ بجٹ مجلس شوری میں پیش نہ ہو کیونکہ وہ میری ہدایات کے ماتحت مرتب نہیں کیا گیا اور اسی وجہ سے سب کمیٹی اس پر غور نہیں کر سکی اور نہ اس کے پاس اتنا وقت تھا کہ جدید بجٹ پر غور کر سکے.اب ناظر صاحب بیت المال کو چاہئے کہ وہ اُن ہدایات کے مطابق جو پہلے سے موجود ہیں اور جن کے مطابق انہیں اس سال کا بجٹ بنانا چاہئے تھا ایک نیا بجٹ مرتب کر کے میرے سامنے پیش کر دیں.میں اس کے متعلق بعد میں مناسب غور کے بعد فیصلہ کر دوں گا.یوں تو جہاں تک کام کے صحیح طو پر چلنے کا سوال ہے میں اس بات میں کوئی حرج نہیں دیکھتا کہ اس دفعہ ایسا ہی ہو مگر ہماری بجٹ کو پیش کرنے سے جو غرض ہوتی ہے کہ جماعت کے تمام نمائندگان سے اس کے متعلق مشورہ لیا جا سکے وہ اس طرح پوری نہیں ہوتی اور میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ دوسرا سال ہے.جب کہ ہمیں اپنے بجٹ کو نمائندگان کے سامنے پیش کرنے کی بجائے اس کے لئے ایک سب کمیٹی مقرر کرنی پڑی ہے اور اس کے مشورہ سے بجٹ کا فیصلہ کرنا پڑا ہے.چونکہ اس میں صدر انجمن احمدیہ کی کوتاہی کا بہت کچھ دخل ہے اس لئے میں اس وجہ سے کہ صدر انجمن احمدیہ نے اپنی نگرانی کی ضرورت اور اس کی اہمیت کو نہیں سمجھا آئندہ سال ۴۵ ۱۹۴۴ء بجٹ بنانے کا اختیار چھین کر محاسبہ کمیٹی بصدارت ناظر بیت المال کے سپر د کرتا ہوں ، اُن کا فرض ہوگا کہ وہ آئندہ سال خود ہی بجٹ بنا ئیں اور پھر حسب قواعد اس بجٹ کو میرے سامنے پیش کر کے میری پہلی اور سرسری نظر کے بعد مجلس شوری میں پیش کرنے کے لئے شائع کر دیں.مگر یہ ضروری ہوگا کہ اس بارہ میں جو قواعد مقرر ہیں اُن کی پوری پابندی کی جائے.ہمارے ہاں قاعدہ یہ ہے کہ ہر مالی سال کے ساتویں مہینے میں ہر صیغہ سے بجٹ آمد و خرچ تیار ہو کر کمیٹی محاسبہ و مال میں پہنچ جانے چاہئیں.اسی طرح
خطابات شوری جلد دوم ۷۰۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء نظارت بیت المال کی طرف سے اپنے صیغہ کے بجٹ آمد وخرچ کے علاوہ صدر انجمن احمدیہ کی مجموعی آمد کا تفصیلی بجٹ بھی اُسی ماہ میں تیار ہو کر پہنچ جانا چاہئے.( قواعد وضوابط صدر انجمن احمدیہ صفحہ سے قاعدہ نمبر ۲۵۹) اس قاعدہ کی تمام صیغہ جات کے افسروں اور ناظروں کو پابندی کرنی چاہئے اور ان سب کا فرض ہے کہ وہ نومبر میں اپنے اپنے صیغہ جات کا بجٹ محاسبہ کمیٹی بصدارت ناظر بیت المال کے پاس بھیج دیں.اگر اس قاعدہ کے مطابق صیغہ جات کی طرف سے نومبر میں بجٹ نہ آئے یا کسی ایک یا ایک سے زائد صیغہ جات کا بجٹ نہ آئے تو میں محاسبہ کمیٹی کو اختیار دیتا ہوں کہ وہ اپنی مرضی سے اُن کے بجٹ تجویز کر دے خواہ اس میں کسی ناظر کی غفلت کا دخل ہو یا کسی افسر کی غفلت کا.میں متواتر سالہا سال سے دیکھ رہا ہوں کہ ناظر اپنے اپنے صیغہ کے بجٹ وقت پر نہیں بھیجتے اور اس وجہ سے محاسبہ کمیٹی بھی اس قانون کی پابندی نہیں کر سکتی کہ وہ بھی ” مالی سال کے نویں ماہ میں آمد و خرچ کا تفصیلی بجٹ مجلس میں پیش کرنے کے لئے اپنی رائے کے ساتھ دفتر ناظر اعلیٰ میں ارسال کر دے.اگر وقت پر صیغہ جات کی طرف سے محاسبہ کمیٹی کے پاس بجٹ پہنچ جایا کریں تو محاسبہ کمیٹی آسانی کے ساتھ وقت کے اندر اس بارہ میں اپنی رائے صدر انجمن احمدیہ کے سامنے پیش کر سکتی ہے مگر مجھے افسوس ہے کہ ان قواعد پر عمل نہیں ہو رہا.اس دفعہ ہی میرے پاس نظارت بیت المال کی طرف سے رپورٹ کی گئی ہے کہ قواعد کے مطابق تمام صیغہ جات کے بجٹ نومبر کے آخر تک دفتر میں پہنچ جانے چاہئے تھے لیکن باوجود بار بار کی یاد دہانیوں کے 9 جنوری تک بجٹ آتے رہے.یہ ایک بہت بڑی کوتا ہی ہے جو صیغہ جات کی طرف سے ہو رہی ہے حالانکہ جہاں تک صیغوں کا سوال ہے اُن کے لئے کسی زیادہ غور و فکر کی ضرورت نہیں ہوتی.وہ جانتے ہیں کہ ہماری اتنی آمد ہے اور اس قدر خرچ ہے.پس کوئی وجہ نہیں کہ وہ زیادہ وقت صرف کریں اور بلا وجہ دیر لگاتے چلے جائیں.میرے نزدیک اگر صیغہ جات کے ناظر چاہیں تو وہ اپنے اپنے صیغہ کا بجٹ دو تین گھنٹوں میں ہی تیار کر سکتے ہیں.اصل مشکل تو اُسے پیش آتی ہے جس نے روپیہ مہیا کرنا ہوتا ہے.مگر جس کے ذمہ روپیہ مہیا کرنا نہ ہو بلکہ اس کا صرف اتنا ہی کام ہو کہ وہ اپنی آمد اور خرچ کا اندازہ لگا کر بجٹ مرتب کر دے اُسے اس میں کیا دقت پیش آسکتی ہے.اس
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء کوتا ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ بجٹ وقت پر تیار نہیں ہوتا اور نہ باہر کی جماعتوں کو بھیجا جا سکتا ہے.اگر قواعد کی پابندی کی جائے تو یہ مشکلات بھی پیش نہ آئیں اور باہر کی جماعتوں کو بھی بجٹ پر غور کرنے کا کافی وقت مل جائے.میرے پاس بھی اس سال کا بجٹ مجلس شوری سے صرف ایک دن پہلے پہنچا اور میں نے اسے دیکھتے ہی کہہ دیا کہ یہ بجٹ میری ہدایت کے خلاف بنایا گیا ہے.میری ہدایت یہ تھی کہ ۴۲.۱۹۴۱ ء کے خرچ کے بجٹ پر اضافہ کی کسی صورت میں اجازت نہیں دی جائے گی.جب تک کہ قرض دُور نہ ہو سوائے استثنائی صورتوں کے.بلکہ میری ہدایت یہ بھی تھی کہ ۴۲.۱۹۴۱ء کے خرچ کے بجٹ سے ۱۵ ہزار روپیہ کم رکھا جائے مگر اس میں بجائے ۴۲ - ۱۹۴۱ء کے خرچ کے بجٹ پر بنیا د رکھنے کے گزشتہ سال کے بجٹ سے بھی ایک لاکھ 9 ہزار ۶۶۴ کی زیادتی کر دی گئی ہے.یہ زیادتی کس کے حکم سے ہوئی ہے؟ میرے اس جواب طلب کرنے پر صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے کہا گیا کہ انہوں نے میری کسی بات سے یہ سمجھا تھا کہ بجٹ ۴۴ ۱۹۴۳ء کی بنیاد کوئی خاص رقم نہ ہوگی بلکہ جس طرح گزشتہ سال میں نے خود غور کر کے بجٹ منظور کیا تھا اسی طرح اس دفعہ بھی مجلس جو ضروری اخراجات خیال کرے گی وہ میرے سامنے پیش کر دے گی اور میں غور کر کے بجٹ کو منظور کر لوں گا.گویا صدر انجمن احمدیہ نے جواب یہ دیا کہ انہوں نے یہ سمجھا تھا کہ بجٹ ۴۴.۱۹۴۳ء کی بنیا د ۴۳ ۱۹۴۲ء کے بجٹ کے اخراجات پر ہوگی ، ۴۲.۱۹۴۱ء کے خرچ کے بجٹ پر بنیاد نہیں ہوگی.میں نے انہیں کہا کہ جہاں تک انسانی عقل کا سوال ہے میں یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ آپ لوگوں کا یہ جواب درست ہے کہ ہم نے یہ سمجھا تھا کہ پہلا قاعدہ منسوخ ہو گیا ہے.وہ قاعدہ موجود تھا.اس بارہ میں میری ہدایات واضح تھیں اور میں یہ حکم دے چکا تھا کہ آئندہ ۴۲.۱۹۴۱ ء کے خرچ کے بجٹ پر اضافہ کی کسی صورت میں اجازت نہیں دی جائے گی جب تک کہ قرض دُور نہ ہو سوائے استثنائی صورتوں کے.پھر انہوں نے یہ کس طرح سمجھ لیا کہ یہ قاعدہ منسوخ ہو چکا ہے اور خود بخود بجٹ اخراجات ۴۴.۱۹۴۳ء کی بنیاد ۴۳ ۱۹۴۲ء کے بجٹ اخراجات پر رکھ دی.پھر یہ ایک عجیب بات ہے کہ جو بات اُنہوں نے سمجھی تھی اُس کے مطابق بھی انہوں نے بجٹ تیار نہ کیا بلکہ گزشتہ سال کے بجٹ اخراجات سے سائر مستقل عملہ کی معمولی سالانہ ترقیوں اور قحط الاؤنس وغیرہ کو ملا کر
مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء خطابات شوری جلد دوم ساٹھ ہزار کے قریب اس سال کا بجٹ بڑھا دیا حالانکہ جب وہ کہہ رہے تھے کہ ہم نے سمجھا یہ تھا کہ ہمیں اس سال کے بجٹ کی بنیاد گزشتہ سال پر رکھنی چاہئے تو کم سے کم انہیں اتنا تو چاہئے تھا کہ اخراجات کا بجٹ گزشتہ سال سے نہ بڑھاتے مگر یہ سمجھنے کے باوجود انہوں نے ساٹھ ہزار کے قریب روپیہ گزشتہ سال کے اخراجات کے بجٹ سے بھی زائد کر دیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک لطیفہ سنایا کرتے تھے.آپ فرماتے تھے کوئی شخص کسی باغ کی طرف سے آرہا تھا اور اُس کے سر پر انگوروں کا ایک ٹوکرا تھا، اتفاقاً راستہ میں باغ کا مالک مل گیا اور اس نے دیکھتے ہی پہچان لیا کہ میرے باغ میں سے یہ شخص انگور چرا کر گھر لئے جا رہا ہے.چنانچہ مالک نے اُس سے پوچھا کہ بتاؤ میرے باغ سے انگور کیوں لئے جاتے ہو؟ وہ کہنے لگا آپ ناراض نہ ہوں پہلے میری بات سن لیں اور پھر جو جی چاہے کہیں.اس نے کہا بہت اچھا بتاؤ کیا واقعہ ہوا؟ وہ کہنے لگا بات یہ ہوئی کہ میں جا رہا تھا کہ بگولا آیا اور اُس نے مجھے اُٹھا کر آپ کے باغ میں پھینک دیا.اُس نے کہا پھر.وہ کہنے لگا پھر ایسا اتفاق ہوا کہ جہاں میں آکر گرا وہاں انگوروں کی بیلیں تھیں آپ جانتے ہیں ایسے وقت انسان اپنی جان بچانے کے لئے ادھر اُدھر ہاتھ مارتا ہے.میں نے جو ادھر اُدھر ہاتھ مارے تو بیلوں سے انگور گر گر کر ایک ٹوکرے میں جو پہلے سے وہیں پڑا تھا اکٹھے ہونے شروع ہو گئے اب بتائیے اِس میں میرا کیا قصور ہے؟ مالک نے کہا یہاں تک تو جو کچھ ہوا ٹھیک ہوا.مگر تم یہ بتاؤ تمہیں یہ کس نے کہا تھا کہ وہ ٹوکرا اُٹھا کر اپنے گھر کی طرف چل پڑو؟ انگوروں والے نے جواب دیا کہ میں بھی یہی سوچتا چلا آ رہا تھا کہ مجھے یہ کس نے کہا ہے کہ اپنے گھر کی طرف انگور لے جاؤ.یہی حال صدر انجمن احمدیہ کا ہے.وہ کہتے ہیں ہم نے سمجھا تھا کہ اس سال کے بجٹ کی بنیاد گزشتہ سال پر رکھنی ہے مگر جب میں نے پوچھا کہ اگر آپ لوگوں نے یہی کچھ سمجھا تھا تو پھر گزشتہ سال کے بجٹ اخراجات سے یہ ساٹھ ہزار کا اضافہ کس طرح ہو گیا، بلکہ تمام جدید اخراجات کو شامل کر کے ایک لاکھ نو ہزار چھ سو چونسٹھ کا اضافہ کس طرح ہو گیا.تو وہ کہتے ہیں کہ ہم بھی حیران ہیں کہ یہ زیادتیاں کس طرح ہوئیں.بہر حال یہ صدر انجمن احمدیہ کی غفلت کی علامت ہے اور اس کے ممبر جو بات سمجھے تھے بجٹ بناتے وقت انہوں نے اس کے بھی خلاف عمل کیا.درحقیقت اس کو تا ہی میں بہت سا
خطابات شوری جلد دوم ۷۰۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء دخل اس امر کا بھی ہے کہ ناظر اپنے اپنے صیغہ کا بجٹ وقت پر تیار نہیں کرتے.میں نے خود بجٹ بنائے ہیں اور میرا عملی تجربہ اس بارہ میں یہ ہے کہ ہر ناظر اگر چاہے تو دو تین گھنٹے کے اندر اندر اپنے اپنے صیغہ کا بجٹ بنا سکتا ہے.ہمیشہ پہلا بجٹ بنانا مشکل ہوتا ہے.بعد کے بجٹ بنانے میں تو کوئی دقت پیش نہیں آتی.ناظر پچھلے سال کا بجٹ اپنے سامنے رکھ لے اور اس کے مطابق اگلے سال کا بجٹ تیار کر دے تو اس میں نہ وقت صرف ہوتا ہے اور نہ کوئی اور مشکل پیش آتی ہے.مگر میں نے دیکھا ہے عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ ہم نے اس بارہ میں فلاں کو چٹھی لکھی اور اُس کا جواب نہ آیا.مثلاً مدرسہ احمدیہ کے ہیڈ ماسٹر صاحب کو چٹھی لکھی گئی تھی جس کا انہوں نے بہت دیر کے بعد جواب دیا حالانکہ ایسے امور میں چٹھیاں بھیجنے کی کیا ضرورت ہے.ناظروں کا فرض ہے کہ وہ متعلقہ افسروں کو بلائیں اور کہیں کہ لو تم ہمارے سامنے بیٹھو، ہم ابھی اگلے سال کا بجٹ تیار کرتے ہیں.اگر آپ اس بارہ میں کچھ کہنا چاہتے ہوں تو ابھی بتا دیں.اگر اس رنگ میں کام کیا جائے تو بہت کچھ سہولت ہو سکتی ہے بلکہ نومبر کی بجائے اگر اکتوبر میں ہی یہ کام شروع کر دیا جائے تو اور بھی آسانی ہو جائے.بہر حال میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ آئندہ سال بجٹ بنانے کا حق صدر انجمن احمدیہ کو نہیں ہو گا اور نہ صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے پیش ہو گا بلکہ آئندہ سال کا بجٹ محاسبہ کمیٹی کی طرف سے پیش ہو گا.اگر ناظر صاحب بیت المال اس کے ممبر ہیں تب تو وہ اس میں شامل ہوں گے ہی لیکن اگر اس کے ممبر نہ ہوں تو آئندہ سال ناظر صاحب بیت المال اُس میں شریک ہوں گے اور وہ محاسبہ کمیٹی کے صدر ہوں گے.سب ناظروں کا فرض ہو گا کہ وہ وقت مقررہ کے اندر اندر اپنے اپنے صیغہ کا بجٹ محاسبہ کمیٹی کے پاس بھیج دیں اور اس بارہ میں بار بار یاد دہانیاں نہ کرائی جائیں.اگر ناظران صیغہ جات وقت کے اندر اپنے اپنے صیغہ کا بجٹ نہ بھیجیں تو محاسبہ کمیٹی کو ٹلی آزادی ہوگی کہ وہ خود ان صیغہ جات کا بجٹ تجویز کر دے.بجٹ کے لئے قواعد وضوابط میں جو تاریخیں مقرر ہیں اُن کی پوری پابندی ہونی چاہئے تا کہ وقت پر غور ہو سکے اور وقت پر جماعتوں کے سامنے پیش ہو سکے.اب چونکہ موجودہ صورت میں اس سال کے بجٹ کو مجلس میں پیش نہیں کیا جا سکتا اس لئے میں یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہوں کہ یہ بجٹ یہاں پیش نہ ہو بلکہ بعد میں سب کمیٹی کے سامنے پیش ہو.
خطابات شوری جلد دوم 2.9 مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء میں اس غرض کے لئے پھر وہی کمیٹی مقرر کرتا ہوں جو گزشتہ سال میں نے بجٹ کے لئے مقرر کی تھی.اور جس کے لئے (۱) چوہدری نعمت خاں صاحب (۲) پیرا کبر علی صاحب (۳) خان بہادر نواب محمد دین صاحب (۴) با بو عبد الحمید صاحب آڈیٹر (۵) میر محمد اسماعیل صاحب (1) مرزا عبد الحق صاحب (۷) راجہ علی محمد صاحب اور (۸) ملک غلام محمد صاحب ممبر ہیں.چوہدری عبد اللہ خاں صاحب چونکہ بیمار ہیں اس لئے میں اس دفعہ اُن کا نام نہیں رکھتا.سلسلہ کے تمام ناظر بھی اس کمیٹی میں شریک ہوں گے.ممبران کمیٹی کا فرض ہے کہ ۲۳ رمئی اتوار کے دن قادیان میں پہنچ جائیں تا کہ بجٹ پر غور کیا جاسکے.اب اگر چہ دوستوں کے سامنے بجٹ پیش نہیں ہو رہا مگر چونکہ جماعت کے دوستوں کی آراء سے ہمیں فائدہ اُٹھانا چاہئے اس لئے بجٹ پر جو عام بحث ہوتی ہے اُس کے متعلق میں احباب کو موقع دیتا ہوں جو دوست اس بارہ میں اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہیں وہ کر سکتے ہیں.“ اس کے بعد نمائندہ لجنہ سمیت چند نمائندگان نے اپنے خیالات کا اظہار کیا.اختتامی تقریر مجلس مشاورت کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد حضور نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد الوداعی تقریر میں احباب جماعت کو نهایت قیمتی نصائح سے نوازتے ہوئے فرمایا: - " جس حد تک شوری کے متعلق کارروائی ہو سکتی تھی وہ ہم ختم کر چکے ہیں اور اب صرف میری آخری تقریر اور دعا باقی ہے.بجٹ کے متعلق میں اظہارِ افسوس کر چکا ہوں کہ دو سال سے متواتر یہی ہو رہا ہے کہ بجائے اس کے کہ جماعت کے دوست سلسلہ کے اخراجات پر اپنے خیالات کا اظہار کر سکیں ، ہم اسے مجلس شوریٰ میں پیش نہیں کر سکتے لیکن بہر حال اس وقت تک جو کچھ ہو چکا ہے اب اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوسکتا اور اس کام کو ہم مجلس شوری میں اسی وقت کر سکتے ہیں جب سات آٹھ دن تک ہم اس کو لمبا کر دیں اور یہ امر دوستوں کی رخصتوں کو دیکھتے ہوئے ناممکن ہے.اس وقت دوستوں کی طرف سے بجٹ
خطابات شوری جلد دوم 21.مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء پر جو عام بحث ہوئی ہے وہ بہت سی مفید تدابیر پر مشتمل ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے میں محسوس کرتا ہوں کہ جماعت اس بارہ میں پہلے سے بہت کچھ ترقی کر چکی ہے.ابتداء میں جرح تو ہوتی تھی مگر وہ بعض دفعہ ایسا رنگ اختیار کر لیتی تھی جیسے غیر احمدیوں کا قاعدہ ہے کہ کسی افسر سے ناچاقی ہوئی یا کسی سے دوستانہ ہوا تو اُس کے متعلق مخصوص سوال اُٹھا دیا.مگر یہ روح اب بہت کم ہو گئی ہے اور دوستوں کی طرف سے جو جرح ہوتی ہے، دل مانتا ہے کہ وہ ضروری اور مناسب حال ہے.اگر یہ طریق جاری رہے تو اس کے مطابق ہم اپنے نظام کے نقائص کی اصلاح کر کے اُسے پہلے سے بہتر بنا سکتے ہیں.میں نے بتایا ہے کہ بیرونی دنیا میں اس کے متعلق جو دستور ہے وہ ہمارے ہاں نہیں بلکہ اس کے متعلق ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ اس طرح وہ باتیں اظہار خیالات کی حد سے نکل کر تجاویز اور پھر معتین تجاویز کی صورت اختیار کر لیتی ہیں لیکن دوسری طرف باوجود اس کے کہ کئی سال سے نمائندگان جماعت کی طرف سے بجٹ پر جو جرح اور تنقید کی جاتی ہے وہ زیادہ سے زیادہ مفید ثابت ہو رہی ہے، اب تک اس جرح سے صدر انجمن احمد یہ کے محکموں نے کوئی خاص فائدہ نہیں اُٹھایا اس لئے اب جبکہ ہمارے دوستوں کی طرف سے جرح و تنقید کا سلسلہ نہایت مفید ثابت ہو رہا ہے، یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس جرح سے کس رنگ میں فائدہ حاصل کیا جائے اور میں اس سال اسی سوال کو لیتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ اس جرح سے ہم کس طرح فائدہ اٹھا سکتے ہیں.پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کی طرف سے جو عملہ مجلس مشاورت کی روئداد مرتب کرنے کے لئے مقرر کیا جاتا ہے اور اس بارہ میں اس نے جو انتظام کیا ہوا ہے اُس کو مدنظر رکھتے ہوئے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کا فرض ہے کہ وہ آئندہ بجٹ پر عام بحث اور اس پر جرح و تنقید کے حصہ کو جلد سے جلد صاف کروالیا کریں.میرے نزدیک چونکہ یہ حصہ زیادہ لمبا نہیں ہوتا اس لئے دو تین ہفتہ میں آسانی کے ساتھ لکھا جا سکتا ہے.پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو چاہئیے کہ وہ دو تین ہفتہ کے اندر اندر اِس حصہ کو نقل کروا کر مجلس شوری کی تحقیقاتی کمیٹی کو پہنچا دیں اور تحقیقاتی کمیٹی کا فرض ہے کہ وہ تین ماہ کے اندر اندر ان تجاویز پر غور کر کے اپنی رائے صدر انجمن احمدیہ کے پاس بھیج دے کہ اُس کے نزدیک کون کونسی جرح
خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء قابل قبول ہے اور اس بات کا حق رکھتی ہے کہ اُس کی طرف توجہ کی جائے اور کون کونسی جرح قابل قبول نہیں.صدر انجمن احمد یہ آگے پھر تین ماہ کے اندر اندر اجلاس کر کے جن امور کو قابل عمل سمجھتی ہو، اُن کو اختیار کرنے کا فیصلہ کر کے متعلقہ محکموں کو احکام جاری کر دے اور پھر نئی مجلس شوری کے وقت صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے یہ رپورٹ پیش ہو کہ تحقیقاتی کمیٹی نے رکن رکن تجاویز کو قابل قبول قرار دیا تھا اور صدر انجمن احمدیہ نے اُن میں سے کس کس تجویز کو کس کس صورت میں جاری کرنے کا انتظام کیا اور کس کس تجویز کو رکن وجوہ کی بناء پر رڈ کیا.ایسی رپورٹ نئی مجلس شوری کے موقع پر صدرانجمن احمدیہ کی طرف سے ہر سال پیش ہوا کرے.اس طرح بجٹ پر بحث کرتے ہوئے جرح و تنقید میں جو باتیں بیان کی جاتی ہیں وہ صرف ہوائی باتیں نہیں رہیں گی بلکہ عملی طور پر ان پر غور کرنے کا موقع میسر آ جائے گا.سب سے پہلے وہ مجلس شوریٰ میں پیش ہوں گی پھر اُن تجاویز کو تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے گا جو قائم مقام ہے مجلس شوری کی.اور پھر تحقیقاتی کمیٹی اس کو صدرانجمن احمد یہ میں پیش کرے گی جو قائم مقام ہے مجلس عاملہ کی.اور دونوں کمیٹیاں اس پر غور کر کے مفید تجاویز اختیار کرنے کی کوشش کریں گی اور آخر میں نئی مجلس شوری کے وقت اس بارہ میں مفصل رپورٹ پیش کی جائے گی تا کہ مجھے اور مجلس شوری کے ممبروں کو یہ اندازہ لگانے کا موقع مل جائے کہ ان تجاویز پر کس حد تک عمل کیا گیا ہے اور اگر کسی تجویز پر عمل کرنے میں کوتا ہی سے کام لیا گیا ہو تو ہم فیصلہ کر سکیں گے کہ آئندہ خصوصیت کے ساتھ اس تجویز کو اپنے پروگرام میں شامل کر لیا جائے.غرض میں یہ قاعدہ مقرر کرتا ہوں تا کہ بجٹ پر جرح و تنقید کے سلسلہ سے صحیح رنگ میں فائدہ حاصل کیا جا سکے.احمد یہ ہوٹل کیلئے تحقیقاتی کمیٹی اس عام قاعدہ کے مقرر کرنے کے بعد اب میں بعض اُن باتوں کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جو دوستوں کی طرف سے اس وقت بیان کی گئی ہیں.پیر صلاح الدین صاحب نے احمد یہ ہوٹل کے متعلق جو جرح کی ہے اُس کو مدنظر رکھتے ہوئے اور اُن رپورٹوں کو دیکھتے ہوئے جو میرے پاس پہنچتی ہیں میں یقینا سمجھتا ہوں کہ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ جلد سے جلد احمد یہ ہوٹل کی طرف توجہ کی جائے.مثلاً داڑھی منڈوانے کا سوال ہے ، ہماری جماعت میں
خطابات شوری جلد دوم ۷۱۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسے نوجوان موجود ہیں جنہوں نے فوج میں بھرتی ہو کر بھی باوجود اِس کے کہ اُن کو قید کر دیا گیا انہوں نے داڑھی نہیں منڈوائی اور آخر اُن کے افسروں نے اُن کے دعوی کی صحت کو تسلیم کیا اور انہیں اجازت دے دی کہ وہ اگر داڑھی رکھنا چاہتے ہیں تو بیشک رکھیں.پس اگر فوج میں ہمارے بعض احمدی نوجوان ایسا اچھا نمونہ دکھا سکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ کالج کے طلباء یا سکول کے طالب علم جن پر اس قسم کا کوئی دباؤ نہیں ہوتا، وہ اس بارہ میں کوئی اچھی مثال قائم نہ کرسکیں.میرے نزدیک اس بارہ میں فوراً ایک تحقیقاتی کمیٹی مقرر ہونی چاہئے جو فیصلہ کرے کہ آخر وجہ کیا ہے کہ احمد یہ ہوٹل کی نگرانی کا کام صحیح طور پر نہیں ہو رہا.میں نے خود سپر نٹنڈنٹ صاحب احمد یہ ہوٹل سے اس بارہ میں گفتگو کی ہے اور اُنہوں نے بعض معتین مثالیں میرے سامنے اس قسم کی پیش کی ہیں کہ دو دو تین تین ماہ سے اُنہوں نے بعض امور نظارت تعلیم و تربیت کی طرف بھجوائے ہوئے ہیں مگر ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا.یہاں تک کہ نظارت تعلیم و تربیت کو تاریں دی گئیں اور اُس نے کوئی جواب نہ دیا.یہ نہایت ہی غفلت اور کوتاہی کی علامت ہے اور یہ غفلت اور کوتا ہی نظارت تعلیم کی طرف سے ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب کہ باقی نظارتیں بیدار ہو رہی ہیں.نظارت بیت المال کے کام میں نمایاں اصلاح نظر آتی ہے، نظارت امور عامہ کا کام ایک زندہ کام ہے، نظارت دعوۃ و تبلیغ کے کام میں بھی اصلاح کے آثار دکھائی دیتے ہیں مگر نظارت تعلیم و تربیت نے اس رو سے فائدہ نہیں اٹھایا.پس اس غرض کے لئے ایک سب کمیٹی مقرر کی جانی چاہئے بلکہ میں اسی تحقیقاتی مشاورتی کمیٹی کو ہی احمد یہ ہوٹل کے متعلق تحقیقات کرنے کا حکم دیتا ہوں.اس کمیٹی کے بہت سے ممبر لا ہور کے ہیں اور وہ اس وجہ سے احمد یہ ہوٹل کے حالات کو زیادہ بہتر سمجھ سکتے ہیں.اس کمیٹی کے ممبران کو چاہئے کہ وہ فوراً یہ اعلان کرا دیں کہ جس جس شخص کو احمد یہ ہوٹل کے متعلق کوئی اعتراض ہو وہ اُنہیں لکھ کر بھیج دے.سپرنٹنڈنٹ صاحب احمد یہ ہوسٹل سے بھی دریافت کریں کہ اُن کے نزدیک کیا کیا نقائص ہیں.ان نقائص کی اصلاح کی طرف کیوں اب تک کما حقہ توجہ نہیں کی گئی اور پھر جو اصلاحی سکیمیں اور تجاویز ہوں جن سے طلباء میں دین کی رغبت اور محبت پیدا کی جاسکے جا سکے اور جن پر عمل کرنے کے نتیجہ میں احمد یہ ہوٹل کا انتظام پہلے سے بہتر ہو جائے اُن پر
خطابات شوری جلد دوم ۷۱۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء غور کر کے یہ کمیٹی میرے پاس رپورٹ کرے تا کہ آئندہ ان کوتاہیوں کا ازالہ ہو جائے.میرا اپنا تجربہ بھی یہی ہے کہ احمد یہ ہوٹل لاہور کے طلباء میں اب وہ جوش نہیں رہا جو پہلے پایا جاتا تھا.پہلے زمانہ میں جو طالب علم وہاں داخل ہوتے تھے وہ سلسلہ کی تحریکات میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے.جب مسجد لنڈن کی میری طرف سے تحریک کی گئی تو صرف احمد یہ ہوٹل لاہور کے طلباء نے دو ہزار روپیہ چندہ دیا تھا مگر اب بتانے والے بتاتے ہیں کہ تفسیر کبیر کی خریداری کے متعلق تحریک کی گئی تو لڑکوں نے عام طور پر اس کے خریدنے سے انکار کیا.اب گجا تو یہ حالت تھی کہ احمد یہ ہوٹل کے طلباء نے مسجد کے لئے دو ہزار روپیہ دے دیا اور کجا یہ حالت ہے کہ ایسی ضروری کتاب جس کا مطالعہ اُن کے ایمان کے لئے نہایت ہی ضروری ہے، اس کی خریداری سے انہوں نے انکار کر دیا آخر یہ فرق کیوں ہے؟ خلیفہ وقت پر اعتراض کے نقصان میں سمجھتا ہوں بے شک اس کی ذمہ داری لڑکوں پر بھی ہے مگر ایک حد تک اس کی ذمہ داری اُن لوگوں پر بھی ہے جنہوں نے اس وقت تقریریں کی ہیں.پہلے یہ صورت ہوا کرتی تھی کہ سال میں دو تین دفعہ جب بھی مجھے لاہور جانے کا موقع ملتا میں خاص ارادہ سے احمد یہ ہوٹل میں ٹھہرا کرتا تھا.اس کی یہ وجہ نہیں تھی کہ ہمیں ٹھہرنے کے لئے کوئی اور جگہ نہیں ملتی تھی.جگہیں تو کئی ملتی تھیں مگر میں محض اس لئے وہاں ٹھہرتا تھا کہ لڑکوں کے اندر دینی روح پیدا ہوگی اور احمدیت سے ان کا اخلاص بڑھے گا مگر بعض لوگ اعتراض کرنے کے عادی ہوتے ہیں اُنہوں نے میرے احمد یہ ہوسٹل میں ٹھہرنے پر بھی اعتراض کرنے شروع کر دیئے کہ اس طرح لڑکوں کی پڑھائی میں حرج واقع ہوتا ہے.آخر میری غیرت اس کو برداشت نہ کرسکی اور میں نے احمد یہ ہوسٹل میں ٹھہرنا ترک کر دیا مگر اس کے ساتھ ہی لڑکوں کے جوش اور اخلاص میں بھی کمی آنی شروع ہو گئی.میں نے دیکھا ہے پہلے امتحان کے دن ہوا کرتے تھے مگر لڑ کے احمدیت کی تبلیغ کے جوش میں سائیکلوں پر چڑھ کر تمام شہر میں اشتہار بانٹتے پھرتے تھے اور پھر امتحان میں وہ کامیاب بھی ہو جاتے تھے مگر اب باوجود اس کے کہ اُن کی پڑھائی کا اس رنگ میں کوئی حرج نہیں ہوتا اُن کے امتحانات کے نتائج نہایت رڈی ہو گئے ہیں اور دینی حالت میں جو فرق پیدا ہو گیا ہے وہ تو ظاہر ہی ہے.پس درحقیقت اس میں اُن لوگوں
خطابات شوری جلد دوم ۷۱۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء کا بھی قصور ہے جنہوں نے میرے وہاں ٹھہرنے پر اعتراضات کئے اور یہ کہا کہ اس طرح لڑکوں کی تعلیم میں حرج واقع ہوتا ہے.اب انہوں نے دیکھ لیا ہے کہ اس کا کیا نتیجہ ہوا.میرا تجربہ یہی ہے کہ قربانی سے ہی انسان کا دماغ ترقی کرتا ہے.اگر قربانی نہ ہو اور آرام اور سہولتیں میسر ہوں تو یہ چیزیں انسان کو سُست تو بنا دیتی ہیں مگر اسے قابل نہیں بنا تیں.کم سے کم دین میں ایسا انسان کوئی نمایاں مقام حاصل نہیں کرسکتا.مجھے خوب یاد ہے میں ایک دفعہ امتحان کے دنوں میں لاہور گیا تو لڑکوں نے امتحان کا کام چھوڑ دیا مگر باوجود اس کے اُن کے نتائج آجکل کے نتائج سے بہت اچھے ہوا کرتے تھے.وہ نوجوان آج بھی موجود ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے سلسلہ کے سرگرم کارکن ہیں مگر اب جو طالب علم لاہور میں پڑھ رہے ہیں مجھے اُن میں کوئی اس پایہ کا نظر نہیں آتا.اس کی وجہ یہی ہے کہ اُن کو قربانی سے بچانے کی کوشش کی گئی.اگر اُن کو قربانی سے بچانے کی بجائے زیادہ سے زیادہ قربانی سے کام لینے کی عادت ڈالی جاتی تو پھر بھی وہ امتحانات میں پاس ہو جاتے مگر مزید فائدہ یہ ہوتا کہ اُن کی دینی حالت سدھر جاتی.چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے ابھی ذکر کیا ہے کہ جن دنوں یہاں ابتداء میں غیر احمدیوں کا جلسہ ہوا تو جو کالجیئٹ اُن دنوں لاہور سے قادیان آئے تھے اُن کی انہوں نے فہرست بنا لی تھی اور وہ کہتے ہیں کہ اُن طالب علموں میں سے ایک بھی امتحان میں فیل نہ ہوا حالانکہ وہ امتحان کے دن تھے.تو در حقیقت روحانی سلسلے قربانیوں کے ذریعہ ہی ترقی کیا کرتے ہیں.اعتراض کرنے والوں نے بے شک اعتراض کر دیا مگر اس کا کیا نتیجہ نکلا ؟ وہی لڑکے جن کی خاطر یہ اعتراض کیا گیا تھا روحانی لحاظ سے گر گئے اور اُن کے امتحانات کے نتائج بھی اچھے نہ رہے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے میرے احمد یہ ہوسٹل میں ٹھہرنے کی یہ وجہ نہیں ہوا کرتی تھی کہ مجھے ٹھہرنے کے لئے اور کوئی جگہ نہیں ملتی تھی.جگہیں تو بیسیوں ملتی تھیں مگر محض اس وجہ سے کہ لڑکوں میں دینی جوش قائم رہے میں بجائے کسی اور جگہ ٹھہرنے کے احمد یہ ہوسٹل میں ٹھہرا کرتا تھا اور میں نے دیکھا ہے کہ اُس وقت لڑکوں کی طرف سے یہ درخواستیں آیا کرتی تھیں کہ دعا کریں ہمیں تہجد پڑھنے کی توفیق مل جائے مگر آجکل یہ کہا جاتا ہے کہ دعا کریں لڑکوں کو پانچ نمازوں میں سے ایک نماز پڑھنے کی توفیق مل جائے.آخر یہ تغیر کیوں ہوا اور
۷۱۵ خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء اتنا بڑا فرق کس لئے پیدا ہو گیا؟ میرے نزدیک گو اس کی اور بھی وجوہ ہوں مگر اس کی بہت بڑی ذمہ داری اُن ماں باپ پر بھی ہے جنہوں نے اس وقت تقریریں کی ہیں.انہوں نے لڑکوں کو دینی قربانی سے روکا اور اس کے بوجھ کو اُن کے امتحانات کی کامیابی میں روک سمجھ لیا.نتیجہ یہ ہوا کہ وہ دونوں لحاظ سے گر گئے.اگر یہ بوجھ ان پر رہنے دیا جاتا تو وہ اسلام کے بہادر سپاہی بنتے اور اُن کے کندھے دین کا بوجھ اُٹھانے کے لئے ہر وقت تیار رہتے.اس وقت عمارتوں وغیرہ کے متعلق بھی دوستوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے کہ یہ اخراجات ضروری ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ ان اخراجات کے بغیر چارہ نہیں.اس کے متعلق غور تو میں بعد میں کروں گا مگر میں سمجھتا ہوں اس میں بہت حد تک ہمارے دفاتر کی کو تا ہی کا دخل ہے آج سے چھ یا نو ماہ پہلے میں نے ناظر تعلیم و تربیت سے کہا کہ اگر لڑکوں کے بیٹھنے کے لئے کمرے نہیں تو کچے مکان بنا لو اور چھت پر سرکنڈے ڈال لو آخر ہم پر لڑکوں پر کو کسی مکان میں بٹھانا فرض ہے.یہ فرض تو نہیں کہ وہ مکان پختہ ہو اور اس پر ہزاروں روپیہ خرچ کیا گیا ہو.میں نے ان سے کہا کہ ہمارے سکول کی تو پھر بھی ایک شاندار عمارت شانتی نکیتین جو ہندوؤں کا کالج ہے اُس میں تو لڑکے درختوں کے نیچے بیٹھ کر ہے.پڑھتے ہیں پھر ہم اپنے لڑکوں یا لڑکیوں کو کیوں کچے مکانوں میں نہیں بٹھا سکتے.مگر میری اس بات کی طرف توجہ نہ کی گئی.اسی طرح آٹھ سال ہو گئے میں نے ناظر تعلیم و تربیت سے کہا کہ نصرت گرلز سکول کے پاس جو زمین ہے وہ خرید لو.چونکہ یہ زمین سکول کے بالکل قریب ہے اس لئے سکول کی ضروریات کے کام آجائے گی مگر اُس وقت میری اس بات کی طرف بھی کوئی توجہ نہ کی گئی.اب ایک احمدی نے اس زمین کو خرید لیا اور اُس نے وہاں اپنا مکان بنانا چاہا تو صدرانجمن احمد یہ کو بھی خیال آگیا کہ یہ زمین ہمیں خریدنی چاہئے تھی.نتیجہ یہ ہوا کہ اب صرف ایک کنال زمین دو ہزار روپیہ میں خریدی گئی ہے حالانکہ اُس وقت ساری زمین دو ہزار روپیہ میں مل سکتی تھی اور اب غالباً ساری زمین خریدنے پر دس بارہ ہزار روپیہ صدرانجمن احمدیہ کو خرچ کرنا پڑے گا اور عمارت بنانے پر تو شاید تمیں چالیس ہزار روپیہ خرچ کرنا پڑے کیونکہ اب ہر چیز گراں ہو گئی ہے.اب نئی عمارتوں کے سلسلہ میں دو ہزار روپیہ مانگا جاتا ہے حالانکہ
خطابات شوری جلد دوم 217 مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء جب میں نے کہا تھا اگر اُس وقت کچے مکان بنا لئے جاتے تو چھ سات سو روپیہ میں تمام کام ہو جاتا.ہائی سکول میں پاخانہ کی ضرورت کے متعلق جو سوال اٹھایا گیا ہے وہ بھی میرے نزد یک حیرت انگیز ہے.یہ تو ہم تسلیم کرتے ہیں کہ جنگ آئی تو چیزیں مہنگی ہو گئیں مگر یہ کس طرح تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ جنگ میں لڑکوں کو پیشاب زیادہ آنا شروع ہو گیا ہے.آخر وجہ کیا ہے کہ یہ ضرورت پہلے کبھی محسوس نہیں ہوئی اور اب محسوس ہو رہی ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ چونکہ روپیہ زیادہ آنا شروع ہو گیا ہے، اس لئے جی چاہتا ہے کہ اسے کسی جگہ خرچ کیا جائے.میں یہ تو مان سکتا ہوں کہ سکول کے کمرے کم ہیں اور لڑ کے زیادہ ہیں اور اس کی وجہ بھی سمجھ میں آجاتی ہے کہ جنگ کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے اپنے لڑ کے تعلیم کے لئے قادیان بھجوا دیئے ہیں.پہلے آٹھ سولڑ کے یہاں ہوا کرتے تھے مگر اب ۱۳ سولڑ کے پڑھتے ہیں اور قریباً ہر جماعت میں سیکشن کھولے گئے ہیں مگر یہ تو نہیں کہ جنگ میں پیشاب زیادہ آنا شروع ہو جاتا ہے کہ اب کہا جاتا ہے اس کے متعلق انتظام کرنا چاہئے.آخر پہلے کئی سال کس طرح گزارہ ہوتا رہا؟ جس طرح پہلے گزارہ ہوتا رہا ہے اسی طرح اب بھی ہو سکتا ہے مگر اب اس پر زیادہ زور دینا اور کہنا کہ اس کے بغیر چارہ ہی نہیں بتاتا ہے کہ چونکہ روپیہ زیادہ آنا شروع ہو گیا ہے اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ اسے کسی نہ کسی رنگ میں ضرور خرچ کیا جائے.حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ ایک زمیندار میرے پاس آیا اور اس نے کہا مولوی صاحب! مجھے مشورہ دیں.اس وقت آٹھ سو روپیہ میرے پاس ہے میں اسے کہاں خرچ کروں؟ آپ نے فرمایا کوئی مسجد بنوا دو.وہ کہنے لگا کوئی اور بات بتائیں.فرماتے تھے میں نے کہا اچھا کہیں کنواں کھدوا دو.اُس کی اس سے بھی تسلی نہ ہوئی اور کہنے لگا کوئی اور کام کی بات بتائیں.آخر میں نے اُسے بڑی بڑی نیک باتیں بتائیں اور کہا کہ تم یہ روپیہ اس اس طرح خرچ کرو تو تمہیں بڑا ثواب ملے گا مگر وہ خاموش رہا.آخر میں نے اُس سے پوچھا کہ تم بتاؤ تمہاری اپنی کیا رائے ہے؟ وہ کہنے لگا فلاں شخص نے بڑا اچھا مشورہ دیا ہے.اُس نے کہا ہے کہ فلاں خاندان سے تمہاری عداوت ہے، تم اُس پر کوئی مقدمہ چلا دو اور اِس روپیہ سے اُسے سزا دلوانے کی کوشش کرو.تو ہمیں عقل مند بننا چاہئے ، روپیہ کو دیکھ
خطابات شوری جلد دوم 212 مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء کر اسے پلا ضرورت خرچ کرنے کے لئے تیار نہیں ہو جانا چاہئے.اللہ تعالیٰ نے ایک لمبے عرصہ کی تنگی کے بعد ہمارے لئے یہ فراخی کا موقع پیدا کیا ہے.ہم پہلے تین مبلغ ہر سال رکھا کرتے تھے مگر مالی تنگی کی وجہ سے ایک لمبے عرصہ تک ہم ایک مبلغ بھی نہ رکھ سکے.اب جب کہ خدا نے تمہیں مال دیا ہے تم اپنے دانتوں تلے زبان دبا کر بیٹھ جاؤ اور کوشش کرو کہ اس روپیہ سے تمہارا قرض اُتر جائے اور ریز رو فنڈ قائم ہو جائے.ریز رو فنڈ قائم کرنا ہماری اہم ترین ضروریات میں سے ہے.اگر ہم چند سالوں میں کئی لاکھ روپیہ کا ایک ریز روفنڈ قائم کر دیں تو سلسلہ کی کئی ضرورتیں اس فنڈ سے پوری ہوسکتی ہیں.قادیان میں کالج کی ضرورت اس وقت ہمارے سامنے ایک نہایت ضروری مسئلہ قادیان میں کالج قائم کرنا ہے.ہم جانتے ہیں کہ ہمارے لڑکے جب یہاں سے تعلیم حاصل کر کے بیرونی کالجوں میں داخل ہوتے ہیں تو اُن کی دینی حالت سخت ناقص ہو جاتی ہے لیکن اگر اپنا کالج گھل جائے تو تمام لڑکے خدا تعالیٰ کے فضل سے محفوظ ہو جائیں یا ایک غالب اکثریت محفوظ ہو جائے اور شاذ و نادر کے طور پر کوئی خراب ہو.مگر اب یہ حالت ہے کہ جب ہمارے لڑکے یہاں سے دسویں جماعت پاس کر کے باہر جاتے ہیں تو فوراً رپورٹیں آنی شروع ہو جاتی ہیں کہ قادیان سے فلاں لڑکا پڑھ کر آیا تھا مگر وہ روزانہ سینما دیکھنے کے لئے جاتا ہے یا فلاں لڑکا روزانہ داڑھی منڈوا تا ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ نگرانی کے بعد لڑ کے یہاں سے ایسی کم عمری کی حالت میں جاتے ہیں کہ بیرونی اثرات کا مقابلہ نہیں کر سکتے.اور جیسے دریا کا بند ٹوٹ جاتا ہے اسی طرح نگرانی ختم ہوتے ہی اُن کے نفس کا بند ٹوٹ جاتا ہے اور وہ دنیا میں ملوث ہو جاتے ہیں.پس میرے نزدیک لڑکوں کی خرابی کی بڑی وجہ یہی ہے کہ اُن کی بے وقت نگرانی ختم ہو جاتی ہے اور ان کی طبیعت میں ایسا رد عمل پیدا ہو جاتا ہے کہ اُن کی حالت پہلے سے بدتر ہو جاتی ہے.اگر یہاں سے لڑکا بی.اے پاس کر کے جائے تو کبھی اس کی دینی حالت خراب نہ ہو.پس یہاں کالج کا کھلنا اہم ضروریات میں سے ہے مگر اس کے لئے سرمایہ کی ضرورت ہے.جب تک کافی سرمایہ نہ ہو کا لج نہیں گھل سکتا اور یہی وقت سرمایہ جمع کرنے کا ہے.اس وقت اللہ تعالیٰ نے تمہیں موقع دیا ہے کہ تم روپیہ جمع کرو اور اس سے نہ صرف قرض اُتارو بلکہ
خطابات شوری جلد دوم ZIA مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء ریز رو فنڈ بھی قائم کرو تا کہ اس کے ذریعہ سے اس قسم کی ضروریات پوری ہوسکیں.میرے نزدیک ان دنوں میں چھ لاکھ سے دس لاکھ روپیہ تک ریز روفنڈ میں جمع ہوسکتا ہے اور یہ ریز رو فنڈ اُن تنگی کے سالوں کے لئے جو درمیان میں آتے رہتے ہیں، ہمارے لئے ذخیرہ کا کام دے سکتا ہے.سورہ یوسف میں یہی نسخہ بتایا گیا ہے کہ اچھے سالوں کی فصل کو بُرے سالوں کے لئے محفوظ رکھو اور یہ وہ نسخہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ایک رؤیا کے ذریعہ بادشاہ مصر کو بتایا.ہرکشن داس کا مشورہ نہیں کہ انسان کہے اگر میں نے اس پر عمل نہ کیا تو کیا ہو گیا.روپیہ جمع کرنے کا فائدہ بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ مال پس انداز کرنا دنیا داری ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر اُن کا یہ نظریہ درست ہے تو خدا تعالیٰ نے فرعونِ مصر کو یہ رویا کیوں دکھایا اور پھر حضرت یوسف علیہ السلام نے اس خواب کی جو تعبیر بتائی اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کیوں فرماتا ہے کہ ہم نے خود یوسف علیہ السلام کو تعبیر کا علم سکھایا تھا.گویا جس طرح یہ خواب خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اُسی طرح اس کی تعبیر بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اس خواب کے ذریعہ ہمیں بھی مشورہ دیا گیا ہے کہ فراخی کے ایام میں اپنے لئے مال پس انداز کیا کرو تا کہ تنگی کے ایام میں وہ تمہارے کام آوے یہ کسی ہرکشن داس کا مشورہ نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا مشورہ ہے اور خدا تعالیٰ کے مشورہ کو رڈ کرنا کسی دیندار کا کام نہیں ہو سکتا.پس یہ بالکل غلط خیال ہے کہ مال کو پس انداز کرنا دنیا داری ہے.مال کو دنیا کے لئے پس انداز کرنا بیشک دنیا داری ہے لیکن دین کے لئے پس انداز کرنا ہرگز دنیا داری نہیں.کیونکہ ایسا انسان اگر ایک طرف مال جمع کرتا ہے تو دوسری طرف اُسی مال کو خدا تعالیٰ کے دین کے لئے خرچ کر کے ثابت کر دیتا ہے کہ اُس نے دنیا کے لئے مال جمع نہیں کیا تھا بلکہ خدا تعالیٰ کے لئے مال جمع کیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک ارشاد سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے.آپ نے ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول کو جب کہ آپ جموں میں ملازم تھے لکھا کہ میں نے سنا ہے آپ سارا روپیہ صرف کر دیا کرتے ہیں ، یہ درست نہیں.اپنی تنخواہ کا چوتھا حصہ ہر مہینہ جمع کیا کریں تا کہ وہ وقت پر دین کے کام آ سکے یا اگر افراد کو یہ مشورہ دیا جا سکتا ہے تو جماعت کے لئے یہ مشورہ کیوں ضروری نہیں.اور اگر ایک فرد روپیہ جمع نہ کرنے کی وجہ سے قابل نصیحت سمجھا جا سکتا ہے تو جماعت روپیہ جمع
۷۱۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء خطابات شوری جلد دوم نہ کرنے کی وجہ سے کیوں قابلِ اعتراض نہیں سمجھی جاسکتی.جو کام ضروری ہیں اور جن کے بغیر گزارہ ہی نہیں ہو سکتا وہ تو بے شک کرو مگر یہ نہ ہو کہ روپیہ پس انداز کرنے میں غفلت سے کام لو.یہ ایک اہم کام ہے جس کی طرف توجہ رکھنا نہایت ضروری ہے.اگر ہم اس کی اہمیت کو نظر انداز کر دیں گے اور غیر اہم کاموں پر اپنا روپیہ ضائع کر دیں گے تو دین کے ان مہتم بالشان کاموں میں جو ہمارے پیش نظر میں سخت حرج واقع ہوگا اور ہم خدا تعالیٰ کے حضور اس کے متعلق جواب دہ ہوں گے.پس میرا مشورہ اس وقت یہی ہے کہ روپیہ پس انداز کرو اور ریز روفنڈ قائم کرو.چندے بڑھانے کی تلقین اور اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ گو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری آمد گزشتہ سالوں کی نسبت بہت بڑھ گئی ہے لیکن پھر بھی جس قدر آمد ہونی چاہئے ، وہ میرے نزدیک نہیں ہو رہی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ فوج میں اعلیٰ عہدوں پر متعین ہیں وہ با قاعدگی کے ساتھ اپنے چندے نہیں بھجواتے.کنگز کمیشن میں ہماری جماعت کے قریباً سوا سو نوجوان ہیں مگر میرے نزدیک اُن میں سے صرف پندرہ ہیں چندہ دیتے ہیں باقی چندہ نہیں دیتے اور یہ ایک بہت بڑا نقص ہے جس کا ازالہ ہونا چاہئے.کنگز کمیشن والوں کی اوسط آمدنی ۶۰.۷۰ ہزار روپیہ ماہوار ہے اور اگر وہ باقاعدگی سے چندہ ادا کریں تو ان کی طرف سے چار ہزار روپیہ ماہوار آنا چاہئے.بالفاظ دیگر ہمیں ۴۸ ہزار روپیہ سالانہ کی آمد صرف اُن نو جوانوں کے ذریعہ ہو سکتی ہے جو فوج میں اعلیٰ عہدوں پر ملازم ہیں.پھر جو نو جوان فوج کے دوسرے محکموں میں گئے ہوئے ہیں اگر اُن سب کی آمد کا اندازہ لگایا جائے تو میرے نزدیک اتنی ہی سالانہ آمد اُن کی طرف سے ہونی چاہئے.اس وقت تک ہماری جماعت کی طرف سے قربیاً دس ہزار آدمی فوج میں بھرتی کرائے جاچکے ہیں.کئی کلرکوں میں ہیں، کئی ٹیکنیکل لائنوں میں ہیں اور کئی نیوی وغیرہ میں.اِن سب کی آمد کا اندازہ لگا کر اگر چندے کا حساب کیا جائے تو میرے نزدیک صرف فوجیوں سے ہمیں ڈیڑھ لاکھ روپیہ سالا نہ مل سکتا ہے مگر چونکہ ابھی اِس قدرآمد نہیں اس لئے میں جماعت کے دوستوں کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ اپنی اپنی جگہ پر تمام نو جوانوں کو تحریک کریں کہ وہ با قاعدگی کے ساتھ مرکز میں اپنا چندہ ارسال کیا کریں.
خطابات شوری جلد دوم ۷۲۰ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء ماں باپ اور بھائی بہنوں کا بھی فرض ہے کہ وہ انہیں توجہ دلائیں کہ خدا تعالیٰ نے جب تمہیں رزق دیا ہے تو تمہارا فرض ہے کہ اب دین کی خدمت کرو اور ہر مہینے التزام اور با قاعدگی کے ساتھ چندے بھجوا ؤ.اسی طرح ماں باپ کو بھی چاہئے کہ وہ ایسے نو جوانوں کے پتے دفتر میں نوٹ کرا دیں تا کہ دفتر کی طرف سے بھی اُنہیں خطوط کے ذریعہ توجہ دلائی جاتی رہے.ان کے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ ہیں جن کی آمد نیاں پہلے سے بہت بڑھ گئی ہیں.تاجروں کو مالی قربانی کی خاص تلقین تاجر پیشہ لوگوں کی آمد نیاں خصوصیت کے ساتھ زیادہ ہو گئی ہیں مگر ان کے چندے اُسی حالت پر قائم ہیں جس حالت پر جنگ سے پہلے تھے.اگر پہلے کوئی تاجر پانچ روپے ماہوار چندہ دیا کرتا تھا تو اب بھی وہ پانچ روپے ماہوار ہی چندہ دیتا ہے.اگر چہ اس کی آمد دس ہزار روپیہ ہوگئی ہو.ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تاجروں میں دین کی خدمت کا کوئی احساس ہی نہیں رہا اور انہیں روپیہ سے اتنی محبت ہو گئی ہے کہ وہ اسے خدا تعالیٰ کے لئے خرچ کرنا پسند بھی نہیں کرتے اور یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر ہم نے خدا تعالیٰ کے دین کے لئے کچھ خرچ کیا تو روپیہ ختم ہو جائے گا.پس تاجروں کو بھی اس طرف توجہ کرنی چاہئے اور اس نقص کا ازالہ کرنا چاہئے.میں جیسا کہ پہلے بھی ایک دفعہ بیان کر چکا ہوں صرف ملازم پیشہ لوگوں کی جماعت ہی اس وقت حقیقی اخلاص دکھا رہی اور دین کے لئے کچی قربانی کر رہی ہے.زمیندار قربانی میں دوسرے درجہ پر ہیں اور تاجر سب سے نچلے درجہ میں ہیں.تاجر کے پاس خواہ کس قدر روپیہ آجائے وہ ہمیشہ اس وہم میں مبتلا رہتا ہے کہ اب تو روپیہ آ گیا خبر نہیں کل بھی آئے گا یا نہیں اور اس طرح نہ صرف ثواب سے محروم ہو جاتا ہے بلکہ اُس ترقی سے بھی محروم ہو جاتا ہے جو خدا تعالیٰ اُسے قربانی کی صورت میں عطا کرتا ہے.پس تاجروں کو خصوصیت کے ساتھ اپنے اس نقص کی اصلاح کرنی چاہئے.میں سمجھتا ہوں اگر آمد کی تشخیص پر زور دیا جائے اور جو لوگ نادہند یا چندہ دینے میں سُست ہیں اُن کی نگرانی کی جائے اور ماں باپ اور دوسرے رشتہ دار اُنہیں بار بار لکھیں تو ہماری آمد چندہ عام اور حصہ آمد کی چار لاکھ سے بڑھ کر چھ لاکھ روپیہ تک پہنچ جائے.اس میں سے ڈیڑھ لاکھ وہ قرضہ اُتار دیں اور
خطابات شوری جلد دوم ۷۲۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء پھر ہر سال ڈیڑھ دو لاکھ روپی ریز روفنڈ کے طور پر جمع کرتے چلے جائیں تا کہ ہم چند سال کے بعد قادیان میں اپنا کالج کھول سکیں اور اس کے اخراجات آسانی سے برداشت کر سکیں.اسی طرح نئے مبلغین رکھنے کا جو سلسلہ مالی تنگی کی وجہ سے بند کر دیا گیا تھا اُسے بھی جاری کر دیا جائے.سب کمیٹی بیت المال کی رپورٹ میں ایک بات یہ بیان کی گئی ہے کہ گریڈ کی زیادتی کے بغیر ہمیں اچھے استاذ نہیں مل سکتے.اگر اساتذہ کے گریڈوں میں اضافہ نہ کیا گیا تو وہ بھاگ جائیں گے اور گورنمنٹ سکولوں میں اچھی تنخواہوں پر ملازم ہو جائیں گے.میرے نزدیک یہ بات اول تو غلط ہے لیکن اگر فرض کر لیا جائے کہ بعض اسا تذہ کے اندر اس قسم کے خیالات پائے جاتے ہیں تو اس کے دوسرے لفظوں میں یہ معنے ہیں کہ وہ دین کے لئے قربانی کرنے کو تیار نہیں اور جو لوگ اس قسم کے ہوں کہ دین کے لئے قربانی کرنا اُنہیں مشکل دکھائی دے، اُنہوں نے اگر کل جانا ہے تو بے شک آج ہی چلے جائیں.اُن کی جگہ اگر ہمیں ویسی لیاقت رکھنے والے اساتذہ نہیں ملیں گے تو کم سے کم وہ لوگ تو ملیں گے جو روحانیت اور اخلاص میں ان سے اچھے ہوں گے اور روحانیت اور اخلاص میں اچھے ہوں گے تو یقیناً ان کے نتائج بھی موجودہ نتائج سے بہتر ہوں گے.اگر اساتذہ قربانی کر رہے ہیں تو اور کونسا محکمہ ہے جس میں کام کرنے والے قربانی نہیں کر رہے.مبلغین بھی اپنی قابلیتوں سے بہت کم تنخواہ لیتے ہیں، پھر کل کو وہ بھی بھاگنے لگ جائیں گے.کلرکوں کو بھی کم تنخواہ ملتی ہے وہ بھی یہاں سے بھاگنے لگ جائیں گے.کارکنوں کو بھی بہت تھوڑی تنخواہیں ملتی ہیں وہ بھی اس وجہ سے بھاگ جائیں گے.اگر یہ بندٹوٹ چکا ہے تو پھر اساتذہ پر ہی منحصر نہیں سب لوگ بھاگنا شروع کر دیں گے اور کوئی شخص اتنے قلیل معاوضہ پر کام کرنے کے لئے تیار نہیں ہوگا مگر یہ بالکل غلط خیال ہے اور خدا اور اُس کے سلسلہ پر بدظنی ہے.ہمارے سلسلہ کا انحصار آدمیوں پر نہیں بلکہ خدا پر ہمارے سلسلہ کا انحصار خدا پر ہے ہے اور خدا تعالیٰ ہمیشہ غیب در غیب سامانوں سے ہمارے سلسلہ کی مدد کرتا چلا آیا ہے.اگر تمام کے تمام اساتذہ یہاں سے چلے جائیں اور کام چھوڑ دیں تو مجھے یقین ہے کہ خدا تعالیٰ ہمیں ان کی جگہ اور آدمی دے دے گا جو اپنے
خطابات شوری جلد دوم ۷۲۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء اخلاص اور قربانیوں میں ان سے بدرجہا بہتر ہوں گے.بے شک جہاں تک حقوق کا سوال ہے ہمارا فرض ہے کہ ہم اساتذہ کا خیال رکھیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم محض اس لئے ان کی تنخواہوں میں اضافہ کرنا شروع کر دیں کہ اگر اُن کی تنخواہوں میں اضافہ نہ کیا گیا تو وہ یہاں سے بھاگ جائیں گے.میرے نزدیک یہ بالکل غلط خیال ہے کہ مدرسین پہلے بھی تکلیف سے گزارہ کرتے رہے ہیں اور اب بھی تکلیف سے گزارہ کرتے ہیں بلکہ حق یہ ہے کہ مدرسین نے ان کارکنوں کے مقابلہ میں بہت کم قربانی کی ہے.آٹھ دس سال تک ایسا ہوتا رہا کہ اور کارکنوں کی تنخواہوں میں تو تخفیف اور کٹوتیاں وغیرہ ہو جاتی تھیں مگر مدرس یہ کہہ کر چھوٹ جاتے تھے کہ اگر ہماری تنخواہوں میں کمی کی گئی تو انسپکٹر سکول کی ایڈ بند کر دے گا اور صدر انجمن احمد یہ بھی ڈر کر اُن پر اپنا قانون جاری نہیں کرتی تھی لیکن پھر بھی اگر بعض لوگوں کا یہ خیال ہو کہ تنخواہوں یا گریڈوں میں اضافہ نہ ہونے کی صورت میں مدرس یہاں سے بھاگ جائیں گے تو میں انہیں کہتا ہوں میں اس امر کا ذمہ دار ہوں کہ اگر یہ لوگ بھاگ جائیں تو ان کی جگہ نئے اساتذہ میں مہیا کروں گا.میں نے احمدیت کا تجربہ کیا ہوتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے سلسلہ کے کاموں میں کبھی کوئی ایسی روک پیدا نہیں ہو سکتی جو حقیقی روک ہو.جس دن تم مجھے آکر کہو گے کہ مدرس یہاں سے بھاگ رہے ہیں، اُسی دن شام سے پہلے پہلے میں نئے استاد مہیا کر دوں گا.پس یہ بالکل غلط خیال ہے جس کا اظہار کیا گیا ہے بے شک ہمارا فرض ہے کہ ہم اُن پر کسی قسم کا ظلم نہ ہونے دیں اور اُن کے حقوق کا خیال رکھیں.مگر صرف اس وجہ سے کہ ہماری آمد میں اضافہ ہو گیا ہے تنخواہوں اور گریڈوں کو بڑھانا شروع کر دینا مناسب نہیں.ہمارا فرض ہے کہ ہم اس روپیہ کو پس انداز کریں اور ایک ریز رو فنڈ قائم کریں تا کہ سلسلہ کی ضروریات کے لئے وہ کام آسکے اور ہنگامی اخراجات اس کے ذریعے پورے ہوتے رہیں.ایک اور امر جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ مجلس شوریٰ کے پروگرام کو دیکھ کر میں نے محسوس کیا ہے کہ اس پروگرام کی موجودگی میں بجٹ پر غور کرنے کے متعلق جماعت کو کافی وقت نہیں ملتا.بجٹ ایک ایسی چیز ہے جس کا تمام جماعت کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اور لوگوں کو اس بات کا موقع ملنا چاہئے کہ وہ اس پر اچھی طرح غور کر سکیں اور اس بارہ
۷۲۳ خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء میں اپنے خیالات کا اظہار کر سکیں اس لئے آئندہ کے لئے میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ دوسرے دن کا اجلاس بجائے بارہ بجے کے گیارہ بجے شروع ہو جایا کرے.میں نے دیکھا ہے ابتداء میں دوسرے دن کی کارروائی دس بجے ہی شروع ہو جایا کرتی تھی مگر جب کا رکنوں کو اس بارہ میں ڈھیلا چھوڑ دیا گیا تو رفتہ رفتہ بارہ بجے کا وقت اختیار کر لیا گیا.اسی طرح سب کمیٹیاں جو مقرر ہوا کرتی تھیں وہ پہلے راتوں رات اپنا کام ختم کر دیا کرتی تھیں.چنانچہ پہلے اجلاس کے بعد ہی وہ کام پر بیٹھ جاتیں اور بعض دفعہ رات کے تین تین بجے تک کام کرتی رہتی تھیں.میں بھی جاگتا رہتا تھا اور میں نے دیکھا ہے کہ میرے پاس بعض دفعہ دو دو بجے رات کو اور بعض دفعہ تین تین بجے رات کو رپورٹیں آیا کرتی تھیں کہ ہماری سب کمیٹی نے اب کام ختم کیا ہے اور یہ رپورٹ تیار کی ہے مگر جب لوگوں کو ڈھیلا چھوڑ دیا گیا تو نتیجہ یہ ہوا کہ اب بعض سب کمیٹیوں نے دوسرے دن آٹھ بجے صبح اپنے کام کو شروع کرنے کا اعلان کیا ، یہ شستی اور غفلت کی علامت ہے.اس طرح جماعتی امور پر غور کرنے کے لئے کافی وقت میسر نہیں آتا.پس آئندہ دوسرے دن کی کارروائی بارہ بجے کی بجائے گیارہ بجے شروع ہو جانی چاہئے اور سب کمیٹیوں کو بھی اپنے کام کے لئے زیادہ سے زیادہ وقت خرچ کرنا چاہئے.ہم نے سارا سال کام کرنا ہوتا ہے اور اُن کاموں پر غور کرنے کے لئے یہی تین دن ہوتے ہیں اس لئے ان ایام میں جس قدر بوجھ طبیعت پر پڑے اُسے برداشت کرنا چاہئے.رڈی کا غذات کی فروخت بعض دوستوں نے کہا ہے کہ صدر انجمن احمد یہ کو اپنے رڈی کا غذات فروخت کرنے چاہئیں آجکل کے ایام میں اس طرح بھی کافی آمد ہو سکتی ہے.میرے نزدیک یہ تجویز بھی اس قابل ہے کہ اس پر تحقیقاتی کمیٹی غور کرے.ایک مصنف تھا جس نے تین سال ہوئے ایک کتاب لکھی مگر وہ فروخت نہ ہوئی اور اُسی کے پاس پڑی رہی.اب مجھے معلوم ہوا ہے کہ اُس مصنف نے کسی دوسرے کے پاس بیان کیا کہ میں نے اپنی کتاب رڈی کے بھاؤ فروخت کر دی تو جو قیمت میں نے کتاب کی طباعت پر خرچ کی تھی اُس سے زیادہ روپیہ مجھے وصول ہو گیا.جب آجکل رڈی کے بھاؤ کا یہ حال ہے تو ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم اس پر غور کریں.
خطابات شوری جلد دوم ۷۲۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء ہمارے ہاں اب تک رڈی کو فروخت کرنے کی صرف ایک ہی مثال ہے کہ کسی نے الفضل کے پرانے فائل چُرائے تھے اور انہیں کافی قیمت پر فروخت کر دیا.وو مجلس مشاورت کی کارروائی جماعت کو سُنا ئیں اس کے بعد میں دوستوں کو یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ میں پہلے بھی ایک دفعہ بیان کر چکا ہوں احباب کو چاہئے کہ یہاں سے واپس جا کر جماعت کے تمام دوستوں کو مجلس مشاورت کی کارروائی سنائیں.جن لوگوں نے نوٹ لکھے ہوئے ہوں وہ اُن نوٹوں سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں اور جنہوں نے کارروائی کو نوٹ نہیں کیا وہ اپنے ذہن میں جس قدر باتیں محفوظ رکھ سکے ہوں وہ دوستوں کو سُنا دیں اور آئندہ کے لئے یہ نوٹ کر لیں کہ چونکہ انہوں نے ہمیشہ یہاں کی کارروائی جماعتوں کو سُنانی ہوتی ہے اس لئے وہ اپنی نوٹ بکوں میں ضروری باتیں لکھتے رہا کریں تا کہ اُنہیں سُنانے میں آسانی ہو، یہ ایک نہایت ہی ضروری امر ہے جس کی طرف جماعت کے تمام دوستوں کو توجہ کرنی چاہئے.یاد رکھو لوہا جتنا زیادہ گرم ہو اتنا ہی اچھا گوٹا جاسکتا ہے اور جتنا ٹھنڈا ہو اسی قدر اس کے کوٹنے میں دشواری ہوتی ہے.جب یہاں سے دوست واپس جاتے ہیں تو چونکہ کارروائی تازہ بتازہ ہوتی ہے اس لئے اُن کے دلوں میں جوش ہوتا ہے اور جو لوگ یہاں نہیں آتے اُن کے دلوں میں بھی یہ خواہش ہوتی ہے کہ قادیان سے ہمارے نمائندے واپس آئیں تو ہم اُن سے سنیں کہ وہاں کیا کا روائی ہوئی ہے مگر جب کچھ عرصہ گزر جاتا ہے تو جوش سرد پڑ جاتا ہے.نہ نمائندوں کے دلوں میں سنانے کی خواہش رہتی ہے اور نہ جماعت کے دل میں سننے کی خواہش رہتی ہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے میاں بیوی اکٹھے جا رہے ہوں تو کوئی توجہ بھی نہیں کرتا لیکن ڈولا گزر رہا ہو تو سب لوگ اسے دیکھنے لگ جاتے ہیں.تو نئی چیز کی طرف لوگوں کی ہمیشہ زیادہ توجہ ہوتی ہے اور پرانی چیز کی طرف کم توجہ ہوتی ہے.اگر یہاں سے واپس جا کر پندرہ بیس دن تک کارروائی نہ سنائی جائے تو لوگوں کا جوش آہستہ آہستہ سرد ہو جاتا ہے لیکن اگر جاتے ہی اُنہیں کا رروائی سنائی جائے اور بتایا جائے کہ یہاں رکن کن باتوں پر بحث ہوئی ہے اور کون کون سے امور کے متعلق جماعت نے متفقہ طور پر اپنے اوپر ذمہ داری لی ہے تو اُن میں بھی عمل کرنے کی تحریک پیدا ہو اور وہ مرکزی کاموں
خطابات شوری جلد دوم ۷۲۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء میں پہلے سے زیادہ دلچسپی لینے لگ جائیں.پس دوستوں کو چاہئے کہ یہاں سے اپنی اپنی جماعتوں میں واپس جاتے ہی جلسہ کریں اور دوستوں کو تمام کارروائی سنائیں.اگر آپ لوگ جاتے ہی اپنی جماعت کے دوستوں سے کہیں کہ جلدی جلسہ کرو ہم نہایت ضروری باتیں سنانا چاہتے ہیں تو آپ لوگ یہ سمجھ لیں کہ آدھی فتح آپ کی اُسی وقت ہو جائے گی، اور لوگ یہ سمجھنے لگ جائیں گے کہ کوئی بڑا اہم معاملہ ہے جس کے لئے اتنی جلدی جلسہ کا انتظام کرنے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے اور اُن کی فطرت باتوں کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو جائے گی.میں نے خود اس کا نظارہ دیکھا ہوا ہے کہ کس طرح لوگوں کی فطرت پر ان باتوں کا گہرا اثر ہوتا ہے بلکہ بعض لوگ تو اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے دھوکا بھی کھا جاتے ہیں.حضرت خلیفہ اول جب وفات پاگئے تو مولوی محمد علی صاحب نے ایک ٹریکٹ لکھا جو باہر سے آنے والے تمام دوستوں میں تقسیم کیا گیا.اس ٹریکٹ کا مضمون یہ تھا کہ آئندہ خلافت کا سلسلہ جاری نہیں ہونا چاہئے اور یہ کہ حضرت خلیفتہ المسیح اول کی بیعت بھی انہوں نے بطور خلیفہ کے نہیں کی تھی بلکہ ایک پیر اور صوفی سمجھ کر کی تھی.یہ ٹریکٹ مجھے رات کو اُس وقت ملا جب کہ میں تہجد پڑھنے کے لئے اُٹھا اور مجھے بتایا گیا کہ یہ ٹریکٹ تمام راستہ میں تقسیم کیا گیا ہے ایسے وقت میں ایک مومن سوائے اس کے کیا کر سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے حضور گر جائے.چنانچہ میں نے خود بھی دعائیں کرنا شروع کر دیں کہ اللہ تعالیٰ اس فتنہ سے جماعت کو محفوظ رکھے اور دوسرے لوگوں کو بھی جگایا کہ اُٹھو اور دعائیں کرو.جب بعد میں ہمارا اور غیر مبائعین کا اختلاف بڑھ گیا اور یہ خبر غیر مبائعین تک بھی پہنچ گئی کہ میں نے ایک رات اس اس طرح لوگوں کو جگایا تھا تو ایک دن ”پیغام صلح نے بڑے جلی عنوانات سے لکھا جماعت احمدیہ قادیان کی سازش کا پتہ چل گیا.ایک عظیم الشان انکشاف.نیچے لکھا تھا میاں غلام محمد صاحب تاجر اکھنور نے بیان کیا ہے کہ اُس رات مرزا محمود اُٹھ اُٹھ کر لوگوں کو جگاتے رہے اور کہتے رہے کہ اُٹھ کر نمازیں پڑھو اور دعا کرو.غرض جو بات ہیڈنگ کے نیچے لکھی گئی بالکل درست تھی مگر ہیڈ نگ میں یہ ظاہر کیا گیا کہ کوئی اہم فریب پکڑا گیا ہے.بعض مخلص دوستوں کے خطوط بڑی گھبراہٹ کے میرے نام آئے کہ ”پیغام صلح میں جو خبر
۷۲۶ خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء شائع ہوئی ہے اس کی کیا حقیقت ہے اور میں نے ان کو جواب میں لکھ دیا آپ ہیڈنگ سے نہ گھبرائیں، خبر پڑھیں اور غور کریں کہ کیا نماز پڑھنے اور دعا کرنے کو کہنے میں کوئی فریب ہوا کرتا ہے؟ اگر نمازیں پڑھنا اور دعائیں کرنا سازش کہلاتا ہے تو بے شک میں نے سازش کی تھی لیکن اگر یہ سازش نہیں تو محض عنوان دیکھ کر آپ کیوں گھبرا گئے.آپ یہ بھی تو دیکھتے کہ نیچے کیا لکھا ہے.غیر مبائعین نے دراصل پہلے ہی اندازہ لگا لیا تھا کہ حضرت خلیفہ اول اتنے دنوں تک فوت ہو جائیں گے اور یہ ٹریکٹ انہوں نے پہلے سے چھپوا رکھا تھا تا کہ جب آپ کی وفات ہو تو اُس وقت لوگوں میں تقسیم کرنا شروع کر دیں.چنانچہ ادھر آپ کی وفات ہوئی اُدھر انہوں نے یہ ٹریکٹ بانٹنا شروع کر دیا.ہم اگر اُن کی طرح بدظنی سے کام لینے والے ہوتے تو اُن کے اِس طریق عمل کو دیکھ کر کہہ سکتے تھے کہ انہوں نے حضرت خلیفہ اول کو زہر دے دیا تھا کیونکہ ادھر آپ کی وفات ہوئی اُدھر اُن کا ٹریکٹ تقسیم ہونا شروع ہو گیا.بہر حال اتنا واقعہ ضرور ہوا کہ میں نے اُس رات بعض دوستوں کو جگایا اور انہیں دعائیں کرنے کے لئے کہا.لیکن چونکہ ”پیغام صلح کا عنوان اس رنگ کا تھا کہ ایک عظیم الشان سازش کا انکشاف ہو گیا اس لئے کئی احمدیوں کی میرے نام چٹھیاں آگئیں اور انہوں نے سمجھا کہ واقعہ میں کوئی سازش ہوئی ہے.پس اگر بُرے رنگ میں ایک واقعہ کو بیان کر کے لوگوں کی توجہ کو کھینچا جا سکتا ہے تو ایک صحیح واقعہ کو اچھے پیرا یہ میں بیان کر کے لوگوں کی توجہ کو کیوں کھینچا نہیں جا سکتا.پس اگر آپ لوگ یہاں سے جاتے ہی جماعت کے دوستوں پر زور دینا شروع کر دیں گے کہ جلدی جلسے کا انتظام کرو ہمارے پاس ایک امانت ہے جو ہم نے آپ لوگوں تک پہنچانی ہے.تو لوگوں کی طبائع ان نیک تحریکات کو قبول کرنے کے لئے آدھی پہلے ہی تیار ہو جائیں گی اور جو کسر باقی رہ جائے گی وہ باتیں سن کر پوری ہو جائے گی.پھر میں جماعت کے نمائندوں کو اس امر کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ اُن کا کام اپنی جماعت کے لوگوں کو صرف کا رروائی سنا دینا نہیں بلکہ متواتر اور مسلسل اُن تک ان باتوں کو پہنچاتے رہنا ہے ہر نمائندہ جو مجلس شوریٰ میں شامل ہوتا ہے اس کی نمائندگی یہاں کی کارروائی کے اختتام کے ساتھ ختم نہیں ہو جاتی بلکہ وہ ایک سال تک جماعت کا نمائندہ رہتا
خطابات شوری جلد دوم ۷۲۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء ہے اور اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ سارا سال لوگوں کو تحریک کرتا رہے اور وہ باتیں انہیں بار بار بتائے جو یہاں پاس ہوئی ہیں.پس یہ مت سمجھو کہ آپ لوگوں کی نمائندگی صرف تین روز کی نمائندگی ہے.جس دن کوئی شخص بطور نمائندہ منتخب ہوتا ہے اس دن سے لے کر اگلی مجلس شوریٰ کے نئے انتخاب کے موقع تک وہ جماعت کا نمائندہ رہتا ہے اور جس طرح ایک نمائندہ کا فرض ہے کہ وہ اپنی جماعت کے خیالات ہم تک پہنچائے ، اسی طرح اس کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ ہماری باتیں جماعت کے لوگوں تک پہنچائے.گویا پہلے وہ جماعت کی طرف.نمائندہ بن کر ہمارے پاس آتا ہے اور پھر ہمارا نمائندہ بن کر جماعت کے پاس جاتا ہے اور اس کا فرض ہوتا ہے کہ جب تک نئی مجلس شوری کے لئے نیا انتخاب نہیں ہوتا اُس وقت تک وہ اپنے آپ کو نمائندہ سمجھے اور یہاں کی پاس شدہ تجاویز بار بار جماعت کے سامنے دُہراتا رہے.پس یہ مت سمجھیں کہ آپ لوگوں کی شوری کی نمائندگی آج ختم ہو گئی ہے، آپ کی نمائندگی ختم نہیں ہوئی بلکہ سال کے آخر تک جاری رہے گی اس لئے جب تک نیا انتخاب نہ ہو آپ کا فرض ہے کہ آپ جماعت میں بیداری پیدا کریں اور اس کی مستی کو دُور کرنے کی کوشش کرتے رہیں.نشانات کا ظہور یاد رکھو شستی اور غفلت کسی حالت میں بھی اچھی نہیں ہوتی مگر اس زمانہ میں جب کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نشان پر نشان ظاہر ہو رہے ہیں سستی اور غفلت سے کام لینا خدا تعالیٰ کو اپنے اوپر ناراض کرنا ہے.آج وہ زمانہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے نشانات بارش کی طرح برس رہے ہیں اور اس کثرت اور تواتر کے ساتھ ظاہر ہو رہے ہیں کہ کوئی بڑا ہی بے حیا ہو گا جو انکار کرے اور کہے کہ میں نے خدا تعالیٰ کے نشانات کا مشاہدہ نہیں کیا.آپ لوگوں نے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہزاروں نشانات دیکھے اور اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا کہ کس طرح خدا تعالی کی باتیں پوری ہوئیں.پھر اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے مجھے اس کثرت سے اخبار غیبیہ سے اطلاع دی کہ اس کی مثال میری خلافت کے گزشتہ کئی سالوں میں نہیں ملتی.یوں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس زمانہ میں بعض نہایت ہی اہم تغیرات پیدا کرنے والا ہے اور وہ ان تغیرات کی داغ بیل کے لئے نشان پر نشان ظاہر کر رہا ہے.میں نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی شخص عقل و سمجھ کا ذرا بھی مادہ رکھتے
۷۲۸ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء خطابات شوری جلد دوم ہوئے ان نشانات کی عظمت سے انکار کر سکے.بڑے بڑے اہم انقلابات دنیا میں ہوئے اور قریباً سب کے متعلق اللہ تعالیٰ نے مجھے قبل از وقت خبر دے دی اور ایسے ایسے نشانات ظاہر کئے کہ اُن کو دیکھ کر یہ ماننا پڑتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء دنیا میں کوئی خاص تغییر رونما کرنا ہے.حضرت خلیفہ اول کی وفات کے قریب بھی ایسی خوابوں میں بڑی زیادتی ہوگئی تھی اور اُن تمام فتنوں کی خبر دے دی گئی تھی جو غیر مبائعین کے ذریعہ جماعت میں پیدا ہونے والے تھے اور اب پھر اس کثرت سے مجھے رؤیا اور الہام ہوئے ہیں کہ دنیا کا کوئی اہم واقعہ نہیں ہوتا جس کے متعلق اللہ تعالیٰ مجھے قبل از وقت علم نہیں دے دیتا.یہ سب رؤیا اور کشوف اور الہامات بلا وجہ نہیں بلکہ کسی عظیم الشان تغیر پر دلالت کرتے ہیں.اس زمانہ میں ایک عظیم الشان تغیر تو وہ تھا جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ کئی چھوٹے ہیں جو بڑے کئے جائیں گے اور کئی بڑے ہیں جو چھوٹے کئے جائیں گے اور ایک اور عظیم الشان انقلاب وہ ہے جو دنیا میں اب پیدا ہونے والا ہے.خدا تعالیٰ نے مجھے اس کے متعلق کئی رؤیا دکھائے ہیں اور بتایا ہے کہ ہم ہی ہیں جو اس انقلاب عظیم میں خدا تعالیٰ کے منشاء کو پورا کرنے والے ہیں.میں نے اسی مجلس شوریٰ میں آج سے پندرہ سال پہلے ایک تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ دس سال کے اندر اندر یہ تغیرات رونما ہو جائیں گے لیے یہ ۱۹۲۷ء کی بات ہے.عین دس سال کے بعد ۱۹۳۷ء میں ہٹلر کی شورش شروع ہوئی اور پھر موجود جنگ میں دنیا مبتلا ہوگئی.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے میری زبان سے تحریک جدید کی میعاد کو دس سال تک بڑھانے کا اعلان کرایا اور میں دیکھ رہا ہوں کہ آج دنیا میں جو آواز بھی اُٹھتی ہے اسی کی تصدیق کرنے والی ہوتی ہے.آجکل جنگ کے بڑے بڑے ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ ۱۹۴۳ء لڑائی کے لحاظ سے انتہائی جوش کا سال ہوگا اور ۱۹۴۴ء یا ۱۹۴۵ء میں لڑائی کا خاتمہ ہو جائے گا اور یہی میعاد تحریک جدید کے اختتام کی ہے.پس وہ باتیں جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اپنے جلی یا خفی الہام کے ذریعہ ظاہر کیں واقعات اس کی تصدیق کر رہے ہیں اور دنیا ایسے انقلاب کی طرف آ رہی ہے جو اُسے پہلی حالت سے بدل کر کچھ کا کچھ بنا دے گا.اسی طرح اب پھر مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بعض باتیں بتائی گئی ہیں.پہلے تو میں
خطابات شوری جلد دوم ۷۲۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء نے یہ سمجھا تھا کہ شاید یہ خبریں اس وقت کے متفرق واقعات کے متعلق ہیں.مگر بعد میں مجھے غور کرنے سے معلوم ہوا کہ وہ رویا اور کشوف اِس وقت کے متفرق واقعات پر مشتمل نہیں بلکہ اس تغیر کے بعد ایک اور نئے تغیر کی خبر دے رہے ہیں.ان خوابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جنگ کے خاتمہ پر ایک بہت بڑا حملہ ایک یورپین حکومت کی طرف سے اسلام پر ہونے والا ہے اور وہ دنیا میں اپنا اقتدار بڑھا کر اِس رنگ میں کوشش کریں گے کہ اُن کی کوششوں سے اسلام کو ضعف پہنچنے کا خطرہ ہو گا.آجکل وہ حکومت انگریزوں کی دوست ہے لیکن مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ فتح اور کامیابی کے بعد یہ لوگ اسلام پر حملہ کرنے کی کوشش کریں گے.میں نہیں کہ سکتا یہ تحریک کس شکل میں ہوگی ، لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے بتایا گیا ہے کہ اس ملک کی یہ کوشش اسلام کے لئے خطرناک ہوگی اور پھر یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس کا علاج کسی ظاہری تدبیر سے نہیں ہوسکتا.اس کے لئے دعائیں ہی کارگر ہتھیار ثابت ہوں گی اور انہی دعاؤں سے تمہیں کام لینا چاہئے.میں سمجھتا ہوں لڑائی کا یہ سلسلہ جو اس وقت جاری ہے، زیادہ عرصہ تک نہیں رہ سکتا.۱۹۴۵ء کے پہلے نصف حصہ میں یا تو جنگ بالکل ختم ہو جائے گی یا ایسی صورت اختیار کر لے گی کہ انسان اطمینان کے ساتھ یہ کہہ سکے گا کہ اس لڑائی کا کیا انجام ہوگا اور اس کی بنیاد اسی سال یعنی ۱۹۴۳ء میں پڑے گی مگر یہ فتنے ابھی ختم نہیں ہوں گے اللہ تعالیٰ ان فتنوں کو لمبا کرے گا اور لمبا کرتا چلا جائے گا تا کہ وہ قوم اس عرصہ میں تیار ہو جائے جس نے آئندہ دنیا کی حکومتیں اپنے ہاتھ میں لینی ہیں.سورہ کہف میں ذکر آتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے ساتھی کے ساتھ جا رہے تھے کہ انہوں نے ایک دیوار دیکھی جو گر رہی تھی.انہوں نے دیوار کو بغیر کسی اجرت کے دوبارہ کھڑا کر دیا اور اسے گرنے سے محفوظ کر دیا.پھر اللہ تعالیٰ اس سورۃ میں یہ بتاتا ہے کہ دیوار کو مضبوط بنانے میں حکمت یہ تھی کہ اس کے نیچے دو یتیم بچوں کا خزانہ تھا اور اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ جب تک وہ بچے جوان نہ ہو جائیں اُن کا خزانہ دیوار کے نیچے محفوظ رہے.جنگ کی موجودہ حالت بھی ایسی ہی ہے مگر وہاں تو دیوار بنانے سے خزانہ محفوظ رہا تھا اور یہاں دیوار میں گرانے سے خزانہ محفوظ رہتا ہے.یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ ان دنیوی عمارتوں
خطابات شوری جلد دوم ۷۳۰ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء کو گرا رہا ہے مگر بجائے اس کے کہ وہ یکدم سب عمارتوں کو گرائے اُن کو آہستہ آہستہ گرا رہا ہے کیونکہ وہ لوگ جن کے سپرد اس عمارت کی نئی تعمیر ہے وہ خدا تعالیٰ کے انجینئر نگ کالج میں اس وقت پڑھ رہے ہیں اور ابھی اپنی تعلیم سے فارغ نہیں ہوئے.پس اگر آج تمام عمارتیں یکدم گر جائیں تو چونکہ وہ لوگ جنہوں نے کئی عمارتیں کھڑی کرنی ہیں ابھی اپنی تعلیم کی تکمیل نہیں کر سکے اس لئے خلا رہ جائے گا.اسی وجہ سے خدا تعالیٰ آہستہ آہستہ ان دیواروں اور مکانات کو گرا رہا ہے.آج ایک دیوار کو گراتا ہے تو کل دوسری دیوار کو گرا دیتا ہے.آج ایک چھت اُڑاتا ہے تو کل دوسری چھت کو اڑا دیتا ہے آج ایک کمرہ کو گراتا ہے تو کل دوسرے کمرے کو گرا دیتا ہے.اسی طرح وہ آہستہ آہستہ اور قدم بقدم دنیا کی تمام عمارتوں، دنیا کے تمام مکانوں اور دنیا کے تمام سامانوں کو گرا رہا، مٹا رہا اور تباہ و برباد کر رہا ہے اور اس کا منشاء یہ ہے کہ وہ اُس وقت تک ان عمارتوں کو مکمل طور پر بر باد نہ کرے جب تک خدا تعالیٰ کے کالج میں جو لوگ تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہ اس کالج سے تعلیم حاصل کر کے فارغ نہ ہو جائیں اور ان پر قبضہ کرنے کے لئے تیار نہ ہو جائیں.پس یہ رستہ ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہماری جماعت کی ترقی کے لئے کھولا گیا ہے.یہ تغیر ایک دن ہوگا اور ضرور ہو گا مگر آہستگی سے اس لئے ہو رہا ہے تا کہ وہ لوگ جنہوں نے اس پر قبضہ کرنا ہے پوری طرح تیار ہو جائیں اور خدا تعالیٰ کے کالج میں تعلیم حاصل کر لیں.میں نے گزشتہ ایام میں ایک خطبہ جمعہ میں بیان کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں کو دنیا کی خرابیوں کی اصلاح کے لئے کھڑا کیا ہے اور آپ اُس کے مدرسہ میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں تا کہ آپ جب تعلیم سے فارغ ہو جائیں تو اُن مدرسوں کی جگہ کام کریں جو آج دنیا کو تعلیم دے رہے ہیں، مگر میں نے بتایا تھا کہ ابھی تک ہماری جماعت میں یہ قابلیت پیدا نہیں ہوئی کہ ظاہری علوم میں جو لوگ ماہر ہیں وہ ان کو تعلیم دے سکے.یہ نہیں کہ اس کے سامان موجود نہیں، سامان موجود ہیں بلکہ ایک مثال بھی تمہارے سامنے موجود ہے.میں کسی مدرسہ میں نہیں پڑھا مگر میں خدا تعالیٰ کے فضل سے قابلیت رکھتا ہوں کہ دنیا کے بڑے سے بڑے علوم کے ماہرین کو اسلامی تعلیم کے مقابلہ میں ساکت اور خاموش کرا سکوں.میرے لئے اس قابلیت کے حصول میں جسمانی سامان ممد نہیں ہوئے بلکہ اللہ تعالیٰ نے
خطابات شوری جلد دوم ۷۳۱ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء اپنے روحانی علوم سے ہمیشہ میری مدد فرمائی اور اب میں ایک وسیع تجربہ کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ دنیا کے کسی فن کا ماہر آ جائے اور وہ اسلام کی تعلیم پر اعتراض کرے، میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اُسے ہر رنگ میں ساکت اور خاموش کرا سکتا ہوں.ہو سکتا ہے کہ کوئی کج بحث ہو اور وہ باتیں کرتا چلا جائے ایسی صورت میں گو بظاہر اُس کی کج بحثی کو دیکھتے ہوئے میں ہی خاموش ہو جاؤں مگر دلائل کے میدان میں وہ میرا مقابلہ نہیں کر سکتا اور جو لوگ اس گفتگو کو سُننے والے ہوں وہ یہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ اس کا ہر اعتراض باطل ہے اور اسلام کی تعلیم پر واقعہ میں کوئی اعتراض نہیں پڑ سکتا.یہ میرا تجربہ ہے اور اس تجربہ کی بناء پر میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں کبھی ایک لمحہ کے لئے بھی اس امر میں تر ڈو نہیں ہونا چاہئے کہ ہم دُنیا کو سکھا سکتے اور اسے اپنی شاگردی میں رکھ کر پڑھا سکتے ہیں.دُنیا کا بڑے سے بڑا فلا سفر آ جائے، دُنیا کا بڑے سے بڑا علم النفس کا ماہر آ جائے ، دُنیا کا بڑے سے بڑا حساب دان آجائے ، دُنیا کا بڑے سے بڑا سائنس دان آجائے، اور وہ اسلامی تعلیم پر اعتراض کرے تو جہاں تک مذہب کا تعلق ہے ہم اسلامی تعلیم کی برتری کو ایسے رنگ میں ثابت کر سکتے ہیں کہ اُسے تسلیم کرنا پڑے گا کہ فی الواقع اسلام کی تعلیم دنیا کے تمام مذاہب کی تعلیمات سے زیادہ اعلیٰ ہے.اور اگر وہ خود تعصب کی وجہ سے تسلیم نہ کرے تو اُس مجلس کے حاضرین تسلیم کریں گے کہ بات انہی کی سچی ہے.اب دیکھ لو میری دُنیوی تعلیم کوئی نہیں.پھر جب میں دنیا کے کسی بڑے سے بڑے عالم سے نہیں ڈرتا تو جو لوگ تعلیم میں مجھ سے بہت زیادہ ہیں کوئی وجہ نہیں کہ وہ خوف کھائیں اور سمجھیں کہ وہ دنیا کو تعلیم نہیں دے سکیں گے.اگر خدا تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے نئے نئے علوم سکھائے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اُن کو نہ سکھائے.ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ آپ لوگ اپنے اندر انقلاب پیدا کریں اور اپنی مرضی خدا تعالیٰ کی مرضی کے مطابق بنا دیں.خدا تعالیٰ نے میرے ذریعہ جماعت کے سامنے علوم کا ایک دریا بہا دیا مگر مجھے افسوس ہے کہ جماعت نے اُن علوم سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہیں کی.اگر وہ کوشش کرتے اور اللہ تعالیٰ کے اُن عطا کردہ علوم سے فائدہ اُٹھاتے تو آج وہ نئے انقلاب کے بعد دنیا کی باگ ڈورسنبھالنے کے لئے اپنے آپ کو تیار پاتے.ا
خطابات شوری جلد دوم ۷۳۲ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء گزشتہ جنگ عظیم سے لے کر اس وقت تک اللہ تعالیٰ نے وقتاً فوقتاً اس کے مختلف حصے مجھ پر منکشف کئے جس کا ایک حصہ وہ تقریر بھی ہے جو میں نے اس سال جلسہ سالانہ پر کی.اگر اس کو بھی مدنظر رکھ لیا جائے تو ایک نہایت ہی مکمل صورت اس انقلاب عظیم کی بن جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ دنیا میں اسلام کے ذریعہ پیدا کرنا چاہتا ہے اور ہمارے اندر وہ احساس اور بیداری پیدا ہو سکتی ہے جو اس انقلاب کے لئے ہم میں سے ہر شخص کے اندر ہونی چاہئے مگر بہت سے دوستوں نے ان امور کی اہمیت کو نہ سمجھا اور اس وجہ سے اُنہوں نے ان باتوں کو یاد نہ رکھا حالانکہ دنیا میں خدا تعالیٰ کی طرف سے جو آواز بلند کی جاتی ہے خدا تعالیٰ کا قاعدہ ہے کہ اُس کے مطابق دنیا کے گوشہ گوشہ سے آوازیں اٹھنی شروع ہو جاتی ہیں.ہمارے ہاں سب سے پہلے انقلاب کا لفظ استعمال ہوا اور جب ہم نے یہ کہنا شروع کیا کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ذریعہ دنیا میں انقلاب پیدا کرنا چاہتا ہے تو رفتہ رفتہ ہر ملک اور علاقہ سے انقلاب انقلاب کی آوازیں اُٹھنی شروع ہو گئیں.یورپ بھی آج نیو آرڈر کے لئے بیتاب ہو رہا ہے اور باقی دنیا کے لوگ بھی خواہ مشرقی ہوں یا مغربی انقلاب کے انتظار میں بیٹھے ہیں.پس یہ آواز جو آج دنیا کے گوشہ گوشہ اور کونہ کونہ سے اُٹھ رہی ہے یہ بھی بتاتی ہے کہ آئندہ دنیا میں کوئی بہت بڑا انقلاب پیدا ہونے والا ہے اور چونکہ یہ انقلاب اسلام نے ہی پیدا کرنا ہے اس لئے جب تک دوست اسلامی تعلیم کو سمجھ کر اُس پر عمل نہیں کرتے ، وہ اس انقلاب سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے.ہماری جماعت میں صرف چند افراد ایسے ہیں جنہوں نے حقیقت کو سمجھا اور اس کے مطابق وہ کارروائی کرنے کی جدو جہد کر رہے ہیں مگر چند افراد کی جد و جہد جماعتی جدو جہد کی قائم مقام نہیں ہو سکتی.مغربیت کے زوال کی پیشگوئی میں نے پہلے بھی بارہا کہا ہے اور اب پھر بڑے زور سے کہتا ہوں کہ دنیا میں مغربیت نے کافی حکومت کر لی.اب خدا تعالیٰ کا منشاء ہے کہ وہ مغربیت کو کچل کر رکھ دے.جو لوگ ڈرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مغربیت کا مقابلہ کس طرح ہو سکتا ہے، پر دہ قائم رہتا ہوا نظر نہیں آتا ، مردوں اور عورتوں کے آزادانہ میل جول کو کس طرح روکا جا سکتا ہے، یہ چیزیں ضروری ہیں اور اگر ہم ان امور میں مغربیت کی پیروی نہ کریں تو کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے.وہ لوگ یاد
خطابات شوری جلد دوم ۷۳۳ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء رکھیں کہ وہ اپنے ان افعال سے اسلام اور احمدیت کی کامیابی کے راستہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں.یہ چیزیں مٹنے والی ہیں، مٹ رہی ہیں اور مٹ جائیں گی.ابھی تم میں سے کئی لوگ زندہ ہوں گے کہ تم مغربیت کے در و دیوار اور اس کی چھتوں کو گرتا ہوا دیکھو گے اور مغربیت کے ان کھنڈرات پر اسلام کے محلات کی نئی تعمیر مشاہدہ کرو گے.یہ کسی انسان کی باتیں نہیں بلکہ زمین و آسمان کے خدا کا فیصلہ ہے اور کوئی نہیں جو اس فیصلہ کو بدل سکے.پس ہماری طاقت کا سوال نہیں.نہ ہم نے پہلے کبھی کہا کہ یہ تغیر ہماری طاقت سے ہو گا اور نہ آئندہ کبھی کہہ سکتے ہیں ہم جو کچھ کہتے ہیں وہ یہ ہے کہ اس تغیر کا خدا نے وعدہ کیا ہے اور خدا تعالیٰ کے وعدوں کے اٹل ہونے کا ہم اپنی زندگی میں بارہا مشاہدہ کر چکے ہیں.پس کوئی وجہ نہیں کہ اس مشاہدہ کے بعد ہمارے ایمانوں میں تزلزل پیدا ہو، ہمارے اعتقادات میں کمزوری رونما ہو.یقیناً دنیا گھٹنوں کے بل گر کر عاجزی کرتی اور دانت پیستی ہوئی ہمارے سامنے آئے گی اور اسے اپنے اس موجودہ نظام کو تو ڑ کر اسے ٹکڑے ٹکڑے کر کے ایک نیا نظام اسلام کی تعلیم کی شکل میں اپنے لئے قبول کرنا پڑے گا.پس تم مت ڈرو کہ اگر ہم نے پرده یا مخلوط تعلیم کے خلاف آواز بلند کی تو لڑکیاں بغاوت کر دیں گی یا لڑکیوں کے ماں باپ بغاوت کر دیں گے.ان لڑکیوں اور ان کے ماں باپ کا تو کیا ذکر ہے، وہ لوگ جو ان خیالات کے بانی ہیں وہ خود گھٹنوں کے بل گر کر ہم سے معافی مانگنے والے ہیں.پس یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ ہماری عورتیں بے پرد ہوں اور ہمیں ان کے مقابلہ میں ندامت اور شرمندگی حاصل ہو بلکہ وہ خود ہزار ندامت اور پشیمانی سے اپنی گردنیں جھکائے ہوئے ہمارے سامنے حاضر ہوں گے اور انہیں اقرار کرنا پڑے گا کہ وہ غلط راستہ پر چل رہے تھے.صحیح راستہ وہی ہے جو اسلام نے پیش کیا.یہ خدا کا فیصلہ ہے اور اس فیصلہ کے نفاذ کو دنیا کی کوئی طاقت ، دنیا کی کوئی حکومت اور دنیا کی کوئی بادشاہت روک نہیں سکتی.پس تم مت گھبراؤ کہ زمانہ کے حالات اسلامی تعلیم کے مخالف ہیں.دلوں کا بدلنا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.اگر خدا تعالیٰ کا منشاء یہ ہو کہ وہ دنیا کا اس رنگ میں نقشہ پلٹ دے کہ سب لوگوں نے اپنے ہاتھ میں دو دو گز لمبی تسبیحیں رکھی ہوئی ہوں اور سر پر لمبے لمبے بال ہوں.نیلے تہہ بند باندھے ہوئے ہوں اور گھی کی مالشیں کرواتے ہوں تو یقیناً خدا تعالیٰ ایسا ہی کر کے دکھا دے
خطابات شوری جلد دوم ۷۳۴ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء گا.اور اگر خدا تعالیٰ کا منشاء یہ ہو کہ لوگ پتلونیں ترک کر کے لنگوٹ باندھنا شروع کر دیں تو ہمارا یقین ہے کہ ایک دن یہی پتلونیں پہننے والے اپنی پتلونوں کو جلا جلا کر لنگوٹ باندھنا شروع کر دیں اور خدا تعالیٰ کا منشاء پورا ہو کر رہے.مگر ہم تو جو بات کہتے ہیں وہ نہایت ہی معقول ہے اور کسی بھی ذی ہوش اور عقلمند انسان کو یہ تسلیم کرنے سے انکار نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ ایک دن دنیا کی اسی رنگ میں کایا پلٹ کر رکھ دے گا.ورنہ ہم جانتے ہیں اگر خدا تعالیٰ یہ فیصلہ کر دے کہ دنیا کے تمام لوگ سر منڈوانے لگ جائیں اور لمبے لمبے چونچے پہن لیں تو یہ لاٹ پادری ایک دن یہی کچھ کرنے لگ جائیں گے مگر ہم جو بات پیش کرتے ہیں وہ تو عقل کے لحاظ سے بھی صحیح معلوم ہوتی ہے اور اس وجہ سے اس کے متعلق کسی کو کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے.آج زمین اور آسمان دونوں اِن حالات کی تائید میں ہیں.خالی آسمان کے حالات اس کے موافق ہوں اور زمین کے حالات اس کے موافق نہ ہوں تب بھی زمین آسمان کا مقابلہ نہیں کر سکتی مگر جب زمین اور آسمان دونوں تائید میں ہوں تو اُس وقت ان حالات کے رونما ہونے میں کوئی طاقت روک پیدا نہیں کر سکتی.ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ دوستوں کو اپنے دلوں میں یہ یقین پیدا کرنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ دنیا میں ایک عظیم الشان انقلاب پیدا کرنا چاہتا ہے اور وہ انقلاب خدا تعالیٰ خود تمہارے ہاتھوں سے پیدا کرنا چاہتا ہے.تم مت دیکھو کہ تم کیا ہو.تم یہ دیکھو کہ زمین و آسمان کا خدا کبھی آہستگی کے ساتھ ، کبھی چلتا ہوا، کبھی دوڑتا ہوا اور کبھی تیزی کے ساتھ بھاگتا ہوا تمہارے قریب آرہا ہے اور جوں جوں وہ تمہارے قریب آ رہا ہے تم ایک زبردست ہتھیار بنتے چلے جا رہے ہو.تم اپنی ذات میں ایک مٹی کا ڈلا سہی مگر ایک تجربہ کار اور ماہر فن کے ہاتھ میں جب مٹی کا ڈلا آ جاتا ہے تو وہ اُس تلوار سے زیادہ کام کر جاتا ہے جو ایک نادان کے ہاتھ میں ہوتی ہے.پس بے شک تم اپنے آپ کو مٹی کا ایک ڈلا تسلیم کر لو مگر یہ مٹی کا ڈلا خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں آچکایا آنے والا ہے اور جب یہ ڈلا خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں آئے گا تو دنیا کے بڑے بڑے قلعے اس سے پاش پاش ہو جائیں گے.اُن کی اینٹیں بھی نہیں ملیں گی ، اُن اینٹوں کی مٹی بھی نہیں ملے گی.پس ان تغیرات کے لئے اپنے آپ کو تیار کرو.اللہ تعالیٰ سے ہر وقت دعائیں کرتے رہو اور اپنے اندر یقین اور وثوق پیدا کر و.جس دن تمہارے اندر یقین پیدا
۷۳۵ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء خطابات شوری جلد دوم ہو گیا اُس دن تمہارے سارے شک ، سارے شبہات اور سارے وساوس آپ ہی آپ دُور ہو جائیں گے اور تم اپنے آپ کو ترقی کے ایک مضبوط اور بلند تر مینار پر کھڑا دیکھو گے.ہم میں خدا تعالیٰ کا ایک نبی آیا اور اس نے اپنے تازہ بتازہ معجزات اور نشانات سے ہمیں ہمارے زندہ خدا کی طاقتوں اور قدرتوں کا مشاہدہ کرایا.پھر قرآن موجود ہے جس میں وہ تمام انوار اور برکات پائے جاتے ہیں جو اسلام اپنے ماننے والوں کے دلوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے.پھر اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے میرے ذریعہ تمہارے سامنے کئی نشانات ظاہر کئے تا کہ وہ لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کو نہیں دیکھا تھا ان نشانات کو دیکھ کر پھر اس یقین پر قائم ہو جائیں کہ ہمارا خدا ویسا ہی زندہ ہے جیسے پہلے زندہ تھا اور ویسی ہی طاقتیں رکھتا ہے جیسی طاقتیں پہلے رکھتا تھا.پس اپنے اندر نیک تغیرات پیدا کرو، ورنہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ انقلاب ہونا ضروری ہے اور اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کسی کا گھر گرایا جا رہا ہو تو بادشاہ کہہ دے کہ اس گھر کو لوٹ لو.اس وقت دنیا کا تمدن، دنیا کی تہذیب اور دنیا کا اقتصاد اپنی موجودہ شکل میں تباہ و برباد ہو رہا ہے سوال صرف یہ ہے کہ اس کوٹ میں تم کتنا حصہ لے رہے ہو.یہی وہ چیز ہے جس کی تمہیں فکر کرنی چاہئے اور اسی چیز کا تمہارے ساتھ تعلق ہے.باقی جس قدر حصے ہیں اُن کی پرواہ مت کرو اور یہ خیال نہ کرو کہ لوگ ان باتوں کو نہیں مانیں گے.اگر وہ نہیں مانیں گے تو خدا تعالیٰ ان کو تباہ کر دے گا لیکن اگر ہم ان تک اسلامی تعلیم کو صحیح طور پر نہیں پہنچائیں گے تو اللہ تعالیٰ کے حضور ہم جواب دہ ہوں گے.پس ان چیزوں کے لئے کوشش کرو اور اللہ تعالیٰ سے ہر وقت دعا ئیں بھی کرتے رہو.عشق خدا میں فنا ہو جاؤ اس انقلاب کے متعلق ایک انکشاف میں نے اس جلسہ سالانہ کی تقریر میں کیا تھا اور بتایا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نظام نو کی بنیاد ۱۹۰۵ء میں الوصیت کے ذریعہ رکھ دی ہے.ان مضامین کو پڑھو، یا د کرو، لوگوں تک پہنچاؤ اور بار بار پہنچاؤ یہاں تک کہ دنیا کی نگاہ میں تم وحشی مومن بن جاؤ.مومن وحشی نہیں ہوتا مگر دنیا کی نگاہ میں وہ ضرور وحشی سمجھا جاتا ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ تم وحشی بن جاؤ.میں یہ کہتا ہوں تم ایسے بن جاؤ کہ دنیا تمہیں وحشی مومن
خطابات شوری جلد دوم ۷۳۶ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء سمجھے اور یہی ایمان کی تکمیل کی علامت ہوتی ہے اور یہی ایمان انسان کی دائمی حیات کا موجب ہوتا ہے.لوگ مرتے ہیں تو بعد میں اُنہیں کوئی یاد بھی نہیں رکھتا.خود اُن کی اولاد اُنہیں بھول جاتی ہے مگر وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے عشق میں فنا ہو کر ہمیشہ کی زندگی حاصل کر لیتے ہیں وہ مرنے کے بعد پھر زندہ ہو جاتے ہیں اور ایسے زندہ ہوتے ہیں کہ پھر موت کا ہاتھ اُن پر نہیں چل سکتا.دیکھو حضرت کرشن علیہ السلام خدا تعالیٰ کے نبی تھے.وہ آج سے کئی ہزار سال قبل ہندوستان میں مبعوث ہوئے.اسی طرح حضرت رام چندر خدا تعالیٰ کے نبی تھے مگر ان دونوں انبیاء کا نام بظاہر مٹ چکا تھا اور مسلمان یہ سمجھنے سے قاصر ہو گئے تھے کہ یہ لوگ اللہ تعالی کے فرستادہ اور اس کے پاک رسول تھے مگر اب اللہ تعالیٰ نے کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ان کے ذکر کو پھر تازہ کر دیا اور انہیں ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیا.اب ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ جہاں اور انبیاء پر اعتقاد رکھے وہاں یہ اعتقاد بھی رکھے کہ حضرت کرشن اور حضرت رام چندر بھی اللہ تعالیٰ کے نبی تھے.اس طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن کو پھر ایک نئی زندگی مل گئی.لوگ مرتے ہیں اور مرتے چلے جاتے ہیں مگر ان لوگوں کی موت پر جب ایک لمبا عرصہ گزر گیا تو خدا تعالیٰ نے اپنا ایک مامور مبعوث فرما کر اُن کے ذکر کو پھر تازہ کر دیا.اور اس طرح ثابت کر دیا کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کے عشق میں اپنے آپ کو فنا کر دیتے ہیں اور اُس کی رضا کے لئے اپنے آپ کو مٹا دیتے ہیں وہ کبھی مر نہیں سکتے.موت اُن پر قابو نہیں پاسکتی وہ حیات ابدی کے وارث ہوتے ہیں اور ان کا ذکر ہمیشہ نیکی کے ساتھ لوگوں کی زبانوں پر جاری رہتا ہے.پس اپنے اندر نیکی پیدا کرو، خدا تعالیٰ کے لئے اپنے اموال کو بلا دریغ قربان کرنے کی روح پیدا کرو، اپنی زندگی کا مقصد خدا تعالیٰ کے عشق میں فنا ہونا قرار دو اور یہ سمجھ لو کہ مال وہی ہے جو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ ہو، علم وہی ہے جو معرفت اور ایمان پیدا کرنے کا موجب ہو اور زندگی وہی ہے جو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو.یہ چیزیں اپنے اندر پیدا کرو اور عواقب سے نڈر ہو جاؤ.ہماری عاقبت محفوظ ہے کیونکہ ہماری عاقبت خدا نے اپنے ہاتھ میں لے لی ہے.ہمارا کام صرف جدو جہد اور کوشش کرنا ہے.بالفاظ دیگر ہمارا صرف اتنا ہی فرض ہے کہ ہم بظاہر کچھ کرتے نظر آئیں ورنہ کام تو سب خدا نے کرنا ہے.اور
خطابات شوری جلد دوم ۷۳۷ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء ہماری مثال ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی عورت کسی شادی میں شامل ہوئی.وہ چونکہ غریب تھی اس لئے وہ صرف ایک روپیہ نیو تا دے سکی.مگر اُس کی بھا وجہ جو اچھی مالدار تھی اُس نے ہیں روپے نیوتے کے لئے دیئے.بعد میں کسی نے اس غریب عورت سے پوچھا کہ تم فلاں شادی میں شریک ہوئی تھیں ، تم نے کتنا نیوتا دیا؟ وہ کہنے لگی میں نے اور میری بھابی نے اکیس روپے دیئے تھے.اس طرح اُس کی اپنی کمزوری چھپ گئی اور یہ کہہ کر اس کی عزت رہ گئی کہ میں نے اور میری بھابھی نے اکیس روپے دیئے ہیں.ہمارا بھی ایسا ہی حال ہے.ہم ایک پھوٹی کوڑی جتنا کام بھی نہیں کرتے مگر خدا تعالیٰ ہمارے اس کام میں اس قدر برکت پیدا کر دیتا ہے کہ دنیا میں وہ حیرت انگیز اثرات پیدا کرنے شروع کر دیتا ہے اور ہم خوش ہو کر کہتے ہیں کہ ہم اور ہمارے خدا نے یہ سب کام کیا.کام در حقیقت سب خدا کرتا ہے مگر اُس نے ہماری عزت افزائی کے لئے یہ طریق تجویز فرمایا ہے کہ ہم بھی کچھ نہ کچھ اپنے ہاتھ ہلاتے رہیں تا کہ لوگ یہ سمجھیں کہ یہ کام ہم کر رہے ہیں.آجکل خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کا غیر لوگوں پر بہت گہرا اثر ہے اور وہ کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ تبلیغی کوششوں میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی ، جماعت احمدیہ کے افراد اپنے اندر قربانی کی بے مثال روح رکھتے ہیں مگر ہم جن کے متعلق یہ تعریفی الفاظ کہے جاتے ہیں ، جانتے ہیں کہ ہمارے اندر کس قدر قربانی کی روح ہے اور کس قدر تبلیغ کر رہے ہیں.درحقیقت یہ میں اور میری بھابھی نے اکیس روپے دیئے والا معاملہ ہی ہے.کام سب خدا کرتا ہے مگر نام ہمارا ہو جاتا ہے پس ہمارا کام صرف اتنا ہی ہے کہ ہم اپنی ناچیز کوششوں کو ہمیشہ جاری رکھیں ورنہ کام پہلے بھی خدا نے کیا اور اب بھی وہی کر رہا ہے اور آئندہ بھی وہی کرے گا.دعاؤں کی تلقین پس میں دوستوں کو اس نصیحت کے ساتھ رخصت کرتا ہوں کہ دنیا میں انقلاب پیدا کرنے میں جس قدرتمہاری کوششوں کا دخل ہے، اُن میں کبھی کمی نہ آنے دو اور خدا تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہو کہ اس کا فضل تمہارے شامل حال ہو.میں بھی دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے سب دوستوں کو اپنے اندر ایک انقلاب عظیم پیدا کرنے کی توفیق دے، اُن کے اخلاص میں برکت دے، اُن کی قربانیوں
۷۳۸ خطابات شوری جلد دوم مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء کے معیار کو بڑھائے اور جس قدر جلد ہو سکے اُن کے اندر وہ اوصاف پیدا کرے جو دنیا کے نئے انقلاب کے لئے ہمیں اپنے اندر پیدا کرنے ضروری ہیں.اسی طرح اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے دوستوں کو توفیق دے کہ وہ اپنے عزیزوں کو بھی اُن کے اس مقصد سے باخبر کریں تا کہ ہم سب کے سب آنے والے انقلاب کے لئے تیار رہیں اور ہم میں سے ایک شخص بھی ایسا کچا تا گا ثابت نہ ہو جو وقت پر ٹوٹ جائے.اب میں دعا کروں گا، دوست بھی دعا کریں.ہمارا ایک مبلغ افریقہ جا رہا تھا کہ راستہ میں جہاز غرق ہو گیا.ہم نہیں کہہ سکتے کہ اب وہ کس حالت میں ہے.دوست اس کے لئے بھی دعا کریں کہ اگر وہ زندہ ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کا حافظ و ناصر ہو اور اُسے خیریت سے واپس لائے.اسی طرح ہمارے بہت سے مبلغ جاپان میں قید ہیں.ہمارا ایک مبلغ جو گو اب مبلغ نہیں مگر گیا مبلغ کی حیثیت سے ہی تھا اٹلی میں قید ہے.اس طرح سات آٹھ مبلغ ایسے ہیں جو اس وقت قید ہیں.دوست ان سب کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان پر فضل کرے اور ان کے رشتہ داروں کو صبر کی توفیق عطا کرے.اسی طرح جن مبلغین کے اہل وعیال یہاں ہیں اُن کے لئے بھی دعا کی جائے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے بچوں کی صحیح تربیت کی توفیق عطا فرمائے.ایسا نہ ہو کہ وہ ہماری کسی کوتا ہی یا غفلت کی وجہ سے آوارہ ہو جائیں.اسی طرح ان کی بیوی بچوں کے لئے یہ دعا بھی کی جائے کہ خدا تعالیٰ ان کو لمبی زندگی دے اور ان کے دلوں کو صبر عطا کرے.پھر ہمارے دوست یہ بھی دعا کریں کہ وہ تحریک جسے میں نے دنیا کے انقلاب عظیم کی پیش خیمہ کے طور پر تحریک جدید کے نام سے جاری کیا ہے، اللہ تعالیٰ اس میں برکت دے اور دوستوں کو زیادہ سے زیادہ قربانیوں کی توفیق عطا فرمائے.اسی طرح تحریک جدید کے کارکن ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں بھی دیانتداری کے ساتھ کام کرنے کی توفیق دے تا کہ وہ اسلام اور احمدیت کے لئے بہتر سے بہتر رنگ میں خدمات بجالا سکیں.پھر یہاں کے تمام محکموں کے تمام کارکنوں کے لئے دعائیں کی جائیں کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو دیانتداری اور اخلاص سے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی توفیق دے تا کہ ہمارے کاموں میں کسی قسم کی خرابی پیدا نہ ہو.اسی طرح دعا کی جائے کہ ہمارے تمام کاموں کی بنیا دلوگوں کی خیر خواہی اور محبت پر ہو.ہم ظلم کرنے والے نہ ہوں ، ہم لوگوں کے حقوق غصب کرنے
خطابات شوری جلد دوم ۷۳۹ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء والے نہ ہوں ، ہم متکبر اور بد باطن نہ ہوں بلکہ ہمارا کام خدا تعالیٰ کی رضاء اور اس کی محبت کے لئے ہو.ہمارے افکار بھی خدا کے لئے ہوں، ہمارے جذبات بھی خدا کے لئے ہوں اور ہمارے اعمال بھی خدا کے لئے ہوں ، ہم میں انانیت کا ایک ذرہ بھی باقی نہ رہے اور ہم یہ خیال نہ کریں کہ ہم بھی کچھ ہیں.جب تک ہمارے اندر یہ خیال موجود رہے گا کہ ہم بھی کچھ چیز ہیں اُس دن تک خدا تعالیٰ کی رحمت دنیا پر نازل نہیں ہو سکتی.ہاں جس دن ہم اپنے آپ کو مٹا دیں گے اور سمجھیں گے کہ سب کچھ خدا ہی خدا ہے، وہی دن دنیا کے لئے امن اور راحت کا دن ہوگا اور اُسی دن دنیا کی تکلیفیں دُور ہوسکیں گی.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو اور وہ ہمیں اپنے آپ کو مٹانے کی توفیق دے تا کہ خدا آسمان سے اتر کر لوگوں کے دلوں میں آ جائے اور ہم اس کی محبت میں محو ہو جائیں.پس میں اس وقت دعا کر دیتا ہوں دوست بھی میرے ساتھ شریک ہو جا ئیں.جو لوگ کمزور، بیمار اور دُکھیا ہیں اُن کے لئے بھی دعا کی جائے کہ اللہ تعالیٰ اُن کو صحت دے اُن کی کمزوریوں کو دُور کرے اور اُن کے دکھوں کو خوشی سے بدل دے.اسی طرح جو نمائندگان مجلس شوریٰ میں آئے ہیں، اُن کے لئے اور اُن کے اعزہ واقارب کے لئے بھی دعا کی جائے کہ اللہ تعالیٰ سب پر فضل کرے، تکلیفوں والوں کی تکالیف دور کرے، غموں والوں کے غم دُور کرے، حاجات والوں کی حاجات پوری کرے، ترقی کی خواہش رکھنے والوں کو ترقی عطاء فرمائے اور اس طرح ہم سب کو اپنی رحمت کی آغوش میں لے لے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اُس کے دامن کو ایسی مضبوطی سے پکڑ لیں کہ پھر وہ یار بیگا نہ ہم سے کبھی جُدا نہ ہو.آمین ال عمران : ۱۶۰ (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء ) بخاری کتاب الاحكام باب قول الله تعالى اطيعوا الله و اطیعوا الرسول- كنز العمال لعلامه علا ؤ الدين على المتقى بن حسام الدين الندوي جلدها حدیث نمبر ۲۸۶۸۶ صفحه ۳۶ ا مکتبه التراث الاسلامی حلب الطبعة الاولى ۱۹۸۱ء ابو داؤد كتاب الاطعمة باب في الضيافة
خطابات شوری جلد دوم الضحى : ۷۴۰ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء ابو داؤد کتاب المناسک باب فى المحرمة تغطى وجهها.ك كنزل العمال لعلامة علاؤ الدين على المتقى جلد ۱۶ صفحه ۴۶۱ حدیث نمبر ۴۵۴۳۹ مكتبه التراث الاسلامي حلب الطبعة الاولى ۱۹۷۷ء اشتہار ۱۷ار دسمبر ۱۸۹۲ء ۱۰۹ آئینہ کمالات اسلام صفحه ۳۵۳.۱۲ تذکرہ صفحه ۴۹۶.ایڈیشن چہارم رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء صفحه ۱۷۹